Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan By Mirha Khan New Complete Romantic - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 4 August 2024

Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan By Mirha Khan New Complete Romantic

Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan By Mirha Khan New Complete Romantic

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan By Mirha Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name: Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan

Writer Name: Mirha Khan

Category: Complete Novel


"حویلی بارود خانہ"۔۔۔ انیسویں صدی میں سکھ فوج کے كمانڈر کی تعمیر کردہ "دو سو سال" پرانی حویلی۔۔۔ بلوچستان کے معروف شہر "خضدار" میں واقع لال اینٹوں سے بنی خستہ عمارت جو کسی زمانے میں آباد تھی آج ہر طرف سے ویرانی ٹپکتی تھی۔۔۔

زمانے کے ہیر پھیر کے بعد یہ حویلی "میروں" کے قبضے میں آئی تھی۔۔۔ ان کے برے چال چلن کی وجہ سے یہاں کے گدی نشین " سید محمد عبدالله شاہ" نے انہیں یہاں سے در بدر ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔۔


تب سے اس جگہ سے ایسی ویرانی اور منحوسیت ٹپکتی تھی کہ لوگ اس حویلی کے قریب سے بھی گزرنا اپنے لئے معیوب سمجھتے تھے۔۔۔ کہنے والے تو دبی زبان میں کہتے کہ اس جگہ پر جنات کا بسیرا ہے۔۔۔


حویلی کے لکڑی کے بڑے سے داخلی دروازے سے داخل ہو تو تو چھ فٹ چوڑی راہداری کے اطراف میں جابجا درخت اور پودے لگے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر ہی وحشت ہوتی تھی۔۔


اندر جاؤ تو عقل کو حیران کردینے والے عجیب و غریب، منفرد اور قیمتی نوادرات جا بجا نظر آتے تھے جن پر زمانوں کی گرد پڑی ہوئی تھی۔۔


اطراف میں بنی قدآور لکڑی کی کھڑکیوں سے باہر جھانکو تو دور اوپر تک جاتی تین فٹ چوڑی اور پانچ فٹ لمبی سیڑھیوں کے ساتھ اوپر دائیں جانب بنے کمرے سے نسوانی چیخ بلند ہوئی۔۔


خاموشی میں کسی کے بھاری جوتوں کی آواز ابھری۔۔ رات کی سیاہی میں اپنے اعمال کی طرح سیاہ چادر اوڑھے وه بھاری بھرکم وجود سیڑھیوں کے بلکل ساتھ بنے کمرے سے باہر نکلا۔۔


وه زمین کی جانب جھکا اور چند قدموں کی دوری پر گرے بےسدھ نسوانی وجود کو سیڑھیوں سے گھسیٹتا نیچے لانے لگا۔۔ جس کی نسوانیت کو وه شراب کے نشے میں چور تار تار کر چکا تھا۔۔


وه ایک لمحے کو لڑکھڑایا۔۔ دیوار پر ہاتھ رکھ کر اس نے سر کو جھٹکا دیا۔۔ آخری سیڑھی پهلانگ کر وه اسے حویلی کے عقب میں لے آیا جہاں بیچوں بیچ سفید پتھروں سے مرصع ایک قدیم قبر بنی ہوئی تھی جس کو چاروں جانب سے سفید جالی سے ڈھکا گیا تھا۔۔


اس نے زمین پر بکھرے خشک پتوں پر قدم رکھا تو ان کی آواز سے خاموشی میں ذرا سا ارتعاش پیدا ہوا۔۔


اس نے جھک کر تیزی سے پتے ہٹائے اور خود پر لپیٹی سیاہ چادر اتار کر زمین پر گرے وجود کو اس میں باندھ دیا جس کی سانسوں کی ڈور کب کی ٹوٹ چکی تھی۔۔


اسکے قبر کے نزدیک پیچھے کی جانب لٹا کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے ارد گرد بکھرے پتے اس پر ڈال دیے۔۔


سیدھے ہو کر اس نے ہاتھ کی پشت سے ماتھے پر چمکتا پسینہ صاف کیا۔۔


موبائل نکال کر اس نے ایک فون نمبر ڈائل کیا۔۔


"وه مر گئی ہے ۔۔ نہیں!! تمہیں پتہ ہے میں زبردستی نہیں کرتا ۔۔ لڑکیاں خود آتی ہیں میرے پاس۔۔ بس میں شراب کے نشے میں تھا مجھے پتہ نہیں چلا ۔۔"


"میں نے یہاں چھپا دیا ہے اسے لیکن کل صبح کا اجالا ہوتے ہی شاہوں کو خبر ہوجائے گی۔۔ اپنے کسی وفادار کو بھیجو قربانی کا بكرا بنا کر ۔۔ میرا نام ہرگز نہیں آنا چاہئے ابھی ان کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہتا ابھی بہت حساب بے باق کرنے ہیں ان سے ۔۔"


سرد لہجے میں بول کر اس نے کال کاٹ دی۔۔


پھر ارد گرد نگاہ ڈالتا وه بھاری قدموں سے لکڑی کے قدآور دروازے کی دہلیز عبور کر گیا۔۔


حویلی کے صحن میں لگے دیوار گیر آئینے نے اس کا عکس اپنے اندر محفوظ کیا تھا۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


سنہری صبح بھیگ رہی تھی۔۔ وه صحن میں لگے نلکے سے منہ ہاتھ دھوتا چند قدم کی دوری پر بچھی چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا۔۔


اماں کتنی دیر ہے ناشتے میں؟ مجھے سفید حویلی پہنچنا ہے جلدی۔۔ شاہ سائیں نے کل کہلوایا تھا۔۔


وه سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھا جس کے بازو عادتاً کہنیوں تک موڑ رکھے تھے۔۔


انجم نے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا۔۔


تیکھے بےحد خوبصورت مگر مغرور نقوش، ہر وقت بھنچے ہوتے عنابی لب اور ماتھے پر پڑے مستقل بل۔۔ سیاہ گہری سرد سی آنکھیں مقابل کی روح تک جھانکنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔۔


"بس بس بن گیا ناشتہ" وه جلدی سے اسکے سامنے ناشتہ رکھتیں باقی کام نبیٹنے لگیں۔۔


"صالح پتر روٹی ٹھنڈی ہو رہی ہے پہلے ناشتہ کر لے بعد میں موئے موبائل کو پکڑ لئیں۔۔"


اسے اچانک چونک کر موبائل میں کچھ دیکھتے پا کر وه كلس کر بولیں۔۔


انھیں صالح کی ہر وقت موبائل میں گھسے رہنے کی عادت سے سخت چڑ تھی۔۔


وه ناشتہ وہیں چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ "اماں میں چلتا ہوں ضروری کام ہے۔۔"


اسکے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔۔


اس کے جانے کے بعد وه بڑبڑا کر برتن سمیٹنے لگیں۔۔


مجھے تو لگتا ہے یہ میرا نہیں شاہوں کا بیٹا ہے۔۔ کاش تیرے ابے کے جانے کے بعد میں نے تجھے سفید حویلی نہ بھیجا ہوتا۔۔


وه تلملا کر سوچتی رہ گئیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


یہ بلوچستان کے شہر "خضدار" سے دو گھنٹوں کی مسافت پر واقع "سونارا" نامی ایک گاؤں تھا جہاں متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ مقیم تھے۔۔


یہ گاؤں خوبصورت پہاڑوں، ہرے بھرے درختوں، دریاؤں اور قدرتی آبشاروں کی دولت سے مالا مال تھا۔۔


صالح یوسف کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔۔ جہاں وه باپ کے گزر جانے کے بعد اپنی اماں انجم کے ساتھ رہتا تھا۔۔


اسی گاؤں میں چند منٹوں کی مسافت پر ایک کچی بستی آباد تھی جہاں لوگ منہ اندھیرے جاگ کر اپنے کاموں کاجوں میں مصروف ہوجاتے تھے۔۔


یہ نچلے طبقے کے لوگ تھے جو بڑی مشکل سے گزر بسر کرتے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہے تھے۔۔۔


کچے گھروں میں ایک گھر ایسا بھی تھا جہاں سے معمول کی طرح صبح سویرے ہی کھلکھلاہٹوں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔۔


اینارا، سوئی ہوئی ازنا پر پانی پھینکتی کمرے سے باہر بھاگی تھی۔۔


"اماں!!"


ازنا سر تک تانی چادر کھینچ کر اتارتی زور سے چیخی ۔۔


تن فن کرتی وه کمرے کی دہلیز پر کھڑی کھا جانے والی نظروں سے اینارا کو گھورنے لگی۔۔


"کیوں تنگ کرتی ہے بہن کو ؟"


شائستہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھ کر کہا۔۔۔


وه اثر لئے بغیر جلدی جلدی ناشتہ کرتے عبدالمنان کی طرف پانی کا گلاس بڑھا گئی۔۔


عبدالمنان نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تو اس نے جتاتی مسکراہٹ سے ازنا کو دیکھ کر آنکھ ماری۔۔


اباں آپ اسے کبھی کچھ نہ کہنا ، روز میری نیند خراب کرتی ہے یہ ۔۔۔


نیند ٹوٹنے کے باعث وه سخت خفا لگ رہی تھی۔۔۔


تو تم بھی تو فجر کی نماز کے لئے نہیں اٹھتی ۔۔۔ جب تک تمہیں اٹھنے کی عادت نہ پڑ جائے میں ایسے ہی تمہاری نیند خراب کروں گی۔۔


وه زبان چڑاتی بولی۔۔


شائستہ نے سر پیٹ لیا ۔۔۔ جوان ہو گئی تھیں دونوں لیکن ابھی تک بچوں کی طرح لڑتی تھیں۔۔


ازنا بڑی تھی جبکہ اینارا اس سے تین سال چھوٹی۔۔ گڑیا جیسی دکھنے والی اینارا کا نام عبدالمنان نے بہت محبت سے رکھا تھا۔۔


اس کے چہرے پر از حد معصومیت تھی۔۔ وه اپنے ابا کی لاڈلی تھی جس سے ازنا کبھی کبھی چڑ جاتی۔۔ حالانکہ وه شائستہ سے شروع سے لاڈ اٹھواتی آئی تھی۔۔


یہ دونوں بیٹیاں عبدالمنان کے گھر کی رونق تھیں۔۔۔


"بیٹا بڑی ہے تم سے ، تنگ نہ کیا کرو اسے ۔۔"


وه اٹھتے ہوئے بولے تو وه فرمانبرداری سے سر ہلا گئی۔۔۔


ازنا منہ بناتی واپس جا کر بستر پر گر گئی۔۔ اب دوبارہ وه اپنے تصوراتی شہزادے کے خواب دیکھنے کے لئے سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔


🌚🌚🌚🌚


تند چہرے کے ساتھ وه "سفید حویلی" میں داخل ہوا۔۔۔


"کہاں جا رہے ہو شاہ سائیں کا حکم ہے بغیر اجازت کسی کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے ۔۔"


بنے خان نے اسے لوہے کے بڑے سے گیٹ کے پاس روکتے ہوئے کہا۔۔


شاہ سائیں کا یہ حکم "صالح یوسف" کے علاوہ ہر شخص کے لئے ہے۔۔!!


صالح نے اس پر ترچھی نظر ڈالتے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بےنیازی و نخوت سے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر چلا گیا۔۔


بنے خان اسکی اس قدر اکڑ پر تلملا کر رہ گیا لیکن وه کچھ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ صالح یوسف ، سید سلطان ماہ بیر شاہ کا دستِ راست تھا جس پر وه اندھا اعتبار کرتا تھا۔۔۔


اندر جا کر وه بغیر کسی اور جانب دیکھے مردان خانے کی جانب بڑھ گیا۔۔


یہاں کی خواتین مردوں سے پردہ کرتی تھیں۔۔ سوائے صالح کے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔

راستے میں آتے ایک ملازم کو اس نے روک دیا ۔۔

"شاہ سائیں کو خبر کرو یوسف آیا ے"

ماتھے پر شکنیں ڈالے وه اسے اشارہ کرتا مردان خانے کی جانب چلا گیا۔۔

ملازم نے اسکے جاتے ہی رکا ہوا سانس بحال کیا ۔۔۔

"یہ یوسف تو نظروں سے ہی بندے کی جان نکال دے"

خودكلامی کرتا وه اپنی بیوی کے پاس گیا جو اسکی طرح حویلی کی ملازمہ تھی۔۔

وه دونوں حویلی کے عقب میں بنے كوارٹرز میں سے ایک میں رہائش پذیر تھے جو ملازموں کے لیے مخصوص تھے۔۔

نجمہ ۔۔؟؟ ماہ بیر سائیں کو خبر کردو یوسف آیا ہے مردان خان میں انتظار کررہا ہے۔۔

اپنی بیوی کو جانے کا کہتے وه اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔۔

🌚🌚🌚🌚

سفید پیروں تک آتے خوبصورت فراک میں ملبوس وه حویلی کی سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آ رہی تھی۔۔

اس کے سانولے چہرے پر بلا کی کشش تھی۔۔

جاذب نظر نقوش ، گہری بڑی بڑی بھوری آنکھوں کی مالک "سیدہ مشائم عبدالله شاہ"۔۔

"سید محمد عبدالله شاہ" کی اکلوتی بیٹی تھی جو "سیدہ للّہ عارفہ" کے بطن سے تھی۔۔

سید محمد عبدالله شاہ "خضدار" کے گدی نشین تھے ۔۔ ان کے اکلوتے بیٹے سید سلطان ماہ بیر شاہ نے انکا سر فخر سے بلند کر رکھا تھا۔۔

علاقے کے بیشتر امور کی ذمہ داری اس نے اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔۔۔

دشمن اس کے نام سے کانپتے تھے ۔۔ اس نے عہد کر رکھا تھا کہ اس علاقے کے امن و امان کو تباہ کرنے والے ہر شخص پر اس طرح قہر بن کر برسے گا کہ آئندہ کوئی ان کی سلطنت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکے گا۔۔

اور اسکا یہ غرور اور ارادوں کی پختگی اسکے دستِ راست "صالح یوسف" کی وجہ سے تھی جو ہر موڑ پر اسکے ساتھ تھا۔۔

اس کی دهشت بھی دور دور تک پھیلی تھی۔۔ اپنے شاہ سائیں کے حکم پر وه کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔۔

ان کی محبت مثالی تھی اور ذات کا فرق ہونے کے باوجود دونوں میں دوستی تھی جو مخالفین کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔۔

سفید پیروں تک آتے خوبصورت فراک میں ملبوس وه حویلی کی سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آ رہی تھی۔۔


اس کے سانولے چہرے پر بلا کی کشش تھی۔۔ جاذب نظر نقوش ، گہری بڑی بڑی بھوری آنکھوں کی مالک "سیدہ مشائم عبدالله شاہ"۔۔


اپنی خاص ملاذمہ کے ساتھ کسی بات پر کھلکھلاتی وه آخری سیڑھی سے نیچے قدم رکھ چکی تھی۔۔


اسکا دوپٹہ سر سے ذرا سا سرک گیا تھا۔۔ اس نے لاپرواہی سے ساتھ چلتی اپنی ملازمہ کو پكارا ۔۔


"نگہت ؟؟ آج میرا باغات کی سیر کا من کررہا ہے۔ کتنے دن ہو گئے ہمیں باہر گئے ہوئے ۔۔۔ جب سے کالج سے فارغ ہوئی ہوں بابا سائیں نے باہر جانے پر جیسے پابندی ہی لگا دی ہے۔۔"


وه منہ بناتی اسے اپنے دل کا حال بتانے لگی۔۔


سامنے سید محمد عبدالله شاہ کو کسی شخص کے ساتھ آتے دیکھ کر اس کے قدموں کو بریک لگا ۔۔


وه خوف ذدہ ہوگئی ۔۔


باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ وه اپنی بتائی گئی حد سے باہر نکلتی ممنوع جگہ پر آ چکی تھی۔۔


نگہت نے تفكر سے اسکا چہرہ دیکھا۔۔


"بڑے شاہ سائیں میں چلتا ہوں ۔۔"


ادب سے سر جھکا کر وه جلدی سے وہاں سے نکل گیا۔۔


وہ سر جھکا کر کھڑی مشائم کے قریب آئے۔۔


"تمہارا دوپٹہ کیوں سر سے سرکا ہوا ہے ۔۔ اور اس حصے میں آنے کی اجازت تمہیں کس نے دی ہے۔۔؟؟"


وه غیض و غضب سے بولے تو مشائم تھر تھر کانپنے لگی۔۔


"مم۔۔ معافی چاہتی ہوں بابا جان! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔"


وه منمنائی ۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے۔۔


"سید زادی کو ایسی لاپرواہی زیب نہیں دیتی۔۔"


ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال کر وه وہاں سے چلے گئے۔۔


ان کے جانے کے بعد وه اندھا دهند دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازه بند کردیا۔۔


نگہت افسوس سے اسے دیکھتی رہ گئی۔۔ اسے اندازہ تھا اب اسکے لاکھ کہنے پر بھی وه دروازه نہیں کھولے گی۔۔


🌚🌚🌚🌚


سفید شلوار قمیض پر براؤن مردانہ شال کاندھوں پر ڈالے وه پشت پر ہاتھ باندھے مردان خانے میں داخل ہوا۔۔


السلام علیکم شاہ سائیں !!


ماہ بیر کو دیکھ کر اس نے کھڑے ہو کر ادب سے سلام کیا۔۔


وعلیکم السلام !!


کیسے ہو یوسف؟؟


ماہ بیر اس کے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔۔


گردن کو چھوتے سیاہ گھنے بال جو اس پر بے طرح جچتے تھے۔۔


سیاہ بھری بھری داڑھی ، عنابی لب ، مغرور اٹھی ناک ، سرمئی حسین آنکھیں جو صنفِ نازک کو پل میں گھائل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔۔


مونچھیں اطراف سے ذرا سی مُڑتی تھیں جو اس کے دبدبے میں اضافہ کرتی تھیں۔۔


کسرتی جسم کا مالک وہ ایک مکمل اور شاندار مرد تھا۔۔


" اللّه کا کرم ہے سائیں "


وه بھی اسکے بیٹھنے کے بعد واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا۔۔۔


اس کے چہرے کی سنجیدگی ماہ بیر کو کچھ غلط ہونے کا بتا رہی تھی۔۔۔


سب خیریت ؟؟ وه جانچتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔۔


یوسف کے ہر انداز سے وه خوب واقف تھا۔۔ يقیناً کوئی اچھی خبر نہیں تھی جو یوسف یوں اچانک آیا تھا۔۔


سائیں اپنے بندوں سے خبر ملی ہے کہ حویلی بارود خانہ کے باہر سیاہ چادر میں لپٹی ایک لڑکی کی لاش ملی ہے۔۔


وه ضبط کی انتہا پر بولا۔۔


اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔۔ وه اس ریاست کی سب عورتوں کو اپنی ماں بہن سمجھتا تھا لیکن سویرے سویرے جو خبر اسے ملی تھی اس نے صالح یوسف کا سکون تہہ بالا کردیا تھا۔۔


ماہ بیر ٹانگ سے ٹانگ ہٹاتا سیدھا ہو بیٹھا۔۔ اسکے چہرے پر بے يقینی پھیلی ۔۔۔


جس جگہ پر وه انتشار پھیلانے والے معاملات تک حل کرنے کا قائل نہ تھا کہ علاقے کے امن کو خطرہ ہوگا جس جگہ اس نے معمولی مار پیٹ سے بھی اپنے لوگوں کو منع کر رکھا تھا وہاں دھڑلے سے کوئی اسکے علاقے کی لڑکی کو مار گیا تھا۔۔


اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔ شدتِ طیش سے اسکی پیشانی اور گردن کی رگیں پھول گئیں۔۔


"اسکے قریب نشے میں دهت ایک آدمی پایا گیا ہے اسکو جبار نے اپنی خاص جگہ پہنچا دیا ہے راتوں رات۔۔"


اس نے ماہ بیر کے تاثرات دیکھتے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔


"اور اس لڑکی کے ساتھ زیادتی بھی ہوئی ہے۔۔"


وه سرخ آنکھوں سے زمین کو گھورتا بولا تو ماہ بیر طیش سے صوفے پر ہاتھ مارتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔


گاڑی تیار کرواؤ ہم ابھی کہ ابھی روانہ ہوں گے۔۔ بکواس کرتا ہے وه،، اتنا بڑا جرم کر کے وه شاہوں کے عتاب کا نشانہ بننے کے لئے وہاں کیوں رکے گا۔۔ ضرور اسکے پیچھے کوئی اور سازش ہے۔۔


غیض و غضب سے گرجتا وه آندھی طوفان بنا مردان خانے سے نکل گیا۔۔


اسکے جاتے ہی صالح نے موبائل پر جبار کا نمبر ڈائل کیا۔۔


ہم ابھی کچھ دیر تک روانہ ہوں گے۔۔ تم یہاں حویلی کی نگرانی کرو گے اور جب تک ہم واپس نہ آئیں یہاں سے پتہ بھی نہیں ہلنا چاہیے سمجھ گئے ہو نہ میری بات کو ۔۔؟


جبڑے بھینچ کر کہتا وه بھاری قدم اٹھاتا سفر کی تیاری کرنے چلا گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


ستائیس گھنٹوں کی مسافت بارہ گھنٹوں میں طے کر کے ان کی جیپ "سکردو" میں داخل ہوگئی۔۔


سکردو۔۔۔ شمالی پاکستان کا خوبصورت مقام ، کوہِ قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے گھرا ، گلگت بلتستان میں واقع قدرے ویران اور پرسکون مقام۔۔


شدید برفباری کے کے باعث جیپ جھٹکا کھا کر رک گئی۔۔


وه دونوں اس وقت گرم کپڑوں میں ملبوس تھے۔۔ سویٹرز کے ساتھ جینز اور جیکٹ پہنے۔


سردی سے بچاؤ کے لئے ناک کے گرد مفلر لپیٹ رکھا تھا۔


صالح نے جیپ روکتے دستانوں میں مقید اپنے ہاتھ آپس میں رگڑے۔


سردی کی شدت اس قدر تھی کہ مکمل ڈھکے ہونے کے باوجود بھی سرد ہوا کے تهپیڑے انہیں لرزنے پر مجبور کررہے تھے۔۔۔


ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھے ماہ بیر نے اسے ہاتھ رگڑتے دیکھا تو اس سے مخاطب ہوا۔۔


"میں ڈرائیو کر لیتا ہوں تم میری جگہ آ جاؤ"


وه اٹھنے لگا تو صالح نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔


سائیں تھوڑی دیر ہی رہ گئی ہے ہمیں اپنی جگہ پہنچنے میں ۔۔ میں کر لیتا ہوں ڈرائیو کوئی مسلہ نہیں ۔۔


وه دوبارہ جیپ سٹارٹ کرتے ہوئے بولا تو ماہ بیر نے مسکرا کر اسکے کندھے کے گرد ہاتھ پھیلا لیا جس پر صالح مسرور سا اونچے نیچے راستوں پر ڈرائیو کرنے لگا۔۔


"شاہ سائیں آپ مجھے یوسف کیوں کہتے ہیں میرا مطلب ہے میرے گاؤں کے لوگ اور اماں بھی مجھے صالح کہتی ہے۔۔؟"


اس نے لگے ہاتھوں کئی سالوں سے ذہن میں کلبلاتے سوال کو پوچھ ہی لیا۔۔


ہمم بات تو تمہاری واقعی توجہ طلب ہے۔۔


میں تمہیں اس لیے یوسف کہتا ہوں کیوں کہ تم مجھے اپنے علاقے کے سب سے خوبرو نوجوان لگتے ہو۔۔


وه اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ایک نظر اس پر ڈال کر سامنے دیکھتا کہنے لگا۔۔


صالح کا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔


اس نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


سکردو شہر سے ایک گھنٹے کی دوری پر وادی شغر کے قریب واقع "بلائنڈ لیک"(Blind Lake) کے پاس پہنچ کر اس نے جیپ روک دی۔۔


جیپ سے اتر کر وه دونوں ہاتھ ملتے ہوئے تا حد نظر تک پھیلے دلکش پہاڑی سلسلے کو دیکھنے لگے۔۔


بلائنڈ لیک جسے مقامی زبان میں "جھربسو" کہا جاتا ہے ایک طرف سے دریائے سندھ اور دوسری طرف سے دريائے شغر سے گھری پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔۔


اسے بلائنڈ لیک اس لیے کہا جاتا ہے کہ آج تک کوئی نہیں جان سکا اس میں پانی آتا کہاں سے ہے اور جاتا کہاں۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


انہوں نے ایک لمبے عرصے کے بعد اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔۔


ماہ بیر نے یہاں اپنا خفیہ گھر بنا رکھا تھا۔۔خوبصورت تراشیدہ پتھروں سے بنا گھر۔۔


وه یہاں اپنے خفیہ معملات نبٹانے آتا تھا۔۔ اور اس ٹھکانے کا علم سید محمّد عبدالله شاہ کے علاوہ بس صالح یوسف کو تھا۔۔


دشمنوں کی سوچ اور نظر سے پوشدہ اس مقام پر وه اپنے دشمنوں ، غداروں اور اپنے علاقے کے دشمنوں کو بہت بری موت مارتا تھا۔۔


وه یہ سب کام اپنے علاقے میں نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے اس نے اس جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں دور دور تک ویرانی تھی۔۔


ایک اور وجہ بھی تھی اس جگہ سے دلچسپی رکھنے کی۔۔


وه تھا اسکا "گولڈن ایگل" جو سکردو کے ایشیائی نیشنل پارک میں پرورش پا رہا تھا۔۔


دونوں نے بھاری قدم اٹھاتے سنگِ مرمر کے چمکتے برآمدوں پر قدم رکھا۔۔


چند قدم چل کر وه ایک دروازے سے اندر داخل ہوئے۔۔۔


صالح نے اندر داخل ہو کر ایک دیوار کے ساتھ اونچی سی بنی شیلف پر ہاتھ میں پکڑا کھانے پینے کا سامان اور دیگر ضروری سامان رکھ دیا جو وہ جیپ سے نکال کر لایا تھا۔۔

ناک سے مفلر ہٹا کر ماہ بیر نے دروازه بند کر کے ہیٹر چلا دیا۔۔ دونوں اپنے مخصوص کمروں میں کپڑے تبدیل کرنے کی غرض سے چلے گئے کیوں کہ برفباری کی وجہ سے ان کے لباس گیلے ہوگئے تھے۔۔

🌚🌚🌚🌚

مہرون سویٹر کے ساتھ سیاہ پینٹ پہنے ماہ بیر کمرے سے باہر نکلا جہاں لاؤنج میں قدرے کونے میں بنے آتش دان کے سامنے سیاہ سویٹر جینز میں سویٹر کے بازو عادتاً کوہنیوں تک موڑے

پنجوں کے بل بیٹھا وه لکڑیاں جلا رہا تھا۔۔

قریب ہی دو آرام دہ صوفے اور چھوٹی میز رکھی تھی جس پر کپوں میں بهاپ اڑاتا قہوہ رکھا تھا۔۔

راستے میں وه بھوک مٹا چکے تھے لہٰذا اب قہوے کی طلب ہورہی تھی۔۔

وه سنجیدہ تاثرات لیے صوفے پر آ کر بیٹھ گیا۔۔

قہوہ کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگاتے وه گہری سوچ میں تھا۔۔

کیا سوچ رہے ہیں شاہ سائیں؟؟

صالح اس کے سامنے بیٹھتا گھونٹ گھونٹ قہوہ پیتا اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتا استفسار کرنے لگا۔۔

سوچ رہا ہوں میروں کی حویلی کے آگے لاش کا ملنا کوئی اچھا شگن نہیں ہے۔۔ زمانوں سے دبی راکھ کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔۔

میروں کو بابا سائیں نے جس طرح وہاں سے نکالا تھا مجھے اندیشہ تھا کہ وه انتقام ضرور لیں گے۔

ماہ بیر پر شکن پیشانی سے سامنے خلا میں گھورتا ہوا بولا۔۔

سالوں سے بند پڑی حویلی میں کچھ دوسرے سراغ بھی ملے ہیں سائیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وه واپس آ گیا ہے۔۔

صالح نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا تو اس کے لہجے کی گہرائی پر ماہ بیر چونکا۔۔

"بہت شاطر اور چالباز ہوگا وه لیکن وه یہ نہیں جانتا ہوگا کہ سید سلطان ماہ بیر شاہ اپنے لوگوں کو دشمنوں کے برے سائے سے بھی محفوظ رکھنے کے لئے ہر حد سے گزر جائے گا۔۔"

وه سرد لہجے میں بولا۔۔

میں ہر قدم پر آپ کے ساتھ ہوں سائیں!!

وه پرعزم ہو کر گویا ہوا تو ماہ بیر نے کھڑے ہو کر اسکی پیٹھ تهپتهپائی۔۔۔

چند لمحوں بعد وه دونوں تہہ خانے کی سیڑھیاں اتر رہے تھے۔۔

دروازے کے باہر قدموں کی آواز سن کر وه ایک لمحے کو خوفزدہ ہوا لیکن پھر اپنے آپ کو تسلی دینے لگا۔۔۔


اسے یہاں لانے تک کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اس لئے اسے یہ خوش فہمی ہو چلی تھی کہ یہ لوگ اب بھی اسے کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ سید سلطان ماہ بیر شاہ کی رحمدلی کے بہت قصے اس نے سن رکھے تھے۔۔


لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کے قہر و غضب کے قصے بھی یاد رکھتا۔۔۔


وه اس وقت خالی کمرے میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھا تھا جس پر اسے رسیوں سے باندھا گیا تھا۔۔۔


دروازہ چرچرانے کی آواز آئی تو اس نے جھکا سر اٹھا کر دیکھا۔۔

دونوں کے چہرے کے برفیلے تاثرات دیکھ کر اسکا حلق سوکھ گیا۔۔ اس نے تھوک نگل کر حلق تر کرنا چاہا تو اسکے گلے میں گلٹی واضح ہوئی۔


ماہ بیر نے دیوار کے ساتھ رکھی کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے رکھی اور اس کے سامنے بیٹھ کر دونوں ہاتھوں کو باہم ملا کر اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔۔۔


صالح ، ماہ بیر کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا۔۔ اس نے ذرا سا جھک کر اس کے منہ سے ٹیپ کھینچ کر اتاری۔۔


"چلو شروع ہوجاؤ"

ماہ بیر نے سرد لہجے میں کہا۔


"سائیں میں شراب کے نشے میں تھا، غلطی ہوگئی مارے سے، مَنے معاف کردو"


وه رسیوں سے جکڑے بازو مشکل سے ہلاتا اسکے سامنے ہاتھ جوڑنے کی کوشش کرنے لگا۔۔


"ہمم، یوسف؟ یہ تو بےقصور ہے کھول دو اسے"


ماہ بیر کے اشارے پر صالح اسکی کرسی کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔۔۔ آہستہ آہستہ اس نے ساری رسیاں کھول دیں۔۔۔


وه شخص اپنے آپ کو رسیوں کی قید سے آزاد پا کر خوش ہوتا کھڑا ہوگیا۔۔۔


ماہ بیر نے بھی کرسی پیچھے كهسكا دی۔۔


"ہم معافی چاھتے ہیں کہ تمہیں خوامخواہ اتنی دیر یہاں قید میں رہنا پڑا۔۔۔"


وه معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھ کر کہتا پلٹا تو صالح نے مسکراتی نظروں سے ماہ بیر کو دیکھا۔۔۔


وه شخص خوش و خرم اس کے پچھے جانے لگا کہ اچانک ماہ بیر پلٹا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا جس سے کئی فٹ دور زمین پر جا گرا۔۔


تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ اسکے چہرے کی جلد پھٹ گئی۔۔۔ وه زمین پر گرا خوف سے کانپنے لگا۔۔۔


ماہ بیر کے اشارے پر صالح اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔


چچ چچ!!


اسکا چہرہ ہاتھ کی ایک انگلی سے اوپر اٹھا کر وه افسوس سے اسے دیکھنے لگا۔۔


چہرے کے برعکس اس کی آنکھوں میں پتھریلا تاثر دیکھ کر اس شخص کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہریں دوڑ گئیں۔۔


ابھی پیار سے پوچھ رہے ہیں بتاؤ کس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہو؟ اس لڑکی کا قتل کس نے کیا ہے؟


وه اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا اسے پچکارتے ہوئے بولا۔۔۔


"مم میں نے۔۔۔"


اس نے تھوک نگل کر بمشکل حلق سے آواز نكالی۔


صالح نے چند لمحے سرد نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اسکا سر دیوار میں دے مارا۔۔


"آہ!!"

وه درد سے بلبلا اٹھا۔۔


تو تم ایسے نہیں سمجھو گے، تمہیں تمهاری زبان میں سمجهاتا ہوں۔۔ یہ تمهاری بیٹی ہے۔۔ کہیں غلط تو نہیں کہہ رہا یہ دیکھو غور سے دیکھو۔۔


ماہ بیر نے ایک ہاتھ پینٹ کی پاكٹ میں ڈالا جبکہ دوسرے ہاتھ میں موبائل پر ایک تصویر نکالتے اس کے سامنے کیا جسے دیکھ کر اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔۔


اگر تم نے سچ نہ بولا تو تمہارا کِیا تمہاری بیٹی بھگتے گی۔۔ ہوسکتا ہے کہ وه بھی کہیں لاوارث لاش کی طرح۔۔۔۔۔۔۔


نہیں!!


وه ماہ بیر کی بات کاٹتا چیخ اٹھا۔۔


بب بتا ۔۔تا ہوں، میری بیٹی کو کچھ نہی کرنا۔۔

وه گھگھیا گیا۔۔


"میر ۔میر صاحب نے قتل کیا ہے اس لڑکی کو" وه بےبسی سے بول اٹھا۔۔


پورا نام؟؟


ماہ بیر داڑھا تو وه کانپ کر رہ گیا۔۔


صالح بھی ماہ بیر کے برابر آ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔


"میر اورہان صمید"


وه پسینے سے تر، کپكپاتی آواز میں گویا ہوا۔۔


(اسلام آباد کے "خلیفہ نائٹ کلب میں اس نے پوری شان سے انٹری ماری۔۔۔ بلیک تھری پیس میں ملبوس ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں اڑسے جب کہ دوسرے ہاتھ سے موبائل کان سے لگائے وه کسی سے محو گفتگو تھا۔۔ اس کے داخل ہوتے ہی لڑکیاں چیختی ہوئی اسکی طرف بڑھیں۔ "اورہان! وہاٹ آ پلیزنٹ سرپرئز" آواز پر اس نے سر گھما کر دیکھا۔۔ اسکی نیلی آنکھیں واضح ہوئیں جو شراب کے نشے کے باعث اکثر سرخ مائل نظر آتی تھیں۔)


"میر اورہان صمید" ماہ بیر نے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔


"آگے بول"


صالح نے اسے وارننگ دیتی نظروں سے دیکھا۔۔


مم مجھے کسی کا فون آیا تھا اس نے کہا تھا کہ پیسے دوں گا بہت سارے بدلے میں ایک کام کرنا ہوگا مم میں غریب آدمی ہوں پیسے کے لالچ میں آ گیا۔۔


"بکواس بند کرو"


ماہ بیر طیش سے اسکی طرف بڑھا تو صالح نے اسے روکا۔۔


"میر کے کیا ارادے ہیں کوئی تو بات سنی ہوگی تم نے"


وه پر سوچ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔۔


"وه کہ رہے تھے کہ شاہوں نے اچھا نہیں کیا تھا ہمارے ساتھ ہمارے خاندان کو بغیر قصور کے بے عزت کر کے نکالا تھا اب میں اس کے علاقے کی عورتوں کو اسی طرح بے عزت کر کے اسی کے در پر پهینکوں گا"


مجھے اور کچھ نہیں معلوم شاہ سائیں رب سوہنے کی قسم اٹھ۔۔۔۔


باااااااس!!


ماہ بیر نے انگلی اٹھا کے لہو چھلکاتی آنکھوں سے اسےدیکھا تو اسکی آواز گویا حلق میں ہی دب گئی۔۔۔


صالح نے ماہ بیر کو دیکھا جس کی آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھیں۔۔۔


اس شخص کو تہہ خانے میں بند کرتے وه ماہ بیر کو ساتھ لئے واپس لاؤنج میں آ گیا۔۔


شاہ سائیں وه بکواس کرتا ہے اس بزدل میں اتنی ہمت ہوتی تو وه یہاں سے بھاگتا نہیں۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اسکی نیلی آنکھوں کی چمک قابلِ دید تھی۔۔اس نے ایک جان لیوا مسکراہٹ آواز دینے والی کی سمت اچھالی جس پر وه دل کے مقام پر ہاتھ رکھ گئی۔۔ موبائل کان سے ہٹا کر وه مغرور چال چلتا اسکی طرف آیا۔۔


چھ فٹ سے نكلتا قد کسرتی جسم ، نیلی آنکھیں ، سگریٹ کی کثرت سے سیاہی مائل گلابی ہونٹ اور گال میں پڑتا ڈمپل جو داڑھی سے بے دھڑک ظاہر ہوتا صنفِ نازک کا دل اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔۔


ہائے جیزمین!! مقابل کھڑی خوبصورت لڑکی کو سر تا پیر دیکھ کر وه لب دبا گیا۔۔


"وی میٹ آفٹر آ لونگ ٹائم ( ہم لمبے عرصے کے بعد ملے)"


وه اس کے گلے لگ گئی تو اورهان نے ایک ہاتھ اس کے گرد حائل کرلیا۔۔


"یو آر لوکنگ ڈیم ہااااٹ!!"


اس کے کان میں سرگوشی کرتی وه معنی خیز انداز میں مسکرا کر پیچھے ہٹی۔۔


یو ٹو ہنی!! اسکے گال کو دو انگلیوں سے چھو کر وه اسے ساتھ لئے بار کی جانب بڑھ گیا۔

لڑکیاں مکھیوں کی مانند اس سے چمٹ گئیں۔


اورهان آئی مسٹ سے (میں ضرور کہنا چاہوں گی) کچھ تو بدلا ہے تم میں!!


جیزمین کی آواز پر وه پر اسرار سا مسکرایا۔


"لیٹس گو ہنی آج کی رات بہت خاص ہے"


اسکے جسم پر ہاتھ پھیرتا وه مخمور لہجے میں بولتا اس پر جھکا تو وه ایک ادا سے اسکا ہاتھ پکڑتی وہاں سے مخصوص کمروں کی جانب بڑھ گئی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آپ یوں پریشان نہ ہوں۔۔ اب سے اپنے علاقے پر کڑی نگرانی کروائیں گے۔ صالح کی بات پر وه اسکی جانب دیکھتا سر ہلا گیا۔۔۔


کل منہ اندھیرے واپسی کے لئے نکلیں گے، جبار سے کہنا اسکا بندوبست کر لے۔۔


سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا وه اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


اس نے کمرے میں جھانکا تو "للہ عارفہ" جائے نماز تہہ کر کے رکھ رہی تھیں۔۔


"شکر ہے بابا سائیں کمرے میں نہیں ہیں۔۔"


خود کلامی کرتی وه جلدی سے کمرے میں آئی۔۔


امی جان!! وه منہ بسور کر ان کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔


کیا ہوا ہے میری جان کو؟


وه اس کے خفا چہرے کو دیکھتیں استفسار کرنے لگیں۔۔۔


"یہاں آ کر بیٹھیں پہلے"


وه ان کا ہاتھ تھامتی اپنے برابر بٹھا گئی۔


"ماشاءالله بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ، کتنا نور ہے آپ کے چہرے پر"


ان کا روشن پرسکون چہرہ دیکھ کر وه اپنی بات بھولتی بے ساختہ کہہ گئی۔۔


اللّه کی عنایت ہے میری جان، خیریت ہے تم اس وقت میرے کمرے میں؟


وه مشائم کا چہرہ دیکھ کر گویا ہوئیں۔۔


کل بابا سائیں نے مجھے ڈانٹا۔۔


وه خفگی سے گویا ہوئی۔۔


کیوں ڈانٹا ؟ وه اس کے بال پیار سے سنوار گئیں۔


اچھا چھوڑیں اس بات کو۔۔ ہمارا باغات کی سیر کا بہت بہت من کر رہا ہے۔۔ کتنی دیر ہوگئی ہم کہیں سیر کو نہیں گئے۔۔ سید زادی ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہمیں حویلی میں قید کر دیا جائے۔


وه مسكینی صورت بنا کر بولی۔


بیٹا ایسا نہیں سوچتے، تمھارے بابا سائیں تمہارے بھلے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔۔


امی جان میں جانا چاہتی ہوں نہ بہت من کررہا ہے۔۔ میں بھائی جان سے اجازت لے لیتی ہوں وه بابا سائیں کو کہہ دیں گے خود ہی۔۔


وه ایكسائٹڈ سی اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر بھاگ گئی۔ پیچھے عارفہ سر ہلا کر رہ گئیں۔


🌚🌚🌚🌚


یہ کیا بھائی جان تو نہیں ہیں یہاں۔۔


اسے کمرے میں موجود نہ پا کر وه خود کلامی کرتی تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آنے لگی۔۔


اس نے ارد گرد احتیاط سے دیکھتے لان میں جهانکا تو صالح ، ماہ بیر کے ساتھ محو گفتگو تھا۔۔

ماہ بیر آسمانی رنگ کی شلوار قمیض پر سفید چادر کاندھوں پر پھیلائے ہوئے تھا جبکہ صالح براؤن شلوار قمیض میں بازو عادتاً کہنیوں تک موڑے ہوئے تھا۔۔

وه کسی بات پر مسکرایا تو چوری چھپے لان میں دیکھتی مشائم بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔۔

یہ یوسف مسکراتا بھی ہے؟

اسے جیسے یقین نہ آیا۔۔۔

دفعتاً کسی نے اسکا کاندھا تهپتهپایا تو وه خوفزدہ سی پلٹی۔۔

اللّه! تم ہو نگہت ؟ تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی ایک لمحے کے لئے۔۔

وه دل کے مقام پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی

۔ مشی بی بی یہاں کیا کررہی ہیں آپ پھر سے بڑے شاہ سائیں نے دیکھ لیا تو؟

وه فکرمندی سے بولی تو مشائم اسکا ہاتھ تھامتی وہاں سے اپنے کمرے میں آ گئی۔۔

بھائی جان جب اپنے کمرے میں جائیں تو مجھے فوراً بتانا۔۔

اسے حکم دیتی وه لباس تبدیل کرنے کی غرض سے غسل خانے میں چلی گئی۔

بھائی جان ؟

وه ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا۔۔ شال اتار کر بیڈ پر رکھتے وه کلائی میں پہنی قیمتی گھڑی اتار رہا تھا۔۔۔

جب مشائم کی پکار پر اس نے دروازے کی سمت دیکھا۔۔

"آؤ!!"

وه پیار بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔

مشائم اندر آتی اس سے لپٹ گئی۔۔

ماہ بیر نے اس کا سر چوم کر اسکے گرد بازو حائل کر دیا۔۔

"بھائی جان آپ سے اجازت چاہئے تھی"

پیچھے ہٹتی وه لاڈ سے کہنے لگی۔۔ ایک وہی تو تھا جو اسکی ہر خواہش پوری کرتا تھا۔۔

"ہمم بولو!!"


وه سینے پر ہاتھ باندھ کر اسکی جانب جی جان سے متوجہ ہوا۔۔


"بھائی جان وه ہمیں باغ میں جانے کی اجازت دے دیں، دیکھیں نہ کالج ختم ہوئے کتنا وقت ہوگیا۔۔ نہ بابا سائیں نے آگے پڑھنے دیا اور نہ ہی کہیں جانے دیتے ہیں ایسا لگتا ہے میں قید ہو گئی ہوں یہاں۔"


میرا بھی دل کرتا ہے گھومنے کا سیر و تفریح کا ، میری کالج کی سب سہیلیاں گھومنے جاتی رہتی ہیں لیکن مجھ پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔


وه جو اسے بلیک میل کرنے کی خاطر جھوٹ موٹ کی آنکھیں مل رہی تھی، اصل میں رو دی۔


ارے ارے !!


ماہ بیر نے فوراً سے اسے سینے سے لگایا۔۔


بھائی کی جان اس میں رونے والی کیا بات ہے۔ ایسا کرو تیار ہوجاؤ جا کر اور جسکو ساتھ لے کر جانا ہے اسے بھی کہہ دو۔ میں ابھی کسی سے کہتا ہوں تمہیں لے جائے گا باغ میں۔۔


ٹھیک ہے؟ وه نرمی سے بولا۔۔۔


سچ میں؟؟ وه شوں شوں کرتی سر اٹھا کر اسے دیکھتی پوچھنے لگی۔۔


جی بلکل سچ!!


چلو جاؤ شاباش۔۔ آئندہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں۔۔


اسکی پیشانی چوم کر بولا تو وه خوشی سے مسکراتی کمرے سے باہر بھاگ گئی۔۔


اس نے مسکرا کر سر جھٹکا۔۔ موبائل نکال کر اس نے یوسف کا نمبر ڈائل کیا۔۔


ہاں یوسف وقت ہوگا تمہارے پاس؟؟ ہاں سب خیریت ہے۔۔ وه تمهاری چھوٹی بی بی کا باغات دیکھنے کا دل چاہ رہا تھا۔۔ اسے لے جاؤ۔۔ زیادہ دور نہ جانا۔۔ آگے والی زمینوں پر خطرہ ہوسکتا ہے۔۔ ہاں ٹھیک ہے آجاؤ۔۔


کال کاٹ کر اس نے فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔۔


ہاہ!! گردن کو دائیں بائیں حرکت دے کر اس نے تھکن اتارنے کی کوشش کی۔۔


مضبوط و توانا کندھے جھٹک کر وه فریش ہونے کی غرض سے غسل خانے چلا گیا۔۔

🌚🌚🌚🌚


"مشی بی بی یوسف آ گیا ہے"


نگہت نے حویلی کے دروازے پر یوسف کو دیکھا تو جلدی سے آ کر مشائم کو با خبر کیا۔۔


"بس ایک منٹ"


كاجل کی باریک لکیر سے بھوری بڑی بڑی آنکھوں کو دو آتشہ کر کے اس نے جلدی سے نقاب کیا۔۔


سیاہ پیروں تک آتا عبایا وه پہلے ہی زیب تن کر چکی تھی۔۔


نگہت کے ہمراہ جلدی سے وه حویلی کے برآمدے میں آئی۔۔ وه جلد از جلد نکل جانا چاہتی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر بابا سائیں آ گئے تو وه اسے جانے ہی نہ دیں۔۔


یوسف نے گاڑی کا دروازه کھول دیا۔۔


وه سر جھکا کر تیز تیز چلتی گاڑی کے پاس آئی۔ اس نے نظریں جھکا رکھی تھیں جب کہ نگہت ٹکر ٹکر صالح کو دیکھ رہی تھی۔۔


یوسف نے اسے گھوری ڈالی تو وہ ہڑبڑا کر نظروں کا زاویہ موڑ گئی۔۔


ہونہہ کھڑوس کہیں کا!!


"بیٹھیں بی بی!!"


وه ادھر ادھر دیکھتا ماتھے پر بل ڈالے گویا ہوا۔۔


مشائم نے گاڑی کا دروازہ پکڑ کر ایک پاؤں اندر کیا ہی تھا کہ اچانک اسکا عبایا پاؤں کے نیچے آ گیا۔۔


"اللّه!!"


اس نے گھبرا کر عبایا پاؤں کے نیچے سے نکالا۔۔


صالح نے اسکی آواز پر جلدی سے اسے دیکھا عین اسی پل مشائم نے بھی نگاہ اٹھائی۔۔


ایک پل کو دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں پھر دونوں نے سرعت سے نگاہیں پھیر لیں۔۔


اس کے بیٹھنے کے بعد نگہت بھی اس کے برابر گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔ صالح نے دروازه بند کیا اور آگے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا گاڑی سٹارٹ کرگیا۔۔

🌚🌚🌚🌚


پندرہ منٹ بعد گاڑی باغات کے طویل سلسلے کے آگے آ کر رک گئی۔۔


مشائم خوشی سے دمكتا چہرہ لئے جلدی سے دروازه کھول کر باہر نکل آئی۔۔


نگہت کے ہمراہ وه تیز تیز چلتی باغ میں داخل ہو گئی۔۔


آرام سے بی بی!


صالح جلدی سے گاڑی کی چابی ہاتھ میں پکڑتا ان کے پیچھے آیا۔۔


مشائم نے اسکی آواز پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔۔ وه اسکے بچکانے انداز پر سر جھٹک کر رہ گیا۔۔


وه ایک درخت کے پاس جا کر رک گئی۔۔ "نگہت مجھے یہ پھل چاہیے"


وه درخت پر جا بجا لگے پھلوں کی طرف اشارہ کر کے بولی۔۔


ٹھنڈی ہوا، سبزہ خوبصورت پھول اور جا بجا ہرے بھرے درخت۔۔


اسکا موڈ بے حد خوشگوار ہوگیا تھا۔۔


یوسف سے کہیں؟؟


وه نگہت سے سرگوشی میں بولی۔۔


"نہیں مشی بی بی مجھے بہت غصہ آتا ہے اس کے سڑے ہوئے منہ کو دیکھ کر۔۔ پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو،،، میں خود اتار دیتی ہوں آپ کو،، اب نگہت اپنی مشی بی بی کے لئے اتنا تو کر ہی سکتی ہے۔۔۔"


وه دیدے نچا کر بولی تو مشائم بھی ایک پل کو سوچ میں پڑ گئی۔۔۔


"ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو"


انہیں اپنی شان میں قصیدے پڑھتے دیکھ کر وه کھنکارہ۔۔


دونوں کی زبانوں کو بریک لگا۔۔


ہی ہی!! نگہت نے بمشکل مسکرا کر اسے دیکھا۔۔


"میں اتار دیتا ہوں۔۔"


سنجیدگی سے کہہ کر وه درخت کے پاس گیا اور ایڑھی کے بل اونچا ہوتا چند منٹوں میں بہت سے پھل اتار چکا تھا۔۔


"اللّه! یہ کتنا لمبا ہے بی بی۔۔ اس نے تو ایسے ہی اتار لیے۔۔" نگہت اسے دیکھتی ہوئی بولی۔۔


یوسف تمہیں تو سیڑھی کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی ویسے اچھا خاصا قد ہے ویسے اگر تم ہمارے گھر کے پنکھے بھی صاف۔۔۔۔۔


صالح نے ایک تیز نظر نگہت پر ڈالی تو اسکی زبان کو بریک لگا۔۔۔


نہیں میں تو یونہی بس۔۔۔۔۔ وه سٹپٹا کر بولی۔


صالح نے ہاتھ میں پکڑے پھل قریبی تھڑے پر رکھے اور بغیر انہیں دیکھے کچھ فاصلے پر جا کر رخ موڑ کر بیٹھ گیا۔۔


مشائم نے گھاس پر بیٹھ کر نقاب اتار دیا۔۔ کیا ضرورت تھی اسے کچھ کہنے کی؟


اس نے نگہت کو ڈپٹا تو وه اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔۔


پھلوں سے لطف اندوز ہو کر انہوں نے نلکا ڈھونڈ کر ہاتھ دھوئے اور کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرتی رہیں۔۔ پھر صالح کے کہنے پر وه واپسی کے لئے چل پڑے۔


🌚🌚🌚🌚


ملازم ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے اس کے کمرے کے سامنے رک گیا۔۔


اس نے تھوک نگل کر اندر جهانکا۔۔ ماسٹر بیڈ روم خالی تھا۔۔


اس نے شکر کا کلمہ پڑھا اور جلدی سے کمرے میں داخل ہوا۔۔


ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر وه جانے کے لئے پلٹ گیا۔۔ اسکا خیال تھا کہ اورهان باتھروم میں ہے۔۔


رکو!! کڑک دار آواز پر وه اپنی جگہ جم گیا۔۔


جج جی سر!! كانپتی ٹانگوں سے وه الٹے پیر مڑا۔۔


کس سے پوچھ کر میرے کمرے میں آئے ہو؟ اتنی جرات تم دو ٹکے کے ملازم کی۔۔


وه سرد لہجے میں بولتا شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا۔۔


ملازم تھر تھر کانپنے لگا۔۔


"سس سوری سر مم ۔۔مجھے لگا ۔۔۔ کہ ۔۔ آپ ۔۔ کمرے میں نہیں ہیں۔۔ وه اسکے سامنے ہاتھ جوڑ گیا۔۔"


دل آنے والے لمحات کے خوف سے لرزنے لگا تھا۔۔


اوں ہوں!! یہ سوری جیسے لفظ مجھے سخت زہر لگتے ہیں۔۔


وه دائیاں ابرو اچکا کر بےنیازی سے بولا۔۔


"دور کیوں کھڑے ہو؟ یہاں آؤ!!"


اورهان نے اسے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔۔


ملازم نے ڈرتے ڈرتے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھے جو نرم پڑ چکے تھے۔۔ اسے اورهان کی سمجھ نہیں آرہی تھی پل میں تولہ پل میں ماشہ۔۔


تمہیں سنائی نہیں دیا؟؟ اورهان داڑھا تو وه ایک پل کو دہل گیا۔۔


جج۔۔ جی۔۔ سر۔۔ وه چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکی سمت بڑھنے لگا۔۔


دو قدموں کے فاصلے پر وه رک گیا۔۔


اورهان چند لمحے اسکے جھکے سر کو دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ ابھری۔۔


وه پلٹا اور بیڈ سائیڈ ٹیبل سے اس نے چھوٹا سا پلاس نما اوزار نکالا۔۔


جھٹکے سے اس کا ہاتھ دبوچ کر اس نے اپنے سامنے کیا۔۔


نن نہیں سر ۔۔ پلیز ۔۔ مجھے۔۔ معاف کردیں ۔۔ غلطی ہوگئی ۔۔


وه اس کے ہاتھ میں اوزار دیکھ کر گڑگڑانے لگا لیکن مجال ہے کہ اورهان پر اسکا رتی برابر بھی اثر ہوا ہو۔۔ اس نے پلاس نما اوزار اسکے ناخن پر رکھا تھا۔۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


سفید کار سے باہر نکل کر اس نے دروازہ زور سے بند کیا۔۔ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔


کالج میں آج لڑکیاں جس طرح اورهان کے بارے میں باتیں کررہی تھیں اس نے ارشما کا دماغ گھما کے رکھ دیا تھا۔۔


وه اپنی دوستوں سے بھی بہت لڑی تھی۔۔ ایسے کیسے کوئی اس کے جان سے پیارے بھائی کے بارے میں بات کر سکتا ہے۔۔ ان کو کیا حق پہنچتا ہے؟


بیگ کندھے پر ڈالتی وه الجھ کر پورچ سے اندر جانے والے راستے کی سمت بڑھی۔۔


وه اس وقت کالج کے سفید یونیفارم میں ملبوس تھی۔۔ کندھوں سے نیچے تک آتے سلكی شہد رنگ بال اونچی پونی میں مقید تھے۔۔


وه ذرا سی گردن ہلاتی تو پونی لہرا جاتی۔۔


بڑی بڑی بادامی آنکھیں جن میں ڈوب جانے کو جی چاہے۔۔ ستواں ناک، گلابی چھوٹے سے ہونٹ اور گالوں میں پڑتے گڑھے۔۔


وه دکھنے میں بہت کیوٹ تھی۔۔ اس کا دل بھی اسکی طرح بہت معصوم اور نرم تھا۔۔


وه نازوں پلی اپنے بھائی کی لاڈلی تھی۔۔ میر اورھان صمید کا دل اگر کسی کے معاملے میں پگهلتا تھا تو وه "ارشما صمید" تھی۔۔


اسکی کل کائنات،، جسے اس نے زمانے کے سرد و گرم اور ہر بری نظر سے چھپا کر رکھا تھا۔۔


اس کے سرکل میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اورهان کی کوئی بہن بھی ہے۔۔


وه ارشما کے ساتھ اس محل نما گھر میں رہتا تھا۔۔ گرے ٹائلوں سے مزین کئی رقبے پر پھیلا یہ عالیشان محل جس میں سامنے کی دیوار پر اورینج شیڈ کی کھڑکیاں نصب تھیں۔۔


سیاہ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ایک طرف پورچ جبکہ دوسری جانب مڑتے ہی وسیع و عریض لان تھا۔۔


اندر داخل ہوتے ہی لکڑی کی چوڑی سیڑھیاں نظر آتی تھیں جو دوسرے فلور سے جا ملتی تھیں۔۔


سیڑھیوں کے دائیں جانب سٹائلش سا سیاہ پتھروں سے سجا اوپن کچن تھا جس سے ذرا دور ہٹ کر ٹی وی لاؤنج بنا تھا جہاں سامنے کی دیوار پر لكڑی سے خوبصورت نقش بنائے گئے تھے۔۔


اور بائیں جانب دیوار گیر کھڑکیاں بنی تھی جن کو ایک جانب سے دوسری جانب دهكیلا جا سکتا ہے۔۔


کھڑکیوں کے باہر سے لان کا منظر صاف نظر آتا تھا۔۔ دوسرے فلور پر ان کی رہائش تھی۔۔ ماسٹر بیڈ روم اورهان کے زیر استعمال تھا جبکہ دائیں قطار میں بنے کمروں میں سے ایک کمرہ ارشما کے استعمال میں تھا۔۔


وه دروازہ دهكیل کر اندر آئی۔۔


بیگ وہیں کچن کی سلیب پر رکھتی فریج سے پانی نکال کر وہیں سلیب پر بیٹھ گئی اور گلاس میں پانی انڈیل کر گھونٹ گھونٹ پینے لگی۔۔


پیاس بجھا کر وہ دهپ سے نیچے اتری اور بیگ وہیں چھوڑتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔۔


اوپر آ کر اس نے اپنے کمرے میں جانے کا اراده ترک کرتے اورهان کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔۔


دروازه دهكیل کر اس نے اندر قدم رکھا تو اسکی آنکھوں میں الجھن ابھری۔۔

بھائی؟؟

ملازم کے سامنے جھکے اورهان کو دیکھ کر وه پکار گئی۔۔ البتہ وه اورهان کے ہاتھ میں پکڑا اوزار نہیں دیکھ سکی تھی۔۔۔

اورهان سرعت سے سیدھا ہوا۔۔ اس نے ہاتھ پیچھے کرتے اوزار سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔

کیا ہوا ہے یہ ملازم کیوں رو رہا ہے۔۔؟؟

وه قریب آتی تھر تھر کانپتے ملازم کو دیکھ کر بولی جس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔۔

"جاؤ تم!!"

اورهان کے حکم پر وه شکر کا سانس لیتا تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

"اس کو کچھ پیسے چاہیے تھے بیچارے کی ماں بیمار ہے ۔۔"

اورهان آگے بڑھ کر اسکا سر چوم کر گویا ہوا۔۔

ارشما نے ذہن سے تمام فضول سوچوں کو جھٹک دیا۔۔

جھوٹ کہتی ہیں سب میرے بھائی جان تو اتنے اچھے ہیں۔۔

دل میں سوچتی وه اورهان سے مخاطب ہوئی۔۔

آپ نے کھانا کھا لیا ۔۔ ؟؟

پیار سے اسے دیکھتی وه استفسار کرنے لگی۔۔

ماشاءالله!! اس نے دل ہی دل میں اورهان کی نظر اتاری۔۔ بلاشبہ وه بے حد وجیہہ تھا۔۔

اپنی پرنسز کے بغیر کیسے کھا سکتا ہوں کھانا؟ ہمم۔۔

وه مسکرایا۔۔

اوکے میں چینج کرلوں پھر اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور آپ کو یاد ہے نہ آج آئس کریم کھلانے بھی لے کر جاناہے آپ نے۔۔

اس کو یاد كرواتی وه فریش ہونے چلی گئی۔۔

اس کے جانے کے بعد اس نے وه چیز واپس دراز میں رکھ دی۔۔ اسکی آنکھوں کا تاثر پھر سے سرد ہوگیا۔۔

اماں ایک بات پوچھوں؟؟


اینارا ٹھوڑی تلے ہاتھ ٹکا کر معصومیت سے بولی۔۔


ہاں پوچھ !!


شائستہ نے آٹا گوندتے ہوئے اسے سر اٹھا کر دیکھا۔۔


اماں غریب ہمیشہ غریب کیوں رہتا ہے؟؟


اسکی سوچ کی گہرائی پر شائستہ نے پرسوچ نظروں سے اسے دیکھا۔۔ وه ازنا کے مقابلے میں زیادہ سمجهدار ہوتی جارہی تھی۔۔


"ضروری نہیں پتر کہ غریب ہمیشہ غریب ہی رہے۔۔ قسمت نامی چڑیا کس کے سر بیٹھ کر چمک اٹھے کون جانے۔۔"


ان کے گہرے لہجے پر وه گم صم سی انہیں دیکھنے لگی۔۔


" اماں جو پڑھ لکھ جاتے ہیں وه بڑے افسر بھی تو بن جاتے ہیں نہ ، کیا ٹھاٹھ باٹھ، نوکر چاکر ، امیری۔۔"


اسکی بے وقوفی پر وه ہنس دیں۔۔ پرات سے گوندها ہوا آٹا نکال کر ایک سٹیل کے برتن میں ڈال کر وه نلکے کے سامنے آ بیٹھیں۔۔


"نہ میرا پتر یہ سب پڑھائیوں سے نہیں نصیب سے ملتا ہے۔۔ اور تجھے ایک دانش مندی کی بات بتاؤں ؟ یہ کاغذی دولت شہرت كچھ بھی نہیں ہے اصل دولت تو انسان کا اخلاق ہے اس کا وه علم ہے جو اسے صحیح راستے سے نہ بھٹکائے۔۔ لیکن آج کے مادہ پرست دور میں ایسی باتیں کہنے والوں کو لوگ بے وقوف سمجھتے ہیں۔۔ لیکن میں تجھے بتاؤں ایسے عقلمندوں سے بےوقوف ہونا بہتر ہے۔۔"


ان کے لہجے میں تجربہ بول رہا تھا۔۔


اینارا یک ٹک ان کا چہرہ دیکھے گئی۔۔


تو اتنا نہ سوچا کر میری جھلی دھی۔۔ جا بہن کا ہاتھ بٹا کچن میں۔۔


آگے آتی لمبی چوٹی کو پشت پر ڈالتے وه چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ کچن میں آ کر اس نے دوپٹہ اتار کر دروازے پر لٹکا دیا۔۔


"اف کتنی گرمی ہے یہاں"


وه کھانا بناتی ازنا کو دیکھ کر بولی تو وه ہنس دی۔۔


" بس ابھی سے بس ہوگئی تمہاری۔۔ سسرال جا کر کیا بنے گا تمہارا، وہاں تو اکیلے سب کام۔۔۔"


بس بس !! یہیں رک جاؤ تم اپنے سسرال کا سوچا کرو بس "میں نے تو شادی ہی نہیں کرنی"


وه نلکا کھول کر برتنوں کے ڈھیر کے سامنے کھڑی ہوتی مزے سے بولی۔۔


شُب شُب بولو کوئی وقت قبولیت کا بھی ہوتا ہے۔۔

ازنا نے اسے ڈپٹ دیا۔۔


کچھ نہیں ہوتا جلدی کھانا بناؤ پھر نہر پر چلیں گے باہر موسم بڑا کمال کا ہورہا ہے۔۔


وه تیز تیز ہاتھ چلاتے ہوئے بولی تو ازنا بھی رضامندی ظاہر کرتی جلدی سے کھانا بنانے لگی۔۔


قسمت انہیں آپس میں مگن پا کر چپکے سے مسکرائی تھی۔۔ کون جانے کہ یہ قبولیت کا وقت ہو۔۔ کون جانے ؟


🌚🌚🌚🌚


اللّه۔۔۔ کیا غضب کا موسم ہے!!


اینارا سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسمان کو دیکھ کر ہاتھ پھیلاتی گول گول گھومنے لگی۔۔


ارے پاگل !!

اسے بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ کر ازنا نے اس کے سر پر چپت لگائی۔۔


تیز ہوا ان کے لباس کو بار بار اڑا رہی تھی۔۔ دونوں سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھیں۔۔ نہر کے گرد کسی کو نا پا کر انہوں نے دوپٹہ اتار کر گلے میں ڈال لیا تھا۔۔


دونوں نے لمبے سیاہ گھنے بالوں کی چٹیا کر رکھی تھی جو کمر سے نیچے تک آتی تھی۔۔


ازنا اس کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھی لیکن اینارا کی معصومیت اور گڑیا جیسے نقش اسے سب میں منفرد بناتے تھے۔۔


"میرا تو نہر میں جانے کا دل کررہا ہے کتنا ٹھنڈہ پانی ہے۔۔"


اینارا بھاگ کر نہر کے قریب گئی اور ہاتھ میں پانی لے کر منہ پر چھینٹے مارنے لگی۔۔


ہوا کا زور تیز ہوا تو وه اٹھ کھڑی ہوئی۔۔


تم بھی آجاؤ یہاں!!


وہ تیز آندھی کے باعث مندی آنکھوں سے ازنا کو دیکھتی ہاتھ سے اشارہ کر رہی تھی۔۔


نہ بابا تم ہی جاؤ مجھے تو ڈر لگتا ہے بہت ۔۔


ازنا ہاتھ اٹھاتی صاف انکار کر گئی۔۔۔


کیا یار تم تو بور کررہی ہو مجھے،، میں آصفہ کو بلا کر لاتی ہوں ہم جب بھی یہاں آتے ہیں اتنا لطف اٹھاتے ہیں تم تو صدا کی بورنگ لڑکی ہو۔۔


منہ بنا کر وه سر پر دوپٹہ ڈالتی تیز قدم اٹھاتی قریب ہی اپنی سهیلی کو بلانے چلی گئی۔۔


"ارے پاگل مجھے یہاں اکیلی چھوڑ کر جارہی ہو،،، اینارا بات سنو۔۔"


وه ٹیڑھے میڑھے راستے سے نیچے آتی اسے پکارتی ہی رہ گئی۔۔


"بلکل پاگل ہے یہ لڑکی گھر جا کر اماں کو بتاؤں گی۔۔" خود سے بڑبڑاتی وه قریب پڑے پتھر پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی ۔۔


🌚🌚🌚🌚


"شٹ!! اس گاڑی کو بھی ابھی خراب ہونا تھا۔۔"


اس نے بیزاری سے ادھر ادھر دیکھا۔۔


گاڑی کا بونٹ کھول کر وه جھکتا تاروں کو دیکھنے لگا کہ شاید کچھ سمجھ آ جائے۔۔


جب کچھ بھی پلے نہ پڑا تو اس نے گاڑی کو زوردار ٹھوکر ماری۔۔


وه ابھی ابھی اسلام آباد سے خضدار پہنچا تھا۔۔ اس کا رخ سفید حویلی کی جانب تھا۔۔ جانے کیوں سلطان ماہ بیر شاہ سے رو برو ملاقات کا دل کررہا تھا۔۔ لیکن گاڑی نے دغا کر دیا۔۔


وه نظریں گھماتا کسی کو مدد کے لئے ڈھونڈ رہا تھا کہ اسکی نیلی نگاہیں ایک لڑکی پر جم گئیں جو پتھر پر بیٹھی محویت سے نہر کے پانی کو دیکھ رہی تھی۔۔ جس کی لہریں کبھی بلند ہوتیں تو کبھی پانی میں جا ملتیں۔۔


زوردار آواز سے بادل گرجا تو موسم کے تیور دیکھتے وه اس انجان لڑکی کی جانب دوڑ کر آیا۔۔


سیاہ بادلوں نے دن میں اندھیرا کر دیا تھا۔۔ آرینا کا انتظار کرتے وه بس واپس جانے ہی لگی تھی کہ اپنے سامنے ایک خوش شکل لمبے چوڑے مرد کو دیکھ کر وه جھجھک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔


یکا یک پانی کی بوندیں گریں اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔۔ چند ہی سیكند میں وه دونوں مکمل بھیگ گئے۔۔


ازنا نے جلدی سے دوپٹہ پھیلا کر لیا۔۔ وہ سیاہ جینز شرٹ میں اس اجنبی کو نظر انداز کرتی جانے لگی تھی کہ اس نے ازنا کا ہاتھ تھام لیا۔۔


وه جھٹکے سے ہاتھ چھڑواتی اسے غصے سے دیکھنے لگی۔۔


"آئی ایم سوری ! میرا نام اورهان ہے میری گاڑی خراب ہوگئی تھی اس لئے مدد کے لیے آپ کے پاس چلا آیا۔۔ لیکن یہاں آپ کو دیکھ کر سمجھ میں آیا کہ میری گاڑی کیوں خراب ہوئی۔۔ شاید بہت سی چیزیں صحیح کرنے کے لئے۔۔"


وه سر تا پیر اس کا جائزہ لے چکا تھا۔۔۔ ڈھکا چھپا اتنا مکمل حسن اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔


اہم ویسے ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں؟


وه مسکرا کر بولا تو ازنا کی نگاہیں اس کے گال میں پڑتے ڈمپل سے الجھ گئیں۔۔


جی کہیں!!


نا جانے کیوں وه وہاں رک گئی۔۔ یہ خیال کیے بغیر کہ وه مکمل بهیگ چکی تھی۔۔


"آپ بہت خوبصورت ہیں!!"


وه بول کر لب دبا گیا۔۔


ازنا کے گال سرخ ہوگئے۔۔ دل معمول سے تیز دھڑکنے لگا۔۔


وه تیزی سے پلٹی اور وہاں سے جانے لگی کہ اورهان نے اس کا ہاتھ تھامتے اسے اپنا کارڈ تهما دیا۔۔


"یہ رکھ لیں ہوسکتا ہے آپ کو ضرورت پڑ جائے کبھی۔۔"


وه اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔


ازنا نے کانپتے ہاتھوں سے کارڈ مٹھی میں دبوچا اور کانپتی ٹانگوں سے وہاں سے چلی گئی۔۔


آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اس کے ساتھ۔۔ صنفِ مخالف کے لمس نے اس کے جسم میں کرنٹ دوڑا دیا تھا۔۔


اس کے جانے کے بعد اورهان سیٹی پر رومانوی دھن بجاتا پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا سر مستی کے عالم میں اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔۔


ڈیش بورڈ سے موبائل اٹھا کر اس نے کسی کو میسج بھیجا اور سیٹ کی پشت سے سر ٹکاتا آنکھیں موند گیا۔۔

🌚🌚🌚🌚


لکڑی کے چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اسکی نظر اینارا پر پڑی جو برآمدے میں بیٹھی مزے سے پکوڑے کھا رہی تھی۔۔


اسے نئے سرے سے غصہ آیا۔۔


تم مجھے وہاں اکیلی چھوڑ کر آگئی؟؟


وه اس کے سر پر کھڑی ہوتی نتھنے پھلا کر بولی۔۔


اینارا نے معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھا۔۔ "وه آصفہ گھر نہیں تھی۔۔ میں واپس نہر پر جانے لگی تو بارش شروع ہوگئی تو میں گھر آ گئی مجھے لگا تھا تم بھی فوراً وہاں سے نکل گئی ہوگی لیکن تمہیں اتنی دیر کیسے ہوگئی؟؟"


وه پکوڑا منہ میں ڈال کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔


ازنا کا سانس ایک پل کو سینے میں اٹکا لیکن پھر وه خود کو نارمل کرتی گیلا دوپٹہ اتار کر برآمدے میں لگی تار پر ڈالنے لگی۔۔


" ہاں بس بارش بہت تھی آرام سے آنا پڑا کچھ نظر بھی نہیں آ رہا تھا ٹھیک سے۔۔"


وه نظریں چرا گئی۔۔


اماں کہاں ہیں؟؟ وه ہاتھ میں پکڑے کارڈ کو مٹھی میں مزید دبوچ کر بولی جو بارش کے پانی کی وجہ سے مکمل گیلا ہو چکا تھا۔۔


وه پڑوس میں گئی ہیں۔۔ شکیلہ خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی آج کل۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے، مجھے بڑا ترس آتا ہے ان پر۔۔


اسکی بات پر دیہان دیے بغیر وه اندر اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔ کپڑے بدل کر اس نے اپنا صندوق کھولا اور اس کے سامنے کھڑی ہوتی کارڈ کھول کر دیکھنے لگی۔۔


کیا میں صحیح کررہی ہوں۔۔؟؟ ابا اماں اینارا اگر کسی کو پتہ چل گیا تو۔۔؟


وه لب کاٹتی ایک نظر کمرے سے باہر ڈالتی پرسوچ ہوئی۔۔


چھن سے وه نیلی آنکھیں اسکے سامنے آئیں۔۔ گال میں پڑتا گڑھا،،، اس نے مسکرا کر سر جھٹکا۔۔


کارڈ کو چوم کر اس نے صندوق میں کپڑوں کے نیچے چھپا کر رکھ دیا۔۔


آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وه گیلے بال سنوارنے لگی۔۔


اس کے چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ تھی۔۔ (آپ بہت خوبصورت ہیں) اپنی کلائی کو چھوتی وه زیر لب کوئی گیت گنگنانے لگی۔۔


🌚🌚🌚🌚


سفید حویلی میں سنہری صبح بھیگ رہی تھی۔۔ بارش کے بعد ہر چیز نكهر گئی تھی۔۔ آسمان پر سورج بدلیوں سے اٹھکیلیاں کرتا پھر رہا تھا۔۔ کبھی وه اپنا مکھ دکھاتا تو کبھی بادلوں کی اوٹ میں شرما کر چھپ جاتا۔۔


ایسے میں جہاں سفید حویلی میں سب اپنے معمول کے کاموں میں مگن تھے وه اپنے کمرے کی بالکنی میں کافی کا مگ ہاتھ میں تھامے ریلنگ سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔۔


سیاہ ٹراؤزر بنيان میں گردن کو چھوتے بکھرے بالوں میں بھی وه بہت جاذب نظر لگ رہا تھا۔۔


وه پلٹا اور ریلنگ پر ہاتھ ٹکا کر سر اٹھاتا آسمان کو دیکھنے لگا۔۔


کافی کا کپ لبوں سے لگاتے وه سوچتی نظروں سے آسمان پر بکھرے رنگوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ نیچے لان میں اسکی نظر نگہت پر پڑی جو ہاتھ میں کچھ سامان پکڑے اسکی جانب ہی دیکھ رہی تھی۔۔


ماہ بیر کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وه گڑبڑاتی وہاں سے چھو منتر ہوگئی۔۔


ماہ بیر نے سے جھٹکا۔۔ "یہ آج کل کی بچیاں بھی نہ ۔۔"


سیدھا ہوتا وه خراماں خراماں چلتا اپنے کمرے میں آیا۔۔ کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اس نے الماری کھولی۔۔


نیوی بلیو شوار قمیض نکال کر اس نے فریش ہونے کی غرض سے واشروم کا رخ کیا۔۔


فریش ہو کر وه آئینے کے سامنے آتا ڈرائیر سے بال سکھانے لگا۔۔


نیوی بلیو شلوار قمیض میں اسکا کسرتی جسم واضح ہورہا تھا۔۔ یہ رنگ اس پر بہت جچتا تھا۔۔


كف لنکس بند کرتے اس نے کلائی میں گھڑی پہنی۔۔ بالوں کو ہاتھ کی مدد سے پیچھے کی جانب کرتے اس نے آئینے میں ایک آخری نظر اپنے سراپے پر ڈالی۔۔


سرمئی آنکھوں میں مسکراتا تاثر ابھرا۔۔


بھری بھری سیاہ داڑھی پر ہاتھ پھیر کر وه صوفے پر آن بیٹھا۔۔


پیروں کو اس نے سیاہ پشاوری جوتوں میں مقید کر لیا۔۔ جھکنے سے اس کے ماتھے پر سیاہ بالوں کی ایک لٹ آ گری تھی جسے نظر انداز کرتے وه دوبارہ كبرڈ کی جانب بڑھا۔۔


سیاہ شال نکال کر اس نے الماری کے دونوں پٹ بند کردیئے۔۔ مضبوط چوڑے کاندھوں پر شال پھیلا کر وه کمرے سے باہر نکل آیا۔۔


ڈائننگ ہال میں آ کر اس نے کرسی سنبهالتے سلام کیا۔۔


وہاں پہلے سے كرسیوں پر براجمان للہ عارفہ اور محمد عبدالله شاہ نے سر کے خم سے سلام کا جواب دیا۔۔

🌚🌚🌚🌚


"مشی بی بی یہ ماہ بیر سائیں کتنے سوہنے ہیں"


نگہت کے شرما کر کہنے پر اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔


وه دونوں ڈائیننگ ہال کی جانب آ رہی تھیں جب نگہت کی بات پر اسے شدید حیرت ہوئی۔۔

یہ صبح صبح تمہیں کیا ہوگیا ہے نگہت ؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہو۔۔

نگہت پر جوش سی اسکی جانب مڑی۔۔

" بی بی وه صبح نہ میں نے ان کو بالکنی میں کھڑے دیکھا تھا۔۔ بہت سوہنے لگ رہے تھے بلکل شہری بابو کی طرح اور ان کے کیا ڈولے شولے ہیں۔۔ میرا تو "کرس" بن گئے ہیں وه۔۔"

اس کے یوں بےشرمی سے بولنے پر مشائم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔

استغفرالله نگہت بہت بے ہودہ ہوگئی ہو تم ۔۔ اور یہ "كرس" نہیں "کرش" ہوتا ہے۔۔!!

وه سرخ چہرے سے بولی۔۔

گال تهپتهپا کر اس نے ایک نظر نگہت پر ڈالی۔۔

ویسے تمہارا کرش تو یوسف پر نہیں تھا۔۔ ؟؟

نگہت کی تیوری چڑھی۔۔ "توبہ کریں جی میرا دماغ خراب تھا جو اس اکڑو کو کرش بنایا ہر وقت جلا کٹا رہتا ہے۔۔ بڑی اکڑ ہے اس میں جو کسی لڑکی کی طرف دیکھنا بھی گواره نہیں کرتا وه۔۔"

وه منہ بنا کر بولی۔۔

کیوں نہیں دیکھتا وه ؟؟ مشائم دلچسپی سے بولی۔۔ جانے کیوں اس کو مزید جاننے کا دل کررہا تھا۔۔

ڈائننگ ہال کے قریب آ کر نگہت سرگوشی میں کہنے لگی۔۔

" جی وه کہتا ہے سب میری ماں بہنیں ہیں اور جو عورت اپنی نسوانیت کو بھول جائے اسے میں ماں بہن تو کیا کچھ سمجھتا ہی نہیں ہوں۔۔"

اندر داخل ہوتے ہی دونوں شرافت سے سلام کر گئیں۔۔

وعلیکم السلام!! ماہ بیر اور للہ عارفہ نے مسکرا کر جواب دیا جب کہ سید عبدالله شاہ نے سنجیدگی سے محض سر ہلا دیا۔۔

مشائم کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی جب کہ نگہت اس کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔۔

ماہ بیر کو مسکراتا دیکھ کر وه ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگی۔۔

ماہ بیر نے نظروں کی تپش محسوس کر کے سر اٹھا کر دیکھا تو اسے خود کو دیکھتا پا کر گھوری ڈالی۔۔

یہ لیں نہ مشی بی بی! گڑبڑا کر وه مشائم کے آگے ڈش اٹھا کر رکھ گئی۔۔

وه محض سر ہلا کر رہ گئی۔۔ اسکی سوچوں کا محور صالح یوسف تھا جس کی ذات سے وه متاثر ہونے لگی تھی۔۔ اس کا صالح یوسف کی ذات میں دلچسپی لینا کیا کیا طوفان اٹھانے والا تھا یہ تو آنے والے وقت نے طے کرنا تھا۔۔

کہاں تھی تم۔۔؟؟ کب سے تمہارا ویٹ کررہی ہوں۔۔ ارشما نے اسلام آباد کے اپر کلاس ہوٹل میں قدم رکھا ہی تھا کہ اسکی دوست فوراً آ کر اس سے لپٹ گئی۔۔


اس شاندار ہوٹل میں کالج کی طرف سے فئیر ویل پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔۔ جس میں شرکت کے لئے وه یہاں آئی تھی۔۔


بلیک کرتے کے ساتھ بلو جینز اور بلیک ہائی ہیلز میں نفاست سے میک اپ کیے وه سب سے منفرد اور پیاری لگ رہی تھی۔۔


شہد رنگ بالوں کو سٹریٹ کر کے پشت پر کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔۔ دوپٹہ لینے کی زحمت اس نے نہیں کی تھی۔۔


اس نے اپنی دوست کو خود سے الگ کیا۔۔ بادامی بڑی بڑی آنکھوں میں ناگواری تھی۔۔


کیا ہوا ہے ارشما ایسے کیوں بی ہیو کررہی ہو؟؟ مقابل نے الجھ کر اسے دیکھا۔۔


میرے بھائی کے بارے میں غلط باتیں کر کے اور تم مجھ سے کس رویے کی امید کررہی ہو؟


خفگی سے کہہ کر وه انٹرنس سے اندر بڑھ گئی۔۔


یہاں کی تو دنیا ہی نرالی تھی۔۔ تیز میوزک کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔۔ ڈسکو لائٹس میں ایک جانب بنے سٹیج پر کئی لڑکے لڑکیاں ڈانس کر رہے تھے۔۔


ایک جانب بار تھا جہاں ہر قسم کی شراب دستیاب تھی۔۔ پرفیومز کی ملی جلی مہک۔۔ بے اختیار اس کا دل خراب ہوا۔۔ اسے لگا اس نے یہاں آ کر غلطی کردی ہے۔۔


یار سنو تو!!


اس کی دوست اتنے ہجوم میں مشکل سے اسے تلاشتی اس تک پہنچی تھی۔۔


یار میں نے کب کچھ کہا تھا ؟؟


وه بے چارگی سے اسکا بازو پکڑ کر بولی تو ارشما نے جواباً ایسی نظروں سے اسے دیکھا کہ وه شرمندہ ہوگئی۔۔


"اچھا آئی ایم سوری یار آئینده ایسا کچھ نہیں کہوں گی جس سے تمہارا دل دکھے۔۔"


وه التجائیہ بولی تو ارشما نے اسے معاف کردیا۔۔


اوکے!!


اس کے نارمل انداز میں بات کرنے پر وه مطمئن ہوگئی۔۔ چلو وہاں چلتے ہیں وصی کو دیکھو کیسے تمہیں دیدے پھاڑ کر دیکھ رہا ہے لگتا ہے فلیٹ ہوگیا ہے تم پر ۔۔


وه ہستی ہوئی بولی۔۔


ارشما نے جیسے ناک سے مكهی اڑائی۔۔ وه خالی صوفوں کی جانب بڑھ گئیں۔۔


"مجھے سخت زہر لگتے ہیں ایسے مرد جن کا دل ہر لڑکی پر فلیٹ ہوجاتا ہے۔۔"


وه صوفے پر بیٹھتی ہوئی ناگواری سے بولی۔۔


"یار مرد تو نہ کہو بیچارے کو ابھی تو وه لڑکا ہے۔۔"


مقابل اسکی دوست کی ہسی نکل گئی۔۔


جو بھی ہے۔۔! ارشما ارد گرد نگاہ دوڑا کر بولی۔۔


چاروں جانب اس کے کلاس فیلوز موجود تھے۔۔ کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا تو کوئی شراب کے نشے میں گم ۔۔


اس نے بیزاری سے سر جھٹکا۔۔


ویسے کیسے مرد پسند ہیں تمہیں؟؟ اپنی دوست کے سوال پر وه چند لمحے اسے دیکھے گئی۔۔


"ایسا مرد جس کا دل بس ایک عورت کے آگے جھک جائے، جو ہر عورت کو دیکھنا گوارا نہ کرے بلکہ اس کی آنکھیں بس ایک کا عکس اپنے اندر بسائے رکھیں،،، اس کا جو اس کے دل میں بستی ہو۔۔۔ جو عورت کی عزت کرنا جانتا ہو ، جو باوقار ہو جسے دیکھ کر ہی اسکے ساتھ کی خواہش ہو ایسا مرد پسند ہے مجھے۔۔"


وه بے ساختہ بولتی گئی۔۔


مقابل کا منہ کھل گیا۔۔ اوه مائی گاڈ ارشما تم ایسی باتیں بھی کرتی ہو آئی کانٹ بیلیو ویسے ایسا مرد تمہیں ملے گا کہاں۔۔ ؟


اپنی حیرت چھپاتی وه اس سے پوچھ بیٹھی۔۔


"ہوگا اس روئے ارض میں کوئی ایسا بھی جس کا دل صرف "ارشما صمید" کے لئے دھڑکے گا۔۔"


ایک ادا سے کہتی وه اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ کہاں جا رہی ہو ۔۔ ؟؟


اسکی دوست کولڈ ڈرنک کا گلاس اٹھا کر بولی۔۔


فریش ایئر لینے جا رہی ہوں،، اس ماحول میں تو دم گھٹ رہا ہے میرا۔۔!!!


بیگ پکڑ کر پورے كانفیڈنس سے چلتی وه ہوٹل کی بیک سائیڈ آ گئی۔۔


شیشے کا دروازه کھول کر وه بالکنی میں نکل آئی۔۔


سامنے سمندر کا دلکش نظارہ دیکھ کر اسکی روح تک طمانیت چھا گئی۔۔ چاند کی روشنی میں سمندر گہرا نیلا نظر آ رہا تھا۔۔


اسکی نگاہیں سمندر میں بنتے گرداب پر جم گئیں۔۔ پانی گول گول گھومتا درمیان سے گہرا ہوتا جارہا تھا۔۔


ہوا اس کے بالوں سے اٹھکیلیاں کررہی تھی۔۔ وه سب سے بے نیاز کھڑی خاموش رات کا حصہ لگ رہی تھی۔۔


"ڈگری تو ایسی ہونی چاہیے جو آپ کو باوقار ،با حیا ،، با حجاب بنا دے نہ کہ ایسی جو آپ کے سر سے دوپٹہ تک اتروا دے"


ہوٹل کے سامنے چادر میں مقید ایک نچلے درجے کی عورت نے اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر اس کی ذات پر طنز کیا تھا ۔۔


وه اسکی بات سے زیادہ اس کے پر سلیق لہجے پر حیران ہوئی تھی۔۔


اب تنہائی ميسر ہوئی تو اس کا ذہن پھر اسی بات پر اٹک گیا۔۔


کیا میں بےحیا ہوں؟؟


اس نے اپنے لباس پر نظر ڈالی۔۔ آگاہی کے ایک لمحے نے اس کے اندر تک سناٹے بھر دیے۔۔


وه سمندر کی لہروں پر نظریں ٹکائے اپنے آپ سے الجھی کھڑی تھی کہ بالکنی کا دروازه کھلنے کی آواز آئی۔۔


اس نے ذرا کی ذرا گردن موڑی تو اس کا چہرہ ایسا ہوگیا جیسے اس نے کڑوا بادام کھا لیا ہو۔۔


اس کی کلاس کا سب سے فلرٹی بد کردار لڑکا طنزیہ مسکراتا ہوا اسی کی جانب آ رہا تھا۔۔


وہ ضبط کرتی ہوئی زمین سے پرس اٹھاتی وہاں سے جانے کے ارادے سے دروازے کی جانب بڑھی۔۔


کیا ہوگیا ہے جانِ من ہم سے خفا ہو کیا؟؟


وه اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔


اس کی كراہیت آمیز آنکھیں ارشما کے وجود کا تیزی سے جائزہ لے رہی تھیں۔۔


ارشما کے جسم میں غصے کی شدید لہر دوڑگئی۔۔ وه پلٹی اور پوری قوت سے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔۔


اسے نفرت سے دیکھ کر اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے جھٹکے سے نکال کر وه پلٹی ہی تھی کہ اس لڑکے نے سارے لحاظ بالائے طاق رکھتے اسے کمر سے پکڑ کر جھٹکا دے کر دیوار سے لگا دیا۔۔


"آہ!!"


"چھوڑو مجھے گھٹیا انسان میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔۔"


وه اس کی گرفت میں پھرپھراتی چیخنے لگی۔۔


"چپ بلکل چپ بڑی بک بک سن لی میں نے تمهاری۔۔"


اس لڑکے نے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسکی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔۔


ارشما کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا۔۔


"کب سے ناٹنکی کر رہی ہے سالی جیسے تم جیسوں کے لئے یہ بڑا کوئی نیا کام ہے۔۔"


وه اس کے چہرے کو قریب سے دیکھتا اپنے لفظوں کا زہر اس کے کانوں میں انڈیلنے لگا۔۔


ارشما نے سرخ نظروں سے اسے دیکھتے اپنے دانت اس کے ہاتھ میں پوری شدت سے گاڑ دیے۔۔


"آاہ!!"


وه بلبلا اٹھا۔۔


وه چند قدم پیچھے ہٹا ہی تھا کہ ارشما نے گرتے پڑتے پاس گرا اپنا لیدر کا بیگ اٹھایا اور پوری قوت سے گھما کر اسکے منہ پر دے مارا۔۔


وه منہ پر ہاتھ رکھتا دوہرا ہوگیا۔۔


"یو بچ!!"


تمہارا بھائی تو کھلے عام رنگ رلیاں مناتا پھرتا ہے تم یہ نخرے کس لئے کررہی ہو آج چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں!!!


سیدھا ہو کر ہزیان بکتا وه اس کے پیچھے دوڑا جو لڑکھڑاتی ہوئی وہاں سے بھاگی تھی۔۔


ہال میں آ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔۔ اپنے بکھرے حلیے کو درست کرتے وه جلدی سے ہوٹل کی عمارت سے باہر نکلی اور اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھی۔۔


کانپتے ہاتھوں سے اس نے چابی لگائی اور کار کے دائیں جانب کھڑی اسے طنزیہ نظروں سے دیکھتی عورت کو نظر انداز کرتی وه زن سے گاڑی بهگا لے گئی۔۔


پورچ میں آ کر اس نے گاڑی روکی۔۔ اندر آ کر وه زور زور سے چلانے لگی۔۔


بھائی؟؟ بھائی؟؟ نیچے آئیں!!


اس کی آواز سن کر چند ملازم ڈرتے ہوئے اسکے پاس آئے۔۔


میڈم!! "سر کسی ضروری کام سے گئے ہیں۔۔ کہہ رہے تھے آپ کو انفارم کر دیں۔۔"


وه مؤدب سے بولے تو وه ناگواری سے سر جھٹکتی پرس زمین پر گھسیٹتی سیڑھیاں تیزی سے پھلانگتی اپنے کمرے میں آئی۔۔


پرس کو زور سے زمین پر مار کر وه شاور لینے کے لئے واش روم میں گھس گئی۔۔


جسم کو زور سے رگڑتی وه جیسے اسکا لمس مٹانے کی کوشش کررہی تھی۔۔


ہلکے پھلکے کپڑوں میں وه باہر نکلی اور اپنے بستر پر اوندھی گرتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔


اس کا دل بے حد دکھ رہا تھا۔۔ وه اورهان کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کررہا تھا۔۔ اور وه مجھے کیسی لڑکی سمجھ رہا تھا۔۔ اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا تھا۔۔


لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اس نے سائیڈ ٹیبل سے ٹیبلٹ نکالی اور ذرا سا اٹھتے پانی کا گلاس پکڑ کر گولی منہ میں ڈالتی پانی کے ساتھ نگل گئی۔۔


ہاتھ مار کر کمرے کی بتی بجھاتی وه آنکھیں موند گئی۔۔ اس وقت واحد چیز جو وه چاہتی تھی وہ نیند تھی۔۔

🌚🌚🌚🌚


وه اپنے بیڈ پر آڑی ترچھی سی لیٹی کوئی رسالہ پڑھ رہی تھی۔۔ اس کے گیلے لمبے بھورے بال بیڈ کی سفید چادر پر پھیلے ہوئے تھے۔۔


سانولے چہرے پر مدھم مسکراہٹ تھی۔۔ سرخ ریشمی شلوار قمیض میں بیڈ پر لیٹی وه سرخ گلاب لگ رہی تھی۔۔


گهنی پلکیں بھوری آنکھوں پر سایہ فگن تھیں۔۔


وه محويت سے رسالہ پڑھ رہی تھی کہ دروازے پر آہٹ ہوئی اور سید محمد عبدالله شاہ ہلکی سی دستک دے کر اندر داخل ہوئے۔۔


وه ہڑبڑا کر اٹھی اور بیڈ پر گرا دوپٹہ پھیلا کر سر کو ڈھانپا۔۔


السلام علیکم بابا سائیں آئیں بیٹھیں!!


سر جھکا کر وه آہستہ سے گویا ہوئی۔۔


نہیں میں بیٹھنے نہیں آیا۔۔ ضروری کام ہے مجھے۔۔ تم کیسی ہو ؟ آج کل نظر نہیں آتی۔۔


وه پشت پر ہاتھ باندھ کر پورے روعب سے بولے۔۔


مشائم ان کی جانب حیرت سے دیکھنے لگی۔۔


کیا کچھ غلط کہہ دیا میں نے ؟؟


گهنی مونچھوں کی وجہ سے ان کے ہونٹ حرکت کرتے نظر نہ آتے تھے۔۔


نن نہیں بابا سائیں !! میں ٹھیک ہوں۔۔ وه میں کمرے میں ہی رہتی ہوں زیادہ،، آپ نے باہر آنے سے منع کیا تھا اس لئے۔۔


وه انگلیاں چٹخا کر گویا ہوئی۔۔


سید محمد عبدالله شاہ اسے چند لمحے دیکھنے کے بعد کہنے لگے۔۔


"تم آگے پڑھنا چاہتی تھی نہ ؟ پڑھ سکتی ہو لیکن۔۔۔۔ تمہیں بے حیا تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت نہیں ہے جہاں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔۔۔ ہم اسی شہر میں ایک ماسٹر کو جانتے ہیں جو ایک درس گاہ میں کئی بچیوں کو تعلیم دیتا ہے۔۔ تمهاری بھی وہیں بات کر لیں گے۔۔"


وه پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھے گئی جیسے ان کی بات پر اسے یقین نہ آ رہا ہو۔۔


سچ بابا سائیں ؟؟ فرطِ مسرت سے وه کہہ گئی لیکن پھر احساس ہونے پر سے جھکا گئی۔۔


اب ہم اتنے بھی سخت نہیں ہیں جتنا تم سمجھتی ہو۔۔


وه اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولے اور واپس جانے کے لیے پلٹے۔۔


اور ہاں ملازموں کی غیر موجودگی میں تم لان میں جا سکتی ہو لیکن پردے کا خیال رہے۔۔


جاتے جاتے وه اسے ایک اور نوید سنا گئے۔۔


وه اچانک ان کے مہربان ہونے کی وجہ سمجھ نہیں سکی۔۔ خیر مجھے کیا ۔۔ وه ان کی باتیں یاد کرتی خوشی سے جھوم اٹھی۔۔


اس کے بال بکھر کر اس کے کاندھے پر آ ٹھہرے۔۔


یہ بڑے سائیں خیر سے آپ کے کمرے میں آئے تھے مشی بی بی ؟


نگہت اندر آتی نان سٹاپ بولتی جاتی لیکن اسے مسکراتے دیکھ کر اس کی زبان کو بریک لگا۔۔


"ماشاءالله بہت سوہنی لگ رہی ہیں آپ" سچی بہت کھلا ہے یہ رنگ آپ پر۔۔!!


وه بے ساختہ اس کی تعریف کرنے لگی تو مشائم کے گال سرخ ہوئے۔۔


بتائیں نہ مشی بی بی بڑے شاہ سائیں کیوں آئے تھے۔۔ میں تو ان کو آپ کے کمرے میں آتا دیکھ کر گھبرا ہی گئی تھی۔۔


اس کے چہرے پر فکر تھی۔۔ مشائم نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا اور بیڈ پر اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے من و عن ساری بات کہہ سنائی۔۔


نگہت بھی شدید حیرت زدہ ہوئی۔۔ مشائم اسے حیرت زدہ چھوڑ کر کھڑکی کے قریب چلی آئی۔۔ باہر جھانک کر اس نے دیکھا تو ہلکے ہلکے بادل تھے۔۔ دھوپ کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔۔


خضدار کا موسم آج کل خوشگوار رہتا تھا۔۔ البتہ راتیں ہلکی سی خنک ہوجاتی تھیں۔۔


نگہت لان میں یہ جو اکا دکا ملازم ہیں ان کو وہاں سے بھیج دو واپس كوارٹرز میں۔۔ میں کچھ دیر تک آتی ہوں۔۔


اس کے حکم پر وه سر ہلاتی باہر چلی گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه مصروف سے انداز میں دروازه بند کرتا تنگ سی گلی سے گزر کر سڑک کی طرف جانے والے راستے پر بڑھ گیا۔۔


لمبے لمبے ڈگ بھرتے وه اپنے دیهان میں جارہا تھا کہ ایک گلی کے نکڑ پر کھڑے دو لڑکوں پر اس کی نظر پڑی جو چادر میں چھپی ایک لڑکی کا راستہ روکے ہوئے تھے۔۔


ارد گرد گزرتے لوگ اس بےبس لڑکی کی مدد کرنے کی بجائے تماشا دیکھ رہے تھے۔۔


صالح کے ماتھے پر پہلے سے پڑے بلوں میں مزید بل کا اضافہ ہوگیا۔۔


اس نے سیاہ بٹنوں والی شرٹ کے بازو کھول کر کہنیوں تک موڑے اور جبڑے بھینچے ان لڑکوں کی جانب آیا۔۔


صالح بھائی !!


ان میں سے ایک لڑکا اسے دیکھ کر گھبرا گیا۔۔


صالح نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پوری قوت سے ایک گھونسا اس کے منہ پر دے مارا۔۔


یکے بعد دیگرے اس نے دونوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔۔


معافی مانگو بہن سے!!


اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی لڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے درشتگی سے کہا جو اس صورتحال سے گھبرا گئی تھی۔۔


معاف کر دیں بہنا!!


وه دونوں ہاتھ باندھ کر لڑکھڑاتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔۔ دونوں کا حشر نشر ہو چکا تھا۔۔


شکریہ !! وه لڑکی ان کو جواب دیے بغیر صالح کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔


"آج کے بعد کسی نے کسی لڑکی کو چھیڑا تو خدا کی قسم شاہ سائیں کے رو برو پیش کر کے کتوں سے بدتر سلوک کروں گا اس کے ساتھ"


وه مجمع پر نظر ڈال کر انگلی اٹھاتا سرد مہری سے بولا۔۔


"سالے تماشا دیکھنے آ جاتے ہیں سب۔۔۔"


ناگواری سے انہیں دیکھتا وه سڑک پر کھڑی جیپ کے پاس آیا جو وه اکثر اسی راستے کھڑی کر دیتا تھا کیونکہ کچے پکے راستوں پر جہاں بے شمار گڑھے تھے جیپ چلانا مشکل کام تھا۔۔


ڈیڑھ گھنٹے بعد وه حویلی کے سامنے جیپ روکتا اندر داخل ہوا۔۔


اسے بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس دیکھ کر گیٹ پر ڈیوٹی دیتا بنے خان جل کر کوئلہ ہوگیا۔۔ اسے صالح یوسف سے نہایت چڑ ہوتی تھی۔۔


صالح بھینچے لبوں اور سرد نظروں سے ادھر ادھر کا جائزہ لیتا اندر جا رہا تھا کہ اس کی نگاہیں لان میں دوسری جانب کو مڑتی راہ داری میں دیوار کے قریب پھول بوٹوں سے سجی کیاری کے پاس کھڑی لڑکی پر ٹھہر گئیں جو اسکی جانب پشت کئے کھڑی تھی۔۔


وه پل میں جان گیا تھا کہ وه کون ہو ہے۔۔


ابھی ابھی نگہت وہاں سے کچھ کھانے پینے کا سامان لینے گئی تھی جس کی وجہ سے وه لان میں اکیلی رہ گئی تھی۔۔


وه لان سے منسلک تنگ راہداری میں آ گئی تھی جو حویلی کی پچھلی جانب جاتی تھی۔۔ بے شمار پودوں اور نیچے لٹکتی بیلوں کی وجہ سے یہاں سے باآسانی کسی کو دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔۔


صالح کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ کیونکہ وه اس بات سے با خوبی واقف تھا کہ ملازموں کی وجہ سے یہاں عورتوں کا آنا منع تھا تو پھر بی بی یہاں کیا کررہی ہیں۔۔؟؟


سوچتے سوچتے اسکی نظر دور کوارٹر سے جھانکتے ایک لڑکے پر پڑی جسکی نظریں لان میں ٹکی تھیں۔۔

صالح کو مشائم کی لا پرواہی پر بے حد غصہ آیا۔۔ جبڑے بھنچے وه لان کے اس حصے کی جانب بڑھا جہاں مشائم کھڑی تھی۔۔

اتنے حسین موسم میں وه جو پھولوں کی خوشبو سے مسحور ہوتی اپنے آپ میں گم کھڑی تھی اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ پر وه چونکی۔۔

اس نے جلدی سے سرخ آنچل کا پلو چہرے پر ڈال لیا۔۔ ریشمی سرخ لباس میں کھڑی وه پلٹی تو اپنے سامنے یوسف کو دیکھ کر جھجھک کر دو قدم پیچھے ہٹی جو سیاہ سرد آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

اس کی بھوری بڑی بڑی آنکھوں میں ایک پل کو خوف نظر آیا لیکن پھر وه نارمل ہو گئی۔۔

"بی بی اندر جائیں آپ کو اس وقت یہاں نہیں ہونا چاہیے۔۔"

وه قطعی انداز میں بولا تو مشائم کو پتنگے لگ گئے۔۔

کیوں جاؤں میں اندر ؟؟ تم کون ہوتے ہو مجھے حکم دینے والے؟؟

وه اکھڑ لہجے میں بولی تو یوسف جو پہلے سے تپا ہوا آیا تھا اس کے لہجے پر مذید سیخ پا ہوا۔۔

"آپ بحث میں نہ پڑیں میرے ساتھ بی بی یہاں ملازموں کا آنا جانا ہے شاہ سائیں کو پتہ چلا تو وه مجھ سے سوال کریں گے۔۔ آپ جائیں !!"

بار بار اس کے یہاں سے جانے کی رٹ پر غصے کی شدید لہر اسکے بدن میں اٹھی۔۔

"میں نے کہا نہ میں نہیں جاؤں گی یہاں سے بابا سائیں کی اجازت سے آئی ہوں مجھے اور کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں اور آئندہ مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ملازم ہو ملازم ہی رہو۔۔"

اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تو یوسف کا ضبط جواب دے گیا۔۔

اس نے مشائم کو بازو سے کھینچ کر جھٹکے سے دیوار سے لگا دیا۔۔

مشائم نے دوپٹہ چہرے سے سرکنے سے پہلے ہی جلدی سے دوپٹے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔

"میں شاہ سائیں کا وفادار ہوں آپ کا یا کسی اور کا نوکر نہیں اس لئے آئندہ آپ بھی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے سے اجتناب کیجئے گا۔۔"

وه نیچی آواز میں داڑھا تو مشائم نے خوف سے آنکھیں میچ لیں۔۔

چند سیكنڈ بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو بھورے نینوں سے شفاف پانی موتیوں کی مانند باڑ توڑ کر نکلنے پر بیتاب ہوا۔۔

ے ٹھہر گئے۔۔

صالح نے جھٹکے سے اسے آزاد کیا۔۔ اس کا چہرہ بےحد سپاٹ تھا۔۔

اس کی آہنی گرفت سے آزاد ہوتے ہی وه درد کرتے بازو کو دیکھ کر منہ پر نقاب درست کرتی اسے شکایتی نظروں سے دیکھتی وہاں سے بھاگتی ہوئی نکلتی چلی گئی۔۔

سیاہ بڑی سی چادر کو خود پر درست کرتی وه تیز تیز چلتی یونیورسٹی میں داخل ہوئی تھی۔۔ اس کا رخ اپنے آفس کی جانب تھا۔۔


سپاٹ چہرے کے ساتھ اس نے آفس سے چند ضروری فائلز اٹھائیں اور جس رفتار سے آئی تھی اسی رفتار سے چلتی لیکچر لینے کے لئے مطلوبہ کلاس میں آ گئی۔۔


وه بیچلر لیول کے سٹوڈنٹس کو انگلش پڑھاتی تھی۔۔ اس کا قدم کلاس میں پڑا ہی تھا کہ کلاس میں سناٹا چھا گیا۔۔ سب جلدی سے اپنی جگہوں پر آ بیٹھے۔۔


اس کی موجودگی میں کسی سٹوڈنٹ کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وه کلاس کے ڈسپلن کو ڈسٹرب کر سکے کچھ ایسی ہی سخت مزاج کی تھی وه۔۔


ہمیشہ رہنے والے سپاٹ چہرے پر ہر احساس سے عاری سرد آنکھیں۔۔ جامد لب جو صرف ضرورت کے وقت حرکت میں آتے تھے۔۔ مومی چہرے والی چادر سے خود کو ڈھک کر رکھنے والی وه سادہ سی چھوٹی لڑکی ہر کسی پر اپنی جداگانہ شخصیت سے گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔۔


بغیر کسی پر نظر ڈالے وه ڈائس کی جانب بڑھ گئی۔۔ اپنی فائلز رجسٹر اور پین ڈائس پر رکھ کر اس نے سر اٹھایا۔۔


ہر احساس سے عاری شہد رنگ آنکھوں نے کلاس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔۔ سٹوڈنٹس خاموش بیٹھے اس کے بولنے کے منتظر تھے۔۔


اچانک کلاس میں کسی نے ہلکی سی سرگوشی کی۔۔ چادر میں چھپی پیشانی پر بل پڑے۔۔


"آؤٹ!!"


اس نے سرخ و سپید ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھا کر ایک لڑکی کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔۔ وه لڑکی شرمنده سی اٹھ کھڑی ہوئی۔


Anyone else who can't maintain discipline in my class can go out!!


( اور کوئی جو میری کلاس میں ڈسپلن برقرار نہیں رکھ سکتا وه باہر جا سکتا ہے)


وه درشتگی سے پوری کلاس پر ایک نظر ڈال کر بولی۔۔


یہ کیا کہہ رہی ہے؟؟ ایک خوبرو لڑکے نے اپنے ساتھ بیٹھے لڑکے سے بےنیازی سے کہا۔۔


"معلوم نہیں!!" وه لا علمی سے شانے اچکا گیا۔۔


یو بوتھ !!


تیز سرد آواز پر دونوں نے ڈائس کے پیچھے کھڑی اس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا جو ان کو تھوڑی تھوڑی اپنی ٹیچر لگ رہی تھی کیونکہ اس کی عمر اور قد کاٹھ سے وه ایک سٹوڈنٹ ہی لگ رہی تھی۔۔ اس لئے وه کنفیوز تھے۔۔


اپنے آپ کو اسکی نظروں کے حصار میں پا کر دونوں میں نظروں کا تبادلہ ہوا۔۔


"آپ دونوں سے بات کررہی ہوں میں کھڑے ہوں" اس لڑکی کو اندازه ہوا تھا کہ وه اسکی بات نہیں سمجھ رہے اس لئے اس نے اس بار اردو میں انہیں مخاطب کیا ۔۔


وه دونوں ایک ساتھ کھڑے ہوگئے۔۔ بلیک شرٹ بلو جینز میں پیروں میں بلیک ہی جوگرز۔۔ بازو کہنیوں تک مڑے۔۔ کسرتی جسم۔۔ دونوں ہی بے حد وجیہہ۔۔ سنجیدہ چہروں پر گهنی داڑھی مونچھیں۔۔ وه واضح طور پر باقی سٹوڈنٹس سے عمر میں بڑے تھے۔۔


دونوں نے پشت پر ہاتھ باندھ لئے اور ڈائس کی طرف دیکھتے اس کے بولنے کے منتظر تھے۔۔


لڑکیاں تو لڑکیاں، لڑکے بھی منہ کھولے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔ اتنے ہینڈسم لڑکے انکی کلاس میں تھے اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔۔


آپ میری کلاس میں کیا کررہے ہیں؟؟ وه ماتھے پر بل ڈالے بولی۔۔


"یہ تو تمہاری بہن لگتی ہے"


پہلے والے لڑکے نے اپنے ساتھ کھڑے لڑکے سے ہلکی آواز میں کہا جو اس کا دوست لگتا تھا۔۔ اس کا اشارہ ٹیچر کی پیشانی پر پڑے بلوں کی جانب تھا۔۔


اہمم !! وه کھنکارہ۔۔


"ہم آپ کے نئے سٹوڈنٹس ہیں۔۔ " دوسرا لڑکا سنجیدگی سے بولا۔۔ اب اتنی انگلش تو آتی ہی تھی ۔۔


لڑکیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اٹھ کر ان کے ساتھ بیٹھ جاتیں۔۔ جبکہ لڑکے اب ان سے جیلسی محسوس کررہے تھے۔۔ اتنے حسین لڑکوں کے ہوتے اب کون سی لڑکی انہیں گھاس ڈالے گی۔۔


لیٹ می چیک!! وه سر ہلا کر رجسٹر میں سٹوڈنٹس کی لسٹ دیکھنے لگی جہاں دو ناموں کا اضافہ ہو چکا تھا۔۔


ساتھ ایک نوٹ رکھا تھا جس میں پرنسپل کی طرف سے دونوں سے نرم رویہ رکھنے اور ان پر خاص توجہ دینے کا آرڈر تھا۔۔


اس نے ایک نظر نوٹ پر ڈالی اور پھر سر اٹھایا۔۔


"بیٹھ جائیں۔۔!! میری کلاس میں یہ رول ہے کہ کوئی بھی فضول بات نہیں ہوگی۔۔ بس کام ہوگا۔۔ جو اس رول کو فولو نہیں کرتا وه پھر میری کلاس کا حصہ نہیں رہتا۔۔ آج کی مثال دیکھ چکے ہوں گے آپ۔۔"


وہ فائل سے چند پرنٹڈ پیپرز نکالتی ہوئی سپاٹ لہجے میں بولی۔۔


کلاس چیئرز ارینج کریں۔۔


get up you all have five minutes..


وه کویسچن شیٹس ایک لڑکی کی طرف بڑھا کر

ڈائس کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھ گئی۔۔


آپ دونوں نوٹ بكس لے کر آئیں!! ساتھ ہی ان دونوں کو حکم دیتی وه جلدی سے سادہ کاغذ پر پین چلاتی آج کی رپورٹ تیار کرنے لگی۔


🌚🌚🌚🌚


"کوئی چپکے سے یوں میری زندگی میں آ جائے گا کبھی سوچا نہ تھا۔۔ یک دم زندگی بہت حسین لگنے لگی ہے۔۔ میرے دل و دماغ پر وه ایک شخص پوری شان سے حکومت کرنے لگا ہے ۔۔ لوگ محبت میں کیوں دیوانے ہوجاتے ہیں اب سمجھ میں آنے لگا ہے۔۔ اے اجنبی تم کسی سیارے کے حجرت زدہ لگتے ہو۔۔ ایسی آنکھیں زمین زادوں کی نہیں ہوتیں۔۔ تم نے مجھے اپنی آنکھوں کے سحر میں جکڑ لیا ہے۔۔ میں دن رات تمہیں سوچتی رہتی ہوں۔۔ تمہیں سوچنا میرا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔۔ ایسا لگتا ہے تم وہی شہزادے ہو جو میرے خوابوں میں کی سر زمین پر روز اترتا ہے۔۔ مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہاں میں تمہیں چاہنے لگی ہوں!!"


رات کے اس پہر جب سب اپنے بستروں میں دبکے سوئے پڑے تھے ایسے میں وہ بلب کی ہلکی روشنی میں سادہ کاغذ پر قلم گھسیٹ رہی تھی۔۔


کاغذ کو تین تہیں لگا کر اس نے کچھ فاصلے پر بے خبر سوئی اینارا کو دیکھا اور احتیاط سے پلنگ سے نیچے اتر کر کونے میں پڑے صندوق کے پاس آ کھڑی ہوئی۔۔


کاغذ کو اس نے اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا جہاں اس نے پہلے سے کارڈ کو چھپا رکھا تھا۔۔


واپس وه پلنگ پر آ کر کروٹ کے بل لیٹ گئی۔۔ دلکشی سے مسکرا کر وه آنکھیں موند گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


آدھی رات کا وقت تھا۔۔ حویلی بارود خانہ کے باہر ایک گاڑی کے ٹائر چرچرانے کی آواز نے سکوت میں خلل پیدا کیا۔۔


گاڑی کا دروازه جھٹکے سے کھلا اور سیاہ بھاری جوتوں میں مقید پیر باہر نکلا۔۔ انگیشن سے چابی نکال کر وه باہر نکلا اور حویلی کے قد آور لکڑی کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔۔


موبائل کی ٹارچ چلا کر وه سر مستی کے عالم میں چلتا چھ فٹ چوری راہداری میں چلتا آگے بڑھ رہا تھا۔۔


راہداری سے کچھ دور دیوار پر لگے قد آور آئینے میں ایک عکس ابھرا۔۔۔


کسی احساس کے تحت وه چلتے چلتے رکا۔۔ ارد گرد دیکھتا وه اندرونی دروازے سے اندر آیا۔۔ بڑے سے لاؤنج میں قدم رکھتے اس نے لائٹ چلائی۔۔ حویلی روشنی میں نہا گئی۔۔


ہر طرف گرد دیکھ کر اس کے چہرے پر ناگواری چھا گئی۔۔ ہر وقت لش پش رہنے والے اپنے نزدیک ذرا سی گرد تک نہ برداشت کرنے والے کو کیسی جگہ پر رہنا پڑرہا تھا۔۔


چچ!! ابھی تو اس وجود نے بہت کچھ برداشت کرنا تھا۔۔ باہر آئینے میں سایہ مسکرایا اور پھر غائب ہوگیا۔۔


وه ماسٹر بیڈ روم کی جانب بڑھا۔۔ لائٹ چلا کر اس نے پہلے بیڈ شیٹ جھاڑی۔۔ کمرے کی حالت ذرا درست کرتے وه بڑبڑایا۔۔


"واہ میر اورهان صمید جس کے آگے نوکروں کی لائن لگی رہتی ہے وه خود یہ چیپ کام کر رہا ہے"


گندے ہاتھوں کو دیکھ کر اس کی نیلی آنکھوں میں جهنجهلاہٹ ابھری۔۔۔


شاور لے کر وه باہر آیا۔۔ شرٹ پہننے کا تكلف اس نے نہیں کیا تھا۔۔ بھیگے کسرتی سینے پر پانی کی بوندیں پهسلتی نیچے گر رہی تھیں۔۔


اس نے بال خشک کیے اور موبائل پکڑ کر بیڈ پر آرام دہ حالت میں لیٹ گیا۔۔ ان لاک کرتے اس نے گیلری میں جا کر ایک تصویر نکالی۔۔


دوپٹے سے خود کو چھپانے کی کوشش کرتا بھیگا نازک سراپا جس کے وجود کی رعنائیاں عیاں ہورہی تھیں۔۔ یہ تصویر اس نے چپکے سے لی تھی۔۔


"بہت جلد تم میری بانہوں کے مظبوط حصار میں نازک چڑیا کی طرح پھرپھراؤ گی۔۔"


سرخ ڈوروں والی آنکھوں سے اسکی تصویر دیکھتا وه لب دبا گیا۔۔


سویٹ ہارٹ!!


اپنے دونوں بازو سر کے نیچے رکھ کر وه خلا میں گھورتا کل کی بابت سوچنے لگا۔۔ اس طرح لیٹنے سے بازو کے پھولے مسلز مزید نمایاں ہوگئے۔۔


وه تھا مکمل حسن کا شاہکار ،، کسرتی جسم ،، جاہ و دولت۔۔ کیوں نہ لڑکیاں اس کے پیچھے پاگل ہوتیں۔۔ اور اپنی ان خوبیوں سے فائدہ اٹھانا "میر اورهان صمید" کو خوب آتا تھا۔۔


🌚🌚🌚🌚


"اٹھ جاؤ چڑیل !!"


وه ازنا کے کان کے پاس چیخی تو وه ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔ چند پل تو اسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا لیکن جب اپنے سامنے دانت نکالتی اینارا کو کھڑے پایا تو اسکا سفید چہرہ شدید غصے کے زیرِ اثر سرخی مائل ہوگیا۔۔


اینارا لاپرواہی سے اسے دیکھتی باہر صحن میں جا کر نلکے کے پاس بیٹھتی وضو کرنے لگی۔۔ کچھ فاصلے پر شائستہ زمین پر مصلہ بچھائے نماز پڑھ رہی تھیں۔۔


عبدلمنان کے مسجد جانے کے بعد وہ ازنا کو جگانے چل دی تھی۔۔ آسمان کو دیکھ کر دھیمے سے مسکراتی وه تولیے سے ہاتھ منہ خشک کر کے شائستہ کے برابر مصلہ بچھا کر کھڑی ہوگئی۔۔


اندر کمرے میں ازنا نے نیند کے خراب ہونے پر منہ بنایا تھا۔۔ اب نیند کہاں آنے والی تھی۔۔ سو وه بھی نماز کی نیت سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔


عبدلمنان کے مسجد سے واپس آنے تک وه تینوں نماز سے فارغ ہو چکی تھیں۔۔ شائستہ نے چولہا جلا کر اوپر توا رکھا تھا۔۔۔ کیونکہ کچھ دیر بعد عبدلمنان کو کام کے لیے نكلنا تھا۔۔


وه گھر میں داخل ہوئے تو صحن میں چارپائی پر اینارا کے ساتھ ازنا کو دیکھ کر مسکرائے۔۔


"واہ آج تو ہماری بیٹی بھی اٹھی ہے نماز کے لیے۔۔۔" انہیں دلی مسرت ہوئی تھی۔۔ وه ازنا کے سامنے چارپائی پر بیٹھ کر مسکرا دیے تو وه جھینپ گئی۔۔


میں نے اٹھایا ہے اسے ابا جی!! اینارا معصومیت سے بولی تو ازنا نے اس کو پشت پر نا محسوس انداز میں دھموکا جڑا۔۔


اف پاگل عورت!! وه ازنا کو ایک تھپڑ رسید کر کے چارپائی سے ہی اٹھ گئی۔۔


لو شروع ہوگئی ان کی چخ چخ!! آخر کو یہ بڑی کب ہوں گی؟ شائستہ نے گرم پھلکا عبدلمنان کے سامنے رکھتے ہوئے تنگ آ کر کہا۔۔


کیا ہوگیا ہے اللہ نصیب اچھے کرے ان کے۔۔ جب سر پر ذمہ داری پڑے گی تو سمجھدار بھی ہو جائیں گی۔۔ اچھا چلتا ہوں میں اب ۔۔


ناشتہ کر کے وه رومال کاندھے پر ڈال کر دروازے کی جانب بڑھ گئے۔۔


"رب راکھا!!"


ازنا خاموشی سے انکی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔۔ اندر کہیں کوئی آواز ابھری تھی۔۔ شاید ضمیر کی آواز!!


🌚🌚🌚🌚


شاہوں کی مخصوص گاڑی اونچے نیچے راستوں پر رواں تھی۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا جبار احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔ اس کی چمکیلی تیز آنکھیں سامنے مركوز تھیں۔۔


پیچھے بیٹھی مشائم گود میں بیگ رکھے اس پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔۔


نقاب میں چھپے چہرے پر صرف بھوری دلکش آنکھیں عیاں تھیں۔۔ وه مزید تعلیم کہ لئے بابا سائیں کی اجازت پر "النور درسگاہ" جانے لگی تھی۔۔


وه بے حد خوش تھی۔۔ وہاں کا پرسکون ماحول اسے بے حد بھایا تھا۔۔ وہاں کا نظام عام تعلیمی اداروں سے ذرا مختلف تھا لیکن تعلیم بہت بہترین انداز میں دی جاتی تھی۔۔


وه سبق کو ذہن میں دوہراتی ہوئی سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسے کالج کا وقت یاد آ رہا تھا جب وه اپنی سہیلیوں کے ساتھ کالج وین میں جایا کرتی تھی۔۔


"زندگی بھی کتنی جلدی بدل جاتی ہے۔۔ پتہ بھی نہیں چلتا اور "آج" ماضی بن جاتا ہے۔۔ انسان بدل جاتا ہے۔۔ چیزیں پہلے جیسی نہیں رہتیں۔۔ اپنے بیگانے ہو جاتے ہیں۔۔ کچھ بھی تو ایک سا نہیں رہتا۔۔"


وه سر جھٹک کر مسلسل آتی سوچوں کو ذہن سے نکالتی کتاب کھول کر نظر دوڑانے لگی۔۔ درس گاہ کے سامنے آ کر جبار نے گاڑی روک دی۔۔


صالح کے مشورے پر ماہ بیر نے مشائم کو بحفاظت لانے لے جانے کی ڈیوٹی جبار کو سونپ دی تھی۔۔


مشائم اتنے حفاظتی اقدامات پر اکثر الجھ جاتی لیکن اسے اندازه بھی نہیں تھا کہ ماہ بیر کے کتنے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہوتے تھے کہ کب موقع ملے اور وه اپنی اوقات دکھا سکیں۔۔


جبار نے باہر نکل کر جلدی سے اسکی طرف کا دروازه کھولا۔۔ اس کا سر مشائم کے احترام میں جھکا ہوا تھا۔۔


وه کرخت چہرے والے جبار کو کوفت سے ایک نظر دیکھ کر سیاہ عبائے میں مکمل ڈھکی باہر نکلی اور سیڑھیاں چڑھتی اندر چلی گئی۔۔


اس کے جانے کی تسلی کر کے وه دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی زن سے اڑا لے گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


خنک رات میں کاندھوں پر شال لپیٹے وه جیپ کی چابی انگلی میں گھماتا "سفید حویلی" کے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔۔


اونگهتا ہوا بنے خان فوراً الرٹ سا ہوگیا وه صالح یوسف کو اپنی ذات پر بات کرنے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔۔


اپنی سوچوں میں گم وه بنے خان کو نظرانداز کرتا حویلی کے اندرونی داخلی دروازے کو جانے والے راستے پر درميانی رفتار سے جا رہا تھا کہ لان میں نظر پڑتے ہی ایک پل کو رکا۔۔


دو بھیگی پر شکوه آنکھیں چھن سے ذہن کے پردے پر لہرائیں تھیں۔۔


سلوٹ زدہ ماتھے میں بلوں کا اضافہ ہوا۔۔ سرد نظریں سامنے جماتے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر چلا آیا۔۔


سامنے کسی کام سے جاتی نگہت کو دیکھ کر وہ اسے پکار بیٹھا۔۔ "شاہ سائیں کمرے میں ہیں یا مردان خانے میں؟؟"

نگہت نے سر تا پیر اسے دیکھا۔۔ سیاہ شلوار قمیض میں بدلتے موسم کی وجہ سے سیاہ ہی شال سینے پر لپیٹے وه تند چہرے کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔

اس کے نخوت بھرے انداز پر نگہت کی تیوری چڑھی۔۔

"وه جی میں نہ شاہ سائیں کی ملازم ہوں آپ کی نہیں، شاہ سائیں اپنے کمرے میں ہیں یا مردان خانے میں آپ خود دیکھ لیں۔۔۔ ہنہ!!!"

ہنکارہ بھر کر وه یہ جا وه جا۔۔

صالح نے دانت پیس کر اسکی پشت کو دیکھا۔۔ وه ملازم والی بات خوب سمجھ گیا تھا جس وجہ سے وه اس پر طنز کر کے گئی تھی۔۔

سر جھٹک کر وه مردان خانے کی طرف آیا۔۔ اندر کمرے سے سید محمد عبدالله شاہ اور سلطان ماہ بیر شاہ کی گفتگو کی آواز برابر آ رہی تھی۔۔

وه ایک لمحے کو رکا پھر کمرے کی دہلیز پر کھڑا ہوگیا۔۔ سلام سائیں! آنے کی اجازت چاہتا ہوں!!

عبدالله شاہ اور ماہ بیر بات کرتے ایک پل کو رکے۔۔ وعلیکم السلام!! آؤ یوسف تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ماہ بیر دروازے کی سمت دیکھتا نرمی سے بولا تو وه سر ہلا کر اندر خالی صوفے پر آ کر بیٹھ گیا۔۔

پہلے وه سید محمد عبدالله شاہ کے احترام میں کھڑا رہتا تھا لیکن بہت عرصہ ہوا انہوں نے اسے یوں کھڑے رہنے سے منع کردیا تھا۔۔

کچھ دیر وه ان کی گفتگو سنتا رہا جو علاقے کے مسائل کے بارے میں تھی۔۔ وہ ایک جگہ ہسپتال کھولنا چاہ رہے تھے تا کہ عوام کو علاج معالجے کی بہتر سہوليات قریب ہی ميسر آ جائیں۔۔

جب کمرے میں خاموشی چھا گئی تو وه کھنکارہ۔۔ "سائیں میں اسی بارے میں خبر لایا تھا۔۔"

اسکی بات پر عبدالله شاہ اور ماہ بیر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئے۔۔

جس زمین پر ہم ہسپتال بنانا چاہ رہے ہیں وہاں تین لونڈے ذرا پریشانی کر رہے ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ یہاں ہسپتال بننے سے ان کے کاروبار کو مسلہ ہو سکتا ہے۔۔ اور یہ زمینیں ان کے زیرِ استعمال ہیں جہاں وه بیرونی ممالک سے درآمد شده مال رکھتے ہیں۔۔ سائیں مجھے تو کوئی اور چکر لگتا ہے یہ۔۔

یہ لونڈے بڑا اڑ رہے ہیں۔۔ اپنے بندے سے بھی چار چار ہاتھ کرنے لگے تھے۔۔ ایسے تو آرام سے یہ نہیں مانیں گے۔۔ سوچ رہا ہوں ان کو پہلے پیار سے سمجھاتا ہوں پھر بھی نہ سمجھے تو بہت طریقے ہیں ہمارے پاس۔۔ کیا کہتے ہیں آپ؟؟

وہ سرد و سپاٹ لہجے میں بولا۔۔

عبدالله شاہ کے ماتھے پر پل پڑے۔۔ "آج کل کے جوانوں کی اتنی ہمت کہ اپنے علاقے کے سردار کے آگے سر اٹھا رہے ہیں۔۔"

وه غیض و غضب سے بولے تو ماہ بیر نے انہیں تسلی دینے والے انداز میں دیکھا۔۔ "بابا سائیں آپ غصہ نہ کریں آپ کی طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔ ہم کس لئے ہیں دیکھ لیں گے انہیں بھی۔۔"

وه صالح کو دیکھ کر بولا تو وه وثوق سے سر ہلا گیا۔۔

"دیکھو ان کو ماہ بیر شاہ ضرور دیکھو تا کہ ان کے دل میں تمهاری دھاک بیٹھے۔۔ علاقے کے اگلے "گدی نشین" کا احترام کرنا ان کا فرض ہے یہ بات انہیں خوب سمجھا دو۔۔"

وه سرد مہری سے بول کر اٹھ کھڑے ہوئے اور مردان خانے سے باہر نکل گئے۔۔ ماہ بیر اور صالح نے بھی ان کی تقلید کی۔۔

نیلی سرد آنکھوں کی چمک قابلِ دید تھی۔۔ ڈریسنگ ٹیبل سے اس نے "کرسچن ڈائر" کی گھڑی اٹھائی اور کلائی میں باندھ کر سیدھا ہوا۔۔ " Ralph Lauren" کے "Black Tuxedo" میں بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وه آئینے میں اپنے عکس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔۔


وه ایک دنیا تسخیر کر سکتا تھا۔۔ جو وه ٹھان لیتا وه کر گزرنے کی طاقت رکھتا تھا۔۔ اس نے سامنے پڑی بے شمار شیشیوں سے "Enigma" اٹھائی اور خود پر بے دریغ سپرے کرنے لگا۔۔ پورا کمرہ دل آویز مہک سے نہا گیا۔۔


خود پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر وه پلٹا اور کچھ فاصلے پر رکھے جوتوں کے قریب آ کھڑا ہوا۔۔


ہاں وه سب کو جوتی کی نوک پر رکھتا تھا۔۔ جو اس مقام سے سر اٹھانے کی ہمت کرتا وه اسے مسل دیا کرتا تھا۔۔ انا، غرور، خود سری، بے حسی اس کا خاصہ تھیں۔۔


"نیو بیلنس" کے سیاہ جوتوں میں اس نے پیروں کو مقید کیا جن کی چمک اس کمرے کی ہر چیز کو ماند کررہی تھی۔۔ وه دلکشی سے مسکرایا۔۔ گهنی داڑھی میں گال میں پڑتا گڑھا نمایاں ہوا۔۔


سیٹی پر کوئی دھن بجاتے وه بھاری قدم اٹھاتا اپنی بلیک مرسیڈیز میں بیٹھ کر "حویلی بارود خانہ سے روانہ ہوگیا۔۔ اس کا رخ "سفید حویلی" کی جانب تھا۔۔


بلاشبہ وه ہر دل پر حکومت کر سکتا تھا اگر ۔۔ اس کے کردار کی سیاہی نے اسکے وجود پر سایہ نہ کیا ہوتا۔۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


چپکے سے وه چھت پر چلی آئی۔۔ اماں ابا تو گھر نہیں تھے۔۔ اینارا کی سهیلی آئی ہوئی تھی جس سے وه خوش گپیوں میں مصروف تھی۔۔ اس نے موقع غنیمت سمجھا اور چھت پر آ گئی۔۔


دوپٹے کے نیچے چھپا چھوٹا سا بٹنوں والا موبائل اس نے باہر نکالا اور دوسرے ہاتھ میں کارڈ سے نمبر دیکھتی موبائل میں محفوظ کرنے لگی۔۔


کارڈ کو اچھی طرح مٹھی میں دوبارہ دبوچ کر اس نے اس نمبر پر میسج لکھنا شروع کیا۔۔ اس کے دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز تھی۔۔


دھڑکتے دل سے اس نے پیغام بھیج دیا۔۔ وه چھت پر چکر لگاتی بے چینی سے اسکے جواب کا انتظار کرنے لگی۔۔ کچھ دیر بعد اورهان کا نام چمکا تو اسکی معمول پر آتی دھڑکن یک لخت تیز ہوگئی۔۔


پیغام پڑھ کر اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔۔ اورهان نے کوئی رومانٹک سا میسج بھیجا تھا۔۔ اسے سمجھ نہ آیا اب اس کا کیا جواب دے۔۔


آہستہ آہستہ وه اس سے بات کرنے لگی۔۔ جھجھک جھجھک کر جواب دیتی وه مسرور سی چھت پر ٹہل رہی تھی۔۔


ازنا؟؟ ایک گھنٹہ بیت گیا تھا جب عبدلمنان کی آواز پر اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل دوپٹے میں چھپایا اور چہرے کو بمشکل نارمل کرتی پلٹی۔۔


جی ابا!! عبدلمنان نے اس کے گھبرائے سے چہرے کو دیکھا ۔۔ کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟


وہ وہیں کھڑے کھڑے گویا ہوئے تو وه بولی۔۔ "جی بس دل گھبرا رہا تھا اس لئے اوپر چلی آئی۔۔ آپ جلدی آ گۓ؟"


وه موبائل کو مزید چھپا کر بولی تو عبدلمنان اسے جلدی آنے کی وجہ بتانے لگے ۔۔۔ ان کے پیچھے سیڑھیاں اترتے اس نے بے اختیار شکر کا سانس لیا۔۔


آج تو بچ گئی!! دل میں خود سے بولتی وه ان کو کھانا دینے لگی ۔۔


🌚🌚🌚🌚


پوری شان سے کھڑی "سفید حویلی" کے سامنے اس نے اپنی بلیک مرسیڈیز روکی۔۔ ٹائر چرچرانے سے فضا میں دھول اڑی تو بنے خان کھانستا ہوا گیٹ پر جا کر کھڑا ہوگیا۔۔ اس نے ایک ہاتھ میں لوڈیڈ رائیفل پکڑ رکھی تھی۔۔


وه اپنی شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ باہر نکلا۔۔ ارد گرد گزرتے لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے لیکن وه ان سب سے لا پرواہ گیٹ کی جانب بڑھا۔۔


بنے خان اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔۔ "آپ اندر نہیں جا سکتے؟؟ پہلے شاہ سائیں سے اجازت لینی ہوگی۔۔"


وه اسکی بات پر استہزائیہ مسکرایا۔۔ سائیں؟؟ انٹرسٹنگ!! جاؤ اپنے شاہ سائیں سے کہو " میر اورهان صمید " ملاقات کے لئے آیا ہے۔۔ آئی ایم شیور وه انکار نہیں کرے گا۔۔


وه جوتے کی نوک ہلاتا ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈال کر کھڑا ہوگیا۔۔


بنے خان نے ایک گارڈ کو اشارہ کیا تو وه سر ہلاتا اندر چلا گیا۔۔ کچھ دیر بعد ہی اسکی واپسی ہو گئی۔۔


"چلے جائیں اندر!! " بے تاثر لہجے میں بولتا وه اپنی جگہ جا کر کھڑا ہوگیا۔۔


بنے خان راستے سے ہٹا تو وه مغرور چال چلتا ہوا ارد گرد کا جائزہ لیتا اندر چلا آیا۔۔ وه شاہوں کے زوق سے متاثر ہوا تھا۔۔ لیکن اس بات کا اقرار وه مر کر بھی نہ کرتا۔۔


جونہی وه اندر آیا اس کی نگاہ بلیو پینٹ شرٹ میں عین سامنے کھڑے ماہ بیر سے ٹکرائی جو سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔


سو فائنلی "سلطان ماہ بیر شاہ" سے ملاقات ہو ہی گئی۔۔


وہ اس سے کچھ فاصلے پر آ کر رکا تو تیز خوشبو نے ماہ بیر کے گرد حصار باندھ دیا۔۔

وه ناگواری سے چند قدم پیچھے ہٹا۔۔۔


ارے شاہ سائیں تو ابھی سے ڈر گئے!!


اورهان طنزیہ مسکراہٹ سے اسے دیکھ کر بولا تو ماہ بیر دھیما سا ہنس دیا۔۔


"سلطان ماہ بیر شاہ نے کسی سے ڈرنا نہیں سیکھا۔۔ اور میرے چند قدم پیچھے لینے پر کسی خوش فہی کو دل میں جگہ نہ دو وه کیا ہے نہ کہ مجھے تمہارے وجود سے اٹھنے والی مہک بھی اس قابل نہیں لگتی کہ وه خضدار کے ہونے والے سربراه "سلطان ماہ بیر شاہ" کے وجود کو چھو سکے۔۔"


وه چبا چبا کر بولا تو اورهان کی آنکھوں کی سرد مہری بڑھی۔۔


بیٹھنے کو نہیں کہو گے آخر کو خاص مہمان ہوں تمہارا؟؟ وه اسے زچ کرنے کو بولا۔۔


اوں ہوں !!

ماہ بیر نے نفی میں سر ہلایا۔۔ سرمئی آنکھوں میں استہزا نمایاں تھا۔۔


"بن بلائے مہمان"


"اوہ کم آن میں تو تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا تھا لیکن تم تو۔۔۔۔۔۔"


اورهان بات ادھوری چھوڑ کر اس کے غصے سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر لب دبا گیا۔۔


"ماہ بیر شاہ اپنے دشمنوں سے دوستی نہیں کیا کرتا!!"


وه طیش سے بولا تو اورهان نے معصومیت سے اسے دیکھا۔۔


دشمن؟؟


"تم نے میرے علاقے کی لڑکی کو مارا"


اس کے سوالیہ انداز پر وه چند قدم آگے بڑھتا بمشکل خود پہ قابو کرتا داڑھا تو اورهان بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ چند قدم آگے بڑھا۔۔


"تم نے میرے خاندان کو بےعزت کر کے یہاں سے نکالا۔۔ بغیر قصور کے۔۔" اس نے مزید اضافہ کیا۔۔


"یہ جھوٹ ہے!!" ماہ بیر کی پیشانی پر بل پڑے۔۔


"اوں ہوں تمهاری بات فضول ہے"


اورهان پل میں تاثرات نارمل کرتا ارد گرد نگاہ دوڑاتا ایک انداز سے بولا۔۔


"تمہیں غلط فہی ہے کہ وه بے قصور تھے۔۔ تمھارے باپ نے حویلی کو فحاشی کا اڈہ بنا رکھا تھا"


ماہ بیر نفرت سے پھنکارا تو اورهان کے تاثرات پل میں پتھریلے ہوئے۔۔


بسس!!


وہ ضبط کھوتا تیزی سے اسکی طرف بڑھا اور کوٹ سے پسٹل نکال کر اس کے ماتھے پر تان لی۔۔


عین اسی وقت ماہ بیر نے پیچھے کمر پر بندھا ہاتھ آگے کرتے تیزی سے اس پر گن تان لی جو وه ساتھ لے کر آیا تھا کیونکہ ایسے کم ظرف دشمنوں سے کچھ بعید نہیں۔۔


دونوں گہری سانس لیتے شعلہ بار نظروں سے دیکھتے ایک دوسرے پر گن تانے کھڑے تھے۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی گن چلاتا عبدالله شاہ نے تیزی سے دونوں کے کے ہاتھ نیچے کرتے ان کے درمیان فاصلہ قائم کیا۔۔


ان کے پیچھے چار گارڈ اورهان پر بندوقیں تان کر کھڑے ہوگئے۔۔


"یہ کیا بچپنا ہے ماہ بیر!! دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوا کرتے ہیں۔۔"


ساتھ ہی انہوں نے گارڈز کو واپس جانے کا اشارہ کیا۔۔ اورهان سرد نظروں سے عبدالله شاہ کو دیکھنے لگا۔۔


"آؤ بیٹھ کر بات ہوگی" ان کی دعوت پر وه نفرت سے ہنکارہ بھرتا چند قدم پیچھے ہٹا۔۔


مائی فٹ!!


اسکی بکواس پر ماہ بیر آپے سے باہر ہوتا ایک بار پھر اس جانب جانے لگا کہ عبدالله شاہ نے اسے روک لیا۔۔ وه اپنی حویلی میں دنگا فساد نہیں چاھتے تھے۔۔


"میروں سے پنگا لیا ہے، اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا۔۔ اس وقت کا انتظار کرو جب اپنا کہا سچ کر کے دکھاؤں گا۔۔"


وه لفظوں کے زہر اگلتا پلٹ گیا۔۔


"وه وقت کبھی نہیں آئے گا۔۔"


ماہ بیر کی چیلنج کرتی آواز پر وه ایک پل کو رکا اور پھر لمبے ڈگ بھرتا حویلی سے باہر نکل گیا۔۔ بنے خان نے اس کی دھول اڑاتی مرسیڈیز کو دور تک دیکھا تھا۔۔


🌚🌚🌚🌚


خاکی چیک پینٹ پر سفید بٹنوں والی شرٹ پہنے وه حویلی میں داخل ہوا۔۔ بازو عادتاً کہنیوں تک موڑ رکھے تھے جس سے اسکے مظبوط بازو نمایاں ہورہے تھے۔۔


اس نے ماہ بیر کو کال ملائی اور اپنی آمد سے آگاہ کیا۔۔ دوسری طرف سے کچھ سننے کے بعد اس نے کال کاٹ دی۔۔


صحن عبور کر کے وه سیڑھیاں چڑھتا وه ایک کافی بڑے کمرے میں داخل ہوا جسے جم کی شکل دی گئی تھی۔۔۔ کمرے میں جا بجا ورزش کے لئے مشینیں رکھی تھیں۔۔


کمرے کے بیچوں بیچ ماہ بیر زمین پر بچھے میٹ کے اوپر شرٹ لیس سا پش اپس لگا رہا تھا۔۔ اس کا جسم پسینے سے تر تھا۔۔ كسرت سے سینے اور بازوؤں کی ناریں ابھر آئی تھیں۔۔


صالح سینے پر بازو باندھ کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔۔


کہو کیسے ہو یوسف؟؟


وه اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔۔


" اللّه کا کرم ہے!!! "

صالح نے سر کو خم دیا۔۔


اچھی بات ہے!! اماں کیسی ہیں تمہاری؟؟


وه گردن سے چپکے بالوں کو تولیے سے خشک کرتا ہوا بولا۔۔


"اماں بھی اچھی ہیں،،، آپ کو یاد کرتی رہتی ہیں۔۔۔۔"


یہ کہتے ہوئے صالح ہلکا سا مسکرایا کیونکہ انجم ماہ بیر کو یاد تو کرتیں تھی لیکن کوستے ہوئے۔۔


ہمم !! کبهی اس طرف گیا تو آؤں گا تمهاری طرف بھی۔۔


وه اٹھ کر بیٹھتا بوتل کھول کر پانی پینے لگا۔۔


"ضرور آئیے گا ۔۔" صالح نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا۔۔


اچھے لگ رہے ہو ۔۔ کہیں جا رہے ہو؟

ماہ بیر نے ایک نظر اسے دیکھا اور مسکرا کر ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر دوسرا ہاتھ پشت پر رکھ کر پھر سے پش اپس کرنے لگا۔۔

صالح نے داڑھی كهجائی۔۔ "سائیں پہلی بات کو میں نظر انداز کرتا ہوں معذرت!!"

وه سنجیدگی سے بولا تو ماہ بیر قہقہہ لگا گیا۔۔

یار اپنی تعریف سے اتنا چڑتے کیوں ہو؟

وه مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا تو صالح اپنی ذات کو موضوع گفتگو بنتا دیکھ کر سٹپٹا گیا۔۔

"چھوڑیں نہ سائیں اس بات کو۔۔ ہاں آپ پوچھ رہے تھے ۔۔۔ میں شہر جا رہا ہوں ضروری کام سے۔۔ سوچا پہلے مل لوں آپ سے۔۔ کہیں کوئی کام تو نہیں۔۔"

وه موبائل پر کسی کو میسج کرتا ہوا بولا تو ماہ بیر اٹھ کھڑا ہوتا نفی میں سر ہلا گیا۔۔

"نہیں فلحال کوئی کام نہیں۔۔ تم آرام سے جاؤ۔۔ اور میری کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک کہنا۔۔"

وه اسکا کندها تهپتهپا کر بولا تو صالح نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ موبائل پر آتی کال کو دیکھ کر خاموش ہو کر ماہ بیر کو دیکھتے اس نے کال اٹینڈ کی۔۔

"جبار کا فون ہے" ماہ بیر کی سوالیہ نظروں پر اسے آگاہ کرتے اس نے فون کان سے لگایا تھا۔۔۔

🌚🌚🌚🌚

گاڑی کچی سڑک پر رواں دواں تھی۔۔ وه پچھلی سیٹ پر بیٹھی نوٹس ترتیب سے رکھ رہی تھی جو آج درس گاہ میں تمام طلباء میں تقسیم کیے گئے تھے۔۔

اچانک گاڑی جھٹکے سے رکی۔۔ مشائم نے گهبرا کر سیٹ کو تھاما تھا۔۔

کیا ہوا ؟ اس نے جبار سے پوچھا جو اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر گیا۔۔

گاڑی کے عین سامنے تین موٹر سائیکلوں پر تین نقاب پوش ہاتھ میں پسٹل پکڑے ان کا راستہ روکے ہوئے تھے۔۔

جبار نے ٹانگ پر ہاتھ لگا کر پسٹل چیک کی اور سرد نظروں سے انہیں دیکھتا سیدھا ہو بیٹھا۔۔

کون ہو تم لوگ؟؟ راستہ چھوڑو!!!

وه درشتگی سے انہیں دیکھتا ہوا بولا۔۔

مشائم کا دل بے طرح گھبرانے لگا۔۔ اس نے دل میں آیت كریمہ کا ورد شروع کر دیا۔۔

"باہر نکل اوئے!!!"

بھاری کرخت آواز پر مشائم کا سانس جیسے تهما تھا۔۔

"باہر نکل اوئے!!!"


بھاری کرخت آواز پر مشائم کا سانس جیسے تهما تھا۔۔


جبار کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔۔ وہ خاماش سرد نظروں سے انہیں گھورتا گاڑی کا دروازه کھول کر باہر نکلا۔۔


"کیا چاہیے تمہیں ہم سے؟ پیسہ چاہیے؟ مل جائے گا ۔۔ ابھی ہمیں جانے دو" وه حتی الامکان کوشش کررہا تھا معاملہ آرام سے نبٹ جائے۔۔


"بی بی ساتھ نہ ہوتیں تو تم لوگوں کا وه حشر کرتا کہ ایک دنیا یاد رکھتی!!! " وہ دل ہی دل میں سوچ سکا۔۔


زیادہ شانہ بننے کی کوشش نہ کر ۔۔ چھوکری کو باہر نکال۔۔ ان کا سرغنہ جبار کو سرد نظروں سے گھورتا اپنے ساتھی سے بولا۔۔


شاہوں کی عزت ہے وه،، بہت پچھتاؤ گے تم!! ابھی بھی وقت ہے لوٹ جاؤ ورنہ شاہ سائیں تم لوگوں کا جو حشر کریں گے نہ۔۔۔۔۔۔


مقابل نے اسکی بات پوری ہونے سے قبل اسکے منہ پر زوردار گھونسا مارا۔۔ جبار نے غصے کی شدت سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔


غیر محسوس انداز میں وه اس انداز میں جھکا جیسے وه درد سے كراه رہا ہو۔۔ جلدی سے موبائل جیب سے نکال کر اس نے پہلا نمبر ڈائل کر دیا جو اسکے مطابق صالح کا تھا ۔۔ دوسری جانب سے کال ریسیو کر لی گئی تھی۔۔


پھرتی سے موبائل پاکٹ میں ڈال کر وه سیدھا ہوا۔۔ "میں آخری بار کہہ رہا ہوں ہمیں جانے دو یہاں سے دس منٹ کی دوری پر شاہ سائیں کی حویلی ہے۔۔ اگر تم نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو ان تک بہت جلد خبر پہنچ جائے گی۔۔ وه تمہیں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے۔۔"


دھڑکتے دل سے وه اس جگہ کا حوالہ دے گیا جہاں اس وقت وه موجود تھے۔۔


ابھے حرام کے \*\*\*۔۔۔۔۔ ان کا سرغنہ گالی دیتا آگے آیا اور جبار کو مارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے اسکا بازو پکڑ کر پوری قوت سے موڑ دیا۔۔


بس بہت ہوا تھا۔۔ یہ لوگ تو منہ کو آ رہے تھے۔۔ اس نے پھرتی سے پنڈلی سے بندهی گن نکالی اور ان پر تان لی۔۔


"ٹھا!!!"


کانوں کو چیرتی آواز سے گولی چلی تھی۔۔ مشائم نے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی چیخوں کا گلہ گھونٹا تھا۔۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے جبار کو نیچے گرتے دیکھا تھا۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


"جبار کا فون ہے" ماہ بیر کی سوالیہ نظروں پر اسے آگاہ کرتے اس نے فون کان سے لگایا تھا۔۔۔ دوسری جانب سے آتی آوازوں پر اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ یکا یک گولی کی آواز گونجی۔۔


وه خطرناک تاثرات لئے کمرے سے باہر بھاگا۔۔ یوسف کیا ہوا ہے؟ ماہ بیر کے دل میں خطرے کی گھنٹی بجی۔۔ وه بجلی کی سی تیزی سے اس کے پیچھے آیا تھا۔۔


"سائیں بھروسہ رکھیں مجھ پر ۔۔" ماہ بیر کو تسلی دیتی نظروں سے دیکھتا وه بھاگتا ہوا حویلی سے باہر آیا تھا۔۔


جلدی سے جیپ میں بیٹھ کر اس نے نچلے خانے سے گن نکال کر لوڈ کو اور ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا کچی آبادی میں آ پہنچا۔۔ اسے یہاں پہنچنے میں مشکل سے پانچ منٹ لگے تھے۔۔۔


وه گن ہاتھ میں مظبوطی سے تھام کر جیپ سے باہر نکلا۔۔ اسے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑا۔۔ کچھ فاصلے پر ہی اسے ایک گاڑی کھڑی نظر آئی۔۔ وه اسے ایک نظر میں پہچان گیا۔۔ وه جبار کی گاڑی تھی۔۔


وه بھاگتا ہوا گاڑی کے پاس آیا جہاں آگے کی جانب وه زمین پر گرا ڈگی پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔۔ اسکی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔۔


صالح نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے جلدی سے ایمبولنس کو فون کیا۔۔


اٹھو!!!


وه اسے سہارہ دینے کے لئے آگے آیا۔۔ اس کا دل تو کررہا تھا کہ جبار کا یہ حال کرنے والوں کو زندہ زمین میں گاڑ دے۔۔


میں ٹھیک ہوں سر!!! آپ بی بی کو بچائیں وه لوگ انہیں لے گئے ہیں۔۔ ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے۔۔ میری فکر نہ کریں جائیں۔۔۔۔


وه درد ضبط کرتے ہوئے بولا تو صالح نے اسکی پیٹھ تهپتهپائی۔۔ گاڑی سے رومال نکال کر اس نے جبار کی طرف پھینکا۔۔ "یہ باندھ لو ۔۔ کچھ دیر تک ایمبولنس پہنچ جائے گی۔۔"

جلدی میں بولتا وه گن پکڑے کچے راستے پر اتر گیا۔۔


صالح کے جانے کے بعد اس نے کچھ فاصلے پر گرا موبائل اٹھایا اور وائس ریكارڈ کر کے ماہ بیر کے نمبر پر بھیج دی۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه محتاط قدم اٹھاتا چند کچے گھروں کے عقب میں بنے کھیتوں میں اتر گیا۔۔۔ اسکی نظریں پھرتی سے اطراف کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔ چند قدم آگے آ کر اسے نسوانی آواز سنائی دی۔۔


اس نے آواز کا تعاقب کرتے ہوئے قدم بڑھانے شروع کر دیے۔۔


چھوڑو مجھے پلیز مجھے جانے دو میں نے کیا بگاڑا ہے تم دونوں کا؟؟


وه اسے گھسیٹتے ہوئے لے کر جا رہے تھے۔۔ وه مسلسل بلکتی ہوئی ان سے فریاد کررہی تھی جن کے دل پتھر کے تھے۔۔


صالح کو بالاخر وه نظر آ گئی۔۔۔ غصے کی شدت سے اسکی گردن کی نسیں پھول گئیں۔۔ وه تیزی سے ان کی طرف آیا اور دونوں کو گردن سے پکڑ کر دور جھٹکا۔۔


وه دونوں اچانک پڑنے والی افتاد پر گھبراتے منہ کے بل زمین پر گرے۔۔ مشائم نے ڈبڈبائی نظروں سے صالح کو دیکھا جو ان دونوں سے گتهم گتها تھا۔۔


ان میں سے ایک نے کچھ فاصلے پر گری پسٹل اٹھائی اور صالح پر فائر کرنا چاہا کہ دوسرے شخص کی گردن دبوچے اس نے زوردار لات اسکے گن تھامے ہاتھ پر ماری جس سے وه بلبلا اٹھا۔۔


اسکا ہاتھ بری طرح چھل گیا تھا جبکہ گن پھر سے اس کی پہنچ سے دور ہوگئی تھی۔۔


مشائم ان سے کچھ فاصلے پر ہوتی خوفزدہ نظروں سے صالح کو دیکھنے لگی جس نے مقابل کا ہاتھ توڑ دیا تھا۔۔


بی بی کو لے کر جائے گا؟ سائیں سے بغاوت کرے گا؟ پتھریلے لہجے میں بولتے اس نے مقابل کی گردن پر شکنجہ مظبوط کیا۔۔ چند لمحوں کا کھیل تھا۔۔ مقابل کی سانسوں کی ڈور ٹوٹی اور اسکا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔۔


صالح نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے جھٹکے سے زمین پر پهینک دیا۔۔۔ خطرناک تیوروں سے وه بھاگنے کی کوشش کرتے دوسرے نقاب پوش کی طرف بڑھا جس کا چہرہ اب عیاں ہو چکا تھا۔۔


مشائم کو اس لمحے پہلی بار صالح یوسف سے بے پناہ خوف محسوس ہوا تھا۔۔ وه "وه" نہیں رہا تھا۔۔


"مجھ سے بچ کر کہاں جاؤ گے، اگر صالح یوسف کو جان لیتے تو کبھی ایسا قدم نہ اٹھاتے۔۔"


پتھریلے لہجے میں بول کر اس نے پینٹ کی جیب سے پسٹل نکالا۔۔


مشائم نے بے اختیار دونوں ہاتھ منہ پر رکھے۔۔۔


نن ۔۔ نہیں !!

اس کے حلق سے پھنسی ہوئی آواز نکلی۔۔

صالح نے ایک سرد نظر خوف سے کانپتی مشائم پر ڈالی اور ٹریگر دبا دیا۔۔


ویرانے میں ٹھا کی آواز گونجی تھی۔۔ گرم سلاخ مقابل کے ماتھے پر سوراخ کرتی سر کے پیچھے سے نکلتی درخت میں جذب ہوگئی۔۔


اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔۔ اس سے پہلے کہ وه لہرا کر گرتی صالح نے پھرتی سے آگے آتے اسے تھاما تھا۔۔


"اس دن کیسے شیرنی بن رہی تھی لیکن اصل میں چڑیا سی جان ہے"


ماتھے پر بل ڈالے دل میں سوچتا وه اسے بازو سے پکڑ کر چلتا ہوا کھیتوں سے نکل آیا۔۔ ابھی اس نے چند قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ کسی نے اس کے سر پر بھرپور وار کیا تھا۔۔


"آہ!!!"

درد کی شدت سے اس نے سر کی پشت پر ہاتھ رکھا تھا جہاں سے خون رسنے لگا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں کے آگے اندهیرا چھا گیا۔۔ سہارہ لینے کی خاطر اس نے چند قدم بڑھائے ہی تھے کہ زبردست ٹھوکر کھا کر زمین بوس ہوا۔۔


چل،، جلدی کر!!!


مشائم جو جس کے حواس نیم خوابیده تھے نے ہلکی سی مزاحمت کرنی چاہی لیکن وه شخص اسے گھسیٹتا ہوا اپنی گاڑی تک لایا اور پچھلا دروازه کھولتے زور سے اسے اندر پٹخا۔۔


صالح نے دھندلی آنکھوں سے انہیں دیکھا تھا۔۔۔ رکو!! گاڑی کے چلنے کی آواز آئی تو وه سر کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔


گاڑی پر نظریں مركوز کیے وه بھاگ کر کھیتوں میں واپس آیا اور ان میں سے کسی کی موٹر بائیک اٹھا کر سٹارٹ کرنے لگا۔۔ گاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔۔


"شٹ شٹ!!!"


موٹر بائیک پر دو تین مکے مار کر اس نے فل سپیڈ کر کے اسی راستے پر ڈال دی جہاں سے دھول اڑ رہی تھی۔۔


چند منٹوں بعد بالاخر اسے گاڑی نظر آ گئی جو تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ اس نے شکر کا سانس لیتے موٹر بائیک کی رفتار مزید تیز کی تھی۔۔


🌚🌚🌚🌚


دل ہی دل میں خوش ہوتا وه ایک گلی میں داخل ہوتا گاڑی روک کر ونڈو سے گردن باہر نکال کر پیچھے دیکھنے لگا۔۔۔


کسی کو نہ پا کر وه دروازه کھول کر نیچے اترا۔۔ اس کے دو ساتھی تو مارے جا چکے تھے۔۔ لیکن وه بڑا گهاگ شخص تھا۔۔ گاڑی کی آواز سن کر اسکی چھٹی حس نے خطرے کا سگنل دیا تھا۔۔


وه بہانہ کر کے وہاں سے کچھ دور جا کر چھپ گیا تھا۔۔۔ جب راستہ صاف ہوا تو اس نے تاک کر وار کیا تھا جو خالی نہیں گیا تھا۔۔


باہر نکل!!!


مشائم پوری طرح ہوش میں آتی بلکتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔۔


پپ ۔۔ پل ۔۔یز مم ۔۔ مجھے ۔۔۔جا۔۔ا۔نے ۔۔دو !!! اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی وه تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔۔۔ پتہ نہیں اس کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔۔ اسے اپنی عزت خطرے میں نظر آنے لگی۔۔


سالی اتنا جوکھم اس لیے کیا تھا تا کہ تجھے جانے دوں۔۔۔۔؟ کرخت چہرے سے اسے دیکھتے اس نے گاڑی کا دروازه کھول کر اسے بازو سے دبوچ کر باہر نکالا اور جلدی سے کھینچتا ہوا ٹانگ مار کر دروازه کھولتا ایک گھر میں داخل ہوگیا۔۔۔


وه مسلسل روتی ہوئی اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کرہی تھی لیکن اس آہنی گرفت سے نکل پانا اس جیسے نازک وجود کے لئے نا ممکن تھا۔۔


وه صحن میں آئے تو سامنے ایک عورت حیرانی سے انھیں دیکھتی ان کی طرف آ رہی تھی۔۔


یہ۔۔۔۔!!!


وه اسکی بات بیچ میں ہی کاٹ گیا۔۔ "دروازه بند کر ۔۔"


وه جلدی سے دروازه بند کرتی اس تک آئی۔۔ یہ کون ہے کیوں لایا ہے اسے یہاں ؟ وہ کچھ کچھ سمجھ رہی تھی۔۔


"زیادہ بکواس نہ کر میرے سامنے۔۔۔"

وه گرجا تھا۔۔


"میری مدد کریں پلیز مجھے اغوا کر لیا ہے انہوں نے۔۔ مم میں سلطان ماہ بیر شاہ کی بہن ہوں ۔۔۔"


مشائم اس عورت کو دیکھتی ایک سانس میں ہی کہہ گئی۔۔


وه عورت جو اس شخص کی بیوی تھی دنگ سی اسے دیکھے گئی۔۔ "بشیر پاگل ہوگیا ہے تو چھوڑ اسے ۔۔۔"


وه آگے بڑھی تھی اور مشائم کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ اس کا دماغ گھوما تھا اپنی بیوی کی اس حرکت پر۔۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ گن نكالی اور یکے بعد دیگرے تین فائر کیے ۔۔


پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی وه زمین بوس ہوئی تھی۔۔ فرش پر خون کا تالاب بننے لگا تھا۔۔ اتنا سارا خون دیکھ کر وه بری طرح چیخنے لگی تھی۔۔۔


پھٹی پھٹی نظروں سے زمین پر گری خون میں لت پت لاش کو دیکھتی وه اپنا ہاتھ اس سے چھڑا کر بس یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔۔


اس بے رحم شخص نے اسے لا کر ایک کمرے میں بند کر دیا۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


گاڑی کا نمبر دیکھ کر وه اسے پہچان گیا تھا۔۔ موٹر سائیکل گلی کے باہر روک کر وه ادھر ادھر دیکھتا گلی میں داخل ہوگیا۔۔ جس گھر کے سامنے گاڑی کھڑی کی گئی تھی وه اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔


وه دو سیڑھیاں چڑھ کر آگے ہوا اور آہستہ سے دروازہ دھکیلا۔۔ دروازه چرر کی آواز سے کھل گیا۔۔ اندر آتے ہی اسے عجیب سی بو محسوس ہوئی۔۔


اسکا راز بھی کھلا جب اس نے دائیں جانب آگے آ کر دیکھا تو فرش پر خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔۔ اس کے دل کی دھڑکن سست پڑی تھی۔۔


چند قدم مذید آگے آتے اس نے لاش کو دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔۔ سامنے بنے باورچی خانے سے کھڑاک کی آواز آئی تو وه چونکا۔۔


گن لوڈ کر کے وه دبے قدموں باورچی خانے کی طرف چلا آیا۔۔۔ اندر ایک شخص اسکی جانب پیٹھ کیے گلاس میں پانی انڈیل رہا تھا۔۔ کسی احساس کے تحت وه پلٹا ۔۔ اس سے پہلے کہ وه کچھ کر پاتا صالح نے چند گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں۔۔۔


خس کم جہاں پاک!!! نفرت سے اسے دیکھتا وه سرد لہجے میں بولا۔۔۔


وه جو چیختی چیختی تھک کر دروازه سے پشت لگا کر بیٹھ گئی تھی گولیاں چلنے کی آواز سن کر پھر خوف سے چیخنے لگی۔۔۔

چند سیكنڈ بعد ہی اسے تیز قدموں کی آواز آئی۔۔۔ نن نہیں ۔۔۔ میں ۔۔۔نہیں ۔۔ اللّه ۔۔ ب۔ ۔چا ۔۔لیں مجھے ۔۔۔ وه پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

یکا یک دروازه کھلا تو وه منہ پر ہاتھ رکھتی بلکنے لگی۔۔ چھچھ۔۔ چھوڑ دو مجھے۔۔۔ مت مارو مجھے۔۔۔

بی بی ۔۔۔۔؟؟؟

جانی پہچانی آواز پر وه خاموش ہوئی تھی۔۔ اس نے بے يقینی سے سر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو وه دروازے کے بیچوں بیچ اس کی جانب جھکا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔۔

وه بجلی کی سی تیزی سے اٹھی اور اس کے سینے سے سر لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

"مار دیا اس نے ۔۔ وو ۔۔۔وه ۔۔ مر ۔۔ گئی۔۔ مم ۔۔میرے ۔۔ سامنے ۔۔۔وه ۔۔ خون ۔۔۔" وه اس کے گرد بازو لپیٹتی اٹک اٹک کر کہتی روتی جا رہی تھی۔۔

وه اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔۔۔ یہ کیسا لمحہ اس کی زندگی میں آیا تھا۔۔ اپنے سینے سے لگی اس نازک لڑکی کے دل کی دھڑکن اسے اپنے دل میں دھڑکتی محسوس ہورہی تھی۔۔ اس نے آہستہ سے اسے پیچھے ہٹایا ۔۔۔

"آپ محفوظ ہیں اب ۔۔۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کو کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔"

نرمی سے بولتا وه اسے یقین تهما گیا تھا۔۔۔

وه بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھے گئی۔۔ کالی سرد آنکھوں میں آج اسے پہلی بار نرمی دکھی تھی۔۔ ہچکی لیتی وه پیچھے ہٹی ۔۔۔

چلیں؟؟ وه سر جھکا کر اس سے پوچھنے لگا تو وه جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑتی بھاگنے کے انداز میں باہر نکلی۔۔۔ اسے خوف تھا کہ کوئی پھر سے آ کر اسے لے جائے گا۔۔

صالح نے سر جھکا کر اسکے ہاتھ کی نرم گرفت میں اپنے مظبوط كهردرے ہاتھ کو دیکھا تھا۔۔

آہستہ سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکال کر وه بائیک کے قریب آیا اور بائیک سٹارٹ کی۔۔

وه اس کے پاس آتی جھجھک کر کھڑی ہوگئی۔۔۔

"بیٹھیں!!!"

وه سیدھ میں دیکھتا ہوا بولا تو وه شوں شوں کرتی اسے دیکھنے لگی۔۔۔ "میں گر جاؤں گی۔۔۔"

نہیں گریں گی آپ بیٹھ جائیں۔۔!!

اس کے کہنے پر وه ڈرتی ڈرتی بائیک پر بیٹھ گئی۔۔۔

صالح نے بائیک آگے بڑھائی تو وه ڈر کر اسکی شرٹ ہاتھ میں دبوچ گئی۔۔

اسکے ڈر کو محسوس کرتے نارمل سپیڈ سے بائیک چلاتا وه وہاں سے نکل گیا۔۔

مشائم کو ساتھ لے کر وہ اس مقام پر آ گیا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس نے بائیک روکی تو مشائم ڈرتی ڈرتی بائیک سے اتر گئی۔۔۔

"آپ جا کر جیپ میں بیٹھیں میں آتا ہوں۔۔" اس کی ہدایت پر وہ جا کر جیپ میں بیٹھ گئی۔۔

صالح بائیک کو چھوڑ کر کچھ دور جا کر جائزہ لینے لگا۔۔ جبار کی گاڑی وہاں نہیں کھڑی تھی۔۔ وہ کچھ سوچتا جیپ میں آ بیٹھا۔۔ اس نے گردن موڑ کر پیچھے بیٹھی مشائم کو دیکھا۔۔


"بی بی آ گے کر بیٹھیں آپ کا کچھ پتہ بھی نہیں چلنا کہیں پیچھے سے ہی غائب نہ ہوجائیں۔۔"


اس کی بات پر وہ تیکھی نظروں سے اسے دیکھتی دروازہ کھول کر اگلی سیٹ پر آ بیٹھی۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ حویلی پہنچ گئے۔۔ وه بھاگتی ہوئی اندر چلی گئی۔۔


اس کے جانے کے بعد صالح نے اپنے دکھتے سر پر ہاتھ رکھا۔۔ ہاتھ لگنے سے زخم سے ٹیسیں اٹھیں تو وہ لب بھینچ گیا۔۔ وه اندر آیا تو وہ ماہ بیر کے سینے سے لگی رو رہی تھی۔۔۔


اس کے رونے کی آواز سن کر لللہ عارفہ بھی کمرے سے نکل آئیں۔۔ صالح کو سامنے کھڑا دیکھ کر انہوں نے دوپٹے سے اپنے چہرے کو ڈھکا تھا۔۔


کیا ہوا ماہ بیر میری بچی ایسے کیوں رو رہی ہے؟ وه فکر مندی سے کہتی ہے آگے آئیں تو مشائم روتی ہوئی وہ ان سے لپٹ گئی۔۔


"میرے سامنے مار دیا مر گئی وه ۔۔ بہت خون تھا وہاں۔۔" وه پھر سے وه سب یاد کرتی خوف سے روتی انہیں بتانے لگی۔۔


ماہ بیر کے اشارے پر وہ روتی ہوئی مشائم کو اندر لے گئیں۔۔ ان کے جانے کے بعد صالح کھنکارہ۔۔


سائیں میں۔۔۔۔۔ اسنے کچھ کہنا چاہا کہ ماہ بیر آگے آتا اسے گلے سے لگا گیا۔۔۔ "شکریہ یار!! آج تم نے مجھے اپنا قرض دار کر لیا ہے۔۔" وه اسکا کاندها تهپتهپا کر پیچھے ہٹا۔۔۔


"سائیں کیسی باتیں کرتے ہیں یہ میرا فرض تھا۔۔" اس کے شکایتی انداز میں دیکھنے پر وه دھیما سا ہنس دیا۔۔۔


تم ٹھیک ہو؟ وه خیال آنے پر فکرمندی سے بولا۔۔


جی سائیں میں ٹھیک ہوں!! وه سر پر لگی چوٹ کو قصداً چھپا گیا۔۔ "جبار کو گولی لگی تھی۔۔۔ آپ کو کیسے پتہ چلا؟"


اچانک خیال آنے پر وہ پوچھ بیٹھا ۔۔


جبار نے مجھے فون پر اطلاع دی تھی۔۔ وہ ہسپتال میں ہے ٹھیک ہے تم فکر مت کرو ۔۔۔ ان لوگوں کا کیا بنا جنہوں نے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالنے کی ہمّت کی ؟ اس کی سرمئی آنکھیں پل میں سرد ہوئیں۔۔


سائیں وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔۔۔ اس نے من و عن سارا واقعہ تفصیل سے کہہ دیا۔۔۔


ماہ بیر نے محض سر ہلایا۔۔ "ٹھیک ہے تم جاؤ آرام کرو ۔۔" وہ اس کے ملگجے گرد سے اٹے کپڑوں کو دیکھ کر بولا۔۔


"چلتا ہوں " وه سلام کر کے وہاں سے چلا آیا۔۔ اس کا سر بہت درد کررہا تھا وه خود بھی کچھ دیر آرام چاہتا تھا۔۔۔


گھر آکر اس نے اندر جھانکا تو انجم چار پائی پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھیں۔۔ اسے آتے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔


کدھر تھا تو میرا دل بہت گھبرا رہا تھا ۔۔ یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے تو چپ کیوں ہے بولتا کیوں نہیں ؟


اسے خاموشی سے چارپائی پر بیٹھے دیکھ کر وه فکر مندی سے اس کے پاس بیٹھیں۔۔


اماں ٹھیک ہوں میں آپ پریشان نہ ہوں ۔۔ اس نے دکھتے سر کو دبایا ۔۔


کیا ہوا تیرا سر درد کر رہا ہے ؟


وہ جواب دینے کی بجائے خاموشی سے ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔


انجم نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔ وہ چونکیں۔۔ انہوں نے غور سے دیکھا تو اس کے سر پر زخم تھا جس پر لگا خون جم چکا تھا۔۔


یہ چوٹ کیسے آئی تجھے؟ کیا کرتا پھرتا ہے ماں کی ذرا پروا نہیں تجھے؟ وہ اس کا سر اپنی گود سے ہٹا کر روتی ہوئی اٹھیں اور ایک ڈبے سے مرہم اور روئی نکال کر لے آئیں۔۔


انہیں روتے دیکھ کر صالح کو شرمندگی ہوئی۔۔ "اماں ایسے تو نہ کریں ۔۔" وه انکا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھاتا بے چارگی سے بولا۔۔


"تو کیا کروں تجھے کون سی میری پرواہ ہے سارا دن حویلی پڑا رہتا ہے۔۔ کبھی چوٹ لگوا لیتا ہے۔۔۔ ماں پر کیا بیتتی ہے تجھے کیا۔۔ تجھے تو بس اپنے شاہ سائیں کی پرواہ ہے۔۔" وہ زخم صاف کر کے مرہم لگاتے ہوئے بولیں۔۔


وہ خاموش ہوگیا۔۔ "اماں ایسی بات نہیں ہے آپ کے علاوہ میرا ہے ہی کون؟" وہ سر جھکا کر بولا تو انجم کی آنکھوں میں دکھ بھرا۔۔


اچھا تو آرام کر میں تیرے لئے ہلدی والا دودھ لاتی ہوں۔۔!!! اس کا سر چوم کر وہ باورچی خانے میں چلی گئیں۔۔


ان کے جانے کے بعد وہ چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں موند گیا ۔۔ "مر گئی وه ۔۔۔" وه بلکتی ہوئی اس کے سینے سے لگی کہہ رہی تھی۔۔ ذہن کے پردوں پر اس کا چہرہ ابھرتے ہی وہ پٹ سے آنکھیں کھول گیا۔۔


اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا جو اس کے آنسوؤں سے بھیگا تھا۔۔ ذہن میں آنے والی سوچوں کو جھٹک کر وہ بے تاثر نظروں سے آسمان پر نظریں مرکوز کر گیا۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


اسے واپس آئے کچھ ہی گھنٹے ہوئے تھے۔۔۔ فریش ہو کر آرام ده لباس میں وہ اپنے بستر پر نیم دراز تھا۔۔ ابھی وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔۔ آتے ہی اس نے ارشما کے کمرے میں جھانکا تھا جو بے خبر سو رہی تھی۔۔ اس سے ملنے کا ارادہ ترک کرتے وه اپنے کمرے میں آگیا تھا۔۔


کچھ دیر بعد ایک ملازم ڈرتے ڈرتے اس کے کمرے میں داخل ہوا۔۔ کیا میں آ سکتا ہوں سر؟


ملازم کے ڈسٹرب کرنے پر اس نے تپ کر اسے دیکھا۔۔ "کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا ؟"


اس کے سرد لہجے پر ملازم کانپ گیا۔۔ "سس سر آئی ایم سوری۔۔ کوئی صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں کہہ رہے ہیں بہت ضروری کام ہے۔۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ صاحب اس وقت مصروف ہیں لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ تمہارے صاحب کے بھی کام کی بات ہے۔۔ اس لئے مجبورا مجھے آپ کو ڈسٹرب کرنا پڑا۔۔۔"


اس کی بات پر وہ کچھ سوچ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ "اوکے جاؤ تم میں آتا ہوں ۔۔"


کچھ دیر بعد وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔۔ اندر بیٹھا شخص اسے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ لمبے قد و قامت کا مالک بڑے بال۔۔ آنکھوں میں لال ڈورے ۔۔ اس کے چہرے سے خشونت ٹپک رہی تھی۔۔۔


مائی سیلف رانا اسرار خان !!! وہ آگے بڑھا تو اورہان نے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا ۔۔


بیٹھو کیا میں تمہیں جانتا ہوں؟ وه اسے کھوجتی نظروں سے دیکھ کر بولا تو مقابل ہنس پڑا۔۔۔


جاننے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے "میر اورہان صمید"۔۔۔ اس نے جان بوجھ کر اس کا پورا نام لیا۔۔


اورہان نے سگریٹ سلگا کر آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔۔ کام کی بات کرو !!


"وہ تم نے سنا تو ہوگا کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے " رانا معنی خیز انداز میں بولا تو اورہان نے چونک کر دیکھا۔۔


کس دشمن کی بات کر رہے ہو؟


"سلطان ماہ بیر شاہ" مقابل نفرت سے پھنکارا ۔۔


اوہ!!؛ اسے اب سمجھ آئی تھی۔۔۔ تمہاری کیا دشمنی ہے اس سے ؟ اس نے سگریٹ رانا کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا ۔۔


"کیا فرق پڑتا ہے کہ کیا دشمنی ہے ۔۔ یہاں مطلب کی بات یہ ہے کہ ہم دونوں کو دوست بن جانا چاہیے" کیونکہ ہم ایک دوسرے کے بہت کام آنے والے ہیں ۔۔۔!! وہ سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑتا ہوا بولا۔۔


ہمم !! میں کیسے یقین کر لوں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے ؟ تم اس کے کوئی آدمی بھی تو ہو سکتے ہو ۔۔۔


اورہان کی بات پر وه قہقہہ لگا گیا۔۔۔ نہ !! ماہ بیر شاہ اتنی اوچھی حرکت نہیں کرے گا۔۔ ابھی وہ مزید کچھ کہتا کہ ارشما دندناتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔۔


"بھائی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے " کمرے میں کسی اور کی موجودگی محسوس کرکے وہ خاموش ہوئی۔۔


رانا اسرار خان نے دلچسپی سے اسے سر تا پیر دیکھا تھا۔۔ تمہاری بہن بھی ہے ؟؟ اس نے معنی خیز انداز میں اورہان کی آنکھوں میں دیکھا جن میں سرخی چھا گئی تھی۔۔


"جاؤ یہاں سے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔" وہ ارشما کو سخت نظروں سے دیکھتا وہاں سے جانے کا کہنے لگا۔۔


صورتحال کی نزاکت کو سمجھتی وہ فورا سے وہاں سے چلی گئی۔۔


ٹھیک ہے ہم بعد میں بات کریں گے۔۔ یہ میرا نمبر رکھ لو۔۔ اسے اپنا کارڈ تهما کر وه اٹھ کھڑا ہوا۔۔

"میں نے کچھ سوچ رکھا ہے۔۔۔ کچھ ایسا جو ماہ بیر شاہ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔۔ ابھی چلتا ہوں۔۔۔" رانا نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور ٹیڑھی نظروں سے گھر کا جائزہ لیتا وہاں سے نکل گیا۔۔


اس کے جانے کے بعد وہ ارشما کے کمرے میں آیا جو کمرے میں ٹہلتی ہوئی اسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔


اورہان نے پہلے اسے گلے لگایا۔۔ کیسی ہو میری جان؟ وہ اس کا سر چوم کر بولا تو وه اس سے الگ ہو گئی۔۔۔


اسکی بات کا جواب دیے بغیر وه اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔ بھائی ایک بات پوچھوں سچ سچ بتائیے گا ؟


اس کے عجیب انداز پر وه چونکا۔۔۔ "تم ایسے بی ہیو کیوں کر رہی ہو ؟" وه اس کے بال سنوار کر بولا تو وہ چند قدم پیچھے ہٹی۔۔۔


آپ کیا ہیں؟ کیا آپ وہی ہیں جو آپ نظر آتے ہیں ؟ اس کی شکایتی نظروں پر وه خاموش ہوا۔۔۔


بیٹا کیا ہوا ہے مجھے پوری بات بتاؤ !! اس کے پیار بھرے انداز پر وه رو پڑی۔۔۔ کتنے دن سے جو غبار اس کے اندر جمع تھا اس نے باہر نکال دیا۔۔


"بیٹا جھوٹ بولتے ہیں سب ۔۔۔ تمہارا بھائی ایسا نہیں ہے۔۔۔" اس نے آرام سے اس کی برین واشنگ کردی۔۔ کچھ وقت تک وه اسے سمجھاتا رہا۔۔۔


ارشما نے دماغ کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دل کی آواز سنی۔۔ میں نے آپ کو غلط سمجھا!! سوری ۔۔۔

وہ شرمندگی سے بولی۔۔


اس نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔۔ کوئی بات نہیں میرا بیٹا آپ کسی کی باتوں پر دھیان نہ دیا کرو۔۔ باہر کے لوگ ہمارے دشمن ہیں ۔۔ اوکے اب فریش ہو کر آؤ پھر مل کر لنچ کرتے ہیں ۔۔


مسکرا کر اسے کہتا ہوں وہ کمرے سے چلا گیا۔۔۔ اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتی وه فریش ہونے چلی گئی ۔۔


🌚🌚🌚🌚


چہرے کو سیاہ نقاب سے ڈھکے وه محتاط انداز میں چلتی ہوئی پی سی او میں داخل ہوئی۔۔ ٹیلی فون کا ریسیور اٹھا کر اس نے ایک نمبر ڈائیل کیا اور دوسری جانب سے کال اٹھائے جانے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔


جب دوسری جانب سے کال اٹھا لی گئی تو اس کی آنکھوں کی سردمہری مزید بڑھ گئی۔۔


دوسری جانب موجود اورہان نے موبائل کان سے لگایا۔۔۔ کون بول رہا ہے ؟؟


دوسری جانب سے مسلسل خاموشی پاکر وہ کوفت سے بولا۔۔ کون ؟ اس نے پھر سے دہرایا۔۔۔


تمہاری موت !!


مقابل کی سرد آواز پر اس نے فون کان سے ہٹا کر دوبارہ دیکھا تھا۔۔

"کیا بکواس ہے یہ۔۔" وه غصے کی شدت سے گرجا تھا۔۔۔

"بکواس نہیں حقیقت ہے یہ !! بہت اڑ لئے ہوا میں ۔۔۔ اب تمہارے گناہوں کے حساب کا وقت آ گیا ہے۔۔"

مقابل کے سرد ٹھٹھرا دینے والے لہجے پر اس کی گردن میں گلٹی ابھری۔۔ کیسی نفرت کی پھنکار تھی۔۔۔

خود کو نارمل کرتے اس نے کچھ سخت کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ دوسری جانب سے ٹھک سے ریسیور رکھ دیا گیا۔۔

🌚🌚🌚🌚

دن خاموشی سے گزر رہے تھے۔۔ نومبر کا مہینہ شروع ہو چلا تھا۔۔ سرد خنک راتیں بہت سے راز اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھیں۔۔ ایسا جامد سکوت جو کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ تھا۔۔

ایک ایسی ہی سرد رات میں وہ کوٹ سوٹ میں ملبوس اسلام آباد کے اپر کلاس نائٹ کلب میں داخل ہوا۔۔ حسن شباب اور شراب دیکھ کر نیلی آنکھوں کی چمک بڑھی۔۔

بار کی جانب جا کر وه ایک جدید طرز کی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ شراب کا گلاس پکڑ کر اس نے موبائل نکالا اور ازنا کو کال ملائی۔۔

چند سیكنڈ کے انتظار کے بعد کال ریسیو کر لی گئی۔۔ کڑوی شراب کا گھونٹ بھر کر وہ موبائل کان سے لگاتا نیم عریاں لباس میں رقص کرتی لڑکیوں کو دیکھنے لگا۔۔

کیسی ہو ؟؟ ہمم۔۔

میں ہاٹ ہمیشہ کی طرح!!

دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔۔ وه جیسے محظوظ ہوا تھا۔۔

اچھا ڈارلنگ سنو تو۔۔۔۔ ڈارلنگ نہ کہوں؟

اوکے سویٹ ہارٹ!! دوسری جانب سے خفگی سے کچھ کہا گیا جس پر وه قہقہہ لگا گیا۔۔۔

کئی لوگوں نے مڑ کر حسن کے اس شاہکار کو دیکھا تھا۔۔۔ وه سب سے بےنیاز اس سے محو گفتگو تھا۔۔

اچھا سنو تو ہنی!! وه شرارت سے بولتا لب دبا گیا۔۔۔ اس لڑکی کو تنگ کر کے جانے کیوں لطف آتا تھا۔۔

اوكے اوکے آئی ایم سیریس ناؤ!! میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔

کہہ کر وه دوسری جانب سے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔ دوسری جانب خاموشی پا کر وه بے چین ہوا۔۔

پلیز ۔۔۔ آئی مس یو ۔۔۔ ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اوکے تم سوچ لو۔۔۔ میں تمھارے جواب کا انتظار کروں گا۔۔ ا

اوکے!! لو یو ،، بائے ۔۔۔ موبائل بند کر کے اس نے استہزائیہ سر جھٹکا۔۔ شراب کا آخری گھونٹ بھر کر وه اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ فاصلے پر رقص کرتی لڑکیوں کی جانب چلا گیا۔۔۔

سلام بابا سائیں!! وہ سلام کر کے عبداللہ شاہ کی کمرے میں داخل ہوا جہاں للّہ عارفہ بھی موجود تھیں۔۔


کیسے ہو ماہ بیر؟؟ وه موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے بولے۔۔

اللہ کا کرم ہے بابا سائیں۔۔ آج آپ ناشتے پر نہیں آئے سوچا آپ کی خیریت پوچھ لوں۔۔


ہاں بس دل کچھ عجیب ہو رہا تھا اس لئے میں نے کمرے میں رہنا بہتر سمجھا۔۔۔


سب خیریت تو ہے نا ؟ وه فکر مند ہوا۔۔


للّہ عارفہ کے نوافل ادا کرنے کا وقت تھا تو وہ وضو کرنے کے لیے اٹھ گئیں۔۔


"ہاں ماہ بیر ایک بات کرنا چاہتا تھا تم سے ۔۔" وه گہری سنجیدگی سے بولے تو وه متوجہ ہوا۔۔


جی کہیں سن رہا ہوں !! وہ شال کندھوں پر درست کرتا ہوا بولا۔۔


"مشائم کے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔۔" وہ پر سوچ لہجے میں بولے تو ماہ بیر چونکا۔۔


"لیکن بابا سائیں ابھی تو بہت چھوٹی ہے وه ۔۔۔" اسے یہ بات کچھ منآسب نہیں لگی۔۔


ہاں ٹھیک ہے تمہاری بات بھی لیکن بیٹیوں کو وقت سے اپنے گھر کا کر دینا چاہیے۔۔ رشتہ اچھا ہے اچھے حسب و نسب کے لوگ ہیں ۔۔ اور پھر یہاں ان کا ایک مقام ہے۔۔ لڑکے کی ماں ہے باپ حیات نہیں ہے ۔۔ سیدھے سے لوگ ہیں مجھے یہ رشتہ مناسب لگ رہا ہے۔۔


ٹھیک ہے بابا سائیں جیسی آپ کی مرضی!! ان کی بات سمجھتے سر ہلا گیا۔۔


ہمم بہتر مجھے تم سے اسی سمجھداری کی امید تھی۔۔ وه اسکا کندها تهپتهپا گئے۔۔


🌚🌚🌚🌚


جبکہ اس سب سے بے خبر وه اپنے کمرے میں بیڈ پہ چت لیٹی ہوئی تھی ۔۔ اس کی نگاہوں کے سامنے گزرے واقعے کے عکس منڈلا رہے تھے۔۔۔ چپکے سے کوئی اس کے دل کے دروازے پر دستک دینے لگا تھا۔۔


اس کی نگاہوں کے سامنے وہ منظر لہرایا جب وه روتی ہوئی اس کے سینے سے لگی تھی۔۔ اس کے چہرے پر شرمگیں مسکان آئی۔۔


گھنی پلکوں کی جھالر گرا کر وہ اٹھ بیٹھی۔۔۔ بال اس کی چوٹی سے نکل کر چہرے کے اطراف میں بکھر گئے ۔۔ سانولے پرکشش چہرے پر حیا کی کشش سے قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے۔۔


یوسف !! سرگوشی میں اس کا نام پکار کر وہ کوئی گیت گنگناتی ہوئی بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔۔


بے خیالی میں اسے سوچتے ہوئے وه آسمان کو تک رہی تھی کہ اس کی نگاہ حویلی میں داخل ہوتے یوسف سے ٹکرائی۔۔


ہواؤں نے اس کے دل کے تار پر کوئی انوکھی دھن چھیڑی تھی۔۔ تیز دھڑکتے دل کے ساتھ وہ کمرے میں آ گئی۔۔


بڑی بڑی بھوری آنکھوں میں خوبصورت عکس سمائے وہ سائیں ٹیبل پر دھری شاعری کی کتاب کھول کر بستر پر نیم دراز ہو گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


بالوں کو گول مول جوڑے میں لپیٹتی وہ ڈھیلے سے نائٹ ڈریس میں ملبوس سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی۔۔۔ اس نے کچن کی جانب رخ کیا اور شیشے کے جگ میں پانی بھر کر کچن سے باہر آئی۔۔


سب ملازمین کو اس نے واپس بھیج دیا تھا۔۔۔ سو وه گھر میں اکیلی تھی ۔۔ اس کے خیال میں اورہان کسی ضروری کام سے گیا تھا جبکہ حقیقت میں وہ نائٹ کلب میں تھا۔۔ اب تو وہ اس روٹین کی عادی ہوگئی تھی۔۔ اسے اپنے گھر میں اکیلے رہنے سے خوف نہیں آتا تھا۔۔


پانی کا جگ سائیڈ پر رکھ کر وه کچن سے کچھ فاصلے پر موجود ٹی وی لاؤنج میں آئی اور لائٹ آف کر دی۔۔۔ واپس آ کر جگ پکڑتی وہ کچھ ہی سیڑھیاں چڑھی تھی کے بیل بجی۔۔


اس نے وال کلاک پر وقت دیکھا گھڑی رات کے دس بجا رہی تھی۔۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟


وہ سوچتی ہوئی دوبارہ نیچے آئی اور جگ کچن میں رکھتی دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔ دروازہ کھول کر اس نے نووارد کو دیکھا۔۔


مقابل کو دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔ بھائی گھر نہیں ہے بعد میں آنا !! ناگوری سے بول کر اس نے دروازہ بند کرنا ہی چاہا کہ رانا نے دروازے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔


"ہم تو آپ سے ملنے آئے ہیں!!" کمینے پن سے کہہ کر وہ جلدی سے اندر آیا اور اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیئے بغیر دروازہ بند کر گیا۔۔۔


ارشما ڈر کر پیچھے ہٹی۔۔۔ "یہ کیا بدتمیزی ہے نکلو میرے گھر سے !!" وہ چلائی تھی ۔۔


اس کے چیخنے پر وہ ہنستا ہوا اس کی طرف بڑھا۔۔ "ڈر کیوں رہی ہو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا !! بس تم سے کچھ باتیں اور پیار کرنے آیا ہوں۔۔"


اس کی کریہہ نظریں ارشما کے پورے وجود کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔ وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتی اندر کی طرف بھاگی۔۔۔ جلدی سے کمرے میں جاتے ہی اس نے اندر سے دروازہ بند کیا۔۔


اس نے چٹخنی چڑھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ ٹھاہ کی آواز سے کھلا۔۔ دھکا لگنے سے وه کچھ دور زمین پر جا گری۔۔۔


"ارے ارے میری بلبل تم تو ان چھوئی کلی لگ رہی ہو۔۔ لگتا ہے تمہارے گھاگ بھائی نے تمہیں زمانے سے چھپا کر رکھا ہوا ہے۔۔" پھر سے اپنے بھائی کی بات پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا ۔۔


آخر سب اس کے بھائی کے پیچھے کیوں پڑے تھے۔۔


کیا ہوا یوں حیرت سے کیا دیکھ رہی ہو ؟ کیا تم اپنے بھائی کی کرتوتوں سے واقف نہیں ؟ وہ شاطر پن سے بولتا مکروہ قہقہہ لگا گیا۔۔


کیا بکواس کر رہے ہو تم ؟ ہاتھوں کی مدد سے پیچھے ہٹی وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر

کر بولی۔۔


ب\*\*\*\* نہیں جانے من بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔۔ تمہارا بھائی ایک نہایت گھٹیا انسان ہے۔۔ لڑکیوں کو جال میں پھانس کر ان کے جسم سے کھیلنا تو اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔۔ جوا شراب غرض کون سی برائی ہے جو اس میں نہیں پائی جاتی ۔۔۔


جوں جوں وه کہتا جارہا تھا ارشما کے دل کی دھڑکن سست پڑتی جا رہی تھی۔۔ "جھجھ ۔۔۔جھوٹ بول رہے ہو تم !!"

وہ کانوں پر ہاتھ رکھے چیخی تھی۔۔۔


رانا کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی ۔۔ "اوہ تو تمہارے بھائی نے تمہیں اپنے گندے کردار سے بے خبر رکھا ہے۔۔۔"


اپنے بھائی کے بارے میں اتنے گھٹیا الفاظ سن کر وہ رونے لگی تھی۔۔


یقین نہیں آتا تو یہ دیکھو ۔۔۔ کہتے ہی اس نے موبائل پر ایک ویڈیو چلا دی جس میں وہ کسی لڑکی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ڈانس کر رہا تھا۔۔


وہ بے یقینی سے دیکھے گئی۔۔ اس وقت وہ یہ بھی بھول گئی کہ وه شخص زبردستی اس کے گھر میں گھس آیا تھا۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


اس نے آہستہ سے سر اٹھا کر دیکھا تو اینارا سو چکی تھی۔۔ وه آرام سے اٹھ بیٹھی۔۔۔ بلب کی روشنی میں اس نے وقت دیکھا۔۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔


اس کا دل معمول سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔ اورہان کی بات مانتی وه اپنے گھر والوں کو دھوکہ دینے جا رہی تھی۔۔۔ پسینے سے تر پیشانی کو اس نے ہاتھ کی مدد سے صاف کیا اور کمرے کے دروازے سے باہر جھانکا۔۔


شائستہ چارپائی پر بے خبر سوئی ہوئی تھیں۔۔ جبکہ عبدالمنان چھت پر جا کر سو چکے تھے۔۔ ان کے گاؤں میں اتنے وقت تک سب آدھی نیند پوری کر چکے ہوتے تھے۔۔۔۔


طے شدہ پلان کے مطابق وہ چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھک کر چاپ پیدا کیے بغیر آرام سے دروازه کھولتی باہر نکل آئی۔۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔ "میں بس مل کر واپس آ جاؤں گی، کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔"


خود کو تسلی دیتی وه جلدی سے سڑک کی طرف آئی جہاں وه پہلے سے موجود اس کا انتظار کررہا تھا۔۔ اسے آتے دیکھ کر وه مسرور ہوتا فرنٹ سیٹ کا دروازه کھول کر اسے دیکھنے لگا۔۔


وه جھجھک کر بیٹھ گئی۔۔۔ اس کے بیٹھتے ہی وه مزید وقت کا ضیاع کیے بغیر گاڑی چلاتا وہاں سے نکل آیا ۔۔۔۔ دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد اس نے حویلی بارود خانہ کے باہر گاڑی روکی تھی۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


یہ کیسی خوفناک جگہ ہے!! گاڑی سے اترتے ہی وه خوفزدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگی۔۔ ہر طرف سناٹا اور کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔


ریلیکس ہنی!! ڈر کیوں رہی ہو میں تمہارے ساتھ ہوں نہ؟ وه اسے گہری نظروں سے دیکھتا اس کا ہاتھ تھام کر گیٹ دهكیل کر اندر آیا۔۔


وه تھوک نگل کر اس کے ساتھ چلتی ارد گرد کا جائزہ لینے لگی۔۔ ایسا لگ رہا تھا وه کسی آسیب زدہ جگہ پر آ گئی ہے۔۔


نادان تھی وه جو کسی آسیب کے خیال سے خوف زدہ ہورہی تھی کیا انسان سے بڑا بھی کوئی آسیب ہے؟؟


اورهان نے اندر آ کر دروازه بند کیا اور لائٹس آن کر کے اسے لئے ایک کمرے میں آیا۔۔ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے وه کولڈ ڈرنکس لینے کے لیے کچن میں چلا گیا۔۔


وه سکڑ کر بیڈ کے کنارے بیٹھتی کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔۔ اندر سے اسکا دل کسی نازک چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا۔۔


حلق تر کرتے اس نے اندر آتے اورهان کو دیکھا جو ٹرے میں دو گلاس رکھے اسی کی طرف آ رہا تھا۔۔ ٹرے کو بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔۔


ازنا نے اسے اپنے قریب پا کر نظریں جھکا لیں۔۔


تم بہت خوبصورت ہو!!؛ وه اچانک سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے قریب کر گیا۔۔


او۔۔ر۔۔ہان!! وه جھجھک کر اس کا ہاتھ کمر سے ہٹا گئی۔۔۔


یہ ۔۔ ٹھیک نہیں ہے !! مم ۔۔ میں بس ۔۔ ملنے آئی ہوں آپ سے ۔۔۔ آ ۔۔ آپ دیکھنا چاہتے تھے نہ ۔۔۔!!

وه اسے ایک نظر دیکھتی انگلیاں چٹخا کر بولی۔۔۔


"ہاں دیکھنا چاہتا تھا لیکن دیکھوں کیسے تم تو اس بڑی سی چادر میں چھپی ہوئی ہو۔۔۔ اسے اتار دو۔۔۔!!!


اورهان کی بات پر وه ہچکچا کر اسے دیکھتی آہستہ سے چادر اتار گئی۔۔۔


اس نے اورهان کے کہنے پر سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔۔ دوپٹہ گلے میں رسی کی مانند پڑا تھا۔۔


وه گہری اندر تک اترتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔ ہاٹ!!!


اس کی گہری وجود کا طواف کرتی نظروں پر وه خود میں سمٹ گئی۔۔۔ گالوں پر سرخی ابھر آئی۔۔۔ دل دھونکنی کی مانند دھڑک رہا تھا۔۔۔


وه آنکھوں میں خمار بھرے اسے دیکھے گیا۔۔ حسن اور حیا کا ایسا حسین امتزاج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔۔ آج سے پہلے جو بھی لڑکیاں اسے مل چکی تھیں وه سب ماڈرن اور بولڈ تھیں۔۔


اس کے سرخ لبوں کو دیکھتا وه اس کی جانب جھکا ۔۔


اورهان !! وه گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مقابل کی آنكهوں میں پل کو سرد مہری آئی۔۔


کیا ہوگیا ہے جان میں تو بس تمہارے وجود کی دلکشی کو سراہ رہا ہوں!!! وه اس کے مقابل آتا ہاتھ کی پشت سے اس کے گال کی نرمی محسوس کرنے لگا۔۔۔


وه ڈر کر ذرا سا پیچھے ہٹی تو اب کی بار اسے غصہ آ گیا۔۔ "ٹھیک ہے مجھے پتہ چل چکا ہے تمهارے محبت کے سب دعوے جھوٹے تھے۔۔۔ جب تم مجھے اپنے قریب برداشت ہی نہیں کر سکتی تو۔۔" وه بات ادھوری چھوڑ گیا۔۔


باہر آ جاؤ میں واپس چھوڑ آتا ہوں تمہیں۔۔!!


وه کمرے سے نکلنے ہی لگا تھا کہ اس کی توقع کے مطابق ازنا نے جلدی سے آگے آتے اسکا بازو پکڑ کر روک دیا۔۔


"اورهان میں بہت محبت کرتی ہوں آپ سے ۔۔ لیکن یہ سب مجھے عجیب لگ رہا ہے۔۔۔ اگر کسی ۔۔۔۔ اس نے تھوک نگلا ۔۔۔۔مم ۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ وہ رو دینے کو ہوئی۔۔۔


ڈارلنگ تم میری ہو بہت جلد میں تم سے شادی کر کے تمہیں لے جاؤں گا۔۔۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا ٹرسٹ می!!


وه اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا اسے یقین دلانے والے انداز میں بولا۔۔۔


وہ ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرتی سر ہلا گئی ۔۔۔


اس کی رضامندی پر وہ بے پناہ خوش ہوتا اسے بانہوں میں بھر گیا۔۔۔


اس کے لمس پر وه پاگل کرتے دل کو بمشکل سنبهالتی اس کی گردن کے گرد بازو حائل کر گئی۔۔


اورهان نے اسے کسی قیمتی شے کی طرح احتیاط سے بیڈ پر بٹھایا۔۔ سائیڈ ٹیبل سے دو گلاس اٹھا کر ایک ازنا کی جانب بڑھایا جس میں شراب تھی۔۔۔


وه منہ بناتی اس عجیب و غریب مشروب کو حلق میں انڈیل گئی۔۔ اب وه مزید چوں چراں کر کے اورهان کو خود سے خفا ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔ جب کل بھی اسی کی ہونا ہے تو آج کیوں نہیں۔۔۔ خوش فہیوں کے جال بنتی وه اسے دیکھنے لگی جو اپنا کوٹ اتار کر اسکی طرف بڑھا تھا۔۔۔


(دد ۔۔ دور رہو مجھ سے ۔۔۔ رانا کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وه چیخی تھی۔۔ )


آرام سے دوپٹہ اس کے وجود سے الگ کرتا وه اسکے وجود کی رعنائیوں سے آنکھوں کو سیراب کرنے لگا۔۔


(وه مکروہ قہقہہ لگا کر آگے آیا تھا اور ارشما کو زمین سے اٹھا کر بیڈ پر پٹخا تھا۔۔ اپنی گندی نظریں اس کے وجود پر گاڑتا وه اسے لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔)


اس نے نرمی سے اس کے بالوں کو کان کے پیچھے اڑس کر جھکتے اس کے گال کو چوما تو وه شرما کر آنکھوں پر پلکوں کی جھالر گرا گئی۔۔


(ارشما کو بیڈ سے بھاگنے کی کوشش کرتے دیکھ کر اس نے اسے بالوں سے پکڑ کر جھٹکا دیا اور اس کے کومل گالوں کو اپنے كهردرے ہاتھوں کے تهپڑوں سے سرخ کر دیا۔۔۔ وه پوری قوت سے چیختی اس سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی۔۔)


وه اسکی گردن پر جھکا تو وه لہو چھلکاتے چہرے کے ساتھ رخ موڑ گئی۔۔ اس کی اس ادا پر وه محظوظ ہوتا قہقہہ لگا گیا جس پر وه شرما کر تکیے میں منہ چھپا گئی۔۔۔


(رانا نے اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر جھٹکے سے اپنے سامنے کیا اور اس کی گردن پر اپنی درندگی کے نشان چھوڑتا چلا گیا۔۔۔ اپنے نازک وجود پر اسکی درندگی برداشت نہ کرتے وه اسکی بانہوں میں لہرا گئی۔۔۔ اس معصوم کی اس ادا پر پاگل ہوتا وه اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر اپنا سایہ کر گیا۔۔۔)


اس کی بڑھتی شدتوں پر وه ہلکان ہوتی گہری سانسیں لیتی اس کے سینے پر ہاتھ رکھ گئی ۔۔۔ اورهان نے اس کی نیم وا آنکھوں میں دیکھتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کیے۔۔۔


(اس کے بے سدھ نازک وجود کو دیکھ کر رانا نے ایک جھٹکے سے اپنی شرٹ اتار کر دور پھینکی۔۔۔ اسے اپنی طرف جھکتے پا کر وه روتی ہوئی کمزور سا احتجاج کرنے لگی۔۔)


ازنا کے کاندھوں سے شرٹ کھسکا کر وه اس کے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑتا چلا گیا۔۔۔ باہر بهیگتی رات ان کے اعمال کی سیاہی کو اپنی تاریکی میں ضم کرتی پرسکوت ہوئی تھی۔۔

چھناکے کی آواز سے حویلی کے دالان میں لگا آئینہ ٹوٹا تھا۔۔۔ لیکن وه ہر شے کو فراموش کیے ایک دوسرے میں مگن تھے۔۔ اپنی کامیابی پر خوش ہوتا شیطان دبے قدموں کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔

(اسکی آہوں چیخوں کو نظر انداز کیے وه اس وقت حیوان بنا اس کے وجود کو تار تار کرتا گیا۔۔۔ اپنی حوس پوری کر کے جب وه کچھ ہوش میں آیا تو کچھ فکرمند ہوا۔۔۔ اس نے وقت دیکھا ۔۔۔ رات کے دو بج چکے تھے۔۔ جلدی سے دروازه کھول کر باہر آتے اس نے باہر دیکھا۔۔۔

ہر طرف ہو کا عالم تھا۔۔۔ بس یہی وقت تھا جس میں وه اپنی کرتوت پر پرده ڈال سکتا تھا۔۔۔ وه واپس آیا اور اسکی سانسیں چیک کیں جو بہت دهیمی چل رہی تھی۔۔۔ اسے لگا وه اب بس چند گھنٹوں کی مہمان ہے۔۔

وه اسے بستر کی چادر میں لپیٹ کر اٹھاتا باہر نکلا اور اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال کر جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔۔۔

قدرے سنسان علاقے میں آ کر اس نے گاڑی روکی اور اسے کوڑے کے ڈھیر میں چھپا کر واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتا وہاں سے نکل گیا۔۔ )

وہ اس کے برہنہ سینے پر سر رکھے شراب کے زیر اثر بے سدھ سو چکی تھی۔۔ اس کے وجود کو خود میں بھینچ کر وه کروٹ بدل گیا۔۔۔ اپنی كاميابی پر وه بے حد مسرور تھا۔۔۔ اس بات سے بے خبر کہ قسمت نے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا تھا۔۔۔

🌚🌚🌚🌚

اے بنتِ حوا تُو کن کی باتوں میں آ جاتی ہے؟

تیری عصمت کو رول کر یہ اسے اپنی چاہت کا نام دے دیتے ہیں۔۔۔ کیا تو اتنی نادان ہے جو ان کی باتوں میں آ جاتی ہے؟ اپنے بوڑھے ماں باپ کی عزت خاک میں ملا دیتی ہے؟ اپنے خالق کے فرمان کو بھلا کر شیطان سے یاری لگا لیتی ہے!! اے بنت حوا تو کن کی باتوں میں آ جاتی ہے؟؟

🌚🌚🌚🌚

"امی جان آپ !! آئیں نہ۔۔۔"

للّہ عارفہ کو کمرے میں آتا دیکھ کر وه مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ وه سنجیدہ سی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں تو وه بھی ان کے برابر بیٹھ گئی۔۔۔

کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں!!

وه ان کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر پوچھ بیٹھی۔۔

"نہیں پریشان تو نہیں یہ سوچ رہی تھی کہ پتہ ہی نہیں چلا اور میری بیٹی اتنی بڑی بھی ہوگئی ہے۔۔۔ " وه اس کے سر پر پیار کرتی ہوئی کہنے لگیں۔۔۔

ارے آج آپ کو یہ بات کیسے یاد آ گئی؟ وه ہستی ہوئی بولی۔۔

"تمہارے بابا سائیں نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے" انہوں نے جیسے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔

وہ چند لمحے تو نہ سمجھ آنے والے انداز میں انہیں دیکھے گئی۔۔۔ جب بات پلے پڑی تو بے يقینی سے انہیں دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ میں ابھی شادی نہیں کروں گی!!" قابو کرنے کے باوجود اسکی آواز بلند ہو گئی۔۔

عارفہ نے خوفزدہ نظروں سے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

انہوں نے جیسے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔ وہ چند لمحے تو نہ سمجھ آنے والے انداز میں انہیں دیکھے گئی۔۔۔ جب بات پلے پڑی تو بے يقینی سے انہیں دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔


"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ میں ابھی شادی نہیں کروں گی!!" قابو کرنے کے باوجود اسکی آواز بلند ہو گئی۔۔


عارفہ نے خوفزدہ نظروں سے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ "آہستہ بولو تمهارے بابا سائیں اور ماہ بیر باہر کھڑے ہیں کیوں اپنی جان کی دشمن بن رہی ہو!!" وه اسے آنکھیں دکھا کر بولیں تو وه تو جیسے ان کی بات سے سلگ ہی گئی۔۔۔


امی جان یہ زيادتی ہے میرے ساتھ میں کیوں چپ رہوں آخر کو یہ میری پوری زندگی کا سوال ہے!! وه آنکھوں کو بار بار جهپكتی ہوئی بولی۔۔


کونسی زيادتی ہوگئی تمهارے ساتھ ہم بھی تو سنیں۔۔۔!!! وه چوکھٹ میں آ کر کھڑے ہوتے ہوئے اسے سرد نظروں سے دیکھ کر بولے۔۔ للہ عارفہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔ وہی ہوا تھا جس کا انہیں ڈر تھا۔۔ آخر یہ لڑکی سمجھتی کیوں نہیں۔۔۔


مشائم نے ان کے پیچھے نمودار ہوتے ماہ بیر کو دیکھا جو کھوجتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے تھوک نگلا۔۔۔ یہی وقت ہے جب میں اپنے لئے آواز اٹھا سکتی ہوں۔۔ یوں خاموش رہی تو میری ساری زندگی جہنم بن جائے گی۔۔۔ ایک ان چاہے وجود کے ساتھ میں کیوں کر زندگی بسر کر سکتی ہوں جبکہ اب میرے دل میں کوئی اور بسیرا کر چکا ہے۔۔


"اب خاموش کیوں ہو جواب دو ہمیں" وه جو اپنے پیروں کو دیکھتی خیالات بننے میں مصروف تھی سید عبدالله شاہ کی بلند آواز پر ایک پل کو لرز گئی۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن سوا ہوئی تھی۔۔۔


"جج جی ۔۔۔ بابا سائیں مم ۔۔ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔" وہ آنکھیں بند کیے ایک سانس میں ہی کہہ گئی ۔۔


وه طیش سے اسکی جانب بڑھے کہ ماہ بیر نے جلدی سے آگے آتے انہیں روک دیا۔۔ "مشی بابا سائیں نے تمهارے بھلے کے لئے ہی یہ فیصلہ لیا ہے۔۔" وه نظروں ہی نظروں میں اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔


وه نم آنکھوں سے اسے دیکھے گئی۔۔۔ بھائی جان مجھے مجبور مت کریں پلیز!!! وه گہری سانس لیتی سپاٹ لہجے میں بولی۔۔


ماہ بیر نے حیرت سے اسکے بدلے انداز کو دیکھا تھا۔۔۔ اسکی مشی اتنی بے ڈر اور ہٹ دهرم تو نہیں تھی ۔۔۔


"کیوں نہیں کرنا چاہتی تم ابھی شادی ؟ ہاں !! تعلیم کی وجہ سے کہہ رہی ہو تم شادی کے بعد بھی جاری رکھ سکتی ہو" عبدالله شاہ حتی الامکان خود پر قابو پا کر بولے۔۔


یہ بات نہیں ہے!! وه سر جھکاتے ہوئے بولی تو ان کا غصہ پھر عود آیا۔۔۔


"مشی اپنی زبان سنبهال کر بات کرو۔۔ یہ یاد رکھو تم اپنے بابا سائیں سے بات کررہی ہو" عارفہ نے اسے ڈپٹ دیا۔۔۔


"کیا بات ہے پھر ہم بھی تو سنیں جس نے تمہیں تمهاری تمیز تک بھلا دی ہے۔۔" وہ مٹھیاں بھینچ کر داڑھے تو وه کانپ گئی۔۔ دو آنسو اس کی آنکھوں سے پهسل کر گرے۔۔


مم ۔۔ میں یہ ۔۔ شادی نہیں کر سکتی کیوں کہ ۔۔۔۔ وه رکی تو ماہ بیر نے بے چینی سے اسے دیکھا۔۔


"کیونکہ میں یوسف کو پسند کرتی ہوں۔۔۔"


"چٹاخ چٹاخ چٹاخ !!!"


عبدالله شاہ نے طیش سے آگے آتے پے در پے تین تھپڑ اس کے گال پر دے مارے۔۔ تھپڑ اتنے زبردست تھے کہ وه چند قدم پیچھے جاتی گرتے گرتے بچی۔۔


ماہ بیر شاک اور بے يقینی سے اسے دیکھے گیا۔۔ اس کے الفاظ جیسے کہیں کھو گئے تھے۔۔۔ عارفہ بھی حیرت سے مشائم کو دیکھتی سوچنے لگیں کہ آخر ان کی تربيت میں کہاں کمی رہ گئی تھی۔۔۔


"دیکھو اپنی بہن کی حرکتیں سیدہ ہو کر کیسے بے غیرتی سے ہماری ناک کے نیچے یہ گل کھلا رہی ہے۔۔ اور دو اسے چھوٹ،، ہوا لگ گئی نہ زمانے کی اسے بھی۔۔" وہ ماہ بیر کو دیکھتے بلند آواز میں بولتے چلے گئے۔۔


مشائم چہرے پر ہاتھ رکھے ہچکیوں سے رونے لگی۔۔۔ ماہ بیر نے افسوس سے اسے دیکھا۔۔ یوسف ؟ وه ایسا کیسے کر سکتا ہے ؟ وه سوچتا لب بھینچ گیا۔۔ مشائم پر ایک تیکھی نظر ڈال کر وه لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔


"سن لو کان کھول کر آج سے تمہارا باہر جانا بند!! نہ تم درس گاہ جاؤ گی نہ کہیں اور ۔۔ اگر مجھے پتہ چلا کہ تم نے قدم باہر نکالا تو تمھاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔ تم جیسی بے غیرت اولاد کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دینا چاہیے۔۔"


ان کی داڑھ پر وه تھر تھر کانپنے لگی۔۔


"اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لو تمهاری شادی وہیں ہوگی اور اب بہت جلد ہوگی؛؛؛ سمجھا دینا اسے!!!" عارفہ کو دیکھ کر درشتگی سے کہتے وه چادر جھٹک کر بھاری قدم اٹھاتے ہوئے کمرے سے چلے گئے۔۔


ان کے جانے کے بعد انہوں نے روتی ہوئی مشائم کو ایک نظر دیکھا اور بغیر ایک لفظ بھی کہے چلی گئیں۔۔۔


کمرے میں خاموشی پا کر وہ چہرے سے ہاتھ ہٹاتی نڈھال سی بستر پر اوندھی گر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔


🌚🌚🌚🌚


کھڑکی سے چھن کر آتی دھوپ اس کے چہرے پر پڑی تو اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں۔۔ سر میں شدید درد اٹھا تھا۔۔۔ آنکھوں کو بار بار جهپک کر وه اٹھ بیٹھی۔۔۔


اپنے آپ کو کسی اجنبی جگہ پر پا کر وه ایک پل کو حیران ہوئی۔۔۔ دماغ پر ذور ڈالنے پر گزری رات کے مناظر دماغ کی سكرین پر اجاگر ہوئے۔۔۔


یہ میں نے کیا کر دیا؟؟ وه گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ آہ!! اسکا پورا جسم دکھ رہا تھا۔۔۔ صص۔۔۔ صبح ہو گئی۔۔ اس نے پیشانی مسلی۔۔۔ گھر ۔۔ گھر جانا تھا رات کو ہی ۔۔۔ اب کیا کروں ۔۔ وه دوپٹہ گلے میں ڈالتی کمرے سے باہر آئی ۔۔


اورهان؟؟ اسکی آواز حویلی کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئی۔۔۔ وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتی آہستہ آہستہ چلتی اسے پکارنے لگی۔۔۔ اورهان کہاں ہیں آپ ؟ اس بار بھی اسکی پکار کہ جواب میں خاموشی چھائی رہی۔۔


اس کا دل کچھ غلط ہونے کے احساس سے زوروں سے دھڑکنے لگا۔۔ کچھ ہی دیر میں اس نے پوری حویلی چھان ماری لیکن وه اسے کہیں نظر نہ آیا۔۔


اس کے دل میں خدشات کے سانپوں نے اپنے پھن اٹھانے شروع کر دیے تھے۔۔ ایک خیال آنے پر وه کمرے میں واپس آئی۔۔۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنا موبائل پکڑ کر اسکا نمبر ڈائل کیا۔۔


دوسری جانب سے نمبر بند ہونے کی اطلاع نے اس کے دل میں اٹھتے خدشات کی تصدیق کردی۔۔۔ اس نے کانپتے ہونٹوں کو بھینچ لیا۔۔


دد ۔۔۔دھوکا ۔۔ دھوکا دیا مجھے۔۔ وه منہ پر ہاتھ رکھے سسک اٹھی۔۔ مم ۔۔ میں نے ۔۔ کیا کردیا۔۔۔ آہ!!! وه سائیڈ ٹیبل پر رکھی چیزیں ہاتھ مار کر گراتی چیخ اٹھی۔۔۔


تم ۔۔ تم سے پیار کیا میں نے اور تم نے ۔۔ استعمال کیا مجھے ۔۔۔ وه اپنے بال نوچتی زمین پر بیٹھتی بلکنے لگی۔۔


موبائل پر بیل بجی تو اس نے دھڑکتے دل سے دیکھا ۔۔ عبدلالمنان کی کال آ رہی تھی۔۔ اس نے موبائل کو یوں پرے پهینکا جیسے اسے کسی بچھو نے ڈنک مارا ہو۔۔


نہ جانے انکی کتنی كالز آ چکی تھیں لیکن موبائل سویچ آف ہونے کی وجہ سے وه جان نہیں پائی۔۔ اپنے آپ کو کوستی وه اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھ کر اس نے دماغ لڑایا۔۔


مم میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔ یہ سب تمہارا قصور ہے۔۔ ایسا ہی ہوا ہے۔۔ تم نے میرے ساتھ زبردستی کی ہے۔۔ یہی یہی کہوں گی میں ہاں ٹھیک ہے۔۔


اپنی چادر ڈھونڈ کر اپنے آپ کو مکمل ڈھانپتی وہ حویلی سے نکل آئی۔۔ اسے کچھ کچھ علم تھا راستوں کا۔۔ پوچھتے گچھتے وه بالاخر اپنے علاقے میں آ گئی۔۔ ڈرتے ڈرتے اس نے دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا۔۔


"اماں ؟؟ ازنا آ گئی ہے۔۔"


صحن میں پریشانی سے ٹہلتی اینارا نے اسے آتے دیکھا تو اونچی آواز میں بولتی شائستہ کو بلانے لگی۔۔


وہ اس کی پکار پر جلدی سے کمرے سے باہر آئیں۔۔۔ اس کے پاس آتیں وه اسے بازو سے پکڑ کر اندر لے گئیں۔۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ ان کے ساتھ کھینچی چلی گئی۔۔ اینارا نے کمرے کی چوکھٹ پر کھڑے اسے بلکتے دیکھا تھا۔۔


"کہاں تھی تو؟ ہاں ؟ بتا مجھے کہاں تھی۔۔ ہم سب پر کیا گزر رہی تھی کچھ خبر ہے تجھے؟ تیرا باپ تجھے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈ چکا۔۔ بولتی کیوں نہیں اب ۔۔" وه اسے جهنجھورتی ہوئی بولیں۔۔


اماں برباد ہوگئی تیری ازنا برباد ہوگئی میں!!! وه ان کے سینے سے لگی تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔۔

اینارا اپنی جگہ ششدر رہ گئی۔۔


کیا اول فول بول رہی ہے!! وه اسے پیچھے ہٹا کر دھڑکتے دل سے بولیں۔۔ کیا ہوا ہے تیرے ساتھ؟


مم ۔۔ میرا ۔۔ ریپ ہوا ہے!! وه بلک بلک کر روتی انہیں من گھڑت کہانی سنانے لگی۔۔ اصل میں رونا تو اسے اپنی کوتاہی اور بےوقوف بنائے جانے پر آ رہا تھا۔۔


اینارہ کی گرفت دروازے پر مظبوط ہوئی تھی جبکہ شائستہ نے بےیقین نظروں سے اسے دیکھا ۔۔ کوئی رات کو آ کر ان کی بچی کو گھر سے اٹھا کر لے گیا تھا اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔۔۔


اینارا نے کسی احساس کے تحت پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔ عبدلمنان اپنے بائیں بازو کو سہلا رہے تھے۔۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ شدید تکلیف میں ہیں۔۔۔ دفعتاً انہوں نے اپنے سینے کو مسلنا شروع کردیا۔۔۔ چند پلوں کا کھیل تھا۔۔ وه دیوار کا سہارا لیتے پورے قد سے نیچے گرے تھے۔۔


ابا !!! وه چیختی ہوئی باہر بھاگی تھی۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


اپنے ازلی مغرور انداز میں چلتا ہوا وه گھر کے دروازے کے سامنے آیا۔۔ دروازه لاک دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا۔۔ پاكٹ سے چابی نکال کر لاک کھولتا وه اندر آیا۔۔


تمام لائٹس آف دیکھ کر اسے ایک بار پھر سے حیرت ہوئی۔۔ کسی ملازم تک کا نام و نشان نہ تھا۔۔۔ ارشما؟ سیڑھیاں چڑھتا وه اسے پکارنے لگا۔۔


جواب نہ پا کر وه اس کے کمرے میں آیا جو خالی اسکا منہ چرا رہا تھا۔۔۔ اس نے موبائل نکال کر ہیڈ سرونٹ کو کال ملائی۔۔


ہیلو!! آج سب سرونٹس کدھر مر گئے ہیں۔۔ تم کیوں نہیں آئے آج ؟؟ کیا میں نے تم سب کو چھٹی دی تھی؟ وہ دانت پیس کر بولا۔۔


مقابل کے جواب پر اسکی آنکھوں میں حیرت در آئی۔۔ کیا ؟ دروازه صبح سے لاک تھا۔۔ میڈم نے کل تم سب کو واپس بھیجنے سے پہلے کچھ کہا تھا؟ اوکے اب میں آ گیا ہوں ۔۔۔ سب کو انفارم کر کے فورا پہنچو!!


موبائل بند کر کے وه دوبارہ نیچے آیا۔۔ اس نے سوچا ایک نظر نیچے والے کمروں کو بھی دیکھ لے۔۔ جونہی وه پہلے کمرے میں آیا کمرے کی بکھری حالت دیکھ کر چونکا۔۔ کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر موجود نہ تھی۔۔


اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ وه سرد نظروں سے کمرے کو دیکھتا باہر آیا۔۔ کچھ دیر بعد ملازم آ گئے ۔۔۔اس نے سب کو ایک لائن میں کھڑے کر کے باری باری سب سے کل کی بابت پوچھا۔۔


اوکے جاؤ تم سب اور ہاں اپنی زبان اور کان بند رکھنا ۔۔۔۔ وه انہیں دیکھتا درشتگی سے بولا تو وه حلق خشک کرتے وہاں سے جاتے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔۔


ان کے جانے کے بعد اس نے پیشانی مسلی۔۔ اس کے چہرے پر تفکرات کے سائے منڈلانے لگے تھے۔۔ اس نے باری باری اسکی سب دوستوں کو کال کی لیکن سب نے لا علمی کا اظہار کیا۔۔ اب کہ وہ صحیح معنوں میں پریشان ہوا تھا۔۔ آخر وه کہاں چلی گئی تھی۔۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔ وه اپنے آپ سے الجھ رہا تھا کہ موبائل کی سكرین پر رانا کا نام جگمگانے لگا۔۔


اس نے کچھ سوچ کر کال اٹھا لی۔۔ ہاں بولو ۔۔


دوسری جانب وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا۔۔ "کیسے ہو نہ سلام نہ دعا ۔۔ اچھا ہے بھئی!!!"


کام کی بات کرو میں مصروف ہوں۔۔!!

وه سپاٹ لہجے میں بولا تو رانا نے آنکھیں گھمائیں۔۔


تمہارے لیے ایک خبر ہے بابا !! سننا نہیں چاہو گے؟ اسکے معنی خیز انداز پر وه چونکا۔۔


بولو!! وہی لٹھ مار انداز ۔۔۔


اپنی بہن کا خیال رکھو بابا،،، ماہ بیر کے ارادے کچھ اچھے نہیں ہیں۔۔۔ رکھتا ہوں مصروف ہوں میں بھی۔۔!! اسے باور کرواتے اس نے کال کاٹ دی۔۔ اس کا کام تو ہو چکا تھا۔۔


دوسری جانب اورهان سرد نظروں سے سکرین کو گھورتا مٹھیاں بھینچ گیا۔۔ یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا۔۔


یہ تم نے اچھا نہیں کیا سلطان ماہ بیر شاہ ۔۔ وه آگ اگلتے لہجے میں پھنکارا تھا۔۔


🌚🌚🌚🌚


سفید حویلی کی آج چھب ہی نرالی تھی۔۔ پوری حویلی کو برقی قمقموں سے سجايا گیا تھا۔۔ موتیے کے پھولوں کی دل آویز مہک چاروں جانب سے پھوٹ رہی تھی۔۔


ملازمین میں بھگدر مچی ہوئی تھی۔۔۔ آخر کو سید محمّد عبدالله شاہ کی اکلوتی بیٹی کی شادی تھی کوئی معمولی بات تھوڑی تھی۔۔۔


وه اپنا پرانده جهلاتی ہوئی اپنے آپ کو مس بیوٹی سمجھتی آگے بڑھ چڑھ کر ہر کام میں حصہ لے رہی تھی۔۔


نگہت ؟؟ ہلکے رنگ کے نفیس سے لباس میں ساده سی عارفہ کسی کام سے ادھر آئیں تو اسے دیکھ کر پکار بیٹھیں۔۔۔


جی بڑی بی بی ؟؟ وه جلدی سے ان تک آئی۔۔


"جاؤ چھوٹی بی بی کو جا کر دیکھو تیاری مکمل ہوگئی کہ نہیں؟ کچھ دیر تک مہمان آنے لگیں گے۔۔"


جی بی بی جی !! میں ابھی جاتی ہوں۔۔


ادھر وه اپنے کمرے میں سنگهار میز کے سامنے بے جان مورت بنی بیٹھی تھی۔۔ آج اسکی مایوں تھی۔۔ یہ کیسی شادی تھی جس میں دل آباد ہونے کی بجائے مرده ہونے لگا تھا۔۔ ارمانوں کے بے رحم قتل پر اس کی ڈولی اٹھوائی جانے والی تھی۔۔ وه ویران آنکھوں سے آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔۔


پیلی سادھ کاٹن کی شلوار قمیض پر دیده زیب پھولوں اور سفید موتیوں سے مزين بھاری سا دوپٹہ اس کے سر کی زینت بنا ہوا تھا۔۔ بھوری دلکش بڑی بڑی آنکھوں میں كاجل کی باریک لكیر نے اسکی آنکھوں کو دو آتشہ کر دیا تھا۔۔


ایسی حسین آنکھوں میں ویرانی ۔۔ اگر اس وقت صالح یوسف اسکی آنکھوں کو دیکھ لیتا تو ضرور ان نینوں میں ڈوب جاتا۔۔ لیکن پھر بات ہی کیا تھی اگر وه دیکھ لیتا۔۔

اس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا اور براؤن لپ سٹک سے سجے ہونٹوں کے برابر پل کو ٹھہرا اور پھر ٹھوڑی سے نیچے لڑھک گیا۔۔۔ دفعتاً ساكن وجود میں حرکت ہوئی اور وه منہ پر ہاتھ رکھے سسکنے لگی۔۔۔

اس کے دل کی دنیا ہلا کر وه شخص کیسا بے خبر تھا۔۔ تمہاری جوگن تمهاری دیوانی پر کسی اور کے نام کی چھاپ پڑنے والی ہے۔۔ میری بے بسی دیکھو کہ میں خود کی ذات کو ختم بھی نہیں کر سکتی کیونکہ میرے عظیم بابا سائیں کی عزت کا سوال ہے۔۔

لوگوں کے لئے یہاں سے ڈولی اٹھے گی آہ !! لیکن در حقیقت یہاں سے میری میت اٹھے گی۔۔ جو میرے دل کے قبرستان میں دفنائی جائے گی۔۔

اس کا دل کررہا تھا کہ اتنا چیخ چیخ کر روئے کے سب کے دل چھلنی ہو جائیں۔۔ کوئی اسکی تکلیف کیوں نہیں سمجھتا ۔۔۔ خواہشات کی قبر پر پھولوں کی سیج نہیں سجائی جا سکتی۔۔ کاش کوئی سمجھ سکے۔۔ کاش!!

وه منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ذات سے جنگ کرنے میں مصروف تھی کہ نگہت کی آواز پر ہاتھ چہرے سے ہٹاتی آنسو پونچھنے لگی۔۔۔

ارے مشی بی بی آپ رو کیوں رہی ہیں آپ کو تو خوش ہونا چاہیے آخر کو آپ کی شادی جو ہے۔۔ کتنیییی سوہنی لگ رہی ہیں آپ ماشاءالله !!

آپ اداس نہ ہوں دیکھنا آپ کے وه آپ کو بہت خوش رکھیں گے۔۔

وه اپنی طرف سے اندازے لگاتی فر فر بولتی اسے سمجھانے لگی۔۔ "وه آپ کے سسرال سے بھی کچھ عورتیں آئیں گی جی ہلدی لگانے آپ ایسے مرجهائی سی نظر آئیں گی تو وہ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھیں۔۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر پیار سے بولی تو مشائم کی بس ہوئی تھی۔۔

وه اسکے گلے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ اسے اس قدر تڑپ تڑپ کر روتے دیکھ کر نگہت بھونچکا رہ گئی۔۔

تمہیں کیا بتاؤں کہ جس عشق کی نگری پر میرے قدم پڑ چکے ہیں وہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہیں۔۔ ایسی نگری جہاں کڑکتی دھوپ میں ننگے پیر چلنا پڑتا ہے۔۔ میں عشق نگر کی ایسی راہوں پر قدم رکھ چکی ہوں جو کبھی ختم نہیں ہوں گی۔۔

وه محض سوچ ہی سکی۔۔۔

🌚🌚🌚🌚

رات کی رانی اپنے پر پھیلا چکی تھی۔۔ ایسے میں وه سفید كلف لگی شلوار قمیض پر ہلکی بھوری شال کاندھوں پر ڈالے انتظامات دیکھنے لان میں آیا تھا۔۔ لان میں مردوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا جبکہ عورتوں کے لئے اندرون صحن میں نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔۔

ملازم کو راستہ صاف کرنے کا کہتے اسکی نگاہ اندر آتے صالح پر پڑی جو حیران نظروں سے چاروں جانب دیکھ رہا تھا۔۔ وه ابھی ابھی شہر سے لوٹا تھا۔۔ واپس آتے ہی وه سیدھا یہاں آیا تھا تا کہ شاہ سائیں سے مل لے اور جس کام کے لئے انہوں نے بھیجا تھا اس سے آگاہ کردے۔۔

لیکن یہاں آ کر تو اسے کچھ اور ہی دیکھنے کو ملا تھا۔۔ ایسا لگتا تھا یہاں کوئی تقریب ہے۔۔ خیر!!! اس نے سر جھٹکا۔۔

سیاہ پینٹ شرٹ میں ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے وه موبائل کی بیپ پر ایک پل کو رکا۔۔ بال ہٹنے سے پیشانی پر پڑے بل نماياں ہوئے تھے۔۔

وه لان میں ماہ بیر کو موجود پا کر وہیں آ گیا۔۔ ماہ بیر نے ایک سرد نظر اس پر ڈالی اور تمام ملازمین کو وہاں سے جانے کا اشارہ کرتے لان کی دوسری جانب آ گیا جہاں سے حویلی کی پچھلی جانب کو راستہ جاتا تھا۔۔

صالح نے بھی اسکی تقلید کی البتہ اسکا ذرا عجیب سا انداز اسے سمجھ نہیں آیا تھا۔۔ وه دونوں قدرے کونے میں آ کر رکتے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہو گئے۔۔۔

ماہ بیر ہونٹ بھینچے سرد نظروں سے اسے دیکھے گیا۔۔ اسکی سرمئی آنکھوں میں کچھ تو ایسا تھا جو صالح یوسف کو چونکا گیا۔۔

کیا ہوا شاہ سائیں سب ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات مکمل نہ ہونے پائی تھی۔۔

چٹاخ!!!زندگی میں پہلی بار سلطان ماہ بیر شاہ نے اپنے دوست،، اپنے ساتھی،، اپنے دستِ راست "صالح یوسف پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔


صالح نے بے يقینی سے اسے دیکھا تھا۔۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے لبوں کو حرکت دی لیکن الفاظ نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔۔


"تم پر میں نے سب سے زیادہ اعتبار کیا۔۔۔" سرد نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ماہ بیر نے کہنا شروع کیا۔۔ صالح آنکھوں میں دکھ لیے اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھے گیا جن میں آج اس کے لیے بے اعتباری تھی۔۔


"تمہیں اپنا دوست سمجھا میں نے یوسف تمہیں حویلی میں آنے کی اجازت دی کیونکہ خود سے زیادہ یقین تھا مجھے تم پر۔۔" سرمئی آنکھوں میں سرخ لکیر نماياں ہوئی۔۔


صالح خاموش سا اسے دیکھے گیا۔۔


اور تم نے کیا کیا ؟ تم نے میرے اعتبار کو ٹھیس پہنچائی ہے یوسف ۔۔۔ تم ۔۔۔ ماہ بیر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچیں۔۔ تم نے مشائم کو گمراہ کیا ہے ورنہ وه تو ہم سے نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتی تھی آج کس طرح دھڑلے سے تم سے اپنی محبت کا اقرار کررہی ہے وه بچی ہے اچھے برے کو نہیں سمجھتی لیکن تم تو عقلمند ہو تم نے کیا کیا ؟ ہاں !!؛


وه نچلے لہجے میں داڑھا تھا۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے سامنے کھڑے شخص کو دو اور جهانپڑ رسید کر دیتا۔۔۔ اس کی مشی تو ان باتوں سے کوسوں دور معصوم سی تھی۔۔ یوسف کی پیش قدمی کے بغیر وه ایسا قدم اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی۔۔


ان سب باتوں میں وه یہ نہ سوچ سکا کہ اسکا دوست اسکا ساتھی یوسف جو کسی لڑکی کو دیکھنا تک پسند نہیں کرتا وه یوں اپنے شاہ سائیں کی عزت پر کیسے ہاتھ ڈال سکتا ہے جس کے شفاف کردار کی گواہی کوئی بھی دے سکتا ہے وہ اسکو کیسے دھوکہ دے سکتا ہے۔۔


غصہ انسان کی عقل کھا جاتا ہے اور یہی اس وقت ماہ بیر کے ساتھ ہوا تھا۔۔


جبکہ صالح بت بنا کھڑا تھا۔۔ اسکے کردار پر کاری وار ہوا تھا۔۔ یہ کیسا الزام اسکی ذات پر لگایا جا رہا تھا۔۔ اگر سامنے کوئی اور ہوتا تو وه اسکی ہڈی پسلی ایک کر دیتا اس قدر گھٹیا الزام پر لیکن وه یوسف تھا اپنے شاہ سائیں کا ۔۔۔ جن کے لئے وه اپنی جان دے بھی سکتا تھا اور کسی کی جان لے بھی سکتا تھا۔۔


اس کی آنکھ سے ایک آنسو لڑھکا تھا۔۔ کیا نہ تھا اسکی سیاہ سرد آنکھوں میں اس وقت ۔۔ شکایت، گلہ، دکھ۔۔۔


ماہ بیر جو اسے غصے سے گھور رہا تھا اسکی آنکھ سے آنسو گرتا دیکھ کر ساکت رہ گیا۔۔۔


صالح نے اپنی صفائی میں ایک لفظ نہ کہا۔۔ جن اپنوں کو اپنی ذات کی صفائی پیش کرنی پڑے وہ کیسے اپنے ہوئے!!!


وه جھٹکے سے پلٹا تھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔


یوسف؟؟؟ ماہ بیر نے بے چینی سے اسے پکارا ۔۔ لیکن ۔۔

زندگی میں پہلی بار صالح یوسف نے اپنے شاہ سائیں کی پکار کو نظر انداز کیا تھا۔۔ وه سب سے خفا بس سب سے دور چلا جانا چاہتا تھا۔۔


اسے جاتے دیکھ کر ماہ بیر لب بھینچ گیا۔۔ خود پر قابو پا کر وہ اندر چلا آیا ۔۔۔ مہمان آنے لگے تھے۔۔ راستے میں آتے مہمانوں سے ملتا وه مشائم کے کمرے میں آیا جہاں وه بت بنی بیٹھی تھی۔۔


آنسو اسکی آنکھوں سے لڑی کی صورت بہہ رہے تھے۔۔ ماہ بیر کو آتے دیکھ کر وه منہ پھیر گئی۔۔ اسے یوں منہ پھیرتے دیکھ کر وه لب بھینچ گیا۔۔۔


تم سے کچھ پوچھنے آیا ہوں مجھے صحیح جواب دینا!!! وه پشت پر ہاتھ باندھ کر بولا۔۔ وہ جواباً خاموش رہی۔۔


کیا یوسف بھی شامل تھا اس سب میں ؟؟ وه حتی الامکان لہجے کو نارمل بنا کر بولا۔۔


وه چونکی تھی۔۔ کیا کچھ ہوا تھا؟ وہ دل ہی دل میں بے چین ہوئی۔۔ نہیں!!! اسے علم نہیں ۔۔۔ وه بے رخی سے بولی تو وه چند لمحے خاموش رہا۔۔


پھر سر ہلا کر جس طرح آیا تھا پلٹ گیا۔۔۔ اس کے جانے کے بعد وه پھر سے اپنی محبت کے بے موت مارے جانے پر ماتم کرنے لگی۔۔


🌚🌚🌚🌚


اینارا نے کسی احساس کے تحت پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔ عبدلمنان اپنے بائیں بازو کو سہلا رہے تھے۔۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ شدید تکلیف میں ہیں۔۔۔ دفعتاً انہوں نے اپنے سینے کو مسلنا شروع کردیا۔۔۔ چند پلوں کا کھیل تھا۔۔ وه دیوار کا سہارا لیتے پورے قد سے نیچے گرے تھے۔۔


ابا !!! وه چیختی ہوئی باہر بھاگی تھی۔۔۔ اس کی چیخ پر شائستہ سرعت سے باہر آئیں۔۔ اپنے شوہر کو یوں زمین پر گرے دیکھ کر ان کا كلیجہ منہ کو آیا تھا۔۔ وه بجلی کی سی تیزی سے ان کے پاس آئیں ۔۔ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتی وه ان کا چہرہ تهپتهپانے لگی۔۔


آنکھیں کھولیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو جواب دیں ؟ اینارا جا کسی کو بلا کر لا جلدی جا۔۔۔ وه روہانسی ہوتیں بلند آواز میں بولیں تو وہ روتی ہوئی باہر بھاگی۔۔۔


پیچھے وه دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے ابا کو یوں بے سدھ پڑا دیکھ رہی تھی۔۔ اسکی ہمت نہ ہوئی کہ آگے جا کر اپنی روتی ماں کو دلاسہ دے سکتی کیوں کہ ان کی اس حالت کی ذمہ دار وہی تو تھی۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


ہسپتال کے سرد کاریڈور میں وه لب سیے بیٹھی تھی۔۔ اس کے برابر بیٹھی شائستہ مسلسل زیر لب تسبیح پڑھ رہی تھیں۔۔ عبدلمنان کو شدید قسم کا ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔ کسی ہمسائے کی مدد سے وه انہیں ہسپتال لے آئے تھے۔۔ انہیں فوری طور پر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔۔ تب سے وه سنسان سرد کوریڈور میں بیٹھیں ان کی سلامتی کے لیے دعا گو تھیں۔۔۔


ان سے کچھ فاصلے پر کھڑی اینارا دور خلاؤں میں کہیں گھور رہی تھی۔۔۔ اسکی آنکھوں کے کنارے سوجھے ہوئے تھے۔۔ خشک لب آپس میں پیوست تھے۔۔۔ اچانک وه سیدھی ہوئی اور چلتی ہوئی ازنا کے برابر آ بیٹھی۔۔


اسکے بیٹھنے پر ازنا نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔ اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔۔۔


وه کون تھا؟ اینارا نے ناک کی سیدھ میں دیکھتے سرد لہجے میں پوچھا تھا۔۔


مم مجھے نہیں پتہ کک۔۔۔ کون تھا وه!! وه حلق تر کرتے بولی تو اینارا نے اسکی جانب دیکھا۔۔


ہمارے گھر کیسے آ گیا ۔۔ تم نے دیکھا تو ہوگا نہ اسے ؟؟ مجھے بتاؤ۔۔۔ وه ہنوز اسی انداز میں بولی۔۔


ازنا کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تو وه نرم لہجے میں بولی۔۔ "دیکھو ازنا تم بتاؤ گی نہیں تو ہم اسے سزا کیسے دلوائیں گے۔۔ کیا تم نہیں چاہتی کہ اس شخص کو اس کے کیے کی سزا ملے ؟؟"


اسکی بات پر ازنا کی آنکھوں میں اورهان کے لئے نفرت آئی۔۔ ہاں وه چاہتی تھی کہ اسے سزا ملے اس جیسے انسان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہی۔۔۔ اس سب میں وه یہ بھول گئی کہ اگر اورهان پر نام آیا تو وه خود بھی پهنسے گی۔۔۔


مم میں زیادہ کچھ نہیں جانتی اس کے بارے میں ۔۔۔ اسکا نام اورهان ہے۔۔ اس نے اٹک اٹک کر کہنا شروع کیا۔۔ وه مجھے حویلی لے گیا تھا۔۔ بارود خانہ والی۔۔۔


اسکی بات پر اینارا چونکی۔۔ اچھا!!! وه کیسا دکھتا تھا؟؟


اس کی نیلی آنکھیں ہیں اور ۔۔۔ وه سوچ سوچ کر بتانے لگی۔۔۔ کچھ دیر بعد دونوں خاموش ہوگئیں۔۔۔


اینارا کا دل تڑپ گیا تھا ۔۔۔ اپنے ابا کی لاڈلی وه انہیں اس حال میں دیکھ کر بہت تکلیف میں تھی۔۔۔ دفعتاً آئی سی یو کا دروازه کھلا اور ڈاکٹر باہر آیا۔۔۔


وه تینوں سرعت سے اس کی طرف گئیں۔۔۔ ڈاکٹر کیسے ہیں میرے شوہر اب؟ وه خوف اور امید کی ملی جلی كیفيت سے ڈاکٹر سے پوچھنے لگیں۔۔


آئی ایم سوری ہی از نو مور!!! ڈاکٹر ترحم سے انہیں دیکھتا چلا گیا۔۔


کیا تم نے وه تکلیف محسوس کی ہے جب لگتا ہے کہ کوئی تمهارے دل کو مٹھی میں بھینچ رہا ہو۔۔


اینارا کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔۔ اس نے چیخ چیخ کر رونا چاہا لیکن آواز دم توڑ گئی۔۔ اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرہ چھایا اور وه لہرا کر نیچے گری۔۔


🌚🌚🌚🌚


اسکی آنکھ مسلسل بین کی آواز پر کھلی تھی۔۔ اس کے حواس بحال ہوئے تو وه ننگے پیر باہر بھاگی۔۔ صحن میں میت پڑی تھی جس کے پاس اسکی ماں اور بہن بلک بلک کر رو رہی تھیں۔۔ آس پاس بیٹھی عورتیں انہیں دلاسہ دے رہی تھیں۔۔


وه بے تاثر چہرے کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور میت کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور کفن کے اوپر سے ان کے سر پر پھیرنے لگی۔۔۔


"ابا کتنا سوئیں گے آپ؟ اٹھ جائیں نہ دیکھیں اماں اور ازنا رو رہی ہیں۔۔" وه معصومیت سے ان کے سر سے کفن ہٹا کر انہیں دیکھنے لگی۔۔


جواب نہ پا کر وه ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔ "ابا اٹھیں نہ میں بلا رہی ہوں آپ کو اٹھ بھی جائیں اپنی این کی بات نہیں مانیں گے آپ؟؟


ایک عورت منہ پر ہاتھ رکھے اس کے پاس آئی۔۔ میری دھی تیرا باپ اس دنیا سے جا چکا ہے!!


اس عورت کی بات پر اس نے خوف سے انہیں دیکھا تھا۔۔ نن ۔۔۔نہیں ۔۔۔ ابا !!! وه چیخی تھی۔۔


اٹھ بھی جائیں سب جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔ وہ اونچی اونچی رونے لگی تھی۔۔


یہ سب اس کلموہی کی وجہ سے ہوا ہے باپ کو کھا گئی!!! کسی عورت نے ازنا کو دیکھ کر کہا تو خوف سے اسکا چہرہ سفید پڑ گیا۔۔


"نن نہیں ۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔" وه بلکتے ہوئے بولی تھی۔۔۔


باپ کے سر میں خاک ڈال کر کہتی ہے میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔ وه عورت مجمع میں بیٹھ کر اسکی ذات کے پر خچے اڑانے لگی۔۔


وہ کانپتی ٹانگوں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ بغیر کسی کو دیکھے وہ اندر بھاگی تھی۔۔ اندر جا کر اس نے دروازه بند کر لیا۔۔


اینارا نے سرعت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔ کسی احساس کے تحت وه اٹھی۔۔ کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی ہوتی وه دروازه بجانے لگی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔۔


ازنا دروازہ کھولو۔۔!! بولتی ہوئی وه کھڑکی والی سائیڈ پر آئی۔۔ لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔۔


اس نے ہاتھ بڑھا کر کھڑکی کھولی تو جو منظر اسے نظر آیا اس نے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔۔۔ اندر کمرے میں وه گردن میں دوپٹہ باندھے پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی۔۔ اس کے ہاتھ پیر ہل رہے تھے۔۔ یوں جیسے وه تڑپ رہی ہو۔۔


اماں !! وه چیختی ہوئی دوبارہ دروازه دهكیلنے لگی۔۔ کھولو دروازه کوئی کھول دو ۔۔۔


اسکی چیخوں پر دو آدمی جلدی سے اندر آئے تھے ان کے پیچھے شائستہ دوڑتی ہوئی آئی تھیں۔۔ دونوں آدمیوں نے دروازے کو زور سے دهكیلا۔۔ دوسرے وار میں دروازه کھل گیا ۔۔ وه جلدی سے اندر آئے اور سامنے اسے پنکھے سے لٹکا دیکھ کر جلدی سے نیچے اتارا۔۔


اینارا جلدی سے اس کے پاس آئی ۔۔ اس نے دھڑکتے دل سے ہاتھ اٹھایا اور اسکی ناک کے پاس لے آئی۔۔ اس کا ہاتھ بے جان ہو کر گرا تھا۔۔ ازنا کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔۔


پورے گھر میں قہرام برپا ہوگیا۔۔ ایک ساتھ دو دو میتیں پڑی تھیں۔۔ شائستہ کا تو کوئی حال نہ تھا۔۔ ان کی جیسے کمر ٹوٹ گئی تھی۔۔ سب ترحم سے انہیں دیکھ رہے تھے۔۔


جنازہ اٹھانے کا وقت آیا تو اینارا میت سے لپٹ گئی۔۔ چھوڑو ۔۔ چھوڑو انہیں ۔۔۔میرے ابا ہیں ۔۔ وه بھاگ کر دوسری جانب آئی۔۔ میری بہن کو کہاں لے کر جا رہے ہو ؟ ابا ؟؟ وه ان کی چارپائی سے لپٹ کر تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔۔


کچھ عورتوں نے آگے آ کر مشکل سے اسے قابو کیا۔۔ اسکے یوں تڑپنے پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔۔ شائستہ حواس کھوتیں بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔۔


کلمہ پڑھا گیا اور ان کی میت کو کاندها دے کر اٹھایا گیا۔۔ وه زمین پر بیٹھتی چیخنے لگی۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے وه میت کو اٹھائے قبرستان کی طرف چلے گئے۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه کھلی کھڑکی کے قریب ساکت مجسمہ بنی کھڑی تھی۔۔ اسکی لانبی گهنی زلفیں ہوا کے زور پر ادھر ادھر لہرا رہی تھیں۔۔ نارنجی لهنگے چولی میں ملبوس وه کوئی اپسرہ لگ رہی تھی۔۔ بناؤ سنگهار سے بے نیاز اسکے چہرے پر سرد مہری تھی۔۔ لب جیسے صدیوں سے جامد ہوں۔۔ ٹھنڈی ہوا کے سرد جھونکے اسے ٹھٹھرنے پر مجبور کررہے تھے لیکن وه لا پرواہ بنی کب سے وہیں کھڑی تھی۔۔


کھڑاک کی آواز آئی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ بیوٹیشن اندر داخل ہورہی تھی۔۔ اس کے منہ پر ناگواری چھا گئی۔۔


میڈم آئیں آپ کو تیار کر دوں!!! مشائم کو اپنی جگہ جما ہوا دیکھ کر وه جھجھک کر بولی۔۔

بے تاثر چہرے سے اسے دیکھتی وه آئینے کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ اس کے بیٹھنے پر بیوٹیشن شکر کا سانس بھرتی، پھرتی سے ہاتھ چلاتی اسے تیار کرنے لگی۔۔۔ اسکی مانگ میں پھولوں سے بنا ٹیکا سجا کر وه پیچھے ہٹی۔۔۔

واؤ بیوٹیفل!! وه بے ساختہ اسکی تعریف کر گئی جو بلکل گڑیا سی لگ رہی تھی۔۔۔ نازک گڑیا جسے اپنی مرضی سے کبھی بہت پیار سے سنبهال کر رکھا جاتا ہے اور کبھی نہایت بے دردی سے پھینک دیا جاتا ہے۔۔

کچھ دیر بعد اسے چند لڑکیوں کے نرغے میں اس جگہ لایا گیا جہاں عورتوں کے لئے مهندی کے فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔ اسے پھولوں سے سجے جھولے پر بٹھا دیا گیا۔۔

ماشاءالله!!! بہت سے لبوں سے صدا بلند ہوئی تھی۔۔ وه نظریں جھکائے گود میں دھرے اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔۔ اس نے مهندی نہیں لگوائی تھی۔۔ جب دل ہی مر گیا ہو تو۔۔۔۔

آنسو پلکوں کی باڑ تور کر نکلنے کو بیتاب ہوئے تھے۔۔ اس نے آنکھیں جهپک کر انھیں بہنے سے روکا تھا۔۔

للّہ عارفہ شال ایک کندهے پر ڈالے سر کو دوپٹے سے ڈھکے نفیس سے لباس میں ہلکی پھلکی تیار اس کے پاس آئیں۔۔

"ماشاءالله!!! اللّه نظر بد سے بچائے۔۔ میری بیٹی تو آج فلک سے اتری کوئی حور لگ رہی ہے۔۔" ان کی بات پر وه تلخی سے ہنسی تھی۔۔

بھیگی آنکھیں اور لبوں پر مسکراہٹ!!! کس قدر تکلیف میں تھی وه لیکن خیر۔۔۔ اس نے سر جھٹکا۔۔

مهندی کی رسم شروع کردی گئی۔۔ ماہ بیر نے قدرے دور کھڑے ہو کر اسے دیکھا تھا۔۔ کتنی بڑی ہوگئی ہے اس کی مشی۔۔ اس کے لبوں پر اداس مسکراہٹ تھی۔۔ وه سیاہ شلوار قمیض میں سیاہ ہی شال اوڑھے کتنوں کی نگاہوں کا مرکز بے نیاز بنا کھڑا تھا۔۔

دفعتاً کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا تھا۔۔ وه اس افتاد پر پلٹا تو اسکی آنکھیں سرد ہوئیں۔۔ اس نے جھٹکے سے اپنا بازو اورهان کی گرفت سے چھڑایا جو اس سے زیادہ غیض و غضب سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

اسکی نیلی آنکھوں میں لال ڈورے نماياں تھے۔۔۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ زوردار گھونسا ماہ بیر کے منہ پر مارا تھا۔۔

ماہ بیر نے جواباً اسے زوردار دھکہ دیا اور بازو سے پکڑتا قدرے سنسان حصے میں آ گیا۔۔ وه مہمانوں کے سامنے کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا۔۔

اورهان دوبارہ طیش سے اسکی طرف بڑھا اور اسکے کالر کو مٹھیوں میں جکڑ کر داڑھا۔۔ میری بہن کدھر ہے؟؟

ماہ بیر کی بس ہوئی تھی اس نے اب کی بار اسے دھکا دیتے پوری قوت سے اس کے منہ پر گھونسا مارا۔۔ "تمهاری بہن ہے تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ وه کہاں ہے!!"

وه بھی گرجا تھا۔۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے اسے سرد نظروں سے دیکھ کر کہا تو اورهان نے خود پر قابو کرتے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔

"یہ ڈرامے کسی اور کے سامنے کرنا مجھے سچ سچ بتاؤ میری بہن کو کہاں غائب کروایا ہے تم نے ؟ بتاؤ کیا کیا ہے اس کے ساتھ تم نے ؟؟"

ماہ بیر نے اسے یوں دیکھا جیسے اسکا دماغ ہل گیا ہو۔۔ "کیا بکواس کررہے ہو تمہاری بہن ہے کون مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ اور ایک بات یاد رکھو سلطان ماہ بیر شاہ، میر اورهان صمید نہیں ہے جو ایسی اوچھی حرکتیں کرے گا۔۔ اور اب نکلو یہاں سے بہت بکواس کرلی تم نے اور یہ سب برداشت کر لیا میں نے۔۔

اس نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا۔۔ "اگر میں نے گارڈز کو بلا لیا تو تم زندہ سلامت یہاں سے جا نہیں سکو گے۔۔" اسے درشتگی سے کہہ کر وه پلٹا تو اورهان بھی لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل آیا۔۔

ایک بات اس کے دماغ میں بیٹھ گئی تھی۔۔ ماہ بیر نے نہ ارشما کو دیکھا نہ کبھی ملا۔۔۔ نہ ہی کبھی وه میرے گھر آیا۔۔ پھر وه کیسے اسے اغوا کر سکتا جب کہ آس پاس کے لوگوں کے مطابق وه پچھلے چند دن سے خضدار سے باہر نہیں گیا۔۔

وه الجھ گیا تھا اس لئے وہاں سے چلا آیا ورنہ وه ایسی بلا تھا جو آسانی سے نہیں ٹلتی۔۔۔

سرد ٹھٹھرتی رات میں وه کھلے آسمان تلے بچھی چارپائی پر بازوؤں کا تکیہ بنائے چت لیٹا تھا۔۔ شرٹ سے بے نیاز وه جیسے اس وقت پتهر کا ہوا تھا جسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔۔ وه جب سے آیا تھا خاموش تھا۔۔ انجم بول بول کر تھکتی تلملاتی جا چکی تھیں۔۔ آخر ان کی بات کا اسے اثر کہاں ہونا تھا۔۔


وه دوبارہ باہر آئیں اور اسے چادر تهما گئیں۔۔ اتنی ٹھنڈ میں وه بغیر قمیض کے کھلے آسمان تلے لیٹا تھا کچھ بھی ہو ماں تھیں وه اس لیے اسکے لئے فکرمند تھیں کہ کہیں بیمار نہ ہو جائے۔۔ ایک ہی تو اولاد تھی ان کی وه بھی رب نے چن کر دی تھی۔۔


ان کے جانے کے بعد اس نے چادر پیروں کی طرف پھینک دی۔۔ اور پھر سے چت لیٹ گیا۔۔ بازو سر کے نیچے رکھنے سے پھولے مسلز اور نماياں ہوئے تھے۔۔ کسرتی سینہ ٹھنڈ سے سرخ ہوا تھا۔۔


ماتھے پر لا پرواہ انداز میں بکھرے سیاہ سلكی گھنے بال جو ہلکی سرد ہوا سے اڑتے اور پھر اسکی پیشانی کو بوسہ دینے لگتے۔۔ ماتھے کے بل ہنوز قائم تھے۔۔ عنابی لب سختی سے آپس میں پیوست تھے۔۔


اس کی سیاہ سرد نگاہیں آسمان پر تیزی سے آگے جاتے گهپ سیاہ بادلوں پر مركوز تھیں۔۔ جبکہ ذہن میں ماہ بیر کی باتیں گردش کررہی تھیں۔۔


اس نے کنپٹی مسلی۔۔ اس نے ایسا کیوں کہا میرے بارے میں؟ جبکہ ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے!!! اسے سوچ کر ہی عجیب لگا تھا۔۔


اس کی سیاہ سرد آنکھوں میں سرخی نمایاں ہوئی۔۔ آپ نے اچھا نہیں کیا بی بی بہت غلط کیا!! وه خیالات میں اس سے مخاطب ہوتا جبڑے بھینچے اٹھ بیٹھا۔۔


اس نے پیر نیچے اتار کر چپل پہنی اور وہیں کچھ فاصلے پر ٹہلنے لگا۔۔ محض ٹراؤزر زیب تن کیے وه رات کے اس پہر جب سب سو چکے تھے تنہا سرد فضا میں ٹہل رہا تھا۔۔ ہوا کے تهپیرے اس کے جسم پر پڑتے اس پتھر وجود کو ٹھٹھرا دینے کی کوشش میں ہلکان نظر آتے تھے۔۔


شاہ سائیں آپ تو جانتے تھے مجھے کئی برسوں کا ساتھ ہے ہمارا۔۔ آپ تو اپنے یوسف کی رگ رگ سے واقف تھے پھر کیوں کر آپ نے اتنی بڑی بات کہہ دی۔۔ اس کا دل وه سب یاد کرتے پھر سے چھلنی ہوا تھا۔۔


لیلائی شب بدلیوں کو اپنی بانہوں میں چھپاتی اپنی گهنیری معشوقی زلفیں کھولنے لگی تھی۔۔ وه پھر سے جا کر چارپائی پر لیٹ کر کروٹ پر کروٹ بدلنے لگا کیونکہ نیند تو اب اسے آنی نہیں تھی۔۔۔


🌚🌚🌚🌚


ہاہاہاہا!!!! شراب کی بوتل ہاتھ میں تھامے وه قہقہے پر قہقہہ لگا رہا تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں سر مستی تھی۔۔ ویل ڈن رانا ،،، ویل ڈن !!! اس نے اپنے آپ کو شاباشی دی۔۔


ہاہاہا کیسا بے وقوف بنایا تمہیں "میر اورهان صمید" تم دونوں کو آپس میں لڑوا دیا۔۔ اسے کہتے ہیں "چالباز کھلاڑی۔۔" اسکی آنکھیں چمکی تھیں۔۔


اب میں آرام سے بیٹھ کر تم دونوں کا تماشہ دیکھوں گا۔۔ میر ۔۔۔ اورهان ۔۔۔دی گریٹ !! وه پھر سے قہقہہ لگا گیا۔۔ تم کبھی جان ہی نہ پاؤ گے کہ تمہاری بہن کے ساتھ ہوا کیا ہے اور کیا کس نے ہے۔۔


شاطر پن سے مسکرا کر وه لہک لہک کر گاتا شراب کی بوتل منہ سے لگا گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه کچن کا کام نبٹا کر ابھی ابھی فارغ ہوئی تھی۔۔ ہاتھ دھو کر دوپٹے سے پونچھ کر وه عادتاً پرانده جهلاتی ہوئی صحن میں آئی اور چاروں جانب کا جائزہ لیتی کمروں کی طرف جاتی راہداری پر آئی۔۔ ابھی وه آگے جاتی کہ مشائم کے کمرے کا دروازه کھلا۔۔


نرم و نازک گلابی ہاتھ باہر آیا اور اسے کھینچتا اندر لے گیا۔۔ نگہت نے دہل کر دل کے مقام پر ہاتھ رکھا۔۔۔


مشی بی بی یہ کیا تھا؟ آج تو آپ نے مجھے سیدھا اوپر پہنچا دینا تھا وہ بھی بغیر ٹکٹ کے۔۔


وه دروازه بند کرتی مشائم کو دیکھتی نان اسٹاپ شروع ہوگئی۔۔ مشائم پلٹی تو اسکی بھیگی آنکھوں کو دیکھ کر اس کے دل کو دھکا لگا۔۔


آپ رو کیوں رہی ہیں جی؟ مجھے سچ سچ بتائیں سب ٹھیک ہے نہ؟؟ وه تفكر سے اسے دیکھتے بولی۔۔۔


مشائم خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ دفعتاً اسکی انکھوں سے آنسو قطرہ قطرہ گرنے لگے۔۔ میری مدد کردو پلیز!! وه روتی ہوئی اسکے سامنے ہاتھ جوڑ گئی۔۔۔


نگہت تو جیسے ہکا بكا رہ گئی۔۔۔یہ۔یہ کیا کررہی ہیں آپ ؟ادھر آئیں۔۔ بیٹھیں ۔۔۔ وه اسے لئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔


"بی بی مجھے نہیں پتہ کہ ہوا کیا ہے لیکن آپ مجھ پر اعتبار کر سکتی ہیں۔۔" وه سچائی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔۔۔


کیا وه اس پر اعتبار کر سکتی تھی۔۔؟ دل نے اثبات میں جواب دیا تھا۔۔ مشائم نے مختصراً اسے سب بتا دیا۔۔


نگہت پہلے تو دنگ رہ گئی۔۔ پھر اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔ "ہائے سچی مجھے تو یقین نہیں آ رہا آپ اور وه کھڑوس!!" اسکی بتیسی نکلی۔۔۔


"آہستہ بولو کوئی سن لے گا۔۔" مشائم نے اسے سرزنش کی تو وه زبان دانت تلے دبا گئی۔۔


"ساری ساری!!!"


پچھلے تین دنوں میں پہلی بار مشائم کے چہرے پر ہلکی سی مسكان نے چھب دکھلائی۔۔ "سوری" ہوتا ہے نگہت۔۔!!


وہی وہی ۔۔ نگہت نے لا پرواہی سے ہاتھ جھٹکا۔۔ اچھا بی بی اب مجھے یہ بتائیں میں آپ کی مدد کس طرح کر سکتی ہوں۔۔۔ وه سنجیدگی سے بولی۔۔


آج اپنی مشی بی بی کے لئے وه کچھ بھی کرنے کو تیار تھی آخر کو ان کا حق ہے ایسے کیسے زبردستی کر سکتے ہیں بڑے سائیں ان کے ساتھ اور ماہ بیر سائیں ہونہہ!!


کتنے سوہنے لگتے تھے مجھے آپ اب سے آپ پر سے میرا "كرس" ختم ۔۔ فینیسسسسس!!


"مجھے یوسف سے ملوا دو کسی طرح بھی۔۔۔" وه آس بھری آنکھوں سے اسے دیکھتی بولی۔۔


پہلے تو نگہت منع کرنے لگی کہ یہ خطرناک کام تھا کسی کو بھی بھنک لگ جاتی تو دونوں کا کیا حال ہوتا لیکن پھر اسے اپنی طرف امید سے دیکھتے پا کر جی کڑا کر کے بولی۔۔


"یہ بھی کوئی بات ہے ملوا دیتی ہوں" حالانکہ اندر سے وه خود ڈر رہی تھی۔۔ اسکی بات پر مشائم خوشی سے اس کے ہاتھ تھام گئی۔۔۔


تھینک یو!! لیکن تم ملواؤ گی کیسے مجھے وہ حویلی میں نظر نہیں آیا دو تین دن سے۔۔ اسے نئی فکر نے آن گھیرا۔۔


جی بی بی دیکھا تو میں نے بھی نہیں ایسا کبھی ہوا تو نہیں کہ وه کھڑوس یہاں نہ آئے ضرور کچھ ہوا ہے۔۔ وه بھی سوچ میں پڑ گئی۔۔۔


آئیڈیا!! نگہت کے اچھل کر کہنے پر وه بھی ڈر کر اچھل پڑی۔۔۔ اس نے جلدی سے دروازے کی چٹخنی چڑھائی۔۔۔


ہاں بتاؤ۔۔۔!!! وه غور سے اسکی بات سننے لگی۔۔


اگر وه یہاں نہیں آیا تو مطلب وه اپنے گھر ہوگا مطلب گاؤں میں۔۔ اندازہ لگا رہی ہوں ۔۔ ہو سکتا ہے وه ہمیں گھر نہ ملے لیکن رسک تو لینا ہے۔۔ وه کہتے کہتے اسے امکانی صورتحال بتا کر رکی۔۔


مشائم محض سر ہلا گئی۔۔ اس نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔۔۔


کوئی بات نہیں مشی بی بی اگر وه اپنے چاچے مامے کے گھر بھی ہوا تو اسے وہاں سے اغوا کر لیں گے۔۔ نگہت کے شرارت سے کہنے پر وه ہلکا سا مسکرائی۔۔


یہ ہوئی نہ بات!! اب آگے سنیں۔۔ اہم مسلہ یہ ہے کہ ہم یہاں سے نکلیں کیسے اور وه بھی کم از کم دو سے تین گھنٹوں کے لئے۔۔ ایسے تو شک ہو جانا سب کو۔۔


اسکی بات بھی ٹھیک تھی۔۔ مشائم اٹھ کر بے چینی سے چکر کاٹنے لگی۔۔ ایک خیال آنے پر وه سرعت سے اسکی طرف آئی۔۔


"میں سر درد کا کہہ کر کچھ گھنٹوں کے لئے دروازه بند کر کے سونے کا بہانہ کر سکتی ہوں۔۔ ہم اس کھڑکی سے نکل جائیں گے۔۔ اور یہیں سے واپس آ جائیں گے۔۔" وه کھڑکی سے باہر جھانک کر بولی۔۔


اسے فلحال کے لئے فرسٹ فلور پر شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔ دوسرا فلور مہمانوں کے لئے تھا۔۔ اس لئے اسے یہ آسانی ہوئی کہ وه کھڑکی پھلانگ کر باہر لان میں جا سکتی تھی اور وہاں سے پچھلی جانب سے باہر نکل جاتی۔۔ اسکا یہ آئیڈیا نگہت کو پسند آیا۔۔


جی ٹھیک ہے میں ابھی بڑی بی بی اور باقی ملازموں کو کہہ آتی ہوں تا کہ کوئی ہماری غیر موجودگی میں یہاں نہ آئے۔۔


وه باہر گئی تو اس نے دیوار گیر الماری سے چادر نکالی۔۔ عبایا وه اس لئے نہیں پہننا چاہتی تھی کہ کوئی اسے پہچان نہ لے۔۔


کچھ دیر بعد ہی نگہت کی واپسی ہو گئی۔۔ اس نے جلدی سے دروازه بند کیا۔۔۔ "چلیں مشی بی بی ۔۔!! جتنا جلدی ہو نکل جاتے ہیں۔۔ ابھی بڑے شاہ سائیں اور چھوٹے شاہ سائیں حویلی میں موجود نہیں ہیں۔۔۔ شام کو نکاح کے وقت آئیں گے۔۔ ان کے آنے سے پہلے ہی واپس آ جانا چاہیے۔۔


وه نقاب سے چہرہ ڈھانپتی مشائم کو دیکھتی بولی تو وه سر ہلا گئی۔۔ نگہت کھڑکی پر چڑھی اور لان میں کود گئی۔۔ اس نے پیچھے دیکھ کر مشائم کو انگوٹھا دکھایا۔۔ وہ سیدھی ہوئی ہی تھی کہ اسکا سانس اٹک گیا۔۔


سامنے ایک ملازم بتیسی نکالے کھڑا تھا۔۔


اس کی تیوری چڑھی۔۔ "بد تمیز الو کے پٹھے کیا شودوں کی طرح مجھے تاڑ رہے ہو!!"


اسکی آواز پر وه کھڑکی پر چڑھتی چڑھتی ہڑبڑا کر پیچھے ہو گئی۔۔


کہاں کی تیاری ہے بلو رانی!!


تجھ سے مطلب تو اپنی گینڈے جیسی شکل لے کر نکل یہاں سے۔۔ مجھ معصوم کو چھیڑتا ہے شاہ سائیں کو تیری شکایت لگاؤں گی میں۔۔ کوجے کہیں کے !! اسکی دهمكی پر وه ہڑبڑا کر وہاں سے کھسک گیا۔۔


آجائیں مشی بی بی۔۔ وه سرگوشی میں بولی۔۔


وہ کھڑکی سے باہر کودی اور دونوں احتیاط سے ارد گرد دیکھتیں پچھلی جانب سے باہر نکل آئیں۔۔ مشائم کا دل خوف سے تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔ نگہت اسے لئے سڑک تک آئی اور ایک رکشہ روک کر دونوں اس میں بیٹھ گئیں۔۔۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں وہ وہاں پہنچ گئیں۔۔


رکشے والے کو پیسے دے کر وہ اونچے نیچے راستوں پر چلنے لگیں۔۔۔ وہاں سے وه کھیتوں میں اتر آئیں۔۔ نگہت کو اس کے محلے کا علم تھا لیکن گھر کا نہیں پتہ تھا۔۔ اب اتنی خبر تو ہوتی ہی ہے ملازموں کو۔۔


وه پوچھتے گچھتے ایک گھر کے سامنے آ ٹھہریں جس کا لکڑی کا دروازه ذرا سا کھلا ہوا تھا۔۔ لگ تو یہی رہا ہے اندر چل کر دیکھتے ہیں۔۔ وه مشائم کو دیکھتی اندر چلی آئی۔۔


اس کے پیچھے وه بھی گھبرائی گھبرائی سی اندر آئی۔۔ دروازه بند کر کے وه کھلے سے صحن میں چلی آئیں۔۔


کوئی ہے؟ پورے گھر میں سناٹا پا کر وه کمروں کی قطار کو دیکھ کر بولی۔۔


چند سیکنڈ بعد ہی ایک کمرے کا دروازه کھلا تھا۔۔ سلیو لیس ٹی شرٹ ٹراؤزر میں وه بکھرے بالوں اور رف سے حلیے میں باہر نکلا تھا۔۔


نگہت کو سامنے پا کر اسکی آنکھوں میں تحیر در آیا۔۔ نگہت سے ہوتی اسکی نگاہ پیچھے چادر میں کھڑی لڑکی پر پڑی۔۔ وہ اسے ایک سیکنڈ میں پہچان گیا۔۔ اس کی سیاہ آنکھیں اس پر ٹک گئیں جن کی سرد مہری بڑھی تھی۔۔


مشائم جو اسے پہلی بار اس حلیے میں یک ٹک دیکھی جا رہی تھی اسکی نظریں خود پر پا کر ہڑبڑا کر پلکوں کی جھالر گرا گئی۔۔


کیوں آئی ہو یہاں؟ وه نگہت کو غصے سے گھور کر بولا۔۔


"وه نہ مشی بی بی نے بات کرنی ہی آپ سے۔۔" اسکی بات پر اس نے ایک سرد نظر اس پر ڈالی۔۔


مجھے کوئی بات نہیں کرنی ان سے جاؤ یہاں سے ۔۔۔ وه سرد لہجے میں کہتا پلٹا کہ وه تیزی سے اسکی طرف آئی۔۔


پلیز ایک بار بات کرنا چاہتی ہوں آپ سے اتنی دور سے سب سے چھپ کر آئی ہوں اتنے بے رحم نہ بنیں!!! وه ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی تو وه لب بھینچ گیا۔۔


کہیں!!! وه لٹھ مار انداز میں بولا۔۔


"یہاں نہیں علیحدگی میں۔۔" وه منمنائی۔۔


صالح نے گردن موڑ کر نگہت کو دیکھا۔۔


"ہاں جی کر لیں کر لیں بات میں کب کچھ کہہ رہی ہوں" وه اسے معنی خیز انداز میں دیکھتی بتیسی نکال کر بولی تو صالح کا چہرہ غصے سے سرخ پڑ گیا۔۔


"تم اپنا منہ نہ تڑوا لینا مجھ سے" وه ہر لحاظ بالائے طاق رکھتا ہوا بولا۔۔


"ایوی ٹوٹ جائے گا میرا منہ فری میں نہیں آیا۔۔ ہنہ !!" تنک کر کہتی وه دندناتی ہوئی کچھ دور پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گئی۔۔۔


صالح نے پھر سے مشائم کو کڑے تیوروں سے دیکھا اور دروازه کھول کر کمرے میں چلا گیا۔۔ اندر جا کر اس نے دروازه بند نہیں کیا تھا۔۔ وه دھڑکتے دل سے اس کے پیچھے کمرے میں آئی۔۔


صالح نے اسکے اندر آتے ہی دروازه بند کردیا۔۔ وه ڈر کر پیچھے ہٹی۔۔ وه سینے پر بازو باندھ کر نقاب سے جھانکتی اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔


کیا ہوا ڈر کیوں رہی ہیں اب آپ خود ہی تو "علیحدگی" میں بات کرنے کی خواہش مند تھیں۔۔ وه سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔


وه سر جھکائے ہاتھوں کی انگلیاں مسلنے لگی۔۔ "وه وه" ۔۔۔۔ اسکی آواز جیسے حلق میں اٹک گئی تھی۔۔ کس طرح دھڑلے سے وه اس سے ملنے چلی آئی تھی اور اب اس کے سامنے اسکی بولتی بند ہوگئی تھی۔۔


اس نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے چھ فٹ سے نکلتے مرد کو دیکھا۔۔ بےبسی کے احساس سے آنسو اسکی آنکھوں سے گرنے لگے۔۔ آخر وه سمجھتا کیوں نہیں تھا۔۔


جبکہ وه خاموشی سے اسکی بھوری آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھ رہا تھا۔۔


مم۔۔ میں ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔سے پیار ۔۔ کرتی ہوں !! اسکا کہنا ہی تھا کہ وہ جبڑے بھینچے جھٹکے سے اسکے بازو میں اپنی سخت انگلیاں گاڑتے اسے خود سے قریب کر گیا۔۔


شرم آنی چاہیے آپ کو!! وه اس کے منہ پر گرجا تھا۔۔ مقابل نے اسکی گرفت پر تڑپ کر اسے دیکھا جو اس وقت بے حس بنا ہوا تھا۔۔


"کیا کہا آپ نے شاہ سائیں سے کہ میں نے آپ کو گمراہ کیا؟ وه درشتگی سے بولا تو وه بے اختیار نفی میں سر ہلانے لگی۔۔


مم ۔۔ میں نے نہیں ۔۔۔۔

چپ!! وه داڑھا تو وه ہچکیوں سے رونے لگی۔۔

وه کوفت سے اسکے آنسو دیکھتا اسے دور دهكیل گیا۔۔ وه سہمی کھڑی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔

میں۔۔ اس سے شاددی ۔۔نہیں کرنا۔۔ چاہتی ۔۔ مجھ ۔۔سے نکاح۔۔ کر لیں اللّه کے واسطے ۔۔ مجھے اپنا لیں!! وه اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر بلکنے لگی۔۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ محبت سب سے پہلے عزت نفس کو ختم کرتی ہے۔۔ وہ بھی اس وقت اپنی انا، اپنا وقار، اپنی عزت نفس بھلائے اس سے اسکے ساتھ کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔

وه اسے ہاتھ جوڑے دیکھ کر ساکت ہوا تھا۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگیں۔۔ "آپ غلط راہ پر چل نکلی ہیں جس کا انجام صرف تباہی ہے۔۔ آپ نے اپنی بے وقوفی سے اپنے اور میرے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔۔ شاہ سائیں کی آنکھوں میں جو اعتباری میں نے دیکھی ہے اسکی وجہ صرف اور صرف آپ ہیں۔۔ اور اس کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔"

وه اسکے برابر دیوار پر ہاتھ مارتا سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا داڑھا تھا۔۔

وه خوف سے آنکھیں میچ گئی۔۔ ایسا لگتا تھا کہ رفتہ رفتہ جسم سے جان نکل رہی ہے۔۔

صالح پتر دروازه کیوں بند کیا ہے تو نے؟ انجم کی آواز پر وه بے اختیار کراہا۔۔ اس نے سلگتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

چپ آواز نہ آئے آپ کی اب!! اس کے منہ پر ہاتھ رکھتا وه اسے سخت نظروں سے دیکھتا وه اسے بازو سے پکڑ کر دروازے کے پاس لے آیا۔۔

اس نے دروازه کھولا تو وه دروازے کے پیچھے چھپ گئی۔۔

"تھوڑی دیر ہوگئی مجھے ۔۔ خالہ مل گئی تھی راستے میں۔۔ یہ کپڑے دھوپ میں پڑے پڑے سوکھ رہے تھے اتار ہی لیتا تُو لیکن تجھے کیا ہوش ارد گرد کا پتہ نہیں کس حجن کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔۔" وه اندر آ کر کپڑے پلنگ پر رکھتے ہوئے اپنے دیهان میں بولتی جا رہی تھیں۔۔

وه جلدی سے پیچھے ہوتا اس کے آگے کھڑا ہوگیا۔۔ انجم کی بات وه کھانسنے لگا تھا۔۔

دھڑکتے دل سے اسکی چوڑی پشت کو دیکھتی وہ لب بھینچے سوچنے لگی۔۔ اگر ان کو پتہ چل جائے کہ وه حجن یہیں ہے تو!! وه بے دیہانی میں سوچتی ذرا آگے ہوئی تو اسکا چہرہ صالح کی پشت کو چھو گیا۔۔ دونوں کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔۔

انجم رخ موڑے اسکے کپڑے تہہ کرنے لگیں تھیں۔۔ صالح نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے اسے باہر نکالا۔۔ پھر وه دروازے کے بیچ و بیچ کھڑا ہوگیا۔۔ وه انجم کے سامنے اپنی ذات کو ہر گز مشکوک نہیں بنانا چاہتا تھا۔۔ ورنہ وه اسے ایسے ایسے

اس کے دروازے میں کھڑے ہونے کے ساتھ ہی وه بھاگتی ہوئی صحن میں آئی تو چارپائی کے نیچے چھپی نگہت باہر نکلی۔۔۔ اسے کڑے تیوروں سے گھورتی وه اس کا ہاتھ تھام کر جلدی سے باہر نکل گئی۔۔

باہر آ کر جلدی سے سڑک کی طرف جاتے وه غصے سے نگہت کو ڈانٹنے لگی۔۔ "بتا نہیں سکتی تھی تم اگر ہم پکڑے جاتے تو؟"

اس کی ڈانٹ پر وه منمنا کر رہ گئی۔۔۔ "مجھے خود نہیں پتہ چلا جلدی سے میں وہیں چھپ گئی نہیں تو میری چھترول ہوجانی تھی۔۔" وه جھرجھری لے کر رہ گئی۔۔۔

🌚🌚🌚🌚

مشی بیٹا کافی وقت ہوگیا ہے اٹھ جاؤ شام ہونے لگی ہے۔۔ للّہ عارفہ اس کا دروازه کھٹکھٹانے لگیں۔۔ چند پل انتظار کے بعد بھی دروازه نہ کھلا تو وه تفكر سے کمرے کی چابی لینے کے لئے پلٹی ہی تھیں کہ زور سے دروازه کھلا۔۔ وه واپس پلٹیں۔۔

مشائم دروازه کھولے متورم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔ "فکر نہ کریں بھاگ نہیں گئی میں اور نہ مزید خاک ڈالوں گی آپ کے سروں میں۔۔" تلخی سے کہہ کر وه کمرے کا دروازه پورا کھولتی اندر چلی گئی۔۔

انہوں نے دکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔ آخر یہ لڑکی سمجھتی کیوں نہیں۔۔۔ہم اس کے دشمن تھوڑی ہیں۔۔۔!!!

ہسپتال کے سامنے اس نے بلیک مرسیڈیز روکی۔۔ دروازه کھول کر وه باہر نکلا۔۔ سامنے ہسپتال کی اونچی عمارت کو دیکھ کر وه دھڑکتے دل سے بھاری قدم اٹھاتا ہسپتال میں داخل ہوگیا۔۔


اس نے سرخ ڈوروں والی نیلی آنکھوں پر گلاسز چڑھا رکھے تھے۔۔ سیاہی مائل عنابی لب سختی سے آپس میں پیوست تھے۔۔


وه ہر اس جگہ ارشما کو ڈھونڈ چکا تھا جہاں اس کے ہونے کا امکان تھا۔۔ ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد وه دل پر پتھر رکھے اسے ہسپتالوں میں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔۔ کب سے خوار ہوتا وه شہر کے تقریباً تمام ہسپتالوں کو چیک کر چکا تھا۔۔


گہری سانس لے کر خود کو نارمل کرتے وه ریسپشن پر گیا۔۔

"اکسکیوز می!!!"


اس کے مخاطب کرنے پر اپنے کام میں مصروف لڑکی نے سر اٹھایا اور پیشہ ور انداز میں بولی۔۔


"یس سر میں آپ کی کیسی مدد کر سکتی ہوں!!!"


اورهان نے کنپٹی مسلی۔۔ کیا یہاں ارشما نام کی کسی پیشنٹ کو لایا گیا ہے؟؟ وه دھڑکتے دل سے اسے دیکھتا اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔


"ویٹ سر میں چیک کرتی ہوں" وه ایک فائل نکال کر بھنویں سكیڑتی صفحے پلٹنے لگی۔۔ جبکہ وه بےچینی سے پیر کو ہلاتا بےصبری سے اس کے بولنے کا منتظر تھا۔۔


ارشما؟؟ یہ نام بولا نہ آپ نے؟ مقابل کھڑی لڑکی نے سر اٹھا کر كنفرم کیا۔۔


ہاں یہی نام بولا کیا کوئی پیشنٹ آئی اس نام کی؟؟ وه بےچینی سے بولا۔۔


"نہیں سر اس نام کی کوئی پیشنٹ نہیں آئی۔۔ ہاں شمع نام کی ایک پیشنٹ کو دو دن پہلے یہاں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔۔ ریپ وکٹم تھی بہت بری حالت میں تھی جب اسے یہاں لایا گیا تھا۔۔"

وه جھرجھری لیتی اسے بتانے لگی۔۔


اورهان چونکا۔۔ دل نے بے اختیار نفی کی۔۔ نہیں وه اس کی ارشما نہیں ہو سکتی۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا کوئی کہ کوئی اسکی بہن کا ریپ کردے۔۔ ہاں وه خود کسی کی بہن بیٹی کی عزت تار تار کر سکتا تھا لیکن اسکی بہن کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔۔


دل کی آواز کو دماغ نے خاموش کروا دیا۔۔ کیسی دکھتی ہے وه کیا آپ نے اسے دیکھا تھا؟؟ وه حلق تر کرتے مشکل سے بولا۔۔


مقابل لڑکی نے ایک پل کو اسے دیکھا۔۔ "جی دیکھا تھا میں نے اسے لیکن آپ اتنی پوچھ گچھ کیوں کررہے ہیں؟؟"


"میری بہن کھو گئی ہے آپ کو جو پتہ ہے پلیز بتائیں مجھے شاید کوئی سراغ مل جائے۔۔"


ہر کسی کو جوتی کی نوک پر رکھنے والا آج ایک عام سی لڑکی سے التجا کررہا تھا۔۔


پتہ نہیں انسان کیوں بھول جاتا ہے کہ جتنا اونچا وه اڑتا ہے اتنی زور سے ہی زمین پر پٹخ دیا جاتا ہے۔۔


"اوکے ۔۔۔ وه سوچ کر بتانے لگی۔۔ درمیانہ قد ہوگا، رنگ بےحد گورا تھا۔۔ اور ہاں شہد رنگ بال تھے اس پیشنٹ کے۔۔ بس اتنا ہی بتا سکتی ہوں میں آپ کو۔۔" وه ہمدردی سے اسے دیکھ کر بولی۔۔


جوں جوں وه بتاتی گئی اورهان کی سانس سینے میں اٹک گئی۔۔


کک ۔۔ کیا آپ مجھے اس کے پاس لے کر جا سکتی ہیں میں بس ایک نظر دیکھ کر تسلی کرنا چاہتا ہوں۔۔

وه مکمل پسینے میں شرابور ہوا تھا۔۔


آئیں میرے ساتھ!!! وه ترحم سے اسے دیکھتی اسے ساتھ لیے ایک راہداری کو مڑ گئی۔۔ ایک قطار میں بنے کمروں میں سے وه كمره نمبر پانچ کا دروازه کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔


اس کے پیچھے اورهان بھی بھاری دل سے اندر آیا۔۔


ارے یہ کیا، کچھ دیر پہلے تو یہاں تھی وه اب کہاں گئی؟


وه حیرت سے خالی کمرے کو دیکھتی خود کلامی کرنے لگی۔۔ "میں سمجھ نہیں سکی۔۔ شاید اسکے گھر والے اسے لے گئے ہوں۔۔"


وه اورهان کو دیکھتی ہوئی بولی جو اسکی بات سنے بغیر تیزی سے سنگل بیڈ کے ساتھ رکھی ٹرالی کی طرف آیا تھا۔۔


اس نے جهپٹنے کے انداز میں ٹرالی سے بریسلیٹ پکڑا۔۔ "ییی۔۔ یہ میری بہن کا ہے ۔۔"


وه کانپتے ہاتھوں سے بریسلیٹ پکڑتا نرس کو دیکھ کر بولا۔۔


"اوہ یہ تو اس لڑکی کا تھا جو یہاں ایڈمٹ تھی۔۔"


دیکھیں میں اتنی ہی مدد کر سکتی تھی آپ کی۔۔ باہر چلیں یہاں سے میں ڈاکٹر کی پرمیشن کے بغیر لائی تھی آپ کو یہاں کسی نے دیکھ لیا تو ۔۔۔۔


وہ کمرے سے باہر نکلی تو وه بھی بریسلیٹ پر گرفت مضبوط کیے خود پر ضبط کرتا تیزی سے ہسپتال سے نکل گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


آہ!!! وه سر کے بال نوچتا پوری قوت سے چیخا تھا۔۔ پورا كمره بکھرا پڑا تھا۔۔ بکھرے بالوں میں وه لال انگارہ آنکھوں سے آگے آیا اور ڈیکوریشن پیس اٹھا کر پوری قوت سے دے مارا ۔۔۔


کمرے کا بلب چھناکے سے ٹوٹا اور کمرے میں گهپ اندهیرا چھا گیا۔۔ وه وہیں زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور گھٹنوں پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔


قسمت نے بھرپور تمانچہ اسکے منہ پر دے مارا تھا۔۔۔ اسکی جان سے عزیز بہن اس سے چھن گئی تھی۔۔ وه جو آج تک لڑکیوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرتا آیا تھا اسکی اپنی بہن کسی کی درندگی کا نشانہ بن چکی تھی۔


کہاں ڈھونڈوں میں تمہیں کیوں ہوا ایسا؟؟ وه خود کلامی کرتا پھپھک کر رونے لگا۔۔ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی اورهان ہے جو بےحسی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔


اس وقت تنہائی میں وه قسمت کی اس ستم ظریفی پر گھائل ٹوٹا بکھرا پڑا تھا۔ ایسا ٹوٹا وجود جو بظاہر مکمل نظر آتا ہے لیکن اندر سے وه لمحہ بہ لمحہ کانچ کی طرح ٹوٹتا جاتا ہے جو جڑ بھی جائے تو اس پر سانحات و حادثات کی دراڑیں اسے کبھی پہلے جیسا ہونے نہیں دیتیں۔۔


یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وجود آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہورہا ہو اور یوں بکھر جائے کہ اسے سمیٹنا بس سے باہر ہوجائے۔۔ وه بھی اپنے ٹوٹے وجود کی کرچیاں سمیٹتا ضمیر کی عدالت میں داخل ہوا تھا۔۔


وه تو معصوم تھی کیا قصور تھا اسکا جو میرے کرموں کی سزا اسے ملی۔۔ یہ سب سوچتا وه بھول بیٹھا تھا کہ انسان کے لئے مکافات عمل کا یہی انداز ہے۔ وه دوسروں کے ساتھ جن اعمال کا بیج بوتا ہے ویسا ہی کاٹتا ہے۔


وہ ضمیر کی عدالت میں شکستہ حال موجود خود کے گریبان میں جھانکتا شرمسار ہوا تھا۔


دوسروں کو آئینہ دکھانا کتنا آسان ہوتا ہے۔ اسکے برعکس جب انسان خود کو آئینہ میں دیکھتا ہے ایسا آئینہ جو اسکی صورت نہیں سیرت کا عکس دکھاتا ہے تو وه اپنے اعمال کی سیاہی اور بدصورتی دیکھ کر سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔۔ کیا ہی اچھا ہو اگر لوگ دوسروں کو آئینہ دکھانے کی بجائے خود کو آئینہ میں دیکھنے لگیں تو معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہی نہ ہو۔۔


گڈ مڈ ہوتے خیالات کے ساتھ وه وہیں زمین پر سکڑ کر لیٹ گیا۔ سوجھی ہوئی درد کرتی آنکھوں کو بند کر کے وه کسی معصوم خوفزدہ بچے کی طرح اپنے گرد بازو لپیٹ گیا۔


انسان بے رحم ہے لیکن اسکا خالق نہیں۔ اس پر بھی مہربانی ہوئی تھی۔ اسے سوچوں کے زہریلے سانپوں سے نجات ملی تھی جو لمحہ بہ لمحہ اسے ڈستے جا رہے تھے۔ نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور اسے اپنی آغوش میں لیتی چلی گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


السلام علیکم خالہ!! رشید سلام کرتا ہوا صحن میں چلا آیا جہاں شائستہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چولہے کے آگے بیٹھیں ہانڈی میں چمچہ ہلا رہی تھیں۔


جانے والے انھیں اس ظالم دنیا کے حوالے کرتے جا چکے تھے۔ انسان کتنا بھی روئے گڑگڑائے کچھ بھی نہیں بدلا کرتا۔ چند دن کا سوگ اور پھر وہی زندگی کی بھاگ دوڑ!!! دل میں یادیں ضرور رہ جاتی ہیں لیکن وه بھی وقت کی گرد سے دھندلا جاتی ہیں۔


ان کی بیٹی اور شوہر کو گزرے چند دن ہو چکے تھے۔ تب سے کوئی نہ کوئی روز آ کر ان کے جلے پر نمک چھڑکتا تھا۔ ہمدردی کی آڑھ میں ایسی ایسی باتیں پوچھتے کہ ان کا دل چھلنی ہوجاتا۔ لوگ تو مرے ہوؤں کو بھی معاف نہیں کرتے۔ اب بھی ساتھ والوں کے رشید کو دیکھ کر ان کا دل برا ہوگیا۔


وعلیکم السلام!! وه سنجیدگی سے بولیں۔۔


خالہ!! میں آج ہی شہر سے آیا ہوں،، سن کر بہت دکھ ہوا،، سوہنا رب دونوں کے درجات بلند فرمائے۔ وه دهیمے لہجے میں بولا تو شائستہ کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔


آمین!!


"خالہ آپ لوگوں کی باتوں کو دل پر نہ لیں، میری مانیں تو نظر انداز کردیا کریں۔ لوگ کسی کو نہیں بخشتے" وه انہیں سمجھانے والے انداز میں بولا۔۔


کس کس کو نظر انداز کروں رشید لوگ مرے ہوئے کو نہیں بخشتے۔ میری دھی نے کیا بگاڑا کسی کا جو وه اس کے گزر جانے کے بعد بھی۔۔۔۔۔ وه بات ادھوری چھوڑ کر منہ پر دوپٹہ رکھتیں رونے لگیں۔


اماں کون آیا ہے بڑا لحاظ کر لیا میں نے اب کوئی ہمارے گھر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے آیا تو میں ساری تمیز بھول جاؤں گی!!!


وه ابھی ابھی نہا کر فارغ ہوتی غسل خانے سے باہر نکلی کہ صحن سے کسی کی باتوں کی آواز سن کر درشتگی سے اونچا اونچا بولتی وہیں آ گئی۔۔ رشید کو دیکھ کر وه خاموش ہوگئی۔


چھوٹی کیسی ہو تم؟؟ وه اس کے بے تاثر چہرے کو دیکھتا ہوا بولا۔


ٹھیک ہوں!! مختصر جواب دے کر وه وہیں بیٹھ گئی۔۔


"اچھا خالہ چلتا ہوں میں پھر آؤں گا کسی مدد کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا۔۔" وه اٹھ کھڑا ہوا۔۔


ضرور پُتر!! وه آنسو پونچھتے ہوئے بولیں۔۔


انہیں آنسو پونچھتے دیکھ کر اینارا نے آنکھیں جهپک جهپک کر خود کو رونے سے روکا۔ آنکھیں گلابی ہو کر جلنے لگی تھیں۔۔


"بھائی رشید ایک کام کریں اگر آپ واقعی ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں تو جہاں آپ شہر میں نوکری کرتے ہیں وہاں میری بھی نوکری کی بات کر دیں۔۔"


شائستہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہے تُو شہر جا کر نوکری کرے گی؟؟


ان کی بات پر وه سیخ پا ہوگئی۔۔ تو کیا کروں؟ بتائیں۔۔ باپ مر گیا میرا۔۔ اب میرے لاڈ اٹھانے والا ہمیں کما کر دینے والا کوئی نہیں ہے۔۔ کیا بھوکے مر جائیں؟ یا میں بھی خودکشی۔۔۔۔۔۔۔


وه اچانک چپ ہوگئی۔۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے سسكی روکی۔۔ "کیا کروں میں اماں آپ ہی بتا دیں!!" وه روتی ہوئی بولی۔۔


شائستہ کو چپ لگی گئی۔۔


"چھوٹی تم پریشان نہ ہو میں اورهان صاحب سے بات کروں گا۔۔"


رشید کے کہنے پر اس نے اتنی تیزی سے سر اٹھایا کہ ہڈی چٹخنے کی آواز آئی۔۔


کک کیا نام بولا آپ نے؟؟ وه سانس روکے اسے دیکھنے لگی۔۔

اورهان صاحب،، کیوں کیا ہوا؟ وه حیران ہوتا ہوا بولا۔۔

اسکی نیلی آنکھیں ہیں؟؟ وه ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی۔۔

آ ۔۔ ہاں ۔۔ لیكن تمہیں کیسے پتہ؟؟ وہ مزید حیران ہوا۔۔

اینارا نے مٹھیاں بھینچیں۔۔ کیا یہاں اس کی کوئی حویلی بھی ہے؟؟

بس ایک آخری سوال اور پھر ہر چیز واضح ہوجائے گی۔۔ اسکا دل معمول سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔

ہاں شاید لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ اب کی بار وه اسے کریدنے کو بولا۔۔

"کک کچھ نہیں بس یونہی۔۔ مجھے لگا میں جانتی ہوں اس کو۔۔ آپ بات کر کے بتانا مجھے ۔۔ یہ نوکری مجھے ہر حال میں چاہیے" اسکے چہرے کا تاثر عجیب ہوگیا۔۔

"ٹھیک ہے میں بات کروں گا،،، چلتا ہوں۔۔" سلام کرتا وه لمبے ڈگ بھرتا بیرونی دروازه عبور کر گیا۔۔

یہ اچانک کیا ہوگیا تجھے؟ رشید کے جانے کے بعد شائستہ اسکی اڑی رنگت دیکھ کر بولیں۔۔

اماں!! وه کانپتے لبوں کو بھینچ کر ایک پل کو رکی اور پھر گویا ہوئی۔۔

"یہ وہی ہے۔۔ اورهان۔۔ جس نے ازنا کے ساتھ زيادتی کی تھی۔۔" گیلی آنکھوں سے وه انہیں دیکھے گئی۔۔

شائستہ کا رنگ زرد ہوا وه بغیر کچھ کہے کمرے میں چلی گئیں۔۔

ان کے جانے کے بعد وه میکانکی انداز میں چلتی ہوئی چھت پر چلی آئی اور دیوار کے ساتھ کمر ٹکا کر زمین پر بیٹھ گئی۔۔ اسکی آنکھیں نفرت سے جلنے لگیں۔۔

اسکے گال پر آنسو لڑھک کر گرے تو اس نے بے دردی سے انہیں ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔۔

"تمہیں تڑپا تڑپا کر ماروں گی میں، تم نے میری بہن کو مجھ سے چھین لیا تمہاری وجہ سے میرے ابا مجھ سے چھن گئے تمہیں بدتر موت دوں گی میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ انتظار کرو تم تمہاری موت بن کر بہت جلد آؤں گی۔۔" وه روتی ہوئی کہتی جا رہی تھی۔۔

آسمان پر اندهیرا گہرا ہونے لگا جیسے وه بھی اسکے ساتھ سوگ منا رہا ہو۔۔ وه انتقام کی آگ میں جلتی ایک فیصلہ کر کے اٹھی اور نیچے آ کر اپنے کمرے میں جاتی پیکنگ کرنے لگی۔۔

کچھ دیر بعد وه شائستہ کے کمرے میں آئی اور جو کچھ دل میں تھا کہہ دیا۔۔ "اماں مجھے یہاں کسی سے انصاف کی امید نہیں میں اپنا انتقام خود لوں گی۔۔ اور آپ مجھے نہیں روکیں گی۔۔ میں تو کہتی ہوں آپ بھی چلیں میرے ساتھ یہاں اکیلی کیسے رہیں گی؟" خیال آنے پر وه کہنے لگی۔۔

"نہ میں اس انسان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی میں یہیں ٹھیک ہوں اور تجھے نہیں روکتی میں۔۔ جب تک اسکو اسکے کیے کی سزا نہیں ملے گی مجھے سکون نہیں آئے گا۔۔ جا تُو۔۔"

بے تاثر چہرے سے کہتیں وه پلنگ پر لیٹ کر آنکھیں موند گئیں۔۔

وه اٹھی اور سر پر دوپٹہ لیتی ساتھ والوں کے گھر چلی گئی۔۔ اسکا ارادہ بدل گیا تھا۔۔ اب وه رشید کے ساتھ جانے والی تھی تا کہ "نا" کی گنجائش ہی نہ رہے۔۔

ڈاکٹر کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی بی جان آ گئیں۔۔ ارے مدحت کہاں گئی؟؟ وه کمرے میں نگاہ دوڑاتی بولیں تو ارشما آہستہ سے کہنے لگی۔۔


"وه باہر گئی ہے بور ہو جاتی ہے نہ یہاں!! میری وجہ سے آپ لوگوں کو اتنی زحمت کرنی پڑ رہی ہے۔۔ " وه شرمندہ سی بولی تو بی جان اسکے پاس آئیں۔۔


نہ بیٹا ایسا نہ سوچو تم اللّه جانتا ہے میں نے تمہیں اپنی بیٹی تسلیم کر لیا ہے۔۔!! وه محبت سے بولیں تو ارشما عقیدت سے ان کا ہاتھ تھامتی چوم گئی۔۔


آپ بہت اچھی ہیں!!! وه احساسِ تشکر سے انہیں دیکھنے لگی۔۔


تم بھی بہت اچھی ہو!! وه نرمی سے مسکرائیں پھر کچھ سنجیده ہوتیں بولیں " بیٹا تم اپنے گھر جانا چاہو گی؟


ان کی بات پر ارشما خوف زدہ سی پیچھے ہٹی!! نن نہیں میں وہاں نہیں جاؤں گی آپ مجھے يتیم خانے بھیج دیں۔۔

وه سسکنے لگی تھی۔۔


ارے ارے چپ کرو کیوں جاؤ گی تم يتیم خانے۔۔ بس ٹھیک ہوگیا تم ہمارے ساتھ رہنا اب سے۔۔ بہت جگہ ہے ہمارے گھر میں بھی اور دل میں بھی!!


وه پیار سے اسے ڈپٹ گئیں تو وه شوں شوں کرنے لگی۔۔ اس وقت وه انھیں اتنی پیاری لگی کہ انہوں نے بے ساختہ آگے بڑھتے اسکا سر چوم لیا۔۔


ٹھا کی آواز سے دروازه کھلا تو دونوں دہل کر اس سمت دیکھنے لگیں جہاں سے ڈاکٹر کے پیچھے مدحت اندر داخل ہورہی تھی۔۔ لیڈی ڈاکٹر کے چہرے پر تفکرات کے سائے منڈلاتے دیکھ کر بی جان بھی پریشان ہو گئیں۔۔


کیا ہوا آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟ انکی بات سنتے لیڈی ڈاکٹر جلدی سے سنگل بیڈ کے پاس آئی۔۔"کوئی شمع کے بارے میں معلومات لے رہا ہے ریسپشن پر۔۔ مجھے لگتا ہے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اسے اس حال میں پہنچایا۔۔"


وه جلدی سے ایک کاغذ پر قلم گهسیٹتی عجلت میں بولیں۔۔ ارشما کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔ وه تھر تھر کانپنے لگی تو مدحت اسکے پاس آ کر کھڑی ہوتی اسکا ہاتھ تھام گئی۔۔ بی جان کو بھی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔۔


ڈاکٹر نے کاغذ بی جان کی طرف بڑھایا۔۔ "یہ میں نے کچھ دوائیاں لکھ دی ہیں۔۔ آپ لوگ جلدی نکل جائیں یہاں سے۔۔ جلدی کریں ہسپتال کے پچھلے دروازے سے نکل جائیں کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔۔"


مدحت نے جلدی سے ارشما کو چادر اوڑھائی اور سہارا دے کر کھڑا کیا۔۔ چادر سے منہ کو ڈھک کر وه تینوں لیڈی ڈاکٹر کی ہمراہی میں ہسپتال کے پچھلے دروازے سے باہر نکل گئیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


مشی۔۔۔کچھ تو کھا لو کل سے بھوکی ہو ایسے کیسے ٹھیک ہوگی طبیعت؟؟ عارفہ اسکے سامنے سوپ کا پیالہ کرتے ہوئے نرمی سے بولیں۔۔


نہیں کھانا مجھے کچھ چلی جائیں یہاں سے!! وه سوپ کے پیالے کو ہاتھ مارتی چختی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ پیالہ نیچے گرتا چھناکے سے ٹوٹ گیا۔۔


اچانک اٹھنے سے اسے زوردار چکر آیا۔۔ وه پیشانی پر ہوئی پٹی پر ہاتھ رکھتی لڑکھڑائی تو عارفہ نے جلدی سے اسے تھام لیا۔۔


پیچھے ہٹیں ہاتھ مت لگائیں مجھے!! مشائم ان کا ہاتھ جھٹکتی درشتگی سے بولتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔


اللّه کا واسطہ ہے جائیں یہاں سے میں کسی سے نہیں ملنا چاہتی۔۔ کر لی نہ سب نے اپنی منمانی اب کیا چاہتے ہیں مجھ سے مر جاؤں میں؟؟


وه حلق کے بل چلائی تو عارفہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتیں کمرے سے باہر جانے لگیں کہ مشائم کی آواز پر رکیں۔۔


"اور اب اگر کسی بھی ملازمہ کے ہاتھ آپ نے کچھ بھی بھیجا تو میں سر پھاڑ دوں گی اسکا۔۔" وه جنونی ہوتی بدتمیزی سے بولی۔۔


اتنا سب تو ہوگیا تھا سکے ساتھ۔۔ بھری محفل میں اسے رسوا کر دیا گیا اس پر طلاق یافتہ ہونے کا ٹھپا لگ گیا اب کیا چاھتے تھے وه اس سے۔۔ وه اس سب کا قصوروار ان سب کو سمجھ رہی تھی جنہوں نے اسکے جذبات و احساسات کی پرواہ کیے بغیر اسے جہنم میں جھونکنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔ ہاں جہنم ہی تو تھی وه اسکے لیے۔۔


کسی احساس کے تحت اس نے سرخ روئی روئی آنکھیں اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں چوکھٹ سے دو قدم کے فاصلے پر ماہ بیر کھڑا شرمندہ سا اسے دیکھ رہا تھا۔۔


جب سے وه گھر آئی تھی اسکی ہمت نہ پڑی تھی کہ اپنی چھوٹی اپنی مشی کا سامنا کر پاتا۔۔ اب بھی وه وہاں سے گزر رہا تھا کہ مشائم کی تڑپ زدہ آواز سن کر بےچین ہوتا چلا آیا۔۔


مشائم آہستہ سے اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی دروازے تک آئی۔۔ چند سیكنڈ ماہ بیر کو دیکھنے کے بعد اس نے ماہ بیر کے منہ پر دروازه بند کر دیا۔۔


چٹخنی چڑھا کر وه واپس بستر تک آئی اور بے جان سی اوندھی گرتی پھپھک پھپھک کر رونے لگی۔۔ اوندھے گرنے سے اسکی پیشانی پر دباؤ پڑا تو زخم سے ٹیسیں اٹھنے لگیں لیکن وه ڈھیٹ بنی لیٹی رہی۔۔


🌚🌚🌚🌚


دوپٹہ سر پر درست کرتی وه رشید کے ساتھ بس سے نیچے اتری۔۔ رشید اسکا بیگ کندھے پر ڈالتا اسے ساتھ لئے ارد گرد دیکھتا سڑک پار کرتا فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔۔


اینارا سپاٹ چہرے سے اس کے قدموں سے قدم ملاتی سیدھ میں دیکھتی چلنے لگی۔۔ کچھ دور پیدل چل کر رشید نے رکشہ رکوایا اور وه دونوں اس میں بیٹھ کر اسلام آباد کے ڈیفنس ایریا میں آ گئے۔۔


ایک پر تعیش بنگلے کے سامنے اترتے رشید نے رکشے والے کو کرایا دیا اور گیٹ پر موجود گارڈ سے حال احوال دريافت کرتا اینارا کو اشارہ کرتا اسکے ساتھ اندر چلا آیا۔۔


زمین پر بیگ رکھتے وه اینارا کو وہیں کھڑے رہنے کا کہتے اوپن کچن میں چلا آیا جہاں ملازمہ کھانا بنا رہی تھی۔۔ اورهان صاحب کہاں ہیں؟؟ اسکا پوچھنا تھا کہ اورهان سیڑھیاں اترتا ہوا دکھائی دیا۔۔


اسکی نظر ایک کونے میں کھڑی لڑکی پر پڑی تو وه بھنویں اچکاتا کچن سے کچھ فاصلے پر موجود ٹی وی لاؤنج میں آ کر بیٹھ گیا۔۔ اسے دیکھ کر اینارا کی آنکھیں سرد ہوئیں۔۔ اس کے اندر ابال اٹھنے لگے۔۔ بہت مشکل سے اس نے خود پر قابو کرتے چہرے پر معصوم تاثر قائم کیا۔۔


رشید جلدی سے اس کے پاس آتا مؤدب سا کھڑا ہو کر سلام کر گیا۔۔


ہمم!! اورهان نے سر کے اشارے سر جواب دیا۔۔ ہر وقت نک سک سا تیار رہنے والا اس وقت عام سے حلیے میں بیٹھا تھا۔۔


صاحب آپ سے ایک بات کرنی تھی!! وه ہچکچاتا ہوا بولا تو اورهان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

"وه اصل میں میری منہ بولی بہن بھی ساتھ آئی ہے۔۔ اسے نوکری کی اشد ضرورت ہے۔۔ بیچاری کا باپ گزر گیا ہے کچھ دن پہلے۔۔ آپ مہربانی کر کے اسے نوکری پر رکھ لیں۔۔"


وه منت کرتے ہوئے بولا تو اورهان نے چہرہ موڑ کر ایک نظر اینارا کو دیکھا جو باپ کے ذکر پر نم آنکھوں سے زمین کو گھور رہی تھی۔۔ اس کا دل تو کررہا تھا ابھی جا کر اس گھٹیا انسان کا منہ نوچ لے۔۔


ٹھیک ہے تم جاؤ!!! اورهان کی رضامندی پر وه خوش ہوتا پلٹا اور اینارا کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دیتا اپنی ڈیوٹی کرنے چلا گیا۔۔


ادھر آؤ تم!!! سگریٹ سلگا کر اس نے اینارا کو بلایا تو وه چپ چاپ چلی آئی۔۔ اسکے سامنے کھڑی ہوتی وه معصومیت سے پلکیں جهپکا کر اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔۔


کیا نام ہے تمہارا؟؟ وه سنجیدگی سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔

اینارا!!!

جواباً وه بھی سنجیدگی سے بولی۔۔ البتہ نظریں ابھی بھی نہ اٹھائی تھیں۔۔ اسے ڈر تھا کہ وه اسکی آنکھوں میں جهلکتی نفرت نہ بھانپ لے۔۔


"اپنا بیگ لے کر آؤ" نیا حکم ملا۔۔ وه نا سمجھی سے اسے ایک نظر دیکھتی کچھ دور پڑا بیگ اٹھا لائی۔۔


ادھر دو!!! اب کی بار اسکے نئے حکم پر وه بڑی بڑی آنکھوں میں حیرت سموئے اسے ہونقوں کی طرح دیکھنے لگی۔۔


آئی سیڈ گیو می دا بیگ،، چیک کرنا ہے مجھے!!! اب کی بار وه اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولا تو وه فورا سے بیگ سینے سے لگا کر سر نفی میں ہلانے لگی۔۔


اورهان نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔ عجیب بےوقوف لڑکی تھی۔۔ اگر وه پہلے کی طرح ہوتا تو رکھ کر دو چماٹ اس کے چہرے پر لگاتا۔۔


نن۔۔ نہیں آپ یہ ۔۔نہیں ۔۔دیکھ سکتے۔۔ اس ۔۔ میں ۔۔میری کچھ ۔۔ پرسنل ۔۔ چیزیں ہیں!!! وه شرم سے سرخ پڑتا چہرہ جھکائے اٹک اٹک کر بولی۔۔


اوکے جاؤ!!! ہیڈ سرونٹ سے مل لو۔۔ تمہیں تمہارا كمره دکھا دے گا اور کام بھی سمجھا دے گا۔۔


وه بے تاثر چہرے سے بولتا موبائل نکال کر وال پیپر پر لگی ارشما کی تصویر دیکھنے لگا۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔ ذہن پر بوجھ بڑھنے لگا تو وہ یکدم اٹھا اور گاڑی کی چابی پکڑتا کلب کے لیے نکل گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


دوائیوں کا پیكٹ ہاتھ میں پکڑے وہ "پیر الٰہی بخش کالونی" میں داخل ہوئیں۔۔ وه پیدل چل کر سڑک پر موجود میڈیکل سٹور سے ارشما کے لیے دوائیاں لینے گئی تھیں۔۔


کراچی کا موسم کچھ گرم تھا۔۔ وه گرمی سے ہانپتی ہوئیں تنگ سی گلی میں داخل ہوئیں۔۔ ایک چھوٹے سے دو کمروں پر مشتمل گھر کا دروازه کھول کر وه اندر آئیں اور دروازه بند کر کے چھوٹا سا برآمدہ پار کر کے سیدھ میں ایک ساتھ بنے دو کمروں میں سے دائیں جانب والے کمرے میں آئیں۔۔


ارشما بچے طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟؟ وه جو چہرے پر بازو رکھے لیٹی ہوئی تھی بی جان کی آواز سن کر بازو چہرے سے ہٹا کر آہستہ سے اٹھ بیٹھی۔۔


ٹھیک ہوں بی جان!!! آپ بیٹھیں یہاں دیکھیں تو کیسے ہانپ رہی ہیں۔۔ میں پانی لاتی ہوں آپ کے لیے۔۔


پیار سے انہیں دیکھتی وه پانی لینے باہر چلی آئی۔۔ چھوٹے سے سرخ اینٹوں والے باورچی خانے میں آ کر اس نے شلف پر رکھے کولر سے پانی کا گلاس بھرا اور واپس کمرے میں آ کر بی جان کو تهما گئی۔۔


ان کے برابر بیٹھ کر وه سیمنٹ زدہ دیوار پر نظریں جما گئی۔۔ وہ ایسے ہی بیٹھی بیٹھی کھو جاتی تھی۔۔


بچے دوائی کھا لو!! اس کے سر پر پیار کرتیں وه پانی پینے لگیں تو وه بھی سر جھٹک کر اٹھی۔۔ دوائیوں کا پیکٹ اٹھا کر پانی لینے دوبارہ کچن میں آئی۔۔


برے برے منہ بناتی وه ایک ایک کر کے گولی پانی کے ساتھ نگلنے لگی۔۔ الجھی ہوئی وه واپس کمرے میں آئی اور الجھے بالوں کو کھول کر دوبارہ سے جُوڑا کرنے لگی۔۔


بی جان؟؟ وه پر سوچ انداز میں انہیں دیکھتے ہوئے بولی۔۔


ہاں بیٹا بولو!!! وه بستر پر لیٹتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر گویا ہوئیں۔۔


اتنی رقم سے کب تک گزارا ہوگا ہمارا؟؟ اور گھر کا کرایہ؟؟ وه کنپٹی دبا کر بولی تھی۔۔


(ہسپتال سے نکلنے کے بعد بی جان اسے فیصل کے گھر لے آئی تھیں۔۔ فیصل ان کا پوتا تھا جی بن ماں باپ کے اکیلا رہتا تھا۔۔ وه فیصل کے بے حد اسرار پر اسکے پاس کافی عرصے سے رہ رہی تھیں لیکن ان کا اصل ٹھکانہ کراچی میں تھا جہاں وه ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتی تھیں۔۔


ان کا آبائی گھر بےحد شاندار تھا لیکن بٹوارے کے بعد وه اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں آ گئیں۔۔ ایک حادثے میں ان دونوں کے گزر جانے کے بعد وه کچھ عرصہ تو وہیں کراچی میں رہیں لیکن پھر فیصل کی ہزار منتوں کے بعد وه اسلام آباد چلی آئی تھیں۔۔


اب یہاں جو صورتحال پیش آئی تھی اس نے انہیں واپس کراچی جانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔ وہ ڈر گئی تھیں کہ وه لوگ ارشما کو ڈھونڈ لیں گے اور اسے چھین کر لے جائیں گے۔۔ اور پھر ارشما بھی فیصل پر بوجھ بننے پر راضی نہ ہوئی۔۔


بی جان اپنے کچھ زیورات بیچ کر فیصل کی غیر موجودگی میں ارشما کو لیے کراچی چلی آئیں۔۔ انہوں نے مدحت کو سمجھا دیا کہ فیصل سے طریقے سے بات کر کے اسے بتا دے۔۔۔ انھیں اندازه تھا کہ وه خفا ہوگا اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔


بہرحال وه کراچی آ کر سب سے پہلے اپنے پرانے ہمسایوں سے ملیں جنہوں نے انہیں اپنے پاس ایک رات رکنے کی اجازت دے دی۔۔ ارشما نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔۔ بی جان کی کوششوں سے انہیں "پیر الہی بخش کالونی" میں مناسب کرائے پر گزارے لائق گھر مل گیا۔۔ جہاں وه اپنے مختصر سامان کے ساتھ جلد ہی شفٹ ہوگئی تھیں۔۔)

"تم پریشان نہ ہو فیصل نے کہا تھا کہ وه ماہانہ اخراجات اور کرائے کی رقم بھیج دیا کرے گا!!!"

بی جان کی بات پر اس نے سپاٹ لہجے میں کہا " مجھے ان کے احسانات کی ضرورت نہیں اور اگر آپ نے مجھ پر دباؤ ڈالا تو میں بغیر بتائے یہاں سے چلی جاؤں گی"

نازوں پلی معصوم سی لڑکی کو حالات نے کس دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا۔۔ اسے اس وقت خود پر ترس آیا تھا۔۔

خبردار آئینده ایسی بات منہ سے نكالی تو!!! بی جان تو اسکی بات سن کر دہل گئی تھیں۔۔

پھر آپ بھی مجھ سے وعدہ کریں ان سے کوئی رقم نہیں لیں گے۔۔ میں۔۔۔ کچھ کرتی ہوں !!

ٹھیک ہو جاؤں پھر کہیں جاب کے لیے اپلائے کرتی ہوں۔۔ گریجوایشن تو کی ہوئی ہے میں نے کہیں نہ کہیں جاب مل جائے گی!! وه ایک عزم سے بولی۔۔

ٹھیک ہے نہیں روکتی میں تمہیں!! بس تم خوش رہو۔۔

وه اسکی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولیں تو وه سر ہلا کر نظریں چراتی باہر چلی گئی۔۔ اب خوشی کا اس سے کیا تعلق تھا؟؟؟

🌚🌚🌚🌚

اشہد ان لا الا اللہ

و اشہد ان محمدﷺ عبدہ و رسول

حی اعلی الصلوۃ

حی اعلی الفلاح

الصلوۃ خیر من النوم

آنسو اس کی پلکوں کی باڑ توڑ کر شفاف موتیوں کی مانند گر رہے تھے۔۔ دونوں گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔۔ وه ناف پر ہاتھ باندھے دل کو چھو جانے والی آواز میں فجر کی اذان دے رہا تھا۔۔

اس کے لب کانپے تھے۔۔ اس نے مائیک سے پیچھے ہٹتے ہچکی لی۔۔ نیم اندھیرے میں مسجد کےصحن میں کھلے آسمان تلے کھڑا وه اذان دے رہا تھا۔۔ اسکی آواز میں ایسا سوز ایسا درد تھا کہ اذان کو سننے والا ہر شخص رو رہا تھا۔۔

امام مسجد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وه گہری گیلی سانس کھینچ کر دوبارہ مائیک کے آگے آیا۔۔

اللّه اک۔۔۔ وه پھر اٹکا تھا۔۔ اللّه اکبر !!!!

لا الا الا اللّه!!!!

اذان دے کر وه نظریں جھکائے پلٹا اور صحن میں لگے نلکے کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔۔ گہری سانس کھینچ کر کھڑا ہوتا وه ایک کمرے سے صفیں لا کر صحن میں بچھانے لگا۔۔

بالکنی کے کھلے دروازے سے سرد ٹھٹھرتی ہوا اندر داخل ہورہی تھی۔ وه بالکنی کے دروازے کے پاس زمین پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔ ٹھنڈ سے اسکے ہاتھ پیر سرخ پڑ گئے تھے۔ جسم اکڑنے لگا تھا لیکن وه ہر چیز سے بے نیاز اپنے دردِ دل کو محسوس کرتی آنکھیں موندے پڑی تھی۔۔


کمرے میں کسی شاعر کی پرسوز آواز گونج رہی تھی۔۔ غزل کے اشعار اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑ رہے تھے۔۔ ہاں یہ غزل اسی کے لیے تو لکھی گئی تھی۔۔


اس نے سر اٹھایا۔۔ ملگجے حلیے میں بکھرے بالوں میں وه بے حد ٹوٹی بکھری لگ رہی تھی۔۔ اسکے چہرے پر اسکی سرخ انگارہ ہوتی آنکھیں نمایاں تھیں جو مسلسل رونے سے سوجھ گئی تھیں۔۔ ایسی ہزن لیے بھوری آنکھیں کہ جن میں ڈوب جانے کا دل چاہے۔۔ غزل کے اگلے بول پر وه تڑپ اٹھی تھی۔۔


یہ آگ آگ کا کھیل ہے۔۔!!!

اسے روز روز نہیں کھیلنا۔۔!!!

مجھے ورق ورق کھولنا۔۔!!!

پھر حرف حرف پر سوچنا۔۔!!!

یہ جفا جفا کے راستے۔۔!!!

اور وفا وفا کی مںزلیں۔۔!!!

مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے ڈھونڈنا۔۔!!!

پھر چھوڑ چھوڑ کے چھوڑنا۔۔!!!

وه چہرہ چہرہ حجاب ہے۔۔!!!

میرے درد دل کا علاج ہے۔۔!!!


وه آہستہ سے اٹھی۔۔ کندهے پر لا پرواہ انداز میں پڑا اسکا دوپٹہ تن سے جدا ہوتا فرش پر گرا تھا۔۔ وه ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتی ہوئی بیڈ پر آ بیٹھی۔۔


ہوا کے دوش پر بکھرے بالوں کی لٹیں اسکے گال سے ٹکراتیں کسی محبوب کی طرح بوسے دینے لگیں۔۔ اس نے اپنی پتلی آرٹسٹک انگلیوں سے آہستہ سے انہیں کان کے پیچھے اڑسا اور دراز کھول کر اس میں سے ایک پنسل اور سکیچ بک نكالی۔۔


مجھے شاخ شاخ سے توڑنا۔۔!!

پھر بیچ بیچ سے جوڑنا۔۔!!

یہ ادا ادا بھی کمال ہے۔۔!!

یہ سزا سزا بھی کمال ہے۔۔!!

یہ شام شام کے دهندلکے۔۔!!

اور قطرہ قطرہ سی بارشیں۔۔!!

مجھے پیاس پیاس میں ڈال کے۔۔!!

پھر دشت دشت میں چھوڑنا۔۔!!


خوبصورت ہاتھوں نے پنسل کو کورے کاغذ پر گهسیٹا تھا۔۔ آہستہ آہستہ ہاتھ کی حرکت میں تیزی آتی گئی اور لکیریں کسی کا خاکہ بنانے لگیں۔۔


محبوب کا عکس بنانے کے لیے ظاہری طور پر اسکا پاس ہونا ضروری نہیں۔۔ وه تو ہر پل تصور میں رہتا ہے۔۔ دل و دماغ پر قابض خیالات کی دنیا پر حکومت کرتا عاشق کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔۔


اسکا مکمل خاکہ بنا کر اس نے نم آنکھوں سے دیکھتے اسکی پیشانی پر نماياں ہوتی لکیروں پر انگلی پھیری۔۔ انگلی لگنے سے لکیریں ماند پڑی تھیں۔۔ اس نے پنسل کو دوبارہ کاغذ پر گهسیٹا۔۔


سانوں گھایل کر کے فِر خبر نہ لئی آ۔۔۔!!

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا تھیا۔۔!!


اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی سسكی روکی۔۔ "یہ محبوب جانے کیوں اوروں پر مہربان اور عاشق کے لیے پتھر دل ہوتے ہیں۔۔"


کمرے میں غزل کی آواز ہنوز گونج رہی تھی۔۔ وہ سکیچ بک اور پنسل واپس دراز میں رکھتی بیڈ پر چت لیٹ گئی۔۔ ویران نظروں سے کمرے کی چھت کو دیکھتی وه اس ستمگر کے بارے میں سوچنے لگی۔۔ اگر اسے جو کسی سے محبت ہوجائے اور وه اسے نہ ملے تو؟؟ پھر محسوس ہوتا ہے درد،، جب خود پر بیتے۔۔ دوسروں کے درد کو تو لوگ پاگل پن سمجھتے ہیں۔۔!!!

وه بے دردی سے آنسو پونچھتی وه آنکھیں موند گئی۔۔


ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں ہے۔۔۔!!!

دیکھ لیتے ہیں یہ ازیت بھی گوارا کر کے۔۔!!!

زیرِ لب بڑبڑاتی وه تلخی سے ہنس پڑی۔۔


🌚🌚🌚🌚


بی جان آپ جاگ رہی ہیں؟؟ آٹے سے لتھرے ہاتھوں کو الجهن سے دیکھتے اس نے کمرے میں جھانکا۔۔ جواب نہ پا کر وه واپس باورچی خانے میں چلی آئی۔۔


رونی صورت بنا کر اس نے پرات میں رکھے آٹے کو دیکھا جو پتلا۔۔ پانی کی طرح ہورہا تھا۔۔ اس نے پہلی بار آٹا گوندھنے کی کوشش کی تھی۔۔ جو ناکام ہوئی تھی۔۔


ایسے کام کب کیے تھے اس نے لیکن اب اسے سمجھ آ گئی تھی کہ زندگی سدا پھولوں کی سیج نہیں رہتی۔۔!!


جیسے تیسے اس نے سوکھا آٹا ڈال ڈال کر آٹے کو ٹھیک کیا اور جس طرح ہوسکا گوندھ لیا۔۔ کچن میں سنک کے آگے کھڑے ہو کر ٹیپ کھول کر اس نے ہاتھ دھوئے اور پرات کو بھی دھو کر شلف پر سیدھا دیوار کے ساتھ رکھ دیا۔۔


رات کا کھانا وه کافی دیر پہلے کھا چکے تھے۔۔ بی جان سو چکی تھیں۔۔ اسکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔ وه برآمدے میں چلی آئی۔۔


سیڑھیوں پر بیٹھتی وه آسمان پر چمکتے چاند کو بے مقصد دیکھنے لگی۔۔ جب وہ بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تو واپس کمرے میں آ کر لیٹ گئی۔۔ لیٹے لیٹے جانے کب وه نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔۔


اگلی صبح وه جلد ہی بیدار ہو گئی۔۔ الماری سے اس نے سیاہ شلوار قمیض نکالی اور فریش ہونے چلی گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد وه بالوں کو سنوار کر کمرے سے باہر آئی۔۔


صبح بخیر بی جان!!! وه سنجیدگی سے بولتی کچن میں آئی جہاں بی جان ناشتہ بنا چکی تھیں۔۔ وه وہیں کھڑی جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی۔


ارے ارشما آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو!! اسے عجلت میں دیکھ کر بی جان نے پیار سے اسے ڈپتا۔۔


نہیں بی جان مجھے جاب کے لیے پتہ کرنے جانا ہے!! اس نے آخری لقمہ لیا اور پانی پی کر جلدی سے باہر آئی۔۔ کمرے میں آ کر اس نے پلنگ پر پڑی سیاہ چادر اٹھائی اور اچھی طرح اوڑھ کر بیگ اور ایک فائل پکڑتی باہر آئی۔۔


فائل کھول کر اس نے سی وی اور دوسرے ڈاکومنٹس چیک کیے۔۔ بی جان کو گلے لگاتی وه جلدی آنے کا کہتی چلی گئی۔۔ بی جان ارے ارے ہی کرتی رہ گئیں۔۔


یا اللّه میری بیٹی کو اپنے امان میں رکھ!!! دل میں دعا کرتیں وه ناشتہ کے برتن سمیٹ کر کمرے میں چلی گئیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


سڑک پر پیدل چلتی وه آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔ یہ شہر اس کے لیے نیا تھا۔۔ اسے کسی جگہ کا کوئی علم نہ تھا۔۔ اس نے سوچا تھا کہ وه کسی نہ کسی فرم میں جاب کرلے گی۔۔


سڑک پر چلتی وه ساتھ ساتھ دوکانوں کے اوپر لگے بڑے بڑے بورڈز پر بھی نظر ڈال رہی تھی۔۔ اسے چلتے کافی وقت ہوگیا تھا۔۔ اس نے تھک کر واپسی کا اراده کیا ہی تھا کہ اسکی نظر ایک عمارت پر پڑی جہاں کراچی یونیورسٹی کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔۔ ساتھ ہی ایک نوٹس دیوار پر چسپاں کیا گیا تھا جس میں لکھا تھا کہ كوالیفائیڈ سٹاف کی ضرورت ہے۔۔


اس کے دل میں امید جاگی۔۔ بیگ پر گرفت مظبوط کرتی وه خود کی ہمت بندهاتی گیٹ سے اندر آئی۔۔


یونیورسٹی میں معمول کی چہل پہل تھی۔۔ کچھ سٹوڈنٹس کیفے ٹیریا میں تھے جبکہ کچھ یونیورسٹی کی گراؤنڈ میں بیٹھے تھے۔۔ وه سیدھ میں چلتی گئی۔۔ اس نے پاس سے گزرتے ایک سٹوڈنٹ سے آفس کے بارے میں پوچھا اور اس کے بتائے گئے راستے پر چلتی ہوئی یونیورسٹی کی پچھلی سائیڈ پہنچ گئی۔۔


کیا بدتمیزی ہے یہ!!! وه سلگ گئی۔۔ تن فن کرتی وه واپس آئی اور اب کی بار کسی سے پوچھنے کی غلطی نہ کی۔۔ ارد گرد دیکھتی وه کمروں کے اوپر لگی تختیوں کو دیکھنے لگی۔۔


ڈین آفس کے سامنے آ کر وه رکی۔۔ گہری سانس لے کر وه ناک کرتی اندر آئی۔۔ ہیلو سر!!


وه چوکھٹ سے اندر آتی سنجیدگی سے بولی تو دفتری میز کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھے کوٹ سوٹ میں ملبوس ادھیر عمر شخص نے سر اٹھایا۔۔


یس۔۔ بیٹھیں!!! وه ہاتھ میں پکڑے پین کا ڈھکن بند کرتے کا پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوئے۔۔ جی کہیے!!!


ارشما ان کے مقابل کرسی پر بیٹھی۔۔ اس نے فائل سامنے میز پر رکھی اور پرس کرسی کے پاس زمین پر رکھتے ان کی طرف متوجہ ہوئی۔۔


میں یہاں جاب کے لیے اپلائے کرنا چاہتی ہوں!! وه سیدھا مدعے پر آئی۔۔


"سی وی دکھائیں اپنی" ڈین نے چشمہ درست کرتے ہاتھ آگے کیا تو اس نے فائل اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی۔۔


ہمم ریکارڈ اچھا ہے آپ کا لیکن كوالیکیشن کم ہے آپ کی!!! وه سر اٹھا کر بولے۔۔


سر مجھے جاب کی بہت ضرورت ہے۔۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی!! وه انہیں دیکھتی متانت سے بولی۔۔


ڈین پر سوچ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔۔ انگلش کیسی ہے آپ کی؟؟ فائل اسکی طرف بڑھا کر وه دونوں ہاتھ باہم پهنسا کر میز پر رکھتے بولے۔۔


"انگلش بہت اچھی ہے میری۔۔ میں نے اسلام آباد کے ٹاپ انسٹیٹیوٹ سے گریجوایشن کی ہے۔۔" اب کی بار وه پورے اعتماد سے بولی۔۔


"آآ۔۔ آپ ایسا کریں کل سے آ جائیں۔۔ ہم آپ کو تین دن کے ٹرائل پر رکھ لیتے ہیں۔۔ اگر آپ ہمارے كرائیٹیریا پر پوری اتریں تو آپ کو جاب مل جائے گی۔۔"


ان کا کہنا تھا کہ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔۔ اوکے تھینک یو سو مچ!! میں کل سے جوائن کرتی ہوں۔۔ ونس اگین تھینک یو!! ان کا شکریہ ادا کرتی وه آفس سے باہر نکل گئی۔۔


واپسی پر پیدل جانے کے خیال کو جھٹک کر اس نے سڑک پر آتے رکشہ روکا اور اس میں بیٹھ کر واپس "پی آئی بی" کالونی آ گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


اسلام علیکم بابا سائیں!!! ماہ بیر سلام کرتا کرسی كهسكا کر بیٹھ گیا۔۔


وعلیکم السلام !! کیسے ہو میرے شیر؟؟ عبدالله شاہ کھانا کھاتے ہوئے اس سے احوال دريافت کرنے لگے۔۔


اللّه کا کرم ہے۔۔ نگہت کھانا لگا دو جلدی!! انہیں جواب دے کر وه نگہت کو پکارنے لگا۔۔ مشائم تو اب کھانے پر نہیں آتی تھی اور عارفہ طبیعت ناسازی کے باعث کمرے میں ہی کھانا منگوا چکی تھیں اس لیے نگہت نے بس ایک فرد کے لیے میز پر کھانا لگایا تھا۔


جی لاتی ہوں شاہ سائیں!! نگہت اسے ٹیڑھی نظروں سے دیکھتی منہ بنا کر بولی۔۔ ہنہ!! اسے اپنا "كرس" بدلنے پر دکھ تھا بہت لیکن خیر۔۔۔


نگہت کھانا لگا لگا کر چلی گئی تو عبدالله شاہ اس سے دوبارہ مخاطب ہوئے۔۔ "ماہ بیر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب تمہیں گدی سنبهال لینی چاہیے!! ویسے بھی تم علاقے کے تمام امور دیکھتے ہو اب باقاعده تمھارے گدی نشین ہونے کا اعلان کر دینا چاہیے!!"

وه کھانے سے ہاتھ کھینچتے سنجیدگی سے گویا ہوئے۔۔


جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔۔۔ وه اثبات میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ چلتا ہوں مجھے کچھ کام ہے!! ان سے رخصت لیتا وه ہاتھ میں پہنی برینڈڈ گھڑی میں وقت دیکھتا ہوا ڈائینگ ہال سے باہر چلا گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه دن بھی آ گیا جب ماہ بیر نے باقاعده طور پر خضدار کا گدی نشین بننا تھا۔۔ سفید كلف لگے سوٹ میں کندھوں پر سفید شال ڈالے وه نک سا تیار خوشبو میں نہایا ہوا اپنے کمرے میں کھڑا موبائل پر صالح سے محو گفتگو تھا۔۔


آج انہوں نے ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس میں شرکت کے لیے شہر کے بیشتر لوگوں نے آنا تھا۔۔ اکثریت اپنے نئے سردار کے لیے بہت خوش اور پرجوش تھی جبکہ کچھ ایسے بھی لوگ تھے جنہیں سلطان ماہ بیر شاہ کا سردار بنایا جانا ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔۔


صالح سے بات کر کے اس نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور آئینے کے سامنے آتے ایک آخری نظر اپنے سراپے پر ڈالی۔۔


سٹائلش سے گردن کو چھوتے بال جن کی ایک لٹ ماتھے پر گر رہی تھی۔۔ گهنی داڑھی مونچھیں اور سرمئی آنکھوں میں ایک خاص چمک۔۔ وه دهیما سا مسکرایا۔۔


واپس سائیڈ ٹیبل کے پاس آ کر موبائل اٹھاتا وه مشائم کے کمرے کی طرف گیا۔۔ ناک کر کے وه اندر داخل ہوا۔۔


وه جو چہرے پر بازو رکھے لیٹی تھی اسے کمرے میں دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ اسے نظر انداز کرتی وه کمرے میں اس کے علاوہ ہر چیز کو دیکھنے لگی۔۔


مشی آج مجھے علاقے کا نیا سردار مقرر کیا جانا ہے۔۔ کیا اتنے اہم موقع پر بھی مجھ سے ناراض رہو گی؟؟ وہ نرمی سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔

مشائم نے اسکی بات کا جواب نہ دیا تو وه پهیکی مسکراہٹ سے اس دیکھتا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اٹھتا وہاں سے چلا گیا۔۔


اسکے جانے کے بعد مشائم کے تاثرات میں نرمی آئی۔۔ وه دل ہی دل میں اس کے لیے دعا گو ہوئی۔۔ حویلی سے باہر شور کی آوازیں اٹھنے لگیں تو وه بالکنی میں چلی آئی۔۔

اسکی پہلی نظر جس پر پڑی تھی اس نے جیسے اسکی سانس روک لی۔۔ گیٹ کے پاس وه سرمئی شرٹ سیاہ جینز میں شرٹ کے بازو عادتاً کہنیوں تک موڑے ماتھے پر بل ڈالے کسی سے بات کررہا تھا۔۔ اسکے چہرے پر عام حالات سے زیادہ سرخی نظر آ رہی تھی۔۔

کتنے دن بعد اس نے اس دشمنِ جاں کو دیکھا تھا۔۔ دید کی پیاسی آنکھیں دیوانہ وار صالح یوسف کو تکنے لگیں۔۔ اس نے پلک تک نہ جهپكی تھی کہیں وه اگلے ہی پل اسکی نگاہوں سے اوجهل نہ ہوجائے۔۔

مسلسل نظروں کے ارتكاز پر دفعتاً صالح نے بات روک کر نظریں اٹھائیں تو سیدھا اس جهلی کی آنکھوں سے ٹکرائیں جو اسکے عشق میں دیوانی ہوئی پڑی تھی۔۔ صالح کے چہرے کی سرد مہری کئی گنا بڑھ گئی۔۔ ماتھے پر پڑی شکنوں میں اضافہ ہوا تھا۔۔ وه چہرہ موڑتا مقابل سے بات کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

دور بالکنی میں کھڑی مشائم نم آنکھوں سے اسے دیکھتی ہنس پڑی۔۔

چلے نہ زور عشق پہ

تھوڑا سا اور عشق پہ

کریں گے غور عشق پہ

یہ "درد" ہے یا ہے "دوا"

زیر لب یہ اشعار بولتی وه مسکرا کر بالکنی سے پیچھے ہٹ گئی۔۔

🌚🌚🌚🌚

مجمع میں عجب سماں تھا۔ ہر طرف ڈھول پیٹے جارہے تھے۔۔ ڈھول کی تھاپ پر کچھ دیوانے بھنگڑا ڈال رہے تھے۔۔ آخر کو آج ان کے لیے بے حد خوشی کا دن تھا۔۔ ان کے دل پسند "ماہ بیر سائیں" آج سے ان کہ سردار بن گئے تھے۔۔ اس قدر مہربان شخص ان پر متعین ہو تو ان کا خوش ہونا تو بنتا تھا۔۔

بھیڑ سے کچھ فاصلے پر بنے سٹیج پر وه صالح کے ساتھ کھڑا تھا۔۔ اس کے بائیں جانب جبار اور دو گارڈز مزید کھڑے تھے۔۔ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔۔ بلا کے حسین چہرے پر دل آویز مسکراہٹ رقصاں تھی۔۔

اس نے ہاتھ بلند کیا تو مجمع میں خاموشی چھا گئی۔۔

میں " سید سلطان ماہ بیر شا" ،، "سید محمد عبداللّه شاہ" کا اکوتا فرزند آج آپ سب کے سامنے کوئی بڑی بڑی تقریریں نہیں کروں گا۔۔ میرے بابا سائیں نے جس طرح ہمیشہ اپنے فرائض کو احسن طریقے سے انجام دیا اور اپنے رتبے کا پاس کیا میں بھی آج آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ پہلے کی طرح علاقے میں "امن راج" قائم رہے گا اور آپ سب کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔۔ ہم سب مل کر اپنے علاقے کی خوشحالی اور بہتری کے لیے کام کریں گے اور ہمارے علاقے کو بری نظر سے دیکھنے والوں کو ہم سب کافی ہوں گے۔۔ حکمران اور رعایا کو مل کر ایک منظم نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔۔ مجھے امید ہے آپ سب اچھے مقاصد کی تكمیل میں ضرور میرا ساتھ دیں گے۔۔"

اس کا کہنا تھا کہ مجمع میں زبردست شور اٹھا۔۔ حاضرین زور زور سے تالياں پیٹنے لگے۔۔ لوگوں کے بیچ ایک نوجوان غیر محسوس انداز میں تالیاں بجاتا ہوا آگے آیا۔۔

اس نے چہرے کو ڈهانپ رکھا تھا۔۔ اس نے گردن موڑ کر قدرے فاصلے پر موجود ایک شخص کو دیکھا جو اسی کی طرح چہرے پر رومال باندھے ہوئے تھا۔۔ دونوں کی آنکھوں سے نفرت جهلک رہی تھی۔۔

صالح، ماہ بیر کے برابر کھڑا فون کان سے لگائے ساتھ ساتھ مجمع پر بھی نظر ڈال رہا تھا۔۔ اسکی آنکھیں ایک شخص پر آ کر ٹھہریں ۔۔

اس کی چھٹی حس نے خطرے کا سگنل دیا۔۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے ماہ بیر کو دیکھا جو مسکرا کر ایک بوڑھے شخص سے مل رہا تھا۔۔

مقابل شخص کو بھی شاید خطرے کا احساس ہوا تھا۔۔ اس نے پھرتی سے جیب سے چھپا ہوا ریوالور نکالا۔۔ اور سیكنڈ کے ہزارویں حصے میں ماہ بیر پر تان ٹریگر دبا دیا۔۔

صالح چیخا تھا۔۔ اس نے خوف سے ماہ بیر کو دیکھتے اسے اپنی اوڑھ کھینچا تھا۔۔ اسکے دل نے شدت سے خواہش کی کہ کاش وقت یہیں رک جائے۔۔ دل کے مقام پر لگنے والی گو***لی صالح کے بروقت کھینچنے پر ماہ بیر کا بازو چیرتی چلی گئی۔۔

اس کی چھٹی حس نے خطرے کا سگنل دیا۔۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے ماہ بیر کو دیکھا جو مسکرا کر ایک بوڑھے شخص سے مل رہا تھا۔۔


مقابل شخص کو بھی شاید خطرے کا احساس ہوا تھا۔۔ اس نے پھرتی سے جیب سے چھپا ہوا ریوالور نکالا۔۔ اور سیكنڈ کے ہزارویں حصے میں ماہ بیر پر تان ٹریگر دبا دیا۔۔


صالح چیخا تھا۔۔ اس نے خوف سے ماہ بیر کو دیکھتے اسے اپنی اوڑھ کھینچا تھا۔۔ اسکے دل نے شدت سے خواہش کی کہ کاش وقت یہیں رک جائے۔۔ دل کے مقام پر لگنے والی گو***لی صالح کے بروقت کھینچنے پر ماہ بیر کا بازو چیرتی چلی گئی۔۔


سفید قمیض فوراً سرخ ہوئی تھی۔۔ ماہ بیر آنکھیں میچے بے اختیار کراہا۔۔ صالح نے اسکی ڈھال بنتے پھرتی سے کمر کی پچھلی جانب پینٹ کی پاکٹ میں رکھا پسٹل نکالا اور مجمع چیر کر بھاگتے ہوئے اس شخص کی کمر کا نشانہ لیا۔۔


اسکی گولی ٹھیک نشانے پر لگتی مقابل کو موقع پر ہی ہلاک کر گئی۔۔ لوگوں میں بھگدر مچ گئی۔۔ گولیوں کی آوازوں سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔۔


جبار گاڑی نکالو جلدی!!! وه جیب سے رومال نکالتا ماہ بیر کے بازو پر زور سے باندھتا شور کے باعث زور سے داڑھا تھا۔۔ ماہبیر نے درد کی شدت سے زور سے ہونٹ بھینچے تھے۔۔ جبار بجلی کی سی تیزی سے بھاگتا گاڑی لے آیا۔۔ گارڈز کی مدد سے صالح نے ماہ بیر کو گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبهالتا فل سپیڈ سے گاڑی دوڑانے لگا۔۔


دوسرے نقاب پوش نے اپنے بھائی کی لاش کے پاس آتے نفرت سے ان کی پشت کو دیکھا تھا۔۔ تم اسکا بدلہ ضرور چکاؤ گے صالح یوسف!!! وه اپنے بھائی کی بے جان آنکھوں کو بند کرتا آگ اگلتے لہجے میں پھنکارا تھا۔۔


🌚🌚🌚🌚


ہسپتال کے کاریڈور میں چکر لگاتا وه موبائل پر کسی سے بات کررہا تھا۔۔ اس نے ہسپتال آتے ہی عبدالله شاہ کو کال کر کے صورتحال کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔۔ وه شہر سے باہر تھے۔۔ اور کچھ دیر میں پہنچنے والے تھے۔۔ فون کے زریعے وه یوسف سے رابطے میں تھے تا کہ ماہ بیر کی حالت کے بارے میں آگاہ رہیں۔۔


وه موبائل پاكٹ میں رکھتا دیوار کے ساتھ نصب بنچ پر بیٹھ کر کنپٹی دبانے لگا۔۔ یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں تھی ۔۔ غصے کی شدت سے اسکی گردن کی رگیں پھول گئیں۔۔


ماہ بیر کہاں ہے؟ کیسا ہے وه!!! عارفہ چادر سے نقاب کئے تیزی سے اس تک آئی تھیں۔۔ نقاب سے جھانکتی انکی آنکھیں نم تھیں۔۔


صالح نے سر اٹھایا تو سامنے انہیں پا کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ ساتھ ہی اسکی نگاہ ان کے پیچھے کھڑی مشائم پر پڑی جو سیاہ عبائے میں نقاب کئے اسکے دیکھنے پر نظروں کا زاویہ موڑ گئی تھی۔۔


ڈاکٹر نے گو***لی نکال کر پٹی کردی ہے۔۔ شکر ہے زیادہ خون نہیں نکلا۔۔ ابھی وه انجیکشن کے زیر اثر سو رہے ہیں۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔۔ ایک دو دن تک چھٹی مل جائے گی۔۔" وه سر جھکا کر دھیمے لہجے میں بولا تھا۔۔


بیٹا کیا ہم مل سکتے ہیں اس سے میرا دل ہول رہا ہے جب تک میں اپنے ماہ بیر کو دیکھ نہیں لیتی مجھے سکون نہیں آئے گا!! وه بے چینی سے بولیں تو وه سر ہلاتا انہیں ایک کمرے میں لے آیا۔۔۔


ان کے اندر جانے کے بعد وه دروازه بند کرتا دیوار سے کمر ٹکا کر کھڑا ہوگیا۔۔ اندر دیکھو تو عارفہ ماہ بیر کا ماتھا چوم کر منہ پر ہاتھ رکھے رونے لگی تھیں۔۔ میرا بچہ!! کیا حالت ہو گئی ہے میرے بچے کی۔۔ مشائم بھی ضبط کھوتی اسکا ہاتھ پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔۔


بھائی اٹھیں نہ میں نہیں ناراض اب آپ سے۔۔ بہت پیار کرتی ہوں میں آپ سے ۔۔ ٹھیک ہوجائیں آپ۔۔ اب کبھی آپ سے ناراض نہیں ہوں گی میں پرامس!! وه اس کا ہاتھ پیشانی سے لگاتی روتے ہوئے بولتی جارہی تھی۔۔


ہاں وه ناراض تھی اس سے لیکن بہت محبت کرتی تھی اس سے۔۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر اسکا دل بے حد دکھ رہا تھا۔۔


باہر صالح نے اسکے رونے کی آواز سن کر آنکھیں کھولی تھیں۔۔ وه روئے یا ہنسے مجھے کیا!! سر جھٹک کر وه جیب سے دواؤں کی پرچی نکالتا مطلوبہ دوائیاں لینے کے لیے ہسپتال سے منسلک میڈیکل سٹور چلا گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


چہرے کو سیاہ نقاب سے ڈھکے وه محتاط انداز میں چلتی ہوئی پی سی او میں داخل ہوئی۔۔ ٹیلی فون کا ریسیور اٹھا کر اس نے ایک نمبر ڈائیل کیا اور دوسری جانب سے کال اٹھائے جانے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔


جب دوسری جانب سے کال اٹھا لی گئی تو اس کی آنکھوں کی سردمہری مزید بڑھ گئی۔۔ دوسری جانب موجود اورہان نے موبائل کان سے لگایا۔۔۔


کون بول رہا ہے ؟؟ دوسری جانب سے مسلسل خاموشی پاکر وہ کوفت سے بولا۔۔ کون ؟ اس نے پھر سے دہرایا۔۔۔


تمہاری موت !! مقابل کی سرد آواز پر اس نے فون کان سے ہٹا کر دوبارہ دیکھا تھا۔۔ کیا بکواس ہے یہ۔۔ وه غصے کی شدت سے گرجا تھا۔۔۔


بکواس نہیں حقیقت ہے یہ !! بہت اڑ لئے ہوا میں ۔۔۔ اب تمہارے گناہوں کے حساب کا وقت آ گیا ہے۔۔ مقابل کے سرد ٹھٹھرا دینے والے لہجے پر اس کی گردن میں گلٹی ابھری۔۔ کیسی نفرت کی

پھنکار تھی۔۔۔


خود کو نارمل کرتے اس نے کچھ سخت کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ دوسری جانب سے ٹھک سے ریسیور رکھ دیا گیا۔۔


فون رکھ کر وه پی سی او سے باہر نکلی۔۔ نقاب درست کرتی وه تیز تیز چلنے لگی۔۔ رکشہ رکوا کر وه اس میں بیٹھتی اسلام آباد ڈیفنس تک آئی۔۔ یہ لو بھائی!! دو سو کا نوٹ اسے تهما کر وه نقاب اتار کر اپنے آپ کو نارمل کرتی بنگلے کے گیٹ سے اندر آئی۔۔


لان میں رشید مالی کے ساتھ کھڑا گپ شپ لگا رہا تھا۔۔ وه بھی اسی طرف چلی آئی۔۔ کیا بات ہورہی تھی؟ ان دونوں کو خاموش ہوتے دیکھ کر وه پوچھنے لگی۔۔


رشید نے ارد گرد دیکھا آیا کہ کوئی اور ملازم تو نہیں وہاں۔۔ ہم صاحب کی بہن کے بارے میں بات کررہے تھے۔۔!! وه اینارا کو دیکھتا رازداری سے بولا تو وه چونک کر اسے دیکھنے لگی۔۔ کیوں کیا ہوا اسکی بہن کو؟؟


مالی نے رشید کو آنکھ سے اشارہ کیا۔۔ مالی بابا آپ بے فکر رہیں یہ کسی کو نہیں بتائے گی۔۔ رشید نے ان کو تسلی دی۔۔ اینارا پرتجسس نگاہوں سے کبھی رشید کو تو کبھی مالی بابا کو دیکھتی۔۔


پتہ ہے صاحب کی بہن اچانک غائب ہوگئی ہے۔۔ کچھ اتا پتہ نہیں۔۔ کچھ کہتے ہیں بھاگ گئی ہے ، کچھ کہتے انہوں نے رات کو اس گھر سے چیخوں کی آوازیں سنی تھیں۔۔ اب رب جانے حقیقت کیا ہے!! وه سرگوشی میں بولا۔۔


وه تو سناٹے میں رہ گئی۔۔ کیا واقعی مکافات عمل ہوتا ہے؟ بغیر کچھ کہے وه چپ چاپ اندر چلی آئی۔۔ بہت اچھا ہوا تمہارے ساتھ تم اسی قابل ہو!! تمہارے ساتھ اس سے بھی برا ہونا چاہیے اور یہ نیک کام میں اپنے ہاتھوں سے کروں گی!! وہ نفرت سے سوچتی کچن میں چلی آئی۔۔


اینارا یہ صاحب کو دے آؤ میں ذرا مصروف ہوں نہیں تو خود دے آتی!! ملازمہ جلدی جلدی کھانا تیار کرتی ہوئی بولی۔۔


لائیں!! وہ ٹرے تھامتی ہوئی باہر آئی جس میں فروٹس اور جوس کا گلاس رکھا تھا۔۔ وه سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی۔۔ اسکے کمرے کا دروازه ناک کر کے وه اندر آئی تو دیکھا کہ وه بیڈ پر نیم دراز انكهیں موندے پڑا تھا۔۔


سر!! وه ہلکی آواز میں بولی۔۔ اورهان ماتھے پر بل ڈالے اٹھ بیٹھا۔۔ آئندہ ناک کئے بغیر میرے کمرے میں نہ آنا!! وه اسے وارننگ دیتی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔


سفید ٹی شرٹ اور بلیو جینز میں سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا وه اسے خوف میں مبتلا کر گیا سس۔۔سو۔ری!!! وه سر جھکا کر بولی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ پر اس کے سامنے ٹرے رکھ کر پیچھے ہٹی۔۔


اورهان کا دماغ گھوما۔۔ کیا تمہارے فرشتے فروٹس کاٹیں گے؟؟ وه غصے سے اسے گھور کر بولا تو کانپتے ہاتھوں سے آگے بڑھی اور پنجوں کے بل بیٹھ کر چھری تھامتی کانپتے ہاتھوں سے فروٹس کے ٹکرے کرنے لگی۔۔


اورهان بلا مقصد اسے دیکھنے لگا۔۔ گڑیا جیسی بڑی بڑی آنکھوں پر کانپتی گهنیری پلکیں، بھینچے ہوئے گلابی ہونٹ، سرخ و سپید رنگت۔۔ وه اسے بے ضرر اور معصوم لگی تھی۔۔


اس کی نظروں کے ارتكاز پر اینارا کا دیهان بھٹکا اور اس کی انگلی پر کٹ لگ گیا۔۔ سس !! وه چھری ٹرے میں گراتی انگلی کو دیکھ کر رونا شروع ہوگئی جس سے گہرا کٹ لگنے کے باعث خون نکلنے لگا تھا۔۔


اورهان کو سمجھ نہ آیا کیا کرے!! ایسی صورتحال سے کبھی اسکا سامنا جو نہیں ہوا تھا۔۔ ادھر دکھاؤ!! وه ہاتھ بڑھا کر بولا تو وه نہ میں سر ہلاتی روتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔


میں نے کہا دکھاؤ مجھے!! وه سختی سے بولتا اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ پر بٹھا گیا۔۔ گہرا کٹ لگا ہے!! اسکے زخم کا معائنہ کرتا وه اٹھا اور الماری سے فرسٹ ایڈ باكس نکال کر اسکے سامنے بیٹھتا اسکا ہاتھ تھام کر کاٹن سے خون صاف کرنے لگا۔۔


اینارا نے ہاتھ کھینچنا چاہا۔۔ اب اگر تم نے ہاتھ ہلایا تو میں تمہارا پورا ہاتھ کاٹ دوں گا!! وه درشتگی سے بولا تو وہ سہم کر مزاحمت ترک کر گئی۔۔


بینڈایج کر کے وه اٹھا تو وه بھی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اورهان نے اسکی بھیگی آنکھوں کو دیکھا۔۔ مم میں کاٹ دیتی ہوں!! وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔۔


کیا۔۔ ہاتھ؟؟ وه مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔۔


کیوں۔۔۔ کیوں کاٹوں میں اپنا ہاتھ؟؟ وه اپنا ہاتھ پیچھے چھپاتی خفگی سے بولی۔۔ اس کی اس قدر معصومیت پر وه یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔۔ کیا آج کے دور میں ایسی معصوم لڑکیاں بھی پائی جاتی ہیں۔۔؟ گہری سانس لیتا وه پیچھے ہٹا۔۔


ایک بات پوچھوں؟ اسے اچھے موڈ میں دیکھ کر وه معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتی بولی۔۔ سب کی زبانی اس نے یہی سنا تھا کہ اورهان بہت بدمزاج ہے اور غصہ تو اس کی ناک پر ہر وقت سوار رہتا ہے۔۔ لیکن اگر وه اسکے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کررہا ہے تو اسے ضرور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔۔


پوچھو!! وه پینٹ کی پاكٹ میں ہاتھ ڈال کر گویا ہوا۔۔


وو۔۔ وه مجھے بتایا تھا رشید نے کہ آپ کی بہن بھی ہے۔۔ اتنے ۔۔۔ دن ۔۔ سے۔۔۔ میں یہاں ہوں ۔۔۔لیکن وه تو نظر ۔۔۔۔


چپ!!! اسکی بات مکمل ہونے سے قبل وه گرجا تھا۔۔ارشما کے ذکر پر اسکی آنکھیں لال انگارہ ہوئی تھیں۔۔ اینارا ڈر کر پیچھے ہٹتی بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔


مم ۔ معاف ۔۔ کر دیں ۔۔۔ میں ۔۔۔۔ اسے روتے دیکھ کر اورهان نے گہرے سانس لیتے خود پر قابو کیا۔۔ گلاس میں پانی ڈالتا وه ایک سانس میں حلق سے نیچے اتار گیا۔۔


بیٹھو!! اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے اس نے کہنا شروع کیا۔۔ اینارا وه پہلی انسان تھی جسے میر اورهان صمید نے دل کی باتیں شیئر کرنے کا اراده کیا تھا۔۔ اور ایسا اس نے کیوں کیا تھا یہ وه خود بھی نہیں جانتا تھا۔۔

🌚🌚🌚🌚


جب سے ماہ بیر ہسپتال سے گھر آیا تھا عیادت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندها رہتا تھا۔۔ وه سب کی اتنی محبّت پا کر بے حد مشکور ہوا تھا۔۔ اسکی مشی نے بھی اسے معاف کردیا تھا اور اب تو وه پہلے سے بھی زیادہ اسکی پروا کرنے لگی تھی۔۔


اب بھی وہ گرم دودھ لے کر آئی تھی۔۔ بھائی جان کوئی بہانہ نہیں چلے گا چلیں اٹھیں مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہے ہیں!! اسے فوراً آنکھیں بند کرتے دیکھ کر وه آنکھیں چھوٹی کر کے بولی۔


ہاں بھائی تمہیں تو سب پتہ چل جاتا ہے!! وه منہ بنا کر اٹھتا ہوا بولا تو وه کھلکھلا دی۔۔ یہ لیں جلدی سے فینیش کر لیں۔۔!!


یار مشی اکتا گیا ہوں میں مجھے نہیں پینا کوئی دودھ وودھ!! وه منہ بناتا بلکل کوئی بچہ لگا۔۔ اس نے بغیر بازو کے سی گرین ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس سے اسکے کسرتی بازو نمایاں ہورہے تھے۔۔ بائیں بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔


اسے یوں منہ بناتے دیکھ کر مشائم نے پیار سے اسکے گال کھینچے تو وه ہنس پڑا۔۔ یہ لیں میں اپنے ہاتھوں سے پلاتی ہوں آپ کو!! وه اسکے نہ نہ کرنے کا باوجود دودھ کا گلاس اسکے منہ سے لگا گئی۔۔

ماہ بیر نے سرمئی آنکھوں میں خفگی لیے اسے دیکھا تو منہ چڑا کر خالی گلاس پکڑتی کمرے سے چلی گئی۔۔

اس کے جانے کے بعد وه مدهم سا مسکرا دیا۔۔ موبائل کی رنگ ٹون پر وه متوجہ ہوا۔۔ ہیلو!! اس نے موبائل کان سے لگایا۔۔ حویلی کے باہر کھڑے ہو ؟ یار جھجھک کیوں رہے ہو؟ آ جاؤ اندر ۔۔ ہاں کوئی نہیں ہے کمرے میں۔۔ آ جاؤ۔۔ موبائل بند کر کے بیڈ پر ڈالتا وه نیم دراز ہوگیا۔۔

السلام علیکم !! بھوری شلوار قمیض کے ساتھ سیاہ شال اوڑھے وه سلام کرتا ہوا اندر آیا۔۔ وعلیکم السلام !! آؤ آؤ۔۔ کیسے ہو؟ وه نرمی سے مسکرا کر بولا۔۔

مجھے کیا ہونا ہے شاہ سائیں آپ بتائیں کیسی طبیعت ہے آپ کی؟ وه اس کے پاس بیڈ پر براجمان ہو کر بولا۔۔

بس یار پهسا ہوا ہوں!! امی جان نے مجھے کمرے تک محدود کر دیا ہے۔۔ روز روز کے پھیکے کھانے کھا کر جی اکتا گیا ہے۔۔ وه افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھتا کہنے لگا۔۔

صالح کے مسكرنے پر وه اسے گھورنے لگا۔۔ بڑی ہنسی آ رہی ہے تمہیں یوسف صاحب؟

نہیں تو میں کہاں ہنس رہا ہوں؟ صالح صاف انکار کر گیا۔۔ آگے ہوتے ہاتھ بڑھا کر اس نے اسکا بازو پکڑ کر دیکھا۔۔ پیچھے ہٹ کر وه سینے پر ہاتھ باندھتا ماہ بیر کو مسکراتی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔

کوئی اور یوں اسے مسکراتے دیکھتا تو حیرت سے بے ہوش نہ ہو جاتا۔۔ یوسف صاحب کے ماتھے کے بل غائب ہوں ۔۔۔ ایسے موقع شاز و نادر ہی آتے تھے۔۔ وه بھی اکثر تب جب وه ماہ بیر کے ساتھ ہوتا تھا۔۔

کیا؟؟ اسے یوں اپنی طرف تکتے پا کر ماہ بیر مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔

سائیں۔۔۔۔ آپ شادی کر لیں!! داڑھی پر ہاتھ پھیرتا وه غیرسنجیده لہجے میں بولا۔۔

میری شادی کا خیال کیوں کر آگیا تمہارے زرخیز دماغ میں؟ ماہ بیر کے پوچھنے پر وه سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔

"دیکھیں نہ آپ کی شادی کی عمر بھی ہوگئی ہے۔۔ اور ایسے مواقع پر بیوی زیادہ بہتر طریقوں سے خدمت کرتی ہے" اسکی بات کا مطلب سمجھتے ماہ بیر زوردار قہقہہ لگا گیا۔۔ صالح بھی دھیما سا ہنس دیا۔۔

اچھا یہی مشورہ میں تمہیں بھی دیتا ہوں،، تم بھی کیوں نہیں شادی کر لیتے۔ جتنا تم شادی کے ذکر سے بھاگتے ہو دیکھنا بیوی کے آتے ہی کیسے زن مرید بنو گے!! وه جو ہنس رہا تھا ماہ بیر کی بات س کر برا سا منہ بنا گیا۔۔

"استغفراللّه!!" آپ ایسی امید نہ رکھیں مجھ سے۔۔ توپوں کا رخ اپنی جانب دیکھ کر وه سٹپٹا کر اٹھ گیا۔۔ اس نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی نہیں تو ماہ بیر تو اسکی ٹانگ کھینچنے کے موقعے ڈھونڈتا تھا۔۔

اچھا اب آپ آرام کریں۔۔میں پھر آؤں گا!! وه اسکا كندها تھپتهپا کر اٹھا۔۔

ہمیشہ ایسے ہی بھاگ جاتے ہو شادی کے ذکر پر۔۔!! ماہ بیر ہنوز شرارتی مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

اوکے خدا حافظ!! ہاتھ ماتھے تک لے جا کر وه باہر نکل آیا۔۔ باہر آتے ہی وه مشائم سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔۔

مشائم نے فورا سے چہرے کو ڈھانپا تھا لیکن پھر بھی صالح اسکی ایک جهلک دیکھ چکا تھا۔۔ دونوں سرعت سے مڑے اور مخالف راستے پر چل پڑے۔۔

مشائم نے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے اپنی دھڑکنوں کو شمار کرنے کی کوشش کی۔۔ اس کے وجود کی مہک اسے اب بھی اپنے گرد محسوس ہورہی تھی۔۔

دوسری جانب صالح بھی عجیب كیفيت میں مبتلا ہوگیا۔۔

(ایک سال بعد)

وه ابھی ابھی یونیورسٹی سے آئی تھی۔۔ گلی کا کونہ مڑتے وه آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گھر کے سامنے آئی۔۔ دروازه کھلا دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا۔۔


پرس کاندھے پر درست کرتی وه جلدی سے اندر آئی۔۔ اندر سے آتی مردانہ آواز پر وه پریشان ہوتی ہوئی چلی آئی۔۔ بی جان!! وه صحن میں آئی تو اسکی نظر مالک مکان پر پڑی جو انتہائی بدتمیزی سے اونچا اونچا بول رہا تھا۔۔ اس کے سامنےکھڑیں بی جان اسے کچھ کہنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن وه انہیں بات ہی نہیں کرنے دے رہا تھا۔۔


کیا بدتمیزی ہے یہ!! ارشما بی جان کو بےبس دیکھ کر تڑپ کر آگے بڑھی۔۔ اسکے دل میں ٹھیس اٹھی تھی۔۔ بےبسی کا احساس اس سے بہتر کون محسوس کر سکتا تھا۔۔ وه بی جان کے آگے ڈھال بنتی کھڑی ہوگئی۔۔


"بی بی یہ تیور نہ کسی اور کو دکھاؤ جا کر۔۔ میں نے پچھلی بار بھی کہا تھا مجھے کرایہ وقت پر چاہیے۔۔ تم لوگوں کا ہر دفعہ کا کام ہے یہ۔۔ کبھی یہ ہوگیا کبھی وه ہوگیا۔۔" بھاری بھرکم وجود کا مالک مکان جس کی توند نکلی ہوئی تھی اور چہرے پر لعنت برس رہی تھی اسے آنکھیں دکھاتا غصے سے بولا۔۔


دیکھو مسٹر آرام سے بات کرو کرایہ دیتے ہیں ہم فری میں نہیں رہتے جو تمہارا یہ رویہ برداشت کریں۔۔ اور ایک دفعہ بس کرایہ لیٹ ہوا ہے وه بھی اس ماہ۔۔ دے دوں گی۔۔ کچھ دن تک۔۔ لیکن اگر تم نے دوبارہ یہاں آ کر میری بی جان کو دهمكانے کی کوشش کی تو میں تم پر "حراسمنٹ" کا کیس کر دوں گی۔۔

وه اسکی آنکھوں میں دیکھتی درشتگی سے بولی۔۔


کچھ دن بعد آؤں گا دوبارہ اور کرایہ لئے بغیر نہیں جاؤں گا یاد رکھنا!! وه اسے انگلی دکھا کر کہتا سر جھٹک کر باہر نکل گیا۔۔


اس کے جاتے ہی وه بی جان سے لپٹ گئی جن کی آنکھوں میں اتنی تزلیل پر آنسو آ گئے تھے۔۔ بی جان میں بہت ڈر گئی تھی۔۔ آئندہ کوئی بھی آئے آپ نے دروازه نہیں کھولنا!! وه الگ ہوتی ان کے آنسو پونچھنے لگی۔۔ میں یونیورسٹی بات کروں گی اگر ایڈوانس پےمنٹ مل جائے۔۔


اس دفعہ پیسے اسکے منہ پر ماروں گی گھٹیا انسان۔۔ فری میں نہیں رہتے یہاں جو ہمارے سروں پر ناچنے آ جاتا ہے۔۔!! وه غصے سے تن فن کرتی اندر آئی اور چادر زور سے بیڈ پر پھینک کر بڑبڑاتی بال گول مول جوڑے میں باندھ کر فریش ہونے کے لیے باتھروم میں گھس گئی۔۔ بی جان گہری سانس لیتیں اندر آئی اور بیڈ سے چادر اٹھا کر تہہ کرنے لگیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


مالی بابا یہ سب کتنا اچھا لگ رہا ہے!! وہ مالی بابا کے ساتھ پودوں کو پانی دیتے ہوئے بولی۔۔ ہلکی ہوا میں رچی پھولوں کی خوشبو اسے مسحور کررہی تھی۔۔ گلابی شلوار قمیض میں کاندھوں پر دوپٹہ پھیلائے لمبے گھنے بالوں کی چوٹی آگے ڈالے وہ ہنستی ہوئی ان سے باتیں کررہی تھی۔۔


بے دیہانی میں وه پیچھے ہٹی تو پائپ میں پیر اٹکنے سے دھڑام سے نیچے گھاس پر گری۔۔ پائیپ اس کے ہاتھ سے پهسلتا نیچے گرتا مالی بابا کے چہرے کو بھگو گیا۔۔ وه نیچے بیٹھی بیٹھی کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔۔ اسکے موتیوں کی مانند چمکتے دانت نمایاں ہوئے تھے۔۔ گالوں پر بکھرا گلال اور آنکھوں میں آلوہی چمک دیکھ کر وه مبہوت ہوا تھا۔۔


اپنے کمرے کی بالكنی میں کھڑا وه کب سے اسے تکے جارہا تھا۔۔ وه چھوٹی سی لڑکی اسے بہت اپنی اپنی لگنے لگی تھی جس سے وه اپنے احساسات بانٹنے لگا تھا۔۔ ارشما کے بعد اسے اینارا سے اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔۔ اسکی معصوم ادائیں اور بھول پن اس کے دل میں گھر کر گیا تھا۔۔


کسی نرم کونپل کی طرح نازک اور آسمان پر کسی نرم بادل کے ٹکڑے کی طرح شفاف۔۔ اسکے کردار کی شفافيت نے میر اورهان کو مبہوت کیا تھا۔۔ اس نے کبھی اس کے کردار میں لغزش نہیں دیکھی تھی۔۔ اسکی مکمل شخصیت نے اسے متاثر کیا تھا۔۔ پھولوں کی ملکہ کو پھولوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپ دی تھی اس نے۔۔ اور بہت جلد وه اسے اپنا حالِ دل بتا کر گلستانِ دل کی ملکہ بنانے والا تھا۔۔


اینارا نے کھڑے ہوتے سر اٹھا کر اسے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وه نفی میں سر ہلا گیا۔۔


اورهان صاحب بہت بدل گئے ہیں نہ۔۔ اب سب ملازموں پر بہت مہربان ہوگئے ہیں ورنہ پہلے تو سب انکے سامنے جانے کے نام سے ہی کانپتے تھے۔۔ مالی بابا اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے تو وه تائید میں سر ہلا گئی۔۔


اچھے ہیں وه!! اپنی کپڑوں سے مٹی جھاڑ کر وه پھر سے پودوں کو پانی دینے لگی۔۔ وه مالی بابا سے باتیں کرتی ہوئی لان کے دوسرے حصے میں آ کر مگن سی پودوں کو پانی دینے لگی۔۔ البتہ اپنی پشت پر اورهان کی نظریں اسے ابھی تک محسوس ہورہی تھیں۔۔ وه اپنے مقصد کے بے حد قریب تھی۔۔ بس کچھ دن اور!! اسکی آنکھیں پل میں سرد اور پل میں واپس نارمل ہوگئیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه صالح کے ساتھ آفس کی بلڈنگ میں داخل ہوا۔۔ وه خاکی شرٹ کے ساتھ سیاہ پینٹ پہنے ہوئے تھا جبکہ صالح ہمیشہ کی طرح اپنے پسندیدہ سیاہ رنگ کی پنٹ شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔۔


سیکرٹری جلدی سے ان تک آئی اور پروفیشنل انداز میں انہیں ویلكم کرتی مطلوبہ آفس تک لائی۔۔ وه دونوں دروازه کھول کر آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔۔ کمرے میں موجود تینوں آدمی اٹھ کر ان سے بغل گیر ہوئے۔۔ ان میں سے دو تو شکل سے ہی انگریز لگ رہے تھے جبکہ تیسرا بندہ مقامی لگ رہا تھا۔۔


ویلکم ویلکم!! نائیس ٹو میٹ یو بوتھ۔۔ مركزی کرسی کے سامنے کھڑے شخص نے مسکرا کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی کرسی سنبهال کر بیٹھ گیا۔۔ ان کے ساتھ ہی باقی دونوں بھی بیٹھ گیا۔۔ گفتگو کا آغاز ہوا۔۔


سو مسٹر ماہ بیر وہاٹ ڈو یو تھینک اباؤٹ دا پروجیکٹ آف بیلڈنگ آ ہوسپٹل از کینڈا ایزی ان دیٹ بیک ورڈ ایریا؟ آئی مین آئی وانٹ ٹو انویسٹ اینڈ ریلی اپریشیئیٹ یور سپیریٹ بٹ آئی ہیو ہیئرڈ دیٹ دیئر ایگزسٹ بیک ورڈ پیپل ہو انٹرپٹ انٹو ادرز افیئرز اینڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ وه بولتا بولتا رکا۔۔


ماہ بیر نے داڑھی كهجا کر صالح کو دیکھا۔۔ یار یوسف؟ یہ انگریز کی اولاد کی تو سمجھ نہیں آ رہی مجھ پتہ نہیں کیا کیا بولے جارہا ہے!! وه اسکی طرف جھکتا آہستہ سے بولا۔۔


سمجھ تو مجھے بھی نہیں آئی فر فر بکواس ہی کیے جارہا ہے مجھے تو یہ فرنگی ویسے ہی نہیں پسند!! صالح ماتھے پر بل ڈالے بولا تو وہاں موجود تیسرا شخص جو مقامی لگتا تھا کھنکارا۔۔


"ماہ بیر صاحب وه یہ كہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے جذبے کی بہت قدر کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ہسپتال کے پروجیکٹ پر کام کرنا چاہیں گے۔۔" وه دانستہ اسکے لوگوں کے بارے میں کہی جانے والی بات گول مول کر گیا کیونکہ اگر ماہ بیر جان جاتا تو اس انگریز کی اولاد کو کرسی سمیت کھڑکی سے نیچے پھینک دیتا۔۔


ٹھیک ہے ہم بہت جلد ہسپتال کا کام شروع کروانے والے ہیں۔۔ آپ ضروری کاغذات تیار کروا لیں جن میں شراکت کی تفصیل درج ہو!! وه سنجیدگی سے بولا۔۔ آج اسے انگریزی کی قدر محسوس ہورہی تھی۔۔ کاش وه پڑھ ہی لیتا تو یہاں اسے شرمنده نہ ہونا پڑتا۔۔ خیر اب بھی کونسی دیر ہوئی تھی۔۔


مقامی شخص نے پتہ نہیں انگلش میں کیا کہا کہ وه انگریز اٹھ کر ان دونوں سے ہاتھ ملاتا کچھ کہنے لگا۔۔ وه پھر ماہ بیر سے مخاطب ہوا۔۔ "سر کہہ رہے ہیں کہ انہیں آپ کے ساتھ کام کر کے خوشی ہوگی اور ہم بہت جلد کانٹریکٹ تیار کروا کر آپ کو بهجوا دیں گے۔۔"


ماہ بیر اور صالح اپنی جگہ چھوڑتے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ شکریہ!! ان سے ہاتھ ملا کر وه آفس سے باہر نکل آئے۔۔ سیکرٹری دوڑی دوڑی ان تک آئی اور انہیں گاڑی تک چھوڑ کر واپس چلی گئی۔۔


وه دونوں گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔۔ یار آج مجھے بہت محسوس ہوا ایسے لوگوں سے تو ملنا ملانا لگا رہے گا۔۔ ماہ بیر نے کہنا شروع کیا تو ڈرائیو کرتے صالح نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔


ہاں سائیں اگر ہم ساتویں کے بعد سکول سے بھاگ نہ گئے ہوتے تو آج ہمیں بھی انگریزی آتی۔۔!!


اسکی بات پر ماہ بیر جیسے محظوظ ہوا تھا۔۔ کیا یاد کروا دیا تم نے۔۔ وہ بھی کیا وقت تھا۔۔ خیر میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیں انگلش کا کوئی کورس کر لینا چاہیے!! آگے بھی بہت کام آئے گا۔۔ وه پرسوچ لہجے میں بولا تو صالح کندھے اچکا کر سامنے ونڈو کے پار دیکھنے لگا۔۔


جیسی آپ کی مرضی!! ویسے اس کام کے لیے آپ کو دوسرے شہر جانا پڑے گا۔۔


ماہ بیر نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔ کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا تم بھی میرے ساتھ جاؤ گے!!


صالح نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ نہ سائیں مجھے کیوں پهسا رہے ہیں اپنے چکروں میں، میں یہاں ہی ٹھیک ہوں!! صالح کے صاف انکار پر ماہ بیر نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔۔


کیوں بھئی یہاں تمہاری کوئی معشوقہ ہے جسے چھوڑ کر تم جانا نہیں چاہتے؟؟ صالح کا منہ ایسے ہوگیا جیسے اس نے کڑوا بادام چبا لیا ہو۔۔


کیا سائیں؟ ایسا لگتا ہوں میں آپ کو؟ وہ خفگی سے بولا۔۔


اچھا تو بس ٹھیک ہے تم میرے ساتھ چل رہے ہو اور میں کوئی انکار نہیں سنوں گا۔۔۔ تمہاری امی جان سے میں خود بات کرلوں گا۔۔۔ ماہ بیر نے جیسے بات ختم کی تھی۔۔


🌚🌚🌚

معمول کے مطابق وه کلاس میں داخل ہوئی۔۔ اسکے چہرے پر آج معمول سے زیادہ سنجیدگی تھی۔۔ اس نے ڈین سے ایڈوانس پے منٹ کی بات کی تھی جسے دینے سے انہوں نے معذرت کرلی تھی۔۔ کیونکہ یونیورسٹی کا یہ رول تھا۔۔


کچھ وه پہلے ہی سنجیده رہتی تھی اس پر مزید یہ پریشانی۔۔ اسکے اتنے سخت تاثرات دیکھ کر سٹوڈنٹس کا حلق خشک ہورہا تھا۔۔


بكس بند کریں آپ کو یہ کام گھر سے یاد کرنے کے لیے دیا جاتا ہے نہ کہ یہاں آ کر رٹے مارنے کے لیے۔۔ وه کلاس پر نظر دوڑاتی درشتگی سے بولی۔۔


بند کریں بکس!! اسکا کہنا تھا کہ سب سٹوڈنٹس نے فورا بكس بند کردیں۔۔ آج تو انہیں اپنی شامت آتی نظر آ رہی تھی۔۔ جنہوں نے سبق یاد کر رکھا تھا وہ زیر لب دہرا رہے تھے جبکہ باقی دھڑکتے دل سے ارشما کی جانب دیکھ رہے تھے جو ڈائس کے پاس سے ہٹتی آگے آئی۔۔

سیاہ چادر میں چھپی پیشانی بل زدہ ہوئی تھی۔۔ وہ کلاس کے وسط میں آئی اور سب پر نظر ڈال کر لب بھینچتی آخری رو میں بیٹھے لڑکے کے پاس آئی۔۔ اس نے سخت نظروں سے زمین پر گری بكس کو دیکھا جن سے بے نیاز وه سر نیچے کئے سو رہا تھا۔۔

بعض لوگوں پر کتابیں لعنت بھیجتی ہیں!! وه درشتگی سے ذرا اونچا بولی تو وه ہڑبڑا کر سیدھا ہوتا اسے اپنے سامنے پا کر کھڑا ہوگیا۔۔ سب گردن موڑے اسے دیکھنے لگے۔۔ ارشما کی نظروں کے تعاقب میں اس نے زمین پر دیکھا تو وه شرمندہ ہوگیا۔۔

سس ۔۔ سوری میم!! اس نے جلدی سے کتابیں اٹھائیں تو وه سخت نظروں سے اسے گھورتی واپس ڈائس کے پاس آئی۔۔ اس نے باری باری سب سے آج کے ٹاپک پر سوال کرنے شروع کیے۔۔ کچھ دیر بعد اس نے وقت دیکھا تو کلاس ختم ہونے میں پندره منٹ رہ گئے تھے۔۔ اس نے باقی سٹوڈنٹس کی جان بخشتے آج کا تیار شدہ لیكچر دینا شروع کیا۔۔

🌚🌚🌚🌚

رات کی تاریکی ہر سو پھیل گئی تھی۔ ایسے میں وه لان میں اندھیرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔ چاند کی ملگجی روشنی نے ہر چیز کو پراسرار بنا رکھا تھا۔۔ پھول پودے اس روشنی میں عجیب ہیبت ناک لگ رہے تھے۔۔

وه اس سب سے بےنیاز اپنی ذات کے الجھے دهاگے سلجهاتے پھر سے الجھنے لگی تھی۔۔

مشی کیا سوچ رہی ہو؟؟ ماہ بیر اس کے برابر بیٹھتا اس کے اداس چہرے کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ مشی بظاہر تو نارمل نظر آتی ہے لیکن تنہائی پاتے ہی گم م ہوجاتی ہے۔۔

سوچ رہی ہوں انسان کتنا بےبس ہوجاتا ہے کبھی کبھی!! وه ہنوز سامنے دیکھتے بولی۔۔

ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟ وه اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ بغور دیکھتا بولا۔۔

اب دیکھیں نہ میں کتنی بے بس ہوں!! اس نے چہرہ ماہ بیر کی جانب کر کے کہا۔۔ آواز کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پانے کی کوشش میں وه خاموش ہوگئی۔۔

اس نے چند پلوں بعد پھر سے کہنا شروع کیا۔۔ "میری بےبسی کا اندازه اس بات سے لگا لیں کہ مجھ پر زبردستی فیصلے تھوپ دیے جاتے ہیں اور میں کچھ نہیں کر سکتی، کوئی بھی آ کر میری ذات کو روند جاتا ہے میری عزت نفس کو اپنے قدموں تلے مسل دیتا ہے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔ میری اپنی خواہشات ہیں لیکن میں انھیں پورا نہیں کر سکتی۔۔ یہ میری بےبسی نہیں تو اور کیا ہے بھائی؟ اور ۔۔۔ اسکے گلے میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا۔۔ مسلسل آنسو روکنے کی کوشش میں اسکا گلا درد کرنے لگا تھا۔۔

اور بے بسی سے بڑھ کر تکلیف ده احساس کوئی نہیں!! وه بالاخر سسک پڑی۔۔ وه جو گہری سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا اسکے رونے پر تڑپ اٹھا۔۔

اس نے فوراً اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔۔ چپ! مت روؤ مشی مجھے تکلیف ہورہی ہے!! وه اسکا سر چوم کر بولا جو اسکے سینے سے لگی بلک بلک کر رونے لگی تھی۔۔ نازک جان آخر کب تک برداشت کرتی۔۔ وه جو درد کا بوجھ برداشت کرتے ہوئے تھکنے لگی تھی مہربان ہارا پاتے ہی بکھر گئی۔۔

مجھے بتاؤ کیا چاہیے تمہیں میں لا کر دوں گا نہ!! وه اسے پچکارتے ہوئے بولا تو وه سیدھی ہوتی اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔

دیں گے مجھے جو میں مانگوں گی؟ وه بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی استفسار کرنے لگی۔۔

ہاں ضرور!! وه پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھ گیا۔۔

مجھے صالح یوسف دے دیں!! وه اسکے سامنے ہاتھ جوڑتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ میں مر جاؤں گی بھائی اگر وه مجھے نہ ملا ، میں مر رہی ہوں لحہ بہ لمحہ۔۔ مجھے میری زندگی واپس لوٹا دیں۔۔ محبت کی ہے کوئی گناہ نہیں کیا میں نے اگر آپ کے نزدیک یہ جرم ہے تو ابھی اپنے ہاتھوں سے یرا گلا گھونٹ دیں!! وه ہچکیوں سے روتی ہوئی بولی۔۔

ماہ بیر اپنی جگہ ساکت ہوگیا۔۔ اسکے الفاظ کہیں کھو گئے تھے۔۔ اسکی اتنی تکلیف پر ماہ بیر کی سرمئی آنکھوں میں لال ڈورے نمایاں ہوئے۔۔ یہ کیا مانگ لیا تھا اسکی مشی نے اس سے!! کیا وه دے پائے گا اسے؟؟

اندر جا کر سو جاؤ۔۔۔ کل بات کرتے ہیں!! سنجیدگی سے کہتا اسے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کرتا وه اسکے کمرے میں لے آیا اور اسکی پیشانی چوم کر واپس چلا گیا۔۔

اس کے جانے کے بعد وه نڈھال سی بستر پر گر گئی۔۔ اب نیند کسے آنی تھی۔۔ محبت عزت نفس کو مارنے کے بعد نیند ہی تو چھین لیتی ہے۔۔

اہم۔۔ بابا سائیں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں!! ماہ بیر گلا کھنکار کر ان کے کمرے میں آیا۔۔ وه ساری رات سکون سے سو نہیں پایا تھا۔۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے ایک فیصلہ لیا تھا اسی سلسلے میں وه ان سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔


آؤ!! سب خیریت؟ وه اسکا سنجیدگی سے بھرپور انداز دیکھتے ہوئے بولے۔۔ وه کمرے میں رکھے ٹو سٹر صوفے پر براجمان ہوتا بولا۔۔ "بابا سائیں آپ نے مشی کے لیے ایک فیصلہ لیا اور ہم نے آپ کے فیصلے کا احترام کیا تھا۔۔ افسوس ہے کہ ہمارا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور مشی کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑ گیا ہے۔۔ کس طرح کے حالات سے گزری ہے وه آپ باخوبی واقف ہیں۔۔"


عبدالله شاہ بھی سنجیده ہوئے۔۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو کھل کر کہو!! وه اسے تمہید باندھتے دیکھ کر گویا ہوا۔۔


"بابا سائیں میں نے ایک بھائی ہونے کی حیثیت سے اسکے لیے ایک فیصلہ کیا ہے میں چاہتا ہوں اب اسکی شادی ہوجائے۔۔ یوں تنہا رہ کر وه ذہنی دباؤ کا شکار ہی رہے گی" وه خاموش ہوتا ان کا ردعمل دیکھنے لگا۔۔


"کہو میں سن رہا ہوں" انہوں نے اسے بات جاری رکھنے کا کہا۔۔


یوسف کا انتخاب کیا ہے میں نے!! اس نے جیسے ان کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔ وه بےيقینی سے اسے دیکھنے لگے۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم ہوش میں تو ہو؟ انہوں نے حتی الامکان خود پر قابو پاتے لہجے کو دهیما رکھا۔۔ "اس لڑکے سے شادی کر دیں ہم جس کی وجہ سے اتنا تماشہ ہوا تھا اور وه ہماری ذات سے بھی نہیں کیوں بھول رہے ہو!!"


بابا سائیں اس سب میں یوسف کا کوئی قصور نہیں تھا یہ بات آپ جان لیں۔۔ میں اپنے طور معاملے کی تصدیق کرچکا ہوں اور رہی بات ذات پات کی تو ذات میں کر کے دیکھ لیا نہ کیا حاصل ہوا بے عزتی ، ذلت ، رسوائی؟ آپ ہر چیز کو بھول کر سوچیں اور خود بتائیں کہ یوسف کیا ہر لحاظ سے بہترین انتخاب نہیں؟ اسکے کردار کی گواہی میں دیتا ہوں آپ کو اور جس طرح وه ہم سب کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی پروا بھی نہیں کرتا کیا وه شوہر کی حیثیت سے مشی کو گزند پہنچنے دے گا؟ آپ جانتے ہیں ہمارے کتنے دشمن ہیں۔۔ کیا کوئی اور اسکی یوں حفاظت کر پائے گا۔۔؟ چلیں آپ صرف مشی کی خوشی کا ہی سوچ لیں کیا اسے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق نہیں؟ کیا اسکا خوشیوں پر حق نہیں؟ دیکھیں کتنی گم صم رہنے لگی ہے۔۔ میں اسکی خوشیوں کو اب خود ساختہ ذات پات کے چکروں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا!!


وه تلخی سے بولا تھا۔۔ آخر کیوں ہمارے معاشرے میں عورت ذات کو اسکی پسند سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔۔


عبداللّه شاہ خاموش ہوئے تھے۔۔ اسکے پختہ دلائل کے آگے وه لاجواب ہوگئے۔۔ کمرے میں چند پل تو خاموشی چھائی رہی بس دو نفوس کے سانس لینے کی دهیمی آواز آ رہی تھی۔۔


ٹھیک ہے تمہیں جیسے مناسب لگے۔۔!! وه ناراضگی بھرے لہجے میں بولے تو ماہ بیر اٹھ کر ان کے پاس آیا۔۔ بابا سائیں یقین کریں یہ بہترین فیصلہ ہے!! انشااللہ آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی اس سے۔۔ اسکے متانت سے کہنے پر وه محض سر ہلا گئے۔۔


🌚🌚🌚🌚


عارفہ ابھی ابھی مشائم کو مطلع کر کے گئی تھیں۔۔ وہ سن سی بیٹھی رہ گئی۔۔ آنکھوں میں بےيقینی ہی بےيقینی تھی۔۔ جب شدت سے مانگی گئی دعائیں قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں تو انسان ایسے ہی بےیقین ہوتا ہے۔۔ وه کتنا تڑپی تھی کتنی دعائیں مانگی تھیں اس نے یوسف کا ساتھ پانے کی۔۔


اسکے دل کی دھڑکن سوا ہوئی تھی۔۔ وه اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اس نے گہری سانس لیتے خود کو باور کروایا کہ جو اس نے سنا وه خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔۔ یہ سوچتے ہی اس کے تصور میں یوسف کا عکس ابھرا۔۔


مستقبل کے حسین خواب آنکھوں میں سجاتے وه شرما گئی۔۔ اسکے گالوں پر گلال بکھرا تھا۔۔ تراشیدہ خوبصورت لبوں پر شرمگیں مسكان اٹھلانے لگی تھی۔۔ حیا اور حسن کا ایسا حسین امتزاج۔۔ اسکی بڑی بڑی بھوری آنکھوں کی بجهی جوت پھر سے جلنے لگی تھی۔۔


تو اب آپ میرے۔۔۔۔!! وه اس سے آگے سوچ نہ سکی۔۔ دل دھونکنی کی مانند چلنے لگا تھا۔۔ دھڑکنوں کا رقص اسے پاگل کرنے لگا تھا۔۔ اس ستمگر کے خیال سے ہی پگلی کی کیا حالت ہوگئی تھی۔۔


وه شرما کر کبرڈ کے پاس آئی۔۔ نفیس سا انگوری رنگ کا فراک چوڑی پاجامہ نکال کر وه غسل خانے میں تازہ دم ہو کر باہر آئی اور دوپٹے کا حجاب لے کر جائے نماز بچھاتی شکرانے کے نفل ادا کرنے لگی۔۔


بےشک ہر خوشی کے موقع پر پہلے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنا چاہیے۔۔ وه بھی اپنے رب کے حضور سجده کررہی تھی اسکا دل بارگاہ الٰہی میں شکرگزاری سے جھک رہا تھا۔۔ بے شک اسے نوازا گیا تھا۔۔

🌚🌚🌚🌚

صالح جھرنے کے پاس اونچائی پر بڑے سے پتھر پر بیٹھا بلا مقصد پانی میں کنکڑیاں پهینکنے لگا تھا۔۔ دور سامنے شفاف پانی کی آبشار گر رہی تھی۔۔ ارد گرد بے انتہا دلکش منظر تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔۔ دلکش پہاڑوں اور جا بجا درختوں سے گھری نہر قدرت کا عظیم شاہکار تھی۔۔


وه ماہ بیر کاانتظار کررہا تھا۔۔ کچھ دیر مزید انتظار کرنے کے بعد ماہ بیر آتا دکھائی دیا۔۔ صالح اٹھ کر اس سے بغل گیر ہوا۔۔ سائیں حویلی بلا لیا ہوتا!! وه دوبارہ پتھر پر بیٹھتا بولا۔۔


ماہ بیر بھی اس کے سامنے کچھ فاصلے پر پڑے بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔۔ "دل چاہ رہا تھا کسی پرفضا مقام پر جانے کا۔۔ اس لیے یہاں چلا آیا۔۔" وه تازہ ٹھنڈی ہوا میں سانس لیتا ہوا بولا۔۔


میں کچھ مصروف تھا لیکن تم سے بھی ضروری بات کرنی تھی اس لیے وقت نکال کر آ گیا۔۔ وه صالح کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا۔۔


کیا بات ؟ سب ٹھیک ہے؟ وه مغرور آنکھیں اٹھاتا خود بھی سنجیده ہوا تھا۔۔


ہمم!! ماہ بیر نے ہنکارہ بھرا۔۔ "تمہیں یاد ہے تمہیں اور مشی کو لے کر کچھ بات ہوئی تھی حویلی میں!! " وه جانچتی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا جو اس ذکر پر چونکا تھا۔۔


جی یاد ہے!! اس کے ماتھے پر لكیر نمایاں ہوئی تھی۔۔


آج میں تم سے کچھ مانگوں تو دو گے؟ ماہ بیر نے سادگی سے پوچھا۔۔


صالح کی چھٹی حس اسے خبردار کرہی تھی لیکن۔۔ اس نے ذہن میں سر اٹھاتی سوچوں کو جھٹکا۔۔ شاہ سائیں کے لیے کچھ بھی!!


"آپ کے لیے میری جان بھی حاضر ہے سائیں" وه صدق دل سے بولا۔۔


"مشی سے شادی کرلو!!" ماہ بیر امید سے اسے دیکھنے لگا۔۔ صالح خاموش کا خاموش رہ گیا۔۔


کچھ دیر بعد اس نے کہنا شروع کیا "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ جانتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہے ہماری اور آپ کی ذات میں بڑا فرق ہے اور بڑے سا۔۔۔۔" ماہ بیر کو اپنے سامنے ہاتھ جوڑتے دیکھ کر وه اپنی جگہ سن رہ گیا۔۔


یہ کیا کررہے ہیں آپ!! وه پلک جهپکنے میں اس تک آیا۔۔ "ایسا کر کے مجھے میری نظروں میں مت گرائیں"۔۔ وه اسکے ہاتھ تھامتا سر جھکا کر لب بھینچ گیا۔۔


آپ اپنے یوسف کو حکم دیا کریں بس!! میں اماں کو بتا دوں گا۔۔


فرط مسرت سے ماہ بیر کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی چمکی۔۔ اس نے اٹھ کر صالح کو زور سے گلے لگایا۔۔ بہت بہت شکریہ یار!!


صالح نے اندر کی بے چینی کو نظرانداز کرتے اسکے گرد بازو حائل کیے۔۔ تھوڑی دیر بعد وه دونوں اونچے نیچے پتھریلے راستے پر خوش گپیاں کرتے واپس جا رہے تھے۔۔


🌚🌚🌚🌚


اماں میں شادی کررہا ہوں!! صالح نے کھانا کھاتے ہوئے انجم کے سر پر بم پھوڑا۔۔ آئے ہائے دیکھا میں کہتی تھی کسی کلموہی کے پیچھے لگا ہے تُو بیرا غرق ہو اسکا۔۔ مجھے بتایا تک نہیں اور شادی بھی کر آیا۔۔ انجم ماتھا پیٹتے واویلا کرنے لگیں۔۔


صالح کے حلق میں نوالہ اٹک گیا۔۔ اس نے جلدی سے پانی کا گلاس پکڑا اور غٹا غٹ پی گیا۔۔ "اماں بات تو سن لو پوری" وه خفگی سے بولا۔۔


میں نے شادی کی نہیں ہے بلکہ کرنے والا ہوں اور جس سے ہونی ہے نہ آپ کو پتہ چلے تو۔۔۔۔ وه سر جھٹکتا بات ادھوری چھوڑ کر کھانا کھانے لگا۔۔


انجم اسکے پاس چارپائی پر آ کر بیٹھ گئیں۔۔ "بتاتا کیوں نہیں اب کس سے کررہا ہے شادی ماں کو بتانا تک گوارا نہیں کیا۔۔" وه تڑخ کر بولیں تو صالح نے ہاتھ میں پکڑا نوالہ واپس رکھ دیا اور چہرے کے زاویے بگاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔


"سکون سے کھانا بھی حرام ہوگیا ہے اب" اسکی بات پر انجم کو پتنگے لگ گئے۔۔


جا جا مجھ پر کیسے بگڑ رہا ہے بیوی آ جائے گی تو پھر دیکھوں گی تجھے کیسے زن مرید بنتا ہے!!


استغفراللّه!! یہ سب نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ وه ماتھے پر بل ڈالے بڑبڑایا۔۔


سن لیں دیہان سے اب شاہ سائیں کی بہن سے شادی ہونے جارہی ہے میری۔۔ وه آئیں گے تاریخ پکی کرنے۔۔ انکی معلومات میں اضافہ کرتا وه جا چکا تھا۔۔


ہیں ؟ شاہ سائیں کی بہن۔۔۔۔۔ مطلب ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے آنکھیں پوری کھولتے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔ مطلب بڑے سائیں کی بیٹی!! وہ فرط مسرت سے بولیں۔۔


صالح بات سن!! خوشی سنبهلتے نہ سنبھل رہی تھی۔۔ آخر کو یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی تھی۔۔ وه جلدی سے پیروں میں چپل ڈالتے اسے پکارتیں اسکے پیچھے چلی گئیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


اس نے آخری بار نیچے جا کر جائزہ لیا۔۔ سب ملازم دوپہر کا کھانا کھانے جا چکے تھے۔۔ راستہ صاف دیکھ کر وہ کچن میں آئی۔۔ اورهان اس وقت سو رہا تھا۔۔ اسے یہ موقع بلکل مناسب لگا۔۔


اس نے کچن سے چاقو پکڑا اور دوپٹے کے نیچے چھپاتی جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئی۔۔ اس نے وہیں کھڑے نیچے جھانک کر دیکھا۔۔ مطمئن ہو کر وه اورهان کے کمرے کے سامنے آئی۔۔


اس نے دھیرے دهیرے دروازه کھولا۔۔ وه بغیر چاپ پیدا کئے اندر آئی اور اسی خاموشی سے دروازه بند کر دیا۔۔ کمرے کے وسط میں ماسٹر بیڈ پر وه چت لیٹا سو رہا تھا۔۔ اس نے ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھا ہوا تھا جس سے اس کے بازو کے پھولے ہوئے مسلز اور نماياں ہورہے تھے۔۔


وه اس پر نظریں مركوز کیے ہوئے آگے بڑھی تو قالین کے اٹھے ہوئے حصے میں اسکا پیر اٹکا۔۔ وه گرتے گرتے بچی تھی۔۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے بے ساختہ نکلنے والی چیخ کا گلا گھونٹا تھا۔۔

تیز دھڑکتے دل سے وه خود کو پرسکون کرتی آگے بڑھی اور بیڈ سے دو قدم کے فاصلے پر رک گئی۔۔ اسکی آنکھیں نفرت سے جل رہی تھیں۔۔ اس نے چاقو والا ہاتھ باہر نکالا۔۔ دماغ نے نفی کی۔۔

پہلے چیک کرلوں کہ وه گہری نیند سورہا ہے یا نہیں!! دل میں سوچتی وه بیڈ کے بلکل پاس آ گئی۔۔ اس نے جھک کر اورهان کے چہرے کے آگے ہاتھ ہلایا۔۔ اس سب میں اسکا چہرہ اورهان کے چہرے کے قریب آ گیا تھا۔۔ چاقو والا ہاتھ پیچھے کمر کے ساتھ لگائے اس نے دوسرا ہاتھ دو تین بار اسکے چہرے کے آگے ہلایا۔۔

وه پیچھے ہٹنے ہی لگی تھی کہ اورهان نے آنکھیں کھول دیں۔۔ نیم وا آنکھوں سے وه اسے اپنے اوپر جھکا ہوا دیکھنے لگا جو آنکھیں بڑی کیے اپنی جگہ فریز ہوئی تھی۔۔ اس نے سیكنڈ کی دیر کئے بغیر چاقو نیچے پھینک دیا جو قالین پر گر گیا۔۔

اورهان ابھی مکمل بیدار نہیں ہوا تھا۔۔ نیند کی کیفیت میں اس نے اینارا کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے اوپر گرا لیا اور کروٹ بدل کر آنكهیں موند گیا۔۔ اسکی گرم سانسیں اینارا کے چہرے پر پڑتیں اسے وحشت میں مبتلا کررہی تھیں۔۔ پہلی بار مردانہ لمس محسوس کرتے اسکی دھڑکنیں بےترتیب ہوئی تھیں۔۔

اورهان کی سانسیں بھاری ہوگئیں جس سے اسے اندازہ ہوا وه پھر سے سو چکا ہے۔۔ اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر اس چٹان جیسے وجود کو پیچھے ہٹایا اور جلدی سے بیڈ سے نیچے اتر کر چاقو اٹھا کر بغیر پیچھے دیکھے کمرے سے باہر دوڑی تھی۔۔

وه تو اسکی سانسیں بند کرنے آئی تھی لیکن اس کی خود کی سانسیں بند ہونے والی تھیں۔۔ کانپتے ہاتھوں سے کچن میں چاقو رکھتے وه دل کی لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی دھڑکنوں پر پریشان ہوتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔

🌚🌚🌚🌚

چھچھ۔۔۔چھوڑ۔۔۔و مجھے ۔۔۔ میرے ۔۔۔پاس ۔۔۔۔ مت ۔۔۔ نیند میں بڑبڑاتی وه پسینے میں مکمل شرابور تھی ۔۔ اسکی سانسیں تیز چل رہی تھیں اور رنگ زرد ہورہا تھا۔۔

وه آنکھیں کھولتی جھٹکے سے اٹھی۔۔ اسکی آنکھوں میں خوف صاف نمایاں تھا۔۔ اس نے اپنے بازو کو رگڑا۔۔ پھر وه دیوانہ وار اپنی گردن اور چہرے کو ہاتھ سے رگڑنے لگی۔۔

روتی ہوئی وه اٹھی اور باتھروم میں جا کر اپنے جسم کو اسکے كراہیت آمیز لمس سے پاک کرنے کے لیے شاور کھول کر اس کے نیچے کھڑی ہوگئی۔۔ پانی اسکے چہرے سے ہوتا اسے مکمل بھگونے لگا تھا۔۔

آخر خوابوں کے یہ آسیب کب میرا پیچھا چھوڑیں گے۔۔ کاش میری یادداشت چلی جائے۔۔ وه بے بسی سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ چند پل وه یونہی کھڑی رہی۔۔ جب حواس درست ہوئے تو وه باہر آئی اور الماری سے کپڑے نکال کر دوبارہ باتھروم میں گھس گئی۔۔

اب جب وہ باہر آئی تو اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔۔ واپس بیڈ پر آ کر وه چت لیٹ گئی اور نیند نہ آنے کے باوجود آنکھیں موند گئی۔۔

🌚🌚🌚🌚

سر آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں؟ وه آنکھوں پر بندهی پٹی کو انگلیوں سے چھوتی اورهان کے ساتھ چل رہی تھی جو اسکا ہاتھ تھامے ایک ٹاپ کلاس ریسٹرانٹ میں داخل ہوا۔۔ اس نے سارا رسٹرانٹ خالی کروایا تھا۔۔

اندر دیواروں پر سرخ غباروں کی بہت اچھی ڈیکوریشن کی گئی تھی سنٹر میں ایک ٹیبل کے اطراف میں دو كرسیاں رکھی تھیں۔۔ ٹیبل پر گلاب کے پھولوں کا دل بنا ہوا تھا اور چند گلاب ایک طرف دھرے ہوئے تھے۔۔

اینارا کے نتھنوں سے گلاب کے پھولوں کی خوشبو ٹکرائی۔۔ وه اس وقت سرخ رنگ کے لانگ فراک میں ملبوس دوپٹہ گلے میں ڈالے ہوئے تھی۔۔ اورهان اسے ایک سرپرائز کا کہتا اپنے ساتھ لایا تھا۔۔ وه مکمل بلیک تھری پیس میں ملبوس بےحد وجیہہ لگ رہا تھا۔۔ اینارا کو کچھ کچھ اندازه تھا کہ وه اسے پسند کرنے لگا ہے لیکن آج وه اسے کس لیے یہاں لایا تھا وه سمجھنے میں ناکام رہی۔۔

اس نے احتیاطًا اپنے پرس میں چھوٹا چاقو رکھ لیا تھا۔۔ اب وه مر کر بھی کسی پر اعتبار کرنے کی قائل نہیں تھی۔۔

اورهان نے اسکی آنکھوں سے پٹی اتاری تو وه حیرت سے ٹکر ٹکر چاروں جانب دیکھنے لگی۔۔ یہ سب۔۔۔۔۔ اس نے کہنا چاہا لیکن اورهان نے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروا دیا۔۔

اس کا ہاتھ تھامے وه ٹیبل تک آیا اور چیئر گهسیٹ کر کھڑا ہوگیا۔۔ اینارا سمجھ کر آگے بڑھی اور بیٹھ گئی۔۔ اورهان بھی اس کے مقابل بیٹھ گیا۔۔

پہلے ڈنر کر لیں۔۔!!

اس نے بیرے کو اشارہ کیا جو اس کے انتظار میں ہی کھڑا تھا۔۔ بیرے نے جلدی جلدی کھانا لگا دیا۔۔ وه دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔۔ اس دوران وه بار بار اورهان کو ٹٹولتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

آج اسکا نکاح تھا۔۔ اس کے من پسند شخص کے ساتھ جسے اس نے بےحد چاہا تھا۔۔ آناً فاناً نکاح کی تاریخ پکی کر کے نکاح کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔۔ آج پھر حویلی کو سجایا گیا تھا۔۔ دلہن بھی وہی تھی لوگ بھی وہی تھے بدلہ تھا تو دولہا اور احساسات۔۔


نگہت بےحد خوش تھی۔۔ چمکتے دمكتے کپڑوں میں اٹھلاتی وه مشائم کے کمرے میں آئی۔۔ ماشاءالله ماشاءالله !! وه ستائشی نظروں سے اسے دیکھ کر آگے بڑھی اور اسکی بلائیں لینے لگی۔۔ گہرے مہرون رنگ کے لهنگے کرتی میں دوپٹہ سر پر ٹکائے وه بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ اس پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔۔ بھوری بڑی بڑی آنکھوں میں كاجل کی لیکر نے انہیں دوآتشہ کر دیا تھا۔۔


مہرون لپ سٹک سے رنگے ہونٹوں سے ناک میں پہنی نتھ مس ہو رہی تھی۔۔ مانگ میں سجا ٹیکا اسکی پیشانی کی زینت بنا ہوا تھا۔۔ کلائیوں میں پہنے گجروں سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی۔۔ آج اسکی چھب ہی نرالی تھی۔۔


"مشی بی بی بہت خوش ہوں میں آج رب سوہنے نے آپ کی سن ہی لی!! ہائے مجھے سوچ کر ہی مزا آرہا ہے اس کھڑوس سے آپ کی شادی ہونے والی ہے" مشائم نے اسے گھور کر دیکھا تو وه زبان دانتوں تلے دبا گئی۔۔


"ساری ساری" اسکی گلابی انگلش پر مشائم ہلکا سا ہنس دی۔۔ کچھ دیر تک مولوی صاحب آنے والے ہیں خود کو تیار كرلیں جی!! نگہت اسے چھیڑنے لگی تو وه شرما گئی۔۔ وقت تھا کہ دوڑا جا رہا تھا۔۔ ماہ بیر مولوی صاحب کے ساتھ اندر داخل ہوا۔۔ مشائم نے گھونگھٹ نکال لیا تھا۔۔ نگہت نے ماہ بیر کو دیکھا۔۔ براؤن کرتا شلوار پر براؤن ہی شال کاندھوں پر پھیلائے وه بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔۔ وه جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کی نیت سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھے گئی۔۔


بیٹھیں مولوی صاحب!! نکاح خواں کو بیٹھنے کا کہتے اس نے نگہت کو گھورا تو وه معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتی مشائم کی دائیں جانب کھڑی ہوگئی۔۔ چند سیکنڈ بعد عارفہ اور عبدالله شاہ بھی کمرے میں داخل ہوئے۔۔ عارفہ نے دوپٹے سے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا پھر بھی ان کی آنکھوں میں خوشی صاف دیکھی جا سکتی تھی۔۔ ان کے برعکس عبدالله شاہ تھوڑے سنجیده تھے۔۔


بسم اللّه کریں!! ماہ بیر نے مشی کے سر پر ہاتھ رکھتے نکاح خواں کو اشارہ کیا۔۔


سيده مشائم عبدالله شاہ ولد سید محمد عبدالله شاہ کیا آپ کو صالح یوسف ولد ابراہیم یوسف سے پانچ لاکھ سکہ رائج الوقت کے یہ نکاح قبول ہے؟ مشائم کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔ کتنی شدت سے انتظار کیا تھا اس نے اس لمحے کا۔۔ اس نے گہری سانس لی۔۔


قبول ہے!! اس ہلکی سی آواز گونجی۔۔


نکاح خواں نے دو بار دوبارہ یہی الفاظ دوہرائے۔۔ ایجاب و قبول کے بعد نکاح نامے پر مشائم کے دستخط لئے گئے۔۔ ماہ بیر نے جھک کر مشائم کا سر چوما۔۔


بہت مبارک ہو مشی!! جواباً وہ اسکے گرد بازو حائل کرتی رونے لگی۔۔


عبدالله شاہ نکاح خواں کو لیے کمرے سے باہر چلے گئے۔۔ ان کے جانے کے بعد عارفہ جلدی سے آگے آئیں۔۔ انہوں نے مشائم کا گھونگھٹ اٹھا کر اسکا سر چوما۔۔


ماشاءالله اللّه تمہارے نصیب اچھے کرے!!

نگہت تم مشی کے پاس رہو۔۔ امی جان آپ باہر آئیں۔۔ ماہ بیر نگہت سے مخاطب ہو کر عارفہ کو اشارہ کرتا باہر چلا گیا۔۔ کچھ دیر بعد کھانا لگوایا گیا تو ملازمہ انہیں بھی کھانا دے گئی۔۔


"مشی بی بی آئیں کھانا کھاتے ہیں بھوک سے تو میرے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے ہیں" نگہت ایک پلیٹ میں چاول نکالنے لگی۔۔

نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا بھوک نہیں ہے!! مشائم نے صاف انکار کر دیا اور بیڈ پر آرام سے تکیوں سے ٹیک لگا گئی۔۔


ہائے اللّه آپ کی ابھی سے بھوک مر گئی؟ کچھ کھا لیں جی نہیں تو ہمت کیسے آئے گی۔۔۔یہ نہ ہو ان کی بانہوں میں جاتے ہی آپ بےہوش ہو جائیں!! وہ پوری بتیسی کی نمائش کرتی ہوئی بولی۔۔


مشائم کا چہرہ لال ٹماٹر ہوگیا۔۔ "بدتمیز !! اب بات نہ کرنا مجھ سے تم" وه شرم کو خفگی کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔۔


"اچھا نہ ۔۔۔ نہیں کہتی آپ کو کچھ، تھوڑا سا تو کھا لیں۔۔ آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا!!!" نگہت پیار سے بولی تو وه چار و ناچار دو چمچ چاول حلق سے نیچے اتار کر پیچھے ہوگئی۔۔ اسکا دل آنے والے وقت کے خیال سے تیز تیز دھڑک رہا تھا۔۔

🌚🌚🌚🌚

وه وقت بھی آ گیا جب اسے رخصت کیا جانا تھا۔۔ مکمل چادر سے ڈھکی وه ماہ بیر اور عارفہ کے ساتھ باہر گاڑی تک آئی۔۔ باہر زور زور سے ڈھول پیٹے جارہے تھے۔۔ عبداللّه شاہ صالح کی جیپ کے پاس کھڑے تھے۔۔ وه انوکھی طرز کا دولہا اپنی دولہن کو جیپ میں لے جانے والا تھا۔۔ انجم جلدی سے آگے بڑھیں اور مشائم کو لیے جیپ تک آئیں۔۔


سب سے پہلے نگہت اس سے ملی۔۔ "میں آپ کو بہت یاد کروں گی مشی بی بی اور آپ سے ملنے بھی آؤں گی۔۔ گھر تو پتہ ہے مجھے اس کا!!!" وہ مشی سے گلے ملتی اداس لہجے میں بولی تو مشائم نے اسے کمر پر دھموکہ جڑا جس سے نگہت دانتوں میں زبان دبا گئی۔۔ شکر تھا شور کے باعث کوئی اس کی آواز نہیں سن سکا تھا۔۔


اسکے بعد وه عارفہ اور ماہ بیر سے ملی۔۔ آخر میں عبدالله شاہ اس کے پاس آئے۔۔ خوش رہو!! وه اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے بھرپور لہجے میں بولے۔۔ وه نم آنکھیں جهپکتی ان سے لپٹ گئی۔۔


پھر وه الگ ہوئی تو انجم نے اسے جیپ کی پچھلی سیٹ پر بٹھایا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئیں۔۔ وه خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں۔۔ کچھ فاصلے پر کال میں مصروف صالح نے انہیں دیکھا اور خدا حافظ کہہ کر کال کاٹتا جیپ تک آیا۔۔ وہ ماہ بیر سے بغل گیر ہوا جس نے گرم جوشی سے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔۔


پھر وه عارفہ کے سامنے جھکا تو انہوں نے اسے پیار دیا۔۔ وه جھجھک کر عبدالله شاہ کے سامنے آیا۔۔ کچھ دیر تو وه اسے خاموشی سے دیکھتے رہے پھر انہوں نے اس کے کندھا تهپتهپایا۔۔ وه دهیما سا مسکرا کر پلٹا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر ایک الوداعی نظر ماہ بیر پر ڈال کر جیپ سٹارٹ کرتا زن سے بهگا لے گیا۔۔


مشائم کی حالت خراب ہورہی تھی۔۔ وه نئی زندگی کی شروعات کرنے جا رہی تھی۔۔ ایسے موقعوں پر گهبراہٹ ہونا فطری بات ہے۔۔


"میری دھی تو پریشان نہ ہو، ہمارے ساتھ رہتے تجھے گھر والوں کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔۔ صالح بھی تیرا بہت خیال رکھے گا اگر اس نے تجھے کبھی ڈانٹا نہ تو مجھے بتائیں بس اس کو خود سیدھا کر لوں گی میں۔۔" انجم پیار سے بولیں تو وه سر ہلا گئی۔۔


اپنے ذکر پر صالح نے بیک ویوئر میں نظر آتی مشائم کو دیکھا جو چادر میں مکمل چھپی ہوئی تھی۔۔ اس نے نظروں کا زاویہ موڑ گیا اور گاڑی کی سپیڈ تیز کر دی۔۔ مشائم نے ڈر کر انجم کا ہاتھ تھاما تھا۔۔


مزید ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد وه تینوں گھر پہنچے۔۔ انجم کا ہاتھ پکڑ کر جیپ سے اترتی وه اندر چلی گئی۔۔ صالح نے اسکی پشت کو چند پل دیکھا اور پھر گاڑی کو بونٹ پر بیٹھ گیا۔۔ اندر جاؤ تو انجم اسے لیے سیدھا صالح کے کمرے میں آئیں۔۔


كمره بلکل سادہ تھا۔۔ سجاوٹ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔۔ صالح نے جہیز لینے سے سختی سے انکار کر دیا تھا۔۔ انجم نے اسے بیڈ پر بٹھایا۔۔


میری دھی تجھے بھوک تو نہیں لگی؟ مشائم نے چادر اتارتے نفی میں سر ہلایا۔۔


آرام سے بیٹھ تو، صالح آتا ہوگا۔۔ میں چلتی ہوں!!! اسکا سر چوم کر وه باہر چلی گئیں۔۔ انکی اتنی محبت پر وه مسکرا دی۔۔


چادر اتار کر اس نے تہہ کر کے سائیڈ پر رکھ دی اور کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔ سامنے دیوار گیر الماری تھی۔۔ اس سے کچھ فاصلے پر دوسری دیوار کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل رکھا تھا۔۔ بیڈ کے اطراف میں رکھے سائیڈ ٹیبلز اور کھڑکی کی جانب کونے میں رکھے دو صوفے جن کے آگے میز پڑی تھی۔۔ کمرے میں قالین بچھا تھا۔۔ کمرہ سادہ تھا مگر اسے نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔


وه بیڈ پر ٹھیک طرح بیٹھتی گھونگھٹ نکال کر اسکا انتظار کرنے لگی۔۔ انتظار کرتے کرتے وه اونگھنے لگی تھی کہ وه ستمگر دروازه کھول کر اندر آیا۔۔ دروازه بند ہونے کی آواز پر اسکی دھڑکنیں بےترتیب ہوئیں۔۔


"آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے اٹھیں یہاں سے" وه ماتھے پر بل ڈالے بولا۔۔ مشائم کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔ وہ آہستہ سے بیڈ سے نیچے اتری اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوگئی۔۔


اپنے بددماغ یوسف سے تو اسے کوئی امید نہیں تھی کہ وه اس کا گھونگھٹ اٹھائے گا سو اس نے آہستہ سے خود ہی گھونگھٹ اٹھا دیا اور سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ مکمل سفید رنگ اس نے پہلی بار پہنا تھا شاید جو اس پر بہت جچا تھا۔۔ سكن شال کندھوں پر آگے کی طرف گر رہی تھی۔۔


پہلی بار اسکے یوں بےحجاب ہونے پر صالح یوسف ساکت ہوا تھا۔۔ اس نے بے حسین چہرے دیکھے تھے لیکن ایسا حسن؟ واللہ!!! بڑی بڑی بھوری غزالی آنکھوں سے اسکی نظر پهسلتی اس کے ناک میں پہنی نتھ سے ٹکرائی اور نتھ میں لٹکتے موتی سے مہرون لپ سٹک سے رنگے تراشیده لبوں پر آ کر ٹھہر گئی۔۔ سرد رات بند خاموش كمره اور جائز رشتہ!!!


اس سے پہلے کہ وہ اس ہوشربا کے حسین نازک سراپے کے آگے بہکتا وه خود پر قابو پا گیا۔۔ اس نے ماتھے پر بل ڈالے اور پلٹ کر شال اتار کر دور صوفے پر اچھال دی۔۔


آ۔۔آپ ایسا کیوں کررہے ہیں میرے ساتھ ؟ اسکا کہنا ہی تھا کہ وه پلٹ کر اس تک آیا اور اسکے نازک بازوؤں میں اپنی سخت انگلیاں گاڑ کر خود سے قریب کر گیا۔۔ مشائم نے ڈر کر آنکھیں موندی تھیں۔۔ اسکی اتنی سخت گرفت پر دو آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے۔۔


صالح نے سختی سے لب بھینچ کر اسکے چہرے کو دیکھا۔۔


"بہت شوق تھا نہ آپ کو صالح یوسف کی زندگی میں آنے کا،، اب سہیں میرے مزاج کے سرد پن کو!!!

وہ اسکے منہ پر درشتگی سے بولا۔۔


درد ۔۔۔ ہور۔۔۔ہا۔۔ ہے!!! مشائم اس کی آہنی گرفت پر روتے ہوئے کہنے لگی۔۔ صالح کی تیوری چڑھی۔۔


او ہو درد ہورہا ہے آپ کو ؟ ارے رو کیوں رہی ہیں؟ آپ کو تو یوسف سے عشق تھا نہ؟ تو پھر گھبرا کیوں رہی ہیں اتنے سے درد پر۔۔ کیا آپ جانتی نہیں " درد جتنا شدید ہوتا ہے عشق اتنا مزید ہوتا ہے"


اسکے کان کے پاس جھک کر سرگوشی میں کہتا وه جھٹکے سے اسے چھوڑ کر ہٹا۔۔


وه منہ پر ہاتھ رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ صالح نے کوفت سے اسے دیکھا اور چینج کرنے چلا گیا۔۔ جب وه واپس آیا تو ڈھیلی سی سلیو لیس شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔۔


کیا اب یہیں جمے رہنے کا اراده ہے؟ وہ ہلکی آواز میں کہتا بیڈ کی جانب بڑھا۔۔ وه شوں شوں کرتی لهنگا اٹھا کر باتھروم میں جانے لگی کہ رک گئی۔۔


میرے کپڑے؟ اسے نئے سرے سے رونا آیا۔۔ "ابھی


الماری سے کچھ نکال کر پہن لیں" وه چت لیٹتا گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا تو وه خفگی سے اسے دیکھتی الماری تک آئی اور دونوں پٹ کھول کر کھڑی ہوگئی۔۔ الماری میں صرف صالح کے کپڑے تھے۔۔ یہ پہنوں میں؟ اس نے دل میں سوچا۔۔ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔۔ اسکا سامان پتہ نہیں کہاں رکھا تھا۔۔


اس نے درميانے خانے میں رکھی ٹی شرٹس میں سے بلیک ٹی شرٹ نكالی اور بلیک ٹراؤزر نکال کر لهنگا مشکل سے سنبهالتی آہستہ آہستہ چلتی باتھروم میں گئی اور زور سے دروازه بند کیا۔۔


وه جو اسکی ساری کروائی ملاحظہ کررہا تھا اسکے زور سے دروازہ بند کرنے پر ایک پل کو آنکھیں میچ گیا۔۔ يقیناً یہ آواز انجم کے کمرے تک بھی گئی تھی۔۔


ایک منٹ بعد پھر دروازه کھلا اور وه غصے سے اسے دیکھتی باہر آئی۔۔

کیا؟ صالح اسکی غصے سے پھولتی ناک کو دیکھ کر بھنویں اچکا گیا۔۔

یہ سب نہیں اتر رہا۔۔ پنیں بہت لگی ہیں!!! وه غم و غصے کی ملی جلی کیفیت سے بولی۔۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ ابھی رو دے گی۔۔

تو میں کیا کروں؟؟ صالح لا پرواہ انداز میں کہتا کروٹ بدل گیا۔۔ میں امی جان سے مدد لے لیتی ہوں پھر!!! وه تن فن کرتی دروازے کی جانب بڑھی۔۔

صالح کا لاپرواہی بھرا انداز پل میں اڑن چھو ہوا۔۔ وه اٹھ بیٹھا اور بھنویں سکیڑ کر جلدی سے بیڈ سے اترا اور اس کی کلائی تھام کر کمرے کے بیچوں بیچ لے آیا۔۔

پاگل ہوگئی ہیں آپ؟ وه خفگی سے بولا۔۔ وه اسے لیے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا اور چپ چاپ سر پر لگی پنیں اتارنے لگا۔۔ سب پنیں اتر گئیں تو اس نے دوپٹہ اتار کر سائیڈ پر رکھ دیا۔۔

مشائم کا چہرہ حیا سے سرخ پڑا۔۔ اسکے چہرے پر بکھرتی حیا کی لالی کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کرتے اس نے اسکا رخ موڑا اور گردن می پہنے نكلیس کی ہک کھول دی۔۔

اسکی اتنی قربت اور نرم گرم لمس پر مشائم کی سانسیں تیز ہونے لگیں۔۔ صالح نے تیوری چڑھائے اسکی کمر سے چپکی کرتی کو دیکھا۔۔

"دو منٹ بعد پھر آجائیں گی کہ زپ نہیں کھل رہی۔۔" دل میں سوچتے اس نے جھٹکے سے زپ کھول دی۔۔

وہ جو آنکھیں موندے کھڑی تھی زپ کھلنے پر جھٹکے سے آنکھیں کھول گئی۔۔ وه سرعت سے مڑی۔۔

یی۔۔ یہ کیا کیا آپ نے؟ وه شرم سے سرخ پڑتا چہرہ اٹھا کر بولی۔۔

آپ نے خود ہی تو کہا تھا!! وه بےنیازی سے کہتا واپس بیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔۔ وه دوپٹے سے کمر ڈھانپ کر باتھروم چلی گئی تو اس نے آنکھیں کھولیں۔۔

اسکا نازک بےحجاب سراپا اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔ ایسا لگتا ہے سوچی سمجھی سكیم کے تحت میرا ایمان خراب کرنے کے در پے ہیں!! وه بڑبڑا کر رہ گیا۔۔

وه فریش سی باتھروم سے باہر آئی۔۔ گھٹنوں تک آتی شرٹ کے بازو فولڈ کرنے کے باوجود کلائی سے آگے تک آ رہے تھے۔۔ جبکہ ٹراؤزر کو پانچے سے تین چار دفعہ موڑا گیا تھا۔۔

اس نے باتھروم کی لائٹ آف کی اور انگلیاں چٹخاتی وہیں کھڑی ہوگئی۔۔ پھر وه صوفے کی طرف گئی اور سمٹ کر لیٹ گئی۔۔ اسکی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔ اب بھوک بھی شدید محسوس ہورہی تھی۔۔ وه روہانسی ہوتی اٹھ بیٹھی۔۔

اس نے صالح کو دیکھا جو اوندھا لیٹا سو رہا تھا۔۔ وه بےبسی سے رونے لگی۔۔ کمرے میں اسکی سسکیوں کی آواز گونجنے لگی۔۔

کیا مصیبت ہے؟ صالح غصے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔ اس نے صوفے پر گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھی مشائم کو دیکھا۔۔ اب کیا ہوا ہے؟

مشائم نے سر اٹھا کر آنسو صاف کیے۔۔ "بھوک لگی ہے مجھے!!!" وه منہ بسورتے ہوئے بولی۔۔

تو اس میں رونے والی کیا بات ہے کیا آپ کو رونے کے علاوہ کچھ نہیں آتا؟ وه اب کی بار نرم لہجے میں بولا۔۔

آتا ہے بہت کچھ!!! وه خفگی سے اسے دیکھ کر بولی تو اسے بے اختیار ہنسی آئی لیکن اس نے چہرے کو سنجیده رکھا۔۔

میں لاتا ہوں کھانا!!! وه اٹھا اور کمرے کا دروازه کھول کر باہر نکل گیا تو وه بھی صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔۔

وه دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔۔ اس دوران وه بار بار اورهان کو ٹٹولتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔ کھانا کھانے کے بعد بیرا میز سے ڈشز اٹھا کر لے گیا۔۔ وه خاموشی سے اسے دیکھتی اسکے بولنے کی منتظر تھی۔۔


اہم!! وه کھنکار کر اسکی طرف دیکھنے لگا۔۔ اسکی لو دیتی نظروں سے وہ خائف ہوئی تھی۔۔ I am in love with you!! Will you marry me?? وه اسکی آنکھوں میں دیکھتا دلکشی سے مسکرایا۔۔ کتنے دنوں بعد آج دل کو سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔۔


اینارا کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔ پہلے میری بہن کو جال میں پهنسایا اور اب مجھے پھنسانا چاہتے ہو میں تمہیں تمہارے ارادوں میں کبھی كامياب نہیں ہونے دوں گی!!! وه سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتی دل میں اس سے مخاطب ہوئی۔۔


کیا ہوا تم رو رہی ہو؟ وه اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر پریشان ہوا۔۔


نہیں!!! میں بس سوچ رہی تھی کہ میں اس قابل کہاں ہوں۔۔ مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔۔ اور اس سے پہلے مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے یہاں نہیں۔۔ کل!!! اس طرح بات کرتی وه اسے پر اسرار لگی۔۔


اس نے سر جھٹکا۔۔ اوکے !!! ٹیک یور ٹائم۔۔ چلیں؟؟ وه گھڑی پر وقت دیکھتا بولا تو وه اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اورهان نے ٹیبل پر بل رکھا اور اسے ساتھ لئے ہوٹل سے باہر نکل گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


اوکے میں نکل رہا ہوں!!! اورهان گرے شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس نک سک سا تیار موبائل پکٹ میں ڈال کر گاڑی میں بیٹھا اور اسکی بتائی گئی لوکیشن پر پہنچا۔۔ گاڑی سے باہر نکل کر وه اچنبھے سے چاروں اوڑھ پھیلی ویرانی کو دیکھنے لگا۔۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر درخت تھے اور زمین پر جگہ جگہ جھاڑیاں تھی۔۔


ایسی جگہ پر ملنا؟؟ اس نے نا سمجھی سے چاروں اوڑھ دیکھا اور موبائل نکال کر اینارا کا نمبر نکالا۔۔ اس سے پہلے کہ وه نمبر ڈائل کرتا کسی نے اسکے منہ پر کپڑا ڈال دیا۔۔


اورهان نے پھرتی سے اس انجان شاخص کا ہاتھ پکڑا تو اس نے گن کو نوک اسکی کمر پر رکھی۔۔ چپ چاپ چل!!! بھاری کرخت آواز سن کر اسکے دل میں خطرے کی گھنٹی بجی۔۔ وه ہاتھ نیچے گرا کر اندازه کرنے لگا کہ وه اکیلا تھا یا اسکے ساتھ بھی کوئی تھا؟


اسکی یہ مشکل بھی آسان ہوگئی۔۔ وه تین آدمی تھے جن کی باتوں کی آواز اسکے کانوں تک پہنچی تھی۔۔ ممکن تھا تینوں کے پاس گن ہو۔۔ اس نے فلحال کوئی قدم اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔۔ دیکھو تم لوگ جو بھی ہو مجھے جانے دو بدلے میں جتنے بھی پیسے چاہییں۔۔۔۔۔۔۔


ابھے اپنا منہ بند رکھ اور چپ چاپ چل!!! ان میں سے پہلے والا شخص داڑھا اور گن کی نوک سے دباؤ ڈال کر اسے آگے دهكیل گیا۔۔ اورهان چپ چاپ آگے چل پڑا۔۔ چند منٹ چلنے کے بعد وه اسے ایک درخت کے پاس لے آئے اور اسے دھکا دے کر نیچے بٹھا کر درخت کے تنے سے باندھنے لگے ۔۔


"یہ کیا کررہے ہو چھوڑو مجھے" وه اونچا اونچا بولتا مزاحمت کرنے لگا۔۔ گن والا شخص آگے بڑھا اور ایک زوردار گھونسا اسکے منہ پر مارا جس سے وه كراه کر رہ گیا۔۔ اسکے منہ سے کپڑا اتار!!! اسکا ساتھی سر ہلا کر آگے آیا اور کھینچ کر کپڑا اسکے منہ سے اتارا۔۔ اورهان نے پل کیں جهپکتے انہیں دیکھا۔۔


ان تینوں کے چہرے پر ماسک تھے جن سے بس انکی آنکھیں ظاہر ہورہی تھیں۔۔۔تینوں نے ہاتھ میں گن پکڑی ہوئی تھی۔۔ کون ہو تم لوگ کیوں کررہے ہو میرے ساتھ ایسا؟ وه جسم کو جھٹکے دیتا رسی کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔۔


"تجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتے تڑپتا رہ یہاں۔۔ کل آ کر تیرا انتظام کریں گے!!!" وہ درشتگی سے بولتا اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔۔ پیچھے اورهان چیختا رہ گیا۔۔ اس نے بےبسی سے دور گرے موبائل کو دیکھا جو بند ہوچکا تھا۔۔


وه جسم کو زور سے ہلاتا رسی کھولنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وه اتنی سختی سے باندھی گئی تھی کہ مسلسل ہلنے سے رسی اسے اپنے گوشت میں گھستی محسوس ہوئی۔۔ وه درد سے کراہتا سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگا جہاں ہلکا ہلکا اندھیرا ہونے لگا تھا۔۔


🌚🌚🌚🌚


پرس میں پسٹل کو ایک بار پھر چیک کرتی وه سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھنے لگی۔۔ اس نے چند دن کی ٹریننگ کے بعد گن چلانی سیکھ لی تھی اور اس کا لائسنس بھی بنوا لیا تھا۔۔ اور یہ کام اس نے اتنی ہوشیاری سے کیا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔۔


ہاتھوں میں گلوز پہن کر اس نے رکشے والے کو رکنے کا اشارہ کیا۔۔ اسے پیسے تهما کر وه باہر نکلی۔۔ تیز تیز قدم اٹھاتی وه اپنی منزل تک آئی۔۔ بس آج کا دن اور پھر میرا انتقام پورا ہوجائے گا۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے عبدلمنان اور ازنا کی میت آئی۔۔


ماضی یاد کرتے اسکی آنکھیں لہو رنگ ہوئیں۔۔ اس نے بیگ پر گرفت مظبوط کی اور تیز تیز قدم اٹھاتی ایک جگہ پر آ کر رک گئی۔۔ اسے اچنبھا ہوا۔۔ اب تک تو اسے آ جانا چاہئے تھا۔۔ اس نے موبائل نکال کر اس کا نمبر ڈائل کیا تو وه بند ملا۔۔


وه کوفت سے کچھ دیر وہاں انتظار کرتی رہی۔۔ جب اندھیرا گہرا ہونے لگا تو وه شدید غضبناک ہوتی واپسی کے لیے نکل گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


رات کی رانی اپنی گھنیری زلفیں پھیلا چکی تھی۔۔ وه خوفزدہ نظروں سے بار بار دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔۔ اسے اچانک سرسراہٹ محسوس ہوئی۔۔ جیسے کوئی وہاں سے گزرا ہو۔۔ خوف کی ایک سرد لہر اسکے جسم میں دوڑی۔۔ اس کی پیشانی پسینے سے نم ہوئی تھی۔۔


کک۔۔۔کون ہے؟؟ وه سوکھا حلق تر کرتے سر گھما کر پیچھے دیکھنے کی اپنی سی کوشش کرنے لگا۔۔ جواباً خاموشی چھائی رہی۔۔ چند لمحوں بعد پھر سے سرسراہٹ محسوس ہوئی۔۔ پھر اچانک ویرانے میں کسی مرد کی پرسوز آواز گونجنے لگی۔۔ وه درد بھری آواز میں کوئی گیت گا رہا تھا۔۔ وه الفاظ ایک عام انسان کی سمجھ سے باہر تھے۔۔


اورهان کا چہرہ سفید پڑ گیا۔۔ وه خوفزدہ نظروں سے ارد گرد دیکھتا زور زور سے رونے لگا۔۔ اچانک وه آواز آہستہ آہستہ دور ہوتی گئی اور پھر وہاں خاموشی چھا گئی۔۔ وه پھر سے بلکتا ہوا رسیاں کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ آہ!!! زور لگانے سے رسی اس کے گوشت میں گھس گئی تھی جس سے وه بے اختیار ہوتا درد سے کراہا۔۔


اسے آج اپنی زندگی کی تمام کوتاہیاں یاد آ رہی تھیں۔۔ موت کا خوف اس کے سر پر سوار تھا۔۔ اچانک بائیں پیر میں اسے شدید تکلیف محسوس ہوئی۔۔ اس نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ کو ہاتھ سجهائی نہ دے رہا تھا۔۔ شاید کسی زہریلے کیڑے نے کاٹا تھا۔۔ آن کی آن میں اس کا سر چکرانے لگا۔۔ کچھ پلوں بعد اسکا سر ڈھلک گیا۔۔ وه بے ہوش ہو چکا تھا۔۔


🌚🌚🌚🌚


شیطان نے شداد کی جب عقل گوائی۔۔۔

تو نادان نے اپنے لیے جنت بھی بنائی۔۔

جنت بن گئی تو دل میں ہوا بڑا شاد۔۔

اور دیکھنے کو اک نظر چل دیا شداد۔۔

دروازے میں وه جنت کے داخل ہوا ہنس کر۔۔۔

اک پیر ابھی باہر تھا،، اک پیر اندر۔۔۔

اتنے میں بحکمِ خدا موت آ گئی اس کو۔۔۔

وه مل گیا مٹی میں زمیں کھا گئی اس کو۔۔۔

جنت تو بنائی تھی مگر دیکھ نہ پائی۔۔۔

دم بھر میں فنا ہوگئی ظالم کی خدائی۔۔۔


(اسکی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو عجیب جگہ پر پایا۔۔ ہر طرف سفید کفن میں لپٹے لوگ چند خوفناک چہروں والی عجیب طرح کی مخلوق کے نرغے میں سیدھ میں بڑھتے جا رہے تھے۔۔ ان کے چہروں پر موت کی زردی تھی۔۔ وه آنکھیں پھاڑے چاروں اوڑھ دیکھ رہا تھا۔۔ کہ اس کے جسم پر گرم ابلتا پانی پهینكا گیا۔۔ اسے اپنی جلد پھٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔ وه زور زور سے چلانے لگا۔۔ وه سیاہ پیروں تک آتے چولے میں ملبوس دو آدمی تھے جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔۔ وه بغیر اسکی چیخوں پر توجہ دیے اپنے کام میں مصروف تھے۔۔)


اسکی آنکھ جھٹکے سے کھلی۔۔ اسکا جسم کانپ رہا تھا۔۔ سورج کی کرنوں نے اسے آنکھیں چندھیانے پر مجبور کر دیا۔۔ اس کا سانس اٹکا تھا۔۔


تو ۔۔۔۔ وه سب ۔۔۔وه۔۔۔۔ سب۔۔ خواب تھا۔۔ وه بےاختیار رونے لگا۔۔ بلند آواز میں کسی بچے کی طرح۔۔ اللّه ۔۔۔۔ میں اب کبھی وه سب نہیں کروں گا۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ وه بلکنے لگا۔۔ میں سب۔۔ سب۔۔۔چھ۔۔۔وڑ دوں گا۔۔ مجھے معاف کر دیں۔۔۔ مجھے ایک موقع دیں ۔۔ آپ تو بہت رحیم ہیں۔۔۔ مجھے معاف۔۔۔۔۔۔ وه ہچکیوں سے رونے لگا۔۔ چھ فٹ سے نكلتا وه مرد جسے اپنی جوانی اور جاہ و دولت پر غرور تھا آج پورے قد سے ڈھیتا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔


"ابھے اس کو دیکھ،، لگتا ہے ایک رات میں ہی ہوا نکل گئی!!!" وه دونوں لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آئے تو وه بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا۔۔ تیسرا لڑکا آج غائب تھا۔۔


"بہت دیر سے تیری تاک میں تھا سالے بڑا خوار کیا تو نے۔۔" پہلا لڑکا گن کی نوک اس کی شاہ رگ پر رکھتا سرد لہجے میں بولا۔۔


کیوں مارنا چاہتے ہو مجھے کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا؟؟ اورهان نے نیلی آنکھیں مقابل کی آنکھوں میں گاڑتے ہوئے پوچھا۔۔


ابھے چپ ساری زندگی بگاڑ کر کہتا ہے کیا بگاڑا ہے تو نے ؟ بہت شدت سے انتظار کیا تھا میں نے اس پل کا۔۔ آج تجھے مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا!!! اس نے دو قدم پیچھے ہوتے گن لوڈ کی اور جنونی ہوتے دو گولیاں اسکے پیٹ میں مار دیں۔۔


اورهان کے منہ سے خون فوارے کی مانند نکلا تھا۔۔ "ابھے یہ کیا کِیا تُو نے اسکی ٹانگ بازو میں گولی مار دیتا چل جلدی یہاں سے ہمیں نکل جانا چاہیے فوراً " دوسرا لڑکا گھبرا کر بائیک سٹارٹ کرنے لگا تو وه بھی جلدی سے اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔۔ اس کے بیٹھتے ہی لڑکا فل سپیڈ سے بائیک چلاتا وہاں سے نکل گیا۔۔


اورهان نے نیم وا آنکھوں سے ان کی پشت کو دیکھا تھا۔۔ اسکی سانسیں اٹکنے لگی تھی۔۔ آخری منظر جو اس نے آنکھیں بند ہونے سے پہلے دیکھا تھا وه زمین پر پڑتا عکس تھا جو اسکی جانب بڑھ رہا تھا۔۔

🌚🌚🌚🌚


اسکی آنکھ کھڑاک کی آواز سے کھلی۔۔ وه آنکھیں ملتی کسلمندی سے اٹھ بیٹھی۔۔ رات نیند پوری نہ ہوئی تھی اس لیے سر بھاری ہو رہا تھا بہت۔۔ اس نے جمائی روکتے لاپرواہ انداز میں دائیں جانب دیکھا تو اسکی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔


اس سے کچھ فاصلے پر وه چت لیٹا سو رہا تھا۔۔ اس کےبال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے جبکہ سخت تاثرات والے چہرے پر ازحد معصومیت تھی۔۔ وه یک ٹک اسے تکے گئی۔۔ ہر چیز سے بےنیاز وہ جیسے سانس بھی آہستہ آہستہ لے رہی تھی کہ کہیں دید کے اس رومانوی پل میں خلل پیدا نہ ہو۔۔


اسکی نظریں اسکی تیکھی ناک سے سفر کرتیں ہونٹوں پر اور پھر ہونٹوں کے کچھ اوپر چمکتے تل پر جم گئیں جو داڑھی کے باعث غور کرنے پر ہی نظر آتا تھا۔۔ مشائم نے سرعت سے نظروں کا زاویہ موڑا۔۔ وه بیڈ سے اتری تو چونک گئی۔۔


"میں تو صوفے پر سورہی تھی تو پھر۔۔۔۔۔۔۔؟" اسکی دھڑکنیں بےترتیب ہوئیں۔۔ چہرہ تهپتهپا کر اس نے اپنے حلیے پر نظر ڈالی۔۔ وه رات ہی سے صالح کے کپڑوں میں ملبوس تھی۔۔ اپنا سامان لینے کی غرض سے وه کمرے سے باہر نکلی تو انجم کو دیکھ کر جھجھک گئی۔۔ "آ جا میری دھی جھجھک کیوں رہی ہے اب یہ تیرا ہی گھر ہے!!!" انجم نے اسے صالح کے کپڑوں میں دیکھ کر خوشگواری سے کہا۔۔


وه ان کی جائزہ لیتی نظروں پر شدید پزل ہوئی۔۔ السلام علیکم !!! وه انگلیاں چٹخاتی ان کی قریب آئی تو انہوں نے آگے بڑھتے اسکی پیشانی چومی۔۔ "وعلیکم السلام !!! میری سونی دھی" ان کی اتنی محبت پر وه مسکرا دی۔۔


"امی جان میرا سامان کہاں رکھا ہے؟ کپڑے بدلنے تھے" وه آہستہ سے بولی۔۔ انجم تو اس کے امی جان کہنے پر صدقے واری جانے لگیں۔"یہ سامنے والے کمرے میں رکھا ہے تیرا سامان۔۔"


وه مشائم کو بتا کر ناشتہ بنانے لگیں تو وه سر ہلاتی ان کے بتائے کمرے میں آئی۔۔ اٹیچی کیس کے پاس رکتے وه پنجوں کے بل بیٹھی اور کیس کھول کر ایک جوڑا نکالا۔۔ ٹی پنک رنگ کی ٹشو کی گھٹنوں تک آتی فراک اور كیپری کا ساتھ ٹشو کا دوپٹہ تھا۔۔

وہ کھڑی ہوئی اور واپس اپنے کمرے میں آئی۔۔ جلدی سے باتھروم میں گھستی وه دس منٹ بعد فریش سی باہر آئی۔۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئی اور دوپٹہ سائیڈ پر رکھ کر تولیے سے گیلے بال خشک کرنے لگی۔۔

اس کی پیٹھ صالح کی جانب تھی اس لیے وه دیکھ نہ پائی کہ وه آنکھیں کھولتا گہری نظروں سے اسکی نازک پتلی سی کمر کو چند پل دیکھ کر کروٹ بدل گیا تھا۔۔

مشائم مگن سی كنگهی کی مدد سے بال سلجھانے لگی۔۔ اس نے کمر سے نیچے تک جاتے سلكی بھورے بال جھٹک کر کمر پر کھلے چھوڑ دیے کہ جب مکمل سوکھ جائیں گے تو انہیں باندھ لے گی۔۔ اس نے دوپٹہ کاندھے پر ڈال کر آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔۔ سادہ دھلے ہوئے چہرے کے ساتھ ٹی پنک فراک میں کھلے بالوں کے ساتھ وه بےحد جاذب نظر لگ رہی تھی۔۔ اسکے گال نہانے کے باعث گلابی ہورہے تھے۔۔ اس نے میک اپ کی ضرورت محسوس نہ کی۔۔

آخری نظر اپنے سراپے پر ڈال کر وه کمرے سے باہر نکل آئی۔۔ انجم کو تلاشتی وه صحن میں کچھ آگے تک آئی تو وه اسے چارپائی پر بیٹھیں مل گئیں۔۔ وه بھی ادھر ہی چلی آئی۔۔ ان کے قریب بیٹھتی وه ان سے باتیں کرنے لگیں۔۔ انجم خوشی سے اس سے باتیں کرتیں اسکی بلائیں لے رہی تھیں کیونکہ وه لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔

اچھا پتر ایک بات تو بتا رات کو دروازه مارنے کی آواز آئی تھی صالح نے غصہ تو نہیں کیا نہ تجھ پر؟؟ وه اصل بات جاننے کو بولیں تو مشائم شرمنده ہوگئی۔۔۔

"نہیں!!! وه اصل میں، میں باتھروم گئی تھی تو غلطی سے دروازه زور سے بند کر دیا" وه خوامخواہ بال کان کے پیچھے اڑستی ہوئی بولی۔۔

انجم بےحد محظوظ ہوئیں۔۔ اب آئے گا اونٹ پہاڑ کے نیچے!!! دل میں مزے سے سوچتیں وه پھر مشائم سے مخاطب ہوئیں۔۔ "پتر صالح کو اٹھا جا کر میں نے ناشتہ بنا دیا ہے ٹھنڈا ہوجائے گا"

میں اٹھاؤں؟؟ مشائم نے حلق تر کرتے کہا تو انجم ہنس پڑیں۔۔ تو اور پگلی۔۔۔ نئی تو کیا پڑوس سے کسی کو بلاؤں وه تو لٹو ہوئی پڑی ہیں صالح کے پیچھے لیکن میرا پتر ہی انہیں منہ نہیں لگاتا۔۔

وه چارپائی سے اٹھتں ہوئی کہنے لگیں۔۔ مشائم کی تیوری چڑھی۔۔ کسی اور کو منہ لگا کر تو دکھائے!!! بڑبڑا کر وه اٹھی۔۔"میں جگاتی ہوں نہ جا کر" وه اندر کمرے میں آئی اور اس کی جانب بڑھی۔۔

"اوفو یہ دوپٹہ بھی ٹک ہی نہ جائے!!!" دوپٹہ اسکے پیر میں آیا تو وه گرتے گرتے بچی۔۔ اس نے دوپٹہ اکٹھا کر کے کندھے پر ڈالا اور جھک کر اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔ اس کے گیلے بال لہرا کر صالح کے چہرے پر گرے۔۔ وه کسمسایا۔۔

مشائم گھبرا کر پیچھے ہٹی۔۔ کہہ تو آئی ہوں اب اٹھاؤں کیسے انھیں؟ وه دانت میں ناخن چباتی کنفیوز سی کھڑی تھی۔۔ ہمت کرتی وه پھر آگے آئی اور اسے ہلانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسکا پیر مڑا اور وه پوری کی پوری اس پر آ گری۔۔

صالح نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں تو وه اسکے سینے پر گری اٹھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔ اسکے گیلے بال صالح کا چہرے پر گرے ہوئے تھے۔۔ صالح نے بلا اراده آنکھیں موند کر گہری سانس کھینچتے انکی خوشبو سانسوں میں اتاری۔۔

پھر اس نے اپنے چہرے سے اسکے بال ہٹا کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے تو مشائم اپنی جگہ فریز ہوگئی۔۔ اسکا دل زوروں سے دھڑکنے لگا تھا۔۔ اس کے سینے سے لگی وه حیا سے سرخ پڑی۔۔

صالح اسکی غیر ہوتی حالت پر دهیما سا مسکرایا۔۔ اس نے جھٹکے سے اسے کمر سے تھام کر بیڈ پر لٹایا اور خود اس پر سایہ فگن ہوتا بیڈ پر اسکے دائیں بائیں ہاتھ ٹکا کر اسکے سرخ چہرے کو دیکھنے لگا۔۔

مشائم اس افتاد پر گھبراتی جلدی سے آنکھیں میچ گئی۔۔ اسے اپنے کمر پر اس ستمگر کا لمس ابھی تک محسوس ہوتا اسے پاگل کررہا تھا۔۔ چہرے پر پڑتی اسکی سانسوں کی حدت اسے جهلسانے لگی تھی۔۔ وه جو اسکی قربت کی خواہش مند تھی اب اسکے قریب آنے پر کانپنے لگی تھی۔۔

آپ میرے قریب آنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں؟؟ وه اس کی میچیں آنکھوں اور کانپتے لبوں پر فوکس کرتے ہوئے دهیما سا بولا تو مشائم نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔ نن۔۔ نہیں وه ۔۔امی جان ۔۔۔ نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔

صالح کی نظریں اپنے ہونٹوں پر مرکوز پا کر اسکی بولتی پل میں بند ہوئی۔۔ وه تھا کہ اس کے اوپر سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔ وه رو دینے کو ہوئی تو وه اس پر ترس کھاتا پیچھے ہٹا۔۔

اس کے ہٹتے ہی وه جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ پکڑتی باہر جانے لگی کہ صالح کی آواز پر رکی۔۔

"آئینے میں اپنا چہرہ دیکھیں۔۔ اگر یوں باہر جائیں گی تو اماں بہت کچھ سمجھ جائیں گی!!!" آرام سے کہتا وه فریش ہونے جا چکا تھا۔۔

وه واپس کمرے میں آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی اپنا چہرہ دیکھنے لگی جس پر صالح یوسف کی قربت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔ وه لجا کر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی اور اپنے آپ کو نارمل کرتی صالح کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی۔۔

سیاہ بڑی سی چادر کو خود پر درست کرتی وه تیز تیز چلتی یونیورسٹی میں داخل ہوئی تھی۔۔ اس کا رخ اپنے آفس کی جانب تھا۔۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ اس نے آفس سے چند ضروری فائلز اٹھائیں اور جس رفتار سے آئی تھی اسی رفتار سے چلتی لیکچر لینے کے لئے مطلوبہ کلاس میں آ گئی۔۔


ارشما کا قدم کلاس میں پڑا ہی تھا کہ کلاس میں سناٹا چھا گیا۔۔ سب جلدی سے اپنی جگہوں پر آ بیٹھے۔۔ اس کی موجودگی میں کسی سٹوڈنٹ کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وه کلاس کے ڈسپلن کو ڈسٹرب کر سکے کچھ ایسی ہی سخت مزاج کی تھی وه۔۔ ہمیشہ رہنے والے سپاٹ چہرے پر ہر احساس سے عاری سرد آنکھیں۔۔ جامد لب جو صرف ضرورت کے وقت حرکت میں آتے تھے۔۔ مومی چہرے والی چادر سے خود کو ڈھک کر رکھنے والی وه سادہ سی چھوٹی لڑکی ہر کسی پر اپنی جداگانہ شخصیت سے گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔۔ بغیر کسی پر نظر ڈالے وه ڈائس کی جانب بڑھ گئی۔۔


اپنی فائلز رجسٹر اور پین ڈائس پر رکھ کر اس نے سر اٹھایا۔۔ ہر احساس سے عاری شہد رنگ آنکھوں نے کلاس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔۔ سٹوڈنٹس خاموش بیٹھے اس کے بولنے کے منتظر تھے۔۔ اچانک کلاس میں کسی نے ہلکی سی سرگوشی کی۔۔ چادر میں چھپی پیشانی پر بل پڑے۔۔

"آؤٹ!!"

اس نے سرخ و سپید ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھا کر ایک لڑکی کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔۔ وه لڑکی شرمنده سی اٹھ کھڑی ہوئی۔

Anyone else who can't maintain discipline in my class can go out!! ( اور کوئی جو میری کلاس میں ڈسپلن برقرار نہیں رکھ سکتا وه باہر جا سکتا ہے)


وه درشتگی سے پوری کلاس پر ایک نظر ڈال کر بولی۔۔


یہ کیا کہہ رہی ہے؟؟ ماہ بیر نے اپنے ساتھ بیٹھے صالح سے بےنیازی سے کہا۔۔

"معلوم نہیں!!" وه لا علمی سے شانے اچکا گیا۔۔


یو بوتھ !! تیز سرد آواز پر دونوں نے ڈائس کے پیچھے کھڑی اس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا جو ان کو تھوڑی تھوڑی اپنی ٹیچر لگ رہی تھی کیونکہ اس کی عمر اور قد کاٹھ سے وه ایک سٹوڈنٹ ہی لگ رہی تھی۔۔ اس لئے وه کنفیوز تھے۔۔ اپنے آپ کو اسکی نظروں کے حصار میں پا کر دونوں میں نظروں کا تبادلہ ہوا۔۔


"آپ دونوں سے بات کررہی ہوں میں کھڑے ہوں" ارشما کو اندازه ہوا تھا کہ وه اسکی بات نہیں سمجھ رہے اس لئے اس نے اس بار اردو میں انہیں مخاطب کیا ۔۔ وه دونوں ایک ساتھ کھڑے ہوگئے۔۔ بلیک شرٹ بلو جینز میں پیروں میں بلیک ہی جوگرز۔۔ بازو کہنیوں تک مڑے۔۔ کسرتی جسم۔۔ دونوں ہی بے حد وجیہہ۔۔ سنجیدہ چہروں پر گهنی داڑھی مونچھیں۔۔ وه واضح طور پر باقی سٹوڈنٹس سے عمر میں بڑے تھے۔۔ دونوں نے پشت پر ہاتھ باندھ لئے اور ڈائس کی طرف دیکھتے اس کے بولنے کے منتظر تھے۔۔


لڑکیاں تو لڑکیاں، لڑکے بھی منہ کھولے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔ اتنے ہینڈسم لڑکے انکی کلاس میں تھے اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔۔


آپ میری کلاس میں کیا کررہے ہیں؟؟ وه ماتھے پر بل ڈالے بولی۔۔ "یہ تو تمہاری بہن لگتی ہے" ماہ بیر نے اپنے ساتھ کھڑے صالح سے ہلکی آواز میں کہا۔۔ اس کا اشارہ ٹیچر کی پیشانی پر پڑے بلوں کی جانب تھا۔۔

اہمم !! وه کھنکارہ۔۔ "ہم آپ کے نئے سٹوڈنٹس ہیں۔۔ " صالح نے سنجیدگی سے کہا۔۔ اب اتنی انگلش تو آتی ہی تھی ۔۔ لڑکیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اٹھ کر ان کے ساتھ بیٹھ جاتیں۔۔ جبکہ لڑکے اب ان سے جیلسی محسوس کررہے تھے۔۔ اتنے حسین لڑکوں کے ہوتے اب کون سی لڑکی انہیں گھاس ڈالے گی۔۔


لیٹ می چیک!! وه سر ہلا کر رجسٹر میں سٹوڈنٹس کی لسٹ دیکھنے لگی جہاں دو ناموں کا اضافہ ہو چکا تھا۔۔ ساتھ ایک نوٹ رکھا تھا جس میں پرنسپل کی طرف سے دونوں سے نرم رویہ رکھنے اور ان پر خاص توجہ دینے کا آرڈر تھا۔۔ اس نے ایک نظر نوٹ پر ڈالی اور پھر سر اٹھایا۔۔


بیٹھ جائیں۔۔ میری کلاس میں یہ رول ہے کہ کوئی بھی فضول بات نہیں ہوگی۔۔ بس کام ہوگا۔۔ جو اس رول کو فولو نہیں کرتا وه پھر میری کلاس کا حصہ نہیں رہتا۔۔ آج کی مثال دیکھ چکے ہوں گے آپ۔۔!! وہ فائل سے چند پرنٹڈ پیپرز نکالتی ہوئی سپاٹ لہجے میں بولی۔۔


کلاس چیئرز ارینج کریں۔۔۔۔

get up you all have five minutes..


وه کویسچن شیٹس ایک لڑکی کی طرف بڑھا کر

ڈائس کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھ گئی۔۔ آپ دونوں نوٹ بكس لے کر آئیں!! ساتھ ہی ان دونوں کو حکم دیتی وه جلدی سے سادہ کاغذ پر پین چلاتی آج کی رپورٹ تیار کرنے لگی۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه دونوں کل ہی کراچی پہنچے تھے اور یہاں ماہ بیر کے لگزری فلیٹ میں رہ رہے تھے۔۔ صالح اب شادی شدہ تھا وقت اور حالات بدل گئے تھے اس لیے ماہ بیر نے چاہا کہ وه اکیلا چلا جائے لیکن صالح نے اسے مطمئن کر دیا کہ وه آتا جاتا رہے گا۔۔ اب تو وه خود بھی اپنے گھر سے دور جانا چاہتا تھا۔۔ شادی کے دوسرے دن ہی اس کے جانے کا سن کر مشائم بے تہاشہ روئی تھی۔۔ اسے محسوس ہوا تھا کہ وه اسکی وجہ سے جارہا ہے جبکہ اسکے جانے کا فیصلہ تو پہلے سے طے پا چکا تھا۔۔


انجم نے اسے پیار سے بہت سمجھایا۔۔ اس دوران عارفہ بھی اس سے ملنے آئی تھیں۔۔ بہت مشکل سے اس نے اپنے آپ احساسات کو چھپایا تھا۔۔ وہ اب اپنی وجہ سے کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ مگر اسکے جانے کے بعد وه اس سے سخت خفا تھی۔۔

🌚🌚🌚🌚


وه جب سے واپس آئی تھی عجیب مخمصے میں پھنسی ہوئی تھی۔۔ اورهان یہاں بھی نہیں تھا۔۔ اگر وه یہاں نہیں تھا اسکی بتائی گئی لوکیشن پر بھی نہیں تھا تو وه اچانک کہاں غائب ہوگیا تھا۔ اینارا نے باتوں باتوں میں رشید کو ٹٹولا تو اس نے لاپرواہی سے کہا کہ یہ صاحب لوگ اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں کب آتے ہیں کب جاتے ہیں کچھ پتہ نہیں چلتا اپنے کو کام سے اور پیسے سے مطلب ہے۔۔


اینارا جواباً خاموش رہی تھی۔۔ اس نے سوچا کہ ایک دو دن مزید انتظار کر لیتی ہے لیکن اسے انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔۔ ہیڈ سرونٹ هانپتا ہوا اندر آیا تھا۔۔


ٹی وی لگاؤ جلدی۔۔ نیوز چینل دیکھو!!! اسکا لہجہ چغلی کھا رہا تھا کہ ضرور کوئی انہونی ہوئی ہے۔۔ اینارا نے جلدی سے ٹی وی آن کیا۔۔ نیوز چینل پر جو خبر انہیں سننے کو ملی اس نے انہیں شاک میں مبتلا کر دیا۔۔


نیوز رپورٹر چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ شہر کی جانی مانی شخصیت "میر اورهان صمید" کی اچانک موت نے سب کو گہرے شاک میں مبتلا کر دیا ہے۔۔ ان کی لاش جس حالت میں پائی گئی ہے اس سے انہیں پہچاننا ممکن نہیں تھا۔۔ ان کے پاس موجود آئی ڈی کارڈ سے ان کی شناخت کی گئی ہے۔۔ پولیس کا عملہ حرکت میں آ چکا ہے۔۔ مزید اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے چینل کے ساتھ جڑے رہیں۔۔


اینارا کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔ کس نے کیا یہ؟ میں نے تو۔۔۔۔۔ وه الجھی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔


ملازموں میں بےچینی کی لہر دوڑ گئی۔۔ ہر کوئی شاک میں تھا۔۔ ہیڈ سرونٹ جو اورهان کا خاص آدمی بھی تھا اس نے سب ملازموں کو چھٹی دے دی۔۔ کسی بھی وقت پولیس تفتیش کے لیے آ سکتی تھی۔۔ وه ان بیچاروں کو ان معاملات میں نہیں گهسیٹنا چاہتا تھا۔۔ اس نے سب کے جانے کے بعد گھر کو لاک کر دیا۔۔ اس کے نمبر پر کسی کی کال آنے لگی تھی۔۔ وه کال اٹھاتا جلدی سے وہاں سے نکل گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚


اینارا رشید کے ساتھ واپس گاؤں آ گئی تھی۔۔ اب اس کا وہاں کیا کام تھا۔۔ وه دروازه کھول کر بیگ پکڑے اندر داخل ہوئی۔۔ شائستہ اسے دیکھتے ہی سب چھوڑ چھاڑ کر لپٹ گئیں۔۔


کیسی ہے میری بچی؟؟ وه اسکا منہ چوم کر بولیں۔۔

"ویسی ہی ہوں اماں جیسی یہاں سے گئی تھی ۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے کھانا لگا دیں میں نہا کر آتی ہوں۔۔" وه تھکان زدہ لہجے میں بولی۔۔


ہاں ابھی لاتی ہیں تو آرام سے تازہ دم ہو جا۔۔!! وه اسکا بیگ اندر کمرے میں چھوڑ آئیں اور پھر باورچی خانے میں چلی گئیں۔۔


کچھ دیر بعد کھانا کھاتے ہوئے اینارا نے انہیں دیکھا۔۔ اماں؟؟ اس کی پکار پر شائستہ اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔۔


وه مر گیا ہے،، کسی اور نے اسکی جان لے لی!!! وه گہری سنجیدگی سے بولی تو شائستہ چونکیں۔۔ پھر ان کے چہرے پر ناگواری چھا گئی۔۔


اچھا ہوا!!! وه بےتاثر چہرے سے کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔۔ ان کے جانے کا بعد اس نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔۔ اس نے برتن اٹھا کر کچن میں رکھے اور واک کرنے کی نیت سے چھت پر چلی آئی۔۔


گہری شام میں اس کے اندر کی اداسیاں باہر آنے لگی تھیں۔۔اب تو ہو چکا تھا جیسا وه چاہتی تھی۔۔ لیکن پھر بھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا تھا۔۔ اسکے مرجانے سے عبدلمنان اور ازنا واپس نہیں آ گئے تھے۔۔


انتقام کی آگ سرد پڑی تو پھر سے پرانے غم جاگنے لگے تھے۔۔ وه دیوار سے کمر ٹکا کر آنکھیں موند گئی۔۔ ایک آنسو لڑھکتا ہوا گال پر آیا اور پھر نیچے گر گیا۔۔ کیا یہی زندگی ہے؟ وه تلخی سے سوچنے لگی۔۔


🌚🌚🌚🌚


ارشما گھبرائی ہوئی گھر آئی تھی۔۔ آج اپنے آفس میں پڑے اخبار پر جو خبر اس نے دیکھی تھی اس نے اسے شدید دهچکا پہنچایا تھا۔۔وه روتی ہوئی گھر آئی تھی ۔۔ اسکی حالت دیکھ کر بی جان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔۔


جو بھی تھا جیسا بھی تھا وه بھائی تھا اس کا۔۔ اس کے جانے کی خبر سن کر وه تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔۔ کچھ رشتے پاس نہ بھی ہوں تو محض ان کے ہونے کا احساس بھی کافی ہوتا ہے۔۔ آج یہ احساس بھی اس سے چھن گیا تھا۔۔


بی جان کے بار بار پوچھنے پر اس نے روتے ہوئے انہیں بتا دیا تھا ۔۔ وه بھی آبدیده ہوگئی تھیں۔۔


"میرے بچے حوصلہ کرو اللّه تمہیں صبر دے۔۔ ہم اس کے فیصلوں پر محض سر ہی جھکا سکتے ہیں۔۔" وه اسے دلاسہ دینے لگیں۔۔


چلو شاباش اٹھو فریش ہو کر آؤ دیکھو کیا حالت بنا رکھی ہے۔۔!! وه اس کا سر چومتی اسکا ہاتھ تھام کر کمرے میں لے آئیں۔۔


وه گالوں پر بہتے آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتی ہوئی اپنے گرد لپٹی چادر اتار کر باتھروم کی جانب بڑھی۔۔

🌚🌚🌚🌚


وه دونوں یونیورسٹی سے واپس آ رہے تھے۔۔ صالح کار ڈرائیو کررہا تھا جب اس نے کہنا شروع کیا۔۔ سائیں۔۔۔۔۔۔


اس نے کہا ہی تھا کہ ماہ بیر نے اسے ٹوک دیا۔۔ "یار اب تو ہم میں رشتہ داری بھی بن گئی ہے۔۔ اور ہم دوست بھی ہیں۔۔دوہرے رشتے ہیں اب ہمارے۔۔ تم مجھے سائیں مت کہا کرو اب اور "آپ جناب" کا تكلف بھی نہ کیا کرو۔۔" وه اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا۔۔


یہ بڑا مشکل کام کہہ دیا ہے آپ نے!!! وه احتجاجاً بولا تھا۔۔


پھر آپ؟؟ ماہ بیر نے ڈپٹا تو وه دهیما سا ہنس دیا۔۔ ماہ بیر۔۔۔تم۔۔۔!!! وه اٹک کر بولا تو ماہ بیر قہقہہ لگا گیا۔۔


شاباش پریکٹس کیا کرو روز!!؛ وه شرارت سے بولا۔۔


ویسے وه جو ٹیچر ہے ہماری بڑی عجیب ہے ایسے دیکھتی ہے جیسے کچا چبا جائے گی!! صالح خفگی سے بڑبڑایا کیونکہ آج اسکی بھی ہلکی پهلكی ہوئی تھی ارشما سے۔۔ ہر وقت اپنی ناک اونچی رکھنے والے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے بیچارے یوسف صاحب کو ایک اتنی سی لڑکی نے ڈانٹا تھا اور وه چپ چاپ کھڑا رہا تھا۔۔


اس منظر نے ماہ بیر کو بےحد محظوظ کیا تھا اور صالح جانتا تھا اب وہ لمبے عرصے تک اسکی ٹانگ کھینچنے والا تھا۔۔ صالح نے گاڑی کی رفتار تیز کرتے ماہ بیر کی جانب دیکھا۔۔ وه دونوں کچھ سنجیده ہوئے اور اورهان کی موت کو ڈسکس کرنے لگے۔۔

🌚🌚🌚🌚


وه بجهی بجهی سی کمرے میں بیٹھی تھی۔۔ مہرون ریشمی لباس میں وه اداس بیٹھی کسی مصور کا شاہکار لگ رہی تھی۔۔


بھوری آنکھوں میں اداسی تیر رہی تھی۔۔ گهنی پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔۔ کھلی زلفیں شانوں پر بکھری ہوئی تھیں۔۔ وه ہاتھ پر لگی مهندی کو تکتی اس ستمگر کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جو اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔ اس کے دل نے بےاختیار شکوه کیا۔۔


پھر اس کی قربت میں بتائے چند پل اسکی آنکھوں کی سامنے سے گزرے تو اسکے چہرے پر حیا آمیز لالی آئی۔۔ اسکے ستم کا یہ حال تھا تو جب وه مہرباں ہوگا تو کیا ہوگا؟


وه انہیں سوچوں میں گم تھی کہ انجم موبائل پکڑے اندر چلی آئیں۔۔ "پتر یہ صالح کا فون آیا ہے بات کرلے" وہ اس کے ہاتھ میں موبائل تهما کر بغیر اسے سمجھنے کا موقع دیے کمرے سے چلی گئیں۔۔


وه ہونقوں کی طرح موبائل کی سکرین کو دیکھنے لگی۔۔ پھر اسکے چہرے پر خفگی در آئی۔۔ دوسری جانب موجود صالح خاموشی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کی نظر مشائم کی ناک میں چمکتی نوز پن پر آ کر ٹھہری تھی۔۔


السلام علیکم !!! وه اس کے خفگی بھرے تاثرات دیکھتا ہوا بولا۔۔


وعلیکم السلام !!! مشائم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کمرے میں نگاہ دوڑا کر سنجیدگی سے جواب دیا۔۔ دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔۔ اس کا دل تو بہت کررہا تھا کہ وه اسے دیکھتی رہے اتنے دن بعد تو اسے دیکھنا نصیب ہورہا تھا۔۔ ساری اکڑ کو بھاڑ میں بھیجتی وه سیدھی ہوئی اور پھر بیڈ سے کمر ٹکا کر موبائل بلکل سامنے کرتی اسے دیکھنے لگی جس کا صرف چہرہ موبائل کی سكرین پر نظر آ رہا تھا۔۔


وه اس بات سے بے خبر بیٹھی تھی کہ اسکا دوپٹہ ڈھلک کر گود میں آ گرا تھا۔۔ مہرون ریشمی لباس میں اسکے وجود کی رعنائیاں عیاں ہورہی تھیں۔۔


صالح نے کروٹ بدلی اور گہری نظروں سے دوپٹے سے ندارد اسکے نازک وجود کو دیکھنے لگا۔۔ اسکی نظروں کا رخ محسوس کرتے مشائم کا چہرہ کان کی لو تک سرخ پڑ گیا۔۔


اس نے جلدی سے سر جھکایا تو اس کا دل چاہا مقابل کی نظروں کے سامنے سے غائب ہوجائے۔۔ ایک ہاتھ سے موبائل تھامتے اس نے جلدی سے دوپٹہ پھیلا کر لیا۔۔


آپ ناراض ہیں مجھ سے؟؟ صالح کو کچھ کچھ اندازہ ہوا تھا اس لیے پوچھ بیٹھا۔۔

مشائم نے خالصتاً بیوی جیسی تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ ہاں ہوں تو پھر؟؟

وه ناک پھلا کر بولی تو دوسری جانب صالح نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبايا۔۔


"مجھے منانا نہیں آتا!!!" وه اسے تنگ کرنے کو بےنیازی سے بولا۔۔


مشائم نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔۔ "ہاں آپ کو تو بس رلانا آتا ہے!! منانا اور پیار کرنا نہیں آتا۔۔" وه بال جھٹک کر خفگی سے بولی۔۔ دوسری لڑکیوں کے شوہر اتنے رومینٹک ہوتے ہیں اور انھیں دیکھو۔۔ وه آہستہ سے بڑبڑائی لیکن اگلا بندہ بھی اپنے نام کا ایک تھا اس نے سن لیا تھا۔۔


"آپ چاہتی ہیں آپ کے ساتھ رومینس کروں میں؟؟ اس کے لیے آپ کو میرے پاس آنا پڑے گا۔۔" وه بھی آرام سے کہہ کر اس کے تاثرات سے محظوظ ہونے لگا۔۔


مشائم نے فوراً موبائل الٹا کر کے بیڈ پر رکھتے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔ اسکا دل شدت سے دھڑکنے لگا تھا یوں جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آ جائے گا۔۔

سپیکر سے صالح کی آواز گونجی۔۔ "اگر آپ فوراً سكرین کے سامنے نہیں آئیں تو میں کال بند کررہا ہوں" اس کی دهمكی پر مشائم نے فورا موبائل تھاما تھا۔۔ البتہ نظریں اٹھانے کی ہمت نہ کی۔۔

صالح نے مسکراتی نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھا۔۔ آپ شرماتی بھی ہیں؟؟ وه پھر اسے چھیڑنے سے بعض نہ آیا۔۔

اگر آپ نے مجھے اب تنگ کیا تو میں امی جان کو بتاؤں گی!!! مشائم اس کی گہری اندر تک اترتی نظروں پر چھوئی موئی بنتی اسے دھمکیدینے کی کوشش کرنے لگی۔۔

اسکی بات پر صالح نے اپنی بےساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ روکی۔۔ مثلاً کیا بتائیں گی؟؟

یہی یہی بتاؤں گی کہ آپ مجھ سے ایسی باتیں۔۔۔۔ بولتے بولتے مشائم کی زبان کو بریک لگا۔۔

کیسی باتیں؟

وه مسکان دباتے پھر سے بولا۔۔

"میاں بیوی والی"

اب کی بار وه خفگی سے بولی۔۔

میاں بیوی والی باتیں کونسی ہوتی ہیں؟؟

وه سیدھا لیٹتا پوچھنے لگا۔۔

جو آپ کررہے ہیں!!!

وه چہرے پر آتے بال کان کے پیچھے اڑستی نظریں جھکا کر بولی۔۔

صالح نے اسے مذید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔۔ اوکے رات بہت ہورہی ہے سو جائیں آپ!!! اس کے بولنے پر مشائم نے جھکی نظریں اٹھائیں۔۔

آپ كیمره دور کریں تھوڑا سا۔۔ میں آپ کو مکمل دیکھنا چاہتی ہوں!!! وہ جھجھکتی ہوئی بول گئی۔۔

صالح چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔ "سوچ لیں ایک بار۔۔۔ شاید آپ دیکھ نہ پائیں" اس نے وارن کیا۔۔

مشائم نے اسکی بات پر غور نہیں کیا۔۔ "دیکھ لوں گی میں" اس نے جیسے ناک سے مكهی اڑانے والے انداز میں کہا۔۔

صالح اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔ جیسی آپ کی مرضی!!! اس نے بازو سیدھا کرتے موبائل دور کیا تو وه شرٹ لیس تھا۔۔ اس کا کسرتی جسم سامنے تھا۔۔ سینے کی پھولی رگیں صاف نمایاں ہورہی تھیں۔۔

مشائم نے اسے دیکھا تو گھبرا کر کال کاٹ دی۔۔ اسے پسینہ آنے لگا تھا۔۔ گہری گہری سانس لیتے اس نے آنکھیں موندیں لیکن اسکا کسرتی سینہ سامنے آنے پر جھٹ سے کھول گئی۔۔ اس نے جلدی سے اٹھ کر پانی پیا۔۔

ہی از ڈیم ہاٹ!!! ہاؤ شیلّ آئی بیئر ہِز ہاٹنیس؟؟ وه خود كلامی کرتی بولی۔۔ ایک عجیب سا احساس اس کے اندر سرائیت کرنے لگا تھا۔۔

ماہ بیر نے کنکھیوں سے اپنی آنسر شیٹ سے نظر ہٹا کر ایک رو چھوڑ کر اس سے اگلی رو میں بیٹھے صالح کو دیکھا جو بےچین نظر آتا تھا۔۔ ماہ بیر نے ٹیسٹ کر لیا تھا سو وه آرام سے چیئر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔ اس نے مہرون چیک والی شرٹ اور بلیو جینز پہن رکھی تھی۔۔ شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑے مضبوط کلائی میں برانڈڈ گھڑی ڈالے، سرمئی دل میں اتر جانے والی آنکھوں اور گردن کو چھوتے بالوں میں وه بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔ داڑھی کچھ اور گهنی ہوئی تھی اور مونچھیں پہلے کی طرح ہی اطراف سے ذرا سی مڑتی تھیں۔۔


وه یونہی کلاس میں راؤنڈ لگاتی ارشما کا جائزہ لینے لگا۔۔ سیاہ کھجوری شلوار اور گھٹنوں تک آتی قمیض میں ملبوس پیروں میں سیاہ ہی کھسہ ڈالے وه سیاہ چادر سے خود کو ڈهانپے ہوئے تھی۔۔ سرخ و سفید دودھیا چہرا میک اپ سے پاک تھا۔۔ شہد رنگ آنکھوں میں ٹھنڈک اور بےزاری تھی۔۔ یوں لگتا تھا جیسے وه ہر چیز سے بیزار ہو!!!


معاً وه چکر لگاتے ہوئے رکی۔۔ اس نے ماہ بیر کو خود پر مسلسل ٹکی نظروں کو محسوس کر لیا تھا۔۔ اس نے ذرا سی گردن موڑی اور ماہ بیر کو گھورا۔۔ آج عجیب بات یہ ہوئی کہ ماہ بیر اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔۔ وه یک ٹک اسکی آنکھوں میں دیکھے گیا۔۔ جیسے آنکھوں کے راستے اس کے اندر کے راز جان لے گا۔۔


ارشما کو بھی اس سے توقع نہیں تھی کہ وه یوں اسے ٹکٹکی باندھے دیکھے گا کیونکہ جب سے وه آیا تھا اس نے اس کا کردار اچھا ہی پایا تھا کیونکہ وه اور صالح دونوں اپنے کام سے کام رکھتے تھے اور آج تک اس نے انہیں کسی بھی لڑکی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔۔ اسے محسوس ہوا جیسے وه اسے کھوجنا چاہ رہا ہے اسکی ذات میں دلچسپی لے رہا ہے۔۔ وه فورا نظروں کا زاويہ بدل گئی۔۔ اسکی ذات ایک راز تھی اور وه کسی کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ وه اسکی ذات کے پہلوؤں کو کھوج سکے۔۔


ارشما نے کلائی میں بندهی گھڑی میں ٹائم دیکھا۔۔ "پانچ منٹ رہ گئے ہیں کلاس ہری اپ!!!" وه ازلی سخت لہجے میں بولی تو صالح نے پریشانی سے کنپٹی مسلی۔۔ رات ارشما سے بات کرنے کے بعد آج کا ٹیسٹ تیار کرنا اس کے ذہن سے ہی نکل گیا تھا۔۔ یونیورسٹی آ کر جب ماہ بیر سے اسے پتہ چلا تو اس نے جلدی میں جتنا ہو سکا تیار کر لیا لیکن ٹیسٹ دیتے وقت اچانک سب کچھ اس کے دماغ سے نکل گیا تھا۔۔ اس نے آدھی شیٹ جیسے تیسے بھر دی تھی۔۔ اب وقت ختم ہوگیا تو وه ماتھے پر بل ڈال کر خود سے خفا سا چیئر سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔


ارشما نے شیٹس کلیکٹ کرنی شروع کردیں۔۔ سب شیٹس اکٹھی کر کے وه ڈائس کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھ گئی۔۔۔

"کلاس شور نہیں ہونا چاہیے۔۔ آپ کو کچھ دیر تک شیٹس واپس مل جائیں گی۔۔ سو بی پریپیئر فار یور ریزلٹس"۔۔۔۔۔!!!

وه سخت نظر سب پر ڈالتی جلدی جلدی ٹیسٹ چیک کرنے لگی۔۔


صالح واپس ماہ بیر کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔ اس کا موڈ سخت آف ہوگیا تھا۔۔ ماہ بیر نے نظروں ہی نظروں میں اس کے بگڑے تیوروں کی وجہ پوچھی تو اس نے دھیمی آواز میں اسے بتا دیا۔۔


اوہ!!! اب تو یہ کھڑوس ٹیچر نہیں چھوڑے گی تمہیں۔۔۔۔!!! ماہ بیر کے درست اندازے پر وه مزید خفا ہوا۔۔


قریباً دس منٹ بعد وه شیٹس سب کو واپس کرنے لگی۔۔ جن کے مارکس اچھے تھے انہیں ایپری-شی-ایٹ کیا جا رہا تھا جبکہ گندہ ٹیسٹ دینے والوں کی اس نے ایسی طبیعت صاف کی تھی کہ انہوں نے دوبارہ ایسا ٹیسٹ دینے سے توبہ کرلی تھی۔۔

وه ماہ بیر کے پاس آ کر رکی تو وه اٹھ کھڑا ہوا۔۔ ارشما نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اسکے سامنے وه بلکل بچی سی لگ رہی تھی۔۔ اسے سمجھ نہیں آئی وه ماہ بیر کو کیا کہے۔۔ اصل میں وه اسکی بدلی نظروں کی وجہ سے پزل ہوئی تھی پہلی بار۔۔ پتہ نہیں کیوں۔۔۔!!!


آپ کا ٹیسٹ بہت اچھا تھا۔۔ ویلڈن!!! سنجیدگی سے کہتی وه اگلی شیٹ دیکھنے لگی۔۔


صالح یوسف۔۔۔۔!!! اس نے پکارا تو وه ماتھے پر بل ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ یوں جیسے اس نے اٹھ کر احسان کیا ہو۔۔ عجیب بندہ تھا غلطی بھی خود کی تھی اور تیور بھی مقابل کو دکھا رہا تھا۔۔


کلاس کی لڑکیاں دلچسپی سے اپنے سڑو کرش کو دیکھ رہی تھیں۔۔ اسکے ماتھے پر پڑے بلوں کی وه دیوانی ہوچکی تھیں۔۔ ایسا "راک اینڈ ہینڈسم" بندہ انہوں نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔۔


ارشما نے ایک پل کو اسے دیکھا اور پھر لب بھینچ لیے۔۔ "آپ سے مجھے ایسے رزلٹ کی امید نہیں تھی۔۔ آپ کی پنیشمینٹ یہ ہے کہ آپ دس دفعہ یہ ٹیسٹ لکھیں گے لائبریری میں جا کر اور باقی سٹوڈنٹس سے لیٹ جائیں گے واپس۔۔ تا کہ آئندہ آپ ایسی لاپرواہی نہ دکھائیں!!!"

حتی الامکان خود پر قابو پاتی وه اسے وارن کر کے واپس ڈائس تک گئی اور فائلز اٹھا کر تیز قدم اٹھاتی کلاس سے باہر چلی گئی۔۔


کلاس ختم ہوگئی تھی۔۔ چھٹی کا وقت تھا۔۔ سب سٹوڈنٹس باری باری کلاس سے جانے لگے۔۔ ماہ بیر نے صالح کو دیکھا۔۔

تم کہتے ہو تو میں رک جاؤں؟؟ وه اٹھ کر بیگ کاندھے پر ڈال کر اسے دیکھتا کہنے لگا۔۔ صالح نے ہولے سے نفی میں سر ہلایا۔۔

تم جاؤ یار میں کچھ دیر تک آتا ہوں۔۔!!! وه بیزاری سے کہتا چیزیں سمیٹ کر بیگ میں ڈالتا ماہ بیر کے ساتھ کلاس سے باہر نکلا تو اسکی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔


اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔ یہ لڑکیاں آخر کیا چیز ہیں؟؟ وه فورا نظروں کا رخ بدلتا بڑبڑایا تو ماہ بیر قہقہہ لگا گیا۔۔ اسکے دلکشی سے ہنسنے پر کئی لڑکیوں نے دل کو تھاما تھا۔۔


وه دونوں سب سے بےنیاز چلتے گراؤنڈ میں آئے۔۔ "اوکے میں لائبریری جاتا ہوں۔۔۔!!!" صالح کے کہنے پر ماہ بیر اسکا کندھا تھپتهپا کر پلٹ گیا۔۔


ایک ہاتھ سے کاندھے پر ڈالے بیگ کا سٹریپ تھامے دوسرا ہاتھ جینز کی پاكٹ میں ڈالے وه ایک انداز سے چلتا ہوا یونیورسٹی سے باہر آیا اور کار میں بیٹھتا بیگ دوسری سیٹ پر ڈال کر سٹارٹ کرنے لگا۔۔

🌚🌚🌚

اسکے جاتے ہی صالح نے لائبریری کا رخ کیا جہاں اکا دکا سٹوڈنٹس نظر آ رہے تھے۔۔ وه خاموشی سے چلتا اندر آیا اور ایک چیئر پر بیٹھ کر بیگ کھولتے نوٹ بک نكالی۔۔


اس کے بلکل سیدھ میں بیٹھی ایک لڑکی کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔۔ صالح یوسف اسکے سامنے تھا۔۔ بلیک شرٹ بلیو جینز میں بازو کہنیوں تک فولڈ کیے بل زدہ پیشانی پر بکھرے بالوں میں وه اسکے سامنے تھا۔۔


وه جلدی سے اٹھی اور اسکے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔۔ صالح کا قلم چلاتا ہاتھ رکا۔۔


اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔۔ "کہیں اور جا کر بیٹھو۔۔۔!!!" وه چہرہ دوبارہ نوٹ بک پر جھکا کر سختی سے بولا۔۔


"آ۔۔۔ میں بہت ٹائم سے آپ سے بات کرنا چاہتی تھی پلیز مجھ سے شادی کر لیں میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔!!!" وه آنکھیں موند کر جذب سے بولی۔۔


صالح یوں اچھل کر کھڑا ہوا جیسے اسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔۔۔

"استغفراللّه!!!"

شرم کر لو کچھ ۔۔۔ "میں شادی شدہ ہوں۔۔۔"


سختی سے کہتا وه جلدی جلدی بیگ بند کر کے لائبریری سے نکل گیا۔۔ اسکی چوڑی پشت کو دیکھتی وه لڑکی گال کے گرد ہاتھ رکھتی ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔۔

آخر یہ کھڑوس گرلز الرجک کیوں ہے۔۔۔؟؟ اور شادی شدہ بھی۔۔ پھر یاد آنے پر کہتی وه رونی صورت بنا گئی۔۔

🌚🌚🌚🌚


ماہ بیر یونیورسٹی سے کچھ دور ہی پہنچا تھا کہ اسکے موبائل پر کال آنے لگی۔۔ اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کرتے کال پِک کی اور بات کرنے لگا۔۔ پھر اس نے موبائل کان سے ہٹا کر سیٹ پر ڈال دیا ۔۔


وه کار سٹارٹ کرنے ہی لگا تھا کہ اسکے کان میں سیٹیوں کی آواز پڑی۔۔ اس نے غیر ارادتاً آواز کے تعاقب میں دیکھا تو۔۔۔۔۔


اس کی آنکھوں میں سرد تاثر نمایاں ہوا۔۔ سختی سے جبڑے بھینچے وه کار کا دروازه کھول کر باہر نکلا۔۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وه ان دو موٹرسائیکل سواروں کی جانب بڑھا جو چادر اوڑھے کھڑی ایک لڑکی کا راستہ روکے اسے تنگ کررہے تھے۔۔


ارشما غصے سے انہیں کچھ کہہ رہی تھی جب تیز قدموں کی چاپ اسکے قریب آ کر رک گئی۔۔ اس نے ہونٹ بھینچ کر چہرہ گھمایا تو ماہ بیر اسکے قریب آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔


اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دونوں کو گھسیٹ کر بائیک سے نیچے اتارا اور پہ در پہ انہیں گھونسے مارنے لگا۔۔ اسکے چہرے پر غیض و غضب دیکھ کر وه سہم کر پیچھے ہٹی۔۔


ماہ بیر کے بال بکھر کر پیشانی پر آ گرے تھے۔۔ آنکھوں میں سرخی چھا گئی تھی۔۔ تم لوگوں کی ہمممت بھی کیسے ہوئی کسی لڑکی کو چھیڑنے کی۔۔۔؟؟ اس نے رکھ رکھ کر دو زناٹے دار تھپڑ ان کے منہ پر مارے۔۔۔


"معافی مانگو ان سے۔۔۔!!!" وه انھیں جھٹکے سے پیچھے دهكیل کر درشتگی سے بولا تو وه فوراً ہاتھ جوڑ کر ارشما سے معافی مانگنے لگے۔۔


"ہمیں معاف کردیں باجی آئندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کریں گے ممی قسم۔۔۔!!!"

ارشما غصے سے انہیں دیکھ کر چہرہ پھیر گئی تو ماہ بیر پھر ان سے مخاطب ہوا۔۔ اسکی سرمئی آنکھوں میں غصے کی لالی نماياں تھی۔۔


"دفع ہوجاؤ یہاں سے اگر دوبارہ ایسی حرکت کرتے دیکھا میں نے تو اپنے علاقے کے کتوں کے آگے ڈال دوں گا!!!۔۔۔۔"


وه داڑھا تو لڑکے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوئے۔۔ اس کی آخری بات پر ارشما نے چونک کر ماہ بیر کو دیکھا تھا۔۔


"آئیں میں آپ کو ڈراپ کر دوں۔۔۔!!!" بالوں میں ہاتھ پھیر کر پیشانی سے ہٹاتا وه ارشما کو نرمی سے دیکھ کر کہنے لگا۔۔


"تھینک یو آپ کی مدد کے لیے۔۔ میں خود چلی جاؤں گی۔۔!!"

وه سپاٹ لہجے میں پہلے اسکا شکریہ ادا کرتی اور پھر اسکی پیشکش پر انکار کرتی وه آگے بڑھ گئی۔۔


ماہ بیر نے سر جھٹکا اور واپس کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا جو رکشہ رکوا کر اس میں بیٹھ گئی تھی۔۔ رکشہ چلا تو وه بھی انگیشن میں چابی گھماتا اسکے پیچھے ہو لیا۔۔ کئی راستوں سے گزر کر رکشہ ایک کالونی میں داخل ہوا۔۔ ماہ بیر نے سامنے نظر آتے بورڈ پر نظر ڈالی جہاں "پیر الٰہی بخش" کالونی لکھا ہوا تھا۔۔

ارشما نے کچھ آگے جا کر رکشہ رکوایا اور تیز قدم اٹھاتی چوک سے آگے ایک گلی میں مڑ گئی۔۔ اسکے جانے کے بعد وه بھی اطمینان کا سانس لیتا گاڑی ری ورس کرتا واپسی کے لیے نکل گیا۔۔


🌚🌚🌚🌚

وه لیٹے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔ اسے کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔۔ پیروں میں چپل پہن کر وه دوپٹہ لاپرواہ انداز میں کاندھے پر ڈالتی باہر نکل آئی۔۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔۔ ویرانی، خاموشی اور سردیوں کی یخ بستہ ہوائیں۔۔۔کالی اندھیری رات اسے بلکل اپنی زندگی کی طرح لگی۔۔


خاموش،،تنہا۔۔۔۔۔سیاہ !!!


اپنے اندر کی بے چینی سے پریشان ہوتی وه صحن میں چکر لگانے لگی۔۔ آخر کیوں وه اسکے ذہن سے نہیں نکل جاتا۔۔ کیوں بار بار اسکے اتفات اور اسکی خود کو تکتی نیلی آنکھیں اسکے سامنے آتی تھیں۔۔ اسکے ہونے سے بھی اینارا کو سکون نہیں ملتا تھا اور اسکے جانے نے اسے مزید بےسکون کردیا تھا۔۔ وه اسکی زندگی و دنیا سے نکل کر اسکے تصور کی دنیا میں مستقل بسیرا کر چکا تھا۔۔


اپنے اندر چھڑتی جنگ سے وه ہلکان ہوتی چھت کو جاتی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔۔ آج کی رات نے اس پر احسان کیا تھا۔۔ اسے سمجھانے میں۔۔


تنہائی کے وه پل سونپتے میں جہاں انسان اپنے اندر کو سمجھنے کے قابل ہونے لگتا ہے۔۔ ایسی سرد رات میں اینارا عبدلمنان پر بھی ایک ہولناک انکشاف ہوا تھا۔۔


وه اپنی تمام تر نفرتوں کے بعد "میر اورهان صمید" سے ۔۔۔۔"عشق" کر بیٹھی تھی ۔۔۔


وه ساکت مجسمے کی طرح وہیں جم گئی۔۔ مدهم چلتی سانسیں اور بڑی نمناک آنکھوں سے تواتر سے بہتے آنسو اسکے زندہ انسان ہونے کا پتہ دے رہے تھے۔۔


یک دم وه جھکی تھی۔۔ گھٹنوں پر سر رکھے ٹانگوں کے گرد دونوں بازو پھیلاتے وه سسکنے لگی تھی۔۔ کیسا ظلم سا ظلم تھا جو اسکے ساتھ ہوا تھا۔۔ باپ بہن کے قاتل سے عشق ہوجانا سزائے موت سے بدتر تھا۔۔ کیونکہ اب وه پل پل مرنے والی تھی۔۔ ایک بار کا مرنا پل پل مرنے سے تو بہتر ہوتا ہے۔۔


🌚🌚🌚🌚


رات کا کھانا کھا کر وه دونوں کھانے کے برتن سمیٹ رہے تھے۔۔


"آج تم دیر سے آئے تھے واپس فلیٹ جبکہ یونیورسٹی سے مجھ سے پہلے نکل گئے تھے۔۔؟"


صالح نے کچن سے باہر آ کر ماہ بیر کو ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے پوچھا تو وه دوپہر کا منظر یاد کرتے سر جھٹک گیا۔۔


یار وه تمهاری ٹیچر ہے نہ۔۔۔۔؟؟؟ ماہ بیر صوفے پر آرام ده حالت میں بیٹھ کر اسے دوپہر کا واقعہ بتانے لگا۔۔


صالح نے آنکھیں سكیڑ کر اسے دیکھا۔۔ "خالی میری ٹیچر نہیں تمہاری بھی ہے وه الگ بات ہمارے سامنے گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جانے والی بچی لگتی ہے!!!۔۔۔"


صالح نے کچھ اس طرح جل کر کہا کہ ماہ بیر کو شدید قسم کی ہنسی آئی۔۔

تم اتنا کیوں جل رہے ہو اسکے ذکر پر۔۔۔؟؟ وه صالح کے تاثرات سے محظوظ ہوتا پوچھنے لگا۔۔


صالح منہ کے زاویے بگاڑتا اسکے پاس صوفے کے بازو پر ٹک کر کہنے لگا۔۔

"انکی وجہ سے مجھے لائبریری جانا پڑا جہاں انتہائی بدتمیز لڑکیاں تھیں۔۔ توبہ ہے ان کو ذرا شرم نہیں آتی آخر لڑکوں کی بھی عزت ہوتی ہے کس طرح گھور گھور کر دیکھتی ہیں۔۔۔!!!


اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔ اسکی بات سنتا ماہ بیر نان سٹاپ ہستا جارہا تھا۔۔

کس نے چھیڑا آج تمہیں۔۔۔؟؟

وہ آنکھوں کے کناروں سے نكلتا پانی صاف کرتا اسے تنگ کرنے لگا۔۔


"کیا ۔۔۔ تم بھی اڑا لو میرا مذاق۔۔۔ جب اپنا وقت آئے گا پھر پوچھوں گا۔۔!!! وه خفگی سے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔


ماہ بیر نے مسکرا کر سر جھٹکا۔۔ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر وه اٹھ کھڑا ہوا اور عبدللہ شاہ کا نمبر ملاتے وہیں چکر لگاتے ہوئے انکے کال پک کرنے کا انتظار کرنے لگا۔۔

🌚🌚🌚🌚


وه کمرے میں آ کر شاور لینے باتھ روم میں گھس گیا۔۔ گرے ٹراؤزر میں گلے میں تولیہ ڈالے وه تولیے کے کنارے سے چہرہ پونچھتے بہر نکلا تھا کہ اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجی۔۔


وہ چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور موبائل پکڑ کر دیکھا تو "بیوی كالنگ" لکھا نظر آ رہا تھا۔۔ اس نے کال کاٹ کر ڈائریکٹ ویڈیو کال کردی۔۔


مشائم کا چہرہ سامنے آنے پر وه یونہی اسے دیکھے گیا۔۔ سیاہ لباس میں نیٹ کا دوپٹہ پھیلا کر لیے بالوں کی چوٹی آگے ڈالے وه ہمیشہ کی طرح حسین لگ رہی تھی۔۔ چند لٹیں چوٹی سے نکل کر اسکے گال اور لبوں کو بوسہ دے رہی تھیں۔۔ صالح یہ منظر دیکھ کر ڈسٹرب ہوگیا۔۔


جبکہ دوسری جانب مشائم اسے دیکھتے ہی نظریں جھکا گئی تھی۔۔ کسرتی جسم پر پانی کی بوندیں پهسلتی نیچے گر رہی تھیں۔۔ گیلے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ ہونٹوں پر بھی نمی تھی جبکہ پلکیں گیلی ہونے کی وجہ سے جڑتیں اور بھی نماياں ہونے لگیں تھیں۔۔


صالح نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔؟؟ وه ہنوز مشائم کے لبوں کے کنارے سے آ کر ٹکراتی لٹ پر نظریں جمائے اس سے احوال دريافت کرنے لگا۔۔


مشائم نے جھکی نظریں اٹھائیں۔۔ وعلیکم السلام!!!بہت پیاری ہوں!!! وه آنکھیں گھما کر بولی۔۔


صالح یوسف۔۔۔؟؟ اور شرمنده ہو ۔۔؟ کبھی نہیں ۔۔۔!!! وه اثر لیے بغیر اسے دیکھنے لگا۔۔


"بولیے۔۔!!!" وه مشائم کی ناک میں چمکتی نوز پن پر نظریں جماتا بولا۔۔


مشائم نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا "جو میں بولوں گی نہ وه آپ سن نہیں پائیں گے!!!۔۔" وه چوٹی کو جھٹک کر ایک ادا سے بولی۔۔


اسکی یہ ادا صالح یوسف کے دل پر نقش ہوگئی۔۔ "یہ کچھ زیادہ تیز نہیں ہوگئیں۔۔؟؟" وہ محض دل میں سوچ کر رہ گیا۔۔۔


"یہ بال ہٹائیں چہرے سے!!!۔۔۔" وه شدید ڈسٹرب ہوتا ہوا بولا۔۔


مشائم نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔؟؟

صالح نے ایک پل کو اسکی آنکھوں میں دیکھا۔۔ "آپ کے ہونٹوں کو چھوتی یہ لٹیں مجھے اپنی رقیب لگ رہی ہیں۔۔!!!"

وه گھمبیر لہجے میں بولتا اسے نظریں جھکانے پر مجبور کر گیا۔۔


لال گلال ہوتے گالوں سے اس نے لٹیں ہٹا کر کان کے پیچھے اڑسیں۔۔ وه ذرا سیدھی ہوئی تو اسکی پتلی خوبصورت سی گردن نماياں ہوئی جس نے صالح یوسف کو مزید امتحان میں ڈال دیا۔۔


اس نے گردن کی پشت پر ہاتھ پھیرتے سرعت سے نظروں کا رخ بدلا۔۔ وہ گہری سانس لیتا ڈریسنگ ٹیبل تک آیا اور موبائل وہاں ٹکا کر دور ہوتا تولیے سے بال پونچھنے لگا۔۔


مشائم چور نظروں سے اس کے كسرتی وجود کو دیکھنے لگی۔۔ اسکی نظریں خود پر پا کر وه گڑبڑا گئی۔۔

آآ۔۔۔۔ کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔۔؟؟ وه جلدی سے بات بنانے کو بولی۔۔


صالح نے تولیہ دور پھینکتے اسے مسكراتی نظروں سے دیکھا۔۔

"یہ باتیں دور سے بتانے والی نہیں ہوتیں۔۔ کبھی پاس ہو کر فرصت سے بتاؤں گا۔۔۔ ابھی محض اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرا ایمان خراب کررہی ہیں آپ!!!"

وه اسے گہری نظروں سے دیکھتا گھمبیر آواز میں بولا۔۔


مشائم کا چہرہ کان کی لو تک سرخ پڑ گیا۔۔ اس نے سرعت سے نظریں اس پر سے ہٹاتے دل میں اپنے آپ کو کوسا۔۔ آخر کیوں اس نے یہ سوال پوچھا اس سے۔۔ خیر اب تو پوچھ لیا۔۔ وه سوچتے سوچتے چونکی۔۔


"آپ یونیورسٹی جاتے ہیں نہ تو۔۔۔وہاں تو لڑکیاں بھی ہوتی ہیں!!!" وه ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔


صالح اسکی بات کا مطلب سمجھتا محظوظ ہوا۔۔ وه لائٹ آف کرکے بیڈ پر ایک بازو سر کے نیچے رکھتے کروٹ کے بل لیٹ کر اس سے مخاطب ہوا۔۔


ہاں ہوتی ہیں لڑکیاں اور مجھ سے دوستی بھی کرنا چاہتی ہیں۔۔۔!!! وه مشائم کی نظروں کا رخ محسوس کرتا نچلا لب دانتوں میں دبا گیا۔۔


اسکے یوں لیٹنے سے اسکی گردن اور سینے کا کچھ حصہ مشائم کے سامنے تھا۔۔ وه بے خود سی اسے دیکھے گئی۔۔ اسکی نظریں صالح کی گردن میں ابھری ہڈی سے سفر کرتیں گهنی داڑھی اور چوڑی "جاء لائن" پر آ کر ٹھہریں۔۔


"سب ٹھیک ہے۔۔؟؟؟" صالح کی گھمبیر آواز پر وه چونکی۔۔ پھر اپنی بےخودی پر شرمندہ ہوتی وه خوامخواہ بالوں کو چھیڑنے لگی۔۔


"ہاں وه میں کہہ رہی تھی کہ کسی لڑکی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں آپ کو اور دیکھنے کی بھی۔۔۔!!!" وه جل کر کوئلہ ہوتے بولی۔۔

اوہو۔۔۔!!! صالح کے افسوس بھرے انداز پر وه چونکی۔۔ پہلے کہنا تھا نہ آپ نے۔۔ اب تو۔۔۔!!!

وه اسکے رنگ بدلتے چہرے کو دیکھ کر محظوظ ہوتا مصنوعی سنجیدگی سے کہتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔۔

مشائم نے بےچینی سے اسے دیکھا۔۔ اب کیا۔۔؟؟ وہ جلدی سے بولی۔۔

"یونیورسٹی میں ایک لڑکی ہے بہت پسند کرتی ہے مجھے شادی بھی کرنا چاہتی ہے مجھ سے۔۔ میرے منع کرنے کے باوجود وه میرے قریب آ گئی آج!!!"

کتنے قریب؟؟

مشائم نے بےچینی سے پوچھا۔۔

جتنے قریب آپ تھی مجھ سے جب آپ میرے اوپر گری تھی!!!

اسکی جیلسی محسوس کرتے وه لب کا کونہ دبا کر اسے دیکھنے لگا۔۔

مشائم کی سانس تھمی تھی۔۔

پھر؟؟ وه ماتھے پر بل ڈالے بولی۔۔

"پھر اس نے۔۔۔۔ وه کہتے کہتے رکا۔۔۔ اس نے کِس کیا مجھے یہاں۔۔!!!" صالح نے اپنے لبوں پر انگلی رکھی۔۔

اسکا کہنا ہی تھا کہ مشائم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔ اسے یوں روتے دیکھ کر صالح کے ہاتھ پیر پھول گئے۔۔

"یار مذاق کررہا تھا میں!!"

وه فورا سے بولا۔۔ مشائم اسکی بات پر دیہان دیے بغیر روتی رہی۔۔

اگر ابھی کے ابھی چپ نہ ہوئی آپ تو میں ابھی اسی وقت واپسی کے لیے نکل جاؤں گا۔۔ اور وہاں پھر آپ کی خیر نہیں ہوگی یہ یاد رکھیں۔۔!!!

وه اسے وارن کرتے بولا تو مشائم چپ ہوتی آنسو پونچھنے لگی۔۔

"مجھے تو کبھی ایسے نہیں دیکھا آپ نے!!!" وه بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی شکوہ کر گئی۔۔

صالح نے گہری نظر اس پر ڈالی۔۔ "اب یہ تو غلط کہہ رہی ہیں آپ۔۔ آپ ہی کو تو ایسی نظر سے دیکھا ہے بس" وه بھاری لہجے میں بولا۔۔۔

مشائم کو اس لمحے اس سے بہت حیا آئی۔۔ "اوکے میں سونے لگی ہوں!!! خدا حافظ۔۔۔!!!" مشائم جلدی سے بولی۔۔

اوکے خدا حافظ!! موبائل بند کر کے بیڈ پر پهینکتے وه چت لیٹتا بڑبڑایا۔۔ "میری نیندیں اڑا کر خود سونے لگی ہیں۔۔"

چاکلیٹ براؤن پینٹ شرٹ میں ملبوس آنکھوں پر سن گلاسز لگائے وه گروسری سٹور سے نکلا تھا۔۔ سڑک پار کر کے گاڑی تک آتے اس نے ہاتھ میں پکڑا پلاسٹک بیگ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈالا اور سیدھا ہوتا دروازه بند کر کے پلٹا کہ اسکی نظر کچھ فاصلے پر گری ادھیر عمر عورت پر پڑی جن کا سامان سامنے سے آتی گاڑی سے ٹکرانے کے باعث زمین پر گر گیا تھا۔۔ انہیں گھٹنے پر چوٹ آئی تھی۔۔ راہ چلتے لوگ تماش بینوں کی طرح یہ منظر دیکھ کر بغیر مدد کئے گزرتے جا رہے تھے۔۔


ماہ بیر جلدی سے ان کے پاس آیا۔۔ اس نے سہارا دے کر انہیں اٹھایا اور پھر زمین پر گرا سامان سمیٹ کر پلاسٹک بیگ میں ڈالتا اٹھا۔۔ جیتے رہو بیٹا!!! بی جان نے اسکے سر پر پیار دیا۔۔ میں پاس ہی کالونی میں رہتی ہوں۔۔!!!


ماہ بیر دھیرے سے مسكرایا۔۔ "پھر تو کوئی مسلہ نہیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔۔ آئیں وہاں میری گاڑی کھڑی ہے۔۔!!!" وہ کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کرتا ہوا کہنے لگا۔۔


"نہیں بیٹا میں چلی جاؤں گی اس تكلف کی ضرورت نہیں ہے!!!۔۔۔" انہوں نے ٹالا لیکن ماہ بیر کے اسرار پر وه اسکے ساتھ بیٹھ کر واپس آ گئیں۔۔ ماہ بیر چونکا تھا۔۔ اس جگہ تو وه پہلے بھی آیا تھا۔۔


اس نے گاڑی سے باہر نکل کر ان کا سامان نکالا۔۔ بی جان بظاہر نارمل سی گاڑی سے باہر نکلیں لیکن ان کے گھٹنے میں شدید درد ہونے لگا تھا۔۔ اوکے میں چلتا ہوں!!! وه مسکرا کر انہیں بیگ تهما گیا۔۔


"نہیں بیٹا تمہارا بڑا احسان ہے جو تم نے اتنی مدد کی ورنہ آج کے دور میں کون کسی کو پوچھتا ہے۔۔ آؤ اب میں تمہیں یونہی نہیں جانے دوں گی آجاؤ شاباش!!!"


انہوں نے دروازه کھولا تو وه بھی چار و ناچار ان کے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔۔ وه سر گھما کر چاروں اوڑھ دیکھنے لگا۔۔ چھوٹا سا تنگ مکان تھا۔۔ وه ان کے پیچھے جاتا سر جھکا کر دروازے سے کمرے میں داخل ہوا۔۔ "بیٹا بیٹھو تم میں تمہارے لیے کچھ لاتی ہوں انکار نہ کرنا۔۔ جانے کیوں تم سے اپنائیت سی محسوس ہو رہی ہے۔۔" وه ماہ بیر کے انکار کرنے سے پہلے ہی اسے ٹوک کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔۔


🌚🌚🌚🌚

گھر میں داخل ہوتے ہی اسکا دماغ گھوما تھا۔۔ پھر سے لائٹ گئی ہوئی تھی۔۔ "آج میں سر پھاڑ کر آؤں گی ان کا،، ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔۔ بلوں کی رقم آسمان کو پہنچی ہوتی اور لائٹ بھیجتے موت پڑتی بےغیرتوں کو۔۔ بی جان فون نمبر نكالیں آج ان جاہلوں کی خیر نہیں ہے باہر سے گرمی میں هانپے ہوئے آؤ پھر گھر بھی یہ جہنم منتظر ہوتا میرا آج ان کے آفس جا کر ایک دو کی گردن دبوچ کر ہی آؤں گی!!!۔۔۔"


اس نے چادر باہر سٹینڈ پر پٹخی اور دوپٹہ گلے میں ڈالتے بالوں کو رف سے جوڑے میں باندہ کر وه تن فن کرتی بی جان کے کمرے میں داخل ہوئی لیکن سامنے جس انسان سے اس کا سامنا ہوا اس نے اسے حیرت کا شدید جھٹکا دیا تھا۔۔


ارشما نے فوراً سے دوپٹہ پھیلا کر سر کو ڈهانپا اور کڑے تیوروں سے ماہ بیر کو دیکھا جو اسے دیکھ کر خود بھی حیران ہوتا کھڑا ہوگیا تھا۔۔ تم۔۔۔یہاں کیا کررہے ہو؟؟ وه ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے بولی۔۔ یہ بندہ تو زیادہ ہی فری ہورہا تھا جو اس کے گھر تک ہی پہنچ گیا۔۔


بی جان بھی حیرانگی سے دونوں کو دیکھنے لگیں۔۔۔ تم دونوں جانتے ہو ایک دوسرے کو؟؟ وه سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھ کر بولیں۔۔۔


"جی یہ میری ٹیچر ہیں۔۔۔۔!!! جی یہ میرا سٹوڈنٹ ہے۔۔۔!!!" دونوں کے منہ سے بیک وقت نکلا۔۔


بی جان کو اب اور بھی حیرت ہوئی۔۔۔ ماہ بیر کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وه ایک سٹوڈنٹ ہوگا اس لیے انکی حیرت اپنی جگہ درست تھی۔۔


"بتاؤ پیچھا کرتے ہو میرا۔۔؟؟ یہاں تک کیسے پہنچے اور آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئے؟ نہ صالح آیا!!!۔۔۔" دونوں کو کل پنیشمینٹ ملے گی اسٹڈی کو سمجھا کیا ہوا ہے تم لوگوں نے؟ یاد رکھو گے کس ٹیچر سے پالا پڑا ہے۔۔!؛ وه پہلے ہی غصے میں تھی ماہ بیر کو دیکھ کر اسکا دماغ ہی گھوم گیا تھا اس لیے نان اسٹاپ بولتی چلی گئی۔۔


ارے ارے حوصلہ کرو بچے پہلے بات تو سن لو میری خواخواہ میں بچے کی اتنی سنا دیں۔۔ میرا سڑک پر چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اس بچے نے بہت مدد کی میری مجھے گھر تک چھوڑنے آیا ہے۔۔ اور دیکھو تو تمہارا سٹوڈنٹ بھی نکل آیا۔۔ بی جان اسے ٹھنڈا کرتی بولیں تو اصل بات جان کر ارشما کو شرمندگی ہوئی۔۔

البتہ چہرے کے تاثرات ویسے ہی تھے۔۔ "سڑے ہوئے!!!"


میں چلتا ہوں کافی وقت ہوگیا!!!۔۔۔ ماہ بیر اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتا بی جان سے اجازت لیتا باہر نکل گیا۔۔ بی جان نے ارشما کو اشارہ کیا تو وه بھی اس کے پیچھے اسے دروازے تک چھوڑنے گئی۔۔


ماہ بیر اسے آتے دیکھ کر رکا۔۔ "میں ایسا ہلکے کردار کا نہیں ہوں جیسا آپ مجھے سمجھ رہی ہیں ۔۔ خیر یہ میرا کارڈ ہے رکھ لیں۔۔۔!!!" اس نے پاکٹ سے کارڈ نکال کر اس کے سامنے کیا۔۔ "ویسے تو آپ کا نکما نالائق سا سٹوڈنٹ ہوں لیکن وہ

کیا ہے نہ کہ میں "خضدار" کا سردار ہوں۔۔ کبھی بھی کسی مدد کی ضرورت ہو بلا جھجھک کہیے گا چلتا ہوں۔۔۔۔!!!" وه اسے دنگ چھوڑ کر ہاتھ ماتھے تک لے جاتا اپنی روعب دار شخصیت کے ساتھ باہر نکل گیا۔۔


ارشما نے ہاتھ میں تھامے کارڈ کو دیکھا جس پر "سید سلطان ماہ بیر شاہ" واضح الفاظ میں لکھا ہوا تھا۔۔ نیچے اس کا نمبر تھا۔۔ اس نے زیرِ لب اسکا نام دوہرایا۔۔ اسکے ذہن میں ماہ بیر کا کہا جملہ گونجا " اپنے علاقے کے کتوں کے آگے ڈال دوں گا" ارشما نے سر جھٹکا۔۔ وه اندر آئی اور کارڈ اپنے پرس میں رکھ کر فریش ہونے چلی گئی۔۔


🌚🌚🌚🌚


"صالح آ رہا ہے!!!۔۔۔۔۔" انجم نے اسے جیسے ہی اطلاع دی وه حیرت سے اچھل پڑی۔۔ کیا۔۔۔ کب آ رہے ہیں؟؟ اسکی حیرت خوشی میں بدلی۔۔ اسکا دل بلیوں اچھلنے لگا تھا۔۔ اسکا خوشی سے دمكتا چہرہ دیکھ کر انجم بھی خوش ہونے لگیں۔۔


"آج آئے گا اس نے یہی بتایا ہے۔۔ میری دھی بہت خوش ہے تو؟ رب سوہنا دونوں کی جوڑی سلامت رکھے!!!۔۔۔۔" وه آگے بڑھتی اسکی پیشانی چوم کر بولیں۔۔


امی جان ان کو کیا پسند ہے کھانے میں؟ میں خود بناتی ہوں۔۔!!! وه دمكتے چہرے سے بولی۔۔ انجم بھی اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہونے لگیں۔۔


"آجا میرے ساتھ دونوں مل کر کھانا بناتے ہیں۔۔ پھر اس کے آنے سے پہلے پہلے تیار ہوجانا میری دھی۔۔۔ عورت اپنے خاوند کو سجی سنوری ہی اچھی لگتی ہے!!!۔۔۔۔" وه دونوں باورچی خانے میں چلی گئیں۔۔ کھانا تیار کر کے مشائم اپنے کمرے میں آئی۔۔


اس نے الماری کھول کر لائٹ پنک كیپری شرٹ نكالی۔۔ وه کپڑے لے کر باتھروم میں گھس گئی۔۔ پندرہ منٹ بعد وه فریش سی باہر نکلی۔۔ اس نے گیلے بال تولیے میں لپیٹ رکھے تھے۔۔ گھٹنوں تک آتی شرٹ اس کی نازک پتلی سی کمر سے چپکی ہوئی تھی۔۔


اس نے کمرے کے دروازے سے باہر جھانکا۔۔ شام کا اندهیرا پھیلنے لگا تھا۔۔ ٹھنڈی سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔۔ وه جھرجھری لے کر اندر آئی۔۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر اس نے اپنا میک اپ کا سامان نکالا۔۔ سامنے دھری چیزوں سے كاجل ڈھونڈ کر نکالتے اس نے آنکھ کے کنارے سے لگا کر ہلکی سی لكیر کھینچی۔۔


کاجل کی لكیر سے اسکی بھوری آنکھیں اور بھی نماياں ہونے لگی تھیں۔۔ اس نے بلش آن اٹھا کر اپنے سوٹ کے حساب سے ہلکا گلابی رنگ برش سے لگا کر برش جھٹکتے گالوں سے مس کیا۔۔ کھلتے گلاب کے رنگ کی لپسٹک لبوں پر لگا کر اس نے لبوں کو آپس میں مس کیا۔۔ وه اٹھ کر تھوڑی دور جا کر کھڑی ہوتی آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے لگی۔۔


مسکرا کر اس نے بالوں سے تولیہ اتارا اور آہستہ آہستہ سہلاتی انہیں خشک کرنے لگی۔۔ اس کے بال پہلے سے لمبے ہوگئے تھے۔۔ کمر سے کافی نیچے تک جاتے لائٹ براؤن سلكی بال اس پر بہت جچتے تھے۔۔ اس نے برش تھام کر انہیں سلجهایا اور پھر پنک نیٹ کا دوپٹہ پکڑ کر بیڈ پر بیٹھتی اس کا انتظار کرنے لگی۔۔ اسکی نظریں گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ طواف کررہی تھیں۔۔ بیٹھے بیٹھے وه اونگھنے لگی تھی کہ باہر سے انجم کی آواز آئی۔۔


اسکے دل کی دھڑکن بےترتیب ہوئی تھی۔۔ وه باہر آئی تو وه دشمنِ جاں جھک کر انجم سے مل رہا تھا۔۔ اسکا سفری بیگ اسکے قدموں کے پاس زمین پر رکھا تھا۔۔ وه چوکھٹ پر کھڑی ہوتی مسکراتی نظروں سے اسکا جائزہ لیتی لب کا کونہ دانتوں میں دبا گئی۔۔ فوجیوں کے سٹائل کی سی پینٹ اور گرین شرٹ میں اپنی مکمل وجاہت کے ساتھ وه اسکے سامنے تھا۔۔


اسے دیکھتے ہوئے مشائم کو اس کے ساتھ ہوئی باتیں یاد آنے لگیں۔۔ فون پر دور بیٹھ کر بات کرنا آسان تھا لیکن سامنا کرنا بہت مشکل تھا۔۔ صالح نے انجم سے بات کرتے اس پر نگاہ ڈالی تو وه شرما کر نظریں جھکا گئی۔۔


'آجا میرا پتر سفر سے تھک گیا ہوگا!!!'

انجم اسے لیے اندر آئیں۔۔


السلام علیکم !!! صالح نے مشائم کے قریب رکتے ہوئے کہا۔۔ مشائم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور دهیمی آواز میں سلام کا جواب دیا۔۔


انجم نے دسترخوان بچھایا۔۔ میری دھی نے سب تیری پسند کا بنایا ہے آج منہ ہاتھ دھو کر آ جا۔۔ وه مصروف سے انداز میں بولیں تو صالح سر ہلا کر فریش ہونے چلا گیا۔۔ مشائم نے انجم کے ساتھ مل کر کھانا لگایا۔۔ کچھ دیر بعد وه چلا آیا۔۔ تینوں نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔۔ صالح کو کھانا بہت پسند آیا تھا اس نے بعد میں تعریف کرنے کا اراده کرتے فلحال خاموش رہنا مناسب سمجھا۔۔۔


پہلی رات وه غصہ تھا مشائم پر۔۔ کیوں؟ اسے سمجھ نہ آئی۔۔ شاید یہ تب کا غصہ اسکے اندر پل رہا تھا جب مشائم کی وجہ سے اس کا ماہ بیر سے جھگڑا ہوا تھا۔۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اسکا غصہ زائل ہوگیا۔۔ وه آخر کس بات کی سزا دیتا اسے؟ کہ وه اس سے محبت کرتی تھی؟ اب وه اسکے نکاح میں تھی۔۔ اور جلد یا بدیر انہیں اپنے رشتے کو آگے بڑھانا تھا۔۔ اس لیے وه اپنا دل اس کے لیے صاف کر چکا تھا۔۔ جب بدگمانی کے بادل چھٹے تو دوسری جانب سے آتے جذبوں کی میٹھی مہک اسے محسوس ہونے لگی تھی۔۔ اسکے احساس بدلنے لگے تھے۔۔


کھانے سے فارغ ہو کر حال احوال اور ادھر ادھر کی باتوں میں رات ہوگئی تھی۔۔ انجم جلد سونے کی عادی تھیں چنانچہ صالح اور مشائم انہیں شب بخیر کہتے اپنے کمرے میں چلے آئے۔۔

دروازه بند کرتے مشائم اس کے مقابل آئی تو صالح فرصت سے اسے دیکھنے لگا۔۔ اسکی پرتپش نظروں کے حصار میں چھوٹے قدم اٹھاتے وہ آگے آئی اور درميانی فاصلہ ختم کرتی نرمی سے اسکے سینے سے سر ٹکا کر اسکے گرد اپنے بازو حائل کر کے آنکھیں موند گئی۔۔

صالح یوسف ساکت ہوا تھا۔۔ محبت کا ایسا معصوم اظہار اس نے پہلے کہاں دیکھا تھا۔۔ اس نے سر قدرے جھکا کر مشائم کا چہرہ دیکھا جو آنکھوں پر گهنی پلکوں کی جھالر گرا کر اسکے سینے سے لگی کھڑی تھی۔۔ صالح نے اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرتے اسے خود میں بھینچ کر جھکتے اسکے بدن سے اٹھتی خوشبو میں گہرا سانس لیا۔۔ دونوں کے دل بےتہاشہ دھڑک رہے تھے۔۔

"میں نے آپ کو بہت مس کیا!!!" مشائم اسکی قربت سے تیز ہوتی سانسوں سے ہلکان ہوتی سرگوشی میں بولی۔۔ صالح آہستہ سے پیچھا ہٹا۔۔ "کھانا اچھا بنایا تھا آپ نے!!!" اسکے بات بدلنے پر مشائم خفا ہوئی۔۔

"میں نے کچھ اور کہا تھا!!!۔۔۔" وه منہ بنا کر بولتی رخ موڑ کر بالوں کو گول مول لپیٹنے لگی۔۔

اسکے یوں خفا ہونے پر صالح نے نچلا لب دانتوں میں دبايا۔۔ وه ایک قدم آگے بڑھا اور مشائم کا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب کرتے اسکی پتلی کمر میں اپنا مظبوط ہاتھ ڈال کر جھٹکے سے اسے خود سے قریب تر کر گیا۔۔ اس نے مشائم کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ اونچا کیا جو اسکے اتنے قریب آنے پر اپنی آنکھیں موند گئی تھی۔۔ اپنے چہرے پر پڑتی اسکی گرم سانسیں اسے جهلسانے لگی تھیں۔۔

اسکا چہرہ یوں بلند کرنے پر مشائم کی پتلی صراحی دار گردن اسکے سامنے تھی۔۔ صالح کی آنکھوں میں خمار اترا۔۔ کیوں محبت کرتی ہیں مجھ سے اتنی؟؟ وه اسکے چہرے کے ہر نقش کو آنکھوں کے راستے حفظ کرتا بھاری آواز میں بولا۔۔

مشائم نے اس کی گھمبیر آواز پر اسکے سینے پر رکھے ہاتھوں میں شرٹ دبوچی تھی۔۔ کیونکہ۔۔۔۔ وه پھولتی سانسوں کے بیچ بولی۔۔ "کیونکہ آپ کھڑوس ہیں!!!۔۔۔" صالح دھیرے سے مسکرایا۔۔

کھڑوس کیوں۔۔؟؟ وه اسکی ناک میں چمکتی نوز پن پر انگلی رکھ کر بولا۔۔ مشائم نے آنکھیں کھولیں۔۔

"کیونکہ آپ غصہ کرتے ہیں پیار سے بات نہیں کرتے بلکہ پیار ہی نہیں کرتے !!!۔۔۔" وه اسکی آنکھوں میں دیکھ کر فر فر بولتی آنکھیں میچ گئی۔۔

صالح نے مسکان دبائی۔۔ "میرا پیار کرنا آپ سہہ نہیں پائیں گی۔۔ میری اتنی سی قربت میں ہی آپ کی سانس اکھڑنے لگتی ہے!!!۔۔۔" وه آنچ دیتے لہجے میں بولتا اسکا چہرہ حیا سے سرخ کر گیا۔۔ مشائم کی جان ہوا ہوئی تھی۔۔ اسے کھڑے ہونے میں دشواری ہونے لگی۔۔

صالح نے اسکی کمر پر گرفت مظبوط کرتے اسے مزید خود سے قریب کیا۔۔۔اتنا کہ اس کے لب مشائم کے لبوں سے ایک انچ کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔۔ "جس دن مجھ لگا کہ آپ میری قربت سہنے کے قابل ہوگئی ہیں اس دن صالح یوسف آپ کے وجود پر گہری چھاپ چھوڑے گا۔۔۔"

وه خود پر قابو پاتا اسے اپنی آہنی گرفت سے آزاد کرکے پیچھے ہٹا۔۔

مشائم گہری سانسیں لیتی فوراً چینج کرنے کی غرض سے کپڑے نکال کر باتھروم میں گھس گئی۔۔ وه اسکی نظروں کے سامنے سے غائب ہوجانا چاہتی تھی بس۔۔ اسکے یوں بھاگنے پر وه دهیما سا ہنس دیا۔۔ اس نے بیڈ پر نگاہ دوڑائی تو ایک ہی بلینکٹ رکھی تھی۔۔ وه شرٹ اتار کر دور صوفے پر اچھال کر بیڈ پر لیٹ گیا اور بلینکٹ کھینچ کر ناف تک لیتے آنکھیں موند گیا۔۔ بھئی صالح یوسف کا ہر کام ہی نرالا تھا۔۔ جب کافی دیر ہوگئی اور اسے لگا کہ وه سو چکا ہوگا تو مشائم آہستہ سے باتھ روم کا دروازه کھول کر باہر نکلی۔۔

وه سیاہ رنگ کے ہلکی پھلکی شلوار قمیض زیب تن کئے باہر آئی تو سردی سے ایک پل کو کانپ گئی۔۔ اس نے بیڈ پر نگاہ دوڑائی تو وه لاڈ صاحب ساری بلینکٹ اپنے نیچے کیے اوندھے پڑے سو گئے تھے۔۔۔ مشائم منہ بناتی ناخن چبانے لگی۔۔ اب اس وقت دوسری بلینکٹ لاؤں جا کر۔۔؟؟ باہر ٹھنڈ اور اندھیرے کے خیال سے ڈرتی وه جلدی سے دوڑ کر بیڈ پر آئی۔۔۔ اس نے اپنا پورا زور لگا کر اسکے نیچے سے بلینکٹ نكالنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔۔!!!

غصے میں اس نے ہلکا سا مکا اسکی پیٹھ پر مارا۔۔ "موٹے کہیں کے!!!۔۔۔"

اس نے پھر سے کوشش کی اور جیسے تیسے کر کے گهسیٹ کر بلینکٹ اسکے نیچے سے نكالی اور شکر کا سانس لیتے اس سے فاصلے پر ہوتی لیٹ گئی۔۔۔ تھکن کے باعث وه جلد ہی سو گئی۔۔

رات کے کسی پہر عجیب سے احساس سے صالح کی آنکھ کھلی۔۔ وه چند لمحے آنکھیں جهپكتا رہا پھر اس نے دیکھا کہ مشائم اس کے بلکل قریب سو رہی تھی۔۔۔ اس کا ہاتھ صالح کے شرٹ لیس سینے پر تھا جس کی حدت سے صالح کی آنکھ کھلی تھی۔۔

اب اسکی نیند اڑ چکی تھی کیونکہ ایک بار جاگنے کے بعد دوبارہ سونا اسکے لیے بہت مشکل تھا۔۔ اس نے آرام سے اسکا ہاتھ پکڑ کر ہٹایا کہ وه نیند میں منہ بناتی پوری اسکی جانب مڑتی اسکی گردن کے گرد بازو رکھ گئی۔۔ صالح نے گہری سانس لیتے اس کے ادھ کھلے لبوں کو دیکھا۔۔ آدھی رات کا وقت ہو، سرد موسم ہو اور ایک ہی بستر میں دو جائز رشتہ رکھنے والے وجود ہوں تو کون نہ بہکے۔۔

کروٹ کے بل لیٹنے سے مشائم کی شرٹ کندھے سے ڈھلک گئی تھی۔۔ "آپ نے کس امتحان میں ڈال دیا ہے مجھے۔۔" وه کروٹ بدل کر اسے آرام سے بیڈ پر سیدھا لٹاتا سر اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔

اس کی نگاہ اسکے لبوں پر آ کر اٹکی تھی۔۔۔ انگلی کی پور سے اس کے لبوں کو چھوتے اسکی نگاہ اس کی گردن سے ہوتی بیوٹی بون پر آ ٹھہری۔۔ "آپ تو مجھے پاگل کررہی ہیں۔۔!!!" وه جھک کر اسکی گردن میں گہرا سانس لیتا اسکے گرد حصار بناتا آنکھیں موند گیا۔۔۔

وه یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں کرسی گهسیٹ کر اس پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا۔۔ بلیک پینٹ گرین ہاف سلیو ٹی شرٹ میں وه بے حد ڈیشنگ لگ رہا تھا۔۔ تنگ شرٹ اسکے سینے سے چپکی اسکے کسرتی سینے کو نماياں کررہی تھی۔۔ وه ببل گم چباتا موبائل پر ٹائپنگ کررہا تھا۔۔ سرمئی آنکھیں کبھی کبھار ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔ گردن تک آتے سٹائلش بالوں کی ایک موٹی سی لٹ ماتھے پر گررہی تھی۔۔


بھری بھری داڑھی اور اطراف سے مڑتی مونچھیں اسکے دبدبے میں اضافہ کررہی تھیں۔۔ وه اپنی یونیورسٹی میں "ہاٹ بوائے" کے نام سے مشہور ہو چکا تھا۔۔ وه وہاں بیٹھا کافی کا کپ پکڑے صالح سے بات کررہا تھا جو دو تین دن کی چھٹیوں پر تھا۔۔


ایک ماڈرن سی لڑکی اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔۔ "ہائے!!!" وه مسکرا کر اس سے مخاطب ہوئی تو ماہ بیر نے مغرور نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔۔ "جی؟؟؟۔۔۔" وه موبائل پاكٹ میں ڈال کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔ "آپ کے دوست نہیں آئے آج؟؟۔۔۔" وه ارد گرد نگاہ دوڑا کر شیریں لہجے میں بولی۔۔


ماہ بیر نے او شیپ میں ہونٹ گھمائے۔۔ "نہیں وه چھٹی پر ہے" وه لاپرواہی سے بولا۔۔ "آپ پلیز میری مدد کریں گے؟؟۔۔۔ میری دوستی کروا دیں ان سے پلیز!!!۔۔۔" اسکی بات پر ماہ بیر نے مسکراہٹ دبائی۔۔ "اوکے کروا دوں گا۔۔۔" وه لڑکی خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی۔۔ "آ۔۔۔تھینک یو سو مچ یو آر ریلی سویٹ۔۔۔!!!" میں چلتی ہوں وه ہینڈ بیگ پکڑ کر کھڑی ہوئی۔۔ "جب وه آ جائیں تو مجھے انفارم کر دیے گا پلیز۔۔۔" وه اپنے بال جھٹکتی ایک ادا سے چلتی ہوئی کیفے ٹیریا سے نکل گئی۔۔


کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ وہاں بھگدر مچ گئی۔۔ ماہ بیر چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ تمام سٹوڈنٹس ہڑبڑی میں باہر نکل رہے تھے۔۔ وه بھی جلدی سے باہر آیا۔۔ کیا ہوا یہ افراتفری کیوں ہو رہی ہے؟؟ وه ایک لڑکے کو بازو سے پکڑ کر روکتا ماتھے پر بل ڈالے بولا۔۔ وه لڑکا بہت گھبرایا ہوا تھا جلدی سے کہنے لگا۔۔


"راکی گروپ نے فساد برپا کر دیا ہے یونیورسٹی میں وه اپنے ناجائز مطالبات منوانا چاہتے تھے لیکن انتظامیہ کے انکار کے بعد انہوں نے آج فساد برپا کر دیا ہے۔۔۔ہر طرف لوٹ مار کررہے ہیں۔۔۔ تم بھی جان بچا کر نکلو!!!" وه جلدی جلدی بولتا باہر کی طرف بھاگا تھا۔۔ ماہ بیر جلدی سے اندر گیا کہ سیڑھیوں کی طرف سے نسوانی چیخ سن کر وه جلدی سے اس طرف بھاگا۔۔


راستے میں ایک لڑکے سے وه بری طرح ٹکراتا گرتے گرتے بچا۔۔ سیڑھیوں پر ایک لڑکی ٹانگ پکڑے بری طرح رو رہی تھی۔۔ اسکا پیر زخمی تھا۔۔ وه بار بار خوفزدہ سی پیچھے دیکھ رہی تھی۔۔ وه جلدی سے اسکے پاس آیا۔۔


"چلیں یہاں سے آپ کا یہاں رہنا سیف نہیں ہے!!!۔۔" اس نے ہاتھ بڑھایا تو وه اس کا ہاتھ تھام کر لڑکھڑاتی ہوئی اسکی معیت میں آگے بڑھنے لگی۔۔ "وه اوپر بھی کوئی ہے میں نے آواز سنی تھی آپ اسکی مدد کریں مم۔۔۔میں یہاں سے چلی جاؤں گی!!!۔۔۔"


آر یو شیور۔۔؟؟؟ ماہ بیر تیز قدموں کی آوازیں سنتا اسے لیے سائیڈ پر ہوتا دهیمی آواز میں بولا۔۔ "جی آپ جائیں۔۔۔" وه خوفزدہ نظروں سے چاروں اوڑھ دیکھتی باہر کو جانے والے راستے کی طرف بڑھ گئی۔۔ ماہ بیر دوڑتا ہوا سیڑھیوں تک آیا اور تیزی سے سیڑھیاں پهلانگنے لگا۔۔ نیچے تقریباً ساری یونیورسٹی خالی ہو چکی تھی۔۔


وه جیسے ہی اوپر آیا کسی لڑکی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔ "چھوڑو مجھے جاہل انسان!!!۔۔" وه چیخی تھی۔۔ کھینچا تانی میں اسکی چادر ڈھلک کر نیچے گر گئی تھی۔۔ ماہ بیر نے زور سے آنکھیں میچی تھیں۔۔ وه دانت پیس کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ان کے پاس آیا جہاں ایک ہٹا کٹا لڑکا کٹے پھٹے حلیے میں ارشما کو زبردستی گهسیٹ کر لے جا رہا تھا۔۔


ماہ بیر نے اسے گدی سے پکڑ کر کھینچا اور اسکے گریبان میں ہاتھ ڈالتا لگاتار کئی گھونسے مار مار کر اسے ادھ موا کر گیا۔۔ "چلیں یہاں سے!!!۔۔۔" کئی قدموں کی چاپ سن کر وه حواس باختہ کھڑی ارشما کا ہاتھ تھامتا وہاں سے بھاگا۔۔ "اوہ شٹ!!!۔۔۔" اگلے راستے پر دو لڑکوں کی پشت دیکھ کر وه ان کی نظر میں آنے سے پہلے اسے لیے کلاس روم میں گھس گیا۔۔


اسکے کھینچنے پر ارشما کٹی پتنگ کی طرح اسکے سینے سے آ لگی۔۔ ماہ بیر نے اسے اپنے پیچھے چھپاتے آہستہ سے دروازه بند کیا۔۔ باہر قدموں کی چاپ سن کر ارشما دم سادھے ماہ بیر کو دیکھنے لگی۔۔ اچانک زوردار آواز سے دروازه کھلا۔۔ یہ دیکھ ادھر چھپے بیٹھے ہیں!!! دو لڑکے لوہے کا راڈ پکڑے انکی طرف بڑھے۔۔


ماہ بیر نے ارشما کو اپنے پیچھے کرتے لہو رنگ آنکھوں سے انہیں دیکھا۔۔ "دور رہو ورنہ پچھتاؤ گے!!!۔۔۔" اس نے مٹھیاں بھینچ کر انہیں وارن کیا لیکن انہیں جوش چڑھا ہوا تھا۔۔ ان میں سے ایک لڑکا آگے آیا اور راڈ پوری قوت سے ماہ بیر کی اوڑھ پهینكا۔۔ وه بروقت جھکا تھا۔۔ راڈ اسکے پیچھے گلاس وال سے ٹکرایا تھا۔۔ چھناکے کی آواز سے شیشے کی دیوار ٹوٹی تھی۔۔


ارشما بےساختہ چیخ پڑی۔۔ کانچ کے دو ٹکڑے اڑتے ماہ بیر کے کندهے میں پیوست ہوئے تھے۔۔ گرین شرٹ کا رنگ سرعت سے بدلا تھا۔۔ ماہ بیر لہو رنگ آنکھیں میج کر کھولتا خطرناک تیوروں سے ان کی جانب بڑھا تو وه وہاں سے بھاگ گئے۔۔


ارشما پھرتی سے اسکے قریب آئی۔۔ وه رو رہی تھی۔۔ "آپ کا خون نکل رہا ہے!!!۔۔۔" وه اسکی سرخ ہوتی شرٹ کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتی کانپتے لہجے میں بولی۔۔ ماہ بیر نے اپنی تکلیف نظر انداز کرتے تفكر سے دروازے کی جانب دیکھا۔۔ وه بس ارشما کو جلد از جلد یہاں سے باحفاظت نکالنا چاہتا تھا۔۔ وه لڑکے ضرور جا کر باقیوں کو بھی آگاہ کر دیں گے۔۔


"آپ چلیں میرے ساتھ ہمیں نكلنا ہے جلدی یہاں سے پوری یونیورسٹی خالی ہو چکی ہے آئی تھینک۔۔ اس سے پہلے باقی لوگ ہم تک پہنچیں ہمیں نکل جانا چاہیے!!!۔۔۔۔" وه اپنی مسلسل سرخ ہوتی شرٹ کو دیکھتا لب بھینچ گیا۔۔ خون نکلنے سے اسے نقاہت محسوس ہونے لگی تھی۔۔


اسے دیکھ دیکھ کر ارشما کی حالت غیر ہورہی تھی۔۔ ماہ بیر نے اسکا ہاتھ تھاما اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا راہداری میں آگے بڑھنے لگا۔۔ جب اسے لگا کہ اوپر کوئی نہیں ہے تو اس نے سیڑھیوں سے نیچے جهانکا۔۔ راستہ صاف تھا۔۔ وہ دونوں جلدی سے سیڑھیاں اتر کر گراؤنڈ فلور پر آ گئے۔۔ ان کے قدموں کی چاپ سن کر کوئی اس طرف آ رہا تھا۔۔


ارشما نے اسکے بازو پر گرفت مظبوط کی تھی۔۔ ماہ بیر نے دائیں بائیں دیکھا۔۔ دائیں جانب لائبریری تھی جبکہ بائیں جانب یونیورسٹی کی بیک سائیڈ کو جاتا راستہ تھا۔۔ وقت کم تھا۔۔ قدموں کی چاپ جیسے ہی نزدیک آئی وه سرعت سے اس کے ساتھ لائبریری میں گھس گیا۔۔ وہ دونوں بک ریكس کے پیچھے جا کر کھڑے ہوگئے۔۔


ارشما اس قدر گھبرائی ہوئی تھی کہ سانس بھی رک رک کر لے رہی تھی۔۔ اسکی بہادری کا خول پل میں ٹوٹا تھا۔۔ کوئی لائبریری کے دروازے پر آ کر رکا۔۔ اس نے ایک پل کو اندر دیکھا پھر اپنا وہم خیال کرتا واپس جانے لگا کہ وه رکا۔۔ وہیں ارشما کی سانس اٹکی جبکہ ماہ بیر ارد گرد کچھ تلاش کرنے لگا۔۔


وه لڑکا تھوڑا آگے آیا اور لائبریری کا دروازه بند کر کے چلا گیا۔۔ ارشما نے بےيقینی سے نفی میں سرہلاتے کچھ کہنا چاہا کہ ماہ بیر نے سرعت سے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسکی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔۔ اس سب میں دونوں بےحد قریب آ گئے۔۔ ارشما نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔


اسکی چادر تو کب کی کہیں گر گئی تھی۔۔ شہد رنگ بالوں کے جوڑے سے نکلتی لٹیں چہرے کے اطراف میں جابجا بکھری ہوئی تھیں۔۔ پہلی بار ماہ بیر نے اسے یوں چادر کے بغیر دیکھا تھا۔۔ بادامی نم آنکھوں میں دیکھتے وه ایک پل کو ساکت ہوا۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے پہلی بار اسے دیکھا ہو۔۔


"وه چلے گئے ہمیں بند کر کے اب کیا کریں گے؟؟؟۔۔۔" وه آنکھیں جهپک کر رک رک کر سرگوشی میں بولتی اسے کوئی چھوٹی سی بچی لگی۔۔ ماہ بیر نے سر جھٹکا۔۔۔اسکی آنکھوں کے سامنے کا منظر دھندلایا تھا۔۔ وه کندھے پر ہاتھ رکھے بےاختیار درد سے کراہا۔۔ اس سے پہلے کہ ارشما کچھ سمجھتی ماہ بیر لڑکھڑاتا ایک ہاتھ سے بک ریک کا سہارا لیتا نیچے بیٹھ گیا۔۔


ارشما کا دیهان بھی اسکے زخم کی طرف ہوا۔۔ "نن۔۔نہیں آپ آنکھیں نہ بند کرنا۔۔ ماہ بیر۔۔۔۔!!!" وه گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھتی اسکا چہرہ تهپتهپانے لگی۔۔ اس کے لبوں سے اپنے نام کی پکار پر ماہ بیر نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں۔۔ "میں ٹھیک ہوں!!!۔۔۔۔" اس کے لبوں نے محض حرکت کی۔۔ آواز نہ آنے کے باوجود ارشما اسکے لبوں کی حرکت سے اسکی بات سمجھ گئی۔۔


اس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر اس کی شرٹ کو دیکھا جو خون سے سرخ ہوئی تھی۔۔ "ماہ بیر!!!۔۔۔؟؟؟ میں۔۔۔ آپ کی۔۔ شرٹ۔۔ نک۔کال۔۔ رہی ہوں۔۔۔ وه شرم محسوس کرتی اسے دیکھے بغیر اٹک اٹک کر بولی۔۔


جواب نہ پا کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کیے۔۔ بٹن کھلتے ہی اسکا کسرتی سینہ سامنے آیا۔۔ ارشما نے سرعت سے نگاہیں ہٹائی تھیں۔۔ ماہ بیر نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ ارشما نے ہمت مجتمع کی اور درمیانی فاصلہ کم کر کے آگے ہو کر شرٹ اسکے کندھوں سے نیچے اتار دی۔۔


اسکے مظبوط کاندھوں سے انگلیاں مس ہونے پر ارشما کے کے ہاتھ کانپے تھے۔۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور ایک جھٹکے میں شرٹ اس کے تن سے جدا کردی۔۔


اب اسکے سامنے ماہ بیر کا زخمی كندها تھا جہاں کانچ کے دو ٹکڑے گھسے ہوئے تھے۔۔ ارشما نے نظروں کو اس کے کندھے پر ٹکاتے باقی عیاں ہوتے کسرتی جسم کو نظر انداز کیا تھا۔۔ اس نے ایک نظر ماہ بیر کے سرخ ہوتے چہرے پر ڈالی جو کب سے تکلیف ضبط کرنے کے چکر میں سرخ پڑ گیا تھا۔۔ اسکا جسم بھی بخار کے باعث گرم ہونے لگا تھا۔۔


ارشما نے گھٹنا زمین پر ٹکا کر اس پر جھکتے ایک ہاتھ اسکے برهنہ کندھے پر رکھا اور تھوک نگل کر دوسرے ہاتھ سے کانچ کے ٹکڑے کھینچ کر باہر نکالے۔۔ رکا خون پھر سے بہہ نکلا تھا۔۔ خون کی ایک پتلی دھار ماہ بیر کے كندھے سے ہوتی سینے سے نیچے جانے لگی۔۔


یوں اچانک کانچ نکلنے سے ماہ بیر نے سختی سے آنکھیں میچتے ارشما کا ہاتھ تھاما تھا جو اسکے جسم سے بہتا خون دیکھ کر رو دینے کو ہوئی۔۔ اس نے جلدی سے ماہ بیر کی شرٹ اٹھائی اور اس کے زخم پر رکھ کر دبايا۔۔

"آہ!!!۔۔۔" ماہ بیر كراه کر بےاختیار ہوتا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ گیا۔۔ اسکی آنکھیں اس وقت لال انگاڑا ہو رہی تھیں۔۔ اسکے مظبوط بازو کا وزن ارشما کا نازک وجود سہہ نہیں پایا۔۔ اسکا پیر مڑا اور وه توازن کھو کر اسکے سینے پر آ گری۔۔

اسکے نرم گرم لب ماہ بیر کے سینے سے ٹکرائے تو دونوں کو کرنٹ سا لگا۔۔ اسکی گرم سانسیں ماہ بیر کے سینے سے ٹکرائیں تو وه سانس روک گیا۔۔ بنا دوپٹے کے اسکے سینے پر گری وه نادان لڑکی اس کے حواسوں پر چھانے لگی تھی۔۔

ارشما کو بھی معنی خیز لمحات کا اندازه ہوا تھا۔۔ وه جلدی سے پیچھے ہٹی اور اس سے کچھ فاصلے پر ہوتی اسکے مقابل بک ریک کے ساتھ ٹیک لگا کر گھٹنے سینے سے لگا کر ٹانگوں کے گرد بازو حائل کر گئی۔۔۔

ماہ بیر نے اسکے گم صم چہرے کو دیکھا۔۔ "کچھ نہیں ہوگا ہم نکل جائیں گے یہاں سے!!!۔۔۔" وه اسے تسلی دیتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا۔۔ ارشما نے آنکھوں سے آنسو پونچھتے نفی میں سر ہلایا۔۔

"یہاں تو کوئی کھڑکی بھی نہیں ہے ہم صبح ہونے سے پہلے یہاں سے نہیں نکل سکتے۔۔" وه لائبریری میں مسلسل بڑھتے اندھیرے کو دیکھ کر مایوس ہوتی ہوئی کہنے لگی۔۔ "اور تب تک میں بدنام ہوجاؤں گی میری بی جان کتنا پریشان ہوں گی۔۔ میرا موبائل بھی گر گیا کہیں۔۔۔۔ اللّه میں کیا کروں؟؟؟۔۔۔" وه گھٹنوں پر سر رکھتے سسکنے لگی تھی۔۔

ماہ بیر کو موبائل کا خیال آیا۔۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل پا کر اس نے شکر کا سانس لیا۔۔ لیکن جیسے ہی اس نے موبائل آن کرنا چاہا وه بند ملا۔۔ "شٹ!!!۔۔۔" اس نے غصے سے موبائل زمین پر پٹخا۔۔ ارشما نے سر اٹھا کر بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔

"کیوں ہوا یہ میرے ساتھ؟؟۔۔۔" ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھتی وه منہ پر ہاتھ رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ ماہ بیر نے بے چینی سے اسے دیکھا۔۔

" آپ روئیں مت پلیز میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا آپ کی ذات پر ایک حرف تک نہیں آئے گا۔۔ مجھ پر یقین ؟؟؟۔۔۔" وه اسکی آنکھوں میں دیکھتا مظبوط لہجے میں بولا۔۔

ارشما نے میكانکی کیفیت میں سر ہلایا جسے دیکھ کر ماہ بیر کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ آئی۔۔ وه بلا اراده اسکی مسکراہٹ کو دیکھے گئی۔۔۔ اس نے پہلی بار ماہ بیر کو مسکراتے دیکھا تھا۔۔ بلاشبہ اسکی مسکراہٹ دل موہ لینے والی تھی۔۔

🌚🌚🌚🌚

اینارا کیا ہوا۔۔۔؟؟؟ شائستہ نے اسے گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھے دیکھا تو فکر مندی سے پوچھ بیٹھیں۔۔ اس نے سر اٹھایا ۔۔ متورم آنکھیں جو مسلسل رونے سے بری طرح سوجھی ہوئی تھیں۔۔

"اماں!!!۔۔۔" وه پھر سے سسکنے لگی تھی۔۔ "کیا ہوا میری دھی بتا مجھے۔۔" وه اینارا کو كندھوں سے تھام کر پیار سے پوچھنے لگیں۔۔ "اماں ۔۔۔۔ تیری بیٹی اپنے باپ اور بہن کے قاتل سے محبت کر بیٹھی ہے!!!۔۔۔" وہ منہ پر ہاتھ رکھتی بلک بلک کر رونے لگی۔۔

کیسا روگ تھا جو اس نازک جان کو لگ چکا تھا۔۔ وہ خود پر فاتح پڑھ چکی تھی۔۔ کیونکہ یہ عشق محبّت ۔۔۔۔ آہاں۔۔۔۔ "لا حاصل محبت" انسان کو جیتے جی مار دیتی ہے۔۔ شائستہ کے ہاتھ اسکے كندھوں سے بےجان ہوتے گرے تھے۔۔

ان کے لب جامد تھے۔۔ وه خاموشی سے وہاں سے چلی گئیں تو اینارا بھی پلنگ پر اوندھی گر گئی۔۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو آنسو ٹوٹ کر نیچے گرے۔۔ وه تصور میں اورهان سے مخاطب ہوئی۔۔

"تم سے اتنی شدید نفرت تھی کہ تمہیں اپنے سامنے تک نہ دیکھنا چاہوں اور محبت ایسی ہے کہ تمہیں نہ سوچوں تو مر جاؤں۔۔۔ تم نے مجھے مسلسل عذاب میں مبتلا کر دیا ہے!!!۔۔۔"

کافی دیر وہیں پڑے رہنے کے بعد جب وه تھک گئی تو اٹھ بیٹھی۔۔ اچانک اس کی نگاہ سامنے رکھے ازنا کے صندوق سے ٹکرائی۔۔ اسکی آنکھ میں نمی چمکی۔۔ کیا کیا نہ یاد آیا تھا۔۔ وہ اٹھی اور صندوق کھول کر اسکی چیزیں دیکھنے لگی۔۔ اسکی پسندیده قمیض کو ہاتھ میں پکڑتے اس نے چوما تھا۔۔ عبدلمنان سے کتنی ضد کر کے اس نے یہ سوٹ بنوايا تھا۔۔ قمیض واپس رکھتے اسکی نگاہ ایک ڈائری پر پڑی۔۔

اس نے اچنبھے سے ڈائری نكالی اور واپس بیڈ پر بیٹھ کر ڈائری کھول کر پڑھنے لگی۔۔ جوں جوں وه پڑھتی گئی اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں۔۔ اس نے بےیقینی سے دوبارہ وه الفاظ پڑھے۔۔ تم نے دھوکا دیا ہمیں۔۔۔؟؟ تم اس سب میں اپنی مرضی سے شامل تھی۔۔؟ اماں۔۔۔اماں؟؟؟ جلدی آئیں یہاں۔۔۔۔ وه زور سے چیخی تھی۔۔

شائستہ گھبرا کر اندر آئیں۔۔ "یہ دیکھیں کیا گل کھلائے تھے آپ کی بیٹی نے میرے ابا کو بھی مار دیا کاش وه میری بہن نہ ہوتی!!!" وه بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھتی نفرت سے بولی۔۔۔

شائستہ ہقا بقا سی اس دیکھنے لگیں۔۔ کیا اول فول بک رہی ہے؟؟ یہ دیکھیں یہ ڈائری اس میں سب لکھا ہے اس نے پہلی بار کب اورهان سے ملی اور کیا کیا گل کھلاتی رہی،، اپنی مرضی سے گئی تھی وه اسکے پاس ہمارے منہ پر کالک ملنے۔۔ اماں اورهان نے نہیں ازنا نے مارا ہے میرے ابا کو۔۔۔ ابا ۔۔۔!!! وه انکی شفقت بھری باتیں یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

شائستہ بت بنی کھڑی تھیں۔۔۔انہیں جیسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ انکی ازنا نے یہ سب کیا تھا۔۔ دفعتاً ان کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔ "کاش اسے پیدا ہوتے ہی مار دیتی میں۔۔ تو پیدا ہوتے ہی مر جاتی ازنا!!!۔۔۔۔" وہ ماتھا پیٹنے لگیں۔۔

انہی لائبریری میں بند ہوئے کئی گھنٹے گزر گئے تھے۔۔ ارشما جوں کی توں بیٹھی تھی جبکہ ماہ بیر ٹانگیں سیدھی کیے بک ریک سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔۔ خون رکنے کے بعد اس نے شرٹ دوبارہ پہن لی تھی۔۔ جس سے ارشما تھوڑی ریلیکس ہوئی تھی ورنہ وه تو اس سے نظریں ملا کر بات تک نہیں کر پا رہی تھی۔۔

"آپ سے ایک بات پوچھوں؟؟؟۔۔۔"

ماہ بیر نے سینے پر ہاتھ باندھتے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

ارشما نے سر ذرا سا اٹھاتے ٹھوڑی گھٹنوں پر ٹکا لی اور یونہی اسے دیکھتی اسکے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔۔

"آپ۔۔۔۔۔ شروع سے اتنی کھڑوس تھیں یا اب ہوئی ہیں؟؟؟۔۔۔۔"

کہہ کر وه نچلا لب دانتوں میں دبا گیا۔۔

ارشما کی پیشانی شکن زدہ ہوئی جسے دیکھ کر وه قہقہہ لگا گیا۔۔ ماتھے کے بلوں سے اسے کوئی بڑی شدت سے یاد آیا تھا۔۔

ارشما نے اسکے قہقہے کا برا مناتے سخت لہجے میں کہا "میں اب بھی آپ کی ٹیچر ہوں!!!۔۔۔ زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"

اوکے اوکے چھوٹی ٹیچر!!!۔۔۔ وه ہنوز شرارت سے بولا۔۔

ارشما نے غصے سے کچھ کہنا چاہا کہ ماہ بیر فورا بولا۔۔

"میں نے نہیں۔۔۔ یوسف نے کہا یہ اور اس نے یہ بھی کہا کہ۔۔۔۔۔"

وه ایک پل کو رکا اور مسكراہٹ دبا کر اسکے سڑے تاثرات سے محظوظ ہوتا کہنے لگا ۔۔۔

"کہ آپ گھروں کی بیل بجا کر بھاگ جانے والی بچی لگتی ہیں!!!۔۔۔"

وه کہتا پھر سے امڈ آنے والی مسکراہٹ کو نچلے لب کا كنارا دبا کر روک گیا۔۔


ارشما کو شدید قسم کی ہنسی آئی تھی۔۔ لیکن وه ماہ بیر کے سامنے ہنسنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ ہنسی روکنے کے چکر میں اسکا اجلا مومی چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔۔

ماہ بیر نے اسکے نقوش میں مسكراہٹ کے رنگ گھلتے دیکھ کر اسے چھیڑا۔۔

"اگر ہسی آ رہی ہے تو ہنس لیں کہتی ہیں تو میں منہ پیچھے کر لیتا ہوں۔۔۔"

اسے اس طرح شرارت سے بولتا دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی سلطان ماہ بیر شاہ ہے جس سے اسکے دشمن تک خوف کھاتے تھے اور جس کے غصے کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔۔ اسکی بات پر ارشما مزید خود پر ضبط نہ کر سکی۔۔

وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔ بلکل کسی بچے کی طرح۔۔۔ آنکھوں کو چھوٹی کیے گردن پیچھے پهینک کر ہنستی وہ ماہ بیر سلطان کا دل چرا گئی۔۔

وه مسمرائز سا اسے کھلکھلاتا دیکھنے لگا۔۔ کچھ چہروں کے ہسنے سے دل پر محبت کی ہلکی ہلکی پهوار پڑنے لگتی ہے۔۔


"محکمہ موسمیات کی تمام پیشین گوئیوں کو جھٹلا کر فقط آپ کے ہنسنے سے موسم بدل سکتا ہے!!!۔۔۔"


وه اسکی دلکش مسکراہٹ کو دیکھ کر بےساختہ کہہ گیا۔۔ارشما فورا خاموش ہوئی تھی۔۔ آج کتنے عرصے بعد ہنسی تھی وہ۔۔ یوں کھلکھلا کر۔۔ وه بھی اس شخص کے سامنے۔۔۔

وه نظریں جھکا کر اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔۔ ماہ بیر کا کہا جملہ اس کے ذہن میں گونج رہا تھا۔۔ وہ کیوں اس کی ذات میں دلچسپی لے رہا تھا اگر اسے پتہ چل جائے کہ میری حقیقت کیا ہے تو۔۔؟؟ اس نے سر جھٹکا۔۔

اسکے سنجیدہ ہوتے تاثرات دیکھ کر ماہ بیر نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔۔ باہر رات بهیگ رہی تھی۔۔ لائبریری میں روشن دان سے آتی چاند کی دهندلی سی روشنی تھی بس۔۔

مسلسل خاموشی پا کر ارشما کو لگا کہ ماہ بیر سو گیا ہے۔۔ وه ڈر کر چاروں اوڑھ دیکھنے لگی۔۔ اندھیرے میں قید اسے خاک نیند آتی۔۔

نیند تو دور اس سے تو سکون سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔

اس نے آہستہ آہستہ ٹانگیں سیدھی کیں جو مسلسل ایک ہی حالت میں رہنے سے اکڑ گئی تھیں۔۔ اس نے آنکھیں میچ کر کھولیں۔۔ وه جسم کو سیدھا کرتی زبردست انگڑائی لے ہی رہی تھی کہ خاموشی میں ہلکی سی کھڑاک کی آواز آئی۔۔

ماہ بیر جو کب سے لب سیئے اسے یک ٹک دیکھتا اسکی تمام اداؤں پر گهایل ہورہا تھا اسے یوں ڈرتے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا۔۔

اب کسی چوہے بلی سے تو وه ڈرنے سے رہا اس لیے مزے سے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔۔

جبکہ ارشما کی ڈر سے بری حالت ہورہی تھی۔۔ اگر کوئی چوہا ہوا تو۔۔۔۔۔؟؟؟

یہ سوچتے ہی اسکے پسینے چھوٹ گئے۔۔

"ماہ بیر؟؟۔۔"

اس نے سرگوشی میں پكارا لیکن جواب ندارد۔۔ وه بس چپ چاپ دیکھ رہا تھا کہ وہ کرتی کیا ہے!!!

دوبارہ کھڑاک کی آواز پر وه بجلی کی سی تیزی سے اٹھی اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی زمین پر ماہ بیر کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔۔

اسکی ٹانگیں ماہ بیر کی ٹانگوں کے اوپر تھیں جبکہ اسکا مظبوط بازو بھی وه دونوں ہاتھوں میں تھام گئی۔۔

وه سانس روک گیا۔۔ اپنی نادانی میں وه پھر اسکے بے حد قریب آ گئی تھی۔۔ اتنا کہ اگر وه چہرہ موڑتا تو ضرور اسکے لب ارشما کے چہرے کو چھو جاتے۔۔

وه گہری سانسیں لیتا ساکت بیٹھا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وه اسے پیچھے ہٹنے کا کہتا ارشما نے اندازے سے اسکے چہرے کو چھونا چاہا۔۔

اس کی نرم گرم انگلیاں ماہ بیر کے ہونٹوں کو چھو گئیں۔۔ اس نے سرعت سے ہاتھ پیچھے کرتے اسکی داڑھی کو محسوس کرتے اسکا چہرہ تهپتهپایا۔۔

"ماہ بیر؟؟۔۔۔"

وه ذرا اٹھ کر اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگی

کہ عین اسی وقت ماہ بیر نے چہرہ اس کی طرف موڑا۔۔

دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کو چھو گئے۔۔ دونوں کو کرنٹ لگا تھا۔۔ ماہ بیر نے سرعت سے ارشما کو خود سے دور کیا۔۔

وه بھی بےيقینی سے لبوں کو چھوتی اس سے دور جا کر بیٹھ گئی۔۔ اس نے آنکھیں بند کرتے اس احساس کو مٹانا چاہا جو اسکے لبوں کو چھونے پر ہوا تھا۔۔

اسکا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا جس کی تیز دھڑکن کی آواز ماہ بیر بھی باآسانی سن رہا تھا۔۔ وہی جانتا تھا اس نے اپنے جذبات پر کس طرح قابو کیا تھا۔۔

نادانی میں وه لڑکی اسکے جذبات کو ہوا دے گئی تھی۔۔ وه کئی پل خاموش رہنے کے بعد بولا۔۔


"آئندہ کسی اجنبی کے اتنے قریب مت جائیے گا ہر کوئی ماہ بیر شاہ نہیں ہوتا!!!۔۔"


اسکی بات کی گہرائی کو سمجھتے ارشما سن رہ گئی۔۔ وه بھی تو ایک مرد تھا نہ اندھیرے کمرے میں وه اسکے جسم کو نوچ سکتا تھا کون اسکی اواز سنتا کون تھا یہاں جو اسکے کام میں ركاوٹ ڈالتا لیکن اس نے ارشما کی طرف غلط نگاہ تک نہ ڈالی تھی بلکہ اسے خبردار کیا تھا۔۔

"ایسا مرد جس کا دل بس ایک عورت کے آگے جھک جائے، جو ہر عورت کو دیکھنا گوارا نہ کرے بلکہ اس کی آنکھیں بس ایک کا عکس بسائے رکھیں اس کا جو اس کے دل میں بستی ہو جو عورت کی عزت کرنا جانتا ہو ، جو باوقار ہو جسے دیکھ کر ہی اسکے ساتھ کی خواہش ہو ایسا مرد پسند ہے مجھے۔۔"

سالوں پہلے اپنا کہا جملہ اسکے کانوں میں گونجا تھا۔۔

یونہی اپنی سوچوں میں گم وه صبح کا انتظار کررہے تھے۔۔ آسمان پر اجالا ہوگیا۔۔ یونہی وقت گزرتا رہا اور یونیورسٹی کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔۔

چوکیدار اندر آیا اور چابی کا گچھا لے کر سب کمروں کا تالا کھولنے لگا۔۔ آفس ان لاک کرنے کے بعد وه لائبریری کی طرف آیا۔۔

اس نے دروازه کھولا تو سامنے ہی ماہ بیر کھڑا تھا۔۔ وه ایک پل کو ڈر گیا۔۔ "کون ہو تم؟؟۔۔۔" ساتھ ہی اس کی نگاہ ارشما پر پڑی جو ماہ بیر کے پیچھے چھپی کھڑی تھی۔۔

گارڈ اسے پہچان گیا۔۔ کیا کررہے ہو تم دونوں یہاں بولو؟ شرم نہیں آتی یہاں ایسے کام۔۔۔۔۔ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ماہ بیر نے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا۔۔

"اب تم نے بکواس کی تو تمہارا منہ توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گا۔۔ کان کھول کر سنو کل جو فساد ہوا تھا یہاں اس وجہ سے ہم یہاں پھنس گئے تھے۔۔۔جب ہمیں مدد کی ضرورت تھی تب کہاں بھاگ گئے تھے تم؟؟۔۔۔"

وه واچ مین کو دیکھتا درشتگی سے بولا۔۔ واچ مین نے منہ پر ہاتھ رکھے پھر بھی مشکوک نظروں سے ان دونوں کو دیکھا۔۔

لیکن یہ تو ٹیچر ہے تمہارے ساتھ۔۔۔؟؟ ماہ بیر کا دماغ گھوما تھا۔۔

"بیوی ہے وہ میری!!!۔۔۔" اسے گریبان سے پکڑتا وه واچ مین کے منہ پر داڑھا۔۔

ارشما نے شاک سے ماہ بیر کو دیکھا لیکن وه اس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔۔

"جاؤ چادر لے کر آؤ کہیں سے بھی ابھی اسی وقت!!!۔۔۔"

ماہ بیر کے حکم پر واچ مین بوکھلایا۔۔

میں کہاں سے لاؤں؟؟؟

ماہ بیر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تو وه تھوک نگلتا باہر کی جانب بھاگا۔۔

اس کے جاتے ہی ارشما، ماہ بیر کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔۔

"کیوں کہا اسے کہ میں بیوی ہوں آپ کی؟؟؟۔۔۔"

ماہ بیر گہری سانس لے کر اسکی جانب پلٹا۔۔ "کیونکہ میں جتنا بھی اسے دهمکاؤں وہ یہ بات کسی نہ کسی کو ضرور بتائے گا۔۔ غیر محرم کے ساتھ رات گزارنے اور محرم کے ساتھ رات گزارنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔ آپ کی عزت کی خاطر کہا میں نے یہ!!!"

اسکی بات سمجھ کر ارشما خاموش ہوگئی۔۔ پھر ایک خیال آنے پر بولی۔۔

"لیکن سب کو لگے گا کہ آپ اور میں۔۔۔۔۔" وه بات ادھوری چھوڑ گئی۔۔

ماہ بیر نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ "آپ اپنی نازک جان ہلکان نہ کریں،،، کل کس نے دیکھا ہے؟؟؟۔۔۔"

واچ مین واپس آتا دکھائی دیا اسکے ہاتھ میں چادر تھی جو وہ آس پاس کہیں سے مانگ کر لایا تھا۔۔ اس نے چادر ماہ بیر کی جانب بڑھائی تو وه ارشما کو تهما کر اسکے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا۔۔

ماہ بیر کی تیکھی نظریں خود پر پا کر گارڈ بوکھلا کر واپس گیٹ پر چلا گیا۔۔

ارشما نے اچھی طرح چادر اوڑھ لی تو وه دونوں تیز قدم اٹھاتے یونیورسٹی سے نکل گئے۔۔ گارڈ نے سر ہلاتے ان کی پشت کو دیکھا تھا۔۔

🌚🌚🌚🌚


ماہ بیر اسے کالونی کے شروع میں چھوڑ کر چلا گیا تو وه بار بار چادر درست کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کے دروازے کے سامنے آئی اور جلدی سے اندر داخل ہوگئی۔۔

"بی جان!!!۔۔۔"

سامنے ہی بی جان کو پریشانی سے ٹہلتے دیکھ کر وه انہیں پکارتی ان سے لپٹ گئی۔۔

کہاں تھی تم میں کتنا پریشان ہوگئی تھی؟؟

وه اسکا سر چوم کر خود سے لگاتے بولیں۔۔ "میں آج پولیس میں رپورٹ کروانے لگی تھی میرے بچے کچھ بتاؤ تو؟"

اسے روتے دیکھ کر وه مذید پریشان ہوئیں۔۔ بی جان اسے کمرے میں لے آئیں اور بیڈ پر بٹھا کر جلدی سے پانی کا گلاس لاتے اس کی جانب بڑھایا۔۔

وه غٹا غٹ ایک ہی سانس میں پانی پی گئی۔۔ "بی جان کل یونیورسٹی میں کچھ سٹوڈنٹس نے فساد برپا کر دیا تھا۔۔ مار پیٹ کررہے تھے وه میرے ساتھ بھی بدتمیزی کی کوشش کی لیکن ماہ بیر نے مجھے بچا لیا پھر غلطی سے ہم لائبریری میں بند ہوگئے۔۔ کوئی بھی نہیں تھا وہاں جو ہماری مدد کرتا اس لیے مجبوراً ہمیں وہاں رکنا پڑا۔۔"

انکی سوال کرتی نظروں پر وه دکھی ہوئی۔۔

"بی جان ماہ بیر بہت اچھے ہیں آپ جیسا سوچ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے پھر بھی آپ کو نہیں یقین تو!!!۔۔۔"

وه سپاٹ چہرے سے بولی تو بی جان فورا کہنے لگیں۔۔

"نہیں بچے مجھے پورا یقین ہے تم پر اور یہ جان کر مجھے بہت اچھا لگا کہ اس بچے نے تمہاری مدد کی۔۔ میں بس اس وجہ سے پریشان ہوں کہ محلے میں یہ بات نہ پھیل جائے۔۔ کل رخسانہ آئی تھی بار بار پوچھ رہی تھی تمہارا۔۔ اسکی بیٹی بھی جاتی ہے نہ یونیورسٹی تو وه کہہ رہی تھی کہ ارشما ابھی تک کیوں نہیں آئی میری بیٹی تو کب کی آ گئی۔۔ تمہیں پتہ تو ہے لوگ کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔۔ ہم یہاں کرائے پر رہتے ہیں اپنا گھر نہیں ہے ہمارا اور وه مالک مکان وه تو کب سے موقع تلاش رہا ہے ہمیں یہاں سے نکالنے کا" ان کی پریشانی بھی بجا تھی۔۔

ارشما نے آرام سے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔۔۔

"اتنا نہ سوچا کریں کچھ نہیں ہوتا"

وه ان کے کندھے پر سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی تو بی جان اس کا سر تهپتهپا کر پرسوچ سی سامنے دیکھنے لگیں۔۔


🌚🌚🌚🌚


وه مصروف سے انداز میں کچن سے باہر نکلی۔۔ آسمان کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ کب سے ٹھہرے بادلوں کی گردش شروع ہو چکی تھی۔۔

وه کچھ پوچھنے کے لئے صحن میں آئی تو صالح کہیں جانے کو تیار نظر آیا جبکہ انجم اس کے مقابل کھڑیں کچھ کہہ رہی تھیں۔۔

"مشی پتر ادھر آ صالح نہر پر جا رہا ہے تو نے جانا ساتھ؟"

صالح نے بهنویں سكیڑ کر انجم کو دیکھا۔۔

"اماں یہ وہاں کیا کریں گی اور موسم بھی دیکھیں خراب ہورہا ہے!!!۔۔۔"

مشائم کے بولنے سے پہلے ہی وه کہنے لگا تو انجم نے اسکی اچھی خاصی کلاس لی۔۔

"تو نے کیا اڑ کر جانا ہے ؟ تب موسم خراب نہیں ہوگا اور جو تو کرے گا نہ وہاں جا کر یہ بھی کر لے گی۔۔۔ چل شاباش جا میری دھی تیار ہو جا کر!!!۔۔۔"

انجم کے پیار سے کہنے پر مشائم صالح کو ایک نظر دیکھتی اندر چلی گئی۔۔

"ایسا لگتا ہے آپ اسکی نہیں میری ساس ہیں!!!۔۔۔"

وه بڑبڑایا تو انجم نے اسے گھور کر دیکھا اور ہنکارہ بھر کر اندر چلی گئیں۔۔ وہ گہری سانس لے کر وہیں ٹہلتا اس کا انتظار کرنے لگا۔۔

پانچ منٹ بعد ہی وه چادر لیے باہر آ گئی۔۔ سرخ شلوار قمیض میں سرخ لپسٹک لبوں پر لگائے سیاہ چادر اوڑھے وه اسکے سامنے آ کر رکتی اسکی نظروں سے پزل ہوگئی۔۔۔

"چلیں!!!۔۔۔"

وه بس اس وجہ سے اسے ساتھ نہیں لے کر جانا چاہتا تھا کہ کہیں کسی غیر کی نظر بھی نہ پڑ جائے اس پر ۔۔ وه اسے ہر کسی سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا ایسا ہی پوزیسیو ہونے لگا تھا وہ اسے لے کر۔۔

چہرے پر نقاب کرتے وہ صالح کی ہمراہی میں باہر نکلی۔۔ اس نے جیپ کا دروازہ کھولا تو مشائم ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔

چند منٹ خاموشی سے ڈرائیو کرنے کے بعد صالح نے نہر کے قریب آ کر جیپ روک دی۔۔

ارد گرد ہریالی، سامنے گرتی آبشار اور آسمان پر بادلوں کا ڈیرا دیکھ کر مشائم خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔۔ صالح نے موسم کے تیور دیکھ كر افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔۔

"کہا بھی تھا!!۔۔۔" وه بڑبڑایا۔۔

"آپ یہاں ركیں میں ایک منٹ تک آتا ہوں!!!۔۔۔" وہ اسے کہہ کر دروازہ کھولتا باہر نکلا اور آگے بڑھتا ساتھ ارد گرد نگاہ بھی دوڑا رہا تھا۔۔ کچھ آگے ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔۔

صالح اسے پہچان گیا۔۔ "چھوٹے؟؟؟"

آواز پر وه لڑکا پلٹا اور خوشگوار حیرت سے سے اس تک آیا۔۔

"ارے صالح بھائی آپ؟؟۔۔۔"

وہ آ کر اس سے بغل گیر ہوا۔۔

کیسے ہو؟؟

صالح نے اس کی پیٹھ تهپتهپائی۔۔

"رب سوہنے کا شکر آپ بتائیں!!!"

وه لڑکا خوشگواری سے بولا۔۔

اللّه کا کرم ہے اچھا چھوٹے تم فلحال چلے جاؤ بھابھی آئی ہے تمہاری اور خیال رکھنا کوئی اس طرف نہ آئے سمجھ گئے نہ؟؟؟

وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا تو وه لڑکا سمجھ کر سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔۔

اب وہاں صالح اور مشائم کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔۔۔وه جیپ تک آیا اور دروازه کھول کر کھڑا ہوگیا۔۔

مشائم احتیاط سے نیچے اتری۔۔

"ہٹا لیں نقاب یہاں کوئی نہیں ہے!!!" وہ ترچھی نظروں سے اسے دیکھ کر کہنے لگا۔۔ حقیقت میں تو وه اسکے چہرے کو دیکھنا چاہتا تھا اس لیے کہہ گیا۔۔

مشائم نے نقاب ہٹا کر چادر سر سے ذرا سركا لی۔۔ سلكی بھورے بالوں کی چند لٹیں ہوا کے دوش پر لہراتیں اسکے چہرے پر بکھرنے لگیں۔۔

اس نے جهنجهلا کر انھیں کان کے پیچھے اڑسا۔۔


"مجھے ایسا موسم بہتتت اچھا لگتا ہے!!!۔۔۔"

وه صالح کے ساتھ چہل قدمی کے انداز میں چلتی آنکھیں میچ کر پرجوش سی بولی۔۔

صالح نے چہرہ موڑ کر سر جھکایا اور اپنے کندھے سے نیچے تک آتی مشائم کی میچی آنکھوں اور حرکت کرتے لبوں کو دیکھنے لگا۔۔

مشائم نے آنکھیں کھول کر چہرہ گھما کر صالح کو دیکھا جو سر جھکائے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔ اسکی چلتی زبان کو بریک لگا تھا۔۔

اس نے شرمگیں مسکراہٹ چھپاتے سرعت سے چہرہ موڑا تھا لیکن اسکی مسکراہٹ کی جھلک صالح یوسف دیکھ چکا تھا۔۔

مشائم نے جھجھکتے چور نظروں سے اسے ہاتھ کو دیکھا۔۔ مضبوط مردانہ ہاتھ جن کی نسیں ابھری ہوئی تھیں۔۔

اس نے آہستہ سے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔ صالح نے خاموشی سے اپنے ہاتھ میں موجود اسکے ہاتھ کو دیکھا۔۔ چھوٹا سا نرم گرم ہاتھ!!!

وه دهیرے سے مسکرایا اور اسکے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پهنسا کر سیدھ میں دیکھنے لگا۔۔

آپ مسکرائی کیوں؟؟

وه کنکھیوں سے اسے دیکھ کر بولا تو مشائم اسکا ہاتھ تھامے ہی اسکے مقابل آئی۔۔

کب؟؟ وه سراپا سوال بنی۔۔

"ابھی!!!"

صالح کے دھیمے لہجے میں کہنے پر وه مسکرائی۔۔

"آپ کیوں دیکھ رہے تھے مجھے؟؟؟۔۔۔"

وه معصومیت سے بولی۔۔

کب؟؟ وه سراپا سوال بنا۔۔

"ابھی!!!"

مشائم کے دهیمے لہجے میں کہنے پر وه مسکراتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔


"آپ کہتی ہیں تو کسی اور کو دیکھ لیتا ہوں وه ساتھ والی۔۔۔۔"


مشائم نے ایڑھیاں اٹھاتے اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا اور خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔۔

"بس مجھے دیکھا کریں آپ!!!۔۔۔"

وه ماتھے پر بل ڈالے بولی۔۔

صالح نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کرتے نچلا لب دانتوں میں دبايا۔۔

"آپ جیلس ہورہی ہیں؟؟۔۔۔"

مشائم نے اسکے کندھوں پر دونوں ہاتھ رکھتے آنکھیں سكیڑ کر اسے دیکھا۔۔

"جیلس کے سپیلنگ تو بتائیں ذرا۔۔۔!!!"

اسکی بات پر صالح نے منہ بنایا۔۔

"اب اتنا بھی نالائق نہ سمجھیں آپ۔۔" منہ بناتے وه مشائم کو اتنا کیوٹ لگا کہ اس نے بےاختیار ہو کر اپنے پیر اسکے پیروں پر رکھے اور اسکے کاندھوں کے گرد بازو کا گھیرا تنگ کرتی آہستہ سے اسکے گال کو چوم گئی۔۔


داڑھی کی ہلکی سی چبھن اسے ہونٹوں پر محسوس ہوئی تو وه جلدی سے پیچھے ہٹنے لگی کہ صالح نے اسکی کمر میں بازو ڈال کر اسکی کوشش کو ناکام کر دیا۔۔

"رومینس" کے سپیلنگ آتے ہیں مجھے،،، سناؤں؟؟ وه اس کا چہرہ اپنے چہرے کے سامنے لاتا مسکراتی نظروں سے اسکے چہرے کا طواف کرتا ہوا بولا۔۔

"با۔۔رش آنے لگی ہے ہم گھر چلتے۔۔۔ہیں!!!"

اسکے بدلے انداز دیکھ کر وه گھبرا کر بولی تو صالح ہنس دیا۔۔

وه بے خود سی اسکی ہسی کو دیکھے گئی۔۔

"چلیں چلتے ہیں واپس یہ موسم کہیں بیمار نہ کر دے آپ کو ویسے بھی بہت نازک ہیں آپ!!!۔۔۔"

وه اسے آزاد کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ بارش کی ہلکی بوندیں دونوں پر پڑنے لگیں تھیں۔۔ مشائم نے چہرہ آسمان کی طرف اٹھا کر آنکھیں موند لیں۔۔ بارش کے چند قطرے اسے چہرے پر آ گرے۔۔ صالح نے اسکے لاپرواہ انداز کو دیکھا۔۔ دفعتاً بارش تیز ہوگئی۔۔ مشائم کا چہرہ پورا گیلا ہوگیا۔۔


گیلے سرخ لبوں نے عجیب سے انداز میں اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

"بس کچھ دیر پھر ہم واپس چلیں گے!!!۔۔" وه دونوں مکمل بهیگ چکے تھے۔۔ مشائم نے اسے دیکھتے التجائیہ انداز میں کہا۔۔

صالح کی نظریں اسکے بهیگتے لبوں پر مرکوز تھیں۔۔ وه یک دم اس پر جھکا تھا۔۔

اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر سر بلند کرتے وه پوری شدت سے اسکے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر گیا۔۔

مشائم کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔ اس نے صالح کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دهكیلنا چاہا لیکن وه مسلسل اس پر جھکا رہا یہاں تک کہ مشائم کی سانس اکھڑنے لگی۔۔

وه گہری سانس کھینچ کر پیچھے ہٹا اور اس کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھنے لگا۔۔

چلیں؟؟ وه مخمور لہجے میں بولا۔۔

مشائم نے جھکا سر ہلایا اور کانپتی ٹانگوں سے اسکے ساتھ چل پڑی۔۔

وه گھر پہنچے تو انجم نے انہیں تفکر سے بھیگا ہوا دیکھا۔۔۔ "جاؤ جلدی سے کپڑے بدلو بیمار پڑ جاؤ گے دونوں!!!"

وه دونوں سر ہلا کر اندر چلے گئے۔۔ صالح کپڑے نکالتا باتھ روم میں گھس گیا۔۔۔ مشائم نے منہ بنا کر اسکی پشت کو دیکھا اور الماری سے اپنے کپڑے نکلتی انجم کے کمرے میں آ کر کپڑے تبدیل کئے اور جلدی سے گیلی جگہ صاف کرتی کمرے میں آئی۔۔

اتنی دیر میں انجم چائے کے دو کپ انہیں دے گئی تھیں۔۔۔صالح بیڈ پر نیم دراز چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا گیا۔۔

مشائم بھی چائے کا کپ تھام کر صوفے پر آ بیٹھی اور گیلے بال کھول کر انگلیوں کی مدد سے آپس میں جڑی لٹوں کو الگ کرنے لگی۔۔

سکون قلب تم سے ہے،، سکون جاں بھی تم ہو۔۔۔!!!

تعجب ہے کہ سینے میں،، جہاں دل تھا وہاں تم ہو۔۔۔!!!

کیا سوچ رہی ہیں آپ؟؟

وه مشائم کی نظریں خود پر پا کر پوچھ بیٹھا۔۔ وه دھیمے سے مسکرائی۔۔

سوچ رہی ہوں۔۔۔

"آپ کو چن لینا میری روح۔۔!!! کی تڑپ تھی اور شاید ضرورت بھی۔ پتہ نہیں کیوں آپ پر جب پہلی نگاہ پڑی تو دل کو جیسے یقین تھا کہ آپ میری مضطرب روح کا واحد قرار بنیں گے!!!۔۔۔"

وہ ایک جذب سے بولی۔۔

صالح اسے مسلسل دیکھے گیا۔۔ اس نے کب سوچا تھا کہ کوئی یوں اس حد تک اسے چاہنے لگے گا۔۔

"آپ ایسی باتیں دور دور سے ہی کرتی ہیں!!!۔۔۔"

صالح نے شرارت سے اسے دیکھا کر کہا تو مشائم چائے کا آخری گھونٹ لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

آپ بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں!!!

وه آنکھیں سكیڑتی ہوئی بولی تو صالح نے مزے سے سر کے پیچھے دونوں بازو رکھتے اسے سر تا پیر دیکھا۔۔

"یہی خرابی تو صحیح ہے!!!۔۔۔"

اسکی بات پر مشائم مسکراہٹ دبا کر اسکے ہاتھ سے کپ لیتی باہر چلی گئی تو وه بھی مسکرا کر آنکھیں موند گیا۔۔

اینارا نے ایک اکیڈمی جوائن کرلی تھی جہاں وہ پانچویں جماعت کے بچوں کو پڑھاتی تھی۔۔

دائیں کندھے پر لانگ سٹریپ بیگ ڈالے وہ نیوی بلیو کیپری شرٹ میں دھلے چہرے کے ساتھ اکیڈمی جا رہی تھی۔۔ مسجد کے پاس سے گزر کر وہ اگلی گلی کو مڑ گئی جہاں اسکا ایک بار پھر اورهان سے سامنا ہوگیا۔۔

وہ کسی کام سے گیا تھا اب واپس آیا تو بےدیهانی میں اسے دیکھ کر اورهان نے فورا سر جھکایا تھا لیکن پھر جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔

اسکی آنکھوں میں شدید حیرانی تھی وہیں اینارا بھی دنگ کھڑی تھی۔۔۔

تو جو پچھلی بار دیکھا وہ کوئی غلط فہمی نہیں تھی،، اورهان ایک بار پھر اسکے سامنے تھا۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے صدیوں بعد دیکھا ہو۔۔

حیرت کے جھٹکے سے جب وہ سنبهلی تو اسکے چہرے کے تاثرات سرد ہوگئے۔۔

وہ اسے نظرانداز کر کے آگے بڑھ گئی وہیں اورهان کو ہوش آیا۔۔

"اینارا بات سنیں میری !!!۔۔۔"

وہ تیزی سے اسکے پیچھے گیا۔۔ دل تھا کہ زوروں سے دھڑکنے لگا تھا۔۔

دل کو کب امید تھی کہ اس دشمنِ جاں سے یوں سامنا ہوجائے گا۔۔

اسے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر وہ رکی اور تند چہرہ کے ساتھ پلٹی۔۔

صبح کا وقت تھا اس لیے آس پاس کسی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔۔

"کاش!!! تمهارا چہرہ جتنا خوبصورت ہے،، تمہارا د۔۔ل بھی ات۔۔نا خوبصورت۔۔۔ ہوتا!!!

سختی سے بولتے آخر میں اسکی آواز لڑکھڑا گئی۔۔

غصے بھری آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔ اسکی آنکھوں میں شدید جلن ہونے لگی تھی۔۔

وہ خاموشی سے اسے دیکھے گیا۔۔ "تم جھوٹے انسان تم تو عادی ہو لڑکیوں کے دل سے کھیل کر انہیں برباد کرنے کے!!! تم جیسا انسان میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا"

اتنے دن سے اندر ابلتا لاوا اب باہر نکلنے لگا تھا۔۔

اورهان نے دکھ سے اسے دیکھا۔۔

"میں نے ہر پل آپ سے محبت کی ہے آپ کے سوا میرے دل میں کوئی نہیں ہے!!!۔۔۔"

وہ دھیمے لہجے میں کہنے لگا۔۔

لیکن آپ۔۔۔!!!

وہ تکلیف سے ہنسا تھا۔۔

"آپ نے تو مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی!!!۔۔"

وہ سنسان رات، جسم میں گولیاں گھسنے کی تکلیف، عجیب آوازیں۔۔۔ وہ سب یاد کرتے اسکے گلے میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا۔۔

اینارا نے چونک کر اسے دیکھا۔۔ "میں نے تمھیں نہیں مارا تھا۔۔ہاں مارنا ضرور چاہتی تھی کیونکہ میرے باپ اور بہن کے قاتل ہو تم!!!۔۔۔"

وہ دبے لہجے میں غرائی تھی۔۔

اورهان کی ذات زلزلوں کی زد میں آ گئی۔۔ وہ تو سمجھتا رہا تھا کہ اینارا نے۔۔۔ لیکن!!! "

میں نے کسی کا قتل نہیں کیا!!!۔۔" وہ اسے یقین دلانے والے انداز میں بولا تو اینارا تلخی سے ہنسی۔۔

اززز ناااا۔۔۔بہن۔۔ تھی۔۔ میری ،، تمهارے ساتھ منہ کالا کرنے کے بعد جب وہ گھر آئی تو میرے باپ کو ہارٹ اٹیک آیا تھا اور وہ۔۔۔۔ وہ مر گئے ۔۔ چلے گئے مجھے چھوڑ کر!!

شروع میں چبا چبا کر کہتی آخر میں وہ رو پڑی۔۔۔

"اور پتہ ہے اسکے بعد کیا ہوا؟ ازنا نے بھی خودکشی کرلی۔۔ ایک ساتھ "دو میتیں" پڑی تھیں ہمارے سامنے کیا تم اندازہ بھی کر سکتے ہو ہماری تکلیف کا؟؟

اس لیے اس لیے میں مارنا چاہتی تھی تمہیں ۔۔۔انتقام لینے آئی تھی تم سے۔۔۔نفرت کرتی تھی تم سے لیکن دیکھو تو قدرت نے کیا کیا میرے ساتھ !!

تم سے نفرت کرتی جانے کب مجھے محبت ہوگئی تم سے ۔۔ تم کبھی نہیں سمجھ سکتے اس ازیت کو جو میں محسوس کرتی ہوں تم نے مجھے مسلسل عذاب میں مبتلا کر دیا ہے اورهان !!!

وہ اسکا گریبان پکڑتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔

اورهان کی آنکھیں تکلیف کی شدت سے سرخ ہوئی تھیں۔۔ "مجھے معاف کر دیں میں اس زندگی کو چھوڑ چکا ہوں روز اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں لیکن میری ازیت کم نہیں ہوتی میں نہیں جانتا تھا کہ میری وجہ سے آپ اس قدر تکلیف سے گزری ہیں میں اس قابل تو نہیں لیکن پھر بھی ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں!!!

وہ سر جھکا کر دھیمے لہجے میں کہتا اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گیا۔۔

اینارا نے روتے ہوئے اسے دیکھا۔۔

"میں تھک گئی ہوں اورهان یہ ازیتیں برداشت کرتے ، اب ان کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا مجھ سے۔۔ سکون چاہتی ہوں اپنی زندگی میں ۔۔"

تھکے تھکے لہجے میں کہتی وہ پلٹی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکی آنکھوں سے دور ہوتی گئی۔۔

وہ وہیں کھڑا اسکی پشت کو دیکھے گیا۔۔ دکھ سے ،، حسرت سے !!!

ایک آنسو اسکی آنکھ سے گرا اور داڑھی میں جزب ہوگیا۔۔ نیلی آنکھوں میں تکلیف کے باعث لال ڈورے نمایاں ہونے لگے تھے۔۔

وہ سر جھکا کر مسجد کی طرف چلا گیا۔۔۔ اس وقت اسے اللّه سے بات کرنے، اسکے سامنے رونے کی بہت ضرورت تھی۔۔

اگر وہ بھی نہ سنتا ہوتا اسکی پکار تو "میر اورهان صمید" گھٹ گھٹ کر مر جاتا۔۔

🌚🌚🌚🌚

اورهان سے ملاقات ہوئے ایک دن گزر گیا تھا۔۔ وہ مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔۔

دل تھا کہ اسے معاف کر دینا چاہتا تھا لیکن دماغ اسکی نفی کر دیتا تھا۔۔

وہ مان چکی تھی کہ وہ بدل گیا ہے۔۔ اسکی آنکھوں میں حیا تھی اور انداز میں عاجزی!!!

اپنی سوچوں سے تنگ آ کر وہ اٹھی۔۔ وہ شائستہ کے کمرے میں آئی جہاں وہ جائے نماز تہہ کر کے رکھ رہی تھیں۔۔ "اماں وہ کل اورهان ملا تھا مجھے!!"

نظریں جھکائے اس نے آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو چھپانے کی کوشش کی لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے۔۔ وہ بھی اینارا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ چکی تھیں۔۔

وہ زندہ ہے؟؟

بےتاثر چہرے سے پوچھا گیا۔۔

اینارا نے سر ہلایا۔۔

"وہ بدل گیا ہے میں نے اسے معاف کردیا ہے اب دل پر مزید بوجھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں !!!۔۔۔"

وہ ٹوٹے لہجے میں بولی تو شائستہ کو بےاختیار اس پر ترس آیا۔۔

کتنی ہنس مکھ تھی اینارا، غموں سے بےنیاز!!!

زندگی نے تو جیسے اسے ہنسنا بھلا دیا تھا۔۔ اپنی تکلیف میں تو وہ اپنی پھول جیسی بچی کو فراموش ہی کر گئی تھیں۔۔

"ٹھیک ہے تم اسے بلا لو ،، میں بات کر لوں گی!!!"

اس کے گال پر پیار سے ہاتھ رکھتیں وہ گھر کے کام نبیٹنے لگیں۔۔

اینارا بےيقین سی کمرے میں چلی آئی۔۔ اس نے ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا لیکن وہ ماں تھیں نہ سمجھ گئی تھیں اسکے انداز سے۔۔

دل سے گرد و غبار مٹا تو اسے ہر چیز نئی نئی سی نظر آنے لگی۔۔ یوں جیسے وہ پہلی بار سب دیکھ رہی ہو۔۔ اورهان سے ملنے کا ارادہ کرتے وہ سکون سے آنکھیں موند گئی۔۔

🌚🌚🌚🌚

"یوسف اٹھ جائیں یونیورسٹی کا ٹائم ہورہا ہے!!!۔۔۔"

بالوں کو گول مول جوڑے میں لپیٹتی وہ واش روم سے باہر آئی اور آنکھیں ملتی بیڈ پر چت سوئے صالح کے پاس بیٹھ کر اسے یونیورسٹی کے لیے جگانے لگی۔۔

وہ ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے جبکہ دوسرا ہاتھ شرٹ لیس سینے پر رکھے سو رہا تھا۔۔ سویا ہوا وہ بےحد معصوم لگ رہا تھا۔۔

مشائم نے اس کے کسرتی سینے کو دیکھا۔۔ اس کی دھڑکن منتشر ہوئی تھی۔۔

پھر وہ جھکی اور صالح کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اسکے بال سنوارے۔۔

اپنے چہرے پر نرم گرم سا لمس محسوس کر کے صالح نے مندھی آنکھیں کھولیں۔۔

نیند کا خمار لیے سرخ ڈوروں والی آنکھیں ہلکی سی کھول کر اس نے خود پر جھکی مشائم کو دیکھا جو بنا دوپٹے کے اس پر جھکی کچھ کہہ رہی تھی۔۔

اسکی نیند بھک سے اڑی تھی۔۔ وہ یک ٹک اسکے ہلتے لبوں کو دیکھے گیا۔۔ لبوں سے سفر کرتی اس کی نظر اسکی گردن پر آ ٹھہری اور گردن سے نیچے آ کر رک گئی۔۔

اسکی نظروں کا رخ محسوس کرتے مشائم گهبرا کر پیچھے ہٹنے لگی کہ صالح نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے خود پر گرا لیا۔۔

"یوں صبح صبح اس طرح میرے سامنے آ کر آپ کیا چاہتی ہیں کہ آپ کو رات تک کمرے سے نکلنے نہ دوں؟؟۔۔۔"

وہ اسکا چہرہ دو انچ کے فاصلے پر دیکھتا بھاری آواز میں بولا۔۔

مشائم اسکے کاندھوں پر دونوں ہاتھ رکھے اسکے سینے سے لگی ہوئی تھی۔۔ کمر پر اسکے ہاتھ کا لمس محسوس کرتے اسکی سانسیں تیز ھوگئیں۔۔

اسکے چہرے پر صالح کی قربت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔ مشائم نے کانپتی پلکیں اٹھائیں تو سیدھا اس دشمنِ جاں کی آنکھوں سے ٹکرائیں جو اسکی جان نکالنے کے در پہ ہوا تھا۔۔

"وہ آپ نے یونیورسٹی جانا ہے نہ ۔۔۔ ٹائم ہورہا ہے فریش ہوجائیں!!!۔۔"

اسکی داڑھی میں چھپے تل کو دیکھتی وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔

"ایسے اٹھائیں گی تو کس کافر کا دل کرے گا یونیورسٹی جانے کا؟؟۔۔"

وہ اسکے لب کے کنارے کو انگوٹھے سے سہلانے لگا۔۔ اسکے اس عمل سے وہ شرم سے گلنار ہوتی وہ جلدی سے پیچھے ہٹی۔۔

"بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں آپ اٹھ جائیں اب نہیں تو بھابھی جان نے لیٹ جانے پر آپ کے دیور ہونے کا لحاظ بھی نہیں کرنا!!!۔۔"

مشائم نے اسے خبردار کیا۔۔

وہ آنکھیں گھما کر اٹھ بیٹھا۔۔ اسکے لمبے چوڑے کسرتی جسم سے نظریں چراتی وہ کمرے کی چیزیں سمیٹنے لگی۔۔ اس کی پشت کو گہری نظروں سے دیکھتے وہ زبردسٹ انگڑائی لے کر اٹھا۔۔

اس نے شیشے میں نظر آتے صالح کو انگڑائی لیتے دیکھ کر دل میں تبصرہ کیا۔۔

"ڈیم ہاٹ!!!۔۔۔"

وہ فریش ہونے چلا گیا تو مشائم نے بیڈ کی چادر ٹھیک کردی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا خالی جگ اٹھا کر دوپٹہ سینے پر پھیلاتی کچن میں آئی۔۔

جگ کو پانی سے بھر کر جب وہ واپس کمرے میں آئی تو صالح شاور لے کر آ چکا تھا۔۔

اس نے بلیو جینز پہن رکھی تھی۔۔ گیلے جسم پر پانی کی بوندیں دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔

شرٹ پہننے کا تكلف کیے بغیر وہ گردن میں ڈالے تولیے سے گیلے بال خشک کرنے لگا۔

مشائم کو دیکھ کر اس نے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا اور ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھ کر اسکی جانب تولیہ بڑھا کر معصومیت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

مشائم مسکراہٹ دبا کر اسکے مقابل کھڑی ہوتی تولیہ تھام گئی۔۔ تو لاڈ صاحب کا لاڈ اٹھوانے کا من ہورہا تھا۔۔

وہ نرمی سے ہاتھ بڑھا کر اسکا گیلا چہرہ صاف کرنے لگی۔۔ اسکی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر اس نے تولیے والا ہاتھ نیچے کیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتی سینے پر پانی کی بوندیں خشک کرتی پلٹی اور اسکی شرٹ تھام کر دوبارہ اس کی جانب آئی۔۔

اسکو شرٹ پہنا کر اس نے آہستہ آہستہ بٹن بند کرنے شروع کیے ۔۔ صالح مسلسل مسکراتی نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔

"ایسے نہ دیکھیں نہ مجھے بڑا "پار " آ رہا ہے آپ پر!!!۔۔۔"

وہ اسکے دونوں گال کھینچتی اسکے بال ماتھے پر بكهیر گئی۔۔

اف اف!!! ماتھے پر بکھرے بالوں میں تو وہ اور بھی پیارا لگ رہا تھا۔۔

اچھا جی آپ کو "پاار" آ رہا ہے!!!

وہ اسکی طرف قدم بڑھاتا دھیرے سے ہنسا تو مشائم نے اسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتے اسے آنکھیں دکھاتے دور دھکیلا۔۔

چلیں باہر۔۔ بھائی جان بھی اٹھ گئے ہیں میں بریک فاسٹ لگاتی ہوں!!!

وہ آنکھیں چھوٹی کئے اسے دیکھتی ہوئی بولی تو صالح نے اوہ کی شیپ میں ہونٹ گھمائے۔۔

"اوہ ۔۔۔ بریک فاسٹ!!!۔۔"

مشائم نے گال سے ٹکراتی بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپیٹتے کہا " يس بریک فاسٹ!!!۔۔"

اور ایک ادا سے اسے دیکھ کر پلٹی اور کمرے کی دہلیز عبور کر گئی۔۔

🌚🌚🌚

اہم اہم!!! کلاس کے باہر ماہ بیر اور ارشما کا سامنا ہوا تو صالح زور سے کھنکارتا اکسکیوزمی کہہ کر وہاں سے کھسکنے لگا کہ ارشما نے اسے زبردست گھوری سے نوازا۔۔ "کہاں جا رہے ہیں آپ ؟ کلاس کا وقت ہورہا ہے اگر آپ نے کلاس اٹینڈ نہ کی تو میں آئندہ تمام ٹیسٹ میں آپ کو فیل کر دوں گی!!!۔۔"

وہ سخت لہجے میں بولی تو صالح کا منہ بن گیا۔۔ صبح صبح ہی ستھری ہوگئی تھی اسکی سویٹ بھابھی پلس کھڑوس ٹیچر سے۔۔

اسکی بےعزتی پر ماہ بیر کی ہنسی نکل گئی۔۔۔ ارشما نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھا۔۔ نیوی بلیو بٹنوں والی شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑے بلیو جینز شوز میں ملبوس ایک کاندھے پر بیگ لٹکائے وہ بلا کا ہینڈسم لنگ رہا تھا۔۔

سرمئی آنکھوں میں شرارت اور عنابی لبوں پر دلکش مسکراہٹ تھی۔۔ اور اسکے سب سے منفرد گردن کو چھوتے بال جو اسے سب میں نمایاں کرتے تھے۔۔

وہ جو اسکو کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی اسکے نقوش میں کھو گئی۔۔ آج سے پہلے کب اس نے ایسی نظر سے ماہ بیر کو دیکھا تھا۔۔

اپنی حرکت کا احساس ہوتے اس نے سرعت سے نظروں کا زاویہ بدلا۔۔

ان دونوں کو کلاس میں آنے کا اشارہ کرتی وہ اندر چلی گئی۔۔ سٹوڈنٹس ہمیشہ کی طرح اسکی تعظیم میں کھڑے ہوئے اور خاموشی سے اپنا ٹیسٹ ریوائز کرنے لگے۔۔ صالح نے کلاس میں نگاہ دوڑائی۔۔

آگے ایک سیٹ خالی تھی وہ وہیں بیٹھ گیا جبکہ ماہ بیر آخری رو میں بیٹھ گیا۔۔ معمول کے مطابق پانچ منٹ کے بعد سب سٹوڈنٹس نے چیئرز ارینج کیں اور ٹیسٹ لکھنے لگے۔۔ ارشما کلاس میں راؤنڈ لگانے لگی۔۔۔

ماہ بیر نے جلدی سے ٹیسٹ لکھ کر اسے دیکھا تو وہ اسکی اگلی رو کے پاس اسکی جانب پشت کئے کھڑی تھی۔۔

"اہم!!! میم؟؟۔۔"

اسکی آواز پر ارشما پلٹ کر اس کے پاس آئی۔۔

"جی ؟؟۔۔"

ماہ بیر نے کلاس میں نگاہ دوڑائی۔۔ کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔۔

اس نے نرم گرم آنکھوں سے ارشما کے چہرے کو دیکھتے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔

وہ ماہ بیر کی اس حرکت پر ہقا بقا رہ گئی۔۔

"چھوڑیں میرا ہاتھ کوئی دیکھ لے گا!!!۔۔۔"

وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی دانت پیس کر آہستہ سے بولی۔۔

پہلے پیار سے بولیں!!!

وہ مزے سے کہہ گیا۔۔

ارشما کا بس نہ چل رہا تھا کہ کچھ کر دیتی۔۔

"نہیں دیکھتی!!!۔۔"

وہ بھی ضد پر آ گئی۔۔

"پیار سے دیکھیں ورنہ۔۔۔۔۔!!!"

ماہ بیر نے مصنوعی سنجیدگی سے دیکھتے اسے وارن کیا۔۔ ورنہ ۔۔۔؟؟؟

وہ آنکھیں سکیڑ کر بولی۔۔

ماہ بیر نے ایک پل کو رک کر اسکی شہد رنگ آنکھوں میں اپنی سرمئی آنکھیں گاڑ دیں۔۔

"ورنہ میں سب کے سامنے "کس" کر دوں گا آپ کو!!!۔۔"

اسکا کہنا تھا کہ ارشما کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔۔ ماہ بیر دلچسپی سے اسکے سرخ چہرے کو دیکھتا نچلا لب دانتوں میں دبا گیا۔۔

پھر اسکی حالت پر رحم کرتے وہ جھکا اور اسکی کلائی کی ابھری نس کو چوم کر پیچھے ہٹا۔۔

ارشما کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔۔ اسکے ہاتھ چھوڑنے پر وہ سرعت سے دور جا کر کھڑی ہوگئی۔۔

اس نے حلق تر کرتے اپنی کلائی کو چادر میں چھپایا تھا۔۔ ماہ بیر اس قدر رومینٹک ہوگا اس نے کبھی نہ سوچا تھا۔۔

🌚🌚🌚

بریک کا وقت ہوا تو وہ دونوں کلاس سے باہر نکل آئے۔۔

میں آتا ہوں۔۔!!!

ماہ بیر صالح کو آگاہ کرتا ارشما کے آفس کی طرف گیا تو صالح نے سمجھتے مسکرا کر سے جھٹکا اور گراؤنڈ کے ساتھ بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔۔

دور سے اسے مسکراتے دیکھ کر اسکی پرانی عاشق گھائل ہوئی تھی۔۔

"اف کتنا ہینڈسم ہے صالح اور اسکی سمائل اف اف!!!۔۔۔"

وہ جلدی سے اسکے پاس آئی۔۔

ہیلو!!!

اس نے ہاتھ بڑھایا تو صالح اسے نظرانداز کرتا موبائل پر مصروف ہوگیا۔۔

وہ اپنا سہ منہ لے کر پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔۔

اسکے جانے کے بعد صالح نے مشائم کو کال کی۔۔۔ اسکے کال اٹینڈ کرنے پر صالح کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔۔ کیا کررہی ہیں آپ؟؟ مجھے مس تو نہیں کررہیں؟؟ ۔۔۔

اوہ بہت مصروف ہیں آپ۔۔۔ آئی سی۔۔۔

دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جس پر وہ محظوظ ہوا۔۔ میں تو بہت انجوائے کررہا ہوں۔۔

آ۔۔۔لڑکیاں بھی ہیں پاس کہیں تو آپ کی بات کروا دوں؟؟ اچھا آپ سر پھاڑ دیں گی ان کا؟؟

مشائم کی جیلسی پر اس نے بہت مشکل سے اپنا قہقہہ روکا۔۔

نہیں آپ ٹینشن نہ لیں حالانکہ ایک لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اظہارِ محبّت کیا اور مجھ سے شادی پر بھی راضی ہے لیکن میں نے کچھ خاص دیهان نہیں دیا۔۔

آپ ریلیکس رہیں ایسی لڑکیاں تو روز مل جاتی ہیں جن میں سے ایک آدھ "کس" بھی کر دیتی ہے لیکن آپ۔۔۔۔ دوسری جانب سے ٹھک سے فون بند کر دیا گیا تو وہ سر جھکائے کافی دیر تک ہنستا رہا۔۔

🌚🌚🌚

"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟؟۔۔۔"

ماہ بیر نے اسکے آفس کا دروزہ کھولتے اندر آنے کی اجازت چاہی۔۔

ارشما نے ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ ٹیبل پر رکھ کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا۔۔

"نہیں!!!۔۔۔میں کچھ مصروف ہوں!!!۔۔۔"

اسکے صاف انکار پر ماہ بیر نے سر ہلایا۔۔

"اوکے مطلب آ سکتا ہوں!!۔۔"

وہ کندھے اچکا کر اندر آیا اور دروازه بند کر دیا۔۔ ارشما نے اسکی حرکت پر دانت پیسے۔۔

"میں نے کہا نہ کہ مصروف ہوں!!!۔۔"

وہ خفگی سے بولی۔۔

ماہ بیر اسکے سامنے ٹیبل پر بیٹھ گیا۔۔

"جی آپ مصروف ہیں لیکن میرے ساتھ۔۔!!!"

وہ مزے سے اسکا کپ تھام کر اسی جگہ سے لبوں سے لگا گیا جہاں سے کچھ دیر پہلے ارشما نے پیا تھا۔۔

وہ اسے اپنی جوٹھی کافی پیتے دیکھ کر نظریں جھکا گئی۔۔

" کیوں کرتے ہیں یہ سب؟؟ ایسا کیا ہے مجھ میں؟؟۔۔۔"

وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔

ماہ بیر نے شرارت سے نچلا لب دانتوں میں دبایا۔۔

"بہت کچھ خاص ہے آپ میں رخصتی کے بعد بتاؤں گا!!!۔۔۔" اسکے بات کو اس طرح رنگ دینے پر ارشما سٹپٹا گئی۔۔۔ مجال تھی جو یہ بندہ کسی بات کا سیدھا جواب دیتا۔۔ "اچھا چھوڑیں ان باتوں کو یہ کھائیں۔۔ کڑوا کڑوا ہی بولتی ہیں۔۔ میٹھا کھانے سے شاید آپ کا منہ سے پھول جھڑنے لگیں!!!۔۔۔"

وہ اسکے سامنے پڑی چاکلیٹ پیسٹری چمچ میں بھر کر اسکے سامنے کرتا مسکرا دیا۔۔

اس نے چمچ ارشما کے منہ سے لگایا تو اس نے چار و ناچار منہ کھول لیا۔۔ سافٹ چاکلیٹ پیسٹری اسکے منہ میں جاتے ہی گھل گئی۔۔

"تھینک یو!!!۔۔"

وہ سر اٹھا کر اپنے سامنے ٹیبل پر براجمان ماہ بیر کو دیکھ کر نرمی سے بولی جو اس کی بات کا جواب دیے بغیر اسکی جانب جھکا تھا۔۔

"آپ کے ہونٹ پر چاکلیٹ لگی ہے!!!۔۔۔"

اسکی دھیمی آواز پر ارشما نے بےساختہ ہاتھ لبوں کی جانب بڑھایا۔۔

ماہ بیر نے نفی میں سر ہلاتے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اپنے سامنے کرتا اپنے لبوں کو اسکے لبوں سے جوڑ کر نرمی سے صاف کرتا پیچھے ہٹا۔۔

اسکے لبوں کا لمس محسوس کرتے ارشما کی سانسیں بکھر گئیں۔۔

"ماہ بیر۔۔۔ میں ۔۔۔مر۔۔ جاؤں گی۔۔۔ !!!"

اسکی قربت میں بےحال ہوتی وہ پھولتی سانسوں اور کانپتے لبوں سے بولی۔۔

ماہ بیر نے نرمی سے اسکے گرد حصار قائم کیا۔۔

"شش!! ریلیکس۔۔۔۔"

وہ اسکا سر چوم کر سینے سے لگا گیا تو ارشما نے جھجھک کر اسکے گرد اپنے بازو حائل کر دیے۔۔

السلام علیکم امی جان!!!۔۔کیسی ہیں آپ ؟؟

وہ فون کان سے لگاتی عارفہ سے محو گفتگو تھی جب صالح کمرے میں آیا۔۔

بلیک لیدر کی جیکٹ اتار کر اس نے گرے چیک شرٹ کے بازو کہنیوں تک موڑے۔۔

سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس پیتے اس نے فون کال پر مصروف مشائم کو دیکھا جی اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔

صالح بیڈ پر پھیل کر بیٹھا اور دو انگلیاں اٹھا کر اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔

وہ امی جان سے بات کرتی اسکے پاس آئی تو صالح نے اسکا بازو تھام کر مزید قریب کرتے اسے گود میں بٹھا لیا۔۔ مشائم نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں لیکن وہ صالح ہی کیا جو کسی بات کا اثر لے لے۔۔

اس نے مشی کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے اسکا رخ اپنی جانب کیا تو وہ ایک ہاتھ سے فون پکڑے دوسرے ہاتھ سے اس کے بال سنوارنے لگی۔۔

صالح نے اسکا ہاتھ تھام کر ہتھیلی کو چوما اور اپنے گال پر رکھ کر اسکی جھکی پلکوں کو دیکھنے لگا جو عارفہ سے بات کرتے کبھی اوپر اور کبھی نیچے کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔

ہاتھ پر داڑھی کی چبھن سے اس نے جھکی نظریں اٹھائیں۔۔ اس نے انگلی سے صالح کو داڑھی اور مونچھیں ٹریس کرنی شروع کیں۔۔

جب اسکی انگلی لب کے پاس پہنچی تو صالح نے اسے دانتوں میں دبا لیا۔۔

"سس!!!۔۔۔"

فون پر کچھ کہا گیا جس پر وہ بوکھلا گئی۔۔

"کک۔۔کچھ نہیں امی جان وہ ہاتھ پر کسی نے کاٹ لیا۔۔۔میرا مطلب مچھر ہوگا شاید۔۔۔داڑھی مونچھوں والا!!!۔۔۔"

آخری فقرہ اس نے زیر لب کہا جو صالح نے سن لیا۔۔

"اب دیکھیں یہ مچھر کیا کرتا ہے!!!۔۔۔"

صالح نے اسکی کمر پر گرفت مذید سخت کی اور اسے خود سے لگاتے اسکی گردن سے بال ہٹائے۔۔

اسکی اس حرکت پر مشائم نے اسکا کندها دبوچتے تھوک نگلا۔۔

وہ اسکی گردن پر جھکا اور اپنی ناک اسکی گردن کی ابھری نس پر سہلانے لگا۔۔

مشائم کی ہتھیلیاں پسینے سے بهیگ گئیں۔۔

دفعتاً صالح نے اسکی گردن میں منہ دیتے پوری شدت سے اپنے لب رکھے۔۔

مشائم کا سانس اٹکا تھا۔۔

امی ۔۔۔جان۔۔۔می ۔ری ۔۔۔ طبیعت ۔۔۔کک ۔۔کچھ ۔۔ٹھ ۔۔یک ۔۔۔نہیں ۔۔۔بب۔۔۔بعد میں ۔۔۔بات کرتی ہوں ۔۔۔

اٹک اٹک کر کہتے اس نے فون بند کر کے پیچھے بیڈ پر پھینک دیا۔۔

"یو۔۔۔سف؟؟؟۔۔۔۔"

اسے منمانیوں پر اترتا دیکھ کر وہ تیز تیز سانس لیتی اٹک کر بولی۔۔۔

صالح نے اسکے سر کی پشت پر ہاتھ رکھتے اسکا چہرہ بلند کیا تو مشائم کی بے داغ شفاف گردن اسکے سامنے آ گئی۔۔۔ آنکھوں میں خمار لیے وہ پوری شدت سے جھک کر اسکی شاہ رگ کے مقام پر بوسے دینے لگا۔۔

مشائم اس کی گرفت میں کانپتی سختی سے آنکھیں میچ گئی۔۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے صالح کے کندھے کو دبوچ لیا جو اسکی گردن پر جھکا پیچھے ہٹنا ہی بھول گیا تھا۔۔

یو۔۔سف؟؟

مشائم کی کانپتی رونی آواز پر وہ اس پر ترس کھاتا سیدھا ہوا۔۔

اس نے لب دبا کر اسکی گردن کو دیکھا جو اسکی شدتوں سے سرخ ہوئی تھی۔۔

"ریلیکس!!!۔۔۔"

اس نے مشائم کی ساتھ لگا کر اسے ریلیکس کرنا چاہا۔۔ وہ اسکے کشادہ کسرتی سینے پر سر رکھے آنکھیں موند گئی۔۔ میری ساس و ماں کیا کہہ رہی تھیں؟؟

وہ اسے نارمل کرنے کی غرض سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔۔

"وہ پوچھ رہی تھیں کہ یوسف کیسا ہے!!!۔۔۔"

وہ اسکے سینے سے لگی آنکھیں موندے ہی بولی۔۔

"تو آپ نے کیا کہا؟؟۔۔۔"

وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔۔

"میں نے کہا بہت ۔۔۔ وہ ہیں۔۔۔!!!"

آنکھیں کھولتے اس نے خفگی سے صالح کے سینے پر مکا مارا۔۔

صالح نے مسکراہٹ دبائی۔۔

"آپ کا مطلب رومینٹک؟؟؟۔۔۔"

وہ اسے تنگ کرنے کی غرض سے بولا۔۔ جانے کیوں اسے تنگ کر کے صالح کو بہت لطف آتا تھا۔۔

مشائم سیدھی ہوتی خفا نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ بلکل غلط!!!۔۔ آپ گندے بچے ہیں۔۔۔!!"

اسکے دیدے گھما کر کہنے پر صالح نے ابرو اچکائے۔

"بچہ لگتا ہوں میں آپ کو؟؟۔۔۔" وہ مسکراتی گہرے لہجے میں بولا۔۔

"جی بچے ہیں نہ میلے پالے شے!!!۔۔۔"

مشائم کو اس وقت اس پر بہت پیار آیا۔۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اس کے گال کھینچتے ہونٹوں کو گول کیا۔۔

"پالے شے بچے کو "پاری" چاہیے !!!۔۔۔"

اسکی بات پر مشائم نے مسکراہٹ دباتے اسے گھور کر دیکھا۔۔

"نہیں ۔۔۔گندے بچے ہیں آپ!!!۔۔۔"

مشائم نے مزے سے کہتے سٹیٹمنٹ ہی بدل لی۔۔

صالح نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

"گنده کیوں؟؟ ۔۔۔" مشائم اسکے کان کے پاس جھک کر سرگوشی میں کہنے لگی "کیونکہ آپ 'ویسی ویسی' باتیں کرتے ہیں!!!۔۔۔۔"

اس کے یوں کہنے پر صالح کا قہقہہ گونجا۔۔ آخر کیا چیز تھی یہ!!

"اچھا اب چھوڑیں بھی نہ ۔۔۔ دیکھیں مجھے بھلا دیا تھا نہ ۔۔ کچھ چیزیں منگوانی تھی مارکیٹ سے!!!۔۔۔"

وہ اسکی گود سے اٹھتی سائیڈ ٹیبل کے پاس آئی جہاں اس نے ایک کاغذ رکھا تھا۔۔

کیا منگوانا ہے؟؟

صالح بیڈ پر چت لیٹتا اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔

مشائم سوچ میں پڑ گئی۔۔

"ایسا کرتی ہوں میں خود جاتی ہوں آپ کے ساتھ میری پرسنل چیزیں لانی ہیں!!!۔۔۔"

صالح نے فوراً منع کر دیا۔۔

"ہرگز نہیں !! آپ کے ساتھ خوامخواہ میں فری ہونے والے دکاندار سخت زہر لگتے ہیں مجھے۔۔۔"

اسکے جیلس ہونے پر مشائم بہت محظوظ ہوئی۔۔

"اچھا ٹھیک ہے آپ خود لا دیں۔۔۔ یہ پکڑیں میں نے لکھ دیا ہے!!!۔۔۔"

اس نے کاغذ صالح کی جانب بڑھایا۔۔۔

"ایسا کیا ہے جو آپ لکھ کر دے رہی ہیں؟؟؟۔۔۔"

وہ کاغذ تھام کر لیٹے لیٹے ہی پڑھنے لگا۔۔

"اوہ!!!۔۔۔ آپ کا سائز تو کافی۔۔۔۔۔"

وہ اس پر گہری نظر ڈالتا ڈھٹائی سے بولا۔۔

مشائم کا چہرہ پل میں سرخ ہوا۔۔

"بہت بےشرم ہیں آپ!!!۔۔۔"

دانت کچکچا کر کہتی وہ تن فن کرتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔ اس کے جانے کے بعد صالح نے سر کے نیچے دونوں بازو رکھےاور پیر ہلانے لگا۔۔۔

"وہ تو میں ہوں!!!۔۔۔"

🌚🌚🌚

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اسی جگہ آئی جہاں اسکا اورهان سے سامنا ہوا تھا۔۔ وہ ارد گرد نگاہ دوڑاتی ایک گھر کے سامنے کھڑی ہوئی۔۔

"باجی کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟؟۔۔۔۔"

ایک نو عمر لڑکا سر پر سفید ٹوپی پہنے سفید شلوار قمیض میں ملبوس سادگی سے پوچھنے لگا۔۔

اینارا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

"اورهان نام کا کوئی شخص یہاں آس پاس رہتا ہے؟؟۔۔۔" لڑکا زرا سا چونکا ۔۔

"اورهان بھائی کی بات کررہی ہیں آپ ؟ وہ تو اس مدرسے میں رہتے ہیں!!!۔۔۔"

اینارا کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی اسے ڈھونڈ پائے گی۔۔۔

"بھائی آپ ان کو بلا دیں پلیز میں یہیں انتظار کررہی ہوں!!!۔۔۔"

وہ اسے دیکھتی متانت سے بولی تو وہ نو عمر لڑکا سر ہلا کر مدرسے کے دروازے سے اندر چلا گیا۔۔

تقریباً پانچ منٹ کے بعد اورهان آتا دکھائی دیا۔۔ بلیك شرٹ کے ساتھ بلیو جینز کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر تک موڑے وہ بےيقین سا اسکے سامنے آ کر رکا۔۔

"مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔۔"

وہ اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی نرمی سے بولی تو اورهان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

"جی کہیں!!!۔۔۔"

اینارا نے آس پاس نگاہ دوڑائی۔۔

"یہاں نہیں!!!۔۔۔" اسکی جھجھک دیکھ کر وہ اسے ساتھ لیے قریبی پارک میں آ گیا۔۔

"جی اب۔۔۔"

اس نے اینارا کو دیکھ کر کہنا چاہا لیکن اسے اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا دیکھ کر اسکے الفاظ غائب ہوگئے۔۔ "کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے اورهان؟؟؟۔۔۔۔"

وہ دائیں ہاتھ میں پکڑا گلاب کا پھول اسکی طرف بڑھاتی خوشی سے مسکراتی اسکی آنکھوں میں دیکھتی اس کے جواب کی منتظر تھی۔۔

اورهان اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔۔

"تو کیا اسکی دعائیں قبولیت کا شرف پا چکی تھیں؟؟؟۔۔۔" اس کی آنکھ سے آنسو گرے تھے بےيقینی سے، خوشی سے ،، احساسِ تشکر سے۔۔۔ وہ رب بندے کو کس کس طرح نوازتا ہے۔۔۔

وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا اسکے ہاتھ سے پھول تھامتا اثبات میں سر ہلاتا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔

اسے روتے دیکھ کر اینارا کی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔۔ اس نے بھیگی آنکھوں اور مسکراتے لبوں سے اسے دیکھا۔۔

"اورهان برے دن گزر گئے ہیں ۔۔ بہت برداشت کر لیا ہم نے ۔۔ اب خوشیوں کی ایک طویل زندگی ہماری منتظر ہے۔۔۔"

اینارا نرمی سے بولی۔۔۔

اورهان نے خاموش ہوتے گال سے آنسو صاف کئے۔۔

"ان اللّه مع الصبرین"

(بےشک اللّه صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)

🌚🌚🌚

ارے ماہ بیر بچے۔۔ آؤ آؤ۔۔ کیسے ہو؟؟؟

بی جان نے بیل کی آواز پر دروازه کھولا تو سامنے ماہ بیر کو دیکھ کر وہ خوش دلی سے کہتیں اندر لے آئیں۔۔۔

"بیٹھو بیٹا میں کچھ لاتی ہوں تمهارے لیے!!!۔۔"

وہ پیار سے اسے دیکھ کر بولیں۔۔

"نہیں بی جان اس تكلف کی ضرورت نہیں میں دراصل ارشما سے ملنے آیا تھا وہ میری کال نہیں اٹھا رہیں تو ۔۔۔۔۔ " وہ بات ادھوری چھوڑ گیا۔۔

"ہاں بیٹا مل لو بیوی ہے تمہاری۔۔۔جھجھک کیوں رہے ہو؟؟۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں ہے۔۔۔"

بی جان کی اجازت پر وہ مسکرا کر اسکے کمرے کی جانب چلا آیا۔۔ اس نے آرام سے دروازه کھولا اور اندر آ کر دروازه بند کر دیا۔۔

سامنے ہی وہ جان کی دشمن بیڈ پر اوندھی لیٹی پیر ہلا رہی تھی۔۔ اس کا دوپٹہ بیڈ پر ایک طرف پڑا ہوا تھا۔۔۔ مہرون گھٹنوں تک آتی فراک اور كیپری میں وہ سیدھا اس کے دل میں اترتی چلی گئی۔۔

شہد رنگ لمبے گیلے بال پشت اور بیڈ پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ "بی جان آپ ہیں؟؟؟۔۔۔"

کمرے میں آہٹ محسوس کر کے اس نے اوندهے لیٹے ہی کہا۔۔۔

ماہ بیر نے جیکٹ اتار کر صوفے پر رکھی۔۔ سلیو لیس بلیو ٹی شرٹ میں اسکا کسرتی جسم واضح ہورہا تھا۔۔ وہ بغیر جواب دیے بیڈ پر بیٹھ کر اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھتا اسکے کان پر جھکا۔۔

"میرا سکون برباد کر کے محترمہ یہاں آرام کررہی ہیں؟؟؟۔۔۔"

اپنی پشت پر اسکے جسم کی حرارت اور وزن محسوس کرتے ارشما کی سانس تھمی تھی مذید اسکے اتنے قریب آ کر سرگوشی کرنے پر وہ گھبرا گئی۔۔

اس نے سیدھے ہونے کی کوشش کی تو ماہ بیر نے پیچھے ہٹ کر اسے کمر سے تھام کر سیدھا کیا ۔۔ اس کے وجود کی رعنائیاں دیکھ کر وہ نچلا لب دانتوں میں دبا گیا۔۔

بغیر دوپٹے کے اسکے سامنے ہونے پر وہ شرم سے ڈوب مرنے کو ہوئی ۔۔ مزید اسکی گہری جائزہ لیتی نگاہوں پر اسکا شرم سے برا حال ہوگیا۔۔

ماہ بیر اس کے دائیں بائیں بازو رکھ کر جھکا اور دو انچ کے فاصلے پر ٹھہر کر اسکے نقوش کی قریب سے دیکھنے لگا۔۔۔

اسے اس قدر قریب دیکھ کر ارشما نے پٹ سے آنکھیں بند کیں۔۔ اس کے لب کانپنے لگے تھے۔۔

"یو آر ڈیم ہاٹ!!!۔۔۔"

وہ اسکا چہرے پر گرم سانسیں چھوڑتا پرحدت لہجے میں بولا۔۔ ارشما کی سانسیں بکھرنے لگیں۔۔ اسکے تیز تیز سانس لینے پر ماہ بیر نے لب دبائے۔۔

"آپ کی کمر بہت پسند ہے مجھے!!!۔۔۔" وہ اسکی پتلی کمر کو شہادت کی انگلی سے ٹریس کرتا بھاری لہجے میں بولا۔۔ اسکے پر حدت لمس پر ہلکان ہوتی وہ کروٹ بدل گئی۔۔ کروٹ بدلنے پر اسکے گیلے بال کندھے اور کمر پر بکھر گئے۔۔ ماہ بیر نے اسکے بالوں میں چہرہ چھپاتے گہرا سانس لیا۔۔ ارشما نے ہلکان ہوتے بیڈ کی چادر کو مٹھی میں دبوچا تھا۔۔ ماہ بیر نے اسکی گردن سے بال ہٹائے اور خود پر قابو کھوتا اسکی گردن کو جابجا چومنے لگا۔۔

اس نے گردن کی چومتے اچانک لو بائیٹ کی جس پر ارشما کے منہ سے سسکی نکلی۔۔

"ٹیچر جی آپ تو مجھے پاگل کررہی ہیں!!!۔۔۔"

وہ اسکی گردن میں گہرا سانس لیتا بھاری لہجے میں بولا۔۔ "ماہ بیر مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز!!!۔۔۔"

وہ اپنے آپ میں سمٹتی اٹک اٹک کر بولی۔۔

تو ماہ بیر سیدھا ہوگیا۔۔ اس نے ارشما کو سیدھا کرتے اپنے مقابل بٹھایا۔۔

اسکے چہرے پر آئی زلفوں کو نرمی سے کان کے پیچھے اڑستے وہ اسکا سرخ چہرہ دیکھنے لگا۔۔

"ویسے تو آپ میری ٹیچر ہیں لیکن آپ کو محبت کرنی نہیں آتی۔۔۔ اس معاملے میں۔۔میں آپ کا استاد ہوں!!!۔۔۔"

وہ شرارت سے بولا تو ارشما نے نظریں اٹھا کر ایک پل کو اسکی سرمئی آنکھوں میں دیکھا۔۔

"آپ سے سیکھ لوں گی محبّت کرنا!!!۔۔۔"

وہ بال کان کے پیچھے اڑستی معصومیت سے بولی۔۔۔

اسکی اس ادا پر ماہ بیر دل و جان سے فدا ہوا۔۔۔

"محبت کا پہلا سٹیپ "کس" ہے۔۔ آج سے ہی سیکھنے کی شروعات کرتے ہیں!!!۔۔۔"

اس کے مزے سے کہنے پر ارشما سٹپٹا گئی۔۔

"نن۔۔۔نہیں ۔۔۔ ایسا تو ۔۔۔کچھ نہیں سنا میں نے" وہ دفاعیہ انداز میں بولی۔۔

"ایسے کیسے نہیں سنا۔۔ کیا آپ نے فلمیں نہیں دیکھیں جہاں محبت بعد میں ہوتی ہے "کس" پہلے ہوتی!!!۔۔۔

ماہ بیر کے اتنے واضح انداز میں کہنے پر ارشما کو اپنے کانوں سے دهواں نکلتا محسوس ہوا۔۔

"وہ ۔۔۔ تو ۔۔۔ موویز ہوتی ۔۔ہیں ۔۔۔ حقیقت تھوڑی!!!۔۔۔"

وہ دهیمی آواز میں بولی۔۔

"تو کوئی بات نہیں ہم اپنی موسٹ رومینٹک مووی خود بنائیں گے اس کے لیے آپ کو میری ہر بات کو ماننا ہوگا۔۔۔" وہ بےانتہا محظوظ ہو کر بولا۔۔

ارشما کا دل چاہ رہا تھا کہ اسکی گہری اندر تک اترتی نظروں کے سامنے سے غائب ہوجائے۔۔

"تو شروع کریں پھر؟؟؟۔۔۔"

وہ اس پر جھکا تو ارشما نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے روکا۔۔ ماہ بیر نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے چوم لیا۔۔

"یہ نازک ہاتھ ماہ بیر شاہ کو نہیں روک سکتے"۔۔۔ اہم!!! کس کریں مجھے آج آپ سے "کس" لیے بغیر نہیں جاؤں گا میں۔۔۔۔

وہ اسکے چہرے کے سامنے اپنا چہرہ لاتا اسکی حیا سے گهایل ہوتا گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔

ارشما نے نظریں جھکاتے نفی میں سر ہلایا۔۔ ماہ بیر نے اسکی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھتے اسکا چہرہ بلند کیا۔۔

"تو کوئی بات نہیں میں کر لیتا ہوں!!!۔۔۔"

اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ جھکا اور اسکے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لیتے انکی حدت اور نرمی محسوس کرنے لگا۔۔

ارشما اسکی شرٹ کو مٹھی میں دبوچتی آنکھیں موند گئی۔۔۔ نرمی سے اسکے لبوں کو چھوتے وہ مدہوش ہوا تھا۔۔ دفعتاً اسکے انداز میں شدت آئی اور وہ ارشما کو بیڈ پر گراتے پوری شدت سے اسکے ہونٹوں کا جام پینے لگا۔۔

ارشما کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔۔ اس نے آنکھیں پوری کھولتے ماہ بیر کے كندھے پر ہاتھ مارتے اسے دور دھکیلنا چاہا لیکن وہ بجائے دور جانے کے اس کے لبوں پر پکڑ مذید سخت کر گیا۔۔

کئی پل یونہی بیت گئے۔۔ وہ ہر چیز سے بےنیاز اسکے نازک وجود میں مگن تھا۔۔ جب ارشما کو لگا کہ وہ اب اسکی سانسیں بند ہونے کے قریب ہیں تو ماہ بیر پیچھے ہٹا۔۔ اسکی نیم وا آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔۔

ارشما نے اس کے پیچھے ہٹتے گہرے سانس لینے شروع کیے۔۔ جب اسکا سانس بحال ہوا تو اس نے روتے ہوئے ماہ بیر کے سینے پر مکے مارے۔۔

"بہت برے ہیں آپ!!!۔۔۔"

ماہ بیر اسکی حرکت پر ہنس پڑا۔۔

"جیسا بھی ہوں آپ کا ہوں!!!۔۔۔"

اس کی پیشانی چوم کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔ ارشما کے بکھرے سراپے سے اس نے نظریں چرائی تھیں۔۔

اس سے پہلے وہ بہکتا وہ فوراً کمرے سے نکل گیا۔۔

اسکے جانے کے بعد ارشما نے اپنے لبوں پر ہاتھ رکھتے تکیے میں منہ چھپایا تھا۔۔

"اللہ میں بہت خوش ہوں ہم سب واپس جا رہے ہیں۔۔۔چند دن تک بھائی جان کی شادی ہے کتنا مزہ آئے گا!!!۔۔۔"

وہ ڈرائیو کرتے صالح کو دیکھتی پرجوش سی کہنے لگی۔۔۔ سیاہ جینز شرٹ میں ملبوس صالح نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔

ماتھے پر آتے بال جھٹک کر اس نے ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتے دوسرے ہاتھ سے شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھولے۔۔

" اف بہت گرمی ہوگئی ہے اچانک!!!۔۔۔"

اس نے ترچھی نظروں سے مسلسل بولتی مشائم کو دیکھتے نچلا لب دانتوں تلے دبا لیا۔۔

وہ بولتے بولتے رکی۔۔

" کہاں۔۔؟؟ نہیں تو!!!

اس نے پورے وثوق سے کہا۔۔

صالح نے ایک نظر سامنے دیکھ کر مشائم کے ہونٹوں پر انگوٹھا پھیر کر جھٹکے سے اسے قریب کیا۔۔

وہ اس کے اچانک کھینچنے پر جھٹکے سے اس کے سینے سے آ لگی۔۔

اسکے لب صالح کے کھلے گریبان سے جھانکتے كسرتی سینے سے ٹکرائے۔۔

صالح نے بےساختہ آنکھیں موندیں۔۔۔ یہ لڑکی تو دن بدن اسے پاگل کررہی تھی۔۔

مشائم نے گھبرا کر اس کے سینے سے سر اٹھایا۔۔

"یوسف کیا کررہے ہیں ایکسیڈنٹ ہوجائے گا!!!۔۔۔"

صالح نے اس بات کو نظرانداز کرتے کہا " اب بتائیں گرمی ہے یا نہیں؟؟؟۔۔۔"

وہ اسکے چہرے پر جھکا گرم سانسیں اسکے چہرے پر چھوڑتا ہوا بولا۔۔

وہ حلق تر کرتی جلدی سے دور ہوئی۔۔۔ اس بندے کا کیا بھروسہ بیچ سڑک میں رومینس جھاڑنے لگے۔۔

اسکے یوں دور جانے پر صالح کے ماتھے پر بل پڑے۔۔

اس نے مشائم کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کار کی سپیڈ سلو کی اور جھٹکے سے اسکے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لاتے وہ اسکے ہونٹوں پر لب رکھتا پوری شدت سے انہیں اپنے لبوں میں بھینچ گیا۔۔

مشائم کی آنکھیں پھیلیں۔۔ اس نے صالح کی شرٹ دبوچ کر سانس لینی چاہی جو قطرہ قطرہ اسکی سانسیں پی رہا تھا۔۔۔

ٹرن ٹرن کی آواز پر وہ سیدھا ہوا اور اسکے گیلے لبوں کو انگوٹھے سے صاف کیا۔۔

"آئندہ مجھ سے دور جانے کی کوشش مت کیجیے گا۔۔۔!!! اس کی گردن سے نیچے انگلی ٹریس کرتا وہ گہری سانس لے کر نظریں پھیر گیا۔۔۔

گردن سے نیچے تک اس کے لمس اور ہونٹوں پر اس ستمگر کی شدتوں پر اس کے پسینے چھوٹ گئے۔۔

دل یوں دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔۔ اسکی بکھری حالت کو گہری نظروں سے دیکھتے صالح نے گاڑی کی رفتار تیز کی تھی۔۔

🌚🌚🌚

ان کی گاڑی سے کچھ آگے ماہ بیر کی گاڑی تھی جس میں وہ ارشما اور بی جان کے ساتھ سفر کررہا تھا۔۔

بیک ویو مرر میں ارشما کا پریشان چہرہ دیکھ کر اس نے موبائل پر میسج لکھا "کیا ہوا؟ آپ پریشان کیوں ہیں؟؟؟۔۔۔" لکھ کر اس نے میسج بھیج دیا۔

ارشما نے فون کی سكرین روشن ہونے پر میسج کھولا ۔۔ ماہ بیر کا میسج پڑھ کر گہری سانس لیتے اس نے جواب لکھا۔۔ "میں اس لیے پریشان ہوں آپ کی مما بابا پتہ نہیں کیسا رد عمل دیں گے مجھے دیکھ کر۔۔۔ گهبراہٹ ہورہی ہے بہت!!!۔۔۔" میسج سنڈ کرنے کے بعد فوراً سین ہوا تھا۔۔

ماہ بیر ایک ہاتھ سٹیئر رنگ پر رکھتا دوسرے ہاتھ سے ٹائپنگ کرنے لگا۔۔

"آپ خوامخواہ میں پریشان ہورہی ہیں۔۔ وہ بہت محبّت سے ملیں گے آپ سے آخر کو ان کا اکلوتے بیٹے کی محبّت ہیں آپ!!!

اور ایک بات وہ بس میرے نہیں آپ کے بھی مما بابا ہیں جو آپ کا ہے وہ میرا ہے اور جو میرا ہے وہ آپ کا ہے!!!

نرمی سے اسے سمجھاتا وہ بیک ویو مرر سے اسکے تاثرات دیکھنے لگا۔۔

ارشما ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔ اسکی مسکراہٹ سے وہ مطمئن ہوتا سامنے دیکھنے لگا۔۔

🌚🌚🌚

ان کی گاڑی جیسے ہی حویلی کے گیٹ سے اندر آئی سب ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔

نگہت جلدی سے اندر بھاگی تاکہ بڑے سائیں اور بی بی جی کو خبر کر سکے۔۔

بنے خان نے آگے بڑھ کر ماہ بیر کی گاڑی کا دروازہ کھولا جبکہ صالح کو دیکھ کر ہی اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا۔۔ صالح نے باہر نکل کر اسے گھور کر دیکھا۔۔

"نظر نہیں آ رہا ساتھ بیبیاں بھی ہیں۔۔ جاؤ یہاں سے!!!۔۔۔" اس کا کہنے پر بنے خان غصے سے واپس چلا گیا۔۔

مشائم باہر نکل کر ارشما اور بی جان کے پاس آئی اور وہ سب حویلی کے اندرونی دروازے کی جانب بڑھ گئے۔۔

اندر آتے ہی ان کا سامنا عبدالله شاہ اور عارفہ سے ہوا۔۔ مشائم جلدی سے آگے جاتی امی جان کے گلے لگ گئی۔۔

وہیں عبدالله شاہ نے ماہ بیر اور صالح کو باری باری گلے لگایا۔۔ مشائم سے مل کر عارفہ آگے بڑھیں اور بی جان سے نرمی سے ملیں۔۔

پھر وہ ڈری ڈری سے کھڑی ارشما کے سامنے آئیں جو سیاہ چادر سے خود کو ڈھکے ڈری ڈری سی کھڑی تھی۔۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چومی۔۔

"ماشاءالله!!!۔۔۔"

اسکے چہرے کی پیار سے چھوتیں وہ انھیں مہمان خانے میں لے آئیں۔۔۔

نگہت نے اشارہ کیا تو مشائم "میں ابھی آئی" کہہ کر باہر چلی آئی۔۔

وہ دونوں زور سے گلے ملیں۔۔ "مشی بی بی میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔۔۔۔"

اس کے پرخلوص لہجے پر وہ مسکرائی۔۔

"میں نے بھی تمہیں مس کیا نگہت!!!۔۔۔"

وہ پیار سے بولی۔۔

اپنے کھڑوس صاحب کا بتائیں جی وہ کیسے ہیں؟؟؟

اسکے شرارت سے پوچھنے پر وہ مسکراتی ہوئی نگاہیں جھکا گئی۔۔

"وہ بہت اچھے ہیں!!!۔۔۔"

اسکے انداز دیکھ کر نگہت اٹھلائی۔۔

"ا وہو!!!۔۔۔ بڑی بات ہے جی۔۔۔"

مشائم شرمگیں مسكان چہرے پر سجاتی اس جانب جھک کر سرگوشی میں بولی

" ہاں نہ ۔۔۔۔ وہ۔۔۔بہت۔۔۔رومینٹک ہیں!!!۔۔۔"

اسکا کہنا ہی تھا کہ نگہت کھانسنے لگی۔۔

"وہ کھڑوس رومینٹک ہے۔۔ اللّه!!! مجھے یقین کیوں نہیں آ رہا ؟؟

وہ پراندہ جھلاتی دانت نکال کر بولی۔۔

مشائم نے اس کی کمر میں ہلکا سا مکا مارا۔۔۔

"تم یقین دلاتی رہو خود کو ۔۔۔ میں جاتی ہوں اندر یوسف کو برا نہ لگ جائے!!!۔۔۔"

🌚🌚🌚

طے یہ پایا کہ ٹھیک ایک ہفتے بعد "ماہ بیر اور ارشما کی شادی کی تقریبات منعقد کی جائیں گی۔۔۔ تب تک بی جان اور ارشما ، مشائم کے ساتھ جائیں گی۔۔

کھانے سے فارغ ہو کر وہ وقت سے ہی حویلی سے نکل گئے تھے تا کہ اندھیرا ہونے سے پہلے ہی گاؤں پہنچ جائیں۔۔ انجم نے بہت محبّت سے ان کا استقبال کیا تھا۔۔

سفر سے تھکے ہارے وہ جلد ہی آرام کی غرض سے بستروں میں گھس گئے۔۔

بی جان کے ساتھ چت لیٹی ارشما نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور ان کے سونے کا اطمینان کرتی دبے قدموں باہر چلی آئی۔۔

باہر قدم رکھتے ہی وہ ٹھٹھڑ گئی۔۔ رات کی کالی سیاہ زلفوں میں بدلیوں کے ٹکڑے جیسے اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے تھے۔۔

اس نے موبائل پر وقت دیکھا۔۔ بارہ بج رہے تھے۔۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ چھت پر چلی آئی۔۔

اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔ وہ ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتی خود کو یقین دلانے کی کوشش کررہی تھی کہ اس کی زندگی میں بھی خوشیاں ہوں گی ماہ بیر کی صورت میں۔۔

کتنا چاہتا تھا وہ اسے۔۔ اس نے چھت پر ٹہلتے موبائل آن کرتے یونہی ماہ بیر کی چیٹ کھولی۔۔

اس کی پروفائل پکچر زوم کر کے دیکھتی وہ دھیما سا مسکرائی۔۔ دل میں میٹھا میٹھا سا احساس جاگنے لگا تھا۔۔۔ ماہ بیر کو آن ہوتے دیکھ کر وہ ہڑبڑا گئی۔۔

ماہ بیر کا فورا میسج آیا۔۔ "آپ جاگ رہی ہیں؟ چلیں اچھا ہے،، آ کر آپ کو جگانا نہیں پڑے گا!!!۔۔۔"

ارشما ناسمجھی سے اس کے میسج کو دیکھے گئی۔۔ اس نے جواباً لکھا۔۔

" کیا مطلب؟؟۔۔۔"

ماہ بیر : "مطلب یہ کہ میں دو منٹ تک پہنچ رہا ہوں آپ کے پاس آپ چھت پر چلی جائیں۔۔ بی جان کی موجودگی میں میں آپ سے ٹھیک طرح مل نہیں پاؤں گا نہ اور شال لے کر جائیے گا!!!۔۔۔"

ارشما کی دھڑکن تیز ہوئی۔۔ وہ رات کے اس پہر اس سے ملنے آ رہا تھا۔۔

اپنے کہے کے مطابق وہ ٹھیک دو منٹ بعد وہ آہستہ سے چابی لگا کر دروازه کھول کر چھت پر چلا آیا۔۔

بلیک لیدر کی جیكٹ جینز میں وہ اس کے سامنے تھا۔۔ ارشما نے ملگجے اندھیرے میں اسے دیکھا۔۔

وہ اس کی جانب بڑھا تھا اور اسکی کمر میں بازو حائل کرتے اسے سینے سے لگاتا اسکے بالوں میں منہ چھپا گیا۔۔ ارشما نے اسکا لمس محسوس کرتے سرور سے آنکھیں موندیں اور اس کی کمر کے گرد بازو کا نازک حصار قائم کر دیا۔۔

اسے محض دوپٹہ لاپرواہی سے کاندھے پر ڈالے دیکھ کر ماہ بیر نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔۔

"میں نے کہا تھا شال اوڑھ لیجیئے گا"

اپنی جیکٹ کھول کر اسے سینے میں بھینچ کر وہ اس کا چہرہ بلند کرتا نرمی سے کہنے لگا۔

"میں آپ کے کہنے سے پہلے سے ہی چھت پر موجود تھی!!!۔۔۔"

وہ اس کی آنکھوں میں ایک پل کو دیکھتی نظریں جھکا گئی۔۔

ہوا سے اس کے ہونٹ پر آ کر ٹھہرتی لٹ کو ماہ بیر نے انگلی کی پور سے پیچھے ہٹایا۔۔

"آپ سوئی کیوں نہیں ؟ کیا میری یاد آ رہی تھی ہممم؟؟؟۔۔۔۔"

وہ جھک کر زور سے اس کا گال چومتا کہنے لگا۔۔۔ اس کے کس کرنے پر وہ اس کی شرٹ مٹھی میں دبوچتی حیا سے آنکھوں پر پلکوں کی جھالر گرا گئی۔۔

"یار ویسے تو آپ بہت بولتی ہیں لیکن تنہائی میں میرے ساتھ آپ کی آواز کیوں بند ہوجاتی ہے؟؟"

وہ کہتا شرارت سے لب کا کونہ دانتوں میں دبا گیا۔۔۔

ارشما نے حلق تر کرتے اسے دیکھا۔۔۔ اس کے حلق تر کرنے پر ماہ بیر نے گہری نظر سے اسکی گردن کو دیکھا۔۔

"مجھے شرم آتی ہے!!!۔۔۔۔"

وہ اسکی شرٹ کے بٹن سے کھیلتی معصومیت سے بولی تو اس کی اس ادا پر ماہ بیر سلطان گهايل ہوا تھا۔۔

"کیوں شرم آتی ہے؟؟ میرے چھونے پر؟؟

وہ اس کے چہرے کو قریب کرتا بوجھل آواز میں بولا۔۔ ارشما نے اسکی گہری بولتی نظروں سے چھپنے کے لیے اسی کے سینے میں منہ چھپايا تھا۔۔

ماہ بیر کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آئی۔۔ اس نے ارشما کا چہرہ اوپر اٹھایا اور اسکی گردن کو دیکھتا یک دم جھکا تھا۔۔

اسکی شاہ رگ کو شدت سے لبوں سے چھوتا وہ مدہوش ہونے لگا۔۔۔

شدید سردی میں دو پرحرارت جسموں کو آپس میں مگن پا کر رات کی رانی شرمائی تھی۔۔

ارشما آنکھیں سختی سے میچے گردن پر اسکی داڑھی کی چبھن اور ہونٹوں کا لمس محسوس کرتی لڑکھڑائی تھی۔۔ ماہ بیر نے اس کی گردن پر جھکے ہی اسکی کمر میں ہاتھ گاڑتے اسے خود میں بھینچا۔۔۔

ارشما کی سانسیں پھولنے لگیں۔۔

"ماہ بیر ۔۔کوئی ۔۔ آ ۔۔۔جائے گا۔۔۔!!!"

وہ اس کے سر کے بال ہاتھ میں نوچتی اسکا سر اٹھانے کی کوشش کرنے لگی جو اس کی گردن پر جھکا پیچھے ہٹنا ہی بھول گیا تھا۔۔۔

رات لمحہ بہ لمحہ گزر رہی تھی۔۔ وقت کا احساس ہوتے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے ہٹا۔۔

"آپ ایک بار مکمل میری دسترس میں آئیں پھر ماہ بیر کی شدتوں کی انتہا دیکھئے گا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تب آپ کو کوئی رعایت نہیں ملے گی!!!۔۔۔"

اس کا ہونٹ سہلاتے وہ پلٹ گیا اور جس خاموشی سے آیا تھا اسی خاموشی سے چلا گیا۔۔۔

اس کے جاتے ہی ارشما نے نیچے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔ وہ جلدی سے بیڈ پر چت لیٹتی اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی۔۔ سردی میں بھی اس کا جسم پسینے سے بھیگ چکا تھا۔۔۔ اس کی باتیں یاد آنے پر اس نے شرما کر چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپایا تھا۔۔

🌚🌚🌚

صالح نے کروٹ بدلی۔۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔ ہمیشہ کی طرح وہ شرٹ سے بےنیاز لیٹا ہوا تھا۔۔

اس سے برابر لیٹی مشائم سفر کی تكان کے باعث گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہی تھی۔۔

اس کے ادھ کھلے لبوں نے صالح کو بےچین کر رکھا تھا۔۔ "مجھے بےچین کر کے خود سکون سے سورہی ہیں!!!۔۔۔"

اس نے بلینکٹ کھینچ کر دونوں پر اوڑھائی اور اس کے قریب ہوتا اس کی کمر سے شرٹ اٹھا کر اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔

وہ نیند میں کسمساتی اس کی جانب کروٹ بدل گئی۔۔

یوں کروٹ بدلنے سے اس کا گہرا گلا مزید نمایاں ہونے لگا۔۔ صالح کی آنکھوں میں خمار اترا۔۔

اس نے مشائم کی گردن کے نیچے سے ہاتھ گزار کر اسے ذرا بلند کیا یوں کہ اس کا سر نیچے جبکہ گردن اور سینہ اسکے سامنے تھا۔۔

وہ مذید برداشت نہ کرتے بےخود سا جھکا اس کی گردن پر ناک سہلانے لگا۔۔

اسکی گردن میں گہرے سانس بھرتے وہ اس کی خوشبو کی اپنے اندر اتارنے لگا۔۔

اچانک گرمی کا احساس ہونے اور اپنے اوپر بوجھ محسوس کرتے مشائم نے آہستہ آہستہ آنکھیں وا کیں۔۔۔

صالح کے لب گہرے گلے کی جانب جاتے محسوس کر کے اس کی سانسیں منتشر ہوئیں۔۔

اس نے نظریں جھکا کر کانپتے ہاتھوں سے اس کے بال پکڑتے اس کا سر اوپر اٹھایا۔۔

صالح نے سرخ خمار زدہ آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔ اپنے سر سے اس کا ہاتھ ہٹا کر اس نے جھٹکے سے بلینکٹ پیچھے پھینکی۔۔

بلینکٹ ہٹتے ہی اس کی نگاہ مشائم کے پیٹ پر پڑی جہاں سے وہ پہلے ہی شرٹ ہٹا چکا تھا۔۔

مشائم کی آنکھیں پھیلیں ۔۔۔ اس نے گهبرا کر اٹھنا چاہا کہ اس سے پہلے ہی وہ اس کی کمر کے گردن دونوں ہاتھ رکھتے جھکا اور اس کے پیٹ پر لو بائیٹس کرنے لگا۔۔

اس کی شدتوں کے سرخ نشان مشائم کے پیٹ پر نقش ہوتے جا رہے تھے۔۔۔

اس کے زور سے کاٹنے پر مشائم کے منہ سے سسكی نکلی۔۔۔ "یوسف ۔۔۔ مجھے سانس ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ وہ بات ادھوری چھوڑتی گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔

"اف"۔۔۔!!! اس کے سینے کے زیر و بم کو دیکھ کر صالح نے گردن پر ہاتھ پھیرتے سر جھٹکا۔۔

اپنے بےلگام ہوتے جذبات کو لگام ڈال کر وہ اٹھا اور مشائم کو بٹھا کر ساتھ لگاتا اسکی پیٹھ سہلانے لگا۔۔۔

"سب ٹھیک ہے،،، گہرے گہرے سانس لیں!!!۔۔۔"

اسے نرمی سے کہہ کر اس نے پانی کا گلاس پکڑ کر اس کے ہونٹوں سے لگایا۔۔

وہ گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔۔ پیاس بجھا کر اس نے منہ پیچھے کیا تو صالح نے گلاس واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔

بیڈ پر چت لیٹ کر سر کے نیچے دونوں ہاتھ رکھتے وہ اسے دیکھے گیا۔۔

"کیا ہوا تھا آپ کو؟؟؟۔۔۔"

اسکی بات پر مشائم خفگی سے اس کی طرف مڑی۔۔۔

خود سب کر کے کہہ رہے ہیں کیا ہوا تھا۔۔۔؟؟؟

وہ اس کے پھولے کسرتی سینے پر مکا مارتی خفا لہجے میں بولی۔۔

"میں نے؟؟ میں نے کیا کیا؟؟۔۔۔"

وہ از حد معصومیت سے بولا۔۔

اس کے اس قدر معصوم بننے پر مشائم عش عش کر اٹھی۔۔۔ "آپ نے میری نیند خراب کر کے وہ سب کیا جس کی وجہ سے مجھے سانس نہیں آرہی تھی ٹھیک سے!!!۔۔۔"

وہ اسکی داڑھی کھینچ کر پیچھے ہٹنے لگی کہ صالح نے اسکی کمر تھامتے اسے اپنے سینے پر گرایا۔۔

"کیا سب کیا میں نے جس کی وجہ سے آپ کو سانس نہیں آرہی تھی؟؟؟۔۔۔"

وہ بھاری لہجے میں کہتا ہلکا سا مسکرایا۔۔

مشائم نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے نظریں جھکائیں۔۔

اف اف!!! نظریں جھکانے پر اسکا كسرتی پھولا ہوا سینہ اسے دکھائی دیا جبکہ نظریں اٹھانے پر اس کی لو دیتی نظروں کا سامنا کرنا اس کے لیے محال تھا۔۔

وہ نظریں جھکائے دھیمی آواز میں کہنے لگی۔۔۔

"آپ نے۔۔ ٹچ کیا ۔۔ اور۔۔۔ کس ۔۔ بھی ۔۔۔ اور بائٹ بھی!!!۔۔۔" وہ اٹک اٹک کر اسے اسکی سب خطائیں بتانے لگی۔۔

صالح اس کی معصومیت پر دلکشی سے ہنس پڑا۔۔ وہ سر اٹھا کر یک ٹک سی اسے ہنستا دیکھے گئی۔۔

"خود آپ مجھے اس مقام تک لاتی ہیں جہاں مجھے آپ کو "ٹچ اور کس" کرنا پڑتا ہے۔۔ یہ دیکھیں اب کس طرح مجھ معصوم کو دیکھ رہی ہیں آپ پھر کیسے نہ میں بہکوں؟؟؟۔۔۔"

وہ معصومیت سے بولا تو مشائم عش عش کر اٹھی۔۔۔ اس نے صالح داڑھی پر ہاتھ رکھتے ہلکے سے اس کی داڑھی کے بال کھینچے۔

" سب جانتی ہوں میں کتنے معصوم ہیں آپ،،، سو جائیں اب دو بجنے والے ہیں!!!۔۔۔"

آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتی وہ اس کے سینے سے اٹھنے لگی کہ صالح نے کہا۔۔

" آپ کی وجہ سے میری نیند اڑی ہے اب آپ ہی سلائیں گی مجھے!!!۔۔۔"

وہ اطمینان سے کہتا اسکے تاثرات دیکھنے لگا جو ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

"میں نے خراب کی؟؟؟۔۔۔"

اس کے پوچھنے پر صالح نے آرام سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ مشائم نے گہری سانس خارج کی اور تکیے سے ٹیک لگا کر بازو پھیلا لیے۔۔

صالح نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔۔

"آ جائیں اب سلاؤں آپ کو!!!۔۔۔"

اس کے بازو پهیلانے پر صالح ذرا سا اٹھ کر اس کے قریب ہوا تو مشائم نے اس کا سر سینے سے لگا لیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔۔۔

صالح نے سرور سے آنکھیں موندتے اس کے سینے میں چہرہ چھپایا اور اس کے گرد بازو حائل کر دیے۔۔

مشائم نے حیا آمیمز مسکراہٹ سے اسے دیکھا اور جھک کر اس کا سر چومتی خود بھی آنکھیں موند گئی۔۔۔

بلڈ ریڈ لهنگے میں سر پر گھونگھٹ ڈالے وہ اورهان کے کمرے میں روایتی دلہنوں کی طرح بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی۔۔

کچھ پل کے انتظار کے بعد بلیک چیک پینٹ اور بلیک شرٹ میں کوٹ دائیں بازو پر ڈالے وہ کمرے میں داخل ہوا اور دروازه لاک کر دیا۔۔

کلک کی آواز پر اینارا نے گهبراہٹ سے دونوں ہاتھ آپس میں بھینچے تھے۔۔

گھونگھٹ میں سکڑی سمٹی بیٹھی اپنی کچھ منٹ پہلے بنی بیوی کو اسنے گہری مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔ کوٹ کو بیڈ پر ڈال کر وہ ایک ٹانگ موڑ کر بیڈ پر اس کے مقابل بیٹھا۔۔

اس کے بدن سے اٹھتی خوشبو پر اینارا خود میں مذید سمٹی تھی۔۔۔ اورهان نے ہاتھ بڑھا کر اس کا گھونگھٹ اٹھا دیا۔۔

اسکی نگاہیں جامد ہوئی تھیں۔۔ وقت جیسے وہیں رک گیا تھا۔۔ وہ بےخود سا اس کے چہرے کو تکنے لگا۔۔ مومی گڑیا جیسے نقوش میں گالوں پر لالی اور ہونٹوں پر بلڈ ریڈ لپسٹک نمایاں تھی۔۔

ناک میں پہنی نتھ نے اورهان کو عجیب سے انداز میں اپنی جانب کھینچا تھا۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر انگلی کی پور سے اسکی نتھ کو چھوا۔۔

"مجھے یہ سب خواب لگ رہا ہے!!!۔۔۔"

وہ اسکا ہاتھ تھام کر اسکی مهندی کی خوشبو سانسوں میں اتارتا آنکھیں موند گیا۔۔۔

اینارا نے کانپتی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا جو آنکھیں موندے اس کا ہاتھ چوم رہا تھا۔۔۔

اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔

"اورهان؟؟؟۔۔۔۔"

اس نے سرگوشی کی تو وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا جس کی آنکھیں نم تھیں۔۔۔

وہ آگے بڑھتی اس کے سینے سے لگتی اس کے گرد بازو حائل کر گئی۔۔

اورهان نے نرمی سے اسکے گرد حصار بناتے اس کے کندھے پر چہرہ ٹکا لیا۔۔۔

"یہ خواب نہیں حقیقت ہے کہ میں اس وقت آپ کی بیوی کی حیثیت سے آپ کی دسترس میں ہوں!!!۔۔۔"

اینارا نے اس کے سینے سے سر اٹھا کر اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے مسکرا کر کہا۔۔۔

اورهان کے سوئے جذبات اس کی قربت میں جاگ اٹھے تھے۔۔۔

"ہمم!!!۔۔۔۔

بیوی کی حیثیت سے!!!

اس کا مطلب سمجھ رہی ہیں آپ؟؟؟۔۔۔"

وہ اس کے چہرے پر جھکتا پھونک مار کر بولا تو اینارا سرعت سے پیچھے ہٹی۔۔۔

اورهان کی زو معنی بات پر اسکی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں۔۔

"یہ آپ کی منہ دکھائی!!!۔۔۔"

اورهان نے ایک خوبصورت سا ڈائمنڈ نیکلیس اس کی جانب بڑھایا۔۔ اینارا نے اس کا شکریہ ادا کرتے باكس تھام لیا۔۔ "بہت پیارا ہے!!!۔۔۔"

وہ نرمی سے بولی۔۔

"آپ سے کم!!!۔۔۔"

اورهان یک ٹک اس کے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

اینارا کی جھکی کانپتی پلکوں کو دیکھ کر وہ مذید بولا "نیکلیس اس لیے نہیں پہنایا کہ کچھ دیر بعد پھر اتارنا ہی ہے!!!۔۔۔"

اسکی زو معنی بات پر اینارا کا چہرہ شرم سے مذید سرخ ہوا تھا۔۔

"مم۔۔۔میں چینج کر لوں!!!۔۔۔"

اورهان کو شرٹ کے بٹن کھولتے دیکھ کر وہ گهبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

"اونہوں!!! میں کس لیے ہوں؟؟۔۔۔"

وہ اس کے مقابل کھڑا ہوا اور بھاری کامدار دوپٹے سے پنیں اتار کر دوپٹہ اس کے تن سے جدا کر دیا۔۔

آہستہ آہستہ وہ اس کا زیور اتارنے لگا۔۔ اینارا نظریں جھکائے ہاتھوں میں لهنگا بھینچ کر کھڑی تھی۔۔۔

اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ اس کی دھڑکنیں اورهان کو بھی سنائی دے رہی تھیں۔۔۔۔

خاموش کمرے میں دونوں کے سانس لینے اور دل دھڑکنے کی آوازیں واضح تھیں۔۔

اپنے انتہائی ضروری کام سے فارغ ہو کر اس نے اینارا کو بانہوں میں بھرا اور نازک پھول کی طرح آرام سے بیڈ کے بیچوں بیچ لٹا دیا۔۔۔

دوپٹے سے بےنیاز سرخ لهنگے کُرتی میں بیڈ پر چت لیٹی وہ اورهان کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر نظریں جھکا گئی۔۔۔ اس کے قریب پہنچنے تک وہ تن سے شرٹ جدا کر چکا تھا۔۔ اینارا کے دائیں بائیں دونوں ہاتھ ٹکاتے وہ جھکا تو اینارا نے گھبرا کر جھکی نظریں اٹھائیں۔۔

اس کا کسرتی پھولا سینہ سامنے پا کر اس نے پٹ سے آنکھیں بند کر دیں۔۔

اسکی اس حرکت پر اورهان دلکشی سے مسکرا پڑا۔۔

سائیڈ ٹیبل سے ٹشو پکڑ کر اس نے اینارا کے لبوں سے لپسٹک صاف کی۔۔

اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر وہ پوری شدت سے اس کے لبوں کو چومنے لگا۔۔

اینارا کی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔ اس نے اورهان کی گردن کے گرد بازو رکھتے اسے پیچھے دهكیلنا چاہا جو بے خود سا اسکی سانسیں اپنے اندر انڈیل رہا تھا۔۔

اورهان نے اس کے نچلے لب کو ہونٹوں کی گرفت میں لیتے زور سے دبایا تو وہ گہرے گہرے سانس لیتی اس کی گردن پر ناخن مارنے لگی۔۔۔

اس کے لبوں کو آزادی بخشتے وہ اسکی ٹھوڑی کو چوم کر "جاء لائن" تک آیا اور اس پر اپنی ناک سہلاتا اس کی مہک محسوس کرنے لگا۔۔۔

اسکا شدت بھرا لمس محسوس کرتے اینارا پاگل ہونے لگی۔۔۔ اس نے تکیے کو زور سے ہاتھ میں بھینچا تھا۔۔

اورهان نے سر اٹھا کر اسکی بکھری حالت کو دیکھا جو آنکھیں زور سے بند کئے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں اپنی انگلیاں گاڑ کر اس نے سر سے بلند کرتے بیڈ سے پن کر دیا جس سے اس کے جسم کے نشیب و فراز مذید نمایاں ہونے لگے۔۔

وہ بے خود سا سرخ خمار زدہ آنکھوں سے اس کے نازک بدن پر گہری نظر ڈالتا اس کی شفاف گردن میں منہ دیتا پوری شدت سے جا بجا چومنے لگا۔۔۔

اینارا کی سانس سینے میں اٹکی تھی۔۔۔ اپنے اوپر اسکا بھاری وجود محسوس کرتے اس نے حلق تر کرتے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے دور دهكیلنے کے لیے زور لگایا لیکن وہ ہر چیز سے بےنیاز اس کی گردن میں گہرے سانس لیتا اسکی خوشبو کو سانسوں میں اتار رہا تھا۔۔۔

"اور۔۔ہان۔۔ بہت ۔۔۔ بھاری ۔۔۔ ہیں ۔۔آپ ۔۔۔ اٹھ۔۔یں ۔۔ میرا سانس ۔۔ بند ۔۔ ہورہا ہے!!!۔۔۔"

اس کی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی شدتوں پر بے حال ہوتی وہ پھولتی سانسوں کے بیچ اٹک اٹک کر بولی۔۔۔

اورهان نے اسکی گردن پر ہلکا سا کاٹا اور اس سے کچھ فاصلے پر ہوا۔۔۔ اسکے حصار میں ہی اینارا نے سرعت سے كروٹ بدلی تو اسکی نازک کمر اورهان کے سامنے آ گئی۔۔۔ اس نے لب دبا کر اسکی کمر کو دیکھا اور جھٹکے سے زپ کھول دی۔۔۔

اینارا کی سانس تھمی تھی۔۔

"لائٹ آف کر دیں پلیز!!!۔۔۔"

وہ حلق تر کرتے ہلکی سی آواز میں بولی۔۔

اورهان نے مسکراتی گہری نظر اس پر ڈالی اور لائٹ آف کر کے اس کی پشت پر جا بجا اپنے لب رکھتا اسے سمٹنے پر مجبور کر گیا۔۔۔

وہ اپنی پشت پر اسکے لبوں کے لمس پر بے حال ہوتی آنکھیں میچے اوندھی پڑی تھی۔۔

اچانک اورهان نے اسے کمر سے تھام کر سیدھا کیا اور اس کے پیٹ سے شرٹ اٹھا دی۔۔۔

اس کی پتلی بل کھاتی کمر نے میر اورهان کو پاگل کیا تھا۔۔۔ وہ ضبط کھوتا جھکا اور اس کمر پر ناک سہلا کر جا بجا "لو بائٹس" کرنے لگا۔۔۔

اس کی بیلی پر چہرہ رگڑتے اورهان نے اسکی ناف کو شدت سے چوما۔۔۔

اینارا نے دونوں ہاتھوں میں چادر دبوچتے زور زور سے سانس لیا۔۔۔ اس کے پیٹ سے ناک سہلاتا وہ اوپر کا سفر طے کرنے لگا۔۔

اس کے گہری گلے تک آتے اورهان نے جھٹکے سے اس کے کندھوں سے شرٹ کھسکائی۔۔

اس کے سینے کے مقام پر شدت سے لب رکھتے وہ اسکے وجود کی گہرائیوں میں اترتا چلا گیا۔۔۔۔

🌚🌚🌚

اینارا کے اقرار کے بعد اورهان اسے اور شائستہ کو ساتھ لیے واپس چلا آیا تھا اپنے گھر ۔۔۔

یہاں آتے وہ عجیب سے احساسات میں مبتلا ہوا تھا۔۔ اس نے سب سے پہلے ہیڈ سرونٹ سے رابطہ کیا جو بےیقین ہوتا دوڑا چلا آیا تھا۔۔

وہ بہت خوش ہوا تھا اورهان کو دیکھ کر۔۔۔

یوں باقی ملازمین بھی اسکی واپسی کی خبر سن کر اس سے ملنے چلے آئے اور خوشی خوشی اپنے کام سنبهال لیے۔۔ اینارا اور شائستہ کی رضامندی پر آج دونوں کا سادگی سے نکاح کروا دیا گیا۔۔

دونوں ایک دوسرے کو پا کر بے حد خوش تھے۔۔ یوں محبت کا ایک باب مکمل ہوا تھا۔۔۔

🌚🌚🌚

وہ ابھی ابھی ارشما اور صالح کے ساتھ شاپنگ کر کے گھر لوٹی تھی۔۔۔ گھر میں قدم رکھتے ہی مہمانوں کا شور ان کے کانوں میں پڑا تھا۔۔

"آپ پچھلی طرف سے چلی جائیں اندر،،، مجھے کام ہے کچھ ۔۔۔ ملتا ہوں بعد میں!!!۔۔۔"

صالح کے جانے کے بعد وہ دونوں اندر چلی آئیں۔۔ فلحال انہوں نے انجم کے کمرے میں ڈیرہ ڈالا تھا۔۔

"ارشما بھابھی آپ فریش ہو کر چینج کر لیں ۔۔۔ پھر میں تیار کرتی ہوں آپ کو،، مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں!!!۔۔۔"

وہ شاپنگ بیگز سے ڈھونڈ کر کپڑے نکال کر اسے تھماتی عجلت میں بولی۔۔

ارشما کپڑے تھام کر جلدی سے باتھروم میں گھس گئی۔۔۔ "یار میرے کپڑے کہاں رکھے ہیں آپ نے؟؟؟۔۔۔"

صالح کمرے میں آتا پوچھنے لگا۔۔ پھولوں کے زیورات بیڈ پر پھیلا کر بیٹھی مشائم نے سر اٹھا کر عجلت میں کہا

"کبرڈ میں سامنے ہی تو ہینگ ہیں دیهان سے دیکھیں نہ!!!۔۔۔"

اس کے مصروف انداز پر صالح اس کے پاس آیا اور اسے مقابل کھڑا کر کے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود سے لگایا۔۔

"آپ مجھے اگنور کررہی ہیں؟؟۔۔۔"

مشائم نے گھبرا کر واشروم کے دروازے کو دیکھا۔۔

"کیا کر رہے ہیں بھابھی ہیں واشروم میں!!!۔۔۔"

وہ منمنائی۔۔۔

"میری بات کا جواب دیں پہلے۔۔۔"

وہ بضد ہوا۔۔۔

مشائم نے اس کے گال پر ہاتھ رکھا۔۔۔

"میں کیوں اگنور کروں گی آپ کو؟؟"

پیر اٹھا کر اس کی ٹھوڑی چوم کر وہ پیچھے ہٹی تو صالح بھی مطمئن ہوگیا۔۔

"آپ چینج کر لیں نہ اب ۔۔۔ مہمان آ گئے ہیں۔۔۔ میں بھابھی کو تیار کر کے آتی ہوں کمرے میں!!!۔۔۔"

اس کے پیار سے کہنے پر وہ مسکرا کر سر ہلاتا چلا گیا۔۔۔۔اسکے جاتے ہی ارشما باہر نکلی۔۔

نارنجی رنگ کے لهنگے چولی میں وہ آرام سے چلتی اس کے پاس آئی۔۔

"واؤ کتنا جچ رہا ہے آپ پر یہ لهنگا!!!"

مشائم کے ستائشی انداز پر وہ مسکرا دی۔۔ اس نے جلدی سے مهندی کی مناسبت سے ارشما کو ہلکا پھلکا تیار کیا پھولوں کے جهمکے پہنا کر ماتھا پٹی اس کی مانگ میں سجا دی۔۔۔ دوپٹہ اس کے سر پر سیٹ کر کے مشائم نے ایک طائرانہ نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔

"اللّه!!! کس قدر پیاری لگ رہی ہیں آپ ۔۔ بھائی تو گئے کام سے!!!۔۔۔"

وہ شرارت سے بولتی اسے چھیڑنے لگی تو ارشما نے چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔۔

اس کے یوں شرمانے پر مشی کھلکھلا دی۔۔

"آپ یہیں بیٹھیں میں تیار ہو کر آتی ہوں پھر آپ کی مهندی کی رسم شروع کریں گے!!!"

پیار سے اسے کہتی وہ اپنا شاپنگ بیگ اٹھا کر کمرے میں چلی آئی جہاں صالح آئینے کے سامنے کھڑا سیاہ کرتے کے بٹن بند کررہا تھا۔۔

جسم سے چپکے کرتے میں اس کا کسرتی جسم نمایاں ہورہا تھا۔۔ اسے سیاہ کرتے پاجامے میں دیکھ کر مشائم کو کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔۔

وہ جانتی تھی اسے سیاہ رنگ بہت پسند تھا اور اس پر بلا کا جچتا تھا۔۔

وہ ڈارک گرین غرارہ شرٹ نکال کر باتھروم میں چلی گئی۔۔۔ پانچ منٹ بعد ہی وہ باہر نکل آئی۔۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سٹول پر بیٹھے صالح نے گردن گھما کر اسے دیکھا جو ڈارک گرین غرارہ شارٹ شرٹ میں دوپٹے سے بےنیاز اس کا دل گھائل کر گئی تھی۔۔۔

اسے جوں کا توں دیکھ کر مشائم اس کے پاس آئی اور اس کے سامنے کھڑی ہوتی برش تھام گئی۔۔

صالح نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو نرمی سے اس کے بال سنوارنے لگی تھی۔۔

اس کے یوں سر اٹھا کر دیکھنے پر مشائم کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔

"کتنے پالے پالے شے شونے مونے ہیں آپ!!!۔۔۔"

وہ اسکا گال کھینچ کر سیدھی ہوئی کہ صالح نے اسکی بیلی کے گرد بازو حائل کرتے اپنا چہرہ اس میں چھپایا تھا۔۔۔ مشائم نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائیں۔۔۔

"میں تیار ہو جاؤں؟؟"

وہ نرمی سے بولی تو صالح اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

فنکشن کے بعد فرصت سے ملتے ہیں!!!۔۔۔"

اس کے گال پر ہاتھ کی پشت پھیرتا وہ کرتے کے بازو کہنیوں تک موڑتا باہر چلا گیا تو وہ بھی حیا آمیز مسکراہٹ سے آئینے کے سامنے آتی اس کے لیے سنگهار کرنے لگی۔۔۔

🌚🌚🌚

لیمن کلر کرتے اور سیاہ کھلے گھیر کی شلوار میں سیاہ شال کاندھوں پر پھیلائے وہ اٹھ کر کسی مہمان سے ملا تھا۔۔۔مهندی کی رسم جاری تھی۔۔۔

ناچ گانے کا تو تصور نہیں تھا البتہ ڈول پیٹے جا رہے تھے وقفے وقفے سے۔۔۔

آخر کو سردار ماہ بیر سلطان کی مهندی تھی۔۔ ہر شخص بے حد خوش تھا۔۔۔

صالح کچھ دیر پہلے حویلی پہنچا تھا اور عبداللّه شاہ کے ساتھ انتظامات دیکھ رہا تھا۔۔

نگہت عارفہ کی ہدایت پر ملازمین کی کڑی نگرانی کررہی تھی تا کہ کہیں گڑبڑ نہ ہوجائے۔۔۔

کھانے کا دور چلا تو صالح ماہ بیر کے پاس چلا آیا۔۔۔ "کیوں ۔۔۔کیسا لگ رہا ہے؟؟؟۔۔۔"

وہ مسکراہٹ دبا کر بولا تو وہاں سے گزرتی نگہت نے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا۔۔۔

"ہائے اللّه یہ یوسف سڑا کریلا مسکرا رہا ہے؟؟ نگہت ۔۔۔ تو اپنی گناہگار آنکھوں سے کیا دیکھ رہی ہے؟؟"

وہ انہیں دیکھتی خودکلامی کررہی تھی کہ ماہ بیر کی گھوری پر سٹپٹا کر وہاں سے بھاگ گئی۔۔

ماہ بیر نے صالح کو دیکھتے کہا " بہت اچھا لگ رہا ہے ۔۔ ٹیچر جی کو اب میں پڑھاؤں گا!!!۔۔۔"

وہ زو معنی مسکراہٹ سے بولا تو صالح کو شدید ہنسی آئی۔۔

"کیا پڑھائیں گے؟؟؟۔۔۔"

ماہ بیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔

"رومینس کی "اے بی سی" جو تم حفظ کر کے بیٹھے ہو!!!۔۔۔"

وہ صالح کی جانب جھکتا بلا لحاظ بولا تو صالح کا زبردست قہقہہ گونجا۔۔۔

"مجھ معصوم کو ایسے مت دیکھیں مجھے تو پتہ ہی نہیں یہ ہوتا کیا ہے!!!۔۔۔"

ہنسی پر قابو پاتا وہ ماہ بیر کو دیکھتا معصومیت سے بولا۔۔

نظر بچا کر ماہ بیر نے اسکی کمر میں دھموکہ جڑا۔۔

"بےشرم انسان جیسے میں تمہیں جانتا نہیں ہوں!!!۔۔۔" صالح مسکراہٹ دباتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

"میں بھی تمہیں خوب جانتا ہوں اور بھابھی کے شرمانے کا راز بھی!!!۔۔۔"

اس کے جتاتے انداز پر ماہ بیر نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا تو وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔

🌚🌚🌚

"مشائم اور کتنی دیر ہے میں تھک گئی ہوں بہت!!!۔۔۔"

ارشما کے تھکن زدہ لہجے پر مشائم نے اسے دیکھا۔۔

"بس کچھ دیر پھر میں لے جاتی ہوں آپ کو کمرے میں!!!۔۔۔"

وہ اس کا ہاتھ دبا کر بولی۔۔ انجم کے بلانے پر وہ ان کی طرف چلی گئی۔۔

سب عورتیں ستائشی نظروں سے مشائم اور ارشما کو دیکھ رہی تھیں جو بےحد حسین لگ رہی تھیں۔۔

فنکشن بہت اچھا رہا تھا۔۔ نوجوان لڑکیوں نے خوب ہلا گلا کیا۔۔

کھانے کے بعد مشائم نے یہ انجم کے کمرے میں ٹھہرایا ۔۔ بی جان اور انجم نے اس کے آرام کی غرض سے دوسرے کمرے میں رہنے کا سوچا۔۔

آہستہ آہستہ آدھے سے زیادہ مہمان چلے گئے تب صالح ماہ بیر کے ساتھ گھر کے باہر پہنچا۔۔

ماہ بیر کو باہر رکنے کا کہتے اس نے اندر جھانکا اور مشائم کو ڈھونڈنے لگا۔۔

وہ اسے ایک طرف جاتی نظر آ ہی گئی۔۔

"شش!!" صالح کے دو تین بار بلانے پر اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔ اس کے اشارہ کرنے پر وہ ناسمجھی سے اسے دیکھتی اس کے پاس آئی۔۔

"کیا ہوا؟؟"

صالح نے نظروں سے باہر کی جانب اشارہ کیا۔۔۔

"آپ کے بھائی جان آئے ہیں ان سے ملنے!!!۔۔"

مشائم نے مسکراہٹ دبائی۔۔

"تو مجھے کیوں بلایا آپ نے؟؟۔۔۔"

صالح نے گہری سانس لیتے افسوس سے اسے دیکھا۔۔

"یہ خواتین کا اوپر والا خانہ خالی کیوں ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔"

اس کی بات پر مشائم نے خفگی سے کہا "میں دیہان بٹاتی ہوں ان کا آپ لے جائیں بھائی کو اندر ،، امی جان کے کمرے میں ہیں وہ!!!۔۔۔"

اسے تیکھی نظروں سے دیکھتی وہ اندر چلی گئی۔۔

صالح نے سر جھٹکا۔۔

"لگتا اب جناب کی خیر نہیں!!!۔۔۔"

ماہ بیر نے مزے سے کہا تو صالح نے زو معنی مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔۔

"میں منا لوں گا ان کو!!!۔۔۔"

ماہ بیر نے اسے اندر دهكیلا۔۔ "بدتمیز!!!۔۔۔"

صالح نے اس کے دیے لقب کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔۔

نظر بچا کر وہ ماہ بیر کو اس کمرے کے باہر لے آیا جہاں ارشما تھی۔۔

اس کے اندر جانے کے بعد وہ مشائم کو اشارہ کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

🌚🌚🌚

وہ تھکن سے چور کمرے میں آئی۔۔ صالح شاور لے کر نکلا تھا۔۔ اسے دیکھ کر مشائم کی آنکھوں میں خفگی در آئی۔۔ وہ اسے نظر انداز کرتی ڈریسنگ ٹیبل تک آئی اور دوپٹہ پٹخنے کے انداز میں اتار کر جھمکے اتارے۔۔

اس نے ہاتھ سے چوڑیاں اتارنے کے لیے دوسرا ہاتھ بڑھایا۔۔ سر جھکانے سےاس کے بال لہرا کر آگے گرے تھے۔۔

اس نے ہاتھ اٹھا کر بالوں کو ایک ادا سے پیچھے جھٹکا اور چوڑیاں اتارنے لگی کہ صالح نے اس کے پیچھے کھڑے ہوتے ایک ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھتے دوسرے ہاتھ سے اسکے بکھرے بالوں کو کندھے سے ہٹایا۔۔


۔۔۔۔۔۔"یہ سوچ کر ستم گر نے زلفوں کو جھٹکا!!!

بہت دن سے دنیا پریشان نہیں ہے!!!"۔۔۔۔۔۔۔۔


اسکی گردن میں گہرا سانس لیتا وہ بھاری آواز میں بولا۔۔۔ اس کے لمس پر مشائم نے آنکھیں موندی تھیں۔۔

پھر اپنی خفگی کا احساس کرتے وہ اسکا ہاتھ پیٹ سے ہٹاتے اسکی جانب پلٹی۔۔

اسکو شرٹ لیس دیکھ کر مشی کی تیوری چڑھی۔۔

"یہ میرے سامنے بغیر شرٹ کے کیوں آتے ہیں آپ ؟ آپ کو لگتا ہے میں شرما جاؤں گی؟ غلط فہمی ہے آپ کی!!!۔۔"

وہ نظریں گھما کر بولی تو صالح نے نچلا لب دانتوں تلے دبایا۔۔۔

"اہاں ایسا ہے کیا؟؟ یہ لیں پھر آرام سے دیکھیں!!!۔۔۔"

وہ اس سے کچھ فاصلے پر ہوتا ٹراؤزر کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا ہوگیا۔۔۔

مشائم نے نظریں اس پر ٹکائیں۔۔ سکس پیکس۔۔۔ نظروں نے اوپر کی جانب سفر کیا۔۔ پھولا پھولا سا کسرتی سینہ!!!۔۔۔ اس نے حلق تر کیا۔۔

اس کے چوڑے سینے سے ہوتی اسکی نظر مظبوط توانا بازوؤں پر ٹھہر گئیں۔۔

پھولے مسلز بےحد نمایاں ہورہے تھے۔۔ بازو کی ابھری نسیں دیکھ کر وہ عجیب سے احساسات میں مبتلا ہوگئی۔۔

وہ سرعت سے پلٹی اور کپڑے چینج کرنے کی غرض سے باتھ روم میں گھس گئی۔۔

جب وہ چینج کر کے باہر آئی تو لائٹ آف تھی۔۔

اچنبھیے سے وہ دو قدم آگے بڑھی کہ اندھیرے میں کھڑے صالح نے اسے جھٹکے سے بازوؤں میں اٹھایا۔۔

مشائم نے چیخنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ وہ اس کے ہونٹوں پر جھکتا اسکی چیخ کا گلا گھونٹتا بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔

اسے بیڈ پر لٹا کر وہ اس پر سایہ فگن ہوگیا۔۔

"اب بتائیں ناراض ہیں ؟؟۔۔۔"

وہ اس کی گردن کی نس سہلاتا بھاری آواز میں بولا ۔۔ مشائم گہرے سانس لیتی خاموش لیٹی رہی۔۔

صالح نے اسکی گردن پر جھکتے شدت سے چوما۔۔۔

اب؟؟؟

اسکی گردن سے نیچے ناک سہلاتے وہ گھمبیر آواز میں کہتا اسکی بیوٹی بون پر دانت گاڑ گیا۔۔

سس!!مشائم کے منہ سے سسكی نکلی۔۔

"نن۔۔۔نہیں ناراض!!!۔۔۔"

وہ پھولتی سانسوں کے بیچ بولی۔۔۔

صالح نے اس کے ہونٹوں کو نرمی سے چوما۔۔۔ اور بیڈ پر چت لیٹتا اسے سینے پر گراتا اس کے گرد حصار باندھ گیا۔۔ مشائم نے اس کے سینے میں منہ چھپاتے آنکھیں موند لیں۔۔

صبح کی تر و تازہ ٹھنڈی ہوا میں اس نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔۔

اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔۔ آنکھیں کھول کر اس نے ساتھ واک کرتے اورهان کو دیکھا جو اس کا ہاتھ پکڑے اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھا رہا تھا۔۔

"کتنا خوبصورت ہے یہ سب!!!۔۔۔"

اینارا نے بچوں کی سی خوشی سے کہا۔۔۔

اورهان نے چلتے ہوئے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔

"ہمم بہت خوبصورت!!!۔۔۔"

اس کی نظروں کے ارتکاز پر وہ مسکرا کر نظریں جھکا گئی۔۔


"آپ کو پتہ ہے؟؟

آپ کی آنکھیں کتنی پیاری ہیں!!!

اور آپ کی آواز ۔۔۔۔۔!!!

آپ کی آواز مجھے بےحد پسند ہے ،،، آپ کو دیکھ کر،،، آپ کی مسکراہٹ کو دیکھ کر آپ کی صدقے جانے کو ہی جی چاہتا ہے!!!

وہ اس کے مقابل آتا اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتا بےخود سا کہتا گیا۔۔


نرمی سے،، محبت سے،، عقیدت سے!!!


اینارا کی آنکھوں میں نمی چمکی پھر وہ نم آنکھوں سمیت دھیرے سے ہنس دی۔۔


اور آپ کو پتہ ہے ۔۔۔۔۔

وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتی محبت سے لبریز آنکھوں سے اسے دیکھتی کہتی گئی۔۔۔

آپ دنیا کے حسین ترین مردوں میں سے ہیں

کیونکہ۔۔۔!!!

آپ کے دل میں وفا دھڑکتی ہے۔۔

میں دنیا کی حسین ترین عورتوں میں سے ہوں۔۔!!!

کیونکہ جس دل میں وفا دھڑکتی ہے اس دل پر میری حکمرانی ہے!!!


الفاظ کو محبت کی چاشنی میں بھگو کر وہ اسے اسکی اپنی خوش قسمتی اپنی محبت اپنی وفا کا یقین دلا رہی تھی۔۔

اور ضروری تھوڑی ہے کہ۔۔۔

محبت کسی مکمل انسان ہی سے ہو۔۔ یہ انسان کا کردار، رنگ، نسل، صورت کب دیکھتی ہے۔۔ محبت صرف کسی کی خوبی پر اسے چاہنے کا نام تو نہیں یہ تو خامیوں سے بھی ہوجاتی ہے۔۔۔

🌚🌚🌚

"بارات آ گئی ہے!!!۔۔"

ایک نوجوان کی آواز پر سب الرٹ سے بارات کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔۔

لڑکیوں نے ہاتھوں میں پھول پکڑ رکھے تھے۔۔ ڈھول پیٹنے کی آواز اور لوگوں کے ملے جلے شور میں چند دوستوں کے نرغے میں دلہا صاحب نے اینٹری ماری۔۔

سیہ کرتے پاجامے پر سیاہ شیروانی پہنے دائیں کندھے پر خوبصورت مردانہ شال ڈالے وہ صالح اور عبدالله شاہ کے ساتھ چلتا ہوا راہداری میں آگے بڑھنے لگا۔۔۔

ڈھول کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔۔۔ صالح نے مہرون چیک کا پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔۔

مغرور تاثرات چہرے پر سجائے وہ موبائل پر کسی سے بات کررہا تھا۔۔ ماہ بیر کی سرمئی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔۔

بالاخر آج وہ دن آ گیا تھا جب اس کی محبّت ہمیشہ کی لیے اس کی دسترس میں آنے والی تھی۔۔

ایک بار وہ اسکے پاس آ جاۓ پھر وہ اسے ہر دکھ تکلیف،، ہر بری نظر سے بچا کر رکھے گا لیکن کیا وہ ایسا کر پائے گا۔۔۔؟؟؟

ہال میں داخل ہوتے ہی ان پر پھول گرنے لگے۔۔ صالح نے ناک سکیڑ کر تیکھی نظروں سے دائیں طرف کھڑی لڑکی کو دیکھا جو مسکرا مسکرا کر اسے دیکھتی اس پر پھول پھینکتی جارہی تھی۔۔۔

سر جھٹک کر اس نے چہرہ سیدھا کر لیا۔۔ وہ لوگ سٹیج کی جانب بڑھے۔۔ ایک جانب مردوں کا انتظام تھا جبکہ دوسری جانب عورتوں کا۔۔۔

درميان میں سٹیج بنایا گیا تھا۔۔ ماہ بیر کے سٹیج پر بیٹھنے کے بعد صالح نیچے اترا اور عورتوں والی سائیڈ آتا مشائم کو ڈھونڈنے لگا جسے اس نے اب تک دیکھا تک نہیں تھا۔۔

دل اسے دیکھنے کے لیے بےچین ہورہا تھا۔۔ جانے وہ کیسی لگ رہی ہوگی۔۔۔ اسے وہاں نہ پا کر وہ واپس سٹیج کی جانب چلا گیا۔۔

🌚🌚🌚

برائیڈل روم میں رش لگا تھا۔۔ ارشما نروس سی سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔ ڈیپ مہرون لهنگے کے ساتھ بمشکل کمر تک آتی کرتی زیب تن کئے جس کے کناروں پر موتی لٹک رہے تھے۔۔

ہاتھوں میں بھر بھر کر مہرون چوڑیاں ،، کانوں میں جهمکے ،، ماتھے پر ٹیکا،، ناک میں پهنی نتھ اور جھکی کانپتی گھنی پلکوں کا رقص دیکھنے والوں کو مبہوت کر رہا تھا۔۔

مہرون لپ سٹک سے سجے تراشیدہ لب آپس میں پیوست تھے۔۔ مشائم اس کے سامنے جھکی کھڑی اس کا دوپٹہ درست کررہی تھی۔۔۔

گرے ریشمی لهنگے کرتی میں وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔۔ سیدھے ہوتے اس نے اپنے دوپٹے کو کندھے پر ٹھیک کیا تو ہاتھوں میں پہنے گلاب کے گجرے نمایاں ہوئے۔۔

گھنے بالوں کو اس نے سٹائلش سے جوڑے میں باندھ رکھا تھا جو اسکی گردن کو چھو رہا تھا۔۔ سامنے سے چند لٹیں گرتیں اس کے مہرون لپ سٹک میں ڈھکے لبوں کو چھو رہی تھیں۔۔

بی جان ارشما کے پاس آ کر بیٹھیں اور اس کے سر پر پیار دیا تو وہ آبدیدہ ہوتی ان سے لپٹ گئی۔۔

"میری بیٹی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے!!!۔۔۔"

بی جان نے انجم اور عارفہ کو دیکھ کر کہا تو وہ مسکرا دیں۔۔

"بیٹیاں ہوتی ہی اتنی پیاری ہیں کس کا دل کرتا ہے خود سے دور کرنے کو لیکن انہیں بياہنا تو پڑتا ہے نہ ۔۔۔یہی دنیا کی ریت ہے!!!۔۔۔"

انجم نے محبت سے کہا۔۔

"آپ بلکل فکر نہ کریں اب یہ میری بھی بیٹی ہے انشااللہ بہت خوش رکھیں گے ہم اپنی بیٹی کو!!!۔۔۔"

عارفہ نے بی جان کو یقین دہانی کروائی تو وہ مطمئن ہوتیں مسکرا دیں۔۔

نگہت نے مشائم کو ٹہوکہ دیا ۔۔

"مشی بی بی ایسی ساس میرے لیے بھی "بک" کروائیں۔۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولی تو مشائم کو بری طرح ہنسی آئی۔۔

"بس کہیں بھی شروع ہوجایا کرو تم!!!۔۔۔"

اس کے سر پر چپت لگاتی وہ ارشما کے بلانے پر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔

🌚🌚🌚

کچھ وقت کے بعد اسے سٹیج کی طرف لے جایا جانے لگ۔۔ سب خواتین اٹھ اٹھ کر دلہن کو دیکھنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن اس کے چہرے پر گھونگھٹ تھا۔۔

اسے گھونگھٹ لیے آتا دیکھ کر ماہ بیر مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اس کے بن کہے ارشما نے چہرے کو غیر مردوں سے چھپایا تھا حلانکہ وہ پرده نہیں کرتی تھی۔۔

اس کے اس عمل سے ماہ بیر سلطان کے دل میں اس کے لیے عزت مذید بڑھ گئی تھی۔۔

سٹیج سے نیچے اترتا صالح یوسف اپنی کم سن بیوی کو دیکھ کر وہیں ساکت ہوا تھا۔۔۔ آج وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اس پر سے نظریں ہٹانا صالح یوسف کے لیے محال ہوا تھا۔۔۔

نظروں کی تپش پر مشائم نے سامنے دیکھا تو ۔۔۔ اسکی سانسوں کا دشمن اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسے مہرون پینٹ کوٹ میں نک سک سا تیار دیکھ کر مشائم کی آنکھوں میں ستائش نماياں ہوئی۔۔۔

وہ لوگ سٹیج کے پاس پہنچے تو ماہ بیر نے آگے ہوتے ارشما کی جانب ہاتھ بڑھایا جسے کچھ پس و پیش کے بعد اس نے تھام لیا۔۔۔

احتیاط سے اسے سٹیج پر چڑھا کر وہ سٹائلش صوفوں کی طرف بڑھا۔۔ ان کے بیٹھنے کے بعد مشائم نے ارشما کا دوپٹہ ٹھیک کیا اور صالح کو نظرانداز کرتی نیچے اتر گئی۔۔

صالح نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔۔۔

ماہ بیر نے سر جھکا کر ارشما سے کچھ کہا جس پر صالح ان کی جانب متوجہ ہوا۔۔

"اتنی بھی کیا جلدی ہے واپس جا کر رومینس جھاڑ لینا ،، بھابھی نے تمهارے ساتھ ہی جانا ہے!!!۔۔۔"

اس کے بےدھڑک کہنے پر ارشما کا شرم سے برا حال ہوگیا جبکہ ماہ بیر نے دل جلانے والی مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔۔۔ "میری بیوی ہے جہاں مرضی رومینس جھاڑوں تم کیوں جل رہے ہو یوسف صاحب۔۔۔ تم اپنی والی کو سنبهالو جو تمہارے ہاتھ بھی نہیں آ رہی!!!۔۔۔"

اس کے جلے پر نمک چھڑک کر وہ سکون سے بیٹھ گیا۔۔ صالح نے خفگی سے اسے دیکھا اور بڑبڑا کے سٹیج سے اترتا سیدھا مشائم کے پاس آیا۔۔۔

"آج رات آپ کی خیر نہیں اپنا تن من تیار رکھیے گا آج آپ کو کوئی رعایت نہیں ملے گی!!!۔۔۔"

جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتے اسے ساکت چھوڑ کر وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔

مشائم کے دل کی دھڑکن سوا ہوئی تھی۔۔۔ مشکل سے مسکراتی وہ ایک خاتون سے بات کرنے لگی۔۔۔

🌚🌚🌚

"رکیں بھائی جااان۔۔۔۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے کمرے میں جانے کی پہلے میرے پیسے تو نکالیں!!!!۔۔۔"

وہ دروازے کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہوگئی۔۔ ماہ بیر نے صالح کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔

"یار یہ اپنی بیوی کو سنبهالو !!!۔۔۔"

وہ مسکراہٹ دباتا بولا۔۔

مشائم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔

صالح نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

"منہ بند کر لیں ورنہ۔۔۔۔"

اسکی دھمکی وہ خوب سمجھ گئی۔۔ خفت سے اس نے منہ بند کیا۔۔

ماہ بیر نے اس کے خفا چہرے کو دیکھ کر آگے بڑھ کر اسکا سر چوما۔۔

"میری جان صبح لے لینا جتنے مرضی پیسے۔۔ ابھی اپنے شوہر کی جیب خالی کرو!!!۔۔۔"

صالح کو پھنسا کر وہ آرام سے دروازه کھول کر اندر چلا گیا۔۔ اس کی چالاکی پر صالح عش عش کر اٹھا۔۔۔

چلیں کمرے میں؟؟

وہ لوگ رات ہونے کی وجہ سے حویلی ہی ٹھہر گئے تھے۔۔ اس کی نظروں کے پیغام پر مشی نے حلق تر کیا۔۔

صالح کو چند پل دیکھنے کے بعد اس نے پیچھے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔

وہ بھی دانت پیس کر اس کے پیچھے بھاگا لیکن اسکے ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی وہ بی جان کے کمرے میں گھستی دروازه بند کر گئی۔۔

بعد میں اس کی اچھی طرح خبر لینے کی نیت سے وہ فلحال وہاں سے چلا گیا۔۔

🌚🌚🌚

جیسے ہی اس نے اندر آ کر دروازه بند کیا ارشما بیڈ پر مذید سمٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ماہ بیر اس کے مقابل آ بیٹھا اور ایک لمحے کی دیر کئے بغیر اس کا گھونگھٹ اٹھا دیا۔۔۔ آنکھوں میں جزبات کا سمندر لیے وہ حسن کے اس پیکر کو یک ٹک دیکھے گیا۔۔


واللہ آپ عزرائیل نہیں ہیں۔۔

پھر بھی لگتا ہے کسی دن میری جان لے لیں گی!!!


نرم گرم نگاہوں سے اسے دیکھا وہ دھیمے جذبات سے پر لہجے میں بولا۔۔

ارشما نے بےساختہ جھکی پلکیں اٹھاتے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔

ماہ بیر نے اسکا ہاتھ چوم لیا جس پر وہ گهبرا کر اس کے لبوں سے ہاتھ ہٹا گئی۔۔

اس نے جیب سے ایک کیس نکال کر کھولا جس میں گولڈ کی انتہائی نفیس سی پائل چمک رہی تھی۔۔

یہ آپ کے لیے ادنیٰ سا تحفہ۔۔ کیا میں پہنا دوں آپ کو؟؟؟ وہ اجازت لیتا اسے دیکھنے لگا تو ارشما نے آہستہ سے اپنا پیر آگے کرتے لهنگا اوپر کھسکایا۔۔

اس کے دودھیا نرم و نازک پیر واضح ہوئے جن میں گلابیاں گھلی ہوئی تھیں۔۔ ماہ بیر نے اس کے پاؤں میں پازیب پہنائی اور جھک کر اس کے پیر کو چوما۔۔

ارشما کی دھڑکنیں منتشر ہوئیں۔۔ خضدار کا سربراہ "سلطان ماہ بیر شاہ" جو کسی کے سامنے جهكنا تک نہیں جانتا تھا آج اس کی محبت میں وہ اسکے پیر کو جھک کر چوم رہا تھا۔۔

سیدھا ہو کر وہ اٹھا۔۔

"میں فریش ہو کر آتا ہوں آپ بھی چینج کر لیں یہ سامنے چینجنگ روم ہے!!!۔۔۔"

گہری نظر اس کے نازک وجود پر ڈالتا وہ کبرڈ سے ٹراؤزر نکال کے باتھ روم میں گھس گیا۔۔۔

اسکے جاتے ہی وہ بھی اٹھی۔۔کب سے اتنا بوجھ وہ برداشت کررہی تھی۔۔ مشائم کمرے میں پہلے ہی اسکا بیگ رکھ کر جا چکی تھی۔۔

دل میں اسکی شکرگزار ہوتی وہ سادہ ڈھیلا سا ٹراؤزر شرٹ نکال کر چینجنگ روم میں چلی گئی۔۔

🌚🌚🌚

کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر ٹشو کی مدد سے میک اپ صاف کرنے لگی۔۔ شہد رنگ بال سلجھا کر اس نے ڈھیلے سے جوڑے میں باندھ کر باتھ روم کے دروازے کو دیکھا جو اب تک بند تھا۔۔

اس سے پہلے کہ وہ بیڈ کی طرف جاتی باتھ روم کا دروازه تھوڑا سا کھلا۔۔

"تولیہ پكڑا دیں!!!۔۔۔"

ارشما واپس کبرڈ تک آئی اور تہہ شدہ تولیہ نکال کر دھڑکتے دل سے باتھروم کی طرف آئی۔۔ اس نے تولیے والا ہاتھ آگے کیا ہی تھا کہ ماہ بیر نے اسے اندر کھینچ کر باتھ روم کا دروازه لاک کر دیا۔۔

ارشما کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔۔ اس کے حلق سے بےساختہ چیخ نکلی کہ ماہ بیر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے اسے دیوار سے لگایا۔۔

بغیر شرٹ کے اس کے اتنے قریب آنے پر ارشما نے زور سے آنکھیں میچیں تھیں۔۔ وہ آنے والے وقت کا تصور کرتی اس کے تنگ حصار میں کانپنے لگی تھی۔۔

"وہ ۔۔ میں ۔۔۔تھ۔۔ک ۔۔۔گئی ۔۔ ہوں ۔ن۔ بہت ۔۔ سو۔۔سونا ۔۔ چاہتی ہوں!!!۔۔

اسے بھاگنے کے لیے پر تولتے دیکھ کر ماہ بیر نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر جھٹکے سے سینے سے لگایا۔۔ اسکے بھیگے سینے پر گرتی پانی کی بوندیں ارشما کی قمیض میں جذب ہوئی تھیں۔۔

اس کے کان پر جھکتے وہ سرگوشی کرنے لگا۔۔


۔۔۔۔۔۔ان کی نزاكت کا کیا ہی عالم ہے سائیں!!!

ذرا سا سانس لیتے ہیں تھک جاتے ہیں!!!۔۔۔۔۔۔


گال پر اسکی داڑھی کی چبھن پر وہ گہری سانس لیتی کسمسائی۔۔ ماہ بیر اسے کمر سے تھامے شاور کے نیچے کھڑا ہوگیا اور ہاتھ مار کر شاور آن کر دیا۔۔۔

شاور سے گرتا پانی دونوں کو بھگونے لگا۔۔

"ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں ہے اتنی جلدی آپ کی سانس پھول گئی؟؟۔۔۔"

وہ اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ اٹھاتا جھک کر بولا تھا۔۔

اتنے قریب ہو کر بولنے پر اس کے گیلے ہونٹ ارشما کے بھیگے لبوں سے ٹکرائے تھے۔۔ ارشما کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔۔ اس نے آنکھیں کھولیں لیکن اوپر سے گرتے پانی پر دوبارہ آنکھیں بند کر گئی۔۔

وہ دونوں مکمل بهیگ چکے تھے۔۔ ارشما کی شرٹ اسکے جسم سے چپک چکی تھی۔۔ اسکی پشت پر ہاتھ پھیر کر اس نے ارشما کو جھٹکے سے اوپر کیا اور اسکی گیلی گردن پر اپنے دہکتے لب رکھ گیا۔۔

ایک ہاتھ سے اسکی کمر تھامے دوسرے ہاتھ سے اس کے بال کھولتا وہ شدت سے اس کی گردن کو جابجا چوم رہا تھا۔۔ ارشما نے سہارا لینے کے لیے اس کی گردن کے گرد بازو کا گھیرا بنا لیا اور اس کے پیروں پر اپنے پیر رکھتی اسکی شدتوں پر ہلکان زور سے سانس کھینچنے لگی۔۔

ماہ بیر نے اسکے کندھے سے شرٹ کھسکا دی اور گردن سے کندھے تک ناک سہلانے لگا۔۔ اسکے بدن کی مہک میں گہرے سانس لیتا وہ اسے پاگل کررہا تھا۔۔

وہ آنکھیں موندے اسکا لمس اپنے بدن پر محسوس کرتی اس کے رحم و کرم پر کھڑی تھی۔۔۔ گردن اور کندھے پر شدتیں لٹا کر ماہ بیر نے جھکا سر اٹھایا۔۔

اسکا حد سے زیادہ سرخ چہرہ دیکھ کر وہ سرخ خمار زدہ آنکھوں سے اسکے لبوں کو دیکھتا جھکا تھا۔۔ ارشما جو اس کے سیدھے ہونے پر سانس ہموار کررہی تھی اپنے ہونٹوں پر اسکے پرحدت ہونٹوں کی سخت گرفت محسوس کر کے وہ آنکھیں پوری کھولتی اسکی پشت پر ناخن مارنے لگی۔۔

وہ تو جیسے صدیوں کا پیاسا اس کے لبوں سے اپنی پیاس بجھا رہا تھا۔۔ کئی لمحے وہ اسکے ہونٹوں کی نرمی محسوس کرتا رہا۔۔۔

اسکا جسم ڈھیلا پڑتا دیکھ کر ماہ بیر نے اسکے لبوں کو آزاد کیا۔۔ ماہ بیر کی گردن پر ناخن مارتی وہ گہرے گہرے سانس لیتی اس سے دور ہو کر دیوار سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔۔

گہری سانس لینے سے واضح ہوتے اسکے نشیب و فراز کو دیکھ کر لب دباتا وہ اسکی جانب بڑھا۔۔ اس کے گیلے کسرتی سینے کو دیکھ کر ارشما نے آنکھیں موند لیں۔۔

وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اسکی شرٹ اوپر سرکا کر اس کے بیلی بٹن کو دیکھا۔۔ اس کے پیٹ پر دو انگلیاں پھیر کر اس نے ارشما کی کمر پر ناک سہلائی۔۔

اس کے نرم و نازک وجود کے لمس اور حدت سے پاگل ہوتا وہ جھکا اور لبوں سے جابجا اسکے پیٹ اور کمر کو چھونے لگا۔۔

ارشما نے زور سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہاتھ ماہ بیر کے بھیگے بالوں پر رکھے جو اس کی بیلی پر جھکا اسے پور پور اپنے لمس سے بھگو رہا تھا۔۔

یکدم وہ اٹھا اور اس کے گیلے بال مٹھی میں پکڑ کر اسے بلند کرتے اسکی شاہ رگ پر شدت سے اپنے لب رکھ گیا۔۔ شاہ رگ سے ہوتا وہ لبوں سے نیچے کا سفر طے کرنے لگا۔۔

اسکی بیوٹی بون کو ماہ بیر نے اتنی شدت سے چوما کہ اس پر سرخ نشان واضح ہونے لگے۔۔ ارشما بےساختہ سسک پڑی۔۔ اسے اپنی گردن پر شدید جلن محسوس ہورہی تھی۔۔

ماہ بیر نے باتھ روم کی لائٹ آف کی اور آہستہ آہستہ اس کے تن سے کپڑے جدا کرنے لگا۔۔

ارشما کو اس لمحے اس سے اتنی حیا آئی کہ وہ سرعت سے رخ موڑ گئی۔۔

اس نے اسے باتھروب پہنایا اور خود بھی پہن کر لائٹ آن کرتا اسے بانہوں میں بھر کر باہر نکلا۔۔ کمرے کی بتی بجھا کر اس نے ارشما کو بیڈ پر لٹایا اور اسکی کمر کے گرد لپٹی بیلٹ کھول کر اس کے اوپر جھکتا تمام حدود پھلانگتا چلا گیا۔۔

🌚🌚🌚

منا لو جتنی خوشیاں منانی ہیں ماہ بیر شاہ!!!۔۔۔

بہت جلد آؤں گا تم سے اور تمہارے چیلے صالح یوسف سے حساب لینے۔۔

میرے بھائی کو مار کر ۔۔ میرا سکون برباد کر کے تم لوگ جشن منا رہے ہو خوشیاں بانٹ رہے ہو؟؟؟۔۔

میرے دل میں انتقام کی جو آگ جل رہی ہے وہ تمہاری بیویاں بجھائیں گی۔۔۔

ہاہاہا!!! كمینگی سے بھرپور قہقہہ لگاتا وہ شراب کے نشے میں چور بیڈ پر اوندها گرا تھا۔۔

🌚🌚🌚


بی جان کے کمرے میں آ کر وہ کچھ دیر کے لیے وہیں صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔ اس نے دکھتے کانوں سے جهمکے اور باقی جیولری اتار کر وہیں رکھ دی۔۔

ہاتھوں سے گجرے اتار کر وہ ناک کے پاس لاتی ان کی مہک محسوس کرتی آنکھیں موند گئی۔۔ مسکرا کر وہ اٹھی اور باہر جھانکا۔۔

دور دور تک کسی کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔۔ حویلی کی سب لائٹیں بند تھیں۔۔ محض صحن میں بلب کی ہلکی روشنی تھی۔۔

وہ چینج کرنے کی غرض سے اپنے کمرے کی جانب گئی۔۔ اس نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے تھے۔۔

گرے لهنگے کو اٹھا کر وہ جا رہی تھی کہ بادلوں کی گرج پر اسکی آنکھوں میں خوشگوار حیرت آئی۔۔

"لگتا ہے بارش ہورہی ہے!!!۔۔۔"

ٹپ ٹپ گرتی بوندوں کی آواز پر وہ ایک نظر دیکھنے کو باہر لان میں آئی۔۔ تیز بارش کی بوچھاڑ اس کے چہرے پر پڑی تو وہ ہلکا سا ہنستی ایک قدم آگے بڑھی۔۔۔

دفعتاً اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے آ کر رکا ہے۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی آنے والے نے اسے دیوار سے لگاتے اسکی پشت اپنے ساتھ لگاتے اس کے منہ پر بھاری ہاتھ رکھا۔۔

اس کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتے وہ جھکتا اس کے کان کی لو دانتوں میں دبا گیا۔۔

"کیا لگا تھا آپ کو کہ آج بچ جائیں گی مجھ سے؟؟ اونہوں!!! آج آپ خود کو مجھ سے نہیں بچا سکتیں ۔۔ آج صالح یوسف آپ کے وجود پر گہری چھاپ چھوڑے گا۔۔ جس کے بعد آپ اپنے آپ سے بھی شرماتی پھریں گی۔۔ آپ کو بہت وقت دے دیا میں نے اب ایک پل اور نہیں!!!۔۔۔"

بارش میں بھیگتے وہ اسکی گردن کی نس ناک سے سہلاتا اسے کپكپانے پر مجبور کر گیا۔۔

اس کے نرم و نازک وجود کو بانہوں میں بھر کر وہ کمرے کی طرف بڑھا۔۔ پیر سے دروازه کھول کر وہ اندر آیا اور دروازه بند کر کے اسے نیچے اتارا۔۔

کمرے کی لائٹ آف تھی ۔۔ موم بتیاں جلا کر ہلکی ہلکی روشنی کی گئی تھی۔۔ گلاب کے پھولوں کی دلآویز مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اسے کمرے میں بنتے رومانوی ماحول کا احساس ہوا۔۔

اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر وہ ایک قدم پیچھے ہٹی۔۔ صالح نے گیلی شرٹ اتار کر دور پھینکی۔۔

موم بتیوں کی روشنی میں نظر آتے اسکے كسرتی جسم سے وہ نگاہیں پھیر گئی۔۔

دل زوروں سے دھڑکنے لگا تھا۔۔

صالح اس کے قریب بےحد قریب آ کر کھڑا ہوگیا اتنا کہ اسکی سانسوں کی تپش سے مشائم کو اپنا چہرہ جلتا محسوس ہوا۔۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے!!!۔۔۔"

وہ اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتی سر اٹھا کر معصومیت سے بولی۔۔

"کیوں ڈر لگ رہا ہے میری جان کو؟؟؟۔۔۔"

وہ جھک کر اسکے گال پر بوسہ دیتا اس سے پوچھنے لگا۔۔ "آپ سے ڈر لگ رہا ہے"

وہ شرم کے مارے بات ادھوری چھوڑ گئی۔۔

صالح نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔"

آپ کو برداشت کرنا ہوگا آج آپ کا نازک وجود میری شدتیں جهیلے گا!!!۔۔۔"

اس نے مشائم کی پشت پر ہاتھ لے جاتے اس کی کمر پر بندھی ڈوری کھول دی۔۔

مشائم کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔ یوسف۔۔۔؟؟؟ مم ۔۔۔

وہ حلق تر کرتی پیچھے ہٹی تو صالح کے ماتھے پر بل پڑے۔۔

"جیسی آپ کی مرضی!!!"

سنجیدگی سے کہہ کر وہ بغیر اسے دیکھے بیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔۔ چہرے پر بازو رکھتے وہ آنکھیں موند گیا۔۔

اسکی ناراضگی پر مشائم کی جان لبوں کو آ گئی۔۔ وہ انگلیاں مسلتی اسے دیکھنے لگی جو اس سے ناراض ہو چکا تھا۔۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ اس کے پاس آئی۔۔ اس کے قریب بیٹھ کر اس نے جھک کر اسکا بازو چہرے سے ہٹانے کی کوشش کی۔۔


مجھے اچھا سا لگتا ہے۔۔۔

تمهارے سنگ سنگ چلنا۔۔۔

تمہیں ناراض کر دینا۔۔

تمہیں خود ہی منا لینا۔۔۔

تمهاری بےرخی پر بھی ۔۔

تمہارے ناز اٹھا لینا۔۔

تم ہی کو دیکھتے رہنا۔۔

تم ہی کو سوچتے رہنا۔۔

بہت گہرے خیالوں میں محبت کے حوالوں میں۔۔

۔۔۔۔۔تمہارا نام آ جانا۔۔۔۔۔

مجھے اچھا سا لگتا ہے!!!


"یوسف۔۔۔؟؟؟ آئی ایم سوری!!!۔۔۔"

وہ ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھتی اس کا ہاتھ چہرے سے ہٹا گئی۔۔صالح آنکھیں موندے لیٹا رہا۔۔۔

مشائم نے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے اسکی داڑھی پر پھیرا۔۔


"بہت محبّت ہے مجھے آپ سے ۔۔ آپ کی یہ ناراضگی میری جان لے لے گی!!!۔۔۔"


وہ اس کے برابر نیم دراز ہوتی اسکے ماتھے پر بکھرے بال سنوارنے لگی۔۔ صالح نے بہت مشکل سے خود پر قابو کیا تھا۔۔ اس کے نازک ہاتھوں کے لمس پر سکون محسوس کرتا وہ آنکھیں موندے پڑا تھا۔۔

"یوسف بس کریں نہ میں اب کچھ نہیں کہوں گی نہ پکا!!!۔۔۔"

وہ اس کے سینے پر انگلی سے اپنا نام لکھتی اسے پاگل کررہی تھی۔۔ صالح نے آنکھیں کھول دیں۔۔

اسے سینے پر گرا کر وہ خاموشی سے اسکے چہرے کے نقوش آنکھوں کے راستے دل میں اتارنے لگا۔۔

ابھی بھی ناراض ہیں؟؟؟

وہ نظریں جھکاتی آہستہ سے بولی۔۔

"ہوں تو آپ نے کونسا منا لینا!!!۔۔۔"

وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔

مشائم نے ایک نظر اسکے خفا چہرے پر ڈالی۔۔

"میں منا لوں گی آپ کو !!!۔۔۔"

صالح نے ابرو اچکائے ۔۔۔

"دیکھتے ہیں!!!"

وہ اس پاگل لڑکی کی قربت میں بھاری ہوتی سانسوں سے بولا۔۔ سر کے نیچے دونوں بازو رکھتا وہ نرم گرم نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا جو اس کی نگاہوں کی حدت پر شرم سے گلنار ہوئی تھی۔۔

وہ اسکی کانپتی پلکوں کے رقص کو فرصت سے دیکھ رہا تھا۔۔

اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے وہ سرگوشی میں کہنے لگی ۔۔۔

" آنکھیں بند کریں نہ مجھے شرم آ رہی ہے!!!۔۔"

صالح کے لبوں نے حرکت کی۔۔ "اوکے!!!" ۔۔۔

اس کی بند آنکھوں کا اطمینان کرتے اس نے دوپٹہ اتار کر سائیڈ پر رکھا اور زوروں سے دھڑکتے دل سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جھکی۔۔

اسکی گردن کی ابھری ہڈی کو لبوں سے چھوتی وہ صالح یوسف کو پاگل کرنے لگی۔۔

آہستہ سے وہ تھوڑا اوپر ہوئی اور اسکی گردن میں بازو ڈال کر آنکھیں بند کرتی دھیرے دھیرے اس کے لبوں پر جھکتی ایک انچ کے فاصلے رک گئی۔۔

اپنے لبوں پر اسکی گرم سانسیں محسوس کر کے وہ بےچین ہوا تھا۔۔ مشائم نے حلق تر کیا۔۔

ہمت مجتمع کرتی وہ مزید جھکی۔۔ دونوں کے لب آپس میں ٹکرائے تو ان کے بدن میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔

جذبات کی حدت سے آگ اگلتے چہرہ اٹھا کر وہ سرعت سے پیچھے ہٹتی اس کی جانب سے رخ موڑ گئی۔۔

اس کا دل تھا کہ زوروں سے دھڑکے جا رہا تھا۔۔

وہ مذید خود پر قابو نہ رکھ پایا۔۔ یہ لڑکی تو اس کا نشہ بنتی جا رہی تھی۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔

ہاتھ بڑھا کر اس نے اسکی پشت سے بال ہٹا کر کندھے پر ڈال دیے۔۔ کھلی ڈوری سے جھانکتی کمر نمایاں ہوئی۔۔

صالح نے جھک کر اس کی پشت پر لب رکھے تو وہ آنکھیں موندتی لب سختی سے دانتوں میں دبا گئی۔۔

اس کے ہاتھوں اور لبوں کی گردش اپنی پشت پر محسوس کرتے وہ خود میں سمٹ گئی۔۔

اس کی گردن سے بال ہٹا کر وہ اسکی گردن میں چہرہ چھپاتا گہری سانسیں کھینچنے لگا۔۔

بےترتیب ہوتی سانسوں میں اس نے گردن پر جھکے صالح کے سر کی پشت پر ہاتھ رکھا۔۔

"اس وقت میرا دل چاہ رہا ہے آپ کو مکمل کھا جاؤں!!!۔۔۔" اس کےدونوں کندھوں سے شرٹ سرکا کر وہ شدت سے لب رکھتا بھاری آواز میں سرگوشی کر گیا۔۔

مشائم نے سوکھا حلق تر کرتے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔ "پیاس۔۔ لگ۔۔رہی۔۔ ہے۔۔ بہت!!!۔۔۔"

اس کے لب اپنے گال پر محسوس کرتی وہ اٹک اٹک کر بولی۔۔

صالح نے مسکراتی گہری نظر اس کے گلے پر ڈالی۔۔

"ہاں مجھے بھی بہت پیاس لگ رہی ہے!!!"

اسے گھما کر بیڈ پر لٹاتا وہ اسے سانس لینے کا موقع دیے بغیر اس کی گردن سے نیچے جاتا اس کے نازک بدن پر اپنے دہکتے لب رکھتا اسکی سانسیں بکھیر گیا۔۔

کرتی سے جھانکتی اس کی کمر پر دانت گاڑ کر وہ سیدھا ہوتا اسکے تاثرات دیکھنے لگا جو تکیہ دونوں ہاتھوں میں دبوچے آنکھیں سختی سے میچے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔۔

سرخ خمار زدہ آنکھوں سے اسے سر تا پیر دیکھتے اس نے بیڈ پر گری گلاب کی کلی اٹھائی اور اسکے ہونٹوں سے گردن تک اور گردن سے ناف تک ٹریس کرنے لگا۔۔

"گلاب بدن اور گلاب مل جائیں تو پتہ کیا ہوتا ہے؟؟

اس کے اوپر سایہ کرتے وہ ایک ہاتھ اس کے برابر رکھ کر دوسرا ہاتھ اس کی پشت پر لے گیا۔۔ آہستہ سے اس کی کمر پر ہک کھول کر وہ جھکا۔۔

"تو نہ ختم ہونے والے جذبات کا طوفان امڈ آتا ہے۔۔۔"

چادر کھینچ کر دونوں پر اوڑھتا وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتا اس کے معصوم چہرے کے نقش نقش کو لبوں سے چھونے لگا۔۔

"بہت چاہنے لگا ہوں آپ کو ،، بے حد محبّت کرنے لگا ہوں،، دل چاہتا ہے آپ کو خود میں چھپا لوں ۔۔ سب سے کہیں دور لے جاؤں۔۔ آپ کو اپنی شدتوں سے روشناس کرواؤں کہ جب آپ کا کمسن حسن میرے سامنے ہوتا ہے دل کی دنیا میں کیا کیا طوفان اٹھتے ہیں!!!

اس کی میٹھی محبت بھری سرگوشیوں پر وہ آنکھیں کھولتی دیوانوں کی طرح اسے تکنے لگی۔۔

دل میں جیسے ٹھنڈی سی پھوار پڑ رہی تھی اس شخص کے "اقرار محبّت" پر جسے اس نے خود سے بھی زیادہ ۔۔ ہر چیز سے زیادہ چاہا تھا۔۔

ایک دوسرے کے وجود میں گم وہ آج مکمل ہوئے تھے۔۔

"کہاں چلی گئی تھیں آپ مجھے بتائے بغیر؟؟ پریشان ہوگیا تھا میں!!!"

جونہی اینارا کمرے کا دروازه کھول کر اندر آئی اورهان سرعت سے اسکی طرف آیا۔۔

"وہ میں اماں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔۔۔"

چادر اتار کر صوفے پر رکھتی وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ اورهان نے تفکر سے اسے دیکھا۔۔

"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟؟ مجھے بتاتیں نہ میں لے جاتا؟؟

اس کے فکرمند انداز پر وہ اس کا ہاتھ تھام کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور نرمی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ "آپ ۔۔بابا بننے والے ہیں!!!۔۔۔"

شرمگیں مسکراہٹ چہرے پر سجاتی وہ سر جھکا گئی۔۔ اورهان نے بےيقینی سے اسے دیکھا۔۔ پھر اس کی بےيقینی شدید احساس مسرت میں بدل گئی۔۔

"میں ۔۔ بابا ۔۔۔؟؟

اس کی آواز كانپی۔۔ اینارا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اس کی نم آنکھوں کو دیکھ کر وہ نرمی سے اس کے گال پر ہاتھ رکھ گئی۔۔ "الحمدللّہ!!!۔۔۔"

اس نے اورهان کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو وہ نم آنکھوں سمیت مسکرا دیا۔۔ نیلی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔۔

"آپ نے آج مجھے بہت بڑی خوشی دی ہے!!!۔۔۔"

اس کا ہاتھ چوم کر وہ نرمی سے اس کے بال سنوارنے لگا۔۔

اورهان؟؟

وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔

"جی جانِ اورهان؟؟۔۔"

وہ جی جان سے متوجہ ہوا۔۔

"ایک بات بتانی تھی آپ کو۔۔ آج جب میں ہوسپٹل گئی وہاں مجھے میری پرانی سهیلی ملی۔۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ "ماہ بیر سائیں کی شادی ہوگئی ہے ۔۔ اور جس کے ساتھ ہوئی ہے اس لڑکی کا نام پتہ کیا ہے؟؟۔۔"

وہ ایک پل کو رکی تو اورهان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

"ارشما نام ہے اس لڑکی کا"۔۔۔

وہ فرط مسرت سے بولی۔۔ اورهان دنگ سا اٹھ کھڑا ہوا۔۔

"ارشما۔۔۔؟

اسے اپنی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی۔۔

کیا پتہ وہ میری ۔۔ بہن نہ ہو ایسا کیسے۔۔۔!!!" بولتے ہوئے اسکا گلا رندھ گیا۔۔

اینارا کھڑی ہوئی۔۔ اس کا ہاتھ تھامتی وہ کہنے لگی۔۔ "میں نے پوچھا تھا کہ وہ کیسی دکھتی ہے، تصویروں میں دیکھا ہے میں نے ارشما کو ۔۔ اس لیے پہچان سکتی ہوں۔۔ اللّه کی کرنی دیکھیں جیسا حلیہ میری سہیلی نے بتایا وہ ہوبہو ارشما کا ہے لیکن پھر بھی آپ جا کر اطمینان کر لیں!!۔۔۔"

اورهان نے سر ہلایا۔۔

"میں کچھ دیر تک نکلتا ہوں میرے کپڑے نکال دو۔۔۔"

دھڑکتے دل سے وہ فون پر ماہ بیر کا نمبر ڈائل کرنے لگا جو کافی عرصے پہلے اس کے زیر استعمال تھا۔۔ رابطہ نہ ہونے پر وہ موبائل پاکٹ میں ڈالتا دھڑکتے دل سے ارشما کے بارے میں سوچنے لگا اسکا بس نہ چل رہا تھا کہ اڑ کر وہاں پہنچ جاتا۔۔

🌚🌚🌚

ان کا ولیمہ بخیر و عافیت انجام پا چکا تھا۔۔ آج انہیں ہنی مون کے لیے نکلنا تھا۔۔ ارشما کو شروع سے سرد علاقے بہت پسند تھے۔۔

سو مشورے کے بعد طے پایا کہ وہ دونوں اور مشی، یوسف آج ہی سکردو کے لیے روانہ ہوں گے جہاں قدرت کے ایسے دیدہ زیب فرحت بخش مناظر تھے جنھیں دیکھ کر روح تک سیراب ہوجاتی تھی۔۔

ماہ بیر لان میں چہل قدمی کررہا تھا جب ایک گارڈ اسکی جانب آتا دکھائی دیا۔۔

" سائیں باہر ایک آدمی آیا ہے اس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا ہے ایک ہی بات کی تكرار کیے جا رہا ہے کہ ماہ بیر سے ملنا ہے وہ مجھے جانتا ہے اسے بلاؤ۔۔۔ ہم نے بہتیرا کہا کہ چلے جاؤ یہاں سے لیکن وہ سنتا ہی نہیں اب کیا حکم ہے ہمارے لیے؟؟"

وہ سر جھکا کر ادب سے بولا۔۔ ماہ بیر نے پرسوچ انداز میں آنکھیں سكیڑیں۔۔

"بھیج دو اسے !!!۔۔۔"

اسے حکم دے کر وہ پشت پر ہاتھ باندھتا کھڑا ہوگیا۔۔

"بہتر سائیں!!"

گارڈ الٹے قدموں واپس چلا گیا۔۔ کچھ سیكنڈ بعد ہی پینٹ شرٹ میں جس کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر تک فولڈ تھے چہرے پر ماسک چڑھائے ایک اچھے ڈیل ڈول کا جوان چلتا ہوا اس کے سامنے آ رکا۔۔

اسکی نیلی آنکھوں کو دیکھ کر ماہ بیر چونکا۔۔ جیسے ہی اس نے ماسک اتارا ماہ بیر پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔

"تم۔۔۔؟؟ اورهان ۔۔۔ تم زندہ تھے؟"

حیرت کے جھٹکے سے وہ سنبهلا تو اس کی پیشانی شکن زدہ ہوئی۔۔

"یہاں کیا کررہے ہو چلے جاؤ مجھے تم سے۔۔۔۔" اس کی بات مکمل ہونے سے قبل اورهان نے سر جھکا کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔

"مجھے معاف کردو ہر چیز کے لیے!!!۔۔"

ماہ بیر کے الفاظ جیسے غائب ہوگئے۔۔ یہ وہ آخری چیز تھی جس کی وہ اس شخص سے توقع کر سکتا تھا۔۔

وہ سر جھکائے نادم سا کہنے لگا۔۔

"میں نے بہت برے عمل کئے جن کی مجھے سزا مل گئی اسی دنیا میں ۔۔ بہت تکلیفوں سے گزرا ہوں میں ۔۔ مو*ت کے منہ سے واپس آیا ہوں ۔۔ اللّه نے مجھے ایک موقع دیا ہے ۔۔ میں بدل گیا ہوں ۔۔ تم بھی مجھے معاف کر دو!!!۔۔۔"

ماہ بیر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔

"کیا یہ پھر اس کی کوئی چال تھی یا واقعی وہ۔۔۔؟؟؟" اس نے سر جھٹکا۔۔

وہ آگے بڑھا اور اس کا كندها تھپتھپایا۔۔

"تمہیں اپنے کئے پر ندامت ہے یہی کافی ہے۔۔ میری طرف سے دل پر بوجھ نہ رکھو۔۔ ماہ بیر شاہ کا ظرف اتنا چھوٹا نہیں ہے!!!۔۔۔"

اورهان نے تشکر سے اسے دیکھا۔۔ پھر ارشما کا خیال آنے پر دھڑکتے دل سے بولا

"میں ارشما سے ملنا چاہتا ہوں ایک بار پلیز مجھے ملوا دو تمہارا احسان مند رہوں گا!!!۔۔" ماہ بیر کی آنکھوں میں غصہ نمایاں ہوا ۔۔

"کیا بکو**اس ہے یہ بیوی ہے وہ میری تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اسکا نام لینے کی؟؟۔۔۔"

اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اورهان دبے دبے لہجے میں چلایا ۔۔۔

"بہن ہے وہ میری ۔۔ جسے مجھ سے چھین لیا گیا۔۔ ترس گیا ہوں میں اس کی شکل دیکھنے کے لیے!!!۔۔"

گھٹنوں کے بل بیٹھتا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔

ماہ بیر یوں ساکت کھڑا تھا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔۔ اس نے لبوں کو حرکت دی لیکن الفاظ نے ساتھ نہ دیا۔۔

کچھ پل کی خاموشی کے بعد اس نے جھک کر اورهان کو اٹھایا۔۔

"آؤ میرے ساتھ!!!۔۔۔"

وہ اسے ڈرائنگ روم میں لے آیا۔۔

"میں انہیں لے کر آتا ہوں تم بیٹھو!!!۔۔۔"

وہ چلا گیا تو اورهان بےچینی سے اسکی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔۔

دروازے پر آہٹ ہوئی اور پھر ۔۔۔ سیاہ شلوار سوٹ میں نک سک سی تیار وہ اندر داخل ہوئی۔۔ لبوں پر موجود مسکراہٹ پل میں غائب ہوئی۔۔ آنکھیں یوں کھل گئیں جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔۔

وہ تڑپ کر اسکی جانب دوڑی تھی۔۔

"بھائی !!!۔۔۔"

سیاہ ریشمی دوپٹہ کندھے سے پهسل کر بازو پر آ ٹھہرا تھا۔۔ اس کے سینے سے لگتی وہ بلک بلک کر رونے لگی۔۔

وہ بار بار اس کے چہرے اور کاندهوں پر ہاتھ پھیرتی اس کے ہونے کا يقین دلا رہی تھی خود کو۔۔

اورهان بھی اسے سینے سے لگائے اس کا سر چومتا رو رہا تھا۔۔ آنسو ابل ابل کر گال پر پهسلتے نیچے گر رہے تھے۔۔

ماہ بیر نے اس منظر سے نگاہ ہٹاتے آنکھوں کی نمی اندر اتاری۔۔

کافی دیر تک وہ یونہی کھڑے روتے رہے۔۔ ماہ بیر نے آگے بڑھ کر انہیں الگ کیا۔۔

"بس کردیں اب دونوں اللّه کا شکر ادا کریں کہ انہوں نے آپ کو ملوا دیا۔۔ بیٹھ جائیں کب تک یوں کھڑے رہیں گے!!!۔۔۔"

ان کو بٹھا کر اس نے نگہت کو آواز دی جو لوازمات سے بھری ٹرالی لیے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی۔۔

ارشما نے اورهان کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگایا۔۔

"میں نے آپ کو بہت یاد کیا ۔۔ آپ کی ڈیتھ کی نیوز سن کر مجھ لگا میں اس بھری دنیا میں تنہا رہ گئی ہوں۔۔"

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی اپنی آپ بیتی سناتی گئی۔۔

ماہ بیر لب پر مٹھی رکھے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا اس کی تکلیف دہ زندگی کی روداد سننے لگا۔۔

اورهان کی آنکھیں تکلیف کی شدت سے لال انگاڑہ ہورہی تھیں۔۔ اسکی نازوں پلی معصوم بہن کن کن حالات سے گزری تھی۔۔

اس کے خاموش ہونے پر وہ اس کے گرد حصار قائم کرتا اسے خود سے لگا گیا۔۔

"یار میری بیوی کو بار بار گلے لگا کر مجھے جیلس کررہے ہو تم؟؟؟۔۔۔"

ماہ بیر نے آنکھیں سکیڑ کر کہا تو ارشما نم آنکھوں سمیت ہنس پڑی۔۔

اورهان نے مسکرا کر سر جھٹکا۔۔

"تمہارا ظرف بہت بڑا ہے کہ تم نے سب کچھ جاننے کے باوجود میری بہن کو اپنایا ۔۔ اسے عزت اور محبت دی،، میں بہت شکرگزار ہوں تمہارا۔۔۔" اورهان کے نرمی سے کہنے پر ماہ بیر مسکرا دیا۔۔

🌚🌚🌚

ارشما کے ساتھ کافی وقت گزار کر انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا وہ حویلی سے نکل چکا تھا۔۔ راستے میں ایک جگہ رش کی وجہ سے اس نے گاڑی روک دی۔۔

لوگوں کا ہجوم دیکھ کر وہ گاڑی کا دروازه کھول کر باہر نکل آیا۔۔ ابھی وہ چند قدم چلا تھا کہ اس کے کان میں کسی کی آواز پڑی۔۔

"ہاں سب پلان کر لیا ہے میں نے اس بلبل سے دوبارہ ملاقات کا وقت آ گیا ہے۔۔ ہاہاہا !!! آج کل میں وہ لوگ روانہ ہوں گے ۔۔ اس بار رانا نے پکا انتظام کیا ہے۔۔ ان کے کئے کا بھگتان ان کی بیویاں بھگتیں گی۔۔ اب "دی گریٹ" ماہ بیر اور اس "اکڑ کے مارے" صالح یوسف کو پتہ چلے گا کہ رانا سے پنگا لینے کا کیا انجام ہوتا ہے!!!۔۔۔" جانی پہچانی آواز اور اس کے بولے گئے ناموں پر اورهان نے چونک کر پیچھے دیکھا۔۔

پہلی نظر میں ہی وہ رانا کو پہچان چکا تھا۔۔ اس کے ارادے جان کر اورهان کا دماغ گھوم گیا۔۔ وہ جلدی سے اس کے پیچھے بھاگا جو گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گیا تھا۔۔

اورهان واپس آیا اور جلدی سے انگیشن میں چابی گھماتا اس کا پیچھا کرنے لگا۔۔

🌚🌚🌚

" اوہ مائی گاڈ اٹس لائک میریکل!!!۔۔۔"

سکردو فورٹ پر قدم رکھتے ہی وہ دونوں مسمرائز سی قدرت کے بےانتہا دلکش نظاروں کو دیکھتی رہ گئی تھیں۔۔

یوں جیسے انھوں نے تصوراتی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔۔

یہاں کے سرد موسم کی مناسبت سے وہ گھٹنوں تک آتی شرٹس جینز میں لانگ کوٹس ، بوٹ پہنے ہوئے تھیں۔۔

ہاتھوں میں گلوز تھے۔۔ جبکہ صالح اور ماہ بیر نے سویٹر شرٹس جینز کے ساتھ لیدر کی جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی۔۔

ستائیس گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ سکردو کی سرزمیں پر پہنچے تھے۔۔

یخ ٹھنڈی ہوا اور ٹھٹھرتی دوپہر نے ان کا استقبال کیا تھا۔۔

اپنی رہائش پر کچھ وقت آرام کرنے کے بعد وہ "خر پوچو فورٹ" پر تفریح کی نیت سے آئے تھے جو سکردو شہر کی چوٹی پر واقع ہے۔۔

لكڑی کے جنگلے کے گرد آ کر کھڑی ہوتی وہ صالح کو دیکھنے لگی جو بلیک جیكٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ماتھے پر بکھرے بالوں کو جھٹکتا اسی کی جانب آ رہا تھا۔۔

مشائم نے ناک سکوڑ کر چہرہ گھما کر دیکھا تو ماہ بیر اور ارشما فورٹ کے اندر جا رہے تھے۔۔ "آپ کی ناک لال ہورہی ہے!!!۔۔۔"

مشائم نے گلوز والے ہاتھ سے اس کی ناک کو ہلکا سا کھینچا۔۔ صالح سر جھٹکتے مسکرایا۔۔ "کیسا لگ رہا ہے یہاں آ کر؟؟"

وہ ہوا سے اڑتے اس کے بالوں کو نرمی سے کان کے پیچھے اڑستا ہوا کہنے لگا۔۔

مشائم نے ہوا میں رچی سبزے اور پھولوں کی مہک میں گہرا سانس لیا۔۔

"بہت اچھا لگ رہا ہے اور آپ میرے ساتھ ہوں تو دنیا حسین ہی لگتی ہے!!"

دلکش لب و لہجہ!!

صالح نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے ساتھ قلعے کی راہداری میں چلنے لگا۔۔

"اور اگر میں نہ رہوں!!!۔۔۔"

وہ اسے تنگ کرنے کی غرض سے بولا تھا لیکن اس کے تاثرات دیکھ کر اسے اپنی کہے الفاظ پر افسوس ہوا۔۔

مشائم ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہاتھ جھٹک کر تیز تیز چلنے لگی۔۔ اسکے دور جانے کا خیال بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔۔

صالح تیزی سے آگے گیا اور اسے پشت سے گلے لگا گیا۔۔

"آئی ایم سوری!!!"

اس کے گال پر بوسہ دیتا وہ سرگوشی میں بولا۔۔

"بات نہ کریں مجھ سے!!!۔۔۔"

وہ خفگی سے چہرہ پھیر کر بولی۔۔

"مائی لو !!"

صالح نے اس کا رخ اپنی جانب کرتے اس کی پیشانی پر سرد لب رکھے۔۔

"نو!!!"

وہ آنکھیں موندے اس کے سینے پر مکا مارتی آہستہ سے بولی۔۔

اس کے ماتھے کے بل غائب ہوگئے تھے۔۔

صالح نے مسکراہٹ دبائی۔

"مائی جانو!!!۔۔۔"

مشائم نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔ وہ منہ کھولے سر اٹھا کر اسے دیکھے گئی۔۔ کم از کم اس شخص سے اسے ایسے الفاظ کی امید نہیں تھی۔۔ "شوخے!!!"

وہ بےساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ دباتی کان کے پیچھے بال اڑستی واک کرنے لگی۔۔

"جی آپ کا ہوں!!!۔۔۔"

وہ بھی اس کا ہم قدم ہوتا اس سے نوک جھونک کرنے لگا۔۔

🌚🌚🌚

قلعے کی سیڑھیاں چڑھتی وہ لڑکھڑائی تو ماہ بیر نے فوراً سے تھام لیا۔۔

"دیهان سے!!!"

اسے سیدھا کھڑا کرتا وہ فکرمندی سے بولا۔۔ ارشما کا پیر مڑ گیا تھا جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات ابھرے۔۔

"کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں؟؟۔۔۔" ارشما نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

"اوکے!!!۔۔"

ماہ بیر نے اثبات میں سر ہلاتے نرمی سے اسے بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔

"کیا ۔۔ کر رہے ہیں، ہم یہاں اکیلے نہیں ہیں!!!۔۔"

اس نے گھبرا کر چہرہ گھما کر پیچھے دیکھا۔۔ ماہ بیر خفیف سا ہنس دیا۔۔

"اتنا کیوں گھبرا رہی ہیں آپ وہ يقیناً کباب میں ہڈی نہیں بننا چاہیں گے !!!"

اس کے مضبوط بازوؤں کی گرفت میں وہ نظریں جھکاتی اس کی گردن میں چہرہ چھپا گئی۔۔

ماہ بیر نے آنکھیں موند کر کھولیں۔۔ فورٹ کی چھت پر آ کر اس نے آرام سے اسے نیچے اتار دیا۔۔ اپنی گردن پر اسکی گرم سانسوں کا احساس اسے ابھی تک ہورہا تھا۔۔

اپنے منہ زور جذبات کو سلاتے وہ لکڑی کے بنے جنگلے سے پشت ٹکا کر اس کے مقابل کھڑا ہوگیا۔۔ یہاں سے سکردو کے تمام پر فضا مقامات کو دیکھا جا سکتا تھا۔۔

ارشما نے ستائشی نظروں سے چاروں جانب دیکھا۔۔

"بہت دلکش ہے یہ سب!!!۔۔۔"

وہ بانہیں پھیلاتی سر اٹھا کر آنکھیں موندتی مسکرائی۔۔

اس کے شہد رنگ بال اس کے دودھیا گلابی گالوں سے ٹکراتے ہوا میں بکھر رہے تھے۔۔

"اور سب سے دلکش ہے آپ کی مسکراہٹ جس نے ماہ بیر سلطان کا دل جکڑ لیا ہے!!!"

اس کے دلکشی سے کہنے پر ارشما ایک قدم آگے بڑھی۔۔

اس کی سرمئی آنکھوں میں اسے دور دور تک اپنے لیے محبت ہی محبت نظر آ رہی تھی۔۔

گردن کو چھوتے بالوں میں بھری بھری داڑھی مونچھوں میں سینے پر ہاتھ باندھے اسے اپنی جانب دیکھتے پا کر اسے ٹوٹ کر ماہ بیر پر پیار آیا۔۔

یہ پہلی بار تھا جب وہ اس کے لیے ایسا جذبہ محسوس کررہی تھی۔۔

"آپ جب ۔۔۔ اس طرح مجھے دیکھتے ہیں ۔۔۔تو مجھے ۔۔ آپ پر ۔۔ بہت پیار آتا ہے!!!۔۔" جھجھک کر اس کے سینے پر سر رکھ کر اس کے گرد ہاتھ باندھتی وہ دھیمے لہجے میں بولی۔۔

ماہ بیر نے اسے خود میں بھینچا۔۔

"کبھی اس پیار کا اظہار تو کیا نہیں آپ نے!!!۔۔"

وہ خود سے لگی کھڑی اس لڑکی کے احساس کو محسوس کرتا سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔ اس کے سرگوشی کے انداز میں کہنے پر ارشما نے ٹھوڑی اس کے سینے پر ٹکاتے چہرہ بلند کیا تو ماہ بیر نے سر جھکا کر اسے دیکھا۔۔

اس کی پلکوں کو انگلی کی پوروں سے چھوتی وہ دھیرے سے مسکرائی۔۔ ماہ بیر نے جھک کر اس کی انگلیوں کو چوم لیا۔۔

"ویسے کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ کی شادی آپ کے سٹوڈنٹ سے ہوگی؟؟۔۔۔"

وہ یونیورسٹی میں گزرا وقت یاد کرتا مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتا بولا۔۔

ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ان سے ٹکڑایا تو ارشما ٹھٹھڑتی اس میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ ماہ بیر نے جیكٹ کی زپ کھول کر اسے خود میں چھپایا تھا۔۔

"کبھی نہیں سوچا تھا۔۔ آپ کو جب پہلی بار کلاس میں دیکھا تو میں بہت حیران ہوئی تھی۔۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی زہانت اور اچھے کیریکٹر کی وجہ سے آپ میرے فیورٹ سٹوڈنٹ بن گئے تھے۔۔" اس کے انکشاف پر ماہ بیر حیران ہوا۔۔

"آپ نے کبھی بتایا نہیں۔۔ آپ تو ایسی نظروں سے سب سٹوڈنٹس کو دیکھا کرتی تھیں جیسے انہیں نظروں سے ہی چبا جائیں گی!!

اس کے جھرجھری لے کر کہنے پر وہ کھلکھلا دی۔۔ اسے بچوں کی طرح کھلکھلاتے دیکھ کر ماہ بیر بےساختہ جھکا۔۔

اس کے لبوں پر نرمی سے ہونٹ رکھتے وہ اسے خود میں بھینچ گیا۔۔ ارشما نے اس کے لمس پر آنکھیں موندی تھیں۔۔

🌚🌚🌚

کمرے سے کھٹ پٹ کی آواز پر ارشما نے مندی آنکھیں کھولیں۔۔

ماہ بیر کو نک سک سا تیار دیکھ کر وہ جمائی روکتی کمفرٹر کو خود پر درست کرنے لگی۔۔ "کہاں جا رہے ہیں آپ؟؟"

اس کی سوئی سوئی سی آواز پر ماہ بیر موبائل پاکٹ میں ڈالتا اس کے پاس آیا۔۔

"آپ سو جائیں، میں ضروری کام سے جا رہا ہوں جلدی آ جاؤں گا!!!۔۔"

اس کی پیشانی پر لب رکھتا وہ گھڑی میں وقت دیکھتا کمرے سے باہر نکل کر آرام سے دروازہ بند کر گیا۔۔

ارشما نے مسکرا کر کروٹ بدلی اور آنکھیں موندتی نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی۔۔

🌚🌚🌚

صبح نو بجے:


بالوں کو گول مول جوڑے میں لپیٹتی وہ بیڈ سے اٹھی۔۔ باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔۔

بیڈ کی دوسری سائیڈ خالی دیکھ کر وہ بستر کی چادر ٹھیک کرنے لگی۔۔

موبائل کی سکرین آن ہونے پر وہ تکیے ٹھیک کرتی سائیڈ ٹیبل تک آئی۔۔

موبائل ان لاک کرتے اس نے نوٹیفیکیشن کو کھولا۔۔

کسی اَن۔نون نمبر سے مسیج آیا تھا۔۔


اَلَِْفرَاقُ اَشَدُّ مِنَ الْمَوْتِ


(جدائی مو*ت سے زیادہ سخت ہے)


اس نے اچنبھے سے میسج پڑھا۔۔

"پتہ نہیں کون ہے۔۔ "

سر جھٹک کر وہ کچن میں آئی اور چولہے پر چائے کا پانی چڑھا کر كیبنٹ کھولتی باقی سامان ڈھونڈنے لگی۔۔

دودھ اور پتی نکال کر اس نے سلیب پر رکھی ہی تھی کہ صالح فون کان سے لگائے باہر آیا۔۔

" تم۔۔ اورهان بات کررہے ہو ؟ یہ کس کا نمبر ہے؟

وہ جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر سنجیدگی سے بولا۔۔

دوسری جانب وہ دھیمی آواز میں عجلت سے کہنے لگا۔۔۔

"میرے پاس بات کرنے کا وقت نہیں ہے تم سب کی جان کو خط*رہ ہے ۔۔ رانا اسرار خان تم لوگوں کے پیچھے وہیں پہنچ چکا ہے۔۔ میں نے اس کی باتیں سنی تھیں وہ فون پر کسی کو کہہ رہا تھا کہ "کسی کچورا لیک" کے قریب ٹھکانہ بنائے گا اور موقع ملتے ہی اپنا انتقام لے گا۔۔ میرا کام تمہیں انفارم کرنا تھا۔۔"

جلدی جلدی کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔۔

صالح نے غصہ سے مٹھی بھینچتے اسے دوبارہ کال کی تو نمبر بند جا رہا تھا۔۔

غصے کی شدت سے دیوار پر مکا مار**تے وہ آندھی طوفان بنا گھر سے نکل گیا۔۔

مشائم اسے آوازیں دیتی اس کے پیچھےگئی لیکن وہ نہ رکا۔۔

تفکر سے اسکی پشت دیکھتی وہ اندر آئی۔۔ دروازه کھلا رہ گیا تھا۔۔

اس نے ارشما کے کمرے کے دروازے پر ناک کیا تو فوراً دروازہ کھل گیا۔۔

وہ فریش سی سرخ كیپری شرٹ میں ملبوس باہر آئی۔۔

"میں بس آ ہی رہی تھی۔۔ کیا ہوا تم پریشان ہو؟"

اسکے چہرے پر تفکرات کے سائے منڈلاتے دیکھ کر وہ پوچھ بیٹھی۔۔

"بھائی جان کو بلائیں ۔۔ یوسف بہت غصے میں گئے ہیں ۔۔ ان کو کال آئی تھی ۔۔ اس کے بعد وہ بغیر بتائے چلے گئے۔۔ مجھے بہت فکر ہورہی ہے ان کی۔۔۔"

مشائم کنپٹی مسلتی اسے کہنے لگی۔۔

"ماہ بیر تو نہیں ہیں وہ صبح ہی کسی کام سے چلے گئے تھے۔۔"

لب کاٹتی وہ مشائم کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں آئی۔۔

مشائم نے گہری سانس لی اور صوفے پر ٹک گئی۔۔

"میرا دل بہت گھبرا رہا ہے!!!"

ارشما نے اس کا کندھا تھپتھپایا ۔۔

"پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہوتا!!!

دل میں بہتری کی دعا کرتی وہ لاؤنج میں ٹہل رہی تھی۔۔ اسے کسی صورت سکون نہیں مل رہا تھا۔۔

ارشما انتظار کر کر کے تھک کر کمرے میں چلی گئی تھی۔۔ اسکی طبیعت عجیب ہورہی تھی۔۔ یوسف آگئے آآآ۔۔۔۔۔

قدموں کی آہٹ پر وہ پلٹ کر آگے بڑھی لیکن سامنے دروازے سے اندر آتے شخص کو دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔

رانا اسرار خان کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن سست ہوئی تھی۔۔ وہ كمینگی سے مسکراتا اس کی جانب بڑھنے لگا۔


آہا!!! میں آ گیا ۔۔۔ کیسا لگا میرا سرپرائز میری ایکس وائف؟؟؟۔۔۔"


مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر آنکھیں ایک پل کو موند کر سر جھٹکتا وہ اسے پاگل لگا۔۔

مشائم نے تھوک نگلتے قدم پیچھے لینے شروع کئے۔۔


"تم۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو جج۔۔ جاؤ یہاں سے ۔۔۔ میرے ۔۔شوہر کو پتہ چلا تو وہ حشر کریں گے کہ۔۔۔۔ "


اسے پس**ٹل نکال کر چومتے دیکھ کر اس کی گھگھی بندھ گئی۔۔۔

کانپتی ٹانگوں سے پلٹتی وہ گرتی پڑتی پیچھے کی جانب دوڑی۔۔

رانا نے تیز چمکیلی نظروں سے اپنے شکار کو دیکھا اور آن کی آن میں اس تک لپک کر اسے بازو سے کھینچ کر صوفے پر پٹخ*ا۔۔۔

مشائم کے حلق سے خوف کے مارے چیخ بلند ہوئی۔۔۔

وہ اپنے گرد بازو باندھتی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔

اس کا رنگ زرد پڑ گیا تھا۔۔

بےبسی کے احساس سے آنسو لڑی کی صورت آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔۔

اسکی چیخ کی آواز سن کر ارشما باہر آئی۔۔۔ ایک اجنبی شخص کو صوفے پر جھکتے دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوگئی۔۔

اس نے وہاں سے بھاگنا چاہا تا کہ کسی کو مدد کے لیے بلا سکے لیکن خوف نے اس کے قدموں کو منجمد کر دیا تھا۔۔۔

رانا نے سر گھما کر دیکھا تو اسے دور کھڑے پا کر کمینگی مسکراہٹ سے اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا۔۔

ارشما کے چہرے سے جیسے خو**ن نچڑ گیا ہو۔۔۔ اس سے درندوں سے بد تر سلوک کرنے والا،، اسکی عزت کو تار تار کرنے والا ایک بار پھر اس کے سامنے تھا۔۔

وہ جیسے اس رات میں پہنچ گئی تھی جب وہ اسکی نسوانیت کے پرخچے اڑا رہا تھا۔۔

اس نے بےاختیار نفی میں سر ہلایا۔۔


"ادھر آ جا میری بلبل ملاقات کی گھڑی آئی ہے،، آ جا اس رات کی طرح میری بانہوں میں سما جا۔۔ چل آ جا نہ!!!۔۔۔"


وہ سرمستی سے کہتا اسے سر تا پیر تک گھورنے لگا۔۔

مشائم نے بےبس کھڑی ارشما کو ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا اور گود میں سر رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

رانا نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔ اسے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر بلند کرتے اس نے زناٹے دار تھپڑ مشائم کے منہ پر ما**را۔۔۔


"بات کررہا ہوں نہ اپنی بلبل سے ۔۔۔ ڑیں ڑیں لگائی ہوئی ہے ۔۔۔ صبر کرلو تھوڑی دیر اپنی بلبل سے ملاقات کر کے تمہارے ساتھ فرصت سے وقت بتاؤں گا!!!۔۔۔"


سر کو گھما کر جھٹکتا وہ عجیب سے انداز میں بولا۔۔

مشائم منہ پر ہاتھ رکھے اپنی آواز کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرنے لگی۔۔

ارشما بت بنی کھڑی تھی۔۔۔ اس کے جسم سے جیسے قطرہ قطرہ جان نکل رہی تھی۔۔۔

دفعتاً اس کی نگاہوں کے سامنے کا منظر دھندلایا تھ آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا اور وہ پورے قد سے نیچے گری۔۔

رانا سرعت سے اس کی طرف لپکا۔۔


"ابھے اٹھ یہ ڈرامے بعد میں کرنا!!!۔۔"


جھک کر اس کا چہرہ تھپتھپاتے وہ دانت پیس کر بولا۔۔


'بھابھی!!!۔۔'


مشائم اٹھ کر ارشما کی جانب لپکی۔۔ اس کے ارشما کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی رانا نے اسے دور دھکیلا۔۔

بیہوش پڑی اپنی بلبل کو اٹھا کر اس نے صوفے پر پٹخا۔۔

اور سرخ آنکھوں سے مشائم کو گھورتا اس کی جانب بڑھا۔۔۔

🌚🌚🌚


11:15 AM


گاڑی دور کھڑی کر کے وہ رانا کا پیچھا کرتے ایک عالیشان گھر کے سامنے رکا۔۔

سردی سے اس کی ناک سرخ ہورہی تھی۔۔ یہاں آنے تک اس نے بیشتر ماہ بیر کا نمبر ڈائل کیا لیکن سگنلز کی خرابی کی وجہ سے اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔

ارد گرد پھیلی ویرانی کو دیکھتا وہ سیڑھیاں چڑھ کر ماربل کے چمکتے برآمدے پر بغیر چاپ پیدا کئے چلتا دروازے کے قریب آیا۔۔

دروازه کھلا دیکھ کر وہ دل کڑا کرتا اندر داخل ہوگیا۔۔

گھر میں موت کا سا سناٹا پا کر وہ چار قدم آگے بڑھا کہ کسی نے اس کے سر پر زبردست وار کیا۔۔ كراه کر وہ سر کی پشت پر ہاتھ رکھتا چکرا کر نیچے گرا۔۔

لائٹ آن ہوئی اور و ہ تالیاں بجاتا سامنے آیا۔۔


"ماننا پڑے گا 'میر اورهان صمید' تمہیں!!!!۔۔۔" گ**ن کی نوک پر پھونک مارتا وہ پیچھے ہٹا تو کچھ دور صوفے پر بےسدھ پڑی ارشما اور اس کے ساتھ سکڑ کر بیٹھی مشائم واضح ہوئیں۔۔ اورهان نے نیچے گرے ہی دھندلی نظروں سے انہیں دیکھا تو طیش کے مارے سر میں اٹھنے والے شدید درد کو برداشت کرتا اٹھ بیٹھا۔۔۔


"دور رہو ان سے!!!۔۔۔"


اسے ان کی جانب بڑھتے پا کر وہ حلق کے بل چلایا۔۔

اورهان کے سامنے ارشما کے گال کو دو انگلیوں سے چھو کر وہ تمسخر سے کہنے لگا ۔۔

رسی جل گئی پر بل نہیں گیا!!

اورھان ضبط کھو کر اٹھا اور خطرناک تیوروں سے اس کی جانب بڑھا۔۔ رانا نے زمین کی طرف نشانہ کرتے گو**لی چلا دی۔۔

فا**ئر کی آواز پر اورهان اس سے کچھ فاصلے پر رکتا لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔


"اگلی بار یہ گو**لی تیری بہن کے بیجھے میں جائے گی چل پیچھے بلکہ اس کمرے میں جا!!! چل بکواس کررہا ہوں میں کچھ کمرے میں جا نہیں تو!!!۔۔۔


ارشما کی کنپٹی پر گن رکھتا وہ چلایا۔۔

اورهان نے سختی سے لب بھینچ کر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور الٹے قدم لیتا کمرے میں داخل ہوگیا۔۔


"دروازه بند کر اندر سے!!!۔۔۔"

اس کی مذید ہدایت پر اس نے ٹھا کی زوردار آواز سے دروازه بند کیا کہ رانا دہل گیا۔۔

اس نے جلدی سے دروازہ باہر سے لاک کر دیا۔۔


"سالے کمبخت!!!۔۔"

زیر لب انہیں گا**لی سے نوازتا وہ آگے کے بارے میں سوچنے لگا۔۔

🌚🌚🌚


11:35 AM


مطلوبہ جگہ پہنچ کر اس نے چپہ چپہ چھان مار*ا لیکن کسی کا نام و نشان نہ ملا۔۔

اس نے موبائل نکال کر وقت دیکھا۔۔

آخر اورهان نے اسے کال کیوں کی جب یہاں کوئی ہے ہی نہیں ۔۔۔

"اورهان نے مجھے کال کی کیسے۔۔۔؟؟ اس کے پاس تو میرا نمبر ہی نہیں ہے!!!۔۔۔"

اس کا دماغ بھک سے اڑا۔۔

"اوہ شٹ!!!۔۔۔"

اس کی چھٹی حس نے خطرے کا سگنل دیا۔۔ وہ بغیر ایک لمحے کی دیر کئے گاڑی کی جانب لپکا۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


12:00 PM


ریش ڈرائیونگ کرتا وہ جلدی سے واپس آیا اور پھرتی سے دروازه دهكیل کر اندر آیا۔۔۔

لاؤنج میں ارشما کو سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر وہ لپکتا اس کی جانب آیا۔۔

"آپ اس طرح کیوں بیٹھی ہیں!!!۔۔"

اس کے ہلکی آواز میں پوچھنے پر وہ سر اٹھا کر صالح کو دیکھنے لگی۔۔

اسے سامنے دیکھ کر دل خوشی کے احساس سر دھڑکنے لگا تھا۔۔

اس نے بولنا چاہا لیکن حلق میں آنسوؤں کا پھندہ لگا۔۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھتی وہ بلکنے لگی۔۔

صالح شدید پریشان ہوگیا۔۔

"کچھ بتائیں تو مشائم کہاں ہیں؟؟

ارشما نے آنکھیں صاف کرتے اٹک اٹک کر کہا ۔۔ "وہ۔۔۔وہ۔۔ اس ۔۔ کمرے میں ۔۔۔ !!!"

صالح پھرتی سے کمرے کی جانب گیا۔۔ اندر کا منظر دیکھ کر اس کا لہو کھول گیا۔۔

سامنے وہ مشائم کو بازو سے دبوچے اس پر جھکا کچھ کہہ رہا تھا۔۔

صالح خطرناک تیوروں سے اس کی جانب بڑھا اور اسے گردن سے پکڑ کر باہر گھسیٹا۔۔

گھسیٹتے ہوئے وہ اسے دروازه ٹانگ ما*ر کر کھولتا باہر لے آیا اور پوری قوت سے زمین پر پٹخا۔۔

اس اچانک پڑنے والی افتاد پر رانا کے چھکے چھوٹ گئے۔۔

صالح کو سامنے دیکھ کر اس کے منہ پر مو**ت کو زردی چھا گئی۔۔

اس نے حلق تر کرتے کچھ فاصلے پر گری پس**ٹل کو دیکھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اندر ارشما نے جلدی سے فون لا کر ماہ بیر کا نمبر ملایا۔۔

مشائم بھاگتی ہوئی باہر آئی اور اس سے لپٹ گئی۔۔

ارشما نے ایک بازو اس کے گرد حائل کر لیا جبکہ دوسرے سے وہ مسلسل ماہ بیر کا نمبر ڈائل کررہی تھی۔۔

تنگ آ کر اس نے ماہ بیر کے لیے میسج چھوڑ دیا۔۔

مشائم کو ساتھ لپٹائے وہ شدید تیز دھڑکتے دل سے باہر کی جانب دیکھنے لگی جہاں صالح ، رانا کو بری طرح پی**ٹ رہا تھا۔۔

اس نے اسے زمین سے اٹھایا اور اس کے پیٹ میں گھٹنا مار**ا۔۔


"میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی جرات کیسے کی تو نے؟ تیری اتنی ہمت کہ ہماری عورتوں سے بدتمیزی کرے!!؛۔۔۔


اسے دھکا دیتے صالح نے گھونسے ما*ر ما*ر کر اس کا چہرہ لہو**لہان کر دیا۔۔

رانا نے ہانپتے ہوئے آنکھیں موندیں تو اس کے بھائی کا چہرہ اسکے دماغ کی سکرین پر لہرایا۔۔ نیلی سوجھی آنکھیں کھولتے وہ پوری قوت سے داڑھتا صالح کی جانب بھاگا اور اسے زوردار دھکا دیا۔۔

وہ ایک دم لڑکھڑایا۔۔ رانا نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور جھک کر زمین سے ریوا**لور اٹھایا اور پھرتی سے فا**ئر کر دیا۔۔

صالح کی خوش قسمتی کہ وہ بروقت پیچھے ہٹا تھا جس سے نشا*نہ چوک گیا۔۔


"یوسف!!!

گو**لی کی آواز سن کر مشائم اندھا دهند بھاگتی باہر آئی۔۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر آنسوؤں کے نشان تھے۔۔

صالح نے كراه کر اسے دیکھا۔۔ مشائم سے غلطی ہوئی تھی کہ وہ سامنے آ گئی تھی۔۔ اسی غلطی کا رانا کو انتظار تھا۔۔

اس نے جلدی سے مشائم کو دبوچا اور اس کی گردن کے گرد بازو رکھ کر پس**ٹل کی نوک اس کی کنپٹی پر رکھی۔۔۔

فاتحانہ نظروں سے صالح کو دیکھتا وہ الٹے قدم لینے لگا۔۔


"آ ہاں بلکل نہیں ۔۔۔ اگر میری طرف آئے تو تیری بیوی کو سیدھا اوپر پہنچا دوں گا!!!۔۔ "


مشائم کی گردن پر گرفت سخت کر کے وہ اسے وارن کرتا بولا۔۔

گلے پر تنگ ہوتی گرفت سے وہ بےساختہ کھانسنے لگی تھی۔۔ وہ خود کو اسکی گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

صالح نے آنکھیں سختی سے میچیں۔۔ اتنے میں ماہ بیر بھی وہاں پہنچ گیا۔۔

اس نے دروازے سے باہر نکلتے سر تھامے اورهان کو دیکھا جس کے ساتھ باہر آتی ارشما منہ پر ہاتھ رکھےروتی ہوئی مشائم کو دیکھ رہی تھی۔۔ رانا پیچھے پہاڑی راستے پر چڑھنے لگا تھا۔۔ جونہی وہ مشائم کو بازو سے گھسیٹتا بھاگا صالح اور ماہ بیر پھرتی سے اس کے پیچھے دوڑے۔۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے وہ ہانپتے ہوئے کچھ فاصلے پر آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔

ان کے پیچھے کھائی تھی جبکہ دو جانب دریا اور ایک طرف خطرناک پتھریلا راستہ تھا۔۔

ماہ بیر نے دماغ کے گھوڑے دوڑائے۔۔


"کیوں کررہے ہو ایسا تمہاری لڑائی ہم سے ہے مرد بنو بےغیرت نہیں!!!۔۔"


ماہ بیر کے درشتگی سے کہنے پر رانا قہقہہ لگا گیا۔۔ پھر خونخوار نظروں سے وہ ان دونوں کو دیکھتا داڑھا۔۔


" آج میں کسی بات میں نہیں آؤں گا۔۔ نہیں بخشوں گا میں ۔۔ کوئی رحم، ترس نہیں کھاؤں گا جس طرح میرے بھائی پر رحم نہیں کھایا تم نے!!!


وہ حلق کے بل چلایا۔۔ اس کی آواز دور دور تک گونجی تھی۔۔ ماہ بیر نے چونک کر صالح کو دیکھا جو ضبط کی آخری حد پر تھا۔۔


کونسا بھائی؟؟


ماہ بیر کا کہنا ہی تھا کہ اس نے مشائم کو جھٹکے سے پاس کرتے اس کی شاہ رگ پر پسٹ**ل کی نوک رکھی۔۔


"وہی بھائی جسے اپنے تخت نشین ہونے کے دن تم لوگوں نے ما**ر دیا تھا۔۔ آج بلکل ویسے ہی میں تیری بہن اور اسکی بیوی کو مار**وں گا۔۔"


ماہ بیر کو نفرت سے دیکھتے اس نے صالح کی جانب اشارہ کیا۔۔

صالح ضبط کی تمام حدیں پھلانگتا بغیر سوچے سمجھے مشی کو روتے دیکھ کر اس کی جانب بڑھا۔۔

اس کی مشائم کو وہ شخص کب سے رلا رہا تھا صالح یوسف کو کب یہ گوارا تھا۔۔

لمحوں کا کھیل تھا۔۔

کسی نے تو جانا تھا نہ۔۔

کسی کی خاطر۔۔

رانا نے لمحے کے ہزارویں حصے میں مشائم کو دور دهكیلا۔۔

صالح کی طرف پسٹ***ل کا رخ کرتے وہ فا**ئر کرتا گیا۔۔

اپنا انتقام لے کر وہ پہاڑ سے کود گیا۔۔

تیز گرم سلاخیں اسے خود میں گھستی محسوس ہوئیں جو اس کا اندر چیڑ گئی تھیں۔۔

اس نے بےيقینی سے سر جھکا کر سینے سے بھل بھل گرتے سرخ مادے کو دیکھا۔۔

گاڑھا سرخ مادہ!!

اس نے سر گھما کر دیکھا۔۔ مشائم دیوانوں کی طرح چیختی بھاگتی اس کی جانب آ رہی تھی۔۔ کوئی کرب زدہ آواز سے چیختا اسے بلا رہا تھا۔۔ یہ آواز اس نے سن رکھی تھی۔۔

ہاں اس آواز کو تو وہ جانتا تھا۔۔ اس کے سائیں کی آواز تھی وہ۔۔

اس نے سانس لینے کی کوشش کی۔۔

دقت سی دقت تھی ۔۔

منہ سے گرتے خو**ن کو دیکھتا وہ پورے قد سے زمین بوس ہوا تھا۔۔

سینے سے گرتا خو**ن زمین پر بہتا تالاب بنانے لگا تھا۔۔

اس نے سر گھما کر زمین پر جمع ہوتے خو**ن کو دیکھا۔۔

مشائم کانپتے لبوں سے اس کا نام پکارتی اس کا سر گود میں رکھتی اس کے گال پر ہاتھ رکھ گئی۔۔

"یوسف کچھ نہیں ہوگا آپ کو ۔۔ میری سانسیں چل رہی ہیں ۔۔ تو آپ کو کیسے کچھ ہو سکتا ہے!!!"

صالح نے آخری نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔۔

یہ وہ عورت تھی جس سے اس نے بےحد محبت کی تھی۔۔

مشائم کے چہرے کو دیکھتے وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔ یہ مسکراہٹ بس اس دیوانی کے لیے ہی تو تھی۔۔

ایک آخری سانس لیتے اس نے ہچکی لی۔۔

آنکھوں میں زندگی کی حرات باقی نہ رہی۔۔۔ وجود مٹی ہوگیا تھا۔۔

بس خاک!!!

مشائم خوف سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

اس کی گود میں وہ شخص اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ چکا تھا جسے اس نے خدا کے بعد سب سے زیادہ چاہا تھا۔۔

جس کے عشق میں وہ اپنی ہستی بھلا بیٹھی تھی۔۔

"یوسف؟؟"

اس کے کان کے پاس جھکتی وہ سرگوشی میں بولی۔۔

"میں بلا رہی ہوں اٹھ جائیں نہ ۔۔ مجھے تنگ کررہے ہیں نہ!!!"

اس کے سرخ سینے پر اپنا دوپٹہ رکھتی وہ اس کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر بلند کرتی خود سے لگا گئی۔۔۔

میرا بچہ!!!

"میں آپ کو کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی۔۔ آپ نے ابھی تو مجھے بہت پیار کرنا تھا۔۔ آپ ۔۔۔۔"

وہ اس کے بال سہلاتی آنکھیں موند گئی۔۔۔

کئی آنسو ٹوٹ کر گرے تھے۔۔

ارشما اور اورهان سست قدموں سے چلتے ماہ بیر کے پاس آ کر کھڑے ہوئے جو گھٹنوں کے بل گرا منہ پر ہاتھ رکھے بلک رہا تھا۔۔

جیسے ہی ارشما کی نظر صالح کے خو**ن سے لت پت وجود پر پڑی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔

منہ پر ہاتھ رکھتی وہ بلک بلک کر روتی ہوئی آگے گئی اور مشائم کو اٹھاتی اسے گلے سے لگا گئی۔۔

اورهان نے ماہ بیر کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ سرخ نم آنکھوں سے اسے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔


🌚🌚🌚


چند سال بعد ۔۔۔۔۔


ارشی بیٹا مما کی بات مانتے ہیں نہ؟؟

اپنی آفت کی پرکالہ کو دیکھ کر اینارا نے دانت پیسے جو ہاتھ میں پینٹ برش پكڑے اسے صاف ستھری دیوار پر ملنے کی تیاری کررہی تھی۔۔

ٹاپ جینز میں ملبوس چار سالہ ارشیہ نے ناک سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔

"نو!!!"

ٹکا سا جواب دے کر وہ زبان باہر نکالتی دیوار کے پاس آئی۔۔

اینارا نے غصے سے اسے گھورا اور تن فن کرتی اس سے برش کھینچ کر کمر پر ہاتھ ٹکا کر کھڑی ہوگئی۔۔۔

"منع کیا ہے نہ میں نے اگر اب تم نے دیوار گندی کرنے کی کوشش کی تو میں زور سے پٹائی کروں گی تمہاری!!!۔۔۔"

اس کے غصے سے بولنے پر ارشیہ نے ہونٹ باہر نکالے۔۔

چند سیکنڈ اپنی کھڑوس مما کو دیکھ کر اس نے زور و شور سے رونا شروع کر دیا۔۔

"ارے ارے میری بیٹی کو کیوں رلا رہی ہیں آپ!!!۔۔۔"

اورهان کو دیکھ کر ارشیہ جلدی سے اس کی طرف بھاگی تو اس نے اسے اوپر اٹھا لیا اور اس کے دونوں گال چوم کر خود سے لپٹا لیا۔۔

ارشیہ نے اس کی گردن کے گرد ننھے بازو حائل کر لیے اور اس کے كندھے پر سر ٹکا گئی۔۔ اورهان نے اس کا سر چوما۔۔

"آپ کی ہی بیٹی ہے یہ میری کہاں ہے؟ میں کچھ بھی کہہ لوں مجال ہے جو بات مان لے میری!!!"

خفگی سے کہہ کر وہ جانے لگی۔۔

اورهان نے آگے بڑھ کر نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔۔

"کیوں اپنی نازک جان ہلکان کرتی ہیں؟ بچی ہے آہستہ آہستہ سمجھ جائے گی!!!"

اس کے بالوں کو نرمی سے سنوارتا وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔

اچھا چلیں فریش ہوجائیں میں کھانا لگاتی ہوں!!!۔۔۔۔

🌚🌚🌚

لکلی کی گالی ۔۔۔ گالی میں گولا۔۔۔۔ اوہ ہو!!!

(لكڑی کی گاڑی،، گاڑی میں گھوڑا)

سر پر بڑا سا دوپٹہ ڈالے وہ پتلی سی توتلی آواز میں بولتی لاؤنج میں رکھے فون سٹینڈ کے پاس آئی۔۔

اس کا دوپٹہ پیچھے زمین پر پھیلا جھاڑو کا کام کررہا تھا۔۔

اوفو!!!

اس کا ننھا سا پیر دوپٹے میں اٹکا تو وہ جھجھلائی۔۔

فون پکڑ کر اس نے پہلا نمبر ملا دیا اور دوسری جانب سے کال اٹھائے جانے کا انتظار کرنے لگی۔۔

سپیکر سے سنجیدہ آواز گونجی تو وہ بےاختیار خوش ہوئی۔۔

ہیلو اب۔۔را۔۔ ہیم!!!

اس نے توڑ توڑ کر آرام سر اس کا نام لیا کیونکہ غلط نام لینے پر وہ کئی بار اسے ڈانٹ چکا تھا۔۔ چار سالہ زنیشہ ، اپنے سے چند ماہ بڑے ابراہیم یوسف کی ہر بات ماننا اپنا فرض سمجھتی تھی۔۔ "میں نے ادل آنا پھپھو پاش تم لے دو!!!"

(میں نے ادھر آنا پھپھو پاس تم لے جاؤ)

دوسری جانب سے سنجیدگی سے کچھ کہا گیا جس پر وہ منہ بنا گئی۔۔

"بابا نہیں لاتے ۔۔

وہ مما تو پالی کل لئے!!!۔۔"


زنیشہ؟؟؟۔۔۔ اسکی بات سن ارشما نے سرخ چہرے سے اسے دیکھتے فون پکڑ کر کریڈل پر رکھ دیا۔۔

"چلو کمرے میں یہ کیا حلیہ بنایا ہے اور مما کو بتائے بغیر آیندہ کسی کو فون نہیں کرو گی اوکے؟؟"

اسے سرزنش کرتی وہ اسے گود میں اٹھاتی کمرے کی طرف بڑھی۔۔

"اوکے مما دی (جی) !!! "

وہ توتلی زبان میں بولی تو ارشما نے زور سے اسکا گال چوم لیا۔۔

بابا کے پاس بیٹھو !!!

بیڈ پر نیم دراز ماہ بیر کو تھما کر وہ کام کاج میں لگ گئی۔۔

"بابا کی جان کیا کررہی تھی؟؟"

وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا اس کی روداد سننے لگا۔۔

موبائل کی سکرین آن ہونے پر اس کی نظر وال پیپر پر لگی صالح کی تصویر پر پڑی۔۔

ایک اداس مسکان نے اس کے چہرے پر بسیرا کیا تھا۔۔

🌚🌚🌚

ماما آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟؟

صحن میں اسے گم صم آسمان پر چمکتے چاند کو تکتے دیکھ کر وہ آہستہ سے اس کے برابر آ بیٹھا۔۔

مشائم نے نظریں گھما اداس نظروں سے اسے دیکھا۔۔

سیاہ شلوار قمیض میں بازو کہنیوں تک موڑے مستقل بل زدہ پیشانی میں وہ ہوبہو صالح کی طرح دکھتا تھا۔۔

ویسے ہی مغرور نقوش اور نخرہ۔۔۔

مشائم نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے اس کی پیشانی چومی۔۔

ماما آپ مون میں کس کو دیکھتی رہتی ہیں؟؟ وہ ننھے ہاتھ چہرے کے گرد ٹکاتا معصومیت سے آسمان کو دیکھنے لگا جہاں تاریکی میں تاروں کے جھرمٹ میں چاند چمک رہا تھا۔۔۔

"آپ کے بابا کو دیکھتی ہوں مون میں!!! " اس کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔

"وہ تو بہت دور ہیں نہ ہم سے؟؟

گردن موڑ کر سیاہ آنکھوں میں اداسی سموئے وہ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔

مشائم نے سر ہلایا۔۔

"نہیں وہ ہمارے بہت قریب ہیں ہمارے دل میں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے!!!۔۔۔"

اداس مسکراہٹ سے اسے دیکھتی وہ نرمی سے بولی۔۔

"جاؤ شاباش سو جاؤ صبح سکول جانا ہے!!!۔۔۔"

ابراہیم سر ہلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔

"گڈ نائٹ ماما!!!۔۔۔"

اس کا سر چوم کر وہ اندر جانے کے لیے پلٹ گیا۔۔

مشائم نے ڈبڈبائی نظروں سے اس کی پشت کو دیکھا۔۔

ہو بہو صالح کی طرح وہ ہر رات اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر سوتا تھا۔۔

اس کے کمرے میں غائب ہونے کے بعد وہ تصور کی آنکھ سے چاند کے ہالے میں اس کا چہرہ چمکتا دیکھنے لگی تھی۔۔

("یہ بال ہٹائیں چہرے سے!!!۔۔۔ آپ کے ہونٹوں کو چھوتی یہ لٹیں مجھے اپنی رقیب لگ رہی ہیں۔۔!!!")

(میرا ایمان خراب کررہی ہیں آپ!!!")

(کیوں محبت کرتی ہیں مجھ سے اتنی؟؟)

("آپ تو مجھے پاگل کررہی ہیں۔۔!!!")

وہ سراپا محبت تھا جس کو ٹوٹ کر چاہنے کو جی چاہتا تھا۔۔ اس کی محبت بھری سرگوشیاں آج بھی اس کے کانوں میں گونجا کرتی تھیں۔۔ اس کے عشق میں دیوانی وہ عشق نگر کی لمبی نا ختم ہونے والی راہوں پر چلتی وہ بہت دور نکل آئی تھی۔۔ اس کا محبت بھرا احساس محسوس کرتی وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔۔ یوں لگا تھا جیسے وہ اس کے آس پاس ہو۔۔ اس کی سانسوں میں رچا۔۔ اس کی دھڑکنوں میں دھڑکتا۔۔ اس کے قریب۔۔ بے حد قریب!!!

ختم شد ۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan written by Mirha Khan. Lambiyan Ne Rahwan Ishq Diyan by Mirha Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages