Ishq Bedardi By Rohe Rehma New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 1 August 2024

Ishq Bedardi By Rohe Rehma New Complete Romantic Novel

Ishq Bedardi By Rohe Rehma New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Bedardi By Rohe Rehma Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ishq Bedardi

Writer Name: Rohe Rehma

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

میرب بیٹا کہاں سے آرہی ہو۔۔۔۔؟؟

بس رانیہ کی طرف گئی تھی اس سے کچھ کام تھا۔ آپ کو کچھ کام تھا کیا۔۔؟؟

"نہیں"۔۔بتا کے جایا کرو میں پریشان ہو رہی تھی ۔۔ 

" جی اچھا "  میرب قریب آئی  اور پیار سے ان کے گرد اپنی بانہو ں کا گھیرا ڈالا ۔ 

کیا ہوگیا ہے ۔۔ میری سوہنی  اماں جان آپکو  پتا ہےکہ میں صرف رانیہ کے گھر ہی  جاتی ہوں  اور میں نے کہاں جانا۔۔۔؟؟ وہ منہ بسورے ہوۓ بولی 

چل پرے ہٹ مجھے اب مکھن مت لگا۔۔۔

ہاےرےےے۔۔بھلے میں کیوں مکھن لگانے لگی۔۔۔۔

اچھا اماں جان !! ابان بھائی کہاں پر ہیں ۔۔ ؟؟ 

سحرش کے ہاں گیا ہوا ہے کچھ شاپنگ رہ گئی تھی دونوں مارکیٹ گئے ہیں ۔

تمہارے پیپرز کب ختم ہو رہے ہیں۔۔۔؟؟

کل لاسٹ پیپر ہے ۔۔ 

" چلو اللہ بہتر کرے گا  میں اب فریش ہو جاؤں اور پھر مجھے مارکیٹ جانا ہے کچھ چیزیں لینی ہیں ۔۔۔۔ وہ پیار سے  میرب کو دیکھتے ہوۓ وہاں سے اٹھی تھی 

❤️

میرو یار کہاں ہو تم ؟؟ وہ غصہ سے اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا

کیا ہوگیا ہے ۔ ؟ اتنا شور کیوں کر رہے ہیں آپ ۔۔۔؟؟

 شور کی بچی کب سے تمہارا ویٹ کررہا ہوں کب آپ محترمہ آئیں اور کب میں آپ کو پڑھاؤں ۔ وہ اسے گھورتے ہوۓ بولا جو اس کی بات پر منہ کھول کر ہنس رہی تھی

وہ کچھ بیزار ہوا یار پلیز میرب میرے پاس بلکل ٹائم نہیں ہے ۔۔ وہ اب کی بار غصے سے بولا تھا 

جی میں آرہی ہوں۔۔۔ وہ اس کے غصے سے گھبرائی 

ہاۓ میرو اب تو تیری خیر نہیں دو منٹ میں آگئی بس اس نے دور سے ہی آواز لگائی تھی

کیسے پیپرز ہوۓ تمہارے۔۔؟؟

ہاں بسں اچھے ہی ہوگئے ہیں۔۔۔کیمسٹری کا تو بہت ہی گندا ہوا ۔۔ 

وہاٹ۔؟؟ابان کا کا صدمے سے برا حال ہوا ۔ تمہیں میں نے کمیسٹری کی تیاری پوری رات کروائی تھی ابھی بھی پیپر گندا ہوا ہے میرو یار تم میری سمجھ سے باہر ہو ۔۔

کل کونسا پیپر ہے ۔۔

میتھس کا ۔۔ 

اب میتھس وہ تمہیں نہیں آتا ۔ اب سارا دھیان تمہارا یہاں پر ہو اور نیند کو آج اپنے اوپر حاوی مت کرنا ۔۔۔

بہت دیر سے اس کی جان چھوٹی تھی ۔۔۔۔اس نے اپنے کمرے میں  آکر  ہی دم لیا تھا یار کیا مصیبت ہے۔۔ ہر وقت پڑھنا ہم نے تو بس 12 ہی کرنی ہیں۔۔۔ہم سے نہیں زیادہ پڑھا جاتا ۔۔ وہ بیزار لگ رہی تھی اس سے پہلے کہ وہ اپنے نازک سے دماغ پر اور زور ڈالتی نیند اسے اپنی آغوش میں لے چکی تھی ۔۔ 

❤️

آبان بیٹا آپ واقعی ہی سحرش سے شادی کررہے ہیں ۔۔ 

جی موم بلکل آپ کیا سمجھی کہ میں ٹائم پاس کر رہا ہوں تو ایسا بلکل نہیں ہے ۔ 

ابان بیٹا آپ  اپنے چچا جان کی آخری خواہش کو جانتے ہو گے کہ وہ آپکو اپنا بیٹا بنانا چاہتے تھے ان کی یہ خواہش تھی۔۔۔

پر ماما میں میرب سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔ آپ جانتی ہیں اس میں ابھی تک کتنا بچپنا ہے ۔

کیا ہوگیا ہے ابان کچھ لڑکیاں شادی سے پہلے میچور ہو جاتی ہیں تو کچھ بعد میں اور کہاں تک میرب کی بات ہے وہ  ابھی تک صرف اٹھارہ کی ہے ۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ اس گھر کو چھوڑ کر کہیں اور جاۓ ۔

 مجھے بہت ڈر لگتا ہے اگر میرو کا سسرال اچھا نہ ہوا۔ تو کیا ہوگا میں رحمٰن صاحب کو کیا منہ دکھاؤں گی ۔ وہ میری ذمےداری ہے۔ اگر میرو کو کچھ ہوگیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گی ۔

کیا میرا مرنا تمہیں منظور ہے ۔ ؟؟

 آبان نے یہ سنتے ہی چونکا اور جلد سے زوبیہ بیگم کے منہ پہ اپنا رکھ گیا 

کیا ہو گیا ہے ماما آپکو ؟؟ پلیز ایسی باتیں مت کریں آپ جانتی ہیں میں سحرش سے محبت کرتا ہوں پھر بھی آپ کہہ رہی ہیں کہ میں میرب سے شادی کر لوں ۔ اگر آپ یہی چاہتی ہیں تو مجھے منظور ہے میں آپ کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا ۔

مجھے منظور ہے میں میرب سے شادی کروں گا  لیکن میری بھی ایک شرط ہے میں سحرش سے محبت کرتا ہوں تو اس کو میں دھوکا نہیں دے سکتا اور میں اس سے شادی بھی کر کے ہی رہوں گا ۔ وہ اپنی بات کہہ کر رکا نہیں تھا غصہ سے اس کا دماغ پھٹ رہا تھا اس نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل گیا

زوبیہ بیگم کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ مان گیا ہے ۔ وہ آج بہت خوش تھیں ۔

جیسے تیسے کرکے آنہوں نے آبان کو منا ہی لیا تھا ۔ باقی میرب اسے خود ہی ٹھیک کر لے گی ۔

❤️

ہاۓ اماں جان  باہر کیوں کھڑی ہیں اندر آجائیں 

 وہ اس کی آواز پر ہنس کر اندر داخل ہوئی تھیں ۔

کیا ہو رہا ہے ؟؟ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوۓ بولی 

 اسائنمنٹ بنا رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ مصروف سے انداز میں بولی 

چلو بنا لو پھر فارغ ہو کر میرے کمرے میں آنا مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے  ۔

نہیں نہیں ۔۔ اماں جان !!  میں فارغ ہی ہوں آپ بتائیے میں سن رہی ہوں  ۔۔ " وہ  سارا کام چھوڑ کر زوبیہ بیگم کے پاس بیٹھ گئی ۔

میں نے آبان کے بارے میں پوچھنا تھا میں تم دونوں کا جمعہ کے دن نکاح کروا رہی ہوں ۔ زندگی موت کا کچھ نہیں پتہ کب موت آجاۓ میں ویسے بھی ٹھیک نہیں رہتی ۔ پتہ نہیں کب موت کا بلاوا آجاۓ اور مجھے جانا پڑے ۔ اس سے پہلے تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں اور مجھے جو فیصلہ اچھا لگا میں نے وہ آپ دونوں کو سنا دیا ہے

میرب ان کی بات پر کچھ سوچتے ہوۓ بولی تھی ۔

اماں جان جیسے آپ کی مرضی اگر آبان کو کوئی احتراز نہیں تو مجھے بھی کوئی مسٔلہ نہیں ۔ ہر آپ جانتی ہیں  وہ تو سحرش سے شادی کر رہے ہیں ۔ وہ کیسے مانے گے وہ حیران ہوئی تھی ۔

 میرو بیٹا مجھے سحرش بلکل پسند نہیں  ۔ میں  کسی ایسی لڑکی کو اپنے خاندان کی بہو ہرگز نہیں بنانا چاہتی جو تہذیب سے ہی عاری ہو دوسری بات ابان جو کرتا ہے اسے کرنے دو اور رہی بات پسند اور نہ پسند کی جب  نکاح ہو جاتا ہے تو اللّٰہ دونوں فریقوں میں محبت ڈال دیتا ہے تو پھر باہر منہ مارنے کا کوئی جوزا ہی نہیں بچتا ۔

مجھے سمجھ نہیں آتی اس لڑکے کی ۔۔ باہوں میں کسی  اور کو لیے پھرتا ہے اور محبت کسی اور سے کرتا پھر رہا  ہے آۓ دن اسںے محبت ہو جاتی ہے ۔ میری تو سمجھ سے باہر ہے

اب تمہیں دے دیا ہے اسے سنبھالنا تمہارا کام ہے ۔

میرب ان کی بات پر مسکرائی تھی ۔ ٹھیک ہے اماں جان" آپ کا حکم سر آنکھوں پر"۔۔۔ 

"وہ جانتی تھی کہ یہ راستہ بہت کٹھن ہے  اسے بہت سے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑنا تھا پر  آبان کو ہر حال راہ راست پر لانا اس نے ہی کرنا تھا ۔ تم محبت کرو یہ نہ کرو مگر میری محبت تمہارے لیے کبھی بھی کم نہیں پڑے گی آبان حیدر !! وہ تصور ہی تصور میں اس سے ہمکلام تھی ۔

 ابان اسے اچھا لگتا تھا وہ اس سے بہت محبت کرتی تھی ۔ کب سے۔۔۔؟ شاید وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔ کبھی اس  نے آبان کو ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ آبان حیدر  کی زندگی میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے 

"بےدردی سے کچلا تھا عشق نے

گو کہ مرجھا گیا ہوں ، مگر گلاب تو ہوں ۔۔ " 

وہ بہت ڈپریشن میں تھا وہ نہیں جان سکتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر آیا تھا وہ شاید بے بس تھا اس نے بہت سی لڑکیوں کو ڈیٹ کیا تھا لڑکیوں سے فلرٹ کرنا اس کا مشغلہ رہا تھا لیکن اس نے کبھی بھی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی تھی ۔

سحرش باقی لڑکیوں سے بہت مختلف تھی اور وہ بہت خوبصورت بھی تھی اور پہلی ہی نظر میں اس پہ اپنا دل ہار چکا تھا اس نے سحرش کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور سحرش نے بہت خوش اسلوبی سے اس کا ہاتھ تھام لیا آہستہ آہستہ یہ دوستی محبت میں بدلتی گئی وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے اور ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور کچھ ہی دونوں میں وہ منگنی کرنے والے تھے ۔

"لیکن قدرت کوئی اور ہی فیصلہ کر چکی تھی"

 جہاں تک بات زوبیہ بیگم کی تھی وہ شروع سے ہی سحرش کو ناپسند کرتی تھیں ۔ وہ بہت زیادہ بولڈ تھی ان کو اس کی بولڈنیس ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی تھی وہ آبان  سے کئی مرتبہ باتوں ہی باتوں میں میرب کا ذکر کر لیتی ۔۔لیکن آبان کے کان پر  جوں تک نہیں رینگتی تھی 

آبان قدرت کے فیصلہ سے ناآشنا تھا وہ نہیں جانتا تھا آگے کیا ہونے والا ہے ۔۔ 

وہ پوری طرح اپنی زندگی سے بیزار لگ رہا تھا اس کا گھر جانے کا بلکل موڈ نہ تھا لیکن وہ زوبیہ بیگم کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے گاڑی گھر کی طرف موڑ دی اچانک اس کا موبائل رینگ کیا جس پر سحرش کالنگ جگمگا رہا تھا وہ کال پیک کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اسے کال پیک کرنی تھی وہ اس سے  بات  کرنا چاہتا تھا اس نے فوراً کال اٹینڈ کی ۔

تم کہاں ہو۔۔۔؟؟ میں کب سے کال کرہی ہوں اور تم اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔

یار گاڑی چلا رہا ہوں کوئی کام تھا کیا ۔۔ ؟؟ " وہ اکتاۓ ہوۓ لہجے میں بولا تھا 

 نہیں ویسے ہی کیا تھا ۔۔

 آنٹی اور میرو کیسی ہیں ۔۔ ؟؟ 

ہاں سب ٹھیک ہیں ۔۔۔ اس کے ماتھے پر لاتعداد بل پڑے اور کچھ دیر بعد وہ خاموش رہا اور اچانک بولا تھا

تم سے ایک بات کرنی تھی مگر تحمل سے سننا اور پھر ہی کچھ بولنا ۔ تھوڑا سا بھی چلائی تو میں فون کاٹ دوں گا۔وہ جانتا تھا کہ وہ بات سن کے ضرور بھڑک اٹھے گی ۔۔۔اس لیے وہ پہلے سے ہی وارن کر چکا تھا ۔

تم اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو۔۔۔ ؟؟ بات بتاؤ نہیں چلاتی 

ماما چاہتی ہیں کہ میں میرب سے شادی کرلوں کیونکہ یہ میرے چچا اور میرے پاپا کی خواہش تھی ۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوا 

 وہ اس کی بات پر چونکہ اور تلخ لہجے میں بولی تھی 

اور تم خواہشوں کا احترام کرتے ہوۓ سر جھکا دو گے 

تم ایسا نہیں کرسکتے ۔۔ " 

میں موم کو ہاں کر چکا ہوں سحری ۔۔ 

اس میں میرے پاپا کی مرضی شامل ہے اگر نہ ہوتی تو کبھی میرب رحمٰن شاہ سے شادی نہ کرتا ۔ میں اس معاملے میں بے بس ہوں ، میں کچھ نہیں کرسکتا ۔

"مجھے وہ لڑکی نہ آج پسند تھی  نہ کل اور نہ آنے والے کل میں" اس کے ہر لفظ سے میرب رحمٰن کے لیے نفرت ٹپک رہی تھی یہ میرے بڑوں کا فیصلہ ہے اور مجھے اس سے ہر حال میں شادی کرنی ہوگی ۔۔ 

اب تم بتاؤں میں کیا کروں ۔۔ ؟؟ 

آبان میں تم سے شادی کروں گی لیکن ایک شرط پر کہ تم اسے نہیں چھوؤ گے ، تم اسے اپنے پاس بھی نہیں بھٹکنے دو گے ۔۔ وہ جذباتی ہوئی 

ہاۓ میری جان ایسا بلکل نہیں ہوگا  تم میری محبت ہو اور میں یہ سب کر کے تمہیں دھوکا نہیں دے سکتا ۔ ابان کا موڈ فریش ہوا تھا ہم آپکے حکم کے غلام ہیں آپ جیسا کہیں گی ہم ویسا ہی کریں گے ۔۔ " وہ شوخ ہوا تھا 

اچھا اب مکھن لگانا بس کرو ۔۔ وہ مسکرائی 

ہاں تمہیں تو اب مکھن ہی لگے گا ۔ " وہ شرارت آمیز لہجے میں بولا 

❤️

گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں میرب اور زوبیہ بیگم ابھی شاپنگ کر کے گھر لوٹی تھیں

صغراں ۔۔۔ !! زوبیہ بیگم نے ملازمہ کو آواز لگائی 

جی بی بی جی ۔۔ 

پانی لے آؤ اور آبان اٹھ گیا ہے کیا ۔۔ ؟؟ 

جی وہ سٹڈی روم میں ہیں ۔۔ 

کل اس کی مہندی تھی اس کی شادی ہونے جارہی تھی اس کے من پسند شخص سے ۔۔۔ " وہ قدرت کے فیصلے سے خوش تھی لیکن ایک طرف وہ آبان کے غصے سے بھی ڈر رہی تھی وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہے یہی ڈر بار بار اس کے دل کو خوف میں مبتلا کیے ہوۓ تھا 

میرب بیٹا اب آرام کر لو تم کافی تھک گئی ہوگی ۔۔ "  وہ زوبیہ بیگم کی آواز سے چونکی اور  خیالوں کے گھیرے سے باہر آئی تھی ۔۔

 جی اماں جان ۔۔ وہ یہ کہتے ہی اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی کہ اچانک وہ اپنی ہی بے خیالی میں پیر پھسلنے سے نیچے گرنے کو تھی اس سے قبل کہ وہ گرتی آبان حیدر نے بھاگتے ہوۓ اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور وہ کسی ٹوٹی ہوئی شاخ کی مانند اس کے سینے سے آلگی تھی ۔۔ 

 میرب نے اس کی شرٹ کو مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں قید کرلیا تھا  "The night" کی خوشبو جیسے ہی اس کے نتھنوں میں گھسی وہ مدہوش سی ہوگئی تھی اس کا دل کیا تھا کہ کاش وقت تھم جائے اور وہ یہ لمحے یہی پہ قید کر لے لیکن یہ سب ایک خیال کے سوا اور کچھ نہ  تھا 

کچھ پل وہ ایسے ہی آبان کے ساتھ لگی رہی مگر اچانک آبان نے اسے نفرت سے پرے ہٹایا تھا اور اس کے ہاتھ کو  زور سے مروڑتے ہوۓ  اسے اپنے بےحد نزدیک کیا تھا ۔۔۔ " وہ درد سے بلبلا اٹھی تھی 

مم ۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے آبان پلیز میرا ہاتھ چھوڑئیے ۔۔ 

'ابھی تو یہ درد کچھ نہیں ہے جو میں آپکو دوں گا اس کے نشان اگر آپ ساری زندگی بھی مٹانا چاہیں گی تو نہیں مٹا سکے  گی" وہ انتہائی درشت لہجے میں بولا تھا 

میں بہت سخت جان ہوں یہ نہ ہو کے درد دیتے دیتے آپ خود ہی تھک جائیں ۔۔ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوۓ بولی تھی 

ویسے بہت ڈھیٹ ہو تم میرب رحمٰن !! یہ کہتے ہی آبان حیدر نے اسکی کمر کو بےدردی سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگایا تھا بڑا شوق تھا تمہیں مجھ سے بیاہ رچانے کا یہ سارے کے سارے شوق کچھ دنوں میں ہی پورے ہو جائیں گے ۔۔ ڈونٹ وری  ۔۔ " وہ اس کو نفرت سے اپنے سے دور کرتا ہوا چلایا تھا ۔۔ 

 قصور کیا ہے میرا مجھے بتائیں تو ؟؟ اور چھوڑئیے پلیز مجھے درد ہورہا ہے ۔۔ " اس کا لمس میرب رحمن کو آگ کی طرح جھلسا رہا تھا ۔

 تم موم کو انکار کرسکتی تھی پر تم نے نہیں کیا   یہ ہے تمہارا قصور ۔۔ "  وہ اس کو گھورتے ہوۓ بولا تھا

آپ کر دیتے نہ میں کیوں کرتی میں اماں جان کو دکھ  نہیں دینا چاہتی ورنہ میں آپ جیسے جنگلی انسان سے کبھی بھی شادی کی حامی نہ بھرتی ۔ اس نے جھٹکے سے اپنا آپ اس سے چھڑایا اور روتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف بھاگی

کسی وقت میں وہ میرب کے آنسو نہیں بہنے دیتا تھا لیکن آب یہی آنسو اس کی خوشی کی وجہ بن رہے تھے ۔

وہ اپنے رب کے آگے سجدہ ریز تھی اور آبان کے لیے گڑگڑا رہی تھی اس کی محبت مانگ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس سے اتنی نفرت کیوں کرتا تھا

بدقسمتی سے اس کی ماں اسے جنم دیتے ہی چل بسی تھی اور اسے حد سے زیادہ چاہنے والے اس کے بابا اور تایا جان کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئے تھے اس وقت شاہ گھرانے پر بہت بڑی  آفت آن پڑی تھی ان کا گھر ویرانیوں میں گر چکا تھا اب بس اس کے پاس دو رشتے بچے تھے وہ انہیں کسی بھی حال میں گنوانا نہیں چاہتی تھی یہ لوگ اس کے لیے کل کائنات تھے وہ آبان اور اماں جان سے بچھڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔وہ ان دونوں کو شدت سے چاہتی تھی 

❤️

اچانک دروازہ نوک ہوا تھا ۔

آجاؤ صغراں !! وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی 

 لیکن صغراں کی جگہ رانیہ کو دیکھ کر میرب حیران رہ گئی تھی اور منہ کھولے اسے تاکنے لگی ۔

منہ بند کرلو یار مکھی چلی جاۓ گی ۔ وہ ہنستے ہوۓ بولی اور اس کے قریب آئی 

ارے تم ۔۔ وہ شوکڈ کی کفیت میں تھی کہ رانیہ نے اسے آگے بڑھ کر گلے لگایا ۔

مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں ۔ میرو بےانتہا خوشی سے بولی تھی ۔

چل پرے ہٹ مکھن نہ لگا ۔۔  بدتمیز شادی کررہی ہو اور مجھے انوائیٹ ہی نہیں کیا ۔ رانیہ مضوعی خفگی دیکھاتے ہوۓ بولی 

یار سچ میں نے اماں جان کو کہا تھا ۔ وہ اس کے روٹھنے پر پریشانی سے بولی تھی 

ہاں تو کونسا اماں جان کی  شادی ہو رہی تھی تمہاری ہورہی تھی تم مدعو کرتی ۔ رانیہ نے اس کی بات پر اپنا منہ بسورا ۔

سوری پلیز ۔۔ میرو نے اپنے کان پکڑتے ہوۓ اس سے سوری کی تھی 

اچھا اچھا بس کرو ۔۔۔ اب یہ بتاؤ کہ تمہاری آنکھیں کیوں اتنی  سرخ ہورہی ہیں

 میرب اس کی بات پر گڑبڑائی تھی اور بوکھلا کر بولی تھی وہ پتہ نہیں کچھ چلا گیا ہے شاید ۔۔ وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہوۓ بولی تھی 

اوووو میری پیاری بہن نے جھوٹ بولنا بھی سیکھ لیا ہے کیا۔۔۔؟؟ رانیہ طنزیہ لہجے میں بولی تھی 

میرب اس کی بات پر چاہتے ہوۓ بھی اپنے آنسؤں پر ضبط نہ کر پائی تھی اور آنسو اس کی پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکلتے چلے آۓ تھے ۔

کیا ہوا میرو میری جان ؟؟  رانیہ اس کو روتے ہوۓ دیکھ کر کچھ چونکہ اور پریشانی سے بولی تھی ۔

اس کے پوچھنے پر میرب  بلک بلک کر رو دی اور ہچکیوں کے درمیان بولی ۔

رانیہ آبان مجھ سے محبت نہیں کرتے ۔ وہ سحرش سے محبت کرتے ہیں اور کچھ ہی دونوں میں اس سے شادی کرلیں گے رانیہ مجھ سے برداشت نہیں ہوگا میں نے بہت حسین خواب دیکھے تھے ۔ میں نہیں جانتی تھی کہ ان کی تعبیر اتنی بھیانک ہو گی ۔

تمہیں پتہ ہے جب اپنے ہی بنے ہوئے خوابوں کا محل دھڑام کرکے ٹوٹتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے ایسے ہی جیسے ایک تڑپتا ہوا انسان اپنی زندگی کے آخری ایام کو سسک سسک کے پورا کررہا ہو ۔ ہاں رانیہ ایسا ہی میرا حال ہے میں اندر سے مر رہی ہوں میں نہیں جانتی تھی کہ میں ایسے شخص سے محبت کر بیٹھوں گی جو ہر قسم کے احساس سے عاری ہوگا ۔

ایسا نہیں ہے میرو وہ تمہیں چاہتے ہیں جیسے پہلے چاہتے تھے ۔ انہیں تھوڑا سا وقت دو کیوں اپنی ننھی سی جان کو ہلکان کر رہی ہو جو فیصلہ کرنا ہے صرف اللّٰہ نے کرنا ہے اللّٰہ بہتر کرے گا اتنی پریشان مت ہوا کرو ۔۔ رانیہ اس کو تسلی دیتے ہوئے بولی تھی 

دعا کیا کرو اللّٰہ اسے ہدایت دے اب بلکل خاموش ہو جاؤ اور چینج کرکے فٹا فٹ باہر آجاؤ ۔۔۔ اماں جان تمہارا انتظار کر رہیں ہو گی ۔

میرب اس کی بات پر آنسوؤں کے درمیان مسکرائی تھی 

اب میں ایک آنسوں نہ دیکھوں تمہاری ان خوبصورت آنکھوں میں بہت رو لیا تم نے ۔۔ رانیہ نے پیار بھرے لہجے میں اس کے گال تھپتھپاتے ہوۓ کہا ۔۔

اوکے میری اماں ٹھیک ہے نہیں روتی ۔۔ میرب بھی آنسو پونچھتے ہوۓ اس کے ساتھ ہی مسکرائی ۔۔ اب کمرے میں دونوں کے قہقہے گونج رہے تھے 

❤️

مہندی کا فنکشن انتہائی سادگی سے ہوا تھا ۔ آج اس کا نکاح تھا سو کچھ لوگ ہی مدعو تھے۔ جب سے وہ پارلر سے تیار ہو کر آئی تھی زوبیہ بیگم اس کی نظر ہی اتارے جارہی تھی وہ کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔

ایک وہ تھی ہی خوبصورت اوپر سے پارلر والی نے اس کے نقوش کو اور حسین بنا دیا تھا ۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ میرب رحمٰن سے میرب آبان  بن چکی تھی ۔ اس کی زندگی بدل چکی تھی پر شاید اس کا نصیب نہیں بدلا تھا ۔زوبیہ بیگم اس کے قریب آئیں اور اس پریشان سی گڑیا کو اپنے ساتھ لگا لیا ۔

وہ ان کے گلے لگے اپنے پیاروں کو یاد کر کے بلک بلک کر رو دی زوبیہ بیگم اسے دلاسہ دینا چاہتی تھی لیکن وہ خود غم سے نڈھال تھی ۔ وہاں بیٹھے ہر شخص کی آنکھ میں آنسو تھا زوبیہ بیگم نے میرب کو چپ کرواتے ہوۓ  رانیہ کو آواز لگائی تھی ۔

رانیہ بیٹا میرب کو اس کے کمرے تک چھوڑ آؤ ۔ وہ بھیگی آواز میں بولی تھی 

❤️

وہ آبان کا انتظار کر کے تھک چکی تھی لیکن وہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اس کا دل کیا تھا وہ فٹا فٹ کپڑے بدلے اور لمبی تان کر سو جاۓ ۔ وہ سوچنے میں اتنی گم تھی کہ اچانک  دروازے کھلا تھا وہ چونکی اور ساتھ میں ہی اس کا دل خوف سے کانپا تھا اس کے ذہن میں اچانک سے برے برے خیالات جنم لینے لگے کہ آیا اب وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ۔

 کچھ ہی دیر میں وہی ہوا تو جس کا میرب جو ڈر تھا اس کی گرج دار آواز پورے کمرے میں گونجی تھی ۔۔۔

یہاں میرے بیڈ پر کیا کرہی ہو ؟؟ وہ غصے سے چلاتا ہوا اس کے قریب ہوا تھا

مم۔۔مم ۔  کک ۔۔ کچھ نہیں ۔۔ اماں جی نے کہا تھا یہاں بیٹھ جاؤ ۔۔ سس ۔۔ سو ہم بیٹھ گئے یہاں ۔۔ خوف سے اس کی آواز ہی نہیں نکلنے پارہی تھی ۔

چلو شوق پورا ہوگیا نا اب اٹھو شاباش ۔۔ وہ اس کے قریب آتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوۓ غصے سے بولا تھا 

 وہ ڈرتے ہوۓ لہنگا سنبھالے گرتی پھرتی بیڈ سے اتری 

۔یار کیا مسلہ ہے ؟؟ مجھے نیند آرہی ہے اور تمہاری ایکٹنگ ہی ختم نہیں ہورہی ۔۔ یہ کہتے ہی  آبان نے اسے کارپیٹ پہ دھکا دیا وہ منہ کہ بل زمین پر جاگری تھی ۔

اور دوسری بات یہاں زمین پر میرے بیڈ کے برابر سؤ گی نہ کہ صوفے پر ۔۔ وہ اسے وارن کرتا ہوا بیڈ کراؤن سے ٹیک کھاتے ہوۓ بولا 

وہ خاموشی سے اپنے انسو ضبط کرتے ہوۓ اٹھی تھی وہ جان گئی تھی  کہ واقعی ہی وہ بدقسمت تھی جس کو ماں باپ کا کیا  شوہر کا بھی پیار نصیب نہ ہو سکا ۔ وہ اس کے بیڈ کے برابر زمین پر بستر ڈالتے ہوۓ خاموشی سے اپنے اوپر چادر تان کر لیٹ گئی تھی کچھ آنسو اس کی پلکوں کی باڑ توڑتے ہوۓ اس کے گال بھگونے لگے تھے ۔۔ کھڑکی سے پار نظر آتا چاند بھی اس کی بے بسی پر اس کے ساتھ رو دیا ۔

" دل کے لٹ جانے کا آظہار ضروری تو نہیں

یہ تماشا سر بازار ضروری تو نہیں

مجھے تھا عشق تیری روح سے اور اب بھی ہے

جسم سے ہو کوئی سروکار یہ ضروری تو نہیں

 میں تجھے ٹوٹ کے چاہوں یہ میری فطرت ہے

تو بھی ہو میرا طلبگار یہ ضروری تو نہیں 

اے ستم گر ذرا جھانک میری آنکھوں میں

زبان سے ہو پیار کا اظہار ضروری تو نہیں ۔۔ " 

ابان کو وہ لڑکی پتہ نہیں اتنی زہر کیوں لگ رہی تھی کیوں اس سے وہ اتنی خار محسوس کررہا تھا وہ ایسا نہیں چاہتا تھا وہ اسے ہرگز دکھ نہیں دینا چاہتا تھا وہ جانتا تھا  اس میں میرو کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن جیسے ہی وہ اس کے قریب آتی ۔ وہ اپنے غصہ پہ کنٹرول نہیں رکھ پاتا تھا ۔

وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ اس قدر سوچوں کی گہرائی میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک فون کی چیختی ہوئی گھنٹی نے اس کو چونکنے پر مجبور کیا تھا ۔

 اس نے  فون اٹھایا سکرین پر سحرش کالنگ جگمگا رہا تھا اس نے فورا کال پیک کرتے ہوۓ فون کان کو لگاۓ کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر چلا گیا ۔

ہاۓ !! کیسے ہو ؟؟ سحرش بولی تھی 

ہاں الحمدللہ بلکل ٹھیک  ۔۔ وہ آہستگی سے بولا

کیا کرہے تھے ۔۔ سحرش بےچینی سے بولی تھی

سونے لگا تھا ۔ وہ نرم لہجے میں بولا 

یہ سنتے ہی سحرش کو تسلی ہوئی تھی کہ آبان اس کے پاس نہیں گیا ۔ ہم کب شادی کرہے ہیں پاپا بھی کل پوچھ رہے تھے ۔۔ کل پلیز مجھ سے ملو ۔ وہ حکم چلاتے ہوۓ بولی 

ہاں انشاللہ ۔۔ میں کل چکر لگاؤں گا اور جلد ہی کچھ فیصلہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ اب میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا ۔تمہاری بہت یاد آرہی ہے ۔ اس کی آواز  میں شدت تھی 

اس کی بات سنتے ہی سحرش کے گال سرخ ہوۓ تھے ۔۔ 

تو آجاؤ کس نے منع کیا ہے ۔ وہ شریر  ہوئی تھی 

ہاہاہاہا ۔۔ کیسے آؤں ؟؟ میری جان !! ۔۔ اس کا حلق شگاف قہقہہ رات کی خاموشی میں چار سو گونجا تھا 

❤️

پیاس کی شدت سے میرب کی آنکھ کھلی تو وہ پانی پینے کے لیے جیسے ہی اٹھی اس نے  آبان کو بستر سے غائب پایا تھا ۔۔ 

وہ چونکی تھی اور پریشان ہوتے ہوۓ ٹیرس کی جانب بڑھی اور وہ اسے سامنے ہی دیکھائی دیا بالکل ہشاش بشاش ۔۔۔ اس کے چہرے رنگ بتا رہے تھے کہ ۔۔ " وہ سحرش  سے بات کرنے میں مصروف ہے ۔

 وہ اپنے آپ پہ ہنسی تھی اور ہنسنے کی وجہ سے اس کے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ  کر گالوں پر سمٹ چکے تھے اس نے شدت غم سے اپنے نازک لبوں کو کاٹا ۔۔ تم کیا اسے سدھار سکتی ہو اسے تو اللّٰہ ہی سدھار سکتا ہے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوئی ۔ اور سوچتے ہوۓ عجیب سی بے چینی میں اندر کی جانب بڑھی تھی ۔ اس کے سینے میں عجیب سی تکلیف نے جنم لیا جو ناقابل برداشت تھی ۔۔ 

وہ کسی کو بھی الزام نہیں دے سکتی تھی  کیونکہ اس کا شوہر ہی اس کے معاملے میں اچھا نہ تھا  سو وہ پھر کسی اور سے گلہ کیوں کر کرتی ۔ وہ اس کی من چاہی بیوی تو نہیں تھی جو وہ اس کی تکلیف کو اہمیت دیتا ۔ میرو نے اپنے آنسو صاف کیے اور ان بےدرد خیالوں کو جھٹکتے ہوۓ سونے کے لیے لیٹ گئی ۔

آبان فون رکھتے ہی اندر داخل ہوا اور میرب کے سوۓ ہوۓ وجود پر ایک نظر ڈالی اور لائٹ آف کر کے اپنے بستر پر لیٹ گیا

تھوڑی ہی دیر میں پورے کمرے میں اس کے سسکنے کی آواز گونجی تھی آبان کے دل کو کچھ ہوا مگر وہ نرم نہیں پڑ سکتا تھا 

جھکنا شاید اس کی فطرت میں نہ تھا ۔۔۔

ایک بار پھر میرو کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تھی وہ اپنے ہی آپ سے الجھا تھا 

میرو پلیز یار چپ ہو جاؤ اگر تم چپ نہ ہوئی تو میں تمہیں باہر اٹھا کر پھینک دوں گا ۔ اب مجھے تمہاری آواز نہ آۓ ورنہ جو میں کروں گا وہ شاید تم برداشت نہ کر پاؤ ۔۔ وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولتے آخیر پر کچھ شریر ہوا

میرو اس کی آواز سنتے ہی گھبرائی تھی اور سسکیوں کو اپنے حلق میں دباتے ہوۓ بالکل چپ ہوگئی تھی وہ جانتی تھی آبان حیدر کچھ بھی کر سکتا ہے اس لیے اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی ۔

"شاباش اب سو جاؤ ..آبان اس کے وجود پر نظر ڈالتے ہوۓ نرمی سے بولا 

( سو جاؤ گی جب میری مرضی ہوگی ) وہ اسے تو کچھ نہیں کہہ پائی مگر  دل ہی دل میں اس نے بھڑاس نکالی ۔ اس کے غصے سے تو وہ شروع سے ہی  بہت ڈرتی تھی سو اس کو کوستے ہوۓ نیند کو اپنے اوپر حاوی کرنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے آبان کے کراٹوں کی آواز پورے کمرے میں گونجنے لگی ۔۔ 

"لے لوجی ۔۔  اب اس کا میوزک سٹارٹ ہو گیا ہے ۔۔ وہ کچھ بیزار ہوئی مگر کچھ ہی دیر میں میرو کو بھی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا ۔۔ 

❤️

صبح سات بجے وہ بیدار ہوئی اور بیدار ہوتے ہی فوراً سے اسے آبان کا خیال آیا تھا ۔۔ پر وہ کمرے میں نہیں تھا ۔ میرو پریشانی سے اٹھی تبھی اسے باتھروم سے پانی گرنے کی آواز آئی ۔ شاید وہ شاور لے رہا تھا 

میرو نے سوچتے ہوۓ اپنی خوبصورت زلفوں کو کچر میں مقید کیا اس کی کچھ شریر زلفیں اس کے چہرے کہ  خوبصورت نقوش کو چوم رہی تھیں ۔۔ میرو نے بیڈ کی چادر درست کی اور اپنا بستر اماں جان کے آجانے سے پہلے ہی کبڈ میں رکھا وہ گھر میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی ۔۔

وہ بستر رکھ کر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی ۔۔ تبھی آبان کندھوں پر تولیہ ڈالے ، بغیر شرٹ کے باہر آیا تھا اس کے سفید کسرتی بدن سے پانی کے سفید شفاف قطرے ٹپک کر نیچے گر رہے تھے ۔۔ جیسے ہی میرب کی نظر اس کے کسرتی بدن پر پڑی تھی وہ شرم سے سرخ ہو گئی تھی اور  اس نے اپنا رخ دوسری جانب پھیر لیا

آبان اس کی حرکت پر محفوظ ہوا اور دھیرے دھیرے قدم چلتا ہوا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا ۔۔

 اس کی کمر آبان کے سینے سے ٹکرائی تھی میرو نے بوکھلاتے ہوۓ اپنا رخ آبان کی طرف کیا تھا وہ شرم سے اپنی نظریں نہیں آٹھا پائی تھی ۔

 آبان اس کے قریب ہوا اور وہ کبڈ کہ ساتھ جا لگی ۔۔۔

ان دونوں کے درمیان صرف ایک انگلی کا ہی فیصلہ بچا تھا ۔۔۔ آبان نے اس کے چہرے پہ کچھ شرارتی لٹوں کو کان کے پیچھے اڑسا اور اس کی لو کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تھا  وہ جی جان سے کانپ کر رہ گئی تھی اس کے لمس سے وہ بے ہوش ہو نے کو ہوئی ۔۔ 

 آبان نے پھر شدت سے اس کی آنکھوں کو چوما تھا میرو نے حددرجہ گھبراتے ہوۓ اس کے سینے پر اپنے دنوں ہاتھوں سے زور لگا کر اس کو پیچھے کیا اور باتھروم کی طرف بھاگی ۔۔ 

اگر وہ کچھ دیر اور اس کے قریب رہتی تو شاید اس کا لمس  اسے پاگل کر دیتا

تھوڑی ہی دیر میں وہ باتھ لے کر کمرے میں آئی تو وہ دشمن جان سامنے ہی کھڑا تھا جو پل پل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا تھا وہ ایک نظر اس کو دیکھتے ہوۓ آگے کو بڑھی مگر اچانک آبان اس کے راستے میں حائل ہوۓ ، اس کے بےحد قریب ہوۓ اس کے چہرے پر جھکا تھا مگر اچانک دروازے پر دستک ہوئی تھی ۔

آبان بدمزہ ہوا اور بیزاریت سے آنے والے کو اندر آنے کی اجازت دی ۔۔

صاحب جی !! بڑی بیگم آپ دونوں کو ناشتے کے لیے بلا رہی ہیں

اوکے کچھ دیر تک آتے ہیں ۔۔ " وہ رعب سے بولا 

جی صاحب جی ۔۔ صغراں اس کا جواب پاتے ہی کمرے سے چلی گئی ۔۔ 

اس سے پہلے کے وہ اس کے پھر قریب آتا میرہ باہر کی جانب بڑھی تھی ۔۔ چلیے اماں جان ہمارا انتظار کررہی ہیں ۔

مگر آبان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے زور سے اپنی طرف جھٹکا دیا وہ کسی ٹوٹی ہوئی شاخ کی مانند آبان کے سینے سے جا لگی آبان نے اس کی ٹھوڈی کو  اوپر کیا اور بوجھل لہجے میں بولا تھا ۔

 کیا تم اپنی منہ دیکھائی نہیں لو گی ۔۔۔۔۔۔؟؟

مجھے اس کی  کوئی ضرورت نہیں آپ اپنی ہونے والی محبوب بیوی کے لیے سنبھال کر رکھیے ۔ اس کے کام آۓ گی وہ نخوت سے بولتے ہوۓ اپنا آپ اس سے چھڑانے لگی  

"پلیز مجھے چھوڑئیے" اماں جان انتظار کر ہی ہوگی ۔ وہ اس کی گرفت سے نکلنے کے لیے مچلی تھی ۔ مگر سامنے والا نفوس بھی بہت ڈھیٹ اور سخت جان واقع ہوا تھا 

ہاہاہاہا ۔۔۔ اب والی بیوی کو تو پہنا دوں پھر اپنی محبوب بیوی کو بھی پہنا دوں گا خیر سے تمہیں اس کی بڑی فکر ہورہی ہے اوووو ۔۔۔ جلنے کی بدبو آرہی ہے ۔۔۔ آبان اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کچھ شریر ہوا

بھلے میں کیوں جلنے لگی اس کٹی پتنگ سے ۔۔ وہ جلے بھنے لہجے میں بولی 

وہاٹ۔۔۔۔۔؟؟؟ کٹی پتنگ !!  وہ کیا ہوتا ہے ؟؟ 

میرو اس کی بات پر قہقہے کے بل ہنسی تھی ۔۔ اور آبان اس کی ہنسی میں کھو سا گیا تھا ۔۔ 

آبان اس کی ہنسی میں کھو سا گیا تھا وہ اسے پاگل کر رہی تھی وہ اسے ایک ہاتھ سے پکڑے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھا اور میں سے ایک خوبصورت سا باکس نکال کر  میرب کے بےحد  قریب ہوا تھا

اس کے قریب آنے پر میرب کی ہنسی کو یکدم بریک لگی ۔

آ۔۔ آپ کیا کرہے ہیں ۔۔۔ وہ بوکھلائی 

وہ اس کے بوکھلانے پر کچھ شوخ ہوا ۔۔ 

یہ خوبصورت سا نیکلس آپ کی حسین ترین گردن کی زینت بنا رہیں ہیں اور ہم نے کیا کرنا ۔۔ " وہ اس کی گردن پہ اپنے لب رکھتا ہوا اس سے دور ہوا ۔۔

میرب کی حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔ " وہ شرم سے لال سرخ ہوگئی تھی 

اب کھڑی رہو گی  کیا۔۔۔۔؟؟

ن۔۔نن۔۔نہیں ۔۔۔ وہ بمشکل ہی بول پائی تھی 

پھر آئیے ۔۔ تشریف رکھیے ۔۔ آبان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور کمرے سے نکل گیا وہ اس کی ہمت پر دنگ رہ گئی تھی ۔۔

❤️

جیسے ہی وہ دونوں ڈائنگ روم میں داخل ہوۓ بہت سی نگاہیں ان پہ ٹھہری تھیں ۔۔

زوبیہ بیگم میرب کے پاس آئیں اور اسے اپنے ساتھ لگاۓ اس کو ڈھیروں دعائیں دینے لگی تھیں ۔۔ 

اللہ تعالیٰ تم دونوں کو خوش اور آباد رکھے ۔۔ وہ اب تیزی سے ناشتہ کرتے ہوئے آبان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولیں 

آبان بیٹا !!  آہستہ ناشتہ کرو ۔۔ 

موم میں نے آفس کے لیے نکلنا ہے پہلے ہی خاصا لیٹ ہو چکا ہوں ۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا 

تم آج بھی آفس جارہے ہو حد ہے آبان ویسے ۔۔ زوبیہ بیگم افسوس سے سر ہلاتے ہوئے بولی تھی 

پلیز موم !! بہت ہی ایمپورٹنٹ میٹنگ ہے سو جانا پڑے گا انشاللہ میں جلد آنے کی کوشش کروں گا ۔۔ وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کر کے اٹھا تھا 

❤️

وہ جیسے ہی کچن میں داخل ہوئی اس نے زوبیہ بیگم کو کھانا بناتے ہوئے پایا ۔۔۔

کیا ہو گیا ہے اماں جان ؟؟ آپ کیوں کھانا بنا رہی ہیں ۔۔ سائڈ پر ہوں میں خود بناتی ہوں آپ کی طبیعت پہلے  ہی بہت خراب ہے ۔

نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں بیٹا !! ابھی تمہاری شادی کو دن ہی کتنے ہوۓ ہیں اور تم کچن میں آگئی ہو ۔۔ وہ پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی 

کوئی بات نہیں میری پیاری اماں جان ۔۔ !! 

 میرب نے زوبیہ بیگم کو کمرے میں بھیج کر ہی دم لیا اور

تھوڑی ہی دیر میں وہ کھانا پکا کر باتھ لینے چلی گئی تھی ۔۔ 

❤️

وہ کب سے اس کا انتظار کر رہی تھی رات کے  بارہ بجنے والے تھے لیکن وہ ابھی تک نہیں آیا تھا اس نے آبان کے نمبر پہ کال کی پر وہ اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ وہ بےحد  پریشان ہوئی تھی 

اب کیا کروں پتہ نہیں کہاں پر ہیں ۔ اس نے پریشانی میں  ایک بار پھر ٹراۓ کیا ۔ اب کی بار فون اٹھا لیا گیا تھا ۔

فرمائیے کیا مسلہ ہے دوسری طرف اسپیکر میں آبان  کی بیزار سی  آواز گونجی تھی ۔۔

اتنی لیٹ ہوگئی ہے آپ ابھی تک نہیں آۓ اماں جان بھی سو چکی ہیں ۔۔ اس نے ایک ہی سانس میں ساری بات مکمل کی تھی ۔

پلیز سٹاپ اٹ ۔۔۔  وہ بیزار ہوا اور کرخت آواز میں بولا تھا

پہلی بات تو میں تمہارا پابند نہیں ہوں خاموشی سے سو جاؤ میرا انتظار کرنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے جب آنا ہوگا تو میں آجاؤں گا ۔۔

وہ کچھ بولتی لیکن وہ فون رکھ چکا تھا ۔۔ میری طرف سے آپ بہاڑ میں جائیں ۔۔ غصے سے اس کی ناک کے نتھنے پھول گئے تھے ۔۔ 

انہیں کچھ بھی کہنا فضول ہے ایک تو ہر وقت ان کا غصہ مکھی کی طرح ناک پہ ہی بیٹھا رہتا ہے مجھے کیا جب مرضی آئیے گا میں کیوں بھلے آپ کہ ساتھ دماغ کھپانے لگی

اور وہ اسے کوستے ہوۓ کمرے میں سونے چلے گئی تھی 

❤️

جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا میرب کو سوتے ہوۓ پایا ۔

بڑی آئی میرا انتظار کرنے والی وہ نخوت سے دیکھتا ہوا اس کی طرف بڑھا بو استحقاق سے اس کے بیڈ پر براجمان تھی ۔۔

اوووو ہلیو میڈم !!  میرے بیڈ سے اٹھو ۔  آبان نے میرب کو جھنجھوڑا   

میرب  نے آدھ سؤئی کفیت میں آبان کو اپنے اوپر جھکتے ہوئے پایا شاید وہ اس سے کچھ کہہ رہا تھا اس کے جھنجھوڑنے پہ وہ مکمل بیدار ہوئی ۔۔۔

کیا مسلہ ہے آپکے ساتھ ؟؟  کیوں نہیں سونے دے رہیں آپ ۔۔ 

تم کس کی اجازت سے میرے بیڈ پہ آئی ہو ۔۔  وہ شدید غصے میں لگ رہا تھا 

آخر تم کیا سمجھتی ہو کہ تمہارے ساتھ میں نے تھوڑی سی نرمی ہی کیا  برت لی اور تم تو اپنی اوقات ہی بھول گئی

دفعہ ہو جاؤ نیچے ۔ میرے سامنے کم ہی آیا کرو تو بہتر ہوگا تمہارے لیے۔۔ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا

وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی سواۓ صبر کہ ۔۔ وہ اس کے کتنے ہی روپ دیکھ چکی تھی اور ہر روپ میں وہ اسے منفرد ہی دیکھائی دیتا ۔ 

میرب۔۔۔۔۔

 تب ہی ابان اسے آواز لگاتا ہوا لاؤنج میں داخل ہوا۔۔۔

میرا وائٹ کرتا کہاں ہے آکر دو مجھے  وہ اس پہ رعب جھاڑتا ہوا  اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔

ایک تو اس لڑکے کی زبان سارا دن اندر جانے کا نام نہیں لیتی جب بھی آتا ہے لڑکی کو ڈانٹ کہ چلا جاتا  ہے۔۔۔۔

جاؤ میرو بیٹا اس نکمے کی بات سنو ۔۔۔

جی۔۔۔

وہ بہت پریشان تھی وہ سمجھ نہیں پارہی تھی وہ اسے کیسے بتاۓ کہ وہ کرتا آئرن کرتے ہوۓ اس سے جل گیا تھا ۔۔۔۔

اس نے ہمت کر کے اپنے کب وا کیے ۔۔ 

مممم۔۔۔۔ وہ کرتا مجھ سے آئرن کرتے ہوۓ جل گیا تھا وہ اٹک اٹک کہ بولی تھی 

تم نے میرا فیورٹ کرتا جلا دیا صدمے سے اس کی آواز ہی نہ نکل پائی۔ وہ آپے سے باہر ہوگیا تھا اب دیکھو مس میرب میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں ۔۔

وہ اس کی کلائی کو زور سے پکڑتے ہوۓ آئرن کی طرف بڑھا( اس کو وہ کرتا سحرش نے اس کی برتھڈے پر گفٹ دیا تھا) آبان نے گرم گرم استری اس کے ہاتھ کی ہتھیلی پہ رکھ دی

 اس کی درد ناک چیخے پورے کمرے میں گونج اٹھیں ۔۔۔۔۔اس نے روتے ہوۓ جلدی سے اپنا ہاتھ اس ظالم سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔

تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا مسٹر آبان حیدر شاہ اللّٰہ کے غضب سے ڈرو جب وہ پکرڑتا ہے نہ تو اچھے اچھے کی چیخے نکل جاتی ہیں ۔۔۔

وہ کہہ کر رکی نہیں تھی اسے گھور کر باہر جاچکی تھی ۔۔ لیکن ہاں وہ اسے آئینہ دیکھنا نہیں بھولی تھی ۔۔ 

آبان کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ بدحواس ہو کر باہر کی طرف بھاگا تھا ۔۔

میرے پاس سے جو گزرا،میرا حال تک نہ پوچھا ۔۔

میں کیسے مان جاؤں وہ دور جا کے رویا۔۔؟؟

تیرے پاس سے جو گزرے تو جنون میں تھے 

جب دور جاکے سوچا تو زار زار روۓ ۔۔ "

 زوبیہ بیگم نے جیسے ہی میرب کی چیخ سنی وہ جلد از جلد آبان کے کمرے کی طرف بھاگی تھیں جہاں سے میرب روتے ہوۓ نکل رہی تھی ۔۔ 

کیا ہوا "میرو" ؟؟ زوبیہ بیگم نے پریشانی سے استفسار کیا آبان زوبیہ بیگم کو دیکھ کر بدحواس ہوا  اور فورا ہیً بولا تھا (اس ڈر سے کہیں میرب موم کو سچ ہی نہ بتا دے)

وہ موم میرو کا ہاتھ جل گیا ہے ۔۔ وہ میرب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا اس کی روتی ہوئی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا جہاں تکلیف ہی تکلیف تھی ۔۔

تو جل گیا ہے پھر اس کا منہ کیوں دیکھ رہے ہو جاؤ برنال لاؤ ۔۔ وہ درد سے تڑپ رہی ہے اور تم ہو کہ کھڑے تماشبین کی طرح تماشہ دیکھنے میں مصروف ہو ۔۔ وہ اس کی لاپرواہی پر غصے سے پھٹی تھیں 

اووووو۔۔۔۔ سوری موم ۔۔ !! میں لے کر آتا ہوں ۔۔ وہ ایسے شو کررہا تھا جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑا ہو 

اماں جان بہت زیادہ درد ہو رہا ہے ۔۔ اس کے جاتے ہی وہ درد سے  چیخی تھی 

میرو بیٹا یہ کیسے جل گیا ۔۔ ؟؟ وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ  اس کے گالوں سے آنسو صاف کرتے ہوۓ درد سے بولی  تھیں مگر میرب خاموش رہی تھی اس کے پاس کچھ ہوتا بولنے کے لیے تو وہ بولتی ۔۔

زوبیہ بیگم اس کی خاموشی پر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی تھیں تبھی آبان برنال لایا اور میرو کی طرف بڑھا

ہمدردی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی ماں زندہ ہے لاؤ میں خود ہی لگا دوں گی ۔۔ انہوں نے اس کے ہاتھ ٹیوب کی اور اس کے زخم پر لگانے لگی ۔۔

 جیسے آپ کی مرضی ۔۔ آبان نے بے فکری سے کندھے اچکاۓ وہ اس کی کی لاپرواہی پر اسے گھور کر رہ گئی تھیں 

انہوں نے احتیاط سے اس کے ہاتھ پہ برنال لگائی اور اسے پین کلر دیے آبان کو مکمل طور پر اگنور کرتے ہوۓ میرو کو لیے اپنے روم کی طرف چلی گئی اور آبان بھی وہاں پر روکا نہیں تھا زوبیہ بیگم بھی اس کی ماں تھیں وہ اسے اچھے طریقے سے جانتی تھیں کہ وہ  جھوٹ بول رہا ہے جب سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ میرو کے ساتھ بلکل اچھا برتاؤ نہیں کررہا تھا 

 کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو ان کی نظروں سے مخفی رہتا ۔۔ وہ ہر بات سے واقف تھیں مگر آج انہوں نے آبان سے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔ 

وہ لائٹ بند کرکے میرب پہ لحاف ڈال کر باہر آئیں جو میڈیسن کے زیر اثر پر سکون بھری نیند سو چکی تھی ۔۔ 

❤️

سحری ہمیں جلد ہی شادی کرنی ہوگی ۔ یار میں بہت ڈیپرس رہتا ہوں ۔۔ میں تمہارے بغیر اب ایک منٹ نہیں رہ سکتا ۔۔ 

ہاں آبان !!  پر تمہیں میرب کو ڈائیورس دینی ہوگی ۔

یہ کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ میرب تمہارے نکاح میں ہے اور میں تم سے شادی کرلوں کیونکہ اس بات پر موم نہیں مانے گی ۔۔

وہاٹ۔۔۔؟؟ آبان کو شاکڈ لگا تھا وہ جھٹکے سے اٹھا تھا 

تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔ ؟؟ وہ بے حد غصہ سے بولا

آبان ریلکس ۔۔ سب دیکھ رہے ہیں سحرش نے آبان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا  ۔۔ پلیز کول ڈاؤن تسلی سے میری پوری بات تو سنو ۔۔

میں یہ شادی کیسے کروں ڈیڈ نے بھی ڈائیورس کا ہی مطالبہ کیا ہے اگر تم میرب کو ڈائیورس نہیں دیتے اور میں تم سے شادی کر لیتی ہوں تو ڈیڈ نے مجھے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دی ہے اب بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔؟؟

اوووو۔۔۔ تو یہ بات ہے ۔۔ مانو پھر اپنے مامی ڈیڈی کی بات ۔مجھ سے اس قسم کی کوئی گھٹیا حرکت کی تواقع مت رکھنا کہ میں میرب کو طلاق دے کر تم سے بیاہ رچاؤں گا ۔۔۔۔

سحرش اس کی بات پر غصے سے پاگل ہونے کو ہوئی تھی ۔۔

تم میری محبت کے لیے اتنی سی بھی قربانی نہیں دے سکتے ۔۔ وہ غصہ کنٹرول کرتے ہوۓ بولی 

میں اپنی موم کو دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا مس سحرش آفندی !!  تم ایسی گھٹیا سوچ اپنے دماغ سے نکال دو تو بہتر ہوگا ۔۔ اور دوسرا میں ہوں ہی نیچ کہ مجھے تم جیسی لڑکی سے محبت ہوئی جس نے مجھے پیسوں پہ فوقیت دی  تم اگر مجھ سے واقعی محبت کرتی تو کبھی اتنا گھٹیا نہ سوچتی مس آفندی !! 

تمہاری اوقات ہی نہیں تھی کہ تم جیسی گھٹیا عورت سے محبت کی جاتی ۔۔ تم ایک نمبر کی دھوکہ باز عورت ہو جس کی نظر میں صرف پیسے کی ہی اہمیت ہے میں تم جیسوں پہ تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا ۔۔ اور تم شادی کی بات کررہی ہو ۔۔ 

تم حد سے گزر رہے ہو مسٹر آبان حیدر !! وہ غصے سے پھٹی

 دے رہی تھیں میں تمہیں دھوکہ ۔۔ تم نے بھی تو دیا تھا نا اپنی موم کے فیصلے پہ سر جھکا کر اور میرب سے شادی کرکے ۔۔ اگر تمہیں اپنی موم سے پیار ہے تو مجھے بھی اپنے ماں باپ تم سے زیادہ عزیز ہے اور ویسے بھی مسٹر آبان حیدر ! تمہیں مجھ سے نہیں بلکہ میرب شاہ سے محبت تھی ۔۔۔ وہ حلق کے بل چلائی تھی ۔

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو ۔۔ ہے تو نہیں پر اب ہو جاۓ گی۔۔۔ آبان نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور اس پہ ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھال کر باہر کی جانب بڑھ گیا ۔۔

اس کے جاتے ہی سحرش اونچی آواز سے چیخی تھی ۔۔ میرب رحمن میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی تم نے مجھ سے آبان حیدر کو چھینا ہے اور میں اب تم سے تمہاری ہر چیز چھینوں گی ۔۔ تم دیکھتی جانا میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں وہ بدلہ کی آگ میں جل رہی تھی ۔۔ 

❤️

اسلام علیکم ۔۔ 

موم کیسی ہیں آپ ۔۔؟؟ وہ زوبیہ بیگم کے روم میں داخل ہوۓ ان سے مخاطب ہوا تھا ۔۔

جیسی تم چھوڑ کر گئے تھے ۔۔ 

وہ آبان کو ناراض لگیں ۔۔ 

کیا ہوا ہے موم مجھے کچھ تو بتائیے آپ ایسے بات کیوں کر رہیں ہیں۔۔۔؟؟ آبان ان کے بدلے ہوئے رویے پر کچھ پریشان ہوا تھا 

آبان ایک بات کہوں ۔۔  زوبیہ بیگم نے آبان کی طرف بہت دکھ سے دیکھا اور بولیں ۔۔ 

جی موم کہیے میں ہماتن گوش ہوں ۔۔ وہ پیار سے ان جانب دیکھتا ہوا بولا ۔۔

کیا تم جانتے بوجھتے انجان بن رہے ہو یہ مجھے دھوکہ میں رکھ رہے ہو ۔۔ میرب کے ساتھ جس طرح سے تم پیش آتے ہو اس کے ساتھ جو تم سلوک کرہے ہو کیا تمہیں زیب دیتا ہے یہ رویہ....؟؟

وہ ان کی بات پر یکدم چونکا تھا ۔۔ اور کچھ نہیں بولا تھا وہ جانتا تھا وہ غلطی پر ہے ۔۔ سو اس نے خاموش ہونے میں ہی عافیت جانی ۔۔

دیکھو بیٹا "عورت بہت کمزور فطرت کی مالک ہوتی ہے اگر تم اس پہ سختی کرو گے تو وہ اندر ہی اندر تم سے بدظن ہوتی جاۓ گی ، جو محبت وہ تم سے کرتی بھی ہوگی ایک نہ ایک دن اس محبت کی زمین پر نفرت کے بیج اگ جانے کی وجہ سے وہ تم سے دور ہوتی جاۓ گی اور پھر کبھی بھی تم اسے ویسا نہیں پاؤ گے جسے وہ پہلے ہوا کرتی تھی" 

میں تمہیں لاسٹ وارننگ دے رہیں ہوں آبان اب تم اس کے ساتھ نرم لہجے سے پیش آؤ گے ۔۔

 تم بھول جاتے ہو کہ تم دونوں کی تکلیف میری تکلیف ہے ۔اگر تم دونوں یا تم میں سے ایک تکلیف میں ہوگا تو مجھے بھی اتنی ہی تکلیف ہوگی جتنی کہ اسے ۔۔ " 

موم میں ایسا بلکل نہیں چاہتا مگر مجھ سے ہو جاتا ہے سو مجھے وقت چاہیے ۔۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے میرب کہ ساتھ اچھا نہیں کیا پر پلیز سمجھنے کی کوشش کریں یہ میرے بس کی بات نہیں ہے ۔۔ 

میں میرب کو اپنانے کے لیے وقت لینا چاہتا ہوں ۔۔ وہ تھکا تھکا سا بولا تھا ۔۔ 

ہاں لو وقت جتنا لینا ہے پر مجھے اپنے گھر میں اب کوئی بدمزگی نہیں چاہیے 

 جی ٹھیک ہے ۔۔ وہ ان کی بات پر سر ہلاتا ہوا اٹھا اور کمرے سے چلا گیا ۔۔ 

❤️

شاید اسے میرب کی آہ لگی تھی جو وہ اپنی محبت میں بھی دھوکہ کھا آیا تھا ۔۔۔۔ " وہ کمرے سے ملحقہ ٹیرس کی طرف چلا گیا اور سگریٹ سلگا کر اپنے منہ میں دبا کر ایک گہرا کش بھرا تھا ۔۔

اس کا دل ٹکرے ٹکرے ہو کر بکھر چکا تھا ۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ سحرش اس قدر گھٹیا ہوسکتی ہے وہ صرف ایک جائیداد کی خاطر اسے ٹھکرا رہی ہے ۔۔ آج اس کا اعتماد پاش پاش ہوا تھا اسے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ عورت سے شدید ترین نفرت محسوس ہوئی ۔۔  

اسے میرب کا خیال آیا وہ آج پورا دن اسے نظر نہیں آئی تھی اس۔کو اپنی غلطی پر کچھ شرمندگی ہوئی تھی اور اس غلطی پر اس نے دل ہی دل میں اپنے اوپر لعنت ملامت کی  اور اسکا حال پوچھنے اس کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔اس کے روم کا ڈور لاک نہیں تھا وہ اندر داخل ہوا کمرے میں اندھیرا اور اسی کی خنک ماحول کو خوابناک بنا رہے تھے۔۔۔

آبان اس کے بیڈ کی طرف بڑھا اور اس کو سویا ہوا پایا ۔لیمپ کی دھیمی سی روشنی اس کے چہرے پہ پر رہی تھی کچھ خوبصورت آوارا لٹیں جو اس کے چہرے کے نقوش کو چوم رہی تھیں ۔

اس کے خوبصورت گلاب سے پنکھڑیوں جیسے لب سختی سے آپسں میں پیوست تھے جو نیند میں بھی اس کی تکلیف کا پتہ بتا رہے تھے ۔۔۔اور یہ منظر  آبان کو بے قابو سا کر گیا وہ بے خودی سے اس کی جانب بڑھا ۔۔ اس کے جلے ہوئے ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں پکڑتے ہوۓ اس پر اپنے لب رکھ دیے تھے ۔۔

 وہ تھوڑا سا کسمسائی مگر پھر گہری نیند میں چلی گئی

ابان اس کے بیڈ پہ اس کے قریب جا لیٹا اور اس کو اپنے اندر بھینچ گیا اس کے  لمس میں شدت تھی

 وہ اس کا لمس پاتے ہی اچانک نیند سے  بیدار ہوئی اور اپنے آپ کو آبان کی باہوں میں قید پایا کچھ دیر کے لئے تو وہ حیران ہوئی مگر جب مکمل ہوش و حواس میں آئی تو غصہ سے لال پیلی ہوگئی تھی ۔۔ 

آ۔۔۔آ۔۔پ یہاں پہ کیا کر رہے ہیں ۔۔ غصہ اور شرم اس کے لہجے میں کوٹ کوٹ کر بھر چکا تھا 

 میرب اس کو چپ دیکھ کر پھر حلق کے بل چیخی تھی مگر وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ چکا تھا مجھے معاف کر دو۔آبان نے اسکی آنکھوں کو بےخودی سے چھوا اور نرمی سے اپنے ساتھ لگایا ۔۔

میرب اس کے لمس پر چونکی اور اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی تھی مگر آبان کی گرفت مضبوط تھی اور  وہ اسے بالکل بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا ۔۔

یار اب سوری کر تو رہا ہوں معاف کر دو ۔۔ وہ اس کو ایسے ہی ساتھ لگاۓ بولا 

پلیز مجھے چھوڑئیے ۔۔ وہ  غصے سے پھٹی

 آپ ہیں کیا مسٹر آبان حیدر ؟؟ کبھی مجھے آسمان پر بیٹھا دیتے ہیں اور کبھی زمین پہ لا کہ پٹخ دیتے ہیں میں انسان ہوں جانور نہیں ۔۔ میرا دل کوئی کھلونا تو نہیں جیسے جب چاہے قریب کرلیا اور جب دل چاہے توڑ کہ کہیں دور پھینک دیا اور پھر وہ اپنی بے بسی پہ خود ہی ہنس دے ۔۔ 

اور رہی بات آپ کی سوری کی تو سن لیں آپکی سوری میرا درد،میری تکلیف نہیں کم کرسکتی ۔۔ اور ویسے بھی مجھے کیا پتہ تھا مسٹر آبان حیدر کہ مجھے محبت کی سزا ایسے ملنی تھی اگر پتہ ہوتا تو شاید آپ کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی ۔۔ وہ نخوت سے بول کر چپ ہوئی تھی 

میرو میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا مجھے بلکل ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مگر مجھے وقت چاہیے تمہیں اپنانے کے لیے ۔۔

جب موم نے مجھے تمہارے رشتے کے لیے فورس کیا تو

میں دماغی طور پر بالکل بھی تم سے شادی کرنے کے لیے  تیار نہیں تھا ۔ میں نے تمہیں کبھی بھی ایسی نظر سے نہیں دیکھا تھا سو اب مجھے حقیقت قبول کرنے میں کچھ وقت لگے گا ۔۔ وہ تھکا تھکا سا بولا اور پھر چپ ہوا جیسے کچھ بھی اس کے بس میں نہ ہو ۔۔ جیسے ہر چیز اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہو ۔۔ 

میرب کو اس کی حالت دیکھ کر کچھ ہوا تھا مگر وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھی ۔۔

تم پہلے والی میرو بن جاؤ جو میرے بال بگاڑ کر بھاگ جاتی تھی اور میں پورے لان میں تمہارے پیچھے بھاگتا تم پھر بھی میرے ہاتھ نہیں آتی تھی ۔۔ جسے اب نہیں آرہی آبان نے ٹھنڈی آہ بھری ۔۔ 

اس کی یہ بات سنتے ہی میرب آبان کے سینے میں سر دیے زاروقطار روتی چلی گئی تھی آبان نے اسے شدت سے اپنے ساتھ لگایا اور اسے رونے دیا تھا تاکہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے ۔۔

شاید اس نے آبان کو معاف کردیا تھا ۔۔

"ہاں عورت تو ہوتی ہی بہت  نازک ہے کسی گڑیا کی مانند۔تھوڑے سے پیار سے بہل جانا اور پھر سچے دل سے معاف کر دینا اس کی فطرت میں ہی شامل رہا ہے یہ کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے"

کچھ پل ایسے ہی بیت گئے اور آبان نے میرو کو اپنے سینے پہ سر رکھے سوۓ ہوۓ پایا ۔۔ وہ مسکرایا اور دھیان سے اس کا سر تکیہ پہ رکھا  اور اس کے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑ کر کمرے سے چلا گیا

❤️

آج وہ بلکل فریش تھی اس کا ہاتھ بھی اب ٹھیک ہو رہا تھا اب وہ کچن میں کھڑی کوئی ریسیپی ٹراۓ کرنے میں مصروف تھی 

اسی ہی وقت آبان اندر داخل ہوا ۔۔

 کیا ہو رہا ہے ؟؟ بیوٹیفل لیڈی !! وہ اس کے اچانک آنے پہ ڈر سی گئی تھی ۔۔ 

 میں ڈر ہی گئی بھلے ایسے کون آتا ہے ۔۔ وہ اس کو گھورتے ہوۓ بولی

تم ڈرتی بھی ہو ۔۔۔۔؟؟ وہ شریر ہوا 

تو اور کیا میں بھوت ہوں جو ڈروں گی نہیں ۔۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی 

ہاۓ رئیلی ۔۔۔۔ !! وہ شریر ہوا اور جھٹکے سے اس کو اپنے بے انتہا قریب کیا ۔۔ تمہیں کچھ زیادہ باتیں ہی نہیں آرہی وہ اپنی سانسیں اس کے منہ پہ چھوڑتا ہوا بولا ۔

اس کے اتنے قریب آنے پر میرب کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا ۔۔ اگر آپ پیچھے نہ ہوۓ تو میں اماں جان کو آواز دے دوں گی ۔۔ اس نے اپنا نازک حربہ آزمایا ۔۔

دے دو اجازت ہے ۔۔ پر میں پھر بھی تمہیں چھوڑنے کہ موڈ میں نہیں چاہے جیسے مرضی آواز لگاؤ ۔۔ آبان نے اپنا چہرہ اس کے بالوں میں چھپا لیا میرو کے تو رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے ۔۔ غصے سے اس کے ناک کے نتھنے پھول گئے تھے وہ آبان کے کان کے پاس اتنی زور سے چیخی کہ وہ اچانک حملے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا اور اسے فورا اپنے سے دور کیا ۔۔

کیا مسلہ ہے ۔۔ ؟؟ وہ غصے میں میرب سے مخاطب ہوا جو اس کی صورتحال پہ مزے سے ہنسنے میں مصروف تھی

مجھے کوئی مسٔلہ نہیں ہے پر آپ کو ضرور کوئی چپکنے کی بیماری لاحق ہے ۔۔ وہ اس کے غصے سے پھولے چہرے کو دیکھتے ہوۓ آرام سے بولی 

اسی وقت زوبیہ بیگم کچن میں داخل ہوئی اور وہ بھاگ کر زوبیہ بیگم کے پیچھے ہوئی دیکھیے اماں جان یہ ہمیں تنگ کر رہے ہیں اور کھانا بھی نہیں بنانے دے رہیں ۔۔۔۔

کیوں میری بٹیا کو تنگ کر رہے ہو آبان ۔ وہ پیار سے اس کو ساتھ لگاتے ہوۓ آبان کو گھورتے ہوئے بولیں 

موم میں تو ان محترمہ کو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ میں ان کا ایڈمیشن کروا آیا ہوں ۔ ۔۔ کل بکس بھی آجائیں گی اور میں آفس سے آکے انہیں پڑھایا کروں گا پر انہیں تو کچن کے کاموں سے ہی فرصت نہیں مل رہی ۔۔ 

ہاں میرو بیٹا آبان صحیح بول رہا ہے تم کل سے اپنی یونی اور کتابوں کو وقت دو کچن خود صغراں سنبھالے گی میرب نے آبان کو اس کے جھوٹ بولنے پہ گھورا تھا جو اس کو منہ چڑھا کر کچن سے جا چکا تھا اور وہ آبان کی دیدہ دلیری پہ صدمے سے پاگل ہونے کو تھی جو آرام سے جھوٹ بول کہ جاچکا تھا 

میرب فوراً کچن سے نکل کر آبان کی طرف لپکی

او ہیلو مسٹر !! کہاں چل دیے مجھے پھنسا کر ۔۔ وہ فوراً اس کے پیچھے اس کے کمرے کی جانب بھاگی کہ کہیں وہ دروازہ ہی نہ بند کر لیں ۔

 وہ پھرتی سے کمرے میں داخل ہوئی اور غصے میں آبان سے مخاطب ہوئی تھی

 جو فون پہ کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا لیکن اس کے آنے پہ سلسلہ منقطع کر چکا تھا  آپ نے اماں جان کے آگے میرا نام کیوں لیا ۔۔؟؟ آپ جتنی چاہے کوشش کرلیں مجھے بلکل نہیں پڑھنا وہ منہ بسورتے ہوۓ بولی ۔۔ 

ویسے بھی اب میں نے پڑھ کر کرنا ہی کیا ہے ۔۔ ؟؟ یہ پڑھائی مجھے بہت مشکل لگتی ہے اور آپ کان کھول کر سن لیں میں کوئی سٹڈی کونٹینیو نہیں رکھنے والی وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوئی ۔۔

اور کوئی خواہش ہے اس سے ہٹ کر  تو وہ بھی بتا دو ۔۔ آبان طنزیہ لہجے میں بولتے ہوئے اس کی جانب بڑھا اور انتہائی نرمی سے بولا تھا 

میں تمہاری یہ معصوم سی خواہش بلکل بھی پوری نہیں کرنے والا۔۔۔ وہ بچوں کی طرح اس کے گال کو اپنے ہاتھ سے تھپتھپاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن کچھ یاد آنے پہ  وہ پھر سے اس کی جانب مڑا تھا اور ہاں  "مسز" کل یونی کے لیے ٹائم پہ ریڈی رہنا ۔۔۔

میں آفس جاتے ہوۓ تمہیں چھوڑ دوں گا وہ میرب کی طرف ایک سمائل اچھالتا ہوا باہر نکل گیا وہ جاتے ہوۓ بھی اس کو چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا ۔۔ 

جبکہ میرو اس کے ڈھٹائی پر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھنے میں مصروف تھی جیسے آبان نے اس کو کوئی خوفناک بات کہہ دی ہو جس کے زیر اثر وہ کچھ دیر شاک میں رہی تھی ۔۔ 

❤️

میرب بہت مگن سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی اچانک اس کے فون پہ بیل  ہوئی ۔۔ 

اس نے جلدی سے فون پیک کیا اور دوسری طرف سے اسے گالیاں پڑنے کی آواز آئی ۔۔ 

وہ چونکی اور اپنی ہنسی پر قابو کرتے ہوۓ دھیرے سے بولی تھی ۔۔ 

ہاۓ رانیہ  کیا ہوا ہے۔۔؟؟ اتنا غصے کیوں ہورہی ہو ۔۔

تم مجھے ایک بات تو بتاؤ تم کس سیارے پہ رہتی ہو جو میرا فون اٹھانے میں تمہیں بہت دقت محسوس ہوتی ہے ۔ رانیہ پھٹی تھی 

ارے یار رانیہ میرا ہاتھ جل گیا تھا میں بیمار تھی سو اسی لیے فون نہیں اٹھا پائی ۔ وہ نرمی سے بولی 

اوووو وہ کیسے ۔۔ رانیہ اس کی بات پر چونکی 

بس آئرن کرتے ہوئے جل گیا میرب اس منظر کو سوچ کر دوبارہ سے اپنے زخم تازہ نہیں کرسکتی تھی سو اس نے بات کو بدلنے میں ہی عافیت جانی 

اماں جان بتا رہی تھی کہ تمہاری منگنی ہو رہی ہے ۔۔

نہیں میرو ڈائریکٹ نکاح ہوگا سو اسی لیے میں نے تمہیں فون کیا ۔۔ رانیہ کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی 

اوو واؤ ۔۔ کب ہے ؟؟ میرب بےانتہا خوشی سے بولی تھی

پرسوں کو ہے اور تم نے جلدی  آنا ہے اگر دیر سے پہنچی تو میں ہرگز تم سے نہیں بولوں گی ۔ پھر میری طرف سے جو مرضی کرتی رہنا ۔۔۔ وہ پیار مگر دھمکی آمیز لہجے میں بولی تھی 

اوکے ضرور آؤں گی تم فکر مت کرو ۔۔ 

ہاہاہاہا ٹھیک ہے ۔۔  تم سے یہی امید تھی میری پیاری دوست !! کچھ ہی دیر میں میرب رانیہ سے رابطہ ختم کر کے اماں جان کے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔ 

❤️

 سحرش آبان کے آفس میں بیٹھی کب سے اس کا انتظار کر رہی تھی اور آبان کی سیکرٹری نے اسے اس کے آفس آنے کی پرمیشن دے دی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی  کہ وہ آبان کی گرل فرینڈ ہے جو پہلے بھی کئی دفعہ اس کے پاس آچکی ہے

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا اور سحرش کو بیٹھے ہوۓ دیکھ کر بےانتہا غصے میں اس کی جانب بڑھا تھا 

تم یہاں پہ کیا کررہی ہو اور کس کی اجازت سے میرے آفس میں آئی ہو ۔۔۔؟؟

پلیز آبان میری بات سنو ۔۔ وہ بےتابی سے اپنی کرسی سے اٹھے اس کے مقابل ہوئی 

میں تمہاری کوئ بات نہیں سنوں گا ۔۔ وہ اس سے دور ہوا

گیٹ آؤٹ فرام مائی آفس ۔۔ 

ایک دفعہ جو کہہ دیا سو کہہ دیا ایک سکینڈ سے پہلے یہاں سے دفعہ ہو جاؤ ورنہ میں تمہیں دھکے مار کر باہر نکالوں گا۔ وہ چیختا ہوا اس کے روبرو ہوا 

کیا ابھی بھی میرے دل سے کھیلنا چاہتی ہو وہ اس کے قریب ہوا

نن ۔۔۔ نہیں تم میری ایک دفعہ بات تو سن لو ۔۔ وہ ڈرتے ہوۓ بولی

اوکے ۔۔ بولو پھر سنتا ہوں ۔۔ وہ گھورتے ہوۓ کچھ نرمی سے بولا 

میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی وہ اس کے نزدیک آئی 

پلیز میں سب کچھ چھوڑ دوں گی اپنے موم ،ڈیڈ بھی ۔۔ تم چاہے میرب کو ڈرائیورس مت دینا پر مجھ سے نکاح کرلو

وہ اس کے قریب کھڑا تھا اتنا کہ اگر وہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا بھی چاہتا تو آسانی سے چھو سکتا تھا ۔۔ 

ہاہاہا  ۔۔ سب کو چھوڑ دیا وہ بھی میرے لیے ۔۔ آبان مضحکہ خیز لہجے میں بولا تھا 

مجھے بدو سمجھتی ہو میرا دل کیا فری داموں میں بک رہا ہے جو تم بار بار اس کی خریداری کرنے چلی آتی ہو ۔۔ میڈم سحرش آفندی آپ نے جو فضول بکواس اور گھٹیا ڈائیلاگز بولنے تھے وہ آپ بول چکی ہیں اب آپ میرے آفس سے گیٹ آؤٹ ہو جائیں 

آبان نے اسے کندھے سے پکڑ کر دروازے کے پاس کھڑا کیا جبکہ سحرش آفندی اپنی توہین پہ غصے سے آگ بگولا ہو گئی تھی ۔۔ 

تم نے میری محبت کو جھٹلایا ہے آبان حیدر !! دیکھنا تو میں تمہارے ساتھ اب کیا کرتی ہوں ۔۔۔۔ 

او میڈم باہر جاکر جو کرنا ہے کر کرئیے گا ۔۔ آبان نے یہ کہتے ہی سکیورٹی کو بلایا وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور کر آفس سے باہر چلی گئی ۔۔ 

جاہل عورت وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا ۔۔ اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔۔

❤️

اماں جان آپ کو کیا ہوا ہے .. ؟؟ میرب نے زوبیہ بیگم کو نڈھال پایا اور پریشانی سے بولی 

آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔۔ 

ہاں کچھ  خراب ہے ۔۔ وہ نحیف زدہ آواز سے بولی 

او ہو ۔۔ آپ نے میڈیسن لی ؟؟

ہاں لی تھی ۔۔ وہ یہ کہتے ہی کروٹ بدل کر خاموشی سی لیٹ گئی تھی اور میرب پریشانی سے ان کے سرہانے بیٹھے ان کا سر دبانے لگی تھی 

 میرو بیٹا میں بلکل ٹھیک ہوں تم فکر مت کرو ۔۔ وہ اس کا ہاتھ اپنے سر سے ہٹاتے ہوۓ اس کی جانب کروٹ لیتے ہوۓ بولیں ۔۔ 

اچھا مجھے یہ بتاؤ ۔۔ آبان اب تو تمہیں نہیں ڈانٹتا ناں ۔۔ 

نہیں اماں جان !!  میرب  نے آہستگی سے جواب دیا ۔۔

تم نے تب تک اس کے روم میں نہیں جانا جب تک اسے احساس نہیں ہوتا ۔۔ ان کے لہجے میں آبان کے لیے بےانتہا غصہ تھا 

جی" اماں جان"میرب نے آہستگی سے کہتے ہوۓ اپنا سر ہلایا اور کچھ سوچنے میں مگن ہوگئی تھی ۔۔

"اماں جان صحیح تو کہہ رہی تھیں وہ اچھے سے اس کی اوقات دلا کر اس سے معافی مانگ لیتا تھا اور پھر سے اپنی روٹین پہ آجاتا تھا ۔۔ اب تو آبان تم دیکھنا میں کیسے تمہیں تمہاری نانی دادی یاد کرواتی ہوں وہ تصور ہی تصور میں اس سے ہمکلام ہوئی اور پھر وہ خود ہی اپنی ہی سوچ پر مسکرا دی ۔۔ اب دیکھتے جانا  تمہیں "ناکوں چنے نہ چبواۓ" تو میرا نام بھی میرو نہیں 

وہ ایک عظیم کارنامہ سوچ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔ 

آج وہ اپنے کمرے میں میرو کی کمی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا تھا 

وہ خود بھی وقت لینا چاہتا تھا اور اسے بھی سنبھلنے کا موقع دینا چاہتا تھا ۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اسے کمرے میں لا کر پھر سے ذلیل کرے وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا  لیکن کبھی کبھی کچھ پل کے لیے وہ اس میں کھو سا جاتا تھا اس میں کوئی ایسی کشش ضرور تھی جو اسے اپنی طرف کھینچتی تھی ۔ اور وہ اس کے لمس میں مدہوش سا ہو جاتا تھا 

وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ محبت ہے یا صرف ایک کشش ۔۔ ! وہ اسے سوچتا ہوا نیند کی آغوش میں چلا گیا 

❤️

وہ فریش ہو کر ڈائنگ روم میں داخل ہوا اور وہاں سے میرو کو غائب پایا ۔۔۔ اور وہ انتہائی بےچینی سے بولا 

موم یہ میرو کدھر ہے  ۔۔ 

سو رہی ہوگی ۔۔ وہ چاۓ پیتے ہوۓ مصروف سے انداز میں بولیں ۔۔ 

پر میں نے تو اسے کہا تھا کہ یونی کے لیے تیار رہنا افف ،، یہ لڑکی میری ایک بات سننے کو تیار نہیں ۔۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اس کے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا وہ مزے سے سونے میں مصروف تھی  آبان اس کے قریب گیا اور اسے شانوں سے پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا ۔ 

کیا مسلہ ہے سونے کیوں نہیں دے رہے اب صبح صبح کیا مصیبت آن پڑی ۔۔ وہ جھنجلائی اور غصے سے بولی 

فوراً اٹھو اور یونی کے لیے تیار ہوکر بیس منٹ میں باہر آؤ میں ویٹ کررہا ہوں ۔ وہ یہ کہہ کر فوراً کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔ 

کیا مصیبت ہے اب مجھے یونی میں بھی ذلیل ہونا پڑنا ہے ۔وہ جلتی بھنتی بیڈ سے اٹھی اور  باتھ لینے چلی گئی ۔۔ 

❤️

وہ باہر آئی تو آبان کو آپنا انتظار کرتے ہوۓ پایا جبکہ 

آبان اس کو دیکھتا ہی رہ گیا اس کا چہرہ کسی بھی آرائش سے پاک اور وہ چہرے پہ بھلا کی خوبصورتی سجاۓ بالوں کو اونچی پونی میں قید کیے انتہائی  بے فکری سے ڈائنگ ٹیبل کی طرف بڑھی  

اب تم ناشتہ بھی کرو گی کیا؟؟ وہ کڑوے کسیلے لہجے میں بولا 

یس ۔۔ ضرور کروں گی بھوک سے جان نکلی جا رہی ہے ۔

 پندرہ بیس منٹ تو لگ ہی جاۓ گے آپ تو جانتے ہی ہیں مجھے تیزی سے کھانا نہیں آتا سو آپ ویٹ کریں ۔۔ وہ چہرے پہ بھلا کی معصومیت سجاۓ اس کا سکون غارت کرگئی ۔۔ (وہ اس کے منہ کے بدلتے ہوۓ زاویئے دیکھ کر خوش ہوۓ بنا نہ رہ سکی ۔۔۔ رہتا نہیں ہے کہیں کا تیس 

مار خان مجھے کہہ کر آیا تھا کی بیس منٹ میں تیار ہوکر باہر آجاؤ ۔۔ وہ منہ ٹیڑھا کرکے منہ ہی منہ میں بڑبڑائی ۔ہاہاہا اب بچارہ میرا انتظار  کرے گا)

 آبان اسے غصے سے دیکھ رہا تھا جو انتہائی ندیدے پن 

سے کھانا کھانے میں مصروف تھی جیسے پتہ نہیں کب سے فاقے کاٹ رہی ہو ۔۔ 

 میں تمہارا نوکر تو ہوں نہیں جو تمہارا انتظار کرتا پھروں وہ نخوت سے کہتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا وہ بھول گئی تھی کہ مقابل شخصیت بھی آبان حیدر کی تھی 

نن ۔۔ نہیں رکیے ۔۔ میں آرہی ہوں وہ گرتی پھرتی اس کی پیچھے لپکی ۔۔ 

تم نے مجھے پاگل کردیا ہے میں کوئی تمہاری طرح ویلا نہیں ہوں اب صبح تم مجھے بلکل تیار ملو

اوکے مسٹر اکڑو !! وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی پر وہ اس کی بڑبڑاہٹ آسانی سے سن چکا تھا ۔۔ 

پر وہ اس کے منہ بلکل بھی نہیں لگنا چاہتا تھا وہ آگے خاصا لیٹ ہو گیا تھا سو فورا سے گاڑی کی طرف بڑھا ۔۔ 

❤️

میرو کی یونیورسٹی بہت اچھی چل رہی تھی اس کی بہت سی نئی دوستیں بن گئی تھیں ۔ اب اس کی بوریت تھوڑی سی کم ہوگئی تھی جبکہ آبان اپنے آفس کے کچھ کام سے ایک ماہ کے لیے دبئی گیا ہوا تھا پیچھے وہ آبان کے فراق میں جلتی رہتی اسے گئے ہوۓ پندر دن ہوگئے تھے آبان نے ایک بار بھی اسے فون نہیں کیا تھا 

سواۓ زوبیہ بیگم کے وہ انہیں ہی سے بات کر کے فون بند کردیتا اس بات پر اسکا دل بےانتہا جلتا تھا وہ تقدیر کا ماتم کرتی یہ آبان سے شکوہ کرتی وہ اپنے دل کو سمجھا نہیں سکتی تھی جو صرف اسی کا ہی طلبگار تھا ۔ وہ تھک چکی تھی اس کی آنکھ سے ایک آنسو پھسلا اور اس کے بالوں میں جذب ہوتا چلا گیا آج اسے آبان کی شدت سے یاد آرہی تھی  وہ اپنے آپ پہ قابو نہیں رکھ پائی  اور روتی چلی گئی ۔۔

وہ اسے بھول گیا تھا جیسے برسوں سے ناآشنا ہو ۔۔۔ اچانک کچھ سوچتے ہوۓ اس کے دل میں شک کا بیج اگا ۔۔  شاید وہ سحرش کے ساتھ نہ ہو ۔۔۔۔ اگر ہوگا بھی تو میں کیا کرسکتی ہوں ۔۔ وہ تھکے ہارے سے انداز میں سوچتے ہوئے بڑبڑائی 

"تو آشناۓ شدتِ غم ہو،تو کچھ کہوں

کتنا بڑا عذاب ہے،جینا تیرے بغیر"

❤️

آج اس کا یونی میں بھی بلکل دل نہیں لگ رہا تھا ماریہ اس کے قریب آئی جو اس کی بہت اچھی دوست تھی ۔

یار فزکس کی کلاس نہیں لینی ۔ وہ اس کو دیکھتے ہوۓ حیرانی سے بولی 

نہیں آج میں بلکل بھی ٹھیک نہیں سو گھر جاؤں گی ڈرائیور کو فون کیا ہے وہ آتا ہی ہوگا اور ویسے بھی آج اماں جان کی بھی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں سو جانا ہوگا ۔۔۔۔

اوکے چلو ٹھیک ہے ماریہ یہ کہتے ہی روم کی جانب بڑھی مگر وہ اپنی جانب آتے ہوۓ عباد کو دیکھ کر چونکی جو انتہائی گھٹیا قسم کا شخص اور ایک امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھی ۔۔ 

ہاۓ بیوٹیفل لیڈی !! عباد ان دونوں کے قریب آیا پر میرب نے اسے مکمل اگنور کیا اور یونیورسٹی سے باہر کی طرف بڑھی ۔۔ 

بہت اٹیچیوڈ ہے اس میں ۔۔  وہ ماریہ سے مخاطب تھا پر اس کی غلیظ نظریں میرب پر تھیں ۔۔

 وہ گھٹیا لوگوں سے تو بلکل بات نہیں کرتی اور ہاں وہ شادی شدہ ہے اس کے بارے میں کوئی غلط خیال بھی اپنے دل میں مت لانا وہ اسے وارن کرتے ہوۓ اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئی ۔۔ 

ہاہاہاہا عباد آفندی نہیں سوچے گا اس حسینہ کو تو پھر اور کون سوچے گا اور جو سوچے گا اس کی ٹانگیں ٹوٹیں گی اور رہی بات شادی شدہ کی وہ ہم رہنے دیں گے تو پھر ہی ناں ۔۔ وہ یہ کہتے ہی قہقہہ کے بل ہنسا 

اس کے ہر لفظ سے شیطانیت ٹپک رہی تھی ۔۔ 

❤️

وہ  لیپ ٹاپ پہ اپنے نوٹس بنانے میں مصروف تھی اور چند آوارا لٹیں اس کے چہرے کا خوبصورتی سے احاطہ کیے ہوئے تھیں۔۔۔ اچانک موبائل کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا ۔۔ 

میرو نے چونکتے ہوۓ فون اٹھایا پر انجان نمبر دیکھ کر اس نے کال کاٹنا چاہی پر کچھ دماغ میں آتے ہی اس نے فوراً کال  اٹھائی ۔۔ 

 دوسری جانب سے آبان کی آواز گونجی ۔

کیسی ہو۔۔۔؟؟ ماۓ لیڈی 

ٹھیک ہوں ۔۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی

آپ کیسے ہیں ۔۔ ؟؟  وہ اس سے شکوہ نہیں کرنا چاہتی تھی سو چپ ہی رہی ۔۔

طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تمہاری ۔۔ 

نہیں ٹھیک ہے ۔۔ 

تم اتنی افسردہ تو کبھی نہیں ہوتی ۔۔ شاباش بتاؤ کیا پرابلم ہے ۔۔ آبان حیدر اس کے لہجے سے  کچھ پریشان ہوا تھا

کب سے آپ کو میرے پرابلمز اچھے لگنے لگے۔۔۔؟؟ وہ تلخی سے بولی تھی 

کیسی باتیں کرہی ہو میرو ۔۔ ؟؟ وہ اسکی بات پر چونکا

آپ نے ایک دفعہ بھی مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں  کی۔۔ میں آپ کی لگتی ہی کیا ہوں۔۔۔؟؟ کس حق سے آپ میرے قریب آتے ہیں مجھے جھوٹے دلاسے کیوں دیتے ہیں ۔۔۔کبھی پیار کہ دو لفظ بول دیے تو کبھی روح کو گھائل کردینے والے تیز نشتر جیسے جملے جو کسی تیر کی مانند میرے دل پہ لگتے ہیں تو کبھی کبھی تو مسٹر آبان حیدر آپ حد ہی کرتے ہیں  ایسی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جو ہماری جان ہر بن جاتی ہے ۔۔ وہ غصہ سے پھٹی 

میں تمہیں جواب دہ نہیں ہوں میرب رحمن !! میری سو مجبوریاں ہوتی ہیں 

اور دوسری بات مجھے تمہاری فکر نہیں ہوگی تو پھر کس کی ہوگی۔۔۔۔؟؟ تم بلاوجہ کا شک مت کیا کرو اور رہی بات خاموشی اختیار کرنے کی میں تمہیں فون کرنے ہی والا تھا ۔۔۔ پر کچھ مصروفیات کی بنا پر نہیں کر پایا ۔

اس کی بات پر  میرب سوں سوں کرتی ہوئی بولی (جو ابھی رونے کا شغل فرما کر ہٹیں تھیں)۔۔۔۔آپ مجھے بھول جاتے ہیں" آبان" اور پھر مصروفیات کا بہانہ کر دیتے ہیں ۔۔ " وہ اس سے شکوہ کرتے ہوۓ مخاطب ہوئی 

یار پلیز ایسا گندا فتور دماغ سے نکال دو ۔۔۔ بھلے میں کیوں بہانہ کرنے لگا۔۔۔؟؟ تم میری بیوی ہو میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں اگر بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھلا سکتا ۔۔ وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بولا

میرب رحمٰن تم وہ واحد بندی ہو جس کی قربت مجھے مدہوش کر دیتی ہے میری زندگی میں بہت سی خوبصورت رنگوں سے مزین تیتلیاں آئی ہیں اور بہت سی گئی ہیں پر زندگی تم پہ ٹھہر سی گئی ہے ۔۔ اس سے زیادہ میرے پاس الفاظ نہیں ۔۔ 

" میرا حال میرے دل سے پوچھ 

جو تیری یاد میں پاگل سا پھرتا ہے" 

میرب رحمٰن کہ تو مانو زمین پہ پیر ہی نہیں ٹک رہے تھے اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اسے کسی حسین سپنے سے کم نہ لگا ۔۔۔ وہ ان حسین لفظوں میں کھو سی گئی تھی اور اس احساس کو دل میں اتارنا چاہتی تھی اس کو محسوس کرنا چاہتی تھی 

یار کیا مسٔلہ ہے ؟؟ پھر رونے دھونے میں مصروف ہو ۔۔۔؟؟ یار میرو اب نہ بولی تو میں فون رکھ دوں گا وہ جھنجلایا اور کچھ غصے سے مخاطب ہوا 

نن۔۔نہیں میں بول رہی ہوں ۔۔ شرم سے اس کی آواز نہیں نکل پارہی تھی وہ اس کی باتوں پر جھینپ سی گئی تھی

آ۔۔۔آپ کب آئیں گے ۔۔۔ وہ اٹک اٹک کے بولی

کیوں میری یاد آرہی ہے ۔۔۔ وہ شوخ ہوا

کک۔۔ کیا آپ واقعے ہی مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔۔ وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی

 نہیں ڈرامے کررہا تھا اتنی دیر سے وہ اس کے عجیب سے سوال پر تلخی سے بولا اور جھٹکے سے فون رکھ گیا 

ہاۓ میرو یہ کیا کردیا تم نے وہ پریشان ہوئی۔۔۔ اس نے کال بیک کرنا چاہی لیکن اس کی ہمت نہ پڑی ۔۔۔

اس کے لیے یہی احساس خوش کن ثابت ہوا تھا کہ آبان اس سے محبت کرنے لگا ہے وہ خوشی سے چیخے بنا نہ رہ سکی

❤️

وہ فون کہ پار بھی اس کا گریز سمجھ سکتا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ  شرما رہی ہے اور یہی ادا تو اس کے دل کو گھائل کر گئی تھی۔۔۔ "آگ شاید دونوں طرف برابر کی لگی تھی ایک جل کر بھسم ہو رہا تھا اور دوسرا بھسم ہوچکا تھا ۔فرق واضح تھا کہ وہ عشق کی انتہا پر تھی اور وہ ابھی جل رہا تھا"

۔

❤️

جیسے ہی وہ یونی میں داخل ہوئی عباد اسے سامنے ہی کھڑا دیکھائی دیا ۔ اس کا دل تو کیا اس گھٹیا شخص کا تھوبڑا توڑ دے جو پورے کا پورا اس کے راستہ میں دیوار کی طرح کھڑا تھا ۔۔ وہ اس کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی پر کیا کرتی کوئی جوزا بھی نہ تھا جو اسے پیچھے ہٹا کر اس کے منہ لگے بغیر فوراً سے اندر چلی جاتی ۔۔ 

چوکیداری پوری ہوگئی ہو تو راستہ سے ہٹ جاؤ ۔ میرب غصہ اور نخوت سے بولی 

کیا میں تمہیں شکل سے چوکیدار لگ رہا ہوں ۔۔ وہ تپ ہی تو  گیا 

اووو ہیلو مسٹر !! میں تمہاری شکل واکل نہیں دیکھنے آئی یہاں پڑھنے آئی ہوں ۔۔ اب سائڈ پہ ہٹو فضول انسان ۔۔ وہ اسے دھکا دیتے ہوئے اندر کی جانب بڑھی ۔۔ 

عباد آفندی اس کی ہمت پہ دہنگ رہ گیا تھا وہ یونی کی پہلی لڑکی تھی جو اسے کھری کھری سنا گئی تھی 

بہت بڑی غلطی کردی میرب رحمٰن آپ نے ہم سے پنگا لےکر ۔۔ افففف۔۔ بچاری ۔۔ 

 اب دیکھنا تمہارا کیا حشر کرتا ہوں ۔۔ وہ  زور سے قہقہے کے بل ہنسا تھا ۔۔ 

❤️

تم آج کافی لیٹ ہو ۔۔ ماریہ اس کے غصے سے لال پڑتے ہوۓ چہرے کو دیکھتے ہوۓ بولی ۔۔ 

کچھ گھٹیا لوگ راستہ میں مل گئے تھے ان کو بھگتا کے آرہی ہوں

کیا مطلب تمہارا ۔۔؟؟ اووو کہیں عباد آفندی کی بات تو نہیں کررہی 

ہاں یار وہی گھٹیا شخص ۔۔ وہ نخوت سے بولی 

تم اس سے کوئی فضول بحث تو نہیں کرکے آرہی ۔۔ ؟؟  ماریہ پریشان ہوئی وہ جانتی تھی کہ وہ بہت بدتمیز شخص ہے ۔۔ اس سے جتنا ںھی بچا جاتا اتنا ہی بہتر تھا ۔۔ 

کیوں کیا ہوا یار۔۔۔؟؟ میرب اس کی بات پر حیران ہوئی 

اس کی کمپنی بلکل اچھی نہیں ۔۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے تم نہیں جانتی اسے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے

تو پھر میں کیا کروں چلا جاۓ اور ویسے بھی پلیز کچھ اور بات کرو ۔۔ وہ کچھ بیزار ہوئی

جاری ہے

#Ishq_Bedardi

#Rohe_Rehma

#Episode_11

Don't copy paste without my permission

یار ایک کام ہے ۔۔ " عباد اپنے دوستوں سے مخاطب ہوا

حکم کریں جناب ۔۔ 

یار وہ فزکس ڈیپارٹمنٹ کی میرب رحمٰن ہے نہ اسے اٹھوانا ہے ۔۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا

کیا۔۔۔۔؟؟ وہ حیران ہوۓ بغیر نہ رہ پاۓ تم ہوش میں تو ہو تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟؟ وہ شادی شدہ ہے اور یہاں کسی کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتی ۔۔ اور دوسری بات وہ  آبان حیدر شاہ کی بیوی ہے جو شہر کے مشہور بزنس ٹائیکون میں سے ایک ہے ۔۔

میں اچھے سے جانتا ہوں اس آبان حیدر کو ۔۔۔ میرے ہاتھ بھی آبان حیدر سے کچھ کم لمبے نہیں ۔۔ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔ ویسے بھی اس کی طرف تو میرا ایک اور حساب بھی نکلتا ہے ۔۔  اب یہ سارے حساب کتاب میں اس کی بیوی سے پورے کرنے والا ہوں جو کہ انتہائی خوبصورتی کہ ساتھ میرے دل میں جا اتری ہے اور اب اس کو دل سے نکالنا ناممکن سا لگ رہا ہے ۔۔ 

 سو پھر مجھے کچھ تو کرنا پڑے گا اس مغرور حسینہ کا۔۔۔ ." وہ اپنے دوستوں سے مخاطب ہوا جو ہونق بنے اسے سننے میں مصروف تھے تم لوگوں نے میری مدد کرنی ہے تو بخوشی کرو ورنہ عباد آفندی کسی سے بھیک نہیں مانگا کرتا شاید تم لوگ جانتے بھی ہو ۔۔ اس کے لہجے سے غرور ٹپک رہا تھا 

 عباد یار تو کیسی باتیں کررہا ہے۔۔۔؟؟ جو تو کہے گا ہم وہی کریں گے تو ہمارا جگر ہے یار ہم تیرے لیے کام نہیں کرے گے تو پھر کس کے لیے کریں گے ۔۔۔؟؟  وہ تینوں ہم آواز ہو کر بولے ۔۔ 

اوکے میں تم لوگوں کو سمجھا دوں گا اس میرب کا کیا کرنا ہے فل حل کے لیے اتنا کافی ہے ۔۔ " وہ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا 

 اس وقت وہ چاروں کسی شیطان سے کم نہیں لگ رہے تھے

❤️

آج وہ انتہائی تھک چکا تھا تھکن کا احساس اسے اپنے پورے جسم میں محسوس ہو رہا تھا آج شام اس کی فلائٹ بھی تھی ۔۔ سو وہ کچھ آرام کے لیے لیٹ گیا ۔۔ کہ اچانک  موبائل کی گھنٹی نے ماحول میں ہلچل پیدا کی ۔۔ اس نے جونہی فون اٹھایا دوسری طرف سحرش کی آواز بلند ہوئی جو شاید کبھی بھی اس کی جان چھوڑنے والی نہ تھی ۔۔۔

آبان نے فون اٹھایا اور انتہائی بیزار کن لہجے سے میں بولا 

فرمائیے کیا بکواس کرنی ہے اب آپ کو ۔۔ 

دیکھو آبان آخری دفعہ مجھے معاف کر دو وہ سسکی ۔۔ پلیز میں تمہارے بغیر نہیں رہ پاؤں گی تمہیں تمہاری اس محبت کا واسطہ جو تم نے کبھی مجھ سے کی تھی ۔۔ 

دیکھو سحرش مجھے کبھی تم سے محبت نہیں تھی سواۓ ایک اٹریکشن کے جس کی بنا پر میں تمہاری طرف کھینچا چلا آتا تھا ۔۔ اور اس کے علاؤہ کچھ بھی نہ تھا 

وہ حیرت سے دنگ ہوۓ بنا نہ رہ پائی تم ایسے تو نہیں تھے آبان حیدر !!  تمہیں تھی مجھ سے محبت ۔۔ تم اس بات سے کیوں انکاری ہو ؟؟  پلیز آبان ایسا مت کرو ۔۔ مجھ سے غلطی ہوئی ہے میں خمیازہ بھگتنے کو تیار ہوں پر مجھے ایسے اپنے لفظوں کی مار نہ مارو ۔۔ 

محبت گئی بہاڑ میں اور اس محبت کے ساتھ تم بھی دفن ہو جاؤ ۔۔ میری زندگی میرے دل میں تمہارے لیے اب کوئی گنجائش نہیں اس میں صرف میرب رحمٰن ہے اور اس کے علاؤہ کسی بھی ایرے غیرے کے لیے تو بلکل بھی جگہ نہیں ہے سو تم اپنے ان آنسوں سے کسی اور کو پٹاؤ ۔ 

وہ میرب کے نام پہ غصے سے تلملائی ۔۔ 

 آبان میں خودکشی کر لوں گی وہ دھمکی آمیز لہجے چیخی 

تو بخوشی کرو ،، ویسے بھی تمہارے جیسی لڑکیوں کو اس کے علاؤہ آتا بھی کیا ہے ۔۔ آبان نے اسے چڑایا

اس کے چڑانے پر سحرش آپے سے باہر ہوئی تھی اور اس نے فوراً  سلسلہ منقطع ہوگیا ۔۔

شکر اس فضول عورت سے جان تو چھوٹی وہ بیزار سے لہجے میں کہتے ہی فون پاکٹ میں ڈالتا ہوا باہر نکل گیا 

❤️

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا گھر میں گہرا سکوت چھایا ہوا تھا اس نے کسی کو بھی آپنے آنے کا نہیں بتایا تھا ۔۔

وہ آہستگی سے اپنے روم کی جانب بڑھا اور میرب کو کمرے سے غائب پا کر اس پہ شدید ترین غصہ آیا  وہ غصے کو قابو میں کیے شاور لینے چلا گیا کچھ منٹ میں وہ فریش ہو کر جوگنگ پر نکل گیا 

❤️

جوگنگ سے آتے ہی وہ زوبیہ بیگم کے روم میں داخل ہوا ۔۔

موم کیسی ہیں آپ ؟؟ وہ ان کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے پیار سے بولا 

چل سائڈ پہ ہٹ ۔۔  بتایا کیوں نہیں کہ تو آرہا ہے ۔۔  وہ سخت نالاں لگ رہی تھیں ۔۔ وہ روٹھے پن سے بولیں

 میری پیاری موم میں آپکو سرپرائز دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔

تو نہ اپنے ڈراموں سے باز آجا وہ اس کے بازو پہ زور سے ایک تھپکی لگاتے ہوۓ بولیں ۔۔ 

اس وقت میرب روم میں داخل ہوئی اور اسے دیکھ کر خاصا حیران ہوئی ۔۔ 

آ۔۔۔آپ۔۔۔کب آۓ ۔۔ ؟؟ 

رات میں آیا ہے ۔۔  زوبیہ بیگم بولی 

کیسے ہیں آپ۔۔۔؟؟

بلکل ٹھیک ۔۔ اس نے خاموشی سے جواب دیا

 وہ میرب کو کسی روٹھے ہوۓ بچے کی مانند لگا 

ہاۓ اب میں انہیں کیسے مناؤں گی۔۔۔۔؟؟ وہ پریشان ہوئی

آبان اسے بہت انہماک سے دیکھ رہا جو پتہ نہیں خیالوں کے کس دیس پہنچی ہوئی تھی کہ اچانک دونوں کی نظریں آپس میں ملیں  آبان کی نظریں شوخی سے بھرپور تھی جو وہ برداشت نہ کر پائی اور فوراً سے نظریں جھکا گئی ۔۔ 

 آج کے بعد یہ سرپرائز ورپرائز دیے نا تو پھر دیکھنا ۔۔ زوبیہ بیگم آبان سے مخاطب ہوئیں

ہاہاہاہا اوکے موم ۔۔

میرو بیٹا جاؤ آبان کے لیے ناشتہ بناؤ ۔۔  رات سے بھوکا ہے ان کے لہجے میں اس کے لیے فکر تھی 

 میرب جو کب سے اس کے گھورنے سے پریشان ہورہی تھی زوبیہ بیگم کی بات سنتے ہی کمرے سے باہر کی جانب بڑھی وہ کب سے آبان کی نظروں سے کنفیوژ ہورہی تھی جو صرف اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا جیسے دنیا میں کرنے کو کوئی اور کام بچا ہی نہ ہو ۔۔

❤️

میرو بیٹا یہ آبان کے روم میں چاۓ اور پین کلر دے آؤ اس کے سر میں درد ہے۔۔۔

جج۔۔جی اماں جان ۔۔ ان کی بات سنتے ہی میرب کچھ پریشان سی ہوئی اور اس کے کمرے کی طرف بڑھی اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پر چکے تھے اس نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ نوک کیا لیکن کوئی رسپانس نہ آیا ۔ 

وہ اندر بڑھی اور آبان کو سویا ہوا پایا ۔۔ وہ ایک  لمبی سانس کھینچتے ہوۓ اس کے بیڈ کی طرف بڑھی اور چاۓ سائڈ ٹیبل پہ رکھ کر اسے اٹھانے لگی ۔۔ 

آبان پلیز اٹھیے ۔۔ وہ اسے دور سے آواز دیتے ہوۓ بولی لیکن اس پہ میرب کی آواز کا کوئی اثر نہ ہوا وہ جھنجھلاتے ہوۓ  اس کے قریب آئی اور اسے کندھے سے ہلایا ۔۔۔۔

وہ جیسے ہی باہر جانے کے لیے مڑی ۔۔ 

ابان نے سرعت سے اسے ہاتھ سے کھینچ کر اپنے اوپر گرا لیا یہ سب اچانک ہوا تھا قبل کہ وہ سنبھلتی اگر اسے سنبھلنے کا موقع ملتا اور سیدھا جاکر اس کے سینے پہ جاگری ۔۔ 

 وہ اس اچانک افتاد پر گھبرا سی گئی اس کا دل زور سے دھڑکا جس کی دھڑکن آبان بخوبی سن سکتا تھا ۔۔ 

وہ اس کی قربت سے گھبرائی اور اس کی گرفت سے نکلنے کی انتھ کوشش کرنے لگی مگر  بے سود"۔۔۔  وہ اس کی کمر پر اپنے مضبوط ہاتھوں کا گھیرا تنگ کیے اس کے فرار کی ساری راہیں مسدود کر چکا تھا ۔۔ 

"میں جذب کرلوں ساری تھکاوٹیں تیری

تو ایک بار میری بازوؤں میں آ تو سہی"۔۔۔۔۔

وہ مخمور لہجے سے چور اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا جو حیا سے اپنی نظریں جھکا گئی ۔۔ 

پپ ۔۔ پلیز چچ۔۔ چھوڑئیے ۔۔ ! اماں جان انتظار کررہی ہو گی وہ گھبرائی اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی ۔۔

موم اتنی پاگل نہیں ہے کہ تمہیں خود ہی بھیج کر تمہارا انتظار کرنے بیٹھ جائیں ۔۔ اب تم خود بدھو ہو تو تمہارا کیا کیا جاۓ ۔۔  اس نے یہ کہتے ہی میرب کو چھوڑا تھا اور وہ موقعہ دیکھتے ہی باہر کی جانب لپکنے ہی لگی تھی کہ آبان نے پھر سے اسے کھینچ کر اپنے پہلو میں گرایا ۔۔ 

کیا پرابلم ہے تمہارے ساتھ۔۔۔؟؟ ٹک کیوں نہیں رہی ۔۔ 

 وہ جھنجھلایا ۔۔ 

مم۔۔میں نے کل یونی بھی جانا ہے تو جلدی سونا ہے ۔۔۔ میرا ٹیسٹ ہے ۔۔ " وہ اٹک اٹک بولی 

تمہیں میں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ مجھے تم اب اسی کمرے میں چلتی پھرتی نظر آؤ رہی بات ٹیسٹ کی وہ بھی ہوجاۓ گا ابھی صرف تم مجھ پہ دھیان دیتی ہوئی نظر آؤ نہ کہ یہ فضول قسم کہ ٹیسٹ اور یونی ۔۔ " وہ بے باکی سے کہتا ہوا اس کے اوپر جھکتا چلاگیا اور اس کے چہرے کے ہر نقوش کو وارفتگی سے اپنے لبوں سے چھوتے ہوۓ اسے زور سے اپنی باہوں میں بھینچ گیا ۔۔ وہ اس کی قربت سے گھبرا رہی تھی جو اسے چھوڑنے کے لیے بلکل تیار نہ تھا لہذا اس نے اپنا آپ اس کے سپرد کردیا جو اسے کسی گڑیا کی مانند سمیٹتا ہوا اپنے اندر سموئے ، اس بھیگی رات میں کھو سا گیا تھا اگر وہ اسے تھوڑا سا بھی ڈھیلا چھوڑتا تو شاید وہ بکھر جاتی ۔۔۔ 

❤️

عباد تمہیں ایک کام کہا تھا ۔۔ ' وہ دنداتی ہوئی اس کے روم میں داخل ہوئی۔۔

ہاں یار کردوں گا ۔۔ " تھوڑا تحمل کرو 

تمہیں نہیں کرنا تو بتادو میں خود ہی کر لوں گی میں انتظار نہیں کر سکتی ۔۔ "  وہ غصہ سے اس پہ رعب جماتے ہوئے بولی

 تو پھر میں کیا کروں خود کرلو میرا سر بار بار کیوں کھانے چلی آتی ہو ۔۔ " وہ اس کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے غصے سے بولا

سحرش اس کے غصے پر تھوڑا سا نرم پڑی وہ جانتی تھی کہ عباد کے علاؤہ کسی سے بھی کام کروانے میں آبان کو اس پر شک پیدا ہوسکتا ہے ۔۔ 

وہ نا چاہتے ہوۓ بھی اپنے لہجے میں پیار سموئے عباد سے مخاطب ہوئی ۔۔ 

 کیا تمہاری میرب رحمٰن سے ملاقات ہوئی۔۔۔؟؟

ہاں۔۔۔!!! کافی خوبصورت ہے بلکل نک چڑھی حسینہ کی مانند۔۔۔اور میرے دل کو بھا گئی  اب اسے چھوڑنا ناممکن سا لگ رہا بس تھوڑا اور انتظار پھر وہ میرے پاس میری باہوں میں ہوگی ۔۔ " وہ کھوۓ ہوۓ لہجے میں گویا ہوا ۔

وہاٹ۔۔ ؟؟ وہ حیرت سے اچھلی۔۔۔ تم یہ کیا بک رہے ہو۔۔۔؟؟

تمہارا دماغ تو ٹھکانے پہ ہے یہ کہیں سے کوئی پرزہ ہل گیا ہے۔۔۔؟؟

اس محترمہ سے عشق لڑانے کا نہیں کہا تھا میں نے تمہیں جتنا کہا ہے بس اتنا کرو ۔۔ یہ خرافات اپنے دماغ سے نکال دو تم آبان کو جانتے ہو وہ کبھی بھی اور کسی بھی حال میں میرب رحمٰن سے دستبردار نہیں رہے گا اور تم اسے اپنانے کے سپنے سوچ رہے ہو ۔۔ 

"تف" ہے تم پہ۔۔۔"عباد آفندی" 

اگر آبان حیدر کو تھوڑی سی بھی بھنک پڑ گئی ہمارے کارناموں کی تو  تم اچھے سے جانتے ہو۔۔وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے یہاں تک کہ وہ ہمارے بزنس کو مکمل طور پر تہس نہس کر کے رکھ دے گا اور پھر بیٹھے رہنا میرب رحمٰن کا مریض بن کر ۔۔ 

تم اسے اتنا لائٹلی مت لو تو بہتر ہو گا تمہارے لیے ۔۔ " وہ آخیر کچھ نرمی سے بولی 

"تو میں کیا کروں" میں کسی سے نہیں ڈرنے والا ۔۔ سو اب تم اپنی یہ زہر جیسی شکل لے کر یہاں سے گم ہو جاؤ وہ غصے سے پھٹا 

"وہ میرب رحمٰن کو نہیں چھوڑ سکتا وہ اس کے لیے مرے گا بھی اور مارے گا بھی وہ غیر ارادی طور پہ اس کے حواسوں پر قبضہ کرچکی تھی ۔۔۔ " وہ تلخی سے مسکرایا اور سگریٹ کو سلگا کر اپنے ہونٹوں کے درمیان رکھا

  جتنی بھی گالیاں اسے آتی تھیں وہ میرب کو دیتے ہوۓ باہر کی جانب لپکی جس نے شاید عباد کو بھی پھانسنے کا کارنامہ سر انجام دے دیا تھا ۔۔ میں نہیں جانتی اس منحوس  میں ہے کیا ۔۔۔۔؟؟ جو مجھ میں نہیں ہے وہ  منہ ہی منہ بڑبڑاتے ، جلتی بھنتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی

❤️

جیسے ہی وہ صبح بیدار ہوئی اس نے اپنے آپ کو آبان کی مضبوط گرفت میں پایا جو کہ اس کے بے حد قریب تھا وہ اس  میں کھو سی گئی جو سوتے میں بھی کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔۔ اس نے آبان حیدر کو اپنے صبر سے جیت ہی لیا تھا  وہ اس کے دل تک رسائی حاصل کر گئی تھی وہ خوش تھی ۔۔ 

 وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہتی تھی وہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کرتی اتنا ہی کم تھا وہ اس کی دعاؤں کا ہی ثمر تھا  جو اس نے گڑگڑا کر اپنے رب سے مانگی تھی اور آج وہ ثمر اسے مل چکا تھا ۔۔ میرب ایک نظر اس پر ڈالے اس کے  باہوں کے حصار کو توڑتے ہوئے فریش ہونے باتھ کی جانب لپکی اور پیچھے آبان دنیا فہمی سے بے خبر سکون کی نیند سو رہا تھا ۔

جاری ہے۔۔۔۔

 پلیز آپ کومنٹس میں اپنی رائے دینا مت بھولا کریں۔۔۔۔۔

ہمیشہ خوش رہیں ہنستے مسکراتے رہیں اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔۔۔۔۔

Epi......13

ناول:عشقِ بےدردی

از قلم: روحی رحما

Don't copy paste without my permission

آبان کی آنکھ کھلی تو اچھا خاصا سویرا ہوچکا تھا سورج کی روشنی پورے آب وتاب سے آسمان پہ روشنی بکھرنے میں مصروف تھی اور کچھ چھنکتی ہوئی دھوپ کی کرنیں کھڑکی سے گزرتے ہوۓ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں جیسے ہی اس نے اپنے پہلو میں نظر دوڑائی پر میرب کو غائب پایا اور وہ ایک دم ہی غصے سے اٹھ بیٹھا ۔۔ 

 نجانے یہ لڑکی کہاں چلی جاتی ہے ۔۔ اس نے جھنجھلاتے ہوئے  میرب کو آواز لگائی جو شاید اس کا ناشتہ بنانے میں مصروف تھی 

میرو یار کدھر ہو ۔ ؟؟ وہ پاؤں میں چپل پہنتا ہوا باہر کی جانب لپکا ۔۔۔

مم۔۔میں ناشتہ بنا رہی ہوں جو اسے اپنے سامنے دیکھ کر شرم سے لال سرخ ہوگئی رات کے کچھ مناظر اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چل دیے   وہ فوراً وہاں سے کنارہ کش ہونا چاہتی تھی پر کوئی موقعہ ملتا تو وہ فرار ہوتی ناں ! کتنا مشکل تھا اس سے نظریں ملانا .. وہ سوچ کر رہ گئی ۔۔ اور حیا سے نظریں جھکائے اپنے کام میں مصروف ہوگئی جیسے اس کے علاؤہ وہاں کوئی ذی روح سرے سے موجود ہی نہ ہو ۔۔ 

آبان اسے کھڑا ہونقوں کی مانند تک رہا تھا جو اسے مکمل نظر انداز کیے اپنے کام میں مصروف  تھی ۔۔ 

وہ اس کے نزدیک آیا جو پہلے سے ہی نروس تھی اس کے اور قریب آنے پر گھبرا گئی 

وہ اس کی حالت سے محفوظ ہوا ۔۔ 

یار میں نے ابھی کیہ ہی کیا ہے اجو تم اتنا گھبرا رہی ہو ۔۔ " وہ بے باکی سے گویا ہوا 

پلیز دیکھیے اگر آپ پیچھے نہ ہوۓ تو میں اماں جان کو آواز لگا دوں گی اس نے اپنا نازک سا حربہ استعمال کیا ۔۔ 

ہاہاہاہا ۔۔ تم اتنی بھولی کیوں ہو۔ ؟؟ آبان کو اس پہ شدت سے پیار آیا جو اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ  اس کے دل پہ وار کرگئی تھی وہ اس کے قریب ترین ہوا اور اس کے ماتھے پہ اپنا دہکتا ہوا لمس چھوڑ کر اس کی آنکھوں کی جانب بڑھا میرب کا دل اس کی قربت پر پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو ہوا اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور گستاخی کرتا میرب اسے دھکا دیتے ہوۓ باہر کی جانب لپکی جو بدحواسی میں  زوبیہ بیگم سے بمشکل ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔۔ 

کیا ہوا میرو ٹھیک تو ہو تم۔۔۔۔؟؟ وہ پریشانی سے گوئی ہوئیں اور پیچھے کھڑے آبان کو دیکھنے لگی جو آنکھوں میں بےحد شوخی سموۓ اپنے پورے دانت نکالے کھی کھی کرنے میں مصروف  تھا ۔۔۔ 

ٹھ۔۔ٹھیک"۔۔۔۔۔ ہوں اماں جان مم۔۔کچھ نہیں ہوا یہ کہتے ہی وہ جلد از جلد باہر کی جانب لپک گئی ۔۔ 

❤️

میرب یار تم ابیہا کو جانتی ہو یہ ساتھ والے ہی روم میں ان کی فزکس کی کلاس ہوتی ہے ۔

"نہیں"....کیوں کیا ہوا..۔۔۔ ؟؟

وہ دو دن سے غائب ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا یار مجھے تو عباد آفندی کا ہی کارنامہ لگ رہا ہے ۔۔

اووو،، یار چھوڑو دفعہ کرو۔۔۔۔!! وہ ہے ہی گھٹیا اور اس کے کام بھی گھٹیا ہی ہو گے ناں ! " اس کے لہجے سے عباد آفندی کے لیے نفرت ٹپک رہی تھی ۔۔ 

یار مجھے کچھ نوٹس بنانے ہیں اور تم بھی کلاس اٹینڈ کرکے لائبریری ہی آجانا وہ بیزاری سے ماریہ سے مخاطب ہوئی ۔ 

اوکے ٹھیک ہے ۔۔ 

جیسے ہی وہ لائبریری کی طرف لپکی جو کہ خاصی سنسان جگہ پر تھی ۔ اچانک کسی نے اسے اپنی طرف کھینچا میرب  اس حملے کہ لیے بلکل بھی تیار نہیں تھی لہذا خوف سے چیخ مارتے ہوئے مقابل کے سینے سے جا ٹکرائی ۔۔ 

کیسی ہو نک چڑھی حسینہ ۔۔۔؟؟

تم ۔۔ !! وہ نخوت سے بولی

یس میں ۔۔ وہ شوخ ہوا 

 وہ اس کی گرفت میں مچھلی کی طرح تڑپی چھوڑو مجھے گھٹیا انسان وہ غصے سے حلق کے بل چیخی ۔۔ 

لیکن شاید وہ بھول گیا تھا کہ وہ کیا کررہا ہے اسے کچھ ہوش نہیں تھا وہ بس اس کے چہرے پر جھکنے کو تھا کہ میرب نے اس کے منہ پہ اپنے تیز ناخنوں کا پنج  دے مارا جو تکلیف سے بلبلا کر پیچھے کو ہوا اور وہ اس کے حصار کو توڑتی ہوئی باہر کو لپکنے لگی پر عباد آفندی نے اسے فورا سے پھر جا لیا ۔۔

تم میری بات سنے بغیر تو قطعی طور پہ یہاں سے نہیں ہل سکتی یاد رکھنا اگر تم ہلی بھی تو یہ ساری تصاویر میں تمہارے شوہر کو بھیج دوں گا ۔۔۔ " وہ خوف سے پیلی پڑ گئی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ تصاویر کیسے لی گئی ہے ۔۔۔اچانک وہ اس پہ بلی کی طرح جھپٹی لیکن اس نے فوراً سے  تصاویر اس سے دور کی ۔۔ 

پپ۔۔پلیز پپ۔۔ پہلے اسے ڈلیٹ کرو مم۔۔۔میں پھر تت۔۔تمہاری بات سنو گی ۔۔ "  وہ خوف سے ہکلاتے ہوئے بولی 

ہاہاہاہا ۔۔۔ بلکل بھی نہیں ۔۔ " وہ ہر لفظ کو چباتے ہوئے بولا

تم کیا لینا چاہتے ہو مجھ سے۔۔۔؟؟ کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا۔۔۔؟؟ کیوں میرے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئے ہو ۔۔ ؟؟  وہ غصے سے چیختے ہوۓ بولی 

تم اچھی لگتی ہو خوبصورت حسینہ ۔۔ ! تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ " وہ بے ہودگی سے بولا 

اس کی بات سنتے ہی میرب رحمٰن کا ہاتھ اٹھا تھا اور اس کے منہ پہ اپنا نقش ونگار چھوڑتا چلا گیا 

یہ تھپڑ تمہیں یاد دلاۓ گا کہ میں کسی کی بیوی ہوں اور جس کی بیوی ہوں شاید اگر وہ تمہیں میرے ساتھ  ایسے بدتمیزی کرتے ہوئے دیکھ لیتا تو تمہارا یہاں سے بچ کر جانا ناممکن ہو جاتا مسٹر آفندی صاحب۔۔۔۔ !! " وہ نخوت سے بولتے  ہوئے  اس کے منہ پر تھوکتے ہوئے گیٹ کی جانب لپکی

وہ کچھ نہیں کرسکا تھا صرف خاموش کھڑا اس کا چہرہ تکنے میں مصروف تھا جو اب شاید جاچکی تھی وہ کر بھی کیا سکتا تھا وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا جو اسے کسی بھی پل چین نہیں لینے دے رہا تھا۔۔۔ " اس نے آخری نظر اس قاتل حسینہ پر ڈالی اور سگریٹ سلگاتا ہوا اپنی کار  کی جانب بڑھا 

  وہ تو صرف میرب رحمٰن کے تکبر کو پاش پاش کرنا چاہتا تھا وہ کچھ بھی کر کے اسے حاصل تو کرسکتا تھا پر وہ بھی اب اسے ناممکن سا لگ رہا تھا وہ اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکا تھا اور ہاں "بے شک جو عشق کی لپیٹ میں آیا وہ فنا ہی ہوا ۔۔ " 

❤️

جیسے ہی وہ گھر پہنچی  سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھی وہ بے حد پریشان تھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ عباد آفندی اس کے ساتھ ایسی کوئی گھناؤنی حرکت بھی کر سکتا ہے ۔۔ 

وہ آبان کو بتلاتی تو آبان اس پہ الٹا شک کرتا وہ اس کے غصے سے بخوبی واقف تھی وہ پریشانی سے اپنی سوچوں سے لڑنے لگی تھی آخر کیوں اسے کوئی خوشی راس نہیں آتی  تھی یا شاید جو خوبصورت سی چھوٹی چھوٹی خوشیاں زندگی میں رنگوں کی آمزش لیے چہک رہی تھیں وہ اس کے لیے تھی ہی نہیں وہ اسے صرف ایک جھلک دکھا کر  کہیں غائب ہو جاتیں" 

کیا مصیبت ہے وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہوئی ۔۔

وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ اس عباد نامی مصیبت سے کیسے چھٹکارہ پاۓ ۔۔ وہ عباد کو زیادہ نہیں پر تھوڑا سا ضرور جان گئی تھی کہ وہ کچھ نہ کچھ تو ضرور الٹا سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ اسے آبان کی بھی فکر تھی وہ آبان کو کہیں نقصان نہ پہنچا دے ۔۔ 

اچانک دروازہ نوک ہوا تھا اور صغراں اندر داخل ہوئی ۔۔

اسلام علیکم ۔۔ میرو بیبی ۔۔ بڑی بیبی آپ کو کھانے پہ بلا رہی ہیں ۔۔ 

اففف۔۔۔۔مجھے یاد بھول گیا اماں جان کو کہیے میں بس چینج کر کے آئی ۔۔ " وہ فوراً سے باتھ روم کی جانب لپکی 

❤️

ابیہا درد سے چیخ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں پر ہے اور کیسے آئی ۔۔ ؟؟  درد سے اس کا دماغ پھٹ رہا تھا ۔کمرے میں ہر طرف گھپ اَندھیرے کا بسیرا تھا آج اسے دو دن بعد ہوش آئی تھی ۔۔  وہ بمشکل اٹھی اور کچھ امید لیے دروازے کی جانب لپکی شاید کوئی تو اس کی پکار سنتا ۔

پلیز ہمیں جانے دو ہمارے بابا ہمارا انتظار کررہے ہیں ہم نے کچھ نہیں کیا آپ کو خدا کا واسطہ ۔۔ وہ زور زور سے دروازہ بجاتے ہوۓ بلک بلک کر رو رہی تھی ۔۔ اور اس جانور سے فریاد کررہی تھی جو اسے یہاں رکھ کر بھول چکا تھا 

❤️

جیسے ہی سحرش عباد کے روم میں داخل ہوئی وہ سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا ۔۔ 

پندرہ منٹ میں وہ کوئی تین،چار ڈبیاں پھونک چکا ہوگا لیکن پھر بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا وہ بے چینی سے اپنا سینہ مسلتا ہوا باہر کی جانب لپکا پر دروازے میں سحرش کو ایستادہ دیکھ کر رکا ۔۔ 

تمہیں کیا ہوا ہے کیسا مریضوں جیسا حلیہ بنایا ہوا ہے وہ حیرانی سے اس کے حالت دیکھتے ہوئے گویا ہوئی جو صدیوں کا مریض لگ رہا تھا ۔۔ 

عباد نے اسکا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا تھا اور اسں پر ایک کٹیلی نگاہ ڈالتا ہوا باہر کی جانب لپکا ۔۔ 

اوووو،،، تو اس کو بھی عشق کی تکلیف نے آ گھیر لیا وہ مضحکہ خیزی سے گویا ہوئی چچچ۔۔بچارہ مجنوں یہ میرا کیا کام کرے گا مجھے خود  ہی کرنا ہوگا ۔۔ وہ دماغ میں کوئی نئے ہی سرے سے چال چلتی ہوئی شاطرانہ طریقے سے مسکرائی ۔۔۔ 

❤️

اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ انتہائی خوف سے اپنے آپ میں سمٹی جو دو روز سے بھوک سے نڈھال پڑی تھی  اس نے مندی مندی آنکھوں سے آنے والے پہ غور کیا جو اندھیرے میں دیکھائی نہیں دینے پارہا تھا ۔۔ 

تت۔۔تم کک۔۔کون ہو ۔۔ ؟؟ وہ خوف سے ہکلائی

وہ جو اسے دو دن پہلے اپنے نفس کی تسکین کے لیے اپنے فارم پہ لا کے بھول چکا تھا اس کے حواسوں پہ تو اب میرب کا عکس بسیرا کرچکا تھا تو پھر وہ اس پھول کو کیسے روندتا۔۔۔؟؟ جس کی اسے طلب تھی وہ شاید اسے زندگی بھر میسر نہ ہو پاتی ۔۔ 

 لڑکیاں اس کی کمزوری تھیں جو کہ انتہائی عیاش فطرت کا مالک تھا  جو  آۓ دن حوا کی بیٹیوں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوا ان کی بےبسی کا تماشا دیکھتا جو انہیں توڑ مروڑ کر کسی کتے کے آگے ڈال دیتا اور وہ سسکتی بلکتی اس سے معافیاں مانگتی جن کا کوئی قصور بھی نہ ہوتا ۔۔ پر وہ حیوان بنا ان پر اپنی حیوانیت انڈیلتا رہتا شاید وہ تقدیر سے واقف نہ تھا یہ سمجھ ہوتے بھی انجان بنا رہا ۔۔ 

ابیہا اس کو ساکت کھڑے دکھ کر سسکتی بلکتی اس کے قدموں میں جا پڑی پپ ۔۔پلیز ۔۔۔ مم ۔۔ ہم نے کچھ نہیں کیا ہمارے بابا کا ہمارے سوا کوئی نہیں ہمیں گھر جانے دیں ۔۔ 

تم جاسکتی ہو ۔۔ ؟؟ وہ سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا مگر اس سے نظریں نہیں۔ ملا پایا تھا 

 وہ اپنی رہائی کا سنتے ہی چہکی تھی اس کے چہرے پر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑی تھی لیکن اچانک برے برے خیالوں نے اس کے دل کو جھپٹے سے اپنی  مٹھی میں قید کیا  وہ جو ایک ہی خیال بار بار سوچ رہی تھی کہ آیا اس کے بابا اکیلے ہیں پر وہ شاید زندگی کا ایک رخ دیکھ پائی تھی اور ایک سے انجان تھی اس کی عزت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچ پایا تھا پر وہ زمانے کی نظروں میں گندی  ہوچکی تھی اس کے ماتھے پہ داغ کا ٹھپہ لگ چکا تھا جو وہ نوچ کہ بھی اتارنا چاہتی تو نہ اتار پاتی ۔۔ 

وہ دنیا کا مقابلہ کیسے کرتی وہ نہیں جانتی تھی پر وہ بےبس تھی وہ اس شخص کا مکرو چہرہ دیکھ چکی تھی جو اپنے چہرے پہ انتہائی غلاظت سجاۓ اس کے سامنے کھڑا تھا پر وہ حیران تھی عباد آفندی نے اسے بغیر چھوۓ لگاۓ کیسے جانے دیا اور شاید اس سوال کا جواب عباد آفندی کے پاس خود بھی نہ تھا ۔۔ 

چلو ۔۔ وہ اس کو خاموش پاکر سنجیدگی سے بولا 

اور وہ بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل دی ۔۔ 

اسے کچھ بھی کہنے کا کوئی بھی فائدہ نہ تھا وہ کہتی بھی کیا وہ تو ایک مڈل گھرانے سے تعلق رکھنے والی چھڑا چھانٹ صرف اپنے بیمار باپ کے سہارے پر تھی اور ایک انتہائی معمولی سی لڑکی تھی جس کے پاس سوائے عزت کہ کچھ بھی نہ تھا اور وہ عزت بھی دان کر آئی تھی ۔۔ 

کچھ ہونے سے  فرق نہیں پڑتا لوگوں نے حقیقت کی پرتے نہیں کھولنی ہوتیں ، اس کی گہرائی تک نہیں جانا ہوتا جو انہیں دیکھنے کو تماشہ ملتا سو وہ خوب مزے سے چٹخارے بھر کر دیکھتے ہیں ۔۔ 

❤️

وہ انہماک سے مطالعہ کرنے میں مصروف تھی تبھی آبان کمرے میں داخل ہؤا اور دھڑام سے اس کے پاس گرتے ہوئے بیٹھا ۔۔ 

وہ چونکی ۔۔ 

کبھی انسانوں کی طرح بھی آجایا کریں  ۔۔۔ " وہ منہ بسورے  بولی

ہاہاہاہا ۔۔ آئندہ احتیاط کروں گا بیگم صاحبہ ۔۔ سوئی نہیں ابھی تک وہ اس کی گود میں سر رکھتے مخمور سے لہجے میں بولا 

آپکا انتظار کررہی تھی ۔۔ 

اوووو،،، مجھے اچھا لگا وہ اس کے ہاتھ کو اپنے سینے پہ رکھتا ہوا پیار سے بولا

 میرب کا دل کیا کہ وہ آبان کو سب کچھ بتا دے کیونکہ اس کا موڈ بھی اب خوشگوار  تھا وہ اضطراب کی کیفیت میں تھی اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آیا وہ بتاۓ کہ نہ ۔۔ ؟؟ 

اس نے ہمت کر کے منہ کھولنا چاہا ہی تھا کہ آبان کے خراٹوں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔۔ 

ہاۓ یہ تو سو گئے میرب نے اپنے اوپر لعنت ملامت بھیجتے ہوۓ آبان کا سر تکیہ پہ رکھا اور خود بھی اس کی طرف کروٹ لیے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔ اس کو بس ایک ہی خیال کسی سانپ کی طرح ڈنگ مار رہا تھا کہ عباد آبان کو وہ  تصویریں نہ بھیج دے جس میں وہ اس کے ساتھ چپکی کھڑی ہے اس کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ آیا وہ تصاویر عباد آفندی نے کیسے لی ۔۔۔۔؟؟

وہ آبان کو کسی بھی حال میں کھونا نہیں چاہتی تھی وہ اس کے قریب ہوئی اور اس کے سینے پہ اپنا سر رکھے ساری پریشانیوں سے دستبردار ہوۓ نیند کی حسین وادیوں میں کھو گئی 

"دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے

اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا ۔۔ " 

❤️

جیسے ہی وہ گاڑی سے اتری اور اپنے گھر کی طرف بڑھی جس پہ تالا لگا اس کو منہ چڑھا رہا تھا  پاس ہی کھڑے بہت سے لوگوں نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا

آگئی تو کمبخت ۔۔ 

کہاں سے گھل کھلا کر آرہی ہے ؟؟ 

عباد جو اسے چھوڑ کر جانے کے لیے مڑا ہی تھا پر اچانک سے اس کے کانوں میں انتہائی بے حودہ قسم کے جملے پڑے جس نے اسے وہاں رکنے پہ مجبور کر دیا تھا ۔۔ 

نن۔۔نن۔۔نہیں آنٹی مم۔۔۔۔ہمارے بابا کدھر ہیں۔۔۔؟؟

وہ عورت اسے قہر آلودہ نظروں سے گھورتے ہوۓ گویا ہوئی

"مر گیا تیرا باپ" تم نے اسے جیتے جی ہی مار دیا تھا تو وہ کیسے بھلا بچتا اسے تیرے جانے کہ بعد ہارٹ اٹیک ہوا تھا ۔ایسی اولاد سے تو بہتر تھا اللّٰہ بے اولاد ہی رکھتا ایک ہی اولاد تھی پہلے ماں کو کھا گئی اور اب باپ کو ۔۔ " وہ اس کو کوستے ہوۓ اپنے گھر کی جانب بڑھی اور باقی لوگ تماشا دیکھنے میں مصروف تھے جو کہ لوگوں کا انتہائی دلچسپ کام تھا ۔۔ 

"وہ بے دردی سے ہنسی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو کی جگہ درد ٹپک رہا تھا اس کے چہرے پر درد کی لکیریں پھوٹ پڑی تھیں کچھ الفاظ اس کے دل پر تیر کی مانند گونپے گئے وہ زور سے چیخنا چاہتی تھی پر الفاظ اس کے حلق میں ہی دم توڑ گئے زندگی نے اسے جو سبق پڑھایا تھا شاید وہ اسے کبھی بھول پاتی ۔۔ ؟

اس کو دیکھتے ہی عباد کے دل کو کچھ ہوا اور وہ فوراً سے اس کی جانب بڑھا ۔۔ 

وہ فوراً سے اس کے پاس گیا جو بلکل پتھرا گئی تھی 

عباد آفندی بےحد شرمندہ ہؤا اس کا قصور تھا جو بھی کچھ ہوا تھا سب اس کی وجہ سے ہوا تھا کچھ ماضی اس کے دماغ پہ کسی فلم کی ریل کی طرح چل دیا ۔۔ جہاں پر صرف آہیں سسکیاں درد ناک چیخوں کی آواز  تھیں وہ کچھ پل کے لیے خوف سے کانپا وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اس حد تک بھی جاسکتا اسے خود سے گھن محسوس ہوئی ۔۔ 

"اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے

اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں میں ۔۔ " 

اس سے آبیہا کا درد دیکھا نہیں جارہا تھا وہ اس کے قریب ہوا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا پر وہ ہوش میں ہوتی تو کچھ سنتی ۔۔۔ عباد نے پھر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کسی بے جان وجود کیطرح اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا گاڑی کی جانب بڑھا 

❤️

وہ اسے گھر نہیں لے جاسکتا تھا لہذا وہ اسے اپنے فلیٹ پہ لے آیا 

تم یہاں پہ رہو گی کسی بھی چیز کی ضرورت ہوئی تو میرا نمبر اس موبائل میں سیو ہے تم مجھ سے رابطہ کرسکتی ہو وہ اس کو موبائل دیتے ہوۓ سنجیدگی سے بولا 

پر وہ خاموشی سے زمین کو دیکھنے میں مصروف تھی ۔۔ عباد اس کیطرف سے کوئی بھی جواب نہ پاکر بیڈ پہ موبائل اچھالتا ہوا فلیٹ سے باہر نکلتا چلا گیا ۔۔ وہ اپنی زندگی میں دو پل سکون کے چاہتا تھا جو اسے ملنے ہی نہیں پارہے تھے ۔۔ 

"اپنے ہونے کا احساس نہ ہونے سے ہؤا

خود سے ملنا میرا ایک شخص کے کھونے سے ہوا ۔۔ " 

❤️

میرو۔۔۔ !! اٹھو یار مجھے آفس جانا ہے وہ اس پہ جھکتا ہوا بولا جو اپنے حسین خوابوں میں کھوئی پڑی تھی آبان اس کی آنکھوں پہ اپنے لب رکھتا ہوا اسے نیند سے بیدار کرنے لگا ۔۔  وہ کسمسائی اور مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی جو آنکھوں میں بھرپور شوخی سجاۓ  اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا ۔

پلیز سونے دیں بہت زیادہ نیند آرہی ہے ۔۔ وہ آہستگی سے بولی 

نہیں بلکل نہیں یونی جانا ہے تم نے ۔۔ چلو  اٹھو شاباش ورنہ تم مجھے جانتی ہو ۔۔ " وہ بے باکی سے گویا ہوا جو اسے پورے انہماک سے دیکھنے میں مصروف تھا 

یار اٹھ جاؤ میرے صبر کا امتحان مت لو ورنہ میں نے کچھ ایسا ویسا کر دیا تو تم مجھ پہ چلاؤ گی وہ بے بسی سے گویا ہوا جس کا آفس جانے کا بلکل موڈ نہیں ہو رہا تھا

اووووو،،، تو تم ایسے نہیں اٹھو گی پھر مجھے اپنے ہی طریقے سے اٹھانا پڑے گا ۔۔ " وہ لہجے میں شرارت سموئے اس کے اوپر جھکتا گیا اور ایک شوخ سی گستاخی کیے ، پیچھے جو ہوا  اور میرب اس کی اس بے ہودگی پر چیخ مارتے ہوۓ اٹھی ۔

اب کیا تکلیف ہے یاررررر ۔۔۔ تم ڈرا کے ہی رکھ دیتی ہو ۔۔

اور آ۔۔۔آپ حد ہی کر دیتے ہیں ۔۔ وہ منہ بسورتے ہوۓ بولی

تو کیا میں ساری زندگی ایسے ہی تمہاری چیخے برداشت کروں گا ۔۔۔ ؟؟ سارے رومینس کا ستیاناس کر دیتی ہو بندے کو سو سال پرانی چڑیلیں یاد دلا دیتی ہو ۔۔ " وہ منہ پھولاتے ہوۓ مضوعی غصے سے بولا

میرب اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر کھلکھلا کہ ہنس دی

تم باز نہیں آتی وہ اس کی جانب لپکا پر وہ اسے منہ چڑاتے ہوۓ باتھ کی جانب دوڑی اور زور سے دروازہ بند کرلیا  اور وہ کھڑا بے بسی سے بند دروازے کو دیکھتا ہی رہ گیا جو اب اسے منہ چڑانے میں مصروف تھا ۔۔ 

❤️

پلیز ماریہ مجھے کچھ تو حل بتاؤ میں کیا کروں ۔۔ یار میں عباد آفندی سے کیسے کنارہ کروں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا ہے کل بھی بہت بدتمیزی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کیا کیا جاۓ وہ پریشانی سے گویا ہوئی 

تم آبان بھائی سے بات کرو وہ ہی عباد آفندی کو سبق سکھاۓ گے ۔۔ تم تو جانتی ہو ابیہا کے فادر کی ڈیتھ ہوگئی  ہے وہ ابھی تک واپس نہیں آئی شاید اسے ان جانوروں نے مار کر کہیں پھینک وینک دیا ہے ۔۔۔  ایسے لوگوں سے تو سو میل کی دوری بنا کر رکھنی چاہیے وہ خوف سے بول رہی تھی 

ہاں یہ بھی ہے میرب کھوۓ ہوۓ لہجے میں بولی اور کل کے کچھ خیالوں نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا جس میں وہ اس کے قریب ترین کھڑا تھا وہ جان چکی تھی جو سرعام اس کے ساتھ ایسی گھٹیا حرکت کرسکتا ہے تو اس کے لیے کسی کو مارنا اتنا ہی آسان تھا جتنا کے کسی بھی جانور کو ۔۔ !! وہ یہ سوچتے ہی خوف سے دہل گئی ۔۔ 

یار میری اس کے پاس کچھ نازیبا تصاویر بھی ہیں میں کسی نہ کسی طریقے سے اس کے فون سے سب ڈلیٹ کرنا چاہتی ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہی وہ تصاویر اس نے کیسے کیپچر کی ۔۔ ؟؟ اور میں آبان کو اس مسئلے میں بلکل انولو نہیں کرنا چاہتی ۔۔ 

تم پاگل ہو یار وہ کچھ بھی کرسکتا ہے ماریہ کو اس کی فکر نے آن گھیرا ۔۔ 

نہیں ماریہ میں آبان کو اب پھر سے کھونا نہیں چاہتی میرے پاس اب اتنی ہمت نہیں کہ میں اسے کسی بھی تکلیف میں تڑپتا ہوا دیکھوں سو مجھے عباد آفندی کے پاس جانا ہی ہوگا اس سے اپنی محبت کی بھیک مانگنی ہی ہو گی ۔۔ شاید وہ مان جاۓ ۔۔ " وہ امید بھرے لہجے میں بولی 

ہاں تم کوشش کرلو پر مجھے ایسے انسان سے کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی کی امید نہیں۔۔۔  ہاں اگر اللّٰہ کا کچھ کرم ہو جاتا ہے تو پھر بہت  ہی اچھا ہوگا ۔۔ 

ہممم ۔۔ میرب  ایک نئی امید کی روشنی آنکھوں میں لیے عباد کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھی 

❤️

وہ شخص اس کا سب کچھ چھین کر جاچکا تھا ۔۔ اسے اپنے آپ سے نفرت  محسوس ہورہی تھی  وہ ناپاک کہلائی گئی تھی آبیہا مراد تو اس دن ہی مر چکی تھی جب اس نے اپنے چاہنے والوں کی نظروں میں اپنے لیے حقارت اور نفرت کے ملے جلے اثرات دیکھے تھے ۔۔ ان کی چلتی ہوئی زبانوں کے تیروں نے اس کے دل کو چھلنی کردیا تھا 

اسے عباد آفندی سے اتنی شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی کہ اگر وہ اس کے سامنے ہوتا تو ضرور اس کا قتل کر دیتی ۔ پر وہ  اس کے آگے بے بس تھی وہ ایک لمبا چوڑا انسان اور وہ اس کے سامنے  کچھ بھی نہ تھی ۔

"اور ہاں بےشک عورت جتنی بھی مضبوط ہو کبھی بھی مرد کا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ مرد سے مقابلے میں جتنا بھی سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ اسے اسی لمحے کسی کھلونے کی مانند توڑ مروڑ کر پھینک دیتا ہے ۔۔۔ "

وہ اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اپنے وجود کو گھسیٹتی ہوئی  باتھ کی جانب بڑھی جو اسے کسی بھاری بوجھ سے کم نہیں لگ  رہا تھا ۔

❤️

وقت کو تو جیسے پتنگے ہی لگ گئی ہوں وہ اڑتا ہی چلا گیا گویا ایک ہفتہ خاموشی سے بیت گیا ۔

"وقت کا کیا ہے۔۔۔؟؟ وقت کا تو کام ہی بدلنا ہے سو وہ ہر درد کو روندتا ہوا بدلتا ہی چلا گیا ۔۔ " عباد بہت دنوں سے ابیہا کے پاس نہیں گیا تھا سو اسی ارادے سے وہ گاڑی کی چابی اٹھتا ہوا آفندی صاحب سے مخاطب ہوا

ڈیڈ موم کو بتا دیجئیے گا کے مجھے کچھ کام ہے سو میں گھر نہیں آسکوں گا وہ بغیر سوال کا جواب سنے باہر کی جانب لپکا ۔۔ 

اس کا رویہ ان کی سمجھ سے بالاتر تھا وہ کب سے نوٹ کررہے تھے کہ آیا اسے کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔؟؟ وہ ایسا تو بلکل بھی نہ تھا جیسا وہ بن گیا تھا پتہ نہیں اس نالائق کو کیا ہوگیا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاۓ 

 وہ ڈبلیکیٹ چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا فلیٹ میں گہرا سکوت چھایا ہوا تھا وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھا جو انہماک سے مطالعہ کرنے میں مگن تھی اس نے عباد کو ایک نظر دیکھا اور نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے مطالعہ میں غرق ہوگئی ۔ 

 وہ اسکے پاس آیا اور سنجیدہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا جو چیزیں تمہیں چاہیے مجھے لسٹ بنادو میں بازار سے لیتا آؤں گا جبکہ مقابل پہ اسکی بات کا کوئی اثر نہ ہوا تھا ۔۔ 

عباد طیش کے عالم میں اس کے اوپر جھکا اور اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پہ رکھتے ہوۓ اس کی فرار کے راستے مسدود کرتا گیا ۔۔ اور وہ سہم کر بیڈ کراؤن سے جا لگی ۔

ہاں اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے کب سے بھونک رہا ہوں میری بات کیوں سننے نہیں پارہی تمہیں ۔۔ ؟؟ وہ درمیانی فاصلے کو تھوڑا اور عبور کرتا ہوا بولا ۔۔ 

پپ۔۔پلیز پیچھے ہٹیے ہمارے پاس سب کچھ ہے ہمیں آپ کی ہمدردیوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ وہ اس کے چہرے کو گھورتے ہوۓ سختی سے بولی 

وہ اس پہ ہنسی تھی جو بہت سکون سے پوچھ رہا تھا آخر اس نے اسکے باپ کو مار دیا تھا اسے جیتے جی مار دیا تھا کیا اب بھی کوئی ضرورت بچی تھی وہ نخوت سے سوچتے ہوۓ اس کی طرف سے منہ پھیر گئی 

اوکے جیسے آپ کی مرضی ہمیں بھی ہمدردیوں کا تاپ نہیں چڑھا ہوا جو ہم آپ کے ساتھ اپنا دماغ کھپا رہے ہیں وہ پھوں پھوں کرتا ہوا دوسرے کمرے کی جانب لپکا ۔۔ 

 ہونہہ ۔۔۔!! آیا بڑا ہمارا ہمدرد ۔۔ "  وہ منہ کو ٹیڑھا کرتے ہوۓ بولی ۔۔ 

بدتمیز،جاہل،گوار،گھٹیا۔۔۔۔ بات کرنے کی تمیز دور انہیں تو کھڑا بھی نہیں ہونا آتا آیا کیسے کھڑے ہوتے ہیں ۔۔ وہ  اس کے قریب آنے پہ ابھی تک  اپنی تیز چلتی ہوئی سانسوں کو ہموار نہ کر پائی جو اس کے سینے کے اندر ہلچل مچاۓ ہوۓ تھی

❤️

وہ بازو چہرے پہ ٹکاۓ آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا اور کمرے میں ہلکے سروں پر جیگتھ سنگھ کی درد سے لبریز آواز گونج رہی تھی جیسے سن کر اس کے دل میں درد کی ایک ٹھیس اٹھی وہ اسکی دھن میں مدہوش ہورہا تھا یہ دھن اس کے دل کا احوال بیان کررہی تھی ۔۔ 

 کوئ فریاد تیرے دل میں دبی ہو جیسے

تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے

جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے

جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے

 ایک لمحے میں سمٹ آیا صدیوں کا سفر

زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے

اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میں

میری ہر سانس تیرے نام لکھی ہو جیسے

 اسے دو دن سے یونی میں میرب نظر نہیں آئی تھی وہ بہت بےچین تھا اس کی بے چینی کم ہونے کا نام  نہیں لینے پارہی تھی جیسے جیسے وقت بیت رہا تھا ویسے ویسے  اس کی یاد اس کے سینے میں موجود دل کو زور سے ڈستی اور وہ تڑپ اٹھتا ۔۔

"اور ہاں شاید عشق کا لاحاصِل ہونا  اسے کبھی بھی اس عشق سے نہ نکال پاتا جو اس نے میرب رحمٰن سے کیا تھا  عشق کا شعلہ اس کے دل میں خور بخود بھڑکا تھا نہ کے اس نے جان بوجھ کہ بھڑکایا تھا جان بوجھ کہ کون بھڑکاتا ہے "آہ" ایسی غلطی بھلے کون کرے گا"

 وہ جانتا بھی نہ تھا کہ اسے ایسی بیماری لاحق ہوگی جس کا علاج ہی ناممکن تھا اور سکون بھی سواۓ مرنے کے اور کسی بھی چیز میں نہ تھا شاید اس نے ساری زندگی اس کے ہجر میں  ایسے ہی جلنا مرنا تھا ۔۔ " وہ کرب سے مسکرایا 

وہ اونچی آواز میں رونا چاہتا تھا اپنے دل کا غبار ہلکا کرنا چاہتا تھا جو شاید بہت دنوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔ پر وہ ایسا نہ کر پایا ۔۔۔

کیوں۔۔۔؟؟

شاید وہ مرد تھا مرد کا دل پتھر کا ہوتا ہے کیا ۔۔۔۔؟؟ پر کیوں۔۔۔؟؟ اس میں احساسات نہیں ہوتے کیا ۔۔ ؟؟ وہ آنسو نہیں بہا سکتا ۔۔۔؟؟ پتہ ہے کیوں کیونکہ مضبوط مرد آنسو بہاتے ہوئے بھلا چنگا  نہیں لگتا جو کہ لوگوں کی سوچ تھی اور لوگوں کی جو سوچ ہوتی ہے نہ وہ ہر دن بدلتی ہے لوگوں کی سوچ اور رویہ پہ جاؤ گے تو کبھی کسمپرسی سے نہ نکل پاؤ گے" 

" بس ایک موڑ میری زندگی میں آیا تھا

پھر اس کے بعد الجھتی گئی میری زندگی"

❤️

آبیہا وہ زور سے دروازہ  بجا رہا تھا ہنوز وہ کھولنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اسے یونی کے لیے لیٹ ہو رہا تھا پر اسے ناشتہ بنانا نہیں آتا تھا اگر آتا تو وہ اس ڈھیٹ لڑکی سے کبھی بھی کہنے نہ آتا ۔۔

ابیہا اگر تم نے دروازہ نہ کھولا تو میں لاک توڑ دوں گا اور پھر دیکھنا تمہارا کیا حال کرتا پتہ نہیں کونسی منحوس گھڑی تھی کہ میں نے اسے اپنے گلے کا ہار بنا لیا ۔۔ " وہ غصے سے جل رہا تھا اور مقابل ڈھیٹ بنا ہوا تھا اس نے اس کا دینا ہی کیا تھا جو وہ دروازہ کھولتی اور وہ انتہائی ڈھٹائی سے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی جیسے باہر کوئی پاگل کھڑا بھونک رہا ہو ۔۔ جبکہ ابیہا آرام سے اس کی غصے سے کانپتی ہوئی آواز کو مزے لے کر سن رہی تھی ۔۔ 

بلکل بھی نہیں جو کچھ بھی تمہیں کہنا ہے کہہ دو ہم سن رہے ہیں پر ہم دروازہ نہیں کھولیں گے وہ اسے اور طیش دلاتے ہوۓ بولی ۔ 

زندگی میں اور عذابوں کا بھیکڑا کم تھا جو میں اس ڈھیٹ کو بھی اٹھا لایا ۔۔ تفف۔۔ہے مجھ پر ۔۔ " وہ سختی سے اپنی مٹھیوں کو بھینچتے ہوۓ باہر کی جانب لپکا

وہ اس کے جانے کے بعد کمرے سے باہر نکلی ہونہہ آیا بڑا ہم پہ حکم چلانے والا۔۔۔۔"باہر نکلو ابیہا ورنہ میں تمہیں چھوڑو گا نہیں" وہ اس کی نقل اتارتے ہوئے بڑبڑائی 

❤️

ابھی تک  میرب عباد آفندی کو نظر نہیں آرہی تھی وہ کتنے ہی چکر اس کے  ڈیپارٹمنٹ کے لگا آیا تھا پتہ نہیں اسے کب آنا تھا اس کی آنکھیں شدت سے اس کی راہ تکنے میں مصروف تھیں ۔۔ 

 وہ تھک ہار کر پاس پڑے بینچ پہ بیٹھ گیا  بس وہ اس کا دیدار کرنا چاہتا تھا اسے دیکھ کر اس کے دل کو جو سکون ملتا شاید وہ اسے بیان کر پاتا 

بہت سے لوگوں کی نگاہیں گاہے بگاہے اس پہ پڑ رہی تھیں جن کی نظروں میں سواۓ تعجب کے اور کچھ نہ تھا۔۔وہ شاید کوئی پہلی دفعہ اسے ایسے بیٹھے دیکھ رہے تھے۔۔جبکہ وہ ہمیشہ لوگوں پہ غنڈہ گردی اور رعب جماتے ہوئے ہی دیکھائی دیا  لہذا کسی کی بھی نگاہ سے یہ مناظر اوجھل نہ رہ سکا ۔۔ 

"بے شک عشق نے اس کے موڑ کو اس کی منزل کو بدل دیا تھا وہ اب اچھا نہیں تو برا بھی نہیں رہا تھا وہ برے راستوں کو چھوڑ کر اب سیدھے راستوں پہ گامزن ہوچکا تھا"

❤️

میرب اس کے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوئی تو  اسے اکیلے ایک بینچ پہ بیٹھے ہؤۓ پایا وہ اس کے پاس جانا نہیں چاہتی تھی اس کا دل  خوف سے کانپ رہا تھا آیا وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔۔۔؟؟  لیکن اسے جانا تھا لہذا وہ ہمت جمع کر کے اس کے پاس چل دی ۔۔۔۔

کیا تم میری بات سن سکتے ہو۔۔۔۔؟؟وہ کانپتے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی 

ہاں ۔۔ !! وہ اس کا چہرہ ایسے تک رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو میرب کو حیرانی نے آن گھیرا وہ اسے کچھ کھویا ہوا لگا ایسے جیسے اس کا کچھ کھو گیا ہو اور وہ اسے ملنے نہ پا رہا ہو 

مسٹر عباد آفندی ۔۔ وہ زرا چلا کر بولی 

عباد آفندی کو س کی آواز ر جھٹکا لگا تھا جو کہ بہت زور کا تھا ۔۔۔

"تت۔۔تم"اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ جیسے وہ شدت سے یاد کر رہا تھا وہ اچانک اس کے روبرو آجاۓ گی ۔

"تت۔۔تم"اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ جیسے وہ شدت سے یاد کر رہا تھا وہ اچانک اس کے روبرو آجاۓ گی ۔

وہ حیران تھا کیا کوئی دعا ایسے بھی قبول ہوسکتی  ہے 

عباد آفندی کچھ پل میرب رحمن کو محسوس کرنا چاہتا تھا اسے چھونا چاہتا تھا پر وہ صرف اس کا خیال تھا وہ اس کو چھونے کا حق نہیں رکھتا تھا  اس نے بے دردی سے اپنے لبوں کو کچلا جو کچلنے سے سرخ پڑ گئے تھے

 میرب کو وہ کسی اور ہی دنیا میں کھویا ہوا لگا ۔۔

کیا تم میری بات سن رہے ہو ۔۔ وہ پھر زور سے چیختے ہوۓ بولی ۔۔ 

 وہ اس کی چیخ پر چونکا ۔۔

ہاں بتاؤ میں سن رہا ہوں ۔۔

پلیز میری تصویریں ڈلیٹ کر دو میں تمہارا یہ احسان کبھی بھی چکا نہیں پاؤں گی ۔۔ " وہ ملتجی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئی

 اس کے  چہرے سے اس کی نظریں ہٹنے نہیں پارہی تھیں کاش کوئی ایسا جادو ہوتا کہ میں تمہیں اپنے پاس قید کرلیتا ۔۔۔ " وہ کرب سے سوچ رہا تھا

کیا تم اپنی ان چھچھوری نظروں کو قابو میں رکھ سکتے ہو ۔۔ ؟؟

وہ غصے سے گویا ہوئی ۔۔ جو کب سے اس پہ ٹکتی لگاۓ ہوۓ تھا ۔۔ پتہ نہیں پاگل وگل ہوگیا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی 

میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں مسٹر عباد آفندی !! اس دفعہ تو اس کا دل کیا کہ پاس پڑی کرسی اس کے سر پہ دے مارے جو کب سے اسے خوار کر رہا تھا

ہاں سن رہا ہوں ۔۔ تم آرام سے بھی تو بات کرسکتی ہو ۔۔ "  وہ اس سے شکوہ کرتا ہوا بولا 

 جو میں نے تم سے پوچھا  اسکا جواب دو ۔۔ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوۓ بولی ۔ 

اس کا بے رُخی سے بھرپور رویہ اس کے دل پہ جالگا تھا جو کسی بھی احساس سے عاری تھا ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئ تھیں ۔۔ 

میں تمہاری پکچرز ڈلیٹ کر چکا ہوں اگر تم چیک کرنا چاہو تو بخوبی کرسکتی ہو ۔۔ " وہ فون اس کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولا

 میرب نے سرعت سے فون پکڑا  پر اس کی کوئی تصویر نہ تھی اسے حیرانی ہوئی آخر وہ اتنی جلدی بھلے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے  مجھے کیا لینا دینا بھاڑ میں جاۓ وہ بدتمیزی سے فون اس کی طرف اچھالتے ہوۓ اپنی کلاس کی جانب  بڑھی 

اور وہ منہ اٹھاۓ اس ظلم حسینہ کو دیکھتا ہی رہ گیا جو بڑی سنگ دلی سے آگ لگا کر جاچکی تھی جو بجھانا اب اس کا کام تھا ۔۔ 

وہ لمبی سانس کھینچتا ہوا باہر کی جانب لپکا وہ جانتا تھا وہ اس کی منزل نہیں ہے پر پھر بھی وہ کسی سراب کی طرح اس کا پیچھا کرنے میں مصروف تھا ۔۔ 

❤️

میرا یہ کام جلد از جلد ہونا چاہیے پر اس کا شک کسی کو نہ ہونے پاۓ  یاد رکھنا اگر تھوڑا سا بھی شک کسی کو ہوا تو یہ جو تم بے سورا سا تھوبڑا  لیے پھرتے ہو نہ ایسا بگاڑوں گی کہ تم اپنی شکل خود ہی پہچاننے سے انکار کر دو گے ۔۔

جج۔۔جی بیگم صاحبہ ۔۔ !! 

ہاں شاباش  ۔۔ ! اب تم جاسکتے ہو اور ہاں دوسری بات کام صفائی سے ہو دیکھنے والے کی نظر میں  کوئی جھول بھی نہ آۓ ۔۔ " وہ اس پہ رعب جھاڑتے ہوئے بولی

آبان حیدر تم نے بہت بڑی غلطی کردی سحرش آفندی کو چھیڑ کر بہت سکون سے رہ رہے ہو نہ اب یہ سکون تم دونوں سے میں چھینوں گی کیونکہ میں اپنے دشمنوں کو سکون سے پھرتے ہوئے بلکل نہیں دیکھ سکتی  پل پل تڑپو گے تم دونوں وہ نخوت سے انہیں سوچتے ہوئے بولی 

اس کے ہر لفظ سے ان دونوں کے لیے نفرت ٹپک رہی تھی۔۔۔

❤️

یہ پکڑو اور اسے پہن کر فوراً سے  باہر تشریف لے آؤ 

وہاٹ ۔۔۔۔؟؟

تم پاگل ہو ہم یہ سرخ جوڑا بھلے کیوں پہننے لگے ۔۔

تم سے جتنا کہا جا رہا ہے اتنا کرو فضول سوالوں سے مجھے بہت چڑ ہے 

 ہم تمہارے حکم کے غلام نہیں پہلے ہمیں بتاؤ یہ کیوں پہننا ہے

آپ اتنی بھولی تو ہے نہیں ابیہا جی !! جو آپ کو پتہ نہ ہو کے سرخ جوڑا کیوں پہنا جاتا ہے ۔۔ 

ہم تمہاری بات کو سمجھ چکے ہیں پر ہم تم جیسے گھٹیا شخص سے شادی نہیں کرسکتے ۔۔ 

اوووو۔۔تو کیا آپ بتا سکتی ہیں میں نے آپکے ساتھ کونسی گھٹیا حرکت کی ۔۔۔۔؟؟ " وہ اس کے قریب آتا ہوا بولا

اوو۔۔واہ۔۔۔کیا کہنے تمہارے  عباد آفندی !! پورا زمانہ ہم پہ تھو تھو کرتا ہوا نہیں تھک رہا  ہمارے بابا تمہاری وجہ سے مارے گئے  آب بھی پوچھ رہے ہو کہ تم نے کیا گھٹیا حرکت کی۔۔۔؟؟ کیا تم مجھے میری پہلے والی عزت دلا سکتے ہو۔۔۔؟؟ کیا تم میرے بابا دوبارہ واپس لا سکتے ہو۔۔۔۔؟؟

ہم اپنوں کے دیے ہوئے زخموں سے جل رہیں ہیں ان کی نظروں میں چھپی ہوئی اپنے لیے حقارت کو دیکھتے ہیں نہ  تو ہمار جی چاہتا ہے ہم چلو بھر پانی میں جاکے ڈوب مریں وہ غصے سے کانپتے ہوۓ لہجے میں بولی ۔۔ عباد نے آگے بڑھ کر اس کے کانپتے ہوۓ وجود کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا  آبیہا اپنے آنسو ضبط نہ کر پائی اس کے کندھے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔ 

کیوں ایسا ہوتا ہے عباد کیا ہم لڑکیاں معاشرے میں سر اٹھا کر نہیں جی سکتیں ہم قصور وار نہ ہوتے بھی قصور وار ٹھہرا دی جاتیں ہیں آخر کیوں۔۔۔؟؟ کب تک تم جیسے گھٹیا لوگ ہمیں اپنے پیروں تلے روندتے رہے گے آخر کب تک۔۔؟؟ وہ عباد کی شرٹ کو شدت سے اپنی مٹھیوں میں بھینچتے ہوۓ چیخی اس کے لفظوں نے عباد آفندی کو جھنجھوڑ کہ رکھ دیا تھا وہ کچھ نہیں بول پایا تھا شاید اس کے پاس کچھ کہنے کہ لیے ہوتا تو وہ بولتا ناں !! 

وہ ایسے ہی اسے اپنے ساتھ لگاۓ کھڑا رہا وہ جانتا تھا وہ اس لڑکی کا نہیں بلکہ  بہت سی لڑکیوں کا مجرم تھا جو غلطیاں اس نے اپنے ماضی میں کی وہ اسے دوبارہ دہرانا نہیں چاہتا تھا آخر اس کا دامن داغ دار کرنے کی وجہ بھی وہی بنا تھا وہ اس کا مداوا کرنا چاہتا تھا ۔۔

جیسے ہی وہ سنبھلی تھی اس نے عباد کو  جھٹکے سے دور کیا تھا ہمارے قریب مت آیا کرو ۔۔ " وہ رندھی ہوئے لہجے میں گویا ہوئی

دیکھو ابیہا بات کو سمجھو ہمارا نکاح کرنا بہت ضروری ہے میں تمہارے ساتھ بغیر نکاح کے کیسے رہ سکتا ہوں ۔۔ ہاں اگر تم اکیلے زندگی گزار سکتی ہو تو مجھے کوئی پرابلم نہیں میں تمہیں فورس نہیں کروں گا ۔۔ میرے کندھے تھک چکے ہیں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے پر مجھے بار بار یاد دلا کر شرمندہ مت کیا کرو ۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری تکلیف کو لہذا میں کوشش کرونگا جو مجھ سے غلطی ہوئی میں اچھے سے اس کا مداوا کرسکوں ۔۔ " وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا باہر کی جانب لپکا ۔۔

❤️

دیکھیے آبان مجھ سے یہ سوال بلکل حل نہیں ہو رہا میرا پیپر ہے کل اور آپ کو وقت نہیں مل رہا ان بکھیڑوں سے ۔۔ "  وہ ناک چڑھاتے ہوئے گویا ہوئی

 بہت ضروری میل ہے میرو !! دو منٹ صبر کرو آرہا ہوں ۔۔ " وہ انتہائی مصروف لگ رہا تھا۔

رہنے دیجئے میں خود ہی کرلوں گی پورے آدھے گھنٹے سے آپ مجھے صبر کی پٹیاں پڑھا رہیں ہیں ۔۔ اب ویسے بھی میرا دل اُچاٹ ہوگیا ہے پڑھائی سے سو میں سونے جارہی ہوں 

میرو !! فورا سے آؤ اور مجھے بتاؤ کیا سمجھ میں نہیں آرہا

وہ روتی دھوتی آبان کے پاس آئی جس کا اب بلکل پڑھنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا ناچار اسے پڑھنا ہی پڑھا وہ جو بہت انہماک سے اسے پڑھانے میں مصروف تھا ۔۔۔ جیسے ہی آبان کی نظر اس پہ پڑی وہ سینے پہ ہاتھ رکھے سونے میں مصروف تھی ۔۔ 

اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا پتہ نہیں پیپر میں کیا لکھ کر آۓ گی وہ تاسف سے سوچتا ہوا اس کو اپنی بانہوں میں اٹھاتا کمرے کی جانب بڑھا اور اسے بیڈ پہ لیٹا کر کمبل درست کرتا ہوا چینج کرنے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا گیا۔۔۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا وہ ہنوز مزے سے سونے میں مصروف تھی ۔۔ 

وہ ہنوز مزے سے سونے میں مصروف تھی آبان بھی اس کے ساتھ جا لیٹا ابھی اس کی آنکھ لگے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میرو کی چیخ اچانک پورے کمرے میں بلند ہوئی

 آبان ہڑبڑا کر اٹھا "کیا" ہوا میرو وہ اس کی طرف جھکتا ہؤا بولا جو  بہت برے طریقہ سے ڈر گئی تھی وہ بے تابی سےاس کی طرف بڑھی اور اس کے سینے میں سر دیے زاروقطار رو دی۔۔۔ 

میں آپ کے بغیر نہیں جی سکتی

۔۔پپ۔۔پلیز آپ  مجھے کبھی بھی اپنے سے دور مت کریے گا اسے ڈر تھا کہ وہ آبان کو کھو دے گی یہ خیال کسی سایہ کی طرح اس کا پیچھا کر رہا تھا یہاں تک کہ اب تو خوابوں میں بھی اسے برے برے خیالات نے آن گھیرا تھا جو اسے خوفزدہ کر دیتے اور وہ سو نہیں پاتی ۔۔

میرو کیا ہوگیا ہے میں بھلے تمہیں چھوڑ کر کہاں جاؤں گا کیوں اتنا سوچتی ہو یار  تم ہر وقت آنسو بہاتی ہو  اب میں ان  خوبصورت آنکھوں میں  بلکل آنسو نہ دیکھوں تبھی آبان نے ان آنسؤں کو اپنے ہاتھ کے پوروں سے چنتے ہوئے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا اور پلیز اپنے آنسو مت بہایا کرو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔۔

کیا تم نہیں جانتی ہو ۔۔۔۔۔؟؟

" تم اس دل میں ہو اگر میں اپنے دل کو ہی اپنے تن سے جدا کردوں گا تو میں کیسے زندہ رہ پاؤں گا ۔۔ یہ سانسیں تمہاری موجودگی میں ہی چلتیں ہیں اگر تم ہی ان میں نہ رہو گی تو پھر یہ کیسے چلے گی وہ سرگوشی سے اس کے کان میں گویا ہوا ۔۔ 

 تمہارے بنا میں کچھ نہیں سو یہ فضول خیالات اپنے دل سے نکال دو وہ اس پہ اپنی بانہوں کا گھیرا مزید تنگ کرگیا۔۔۔ آبان کے اقرار نے اسے اندر تک سروشار کر دیا تھا اور وہ پرسکون نیند لینے کی کوشش کرنے لگی ۔۔ 

❤️

آج وہ آبیہا مراد سے آبیہا عباد بن چکی تھی کچھ آنسو اس کے گالوں پہ پھسلےجن کو اس نے بے دردی سے کچلا تھا اس کے دل پہ جو گزر رہی تھی شاید ہی کوئی جان پاتا ۔۔ " وہ ان چاہے شخص سے بیاہ دی گئی تھی

 کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس کا  حال دل سن پاتا ۔وہ زندگی کی ان بھیانک پرتوں میں الجھتی گئی تھی وہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی آخر وہ اپنی منزل کس جانب موڑے ۔۔

عباد کی نظر جونہی آبیہا پر پری جو دور کہیں خلاؤں میں کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھی ۔۔ وہ اسے کھوئی ہوئی سی لگی وہ اٹھا اور اس کے پاس جا بیٹھا لیکن اس کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ آیا وہ ہنوز ویسے ہی خاموشی سے بیٹھی آسمان کو تکتی رہی عباد کو ایسا محسوس ہوا اگر وہ اسے ہاتھ لگاۓ گا تو وہ پتھر کا ہو جاۓ گا ۔۔

اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں دکھ کی تحریر واضح طور پہ دیکھائی دے رہی تھی ۔۔ 

  اس کی خاموشی اس کے دل کو کھا رہی تھی وہ اسے ایسے نہیں دیکھ سکتا تھا  وہ اپنے ماضی کو بھولنا چاہتا تھا پر اس کی خاموشی اس کی آنکھوں کا درد اسے ماضی میں پھر برے طریقے سے پٹخ دیتا تھا ۔۔

 وہ ضبط کرتا ہوا تیزی سے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔ "وہ شاید کل میں رہ کر صرف اپنی عیاش پرست زندگی میں کھو گیا تھا اور آنے والے کل کی فکر کرنا شاید بھول چکا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی اسے کتنا شدید جھٹکا دینے والی ہے" 

 میرب رحمٰن کے عشق نے اسے ایسی مار ماری تھی کہ اگر وہ بھلانا بھی چاہتا تو نہ بھلا پاتا اور دوسری جانب ابیہا کی خاموشی اسے شرمندگی کے گھڑے میں دھنساۓ ہوۓ تھی  وہ ضبط کے آخری دھانے پہ تھا آنسوؤں کا گولا اس کے حلق میں کسی مٹی کے ڈھیلے کی طرح پھنس کے رہ گیا ۔۔

 وہ وہاں سے اٹھا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہؤا وہ جانتا تھا اسے سکون صرف اس ہستی میں ہی مل سکتا ہے جیسے بھولاۓ عرصے کا سامے بیت چکا تھا ۔۔ میرب رحمٰن کا عشق اسے سیدھی راہ کی طرف لانے  پر مجبور کر گیا تھا آج وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی توبہ کررہا تھا۔۔۔اور اس لاحاصِل عشق سے چھٹکارا پانے کی دعائیں مانگ رہا تھا جو اسے پاگل کیے ہوۓ تھا ۔

"عکس کتنے اتر گئے مجھ میں

پھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں

میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں

زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں

میں وہ پل تھا جو کھا گیا صدیاں

سب زمانے گزر گئے مجھ میں

یہ جو میں ہوں ذرا سا باقی ہوں

وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں"۔۔۔۔

❤️

جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی آبیہا نے اسے چہرے پہ ہاتھ رکھے لیٹا ہوۓ پایا ۔۔اس نے اپنا تکیہ اٹھایا اور خاموشی سے صوفے پہ لیٹ گئی 

عباد نے اسے دیکھا اور غصے سے بولا جبکہ اس کی گرج دار آواز پورے کمرے میں گونجی 

بیڈ پر آؤ۔۔۔لیکن وہ سنتے ہوۓ بھی ڈھیٹ بن کے سوتی بنی ۔۔

اسے تپ ہی چڑ گئ  آخر وہ کب سے اسے پیار سے ٹریٹ کررہا تھا پر اسے کوئی اثر ہی نہیں ہونے پارہا تھا ۔۔ " وہ غصے سے اٹھا اور دنداتا ہوا اس کے سر پر جا پہنچا ۔۔ 

محترمہ کیا میں وجہ پوچھ سکتا ہوں کہ آخر صوفے پہ سونے کی نوبت کیوں  آنے لگی آپکو ۔۔ لیکن آبیہا کچھ نہیں بولی 

میں تم سے کچھ سوال کررہا ہوں مس ابیہا !! " وہ غصے میں اس کے اوپر سے کمبل ہٹاتا ہوا بولا 

یہ کیا بدتمیزی ہے آخر تمہارے ساتھ مسٔلہ کیا ہے کیوں ہمیں سونے نہیں دے رہے ۔۔ "  وہ غصے سے چیخی

بیڈ پہ آؤ ابھی اور اسی وقت وہ اس پہ جھکتا ہوا بولا

ہمارے ابھی اتنے برے دن نہیں آۓ جو ہم تمہارے ساتھ سونے لگے ۔۔ "  وہ نخوت سے بولی

عباد نے بغیر کچھ سوچے ابیہا کو اپنی بانہوں میں بھر کر بیڈ پہ پٹخا ۔اب مجھے تم صوفے پہ نظر نہ آؤ ورنہ جو میں حال تمہارا کروں گا وہ تم بخوبی جانتی ہو ۔۔

 ہم جانتے ہیں تم انتہائی گھٹیا شخص ہو اور جو گھٹیا ہوتے ہیں نہ وہ ایسے ہی دھمکاتے ہیں پر ہم تمہاری ان دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ۔۔ " وہ بیڈ سے اٹھتے ہوۓ بولی

چلو میں مانتا ہوں کہ میں  گھٹیا ہوں پر تمہارے جیسی بھی ڈھیٹ لڑکی میں نے  آج تک  اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ۔۔ وہ اسے اپنی پہلوں میں زبردستی گراتے ہوۓ اس کے فرار کے سارے راستے مسدود کرگیا ۔ اب تم جاکر دیکھاؤ کیسے جاتی ہو حد ہے تم تو مجھے اپنا نوکر سمجھ رہی جو کب سے بھونکی جا رہا ہے اور تمہیں اثر ہی نہیں ہونے پارہا 

چچ۔۔۔چھوڑو ہمیں۔۔۔۔!!گھٹیا لوفر،بدتمیز انسان وہ اس کے بازو پہ اپنے ناخن مارتے ہوئے اس کے حصار کو توڑنے کی پوری کوشش کرنے لگی ۔۔

۔مجھے کوئی شوق نہیں تمہیں چھونے کا یہ بات اپنی اس کھوپڑی میں بیٹھا لو اگر تمہاری اب بھی مزاحمت بند نہ ہوئی تو پھر مجھ سے کسی بھی نرمی کی امید مت رکھنا اور اگر تم چاہتی ہو میں تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاؤں تو آرام سے سو جاؤ اسی میں ہی عافیت ہے ۔۔ " وہ سردمہری سے بولا 

اور ابیہا مراد  اس کی آواز سن کر سہم سی گئی تھی  اب اسے کچھ بھی کہنا فضول تھا لہذا رونا دھونا ترک کرکے وہ اس بدتمیز کے ساتھ چپکی سونے لگی جو بہت مضبوطی سے اسے اپنی بانہوں میں قید کیے ہوۓ تھا تبھی وہ اسے گالیاں دیتے دیتے نیند کی پیاری آغوش میں چلی گئی 

❤️

یہ کچھ امپورٹنٹ فائلز ہیں ان کو ابھی کہ ابھی میرے آفس میں پہنچاؤ اور ایک بلیک کافی ود آؤٹ شوگر وہ اپنی بات مکمل کرتا ہوا  آفس کی جانب بڑھا 

وہ کچھ امپورٹنٹ میلز چیک کرنے لگا کہ اچانک اس کی سیکرٹری ماہم دروازہ نوک کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی سر یہ کچھ ڈاک ہے صبح میں آئی تھی ۔۔

اوکے رکھ دیں میں چیک کرتا ہوں ۔۔۔ " وہ مصروف انداز میں گویا ہوا

سر آج آپکی شام پانچ بجے درانی صاحب کے ساتھ میٹنگ ہے ۔

اووو،مجھے یاد کروا دیجیے گا یہ میٹنگ ہمارے بیزنس کے لیے بہت امپورٹنٹ ہے ۔۔

"جی سر"وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باہر کی جانب لپکی

 آبان نے وہ خاکی لفافہ اٹھا کر کھولا اور جو کچھ بھی اس کے اندر سے برآمد ہوا تھا وہ اس کو ہزار والٹ کا شاک لگانے کے لیے کافی تھا وہ  ایک ایک تصویر کو پاگلوں کی طرح دیکھ رہا تھا جس میں میرب بے ہودہ انداز لیے کسی لڑکے کے ساتھ چپکی کھڑی تھی

نن۔۔نہیں میری میرو بہت معصوم ہے وہ ایسی نہیں ہوسکتی وہ اتنی بے ہودو نہیں ہوسکتی وہ غصے سے چیخا تھا ۔

 اور تب ہی اس کے دل میں شک کا بیج اگا آخر وہ مرد تھا اور  شک صدیوں سے اس کی فطرت میں شامل رہا ہے وہ غصے سے کار کی چابی لیے گھر کی جانب بڑھا وہ تصدیق چاہتا تھا آخر کیا میرب اسے دھوکہ دے رہی ہے اگر نہیں دے رہی تو پھر یہ تصاویر کیسے لی گئی تھیں وہ سوچ سوچ کے پاگل ہو رہا تھا۔ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا 

جیسے ہی وہ باتھ روم سے باہر آیا ٹھنڈی کافی پڑی اسے منہ چڑھا رہی تھی ۔۔۔ ناچار رونا دھونا جیسے ہی اس نے کافی کا کپ منہ کو لگایا تو کڑوا گھونٹ اس کے حلق کو چیرتا ہوا معدہ میں مدفن ہوتا چلا گیا وہ سواۓ چیخنے کے اور کچھ نہ کر پایا ضبط سے اس کی آنکھوں سے پانی چھلک پڑا عباد آفندی انتہائی غصے میں کپ اٹھاۓ باہر کی جانب بڑھا

جیسے ہی وہ لاؤنچ میں داخل ہوا وہ سکون سے چبڑ چبڑ لیز کھانے میں مصروف تھی ۔ جیسے ہی اس کی نظر عباد کی طرف اٹھی وہ سرخ آنکھوں سے گھورتے ہوئے اسکی طرف ہی آرہا تھا اور اسے دیکھتے ہی آبیہا کا ایک رنگ آیا اور دوسرا اس کے خوف سے اڑ گیا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا اپنے کمرے کی طرف اندھا دھند بھاگی ۔

عباد بھی اس کے ییچھے دوڑا اس سے پہلے کہ ابیہا دروازہ لاک کرتی وہ سرعت سے دروازے میں پیر دیے زور سے دروازے کو پیر کی ٹھوکر سے کھولتا ہوا غصے سے اندر داخل ہوا 

تمیز سے میری بات سن لو ورنہ وہ حالت کروں گا تم اپنے پیروں پہ کھڑی  نہیں رہ پاؤ گی۔۔۔وہ چیختا ہوا بولا

  وہ جانتی تھی اگر وہ اس کے ہاتھ چڑ جاتی تو وہ اس کی درگت بنانے میں دیر نہیں کرتا لہذا  وہ اس کی بات کو کوئی بھی اہمیت دیے بغیر سرعت سے باتھ روم کی جانب بڑھی ۔

لیکن عباد آفندی اسے راستے میں ہی روک چکا تھا 

مم.۔۔۔ہمارا راستہ چچ۔۔چھوڑو ۔۔

مگر وہ کچھ بھی سنے بغیر اس کی طرف بڑھتا چلا جارہا تھا اور وہ پیچھے سرکتی ہوئی دیوار سے جا ٹکرائی ۔۔۔۔۔

کیا ملایا تھا میرے لوشن میں بتاؤ ۔۔ ؟؟ وہ اپنے دنوں ہاتھ دیوار پہ رکھتا ہوا اس کے فرار کے سارے راستے مسدود کر گیا۔۔۔۔ کیا کرنا چاہتی ہو میرے ساتھ کیوں تمہیں میرا تھوڑا سا سکون بھی برداشت نہیں ہو پارہا  بتاؤ۔۔۔۔۔؟؟وہ اس کو جھنجھوڑتا ہوا اس پہ چیخا

مم۔۔۔ہم  نے کک۔۔کچھ نہیں ملایا وہ بس آ۔۔۔آپ کی کافی میں تھوڑا سا نمک ملایا تھا۔

وہاٹ ۔۔۔؟؟؟

اچھا صرف تھوڑا سا ملایا تھا چلو پھر یہ پکڑو اور فٹہ فٹ پیو پھر بتاؤ کہ تھوڑا ہے یہ زیادہ تھا

یاد رہے صرف ایک سانس میں یہ تمہارے حلق میں اترنی چاہیے وہ اسے کافی دیتا ہوا بولا

مم۔۔ہم..کک۔۔ کافی نہیں پیتے ۔

پر یہ تمہیں پینی پڑے گی ۔۔ پیو ۔۔ وہ اس کے کان میں چیختا ہوا بولا

ابیہا اس کی آواز پر کانپ کر رہ گئی اس نے عباد کے ڈر سے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کپ پکڑا اور اس کڑوی کافی کو ایک ہی سانس میں اپنے حلق میں اتارنے لگی جیسے ہی خالی کپ رکھا اس کا دل بری طرح متلایا اور وہ  فوراً باتھ روم کی جانب بھاگی پر عباد آفندی کو اپنے سامنے کسی دیوار کی طرح ایستادہ پایا 

پپ.۔۔پلیز سائیڈ پر ہو ہو جائیں ہمارا دل متلا رہا ہے ۔۔۔

 آب مجھے یقین ہے مس آفندی آپ اب ہم پہ حملہ کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کرے گی اور اگر کیا بھی تو یاد رکھیے گا اس سے بھی برا پیش آؤں گا وہ سفاک لہجے سے بولتا ہوا اس کو راستہ دیتا باہر کی جانب لپکا

❤️

آبان میرو کدھر ہے وہ ناشتہ پہ نہیں آئی 

میرا خیال وہ یونی جاچکی ہے ۔۔ " وہ بیزاری سے بولا 

کیوں آج اتنی جلدی اور وہ بھی بغیر ناشتہ کیے ۔۔۔۔

مام میں نہیں جانتا وہ اس کے ذکر پہ بیزار ہوتا ہوا اپنا آدھ ادھورا ناشتہ چھوڑتے کار کی چابی اٹھاۓ آفس  کے لیے نکل گیا 

میں حیران ہوں آخر ان دونوں کا مسئلہ کیا ہے تبھی انہوں نے صغراں کو آواز لگائی ۔۔ 

 جو بوتل کے جن کی طرح ان کے پاس حاضر ہوئی ۔۔۔۔

جی بڑی بیبی جان ۔۔۔ !

میرب نے ناشتہ کیا تھا ۔۔ ؟

نہیں بی بی جان ۔۔۔ 

ہم نے پوچھا تھا پر انہوں نے نہیں کیا وہ کہہ رہی تھیں کہ میں کنٹین سے کچھ لے لوں گی میرا ابھی دل نہیں چاہ رہا وہ تفصیل سے بتاتے ہوۓ بولی ۔۔۔۔

اوکے ٹھیک ہے جاؤ اور میری میڈیسن لے آؤ میں تھوڑی دیر آرام کروں گی وہ یہ کہتے ہی اپنے کمرے کی جانب بڑھیں۔

❤️

وہ یونی پہنچتے ہی فوراً عباد کہ ڈیپارٹمینٹ کی جانب بڑھی ۔۔

صبح کا وقت تھا لوگ نہ ہونے کے برابر تھے وہ اس کو ڈھونڈتے ہوئے اس کی کلاس میں داخل ہوئی وہ اسے سامنے بیٹھا ہوا دیکھائی دیا ۔ وہ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا اس کے سر پہ جا پہنچی ۔عباد اس کو دیکھ کر حیران ہوا جو ماتھے پہ تریاں سجاۓ اسے مسلسل گھورنے میں مصروف تھی 

کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو وہ اس کے قریب کھڑا ہوا

اوووو،،،کیا کہنے تمہارے عباد آفندی میرے دل کی دنیا کو تہس نہس کر کے کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔؟؟ وہ چیختے ہوۓ بولی

میرو پلیز آہستہ بولو سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔ " 

نہیں بولوں گی آہستہ سن لینے دو انہیں بھی آخر وہ بھی جانے تمہارے کرتوت۔۔کیا کرتے پھر رہے ۔ " تم وہ اونچی آواز لیے بولی

 عباد  تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے باہر کی جانب لپکا اور اسے ایک تنہا گوشے میں لا کھڑا کیا۔۔۔ اب بولو کیا کردیا میں نے ساری بات بتاؤ میں نہیں جانتا تم کس بارے میں بات کررہی ہو سو تفصیل سے بیان کرو وہ اس کے غصے سے پھولے ہوئے چہرے کو سنجیدگی سے تکتا ہوا بولا

 کیوں انجان بن رہے ہو عباد آفندی !! 

کیا تم واقعی ہی نہیں جانتے ؟؟

کیا  تم نے میری تصویروں کو کسی لڑکے کے ساتھ ایڈٹ کرواکے آبان کو نہیں بیجھوائیں ۔۔ ؟؟ وہ اس کی شرٹ کے کالر کو شدت سے اپنی مٹھیوں میں بھینچتے ہوئے درد سے بلک بلک رو رہی تھی

 کیوں کیا عباد تم نے ایسا۔۔۔۔۔۔؟؟؟کیوں کیا۔۔۔۔۔۔؟؟

میرب رحمٰن کے آنسو اس کی تکلیف کو بڑھا رہے تھے وہ بخوبی جان چکا تھا ایسی گھناؤنی حرکت سحرش کے سواہ اور کوئی نہیں کرسکتا ۔۔۔

عباد نے سے کندھوں سے پکڑتے ہوۓ بولا

میرب میں تمہیں کبھی بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا اور رہی بات تصویروں کی مجھے پتہ ہوتا کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی ایسی گھناؤنی  حرکت کرنے والا ہے تو شاید میں اسے اسی وقت زندہ زمین میں گھاڑ دیتا لیکن افسوس صد افسوس۔۔۔!!کہ میں اس کی چال کو بھلا چکا تھا

تم فکر مت کرو جلد ہی وہ تمہارے سامنے ہوگا وہ اسے کندھوں سے پکڑے تسلی دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔وہ اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی آخر وہ کیا کہہ رہا ہے کس کی بات کر رہا ہے۔۔۔

وہ اس سے اتنے پیار سے بات کیوں کر کررہا ہے اس سے عباد کا انتہائی نرم لہجہ ہضم نہیں ہو پا رہا تھا

چھوڑو مجھے پلیز۔۔۔!! وہ نخوت سے اسکے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی تبھی وہ شرمندہ ہوا اور اپنے ہاتھ سرعت سے اس کے کندھوں سے ہٹاۓ۔۔۔۔۔وہ اس کے رویہ پہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔۔۔۔۔

اور تم کس کی بات کررہے ہو پلیز مجھے بتاؤ۔۔۔۔؟؟وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے نرمی سے گویا ہوئی۔جب سے وہ آئی تھی اپنی گفتگو میں پہلی دفعہ اس سے نرم لہجے میں بات کررہی تھی۔۔۔وہ اس کے بدلتے ہوۓ رویہ پہ کرب سے مسکرایا ۔

 اگر وہ اسے سحرش کا نام بتا بھی دیتا۔۔۔۔۔ تو وہ جانتا تھا پھر بھی مورد الزام اس کو ہی ٹھرایا جانا تھا آخر وہ سحرش کا بھائی تھا جس سے میرب رحمٰن کو شدید نفرت تھی

وقت آنے پر پتہ چل جاۓ گا وہ نگاہیں چراتا ہوا بولا

ضرور پتہ چلے گا عباد آفندی وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا آج میرے دل کی دنیا تہس نہس ہوئی پڑی ہے کل تمہیں وہ رب تہس نہس کرے گا میں نہیں تو دنیا ضرور تماشا دیکھے گی ۔۔ " وہ اسے قہر آلودہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے پلٹی

عباد آفندی کے دل پہ میرب رحمٰن کے آنسو کسی ہتھوڑے کی مانند برس رہے تھےاس کا جسم کسی پھوڑے کی مانند دکھ رہا تھا  تکلیف سے وہ اپنی آنکھیں شدت سے بھینچ گیا

 آہ۔۔۔۔سحرش بہت برا کردیا تم نے ۔۔۔۔منع بھی کیا تھا پر تم باز نہیں آئی۔۔۔۔تم میری تکلیف کو اور بڑھا چکی ہو اب تم نہیں بچو گی وہ اسے نفرت سے سوچتا ہوا پلٹا۔۔۔۔

زندگی اپنا رخ موڑ چکی تھی وقت خامشی سے سرکنے میں مصروف تھا میرب رحمن کچھ تلخ یادوں کو سوچے بارش میں بھیگ رہی تھی ہوا میں خنکی کے سبب سردی بڑھ چکی تھی ۔۔ لیکن وہ ہر چیز سے بے نیاز اس سنگ دل کو سوچ رہی تھی جس نے اسے اپنا عادی بنا کر راستے میں  چھوڑ دیا تھا اس کے کچھ آنسو گالوں سے پھسلتے ہوۓ بارش کے پانی کے ساتھ بے دردی سے  زمین پہ ٹپکنے لگے تھے 

آواز دے کر  ہر بار چھپ گئی زندگی

ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے ۔۔ " 

کچھ ہی دیر میں آبان کی گاڑی لان میں آکر کھڑی ہوئی جب وہ گاڑی سے باہر نکلا بارش زور و شور سے ہورہی تھی وہ اپنا آپ بچاتا ہوا اندر کی جانب بڑھا مگر اچانک اس کی نظر میرب پر پڑی جو ہر طرف سے بے نیاز کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھی

آبان غصے میں اس کی جانب بڑھا وہ حیران تھا آخر اتنی رات اور اوپر سے اتنی ٹھنڈ میں وہ بارش کے مزے کیوں کر لے رہی تھی

میرب اس کی طرف پشت کیے کھڑی تھی  وہ اس کے قریب پہنچا اور اس نے انتہائی طیش سے اس کے بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے اس کا رخ اپنی طرف کیا میرب اچانک افتاد پر چیخی اور اس کے سینے سے آ ٹکرائی تھی

کیا تکلیف ہے تمہیں جو ابھی تک کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کیا مسئلہ ہے تمہارا کیوں اتنی بارش میں کھڑی ہو  اسے جھٹکے سے اپنے سامنے کرتا ہوا وہ چیخا پر وہ خاموش تھی ، ساکت تھی ۔۔ اس کے کچھ آنسو چھلکتے ہوئے اس کے ہاتھ پہ گرے  وہ اس کے آنسؤں کے آگے جیسے ہار سا گیا تھا وہ آگے بڑھ کر بے دردی سے اسے اپنے اندر بھینچ گیا تھا میرب کو اس کی گرفت میں اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا لیکن وہ ہنوز اس کو تکلیف دینے سے باز نہیں آیا ۔ وہ اپنے آپ کو اس کی گرفت سے چھڑوانے کی بھرپور  کوشش کررہی تھی

اس کی مزاحمت دیکھتے ہی آبان نے اسے جھٹکے سے اپنے سے دور کیا ۔ میرب گرتے گرتے سنبھلی تھی

ابھی کہ ابھی اندر دفعہ ہوجاؤ ۔ ورنہ جو میں تمہارا حشر کروں گا تم سوچ کر بھی دہل جاؤ گی ۔۔ " وہ کاٹ دار لہجے میں کہتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا

وہ شدت سے تڑپ تڑپ کر رو دی بارش کے کچھ قطرے اس کے آنسوؤں کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے نیچے گرتے اور زمین پر بہہ جاتے ۔۔۔

جلا ہے جسم جہاں،دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ! جستجو کیا ہے                              

❤️

بتاؤ کیا خبر لاۓ ہو وہ مصروف انداز لیے اپنے کام میں گم تھی ۔

بب۔۔بیگم صاحبہ کک۔۔۔کام ہوگیا ہے وہ بے ربطِ انداز لیے بولا 

تو ہاں یہ میں جانتی ہوں آگے بکو ۔۔ 

لیکن مقابل ہنوز خاموش تھا ۔۔

کیا اس نے میرب کو طلاق دی ۔۔ ؟؟ وہ  اس پہ چیختے ہوئے بولی 

نن۔۔۔نہیں بیگم صاحبہ !!

سحرش حیرانی سے اٹھتے ہوئے اس کے قریب آئی ۔ میں نے تمہیں اس  گھر میں ان دونوں کی کھوج لگانے کے لیے بھیجا تھا اور تم نے تو ان کے گھر کی نوکری کو اپنے سر پہ ہی سوار کر لیا مسٹر اسلم خان ۔۔ !

 آخر میرے ہی ٹکروں پہ پل رہے ہو اور نوکری پورے خلوص سے ان کی نبھا رہے ہو ۔۔ 

بب۔۔بیگم صاحبہ !! میں جتنا جانتا ہوں اتنا آپ کو بتا چکا ہوں میں آپکا وفادار ملازم ہوں میں اپنا کام خوب دیانت داری سے نبھا رہا ہوں ۔۔

اچھا۔۔اچھا۔۔ اب بس کرو ۔۔

مجھے بتاؤ آبان کا میرب کے ساتھ کیسا رویہ ہے ۔۔۔۔اوو،،،،،تو اب تم یہ بھی نہیں جانتے ہوگے وہ اس کی خاموشی پہ طنز کرتے ہوۓ بولی 

بب۔۔بیگم صاحبہ مجھے اندر جانے کی پرمیشن نہیں 

 سحرش کو اس پہ اتنا غصہ آیا کہ وہ ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ گئی ۔ اگر تمہیں اندر جانے کی پرمیشن نہیں تھی تو تم نے مجھے  پہلے انفرم کیوں نہیں کیا۔۔۔۔؟؟

میری نظروں سے دور ہو جاؤ مسٹر اسلم خان !! ورنہ میں تمہارا سر پھوڑ دوں گی ۔ گیٹ آؤٹ آف مائی آفس ۔۔ " وہ غصے سے اس پہ چلاتے ہوئے بولی

 اسلم خان کانپتی ہوئی ٹانگوں سے آفس سے باہر نکلتا چلا گیا ۔۔

وہ اپنی ہار برداشت نہیں کر پارہی تھی اس نے جو ایڈٹ کروائی تھی اسے بھروسہ تھا کہ آبان ان ایڈٹس کو دیکھتے ہی میرب کو  گھر سے دھکے مار کر باہر نکال دے گا مگر جو اس نے سوچا تھا وہ ہرگز نہیں ہوا تھا ویسے بھی جو سوچا جاتا ہے وہ ہرگز  نہیں ہوتا بلکہ جو اللّٰہ چاہتا بے بے شک وہی ہوتا ہے ۔

وہ اپنا غصہ پاس پڑی بے جان چیزوں پہ نکالنے لگی تھی  اس نے پاس پڑا پانی کا گلاس زور سے دروازے پر دے مارا آخر  میرب تم کیوں نہیں مرجاتی وہ اسے کوستے ہوۓ چیخی ۔ تم ایسے نہیں مرو گی مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا وہ غصے سے پاس پڑی کرسی کو ٹھوکر مارتے باہر نکل گئی 

❤️

اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا آخر وہ سحرش کو کیسے سمجھائے جو کہ انتہائی ضدی تھی ۔ عباد نے پریشانی سے سوچتے ہوۓ اسے فون ملایا لیکن فون بزی جارہا تھا بہت دفعہ کوشش کرنے پر بھی دوسری طرف سے نہیں اٹھایا جارہا تھا ۔

سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹ رہا تھا صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا وہ پاگلوں کی طرح بار بار اسے نمبر ملارہا تھا پر وہ اٹھانے ہی نہیں پارہی تھی ۔ اس نے فاریہ بیگم کو کال ملائی

ہیلو ۔۔ !! اسپیکر میں فاریہ بیگم کی آواز گونجی

مام سحرش کدھر ہے وہ اپنا نمبر کیوں نہیں اٹھا رہی وہ چھوٹتے ہی بے چینی سے بولا

آئی تھینک ۔۔  اس کا فون خراب ہے تم کدھر ہو دو دن سے تم گھر نہیں آریے ۔۔

مجھے اس سے بات کرنی ہے اگر زحمت نہ ہو تو پلیز اس سے میری بات کروا دیں ۔۔ وہ ان کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا بولا

وہ آؤٹ آف سیٹی ہے آخر ہوا کیا ہے مجھے تو بتاؤ 

لیکن عباد نے بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا اور  سلسلہ منقطع کردیا

جیسے ہی ابیہا اندر داخل ہوئی عباد کو کسی گہری سوچ میں گم پایا 

پتہ نہیں اسے کیا ہوا  ہے جو ایسے منہ لٹکا کہ بیٹھا ہوا ہے وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی

عباد نے ابیہا کی جانب نظریں دوڑائیں جو آرام سے اپنے اوپر  کمبل اوڑھے فون چلانے میں مصروف تھی آج وہ صبح سے بھوکا تھا پر ابیہا نے ایک دفعہ بھی اس سے کھانے کا نہیں پوچھا تھا آخر اس کا گناہ اتنا بڑا تھا جس کی معافی ہی نہیں اسے ملنے پارہی تھی

اچانک وہ اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا

عباد تم رات کے اس وقت کدھر جارہے ہو وہ اس کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے بولی

لیکن اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا جو اس کی عادت میں شمار تھا

 ابیہا بھاگتے ہوئے اس کی راہ میں حائل ہوئی

ہم اتنی رات کو بھلا کیسے اکیلے رہ سکتے ہیں ہمیں ڈر لگتا ہے تم کل چلے جانا ۔۔ پلیز ٫٫ وہ عباد کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی

سائیڈ پر ہٹو ۔۔ 

میں کھانا کھا کر واپس آتا ہوں وہ سنجیدگی سے گویا ہوا 

تو ہم لا دیتے ہیں تم اندر چلو 

بہت جلدی ہی نہیں خیال آگیا تمہیں مس آفندی ۔۔ !! وہ اس پہ طنز کرتا ہوا بولا

مم ۔۔ ہم سمجھے شاید تم کھا آۓ ہو ۔۔ " وہ اپنی انگلیاں مڑورتے ہوئے بولی

جاؤ جا کر آرام کرو خامخواہ میرے لیے کسی بھی قسم کی کوئی بھی تکلیف اٹھانے کی تمہیں ضرورت نہیں ۔۔ " وہ اسے اپنے راستے سے ہٹاتا ہوا زور سے دروازہ بند کرتا  باہر کی جانب بڑھ گیا

جاؤ ۔۔

جہاں سے مرضی کھاؤ ہمارا دماغ خراب تھا جو ہم نے تمہیں روکا وہ غصے سے پھوں پھوں کرتی دوبارہ سے اپنے پسندیدہ کام میں مشغول ہوگئی ۔۔

❤️

آبان جوگنگ سے واپس آتے فوراً باتھ روم کی طرف بڑھا آج اسے آفس سے خاصی لیٹ ہوچکی تھی ۔ جیسے ہی وہ باہر آیا میرو کو سوتا ہوا پایا وہ حیران ہوا وہ ابھی تک کیوں نہیں اٹھی ورنہ وہ اس وقت تک اٹھ جاتی تھی ۔

آبان جوگنگ سے واپس آتے فوراً باتھ روم کی طرف بڑھا آج اسے آفس سے خاصی لیٹ ہوچکی تھی مگر جیسے ہی وہ باہر آیا تو میرو کو سوتا ہوا پایا وہ کچھ حیران ہوۓ  اس کی جانب جھکا اور اسے آواز دی مگر اس کے جسم میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی ۔ آخرکار آبان نے اسے جھنجھوڑا پر جیسے ہی اس نے اسکے بازوؤں پہ ہاتھ رکھا تو وہ اسے کسی دہکتے ہوئے کوئلے کی مانند  لگے ۔

اووو،،،،تو جس کا خدشہ تھا وہی ہوا ۔ اب مام مجھے مورد الزام ٹھہراۓ گیں ، جیسے میں ہی اس کا پکا دشمن ہوتا ہوں  ۔۔ وہ غصے سے اس کی جانب دیکھنے لگا ۔

 اگر مجھ میں تمہاری تکلیف برداشت کرنے کی ہمت ہوتی میرب رحمٰن تو میں کبھی بھی یوں تمہاریے لیے پریشان نہ ہوتا ایک یہ دل ہے جو مجھے ہمشہ تمہاری طرف جھکنے پہ مجبور کر دیتا ہے ۔

خیال یار اسے جا دستک دی

وہ وسوسوں کی طرح جھٹک دیا

حوصلہ دیکھو میرے کافر دل کا

اٹھا پھر اس کی یاد میں دھڑک دیا

وہ نخوت سے اسکی طرف دیکھتا ہوا ڈاکٹر کو فون کرتا باہر کی جانب بڑھا ۔ جو اسکی باتوں سے بے خبر پڑی بخار میں پھنک رہی تھی

❤️

 جیسے ہی وہ فریش ہو کر باہر آیا اسے ہر چیز میں نفاست دیکھ رہی تھی اور کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو اس کے معدے میں جاتے ہی اس کی بھوک کو بڑھا گئی .. " وہ تعجب لیے کچن کی جانب بڑھا اور ابیہا کو آٹا گوندھنے  میں مگن پایا وہ دبے پاؤں واپس چلا جانا چاہتا تھا پر اس کے آٹے سے لتے ہوۓ حلیہ کو حیرانی سے تکنے لگا ۔

 جو جگہ جگہ اس کے چہرے گردن اور بالوں پہ اٹکا ہوا تھا اور اسے مضحکہ خیز بنا رہا تھا وہ بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کر پایا ۔

جیسے ہی ابیہا کو اپنے پیچھے کسی آہٹ کا احساس ہوا وہ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بنا پلٹی اور عباد کو کچن کے دروازے پہ ایستادہ پایا جو بڑے مزے سے ہنستے ہوئے اسے بغور  دیکھنے میں مصروف تھا۔

تم ہنس کیوں رہے ہو انتہائی معصومانہ سوال۔۔۔۔؟؟

 تم آٹا گوندھ رہی ہو یہ آٹے کے ساتھ کھیل رہی ہو وہ ہنستے ہوئے بولا

تمہیں نظر نہیں آرہا ہم کھیل نہیں بلکہ آٹا گوندھ رہے ہیں جو ہمارے لیے انتہائی مشکل کام ہے ۔۔۔ " وہ ماتھے پہ تیوریاں سجاۓ اسے گھورتے ہوئے بولی جو کب سے کھڑا اپنے خوبصورت دانتوں کی نمائش کرتا ہوا اسے زہر سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔ (ہونہہ ایسے نقص نکال رہا ہے جیسے خود بڑا ماہر ہو ان کاموں میں ۔۔ "  وہ منہ ہی منہ میں اسے کوستے ہوۓ بولی ) 

عباد آفندی اسے منہ میں بڑبڑاتے ہوۓ دیکھ کر آہستگی سے اس کے  قریب ترین ہوا 

 وہ اس اچانک افتاد پر ڈر کے کھسکتے ہوئے  شلیف کے ساتھ جالگی 

مس آفندی ۔۔ !!  آپکی  زبان بہت چلتی ہے  کسی کینچی کی مانند اور اگر چلتی ہے تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لینے پاتی  وہ لفظوں پہ زور دیتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا اسکے دل کے تاڑ کو چھیڑ گیا ۔۔

ممم۔۔ہم سے دور رہو۔۔۔۔وہ دھڑکتے  دل کو سنبھالے اس کے سینہ پہ اپنے دونوں ہاتھوں کا دباؤ ڈالے  اسے اپنے سے دور کرنے کی ان گنت کوشش کرنے لگی ۔۔

کیوں۔۔۔؟؟ کوئی تکلیف ہو رہی ہے اگر ہورہی ہے تو بتادو شاید کوئی حل نکال جاۓ ۔۔ " وہ کاٹ دار لہجے میں اسے گھورتا ہؤا بولا 

مس آفندی آپ بھول جاتی ہیں اور پھر آپکو بار بار یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ آپ اب میری زوجہ کہ رتبے پر فائز ہوچکی ہیں سو اب آپ ایسی مزاحمت کرنا ترک کردیں جو مجھے بلکل بھی نہیں پسند ۔۔ آپ نے جتنا وقت لینا تھا سو آپ لے چکی ہیں اور میرے خیال میں اتنا وقت کافی ہوتا ہے کسی سے بدلہ لینے کیلیے ۔۔ " وہ اس کے ماتھے پہ جھکتا ہوا اپنا دہکتا  لمس چھوڑتا ہوا ، اسے خوابوں کے حسین پار کھڑا کر کے جاچکا تھا اور وہ پیچھے کھڑی اسکے لمس میں کھو سی گئی تھی ۔ 

اس کا دل دھڑکنے کی رفتار میں تیزی پکڑ چکا تھا اسے پہلی بار عباد کا چھونا  اچھا لگا تھا اس سے پہلے کہ وہ اپنے حسین خیالوں میں کہیں اور پہنچتی اچانک سالن کے جلنے کی بدبو اس کے نازک سے دماغ میں آسمائی اور وہ تیزی سے چولہے کی جانب بڑھی

❤️

ایسے موسم میں بخار ہو جاتا ہے سو پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ویکنس ان کو بہت زیادہ ہے لہذا آپ ان کی خوراک کی طرف توجہ دیں ان کو باقاعدگی سے انہیں فروٹس اور جوس سرو کریں ۔

میں آپکو میڈیسن لکھ دیتا ہوں وہ آپ انہیں دیں انشاءاللہ اللّٰہ تعالیٰ کے کرم سے افاقہ ہوگا ۔۔ " وہ پیشہ وارنہ انداز لیے  بولے

بہت بہت شکریہ مسٹر ولید صاحب !! وہ ان سے مصافحہ کرتا ہوا میرب کی طرف ایک نظر ڈالتا ہوا انہیں چھوڑنے باہر کی جانب بڑھا جو آبان کو کافی کمزور لگی تھی

 زوبیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں اور سوپ لیے بیڈ کی جانب بڑھی ۔۔ 

میرو بیٹا !! اٹھو اور یہ سوپ پیو ،، میں کافی دن سے نوٹ کررہی ہوں تم بلکل کھانا ٹھیک سے نہیں لیتی وہ چہرے پہ ناراضگی سجاۓ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔

اماں جان ۔۔ !! مجھ سے نہیں پیا جاۓ گا مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے ۔۔ " وہ سوپ کو دیکھتے منہ ٹیرھا کرتے ہوئے بولی سوپ اس کو بلکل بھی پسند نہ تھا

بلکل بھی نہیں تمہیں پینا پڑے گا ۔۔ " وہ میرب کی کمر کے پیچھے تکیہ لگاۓ اس کے سامنے سوپ کا باؤل رکھتے ہوئے بولیں سوپ کو دیکھتے ہی میرب کا دل بری طرح متلایا

تبھی آبان میڈیسن لیے اندر داخل ہوا 

آبان مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی تم میرب کا بلکل بھی خیال نہیں رکھتے دیکھو کیا حالت ہوئی پڑی ہے میری بیٹی کی ۔۔ " وہ چھوٹتے ہی اس کی کلاس لینے لگی 

آخر مام آپ مجھے  یہ بتائیں کیا میں آپ کو سڑک سے ملا تھا یہ آپ نے یتیم خانے سے مجھے گود لیا تھا جو میں ہر وفعہ آپ کو ہی آپکی میرب جی کا دشمن  نظر آتا ہوں ۔کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا کہ میں اس گھر کا ظالم داماد ہوں جو سارا دن آپ کی بیٹی کے ساتھ ظلم کرتا ہے ۔۔ "  وہ غصے سے پھٹ ہی تو گیا تھا 

"'اچھا اچھا "  بس کرو ۔۔ ایموشنل بلیک میلنگ چھوڑو ،، 

 مجھے تم دونوں ہی بہت زیادہ عزیز ہو ۔۔ " وہ پیار سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے اٹھیں میں نماز پڑھ لوں تم مجھے میرب کے پاس نظر آؤ نہ کہ باہر گھومتے پھرتے ہوئے اور جو یہ رات کا شیڈول تم نے چینج کیا ہے اس کو روٹین پر لاؤ ۔۔ " وہ آبان کے  کان کھینچتے ہوئے بولی

اوکے ،، مام !!  جیسے آپ کہے گی ویسے ہی کروں گا ۔۔ اب تو چھوڑ دیں ظلم حسینہ ۔۔ !! وہ شریر لہجے میں بولا

 وہ اس کی بات پر مسکراتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئیں ۔

زوبیہ بیگم کے جاتے ہی آبان لمبے لمبے ڈگ  بھرتا اس کے قریب آیا آخر میں نے تمہیں کہا بھی تھا اندر آجاؤ پر تم انتہائی ڈھیٹ واقع ہوئی اور اپنی من مانی کرتے ہوئے وہی رکی رہی اب اس کا نتیجہ تم بھگت رہی ہو ۔۔ " ابان غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولا

لیکن میرب نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا 

تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہی میرب رحمٰن !! وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے دھیمی آواز لیے بولا

میں تمہیں جوابدہ نہیں ہوں مسٹر آبان حیدر !! وہ شوز  پہنے کمرے سے باہر جانے کیلئے اٹھی مگر اچانک آبان حیدر اس کے راستے میں حائل ہوا اس سے پہلے وہ اس سے ٹکراتی میرب نے فوراً سے اپنے آپ کو سنبھالا

کہاں جارہی ہو۔۔۔۔؟؟ " وہ اس کے قریب آتے ہوۓ بولا

میں کہاں جا سکتی ہوں مسٹر آبان حیدر ۔۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کرب سے بولی

 ہاں اگر کوئی ایسا ٹھکانہ ہوتا جہاں محبت میرے سامنے نہ ہوتی اور نہ میں محبت کے سامنے ہوتی تو میں ضرور اس ٹھکانے پہ جانا پسند کرتی کیونکہ جب میں اپنی  ہی محبت کو آنکھوں میں  بیگانگی لیے بے فکری سے چلتے پھرتے ہنستے دیکھتی ہوں تو میرا دل جل اٹھتا ہے جیسے کوئی آگ لگا کر چنگاری بجھنا بھول جاۓ ۔ "

 تم ایک دفعہ تو میری محبت کا یقین کرتے  جو میں برسوں سے تم سے کرتی آرہی ہوں بس اتنا سا بھروسہ تھا تمہیں اپنی محبت پر ۔۔۔۔؟؟ " وہ درد سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی جو سکتے کی کفیت میں اس کے چہرے کو ہونقوں کی مانند تک رہا تھا جس کے پاس میرب رحمٰن کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔

 تم  کیا جانو اس عشق کی آگ کو جو آہستہ آہستہ بے دردی سے دل سلگانے میں مگن ہوجاتی ہے اور آخر کار ایک نہ ایک دن یہ دل راکھ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ جب دل راکھ میں تبدیل ہو جاتا ہے نہ تو کوئی بھی خواہش معنیٰ نہیں رکھتی انسان پتھر کا ہو جاتا ہے آنکھیں پانی سے خالی ہو جاتی ہیں اور پھر انتہا پتہ ہے کیا ہوتی ہے ۔۔۔

وہ انسان ایک چلتی پھرتی لاش کی مانند ہوتا ہے ،

 جس کے پاس دل تو ہوتا ہے پر بے حد  ناکارہ ،

روح تو ہوتی ہے پر ہر احساس سے عاری ،

 دماغ تو ہوتا ہے پر کسی گہرائی میں ڈوبا ہوا ۔

ابھی تو  تمہاری محبت کی شروعات تھی اور تم نے شروع میں ہی اپنے شک کا ٹھپا میرے چہرے پہ سجا دیا ۔۔ ؟؟ یاد رہے مسٹر آبان حیدر !!  " عورت محبت کی بھوکی نہیں ہوتی عزت اور اعتماد کی بھوکی ہوتی ہے اگر اسے مقابل سے وہی نہ ملے تو اس نے محبت کا آچار نہیں ڈالنا ہوتا ۔۔ "

تم نے میری محبت کا جتنا مذاق اڑانا تھا اڑا لیا پر میں اب تمہیں بلکل اجازت نہیں دوں گی کے تم میرے جذبات کو یوں بے مول کرو ۔۔ " وہ ایک ہی سانس میں بولتے ہوئے آبان کو تصویر کا دوسرا رخ دیکھا چکی تھی جس کو دیکھنے سے آبان حیدر انکاری تھا

اب میں وہ چیز نہیں رہی مسٹر آبان حیدر ۔۔ !! جسں سے جب دل چاہا کھیل لیا اور جب دل بھر گیا تو گلے سے کسی طوق کی مانند اتار پھینکا ۔۔ " وہ اس پر نخوت سے ایک نظر ڈالے اپنے آنسوں کو ضبط کرتے ہوئے  باہر کی جانب بڑھ گئی جس کا پل اس نے بمشکل اپنے حلق میں بندھ رکھا تھا اب وہ بےتابی سے باہر چھلک پڑا تھا

آبان دم بخود کھڑا اسے سن رہا تھا اس میں اتنی سکت نہ رہی تھی کہ وہ اپنی جگہ سے ہل پاتا اور اسں ٹوٹی بکھری سی لڑکی کو آگے بڑھ کر اپنیے اندر سمیٹ لیتا اس کے قیمتی اشک کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے چن لیتا لیکن وہ ہمت نہیں کر پایا تھا  وہ اس پہ کچھ ہی پل  میں اپنا آپ عیاں کر کے جاچکی تھی اور یہی لمحے اس کے دل کو بے دردی سے کچل چکے تھے

میرب رحمٰن مجھے افسوس رہے گا جو مجھے دیکھنے کو ملا بس میں وہی دیکھتا رہا  پر افسوس صد افسوس میں نے گہرائی میں جانا پسند نہیں کیا اور یہی ملال ساری زندگی میری جان نہیں چھوڑے گا ۔۔ " وہ ٹھنڈی آہ برتا ہوا صوفے پہ جا بیٹھا اس کو ایک پل بھی سکون نہیں ملنے پارہا تھا 

آوارپن،بنجارہ پن، ایک خلا ہے سینے میں

ہر دم ہر پل بے چینی ہے،کون بلا ہے سینے میں

جانے یہ کیسی آگ لگی ہے جس میں دھواں نہ چنگاری

ہو نہ ہو اس بار کہیں کوئی خواب جلا ہے سینے میں

جس راستے پہ تپتا سورج ساری رات نہیں ڈالتی

عشق کی ایسی راہ گزر کو ہم نے چنا ہے سینے میں

کہاں کسی کے لیے ہے ممکن سب کے لیے اک سا ہوتا ہے

تھوڑا سا دل میرا برا ہے،تھوڑا بھلا ہے سینے میں ۔۔۔ " 

❤️

ابیہا ۔۔۔ !! عباد اسے آواز لگاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا 

جو بے سدھ پڑی سو رہی  تھی عباد اسے پکارتا ہوا اس کے قریب ہوا 

اوووو،،مس آفندی !! کیا آپ بنگ پی کر سو رہی ہیں جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ۔ وہ اسے جھنجھوڑتا ہوا بولا

مقابل بھی ابیہا آفندی کی ذات تھی جسے عباد کو زچ کرنے کا کچھ زیادہ ہی مزہ آتا تھا ۔ اور وہ ہنوز آنکھیں بند کیے ایسے ہی پڑی رہی

اچانک عباد آفندی کی گہری نظر اس کے جسم کے آر پار ہوئی اور وہ اس حسین ، معصوم لڑکی میں کھو سا گیا تھا  جس کے کالے حسین بالوں کی آبشار بیڈ پہ دور تک بکھری پڑی تھی ، ہونٹ اس کے شہد میں بھیگیں ہو جیسے، اس کے نازک سفید مرمریں ہاتھ اس کے سینے پہ بے سدھ پڑے تھے وہ اس حسین منظر میں مبہوت ہوۓ دور تلک کہیں جا پہنچا

ابیہا جو مزے سے پڑی اسے تنگ کرنے میں لگی ہوئی تھی  اچانک اسے کسی انہونی کا احساس ہوا اور اس نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا اپنی آنکھوں کے پٹ کو جھٹکے سے وا کیا ۔

اور عباد کو اپنے اوپر جھکا ہوا پایا جو اسے شوخ نظروں سے  تکنے میں مگن تھا وہ بری طرح خجل ہوئی اور اٹھنے کی کوشش کی پر عباد نے اس کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے اس کے اطراف اپنے دونوں ہاتھ رکھے  اس کے فرار کی ساری راہ مسدود کردیں

مم۔۔۔پلیز ہمیں چھوڑو۔۔۔ابیہا کا دل اس کی قربت میں زور سے اچھل کر حلق میں آگیا

خاموش ۔۔ " وہ اس کے لبوں پر اپنی انگشت انگلی رکھتے ہوئے بولا

اگر اب تمہاری آواز آئی مس آفندی !! میں تمہیں زمین پر زور سے پٹخ دوں گا ۔۔ " وہ اسے دھمکی دیتا ہوا بولا جو گویا اس کی بہت ہی پرانی عادت تھی

ہاں اگر کوئی بھی مزاحمت اور کرو گی تو سب بے سود ہی جائیں گی  سو خاموش رہو ۔۔ " وہ اسے اپنے شکنجے میں لیتا اس پہ جھکتا ہی چلا گیا

ابیہا نے ہارتے ہوئے سر تکیہ پہ رکھ دیا اور اپنا آپ اس کے سپرد کیے اس کے ساتھ کہیں دور تلک خوابوں کی حسین وادیوں میں جا پہنچی جہاں افق کے پار چاند بھی انہیں دیکھ کر شرماتے ہوۓ بادلوں کی لپیٹ میں آگیا ۔

"نہ جانے کیسا رشتہ ہے اس دل کا تجھ سے

دھڑکنا بھول سکتا ہے،پر تیرا نام نہیں ۔۔ " 

❤️

آج اس کی کچھ طبیعت ٹھیک تھی سو وہ فوراً سے اٹھتے ہوۓ یونی جانے کے لئے تیار ہونے لگی ویسے بھی اب اس کا گھر میں جی نہیں لگتا تھا خالی گھر اسے کاٹ دوڑتا تھا رات میں  وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال آئی تھی اب  اس کا دل غم سے کچھ ہلکا ہوچکا تھا ، رونے سے اس کی آنکھوں کے پپوٹے سوجھ چکے تھے ، بخار  کیوجہ سے اس پہ کچھ نقاہت طاری تھی پر وہ اسے جھٹکتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئی ۔۔

جیسے ہی وہ ڈائینگ روم میں داخل ہوئی آبان کو سامنے چیئر پہ بیٹھا ہوا پایا جو ناشتہ کرنے میں مگن تھا میرب اسے نظر انداز کرتے ہوئے زوبیہ بیگم کے پاس جا بیٹھی ۔

آبان نے اسے بغور دیکھا جس کا چہرہ بخار کیوجہ سے زرد پڑ چکا تھا آنکھوں کے نیچے ہلکے رتجگنے کا سبب بتا رہے تھے اس کے دل پر بہت زور سے کچھ چبھا تھا وہ انجانے میں اس لڑکی کا دل  بے دردی سے دکھا گیا تھا

آبان کا دل کیا کے وہ آگے بڑھ کر میرب کو زور سے اپنے اندر  بھینچ لے پر ایسا کرنا  بہت کٹھن تھا ۔ "  وہ تاسف سے سوچ کے رہ گیا

اچانک سے میرب کی نگاہ اٹھی تھی اور آبان کی نظروں سے جا ٹکڑائی جو اپنی نگاہوں میں محبت سماۓ اسے ہی دیکھنے میں مگن تھا ، ہونہہ دیکھ تو ایسے رہا ہے جیسے زندگی میں مجھے پہلی بار دیکھ رہا ہو لوفر کہیں کا نہ ہو تو ۔۔۔ " وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اور اس کو  گھورتے ہوئے اپنا بیگ اٹھاۓ یونی جانے کیلئے باہر کی جانب بڑھ گئی

"یہ جو نظروں سے میرے دل کو نڈھال کرتے ہو

کرتے تو ظلم ہو صاحب مگر کمال کرتے ہو ۔۔۔ " 

"آہ" اب تو شاید میرو بیگم ہمیں اپنے قریب بھی نہ  آنے دیں ۔۔ "  وہ  ایک لمبی سانس کھینچتے ہوۓ چیئر سے اپنا  کوٹ اٹھاۓ زوبیہ بیگم کو سلام کرتے ہوئے آفس جانے کے لیے باہر کی جانب بڑھا 

دروازے پر مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے عباد کو نیند سے بیدار ہونے پر مجبور کیا تھا وہ انتہائی بیزاری سے ابیہا کو اپنی بانہوں سے آزاد کرتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا

آنے والا شاید گھنٹی سے ہاتھ اٹھانا بھول چکا تھا

 عباد نے غصے میں جھٹکے سے دروازہ وا کیا اور سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ کر پل کو شاکڈ ہوا

تم۔۔۔؟؟

یس میں یعنی سحرش آفندی !! وہ انتہائی ڈھٹائی سے بولتے  ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئی ۔۔

کیا کرنے آئی ہو .. ؟ " وہ اسے گھورتا ہوا بولا جو ڈھٹائی سے صوفے پہ ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بیٹھی اسے دیکھنے لگی 

کیوں میں نہیں آسکتی ۔۔۔ ؟؟ تم اتنے دن گھر سے غائب رہے ہو اور ماما بتا رہی تھی کہ تم مجھے یاد فرما رہے ہو تو میں چلی آئی آخر تمہیں مجھ سے کیا کام آن پڑا ۔۔ ؟ " وہ اس پر طنز کے تیر اچھالتے ہوئے بولی

چلو اچھی بات ہے تم خود ہی آگئی ویسے بھی مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی تھی وہ اس کے سامنے کرسی دھکیلتے ہوۓ بیٹھا اور نخوت سے بولا

ہاں ! ضرور پوچھو ۔۔ " وہ گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے بے فکری سے بولی

میڈم سحرش جو الٹے کام تم کر رہی ہو وہ چھوڑ دو اور یہ میری  آخری وارننگ سمجھو ، اگر دوبارہ تم نے میرب رحمٰن کو تکلیف پہنچانے کی کوشش بھی کی تو بہت برا حال کروں گا ۔ بس یہ چھوٹی سی بات تھی اور اسی بات کو اپنی چال باز کھوپڑی میں بٹھا لو ، تو تمہارے لیے بہتر ہوگا ۔ اگر میری بات تمہیں فضول لگی ہے میڈم سحرش تو نتائج کی ذمے دار تم خود ہوگی ۔ " وہ اس کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا

سحرش اس کے رویہ پہ حیران ہوئی آخر تمہیں کیا تکلیف ہے مسٹر عباد ۔۔ ؟؟ کیوں تم میرے پیچھے پڑے ہوۓ ہو ۔۔ ؟ وہ چیخی تھی 

آور غصے سے اس کے روبرو ہوئی ۔۔  دوسری بات مسٹر مجنوں !! یہ میرا کام ہے نہ کہ تمہارا تم اپنا منہ بند ہی رکھو ۔ مجھے کیا کرنا ہے وہ میں دیکھ لوں گی اور جو تمہیں کرنا ہے وہ تم بخوبی شوق سے کرنا ۔۔ 

یاد رہے سحرش آفندی ہار تو سکتی ہے پر میدان چھوڑ کر  بھاگ نہیں  سکتی" آئی سمجھ وہ اس کو گھورتے ہوئے بولی اور پانی کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے اٹھی 

مسٹر عباد ! بہت عزت افزائی کی تم نے اپنے مہمان کی اب میں چلتی ہوں اور دوسری بات میرے کام میں ٹانگ مت اڑنا ورنہ میں سوچوں گی بھی نہیں کہ تم میرے بھائی ہو 

عباد آفندی بھول چکا تھا کہ مقابل اس کی اپنی ہی بہن تھی جن کی رگوں میں ایک ہی باپ کا خون دوڑ رہا تھا ۔

بات سنو ۔۔ !! 

 عباد کی آواز نے اس کے چلتے ہوئے قدموں کو روکا تھا اب بھی کچھ الفاظ رہ گئے ہیں کیا.....؟؟" وہ اس کی جانب مڑتے ہوئے بولی

وہ اس کے قریب آیا تھا ۔ 

ہاں کچھ الفاظ ہیں ۔۔ )

مجھے سکون نہیں ہے میں اندر ہی اندر سے گھل رہا ہوں مجھے نہیں پتہ کہ یہ عشق  مجھے زندہ رہنے بھی دیتا ہے کہ نہیں جیسے جیسے وقت گزر رہا مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہورہا ہے اس کے عشق نے مجھے اپنا قیدی بنا لیا ہے اور میں چاہ کر بھی اس قید سے رہا نہیں ہو پا رہا ۔۔ 

میں اسے تکلیف میں دیکھوں تو میرا اندر جل اٹھتا ہے جو اس نے تمہارے ساتھ کیا میں اس کی طرف سے تم سے معافی مانگتا ہوں ۔۔ " میں میرب رحمن کو ہر اس زخم سے رہائی دینا چاہتا ہوں جو اس میری وجہ سے ملے وہ بے بسی سے بول رہا تھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں پر اس نے بڑی مہارت سے اپنے اشک ضبط کرتے ہوۓ دبارہ سے انہیں اپنے حلق میں اتارا ۔

مسٹر عباد تم میرب رحمٰن کے مجنوں ہو اور میں اس کی دشمن ہوں ، سو بہت زیادہ فرق ہوتا ہے محبوب اور دشمن میں ۔۔ محبوب کو تو اپنے محبوب کی بری بات بھی بھلی چنگی لگتی ہے پر میں تو دشمن ہوں تو دشمن کو اپنا دشمن زہر سے بھی زیادہ برا لگتا ہے ۔

لہذا جیسے تمہارا دل اس کے عشق میں جل رہا ہے ویسے میرا دل میرب رحمٰن سے بدلہ لینے کے لیے جل رہا ۔

میں جانتی ہوں عشق کسی کے بس کا نہیں ہوتا یہ خود بخود مقابل کو زیر کر دیتا ہے اور میں ضرور دعا کروں گی کہ تمہیں اس عشق سے نجات مل سکے ۔ لیکن معذرت میں تمہاری بات نہیں مانوں گی ۔۔ " وہ یہ کہہ کر رکی نہیں تھی اور ٹھک ٹھک کرتی ہوئی باہر کی جانب بڑھ گئی

پر جو الفاظ  وہ کہہ رہا تھا اور جو اس نے سنے تھے وہ الفاظ ابیہا مراد کے دل کو کسی تیز آری کی طرح چیرتے گئے ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ خوبصورت سا شخص اپنے اندر اتنے طوفان لیے پھرتا ہے ۔ وہ دم بخود کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جو آنکھیں موندے اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکا چکا تھا ۔ اس کے ہر انداز سے بے بسی ٹپک رہی تھی 

ابیہا اپنے قدموں کو گھسیٹتے ہوئے اس کے ساتھ صوفے پہ جا بیٹھی ۔

عباد۔۔تتت۔۔۔تم ٹھیک ہو ۔۔ ؟ " وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ابیہا کی آنکھ سے ایک آنسو نکلتا ہؤا عباد کے  ہاتھ پہ جا گرا ۔

وہ اچانک چونک اٹھا تھا اور اپنے پاس بیٹھی اس خوبصورت سی لڑکی کو دیکھنے لگا جو چہرے پہ انتہائی معصومیت سجاۓ رونے میں مصروف تھی ۔

عباد آفندی  اس کے قریب کھسکا 

کیا ہوا ہے مس آفندی۔۔۔؟؟ " کیوں رو رہی ہو تم ۔۔ " وہ بوجھل آواز لیے بولا

کیا تم ہمیں چھوڑ دو گے ۔۔ ؟ انتہائی بےتابی سے پوچھا گیا

بلکل بھی نہیں میں پاگل ہوں جو تمہیں چھوڑوں گا تم میری بیوی ہو ۔۔ مجھے تم بے حد اچھی لگتی ہو وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پیار سے بولا میں تمہارے بغیر کچھ نہیں مس آفندی ایسا مت سوچا کرو

تت۔تو پپ۔۔پھر وہ میرب رحمٰن کون ہے۔۔۔ ؟؟ " وہ سر اٹھاتے  اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی

ابیہا مراد پھر سے اسکی دکھتی ہوئی رگ پہ  ہاتھ رکھ چکی تھی 

میرے خیال میں مس آفندی آپ سب کچھ جان چکی ہیں ، پھر دبارہ پوچھنے کا مقصد ؟؟ " وہ سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھتا ہوا بولا

نن۔۔۔نہیں ۔۔۔بب۔۔۔بس ویسے ہی پوچھا تھا ۔

مس آفندی۔۔۔!! کچھ درد اندر ہی رہیں تو بہتر ہوتا ہے کریدنے سے زخم زیادہ بڑھتا ہے وہ اس کو چھوڑتے ہوئے تھکے سے انداز میں بولا 

"٫بڑا دشوار ہوتا ہے کسی کو یوں بھلا دینا

کہ جب وہ جذب ہوجاۓ' رگوں میں خون کی مانند"

مجھے آفس کے لیے نکلنا ہے سو میرے کپڑے تیار کردو ۔ " ۔وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا فریش ہونے چل دیا 

❤️

اسلم خان آج کچھ زیادہ ہی نہیں وقت لگ رہا ۔۔ " وہ حیرانی سے گویا ہوئی 

کیا تم نے شارٹ کٹ استعمال نہیں کیا تھا ۔۔۔؟؟

نہیں بیبی جان !! وہ راستہ بلاک تھا سو اسی لیے یہ راستہ استعمال کیا ۔۔ " وہ منہ کے تاثر چھپاتا ہوا بولا

اوکے اور پلیز جلدی چلاؤ آدھا گھنٹہ ہو چکا ہے مجھے لیٹ ہورہا ہے ۔۔ " میرب رحمن پریشانی سے گویا ہوئی

ٹھیک ہے بیبی جان ۔۔ !! 

افففف ،، اب یہاں تو کنکش بھی نہیں آرہے  کیا کروں ۔۔ " وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہوئی پر جیسے ہی اس نے باہر دیکھا وہ سنسان راستہ تھا جو اسے خوف میں مبتلا کرگیا ۔۔ 

جہاں اسے کوئی بھی ذی روح نظر نہیں آرہا تھا میرب خوف کے زیر اثر چیخی تھی 

 اسلم خان گاڑی واپس گھر کی جانب موڑ دو ۔ " وہ کانپتے ہوئے لہجے میں بولی

اب ایسا نہیں ہوسکتا ہم کافی دور نکل چکے ہیں ۔۔

میں نے جتنا کہا ہے اتنا کرو گاڑی واپس موڑو ۔۔ " وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے انتہائی طیش کے عالم میں  بولی

اچانک اسلم خان نے گاڑی روکی اور اپنا منہ پیچھے کی جانب موڑا

بیبی تم بہت بولتی ہو اور تمہارا منہ بند کرنا ہی ہوگا کچھ سکینڈ ہی لگے تھے وہ منہ کھولتی پر اسلم خان بڑی مہارت سے اس کے منہ پر کلوروفارم سے بھرا ہوا رومال رکھ چکا تھا

اسلم خان کا مکرو چہرہ اس کی نظروں میں گھوما تھا اور پھر کچھ ہی سکینڈ میں وہ چکراتے ہوۓ   سر کے ساتھ سیٹ پر لڑکھڑا گئی

جاری ہے

#Ishq_bedardi

#Rohe_Rehma

#Episode_no_24+25

اسلم خان نے اس کے بتاۓ ہوۓ ٹھکانے پہ پہنچتے ہی سحرش آفندی کو کال ملائی تھی ۔۔

دوسری طرف سپیکر میں سحرش کی رعب دار آواز گونجی ۔

کیا بکواس کرنی ہے جلدی بکو ۔۔ ؟ " 

بیگم صاحبہ کام ہوگیا ہے ۔۔ 

اووو ،،، گڈ ۔۔ اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔

اس منحوس کو اندر لے جاؤ میں راستہ میں ہوں بس تھوڑی ہی دیر لگے گی پھر جلد ہی میرب رحمٰن کا کام ختم کرتی ہوں ۔۔ " اس کا تلخی سے بھرپور قہقہہ سپیکر میں گونجا ۔۔

جی بیگم صاحبہ ۔ !! اسلم خان فون بند کرتے ہی میرب کو کندھے پہ اٹھاۓ سامنے بنے سنسان کمرے نما کال کوٹھری کی جانب بڑھا جہاں آبادی کا کوئی نام ونشان بھی نہیں تھا

 وہ جلد از جلد اس کمرے میں داخل ہؤا اور میرب کو زور سے زمین پر پٹخ کر دروازہ بند کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا

❤️

عباد آفندی کہ دماغ میں بس ایک ہی بات گھوم رہی تھی آخر سحرش دوبارہ کچھ الٹا سیدھا نہ کردے ۔۔ " وہ جلد از جلد اس کے پاس جانا چاہتا تھا 

ابیہا عباد آفندی کو بغور دیکھ رہی تھی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے ہوۓ اسے کسی سوچ میں گم لگا ۔

عباد آفندی تم میرے پاس ہو کر بھی میرے پاس نہیں ہو۔۔ " وہ تاسف سے سوچ کر رہ گئی تھی اس کی زندگی میں وہ پہلا مرد تھا جیسے اس نے اپنے دل وجان سے چاہا تھا پر افسوس وہ اس کا ہوتے ہوئے بھی اس کا نہ تھا

ابیہا ٹائی لیے اس کی جانب بڑھی ۔

یہ پکڑیں ہم بریک فاسٹ لاتے ہیں آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ابیہا کا لہجہ عباد آفندی کے لیے فکر سے بھرا پڑا تھا ۔

وہ حیران ہوا تھا آخر یہ لڑکی اسے کتنے جھٹکے اور دے گی  ابیہا مراد کو اس کی کبھی  پروا نہیں ہوئی تھی  اور آج وہ اس کی فکر میں ہلکان ہوۓ جارہی تھی ۔

آخر کیوں۔۔۔۔؟؟ کیا اس کی کوئی چال ہے کیا وہ مجھ سے بدلہ لے رہی ہے۔۔۔؟؟ بہت سے سوال اس کے دماغ میں گڈ مڈ ہوۓ جس کا جواب لینے وہ اس کی طرف بڑھتا ہوا اس کے انتہائی قریب آیا .

میں ٹائی نہیں پہنتا مس آفندی میرا دم گھٹتا ہے سو میں ایس خرافات سے کوسوں دور ہی رہنا پسند کرتا ہوں ۔۔ " وہ اس کے قریب ترین آتے ہوۓ بولا جیسے ہی Gucci guilty کی خوشبو ابیہا کے نتھنوں میں گھسی  قبل کہ وہ اس کی قربت میں مدہوش ہوتی اس نے جلد ہی  اپنے حواس بحال کیے اور اپنے آپ کو سنبھالتے ہوۓ باہر کی جانب بڑھی پر اچانک عباد نے اس کی کلائی کو نرمی سے جھٹکا دیا تھا وہ اس کے سینے سے آلگی  اور اچانک عباد نے ابیہا مراد کی نازک سی کمر پر اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت تنگ کردی تھی ۔

آپ کہاں چلی مس آفندی ۔۔ !! " ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی ۔۔ " وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا بوجھل آواز لیے بولا

جو اس کے سینے پہ سر رکھے کہیں کھو سی گئی تھی اس کی آغوش میں اسے سکون مل رہا تھا جو کافی دنوں سے اسے ملنے نہیں پا رہا تھا ۔

مس آفندی کیا ایک سوال پوچھوں۔۔۔۔؟؟ پر مجھے درست جواب چاہیے ۔۔ ابیہا نے  اثبات میں سر ہلانے پہ ہی اکتفا کیا ۔۔

کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے یہ کوئی بدلہ لے رہی ہو سوال اچانک پوچھا گیا تھا جو مقابل کے دل پر وار کرگیا ۔۔ " وہ جھٹکے سے اس سے دور ہوئی تھی اس کی آنکھیں وحشت لیے ہوئے تھی ۔۔ یہ بات اسے بھڑکا گئی تھی

واہ ،، مسٹر عباد آفندی !!  کیا کہنے تمہارے ، اگر تم جیسے شخص سے ہمیں محبت نہ ہوتی تو ہم اپنا آپ تمہیں کبھی نہ سونپتے ، خیر دوسری طرف مجھے اپنے دل پر بھی بہت افسوس ہے جو ہر بار تم جیسے گھٹیا شخص کی قربت کا دیوانہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے ۔ تف ہے ، تمہاری سوچ پر مسٹر آفندی کیا تمہیں میری محبت بدلہ لگ رہی ہے ، ہر ایک کو اپنے جیسا نہیں سمجھا کرو ۔۔ " وہ نخوت سے کہتے ہوۓ ہچکیوں کی زد میں آئی ۔

عباد آفندی دراصل تمہارا کوئی قصور نہیں ،، تمہارے اس دل میں میرا نہیں میرب رحمٰن کا ڈیرا جما ہوا ہے وہ اس کے دل پہ اپنی انگشت انگلی رکھتے ہوۓ بولی ، جس کا عشق تمہیں منفی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے تم میرے پاس ہوتے ہوئے بھی میرے پاس نہیں ہوتے ۔۔ اور یہ چیز میرے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ۔۔ وہ یہ کہتے ہی اس سے دور ہوئی ۔

مجھے اچھا لگا تمہارے پیار کرنے کا اظہار مس آفندی !! وہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہوا شریر لہجے میں بولا جو اسکی گرفت میں اب مچل رہی تھی

چھوڑو ہمیں گھٹیا انسان ۔۔ وہ اس کے سینے پہ اپنے دونوں ہاتھوں سے وار کرتے ہوئے چیخی ۔

یار سوری میں تمہیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا یقین کرو مس آفندی ، میرب رحمٰن میرا ماضی تھا میں اسے بھولنے کی بھرپور کوشش میں لگا ہؤا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ تمہاری محبت مجھے اس کے عشق سے رہا کردے گی وہ کہتے ہوئے اس پہ جھکا اور اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ گیا ۔

میرے لیے پوری دنیا تم ہو ۔ اس دنیا کے آگے تمہارے بغیر کوئی چیز نہیں وہ اس کے خوبصورت سے اظہار پر شرما سی گئی تھی اور محبت سے اس کے سینے میں اپنا سر چھپا گئی 

❤️

جب سے وہ گھر آیا تھا میرب اسے کہیں بھی نہیں دیکھائی دے رہی تھی وہ حیران ہوا وہ کھانے پر بھی نہیں آئی تھی اچانک آبان اس کے کمرے کی جانب بڑھا پر کمرا ہنوز خالی پڑا ہوا تھا وہ پریشان ہوتا ہؤا باہر کی جانب بڑھا

رحیم بابا اسلم خان کہاں ہے ۔۔ ؟؟ وہ چوکیدار کو آواز لگاتے ہوئے پریشانی سے گویا ہوا

بڑے صاحب وہ چھوٹی بیبی جی کو یونی چھوڑنے گیا تھا پر ابھی تک واپس نہیں آیا اس وقت تو میرب بیبی  واپس گھر آجاتی ہیں ۔۔ " ہم کب سے پریشان ان کی راہ تک رہیں ہیں پر وہ ابھی تک نہیں آئیں

آبان کا دل زور سے گھبرایا تھا۔

نن۔۔۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں  راستے میں کچھ پرابلم ہوگئی ہوگی ۔۔ میں دیکھتا ہوں وہ اپنے دل کو تسلی دیتا ہوا   گاڑی کی جانب بڑھا اور گاڑی تیزی سے یونیورسٹی کے راستے پر بھگانے لگا ۔

❤️

جیسے ہی سحرش آفندی اس کمرے میں داخل ہوئی تو میرب رحمٰن کو دیکھا جو زمین پر بےسدھ پڑی تھی ۔

چچ۔۔چچ۔۔۔بچاری وہ اس کے قریب بیٹھی اور اس پر زور سے پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے بولی جو آہستہ آہستہ بیدار ہورہی تھی جیسے ہی وہ مکمل بیدار ہوئی اس نے اپنے سامنے سحرش کو بیٹھے ہوئے پایا جو نخوت سے اسے گھورنے میں مصروف تھی ۔

ایک پل کے لیے میرب  چونکی تھی اور جیسے ہی کھڑی ہونے کے لیے اٹھی تھی کہ اچانک سحرش نے اسے دوبارہ واپس زمین پر دھکا دیا 

نہ۔۔۔نہ۔۔میرب رحمٰن ایسی غلطی مت کرنا بہت زیادہ غلطیاں تم پہلے ہی کر چکی ہو جس کا خمیازہ آج تم بھگت رہی ہو ۔

میرب رحمٰن تم وہ عورت جس سے میں نے اپنی زندگی میں شدید ترین نفرت کی تم نے مجھ  سے میری محبت کو چھین لیا میرے بھائی کو چھین لیا ، تمہاری وجہ سے آبان حیدر نے مجھے چھوڑ دیا ۔

تم میرے راستے میں  کسی دیوار کی مانند آئی ہو سو اب  اس دیوار کو توڑنا بے حد لازم ہوگیا ہے اور میں اب اسے ضرور توڑوں گی ، اور پھر اس دفعہ دل پر ہاتھ رکھنے کی باری میری نہیں بلکہ آبان اور تمہارے عاشق کی ہوگی ۔

میں تمہیں جہنم رسید کر کے ہی رہوں  گی اور ان لوگوں کو تکلیف دوں گی جنہوں نے مجھے تکلیف دی اور ہاں وہ تمہاری تکلیف میں تڑپ اٹھے گے اور پھر میرے دل کو سکون محسوس ہوگا جو کب سے ملنے ہی نہیں پارہا ۔۔ " وہ پاگلوں کی طرح قہقہہ پر قہقہہ لگاتے ہوئے بولی 

میرب رحمٰن اس کو ہونقوں کی مانند تک رہی تھی وہ صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی  پر اس کا نازک دماغ اس کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا ۔ سحرش آفندی تم کیا بول رہی ہو۔۔۔؟؟ میں تم سے کیوں تمہارا بھائی چھینوں گی ۔۔ ؟؟ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور دوسری بات آبان تمہارا ہوتا تو وہ میرے پاس کبھی نہ آتا ۔۔ " وہ نقاہت سے بات کرتے ہوئے بولی

شام کا اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا یونی سے بھی میرب کا کچھ نہیں پتہ چلا تھا وہ تھکا ماندا گھر واپس لوٹ آیا تھا

جھپک سے اس کے دماغ میں  ماریہ کا خیال آیا جو کہ میرب کی دوست تھی اس نے فوراً ماریہ کا نمبر اپنے فون پر ڈائیل کیا

دوسری طرف بیل جا رہی تھی اور آبان بے تابیِ سے فون اٹھانے والے کا انتظار کر رہا تھا

ماریہ کی آواز سپیکر میں نمودار ہوئی جو کہ انجان نمبر دیکھ کر تھوڑا سا پریشان ہوئی

اسلام علیکم۔۔۔ میں آبان حیدر میرب کا شوہر  بات کررہا ہوں وہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے بے چینی سے گویا ہوا

جی فرمائیے  ۔ " وہ اس کے سلام کا جواب دیتے ہوۓ بولی

کیا میرب آج یونیورسٹی آئی تھی ۔

نہیں وہ آج چھٹی پر تھی ۔ کیوں کیا ہؤا۔۔۔؟؟

وہاٹ ۔۔ ؟؟ آبان چیخا تھا 

خیریت ؟؟ مسٹر آبان حیدر !! " وہ اس کے چیخنے پر پریشان ہوئی

میرب یونی گئی تھی پر اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ۔ اس کے دماغ میں ایک ہی خیال تھا وہ اسلم خان کا تھا آخر اسلم خان بھی غائب ہی تھا وہ بھلے ایسے کیوں کرے گا آبان کا دماغ چکرا کر رہ گیا تھا ۔

چلیے مس ماریہ !! میں پولیس کو انفارم کرتا ہوں ۔۔ " وہ کرب سے بولا تھا 

ابھی وہ فون رکھنے ہی والا تھا کہ دوسری طرف سے سپیکر میں دوبارہ سے ماریہ کی آواز گونجی تھی ۔

دیکھیے مسٹر آبان ! میں ایک شخص کو جانتی ہوں پر میں وثوق سے نہیں کہہ سکتی کہ وہ اس شخص نے کیا ہے لیکن جہاں تک میرا اندازہ ہے اس شخص نے ہی میرب رحمٰن کو کڈنیپ کروایا ہوگا کیونکہ وہ بہت دفعہ اسے دھمکیاں بھی دے چکا تھا ۔ میرب آپکو بتانا چاہتی تھی پر شاید آپ اس کی بات پہ یقین نا کرتے سو وہ پھر بتا نہیں پائی ۔

"آہ" یہی تو میری غلطی تھی کہ میں اپنی محبت پر بھروسہ نہیں کر پایا جو شاید محبت میں بہت ضروری ہوتا ہے اور آج میرے ہی شک نے مجھے الجھا کر رکھ دیا ہے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا ۔ کاش میں ایک دفعہ تو میرب رحمٰن پہ بھروسہ کرتا تو شاید وہ کبھی بھی مجھ سے دور نہ ہوتی ۔۔ "  وہ تاسف سے سوچ کے رہ گیا

آپ مجھے اس کا نام بتائیں ؟ وہ میرے ہاتھوں نہیں بچ پاۓ گا بہت برا حال کروں گا میں اس کا ۔۔ " وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوۓ بولا 

ماریہ نے جو نام اس کو بتایا تھا وہ اسکو شاکڈ میں مبتلا کرگیا تھا ۔ اس کے دماغ میں بس ایک ہی نام گردش کر رہا تھا وہ تھا عباد آفندی کا ۔۔

اس نے ماریہ  کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سلسلہ منقطع کردیا

آج اسے جھٹکے پر جھٹکے لگ رہے تھے آخر سحرش نے جو کچھ کہا تھا وہ اس نے کرہی دیا پر جس نے کیا تھا وہ ایسا نہیں تھا سحرش کے توسط آبان حیدر کی عباد آفندی سے دو ملاقاتیں ہوئی تھیں لیکن وہ اسے انتہائی شریف لگا تھا 

اسے یقین نہیں آرہا تھا کیا عباد آفندی بھی ایسا ہوسکتا ہے آخر اس کی میرب رحمٰن سے کیا دشمنی ہوگی۔۔۔؟؟ کیا سحرش عباد آفندی کے توسط کروا رہی ہے یہ کام۔۔۔؟؟ کیا وہ ایڈیٹس بھی سحرش نے بھجوائی تھی ۔۔۔؟؟

اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا ۔

آخر کیوں ایسا کررہے ہو تم دونوں ۔۔ "  وہ چیختا ہوا بولا 

کیوں میری میرب کو مجھ سے چھین رہے ہو وہ پاس پڑی چیزیں غصے سے دیوار پر مارتا ہوا بولا تم دونوں میرے اور میرب کی راہ میں حائل ہوۓ ہو 

تم بھول چکے تھے کہ تم لوگ آبان حیدر سے پنگا لے رہے ہو تم دونوں میرے عتاب سے نہیں بچ سکتے ۔۔ "  وہ فون پر کوئی نمبر ملاتا ہؤا باہر کی جانب بڑھا

❤️

مس آفندی دروازہ لاک کرو ۔۔ " وہ ابیہا کو آواز لگاتے ہوئے بولا جو کہ جلدی میں تھا 

اوکے مسٹر !!  تم جاؤ ہم آرہیں ہیں ۔۔ " وہ اسے چڑھاتے ہوۓ بولی

مس آفندی !! تم کبھی باز نہیں آؤ گی وہ منہ پر مضوعی ناراضگی سجاۓ اسے گھورتا ہوا بولا

بھلے ہم کیوں باز آنے لگے یہ ہمارا کام ہے اور تم ہمارے پیارے سے شوہر ہو تو ہم تمہیں نہیں تو پھر کس کو تنگ کریں گے وہ منہ بسورتے ہوۓ بولی 

ہاہاہاہاہاہا ،، اچھا ٹھیک ہے کرلیا کرو وہ اس کی طرف مسکراہٹ اچھالتا  باہر کی جانب بڑھ گیا

جیسے ہی وہ گاڑی کی جانب بڑھا اچانک سے اس کا فون چیخ اٹھا جو وہ بالکل اٹھانا نہیں چاہتا تھا پر پھر بیزاری سے کال اٹینڈ کرگیا آیا کہ کوئی ضروری کال نہ ہو ۔

دوسری طرف سے انتہائی غصے میں سلامتی بھیجی گئی تھی ۔۔ "  وہ حیران ہوا 

کیسے ہو عباد آفندی۔۔۔ ؟؟ میں آبان حیدر بول رہا ہوں ۔

پہچانے مجھے ؟؟ اووو۔۔۔میرا خیال نہیں ۔۔ میں سحرش کا ایکس بول رہا ہوں ۔

مقابل کو اس کا لہجہ بھڑکا ہی تو گیا ۔

مسٹر آبان !! میں آپ کو جانتا ہوں سو آپکو تعارف کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ " وہ غصے سے بولتا ہؤا گاڑی میں جا بیٹھتا 

آخر میں وجہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے میرب سے کیا لینا ہے آخر کیا دشمنی ہے آپکی کیوں کروایا میرب کو کڈنیپ ۔۔ " وہ غصے کی ہر حد پار کرتا ہوا چیخا ۔

جس کا عباد آفندی کو ڈر تھا وہی ہؤا تھا اس کا دل ایک پل کے لیے زور سے دھڑکا تھا

 آخر تم اتنا غصہ کیوں کر رہے ہو تسلی سے بھی بات ہوسکتی ہے تم پلیز بات کو سمجھنے کی کوشش کرو میں بھلے یہ کیوں کروں گا مجھے بہت افسوس ہے کہ تم بات کی گہرائی تک نہیں پہنچتے اور مقابل پہ چیخنا شروع ہو جاتے ہو ۔ کیا تم یقین سے کہہ سکتے ہو کہ یہ کام میں نے ہی کیا ہے ۔۔۔ "  وہ سوالیہ انداز لیے بولا تھا

میں نہیں جانتا پر تم سحرش کے بھائی ہو اور تم میرب کو دھمکیاں بھی دے چکے ہو آخر  بات سے کیوں مکر رہے ہو مسٹر عباد !! " وہ بھڑکا تھا

ہاں میں نے دھمکی دی تھی  اور میں نے اپنی غلطی پر  مس میرب رحمٰن سے معذرت بھی کی تھی ، کیونکہ میں سیدھے راستہ سے بھٹک چکا تھا اور  کچھ شیطان کے  بہکاوے میں بھی آگیا تھا لیکن خدا نے مجھے جلد ہی سیدھی راہ پر ڈال دیا اور اب میں اپنے رب کا شکر گزارا ہوں ۔

اور باقی جو کچھ بھی کیا ہے وہ سحرش نے کیا ہے یہاں تک کہ وہ تصاویر بھی تمہیں سحرش نے ہی بجھوائی تھی وہ سب کچھ تمہاری وجہ سے کررہی ہے تم جانتے ہو وہ بہت ضدی ہے میں کافی دفعہ اسے منع کر چکا ہوں پر وہ باز نہیں آرہی لیکن اگر تم چاہتے ہو وہ میرب کو نقصان نہ پہنچاۓ تو ہمیں جلد از جلد اس تک پہنچنا ہوگا ۔۔۔ " وہ پریشانی سے گویا ہوا

آبان کو اپنے سارے سوالوں کے جوابات مل چکے تھا وہ سحرش کی دھمکی کو بھولے نئی زندگی کی شروعات کرچکا تھا پر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی آنے والی زندگی میں کتنا بڑا طوفان رونما ہونے والا ہے 

تم پلیز اسے فون کرو وہ کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دے میرا نمبر اس نے  بلاک کیا ہوا ہے ۔۔ "  اس کے لہجے میں بے بسی ہی بے بسی تھی اس کی آواز اذیت سے بھرپور تھی جبکہ مقابل کا بھی حال اس سے کچھ کم نہ تھا ۔

میں اسے فون کرتا ہوں اگر نمبر ٹریک ہو  جاتا ہے تو بہت فائدہ ہوگا اور نقصان ہونے سے بچ جاۓ گا ۔۔ " وہ سنجیدگی سے بولا

اووو ،، تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہاں میں سمجھی تھی کہ شاید آبان وہ تصاویر دیکھ کر تمہیں ضرور طلاق دے کر گھر سے  دفعان کردے گا۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا 

میرے اس دل پر انگارے دھک رہیں ہیں مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے میرب رحمٰن !! میں نے آبان سے محبت کی تھی اس نے مجھے محبت میں دھوکا دیا اور اس کی قصور وار صرف تم ہو اگر تم ہماری زندگی میں نہ آتی تو شاید وہ مجھے نہ چھوڑتا ۔۔ " وہ چیخ چیخ کر بین کرتے ہوئے اس کے قریب آئی تھی ۔

 تم پہلے سے ہی آبان حیدر کو اپنی جانب راغب کرچکی تھی وہ نہ چاہ کر بھی تمہارے ہوتے ہوئے میرے پاس  کبھی بھی واپس نہیں لوٹ سکتا تھا ۔کیونکہ تم اپنا جادو اس پر چلا چکی تھی

 جیسے تم نے عباد آفندی کو مجھ سے چھین لیا تم جانتی ہو وہ میرا اکلوتا بھائی تھا وہ میری کسی بھی بات کو نہیں ٹالتا تھا ، جو میں کہتی تھی وہ آنکھیں بند کیے کرتا ہی چلا جاتا تھا ، چاہے وہ کتنا بھی مشکل کام کیوں نہ ہو ، پر وہ مجھے  انکار نہیں کیا کرتا تھا 

پر افسوس کہ وہ تمہارے جانسے میں آگیا تم سے عشق کر بیٹھا اور مجھے تمہارے ہی راستے سے ہٹانے کے لیے چالیں چلنے لگا ہاں اب بھی شاید وہ تمہیں ڈھونڈ رہا ہوگا ، کیونکہ بہت فکر ہے اسے تمہاری ۔۔ 

وہ تمہاری خاطر کسی کی جان لے بھی سکتا ہے اور دے بھی سکتا ہے ۔۔ " وہ ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ لیے درد سے مسکرائی تھی

میرب شاکڈ تھی عباد آفندی کا رویہ اسے آج سمجھ میں آیا تھا  آخر وہ اس قدر نرم رویہ کیوں اپناۓ ہوۓ ہوتا تھا آہ عباد آفندی تم غلط راستے کے مسافر بن چکے ہو جس منزل تک پہنچنا ناممکن ہے تم اپنے دل کے ساتھ کھیل رہے ہو تم اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہو آخر جو تمہارا ہے ہی نہیں تم اس کے پیچھے بھاگ رہے ہو اور شاید تم کبھی بھاگتے بھاگتے کسی انجان راہ پر بھٹک جاتے ہو جہاں سے تمہیں اپنا آپ موڑنا انتہائی دشوار سا لگے گا اور تم چاہ کہ بھی اپنے آپ کو موڑ نہیں پاؤ گے ۔۔ " وہ تاسف سے سوچ کے رہ گئی تھی

 اور وہ ہ بھی جان چکی تھی کہ وہ بے قصور تھا پر وہ ہمیشہ اسے ہی غلط کہتی آئی تھی جبکہ وہ اف تک نہیں کرتا تھا اور سحرش کا ہر  الزام آپنے سر لے لیتا تھا

 آخر یہ سب سحرش آفندی نے ہی کیا تھا آخر یہاں تک کہ وہ بہودہ ایڈیٹس بھی ۔۔۔ وہ اس سے آبان کا بدلہ لے رہی تھی

 میرب پر آج حقیقت کی پرتے کھل کے رہ گئی تھیں جو اس کے دماغ کو مفلوج کرنے کے لیے کافی تھی آیا کوئی اس قدر بھی گھٹیا ہوسکتا ہے وہ اسے کسی سائیکو سے کم نہیں لگ رہی تھی  میرب کا دل کیا کہ اس پاگل لڑکی کے ایک گھما کر مار دے جو کافی ڈھیٹ واقع ہوئی تھی

مس سحرش آفندی !! اب تم مزید اپنی گھٹیا بکواس بند کرو جتنا تم نے گھٹیا بولنا تھا وہ تم بول چکی ہو اور ایک بات یاد رکھنا تم ایڑی چوٹی کا بھی زور لگا لو پر تم میرب رحمٰن کو آبان حیدر سے کبھی بھی جدا نہیں کر پاؤ گی یہ تمہاری غلط فہمی ہے کہ تم مجھے مار دو گی اور آبان کو حاصل کرلو گی کچھ زیادہ ہی خوش فہمی ہے تمہیں ۔۔۔ "  وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے  اس کو نخوت سے گھورتے ہوئے اس پر طنز کے تیر اچھالتے ہوئے بولی تھی

 افسوس تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا میرے خیال میں تمہارے دماغ کا ایک پرزہ ڈھیلا ہے سو بس اگر تم اس کو تھوڑا سا ٹائٹ کروا لو گی تو کچھ ایسی حرکتوں سے باز آجاؤ گی ۔جو تمہیں پاگل بناۓ ہوۓ ہیں ۔۔ " وہ اسے زچ کرتے ہوئے بولی تھی اور مقابل تپ کے رہ گیا تھا

کیا تم۔۔تم مجھے پاگل بول رہی ہو ۔۔ " سحرش حیرت سے گنگ ہوئی

ہاہاہاہا ،، میرے مقابل تم ہی تو ہو تمہیں ہی بولوں گی ناں ! میرب ڈھٹائی سے بولی تھی 

تمہیں میں نہیں چھوڑوں گی ۔۔  سحرش نے غصے سے پستول اس کی کنپٹی پر تان دی

میرب اندر سے کانپ کر رہ گئی تھی پر اس نے مقابل پر اپنا ڈر واضح نہیں ہونے دیا تھا اگر وہ ہلکا سا بھی ڈر جاتی تو  مقابل اسے زیر کرنے میں تھوڑی سی بھی دیر نہ لگاتا سو وہ خامشی سے بہادر بنی اپنے ڈر کو اندر ہی اندر ضبط کرگئی تھی ، کیونکہ اس سائیکو سے کسی بھی قسم کی کوئی بھی نرمی کی توقع رکھنا فضول تھا ۔۔ " جو اب اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے میں مصروف تھی

موت کے آگے تو شیر نر بھی کانپ جایا کرتی ہے میرب رحمٰن !! تو پھر آخر تم کیا چیز ہو ؟؟ وہ زور سے قہقہ لگاتے ہوۓ ٹریگر پت اپنی انگلی رکھ چکی تھی اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتی ، کوئی بہت ہی پھرتی سے اندر داخل ہوا تھا اور وہ آنے والی ہستیوں کو دیکھ کر دم بخود رہ گئی تھی

"آہ" وہ آگئے تھے اسے بچانے اور آۓ بھی دونوں ہی تھے وہ ہار چکی تھی وہ جانتی تھی وہ یہ نہیں کر پاۓ گی تبھی اس نے اپنے ہاتھ ہار کر بے بسی سے اپنے پہلو میں گرا لیے

وہ عباد آفندی کی آنکھوں میں دیکھ چکی تھی جہاں صرف ایک التجاء تھی ہاں اس نے میرب رحمٰن کو بخش دیا تھا صرف اپنے بھائی کے لیے جو اس پر کبھی کبھی تو اپنی جان بھی وار دیا کرتا تھا

جیسے ہی میرب رحمٰن کی آبان پر نظر پڑی وہ بھاگتے ہوئے اس کی بانہوں میں سما گئی تھی میرب ضبط ہار چکی تھی اور آبان کے گلے لگی پھوٹ پھوٹ کے رو دی اور وہ اسے کسی قیمتی جان کی طرح اپنے اندر سمو گیا تھا ۔

عباد سحرش کی طرف بڑھا تھا جو ہونقوں کی مانند منہ اٹھاۓ آبان حیدر اور میرب کو تک رہی تھی جو ایک دوسرے میں کھوۓ ہوۓ تھے ۔ اس کا دل چکنا چور ہوچکا تھا وہ اس منظر کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی آبان حیدر تم نے یہ اچھا نہیں کیا تم نے مجھے دھوکا دیا ۔۔ " وہ زور سے چیختے ہوئے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی

عباد کا دل اس  دلخراش چیخ سے پھٹ پرا تھا  وہ اس کو دلاسہ دینے اس کی جانب بڑھا آخر کچھ بھی تھا وہ اس کی بہن تھی وہ بے جان سے زیادہ عزیز ۔۔ !

تم... دونوں نے مجھے تڑپایا ہے اور میں جیتے جی تم دونوں کا سکون نہیں دیکھ سکتی وہ آبان اور میرب کے قریب آتے ہوۓ پستول اپنے کنپٹی پہ رکھ چکی تھی ۔

تم تم کیا کررہی ہو سحرش ۔۔ ؟؟ یہ مت کرو آبان بوکھلاہٹ کا شکار ہوا اور میرب کو چھوڑے اس کے قریب ہؤا ، لیکن اس پر بےحد جنون سوار ہوچکا تھا

 اچانک عباد چیختا ہوا اندھا دھن اس کی طرف بھاگا تھا پر پستول سے نکلتی ہوئی گولی اپنا اثر دیکھا چکی تھی وہ دھڑام سے آبان کے قدموں میں گری تھی آبان اس ضدی لڑکی کی طرف جھکتا ہی چلا گیا تھا

شاید کیا اس کے بھاگنے میں وقت زیادہ لگ گیا تھا یہ آیا ظلم وقت نے کچھ زیادہ ہی جلدی کردی تھی ۔۔۔۔۔؟؟

وقت بھی کبھی کسی کہ ۔۔ ہاتھ آیا ہے آہ یہ ظلم وقت ایک منٹ میں چکما دیے مقابل کی دنیا تہس نہس کیے اپنے پیچھے درد ناک چیخے چھوڑے ، بے دردی سے گزر چکا تھا

عباد کی حالت دیکھتے ہی میرب کا ایک آنسو زمین پر کہیں گم سا ہوگیا تھا ۔

بس ایک شخص تھا جو پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔

اپنی بہن کی میت پر بین کر رہا تھا وہ اسے روتا ہوا دیکھ رہی تھی جو ہر چیز سے بے نیاز خون سے لت پت سحرش کو اپنی گود میں لیے اس کو واپس بھولا رہا تھا جیسے کبھی واپس نہیں آنا تھا 

پاس بیٹھا آبان اسے  اپنے ساتھ لگاۓ دلاسہ دے رہا  تھا جو اب روتے ہوئے سکتے کی کفیت میں جاچکا تھا 

بس کچھ لوگ محبت تو کرتے ہیں پر اس محبت کو اپنے سر پر کسی جنون کی مانند سوار کرلیتے ہیں اپنی ضد بنا لیتے ہیں اور یہی حال سحرش آفندی کا ہوا تھا وہ اپنی ضد میں ہار چکی تھی اور اپنی ہی جان کی دشمن بن گئی تھی

❤️

سحرش کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک ہفتہ بیت چکا تھا ۔آفندی صاحب پر تو گویا سکتا طاری ہوچکا تھا جو اپنے لبوں پر خامشی سجاۓ وقت کے گزر جانے کا انتظار کرتے رہتے 

 اور دوسری طرف فاریہ بیگم کو فالج کا اٹیک ہوا تھا اور زبان بھی گویا بولنے سے محروم ہوچکی تھی ۔ ابیہا میں ان تینوں کی حالت برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی تھی وہ جب سے آفندی ہاؤس آئی تھی اسے سب ایک دوسرے سے کھینچے کھینچے سے نظر آۓ تھے ۔

ان مکینوں کا دکھ بہت بڑا تھا اور اس کا دلاسہ ان کے آگے  بہت چھوٹا سا پر جاتا تھا پر وہ ایک عزم سے اپنے اندر ایک پختہ ارادہ لیے اٹھی تھی ، وہ ان کو ضرور دوبارہ ہنستی کھیلتی زندگی کی طرف لاۓ گی جو ان سے روٹھ گئی تھی ۔۔

لوگ کہتے ہیں وقت گزرتا ہے تو صبر آہی جاتا ہے پر ایسا نہیں ہوا تھا آفندی ہاؤس کا ایک بھی مکین اس حادثہ کو آج تک نہیں بھولا پایا تھا ہاں کچھ حادثے بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ بے دردی سے روحوں کو جسم سے نوچ لے جاتے ہیں یہ حادثہ بھی آفندی ہاؤس کے مکینوں کو پتھر کی مورت بنا گیا تھا ۔ آہ جس گھر میں کبھی خوشیوں کے شادیانے بجا کرتے تھے آج اسی گھر کو ویرانیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔

ڈیڈ کھانا لگ چکا ہے کھانا کھا لیں ابیہا آفندی صاحب سے مخاطب ہوئی تھی جو محویت سے کسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے ۔

بس کچھ دل نہیں کررہا ابیہا بیٹا !! " وہ بیزاری سے گویا ہوۓ

 ڈیڈ بکل بھی نہیں ۔۔ آج ہم نے اپنے ہاتھوں سے کھانا ںنایا ہے آپکو کھانا ہی پڑے گا ۔۔ " وہ دو ٹوک لہجے میں گویا ہوئی

اووو،،ماشاءاللہ ہماری بیٹی نے کھانا بنایا ہے تو ہم ضرور کھائیں گے ۔۔ "  وہ بشاشت سے بولتے ہوئے کتاب بند کیے ، اس کی طرف متوجہ ہوئے

آپ چلیے ہم ابھی آتے ہیں ۔۔ " وہ ریک میں کتاب رکھتے ہوئے بولے

تھینکس ڈیڈ !! ابیہا ان کی طرف خوبصورت سی مسکراہٹ اچھالے باہر کی جانب بڑھ گئی

❤️

وہ  میرب کو سوچنے میں مصروف تھا جو کب سے اسے نظر انداز کیے ہوۓ تھی وہ اسے منانا چاہتا تھا پر وہ اسے دیکھ کر  اپنے کمرے میں بند ہو جاتی تھی اور جب وہ سو جاتا پھر کمرے سے باہر نکلتی کئی دن سے وہ کمرے میں بھی نہیں آئی تھی جس کی وہ شدت سے کمی محسوس کررہا تھا اور غصب تو یہ تھا کہ اب تو نیند بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور رہتی تھی جو شاید میرب کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے روٹھ سی گئی تھی  ۔۔ پتہ نہیں اس لڑکی کو منانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑنے ہیں جو ہاتھ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔ " آبان کچھ سوچتے ہوۓ میرب کے کمرے کی جانب بڑھا

وہ جانتا تھا کہ دروازہ لاکڈ ہی ہو گا جونہی اس نے دروازے پہ دستک دینے کے لیے باتھ بڑھایا تھا کہ اچانک دروازہ جھٹکے سے وا ہوتا چلا گیا

میرب جو کچن کی جانب پانی لینے کے ارادے سے باہر آئی تھی آبان کو دروازے پر ایستادہ دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے چونکی تھی۔ 

آپ..۔یہاں پر کیا کر رہے ہیں ۔۔ ؟؟ " وہ سپاٹ لہجے میں گویا ہوئی

اپنی روٹھی ہوئی بیوی کو منانے آیا ہوں وہ پیار سے بولتا ہؤا اسے پرے ہٹاتا ہوا اندر کی جانب بڑھا

وہ حیرت سے گنگ کھڑی اس کی دلیری کو دیکھ رہی تھی جو بڑے آرام سے اسے پرے ہٹاتا ہوا اس کے ہی کمرے میں اس کے ہی بیڈ پر لات پر لات جماۓ بڑے مزے سے بیٹھ گیا تھا وہ تپ ہی تو گئی تھی اور ایک لمحہ کی تاخیر کیے بنا غصے سے بھری اس کے سر پہ جا کھڑی ہوئی ۔۔

آ۔۔۔۔آپ ابھی کہ ابھی اٹھیے اور اپنے کمرے میں جائیے ۔۔ 

" غصہ کی شدت سے میرب کی ناک کے نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے ، لیکن مقابل ہنوز چہرے پہ شوخی سجاۓ اس کے غصے سے بھرپور پھولے ہوئے چہرے کو تکنے میں مصروف تھا ۔جو کہ آبان حیدر کو انتہائی خوبصورت لگ رہا تھا ۔

آپ کو سنائی نہیں دے رہا وہ اس کے کان میں زور سے چیخی تھی ۔ 

میرو بیگم کیا آپ ہمارے کان کا پردہ پھاڑیں گی ۔۔ " وہ اس کی چیخ پر ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ کان پر ہاتھ جماۓ بولا تھا

اگر آپ کمرے سے نہ گئے تو ضرور پھاڑ دوں گی ۔۔ " وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی 

کیا کروں میرو بیگم جب سے آپ ناراض ہیں یہ کان یا آنکھیں ہم سے روٹھ سے گئے ہیں ، سننے اور سونے کی بصارت سے محروم ہوگئے ہیں ۔۔ " وہ چہرے پر بھلا کی معصومیت سجاۓ اپنے کان بند کیے مقابل کو زچ کرتے ہوئے بیڈ پہ سکون سے لیٹ چکا تھا

آپ کے پاس تو ایسی فضول باتوں کے لیے وقت ہے پر ہمارے پاس تو بلکل بھی اتنا وقت نہیں ہے کہ آپ کی چکنی چپڑی باتیں سننے بیٹھ جائیں ، خوب پیر پھسلا کر سوئیں اگر جگہ کم آن پڑی تو زمین پر بوری بستر ڈال لیجیے گا ۔

 وہ غصے کی شدت میں زور سے زمین پر پیر پٹختے ہوئے باہر کی جانب بڑھی پر مقابل بھی کسی شیر کی مانند تیز نکلا تھا جس نے ایک ہی وار سے پھوں پھوں کرتی جنگلی بلی کو جھٹکے سے اپنے برابر گرا  لیا تھا اور اس کی کمر کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے پکڑے اپنے ساتھ لگانے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کی تھی ۔

میرو یار کب تک ایسے رہو گی میں جانتا ہوں میں غلطی پر تھا میرا قصور تھا اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو میں نے کیا وہ ہرگز قابل معافی نہیں لیکن آخری دفعہ مجھے معاف کر دو ۔۔ " وہ گڑگڑایا 

میرے لیے گویا ایک پل  تمہارے بغیر گزارنا صدیوں پر محیط  ہے تم کچھ پل کے لیے میری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہو تو میری زندگی رک سی جاتی ہے ۔۔ " وہ اسکے چہرے کو چومتے ہوئے ، کچھ آوارا لٹوں کو کان کے پیچھے کرتا اس کی آنکھوں میں وارفتگی سے دیکھتا ہؤا بولا تھا 

پلیزززز ،،، بار بار مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندگی کے گھڑے میں مت دھنسائیں ، جو میری زندگی میں تھا چاہے اچھا تھا چاہے برا تھا وہ مجھے ملنا ہی تھا بس جب اپنے ہی جان سے پیارے ایک پل میں عزت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ، تو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ 

آپ جانتے ہیں اذیت کیا ہوتی ہے ؟؟ جب خود کو خود ہی صبر سے اپنی ہنسی میں سمیٹنا پڑے اور ہر وقت یہی خوف سا لگا رہے کہ کہیں یہ دنیا والے نا ہمارے دکھوں کی کھوج لگاتے لگاتے ہمارے اندر تک پہنچ جائیں یہ ہوتی ہے اذیت ۔۔

  آپ کہتے تھے میں اپنی میرب کی آنکھ میں ایک آنسو نہیں دیکھ سکتا پر آپ نے مجھے وہ تکلیف دی جس کے متعلق میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔

مسٹر حیدر ۔۔ !! 

مرد کبھی بھی عورت سے عورت جیسی محبت نہیں کرسکتا کیونکہ عورت اپنے اندر کے خالص جذبات مرد کی جھولی میں ڈالے اس پر دل و جان سے یقین کر بیٹھتی ہے پر مرد ان خالص جذبات کی ایک پل میں توہین کیے ، اس کے منہ پر لپیٹ کے پھینک دیتا ہے ۔۔ " اس کا ایک آنسو اس کی گال سے پھسلتا ہوا اس کے بالوں میں خاموشی سے جذب ہوگیا تھا ۔

پھوٹ پھوٹ کے رو دو ان آنسوں پر ضبط کا پہرہ مت باندھو جن آنسوں کی وجہ میں بنا ان آنسوں کو بہہ جانے دو مجھے ساری عمر یہ ملال رہے گا کہ میں اپنی محبت پر بھروسہ نہ کر پایا اور یہی ملال مجھے کسی بچھو کی مانند ڈنک مارتا رہے گا  جس سے میرا اندر بار بار چیخ اٹھتا ہے ۔۔ " وہ کرب سے بول رہا تھا بس مجھے معاف کر دو وہ پھر گڑگڑایا تھا

میرب اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں اسے صرف درد اور اذیت کے سوا  کچھ نہیں دیکھائی دے رہا تھا میرب سے اس کی تکلیف برداشت نہیں ہو پا رہی تھی اس نے اس شخص سے محبت کی تھی وہ تو اسے تکلیف میں دیکھ سکتا تھا پر میرب رحمٰن سے اس کی تکلیف ہرگز برداشت نہیں ہوتی تھی تبھی اس نے آگے بڑھ کر اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا تھا ۔

 کبھی کبھی انسان کو کسی ایسے موڑ پر جھکنا پڑ جاۓ جہاں اس کہ جھکنے سے بہت سے خوبصورت رشتے بچ جاۓ تو اس کو اپنی آنا کو ختم کیے جھک جانا چاہیے ۔۔ کیونکہ اسی میں ہی عاجزی ہے ۔

آبان اس کی سپردگی سے نہال ہوگیا تھا اس نے میرب کو کسی قیمتی متاع کی مانند سختی سے اپنے اندر سمو لیا تھا

"کبھی لفظ بھول جاؤں کبھی بات بھول جاؤں

تجھے اس قدر چاہوں کہ اپنی ذات بھول جاؤں

 اٹھ کر کبھی جو تیرے پاس سے چل دوں

جاتے ہوئے خود کو تیرے پاس بھول جاؤں

کیسے کہوں تم سے کہ کتنا چاہا ہے تمہیں

اگر کہنے پہ تمہیں آؤں تو الفاظ بھول جاؤں " 

وہ مخمور لہجے میں بوجھل آواز لیے ان خوبصورت سے لفظوں کو کسی رس کی مانند اس کے کان میں انڈیل رہا تھا میرب اس کی آواز کے سحر میں بری طرح جکڑی جا چکی تھی اور جھینپ کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔۔ "

کچھ رات کے خامشی اور کچھ چاند کی دھیمی دھیمی سی روشنی کھلی کھڑکی سے  اندر آتے ماحول کو خوابناک بناتے ہوئے  ان دونوں پہ پڑ رہی تھی جو ایک دوسرے میں کھو سے گئے تھے ۔

❤️

ٹیبل پر ہنوز خاموشی تھی سب  کھانا کھانے میں مصروف تھے اچانک آفندی صاحب عباد سے مخاطب ہوۓ تھے جو کھانا کم کھارہا تھا اور سوچ زیادہ رہا تھا

تم صحیح سے کیوں نہیں کھارہے ہم کب سے نوٹ کررہے ہیں کہ تم کھا کم اور سوچ زیادہ رہے ہو 

لیکن وہ ہنوز خاموش تھا جس کی خاموشی ابیہا کو چبھ سی گئی تھی ۔

برخوردار وقت ہمیشہ رکتا نہیں ہے کبھی یہ اپنی جھولی غموں سے بھر لاتا ہے اور کبھی دکھوں سے اور جو دکھ ہوتے ہیں وہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں سو اس چیز کو ہمیں لین چاہیے ۔۔ بیٹا اگر یہ دکھ نہ ہوتے تو انسان کبھی بھی ایک انجان سی خوشی ک مزہ نہیں چکھا سکتا تھا ۔۔ جو ہوتا ہے بہتر ہوتا ہے اور تم جانتے ہو زندگی کی تلخ حقیقت ہے یہی ہے کہ ہر انسان کا ایک وقت مقررہ ہوتا ہے اور سب ہی کو اسی وقت پر جانا ہوتا ہے جو ہم سب  قبول کرنے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں ہوتے اور مرے ہوئے لوگوں کو یاد کر کے اپنی ہی زندگی سے  سکون چھین لیتے ہیں جو سرسرا حماقت ہے ۔

وقت پرانے زخموں پر مرہم تو رکھ دیتا ہے اور وہ بھر بھی جاتے ہیں لیکن اگر ہم خود ہی اس زخم کو بار بار کریدے گے تو وہ زخم پھر سے پھوٹنا شروع ہو جاۓ گا جو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لے گا ۔

میں تم سے ایک ہی گزارش کروں گا ماضی کو بھول کر حال پر دھیان دو جیسے تم یہ بےبنیاد سی زندگی گزار رہے ہو یہ بلکل بےکار ہے اور آفس تو تم بلکل نہیں دیکھ رہے ، آج سے ہی آفس جوائن کرو ۔۔ " وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بول رہے تھے

ان کی کہی ہوئی بات بہت گہرائی لیے ہوئے تھی جو عباد آفندی کے دل پر جالگی تھی زندگی نے اسے بہت بڑا سبق پڑھا دیا تھا وہ خود بھی اپنے تلخ  ماضی سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا جو اسے ایک مضبوط مرد سے کمزور مرد بنا گیا تھا

جی ڈیڈ !! آپ کی بات قابلِ غور ہے میں ضرور کوشش کروں گا کہ میں ان باتوں پہ پورا اتر سکوں ۔

 شاباش برخوردار !! ہمیں تم سے اسی بات کی امید تھی جیتے رہو ، اور ہاں ہماری بہو کو وقت دیا کرو ۔

اووو ،، ڈیڈ یہ ہمیں کیا وقت دے گا اس کا تو خود وقت بہت قیمتی ہے ابیہا مراد  اس پر طنز کرتے ہوئے بولی تھی جو آفندی ہاؤس میں اسے لاۓ بھول چکا تھا

ابیہا کی بات پر عباد کی نگاہ اٹھی اور اس کی نگاہوں سے جا ٹکڑائی تھی جو خونخوار نظروں سے اسے گھورنے میں مصروف تھی ۔۔ " وہ اس کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر اپنا بے ساختہ امڈ آنے والا قہقہہ بمشکل دبا گیا تھا اگر وہ تھوڑا سا بھی ہنس پڑتا تو شاید مقابل اس پر کسی بھی قسم کا حملہ کرنے میں دیر نا لگاتا ، لہذا اس نے ہنسی کو واپس موڑنے میں ہی عافیت جانی ۔

عباد بہت افسوس کی بات ہے ۔۔ مجھے تم سے یہ امید تو بلکل نہیں تھی تم اتنے بے فکر ہوگے مجھے اندازہ نہیں تھا اب میں تمہیں ان بے فضول سڑکوں پر گھومتا ہوا نا دیکھوں یہ جو مجنوں جیسا حلیہ بنایا ہوا ہے اسے ٹھیک کرو ۔۔ " وہ اس کی بڑھتی ہوئی داڑھی پر طنز کرتے ہوئے اپنی کرسی پیچھے کیے کمرے کی جانب بڑھے ۔

ان کے جاتے ہی عباد نے ابیہا کی جانب رخ کیا جو اپنے پورے دانت نکالے ہنسنے میں مگن تھا اس کی ہنسی نے اس کا دل جلا کر رکھ دیا تھا

بہت ہنسی نہیں آرہی  تمہیں ۔۔ ؟؟ وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولا جو واضح طور پر اسکے غصے کا پتہ دے رہے تھے پر مقابل بھی شاید کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ واقع ہؤا تھا

ہاں سچ میں عباد بہت ہنسی آرہی ہے تمہاری دھلائی دیکھ کر وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھی ۔

مس آفندی !! اب تم نہیں بچتی وہ غضب کے تیور اپنے ماتھے پر سجاۓ اس کی جانب بڑھا تھا ۔

جیسے ہی اس نے عباد کو غصے سے اپنی طرف بڑھتے ہوئے پایا اس کی ہنسی ایک پل میں غائب ہوئی تھی اس سے پہلے کے وہ اس کے پاس پہنچتا پیچھے سے آفندی صاحب کی آواز نے اسے رکنے پر مجبور کردیا تھا 

 عباد تیری خیر نہیں تو آج  بہت برا پھنس چکا ہے یہ سب مس آفندی تمہاری وجہ سے ہورہا ہے وہ دل ہی دل میں اپنی بھڑاس نکالے ابیہا کو ایک گھوری نوازتا  ہؤا آفندی صاحب کی جانب پلٹا تھا جو اسے انتہائی ڈھٹائی سے منہ چڑھا کر جاچکی تھی 

جی.. " ڈیڈ !!

وہ اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا آفندی صاحب سے مخاطب ہوا

ہاں برخوردار !! آپ نے جو کارنامہ سر انجام دیا ہے وہ ہمارا جینا حرام کیے ہوۓ ہے ۔ جیسے ہم نے تو آپکی شادی آپ کی پسند سے کروانی ہی نہیں تھی یا آپ نے ہمیں اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ ہم آپکی خوشیوں میں شریک ہوسکیں ، آپ کے دل میں جو آیا آپ نے وہ کیا خیر سے غلطی ہماری اور فاریہ بیگم کی ہے کہ ہم آپ دنوں کی پرورش درست طریقے سے نہ کر پاۓ اور یہ ملال ہمیں پوری زندگی رہے گا ۔

بہت سے لوگوں کا ہمیں فون آچکا ہے جو بھگو بھگو کر ہمارے منہ پر مار رہے ہیں اور جن کو نہیں علم خیر سے وہ بھی اب سکون سے بیٹھنے والے نہیں ۔۔ "  وہ طنزیہ انداز میں گویا تھے

لیکن ڈیڈ میں ایسا نہیں چاہتا تھا بس جو کچھ بھی ہوا مجبوری کے تحط ہوا یہ سب میں آپکے علم میں لانا چاہتا تھا پر کچھ کاموں نے اتنا مصروف کردیا کہ  میں آپ کو چاہ کر بھی بتا نہیں پایا ۔ میں اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہوں میں ہرگز آپکو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا ۔

بس بعض دفعہ انسان بے بس ہو جاتا ہے اور جس کام کے متعلق اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوتا وہ مجبوراً اسے کرنا ہی پڑ جاتا ہے ۔ ' وہ اپنے اور ابیہا کے رشتے کو سوچتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا 

ہاں بس اللّٰہ تمہیں ایس ہی ہدایت دیے رکھے ۔۔ " وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے تھے

ابھی تمہاری بی جی کا فون آیا تھا وہ ہم سے ناراضگی کا اظہار کررہی تھیں تم جانتے ہو ان کو تمہارا بیاہ دیکھنے کا کتنا شوق تھا ان کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسی ہفتے رسیپش کی دعوت رکھی جاۓ تاکہ لوگوں کا گلہ شکوہ دور ہو جاۓ اور جو نہیں جانتے وہ بھی جان جائیں ۔ جن جن کو بھی مدعو کرنا ہے تم ان کی لسٹ بنا لو ۔

جی ۔۔ " عباد نے اثبات میں ہی سر ہلانے پہ اکتفا کیا

❤️

میرو یار کب سے بیٹھا ہوا ہوں اب تو بیٹھ بیٹھ کر میری کمر میں بھی درد شروع ہوگیا ہے ۔۔۔ " وہ میرو کو اونچی آواز  لگاتا ہوا بولا جو آدھے گھنٹے سے کچن میں کھڑی پراٹھے کے عجیب و غریب نقشے بنانے میں مصروف تھی جو اس سے بننے ہی نہیں پارہے تھے ، جبکہ وہ  کب سے بیٹھا ہونقوں کی مانند اس کا انتظار کیے جارہا تھا کہ کب ناشتہ آۓ اور کب وہ آفس کے لیے نکلے پر مقابل نے تو اسے تنگ کرنے کا ٹھیکہ ہی اپنے سر لیا ہوا تھا ۔

ہاں تو صبر کرئیے اب میں کونسا روز پراٹھے بناتی رہتی ہوں میرب جھنجلاتے ہوئے پراٹھا لیے کچن سے برآمد ہوئی ، اس نے جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر اس سے پراٹھا لینا چاہا پر وہ نہایت ہوشیاری سے اسے نظر انداز کرتے ہوئے زوبیہ بیگم کی جانب بڑھ گئی ، جو شاید غلطی سے یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ میرو یہ پراٹھا اس کہ لیے لائی ہے ۔

 اماں جان خوب مزے سے کھائیے بڑے مزے کے بنے ہیں وہ مزے سے اپنا پراٹھا کھاتے ہوۓ بول رہی تھی ۔ 

ہاں  ہاں !! ضرور بیٹا مجھے ویسے بھی بہت بھوک لگی ہوئی ہے ۔۔ " 

وہ حیرانگی سے منہ کھولے ان دونوں کو تکنے میں مصروف تھا جو بے فکری سے چبڑ چبڑ کھانے میں مگن ہوگئی تھی کہ اچانک میرب کی شرارتی نظر آبان کی طرف اٹھی جو اسے ہونقوں کی مانند تکنے میں مصروف تھا ۔

اووو ،،، آپ کو تو دیا ہی نہیں ۔۔ " وہ سر پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی تھی ، چلیں صبر کریں میں لاکر دیتی ہوں وہ گویا انجان بنتے ہوئے  کچن کی جانب بڑھ گئی ، جبکہ وہ اس کی چالاکی پر  ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا تھا ۔

بہت مزے کا ہے  کھا کے بتائیے گا کیسا بنا ہے وہ اسے پراٹھا پیش کرتے ہوۓ اپنے لہجے میں دنیا بھر کا پیار سموۓ بولی تھی ۔

وہاٹ یہ میں کھاؤں گا ۔۔۔؟؟

اتنی دیر کے بعد لائی ہو اور وہ ںھی کوئلے کی طرح سڑا ہوا وہ اس سڑے ہوئے پراٹھے کو دیکھ کر جل بھن ہی تو گیا تھا جو انتہائی عجیب وغریب شکل اختیار کیے ہوئے تھا ۔

ہاں تو کھا کر دیکھیے جو چیز شکل سے اچھی نہیں ہوتی وہ چیز کھانے میں بہت لذیذ ہوتی ہے ۔۔ "  وہ ناک سے مکھی اڑاتے ہوۓ بولی 

شکریہ ۔۔ 

تم نے میرے نالج میں اضافہ کردیا ورنہ شاید میں جان نہ پاتا ۔۔۔ " وہ اس پر طنزیہ کے تیر اچھالتا ہؤا بولا

میرب جھٹکے سے اس کے سامنے سے پراٹھا اٹھا گئی تھی جائیے باہر سے کھائیں پر میرے پراٹھے میں سے نقص مت نکالیں ۔۔ " وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی

جا رہا ہوں ویسے بھی عورتوں سے کون جیت سکتا ہے  اور اس سے اپنا ہی پیٹ بھرو اگر کم آن پڑے تو ایسے ہی اور نمونے تیار کر لینا ۔۔۔ " وہ اس کے بناۓ گئے نمونوں پہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز لگ رہے تھے ۔

وہ اس کی بات سے تپ ہی تو گئی تھی آپکو تو یہ بھی نہیں بنانے آتے ۔۔ " وہ نخوت سے بولی تھی

میرو بیگم آپ ہماری ذہانت پر جاکر بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں ہم اس سے بھی زبردست نمونے تیار کرسکتے ہیں ۔

تو پھر کھڑے میرا منہ کیوں دیکھ رہے ہیں بنا کر کھالیں ۔۔ " وہ کندھے اچکاتے ہوۓ واپس کچن میں جانے کے لیے مڑی تھی کہ اچانک آبان اس کے راستے میں آیا ، تمہیں تو واپسی پر سیدھا کروں گا ۔۔ " وہ اسے شوخی سے آنکھ مارتا ہوا  باہر کی جانب بڑھ گیا 

بہت تنگ کیا تم نے آج میرے بیٹے کو ۔۔ " زوبیہ بیگم میرو کو دیکھتے ہوۓ بولی تھی جو آبان کو کوسنے میں مصروف تھی آپکے بیٹے نے مجھے کم تنگ نہیں کیا ابھی تو انہیں خوب چٹخارے بھرے مزے دینے ہیں ۔

بس کرو میرو یار !! اب تو بچارا سدھر چکا ہے

ہاہاہاہا ،،، کچھ زیادہ ہی نہیں ۔۔ " وہ زور سے قہقہہ لگاتے ہوۓ بولی

میرب اور آبان کو خوش دیکھ کر زوبیہ بیگم کے دل میں گویا سکون کی ایک لہر سی دوڑ گئی تھی جو ہلکی پھلکی نوک جھونک کیے انہیں بہت پیارے لگ رہے تھے ۔ اللّٰہ تم دونوں کو ایسے ہی خوش اور سلامت رکھے وہ دل ہی دل میں ان دونوں کے لیے دعا گو ہوئیں ۔

❤️

کیا ہو رہا ہے ۔۔ ؟ عباد اچانک سے اس کے پیچھے آتے ہوۓ بولا جو انہماک سے الماری درست کرنے میں مصروف تھی ابیہا اس کی آواز سے ڈرتے ہوۓ فورآ پلٹی تھی

تمہارا سر ۔۔ " وہ اسے گھورتے ہوئے بولی

تم اتنا سڑتی کیوں ہو مس آفندی !! وہ اسے زچ کرتا ہوا بولا

ہمیں بھلا سڑنے کی کیا ضرورت ہے یہ کام تمہارا ہے جو بڑے آرام سے تم  ہمارے سر  تھوپ رہے ہو ۔۔ " وہ اس پر طنز کرتے ہوئے بولی

اچھا !! اب موڈ ٹھیک کرو تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے  میری طرف سے ۔۔ " وہ بیڈ پر بیٹھتا ہوا بولا 

اووو ،،، تم ہمیں سرپرائز دو گے  کہیں ہم مر ہی تو نہ جائیں تمہاری ایسی سوچ پر ویسے ہمیں یقین نہیں آرہا کہ تم ہمیں سرپرائز دو گے ۔۔ " وہ لفظ چباتے ہوئے اسے آنکھیں نکال کر بولی

تمہاری مرضی نہ کرو یقین ۔۔ " وہ کندھے اچکاتے بے فکری سے بولا

اس کا انداز ابیہا کو سچ میں مبتلا کرگیا وہ فوراً اس کی جانب لپکی کیا تم واقعی ہمیں سرپرائز دینے والے ہو۔۔۔۔؟؟ہمیں سچ میں یقین نہیں آرہا وہ انتہائی تعجب  لیے اس کے پاس جا بیٹھی ۔

پلیزززز،،،، بتاؤ کیا سرپرائز ہے .. ؟؟ " وہ اس کے کندھے کو ہلاتے ہوئے بے چینی سے بول رہی تھی جو اب سونے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے لگا  تھا ۔

دیکھو تم ہمیں سرپرائز دیے بغیر ہی سو گئے وہ اس پر جھکتے ہوئے نروٹھے انداز میں بول رہی تھی لیکن مقابل کی طرف سے کوئی جواب نا ملنے پر ابیہا نے غصے میں زور سے اس کے بال کھینچے تھے جو اس کی بات ہی نہیں سننے پارہا تھا عباد درد کی شدت سے چیخ کر ہی تو رہ گیا ۔

تم اور تمہارا سرپرائز گیا بھاڑ میں ۔۔ " اپنی کسی گرل فرینڈ کو تحفے میں دے دینا ویسے بھی وہ تمہارے دیے گئے تحفوں پر خوشی سے پھولے نہیں سماتیں اور تمہارے گلے کا ہار بن جاتیں ہیں ۔۔ " وہ اسے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے اپنے آدھ ادھورے کام کی جانب متوجہ ہوگئی تھی ۔

ان کو تو میں دے چکا ہوں اب تمہاری باری تھی سو تم خود ہی نہیں لینا چاہتی تو اپنی گرل فرینڈز کو ہی دے دوں گا ۔۔ " وہ پھر سے ایک بار اس کے غصے کو ہوا دیتا ہوا باتھ روم کی جانب بڑھا 

آج میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔ "  وہ پاس پڑا گلدان لیے غصے سے اس کی جانب بڑھی پر وہ اسے منہ چڑھاتا ہوا جھٹکے سے دروازہ لاکڈ کرگیا ۔

ہمیں کیا لینا دینا دفعہ ہو جس مرضی ایکس،واۓ،ذیڈ کو دو بدتمیز جاہل انسان ۔۔ !! " وہ اپنے آپ کو تسلی دیے پیر پٹختے ، باہر کی جانب بڑھ گئی ۔

❤️

موصوف آج کچھ زیادہ ہی مصروف لگ رہے ہیں کچھ بات ہی نہیں کر رہے ۔۔ " وہ اس کی خاموشی پر چوٹ کرتے ہوئے بولے جو کب سے انہیں نظر انداز کیے ہوۓ تھا

 مسٹر درانی آپ جاسکتے ہیں میرے پاس ان فضول باتوں کا وقت نہیں آپ سے ایک کام کہا تھا جو آپ نے نہیں کیا ، آپ کم از کم ہمیں بتا دیتے کے آپ یہ کام نہیں کرسکتے تو میں کسی اور سے کروا لیتا ۔ " وہ دو ٹوک لہجے میں بول رہا تھا

آخر آپ غصہ کیوں کررہے ہیں مسٹر حیدر !! ہم صرف آپ کو تنگ کررہے ہیں آپ ہمارے جگری یار ہیں آپ کا کام ہوچکا ہے ۔۔ "  وہ بشاشت سے بولے تھے

آپ نہیں سدھر سکتے مسٹر درانی !! " وہ انہیں گھورتا ہوا بولا تھا

ہاہاہاہا ،، آپ جانتے ہیں ہمیں آپ کو تنگ کرنے کا خاصا مزہ آتا ہے ۔۔ " وہ اسے چڑاتے ہوۓ بولے 

اب آپ آگے بھی بول پڑیں تو شاید مسٹر درانی صاحب ہمارا قیمتی وقت بچ سکتا ہے  ۔۔ " وہ ان پہ طنز کرتا ہوا بولا

ہاہاہاہا،، اوکے ۔۔ "  وہ جاندار قہقہہ لگاتے ہوئے بولے تھے

مسٹر حیدر !! 

اسلم خان سب کچھ اگل چکا ہے جو کچھ اس نے مس سحرش کے کہنے پر کیا تھا یہاں تک کہ تمہارے گھر کی نوکری بھی مس سحرش کی ایک چال تھی اور مس سحرش نے اسلم خان کو اس کام کے بہت زیادہ پیسہ بھی دے رکھے  تھے خیر سے وہ پکڑا جاچکا ہے اب کم از کم عدالت اسے دس سال کی سزا ضرور سناۓ گی ، اور مس سحرش نے خود ہی اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار لیا آخر بات وہی آجاتی ہے برائی کا انجام برائی ہی ہوتا ہے ۔

ہاں !! یہ تو حقیقت ہے جو ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے  اور سحرش آفندی بھی اپنا بویا ہوا کاٹ چکی تھی 

چلیے ہم چلتے ہیں خاصا وقت لے چکے ہیں آپکا پر بات پوچھنے کے لیے بھی بے صبرے آپ ہی ہورہے تھے ۔۔ " وہ اس پر طنز کرتے ہوئے بولے تھے

ہاہاہاہا ،، بلکل نہیں مسٹر درانی میں نے صرف مذاق کیا تھا آپ پہلے ہیں پھر وقت ہے ۔۔ " وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا

شکریہ جناب !!  اتنی عزت دینے کے لیے ورنہ ہم اتنی عزت کے قابل نہیں ۔ چلتے ہیں اب آپ سے  کل ملاقات ہوتی ہے ۔۔ "  وہ اس سے مصافہ کرتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئے

اچانک فون کی چیختی ہوئی گھنٹی نے ماحول میں ارتعاش برپا کیا ۔

 اس نے مصروف انداز لیے فون پیک کیا

دوسری جانب سپیکر میں اس کی سکٹیری ماریہ کی آواز گونجی

سر کوئی  مسٹر عباد آفندی آپ کو ملنا چاہتے ہیں

انہیں اندر بھیج دیں ۔۔ " وہ بشاشت سے بولا تھا

کچھ ہی دیر میں عباد دروازے پر دستک دیے اندر داخل ہوا

کم ان ۔ مسٹر عباد !!

کیسے ہو ۔۔ ؟؟ " وہ گرمجوشی سے اس کو گلے ملتا ہوا بولا

ہممم بلکل ٹھیک ۔۔ "  وہ کرسی اس کے مقابل بیٹھتے ہوۓ بولا

اور میرب کیسی ہے ۔۔ " وہ چھوٹتے ہی بولا تھا

ہاں بلکل ٹھیک ہے ۔

فاریہ آنٹی کی طبیعت اب کیسی ہے 

ہاں پہلے سے کچھ بہتر ہے پر یار کچھ بول نہیں پاتیں ۔بس یار کچھ دکھ بہت بڑے ہوتے ہیں جو انسان کو اندر ہی اندر سے کھا جاتے ہیں سحرش کا غم بھی انہیں اندر ہی اندر کھا رہا ہے ۔

 سحرش اگر  زندہ بچ جاتی تو میں اسے کبھی معاف نہ کرپاتا جو اس نے کیا آج بھی لوگ ہمیں کھڑے کیے سوال پوچھتے ہیں پر ہمارے پاس جواب ہو تو ہم دیں  وہ سدھرنے کو سدھر سکتی تھی ۔ اپنی غلطیوں کی معافی مانگ سکتی تھی لیکن وہ چاہ کے بھی ایسا نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ بہت ضدی تھی ۔ 

آبان وہ کبھی بھی اپنی چیز کو کسی سے بھی شئیر نہیں کرتی تھی اور اس کی انہیں عادتوں پر ہم نے قابو نہیں پایا اور وہ آہستہ آہستہ انتہائی ضدی اور خودسر ہوتی گئی جبکہ اس کے برے کاموں اور ہماری لاپرواہی  نے اسے برائی کی جانب راغب کردیا

اس نے خدا کی  لکھی ہوئی قسمت کو اپنی مٹھی میں لیا اور خود ہی اپنی تقدیر لکھے اور خود کو دردناک موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ہمیں بھی اپنے پیچھے تڑپتا ہؤا چھوڑ گئی ۔۔ "  وہ نخوت سے بول رہا تھا 

بس عباد دعا کرو اللّٰہ اس کی بخشش کر دے ۔۔ "  آبان دکھ سے بولا تھا جس سے عباد کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی

ہممم ،، میں بھی بات کو کس جانب موڑ گیا خیر سے چھوڑو ان باتوں کو یہ پکڑو اور تمہیں اور میرب کو لازمی میرے ریسیپشن پر آنا ہے کوئی ایکسکیوز نہیں چلے گا ۔۔ " وہ دو ٹوک لہجے میں بولا

ہاں ہاں برو ۔۔

ضرور فکر مت کرو  ہم دو دن پہلے ہی تیرے گھر ڈیرہ جما لیں گے ۔۔ " وہ زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بولا

ہاہاہاہا ،،  ہاں !! ضرور ۔۔  مجھے اچھا لگے گا 

تم کافی لو گے یہ کولڈ ڈرنک اب یہ مت کہہ دینا کچھ نہیں ۔۔ "  وہ فون پر کوئی نمبر ڈائیل کرتے ہوئے بولا

ہاہاہاہا ،، کافی منگوا لو ۔

❤️

کال لو میرو بیٹا ۔

کب سے فون بج رہا ہے ۔۔ " زوبیہ ںیگم اسے فون پکڑاتے ہوۓ بولی جو کھانا بنانے میں مصروف تھی

جی اماں جان !!  اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ جلدی سے کال اٹینڈ کی ۔

ہیلو ۔۔

 دوسری طرف چھوٹتے ہی سپیکر میں آبان بولا تھا 

کہاں پر ہو محترمہ ۔۔ ؟ کب سے فون کررہا ہوں .. " وہ جھنجلاتا ہوا بولا

کھانا بنا رہی تھی سو دیکھ نہیں پائی ۔۔ " وہ مصروف انداز لیے بولی 

شام میں تیار رہنا میں آفس سے واپسی پر تمہیں پیک کرو گا ۔

کیوں خریت ہے ۔۔ ؟  وہ حیرانی سے گویا ہوئی

ہوں خریت ہے ۔۔۔ عباد کا ریسیپشن ہے  سو مام کو بھی بتا دینا اور پلیز یار بھوتنی مت بننا ۔۔ " وہ شریر لہجے میں اس کے میک اپ پر چوٹ کرتا ہوا بولا تھا

آپ کو میں بھوتنی نظر آتی ہوں وہ اپنے عرف پر تپ ہی تو گئی تھی گویا آپ کو نہیں دیکھنا تو نہ دیکھیے گا میں تو بھوتنی ہی بن کر جاؤں گی اور ویسے بھی آپ سے تو میری خوبصورتی ہضم نہیں ہوتی اس سے پہلے کہ آبان اس کی شان میں گستاخی کرتا ۔۔ " وہ نخوت سے  سلسلہ منقطع کر گئی

ہونہہ ،،، ہمیں بھوت کہہ رہے ہیں ۔۔ "  وہ برتن سنک پہ پٹختے زیر لب بڑبڑائی 

 پاس کھڑی صغراں اس کی بڑبڑاہٹ سے محفوظ ہوتے ہوئے  منہ پر دوبٹے کا پلو رکھے دانت نکالنے میں مصروف تھی ۔

❤️

یہ پکڑو اور جلدی سے پہن کر باہر نکلو ۔۔ " وہ اسے بھاری بھر کم خوبصورت سا جوڑا پکڑاتے ہوئے بولا 

کیوں پہلے مجھے بتاؤ پھر پہنو گی ۔۔ " وہ ڈھٹائی سے بولی تھی

خیر سے بی جان ہماری شادی کے بارے میں نہیں جانتی  سو اسی لیے ڈیڈ نے ریسیپشن کا چھوٹا سا فنکشن رکھا ہے تاکہ جو نہیں جانتے وہ جان جائیں ۔۔ " اب فٹا فٹ چینج کر آؤ وہ پیار سے اس کا منہ تھپتھپاتے ہوئے بولا تھا

ہمیں ڈیڈ کا فیصلہ بہت پسند آیا اور دوسری بات یہ تمہارا مشورہ نہیں ڈیڈ کا مشورہ تھا اور جو یہ سرپرائز تم ہم سے چھپا رہے تھے ہم پہلے ہی سے جانتے تھے ہمیں ڈیڈ تم سے پہلے ہی بتا چکے تھے ۔۔ " وہ اپنے کپڑے اٹھاتے ہوئے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی

ہونہہ ،،، آیا بڑا سرپرائز دینے والا ۔۔ " وہ زیر لب بڑبڑائی

ہاہاہاہاہاہا ،، تم آج نہیں بچو گی مس آفندی !! اس کے قہقہہ نے دور تک  اس کا پیچھا کیا تھا

تھوڑی دیر میں ہی وہ چینج کر کے باہر آئی ۔

وہ گرے لہنگے میں اپنی حسین زلفوں کی آبشار کو پشت پر ڈالے  بغیر میک میں سادگی لیے عباد آفندی کے دل پر بجلیاں گرا گئی تھی وہ چند لمحے تو اسے دیکھ کر سب کچھ بھول چکا تھا

ابیہا بری طرح عباد کی نظروں سے کنفیوژ ہوئی تھی جو کب سے آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھنے میں مگن تھا جیسے ہی وہ اس کی نظروں سے بچتی آگے بڑھی  عباد نے سرعت سے اسے کھینچ کر اپنے مقابل کرلیا ۔

ممم ،، پلیز،، چچچھوڑو ۔۔  پل میں  ہی اس کی حالت غیر ہوئی تھی

کیوں۔۔۔۔؟؟ وہ بوجھل لہجے میں بولا 

 چھوڑنے کے لیے تو نہیں تھاما تھا وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا

جہاں صرف شرم اور جھجک کا بیسرا تھا اس سے پہلے ابیہا اس کی شربتی آنکھوں میں کھو سی جاتی  اس نے فوراً سے اپنی پلکوں کی بھاڑ کو نیچھے گرا لیا تھا عباد اس کی گرتی اٹھتی چلمن کی زبان سمجھ گیا تھا جو اس سے اظہار پہ کترا سی گئی تھی

میں تمہارے دکھوں کا مداوا کروں گا مس آفندی جو تمہیں میری وجہ سے پہنچے ۔ میں اب زندگی میں کسی دکھ کو بھی تمہارے پاس نہیں بھٹکنے دوں گا یہ عباد آفندی کا تم سے وعدہ ہے ۔۔ " وہ اسے آگے بھر کر اپنے حصار میں لے گیا تھا اور ابیہا مراد نے بھی اس کو تہہ دل سے معاف کردیا تھا اور خوشی سے اس کے سینے پر سر رکھے آنکھیں موند گئی تھی

 گویا عباد آفندی نے ابیہا کے دل کو اپنے اظہار سے معتبر کردیا تھا اب ان دونوں کی زندگی گویا مکمل سی ہوگئی تھی جہاں اب کوئی بھی دکھ انہیں چھو کے بھی نہیں گزرنا تھا ان کے خوبصورت سے ملن پر دوڑ کھڑی محبت بھی کھل کے مسکرا دی تھی

❤️

 دراز قد و قامت پہ بلیک پلین شیفون کی ساڑھی لگاۓ ، میچنگ ڈائمنڈ کی جیولری پہننے ، بالوں کو جوڑے میں مقید کیے کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی وہ خوبصورتی کی اعلیٰ ترین مثال تھی وہ اپنی ہی خوبصورتی سے انجان بے فکری میں مہارت سے کیے گئے میک اپ کو آخری ٹچ دیے باہر گیراج کی جانب بڑھی جہاں آبان گاڑی میں اس کا انتظار کررہا تھا جو اس کے انتظار کو خاطر میں نہ لاۓ ہائی ہیل پہنے لہک لہک کر چل رہی تھی

جیسے ہی آبان حیدر کی نظر میرب پر پڑی وہ پلک جھپکے بغیر اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا جو  بے فکری سے اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی

 آبان کو سنبھلنے میں کافی دیر لگی تھی ور وہ اپنے حواس بحال کرتا ہوا اس کی طرف متوجہ ہوا

مام ⁦  نہیں آئیں ۔۔ " وہ گاڑی موڑتے ہوئی سنونگھم کی خوبصورت سی غزل لگاتا ہوا بولا تھا

اماں جان کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی سو اسی لیے نہیں آئیں ۔۔

تم جانتی ہو تمہیں اس حالت میں دیکھ کر میرے دل کا حال بھی اس غزل سے کچھ کم نہیں ۔۔ " وہ مخمور لہجے میں گویا تھا

اب مجھے رات دن تمہارا ہی خیال ہے 

کیا کہوں پیار میں دیوانوں جیسا حال ہے

دیوانوں جیسا خیال ہے تمہارا ہی خیال ہے

تم کو دیکھے بنا چین ملتا نہیں

دل پہ اب تو کوئی زور چلتا نہیں

جادو ہے کیسا دل کی لگی میں 

ڈوب گیا ہوں اس بے خودی میں

 وہ گاڑی کی سپیڈ کم کیے اس کی جانب جھکا تھا میرب گھبراتے ہوئے دروازے سے جالگی ۔

 گاڑی کی خاموشی میں ہلکے سروں پہ بجتا ہوا میوزک  اور آبان حیدر کا حد سے زیادہ بہکا ہوا لہجہ میرب کے دل کو بے سکون ہی تو کرگیا تھا ۔

ظلم حسینہ آپکے حسن کے تیروں نے ہمارے دل کو چھلنی کردیا ہے  دل اب آپکے قبضے میں  ہے ہم چاہ کے بھی اسے آپ کی قید سے رہا نہیں کر پاۓ گے ۔

 وہ  اپنے دل پر ہاتھ رکھتا ہوا بےخودی سے اس کی حسین آنکھوں کو وارفتگی سے چوم گیا تھا میرب  اسے دھکا دیتے ہوئے اپنی سانسوں کے شور کو بہال کرتے ہوئے بدحواس ہوئی جو اس کی قربت میں گھبرا سی گئی تھی

آ،،آپ کو چپکنے کی بیماری کبھی نہیں جاۓ گی ۔۔ " وہ اسے گھورتے ہوۓ بولی تھی

ہاہاہاہا ،،، بیگم جی اب یہ بیماری صرف ہمارے مرنے پہ ہی ختم ہوسکتی ہے ویسے تو ناممکن ہے ۔۔ " وہ اچانک بات کے درمیان میں ہی خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ گئی تھی میرباس کے ان لفظوں پر اندر سے کانپ گئی تھی

آپ بہت فضول بولتے ہیں وہ ہاتھ ہٹاۓ اس کے کندھے پہ سر رکھے خفگی سے بولی تھی اسے میرب کا اپنے لیے یوں بے فکر ہونا اچھا لگا تھا 

آبان مسکراتا ہوا اسے اپنی باہوں کے حصار میں لے گیا تھا

میرا عقیدہ،میری عقیدت

میری چاہت،میری محبت

جو لفظ دیکھوں تو ہزار میں

اور اگر سمیٹ دوں تو صرف تم

❤️

ہر نظر ان دونوں کے لیے ستائش لیے ہوئے تھی جو ہال میں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ہر دیکھنے والے کی نظر  میں تھے ۔

 عباد نے دور سے آبان اور میرب کو آتے ہوۓ دیکھا تھا جو ایک ساتھ  انتہائی خوبصورت اور خاصے خوش دیکھائی دے رہے تھے ۔۔ " وہ ہلکا سا مسکرایا تھا

اس کا عشق نہیں مرا تھا ہاں پر اسے صبر آگیا تھا

اس کی آنکھ میرب کے لیے شفاف جذبات لیے ہوئے تھی

پر کچھ پل کے لیے اس کا دل میرب رحمٰن کو دیکھ کر دھڑکا ضرور تھا لیکن وہ اپنے بھپرتے ہوۓ جذبات کو اپنے دل کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے تھپکی دیے سلا چکا تھا وہ ہر سوچ کو ذہن سے جھٹکتا ہوا ابیہا کو لیے ان دونوں کی جانب بڑھ گیا ۔

لٹا کر ہر چیز منزل عشق کی تلاش میں

میں ہنس پڑتا ہوں خود کو ناکام دیکھ کر ۔۔ " 

کچھ خواہشات بھی لاحاصِل ہوتیں ہیں جس میں کسی بچے کی مانند ضد کرنا بے جافضول ہوتا ہے ہم جانتے بھی ہوتے ہیں جو چیز ہمارے حصے میں نہیں ہے پھر بھی ہم ڈھیٹ بنے اس کے پیچھے ہی بھاگتے  رہتے ہیں آخر انجام ہم اپنے آپ کو بھی نکارہ کربیٹھتے ہیں ۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Bedardi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Bedardi written by Rohe Rehma. Ishq Bedardi by Rohe Rehma is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages