Pages

Thursday 15 August 2024

Intaha E Ishq Gaye By Preewish New Complete Romantic Novel

Intaha E Ishq Gaye By Preewish New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Intaha E Ishq By Preewish Complete Romantic Novel 


Novel Intaha E Ishq

Writer Name: Preewish

Category: Complete Novel

رات کی سیاہ چادر نے بانہیں پھیلا کر شام کی سرمئی روشنی کو اپنی اندر لپٹا تو شہر بھر میں مصنوعی روشنیاں جگ مگ کرنے لگیں۔لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آرہے تھے۔وہیں روڈ کی ایک طرف خوبصورت سا کلینک تھا۔اندر کی طرف آئیں تو ایک کمرے میں میز کی ایک طرف ڈاکٹر سیماب مصروف سی فائل پر جھکیں تھیں اور میز کی دوسری طرف وہ ہتھیلیوں پر چہرہ ٹکائے ،خاموشی سے نیلی آنکھوں میں حفگی لئے انھیں دیکھ رہی تھی۔پر اسکی آنی صاحبہ پوری طرح سے اپنے کام میں مگن تھیں۔وہ ایک گھنٹے سے وہاں بیٹھی تھی۔شام ، رات میں ڈھل چکی تھی پر آنی کا کام ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔اسنے آخر تنگ آ کر ہاتھ نیچے کئے اور ہلکے ہلکے سے ٹیبل کو بجانے لگی۔تبھی سیماب نے سر اٹھا کر اسکے ناراض چہرے کو دیکھا۔وہ خاموشی سے انھیں دیکھ رہی تھی انکے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی پھر انہوں نے فائل بند کی اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"اب چلیں یا کوئی اور کام ہے آپکو؟"اسنے آنکھیں گھما کر ناراضگی سے پوچھا۔ 

"بس دس منٹ اور میری نیلی آنکھوں والی گڑیا۔"انہوں نے پیار سے اسکا گال تھپک کر کہا۔ 

"افف آنی ۔۔۔"اسنے منہ بسور کر سر ہاتھوں میں گرا لیا۔

"بس میرا بچہ دس منٹ اور دے دو اپنی آنی کو۔"انہوں نے محبت سے کہا۔اسنے سر اٹھا کر گہری سانس بھری۔ 

"سارے کام آپکو آج ہی یاد آرہے ہیں آنی۔پر چلیں کوئی بات نہیں میں کچھ دیر اور ویٹ کر لیتی ہوں۔"اسنے احسان کرتے ہوئے کہا۔اسکے انداز پر سیماب ایک دم ہنسنے لگیں۔

"مہربانی میری پیاری سی نازلی"وہ اسکے بال بگاڑ کر لاڈ سےبولیں۔ 

"ایٹس اوکے مائی ینگ سی آنی۔"اسنے مسکرا کر انھیں دیکھا۔ وہ کمرے سے باہر چلی گئیں۔اسنے انکی پشت کو دیکھا ڈاکٹر سیماب تھیں تو اسکی آنی پر انکی عمر زیادہ نہ تھی۔وہ نازلی کی بڑی بہن لگتی تھیں۔وہ نظروں سی اوجھل ہوئیں تو نازلی کرسی سے اٹھی ، گھوم کر آنی کی کرسی تک آئی ،مسکرا کرکرسی پر بیٹھی اور سامنے پڑی اسٹیتھوسکوپ اٹھا کر گلے میں ڈالی۔سر کرسی کی پشت سے ٹیک کر ہلکے ہلکے جھولے لیتی آنکھیں موند گئی۔لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔آنی سے مل کر وہ چہکنے لگتی تھی بالکل ویسے ہی جیسے چھوٹا بچہ کافی وقت بعد اپنی ماں کو دیکھ کر کھل سا اٹھتا ہے۔کبھی کبھار وہ ہفتے کا ایک دن آنی اور انکی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ گزارتی تھی۔آنی کو اس سے بہت محبت تھی۔دونوں میں کافی دوستی تھی۔اسلئے نازلی سارے نخرے آنی کو ہی دکھاتی تھی۔انسان لاڈ اور نخرے بھی وہیں کرتا ہے جہاں اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسکے لاڈ ، نخرے اٹھائے جائینگے ورنہ اپنی ماما اور آنی کی نیلی آنکھوں والی گڑیا گھر میں بالکل مختلف نازلی ہوتی تھی۔اپنے آپ میں کھوئی ، تنہا ، اکیلی سی۔۔۔۔ماما کی یاد آنے پر اسکے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ سمٹ گئی۔دل دکھ سے بھر گیا۔اسے اپنی ماما کی بہت یاد آتی تھی۔انکی ہر بات ، انکے خوبصورت چہرے کا ہر رنگ نازلی کے دل پر نقش تھا۔ایک یاد نے اسکے دل میں دھوا سا بھر دیا۔بند آنکھ کے کونے سے ایک موتی ٹوٹ کر گال پر بکھرا۔ 

"آئی مس یو ماما۔"اسکے لب آہستہ سے ہلے۔اچانک باہر سے  تیز بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔وہ ایک دم سیدھی ہو بیٹھی ، ہاتھ بڑھا کر آنسو صاف کیا۔ابھی وہ اٹھنے کو تھی جب دروازہ کھول کر دو لڑکے اندر داخل ہوئے۔وہ ایک دوسرے سے باتوں میں مگن تھے۔انہوں نے ایک طرف بیٹھی نازلی کو نہ دیکھا جبکہ نازلی نے آنکھیں سکڑ کر ان دونوں کو دیکھا۔ایک جینز ، شرٹ میں ملبوس فکر مند سا لگ رہا تھا جبکہ دوسرا سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ مضبوط شانوں پر کالی شال ڈالی تھی۔مغرور چہرے بالکل  سنجیدہ تھا اور روشن پیشانی پر بل پڑے تھے۔

"آپ یہاں بیٹھیں لالہ۔"جینز والے لڑکے نے پریشانی سے کہتے ہوئے اسے کرسی پر بٹھایا۔

"کم آن داور ریلیکس رہو۔"گھمبیر آواز میں کہا گیا۔

"آپ تکلیف میں ہوں تو میں کیسے ریلیکس رہ سکتا ہوں لالہ۔" داور نے محبت سے اپنے لالہ کو دیکھا۔ 

نازلی ہونق سی اٹھ کھڑی ہوئی۔یہ کیا چل رہا تھا؟دونوں اپنے ہی راز و نیاز میں لگے تھے۔اسنے آگے ہو کر اس لڑکے کے لالہ صاحب کو دیکھنا چاہا کہ بھلا اسے کیا تکلیف ہوگی پر وہ داور نامی لڑکا اسکے سامنے کھڑا تھا۔جسکی وجہ سے کرسی پر بیٹھا وہ شخص اسے نظر نہیں آرہا تھا۔ابھی وہ کچھ کہنے ہی والی تھی جب داور ایک دم سے اسکی طرف پلٹا ، تیز قدموں سے اسکی جانب آیا۔نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔

"ڈاکٹر میرے لالہ کو چوٹ آئی ہے۔آپ انہیں دیکھیں پلیز۔" اسنے کرسی پر بیٹھے محترم کی طرف اشارہ کیا جو پوری طرح سے سوچوں میں گم تھے۔

"وہ میں۔۔ڈا"نازلی نے کہنا چاہا کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے پر داور نے جلدی سے اسکی بات کاٹی۔

"جو پوچھنا ہے بعد میں پوچھ لیجئے گا۔پہلے لالہ کا چیک اپ کریں۔" نازلی نے پریشانی سے اس بے صبرے لڑکے کو دیکھا۔اسنے جلدی سے اسٹیتھوسکوپ اتار کر ٹیبل پر رکھی۔شاید اسکی وجہ سے ہی سامنے والے کو غلط فہمی ہورہی تھی۔داور نے بے چین ہو کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

"آپ سن رہی ہیں میری بات ۔۔۔۔ لالہ کو بہت چوٹ آئی ہے آپ جلدی سے انکا چیک اپ کریں۔پلیز"اب کی بار وہ جھنجھلا کر بولا۔نازلی نے ایک نظر سوچوں میں گم چوٹ کھائے اسکے لالہ کو دیکھا۔ بظاہر تو کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ اس شخص کو  کوئی چوٹ آئی ہوگی۔نازلی کو تجسس ہوا کہ دیکھے تو آخر ماجرا کیا ہے۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور کرسی پر بیٹھے اس شخص کے سامنے کھڑی ہوئی۔جو ہنوز پتہ نہیں کون سے خوابوں میں کھویا تھا۔نازلی کی نظر ایک پل اسکے وجیہہ چہرے پر ٹھہری پر اگلے پل اسنے سر جھٹکا۔"چوٹ کہاں آئی ہے؟" اسنے داور کو دیکھ کر مدھم آواز میں پوچھا۔داور نے شکر کیا کہ ڈاکٹرنی صاحبہ کچھ بولیں تو سہی اسنے جلدی سے آگے بڑھ کر اپنے لالہ کے بائیں بازو سے شال ہٹائی ، قمیض کا سفید بازو خون سے لال ہو رہا تھا۔کہنی سے ذرا اپر شہادت کی انگلی کے برابر گہرا کٹ لگا تھا۔جسکی سائیڈز پر خون جما ہوا تھا اور زخم سے مزید خون رس رہا تھا۔نازلی نے اسکے بازوکو دیکھا تو منہ پر ہاتھ رکھ کے ایک قدم پیچھے ہٹی۔جبکہ اس میٹھی مدھم آواز نے اس مغرور شہزادے کو سوچوں سےکھینچ نکالا تھا۔اسنے آہستہ سے سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔گلابی لباس میں ملبوس وہ موم کی گڑیا تھی۔شاداب چہرہ ، جھیل سی بڑی بڑی گہری نیلی آنکھیں ،گلنار سے بائیں گال پر چھوٹا سا کالا تل۔جو قدرت نے جیسے اس پری چہرہ کی نظر اترنے کے لئے لگایا تھا۔اسکی نظر چہرے سے ہوتی ہوئی اسکے بالوں تک گئی۔گھنے سیاہ بالوں کا میسی جوڑے بنا تھا۔جس میں سے کچھ شریر لٹیں نکل کر اسکے گالوں کو چوم رہی تھی۔گال پر بکھریں ناگن سی زلفوں سے ہوتیں اسکی نظریں ان ڈائمنڈ ائیر رنگ پر پڑیں جو اس کانچ لڑکی کی کان کی لو میں چمک رہے تھے۔اسکی سیاہ آنکھیں ایک ہی نقطے پر جم گئی تھیں۔وہ جیسے سحر میں جکڑا جا رہا تھا۔نظر تھی کہ لوٹ کر واپس آنے سے انکاری تھی۔داور کچھ کہہ رہا تھا۔پر اسکی بات اسے سمجھ نہ آئی۔وہ جیسے اس لڑکی کے جادو کے زیر اثر تھا۔کچھ اور دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔

"دیکھیں میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔"نازلی نے داور کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔اسکی مدھم آواز ہی اسے سحر سے باہر لانے کا باعث بنی تھی۔جھنجھلایا سا داور اسکی بات سن کر غصے میں آگیا۔"حد ہوگئی۔۔۔۔ آپ ڈاکٹر نہیں ہیں تو پھر آپ نے ہمارا وقت کیوں برباد کیا؟ یہ بات آپ پہلے بھی بتا سکتی تھیں۔۔۔پر نہیں ۔۔۔"وہ تپ کر بولا۔نازلی کو اسکے انداز پر غصہ آیا۔پہلے دونوں محترم بنا اجازت لئے اندر آکر بیٹھ گئے۔خود ہی اسے ڈاکٹر سمجھ لیا اور اب الزام بھی اسی پر ڈال دیا۔اسنے گھور کر داور کو دیکھا۔"دیکھیں مسٹر میں آپ کو بتانا چاہ رہی تھی پر آپ نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔"وہ سنجیدگی سے بولی۔

"اٹھیں ہاشم لالہ آپکو کہیں اور لے کر چلتا ہوں۔۔۔۔ یہاں تو ڈاکٹر ہی غائب ہیں اور اپنی جگہ پتہ نہیں کسے بٹھا گئیں"داور جھنجھلا کر کہتا آگے بڑھا۔"دیکھیں وہ ڈاکٹر۔۔۔"نازلی نے کچھ کہنا چاہا پر داور نے اسکی بات کاٹی۔ 

"آپ پلیز اب مزید ہمارا وقت برباد نہ کریں۔مہربانی ہوگی آپکی"اسکی بات پر نازلی کا چہرہ لال ہوا۔بدتمیز لڑکا۔۔۔۔اس نے داور کو دیکھ کر دانت پیسے۔ہاشم خان جو خاموشی سے انکی باتیں سن رہا تھا۔اسنے داور کو دیکھا۔"داور۔۔۔"وارن انداز میں کہا گیا۔نازلی نے ایک نظر ہاشم خان کو دیکھا۔اسی پل ہاشم نے بھی اسے دیکھا۔لمحے بھر کو دونوں کی نظر ملی۔وہ ان پر اسرار مگر بلا کی دلکش سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر ڈر سی گئی۔دل مٹھی میں جکڑا گیا۔عجیب ڈر نے دل پر حملہ کیا جسے وہ سمجھ نہ پائی جبکہ دوسری طرف وہ نیلی آنکھوں میں ڈوب ڈوب گیا۔ایک پل نے اسے ان آنکھوں کا قیدی بنا ڈالا تھا۔جہاں سے  باہر آنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ایک لمحے میں وہ جیسے کالے جادو کے زیر اثر ہوا تھا اور جادو کرنے والی اپنا کام کر کے جھٹ سے نظریں جھکا گئی۔

"ڈاکٹر کہاں ہیں؟"ہاشم کی بھاری سنجیدہ آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔اس نے اب کی بار نظر اٹھا کر دیکھنے کی غلطی نہیں کی۔اسے اس شخص سے عجیب سی الجھن محسوس ہورہی تھی۔اسکی راز آنکھیں خود پر محسوس کر کے نازلی کا دل کانپ سا گیا۔اسنے کچھ کہنے کے لئے گلابی لب وا کئے ہی تھے کہ دروازہ کھول کر ڈاکٹر سیماب اندر داخل ہوئیں۔

"سوری میں تھوڑی لیٹ ہوگئی۔"انہوں نے مصروف انداز میں کہا۔پھر ہاشم کی طرف بڑھیں۔

"میں باہر آپکا ویٹ کر رہی ہوں آنی۔فری ہو کر جلدی آئیں" اسنے آنی کے قریب ہو کر سر گوشی میں کہا پھر بنا نظر اٹھائے پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ہاشم نے خاموشی سے بند دروازے کو دیکھا۔ڈاکٹر سیماب نے اسکے بازو کو چیک کیا۔اسکے بازو پر اسٹیچس لگے پھر بینڈیج کر کے انھیں دوا لکھ کر دی۔انکا شکریہ ادا کر کے وہ باہر نکلے۔داور بل پے کرنے چلا گیا۔ہاشم خان نے سامنے دیکھا وہ وہاں کھڑی فون پر بات کر رہی تھی۔پھر اسنے فون بند کیا اور  ہوا کے جھونکے کی طرح اسکے پاس سے گزری اور وہ آگے بڑھ گیا۔

"چلیں؟"نازلی نے آہستہ آواز میں پوچھا۔

"ہاں ہاں چلو۔"سیماب نے مسکرا کر کہا پھر دونوں آگے بڑھیں۔ہاشم خان اور داور کلینک سے باہر نکلنے کو تھے جب ڈاکٹر سیماب نے اسے آواز دی۔"ہاشم خان۔"وہ رک کر پلٹا۔پھر سوالیہ انداز میں انھیں دیکھا۔

"آپ اپنے زخم کا خیال رکھئے گا۔پانی سے بچانا ہے اور بینڈیج بھی تبدیل کرواتے رہئے گا۔"وہ مسکرا کر پروفشنل انداز میں اسے ہدایات دے رہی تھیں۔انکی بات سنتے ہوئے ہاشم نےایک نظر انکے برابر  بے زار سی کھڑی نازلی کو دیکھا۔ہاشم کے دیکھنے پر اسکی پیشانی پر بل پڑے اور وہ بے ذار سی منہ پھیر کر گلاس وال سے باہر دیکھنے لگی۔اسکے ایسے منہ موڑ لینے پر ہاشم خان کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔نازلی کا ایسا کرنا اسے ایک آنکھ نہ بھایا۔دل کی یہ کیفیت سمجھنے سے وہ بالکل قاصرتھا۔اس کانچ کی گڑیا کو یوں نظریں پھیر ے دیکھ کر جانے کیوں پر اسے بے پناہ طیش آیا۔وہ بھلا اسے دیکھ کر بے ذار کیوں ہو رہی تھی۔لڑکیاں تو اسکی ایک نظر کی دیوانی تھیں۔اسکے ایک بار دیکھ لینے پر اس پر اپنا آپ وار دینے سے پیچھے نہیں ہٹتی تھیں۔پھر یہاں تو ہاشم خان کی تمام تر توجہ کا مرکز  وہ نازک سی لڑکی تھی تو پھر ابھی تک وہ اسکی دیوانی کیونکر نہ ہوئی۔اگر ہاشم خان کا دل ، اسکی نگاہ اس حسین وجود پر  پلٹ پلٹ کر جارہی تھی تو وہ کیوں انجان و بےزار ، پتھر بنی کھڑی تھی۔ابھی تک وہ پگھل کیوں نہ گئی۔ اگلے پل وہ سنجیدہ چہرے اور بل پڑی پیشانی کے ساتھ ڈاکٹر سیماب کی باتوں پر "اوکے" کہتا پلٹا اور بنا نازلی پر نگاہ ڈالے گلاس ڈور دھکیل کر باہر نکلتا چلا گیا۔نازلی نے اسکے جاتے ہی گہری شکر بھری سانس خارج کی۔پھر آنی کی طرف پلٹی۔وہ لوگ کلینک سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھیں۔آنی کو ڈرائیو کرتے دیکھ کر وہ انکی طرف رخ کر کے بیٹھی اور کلینک میں ہوئی ساری بات انھیں بتانے لگی کہ کیسے انکے روم سے جانے کے بعد اس پاگل لڑکے نے اتنی پرابلم کریئٹ کی۔سیماب اسکی  باتوں پر ہنس رہی تھیں۔اس تمام قصے میں نازلی نے ہاشم خان کا کوئی ذکر نہ کیا۔وہ نازلی کو عجیب سا مشکوک بندہ  لگا تھا۔اسکے دیکھنے کے انداز پر نازلی پر کپکپی سی طاری ہونے لگی تھی۔اسنے ہاشم خان کی آنکھوں کو سوچ کے جھرجھری لی وہ واقعی ایک عجیب شخص تھا۔ سر جھٹک کر وہ اسے اپنے دماغ سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔پھر کچھ دیر بعد آنی سے انکے چھ سالہ جڑواہ بچے گولو مولو زیب اور زارا کی باتیں کرنے لگی۔ان دونوں سے اسے بہت محبت تھی۔باتوں میں مگن ہو کر وہ اگلے کچھ منٹوں میں اس مشکوک شخص کو بالکل بھول چکی تھی۔یاد رکھ کے کرنا بھی کیا تھا۔پر کیا وہ مشکوک شخص ، وہ مغرور، با رعب ، ضدی سا ہاشم خان اتنی آسانی سے اس نیلی آنکھوں والی کانچ سی لڑکی کو بھلا دے گا؟ اس پر تو جادو نے اپنا کام کر دکھایا تھا۔تو کیا وہ اس جادو سے آزاد ہو پائے گا؟ یا پھر وہ نازلی کو بھی اس جادو کے حصار میں اپنے ساتھ جکڑ لے گا؟

دو منزلہ شیشے سے بنا خان ولا  پوری آب و تاب سے کھڑا تھا۔خان ولا کی بیشمار روشنیاں رات کی سیاہی کو اجالے میں بدل رہیں تھیں۔سیاہ گیٹ سے اندر آئیں تو نگاہ جم سی جاتی تھی۔خان ولا کی چاروں طرف پھولوں سے بھرا ، مہکتا لان تھا۔دور دور تک رنگ برنگے پھول پھیلے تھے۔جو ہلکی ہوا سے رقص کر رہے تھے۔لان کے پیچ و پیچ روشنیوں سے چمکتا شیش محل تھا۔جسکی گلاس والز روشنی پڑنے سے جگمگا رہی تھیں۔فرسٹ فلور کے گلاس والز سے پردے ہٹے ہونے کی وجہ سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔جہاں گھر کا واحد فرد بڑے سے ہال میں رکھے صوفے پر نیم دراز تھا۔یہ خوبصورت شیش محل اسی شخص کے خواب کی تعبیر تھا۔یہ پیارا گھر ہاشم خان کا تھا۔ہاشم خان جو شہزادوں سی آن بان رکھتا تھا۔وجاہت میں اسکا کوئی ثانی نہیں تھا۔مغرور ایسا کہ اسکی بے رخی جان سے مار ڈالے اور مہربان ہونے پر آئے تو اپنا سب کچھ وار دے۔اسکی وجاہت میں جو چیز چار چاند لگاتی تھی وہ تھیں اسکی آنکھیں۔۔۔۔جن میں ایک سرد پن تھا ۔۔۔۔پر بلا کی دلکش  آنکھیں تھیں۔ سیاہ مری پلکیں جن میں سے جھانکتیں سیاہی مائل آنکھیں۔۔۔۔ظالم کی آنکھیں ایسا وار کرتیں کہ سامنے والا چاروں شانے چت ہو جاتا۔عورت کی حسین آنکھوں کے بارے میں تو بہت سنا ہے کہ عورت کی آنکھ حسین ہو تو مرد اپنا دل ہار بیٹھتا ہے پر اگر مرد کی آنکھ حسین ہو تو عورت دیوانی ہوجاتی ہے اور اگر اس آنکھ میں محبت بھی ہو تو پھر عورت کہیں کی نہیں رہتی۔ہاشم خان کی آنکھوں میں بھی وہی جادو تھا۔جس سے وہ خوب واقف تھا۔وہ ایک محبت بھری نظر سے اگر دیکھ لیتا تو جنس مخالف اس پر اپنی جان  وار دیتیں۔پھر کیوں وہ کانچ کی گڑیا اسکی دیوانی نہ ہوئی؟ وہ کیسے اسکی آنکھوں کے جادو سے بچ نکلی اور الٹا اسے اپنی نیلی آنکھوں کے سحر میں جکڑ کر غائب ہوچکی تھی اور وہ ان نیلی سمندر سی آنکھوں میں ڈوب ڈوب گیا تھا۔تیسرا دن تھا کہ اسکا دل بے چین تھا ، نظریں اس انجان لڑکی کو  ڈھونڈھ رہی تھیں۔

ہلکی بڑھی شیو ،سنجیدہ چہرہ ، روشن الجھی آنکھیں لئے ہاشم خان سوچوں کے جال میں پھنسا تھا۔ شرٹ کے اپری دو بٹن کھلے تھے۔آستینیں کہنیوں تک فولڈ ہونے کی وجہ سے اسکے مضبوط بازو دکھائی دے رہے تھے۔لمبا چوڑا مضبوط مرد تھا وہ جو اپنے اندر پہاڑوں سے ٹکرانے کی قوت رکھتا تھا۔اسکے سیاہ بال منتشر تھے۔پر کشش آنکھوں میں عجیب سی کیفیت تھی۔لمبی سانس کھینچ کر اسنے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ لبوں سے لگایا۔ایک لمبا کش لے کر دھوا ہوا کے سپرد کیا۔اسکی نظر دھویں پر جم گئی۔دھویں نے ایک خوبصورت چہرے کی شکل اختیار کی اور وہ گم سا اسے دیکھے گیا۔آدھے گھنٹے سے وہ اسی شغل میں مصروف سگریٹ پر سگریٹ پی رہا تھا۔اسنے پھر کش لے کر دھوا پھونکا تو اب کی بار اس حسین چہرے کی جگہ نیلی آنکھوں نے لی اور وہ تھم سا گیا۔کبھی اسےوہ نیلی آنکھیں پریشان کرتیں ، تو کبھی سیاہ بال ، کبھی گلنار چہرہ تو کبھی کان میں پڑے وہ ڈائمنڈ ائیر رنگز ۔۔۔جنکی چمک اسکی سیاہ آنکھوں میں چبھنے لگی تھی۔اسنے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔اس کھیل سے وہ تنگ آ چکا تھا۔پر کیا کرتا سوچیں گھوم گھوم کروہیں جا رہی تھیں۔لمبی سانس بھرتا وہ سیدھا ہو کر بیٹھا۔سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا۔اسکا موبائل رنگ ہوا۔ٹیبل سے موبائل اٹھا کر کال پک کی۔دوسری طرف داور تھا۔جو اسکے بازو کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔

"ہوں اب بازو بالکل ٹھیک ہے۔تم پریشان نہ ہو۔"اسنے بھاری آواز میں اسے تسلی تھی۔

"لالہ وہ خان بابا کو پتہ چل گیا ہے۔"داور کی ڈری مدھم آواز پر اسنے دکھتی آنکھیں ایک پل کے لئے بند کیں۔

"ہوں ۔۔۔۔ میں بات کر لونگا ان سے تم پریشان نہ ہو۔"داور کے ڈر کو محسوس کر کے اسنے نرمی سے کہا۔جبکہ دماغ میں بہت سی باتیں چل رہی تھیں۔پیشانی پر سوچ بھری لکیریں نمودار ہوئیں۔کچھ دیر بات کر کے اسنے کال کاٹی۔پھر اس دن کا واقع یاد کر کے دانت پیسے۔ٹیبل سے نیا سگریٹ لے کر لبوں  میں رکھا۔ لائٹر سے شعلہ بھڑکا کر سگریٹ کے قریب کیا تو سگریٹ جلنے لگا۔صوفے سے ٹیک لگا کر اسنے سگریٹ کا لمبا سا کش لیا۔داور کی کال کے بعد سوچوں کا رخ یک دم بدلا تھا۔"خان بابا"کے نام نے اسکے دل میں دھوا سا بھر دیا تھا۔وہ ہاشم خان کے والد محترم تھے۔۔۔ جنہیں اسنے پچھلے ایک سال سے نہیں دیکھا تھا۔ہاں فون پر بات ہوجاتی تھی۔ وہ بھی تب جب خان بابا اس پر بھڑکے ہوتے۔وہ تو کبھی اس سے بات بھی نہ کرتے پر انہیں اپنے معاملات میں ہاشم خان کی دخل اندازی پسند نہ تھی۔دو دن پہلے بھی وہ یہی غلطی کر چکا تھا ۔دھوا پھونک کر وہ سامنے دیوار کو گھورنے لگا۔ 

دو دن پہلے وہ ام جان سے ملنے بڑی حویلی جا رہا تھا۔ام جان کو اس سے شکایت تھی کہ وہ ان سے ملنے نہیں آتا۔پر وہ کیا کرتا کچھ خان بابا کے فیصلے اور کچھ اپنی ضد کے ہاتھوں مجبور تھا۔۔۔ پر پھر جب اسکا دل ماں کی محبت کے آگے ہار جاتا تو تب وہ ام جان سے ملنے کے لئے کبھی کبھار گاؤں کا رخ کرتا تھا۔پر ام جان تب بھی مکمل طور پر خوش نہ ہو پاتیں۔وہ ماں تھیں اور مائیں بھلا کبھی کبھی اپنی اولاد سے مل کر کہاں چین سے ہوتی ہیں۔وہ تو اپنے جگر کے  ٹکڑے کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہیں۔ام جان بھی یہی چاہتی تھیں جو کہ ہاشم کے لئے ناممکن تھا۔اس دن بھی جب اسے ام جان کی یاد شدت سے ستانے لگی تو وہ ان سے ملنے کے لئے گاؤں کی طرف آیا۔جب گاؤں پہنچا تو اسنے چھوٹی حویلی کے بلاول اور اسکے دو دوستوں کو داور سے ہاتھا پائی کرتے دیکھا۔وہ تین  داور پر بھاری پڑ رہے تھے۔ہاشم نے جب بلاول کو داور پر ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو اسکا خون کھول اٹھا۔پھر اسے معلوم نہ ہوا کہ وہ کیسے ان تک پہنچا اور کیسے انھیں مار مار کر زمین بوس کیا۔ ہوش میں تب آیا جب زمین پر ڈھیر بلاول نے اس پر چاقو سے وار کیا اور داور نے چلا کر اسے خبر دار کرنا چاہا پر جب تک وہ سنبھلتا چاقو اسکے بازو کو چیرتا چلا گیا۔وہ ایک پل میں لڑکھڑا کر سنبھلا۔ داور ، بلاول کے پیچھے بھاگا پر وہ دم دبا کر بھگ نکلا۔داور جلدی سے ہاشم کی طرف آیا جسکے بازو سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔

"افف لالہ اتنا خون ۔۔۔"تیزی سے بہتا خون دیکھ کر داور کی پیشانی پر پسینہ چمک اٹھا۔ہاشم نے اسکی اڑی رنگت دیکھی تو زمین پر گری شال اٹھا کر اپنے کندھوں پر ڈال دی۔ 

"تم حویلی جاؤ اور ام جان کو بتا دینا میں آج نہیں آ رہا اوکے۔" وہ تکلیف کے مارے دانت پیس کر بولا۔ 

"پہلے آپ چلیں ۔۔۔ آپکو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں۔حویلی میں بھی انفارم کر دونگا۔۔ چلیں پلیز۔"وہ تیزی سے بولتا ہاشم کو لئے گاڑی میں بیٹھا۔اسے اپنے بھائی کی تکلیف محسوس ہورہی تھی اور ہاشم کو چوٹ بھی اسی کی وجہ سے آئی تھی۔وہ تیز رفتاری سےڈرائیو کرتا وہاں سے ہاشم کو لےکر ڈاکٹر کے پاس آیا تھا۔ 

بڑی اور چھوٹی حویلی کی دشمنی تو سالوں پرانی تھی۔سلطان آغا خان (خان بابا) اور چھوٹی حویلی کے فیروز آغا خان چچا زاد بھائی تھے۔کہنے کو دونوں کا قریبی رشتہ تھا پر وہ اسے نبھا دشمنوں کی طرح رہے تھے۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ چھوٹی حویلی والے ہمیشہ ہر جھگڑے اور نئے فساد کی وجہ بنتے تھے۔دونوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ کچھ مربہ زمین تھی۔جو سلطان آغا خان کی تھی پر فیروز آغا خان کسی بھی صورت اسے حاصل کرنا چاھتے تھے۔دونوں کے پاس دولت کی کمی نہ تھی پر فیروز آغا خان ضد پکڑے بیٹھے تھے کہ زمین پر انکا حق ہے تو دوسری طرف خان بابا بھی اپنا حق چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔کچھ مربہ زمین ان دونوں کی ضد بن چکی تھی۔دونوں میں سے ایک بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔

فیروز آغا خان ایک حاسد اور خود پسند انسان تھے۔جوانی سے ہی انکی خان بابا سے نہیں بنی تھی۔ہر معاملے میں وہ خان بابا کی مخالفت میں کھڑے ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت بھی بالکل ایسے ہی کی تھی۔انکی اولاد بھی ان جیسی ہی تھی۔انکے بیٹوں کو انکی پوری سپورٹ حاصل تھی اسلئے جو انکے دل میں آتا وہ کرتے تھے۔جبکہ دوسری طرف خان بابا نے اپنے بیٹوں کو اس معاملے سے بالکل دور کر رکھا تھا۔انکا کہنا تھا کہ یہ انکا مسئلہ ہے جس میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا۔ہاشم انکی اس بات کے ہمیشہ خلاف رہا تھا۔اسکا کہنا تھا کہ جب فیروز آغا خان اپنے بیٹوں کو میدان میں لا سکتے ہیں تو پھر خان بابا کیوں نہیں ؟ پر خان بابا نے سختی سے انھیں منع کیا تھا کہ وہ بیچ میں نہیں بولیں گے۔پر عادت سے مجبور ہاشم خود کو اس سب سے دور نہیں رکھ پاتا تھا جس کے نتیجے میں اسے خان بابا کی ناراضگی سہنی پڑتی تھی۔پر پچھلے ایک سال سےجو ناراضگی انکے بیچ دیوار بنی کھڑی تھی اسے ختم کرنے کی خان بابا نے ایسی شرط رکھی تھی جسے ماننا ہاشم خان کے بس کی بات نہیں تھی۔دونوں باپ بیٹا ایک جیسے تھے۔دونوں میں سے ایک کی ضد بھی ٹوٹنے میں نہیں آ رہی تھی۔ دونوں اپنی ضد پر اڑے اپنا دل جلا رہے تھے۔

سوچوں میں گم وہ ایک دم چونکا۔"ہیل"دانت پیس کر اسنے اپنے  ہاتھ کو دیکھا ۔سگریٹ نے اسکی انگلی کو جلا دیا تھا۔ سوچوں کے گرداب میں گم اسے معلوم نہ ہوا کہ سگریٹ سلگ سلگ کر اسکی انگلی جلانے کے در پے تھا۔اسنے جھنجھلا کر سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکا اور زور سے انگلی کو مسلا۔ جلی انگلی کی پرواہ کئے بغیر وہ پھر سے نیا سگریٹ جلانے لگا۔آج تو جیسے اسنے سگریٹ پی پی کر اپنی جان  جلانے کی قسم کھا رکھی تھی۔پتہ نہیں کیوں آج وہ خود کو اتنا تنہا محسوس کر رہا تھا۔اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ یوں اتنے بڑے گھر میں تنہا تھا۔یہ گھر جو اسکا خواب تھا۔جسکی ایک ایک چیز کو اسنے لگن سے بنوایا تھا اب صرف سونے کا پنجرہ لگتا تھا۔جس میں وہ پچھلے ایک سال سے تنہا قید تھا اور اب تو یہ تنہائی جان لے رہی تھی۔تین دنوں سے اسکی تنہائی میں وہ کانچ سی لڑکی مخل ہوگئی تھی۔جسکی تلاش میں وہ دوبارہ اسی کلینک میں بھی گیا تھا کہ شاید وہ وہاں نظر آجائے پر وہ منظر سےغائب تھی۔اسے اپنی اس حرکت پر بہت غصہ آیا کہ بھلا وہ کیوں ایک لڑکی کو ڈھونڈھتا پھر رہا ہے۔یہ اسکی شان کے خلاف تھا۔وہ تو ایسا نہ تھا پھر کیوں؟کیوں وہ ایک لڑکی کے لئے اپنا آپ بھول رہا تھا۔"بھاڑ میں گئی وہ لڑکی۔"تنگ آ کر اسنے چبا کر کہا ۔سوچ سوچ کر وہ تنگ آ چکا تھا۔اسنے طے کر لیا تھا اب وہ اسے نہیں سوچے گا۔پر کیا سوچوں پر کبھی کسی کا بس چلا ہے؟

اپنے آپ میں مگن اسنے بڑبڑا کر سامنے دیکھا تو سیاہ آنکھوں میں حیرت جاگی پھرلبوں کےکونوں میں ہلکی مسکراہٹ پھیلی۔ 

"وہاٹ آ پلیزنٹ سرپرائز اسفند یار۔"وہ مدھم سا مسکراتا اٹھ کھڑا ہوا۔اسکا ذہن اتنا منتشر تھا کہ اسے اسفند کے آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔اسنے آگے بڑھ کر اپنے جگری دوست کو گلے لگایا۔ 

"سرپرائز تو مجھے ملا ہے ہاشم خان۔۔۔تم جیسا شارپ مائنڈڈ  انسان اتنا مگن ، اتنا انجان کب سے رہنے لگا جو اتنی ہلچل ہونے پر بھی ہوش میں نہ آیا؟کیا کوئی مسئلہ چل رہا ہے  تمہارے ساتھ ؟"اس سے الگ ہو کر اسفند نے حیرت سے اسے  دیکھا۔آج سے پہلے اسنے ہاشم کو اتنا بے خبرو انجان کبھی نہیں دیکھا تھا۔

"انہوں ۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔ تم بتاؤ اچانک ترکی سے واپسی کیسے ہوگئی۔تم نے تو ایک ویک رکنا تھا ناں؟"اسنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر بات بدلی۔ 

"کام جلدی ختم ہوگیا تھا اسلئے واپس آگیا۔یہ تم نے کیا دھوا بھر رکھا ہے خان۔"وہ ناراض سا آگے بڑھ کر ونڈوز کھولنے لگا۔ 

"اتنے سگریٹ کیوں پیتے ہو ؟ اتنا دھوا بھرا ہے یہاں۔تم سانس کیسے لیتے ہو؟"

"سانس لینا ہی تو محال ہوا ہے۔"وہ آگے بڑھ کر اسفند کے ساتھ کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا۔

"تم بدلے ہوئے لگ رہے ہو۔"اسفند نے ایک مشکوک نظر اس پر ڈالی۔ "کیوں زیادہ ہینڈسم ہوگیا ہوں"ہاشم نے شرارت سے اسے دیکھا۔ "اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے ہاشم خان۔"اسنے ہاشم کو گھور کر اسکے کندھے پر پنچ مارا۔  

"واقعی ؟"ہاشم نےمسکرا کرکھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا

"یس خان"اسفند جواب دے کر اسکے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔جبکہ ہاشم ستاروں بھرے آسمان پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ 

"وہ لڑکی کون ہے؟"اسفند نے ایک دم پوچھا۔ 

"کون ؟"ہاشم نے جھٹ سے چہرہ پھیر کر اسے دیکھا۔ 

"جسے بھاڑ میں بھیج رہے تھے۔"اسفند مسکرایا۔ 

"کوئی نہیں ہے اسفی۔"وہ پھر باہر دیکھنے لگا۔ 

"تمہیں پریشان کر رکھا ہے؟" 

"کس نے"ہاشم نے ابرو اٹھایا۔ 

"اس لڑکی نے۔"جھٹ سے جواب دیا۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"ہاشم نے جھنجھلا کر کہا۔وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔ 

"میں دیکھ رہا ہوں کہ ہاشم خان دی گریٹ کو ایک لڑکی نے پریشان کر رکھا ہے۔"

"دیکھتے رہو۔"ہاشم جھنجھلایا۔ 

"تم چڑ رہے ہو اسکے ذکر سے۔"

"نو وے"ہاشم کے ماتھے پر بل پڑے۔

"میں جان جاؤں گا کہ وہ کون ہے۔"

"اچھا جان جانا اسفند یار ملک اب میرا دماغ نہ کھاؤ۔"وہ تپ کر وہاں سے ہٹا۔اسفند ایک دم مسکرانے لگا۔"افف سٹون مین پگھل رہا ہے۔"وہ شرارت سے ہاشم کے پیچھے آیا۔ 

"شٹ اپ اسفی۔۔۔"ہاشم کچن کی طرف بڑھا۔اسفی ہنسنے لگا۔"امجد بابا پلیز کھانا لگائیں۔ اسفی کو منہ بند کرنے کی ضرورت ہے جو کھانا کھاتے وقت ہی ہو سکتا ہے۔"اسکی تپتی  بات پر اسفی قہقہہ لگا کر ہنسا۔ 

"ہاں امجد بابا بہت بھوک لگی ہے۔جلدی سے کھانا لگا ہی دیں۔ورنہ یہ سٹون مین مجھے مسل دے گا۔"اسفی شرارت سے بولا تو امجد بابا مسکرانے لگے۔ان دونوں کی دوستی سے وہ خوب واقف تھے۔وہ سر ہلا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے جبکہ وہ دونوں ہال میں واپس آئے۔ 

"اب اور کوئی فضول بات نہیں۔"ہاشم نے اسے وارن کیا۔ 

"اوکے اوکے ۔۔۔ بتاؤ بازو کیسا ہے؟"اس نے ہنسی دبا کر بات بدلی۔"مچ بیٹر۔"ہاشم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

"خان بابا سے بات ہوئی؟" 

"ابھی تک تو نہیں۔"ہاشم نے دکھتی آنکھوں کو ہلکے سے دبایا۔ 

"تم انکی بات مان کیوں نہیں لیتے۔" 

"جو وہ چاہتے ہیں وہ ناممکن ہے اسفی۔"اسنے بھاری آواز میں کہا۔اسفی نے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بات بدلی اور اسے ترکی میں ہوئی بزنس ڈیل کا بتانےلگا۔ 

کچھ دیر بعد وہ دونوں ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ڈنر کرنے لگے۔

نازلی نے مسکرا کی موبائل اسکرین کو دیکھا۔جہاں آنی کی پیاری سی فیملی تھی۔اس دن وہ آنی کے ہاں گئی تھی تو انکے ساتھ گزرے خوبصورت لمحوں کو اسنے موبائل میں قید کر لیا تھا۔اسنے موبائل پر نظر ڈالی۔۔ یہ تصویر آنی نے کلک کی تھی اس میں نازلی کے ساتھ زیب ، زارا ، آٹھارہ سالہ لیلیٰ جو آنی کی کیوٹ سی نند تھی اور آنی کے دیوانے اسد بھائی تھے۔آنی اور اسد بھائی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔اسد بھائی ہمیشہ آنی کے پیچھے پیچھے رہتے جسکی وجہ سے نازلی انھیں آنی کا دیوانہ کہتی تھی۔جس کے جواب میں وہ کہتے کہ تمہیں بھی کوئی دیوانہ مل جائیگا تو نازلی سر جھٹک کر رہ جاتی۔جو بھی تھا پر جب بھی وہ آنی کے گھر سے آتی  تو اسکا موڈ بہت خوشگوار رہتا تھا۔ان سبکو دیکھ کر نازلی کو ان پر رشک آتا۔اس پیاری سی فیملی میں ہمیشہ خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھری رہتیں ۔وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں انکی نظر اتارا کرتی تھی۔

اسنے موبائل ایک سائیڈ پر رکھا۔پھر سامنے نظر ڈالی تو گھڑی پر رات کے دس بج رہے تھے۔وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی۔سیڑھیاں اتر کر ڈرائنگ روم سے ہوتی کچن کی طرف بڑھی۔وہ روز رات دس بجے بابا جان کے لئے چائے بنا کر لے جاتی تھی۔اس وقت وہ لائبریری میں ہوتے تھے۔بچپن سے ان باپ بیٹی کے درمیان ایک جھجھک سی تھی۔وہ ہر وقت کام میں مصروف رهتے بس رات کا یہ وقت وہ لائبریری میں کتابوں کے درمیان گزارا کرتے تھے۔اسی وقت نازلی انکے لئے چائے لے کر جاتی اور کچھ دیر انکے پاس بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھی۔بابا جان ویسے تو بہت کم بولا کرتے تھے پر نازلی کے ساتھ وہ کتابوں سے پڑھی بہت سی اچھی اچھی باتیں شیر کیا کرتے تھے اور وہ مکمل دھیان سے سنا کرتی تھی۔اسے اپنے بابا جان کے ساتھ بیٹھنا بہت اچھا لگتا تھا۔روز بابا جان کے لئے اپنے ہاتھوں سے چائے بنانا اور انسے باتیں کرنا نازلی کی روٹین کا حصہ بن گیا تھا اور حسن آفندی بھی اس روٹین کے عادی ہوگئے تھے۔کبھی وہ اگر تھوڑی دیر سے انکے لئے چائے لے کر آتی تو بابا جان بک بند کئے بیٹھے اسکے منتظر ہوتے۔انہوں نے کبھی اس سے پوچھا نہیں تھا کہ بیٹا کہاں رہ گئی تھی پر انکے انداز سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی تھی کہ وہ اسی کے انتظار میں تھے۔اسکے بابا جان نے کبھی لفظوں میں اس سے اپنی محبت کا اظھار نہیں کیا تھا۔پر لا شعوری طور پے وہ اپنے ہر عمل سے نازلی کو اپنی محبت کا احساس دلاتے تھے۔جبکہ نازلی کے لئے تو اسکے بابا جان ہیرو تھے۔وہ بھی اپنے بابا کی بیٹی تھی۔زبان سے اس نے بھی کبھی کچھ نہ کہا پر عمل سے اپنی محبت ظاہر کرتی تھی۔وہ کوئی شوخ چنچل سی بیٹی نہ تھی جو باپ سے اپنے لاڈ اٹھواتی اور ان سے چیزوں کی فرمائش کرتی۔وہ تو خاموش سی اپنے آپ سمٹی لڑکی تھی۔اسنے کبھی کوئی فرمائش کی ہی نہ تھی۔اسے دنیا کی بھیڑ ڈراتی تھی وہ اپنے خول میں بند رہنے والی لڑکی تھی۔جو اپنے دکھ خود تک محدود رکھتی اور اپنے پیاروں کے لئے چہرے پر مسکان سجا لیتی۔اس کے اندر "میں" کا فتور نہ تھا۔نازلی حسن آفندی تو "تم" والے لوگوں میں سے تھی جو خود کو ایک طرف رکھ کر اپنے پیاروں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیتے ہیں۔

"نازلی باجی آپ کھانا کب تک کھائیں گیں؟"وہ سوچوں میں گم  کچن میں داخل ہوئی تو نوری نے پوچھا۔پندرہ سالہ نوری کی اماں سالوں سے انکے گھر کام کر رہی تھیں۔دونوں وہیں سرونٹ کواٹر میں رہتی تھیں۔نوری صاحبہ بھی اپنی اماں کی مدد کرنے انکے ساتھ آتی تھی۔پر میڈم کام چور تھی۔ 

"میرا دل نہیں کر رہا نوری بس بابا جان کے لئے چائے لے جانے آئی ہوں۔" اسنے چائے کا پانی چولہے پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔"تو پھر میں چلی جاؤں باجی؟"اس کے جواب پر نوری نے  آنکھیں مٹکا کر پوچھا۔نازلی نے پلٹ کر اسےدیکھا تو وہ بیچاروں سا منہ بنائے اسے دیکھنے لگی۔"ایسی مسکینوں والی صورت نہ بناؤ۔۔۔جانتی ہوں میں تمہیں ناول پڑھنے کی بے چینی لگی ہے۔پڑھائی نہ کرنا بس ناولز پڑھتی رہنا۔"نازلی نے اسے جھاڑا تو وہ منہ بسورنے لگی۔ 

"باجی پڑھتی تو ہوں۔ابھی یہاں آنے سے پہلے ٹیسٹ یاد کیا ہے۔"اسنے معصومیت سے کہا۔ 

"کسی دن سبق سنونگی تم سے پھر معلوم ہوگا کہ میڈم کتنا پڑھتی ہیں۔"اسکی بات پر نوری آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھنے لگی تو نازلی کو کہنا پڑا۔"اچھا جاؤ۔۔۔۔ نوری صاحبہ۔کرلو اپنا شوق پورا"اسکے کہنے پر وہ شکریہ باجی کہتی ہنستی ہوئی کچن سے باہر بھاگی۔

"پاگل لڑکی۔"اسکے جاتی ہی نازلی مدھم سا مسکرائی۔

چائے لے کر وہ لائبریری کے دروازے کے پاس رکی پھر ہاتھ بڑھا کر تھوڑا سا دروازہ کھولا۔"میں آجاؤں بابا جان؟" 

"کم اِن بیٹا جی۔"حسن آفندی نے مصروف سے انداز میں کہا۔ نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔روز اسکے اجازت لینے پر وہ یہی کہتے تھے۔انکا "بیٹا جی"کہنا نازلی کو بہت پسند تھا۔یہ الفاظ سن کے ہمیشہ اسکے شاداب چہرے پر مسکان سج جاتی تھی۔ 

اسنے آگے بڑھ کے کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔جسکی ایک طرف سنگل صوفے پر حسن آفندی بیٹھے تھے۔وہ دوسری طرف رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔بابا جان نے کتاب بند کر کے چشمہ اتارا پھر  چائے کا کپ اٹھا کر سپ لینے لگے۔

"کیسی ہے چائے؟"اسنے ہمیشہ والا سوال کیا۔ 

"پرفیکٹ۔"انہوں نے بھی ہمیشہ والا جواب دیا تو نازلی کا چہرہ چمک اٹھا۔"آپکی بڑی ماما اور تابین آگئیں۔"کچھ دیر بعد انہوں نے پوچھا۔"نہیں بابا جان۔"اسنے جواب دیا تو حسن آفندی خاموشی سے چائے پینے لگے۔

"کل سے یونیورسٹی جوائن کر رہی ہیں ناں آپ؟"انہوں نے کپ میز پر رکھ کر اسے دیکھا۔"جی ۔۔"اسنے ہاتھ مسلے۔ 

"نروس ہیں؟"انہوں نے اسکے چہرے کو بغور دیکھا۔ 

"تھوڑی سی۔"وہ مدھم سا مسکرائی۔اصل میں تو وہ کافی نروس تھی پر بابا جان کو بتا نہ سکی۔ 

"کچھ نہیں ہوتا بیٹا جی۔۔۔آپ کچھ دن یونیورسٹی جائینگی تو آپکو عادت ہوجائے گی اور پھر وہاں آپکے نئے دوست بھی بنے گے۔ پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا کیوں۔۔۔"وہ اسکے چہرے کو دیکھتے آہستہ آہستہ بات کر رہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ نازلی بھیڑ میں پریشان ہو جاتی ہے۔اسلئے وہ یونیورسٹی میں ایڈمیشن نہیں لینا چاہتی تھی پر آنی اور بابا کے سمجھانے پر لے لیا تھا۔بابا اسے سمجھا رہے تھے اور وہ انکی باتوں کا جواب دیتی خود کو مضبوط ظاہر کرنےکی کوشش کر رہی تھی۔بابا اور آنی کا یہی کہنا تھا کہ وہ دنیا سے چھپ کے تو نہیں رہ سکتی۔اسے اس دنیا میں رہنا ہے تو اسکا سامنا کرنا بھی سیکھنا پڑیگا۔کچھ دیر بعد بابا جان کو شب بخیر کہتی وہ سیڑھیاں طے کر کے اپر آئی۔اپنے کمرے سے ایک کمرہ چھوڑ کے اگلے روم کے دروازے پر نوک کی پر کوئی جواب نہ آیا۔یہ تابین کا کمرہ تھا۔ان دونوں کا روم اپر جبکہ بابا اور بڑی ماما کا روم نیچے تھا۔

اسنے دروازہ کھولا تو کمرہ خالی تھا۔وہ لوگ ابھی تک پارٹی سے واپس نہیں آئیں تھیں۔نازلی دروازہ بند کرتی اپنے کمرے میں آئی۔اسکے کمرے سے دروازہ نکل کر دوسرے کمرے میں جاتا تھا۔وہ وہاں داخل ہوئی۔اس روم کو اسنے اپنی بے شمار پینٹنگز سے سجا رکھا تھا۔پینٹنگ کرنا اسکا شوق تھا۔جب وقت ملتا تو وہ کچھ نا کچھ پینٹنٹ کیا کرتی تھی۔

وہ دیوار پر لگی بڑی سی پینٹنگ کے سامنے کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔اسکو اسنے ایک سال پہلے پینٹ کیا تھا۔یہ پینٹنگ اسکے بابا جان کی تھی۔اسنے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا۔اسنے ابھی تک یہ کسی کو نہیں دکھائی تھی۔گھر میں سبکو معلوم تھا کہ وہ پینٹ کرتی ہے پر کبھی کسی نے اسکا کام دیکھنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو اسنے بھی کسی کو اپنا کام نہیں دکھایا۔دن بہ دن اسکی خوبصورت پینٹنگز میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔آجکل بھی وہ نئی پینٹنگ بنانے میں لگی تھی جو کچھ دنوں تک مکمل ہونے والی تھی۔کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آ کر سونے کی تیاری کرنے لگی۔صبح اسے یونیورسٹی بھی جانا تھا۔کل اسکا پہلا دن تھا وہ کچھ نروس تھی پر بابا جان کی باتوں کو ذہن میں دوہراتی آنکھیں موند گئی۔ 

"اوئے نور ۔۔۔ اللہ کی بندی کیا ہوگیا ہے۔کیوں کب سے منہ پھلا کے بیٹھی ہو؟"آبش نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹی ماہ نور کو جھنجھوڑا پر وہ ہنوز اسی پوزیشن میں لیٹی رہی۔ 

"گونگی ہوگئی ہو ؟ پھوٹو بھی کچھ"اسنے نور کی آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا۔جواباً وہ اسے گھورنے لگی۔ 

"کچھ سن نہ لینا مجھ سے آبی، جاؤ یہاں سے۔"وہ تپی تھی۔ 

"یہ روم میرا ہے۔ میں کیوں جاؤں یہاں سے۔"آبی نے آنکھیں سکڑیں۔"تم بالکل اپنے بھائی کی طرح چرب زبان ہو"نور طیش سے کہتی اٹھ بیٹھی۔ 

"اے لڑکی میرے لالہ کے بارے میں تمیز سے بات کرو۔" 

"اونہہ پہلے تم اپنے لالے دل کے کالے کو تمیز سکھاؤ پھر مجھے کہنا۔"اسنے جل کر کہا 

"کیا گستاخی کر لی ہے میرے لالہ نے؟"آبی نے اسے گھورا۔ 

"ایک معصوم کا دل توڑا ہے انہوں نے۔"وہ سر جھکا کر اداسی سے بولی۔

"کون معصوم ؟ کہیں وہ پڑوس والی معصوم سی ذرگل تو نہیں؟" اسکی بات پر نور نے جھٹ سے سر اٹھایا۔اسے صدمہ لگا پر اگلے پل جل کر بولی۔"اس منحوس ذرگل کا دل کیا سر میں اپنے ہاتھوں سے توڑونگی"اسنے تپ کر آستینیں اپر کیں۔"اور تم دوستی کے نام پر دھبہ ہو۔تمہیں اپنی معصوم دوست دکھائی نہیں دیتی۔میں ہوں وہ معصوم۔"اسنے بات پر زور دے کر اپنی طرف اشارہ کیا۔ 

"لگتی تو کسی اینگل سے نہیں ہو۔"آبی نے شرارت سے کہا۔ماہ نور اسے مارنے کو آگے ہوئی۔ 

"اچھا اچھا معاف کرو بی بی ۔۔۔ بتاؤ لالہ نے کیا کہہ دیا؟" اسنے دوستانہ لہجے میں پوچھا تو نور نے پرانی فلموں کی ہیروئن کی طرح ڈرامئی انداز میں ٹھنڈی آہ بھری پھر بتانے لگی کہ کیسے شہریار نے اتنی چھوٹی سی بات پر اسے ڈانٹا تھا۔

 ہوا کیا تھا؟ بس اس بیچاری کے ہاتھوں سے شہریار کے چائے کے کپ میں ہیر پن ہی تو گری تھی۔ 

"وہاٹ ۔۔۔۔ تم ہیر پن کے ساتھ کیا کرتب دکھا رہی تھی جو وہ چائے کے کپ میں گر گئی۔"آبی حیران و پریشان تھی۔ 

"اچھال کر کیچ کر رہی تھی۔"اسنے بڑی معصومیت سے کہا "اب مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ محترم تبھی وہاں سے گزریں گے اور ہیر پن چائے کے کپ میں گر جائےگی۔"اسنے منہ بنا کر آبی کو دیکھا۔جو شاک سی بیٹھی تھی۔

"افف نور افف ۔۔۔ تم سے کوئی سیدھا کام نہیں ہوتا؟ میری بہن ہیر پن بالوں میں لگانے کے لئے ہوتی ہے کھیلنے کے لئے نہیں۔پھر میڈم کو میرے پیارے لالہ سے شکایت ہوتی ہے کہ وہ ڈانٹتے ہیں۔اپنے کام نہ دیکھنا تم بس میرے بھائی پر ہی الزام لگاتی رہنا۔" آبی نے اسے گھوریوں سے نوازتے ہوئے خوب سنائیں۔ 

"ہاں ہاں تم میرا ساتھ کیوں دینے لگی۔تم تو اپنے لالے کالے کا ہی ساتھ دوگی ناں۔"نور ترشی سے بولی 

"خبر دار جو تم نے میرے ہینڈسم سے لالہ کو کالا کہا۔"آبی نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔ 

"میری بلا سے ایسے ہینڈسم شخص کو اٹھا کر جنگل میں پھینک دینا چاہیے جو ہمیشہ اپنی معصوم سی منگیتر کا دل دکھاتا رہتا ہے۔"نور نے کہہ کر سر جھٹکا۔تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا۔وہاں سنجیدہ سا شہریار کھڑا تھا۔اسے دیکھ کر ماہ نور کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔جبکہ آبی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آبی ذرا آنا ، تم سے بات کرنی ہے۔"شہریار نے بہن کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہا 

"جی لالہ۔"آبی کے جواب پر وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی پلٹ کر چلا گیا۔ایک نظر بھی نور کو نہ دیکھا۔اسکے جاتے ہی نور نے منہ بسور کر آبی کو دیکھا تو وہ مسکراہٹ دبا کر وہاں سے چلی گئی۔"ہائے میری زبان کو آگ لگے۔یہ میں کیا کیا بولتی رہتی ہوں۔شہریار نے ضرور سب سن لیا ہوگا۔ افف اللہ۔"وہ سر پر ہاتھ رکھ کر خود کو کوسنے لگی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہاشم اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔اسکا آفس بلڈنگ کے تیسرے فلور پر تھا۔آج وہ بہت خوش تھا۔ آج اسنے بہت سی بڑی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ کر ایک بڑا ٹینڈر حاصل کیا تھا۔اس ٹینڈر کے لئے سب نے جان لگا دی تھی جن میں جمال آغا کا نام سر فہرست تھا۔پر سب کو پیچھے چھوڑ کر ہاشم خان بازی لے گیا تھا۔وہ ایک کامیاب اور عقل مند بزنس مین تھا۔کب کیا اور کیسے کرنا تھا یہ وہ اچھے سے جانتا تھا۔

وہ کرسی سے اٹھ کر گلاس وال تک آیا۔جہاں سے نیچے شہر کی گہما گہمی دکھائی دے رہی تھی۔سنہری دھوپ کی کرنیں گلاس وال سے ہوتی ہوئیں اسکے آفس کو اجالا بخش رہی تھیں۔ "ہوں ۔۔۔تو تم واپس آگئے ہو جمال آغا ۔۔۔۔ ایک بار پھر سے ہاشم خان کے مقابل۔"اسنے مسکرا کر خود کلامی کی پھر نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔سوچوں کا رخ بدلا ۔۔۔۔ دل کی دنیا میں طوفان سا برپا ہوا۔ایک پیاری سی صورت سنہری دھوپ کی مانند اسکی آنکھوں کے سامنے چمکی۔اسنے آنکھیں سختی سے بند کر کے کھولیں۔پر منظر نہ بدلا۔۔۔۔وہ نیلی آنکھوں والی لڑکی اسکا جینا محال کر رہی تھی۔خوبصورت چہرے اسنے بے حساب دیکھے تھے پر اس سنہری صورت میں کچھ الگ تھا جسے دیکھ کر ہاشم خان کے دل کی دنیا ہل کر رہ گئی تھی۔اسکے ضدی دل کو وہ چہرہ بھا گیا تھا۔وہ کانچ سی لڑکی اس پتھر کو پگھلا گئی تھی اور اب اسے اس کانچ سی لڑکی کو تلاش کرنا تھا۔ایک ہفتہ گزر چکا تھا اسے دیکھے ہوئے۔اسے خود پر یقین تھا کہ جلد وہ اسے ڈھونڈھ نکالے گا۔اسنے مسکرا کر اپنا مضبوط ہاتھ گلاس وال پر رکھا۔جیسے خیالوں میں نظر آتے اس چہرے کو چھوا ہو۔"بہت جلد تم ہاشم خان کے رو برو ہوگی۔بس تھوڑا انتظار پھر ہاشم خان تمہیں تم سے چرا لے جائے گا۔"آنکھوں میں چمک لئے اسنے خود کلامی کی۔جلد اسے ہاشم خان کی زندگی میں آنا ہوگا کیونکہ وہ ہاشم خان کے دل کو بھا گئی تھی تو وہ صرف اسی کا نصیب بنے گی۔وہ مدھم سا مسکراتا خیالوں میں گم تھا۔فون کی رنگ نے اسکی سوچوں کو منتشر کیا۔وہ پلٹ کر ٹیبل تک آیا۔موبائل پر نظر ڈالی۔اسکرین پر خان بابا کا نام دیکھ کر، لمبی سانس کھینچ کر کال پک کی۔

"اسلام و علیکم"اسکے سلام کے جواب میں دوسری طرف سے ہنکارہ بھرا گیا۔کچھ دیر بعد خان بابا کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔"ہاشم خان ہم نے تمہیں کہا بھی تھا کہ ہمارے معاملات سے دور رہنا۔ پھر کیوں تم نے بلاول خان سے جھگڑا کیا؟"ہاشم نے خاموشی سے انکی بات سنی پھر بولا۔"داور نے آپکو ساری بات بتا ہی دی ہوگی خان بابا ، جھگڑا اس طرف سے شروع کیا گیا تھا۔" 

"بلاول اور داور  چھوٹے ہیں پر تم تو بڑے ہو ہاشم خان ۔۔۔ تم انہیں بھی جھگڑے سے منع کرتے پر نہیں ، الٹا تم نے جھگڑے کو مزید بڑھا دیا۔تم نے تو ہماری مخالفت کرنے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے۔"خان بابا کی آواز میں بلا کا غصہ تھا۔ 

"ایسی بات نہیں ہے، آپ بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے خان بابا۔وہ آپکا سو کالڈ چچا زاد اور اسکی اولاد ۔۔۔ " 

"بس ہاشم خان۔"خان بابا نے گرج کر اسکی بات کاٹی۔"اب تم اتنے بھی بڑے نہیں ہوئے کہ اپنے باپ کو نا سمجھ ہونے کا طعنہ دو۔"خان بابا کی آواز غصے سے کانپی تھی۔ہاشم مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا اور خان بابا کیا سمجھے تھے۔پر وہ اپنی صفائی میں کچھ نہ بولا۔ وہ جانتا تھا اب خان بابا نے اسکی ایک نہیں سننی تھی۔اسلئے وہ خاموش ہی رہا۔ 

"ہم تمہیں آخری بار کہہ رہے ہیں ہاشم خان کہ ہمارے معاملات سے دور رہو ورنہ سلطان آغا خان ابھی اتنا بوڑھا نہیں ہوا کہ تمہارا مقابلہ نہ کر سکے۔"انکی بات پر ہاشم نے گہری سانس بھری جب وہ پھر بولے۔"اور ہاں ہاشم خان آئندہ گاؤں میں قدم مت رکھنا۔ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے۔"اپنی بات مکمل کر کے انہوں نے کال کاٹ دی۔انکی بات پر ہاشم کے اعصاب تن گئےکان ایک دم سے سرخ ہوئے۔پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔اسنے ہاتھ میں پکڑا موبائل سامنے دیوار پر دے مارا۔دل میں آیا کہ سب کچھ تہس نہس کر دے۔خان بابا ایسے ہی تھے ہمیشہ سے اپنی کرنے والے کسی اور کی نہ سننے والے۔انکی اسی عادت نے ہاشم کو ضدی اور خود سر بنا دیا تھا۔خان بابا کو اپنی کرنے کی عادت تھی تو وہ بھی انہیں کا بیٹا تھا۔دونوں کی یہی ضد آج انکے بیچ ایک لمبا فاصلہ لے آئی تھی۔جہاں دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

لال آنکھیں ، سنجیدہ چہرے کے ساتھ اسنے ٹیبل سے کار کی چابی لی اور آفس سے باہر آیا۔ کچھ پل پہلے کی خوشی ہوا ہو چکی تھی۔اسنے کار اسٹارٹ کر کے اسکا رخ کلب کی طرف موڑا۔جب بھی غصہ اسکے سر پر حاوی ہوتا تو وہ کلب کا رخ کرتا۔جہاں تنہا بیٹھ کر رنگ برنگے چہروں کو دیکھتا ،سگریٹ پھونک پھونک کر اپنا دل جلاتا رہتا۔پچھلے ایک سال سے یہی اسکی زندگی تھی۔۔۔۔۔۔ ادھوری اور تنہا۔ 

اسنے شال کندھوں کے گرد لپٹی ، پھر بیگ اٹھا کر کمرے سے باہر نکلی۔سیڑھیاں اتر کر ڈائننگ روم میں داخل ہوئی۔بابا جان اور بڑی ماما بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔وہ انہیں سلام کرتی کرسی گھسیٹ کر بیٹھی اور خاموشی سے اپنے لئے چائے ڈالنے لگی۔ 

"ڈرائیور کے ساتھ جائیں گیں کہ میں چھوڑ آؤں؟"حسن آفندی نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ "ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤنگی بابا جان"

"آر یو شیور"حسن آفندی کی بات پر نازلی نے مسکرا کر انہیں دیکھا "یس بابا جان"اسنے آہستہ سے کہا۔امتل آفندی نے نحوست سے باپ بیٹی کو دیکھا۔"نازلی کوئی بچی تو ہے نہیں جو آپ اتنی فکر کر رہے ہیں حسن۔اگر دنیا کو فیس نہیں کر سکتی تو میرے خیال میں اسے گھر میں ہی بیٹھے رہنا چاہیے۔"وہ سرد لہجے میں کہہ کر کانٹے سے املیٹ منہ میں ڈالنے لگیں۔انکی بات پر نازلی خاموشی سے اپنے کپ کے کنارے پر انگلی پھیرنے لگی۔  

"کم آن امتل بیگم ، کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔"حسن آفندی نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا پر امتل آفندی سر جھٹک کر ناشتے میں مصروف ہوگئیں۔انہیں نازلی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔اسے دیکھ کر انہیں سالوں پرانے زخم یاد آنے لگتے تھے۔

ڈائننگ روم کی خاموشی کو تابین کی ہیل کی ٹک ٹک نے توڑا۔خوشبوؤں میں بسی تابین ڈائننگ ٹیبل کے قریب آئی۔ٹراؤذر شرٹ میں ملبوس ،کھلے بالوں میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ "مارننگ آپی۔"نازلی اسے دیکھ کر مدھم سا مسکرائی۔

"مارننگ ڈارلنگ۔"تابین اسے جواب دے کر ماما بابا کو سلام کرتی مسکرا کر کرسی پر بیٹھی۔آج اسکا موڈ خوشگوار لگ رہا  تھا۔وہ موڈی قسم کی لڑکی تھی۔دل ہوتا تو اچھے سے بات کرتی ورنہ اسے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔"آج جلدی اٹھ گئی مائی لوو لی ڈاٹر۔"امتل آفندی نے محبت سے بیٹی کو دیکھا۔

"جی ماما بس بوتیک میں ضروری کام ہے۔سو اسلئے۔"وہ جواب دے کر ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی۔ 

"ماشاء اللہ ہماری دونوں بیٹیاں بہت ٹیلنٹڈ ہیں۔"حسن آفندی ہلکی مسکراہٹ لئے فخر سے بولے۔ 

"کوئی شک نہیں بابا پر میں نازلی سے دو قدم آگے ہوں۔کیوں نازلی۔"تابین نے مسکرا کر سر کو خم دیا پھر نازلی کو دیکھا۔  

"آئی نو آپی۔"نازلی برا مانے بغیر مسکرائی۔کہنے کو وہ نازلی کی سوتیلی بہن تھی۔پر نازلی کو اس سے بہت محبت تھی۔

"کتنی بار کہا ہے کہ آپی نہ کہا کرو مجھے۔"تابین نےمنہ بنایا۔ 

"پھر کیا کہوں؟"نازلی نے نیلی آنکھیں اٹھا کر معصومیت سے پوچھا۔"نام لیا کرو۔"تابین نے لاپرواہ انداز میں کہا۔ 

"نازلی آپ سے چھوٹی ہیں تابین ۔۔۔ کیا یہ آپکا نام لیتی اچھی لگیں گیں؟"حسن آفندی نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ 

"اوہ اوکے نو پرابلم۔جو مرضی کہہ لیا کرو۔"تابین نے ہنس کر کہتے نازلی کا گال چھوا۔نازلی مسکرانے لگی۔امتل آفندی نے اسے گھوری سے نوازہ تو اسکی مسکراہٹ سمٹ گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ ان سبکو اللہ حافظ کہتی یونیورسٹی کے لئے نکلی۔ 

شہریار ڈرائیو کر رہا تھا۔اسکے ساتھ آبی بیٹھی تھی جبکہ نور پچھلی سیٹ پر تھی۔ "تم دونوں پڑھائی کرنے جا رہی ہو اسلئے صرف پڑھائی پر دھیان دینا۔فضول دوستیاں پالنے کی ضرورت نہیں ہے۔"شہریار کی آواز پر وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔"بس اپنے کام سے کام رکھنا اور اچھے سے پڑھائی کرنا۔"اب کی بار اسنے نرمی سے کہا۔دونوں نے خاموشی سے سر ہلایا۔اسنے بیک ویو مرر سے ایک نظر نور کو دیکھا۔اسکی نظریں ایک پل ماہ نور کے معصوم چہرے پر رکیں پر اگلے پل وہ سر جھٹک کر ڈرائیو کرنے لگا۔ 

یونی کی پارکنگ میں اسنے کار روکی۔وہ دونوں کار سے اتریں۔نور نے رک کر اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ جمائے شہریار کو دیکھا پھر ایک دم بولی۔"شہریار آپ ہمیں لینے آئینگے؟" 

"نہیں ۔۔۔ مجھے کام ہے اسلئے ڈرائیور کو بھیجونگا۔یہاں کھڑی مت رہو اب جاؤ اندر۔"سپاٹ انداز میں جواب دیتا وہ اگلے پل کار آگے بڑھا لے گیا۔نور نے اسکی دور ہوتی کار کو اداسی سے دیکھا۔"چلو نور۔"آبی نے کہا تو وہ سوچوں میں گم اسکے ساتھ چلنے لگی۔اس بے پرواہ شخص سے اسے بہت محبت تھی۔بچپن سے اسکا نام اس شخص سے جڑا تھا پر اُسے کوئی پرواہ ہی نہ تھی۔پہلے وہ اس قدر ظالم نہ تھا پر پچھلے کچھ عرصے سے اسکا لہجہ سرد و سپاٹ ہوگیا تھا۔وجہ وہ اچھے سے جانتی تھی پر اسکے بس میں کچھ نہ تھا۔اسنے پلکیں جھپک کر لمبی سانس لی اور آبی کے ساتھ کلاس کی طرف بڑھی۔

کلاسز ہو چکیں تو سب لوگ اٹھ کر کلاس سے باہر جانے لگے۔ پر وہ اکیلی خاموشی سے سر جھکا کر اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔

"ہائے۔"اس آواز پر اسنے سر اٹھایا۔سامنے دو پیاری سی ہنس مکھ لڑکیاں کھڑی تھیں۔"ہیلو۔"جواباً وہ بھی مدھم سا مسکرائی۔ 

"تم یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو۔چلو آؤ کینٹین چلتے ہیں۔"ایک نے دوستانہ لہجے میں کہا۔نازلی نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ 

"ڈفر نور پہلے اپنا تعارف تو کرواؤ۔"آبی نے اسے گھورا۔ 

"اوہ سوری ، مجھے ماہ نور کہتے ہیں۔"اسنے مسکرا کر اپنا ہاتھ بڑھایا جسے نازلی نے تھام لیا۔"اور یہ سڑی ہوئی جو ہے ناں یہ میری کزن آبش ہے۔"اسنے شرارت سے آبی کی طرف اشارہ کر کےکہا۔"اسکی باتوں پر دھیان نہ دینا فضول بولتی ہے۔"آبی نے جل کر نور کو دیکھا  اسکی بات پر نازلی مسکرانے لگی۔ 

"نائس ٹو میٹ یو گرلز۔"وہ انہیں دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ دونوں اسے بہت دلچسپ لگیں تھیں۔"مجھے نازلی کہتے ہیں۔" اسنے مدھم سی مسکان لبوں پر سجا کر کہا۔"بالکل اپنے نام کی طرح نازک سی ہو تم۔ماشاء اللہ" نور نے پیار سے کہا تو نازلی مسکرا دی۔پھر تینوں کینٹین کی طرف بڑھیں۔ٹیبل کے گرد بیٹھ کر سینڈوچ کھاتے باتیں کرنے لگیں۔نور کتنے پل غور سے نازلی کو دیکھتی رہی۔نازلی اور آبی باتیں چھوڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔"کیا ہوا؟"آبی نے حیرت سے پوچھا۔نازلی بھی اسے دیکھنے لگی۔ 

"افف یار مجھے تو اسکی آنکھیں لے ڈوبیں۔"وہ مبہوت انداز میں بولی۔آبی اور نازلی نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ "اگر میں لڑکا ہوتی ناں تو ابھی تک نازلی کو شادی کے لئے پرپوز کر چکی ہوتی۔"وہ مزے سے کہہ رہی تھی۔ اسکی بات پر وہ دونوں حیرت سے نکلی اور اگلے پل ہنسنے لگیں۔ 

"تم بھی ناں نور۔"نازلی نے ہنسی روک کر سر ہلایا۔

"سچی یار تم کانچ سی لگتی ہو۔ڈر لگتا ہے کہ ہاتھ لگانے سے ٹوٹ نہ جاؤ۔"وہ مسکرا کر محبت سے بولی۔نازلی کو عجیب لگا۔آنی کے علاوہ آج سے پہلے اتنی محبت بھری تعریف اسکی کسی نے نہیں کی تھی۔"میں ایک عام انسان ہوں۔کوئی کانچ وانچ کی نہیں بنی ہوئی۔اسلئے تم مجھے ہاتھ لگا سکتی ہو۔ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔"اسنے شرارت سے کہہ کر نور کا ہاتھ تھاما۔

"شکر ہے پھر۔"نور شکر ادا کرتی منہ پر ہاتھ پھیر کر شرارت  سے ہنسی تو وہ دونوں بھی ہنسنے لگیں۔ 

"تھینک یو۔۔۔ اتنے پیارے لمحوں کے لئے۔۔۔تم دونوں بہت پیاری اور زندہ دل لڑکیاں ہو۔"نازلی کی بات پر دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ "میڈم اب روز ہم یہ پیارے لمحے جیئں گے انشاء اللہ۔"آبی نے دوستانہ لہجے میں کہا  

"ویسے دوستی تو پکی ہے ناں۔"نور نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"بالکل پکی۔"نازلی کی آنکھوں سے روشنی سی پھوٹ پڑی۔

"مبارک ہو ۔۔۔لو اسی خوشی میں یہ چاکلیٹ کھاؤ۔"نور نے جلدی سے بیگ سے چاکلیٹ نکال کر انہیں دی۔

نازلی نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔اسکی زندگی میں یہ پہلا دوستی کا رشتہ تھا۔آج انکے بیچ ایک نیا رشتہ قائم ہوا تھا۔باقی تمام رشتے تو ہمیں اللہ کی طرف سے ملتے ہیں۔ہم ان میں  چوائس نہیں رکھ سکتے پر دوستی وہ واحد رشتہ ہے جسے ہم خود چنتے ہیں جس میں ہمارے پاس چوائس ہوتی ہے کہ ہم نے اچھے دوست بنانے ہیں کہ برے۔دوست برے ملیں تو زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور اگر اچھے ، مخلص ملیں تو وہ آپکو سنوار دیتے ہیں اور ہمیشہ آپکی زندگی کا ایک خوبصورت حصہ بن جاتے ہیں جو بچھڑ جانے کے بعد بھی پھولوں کی طرح ہمیشہ آپکی یادوں میں مہکتے رہتے ہیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ریسٹورنٹ روشنیوں سے چکا چوند تھا۔ڈنر کے لئے آئے ہاشم اور اسفی ایک کونے میں رکھے ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے۔

"ام جان سے بات کی ہے تم نے ؟"اسفی نے اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھا۔ہاشم ٹیبل پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ 

"نہیں ۔۔" اسنے مختصر جواب دیا۔ 

"ان سے ملنے گاؤں چلے جاؤ۔"اسفی کی بات پر ہاشم نے سر اٹھایا۔اسفی نے اسکی آنکھوں میں سرخی سی نمودار ہوتی دیکھی۔"پتہ ہے اسفی اس دن خان بابا نے مجھے کیا کہا؟" اسکی آواز سرد اور بھاری ہو رہی تھی۔"انہوں نے کہا کہ انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔انہیں اپنے بیٹے کی ضرورت نہیں ہے اسفی۔" اسنے سر جھٹکا۔"اور یہ کہ اب میں گاؤں میں قدم نہ رکھوں۔" اسکی بات سنتے اسفی نے اسکی آنکھوں میں اداسی تیرتی دیکھی۔اسکا دوست بہت مظبوط تھا پر کچھ رشتے مظبوط سے مظبوط انسان کو بھی کمزور بنا دیتے ہیں۔

"اگر وہ یہی چاہتے ہیں تو ایسا ہی سہی۔"وہ زخمی سا مسکرایا۔"ہاشم خان بھی اب گاؤں میں قدم نہیں رکھے گا۔"وہ ضدی لہجے میں بولا۔"یار بہت ہوگئی یہ ضد ۔۔۔اب اسکو ختم کردو۔مان لو انکی بات اور حویلی واپس جاؤ۔"اسفی نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ "نا ممکن۔۔۔۔"اسنے اسفی کی آنکھوں میں دیکھا۔"انکی بات ماننا میرے لئے نا ممکن ہے۔"بات مکمل کر کے اسنے ہاتھ جھاڑے۔"بہت ضدی ہو تم"اسفی جھنجھلایا۔جبکہ ہاشم بنا کچھ کہے  ویٹر کو بلا کر آرڈر دینے لگا۔کھانا آیا تو دونوں خاموشی سے کھانے لگے۔اسفی نے ہاشم کو دیکھا۔اُسکے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔وہ کتنے پل ہاشم کو دیکھے گیا پر وہ محترم کسی خیال میں بری طرح سے گم تھے۔ "واپس لوٹ آؤ ہاشم خان۔"اسنے چٹکی بجا کر طنزیہ کہا۔ہاشم نے سکون سے ابرو اٹھا کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔ 

"تم آجکل بہت مشکوک ہوتے جا رہے ہو۔حالات ٹھیک نہیں لگ رہے؟"

"حالات بالکل ٹھیک ہیں اسفندیار ملک،تم زیادہ جاسوس نہ بنو۔" ہاشم نے مسکرا کر اسکا کندھا تھپکا۔"یہ راز بھی جلد ہی فاش ہوجائے گا مسٹر۔"اسفی نے مسکرا کر سر ہلایا۔تبھی اسکی نظر پیچھے گئی۔اسنے ہاشم کو اشارہ کیا تو ہاشم نے سر پھیر کر پیچھے دیکھا۔جمال آغا کسی لڑکی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہورہا تھا۔اسے دیکھ کر ہاشم کی مسکراہٹ گہری ہوئی اور وہ گردن سیدھی کرتا کھانے کی طرف متوجہ ہوا۔جمال آغا نے جھک کر لڑکی کے کان میں کچھ کہا پھر انکے ٹیبل کی طرف بڑھا۔جبکہ وہ دونوں کھانا کھانے میں مصروف رہے۔اسنے ٹیبل بجا کر انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ہاشم نے سر اٹھا کر ہلکی مسکراہٹ سے اسے دیکھا ہاشم کی آنکھوں میں مغرور سی چمک تھی جبکہ جمال آغا کی آنکھوں میں سرد تاثر تھا۔

"جیت کے نشے میں چور ہو ہاشم خان۔۔۔ پر جلد ہوش میں آجاؤ گے۔"وہ تھوڑا جھک کر سرگوشی کے انداز میں بولا۔اسکی بات پر ہاشم کھل کر مسکرایا۔پھرکہنیاں میز پر ٹکا کر ہاتھوں کو باہم ملایا اور ایک تیز نظر سامنے کھڑے جمال آغا پر ڈالی۔ 

"جب تک تم میرے مقابل رکھو گے جمال آغا تب تک ہار تمہارا مقدر بنے گی اور ہاشم خان جیت کے نشے میں چور رہے گا۔" اسنے مسکرا کر استہزائیہ انداز میں کہا۔پر اگلے پل اسکا چہرہ سپاٹ ہوا۔"کیونکہ ہاشم خان نے ہارنا نہیں سیکھا۔تم سے تو ہرگز نہیں"اسکی بات پر جمال آغا کے اعصاب تن گئے۔"ایک دو بازیاں جیت لینے سے تم یہ نہ سمجھ لینا کہ تم نے مجھے مات دے دی ہے ہاشم خان۔جمال آغا بھی کوئی کچا کھلاڑی نہیں ہے۔اب کی بار ہار تمہارا مقدر بنے گی۔"اسکا لہجہ نفرت سے پر تھا۔

"یہ تو وقت ہی بتائے گا۔"ہاشم طنزیہ مسکرایا۔"ہم دوست ڈنر کرنے آئیں ہیں۔اسلئے میں ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔تم چاہو تو ہمیں جوائن کر سکتے ہو۔"اسنے بات ختم کرنے والے انداز میں کہا۔ 

"نو تھینکس ۔۔۔۔ تم سے زیادہ اچھی کمپنی میرے ساتھ ہے۔"جمال آغا نے چبا کر لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔"سو ہیو فن۔"ہاشم نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔جمال آغا نے جواباً اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا پھر پلٹ کر اپنی ٹیبل کی طرف بڑھنے لگا۔اسکے جاتے ہی اسفی نے گہری سانس لی۔"مجھے ڈر تھا کہیں ابھی تیسری جنگ عظیم نہ شروع ہوجائے۔"اسکی بات پر ہاشم نے قہقہہ لگایا۔ 

"تم اتنے ڈرپوک کب سے ہوگئے اسفند یار؟"اسنے شرارت سے پوچھا۔

"جب سے تمہارا دوست بنا ہوں۔"اسفی نے منہ بنایا۔"ہر کسی سے پنگا لیتے رہتے ہو۔"اس نے افسوس سے سر جھٹکا۔

"میں کہاں یار یہ سائیکو آدمی خود میرے مقابل آرہا ہے۔وہ بھی مجھے ہرانے کی خواہش لئے۔۔۔اب ایسا تو ممکن نہیں ہے ناں کہ وہ ہاشم خان کو مات سے دو چار کروانا چاہے اور ہاشم خان خاموشی سے تماشہ دیکھتا رہے۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔ 

"یہ شیطان امریکا چلا گیا تھا۔پھر واپس کیوں آگیا۔"اسفی نے ہاشم کو دیکھا پھر بات جاری رکھی۔"دو سال بعد اسے پھر سے تمہاری یاد آگئی۔اچھا ہوتا واپس ہی نہ آتا۔اب پھر سے وہ پرانی دشمنی کو تازہ کر رہا ہے۔تمہارے لئے اس شخص کی آنکھوں میں نفرت کا ایک جہان آباد ہے۔ ایسے لوگ کچھ بھی کر گذرتے ہیں ہاشم خان۔تم بس اس سے بچ کر ہی رہو۔"اسفی  اپنے دوست کے لئے فکر مند ہو رہا تھا۔ 

"کم آن یار ۔۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکے کندھے پر پنچ کیا۔اپنے لئے اسکا فکر مند ہونا ہاشم کو اچھا لگا تھا۔وہ اسکا واحد مخلص دوست تھا۔"اس پاگل سے کیا ڈرنا۔۔۔ اور تم نے کیا اپنے دوست کو کم سمجھا ہے۔ایسے تھوڑی اس سے ڈر جاؤنگا۔"اسنے بات ہنسی میں اڑا دی۔اسفی اسے دیکھ کر رہ گیا۔اسکے سامنے بیٹھا یہ  شخص بھی پورا پاگل تھا کبھی بات کو سمجھتا ہی نہیں تھا۔ "چلو کھانا کھاؤ ۔۔۔ پہلے ہی ٹھنڈا ہو گیا ہے۔"ہاشم نے پلیٹ اسکی طرف کی۔پھر دونوں خاموشی سے کھانا ختم کرنے لگے۔

جمال آغا اور ہاشم خان کی دشمنی یونیورسٹی کے زمانے سے تھی۔جو اب تک قائم تھی۔ہاشم ہمیشہ جمال آغا سے دو قدم آگے رہتا تھا جو جمال آغا برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اسنے ہاشم   خان سے جیتنے کی ضد باندھ رکھی تھی۔پر جب بھی وہ ہاشم سے مقابلے پر اترتا ہار اسکا مقدر بنتی۔اسی مسلسل ہار نے اسکی ضد اور ہاشم کے لئے اسکی نفرت کو بڑھا دیا تھا۔وہ کسی بھی حال میں جیتنا چاہتا تھا۔ہاشم خان کو مات دینا چاہتا تھا تا کہ اُسکا اٹھا سر جھکا سکے۔اسکے غرور کو اپنے قدموں تلے روند سکے۔اس سے اپنی ہر ہار کا بدلہ لے سکے۔اسنے طے کر لیا تھا کہ اب کی بار وہ ہاشم کو منہ کے بل گرانے کے لئے کسی بھی حد تک چلا جائے گا۔

اسنے چہرے پر آتی لٹ کو ہاتھ سے پیچھے کیا۔سفید ٹروزر، لال شرٹ کے ساتھ سفید دوپٹہ اسکے شانوں پر پڑا تھا۔بالوں کو اپر کر کے کیچر میں قید کیا تھا جس میں سے کچھ لٹیں نکل کر اسکے چہرے پر بکھر گئیں۔ایک ہاتھ سے بال پیچھے کئے جبکہ دوسرے ہاتھ میں اسنے برش تھام رکھی تھی جسکی مدد سے وہ کینوس پر رنگ بکھیر رہی تھی۔ اسےپینٹ کرنا بہت پسند تھا جب بھی باقی تمام چیزوں سے دل اچاٹ ہوتا تو وہ رنگوں کی دنیا میں کھو جاتی۔اب بھی وہ پچھلے ایک گھنٹے سے پینٹنگ روم میں تھی اور کینوس پر مہارت سے مختلف رنگوں سے کھیل رہی تھی۔ان رنگوں بھری دنیا میں وہ اپنے تمام دکھ بھول کر کھو سی جاتی۔پینٹ کرتے وقت وہ مکمل تور پر دنیا سے کٹ جاتی تھی۔اب بھی وہ مگن سی اپنے کام میں مصروف تھی جب دروازے پر نوک ہوئی۔اسنے ہاتھ روک کر پوچھا۔"کون؟" 

"باجی میں نوری۔"دروازے کے پار سے جواب آیا۔

"آجاؤ نوری۔"اسنے دوبارہ برش کینوس پر چلاتے ہوئے اجازت دی۔وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔نازلی کو پینٹ کرتے دیکھ کر مسکرانے لگی۔"مجھے معلوم تھا آپ ضرور پینٹنگ کر رہی ہونگیں اسلئے میں بھاگی چلی آئی۔"اسنے خوشی سے کہا۔

"اچھا میڈم ۔۔۔ تو کیا تم نے میری مدد کرنی ہے پینٹ کرنے میں؟"نازلی نے مصروف انداز میں پوچھا 

"نہیں باجی۔۔۔آپکی طرح مجھے رنگوں کی کہاں سمجھ ہے۔بس اس کمرے میں آ کر مجھے لگتا ہے میں خوابوں کی دنیا میں آگئی ہوں۔اسلئے مجھے یہاں آنا اچھا لگتا ہے۔"اسنے مسکراتے ہوئے ارد گرد نظر دوڑا کر کہا۔اسکی بات پر نازلی کے لب مسکرا اٹھے۔"ناولز پڑھ کے خوابوں کی دنیا میں تو تم ویسے بھی کھوئی ہی رہتی ہو بی بی۔"اسنے پینٹنگ کو فائنل ٹچ دیتے ہوئے مسکرا کر کہا۔"اسی لئے تو مجھے آپکا یہ کمرہ بہت ہی اچھا لگتا ہے باجی۔یہ بھی ناولز کی طرح فیری ٹیل سی دنیا لگتی ہے۔جہاں دنیا کی تلخی نہیں ہے۔بس بے شمار خوبصورت رنگ بکھرے ہیں جو ہاتھ تھام کر آپکو ایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں جو بہت حسین بہت خوبصورت ہے۔"وہ مگن سی بول رہی تھی۔نازلی نے کام مکمل کر کے برش رکھی پھر پلٹ کر نوری کو دیکھا۔نوری کے چہرے پر معصوم سی خوشی تھی۔جس نے اسکی آنکھوں کو نور بخشہ تھا۔اسکا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔نازلی اسے دیکھ کر نرمی سے مسکرائی۔پھر اسے پکڑ کر ابھی مکمل کی گئی  پینٹنگ کے سامنے کھڑا کیا۔"بتاؤ یہ کیسی ہے؟"ہمیشہ سے پینٹنگ کرتے وقت نوری ہی اسکی ساتھی ہوا کرتی تھی۔وہی اسکی پینٹنگز کی تعریف کرتی،کبھی جب وہ پینٹ کر رہی ہوتی تو میڈم آ کر اسکے پاس خاموشی سے بیٹھ کر اسکا کام دیکھتی۔وہ جب بھی حسن ولا آتی اور نازلی کو سامنے نہ پاتی تو سمجھ جاتی تھی کہ اسکی باجی صاحبہ پینٹنگ کرنے میں مصروف ہوگی تو پھر وہ جھٹ سے بھاگی بھاگی اس روم تک آجاتی۔ 

نازلی کے پوچھنے پر نوری نظریں جما کر پینٹنگ کو دیکھنے لگی۔جہاں لڑکی ایک درخت سے بندھے جھولے پر بیٹھی تھی۔اس جگہ پر دور دور تک سبزہ پھیلا تھا۔اسکے کھلے بال ہوا سے پیچھے کی طرف اڑ رہے تھے۔وہ چہرہ اٹھا کر آسمان کو دیکھ رہی تھی۔آسمان پر پھیلے دھنک کے رنگ جیسے اسکے چہرے پر بھی بکھرے تھے۔اس خوبصورت پینٹنگ میں رنگوں کاجہان آباد تھا پر مکمل اور اس قدر خوبصورت ہوتے ہوئے بھی اس پینٹنگ میں کہیں کچھ کمی تھی۔ہاں۔۔۔۔ وہاں  خوشی کے رنگوں کی کمی تھی۔اس پھول چہرہ لڑکی کی حسین  آنکھوں میں خوشی کے رنگ نہ تھے بلکہ ان میں اداسی تھی جہاں ہلکی ہلکی نمی کا گمان ہوتا تھا۔وہ حسین آنکھیں حسرت سے آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔جیسے انہیں کسی چیز کی کمی ہو ،جیسے ان میں کوئی انجانا سا دکھ ہو۔  

نوری مبہوت سی پینٹنگ سےنظریں ہٹاکر نازلی کو دیکھنے لگی۔  

"بہت بہت پیاری نازلی باجی ۔۔۔"اسنے مگن انداز میں کہا۔

"کون میں یا یہ پینٹنگ ؟"نازلی نے شرارت سے پوچھا۔نوری ایک دم چونک کر ہنسنے لگی۔"آپ تو ہیں ہی پیاری ۔۔۔ پر ابھی میں اس پینٹنگ کی بات کر رہی ہوں۔"وہ سر ہلا کر مزے سے بولی۔ "اففف نازلی باجی آپ اتنی اچھی پینٹنگ کر کیسے لیتی ہیں؟" وہ ایک بار پھر پینٹنگ پر نظریں جما کر پوچھ رہی تھی۔

"اللہ جانے ۔۔۔ تمہیں یہ اچھی لگی؟"اسنے غور سے نوری کو دیکھ کر پوچھا۔"بہت۔۔بہت زیادہ اچھی لگی۔"نوری معصومیت سے بولی۔ "تو یہ تمہاری ہوئی۔جب دل کیا لے جانا۔"اسنے نرمی سے کہا

 "سچی؟؟؟"نوری اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی۔ "مچی۔۔۔"نازلی اسکے ریایکشن پر ہنسنے لگی۔

"شکریہ باجی۔۔۔۔ میں ابھی اماں کو بتا کر آتی ہوں۔"وہ بچوں کی طرح اچھلتی خوشی سے دیوانی ہوتی باہر بھاگی۔نازلی نے مسکرا کر اسے جاتے دیکھا پھر سر جھٹک کر ایک نظر پینٹنگ کو دیکھ کر دروازہ بند کرتی کمرے سے نکلی۔سیڑھیاں اتر کر وہ  کچن کی طرف بڑھی کہ اپنے لئے کافی بنا لے پر جب اسنے ونڈو سے تابین کو لان میں بیٹھے دیکھا تو باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔تابین کم ہی گھر میں پائی جاتی تھی۔نازلی کو اسکے ساتھ ٹائم اسپنڈ کرنا اچھا لگتا تھا پر وہ زیادہ تر کام میں ہی  مصروف رہتی تھی۔

"آپ آج فری ہیں آپی ؟"اسکے سامنے کرسی پر بیٹھ کر بولی "ابھی تک تو ہوں۔"تابین نے مسکرا کر جواب دیا۔ "گریٹ ۔۔ پھر کیوں ناں ہم دونوں بہنیں ایک ساتھ کافی پیئں۔" وہ خوشگوار انداز میں بولی۔

"وائے ناٹ ۔۔۔ پر کافی تمہارے ہاتھ کی ہونی چاہیے۔"

"ضرور۔۔"وہ مسکرائی۔"میں ابھی بنا کر لاتی ہوں۔"چٹکی بجا کر جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ دونوں عام بہنوں کی طرح نہیں تھی۔نہ انکے بیچ مذاق تھا نہ شرارت بھری لڑائی۔بلکہ ایک ساتھ مل بیٹھنے کا وقت بھی کبھی کبھار ملتا تھا۔نازلی کو اسکے ساتھ ٹائم گزارنا اچھا لگتا تھا پر تابین کے پاس وقت کی کمی تھی۔وہ بڑی کامیابی سے شہر کا مشہور ترین بوتک چلا رہی تھی۔اسلئے زیادہ تر کام میں مصروف رہتی اور بچتا وقت اپنے دوستوں کے بیچ گزارتی تھی۔نازلی فریش سی کافی کے دو کپ لے کر واپس آئی۔تابین کال  پر بات کر رہی تھی۔اسنے مسکرا کر کپ ٹیبل پر رکھے پھر اسکے سامنے بیٹھ گئی۔

"اوہ رئیلی یار ۔۔۔۔ بس میں ابھی آئی۔مجھے اگر معلوم ہوتا کہ  وہ بھی آرہا ہے تو میں پہلے ہی پہنچ جاتی۔۔۔پر ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔میں بس آرہی ہوں۔"تابین کی آواز میں چوڑیوں کی سی کھنک تھی۔چہرہ پر جیسے دیے سے جل اٹھے تھے۔نازلی غور سے اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔تابین کال کٹ کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔"آئم سوری بےبی پر ابھی کافی کا وقت نہیں ہے۔مجھے جلدی کہیں جانا ہے۔تم کافی انجوئے کرو بائے۔"وہ مسکرا کر جلدی سے کہتی اندر کی طرف بڑھی۔نازلی نے خاموشی سے اسکی پشت کو دیکھا پھر نظر جھکا کر کافی کے کپس کو۔گہری سانس لے کر وہ سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگی۔تابین کسی کی محبت میں گرفتار تھی یہ بات وہ جانتی تھی۔پر تابین نے کبھی اس سے کوئی بات شیر نہیں کی تھی اور وہ بھی جھجھک کے مارے پوچھ نہ سکی۔وہ چاہتی تھی کہ وہ دونوں بہنیں ایک ساتھ جڑی رہیں۔پر دونوں کے بیچ بہت فاصلہ تھا۔شاید اسکی بڑی وجہ انکا سوتیلہ ہونا تھا۔پر نازلی نے تو کبھی اسے سوتیلہ نہیں مانا تھا تو کیا تابین کے دل میں کوئی ایسی بات تھی؟ وہ سوچوں میں الجھی تھی جب تابین کی کار اسٹارٹ ہونے کی آواز پر چونکی۔نظر پھیر کر دیکھا تو گاڑی گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔اسکے جاتے ہی وہ بھی خاموشی سے اٹھ کر اندر کی طرف بڑھنے لگی۔کافی وہیں میز پر پڑی پڑی کب سے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

 "بس کر دو آبی ۔۔۔ ہم نے سن لیا ہے کہ وہ فوجی کتنا اچھا  تھا۔وغیرہ وغیرہ۔"نور نے جھنجھلا کر کہا۔وہ تینوں گراؤنڈ میں بیٹھی تھی۔آبی صاحبہ نے صبح ایک عدد پیارے سے فوجی کو دیکھ لیا تھا اور اب اسکے گن گانے میں مگن تھی کہ فوجی یہ فوجی وہ۔۔۔اسکی باتوں پر نازلی مسکرا رہی تھی جبکہ نور نے جھنجھلا کر اسے روکا۔نازلی پہلی بار اسکی فوجیوں سے محبت دیکھ اور سن رہی تھی جبکہ نور چوبیس گھنٹے سنتی تھی اسلئے جھنجھلا گئی۔"ہونہہ تم کیا جانو کہ مجھے فوجی کتنے اچھے لگتے ہیں۔"آبی پیار سے بولی۔"دیکھو نازلی اسکو ہر فوجی اچھا لگتا ہے۔یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ایک کی بات ہو تو میں مان بھی لوں پر یہاں تو ۔۔۔۔" نور نے منہ بنا کر کہا۔نازلی دلچسپی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔"بکواس نہ کرو نور کی بچی۔۔۔۔ اچھا لگنے سے مراد کہ میں انکی بہت ریسپیکٹ کرتی ہوں۔تھوڑی انہیں کوئی بری نظر سے دیکھتی ہوں۔"اسنے نور کو گھوری سے نوازا۔"تو کیا انہیں بھائی کی نظر سے دیکھتی ہو؟" نور نے نازلی کو آنکھ مار کر شرارت سے کہا۔

"کسی ایک کو چھوڑ کے باقی سبکو بھائی کی نظر سے ہی دیکھونگی۔۔۔۔پر فلحال نہیں کیونکہ اتنے سارے فوجیوں میں سے کوئی ایک عدد تو میرے نصیب میں لکھا ہوگا ناں اور کیا پتہ اپنے "ان"کو ہی بھائی کہہ بیٹھوں تو کتنی بری بات ہے۔۔۔۔توبہ توبہ"اسنے مزے سے کہتے کانوں کو ہاتھ لگایا۔نازلی اور نور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستی چلی گئیں۔ 

"سنا تم نے نازلی یہ "ان" کو بھائی کہنے سے ڈرتی ہے۔"نور نے آنکھیں گھمائیں۔"ڈرنا بھی چاہیے۔"آبی نے منہ بنایا۔ 

"فکر نہ کرو میڈم تمہارے نصیب میں لکھا فوجی تمہیں جلد مل جائے گا۔پھر ڈرنے والی کوئی بات نہیں ہوگی۔"نازلی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ 

"انشاءاللہ۔۔۔ انشاءاللہ۔جلد ہی مل جائے گا۔"آبی خوشی سے بولی 

"کیسے بےشرمی سے کہہ رہی ہو۔"نور نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ 

"ہٹو پرے۔خود تو میرے لالہ پر قبضہ کر کے بیٹھی ہو۔اب میری نیا بھی پار لگنے دو۔"نور کی بات پر آبی تپ کر بولی۔ 

"گھر جا کر سبکو بتاتی ہوں کہ آبش میڈم کو ایک عدد  فوجی دولہا چاہیے وہ بھی جلد سے جلد۔"نور اسے چڑانے والے انداز میں بولی"دفع ہوجاؤ نور۔۔۔۔آؤ نازلی ہم دونوں کینٹین چلتے ہیں۔اسے یہی سڑنے دو"وہ نازلی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔نازلی ، نور کو دیکھ کر اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کرتی آبی کے ساتھ چلنے لگی۔"ارے رک جاؤ ظالموں۔۔۔"نور چلا کر اٹھتی انکے پیچھے بھاگنے لگی جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستی ہوئیں تیزی سے قدم آگے بڑھا رہی تھیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ تیار ہو کر ہینڈ بیگ لیتی کمرے سے باہر نکلی۔وہ آنی کی طرف جا رہی تھی۔لیلیٰ نے اسے کال کی تھی کہ کچھ دوستوں کے لئے اسنے گھر میں چھوٹی سی دعوت رکھی تھی۔اسلئے وہ چاہتی تھی کہ نازلی بھی ڈنر کے لئے انہیں جوائن کرے۔نازلی پہلے تو نہ مانی پر اسکے پیار بھرے اسرار پر ماننا پڑا۔ اسنے کال کر کے بابا جان سے اجازت لی۔بابا جان نے اسے کہا بھی  تھا کہ جب بھی کہیں جانا ہوا کرے چلی جایا کرو انکی طرف سے اسے  اجازت تھی پر پھر بھی وہ کہیں جاتے وقت ہمیشہ انکی اجازت لیا کرتی تھی۔وہ باہر پورچ میں آئی تو تابین کی کار کے علاوہ اسے کوئی گاڑی نظر نہ آئی تو پلٹ کر واپس اندر گئی۔"بوا۔۔ڈرائیور کہاں گیا ہے؟"اسنے کچن میں جھانک کر نوری کی اماں ہاجرہ بوا سے پوچھا۔"اسے تو بڑی بیگم صاحبہ نے کہیں بھیجا ہے نازلی بی بی۔"

"کب تک واپس آئے گا کچھ پتہ ہے؟"اسنے گھڑی دیکھ کر پوچھا۔پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی تھی۔

"کچھ پتہ نہیں بی بی۔"وہ اپنے کام میں مصروف بولیں۔وہ اچھا کہتی وہاں سے ہٹی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ڈرائیورکی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔اپنی کار اور ڈرائیور ہونے کے باوجود امتل بیگم اکثر گھر کے لئے رکھے ڈرائیور کو اپنےکاموں کے لئے بھیج دیا کرتی تھیں۔جسکی وجہ سے بابا جان نے اسکے لئے نئی کار لینی چاہی تھی پر وہ نہ مانی۔ اسکا کہنا تھا کہ وہ کب اتنا کہیں آتی جاتی ہے جو اسے اپنی کار لینے کی ضرورت پیش آئے۔پر اس وقت اسے واقعی کار کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔تابین جینز شرٹ پہنے ، بالوں کی پونی ٹیل بنائے، تیار سی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔

"تم یہاں ایسےکیوں بیٹھی ہو؟"اسنے نازلی کو دیکھ کر پوچھا۔"ڈرائیور کا انتظار کر رہی ہوں۔آنی کے گھر جانا ہے پر ڈرائیور موجود نہیں ہے۔"نازلی نے جواب دیا۔"اچھا۔"تابین موبائل پر انگلیاں چلاتی مصروف انداز میں بولی پھر قدم آگے بڑھا دیے۔"آپی آپ کہاں جا رہی ہیں؟" اسنے تابین کو جاتے دیکھ کر جلدی سے  پوچھا۔وہ رک کر اسکی طرف پلٹ کر بولی"بس دوست کی طرف جا رہی ہوں۔"

"آپ مجھے آنی کے گھر ڈراپ کر دینگی؟"اسکی بات پر تابین نے کچھ پل سوچا پھر بولی۔"اوکے چلو۔"اسے آنے کا اشارہ کرتی وہ باہر کی طرف بڑھی۔نازلی مسکرا کر جلدی سے اسکے پیچھے بھاگی۔تابین ڈرائیو کر رہی تھی جب اسکا موبائل بجا۔کال پک کر کے اسنے دوسری طرف سے جو بات سنی تو اسکے چہرے پر روشنیاں سی چمک اٹھیں۔نازلی نے حیرت سے اسکے چہرے کو دیکھا۔وہ سوچنے لگی کہ ایسی کون سی ہستی ہے جس کے بارے میں سن کر اسکی بہن کے چہرے پر دیے سے روشن ہو جاتے ہیں۔تابین کال کاٹ کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔ "ڈارلنگ مجھے کچھ وقت کے لئے کلب جانا ہے۔تم ساتھ چلوگی؟"اسنے نازلی کو دیکھ کر پوچھا۔

"آپی کلب ۔۔۔ میں نہیں جا سکتی۔"نازلی نے صاف انکار کیا۔ "اگر آپکو جانا ہے تو مجھے واپس گھر چھوڑ دیں۔"اسنے تابین کے چہرے کو دیکھا۔"اتنا ٹائم نہیں ہے۔"تابین نے سر جھٹکا۔

"کہیں وہ چلا ہی نہ جائے۔"پھر جھنجھلا کر خود کلامی کی۔نازلی نے اسکے چہرے کو بغور دیکھا۔"اچھا آپ چلی جائیں۔میں کار میں بیٹھ کر آپکا انتظار کر لونگی۔"نازلی کی بات پر تابین نے مسکرا کر لمبی سانس بھری پھر کار کا رخ کلب کی جانب موڑا۔نازلی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔اُسکے چہرے پر خوشی اور بے چینی کے ملے جلے تاثرات تھے۔تابین کے چہرے کو دیکھ کر اسے اس ہستی کو دیکھنے کا تجسس ہونے لگا۔جسکے لئے اسکی آپی اس حد تک دیوانی تھی کہ جہاں اسکی موجودگی کا سنتی ہر کام چھوڑ کر وہاں دوڑی چلی جاتی۔

کار کلب کے سامنے رکی تو تابین اسے انتظار کرنے کا کہتی کار سے باہر نکلی۔خوشی اُسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔نازلی نے ونڈو کے پار تابین کو روشنیوں سے جگ مگ کرتے کلب کی طرف بڑھتے دیکھا۔ایک پل اس کا دل کیا کہ اس شخص کو دیکھنے وہ بھی تابین کے پیچھے چلی جائے۔پر جب کلب کا ماحول آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو اسنے اپنے تجسس کا گلہ گھونٹا اور موبائل پر آئے نور کے مسیج کا جواب دے کر پھر لیلیٰ کو کال ملانے لگی تھی۔ وقت بہت گزر چکا تھا اور پتہ نہیں تابین کب واپس آتی اسلئے اسنے لیلیٰ کو انتظار کروانا مناسب نہ سمجھا اور اس سےمعذرت کر لی کہ وہ کسی کام کی وجہ سے نہیں آ پائےگی۔اسلئے وہ اپنی دوستوں کے ساتھ  انجوئے کرے۔اسکے نہ آنے پر لیلیٰ ناراض تو ہوئی پر آخر میں اسکی معذرت قبول کر لی۔

تابین نے کلب میں قدم رکھا تو میوزک کے شور اور رنگ برنگی روشنیوں نے اسکا استقبال کیا۔وہاں ایک سے بڑھ کر ایک چہرہ تھا پر اسکی نظریں صرف اس شخص کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔جس نے اسے ایک زمانے سے اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔اسکے علاوہ اسے کوئی دوسرا بھاتا ہی نہیں تھا۔تابین کی نگاہیں اسے ڈھونڈھ رہی تھی جب اسکی دوست رمشا اسکی طرف آئی۔ 

"کہاں ہے وہ؟"اسنےبھیڑ پر نظر دوڑا کر بے تابی سے پوچھا۔ 

"افف یہ دیوانگی۔"رمشا ہنسی تھی۔ 

"بتاؤ یار۔"تابین نے اسے گھورا۔ 

"وہ وہاں ۔۔ سب سے الگ کونے میں بیٹھا ہے تمہارا ہیرو۔" رمشا نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔تابین نے جلدی سے اس طرف  دیکھا۔لوگوں کی بھیڑ میں وہ الگ سا صوفے پر بیٹھا سگریٹ پینے میں مشغول تھا۔وہ جلدی سے دو گلاس اورینج جوس کے لیتی اسکی طرف بڑھنے لگی۔

وہ اپنے خیالوں میں مگن صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا۔دماغ میں داور کی باتیں گونج رہی تھی۔"لالہ اُم جان آپکے لئے روتی رہتی ہیں۔آپ ان سے ملنے آجائیں۔"پر وہ گاؤں کیسے جاتا۔خان بابا نے اسے سختی سے منع کیا تھا اور کچھ اسکی اپنی ضد بھی آڑے آرہی تھی۔

"آئم سوری اُم جان کہ میری وجہ سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آئے۔"اسنے جلتی آنکھیں بند کر کے سگریٹ کا لمبا کش لیا۔اسکا دل جل رہا تھا۔وہ کیسا بیٹا تھا جسکی وجہ سے اسکی ماں اپنے قیمتی آنسو ضائع کر کر رہی تھیں۔وہ سوچوں میں گم تھا جب کوئی اسکے ساتھ آکر بیٹھا۔اسنے سیدھے ہوکر آنکھیں کھولیں تو سامنے ایک سفید مومی ہاتھ جوس کا گلاس تھامے اسکی طرف بڑھا۔اسنے نظر اٹھا کر دیکھا تو پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔

"گلاس ہے میرا ہاتھ نہیں جسے آپ تھامنے سے جھجھک رہے ہیں ہاشم خان۔"اسنے مسکرا کر گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ہاشم نے گلاس تھام کر سامنے ٹیبل پر رکھا۔پھر بنا اسے دیکھے سگریٹ پینے میں مگن ہوگیا۔جبکہ تابین کی نظریں اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔"کبھی میری طرف بھی متوجہ ہو جایا کریں ہاشم اتنی بری تو ہرگز نہیں ہوں۔"اسنے حسرت سے کہا۔

"تم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتی تابین حسن آفندی۔" ہاشم کی برداشت جواب دے گئی تو وہ اسے گھور کر بولا۔

"چلیں غصے میں ہی سہی آپ نے مجھے دیکھا تو۔"اسکے گھورنے کو اگنور کرتی وہ مسکرائی تھی۔اسکی بات پر ہاشم خان کا دماغ گرم ہوا۔

"میرے سامنے مت آیا کرو تابین حسن آفندی ورنہ۔"اسنے لفظ چبائے۔ 

"ورنہ ۔۔۔"اسنے ہاشم کی سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر دلکشی سے کہا۔"اگر سامنے آتی رہی تو کیا آپ مجھ سے محبت کرنے لگے گیں؟"اسنے شرارت سے آنکھیں گھمائیں۔

"او شٹ اپ ۔۔۔ تم کیوں ہمیشہ اپنے آپ کو مجھ پر تھوپنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہو۔"وہ ترشی سے بولا تو تابین نے دکھ سے اسے دیکھا۔ 

"آپ ایسا کیوں کرتے ہیں میرے ساتھ؟"اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔

"فار گاڈ سیک تابین اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ اور میرا پیچھا کرنا چھوڑ دو، بھول جاؤ مجھے۔"وہ سپاٹ انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔جانے کے لئے قدم اٹھایا ہی تھا کہ تابین نے جلدی سے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

"یعنی کہ جینا چھوڑدوں؟"وہ اداسی سے ہنستی اٹھ کر اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔"آپ سے بہت محبت ہے ہاشم خان۔۔۔۔ آپ اس بات کو سمجھتے کیوں نہیں ہیں۔"اسنے محبت بھری نظروں سے اس ظالم شخص کو دیکھا۔ 

"اور تم اس بات کو کیوں نہیں سمجھتی کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔"ہاشم نے سردوطنزیہ انداز میں کہہ کر ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کیا۔

"کیوں نہیں ہوسکتی۔"اسکے لہجے سے ظاہر تھا کہ اس شخص کی بات نے اسکے دل پر حشر برپا کر دیا تھا۔"مجھے تو محبت ہوگئی ناں ۔۔۔ پچھلے پانچ سالوں سے آپکے پیچھے ماری ماری پھر رہی ہوں۔پھر آپ کیوں پتھر بنے ہیں۔۔۔۔ پگھل کیوں نہیں جاتے ہاشم خان۔یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ تابین حسن آفندی آپکی دیوانی ہے۔"اسنے ٹوٹی بکھری آواز میں کہہ کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔"آپ قبول کر لیں ناں میری محبت کو  ہاشم۔۔۔ تابین حسن آفندی نے صرف اور صرف ہاشم خان کو چاہا ہے۔مان لیں اس بات کو۔۔۔"درد میں ڈوبی آواز میں کہہ کر اسنے آہستہ سے ہاشم کے شانے پر سر رکھا۔ہاشم خان کو جیسے کرنٹ چھو گیا۔اسکا دماغ ابل پڑا پھر اگلے پل اسنے تابین کو کندھوں سے تھام کر ایک زور دار جھٹکے سے پیچھے دھکیلا۔ 

"طوائفوں والی حرکتیں مت کرو تابین حسن  آفندی۔خود کو دوسروں کے گلے کا ہار مت بناؤ۔اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا سیکھو۔مجھ پر یہ تھرڈ کلاس حربے مت آزمایا کرو سمجھی۔" وہ غرا کر کہتا ایک سرد نگاہ اس پر ڈال کر  لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

تابین کی آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی۔دھند کے اس پار اسنے اس بے رحم شخص کو اپنی نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھا 

دل اب بھی اسکے قدموں کے ساتھ لپٹ کر اسے روک لینا چاہتا تھا۔کتنا پاگل تھا ناں اسکا دل ، کس حد تک اسکی محبت میں آگے بڑھ چکا تھا کہ وہ اس شخص کے سامنے اپنی انا ، عزت نفس ، اپنا مان سب کچھ ہار بیٹھی تھی۔کچھ چیز اگر بچی تھی تواب بھی اس شخص کی محبت تھی۔جسے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ بھول نہیں پا رہی تھی۔جسم سے جان نکلنے والی ہوگئی۔دل کرچی کرچی ٹوٹا ،قدم لڑکھڑائے اور وہ مغرور سی تابین حسن آفندی ٹوٹی بکھری سی وہاں سے باہر نکلی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جب اسنے تابین کو کلب سے باہر نکلتے دیکھا۔ اسکی حالت دیکھ کر نازلی کا دل دھڑکا۔کلب کے اندر جاتے وقت جو زندگی سے بھر پور تابین تھی یہ وہ تو نہ تھی۔ اسکا کھلا چہرہ سفید پڑ رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں کی بیمار ہو۔ 

تابین کے قدم لڑکھڑائے تو نازلی جھٹ سے دروازہ کھول کر  بھاگتی ہوئی اس تک پہنچی۔"آپی۔۔۔ کیا ہوا آپکو؟" اسے تھام کر اسنے پھولی سانسوں کے بیچ پوچھا۔تابین نے آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔نازلی کا دل ڈوبا ۔۔۔اس نے آج تک تابین کو روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا پھر وہ آج کیوں رو رہی تھی۔تابین بنا کچھ کہے اسکے گلے لگ گئی۔کافی وقت بعد اس سے جدا ہو کر بولی۔

"سوری ناز میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔کیا ہم گھر چلیں؟"اسنے نم آواز میں پوچھا تھا۔ 

"جی آپی ۔۔۔ آئیں چلتے ہیں۔"نازلی نے جلدی سے کہا۔وہ سوچنے لگی کہ اچانک تابین کو کیا ہوگیا؟جو وہ اس قدر بری حالت میں تھی۔نازلی اسے تھام کر کار تک لائی۔اسے سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی۔اسنے کار آگے بڑھا کر ایک نظر تابین کو دیکھا۔تابین بنا کچھ کہے سر سیٹ کی پشت سے ٹیک کر آنکھیں موند گئی۔نازلی نے اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھا پھر کچھ سوچتی خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہاشم غصے سے بھرا کلب سے باہر نکل کر کار میں بیٹھا تھا۔تابین نامی بلا اسکے پیچھے ہی پڑ گئی تھی۔اسنے بہت بار اسے  آرام سے سمجھانے کی کوشش کی تھی پر وہ تھی کہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہی تھی۔اُسکی باتوں پر جب ہاشم کا دماغ گھومتا تو پھر وہ اسے خوب سناتا اور امید کرتا کہ اب وہ پلٹ کر واپس نہیں آئے گی۔مگر تابین ہر بار اسکی سوچ کو غلط ثابت کرتی اور ہر دفعہ اسکے سامنے فریش انداز میں آتی تو اسکی یہ بات ہاشم کو آگ لگانے کے لئے کافی ہوتی تھی۔

وہ کار میں بیٹھا اپنے ابلتے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا تا کہ ڈرائیونگ کرنے میں مسئلہ نہ ہو۔خود پر قابو پاتا وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہا تھا۔تابین کو کلب سے نکلتے دیکھ کر اسنے تپ کر نظریں پھیریں اور تبھی اسکی نظر کار سے نکلتی اس لڑکی پر پڑی۔اسکی سیاہ دلکش آنکھیں اس کانچ سی لڑکی کے چہرے پر تھم سی گئیں۔

 "ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے لمحہ بھر کو" 

"دل ٹھہر جاتا ہے ، میں آپ دھڑک جاتا ہوں۔"

وہی چہرہ جسے وہ پچھلے کئی دنوں سے ڈھونڈھ رہا تھا۔جسکے نہ ملنے سے اسکا دل بے قرار تھا۔اسے اپنے سامنے دیکھ کر ہاشم خان کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔وہ بھاگ رہی تھی۔ ہاشم کی نظریں اسکے ساتھ ساتھ گئیں اور تابین پر جا کر رکیں۔اگلے پل تابین اسکے گلے لگی تھی۔ہاشم کا دماغ الجھا۔وہ بنا پلکیں جھپکائے انہیں دیکھنے لگا۔اسکی نگاہیں ایک ہی نکتے پر جم سی گئیں۔وہ سوچنے لگا کہ اس کانچ سی لڑکی کا تابین سے کیا رشتہ ہے۔دوست ، کزن یا بہن ؟ وہ الجھ رہا تھا۔جب وہ سوچوں کے جال سے باہر نکلا تو وہ لوگ وہاں موجود نہ تھیں۔

اسنے جلدی سے نظر پھیر کر کار کو دیکھنا چاہا پر کار بھی غائب تھی۔

"او نو ۔۔۔"غصے میں اسنے زور سے اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ مارا۔پھر خود کو پر سکون کر کے لمبی سانس بھری،سیٹ کی پشت سے سر ٹکاتا آنکھیں موند گیا۔اس چہرے کو سوچ کر غصہ اپنی موت آپ مر گیا اور اسکے لبوں کے کونوں میں ہلکی سی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔

"ہوں تو آخر کار تم مجھے مل ہی گئی۔کچھ قدموں کا فاصلہ پھر تم ہوگی اور میں۔۔۔ہاشم خان تمہیں دنیا سے چرا کر اپنے پاس لے آئے گا۔پھر تم صرف ہاشم خان کی ہوگی۔ صرف اور صرف میری۔۔۔وعدہ رہا تم سے۔"مدھم آواز میں کہتا وہ جیسے کوئی جادو پھونک رہا تھا۔اتنے وقت بعد اس کانچ سی لڑکی کو دیکھ کر ہاشم نے جانا تھا کہ اسکے دل میں اس لڑکی کے لئے محبت سے بڑھ کر کوئی جذبہ ہے۔جو اسے کسی بھی انتہا تک لے کر جا سکتا تھا۔عشق ، جنون ، دیوانگی بن گئی تھی وہ ہاشم خان کی ۔۔۔۔اب اسے پانے کے لئے ہاشم خان ہر داؤ لگانے کو تیار تھا۔

"عجیب لوگ ہیں یہ۔۔۔۔ خاندانِ عشق کے لوگ ۔۔"

"کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے۔۔"

گھر پہنچتے ہی تابین کمرے میں بند ہوگئی۔نازلی بے چین سی اسکے کمرے کے باہر ٹھل رہی تھی۔ایک دو بار اسنے دستک دینے کے لئے ہاتھ اٹھایا پر پھر جھجھک کر رک گئی کہ تابین غصہ نہ ہو جائے۔وہ وہاں سے اپنے کمرے میں آئی پر دل کی بے چینی ہنوز بر قرار تھی۔کچھ دیر گزری پر اسکے دل کو چین نہ آیا تو پھر سے وہ تابین کے دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور بنا کچھ سوچے دروازہ نوک کیا۔کچھ پل خاموشی سے گزرے پھر تابین کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"آجاؤ نازلی۔"اسکی نم آواز نازلی کے دل پر لگی۔وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔تابین بیڈ پر پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی۔نازلی کی طرف اسکی پشت تھی۔اسکا کمرہ دھوئے سے بھرا تھا۔نازلی نے لمبی سانس کھینچی۔"سگریٹ۔۔۔۔"اسنے چونک کر تابین کی پشت کو دیکھا پھر جلدی سے قدم بڑھا کر  اسکے سامنے آئی۔اسکے ہاتھ میں جلتا سگریٹ دیکھ کر نازلی کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔تابین نے نظر اٹھا کر اسکے حیران چہرے کو دیکھا پھر سگریٹ کا کش لے کر زور سے ہنسی۔

"اتنی حیرت سے مت دیکھو مجھے،کبھی کبھی جب بات حد سے بڑھتی ہے تو اس سے دوستی کر لیتی ہوں۔" اسنے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کی طرف اشارہ کیا۔رک کر ایک اور کش لے کر دھوا پھونکا پھر بولی۔"جب دل کا درد حد سے باہر ہو جاتا ہے ناں تو یہ سگریٹ کا دھوا پھونک کر میں خود کو یقین دلاتی ہوں کہ یہ جو دھوا ہے یہ  میرے جلتے دل کا ہے۔جو میرے جسم سے باہر نکل چکا ہے جسکے بعد میرا دل پھر سے پہلے جیسا ہو گیا ہے۔اس میں کوئی جلن نہیں ہے۔یہ وہی خون کا لوتھڑا ہے۔جس میں اس ظالم کے لئے بے انتہا محبت ہے۔ہر دفعہ میں اپنے دل کو تیار کرتی ہوں اس شخص کی تلخ باتوں کو سننے کے لئے تاکہ یہ اسکی تلخ باتوں کو  نیے سرے سے برداشت کر سکے،نیے سرے سےخود کو جلا سکے۔"وہ دیوانی سی اپنے سوچوں میں مگن بول رہی تھی۔نازلی کو اسکی حالت دیکھ کر افسوس ہوا۔یہ تابین کیا بن گئی تھی۔وہ ایسی تو ہرگز نہ تھی۔

نازلی نے بنا کچھ کہے آگے بڑھ کر کھڑکی سے پردے ہٹا کر پٹ وا کئے۔پھر چلتی ہوئی تابین کے برابر بیڈ پر بیٹھ گئی۔تابین نے سگریٹ ڈس بن میں پھینک کر خاموشی سے نازلی کو دیکھا۔پھر نم آنکھوں کے ساتھ ایک دم اسکا ہاتھ اپنے کانپتے ہاتھوں میں لیا۔نازلی خاموشی سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگی۔

 "اسنے مجھے طوائف کہا ہے نازلی۔۔۔۔۔ طوائف ۔۔۔۔" تابین اتنا کہہ کر رونے لگی۔جبکہ اسکی بات سن کر نازلی کی ہستی ہل کر رہ گئی۔وقت کا پئیا گھوما تھا اور وہ وہاں سے کتنے سال پیچھے چلی گئی تھی۔نو سالہ نازلی اسی گھر میں کھڑی تھی۔سامنے حسن آفندی ، امتل آفندی اور اسکی پیاری ماما زنیرہ آفندی کھڑی تھیں اور گھٹی گھٹی آواز میں رو رہی تھیں۔

"ایک طوائف حسن آفندی کی محبت ہے۔اس عورت نے نہ جانے کتنے مردوں کا دل آباد کر رکھا ہوگا اور یہ تمہاری محبت ہے حسن آفندی۔۔۔۔یہ گندی عورت تمہاری محبت ہے۔"امتل آفندی اپنی باتوں کا زہر انکے اندر اتار کر اب قہقہہ لگا کر ہنس رہی تھیں جبکہ زنیرہ آفندی کی ہستی ڈول کر رہ گئی تھی۔

آج سالوں کے بعد یہی الفاظ امتل آفندی کی جان سے پیاری بیٹی کو کسی نے لوٹائے تھے۔وقت بیوفائی نہیں کرتا وہ کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی موڑ پر تلخ الفاظ سے دوسروں کا دل چھلنی کرنے والوں کو انکے الفاظ ضرور لوٹاتا ہے۔یہی وقت کا انصاف ہوتا ہے۔

نازلی سالوں کا سفر پل میں طے کرتی پھر سے تابین کی طرف متوجہ ہوئی۔ان نیلی آنکھوں میں انتہا کا درد تھا۔اسنے دکھ بھری نگاہوں سے تابین کی درد چھلکاتی صورت کو دیکھا۔وہ اسے کیا کہتی۔اسکی زبان تو تالوں میں بند ہو چکی تھی۔

"پتہ ہے وہ کہتا ہے کہ خود کو دوسروں کے گلے کا ہار مت بناؤ۔میری زندگی میں اسکے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں ۔۔۔۔میں اپنا دکھ لےکر اسکے پاس نہیں جاؤنگی تو اور کس کے پاس جاؤنگی؟وہی تو میری سانسوں میں بسا ہے۔ہر طرف وہی وہ ہے۔پر نازلی وہ کہتا ہے اسے مجھ سے محبت نہیں ہے اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔کیوں نہیں ہے اسے مجھ سے محبت ؟؟ کیوں؟" اسکی درد بھری آنکھوں سے ایک موتی ٹوٹ کر گرا۔نازلی بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"تم دیکھو مجھے نازلی۔۔۔۔ کس چیز کی کمی ہے مجھ میں ؟ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں؟کیا کم پڑھی لکھی ہوں؟یا کوئی اور کمی ہے مجھ میں؟ بتاؤ مجھے؟"وہ سوال پر سوال کر رہی تھی جسکے جواب میں نازلی دکھ سے اسکی طرف دیکھتی نہ میں سر ہلانے لگی۔یہ وہ مغرور سی تابین تو نہ تھی۔وہ تو سر اٹھا کر جیناجانتی تھی۔پھر کیسے محبت نے اسے جھکا دیا تھا کہ وہ بنا کسی چیز کی پرواہ کیے اس شخص کے پیچھے دیوانی سی ہوگئی تھی۔

"تم دعا کرو ناں کہ اسے مجھ سے محبت ہوجائے۔"اسنے امید بھری نظروں سے نازلی کو دیکھا۔نازلی اسے کیا بتاتی کہ محبت تو ان چند خوش قسمتوں کو ملتی ہے جنکے نصیب کا ستارہ اللہ چمکا دیتا ہے ورنہ تو ایک دنیا آباد ہے محبت کے ماروں سے۔۔۔۔۔جنہیں انکی محبت نہیں ملتی۔وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔

"آپی۔۔"اسنے محبت سے ہاتھ بڑھا کر تابین کے آنسو پونچھے۔

"وہ شخص آپکے قابل نہیں ہے۔آپ کیسے اسکے منہ سے اتنی غلط باتیں سن آئیں۔آپ نے اسکا منہ کیوں نہ توڑ دیا۔آپ اسے بھول جائیں آپی ۔۔۔ وہ شخص اس قابل نہیں ہے کہ اسے ایک محبت بھرا دل ملے۔"نازلی اسے سمجھانے والے انداز میں کہہ رہی تھی۔

"میں خود کو بھول سکتی ہوں پر اُسے نہیں۔۔۔ وہ میری رگ رگ میں لہو بن کر دوڑتا ہے۔میں کیسے اسے بھول جاؤ نازلی۔۔۔ کیسے۔"اسنے تھک کر آنکھیں بند کر لیں پھر مدھم آواز میں بولی۔"کبھی کبھی میں بہت تھک جاتی ہوں۔دماغ کہتا ہے چھوڑ دو اسے۔۔۔ وہ کوئی واحد مرد تو نہیں ہے دنیا میں پر یہ کم بخت دل ہے کہ اس شخص کی طرف ہی بھاگتا چلا جاتا ہے۔"اسنے تلخی سے کہتے دل پر ہاتھ رکھا۔

"میں لاکھ خود کو روکوں پر یہ دل میری نہیں سنتا۔ اس دل نے مجھے رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔۔ میں اپنی ہی نہیں رہی نازلی۔۔۔۔ میں پوری کی پوری اسکی ہوگئی ہوں۔" بات کرتے اسکی بند آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گرنے لگا۔نازلی کو اس ان دیکھے انجان شخص سے نفرت محسوس ہوئی۔جس نےاسکی بہن کو اس حال میں لا چھوڑا تھا۔

"کبھی کبھی میرے دل سے بد دعا نکلتی ہے کہ اللہ کرے اسے بھی کسی سے عشق ہو۔وہ بھی میری طرح مارا مارا پھرے"وہ نم آنکھیں کھول کر سامنے دیوار کو گھورنے لگی۔

"پر پھر سوچتی ہوں کہ میں بھلا کیسے برداشت کر پاؤنگی کہ وہ کسی اور کے عشق میں مبتلا ہو۔میں پاگل نہ ہوجاؤنگی اگر کبھی ایسا ہوا تو؟"وہ سر جھٹک کر دکھ سے مسکرائی۔نازلی نے پر نم آنکھوں کے ساتھ خاموشی سے اسے دیکھا۔آج وہ سالوں بعد اپنے دل کے رازکھول رہی تھی۔نازلی اسے بولنے دینا چاہتی تھی تاکہ اسکے دل کا بوجھ ہلکا ہو سکے۔ 

"تم میرے لئے دعا کرو گی ناں نازلی۔"اسنے اچانک نازلی کو کندھوں سے تھام کر پوچھا۔"تم دعا کرنا کہ اسے مجھ سے محبت ہوجائے ورنہ تمہاری آپی مر جائے گی۔اسکی بے رخی مجھے مار ڈالے گی۔"اسکی بات پر نازلی کی آنکھ سے آنسو گرا۔اسنے آگے بڑھ کر تابین کو گلے لگایا۔

"میں ضرور دعا کرونگی آپی کہ وہ پتھر پگھل جائے۔وہ آپکو مل جائے۔آپ کبھی مرنے کی بات مت کیجئے گا پلیز۔"وہ مدھم آواز میں کہتی اسکی کمر سہلانے لگی۔

"تھینک یو نازلی۔۔۔۔ بس وہ ایک بار میرا ہوجائے۔پھر وہ مجھ سے جو بھی کہے گا تابین حسن آفندی اسے آنکھ بند کر کے کرتی چلی جائے گی۔میں اسکے سر سے خود کو وار دونگی۔میرے اس دل کو اس شخص سے انتہا کا عشق ہے۔یہ دل بہت خوش فہم ہے۔دعا کرنا یہ خوش فہمی برقرار رہے۔تم میری اچھی بہن ہو۔اللہ پاک تمہاری دعا ضرور قبول کرینگے۔"وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔نازلی جان گئی تھی کہ تابین دیوانگی کی حد تک اس شخص کے عشق میں مبتلا تھی۔اسے حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرتی۔عشق ایسا ہی ہوتا ہے انسان کو پاگل کر دیتا ہے۔۔۔۔۔ ۔ تابین کی سسکیاں سن کر اسے اپنی ماما کی یاد آئی۔اپنی ماما کے بعد آج اس نے تابین کو اس محبت کی خاطر زار و زار روتے دیکھا تھا۔محبت واقعی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔انسان خود سے پرایا ہو جاتا ہے۔اپنی ماماکے خیال پر ، تابین کے دکھ پر ۔۔۔ نازلی کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ایک محبت کر کے اسکی بے حسی پر رو رہی تھی تو دوسری محبت کے ماروں کے دکھ ، انکی تڑپ پر آنسو بہا رہی تھی۔

تم نے یہ ٹھیک نہیں کیا ہاشم۔"اسفی نے ٹیبل کے اس پار بیٹھے ہاشم کو دیکھ کر کہا۔ 

"کیا ٹھیک نہیں کیا ؟"ہاشم نے فائل سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ دونوں اس وقت ہاشم کے آفس میں بیٹھے تھے۔ 

"جو تم نے تابین حسن آفندی کے ساتھ کیا۔"اسفی نے افسوس سے اسے دیکھا۔تابین کے نام پر ہاشم کی آنکھوں کے سامنے اس کانچ سی لڑکی کی صورت لہرائی۔

"تو تم بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے تھا؟کیا اسے گلے سے لگا کر گانا گاتا؟"اسنے بھوئیں اٹھا کر طنزیہ پوچھا۔ 

"میرا یہ مطلب نہیں تھا۔پر تمہیں اتنا روڈ بی ہیو نہیں کرنا چاہیے تھا۔کچھ اندازہ ہے تمہیں کہ وہاں کتنے لوگوں نے یہ تماشہ دیکھا ہوگا۔"اسفی سنجیدگی سے بولا۔ 

"تو اسے خود اپنی عزت کا خیال ہونا چاہیے تھا اسفی اور میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔"وہ ترشی سے کہتا کرسی سے اٹھا پھر کوٹ اتار کر سیٹ کی بیک پر ڈالا۔ 

"بہت بے حس شخص ہو تم۔"اسفی نے سر جھٹک کر اپنے سنگ دل دوست کو دیکھا۔

"اچھا۔۔۔ یہ نئی خبر ہے میرے لئے۔"ہاشم نے مسکرا کرکہا۔ "ایک بات کہوں ؟"اسفی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔

"پہلے یہ بتاؤ کافی پیو گے؟"اسکے پوچھنے پر اسفی نےاثبات میں سر ہلایا۔ہاشم کافی میکر کی طرف بڑھا۔

"بولو مسٹر ۔۔کیا بات کہنی ہے؟"اسکی بات پر اسفی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔کچھ دیر بعد ہاشم اسکی طرف بڑھا اور کپ زور سے اسکے سامنے ٹیبل پر رکھا۔اسفی ایک دم چونکا تھا۔ 

"بولو گے کہ کیا بات ہے؟"ہاشم اپنی بات پر زور دیتا، اپنا کپ تھام کر گلاس وال کے سامنے کھڑا ہو کر باہر کا نظارہ کرنے لگا۔اندھیری رات میں روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں۔اسکی پشت کو  دیکھتا اسفی بھی اپنا کپ تھام کر خاموشی سے اسکے ساتھ   کھڑا ہوا پھر بولا "تم تابین کو قبول کر لو۔۔۔ اس سے شادی کر لو ہاشم۔"وہ بات مکمل کرتا باہر دیکھنے لگا جبکہ ہاشم نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔"اچانک تمہیں یہ خیال کیوں آیا؟" 

"ایک زمانہ ہوگیا ہے ہاشم وہ تمہارے انتظار میں ہے۔"وہ ہنوز باہر دیکھتا مدھم آواز میں بولا۔

"پر میں اسکے انتظار میں نہیں ہوں اسفی۔"سنجیدگی سے کہتے ہوئے باہر دیکھ کر اسنے کڑوی کافی کا گھونٹ بھرا۔

"تمہیں اسکی اتنی فکر ہے تو تم اس سے شادی کر لو ناں۔" کڑوی کافی پی کر اسنے بات بھی کڑوی ہی کی تھی۔ 

"اسے تم سے محبت ہے ہاشم خان۔"اسفی نےاپنی بات پر زور دیا۔

"اگر نہ ہوتی تو کر لیتے کیا؟"اسنے اسفی کو دیکھ کر پوچھا۔ "یہاں میری بات نہیں ہو رہی۔"اسفی جھنجھلایا۔ 

"پر مجھے تمہاری بات کرنی ہے۔"ہاشم بضد تھا۔ 

"تم مجھے معاف رکھو۔"وہ خفگی سے بولا۔

"خود اس سے دامن بچا رہے ہو تو پھر مجھے کیوں اس سے شادی کا کہتے ہو۔" 

"کہا تو ہے کہ اسے تم سے محبت ہے ہاشم"

"پر مجھے اس سے محبت نہیں ہے۔ویسے تمہیں اسکی اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے؟کیوں اسکے وکیل بن رہے ہو؟"اسنے بغور اسفی کو دیکھا۔اسفی گڑبڑا سا گیا پھر جھٹ سے بولا۔

"مجھے اسکی نہیں تمہاری فکر ہے۔میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔" 

"تابین حسن آفندی میری خوشی ہرگز نہیں ہے اسفندیار ملک۔" اسنے دو ٹوک جواب دیا۔

"بہت سخت دل ہو تم۔"اسفی نے ہار مان کر لمبی سانس کھینچی۔

"پر سبکے لئے نہیں۔"اسنے آنکھ مار کر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔پھر نظر پھیر کر دور ستاروں بھرے آسمان کو دیکھنے لگا۔

اسفی غور سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ہاشم کے چہرے پر انجان سی چمک تھی،لبوں پر مدھم مسکراہٹ، مغرور آنکھوں سے جنون چھلک رہا تھا۔وہ مانتا نہ مانتا پر اسفی اس میں آئی تبدیلی کافی پہلے ہی نوٹ کر چکا تھا۔وہ جان چکا تھا کہ اسکا دوست دیوانہ ہونے کو تھا۔وہ کسی ایسے وجود کے پیچھے بھاگ رہا تھا جو اسکی پہنچ سے دور تھا۔وہ ہاشم کو محبت کے ہاتھوں لٹتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔اس لئے اسنے اپنی طرف سے کوشش کی تھی کہ وہ تابین کا ہاتھ تھام لے تاکہ وہ جس جادو کے زیر اثر جا رہا تھا اس سے باہر آجائے۔پر اسفی یہ نہیں جانتا تھا کہ ہاشم تو کب سے اس جادو میں جکڑا جا چکا تھا اور اب تو وہ جادو ہاشم خان کے سر چڑھ کر بولنے والا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شام کا خوبصورت وقت تھا۔وہ تنہا لان میں کرسی پر بیٹھی ہوا سے لہراتے پھولوں کو دیکھ رہی تھی جب کوئی چلتا ہوا اسکی طرف آیا۔اسنے نظر اٹھا کر دیکھا تو بابا جان اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے۔

"آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہیں۔"انہوں نے اسکے چہرے کو دیکھا۔نازلی انہیں دیکھ کر محبت سے مسکرائی۔سنجیدہ مزاج سے پیارے سے اسکے بابا جان۔۔۔انکی یہی بات اسے بہت اچھی لگتی تھی کہ وہ ہر وقت اسکی فکر میں رهتے تھے۔

"موسم انجوئے کر رہی ہوں"اسنے مسکراکر جواب دیا۔

"ہوں۔۔۔۔"وہ سر ہلا کر سامنے دیکھنے لگے۔"شام کو ایک پارٹی ہے۔سب جا رہے ہیں۔ آپ بھی تیار رہیےگا۔"

"پر بابا جان میں ۔۔۔"وہ انکے دیکھنے پر ایک دم خاموش ہوگئی۔

"میرے دوست نے ہم سبکو انوائٹ کیا ہے۔آپ بھی فیملی کا حصہ ہیں بیٹا جی۔آپکو بھی ہمارے ساتھ جانا ہوگا۔سو تیار رہیے گا اوکے۔"انکے نرم لہجے میں محبت کی میٹھاس تھی۔نازلی انکی بات کے آگے انکار نہ کر سکی۔"ٹھیک ہے بابا جان۔"اسنے سر ہلا کر مدھم آواز میں کہا۔ 

اسکے جواب کے بعد وہ باپ بیٹی کافی دیرتک خاموش بیٹھے رہے۔پھر حسن آفندی خاموشی سے اسکا سر تھپک کر اٹھ کر جانے کے لئے پلٹے۔شاید یہ خاموشی انکی برداشت سے باہر ہو رہی تھی۔کچھ ان کہے سوال اس میں چیخ رہے تھے۔وہ اس خاموشی سے ابھرتی سسکیوں سے دور بھاگے تھے۔نازلی نے گردن پھیر کر انکی پشت کو دیکھا۔آنکھوں میں اداسی سی اتر آئی۔وہ کافی دیر تک یونہی بیٹھی رہی پھر جب دل اچاٹ ہوا تو اٹھ کر اندر کی طرف بڑھی۔

گولڈن لباس میں وہ تیار سی آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ہلکا سا میک اپ کیا تھا،بالوں کا ہمیشہ کی طرح میسی جوڑا بنا تھا۔بیڈ پر بیٹھ کر اسنے سینڈلز پہنے ، دوپٹہ اٹھا کر شانوں پر ڈالا۔آخری بار خود کو آئینے میں دیکھا تو اسکی نظر اپنے کانوں میں چمکتے ڈائمنڈ کے ائیر رنگز پر پڑی۔یہ اسکی ماما کے تھے۔انکے ساتھ اسکی زندگی کی بہت سی اچھیں اور تلخ یادیں جڑیں تھیں۔انہیں چھو کر لمبی سانس بھرتی وہ وہاں سے ہٹ کر پرس لیتی کمرے سے نکلی۔دوسری طرف تابین بھی اپنے روم سے باہر آئی۔وہ بلیک لباس میں تھی۔ جس پر موتیوں کا نفیس سا کام ہوا تھا۔کھلے بال اور میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔نازلی نے اسے دیکھا۔وہ بالکل فریش تھی۔اس دن جو کچھ ہوا تھا اسکا کوئی تاثر تابین کے چہرے پر نہ تھا۔اسے فریش دیکھ کر نازلی کو خوشی ہوئی۔

"آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں آپی۔"

"یو ٹو سویٹی۔"اسنے مسکرا کر نازلی کا گال چھوا۔نازلی مسکرا کر اسکے ساتھ چلتی نیچے آئی۔وہ لوگ گھر سے نکلے۔ایک گاڑی میں حسن آفندی اور امتل آفندی تھے جبکہ دوسری میں وہ دونوں تھیں۔

ہوٹل میں پارٹی عروج پر تھی۔پارکنگ گاڑیوں سے بھری تھی۔وہ لوگ کار پارک کرتے باہر نکلے۔نازلی نے ارد گرد نظر دوڑائی جہاں بے شمار گاڑیاں کھڑی تھیں۔اس نے آج تک چھوٹی موٹی پارٹیز اٹینڈ کی تھیں پر اس قسم کی عالیشان پارٹی میں وہ کبھی نہیں گئی تھی۔وہ پریشان سی کھڑی تھی جب تابین نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔وہ سب آگے بڑھنے لگے۔امتل بیگم اور تابین اندر اینٹر ہوئیں جبکہ حسن آفندی نا محسوس انداز میں تھوڑا رک کر پیچھے آتی نازلی کے ہم قدم ہوئے۔نازلی نے خوشگوار انداز میں انہیں دیکھا۔وہ سنجیدہ سے سامنے دیکھ کر چل رہے تھے۔اتنی الجھن میں بھی نازلی کے لبوں پر مسکان چمک اٹھی۔بے اختیار اسے اپنے بابا جان پر پیار آیا۔اندر پہنچ کر حسن آفندی نے رک کر اسے دیکھا۔

"گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ اطمینان سے پارٹی انجوئے کریں۔اوکے"انہوں نے نرمی سے کہا۔نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔آس پاس بے شمار لوگ تھے۔انہیں دیکھ کر اسکا دم گھٹنے لگا۔حسن آفندی نے اپنے کچھ دوستوں سے اسکا تعارف کروایا۔امتل آفندی انکی طرف آئیں اور گھور کر نازلی کو دیکھا پھر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر بولیں۔

"بیٹا تم بھی بہن کے ساتھ جا کر پارٹی انجوئے کرو۔"انکی بات پر سر ہلاتی وہ دور کونے میں کھڑی تابین کی طرف بڑھنے لگی۔وہ تابین کے قریب کھڑی ہوئی پر وہ اپنے خیالوں میں کھوئی جوس کے سپ لے رہی تھی۔"آپی۔۔" اسنے پکارا۔ "ہوں ۔۔۔"تابین نے اسے دیکھا۔

"کہاں کھوئی ہیں۔"اسکی بات پر تابین ہنسنے لگی۔

"اسکے خیالوں میں۔"وہ مزے سے بولی 

"وہ بھی یہاں آئے گا؟"نازلی نے پریشانی سے پوچھا۔ 

"بالکل مائی ڈیئر۔۔۔تبھی تو تابین حسن آفندی یہاں موجود ہے۔"اسنے سر کو خم دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔نازلی نے افسوس سے گردن ہلا کر اسے دیکھا۔تابین کا چہرہ چمکا اور وہ سمجھ گئی کہ اسے وہ شخص نظر آگیا ہے۔

"وہ دیکھو نازلی وہ رہا میرا ہاشم خان۔"اسکی آواز میں کھنک سی تھی۔اُسنے آنکھوں سے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔نازلی نے پہلی بار اسکے لبوں سے اس شخص کا نام سنا تھا۔اسنے نظریں پھیر کر اس طرف دیکھا۔نیوی بلیو سوٹ میں وہ سب سے نمایا لگ رہا تھا۔وجاہت میں منفرد ، مغرور سا انداز ، وہ جیسے کسی سلطنت کا شہزادہ لگتا تھا۔پر اس قدر پُر کشش شخصیت ہونے  کے باوجود بھی وہ نازلی کو کوئی ظالم شخص لگا تھا۔جسنے اسکی بہن کو کیا سے کیا بنا دیا تھا۔

"دیکھا تم نے نازلی کہ وہ سب سے کتنا منفرد ہے۔۔۔ کس قدر دل دھڑکا دینے والی شخصیت اسکی ہے۔"تابین خواب کی سی کیفیت میں بولی۔اسکے چہرے کو دیکھ کر نازلی کو دکھ ہوا۔ یہ وہ کس راستے کی مسافر بن گئی تھی جہاں منزل کا کوئی نام و  نشان ہی نہ تھا۔

اسنے پھر نگاہ پھیر کر اس شخص کو دیکھا۔اب کی بار وہ بھی ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔اپنے ساتھ کھڑے شخص سے کچھ کہتا وہ انکی طرف بڑھنے لگا۔

"مجھے یقین نہیں آرہا نازلی کہ وہ اتنے سالوں میں آج پہلی بار میری طرف بڑھ رہا ہے۔اسکے قدم میری جانب اٹھ رہے ہیں۔اففف میرا دل تھم نہ جائے۔"تابین کی آواز میں خوشی چھلک رہی تھی۔وہ دل پر ہاتھ رکھ کر دلکشی سے مسکرا رہی تھی۔ تابین کی دیوانگی دیکھ کر نازلی لمبی سانس کھینچ کر آگے بڑھنے لگی۔وہ ہاشم خان جیسے بے حس شخص کے رو برو نہیں آنا چاہتی تھی۔ابھی اسنے دو قدم ہی بڑھائے تھے کہ پلک جھپکتے ہی کوئی اسکی راہ میں حائل ہوا۔وہ بالکل اسکا راستہ بلاک کر کے کھڑا تھا۔نازلی نے نظر اٹھا کر اسے گھورا پر وہ انجان بنا تابین کو دیکھ رہا تھا۔

"ہیلو تابین۔"اس بھاری آواز کو سن کے تابین کے دل کی کلی کھل اٹھی۔

"ہیلو ہاشم۔۔۔۔ کیسے ہیں آپ؟"تابین کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔ 

"تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو۔"ہاشم نے مسکرا کر جواب دیا۔تابین اسکے یوں بات کرنے پر دیوانی ہونے لگی۔اُس نے آج سے پہلے کبھی اس انداز میں بات نہیں کی تھی۔ہاشم کی نظریں تابین پر تھیں لیکن اسکی تمام تر توجہ کا مرکز اسکے ساتھ کھڑی وہ کانچ سی لڑکی تھی جو پریشان صورت لیے اسے دیکھ رہی تھی کہ وہ کیوں اسکے راستے میں کھڑا تھا۔

ہاشم نے اچانک نظر پھیر کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔سیاہ آنکھیں ، نیلی جھیل آنکھوں میں اتری تھیں۔اسکے یوں دیکھنے پر نازلی جھجھک کر جھٹ سے نظریں جھکا گئی۔

"نظر ملی اور انکی آنکھیں جھکیں۔۔"

"بس ! اتنی سی بات اور ہم برباد۔۔"

ہاشم مگن سا ان جھکی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔ہاشم کو نازلی کی طرف دیکھتا پا کر تابین نے مسکرا کر انکا تعارف کروایا۔ "نازلی حسن آفندی۔۔۔۔ میری چھوٹی بہن۔"پھر نازلی کو دیکھ کر مدھم آواز میں بولی۔"اور نازلی یہ ہاشم خان ہیں۔"اس نے مدھم مسکان کے ساتھ کہا

"ہیلو ۔۔"نازلی نے بے دلی سے ایک سرسری نگاہ ہاشم پر ڈالی ۔ان آنکھوں کو دیکھ کر ہاشم کے دل میں ایک بات بری طرح سے چھبی تھی۔ان نیلی جھیل آنکھوں میں اسکے لئے پہچان کا کوئی رنگ نہ تھا۔جبکہ وہ اس تمام عرصے میں اسے ایک پل کو بھی بھول نہیں پایا تھا اور اس لڑکی کی آنکھیں خود کو اس سے انجان ظاہر کر رہی تھیں۔وہ اسکے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔اسکے لئے بے چین تھا اور وہ لڑکی اُس سے بالکل انجان تھی۔اب سے اگر وہ بے چین رہے گا تو نازلی حسن آفندی بھی بے چین رہے گی۔اگر وہ اسے بھول نہیں پا رہا تھا تو اب سے وہ بھی ہاشم خان کو سوچنے پر مجبور ہوجائے گی۔اسنے ایک گہری نگاہ نازلی پر ڈالی۔"نائس ٹو میٹ یو نازلی حسن آفندی۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔نازلی نے بنا اسے دیکھے سر ہلایا۔وہ ہاشم خان کو پہچان نہیں پائی تھی۔وہ کوئی اسکے لئے اتنا ضروری تھا بھی نہیں کہ وہ اسے یاد رکھتی پر ہاشم خان تو اسے یاد رکھے ہوئے تھا اور جلد ہی وہ نازلی کو بھی اپنی پہچان دینے والا تھا۔

نازلی کو ہاشم کی موجودگی سے عجیب سی الجھن ہونے لگی جبکہ تابین اپنی خوشی میں اس قدر مگن تھی کہ ہاشم کی نظریں نازلی کے چہرے پر محسوس ہی نہ کر سکی۔

"آپ لوگ بات کریں ۔۔۔ میں ذرا بابا جان کے پاس جاتی ہوں۔"وہ مدھم آواز میں بولی۔اسکی بات پر ہاشم نے اسکے جھکے سر کو دیکھا پھر راستے سے ہٹا۔اسکے ہٹتے پر وہ پلک جھپکتے ہی وہاں سے بھاگنے والے انداز میں نکلی تھی۔اسکے جاتے ہی تابین نے ہاشم کو اپنی طرف متوجہ کیا۔جبکہ ہاشم کی تمام تر دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔وہ بھی تھوڑی دیر بعد تابین سے ایکسکیوز کرتا وہاں سے ہٹا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہاشم کا سامنا کر کے نازلی عجیب سی الجھن کا شکار تھی۔تابین سے اسنے جو کچھ بھی ہاشم خان کے بارے میں سنا تھا اس سے یہی اندازہ لگایا تھا کہ وہ انتہا کا روڈ، ظالم شخص ہے۔وہ شخص جو کل تک تابین سے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا آج خود چل کر اسکی طرف آیا تھا۔نازلی کو پکا یقین تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔وہ ٹھٹھک گئی تھی پر تابین کی خوشی دیکھ کر کچھ بول نہ پائی۔

وہ ایک طرف الگ سی کرسی پر بیٹھی سبکو دیکھ رہی تھی۔ قہقہہ ،میوزک کا شور اور رنگ برنگے مصنوعی چہروں سے اسکا دل 

اچاٹ ہو چکا تھا۔سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔اسے یہ ماحول ایک آنکھ نہ بھایا۔وہ اٹھ کر دوستوں میں گھری تابین کے قریب آئی پھر اسے ایک طرف بلایا۔" کیا ہوا؟"تابین نے پوچھا۔ 

"آپی یہ پارٹی کب تک ختم ہوگی۔"وہ بے زاری سے بولی 

"ابھی تو شروع ہوئی ہے۔ختم ہونے کا کچھ پتہ نہیں۔۔۔۔"تابین جواب دے کر ارد گرد دیکھنے لگی۔نازلی سمجھ گئی کہ کسے تلاش کیا جا رہا ہے۔"ویسے تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"اسکی نظر گھوم کر واپس نازلی کے چہرے پر ٹکی۔ 

"میرے سر میں شدید درد ہورہا ہے۔مجھے گھر جانا ہے۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔ 

"اوکے۔۔۔۔ بابا کو بتا کر چلی جاؤ۔"تابین نے جیسے بات ختم کی پھر پلٹ کر چلی گئی۔نازلی اسے اپنے ساتھ آنے کا کہنے والی تھی پر پھر خاموش ہوگئی کہ تابین وہاں سے کیوں جانے لگی۔اسکا ہاشم خان جو پارٹی میں موجود تھا۔

نازلی ، بابا جان کو بتاتی ، انسے گاڑی کی چابی لے کر اس افراتفری بھرے ماحول سے دور ہونے لگی۔

پارکنگ میں پہنچ کر بے شمار گاڑیوں میں وہ اپنی کار ڈھونڈھنے لگی۔اسنے یہاں آتے وقت دھیان نہیں دیا تھا کہ بابا جان نے کار کہاں پارک کی تھی۔اس بے دھیانی پر اسکا دل چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے۔اسنے پریشانی سے پلٹ کر ہوٹل کو دیکھا جہاں سے ہنسی کی آوازیں یہاں تک آرہی تھیں پھر فکر مند سی ارد گرد نظر دوڑا کرگاڑی کو تلاش کرنے لگی جب آخرکار کچھ فاصلے پر اسے کار نظر آگئی۔لمبی سانس بھر کر شکر ادا کرتی وہ آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک کسی نے اسکا بازو کھینچ کر اسے سائیڈ پر لگی گاڑیوں کے درمیان کھڑا کیا۔اس اچانک جھٹکے پر وہ چکرا سی گئی۔کچھ پل بعد جب سمبھلی تو جیسے دل مٹھی میں قید ہوا۔جھٹ سے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو سہم کر پیچھے ہٹی مگر پیچھے پارک کار نے اسکا راستہ بلاک کر دیا تھا اور دوسری طرف وہ پہاڑ بنا کھڑا تھا۔اسنے آس پاس نظر دوڑائی پر ان دونوں کے علاوہ وہاں کوئی نہ تھا۔آنکھوں کے سامنے زرد روشنیاں اسے دھندلی ہوتی محسوس ہوئیں۔ڈر کو قابو کرتی کوئی اور راستہ نہ پا کر اسنے چیخنے کے لئے لب وا کئے پر سامنے والے نے اسکا ارادہ بھانپ کر پل بھر میں ایک ہاتھ اسکے سر کے پیچھے اور دوسرا مضبوطی سے اسکے منہ پر جما کر اسکی آواز گھونٹ دی۔نازلی خوف سے منجمد ہوگئی۔ 

"کوئی غلط ارادہ نہیں ہے میرا۔۔۔۔ بس تم سے بات کرنی ہیں نازلی حسن آفندی۔"اسکی گھمبیر آواز نازلی کی سماعتوں میں سرسرائی تھی۔اس شخص کی سیاہی مائل آنکھیں نازلی کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔

"بہت نا مراد شے ہے جنون۔۔"

"اسے کہو مجھے جنون ہے اسکا۔۔"

ہاشم کو یوں اپنی آنکھوں میں جھانکتے دیکھ کر نازلی نے پلکیں جھپک کر بے تابی سے ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھوں کو خود سے دور کرنا چاہا۔پر کوشش ناکام رہی۔وہ خود کو اس سے چھڑانے کی کوشش میں مصروف تھی جبکہ ہاشم دلچسپی سے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔پیشانی پر شکنیں ، نیلی آنکھوں میں بے چینی ،گلابی ہوتے گال ، الجھی لٹیں ،بے تابی سے اٹھتیں اور جھکتیں پلکیں ، وہ مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا۔اسے مگن سا اپنی طرف دیکھتا پاکر نازلی نے دائیں ہاتھ سے اپنے منہ پر جمے اسکے مظبوط ہاتھ کو زور سے جھٹکنے کی کوشش کی پر مجال ہے جو اس شخص کی گرفت ذرا بھی ڈھیلی پڑی ہو۔بھلا وہ نازک سی لڑکی اس شخص کی طاقت کا مقابلہ کہاں کر سکتی تھی۔ اسکی ناکام کوششوں کو دیکھ کر ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"یہ کوشش کسی کام کی نہیں ہے۔۔۔۔"اسکی مسکراتی آواز پر نازلی خوف سے تھم سی گئی۔ہاشم نے اسکے خوفزدہ چہرے کو دیکھا تو بول پڑا۔"میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں پر۔۔۔۔ چیخ و پکار سے گریز کرنا ۔۔۔ اوکے۔"اسنے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا پر نازلی بت بنی اسے دیکھے جا رہی تھی۔

"اوکے مس نازلی۔"اب کی بار اسنے اپنی بات پر زور دے کر نازلی کی آنکھوں میں دیکھا۔جواباً نازلی نے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔اسکی بات سمجھ کر ہاشم نے آہستہ سے اپنے ہاتھ پیچھے کئے۔نازلی نے جلدی سے کانپتے ہاتھ اٹھا کر منہ پر پھیرے ۔جیسے اسکے لمس کو مٹانا چاہا تھا۔خود کو کنٹرول کر کے اسنے سر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا۔"م۔۔۔مجھ سے کیا چاہتے ہیں آپ؟"اسنے کپکپائی آواز میں پوچھا۔

"تمہیں۔۔"سنجیدگی سے مختصر جواب دیا گیا۔نازلی کی حیرت زدہ آنکھیں اسکے چہرے پر ٹھہر گئیں۔زبان تالوں میں جکڑی جا چکی 

تھی۔ہاشم نے محبت سےاسکی جادوئی آنکھوں میں دیکھا۔

"مجھ پہ جادو سا کر گئیں"

"تیری نیلی آنکھوں کی سحر انگیزیاں"(عالیہ رضا)

یہی وہ نیلی جھیل آنکھیں تھیں جنہوں نے اسے اپنے جادو میں ایسا جکڑا تھا کہ وہ دیوانہ ہی تو ہوگیا تھا۔کیسا سحر پھونکا تھا ان آنکھوں نے کہ وہ مغرور شہزادہ انکا غلام بن گیا تھا۔ان نیلی آنکھوں نے اسکے دل پر قیامت برپا کر دی تھی۔آج ان دلنشیں آنکھوں کی مالک ،اس کانچ کی گڑیا کو اپنے سامنے ، اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ بے ساختہ بول پڑا۔

"تمہاری ان آنکھوں نے مجھے کب سے بے چین کر رکھا ہے۔کچھ خبر ہے تمہیں اس بات کی؟"کچھ پل بعد اسنے اپنے سوال پر خود ہی نفی میں سر ہلایا پھر افسوس سے بولا۔"تمہیں کہاں خبر ہوگی۔۔۔تمہاری آنکھیں تو خود کو مجھ سے انجان ظاہر کرتی ہیں۔"اسنے بےخودی میں آگے بڑھ کر اسکے چہرےکو چھونا چاہا۔ 

"پلیز۔۔۔۔"نازلی نے تڑپ کر اسکا ہاتھ جھٹکا۔"میں آپکو آج سے پہلے جانتی تک نہیں تھی۔پھر آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔۔ پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔۔"وہ رونے والی ہوگئی۔

اسکا دماغ بالکل سن ہو چکا تھا۔اسے یاد نہ آیا کہ اسنے آج سے پہلے اس شخص کو کب اور کہاں دیکھا تھا اور وہ کیوں اسکے پیچھے پڑ گیا تھا۔

"واہ کوئی جان سے گیا اور آپکی ادا ٹھہری۔"وہ مدھم سا مسکرایا۔

"اور جہاں تک جاننے کی بات ہے تو کوئی مسئلہ نہیں آج کے بعد تم مجھے اچھے سے جان جاؤ گی۔"اسنے نازلی کے سفید پڑتے چہرے کو بغور دیکھا۔

"خیر ابھی کے لئے جانے کی اجازت دیتا ہوں کیونکہ لوٹ کر تو تمہیں میرے پاس ہی آنا ہے۔"وہ چمکتی سیاہ آنکھیں نازلی کے چہرے پر تھیں۔

نازلی کو وہ شخص کوئی پاگل لگا تھا۔ہاشم تھوڑا پیچھے ہوا۔نازلی نے ڈر بھری ایک نگاہ اس پر ڈالی پھر آہستہ سے سائیڈ سے ہو کر نکلنا چاہا پر تبھی ہاشم نے جھٹ سے اسکا بازو تھام کر اسے اپنے قریب کیا۔

"ویسے یہ تو فیئر نہیں ہے ناں کہ میری نیند اڑی رہے اور تم جین سے سوتی رہو۔میں بے چین رہوں اور تم سکون سے اپنی زندگی جیو۔میں ہر پل ، ہر لمحہ تمہیں سوچوں اور تم میرے وجود سے بے خبر رہو۔"وہ اس ساحرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر سرگوشی کر رہا تھا۔

"ہوں ۔۔۔ ایسا تو بالکل نہیں ہونا چاہیے ناں؟"اسنے سنجیدگی سے خود کلامی کرتے دوسرا ہاتھ نرمی سے نازلی کے گال پر رکھا۔ 

نازلی اسکے چھونے پرخوف سے کانپنے لگی۔وہ اس شخص کو پیچھے دھکیل دینا چاہتی تھی۔وہاں سے کہیں دور بھاگ جانا چاتی تھی پر اس شخص کے خوف نے اسے اس قدر مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا کہ وہ ہل بھی نہ سکی۔

یہ اچانک اسکے ساتھ کیا ہورہا تھا؟ یہ شخص کہاں سے آگیا اور اس سے کیا چاہتا ہے؟اُسے وحشت بھری نظروں سے دیکھتی اگلے پل وہ پتھر کی مانند ہوگئی۔

ہاشم خان کے لب اسکی پیشانی کو چھو رہے تھے۔وہ برف کی طرح ٹھنڈی پڑ گئی۔دل کی دھڑکنیں ساکت ہوگئیں۔ہاشم نے اسکی پیشانی پر بوسہ دے کر تھوڑا پیچھے ہو کر اسکے لال چہرے کو غور سے دیکھا پھر نرمی سے اسکا بازو چھوڑ کر  اسکے کان کے قریب جھکا۔

"اب تم جا سکتی ہو۔"اسکی بھاری آواز نازلی کی سماعتوں سے ٹکرائی تو جیسے اسے کسی نے جھنجھور کر گہری نیند سے جگایا تھا۔کچھ پل پہلے جو کچھ ہوا وہ سوچ کر اسکے دل سے دھوا سا اٹھنے لگا۔نیلی آنکھوں میں ڈھیر سا پانی جمع ہوا۔اسنے جلا کر خاک کر دینے والی ایک نگاہ ہاشم خان پر ڈالی پھر کانپتے ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسے پوری قوت سے  دھکیلتی ،وہاں سےبھاگتی ہوئی اپنی کار کی طرف بڑھنے لگی۔

ہاشم نے اسے دور ہوتے دیکھ کر ایک لمبی سانس کھینچی۔اسے ان آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگے تھے۔پرکیا کرتا۔۔۔وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔وہ وہیں گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو کر سگریٹ سلگانے لگا۔کش لے کر دھوا اڑاتے اسکے لبوں پر ایک دم سے دلکش سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔اسنے سر اٹھا کر آسمان پر روشن چاند کو دیکھا۔وہ چاند اسکے بے انتہا عشق کا گواہ تھا۔اسکی بے چینی اس چاند نے دیکھی تھی۔اسکے رت جگوں سے واقف تھا اور آج جو کچھ ہوا یہ بھی اس چاند کے سامنے تھا۔

"وہ صرف ہاشم خان کی بنے گی۔"اسنے چاند کو دیکھتے جیسے کوئی جادو پھونکا تھا۔اسے علم تھا کہ نازلی کو پانے کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔تابین حسن آفندی ۔۔۔۔ اسکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔۔۔پر وہ سب سے نپٹنا جانتا تھا۔کچھ سوچ کر اسنے لمبی سانس کھینچی پھر سگریٹ نیچے پھینک کر پاؤں سے مسلا۔وہ طے کر چکا تھا کہ وہ نازلی حسن آفندی کو کسی حال میں بھی خود سے دور نہیں جانے دے گا۔اسے پانے کے لئے کچھ بھی کر گزرے گا۔ختمی فیصلہ کرتا وہ پر سکون ہوگیا۔اپنے ارادوں میں وہ ہمیشہ سے اٹل رہا تھا۔ہر معاملے میں وہ مظبوطی سے قدم جمائے کھڑا رہا تھا اور یہ تو پھر اسکی زندگی ، اسکی محبت کا سوال تھا۔کہیں بھی ، ذرا سا بھی لڑکھڑانے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔اسے نہ صرف باقی سب کا بلکہ اس کانچ سی لڑکی کا بھی مقابلہ کر کے اسے دنیا سے چرا کر اپنے پاس لانا تھا۔وہ اپنی بازی کھیلنے کے لئے مکمل طور پر تیار تھا۔

نازلی کپکپاتے وجود کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ،ٹھنڈا ہاتھ بڑھا کر جلدی سے دروازہ لاک کیا کہ کہیں وہ اسکے پیچھے نہ آجائے۔کچھ دیر وہ سن سی بیٹھی رہی سمجھ نہ آئی کہ یہ اچانک اسکے ساتھ کیا ہوگیا۔کیوں اسکی دنیا الٹ ہوتی محسوس ہورہی تھی۔کچھ دیر پہلے کے پل جب آنکھوں کے سامنے سے گزرے تو وہ ایک دم ہاتھ بڑھا کر پیشانی کو زور سے مسلنے لگی جہاں اس شخص کے لبوں کا جلتا لمس موجود تھا۔پر جب اس کوشش میں ناکامیاب ہوئی تو دونوں ہاتھوں کو اسٹیرنگ وہیل پر جما کر ان پر چہرہ ٹکاتی رونے لگی۔اسکا دل کیا وہ ہاشم خان کو جان سے مار ڈالے۔اسنے کیوں کیا تھا ایسا؟ وہ اسے کیا سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔ پہلے اسکی آپی اور اب وہ ۔۔۔۔ اسکا دماغ پھٹنے لگا۔دل خوف کے حصار میں تھا۔اس شخص کی حرکت یاد کر کے اسکی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گر رہا تھا۔

اسکے کھیل کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔وہ اچانک کہاں سے آگیا تھا اسکی زندگی کو منتشر کرنے۔۔۔۔ کافی دیر رونے کے بعد اسنے سر اٹھا کر لمبی سانس کھینچی۔آنکھیں گلابی ہورہی تھیں۔اسنے کار سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔سارے راستہ وہ ہاشم خان کی جسارت ، اسکی باتیں سوچ کر آنسو بہاتی رہی۔

گھر پہنچ کر وہ کمرے میں بند ہوگئی۔ساری رات اُسکی باتوں کو  سوچ سوچ کر وہ پاگل ہو رہی تھی۔اس شخص نے واقعی اسکی نیند اڑا دی تھی۔وہ چاہ کر بھی اس شخص کو اپنے دماغ سے نکال نہیں پائی تھی۔

"کیا بات ہے۔صبح سے خاموش ہو۔آنکھیں بھی لال ہو رہی ہیں۔سب ٹھیک ہے؟"نور نے اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔تینوں کلاسز لے کر گراؤنڈ میں بیٹھی تھیں۔ 

"ہوں ۔۔۔۔ بس رات کو نیند نہیں آئی۔"اسنے کتاب کھولتے جواب دیا۔ "کہیں تمہیں محبت تو نہیں ہوگئی۔"آبی نے آنکھ مار کر کہا۔"ایسی کوئی بات نہیں بس طبیعت نہ ساز تھی۔"وہ کتاب پر نظریں جما کر بولی۔وہ انہیں کیا بتاتی کہ ایک شخص کے خوف نے اسے تمام رات سونے نہیں دیا۔اسکا پاگل پن یاد کر کے وہ کانپ سی گئی۔اسنے ٹھان لیا تھا کہ وہ یہاں سے جا کر تابین کو اس شخص کے کرتوت بتا دے گی۔

"تم ناں زیادہ محبت بھری فلمیں نہ دیکھا کرو۔"نور کی آواز پر وہ سوچوں سے باہر نکلی۔

"تم بھی میرے ساتھ ہی دیکھتی ہو۔"آبی تپی تھی۔

"میں دیکھ سکتی ہوں کیونکہ میں منگنی شدہ ہوں۔"نور گردن اکڑ کر بولی۔"بڑی آئی منگنی شدہ بی بی۔کچھ شرم کرو۔"آبی نے اسے گھورا۔

"تم میری کوئی بزرگ تو ہو نہیں جو میں خاموش بیٹھ کر شرماؤں۔"نور نے جھٹ سے آنکھیں مٹکا کر جواب دیا۔انکی باتوں پر نازلی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

"بس کر دو اب تم دونوں۔"اسنے دونوں کو ٹوکا۔

"نازلی تم اور میں سمجھ دار بچیاں ہیں۔یہ آبی تو جھلی ہے۔" نور نے مسکرا کر نازلی کو دیکھ کے آنکھ ماری تو وہ ہنسنے لگی۔"دفع ہوجاؤ تم۔"آبی نے منہ پُھلا لیا۔

"میری پیاری دوست کو ایسا نہ کہو نور۔"نازلی نے آبی کے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا۔

"آپ کی دوست اسی قابل ہے۔"نور نے ہنس کر آبی کو چڑایا۔ 

"میں لالہ کو بتاؤنگی۔"آبی نے اسے دھمکایا۔اسکی بات پر نور نے منہ بسورا۔آبی اور نازلی نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسی ضبط کی۔

"میری پیاری بہن آبی ۔۔۔اب ایسے تو نہ ڈراؤ مجھے"اسنے آگے ہو کر پیار سے کہا۔آبی نے نازلی کو آنکھ سے اشارہ کیا۔  

"دیکھ لو نازلی یہ کتنی مطلبی ہے۔"

"تم پر ہی گئی ہوں۔"نور نے مزے سے کہا۔ 

"بس بس ۔۔۔ خاموش ہوجاؤ گھر میں تم دونوں کا گزارا کیسے ہوتا ہے۔"نازلی نے دونوں کو دیکھا۔

"بہت مشکل سے۔"دونوں نے ایک ساتھ کہا تو تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر کھلکھلا اٹھیں۔نازلی نے محبت سے دونوں کو دیکھا وہ رات سے ٹینشن میں تھی۔پر ابھی ان سے بات کر کے وقتی طور پر ہی سہی پر وہ خود کو ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

حسن آفندی نے شیلف میں رکھیں کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھائی۔وہ معمول کے مطابق اپنی لائبریری میں تھے اور پڑھنے کے لئے کوئی اچھی کتاب تلاش کر رہے تھے۔ہاتھ میں پکڑی کتاب رکھ کر انہوں نے دوسری کتاب اٹھائی۔بک کوور دیکھ کر وہ صفحے پلٹنے لگے کہ اچانک کتاب سے ایک تصویر گری۔انہوں نے جھک کر اٹھائی۔تصویر پر نظر پڑی تو آنکھیں واپس لوٹنا بھول گئیں۔اتنے سالوں بعد آج بھی اس چہرے کو دیکھ کر انکا دل دھڑک اٹھا تھا۔ "زنیرہ ابراہیم"انکی پہلی اور آخری محبت۔جسے انہوں نے بہت چاہا تھا پر اپنی کوتاہی کے ہاتھوں کھو بیٹھے تھے۔دل کے درد کو دبا کر وہ اس تصویر کو تھامے اپنی کرسی پر بیٹھے۔چہرے پر تھکان واضح نظر آرہی تھی۔انہوں نے تصویر اپنی آنکھوں کے سامنے کی۔یہ تصویر یونیورسٹی ٹائم کی تھی۔ پہلی تصویر جو انہوں نے زنیرہ ابراھیم کی کلک کر کے اپنے پاس رکھی تھی۔وہ خوشیوں میں کھیلتی لڑکی انکی آنکھوں کے سامنے تھی۔سفید لباس میں ، کھلے بال ، کلیوں سا مسکراتا چہرہ۔۔۔۔وہ زندگی سے بھر پور لڑکی تھی جسے انکی بے پرواہی کھا گئی۔انکی آنکھوں کے گوشوں میں نمی پھیلی۔انکا دل درد کی انتہا پر تھا۔انکا دل کیا کہ وہ تمام گزرا وقت واپس لے آئیں اور اپنی غلطی سدھار لیں۔پر گزرا وقت کسی کے لیے نہیں لوٹتا۔

وہ حال سے دور ماضی میں کہیں گم ہوجانا چاہتے تھے۔انہوں نے سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ 

حسن آفندی اور زنیرہ ابراہیم یونیورسٹی کے دور سے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے۔زنیرہ ابراہیم کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔انکے والد انتقال کر چکے تھے۔گھر میں اسکی  والدہ اور چھوٹی بہن سیماب تھیں۔یونیورسٹی کے تمام عرصے 

 وہ دونوں ایک دوسری کی محبت میں گم رہے۔دنیا کی تلخی سے دور ایک ساتھ زندگی گزارنے کے پلان بناتے رہے۔انہیں معلوم نہ تھا کہ آگے انہیں تقدیر کیا دکھانے والی تھی۔

دونوں کی پڑھائی ختم ہوئی تو حسن آفندی نے اپنے والد کا بزنس سمبھال لیا۔جبکہ زنیرہ نے بھی جاب شروع کر لی۔حسن آفندی جب بزنس میں سیٹل ہوگئے تو انہوں نے اپنے والد سے زنیرہ کے رشتے کی بات کی پر انکے والد نے صاف انکار کر دیا۔وہ پہلے ہی اپنے دوست کی بیٹی کے لئے ہاں کر چکے تھے۔دوست تو دنیا میں رہا نہیں تھا پر وہ دوست کو اپنی زبان دے چکے تھے جسے وہ ہر حال میں نبھانا چاھتے تھے۔حسن آفندی نے لاکھ کوشش کی پر انکی نہ ہاں میں نہ بدلی۔حسن آفندی نے بھی طے کر لیا تھا کہ اگر زنیرہ نہیں تو کوئی نہیں۔وہ اپنے فیصلے پر اٹل تھے پر پھر جب انکی ماں نے انہیں اپنا واسطہ دے کر انکے سامنے ہاتھ جوڑے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں کی محبت کے آگے جھک گئے۔وہ اپنی وجہ سے اپنی جنت کو ناراض نہیں کر سکتے تھے۔ہاں تو وہ کر چکے تھے۔پر انکا دل جیسے مر چکا تھا۔جب زنیرہ کو انکی شادی کی خبر ملی تو وہ پتھر ہی تو بن گئی تھی۔وہ جانتی تھی کہ حسن آفندی بے وفا نہ تھے۔پر وقت اور حالات ان دونوں کو اس موڑ پر لے آئے تھے کہ وہ چاہ کر بھی وفا نہ نبھا سکے۔

"یوں تو کوئی بھی تنہا نہیں هوتا۔"

"چاہ کر بھی کسی سے کوئی جدا نہیں هوتا۔"

"محبت کو ازل سے مجبوریاں لے ڈوبتی ہے۔"

"ورنہ خوشی سے کوئی بے وفا نہیں هوتا۔"

حسن آفندی کی شادی امتل بیگم سے ہوگئی اور زنیرہ انکی زندگی سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا پر حسن آفندی کا دل کہیں بہت پیچھے کسی موڑ پر ٹھہر گیا تھا۔وہ چاہ کر بھی نئی زندگی میں آگے نہ بڑھ سکے۔چار سال کا لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔انکے والدین حیات نہیں رہے تھے۔حسن آفندی تین سالہ بیٹی کے باپ بن چکے تھے۔دل نے تھوڑا سمبھلنا سیکھ لیا تھا وہ اپنی زندگی سے خوش نہ سہی پر کچھ حد تک مطمئن ہو چکے تھے کہ زندگی نے پھر رخ بدلا اور زنیرہ ابراہیم کو ایک بار پھر سے انکے سامنے لا کھڑا کیا۔وہ جاب کی تلاش میں تھی اور ایک دوست کے ذریعے اسکا سامنا حسن آفندی سے ہوگیا۔اسے سالوں بعد دیکھ کر حسن آفندی کا تھم کر چلتا دل پھر سے پوری رفتار سے دھڑک اٹھا تھا۔انہوں نے زنیرہ کو جاب پر رکھ لیا۔جسے نہ چاہتے ہوئے بھی زنیرہ کو قبول کرنا پڑا۔پہلے تو اسکی والدہ جاب کر کے انہیں سپورٹ کرتی تھیں۔پر جب سے زنیرہ نے پڑھائی مکمل کی تھی اسنے اپنی والدہ سے جاب چھڑا کر خود جاب شروع کردی تھی۔اس نے گھر اور سیماب کی پڑھائی کی ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لی تھی پر مہینہ پہلے اسے جاب سے نکال دیا گیا تھا اور وہ نئی جاب کی تلاش میں تھی۔

زنیرہ نے اپنے دل کو مظبوط کرلیا تھا۔ایک ماہ حسن آفندی کے آفس میں جاب کرتے گزرا کہ ایک دن وہ انکے گھر چلے آئے اور اسکی والدہ کو تمام کہانی سنا کر انسے زنیرہ کا ہاتھ مانگ لیا۔اسکی والدہ پہلے ہی اپنی یوں مسلسل بیماری سے پریشان تھیں کہ انکے بعد انکی بیٹیوں کا کیا بنے گا۔سیماب کے سر پر پھر  بھی زنیرہ کا ہاتھ تھا پر زنیرہ بالکل اکیلی تھی۔اسے کسی کے  مظبوط بازوؤں کا سہارا چاہیے تھا۔بہت کچھ سوچ کر انہوں نے حسن آفندی کے پرپوزل کو قبول کر لیا۔زنیرہ کو اعترض تھا۔وہ کسی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہتی تھی پر حسن آفندی کے پر زور اسرار پر اسکا دل پگھل گیا تھا۔آخر صرف حسن آفندی ہی نہیں وہ بھی تو انکی دیوانی تھی۔انہیں پانے کی خواہش اس نے بھی کی تھی۔حسن آفندی کو لے کر اسنے لاکھ سپنے سجائے تھے۔پر تقدیر نے انہیں جدا کر دیا تھا اور اب اگر تقدیر انہیں پھر سے ملانا چاہتی ہے۔انہیں ایک کرنا چاہتی ہے تو وہ کیوں پیچھے ہٹیں۔کیوں نہ وہ اپنے محبوب کا ہاتھ تھام کر اس دنیا کی حقیقت سے دور سپنوں کی دنیا میں چلی جائے۔پر آخر کوئی کب تک حقیقت سے بھاگ سکتا ہے۔سپنوں کی دنیا میں کھوئے ان دو دلوں کو بھی دنیا کی حقیقت کھا جانے  والی تھی۔

بہت سادگی سے دونوں کا نکاح ہو گیا تھا۔حسن آفندی نے زنیرہ کے لئے الگ گھر لیا تھا۔حسن آفندی ، زنیرہ کی والدہ اور سیماب کو بھی ساتھ لے آئے تھے۔زنیرہ تو ان پر قربان ہوگئی تھی۔بھلا اتنا پیار کرنے والا شوہر کسی کو ملے اور وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین ہستی نہ سمجھے ایسا تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔حسن آفندی اپنا بہت سا وقت زنیرہ کے ساتھ گزارتے تھے۔وہ ایک دوسرے کو پا کر خوش تھے۔وقت ہنسی خوشی گزر رہا تھا۔شادی کے دو سال بعد نازلی انکی زندگی میں آئی اور اسکی موجودگی نے ان کی زندگی کو چار چاند لگا دیے۔اسی موقع پر حسن آفندی نے اپنی جان سے پیاری بیوی کو ڈائمنڈ ایر رنگز گفٹ کیے تھے۔زنیرہ تو جیسے خواب کی سی زندگی جی رہی تھی۔اسکی جھولی میں بے پناہ خوشیاں تھیں جنہیں سمیٹ سمیٹ کر وہ کلی کی مانند کھل اٹھی تھی۔انکی زندگی پر سکون ،خوشیوں سے بھر پور گزر رہی تھی۔وقت پر لگا کر اڑا اور نازلی آٹھ سال کی ہو گئی۔تبھی طوفان نے انکے خوشیوں بھرے گھروندے پر دستک دی۔امتل آفندی انکی چھوٹی سی خوشیوں بھری دنیا میں داخل ہوچکی تھیں۔امتل آفندی کو حسن آفندی کی شادی کا علم ہوا۔وہ تو پاگل ہوگئیں تھیں۔وہ اس عورت کا منہ نوچ لینا چاہتی تھیں جس نے انکے شوہر کو ان سے چھینا تھا۔وہ اسے مار دینا چاہتی تھیں۔انہوں نے شادی سے پہلے بہت مشکل سے حسن آفندی کو اس عورت سے چھین کر اپنے نصیب میں لکھا تھا پر وہ پھر سے حسن آفندی کو لے گئی تھی۔امتل آفندی شادی سے پہلے ہی حسن آفندی اور زنیرہ کی محبت سے واقف تھیں۔اپنے خاندان میں سبکے خلاف جا کر انہوں نے حسن آفندی کے والد کا ساتھ دیا تھا اور حسن آفندی سے شادی کی تھی۔حسن آفندی انکا تھا اور انہوں نے اسے پا بھی لیا تھا پھر اتنے عرصے بعد وہ عورت کہاں سے آگئی؟انہیں اپنی بیوقوفی پر غصہ آیا کہ کیوں وہ حسن آفندی کی طرف سے لا پرواہ ہوئیں۔انہیں تو لگا تھا بس اب حسن آفندی انہیں مل گئے ہیں اب وہ انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے پر وہ غلط تھیں۔لے گئی تھی وہ زنیرہ انکے شوہر کو۔۔۔ پر ہار ماننے والی وہ بھی نہ تھیں۔وہ غصے سے بالکل پاگل ہوگئی تھیں۔انہوں نے ہر حربہ آزمایا کہ حسن آفندی ، زنیرہ کو اپنی زندگی سے نکال باہر کریں پر وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔آخری داؤ کے طور پر انہوں نے خود کو پر سکون ظاہر کیا اور حسن آفندی کی شادی کو مان لینے کا ناٹک کرتے ہوئے حسن آفندی سے کہا کہ وہ زنیرہ اور نازلی کو حسن ولا لے آئیں۔نازلی کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے گھر میں ، اپنے باپ کے سائے تلے رہے۔حسن آفندی نے بہت سوچا ، زنیرہ سے بھی بات کی پہلے تو زنیرہ ڈر گئی تھی کہ وہ کیسے امتل بیگم کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہے گی۔پر پھر نازلی کے مستقبل کا سوچ کر اسے ماننا پڑا۔زنیرہ جانتی تھی کہ باپ کے بغیر بچے کس قدر اکیلا محسوس کرتے ہیں۔وہ خود چھوٹی عمر میں اپنے والد کو کھو چکی تھی۔باپ بھائی کے بغیر اکیلی عورت کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے یہ وہ اچھے سے جانتی تھی۔اسلئے وہ اپنی بیٹی کو ایک مکمل زندگی دینا چاہتی تھی تا کہ اسکی گڑیا کی زندگی میں کبھی کوئی کمی نہ آئے۔زنیرہ نے ماں ہونے کے ناتے ایک اچھا فیصلہ کیا تھا پر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس فیصلے سے آگے جا کر انکی بیٹی کی زندگی میں ہمیشہ کے لئے ایک کمی رہ جانے والی تھی۔

زنیرہ اور نازلی کے حسن ولا آتے ہی نئی کہانی شروع ہو چکی تھی۔امتل آفندی نے اپنا کھیل شروع کر دیا تھا۔وہ ہر بات پر زنیرہ کو باتیں سنانا نہیں بھولتی تھیں۔ہر بات گھما پھرا کر  زنیرہ پر روکتیں اور اسکی تذلیل کرتیں۔کبھی کبھی نازلی بھی انکے غصے کی لپٹ میں آجاتی تھی۔انہوں نے تابین کے دماغ میں بھی زہر بھر دیا تھا۔وہ کبھی کبھار نازلی پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کرتی۔اسے پسند نہیں تھا کہ اسکے باباکو کوئی اور بھی بابا کہہ کر پکارے۔جو اسکا تھا وہ اسے صرف اپنا ہی دیکھنا چاہتی تھی۔

حسن آفندی خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔وہ اگر نازلی یا زنیرہ کے ساتھ وقت گزارتے تو امتل بیگم بے وجہ باتوں پر ایسا طوفان برپا کرتیں کہ گھر کے نوکر تک تماشا دیکھتے تھے۔امتل آفندی نے اس قدر سب کچھ اپنے بس میں کر لیا تھا کہ حسن آفندی نا محسوس انداز میں زنیرہ اور نازلی سے دور ہوتے چلے گئے۔اب وہ زیادہ تر بزنس میں گم رهتے تھے اور امتل بیگم کو فری ہینڈ مل گیا تھا۔انکی جلی کٹی باتوں پر زنیرہ خاموشی سے آنسو پی کر رہ جاتی۔یہاں آ کر ایک دن بھی وہ سکون سے سو نہیں پائی تھی۔زندگی نے کچھ عرصے میں اسکی راہوں میں جتنے گلاب بچھائے تھے اب اس سے زیادہ کانٹے اسکی راہوں میں تھے جنہوں نے اسکے نازک پاؤں کو زخم زخم کر دیا تھا۔وہ آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی تھی۔امتل آفندی کی باتوں سے زیادہ اسے اس شخص کی بے پرواہی مار رہی تھی جسے اس نے ٹوٹ کر چاہا تھا۔وہ کیوں اچانک اس قدر بدل گیا تھا۔وہ شخص جس نے اس سے محبت کی انتہا کر دی تھی تو اب جب اسے اس کی ضرورت تھی تو وہ کیوں منہ موڑ گیا تھا۔کیوں اسے بیچ راہ میں چھوڑ کر اپنی راہ بدل گیا تھا۔

"محبت سیکھا کر جدا ہوگیا۔"

"نہ سوچا نہ سمجھا خفا ہوگیا۔"

"دنیا میں ہم کس کو اپنا کہیں۔"

"وہ جو اپنا تھا وہی بے وفا ہوگیا۔"

حسن آفندی کی یاد میں آنسو بہاتی وہ دیوانی زنیرہ ، نازلی کو گلے لگا کر اس سے حسن آفندی کی باتیں کرتی۔نازلی کو وہ تمام گزری باتیں بتاتی ،اسے احساس دلاتی کہ اسکے بابا جان اپنی گڑیا سے کتنی محبت کرتے ہیں۔اسکی باتوں میں حسن آفندی کے لیے اتنی محبت اتنا احترام ہوتا کہ دیکھنے والا دیکھتا کہ کوئی اسکا کس حد تک دیوانہ ہے۔پر دیکھنے والا اب کہاں  دیکھتا تھا وہ تو شاید بھول ہی چکا تھا کہ کوئی دیوانی ہے جو اسکے لیے پل پل مر رہی ہے۔وہ تو بھول گیا تھا پر وہ دیوانی کیا کرتی ؟ وہ کیسے بھولتی ؟ وہ تو عشق کی راہوں کی مسافر تھی جہاں سے واپسی نا ممکن ہوتی ہے۔ 

زنیرہ نے حسن آفندی کے لیے اپنی محبت ، احترام ، عقیدت سب نازلی کے دل میں بھر دیا تھا کہ نازلی کے بابا اسکے آئیڈیل بن گئے تھے۔ایک سال کے طویل عرصے میں زنیرہ کا دل کرچی کرچی ہو چکا تھا۔وہ اب خاموشی سے اپنا کام کرتی اور نازلی کو سمبھالتی تھی۔امتل بیگم کی باتوں سے اب بھی اسکے دل سے خون رستا تھا۔پھر اب وہ آنسو نہیں بہاتی تھی۔امی کی طرف جاتی تو خود کو خوش ظاہر کرتی۔جس دکھ سے وہ خود گزر رہی تھی وہ دکھ انہیں نہیں دینا چاہتی تھی۔سیماب اب میڈیکل کالج میں پڑھ رہی تھی وہ اپنی بہن کے لیے خوش تھی کہ اسنے جو چاہا تھا وہ پا لیا تھا اس کی طرح خالی ہاتھ نہیں رہی۔اور پھر جب کبھی اسکا حسن آفندی سے سامنا ہوتا تو وہ دیوانی دل کو پتھر بنا لیتی اور اسکا محبوب شوہر بھی نظریں جھکا کر  اسکے پاس سے گزر جاتا تو اففف اس نازک سی لڑکی کے محبت بھرے دل پر قیامت سی ٹوٹ پڑتی ۔۔۔۔دل درد کا ٹکڑا بن جاتا کتنا مشکل ہوتا ہے ناں جب وہ نگاہیں جن میں آپ نے کبھی محبت ہی محبت دیکھی ہو ، جو آپ پر قربان ہوئی ہوں وہ یوں سرسری سا آپکو دیکھ کر جھک جائیں۔تو جان پر بن آتی ہے بس صرف چند سانسیں اٹکی رہتی ہیں جو زندہ ہونے کا پتا دیتی ہیں ورنہ انسان اندر سے مر چکا ہوتا ہے۔

ایک دم حسن آفندی کی سانس بند ہونے لگی تو وہ چونک کر آنکھیں کھولتے سیدھے ہو بیٹھے۔حال نے جیسے انہیں ماضی سے کھینچ کر باہر نکالا تھا۔زنیرہ کی تصویر ہاتھ میں مظبوطی سے تھام رکھی تھی۔جیسے اسے کہیں جانے نہیں دینا چاھتے ہوں پر جانے والی تو جا چکی تھی اب تصویر کو تھام کر کچھ بھی حاصل ہونے والا نہ تھا۔

محبت سے تصویر کو دیکھتے ہاتھ بڑھا کر انہوں نے آنکھ سے نکلے اس خاموش آنسو کو صاف کیا تھا۔

"آپی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"نازلی نے سنجیدگی سے تابین کو دیکھا۔وہ تابین کے روم میں کھڑی تھی۔

"بولو۔"اسکی بات پر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تابین نے مصروف انداز میں کہا۔ 

"آپ کہیں جا رہی ہیں؟"نازلی نےاسکی تیاری کو دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ میں اور ماما ڈنر پر جا رہے ہیں۔"اسنے بالوں میں برش کرتے جواب دیا۔ 

"تو میں بعد میں آجاؤں گی۔"نازلی جانے لگی۔ 

"نہیں ابھی کچھ وقت ہے ۔۔ تم کہو۔۔"اب وہ مسکارا لگانے لگی۔

"آپی وہ ہاشم خان کے بارے میں بات کرنی ہے۔"نازلی جھجھک کر کہتی آگے بڑھ کر بیڈ پر بیٹھی۔ہاشم کے نام پر تابین بجلی کی طرح اسکی طرف گھومی۔ 

"کیا بات ؟"اسنے جلدی سے پوچھا۔نازلی سر جھکا گئی پھر بولنے کے لیے لب وا کیے ہی تھے کہ تابین ایک دم ہنسنے لگی۔

"اب یہ مت کہہ دینا کہ تمہیں وہ پسند آگیا ہے؟"وہ شرارت سے بولی۔نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"استغفار آپی ۔۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے۔"وہ کرنٹ کھا کر اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ تابین ہنستی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل سے نیل پینٹ اٹھا کر بیڈ کی طرف بڑھی پھر بیڈ پر بیٹھ کر پاؤں اپر کر کے نیل پینٹ لگانے لگی۔ 

"آئی نو۔۔۔۔ کیونکہ وہ تو میری پسند ہے اور صرف میرا ہے۔"وہ مسکرا کر مصروف انداز میں بولی۔نازلی نے پریشانی سے اسے دیکھا۔

"تم نہیں جانتی کہ وہ میرے لیے کیا ہے۔میری نظر میں اسکے آگے دوسرا کوئی نہیں ہے۔بس وہی سب کچھ ہے۔۔۔۔۔"تابین مگن سی نیل پینٹ لگاتی اپنے پسندیدہ موضوع پر بولتی چلی جا رہی تھی اور نازلی کی پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا۔اسکی باتیں سن کر اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ اسے کیسے بتائے کہ اس شخص نے کیا کیا تھا۔تابین تو اس شخص کی دیوانی تھی۔تو کیا وہ اسکی بات پر یقین کرے گی؟کہیں اسے ہی غلط نہ سمجھ بیٹھے۔وہ تو اس شخص پر آنکھ بند کر کے بھروسا کرتی تھی پھر وہ اسکے خلاف کیوں کچھ سننے لگی۔اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ تابین کو کیسے اس شیطان کی اصلیت بتائے۔ 

وہ سوچوں میں گم تھی جبکہ تابین اسکی موجودگی کو بھلائے اپنی تیاری مکمل کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اسنے خود پر ایک تفصیلی نظر ڈالی پھر بیڈ سے اپنا بیگ اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔اسکی اس حرکت پر نازلی کا دل دکھا تھا۔تابین اپنی کہہ کر چلی گئی تھی۔اس سے پوچھا بھی نہ تھا کہ وہ کیا کہنے آئی تھی۔

نازلی آنکھیں بند کر کے لمبی سانس کھینچتی کمرے سے باہر نکلی۔یہ اسکے لیے نئی بات نہ تھی۔تابین اکثر اسے نظر انداز کر جایا کرتی تھی۔وہ چلتی ہوئی ریلنگ تک آئی۔جھک کر نیچے دیکھا تو امتل آفندی اور تابین جانے کے لیے تیار تھیں۔اسنے ٹھنڈے ہاتھ ریلنگ پر رکھے اور اداس نظروں سے انہیں جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔اکثر ایسے منظر دیکھ کر اسے شدت سے اپنی محرومی کا احساس ہوتا۔جب بھی وہ بڑی ماما اور تابین کو ساتھ دیکھتی  تو دل دکھ سے بھر جاتا کہ کاش آج اسکی ماما بھی اسکے ساتھ ہوتیں تو آج اسکی زندگی میں کوئی کمی نہ ہوتی۔اسکی ماما کا نہ ہونا اسکی زندگی کی سب سے بڑی کمی تھی۔وہ ماں کے بغیر ادھوری سی تھی۔کبھی کبھی وہ سوچتی کہ کاش امتل آفندی اس سے بھی اتنی ہی محبت کرتیں جتنی تابین سے کرتی ہیں۔پر یہ دیوانے کا خواب تھا جو کبھی پورا ہونے والا نہ تھا۔امتل آفندی کا بس چلتا تو وہ کب کی نازلی کو اس گھر سے نکال باہر کرتیں۔نازلی انہیں زنیرہ کی یاد دلاتی تھی۔وہ عورت۔۔۔۔ جس سے امتل آفندی کو شدید نفرت تھی۔

حسن آفندی نے انکے پاؤں میں مجبوری کی بیڑیاں ڈال رکھی تھیں ورنہ وہ نازلی کو کبھی برداشت نہ کرتیں۔وہ انکے حلق میں پھنسی ہڈی بن چکی تھی جسے نہ وہ اگل سکتی تھیں اور نہ نگل سکتی تھیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ لوگ اپنی ٹیبل کی طرف بڑھ رہی تھیں جب کسی نے تابین کو پکارا۔دونوں ماں بیٹی نے پلٹ کر دیکھا۔ 

"جمال آغا"تابین اسے دیکھ کر مسکرائی۔

"جی نا چیز کو جمال آغا ہی کہتے ہیں۔"وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا سا جھکا۔

"اتنے عرصے بعد تمہیں دیکھ کر بہت اچھا لگا۔"تابین نے خوشی کا اظہار کیا۔

"مجھے بھی۔"وہ مسکرایا پھر امتل آفندی کو دیکھ کر بولا۔ "یہ خوبصورت سی خاتوں تمہاری مدر ہی ہونگیں؟"اسکی بات پر امتل آفندی مسکرانے لگیں۔

"جی بالکل۔"تابین ہنسی۔"یہ میری پیاری سی ماما ہیں اور ماما یہ جمال آغا ہیں۔میرے یونی فیلو رہے ہیں محترم۔"تابین نے انکا تعارف کروایا۔

"نائس ٹو میٹ یو بیوٹیفل لیڈی۔"جمال آغا نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔اس وقت اسکی خوش اخلاقی عروج پر تھی۔

"تھینک یو ینگ مین۔"امتل آفندی نےخوشی سے جواب دیا۔جمال آغا نے انکی تعریف کر کے انکی نظر میں اپنی ویلیو بڑھا دی تھی۔امتل آفندی کا موبائل رنگ ہوا تو وہ ان سے ایکسکیوز کرتیں وہاں سے ہٹیں۔جمال آغا غور سے تابین کا چہرہ دیکھنے لگا جب وہ بولی۔"اتنے عرصے کہاں گم تھے؟" 

"یہاں سے دل اچاٹ ہوا تو امریکا چلا گیا تھا۔"

"اور اب وہاں سے دل بھرا تو واپس آگئے؟"تابین نے مسکرا کر کہا۔"یہی سمجھ لو۔"وہ اسے بغور دیکھتا مسکرا کر بولا 

"واپس آ ہی گئے ہو تو اب تم بھی ہاشم خان کی طرح اپنے بزنس سے اپنے ملک ،اپنے لوگوں کو بھی کوئی فائدہ پہنچاؤ۔" ہاشم کا ذکر کرتے تابین کے لہجے میں میٹھاس سی اتر آئی۔جمال آغا کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔اسنے زور سے مٹھیاں بھینچیں۔"تم آج بھی اسی موڑ پہ کھڑی ہو؟"وہ خود پر قابو پا کر سپاٹ لہجے میں بولا۔ 

"ہاں ۔۔۔۔کیونکہ میری منزل اِسی موڑ پہ ہے جمال آغا"اسنے ہنس کر جواب دیا۔جمال آغا کے تن من میں آگ بھڑک اٹھی۔

"ہاشم ۔۔۔"تابین کی آواز میں کھنک تھی۔جمال آغا نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا تو سامنے ہاشم خان کو پایا۔بلیک شلوار قمیض میں وہ فریش سا ریسٹورنٹ میں داخل ہورہا تھا۔تابین جلدی سے اس سے ایکسکیوز کرتی ہاشم کی طرف بڑھی۔

جمال آغا کا چہرہ توہین سے لال ہوا۔اسنے آگ جھلکاتیں نظروں سے ان دونوں کو دیکھا پھر سپاٹ چہرے کے ساتھ پلٹا اور دوسری طرف بڑھ گیا۔ 

تابین ، ہاشم سے کوئی بات کر رہی تھی جب امتل آفندی انکی  طرف بڑھیں۔ہاشم خان کو تابین کے ساتھ دیکھ کر انکے چہرے پر مسکان پھیل گئی۔ 

"آہ دی گریٹ بزنس ٹائیکون ہاشم خان۔"وہ خوشگوار انداز میں کہتیں انکے قریب آئیں۔

"ہیلو مسز حسن۔"ہاشم نے انہیں دیکھ کر کہا تو امتل آفندی نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔

"اوکے آپکو انجوائے کریں۔میں چلتا ہوں۔"وہ سنجیدگی سے کہتا جانے لگا۔جب تابین نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔ 

"آپ بھی پلیز ہمارے ساتھ ڈنر کریں۔ہمیں اچھا لگے گا۔کیوں ماما؟"اسنے پیار سے کہہ کر ماں سے تصدیق چاہی۔

"آف کورس ۔۔۔ ہاشم بیٹا آپ بھی ہمیں جوائن کریں۔"امتل بیگم نے نرمی سے کہا۔وہ اپنی بیٹی کی محبت سے اچھے سے واقف تھیں۔

"پھر کبھی سہی مسز آفندی۔۔۔۔ ابھی کچھ دوستوں کے ساتھ ڈنر کا پلان ہے۔"اسنے مدھم سا مسکرا کر جواب دیا۔ 

"اوکے نو پرابلم بیٹا۔"امتل آفندی مسکرائیں۔ہاشم نے نظر جھکا کر تابین کے ہاتھ میں پکڑے اپنے ہاتھ کو دیکھا صاف اشارہ تھا کہ اب ہاتھ چھوڑ بھی دو ۔تابین جھنیپ کر مسکرائی پھر اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔"پھر ملاقات ہوگی۔"گلابی چہرے کے ساتھ اسنے مدھم آواز میں کہا۔ہاشم سر اثبات میں ہلا کر انہیں اللہ حافظ کہتا پلٹا اور اپنی ٹیبل کی طرف بڑھنے لگا۔تابین بنا پلک جھپکائے اسکی پشت کو دیکھ رہی تھی۔کالے لباس میں وہ اسکے دل پر  قیامت برپا کر رہا تھا۔وہ کس قدر ہوش اڑا دینے والا  شخص تھا کہ وہ اسکی دیوانی لوگوں کی بھیڑ میں بھی اسکے سحر میں جکڑی ہوئی تھی۔اسے آس پاس کی ہوش نہ تھی۔

"تابین۔۔۔۔ وہ چلا گیا۔"امتل آفندی نے مسکرا کر اسکا شانہ ہلایا۔اسنے چونک کر ماں کو دیکھا انکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر وہ بھی ایک دم مسکرا اٹھی پھر محبت سے انکا ہاتھ تھام کر ٹیبل کی طرف بڑھی۔ٹیبل کے گرد بیٹھ کر امتل آفندی نے محبت سے بیٹی کے چمکتے چہرے کو دیکھا۔"ہوں تو آخر کار تم نے ہاشم خان کو پا لیا؟"انہوں نے آگے ہو کر سرگوشی کی۔تابین انکی بات پر ہنسنے لگی۔دونوں ماں بیٹی میں دوستوں والا حساب تھا۔

"ابھی کہاں ماما۔۔۔۔ ابھی تو پہلی سیڑھی پر ہوں ۔۔۔۔قدم قدم چل کر مجھے اسکے دل میں اترنا ہے۔اسے اپنا بنانا ہے۔"وہ  خواب کی سی کیفیت میں بولی پھر ایک دم چونک کر ماں کے چہرے کو دیکھ کر مدھم آواز میں بولی۔"سٹون مین ہے ماما۔۔۔ پگھلتا ہی نہیں۔"اسنے افسوس سے گردن ہلائی۔ "ویسے ماما آپکو کیا لگتا ہے وہ مجھے مل جائے گا ناں؟"اسنے بڑی معصومیت سے پوچھا تھا۔امتل آفندی نے بہت پیار سے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔"ہاشم خان میری بیٹی کا نصیب بنے گا۔وہ میری تابین کو ضرور ملے گا۔۔۔۔ ضرور۔"انکی بات سن کر تابین کے چہرے پر دھنک کے رنگ اتر آئے۔اسکی آنکھیں سنہرے خواب پرونے لگیں۔وہ اس وقت اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ امتل آفندی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتاری۔بچپن سے لے کر آج تک انہوں نے تابین کی ہر ضد ہر فرمائش پوری کی تھی۔اب اسے وہ شخص چاہیے تھا تو وہ انکی بیٹی کو ضرور ملے گا۔وہ اپنی بیٹی کے قدموں میں ہر خوشی ڈال دینا چاہتی تھیں۔جو انکے ساتھ ہوا تھا وہ سب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ نہیں ہونے دینگیں۔ماضی سے بہت سے یادیں جھانکنے لگیں تھیں۔انہوں نے سختی سے آنکھیں بند کر کے کھولیں اور تابین کی طرف متوجہ ہوئیں جو ان سے ہاشم کی کوئی بات کر رہی تھی۔

 امتل آفندی اپنی پیاری بیٹی کو ہر چیز دے دینا چاہتی تھیں پر وہ یہ بھول گئیں تھیں کہ ہاشم خان کوئی کھلونا نہیں تھا جسے وہ اپنی بیٹی کو لا دیتیں بلکہ ہاشم خان تو خود ایک ماہر کھلاڑی تھا جو سوچ سمجھ کر اپنی چال چل رہا تھا۔ان سب کی قسمت میں کیا لکھا تھا یہ تو آنے والا وقت ہی بتانے والا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ 

حسن آفندی اسٹڈی میں بیٹھے تھے۔نظریں ارد گرد گھوم کر جیسے کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔انکی آنکھوں کے سامنے سالوں پہلے کی ایک رات گھومنے لگی تھی۔وہ پل میں حال سے سفر کرتے ماضی میں پہنچے تھے۔  

اس رات وہ معمول کے مطابق اسٹڈی میں بیٹھے فائل کھولے کام کرنے میں مصروف تھے۔زندگی عجیب سی ڈگر پر چل نکلی تھی۔وہ اپنی ہوش بھی بھلا بیٹھے تھے۔

 زنیرہ خاموشی سے اپنے کمرے سے نکلی۔ دل میں جانے کیا سمائی کہ اسکے قدم حسن آفندی کی اسٹڈی کی طرف بڑھنے لگے۔اسنے آہستہ سے اسٹڈی کا دروازہ کھول کر اندر دیکھا۔حسن آفندی کام میں اتنے مگن تھے کہ انہیں زنیرہ کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہوا۔زنیرہ نے اندر داخل ہو کر آہستہ سے دروازہ بند کیا۔

"حسن۔۔"اسنے مدھم آواز میں پکارا تو حسن آفندی نے جھٹ سے سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔ 

"زنیرہ۔۔۔"اگلے پل وہ سب کام چھوڑ چھاڑکر ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے۔زنیرہ آہستہ سے قدم اٹھاتی انکے سامنے آئی۔

"آپ بہت مصروف ہوگئے ہیں حسن ، نظر ہی نہیں آتے۔"اسنے مدھم آواز میں شکوہ کیا تھا۔

"بس کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔"وہ شرمندہ سے سر جھکا گئے۔بات یہ نہ تھی وہ دونوں اچھے سے جانتے تھے۔

"اتنا بوجھ ہے کہ آپ اپنی محبت کو بھول گئے۔"اسنے زو معنی انداز میں کہا 

"ایسا نہیں ہے زونی۔"وہ اسے دیکھ کر جلدی سے بولے 

"آپکو پتہ ہے حسن میں خود کو کتنا تنہا محسوس کرتی ہوں۔پہلے آپ دور ہوتے ہوئے بھی میرے آس پاس تھے پر اب آپ میرے اتنے پاس ہو کر بھی میلوں کے فاصلے پر ہیں۔"اسنے دکھ سے انکی آنکھوں میں دیکھا۔"میرا دل یہ بات برداشت نہیں کر پاتا حسن۔آپکی دوری میری جان لینے لگی ہے۔دم گھٹنے لگا ہے میرا ایسا لگتا ہے کہ جلد یہ جسم بے جان ہو جائے گا۔"نم آواز میں کہے گئے الفاظ پر حسن آفندی کا دل بند ہونے لگا۔انہوں نے جھٹ سے آگے بڑھ کر زنیرہ کو گلے سے لگا لیا۔

"آئم سوری زونی۔۔۔ رئیلی سوری۔"وہ اسکا سر سہلاتے ہوئے سرگوشی میں بول رہے تھے۔انکے محبت بھرے لمس پر زنیرہ کے آنسوؤں کو راستہ ملنے لگا۔آنسو آنکھوں کی سرحد پار کر کے اسکے گالوں پر بہنے لگے۔

"ایسی جان لیوا باتیں نہ کرو زونی۔تمہارے بغیر حسن آفندی کی ہستی بھی کچھ نہیں۔۔۔۔یہ جو وقت میں نے تمہارے بغیر گزارا ہے ناں کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔گھر کے ماحول کو پر سکون بنانے کے لیے میں نے تم سے دوری چن لی تھی۔پر یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی۔مجھے معاف کردو زونی۔"وہ اپنی زندگی کو گلے لگائے مدھم آواز میں بولتے جیسے اسکے زخموں پر مرہم رکھ رہے تھے۔"بس اب بہت ہو گیا۔۔۔ اب میں اور پیچھے نہیں ہٹوں گا۔میں کل ہی تمہیں اور نازلی کو واپس ہمارے گھر لے جاؤنگا۔"انہوں نے اسے خود سے جدا کرتے محبت سے دیکھا۔"وہاں ہماری محبت میں دوسرا کوئی دخل اندازی نہیں کریگا۔وہاں صرف ہم ہونگے۔ہماری محبت ہوگی۔۔۔۔ زونی۔"نرمی سے اسکے آنسو پونچھ کر انہوں نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں لیا۔زنیرہ انکی باتوں پر نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔"حسن۔"اسنے پیار سے بلایا۔

"جی جانِ حسن۔"وہ دلکشی سے مسکرائے۔کتنے عرصے بعد انکی جان انکے سامنے تھی۔وہ تمام فکریں بھلا کر اسکی طرف متوجہ ہوئے۔

"آپ بس میرے بعد میری نیلی آنکھوں والی گڑیا ،میری جان میری نازلی کا خیال رکھیے گا۔"اسکی بات پر حسن آفندی کی مسکراہٹ مانند پڑی۔چہرے کا رنگ اڑا تھا۔دل میں انجانے سے خوف نے جنم لیا۔ 

"تم دل دھلا دینے والی باتیں کیوں کر رہی ہو زونی۔"وہ تڑپ کر  بولے تھے۔ 

"زندگی کا کیا بھروسا ہے حسن۔آج ہوں کل نہ ہوئی تو میری بچی تنہا نہ رہ جائے۔آپ کبھی میری گڑیا کا ساتھ مت چھوڑیے گا۔"نم آنکھیں حسن آفندی کے چہرے پر تھیں۔حسن آفندی نے دھڑکتے دل کے ساتھ اسکا ہاتھ تھام کر اسکی ہتھیلی پر لب رکھے۔

"میں ہمیشہ نازلی کا خیال رکھونگا اور تمہارا بھی۔۔۔۔تم ایسی باتیں منہ سے مت نکالو۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا۔تمہیں ہمیشہ میرے ساتھ رہنا ہے۔تم میری لاپرواہی میری بے رخی سے ناراض ہو ناں۔تو پلیز مجھے معاف کردو زونی۔"انہوں نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔زنیرہ نے جلدی سے انکے ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگائے۔"پلیز حسن ۔۔۔۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔شاید وقت اور حالات ہی ہمارے خلاف تھے۔شاید اس رشتے کی کبھی کوئی منزل تھی ہی نہیں ۔ہم ایک ہو کر بھی ہمیشہ فاصلے پر ہی رہے۔شاید یہی اس رشتے کا انجام تھا۔"اسنے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔

"میں سب ٹھیک کر دونگا۔تم بس مجھ سے دور مت ہونا زونی۔میں نے اس تمام عرصے میں مر مر کے تمہاری جدائی سہی ہے۔پر اب اور نہیں۔۔۔۔ تمہیں ہمیشہ حسن آفندی کے ساتھ رہنا ہوگا۔"حسن آفندی بے چینی سے بولے۔انجانے سے ڈر نے انکے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑنا شروع کر دیا تھا۔

"میں جہاں بھی رہونگی حسن۔۔۔آپکا پیار میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور آپکی زنیرہ بھی تو ہمیشہ آپکے دل میں زندہ رہے گی ناں۔"اسنے آہستہ سے کہہ کر انکے سینے پر ہاتھ رکھا پھر چمکتی آنکھوں سے حسن آفندی کی آنکھوں میں دیکھا۔

"اس دیوانی نے آپکو ٹوٹ کر چاہا ہے حسن ۔۔۔اتنا چاہا کہ انتہا کر دی۔۔۔۔"وہ مدھم آواز میں کہتی انکے کندھے سے سر ٹکا گئی۔اسکے اس قدر خوبصورت اقرار پر حسن آفندی سحر میں جکڑے گئے۔زنیرہ کی آنکھوں سے خاموش آنسو نکل کر انکا کندھا بھگونے لگے۔وہ مدھم آواز میں آہستہ آہستہ آج انہیں اپنے دل کا تمام حال سنا رہی تھی اور حسن آفندی اسے بانہوں میں بھر کر اسکی باتیں خاموشی سے سن رہے تھے۔

جب اچانک دھڑام سے اسٹڈی کا دروازہ کھلا اور امتل آفندی آندھی طوفان بن کر انکی طرف بڑھیں۔اگلے پل انہوں نے جھٹکے سے ان دونوں کو الگ کیا پھر زنیرہ کو زور سے پیچھے دھکیلا۔وہ لڑکڑا کر سمبھلی تھی۔حسن آفندی اور زنیرہ کو سمبھلنے کا موقع دیے بغیر وہ شروع ہو چکی تھیں۔

"تم چال باز عورت میرے شوہر کو بہلا رہی ہو۔تمہاری یہ مجال کہ تم رات کے اس پہر حسن کے گلے کا ہار بنی اسے اپنی اداؤں  میں پھانس رہی ہو گندی عورت۔"امتل آفندی بغیر سوچے سمجھے جاہل عورتوں کی طرح چلانا شروع کر چکی تھیں۔انکی بات پر زنیرہ نے تڑپ کر انہیں دیکھا جبکہ حسن آفندی سکتے میں آگئے تھے۔رات کی خاموشی میں اس قدر شور سن کر تابین اور نازلی بھی وہاں آگئیں اور سامنے کا منظر دیکھ کر سہم سی گئیں تھیں۔

"بے حیا عورت تمہیں شرم نہ آئی میرے شوہر کو بہکاتے ہوئے۔"امتل آفندی نے خونی نظروں سے اسے دیکھا۔

"حسن کوئی غیر مرد نہیں میرے شوہر ہیں۔"زنیرہ نے جلتی آنکھوں کے ساتھ مدھم لہجے میں کہا۔

"شوہر میرا ہے۔تم دوسری عورت ہو۔تم نے اسے مجھ سے چھینا ہے۔پتہ نہیں کس گندی نسل سے تعلق ہے تمہارا جو دوسروں کے شوہر پر دورے ڈال کر ان سے نکاح کا بندھن باندھ لیتی ہو۔"امتل کی باتوں پر زنیرہ کا دل تڑپ اٹھا۔ہاتھ پاؤں ایک دم ٹھنڈے پڑ گئے۔وہ لڑکڑائی تو نو سالہ نازلی بھاگ کر اس تک آئی۔"ماما۔۔۔"وہ ماں کے ساتھ چپک گئی۔زنیرہ نے ایک نظر بت بنے حسن آفندی پر ڈالی۔"آپ نے میری نازلی کا خیال رکھنا ہے حسن۔ہمیشہ کے لیے۔"اسنے کپکپائی آواز میں جیسے آخری بار کہا تھا۔حسن آفندی اسکی آواز پر سکتے سے باہر نکلے اور چونک کر زنیرہ کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا جبکہ اسکی بات پر امتل آفندی طنزیہ ہنسیں۔"کیوں تم نے کیا کوئی دوسرا پسند کر لیا ہے۔بھاگنے کا ارادہ لگتا ہے۔"وہ تپ کر بولیں۔"اور یہ تمہاری بیٹی بھی مجھے حسن کی تو نہیں لگتی۔۔۔ جانے کس کا گندا خون ہوگی۔۔۔۔"امتل آفندی نے مزید زہر اگلا۔انکی بات پر زنیرہ بت کی مانند زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔نازلی ڈر کے مارے ماں کے سینے میں منہ چھپا گئی۔

دوسری طرف اس بات پر حسن آفندی کے جسم میں آگ سی بھڑک اٹھی۔اگلے پل وہ لال آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھے تھے اور پھر انکا بھاری ہاتھ اٹھا تو امتل آفندی کا منہ گھوم کر رہ گیا تھا۔"بکواس بند کرو۔"وہ دھاڑے تھے۔"بہت زہر اگل لیا تم نے۔۔اب اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو تمہاری زبان کھینچ لونگا۔"حسن آفندی کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔امتل آفندی سرخ آنکھوں سے گال پر ہاتھ رکھے انہیں گھور رہی تھیں۔

"دوسری عورت وہ نہیں تم ہو۔تم نے مجھے اس سے چھینا ہے امتل بیگم۔زنیرہ آفندی ، حسن آفندی کی پہلی اور آخری محبت ہے۔سن لیا تم سے۔۔۔۔"وہ اونچی آواز میں غرا کر بولتے جیسے سالوں کی بھڑاس نکال رہے تھے۔انکی بات پر امتل آفندی کے تن من میں آگ سی لگ گئی وہ ایک دم چلا اٹھیں۔"ایک طوائف حسن آفندی کی محبت ہے۔اس عورت نے نجانے کتنے مردوں کا دل آباد کر رکھا ہوگا اور یہ تمہاری محبت ہے حسن آفندی۔۔۔۔یہ گندی عورت تمہاری محبت ہے۔"امتل آفندی اپنی باتوں کا زہر انکے اندر اتار کر اب قہقہہ لگا کر ہنس رہی تھیں۔زنیرہ کا رنگ خطرناک حد تک سفید ہوگیا۔جیسے جسم سے سارا خون نچڑ گیا ہو۔

"زبان کو لگام دو امتل بیگم۔"حسن آفندی نے انکا بازو سختی سے پکڑا۔ان دونوں کا جھگڑا بڑھتا جا رہا تھا۔زنیرہ میں اور کچھ سننے کی ذرا ہمت نہیں بچی تھی۔اسنے بڑی مشکل سے خود کو بے جان قدموں پر کھڑا کیا۔نازلی کا ننھا ہاتھ اپنے سرد ہاتھ میں تھاما۔ایک محبت سے پُر قربان ہوجانے والی میٹھی  نظر اپنے لیے امتل آفندی سے لڑتے حسن آفندی پر ڈالی۔پھر مردہ قدموں کو گھسیٹی نازلی کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آئی۔بیڈ پر بیٹھ کر اسنے ڈری سہمی نازلی کو اپنے سینے سے لگایا پھر زار و زار رونے لگی۔دل کا دکھ پانی بن کر آنکھوں سے بہنے لگا۔درد اتنا شدید تھا کہ وہ سہہ نہیں پا رہی تھی۔"طوائف۔۔۔"امتل آفندی کے الفاظ یاد کر کے اسکا دل خون کے آنسو رونے لگا۔کیا کسی کو ٹوٹ کر چاہنے سے ایک عورت طوائف بن جاتی ہے؟اس نے تو حسن آفندی کو دل و جان سے چاہا تھا۔انہیں عزت اور عقیدت کی نظر سے دیکھا تھا تو بدلے میں حسن آفندی نے بھی اسے دل کے تخت پر بٹھایا تھا۔اسے محبت ،عزت اور بیوی ہونے کا درجہ دیا تھا۔انکی محبت پاک صاف تھی اس میں کوئی کھوٹ نہ تھا تو پھر کیوں امتل آفندی نے انکی محبت کو داغ دار کیا تھا؟ 

بہت سا رو لینے کے بعد اسنے نازلی کو خود سے الگ کیا۔پھر اپنے کانوں سے ڈائمنڈ ایئر رنگز اتارکر نازلی کے کانوں میں ڈالنے لگی۔ننھی نازلی نے حیرت سے ماں کا چہرہ دیکھا۔اسکی ماما نے یہ ایئر رنگز کبھی نہیں اتارے تھے پھر اب اتار کر اسے کیوں پہنا رہی تھیں۔"ماما ۔۔۔ یہ آپ مجھے کیوں پہنا رہی ہیں۔"اسنے معصومیت سے پوچھا۔

"کیونکہ یہ ایئر رنگز میری نیلی آنکھوں والی گڑیا پر زیادہ اچھے لگے گیں۔"زنیرہ نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر محبت سے کہا۔"میری جان ، میری گڑیا۔"محبت سے پر لہجے میں کہہ کر اسنے نازلی کی پیشانی چومی۔ماں کی محبت پر نازلی کے معصوم چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔پر جب اسنے زنیرہ کا چہرہ دیکھا تو اسکی مسکراہٹ سمٹ گئی۔زنیرہ کی آنکھوں سے اشک بہہ رہے تھے۔نازلی نے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کیے۔"ماما آپ رویا مت کریں۔آپ روتی ہیں ناں تو مجھے یہاں درد ہوتا ہے۔"اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دکھی لہجے میں کہا۔اسکے معصوم انداز پر زنیرہ نے اسے بانہوں میں بھینچ لیا۔ 

"میرا بچا ۔۔۔ میری زندگی بس آج رو لینے دو اپنی ماما کو پھر آج کے بعد نازلی کی ماما کبھی نہیں روئیں گیں۔"اسکا سر سہلاتے وہ آہستہ سے بولی تھی۔آنکھوں سے خاموش آنسو بہتے چلے جا رہے تھے۔

نازلی تھک کر اسکی بانہوں میں ہی سو چکی تھی۔بے خبر نازلی نہیں جانتی تھی کہ آج وہ آخری بار نازک پھول کی طرح اپنی ماں کی بانہوں میں سو رہی ہے۔زنیرہ نے محبت پاش نظروں سے بیٹی کو دیکھا جھک کر اسکی پیشانی چومی پھر اسے آہستہ سے بیڈ پر لیٹا کر خود بھی اسکے برابر میں لیٹ گئی۔

خوفناک خواب پر نازلی کی آنکھ ایک دم سے کھلی تھی۔

اسنے گردن پھیر کر اپنے برابر لیٹی ماں پر نظر ڈالی۔وہ سو رہی تھیں۔اسنے گہری سانس بھر کر آہستہ سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اسکے چہرے پر رکھے۔زنیرہ برف کی طرح ٹھنڈی ہورہی تھی۔نازلی نے خوف سے اسکے سفید چہرے کو دیکھ کر اسے ہلایا تھا۔ 

"ماما۔۔"زنیرہ کو پکارتی وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔

"ماما ۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔۔ اٹھیں ناں۔۔۔"اسنے اب زنیرہ کے کندھے کو ہلایا۔پر وہ کچھ نہ بولی۔اسکی خاموشی پر نازلی کا دل پھیل کر سمٹا۔پہلے تو وہ اسکی ایک آواز پر چاہے کتنی گہری نیند میں کیوں نہ ہوتی اٹھ بیٹھتی تھیں۔پھر وہ آج کیوں نہیں اٹھ رہی تھیں؟؟

"ماما آپ بول کیوں نہیں رہی ۔۔۔ اٹھیں ناں۔"وہ ضدی نہ تھی پر اس وقت اسنے ماں کو اٹھانے کی ضد باندھ لی تھی۔نیلی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے۔اسنے ٹھہر کر ماں کی سانسوں کو نوٹ کیا پر زنیرہ کے وجود میں کوئی جنبش نہ تھی۔سانسیں چل ہی نہیں رہی تھیں۔سانسوں کی ڈور تو کب کی ٹوٹ چکی تھی۔ 

نازلی کا دل خوف سے تیز تیز دھڑکنے لگا تھا۔اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسے گہرے سمندر میں پھینک دیا ہو اور چاہ کر بھی خود کو بچا نہیں پا رہی تھی۔اسکے چاروں طرف عجیب سی ہوا چلنے لگی۔وہ بالکل خواب کی سی کیفیت میں تھی۔بت بنی وہ زنیرہ کے بے جان وجود کو دیکھ رہی تھی۔ اسکی پیاری ماما کا گلابی چہرہ جس میں زندگی دوڑتی تھی۔موت نے اس پیارے چہرے کو لٹھے کی مانند سفید کر دیا تھا۔ 

ماں کی صورت دیکھ کر نازلی کا دل پھٹنے لگا۔آنسو بہہ بہہ کر زنیرہ کا ہاتھ بھگو رہے تھے۔پر اپنی گڑیا کے آنسو ، اسکی چھوٹی سی تکلیف پر تڑپ اٹھنے والی زنیرہ آج اسکے یوں زار و زار رونے پر بھی ویسے ہی بے خبر پڑی رہی۔نازلی نے روتے ہوئے جھک کر اسکی پیشانی پر لب رکھے۔"میری پیاری ماما۔۔۔ پلیز پلیز اٹھ جائیں ناں۔"تڑپ کر کہتی وہ اگلے پل ایک دم بیڈ سے اٹھی۔ جلدی سے دروازہ کھول کر باہر بھاگی کہ شاید وہ غلط سمجھی ہو۔۔۔۔شاید اسکی ماما کے وجود میں چند سانسیں باقی ہوں۔۔۔۔شاید وہ جو سمجھی تھی ویسا نہ ہو۔۔۔۔۔

وہ بھاگ کر حسن آفندی کو بلانے لائبریری کی طرف بھاگی۔

"بابا ۔۔۔ بابا جان۔۔"اسنے تڑپ کر باپ کو پکارا۔

لال آنکھیں ، تھکے چہرے کے ساتھ اسکی پکار پر  حسن آفندی جلدی سے لائبریری سے باہر نکلے۔

"بابا جان ۔۔۔۔ ماما ۔۔۔ ماما کو کچھ ہوگیا ہے۔"اسنے کانپتے ہاتھوں سے انکا ہاتھ تھام کر روتے ہوئے کہا۔

حسن آفندی کی دنیا الٹ گئی۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دیوانہ وار زنیرہ کے کمرے کی طرف بھاگے۔پر کھلے دروازے کی دہلیز پر انکے قدم تھم گئے۔سامنے بیڈ پر انکی محبوب بیوی بت کی مانند چت لیٹی تھی۔وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھے تھے۔آہستہ سے بیڈ پر بیٹھے پھر کانپتے دل کے ساتھ زنیرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔تو انکے ہاتھ کانپ اٹھے۔انکے ہاتھ میں تھامے اس ہاتھ میں کبھی محبت کی گرمائش ہوا کرتی تھی پر اس وقت وہ نازک ہاتھ برف بنا تھا۔انہوں نے تڑپ کر اسکے چہرے کو دیکھا جہاں شادابی کا نام و نشان نہ تھا۔

"زونی ۔۔۔۔"سب کچھ سمجھ لینے کے باوجود بھی انہوں نے اسے محبت سے پکارا تھا کہ شاید وہ انکی پکار سن کر اٹھ جائے۔پر جانے والی بہت دور جا چکی تھی۔جہاں سے واپسی ناممکن تھی۔نم آنکھوں کے ساتھ انہوں نے جھک کر اسکی سرد پیشانی پر لب رکھے۔

"تم آخر مجھ سے دور ہو ہی گئی زونی۔۔۔۔۔تم نے میرے ڈر کو سچ کا روپ دے دیا۔۔۔۔۔تمہارے ساتھ آج حسن آفندی بھی مر گیا۔آج حسن آفندی کی بھی موت ہوگئی۔"وہ اسکا ہاتھ لبوں سے لگا کر اس قدر تڑپ کر روئے کہ حسن ولا کی دیواریں کانپ اٹھیں۔جوان مظبوط مرد اپنی محبت کے لٹ جانے پر رو رہا تھا۔وہ دیوانی سنتی تو۔۔۔۔کہ کوئی اسے دیوانہ وار پکار رہا تھا۔پر وقت ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسل چکا تھا۔اب کچھ حاصل ہونے والا نہ تھا۔

ان آوازوں پر امتل آفندی اور تابین بھی بھاگی بھاگی آئیں تھیں۔ 

سامنے کا منظر دل دھلا دینے والا تھا۔نازلی ،حسن آفندی کے قدموں میں بیٹھی ماں سے بچھڑ جانے پر زار و زار رو رہی تھی۔اسکی جنت آج اس سے چھین لی گئی تھی۔

حسن آفندی دھندلی آنکھوں کے ساتھ دیوانوں کی طرح یک ٹک زنیرہ کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔انکی محبت نے اُسکی جان لے لی تھی۔وہ ساری زندگی خود معاف نہیں کر پائیں گے۔یہ کیا ہوگیا تھا ؟ جیتے جی جیسے قیامت کا منظر انکی آنکھوں کے سامنے تھا۔اس سے بڑی قیامت اور کیا ہوگی کہ ایک شخص کو کتنی منتوں کے بعد پا کر اسے اپنے ہی ہاتھوں گنوا دیا تھا۔

نازلی نے روتے ہوئے حسن آفندی کے گھٹنے پر ہاتھ رکھا تو انہوں نے چونک کر بیٹی کو دیکھا۔پھر اگلے پل اس معصوم کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا۔انہیں نازلی کے متعلق  زنیرہ کی باتیں یاد آنے لگیں۔دل ہزار ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

انکی دنیا لٹ چکی تھی۔انکی محبت آج کفن اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو گئی تھی۔حسن آفندی بھی کہاں زندہ تھا۔بس سانسیں چل رہی تھیں اور ہر سانس کے ساتھ دل کے زخموں سے ٹھیسیں اٹھ رہی تھی۔درد حد پار کر چکا تھا۔پر وہ کس کے سامنے اپنا درد رکھتے۔جو سننے والی تھی وہ ہی نہیں رہی تھی۔

زنیرہ کی اچانک موت نے اسکی ماں بہن کو صدمے سے دو چار کیا تھا۔ہرکوئی اس جوان موت پر آنسو بہا رہا تھا۔پر اگر کوئی آنکھ خشک تھی تو وہ امتل آفندی کی تھی۔زنیرہ کی موت بھی انکی نفرت کو کم نہیں کر پائی تھی۔زنیرہ کے چلے جانے سے انکے دل کو کمینی سی خوشی ملی تھی۔ہوتے ہیں کچھ لوگ امتل آفندی جیسے جو دوسروں کے مر جانے کے بعد بھی ان سے اپنی نفرت کم نہیں کر پاتے۔پر وہ بھول رہی تھیں کہ اس دنیا میں ہمیشہ کسی نے نہیں رہنا۔آج زنیرہ تو کل انکی باری تھی۔ 

زنیرہ ۔۔۔ وہ لڑکی زندگی کا دوسرا نام تھی۔۔۔ ہنستی کھیلتی لڑکی۔۔۔جسکے وجود نے دھنک کے رنگ چرائے تھے۔جسکی ہنسی پھولوں میں تازگی بھر دیتی تھی۔جو خوشیوں میں گھری تتلی کی مانند اڑتی پھرتی تھی پھر وہ دیوانی محبت کر بیٹھی۔دل لگا بیٹھی تھی ایک رانجھے سے۔جس نے اسے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا تھا پر پھر اس رانجھے نے اپنی بے رخی ، اپنی لاپرواہی میں اس نازک سی لڑکی کو آسمان سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیا پھر وہ لڑکی مسکرانا بھول گئی۔دھنک کے رنگ پھیکے پڑ گئے ۔۔۔اس تتلی کے پر کٹ چکے تھے۔وہ بے جان ہوگئی تھی۔اس دنیا نے اس پیاری سی لڑکی کو محبت کرنے کا تحفہ موت کی صورت دیا تھا۔

"بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔"

"ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔"

اس دیوانی کا جنازہ اٹھا تو کہرام مچ گیا تھا۔وہ اپنے آخری سفر کو روانہ ہوئی۔اسکے پیاروں کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔حسن آفندی لٹے پٹے سے تھے۔زنیرہ کی امی بیٹی کی جوان موت پر ٹوٹ گئی تھیں۔اچانک انکی طبیعت بگڑ گئی۔سیماب کسی رشتےدار کے ساتھ انہیں جلدی سے ہسپتال لے گئی تھی۔

جنازے کے بعد اپنے وجود کو گھسیٹتے حسن آفندی کمرے میں بند ہو چکے تھے۔وہ کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کر بکھر چکے تھے۔انکے ہاتھ خالی رہ گئے تھے۔انکے پاس کچھ بھی تو نہیں بچا تھا۔چلی گئی تھی وہ انہیں تنہا چھوڑ کر ۔۔۔۔ وہ کیسے رہ پائیں گے اپنی زونی کے بغیر۔۔۔۔۔ 

ماں کی گود میں سر رکھ کر سونے والی نازلی پر ماں کی بنا یہ رات عذاب تھی۔ٹھنڈی ،اندھیری ، سکوت بھری رات میں وہ بالکل اکیلی تھی۔باپ اپنے غم میں ڈوبا دنیا کی ہوش بھول چکا تھا۔نازلی کس کے پاس جاتی ؟ کون تھا اسکا ؟کس کے آنچل میں خود کو چھپاتی۔وہ زنیرہ کا ریشمی دوپٹہ ہاتھ میں تھامے رو رہی تھی۔دوپٹہ قریب کر کے اسنے ماں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا۔نیلی آنکھیں برس برس کر گلابی ہو رہی  تھیں پر آنسو تھمے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔"آپ مجھے کیوں چھوڑ گئیں ماما۔۔۔ میں آپکے بغیر کیسے راہونگی۔۔۔ماما۔۔۔۔ماما پلیز واپس آجائیں۔"وہ سسکیاں بھر کر ماں کو پکار رہی تھی، فریاد کر رہی تھی۔یہ خاموشی ،تنہائی اسکی جان لے رہی تھی۔

آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھلا۔نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔سامنے چودہ سالہ تابین کھڑی تھی۔وہ آہستہ سے چلتی اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھی۔"نازلی۔۔۔"اس تمام عرصے میں اسنے  پہلی بار نازلی کا نام لیا تھا ورنہ وہ اسے اے لڑکی کر کے بلاتی تھی۔تابین نے دکھ سے نازلی کو دیکھا پھر آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ماں کے بدگمان کرنے کے باوجود بھی وہ نازلی سے نفرت نہیں کر پائی تھی۔وقتی طور پر وہ بدگمان ہوجایا کرتی تھی پر ان دکھ بھرے لمحوں میں اس چھوٹی سی لڑکی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔اسے اس وقت کسی اپنے کی ضرورت تھی تو تابین پتھر دل کیسے بن سکتی تھی؟

اسکا سہارا پا کر نازلی کا دکھ باہر آنے لگا۔"آپی ۔۔۔ میری ماما چلی گئیں۔ مجھے اکیلا چھوڑ گئیں۔"وہ تڑپ کر اسے اپنا دکھ سنانے لگی۔تابین خاموشی سے اسے ساتھ لگائے اسکی باتیں سنتی رہی۔اس رات پہلی بار تابین نے بڑی بہن ہونے کا حق ادا کیا تھا۔اس دن کے بعد سے نازلی کے دل میں تابین کی محبت نے جڑیں مظبوط کر لی تھیں۔

وقت آگے بڑھتا گیا۔وقت نے بہت کچھ بدل دیا تھا۔امتل بیگم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔حسن آفندی نے خود کو پہلے سے زیادہ کام میں مصروف کر لیا تھا پر اس سب کے بیچ وہ نازلی کا خیال رکھنا نہیں بھولتے تھے۔

تابین بالکل بدل چکی تھی۔وہ خود پرست تھی۔کبھی کبھی اپنی "میں"کے چکر میں وہ نازلی کا دل دکھا جاتی پر نازلی کے دل میں اسکی محبت میں کمی نہیں آئی تھی۔نازلی کے لیے وہ آج بھی وہی تابین تھی جس نے اس سکوت بھری سرد رات میں اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر اسکے آنسو صاف کیے تھے۔اسکا ساتھ دیا تھا۔اسکا دکھ سنا تھا۔

نازلی بوا کے ساتھ کھانے بنانے میں انکی مدد کر رہی تھی جب نوری بھاگتی ہوئی کچن میں آئی۔ 

"کیا ہو گیا؟"نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"وہ باجی بڑی بیگم صاحبہ رو رہی ہیں۔"اسنے پھولی سانسوں کے بیچ بتایا۔ 

"کیوں ۔۔۔ کیا ہوا؟"نازلی نے پریشانی سے پوچھا۔ 

"وہ فون پر اپنے بھائی سے بات کر کے رو رہی تھی۔شاید وہ زیادہ بیمار ہیں۔"نوری نے آگے ہو کر آہستہ آواز میں کہا۔ 

"بڑی ماما کے کوئی بھائی بھی ہیں؟"نازلی نے خود کلامی کی۔آج سے پہلے اس نے بڑی ماما کی فیملی میں سے کسی کا نام نہیں سنا تھا نہ آج تک ان میں سے کوئی حسن ولا آیا تھا۔ 

"آؤ  دیکھیں۔"نازلی ، نوری کو لے کر ڈرائنگ روم میں آئی۔

امتل آفندی پریشان سی کھڑی تھیں۔نازلی آگے بڑھی۔ 

"کوئی پریشانی ہے بڑی ماما؟"اسکے پوچھنے پر وہ اسے اگنور کرتیں نوری کی طرف دیکھ کر بولیں۔

"جاؤ نوری ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے۔"وہ اپنی بات کہہ کر کمرے کی طرف بڑھیں۔نوری نے اداسی سے نازلی کو دیکھا تو وہ سر جھٹک کر مدھم سی مسکرائی۔"جلدی جاؤ لڑکی ڈرائیور کو گاڑی کا بولو۔"اسکے کہنے پر نوری سر ہلا کر باہر کی طرف بڑھی تو نازلی بھی خاموشی سے واپس کچن میں جانے کے لیے پلٹی جب بڑی ماما پرس تھامے کمرے سے نکلیں۔اس پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر انہوں نے ہاجرہ بوا کو بلایا پھر انہیں اپنے ساتھ آنے کا کہہ کر آگے بڑھ گئیں۔نازلی نے انکی پشت کو دیکھا پھر دکھ سے مسکرا کر کچن میں داخل ہوئی۔کچھ دیر بعد نوری واپس کچن میں آئی۔"بڑی ماما چلی گئیں؟"اسنے کھیرے کاٹتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا۔ 

"جی۔" نوری نے آہستہ سے کہا 

"کچھ بتایا کیا ہوا؟"

"اماں کو بتا رہی تھیں کہ تابین بی بی آئیں تو انہیں بتا دیں کہ وہ ضروری کام سے جا رہی ہیں۔کل تک آجائیں گیں۔"نوری نے جواب دیا۔"اچھا ۔۔"نازلی اتنا کہہ کر کام میں مصروف ہوگئی۔نوری نے بغور اسکا چہرہ دیکھا پھر کہنے لگی۔"آپ دکھی ہیں ناں؟"

"نہیں تو ۔۔۔" نازلی نے نہ میں سر ہلایا۔

"بڑی بیگم صاحبہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔"نوری نے افسوس سے کہا۔

"کوئی بات نہیں نوری ۔۔۔۔تم اتنا مت سوچو۔"کام ختم کر کے وہ ہاتھ دھونے لگی۔

"میں چاہتی ہوں آپکو کوئی دکھ نہ ملےنازلی باجی۔آپ اتنی پیاری ہے کہ میرے دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ آپکو بس خوشیاں ہی خوشیاں ملیں۔"نوری نے اسے دیکھ کر محبت سے کہا۔نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا پھر ایک دم مسکرائی۔ "چھوٹی سی نوری کی بڑی بڑی باتیں۔"اسنے آگے بڑھ کر نوری کا گال تھپکا پھر بولی۔

"میں انسان ہوں نوری دکھ مجھے بھی ہوتا ہے پر ایک یقین سا ہے کہ ایک دن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور ہماری کہانی کی بھی ہیپی اینڈنگ ہوگی۔"بات مکمل کر کے وہ مسکرائی تھی۔

"انشاء اللہ اور اس کہانی میں آپکے لیے ایک شہزادہ بھی تو آئے گا۔جو آپ کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔تبھی تو کہانی کی ہیپی اینڈنگ ہوگی۔"نوری اسے دیکھ کر شرارت سے بولی۔ 

"شش بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔"نازلی نے اسے گھورا۔ 

"پندرہ سال کی ہوں نازلی باجی ۔۔کوئی بچی وچی نہیں ہوں میں۔"نوری نے منہ بسورا۔نازلی ایک دم ہنسنے لگی۔

"جی خاتوں آپ واقعی بڑی ہیں۔"نازلی نے اسے چڑایا۔ 

"توبہ اتنی بھی بڑی نہیں ہوں جو آپ خاتوں کہیں۔"اسنے منہ پھلا لیا تو نازلی نے اسکے سر پر چپت لگائی۔

"چلو اب منہ نہ بناؤ ۔۔۔ بکس لے کر آؤ ذرا تمہاری خبر لیتی ہوں۔۔۔میں بس پانچ منٹ میں آئی تب تک تم بھی جلدی سے کتابیں لے کر حاضر ہو جاؤ۔"وہ کہہ کر کچن سے باہر نکلی اور نوری صاحبہ رونے والی ہوگئی کہ اب اسکی خیر نہیں۔ماتھے پر ہاتھ مار کر وہ جلدی سے کتابیں لینے بھاگی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"موسم کو دیکھو ذرا ۔۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ کل آجائیں گے پر نہیں تمہیں آج ہی گفٹ لینے کی پڑی تھی۔"آبی نے کار کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہا۔وہ ڈرائیور کو لے کر شاپنگ کرنے نکلی تھیں۔شاپنگ کر کے اب گھر کی طرف جا رہی تھیں۔

"بس کرو ۔۔۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اچانک موسم بگڑ جائے گا۔"نور نے منہ بنا کر کہا۔ 

"موسم کا نہیں پر وقت کا تو معلوم تھا ناں تمہیں ۔۔۔کیا ضرورت تھی اس وقت آنے کی۔۔۔"آبی نے اسے گھورا۔ 

"تم اچھے سے جانتی ہو کہ شہریار کی برتھڈے آنے والی ہے۔۔۔مجھے انکے لئے گفٹ لینا تھا بس سوچا آج ہی لے لوں۔اسلئے آگئی۔۔۔پر اب تم میری جان ہی کھا لو۔"نور تپی تھی۔ 

"اچھا چپ کرو جاؤ۔۔۔پہلے ہی بجلی چمک رہی ہے اپر سے تم  لڑائی بھی کرو تا کہ ہماری بے اتفاقی دیکھ کر یہ بجلی ہماری گاڑی پر ہی گرے اور ہم ڈائریکٹ اپر جائیں۔"آبی نے باہر دیکھ کر خوف سے کہا۔جہاں کالی اندھیری پھیل رہی تھی۔ 

"کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟ کہ لڑائی میں کر رہی ہوں؟ بجلی میری وجہ سے گرے گی؟"نور پوری کی پوری اسکی طرف رخ پھیر کر اسے گھورنے لگی۔ 

"اے بی بی ۔۔۔ معاف کر دو مجھے۔۔۔۔ غلطی ساری کی ساری میری ہی ہے جو میں تمہارے ساتھ آگئی۔"آبی نے جھنجھلا کر ہاتھ جوڑ دیے تھے۔

"ہاں شکریہ تمہارے احسان کا۔۔۔ کہ تم میرے ساتھ آئی۔"نور خفا ہو کر چہرہ پھیر گئی۔

"اچھا خفا نہ ہو اب۔۔۔۔"آبی نے پیار سے اسکے بازو پر ہاتھ رکھا۔"بس دعا کرو جلدی سے گھر پہنچ جائیں۔موسم بہت خراب ہے اور اندھیری بھی پھیل رہی ہے۔"اسکی فکر مند آواز سن کر نور بھی پریشان ہوگئی پھر باہر دیکھ کر ڈرائیور سے بولی۔"بابا تیز ڈرائیو کریں۔"ڈرائیور نے گاڑی کی اسپیڈ اور تیز کردی۔دونوں پریشان سی برستی بارش کو دیکھ رہی تھیں۔اللہ اللہ کر کے گھر پہنچیں تو ڈرائنگ روم میں شہریار کو اپنا منتظر پایا۔یہ بھی شکر تھا کہ بڑوں میں سے کوئی سامنے نہ تھا ورنہ انکی خیر نہ ہوتی۔نور نے بڑوں میں سے کسی کو نہ پا کر لمبی سانس کھینچ کر شہریار کو دیکھا۔پر شہریار کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اسکی جان ہوا ہونے لگی۔آبی بھی اسے اتنے غصے میں دیکھ کر ڈر سی گئی تھی۔ 

"کہاں تھیں تم دونوں۔۔۔۔کوئی ہوش ہے کہ نہیں؟ موسم دیکھا ہے؟رات ہو چکی ہے۔یہ کونسا وقت تھا کہیں جانے کا ۔۔۔۔بولو؟"وہ غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔ 

"وہ ۔۔۔ لالہ ۔۔۔"آبی بولنے لگی جب نور نے اسکی بات کاٹی۔

"ہم شاپنگ کے لئے گئے تھے۔آبی جانا نہیں چاہتی تھی پر میں اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔"نور نے جھٹ سے کہہ دیا۔شہریار تپ کر اسے گھورنے لگا۔ 

"تمہارا دماغ تو ہمیشہ سے خراب رہا ہے۔ہر الٹا کام تم سے ہوتا ہے ماہ نور بی بی ۔تمہیں تو کچھ کہنا ہی فضول ہے۔تم چاہے جو کرو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا پر میری بہن کو اپنی ان فضول حرکتوں سے دور رکھو۔سمجھی"اسے دیکھ کر چبا چبا کر کہتا پھر وہ آبی کی طرف گھوما۔"اور آبی خبر دار جو تم نے آئندہ اسکے فضول کاموں میں اسکا ساتھ دیا۔میں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ دیکھوں۔"اسکی بات پر نور نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔شہریار اپنی بات کہہ کر نور کو گھورتا پلٹ کر باہر کی طرف بڑھنے لگا۔ 

"دیکھا تم نے آبی ۔۔۔۔ میں تو جیسے انکی دشمن ہوں ناں۔۔۔ آج بتاتی ہوں انہیں۔۔۔آخر سمجھتے کیا ہیں خود کو۔۔۔۔"وہ آبی کو اس بے درد شخص کے لیے لیا گفٹ پکڑاتی۔ہاتھ بڑھا کر آنکھیں صاف کرتی اسکے پیچھے گئی۔

"نور کی بچی واپس آؤ۔"آبی کی بات سنے بغیر وہ وہاں سے چلی گئی۔"افف یہ لڑکی۔"آبی افسوس سے سر پر ہاتھ مار کر اندر بڑھی۔وہ جانتی تھی کہ اب دونوں کے بیچ تلخ کلامی ہوگی جسکی وجہ سے پھر دونوں نے ہی ڈسٹرب رہنا تھا۔

نور نے جلدی سے آگے بڑھ کر شہریار کا راستہ روکا۔دونوں لان میں برستی بارش کے نیچے کھڑے تھے۔

"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو ہاں ۔۔۔۔ "اسنے غصے بھری نگاہ اس پر ڈالی۔شہریار نے اپنے سامنے کھڑی اس نازک سی لڑکی کو گھور کر دیکھا۔"ہٹو میرے راستے سے۔۔۔"وہ دوسری طرف سے ہو کر جانے لگا۔نور اسکے سامنے آئی۔ 

"میں نے کہا ہٹو ۔۔"وہ دانت پیس کر بولا۔

"نہیں ہٹوں گی۔"وہ ضدی لہجے میں بولی۔"پہلے میری بات کا جواب دیں۔کیا میں آپکی کچھ نہیں لگتی؟جو آپ نے کہہ دیا کہ میں چاہے کچھ بھی کروں۔ آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟"اسنے مدھم آواز میں دکھ سے پوچھا۔تیز بارش نے انہیں بھیگو ڈالا تھا۔شہریار نے اسکے روشن چہرے کو دیکھا۔یہ چہرہ اسکی جان رہا تھا پر اب وہ اس سے دور بھاگ رہا تھا۔ 

"بولیں شہریار جواب دیں۔"وہ اسکے چہرے پر نظریں جمائے جواب مانگ رہی تھی۔ 

"کچھ نہیں لگتی تم میری سن لیا تم نے ۔۔۔ اب ہٹو یہاں سے۔۔۔"اسنے ترشی سے کہا۔

"میں کچھ بھی کروں آپکو فرق نہیں پڑتا؟"اسنے شہریار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔ایک پل کو شہریار کا دل اسکی آنکھوں میں ڈوبا پر اگلے پل ان میں سرد تاثر اتر آیا اور پیشانی پر بل پڑے۔ 

"میری طرف سے تم جہنم میں جاؤ ۔۔۔جو کرتی ہو کرو۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ سنا تم نے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"وہ غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر کہتا واپس اندر کی طرف بڑھا۔نور نے اداس نگاہوں سے اسے جاتے دیکھا۔برستی بارش نے اسکے آنسوؤں کو چھپا دیا تھا۔اسکے کپڑے بھیگ چکے تھے۔شہریار کی پشت کو دیکھ کر وہ آہستہ سے چلتی نیم اندھیرے میں رکھے بینچ پر بیٹھی۔

شدید سردی سے اسکا وجود ٹھنڈا پڑ چکا تھا پر دل میں آگ جل رہی تھی۔اسے سردی محسوس ہی نہ ہوئی۔وہ آنسو بہاتی اندھیرے میں گھورنے لگی۔اسکا دل کیا وہ اونچی اونچی آواز میں رونے لگ جائے۔یہ درد اسکی برداشت سے باہر تھا۔وہ شخص جو اسکے دل میں بستا تھا اسکا کہنا تھا کہ وہ اسکی کچھ نہیں لگتی۔اسکے کسی بھی عمل سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیوں نہیں پڑتا؟اسے بھی تو فرق پڑنا چاہیے۔وہ پاگل سی لڑکی اس شخص کی بے حسی کے باوجود اس سے محبت کرتی چلی جارہی تھی۔اسے ہر پل اسکا خیال رہتا۔ہر وقت وہ بے درد اسکے حواس پر چھایا رہتا پر اس ظالم کو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔وقت گزرتا گیا اور وہ وہاں خاموشی سے بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔

شہریار کپڑے چینج کر کے فائل لے کر بیٹھ گیا۔پر کام میں دھیان نہ لگا۔دماغ میں ماہ نور کے معصوم سوال گونج رہے تھے۔اسکا دل اسکی طرف بھاگتا پر دماغ اسے ایسا نہ کرنے دیتا۔دماغ نے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑ رکھا تھا۔جو چاہ کر بھی اس دیوانی کی باتوں پر پگھل نہیں سکتا تھا۔

کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آنے لگے تو وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر لمبی سانس کھینچتا اٹھ کھڑا ہوا۔کھڑکی بند کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا پر وہاں دور کسی کو برستی بارش میں بیٹھا دیکھ کر تھم سا گیا۔

"ماہ نور۔"لب آہستہ سے ہلے۔"اففف پاگل لڑکی۔"وہ پریشان سا جلدی سے کمرے سے باہر نکلا۔اتنی ٹھنڈ میں وہ پاگل لڑکی بارش میں بیٹھی تھی۔وہ جلدی سے لان میں آیا۔ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکے وجود سے ٹکرایا تو وہ جھرجھری لے کر اسکی طرف بڑھنے لگا۔سردی اتنی تھی کہ ہڈیوں میں اتر رہی تھی۔اسنے اس پاگل لڑکی کو دیکھا وہ ہر احساس سے بے خبر بت بنی بیٹھی تھی۔وہ اسکے سامنے جا کر کھڑا ہوا۔

"ماہ نور۔"اسکی بھاری آواز پر نور نے آہستہ سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔اسکی آنکھیں گلابی ہورہی تھیں۔لب خاموش تھے۔ 

"اٹھو ماہ نور۔۔۔اندر چلو۔"شہریار نے سنجیدگی سے کہا۔ ماہ نور بنا کچھ کہے سر جھکا گئی۔شہریار نے اسکے جھکے سر کو دیکھا۔ 

"تمہیں میری آواز آرہی ہے ۔۔۔ میں نے کہا اٹھ کر اندر چلو۔۔تیز بارش ہے بیمار پڑ جاؤگی۔"وہ جھنجھلا کر بولا۔نور بہری بنی بیٹھی رہی۔شہریار نے اسکے چہرے کو دیکھا سردی سے اسکا چہرہ سفید پڑ رہا تھا لب نیلے ہو رہے تھے۔اسے دیکھ کر شہریار کے دل میں کہیں درد سا جاگا تھا۔

"ضدی مت بنو ماہ اور چلو میرے ساتھ۔"اسکے ماہ کہنے پر ماہ نور نے جھٹ سے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔ایک عرصے بعد اسنے اسے ماہ کہہ کر پکارا تھا۔گھر میں باقی سب اسے نور کہہ کر بلاتے تھے پر صرف شہریار اسے ماہ کہتا تھا۔

"اٹھ بھی جاؤ اب۔۔۔تمہاری وجہ سے میں پھر سے بھیگ گیا ہوں۔"نور کو یوں اپنی طرف دیکھتا پا کر شہریار غصے سے بولا۔ 

"تو آپکو کس نے کہا ہے کہ آپ یہاں کھڑے رہیں ۔۔۔ چلے  جائیں یہاں سے میں نے آپکو تھوڑی روکا ہے۔"وہ تپ کر بولی 

"تم آرہی ہو کہ نہیں؟"اسنے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔۔"نور نے جھٹ سے دو ٹوک جواب دیا۔شہریار نے خاموشی سے اسے دیکھا پھر اگلے پل اسکا ٹھنڈا ہاتھ تھام کر اسے جھٹکے سے کھڑا کیا۔

"تم ایک پاگل لڑکی ہو ۔۔۔۔ تمہیں شرافت کی زبان سمجھ ہی نہیں آتی۔"وہ چبا کر بولتا اسے لے کر آگے بڑھنے لگا۔ 

"چھوڑیں مجھے۔۔۔میں نے نہیں جانا۔"وہ غصے سے کہتی دوسرے ہاتھ سے مظبوطی سے بینچ کو تھام گئی۔

"میں جو بھی کروں آپکو فرق نہیں پڑنا چاہیے۔سمجھے آپ۔" اسنے نم آواز میں کہا۔

"مجھے غصہ نہ دلاؤ ماہ نور ۔۔۔۔"شہریار نے دانت بیسے۔ "چھوڑو اسے۔"اسنے بینچ کو تھامے اسکے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ 

"نہیں ۔۔"نور ضدی لہجے میں بولی۔"مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ جائیں یہاں سے۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر چبا کر بولی۔اسکی بات پر شہریار نے دانت کچکچائے پھر اپنے دوسرے ہاتھ سے بینچ کو تھامے اسکے ہاتھ کو جھٹکے سے اپنی گرفت میں لیا۔ماہ نور کے دونوں ٹھنڈے ہاتھ اب اسکے گرم ہاتھوں کی گرفت میں تھے۔

"تم ایک بیوقوف ضدی لڑکی ہو۔"وہ اسے گھور کر بولا۔ 

"اور آپ بے رحم ،پتھر دل ،ظالم انسان ہیں۔"نور نے نم آواز میں کہا۔آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی جمع ہوا تھا۔کچھ پل دونوں ایسے ہی کھڑے رہے۔ایک آنسو بہا رہی تھی تو دوسرا اسکے آنسوؤں کو دیکھ کر اپنے جلتے دل کو قابو کر رہا تھا۔

"مجھے تمہاری فضول باتیں نہیں سننی ۔۔۔ سین کریٹ نہ کرو اور خاموشی سے اندر جا کر چینج کرو۔"دماغ ،دل پر حاوی ہوا تو اسنے اگلے پل ماہ نور کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ماہ نور نے سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا جہاں اس شخص کا لمس محسوس ہو رہا تھا۔پھر آہستہ سے سر اٹھا کر اس شخص کو دیکھنے لگی۔وہ کیوں اتنا ظالم بن گیا تھا؟وہ کیوں اسکا نازک دل پل پل توڑتا تھا؟اس شخص کے ساتھ اسکی تقدیر جڑی تھی پر وہ تھا کہ اسے کوئی پر واہ ہی نہ تھی۔ 

"میری شکل کیا دیکھ رہی ہو۔جاؤ اندر اس سے پہلے کہ کوئی یہاں آجائے اور آئندہ ایسا کوئی ڈرامہ مت کرنا سمجھی۔"وہ روکھے لہجے میں بولا۔اسکی بات پر ماہ نور کی آنکھ سے آنسو گرا۔وہ پل پل اسکی محبت میں مر رہی تھی پر اس شخص کی نظر میں اسکی محبت صرف ڈرامہ تھی۔

"آئی ہیٹ یو شہریار ۔۔۔آئی ہیٹ یو۔"اسکے لب آہستہ سے ہلے۔لبوں سے بات نکلی پر دل تک نہ پہنچی۔یہ پاگل دل تو کبھی اسکے خلاف کوئی چھوٹی سی بات تک نہیں سوچ سکتا تھا پھر نفرت تو بہت دور کی بات تھی۔

اسکی بات پر شہریار نے پر سکون انداز میں اسکے سفید چہرے کو دیکھا۔ 

"آئی ڈونٹ کیئر۔"سنجیدگی سے کہتا وہ اسکی گلابی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ماہ نور کی آنکھوں سے موتی گرنے لگے۔کپکپاتے وجود کے ساتھ وہ نظریں پھیر کر خاموشی سے وہاں سے اندر کی طرف بڑھنے لگی۔شہریار نے اسکی پشت کو دیکھا پھر خاموشی سے اسی بینچ پر بیٹھ گیا جہاں کچھ دیر پہلے وہ بیٹھی تھی۔وہ بے حس بنا وہاں بیٹھا رہا بالکل ویسے ہی جیسے کچھ لمحے پہلے وہ پاگل لڑکی اس موسم سے بے خبر اپنے جلتے دل کو لیے وہاں برستی بارش میں بیٹھی تھی۔

"کیا ہوا ہے میری گڑیا کو؟"سیماب نے نازلی کا چہرہ دیکھا۔وہ کچھ دیر پہلے ہی آنی کے گھر آئی تھی۔ہلکی دھوپ میں دونوں لان میں بینچ پر بیٹھی تھیں۔

"کچھ نہیں آنی۔"اسنے نہ میں سر ہلایا۔ 

"آنی سے چھپاؤ گی؟"وہ خفگی سے بولیں۔ 

"مجھے ماما کی بہت یاد آتی ہے۔"اسنے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔سیماب نے خاموشی سے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا تو نازلی خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔

"شش۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔۔ تم آپی کے لئے دعا کیا کرو اور میں بھی تو تمہاری ماما ہی ہوں ناں۔تم میرے پاس آجایا کرو۔"وہ اسکی کمر سہلا کر آہستہ سے بولیں پھر اسے خود سے الگ کر کے اسکے آنسو صاف کیے۔"یوں رویا مت کرو میری گڑیا ۔۔۔تمہیں روتے دیکھ کر تمہاری آنی کا دل دکھتا ہے۔"انہوں نے دکھ سے اسے دیکھا۔"حسن آفندی کی بیوفائی نے میری آپی کو ہم سے جدا کیا ہے۔"وہ تلخی سے بولیں۔

"پلیز آنی۔"نازلی نے ایک دم انہیں دیکھا"بابا جان کے بارے میں یوں نہ کہیں۔"وہ آہستہ سے بولی۔ 

"اوکے گڑیا کچھ نہیں کہتی تمہارے بابا کو۔"انہوں نے مسکرا کر اسکا گال تھپکا۔

"تمہیں معلوم ہے آپی نے اپنی ساری محبت تم میں منتقل کر دی ہے۔تم دونوں ماں بیٹی کو کبھی اس شخص کی غلطی نظر ہی نہیں آئی۔۔۔۔۔"

"آنی ۔۔۔۔"نازلی نے وارن انداز میں انہیں دیکھا تو وہ ایک دم چپ ہو کر ہنسنے لگیں۔"اچھا اچھا ۔۔۔۔ سوری۔"انہوں نے ہنس کر کانوں کو ہاتھ لگایا تو نازلی نے مسکرا کر انکے گلے میں بانہیں ڈالیں۔ 

"لو یو میری پیاری آنی۔"وہ محبت سے بولی 

"اپیا یہاں ہم بھی آپکی محبت کے منتظر ہیں۔"لیلیٰ کی خفا آواز پر ان دونوں نے سامنے دیکھا۔"لو آگیا میرا جیلس بچہ۔" سیماب نے ہنس کر لیلیٰ کو دیکھا۔ 

"ایٹس ناٹ فیئر بھابی۔"لیلیٰ نے منہ بسورا۔

"یہاں آؤ اپیا کی جان۔"نازلی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔

"تم مناؤ میرے بچے کو اور میں گئی اپنے دیوانے کو کال کرنے۔"سیماب لیلیٰ کی پیشانی چوم کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔انکی بات پر وہ دونوں ہنسنے لگیں۔ 

"ہاں ہاں جلدی جائیں ورنہ اسد بھائی نے اڑ کے گھر پہنچ آنا ہے۔"لیلیٰ نے ہنس کر نازلی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہا تو سیماب مسکراکر جلدی سے اندر کی طرف بڑھیں۔

انکے جاتے ہی لیلیٰ نے پھر سے منہ پھلا لیا۔

"ارے ۔۔۔۔ پھر سے کیا ہوگیا۔"نازلی نے حیرت سے پوچھا۔ 

"میں ناراض ہوں کسی سے۔"لیلیٰ نے ناک چڑھا کر کہا۔وہ آٹھارہ سال کی تھی پر میڈم کے انداز بالکل بچوں والے تھے۔ 

"اپیا کی جان کیوں ناراض ہے۔"نازلی نے ہنسی دبا کر پوچھا

"ایک تو آپ اس دن دعوت میں نہیں آئیں۔پھر تب کی آج آئیں ہیں اتنے دنوں بعد۔۔۔۔۔۔"

"چلو اب ناراض نہ ہو یار ۔۔۔ دیکھو آج آ تو گئی ہوں۔چلو اب ناراضگی چھوڑ دو۔"اسنے پیار سے لیلیٰ کا گال کھینچا۔

"ٹھیک۔۔۔پر ایک شرط ہے۔"لیلیٰ نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا 

"کیا ؟؟ " نازلی نے سوالیہ انداز میں پوچھا 

"آج آپ لنچ اور ڈنر بھی ہمارے ساتھ کرینگی۔" 

"ہوں ۔۔۔۔"نازلی نے کچھ پل سوچا۔" اوکے ڈن ۔۔۔"اسنے مسکرا کر کہا۔ 

"یاہو ۔۔۔۔ آج تو پھر خوب انجوئے کرینگے اپیا"لیلیٰ خوشی سے  کھل سی اٹھی۔یہ چھوٹی سی چلبلی ، شرارتی سی لڑکی نازلی کو بہت عزیز تھی۔

"بالکل اپیا کی جان۔"نازلی نے اسکے بال بگاڑے تو وہ کھلکھلا اٹھی۔

"اہم لیڈیز ۔۔۔۔ بندے کا سلام قبول کریں۔"مردانہ آواز پر ان دونوں نے چونک کر پیچھے دیکھا۔

"احد بھیا۔۔۔۔"لیلیٰ چیخ مار کر اسکی طرف بڑھی۔

"آہستہ لڑکی ۔۔۔۔ بہرہ کروگی کیا۔"احد نے بیگ نیچے رکھ کر لیلیٰ کا سر کندھے سے لگایا۔

"افف بھیا کیا سرپرائز دیا ہے آپ نے ۔۔۔۔ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں ۔۔۔۔ پہلے اپیا نے سرپرائز دیا اور اب آپ نے۔"اسنے خوشی سے اپنے فوجی جوان بھائی کو دیکھا۔ 

"پاگل مت ہونا پھر تمہیں کون سمبھالے گا۔"احد نے شرارت سے کہا پھر نازلی کو دیکھا۔

"وہ دیکھو گڑیا لگتا ہے تمہاری اپیا تو سو رہی ہیں۔ذرا جگانا انہیں۔"اسکی بات پر نازلی مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اب ہر کوئی آپکی طرح سوتا نہیں رہتا احد بھائی"نازلی نے مسکرا اسے دیکھا تو احد کا منہ بن گیا جبکہ لیلیٰ زور سے ہنسی۔

"خاموش لڑکی۔۔۔ تم ایک فوجی کو سونے کا طعنہ نہیں دے سکتی اور تم چڑیل ہنسی بند کرو۔"اسنے پہلے نازلی پھر لیلیٰ کو گھورا۔

"میں تو اپنی اپیا کے ساتھ ہوں اسلئے ہنسوں گیں ہی۔"لیلیٰ  آنکھیں گھما کر نازلی کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ 

"کیوں لیلیٰ بتانا ذرا کیپٹن احد کو کہ یہ اکثر بیٹھے بیٹھے ہی  سو جایا کرتے ہیں۔"نازلی کی بات پر لیلیٰ نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا پھر اگلے پل دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسنے لگیں۔احد نے دونوں کو گھوری سے نوازا۔اسے یاد آیا کہ کیسے ایک بار صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی اسکی آنکھ لگ گئی تھی اور ان دونوں نے اسکی ویڈیو بنا کر سبکو دکھائی تھی۔اسکا خوب مذاق اڑایا تھا اور آج تک وہ اس بات کا ذکر کر کے اسے چڑاتی تھیں۔

"بھائی پر ہنس رہی ہو تھوڑی تو شرم کرلو چڑیلو۔۔۔۔"اسنے تپ کر کہتے اپنا بیگ اٹھایا۔"اتنا خیال نہیں کہ بھائی تھکا ہوا آیا ہے اس سے کچھ کھانے پینے کا پوچھیں الٹا دونوں ہنس رہی ہیں ظالم لڑکیاں"وہ بڑبڑا کر مصنوعی غصہ کرتا جانے لگا کہ ابھی وہ دونوں اسکی منت کر کے اسے روکیں گیں۔

"شکر ہے بھائی صاحب ناراض ہو کر ہماری جان تو چھوڑیں گے۔آؤ لیلیٰ اب آرام سے گپیں لگاتے ہیں۔"نازلی نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا جبکہ لیلیٰ اپنی ہنسی دبانے لگی۔

نازلی کی بات پر جانے کا ناٹک کرتے احد کو  بریک لگی پھر وہ انکی طرف گھوما۔

"آفریں ہے۔۔۔۔ پر میں اتنی آسانی سے تم لوگوں کی جان چھوڑنے والا نہیں ہوں ۔۔۔جلدی آؤ دونوں اور اچھا سا کھانا دو مجھے۔۔۔۔ بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ہری اپ ورنہ بھابی سے شکایت کرتا ہوں۔"وہ تپ کر دھمکی دیتا اندر کی طرف بڑھا تو وہ دونوں بھی مسکراہٹ دبا کر سرگوشیاں کرتیں اسکے پیچھے گئیں۔

اسد ، احد اور لیلیٰ تینوں بہن بھائی تھے۔اسد تو بزنس سمبھال رہا تھا جبکہ احد آرمی میں تھا۔اسکی پوسٹنگ دوسرے شہر ہوئی تھی۔جب کبھی بھی اسے چھٹی ملتی تو وہ انہیں بنا بتائے اکثر سرپرائز دیا کرتا تھا۔آرمی میں ہوتے ہوئے بھی وہ ایک شوخ مزاج لڑکا تھا۔نازلی اور لیلیٰ سے اسکی خوب بنتی تھی۔لیلیٰ کی طرح وہ نازلی کو بھی بہن سمجھتا تھا۔اسلیے حق سے اسے لیلیٰ کی طرح ٹریٹ کیا کرتا تھا جبکہ لیلیٰ اور نازلی بھی  اسے چڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔تبھی انکے مذاق سے بچنے کے لئے وہ مصنوعی خفگی کا سہارا لیتا پر فائدہ تب بھی کچھ نہ ہوتا وہ دونوں اسکے ہر ناٹک سے واقف تھیں اور اسے ہینڈل کرنا بھی جانتی تھیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"یہ کیا ہورہا ہے؟"وہ یونی سے آ کر سو گئی تھی۔ابھی نیچے آئی تو دیکھا لان میں بڑا سا ٹیبل لگا کر لان کو سجایا جا رہا تھا۔

"بڑی بیگم صاحبہ نے دعوت رکھی ہے۔اسی کی تیاریاں ہورہی ہیں۔"نوری نے جواب دیا۔ 

"اچھا۔۔"اسنے سرسری کہا۔یہاں پارٹیز اور دعوتیں ہونا عام سی بات تھی۔کبھی امتل آفندی کی دوستیں انوائٹ ہوتی تو کبھی تابین کی کوئی پارٹی ہوا کرتی تھی۔جن میں نازلی کم ہی شرکت کرتی تھی۔

"اچھا نوری میرے لیے کافی لے آنا۔میں لائبریری میں ہوں۔" نازلی کی بات پر نوری سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھی۔

نازلی لائبریری میں داخل ہوئی۔آج کچھ اچھا پڑھنے کا موڈ ہورہا تھا۔وہ بک لے کر ٹیبل کے پیچھے کرسی پر بیٹھی۔کچھ دیر بعد نوری اسے کافی دے گئی۔کافی کے سپ لیتی وہ پوری طرح سے کہانی میں ڈوب چکی تھی۔

مہمان آنا شروع ہو چکے تھے۔امتل بیگم ساڑی میں ملبوس سبکا ویلکم کر رہی تھیں۔حسن آفندی اور تابین بھی وہیں موجود تھے۔تابین نے بے بی پنک رنگ کا گاؤن زیب تن کیا تھا۔بالوں کا سائیڈ جوڑا بنا تھا۔ لبوں پر مسکان سجائے وہ سبکے بیچ کھڑی تھی۔اسکی نظریں بار بار گیٹ کی طرف جا رہی تھیں۔اسے بے چینی سے ہاشم خان کا انتظار تھا۔آج وہ پہلی بار اسکے گھر آنے والا تھا۔وہ بے حد خوش تھی۔سامنے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں حیرت جاگی۔جمال آغا۔۔۔اس نے تو اسے انوائٹ نہیں کیا تھا تو پھر وہ یہاں کیسے ، اگلے پل اسنے اپنی سوچ پر سر جھٹکا کہ یہ کوئی بڑی بات تو نہ تھی ماما بابا نے انوائٹ کیا ہوگا۔سوچوں سے نکل کر اسنے سامنے دیکھا تو باقی سب کچھ بھول گئی۔ہاشم خان سامنے موجود تھا۔ڈارک چاکلیٹ سوٹ میں ، سنجیدہ چہرہ۔۔۔ پر لبوں کے کونوں میں ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔وہ حسن آفندی کے ساتھ کھڑا تھا۔تابین دھڑکتے دل کے ساتھ اسکی طرف بڑھی۔

"ویلکم۔۔"اسنے خوشی سے ہاشم کو دیکھ کر کہا۔ہاشم سر ہلا کر حسن آفندی کی طرف متوجہ ہوا۔

"نائس ٹو میٹ یو سر۔"ہاشم کے لہجے میں احترام تھا۔ایک بزنس میں ہوتے ہوئے بھی یہ حسن آفندی اور ہاشم خان کی پہلی ملاقات تھی۔

"سیم ہیئر ینگ مین۔"حسن آفندی مسکرائے۔"آپکے بارے میں بہت سنا تھا اور یقین کریں جو سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا ہے۔"حسن آفندی مسکرا کر بولے۔ہاشم کے لبوں پر بھی بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔

"سیم ہیئر سر۔"اسنے حسن آفندی کے انداز میں کہا تو حسن آفندی ہنسنے لگے۔

"آپ واقعی دلچسپ نوجوان ہیں۔"حسن آفندی اس سے امپریس ہوئے تھے۔تابین مسکرا کر انہیں دیکھ رہی تھی۔اسے ہاشم کا اپنے بابا جان سے بات کرنا اچھا لگ رہا  تھا۔

کچھ دیر بعد حسن آفندی ایکسکیوز کر کے وہاں سے چلے گئے تو ہاشم نے تابین کو دیکھا۔

"یو لک بیوٹیفل۔"اسکی بات پر تابین کے چہرے پر لالی سی پھیلی۔

"تھینکس"اسنے مدھم آواز میں کہا۔اسکے چہرے پر خوبصورت رنگ بکھرے تھے پر سامنے والے کی نگاہیں اس چہرے پر نہ تھیں۔وہ ارد گرد کسی کو تلاش کر رہی تھیں۔پر وہ کانچ سی لڑکی اسے کہیں نظر نہ آئی۔تابین نے غور سے ہاشم کو دیکھا۔ "کسے تلاش کر رہے ہیں؟"

"محبت ۔۔"اسے پر سکون انداز میں جواب دیا۔تابین الجھی تھی پر پھر ایک دم مسکرا اٹھی۔"وہ تو آپکے آس پاس ہی ہے۔" اسنے ہنس کر کہا۔ 

"ہوں ۔۔۔ بالکل۔۔۔میرے بہت پاس ہے۔"وہ ہلکا سا اسکی طرف جھکا۔ "بہت جلد اسے پا لونگا۔"اسنے مسکرا کر زو معنی انداز میں کہا۔اسکی بات پر تابین کا دل دھڑک اٹھا جبکہ دوسری طرف اس شخص کا دل کسی اور کے لیے دھڑک رہا تھا۔

"اہم ۔۔۔ ہیلو لو برڈس۔"جمال آغا ہنس کر انکے ساتھ کھڑا ہوا۔اسکی بات پر ہاشم نے اسے گھورا جبکہ تابین مسکرانے لگی۔

"ہیلو آغا۔"تابین کے کہنے پر جمال آغا نے سنجیدہ کھڑے ہاشم کو دیکھا۔

"تابین کبھی اپنے اس دوست سے بھی کہہ دیا کرو کہ مسکرا کر ملا کرے"وہ کمینگی سے ہنسا۔ 

"میرا مسکرا کر ملنا تمہیں ہضم نہیں ہوتا جمال آغا اسلیے رہنے ہی دو۔"ہاشم نے ریسٹورنٹ والی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اسکی بات سمجھ کر جمال آغا قہقہہ لگا کر ہنسا۔

"آج میں خوش ہوں۔اسلئے تم مسکرا کر مل سکتے ہو۔" 

"میں تمہارے اشاروں پر چلنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"ہاشم طنزیہ کہتا وہاں سے چلا گیا۔

جمال آغا نے قہقہہ لگایا تو تابین نے اسے گھورا پھر ہاشم کے پیچھے جانے لگی جب جمال آغا نے اسکا ہاتھ تھاما۔

"اس سے اچھا ۔۔۔۔ میں نہیں ہوں؟"اسنے مسکرا کر اپنی طرف اشارہ کیا۔ 

"اس سے اچھا دوسرا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ سمجھ آئی مسٹر۔" تابین نے سنجیدگی سے کہا۔

پھر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ "اوکے۔۔"جمال آغا نے سرد انداز میں کہہ کر اسکا ہاتھ چھوڑا۔تابین پلٹ کر چلی گئی۔جمال آغا دانت پیس کر اسکی پشت کو سرد نظروں سے دیکھنے لگا۔تابین کا ہاشم کی طرف بڑھتا ایک ایک قدم جمال آغا کے دل پر پڑ رہا تھا۔اسنے شدید نفرت سے دور کھڑے ہاشم کو دیکھا تھا۔ 

اسے وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔وہ مگن سی کتاب پر نظریں جمائے بیٹھی تھی جب دروازے پر دستک ہونے سے ایک دم چونکی ،لائبریری کا دروازہ کھلا۔سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"بابا جان۔"اسنے مسکرا کر انہیں دیکھا۔

"جی بیٹا جی ۔۔۔ باہر دعوت چل رہی ہے اور آپ یہاں اکیلی بیٹھی ہیں۔آئیں میرے ساتھ۔" انہوں نے ہاتھ سے اسے آنے کا اشارہ کیا۔

"وہ بس بابا جان کتاب پڑھتے مجھے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا"وہ مسکرا کر کتاب رکھتی انکی طرف بڑھی۔وہ کیا بتاتی کہ باہر جانے کا اسکا ذرا دل نہیں کر رہا تھا۔

"آئی نو آپکو یہ سب پسند نہیں ہے۔پر کبھی کبھار اس قسم کی محفل بھی اٹنڈ کر لیا کریں اور آج تو ویسے بھی آپکی بڑی ماما نے کوئی سرپرائز دینا ہے۔نجانے کونسا دھماکہ کریں گیں۔"حسن آفندی نے مسکرا کر کہا۔نازلی نے ہنسی دبائی۔ 

"پھر تو جانا پڑیگا بابا جان۔"وہ مسکرا کر کہتی انکے ساتھ باہر کی طرف بڑھنے لگی۔

ہاشم بے زار سا کھڑا تھا۔تابین کچھ پل پہلے ہی اسکی جان چھوڑ کر اپنی دوستوں کی طرف گئی تھی۔اسنے نظر اٹھا کر سرسری سا سامنے دیکھا تبھی وہ اسے نظر آئی اور نظر وہاں سے ہٹنے سے انکاری ہوگئی۔وہ لڑکی جیسے نیلے پانیوں سے نہا کر نکلی تھی۔نیلے لباس نے اسکی آنکھوں کو اس شخص کے لیے اور جان لیوا بنا دیا تھا۔وہ جاتا تو جاتا کہاں؟؟ وہ لڑکی کیوں دن با دن انکی روح میں اترتی چلی جا رہی تھی؟اسکا دل کیا کہ وہ اس لڑکی کو سب سے چھپا کر اپنے ساتھ لے جائے۔اسے پھولوں کی طرح رکھے اس پر اپنا آپ وار دے۔افف وہ شخص دیوانہ ہوگیا تھا۔وہ پتھر دل مغرور شہزادہ اس نازک کانچ سی  لڑکی کا دیوانہ ہوگیا تھا۔

نظروں کی تپش محسوس کر کے نازلی نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو دنگ رہ گئی۔اتنے فاصلے پر ہوتے ہوئے بھی اس شخص کی آنکھیں اسکی آنکھوں پر جمی تھیں۔نازلی خوفزدہ سی جلدی سے رخ پھیر گئی۔اسے اگر معلوم ہوتا کہ وہ شخص یہاں موجود ہوگا تو وہ کبھی باہر نہ آتی۔وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی پر بابا جان اسکے ساتھ تھے۔اسلیے وہ جا نہ سکی۔امتل بیگم نے سبکو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"آج یہ دعوت جس مقصد کے لیے رکھی گئی ہے میں وہ خوشی آپ سب کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں۔" وہ کچھ پل خاموش ہوئیں پھر بولی۔"میں ایک لمبا عرصہ اپنے پیاروں سے دور رہی ہوں۔پر کچھ دن پہلے وہ میرے زندگی میں واپس لوٹ آئیں ہیں۔کچھ مجبوری کی بنا پر وہ لوگ اس دعوت میں شریک نہیں ہو سکے پر ان میں سے ایک فرد یہاں موجود ہے۔آپ سبکو میں اپنے پیارے سے بھتیجے سے ملوانا چاہتی ہوں۔"انہوں نے خوشی سے کہہ کر اشارہ کیا۔ایک نوجوان چل کر انکی طرف بڑھا۔وہاں سب لوگ حیران ہوئے۔امتل افندی ایک دم مسکرائیں۔

"اِن سے تو آپ سب اچھی طرح سے واقف ہی ہونگے۔دی گریٹ بزنس مین جمال آغا ۔۔۔ میرے بھائی کا پیارا سا بیٹا۔"جمال آغا نے سر کوخم دے کر سبکی طرف مسکراہٹ اچھالی۔تابین کو جھٹکا لگا۔"اسٹرینج"وہ بڑبڑائی۔سالوں پہلے جو اسکا یونی فیلو رہا تھا۔ اسکا دوست تھا اب اچانک سے اسکا کزن بن گیا تھا۔حسن آفندی نے نازلی کو دیکھا۔"بابا جان سرپرائز"نازلی نے مدھم آواز میں کہا۔"بیٹا جی یہ سرپرائز کم اور شاک زیادہ ہے۔"حسن آفندی نے سامنے دیکھ کر کہا۔انکے انداز پر نازلی نے مسکراہٹ لبوں میں دبائی۔سامنے امتل آفندی سبکو بتا رہی تھی کہ کچھ دن پہلے انکے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو ان کے بھائی نے پرانی باتیں بھلا کر انہیں گھر بلا لیا تھا تب یہ بات کھلی تھی کہ جمال آغا انکے اکلوتے بھائی کا بیٹا ہے۔جمال آغا بہت چھوٹا تھا جب امتل آفندی بیاہ کر حسن ولا  آگئیں تھیں۔پھر کچھ وجوہات کی بنا پر وہ واپس کبھی اپنے میکہ نہ گئیں اور نہ وہاں سے کوئی ان سے ملنے آیا تھا۔ 

جمال آغا ، تابین کے سامنے آیا۔"کیسا لگا سرپرائز۔"اسنے ہنس کر پوچھا۔

"مجھے تو یہ کوئی فلمی کہانی لگ رہی ہے۔"تابین نے منہ بنایا۔ "جو بھی کہو ۔۔۔ سچ یہی ہے۔"اسنے مسکرا کر جواب دیا۔تبھی تابین کی نظر دور کھڑے ہاشم پر پڑی۔وہ کسی شخص سے باتوں میں مصروف تھا۔

"سنو تابین۔"جمال آغا نے اسے اپنے طرف متوجہ کیا۔ 

"ہوں۔ ۔۔۔"وہ چونکی۔ 

"ذرا مجھے اپنی چھوٹی کزن سے تو ملواؤ۔"اسنے مسکرا کر کہتے ایک نگاہ دور کھڑے ہاشم پر ڈالی۔ 

"اچھا چلو۔۔۔"وہ اسے لے کر نازلی کی طرف بڑھی۔

"لو جمال آغا تم اپنی کزن سے ملو۔۔۔۔میں گئی۔"تابین اسے وہاں چھوڑ کر خود ہاشم کی طرف بڑھی۔نازلی نے پریشان نظروں سے تابین کو دیکھا۔اگلے پل تابین اور ہاشم چلتے ہوئے انسے کچھ فاصلے پر رک کر امتل آفندی سے باتیں کرنے لگے۔ہاشم کی تمام تر توجہ کچھ فاصلے پر کھڑے نازلی اور جمال آغا کی طرف تھی۔ 

"ہیلو سویٹ کزن۔"جمال آغا نے نازلی کو اپنی طرف متوجہ کرتے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔نازلی نے جھجھک کر اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا۔ 

"یقین کریں محترمہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔"اسنے دلکشی سے مسکرا کر کہا تو مجبوراً نازلی نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے جلدی سے ہیلو کہہ کر اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا پر دوسری طرف سے گرفت مظبوط کر لی گئی تھی۔

اسے جمال آغا کا ہاتھ تھامے دیکھ کر ہاشم کی رگوں میں آگ دوڑنے لگی۔اسنے طیش سے مٹھیاں بھینچ لیں۔جمال آغا نے ایک سرسری نظر ہاشم پر ڈالی پھر ایک دم ہنسا۔ 

"میرا ہاتھ۔۔"نازلی نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔ 

"اوپس۔۔پھول سا نازک ہاتھ ہے پتہ ہی نہ چلا کہ میری گرفت میں ہے۔"پر اسرار مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسنے نازلی کا ہاتھ چھوڑا۔نازلی ہچکچا کر جانے لگی جب وہ بولا۔

"آپکی آنکھیں۔"

"جی ۔۔۔"نازلی نے رک کر  اسے دیکھا۔

"آپکی آنکھیں بہت دلنشین ہیں۔"وہ مسکرا کر جان بوجھ کر  اسکی طرف جھک کر بولا تو نازلی گھبرا کر ایک دم پیچھے ہٹی۔

"سوری۔۔"وہ شرافت سے کہتا سیدھا ہوا۔"وہ ایکچولی میں نے آج تک اتنی گہری نیلی شفاف آنکھیں نہیں دیکھیں اسلیے کھو سا گیا تھا۔"وہ ہنس کر ایک نظر ہاشم کی طرف دیکھ کر بولا۔جسکا چہرہ لال ہورہا تھا۔آگ چھلکاتیں سیاہ آنکھیں ان پر تھیں۔نازلی نے جب نظر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا تو گھبرا سی گئی۔

"آپ جانتی ہیں ہاشم خان کو؟"جمال آغا نے سرگوشی کی۔

"نن۔ ۔۔نہیں تو۔۔۔"نازلی نے گھبرا کر ہاشم سے نظریں ہٹائیں پھر جلدی سے جمال آغا سے ایکسکیوز کرتی وہاں سے نکلی تھی جبکہ جمال آغا نے خباثت سے مسکرا کر پہلے نازلی کی پشت کو دیکھا پھر ہاشم کو جو تابین کی بات سن رہا تھا۔پر اسکی تمام توجہ نازلی کی طرف تھی۔اسکی مٹھیاں مظبوطی سے بھینچیں ہوئی تھیں۔وہ غصہ قابو کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا۔اس بات سے انجان کہ اسکا دشمن اسکی کمزوری جان گیا تھا۔اسکی حالت سمجھ کر جمال آغا قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔کچھ دیر بعد تپا سا ہاشم ، تابین سے ایکسیوز کرتا وہاں سے نکلتا چلا تھا۔

اسے جاتے دیکھ کر جمال آغا نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔اب وہاں مسکراہٹ کا نام و نشان نہ تھا۔سرد آنکھیں ، سنجیدہ چہرے سے اسنے حسن آفندی کے ساتھ کھڑی نازلی کو دیکھا۔

مہرہ اسکے ہاتھ لگ چکا تھا۔بس اب اسے اپنی چال چلنی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"الفت بنا رقیب کے دیتی نہیں مزہ۔" 

"الجھن اگر نہ ہو ، محبت فضول ہے۔"

مظبوطی سے اسٹیرنگ وہیل تھامے ،دانت پیستا ، سرد نظروں سے روڈ کو دیکھتا وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔وہ جلتے دل کے ساتھ حسن ولا سے نکلا تھا۔اسکے سر پر غصہ سوار تھا۔بار بار وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔جمال آغا نے نازلی کا ہاتھ تھام رکھا تھا ، اسکے قریب جھکا کچھ کہہ رہا تھا ، مسکرا کر اس سے باتیں کر رہا تھا۔یہ سب منظر اسے آگ لگا رہے تھے۔وہ اسکی تھی تو پھر کوئی دوسرا کیسے اسے ہاتھ لگا سکتا تھا؟ کیسے اسکے قریب ہو سکتا تھا؟اس پر صرف ہاشم خان کا حق تھا۔

وہ سوچوں میں گم ڈرائیو کر رہا تھا جب پیچھے سے ایک کار ہارن پر ہارن دیتی تیز اسپیڈ سے اسکی کار کے سامنے آ کر رکی۔ہاشم نے جلدی سے بریک پر پاؤں رکھا۔اگر وہ صحیح وقت پر بریک نہ لگاتا تو سامنے والے کی کار سے اسکی کار ٹکرا چکی ہوتی۔

وہ غصے سے کھولتا کار سے باہر نکلا تھا۔سامنے والی کار سے اسنے جس بندے کو نکلتے دیکھا تو اسکا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔وہ تپ کر آگے بڑھا اور سامنے والے کو گریبان سے  پکڑا۔"اندھے ہو ۔۔۔۔ یہ کیا حرکت تھی۔۔۔۔ہوش میں ہو کہ نہیں یو سائیکو۔"ہاشم دانت پیس کر غرایا۔ 

"کول مین کول۔"جمال آغا کمینگی سے مسکرایا۔"تم سے بات کرنی تھی ہاشم خان۔صبح تک کا انتظار نہیں کر سکا تو سوچا ابھی ہی کر لوں۔"وہ شاطرانہ انداز میں بولا تو ہاشم نے  اسے جھٹکے سے چھوڑا پھر سرد نظروں سے گھورنے لگا۔ 

"تمہیں پتہ ہے آج میں بہت خوش ہوں۔"جمال آغا اسکے چہرے کو بغور دیکھ کر ہنسا۔

"بکواس نہیں سننی مجھے۔"ہاشم چبا کر کہتا جانے کے لیے پلٹا۔

"نازلی حسن آفندی سے مطلق بات تمہارے لیے بکواس تو ہرگز نہیں ہوگی۔۔۔"نازلی کے نام پر ہاشم جھٹکے سے اسکی طرف  پلٹا۔

"مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا؟"ہاشم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس خبیث انسان کا منہ توڑ دے۔ 

"مطلب یہ ہاشم خان کہ تمہارے دل کا راز تمہارے اس دشمن نے پا لیا ہے۔"وہ شانے اچکا کر مسکرایا۔"تمہاری نظروں کی تپش ، تمہارے دل کی جلن اس جمال آغا نے محسوس کر لی ہے۔"وہ مزے سے بولا۔"ویسے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر ہم دونوں دوست ہوتے تو کمال کے ہوتے ایک دوسرے کو بڑے اچھے سے جانتے جو ہیں۔پر اب کیا کیا جائے کہ دشمنی نے اپنی جڑیں اس قدر مظبوط کر لیں ہیں کہ دوستی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔"اسنے مدھم سا مسکرا کر ہاشم کے سپاٹ چہرے کو دیکھا پھر بولا"بڑا غصہ آیا ناں تمہیں اسے میرے برابر کھڑا دیکھ کر؟"اسنے ابرو اٹھایا۔"میرا بھی یہی حال تھا جب تابین حسن آفندی میری محبت ہوتے ہوئے بھی تمہاری دیوانی تھی۔"اپنی بات پر اسنے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔ "دیوانی تھی نہیں آج بھی ہے۔آج بھی اسے ہاشم خان کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔آج بھی اسے صرف ہاشم خان چاہیے۔"اسنے لال آنکھوں سے ہاشم کے چہرے کو دیکھا۔

"تابین حسن آفندی اس دل میں رہتی ہے پر آج سے نازلی حسن آفندی نے دماغ پر قبضہ کر لیا ہے اور دل سے زیادہ دماغ پر جو چیز حاوی ہو جائے وہ تباہی مچاتی ہے۔اب تابین حسن آفندی ملے نہ ملے پر اب جمال آغا نازلی حسن آفندی کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ وہ تو میری ۔۔۔۔۔"اسکے منہ سے نکلتے الفاظ ہاشم کا دماغ گھما گئے۔اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ہاشم کا ہاتھ گھوما تھا اور جمال آغا لڑکھڑا کر پیچھے کھڑی گاڑی سے ٹکرایا۔ہاشم کے بھاری ہاتھ کا مکا اسکے منہ پر اس شدت سے پڑا تھا کہ جمال آغا کے منہ سے خون رسنے لگا۔

"اب اگر تم نے ایک اور لفظ منہ سے نکالا تو یہی زندہ گاڑ دونگا سمجھے۔"ہاشم غصے سے پاگل ہوتا دھاڑا تھا۔جبکہ جمال آغا سیدھا ہوتا انگوٹھے سے خون صاف کرتا ہنس کر خون پر نظریں جما کر دیکھنے لگا۔

"آہ ۔۔۔ تمہارے مکے نے درد کے بجائے اس دل کو سکون پہنچایا ہے۔"وہ کمینگی نے ہنسا۔"دل گارڈن گارڈن ہوگیا واللہ۔"وہ دل پر ہاتھ مار کر بولا 

"ہاشم خان دی گریٹ عشق میں مبتلا ہوگیا ہے اور اب ہاشم خان کی محبت جمال آغا کی مٹھی میں ہوگی۔"اسنے اعلان کرنے والے انداز میں کہا پھر ہاشم کی آنکھوں میں دیکھا۔"پھر چاہے کتنا ہی خون کیوں نہ بہے۔"اسکا لہجہ بلا کا سرد تھا۔

"لیٹ دی گیم بیگن۔"اسنے سپاٹ انداز میں کہا پھر پلٹ کر جانے لگا جب ہاشم نے ایک دم دائیاں ہاتھ بڑھا کر اسے کالر سے پکڑا۔"تم کیا سمجھتے ہو کہ ہاشم خان تمہیں جیتنے دے گا؟" ہاشم نے ابرو اٹھا کر پوچھا پھر مسکرا کر نہ میں سر ہلایا۔ "ہاشم خان جس نے تمہیں اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک اور پھر بزنس کے میدان میں ہر قدم پر مات سے دو چار کیا وہ کیا تمہیں اپنی زندگی سے یوں کھیلنے دے گا؟بھول ہے تمہاری جمال آغا۔۔۔۔ تم نے کیا ہاشم خان کو اتنا کمزور سمجھا ہے؟"بات کرتے اسکے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"وہ صرف میری ہے۔اسے حاصل کرنے کے لیے ہاشم خان کچھ بھی کر گزرے گا۔تم سو چالیں چل کر دیکھ لو پر شہ اور مات کا فیصلہ ہاشم خان کریگا۔"اسنے چبا کر کہتے ایک جھٹکے سے جمال آغا کا کالر چھوڑا۔جمال آغا غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔ہاشم نے سنجیدگی سے اسکے چہرے کو دیکھا۔"اور ہاں ایک بات یاد رکھنا یہ کھیل شروع تم نے کیا ہے پر اسکا اختتام میں کرونگا۔"اسنے انگلی اٹھا کر وارن انداز میں کہا۔"جاؤ گھر جا کر آرام سے بیٹھ کر اپنی چالیں سوچوں۔تمہیں سوچنے میں وقت بھی تو زیادہ لگتا ہے۔تبھی ہمیشہ ہاشم خان سے دو قدم پیچھے ہی رہتے ہو۔" ہاشم نے طنزیہ مسکرا کر چڑانے والے انداز میں کہہ کر اسکا کندھا تھپکا۔"شب بخیر"مدھم مسکراہٹ کے ساتھ جمال آغا کے سرخ چہرے کو دیکھ کر بولا پھر اپنا کوٹ جھاڑ کر پلٹا تو اگلے پل چہرے پر سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ کار میں بیٹھا اور زن سے کار آگے بڑھا دی۔

جمال آغا نے نفرت سے اسکی دور ہوتی کار کو دیکھا اسکی باتوں نے جمال آغا کے زخموں پر نمک چھڑکا تھا۔

"دیکھ لونگا تمہیں ہاشم خان۔۔۔۔"اسنے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو ہاشم کے بھاری ہاتھ کا مکا یاد آیا۔اسنے ہاتھ بڑھا کر ہونٹ کے کونے کو چھوا وہاں سے اب بھی خون نکل رہا تھا۔سرد نظروں سے اپنے ہاتھ پر لگے خون کو دیکھتا گالیاں بکتا وہ اپنی کار میں بیٹھا تھا۔

جے تیرے خیال نہ آوے 

تاں اے دنیا وی سُنی آں 

نینداں وچ وی تیری آں 

خواباں وچ وی ہنُی آں 

فدا سجنا ۔۔۔ سدا سجنا 

میں آؤں گی۔۔۔نبھاؤں گی

میں جو اقرار کردی آں۔۔۔

وے تو تاں سوچ وی نئیں سکدا 

کہ کناہ پیار کردی آں۔۔۔

تیرے بنا وی مردی وے 

تیرے تے وی مردی آں

کمرے کی خاموشی میں گانا بج رہا تھا۔نور کھلی کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی جبکہ آبی بیڈ پر نیم دراز تھی۔اسنے گھڑی دیکھی جہاں رات کے گیارہ چالیس بج رہے تھے۔پھر نور کی پشت کو دیکھا جو مگن سی باہر دیکھتی گانا سن رہی تھی۔

آبی بیڈ سے اٹھی۔سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر گانا بند کیا پھر نور کی طرف بڑھی۔

"اوئے محبت کی ماری دیوانی بی بی ۔۔۔۔ہوش میں آجاؤ اب۔"وہ نور کے کندھے پر چپت لگا کر بولی۔نور ایک دم چونک کر  اسے دیکھتی مسکرانے لگی۔پھر آنکھیں گھما کر بولی۔

"کیا لطیف شے ہے محبت نہ پوچھیے۔"

"اس میٹھے میٹھے درد کی لذت نہ پوچھیے۔"

"ہائے ربا یہ محبت۔۔۔۔ ہوش میں آجاؤ لڑکی۔"آبی نے اسے جھنجھورا تھا۔ 

"تمہیں جب محبت ہوگی ناں تب تم بھی ہوش کھو بیٹھو گی۔"نور خواب کی سی کیفیت میں بولی۔آج اسکا موڑ بہت خوشگوار تھا۔ 

"ابھی تو تم ہوش میں آؤ اور ذرا گھڑی پر نظرِ کرم فرماؤ۔"آبی تپ کر بولی۔اسکی بات پر نور نے چونک کر گھڑی دیکھی۔بارہ بجنے میں دس منٹ رهتے تھے۔

"ہائے اللہ۔۔۔۔"نور نے سر پر ہاتھ مارا۔

"جلدی سے گفٹ لو اور بھاگو چڑیل۔۔۔۔"آبی کے کہنے پر وہ جلدی سے بھاگ کر الماری کی طرف گئی۔اندر سے خوبصورت سا پِیک باکس نکالا۔ اس میں شہریار کی فیورٹ پرفیوم تھی۔جسکی خوشبو ہمیشہ ماہ نور کے حواس پر چھائی رہتی تھی جو ہر وقت اسے اس شخص کی موجودگی کا احساس دلاتی تھی۔

اسنے نظر اٹھا کر آبی کو دیکھا۔

"یار مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"اسنے منہ بسور کر کہا۔

"ڈر گیا تیل لینے ۔۔۔ جاؤ جلدی اور وش کر کے گفٹ دو لالہ کو ۔۔۔انہوں نے فدا ہوجانا ہے تم پر۔"آبی آنکھ دبا کر بولی۔

"ہو ہی نہ جائیں۔۔۔"نور نے منہ بنایا۔ 

"اب جاؤ بھی۔۔۔۔بارہ بجنے والے ہیں۔"آبی نے اسے دروازے کی طرف دھکیلا۔

"دعا کرنا ۔۔۔ تمہارے جلاد بھائی سے بچ جاؤں۔"وہ دروازے سے نکلتی پلٹ کر بولی تھی۔

"بھاگو بھی اب نور کی بچی۔۔۔۔"آبی اسے گھور کر آگے بڑھی تو وہ جھٹ سے دروازہ بند کرتی بھاگ گئی۔اسکے جاتے ہی آبی مسکرائی۔"یہ نور بھی ناں بالکل پاگل ہے۔"وہ بڑبڑا کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔

نور نروس سی شہریار کے روم کے باہر کھڑی تھی۔لمبی سانس کھینچ کر اسنے دروازے پر دستک دی۔دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو وہ خاموشی سے کھڑی رہی جب اُسکی بھاری آواز اسکے کانوں میں پڑی۔"آجاؤ۔۔۔"نور دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔اسنے سامنے بیڈ کو دیکھا تو بیڈ خالی تھا۔پھر کمرے میں نظر دوڑائی۔شہریار الماری کھولے کھڑا کپڑے اِدھر سے اُدھر کر رہا تھا۔نور نے اسکی پشت کو دیکھا۔وہ پلٹنے لگا تو اسنے جلدی سے گفٹ والا ہاتھ پیچھے کیا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"حیرت سے پوچھا گیا۔ 

"وہ آپکی برتھڈے ہے ناں۔"نور نے مدھم آواز میں کہا 

"ہاں ۔۔۔ تو"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔ 

"ہیپی برتھڈے شہریار۔"اسنے مسکرا کر گفٹ والا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔ 

"میں کوئی بچہ نہیں ہوں۔"وہ سنجیدگی سے کہتا دوبارہ کام میں مصروف ہوا۔ 

"پر میں یہ بہت دل سے آپکے لیے لائی ہوں۔"اسنے آگے بڑھ کر گفٹ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ 

"مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔ لے جاؤ اسے۔"وہ الماری سے ایک شرٹ نکال کر بیڈ پر رکھنے لگا۔جبکہ ماہ نور اسکی بات کو اگنور کرتی جانے کے لیے پلٹنے لگی جب شہریار نے جھٹ سے اسکا بازو تھام لیا۔ 

"اسے لیتی جاؤ۔"اسنے باکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"نہیں ۔۔۔"نور نے نہ میں سر ہلا کر مسکراتے ہوئے کہا۔ 

"کیوں نہیں۔۔۔"اسکی پیشانی پر بل پڑے۔

"کیونکہ میں یہ اسپیشلی آپکے لیے لائی ہوں۔آپ کو لینا پڑیگا اور اگر نہیں چاہیے تو پھینک دیجیے گا پر میں واپس نہیں لونگی۔"نور نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے کہا 

"ہر وقت کی ضد اچھی نہیں ہوتی۔"وہ تپا تھا۔ 

"بالکل ۔۔۔ اسلیے خاموشی سے اس گفٹ کو قبول کر لیں۔"وہ مسکرا کر بولی۔شہریار نے اسے گھورا۔آج تو محترمہ کے انداز ہی بدلے ہوئے تھے۔"جاؤ یہاں سے۔۔۔"شہریار نے جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا تھا۔ 

"جا ہی تو رہی تھی پر آپ نے ہی روک لیا۔"وہ چڑانے والے انداز میں کہتی مسکرانے لگی تھی۔ 

"گیٹ آوٹ ماہ نور۔"شہریار نے چبا کر دروازے کی طرف اشارہ کیا۔

"تھوڑے انگارے چبائیں ۔۔۔۔ جا رہی ہوں۔"وہ مدھم سی مسکرا کر پلٹی۔اسکا پر سکون انداز شہریار کو غصہ دلا رہا تھا۔

کمرے کی دہلیز تک جا کر اسنے گردن پھیر کر شہریار کو دیکھا۔

"شب بخیر منگیتر صاحب۔"وہ ہنسی دبا کر شرارت سے بولی۔شہریار نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔وہ چھوٹی سی لڑکی اس قسم کی باتیں کر کے اسکا بلڈ پریشر ہائی کر رہی تھی۔

"ماہ ۔۔۔۔"وہ غصے سے آگے بڑھا پر اس سے پہلے ہی وہ ہنس کر  دروازہ بند کرتی وہاں سے بھاگ گئی۔

شہریار طیش سے پلٹا۔سائیڈ ٹیبل سے گفٹ اٹھا کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ہاتھ اٹھا کر اسنے گفٹ کو کھلی کھڑکی سے باہر پھینک دینا چاہا پر پھر ایک دم سے رک گیا۔ہاتھ آہستہ سے نیچے کیا۔ایک نظر اس پیک باکس پر ڈالی پھر جانے دل میں کیا سمائی کہ الماری کی طرف بڑھا۔ہاتھ میں پکڑا گفٹ اندرونی دراز میں رکھ کر اسے لاک کیا۔پھر لمبی سانس کھینچ کر الماری بند کرتا صوفے پر بیٹھ کر دکھتی آنکھیں موند گیا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"کوئی آیت ۔۔۔"

"کوئی جادو۔۔۔"

"کوئی تعویز لا دو۔۔۔"

"مجھے عمر بھر اسکے ساتھ رہنا ہے۔۔۔"

سنہری دھوپ تلے لان میں رنگ برنگے پھولوں کے بیچ کھڑی وہ کانچ سی لڑکی کینوس پر برش پھیر رہی تھی۔وہ اپنے کام میں اس قدر مگن تھی کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ کوئی اسکے عین پیچھے کھڑا اسکے کام کو دیکھ رہا تھا۔

اسکا برش ایک دم رکا تھا پر نظریں اب بھی پینٹنگ پر جمی تھیں۔برش کو ہاتھ میں تھامے وہ تفصیل سے اپنی مکمل کی گئی پینٹنگ کو مگن سی دیکھ رہی تھی۔

وہ بھی کینوس پر پینٹ اس خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا۔انتہا کا حسین چہرہ تھا۔روشن پر نور آنکھ ، مغرور کھڑی ناک، شفق کی لالی لیے گال ، گلاب کی پتیوں جیسے ہونٹ ، سیاہ ناگن جیسے بال جس کی ایک لٹ اس گلابی گال کو چھو رہی تھی۔بے حد خوبصورت مگر ادھورا چہرہ۔۔۔۔۔۔ اس نے صرف چہرے کی ایک سائیڈ پینٹ کی تھی اور جس انداز میں وہ اس پینٹنگ کا جائزہ لے رہی تھی وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اپنی طرف سے اسے مکمل کر چکی ہے۔

وہ سوچنے لگا اسنے اس حسین چہرے کو ادھورا کیوں پینٹ کیا؟اگر وہ اسے مکمل کرتی تو وہ پینٹنگ ایک خوبصورت شاہکار بن سکتی تھی۔وہ ایک قدم اور اسکے قریب آیا پھر اسکے کان کے قریب جھکا۔

"اس قدر حسین ، اس قدر خوبصورت چہرہ پر ادھورا کیوں ہے؟"وہ گھمبیر آواز نازلی کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ ایک دم کانپی تھی۔ہاتھ میں پکڑا برش نیچے گر گیا۔وہ جھٹ سے پلٹی تو اپنے چہرے سے بالکل قریب اس نے اس وجیہہ چہرے کو پایا۔اس شخص کو دیکھ کر اسکا دل باہر آنے کو تھا۔وہ جلدی سے چند قدم پیچھے ہوئی۔نیلے نین حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے۔وہ انکے گھر میں کیسے آگیا؟ شاید وہ بھول رہی تھی کہ تابین بھی اسی گھر میں رہتی ہے اور وہ اس سے ملنے کبھی بھی آ سکتا تھا۔وہ روکنے والی کون ہوتی ہے؟ 

"آپ۔۔۔۔ یہاں کس لیے؟"اسنے خوف سے پوچھا

"آپ کے لیے۔"دوسری طرف سے مسکرا کر جواب دیا گیا۔ 

"چلے جائیں یہاں سے۔"وہ ارد گرد نظر دوڑا کر بولی جبکہ وہ خوف کے حصار میں قید ان نیلی آنکھوں کو بغور دیکھنے لگا۔ 

"تمہیں لے کر جاؤنگا۔۔۔۔ چلو گی؟"اسنے دلکشی سے مسکرا کر پوچھا تھا۔

"ہاشم خان۔۔۔"نازلی نے گھور کر اس شخص کو دیکھا۔

"آپکے لب اور ہمارا نام۔۔۔بہت اچھا سا لگا ہے۔"وہ مدھم سا  مسکرایا۔اسے نازلی کے منہ سے اپنا نام سن کر بہت اچھا لگا تھا۔اسکے انداز پر نازلی کا چہرہ لال ہوا تھا۔

"آپ جو کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔"وہ تپی تھی۔

"مجھے معلوم ہے کہ میں جو کر رہا ہوں وہ بالکل ٹھیک ہے۔"ہاشم نے مسکرا کر کہا پر اسکا لہجہ بلا کا ضدی و اٹل تھا۔نازلی مٹھیاں بھینچ کر رہ گئی۔اسے اس قدر غصہ کبھی نہیں آیا تھا جتنا وہ شخص اسے دلا رہا تھا۔اسکے لال چہرے کو دیکھ کر ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔ 

"ویسے مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری نازلی غصے میں اس قدر حسین لگتی ہے۔"اسنے میری نازلی پر زور دے کر کہا۔نازلی کے گال دھک اٹھے۔"اور اب تو ویسے بھی اس چہرے کے تمام رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔کیوں ٹھیک کہا ناں؟"وہ مسکرا کر اسے محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"آپ۔۔۔۔ آپ مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟"اسکی بات پر نازلی کا دل کانپنے لگا تھا۔کتنا جنونی انداز تھا اس شخص کا۔۔۔۔ 

"تمہیں بتایا تو تھا۔۔۔۔ یا بھول گئی ہو؟ بالکل ویسے ہی جیسے ہماری پہلی ملاقات بھولی ہوئی ہو؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

"مجھے کچھ یاد نہیں کرنا ۔۔۔ آپ پلیز میرا پیچھا چھوڑ دیں ، مجھے معاف کر دیں۔"اسکا دل ڈر رہا تھا پر اسنے اپنا لہجہ مضبوط کر کے دل کی بات کہہ ڈالی۔

"ہاتھ جوڑ کے معافی مانگو پھر معاف کرونگا۔"وجیہہ چہرے پر مدھم مسکراہٹ اور سیاہ آنکھوں میں شرارت لیے اسنے نازلی کو دیکھا۔اففف وہ شخص جادو گر تھا۔اس انداز میں وہ اتنا دل دھڑکا دینے والا لگ رہا تھا کہ اگر نازلی اپنا ڈر بھلا کر ایک نظر اسکی آنکھوں میں دیکھ لیتی تو ضرور اپنا دل ہار بیٹھتی پر وہ لڑکی بے چین نظروں سے ارد گرد دیکھنے میں مصروف تھی کہ اگر ہاشم خان کو اسکے ساتھ کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟

"یہ لیں۔۔۔"اس کی بات پر وہ جھٹ سے ہاتھ جوڑ گئی۔"اب جائیں اور کبھی  واپس مت آئیے گا۔"اسنے مدھم آواز میں  منت بھرے لہجے میں کہا۔

اسکے انداز پر ہاشم کا دل کیا اسے اپنے دل میں چھپا لے۔وہ لڑکی اسکی سانسوں میں بس گئی تھی۔وہ کیونکر اسے چھوڑ دیتا۔۔۔۔اس گڑیا کے ساتھ تو اس شہزادے کی سانسیں جڑ گئیں تھیں۔

"جب تک تمہیں یہاں سے لے کر نہیں چلا جاتا تب تک تو واپس آنا ہی پڑیگا۔"وہ اب کی بار سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

"میں آپی کو سب بتا دونگی۔"نازلی نے اسکی باتوں سے تنگ آ کر اسے دھمکی دی۔اسکی بات پر ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔اس کی معصوم سی دھمکی پر ہاشم کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔وہ سیاہ دلکش آنکھیں نازلی کے چہرے کے ایک ایک نقش کو دل میں اتار رہی تھیں۔وہ ایک دم اسکی طرف بڑھنے لگا تو نازلی ڈر کر پیچھے ہٹی۔ 

اس سے دو قدم کے فاصلے پر رک کر وہ اسے دیکھ کر بولا۔"تم شوق سے اپنی بہن کو سب کچھ بتاؤ۔پر کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ تمہاری بات مان لے گی؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔وہ ان دونوں بہنوں کے رشتے سے واقف تھا۔وہ جانتا تھا کہ اسکے سامنے کھڑی یہ پاگل لڑکی تابین سے بہت محبت کرتی تھی پر تابین کو اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔اسکی بات پر ان نیلی آنکھوں میں اداسی اتر آئی۔وہ شخص ان بہنوں کے تعلق کے  بارے میں سب جانتا تھا۔وہ اسکے آگے اسے اور کیا کہتی۔۔۔۔ وہ نظریں جھکا کر سائیڈ سے ہو کر جانے لگی جب اس نے نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں لیا۔

"ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے جو آپکو کچھ نہ سمجھتے ہوں۔ایسے لوگوں کے پیچھے خود کو بے مول مت کرو۔بہت قیمتی ہو تم ہاشم خان کے لیے۔۔۔ اور جو ہاشم خان کے لیے قیمتی ہو وہ اسے بے مول هوتے نہیں دیکھ سکتا۔"اسنے مدھم آواز میں ان جھکی آنکھوں کو دیکھ کر کہا۔

نازلی کی جھکی آنکھوں میں ایک دم نمی جمع ہونے لگی۔جانے کیوں پر اس شخص کی باتیں سیدھی اسکے دل پر لگ رہی تھیں۔شاید وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ایک پل کو اسکے دماغ میں یہ سوچ آئی پر اگلے پل وہ جلدی سے سر جھٹک گئی۔وہ کونسا اسکا خیر خواہ تھا جو وہ اسکی باتوں کو دل پر لیتی۔جب سے ملا تھا تب  سے اسنے نازلی کے دل کو خوف کے حصار میں جکڑ رکھا تھا۔

پھر اسکے کہنے پر وہ کیوں اپنوں سے منہ موڑتی۔۔۔کیسے ان  کی پرواہ نہ کرتی۔اسکے پاس صرف چند ہی تو رشتے تھے پھر وہ کیسے انہیں کھو بیٹھتی۔کبھی نہیں ۔۔۔ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتی تھی۔

"میرا ہاتھ چھوڑیں۔"اسنے اپنے دوسرے ہاتھ سے اسکے ہاتھ  کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔ہاشم نے ایک نظر اسکی جھکی آنکھوں کو دیکھا پھر بولا۔"تمہاری یہ حسین مگر ادھوری پینٹنگ جلد مکمل ہوگی۔۔۔۔۔۔"اسنے زو معنی انداز میں کہا۔نازلی نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔اس شخص کے الفاظ اسے بہت کچھ سمجھا رہے تھے۔اسنے سر جھٹک کر پیچھے دیکھا تو دور سے تابین انکی طرف آ رہی تھی۔نازلی کے چہرے سے ہوائیاں اڑنے لگیں۔

پلیز میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ آپی آرہی ہیں۔"اسنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے منت بھرے لہجے میں کہا۔

"تم تو اپنی آپی کو سب بتانے والی تھی ناں ۔۔۔ تو آ لینے دو اسے۔۔۔اچھا ہے کہ وہ سب جان جائے۔"وہ پر سکون سا مسکراتا نازلی کی حالت دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔

"پلیز ۔۔۔۔میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔"اسنے مدھم آواز میں کہتے نم آنکھوں سے ہاشم کو دیکھا۔ہاشم نے جب اسکی نیلی جھیل آنکھوں میں دیکھا تو اگلے پل آہستہ سے اسکا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کیا۔

"کیا ہوا؟"تابین انکے قریب آتی بولی تھی۔

"میں نے انکی پینٹنگ کی تعریف کی تو محترمہ ڈر کے اچانک پلٹیں تو انکا پاؤں مڑ گیا میں نے انہیں تھام کر گرنے سے بچا لیا۔"ہاشم نے اطمینان سے جواب دیا جبکہ نازلی چہرہ پھیر کر خاموشی سے آنسو بہاتی اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔

"اوہ اچھا۔۔۔"تابین نے سرسری نظر سے نازلی کی پشت کو دیکھا پھر ہاشم کا بازو تھاما۔

"چلیں؟"وہ ہاشم کو دیکھ کر پیار سے بولی 

"ہوں۔۔۔۔ چلو۔"وہ ایک نظر نازلی کی پشت پر ڈال کر تابین کے ساتھ جانے کے لیے پلٹا۔

کار سٹارٹ کرتے اسنے دور سے اس سنہرے روپ والی لڑکی کو دیکھا تھا۔وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا پر وہ جانتا تھا کہ وہ رو رہی ہوگی۔یہ کیسی محبت تھی اسکی کہ وہ اپنے ہر پیارے کو آنسوؤں کا تحفہ دیتا تھا۔۔۔۔پر وہ کیا کرتا۔۔۔۔وہ ایسا ہی تھا۔۔۔محبت میں جنونی ۔۔۔ضد کا پکا۔۔۔ فیصلوں کا اٹل۔۔۔

نازلی آنسو پونچھتی چیزیں اٹھا کر اندر کی طرف بڑھی۔اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ اس پاگل شخص کو اور برداشت نہیں کریگی۔وہ کل ہی جا کر آنی کو اسکے بارے میں بتا دے گی۔پھر آگے جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔

وہ دونوں یونی سے سیدھی بک شاپ آئی تھیں۔آبی میڈم کو ناول لینا تھا تو وہ اسے بھی گھسیٹ لائی تھی۔

وہ دونوں کتابیں چیک کر رہی تھیں۔جس ناول کے لیے آبی یہاں آئی تھی وہ ابھی تک اسے نہیں ملا تھا۔وہ آگے بڑھ کر بک شیلفز چیک کر رہی تھی۔جب تھوڑی آگے اسے نمل ناول کا کور دکھائی دیا۔وہ خوشی سے آگے بڑھی ، ہاتھ بڑھا کر ناول کو اٹھانا چاہا جب دوسرا ہاتھ بھی ناول کی طرف بڑھا۔آبی نے چونک کر سامنے دیکھا۔وہاں ایک خوش شکل سا لڑکا کھڑا تھا۔اسکے دیکھنے پر ایک دم مسکرایا پھر ناول اٹھا لیا۔آبی نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اسکے ہاتھ میں پکڑے ناول کو۔وہاں صرف ناول کی ایک ہی کاپی تھی اور اسے یہ ناول ہر حال میں چاہیے تھا۔

"یہ میرا ناول ہے۔"اسنے گھور کر سامنے والے کو دیکھا۔

"پر میں نے تو سنا تھا کہ نمرہ احمد کا ہے۔"وہ مسکراہٹ دبا کر بولا

"افوہ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ یہ ناول میں نے لینا تھا۔"اسنے جھنجھلا کر سر پہ ہاتھ مار کر کہا 

"پر یہ میں نے لے لیا ہے۔"اس لڑکے نے مزے سے کہا۔ 

"دیکھیں مسٹر میں اسے اٹھانے ہی والی تھی کہ آپ نے اٹھا لیا۔مجھے کب سے یہ ناول پڑھنا تھا پر بک شاپ آنا ہی نہیں ہوا اور اب میں آگئی ہوں اور ناول بھی میری نظروں کے سامنے موجود ہے تو آپ بیچ میں کیوں آرہے ہیں۔۔۔"وہ ایک سانس میں بولتی چلی گئی۔

"آپ مجھے ولن ثابت کرنا چاہتی ہیں۔"وہ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔

"ہین۔۔۔۔"آبی نے ہونق انداز میں اسے دیکھا۔

"بھئی آپ نے ہی تو کہا ہے کہ میں آپکے اور اس ناول کے بیچ آگیا ہوں تو بیچ میں تو ولن ہی آتا ہے ناں۔"اسکی ہونق صورت دیکھ کر اسنے مشکل سے اپنی ہنسی کا گلہ گھونٹا۔

"اچھا اچھا ۔۔۔"آبی نے سمجھ کر سر ہلایا۔

"شکر آپکو سمجھ تو آئی۔"اسکی بات پر آبی نے اسے گھورا  تھا۔

"دیکھیں مسٹر آپ زیادہ سمارٹ نہ بنیں اور۔۔۔۔"

"احد عالم۔۔۔"اسنے آبی کی بات کاٹ کر کہا۔

"جی۔۔۔"آبی نے اسے دیکھا۔

"مجھے احد عالم کہتے ہیں۔"اسنے شرارت سے آبی کو دیکھا۔

"تو میں کیا کروں۔۔"وہ تپ کر بولی۔ 

"مسٹر کی جگہ میرا نام استعمال کریں۔"اسنے آبی کی آنکھوں میں دیکھا۔آبی گڑبڑا کر نظریں پھیر گئی۔

"ویسے آپکا نام کیا ہے۔"احد نے مسکرا کر پوچھا۔

"کیوں بتاؤں۔۔۔۔ میں اجنبی لوگوں کو اپنا نام نہیں بتاتی۔"آبی نے آنکھیں سکڑ کر اسے دیکھا۔

"اوئے آبی ۔۔۔ کس سے باتیں کر رہی ہو۔جلدی کرو گھر بھی جانا ہے۔"نور بولتی ہوئی اسکے برابر میں کھڑی ہوئی۔اسکے نام لینے پر احد قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا جبکہ آبی کا دل چاہا وہ نور کی بچی کا سر پھوڑ دے۔غلط وقت پر انٹری لی تھی منحوس  نے۔۔۔۔ اسنے دانت کچکچا کر نور کو گھورا۔

"کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟"نور نے حیرت سے پوچھا۔

"کچھ نہیں ۔۔۔"آبی چبا کر کہتی اس لڑکے کو دیکھنے لگی۔جو دانت نکال رہا تھا۔

"یہ لیں آبی صاحبہ۔۔"اسنے ہنس کر اسکے نام پر زور دے کر کہا پھر آبی کا ہاتھ تھام کر ناول اسکے ہاتھ پر رکھا۔آبی نے ناول تھام کر جھٹ سے ہاتھ پیچھے کیا۔

"ویسے اب ناول پڑھ کے آپکو مجھے بھی سنانا پڑیگا۔"وہ شرارت سے بولا 

"زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔میں کیوں آپکو ناول سنانے لگی۔"اسنے جل کر اس مسکراتے شخص کو دیکھا جبکہ نور ہونق بنی اس دونوں کو دیکھ رہی تھی۔یہ چل کیا رہا تھا؟ 

"ہوسکتا ہے وقت ہمیں پھر سے سامنے لے آئے پھر تو آپ سے ضرور ناول سنوں گا۔"وہ ہنس کر انہیں بائے کرتا وہاں سے چلا گیا۔وہ دونوں لڑکیاں حیران سی کھڑی رہ گئیں۔نور نے چونک کر آبی کا کندھا ہلا کر پوچھا۔"یہ کون تھا۔"

"یہ ایک پاگل آدمی تھا جو میرا دماغ کھا رہا تھا۔"آبی نے دانت پیس کر کہا۔

"پر کیوں؟؟"نور نے مسکرا کر اسکے لال چہرے کو دیکھا۔

"کیونکہ اسکا دماغ خراب تھا۔"وہ کھا جانے والے انداز میں کہتی وہاں سے کاؤنٹر کی طرف بڑھی جبکہ نور ہنسی دباتی اسکے پیچھے گئی۔

کاؤنٹر کے پاس وہ بھی کھڑا تھا۔جاتے ہوئے وہ آبی کی طرف تھوڑا سا جھکا۔"پھر ملیں گے۔"ہنس کر کہتا وہ جھٹ سے شاپ سے باہر نکل گیا۔ 

"تم سے ملتی ہے میری جوتی۔"آبی کو اسکی بات پر خوب غصہ آیا۔کتابیں اٹھا کر وہ شاپ سے باہر نکلی۔اسکے پیچھے آتی نور اسکی حالت کو انجوائے کرتی ہنسنے میں مصروف تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ مایوس سی آنی کے گھر سے واپس لوٹی تھی۔وہ آنی کو ہاشم خان کے بارے میں بتانے گئی تھی پر آنی نے اس سے پہلے ہی اسے بتا دیا کہ کل انکی فلائٹ ہے۔وہ لوگ عمرہ پر جا رہے تھے۔اسد بھائی نے انہیں اچانک سرپرائز دیا تھا۔آنی بہت خوش تھیں اسلیے وہ اپنی وجہ سے انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ انکے ساتھ تھوڑا وقت گزار کر واپس لوٹ آئی تھی۔

وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو تابین اور جمال آغا کو اپنی طرف آتے دیکھا۔انہیں سلام کر کے وہ سائیڈ سے ہو کر جانے لگی جب جمال آغا نے اسے پکارا۔

"نازلی۔۔"اسنے رک کر اسے دیکھا۔

"ہم شاپنگ پر جا رہے ہیں۔تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔"وہ نازلی کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا 

"نہیں وہ میں۔۔"اسکی بات کاٹ کر وہ جلدی سے بولا 

"ارے تابین بولو اسے یار کہ ساتھ چلے۔۔۔۔ اس طرح مجھے بھی اپنی کزن کو جاننے کا موقع ملے گا۔"وہ سرد آنکھوں سے نازلی کو دیکھتا مسکرایا تھا۔

"افوہ نازلی چلو یار ۔۔۔ ورنہ اس نے پیچھا نہیں چھوڑنا۔"تابین نے موبائل پرس میں ڈال کر کہا۔

"پر آپی۔۔۔"نازلی جانا نہیں چاہ رہی تھی۔

"کم آن یار چلو۔۔۔"تابین نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھاما تو مجبوراً نازلی کو اسکے ساتھ چلنا پڑا۔جمال آغا انکی پشت کو دیکھتا منہ پر ہاتھ پھیر کر مسکرایا۔

شاپنگ مال پہنچ کر تابین تو اپنی شاپنگ میں لگ گئی اور جمال آغا نازلی کے سر پر سوار ہوگیا۔وہ جہاں جاتی وہ اسکے پیچھے پیچھے آتا۔اسکی حرکتوں سے نازلی پریشان ہوگئی تھی۔پر کچھ بول نہ پائی۔جمال آغا صاحب اسکی بڑی ماما کے  بھتیجے تھے اور وہ اسکے ساتھ کوئی گستاخی کر کے خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی۔

"یہ لے لوں تمہارے لیے بے بی ڈول؟"وہ ایک پرس تھامے اسکے سامنے آیا۔

"نہ۔۔ نہیں۔۔"نازلی نے جھجھک کر اسے دیکھا۔وہ کچھ زیادہ ہی فرینک ہورہا تھا۔ 

"کیوں نہیں۔۔۔ اب تو گفٹ دینے اور لینے کا سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔"وہ مسکرا کر عجیب لہجے میں بولا۔نازلی کو اسکی الجھی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔وہ جانے لگی جب جمال آغا نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

"چلو وہاں آؤ۔۔۔تمہارے لیے ایک رنگ دیکھی تھی میں نے۔تمہیں پہنا کر چیک کروں۔"وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے ان میں سالوں سے دوستی رہی ہو۔اسکی بات پر نازلی نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچا۔

"مجھے کوئی رنگ نہیں دیکھنی۔"وہ پیچھے ہوتی ہوئی بولی۔اسکی بات پر جمال آغا نے تپ کر اسے دیکھا۔

"نازلی آؤ ذرا۔۔ ڈریسز دیکھتے ہیں۔"تابین مصروف سی اسکی طرف آئی۔اسکے کہنے پر نازلی جلدی سے اسکے ساتھ آگے بڑھ گئی۔جمال آغا بھی نازلی کی پشت کو گھورتا انکے ہم قدم ہوا۔ 

نازلی کپڑے دیکھ رہی تھی جب جمال آغا پھر اسکے قریب آیا۔نازلی اسکی حرکتوں سے عاجز آ گئی تھی۔ 

"یہ ڈریس دیکھو۔۔۔ تم پر بہت سوٹ کریگا۔"وہ اسکے قریب جھک کر مسکراتے ہوئے بولا۔نازلی جلدی سے کچھ قدم پیچھے ہٹی پھر غصے بھری ایک نگاہ اس پر ڈالی جبکہ انہیں دور سے دیکھتیں ان دلکش سیاہ آنکھوں سے آگ نکلنے لگی۔دانت پیس کر اسنے مٹھیاں زور سے بھینچیں۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ آگے بڑھ کے جمال آغا کا منہ توڑ دیتا۔وہ اسفی کے ساتھ شاپنگ کرنے آیا تھا۔پر یہاں نازلی کے ساتھ اس کمینے انسان کو دیکھ کر اسکا دماغ گھوم گیا۔اسے نازلی کے اتنا قریب دیکھ کر ہاشم کے دل پر قیامت برپا ہوگئی۔ 

"شکریہ جمال بھائی۔پر مجھے کچھ نہیں چاہیے۔"نازلی نے جل کر بھائی پر زور دے کر کہا۔پھر ہاتھ میں پکڑا خوبصورت سا  سفید ڈریس واپس رکھا۔اسے وہ ڈریس اچھا لگا تھا وہ لینا بھی چاہتی تھی پر اس شخص نے اسکا موڈ خراب کر دیا تھا۔وہ ڈریس رکھ کے پلٹی اور وہاں سے دوسری طرف بڑھ گئی۔جمال آغا نے خباثت سے مسکرا کر اسے دور ہوتے دیکھا۔پھر تابین کی طرف بڑھ گیا۔  

نازلی ، جمال آغا کو کوستی آگے بڑھ رہی تھی۔اسکا دل کیا وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگ جائے۔یہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا تھا؟  پہلے ہاشم خان اور اب یہ جمال آغا۔۔۔۔وہ کیوں اسکے پیچھے پڑ گئے تھے۔کیوں اسے چین سے جینے نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ جاتی تو کہاں جاتی ؟ اسکا سکون برباد ہو کر رہ گیا تھا۔

وہ سوچوں میں گم چل رہی تھی جب اسکا بازو پکڑ کر اسے کپڑوں کے ریک کے پیچھے کھڑا کیا گیا۔نازلی نے چونک کر سامنے دیکھا۔اس شخص کو دیکھ کر اسکا دماغ الٹ گیا۔وہ شخص یہاں بھی پہنچ آیا تھا۔جن کہیں کا۔۔۔۔۔اور افف اس ظالم  شخص کو اس نازک سی لڑکی کا بازو کھینچ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنا جیسے بہت پسند تھا۔

"آپ میرا پیچھا کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔"وہ اپنا بازو جھٹک کر تپ کر بولی۔دوسری طرف سے اسکے بازو پر گرفت اور مضبوط کر لی گئی۔

"تم آئندہ مجھے اس جمال آغا کے ساتھ نظر نہ آؤ۔۔۔ سمجھی۔"اسکی بات کو اگنور کرتا وہ آہستہ آواز میں غرایا تھا۔نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"آپ ہوتے کون ہیں مجھ پر حکم چلانے والے۔"وہ اسے گھور کر بولی۔اسکے انداز پر نازلی کو غصہ آیا۔وہ کوئی کٹ پتلی تو نہ تھی کہ جسکی جو مرضی میں آئے وہ اسے اپنے مطابق چلانے لگ جائے۔  

"سب کچھ۔۔۔۔۔تمہارا سب کچھ یہ ہاشم خان ہے۔"اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر وہ سنجیدگی سے بولا۔

"تم اب سے مجھے جمال آغا سے دس قدموں کے فاصلے پر نظر آؤ۔۔۔۔اسے میں تمہارے قریب نہ دیکھوں۔"وہ جنونی انداز میں اسکے چہرے کو دیکھ کر بول رہا تھا۔ 

"میں کیوں مانوں آپکی بات؟"وہ جل کر بولی 

"تمہیں ماننا پڑیگی۔"اسکا لہجہ بلا کا ضدی تھا۔ 

"آپ میں اور اس شخص میں فرق ہی کیا ہے؟دونوں ایک جیسے ہیں۔"وہ جلتی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"اس میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔یہ تم جلد جان جاؤگی۔"ہاشم نے چبا کر کہا۔وہ لڑکی اسے اس تھرڈ کلاس آدمی سے ملا رہی تھی۔وہ سمجھتی کیوں نہ تھی وہ اسے عشق کی حد تک چاہتا ہے جبکہ وہ جمال آغا اپنے بدلے میں سب کر رہا تھا۔

"پہلے آپ نے اور اب اس شخص نے میری راہوں میں کانٹے ہی کانٹے بچھا دیے ہیں۔میں کیا کروں ہاں۔۔۔۔کہاں جاؤ آپ دونوں سے بچ کر۔۔۔"نم آواز میں کہتے اسکی آنکھ سے ایک دم آنسو گرا۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنا دکھ اس ظالم شخص سے بانٹ بیٹھی تھی جو اس دکھ کا سبب تھا۔

اسکی نم آنکھوں کو دیکھ کر ہاشم ایک دم سے نرم پڑا۔غصہ جیسے ہوا بن کر اڑا تھا۔وہ گم سا اسکی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔

"وہ شخص جسکی آنکھوں میں انکار کے سوا کچھ نہیں۔"

"نجانے کیوں اسکی آنکھوں پے زندگی لٹانے کو جی چاہتا ہے۔"

"شش۔۔۔"اگلے پل اسنے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے نازلی کے گال پر رکھا پھر انگوٹھے سے اسکا آنسو صاف کیا۔

"رویا مت کرو۔۔۔۔ان آنکھوں میں جب آنسو آتے ہیں ناں تو ہاشم خان کے دل پر حشر برپا ہوجاتا ہے۔"وہ اسکی جادوئی آنکھوں میں دیکھتا مدھم آواز میں بولا۔"تمہاری راہوں سے کانٹے چن کر انہیں پھولوں سے سجائے گا یہ ہاشم خان۔۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔۔ ایک بار میرا ہاتھ تھام کر تو دیکھو۔"اسنے سرگوشی کرتے اپنا مضبوط ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا۔نازلی جو اسکی سحر زدہ باتوں میں جکڑی جا رہی تھی اسکا بڑھا ہاتھ دیکھ کر چونکی۔وہ خواب سے نکل کر حقیقت میں لوٹی تھی۔وہ شخص اسے بہلا رہا تھا اور وہ ایک پل کے لیے اسکی باتوں میں کھو بھی گئی تھی۔کتنی پاگل تھی ناں وہ۔۔۔۔

"ہاشم تم یہاں کیا کر رہے ہو۔"اسفی کی حیرت زدہ آواز پر ماحول پہ چھایا فسوں جیسے غائب ہوا تھا۔ہاشم نے ایک دم چونک کر اسفی کو دیکھا جبکہ اسفی نازلی کو دیکھ کر تھم سا گیا۔وہ لڑکی کون تھی؟اور ہاشم نے اسے اس انداز میں کیوں تھام رکھا تھا؟اسفی کو یوں اپنی طرف دیکھتا پا کر ہاشم نے جلدی سے نازلی کا بازو چھوڑا۔نازلی تو شرم سے زمین میں گڑھی جا رہی تھی۔پتہ نہیں وہ شخص انہیں یوں دیکھ کر اسے کس قسم کی لڑکی سمجھا ہوگا۔۔۔۔نازلی جھٹ سے نظریں جھکا کر وہاں سے نکلی تھی۔

ہاشم کی بے چین نظروں نے اس کانچ سی لڑکی کا دور تک پیچھا کیا۔اسکے انداز کو دیکھ کر اسفی ساری بات سمجھ چکا تھا۔ہاشم بنا کچھ کہے خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔اسفی مسکراہٹ دبا کر اسکے پیچھے ہو لیا۔تو یہ تھی ہاشم خان کی محبت ۔۔۔۔آج تو محترم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اب تو محبت سے انکاری ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں هوتا تھا۔ 

"آبی۔۔۔"وہ ناول میں سر دیے بیٹھی تھی جب نور نے اسے پکارا۔ 

"ہوں۔۔۔ کیا ہوا؟"وہ چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔ 

"چھوڑو اسے اور آؤ لان میں بیٹھ کر گیپیں لگاتے ہیں۔کتنا بور دن ہے۔"وہ بیڈ سے اٹھتی سستی سے بولی 

"ابھی تو میں کہیں نہ جاؤں۔پڑھنے دو مجھے۔"آبی جواب دے کر پھر سے ناول پڑھنے لگی۔نور نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔ 

"آبی۔۔۔"نور پھر بولی۔

"ہوں۔۔۔"آبی نے بنا سر اٹھائے جواب دیا۔ 

"وہ تمہارا جڑوا جن کہاں ہے۔نظر نہیں آتا آجکل۔"نور بال سمیٹتی اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھی۔ 

"کیوں اس آفت کو یاد کر رہی ہو۔ابھی آگیا تو ناک میں دم کر دے گا۔"آبی نے ناک چڑھا کر کہا 

"اچھا ہے آجائے کم از کم یہ بوریت تو دور ہوگی۔"

"تو جاؤ بلا لاؤ۔"آبی بات کر کے پھر سے ناول پڑھنے لگی۔

"آبی ۔۔۔"نور نے پھر پکارا۔آبی کا دل چاہا اپنے بال نوچ لے۔

"تم نے طے کر لیا ہے کہ تم مجھے چین سے ناول نہیں پڑھنے دوگی۔"اسنے تپ کر نور کو دیکھا۔

"ہاں جی۔۔"نور شرارت سے مسکرائی۔

"تم ہو ہی چڑیل۔۔۔"وہ مصنوعی خفگی سے کہتی ناول سائیڈ پر رکھ کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"ویسے آبی۔۔۔ وہ بک شاپ والا لڑکا تھا بڑا سمارٹ۔۔۔ہیں ناں ؟"نور کی شرارتی رگ پھرکی تو وہ بول پڑی۔

"اس بدتمیز کا تو ذکر بھی نہ کرنا۔"آبی پھاڑ کھانے کو دوڑی۔

"ایک ہی ملاقات میں اس نے تمہارا کیا حال کر دیا ہے۔"نور نے ہنس کر کہا۔

"کیا حال۔۔۔"آبی نے گڑبڑا کر منہ پر ہاتھ پھیرا۔ 

"اس کے ذکر پر چڑیلوں کی طرح کھانے کو دوڑتی ہو۔"

"دفع ہو ۔۔۔ نور کی بچی۔"آبی نے تپ کر اسکے کندھے پر چپت لگائی۔ 

"اچھا معاف کردو چڑیل۔"نور نے اسے مزید چڑایا۔آبی منہ بنا کر بڑبڑانے لگی جبکہ اسکی شکل دیکھ کر نور کی ہنسی نکل گئی۔ 

تبھی کمرے کا دروازہ کھلا دونوں نے چونک کر اس طرف دیکھا۔

"وہ بی بی بڑی بیگم صاحبہ بیہوش ہوگئی ہیں۔"بوا نے ہانپتے ہوئے انہیں بتایا تھا۔دونوں کے چہرے کا رنگ اڑا پھر اگلے پل وہ بھاگتی ہوئیں کمرے سے باہر نکلی تھیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی آنی لوگوں کو سی آف کر کے واپس گھر لوٹی۔کمرے میں پہنچ کر اسنے پرس اور دوپٹہ بیڈ پر رکھا پھر فریش ہونے واش روم چلی گئی۔ 

ٹاول سے منہ صاف کرتی وہ واش روم سے باہر آئی تو دروازے پر دستک ہوئی۔"آجائیں۔۔"اسنے ٹاول سائیڈ پر رکھ کر کہا۔دروازہ کھلا اور ہاجرہ بوا ہاتھ میں ایک بڑا سا باکس تھامے کمرے میں داخل ہوئیں۔

"بوا یہ کیا ہے؟"اسنے حیرت سے پوچھا۔ 

"یہ آپ کے لیے آیا ہے بی بی۔"وہ باکس کو بیڈ پر رکھتی کمرے سے نکل گئیں۔ نازلی حیران سی بیڈ پر بیٹھی پھر ہاتھ بڑھا کر اس چمکتے باکس کو کھولا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اندر وہی سفید ڈریس تھا جسے وہ اس دن لینا چاہتی تھی پر جمال آغا کی حرکت کی وجہ سے بنا لیے ہی آگئی تھی۔اسنے ایک ہاتھ سے ڈریس تھاما اور دوسرے ہاتھ میں وہ چھوٹا سا کارڈ پکڑا جو ڈریس کے ساتھ رکھا تھا۔

"یہ کس نے بھیج دیا۔"وہ کارڈ کھولتے ہوئے بڑبڑائی۔کارڈ پر نظر ڈالی۔"تمہارے لیے۔۔۔"بس اتنا ہی لکھا تھا۔اسکی آنکھیں تھوڑی نیچے گئیں تو ایک طرف اس شخص کا نام لکھا تھا۔"ہاشم خان۔۔۔"نازلی کا دماغ سن ہونے لگا۔افف یہ شخص اسے اسکے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتا؟کیوں ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑ گیا تھا؟ 

"افف اللہ میں کیا کروں۔۔۔"اسنے سر ہاتھوں میں گرا کر خود کلامی کی۔جب ایک دم سے دروازہ کھلا۔ نازلی نے چونک کر سامنے دیکھا۔وہاں تابین کھڑی تھی۔نازلی ڈر سی گئی کہ کہیں تابین کو معلوم تو نہیں ہوگیا کہ اس شخص نے اس کے لیے گفٹ بھیجا ہے۔۔۔اس نے جھٹ سے کارڈ والا ہاتھ پیچھے کیا۔

"کیا ہوا آپی۔"تابین کو دیکھتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"مجھے کیا ہونا ہے۔بس تمہیں یاد دلانے آئی ہوں کہ شام کو میری برتھڈے پارٹی ہے۔تیار رہنا ۔۔۔ یہ نہ ہو دوسری پارٹیز کی طرح اس سے بھی غائب نظر آؤ۔"وہ منہ بنا کر کہتی آگے بڑھی۔اسکی نظر بیڈ پر رکھے ڈریس پر پڑی اسنے آگے بڑھ کے ڈریس اٹھایا۔ 

"واؤ ایٹس بیوٹیفل۔۔۔۔ کس نے گفٹ کیا۔"اسنے مسکرا کر نازلی کو دیکھا۔نازلی کے چہرے سے ہوائیاں اڑنے لگیں۔وہ مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم بن گئی تھی۔

"وہ آپی۔۔۔"نازلی بیہوش ہونے کو تھی۔ 

"آنی نے گفٹ کیا ہے۔"وہ جھٹ سے جھوٹ بول گئی۔پہلی بار اسے اس شخص کی وجہ سے جھوٹ بولنا پڑا تھا۔جانے اسکی جان کس عذاب میں پھنس گئی تھی۔

"اوہ گریٹ ۔۔۔۔پھر تم آج شام کو یہی ڈریس پہننا اوکے۔"وہ ڈریس رکھ کر بولی۔نازلی نے لمبی سانس کھینچ کر اثبات میں سر ہلایا۔تابین جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی گئی۔

نازلی نے کانپتے ہاتھ زور سے پھینچے پھر ہاتھ آگے کر کے اس کارڈ کو دیکھا۔"تمہیں اللہ پوچھے ہاشم خان۔"وہ رونے والی ہوگئی تھی۔اسنے غصے سے کارڈ پھاڑ کر ڈس بن میں پھینکا۔

شام کی پارٹی کے لیے حسن ولا کو روشنیوں سے سجا دیا گیا تھا۔امتل آفندی نے خود اس گرینڈ پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔آخر انکی لاڈلی بیٹی کی سالگرہ جو تھی۔

نازلی کھلی کھڑکی کے پاس کھڑی لان میں ہوتی تیاریوں کو دیکھ رہی تھی۔کچھ دیر بعد وہ لمبی سانس کھینچ کر وہاں سے ہٹ کر الماری کی طرف آئی اور کپڑے دیکھنے لگی۔تابین نے کہا تھا کہ وہ وائٹ ڈریس پہنے پر وہ اس شخص کا دیا ہوا ڈریس تو کبھی نہیں پہنے گی۔اسنے اپنے لیے انگوری رنگ کا پیارا سا ڈریس نکالا۔جسکا بڑا سا نیٹ کا دوپٹہ تھا۔

تیار ہو کر اسنے آئینے میں اپنے سراپے پر نظر ڈالی۔کچھ خاص نہ تھا اسکی وہی ہمیشہ والی تیاری تھی۔۔۔۔ دوپٹہ شانوں پر ڈال کر جب وہ کمرے سے نکل کر نیچے آئی تو گھر مہمانوں سے بھر جکا تھا۔کچھ لوگ ہال میں بکھرے تھے تو کچھ لان میں۔وہ چلتی ہوئی لان میں آئی۔تابین شہزادی بنی اپنی دوستوں کے درمیان کھڑی تھی۔ریڈ گاؤن میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔نازلی اس کے سامنے جا کر رکی۔"ہیپی برتھڈے آپی۔" اسنے مسکرا کر وش کیا۔ویسے تو وہ رات کو ہی اسے گفٹ دے کر وش کر چکی تھی۔

"تھینک یو ڈارلنگ۔۔۔"تابین نے مسکرا کر اسے دیکھا پھر بولی۔"تم نے وہ وائٹ ڈریس نہیں پہنا؟"

"جی وہ ۔۔۔ بس مجھے یہ رنگ پسند آیا تو یہ پہن لیا۔"نازلی نے جھجھک کر بات بنائی۔اسے جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑ رہا تھا۔

"اوہ اچھا۔۔"تابین اتنا کہہ کر اپنی دوست کی طرف متوجہ ہوئی۔نازلی بھی وہاں سے ہٹ کر بابا جان کی طرف بڑھنے لگی جب جمال آغا ایک دم اسکے سامنے آیا۔اسے دیکھ کر نازلی کو ہاشم کی باتیں یاد آنے لگیں۔"تم اب سے مجھے جمال آغا سے دس قدموں کے فاصلے پر نظر آؤ۔اسے میں تمہارے قریب نہ دیکھوں۔"وہ گھمبیر آواز جیسے نازلی کے کان کے قریب سرگوشی کر رہی تھی۔اگلے پل وہ جمال آغا کو اگنور کرتی دوسری طرف سے ہو کر جانے لگی۔وہ اس شخص کے کہنے پر تھوڑی جا رہی تھی۔اسے خود بھی تو جمال آغا زہر لگتا تھا۔نازلی نے یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی۔

"ہیلو ۔۔۔ ہیلو کزن صاحبہ"جمال آغا اسکے راستے میں آ کر بولا تو مجبوراً نازلی کو رکنا پڑا۔

"بے وفا لڑکی ایسے نظریں پھیر کر کیوں جا رہی ہو۔۔۔"وہ مزے سے بولا تو نازلی کو اسکے انداز پر جھٹکا لگا۔ 

"جمال بھائی مجھے سب سے ملنا ہے سو ایکسکیوز می۔"وہ سنجیدگی سے بول کر جانے لگی جب وہ پھر اسکے سامنے آیا۔

"پہلی بات میں تمہارا بھائی نہیں ہوں۔"اسنے گھور کر کہا پھر بولا۔"اور دوسری بات باقی سب کو گولی مارو اور سب سے پہلے مجھ سے ملو۔"وہ خباثت سے مسکرایا۔

"قطرہ قطرہ میرے حلق کو تر کرتی۔"

"میری رگ رگ میں اسکی محبت سفر کرتی ہے۔"

حسن ولا میں قدم رکھتے ہی ہاشم کی نظر ان پر پڑی تھی۔اسکی جان جل کر خاک ہوگئی۔وہ کیسے برداشت کرتا کہ اسکی محبت کسی اور کے پہلو میں کھڑی ہو۔ 

جمال آغا کی بات پر نازلی نے اسے گھورا۔وہ ایک بدتمیز آدمی تھا۔نازلی کچھ کہنے ہی والی تھی پر تابین اور ہاشم کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر خاموش ہوگئی۔انہیں دیکھ کر جمال آغا جان بوجھ کر نازلی کے قریب ہو کر کھڑا ہوا۔ہاشم شعلہ بار نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔نازلی نظریں جھکا گئی۔

"اسلام و علیکم۔"ہاشم کی بھاری آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔ 

"وعلیکم السلام۔"جمال آغا نے ہنس کر جواب دیا۔پھر تابین کو دیکھا۔"آج تو تم بہت خوش ہوگی ناں کہ تمہارا ہیرو تمہارے ساتھ ہے۔"اسنے تابین کو دیکھ کر شرارت سے کہا پھر ہاشم کو دیکھا جسکی نظریں پریشان سی کھڑی نازلی پر تھیں۔ 

اسکی بات پر تابین ایک دم ہنسی۔

"ہاں میں بہت بہت خوش ہوں۔"تابین کے لہجے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ 

"چلو نازلی ان لو برڈس کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں اور ہم جا کر اپنی باتیں کرتے ہیں۔"جمال آغا نے ہاشم کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر چڑانے والے انداز میں کہا پھر خاموش کھڑی نازلی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔نازلی بھی ہاشم کی نظروں کی تپش سے بچنے کے لیے اسکے ساتھ گھسیٹتی چلی گئی۔

پیچھے کھڑے ہاشم کے دل کو جیسے کسی نے آگ لگا دی تھی۔وہ لڑکی ایسے کیسے خاموشی سے اس کمینے کے ساتھ چلی گئی؟وہ مجبور سا کھڑا انہیں اپنی نظروں سے دور ہوتے دیکھ رہا تھا ورنہ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کچھ تہس نہس کر کے اس لڑکی کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتا۔ 

پارٹی عروج پر تھی۔تابین کیک کاٹ چکی تھی۔ہاشم ، حسن آفندی کے ساتھ کھڑا بزنس سے ریلیٹڈ باتیں کر رہا تھا جبکہ جمال آغا ،نازلی کو کچھ لڑکیوں کے بیچ پا کر اب تابین کے آگے پیچھے پھرنے میں مصروف تھا۔کچھ پل پہلے کے منظر جب ہاشم کی نظروں کے سامنے سے گزرتے تو اسکی ہستی جل کر خاک ہوجاتی۔وہ سنجیدہ سا حسن آفندی سے ایکسکیوز کرتا وہاں سے ہٹ کر ایک الگ گوشے میں آیا اور دل کو مزید جلانے کے لیے سگریٹ سلگانے لگا۔

نازلی باتوں میں مصروف تھی جب نوری اسکی طرف آئی۔

"نازلی باجی آپکی آنی کا فون ہے۔"نوری اسکا موبائل اٹھا کر وہی لے آئی تھی۔نازلی ان لڑکیوں سے ایکسکیوز کرتی وہاں سے ہٹی پھر نوری کے ہاتھ سے موبائل لیا اور شور سے بچتی سیڑھیاں چڑ کر اوپر ٹیرس پر آئی کہ سکون سے آنی سے بات کر لے۔اس افراتفری بھرے ماحول سے وہ اکتا سی گئی تھی۔خوبصورت سے ٹیرس پر ڈھیر سارے گملے رکھے تھے جن میں رنگ برنگے پھول بہار دکھا رہے تھے۔نازلی نے سکون بھری لمبی سانس کھینچ کر کال پک کی۔آنی سے بات کرتے وہ آسمان پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔سیاہ رات کی چادر سے جھانکتا روشن چاند بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔آنی لوگ سعودیہ پہنچ چکے تھے۔کچھ دیر آنی اور لیلیٰ سے بات کر کے اسنے کاٹی پھر وہی کھڑی خاموشی سے چاند کو دیکھنے لگی۔ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تو اسنے جھرجھری لے کر چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے کیا۔اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔وہ چونک کر پلٹی تو سامنے اس شخص کو پایا۔اسکا چہرہ بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔سیاہ آنکھیں جیسے اسکی روح میں اتر رہی تھیں۔نازلی نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔اسنے جیسے خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کی کہ اب وہ اس شخص سے نہیں ڈرے گی۔ آج وہ اس سے ایک سے دوسری بات کرے گی کہ آخر وہ چاہتا کیا ہے؟

"اب کیا کہنا ہے آپکو؟"نازلی نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

"تم اس جمال آغا سے دور کیوں نہیں رہتی۔"اسنے تپ کر کہا 

"میں تو اُس سے بھی دور رہتی ہوں اور آپ سے بھی ۔۔۔پر پھر بھی آپ دونوں میری زندگی اجیرن کرنے میرے آس پاس پائے جاتے ہیں۔"وہ چبا کر بولی۔وہ اس کھیل سے تھک چکی تھی۔آخر وہ کب تک برداشت کرتی۔۔۔۔۔

"تم مجھ سے دور جا ہی نہیں سکتی۔میں ایسا ہونے ہی نہیں دونگا۔تمہاری ہر راہ صرف مجھ تک آتی ہے۔"وہ سنجیدگی سے کہتا اسکی طرف بڑھا۔"اور رہی بات جمال آغا کی تو اسے اب میں تم سے دور رکھوں گا۔"وہ دانت پیس کر بولا۔اس سے نہ ڈرنے کا طے کرتی نازلی اسکے انداز پر ایک دم ڈر کی پیچھے ہٹی تھی۔ 

"کیوں میری جان عذاب میں ڈال رہے ہیں؟ آخر آپ اس کھیل کو ختم کیوں نہیں کر دیتے۔۔۔۔"وہ پریشانی سے بولی۔ 

"تو تھام لو میرا ہاتھ۔۔۔۔قبول کرلو میری محبت کو۔۔۔تو یہ کھیل ابھی اسی وقت ختم ہو جائے گا۔"اسنے گھمبیر آواز میں نازلی کو دیکھ کر کہا۔

"یہ ممکن نہیں ۔۔۔۔آپ تابین آپی کی محبت ہیں۔"نازلی نے بات ختم کر کے اسکی سیاہ دلکش آنکھوں میں دیکھا۔

"پر وہ میری محبت نہیں ہے۔"ہاشم اسکے مزید قریب ہوا۔ 

"میری محبت میرا عشق تم ہو۔"جادوئی لہجے میں کہہ کر اسنے نازلی کا گال نرمی سے چھوا پھر پیار سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔نازلی جم سی گئی۔فضا میں چار سو محبت کی خوشبو پھیلنے لگی۔محبت کا جادو جیسے انکے گرد چکرانے لگا۔جیسے انہیں ایک ساتھ باندھ لینا چاہتا ہو۔ 

"تم دعا کرنا نازلی کہ اسے مجھ سے محبت ہو جائے ورنہ تمہاری آپی مر جائے گی۔"اچانک نازلی کی سماعتوں میں تابین کے کہے وہ جنونی الفاظ سرسرانے لگے۔ایک جھٹکے سے جیسے اسے کسی نے حقیقت میں لا چھوڑا تھا۔وہ اگلے پل ہاشم کا ہاتھ جھٹک کر منہ پھیر گئی۔محبت کی خوشبو وہ جادو جو انہیں باندھ لینا چاہتا تھا ایک دم جیسے فضا میں کہیں غائب ہوا تھا۔ 

نازلی نے لمبی سانس بھری۔۔۔

"آپ آپی سے محبت کریں یا نہ کریں ۔۔۔۔ پر ملوں گی میں بھی آپکو کبھی نہیں ۔۔۔۔ یہ بات یاد رکھیے گا۔"وہ کانپتے لہجے کو قابو کرتی مدھم آواز میں بولی۔ 

اسکی بات پر ہاشم بے ساختہ مسکرایا پھر اسکا بازو تھام کر اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔"تم ہاشم خان سے ابھی واقف نہیں ہو ۔۔۔۔اگر ہوتی تو یہ بات کبھی نہ کرتی۔۔۔۔۔ ہاشم خان تمہیں ہر قیمت پر پا کر رہے گا۔ہر وہ طریقہ اپنا جاؤں گا جس سے نازلی حسن آفندی میری بن سکے۔پیچھے ہرگز نہیں ہٹوں گا میری یہ بات تم بھی یاد رکھنا۔"وہ بالکل سنجیدہ تھا۔اس دیوانے کی آنکھوں سے جنون چھلک رہا تھا۔جانے وہ کیا کر گزرے گا؟ نازلی کو اس سے خوف آنے لگا۔اسنے اپنا بازو اسکی گرفت سے نکالا پھر اسے دیکھ کر بولی۔

"اپنی محبت پانے کے لیے دوسروں کو اذیت دینا جائز نہیں ہے۔" اسکا اشارہ تابین کی طرف تھا۔ 

"محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔"وہ ضدی لہجے میں بولا 

نازلی نے اسکی بات پر نفی میں سر ہلایا۔"محبت اور جنگ میں صرف وہ کرنا چاہیے جو جائز ہو۔"وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔ 

"تم اپنی باتوں سے مجھے قائل نہیں کر سکتی۔"اسکی بات پر وہ جھنجھلایا تھا۔"میں وہی کروں گا جو مجھے ٹھیک لگے گا سمجھی تم۔"وہ اسکی طرف جھک کر سنجیدگی سے بولا۔ 

نازلی کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔اسکے سامنے ایک خود سر ، ضدی شخص کھڑا تھا۔جسے وہ سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔وہ صرف پتھر سے سر پھوڑ رہی تھی۔آخر میں اس شخص نے کرنی تو اپنی ہی تھی۔ 

"آپ جو کریں گے ناں پھر اسکا نتیجہ بھگتنے کے لیے بھی تیار رہیے گا۔"وہ تپ کر بولی تو ہاشم ایک دم دلکشی سے مسکرایا۔

"اسکا نتیجہ تو بہت حسین بہت خوبصورت ہوگا۔"اسنے سرگوشی کی۔نازلی اسکی بات سمجھ کر اسے گھورنے لگی۔ 

"اور یہ کیا تم ہر وقت جوڑا بنائے رکھتی ہو۔کبھی تو ان سیاہ آبشار کو بہنے دو۔"بات کرتے اچانک اسکا ہاتھ نازلی کے سر کے پیچھے گیا اور اسنے نازلی کے بال قید سے آزاد کر ڈالے۔سیاہ بال ایک دم اسکی کمر اور چہرے پر بکھرے تھے۔ اسکی حرکت پر نازلی غم و غصے سے اسے دیکھنے گئی۔ 

ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بال کان کے پیچھے کرنے چاہے پر نازلی نے جھٹ سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا تھا۔ 

"آپکی ہمت کیسے ہوئی میرے بال کھولنے کی۔"جھیل سی آنکھیں سکوڑ کر وہ غصے سے بولی 

"کہو تو پھر سے باندھ دیتا ہوں۔"ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر شعلہ جوالہ بنی اس کانچ سی لڑکی کو دیکھا۔

"اللہ پوچھے آپکو۔"اسکا ہاتھ جھٹک کر وہ غصے سے بولی 

"ویسے کھلے بالوں میں قیامت لگ رہی ہو۔"اسے دیکھتیں سیاہ آنکھیں شوخی سے چمکی تھیں۔اسکی بات سن کر نازلی نے جھٹ سے دونوں ہاتھوں سے بالوں کو سمیٹا۔اسکی حرکت پر ہاشم ایک دم ہنسنے لگا۔اسکے محبوب کی ہر ادا جان لیوا تھی۔ وہ کہاں کہاں اپنے پاگل دل کو سنبھالتا۔

"ویسے تم مجھے اس قدر پیاری کیوں لگتی ہو؟"مدھم سا مسکرا کر دلکشی سے پوچھا گیا۔ 

"آپ ۔۔۔ آپ ۔۔۔۔"نازلی کو سمجھ نہ آئی کہ اس پاگل شخص کو کیا جواب دے۔اسنے قہر بھری ایک نگاہ اس شخص پر ڈالی تو وہ مسکرا کر اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ 

"عداوت بھری آنکھوں سے انداز مخلصانہ۔"

"میں وار وار صدقے ہر وار قاتلانہ۔"

"کوئی جواب نہیں مل رہا؟"کچھ پل کے بعد شوخی سے پوچھا گیا۔ 

"میں کوئی جواب نہیں ڈھونڈھ رہی۔"وہ غصے سے اسے دیکھ کر کہتی اگلے پل جھٹ سے سائیڈ سے ہو کر نکلی اور پلک جھپکتے ہی ٹیرس سے بھاگی تھی۔اسکی رفتار دیکھ کر پہلے تو ہاشم حیران ہوا پھر قہقہہ لگا کر ہنستا چلا گیا۔وہ لڑکی اپنی ہر ادا سے اسے دیوانہ کر رہی تھی۔

آنکھوں پر گلاسز لگاتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔اسفی بھی اسکے برابر سیٹ پر بیٹھا تھا۔ہاشم نے گاڑی آگے بڑھا دی۔وہ دونوں ہوٹل سے ایک میٹنگ اٹینڈ کر کے واپس آفس جا رہے تھے۔

کار آفس کی بلڈنگ کے باہر رکی تو وہ دونوں باہر نکلے۔آگے بڑھتے ہوئے ہاشم نے اپنی جیب ٹٹولی پھر پلٹ کر گاڑی کی طرف بڑھنے لگا جب اسفی نے اسے روکا۔

"کہاں؟"اسنے پوچھا۔ 

"سگریٹ پیک گاڑی میں رہ گیا۔"ہاشم نے جواب دیا۔ 

"آج سگریٹ کی جان چھوڑو اور یہ لو۔"اسفی نے ببل اسکی طرف بڑھائی۔ہاشم ایک دم ہنسا۔

"میں یہ ببل چباتا اچھا لگوں گا؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

"بہت اچھے بہت ہینڈسم لگو گے۔"اسفی نے شوخی سے کہا 

"دے دو پھر۔"ہاشم نے شرارت سے کہہ کر ببل لے کر منہ میں ڈالی۔ببل چباتے اسنے ہنس کر اسفی کو دیکھا وہ خود بھی اسی شغل میں مصروف تھا۔

دونوں باتیں کرتے لفٹ سے اوپر ہاشم کے آفس میں آئے۔ہاشم کو داخل ہوتے دیکھ کر اسکے امپلائز اپنا کام چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔انہیں ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کرتا وہ اسفی کے ساتھ اپنے روم میں داخل ہوا۔ہاشم نے آنکھوں سے گلاسز اتار کر ٹیبل پر رکھے۔

"دیکھا تم نے لڑکیاں کیسے آنکھیں پھاڑ کے تمہیں دیکھ رہی تھیں؟"اسفی نے آنکھ دبا کر کہا۔ہاشم قہقہہ لگا کر ہنسا۔ 

"اسفندیار مالک تھوڑی پھینکا کرو۔"ہاشم نے اسکے کندھے پر پنچ مارا پھر اپنی سیٹ پر بیٹھا۔

"تم نہ مانو پر ببل کھاتے تم خاصے کول لگ رہے ہو۔"اسفی اسکے سامنے کرسی پر بیٹھ کر بولا 

"ہوں تو سب ایک ببل چبانے سے ہوگیا۔یہ کوئی ٹی وی ایڈ تو ہے نہیں کہ جادوئی طور پر ایک ببل کھانے سے میں کول لگنے لگوں اور لڑکیاں میری راہ میں گرتی چلی جائیں۔"وہ مذاق کرنے والے انداز میں بولا۔اسکی بات پر اسفی زور سے  ہنسا۔کچھ دیر بعد ہاشم نے ببل ڈس بن میں پھینکی۔

"اور چاہیے؟"اسفی نے شرارت سے پوچھا۔

"کیوں تم نے دکان کھول رکھی ہے ببلز کی؟"ہاشم نے شرارت سے پوچھا 

"نہیں۔۔۔ پر اگر تم چاہو تو کھول سکتا ہوں۔"

"نہیں شکریہ۔"ہاشم نے مسکرا کر ہاتھ جوڑے۔اسفی نے ہنس کر اسے دیکھا۔"بتاؤ وہ لڑکی کون ہے؟"اسنے اچانک پوچھا۔

اسکی بات سمجھ کر ہاشم مسکرایا۔

"اسکی پہچان تم سے ہضم نہیں ہوگی۔"

"کیوں ۔۔۔ وہ کیا دوسرے پلینٹ سے آئی ہے۔"اسفی نے مزاحیہ انداز میں کہا 

"نہیں ۔۔۔ پر جسکے تم وکیل بنے پھرتے ہو اس لڑکی کا تعلق اس سے ہے۔"وہ بھنویں اچکا کر بولا 

"میں سمجھا نہیں۔"اسفی الجھا۔ 

"وہ تابین حسن آفندی کی بہن ہے۔"ہاشم نے دھماکہ کیا۔اسفی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"کیا میں نے ٹھیک سنا ہے۔۔۔۔۔"اسفی نے شاک کی سی کیفیت میں کہا۔ 

"ہاں جی۔"ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔

"کیوں آگ میں ہاتھ ڈال رہے ہو یار۔"اسفی ایک دم پریشان ہوا۔ 

"دل آگ اور پھولوں کا فرق نہیں جانتا۔"ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا 

"وہ بھی تم سے محبت کرتی ہے؟"

"کرنے لگ جائے گی۔۔۔۔۔۔"ہاشم نے پر سکون لہجے میں کہا 

"واہ واہ۔۔"اسفی نے اسے گھورا۔"کیا کرتے پھر رہے ہو یار۔"

"عشق ۔۔۔ محبت"ہاشم مزے سے بولا 

"بڑی غلط جگہ دل لگا بیٹھے ہو۔"اسفی نے افسوس سے کہا 

"اب تو دل لگ گیا ناں۔۔۔اب غلط یا صحیح کا کیا سوال۔"وہ سنجیدگی سے بولا 

"دیوانے ہو گئے ہو۔"اسفی نے اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھا۔

"شاید۔۔"ہاشم بے ساختہ مسکرایا۔

"یقیناً۔۔۔"اسفی نے زور دے کر کہا پھر بولا۔"دل تو لگا بیٹھے ہو اب ایک دوست کی دعا ہے کہ تمہاری محبت تمہیں مل جائے۔"اسفی نے نرمی سے اسے دیکھا۔"پر ہاشم اسے پانے کے لیے کوئی غلط راہ نہ اپنا لینا۔"وہ اپنے دوست سے واقف تھا اسلیے اسے سمجھانے والے انداز میں بولا۔

"ہوں ۔۔۔"ہاشم نے سر ہلایا۔اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکا۔تھوڑی دیر بعد اسفی چلا گیا تو ہاشم کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر سوچوں میں گم ہوگیا۔

موبائل رِنگ ہوا تو وہ چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔موبائل اٹھا کر کال پک کی تو دوسری طرف سے رونے کی آواز آئی۔

"کیا ہوا۔۔"اسنے فکر مندی سے پوچھا۔پھر دوسری طرف کی بات سن کر وہ پریشان سا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں ابھی نکل رہا ہوں۔تم رونا بند کرو۔"نرمی سے کہہ کر اسنے کال کاٹی پھر کار کی چابی اٹھا کر آفس سے باہر نکلا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

امتل آفندی کے بھائی نے انکی دعوت کی تھی۔نازلی جانا نہیں چاہتی تھی پر بڑی ماما نے خود اسے ساتھ چلنے کا کہا تو پھر وہ انکار کر ہی نہیں سکتی تھی۔اسلیے خاموشی سے تیار ہوگئی۔وہ نیچے آئی تو سب تیار کھڑے تھے۔دو گاڑیوں میں وہ گھر سے نکلے۔سالوں بعد آج امتل آفندی اپنی فیملی کے ساتھ اپنے میکے جا رہی تھیں۔وہ بہت خوش تھیں جبکہ نازلی کا دل ڈر رہا تھا۔وہ امتل آفندی کی سوتن کی بیٹی تھی کیا پتہ انکے گھر والے اسکے ساتھ کس طرح پیش آئیں گے۔وہ پریشان تھی پر بابا جان کے ساتھ نے اسے تھوڑا حوصلہ دیا تھا۔

امتل آفندی کے بھائی ایک لمبا عرصہ ان سے ناراض رہے وجہ انکی حسن آفندی سے شادی تھی۔حسن آفندی کے والد نے بابا صاحب (امتل آفندی کے بھائی) سے حسن آفندی اور امتل کی شادی کی بات کی تو وہ مان گئے تھے رشتہ تو ویسے بھی انکے والد پہلے ہی پکا کر چکے تھے۔شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں تھیں جب ایک دن حسن آفندی بابا صاحب کے پاس آئے اور انہیں یہ کہہ کر شادی سے صاف انکار کر دیا کہ وہ زنیرہ ابراہیم سے محبت کرتے ہیں اور اسی سے شادی کریں گے۔انکی بات سن کر بابا صاحب کسی صورت بھی اپنی بہن کی شادی اس شخص سے کروانے پر راضی نہ تھے پر امتل آفندی نے ضد باندھ لی تھی کہ وہ کسی بھی حال میں حسن آفندی سے ہی شادی کریں گیں۔انکی شادی تو حسن آفندی سے ہوگئی پر انکے بھائی نے انسے ہر رشتہ توڑ دیا تھا۔بابا صاحب کی انا انہیں اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ ساری زندگی اس شخص کا سامنا کرتے جس نے انکے منہ پر انکی بہن سے شادی کرنے سے انکار کر کے انہیں بے عزت کیا تھا اور پھر انکی اپنی بہن نے انکی بات نہ مان کر اسی شخص سے شادی کر لی۔یہ بات انکی مردانگی پر وار کر گئی جسکی وجہ سے وہ بہن سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ماہ نور اداس سی کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔تبھی حویلی کا مین گیٹ کھلا اور ایک کار اندر داخل ہوئی۔نور کے چہرے پر ایک دم سے خوشی کی لہر دوڑی۔وہ بھاگ کر کمرے سے نکلی تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو ایک دم کسی سے ٹکرائی۔

"مانو بلی کہاں بھاگی جا رہی ہو؟"سامنے والے نے شرارت سے پوچھا۔ 

"جن کہیں کہ لالہ آئے ہیں۔"اسنے ہنس کر خوشی سے بتایا۔

"وہاٹ ۔۔۔ سچی ؟؟"اسنے حیرت سے پوچھا۔

"مچی۔۔۔"نور نے جواب دیا پھر دونوں خوشی سے بھاگتے ہوئے پورچ کی طرف بڑھے۔

"ہاشم لالہ ۔۔۔"نور نے نم آواز میں اسے پکارا۔وہ جو کار لاک کر رہا تھا ایک دم پلٹا۔نور بھاگ کر اسکے سینے سے لگی۔

"کتنے وقت بعد آپکو دیکھا ہے لالہ۔"وہ رونے لگی تھی۔ 

"شش مانو ۔۔۔ روتے نہیں ہیں۔دیکھو اب تو آگیا ہوں ناں۔"اسنے نرمی سے بہن کا سر تھپک کر کہا۔

"ارے ہٹو مانو بلی ۔۔۔ مجھے بھی ملنے دو لالہ سے۔"داور نے نور کو پیچھے کیا پھر جھٹ سے ہاشم کے گلے لگا۔ 

"کیسے ہو لالہ کی جان۔"ہاشم نے اسکی کمر تھپتھپا کر  پوچھا۔ 

"بہت ہینڈسم۔۔"اس سے الگ ہوتا داور شرارت سے مسکرا کر بولا تو ہاشم کے لب مسکرا اٹھے۔ 

"یہاں کیا محفل جمی ہے؟"آبی بولتی ہوئی باہر نکلی۔جیسے ہی اسکی نظر ہاشم پر پڑی وہ ایک دم چیخ اٹھی۔ 

"ہاشم لالہ۔۔۔"وہ بھاگ کر اس تک آئی۔ 

"جی گڑیا ۔۔۔ میں ہی ہوں۔"ہاشم نے ہنس کر اسکا سر سینے  سے لگایا۔

"بہت مس کیا ہے آپکو لالہ۔"آبی اس سے الگ ہو کر محبت سے بولی۔

"میں نے بھی بہت مس کیا ہے تم تینوں شرارت کی پوٹلیوں کو۔"اسنے مسکرا کر تینوں کو دیکھا۔نور کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ہاشم اسکے قریب آیا۔

"مانو یار رونا تو بند کرو۔۔۔ اب آگیا ہوں ناں۔"اسنے نرمی سے نور کی ناک دبائی تو وہ مدھم سی مسکرائی۔

"آپ میرے اکلوتے بھائی ہیں۔پتہ ہے کہ کتنا یاد کیا ہے میں نے  آپکو۔"اسنے بھائی کو پیار سے دیکھا۔

"اب تم سب سے ملنے آتا راہوں گا گڑیا۔"ہاشم نے اسکا گال تھپک کر کہا 

"میں ناراض ہوں مانو بلی۔"داور کی خفا آواز پر تینوں نے چونک کر اسے دیکھا۔اسکا منہ پھولا ہوا تھا۔

"ارے ۔۔۔ کیوں ؟؟"نور نے حیرت سے پوچھا۔

"تم نے کہا ہاشم لالہ تمہارے اکلوتے بھائی ہیں تو پھر میں کون ہوں؟"اسنے تپ کر پوچھا۔وہ ایسا ہی تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر منہ پھلا لینے والا پر بلا کی شوخ طبیعت کا مالک تھا۔

"اللہ میرا جن بھائی ۔۔۔۔ "نور نے آگے بڑھ کر اسکے گال کھینچے۔وہ ہم عمر تھے پر نور اور آبی اسے چھوٹے بھائی کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں۔"اب منہ نہ بناؤ۔سچی تم تو لالہ سے بھی اچھے بھائی ہو۔"اسنے ہنسی دبا کر کہا۔

"اب مکھن لگانے کے لیے اتنا بھی جھوٹ مت بولو مانو بلی۔"داور نے ناک چڑھائی تو وہ تینوں ہنسنے لگے ۔ پھر ہاشم نے آگے بڑھ کے اسکے کندھے کے گرد بازو پھیلایا۔

"اندر چلیں ہینڈسم بوائے؟"ہاشم نے اسے دیکھ کر کہا۔

"چلیں چلیں۔۔۔ لالہ۔"داور ایک دم ہنسا تو وہ لوگ مسکراتے ہوئے اندر کی طرف بڑھے۔

"ام جان کہاں ہیں۔"ہال میں رک کر اسنے پوچھا۔ 

"اپنے کمرے میں ہیں۔"نور نے جواب دیا۔ 

"اور خان بابا ؟"

"وہ اپنے دوست کے گھر دعوت پر گئے ہیں۔"داور کے جواب پر ہاشم نے لمبی سانس بھری۔وہ ماں کو دیکھنے آیا تھا اسلیے نہیں چاہتا تھا کہ خان بابا سے سامنا ہو اور کوئی تلخ کلامی ہو۔ماہ نور نے جب اسے کال کی تھی کہ ام جان کی طبیعت خراب تھی اور وہ بیہوش ہو گئی تھیں۔پھر جب سے ہوش میں آئیں تھیں تب سے وہ ہاشم کو یاد کر رہی تھیں اسلیے وہ اپنی پیاری ماں کے لیے اپنی ضد بھلا کر گاؤں چلا آیا تھا۔

"میں ام جان سے مل لوں۔"وہ کہہ کر ام جان کے کمرے کی طرف بڑھا جبکہ نور اور آبی زبردستی داور کو لے کر کچن کی طرف بڑھیں۔انہیں اپنے لالہ کے لیے مزے کا لنچ تیار کرنا تھا۔ 

ہاشم آہستہ سے کمرے میں داخل ہوا۔ام جان بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹی تھیں۔وہ انکے قریب ہی بیڈ پر بیٹھا پھر انکا جھریوں بھرا ہاتھ تھاما۔

"ام جان۔"اسنے آہستہ سے پکارا۔ام جان نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔بیٹے کو سامنے دیکھ کر وہ کتنے ہی پل پلکیں نہ جھپک سکیں۔ 

"ہاشم ۔۔۔ میرا ہاشم ۔۔۔"بے یقینی سے کہتی وہ اٹھنے لگیں۔ ہاشم نے انہیں سہارا دے کر بٹھایا۔

"جی ام جان میں ہی ہوں۔"اسنے انکے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ 

"میرا بچہ ۔۔۔ میری جان۔"وہ اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر رونے لگیں۔"پلیز ام جان روئیں نہیں۔"ہاشم نے انہیں سینے سے لگا لیا۔

"کتنا تڑپایا ہے تم نے اپنی ماں کو ہاشم خان۔"وہ نم آواز میں بولیں۔ 

"مجھے معاف کر دیں ام جان۔۔"اسنے بھاری آواز میں کہا 

"ایک شرط پر۔۔۔"وہ پیچھے ہو کر اسکا چہرہ دیکھ کر بولیں۔ 

ہاشم انکی شرط سے خوب واقف تھا۔

"میں آپ سے ملنے آتا رہوں گا۔پر یہاں نہیں رک سکتا ام جان۔۔۔۔ آپ یہ اچھے سے جانتی ہیں۔"وہ انکے ہاتھ تھام کر سنجیدگی سے بولا۔ام جان ناراضگی سے چہرہ پھیر گئیں۔ 

"پلیز میری پیاری ام جان ۔۔۔ مان جائیں ناں۔"اسنے لاڈ سے کہہ کر انکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر انکی پیشانی پر بوسہ دیا۔ 

وہ ماں تھیں بیٹے کی محبت پر ایک دم پگھل گئیں۔ 

انہوں نے مسکرا کر اسکے گال پر ہاتھ رکھا۔

"مان گئی ہوں۔"انہوں نے محبت سے کہا ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ 

"میری اچھی ام جان۔"وہ پیار سے انہیں سینے سے لگا کر بولا 

پھر ام جان کو لے کر باہر آیا تو سب مل بیٹھے۔اتنے عرصے بعد جیسے وہ سب کھل سے اٹھے تھے۔تبھی شہریار اندر داخل ہوا۔ہاشم کو دیکھ کر سنجیدگی سے اسکی طرف بڑھ کر اس سے ملا۔

 "کیسے ہو؟"ہاشم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"ٹھیک ۔۔۔"مختصر جواب دے کر وہ پلٹ کر جانے لگا۔

"شہریار بیٹھو ناں۔"ہاشم نے دوستانہ انداز میں کہا 

"میں تھک گیا ہوں۔اب آرام کروں گا۔"وہ روکھے انداز میں کہتا چلا گیا۔نور نے اداسی سے اسکی پشت کو دیکھا۔اسے اپنے بھائی کے ساتھ شہریار کا یہ انداز اچھا نہیں لگا تھا۔آبی اور داور بھی اپنے بھائی کے رویے سے شرمندہ سے ہوگئے۔ 

"آبی ، نور بچے جائیں۔شہریار سے چائے پانی کا پوچھیں اور ہاشم کے لیے بھی کچھ لے کر آئیں۔"ام جان کی نرم آواز پر نور اور آبی اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئیں جبکہ داور ماحول پر چھائی خاموشی کو دور کرنے کے لیے اپنی یونیورسٹی کے قصے سنانے لگا۔

اسکی باتوں پر ہاشم بظاہر تو مسکرا رہا تھا پر بہت سی سوچوں نے اسکے دماغ کو جکڑ رکھا تھا۔ام جان بیٹے کو پیار سے دیکھ رہی تھیں۔اولاد بھی کتنی پیاری چیز ہے۔اگر آنکھوں کے سامنے رہے تو دل میں ٹھنڈک اتر جاتی ہے اور اگر دور ہوجائے تو دل چھلنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ہاشم انکا اکلوتا بیٹا تھا انہیں اس سے بہت محبت تھی پر وقت انہیں ایسے مقام پر لے آیا تھا کہ وہ بیٹے سے دوری سہنے پر مجبور تھیں۔ 

امتل آفندی کے میکے میں انکا اچھے سے ویلکم کیا گیا ۔وہاں گھر کے صرف چار فرد تھے۔بابا صاحب۔انکی بیوی جنہیں سب بی بی جان کہتے تھے۔جمال آغا اور اسکا چھوٹا بھائی۔باقی نوکروں کی فوج تھی۔تابین سے مل کر سب بہت خوش تھے جبکہ بی بی جان کے علاوہ نازلی کے ساتھ باقی سب کا رویہ سرد تھا۔ 

وہ سب کھانا کھا کر اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔وہ دونوں بھائی تابین کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔نازلی ، حسن آفندی کے ساتھ صوفے پر بیٹھی تھی جبکہ سامنے صوفے پر امتل آفندی اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھی تھیں۔

"لالہ آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں ناں؟"امتل آفندی نے اچانک پوچھا تھا۔سب لوگ انکی طرف متوجہ ہوئے۔ 

"نہیں امتل۔۔۔غلطی صرف تمہاری نہیں ہماری بھی تھی۔ہمیں سمجھنا چاہیے تھا کہ تم حسن آفندی کی منگ تھی تو تمہاری شادی اسی سے ہونی چاہیے تھی اور اب تو ویسے بھی تم لوگوں کے بیچ جو کانٹا تھا وہ تو نکل گیا ہے پھر ناراضگی کیسی۔۔۔"انہیں نے سرد لہجے میں کہا۔انکا اشارہ زنیرہ کی طرف تھا۔انکی بات پر امتل آفندی مسکرانے لگیں۔حسن آفندی نے بے چینی سے پہلو بدلا۔نازلی کے چہرے کا رنگ اڑا۔اسکے دل سے دھواں اٹھنے لگا۔اسکا دم گھٹنے لگا تو کچھ دیر بعد وہ حسن آفندی کے ساتھ گاؤں کی سیر کے لیے حویلی سے نکلی۔وہ کچھ وقت کے لیے اس ماحول سے دور ہوجانا چاہتی تھی۔وہ لوگ گیٹ سے باہر نکلے ہی تھے کہ جمال آغا تیزی سے انکے پیچھے آیا۔ 

"آپکو بابا صاحب بلا رہے ہیں۔"وہ حسن آفندی کو دیکھ کر بولا۔"آپ جائیں میں نازلی کو گاؤں کی سیر کرا دیتا ہوں۔"وہ شرافت سے بولا۔

"اوکے بیٹا۔"حسن آفندی نے کچھ پل سوچا پھر اسکا شانہ تھپک کر اندر چلے گئے جبکہ نازلی کا دل کیا وہ بھی بھاگ کر بابا جان کے پیچھے چلی جائے پر جا نہ سکی۔ 

"چلیں کزن صاحبہ۔"جمال آغا نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ نازلی بے زار سی اسکے ساتھ آگے بڑھی۔گاؤں اس قدر خوبصورت تھا کہ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی گئی ویسے ہی اسکی بے زاری ہوا ہونے لگی۔وہ جمال آغا کو بھول کر آس پاس کے مناظر کو دیکھتی کھو سی گئی۔اچانک جمال آغا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ لڑکھڑا کر اسکے کندھے سے ٹکرائی تھی۔ 

"ہمارے دل کی مت پوچھو ، بڑی مشکل میں رہتا ہے۔"

"ہماری جان کا دشمن ، ہمارے دل میں رہتا ہے۔"

سب اپنوں کے بیچ ہاشم کو اس کانچ سی لڑکی کی یاد شدت سے ستانے لگی۔اسکا دل کیا کاش وہ بھی اسکے ساتھ ہوتی تو آج وہ خود کو بالکل مکمل محسوس کرتا۔سب کے ساتھ خوشگوار وقت گزار کر وہ واپس جانے کے لیے حویلی سے نکلا تھا۔گاڑی گاؤں کی کچی سڑک پر چل رہی تھی۔سڑک کی دونوں طرف دور دور تک خوبصورت کھیت پھیلے تھے۔کھلی کھڑکی سے اندر  آتی تازی ہوا کو انسے اپنی سانسوں میں اتارا۔

آج وہ بہت اچھے موڈ میں تھا۔اسکا دل چاہ رہا تھا کہ آج وہ دشمنِ جاں اسکے پہلو میں ہوتی۔اس کانچ کی گڑیا کے خیال پر مسکرا کر اسنے گردن پھیر کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی تو جو منظر دیکھنے کو ملا اس پر اسے یقین نہ آیا۔اسنے جلدی سے گاڑی کو بریک لگائی۔

اسے لگا شاید اسے دھوکہ ہوا ہے پر نہیں وہ وہی تھی۔

اس شخص کے کندھے سے لگی پر اگلے پل اس نے اس شخص کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ہاشم کے اوپر جیسے کسی نے کھولتا پانی ڈال دیا تھا۔اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا۔وہ جھٹ سے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ 

"یہ کیا حرکت تھی۔"اس سے دور ہو کر نازلی نے اسے کھا جانے والے انداز میں گھورا۔

"کیچڑ ہے اس طرف ۔۔۔میں نے تمہیں بچایا ہے اور تم شکریہ  ادا کرنے کے بجائے مجھے گھور رہی ہو۔"اسنے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں کچھ پل پہلے نازلی قدم رکھنے والی تھی۔ 

"تو آپ بول سکتے تھے۔یوں کھینچنے کی کیا ضرورت تھی۔"وہ تپ کر بولی 

"اچھا معاف کردو۔"وہ مکاری سے ہاتھ جوڑ کر بولا۔اسکا مقصد تو پورا ہو چکا تھا۔اسنے ہاشم کی کار دیکھ کر جان بوجھ کر ایسا کیا تھا اور اب ہاشم کو آگ بگولہ ہوئے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ ایک دم کمینگی سے ہنسا۔

"اب مزہ آئے گا۔۔۔۔" اسنے بڑبڑا کر ٹھوڑی کھجائی۔ 

نازلی اسے مسلسل پیچھے دیکھتے پا کر پلٹی تو اسکی نظر ہاشم خان پر پڑی۔اسکی سانسیں اٹک گئیں۔افف وہ یہاں بھی آگیا تھا۔ 

 قریب آتے ہی ہاشم نے غصے سے جمال آغا کو کالر سے پکڑا۔ 

"تم جیسے کمینے آدمی سے ایسی تھرڈ کلاس حرکتوں کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔"ہاشم دھاڑا تھا۔نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کچھ پل پہلے جو ہوا تھا اسکی بات کر رہا تھا۔ 

"میں نے کیا کیا۔۔۔۔"جمال آغا معصومیت سے بولا۔ 

"ابھی بتاتا ہوں۔"ہاشم کا ہاتھ اٹھا پر نازلی نے ایک دم آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا تھا۔ 

"یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔"وہ تیزی سے بولی۔وہ اگر جمال آغا پر ہاتھ اٹھا لیتا تو امتل آفندی سمیت ،جمال آغا کے گھر والے بھی نازلی کا جینا حرام کر دیتے اور وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتی تھی۔ 

"تم بیچ میں مت آؤ۔"ہاشم نے دانت پیس کر نازلی کو گھور۔نازلی کو بھی غصہ آگیا پہلے وہ خود کم تھا جو باقی سب کو بھی اسکے پیچھے لگانا چاہتا تھا؟

"یہ آپکا مسئلہ نہیں ہے۔نہ میں نے آپ سے مدد مانگی ہے۔سمجھے آپ ۔۔۔۔"نازلی نے تپ کر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔ اسکے انداز پر ہاشم حیران رہ گیا۔وہ اس شخص کے لیے اس سے لڑ رہی تھی۔ 

"چھوڑیں انہیں۔"اسکے کہنے پر ہاشم نے لب بھینچ کر جھٹکے سے جمال آغا کو چھوڑا۔پھر ایک سرد نگاہ نازلی پر ڈالی۔

"چلیں ڈئیر۔"جمال آغا نے نازلی سے کہا۔وہ سر ہلا کر آگے بڑھی جب ہاشم بولا۔

"تم اس شخص کے ساتھ نہیں جاؤ گی۔"اسکا انداز بالکل سپاٹ تھا۔

"یہ میرے ساتھ آئی تھی اور میرے ساتھ ہی جائے گی ہاشم خان۔۔۔۔۔"جمال آغا اسے گھور کر سنجیدگی سے بولا۔

نازلی نے پریشانی سے انہیں دیکھا وہ ان دو پاگلوں کے بیچ پھنس گئی تھی۔

"چلو نازلی گھر میں سب انتظار کر رہے ہوں گے۔" جمال آغا نے نازلی کو دیکھ کر کہا۔

"وہ نہیں جائے گی تمہارے ساتھ۔۔۔۔"ہاشم نے ضدی انداز میں  کہہ کر جمال آغا کو گھورا۔

"چلیں۔۔۔"نازلی ، ہاشم کی بات کو اگنور کرتی جمال آغا کو دیکھ کر جلدی سے بولی پھر قدم آگے بڑھا دیے۔

ہاشم کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اسکے وجود سے آگ کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔ 

"پتہ نہیں اس ضد کا نتیجہ کیا ہوگا۔"

"سمجھتا دل بھی نہیں ، میں بھی نہیں ، وہ بھی نہیں۔"

"بائے کزن۔۔۔"جمال آغا نے خوشی سے آنکھ دبا کر خباثت سے مسکرا کے ہاشم کو دیکھا۔نازلی کی بات پر ہاشم کے سرخ چہرے کو دیکھ کر اسے بڑا مزہ آ رہا تھا۔آج پہلی بار جیسے اسنے ہاشم خان کو مات دی تھی۔ 

جمال آغا کی بات پر نازلی نے پلٹ کر حیرت سے انہیں دیکھا۔ "کزن ۔۔۔۔"اسے لمحہ بھر کو حیرت ہوئی پر اگلے پل وہ سر جھٹک کر آگے بڑھنے لگی۔

اسکی بلا سے وہ دونوں ایک دوسرے کے کچھ بھی لگتے ہوں بس اسکی جان چھوڑ دیں۔ 

جمال آغا ہنستا ہوا بھاگ کر نازلی کے ہم قدم ہوا۔اسے جمال آغا کے ساتھ جاتے دیکھ کر ہاشم کی روح فنا ہونے لگی۔یہ منظر اسکی برداشت سے باہر تھا۔وہیں کھڑے کھڑے ایک سے دوسرا فیصلہ کرتا وہ پلٹا اور مضبوط قدم اٹھاتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔اب وہ جو بھی کرے گا اس کی ذمہ دار خود نازلی حسن آفندی ہوگی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

گاؤں میں دو حویلیاں تھیں۔بڑی حویلی سلطان آغا خان

 (خان بابا) کی تھی اور چھوٹی حویلی فیروز آغا خان

 (بابا صاحب)کی تھی۔دونوں چچا زاد بھائی تھے۔

پچھلے کئی سالوں سے دونوں کے بیچ زمین کا مسئلہ چل رہا تھا۔جسکی وجہ سے دونوں حویلی والوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ 

جمال آغا بھی اپنے باپ کی طرح حاسد انسان تھا۔ہر الٹے کام میں اسے باپ کی سپورٹ حاصل تھی اسلیے وہ کھل کر ہاشم سے اپنی دشمنی نبھا رہا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"عشق کا ع تو عذاب تھا ہی صاحب۔"

"ش سے شدید ہوا ، تو ق سے قہر بن گیا۔"

اگلے دن ہاشم سنجیدہ سا آفس میں داخل ہوا۔

"علینہ ۔۔۔"اسنے اپنے روم کی طرف بڑھتے ہوئے اپنی سکریٹری کو آواز دی۔ 

"جی سر۔۔۔۔"اسکے پکارنے پر علینہ جھٹ سے حاضر ہوئی۔ تیزی سے ہاشم کے ساتھ چلتی روم میں داخل ہوئی۔

علینہ پیاری سی ، بہت ڈیسنٹ سی لڑکی تھی۔وہ دو سالوں سے ہاشم کے آفس میں کام کر رہی تھی۔اسکی اچھی نیچر کی وجہ سے ہاشم اسے بہن کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا۔ 

"علینہ آج میری کتنی میٹنگز ہیں؟"وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر فائل دیکھتے ہوئے بولا۔ 

"سر مسٹر احمد اور مسٹر علی کے ساتھ میٹنگ ہے اور۔۔۔"وہ اسے بتاتی جا رہی تھی اور ہاشم خاموشی سے سن رہا تھا۔وہ بات مکمل کر کے ہاشم کو دیکھنے لگی۔

"سب میٹنگز کینسل کر دو۔"اسنے آرام سے کہہ کر فائل اسے پکڑائی۔

"جی ۔۔۔"علینہ نے حیرت سے کہا کیونکہ دو سالوں میں یہ پہلی بار تھا جب ہاشم نے اپنی میٹنگز کینسل کرنےکا کہا تھا۔ 

"اس فائل کو چیک کر لینا اوکے۔۔"اسے دیکھ کر کہتا وہ کرسی سے اٹھا۔

"جی سر میں کر لونگی۔"علینہ نے اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھا آج وہ معمول سے زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔

ہاشم روم سے نکلا تو وہ بھی چونک کر باہر نکلتی اپنے کام میں لگ گئی۔ 

ہاشم نے گاڑی آگے بڑھائی پھر موبائل اٹھا کر اسفی کو کال ملانے لگا۔ونڈ اسکرین سے باہر گھورتا وہ کافی دیر تک اسفی سے باتیں کرتا رہا۔پھر فون بند کر کے اسنے دوسرا نمبر ڈائل کر کے موبائل کان سے لگایا۔

"وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے۔"

"کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے۔"

نازلی نہا کر واش روم سے نکلی۔بالوں کو خشک کر کے اسنے ٹاول ایک سائیڈ پر رکھا پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں میں برش پھیرنے لگی۔

کالے لباس میں اسکا گلابی چہرہ چمک رہا تھا۔نیلی جھیل  آنکھیں بلا کی حسین لگ رہی تھیں۔اسنے برش رکھ کے ہاتھ بڑھا کر بالوں کو جھٹکا تو سیاہ بال اسکی کمر اور چہرے کے گرد بکھر گئے۔اس وقت وہ جان لینے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔آئینے میں خود پر ایک نظر ڈال کر وہ دوپٹہ اٹھانے بیڈ کی طرف بڑھی تبھی سائیڈ ٹیبل پر رکھا اسکا موبائل بجنے لگا۔اسنے آگے بڑھ کے موبائل اٹھا کر اسکرین پر نظر ڈالی۔

وہ کوئی انجان نمبر تھا۔کچھ پل وہ خاموشی سے اسکرین کو دیکھتی رہی پھر کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔

"اسلام و علیکم۔"اسکے سلام کے جواب میں کچھ پل خاموشی رہی پھر وہ بھاری آواز گونجی جو اسکے ہوش اڑا گئی۔ 

"وعلیکم السلام۔"ہاشم نے جواب دیا۔ 

"میرا نمبر آپ کے پاس کیسے آیا؟"نازلی نے حیرت سے پوچھا۔

"تمہارا نمبر حاصل کرنا میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔"وہ سنجیدگی سے بولا۔

"خیر میں تمہارے گھر کے باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔جلدی باہر آؤ۔"وہ با رعب انداز میں بولا۔کہہ تو ایسے رہا تھا جیسے وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی کہ وہ آئے اور نازلی اس سے ملنے جائے۔ 

"آپ ہوش میں تو ہیں۔میں بھلا آپ سے کیوں ملنے لگی۔"نازلی نے غم و غصے سے کہا۔

"میں پورے ہوش میں ہوں نازلی حسن آفندی۔مجھے تم سے تابین کے متعلق بات کرنی ہے۔اگر آنا چاہو تو آجانا ورنہ آگے جو بھی ہوگا اسکی ذمہ دار تم خود ہوگی۔"سرد انداز میں اپنی بات پوری کر کے اسنے کال کاٹ دی۔

نازلی کتنے ہی پل حیرت سے موبائل اسکرین کو گھورتی رہی۔ 

"افف اللہ اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے۔"اسنے تپ کر خود کلامی کی۔کچھ وقت گزرا تو اسے پریشانی نے گھیر لیا۔

"جاؤں کہ نہ جاؤں۔۔۔۔"وہ کمرے میں چکر کاٹتی بڑبڑا رہی تھی۔

"آپی کے بارے میں اس شخص نے کیا بات کرنی ہوگی؟۔۔۔۔کہیں وہ آپی کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے ۔۔۔۔ اللہ جی میں کیا کروں۔۔۔۔"وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔

دل کی بے چینی جب حد سے بڑھی تو اسنے لمبی سانس کھینچ کر جلدی سے دوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھا۔

کھلے بال اسکی کمر پر بکھرے تھے۔دوپٹہ ٹھیک کرتی وہ کمرے سے نکلی۔نیچے کسی کو نہ پا کر اسنے شکر ادا کیا پھر تیز قدموں سے چلتی مین گیٹ کی طرف بڑھی۔

گیٹ سے باہر نکل کر اسنے آس پاس نظر دوڑائی۔کچھ دور روڈ کی ایک طرف وہ گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔گلاسز کے پیچھے سے وہ سیاہ آنکھیں نازلی پر جمی تھیں۔ 

نازلی کے دل میں آئی کہ وہ یہیں سے پلٹ کر واپس جلی جائے پر پھر سوچا یہاں تک آ ہی گئی ہوں تو اسکی بات سن ہی لوں۔وہ آہستہ سے قدم اٹھاتی اسکی طرف بڑھنے لگی۔ 

"تیرے سوا کسی اور کے کیسے ہو سکتے ہیں ہم۔"

"تو خود ہی سوچ کہ تیرے جیسا کوئی اور ہے؟"

ہاشم دیوانہ سا ہوا سیاہ لباس میں آتی اس کانچ سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ہوا نے نازلی کے سر سے دوپٹے کو اڑایا تو سیاہ بال اسکے چہرے پر بکھرے تھے۔مومی ہاتھ بڑھا کر اسنے بال پیچھے کر کے دوپٹہ ٹھیک کیا۔ہاشم بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا۔اسکی طرف بڑھتا نازلی کا ایک ایک قدم اسے بے خود کر رہا تھا۔اس لڑکی سا حسین و دلکش بھی کوئی ہوگا ؟اس شخص کی نظر میں تو بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔اسکا حسن بے مثال تھا۔

وہ پر کشش شہزادی تھی جس نے اس شہزادے کو اپنا غلام بنا ڈالا تھا۔

نازلی اس سے کچھ فاصلے پر رکی۔

"جو بات بھی ہے جلدی کہیں۔"وہ عجلت میں بولی 

"یہاں نہیں کہیں اور چل کر بات کرتے ہیں۔"وہ اپنی بات کہہ کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا۔ 

"میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی۔"نازلی نے اسے دیکھ کر کہا۔

"تمہاری مرضی ۔۔۔۔ پر سوچ لو اگر ہمیں یہاں کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔"وہ بے پرواہ انداز میں کہہ کر اسے دیکھنے لگا۔ نازلی ایک دم سے پریشان ہوئی۔

"پر میں زیادہ ٹائم نہیں رکوں گی۔"اسنے ہاتھ مسل کر کہا۔ہاشم نے مسکرا کر اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔پھر خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ 

"اب تو بولیں۔"نازلی نے بے چینی سے کہا 

"کہیں آرام سے بیٹھ کر بتاؤں گا۔"اسنے پر سکون انداز میں کہا اسکی بات پر نازلی کو غصہ آیا۔ 

"یہ آپ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔آخر بتا کیوں نہیں دیتے کہ کیا بات ہے؟"وہ تپ کر بولی۔

"صبر سے کام لو۔۔۔۔ کچھ وقت تک جان جاؤ گی۔"وہ سنجیدگی سے ایک نظر اس پر ڈال کر خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔ 

نازلی بے تابی سے ہاتھوں کو مسلنے لگی۔نجانے وہ کیا بات کرنے والا تھا۔ 

اچانک کار کیفے کے سامنے رکی تھی۔

"یہاں کیوں؟"نازلی نے اسے دیکھ کر پوچھا۔

"تو کیا سڑک پر بیٹھ کر بات کریں۔"ہاشم نے ابرو اٹھا کر کہا۔نازلی منہ پھیر گئی۔

"اترو ۔۔۔۔"ہاشم نے سنجیدگی سے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ 

"جانے کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔"نازلی بڑبڑا کر گاڑی سے باہر نکلی۔

ہاشم کار لاک کر کے اس تک آیا۔

"بات کر کے پھر مجھے جلدی سے گھر ڈراپ کریں۔"ہاشم نے  نازلی کی بات کو اگنور کر کے اسے آنے کا اشارہ کیا۔نازلی اسے گھور کر اسکے ساتھ چلنے لگی۔ 

وہ گلاس وال کے قریب رکھے ٹیبل پر بیٹھے۔نازلی نے ایک بے چین نظر گلاس وال سے باہر ڈالی پھر ہاشم کو دیکھا۔

"کافی پیو گی؟"ہاشم نے پوچھا۔

"میں یہاں کھانے پینے کے لیے نہیں آئی۔بتا بھی دیں کہ کیا بات ہے؟"اسنے عجلت میں پوچھا۔

"میں آج تابین سے نکاح کر رہا ہوں۔"ہاشم نے تحمل سے کہہ کر نازلی کا چہرہ دیکھا۔

نازلی کو لگا جیسے اسکے ارد گرد کوئی دھماکہ ہوا تھا۔ 

"آپی یوں اچانک آپ سے نکاح کیوں کرنے لگیں؟"نازلی نے تعجب سے پوچھا۔

"کیوں ۔۔۔۔ کیا تم نہیں جانتی کہ کیوں؟؟"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔"میں اسے جو بھی کہوں گا وہ ضرور کرے گی۔یہ بات تم بھی اچھے سے جانتی ہو۔"ہاشم کے لہجے میں بلا کا یقین تھا۔

اسکی بات سن کر نازلی کی پیشانی پر پسینہ چمک اٹھا۔

"آپکو آپی سے شادی کرنی ہی ہے تو آپ گھر پر رشتہ لے کر آئیں یہ تو کوئی طریقہ نہ ہوا شادی کرنے کا۔"نازلی نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

ہاشم ایک دم مسکرایا پھر اگلے پل بالکل سنجیدہ ہوگیا۔

"یہ نکاح میں ہمیشہ کے لیے نبھانے کے لیے تو نہیں کر رہا۔" اسکے لہجے سے  بے زاری ٹپک رہی تھی۔ 

"کیا مطلب ہے آپکا۔"نازلی الجھی تھی۔ 

"مطلب یہ کہ میں نکاح کے فوراً بعد تابین کو طلاق دے دوں گا۔"اسنے سرد انداز میں نازلی کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔اسکی بات پر نازلی نے وحشت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"آپ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔"اسنے کپکپائی آواز میں کہا۔

"صرف ایک شرط پر۔۔۔۔۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا 

"کیا ۔۔۔۔"نازلی جلدی سے بولی۔ 

"یا تم مجھ سے نکاح کرو گی یا میں تابین سے۔۔۔۔۔"وہ شانے اچکا کر بولا پھر سرد نظروں سے اسے دیکھا۔"میں تابین سے نکاح کروں گا پر نکاح کے اگلے ہی پل اسے منہ دکھائی کا تحفہ طلاق کی صورت دوں گا۔اسکے بعد تابین کا کیا حال بنے گا وہ تم سوچ سکتی ہو۔اب تم بتاؤ تمہارا کیا فیصلہ ہے؟"وہ نازلی کے زرد ہوتے چہرے کو دیکھ کر سخت لہجے میں بولا۔

نازلی کا سر چکرانے لگا تھا۔

"آ۔۔۔آپ ایسا نہیں کریں گے۔"اسنے رک رک کر کہا۔اسکے گلے سے آواز نکل ہی نہیں رہی تھی۔اسکے ہاتھ ٹھنڈے برف ہو گئے  تھے۔

"میں ایسا ہی کروں گا۔"اسنے نازلی کی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھ کر ہمیشہ والے ضدی لہجے میں کہا۔

"تم جانتی ہی ہو کہ تابین میری کوئی بات نہیں ٹالے گی اور ویسے بھی مجھے پانا تو اسکی سب سے بڑی خواہش ہے۔مجھے پا کر جب وہ آسمان میں اڑنے لگے گی تب ۔۔۔۔"وہ ایک پل کے لیے رکا۔

نازلی سانس روکے اسکی بات سن رہی تھی۔ "تب میں اسے طلاق دے کر آسمان سے زمین پر پٹخ دوں گا۔پھر کیا بنے گا تابین کا؟ ۔۔۔۔کیا تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ تب اسکے ساتھ کیا ہوگا؟"ہاشم نے بے رحم انداز میں ایسا نقشہ کھینچا تھا کہ نازلی کی روح فنا ہونے لگی۔

اسکا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا۔وہ سوچنے لگی کہ اگر ایسا ہوگیا تو تابین پاگل ہو جائے گی۔وہ زندہ نہیں بچے گی۔نازلی کیسے اپنی بہن کو مرنے دے۔

وہ کیسے اس بے درد شخص کے ہاتھوں اپنی بہن کو موت کے حوالے ہوتے دیکھ سکتی تھی لیکن۔۔۔۔وہ خود بھی تو اس شخص کے ساتھ نہیں رہ پائے گی۔

پر ان میں سے کسی ایک کو تو قربان ہونا تھا ناں۔۔۔۔اسے سامنے بیٹھے اس شخص سے نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔

پھر ایک خیال کے آتے ہی وہ چونکی تھی۔ہوسکتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہو۔

"میں کیسے یقین کر لوں کہ آپ سچ بول رہے ہیں؟"اسنے ہاشم کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔

ہاشم نے بغور اسکے چہرے کو دیکھا پھر پر سکون انداز میں ٹیبل سے موبائل اٹھا کر کال ملانے لگا۔

اسنے تابین کو کال ملا کر اسپیکر آن کیا۔ 

"ہاشم کہاں ہیں آپ؟"تابین کی بے چین آواز پر نازلی کے جسم سے جان نکلنے لگی۔ 

"میں راستے میں ہوں۔"ہاشم نے نازلی کو دیکھ کر جواب دیا۔ 

"جلدی آئیں ناں۔مجھ سے انتظار بالکل نہیں ہورہا جانے آپ نے کیا بات کرنی ہے۔"تابین نے بے تابی سے کہا۔

نازلی جانتی تھی کہ اس شخص نے تابین سے کیا بات کرنی تھی۔ 

"بس تھوڑی دیر انتظار کرو ۔۔۔ میں آ رہا ہوں۔"ہاشم نے بات ختم کر کے کال کاٹی۔پھر نازلی کو دیکھا جسکی آنکھوں میں دور دور تک خوف کے سائے پھیلے تھے۔ 

"پانچ منٹ کا وقت دیتا ہوں۔سوچ کر جواب دو مجھے۔"ہاشم نے سپاٹ انداز میں بازو پر بندھی گھڑی پر نظر ڈال کر کہا۔

اس کے لہجے میں نرمی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔سیاہ آنکھیں نازلی کے چہرے پر جمی تھیں۔

"کیا کروں کہ وہ شخص۔۔۔۔"

"میری مجبوری ہے۔۔۔۔۔۔"

وہ کسی بھی حال میں اس گڑیا کو اپنا بنانا چاہتا تھا پھر چاہے اسے پانے کے لیے اسے کتنا ہی برا کیوں نہ بننا پڑے۔

اسکی بات پر نازلی کا دل بند ہونے لگا۔اسکی آنکھوں کے سامنے دھند کی چادر پھیل گئی۔ 

"پلیز ۔۔۔ایسا مت کریں۔"اسنے نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا پر اس وقت اس ظالم شہزادے کو اس کانچ کی گڑیا پر ذرا رحم نہ آیا۔اسکا دل اس وقت پتھر ہوگیا تھا۔

نازلی جیسے زندگی اور موت کے درمیان کھڑی تھی۔

آر یا پار کا فیصلہ کرنا تھا۔وہ پانچ منٹ اس پر عذاب بن کر گزر رہے تھے۔ اسنے آخری امید کے طور پر ہاشم کو دیکھا کہ شاید اسکا پتھر دل پگھل جائے پر وہاں کوئی اثر نہ ہوا۔

اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا پھر اپنا کوٹ جھاڑ کر نازلی کی حیران صورت کو دیکھا۔ 

"لگتا ہے تم نے فیصلہ کر لیا ہے۔"اسنے مصروف انداز میں اپنا موبائل اٹھایا۔

"میں چلتا ہوں۔تابین میرا انتظار کر رہی ہوگی۔"وہ جانے کے لیے پلٹا۔اسکی بات پر نازلی کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑی۔

وہ خود قربان ہوسکتی تھی پر تابین کو برباد نہیں ہونے دے سکتی تھی۔وہ ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ہاشم خان۔۔"اسنے لڑکھڑائی آواز میں پکارا تھا۔ہاشم کے قدم تھم گئے تھے۔وہ آہستہ سے اسکی طرف پلٹا۔

نازلی سر جھکا کر اسکی طرف بڑھی۔ 

"مجھے منظور ہے۔"یہ تین الفاظ کہتے نازلی کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کر بکھری تھی۔

اسکا جواب سن کر ہاشم کا دل سینے کی دیوار توڑ کر باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔دل چاہے جتنا بھی دیوانہ ہوتا پر اس نے اسے دماغ پر حاوی نہیں ہونے دیا تھا۔اگر وہ اس وقت نرم پڑ گیا تو وہ اس لڑکی کو پھر کبھی نہیں پا سکے گا۔

اسنے نازلی کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔وہ مردہ قدموں سے اسکے ساتھ باہر نکلی تھی۔ 

گاڑی چلتی چلی جا رہی تھی۔نازلی بالکل سن سی بیٹھی گذرتے مناظر کو پتھرائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ 

گاڑی ایک دم رکی۔نازلی نے چونک کر سامنے دیکھا۔وہ کوئی انجان جگہ تھی۔ 

کار اس وقت خان ولا کے پورچ میں کھڑی تھی۔

"یہ آپ مجھے کہاں لے آئے۔مجھے گھر جانا ہے۔"نازلی نے ڈر کر ہاشم کو دیکھا۔ 

"پہلے نکاح تو ہونے دو۔۔۔پھر گھر بھی چلی جانا۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔

"م۔۔۔میں مان گئی ہوں ناں پھر نکاح کی اتنی جلدی کیا ہے۔" نازلی نے جلدی سے کہا 

"مجھے مزید انتظار نہیں کرنا۔نکاح ابھی اسی وقت ہوگا نازلی حسن آفندی۔"ہاشم نے پیشانی پر بل ڈال کر کہا۔

"چلو اترو۔"اسے اشارہ کرتا وہ کار سے اترا۔ 

نازلی کا وجود کانپنے لگا۔کاش وہ یہاں سے بھاگ سکتی یا غائب ہوجاتی بس وہ اس شخص کی پہنچ سے کہیں بہت دور چلی جاتی۔

نازلی بت بنی بیٹھی رہی تو ہاشم نے اسکی طرف کا دروازہ کھول کر اسکا ہاتھ تھام کر اسے باہر نکالا۔

نازلی نے اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا تو وہ بول پڑا۔

"اب سے یہ ہاتھ ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہے گا۔ تم چاہ کر بھی  چھڑوا نہیں پاؤ گی۔"اسنے نازلی کی آنکھوں میں دیکھ کر معنی خیز انداز میں کہا۔

نازلی نے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔جیسے اس منظر کو غائب کرنا چاہتی ہو۔پر آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ شخص کھڑا تھا۔ 

اچانک موسم نے رنگ بدلا تھا۔آسمان پر کالے بادل چھانے لگے۔جیسے آندھی ، طوفان آنے والا تھا۔

نازلی نے چونک کر آسمان کو دیکھا۔تبھی ہاشم اسکا ہاتھ تھام کر شیش محل میں داخل ہوا۔نازلی اسکے ساتھ گھسیٹتی چلی جا رہی تھی۔

وہ نازلی کو لے کر اپنے کمرے میں آیا۔پھر اسے بیڈ پر بٹھایا۔ "تھوڑا سا انتظار کرو پھر تم میری بن جاؤ گی۔"ہاشم نے محبت سے اس کا ہاتھ تھپک کر چھوڑا۔نازلی سر جھکا گئی۔اسنے کوئی جواب نہ دیا۔بس بت بنی برف کی مانند بیٹھی رہی۔ 

ہاشم کمرے سے باہر نکل کر آگے بڑھا کہ اسفی ایک دم اسکے سامنے آیا۔"یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے ہاشم۔"

"میں اس وقت کوئی بات نہیں سننا چاہتا اسفی۔"اسنے سنجیدگی سے اسفی کو دیکھا۔

"مولوی صاحب آگئے۔"اسنے گھڑی دیکھ کر پوچھا۔وہ اس وقت کوئی بھی بات سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ 

"ہاں ۔۔۔"اسفی نے خفگی سے جواب دیا۔ 

"منہ ٹھیک کرو اب ۔۔۔۔تمہیں آج نازلی کا بھائی بن کر اسکا نکاح مجھ سے کروانا ہے۔"ہاشم اسے دیکھ کر مدھم سا مسکرایا

"خوب رہی۔۔۔الٹے کام تم کرو اور پھر اپنے ساتھ مجھے بھی پھنسا لو۔"اسفی تپ کر کہتا وہاں سے چلا گیا۔

ہاشم بھی مسکراہٹ دبا کر اسکے پیچھے گیا۔ڈرائنگ روم میں اسکے کچھ دوست اور مولوی صاحب بیٹھے تھے۔ 

گواہوں کی موجودگی میں مولوی صاحب نے ہاشم خان اور نازلی حسن آفندی کا نکاح پڑھایا تھا۔

اسفی جب کمرے میں نازلی سے نکاح نامے پر سائن لینے آیا تو نازلی نے آنسو بھری آنکھیں اٹھا کر پر امید نظروں سے اسے دیکھا تھا کہ شاید وہ اسے اس شخص سے بچا لے پر اسفی شرمندہ سا نظریں پھیر گیا۔

وہ اس معصوم لڑکی کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔اسکا دوست دیوانہ تھا وہ اس وقت کسی کی بات ماننے والا نہ تھا۔ 

نازلی نے کانپتے ہاتھ میں پن تھاما۔آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی۔

اسنے اپنے ہاتھوں سے اپنی موت کے کاغذات پر دستخط کیا تھا۔اسفی نکاح نامہ لے کر خاموشی سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

نازلی بیڈ پر اپنے کانپتے وجود کو سمیٹ کر بیٹھی پھر ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی۔اسنے خواب میں بھی کبھی نہ سوچا تھا کہ اسکے ساتھ ایسا بھی ہو گا۔

کیا بنے گا اب اسکا؟اسنے آپی کو بچانے کے لیے یہ قدم تو اٹھا لیا پر ۔۔۔۔ وہ بابا جان کا سامنا کس منہ سے کرے گی۔امتل آفندی اور تابین ۔۔۔۔۔۔ وہ اسکے ساتھ کیا کریں گیں؟ اسنے تابین کے لیے خود کو قربان کیا تھا پر کیا تابین اس بات کو سمجھ پائے گی؟

ہاشم نے اُس وقت جس انداز میں بات کی تھی نازلی کا دماغ بالکل سن ہوگیا تھا۔تب اس ایک بات کے علاوہ وہ کچھ اور سوچ ہی نہ پائی۔ وہ یا تابین ۔۔۔۔ اُس وقت اُسے دونوں میں سے کسی ایک کو چننا تھا اور اسنے خود کو چنا تھا۔وہ اپنی بہن کو اپنی ماما کی طرح تڑپ تڑپ کر مرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔زنیرہ کو بھی تو حسن آفندی نے آسمان پر بٹھا کر پھر زمین پر پٹخ دیا تھا۔پھر اسکے جسم میں جان نہیں رہی تھی۔

ہاشم بھی تو یہی سب کچھ تابین کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔پھر وہ کیسے جانتے بوجھتے اپنی بہن کو موت کے منہ میں جانے دے سکتی تھی۔

وہ گھٹنوں میں سر دیے خاموش سے آنسو بہاتی سوچوں کے جال میں پھنسی تھی۔ 

اچانک بیڈ پر وہ اسکے سامنے آ کر بیٹھا۔نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔ہاشم نے اسکے چہرے کو دیکھا۔مسلسل رونے کی وجہ سے اسکی ناک اور گال لال ہو رہے تھے۔الجھی لٹیں چہرے پر بکھری تھیں اور وہ نیلی آنکھیں ، ان میں تیرتا گلابی پن۔۔۔۔۔وہ آنکھیں اسکی جان لینے کے در پہ تھیں۔۔۔۔۔۔ہاشم خان ان آنکھوں پر اپنا آپ وار سکتا تھا۔

"اک اکھ دا مول سوا لکھ بلھیا۔"

"پورا یار تولاں تے کی بن سی۔"

نازلی اس وقت اتنی حسین لگ رہی تھی کہ وہ مبہوت سا بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا۔نازلی ہوش میں آ کر ایک دم بیڈ سے نیچے اتری پھر دوپٹہ اچھے سے اپنے گرد لپٹا۔

"مجھے گھر جانا ہے۔"اسنے نم آواز میں اسے دیکھ کر کہا۔ 

"کیوں ۔۔۔۔اب تو ہمارا نکاح ہوگیا ہے۔اب تو تمہیں ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہنا ہے۔"وہ بیڈ سے اٹھتا سنجیدگی سے بولا۔

"مجھے کچھ نہیں معلوم مجھے بس گھر جانا ہے۔"وہ سر جھکا کر نم آواز میں بالکل بچوں کی طرح ضدی لہجے میں بولی۔

اسکے انداز پر ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔

"اچھا ٹھیک ہے پر ۔۔۔"وہ دلکشی سے کہہ کر رکا۔نازلی نے سر اٹھا کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔ 

"پہلے نکاح کی خوشی میں مبارکباد تو دے دو۔"ہاشم نے بانہیں پھیلا کر شرارت سے کہا۔

نازلی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ کر خود میں سمٹتی پیچھے  دیوار کے ساتھ لگی۔

"میرے ساتھ ایسا مت کریں۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔آنکھ  سے موتی ٹوٹ کر بکھرا تھا۔ان نیلی آنکھوں میں ویرانی اور خوف ہی خوف پھیلا تھا۔

ہاشم کا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہوا۔

"چلو آؤ ۔۔۔۔ تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔"وہ بھاری آواز میں کہتا دروازے کی طرف بڑھا۔ 

نازلی جلدی سے آنسو صاف کرتی اسکے پیچھے چلنے لگی۔شیش محل سے نکل کر وہ گاڑی میں بیٹھے۔یہاں آتے ہوئے وہ نازلی حسن آفندی تھی پر یہاں سے جاتے وقت وہ نازلی ہاشم خان بن گئی تھی۔

گاڑی میں سکوت چھایا تھا۔ہاشم خاموشی سے کار ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ نازلی نے ہاتھ مسل کر ایک نظر ہاشم کو دیکھا پھر ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔جہاں بارش برس رہی تھی۔

 ایک سوال بری طرح سے نازلی کے دماغ میں چکرا رہا تھا۔آخر اس سے رہا نہیں گیا تو بول پڑی۔

"بات سنیں۔۔"اسنے مدھم آواز میں کہا 

"جی سنائیں۔۔"ہاشم ہنوز باہر دیکھتا بولا تھا۔

"آپ نے کہا تھا کہ آپ تابین آپی سے نکاح کر کے انہیں طلاق دے دیں گے۔۔۔"اسنے جھجھک کر کہا۔ہاشم نے پر سکون انداز میں اثبات میں سر ہلایا۔

"پھر کیا آپ مجھے بھی طلاق دے دیں گے؟"اسنے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ شاید اسنے اسے بھی طلاق دینے کا سوچا ہو پھر تو اچھا ہی ہوگا کہ اسکی جان عذاب سے چھوٹے گی۔

ہاشم نے اسے دیکھا وہ اچھے سے سمجھ چکا تھا کہ میڈم کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔

"تمہیں طلاق دینے کے لیے میں نے تم سے نکاح نہیں کیا۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔

"تمہیں تو ساری زندگی اپنے ساتھ باندھ کر رکھوں گا۔چاہ کر بھی تم مجھ سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکو گی۔اس بات کو ابھی سے  دماغ سے نکال دو کہ میں کبھی تمہیں چھوڑوں گا یا تم مجھے ۔۔۔۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدہ و اٹل لہجے میں بولا۔

نازلی اسکی آنکھوں میں نہ دیکھ سکی تو منہ پھیر گئی۔آخری امید جیسے دم توڑ چکی تھی۔

انکا یہ رشتہ کیا طوفان برپا کرنے والے تھا اس سوچ سے ہی نازلی کی روح کانپ اٹھی۔

اسنے پریشانی سے کھڑکی سے باہر دیکھا بارش کے برسنے میں تیزی آ چکی تھی۔

گاڑی حسن ولا کے سامنے رکی تو نازلی نے جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اسکا ہاتھ ہاشم نے اپنے ہاتھ میں جکڑا۔نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔

"نئی زندگی مبارک ہو نازلی ہاشم خان۔"ہاشم نے محبت سے کہہ کر اسکی ٹھنڈی ہتھیلی پر لب رکھے۔

نازلی پوری جان سے کانپ اٹھی۔اسنے جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچا۔اسے لگا جیسے اسکے ہاتھ پر جلتا انگارہ رکھ دیا ہو۔

"نازلی ہاشم خان"اس نام پر۔۔۔۔۔اسکی حرکت پر نازلی کی آنکھوں سے اس شخص کے لیے نفرت چھلکنے لگی۔اسکے باپ کے نام کی جگہ آج اس شخص کا نام اُسکے نام کے ساتھ جڑ گیا  تھا جس سے اسے نفرت تھی۔

اسنے جلتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔"آئی ہیٹ یو۔"نفرت سے پر لہجے میں کہتی وہ جھٹ سے دروازہ کھول کر گاڑی سے اتر گئی۔

بارش نے اسے بھگو ڈالا تھا۔وہ روتی ہوئی تیزی سے آگے بڑھتی گھر کا گیٹ پار کر گئی۔ 

ہاشم کتنے پل ساکت سا بیٹھا رہا۔نازلی کے نفرت سے پُر الفاظ کانوں میں گونجے تو اسنے دانت پیس کر زور سے اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ مارا۔

"تمہیں نفرت سے محبت کے سفر تک یہ ہاشم خان لے کر آئے گا نازلی ہاشم خان۔۔۔۔۔۔۔"اسنے جنونی انداز میں سرگوشی کی تھی۔نازلی کے کہے گئے الفاظ تیر کی مانند اسکے دل میں پیوست ہوئے تھے۔

وہ دیوانہ وار اسے چاہتا چلا جا رہا تھا تو وہ کیوں اس سے نفرت کر رہی تھی ؟ وہ بھی تو اس دیوانے عاشق کو کبھی دیوانگی سے جواب دے۔پر کیا کبھی ایسا ہو پائے گا کہ وہ گڑیا اس شہزادے کو چاہنے لگے؟ 

اس محبت ، جنون ، ضد اور نفرت کے سفر میں جانے کون کیا کھوئے گا اور کیا پائے گا۔

"دل تجھ پہ فدا ہوا۔۔۔۔"

"کمبخت شوق سے تباہ ہوا۔۔۔۔"

"شہریار۔۔۔"نور نے کوریڈور سے گزرتے شہریار کو پکارا۔وہ ایک دم رک کر پلٹا۔ 

نور آہستہ سے چلتی اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔ 

"کل ہاشم لالہ کے ساتھ اپنے رویے کی وضاحت کریں گے؟" اسنے سنجیدگی سے اسکا چہرہ دیکھ کر پوچھا۔ 

"میں اپنے رویے کے لیے کسی کو جواب دہ نہیں ہوں۔"شہریار کی پیشانی پر بل پڑے۔ 

"ہاشم لالہ کے ساتھ آپکے جو بھی اختلافات ہیں وہ اپنی جگہ پر یوں سب کے بیچ آپکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔"

"مجھ سے دکھاوا نہیں ہوتا۔۔۔"وہ سنجیدگی سے بولا 

"لالہ اتنے عرصے بعد آئے تھے۔اگر آپ ان سے اچھے سے مل لیتے تو کیا بگڑ جاتا آپکا؟"نور نے اداسی سے کہا 

"میں تمہارے بھائی کے قدموں میں نہیں گر سکتا سمجھی۔"وہ روکھے لہجے میں بولا 

"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔"نور نے دکھ سے اسے دیکھا۔

"آپ پہلے تو ایسے نہ تھے شہریار۔آپ اور لالہ کی دوستی مثالی رہی ہے پھر اس چھوٹی سی بات پر آپ کا یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے۔وہ بات اتنی بڑی بھی نہیں ہے کہ آپ اور خان بابا اسے بھلا نہ سکیں۔"وہ ٹھہر ٹھہر کر بولی 

"اگر میں بھی وہی کروں جو تمہارے بھائی نے کیا پھر شاید تمہیں یہ بات چھوٹی نہ لگے۔"وہ طنزیہ مسکرا کر بولا۔نور کی آنکھوں میں نمی جمع ہونے لگی۔

"لالہ واقعی آپکو ہاشم لالہ کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔"آبی چل کر آتی نور کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ 

"تم بیچ میں مت بولو آبی"شہریار نے سختی سے کہا 

"کیوں لالہ ۔۔۔۔ یہ اس گھر کا مسئلہ۔۔۔ میرا مسئلہ ۔۔۔پھر میں کیوں نہ بولوں۔"آبی نے سنجیدگی سےبھائی کو دیکھا۔ 

"میرا سر مت کھاؤ آبی ۔۔۔۔ اپنی اس دوست کو بھی لو اور جاؤ یہاں سے۔۔۔۔میں فضول باتیں نہیں سننا چاہتا۔"اسنے غصے سے  چبا کر انہیں جانے کا اشارہ کیا۔

"چلو نور ۔۔۔"آبی نے خاموش کھڑی نور کا ہاتھ پکڑا اور بنا شہریار کو دیکھے وہاں سے چلی گئی۔ 

شہریار نے انکی پشت کو دیکھا۔اسنے آج تک آبی سے غصے میں بات نہیں کی تھی پر آج ۔۔۔۔۔

"ڈیم اٹ۔"دیوار پر زور سے ہاتھ مار کر وہ پلٹ کر وہاں سے نکل گیا۔ 

آبی نے نور کو بیڈ پر بٹھایا پھر خود اسکے سامنے بیٹھی۔ 

"یہ سب میری وجہ سے ہورہا ہے ناں نور ۔۔۔۔۔ پر میں کیا کروں میری کوئی سنتا بھی تو نہیں۔"آبی نے اسکے ہاتھ تھام کر اداسی سے کہا 

"نہیں آبی اس میں تمہارا کیا قصور۔"نور نے آگے بڑھ کر اسے پیار سے گلے لگایا۔

"بات اتنی بڑی نہیں ہے پر لالہ نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔جانے لالہ اور خان بابا کب اس بات کو سمجھیں گے۔"آبی نے نم آواز میں کہا اور نور سوچنے لگی جانے وہ پتھر کب پگھلے گا؟ایک ایسی بات جسے بیٹھ کر سلجھایا جا سکتا تھا۔

اسے لے کر وہ شخص اس قدر ری ایکٹ کر رہا تھا۔

وہ شہریار سے کیا گلہ کرتی کہ اسکے اپنے والد نے اس بات کو مسئلہ بنا لیا تھا۔جس نے ان سبکے اور ہاشم خان کے بیچ فاصلے پیدا کر دیے تھے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"یونہی تو پلکوں پر یاقوت نہیں آویزاں۔"

"کچھ تو ہے جو میرے سینے میں پگھلتا ہوگا۔"

اگلے دن اسکی آنکھ دیر سے کھلی۔وہ یونی بھی نہیں جا پائی تھی۔بیڈ سے اٹھ کر وہ واش روم کی طرف بڑھی۔

 منہ دھو کر باہر نکلی تو آئینے کے سامنےکھڑے ہو کر اپنے سراپے پر نظر ڈالی۔بکھرے بال ، ویران چہرہ ، گلابی آنکھیں وہ بالکل اجڑی ہوئی لگ رہی تھی۔

اسنے برش اٹھا کر بالوں میں پھیرا پھر لمبی سانس کھینچ کر دوپٹہ ٹھیک کرتی کمرے سے باہر نکلی۔ 

نیچے آئی تو خاموشی چھائی تھی۔بابا جان اور بڑی ماما شاید جا چکے تھے۔وہ ڈائننگ روم میں داخل ہوئی پر سامنے کا منظر دیکھ کر رک سی گئی۔

تابین غصے میں سہمی سی کھڑی نوری پر چلا رہی تھی۔ 

"ایڈیٹ کہیں کی۔۔۔۔میرے سارے کپڑے خراب کر دیے تم نے ۔۔۔۔ اندھی ہو ۔۔۔ نظر نہیں آتا تو علاج کرواؤ اپنا۔۔۔۔۔اسٹوپڈ۔۔۔۔"تابین اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے چبا کر بولی۔

بیچاری نوری کے ہاتھ سے تابین کے اوپر تھوڑی سی کافی گر گئی تھی جسکی وجہ سے وہ اب تابین کے نشانے پر تھی۔ 

"معاف کر دیں باجی۔"نوری نے مری ہوئی آواز میں کہا۔

اسکی آنکھیں نم ہورہی تھیں۔نازلی ساری بات سمجھ کر جلدی سے انکی طرف بڑھی۔

"باجی واجی نہیں ہوں میں تمہاری جاہل لڑکی۔"تابین نے اسے گھور کر کہا۔

"پلیز آپی غلطی ہوگئی نوری سے ۔۔۔ معاف کر دیں۔"نازلی نے نوری کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے جلدی سے کہا۔

"اس سے غلطی ہوگئی ۔۔۔پر میرا ڈریس تو خراب ہوگیا ناں ۔۔۔۔ ماما نے بھی جاہل نوکر رکھے ہوئے ہیں۔"وہ غصے سے اپنے ڈریس کو دیکھتی پیر پٹخ کر ڈائننگ روم سے باہر نکلی۔ 

کل سے تابین کا موڈ سخت خراب تھا۔

کل ہاشم نے اسے ملنے کے لیے بلایا تھا۔وہ دو گھنٹے اسکے آنے کا انتظار کرتی رہی پر پھر ہاشم نے کال کر کے اسے کہہ دیا کہ اسکی ارجنٹ میٹنگ ہے اسلیے وہ نہیں آ پائے گا۔

تابین کا دماغ گھوم کر رہ گیا تھا۔اتنا انتظار کرنے کے بعد وہ نہیں آیا تھا۔اسے غصہ تو بڑا آیا پر ظاہر سی بات ہے وہ ہاشم خان کو بھول کر بھی اپنا غصہ نہیں دکھا سکتی تھی۔پہلے ہی مشکل سے وہ اس سے بات کرنے لگا تھا وہ کچھ الٹا کہہ کر اسے کھونا نہیں چاہتی تھی۔

اسلیے کل سے بھری بیٹھی تابین کے غصے کا نشانہ آج چھوٹی سی نوری بنی تھی۔

نازلی نے نوری کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔نوری کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ 

"رو مت نوری ۔۔۔۔۔ آپی کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔"اسنے نرمی سے نوری کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

"کوئی بات نہیں نازلی باجی ۔۔۔ آپ معافی نہ مانگیں۔۔۔۔ ہمارا کیا ہے ہم تو ویسے بھی نوکر ہیں۔ہمیں اس رویے کی عادت ہے۔"وہ نازلی کو دیکھ کر دکھ سے مسکرائی۔ 

"تم جانتی ہو ناں نوری کہ تم میرے لیے کیا ہو؟تم میری ساتھی میری دوست ہو پھر ایسی بات کیوں کر رہی ہو۔۔"نازلی نے محبت سے کہہ کر اسے گلے لگایا۔

اسے تابین کے لہجے پر افسوس ہورہا تھا۔اسے نوری کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ 

"آپ بہت اچھی ہیں نازلی باجی۔"نوری اس سے الگ ہو کر نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر بولی 

"اور تم بھی۔۔۔۔ چھوٹی سی نوری۔"نازلی نے مسکرا کر اسکا گال تھپکا۔

"چلیں آپ بیٹھیں ۔۔۔ میں ابھی آپکے لیے اچھا سا ناشتہ لے کر آتی ہوں۔"نوری مسکرا کر کہتی کچن کی طرف بڑھی۔

نازلی کے محبت بھری بولوں نے اس معصوم کے چہرے کو مسکراہٹ سے سجا دیا تھا۔ 

دو محبت بھرے بول بولنے سے کسی کا کچھ نہیں جاتا ہاں پر سامنے والے کے دل میں اس شخص کے لیے محبت و قدر بڑھ جاتی ہے جبکہ تلخی پھیلانے والے کسی کے دل میں نہیں سما پاتے۔

تابین اور نازلی میں بھی یہی فرق تھا۔ایک مسکراہٹیں نوچ لینے کا فن جانتی تھی تو دوسری اپنی محبت سے ، اپنے نرم لہجے  سے دوسروں کے چہرے کو مسکراہٹوں سے سجا دیتی تھی۔

نازلی کرسی گھسیٹ کر بیٹھی۔ناشتہ کرنے کا اسکا ذرا دل نہیں کر رہا تھا پر نوری نے خوشی سے اسکے سامنے ناشتہ رکھا تو اسنے چند نوالے زہر مار کیے۔ 

ناشتہ کر کے وہ اپنے کمرے میں آئی۔وہاں سے اسکے قدم انررونی دروازے کی طرف بڑھے جو پینٹنگ روم کی طرف کھلتا تھا۔دل کی اداسی دور کرنے کے لیے وہ رنگوں کی دنیا میں کھو جانا چاہتی تھی۔ 

وہ کینوس سیٹ کر رہی تھی جب روم میں پڑا اسکا موبائل رنگ کرنے لگا۔نازلی نے دھیان نہ دیا اور اپنے کام میں مصروف رہی۔پر ایک کے بعد دوسری پھر تیسری کال آنے لگی۔

"افف جانے کون ہے۔"وہ جھنجھلا کر کہتی کمرے میں واپس آئی۔سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر اسکرین پر نظر ڈالی۔ 

"ہاشم خان۔۔۔۔۔"اسنے چبا کر کہا پھر کال کٹ کر دی۔وہ موبائل رکھنے لگی جب میسج ٹیون بجی۔اسنے میسج اوپن کیا۔ 

"تم کال اٹھاؤ گی کہ میں خود وہاں آؤں۔۔۔۔"اسکا دھمکی بھرا میسج پڑھ کے نازلی ایک پل کے لیے ڈر گئی پر پھر دانت پیس کر موبائل اسکرین پر نظر ڈالی۔ 

"جہنم میں جاؤ۔۔۔۔۔"غصے سے کہہ کر اسنے موبائل آف کر کے بیڈ پر پھینکا اور پلٹ کر پینٹنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ تینوں لائبریری میں بیٹھی تھیں۔نازلی تو کتاب پڑھنے میں مصروف تھی جبکہ نور اور آبی آہستہ آواز میں گپیں لگا رہی تھیں۔ 

"نازلی۔۔"نور نے سرگوشی کی۔نازلی نے سر اٹھا کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔

"اٹھو ناں اب باہر جائیں۔"آبی آگے ہو کر بولی 

"تم لوگ جاؤ میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔"نازلی نے انہیں دیکھ کر کہا 

"نہ جی ۔۔۔ ہم تمہیں ساتھ لے کر ہی جائیں گے۔"نور جلدی سے بولی تو نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔ 

"اچھا چلو پھر ۔۔"تینوں اپنی چیزیں سمیٹ کر باہر نکلیں۔

"کینٹین چلیں۔"آبی نے چٹکی بجا کر کہا ۔ 

"تم کچھ کھائے بغیر رہ سکتی ہو ؟ نہیں ناں ۔۔۔۔ پھر چلو۔"نور نے اسے چڑانے والے انداز میں کہا۔

جس پر آبی نے منہ بنایا اور نازلی مسکرانے لگی۔ 

کینٹین پہنچ کر وہ اپنے ٹیبل پر بیٹھیں۔

"تم بات کرو ذرا آبی سے اس بک شاپ والے لڑکے کی پھر اسکی شکل دیکھنا۔"نور ، نازلی کی طرف جھک کر آہستہ سے بولی۔

آبی میڈم انکی بات سے انجان مزے سے سینڈوچ کھانے میں مصروف تھی۔

"آبی ۔۔۔"نازلی نے ہنسی دبا کر اسے پکارا۔

"ہوں۔۔۔"آبی نے سینڈوچ کھاتے مصروف انداز میں کہا 

"وہ بک شاپ والا لڑکا کہیں دوبارہ تو نہیں ملا ناں؟"نازلی نے شرارت سے پوچھا۔آبی نے چونک کر اسے دیکھا۔اسکا منہ حیرت سے کھل گیا۔وہ سینڈوچ کھانا بھول چکی تھی۔ 

"تمہیں اس چڑیل نے میرے پیچھے لگایا ہے ناں؟"آبی نے چبا کر کہتے نور کو دیکھا جو دانت نکال رہی تھی۔ 

"اچھا جواب تو دو۔"نازلی نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔ 

"یہ نور کی بچی چوبیس گھنٹے میرے سر پر سوار رہتی ہے۔ اسی سے پوچھو کہ اس نے کبھی اس بدتمیز کو میرے آس پاس  دیکھا ہے؟"اسنے تپ کر نور کی طرف اشارہ کیا۔ 

"خواب میں تو میں تمہارے ساتھ نہیں ہوتی ناں۔"نور نے آنکھ مار کر کہا۔

"تمہارا مطلب ہے میں اسے خواب میں دیکھتی ہوں؟"آبی نے کھا جانے والے انداز میں اسے دیکھا۔

"ہوسکتا ہے دیکھتی ہو ۔۔۔بندہ جسکے بارے میں زیادہ سوچے وہ خواب میں ضرور آتا ہے۔"نور شانے اچکا کر مزے سے بولی 

"میں اسکے بارے میں سوچتی ہوں؟"آبی نے تپ کر اسے گھورا۔ 

"ہاں۔۔۔۔"نور نے ہنس کر زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔ 

"میں تمہارا سر پھاڑ دونگی نور کی بچی ۔۔۔۔"آبی نے اسے شدید غصے سے گھورا۔

"دیکھنا نازلی وہ اسے جلد ہی پھر ملے گا ۔۔۔۔میری چھٹی حِس کبھی غلط نہیں کہتی۔"نور اسے اگنور کرتی نازلی کو دیکھ کر مزے سے بولی۔

"سچی ۔۔۔پھر تو بہت مزہ آئے گا۔"نازلی نے آنکھیں پھیلا کر مسکراتے ہوئے کہا۔

نور کچھ بولنے والی تھی جب آبی نے اسکی بات کاٹی۔

"اللہ نہ کرے کہ وہ لفنگا آدمی مجھے کبھی دوبارہ ملے۔"اسنے غصے سے کہا۔

"اور نور تم تھوڑا خدا کا خوف کرو ۔۔۔ کیوں معصوم بچی کو بگاڑ رہی ہو۔"اسنے نازلی کی طرف اشارہ کیا۔اسکی بات سمجھ کر نازلی اور نور ایک دم کھکھلا کر ہنسنے لگیں۔

"میں تو بگاڑوں گی۔"نور نے شرارت سے آنکھ ماری۔

"نازلی تم اسکی باتیں نہ سنا کرو ۔۔۔یہ پاگل ہے۔"آبی نے نازلی کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔

نازلی نے مسکراہٹ دبا کر سر اثبات میں ہلایا۔ 

"میرا بس چلے ناں تو میں نازلی کو اٹھا کر گھر لے جاؤں۔پھر میری صحبت میں رہ کر یہ پٹاخہ بن جائے گی۔"نور چٹکی بجا کر بولی 

"جیسے تم نے مجھے پاگل کر رکھا ہے ویسے ہی تم نازلی کو بھی پاگل کرنا چاہتی ہو۔"آبی نے منہ بگاڑ کر کہا 

"میں تم دونوں پاگلوں کے ساتھ پاگل ہونا پسند کروں گی۔" نازلی ہنس کر بولی تو وہ دونوں اسے دیکھ کر کھلکھلا اٹھیں۔

"پھر تو میں نازلی کو لالہ کے لیے مانگ لیتی ہوں۔اس طرح یہ ہمیشہ ہمارے پاس رہے گی۔۔۔کیوں آبی۔۔۔"نور نے مسکرا کر پیار سے کہتے آبی سے تصدیق چاہی۔

"افف پھر تو مزہ ہی آجائے گا یار۔"آبی نے ہنس کر نور کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جبکہ نازلی کے چہرے کا رنگ اڑا۔نور کی بات اسے تلخ حقیقت کے سامنے لے آئی تھی۔وہ انہیں کیا بتاتی کہ ایک شخص زبردستی اسکی زندگی میں شامل ہو چکا تھا۔جس سے وہ چاہ کر بھی دامن نہیں چھڑوا سکتی تھی۔ 

"کیا ہوا نازلی۔۔۔"نور نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

"آئم سوری اگر تمہیں میری بات بری لگی تو۔"اسنے نازلی کا ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا۔

نازلی نے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجائی۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہ بول سکی۔

وہ دونوں خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔نازلی کے ساتھ ضرور کوئی مسئلہ تھا۔وہ صبح سے گم سم سی تھی۔پر وہ چاہ کر بھی پوچھ نہ سکیں۔وہ لڑکی اپنے خول میں بند رہنے والے لوگوں میں سے تھی۔وہ شاید انہیں بتا نہ پاتی کہ اسکے ساتھ کیا مسئلہ ہے اسلئے وہ کچھ پوچھ کر اسے مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتی تھیں۔

وہ یونی سے واپس آئی۔اسنے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا تو بھاری مردانہ آواز اسکے کانوں میں پڑی۔اس آواز کو وہ اچھے سے پہچانتی تھی۔وہ آہستہ سے آگے بڑھی تو ایک طرف اسے ریلیکس سا صوفے پر بیٹھے پایا۔نوری صاحبہ اسکے سامنے کھڑی مسکرا مسکرا کر اس سے کوئی بات کر رہی تھی جب اسکی نظر نازلی پر پڑی تو وہ خوشی سے بولی۔

"یہ دیکھیں ہاشم بھائی ، نازلی باجی آگئیں۔"اسکی بات پر نازلی نے حیرت سے نوری کو دیکھا۔لگتا ہے اسکی ہاشم سے زیادہ ہی دوستی ہوگئی تھی تبھی وہ ہاشم صاحب سے ہاشم بھائی بن گیا تھا۔ 

"ہوں ۔۔۔ میں دیکھ چکا ہوں۔"ہاشم سنجیدگی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔"میں ابھی چائے لاتی ہوں۔"نوری جلدی سے کہتی وہاں سے نکل کر چلی گئی۔

ہاشم کچھ دیر پہلے ہی حسن ولا آیا تھا۔نوری نے اسے بتایا کہ تابین بی بی گھر پہ نہیں ہیں۔پر جب ہاشم نے کہا کہ وہ تابین سے  نہیں نازلی سے ملنے آیا ہے تو نوری کو حیرت ہوئی۔

 نازلی کے گھر میں نہ ہونے کا سن کر وہ اسکا انتظار کرنے لگا۔نوری نے گھور کر اسے دیکھا تھا کہ یہ بد مزاج سی تابین کا دوست اسکی نازلی باجی کے انتظار میں کیوں بیٹھا ہے پر تھوڑی  دیر گزری تو وہ نوری کو اچھا لگنے لگا تھا۔

اسے لگا تھا ہاشم ، تابین کا دوست ہے تو اس کی طرح ہی مغرور سا ہوگا پر جب ہاشم نے اس سے نرمی سے بات کی اور اسکے ہاشم صاحب کہنے پر اسے ٹوک کر کہا کہ وہ اسے ہاشم بھائی کہے۔تب وہ نوری کی نظروں میں ان چند اچھے لوگوں کی  لسٹ میں شامل ہوگیا تھا جو نوری نے بنائی ہوئی تھی۔

وہ سوچنے لگی ہاشم بھائی اتنے اچھے ہیں پھر اُس سڑی ہوئی تابین کے دوست کیوں ہیں؟

نوری کے جاتے ہی نازلی تیزی سے ہاشم کی طرف آئی۔ 

"اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہوتا۔پھر آپ کیوں آگئے؟"اسنے جلدی سے کہا 

"پر مجھے جس سے ملنا ہے وہ تو موجود ہے ناں۔"وہ نازلی کی طرف اشارہ کر کے بولا

"مجھ سے کیوں ملنا ہے آپکو؟"نازلی نے ابرو اٹھا کر پوچھا 

"کیوں ۔۔۔ میں اپنی بیوی سے نہیں مل سکتا؟"وہ دلکشی سے مسکرایا۔"شش خاموش ہو جائیں۔۔۔۔ کوئی سن لے گا۔"نازلی نے چبا کر ارد گرد دیکھ کر آہستہ آواز میں کہا 

"اچھا چھوڑو باقی باتوں کو ۔۔۔ تم بیٹھو یہاں تھکی ہوئی آئی ہو۔"ہاشم نے اسکا بیگ لے کر ایک طرف رکھا پھر اسے کندھوں سے تھام کر صوفے پر بٹھایا۔

"نوری جلدی سے اپنی باجی کے لیے کوئی چائے پانی لے کر آؤ۔"ہاشم نے اونچی آواز میں نوری کو آرڈر دیا۔

نازلی آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔وہ ایسے آرڈر دے رہا تھا جیسے یہ اسکا اپنا گھر ہو۔

نازلی اگلے پل تپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔"اسنے گھور کر کہا۔

"اپنی بیوی کا خیال رکھ رہا ہوں یار۔"وہ مسکرا کر بولا 

"یہ بیوی بیوی کہنا بند کریں گے آپ۔"نازلی جھنجھلائی تھی۔ 

"تو کیا کہوں؟"ہاشم نے سینے پر ہاتھ باندھے۔"مسز ہاشم؟ یہ ٹھیک ہے؟"اسکی طرف جھک کر شرارت سے پوچھا گیا۔ 

"آپ خاموش نہیں رہ سکتے؟"نازلی کا چہرہ گلابی ہوا تھا۔ 

"تم بولنے کا وعدہ کرو تو میں خاموش ہوجاتا ہوں۔"ہاشم نے ابرو اٹھا کر کہا۔"معاف رکھیں مجھے۔"نازلی نے بے زاری سے ہاتھ جوڑے۔تبھی نوری ٹرالی لے کر اندر داخل ہوئی۔ہاشم پیچھے ہوتا صوفے پر بیٹھا اور نازلی بھی وہاں سے سائیڈ پر ہو کر کھڑی ہوئی۔نوری نے چائے بنا کر ہاشم کو دی۔

"نازلی باجی آپکے لیے بناؤں؟"نوری نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"نہیں نوری۔"نازلی نے مدھم آواز میں انکار کیا۔ہاشم کو دیکھ کر اسکا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔

"نازلی باجی پتہ ہے ہاشم بھائی آپکی اس ادھورے چہرے والی  پینٹنگ کی تعریف کر رہے تھے ۔۔۔میں نے انہیں بتایا کہ آپکی تو بے شمار پینٹنگز ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک حسین پینٹنگ بنائی ہے آپ نے ۔۔۔۔پورا کمرہ بھرا پڑا ہے۔ہاشم بھائی نے کہا کہ  وہ بھی آپکی ساری پینٹنگز دیکھیں گے۔ہاں ناں ہاشم بھائی۔"نوری ایک سانس میں بولتی چلی گئی۔اسکی بات پر ہاشم نے مسکرا کر سر ہلایا جبکہ نازلی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا پر نوری اسکی طرف متوجہ نہ تھی۔ایک دم بولی "آپ دکھائیں گیں ناں ہاشم بھائی کو اپنی پینٹنگز؟" اسکے پوچھنے پر نازلی نے ایک نظر ہاشم کو دیکھا۔

"میں اپنی چیزیں انجان لوگوں کو نہیں دکھاتی نوری۔۔۔۔۔"سختی سے کہہ کر وہ ایک پل رکی پھر بولی

"میں آرام کرنے جا رہی ہوں۔مہمان چائے پی لیں تو انہیں باہر تک چھوڑ دینا اوکے۔"وہ ہاشم کو اگنور کرتی نوری سے کہتی آگے بڑھی۔نوری نے حیرت سے اسے دیکھا۔اتنے نرم لہجے میں بات کرنے والی اسکی نازلی باجی اس قدر غصے میں بات کر رہی تھیں۔ہاشم بھائی کتنے اچھے ہیں پھر جانے کیوں نازلی باجی ان سے ایسے بات کر رہی تھیں۔نوری نے اداسی سے سوچا۔

"نازلی صاحبہ اب تو پینٹنگز دیکھے بغیر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔"ہاشم کی بھاری آواز پر نازلی کے قدم تھم گئے پھر وہ اسکی طرف پلٹی۔وہ نازلی کو دیکھ کر چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتا  اٹھ کھڑا ہوا۔

"نوری جاؤ تم کھانا لگاؤ۔۔۔۔۔آج میں لنچ نازلی صاحبہ کے ساتھ ہی کروں گا۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔نوری حیرت سے ان دونوں کو دیکھنے لگی۔اسے سمجھ نہ آئی کہ یہاں چل کیا رہا ہے۔ "جی ہاشم بھائی۔"وہ حیرت سے کہتی جلدی سے کچن کی طرف بڑھی۔ 

"آپ مجھے کیوں پریشان کر رہے ہیں؟"نازلی نے تیکھے لہجے میں کہا۔"کل تم نے میری کال پک کیوں نہیں کی تھی؟"ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ 

"کیوں کرتی۔۔"نازلی اکتا کر بولی 

"نہ کرنا ۔۔۔۔۔پر جب بھی تم میری کال نہیں اٹھاؤ گی تب  مجھے ایسے ہی اپنے سامنے پاؤ گی۔"وہ اسکے قریب آتا ابرو اٹھا کر بولا۔

"افف میں کیا کروں۔"نازلی نے بڑبڑا کر اپنا سر تھام لیا۔ 

"فلحال تو تم مجھے اپنی پینٹنگز دکھاؤ۔"وہ مسکرا کر بولا۔

"نہیں ۔۔۔ "نازلی نے اسے گھور کر ضدی لہجہ اپنایا۔

"اوکے ۔۔۔"وہ آرام سے کہتا واپس جا کر صوفے پر بیٹھا پھر سامنے پڑا میگزین اٹھا کر صحفے الٹنے لگا۔

نازلی اسکے پر سکون انداز پہ اسے مسلسل گھورے جا رہی تھی۔ہاشم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر دلکشی سے مسکرایا۔

"اتنے غور سے مت دیکھو۔۔۔۔۔۔محبت ہوگئی تو دیوانی ہوجاؤ گی۔"اسکی بات پر نازلی نے سرعت سے نظریں پھیر لیں۔

ہاشم قہقہہ لگا کر ہنسا۔ 

"محبت سے ڈرتی ہو؟"سنجیدگی سے پوچھا گیا۔ 

"محبت سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔مجھے کیا ضرورت ہے ڈرنے کی۔"نازلی نے بے زاری سے کہا۔

ہاشم خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر نازلی کو الجھن ہونے لگی۔تبھی لمبی سانس کھینچ کر بول پڑی ۔"چلیں۔۔۔"وہ اسے اپنی پینٹنگز دکھانے کے لیے راضی ہو گئی۔وہ اس شخص جتنی ضدی نہ تھی اسلیے ہار مان کر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ 

ہاشم مسکرا کر میگزین رکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔نازلی اسے لے کر اوپر آئی۔اسنے پینٹنگ روم کا دروازہ کھول کر اسے ہاتھ سے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ہاشم نے روم میں قدم رکھا تو اسے لگا وہ کسی دوسری دنیا میں آگیا ہے۔دلکش و خوبصورت رنگوں کی دنیا۔۔۔۔ اس کانچ سی لڑکی کی حسین دنیا میں وہ شہزادہ داخل ہو چکا تھا۔ 

سیاہی مائل آنکھیں کمرے سے گھوم کر اپنے ساتھ کھڑی اس گڑیا پر ٹھہر گئیں۔اس چہرے کو دیکھ کر جانے کیوں اسکے دل کی دنیا اوپر نیچے ہو جاتی تھی۔وہ بے زار سی صورت بنائے زمین کو گھور رہی تھی۔ہاشم کے دل میں شدت سے یہ خواہش جاگی کہ وہ اس لڑکی کو چھپا کر انہیں رنگوں بھری دنیا میں کہیں کھو جائے۔دنیا کی حقیقت سے دور ۔۔۔۔ بس وہ دونوں ہوں اور انکی محبت ہو۔کاش ایسا ہو پاتا۔۔۔۔

دل جانے کیوں پاگل ہو رہا تھا۔اسنے آہستہ سے نازلی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔جھکی آنکھیں حیرت سے اس چہرے کی طرف اٹھی تھیں۔وہ دیوانہ سا اسے دیکھ رہا تھا۔سیاہ جادوئی آنکھوں نے ان نیلی جھیل آنکھوں کو اپنے قبضے میں لیا۔وہ چاہ کر بھی نظر نہ پھیر سکی۔ 

دنیا کی بھیڑ سے اکتا سے گئے ہیں۔ 

چلو آؤ دور کہیں چلے چلتے ہیں۔ 

جہاں پیارا سا گھروندا ہو۔ 

سپنوں کا محل ہو۔ 

خوشیوں کی چھاؤں میں چلے چلتے ہیں۔ 

چلو آؤ دور کہیں چلے چلتے ہیں۔ 

تھامو ہمارا ہاتھ۔۔۔

کرو ہمارا اعتبار ۔۔۔

کر کے دیکھو تو سہی خود کو ہمارے سپرد 

اعتبار کی نیا کو پیار کی جھیل میں چلاتے ہیں۔ 

چلو آؤ دور کہیں چلے چلتے ہیں۔۔۔۔

چلو آؤ دور کہیں چلے چلتے ہیں۔۔۔۔ (علینہ ڈول )

اسکے گال کو نرمی سے چھو کر گھمبیر آواز میں جادو پھونکا گیا تھا۔نازلی بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔

"چلو گی میرے ساتھ ؟ یہاں سے کہیں بہت دور؟"مدھم مسکان کے ساتھ پوچھا گیا۔اس سے پہلے کہ وہ جادو گر اسے اپنے سحر میں جکڑ لیتا۔نیچے سے برتنوں کے زور سے گرنے کی آواز آئی۔

ساتھ ہی نوری کی اماں نوری کو ڈانٹنے لگیں جسکے ہاتھ سے برتن گر گئے تھے۔

نازلی چونک کر ہاشم کے ہاتھ جھٹک کر دور ہوتی دیوار سے جا لگی۔"آپ مجھے اپنی باتوں سے رام نہیں کر سکتے۔"اسنے چبا کر کہتے اسے دیکھا تھا۔ 

"کر لیا تو ؟"ہاشم دروازے سے ٹیک لگا کر بولا 

"ہو ہی نہیں سکتا۔"نازلی نے مضبوط لہجے میں کہا۔

"نفرت اور ڈر کی پٹی اتار کر جب تم ہاشم خان کو سمجھنے لگو گی تو اسکے بن بولے ہی اسکی دیوانی ہوجاؤ گی۔"یقین سے کہا گیا۔"انجان لوگوں کو جاننے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔" نازلی نے سر جھٹکا۔

"دوسری بار۔۔۔"اسنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں اٹھائیں۔"یہ دوسری بار ہے جب تم نے مجھے انجان کہا۔"اسکا انداز بالکل سپاٹ تھا۔"جو ہیں وہی کہوں گی۔"نازلی نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔"مجھ سے زیادہ تمہارا اپنا دوسرا کوئی نہیں ہے۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔

"شوہر سے زیادہ بیوی کا اپنا کوئی نہیں ہوتا مسز ہاشم۔یہ بات بھولیے گا مت۔"وہ ایک دم مدھم سا مسکرایا۔سیاہ آنکھیں چمک رہی تھیں۔نازلی نے اسے غصے سے دیکھا۔

"آپ کبھی بھی میرے اپنے نہیں ہو سکتے۔"وہ چبا کر بولی۔

"یہ تو وقت ہی بتائے گا مسز ہاشم۔"وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔

نازلی نے ضبط سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔اگر وہ خاموش نہ ہوئی تو یہ بحث طویل ہوتی جائے گی اور وہ اس شخص کو جلد سے جلد یہاں سے بھگا دینا چاہتی تھی۔پر یہ نہیں جانتی تھی آج وہ اسکی جان چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا۔

"آپ پینٹنگز دیکھنے آئے ہیں ناں تو انہیں دیکھیں۔"نازلی نے جھنجھلا کر کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ہاشم نے اسکے تاثرات سمجھ کر ہنسی ضبط کی۔ 

"اوکے ۔۔"اس نے مسکرا کر اچھے بچوں کی طرح سر ہلایا پھر آگے بڑھ کر پینٹنگز دیکھنے لگا۔نازلی نے اسکی پشت کو دیکھ کر گہری سانس بھری کہ شکر بلا ٹلی۔

وہ مگن سا پینٹنگز دیکھ رہا تھا۔ایک سے ایک حسین پینٹنگ اس لڑکی کے ہاتھوں نے پینٹ کی تھی۔ 

وہ دیوار پر لگی حسن آفندی کی پینٹنگ کے سامنے کھڑا ہوا۔ 

"ایٹس بیوٹیفل۔"اسنے گردن پھیر کر نازلی کو دیکھا۔

نازلی نے خاموشی سے ایک نظر اس پر ڈالی پھر نظریں پھیر گئی۔ہاشم واپس پینٹنگز دیکھنے میں مصروف ہوا پھر کچھ دیر بعد زیر لب مسکراتا ایک دم نازلی کے سامنے آیا۔نازلی نے ڈر کر اسے دیکھا۔"تمہارے ہاتھوں میں جادو ہے۔امید ہے کبھی یہ مومی ہاتھ اپنے شوہر کی صورت کو بھی کینوس پر اتاریں گے۔"اسنے ذرا سا جھک کر شرارت سے کہا۔

"خواب میں ۔۔۔"نازلی نے خود کو سنبھال کر تپے لہجے میں  کہا۔"چلو خواب میں ہی سہی ۔۔۔"وہ مدھم سا مسکرایا۔

"چلیں اب۔"اسکی بات کو اگنور کر کے وہ سائیڈ سے ہو کر کمرے سے باہر نکلی۔ ہاشم بھی مسکراتا ہوا اسکے ہم قدم ہوا۔وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے۔نوری نے انہیں ایک ساتھ دیکھا تو بول پڑی۔"افف آپ دونوں ایک ساتھ کتنے حسین لگ رہے  ہیں۔"اسکی بات پر نازلی نے اسے گھورا تو نوری زبان دانتوں میں دبا گئی جبکہ ہاشم کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"آجائیں کھانا لگ گیا ہے۔"نوری شامت سے بچنے کے لیے  جلدی سے کہتی آگے بڑھی۔ہاشم نے نازلی کو دیکھا۔

"چلو۔۔۔"اس نے نازلی کا ہاتھ تھاما۔

"خدا کا خوف کریں۔۔۔ چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔ چل رہی ہوں۔"نازلی چبا کر بولی تو ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔دونوں ڈئننگ روم میں داخل ہوئے۔پھر ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے۔

ہاشم نے کھانا کھاتے ہوئے نازلی کو دیکھا جو کھانا کھانے کے بجائے چمچ کو پلیٹ میں گھمانے میں مصروف تھی۔ 

"اہم ۔۔۔"اسنے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔"تم کھانا بنا سکتی ہو مسز؟"اسنے نازلی کو خاموش دیکھ کر جان بوجھ کر بات چھیڑی۔

"نہیں ۔۔۔"نازلی نے آنکھیں سکوڑ کر جواب دیا۔ 

"پر میں تو اپنی بیوی کے ہاتھ کا کھانا کھانا ہی پسند کروں گا۔"وہ شوخی سے مسکرایا۔

"تو۔۔۔۔"نازلی نے گھور کر اسے دیکھا۔

"تو تم کھانا بنانے کے لیے تیار ہو؟"ہنس کر پوچھا گیا۔

"کبھی نہیں ۔۔۔ میں نہیں بناؤں گی۔"وہ ضدی لہجے میں بولی۔

"سو سیڈ۔۔۔شوہر کو بھوکا مارو گی؟"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔

"زہر کھا لیجیے گا۔"نازلی جھنجھلائی تھی۔

"اپنے ہاتھوں سے کھلا دینا۔"وہ مگن سا اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

"مجھے مجرم نہیں بننا۔"نازلی نے آنکھیں سکوڑیں۔

"میری مجرم تو بن چکی ہو۔"سیاہ آنکھیں اسکے شاداب چہرے پر تھیں۔

"کیا جرم کیا ہے میں نے؟"نازلی نے تنگ آ کر پوچھا۔

"محبت کے جواب میں نفرت کرنے کا جرم۔۔۔۔"وہ ان نیلی  آنکھوں کو دیکھنے لگا۔نازلی نے کچھ پل اسکی آنکھوں میں دیکھا  پر جب سیاہ آنکھیں ہنوز اسکی آنکھوں میں جھانکتی رہیں تو وہ جھجھک کر پلکیں گرا گئی۔چہرہ گلابی ہوا تھا۔اسنے بے چینی سے ہاتھ بڑھا کر بال کان کے پیچھے کیے۔اسکے بے چین انداز کو دیکھ کر ہاشم کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی پھر اسے مزید تنگ نہ کرتے ہوئے اسنے نظریں اس گلابی  چہرے سے ہٹا دیں۔

کچھ دیر بعد نوری وہاں آئی۔"کچھ چاہیے آپ لوگوں کو۔"اسنے دونوں کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں نوری ۔۔۔ کھانا تو بس کھا ہی چکے ہیں۔"وہ ہاتھ صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"شکریہ اتنے اچھے لنچ کے لیے۔"اسنے مسکرا کر نوری کو دیکھا جو اسکی بات پر خوشی سے کھل سی اٹھی۔

ہاشم وہاں سے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا۔اسے جاتے دیکھ کر 

نازلی بھی جلدی سے اٹھ کر اسکے پیچھے گئی کہ اب اسے جلدی سے رخصت کرے۔

وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو دیکھا محترم ریلیکس انداز میں صوفے پر بیٹھے اپنے موبائل کے ساتھ مصروف تھے۔

"آپ آخر کب جائیں گے؟"نازلی نے اسے دیکھ کر رونے والے انداز میں پوچھا۔

"مجھے بھگانے کی اتنی جلدی کیوں ہے تمہیں؟"ہاشم نے اسے دیکھ کر ابرو اٹھایا۔ 

"کیونکہ مجھے آپکی یہاں موجودگی پسند نہیں ہے۔"وہ صاف الفاظ میں بولی۔

"اچھا ۔۔۔"وہ اتنا کہہ کر پھر سے موبائل کے ساتھ مصروف ہوا۔نازلی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکال دیتی۔کچھ دیر بعد وہ مصروف انداز میں بولا۔"نوری نے بتایا کہ تم بہت اچھی چائے بناتی ہو؟روز اپنے بابا کے لیے اسپیشل چائے بنا کر لے جاتی ہو؟کیا واقعی؟"اسکی بات پر نازلی نے دانت پیسے۔"اللہ تمہیں پوچھے نوری ۔۔۔کچھ نہ چھوڑا تم نے۔۔۔ سب کچھ بتا دیا اس آدمی کو۔"نازلی نے تپ کر سوچا۔

"اب آپکو چائے پینی ہوگی؟"نازلی نے ایک دم پوچھا۔

"بالکل ۔۔۔ماشاء اللہ سے کتنی زہین ہو۔اتنی جلدی شوہر کے دل کی بات جان گئی۔"وہ اسے دیکھ کر تنگ کرنے والے انداز میں مسکرایا۔نازلی اسکی بات کو اگنور کرتی وہاں سے نکلی تا کہ اسے چائے بنا کر دے اور وہ جلدی سے اسکی جان چھوڑے۔کچن کی طرف بڑھتے اسنے دانت پیسے اس نوری کی بچی کو تو وہ بعد میں سیدھا کرے گی۔ 

کچھ دیر بعد وہ چائے بنا کر کپ تھامے اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔"یہ لیں۔"اسکی آواز پر ہاشم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر مسکرا کر کپ تھاما۔

نازلی وہاں سے ہٹ کر ایک طرف ہو کر کھڑی ہوئی۔ 

ہاشم نے چائے کا سپ لیا۔

"پرفیکٹ ۔۔۔"ہاشم کہہ کر خاموشی سے چائے پینے لگا جبکہ نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔اسنے بالکل بابا جان کی طرح کہا تھا۔وہ کتنے ہی پل اسے دیکھے گئی۔جانے کیوں پر اس ایک لمحے اسے وہ شخص اتنا برا ہرگز نہیں لگا تھا جتنا وہ اسے سمجھی تھی۔ہاشم چائے پی کر ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"شکریہ۔۔۔"اسکی بھاری آواز پر نازلی نے ہڑبڑا کر جلدی سے نظریں جھکائیں۔

"پہلی بار تم نے میرے لیے کچھ بنایا ہے تو اسکے بدلے مجھے بھی تو تمہیں کچھ دینا چاہیے ناں؟"ہاشم اسکے سامنے کھڑا ہو کر محبت سے بولا۔نازلی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیا مطلب۔۔"اسکے پوچھنے پر ہاشم نے کوٹ کی جیب سے چھوٹی سی لال ڈبیا نکالی۔نازلی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔"تمہارے لیے۔"اسنے نازلی کی آنکھوں میں دیکھ کر باکس  کھولا۔جس کے اندر خوبصورت سی ڈائمنڈ کی رنگ  چمک رہی  تھی۔اگلے پل اسنے رنگ ہاتھ میں پکڑ کر نازلی کا بایاں ہاتھ گرفت میں لیا۔نازلی ایک دم ہوش میں آئی۔ 

"چھوڑیں میرا ہاتھ۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں چاہیے"اسنے عجلت سے کہتے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔

"کم آن مسز ۔۔۔۔ آپکو یہ تحفہ قبول کرنا ہی پڑے گا ورنہ آپ یہ نہیں چاہیں گیں کہ میں یہاں آپکے ساتھ ہی بیٹھا رہوں۔"اسنے نیلی جھیل آنکھوں میں دیکھ کر مزے سے کہا۔اسکی دھمکی پر نازلی نے اس ایک لمحے پر لعنت بھیجی جس میں وہ اسے برا نہیں لگا تھا ۔۔۔ وہ شخص برا تھا ۔۔۔ بہت برا ۔۔۔۔

"پر میں کیسے ۔۔۔۔"نازلی جھنجھلا کر بولی پر اسکی بات بیچ میں ہی رہ گئی جب ہاشم نے جھٹ سے اسکے ہاتھ میں رنگ پہنا دی۔"بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔"وہ اسکے ہاتھ پر نظریں جما کر محبت سے بولا۔نازلی نے غصے سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت  سے کھینچا۔

"میں نے کہا ناں کہ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے۔"وہ تپ کر کہتی انگوٹھی اتارنے لگی۔

"اگر رنگ اتارو گی تو ابھی سبکو سچ بتا کر تمہیں یہاں سے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔سوچ لو۔۔۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔نازلی ایک دم رک سی گئی۔اسکے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔وہ آدمی پاگل تھا کچھ بھی کرنے سے گریز نہ کرتا۔

نازلی نے ہاتھ نیچے کر کے گھور کر اس سیاہ آنکھوں والے کو دیکھا۔"آپ بہت برے انسان ہیں۔"وہ چبا کر بولی 

"واقعی ۔۔۔"ہاشم برا مانے بغیر ہنسا۔ نازلی اسے مسلسل غصے سے گھور رہی تھی۔ 

"جا رہا ہوں ۔۔۔ آنکھوں سے وار تو نہ کرو یار۔"شرارت سے اسکا گال چھو کر کہتا وہ اسکی طرف جھکا۔"پھر ملیں گے۔" کان میں سرگوشی کرتا وہ اسکے پاس سے ہو کر باہر کی طرف بڑھنے لگا۔نازلی پریشان سی کھڑی اپنے بائیں ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جس میں ڈائمنڈ رنگ چمک رہی تھی۔اس شخص نے ایک اور مصیبت اسکے گلے ڈال دی تھی۔

گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز پر اس نے لمبی سانس کھینچی۔تبھی نوری میڈم وہاں آئی۔

"ہاشم بھائی چلے گئے؟"اسنے نازلی کو دیکھا۔جو تپی سی اسے گھورنے لگی۔

"کیا ہوا نازلی باجی۔"معصومت سے پوچھا گیا۔

"نوری کی بچی ۔۔۔ تمہارے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی۔سب کچھ اس شخص کو بتا دیا۔"اسنے جھنجھلا کر کہا۔

"تو کیا ہوا ۔۔۔ اتنے اچھے تو ہیں ہاشم بھائی۔"نوری مزے سے بولی۔

"نوری ۔۔۔ خبر دار جو تم نے میرے سامنے اس آدمی کی تعریف کی تو ۔۔۔"نازلی نے غصے سے  وارن انداز میں نوری کو دیکھا۔نوری تو پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ ہاشم بھائی اسکی نازلی باجی سے محبت کرتے ہیں جبکہ نازلی باجی ان سے چڑتی ہیں۔کیوں ؟؟۔۔۔ یہ بات وہ نہیں جانتی تھی۔اسے بس ان دونوں کی  جوڑی اچھی لگی تھی پر وہ نازلی کے سامنے کچھ بول کر اپنی شامت نہیں لانا چاہتی تھی۔اسلیے ہنسی چھپانے کے لیے چہرہ جھکا گئی۔"جاؤ نوری صاحبہ میرے لیے کافی لے کر آؤ۔۔۔۔اس شخص کی وجہ سے سر درد سے پھٹ رہا ہے۔"وہ بے زاری سے بولی تو نوری اچھا باجی کہتی جلدی سے کچن کی طرف بھاگی۔نازلی پریشان سی صوفے پر بیٹھی۔

"اللہ جانے یہ آدمی میری جان کب چھوڑے گا۔۔۔۔"پریشانی  سے بڑبڑا کر وہ سر اپنے ہاتھوں میں گرا گئی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"آبی ۔۔۔"شہریار ڈھیر سارے شاپنگ بیگز تھامے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ 

اسکے پکارنے پر الماری سے کپڑے نکالتی آبی نے گردن پھیر کر اسے دیکھا پھر ناراضگی سے نظریں پھیر کر پھر اپنے کام میں مصروف ہوئی۔ 

"آبی دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔"شہریار نے مسکرا کر کہا پھر آگے بڑھ کر شاپنگ بیگز بیڈ پر رکھے۔آبی کچھ نہ بولی بس خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔ 

"آبی گڑیا۔۔۔۔"شہریار نے آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے تھام کر اپنی طرف موڑا۔

"پلیز لالہ مجھے کام کرنے دیں۔"آبی نے اسکے ہاتھ جھٹک کر چہرہ پھیر لیا۔"اپنے لالہ سے اتنی ناراض ہو کہ میری صورت تک نہیں دیکھنا چاہتی۔"وہ اداسی سے بولا 

"ایسا نہیں ہے لالہ پر آپکو اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔"آبی نے اسے دیکھ کر آہستہ سے کہا 

"اچھا سوری گڑیا۔۔۔"اسنے مسکرا کر کان پکڑ لیے۔ 

"صرف مجھ سے سوری کریں گے؟"آبی نے ابرو اٹھا کر پوچھا 

"تمہاری اس دوست سے بھی سوری کر لوں گا۔"شہریار نے جھنجھلا کر کہا 

"لالہ۔۔۔"اسکے انداز پر آبی نے وارن نظروں سے اسے دیکھا۔

"اوکے سوری۔"اسنے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

"اب تم اپنا منہ تو ٹھیک کرو یار۔"اسنے نرمی سے آبی کا سر تھپتھپا کر کہا 

"اوکے ۔۔۔ اب میں چیزیں چیک کر لوں۔"وہ مزے سے کہتی ہنس کر بیڈ کی طرف بڑھی۔شہریار اسکے انداز پر مسکرانے لگا۔تبھی نور کمرے میں داخل ہوئی اور شہریار کو مسکراتے دیکھ کر اسکے قدم دہلیز پہ ہی تھم گئے۔ایک زمانے بعد اسنے شہریار کو مسکراتے دیکھا تھا۔پر نور پر نظر پڑتے ہی اسکی مسکراہٹ سمٹ گئی۔

"نور جلدی آؤ اور یہ دیکھو۔"آبی کی اس پر نظر پڑی تو وہ مسکرا کر بولی۔نور نے بیڈ پر پھیلے کپڑوں اور باقی چیزوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔

"میں بعد میں آتی ہوں آبی۔"شہریار کے انداز سے اسکا دل بجھ سا گیا تھا۔وہ آہستہ سے کہہ کر جانے کے لیے پلٹی۔ 

"ماہ نور۔"شہریار کی آواز پر اسکے قدموں میں جیسے زنجیر پڑی تھی۔وہ آہستہ سے اسکی طرف پلٹی۔ 

وہ چلتا ہوا اسکے سامنے کھڑا ہوا۔ 

"آئی ایم سوری۔۔۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے کہتا اگلے پل اسکے پاس سے گزر کر کمرے کا دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا۔نور حیران سی کھڑی تھی۔آبی تالی بجا کر ہنستی ہوئی اسکی طرف آئی۔ "اوئے ہوئے ۔۔۔ سوری شوری کا سلسلہ چل رہا تھا۔"آبی نے آنکھ مار کر اسے ٹہکا دیا۔نور چونکی تھی۔ 

"کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟ یا سچ میں تمہارے جلاد بھائی نے مجھے سوری کیا ہے۔"نور خواب کی سی کیفیت میں آبی کو دیکھ کر بولی۔ 

"خواب نہیں حقیقت ہے ۔۔۔۔ سچائی ہے میری جان۔"آبی نے مسکرا کر اسکے بال بگاڑے۔

"پھر تو میں گئی۔"نور نے بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کی۔آبی نے اسکا ہاتھ تھاما۔"ابھی کہاں ۔۔۔۔ ذرا یہ بھی تو دیکھو۔"وہ اسے لے کر بیڈ تک آئی۔ 

"یہ دیکھو تمہارے فیورٹ رنگ کا ڈریس ، یہ چوڑیاں ، یہ جھمکے۔"وہ خوشی سے ایک ایک چیز اٹھا کر اسے دکھا رہی تھی۔"میرے خدایا۔۔"نور حیران سی بیڈ پر بیٹھی پھر ہاتھ بڑھا کر سبز نیٹ کا دوپٹہ ہاتھ میں لیا۔اسکے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی۔شہریار کو اسکا پسندیدہ رنگ اب بھی یاد تھا۔اسنے ہاتھ بڑھا کر سبز چوڑیاں اٹھائیں۔اسکی آنکھوں میں ستارے سے چمک اٹھے۔خوشی کے رنگ اسکے گرد جھومنے لگے۔اسے سمجھ نہ آئی کیسے اپنی خوشی کا اظہار کرے۔ 

"اب کہو کہ لالہ تم سے محبت نہیں کرتے۔"آبی نے مسکرا کر کہا "مجھے یقین نہیں آ رہا آبی۔"نور نے نم آنکھیں اٹھا کر مدھم آواز میں کہا 

"یقین کر لو کیونکہ یہی حقیقت ہے۔"آبی نے محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیا۔

"افف میں کہیں پاگل نہ ہوجاؤ۔"نور نے نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر آبی کے ہاتھ تھامے۔شہریار کے اس قدم سے اس دیوانی لڑکی کے دل میں دیے سے جل اٹھے۔اسکے انگ انگ سے خوشی پھوٹنے لگی۔ شہریار کو اس سے محبت تھی۔یہی بات اسے پاگل کرنے کے لیے کافی تھی۔ 

"پاگل نہ ہونا میری بہن ۔۔۔۔۔ میں ایک پاگل کو اپنی بھابی نہیں بناؤں گی۔"آبی منہ بنا کر بولی 

"بنانا پڑے گا چڑیل۔"نور نے ہنس کر دھونس جماتے ہوئے کہا 

"کیا کریں مجبوری ہے۔ایک پاگل دیوانی کو بھابی بنانا پڑے گا۔"آبی نے آہ بھر کر کہا۔

"پاگل تم۔"نور تپ کر بیڈ سے اٹھتی اسے مارنے کو آگے بڑھی۔آبی نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر اسے گول گھما ڈالا۔دونوں کی ہنسی کی کھنک کمرے میں پھیلی تھی۔

دروازے کے اس پار کھڑے شہریار کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی مدھم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

دل نے اس پل دماغ کی نہیں چلنے دی تھی۔وہ مدھم سا مسکراتا اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ 

"ایک شہزادی ہے سرد مزاج کہانی میں۔"

"ایک شہزادہ ہے جو دل سے اس پہ مرتا ہے۔"

کھڑکی سے آتی مدھم مدھم سی چاند کی روشنی کمرے میں پھیلی تھی۔گھڑی پر رات کے بارہ بج رہے تھے۔کمرے میں مکمل سکوت چھایا تھا۔

وہ بیڈ پر لیٹی اداسی سے چھت کو گھور رہی تھی۔چہرے پر آتی لٹ کو اسنے ہاتھ بڑھا کر کان کے پیچھے کیا تو تبھی نظر ہاتھ میں پہنی ڈائمنڈ رنگ پر پڑی۔وہ کتنے ہی پل ہاتھ سامنے کیے اسے دیکھے گئی۔اتنے دنوں سے وہ اسے چھپا چھپا کر تھک گئی تھی۔یونی جاتی تو اتار کر بیگ میں ڈال دیتی پھر وہ شخص اگر فون کرتا اور رنگ کا پوچھ لیتا تو وہ جلدی سے پہن لیتی تھی۔جانے اس شخص کا کیسا ڈر دل میں بیٹھ گیا تھا کہ وہ اسکے کہے الفاظ بھول نہیں پاتی تھی۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسکی بات مان لیتی تھی کیونکہ اسے ہر وقت ڈر سا لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ سبکو سچ نہ بتا دے۔کہیں وہ اسے  اپنے ساتھ نہ لے جائے۔اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ کیا کر پائے گی؟

اسنے مٹھی بھینچ کر ہاتھ نیچے کیا۔اداس نظریں ایک نقطے پر ٹکی تھیں۔وقت آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا اور اسے کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔آج انکے نکاح کا دسواں دن تھا اور ہر گزرتا دن اسکے دل پر مزید بوجھ ڈال رہا تھا۔وہ اپنی ہی نظروں میں مجرم بن گئی تھی۔گھر میں سب کا سامنا کرتے اسے شرمندگی محسوس ہوتی اسلیے اب وہ زیادہ کمرے سے باہر نہیں نکلتی تھی۔اسکا اب تک بابا جان سے سامنا نہیں ہوا تھا۔وہ بزنس کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے۔نازلی کو ڈر تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو وہ کیسے انکا سامنا کر پائے گی؟ 

اسکے پاس تو کوئی اپنا بھی نہ تھا۔جسکے کندھے پر سر رکھ کر وہ اسے اپنا دکھ سناتی ، آنسو بہاتی۔بس ایک آنی تھیں پر وہ بھی میلوں کے فاصلے پر تھیں۔

اسکی آنکھ سے آنسو نکل کر بالوں میں جذب ہوا۔اسے زنیرہ کی یاد آئی تو دل کا درد آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔اسے اس پل ماں کی یاد شدت سے ستا رہی تھی کہ کاش وہ اسکے پاس ہوتیں تو وہ انکی گود میں سر رکھ کر اپنا دکھ انہیں سناتی ، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی پر قسمت نے اسکی ماں کو اس سے اس وقت چھینا تھا جب وہ خود کو سنبھالنا بھی نہیں جانتی تھی۔

وہ سوچوں میں گم تھی جب موبائل کے رنگ ہونے پر بری طرح سے  چونکی۔کمرے کی خاموشی میں موبائل کی ٹیون نے ایک دم ہلچل مچا دی تھی۔

اسنے جلدی سے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر سائلنٹ پر کیا پھر خاموشی سے اسکرین کو گھورنے لگی۔جس پر اس شخص کا نمبر دیکھ کر اسکا دل کیا وہ موبائل کو اٹھا کر دیوار پر دے مارے۔پر ایسا کرنے سے مسئلے کا حل نکلنے والا نہ تھا۔

وہ جن کی طرح اس سے چمٹ گیا تھا جسے کوئی تعویز بھی اس سے دور نہیں کر سکتا تھا۔

اس دن کے بعد سے جب وہ اُسکے کال نہ اٹھانے پر گھر پہ چلا آیا تھا۔تب سے نازلی کو نا چاہتے ہوئے بھی اسکی کال اٹھانی پڑتی تھی۔کوئی دوسرا چارہ بھی تو نہ تھا۔وہ دن با دن خود کو دلدل میں دھنستا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ایک طرف اسکے گھر والے تھے تو دوسری طرف وہ جنونی شخص تھا۔۔۔۔جانے اس رشتے کا کیا انجام ہونے والا تھا۔یہ سوچ ہی اسکے جسم سے جان نکال دیتی تھی۔اسنے آہ بھر کر موبائل کو دیکھا پھر کال پک کی۔"کہاں تھی؟"کال اٹھاتے ہی دوسری طرف سے پوچھا گیا۔ 

"یہی ہوں۔"اسنے مدھم آواز میں کہا 

"ہوں ۔۔۔ کیسی ہو؟"لہجے میں بلا کی محبت تھی۔  

"ٹھیک ۔۔"نازلی نے مختصر جواب دیا۔ 

"اداس ہو؟"اسکے لہجے سے وہ پہچان گیا تھا۔ 

"نہیں۔۔"وہ بے زاری سے بولی 

"تم اداس ہو ۔۔۔"اسنے اپنے الفاظ پر زور دیا پھر بولا۔"میں ابھی تم سے ملنے آرہا ہوں۔"

"نہیں پلیز ۔۔۔ میں اداس نہیں ہوں۔"وہ جھٹ سے بولی کہ کہیں وہ اس وقت اسکے سر پر سوار نہ ہو جائے۔ 

"پھر ہنس کر دکھاؤ۔۔۔۔ میں اپنی پیاری بیوی کو اداس نہیں دیکھ سکتا۔"وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔نازلی نے تپ کر اپنے سر پہ ہاتھ مارا۔

"چلو ہنس بھی دو۔"پھر سے اسرار کیا گیا۔

"ہا ہا ہا۔۔۔بس۔۔۔سن لیا آپ نے؟"وہ غصے سے جھنجھلا کر بولی تو دوسری طرف سے ہاشم قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔

"ہاؤ سویٹ ۔۔۔اداس مت ہوا کرو۔تمہاری اداسی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔اداس ہونے کے بجائے غصہ کر لیا کرو مسز وہ برداشت کر لوں گا۔"اسکی مسکراتی آواز پر نازلی تپ گئی۔ "انہوں ۔۔۔جھوٹا آدمی ۔۔کہتا ہے اداس نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔ جبکہ خود ہی میری اداسی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔"وہ تپ کر زیر لب بڑبڑائی۔

"محبت کا اظہار اونچی آواز میں کیا کرتے ہیں۔"وہ بات سمجھ کر جان بوجھ کر شرارت سے بولا تھا۔

وہ اس وقت اسٹڈی میں کرسی پر بیٹھا تھا۔لہجہ بتا رہا تھا کہ نازلی کو تنگ کرنے میں اسے بہت لطف محسوس ہورہا تھا۔   

"میں کوئی محبت شحبت کا اظہار نہیں کر رہی۔"اسنے چبا کر 

موبائل کان سے دور کرتے سپیکر کے پاس منہ کر کے کہا۔

"دل خوش فہم کو اپنی مرضی کے مطابق سوچنے دو مسز ہاشم۔"دوسری طرف سے وہ مسکرا کر مدھم آواز میں بولا۔

"پاگل آدمی۔"وہ بڑبڑائی۔اسکی بات سن کر ہاشم قہقہہ لگا کر کرسی پر نیم دراز ہوا۔ 

"اس آدمی کو پاگل بھی تم نے ہی کیا ہے۔"دلکشی سے کہا گیا۔"ہر بات کا الزام مجھ پر ڈالنا ضروری ہے؟"نازلی منہ بنا کر بولی۔"الزام مجرم پر ہی ڈالا جاتا ہے۔"اسنے پر سکون انداز میں جواب دیا۔ 

"تو آپ اس مجرم کو قید کروا دیں کیونکہ آپکی نظر میں تو میں سب سے بڑی مجرم ہوں اور آپ سب سے بڑے معصوم۔۔۔"نازلی غصے سے ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔

"مسز آپکو اپنی حراست میں تو ہم پہلے ہی لے چکے ہیں۔بس اب بہت جلد آپکو اپنی محبت کے حصار میں بھی قید کرنا ہے   پھر آپکے پاس  اس حصار کو توڑ کر بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا قیدی صاحبہ۔۔۔۔پھر آپکو ہمیشہ اس معصوم شخص کے ساتھ رہنا پڑے گا۔یہ بات یاد رکھیے گا۔"وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ سرگوشی میں بولا تھا۔اپنی بات پر اسکا الٹا جواب سن کر نازلی جلے دل کے ساتھ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔

اس شاطر آدمی سے کوئی بھی بات کرنا فضول تھا۔وہ ہر بات کو  اپنی مرضی کے مطابق موڑ لینے کا فن خوب جانتا تھا۔

نازلی خاموشی سے کھڑکی سے باہر اندھیرے میں گھورنے لگی۔اسے کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اس شخص کے ساتھ اپنی انرجی ویسٹ کرتی۔اسلیے اسنے طے کر لیا تھا کہ اب وہ اسکی باتوں کا جواب نہیں دے گی۔اسکی مسلسل خاموشی پر دوسری طرف سے گھمبیر آواز گونجی تو نازلی حیران رہ گئی۔

"طلب اتنی ہے کہ دل و جان میں بسا لوں تم کو۔"

"نصیب ایسے کہ دیدار بھی میسر نہیں تیرا۔"

وہ کہہ کر خاموش ہوا تو نازلی نے حیرت سے نکل کر منہ بنایا۔

"بڑے آئے شاعر کہیں کے۔۔۔"وہ بڑبڑا کر موبائل کان سے ہٹاتی آنکھیں سکوڑ کر اسکرین کو گھورنے لگی۔پر اگلے پل ہاشم کی بات پر اس کے ہوش اڑ گئے۔ 

"مجھے تمہاری بہت یاد آرہی ہے۔۔۔۔میں آرہا ہوں۔۔۔۔ اپنی بیگم کا دیدار کرنے۔"وہ نازلی کے انداز سمجھ کر مسکراہٹ دبا کر بولا۔نازلی بولنے پر مجبور ہوگئی تھی ورنہ اس شخص کا کوئی بھروسہ  نہ تھا کہ وہ یہاں پہنچ آتا۔

"نہ ۔نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔"نازلی خود کو سنبھال کر عجلت سے بولی۔"کیوں نہیں ؟"اسنے سنجیدگی سے پوچھا۔

"پلیز ۔۔۔"نازلی نے پریشانی سے کہا 

"پریشان  مت ہو۔۔۔ مذاق کر رہا ہوں۔"ہاشم مدھم سا مسکرایا تو نازلی کی اٹکی سانسیں بحال ہوئیں۔ 

"اتنا ڈرتی ہو میری موجودگی سے کہ سانس تک اٹک جاتی ہے؟"وہ ایک دم سنجیدہ ہوا تھا۔ 

نازلی کچھ بول نہ پائی۔اسنے کانپتا ہاتھ بڑھا کر بال کان کے پیچھے کیے۔

"مجھے نیند آرہی ہے۔"اس سے کوئی اور بات نہ بنی تو بول پڑی۔دوسری طرف کچھ پل خاموشی رہی پھر وہ بولا۔ 

"لوری سنا دوں؟"اچانک شوخی سے پوچھا گیا۔نازلی کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔"شکریہ ۔۔۔"اسنے تپ کر کہا 

"اوکے پھر چلو آرام کرو۔"ہاشم نے مسکرا کر محبت سے پر لہجے میں کہا۔"شب بخیر۔۔"اسکی مدھم آواز پر نازلی نے جلدی سے کال کٹ کر کے موبائل ایک طرف رکھا پھر کمبل کھینچ کر اپنے اوپر ڈال کر لیٹ گئی۔

مٹھیاں زور سے بھینچ کر ، آنکھیں موندے اسنے خود کو کچھ بھی سوچنے سے روکا تھا پر دماغ آزاد پنچھی کی طرح سوچوں کی دنیا میں اڑتا پھر رہا تھا۔ 

جبکہ دوسری طرف وہ آنکھیں بند کیے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ تھی۔یہ احساس ہی کس قدر خوبصورت تھا کہ وہ لڑکی اسکی ہے۔وہ جلد ہی حویلی میں سب کو بتا کر اس گڑیا کو اپنے پاس لانے کا سوچ رہا تھا۔وہ اسے مزید اُن برے لوگوں میں گھرے نہیں دیکھ سکتا تھا۔

جمال آغا کا سوچ کر ہی اسکا دماغ ابل پڑتا تھا۔وہ جلد سے جلد نازلی کو ان سب کے بیچ سے نکالنا چاہتا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہاشم تیزی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔آفس میں کوئی مسئلہ ہوگیا تھا اسلیے اسے وہاں پہنچنے کی جلدی تھی۔

اسنے موبائل اٹھایا کہ اسفی سے کال کر کے پوچھے کہ وہاں کیا مسئلہ بنا ہے۔اسنے ایک نظر سامنے دیکھا تو نمبر ڈائل کرنا  بھول گیا۔سامنے سے ایک کار تیزی سے اسکی طرف آرہی تھی۔ہاشم نے جلدی سے بریک پر پاؤں رکھا اسکی کار تو رک گئی پر سامنے والے نے جس وقت تک بریک لگائی تب تک انکی گاڑیاں ٹکرا چکی تھیں۔ہاشم جھٹکے سے سنبھلا پھر غصے سے دروازہ کھولتا کار سے باہر نکلا۔

دوسری گاڑی سے ایک پیاری سی لڑکی باہر نکلی۔پنک کپڑوں میں ، شولڈر کٹ بال اور نیلی آنکھیں۔۔۔

"آپ اندھی ہیں ؟ یہ کیا طریقہ ہے گاڑی چلانے کا۔"ہاشم اسے دیکھ کر اسکے اوپر برس پڑا جبکہ وہ مگن سی ہاشم کو دیکھ رہی تھی۔"ہیلو مس۔۔۔"ہاشم نے اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر اسکے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی۔ 

"جی کیا کہا آپ نے؟"وہ لڑکی چونک کر بولی۔اسکے لہجے میں پٹھانی ٹچ تھا۔اسکی بات پر ہاشم نے ضبط سے اسے دیکھا۔

"آپکو گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیوں ڈرائیو کرتی ہیں۔"وہ تپ کر بولا۔

"ہمیں بہت اچھے سے کار ڈرائیو کرنی آتی ہے۔یہ تو بس ہمارا دھیان بھٹک گیا تھا اسلیے۔"وہ مزے سے بولی تو ہاشم کا دماغ گھومنے لگا۔

"مس ڈرائیونگ کوئی مذاق نہیں ہے۔جب ہوش میں ہوا کریں تب گاڑی لے کر نکلا کریں۔"وہ جھنجھلایا تھا۔ایک تو پہلے سے اسے دیر ہورہی تھی اوپر سے یہ لڑکی اسکا صبر آزما رہی تھی۔ 

"آپ لوگ اپنے شہر میں آئے مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟"وہ لڑکی ناراضگی سے بولی۔

اسکی بات پر ہاشم نے لمبی سانس کھینچ کر اپنا غصہ قابو کیا۔اسے ایک لڑکی پر اتنا غصہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

"آپ کسی دوسرے شہر سے آئیں ہیں؟"ہاشم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ابھی اسنے نوٹ کیا تھا کہ اس لڑکی کی آنکھیں بھی نیلی تھیں۔ اسکی آنکھوں کو دیکھ کر اسے اپنی مسز صاحبہ کی یاد آنے لگی۔آفس کے چکر میں وہ اسے کال بھی نہیں کر پایا تھا۔

"جی ہم یہاں گھومنے آئے تھے۔آج واپس چلے جائیں گے۔ویسے ہمارا نام سوسن ہے۔"ہاشم کے آرام سے بات کرنے پر وہ مسکرا کر بولی۔"اچھا۔۔۔ امید ہے آپ نے ہمارے شہر کا وزٹ انجوائے کیا ہوگا۔"ہاشم نے مدھم سا مسکرا کر کہا۔

"جی بہت ۔۔۔"وہ ہنسی تھی۔"ویسے آپکا نام کیا ہے؟"اسنے ہاشم کے وجیہہ چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔

"ہاشم خان۔۔۔"ہاشم نے جواب دیا پھر بولا"اب آپ اپنی گاڑی پیچھے کر لیں گیں سوسن مجھے ارجنٹلی کہیں پہنچنا ہے۔"ہاشم نے عجلت میں بازو پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھا۔

"تاسو پختون یے ؟ (کیا آپ پٹھان ہیں؟)"سوسن نے جیسے اسکی بات سنی ہی نہ ہو۔وہ اپنی ہی بولی تو ہاشم نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"اؤ زہ پختون یم۔۔۔۔(جی ہم پٹھان ہیں۔)"ہاشم نے مسکرا کر جواب دیا تو سوسن اسکی مسکراہٹ پر گرتے گرتے بچی تھی۔ 

"آپکی شادی ہو چکی ہے؟"اسنے ہاشم کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔"جی۔۔۔ میری شادی ہو چکی ہے۔"وہ دلکش انداز میں مسکرایا۔آنکھوں کے سامنے نازلی کا سراپا لہرایا تھا۔ 

جبکہ اسکی شادی کا سن کر سوسن کا دل ٹوٹ گیا۔

"آہ کتنا ہینڈسم بندہ ہے۔"وہ زیر لب بڑبڑائی۔ہاشم نے اسکی بات سن کر لبوں پر مسکراہٹ روکی۔وہ جانتا تھا میڈم کے دل میں کیا چل رہا تھا۔وہ لڑکیوں کے اس انداز کا عادی تھا۔پر اسے تو اب کسی کی طلب نہ تھی اسے جو کانچ سی لڑکی چاہیے تھی وہ اسے مل گئی تھی۔ 

"نائس ٹو میٹ یو سوسن۔"ہاشم نے نرمی سے کہہ کر اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔سوسن اسکا ہاتھ تھام کر مسکرائی۔

"نائس ٹو میٹ یو ٹو ہاشم خان۔"وہ نرمی سے بولی۔ہاشم نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔"آپکی بیوی بہت لکی ہیں جنہیں آپ ملے۔"سوسن نے ہنس کر کہا 

"وہ تو ہے۔"ہاشم زیر لب مسکرایا۔آنکھوں کے سامنے نازلی کا غصے سے گلابی ہوتا چہرہ لہرانے لگا۔اسنے سر جھٹک کر سوسن کو دیکھا۔"اب آپ گاڑی ہٹا دیں گیں؟"اسنے کار کی طرف اشارہ کیا۔

"جی۔۔۔جی ۔۔"وہ ہڑبڑا کر بولی۔ہاشم پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔سوسن نے کار پیچھے کی تو ہاشم نے اپنی کار آگے بڑھا کر روکی پھر ونڈو نیچے کر کے اسے"اللہ حافظ"بول کر کار  زن سے آگے بڑھا دی۔سوسن کے چہرے پر مسکراہٹ چمک اٹھی۔"افف کیا شخص تھا۔"مسکرا کر کہتے گانا گنگناتے  اسنے کار آگے بڑھا دی۔ہاشم اسے اچھا لگا تھا پر وہ اپنی منزل پا چکا تھا۔اسکے لیے اچھی زندگی کی دعا کرتی وہ لڑکی مگن سی اپنے شہر کی طرف بڑھنے لگی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی آج خوش تھی۔وجہ ایک تو یہ کہ دو دنوں سے ہاشم کی کال نہیں آئی تھی۔دوسری یہ کہ آنی لوگ ایک ہفتے بعد واپس آرہے تھے۔نازلی کو روشنی کی کرن نظر آئی تھی کہ شاید اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔اسے لگا شاید ہاشم کا دماغ ٹھکانے آگیا ہوگا اسلیے وہ دو دنوں سے غائب تھا۔جو کہ اسکے لیے تو اچھا ہی تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔جمال آغا منحوس بھی منظر سے غائب تھا اور اب ہاشم بھی ۔۔۔۔ 

اسکے دل میں ٹوٹی امید زندہ ہوئی تو موڈ بھی ایک دم سے خوشگوار ہوگیا تھا۔

وہ ٹیرس پر بیٹھی تھی۔موسم بہت خوشگوار ہورہا تھا۔ہوا سے پھول اور پودے جھوم رہے تھے۔آسمان پر بادلوں کی ٹولیاں منڈلانے لگیں تھیں۔اسنے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا۔جانے کیوں آج دل ہوا کے سنگ سنگ اڑنا چاہتا تھا۔

اسکی نظر اپنے ہاتھ پر پڑی تو اسنے جھٹ سے رنگ اتار کر ٹیبل پر رکھی۔ آج وہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں دیکھنا چاہتی تھی جو اسے پھر سے اندھیروں میں دھکیل دیتی۔ 

وہ کرسی سے اٹھ کر پھولوں کی طرف بڑھی۔پھر ذرا سا جھک کر گلاب کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تو ایک دم لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلی۔

"نازلی باجی۔۔"پیچھے سے نوری کی آواز آئی تو نازلی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔

"کافی ۔۔۔"نازلی اسکے ہاتھ میں کپ دیکھ کر مسکرائی۔اسکا کافی پینے کا دل کر رہا تھا اور نوری میڈم اپنی باجی کے دل کی بات جان کر کافی کے ساتھ حاضر ہوگئی تھی۔ 

"ہاں جی۔۔۔۔"نوری نے مسکرا کر کپ اسکی طرف بڑھایا۔

نازلی نے ہاتھ بڑھا کر ہوا سے اڑتے بال پیچھے کیے پھر دوسرے   ہاتھ سے کوفی کا کپ تھاما۔

"نازلی باجی یہ انگوٹھی آپکی ہے؟"نوری ٹیبل سے رنگ اٹھا کر غور سے دیکھنے لگی۔نازلی نے کافی پیتے خاموشی سے سر ہلایا۔"کتنی پیاری ہے۔"نوری اسے دیکھ کر خوشی سے بولی 

"اچھا ۔۔۔"نازلی نے بے زاری سے کہا 

"یہاں کیوں رکھی ہے۔ پہنیں ناں اسے۔"

"بعد میں پہنوں گی نوری۔ابھی اسے تم میرے کمرے میں رکھ آؤ۔"نازلی نے جلدی سے کہا۔نوری سر ہلاتی پلٹ کر چلی گئی۔ 

نازلی نے کافی پی کر کپ ٹیبل پر رکھا۔تبھی بادل گرجے اور ایک دم سے بارش شروع ہوگئی۔اسنے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ننھی بارش کی بوندیں اسکے چہرے پر گرنے لگیں۔

ہاتھ پھیلا کر مسکراتی وہ وہیں کھڑی بارش میں بھگتی رہی۔نوری واپس آئی تو نازلی کو دیکھ کر جلدی سے بول پڑی۔

"یہاں آجائیں نازلی باجی۔۔۔ بارش میں بھیگنے سے بیمار ہو جائیں گیں۔"وہ فکر مند سی ہوگئی۔

"تم بھی آؤ نوری ۔۔۔ بہت مزہ آرہا ہے۔"نازلی مسکرا کر اسکی طرف بڑھی۔

"نہ جی نہ ۔۔۔۔ سردیوں کی بارش ہے۔مجھے بھیگ کر اماں سے مار نہیں کھانی۔"نوری جلدی سے نہ میں ہاتھ ہلاتی وہاں سے بھاگی تھی۔نازلی اسکے انداز پر کھلکھلا کر ہنسی۔بارش کے برسنے کی آواز اور اسکی ہنسی کی کھنک نے فضا میں سُر بکھیر دیے تھے۔وہ کافی دیر بارش میں کھڑی رہی پھر مسکرا کر بال جھاڑتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔اس امید کے ساتھ کہ اب اسکی زندگی میں سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا پر وہ نہیں جانتی تھی کہ کل کا دن اسکی زندگی میں عذاب لے کر آنا والا تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"عمر گزرے گی امتحان میں کیا ۔۔۔؟"

"داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا۔۔۔؟"

وہ یونی سے واپس آ کر تھوڑی دیر سوئی پھر اٹھ کر اپنی اسائنمنٹ بنانے لگی۔ 

بیڈ پر اسکی کتابیں پھیلی تھیں۔اسکا قلم تیزی سے فائل پر چل رہا تھا۔وہ اپنے کام میں مگن تھی جب اچانک دروازہ کھلا۔نازلی نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا تو نیلی آنکھوں میں حیرت جاگی۔

سامنے تنی گردن کے ساتھ ،  تیار سی ساڑھی میں ملبوس امتل آفندی کھڑی تھیں۔نازلی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔وہ زندگی میں پہلی بار اسکے کمرے میں آئی تھیں۔ 

وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آئیں ناں بڑی ماما۔"وہ انکی طرف بڑھ کر بولی۔امتل آفندی آہستہ سے ساڑھی کا پلو سنبھالتی اندر داخل ہوئیں۔ 

"آپ بیٹھیں ناں پلیز۔"نازلی نے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔انہیں اپنے کمرے میں دیکھ کر اسے بہت خوشی محسوس ہوئی تھی۔ 

" ٹھیک ہوں۔۔۔۔میں بس تم سے ایک بات کرنے آئی ہوں۔"وہ اسے دیکھ کر سنجیدگی سے بولیں۔ 

"جی بڑی ماما۔"نازلی نے سوالیہ انداز میں انہیں دیکھا۔ 

"شام کو گھر میں فنکشن ہے۔تم تابین کے ساتھ پالر چلی جانا تیار ہونے کے لیے۔"اب کی بار وہ نرمی سے بولیں۔انکے نرم انداز پر نازلی کا چہرہ چمک اٹھا۔

"جی میں چلی جاؤں گی۔"نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔اسے لگا تھا معمول کی طرح ہی کوئی پارٹی وغیرہ ہوگی اسلیے اس نے مزید کچھ نہ پوچھا پر ہاں اسے حیرت ضرور ہوئی کہ آج سے پہلے تو اسے کسی پارٹی کا علم تک نہیں ہونے دیا جاتا تھا پر آج بڑی ماما خود اسے بتانے بلکہ تابین کے ساتھ جانے کا بول رہی تھیں۔کیا واقعی اسکا یقین ٹھیک تھا کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔کیا ایسا ہی ہونے جا رہا تھا؟ 

"اور نیچے لالہ لوگ آئے ہیں۔آ کر ان سے بھی مل لینا۔"امتل آفندی مدھم سا مسکرائیں۔نازلی بیہوش ہونے کو تھی۔آج یہ کیا جادو ہورہا تھا؟اسنے حیرت سے اثبات میں سر ہلایا۔ 

"تم تیار ہو کر آجاؤ اوکے۔"امتل آفندی کہہ کر جانے کے لیے پلٹیں۔

"بڑی ماما۔"نازلی نے ایک دم پکارا۔انہوں نے رک کر اسے دیکھا۔ 

"بابا جان کب واپس آئیں گے؟"اسنے ہاتھ مسل کر مدھم آواز میں پوچھا۔وہ جاننا چاہ رہی تھی کہ بابا جان کب آئیں گے تا کہ وہ خود کو انکا سامنا کرنے کے لیے تیار کر سکے۔ 

"فنکشن اسٹارٹ ہونے سے پہلے پہنچ جائیں گے۔"وہ سنجیدگی سے کہتیں کمرے سے نکل گئیں۔

نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ چمک اٹھی۔اسے یقین سا ہونے لگا کہ کل جو اسکے دل میں امید جاگی تھی وہ شاید سچ کا روپ دھارنے والی تھی۔وہ مسکرا کر الماری کی طرف بڑھی تا کہ جلدی سے تیار ہو کر نیچے جائے۔ 

وہ تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلی۔ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو وہاں امتل آفندی کے ساتھ بابا صاحب ، بی بی جان ، جمال آغا اور بلاول بیٹھے تھے۔نازلی نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔بابا صاحب نے سنجیدگی سے جواب دیا۔بلاول بھی آج خوش اخلاقی سے ملا۔ جمال آغا آج تمیز کے دائرے میں تھا۔شاید گھر والوں کی موجودگی کی وجہ سے ایسا تھا۔نازلی نے حیرت سے سب کے بدلے انداز کو دیکھا۔وہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔

"یہاں آؤ بچہ۔"بی بی جان نے اسے اپنی طرف بلایا۔نازلی مسکرا کر انکی طرف بڑھی۔وہ ان سب سے الگ بہت اچھی خاتون تھیں۔نازلی انکے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔ 

تھوڑی دیر بعد تیار سی تابین وہاں آئی سب کو سلام کر کے  نازلی کی طرف پلٹی۔

"چلو نازلی ۔۔۔ بہت سے کام ہیں اور وقت کم ہے۔"وہ عجلت سے بولی۔نازلی اسے دیکھ کر سوچنے لگی۔۔۔لگتا ہے آج کوئی  بڑا فنکشن ہے جو تابین کو بھی فکر ہورہی تھی۔

"چلتی ہوں بی بی جان۔"نازلی نے مسکرا کر کہا۔

"جاؤ بیٹا۔"بی بی جان نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تو نازلی خاموشی سے اٹھ کر تابین کی طرف بڑھی۔ 

"اوکے ماما ہم جا رہے ہیں۔پہلے بوتیک جائیں گے پھر پالر۔۔۔۔ باقی یہاں کا کام آپ سنبھال لیجیے گا۔"تابین نے ماں کو دیکھ کر کہا۔

"ڈونٹ وری ڈارلنگ ۔۔۔ تم لوگ جاؤ ۔۔۔ میں اور جمال یہاں کا کام دیکھ لیں گے۔"امتل آفندی نے مسکرا کر جمال آغا کو دیکھا جس نے جواب میں سر کو خم دیا۔

نازلی نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا پھر تابین کے اشارہ کرنے پر سر جھٹک کر اسکے ساتھ چلنے لگی۔ 

جمال آغا نے سر اٹھا کر نازلی کی پشت کو دیکھا۔اسکے لبوں پر پراسرار سی مسکراہٹ پھیلنے لگی تھی۔

"میں صرف تمہاری وجہ سے یہ سب کر رہی ہوں جمال ۔۔۔ ورنہ یہ لڑکی مجھے زہر سے کم نہیں لگتی۔"امتل آفندی نے جمال آغا کو نازلی کو دیکھتا پا کر آہستہ آواز میں کہا۔

"پھپھو اب اسے سوتیلی بیٹی نہیں بلکہ ہونے والی بہو کی نظر سے دیکھیں۔"وہ کمینگی سے مسکرایا۔

"تمہیں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ملی تھی؟"بابا صاحب نے بیٹے کو دیکھ کر سپاٹ انداز میں پوچھا۔ 

"فلحال اسکا ملنا بہت ضروری ہے بابا صاحب ۔۔۔ آپ سب کچھ جانتے تو ہیں۔"وہ پراسرار انداز میں بول کر باپ کو دیکھنے لگا۔بابا صاحب کے لبوں پر اتنے وقت میں پہلی بار مسکراہٹ پھیلی تھی۔

"تم واقعی میرے بیٹے ہو۔"بابا صاحب نے فخر سے کہا۔ 

"بہو پیاری تو ہے ناں بابا صاحب؟"جمال آغا نے شرارت سے پوچھا۔

"لاکھوں میں ایک ہے۔"بابا صاحب نے بیٹے کا شانہ تھپک کر کھلے دل سے تعریف کی۔پیاری تو وہ تھی اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔امتل آفندی نے نازلی کی تعریف سن کر نفرت سے منہ پھیر لیا۔

پہلے تو جب جمال آغا نے اُن سے نازلی کے رشتے کی بات کی تب تو وہ بالکل راضی نہ تھیں۔پر جب بابا صاحب نے ان سے جمال آغا کے لیے تابین کا رشتہ مانگا تو وہ پریشانی میں آگئیں کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی پسند سے واقف تھیں اور انہیں معلوم تھا کہ وہ ہاشم خان کے علاوہ کسی دوسرے کو کبھی قبول نہیں کرے گی۔اسلیے امتل آفندی نے اپنی بیٹی کو اس سب سے نکالنے کے لیے جمال آغا کے ساتھ مل کر بابا صاحب کو نازلی اور جمال آغا کے رشتے کے لیے منایا۔وہ اس بات سے انجان تھیں کہ جمال آغا ، ہاشم خان کو مات دینے کے لیے نازلی سے رشتہ جوڑنا چاہتا تھا۔خیر اگر معلوم بھی ہوتا تو بھی وہ کون سی نازلی کی خیر خواہ تھیں جو اسے بچا لیتیں۔انہیں تو بس اپنی بیٹی کی فکر تھی۔نازلی اور جمال آغا کے رشتے سے انہوں نے ایک طرف اپنی بیٹی کو بھی بچا لیا تھا اور دوسری طرف بھائی کی ناراضگی سے بھی دامن بچ گیا تھا۔ 

منگنی کی بات طے ہونے سے پہلے ہی جمال آغا نے بابا صاحب کو سچ بتا دیا تھا کہ نازلی ، ہاشم خان کی محبت ہے اور وہ نازلی سے شادی کر کے اسے اذیت سے دو چار کر کے ہاشم خان کو پل پل مرتے دیکھنا چاہتا ہے۔اسے دکھ سے تڑپتے دیکھنا چاہتا ہے۔اسکی اس بات پر بابا صاحب مان گئے تھے۔آخر وہ خود بھی تو جمال آغا جیسے ہی خود پسند ، حاسد انسان تھے پھر وہ خان بابا کے بیٹے کو کیسے بخش دیتے۔جب قدرت نے اتنا اچھا موقع انکے سامنے رکھا تھا تو وہ اسے کیوں نہ استعمال کرتے۔ 

 حسن آفندی بزنس کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے۔امتل آفندی نے فون پر ہی انسے اس رشتے کی بات کی۔۔۔ پہلے تو وہ نہ مانے پر پھر امتل آفندی کے کہنے پر کہ اس رشتے میں نازلی کی رضا مندی ہے تو انہوں نے ہاں کر دی تھی کیونکہ وہ کئی بار نازلی اور جمال آغا کو ساتھ دیکھ چکے تھے۔تب تو انکے دل میں ایسا کوئی خیال نہ آیا پر امتل آفندی کی باتوں سے سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ شاید نازلی اور جمال آغا ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ 

امتل آفندی نے انہیں نازلی اور جمال آغا کی منگنی کے لیے بھی منا لیا تھا۔انہیں کیا اعترض ہوتا اگر انکی بیٹی خوش تھی تو وہ بھی مان گئے تھے یوں آج انکی منگنی کا دن رکھا گیا۔پر حسن آفندی نے یہاں بھی غلطی کر دی۔وہ اتنے بڑے فیصلے سے پہلے ایک بار بھی بیٹی سے بات نہ کر سکے۔اس سے پوچھ نہ سکے کہ کیا واقعی وہ جمال آغا سے رشتہ جوڑنا چاہتی ہے کہ نہیں؟۔۔۔بزنس نے انہیں اتنا مصروف کر رکھا تھا کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی بیٹی کی طرف سے بے پرواہ ہو گئے تھے۔

ان سب معاملات سے امتل آفندی نے نازلی کو انجان رکھا تھا۔انکی نظر میں اسے بتانا ضروری نہ تھا وہ ہاں کرتی یا نہ ۔۔۔۔ پر اسکی منگنی تو جمال آغا سے ہی ہونی تھی اور یہ بات وہ طے کر چکی تھیں۔

دوسری طرف جمال آغا بھی اچانک نازلی سے منگنی کر کے ہاشم کے سر پر بم پھوڑنا چاہتا تھا۔

وہ سب اپنی اپنی سوچ رہے تھے پر جس کی زندگی داؤ پر لگائی جا رہی تھی۔اسے سرے سے اس بات کی خبر ہی نہ تھی۔وہ تو خوش تھی کہ آج سالوں بعد اسکی بڑی ماما نے اس سے اس انداز میں بات کی تھی۔اس کے لیے اتنا ہی بہت تھا تبھی خوشی خوشی تابین کے ساتھ چل دی۔

وہ لوگ تابین کے بوتیک میں داخل ہوئیں۔روشنیوں سے جگ مگ کرتا انتہائی خوبصورت اور وسیع بوتیک تھا جہاں ہر طرف خوبصورت ڈریسز بہار دکھا رہے تھے۔ 

نازلی ارد گرد نظر دوڑانے لگی۔وہ پہلے بھی یہاں تین ، چار مرتبہ  آ چکی تھی اور ہر بار وہ بوتیک اسے اپنے نئے انداز کی وجہ سے  پہلے سے زیادہ حیران کرتا۔اسے اپنی بہن پر فخر ہونے لگتا تھا جو اس کام کو اتنے اچھے سے مینیج کر رہی تھی۔ 

وہاں اچانک تابین کی موجودگی کی وجہ سے تمام اسٹاف الرٹ ہوگیا تھا۔تابین نے بے نیازی سے نازلی کو اپنی پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔نازلی اسکے پیچھے چلنے لگی۔چہرے پر خود بخود  مدھم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اسے اپنی بہن کے ساتھ آنا اچھا لگا تھا۔ 

تابین ایک کپڑوں کے ریک کے سامنے رکی۔نازلی بھی رک کر ایک سے ایک خوبصورت ڈریس کو دیکھنے لگی۔ 

"یہ دیکھو ۔۔۔ یہ تم پر بہت سوٹ کرے گا۔"تابین نے ست رنگی لہنگا شرٹ نازلی کے سامنے کیا۔وہ آنکھوں کو حیران کر دینے والا تھا۔دھنک کے خوبصورت رنگوں کا مکسچر جس پر نفاست سے نازک موتیوں کا کام ہوا تھا۔وہ بہت اچھا تھا پر کسی بھی عام پارٹی یا فنکشن میں پہنے جانے والا ڈریس نہ تھا۔تبھی نازلی نے حیرت سے تابین کو دیکھا۔

"آپی اتنے کام والا ڈریس میں نے کیا کرنا ہے۔کوئی سمپل سا ٹھیک رہے گا۔"وہ مدھم آواز میں بولی۔

"آج تمہارا اسپیشل ڈے ہے۔ اس حساب سے یہ ڈریس تمہارے لیے پرفیکٹ ہے ڈارلنگ۔"تابین مسکرا کر کہتی ڈریس کا کام دیکھنے لگی۔

"کیسا اسپیشل ڈے؟؟"نازلی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا پر وہ ڈریس کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ 

"ارے یہ کیسا سوال ہے بھئی ؟ آج تمہاری انگیجمنٹ ہے ناں۔" تابین نے شرارت سے ہنس کر ایک سرسری نظر اس پر ڈالی پھر پلٹ کر اپنے لیے ڈریس دیکھنے لگی جبکہ نازلی کی نظروں کے سامنے سارا بوتیک گھومنے لگا تھا۔ 

"کس سے ؟؟"اسنے کانپتی آواز میں پوچھا۔

"اور کون ہوگا ۔۔۔ وہی تمہارا دیوانہ جمال آغا۔"مصروف انداز میں بات ختم کر کے وہ ہنسنے لگی پھر ایک نظر اس پر ڈال کر بولی۔"چلو یہ ڈریس ڈن ہے۔میں پیک کروا رہی ہوں۔"تابین اپنی کہہ کر وہاں سے دوسری طرف بڑھ گئی۔

نازلی بت بنی وہیں کھڑی رہی۔اسکا چہرہ ایک دم سفید پڑ گیا۔

دل تھم کر چلنے لگا۔یہ اچانک کیا ہورہا تھا؟ 

اسکی ٹانگوں سے جان نکلی۔وہ لڑکھڑائی تو پلٹ کر واپس آتی تابین نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ 

"کیا ہوگیا ؟"تابین کے لہجے میں پریشانی تھی۔ 

"آپی مجھے گھر جانا ہے۔"نازلی نے سر جھکا کر مدھم آواز میں کہا۔

"وہاٹ ۔۔۔ابھی کہاں گھر ۔۔۔ ابھی تو پالر جانا ہے۔۔۔۔تم چلو یہاں بیٹھو میں پانی لاتی ہوں۔"تابین دو ٹوک انداز میں کہتی اسے ایک طرف کرسی پر بٹھا کر پانی لینے چلی گئی۔

نازلی کی جان جانے لگی۔وہ تابین کو کیسے بتائے کہ وہ یہاں نہیں رک سکتی۔اسے نہیں کرنی یہ منگنی۔وہ کسی کی منکوحہ ہے۔وہ کیا کرے؟کس طرح اس عذاب سے نکلے؟ 

"یہ لو ۔۔"تابین نے پانی کا گلاس اسکے سامنے کیا جسے اسنے کانپتے ہاتھ سے تھام لیا۔خود کو کسی طرح سنبھال کر پانی کے دو گھونٹ بھرے۔اسے کسی طرح اس وقت اس عذاب سے نکلنا تھا۔پر کیسے ؟؟ 

وہ دونوں بوتیک سے نکل کر کار میں بیٹھیں۔تابین نے کار آگے بڑھا دی۔نازلی روڈ کو گھورتی مسلسل سوچوں میں گم تھی۔ 

کیا وہ اس شخص کو بتا دے ؟ پر کیسے ؟ وہ موبائل بھی تو ساتھ نہیں لائی تھی اور تابین سے موبائل لینے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ 

کار جھٹکے سے رکی۔وہ پالر کے سامنے موجود تھیں۔تابین اسے لیے پالر میں داخل ہوئیں جو کہ تابین کی ہی کسی دوست کا تھا۔ 

اندر جانے کی تھوڑی دیر بعد نازلی کو آرڈر دیا گیا کہ وہ ست رنگی لہنگا پہنے۔اسنے خاموشی سے پہن لیا۔

جب وہ چینجنگ روم سے باہر نکلی تو تابین اور اسکی دوست نے خوب تعریف کی۔پر نازلی کو کچھ محسوس نہ ہوا۔وہ کرسی پر آ کر بیٹھی۔اسے تیار کیا جانے لگا۔وہ بالکل روبوٹک انداز میں انکی ہدایات پر عمل کر رہی تھی۔دماغ بری طرح سے الجھا ہوا تھا۔کیا وہ بابا جان سے بات کرے ؟ یا آنی سے ؟ پر وہ انہیں سچ کیسے بتا پائے گی کہ وہ کسی کے نکاح میں ہے؟ یا اس شخص کو بتا دے؟ پر پھر وہ جو کرے گا اس میں بھی تو اسکی بھلائی نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ وہ جیسے جہنم میں پھنس چکی تھی۔کوئی  راستہ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔اسکی آنکھیں برسنے کے لیے بے تاب تھیں۔پر اسنے اپنے آنسوؤں  پر ضبط رکھا وہ یہاں سب کے سامنے تماشہ نہیں بننا چاہتی تھی۔

اسے تیار کیا جا چکا تھا۔تابین کے کہنے پر اسکا میک اپ ہلکا رکھا گیا تھا۔جسکی وجہ سے اسکی معصومیت میں چار چاند لگ گئے تھے۔بالوں کا پیچھے کی طرف کر کے جوڑا بنایا تھا اور سر پر دوپٹہ اوڑھایا گیا تھا۔نازک جیولری اور دھنک رنگ لہنگا شرٹ میں وہ بالکل مغلیہ شہزادی لگ رہی تھی۔

تابین نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"جمال آغا تو تمہیں دیکھ کر مر مٹے گا۔"اسنے شرارت سے سرگوشی کرتے نازلی کا ہاتھ پکڑ کر اسے شیشے کے سامنے کھڑا کیا۔ 

اسکی بات پر نازلی کا دل ڈوب ڈوب گیا۔اسے اپنی چاروں طرف اندھیرہ بکھرتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ 

"نظر اٹھا کر دیکھو تو۔۔۔"تابین نے اسکی ٹھوڑی تھام کر اوپر  اٹھائی۔شیشے میں نازلی نے اپنا سراپا دیکھا۔اسے اپنا آپ پرایا لگا۔کون تھی یہ لڑکی جو بظاہر تو جگ مگ کر رہی تھی۔جسکا وجود چمک رہا تھا پر روح اندھیروں میں گھری تھی۔جیسے اسے کسی نے قید کر رکھا ہو۔اسے آئینے میں وہ شہزادی نازلی نظر نہ آئی بلکہ اسے وہ تنہا ، روتی ہوئی گھائل نازلی دکھائی دے رہی تھی۔

وہ کتنے ہی پل خود کو دیکھے گئی۔پھر تابین کے پکارنے پر ہوش میں آئی۔"چلو ناز ۔۔۔ بہت دیر ہو چکی ہے۔ماما کی کالز بھی آرہی ہے۔جلدی چلو۔"وہ مصروف سی موبائل پر مسیج کا جواب دے کر نازلی کی طرف آئی پھر کرسی سے شال اٹھا کر نازلی کے گرد لپٹی۔اسکا ہاتھ تھام کر پالر سے باہر نکلی۔

گاڑی گھر کی طرف بڑھنے لگی۔نازلی بے چینی سے ہاتھ مسل رہی تھی۔اسے اپنا آپ پاتال میں گرتا محسوس ہورہا تھا۔روڈ کو گھورتی وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ کار کا دروازہ کھول کر روڈ سے گزرتی کسی تیز رفتار گاڑی کے سامنے آجائے اور یہ سارا قصہ ہی تمام ہو۔اسکی اس عذاب بھری زندگی کا خاتمہ ہو۔

کاش ۔۔۔کاش کہ وہ شخص اسکے ساتھ ایسا نہ کرتا تو وہ خوشی خوشی خود کو قربان کر دیتی۔وہ خود کو باندھ دیتی جمال آغا جیسے شخص کے ساتھ ۔۔۔ پر اب یہ سب ناممکن تھا۔وہ کس راستے پر آ رکی تھی جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ ہی نہ تھی۔ 

کار ایک جھٹکے سے حسن ولا میں رکی تھی۔نازلی نے ایک دم چونک کر نظر اٹھائی۔حسن ولا کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ہر طرف جیسے روشنیوں کی بارات اتری تھی۔پھولوں کی خوشبو ہوا کو مہکا رہی تھی۔اتنا حسین سماں تھا پر نازلی کے دل کا موسم اچھا نہ تھا تو اسے یہ رنگ ، یہ روشنیاں ، یہ خوشبو کچھ بھی نہیں بھا رہا تھا۔

تابین نے اسے اترنے کا اشارہ کیا پھر خود بھی کار سے باہر نکلی۔نازلی کانپتے دل کے ساتھ کار سے باہر آئی۔تبھی امتل آفندی انکی طرف بڑھیں۔

"تابین تم ابھی نازلی کو اسکے کمرے میں لے جاؤ۔ابھی حسن پہنچے نہیں ہیں۔وہ آئیں گے تو تقریب شروع ہوگی۔"امتل آفندی نازلی کو اگنور کرتیں تابین سے بولیں۔نازلی نے دکھ سے انہیں دیکھا پر وہ نظریں پھیر گئیں۔انکا جھوٹ جو پکڑا جا چکا تھا۔نازلی کی آنکھوں میں پانی بھر آیا تو وہ جھٹ سے پلکیں جھکا گئی۔

زندگی میں پہلی بار اسے امتل آفندی کے رویے سے جو خوشی ملی تھی وہ سب دھوکہ تھا اصلیت تو اب بھی وہی تھی کہ وہ انکی سوتیلی بیٹی تھی اور امتل آفندی اُس سے بے انتہا نفرت کرتی تھیں۔

امتل آفندی بات مکمل کر کے وہاں سے چلی گئیں۔تابین ، نازلی کو لے کر اسکے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ابھی مہمانوں کا اتنا رش نہیں تھا اسلیے وہ آسانی سے کمرے میں آگئیں۔

تابین اسے اسکے روم میں بٹھا کر خود چلی گئی۔

نازلی بت بنی کتنے ہی پل بیڈ پر بیٹھی رہی۔پھر اچانک ان نیلی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔وہ کیا کرتی ؟ کہاں جاتی؟ وہ کسی کو بتا بھی تو نہیں سکتی تھی۔وہ اپنے بابا جان کی عزت کو یوں ہزاروں لوگوں کے بیچ نہیں اچھال سکتی تھی۔

ہاں ۔۔۔۔ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتی تھی۔وہ مر تو سکتی ہے پر اپنے باپ کی عزت پر آنچ بھی آنے نہیں دے گی۔

ایک خیال کے آتے ہی اسکے آنسو تھم گئے۔بائیں ہاتھ سے گال پر بہتے آنسو صاف کرتی وہ ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔کندھوں کے گرد لپٹی شال نیچے گری تھی پر اسے پرواہ نہ تھی۔

وہ جلدی سے سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھی۔دراز کھول کر کچھ تلاش کرنے لگی۔

ایک کے بعد دوسرا دراز کھولا۔مطلوبہ چیز کے ملنے پر اسنے گہری سانس لی۔ہاتھ بڑھا کر اسنے سلیپنگ پلز کی چھوٹی سی کانچ کی بوتل اٹھائی۔یہ بابا جان کی تھیں۔اگر کبھی انہیں نیند نہیں آتی تھی تو وہ تین چار ٹیبلٹس ایک ساتھ لے لیتے تھے اسلیے نازلی نے وہ بوتل ان سے لے کر اپنے پاس رکھ لی تھی کہ کہیں زیادہ ٹیبلٹس لینے سے انہیں نقصان نہ پہنچے۔پر اسنے یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہ ایسے حالات میں پھنس جائے گی اور یہ ٹیبلٹس اسکے کام آئیں گیں۔

اسنے ایک ہاتھ میں وہ بوتل جکڑی اور دوسرا ہاتھ بڑھا کر بیڈ سے موبائل اٹھایا پھر بالکنی کی طرف بڑھنے لگی۔

بالکنی میں قدم رکھا تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے اسکے سر پر سیٹ دوپٹہ پھڑپھڑایا تھا پر نازلی کو وہ ٹھنڈی ہوا محسوس نہ ہوئی۔وہ بت کی مانند ہوگئی تھی۔

اسکی بالکنی سے لان کا ایک حصہ دکھائی دیتا تھا۔اسنے آگے بڑھ کر ایک نظر نیچے ڈالی جہاں مہمانوں کا شور تھا پھر پیچھے ہوتی کرسی پر بیٹھ گئی۔آنکھیں موند کر لمبی سانس کھینچی۔

چاند کی چاندنی میں بیٹھی وہ شہزادی جیسے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔اسنے آنکھیں کھول کر دور اندھیرے میں گھورا۔

"آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ہاشم خان ۔۔۔۔"اسکے لب آہستہ سے ہلے تھے۔کتنے پل وہ پتھر کا مجسمہ بنی بیٹھی رہی۔پھر اچانک ہاتھ میں پکڑا موبائل اٹھا کر اس شخص کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔

وہ آج اس شخص کو بتانا چاہتی تھی کہ دیکھو تم نے میری زندگی کے ساتھ کیا کر دیا۔۔۔۔اب ان حالات میں میں کیا کروں؟کیسے اکیلی ان سبکا سامنا کروں؟ تم نے یہ میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔۔۔میرا تو جینا محال ہوگیا۔تم بتاؤ اب میں کیا کروں؟ زندہ رہوں تو کیسے ؟ اور مروں بھی تو کیسے ؟ مرنا بھی تو آسان نہیں ہوتا ناں۔۔۔۔ پر تم نے میرے سامنے کوئی اور راستہ بھی تو نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔

موبائل کان سے لگائے اسکے دل سے مسلسل فریادیں نکل رہیں تھیں۔نازلی نے تھک کر ہاتھ نیچے کر دیا۔اس شخص کا نمبر بند تھا۔وہ سختی سے آنکھیں بند کر کے تلخی سے مسکرائی۔یہ باتیں بھی شاید اسکے دل میں ہی رہیں گیں اور اسکے ساتھ ہی فنا ہو جائیں گیں۔وہ مغرور شخص کبھی نہیں جان پائے گا کہ اسنے اس کانچ کی گڑیا کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔

وہ گڑیا ٹوٹ کر کرچی کرچی بکھر جائے گی اور وہ شہزادہ شاید ہمیشہ اس بات سے انجان رہے کہ اسکے عشق ، اسکے جنون نے اس کانچ سی لڑکی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

اسنے پھر کال ملائی۔آج اسکا شدت سے دل کر رہا تھا کہ وہ اس شخص سے ایک آخری بار بات کر لے پر اب کی بار اسکا نمبر بزی جا رہا تھا۔

نازلی نے ہاتھ نیچے کر کے موبائل گود میں رکھا۔تبھی نظر اس شخص کی دی گئی انگوٹھی پر پڑی۔اسکی آنکھ سے موتی ٹوٹ کر گلابی گال پر بہنے لگا۔

"میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی ہاشم خان ۔۔۔۔ کبھی نہیں۔"اسنے نفرت سے کہتے انگوٹھی اتار کر زور سے زمین پر پھینکی۔"آپ میرے مجرم ہیں۔میں مر کر بھی آپکو معاف نہیں کروں گی۔"اسنے روتے ہوئے دکھ بھری آواز میں کہا۔

سلیپنگ پلز کی بوتل کو اسنے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔پھر آخری امید کے تحت ایک بار پھر اس شخص کا نمبر ملانے لگی۔آج وہ اس سے بات کرنے کے لیے بے چین تھی پر جانے وہ کہاں کھویا تھا۔

بیل دوسری طرف جا رہی۔نازلی دھڑکتے دل کے ساتھ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ تھکا سا کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔آگے بڑھ کر اسنے کار کی چابی ٹیبل پر رکھی پھر جیب سے موبائل نکال کر دیکھا۔موبائل آف تھا۔لمبی سانس کھینچ کر اسنے موبائل چارج پر لگایا۔

کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینکا پھر شرٹ کی آستینیں فولڈ کرتا فریش ہونے کے لیے واش روم کی طرف بڑھا۔

دو دنوں سے اسے سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ملی تھی۔بزنس سے ریلیٹڈ کوئی مسئلہ ہوگیا تھا جسکی وجہ سے اسے فوری طور پر شہر سے باہر جانا پڑا۔وہاں وہ اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ نازلی کو کال بھی نہیں کر پایا تھا پر وہ جانتا تھا کہ مسز ہاشم تو خوش ہو رہی ہوگی کہ چلو ہاشم خان سے اسکی جان چھوٹ گئی۔۔۔پر ایسا ہونا تو ناممکن سی بات تھی۔ 

ٹاول سے منہ صاف کرتا وہ اپنی سوچ پر ایک دم مسکرایا۔

ٹاول ایک طرف کرسی پر رکھ کر سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھا۔موبائل ہاتھ میں لے کر آن کیا ہی تھا کہ کال آنے لگی۔اسنے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔

"ہیلو۔۔۔"اسنے بھاری آواز میں کہا۔

"کہاں ہیں آپ ہاشم ؟"دوسری طرف سے تابین کی آواز گونجی۔

"شہر سے باہر تھا بس ابھی ہی گھر واپس آیا ہوں۔"ہاشم جواب دیتا بیڈ پر بیٹھا۔لمبے سفر نے اسے تھکا دیا تھا۔

"اچھا ۔۔۔آپ جلدی سے حسن ولا آجائیں۔"تابین عجلت سے بولی۔

"کیوں ۔۔؟"ہاشم نے انگلیوں سے بند آنکھوں کو ہلکے سے دباتے سرسری انداز میں پوچھا۔ 

"انگیجمنٹ ہے ۔۔۔ نازلی اور جمال آغا کی۔"تابین نے مسکرا کر اپنی طرف سے خوشی کی خبر سنائی جو کہ ہاشم کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوئی۔ 

"وہاٹ ۔۔۔۔"وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ 

"جی ۔۔۔"تابین اسکا لہجہ سمجھ نہ سکی۔"اچھا جلدی آجائیں کچھ وقت میں رسم شروع ہونے والی ہے۔"وہ ایک ادا سے  مسکرا کر بولی۔

ہاشم کے دل کی دنیا میں طوفان برپا ہوگیا تھا۔

"میں کچھ دیر میں آرہا ہوں۔"وہ غصے کو ضبط کرتا چبا کر بولا تھا۔اگلے پل اسنے کال کٹ کی۔

اسکا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔وہ ہاشم خان کی منکوحہ تھی اور اسکے ساتھ کسی اور کا نام جوڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔یہ بات اسکے لیے موت سے کم نہ تھی۔ 

اسکا موبائل پھر رنگ ہوا۔اسنے غصے سے دانت پیس کر بنا نمبر دیکھے موبائل دیوار پر دے مارا۔موبائل ایک زور دار آواز کے ساتھ دیوار سے ٹکرا کر زمین پر ٹوٹ کر بکھرا۔

اسے لگا تھا پھر تابین کی کال ہوگی پر وہ نہیں جانتا تھا کہ دوسری طرف وہ لڑکی تھی جو اس وقت اس سے بات کرنے کے لیے مضطرب تھی پر وہ اس بات سے انجان تھا۔

ہاشم نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں پھر لمبی سانس کھینچ کر خود کو کسی حد تک سنبھالا۔ 

"میں اپنی جان کے بدلے بھی نہ دوں اسکو۔۔۔"

"وہ ایک شخص جو میرا ہے ، صرف میرا ہے۔۔۔"

اس نے لب بھینچ کر آستینیں نیچے کیں۔اگلے پل بیڈ سے کوٹ اٹھا کر پہنا۔کوٹ کو غصے سے جھاڑ کر الماری کی طرف بڑھا۔لاکر سے اسنے پیپر نکال کر اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھے۔ٹیبل سے کار کی چابی لی اور مضبوط قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکلا۔

لمبے ڈگ بھرتا وہ کار پورچ تک آیا۔اسے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ کر واچ مین نے جلدی سے گیٹ کھولا۔

کار میں بیٹھ کر اسنے زن سے گاڑی گھر سے باہر نکالی۔ونڈ اسکرین سے باہر گھورتی مغرور سیاہ آنکھوں میں دنیا جہان کا غصہ تھا۔وہ ضبط کی انتہاؤں پر تھا ورنہ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر گزرتا۔مضبوط ہاتھ سختی سے اسٹیرنگ وہیل پر جمے تھے۔اسنے اکسیلریٹر پر پاؤں رکھ کر گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھا دی۔گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی تھی۔اسے جلد از جلد حسن ولا پہنچنا تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی نے غم و غصے سے موبائل کان سے ہٹا کر زمین پر دے مارا۔اس شخص کے نمبر پر بیل گئی تھی پر دوسری بیل پر ہی کال جیسے کٹ کر دی گئی ہو۔

نازلی تھک ہار کر واپس کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھی پھر تلخی سے ہاتھ میں پکڑی بوتل کو دیکھ کر مسکرائی۔بوتل کا ڈھکن کھول کر جتنی بھی ٹیبلٹس تھیں اسنے اپنی ہتھیلی پر الٹ دیں۔

ان گولیوں پر جمیں ان نیلی آنکھیں میں پانی بھرنے لگا۔وہ سر سے لے کر پاؤں تک کانپ رہی تھی۔ہاتھ ، پاؤں برف کی طرح ٹھنڈے ہورہے تھے۔

وہ بھی اپنی ماں کی طرح بد قسمت تھی۔دو پل کی خوشی راس نہیں آتی تھی۔ایک لمحہ مسکرانے کی سزا انہیں عمر بھر رو کر کاٹنی پڑتی تھی اور انجام موت کی صورت ہوتا تھا۔ 

ایک نظر اسنے ہتھیلی پر پڑی گولیوں پر ڈالی پھر اداس نیلی آنکھیں اٹھا کر سیاہ چادر اوڑھے خوبصورت آسمان کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔ شاید آخری بار ۔۔۔۔ 

"روح کے تار ۔۔۔۔ چھیڑنے ہونگے۔۔۔"

"عشق دھیمے سروں کا راگ نہیں ۔۔۔"

تابین موبائل کان سے ہٹا کر مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ہاشم جلد ہی یہاں پہنچنے والا تھا۔تابین مسکراتی ہوئی سیڑھیاں اتر کر ہال میں آئی۔ہال ، لان چاروں طرف مہمان بکھرے تھے۔

وہ نیچے آئی تو اسکی نظر حسن آفندی پر پڑی۔وہ کچھ دیر پہلے ہی گھر پہنچے تھے اور اس وقت سب مہمانوں سے مل رہے تھے۔تابین مسکراتی ہوئی انکی طرف بڑھی۔

"ہیلو بابا جان۔"وہ محبت سے کہتی انکے سامنےکھڑی ہوئی۔ 

"ہیلو بیٹا جی۔"حسن آفندی نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔

"کیسے ہیں بابا جان۔"اسنے جدا ہو کر مسکرا کر پوچھا۔

"آپکے سامنے ہوں دیکھ لیں کہ کیسا ہوں۔"حسن آفندی نے اسکا سر تھپک کر کہا۔

"بہت ہینڈسم ۔۔۔بابا جان۔"تابین شرارت سے مسکرائی۔حسن آفندی بھی مسکرا دیے۔ 

"نازلی تیار ہوگئی؟"نازلی کا ذکر کرتے حسن آفندی کے لہجے میں نرمی اتر آئی۔ 

"جی ۔۔تیار ہے اور اپنے کمرے میں ہے۔"تابین نے انہیں دیکھ کر کہا۔ 

"میں جا کر مل لوں اس سے۔"حسن آفندی کہہ کر آگے بڑھے پر تابین نے انکا بازو تھام لیا۔

"ابھی نہیں بابا جان ۔۔۔ کچھ وقت میں نیچے آجائے گی پھر مل لینا آپ اس سے ۔۔ ابھی مجھ سے باتیں کریں۔"تابین انکے کندھے پر سر رکھ کر لاڈ سے بولی۔

"چلو ٹھیک ہے۔"حسن آفندی اسکا گال تھپک کر مسکرا دیے۔ 

"چلیں ذرا اپنے ہونے والے داماد سے تو مل لیں۔"تابین انہیں لیے امتل آفندی سے بات کرتے جمال آغا کی طرف بڑھی۔حسن آفندی کا دل پر سکون تھا۔وہ بے حد خوش تھے۔آج انکی پیاری بیٹی کی زندگی کا اہم دن تھا۔ان کی بیٹی کی خوشی میں ہی  انکی خوشی تھی۔

محفل عروج پر تھی۔جمال آغا اور تابین ہنسی مذاق میں لگے تھے جب امتل آفندی انکی طرف آئیں۔

"تابین جا کر نازلی کو لے آؤ منگنی کی رسم ادا کرنی ہے۔"وہ عجلت میں بولیں۔

"اوکے ماما۔۔۔"تابین نے کہا تو امتل آفندی مہمانوں کی طرف بڑھ گئیں۔

"دل تھام کے رکھنا۔"وہ جمال آغا کو دیکھ کر شرارت سے بولی۔

"اچھا۔۔۔"وہ خباثت سے مسکرایا۔پھر دل پر ہاتھ رکھا۔

"دل کیا آج تو سب کچھ تھم جائے گا ڈئیر۔۔۔۔یہ وقت ۔۔۔ یہ فضا۔۔۔۔"وہ مگن سا بولا۔آج وہ جیت کے نشے میں چور تھا۔اسکی بات پر تابین ہنس کر پلٹی تبھی نظر ہاشم پر پڑی جو ہال کے دروازے سے اندر داخل ہوا اور لمبے ڈگ بھرتا حسن آفندی کی طرف بڑھ رہا تھا۔

تابین کو وہ حد سے زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔اسنے سوچا کہ شاید  سفر سے تھکا ہوا آیا ہے اسلیے۔۔۔۔تابین کو اس بات کی بہت  خوشی تھی کہ وہ اتنا تھکا ہونے کے باوجود بھی اسکے بلانے پر یہاں آگیا تھا۔

تابین کو مگن سا سامنے دیکھتا پا کر جمال آغا نے بھی اس طرف دیکھا۔اسکے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔وہ آج اپنی نظروں کے سامنے ہاشم خان کو خاک ہوتا دیکھے گا۔آج پہلی بار اسکے فخر سے اٹھے سر کو جھکائے گا۔یہ سوچ ہی اسے ہوا میں اڑا رہی تھی۔آگے جو کچھ ہونے والا تھا اس منظر کو سوچ کر ہی اسکا دل خوشی سے بھر گیا۔

"جاؤ نازلی کو لے کر آؤ۔"اسنے ہاشم پر نظریں جما کر تابین سے کہا۔تابین نے نظریں پھیر کر اسے دیکھا۔

"پہلے میں اپنے ہیرو سے ملوں گی پھر تمہاری ہیروئن کو لے کر آؤں گی مسٹر جمال آغا۔"تابین اسکا شانہ تھپک کر مسکراتی ہوئی ہاشم کی طرف بڑھنے لگی۔ 

"سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔"ہاشم سنجیدہ سا حسن آفندی کے سامنے کھڑا ہوا۔ 

"ہیلو ینگ مین۔۔۔۔"حسن آفندی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔پر دوسری طرف اسکے چہرے پر مسکراہٹ نہ آئی۔

"مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔"ہاشم نے انکی آنکھوں میں دیکھ کر ہنوز اسی لہجے میں کہا۔حسن آفندی کو اسکے انداز بدلے ہوئے لگے۔وہ دوستوں سے ایکسکیوز کر کے  ہاشم کو اشارہ کرتے ایک طرف ہوئے جہاں مہمانوں کا رش نہیں تھا۔

"سر میں جو کہنے جا رہا ہوں اسے ٹھنڈے دماغ سے سنیے گا۔"ہاشم نے آہستہ آواز میں کہا 

"کیا بات ہے ہاشم خان ۔۔۔کیا کچھ غلط ہوا ہے ؟"حسن آفندی نے پریشانی سے پوچھا۔ہاشم کے انداز سے انہیں کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ 

"یہ جو ہورہا ہے ۔۔۔۔ یہ غلط ہے۔"ہاشم نے ارد گرد ایک نظر ڈالتے چبا کر کہا۔

"آپکی بات کا مطلب کیا ہے؟"حسن آفندی کے ماتھے پر  ناگواری کی شکنیں نمودار ہوئیں۔ 

"یہ منگنی نہیں ہوگی۔"ہاشم نے اپنا غصہ ضبط کرتے انہیں دیکھا۔

"آپ ہوش میں تو ہیں۔۔۔میری بیٹی کی انگیجمنٹ روکنے والے آپ ہوتے کون ہیں۔"حسن آفندی ایک دم غصے سے لال ہوتے دبی آواز میں بولے۔ 

"میں پورے ہوش میں ہوں سر ۔۔۔"اسنے پر سکون انداز میں کہتے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر پیپر نکالا۔پھر حسن آفندی کی آنکھوں میں دیکھ کر انکی طرف بڑھایا۔

"یہ کیا ہے۔"الجھ کر کہتے انہوں نے پیپر تھام لیا۔ 

"آپکے سوال کا جواب۔۔"ہاشم سپاٹ انداز میں بولا۔

حسن آفندی نے نظریں جھکا کر پیپر کھولا۔جیسے جیسے نظریں پیپر پر دوڑیں انکا دل لرز اٹھا۔ہاتھ کپکپائے تھے۔انہوں نے لال آنکھیں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس وجیہہ شخص کو دیکھا۔جس نے ایک پل میں انکی دنیا میں طوفان برپا کر دیا تھا۔ 

"یہ ۔۔۔ "اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے۔زبان نے ساتھ ہی نہ دیا۔ 

"دیکھیں سر میں آپکو سب بتا دوں گا۔۔۔ پر فلحال اس فنکشن کو روک لیں ۔۔۔ میں اتنے لوگوں کے سامنے کوئی تماشہ نہیں بنانا چاہتا پلیز۔"ہاشم نے انہیں دیکھ کر نرمی سے کہا۔حسن آفندی شاکڈ سے کھڑے تھے جبکہ اس بات پر ہاشم کے پیچھے کھڑی امتل آفندی آندھی کی طرح آگے بڑھیں۔پھر جھٹ سے حسن آفندی کے ہاتھ سے نکاح نامہ کھینچا۔اس پر نظر دوڑائی پھر اونچی آواز میں چلا کر سبکو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"واہ ہاشم خان واہ ۔۔۔۔ تماشہ بنا کر کہتے ہو تماشہ نہیں لگا سکتے۔۔۔۔ اب تو تماشہ لگے گا اور دنیا دیکھے گی۔"امتل آفندی طنزیہ بولیں۔ہاشم نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا۔

"تو یہ ہے اصلیت اس بے غیرت لڑکی کی۔"اب کی بار انہوں نے حسن آفندی کو دیکھا۔ 

"امتل بیگم ۔۔۔"حسن آفندی نے دبی آواز میں انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔پر وہ کہاں سننے والی تھیں۔ 

"بس حسن ۔۔۔۔ آج میں خاموش نہیں رہوں گی۔دیکھ لیے آپ نے اپنی لاڈلی کے رنگ۔۔۔۔منہ کالا کر آئی ہے وہ اس ہاشم خان کے ساتھ۔"وہ چلا کر کہتیں مہمانوں کے بیچ آئیں۔سب حیران و  پریشانی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

تابین جو ہاشم سے ملنے آئی تھی۔امتل آفندی کے چلانے پر کچھ فاصلے پر ہی اسکے قدم تھم گئے اسکے سر پر پہاڑ ٹوٹا تھا جبکہ جمال آغا کے چہرے سے مسکراہٹ جیسے کسی نے  نوچ کر پھینکی تھی۔ 

"آپ سب کو بریکنگ نیوز سناتی ہوں۔"وہ سب مہمانوں کو دیکھ کر مسکرائیں۔"نازلی حسن آفندی اور ہاشم خان نے نکاح کیا ہوا ہے۔جی ہاں ۔۔۔ آپ نے ٹھیک سنا ۔۔۔ جس لڑکی کی آج منگنی ہے وہ پہلے سے نکاح کر کے بیٹھی ہے۔"وہ نکاح نامے کو لہراتے ہوئے اعلان کرنے والے انداز میں بول کر طنزیہ مسکرائیں۔

"امتل بیگم ۔۔۔"حسن آفندی نے انکی طرف بڑھ کر سختی سے اسکا بازو تھام کر انہیں روکنا چاہا۔

"مجھے خاموش کروانے سے کچھ نہیں ہوگا حسن۔۔۔۔اب تو آپکی بیٹی کی حرکتوں پر دنیا بولے گی۔"وہ غصے سے لال ہوتیں جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا کر بولیں۔

"گندی ماں کی گندی بیٹی ۔۔۔۔مردوں کو پھانسنا تو انکا شوق ہے۔آج یہ ہاشم خان ہے تو کل کوئی اور ہوگا۔"امتل آفندی زہر اگل رہی تھیں۔ہاشم دانت پیس کر انکی طرف بڑھا۔

"اب میں نازلی کے لیے آپکی زبان سے ایک لفظ نہ سنوں ورنہ میں یہ بھول جاؤں گا کہ آپ مجھ سے بڑی ہیں۔۔۔سمجھیں آپ ۔۔۔۔"وہ ضبط سے چبا کر آہستہ آواز میں غرایا۔امتل آفندی اسکی خون رنگ آنکھوں میں دیکھ کر ڈر کے مارے دبک کر پیچھے ہوئیں۔فلحال انکی زبان پر تالا لگ چکا تھا پر زیادہ وقت کے لیے نہیں۔۔۔

تابین کے دل کی دنیا ہل کر رہ گئی۔وہ مجسمے کی طرح کھڑی ہاشم کو نازلی کے حق میں بولتا دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف جمال آغا کا حال بھی تابین سے کم نہ تھا۔

حسن آفندی سر جھکائے کھڑے تھے۔ہال میں مکمل سکوت چھایا تھا۔

"نوری ۔۔۔"اچانک حسن آفندی کی اونچی آواز گونجی۔ایک طرف ڈر کے مارے کھڑی نوری خود پر قابو پاتی آگے بڑھی۔ 

"جا کر نازلی کو لے کر آؤ۔"انکے برف کی طرح ٹھنڈے لہجے نے سبکے دل دہلا دیے تھے۔

نوری کانپتی آواز میں جی کہتی دل ہی دل میں دعائیں پڑھتی جلدی سے وہاں سے سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ 

اوپر آ کر اسنے نازلی کے کمرے کا دروازہ کھولا۔

"نازلی باجی ۔۔۔"اسنے آہستہ آواز میں پکار کر کمرے میں نظر دوڑائی۔نازلی کہیں نہیں تھی۔اسنے آگے بڑھ کر واش روم کا دروازہ کھولا پر وہ وہاں بھی نہیں تھی تو پھر جلدی سے بالکنی کی طرف بڑھی۔

"نازلی باجی۔۔۔"اسنے بالکنی میں داخل ہو کر پکارا۔نازلی کرسی پر بیٹھی تھی۔نوری نے دیکھا کہ اسکے ہاتھ میں کچھ تھا جسے وہ منہ کی طرف لے کر جا رہی تھی۔وہ بھاگ کر آگے بڑھی اور نازلی کا ہاتھ جھٹک کر منہ سے دور کیا۔اسکی ہتھیلی سے گولیاں زمین پر گری تھیں۔

"یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟؟"نوری نے زمین پر گری گولیوں کو دیکھ کر ہانپتے ہوئے کہا۔

"تم نہیں جانتی نوری ۔۔۔ اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔"نازلی نم آواز میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اسکے گالوں پر آنسوؤں کے نشان تھے۔اتنی سج دھج کے ساتھ بھی وہ نوری کو بالکل اجڑی ہوئی لگی۔اسکی بات پر نوری نظریں جھکا گئی۔وہ کیا بتاتی کہ جس بات سے وہ ڈر رہی ہے۔وہ بات نیچے ساری محفل کو امتل آفندی چیخ چیخ کر بتا چکی ہیں۔ 

نوری نے بنا کچھ کہے اسکے ٹھنڈے ہاتھ تھامے۔پھر نظر اٹھا کر اس حسن کی ملکہ کو پیار سے دیکھا۔ 

"سب ٹھیک ہو جائے گا نازلی باجی۔"یہ کہتے نوری کی آواز لڑکھڑائی۔نازلی نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ نوری اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ 

"آ ۔۔۔ آپ کو حسن صاحب نے نیچے بلایا ہے۔"نوری آہستہ آواز میں بولی۔

"کیوں ۔۔۔"نازلی نے ڈر کر پوچھا۔

"ہاشم بھائی آئے ہیں۔"نوری کا اتنا کہنا تھا کہ نازلی کے جسم سے جان نکلی۔آج اسکے لیے قیامت کا دن تھا۔آج اس سے حساب کتاب لیا جانے والا تھا۔پر یہ اللہ کی نہیں دنیا والوں کی عدالت تھی۔جہاں بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں۔جہاں وہ اپنے دفاع کے لیے کچھ بھی نہیں کہہ پائے گی اور اگر کہنا بھی چاہے گی تو کوئی اسکی کہاں سنے گا۔بس اسے مجرم قرار دے کر سزا سنا دی جائے گی۔آج اگر وہ یہ گولیاں کھا کر نہیں مری تھی تو اسے لوگوں کی بولتی نظریں اور اپنوں کی بے رخی مار ڈالنے والی تھی۔دونوں صورتوں میں آج اسکی موت لکھی تھی۔

یہ جو اب موت ملنے والی تھی اس سے اسکا جسم فنا نہ بھی ہوتا تو اسکی روح ایسے اندھیروں میں جکڑی جانے والی تھی جہاں پھر روشنی کا کوئی تصور نہ ہوگا۔وہ کانچ سی گڑیا جانے یہ سب کیسے سہہ پائے گی۔۔۔۔

"نازلی باجی۔"نوری نے اسکے زرد چہرے کو دیکھ کر اسے پکارا۔

"ہوں ۔۔۔"نازلی نے پلکیں جھپک کر اسے دیکھا۔

"ہاں چلو۔"اسنے نظریں جھکا کر نوری کے ہاتھ سے اپنے کانپتے ہاتھ نکالے پھر منہ پر پھیر کر مرے قدموں سے آگے بڑھی۔

نوری نے اداسی سےاسکی پشت کو دیکھا۔اس وقت چھوٹی سی نوری سوچ رہی تھی کہ کاش اسکے پاس جادو ہوتا تو وہ اپنی نازلی باجی کو یہاں سے لے جاتی۔نیچے کھڑے ان بے حس لوگوں سے اس شہزادی کو بچا لیتی۔کاش کہ وہ ایسا کر پاتی۔۔۔

نازلی بالکنی سے نکلی۔نوری بھی اداس سی اسکے پیچھے گئی۔ 

نازلی نے کمرے سے باہر قدم رکھا۔کچھ پل پہلے جس گھر کی فضا میں ہنگامہ برپا تھا اب وہاں مکمل سکوت چھایا تھا۔

نازلی نے دوپٹہ ہاتھ میں لے کر زور سے مٹھیاں بھینچیں پھر قدم اٹھاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔جیسے جیسے وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی ویسے ویسے اسے محفل میں موجود لوگ نظر آنے لگے۔

تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔دوپٹے پر اسنے اپنی گرفت اور مضبوط کی۔کچھ دور اسے وہ شخص نظر آیا جسکی نظریں اس پر تھیں۔

پر نازلی کا دھیان اس پر نہ تھا بلکہ اسکے ساتھ کھڑے حسن آفندی پر تھا جنکی پشت اسکی طرف تھی۔وہ انکے چہرے کے تاثرات نہ دیکھ سکی۔اس وقت اسے اپنے بابا جان کے علاوہ کسی کی فکر نہ تھی۔وہ انہیں سب بتا دے گی۔پر کیا وہ اسکی بات پر یقین کریں گے؟کیا وہ اسکی بات سنے گے بھی کہ نہیں؟

ہاشم نے اس گڑیا کو اپنی طرف آتے دیکھا۔اسے دیکھ کر وہ سیاہ مغرور آنکھیں تھم سی گئیں۔ہاشم اسے نظروں سے دل میں اتار رہا تھا۔اس سکوت بھرے ماحول کو نازلی کی جیولری اور چوڑیوں کی کھنک توڑ رہی تھی۔

ہاشم اسے دیکھ رہا تھا اسنے یہ سب نہ چاہا تھا کہ اس نازک سی لڑکی کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑے پر اسکا جنونی عشق  آج اسے اس مقام تک لے آیا تھا۔جہاں نہ وہ آگے بڑھ سکتا تھا نہ پیچھے ہٹنا اسکے لیے ممکن تھا۔اس گڑیا کو کھو دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔آج بھی اس سب حالات کے باوجود اسکے ضدی دل کو وہ لڑکی چاہیے تھی۔ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔۔

مگن انداز میں نازلی کو دیکھتے ہاشم کو اندازہ نہ ہوا کہ وہ پتھر کا مجسمہ بنی لڑکی ۔۔۔ جو اسکی دیوانی تھی۔اسکے لیے یہ برداشت کرنا کتنا مشکل تھا کہ وہ شخص جسے اسنے پوجا تھا وہ اسکی نظروں کے سامنے کسی اور کو اتنی محبت، اتنی چاہ ، اتنے حق سے دیکھ رہا تھا۔یہ منظر دیکھ کر اس دیوانی کا دل پھڑپھڑانے لگا پر آنکھ سے آنسو نہ ٹپکا۔جانے یہ خاموش درد چھلکاتیں آنکھوں والی آگے کیا کر گزرے گی۔ 

"بابا جان۔"ان سے کچھ فاصلے پر رک کر نازلی نے انہیں لڑکھڑائی آواز میں پکارا۔حسن آفندی ایک جھٹکے سے اسکی طرف پلٹے تھے۔انکی آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھیں۔ 

"کیا یہ شخص سچ کہہ رہا ہے نازلی ۔۔۔"حسن آفندی نے مدھم آواز میں غرا کر ہاشم کی طرف اشارہ کیا۔نازلی نے نگاہیں پھیر کر اس شخص کو نہ دیکھا۔بس خوف سے پر نیلی آنکھیں باپ کے چہرے پر جمی تھیں۔ 

"ب۔۔بابا جان وہ ۔۔۔"اسکی زبان لڑکھڑائی تھی۔ 

"ہاں یا نہ نازلی ۔۔۔۔"وہ اونچی آواز میں دھاڑے۔نازلی سہم کر پیچھے ہوتی خوف سے انکے چہرے کو دیکھنے لگی۔انہوں نے آج تک اس سے اس انداز میں بات نہیں کی تھی۔ہاشم سے نازلی کی حالت برداشت نہ ہوئی تو اسنے نازلی کی طرف قدم بڑھائے پر امتل آفندی نے اسکا راستہ روک لیا۔ 

"باپ ، بیٹی کو بات کرنے دو۔"وہ تپ کر دبی آواز میں بولیں۔نازلی سے حسن آفندی کے ایسے برتاؤ پر امتل آفندی کو حوصلہ ملا تھا۔تبھی ہاشم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں اور وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔

جبکہ دوسری طرف نازلی انکی باتوں سے انجان باپ کا بازو تھام کر بولی۔"بابا جان پلیز پہلے میری بات تو سن لیں ۔۔۔۔"اسنے اپنے لہجے کو کچھ حد تک مضبوط کیا۔

حسن آفندی نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا۔محفل میں موجود سب لوگ خاموش تماشائی بنے تھے۔پر سبکی نظریں بول رہی تھیں۔ کچھ آنکھیں دلچسپی سے سب دیکھ رہی تھیں جیسے کوئی ڈرامہ چل رہا ہو۔کچھ نظریں افسوس سے اس لڑکی پر جمی تھیں تو کچھ آنکھوں میں اس کے لیے دنیا جہان کی نفرت تھی۔

"ہاں یا نہ ۔۔۔"حسن آفندی نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سختی سے پوچھا۔نازلی نے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا۔سچ بتانے کے علاوہ اسکے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔

"ہاں ۔۔۔۔"اسنے حسن آفندی کو دیکھ کر مدھم آواز میں کہا۔باپ کی زرد صورت دیکھ کر نیلی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔پر اگلے پل حسن آفندی کا بھاری ہاتھ اٹھا تھا اور نازلی کا چہرہ گھوم کر رہ گیا۔وہ اس جھٹکے سے لڑکھڑا کر پیچھے کی طرف گرنے کو تھی۔ہاشم اس شاک سے نکلا۔امتل آفندی کو جھٹکے سے پیچھے کیا پھر تیزی سے آگے بڑھ کر نازلی کو تھاما۔

یہ سب دیکھ کر وہاں موجود سب لوگ پہلے تو حیران رہ گئے۔پھر ہاشم کو نازلی کے ساتھ دیکھ کر ایک دم سرگوشیاں ہونے لگیں۔

ہاشم نے نازلی کا چہرہ اپنی طرف موڑا۔اسکے منہ سے خون رسنے لگا تھا۔ہاشم نے لب بھینچ کر نازلی کو دیکھا جس نے تکلیف سے آنکھیں سختی سے بند کر رکھیں تھیں۔ 

ہاشم نے تپتی نظریں اٹھا کر حسن آفندی کو دیکھا۔

"آپکو کس نے حق دیا کہ آپ میری بیوی پر ہاتھ اٹھائیں۔" وہ غصہ ضبط کرتے چبا کر بولا۔

"اور آپ کو کس نے حق دیا کہ آپ ہم باپ،بیٹی کے بیچ بولیں۔" نازلی نے ایک دم روتے ہوئے ہاشم کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ 

"بابا جان۔۔"ہاشم کو اگنور کرتی وہ باپ کی طرف پلٹی۔ وہ گم سم سے پیچھے ہوتے کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھے۔انکا سر جھکا ہوا تھا۔انہیں اس حال میں دیکھ کر نازلی کا دل پھٹنے لگا۔اسنے انکی طرف قدم بڑھائے پر امتل آفندی ایک دم انکے بیچ میں آگئیں۔

"بھری محفل میں باپ کی عزت کو رول چکی ہو۔اب کیا انہیں  زندہ زمین میں گاڑ دینا چاہتی ہو۔۔۔"امتل آفندی غصے سے چلا کر بولیں۔انکی بات پر نازلی کے آنسوؤں میں شدت آگئی۔ 

"جو بے شرمی تم نے کی ہے ناں اسکے بعد تمہیں ڈوب کر مر جانا چاہیے۔پر تم میں شرم نام کی چیز تو ہے نہیں ۔۔۔اونہہ جس ماں کی تم بیٹی ہو تم سے کسی ایسے ہی کام کی امید کی جا سکتی تھی۔"انہوں نے نفرت سے ہاتھ میں تھاما نکاح نامہ نازلی کے منہ پر مارا۔نازلی نے دکھتی آنکھیں بند کر کے کھولیں۔ 

"بڑی ماما ۔۔۔ میں غلط نہیں ہوں ۔۔۔ میں"اسنے آگے بڑھ کر کہنا چاہا پر امتل آفندی نے اسکی بات کاٹی۔ 

"نہیں ہوں میں تمہاری ماں سمجھی ۔۔۔۔ تم جیسی آوارہ لڑکی میری بیٹی نہیں ہو سکتی۔میری ایک ہی بیٹی ہے اور وہ تم جیسی بے غیرت نہیں ہے۔"امتل آفندی طنزیہ مسکرا کر بولیں۔نازلی کا دل چھن سے ٹوٹا۔اسنے تڑپ کر انہیں دیکھا۔

"بڑی ماما پلیز ۔۔۔"وہ کانپتی آواز میں بولی۔اسکے بڑی ماما کہنے پر امتل آفندی کو آگ لگ گئی۔اگلے پل اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اپنا فرض سمجھتے ہوئے امتل آفندی نے اسکے مخملی گال پر اس شدت سے تھپڑ مارا کہ وہ نازک سی لڑکی۔۔۔ گڑیا کی مانند زمین پر گری تھی۔اس جھٹکے سے اسکا دوپٹہ ایک طرف گرا، بال کھل کر چہرے پر بکھرے۔کلائی زور سے زمین پر لگنے سے چوڑیاں ٹوٹ کر کلائی میں چبھی تھیں۔درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ کتنے ہی پل ہل بھی نہ سکی۔ 

امتل آفندی ابھی بس کرنے والی نہ تھیں۔انہیں نازلی کی طرف بڑھتے دیکھ کر دور ایک کونے میں کھڑی نوری منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکیاں دبانے لگی۔

"بس۔۔۔"ہاشم کی دھاڑ نے امتل آفندی کے قدموں میں زنجیریں ڈالی تھیں۔اسکی برداشت ختم ہوگئی تھی۔وہ جتنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا وہ لوگ اسے اتنا ہی اکسا رہے تھے۔ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹا تو وہ چلا اٹھا تھا۔ 

لمبے ڈگ بھرتا وہ نازلی کی طرف آیا۔زمین پر پڑا دوپٹہ اٹھایا۔ اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا پھر دوپٹہ اسکے گرد لپٹ کر  اسے تھام کر اپنے ساتھ لگایا۔

"میری خاموشی کو میری کمزوری مت سمجھیں۔اب اگر کسی نے نازلی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔ سمجھے آپ لوگ۔"وہ امتل آفندی کو دیکھ کر غرایا جو کھا جانے والی نظروں سے دونوں کو گھور رہی تھیں۔ہاشم نے نرمی سے نازلی کا سر سہلایا۔نازلی ٹوٹی بکھری سی اسکے کندھے سے لگی آنسو بہا رہی تھی۔ 

"چلو اٹھو ۔۔۔ تمہیں لینے آیا ہوں۔"اسنے نازلی کا چہرہ اوپر  اٹھا کر لبوں کے کنارے سے خون صاف کرتے آہستہ آواز میں  کہا۔آنسوؤں سے بھیگی نیلی آنکھیں اٹھا کر اسنے ہاشم کو دیکھا۔ان سب حالات کا سبب ہوتے ہوئے بھی جانے کیوں وہ شخص اس وقت نازلی کو اتنے لوگوں کے بھیڑ میں اپنا ہمدرد لگا تھا۔

"مجھے بابا جان سے بات کرنی ہے۔"وہ ہچکی بھر کر بولی۔اسکی حالت دیکھ کر ہاشم کا دل پھٹنے لگا۔اسنے محبت سے ان نیلی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیے پر وہ آنکھیں تو دریا بنی تھیں۔آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ 

انہیں یوں ایک ساتھ دیکھ کے امتل آفندی کے تن من میں آگ بھڑک اٹھی۔ 

"لو جی اب بھری محفل میں ایسی بے شرمی سے بھی گریز نہیں کی جائے گی۔۔۔پہلے لوگوں نے کم تماشہ دیکھا ہے اب پوری فلم دکھاؤ سب کو۔"امتل آفندی استہزائیہ انداز میں بولیں۔وہ امتل آفندی تھیں جو زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتی تھیں۔تبھی زہر اگل کر حسن آفندی کی طرف بڑھیں۔

"میں کہتی ہوں نکال باہر کریں حسن اس بدکردار لڑکی اور اسکے یار کو۔۔۔۔"تہذیب بھلا کر امتل آفندی نے گرے ہوئے الفاظ استعمال کیے۔انکی بات پر نازلی تڑپ کر ہاشم سے دور ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی پھر تیزی سے چل کر حسن آفندی کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ 

"میرا یقین کریں بابا جان ۔۔۔ میرے کردار میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔"اسنے روتے ہوئے کانپتے ہاتھ حسن آفندی کے گھٹنوں پر رکھے۔وہ اس وقت اپنی تکلیف بھلا چکی تھی۔اسے اپنے بابا جان کو بتانا تھا کہ وہ برے کردار کی مالک نہیں ہے۔ 

"آپکی بیٹی غلط نہیں ہے بابا جان۔"اسنے نم آواز میں کہہ کر باپ کو دیکھا پر وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔ 

"ہاں ہاں بی بی ۔۔۔ تم کہاں غلط ہو ۔۔۔ غلط تو ہم ہیں جو تمہارا رشتہ ایک عزت دار گھرانے میں طے کرنے جا رہے تھے۔ پر تم عزت دینے کے قابل ہو ہی نہیں۔"امتل آفندی ڈرامائی انداز میں کہتیں اپنے بھائی کے سامنے کھڑی ہوئیں۔

"مجھے معاف کر دیجیے گا لالہ ۔۔"وہ بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوئیں جو خود شاکڈ تھے۔ہاشم خان نے آج بھری محفل میں انکے بیٹے کو منہ کے بل گرایا تھا۔یہ گھاؤ ہر پچھلے گھاؤ سے زیادہ جان لیوا تھا۔انہوں نے نفرت سے دور کھڑے ہاشم خان کو دیکھا جس نے انکے بیٹے کو اس حد تک لا چھوڑا تھا کہ وہ نفرت میں دیوانہ ہوگیا تھا۔ 

"غلطی تمہاری نہیں ہے امتل ۔۔۔اس لڑکی کی رگوں میں دوڑتا خون ہی گندا ہے۔جیسا ماں نے کیا بیٹی بھی تو وہی کرے گی ناں۔"بابا صاحب نے نفرت بھرے انداز سے کہا۔ہاشم نے ایک سرد نگاہ ان پر ڈالی۔اچانک حسن آفندی کی آواز نے ان سبکو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔"اونچی آواز میں کہا گیا۔

"بابا جان ۔۔۔"نازلی نے روتے ہوئے انہیں دیکھا۔ 

"نہیں ہوں میں تمہارا باپ۔"لہجے بلا کا سرد تھا۔"مر گیا آج سے تمہارا باپ ۔۔۔کوئی رشتہ نہیں ہے میرا تم سے نازلی ہاشم خان۔"سپاٹ انداز میں کہہ کر وہ اسکے ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

نازلی نے آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔انکے الفاظ اسکے دل کو لہو سے لت پت کر گئے تھے۔ماما کے بعد تو اسکے بابا جان ہی اسکی زندگی بن گئے تھے پھر یہ کیسی ہوا چلی تھی کہ جس نے اسکے باپ کو اس سے چھین لیا تھا۔۔۔وہ انکے بغیر کیسے رہ پائے گی؟

"یہ کہیں نہیں جائے گی۔"اچانک بھیڑ سے غصے میں کانپتی آواز گونجی تھی۔سب نے اس طرف دیکھا۔غصے سے لال پیلا ہوتا جمال آغا آگے بڑھا۔اسکی جیت کو ہاشم خان نے ایک لمحے میں مات میں تبدیل کیا تھا۔پر وہ اب کی بار وہ اسے کسی بھی حال میں جیتنے نہیں دے گا۔

اسکی بات پر ہاشم نے دانت پیس کر اسے گھورا۔امتل آفندی جلدی سے جمال آغا کی طرف بڑھیں۔

"جمال دفع کرو اس بیہودہ لڑکی کو ۔۔۔ یہ تمہارے قابل تھی ہی  نہیں۔"وہ بت بنی نازلی کو دیکھ کر نفرت سے بولیں۔

"میں اس شخص کے ہاتھوں ہار نہیں مانوں گا۔آپ ابھی اسے کہیں کہ یہ نازلی کو طلاق دے۔"وہ پاگل سا ہورہا تھا۔ 

"جمال ۔۔۔"بابا صاحب اسکی طرف بڑھے۔پر وہ دیوانہ ہوا خود کو چھڑا کر ہاشم کی طرف لپکا۔

"طلاق دے اسے ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔"وہ ہاشم کو کالر سے پکڑ کر چلایا۔ہاشم نے غصے سے اسکے ہاتھ جھٹکے۔

"دفع ہوجاؤ یہاں سے جمال آغا ورنہ۔۔۔"ہاشم نے اسے وارن کیا۔

"ورنہ ۔۔۔ کیا ہے ۔۔۔ کیا کرو گے تم۔۔۔"جمال آغا نے دھاڑ کر ہاشم کو دھکا دیا۔ہاشم لڑکھڑا کر سنبھلا پھر اگلے لمحے اسکے بھاری ہاتھ کا زور زاد مکا جمال آغا کے منہ پر رسید ہوا تھا۔

"تمہیں جب تک ڈوز نہ ملے تمہیں چین نہیں آتا جمال آغا۔" ہاشم نے غرا کر کہا۔جبکہ جمال آغا مکا کھا کر زمین پر ڈھیر ہوا تھا۔ہاشم کی بات پر لال چہرے کے ساتھ جھٹکے سے اٹھ کر دوبارہ اسکی طرف بڑھا۔آج شاید ہاشم کے ہاتھوں اسکا مرنے کا ارادہ تھا۔پر اس سے پہلے کہ وہ ہاشم کی طرف بڑھتا حسن آفندی کی آواز پر اسکے قدم تھم گئے۔ 

"ہاشم خان تم اپنی بیوی کو لے کر ہمارے گھر سے نکل جاؤ۔" وہ منہ پھیر کر سپاٹ انداز میں بولے۔انکی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔

جمال آغا نے نفرت سے ہاشم خان کو دیکھا۔بابا صاحب نے جلدی سے آگے بڑھ کر بیٹے کو تھام کر ریلیکس کرنا چاہا۔

ہاشم نے گھور کر اس سائیکو کو دیکھا۔آگے بڑھ کر نکاح نامہ اٹھا کر جیب میں ڈالا۔پھر نازلی کی طرف بڑھا جو خاموشی سے سر جھکائے زمین پر بیٹھی تھی۔ہاشم نے اسے تھام کر اٹھایا۔وہ بے جان گڑیا کی مانند اسکے سہارے پر چلتی آگے بڑھنے لگی۔وہ شہزادی رخصت ہورہی تھی اپنے شہزادے کے ساتھ پر اس انداز میں کہ دنیا کے سامنے اسکا تماشہ بن کر رہ گیا تھا۔ انہیں جاتے دیکھ کر سب لوگوں کی سرگوشیاں اونچی ہونے لگیں۔

"آپ سب مہمانوں کا بہت شکریہ ۔۔۔ تماشہ اب ختم ہو چکا ہے۔آپ نے اس لڑکی کی بے شرمی تو دیکھ ہی لی ۔۔۔ انجوائے بھی ضرور کیا ہوگا۔۔۔ اب آپ سبکو اجازت ہے۔"امتل آفندی زہریلے انداز میں باہر کی طرف اشارہ کر کے بولیں۔انکے الفاظ ہال سے باہر نکلتی نازلی کے دل میں چبھے تھے۔

مختلف باتیں کرتے مہمان وہاں سے آہستہ آہستہ جانے لگی۔

تابین نے دور ہوتے ہاشم اور نازلی کو پتھرائی نظروں سے دیکھا۔

جمال آغا کی نفرت بھری نظریں بھی انکا پیچھا کر رہی تھیں۔ 

تابین نے خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر آنکھ سے نکلا وہ واحد آنسو صاف کیا جو انہیں ایک ساتھ جاتے دیکھ کر اسکی درد بھری آنکھ سے چھلکا تھا۔وہ خاموشی سے وہاں سے ہٹتی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔ 

"تابین ۔۔۔"سب مہمان جا چکے تو امتل آفندی کو بیٹی کا خیال آیا۔انہوں نے سیڑھیاں چڑتی تابین کو پکارا پر وہ انہیں اگنور کرتی آگے بڑھ گئی۔ 

بابا صاحب بھی اپنی فیملی کو لیے وہاں سے نکلے تھے۔جمال آغا جیسے نیم پاگل سا ہوگیا تھا۔اسے مشکل سے سنبھال کر وہ گاڑی تک لائے تھے۔

انکے جاتے ہی امتل آفندی اکیلے کھڑے حسن آفندی کی طرف پلٹیں۔ 

"دیکھ لیا ناں حسن ۔۔۔۔ جیسی ماں تھی ویسی ہی بیٹی بھی نکلی۔۔۔بے حیا لڑکی۔۔۔"وہ تیھکے انداز میں کہہ کر مسکرائیں۔حسن آفندی بنا انکی طرف دیکھے جھکے سر کے ساتھ وہاں سے لائبریری کی طرف بڑھ گئے۔امتل آفندی نوکروں کو صفائی کا حکم دیتیں بڑبڑا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھیں۔ 

انکے جاتے ہی نوری روتی ہوئی نازلی کی ٹوٹی چوڑیاں اٹھا کر ہتھیلی پر رکھنے لگی۔ذہن میں ایک ہی بات گھوم رہی تھی۔جانے اچھے لوگوں کے ساتھ قسمت ایسا کھیل کیوں کھیلتی ہے۔۔۔۔۔۔ 

ہاشم کی کار حسن ولا سے باہر کھڑی تھی۔وہ نازلی کو تھام کر گاڑی تک لایا۔خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر اسکے سیاہ بکھرے بال چہرے سے پیچھے کیے پھر جیب سے رومال نکال کر نرمی سے اسکی کلائی تھام کر اس پر باندھنے لگا۔نازلی خاموش سی آنسو بہاتی زمین کو گھور رہی تھی۔اسنے اس شخص کو روکا نہ تھا۔ 

حسن ولا سے چھوٹی حویلی والوں کی کار نکلی۔بیک سیٹ پر بیٹھے جمال آغا نے سرخ نظروں سے وہ منظر دیکھا۔اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا۔انکی کار آگے بڑھ گئی پر جمال آغا کی آنکھوں کے سامنے ہنوز وہی منظر گردش کر رہا تھا۔آج وہ نفرت کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔اس قدر نفرت کی آخری منزل موت ہی ہوا کرتی ہے۔

ہاشم نے رومال باندھ کر اسکی ٹھوڑی تھام کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔پر نازلی نے پلکیں اٹھا کر اسے نہ دیکھا۔ہاشم اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا لبوں کے کنارے پر لگا خون اب جم چکا تھا۔چہرے پر تھپڑ کے نشان تھے۔

اس وقت اس باتوں کے کھلاڑی کو الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ وہ اس لڑکی کو کیسے تسلی دیتا۔اسکی اس حالت کی وجہ بھی تو وہ خود تھا۔۔۔۔پھر کس منہ سے کہتا کہ تم رونا بند کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔

اسنے ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسکے آنسو صاف کیے۔پھر کار کا دروازہ کھول کر اسے اندر بٹھایا۔خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ایک خاموش نظر بت بنی اس گڑیا پر ڈال کر کار اسٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"عشق ہو اور سکون ہو۔۔۔"

"سنو صاحب ہوش میں تو ہو ۔۔۔"

تابین نے کمرے میں آ کر دروازہ دھڑام سے بند کر کے لاک کیا۔پھر چیخ کر روتی ہوئی بیڈ کی طرف بڑھی۔تکیہ اور چادر اتار کر نیچے پھینکی۔

"کیوں کیا تم لوگوں نے میرے ساتھ ایسا۔۔۔"اسنے چلا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا کانچ کا گلاس اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ 

"تمہیں معلوم تھا نازلی کہ وہ شخص میرا سب کچھ ہے۔۔۔۔وہ میرا تھا پھر تم نے اسے مجھ سے کیوں چھین لیا۔"وہ چبا کر ہذیانی انداز میں بولی پھر ڈریسنگ ٹیبل سے ساری چیزیں اٹھا کر نیچے پھینکنے لگی۔

"تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا نازلی ۔۔۔۔ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔تم بہن تھی میری ۔۔۔۔ پھر بھی تم نے مجھے دھوکہ دیا۔۔۔۔"وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔اسنے گلدان اٹھا کر شیشے پر مارا۔چھن کی آواز سے شیشہ ٹکڑوں میں ٹوٹ کر بکھرا۔

"نفرت ہے مجھے تم سے نازلی ۔۔۔ شدید نفرت ۔۔۔۔"وہ زار و  قطار روتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ 

"تم لوگ دیکھ لینا ۔۔۔۔ تباہ ہو گے تم لوگ ۔۔۔۔میں تم لوگوں کو معاف نہیں کرونگی ۔۔۔۔"وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپٹ کر ان میں چہرہ چھپا کر رونے لگی۔

"کتنا چاہا ہے میں نے تمہیں ظالم انسان ۔۔۔۔ تمہیں کیوں مجھ سے محبت نہ ہوئی؟ کیوں تمہیں اس نازلی سے محبت ہوگئی ؟تم مجھے مل جاتے تو کسی کا کیا بگڑ جاتا۔۔۔۔میرا دل کیسے سہہ پائے گا یہ سب ۔۔۔۔ہر سانس کے ساتھ میرے دل سے ٹھیسیں اٹھ رہی ہے۔دل درد کا ٹکڑا بن گیا ہے ہاشم خان ۔۔۔ تم دیکھو تو ذرا کہ تم نے ایک محبت بھرے دل کو لہو لہان کر دیا ہے۔۔۔تم تو نازلی کو سنبھال لو گے پر ۔۔۔۔"اسنے روتے ہوئے ہچکی بھری۔"پر میری کرچیاں کون سمیٹے گا؟ میں اپنا دکھ لے کر کس کے پاس جاؤں گی؟"وہ فریاد کرتی مسلسل رو رہی تھی۔"میں کہاں جاؤ اللہ پاک ۔۔۔۔ میرا دل پھٹ رہا ہے۔وہ مجھے کیوں نہیں ملا ۔۔۔۔ میں کیوں خالی ہاتھ رہ گئی۔۔۔۔اتنے برس میں نے اس شخص کا انتظار کیا ہے۔ایک امید تھی کہ وہ میرا ہو جائے گا پر آج ۔۔۔۔آج وہ امید بھی ٹوٹ گئی ۔۔۔آج تابین حسن آفندی ٹوٹ گئی۔۔۔۔۔"وہ اتنے درد بھرے انداز میں رو رہی تھی کہ اگر وہ شخص اس وقت اسے دیکھ لیتا تو شاید اسکا پتھر دل پگھل جاتا۔شاید کہ ایک پل کے لیے ہی سہی پر اسے اس دیوانی کی محبت کا احساس تو ہوتا۔کتنا بڑا دکھ ہے ناں کہ آپ کسی کو اپنی ذات سے بڑھ کر چاہیں اور بدلے میں وہ آپکو پاؤں کی دھول سمجھے۔۔۔۔کوئی عقل رکھنے والا ہوتا تو پلٹ کر اس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہ کرتا پر یہ عشق کرنے والے اپنے ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔۔۔۔۔انکا محبوب لاکھ برا کرے پر انکا کمبخت دل اُسکے خلاف نہیں جاتا۔ 

"کاش میں اس دل کو نکال کے پھینک سکتی ۔۔۔کاش میں تم سے محبت نہ کرتی ہاشم خان ۔۔۔۔۔یا کاش وہ نازلی مر جاتی تو مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا کہ تم نے مجھے چھوڑ کر میری بہن کو چن لیا۔"اسکی آواز نم تھی۔انداز پاگل جنونی شخص جیسا۔۔۔وہ کبھی مظلوم سی تابین بن کر ہاشم سے فریاد کرتی تو کبھی نفرت سے پر لہجے میں نازلی سے مخاطب ہوتی۔۔۔ ایسے جیسے وہ دونوں اسکے سامنے موجود ہوں۔اس دیوانی کا اس قدر جنون جانے کیا رنگ لانے والا تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

گاڑی خان ولا کی طرف بڑھ رہی تھی۔ہاشم نے ایک دو بار ساتھ بیٹھی نازلی پر نظر ڈالی پر وہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔نیلی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔کیا سے کیا ہوگیا تھا اور وہ اتنی رسوائی سہہ کر بھی زندہ تھی۔بابا جان کی صورت اسکی آنکھوں کے سامنے آتی تو وہ سوچتی کہ کاش وہ اپنے باپ کا سر جھکانے سے پہلے ہی مر گئی ہوتی تو آج اسکی وجہ سے اسکے بابا جان کو اتنی ذلت نہ برداشت کرنی پڑتی۔وہ ہاتھوں پر نظریں جمائے سوچوں میں گم تھی۔

"کتنے خوبصورت وہ دن تھے۔"

"جب میں بابا کے کندھے پر بیٹھ کہ۔"

"سارا سارا دن ہنستی رہتی تھی۔"

"اپنی من چاہی خواہشوں کو پورا کرتی۔"

"ماں بابا سے لاڈ اٹھواتی۔"

"جب ماں کی ڈانٹ پہ رونے لگتی۔"

"تو بابا کے کندھے سے لگ کہ آنسو بہاتی۔"

"بابا مجھے مناتے مجھے خوش کرتے۔"

"میری ہر خواہش کو پورا کرتے۔"

"میری بات ابھی منہ میں ہوتی اور۔"

"بابا پوری کر دیتے۔۔۔۔ہاں بابا پوری کر دیتے۔"

"اور آج ۔۔۔۔۔"

"میری ذات بابا کے دکھ کا باعث بنی۔"

"بابا کا سر جھک گیا۔"

"بھرے مجمے میں ۔۔ میں رسوا ہوئی۔"

"میری ذات بابا کے دکھ کا باعث بنی۔"

"نہیں دیکھا گیا بابا کا جھکا سر۔"

"جس باپ نے ہمیشہ میرے آنسو پونچھے۔"

"آج میں انکے آنسوؤں کا باعث بنی۔"

"میں نے انکا مان توڑا۔"

"انکے دل کو توڑا۔"

"میری ذات ریزہ ریزہ بکھر گئی۔"

"میری ذات بابا کے دکھ کا باعث بنی۔"

"میں انکی نظروں سے گر گئی۔"

"میں قطرہ قطرہ پگھل گئی۔"

"میری ذات بابا کے دکھ کا باعث بنی۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (از قلم علینہ)

گاڑی ایک جھٹکے سے خان ولا کے پورچ میں رکی۔ہاشم نے ایک نظر نازلی پر ڈالی۔وہ بے جان گڑیا لگ رہی تھی۔کتنے ہی پل وہ اسے دیکھتا رہا پر نازلی کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔

وہ لمبی سانس کھینچ کر کار سے باہر نکلا۔پھر گھوم کر نازلی کی طرف آیا۔اسنے کیا سوچا تھا کہ وہ گھر میں سبکو منا کر نازلی کو شہزادیوں سی آن بان کے ساتھ رخصت کروا کر گھر لے کر آئے گا پر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ہمیشہ زندگی ہمارے پلانز کے مطابق تو نہیں چلا کرتی ناں۔۔۔۔

اسنے دروازہ کھول کر نازلی کا ہاتھ تھام کر اسے کار سے باہر نکالا۔نازلی نے خالی نظروں سے اس شخص کو دیکھا۔

"گھر آگیا۔"وہ نرمی سے اسکے بال کان کے پیچھے کر کے بولا۔اسے وہ جھیل سی نیلی آنکھیں یوں خالی اور ویران اچھی نہیں لگی تھیں۔ہاشم کی سیاہ آنکھیں ان نیلی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔وہ آہستہ سے پلکیں جھکا کر زمین کو گھورنے لگی۔ہاشم نے آنکھیں بند کر کے کھولیں پھر نازلی کا ہاتھ تھام کر روشنیوں سے جگ مگ کرتے شیش محل میں داخل ہوا۔نازلی خاموشی سے اسکے ساتھ گھسیٹتی چلی گئی۔ 

وہ اسے لے کر ماسٹر بیڈ روم میں داخل ہوا۔یہ اسکا روم تھا وہی کمرہ جس میں نکاح والے دن وہ نازلی کو بٹھا کر گیا تھا۔نازلی جھکے سر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ہاشم نے اسے بیڈ پر بٹھایا۔

"میں پانی لے کر آتا ہوں۔"آہستہ آواز میں اسکے جھکے سر کو دیکھ کر کہتا وہ کمرے سے باہر نکلا۔

نازلی کتنے پل گم سم سی بیٹھی رہی۔پھر نظر اٹھا کر اس کمرے کو دیکھا۔اس کمرے کو دیکھ کر آہستہ آہستہ نکاح سے لے کر اب تک کے تمام لمحے اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔جیسے جیسے وہ سوچ رہی تھی ویسے ویسے اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے چلے جا رہے تھے۔

نظریں جھکا کر وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی ایک دم زار و زار رونے لگی۔وہ تنہا رہ گئی تھی۔اسکے سب اپنوں کو اس  شخص نے چھین لیا تھا۔اس بات پر وہ اور شدت سے رونے لگی۔ 

اسکے رونے کی آواز پر ہاشم حواس باختہ سا کمرے میں آیا۔ہاتھ میں پکڑا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا پھر عجلت سے نازلی کی طرف بڑھا۔پریشانی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔نازلی نے نم گلابی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا پھر اگلے پل اسکا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آپ ہیں اس سب کی وجہ ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔"اسے دھکا دے کر وہ چیخ کر بولی۔اس شخص کو دیکھ کر دل میں دبا دکھ ، غصے کی صورت باہر آنے لگا۔ 

"نازلی پلیز ریلیکس۔۔"ہاشم نرمی سے کہتا اسکی طرف بڑھا۔

"میری دنیا کو تباہ کر کے آپ چاہتے ہیں کہ میں ریلیکس رہوں۔۔۔"وہ ہذیانی انداز میں چلا کر اس سے دور ہوئی۔

"آپ نے میرے ساتھ جو کیا ہے ناں۔وہ اچھا نہیں کیا ۔۔۔ اب میں بھی آپ کو چین سے جینے نہیں دوں گی۔"اسنے ہاشم کو دیکھ کر نفرت سے کہتے سائیڈ ٹیبل پر رکھا گلدان اٹھایا۔

ہاشم نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا پھر اگلے پل وہ گلدان اڑتا ہوا ہاشم کی طرف آیا۔وہ شاک سے نکل کر ایک دم سائیڈ پر ہوا اور گلدان ٹھا کی آواز کے ساتھ زمین پر گر کر ٹوٹا۔اگر وہ عین وقت پر سامنے سے نہ ہٹتا تو گلدان اسکا سر پھوڑ چکا ہوتا۔

"یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔"ہاشم نے جلدی سے سنبھل کر اسے دیکھا۔

"جو کچھ ہوا ہے ناں اسکی خوشی منا رہی ہوں۔"وہ روتے ہوئے چبا کر بولی۔پھر نظر دوڑائی کہ کچھ اور چیز اٹھا کر اسے دے مارے۔نظر پانی سے بھرے گلاس پر گئی جو کچھ پل پہلے وہ لے کر آیا تھا۔

ہاشم نے اسکی سوچ جان کر جلدی سے اسے اپنی طرف متوجہ کیا کہ یہ نہ ہو آج کے دن ہی اسکی بیگم اسے اوپر کی طرف رخصت کر دے۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس لڑائی کو خوب  انجوائے کرتا پر اس وقت جو سچویشن تھی وہ بہت سیریس قسم کی تھی۔

"دیکھو نازلی میری بات سنو۔"اسنے ہاتھ اٹھا کر نرمی سے کہا۔

"نام مت لیں میرا اور مجھے آپکی کوئی بات نہیں سننی۔" گلاس سے نظر ہٹا کر وہ نفرت سے اسکی طرف دیکھتے دانت پیس کر بولی۔ 

"دیکھو میں نے ایسا ہرگز نہیں چاہا تھا کہ یہ سب کچھ ہوتا پر  حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے کہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں  تھا۔"وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ کر بولا۔اسکی بات پر نازلی کی آنکھوں میں پھر سے پانی جمع ہونے لگا۔ 

"میرے مجرم ہیں آپ ۔۔۔۔ یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی۔سنا آپ نے ۔۔ میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی۔"وہ نم آواز میں کہتی وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگی۔

ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر اپنی دکھتی آنکھوں کو دبایا۔پھر تھکا سا اسکی طرف بڑھا۔

"دیکھیں آپ نے کیا کیا ۔۔۔ مجھ سے میرے اپنے چھین لیے۔۔میں اکیلی رہ گئی۔۔۔"وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔ہاشم اسکے پاس بیٹھا پھر خاموشی سے اسکا سر تھام کر اپنے سینے سے لگایا۔

"تم اکیلی نہیں ہو ۔۔۔ میں ہوں ناں تمہارے ساتھ۔"اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کر وہ مدھم آواز میں بولا۔

"میں مر کر بھی اب تابین آپی کا سامنا نہیں کر پاؤں گی۔بڑی ماما اب کبھی میری شکل نہیں دیکھیں گیں۔"اسنے ہاشم کی بات سنی ہی نہ تھی وہ مگن سی روتی ہوئی اپنی ہی بول رہی تھی۔

"اور بابا جان۔۔۔"باپ کے نام پر اسنے ہچکی بھری۔ "میرے بابا جان نے مجھ سے باپ کہنے کا حق چھین لیا۔میں کیسے رہوں گی اپنے بابا جان کے بغیر ۔۔۔ آپکی محبت نے مجھ سے میرے بابا جان کو چھین لیا۔۔۔۔کیوں کیا آپ نے ایسا ۔۔۔ کیوں۔۔۔"اسکے آنسو ہاشم کی شرٹ کو بھگو رہے تھے۔

"آئی ایم سوری۔۔۔"وہ آہستہ سے بولا۔نازلی کی باتوں سے اس  کے دل میں چبھن سی ہونے لگی تھی۔ 

"آپ نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔ آپکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔"وہ اسکے سینے سے لگی اسی کی شکایت اس سے کر رہی تھی۔ 

"آئی ایم سوری۔۔"ہاشم نے نرمی سے کہتے اسکے بالوں پر لب رکھے۔پھر خاموشی سے اسکی شکایتیں سننے لگا۔ ہر شکایت کے جواب میں وہ سوری کہتا۔نازلی نے شاید ایک بار بھی اسکا سوری کہنا نہ سنا تھا۔وہ اپنے دکھ میں اس قدر ڈوبی ہوئی تھی کہ اسے ہوش نہ تھا کہ وہ مغرور شہزادہ جانے کتنی بار اس سے سوری کر چکا تھا۔یوں معافی مانگنا ، یوں جھک جانا اس شہزادے کی فطرت میں نہ تھا پر وہ جھک رہا تھا ، وہ اپنی غلطی مان رہا تھا صرف شہزادی کی خاطر ۔۔۔۔ 

جانے کتنا وقت گزرا۔۔۔ وہ کہتی رہی وہ سنتا رہا۔۔۔۔ پھر جب وہ خاموش ہوگئی تو ہاشم نے سر نیچے کر کے اسکا چہرہ دیکھا وہ نیلی آنکھیں بند تھیں۔وہ شاید تھک ہار کر نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔آج اس معصوم جان پر تھوڑا ظلم بھی تو نہیں ہوا تھا۔جب وہ تمام لمحے ہاشم کی نظروں کے سامنے سے گزرتے تو اسکا دل دکھنے لگتا۔

وہ کتنے ہی پل اسکے شاداب چہرے کو دیکھتا رہا۔وہ آج اسکے کتنے قریب تھی پر اس قدر قریب ہوتے ہوئے بھی یہ حالات انکے بیچ میلوں کا فاصلہ کھینچ لائے تھے۔

وہ گڑیا اس وقت ہوش میں نہ تھی اگر ہوتی تو یوں اسکی بانہوں کے حصار میں نہ ہوتی۔

ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر نیلی آنکھوں پر سایہ فگن گھنی پلکوں کو آہستہ سے چھوا تھا۔

جانے وہ اسے اتنی اچھی کیوں لگتی تھی؟آج تک وہ اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈھ پایا تھا۔بس اسے ایسا لگتا تھا جیسے اللہ پاک نے دنیا جہان کی محبت اسکے دل میں بھر دی تھی صرف اور صرف اس ایک لڑکی کے لیے۔۔۔۔وہ پہلی نظر میں اسکا دیوانہ ہوا تھا۔اسکی بے رخی کے باوجود کبھی ایک پل کے لیے بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ہاشم خان کے دل میں اسکی محبت کم ہوتی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ معصوم لڑکی اسکی رگوں میں بہتے خون میں شامل ہورہی تھی۔

کبھی کبھی وہ سوچتا آج وہ لڑکی اس سے دور بھاگتی ہے۔اس سے نفرت کرتی ہے پر پھر بھی اسکے پاگل دل کا یہ عالم ہے کہ وہ اس لڑکی کے پیچھے دیوانہ بن کر دوڑتا ہے۔پر اگر کبھی ایسا ہوا کہ اس لڑکی  نے اسے ایک محبت بھری نظر سے دیکھ لیا۔۔۔یا وہ اس سے محبت کرنے لگی تو۔۔۔۔تو جانے پھر اسکے دیوانے دل کا کیا عالم ہو گا؟

نازلی نے نیند میں ہچکی بھری تو ہاشم چونکا پھر ہاتھ پیچھے کرتا اسکے چہرے سے نظریں ہٹا گیا۔اسے آہستہ سے اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ کی طرف بڑھا۔اسے بیڈ پر لیٹا کر اس پر کمبل ڈالا پھر جا کر دراز سے فرسٹ ایٹ باکس نکال کر اسکے پاس بیڈ پر بیٹھا۔باکس کھول کر اسنے روئی پر ڈیٹول لگا کر اسکے لبوں کے کنارے پر جما خون نرمی سے صاف کیا پھر آہستہ سے اسکی کلائی تھامی۔چند چوڑیاں جو کلائی میں رہ گئی تھیں انہیں پیچھے کرتا وہ اسکا زخم صاف کرنے لگا پھر ٹیوب لگا کر کلائی پر ڈریسنگ کی۔

باکس بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔گھڑی دیکھی تو صبح کے پانچ  بج رہے تھے۔سیاہ آنکھیں نازلی کے چہرے پر تھیں۔ اسنے ہاتھ بڑھا کر نازلی کے کانوں میں پہنے جھمکے اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھے پھر بغور اسکے چہرے کو دیکھنے لگا۔جہاں تھپڑ کے نشان واضح نظر آرہے تھے۔وہ نرمی سے نازلی کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔تھکاوٹ سے اسکا برا حال تھا پر وہ وہیں بیٹھا اس کی حسین صورت تکتا رہا۔ایک عرصے کے بعد وہ کانچ سی لڑکی خوابوں سے نکل کر اسکی نظروں کے سامنے تھی پھر وہ کیسے اسے اپنی نظروں سے اوجھل ہونے دیتا۔اگر کسی کو محبت کرنا سیکھنی ہے تو وہ ہاشم خان سے سیکھے۔۔۔۔کہ محبوب چاہے کچھ بھی کرے عاشق کا کام ہے اسے ہر پل چاہتے رہنا۔اسے پلکوں پر بٹھا کر رکھنا۔اسکے ناز اٹھانا۔اس پر اپنا آپ وار دینا۔۔۔۔۔ 

دوسری طرف محبت کے لٹ جانے کا ماتم کرتی تابین جب جی بھر کر رو چکی تو آہستہ سے سر اٹھا کر لال آنکھوں سے سامنے دیکھا پھر جنونی انداز میں ایک جھٹکے سے اٹھی۔سامنے پڑے شیشے کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا اٹھایا اور اگلے پل زور سے اسے اپنی بائیں کلائی پر پھیر دیا۔

رگوں کے کٹتے ہی خون تیزی سے بہہ کر فرش کو لال کرتا چلا گیا۔تابین نے وہ ٹکڑا پھینکا پھر سکون سے آ کر بیڈ پر لیٹ گئی۔درد کی شدت سے اسکی آنکھیں بھاری ہونے لگیں۔کلائی سے نکلتا خون بیڈ کو لال کر رہا تھا جبکہ تابین کی دھندلی ہوتی آنکھوں کے سامنے ہاشم اور نازلی کے ایک ساتھ جانے کا منظر بار بار آ رہا تھا۔اسکی آنکھیں اتنی بھاری ہوگئیں تھیں جیسے کسی نے ان پر وزنی پتھر رکھ دیا ہو۔آخر اسکی درد میں ڈوبی  آنکھیں آہستہ آہستہ مکمل بند ہو چکی تھیں۔ 

"کاش تم سمجھ پاتے ۔۔۔۔"

"زندگی ۔۔۔ تمہی تو ہو۔۔۔۔"

ہاشم نے اسکے چہرے پر ایک محبت بھری نگاہ ڈال کر آہستہ سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے نکالا۔گھڑی دیکھی تو صبح کے چھ  بج رہے تھے۔بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ہاتھ بڑھا کر پردے پیچھے کیے تو آسمان کا سینہ چیرتیں سورج کی ننھی سنہری کرنیں چھن کر کھڑکی سے ہوتیں کمرے میں داخل ہوئیں۔

ہاشم نے ایک نظر لان کو دیکھا۔لان میں لگے پھول ہلکی ہوا سے جھوم رہے تھے۔انہیں دیکھ کر وہ مدھم سا مسکرایا۔آج اس سمیت جیسے خان ولا کی ہر ایک چیز خوشی سے جھوم رہی تھی۔آج اس شیش محل کو اسکی ملکہ جو مل گئی تھی۔ 

ہاشم نے لمبی سانس کھینچی۔وہ تمام رات سویا نہیں تھا۔سوتی ہوئی نازلی کے سرہانے بیٹھا اسے تکتا رہا تھا۔تھکان کا اسے کوئی احساس نہ تھا بس اس لڑکی کی موجودگی کا خوبصورت احساس ہر احساس پر بھاری تھا۔

وہاں سے ہٹ کر وہ بیڈ کی طرف آیا۔وہ خوبصورت نیلی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔بیڈ پر لیٹی وہ معصوم گڑیا کی مانند لگ رہی تھی۔سیاہ بال تکیے پر پھیلے تھے۔گھنی پلکوں کی جھالر گالوں پر سایہ کر رہی تھی۔گلابی چہرہ بالکل پر سکون لگ رہا تھا۔

ہاشم کتنے پل اسے دیکھے گیا پھر سیاہ آنکھیں اسکے  چہرے سے ہٹا کر پلٹ کر الماری کی طرف بڑھا۔الماری سے اپنے کپڑے نکالے پھر خاموشی سے کمرے سے باہر نکلنے لگا۔وہ نازلی کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا اسلیے ایک نظر اس پر ڈال کر آہستہ سے دروازہ بند کرتا دوسرے کمرے کی طرف بڑھا تاکہ فریش ہو کر چینج کر لے۔

جب تک نازلی کچھ سنبھل نہیں جاتی تب تک اسکا آفس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

وہ فریش ہو کر واش روم سے باہر نکلا۔پھر چلتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوا۔بلیک شلوار قمیض میں وہ بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا۔سیاہ بالوں کو ہاتھ سے جھاڑا پھر برش اٹھا کر پھیرنے لگا۔خود پر پرفیوم اسپرے کیا پھر ٹیبل سے گھڑی اٹھا کر کلائی پر باندھتا کمرے سے باہر نکلا۔

وہ ہال میں آ کر صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ لینڈ لائن فون بجنے لگا۔اسنے جلدی سے اٹھ کر فون پک کیا۔

"ہیلو۔۔۔"ہاشم کے ہیلو کہنے پر دوسری طرف سے اسفی بول پڑا۔

"موبائل کہاں ہے تمہارا ۔۔۔ کب سے کال کر رہا ہوں پر نمبر بند مل رہا ہے۔"اسنے تپ کر پوچھا۔

"توڑ دیا۔"ہاشم نے پر سکون انداز میں جواب دیا۔ 

"غصے میں تم مہینے میں دو موبائل تو ضرور توڑتے ہو۔اگر یہی حال رہا ناں تمہارا تو اب تک تم نے جتنا پیسا کمایا ہے وہ سارا  موبائل خریدنے میں ہی ضائع ہو گا ہاشم خان۔سدھر جاؤ۔۔۔" اسفی نے غصے سے کہا۔

اسکی بات پر ہاشم ایک دم ہنسنے لگا۔ 

"سدھر گیا ہوں یار۔۔۔۔ویسے تم اتنے غصے میں کیوں ہو؟"ہاشم نے ہنسی دبا کر پوچھا۔ 

"تمہارا سدھر جانا نا ممکن ہے۔"اسفی جھنجھلایا۔"آس پاس سے مختلف خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔کتنی سچائی ہے ان میں؟"الجھ کر پوچھا گیا۔ 

"سب سچ ہے۔"ہاشم نے لمبی سانس بھر کر کہا 

"ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ہاشم ۔"اسفی کے لہجے میں افسوس اتر آیا۔

"آئی نو اسفی ۔۔۔ پر حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ۔"ہاشم پیشانی مسل کر کہتا ایک دم خاموش ہوا۔ 

"چلو پریشان مت ہو ۔۔۔ بھابی کا خیال رکھنا۔میں تم سے ملنے آؤں گا۔"اسفی اسکی پریشانی دیکھ کر نرمی سے بولا۔

پھر دو چار باتیں کر کے ہاشم نے فون رکھا۔واپس پلٹ کر صوفے پر بیٹھا۔کہنی گھٹنے پر ٹکا کر بائیں ہاتھ کی مٹھی بنا کے  ہونٹوں پر رکھ کر وہ گہری سوچوں میں گم ہو گیا۔

"صاحب جوس۔۔"امجد بابا کی آواز پر اسنے چونک کر سامنے دیکھا۔وہ خاموشی سے جوس ٹیبل پر رکھ کر جانے لگے۔ 

ہاشم نے انکی پشت کو دیکھا۔جب انکا نکاح ہوا تھا تب امجد بابا گاؤں گئے ہوئے تھے۔اب گھر میں ایک لڑکی کی موجودگی پر جانے وہ کیا سوچ رہے ہوں گے۔ہاشم انکا بہت احترام کرتا تھا اسلیے انہیں نازلی کے بارے میں بتانا ضروری سمجھا۔ 

"امجد بابا۔۔"ہاشم نے ایک دم پکارا۔وہ رک کر اسکی طرف پلٹے۔

"اندر جو لڑکی ہے۔وہ میری بیوی ہے۔نکاح کیا ہے میں نے اس سے۔"وہ انہیں دیکھ کر مدھم آواز میں بولا۔امجد بابا کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ 

"آپ نہ بھی بتاتے تو میں سمجھ گیا تھا صاحب۔"وہ ہاشم کو دیکھ کر بولے۔وہ ہاشم کو کافی عرصے سے جانتے تھے۔آج تک انہوں نے اس میں کوئی بری عادت نہیں دیکھی تھی۔نہ ہی آج سے پہلے وہ کسی لڑکی کو خان ولا لایا تھا۔اب اگر وہ ایک لڑکی کو اتنے حق سے اپنے گھر لے کر آیا تھا تو صاف ظاہر تھا کہ وہ اسکی کوئی قریبی ہستی ہی ہوگی۔

"مبارک ہو آپکو۔"وہ مسکرا کر بولے تو جواباً ہاشم نے مسکرا کر سر ہلایا۔

"ناشتہ لے آؤں آپ لوگوں کے لیے؟"انکے پوچھنے پر ہاشم بے ساختہ مسکرایا۔آج تک وہ اکیلا رہا تھا پر آج اسکی ہمسفر ، اسکے وجود کا حصہ اسکے ساتھ موجود تھی۔اب وہ اکیلا نہیں تھا اسکی تنہائی میں اسکا ساتھ دینے کے لیے وہ گڑیا موجود تھی۔ 

امجد بابا کو ناشتہ لانے کا کہہ کر وہ جوس کا گلاس اٹھا کر سپ لینے لگا۔امجد بابا اتنے کام کا بوجھ اکیلے نہیں اٹھا سکتے تھے اور اب نازلی بھی یہاں موجود تھی تو اسکے لیے اسے کوئی فیمیل کام کرنے والی رکھنی تھی تا کہ وہ اسکی غیر موجودگی میں نازلی کا خیال رکھ سکے۔

وہ سوچنے لگا کہ داور کو کال کر کے گاؤں سے ہی کسی کام والی کو یہاں بلائے گا جو بھروسے مند ہو۔ 

بابا ناشتے کی ٹرے لے کر آئے تو ہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔انکے ہاتھ سے ٹرے لے کر وہ نازلی کے کمرے کی طرف بڑھا۔

دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ٹرے ٹیبل پر رکھی پھر بیڈ کی طرف بڑھا۔

"نازلی ۔۔۔"اسنے مدھم آواز میں پکارا پر دوسری طرف وہ اسی پوزیشن میں پڑی رہی۔دوسری پکار پر بھی جب وہ نہ بولی تو ہاشم نے اسکا بازو ہلایا۔ہاتھ اسکے بازو سے جیسے ہی ٹکرایا تو ہاشم کو ایسے لگا جیسے اسنے جلتے تندور کو چھو لیا ہو۔

اسنے پریشانی سے نازلی کا ماتھا چھوا۔وہ بخار سے تپ رہی تھی۔

"نازلی ۔۔۔"ہاشم نے فکر مندی سے اسکا گال تھپکا پر اسکے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔وہ نیم بیہوشی کی حالت میں تھی۔

"افف اتنا تیز بخار ہے۔"اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر فکر مندی سے بولا۔وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا سوچنے لگا پر اسکا لباس۔۔۔اس لباس میں وہ اسے کیسے لے کر جاتا۔پر اس وقت یہاں نہ نازلی کے کوئی کپڑے تھے اور نہ ہی وہ ہوش میں تھی کہ چینج کرتی۔

ہاشم نے جلدی سے الماری سے اپنی بلیک شال نکالی۔

نازلی کو تھام کر بیٹھایا۔اسکا بھاری دوپٹہ ایک طرف کیا پھر اسکے بال ہاتھ سے ٹھیک کر کے وہ بلیک شال اسکے گرد اچھے سے لپٹی۔نازلی کا سر اسکے کندھے سے ٹکا تھا۔

اسکی حالت دیکھ کر ہاشم بے حد پریشان ہوگیا تھا۔اسنے نازلی  کا چہرہ دیکھا جو بخار کی شدت سے لال ہورہا تھا۔اگلے پل اسے جلدی سے بازوؤں  میں اٹھا کر کمرے سے باہر نکلا۔

"امجد بابا۔۔۔"اسنے اونچی آواز میں پکارا۔

امجد بابا بھاگے چلے آئے۔"آپ آ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیں۔اسکی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔"وہ جلدی سے بولا۔امجد بابا عجلت سے باہر کی طرف بڑھے۔ہاشم ایک نظر اپنے کندھے سے لگی نازلی پر ڈال کر انکے پیچھے تیزی سے باہر کی طرف بڑھا۔ 

بابا نے دروازہ کھولا۔ہاشم نے نازلی کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھایا۔اسکا سر ٹھیک کیا۔پھر دروازہ بند کرتا گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔کار گھر سے نکلی تو اس نے اسپیڈ بڑھا دی۔ڈرائیونگ کرتے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نازلی پر ایک فکر مند سی نظر ڈال لیتا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

صاحب آؤ نا تم بھی تماشہ دیکھو عشق کے مجرم کا_!!

پھرکون لٹے گا عشق میں , پھر کون کرے گا محبت ایسی_!!

امتل آفندی ناشتہ کے لیے ٹیبل پر بیٹھی تھیں۔حسن آفندی ابھی تک لائبریری میں بند تھے۔امتل آفندی کو انکی اتنی فکر نہ تھی بس بیٹی کی فکر ہورہی تھی۔نوری کو دیکھ کر بولیں۔

"جاؤ تابین کو بلا کر لاؤ۔"

"جی۔۔۔"نوری آہستہ آواز میں کہتی وہاں سے نکلی۔مرے قدموں سے سیڑھیاں چڑ کر وہ اوپر آئی۔کتنے پل نازلی کے کمرے کے سامنے کھڑی رہی۔نازلی کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔رات کا منظر یاد کر کے نوری کی آنکھوں سے آنسو گرے۔

امتل آفندی اور حسن آفندی نے اسکی نازلی باجی کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا تھا۔کیا تھا اگر وہ ایک بار انکی بات سن لیتے۔وہ جانتی تھی اسکی نازلی باجی غلط نہیں ہو سکتیں۔کاش کوئی تو نازلی باجی کی بات سن لیتا پر ان بڑے لوگوں کی اپنی عدالت تھی انہیں بھلا کون سمجھاتا۔۔۔

آنسو صاف کر کے وہ تابین کے کمرے کی طرف بڑھی۔ 

"تابین بی بی ۔۔۔"اسنے دروازے پر دستک دی پھر جواب کا انتظار کرتی رہی پر کوئی جواب نہ آیا۔

اسنے پھر دستک دی پر دوسری طرف سے خاموشی نہ ٹوٹی۔نوری نے ڈور ناب گھمائی پر دروازہ لاک تھا۔جب زور سے دستک دینے پر بھی تابین نے دروازہ نہ کھولا تو وہ جلدی سے نیچے کی طرف بھاگی۔

"بیگم صاحبہ وہ تابین بی بی دروازہ نہیں کھول رہیں۔میں نے بہت بار دستک دی پر وہ کوئی جواب نہیں دے رہیں۔"نوری نے ہانپتے ہوئے بتایا۔

امتل آفندی کے ہاتھ سے بریڈ چھوٹ کر میز پر گرا۔انہیں کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ اڑے حواس کے ساتھ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھیں۔جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھیں۔انکے پاس تابین کے روم کی ڈپلیکیٹ چابی تھی۔چابی لے کر وہ تابین کے کمرے کی طرف بڑھنے لگیں۔پریشان سی نوری بھی انکے پیچھے پیچھے تھی۔

انہوں نے جلدی سے لاک میں چابی گھما کر دروازہ دھکیلا۔دروازہ پورا کھل گیا پھر جو منظر امتل آفندی کی آنکھوں نے دیکھا وہ قیامت سے کم نہ تھا۔کمرہ اوپر نیچے ہوا تھا۔

پر انکی نظر فرش پر ٹھہر گئی جہاں خون ہی خون تھا۔خوف سے پُر نظریں جب بیڈ تک گئیں جہاں انکی بیٹی بت بنی لیٹی تھی۔اسکے وجود میں کوئی جنبش محسوس نہیں ہورہی تھی۔

نوری سامنے کا منظر دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹی۔

"تابین ۔۔۔۔۔"امتل آفندی چیخ کر تیزی سے بیڈ کی طرف بڑھیں۔تابین کی بند آنکھیں ،اسکی کلائی کو دیکھ کر انکا دل لرز اٹھا۔انکی پیاری بیٹی یہ کس حال میں پہنچ گئی تھی؟

"تابین میری بیٹی ۔۔۔"انہوں نے اسکے پاس بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھا پھر روتے ہوئے کانپتے ہاتھ سے اپنی ساڑھی کا پلو تھام کر تابین کی کلائی پر زور سے رکھا۔وہ خون روکنے کی کوشش کر رہی تھیں پر بیڈ کی لال چادر دیکھ کر انکا دل پھٹنے لگا۔انکی بیٹی کے جسم سے بے تحاشا خون نکل چکا تھا۔اسکا وجود برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔وہ دیوانی تمام باتوں سے بے نیاز آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔ 

"نوری جاؤ جلدی سے حسن کو بلا کر لاؤ ۔۔۔ جلدی ۔۔۔۔"امتل آفندی آنسو بھری آنکھوں سے نوری کو دیکھ کر زور سے چیخیں۔

نوری سر پٹ وہاں سے بھاگی تھی۔

"میری گڑیا آنکھیں کھولو۔۔۔۔دیکھو اپنی ماما کو تابین"وہ تابین کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے تڑپ کر بولیں۔

تابین کی رنگت بالکل سفید ہوگئی تھی۔ جیسے جسم سے سارا خون نچڑ چکا ہو۔

انکی ساڑھی کا پلو لال ہوتا انکا ہاتھ بھی خون میں لت پت کر گیا۔انہوں نے اپنا ہاتھ سیدھا کر کے خوف بھری آنکھوں  سے دیکھا جو انکی لاڈلی بیٹی کے خون سے بھرا تھا۔ 

"تابین اپنی ماما کو مت ستاؤ۔۔۔۔اٹھ جاؤ گڑیا۔۔۔۔۔ایک بار اٹھ جاؤ پھر جو تم چاہو گی وہی ہوگا۔۔۔۔۔ بس ایک بار اٹھ کر اپنی ماما کو دیکھو۔۔۔۔"وہ پاگلوں کی طرح اسکے  چہرے کو  چھوتیں بول رہی تھیں۔انکی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گر رہا تھا۔ اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی مغرور سی امتل آفندی تھیں جو ناک پر مکھی تک نہیں  بیٹھنے دیتی تھیں پر اس وقت انکا حال دیکھنے لائق تھا۔اگر کوئی اس وقت انکا حال دیکھ لیتا تو ترس کھائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

اس وقت وہ ایک مجبور ماں تھیں جنہیں اپنی بیٹی کی حالت زار و زار رلا رہی تھی۔ 

حسن آفندی حواس باختہ سے بھاگے بھاگے وہاں آئے۔وہ ساری رات سو نہیں پائے تھے۔نازلی کی حرکت نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا اور اب تابین کی حالت دیکھ کر رہی سہی طاقت بھی جواب دینے لگی تھی۔

کیا وہ اس قدر بد نصیب تھے کہ اوپر نیچے وہ اپنی دونوں اولادوں کو کھو دینے والے تھے؟

"تابین ۔۔۔۔"وہ لڑکھڑائی آواز میں کہتے آگے بڑھے۔جوان بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر انکا دل کانپنے لگا۔ 

انکی آواز پر امتل آفندی نے لال آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔ 

"اگر میری بیٹی کو کچھ ہوگیا ناں حسن تو میں اس کمینی کو نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔ سنا آپ نے ۔۔۔۔ میں اس نازلی کو زندہ جلا ڈالوں گی اگر میری تابین کو کچھ بھی ہوا تو۔۔۔۔"وہ زخمی شیرنی کی طرح غرائیں تھیں۔

"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ۔اس سے نازلی کا کیا تعلق۔"حسن آفندی خود پر قابو پا کر بولے۔پھر جلدی سے آگے بڑھ کر تابین کی سانسیں چیک کرنے لگے۔اس پاگل عورت کی باتوں میں وقت ضائع کر کے وہ اپنی بیٹی کو کھو نہیں سکتے تھے۔حسن آفندی نے اسکی نبض چیک کر کے لمبی سانس کھینچی تابین کی نبض  چل رہی تھی پر بہت مدھم۔۔۔۔

"عشق کی حد تک چاہتی ہے تابین اس ہاشم خان کو جسے آپکی بیٹی نے چھین لیا اس سے ۔۔۔ سنا آپ نے۔۔۔۔"وہ چلا کر دبنگ انداز میں بولیں۔انکی بات سن کر حسن آفندی شاکڈ رہ گئے۔تابین ۔۔۔ ہاشم خان سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔۔ تو رات جو ہوا اسکی وجہ سے اسنے اپنا یہ حال کیا تھا۔حسن آفندی اس وقت خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے۔وہ کرتے تو کیا کرتے؟انہیں آگے کا ہر راستہ بند ہوتا نظر آرہا تھا۔پر اس وقت اور کچھ سوچنے کا وقت نہیں تھا انہیں تابین کو ہوسپٹل لے کر جانا تھا۔

امتل آفندی کے زور زور سے رونے پر وہ چونک کر تابین کے لٹھے کی مانند سفید چہرے کو دیکھنے لگے۔پھر جلدی سے چادر سے تھوڑا کپڑا پھاڑ کر تابین کی کلائی پر باندھنے لگے۔

وہ اس ظالم محبت کی خاطر زنیرہ کی طرح اپنی بیٹی کو بھی کھونا نہیں چاہتے تھے۔وہ تابین کو کھونے سے ڈر رہے تھے اور نازلی اسکا کیا ؟؟ کیا اسے اپنے ہاتھوں سے اس گھر سے نکالتے وقت انہیں ایک بار بھی زنیرہ کی یاد نہ آئی۔۔۔۔کہ اگر آج وہ زندہ ہوتی تو کیا اپنی بیٹی کے ساتھ اتنا ظلم ہونے دیتی۔کیا وہ اپنی گڑیا کو یوں بھری محفل میں انکے ہاتھوں مار کھانے دیتی۔۔۔۔

پر سارا دکھ ہی تو اس بات کا تھا کہ نازلی کی ماں نہیں تھی ورنہ جو کچھ اسکے ساتھ ہوا تھا وہ ہرگز نہ ہوتا۔اسکا باپ تو موجود تھا ناں پر باپ کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی تھی۔انہوں نے اس معصوم کو بولنے کا موقع دیے بغیر اسے مجرم قرار دے کر سزا سنا دی تھی۔ 

"یہ سب اس نازلی کی وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔ چھین لیا ہے  اسنے میری بیٹی سے اس شخص کو۔۔۔۔ بالکل اپنی ماں کی طرح۔۔۔۔۔دیکھیں میری لاڈلی کو اس حال میں لا چھوڑا ہے آپکی اس بدکردار بیٹی نے۔۔۔۔"وہ نفرت سے بول رہی تھیں۔

بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر بھی انکے لہجے میں ذرا لچک نہ آئی۔۔۔نہ زنیرہ کے لیے نہ نازلی کے لیے۔۔۔۔۔انکی بات پر حسن آفندی نے غصے بھری ایک نگاہ ان پر ڈالی پھر تابین کو اٹھا کر باہر کی طرف بڑھنے لگے۔ 

"نوری ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے۔"وہ تیزی سے کہتے سیڑھیاں اترے۔امتل آفندی آنسو بہاتیں انکے پیچھے بھاگنے لگیں۔ 

بیک سیٹ پر امتل آفندی ، تابین کا سر اپنی گود میں رکھ کر بیٹھیں۔حسن آفندی ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھے پھر تیزی سے گاڑی آگے بڑھا دی گئی۔کار ہسپتال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ 

"میری بیٹی بچ تو جائے گی ناں۔"امتل آفندی نے نم آواز میں پوچھا تھا۔ 

"تابین کو کچھ نہیں ہوگا۔"حسن آفندی نے دکھ ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔دکھ انکی رگ رگ میں اتر چکا تھا۔رات ایک بیٹی کے غم نے انہیں چور کیا تھا تو اب دوسری بیٹی کا غم انکی جان کھا رہا تھا۔کتنے بدنصیب باپ تھے وہ ۔۔۔۔ ایک بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے کھو چکے تھے اور دوسری کو قسمت ان سے چھیننے کے در پہ تھی۔ 

کار ہسپتال کے سامنے رکی۔تابین کو آئی سی یو میں لے جایا گیا۔امتل اور حسن آفندی وہیں باہر بیٹھے بیٹی کی زندگی کی دعائیں کرنے لگے۔ہسپتال کا سرد ماحول انکی سانسوں کو مدھم کر رہا تھا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر باہر آیا۔وہ دونوں انکی طرف بڑھے۔ 

"کیسی ہے میری بیٹی۔"امتل آفندی نے عجلت سے پوچھا۔ 

"خون بہت بہہ چکا ہے۔آپ لوگ بس دعا کریں کہ وہ بچ جائیں۔"ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا۔امتل آفندی روتی ہوئیں حسن آفندی کی طرف پلٹیں۔

"دیکھا آپ نے ۔۔۔ اس منحوس کی وجہ سے میری بیٹی اس حال میں ہے۔میری بیٹی سے اسکی محبت چھین کر اسے موت کے در پر لا کھڑا کیا ہے اس لڑکی نے ۔۔۔۔ میری بات لکھ کے رکھ لیں حسن ۔۔۔۔۔اگر تابین کو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔ تو اس نازلی کو میں دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بناؤں گی۔امتل آفندی اسکی ہستی مٹا دے گی۔۔۔۔۔سمجھے آپ۔"وہ جنونی انداز میں کہتیں بینچ پر بیٹھ کر رونے لگیں۔

حسن آفندی بت بنے کھڑے تھے۔وہ بھی تو تابین کی زندگی چاہتے تھے۔پر نازلی کے لیے امتل آفندی کے الفاظ  انکا دل دھڑکا گئے۔وہ جانتے تھے اگر تابین کو کچھ بھی ہوگیا تو وہ عورت اپنی کہی باتیں سچ کر دکھائے گی۔تابین کو کچھ ہوا تو وہ نازلی کو بھی زندہ نہیں رہنے دے گی۔

حسن آفندی ، نازلی کو اپنی زندگی سے تو نکال چکے تھے پر وہ اسے مرتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

وہ گم سم سے بینچ پر بیٹھ کر تابین کی زندگی کے لیے دعائیں کرنے لگے۔  

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

 نازلی کو ہسپتال میں ایڈمٹ کر لیا گیا تھا۔وہ ہنوز بیہوشی میں تھی۔ڈاکٹر نے ہاشم کو بتایا کہ شدید  ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ بیہوش تھی۔ہاشم خاموشی سے اسکے بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔اسکا چہرہ زرد ہورہا تھا۔نازک ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔نیلی آنکھیں جنکا وہ دیوانہ تھا جانے کب سے بند تھیں۔

ہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔نازلی کو ایک نظر دیکھ کر وہ روم سے باہر نکلا۔وہاں سے ریسپشن کی طرف آیا۔اسے داور کو کال کر کے کسی کام والی کا کہنا تھا جو اسکی غیر موجودگی میں یہاں نازلی کے پاس رک سکے۔

ریسپشنسٹ سے بات کر کے وہ داور کا نمبر ملانے لگا۔اسکے علاوہ وہ کسی اور کو اس کام کا نہیں کہہ سکتا تھا۔ 

"ہیلو۔۔۔"داور کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"ہیلو داور۔۔۔"ہاشم کی آواز پہچان کر داور خوشی سے اچھلا۔

"کس کام سے یاد کیا ہے آپ نے مجھے ہاشم لالہ۔"وہ شوخی سے بولا۔اسے معلوم تھا کہ اس وقت اسکے لالہ نے اسے کسی کام سے ہی یاد کیا ہوگا۔اسکی بات پر ہاشم مسکرانے لگا۔

"مجھے ایک کام والی چاہیے۔تم بھیج دینا کسی کو وہاں سے۔" 

"کیا آپ نے امجد بابا کو نکال دیا ہے لالہ جو آپکو اب کام والی چاہیے۔"داور شرارت سے کام والی پر زور دے کر بولا 

"داور ۔۔۔"ہاشم نے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔

"اچھا اچھا معاف کر دیں لالہ بھیج دونگا۔۔۔ اور کچھ"داور نے جلدی سے کہا۔

"اور گھر میں اس بات کو مت پھیلانا۔۔ اوکے۔"ہاشم نے سمجھانے والے انداز میں کہا 

"میں کوئی محلے والی خالہ ہوں جو بات پھیلا دونگا لالہ۔"داور نے پھولے منہ کے ساتھ کہا۔ 

"لالہ کی جان میں نے ایسا تو نہیں کہا۔"ہاشم نرمی سے بولا۔

"پر میں تو آپکی بات کا مطلب سمجھ گیا ناں۔"خفا آواز میں کہا گیا۔

"بڑے سمجھدار ہوگئے ہو پھر تو۔"ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔

"لالہ ۔۔۔"داور نے خفگی سے پکارا۔

"اچھا لالہ کی جان گستاخی معاف۔۔۔۔جاؤ اب جلدی سے کام والی کا انتظام کر کے یہاں بھیجو۔"ہاشم نے پیار سے کہا تو داور نے مسکرا کر اوکے لالہ کہا پھر فون بند کر دیا۔

ہاشم نے پھر اسفی کو کال ملائی اور کہا کہ وہ خان ولا چلا جائے اور جب ڈرائیور کام والی کو وہاں لے کر آئے تو وہ اسے لے کر ہسپتال آ جائے تا کہ اسے نازلی کے پاس چھوڑ کر وہ سامان لینے جا سکے۔

ہاشم بات کر کے واپس کمرے میں آیا۔نازلی اسی پوزیشن میں آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ہاشم نے آگے بڑھ کر اسکی سانسیں چیک کیں۔سارے راستے بھی وہ یہی کرتا آیا تھا۔جانے اسکے دل میں کیسی بے چینی تھی بس ایک ڈر سا تھا کہ کہیں اس لڑکی کو کچھ ہو نہ جائے۔وہ مضبوط نڈر انسان آج اس گڑیا کو کھونے سے ڈر رہا تھا۔محبت جب دل میں گھر کرتی ہے تو بہادر سے بہادر شخص بھی اپنے محبوب کو کھونے سے ڈرنے لگتا ہے۔جنکے ساتھ سانسیں جڑی ہوں۔انکو کھو دینے کا خیال ہی جسم سے جان نکالنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ 

ہاشم نازلی کا ہاتھ تھام کر بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔

جانے کتنا وقت گزرا جب دروازہ کھلنے کی آواز پر چونکا۔سامنے دیکھا تو اسفی کھڑا تھا۔ 

تم اتنی جلدی آگئے۔"ہاشم حیرت سے پوچھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"دو گھنٹے ہوگئے ہیں ہاشم خان۔"اسفی نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"اچھا ۔۔۔"وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا آگے بڑھا۔اسے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔ 

وہ لوگ کمرے سے باہر نکلے۔ 

"بھابی کیسی ہیں؟"اسفی نے پوچھا۔ 

"ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیہوش ہے ابھی تک۔"ہاشم نے مدھم آواز میں جواب دیا۔اسفی نے اسکے چہرے کو دیکھا۔ وہ بے حد پریشان لگ رہا تھا۔

"تم فکر نہ کرو ۔۔۔ وہ ٹھیک ہوجائیں گیں۔"وہ اسکا کندھا تھپتھپا کر بولا۔ہاشم نے سر ہلایا۔ 

"لے کر آئے ہو کام والی کو؟"

"ایک نہیں دو ۔۔۔"اسفی نے مسکرا کر بینچ کی طرف اشارہ کیا۔جہاں ایک تیس کے لگ بھگ پٹھان عورت بیٹھی تھی۔ساتھ چودہ سالہ سرخ و سفید لڑکی بھی تھی۔

"حویلی سے جو ڈرائیور انہیں لے کر آیا تھا۔وہ بتا رہا تھا کہ یہ ماں بیٹی ہیں۔اکیلی ہوتیں ہیں کام کی تلاش میں تھیں تو داور نے انہیں یہاں بھیج دیا۔بس اب انکے رہنے کا انتظام کر لینا۔"اسفی نے ڈرائیور کی بتائی باتیں دوہرائیں۔ 

"رہنے کا کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔سب ہو جائے گا۔"ہاشم نے کہہ کر انہیں دیکھا۔وہ لڑکی ماں کے کان میں سرگوشیاں کر رہی تھی اور اسکی ماں اسے گھورنے میں مصروف تھیں۔ہاشم نے سوچا اچھا ہی ہے کہ وہ بچی بھی ساتھ آگئی اس کے ساتھ رہ کر نازلی کا دل کچھ حد تک بہل جائے گا۔ویسے بھی اسکی نوری سے بھی بڑی دوستی تھی۔یہ لڑکی بھی ہاشم کو نوری کی طرح ہی شرارتی سی لگ رہی تھی۔ 

ہاشم نے گلا کھنگار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔دونوں ماں بیٹی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"آپکا نام۔۔"ہاشم نے اس خاتون سے پوچھا۔ 

"ہمارا نام گل جان ہے اور یہ ہمارا بیٹی چھوٹی پٹھانی ۔۔۔۔ہمارا مطلب ہے گل رخ ہے۔پیار سے ہم اسکو چھوٹی پٹھانی کہتے ہیں۔"اس خاتون نے اپنے پٹھانی لہجے میں لمبا چوڑا جواب دیا۔اسفی ، ہاشم کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔ 

"ماشاء اللہ بہت اچھے نام ہیں آپکے۔۔۔ میں ہاشم خان ہوں۔آپکو میری بیوی کا خیال رکھنے کے لیے بلایا ہے۔آپ اب سے ہمارے ساتھ ہی رہے گیں۔"ہاشم کی بات پر وہ اسے مشکور نظروں سے دیکھنے لگیں۔

"ہم بہت اچھے سے خیال رکھے گا آپکی دلہن کا۔"وہ نرمی سے بولیں۔ہاشم نے سر ہلا کر انہیں کمرے کی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ 

وہ لوگ اندر داخل ہوئے۔

"یہ میری بیوی ہے نازلی ۔۔۔ ابھی تھوڑی بیمار ہے۔"ہاشم نے آہستہ آواز میں کہا۔

"مورے یہ کتنی پیاری ہیں۔"چھوٹی پٹھانی نے ماں کے کان میں سرگوشی کی جواباً وہ اسے گھورنے لگیں۔ 

"چپ بیٹھو۔"گل جان نے اسے ڈانٹا۔

"کوئی بات نہیں بولنے دیں ۔۔۔ تم میری بیوی کی تعریف کر سکتی ہو چھوٹی پٹھانی۔"ہاشم نے مسکرا کر کہا۔اسکے انداز پر چھوٹی پٹھانی کا چہرہ کھل اٹھا۔

"اچھا اب آپ نے نازلی کا خیال رکھنا ہے۔میں کچھ سامان لینے جا رہا ہوں۔"وہ انہیں دیکھ کر بولا۔

"جی صاحب۔۔۔"گل جان نے اثبات میں سر ہلایا۔ہاشم ایک نظر نازلی پر ڈال کر اسفی کے ساتھ روم سے باہر نکلا۔

چھوٹی پٹھانی نازلی کو دیکھ رہی تھی۔گل جان نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے دور صوفے پر اپنے ساتھ بٹھایا۔ 

"مورے انہیں کیا ہوا ہے؟"وہ نازلی کو غور سے دیکھ کر پوچھ رہی تھی۔

"صاحب نے بتایا ناں کہ بیگم صاحبہ کی طبیعت خراب ہے۔"گل جان نے دوپٹہ ٹھیک کرتے جواب دیا۔ 

"مورے میں انہیں چھو کر دیکھوں؟"چھوٹی پٹھانی نے ماں کی طرف پلٹ کر خوشی سے پوچھا۔

"دماغ خراب ہے ۔۔۔ وہ آرام کر رہی ہیں۔ چپ کر کے بیٹھو یہاں ورنہ گاؤں واپس بھیجوا دونگی۔"گل جان نے دبی آواز میں اسے ڈانٹا تو وہ منہ بسور کر خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔نظریں نازلی پر تھیں۔جانے اس باجی میں کیا کشش تھی کہ وہ اسے بہت  اچھی لگی تھیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"من مہکتا ہے کسی کی خوشبو سے۔۔۔"

"کون رہتا ہے پھول سا مجھ میں ۔۔۔۔"

"اوئے چڑیلو ۔۔۔۔ کتنا وقت لگے گا تیار ہونے میں؟"داور انکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔نور چوڑیاں پہن رہی تھی جبکہ آبی شیشے کے سامنے کھڑی مسکارا لگا رہی تھی۔دونوں نے اسکی بات پر کوئی دھیان نہ دیا۔آج انکی دوست اسماء کی مہندی تھی یہیں گاؤں میں قریب ہی اسکا گھر تھا۔

آبی اور نور کے ساتھ وہ دونوں بھائی بھی جا رہے تھے۔بد قسمتی سے اسماء کا بھائی شہریار کا دوست تھا۔اسلیے شہریار نے بھی جانا تھا تو داور کیوں پیچھے رہتا وہ بھی جانے کے لیے تیار ہوگیا۔اب دونوں بھائی تیار بیٹھے تھے اور ان دو معصوم لڑکیوں کو ٹھیک سے تیار بھی نہیں ہونے دے رہے تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ وہ پچھلے دو گھنٹے سے تیار ہونے میں لگی تھیں پر ہو ان سے کچھ نہیں رہا تھا۔

نور نے اللہ اللہ کر کے ہلکا سا میک اپ کیا۔پھر چوڑیاں پہننے بیٹھ گئی۔جبکہ آبی ابھی تک میک میں اٹکی تھی۔دس بار تو وہ میک اپ کر کے منہ دھو چکی تھی۔کبھی آئی لائنر ٹیڑھا لگ جاتا تو کبھی لپ اسٹک تیز ہو جاتی تو وہ بار بار منہ دھو کر نئے سرے سے میک اپ شروع کرتی۔دونوں نے آج شہریار کے لائے ہوئے ڈریسز پہنے تھے۔نور کا ڈریس گرین تھا جسکے ساتھ اسنے وہی سبز چوڑیاں پہنی تھیں جبکہ آبی کا ڈریس پیچ رنگ کا تھا۔دونوں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔

"بہری ہو تم دونوں۔"انکی خاموشی پر داور دھڑام سے بیڈ پر بیٹھا پھر تپ کر بولا۔

"تم دیکھ نہیں رہے کہ ابھی ہم تیار ہو رہے ہیں۔جب ہو جائیں گے تو باہر آجائیں گے۔تم اپنے بے چین دل کو آرام دو اور چکر کاٹنے بند کرو۔"نور مزے سے آخری دو چوڑیاں پہنتے ہوئے بولی۔ 

"اسکے بے چین دل کو کیوں آرام ملنے لگا۔وہاں اس نے جلدی پہنچ کر لڑکیوں کو جو تاڑنا ہے۔"آبی طنزیہ مسکرا کر بولی۔

"شرم کرو ڈائین کہیں کی ۔۔۔۔ شریف بھائی پر الزام لگا رہی ہو۔"داور منہ بگاڑ کر بولا۔

"ہم تمہاری شرافت سے اچھی طرح واقف ہیں۔"نور نے مسکرا کر لقمہ دیا پھر اٹھ کر آبی کے ساتھ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں میں برش پھیرنے لگی۔ 

"جاؤ جاؤ اپنا کام کرو ۔۔۔زیادہ بولو مت دونوں چڑیلیں۔اپنی سڑی ہوئی صورتوں پر من من میک اپ تھوپ کر دنیا کو بیوقوف بناتی ہو پر اتنا میک اپ تھوپ کر بھی تم دونوں کی شکلیں ویسی کی ویسی ہیں۔"داور نے انکے حسن پر وار کیا۔دونوں کرنٹ کھا کر اسکی طرف پلٹیں۔

"کیا کہا تم نے ۔۔۔"آبی تپ کر بولی 

"وہی جو تم نے سنا۔"داور ہنس کر جواب دیتا سیٹی بجانے لگا۔

"آبی دیکھو میرا میک اپ زیادہ یا کم تو نہیں ہے؟"نور پریشانی سے شیشے میں اپنا جائزہ لے کر پھر آبی کو اپنا چہرہ دکھانے لگی۔  

"بالکل ٹھیک ہے ۔۔۔۔ اور میرا۔۔۔"آبی نے بھی فکر مندی سے پوچھا۔داور کی بات نے انہیں پریشان کر دیا تھا۔انکی باتوں کو سن کر داور قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ 

"افف اس قدر حسین لگنے کا جنون ہے تم دونوں کو۔"وہ ہنسی دبا کر بولا 

"ہم حسین ہی ہیں۔"نور نے چبا کر کہا۔

"خواب میں ۔۔۔"داور نے مکھی اڑائی۔ 

"دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔۔۔"آبی چیخ کر بولی۔

"ٹھیک ہے میں جاتا ہوں۔اور اب کی بار لالہ ہی تم دونوں کو لینے آئیں گے۔"داور منہ بنا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"داور ۔۔۔"نور نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ 

"اب کیا ہے؟"داور نخرے میں آگیا۔ 

"ہم آرہے ہیں ناں۔"آبی نے لاڈ سے کہا۔وہ دونوں شہریار کے نام پر بھیگی بلیاں بن گئی تھیں۔ 

"اب آئی ہو ناں دونوں لائن پر۔۔۔"وہ چڑانے والے انداز میں بول کر واپس بیڈ پر بیٹھا۔آبی اور نور نے گھور کر اسے دیکھا۔

"ٹائم مت ضائع کرو ۔۔۔ لالہ کو خان بابا نے روک رکھا ہے ورنہ کب کا تم دونوں کو ڈوز دے چکے ہوتے۔اب بھی کچھ پتہ نہیں کہ وہ یہاں آجائیں۔پھر تم دونوں کو ایسے ہی جانا پڑے گا۔"داور انکی ادھوری تیاری دیکھ کر چسکا لگاتے ہوئے بولا۔

وہ دونوں اسکی بات پر حواس باختہ سی جلدی سے باقی تیاری کرنے لگیں۔داور مشکل سے ہنسی دباتا انکے عجلت میں ہوتے کام دیکھ رہا تھا۔ 

آبی جلدی سے بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ڈریسنگ ٹیبل سے دو چار چیزیں اسکی افراتفری کی وجہ سے نیچے گریں جبکہ نور نے بھاگ کر شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر جھمکے پہنے۔پھر بیڈ پر بیٹھ کر ہیلز پہننے لگی۔آبی نے دوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھا۔

نور بھی سینڈلز پہن کر جلدی سے دوپٹہ اوڑھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"ہم تیار ہیں۔"دونوں نے لمبی سانس کھینچ کر ایک ساتھ کہا۔انکی تیزی دیکھ کر داور نے تالی بجائی۔"یہ ہوئی ناں بات ۔۔۔۔ دو گھنٹے لگا کر بھی تیاری آخری پانچ منٹ میں ہی کرتی ہو تم لڑکیاں۔"وہ بیڈ سے اٹھ کر ہنستے ہوئے بولا۔ 

"زیادہ بولو مت اور چلو۔"نور نے اسے گھور کر کہا۔وہ دونوں کمرے سے باہر نکلیں۔داور بھی ہنسی دباتا انکے پیچھے گیا۔ 

وہ وہاں سے ہال میں آئیں۔جہاں خان بابا ، شہریار اور ام جان بیٹھے تھے۔ 

"ماشاء اللہ میری بیٹیاں بہت پیاری لگ رہی ہیں۔"خان بابا انہیں دیکھ کر محبت سے بولے۔

"شکریہ خان بابا ۔۔۔"دونوں مسکرا کر کہتیں آگے بڑھیں۔شہریار نے نظر اٹھا کر دیکھا۔نور کو دیکھ کر اسکی نظریں ایک پل کے لیے ٹھہریں پر پھر وہ آنکھیں جھکا گیا۔وہ اسکے لائے لباس میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ایک سرسری نظر میں ہی اسنے نور کے ہاتھ میں وہ سبز چوڑیاں دیکھ لیں تھیں۔ایک عرصے بعد اسنے ان نازک کلائیوں میں کانچ کی چوڑیاں دیکھی تھیں۔اسے اسکی کلائیوں میں چوڑیاں بہت پسند تھیں۔پر اب وہ لڑکی چوڑیاں نہیں پہنتی تھی۔اس دن جانے کس خیال میں وہ یہ چوڑیاں لے آیا تھا۔ 

وہ سوچوں میں گم تھا جب خان بابا کی آواز پر چونکا۔

"سنو شہریار یہ کہہ رہی ہیں کہ چل کر جائیں گیں۔"خان بابا مدھم سا مسکرا کر بولے۔ 

"تھوڑا سا تو راستہ ہے خان بابا ۔۔۔ پلیز ہمیں چل کر ہی جانا ہے۔"نور نے جلدی سے کہا۔شہریار نے ایک گھورتی نظر اس پر ڈالی۔جب وہ اس سے دور ہوتی تو دل اسے دیکھنا چاہتا تھا پر جب وہ سامنے آتی تو جانے کیوں اسکا دماغ ، دل پر حاوی ہوجاتا اور وہ تلخ سا ہوجاتا تھا۔ 

"پلیز خان بابا ۔۔۔ پلیز پلیز ۔۔۔"نور اور آبی دونوں شروع ہوگئیں۔خان بابا نے مسکرا کر ہاتھ اٹھا کر انہیں روکا۔ 

"چل کر ہی جانے دو ہماری بیٹیوں کو شہریار ۔۔۔۔ دونوں بھائی انکا خیال رکھنا۔"وہ شہریار کو دیکھ کر بولے۔ شہریار نے اثبات سر ہلایا۔وہ خان بابا کی بہت عزت کرتا تھا۔انکی بات کے آگے تو وہ اور کچھ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔تبھی خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"چلتے ہیں خان بابا ۔۔۔ ام جان۔"دونوں کے سامنے سر جھکا کر اجازت لیتا وہ آگے بڑھ گیا۔نور اور آبی نے بھی خوشی سے انکے سامنے سر جھکایا۔

"جاؤ اور انجوئے کرو۔"خان بابا نے مسکرا کر انکے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔دونوں نے ہنس کر ہاں میں سر ہلایا۔ام جان سے مل کر وہ باہر کی طرف بھاگیں۔ان سبکو ایک ساتھ جاتے دیکھ کر ام جان نے ٹھنڈی آہ بھری۔خان بابا نے انہیں دیکھا۔اس آہ کا مطلب وہ اچھے سے جانتے تھے۔ 

"اپنے ہاتھوں سے بنی چائے پلا دو بیگم۔"وہ انکا دھیان بٹانے کے لیے بولے۔ 

"اچھا ۔۔۔"وہ اداسی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔خان بابا نے انہیں دیکھا۔وہ انکی محبت تھیں۔ وہ انہیں اداس نہیں دیکھ سکتے تھے پر ہاشم وہ کو معاف کر کے اپنی زبان سے پھر جانا بھی انکے لیے ممکن نہ تھا۔

وہ دونوں باپ بیٹا ایک جیسے تھے۔دونوں ہی اپنی ضد ، اپنے جنون میں اپنے پیاروں کو دکھ دے جاتے تھے۔

جیسے خان بابا نا چاہتے ہوئے بھی ام جان کو دکھ دے رہے تھے۔۔۔۔جیسے ہاشم کی دیوانگی نازلی کو گھائل کر رہی  تھی۔

 وہ حویلی کے گیٹ سے باہر نکلے۔شہریار آگے تھا جبکہ وہ تینوں اسکے پیچھے چل رہے تھے۔

حویلی سے تھوڑا آگے ایک گلی چھوڑ کر ہی اسماء کا گھر تھا۔

"آگے لالہ کے ساتھ ہو کر چلو۔"آبی نے نور کے قریب ہو کر سر گوشی کی۔ 

"یوں بیچ راہ میں کیا مار کھانی ہے مجھے تمہارے بھائی سے۔۔۔"نور نے اسے گھور کر کہا۔

"جاؤ بھی مانو بلی ۔۔۔ دیکھو لالہ کتنے اکیلے لگ رہے ہیں۔"داور بھی آہستہ آواز میں بولا 

"اکیلے ہیں پر انہیں میرا ساتھ بھی گوارا نہیں ہوگا۔"نور نے اپنے آگے چلتے شہریار کی پشت کو دیکھ کر اداسی سے کہا۔

"تم انکے ہم قدم تو ہو ۔۔۔ کچھ نہیں کہتے لالہ۔"آبی نے آنکھ دبا کر کہا۔نور نے ڈر کے مارے نہ میں سر ہلایا۔

"آؤ آبی۔۔۔اب دیکھتا ہوں یہ کیسے آگے نہیں بڑھتی۔"داور نے آبی کا ہاتھ پکڑا پھر ایک دم آگے بڑھے۔شہریار سوچوں میں گم زمین کو دیکھتا چل رہا تھا۔اسے پتہ نہ چلا کہ وہ دونوں کافی آگے نکل چکے تھے۔ نور نے حیرت سے ان دونوں بہن بھائی کو دیکھا جنکے قدموں کی اسپیڈ بڑھ چکی تھی۔آبی نے گردن پھیر کر مسکراتے ہوئے اسکی طرف ہاتھ ہلایا پھر داور کے ساتھ دوسری گلی کا موڑ مڑ گئی۔جس کے آخری گھر میں شادی کا ہنگامہ لگا تھا جبکہ وہ اس گلی میں شہریار کے ساتھ اکیلی چل رہی تھی۔اسنے پریشانی نے شہریار کی پشت کو دیکھا پھر آرام سے آگے بڑھ کر اس سے آگے نکلنے لگی تا کہ وہ بھی ان دو بدتمیزوں کی طرح وہاں سے بھاگ جائے پر اسکی قسمت اچھی نہ تھی۔اسنے شہریار سے آگے ایک قدم ہی اٹھایا تھا کہ اسکی چوڑیوں کی کھنک پر شہریار نے چونک کر سر اٹھایا۔

"تم کہاں بھاگ رہی ہو۔"اسنے حیرت سے پوچھا۔

"وہ آبی اور داور ۔۔۔"وہ آگے کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ شہریار نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔

"یہ دونوں کہاں گئے؟"اسنے نور کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"دونوں آگے بھاگ گئے۔۔۔"وہ منہ بگاڑ کر بولی۔"اور مجھے اس جن کے ساتھ چھوڑ گئے۔"وہ زیر لب بڑبڑائی۔شہریار چاند کی روشنی میں چمکتے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔نور نے اسکی نظروں کی تپش محسوس کی تو سر اٹھا کر دیکھا۔اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر اسکا دل دھڑک اٹھا۔ 

"کیا دیکھ رہے ہیں۔"اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔

"یہی دیکھ رہا ہوں کہ میک اپ کچھ زیادہ ہی کر لیا ہے تم نے ۔۔۔ تبھی چہرہ لائٹیں مار رہا ہے۔"شہریار نے سنجیدہ انداز میں جان بوجھ کر کہا۔نور نے صدمے سے اپنا چہرہ چھوا۔آج دونوں بھائی اسکے میک اپ کے پیچھے پڑے تھے۔ 

"کیا واقعی۔۔۔۔"نور نے پریشانی سے پوچھا۔

"ہوں ۔۔۔"شہریار اسکے چہرے سے  نظر ہٹا کر سامنے دیکھنے لگا۔ جبکہ نور رونے والی ہوگئی۔ 

"اب میں کیا کروں ؟"اسنے شہریار کو دیکھ کر پوچھا۔

"اب قدم آگے بڑھاؤ ۔۔۔ وہ دونوں پہنچ بھی گئے ہوں گے۔۔۔۔ چلو۔"اسے اشارہ کرتا وہ آگے بڑھا۔نور نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔اسکی تو ساری خوشی ہی اس شخص نے ہوا کر دی تھی۔ 

نور منہ بناتی جلدی سے چل کر اسکے ساتھ ہوئی۔دونوں خاموشی سے آگے بڑھ رہے تھے جب نور کے پاؤں کے نیچے پتھر آیا۔اسکا پاؤں مڑا ہیلز کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر گرنے کو تھی جب شہریار نے اسے تھام لیا۔نور نے سنبھلنے لے لیے اسکا بازو سختی سے تھاما۔

"ہائے اللہ ۔۔۔"بچ جانے پر اسنے شکر ادا کیا۔

"تم دیکھ کر نہیں چل سکتی ہو۔"شہریار نے سختی سے اسے دیکھ کر کہا۔

"دیکھ کر ہی چل رہی تھی ۔۔۔ اب پتھر آگیا پاؤں کے نیچے تو اس میں میری کیا غلطی۔"نور نے تپ کر اسے دیکھا۔پھر سنبھل کر پیچھے ہو کر کھڑی ہوئی۔شہریار نے سر جھکا کر اسکے پاؤں کو دیکھا۔اتنی اونچی ہیلز دیکھ کر بول پڑا۔ 

"تم اور تمہارے فیشن۔۔۔اللہ معاف کرے۔کوئی سیدھا کام نہیں ہوتا تم سے۔"وہ جھنجھلایا تھا۔اسکی بات پر نور اسے گھورنے لگی۔

"چل سکتی ہو ؟"اسکے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"جی شکر اللہ کا ۔۔۔۔لنگڑی نہیں ہوئی ہوں ورنہ آپ تو یہیں پھینک کر چلے جاتے۔"وہ چبا کر کہتی آگے بڑھ گئی۔شہریار نے خاموشی سے اسکی پشت کو دیکھا پھر آگے بڑھا۔ 

شادی والے گھر میں پہنچے تو خوب ہنگامہ لگا تھا۔میوزک ، ہنسی ، خوشبو چار سو بکھری تھی۔ 

نور نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے آبی کو ٹھنڈا کیا کہ وہ لوگ کیوں اسے اس جن کے ساتھ اسے اکیلا چھوڑ آئے تھے جبکہ آبی اسکی باتوں پر ہنستی رہی۔ 

مہندی کا فنکشن انہوں نے خوب انجوائے کیا تھا۔واپسی پر اسماء کا بھائی انہیں باہر تک چھوڑنے آیا ساتھ اسکا کوئی کزن بھی تھا۔شہریار ان سے مل رہا تھا جب اسکے کزن کی نظریں اسنے ماہ نور کے چہرے پر دیکھیں۔جو کچھ فاصلے پر کھڑی آبی کے ساتھ سرگوشیاں کرتی ہنس رہی تھی۔داور بھی انکے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ 

اس شخص کی نظریں نور کے چہرے پر دیکھ کر شہریار کو خوب غصہ آیا۔اسنے اس شخص کو گھورا تو وہ شرمندگی سے سر جھکا گیا۔شہریار دانت پیستا وہاں سے ہٹ کر انکی طرف آیا۔

"چلو ۔۔۔"سنجیدگی سے کہتا وہ انہیں لے کر وہاں سے نکلا۔

راستے میں بھی ان دونوں کی سرگوشیاں جاری تھیں۔نور کی مدھم ہنسی پر وہ ایک دم رک کر اسکی طرف پلٹا۔

"یہ کیا ہر وقت ہنستی رہتی ہو۔لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔چپ کر کے چلو۔۔"وہ آہستہ آواز میں غصے سے بولا۔وہ تینوں حیران ہوئے۔گلی میں انکے علاوہ تو کوئی نہیں تھا پھر شہریار کو کس کے متوجہ ہونے کا خطرہ تھا؟ وہ بات کہہ کر آگے بڑھ گیا جبکہ وہ تینوں حیران سے کھڑے رہ گئے۔ 

"پتہ نہیں مسئلہ کیا ہے انکا۔"نور منہ بسور کر بڑبڑائی۔

"اچھا چلو اب ۔۔۔۔"داور نے انہیں چلنے کا اشارہ کیا۔وہ دونوں تیزی سے اسکے پیچھے چلنے لگیں۔

حویلی پہنچ کر شہریار ام جان اور خان بابا سے مل کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسکی آنکھوں سے وہ منظر نہیں ہٹ رہا تھا جب وہ شخص اتنے مگن انداز میں ماہ نور کو دیکھ رہا تھا۔اسکا دل جلنے لگا تھا۔اسنے کمرہ لاک کیا پھر واش روم کی طرف بڑھا اور شاور کھول کر ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑا ہو گیا تا کہ اسکے جلتے دل کو کچھ سکون ملے۔وہ ماہ نور سے بے رخی برت دیتا تھا۔اس سے دور بھاگتا تھا پر اسے یہ بات بھی گوارا نہ تھی کہ اس لڑکی کو کوئی اور دیکھے۔۔۔کسی اور کی نگاہ میں اسکی صورت ہو یہ بات اسکا دل برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ 

ہوسپٹل کے سرد ماحول میں وہ لوگ بت کی مانند بیٹھے تھے۔تابین کو یہاں لے کر آئے صبح سے شام ہو چکی تھی۔ڈاکٹرز نے اسکی جان تو بچا لی تھی پر بہت سا خون بہہ جانے کی وجہ سے ابھی بھی خطرہ تھا کہ وہ ہوش میں آتی ہے کہ نہیں۔اسلیے اسے آئی سی یو میں ہی رکھا گیا تھا۔

امتل اور حسن آفندی بیٹی کے ٹھیک ہو جانے کی دعائیں کر رہے تھے۔اللہ نے اسے چند سانسیں اور دے دیں تھیں پر خطرہ ابھی ٹلا نہیں تھا۔ 

رات کے سائے پھیل رہے تھے۔جب انہیں بتایا گیا کہ تابین اب خطرے سے باہر ہے۔اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔وہ دونوں اللہ کا شکر ادا کرتے کمرے کی طرف بڑھے۔تابین دواؤں کے زیر اثر نیم بیہوشی کی حالت میں تھی۔اسے خون کی ڈرپ لگی تھی۔رنگت بالکل زرد ہورہی تھی۔امتل آفندی آنسو بہاتی تیزی سے اسکی طرف بڑھیں۔

"میری لاڈلی ۔۔۔"انہوں نے جھک کر تابین کی سرد پیشانی چومی۔حسن آفندی نے بھی آگے بڑھ کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔تابین کو ٹھیک دیکھ کر انکے دل کی گہرائیوں میں سکون اتر آیا تھا۔کچھ تابین کے لیے اور کچھ نازلی کے لیے۔۔۔۔وہ امتل آفندی کی باتوں سے ڈر گئے تھے۔اگر تابین کو کچھ ہوجاتا تو وہ عورت نازلی کے ساتھ کچھ بھی کر گزرتی۔

امتل آفندی تھکی سی بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھیں۔دونوں نے صبح سے ایک نوالہ بھی منہ میں نہیں ڈالا تھا۔اب امتل آفندی کچھ پر سکون ہوئیں تو بھوک کا احساس ہونے لگا۔ 

"حسن کچھ کھانے کے لیے ہی لا دیں ۔۔۔ جسم میں جان نہیں بچی۔"انکی بات پر حسن آفندی سر ہلاتے کمرے سے باہر نکلے۔امتل آفندی خاموشی سے تابین کا چہرہ دیکھتی اسکا ہاتھ تھام کر سہلانے لگیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"پہلے زلف دی "ف" توں لگے فتوے۔۔"

"ول نین دے "ن" تے بس ہوگئی۔۔"

"اساں "د" توں ساقی دلبر پڑھیا۔۔"

"ساڈی عشق دی "ع" تے بس ہوگئی۔۔"

نازلی نے آہستہ سے دکھتی آنکھیں کھولیں۔کتنے ہی پل وہ چھت کو گھورتی رہی۔پھر پلکیں جھپک کر نظریں سامنے دیوار پر ڈالیں۔کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا۔وہاں مکمل سکوت چھایا تھا۔نازلی نے بائیں طرف نظر پھیر کر دیکھا۔وہ جگہ خالی تھی۔کھڑکی کے آگے پردے کھینچے ہوئے تھے۔اسکا دماغ سن سا تھا۔اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں ہے۔اسنے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں جیسے انکے سامنے چھائی دھند کو ہٹانا چاہا تھا۔پھر سر گھما کر دائیں طرف دیکھا۔اسکی نظریں ٹھہر گئیں۔دیوار کے ساتھ رکھے صوفے پر وہ سویا تھا۔سر کے نیچے  کوٹ فولڈ ہوا رکھا تھا۔لمبا چوڑا وجود مشکل سے صوفے پر پورا آرہا تھا۔

وہ جب نازلی کے لیے چیزیں لے کر لوٹا تھا تب اسنے گل جان اور چھوٹی پٹھانی کو اسفی کے ساتھ خان ولا بھیج دیا تھا۔پھر وہ نازلی کے پاس بیٹھا رہا۔اسنے سارا دن کچھ نہیں کھایا تھا۔ نہ ہی اسے کھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اسے بس نازلی کی فکر تھی پر وہ تھی کہ نیلی آنکھیں بند کیے لیٹی اسکے حال سے بے خبر تھی۔

رات کی سیاہی پھیلی تو وہ بوجھل دل کے ساتھ کمرے سے نکل کر باہر لان کی کھلی فضا میں آیا تھا۔آج اسنے کافی وقت بعد سگریٹ جلایا تھا تا کہ اپنے اندر جمع گھٹن کو کچھ کم کر سکے۔سوچوں میں گم جانے وہ کتنے ہی سگریٹ پھونک گیا تھا پر دل کی گھٹن کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی تھی۔

سرد رات میں وہ کتنے ہی پل وہاں کھڑا آسمان کو تکتا رہا۔

پھر جب واپس روم میں آیا تو اس گڑیا کو ہنوز اسی پوزیشن میں پایا۔ آہستہ سے قدم اٹھاتا اسکے قریب گیا۔جھک کر اسکی پیشانی پر لب رکھے پھر کتنے لمحے اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھتا رہا۔نازلی کے سیاہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر سیدھا ہوا پھر پلٹ کر صوفے تک آیا۔کوٹ اتار کر طے کر کے صوفہ کی ایک طرف رکھا۔پھر تھکا سا وہاں لیٹ کر فکر مندی سے نازلی کو دیکھنے لگا۔اسکا سونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا پر اس چہرے کو آنکھوں میں بسا کر جانے کب اسکی سیاہ آنکھیں بھاری ہوتی چلی گئیں۔ 

نازلی بنا پلکیں جھپکے اس شخص کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔اسے دیکھتے نازلی کے دماغ میں آہستہ آہستہ گزرے لمحے زندہ ہونے لگے۔وہ درد ، وہ تکلیف سب کچھ یاد آنے لگا۔بابا جان کا اس پر ہاتھ اٹھانا، اس سے ہر رشتہ توڑ لینا ، امتل آفندی کا بھری محفل میں اس پر اور اسکی ماما پر کیچڑ اچھالا اور لوگوں کی عجیب بولتی نگاہیں ۔۔۔۔ تمام باتیں ذہن میں گھومنے لگیں۔وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔وہ اس شخص کی نظروں سے اتنی دور چلی جانا چاہتی تھی کہ وہ اسے کبھی ڈھونڈ نہ پاتا۔ہاں ۔۔۔ ایک ہی ایسی جگہ تھی جہاں وہ اس شخص سے بھاگ کر جا سکتی تھی اور وہ تھی موت ۔۔۔۔ جی کر وہ کرتی بھی کیا۔کس کے لیے جیتی ؟ اسکے اپنوں نے تو اس سے منہ موڑ لیا تھا۔پھر وہ اس بھری دنیا میں کس کے سہارے جیتی؟ جو شخص اسکا سہارا بنا تھا۔اسکا ساتھ اسے قبول نہ تھا۔وہی تو اسکے اس حال کی وجہ تھا۔وہ اپنی محبت میں اسے بدنام کر گیا تھا۔اسکا تماشہ بنا دیا تھا اور خود ۔۔۔خود وہ کس قدر پر سکون تھا۔

نم آنکھیں ہاشم کے وجیہہ چہرے سے ہٹا کر وہ اٹھ کر بیٹھنے لگی۔پر ڈرپ لگی ہونے کی وجہ سے بازو سے درد کی ٹھسیں اٹھی تھیں۔اسنے سختی سے لب بھینچ کر سسکی کو روکا۔ آہستہ سے کسی طرح اٹھ کر بیٹھی پھر بے خبر سوئے ہاشم پر ایک نظر ڈالی۔

اس شخص کو بنا جگائے اسے یہاں سے نکلنا تھا۔وہ آنسوؤں  بھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔نیلی آنکھوں میں ہاشم کے لیے نفرت ہی نفرت تھی۔اس نفرت نے ایسا جنون بخشا تھا کہ وہ ڈرپوک سی نازلی آج ایسا قدم اٹھانے کا سوچ رہی تھی۔اس شخص نے اسے پانے کے لیے یہ سب کیا تھا ناں ۔۔۔۔پر کیا ہی وہ منظر ہوگا جب وہ اسے پا لینے کے باوجود بھی کھو دے گا۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔ تب اس شخص کو احساس ہوگا کہ وہ اسکی وجہ سے کتنی اذیت سے گزری تھی کہ اسنے موت کو گلے لگا لیا۔تب اسے احساس ہوگا کہ کسی اپنے کو کھو دینا کتنا درد ناک ہوتا ہے۔انسان سانس لینا چاہتا ہے پر ہر سانس بوجھ بن جاتی ہے۔کل سے آج تک وہ مر مر کے جی رہی تھی تو کیوں نہ وہ ایک ہی بار میں مر جاتی۔۔۔۔ہاشم خان کی  موجودگی میں وہ اسی ہوسپٹل کی بلڈنگ سے کود کر اپنی جان دے دیتی  یہی اس شخص سے اسکا انتقام ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے تلخی سے سوچ کر نیلی آنکھیں اسکے چہرے سے ہٹا کر اپنے بازو کو دیکھا جہاں سوئی اسکے بازو کے اندر لگی تھی۔دوسرا ہاتھ بازو کی طرف بڑھا کر اسنے آنکھیں زور سے بھینچیں پھر سوئی کو کھینچ کر باہر نکالا جس کی وجہ سے بازو سے ننھی خون کی بوندیں نکلنے لگیں۔

درد کی شدت سے اسنے لب دانتوں میں دبائے۔کتنے پل اسی پوزیشن میں بیٹھی رہی پھر اپنے اوپر سے چادر اتاری۔بال سمیٹ کر پیچھے کیے ، ہاشم کی دی کالی شال اپنے سر پر اوڑھ کر اچھے سے اپنے گرد لپٹی پھر بیڈ سے نیچے اتری۔اتنے وقت لیٹے رہنے سے اسکی ٹانگیں شل ہوگئی تھیں۔وہ اسکا بوجھ نہیں اٹھا پائیں۔وہ گرنے کو تھی جب جلدی سے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل کو تھام کر سہارا لیا۔اسکا ہاتھ لگنے سے اس پر رکھی چیزیں زمین بوس ہوئیں۔چیزیں گرنے سے اچانک کمرے کی فضا میں شور برپا ہوا۔نازلی نے دانت پیس کر آنکھیں سختی سے بند کر کے کھولیں پھر جلدی سے گردن پھیر کر ہاشم کی طرف دیکھا۔ 

شور کی آواز پر ہاشم کی آنکھیں جھٹ سے کھل گئیں۔وہ ایک دم اٹھ بیٹھا تھا۔سامنے کچھ فاصلے پر نازلی کو کھڑا دیکھ کر جلدی سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھا۔جبکہ نازلی کا دل چاہا وہ ابھی اس شخص کی آنکھوں کے سامنے کسی بھی طرح یہاں سے غائب ہو جائے پر ایسا ہونا نا ممکن تھا۔ 

"کیا ہوا ؟"ہاشم نے آگے بڑھ کر اسے تھاما۔

"کہیں درد ہورہا ہے؟" فکرمندی سے پوچھا گیا۔

"نہیں ۔۔۔"نازلی نے اسکے ہاتھ جھٹکنے چاہے پر ہاشم نے اسے تھام کر بیڈ پر بٹھایا۔ 

"کچھ چاہیے تھا تمہیں؟"ہاشم نے اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے پوچھا۔ پر وہ غصے سے اسکا ہاتھ جھٹک گئی۔چہرے پر بے زاری ہی بے زاری تھی۔اس شخص کی وجہ سے اسکا پلان فلاپ ہوگیا تھا۔وہ تو ایسا اسکے پیچھے پڑا تھا کہ اب تو شاید وہ اسے چین سے مرنے بھی نہیں دے گا۔ 

"نہیں ۔۔۔"وہ سر جھکائے جھنجھلا کر بولی۔ہاشم نے بغور اسکے چہرے کو دیکھا۔اسکا انداز ہاشم کو بہت عجیب لگا۔اسکی  زرد صورت دیکھ کر اسے بہت کچھ کھٹکنے لگا تھا۔ 

"پھر کہاں جا رہی تھی؟"اب کی بار سختی سے پوچھا گیا۔اسکے سول پر نازلی لب چبانے لگی۔چہرے پر پسینہ چمک اٹھا۔

"میں نے پوچھا کہاں جا رہی تھی تم نازلی ہاشم خان؟"وہ چبا کر مدھم آواز میں بولا۔نازلی نے غصے سے لال آنکھیں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو گھورا۔

"مرنے جا رہی تھی میں ۔۔۔ سن لیا آپ نے ؟؟ میں اپنی اس جہنم بنی زندگی کا خاتمہ کرنے جا رہی تھی۔صرف اور صرف آپ کی وجہ سے۔۔۔۔"وہ آہستہ آواز میں غرائی تھی۔اسکا وجود کانپنے لگا تھا۔آنکھوں سے آنسو گرنا شروع ہوگئے تھے۔ 

اسکی بات پر ہاشم کے دل کی دھڑکن ٹھہر گئی۔سیاہ آنکھیں ان نیلی آنکھوں کو دیکھ رہی تھیں۔وہ بیوقوف لڑکی کیا کرنے جا رہی تھی؟ اگر ان چیزوں کے گرنے سے اسکی آنکھ نہ کھلتی تو وہ لڑکی کیا کر گزرتی؟ وہ بے خبر سویا رہتا اور وہ اپنی جان گنوا بیٹھتی۔۔۔۔اگر ایسا ہو جاتا تو کیا پھر وہ جی پاتا؟ کیا وہ ساری زندگی خود کو معاف کر پاتا کہ اسکی موجودگی میں وہ لڑکی ایسا کر گزری تھی اور وہ بے خبر رہا تھا۔

اگر ایسا ہو جاتا تو وہ جیتے جی مر جاتا۔۔۔اس سے کچھ پل کی  دوری کا خیال اسے اندھیروں میں گھیر لیتا تھا پھر یہاں تو وہ اپنی جان لینے کی بات کر رہی تھی۔ہمیشہ کے لیے اس سے دور ہونا چاہتی تھی۔بھلا وہ یہ بات کہاں برداشت کر سکتا تھا۔وہ لڑکی ایسی بیوقوفی آگے بھی کر سکتی ہے۔پر وہ ایسا ہونے نہیں دے گا۔ 

"تم مرنے جا رہی تھی؟"اسنے خود پر ضبط کرتے نازلی کی آنکھوں میں دیکھ کر بھاری آواز میں پوچھا۔ 

"ہاں ۔۔۔"وہ تپ کر بولی۔"کیا چھوڑا ہے آپ نے میری زندگی میں کہ میں زندہ رہوں ہاں ۔۔۔۔ میرے بابا ۔۔۔ میری بہن جن سے مجھے بے پناہ محبت ہے انہیں چھین لیا ناں آپ نے مجھ سے ۔۔۔پھر میں کس کے لیے جیوں؟ کس کے لیے آگ پر چلوں؟انکے بغیر میرا جینا کس کام کا ہے؟"وہ جنونی مگر نم آواز میں بول رہی تھی۔ان سب نے اسے بھی اپنے جیسا بنا دیا تھا کہ آج اس معصوم لڑکی کو یہ نفرت ، یہ جنون اس حد تک لے آیا تھا کہ وہ اپنی جان لینے کا سوچنے لگی تھی۔

"تم آج کے بعد ایسا کچھ بھی کرنے کا نہیں سوچو گی۔۔۔"اسکی بات کو اگنور کر کے ہاشم نے اپنے سخت لہجے کو کسی حد تک نرم کرتے سمجھانے والے انداز میں کہا۔اسکی بات کے جواب میں نازلی تلخی سے مسکرائی۔

"میں ایسا ہی کروں گی۔"وہ سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر ضدی انداز میں بولی۔"میں آج ناکام ہوئی ہوں۔پر میں ہار نہیں مانوں گی۔میں پھر کوشش کروں گی۔۔۔۔اور تب آپ مجھے بچا نہیں پائیں گے ۔۔۔ سمجھے آپ۔"وہ ہذیانی انداز میں بولی۔

اسکی بات پر ہاشم نے ضبط سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔  اگلے پل اسنے تھوڑا نیچے جھک کر اپنا مضبوط ہاتھ نازلی کے سر کے پیچھے رکھ کر اسکا چہرہ اپنے چہرے کے بالکل قریب کیا۔سیاہ غصے سے بھری آنکھیں ان نم نیلی آنکھوں میں گھور رہی تھی۔اسکے اچانک اس قدر قریب ہونے پر نازلی ڈر کے مارے جم سی گئی۔وہ بت بنی تھی جب اسکی مدھم گھمبیر آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔ 

"تم نے اگر دوبارہ ایسی بیوقوفی کرنے کا خواب میں بھی سوچا  تو جن اپنوں کو عارضی طور پر کھو کر تم آنسو بہا رہی ہو۔انہیں تم ہمیشہ کے لیے کھو دو گی۔۔۔"وہ کچھ پل رکا۔

"تمہاری قسم۔۔۔۔انہیں میں زندہ زمین میں گاڑ دوں گا اگر تم نے خود کو ذرا سا بھی نقصان پہنچایا تو۔۔۔سمجھ گئی تم۔۔۔"وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتا چبا چبا کر بول رہا تھا۔نازلی کی آنکھوں میں خوف ہی خوف پھیل گیا۔وہ بنا پلکیں جھپکائے اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ 

"تمہیں پانے کے لیے اتنا کچھ کیا ہے میں نے ۔۔۔۔ دنیا کی پرواہ تک نہیں کی۔۔۔۔۔بس تمہیں چاہا۔۔۔۔اتنا چاہا کہ انتہا کر دی۔تمہارے علاوہ کسی دوسرے کا نہیں سوچا میں نے اور تم ۔۔۔تم سوچتی ہو کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو جاؤ گی۔پر تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ کیا میں تمہیں اتنی آسانی سے خود سے جدا ہونے دونگا؟"وہ مدھم لہجے میں پوچھ رہا تھا۔وہ جواب میں کچھ نہ بولی بس کانپتے وجود کے ساتھ اسکے وجیہہ چہرے کو اپنے اتنے قریب دیکھے گئی۔ 

"میں ایسا بالکل نہیں ہونے دونگا نازلی ہاشم خان ۔۔۔۔یہ بات تم اپنے دل و دماغ میں بٹھا لو۔"اسکا لہجہ بالکل سنجیدہ تھا۔

"تمہاری قسم کھائی ہے میں نے ۔۔۔۔ اور تم میرے عشق سے واقف ہو۔تمہاری جھوٹی قسم تو میں بالکل بھی نہیں کھا سکتا۔تو کچھ بھی کرنے سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھنا کہ  ہاشم خان اپنے ارادوں کا بہت پکا ہے۔وہ جو کہتا ہے کر گزرتا ہے۔۔۔"سپاٹ انداز میں دھمکی دیتا وہ اسکی پتھرائی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔پھر اسے دیکھتے اپنا چہرہ تھوڑا آگے کر کے اسکے گال پر بوسہ دیا۔اسکی اس حرکت پر نازلی کی روح تک کانپ اٹھی۔ہاشم نے تھوڑا پیچھے ہو کر اسکی خوف سے پھیلی  آنکھوں میں دیکھا۔

"اب آرام کرو مسز ہاشم۔"دوسرے ہاتھ سے اسکا گال تھپک کر کہتا وہ ہاتھ پیچھے کرتا سیدھا ہوا۔

جبکہ نازلی برف بنی بیٹھی رہی۔ہاشم نے کتنے پل اسے اسی پوزیشن میں دیکھا تو اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔اسکا ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر نازلی کے بے جان وجود میں جان پڑی تھی۔وہ جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی پھر ہاشم کے  سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پوری قوت سے پیچھے دھکیلا۔

نیلی آنکھیں گہرے سمندر جیسا منظر پیش کر رہی تھیں۔ 

"ہاتھ مت لگایے گا مجھے ۔۔۔۔"وہ روتے ہوئے چبا کر بولی۔

"پھر خود ہی لیٹ جاؤ یا پھر مجھے ہی یہ زحمت کرنی پڑے گی۔"ہاشم نے سپاٹ انداز میں کہا۔اگر وہ اس وقت نرمی برت لیتا تو وہ اسکی بات ہرگز نہ مانتی اسلیے سخت لہجہ اپنایا۔نازلی نے خوف و نفرت کی ملی جھلی کیفیت سے اسے دیکھا پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکیاں دباتی بیڈ پر لیٹی ، چادر کھینچ کر اوپر ڈالی اور اسکی طرف پشت کر کے آنسو بہانے لگی۔

ہاشم نے اسکی پشت کو دیکھا پھر پلٹ کر صوفے پر بیٹھا۔اسے اس وقت سگریٹ کی شدید طلب ہو رہی تھی پر وہ ہوسپٹل کے اندر نہیں پی سکتا تھا۔

اسے وحشت ہونے لگی تھی۔اسنے ہاتھ بڑھا کر شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے۔پھر نیم دراز ہو کر ضبط سے لال ہوتی سیاہ آنکھوں سے چھت کو گھورنے لگا۔نازلی کی بات کو سوچ کر اب بھی اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔اگر اسکی آنکھ نہ کھلتی تو جانے وہ بیوقوف لڑکی کیا کر گزرتی۔

ہاشم کو آج پہلی بار اس سے سخت لہجے میں بات کر کے پچھتاوا نہیں ہوا تھا۔اگر آج وہ اسے سخت الفاظ میں نہ سمجھاتا تو وہ پھر کسی ایسی بیوقوفی کا سوچتی۔آج کی دھمکی کے بعد وہ جانتا تھا کہ وہ اب ایسا کچھ نہیں کرے گی۔اسے عارضی طور پر کھو دینے کی سوچ ہاشم خان کی سانسیں بند کر دینے کے لیے کافی ہوتی تھی پھر وہ اسے ہمیشہ کے لیے کیسے کھو دیتا۔۔۔وہ بھلا کیسے اپنی زندگی کو موت کے حوالے ہونے دیتا۔۔۔۔۔۔وہ غم و غصے سے سوچ رہا تھا۔ 

دوسری طرف اسکی باتوں کو سوچ کر بیڈ پر لیٹی نازلی آہستہ آواز میں رو رہی تھی۔گال پر ہاتھ رکھے کبھی اسکی جسارت کا سوچ کر آنسو بہاتی تو کبھی اسکی اس قدر خطرناک دھمکی پر روتی۔۔۔اسکی قسمت میں تو جیسے آنسو ہی آنسو لکھے تھے۔جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔وہ جتنے آنسو بہاتی تھی اس سے دگنے آنسو اسکی پلکوں کے پیچھے چھپے ہوتے جو ہر وقت بہنے کے لیے بے تاب ہوتے۔اسکے آنسوؤں کے خزانے میں کبھی کمی نہیں ہوئی تھی۔اس معاملے میں وہ ہمیشہ امیر رہی تھی۔ 

ہاشم کی دل دہلا دینے والی باتوں پر نازلی کی روح فنا ہونے لگی تھی۔اُسنے اسکی قسم کھائی تھی اور وہ شخص واقعی کبھی اسکی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا تھا یہ بات وہ اچھے سے جانتی تھی۔اگر کبھی دوبارہ ہاشم کو اسکے کسی ایسے ارادے کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ اپنا کہا سچ کر دکھائے گا۔

وہ لڑکی تو جیتی ہی اپنوں کے لیے تھی پھر بھلا اپنی موت کی وجہ سے وہ اپنے پیاروں کو کیسے مشکل میں ڈال دیتی؟وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ 

اس شخص نے تو اسکی آزادی کی آخری راہ بھی بند کر ڈالی تھی۔اب اسے اس جہنم میں جینا ہوگا۔ہر حال میں اس شخص کے ساتھ رہنا ہوگا کیونکہ اس کے علاوہ اسکے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا پر۔۔۔۔ پر وہ اللہ سے دعا تو کر سکتی تھی ناں کہ وہ اسے قدرتی موت دے دیتا تا کہ اسکی جان اس عذاب سے چھوٹ جاتی۔ ہاں وہ ایسا تو کر ہی سکتی تھی ناں ۔۔۔۔۔۔۔

وہ دل ہی دل میں اللہ سے اپنے لیے موت مانگنے لگی۔

وہ جانتی تھی کہ یہ غلط بات تھی۔زندگی اللہ کی دی سب سے بڑی نعمت ہے۔پر اسکے لیے زندگی نعمت کی جگہ زحمت بن گئی تھی۔ان دنیا والوں نے اسے زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔

وہ تنگ آ چکی تھی اس مسلسل عذاب سے۔۔۔بہت تھک چکی تھی۔۔۔ اب بس سکون سے سو جانا چاہتی تھی۔

کسی ایسے جہان میں جانا چاہتی تھی جہاں کوئی بھی اسکے ساتھ کھیل نہ سکے۔جہاں اسے دنیا والوں کی باتیں اسے پل پل نہ ماریں۔جہاں کوئی جمال آغا کوئی امتل آفندی کوئی ہاشم خان نہ ہو ۔۔۔۔یہی سب سوچتے اسکی آنسو بہاتی آنکھیں آہستہ آہستہ بوجھل ہونے لگی۔وہ روتے روتے سو چکی تھی۔ایک آنسو پلکوں پر ہی اٹکا رہ گیا۔اتنا رونے سے اسکا چہرہ گلابی ہورہا تھا۔ 

ہاشم گہری سانسوں کی آواز پر سیدھا ہو بیٹھا۔چہرے پر ہاتھ پھیر کر جیسے اسنے اپنی تھکان دور کرنی چاہی۔پھر گہری سانس کھینچ کر آہستہ سے اٹھ کر نازلی تک آیا۔ 

اسکے چہرے کو دیکھ کر ہاتھ بڑھایا پھر پلکوں پہ ٹھہرا آنسو انگلی کی پور پر لیا۔کتنے پل وہ اس شفاف موتی کو مگن سا دیکھتا رہا پھر جیب سے رومال نکال کر اس شفاف قطرے کو رومال میں جذب کیا۔رومال کو کسی قیمت چیز کی طرح واپس جیب میں ڈالا۔پھر آہستہ سے نازلی کا بازو تھام کر سیدھا کیا۔اسکے بازو سے خون بہہ رہا تھا۔سائیڈ ٹیبل سے روئی لے کر وہ خون کی بوندیں صاف کرنے لگا۔

خون صاف کر کے اسنے بینڈیج لے کر بازو پر لگایا پھر اسکا بازو چادر کے اندر کر کے چادر ٹھیک کی۔

کچھ پل اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔جو کچھ ہوا تھا اسکے بعد اسکی نیند اڑ گئی تھی۔وہ خاموش نظروں سے بیڈ پر لیٹی اس گڑیا کو دیکھتا رہا۔جو اس سے منہ موڑ کر لیٹی تھی۔ہاشم کو ڈر تھا کہ اِدھر اگر اسنے پلک بھی جھپکی تو اُدھر کہیں وہ لڑکی اٹھ کر کوئی بیوقوفی نہ کر بیٹھے۔اسی ڈر میں آج اسکی باقی کی رات گزرنے والی تھی۔ 

"ساتھ دل کے چلے، دل کو نہیں روکا ہم نے۔"

"جو نہ اپنا تھا اسے ٹوٹ کے چاہا ہم نے۔"

"ایک دھوکے میں کٹی عمر ہماری ساری۔"

"کیا بتائیں کسے کھویا کسے پایا ہم نے۔"

رات کا جانے کون سا پہر تھا جب تابین کی آنکھ کھلی۔وہ نیم اندھیرے کمرے کو کتنے ہی پل گھورتی رہی۔پھر آہستہ سے  گردن پھیر کر صوفے پر سوتی ماں کو دیکھا پھر نظریں پھیر کر  چھت کو گھورنے لگیں۔کلائی سے اٹھتی ٹھسیں اسے محسوس نہ ہوئیں جتنا دل کا درد محسوس ہورہا تھا۔اس پر تو موت بھی مہربان نہیں ہوئی تھی۔اس شخص کو کھو کر بھی اسکی سانسیں چل رہی تھیں۔موت نے اسے زندگی کی طرف واپس دھکیل دیا تھا تا کہ وہ ان دونوں کو ایک ساتھ سوچ کر پل پل مرتی رہے۔

گزرے دن کے تمام مناظر یاد کر کے اسکی آنکھوں سے آنسو گر کر بالوں میں جذب ہونے لگے۔ 

وہ لوگ جیت گئے تھے اور اسکی برسوں کی محبت ہار گئی تھی۔وہ اسے اتنا چاہ کر بھی خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔ہاشم خان نے نازلی سے محبت کی اور اسے اسکی محبت مل گئی تھی۔جب اسے اسکی کچھ عرصے کی محبت مل گئی تھی تو تابین کو اسکی برسوں پرانی محبت کیوں نہ ملی؟۔۔۔۔۔کاش کہ وہ اسے مل جاتا تو آج وہ اس حال میں نہ ہوتی۔آج اسکی ہر سانس پر دل سے آہ نہ نکلتی۔

اسکی رگ رگ میں خون درد بن کر دوڑتا اسکے جسم کو چور نہ کر رہا ہوتا۔وہ کون کون سا درد بیان کرتی۔۔۔۔سارا وجود ہی چُور چُور ہوا تھا۔اسکا دکھ ناقابل برداشت تھا۔

ایک زمانے سے وہ اس شخص کو چاہتی آئی تھی اور اب اچانک اسے کوئی اور لے گئی تھی۔۔۔۔لے جانے والی بھی کون تھی؟

 اسکی اپنی بہن ۔۔۔جس سے ماں کے بدگمان کرنے کے باوجود  وہ نفرت نہیں کر پائی تھی۔وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ نازلی تو اتنی بے ضرور سی ہے پھر جانے کیوں ماما اسکے بارے میں ایسا سوچتی ہیں۔

پر آج اسے سمجھ آئی تھی کہ ماما بالکل ٹھیک کہتی تھیں۔وہ اسکی بہن نہیں تھی۔وہ اس چالاک عورت کی بیٹی تھی جس نے ماما سے بابا کو چھینا تھا اور آج اس عورت کی بیٹی نے اس سے اسکی محبت چھین لی تھی۔اسے نازلی سے بے انتہا نفرت محسوس ہونے لگی۔اسکا تابین کے لیے محبت بھرا انداز ڈھونگ تھا۔۔۔۔سب ناٹک تھا ۔۔۔۔ نازلی دکھاوا کرتی تھی محبت کا  اور وہ پاگل اسکی محبت کر پر یقین کر لیتی۔۔۔۔۔کتنی اندھی تھی ناں وہ کہ اسے اس پر ذرا شک نہ ہوا تھا کہ وہ اس سے ہاشم خان کو چھین سکتی ہے۔

آج وہ تمام لمحے اسکی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب ہاشم اور نازلی ایک ساتھ تھے۔کتنی بیوقوف تھی وہ ۔۔۔۔اس شخص کو پانے کی خوشی میں وہ اندھی ہوگئی تھی کہ انکی سچائی نہ سمجھ پائی۔ اپنی غفلت اور ان لوگوں کے دھوکے پر اسکا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ 

انکے خیال پر تابین نے دانت پیسے۔آنسوؤں بھری آنکھوں میں نفرت چمکنے لگی۔اسنے ہاتھ بڑھا کر آنسو صاف کیے۔بس اب وہ انکی وجہ سے بہت رو چکی۔۔۔۔۔ اب انکی باری تھی کہ وہ جان لیتے کہ تابین کوئی کھلونا نہ تھی جسکے ساتھ وہ دونوں کھیل گئے تھے۔

"تم مجھے نہیں ملے ناں ہاشم خان ۔۔۔۔"اسنے دل میں ہاشم کو مخاطب کیا۔"تمہیں میں نے کھو دیا پر اب دیکھنا تم بھی اسے کھو دو گے۔میں نے تو تمہیں کبھی پایا ہی نہیں تھا ہاشم خان پر پھر بھی دیکھو تمہیں کھونے کا دکھ کتنا عظیم ہے کہ درد نے  میرے  وجود کو سو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اور ہر ٹکڑے کی اذیت میری روح کو نئے انداز میں گھائل کر رہی ہے۔پر سوچو تم تو اسے پا چکے ہو ناں پھر اسے پاکر کھو دینے کا احساس کیا ہوگا؟ کس قدر جان لیوا احساس ہوگا کہ تم نہ جی سکو گے نہ مر سکو گے۔انتہائے عشق میں محبوب کو کھو دینے کا احساس تمہیں تابین حسن آفندی دلائے گی۔پل پل تم دونوں کو میں نے ایسی ہی اذیت نہ دی جس سے میں خود گزر رہی ہوں تو تم لوگ میرا نام بدل دینا۔۔۔۔"وہ نفرت کی انتہاؤں پر تھی۔

ان دونوں سے اسے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی پر اس قدر نفرت کے عالم میں بھی محبت کی لو روشن تھی۔اچانک اس شخص کا مغرور چہرہ اسکی دکھتی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو دل تڑپ اٹھا ، آنکھیں پھر سے سیلاب ہوئیں۔وہ اس شخص سے نفرت اور محبت کی عجیب کیفیت میں تھی۔ایک پل دل کرتا کہ اسے جان سے مار ڈالے تو اگلے پل اسے دل میں چھپا لینا چاہتی تھی۔یہ وہ کس راستے پر آ رکی تھی؟جہاں اسے اپنی ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

"کمال شخص تھا جس نے مجھے تباہ کیا۔۔"

"خلاف اسکے یہ دل ہو سکا ہے اب بھی نہیں ۔۔"

ایک طرف اسکی نازلی کے لیے شدید نفرت تو دوسری طرف ہاشم کے لیے نفرت و محبت کے ملے جھلے جذبات تھے۔۔۔۔۔اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی دل تھا کہ اس شخص کے خلاف نہیں جا رہا تھا۔

اسکے پاگل دل کو آج بھی وہ شہزادہ چاہیے تھا۔دل کرتا نازلی کو اس کی زندگی سے ایسے نکال باہر کرے کہ کبھی کسی کی زبان پر بھولے سے بھی اسکا ذکر نہ آئے اور پھر وہ خود اس مغرور شہزادے کی شہزادی بن کر اسکے سنگ چلی جائے۔سب کچھ کتنا حسین ہو جائے اگر وہ شہزادہ اسے ملے۔ اس سوچ پر وہ مدھم سا مسکرائی پر پھر ایک دم اسکی مسکراہٹ مانند پڑی۔

حسین تو سب کچھ تب ہوتا جب ایسا ہو پاتا ۔۔۔۔جب وہ اسے مل جاتا پر  وہ اسے ملتا ہی تو نہیں تھا ناں ۔۔۔۔ یہی تو اس دیوانی کے دل کا روگ تھا۔وہ تو کسی اور کا ہو گیا تھا۔ 

اس خیال پر پھر سے اسکے ذہن پر نفرت کے جذبات غالب ہوئے۔وہ محبت اور نفرت کی کشمکش میں پھنسی تھی۔

افف یہ محبت بڑی ظالم شے ہے جسنے اچھے اچھوں کو دیوانہ کر چھوڑا تھا۔وہ بھی دیوانی ہوگئی تھی۔جانے اپنی اس دیوانگی میں وہ کس حد تک چلی جائے گی۔۔۔۔۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا۔"

"تو بھی ابھی ناتمام ہے ، میں بھی ابھی نا تمام ہوں۔"

خان بابا صبح جلدی ہی ڈرائیور کے ساتھ شہر کی طرف روانہ ہوئے تھے۔دوسری طرف ان لڑکیوں کی تیاری چل رہی تھی۔آج اسماء کی بارات تھی۔ویسے تو ام جان نے بھی جانا تھا پر انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسلیے وہ دونوں ہی جانے والی تھیں۔ 

شہریار ، ام جان کے ساتھ ہال میں بیٹھا تھا۔جب نور اپنا ایئر رنگ ٹھیک کرتی وہاں آئی۔

"ام جان آپکے لیے جوس لے آؤں۔"وہ آگے بڑھ کر ماں کے پاس بیٹھی۔

"نہیں بیٹا۔"ام جان نے آہستہ سے نہ میں سر ہلایا۔ 

"ام جان کتنی کمزور ہوگئی ہیں آپ ۔۔۔کھائیں پئیں گیں نہیں تو طبیعت کیسے ٹھیک ہوگی۔"انکے ہاتھ تھام کر وہ محبت سے بولی۔

"تم جوس لے کر آؤ۔۔۔میں خود ام جان کو پلاتا ہوں۔"شہریار نے نور کو دیکھ کر کہا۔نور سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"نہیں شہریار میرا دل نہیں کر رہا۔"ام جان کی بات پر شہریار انکے پاس آ کر بیٹھا۔ 

"پیاری ام جان آپ اگر ٹھیک نہیں ہونگی تو ہم سب کا کیا ہوگا؟اور اگر آپ نے کھانا پینا چھوڑا تو میں بھی کچھ نہیں کھاؤں گا۔"وہ خفگی سے بولا۔ام جان نے لمبی سانس کھینچ کر اسے دیکھا۔"اچھا ٹھیک ہے لے آؤ۔۔۔ویسے بھی تم سب اپنی ہی کرتے ہو۔"ام جان جھنجھلا کر بولیں۔شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔جبکہ اسے دیکھتی نور جلدی سے نظر پھیر گئی۔افف اس شخص کا بے ساختہ مسکرانا اسکے دل کی دھڑکن بڑھا گیا تھا۔اسکا ام جان کے ساتھ محبت بھرا انداز ہمیشہ ماہ نور کے دل میں دیے سے روشن کر جاتا تھا۔وہ شخص اسکے ماں ، باپ کی بہت عزت کرتا تھا اور یہ چیز ماہ نور کی نظروں میں اسکی عزت ، اسکی محبت اور بڑھا دیتی تھی۔

"ماہ نور جاؤ جوس اور ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھی لے کر آؤ۔"شہریار نے اسے دیکھ کر کہا۔ 

"میں ابھی لاتی ہوں۔"وہ جلدی سے کہتی دل کو قابو کرتی وہاں سے جانے لگی۔شہریار نے اسکی پشت کو دیکھا۔

لال لباس ، کھلے بال اور لبوں پر لال لپ اسٹک ، آج اسنے ہیلز کی جگہ کھسے پہنے تھے۔لال رنگ میں وہ لڑکی قیامت ڈھا رہی تھی۔اچانک شہریار کو وہ شخص یاد آیا جو مہندی کے فنکشن میں اسے دیکھ رہا تھا۔وہ تو آج بھی وہیں ہوگا اور ۔۔۔۔۔۔

شہریار نے اس سوچ پر دانت پیسے۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ماہ نور شادی میں جائے پر وہ ایسا کیا کرے کہ وہ وہاں نہ جائے؟ 

ام جان نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور خان بابا کے بارے میں بتانے لگیں کہ وہ شہر اپنے دوست سے ملنے گئے ہیں اور شام تک آئیں گے۔کچھ دیر بعد ماہ نور سینڈوچ اور جوس لے کر آئی۔شہریار نے ام جان کے نہ نہ کرنے کے باوجود انہیں سب کھلایا تھا پھر ماہ نور انہیں آرام کرنے کے لیے کمرے میں لے گئی۔ام جان کو چھوڑ کر واپس ہال میں آئی تو شہریار وہاں موجود نہ تھا۔وقت کافی ہو چکا تھا اور انہیں شادی میں جانے کے لیے نکلنا تھا۔وہ تو آج ڈر کے مارے جلدی تیار ہوگئی تھی پر کمرے میں موجود آبی صاحبہ اپنی تیاری مکمل کرنے میں لگی تھی۔داور اپنے دوست کی طرف گیا تھا۔ورنہ وہی انہیں اسماء کے گھر لے جاتا اور وہ شہریار کے ساتھ جانے سے بچ جاتیں۔نور ، شہریار کے ہاتھوں ہوئی کل والی عزت افزائی بھولی نہیں تھی۔پر کیا کرتی داور تھا نہیں تو شہریار کے ساتھ جانا اسکی مجبوری تھی۔وہ داور کو آج ہی دوست کی طرف جانے پر کوستی شہریار کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تا کہ اسے جانے کا کہے۔ 

اسنے دروازے پر دستک دی۔"آجائیں۔۔"اجازت ملنے پر وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔شہریار بیڈ پر بیٹھا موبائل کے ساتھ لگا تھا۔اسنے سر اٹھا کر نہ دیکھا۔وہ جانتا تھا کہ ماہ نور میڈم ہی ہوگی۔شہریار نے سوچا تھا کہ وہ انہیں وہاں لیٹ لے کر جائے گا تا کہ انکے جاتے ہی دلہن کی رخصتی ہو جائے پھر وہ انہیں لے کر واپس گھر آجائے گا۔اس طرح وہ لڑکی لوگوں کی نظروں سے بچ جائے گی۔۔۔۔یہاں لوگوں سے مراد وہ لڑکا تھا جو ماہ نور کو دیکھ رہا تھا۔شہریار دل میں بھی اس بات کو نہیں مان رہا تھا کہ وہ اس ایک شخص کی وجہ سے ایسا کر رہا تھا تبھی سوچوں میں بھی وہ ماہ نور کو اس ایک شخص نہیں بلکہ لوگوں سے بچانا چاہتا تھا۔

"شہریار ۔۔۔"نور کے پکارنے پر وہ چونکا پر سر اٹھا کر نہ دیکھا۔

"ہوں ۔۔۔"اسنے خود کو مصروف ظاہر کیا۔ 

"اسماء کے گھر جانا ہے۔دیر ہورہی ہے۔"اسنے آہستہ آواز میں کہہ کر شہریار کے جھکے سر کو دیکھا۔

"اچھا ۔۔۔ "اسنے مختصر جواب دیا۔ 

"تو کب تک جائیں گے؟"

"تم لوگ تیار ہو؟"شہریار نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔

"تیار ہیں تبھی تو جانے کا کہہ رہی ہوں۔"نور اسے موبائل میں مگن دیکھ کر جھنجھلا کر بولی۔جانے موبائل میں ایسا کونسا خزانہ تھا جو وہ سر اٹھا ہی نہیں رہا تھا۔

"اچھا ۔۔۔"پھر سے دماغ خراب کر دینے والا جواب آیا۔نور کو ایک دم غصہ آیا۔

"آپ اس موبائل کو رکھ کر ٹھیک سے میری بات کا جواب دینگے یا نہیں ؟؟"اسنے تپ کر پوچھا۔

"نہیں ۔۔۔"سنجیدہ سا جواب آیا۔سر ہنوز جھکا تھا۔نور نے ضبط سے اسے دیکھا۔وہ یہاں لڑائی کرنے نہیں آئی تھی پر یہ  شخص اسے اکسا رہا تھا۔نور نے دماغ کو ٹھنڈا کیا پھر بولی۔

"رخصتی ہو جائے گی شہریار تو پھر کیا ہم وہاں جا کر گھر کی صفائی کریں گے؟"وہ ضبط سے اسے دیکھنے لگی۔

"گڈ آئیڈیا ۔۔۔۔یہی کر لینا۔"اب سر اٹھا کر چڑانے والے انداز میں کہا گیا۔

"داور یہاں ہوتا تو میں آپکو کبھی نہ کہتی۔"اسکی بات کے جواب میں وہ چبا کر بولی 

"افسوس کہ داور یہاں نہیں ہے۔"شہریار نے شعلہ بنی اس لڑکی کو دیکھ کر مگن انداز میں کہا۔

"ٹھیک ہے آپ نے نہیں لے کر جانا تو بیٹھے رہیں اس موبائل کو لیے۔۔۔۔ ہم خود ہی چلے جائے گے۔"وہ غصے سے کہتی پلٹ کر جانے لگی جب شہریار ایک دم موبائل بیڈ پر پھینکتا اٹھ کر اس تک آیا پھر سختی سے اسکا بازو تھاما۔

"تمہیں وہاں جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟وجہ کیا ہے اسکے پیچھے؟"اسنے چبا کر پوچھا۔نور نے حیرت سے اسکے بدلے انداز کو دیکھا۔

"کیا مطلب ۔۔۔آپکی بات سمجھی نہیں میں؟"وہ الجھی تھی۔اسکی صورت کو دیکھ کر شہریار ایک دم ہوش میں آیا۔اسکے دل میں چھپی بات اسکی زبان تک آنے لگی تھی۔پر وہ جلدی سے سنبھل گیا۔

"میری بات کا کوئی مطلب نہیں۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔

"تھوڑی دیر رک جاؤ۔میں تیار ہو کر آتا ہوں۔"اسکا بازو چھوڑتا وہ پلٹ کر الماری کی طرف بڑھا۔نور نے نہ سمجھی سے اسکی پشت کو دیکھا۔جبکہ شہریار نے منہ پر ہاتھ پھیرا۔شکر ہے اسکی زبان سے کچھ اور نہیں نکل گیا تھا۔اگر وہ لڑکا ماہ نور کو دیکھ رہا تھا تو اس میں اسکی کیا غلطی تھی۔وہ تو اس بات سے انجان تھی۔وہ بھی جانے کیا کیا سوچ رہا تھا۔سر جھٹک کر اسنے پیچھے دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔لمبی سانس کھینچ کر وہ تیاری کرنے لگا۔ 

شادی والے گھر پہنچ کر نور اور آبی تو دوستوں میں گِھر گئیں جبکہ شہریار اس تمام وقت میں بے چین ہی رہا تھا۔رخصتی ہوگئی تو شہریار نے شکر ادا کیا کہ اب وہ انہیں لے کر گھر جا سکتا ہے اور زیادہ سکون اس بات کا تھا کہ اسے وہ منحوس لڑکا کہیں نظر نہیں آیا تھا۔اسنے دور کھڑی آبی کو اپنے پاس بلایا۔

"اب چلیں۔"اسنے پوچھا۔

"جی لالہ۔۔۔۔میں ابھی نور کو بلاتی ہوں۔"وہ کہہ کر جانے لگی جب دور سے نور کو اپنی طرف آتے دیکھ کر رک گئی۔شہریار کی نظریں بھی اس پر تھیں۔اچانک نور کے پیچھے اسے وہ شخص نظر آیا۔شہریار کے اعصاب تن گئے۔اس شخص نے نیچے جھک کر کچھ اٹھایا پھر تیزی سے نور کے ہم قدم ہوا۔اسنے کچھ کہا تو نور روک گئی۔پھر مسکرا کر اسکے ہاتھ سے وہ چیز لی۔دور سے شہریار کو معلوم نہ ہوا کہ وہ کیا چیز تھی۔پر ان دونوں کو مسکرا کر بات کرتے دیکھ کر اسکے وجود سے آگ نکلنے لگی۔اسنے خود پر ضبط کر کے بھری آواز میں آبی سے کہا۔"جاؤ اسے بلا کر لاؤ۔"اسکی حالت سے انجان آبی جی کہتی آگے بڑھ گئی۔ 

"تھینک یو۔۔۔"نور نے سامنے کھڑے اس شخص کا شکریہ ادا کیا۔جسنے نیچے سے اسکا جھمکا اٹھا کر دیا تھا۔ 

"کوئی بات نہیں۔۔۔"وہ بھی جواباً مسکرایا۔پھر وہاں سے دوسری طرف بڑھ گیا۔نور سر جھٹک کر آگے بڑھی تبھی اسنے آبی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ 

"چلو ۔۔۔ لالہ نے جانے کا کہا ہے۔"وہ اسے دیکھ کر جلدی سے بولی۔"اہم ۔۔۔اس لڑکے نے کیا دیا ہے تمہیں۔"وہ آنکھیں مٹکا کر بولی۔اسکے شوخ انداز پر نور نے اسکے سر پر چپت لگائی۔ 

"بدتمیز ۔۔۔ میرا جھمکا گر گیا تھا وہ اٹھا کر دیا ہے اسنے۔" اسنے ہاتھ میں پکڑا جھمکا آبی کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔

"اوہ ۔۔۔۔"آبی ایک دم ہنسنے لگی۔

"ہنسی بند کرو اور چلو جلدی ورنہ تمہارے لالہ صاحب اپنے جن والے روپ میں آجائیں گے اور پھر ہماری خیر نہیں ہوگی۔"نور  اسکا بازو تھام کر آگے بڑھی۔جہاں وہ انکا انتظار کر رہا تھا۔

نور کو اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ غصے بھری ایک نظر اس پر ڈال کر پلٹ کر باہر نکل گیا۔نور نے حیرت سے اسکی آنکھوں سے نکلتے شعلوں کو دیکھا تھا۔پھر سوچنے لگی جانے ان صاحب کو کیا ہوگیا۔

وہ آبی کے ساتھ باہر نکلی۔آج وہ انہیں گاڑی میں لے کر آیا تھا۔وہ گاڑی میں بیٹھا انکا انتظار کر رہا تھا۔آبی نے اسے فرنٹ سیٹ کی جانب دھکیل دیا اور خود پیچھے بیٹھی۔ 

انکے بیٹھتے ہی شہریار نے کار آگے بڑھا دی۔کچھ دیر میں وہ گھر پہنچے۔گاڑی پورچ میں رکی۔آبی تو ہیلز کی وجہ سے تنگ تھی اسلیے جلدی سے اتر کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔نور اپنا دوپٹہ سنبھالتی نکلنے لگی جب شہریار نے اسکا بازو پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔اسکی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ نور کا بازو دکھنے لگا ۔ 

"کیا مسئلہ ہے شہریار ۔۔۔۔ چھوڑیں میرا بازو۔"اسنے دوسرے ہاتھ سے شہریار کا ہاتھ ہٹانا چاہا پر کامیاب نہ ہوئی۔جبکہ وہ لال غصے بھری آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ 

"لوگوں سے ہنس ہنس کر بات کرنا تمہیں بہت پسند ہے؟"وہ چبا کر بولا۔اسکی بات سمجھے بغیر نور نے تپ کر جواب دیا۔ 

"کروں گی میں سب سے ہنس ہنس کر باتیں ۔۔۔۔ آپکو کیا مسئلہ ہے۔"وہ غصے سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ اسکا یہ انداز ماہ نور کو ذرا نہیں بھایا تھا۔ایک اپنے بازو پر اسکی سخت گرفت اوپر سے اسکے بے معنی سوال ۔۔۔ وہ جھنجھلا گئی تھی۔ 

اسکی بات پر شہریار نے اسکے بازو کو سختی سے دبوچا۔

"مجھے درد ہورہا ہے۔چھوڑیں میرا بازو۔"اسنے غصے سے شہریار کے ہاتھ پر چپت لگائی۔بازو کی تکلیف پر اسکی آنکھوں میں آنسو جما ہونے لگے تھے۔شہریار نے اسکی آنکھوں میں دیکھا پھر جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا۔نور نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے ایک نظر اسے دیکھا پھر کار سے باہر نکلی۔دھڑام سے کار کا دروازہ بند کیا اور اندر کی طرف بھاگ گئی۔

شہریار نے لب بھینچ کر اسٹیرنگ وہیل سے سر ٹیک لیا۔اسے اپنی سمجھ نہیں آرہی تھی۔وہ آخر چاہتا کیا تھا ؟ کیوں وہ اس طرح ری ایکٹ کر رہا تھا۔اگر اسے ماہ نور کی محبت قبول نہ تھی اور بقول اسکے اسے ماہ نور سے محبت بھی نہ تھی تو وہ کیوں اس طرح جل رہا تھا اور ساتھ اس لڑکی کو بھی جلا رہا تھا۔

محبت نہ تھی؟؟ کیا واقعی محبت نہ تھی ؟؟ دل ایک ہی سوال پر اٹک گیا تھا۔جسکا جواب شہریار کے پاس نہ تھا۔ 

"میرے اندر کوئی ناراض لڑکی۔"

"میری ہر پیش کش ٹھکرا رہی ہے۔"

"مجھے کیا زندگی سے لینا دینا۔"

"مجھے کیوں زندگی الجھا رہی ہے۔"

اگلے دن نازلی خاموش سی تھی۔ہاشم نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی۔کل وہ نازلی کے لیے ڈریسز لے کر آیا تھا۔باقی تو گل جان کو دے کر گھر بھیج دیے تھے۔ایک ڈریس نازلی کے پہننے لے لیے یہیں چھوڑ دیا تھا۔نازلی کو ہوسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔کچھ دیر میں وہ گھر جانے والے تھے۔ 

ہاشم نے گھڑی دیکھی۔صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔اسنے ٹیبل سے شاپنگ بیگ اٹھایا پھر اٹھ کر نازلی کی طرف بڑھا۔

نازلی سر جھکائے بیڈ پر بیٹھی تھی۔اسنے خاموشی سے شاپنگ بیگ نازلی کی گود میں رکھا۔نازلی نے سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"کپڑے ہیں ۔۔۔ چینج کرلو۔"مدھم آواز میں کہہ کر وہ جانے کے لیے پلٹا۔نازلی نے اسکی پشت کو دیکھا۔"میں پے منٹ کرنے جا رہا ہوں۔"اسنے نازلی کی سوالیہ نظریں اپنی پشت پر محسوس کر کے بنا پلٹے بتایا تھا۔ 

وہ کمرے سے باہر نکلا تو نازلی نے نظر گود میں رکھے بیگ پر ڈالی۔ہاتھ بڑھا کر اندر سے لائٹ پنک رنگ کا ڈریس نکالا۔پھر ایک نظر اپنے وجود سے لپٹے لہنگا شرٹ کو دیکھا۔وہ جلد سے جلد  ان کپڑوں سے نکلنا چاہتی تھی۔

اپنے وجود پر اس ڈریس کو دیکھ کر اسکا دل بھاری ہونے لگا۔اسنے پلکیں جھپکیں پھر بیڈ سے اتر کر کپڑے ہاتھ میں لے کر واش روم کی طرف بڑھی۔

وہ چینج کر کے باہر آئی۔لہنگا شرٹ کو طے کر کے شاپر میں ڈالا۔پھر نظریں پھیر کر کمرے کو دیکھا۔کل سے اس کمرے کو دیکھ کے وہ اکتا چکی تھی۔ہاشم کو جانے کتنا وقت لگنے والا تھا۔وہ آہستہ سے آگے بڑھی پھر دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکلی۔ 

اسنے آس پاس نظر دوڑائی پھر آگے بڑھ کر کوریڈور میں ایک طرف رکھے بینچ پر بیٹھ کر ہاشم کا انتظار کرنے لگی۔ 

اداس سی بت بنی بیٹھی وہ زمین کو گھور رہی تھی۔اسے نہیں معلوم تھا کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔وہ اپنے غم میں ڈوبی تھی۔جب انسان اپنے غم میں ڈوبا ہو تو اسے آس پاس کی ہوش نہیں رہتی۔نازلی بھی گزرے وقت کو سوچتی خاموش بیٹھی تھی۔آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی پر آنسوؤں پر اسکا بس نہیں چل رہا تھا۔

وہ کوریڑور سے گزر رہے تھے جب انکی نظر بینچ پر بیٹھی اس لڑکی پر پڑی۔وہ زمین پر نظریں جمائے آنسو بہا رہی تھی۔جانے کیوں پر انہیں اسکا یوں رونا اچھا نہ لگا۔

جانے اس لڑکی میں کونسی کشش تھی کہ وہ آگے بڑھ کر اسکے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئے۔

نازلی مگن سی آنسو بہانے میں مصروف تھی جب کوئی اسکے ساتھ آ کر بیٹھا۔وہ ایک دم چونکی تھی۔نم آنکھوں کے ساتھ جلدی سے گردن پھیر کر دائیں طرف دیکھا۔اسکے ساتھ بیٹھنے والے کوئی بزرگ تھے۔سفید بال اور داڑھی مونچیں ، سفید لباس میں کندھوں کے گرد شال لپٹی تھی۔

انکی شخصیت بہت با وقار اور با رعب قسم کی لگ رہی تھی۔نازلی کے حیرت سے دیکھنے پر وہ ہلکے سے مسکرائے۔

"آپ رو کیوں رہی ہیں؟"انہوں نے نرمی سے پوچھا۔نازلی خاموشی سے انہیں دیکھے گئی ۔انکے چہرے پر بہت نور تھا۔انہیں دیکھ کر نازلی کو سکون مل رہا تھا۔

انکے سوال پر وہ کتنے پل خاموش رہی۔بھلا وہ ایک اجنبی شخص کو کیا بتاتی کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔۔۔۔۔

پر پھر انکی شخصیت کے جادو کے زیر اثر اسکے لب خود بخود ہلے تھے۔"مجھے بابا کی یاد آرہی ہے۔"اسنے انہیں دیکھ کر روندھی آواز میں کہا۔

"تو آپ جا کر ان سے مل لیں۔پر ایسے روئیں نہیں۔"وہ شفقت سے اسکا سر تھپک کر بولے۔بالکل ایسے جیسے سامنے انکی اپنی بیٹی بیٹھی ہو۔ 

"ہاں مل لونگی۔"وہ نظریں پھیر کر اداسی سے بولی۔پھر خاموشی سے اپنے ہاتھوں کو گھورنے لگی۔

"ویسے آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہیں؟"وہ اتنا بولتے نہیں تھے۔پر اس لڑکی کو یوں اداس دیکھ کر انسے رہا نہیں گیا۔

"میں ۔۔۔"نازلی بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوئی۔کیا کہتی کہ وہ کس کے انتظار میں بیٹھی ہے؟ایک ایسے شخص کے انتظار میں جسنے اسے برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ 

"میں اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہوں۔"اسنے مدھم آواز میں بتایا۔

"اپنے شوہر کا انتظار ضرور کریں ۔۔ پر اب آپ نے رونا نہیں ہے بیٹا جی ۔۔۔ اوکے۔۔"وہ محبت سے بولے۔انکے بیٹا جی کہنے پر نازلی کے دل میں درد سا جاگا۔اسے شدت سے بابا جان کی یاد آئی تھی۔اسنے مشکل سے اپنے آنسوؤں کو پیچھے دھکیل کر انکی طرف دیکھا۔ 

"اب نہیں روؤں گی۔"وہ مدھم سا مسکرا کر انہیں تسلی دینے کے لیے بولی۔اسکے بہلانے والے انداز پر وہ ایک دم مسکرائے۔ 

"پکا ۔۔۔"انہوں نے شرارت سے پوچھا۔نازلی انکی بات سمجھ کر اب کی بار دل سے مسکرائی۔

"جی ۔۔۔ پکا۔۔۔"انہیں دیکھ کر اسے لگا تھا جیسے کوئی اسکا اپنا اسکے سامنے آگیا ہو۔وہ اسے اچھے لگے تھے۔ 

"تو آپ مجھ سے دوستی کر رہی ہیں؟"وہ ایک دم بولے۔اس لڑکی کو ہنستے دیکھ کر انہیں خوشی ہوئی تھی۔تبھی اپنے سنجیدہ مزاج کے بر خلاف جا کر وہ اتنی چھوٹی لڑکی کو دوستی کا بول گئے تھے۔ 

"جی ۔۔۔۔ "نازلی نے مدھم سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔اسے وہ بزرگ بہت دلچسپ انسان معلوم ہو رہے تھے۔ 

"تو یہ رہا میرا کارڈ ۔۔۔وقت ملے تو کال کیجئے گا۔"انہوں نے مسکرا کر جیب سے کارڈ نکال کر اسکی طرف بڑھایا۔جسے نازلی نے تھام لیا۔پھر اس پر نظر ڈالی۔ 

"میں آپکو کال کرونگی دوست۔"وہ کارڈ کو دیکھتی روانی میں بول گئی۔پھر احساس ہوا تو جلدی سے انکی طرف دیکھا۔

"میں آپکو دوست کہہ کر بلا سکتی ہوں ناں؟" اسنے جھجھک کر پوچھا۔ 

"کیوں نہیں ۔۔۔ ضرور بلائیں بیٹا جی۔"وہ نرم لہجے میں بول کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

"زندگی رہی تو آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔اللہ حافظ۔"اسکا سر تھپک کر کہتے وہ آگے بڑھ گئے۔

"اللہ حافظ۔۔"انکی پشت کو دیکھ کر نازلی کے لب ہلے۔انکے اندر نازلی کو اپنے بابا جان کی جھلک نظر آئی تھی۔انہوں نے اس سے کتنی نرمی ، کتنی محبت سے بات کی تھی۔۔۔۔

 وہ نظروں سے اوجھل ہوئے تو نازلی نے سر جھکا کر کارڈ کو دیکھ کر مٹھی میں بھنیچا۔

 سر اٹھایا تو ہاشم کو اپنی طرف آتے دیکھا۔وہ ایک دم کھڑی ہوئی۔ہاشم اسکے پاس رکا۔ 

"میں سامان لے کر آتا ہوں پھر چلتے ہیں۔"سنجیدگی سے کہتا وہ کمرے کی طرف بڑھا۔کچھ دیر بعد سامان لے کر واپس آیا۔نازلی وہیں کھڑی تھی۔ اسے آنے کا اشارہ کرتا وہ آگے بڑھا۔ نازلی خاموشی سے اسکے پیچھے چلنے لگی۔ 

کار میں بیٹھ کر ہاشم نے کار آگے بڑھا دی۔سارے راستے وہ دونوں خاموش رہے۔

نازلی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ذہن بالکل خالی تھا۔کچھ معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا تھا۔ 

وہ جیسے تیز ہوا میں ایک سوکھے پتے کی مانند تھی۔جہاں ہوا اسے اڑا کر لے جائے گی۔اسے جانا پڑیگا۔۔۔۔۔

گاڑی خان ولا کے گیٹ سے اندر داخل ہوتی پورچ میں رکی۔ہاشم کار سے باہر نکلا۔تو وہ بھی باہر آئی۔انکی موجودگی کا پتہ چلتے ہی امجد بابا بھاگے بھاگے آئے۔انکے پیچھے گل جان اور چھوٹی پٹھانی بھی تھی۔

"اب ٹھیک ہیں بی بی جی۔"امجد بابا نے جھکے سر کے ساتھ پوچھا۔نازلی کو انکا بی بی جی کہنا عجیب لگا۔

"جی ۔۔۔"اسنے مدھم آواز میں جواب دیا۔

اسکا جواب سن کر امجد بابا گاڑی سے سامان نکالنے لگے۔ہاشم نے نازلی کو چلنے کا اشارہ کیا۔آگے بڑھ کر وہ گل جان کے سامنے رکا۔

"یہ گل جان ہیں اور یہ انکی بیٹی گل رخ ۔۔۔ یہ یہیں کام کرتی ہیں۔"ہاشم نے نازلی سے انکا تعارف کروایا۔نازلی انہیں دیکھنے لگی۔ 

"سلام بی بی۔"گل جان نے مسکرا کر کہا جبکہ چھوٹی پٹھانی  مگن سی نازلی کو دیکھ رہی تھی۔ 

"وعلیکم اسلام۔"نازلی نے انہیں دیکھ کر مدھم آواز میں جواب دیا۔پھر ہاشم کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔چھوٹی پٹھانی جلدی سے انکے پیچھے اندر داخل ہوئی۔ 

"تم چاہو تو آرام کر لو۔"ہاشم نے اسے خاموش کھڑے دیکھ کر کہا۔نازلی نے سر ہلا دیا۔ 

"میں چھوڑ آؤں انہیں کمرے میں۔"چھوٹی پٹھانی جلدی سے آگے بڑھ کر بولی۔دونوں نے اسکی طرف دیکھا۔نازلی نے پہلے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔وہ بہت پیاری ، چھوٹی سی پٹھان لڑکی تھی۔ 

"ہاں ۔۔۔"ہاشم نے سر ہلایا۔پھر وہاں سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔چھوٹی پٹھانی خوشی سے نازلی کی طرف بڑھی۔

"میں آپکا ہاتھ تھام لیتی ہوں۔کہیں آپکو چکر نہ آجائے۔"اسکی بات پر نازلی نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔ 

"ٹھیک ہے۔"نازلی نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔جسے تھام کر وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔

اسے خوشی ہورہی تھی کہ اسنے اتنی حسین لڑکی کا ہاتھ تھاما تھا۔وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئیں۔

نازلی کو بیڈ پر بٹھا کر وہ پیچھے ہو کر کھڑی ہوئی۔ 

"آپکے لیے کچھ پینے کو لاؤں؟"

"نہیں گل رخ ۔۔۔"نازلی نے کارڈ سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔ 

"مجھے سب چھوٹی پٹھانی کہتے ہیں۔"اسنے بتانا ضروری سمجھا۔نازلی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ 

"بہت پیاری ہو تم چھوٹی پٹھانی۔"نازلی نے اسکی تعریف کی تو وہ شرما گئی۔ 

"سچ میں ۔۔۔"اسے یقین نہ آیا کہ اس پیاری سی بیگم صاحبہ نے اسکی تعریف کی۔ 

"جی چھوٹی پٹھانی۔"نازلی نے اسکے لال گالوں کو دیکھا۔وہ بہت پیاری تھی۔اسے دیکھ کر نازلی کو نوری کی یاد آنے لگی۔کتنا کچھ وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئی تھی۔کتنے اپنوں سے اسکا ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔  

"شکریہ ۔۔۔"چھوٹی پٹھانی نے مسکرا کر کہا تو نازلی چونکی۔ 

"اب آپ آرام کریں۔"وہ کہہ کر دروازہ بند کر کے چلی گئی۔ 

نازلی نے اس کمرے کو دیکھا۔وہی کمرہ جس میں وہ پہلے بھی  دو بار آ چکی تھی۔ 

بہت بڑا اور خوبصورت کمرہ تھا۔کمرے کا تھیم چاکلیٹ براؤن تھا۔اسی رنگ کے پردے ایک طرف فل سائز ونڈو پر گرے تھے۔لیمپ کی مدھم روشنی میں وہ کمرہ بہت خواب ناک لگ رہا تھا۔نازلی بیڈ سے اٹھ کر الماری کی طرف بڑھی۔

الماری کے پٹ وا کیے تو اندر ہاشم کے بے شمار کپڑے لٹکے تھے۔اسکا شک ٹھیک نکلا تھا یہ اسی شخص کا کمرہ تھا۔ 

وہ یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی۔یہ اس شخص کا کمرہ تھا۔

اس کمرے کی ہر چیز سے اسے اس شخص کی مہک اٹھتی محسوس ہورہی تھی۔

پر وہ کیسے کہتی کہ اسے کوئی دوسرا کمرہ چاہیے۔اس میں فلحال اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ہاشم کا سامنا کرتی۔الماری بند کرتی وہ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔رات کو جو ڈرامہ ہوا تھا اسکی وجہ سے وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی۔

اب بستر پر لیٹی تو اسکی آنکھیں بھاری ہونے لگیں۔کچھ ہی دیر میں وہ سو چکی تھی۔ 

ہاشم کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا۔نازلی کو سوتے دیکھ کر آہستہ سے آگے بڑھا۔دونوں ہاتھ گال کے نیچے رکھ کر سوتی وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔ہاشم نے آگے بڑھ کر اسکے اوپر بلینکٹ ڈالا۔پھر الماری کی طرف بڑھ کر پہننے کے لیے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔

اسنے اپنے لیے دوسرا کمرہ سیٹ کروایا تھا۔فلحال تو ان دونوں کا ایک روم میں رہنا ممکن نہ تھا۔

اسلیے وہ دوسرے کمرے میں شفٹ ہوگیا تھا۔پر وہ چاہتا تھا کہ نازلی اسی کمرے میں رہے۔جانے کیوں پر اسے اپنے روم میں دیکھ کر وہ اسے خود سے قریب محسوس کرتا تھا۔

اپنی چیزوں کو یہاں سے شفٹ کروانے اور نازلی کا سامان یہاں سیٹ کروانے کا سوچتا وہ کپڑے لے کر کمرے سے باہر نکلا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"اے عشق تجھے خدا کا واسطہ۔۔"

"یا یار دے ۔۔۔ یا مار دے۔۔۔"

ہوسپٹل میں تابین کا دوسرا دن تھا۔وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹی تھی۔کمرے میں مکمل سکوت چھایا تھا۔بنا پلکیں جھپکائے وہ ایک ہی نقطے کو گھور رہی تھی۔

دل و دماغ میں گہرے سکوت نے ڈیرہ ڈالا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے تپتے صحرا میں وہ ننگے پاؤں تیز ہواؤں کی زد میں کھڑی ہے اور کوئی اسے سہارا دینے والا نہیں ہے۔

وہ بالکل اکیلی ہے۔ 

کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھلا۔قدموں کی چاپ پر بھی تابین اپنی سوچوں سے نہ نکلی۔

 امتل آفندی کے ساتھ بابا صاحب ، بی بی جان اور جمال آغا کمرے میں داخل ہوئے۔وہ لوگ تابین کو دیکھنے آئے تھے۔

جمال آغا نے بت بنی اس لڑکی کو دیکھا۔کل تک اسکا اپنا بھی یہی حال تھا۔پر اسنے خود کو سنبھال کر مات کھائے اپنے زخمی وجود پر نقاب چڑھایا تھا کہ دنیا کو لگے وہ ٹھیک ہے۔پر دماغ بہت سے تانے بانے بُن رہا تھا۔

چہرے پر اگر سکون تھا تو دل میں قیامت برپا تھی۔ 

"ہمیں امید نہیں تھی کہ تابین اس شخص کے لیے اپنا یہ حال کرے گی۔"بابا صاحب نے آہستہ مگر سخت انداز میں امتل آفندی کو دیکھ کر کہا۔

تابین کی حالت سے تو وہ سمجھ ہی گئے تھے کہ وہ ہاشم کے لیے گہرے جذبات رکھتی ہے۔تبھی آج اس حال میں ہے۔ 

انکی بات پر امتل آفندی سر جھکا گئیں۔وہ کیا بتاتیں کہ انکی بیٹی جنون کی حد تک اس شخص کو چاہتی ہے۔

"تابین ۔۔۔"بی بی جان نے آگے بڑھ کر تابین کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔وہ چونک کر خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔ 

"کیسی ہو؟"انہوں نے نرمی سے پوچھا۔ 

"ٹھیک ۔۔"اسنے مختصر جواب دیا۔بابا صاحب نے بھی آگے بڑھ کر اسکا حال پوچھا۔ تابین جواب دے کر  اپنی سوچوں میں گم ہوگئی۔  

"جمال تم اپنی دوست سے بات کرو ۔۔۔ ہم باہر چلتے ہیں۔"بابا صاحب نے کہا پھر وہ تینوں باہر نکل گئے۔جمال آغا خاموشی سے تابین کی طرف بڑھا۔کرسی گھسیٹ کر بیڈ کے قریب رکھ کر اس پر بیٹھا۔

"کیسی ہو ؟"اسنے بغور تابین کا چہرہ دیکھا۔ 

"کیسی لگ رہی ہوں؟"تابین نے روبوٹک انداز میں چہرہ اسکی طرف پھیرا۔ 

"ہمیشہ کی طرح پیاری ۔۔۔"جمال آغا نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

"جھوٹ کم بولا کرو۔"تابین نے تلخی سے کہا۔

"خود کو کیوں جلا رہی ہو۔"اسنے لب بھینچ کر پوچھا۔ 

"فلحال انکو نہیں جلا سکتی ناں اسلیے خود کو جلا رہی ہوں۔"اسکا اشارہ ہاشم ، نازلی کی طرف تھا۔

تابین نے ایک دم جمال آغا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔"ویسے تم اتنے پر سکون کیوں لگ رہے ہو ؟ ہستی تو تمہاری بھی جل کر خاک ہوئی ہے۔پھر یہ تمہارے چہرے پر اتنا سکون کچھ جچ نہیں رہا جمال آغا۔"وہ چڑانے والے انداز میں بولی۔ 

"خاک کو سمیٹ کر جمال آغا نے خود کو پھر سے تیار کر لیا ہے۔"وہ لال آنکھوں کے ساتھ بولا۔ 

"انتقام کے لیے؟"تابین نے سرگوشی میں پوچھا۔

"بھیانک انتقام کے لیے۔"وہ نفرت سے بولا تو تابین تلخی سے ہنسی۔ 

"انٹرسٹنگ ۔۔۔"وہ اٹھ کر بیٹھنے لگی۔جمال آغا نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ 

"اس وقت ہم دونوں ایک سی حالت میں ہیں۔"تابین نے بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے کہا۔

"اور ہم دونوں اس حالت سے نکل کر انکا حال بے حال کریں گے۔"جمال آغا اتنے وقت میں پہلی بار مسکرایا۔ 

"واقعی ؟"تابین نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"بالکل ۔۔۔"وہ دانت پیس کر خلا میں گھورتے ہوئے بولا۔تابین اسکے نفرت سے پر چہرے کو دیکھنے لگی۔

اسکے اندر بھی یہی نفرت کی آگ تھی۔

وہ بھی پل پل جل رہی تھی۔جانے دونوں کے دماغ مل کر کیا کر گزریں گے۔ 

جمال آغا نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔وہ اسکی محبت تھی پر اب محبت کی جگہ اس شخص کی نفرت نے اسکے دل کو مٹھی میں جکڑ رکھا تھا۔

نفرت کا جذبہ محبت سے زیادہ جان لیوا ہوتا ہے۔یہ بات جمال آغا کو دیکھ کر اچھے سے معلوم ہورہی تھی۔ 

تابین نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔

وہ چونکا پھر دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔تابین نے اسکی باتوں پر خود کو کسی حد تک سنبھال لیا تھا۔دونوں ایک دوسرے کی باتوں کو اچھے سے سمجھ رہے تھے۔

آخر دونوں کی حالت ایک جیسی تھی۔انکی منزل بھی ایک تھی۔جانے انکی یہ نئی دوستی کیا قیامت لے کر آنے والی تھی۔ 

"ہم نے کبھی رکھا ہی نہیں حساب عشق ۔۔"

"تو ہی ہمارا نفع ۔۔۔ تو ہی خسارہ ۔۔۔۔"

رات کے اندھیرے نے خان ولا کو اپنے قبضے میں لیا تو مصنوعی روشنیوں نے اسے اجالے سے منور کیا۔

ہال سے اندر کی طرف آئیں تو بائیں طرف رکھے صوفے پر وہ بیٹھا تھا۔سفید شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ تھیں۔بلیک پینٹ اور بکھرے بالوں کے ساتھ وہ الجھا سا لگ رہا تھا۔

اسکے سامنے میز پر دو نئے موبائل رکھے تھے۔آج دن کو وہ ایک موبائل اپنے لئے لایا تھا اور ایک نازلی کے لئے۔ 

اپنی سم ڈال کر اسنے موبائل آن کیا۔ڈھیروں مسیجز آنے لگے۔  زیادہ تر داور کے تھے جو کہہ رہا تھا کہ ام جان اس سے بات کرنا چاہتی ہیں۔جیسے ہی مسیج پڑھے تو کال کرے۔جانے کتنے ہی ایسے مسیجز تھے۔وہ تو اپنا موبائل توڑ چکا تھا۔تب سے اب تک فرصت ہی نہ ملی تھی کہ نیا موبائل لیتا۔

اسنے مسیجز پڑھ کر داور کا نمبر ملایا۔داور ، ام جان ، نور اور آبی سب سے بات کی۔ام جان سے بات کرتے اسکا دل کیا کہ وہ انہیں نازلی کے بارے میں بتا دے پر فلحال صحیح وقت نہیں آیا تھا۔اسے تحمل سے سب کچھ ٹھیک کر کے پھر سبکو سچائی بتانی تھی۔ 

بات کر کے وہ وہیں بیٹھ گیا۔ہزار باتیں دماغ کو الجھا رہی تھیں۔وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسا تھا جب گل جان وہاں آئیں۔

"صاحب جی ہم نے کھانا لگا دیا ہے۔آپ آجاؤ ۔۔۔ چھوٹی پٹھانی بی بی جی کو بھی بلانے گئی ہے۔"وہ آہستہ آواز میں بولیں۔

"میں آتا ہوں۔"ہاشم نے سر اٹھا کر کہا۔گل جان وہاں سے چلی گئی تو اسنے ٹیبل سے موبائل اٹھائے۔نازلی کا موبائل اپنی جیب میں ڈالا کہ ڈنر کے بعد اسے دے گا اور اپنا موبائل ہاتھ میں تھام کر کمرے کی طرف بڑھا۔

کمرے میں آ کر اسنے موبائل بیڈ پر رکھا پھر ہاتھ منہ دھونے چلے گیا۔ٹاول سے منہ صاف کرتا باہر نکلا۔

کمرے سے نکل کر ڈائننگ روم کی طرف بڑھنے لگا۔ 

وہ وہاں پہنچ کر کرسی گھسیٹ کر بیٹھا پھر نازلی کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد چھوٹی پٹھانی وہاں آئی۔

"نازلی نہیں آئی۔"ہاشم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"وہ کہہ رہی ہیں کہ انہیں بھوک نہیں۔"چھوٹی پٹھانی نے جواب دیا۔

ہاشم کچھ پل خاموش رہا پھر اٹھ کر وہاں سے نکلتا نازلی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ 

بنا نوک کیے دروازہ کھول کر اندر آیا۔وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔ہوا سے اسکے جوڑے سے نکلتی لٹیں اڑ رہی تھیں۔اسکی موجودگی سے انجان وہ مگن سی باہر دیکھ رہی تھی۔ 

ہاشم آہستہ سے چلتا اسکے پیچھے کھڑا ہوا۔پھر جھک کر اسکے کان کے قریب بولا۔

"ڈنر کے لئے کیوں منع کیا۔"اسکی بھاری آواز پر نازلی ڈر کر اسکی طرف پلٹی۔وہ اسکے بہت قریب کھڑا تھا۔نازلی پیچھے ہوتی کھڑکی کے ساتھ جا لگی۔ 

"مجھے بھوک نہیں ہے۔"اسنے نظریں جھکا کر کہا۔

"تمہیں ٹیبلٹس لینی ہیں۔"ہاشم نے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھا۔ 

"لے لونگی۔"وہ آہستہ سے بولی 

"اس کے لئے کھانا ضروری ہے۔۔۔ چلو۔"ہاشم نے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا تو نازلی نے جلدی سے اسکا ہاتھ جھٹکا۔ 

"مجھے بھوک نہیں ہے۔"ہاشم کی آنکھوں میں دیکھ کر وہ اپنے الفاظ پر زور دے کر بولی۔

"پر کھانا پھر بھی کھانا پڑے گا۔"وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔

"آپ مجھے زندہ رہنے دیں گے یا نہیں؟"نازلی نے گلابی آنکھوں کے ساتھ چبا کر پوچھا۔

"کوئی اپنی زندگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے؟"اسے محبت پاش نظروں سے دیکھتا۔مدھم آواز میں بول کر اسنے نازلی کے بائیں  گال پر ہاتھ رکھا۔

نازلی نے غصے سے ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ پیچھے کیا۔اس شخص کا یہ انداز اسکے دل پر بوجھ ڈال دیتا تھا۔اسے عجیب سی  گھٹن محسوس ہوتی۔جیسے سانس بند ہورہی ہو۔

"جائیں یہاں سے۔۔"وہ غصے سے چلا کر بولی۔

اسکے انداز پر ہاشم نے ایک لمبی سانس کھینچی۔پھر ایک دم اسکا بازو اپنی مضبوط گرفت میں لے کر آگے بڑھنے لگا۔  

"چھوڑیں مجھے۔۔۔"نازلی نے اپنے قدم مضبوط کرتے خود کو چھڑانے کی کوشش کی۔

"ہاشم خان۔۔۔"اسنے دانت پیس کر ہاشم کا نام لیا۔ہاشم کے قدم تھم گئے۔اسنے نظریں پھیر کر ان نیلی آنکھوں میں دیکھا۔بے چینی سے اٹھتی گرتی پلکوں کے ساتھ وہ خود کو چھڑانے کی جد و جہد کر رہی تھی۔غصے سے ہی سہی پر نازلی کے گلابی لبوں کو چھوتا اسکا نام اسے بہت میٹھا لگا تھا۔ہاشم خان کا دیوانہ دل کھل سا اٹھا تھا۔ 

"تم میرا نام لیتی رہا کرو۔"گھمبیر آواز میں کہا گیا۔اسکی عجیب بات پر نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔اس شخص نے ایک دم ٹریک چینج کیا تھا۔

"مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔"نازلی منہ بگاڑ کر بولی۔

"پر مجھے تو ہے۔"اسکے لبوں کے کونوں میں مسکراہٹ پھیلی۔نازلی نے جھنجھلا کر اسے دیکھا۔افف یہ شخص ۔۔۔۔

"مجھے معاف کریں ۔۔ اور چھوڑیں میرا بازو۔"وہ غصے سے سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔

"خاموشی سے چلو گی یا اٹھا کر لے جاؤں؟"نیلی آنکھوں میں دیکھ کر دھمکی دی گئی۔نازلی کو اسکے پل پل بدلتے انداز حیران کر رہے تھے۔کچھ پل پہلے مسکرا کر محبت سے بات کررہا تھا اور اب دھمکیوں پر اتر آیا تھا۔جانے اسکا کس پاگل سے پالا پڑا تھا۔۔۔۔ نازلی کو اسکے بدلتے روپ ڈرا رہے تھے۔جانے آگے کیا کیا دیکھنا باقی تھا۔ 

اسکے دو ٹوک انداز کو دیکھ کر نازلی نے ہار مان لی۔اس شخص کا کیا تھا وہ تو سچ میں اسے اٹھا کر لے جاتا۔۔۔۔نازلی نے اس سوچ پر جھرجھری لی ۔۔۔۔

"میرا بازو چھوڑیں۔۔۔میں چلتی ہوں۔"اسنے سر جھکا کر مدھم آواز میں کہا۔ہاشم نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا۔پھر اسکا بازو اپنی گرفت سے آزاد کیا۔ 

"اچھے بچوں کی طرح ایک ہی بار میں بات مان لیا کرو تو دھمکی کی نوبت ہی نہ آئے۔"ہلکا سا مسکرا کر اسنے نازلی کی لٹ کان کے پیچھے کی۔نازلی دانت پیس کر ، مٹھیاں بھینچتی پیچھے ہٹی۔

اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ اس شخص کو اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دے۔پر آہ ۔۔۔ وہ صرف ایسا سوچ سکتی تھی اس  پر عمل کرنا اسکے بس کی بات نہ تھی۔بھلا کہاں وہ مضبوط شخص اور کہاں وہ نازک سی لڑکی ۔۔۔۔ 

"آجاؤ ۔۔۔"اسکے غصے سے لال چہرے کو دیکھ کر ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔پھر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔نازلی زیر لب بڑبڑاتی اسکے پیچھے چلنے لگی۔ 

دونوں نے خاموشی سے ڈنر کیا۔نازلی کھانا کھا کر جلدی سے اٹھ کر کمرے میں آ گئی تھی تا کہ مزید اس شخص کا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہ کمرے میں آئی۔پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر الجھے بالوں کو کھول کر برش پھیرنے لگی۔وہ بال کھول کر سوتی تھی۔شیشے میں خود کو دیکھتی وہ آہستہ آہستہ بالوں میں برش پھیر رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا۔

نازلی نے جھٹ سے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا۔وہ شخص دودھ کا گلاس تھامے کھڑا تھا۔نازلی نے لمبی سانس خارج کی۔وہ شخص تو ایک پل اسکی جان چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔نازلی کو تڑپا کر ، اسے دھمکا کر شاید اس شخص کو بڑا سکون ملتا تھا۔تبھی اسے ستانے کے لئے کسی نہ کسی بہانے سے اسکے سامنے آتا تھا۔

نازلی اسے گھوریوں سے نواز رہی تھی جبکہ وہ پر سکون انداز میں آگے بڑھا۔گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔پھر اسکی طرف بڑھنے لگا۔نازلی نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو جلدی سے برش رکھ کر پھر جھٹ سے دوپٹہ سر پر لیا۔

اتنے میں ہاشم اسکے مقابل کھڑا ہوا۔

"مجھ سے اتنا پردہ؟"ابرو اٹھا کر پوچھا گیا۔

"آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟"اسکی بات کو اگنور کرتی بولی تھی۔ 

"تمہیں دوا دینے۔"ہاشم نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ کی طرف بڑھا۔نازلی بھی اسکے ساتھ چل دی۔ابھی اس میں اتنی طاقت نہیں بچی تھی کہ وہ اس شخص سے لڑائی کرتی۔ 

ہاشم نے بیڈ پر بیٹھ کر اسے اپنے سامنے بٹھایا۔سائیڈ ٹیبل کے دراز سے ٹیبلٹس نکالیں۔تین مختلف ٹیبلٹس کے پتے تھے۔اسنے ایک پتے سے ٹیبلٹ نکال کر نازلی کی طرف بڑھائی۔نازلی نے  خاموش سے اسے دیکھتے ہتھیلی آگے بڑھائی۔ہاشم نے ٹیبلٹ اسکے ہاتھ پر رکھی۔پھر سائیڈ ٹیبل سے دودھ کا گلاس اٹھانے لگا جب نازلی بول پڑی۔ "میں پانی سے لے لونگی۔"

ہاشم نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔"دودھ نہیں پسند؟؟"سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

"بالکل بھی نہیں۔"نازلی نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"پر یہ ٹیبلٹس دودھ کے ساتھ ہی لینی ہیں۔"اسنے شانے اچکا کر گلاس اٹھا کر اسکی طرف بڑھایا۔

نازلی نے کچھ پل اسے دیکھا پھر خاموشی سے گلاس تھام لیا۔دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔اگر وہ اس وقت ضد کرتی تو بات بڑھ جاتی۔بات بڑھتی تو ہاشم زیادہ وقت اس روم میں رہتا جو کہ اسے منظور نہ تھا۔

اس نے ٹیبلٹ منہ میں رکھ کر ناک چڑھا کر گلاس منہ سے لگایا۔اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔ہاشم نے اسے دوسری پھر تیسری ٹیبلٹ دی۔جسے بری صورت بنا کر وہ لیتی گئی۔اسنے گلاس خالی کر کے ہاشم کی طرف بڑھایا۔ہاشم نے گلاس تھام کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔نازلی کی صورت دیکھ کر کنٹرول کرنے کے باوجود اسکے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔اس لڑکی کو واقعی دودھ بہت برا لگتا تھا تبھی ایسی صورت بنا رہی تھی۔

نازلی نے ہاتھ کی پشت سے منہ صاف کر کے نظر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا۔

"کیا ہوا؟"اسنے الجھ کر پوچھا۔ 

"کیوٹ لگ رہی ہو۔"دلکش انداز میں کہا گیا۔

"کیا۔۔۔"نازلی نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا۔اسے لگا شاید اسنے غلط سنا ہے۔ 

"اس انداز میں بہت کیوٹ لگ رہی ہو۔"مسکرا کر اسکا گال کھینچا گیا۔اس سے پہلے کہ نازلی غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکتی وہ ہاتھ پیچھے کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔  

نازلی نے سر اٹھا کر اسے گھورا۔ہاشم نے جیب سے موبائل نکال کر اسکی طرف بڑھایا۔

"تمہارے لئے۔"جب اسنے موبائل تھامنے کے لئے ہاتھ نہ بڑھایا تو ہاشم نے جھک کر اسکا ہاتھ تھام کر موبائل اسکی ہتھیلی پر رکھا جبکہ نازلی اب بھی اسے گھورنے میں مصروف تھی۔ 

ہاشم اسے موبائل پکڑا کر پلٹ کر جانے لگا۔

"گھورنا بند کرو بیگم اور سو جاؤ۔۔۔۔شب بخیر۔"بنا مڑے مسکراتی آواز میں کہتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ 

نازلی نے آنکھیں زور سے بھینچ کر کھولیں۔پھر سر جھکا کر موبائل کو دیکھا۔دوسرا ہاتھ گال پر رکھ کر دانت پیسنے لگی۔

"پاگل آدمی۔۔۔"غصے سے بڑبڑا کر اسنے موبائل سائیڈ ٹیبل کے دراز میں ڈالا۔لیمپ آف کیا پھر بلینکٹ کھینچ کر اپنے اوپر اوڑھتی بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند گئی۔پر نیلی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔اسنے آنکھیں کھول کر چھت کو گھورا۔

"اس انداز میں بہت کیوٹ لگ رہی ہو۔"ہاشم نے جیسے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی۔اسنے سر جھٹک کر اسکی بھاری آواز سے پیچھا چھڑایا۔پھر اپنے گال کو زور سے مسلا جس پر اس شخص کا لمس موجود تھا۔اس شخص کی حرکت پر وہ تپ کر بڑبڑانے لگی۔

"بد تمیز ، جلاد ، لوفر ، لفنگا ، ولنوں کا سردار ۔۔۔"وہ ہاشم کو پیارے پیارے ناموں سے نواز رہی تھی۔ہاشم اگر اس وقت یہاں ہوتا تو اسکے دیے نام سن کر ضرور ہنسنے پر مجبور ہوجاتا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تیسرے دن تابین کو ہوسپٹل سے گھر لے آیا گیا تھا۔اسکا دل اپنی جگہ پر نہ تھا۔گھر آ کر اسے پھر سے سب یاد آیا تو اسنے جنونی انداز میں اپنے کمرے کی چیزیں توڑنے میں دیر نہیں کی تھی۔جمال آغا کی باتوں پر وقتی طور پر جو اسکا دل سنبھلا تھا گھر آ کر سب کچھ پھر سے بکھر گیا تھا۔

گھر آئے اسے دوسرا دن تھا پر وہ کمرے سے نہیں نکلی تھی۔ماما ، بابا تو اپنی روٹین پر واپس آ چکے تھے پر وہ نارمل نہیں ہو پائی تھی۔

صبح کے دس بج رہے تھے۔ماما بابا جا چکے تھے۔وہ بے جان سی  اپنے بیڈ پر لیٹی تھی۔کھڑکی سے سورج کی روشنی اندر داخل ہوتی اسکے بیڈ پر پڑ رہی تھی۔تابین نے ڈھیلی سی سفید شرٹ اور پاجامہ پہنا تھا۔بال بکھرے اور آنکھیں لال ہورہی تھیں۔ 

اسنے لیٹے لیٹے ہی ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ پیک اٹھایا۔سگریٹ سلگا کر کش لینے لگی۔دھواں پھونک کر اس دھوائے کو دیکھے گئی۔وہ جب سے گھر آئی تھی۔اسکا یہی کام تھا۔بس سگریٹ پیتی ، دھواں پھونک کر خلا میں گھورتی رہتی پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا۔امتل آفندی اسے منع کر چکی تھیں۔پر انکی سنتا کون تھا۔تابین کو اس وقت کسی کی فکر نہ تھی۔نہ اپنی نہ ماں باپ کی ۔۔۔ 

اسکی گلابی ہوتی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔وہ بنا پلکیں جھپکائے دھواں پھونک کر اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔

تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ایک کے بعد دوسری پھر تیسری ۔۔۔ تب تابین نے جواب دیا۔"آجاؤ ۔۔۔"اسکی آواز بھاری ہورہی تھی۔

دروازہ کھول کر نوری بس ایک قدم اندر بڑھی۔دھوائیں سے بھرے کمرے میں اسکی سانس بند ہونے لگی تھی۔اسنے عجیب نظروں سے تابین کو دیکھا۔اسکی ساری کہانی تو وہ سمجھ ہی چکی تھی۔ 

"تابین بی بی وہ ڈاکٹر سیماب آئی ہیں۔"نوری نے جلدی سے بتایا۔گھر میں اسکے علاوہ کوئی تھا نہیں اور سیماب بنا کسی سے ملے جانے والی نہ تھیں۔تبھی جب نوری نے انہیں تابین کی موجودگی کا بتایا تو انہوں نے کہا کہ اسے بلا کر لاؤ۔نوری جانتی تھی وہ یہاں نازلی کے بارے جاننے آئیں ہیں۔پر نوری اپنی زبان سے انہیں کچھ نہ بتا سکی۔وہ نوکر تھی اس گھر کی ۔۔۔ کچھ بول لیتی تو امتل آفندی اسے کبھی نہ چھوڑتیں۔اسلیے انکے کہنے پر وہ خاموشی سے تابین کو بلانے آگئی تھی۔ 

"کون سیماب ۔۔۔"تابین کہنیوں کے بل اوپر ہوئی۔پھر ہاتھ میں پکڑا سگریٹ زمین پر پھینکا۔اسکی طرح اسکے کمرے کی حالت بھی خراب ہورہی تھی۔ 

"وہ جی ۔۔۔ وہ ۔۔"نوری ڈر کے مارے "نازلی باجی کی آنی آئیں ہیں" ایسے نہیں کہہ پا رہی تھی۔نازلی کے نام پر تابین کے بھڑک اٹھنے کا خطرہ تھا۔ 

"بولو بھی یو ڈفر ۔۔۔"تابین چلا کر اسے گھورنے لگی۔بیچاری نوری نے تھوک نگلا۔

"نازلی باجی کی آنی۔"وہ جواب دے کر تابین کا چہرہ دیکھنے لگی۔

"اوہ ۔۔ انکو یاد آگئی اپنی اس بھانجی کی۔"تابین زہر خند انداز میں ہنس کر جلدی سے بیڈ سے اتری۔نوری ڈر کر پیچھے ہوئی۔ 

تابین لال آنکھوں کے ساتھ کمرے سے باہر نکلی۔تیزی سے سیڑھیاں اتر کر ہال کی طرف بڑھنے لگی۔

سیماب بے چین سی صوفے پر بیٹھی تھیں۔کل رات ہی وہ لوگ عمرہ کر کے واپس لوٹے تھے۔سعودیہ سے بھی انہوں نے نازلی کو کتنی کالز کی تھیں۔پر اسکا موبائل بند ملتا۔انکے پاس نہ تو حسن آفندی کا نمبر تھا نہ گھر کا کہ وہ کال کر لیتی۔رات کو یہاں پہنچے تو انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ تبھی نازلی سے ملنے آجاتیں پر اسد نے انہیں رات کے وقت ان لوگوں کو ڈسٹرب کرنے سے روکا اور صبح جانے کا کہا۔ساری رات انکی بے چینی میں گزری تھی۔وہ سوچ رہی تھیں کہ کہیں انکی نیلی آنکھوں والی گڑیا کے ساتھ کچھ غلط نہ ہوا ہو۔دل میں عجیب عجیب خیال آرہے تھے۔جنہیں وہ بار بار پیچھے دھکیلتی رہی تھیں۔صبح بچوں کو اسکول بھیج کر یہاں آتے انہیں اتنا وقت لگ گیا تھا۔وہ قدموں کی چاپ پر سوچوں سے باہر نکلیں۔سامنے تابین کو دیکھ کر انہیں اسکی عجیب حالت پر حیرت ہوئی۔خیر یہاں وہ تابین کے لئے نہیں نازلی کے لئے آئی تھیں۔ 

"کیسی ہو تابین؟"وہ اٹھ کر تابین کے سامنے کھڑی ہوئیں۔ 

"کیسے آنا ہوا؟"تابین نے انکے سوال کو اگنور کر کے پوچھا۔

"نازلی سے ملنے آئی تھی۔کل رات ہی ہم عمرہ سے واپس آئے ہیں۔نازلی کو کافی کالز کیں پر وہ کال پک نہیں کرتی۔کیسی ہے نازلی ؟ ابھی تو یونیورسٹی گئی ہوگی ناں؟"انہیں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔انکی بات پر تابین زور سے ہنسی۔

"اس گھر میں کوئی نازلی نہیں رہتی۔"وہ ایک دم سنجیدہ ہوتی  نفرت سے بولی۔

"کیا کہہ رہی ہو۔"سیماب کو اسکی ذہنی حالت پر شک ہوا۔ 

"وہی جو آپ نے سنا۔۔۔۔ یہاں کوئی نازلی نہیں رہتی۔"اسنے مزے سے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔

"میرے ساتھ پہیلیاں مت ڈالو تابین حسن آفندی۔سیدھی بات کرو ۔۔۔"سیماب اب کی بار سخت لہجے میں بولیں۔ 

"تو سیدھی بات یہ ہے آنی جی ۔۔"وہ انکی آنکھوں میں دیکھ کر طنزیہ مسکرائی۔"آپکی نازلی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔"وہ ہاتھ جھاڑ کر بولی۔

"کیا بکواس کر رہی ہو۔"سیماب نے غصے سے اسے گھورا۔

"بکواس نہیں ہے۔آپکی وہ بدکردار بھانجی کسی سے نکاح کر کے یہاں سے دفع ہوگئی ہے۔"تابین تیھکے انداز میں بولی۔ 

سیماب کو اس پاگل کی باتوں کا یقین نہ آیا۔ 

"مجھے تمہاری بکواس کا یقین نہیں ہے۔ میری نازلی ایسی نہیں ہے سمجھی تم۔"سیماب نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔انکی بات پر تابین نے تالی بجائی۔

"افسوس کہ وہ ایسی ہی ہے۔بلکہ اس سے کئی زیادہ گری ہوئی ہے۔"وہ چبا کر بولی۔"میرا یقین نہیں تو ابھی آپکو یقین دلاتی ہوں۔"اسنے بات مکمل کر کے اونچی آواز میں گھر کے نوکروں کو آوازیں لگانا شروع کیں۔

پانچ ملازم لائن میں لگے تھے۔جن میں سے تین مرد۔۔۔۔ نوری کی اماں اور صفائی والی تھیں۔اسکی چیختی آواز پر نوری ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئی۔وہ سامنے نہیں آنا چاہتی تھی۔اسکی زبان سے نازلی باجی کے خلاف ایک لفظ بھی نکلنے والا نہ تھا۔پر وہ تابین کی تیز نظروں سے بچ نہ سکی۔ 

"نوری ۔۔۔ نازلی کی چمچی ۔۔۔ یہاں آؤ جلدی۔"تابین ہذیانی انداز میں بولی۔نوری کی اماں نے ڈر کے مارے نوری کو آنے کا اشارہ کیا۔وہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اٹھ کر وہاں آئی۔سیماب خاموشی سے سب ڈرامہ دیکھ رہی تھیں۔ 

"بولو بتاؤں انہیں کہ اس بےغیرت نے کیا کیا۔۔۔"وہ سبکو دیکھ کر بول رہی تھی۔سب کے سر جھکے ہوئے تھے۔ان میں سے کوئی نہ بولا۔وہ نمک حرام نہ تھے۔بھلے ہی تابین اس گھر کی بیٹی تھی پر نازلی بھی اسی گھر کی بیٹی تھی۔ وہ اسکے خلاف نہیں بول سکتے تھے۔وہ سب اس معصوم لڑکی سے واقف تھے اور تابین سے بھی ۔۔۔ 

"تم بولو گی۔۔۔"اسنے نوری کو بازو سے تھام کر سیماب کے سامنے کیا۔"بتاؤ انہیں کہ اپنی منگنی والے دن اس کمینی کا پول کھلا تھا۔کیسے اسکی سچائی سب کے سامنے آئی تھی۔کیسے بھری محفل میں بابا جان نے اسکے منہ پر تھپڑ مارا۔کیسے سب اسے دیکھ رہے تھے۔کیسے وہ دنیا کے سامنے بے عزت ہوئی۔کیسے بابا جان نے اسے اس گھر سے نکال باہر کیا۔"وہ جنونی انداز میں غصے میں بولتی جا رہی تھی آخر میں ایک دم ہنسنے لگی۔اسکی باتوں پر نوری رونے لگی تھی۔ جبکہ سیماب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔تابین کی بھاگنے والی بات غلط تھی پر ابھی وہ جو کہہ رہی تھی اس میں سچائی تھی۔اور پھر نوری کا رونا انہیں بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔سیماب نے نوری کو تابین سے چھڑا کر کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا۔ 

"بتاؤ نوری۔۔۔۔ بتاؤ مجھے کہ کیا واقعی میری گڑیا کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تھا ؟"وہ گلابی آنکھوں کے ساتھ ضبط سے پوچھ رہی تھیں۔ 

نوری ہچکیوں سے رونے لگی۔

"بولو نوری۔"انہوں نے اسے جھنجھوڑا تھا۔ 

"ہاں ۔۔۔ انہوں نے نازلی باجی کو گھر سے نکال دیا۔انکے ساتھ سب نے بہت برا کیا۔وہ ۔۔۔ وہ بہت روئیں تھیں پر کسی نے انکی بات نہ سنی۔۔۔۔انہیں مارا بھی ۔۔۔ انکے منہ سے خون نکل رہا تھا۔وہ بہت تکلیف میں تھی سیماب بی بی ۔۔۔ میری نازلی باجی بہت تکلیف میں تھیں۔"نوری نے روتے ہوئے سب کہہ ڈالا۔اسکی بات ختم ہوتے ہی تابین نے اسے اپنی طرف گھمایا پھر زور سے تھپڑ اسکے نازک گال پر مارا۔نوری پیچھے کی طرف گری تو اسکی اماں بھاگ کر اسکی طرف آئیں۔

"نمک حرام ۔۔۔نمک ہمارا کھاتی ہو اور طرف داری اس کمینی کی کرتی ہو۔"وہ پاگلوں کی طرح چیخی تھی۔نوری اپنی اماں کے ساتھ چپکی آنسو بہا رہی تھی۔ 

"تم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے تابین حسن آفندی۔ایک چھوٹی سی بچی پر ہاتھ اٹھاتے تمہیں شرم نہ  آئی۔"سیماب نے غصے سے کہا۔

"مجھے لیکچر نہیں سننا سمجھی آپ ۔۔۔ جائیں اور اپنی اس بدکردار بھانجی کو سمجھائیں کہ اسے اپنے کالے منہ کو کیسے چھپانا چاہیے۔" وہ مکھی اڑانے والے انداز میں بولی۔ 

"اب اگر تم نے نازلی کے لئے کوئی برا لفظ منہ سے نکالا تو اچھا نہیں ہوگا۔"سیماب نے چبا کر کہا۔وہ کب سے برداشت کر رہی تھیں پر تابین تھی کہ حد پار کرتی چلی جا رہی تھی۔ 

"کیوں نہ بولوں میں ہاں ۔۔۔ آپکی بہن کی طرح اسکی بیٹی بھی فحاشہ نکلی۔۔۔جیسی ماں ویسی بیٹی بھی گند۔۔۔۔"غصے سے چلاتی تابین کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے جب سیماب کا ہاتھ اٹھا تھا۔زور دار تھپڑ تابین کے گال پر پڑا اور اسکی زبان بند ہوگئی۔ 

"خبر دار جو تم نے میری آپی یا نازلی پر انگلی اٹھائی۔"سیماب نے غصے سے کہا۔"تم اور تمہاری ماں جیسی نہیں ہیں وہ۔۔۔۔۔ پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو پھر دوسروں پر انگلی اٹھانا ۔۔۔ "سیماب نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔تابین شاکڈ سی گال پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔آج پہلی بار اس پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تھا۔وہ شعلہ بار نظروں سے سیماب کو دیکھ رہی تھی۔جبکہ سیماب پلٹ کر نوری تک آئیں۔

"نوری میں کل تمہیں اور تمہاری اماں کو لینے آؤں گی۔اپنا سامان سمیٹ لینا۔"خود پر ضبط کرتی نرمی سے کہتی وہ اپنا بیگ اٹھا کر بنا پلٹ کر دیکھے وہاں سے باہر نکلتی چلی گئیں۔ 

تابین کی آگ نکلتی نظروں نے انکا پیچھا کیا تھا۔وہ چلی گئیں تو تابین بھی وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔

کمرے میں آ کر اسنے دھڑام سے دروازہ بند کیا۔ 

"تم سب لوگوں کو وہ نازلی بہت پیاری ہے ناں۔۔۔۔ہر کسی کو اسکی فکر ہے۔بہت چاہتے ہو ناں سب اسے ؟ ہر کوئی اسکی طرف داری کرتا ہے۔۔۔ہر کسی کو صرف وہی نظر آتی ہے۔تم سب خون کے آنسو روؤ گے۔۔۔ دیکھنا تم لوگ میں اس کمینی کا کیا حال کروں گی۔"وہ کمرے میں چکر کاٹتی غصے سے پاگل ہورہی تھی۔پھر اچانک بیڈ پر بیٹھ کر گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے پھر ان میں چہرہ چھپا گئی۔"اللہ کرے نازلی مر جائے۔۔۔۔۔تم مر جاؤ نازلی تا کہ ان سب کو میں بھی نظر آؤں۔۔۔۔ انہیں میرے دکھ کا بھی احساس ہو۔"اسکی آواز میں نمی اتری تھی۔ظالم تابین سے وہ ایک دم مظلوم تابین بنی تھی۔اسے بھی سبکا سہارا چاہیے تھا پر یہاں ہر کسی کے لئے نازلی سب کچھ تھی اور وہ ۔۔۔۔۔ وہ سبکے لئے ایک جنونی پاگل لڑکی تھی۔جس سے کسی کو ہمدردی نہ تھی۔وہ بھی تو انسان ہے۔اسے بھی درد ہوتا ہے۔پر یہاں ہر کوئی نازلی کے دکھ پر روتا ہے۔انہیں تابین کے درد سے کیا لینا دینا۔وہ یہ سب سوچتی ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔

شام کا وقت تھا۔موسم بہت خوبصورت ہورہا تھا۔وہ دونوں ٹیرس پر کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔

"نازلی جانے کہاں ہے۔اتنے دنوں سے یونی نہیں آرہی۔"نور نظر جھکا کر لان کو دیکھتی اداسی سے بولی۔ 

"اللہ کرے خیر سے ہو۔فون جانے کیوں نہیں اٹھا رہی۔"آبی بھی پریشان تھی۔ 

"ہمیں تو اسکے گھر کا بھی نہیں معلوم یار کہ اسکا پتہ کرتے۔"نور نے آبی کو دیکھ کر کہا۔ 

"ہوں ۔۔۔ بس دعا کرو کہ وہ ٹھیک ہو۔"آبی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

"اللہ کرے۔"نور نے نظر پھیر کر نیچے دیکھا۔

شہریار حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہورہا تھا۔اسکے ساتھ کوئی شخص بھی تھا۔

"یہ شہریار کے ساتھ کون آرہا ہے؟"نور نے آبی کو اشارہ کیا۔آبی نے غور سے اس شخص کو دیکھنا چاہا پر دور سے وہ اندازہ نہ لگا سکی۔ 

"پتہ نہیں کون ہے۔"آبی نے شانے اچکائے۔

"کوئی خاص دوست ہی ہوگا ورنہ شہریار کسی کو گھر لے کر نہیں آتے۔"

"ہوسکتا ہے۔"آبی نے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔ 

چلو آؤ دیکھتے ہیں کہ کون ہے۔"نور تجسس سے کہتی اسکا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھی۔ 

"ارے دفع کرو ۔۔۔ ہمیں کیا کرنا اسے دیکھ کر۔"آبی نے منہ بنایا۔ 

"تجسس ہو رہا ہے۔تم آؤ تو۔۔۔۔"نور نے جلدی سے کہا۔ 

"افف یہ تجسس۔"آبی نے منہ بگاڑا۔

"چلو بھی ۔۔۔"نور نے اسکی ایک نہ سنی اور اسے لے کر نیچے کی طرف بڑھنے لگی۔ 

وہ دونوں جب ہال میں داخل ہوئیں۔وہاں شہریار کے ساتھ وہ شخص بیٹھا تھا۔پر انکی طرف اسکی پشت تھی۔ایک طرف صوفے پر ام جان بھی بیٹھی تھیں۔ 

نور ، آبی کو لے کر آگے بڑھی۔پھر اس شخص کے صوفے سے ایک طرف ہو کر کھڑی ہوئیں۔

"اسلام و علیکم"نور کے اونچی آواز میں سلام دینے پر وہ لوگ  باتیں چھوڑ کر انکی طرف متوجہ ہوئے۔

"وعلیکم السلام۔"اجنبی ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔پھر اسنے آہستہ سے گردن پھیر کر انہیں دیکھا۔

شہریار بھی صوفے سے اٹھتا اس شخص تک آیا۔

"یہ میری بہن آبش ہے اور کزن ماہ نور۔"اسنے حیران کھڑے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان دونوں کا تعارف کروایا۔نور نے چونک کر اس شخص کو دیکھا پھر مسکراہٹ دبانے لگی۔جبکہ آبی ابھی تک حیران و پریشان تھی۔ 

"یہ میرا یونی فیلو احد عالم ہے۔کافی سالوں بعد آج ہاتھ لگا  ہے یہ شخص۔۔۔۔"شہریار نے مسکرا کر احد کا کندھا تھپتھپایا۔احد حیرت سے نکل کر ایک دم مسکرانے لگا۔

"اب تو میں تمہاری جان نے چھوڑوں گا۔"احد نے شرارت سے شہریار کو دیکھا۔

"ویسے آپ دونوں سے مل کر اچھا لگا۔"اسنے مسکرا کر ان دونوں لڑکیوں کی طرف دیکھا۔اسکے دیکھنے پر آبی نے برا سا منہ بنایا۔ 

"ہمیں بھی۔"نور مسکراہٹ دبا کر بولی۔وہ دونوں واپس اپنی جگہ پر بیٹھے۔احد اور شہریار باتوں میں مصروف ہو گئے جبکہ ام جان کے کہنے پر وہ دونوں کچن کی طرف بڑھنے لگیں۔ 

کچن میں آ کر نور نے آبی کو کہنی ماری۔

"یہ بک شاپ والا تو شہریار کا بچھڑا دوست نکلا آبی ۔۔۔۔ واؤ کتنی فلمی بات ہے۔بہن کا پیار بھائی کا بچھڑا دوست نکلا۔"نور لہراتے ہوئے بولی تھی۔ 

"اے۔۔۔۔کیا بکواس کر رہی ہو۔کونسا پیار ہاں۔۔۔"آبی نے اسکے کندھے پر زور سے چپت لگائی۔ 

"منحوس کتنا مردانہ ہاتھ ہے تمہارا۔۔۔کتنی زور سے مارا ہے۔"نور اسے گھورتی اپنا کندھا سہلانے لگی۔

"یہ تمہیں مردانہ ہاتھ لگتا ہے؟"آبی نے اپنا نازک ہاتھ اسکے چہرے کے بالکل قریب کیا۔اسکی شہادت کی انگلی نور کی آنکھ سے ٹکرائی۔

"ہاں اب آنکھ میں انگلی مار کر میری آنکھ بھی باہر نکال دو۔"نور تپ کر کہتی پیچھے ہوئی۔ 

"تمہاری دونوں آنکھیں نکال دونگی اگر تم نے زیادہ پٹر پٹر کی تو سمجھی۔۔"آبی نے دو انگلیوں سے اسکی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے دھمکایا تھا۔

"غنڈی ،ظالم ، چڑیل ۔۔۔"نور ڈر کر ایک دم پیچھے ہٹی۔  

"چلو جس کام کے لئے آئے ہیں وہ کریں۔"آبی نے اسکا ہاتھ پکڑا کر کھینچا۔نور منہ بناتی اسکے ساتھ کام کروانے لگی۔ 

ٹرالی سیٹ کر کے وہ دونوں ہال کی طرف بڑھیں۔ٹرالی آبی کے ہاتھ میں تھی۔ٹرالی روک کر وہ دونوں چیزیں ٹیبل پر سیٹ کرنے لگیں۔

نور نے سبکے سامنے چائے کا کپ آبی کو تھما کر کہا۔ 

"یہ احد بھائی کو دے دو آبی۔"اسکی بات پر آبی نے دانت پیس کر کپ تھاما۔پھر احد کی طرف بڑھی۔

"چائے۔۔"اسنے نظریں جھکا کر کپ اسکی طرف بڑھایا۔ 

"شکریہ۔۔"اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ کر احد نے کپ تھام لیا۔آبی جلدی سے وہاں سے ہٹی پھر نور کی پشت کو دیکھا جو ام جان اور شہریار کو چائے دے رہی تھی۔چائے دے کر وہ اسکی طرف پلٹی۔پھر جھٹ سے اسکا ہاتھ تھام کر ام جان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ 

"احد بھائی ویسے کافی اچھے ہیں۔۔۔ ہیں ناں؟"نور نے شہریار کے ساتھ باتوں میں مصروف احد کو دیکھ کر اسکے کان میں سرگوشی کی۔ 

"زیادہ شوخی نہ بنو نور کی بچی۔"آبی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔

"بنوں گی۔"نور نے اسے چڑایا۔وہ دانت پیسنے لگی۔

ام جان نے دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"آپ دونوں ذرا گیسٹ روم کو دیکھ لیجیے گا۔اگر احد یہاں رکے تو سب سیٹ ہونا چاہیے۔"ام جان نے آہستہ آواز میں کہا۔ 

"جی ام جان۔"آبی نے سر ہلایا۔پھر نور کا ہاتھ تھام کر اسے لئے وہاں سے نکلی۔

چائے پینے کے بعد احد نے واپس جانے پر بہت زور دیا پر شہریار نے اسکی ایک نہیں مانی اور اسے رات یہیں روک لیا۔ 

رات ڈنر تک خان بابا بھی حویلی پہنچ چکے تھے۔کافی عرصے بعد احد سے مل کر وہ کافی خوش ہوئے۔شہریار پڑھائی کے دوران شہر میں ہی رہتا تھا۔خان بابا جب شہریار سے ملنے جاتے تو احد سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔پڑھائی کے بعد شہریار تو واپس گاؤں آگیا تھا جبکہ احد نے آرمی جوائن کر لی تھی۔

وہ سب ڈنر کر کے ہال میں بیٹھے تھے۔خوشگوار ماحول میں باتیں کرتے کافی پی جا رہی تھی۔

ایک طرف صوفے پر شہریار اور احد بیٹھے تھے۔انکے سامنے نور آبی اور داور جبکہ درمیان والے صوفے پر خان بابا اور ام جان بیٹھے تھے۔باہر ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی جسکی وجہ سے  سردی بڑھ گئی تھی۔پر اندر کے ماحول کو آتش دان نے گرم کر رکھا تھا۔

کافی دیر تک سب باتوں میں مصروف رہے۔گھڑی پر گیارہ بجے تو خان بابا اور ام جان سبکو شب بخیر کہتے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔

داور جو خان بابا کی موجودگی میں اب تک تمیز سے بیٹھا تھا انکے جاتے ہی جلدی سے اٹھ کر احد کی طرف بڑھا۔ 

"شہریار لالہ نے ہمیں کبھی آپکے بارے میں نہیں بتایا احد بھائی۔"داور اسکے پاس بیٹھ کر بولا۔ 

"تمہارے لالہ صاحب لگتا ہے مجھے بھول گئے تھے۔"احد نے شرارت سے کہا۔اسکی بات سنتا شہریار مسکرانے لگا۔

"تم جیسے جن کو میں کیسے بھول سکتا ہوں۔"شہریار نے اسکا شانہ تھپکا۔وہ تینوں ہنسی مذاق میں لگے تھے۔

نور نے آج پہلی بار شہریار کو اس قدر خوش دیکھا تھا۔ورنہ وہ بہت خاموش اور سنجیدہ رہتا تھا۔

"شہریار آج کتنے خوش ہیں ناں۔"نور نے آبی کو دیکھ کر خوشی سے کہا۔شہریار خوش تھا اور اسے خوش دیکھ کر نور بھی کھل سی اٹھی تھی۔

"ہاں لالہ خوش ہیں۔یہ بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔چلو اٹھو اب سونے چلیں۔"آبی عجلت میں بولی۔احد کی موجودگی سے اسے عجیب سی الجھن محسوس ہو رہی تھی۔

"مجھے ذرا دیکھنے تو دو۔"نور نے شہریار کو مسکراتے دیکھ کر مگن انداز میں کہا۔

"صبح کالج نہیں جانا کیا ؟ جو چپک کر یہاں بیٹھی ہو۔اٹھو بھی  نور۔"آبی نے آہستہ آواز میں کہہ کر دانت پیسے۔ 

"ہاں جاؤں گی ناں ۔۔۔ پر ابھی ذرا مجھے خوش تو ہونے دو۔"وہ محبت سے کہتی شہریار کو دیکھ رہی تھی۔ 

شہریار نے ایک دم نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔پھر ابرو اٹھا کر جیسا پوچھا تھا۔"کیا مسئلہ ہے بی بی؟"

اسکے دیکھنے پر وہ ہڑبڑا کر نظریں پھیرتی آبی کو دیکھنے لگی۔ 

"چلیں۔۔۔"اسنے جلدی سے کہا۔ 

"نہیں ۔۔۔ ابھی تھوڑا اور دیکھ لو لالہ کو۔"آبی طنزیہ ہنسی۔ 

"شرم کرو دوست پر طنز کر رہی ہو۔"نور نے اسے گھورا۔

"شرم نہیں ہے مجھ میں۔"آبی نے مکھی اڑائی۔

"میں جانتی ہوں تم ہمیشہ سے ہی بے شرم رہی ہو۔"نور نے اسے تپانے والے انداز میں کہا۔ 

"اس بے شرمی کی وجہ تمہارا میرے ساتھ رہنا ہے۔تم سے ہی سیکھا ہے سب۔"آبی نے شانے اچکا کر سارا الزام اس پر ڈالا۔نور اسے گھورتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"چلو چڑیل۔"اسنے آبی سے کہا۔آبی ہنس کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ان لڑکوں کو گڈ نائٹ کہہ کر وہ دونوں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں جبکہ لڑکوں کی محفل دیر رات تک جمی رہی تھی۔ 

اگلی صبح وہ دونوں یونی کے لئے تیار تھیں۔شہریار کو ضروری کام کی وجہ سے زمینوں پر جانا پڑا۔ڈرائیور بھی موجود نہ تھا۔احد چونکہ شہر کی طرف ہی جا رہا تھا۔اسلیے اسنے ام جان سے اجازت لی کہ وہ ان دونوں کو یونیورسٹی ڈراپ کر دے گا۔ام جان نے اسے با خوشی اجازت دے دی تھی۔ 

ام جان کے کہنے پر وہ دونوں شہریار کی گاڑی کی طرف بڑھیں۔آبی کو اسکے ساتھ نہیں جانا تھا پر اسنے ام جان سے اجازت لی تھی تو وہ کیسے انکار کرتی۔

ویسے بھی وہ کون سا اسے کھا جائے گا۔اسنے پلٹ کر احد کو دیکھا جو ام جان سے مل کر انسے دعائیں لے رہا تھا۔آبی نے کچھ پل اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔جبکہ اسے دیکھ کر شرارت سے ہنستی نور جلدی سے پچھلی سیٹ پر بیٹھی پھر دروازے لاک کر دیے۔

آبی نے سر جھٹک کر پچھلا دروازہ کھولنا چاہا پر دروازہ لاک تھا۔

"نور کی بچی دروازہ کھولو۔"اسنے نیچے جھک کر ونڈو کے اس پار بیٹھی نور کو دیکھا۔جو مسکرا کر نہ میں سر ہلا رہی تھی۔

آبی نے زور سے ونڈو پر ہاتھ مارا۔تبھی احد انکی طرف آیا۔اسنے آبی کے لئے اگلا دروازہ کھولا۔ 

"بیٹھیں۔"شرافت سے کہا گیا۔ 

آبی دانت پیس کر دل ہی دل میں نور کو گالیاں دیتی آگے بیٹھی۔"تمہیں میں دیکھ لونگی نور۔"اسنے گردن پھیر کر چباتے ہوئے کہا۔نور نے جواب دینے کے بجائے شرارت سے آنکھ ماری۔آبی دانت کچکچا کر واپس سامنے دیکھنے لگی۔احد نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھائی۔ 

"آپکا کہا سچ ہوگیا ہے احد بھائی۔ آپ نے کہا تھا ناں کہ اگر وقت آپ دونوں کو دوبارہ سامنے لے آیا تو آپ آبی سے ناول سنے گے؟"نور نے مزے سے اسے اسکی بات یاد دلائی تھی۔

اسکی بات پر احد مسکرانے لگا۔ 

"اگر آبی سنانا چاہیں تو ضرور ۔۔۔ ورنہ میں انہیں فورس نہیں کروں گا۔"اسنے ایک نظر کھڑکی سے باہر جھانکتی آبی کو دیکھا۔ "کیوں آبی۔۔۔"اسے اپنی طرف متوجہ کیا گیا۔ 

"میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔"وہ ہنوز باہر دیکھتی سنجیدگی سے بولی۔

اسکی بات پر نور نے منہ بنایا۔ جبکہ احد سر ہلا کر مدھم سا مسکرا کر خاموش ہوگیا۔وہ اکڑو سی لڑکی اسے پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی۔اور اب اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ شہریار کی بہن ہے۔وہ اپنے دوست کی بہن کے بارے میں ایسے جذبات نہیں رکھنا چاہتا تھا پر کیا دل پر کسی کا بس چلا ہے؟

نہیں ناں۔۔۔۔ پھر وہ کیسے اپنے دل کو روک سکتا تھا۔اسکے دل کو آبی اچھی لگی تھی۔

جبکہ دوسری طرف آبی باہر دیکھتی نور کو کوس رہی تھی۔ساتھ احد پر بھی حیران تھی پہلی ملاقات میں وہ اسے بہت چھچھورا قسم کا انسان لگا تھا۔پر اب اس کے ایک بار منع کر دینے پر  خاموش ہوگیا تھا۔شاید پہلی ملاقات میں وہ اسے غلط سمجھ بیٹھی تھی؟باقی کا راستہ وہ انہیں سوچوں میں الجھی رہی تھی۔

احد خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔وہ کوئی فلرٹ قسم کا لڑکا نہ تھا۔بس شوخی اسکی طبیعت کا حصہ تھی۔وہ ہنسنے ہنسانے والا نوجوان تھا۔پر اس سب کے باوجود وہ کبھی اپنی حد سے باہر نہیں نکلا تھا۔آبی اسکے دوست کی بہن ، اسکی عزت تھی تو اس طرح سے وہ احد کے لئے بھی احترام کے قابل تھی۔محبت کرنا بری بات نہیں ہے۔محبت تو ہو ہی جاتی ہے پر محبت کو پاک رکھنا۔۔اس میں کھوٹ نہ کرنا اور محبت میں محبوب کو عزت دینا اہم ہے۔محبت تو ہر کوئی کر لیتا ہے پر اسے نبھانے والے کم ہوتے ہیں۔

محبت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔مزہ تو تب آئے جب آپ اپنی محبت کو نبھائیں۔محبوب کا ہاتھ تھام کر ہر سرد ، گرم سے گزر جائیں۔اسے کبھی ، کسی بھی حال میں تنہا نہ چھوڑیں۔تب جا کر محبت کا اصل لطف آتا ہے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

بہت سے دن خاموشی سے گزر گئے تھے۔سیماب ، نوری اور اسکی اماں کو اپنے گھر لے آئی تھیں۔وہ دونوں اب وہیں کام کر رہی تھیں۔سیماب نے نوری سے ہاشم کے بارے میں جاننا چاہا تھا۔پر نوری کو ہاشم کے نام کے علاوہ کچھ معلوم نہ تھا اور جنہیں معلوم تھا یعنی امتل آفندی ، تابین وہ انہیں بتانے والی نہ تھیں۔

سیماب نے دل پر پتھر رکھ کر اتنے سالوں میں پہلی بار حسن آفندی کو کال کرنے کا سوچا۔ورنہ اپنی پیاری بہن کی موت کے بعد انہوں نے اس شخص کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔

انہوں نے حسن آفندی کے آفس فون کیا کہ ان سے بات کر کے ہاشم کے بارے میں جان سکیں پر انکی سکریٹری نے بتایا کہ حسن آفندی بزنس کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں۔

سیماب کو بہت غصہ آیا تھا۔اس شخص نے ساری زندگی بزنس سنبھالنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا۔نہ وہ زنیرہ کو اسکا حق دے سکا اور نہ نازلی کو۔۔۔۔۔ 

دوسری طرف نازلی نے اپنے آپ کو کسی حد تک مضبوط کیا تھا۔

سانس چل رہی تھی اسلیے جینا تو تھا۔چاہے پھر وہ رو رو کر جیتی یا پھر خود کو مضبوط کر کے دنیا کو فیس کرتی۔اسنے دوسرا آپشن چنا تھا۔آگے کا تو اسے معلوم نہ تھا کہ کیا ہوگا پر فلحال وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

وہ نہا کر واش روم سے نکلی پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر بال سلجھانے لگی۔

یہ ماسٹر بیڈ روم ہاشم نے  اسکے لئے سیٹ کروا دیا تھا۔اسنے لاکھ نہ نہ کی پر وہ ہاشم خان تھا۔اپنی کرنا اسے آتا تھا۔اسنے اس روم کو نازلی کے لئے سیٹ کروایا اور اپنا سامان اسکے ساتھ والے کمرے میں شفٹ کروا دیا تھا۔

ڈارک پردے ہٹا کر خوبصورت سے وائٹ اور پنک پردے لگائے گئے۔

تھیم بھی چینج کروا کر وائٹ کیا گیا۔الماری میں نازلی کے بے شمار کپڑے سیٹ تھے۔اس چینج سے کمرہ بہت روشن لگنے لگا تھا۔نازلی کی اس کمرے میں موجودگی ہاشم کے دل کو سکون دیتی تھی۔ 

نازلی نے بال کھلے چھوڑے۔بیڈ سے سبز دوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈالا۔پھر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر کمرے سے باہر نکلی۔ہاشم اس وقت آفس میں ہوتا تھا جسکی وجہ سے وہ گھر میں گھوم پھر لیا کرتی تھی۔ورنہ اسکی موجودگی میں وہ زیادہ باہر نہیں نکلتی تھی۔ 

وہ وہاں سے لان میں آئی۔سنہری دھوپ نے اسکے چہرے کو چھوا تو اسنے آنکھیں بند کر کے لمبی سانس کھینچی۔ 

"نازلی باجی۔۔۔"چھوٹی پٹھانی نے اسے ہال کے دروازے سے آواز لگائی۔چھوٹی پٹھانی کے لئے وہ نازلی بی بی سے نازلی باجی ہوگئی تھی۔ 

"ہاں چھوٹی پٹھانی۔"نازلی نے مڑ کر اسے دیکھا۔ 

"آپکے لئے کافی لاؤں؟"اسنے مسکرا کر پوچھا۔ 

"کافی نہیں جوس لے آؤ۔"نازلی نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔چھوٹی پٹھانی جی کہتی اندر کی طرف بھاگی۔

نازلی چلتی ہوئی آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھی۔اتنے دنوں کی سردی کے بعد اب نرم سی دھوپ میں بیٹھ کر اسے سکون محسوس ہورہا تھا۔ 

اسنے موبائل لے کر آنکھوں کے سامنے کیا۔ 

پھر کانپتی انگلیوں کے ساتھ آنی کا نمبر ملانے لگی۔وہ کل سے انہیں کال کرنے کا سوچ رہی تھی۔پر اسے ڈر تھا کہ اگر بابا جان کی طرح آنی نے بھی اسکا بھروسہ نہیں کیا تو وہ کیا کرے گی؟ پر آج دل کو مضبوط کر کے آنی کا نمبر ملا کر موبائل کان سے لگایا۔ 

"ہیلو ۔۔"دوسری طرف سے آتی آنی کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔نازلی کے دل میں جیسے کچھ پگھلنے لگا تھا۔آنکھوں میں ایک دم نمی پھیلی۔ 

"آنی۔۔۔"اسنے نم آواز میں پکارا۔ 

"نازلی ۔۔۔ میری گڑیا ۔۔۔ میری جان ۔۔۔ کیسی ہو ؟ کہاں ہو تم ؟"سیماب تیزی سے بول رہی تھیں۔ 

"میں ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں آنی ۔۔۔"اسنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی دبائی تھی۔

"کہاں ہو میری جان ۔۔۔ مجھے بتاؤ میں ابھی تمہیں لینے آتی ہوں۔"سیماب نے عجلت سے کہا۔انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ نازلی کو کسی بھی طرح اپنے سامنے لے آتیں۔ 

"میں یہ آپکو نہیں بتا سکتی۔"اسنے روندھی آواز میں کہا۔ 

"کیوں گڑیا۔۔۔۔"سیماب پیار سے بولیں۔ 

"آپ کو معلوم ہے ناں آنی کہ کیا کچھ ہوا تھا؟ سب نے مجھ پر کیا کیا الزام لگائے۔کیا آپکو بھی ان سب باتوں پر یقین ہے؟"

"مجھے صرف اپنے نیلی آنکھوں والی گڑیا پر یقین ہے۔مجھے معلوم ہے کہ میری نازلی کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتی۔"سیماب نے اتنے نرم لہجے میں کہا تھا کہ نازلی کی آنکھوں سے شدت سے آنسو گرنے لگے۔

"سب نے مجھے غلط سمجھا آنی۔۔۔۔ بابا جان نے بھی میرا بھروسہ نہیں کیا۔"وہ رو رہی تھی۔ 

"اور کسی کو ہو نہ ہو پر مجھے تم پر بھروسہ  ہے میرا بچہ۔"سیماب کے لہجے میں محبت اور دکھ تھا۔نازلی بنا کچھ کہے روتی گئی۔ 

"اچھا بس ۔۔۔ اب رونا نہیں ہے۔بتاؤ تم کہاں ہو؟میں لینے آتی ہوں۔"

"میں نہیں آ سکتی آپکے پاس آنی۔"نازلی نے اداسی سے کہا 

"کیوں ۔۔۔"پوچھا گیا۔ 

"وہ شخص مجھے خود سے دور نہیں جانے دیگا۔"نازلی ، ہاشم کو اچھے سے جانتی تھی۔وہ اسے کہیں نہیں جانے دے گا اور اگر وہ خود چلی بھی گئی تو وہ اسے کیسے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔ 

"وہ شخص ہے کون؟۔۔۔۔"سیماب نے غصہ ضبط کیا۔ 

"میں نہیں جانتی ۔۔۔ بس وہ میری زندگی میں آندھی کی طرح آیا اور سب کچھ تہنس نہس کر دیا اسنے آنی۔" 

"مجھے ایڈریس بتاؤ۔۔۔تمہیں لینے نہیں پر میں تم سے ملنے تو آ سکتی ہوں ناں؟"

"جی ۔۔۔ پر ابھی نہیں ۔۔۔ کچھ دن بعد۔"نازلی نے مدھم آواز میں کہا۔وہ پہلے ہاشم سے بات کرنا چاہتی تھی۔اسے ڈر تھا کہ کہیں آنی کے یوں اچانک آجانے پر وہ بھڑک نہ جائے۔ 

"اوکے گڑیا۔"سیماب نے لمبی سانس کھینچی۔نازلی نے انہیں ایڈریس بتا دیا تھا۔پھر گھر میں سبکا پوچھنے لگی۔اسے خوشی ہوئی تھی کہ آنی نوری کو اپنے گھر لے آئی تھیں۔ کچھ دیر بات کر کے اسنے کال کٹ کی۔ 

وہ خاموشی سے بیٹھی تھی جب چھوٹی پٹھانی جوس لے کر آئی۔

"نازلی باجی۔"اسنے گلاس ٹیبل پر رکھا۔

"ہوں۔۔۔"نازلی نے اسے دیکھا۔

"آپ رویا مت کریں ۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا۔"وہ منہ بسور کر بولی۔نازلی نے اثبات میں سر ہلا کر محبت سے اسے دیکھا۔اسکے اپنے پرائے ہوگئے تھے اور پرایوں نے اسے اپنا بنا لیا تھا۔ 

چھوٹی پٹھانی ابھی اور بھی باتیں کرنے کے موڈ میں تھی جب دور کھڑی گل جان نے اسے آواز لگائی۔

"چھوٹی پٹھانی ادھر آؤ۔"

"افف مورے بلا رہی ہیں۔میں ابھی جاتی ہوں۔آپ سے بعد میں بات کروں گی۔"وہ ایک ہی سانس میں کہتی وہاں سے بھاگی تھی۔

نازلی نے مسکرا کر اسے جاتے دیکھا پھر خاموشی سے جوس پینے لگی۔اسنے جوس پی کر گلاس میز پر رکھا تبھی مین گیٹ کھلا اور ہاشم کی گاڑی اندر داخل ہوئی۔نازلی نے گردن پھیر کر دیکھا۔وہ کچھ گھنٹے پہلے ہی تو گیا تھا۔پھر اتنی جلدی کیسے واپس آگیا۔۔۔۔۔

نیوی بلیو سوٹ ، آنکھوں پر گلاسز لگائے وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا۔پھر کام والے لڑکے سے کوئی بات کرنے لگا۔نازلی کچھ پل اسکی طرف دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر سیدھی ہو بیٹھی۔

ہاشم نے ملازم کو کار سے سامان نکالنے کا کہا۔پھر دور بیٹھی نازلی کو دیکھ کر قدم اسکی طرف بڑھائے۔

"تجھ کو دیکھوں تو نظریں نہ ہٹانا چاہوں۔"

"ایک نظر میں ٹھہر جائے ۔۔۔۔ زمانہ چاہوں۔"

"اسلام و علیکم۔"اسنے پاس آ کر سلام کیا۔ 

"وعلیکم السلام۔"نازلی نے مدھم آواز میں جھکے سر کے ساتھ  جواب دیا۔

ہاشم نے کرسی کھینچ کر اسکے بالکل قریب رکھی۔پھر اس پر بیٹھ کر گلاسز اتار کر ٹیبل پر رکھے۔ 

اسکے اتنے قریب بیٹھنے پر نازلی اپنی کرسی پیچھے کرنے لگی جب ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر کرسی کی سائیڈ کو تھام کر اسے ایسا کرنے سے روکا۔  

"اوپر دیکھو۔"اسکی جھکی آنکھوں کو دیکھ کر بولا۔ 

"کیوں ۔۔۔"نازلی نے چہرہ پھیر کر جواب دیا۔

"آپ میری طرف دیکھیں گی مسز ہاشم یا میں خود آپکا حسین چہرہ تھام کر اوپر کروں؟"سنجیدگی سے کہا گیا۔ 

"دھمکیاں مت دیا کریں ہر بات پر۔"نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر غصے سے کہا۔

"تم روئی ہو؟"وہ اسکی گلابی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔

"رونے کے علاوہ میری زندگی میں اور ہے ہی کیا؟"وہ تلخ ہوئی۔ 

"میں ہوں ، میری محبت ہے۔۔۔۔ ایک بار دل کو نرم کر کے اسے میری محبت کے سنگ بہنے دو۔پھر دیکھنا ان آنکھوں میں آنسو نہیں ہونگے۔تمہاری یہ آنکھیں رونے کا فن بھول جائیں گیں۔تم صرف کلیوں  کی طرح مسکراؤ گی۔کوئی دکھ تمہارے پاس نہیں آئے گا۔"اسکے مدھم لہجے میں کہے الفاظ ایک فسوں باندھ رہے تھے۔  

پر وہ گڑیا اس جادو کے زیر اثر نہیں آئی تھی کیونکہ اسکا نازک دل درد کی لذت اچھے سے جانتا تھا۔وہ لڑکی تلخ حقیقت سے واقف تھی۔پھر کیسے اس شہزادے کی باتوں میں آ سکتی تھی؟  

"میرے دل میں اتنے گھاؤ لگے ہیں کہ یہ نرم نہیں ہو سکتا ۔۔۔ آپکے لئے تو بالکل نہیں۔۔۔۔ان آنکھوں کو آنسو آپ نے دیے ہیں۔۔۔اب انہیں آنسوؤں کی ہی عادت ہے۔آپ جھوٹے خواب دکھا کر میرا دل نہیں موڑ سکتے۔مجھے معلوم ہے اب کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔"وہ سیاہی مائل آنکھوں میں دیکھ کر تلخی سے بول رہی تھی۔ 

"تم ایک بار میری پناہوں میں آ کر تو دیکھو۔میں سب کچھ  ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔وعدہ رہا ۔۔۔"اسکے گال کو نرمی سے انگلیوں کی پشت سے چھوا تھا۔

"مجھے آپ کے وعدوں پر یقین نہیں ہے ہاشم خان۔"اپنے گال کو چھوتے اسکے ہاتھ کو آہستہ سے پیچھے کرتی وہ تیکھے انداز میں بولی۔

"اتنی نازک سی ہو پھر تمہارا یہ دل پتھر کا کیوں ہے؟"ہاشم نے جیسے تھک کر پوچھا تھا۔اسکی بات پر نازلی مدھم سی  مسکرائی۔

"ہار ماننے لگے ہیں؟"چڑانے والے انداز میں کہا گیا۔اسکی بات پر ہاشم نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکا۔

"تمہاری محبت حاصل کرنے کے لئے مرتے دم تک لڑوں گا۔۔۔۔ہار ماننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مسز۔"وہ محبت بھری لگن سے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

"دیکھا جائے گا۔"نیلی آنکھوں میں طنزیہ چمک تھی۔ان آنکھوں کے پیچھے اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔پر وہ ظالم آنکھیں تھیں کہ ان میں اسکے لئے ایک پل کے لئے بھی محبت نہیں جاگی تھی۔ 

"فرض کرو ۔۔۔۔"وہ سرگوشی سے بولا۔نازلی اسکی طرف متوجہ ہوئی۔

"فرض کرو کہ میں مر جاتا ہوں۔تم کیا تب بھی مجھ سے اتنی ہی نفرت کرو گی؟ کیا تب بھی تمہاری یہ آنکھیں مجھے ایک نظر محبت سے نہیں دیکھیں گیں؟کیا تمہارے دل میں اس دیوانے کے لئے ذرا بھی درد نہیں جاگے گا؟۔۔۔۔"وہ اسے دیکھتا بڑے سکون سے پوچھا رہا تھا۔اسکے ان سوالوں پر نازلی کی پیشانی پر شکنیں پڑیں۔

"کبھی نہیں ۔۔۔۔ میری یہ آنکھیں نہ میرا دل آپکی محبت میں پاگل ہے۔ ایک زبردستی کے رشتے کے علاوہ میرا آپ سے کوئی ناطہ نہیں۔بس مجھے انتظار ہے کہ آپ کسی بھی طرح میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائیں۔۔۔پھر میں آپکی صورت اپنی آنکھوں کے سامنے کبھی نہ دیکھوں۔۔۔۔"نازلی جھنجھلا کر غصے سے بول رہی تھی۔اسکی باتیں سنتے ہاشم کے دل میں تیر پیوست ہوا تھا۔سیاہ آنکھوں میں درد پھیلا تھا۔جسے آپ اتنا چاھتے ہوں اسکے منہ سے ایسی بات سننا دل کو چھلنی کر دیتا ہے۔ 

"میرے مرنے کی دعا تو کرتی ہوگی ناں تم؟"اسنے عجیب سرد و مضطرب لہجے میں پوچھا تھا۔

اسکی بات سن کر ایک دم نازلی کے چہرے کی رنگت اڑی۔اسنے اپنی موت کی دعا تو کی تھی پر اس شخص کے لئے اسنے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔

"میں نے آپ کے لئے کبھی ایسی دعا نہیں کی۔"اسنے زرد چہرے کے ساتھ ہاشم کی وجیہہ صورت دیکھی۔نیلی آنکھوں میں نمی پھیل رہی تھی۔اسکے جواب ، اسکے انداز پر ہاشم کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلنے گئی۔

وہ لڑکی بہت معصوم تھی۔دل کی صاف ۔۔۔ شفاف موتی جیسی ۔۔۔ وہ اتنی اچھی ، اتنی پیاری تھی کہ وہ کیسے اس پر دل نہ ہارتا؟ کوئی اس لڑکی سے پوچھتا ناں کہ وہ ایسی کیوں تھی ؟ اب اگر اسے دیکھ کر کسی کا پاگل دل دھڑک اٹھا تھا تو اس میں اس شخص کی کیا غلطی ؟ وہ تھی ہی محبت کرنے کے لائق ۔۔۔وہ اسے نازک پھولوں کی طرح سمیٹ کر رکھنا چاہتا تھا پر وہ تھی کہ اس سے بچ بچ کر چلتی تھی۔ 

وہ دن با دن جتنا اسے قریب سے جانتا جا رہا تھا۔اتنی ہی وہ اسکی آتی جاتی سانسوں میں بسنے لگی تھی۔اسکے وجود سے خوشبو بن کر لپٹ رہی تھی۔اسکے دل کو اپنی مٹھی میں قید کر رہی تھی۔ 

"میں نے واقعی کبھی ایسی دعا نہیں کی۔"نازلی نم آنکھوں جھکا کر ہاتھ مسلنے لگی۔ہاشم کی بات نے اسے بے چین کر دیا تھا۔

"اچھا ۔۔۔۔"ہاشم اسکا گال تھپک کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"آؤ تمہارے لئے کچھ چیزیں لایا ہوں۔۔۔آ کر دیکھو ذرا۔"اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا وہ اسے لے کر آگے بڑھنے لگا۔

نازلی سر جھکائے اسکے ساتھ چل رہی تھی۔وہ کیا اسے اس قدر بری لڑکی سمجھ رہا تھا؟ کیا اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس  کی موت کی دعا کرتی ہوگی؟ہاشم کی بات سے اسکا دل دکھا تھا۔وہ بھلے ہی اذیت میں ہوتی پر وہ دوسروں کے لئے بری دعا کبھی نہیں کرتی تھی۔یہ بات اسکے دل کو گوارا ہی نہ تھی۔ 

ہاشم اسے لے کر سیڑھیاں چڑھتا دوسرے فلور پر آیا۔پھر آگے بڑھ کر ایک دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا۔

"یہ دیکھو۔۔۔"اسکی بات پر نازلی نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسکی نظریں حیران رہ گئیں۔وہ بہت بڑا سا کمرہ تھا۔دروازے والی دیوار جسکے پاس وہ کھڑے تھے اسے چھوڑ کر باقی تینوں گلاس والز تھیں۔جن سے پردے ہٹے ہوئے تھے۔سنہری دھوپ چھن کر گلاس والز سے ہوتی کمرے کو سونے جیسی چمک دے رہی تھی۔وہ کچھ قدم آگے بڑھی۔کمرے میں نظر دوڑائی۔بائیں طرف صوفہ سیٹ رکھا تھا۔باقی کمرے میں کچھ نہ تھا۔پر ہاں سب سے ضروری چیز جسے دیکھ کر اسکا دل خوشی سے بھر گیا تھا۔

دائیں طرف والی گلاس وال کے سامنے ایک بڑا سا میز تھا۔جس پر مختلف برشز اور رنگ رکھے تھے۔میز کی ایک طرف کینوس رکھا تھا۔نازلی ان چیزوں کو دیکھ کر کھل سی اٹھی۔

چہرہ خوشی سے گلابی ہونے لگا تھا۔اسنے پلٹ کر ہاشم کو دیکھا۔ 

"یہ میرے لئے؟؟"اسنے بے یقینی سے پوچھا۔

ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔وہ جانتا تھا یہ گفٹ اسے بہت پسند آئے گا اور ایسا ہی ہوا تھا۔

"جی ہاں آپ کے لئے۔۔۔"وہ دلکشی سے مسکرایا۔نازلی کے چہرے پر خوشی دیکھ کر اسکے دل میں سکون اتر گیا تھا۔ 

"تھینک یو۔"وہ مدھم آواز میں کہتی میز سے چیزیں اٹھا کر دیکھ رہی تھی۔ہاشم نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی ، سینے پر ہاتھ باندھ کر مگن انداز میں اسے چیزوں کا جائزہ لیتے دیکھ رہا تھا۔سیاہ چمکتی آنکھیں نازلی کی پشت پر تھیں۔

وہ اس لڑکی کو دنیا کی ہر خوشی دینا چاہتا تھا سوائے اس سے دور جانے کی خوشی کے۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں اپنے دل سے قریب چیزوں کو محبت سے دیکھ رہے تھے۔نازلی اپنی رنگوں بھری دنیا کی چیزوں کو اور ہاشم اپنی نازلی کو۔۔۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

آبی اور نور لان میں بیٹھی تھیں جب مین گیٹ کھلا اور دو عورتیں اندر داخل ہوئیں۔ 

وہ دونوں میزبان ہونے کے ناطے جلدی سے اٹھ کر انکی طرف بڑھنے لگیں۔ 

انہیں سلام کیا پھر ساتھ لیتی اندر کی طرف بڑھیں۔جانے وہ دونوں کون تھیں۔لباس سے تو کسی اچھے گھرانے کی لگ رہی تھیں۔پر وہ لوگ انہیں جانتی نہ تھیں۔ 

انہیں ہال میں بٹھایا گیا۔نور انکے پاس بیٹھی جبکہ آبی ام جان کو بلانے کے لئے گئی۔ 

"آپ ماہ نور ہیں؟"ایک خاتوں جو سرخ و سفید تھیں۔انہوں نے پوچھا۔ 

"جی ۔۔۔"ان دونوں کی جائزہ لیتی نظریں خود پر محسوس کر کے نور کو عجیب سا لگا۔ 

"آپ خان بابا کی بیٹی ہیں۔"اب دوسری خاتون بولیں جو کہ دبلی پتلی شاطر سی لگ رہی تھیں۔ 

"جی ۔۔"نور نے مختصر جواب دیا۔پھر دل ہی دل میں ام جان کے جلدی آنے کی دعائیں کرنے لگی۔ان دونوں خواتین کی نگاہیں جیسے اسکا پوسٹ مارٹم کر رہی تھیں۔نور کو جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔

ام جان کو آتے دیکھ کر اسنے لمبی سانس کھینچ کر شکر ادا کیا پھر جلدی سے اٹھ کر آبی کی طرف بڑھی۔ 

"توبہ ان عورتوں کی نگاہیں۔۔۔"اپنے کمرے کی طرف بڑھتے اسنے آبی کے کان میں سرگوشی کی۔ 

"کہیں تمہارا رشتہ لے کر تو نہیں آئیں۔"آبی نے شرارت سے کہا۔دونوں کمرے میں داخل ہوئیں۔ 

"بکواس نہ کرو ۔۔۔"نور پہلے سے جھنجھلائی ہوئی تھی۔آبی کی بات پر غصے سے اسے مارنے کے لئے آگے بڑھی۔

"معافی ۔۔۔ معافی ۔۔۔۔"آبی نے جھٹ سے ہاتھ جوڑے۔ 

پھر دونوں بیٹھ کر یونی کا کام کرنے لگیں۔

وہ عورتیں چلی گئیں تو ام جان اپنے کمرے کی طرف بڑھیں۔پیشانی پر سوچ کی لکیریں تھیں۔ 

شام کی سرمئی روشنی رات کے اندھیرے میں بدلی تو وہ دونوں کمرے سے باہر نکلیں۔

"ام جان سے پوچھوں ذرا کہ وہ خواتین کیوں آئیں تھیں۔"آبی کہہ کر آگے بڑھی۔ 

"ارے دفع کرو ۔۔۔ ویسے ہی آئیں ہونگی۔تم چلو کافی بنا کے پلاؤ مجھے۔"نور اسکا ہاتھ تھام کر کچن کی طرف بڑھی۔وہ عورتیں جانے کیوں نور کو زہر لگیں تھیں۔وجہ انکی کیمرہ جیسی نظروں سے نور کا جائزہ لینا تھا۔ 

"تمہیں تو ہر وقت اپنی ہی پڑی رہتی ہے۔"آبی نے منہ بنا کر کہا۔ 

"تو اچھا ہے ناں۔"نور نے آنکھیں پٹپٹائیں۔آبی اونہوں کرتی کافی بنانے لگی۔نور ایک طرف رکھے ٹیبل کے گرد بیٹھی۔ تبھی وہاں داور ٹپک پڑا۔ 

"ہیلو مانو بلی۔"وہ نور کے بال بگاڑ کر کرسی گھسیٹ کر بیٹھا۔

"جن کہیں کے۔"نور نے اپنے بال ٹھیک کر کے اسے گھورا۔ 

"بریکنگ نیوز لایا ہوں۔"اسنے اعلان کیا۔ 

"کیسی نیوز۔۔۔"آبی نے گردن پھیر کر جلدی سے پوچھا۔ 

"نور کے لئے رشتہ آیا ہے۔"داور نے ہنس کر بتایا۔

"ہائے سچی۔"آبی نے حیرت سے کہا۔نور بھی حیران سی آنکھیں پھاڑے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ 

"نور میں نے کہا تھا ناں۔"آبی اسے دیکھ کر ایک دم شرارت سے ہنسی تھی۔ 

"کالی زبان والی چڑیل ہو پھر تو تم۔"نور نے دانت پیس کر کہا۔داور اور آبی نے اسکی بات پر قہقہہ لگایا۔نور تپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"کہاں جا رہی ہو؟"داور نے ہنسی روک کر پوچھا۔ 

"ام جان سے پوچھنے ۔۔۔۔ تمہاری باتوں کا مجھے ذرا بھروسہ  نہیں ہے۔"وہ غصے سے کہتی کچن سے باہر نکلی۔ 

"ہاں ہاں جا کر پوچھ لو۔"داور کی مسکراتی آواز نے اسکا پیچھا کیا تھا۔وہ سر جھٹک کر آگے بڑھی۔

کوریڈور سے گزر رہی تھی جب سامنے سے آتے شہریار کو دیکھ کر رک گئی۔شہریار چلتا ہوا اسکے قریب آیا۔نور کو لگا تھا کہ وہ آگے بڑھ جائے گا پر وہ اسکا راستہ روک کر کھڑا ہوا۔ 

"آج بہت خوش ہوگی ناں تم۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔نور نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔"کیوں۔۔۔"اسنے شہریار کو دیکھ کر ابرو اٹھایا۔

"مجھے نیچا دکھا کر ۔۔"اسنے دانت پیسے۔ 

"میں نے آپکو کب نیچا دکھایا؟"نور حیران و پریشان تھی۔ 

"ابراہیم کو کب سے جانتی ہو ؟ جو اسنے اپنا رشتہ بھیج دیا تمہارے لئے۔"چبا کر وہ لال آنکھوں کے ساتھ بولا۔ 

"کون ابراھیم۔۔۔"نور الجھی تھی۔اس نام کے شخص سے تو وہ واقف نہ تھی۔ 

"ڈرامہ مت کرو۔۔۔۔اپنی دوست کی شادی میں اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی تم۔"شہریار کے لہجے میں جلن تھی۔نور نے اسکی بات سن کر دماغ پر زور ڈالا تو اسے وہ شخص یاد آیا۔

"اوہ ۔۔۔وہ شخص جسنے مجھے جھمکا اٹھا کر دیا تھا؟"نور نے جلدی سے پوچھا۔ 

"مجھے کیا معلوم جھمکا دیا تھا کہ دل۔"وہ جھنجھلایا۔ 

"ویسے کب سے ملاقات کر رہی ہو اس سے؟ کب سے جانتی ہو اسے؟"اسنے ایک دم سپاٹ لہجے میں پوچھا۔ 

"میں اس شخص کو نہیں جانتی شہریار ۔۔۔ میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔"نور نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ 

"ہر مجرم پکڑے جانے کے بعد یہی کہتا ہے۔"وہ غصے سے بولا۔اسکی بات پر نور جل بھن گئی۔ 

"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ جانتی ہوں میں اس شخص کو۔۔۔ ملاقاتیں بھی کرتی تھی ۔۔۔ آگے بھی ملوں گی اور شادی بھی اسی سے کرونگی ۔۔۔ میں جو بھی کروں اس سے آپکو کیا مسئلہ ہے؟"وہ تپ کر بولتی چلی گئی۔

اسکی بات پر شہریار غصے سے آگے بڑھا۔نور ایک دم پیچھے ہوتی دیوار کے ساتھ جا لگی۔وہ اسکے قریب رکا۔

"تمہارا مجھ سے اور کوئی رشتہ ہو نہ ہو پر تم اس گھر کی عزت ہو۔خان بابا کی بیٹی ہو اور خان بابا کی عزت پر میں آنچ تک نہیں آنے دونگا۔"وہ آہستہ آواز میں غرایا۔"آگے اگر تم نے کچھ بھی الٹا سیدھا کیا تو میں تمہارا گلہ دبا دونگا۔۔۔۔سمجھی ۔۔۔۔"چبا کر کہتے اسنے زور سے دیوار پر ہاتھ مارا۔

نور سہم کر آنکھیں بھینچ گئی۔

شہریار نے کچھ پل اسکے زرد چہرے کو دیکھا پھر مٹھیاں بھینچ کر لمبے ڈگ بھرتا آگے بڑھ گیا۔

نور نے جھٹ سے آنکھیں کھول کر اسکی پشت کو دیکھا۔آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ 

"اونہوں۔۔۔ گلہ دبائیں گے۔۔۔ کیوں ؟ ۔۔۔میں انکا سر پھاڑ دونگی ایسا کرنے سے پہلے۔"وہ نم آواز کے ساتھ غصے سے بڑبڑا رہی تھی۔"ظالم ، جاہل آدمی ۔۔۔ اسے معلوم بھی ہے کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں پھر بھی فضول باتوں سے گریز نہیں کرتا ۔۔۔ جل ککڑا ۔۔۔سڑو کہیں کا ۔۔۔ جانے خود کو کیا سمجھتا ہے۔عقل تو نام کی نہیں ہے اس شخص میں۔۔۔ "وہ دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر اس شخص کے خلاف الفاظ۔شہریار کی باتیں اسے ہمیشہ دکھ دیتی تھی۔

پیار سے بات کرنا تو جیسے اس آدمی نے سیکھا ہی نہ تھا۔آنسو صاف کرتی وہ وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔اب ام جان سے پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔وہ شخص اسے سب کچھ بہت اچھے سے بتا چکا تھا۔

شہریار اپنے کمرے میں آیا۔پھر بے چینی نے ٹھلنے لگا۔

وہ کچھ دیر پہلے ہی گھر آیا تھا۔ ام جان سے ملنے انکے کمرے کی طرف بڑھا۔وہ دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا جب ام جان کی بات پر تھم گیا۔وہ داور سے بات کر رہی تھی۔انکی بات سن کر شہریار وہیں تھم گیا تھا۔اسکی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اندر جاتا۔

نور کے لئے رشتہ آیا تھا۔یہ بات وہ کسی طرح ہضم کر گیا۔پر جب ام جان نے اس لڑکے کا نام لیا اور بتایا کہ وہ اسماء کا کزن ہے۔شہریار کے دل میں آگ جل اٹھی۔اُس شخص کی صورت اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگی۔

پھر کچھ پل بعد ماہ نور کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ غصے کو کنٹرول نہیں کر پایا تھا۔ 

وہ چکر کاٹ رہا تھا جب اسکا موبائل بجا۔ 

اسکے دوست (اسماء کے بھائی)کا فون تھا۔

اسنے کال پک کی۔"ہیلو۔"اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی۔

"شہریار میں نے معذرت کرنے کے لئے فون کیا ہے۔ابراھیم نے ابھی مجھے بتایا۔آئی ایم سوری یار ۔۔۔ اگر مجھے پہلے اسکے ارادے کا معلوم ہوتا تو میں اسے روک لیتا۔"دوسری طرف سے معذرت بھرے لہجے میں کہا گیا۔وہ جانتا تھا کہ نور ، شہریار کی منگ ہے۔پھر ابراھیم کا اسکے لئے رشتہ بھیجنا اسے شرمندہ کر گیا تھا۔ابراھیم یہ بات نہیں جانتا تھا پر ام جان نے اسکی والدہ اور پھپھو کو بتا دیا تھا کہ انکی بیٹی کی منگنی ہوچکی ہے۔وہ دونوں خواتین بھی شرمندہ سی معذرت کرتیں وہاں سے گئی تھیں۔ 

شہریار اب اسکی بات کے جواب میں کیا کہتا۔جو کچھ ہوا تھا وہ واقعی برا ہوا تھا۔پر وہ اپنے کزن کی طرف سے معافی مانگ رہا تھا تو شہریار نے اسکی معذرت قبول کر کے فون بند کر دیا۔

اسکی منگیتر کے لئے رشتے آرہے تھے۔یہ بات اسکی انا کو گوارا نہ تھی۔

وہ بھلے ہی نور کی محبت سے انکاری تھا پر نور کا نام اسکے ساتھ جڑا تھا۔پھر وہ کیسے برداشت کرتا کہ کوئی اور اسے پانے کی چاہ رکھتا ہو۔

کھڑکی کے پاس کھڑا آسمان کو گھورتا وہ مسلسل سوچوں میں گم دانت پیسنے میں مصروف تھا۔ 

"تیری خوشبو نہیں ملتی۔۔۔۔"

"تیرا لہجہ نہیں ملتا۔۔۔۔"

"ہمیں تو اس شہر میں ۔۔۔"

"کوئی تیرے جیسا نہیں ملتا۔۔۔"

نازلی کمرے سے باہر نکلی۔پیچ کپڑوں میں اسنے ہم رنگ دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا اور شانوں  کے گرد بلیک شال لپیٹی تھی۔دائیں کندھے پر بیگ لٹکا تھا۔

وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو کر کمرے سے نکلی تھی۔کل ہی اسنے رشید بابا جو حسن ولا میں اسکے ڈرائیور تھے۔انہیں کال کر کے اپنی کتابیں منگوائی تھیں۔

ہاشم کو اسنے فلحال یونی کا نہیں بتایا تھا۔

وہ چلتی ہوئی ڈرائننگ روم میں داخل ہوئی۔اسے لگ رہا تھا کہ شاید ہاشم اسے جانے نہ دے۔پر وہ اسکا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھی۔ 

ہاشم وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ میں تیار ہوا بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔قدموں کی چاپ پر اسنے سر اٹھا کر میز کے اس پار کھڑی نازلی کو دیکھا۔ 

"کہیں جا رہی ہو؟"اسکی تیاری کو دیکھ کر پوچھا گیا۔ 

"یونیورسٹی ۔۔۔"نازلی نے مختصر جواب دیا۔ 

"اوکے۔"ہاشم نے سکون سے کہا۔پھر گلاس میں جوس ڈالنے لگا۔

"یونیورسٹی کا نام کیا ہے؟"اسکے پوچھنے پر نازلی نے اسے نام بتایا تو ہاشم نے سر ہلایا پھر بولا۔"آؤ ناشتہ کرو۔"

"مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔"وہ بے زاری سے بولی۔وہ سوچ رہی تھی کہ یونی جا کر آبی اور نور سے بھلا کیا کہے گی؟ ظاہر سی بات تھی اسے کوئی جھوٹ ہی بولنا پڑے گا۔اور اپنی دوستوں سے جھوٹ بولنے کے خیال پر اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔ 

ہاشم خاموشی سے کرسی دھکیل کر اٹھتا نازلی کی طرف بڑھا۔نازلی نے چونک کر اسے دیکھا پھر جھٹ سے کچھ قدم پیچھے ہوئی۔ 

"میں کوئی تمہیں کھانے تو نہیں آ رہا جو تم ڈر رہی ہو۔"شوخ لہجے میں کہا گیا۔ 

"چلو آؤ یہاں۔"اسنے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ 

"کیوں ۔۔۔"نازلی نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔ 

"ناشتہ کرنے ۔۔۔" مسکرا کر کہا گیا۔ 

"نہیں ۔۔۔ میں چلتی ہوں۔یونیورسٹی سے لیٹ ہوجاؤں گی۔"وہ جلدی سے کہتی پلٹ کر جانے لگی۔ 

ہاشم نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما پھر اسے لیے ٹیبل کی طرف بڑھا۔بیگ لے کر کرسی پر رکھا اور دوسری کرسی پر اسے بٹھایا۔ 

"یہ لو ۔۔اسے جلدی سے پیو۔"اسنے جوس کا گلاس اٹھا کر اسکی طرف بڑھایا۔ 

"میرا دل نہیں کر رہا۔"نازلی جھنجھلائی۔یہاں بندہ اپنی مرضی سے رہ بھی نہیں سکتا۔وہ زیادہ تر بنا کھائے ہی یونی جاتی تھی۔گھر میں تو اسے کوئی نہیں روکتا تھا پھر یہ شخص اسے  کیوں فورس کر رہا تھا۔ناشتہ نہ کرنے سے وہ مر تو نہیں جائے گی جو وہ اسے ناشتہ کروانے پر تلا تھا۔ 

"گل جان آپ نازلی کے لئے دودھ ہی لے آئیں۔یہ جوس نہیں پینا چاہتی۔"ہاشم نے اونچی آواز میں کچن کی طرف منہ کر کے کہا۔

"میں جوس ہی لے لیتی ہوں۔"دانت پیس کر نازلی نے اسکے ہاتھ سے گلاس لیا۔پھر سپ لینے لگی۔ 

ہاشم نے اسکی کمزوری پا لی تھی تبھی اسے قابو کر پایا تھا۔نازلی کو دیکھ کر مسکراہٹ دباتا کرسی کی پشت پر ڈالا کوٹ اٹھا کر پہننے لگا۔ 

نازلی جوس ختم کرتی جلدی سے بیگ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"چلو ۔۔۔"ہاشم نے ٹیبل سے کار کی چابی اٹھا کر اسے دیکھا۔

"آپ کہاں؟"اس نے حیرت سے پوچھا۔ 

"تمہیں ڈراپ کرنے۔"اسے آنے کا اشارہ کرتا وہ آگے بڑھا۔ 

 "میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔مجھے ڈرائیور کے ساتھ جانا ہے۔"اسکے پیچھے چلتی وہ بے زاری سے بولی۔ 

"مجھے اپنا ڈرائیور ہی سمجھو۔"مسکراتی آواز میں کہا گیا۔ 

نازلی نے لمبی سانس کھینچ کر ہار مانی۔ 

"میں صرف آج ہی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔۔۔۔۔روز نہیں۔"اسنے دو ٹوک انداز میں کہا۔ 

"اچھا ٹھیک ہے مسز ۔۔۔۔ اب چلو بھی۔"وہ مان جانے والے انداز میں کہتا اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کرنے لگا۔ 

نازلی اسکے ساتھ پورچ میں آئی۔

دونوں کار میں بیٹھے تو ہاشم نے کار آگے بڑھا دی۔ 

یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا میں کار رکی۔نازلی جلدی سے باہر نکلنے لگی۔ 

"سنو ۔۔۔"ہاشم نے پکارا۔ 

"بولیں۔۔۔"وہ بنا اسکی طرف دیکھے بولی۔ 

"اپنا خیال رکھنا۔"محبت سے کہا گیا۔نازلی کچھ وقت تک تھم گئی۔پھر جلدی سے کار سے باہر نکلی۔

ہاشم نے اسے یونی میں داخل ہوتے دیکھ کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ 

نازلی آج اتنے دنوں بعد یونی آئی تھی۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج اسکا پہلا دن ہو۔ 

دور گراؤنڈ میں وہ دونوں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی نظر آئیں۔

اتنے دنوں بعد ان دونوں کو دیکھ کر نازلی کا دل کھل سا اٹھا۔ وہ تیز قدموں سے انکی طرف بڑھی۔

"اسلام و علیکم"اسنے دونوں پر سلامتی بھیجی۔ 

وہ دونوں جو ایک کتاب پر جھکی تھیں۔چونک کر سامنے دیکھنے لگیں۔

نازلی کو دیکھ کر دونوں کی آنکھوں میں پہلے حیرت جاگی پھر خوشی اور آخر میں ناراضگی چھلکنے لگی۔ 

دونوں اسکے سلام کا جواب دے کر واپس اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔نازلی نے اداسی سے انہیں دیکھا۔پھر انکے پاس ہی بیٹھ گئی۔ 

"ناراض ہو مجھ سے؟"معصومیت سے ہاتھ مسل کر پوچھا۔ 

"صدقے جاؤں اس معصومیت پر۔۔۔۔اتنے دنوں تک انجان رہ کر بھی ایسا سوال کر رہی ہے۔"نور نے طنزیہ کہا۔  

"کہاں تھی تم نازلی؟کچھ احساس ہے تمہیں کہ ہم کتنے پریشان ہوئے ہیں۔جو بھی مسئلہ تھا تم ہمیں بتا سکتی تھی۔پر اس طرح موبائل بند کر لینا ، یونی نہ آنا۔یہ سب کیا تھا۔"آبی نے اسکے چہرے کو دیکھ کر کہا۔ 

"آئی ایم سوری۔"نازلی کی آواز نم ہوئی۔جو اس پر بیتی تھی وہ انہیں نہیں بتا سکتی تھی۔اسلیے سوری کے علاوہ اور کچھ نہ کہہ سکی۔ 

"افف اب رو تو مت یار۔"نور کا دل ایک دم نرم ہوا۔اس نے نازلی کے ہاتھ نرمی سے تھامے۔ 

"آئی ایم ریلی سوری۔"اسنے نم آنکھیں اٹھا کر دونوں کو دیکھا۔

"افوہ اب سوری کو چھوڑو اور رونا بند کرو۔"آبی نے مسکرا کر اسکے آنسو صاف کیے۔ 

"یہ بتاؤ آئی کیوں نہیں اتنے دن۔"نور نے جلدی سے پوچھا۔ 

"وہ میں۔۔۔"نازلی جھجھک کر رکی۔"وہ میں بیمار تھی۔"پھر  جلدی سے جھوٹ بول گئی۔ 

"ہائے ظالم ۔۔۔ ہمیں کیوں نہ بتایا تم نے؟ دیکھو نور اسکی صورت بھی کیسی زرد ہورہی ہے۔"آبی نے فکر مندی سے کہا۔ 

"اب کیسی ہو؟"نور نے محبت سے پوچھا۔ 

"اب تو ٹھیک ہوں۔۔۔"وہ ایک دم مسکرائی۔"ناراض تو نہیں ہو اب؟"اسنے دونوں کو دیکھا۔ 

"پہلے بھی نہیں تھے۔"آبی نے آنکھ ماری۔ 

"اتنی پیاری لڑکی سے ہم ناراض نہیں ہوتے۔"نور نے ہنستے ہوئے اسکا گال کھینچا۔

"تم آئی ہو تو رونق آئی ہے ورنہ اس نور نے تو مجھے پاگل کر دیا تھا۔"آبی نے شرارت سے کہا۔

"بیٹا پاگل تو تم پہلے سے ہو۔اس بات کا الزام مجھ پر نہ ڈالو۔"نور نے مکھی اڑائی۔

نازلی ایک دم ہنسنے لگی۔وہ دونوں اسکے لئے اللہ کا دیا ہوا تحفہ تھیں۔جنہیں پا کر اسکی تنہا بے رنگ زندگی میں رنگ بھر گئے تھے۔ 

"میں نے تم دونوں کو بہت مس کیا۔"اسنے محبت سے کہا۔ 

"زیادہ کسے مس کیا؟"نور جھٹ سے بولی۔

"مجھے ۔۔ اور کسے۔"آبی نے شانے اچکائے۔ 

"دفع دور ۔۔۔ تمہیں نہیں مجھے۔"نور نے اسے گھورا کر کہا۔ 

"لڑائی نہیں ۔۔۔ میں نے دونوں کو برابر ہی مس کیا ہے چڑیلو۔"اسنے پہلی بار شرارت سے انہیں چڑیلیں کہہ کر پکارا تھا۔اس بات پر نور اور آبی کھلکھلا اٹھیں۔

"بیماری نے اس پر خوب اثر کیا ہے۔"نور مزے سے بولی۔

"لڑکی تیز ہوگئی ہے۔"آبی نے بھی لقمہ دیا۔دونوں نہیں جانتی تھیں کہ اسے ایسا بنانے والا انکا لالہ محترم ہی تھا۔ 

انکی بات پر نازلی سر جھٹک کر مسکرائی۔

"اچھا سنو ناں نازلی۔"نور اسکے ساتھ چپک کر بیٹھی۔نازلی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جبکہ آبی کے دل میں گھنٹی بجی۔اسکے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ ضرور آبی کے خلاف ہی کچھ بولنے والی تھی۔ 

"وہ بک شاپ والا لڑکا یاد ہے ناں؟"مزے سے پوچھا گیا۔ 

"ہاں ۔۔۔"نازلی نے اثبات میں سر ہلایا۔

"نور کوئی بکواس مت کرنا۔"آبی نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔ 

"ارے چپ ۔۔۔"نور نے اس پر دھیان نہ دیا۔"نازلی وہ لڑکا ناں شہریار کا دوست نکلا۔۔۔۔ وہ بھی زمانووووووں پرانا یونی فیلو۔۔۔"نور مزے سے تالی بجا کر بولی۔

"واقعی۔"نازلی حیران تھی۔ 

"آہو ۔۔۔ اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ وہ آبی کو پسند کرتا ہے۔"نور نے سرگوشی کی۔جو آبی سن چکی تھی۔ 

"فضول مت بولو۔۔۔۔نازلی اسے روک دو ورنہ میں اسکی زبان کاٹ دونگی۔"آبی غصے سے تپی۔نازلی نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔

"واللہ میں نے اسکی آنکھوں میں آبی کے لئے محبت دیکھی ہے۔"نور مگن سی بولی۔ 

"ایسی تم لو گرو۔"آبی نے طنزیہ کہا۔ 

"بیٹا سالوں سے محبت سے واقف ہوں۔سامنے والے کی آنکھیں دیکھ کر پہچان لیتی ہوں۔"نور گردن اکڑا کر بولی۔ 

"کیا سچ میں ایسا ہے؟"نازلی نے تجسس سے پوچھا۔ 

"ایسا کچھ نہیں ہے۔اس چڑیل کی باتوں میں نہ آنا۔"آبی نے نازلی کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 

"دیکھنا ایک دن میری بات پر یہ چڑیل ضرور یقین کرے گی۔"نور نے آنکھ دبا کر نازلی کو دیکھا۔وہ مسکرانے لگی۔ 

"اچھا ۔۔۔ میری باتیں تو بتا دیں۔اب ذرا میں تمہاری بات بتاؤں۔"آبی نے آستینیں اوپر کیں۔نور اسے گھورنے لگی۔جبکہ آبی ، نازلی کو رشتے والی عورتوں کا بتانے لگی۔ 

آبی مصالحے لگا لگا کر نازلی کو نور پر بیتی کہانی سنا رہی تھی۔نازلی کنٹرول کرنے کے باوجود ہنسنے لگی تھی جبکہ نور تپ کر انہیں مصنوعی غصے سے گھور رہی تھی۔

نازلی کو یوں مسکراتے دیکھ کر اسے اچھا لگ رہا تھا۔جب انکی دوستی ہوئی تھی۔نازلی اسے بہت تنہا اور اکیلی لڑکی لگی تھی۔اب انکے ساتھ مل کر وہ کسی حد تک بدل گئی تھی۔نور جانتی تھی وہ اب بھی اپنے خول میں بند تھی۔ان سے بہت کچھ چھپا لیا کرتی تھی۔پر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خول سے باہر آ کر ایک زندہ دل لڑکی بن جائے گی۔اور ویسے بھی جسکے ساتھ نور اور آبی ہوں۔وہ زیادہ دیر تک تنہا و خاموش نہیں رہ سکتا۔

انہیں مسکراتے دیکھ کر خیالوں سے چونکتی وہ بھی مسکرانے لگی۔پھر انکے ساتھ باتوں میں شامل ہوگئی۔ 

اتنے دنوں بعد ان دونوں کے ساتھ کی وجہ سے نازلی کے دل میں سکون اترا تھا۔انکے ساتھ ہنسی مذاق کرتی وہ وقتی طور پر سب تلخ یادیں بھول گئی تھی۔وہ چاہتی تھی یہ وقت کبھی نہ گزرے اور وہ یونہی انکے ساتھ بیٹھی ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار دے۔

یونی کی چھٹی ہوئی تو نازلی ، نور اور آبی کے ساتھ باہر کی طرف بڑھی۔پارکنگ لاٹ میں پہچ کر وہ جلدی سے انہیں اللہ حافظ کہتی آگے بڑھی۔اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسے ہاشم کے ساتھ دیکھ کر کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھیں۔

آبی اور نور باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھیں۔جب نور نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا۔دور اسے نازلی کسی کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔نور نے پوری آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ 

"آبی ۔۔۔ وہ دیکھو یہ ہاشم لالہ ہی ہیں ناں نازلی کے ساتھ۔"نور نے جلدی سے آبی کو اس طرف متوجہ کیا۔ 

"ہائے ہاں یہ ہاشم لالہ ہی ہیں۔"آبی نے حیرت سے کہا۔ 

دونوں حیرت سے آنکھیں پھاڑے انکی طرف دیکھ رہی تھی۔ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر نازلی کے کندھے سے شال ٹھیک کی۔انداز بتا  رہا تھا کہ انکا آپس میں کوئی قریبی رشتہ ہے۔ 

"اوئے ہوئے۔۔۔۔۔چلو آبی ذرا دیکھیں تو۔"نور اسکا ہاتھ تھام کر جھٹ سے آگے بڑھی۔

دونوں تیزی سے انکی طرف بڑھ رہی تھیں پر انکے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ 

"افف ربا ۔۔۔۔ یہ کیا سین ہے۔"نور نے الجھ کر آبی کو دیکھا۔ 

"یہ تو ہاشم لالہ سے مل کر ہی پتہ چلے گا۔"آبی نے جواب دیا۔

"کال کرتی ہوں لالہ کو۔"نور نے بیگ سے موبائل نکالا۔پھر ہاشم کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ 

بیل جا رہی تھی پر وہ کال پک نہیں کر رہا تھا۔

"کال پک نہیں کر رہے۔"نور نے منہ بنایا۔ 

"اب کیا ؟؟"آبی نے اسے دیکھا۔

"چلو خان ولا چلتے ہیں۔"نور نے مسکرا کر چٹکی بجائی۔

"چلو پھر۔۔۔ آج لالہ کو رنگے ہاتھوں پکڑتے ہیں۔"آبی نے شرارت سے آنکھ ماری۔پھر دونوں ہنستی ہوئیں گاڑی کی طرف بڑھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہاشم ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا۔موبائل سائلنٹ پر لگا ہوا تھا اور اسکے کوٹ کے اندرونی جیب میں رکھا تھا۔اسلیے اسے نور کی کال کا پتہ نہ چلا۔ 

کار خان ولا میں رکی۔نازلی اتر کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔ 

ہاشم نے اسفی سے بات کرنے کے لئے موبائل نکالا۔اسکرین پر نور کی مسڈ کال دیکھی تو پھر اسکا نمبر ڈائل کیا۔ 

"کال کی تھی تم نے؟"نور کے کال اٹھاتے ہی اسنے پوچھا۔ 

"جی ہاں ۔۔"نور نے منہ بنا کر جواب دیا۔ 

"کیا بات ہے؟کوئی مسئلہ تو نہیں۔"ہاشم ایک دم پریشان ہوا۔ 

"بات جو بھی ہے وہ خان ولا آ کر بتاتی ہوں۔" 

"تم یہاں آ رہی ہو؟"اسنے حیرت سے پوچھا۔ 

"یس لالہ۔۔۔ میں اور آبی۔۔۔"نور نے ہنسی دبائی۔

"تم لوگ یہاں مت آؤ۔۔۔ میں ریسٹورنٹ جا رہا ہوں۔تم بھی وہاں پہنچو ۔۔۔ پھر ساتھ لنچ کرتے بات کریں گے۔اوکے۔"وہ جلدی سے بولا کہ کہیں وہ شرارت کی پوٹلیاں یہاں نہ پہنچ جائیں۔پھر نازلی انہیں دیکھ کر جانے کیسا ری ایکٹ کرتی۔ 

"گھر میں کیوں نہیں؟"نور نے بسورتی آواز میں پوچھا۔  

"کیونکہ میں گھر میں نہیں ہوں۔"وہ جھوٹ بول گیا۔

"اوکے ۔۔۔ کونسے ریسٹورنٹ؟"نور کے پوچھنے پر اسنے نام بتایا۔اور نور نے ڈرائیور کو گاڑی کا رخ موڑنے کا کہا۔ 

کال بند کر کے ہاشم نے جلدی سے گاڑی گیٹ سے باہر نکالی۔ 

"جانے میڈم کو کیا بات کرنی ہے۔"ہاشم کو لگا تھا کہ شاید حویلی آنے کا ہی کہے گی۔ 

یہ یونیورسٹیز کی چھٹی کا وقت تھا۔پر وہ گھر جانے کے بجائے اس سے ملنے آ رہی تھیں۔پر وہ دونوں کونسی یونی میں تھیں؟ ہاشم کو یاد نہ آیا۔اسے خود پر افسوس ہوا کہ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ وہ دونوں کونسی یونی میں پڑھتی ہیں۔

نور کی اچانک کال نے اسے ٹینشن میں ڈال دیا تھا کہ جانے کیا بات ہوگی۔کہیں ام جان کی طبیعت پھر خراب تو نہیں ہوگئی۔۔۔

وہ سوچوں میں گم ریسٹورنٹ میں پہنچا تھا۔کار پارک کرتا اندر کی طرف بڑھا۔ 

دور کونے والی ٹیبل پر وہ دونوں پہلے سے موجود اسکا انتظار کر رہی تھیں۔ 

وہ انکی طرف بڑھا۔دونوں نے اسے دیکھ کر سلام کیا۔وہ جواب دیتا انکے سامنے بیٹھا۔پھر گلاسز اتار کر ٹیبل پر رکھے۔وہ دونوں اسے گھور رہی تھیں۔

"کیا بات ہے؟؟"ہاشم نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"آپ نازلی کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟"نور جھٹ سے بولی۔ہاشم نے حیرت سے اسے دیکھا۔"تم لوگ اسے جانتی ہو؟"

"جی ہاں ۔۔۔۔"آبی نے جواب دیا۔

"سیم یونی ؟"ہاشم نے ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر آگے ہو کر کہا۔ 

"سیم کلاس بھی۔۔۔"آبی نے مزے سے بتایا۔ 

"لالہ وہ دوست ہے ہماری۔"نور نے بھائی کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"اچھی بات ہے۔"وہ پر سکون انداز میں بولتا ریلیکس ہو کر بیٹھا۔ 

"ہماری تو دوست ہے پر آپکا اس سے کیا رشتہ ہے؟جو آپ اسے یونی سے لینے آئے تھے۔"نور نے تیکھے انداز میں پوچھا۔ 

"میری بیوی ہے وہ۔"سنجیدگی سے بتایا گیا۔ 

"وہاٹ ۔۔۔۔"نور کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ان دونوں کو زور کا  جھٹکا لگا تھا۔

"لالہ مذاق نہ کریں۔۔"اب کی بار آبی نے کہا۔ 

"سچ کہہ رہا ہوں۔"وہ سنجیدہ تھا۔ 

"پر یہ سب ۔۔۔ کیسے اور ۔۔۔۔"نور سے بات نہیں ہورہی تھی۔ 

"یہ سب کیسے ہوا تم لوگوں کو جان کر اچھا نہیں لگے گا۔"ہاشم نے صاف الفاظ میں کہا۔ 

"ہمیں جاننا ہے۔"آبی جھٹ سے بولی۔ 

"بتائیں لالہ ۔۔۔ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟"نور نے جھنجھلا کر پوچھا۔ہاشم مذاق نہیں کرتا تھا ورنہ اسے یہی لگتا کہ وہ بس انہیں چڑا رہا ہے۔پر وہ بالکل سنجیدہ تھا۔ 

"آر یو شیور؟"ہاشم نے تصدیق چاہی۔دونوں نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔

ہاشم نے انہیں شروع سے لے کر اب تک ساری بات بتا دی۔کچھ بھی پوشیدہ نہ رکھا۔وہ اپنی غلطی بھی مان گیا تھا۔جبکہ ہاشم کی باتیں سن کر ان دونوں کے ہوش اڑ گئے۔ 

"او میرے اللہ ۔۔۔۔ لالہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔"نور نے شاکڈ لہجے میں کہا۔اسکی رنگت زرد ہونے لگی تھی۔ 

"میرا خود پر بس نہیں تھا۔"وہ پیشانی مسل کر بولا۔ 

"آپ نے بہت غلط کیا ہے۔"آبی نے افسوس سے اسے دیکھا۔ 

"میں اپنی غلطی مانتا ہوں۔"وہ کہہ کر ٹیبل کو گھورنے لگا۔ 

"کیا آپکی غلطی مان لینے سے نازلی کا دکھ ختم ہو جائے گا؟جو کچھ اسنے کھویا ہے کیا وہ سب اسے مل جائے گا؟ نہیں لالہ ۔۔۔ اس لڑکی کو آپ نے برباد کر دیا ہے۔۔۔۔ اور ہم سبکی امیدوں کو بھی توڑا ہے۔آپ نے ایسے شادی کر لی جیسے آپکا کوئی اپنا ہے ہی نہیں ۔۔۔ ہم سب مر تو نہیں گئے تھے۔آپ نازلی کو پسند کرتے تھے تو آپ ہم سے بات کرتے۔۔۔ ہم اسے اسکے ماں باپ سے کسی بھی طرح آپ کے لئے مانگ لیتے ۔۔۔ پر یہ جو آپ نے کیا ہے ناں وہ غلط ہے۔۔۔۔۔بلکہ یہ آپکی محبت نہیں خود غرضی ہے۔"ماہ نور گلابی آنکھوں کے ساتھ ہاشم کے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر بول رہی تھی۔

"میری محبت پر سوال مت اٹھاؤ مانو۔۔۔میری محبت میں کوئی  کھوٹ نہیں ہے۔۔۔"ہاشم نے اسے دیکھ کر بھاری آواز میں کہا ۔

"اس لڑکی کو اتنے دکھ دے کر بھی آپ محبت کی بات کرتے ہیں؟"وہ تلخ ہوئی۔

"ہم جس سے محبت کرتے ہیں ناں اسے دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔ اور آپ نے کیا کیا لالہ ۔۔۔۔آپ نے اس لڑکی کی جھولی دکھوں سے بھر دی۔محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر روشنیوں میں لانے کے بجائے آپ نے اسے گہری کھائی میں دھکیل دیا۔جہاں اسکا مقدر صرف اندھیرا ہے۔اسکی زندگی سے روشنیاں چھین لیں آپ نے ۔۔۔۔کیا یہی محبت ہوتی ہے؟"وہ ہاشم کی ہی بہن تھی۔اسے جواب دینا آتا تھا۔وہ بھلے ہی اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی پر جو کچھ اسنے کیا تھا وہ غلط تھا اور اس بات میں وہ اسکا ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ 

"اس لڑکی کو پہلی بار دیکھ کر میرے دل سے دعا نکلی تھی کہ کاش یہ معصوم لڑکی میرے لالہ کی قسمت میں لکھی ہو۔پر مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری وہ دعا اس طرح پوری ہوگی۔اگر مجھے خبر ہوتی تو میں یہ خیال کبھی اپنے دل میں نہ لاتی۔وہ لڑکی محبت کرنے کے قابل تھی پر آپ نے اس سے خوب محبت کی ہے۔دنیا یاد رکھے گی آپکی محبت کو ہاشم خان۔"وہ طنزیہ مسکرا کر کہتی آبی کی طرف پلٹی۔جو بت بنی بیٹھی تھی۔

"چلو آبی۔۔۔"آبی کا کندھا ہلاتی وہ کرسی سے اٹھی۔

"نازلی ہماری دوست ہے۔میں اسے یہ سچ نہیں بتاؤنگی کہ میں اسکے مجرم کی بہن ہوں۔میں اسکی نظروں میں اپنے لئے نفرت نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔"جھکے سر کے ساتھ آہستہ آواز میں کہتی وہ اپنی چیزیں اٹھانے لگی۔

"اللہ حافظ۔"ایک نظر بھائی کے سپاٹ چہرے پر ڈالتی وہ آبی کے ساتھ باہر کی طرف بڑھنے لگی۔ریسٹورنٹ سے نکلتے اسکی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔ 

جبکہ ہاشم پتھرائے انداز میں وہیں بیٹھا رہ گیا۔آج اسکی بہن نے اسے آئینہ دکھایا تھا۔وہ مانتا تھا کہ اسنے غلط کیا ہے پر کیا اسنے اس قدر بڑی غلطی کردی تھی؟اسکی بہن کہہ کر گئی تھی کہ وہ اپنی محبت کو صحیح سے نبھا نہیں پایا۔۔۔۔۔یہ اسکی محبت نہیں خود غرضی تھی۔۔۔۔۔

ماہ نور کی باتیں اسکے دماغ میں چکرا رہی تھیں۔وہ کتنے پل بعد وہاں سے اٹھ کر باہر نکلا۔ 

اسکے دل پر جیسے بھاری پتھر رکھا تھا۔آج اسے اندازہ ہوا تھا کہ جب آپ اپنے پیاروں کی نظروں میں گر جائیں تو کیسا لگتا ہے۔اسکی وجہ سے اس معصوم لڑکی نے بھی تو یہ سب برداشت کیا تھا۔تب اسے لگا تھا کہ اسکی محبت اس لڑکی کے ساتھ ہے تو پھر وہ کیوں باقی سب کی محبت کے پیچھے بھاگتی ہے؟پر آج اسے احساس ہوا تھا کہ اپنوں کی محبت ، انکا ساتھ ضروری ہوتا ہے۔زندگی صرف دو لوگوں کی محبت کا نام نہیں ۔۔۔ زندگی میں آپکو اپنے ہر پیارے کی محبت چاہیے ہوتی ہے۔ورنہ دل کا ایک کونہ ہمیشہ ویران رہتا تھا۔اور نازلی ۔۔۔ اسے تو اس سے محبت ہی نہ تھی۔اسکی محبت تو اسکے اپنے ہی تھے جسے اسنے چھین لیا تھا۔اپنا دل آباد کرنے کے لئے اس نے اس لڑکی کے دل کو اجاڑ دیا تھا۔ 

وہ کار میں بیٹھا۔پھر سگریٹ سلگا کر لمبے کاش لینے لگا۔سگریٹ لبوں میں رکھ کر اسنے گاڑی اسٹارٹ کی۔پھر ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ وہیل سنبھالتا اور دوسرے میں سگریٹ تھام کر کش لگاتا وہ تیزی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔

جانا کہاں تھا؟ اسے نہیں معلوم تھا۔وہ بس سڑکوں کی خاک چھان رہا تھا۔نور کے کہے الفاظ اسے مار رہے تھے۔خود کو جلاتا سگریٹ پھونکتا وہ سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔

نازلی نے گھڑی دیکھی۔رات کے گیارہ بج رہے تھے۔پر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔اسے یونی سے گھر چھوڑ کر جانے کہاں چلا گیا تھا۔وہ ہال میں بیٹھی اسکی راہ دیکھ رہی تھی۔ 

گل جان نے اس سے کھانے کا پوچھا تھا پر اسنے منع کر دیا۔۔۔۔کھانا کھانے کا ذرا دل نہ تھا۔گل جان اور چھوٹی پٹھانی یہیں رکنا چاہتی تھیں کہ ہاشم آئے گا تو اسے کھانا دینا ہوگا۔پر نازلی نے انہیں یہ کہہ کر انکے کواٹر میں بھیج دیا کہ وہ ہاشم کو کھانا دے دے گی۔وہ بھلا سردیوں کی اس لمبی اور ٹھنڈی رات میں ان ماں بیٹی کو یہاں بٹھا کر کیوں سزا دیتی۔وہ بھی صبح کی تھکی ہوئی تھیں۔انہیں بھی آرام چاہیے تھا۔ 

وہ صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔آنکھیں نیند سے بھاری ہو رہی تھیں۔پر آنکھوں کو زبردستی کھولتی وہ ارد گرد دیکھنے لگتی تا کہ نیند نہ آئے پر وہ صبح سے اٹھی ہوئی تھی۔ایسے لگ رہا تھا جیسے آنکھوں پر پتھر رکھے ہوں۔

اسنے ایک بار پھر گھڑی دیکھی جہاں ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے۔وہ اگر گل جان سے ہاشم کو کھانا دینے کا نہ کہتی تو کبھی اتنی سردی میں بیٹھ کر اس شخص کا انتظار نہ کرتی۔

"جانے کہاں رہ گیا ہے یہ شخص۔"جھنجھلا کر سوچتی وہ کمر سیدھی کرنے کے لئے صوفے پر لیٹی تھی۔

سردی کے مارے شال اچھے سے لپیٹ رکھی تھی۔اسے لیٹے کچھ پل ہی گزرے اور اسکی آنکھیں بند ہوتی گئیں۔

رات بارہ بجے کا وقت تھا جب خان ولا کا گیٹ کھلا اور ہاشم کی کار اندر داخل ہوئی۔

پورچ میں کار روک کر وہ کچھ پل وہیں بیٹھا رہا پھر بالوں میں ہاتھ پھیر کر کار سے باہر نکلا۔کوٹ ایک ہاتھ میں تھامے کندھے کے پیچھے کیا تھا۔دوسرے ہاتھ میں سگریٹ کا پیک اور موبائل تھا۔

بکھرے بال اور الجھے ذہن کے ساتھ وہ ہال میں داخل ہوا۔سوچوں میں الجھا وہ سر جھکا کر چل رہا تھا۔جب میز سے ٹھوکر لگی تو ایک دم رکا۔سر اٹھایا تو دور صوفے پر اس لڑکی کو لیٹے دیکھا۔شال لپٹے وہ سمٹ کر لیٹی تھی۔سر صوفے کے بالکل اینڈ پر تھا۔ہاشم اسے دیکھتا آگے بڑھا۔کوٹ سائیڈ صوفے پر رکھا۔موبائل اور سگریٹ پیک ٹیبل پر رکھتا نازلی کی طرف بڑھا۔

 گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا پھر آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اسکا سر ٹھیک کیا۔

کتنے پل غور سے اسکی بند پلکوں کو دیکھتا رہا۔اسکے چہرے کو دیکھ کر اسے نور کی باتیں یاد آنے لگیں۔اسنے سختی سے آنکھیں بند کر کے کھولیں پھر اسکا گال تھپکا۔ 

"نازلی۔۔"اسنے بھاری آواز میں اسے پکارا۔مسلسل سوچوں اور پریشانی سے اسکی آواز بہت بھاری ہورہی تھی۔ 

اسکے پکارنے پر نازلی کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔پر وہ نیند سے نہ جاگی۔ 

"نازلی اٹھو ۔۔۔"پھر سے اسکا گال تھپکا۔اب کی بار نازلی نے بھاری آنکھیں ذرا سا کھول کر سامنے دیکھا۔پہلے تو اسے سمجھ نہ آئی۔پر جیسے ہی پوری آنکھیں کھول کر ہاشم کی صورت اپنے قریب دیکھی تو جھٹ سے اٹھ بیٹھی۔

"جا کر کمرے میں سو جاؤ۔"اسے دیکھ کر کہتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔پھر پلٹ کر اپنی چیزیں اٹھانے لگا۔ 

نازلی جلدی سے صوفے سے نیچے اتری۔

"آپکے لئے کھانا لے آؤں؟"ہاشم کی پشت کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔"مختصر جواب دیتا وہ کوٹ اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔نازلی نے اسے جاتے دیکھا۔وہ آج بہت خاموش لگ رہا تھا۔پر اسے کیا ۔۔۔۔ وہ سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ 

جبکہ ہاشم کمرے میں آتا اسی حالت میں چت بیڈ پر لیٹ گیا۔وہ اس قدر سوچوں میں ڈوبا تھا کہ اسے نازلی کے پوچھنے پر ذرا حیرت نہ ہوئی۔ورنہ نازلی اس سے کھانے کا پوچھتی اور وہ بنا ری ایکٹ کیے گزر جاتا۔ایسا ممکن نہ تھا۔پر آج اسکی حالت بہت عجیب ہورہی تھی۔

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔چھت کو گھورتا وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

اگلے دن نازلی یونی آئی تو ان دونوں کو اپنا انتظار کرتے پایا۔

اسے دیکھ کر ماہ نور ایک دم اسکے گلے لگی۔

"سوری ۔۔۔"اسکے گلے لگی وہ مدھم آواز میں بولی۔اسنے جیسے اپنے بھائی کی طرف سے سوری کہا تھا۔

"ارے کس لئے۔"نازلی نے حیرت سے پوچھا۔ 

"وہ ۔۔۔ وہ تمہاری بک میں لے گئی تھی ناں۔"نور نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔ 

"اوہ ۔۔۔ کوئی بات نہیں نور ۔۔۔"نازلی نے مسکرا کر اسکی کمر سہلائی۔نور کو رونا آنے لگا۔آبی اسکی حالت دیکھ کر جلدی سے اسکی طرف بڑھی۔ 

"اوئے بی بی ہٹو پرے ذرا ہم بھی مل لیں نازلی سے۔"آبی نے مسکرا کر اسے نازلی سے الگ کیا۔پھر اسکے گلے لگی۔ 

"تمہیں معلوم ہے آجکل ناں اسکی شادی کی باتیں چل رہی ہیں اسلیے زیادہ اموشنل ہو رہی ہے۔"آبی نے الگ ہوتے مسکرا کر بتایا۔ 

"کیا واقعی؟؟"نازلی نے خوشی سے نور کو دیکھا۔ 

"ہاں جی ۔۔۔"نور نظریں جھکا گئی۔اسے نازلی کی آنکھوں میں دیکھنے سے ڈر لگ رہا تھا۔اسے ڈر تھا کہیں اسکے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔ 

"اوہ ۔۔۔ تو یہ میڈم اس لئے شرما رہی ہے۔"اسنے شرارت سے نور کی طرف دیکھا۔اسکے چڑانے والے انداز پر نور مسکرانے لگی۔ 

"میں نہیں شرما رہی۔"نور نے جھٹ سے سر اٹھایا۔ 

"تمہیں معلوم ہے ناں نازلی کہ یہ بہت بے شرم ہے۔"آبی نے آنکھ ماری۔ 

"اور یہ بے شرموں کی سردارنی ہے۔"نور نے لقمہ دیا تو نازلی ہنسنے لگی۔باتیں کرتی وہ تینوں کلاس کی طرف بڑھنے لگی تھیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی عصر کی نماز پڑھ کر دعا کر رہی تھی۔ہاتھ اٹھائے وہ اپنے رب سے اپنے دل کی باتیں کر رہی تھی۔آنکھوں سے گرتے آنسو ہتھیلیوں کو بھگو رہے تھے۔

وہ کتنی ہی دیر دعا کرنے میں مشغول رہی۔پھر منہ پر ہاتھ پھیر کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

جائے نماز کو بیڈ پر رکھا پھر کمرے سے باہر نکلنے لگی۔نماز پڑھ کے ، اللہ کے ساتھ اپنا دکھ بانٹ کر اسے سکون ملا تھا۔

اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھی۔ہاشم کی میٹنگ تھی وہ وہاں گیا تھا جبکہ گل جان اور چھوٹی پٹھانی ، امجد بابا کے ساتھ کچھ سامان لینے گئی تھیں۔ 

وہ چلتی ہوئی ہال میں آئی۔اسے سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔ ویسے تو چھوٹی پٹھانی اسے باتوں میں لگائے رکھتی تھی تو اسکا وقت گزر جاتا تھا۔

اتنے بڑے گھر میں مکمل سناٹا تھا۔نازلی کتنی دیر وہاں کھڑی ارد گرد دیکھتی رہی پھر لائبریری کا خیال آتے ہی قدم آگے بڑھائے۔ایک دن ہاشم نے کہا تھا کہ اگر وہ کچھ پڑھنا چاہے تو لائبریری اوپر ہے۔وہاں چلی جایا کرے۔

نازلی جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔تنہائی میں سب سے اچھی ساتھی کتابیں ہوتی ہیں۔اور اسکی زندگی میں تو کتابوں کی بہت اہمیت تھی۔

اوپر پہنچ کر وہ دائیں طرف مڑی۔آگے بڑھ کر ایک دروازہ کھولا۔وہ کمرہ تھا۔اس فلور پر تین کمرے اور ایک لائبریری تھی۔ایک روم کو تو ہاشم نے اسکے لئے رنگوں بھری دنیا میں بدل دیا تھا۔اسکے لئے پینٹنگ روم بنا دیا تھا۔ 

نازلی نے آگے بڑھ کر کونے والا دروازہ کھولا۔پھر اندر دیکھا تو  اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔بائیں دیوار پر فلور سے سیلنگ تک بک شیلفز بنی تھیں۔جو دو حصوں میں تقسیم تھیں۔ ایک کونے میں لکڑی کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ کر آپ دوسرے فلور پر کھڑے ہوتے ہیں۔جسکے سامنے مضبوط ریلنگ لگی ہوئی تھی۔نازلی کتنے ہی پل نظریں اٹھائے اس خوبصورت انداز میں بنی شیلفز کو دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ کر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی۔وہاں سے ریلنگ کو تھام کر نیچے دیکھنے لگی۔ سامنے بڑا سا میز اور کرسیاں رکھی تھیں۔جس پر ڈھیروں فائلز تھیں جو یقیناً اس شخص کی تھیں۔

وہاں سے گردن پھیر کر بائیں طرف دیکھا تو گلاس وال سے باہر کا منظر نظر آرہا تھا۔  

گلاس وال سے کچھ فاصلے پر ایک طرف دو صوفے اور میز رکھا تھا اور تھوڑا آگے ایک بڑی سی فوم کی آرام دہ کرسی رکھی تھی۔

سارے کمرے کا جائزہ لے کر نازلی نے اس شخص کو داد دی۔چیزیں سلیکٹ کرنے میں اسکا ٹیسٹ بہت کمال تھا۔یہ گھر جتنا عالیشان تھا یہ لائبریری اس سے زیادہ بے مثال تھی۔نازلی کو بہت پسند آئی تھی۔

وہ پلٹ کر کتابیں چیک کرنے لگی۔اتنی عمدہ کتابوں کو دیکھ کر اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ پہلے کونسی پڑھے۔

آخر ایک کتاب لیتی وہ وہاں سے اتر کر نیچے آئی اور کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگی پر دھیان بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا۔جانے کیوں ایک دم دل کو اداسی نے گھیر لیا تھا۔جب بہت کوشش کے باوجود بھی وہ کتاب نہ پڑھ سکی تو اٹھ کر کتاب میز پر رکھی۔پھر گلاس وال پر ہاتھ جما کر کھڑی ہوتی نیچے لان کو دیکھنے لگی۔

تابین کمرے سے نکلی۔آنکھوں پر گلاسز لگاتی پورچ کی طرف بڑھنے لگی۔

کل مال میں ہاشم کو دیکھ کر تابین کے زخموں پر جیسے نمک چھڑک گیا تھا۔وہ مگن سا لیڈیز ڈریسز دیکھ رہا تھا۔تابین کو تو آگ لگ گئی۔وہ جانتی تھی یہ نازلی کے لئے ہی خرید رہا ہوگا۔

یہ سب دیکھ کر وہ اور انتظار نہیں کر سکتی تھی۔اسے اپنے دل کی آگ کم کرنی تھی۔ 

اسنے کار میں بیٹھ کر دروازہ بند کیا۔

"یہ جمال آغا جانے کہاں مر گیا ہے۔اس دن تو بڑی بڑی پھینک رہا تھا۔اب اتنے دنوں سے غائب ہے منحوس شخص۔"وہ موبائل پر اسکا نمبر ڈائل کرتی اسے کوس رہی تھی۔ 

اسنے جمال آغا کو کال کی پر نمبر بند مل رہا تھا۔پھر دانت پیس کر واٹس ایپ کھول کر اس پر وائس مسیج سنڈ کرنے لگی۔  

"کہاں ہو تم جمال آغا؟کیا بدلے کی آگ اتنی جلدی ٹھنڈی ہوگئی؟ضرور اپنا منہ چھپا کر کسی لڑکی کے گلے کا ہار بنے اسے اپنا دکھ سنا رہے ہوگے؟ ڈر گئے کیا ہاشم خان سے ؟ جو اتنے دنوں سے منہ چھپائے بیٹھے ہو؟اگر تم نے کچھ نہیں کرنا تو بتاؤ مجھے ۔۔۔ میں اکیلی ہی کافی ہوں۔"تابین نے غصے میں اگلی پچھلی ساری بھڑاس نکالی۔وہ جمال آغا کے سارے کرتوت جانتی تھی۔وہ اسکے سامنے شریف بنا گھومتا تھا پر وہ اس کے ہر کار نامے سے اچھی طرح واقف تھی۔وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی تھی۔اب تو کزن کا رشتہ بھی درمیان تھا۔پر تابین کی جوتی کو بھی پرواہ نہ تھی کہ وہ اس سبکے جواب میں کیسا ری ایکٹ کرے گا۔ 

اسنے موبائل ساتھ والی سیٹ پر پھینکا پھر گاڑی اسٹارٹ کر کے گھر سے باہر نکالی۔

اسکا رخ خان ولا کی طرف تھا۔وہ اتنے دنوں سے خاموش تھی تو اسکا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ سب بھول گئی ہے۔۔۔۔ 

اسنے گاڑی خان ولا کے گیٹ کے سامنے روکی۔کتنے ہی پل دروازے کو گھورتی رہی۔اس شاندار عمارت کو دیکھ کر ہاتھوں کی گوفت اسٹیرنگ وہیل پر مضبوط ہوئی۔

اسنے واچ مین سے کہلوایا کہ اندر بتاؤ تابین حسن آفندی آئی ہے۔اسنے سوچ لیا تھا اگر اسے گھر میں داخل ہونے سے روکا گیا تو وہ یہاں ایسا تماشا لگائے گی کہ سب دیکھیں گے۔پر 

واچ مین نے انٹر کوم سے گھر میں تابین کا بتایا۔نازلی نے تابین کا سنتے ہی واچ مین سے کہا کہ اسے اندر آنے دیں۔تابین کو امید نہیں تھی کہ اسے اتنی آسانی سے اندر بلا لیا جائے گا۔ 

تابین کے آنے کا سن کر نازلی کا دل خوشی سے بھر گیا۔وہ جلدی سے بھاگ کر لائبریری سے باہر نکلی۔اسے لگ رہا تھا شاید تابین کو اسکی سچائی پر یقین ہو گیا ہے۔تبھی اس سے ملنے آئی ہے۔ورنہ تو وہ کبھی اسکی شکل تک نہ دیکھتی۔ 

نازلی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔تبھی تابین بھی ہال میں داخل ہوئی۔تابین نے سر اٹھا کر اس عالیشان گھر کو دیکھا۔اس گھر میں اس شخص کی خوشبو بسی تھی۔ 

وہ کھوئی سی قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگی۔ 

"آپی۔۔۔۔"نازلی کی آواز نے اسے سوچوں سے کھینچ نکالا۔ 

اسنے نظر پھیر کر سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھا۔کتنی کھلی کھلی اور خوش لگ رہی تھی جبکہ اسنے تابین کی ساری خوشیاں چھین لی تھیں۔ 

پر اسے نہیں معلوم تھا کہ نازلی کے چہرے پر جو خوشی تھی وہ اسکی موجودگی کی وجہ سے تھی۔ 

"بہت خوش ہو تم اپنی اس نئی زندگی میں؟"تابین نے سرد انداز میں پوچھا۔ 

"آپی میں ۔۔۔"نازلی نے بات نہ ہوئی۔ 

"تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ تمہاری صورت بتا رہی ہے کہ دوسروں کو تکلیف دے کر تم بہت سکون میں ہو۔"

"خدارا ایسا نہیں ہے آپی ۔۔۔ آپ سب سے دور رہ کر میں بھی بہت تکلیف میں ہوں۔"اسنے اداسی سے کہہ کر محبت سے آگے بڑھ کر تابین کا ہاتھ تھاما۔ 

"محبت کا دکھاوا مت کیا کرو میرے ساتھ۔"اسنے غصے سے نازلی کا ہاتھ جھٹکا۔

"تمہیں معلوم ہے تمہارے دھوکے نے میرے ساتھ کیا کیا۔۔۔۔۔یہ دیکھو ۔۔۔"اسنے اپنی کلائی نازلی کے آگے کی۔

"میں نے اپنی جان لینی چاہی ۔۔۔خود کو اس اذیت سے آزاد کرنا چاہا پر میں بچ گئی۔۔۔۔۔موت نے بھی مجھے اپنی آغوش میں نہیں لیا۔"وہ تلخی سے بولی۔نازلی نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا۔

"آ۔۔۔آپ نے اپنی جان لینی چاہی۔"اسکی زبان لڑکھڑائی۔ 

"تمہاری وجہ سے۔"تابین دانت پیس کر کہتی آگے بڑھی۔ 

"ہاشم خان کا گھر تو بہت خوبصورت ہے۔"وہ ادر گرد دیکھ کر بولی۔وہ آج پہلی بار اس گھر میں آئی تھی۔وہ بھی اس انداز میں۔۔۔۔

"بیوی بھی خوبصورت مل گئی ہے۔"اسنے پلٹ کر تلخی سے مسکرا کر نازلی کو دیکھا۔"تم دونوں کی شامیں تو خوب رنگین ہوتی ہونگی ناں؟"وہ سرگوشی کرنے والے انداز میں بولی۔

اسکی بات سمجھ کر نازلی کے گال دہک اٹھے۔ 

"آپی پلیز۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔ 

"ارے شرم کیسی ۔۔۔اب شادی شدہ لڑکی ہو تم۔۔۔۔یہ تو عام سی بات ہے۔"وہ بے باکی سے ہنس کر بولی۔

نازلی کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔یہ تابین ایسا کیوں کہہ رہی تھی۔اسکا اس شخص کے ساتھ ایسا کوئی رشتہ نہ تھا۔

نازلی کے جھکے سر اور گلابی صورت کو دیکھ کر تابین قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔ 

"ایسے ہی وہ شخص تم پر عاشق نہیں ہوا بی بی۔۔۔ کچھ تو جادو پھونکا ہے اس پر تم نے اپنے حسن ، اپنی جوانی کا۔۔۔"وہ طنزیہ انداز میں مسکرائی۔ 

"ایسا کچھ نہیں ہے آپی۔"نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے تابین کے سرد چہرے کو دیکھا۔ 

"تمہیں معلوم ہے اس وقت میرا دل کیا کر رہا ہے۔"تابین کا لہجہ بلا کا سنجیدہ تھا۔ 

"کیا ۔۔۔"نازلی کے لب آہستہ سے ہلے۔ 

"کہ میں تمہیں مار کر اسی گھر میں دفن کر دوں۔پھر وہ تمہیں ڈھونڈتا رہے اور تم اسے کہیں نہ ملو۔۔۔۔وہ پاگل ہو کر در  در بھٹکے ۔۔۔۔ میری طرح۔"اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔"اور اسے تم کہیں نہ ملو۔۔۔وہ تھک ہار جائے۔۔۔۔اسکا دل چور چور ہوجائے پھر میں اسے بتاؤں کہ تمہاری نازلی مر گئی۔۔۔۔جسکی تلاش میں تم اتنا بھاگے ہو وہ ہمیشہ کے لئے تم سے دور ہوگئی ہے۔  سوچو ذرا اُس لمحے اس شخص کی کیا حالت ہوگی۔۔۔۔"وہ نازلی کو دیکھتی بے رحمی سے بول رہی تھی۔نازلی کی صورت زرد پڑنے لگی۔تابین اتنی نفرت کرنے لگی تھی اس سے ۔۔۔ نازلی کے دل سے دھواں سا اٹھنے لگا۔ 

"میرے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا ہے ناں۔میں نے بھی ایک عرصے سے اس شخص کو تلاشہ ہے۔اسکی محبت کو پانے کے لئے اسکے پیچھے در در بھٹکی ہوں اور آخر میں کیا ہوا؟ مجھ پر حقیقت کھلی کہ وہ تو میرا تھا ہی نہیں۔۔۔۔ میں سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔۔۔اب ہوش میں آئی ہوں تو بھی کیا فائدہ ۔۔۔۔ میں اپنا سب کچھ تو لٹا چکی اس پر ۔۔۔۔ اب یہ جسم بھی خالی اور یہ دل بھی خالی ہے۔۔۔کچھ نہیں بچا تابین حسن آفندی کے پاس۔۔۔۔ وہ اجڑ گئی ہے۔۔۔۔ اور اسے اجاڑنے والی تم ہو نازلی۔۔۔"وہ خلا میں گھورتی دیوانوں کی طرح بول رہی تھی۔

نازلی اسکی طرف بڑھی پھر ایک دم اسے گلے سے لگا لیا۔ 

"مجھے معاف کردیں آپی ۔۔۔۔میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا۔میں مجبور تھی۔مجھے ایسا کرنا پڑا۔"وہ روتے ہوئے بولی۔ 

"کیوں ؟؟"تابین نے اسے جھٹ سے دور کر کے پوچھا۔ 

"آپ۔۔۔۔ آپ کو بچانے کے لئے۔"نازلی نے لڑکھڑائی آواز میں کہا۔ 

تابین پہلے حیران ہوئی، پھر ہنسی اور آخر میں دانت پیس کر نازلی کے منہ پر تھپڑ مارا۔ 

"بکواس مت کرو۔۔۔۔مجھ سے میری محبت چھین کر تم مجھے  بچانا چاہتی تھی؟ تم نے کیا مجھے پاگل سمجھا ہے۔"وہ غصے سے چلا رہی تھی۔جبکہ نازلی گال پر ہاتھ رکھے روتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"میں سچ کہہ رہی ہوں آپی۔"اسنے روندھی آواز میں کہا۔ 

"مجھے پاگل مت سمجھو تم ۔۔۔ میں تمہارا منہ توڑ دونگی اگر تم نے میرے سامنے ڈھونگ کیا تو۔۔"وہ پاگل ہورہی تھی۔ 

"آپ کچھ بھی کر لیں ۔۔۔ پر یہی سچ ہے۔"نازلی نے مضبوط لہجے میں کہا۔ 

"صحیح ۔۔۔ تم چاہتی ہو کہ میں کچھ بھی کروں ۔۔۔۔ تو ٹھیک۔۔۔۔"وہ جنونی انداز میں ارد گرد دیکھنے لگی پھر تیزی سے آگے بڑھ کر ٹیبل پر رکھی فروٹ باسکٹ سے تیز دھار چھری اٹھائی۔

نازلی چونک کر اسکی طرف بڑھی کہ کہیں وہ خود کو نقصان نہ پہنچا دے۔"آپی ۔۔۔"اسنے فکر مندی سے پکارا۔ 

"فکر نہ کرو ۔۔۔اپنے لئے نہیں تمہارے لئے اٹھائی ہے یہ۔"اسنے چبا کر چھری کی طرف اشارہ کیا۔ 

"تابین۔۔۔۔"اونچی بھاری آواز پر دونوں نے حیرت سے گردن پھیر کر دیکھا۔ہال کے دروازے میں ہاشم کھڑا تھا۔وہ ضروری فائل لینے آیا تھا۔جلدی میں کار گھر کے باہر روکتا وہ اندر کی طرف بڑھا تھا۔پر پورچ میں تابین کی کار دیکھ کر وہ جلدی سے اندر کی طرف بڑھا اور سامنے یہ منظر دیکھ کر اسکا دل دھڑک اٹھا۔ 

"یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔۔"وہ غرایا تھا۔ 

"آگے مت آنا ہاشم خان ورنہ میں اسے مار دونگی۔"تابین نے چبا کر کہا۔نازلی ، ہاشم سے نظر ہٹا کر تابین کو دیکھنے لگی۔کیا وہ اس سے اتنی نفرت کرتی تھی کہ اسے مارنے سے بھی گریز نہ کرتی؟ 

اسکی بات پر ہاشم کے قدم رک گئے۔جبکہ نازلی دھندلی آنکھوں کے ساتھ تابین کی طرف بڑھی۔

"نازلی۔۔۔"ہاشم نے اسے پکارا۔پر اسے اگنور کرتی وہ تابین سے کہہ رہی تھی۔

"آپ کو مجھ سے اتنی نفرت ہوگئی ہے آپی کہ آپ مجھے مارنا چاہتی ہیں؟اگر آپ مارنے کے لئے تیار ہیں تو مار دیجیے۔"وہ دکھ سے نم آواز میں بولی۔تابین سے اسے بہت محبت تھی۔وہ اسکے لئے اتنا کچھ کر کے بھی اسکی دشمن بن گئی تھی۔ 

اسکی بات پر تابین کے ہاتھ کانپنے لگے۔اسکی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے تھے۔ 

"اللہ کرے تم مر جاؤ نازلی۔۔۔۔تم مر گئی ناں تو سب کچھ  ٹھیک ہو جائے گا۔"اسنے روتے ہوئے کہہ کر ایک دم چھری نیچے پھینکی۔

"تم نے میرا دل چھلنی چھلنی کر دیا ہے۔اللہ کرے تم بھی اسی درد سے گزرو ۔۔۔پھر میں تم سے پوچھوں گی کہ اپنی محبت کو کھو کر کیسا لگتا ہے۔"وہ نم آواز میں کہتی آگے بڑھ گئی۔نازلی پتھر بن گئی۔وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ اس درد سے گزر چکی تھی۔پر وہ تابین کی طرح چیخ چیخ کر کسی کو بتا نہیں  سکی تھی۔اسنے ہمیشہ اپنا درد اکیلے ہی سہا تھا۔

تابین ، ہاشم کے پاس سے گزرتی ایک پل رک کر اسے دیکھنے لگی پھر نم آنکھوں کے ساتھ وہاں سے باہر نکلتی چلی گئی۔ 

نازلی اسی پوزیشن میں کھڑی رہی۔اس کا دل بند ہونے لگا۔وہ تو تابین کا بھلا چاہ رہی تھی۔پر کیا بھلا کرنے کے بجائے وہ اسے اس حد تک اجاڑ گئی تھی؟اسنے تو ایسا نہ چاہا تھا۔اسنے جو بھی کیا تھا اسکے لئے کیا تھا۔پر وہ اچھا سوچ کر بھی بری بن گئی تھی۔

ہاشم آہستہ سے اسکی طرف بڑھا۔پھر خاموشی سے اسے تھام کر اپنے ساتھ لگایا۔نازلی کے دل سے درد کی ٹھسیں اٹھنے لگیں۔بڑھتا درد آنسوؤں کی صورت ظاہر ہونے لگا۔

"آپی ٹھیک کہتی ہیں۔۔۔۔ اللہ کرے میں مر جاؤں۔۔۔۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ایک میں ہی اس سبکی وجہ ہوں۔میں نہ ہوئی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"اسنے روتے ہوئے ہاشم کا کوٹ مٹھی میں بھینچا۔

"ایسا مت کہو۔"گھمبیر مدھم آواز میں کہتا وہ اسکے گرد بازوؤں کا حصار مضبوط کر گیا۔

وہ مدھم آواز میں مسلسل رو رہی تھی اور ہاشم محبت سے اسکا سر سہلاتا اسے خاموش کروا رہا تھا۔ 

تابین کار میں بیٹھی۔غصے سے گال رگڑ کر آنسو صاف کیے۔تبھی اسکا موبائل بجنے لگا۔ 

اسنے لمبی سانس کھینچ کر کال پک کی۔اسکی ہیلو کے جواب میں دوسری طرف سے جمال آغا کی سرد آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"یہ تم نے کیا بکواس کی ہے؟میں نہ منہ چھپا کر بیٹھا ہوں اور نہ اس شخص سے ڈرتا ہوں سمجھی ۔۔۔۔ اسکا وہ حال کرونگا کہ تم بھی دیکھو گی۔۔۔۔"وہ دانت پیس کر بول رہا تھا۔ 

"کہاں ہو؟"تابین نے سپاٹ انداز میں پوچھا۔ 

"امریکا ۔۔۔ ایک ضروری کام سے آنا پڑا۔جلد واپس آ رہا ہوں۔"اسکا جواب سن کر تابین نے بنا جواب دیے کال کاٹ دی۔ 

لب بھینچ کر موبائل رکھا پھر کار اسٹارٹ کر کے آگے بڑھا دی۔ 

نازلی اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ہاتھ میں موبائل تھامے وہ کارڈ سے نمبر دیکھ کر ڈائل کر رہی تھی۔اس دن جو کچھ تابین نے کہا تھا اسکی وجہ سے اسکا دل بہت اداس تھا۔

اسنے ٹیبلٹ لینے کے لیے دراز کھولا تھا تو اسے کارڈ نظر آیا۔وہ اب تک انہیں کال نہیں کر پائی تھی۔پر اب جیسے ہی کارڈ پر نظر پڑی۔وہ موبائل اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے لگی۔ 

"اسلام و علیکم۔"دوسری طرف سے بھاری مردانہ آواز آئی۔ 

وعلیکم السلام۔"اسنے جھجھک کر مدھم آواز میں کہا۔ 

"کیسی ہیں بیٹا جی؟"پوچھا گیا۔ 

"میں ٹھیک ۔۔۔ آپ نے مجھے پہچان لیا؟"نازلی کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ 

"ہم اتنے دنوں سے آپکی کال کا انتظار کر رہے تھے۔پھر کیسے نہ پہچانتے۔"انکی مسکراتی آواز ابھری۔ 

"آئی ایم سوری میں آپکو پہلے کال نہیں کر پائی۔"اسے شرمندگی نے گھیرا۔ 

"کوئی بات نہیں۔"وہ نرمی سے بولے۔ 

"آپ کیسے ہیں؟" 

"میں بوڑھا ہوں بیٹا جی ۔۔۔ آپکو معلوم تو ہے۔"وہ مسکرا کر  بولے۔نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔ 

"آپ اب بھی بہت ہینڈسم ہیں دوست۔اس طرح خود کو بوڑھا نہ کہیں۔"وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔ 

"کیا میں اس بات کو سچ سمجھوں؟"انکے لہجے میں شرارت تھی۔ 

"بالکل سچ ۔۔۔"نازلی مدھم سی مسکرائی۔ 

"آپ اداس ہیں۔"ایک دم پوچھا گیا۔ 

"نہیں۔۔۔"

"دوستوں سے جھوٹ نہیں بولتے۔"دوسری طرف سے کہا گیا۔ 

"ہاں ۔۔۔"وہ آہستہ آواز میں بولی۔ 

"کیوں اداس ہیں؟"

"میرے اپنے مجھ سے ناراض ہیں۔"لہجے میں اداسی تھی۔ 

"تو منانے کی کوشش کریں۔"وہ نرمی سے بولے۔ 

"بات کرنے کو تیار نہیں ۔۔۔ مجھ سے بد گمان ہیں۔"اسکی آواز نم ہوئی۔

جو باتیں وہ آج تک کسی سے نہیں کہہ پائی تھی۔یہاں تک کہ نور اور آبی سے بھی نہیں۔وہ ان سے کہہ گئی تھی۔  

"آپ انکی ناراضگی کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔"وہ سمجھانے والے انداز میں بولے۔

اسکے اپنوں کی ناراضگی کی وجہ ہاشم سے اسکا نکاح تھا اور وہ اس نکاح کو کیسے ختم کرتی بھلا ۔۔۔۔

"اپنے ناراض ہو جاتے ہیں۔پر تھوڑی کوشش سے مان بھی جاتے ہیں۔بس چند قدم بڑھانے کی دیر ہوتی ہے۔"وہ مدھم آواز میں بول کر کچھ پل رکے۔

"پر بعض دفعہ ہم اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا نہیں کر پاتے اور اپنے پیاروں سے دوری سہتے رهتے ہیں۔"وہ گہری سوچوں میں گم بول رہے تھے۔ 

"کیا آپکا کوئی اپنا بھی روٹھا ہوا ہے؟"نازلی نے اچانک پوچھا۔

"ہاں ۔۔۔"وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے۔

"پھر کیا آپ نے انہیں منا لیا؟"اسکی بات پر وہ کچھ پل خاموش رہے پھر بولے۔

"بیٹا جی ہمیں ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ہم آپ سے پھر بات کریں گے۔"وہ بھاری آواز میں بولے۔انداز ٹالنے والا تھا۔

"اوکے دوست۔"وہ آہستہ سے بولی۔اسے ان کے لیے برا فیل ہونے لگا۔اسکی طرح انکا کوئی اپنا بھی ان سے دور تھا۔ 

انہیں اللہ حافظ کہہ کر اسنے موبائل رکھا۔پھر انکے بارے میں سوچنے لگی اور دعا کی کہ انہیں انکا روٹھا ہوا اپنا واپس مل جائے۔وہ سوچوں میں گم تھی جب دروازے پر دستک ہونے لگی۔اسنے اجازت دی تو چھوٹی پٹھانی اندر داخل ہوئی۔ 

"آپ سے کوئی سیماب صاحبہ ملنے آئی ہیں۔"اسکی بات پر نازلی جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آنی۔۔۔۔"وہ جلدی سے کہتی کمرے سے باہر بھاگی۔

چھوٹی پٹھانی نے اسکی پشت کو دیکھا۔نازلی باجی کی خالہ آئی تھیں۔اتنے دنوں میں آج پہلی بار نازلی سے ملنے اسکے اپنوں میں سے کوئی آیا تھا۔چھوٹی پٹھانی کو اچھا لگا تھا۔

نازلی تیزی سے آگے بڑھی۔سیماب ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھی تھیں۔اسے دیکھ کر ایک دم اٹھ کھڑی ہوئیں۔ 

"میری گڑیا۔"سیماب نے بانہیں پھیلائیں۔

"آنی ۔۔۔"نازلی بھاگ کر انکے گلے سے لگی۔اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔آنی کے گلے لگ کر اسکے دل میں ٹھنڈک اتر آئی تھی۔دل کو تسلی ہوئی تھی کہ کوئی تو اسکا اپنا اسکے ساتھ ہے۔ 

"کیسا ہے میرا بچہ۔"سیماب نے اسے الگ کرتے اسکا چہرہ تھام کر پیشانی پر بوسہ دیا۔ 

"میں ۔۔۔ ٹھیک ۔۔۔"نازلی کی زبان لڑکھڑائی۔آنی کو دیکھتی آنکھوں سے تیزی سے آنسو گرنے لگے۔ 

"شش۔۔۔ بس اب اور نہیں رونا۔"اسکے آنسو صاف کر کے اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔ 

"مجھے سب سے پہلے تفصیل سے ساری بات بتاؤ۔۔۔ کیا کیسے اور کیوں ہوا۔"اسکے ہاتھ تھام کر نرمی سے بولیں۔ 

نازلی انہیں دیکھتی کچھ پل خاموش رہی پھر ساری بات بتاتی گئی۔ہاشم کا دھمکانا ، اس سے نکاح کرنا۔۔۔ سب کچھ۔۔۔۔ 

بات ختم کرتے اسکی آنکھیں پھر سے آنسوؤں سے تر تھیں۔ہاتھ کانپنے لگے۔سیماب نے اسکے ہاتھوں کو گرم جوشی سے دبایا۔

"آپ بتائیں میں کیا کرتی ایسی سچویشن میں ۔۔۔ میں کیا اس شخص سے کہہ دیتی کہ میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی۔کر لو میری آپی سے نکاح اور دے دو انہیں طلاق۔"وہ روتے ہوئے انہیں دیکھنے لگی۔ 

"میں تمہاری بات سمجھتی ہوں گڑیا۔پر یہ دنیا تمہارے جذبات نہیں سمجھتی۔انکی نظر میں تم غلط ہو۔تابین کو ایسا لگتا ہے تم نے اس سے اسکی محبت چھین لی۔تمہیں خود کو قربان نہیں کرنا چاہیے تھا۔کرنے دیتی اس شخص کو تابین سے شادی پھر مزہ آتا اسے اور اسکی ماں کو۔۔۔"سیماب تلخی سے بولیں۔ 

"پلیز آنی۔۔"نازلی نے اداسی سے انہیں دیکھا۔  

"اب انکی طرف داری کرنا چھوڑ دو نازلی ۔۔۔ اور تمہارے والد محترم کو بھی ذرا واپس آنے دو۔۔۔۔۔انہیں میں انکا فرض یاد دلاؤں گی۔"انکا لہجہ سپاٹ تھا۔   

"کہاں گئے ہیں بابا جان۔؟"نازلی نے جلدی سے پوچھا۔ 

"بزنس کے سلسلے میں ملک سے باہر ۔۔۔ تمہارے بابا جان نے ساری زندگی بزنس ہی تو سنبھالا ہے۔گھر تو ان سے سنبھلا نہیں۔"وہ چبا کر بولیں۔جبکہ نازلی اداسی سے سر جھکا گئی۔سیماب نے اسکا چہرہ اوپر کیا۔ 

"میں جانتی ہوں گڑیا کہ تم اپنے بابا کے خلاف کچھ نہیں سن سکتی ۔۔۔ پر میری برداشت ختم ہوگئی ہے۔وہ شخص ساری زندگی نہ سدھرا۔۔۔میری آپی سے محبت کر لی پر نبھا نہ سکے  اور انہیں موت کے حوالے کر دیا۔۔۔۔اور اب وہ تمہارے ساتھ بھی یہی کرنا چاہتے ہیں پر میں ایسا نہیں ہونے دونگی۔انہیں اگر تمہاری غلطی نظر آتی ہے تو تابین کی کیوں نہیں ۔۔۔۔ وہ بھی تو ایک نا محرم کے پیچھے پاگل ہوئی ہے۔کیا یہ سب ٹھیک ہے؟"وہ بہت غصے میں تھیں۔

"اگر وہ ٹھیک ہے تو پھر تمہیں کیوں غلط قرار دیا گیا۔۔۔۔سزا اگر دینی تھی تو دونوں کو ایک سی دیتے پر نہیں وہ تابین تو انکی لاڈلی اولاد ہے اسے کچھ کہہ کر حسن آفندی نے امتل بیگم کے ہاتھوں مرنا تھوڑی ہے۔۔۔۔۔۔دوغلے کہیں کے۔" سیماب نے لفظ چبائے تھے۔ 

"اچھا آنی پلیز اتنا غصہ نہ کریں۔"وہ سیماب کو اس قدر غصے میں دیکھ کر نرمی سے بولی۔ 

"میرا بس نہیں چل رہا نازلی ورنہ میں ایک ایک کو اچھے سے پوچھ لیتی۔"انہوں نے سر جھٹکا۔نازلی نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔ 

"اچھا چلیں ناں اب غصہ چھوڑیں۔"اسنے پیار سے کہا۔سیماب نے لمبی سانس کھینچی۔

"اچھا یہ بتاؤ وہ شخص کہاں ہے؟"ہاشم کا پوچھا گیا۔ 

"آفس ۔۔۔"اسنے مختصر جواب دیا۔

"وہ تمہارے ساتھ کیسا ہے؟"سیماب نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

نازلی انہیں دیکھتی کتنے پل خاموش رہی۔سمجھ نہ آئی کہ کیا جواب دے۔ 

"اچھے۔۔۔"اسکے لب خود بخود ہلے۔ 

"ہوں۔۔۔۔"اسکے جواب پر سیماب سوچوں میں گم ہوئیں۔ 

"آپ لنچ میرے ساتھ کریں گیں؟"نازلی نے بات بدلی۔ 

"کیوں نہیں۔۔۔"سیماب چونک کر مدھم سی مسکرائیں۔تو نازلی کے چہرے پر بھی مسکان چمکی۔

دونوں نے ساتھ لنچ کیا۔پھر کافی وقت نازلی کے ساتھ گزار کر سیماب واپس لوٹ گئیں۔انہیں اب حسن آفندی کے لوٹنے کا انتظار تھا۔تاکہ ان سے دو ٹوک بات کر سکیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"ہے عشق وہ بزرگ جو اے طالب نشست۔۔"

"ڈیرہ تیرے وجود کے اندر لگائے گا۔۔۔"

رات کو ہاشم لوٹا ۔۔۔ دونوں نے ساتھ ہی ڈنر کیا۔وہ پچھلے تین چار دنوں سے بہت خاموش تھا۔زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔نازلی کو عجیب سا محسوس ہونے لگا۔پہلے وہ اس سے ہر چھوٹی چھوٹی بات پر بحث کرتا ۔۔۔اپنی منواتا ۔۔۔۔پر اب تو وہ اس سے بہت کم بات کرتا تھا۔۔۔ جانے ایسا کیوں تھا۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔وہ ڈنر کرنے کے بعد لان میں چلا گیا تھا۔

نازلی نے اسے دیکھا۔سوچوں میں گم کرسی پر بیٹھا وہ سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔شلوار قمیض میں مضبوط شانوں کے گرد  بلیک شال لپٹی تھی۔

اس انداز میں وہ بہت با رعب اور مغرور سا لگ رہا تھا۔ 

"جانے انہیں کیا ہوا ہے۔"اسے کب سے اس حالت میں بیٹھے دیکھ کر نازلی نے خود کلامی کی۔اسے محسوس نہ ہوا پر لہجے میں اسکے لیے پریشانی اتر آئی تھی۔

پھر کچھ پل سوچتی رہی پھر وہاں سے ہٹ کر باہر کی طرف بڑھنے لگی۔ 

دوپٹہ جو اسکے گلے میں پڑا تھا اسے سر پر اوڑھتی چلتی ہوئی لان میں آئی۔

دور بیٹھے ہاشم کو دیکھ کر ایک پل کے لیے رکی تبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکے وجود سے ٹکرایا تو اسنے جھرجھری لی۔پھر آہستہ قدموں سے آگے بڑھتی ہاشم کے سامنے رکھی کرسی کے پیچھے کھڑی ہوئی۔

اسکی موجودگی کا ہاشم کو احساس نہ ہوا۔نازلی اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھنے لگی پھر بولی۔

"بات سنیں۔"اسکی مدھم آواز پر ہاشم ایک دم چونکا پھر نظریں پھیر کر اسے دیکھا۔

"جی سنائیں۔"بھاری آواز میں کہتا وہ ہاتھ میں پکڑا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلنے لگا۔لہجہ سنجیدہ تھا۔نازلی اسے پکار تو بیٹھی تھی پر اب بات کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔

وہ سر جھکائے ہاتھ مسل رہی تھی جب ہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔

"آؤ واک کرتے ہوئے بات کرتے ہیں۔"اسے دیکھ کر بولا۔نازلی نے ایک نظر اسے دیکھا پھر قدم آگے بڑھا دیے۔دونوں آہستہ آہستہ چلتے آگے بڑھے۔

ہلکی ہوا چل رہی تھی۔لان میں لگے پھولوں کی مہک نے فضا میں خوشبو بکھیر دی تھی۔ 

"کیا بات ہے۔"وہ اسکے انداز سے سمجھ گیا تھا کہ اسے کوئی بات کرنی ہے۔

"وہ آج ۔۔۔ میری آنی آئی تھیں۔"وہ سامنے دیکھ کر بولی۔

"ڈاکٹر سیماب؟"ہاشم نے ایک دم کہا۔نازلی نے حیرت سے رک کر اسے دیکھا۔ 

"آپ جانتے ہیں انہیں؟"

"ہوں ۔۔۔ "ہاشم نے سر ہلایا۔ 

"کیسے ؟"

"تمہارے ہر قریبی رشتے سے واقف ہوں میں۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

نازلی نے اس شخص کے وجیہہ چہرے کو دیکھا۔وہ اسکے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔پر نازلی کو تو اسکے بارے میں کوئی خبر ہی نہ تھی۔وہ کون ہے؟ اسکے ماں باپ کہاں ہیں۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔ 

ایک پل کو اسکے دل میں آیا کہ وہ پوچھے پر پھر اپنی زبان کو تالا ہی لگائے رکھا۔ 

"آپکو مسئلہ نہیں ہے کہ وہ مجھ سے ملنے یہاں آئی ہیں ؟"نازلی نے تعجب سے پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔۔"پر سکون انداز میں جواب دیا۔ 

"کیوں ۔۔۔"اسے جانے کیوں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہاشم کو آنی  کے یہاں آنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 

"تم میری بیوی ہو کوئی قیدی نہیں جسے میں کسی سے ملنے نہ دوں۔۔۔۔یہ گھر تمہارا ہے۔تم مالک ہو اسکی پھر مجھے کیوں مسئلہ ہوگا۔۔۔۔تمہارے اپنے تم سے ملنے کبھی بھی آ سکتے ہیں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔"وہ مدھم آواز میں بول رہا تھا۔نازلی نے کچھ پل اسکی سیاہ چمکتی آنکھوں میں دیکھا پھر ایک دم نظریں پھیر گئی۔ان آنکھوں میں بہت روشنی تھی۔وہ  مزید ان میں دیکھ نہ پائی۔

ہاشم کی باتوں پر دل میں عجیب سی کیفیت جاگی تھی۔جسے وہ سمجھ نہ پائی۔

وہ اتنا برا بھی نہ تھا جتنا وہ اسے سمجھ رہی تھی۔اسے لگا تھا اسکے بتانے پر وہ غصہ ہوگا پر ۔۔۔۔۔ 

وہ سوچ رہی تھی اور اسکا وجود آہستہ آہستہ کانپنے لگا تھا۔شاید سردی کی وجہ سے یا شاید دل میں کہیں کچھ پگھل رہا تھا۔

وہ ایک دم چونکی جب ہاشم نے اپنی شال اتار کر اسکے کندھوں کے گرد لپٹی۔نازلی نے جھٹ سے اسکی طرف دیکھا۔ 

"تمہیں سردی لگ رہی ہے۔۔۔اسے اوڑھ لو۔۔۔۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔

 نہیں ۔۔۔ مجھے سردی نہیں لگ رہی۔"وہ شال اتارنے لگی۔ ہاشم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر روکا۔ 

"کبھی کبھی دوسروں کی بھی مان لینی چاہیے۔"نیلی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

نازلی نے اسے دیکھا پھر جانے کیوں پر سر اثبات میں ہلا دیا۔

ہاشم نے ہاتھ پیچھے کیے۔لبوں کے کونوں میں اتنے دنوں بعد  ہلکی سی مسکراہٹ چمکی تھی۔سیاہی مائل آنکھیں اسکے خوبصورت چہرے پر جمی تھیں۔

نازلی کانپتے ہاتھ بھینچ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔اس شخص کی خوشبو اسکے چاروں طرف پھیلنے لگی تھی۔اسکا دل کہیں الجھ رہا تھا۔

تیز ہوا نے اسکے سر سے دوپٹہ اڑایا۔وہ جلدی سے ہاتھ بڑھا کر ٹھیک کرنے لگی جب ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر دوپٹہ اسکے سر پر اوڑھایا۔

"بہت پیاری لگتی ہو اس طرح۔"اسکے دوپٹے کی طرف اشارہ کر کے مدھم سا مسکرایا۔ 

نازلی نے کوئی جواب نہ دیا۔جھجھک کر کچھ قدم پیچھے ہوتی دوپٹے سے نکلتی لٹوں کو پیچھے کرنے لگی۔

"میں چلتی ہوں۔۔۔شب بخیر ۔۔۔"وہ جانے کے لیے پلٹی۔ 

"نازلی ۔۔۔"گھمبیر آواز میں پکارا گیا۔اسکے قدم تھم گئے۔پر وہ پلٹی نہیں۔

"کچھ دیر میرے ساتھ رہو۔۔۔۔۔"اسکی پشت کو دیکھتا وہ کچھ پل اسکا ساتھ مانگ رہا تھا۔ 

نازلی کے دل کو کچھ ہوا۔اس شخص نے ہمیشہ اسکی مرضی کے خلاف اس سے سب کچھ چھینا تھا پر آج وہ کچھ دیر کے لیے اسکا ساتھ مانگ رہا تھا۔آج اسنے زبردستی اسکا ساتھ پانے کی کوشش نہیں کی تھی۔آج وہ اسکی ہاں یا نہ کا انتظار کر رہا تھا۔

وہ آہستہ سے اسکی طرف پلٹی۔پھر چل کر اسکے ساتھ کھڑی ہوئی۔

ہاشم نے ایک نظر اسے دیکھا۔پھر دونوں واک کرنے لگے۔ 

کتنے پل خاموشی سے گزر گئے۔دونوں سوچوں میں گم ایک ساتھ چل رہے تھے۔ 

"نازلی ۔۔۔"ہاشم نے مدھم آواز میں پکارا۔

"ہوں۔۔۔"نازلی بنا اسے دیکھے بولی 

"میں سب کچھ ٹھیک کر دونگا۔۔۔" یقین دلایا گیا۔ 

نازلی کے قدم جکڑے گئے۔اسنے نظر پھیر کر اپنے ساتھ کھڑے اس مضبوط شخص کو دیکھا۔نیلی آنکھوں میں ہزار سوال اتر آئے۔

"مجھ پر یقین کرو۔"وہ اسے بھروسہ دلانا چاہتا تھا کہ وہ سب ٹھیک کر دے گا۔پر ان آنکھوں میں بے یقینی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

"ٹرسٹ می۔۔۔۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مضبوط لہجے میں کہا گیا۔ 

نازلی پلکیں نہ جھپک سکی۔بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔وہ اسکے جواب کا منتظر تھا پر اگلے پل وہ بنا کچھ کہے پلٹ کر چلی گئی۔ 

ہاشم خاموش نظروں سے اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔

کتنی دیر بعد وہ سنجیدہ سا واپس کرسی پر آ کر بیٹھا اور اپنے پہلے والے شغل میں مصروف ہوگیا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

اگلے دن وہ خان ولا میں موجود تھا۔خان بابا اور شہریار گھر پہ موجود نہ تھے۔ام جان کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر وہ نور اور آبی کے کمرے کی طرف بڑھا۔

وہ دونوں اسے سلام کر کے پھر اسکے سامنے نہیں آئیں تھیں۔ 

انکی ناراضگی کو دور کرنے ہی وہ یہاں آیا تھا۔ 

اسنے دروازے پر دستک دی۔نور نے ایک دم دروازہ کھولا۔ 

"بوا وہ ۔۔۔"اسنے سامنے دیکھا تو رک گئی۔اسے لگا کام والی بوا ہونگی پر سامنے ہاشم تھا۔ 

"اندر آنے کا نہیں کہو گی؟"اسنے نرمی سے پوچھا۔ 

نور نے دروازے کے سامنے سے ہٹ کر اسے اندر داخل ہونے کا راستہ دیا۔اسے دیکھ کر کتاب کھول کر بیٹھی آبی نے کتاب بند کی۔

"تم دونوں یہاں آؤ ۔۔۔ مجھے بات کرنی ہے۔"اسنے صوفے پر بیٹھ کر انہیں اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر خاموشی سے اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ 

"صورتیں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ ناراضگی برقرار ہے؟"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔

دونوں خاموش رہیں۔ویسے انکی زبان کو کون روک سکتا تھا پر ناراضگی میں دونوں کی زبانوں کو تالا لگ جاتا تھا۔ 

ہاشم نے گہری سانس بھری۔ 

"تم دونوں اگر اپنے لالہ کو نہیں سمجھو گی تو میں نازلی کو کیسے سمجھا پاؤں گا ۔۔۔"وہ انہیں دیکھ کر بولا۔دونوں نے  خاموشی نہ توڑی۔

"بولو مانو ، آبی ۔۔۔ تم دونوں ہی اگر میرے دل کی بات نہیں سمجھو گی تو میں گھر والوں کو کیا کہوں گا۔جب تم دونوں اپنے لالہ کا اتنا ساتھ دینے والی ہی منہ موڑ گئی ہو تو میں باقی سب سے کیا امید رکھوں۔میں نے جھوٹ کے بجائے تم لوگوں کو سچ بتا کر کیا غلطی کر دی۔۔۔۔"وہ تھکے انداز میں بولا۔ 

"لالہ ہم آپ سے ناراض نہیں ہیں پر جو کچھ بھی ہوا ۔۔۔ اس سب میں نازلی کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔یہ چیز برداشت نہیں ہورہی ہم سے۔"آبی نے آہستہ آواز میں کہا۔

"اس لڑکی نے بہت دکھ دیکھے ہیں آپ کی وجہ سے۔۔۔"نازلی کے ذکر پر نور اداسی سے بولی۔

"میں مانتا ہوں کہ میرا طریقہ غلط تھا پر میری محبت غلط نہیں ہے۔"وہ زمین کو گھور رہا تھا۔ 

"اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟"نور نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

"بہنیں ہونے کے ناطے میرا ساتھ دینا چاہیے۔"وہ انہیں دیکھ کر بولا۔ 

"کیا سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟"آبی نے پوچھا۔ 

"میں سب ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔پر مجھے تم دونوں کا ساتھ چاہیے۔فلحال گھر میں کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔"ہاشم نے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"اور جو اگر جمال آغا نے کوئی دھماکہ کر دیا تو؟"نور نے ابرو اٹھا کر کہا۔

"وہ چھوٹا بچہ نہیں ہے جو بیٹے کی شکایت باپ سے لگائے گا۔اسے معلوم ہے میری اور خان بابا کی پہلے سے ہی اس حد تک ناراضگی چل رہی ہے کہ اگر سچ کھل بھی گیا تو بات وہیں کی  وہیں رہے گی۔نہ خان بابا مجھے نازلی کو چھوڑنے پر فورس کر سکتے ہیں اور نہ میں اسے چھوڑوں گا۔جمال آغا کا پلان کچھ ہٹ کر ہوگا۔۔۔۔پر وہ کیا کرے گا معلوم نہیں ۔۔۔میں اسکی اگلی چال کا انتظار کر رہا ہوں۔"ہاشم سوچوں میں گم بول رہا تھا۔

"وہ آپکو کوئی نقصان تو نہیں پہنچائے گا ناں؟"نور نے پریشانی سے پوچھا۔ 

"مجھے اپنی فکر نہیں ہے بس نازلی کو نقصان نہ پہنچے۔"وہ مدھم سا مسکرا کر بولا۔ 

"اتنی محبت ہے نازلی سے؟"آبی نے ایک دم شریر انداز میں کہا۔ 

"کیا سب کچھ جان کر بھی اندازہ نہیں ہوا؟"ہاشم نے الٹا سوال کیا۔ 

"ہوگیا ہے اندازہ لالہ پر۔۔۔"نور کہتے کہتے رکی۔ 

"پر یہی کہ میں نے بہت غلط کیا۔۔۔ مانتا ہوں ۔۔۔۔ اب تو معاف کر دو ۔۔۔۔ بہنیں ہو کر بھائی کا ساتھ نہیں دوگی۔"ہاشم نے دونوں کو دیکھا۔ 

 ہماری یہ مجال ۔۔۔"آبی ہنسنے لگی جبکہ نور نے منہ بنایا۔ 

"جی مسئلہ آپ بھائی لوگ بنائیں اور پھر ہم بہنوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں۔"وہ مکھی اڑانے والے انداز میں بولی 

"بہنیں چالاک جو ہوتی ہیں۔بھائیوں کو بچا لیتی ہیں۔"ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔

"کیا میں سمجھوں کہ ناراضگی ختم؟"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔ 

"جی ۔۔۔"نور نے مسکرا کر سر ہلایا۔

"اور آبی ؟"ہاشم نے اسے دیکھا۔ 

"میری ناراضگی تو کب کی ختم ہوگئی ہے لالہ۔"آبی نے ہنس کر کہا۔ 

"گڈ شرارت کی پوٹلیوں۔"وہ ہنس کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"کہاں ؟؟"نور نے جھٹ سے پوچھا۔ 

"بیگم کے پاس۔"جواب آبی کی طرف سے آیا پھر وہ زبان دانتوں میں دبا گئی۔ 

ہاشم نے ایک دم قہقہہ لگایا تو وہ دونوں بھی ہنسنے لگیں۔ 

"اوکے میں چلتا ہوں۔"وہ مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ 

آبی مسکرا کر بیڈ پر بیٹھتی بک اٹھا کر پڑھنے لگی جبکہ نور ہاشم کے پیچھے باہر بھاگی۔ 

"لالہ ۔۔۔"وہ کمرے سے باہر آئی۔اسکے پکارنے پر ہاشم نے پلٹ کر اسے دیکھا 

نور اسکے قریب آئی۔ 

"آپ نازلی کا خیال رکھیے گا۔وہ بہت اکیلی ہے۔"اسنے نرمی سے کہا۔ 

"ضرور ۔۔۔"ہاشم نے اسکا سر تھپکا۔نور ایک دم اسکے کندھے سے لگی۔ 

"آپ نے مجھے بھابھی تو اتنی اچھی دی ہے پر اب آپ نے سب کچھ ٹھیک کرنا ہے۔۔۔ میں اس پیاری سی لڑکی کو کھونا نہیں چاہتی۔"وہ مدھم آواز میں بولی۔

"میں بھی۔۔"ہاشم نے شرارت سے کہا۔نور اس سے الگ ہو کر ہنسنے لگی۔ 

"میری دوست بہت معصوم ہے۔"اسنے ہنسی دبا کر کہا۔

"اتنی بھی نہیں ۔۔۔"ہاشم جھٹ سے بولا ۔اسے نازلی کے تیکھے انداز یاد آنے لگے تھے۔ 

نور ایک دم ہنسنے لگی۔ "یہ بات میں اسے بتاؤں گی جب وہ یہاں آجائے گی۔"نور نے مزے سے کہہ کر بھائی کو دیکھا۔ 

"ضرور بتانا۔"ہاشم شرارت سے مسکراہٹ دبا کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ 

نور نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔دور اپنے کمرے کے دروازے کے پاس شہریار کھڑا تھا۔اسکا چہرہ بے حد سنجیدہ تھا۔نور کے دیکھتے ہی وہ غصے سے نظر پھیر کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ 

نور کو ڈر لگا کہیں اسنے انکی باتیں تو نہیں سن لیں؟پر باتیں سننے کا چانس کم تھا کیونکہ وہ بہت دور کھڑا تھا۔شاید ہاشم لالہ کی موجودگی کی وجہ سے وہ ایسے ری ایکٹ کر رہا تھا۔ 

نور کچھ سوچتی کچن کی طرف بڑھی۔ 

ہاشم ام جان کو اللہ حافظ کہنے انکے کمرے کی طرف آیا تو خان بابا بھی وہیں تھے۔

اسنے انہیں سلام دیا۔جسکا جواب دے کر وہ موبائل اٹھا کر نمبر ڈائل کرتے کھڑکی کی جانب بڑھ گئے۔ 

انکے انداز پر ہاشم نے لب بھینچے۔

ام جان کے گلے ملتے وہ خان بابا کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔ 

"بیٹا جی کیسی ہیں آپ؟ اتنے دنوں سے کہاں غائب تھیں۔"وہ مسکرا کر کسی سے بات کر رہے تھے۔ 

انکا دوسروں کے ساتھ مسکراتا لہجہ اور اپنے لیے خاموشی اسکی جان لیتی تھی۔

ام جان سے الگ ہوتا ۔۔۔۔ سنجیدہ چہرے کے ساتھ وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ 

"میں اپنے سینے میں جل رہا ہوں۔۔۔"

"میں اپنی آنکھوں میں بجھ رہا ہوں۔۔۔"

شہریار نے کھڑکی سے باہر ہاشم کی کار کو گیٹ سے نکلتے دیکھا۔پھر غصے سے ایک دم کھڑکی کے پردے کھینچ کر بیڈ پر بیٹھا۔ 

کتنے خوش تھے وہ دونوں بہن ، بھائی ۔۔۔ دوسروں کو امتحان میں ڈال کر وہ مزے سے اپنی زندگی جی رہے تھے۔ 

انکی ہنسی نے شہریار کے جلتے دل پر تیل چھڑکا تھا۔ 

وہ غصے سے کھولتے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی پھر بنا اسکے جواب کا انتظار کیے نور اندر داخل ہوئی۔اسکے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔ 

شہریار نے تپ کر اسے دیکھا۔

"تمیز بھول گئی ہو تم ۔۔۔ میں نے تمہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔"سرد لہجے میں کہا گیا۔ 

"اوہ سوری ۔۔۔ وہ دروازہ کھلا تھا تو ۔۔۔"نور شرمندگی سے بولی۔ 

"جاؤ یہاں سے ۔۔۔"وہ گردن پھیر کر دیوار کو گھورنے لگا۔نور نے اسکے لال چہرے کو دیکھا۔وہ جانتی تھی ہاشم کے آنے کی وجہ سے وہ غصے میں تھا۔تبھی چائے بنا کر لائی تھی کہ شاید وہ  ریلیکس ہو جائے۔اسکا یوں غصہ ہونا نور کو پریشان کر دیتا تھا۔

ویسے بھی وہ غصے میں ہی رہتا تھا پر کبھی کبھی یہ غصہ شدید ہوجاتا تھا۔جیسے اس وقت وہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ 

"پر یہ چائے۔۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

"نہیں چاہیے۔۔۔"ٹھنڈی لہجے میں بولا۔ 

"پر میں نے خود آپکے لیے بنائی ہے۔"وہ اسے دیکھتی آگے بڑھی کر چائے میز پر رکھنے لگی۔

اسکی بات پر شہریار ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"بھاڑ میں گئی تم اور یہ چائے۔۔۔۔"اسنے غرا کر نور کا بازو تھام کر جھٹکا تو کپ ایک دم زمین پر گرا۔کپ دور گرا تھا ورنہ گرم چائے ضرور ماہ نور کے پاؤں جلا دیتی۔ 

"اتنا غصہ کس بات کا ہے شہریار۔۔"اسنے اداسی سے پوچھا۔

"انجان مت بنو۔۔۔"شہریار نے الفاظ چبائے۔

"ہاشم لالہ۔۔"اسکی بات بیچ میں رہ گئی۔شہریار نے اسکے بازو کے گرد گرفت مضبوط کی تو نور تکلیف سے آنکھیں بھینچ گئی۔ 

"اپنے اس بھائی کا نام میرے سامنے مت لیا کرو۔۔۔ تم دونوں بہن بھائی ایک جیسے ہو ۔۔۔ دوسروں کے دل جلا کر اپنی زندگی خوشی سے جی رہے ہو۔۔۔خود غرض ہو تم لوگ ۔۔۔"وہ سرد انداز میں دھاڑا تھا۔ 

"خود غرض ہم ہیں کہ آپ ؟؟"نور نے گلابی آنکھیں کھول کر شہریار کو دیکھا۔"آپ سے دوسروں کی خوشی برداشت نہیں ہوتی شہریار ۔۔۔۔ آپ اپنی ذات میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ آپکو دوسروں سے مطلب نہیں ۔۔۔ آپکو انکے غم نظر نہیں آتے ۔۔۔ پر انکی پل بھر کی مسکراہٹ آپ سے برداشت نہیں ہوتی۔آپکو کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔۔۔ آپ اپنی ذات میں اتنے مگن ہیں کہ آپ کو بس اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔دوسرا کوئی آپکے لیے پاؤں کی دھول کے برابر ہے۔بہت خود پرست ہیں آپ ۔۔۔"وہ نم آواز میں بولتی اسکی غصے بھری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

"ہاں ہوں میں خود پرست ۔۔۔۔جاؤ انکے پاس جو اپنی ذات میں مگن نہ ہوں۔جو تم پر دھیان دے ۔۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے ۔۔۔"اسنے چبا کر کہتے اسکا بازو جھٹکے سے چھوڑ کر اسے پیچھے دھکیلا۔

نور پیچھے رکھے میز سے ٹکرائی وہ کرنے لگی تو جلدی سے میز پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیا۔آنکھوں سے نمکین پانی بہنے لگا تھا۔نازک دل اسکے انداز پر دکھ سے بھر گیا۔وہ ہمیشہ اسکے ساتھ ایسا ہی کرتا تھا۔پر وہ پاگل ہر بار اسکی جانب کھینچی چلی آتی۔جانے اس شخص میں ایسی کیا کشش تھی کہ وہ اسکے پاؤں کی دھول بن گئی تھی۔وہ خاک ہو رہی تھی اور وہ شخص اپنی ذات کے  حصار سے نکلنے کے لیے تیار نہ تھا۔

"میں نے کہا جاؤ یہاں سے ۔۔۔"اسکی طرف پشت کیے وہ غصے سے بولا۔ماہ نور نے اسکی پشت کو دیکھ کر سسکی روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا پھر اگلے پل پلٹ کر باہر کی طرف بھاگی۔

شہریار نے پلٹ کر دیکھا۔وہ چلی گئی تھی۔اسنے جلتی آنکھیں زور سے بند کے کھولیں۔پھر دروازہ بند کرتا بیڈ پر بیٹھ کر سر ہاتھوں میں تھام لیا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"آپکے بن رہا نہیں جاتا۔"

"کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا۔"

"غم جاناں میں لذت غم ہے۔"

"غم دنیا سہا نہیں جاتا۔"

"زندگی یونہی کٹ رہی ہے مگر۔"

"اب تماشہ بنا نہیں جاتا۔"

"لاٹ آؤ صدائیں دیتے ہیں۔"

"زید فصل گل میں جیا نہیں جاتا۔"

کلب میں افراتفری بھرا ماحول تھا۔ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تھا۔وہ بار کے ایک طرف رکھے سٹول پر بیٹھی تھی۔ہاتھ میں جلتا سگریٹ تھا۔وہ اپنے خیالوں میں گم تھی جب اسکی دوست نے گلاس اسکے سامنے رکھا۔

تابین نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"یہ پی لو ۔۔۔ سارے غم بھول جاؤ گی۔"وہ آنکھ دبا کر بولی۔ 

"محبت کا غم کسی بھی حال میں نہیں بھولتا مائی ڈئیر۔"تابین نے تلخی سے کہا۔ 

"ٹرائے تو کرو۔"اسنے زور دیا۔تابین نے کچھ پل گلاس کو گھورا۔پھر ہاتھ بڑھا کر اٹھانے لگی جب کسی اور نے اٹھا لیا۔ 

"بری عادتوں اور برے دوستوں سے دور رہنا چاہیے۔"مردانہ آواز پر اسنے سر اٹھا کر سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا۔اسکی بات پر تابین کی دوست منہ بنا کر دوسری طرف چلی گئی۔ 

"اوہ ہاشم خان کا بیسٹ فرینڈ اسفندیار ملک اور یہاں۔"تابین نے مسکرا کے اسے دیکھا۔ 

اسفی نے گلاس ایک طرف رکھا پھر اسکے سامنے بیٹھا۔ 

"کیوں میں یہاں نہیں آ سکتا۔"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔ 

"کیا تم نے بھی کوئی بری عادت پال رکھی ہے؟"تابین نے کہہ کر سگریٹ کا کش لگایا۔

"اللہ کا شکر ہے مجھ میں کوئی بری عادت نہیں ہے۔"اسفی نے سکون سے کہا۔پھر تابین کو دیکھا۔

"سگریٹ انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتا ہے۔صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔اس سے دور رہنا چاہیے۔۔۔"سمجھانے والے انداز میں کہا گیا۔

"واقعی ۔۔۔۔"تابین ہنسی پھر اگلے لمحے جانے کیا سوچ کر سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔ 

"اب ٹھیک ہے۔"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"بالکل ٹھیک ۔"اسفی مدھم سا مسکرایا۔ 

"تمہیں میری فکر کیوں ہے؟"تابین نے ایک دم پوچھا۔

"انسانی جان کی فکر ہوتی ہے مجھے۔"وہ کندھے اچکا کر بولا۔ 

"تو ذرا آس پاس نظر دوڑاؤ۔۔۔"تابین نے اشارہ کیا۔وہاں کوئی ڈرنک کر رہا تھا تو کوئی سگریٹ پھونک رہا تھا۔سب اپنے اپنے شغل میں مصروف تھے۔ 

"ان سبکو چھوڑ کے تم ادھر ہی کیوں آئے۔"اسنے طنزیہ کہا۔ 

"تم دوست ہو ۔۔ اسلیے۔"اسفی نے دوسری طرف دیکھتے جواب دیا۔ 

"واہ ایک دوست نے دشمن بنا رکھا ہے اور دوسرا دوست ہمیں دوست کہتا ہے۔۔۔یہ خوب رہی۔"وہ بات مکمل کر کے ہنسنے لگی۔ 

"ہاشم تمہیں دشمن نہیں سمجھتا۔"اسفی نے اسے دیکھ کر کہا۔ 

"دوست بھی تو نہیں مانتا۔"وہ افسوس سے بولی۔

"تم اس سچائی کو قبول کیوں نہیں کر لیتی کہ وہ تمہاری قسمت میں نہیں ہے۔۔۔"

"میں چاہتی ہوں کہ میں قبول کر لوں یہ سب ۔۔۔ پر یہ میرا دل ۔۔۔"وہ رکی۔"میرا دل نہیں مانتا۔"وہ سر جھکا کر مدھم آواز میں بولی۔ 

"کوشش تو کرو۔۔۔"اسفی نے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھا۔ 

"بہت کوشش کر کے دیکھ لی۔۔۔ پر کوئی فائدہ نہیں۔"اسکے لہجے میں اداسی اتری۔ 

"ویسے ایک بات کہوں۔"اسنے ایک دم سر اٹھا کر اسفی کو دیکھا۔

"ہوں ۔۔۔"اسفی نے سر ہلایا۔ 

"تم بہت اچھے دوست ہو۔ہاشم خان خوش قسمت ہے کہ اسے تم جیسا مخلص دوست ملا ہے۔"وہ مگن سی بولی۔اسفی بے ساختہ مسکرایا۔ 

"اور مجھے اس جیسا۔"اسنے تابین کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔وہ ایک دم ہنسی۔ 

"ہاں ۔۔۔ تم دونوں کی دوستی مثالی ہے۔"اسنے رضا مندی میں سر ہلایا۔ 

"میرے ساتھ ڈنر کرنا پسند کرو گی؟"اسنے اچانک پوچھا۔ 

"تمہارے دوست کو برا لگے گا۔"وہ طنزیہ بولی۔ 

"تم بس جواب دو۔یس اور نو۔۔۔"اسفی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

تابین نے کچھ پل سوچا پھر ہاں میں جواب دیا۔

تابین اپنی دوست کے ساتھ یہاں آئی تھی۔اسے بتا کر وہ اسفی کے ساتھ وہاں سے نکلی۔دونوں نے دوستانہ ماحول میں ڈنر کیا پھر اسفی اسے گھر ڈراپ کرنے لگا۔

کار سڑک پر چل رہی تھی۔اسفی نے ڈرائیو کرتے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ 

"تم ان بری دوستوں سے دور کیوں نہیں رہتی۔"اچانک بولا تھا۔ 

"کیونکہ میرے پاس انکے علاوہ کوئی اچھا دوست ہے ہی  نہیں۔"اسنے ہنس کر جواب دیا۔ 

"تم اچھے دوست بناؤ گی تو ہونگے ناں۔"اسفی نے اسے دیکھ کر کہا۔تابین اسے دیکھنے لگی پھر اچانک بولی۔ 

"تم بنو گے کیا میرے دوست؟"

"ہم تو پہلے سے آپکے دوست ہیں مادام۔"وہ ایک دم مسکرانے لگا۔

"واقعی ۔۔۔؟؟ "تابین نے مسکرا کر پوچھا۔

"بالکل ۔۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

"اب میری فرینڈ لسٹ میں ایک اچھا دوست آ گیا ہے۔"وہ شرارت سے بولی۔ 

"آپکی قسمت ہے۔"اسفی نے شوخی سے سر کو خم دیا۔ 

تابین ہنسنے لگی پر اسکی ہنسی کھوکھلی تھی۔اسفی اسے دیکھنے لگا۔

"ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟"تابین نے ہنسی روک کر ابرو اٹھایا۔ 

"اس اداسی سے باہر کیوں نہیں آ جاتی۔۔۔ کیوں خود کو جلا رہی ہو۔"

"تمہارے دوست نے اس اداسی کو میری زندگی کا حصہ بنا دیا ہے اور اب جلتے رہنا میرا مقدر ہے۔"وہ تلخ ہوئی۔ 

"اندھیروں سے نکل کر روشنی کا ہاتھ تھامو گی تو اداسی کا نام و نشان نہیں رہے گا۔"اسنے آہستہ آواز میں کہا۔

"اب تابین حسن آفندی کی زندگی میں اندھیرے ہی ہیں۔اسے روشنی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اسفی۔"وہ مدھم آواز میں کہتی سر پھیر کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔آنکھوں میں نمی پھیلنے لگی تھی۔

اسفی نے ایک دکھ بھری نظر اس پر ڈالی پھر خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔ 

حسن ولا کے باہر کار رکی تو تابین باہر نکلی۔

"تھینک یو اسفی ۔۔۔"نرمی سے کھڑکی میں جھک کر بولی۔ 

"گڈ نائٹ۔۔"اسفی نے مسکرا کر کہا۔

تو وہ سر ہلا کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔اسے جاتے دیکھ کر وہ بھی آہستہ سے کار آگے بڑھا لے گیا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شہریار ،خان بابا کے سامنے بیٹھا تھا۔اس وقت کمرے میں صرف وہ دونوں ہی موجود تھے۔

خان بابا نے بات شروع کی۔

"آپکو معلوم ہے کہ گھر میں آجکل کیا باتیں چل رہی ہیں۔"

"جی ۔۔"شہریار نے سر ہلایا۔

"ہم نے بیٹے کا باپ بن کر آپکا جواب سن لیا۔اب ہم بیٹی کے باپ بن کر آپ سے پوچھتے ہیں شہریار کہ کیا آپکو یہ رشتہ قبول ہے؟"وہ بغور اسکے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ 

"خان بابا مجھے آپکا ہر فیصلہ قبول ہے۔۔۔"وہ جھکے سر کے ساتھ بولا۔ 

"جو کچھ بھی ہاشم نے کیا۔۔۔۔"خان بابا کہتے ہوئے ایک دم خاموش ہوگئے۔ 

"اس بات کو رہنے دیں خان بابا ۔۔۔ وہ بات تو کب کی ختم ہو چکی ہے۔"شہریار نے لہجے کو نرم بنا کر کہا۔جبکہ دل میں بے چینی ہی بے چینی تھی۔ 

"آپ نے میرا مان رکھا ہے شہریار۔"خان بابا کی آواز میں فخر کے ساتھ کہیں دکھ بھی چھپا تھا۔

شہریار اٹھ کر انکے پاس آیا۔ 

"آپ میرے لیے سب کچھ ہیں خان بابا ۔۔۔ ماما بابا کی موت کے بعد آپ نے کبھی ہمیں انکی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔آپ کے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔"وہ عقیدت سے انکا ہاتھ تھام کر بولا۔

"جیتے رہیں بیٹا۔"انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔

شہریار نے دکھتی آنکھیں بند کر لیں۔انکے سینے سے لگ کر اسکے دل کو سکون ملا تھا۔ 

"ہم جا کر آپکی ام جان کو خوش خبری سناتے ہیں۔"خان بابا اسکا کندھا تھپک کر کمرے سے نکل گئے۔ 

شہریار سنجیدہ چہرے کے ساتھ صوفے پر نیم دراز ہوا۔

اسکی اور ماہ نور کی شادی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی۔ 

جب سے ماہ نور کا رشتہ آیا تھا تب سے ام جان پریشان تھیں۔انہوں نے خان بابا سے بات کی اور تب سے گھر میں انکی شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ 

ماہ نور کے لیے ابراہیم کا رشتہ آنے پر شہریار کا دل بھی بے چین ہوا تھا۔

پر ماہ نور سے شادی ۔۔۔ اسنے ابھی شادی کا نہیں سوچا تھا۔وہ فلحال شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اسکا دل و دماغ اسکے بس میں نہیں تھا۔وہ شادی کر کے اس لڑکی کو مزید امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا پر خان بابا کی بات کے آگے وہ انکار نہ کر سکا اور ہاں میں جواب دے دیا۔

آنکھیں سختی سے بند کیے وہ سوچوں میں گم ہوتا چلا گیا۔ 

"محبت تو محبت ہے اور ہمیشہ تم سے رہے گی۔۔"

"پھر چاہے تم ناراض ہو۔۔"

"بے رخی دکھاؤ ۔۔۔"

"چلاؤ۔۔۔۔خاموش ہوجاؤ یا بھول جاؤ۔۔"

ہاشم موبائل کان سے لگائے کار سے نکل کر اندر کی طرف بڑھا۔ 

وہ ابھی باہر سے آیا تھا۔موبائل پر نور سے بات کر رہا تھا جو اس سے نازلی کا پوچھ رہی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ 

"بتاتا ہوں مانو ۔۔۔ ذرا رک جاؤ۔"وہ مسکراتی آواز میں کہتا نازلی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ 

کل نور اور آبی سے بات کر کے ہاشم کے دل پر چھائی اداسی  ہٹ گئی تھی۔وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ 

اسنے آگے بڑھ کر آہستہ سے نازلی کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر دیکھا۔نازلی نماز پڑھ رہی تھی۔

اسکے چہرےکی دائیں سائیڈ وہ دیکھ سکتا تھا۔سفید دوپٹہ اچھے سے سر پر لپٹ رکھا تھا۔لب آہستہ سے ہل رہے تھے اور پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔اسکا شاداب چہرہ اس وقت اتنا پاکیزہ لگ رہا تھا کہ وہ اسکے چہرے سے نظر نہ ہٹا سکا۔

ماہ نور کی آواز پر وہ بنا نازلی سے نظریں ہٹائے کچھ قدم پیچھے ہوا پھر آہستہ آواز میں بولا 

"وہ نماز پڑھ رہی ہے۔بعد میں بات کریں گے مانو۔"اسے بتا کر ہاشم نے کال کٹ کی۔ 

پھر کھلے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوتا ، سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دیکھنے لگا۔ 

اس لڑکی کے چہرے سے جیسے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ہاشم نےکسی انسان میں آج تک اتنی پاکیزگی نہیں دیکھی۔وہ لڑکی ہر دن اسے نئے انداز میں دیوانہ کرتی۔وہ اچھی لڑکی جو اس وقت اللہ کے سامنے سر جھکا رہی تھی۔وہ اسکا نصیب تھی۔اس چاند کو اللہ نے اسکی جھولی میں ڈالا تھا۔پہلے اس لڑکی کے حسن نے اسے گھائل کیا تھا اور اب ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکی عادات اسکی شخصیت اسے پہلے سے زیادہ اپنے سحر میں جکڑ رہی تھیں۔ 

کسی کا ہمسفر اگر اس کانچ سی لڑکی جیسا ہو تو کوئی کیونکر دیوانہ نہ ہو۔وہ لڑکی دنیا و دین کو بخوبی ساتھ لے کر چل رہی تھی۔دونوں جگہ ایک اچھی لڑکی کی طرح اپنا کردار نبھا رہی تھی۔ 

وہ خود اتنا اچھا اتنا پرہیز گار نہ تھا۔پر اللہ نے اسے وہ ہیرے جیسی لڑکی دے دی تھی۔وہ با کمال تھی۔وہ سب سے منفرد تھی کیونکہ وہ ہاشم خان کی نازلی تھی۔ 

نازلی نے سلام پھیر کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔وہ پوری طرح سے عبادت میں مگن تھی۔اسے ہاشم کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔وہ ہاتھ سامنے پھیلائے زیر لب اللہ سے باتیں کر رہی تھی۔آنکھوں سے آنسو نکل کر گالوں کو بگھونے لگے تھے۔ 

ہاشم کی نظریں اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ سفر کرنے لگیں۔سینے میں دھڑکتا دل زور زور سے پھڑپھڑانے لگا۔ 

یہ آنسو اسکے دیے ہوئے تھے۔اُسکی آنکھوں سے بہتے اس شفاف پانی کی وجہ وہ تھا۔ 

ہاشم کے دل کو کسی نے مٹھی میں بھینچا تھا۔سیاہ آنکھوں میں دکھ اترا تھا۔نور نے صحیح کہا تھا یہ اسکی خود غرضی تھی کہ اسنے ایک معصوم لڑکی کو اندھیروں میں لا چھوڑا تھا۔ وہ شاید محبت کا مطلب ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا تھا۔وہ اپنے جنون میں اندھا ہوگیا تھا۔

اسے وحشت ہونے لگی تھی۔ایک آخری نظر نازلی کے چہرے پر ڈال کر وہ ایک دم پیچھے ہوتا پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ 

نازلی نے دعا کر کے منہ پر ہاتھ پھیرے۔پھر دوپٹے سے آنکھیں خشک کرتی جائے نماز اٹھانے لگی۔ 

جائے نماز رکھ کر وہ چھوٹی پٹھانی کو بلانے کے لئے کمرے سے باہر نکلی۔چھوٹی پٹھانی آجکل نازلی کے ہاتھ لگ گئی تھی اور نازلی روز ایک گھنٹہ چھوٹی پٹھانی کو پڑھائی کرواتی تھی۔جیسے نوری کی شامت آتی تھی پڑھائی کے معاملے میں ویسے اب چھوٹی پٹھانی کی آتی تھی۔وہ بھی نوری کی طرح پڑھائی سے دور بھاگتی تھی۔ 

وہ ہاشم کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی جب ہلکے کھلے دروازے سے ہاشم کی بھاری آواز پر اسکے قدم تھم گئے۔ہاشم کے الفاظ پر اسکا دل دھڑکا تھا۔ 

وہ فون پر حسن آفندی کے سکریٹری سے بات کرتا اس سے حسن آفندی کا پوچھ رہا تھا۔ 

ہاشم کو حسن آفندی سے بات کرنی تھی ۔۔۔۔کیوں ؟ کیا جیسا اسنے کہا تھا کہ وہ سب ٹھیک کر دے گا۔تو کیا وہ سب ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ یا مزید بات کو بگاڑنا چاہتا تھا۔نازلی کا دماغ الجھ رہا تھا پر دل میں کہیں امید کی کلی سی کھل اٹھی تھی کہ شاید ہاشم سب کچھ ٹھیک کر دے۔

ہاشم کی آواز بند ہوئی۔پھر دروازے کے قریب آتی قدموں کی چاپ پر نازلی جھٹ سے آگے بڑھ گئی تھی۔ 

ہاشم کمرے سے باہر نکلا۔نازلی کو جاتے دیکھ کر ایک دم اسے پکارا۔ 

"نازلی ۔۔۔"اسکی آواز پر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ رک کر پلٹی۔

"جی ۔۔۔"مدھم آواز میں بولی۔ 

ہاشم قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا۔اسکے سامنے کھڑے ہو کر اسنے اسکے چہرے کو بغور دیکھا۔اسکے دیکھنے پر نازلی جھجھک کر سر جھکا گئی۔اسے لگا شاید وہ جان گیا تھا کہ وہ اسکی باتیں سن رہی تھی۔یہ کتنی بری بات تھی۔۔۔ نازلی کو شرمندگی نے گھیرا۔ 

نازلی کو دیکھتی وہ سیاہ آنکھیں مضطرب تھیں۔دل کے کونے کونے میں بے چینی نے گھر کر رکھا تھا۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس سے پوچھ بیٹھا۔ 

"تم اللہ کے سامنے میری شکایت تو کرتی ہوگی ناں؟ شاید میرے لئے تمہارے لبوں سے بد دعا بھی نکلتی ہوگی؟"وہ عجیب لہجے میں پوچھ رہا تھا۔ اسکی بات پر نازلی نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔پھر اسکی بات سمجھ کر نفی میں سر ہلایا۔

"میں نے آج تک کسی کے لئے بد دعا نہیں کی۔میں صرف دعا کرتی ہوں اپنے پیاروں کے لئے اور اپنے لئے۔"وہ مدھم آواز میں اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔ 

"تمہاری دعا مجھ سے دور جانے کی ہی ہوگی ناں؟"وہ بے چینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

اسکی بات پر نازلی نظریں پھیر گئی۔اسنے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔۔ہاں ۔۔۔ اسکی یہی دعا تھی کہ وہ شخص کسی بھی طرح اسکی زندگی سے نکل جائے۔وہ کہیں بہت دور چلا جائے۔۔۔وہ کبھی اسے دوبارہ دکھائی نہ دے تا کہ وہ سکون سے جی سکے۔ 

"تم پلیز یہ دعا نہ کیا کرو۔۔۔۔۔"وہ آہستہ سے اسکا ہاتھ تھام کر التجا کر رہا تھا۔

وہ دنیا والوں سے لڑ کر اس لڑکی کو پا سکتا تھا پر اب وہ لڑکی اس سے دور ہونے کے لئے اللہ سے دعا مانگ رہی تھی۔

اس معاملے میں وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔اس پاک ذات کے سامنے تو وہ خاک بھی نہ تھا۔

وہ اس لڑکی کو کھونے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

جسے پانے کی اسے اتنی لگن تھی وہ لڑکی اللہ کے دربار میں سر جھکا کر اس سے بچھڑ جانے کی دعائیں مانگ رہی تھی۔یہ بات اسکا دل کیسے برداشت کرتا۔۔۔۔یہ اسکے محبت بھرے دل پر ظلم نہیں تو اور کیا تھا؟؟

"پھر کیا دعا کروں؟"کافی دیر بعد نازلی کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ 

"اگر مجھ سے جدائی چاہتی ہو تو مجھ سے دور جانے کی دعائیں کرنے کے بجائے میرے مرنے کی دعائیں کرو کیونکہ میرے لئے دونوں ایک برابر ہیں۔۔۔"یہ کہتے اسکی آنکھوں میں دکھ اور  لبوں پر ہلکی مسکراہٹ تھی۔ 

نازلی دنگ سی اسے دیکھ رہی تھی۔کیا وہ اس قدر دیوانہ تھا کہ اسکی دوری سہنے کے بجائے مر جانے کو ترجیح دے رہا تھا؟

کیا یہ سچ ہے؟کیا کوئی کسی سے اس حد تک محبت کر سکتا ہے؟ نازلی کو یقین نہ تھا۔وہ کیسے مان لیتی کہ یہ شخص جسنے اسے برباد کیا تھا وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔ نا ممکن ۔۔۔۔آجکل ایسی محبت کوئی کسی سے نہیں کرتا ۔۔۔ 

وہ شخص صرف اسکے نازک دل کے ساتھ اپنے کہے اموشنل الفاظ سے کھیل رہا تھا۔وہ جانتا تھا وہ اس قسم کی باتوں سے ڈر جاتی ہے۔اسکا دل ایسی باتیں برداشت نہیں کر پاتا تبھی جان بوجھ کر وہ ایسا کہہ رہا تھا۔یہ ساری باتیں سوچ کر اسکے سر پر غصہ سوار ہوا۔وہ شخص جانے اسکے ساتھ یہ سب کیوں کر رہا تھا۔۔۔ کیوں اسکے جذبات کے ساتھ کھیل رہا تھا۔اسنے تپے انداز میں ہاشم کو دیکھا۔ 

"ٹھیک ہے ۔۔۔ آج سے میں آپ سے دور جانے کی دعا کے بجائے آپ کے مرنے کی دعا کرونگی۔۔۔۔تا کہ آپ پھر مجھے کبھی میرے آس پاس نظر نہ آئیں۔۔۔۔مجھے کبھی آپکی صورت اپنی آنکھوں کے سامنے دکھائی نہ دے۔"طنزیہ انداز میں چبا کر کہتی اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

"اب یہ دعا ٹھیک ہے ناں؟؟"سرد انداز میں اپنے الفاظ پر زور دے کر کہتی آخر میں تپ کر مسکرائی تھی۔ 

اسکے الفاظ ، اسکا انداز ہاشم کے دل میں زہر میں ڈوبے تیر کی طرح پیوست ہوا تھا۔سیاہی مائل آنکھوں میں جلتے دیے ایک دم بجھے تھے۔ان میں دور دور تک ویرانی پھیلی تھی۔دل کا عالم بیان کرنے سے باہر تھا۔اپنی کیفیت پر اگلے پل اسکے وجیہہ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔ اذیت بھری دل کو سینے سے کھینچ نکالنے والی مسکراہٹ۔۔۔۔۔

نازلی کو ایک دم احساس ہوا کہ یہ بات کہہ کر اسنے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔نیلی آنکھیں ہاشم کی کرب میں ڈوبی مسکراہٹ پر طنزیہ انداز سے ایک دم مایوس چھلکانے لگیں۔

اس شخص کے چہرے کی یہ مسکراہٹ نازلی کا دل نکال لے گئی۔۔۔۔

وہ پل میں ، وہیں کھڑے کھڑے دل ہار بیٹھی تھی۔بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی جبکہ وہ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھاما اسکا نازک ہاتھ اوپر کرتا لبوں تک لے گیا۔پھر اسکے ہاتھ کی پشت پر نرمی سے بوسہ دے کر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

"بالکل ٹھیک ۔۔۔۔۔"جس انداز میں یہ دو لفظ کہے گئے تھے وہ نازلی کا دم گھونٹنے لگے۔وہ پتھرائی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ محبت سے اسکا گال تھپک کر وہاں سے باہر کی طرف بڑھنے لگے۔ 

وہ چلا گیا۔جانے کتنا وقت بیتا تھا۔وہ وہیں اسی انداز میں  کھڑی تھی۔ 

ہاتھ پاؤں ٹھنڈے اور چہرہ زرد ہورہا تھا۔دل نے دھڑکنے کا انداز بدلا تھا۔الگ سر تال چھڑ چکے تھے۔پورے جسم میں اسے دل دھڑکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

"نازلی باجی کیا ہوا آپکو۔"چھوٹی پٹھانی نے فکر مندی سے اسکا ہاتھ تھاما۔

"افف آپکے ہاتھ تو برف ہو رہے ہیں۔"وہ پریشانی سے بولی۔نازلی نے خالی نظروں سے اسے دیکھا۔

"آپ آئیں ۔۔۔ یہاں بیٹھیں ۔۔۔ میں آپکے لئے دودھ لے کر آتی ہوں۔"وہ جلدی سے اسے صوفے پر بٹھا کر وہاں سے کچن کی طرف بھاگی۔ 

نازلی کانپتا ہاتھ لبوں پر رکھ گئی۔دل بار بار اسے وہ منظر یاد دلا رہا تھا۔بار بار آنکھوں کے سامنے اس شخص کی دکھ بھری جان لیوا مسکراہٹ آرہی تھی۔ 

گھٹنوں پر کہنیاں ٹکا کر وہ دونوں آنکھوں پر سختی سے ہاتھ جما گئی۔جیسے اس منظر کو غائب کرنا چاہا تھا۔پر کچھ نہ ہوا۔۔۔۔۔ وہ منظر اب اسکے دل پر نقش ہو چکا تھا۔اب وہ ہزار کوششیں بھی کر لیتی اس سے جان نہیں چھڑا سکتی تھی۔ 

"اللہ جی ۔۔۔۔ کاش میں ایسا نہ کہتی۔"وہ نم آواز میں بولی۔ 

"نازلی باجی ۔۔۔"چھوٹی پٹھانی نے اسکا کندھا ہلایا۔نازلی نے چونک کر آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے۔

چھوٹی پٹھانی نے گلاس اسکی طرف بڑھایا پر نازلی نے نفی میں سر ہلایا۔آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔چھوٹی پٹھانی گلاس میز پر رکھتی اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی۔

"آپ رو کیوں رہی ہیں؟"اسنے معصومیت بھری پریشان سے پوچھا۔ 

نازلی نے گال کو انگلیوں کی پور سے چھو کر نمی محسوس کی۔وہ رو رہی تھی ۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔۔اپنے کہے الفاظ پر یا اپنے دل کی اچانک بدل جانے والی کیفیت پر ۔۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

ایک پل اسکا دل مدھم چلتا تو اگلے پل اس شخص کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہراتا تو دل کی دھڑکن رفتار پکڑ لیتی۔۔۔۔ 

یہ اچانک کیا ہورہا تھا اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ 

اسنے نم آنکھوں سے چھوٹی پٹھانی کو دیکھا۔

"میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔۔۔بس رونے کا دل چاہ رہا ہے میرا چھوٹی پٹھانی۔"وہ روندھی آواز میں معصومیت سے سامنے بیٹھی بڑی بڑی آنکھوں والی چھوٹی پٹھانی سے کہہ رہی تھی۔جو اسکی بات پر آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھنے لگی پھر اگلے پل جو ہوا اسنے نازلی کے بھی ہوش اڑا دیے۔ 

چھوٹی پٹھانی کی آنکھوں نے تیزی سے سیلاب جیسا منظر پیش کیا اور وہ زور زور سے رونے لگی۔ 

"مورے ۔۔۔۔ مورے جلدی آئیں۔۔۔۔۔دیکھیں نازلی باجی کے دل کو کچھ ہورہا ہے۔"وہ نازلی کا ہاتھ تھام کر اونچی آواز میں کہہ رہی تھی۔ 

"ہائے مورے جلدی آئیں ۔۔۔۔ نازلی باجی کے ہاتھ بھی برف بنے ہیں۔یہ کانپ رہی ہیں۔۔۔۔ میں آپکو کچھ نہیں ہونے دونگی نازلی باجی۔"وہ روتے ہوئے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے ہاتھ کو رگڑ رہی  تھی جبکہ نازلی رونا بھول کر حیرت سے چھوٹی پٹھانی کو دیکھ رہی تھی۔ 

تبھی گل جان بھاگی بھاگی وہاں پہنچیں۔

"کیا ہو گیا۔۔۔۔"وہ فکر مندی سے ہانپتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔ 

"انکے دل کو کچھ ہورہا ہے مورے۔۔۔۔ویسے ہی جیسے بابا کے دل کو کچھ ہوا تھا۔"چھوٹی پٹھانی نے روتے ہوئے جواب دیا۔ 

"اللہ ۔۔۔ میں ابھی ہاشم صاحب کو فون کرتی ہوں۔"گل جان دل پر ہاتھ رکھ کر حواس باختہ سی فون کی طرف بڑھیں۔

ہاشم کے نام پر نازلی جھٹ سے ہوش میں آئی۔

"رکیں گل جان ۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ چھوٹی پٹھانی رونا بند کرو ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔"اسنے دونوں ماں بیٹی کو سمجھایا۔ 

"اب آپکے دل کو کچھ نہیں ہورہا؟"چھوٹی پٹھانی نے معصومیت سے پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔۔"نازلی نے جھوٹ بولا۔سچ بول کر اسکا انجام دیکھ چکی تھی۔ 

"شکر اللہ کا ۔۔۔"چھوٹی پٹھانی نے آنسو صاف کیے۔گل جان نے بھی لمبی سانس کھینچی۔

"اٹھو اوپر بیٹھو ۔۔۔ اور یہ بتاؤ تم روئی کیوں؟"اسنے چھوٹی پٹھانی کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ 

"وہ ناں ایک سال پہلے میرے بابا کے دل کو بھی کچھ ہوا تھا۔انکے ہاتھ بھی ٹھنڈے تھے۔انکا وجود بھی کانپ رہا تھا۔"وہ اداسی سے کہتی سر جھکا گئی۔ 

نازلی کو اسکی بات کی سمجھ نہ آئی۔اسنے سوالیہ انداز میں گل جان کو دیکھا۔"کیا ہوا تھا انہیں؟" 

"اسکے بابا کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ ہمیں اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔۔۔"گل جان نم آنکھوں کے ساتھ کہتی منہ پر دوپٹہ رکھ کر سسکی روکتی وہاں سے چلی گئیں۔

چھوٹی پٹھانی کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ 

نازلی نے آگے ہو کر اس چھوٹی سی لڑکی کو گلے لگا لیا۔ 

"شش ۔۔۔ پیاری لڑکی ۔۔۔ بس رونا نہیں ہے۔۔۔ تم اپنے بابا کے لئے دعا کیا کرو۔"وہ نرمی سے بولی۔ 

"وہ تو میں ہر نماز کے ساتھ اپنے بابا کے لئے دعا کرتی ہوں نازلی باجی۔"اسنے نازلی سے الگ ہو کر بتایا تھا۔

"بہت اچھی بچی ہو تم۔۔"نازلی نے اسکے آنسو صاف کیے۔چھوٹی پٹھانی مدھم سی مسکرائی۔

"شکر آپ ٹھیک ہیں۔"وہ نازلی کا چہرہ دیکھنے لگی۔نازلی نے مسکرا کر اسکا گال کھینچا۔

"میری اتنی فکر ہے میری چھوٹی سی دوست کو۔"نازلی نے پیار سے کہا

"جی ہاں ۔۔۔ "چھوٹی پٹھانی نے زور سے سر ہلایا۔تو نازلی نے محبت سے اسکے بال بگاڑے۔وہ مسکرانے لگی تھی۔ 

نازلی کے اپنوں نے اسے چھوڑ دیا تھا پر ان سب نے اسے اپنا بنا لیا تھا۔انکے لئے وہ ضروری ہوگئی تھی۔۔۔ خاص طور پر اس مغرور شخص کے لئے۔۔۔۔۔۔

شام کے قریب وہ چھوٹی پٹھانی کو پڑھانے بیٹھ گئی۔جب تک مصروف رہی اسے ہاشم کا خیال نہ آیا پر جیسے ہی  فارغ ہوئی۔سوچوں نے اسے پاگل کرنا شروع کر دیا۔

رات کے سائے پھیل چکے تھے۔وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیاں چڑھتی پینٹنگ روم کی طرف آئی۔سوچوں سے جان چھڑانے ، دل کی بے چینی اور اس شخص کا خیال ذہن سے مٹانے کے لئے وہ خود کو رنگوں کی دنیا میں گم کر دینا چاہتی تھی۔ 

کینوس سیٹ کرتی وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نو بجے کے قریب اسکی کار خان ولا کے پورچ میں رکی۔وہ مسکراتا ہوا کار سے باہر آیا۔جاتے وقت وہ جتنا ٹوٹا ہوا تھا اب اتنا ہی خوش لگ رہا تھا۔

وہ جس کام کے لئے گیا تھا وہ ہوگیا تھا پھر وہ خوش کیوں نہ ہوتا۔

تیزی سے ہال میں داخل ہوتا وہ نازلی کو تلاش رہا تھا۔اسکے کمرے کی طرف گیا پر وہ وہاں بھی نہ تھی۔ 

پھر وہاں سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔اوپر پہنچ کر اسنے پینٹنگ روم کا دروازہ کھول کر دائیں طرف دیکھا۔نازلی کی پشت اسکی طرف تھی۔

وہ مگن سی سٹول پر بیٹھی پینٹنگ کرنے میں مصروف تھی۔ہاشم آہستہ سے چلتا دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوتا اسے دیکھنے لگا۔مہارت سے اسکا برش کینوس پر چل رہا تھا۔ایک لڑکی کھلے آسمان تلے کھڑی تھی۔اسکا کالا گھیرے دار لباس ہوا سے پیچھے کی طرف اڑ رہا تھا۔بالوں نے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا۔وہ لڑکی مگن سی اپنی شہادت کی انگلی کی پشت پر بیٹھی ست رنگی تتلی کو مگن انداز میں دیکھ رہی تھی۔پینٹنگ الموسٹ کمپلیٹ ہو چکی تھی۔بس نازلی اسکے سیاہ لباس کو مزید گہرائی سے پینٹ کر رہی تھی۔

ہاشم نے کوٹ کی جیب سے موبائل نکالا پھر کیمرہ آن کر کے اسکا رخ نازلی کی طرف کیا اور پکس کلک کرنے لگا۔ 

پک کلک ہونے کی آواز پر نازلی نے جھٹ سے گردن پھیر کر پیچھے دیکھا۔ہاشم کو دیکھ کر آنکھوں میں حیرت جاگی۔ہاشم نے اس پوز میں اسکی پک لی۔

نازلی کا دل دھک دھک کرنے لگا پر دل پر دھیان نہ دیتی وہ تپ کر جلدی سے سٹول سے اٹھ کر اسکی طرف بڑھنے لگی۔اسے ہاشم کا یوں اسکی پکس لینا اچھا نہیں لگا تھا۔جبکہ وہ اسکے قریب آنے تک ایک کے بعد ایک اسکی تصویر لئے جا رہا تھا۔لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی۔

نازلی جیسے ہی قریب آئی ہاشم نے موبائل پیچھے کیا۔ 

"موبائل دیں مجھے۔۔۔"نازلی نے اسکے ہاتھ سے موبائل لینا چاہا۔ 

"کیوں ۔۔۔"ابرو اٹھا کر کہا گیا۔پھر اسکی پکس چیک کرنے لگا۔

"ڈیلیٹ کریں انہیں۔"وہ چبا کر بولی۔ 

"میری بیوی کی تصویریں ہیں ۔۔۔ میں کیوں ڈیلیٹ کروں۔"اسنے شانے اچکائے۔ 

"مجھے دیں۔۔۔ میں خود کرتی ہوں۔"اسنے موبائل پکڑنے کے لئے ہاتھ آگے کیا۔ 

ہاشم نے جھٹ سے موبائل کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ کر اسے دیکھا۔"اب چاہو تو جیب سے نکال لو۔"اپنے کوٹ کی طرف اشارہ کر کے چڑانے والے انداز میں بولا۔

نازلی نے سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔وہ کچھ گھنٹے پہلے جس انداز میں گھر سے گیا تھا۔اس سے نازلی کو لگا تھا وہ اب اس سے بات تک نہیں کرے گا۔پر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہوگیا تھا۔وہ تو بڑا خوش لگ رہا تھا۔جانے کیا وجہ تھی۔۔۔۔۔۔ 

خاموشی سے ایک نظر اسے دیکھتی وہ واپس پلٹ کر اپنی جگہ پر بیٹھی۔برش پر سیاہ رنگ لگا کر کینوس پر لڑکی کے بالوں کو وہ مزید سیاہ کرنے لگی۔

خود کو مصروف ظاہر کرنے کی اسکی ناکام سی کوشش تھی۔ہاشم کی موجودگی کے احساس نے دل کو عجیب ہی کیفیت میں ڈال دیا تھا۔برش پر گرفت مضبوط کرتی وہ بے دھیانی میں اپنا کام کرنے لگی۔ 

جبکہ وہ دیوار کے ساتھ سر ٹکا کر نازلی کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔اسکے ہاتھوں کی لغزش اس سے چھپی نہ رہ سکی۔وہ آنکھوں میں محبت بھر کر اسے دیکھتا گیا۔ 

"سمجھ جاؤ تو انمول ہے۔"

"نہ سمجھو تو بے مول۔"

"مل جائے تو حقیقت۔"

"نہ ملے تو سراب۔"

"محبت بھنور جیسی ہے۔محبت گرداب ہے۔"

"ایک گھتی جو سلجھتی نہیں۔"

نازلی اسے دیکھ نہیں رہی تھی پر اسکی نظریں اپنی پشت پر  محسوس کر سکتی تھی۔یہ دل کیوں اس شخص کی موجودگی میں پاگل ہورہا تھا؟آج سے پہلے تو ایسا نہ ہوا تھا۔ 

"محبت ایک پہیلی ہے۔"

"جسکا جواب ڈھونڈنے والے۔"

"اکثر کھو جایا کرتے ہیں۔"

"وہ میرے جیسے پاگل ہیں۔"

"جو محبت سمجھنے بیٹھے ہیں۔"

اس ظالم لڑکی کو دیکھ کر اسے اسکی اپنے لئے بد دعا یاد آئی۔اسنے اس درد کو اپنے اندر چھپا لیا تھا۔چہرے پر مسکراہٹ سجا دی تھی پر دل ابھی بھی طوفان کی زد میں تھا۔وہ اسکی محبت کی پہچان تھی پر وہ اسکی محبت کو کچھ سمجھتی ہی نہ تھی۔اسکے لئے یہ جھوٹ تھی ، فریب تھی۔اسنے سختی سے دکھتی آنکھیں بند کر کے کھولیں تھیں۔ 

"محبت ظلم ہے لوگو۔"

"جسے نہ ملے اس پر۔"

"عمر بھر کا عذاب ہے۔"

"محبت ایک سراب ہے۔"

نازلی کا دل حد سے بڑھ کر بے چین ہونے لگا۔اسنے برش نیچے رکھا پھر مٹھی کو زور سے بھینچ کر آنکھیں بند کی تھیں۔وہ سوچنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ اسکے ساتھ کیا ہورہا تھا ۔۔۔۔۔پہلے تو ایسا نہ ہوا تھا۔ 

"سبھی مفروضے ہیں یہ تو۔"

"جو بھی سوچنے بیٹھا ہے۔"

"ابھی تک لاجواب ہے۔"

"محبت کیا عذاب ہے۔"

محبت سمجھنے تک علینہ محبت ہو ہی جائے گی۔

محبت جب تلک تجھ کو سمجھ میں آئے گی۔

محبت کھو جائے گی ۔۔۔۔ محبت کھو جائے گی۔ 

(از قلم علینہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم جانے کتنی دیر ایسے ہی خاموشی سے کھڑے تھے۔ایک محبت کی انتہاؤں پر تھا تو دوسری کے دل نے محبت کی ابتدا کی تھی۔ 

دونوں ہی اس محبت کے ہاتھوں الجھن میں تھے۔

جانے کتنا وقت گزرا جب چھوٹی پٹھانی انہیں ڈنر کا کہنے آئی۔دونوں خاموشی سے وہاں سے نکلے تھے۔بات کرنے کی کوشش ایک نے بھی نہ کی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"میری محبت کی شدت کو۔۔۔"

"جب جان جاؤ گے تم۔۔۔"

"خود سر جھکا کے۔۔"

"میرے دربار میں آؤ گے تم۔۔۔"

"ہاتھ ہونگے بندھے ہوئے۔۔۔"

"کندھے ہونگے ذرا ڈھلکے ہوئے۔۔"

"پلکوں کی باڑ اٹھا کے۔۔۔"

"پھر یہ دہراؤ گے تم۔۔۔"

"کب سزا ہماری کم ہوگی۔۔۔"

"کب معافی ہمیں نصیب ہوگی۔۔"

"آنکھیں تمہیں دیکھ کے نم ہونگیں۔"

"پھر بھی یہ کہہ رہے ہونگے ہم۔۔۔"

"کہا تھا ناں میرے ستم گر۔۔"

"میری محبت کی شدت کو۔۔"

"جب جان جاؤ گے تم۔۔۔"

"خود معافی کے طلبگار بن کے۔۔"

"میرے سامنے آؤ گے تم۔۔" 

 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (از قلم نوشابہ چوہان)

اگلے دن نازلی سو کر اٹھی تو سائیڈ ٹیبل پر تازہ گلاب کے پھولوں کا گلدستہ رکھا تھا۔ 

اسنے گلدستہ اٹھا کر پھولوں کی دھیمی دھیمی خوشبو محسوس کی۔اسے لگا تھا شاید چھوٹی پٹھانی نے رکھے ہونگے۔پر میز پر جب چھوٹا سا کارڈ اٹھا کر پڑھا تو حیران ہوئی۔یہ پھول ہاشم کی طرف سے تھے۔

نازلی انہیں واپس رکھتی بیڈ سے اٹھی۔چینج کر کے ناشتہ کرنے کے لئے باہر آئی۔ہاشم غائب تھا۔اسنے پر سکون انداز میں لمبی سانس بھری۔وہ اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

ناشتہ کر کے اسنے کچھ دیر لان میں واک کی۔پھر واپس اپنے کمرے میں آئی۔

دل کہیں نہیں لگ رہا تھا۔عجیب بے چینی کا عالم تھا۔وہ خود کو مصروف رکھنے کے لئے کتاب اٹھا کر پڑھنے لگی۔ 

ابھی اسے کتاب پڑھتے پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک دم وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ 

"اٹھو جلدی کرو تیار ہوجاؤ۔"وہ تیزی سے بول رہا تھا۔ 

"خیریت۔۔۔"نازلی پریشانی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے۔"وہ مسکرا کر بولا۔ 

"مجھے نہیں چاہیے۔"وہ بے زار ہوئی۔

وہ خاموشی سے آگے بڑھ کر الماری کھولنے لگا۔نازلی جلدی سے بھاگ کر الماری کے سامنے کھڑی ہوئی۔

"آپ میری الماری نہیں کھول سکتے۔"اسنے تپ کر کہا۔ 

"کیوں نہیں ۔۔۔"وہ جھک کر شرارت سے بولا۔ 

"آپ مجھے پریشان نہ کریں۔"وہ جھنجھلائی۔پہلے ہی اپنے دل کے ہاتھوں پریشان تھی۔ 

"تو تم پھر جلدی سے تیار ہوجاؤ ورنہ ۔۔۔"پھر دھمکی۔۔۔۔افف  یہ شخص کبھی سدھر نہیں سکتا تھا۔

"اوکے ۔۔۔"چبا کر اسنے سر ہلایا۔ہاشم اسکا ناک دبا کر پیچھے ہوا۔نازلی نے گھور کر اسے دیکھا۔ 

"بس دس منٹ ہیں تمہارے پاس ۔۔۔ میں دس منٹ بعد واپس آتا ہوں۔"باہر نکلتے ہوئے بول رہا تھا۔ 

"افف اب یہ کیا نئی مصیبت ہے۔"اسنے دانت پیسے۔یہ شخص پل پل رنگ بدلتا تھا۔عجیب آدمی ۔۔۔۔۔غصے سے سوچتی وہ تیاری کرنے لگی۔ 

پنک لباس میں اسنے سیاہ بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی بنائی ۔۔۔ پھر دوپٹہ اوڑھ کر کمرے سے باہر نکلی۔

وہ ہال میں آئی اسے دیکھ کر ہاشم نے اسے آنے کا اشارہ کیا۔

دونوں گاڑی میں بیٹھے تو وہ اسکی طرف جھکا۔ 

"ماشاء اللہ۔"بھاری آواز میں کہا گیا۔نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ اسی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔

نازلی کے گال گلابی ہوئے وہ چہرہ پھیر کر باہر دیکھنے لگی۔ ہاشم کی مدھم مسکراتی آواز نازلی کے دل کے تار چھیڑ گئی۔ 

ہاشم نے گاڑی باہر نکالی۔دونوں خاموشی سے بیٹھے تھے۔ 

"ہم کہاں جارہے ہیں؟"اسنے منہ پھیرے ہی آہستہ آواز میں پوچھا تھا۔ 

"ویلنٹائن ڈے منانے۔"وہ شوخی سے مسکرایا۔

"ہم مسلمان ہیں۔۔۔ہم نہیں مناتے۔"نازلی نے گویا اسے یاد دلایا تھا۔ 

"ہم اپنے محرم رشتوں کے ساتھ اپنی محبت بانٹ سکتے ہیں بیگم۔اس میں کوئی برائی نہیں۔میں کسی غیر کے ساتھ نہیں اپنی شریک حیات کے ساتھ یہ دن گزارنا چاہتا ہوں۔تمہیں جو اچھا لگے وہ تمہیں دینا چاہتا ہوں۔"وہ بہت جذب سے بول رہا تھا۔نازلی نے ایک نظر اسے دیکھا۔ 

"چند پھول اور گفٹس میرے دل کی خواہش نہیں ہے۔"وہ آہستہ سے بولی۔

"میں جانتا ہوں۔"وہ کہہ کر خاموش ہوا۔گاڑی جانے پہچانے راستوں پر چلنے لگی۔ 

پھر ایک گیٹ کے سامنے رکی۔نازلی آنکھیں پھیلائے اس گیٹ کو دیکھ رہی تھی۔ایک لمبا عرصہ ہوگیا تھا اسے اس گھر میں آئے ہوئے۔ 

"یہ ہے میرا تحفہ تمہارے لئے۔"اسنے سامنے اشارہ کر کے کہا۔جہاں گیٹ کھل رہا تھا۔ہاشم کار اندر لے آیا۔

نازلی حیران و پریشان تھی۔ہاشم کار سے نکلا پھر اسکی طرف آ کر دروازہ کھولا۔ 

"آؤ۔۔"نکلنے کا اشارہ کیا۔نازلی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"یہاں کیوں۔۔۔۔؟"اسنے اٹک کر پوچھا۔ 

"تم آؤ تو ۔۔۔"اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکالتا وہ پھر اسے لیے اندر کی طرف بڑھنے لگا۔

یہ اسکی آنی کا گھر تھا۔وہ گھر جہاں آتے ہی وہ اپنے سارے غم بھول جایا کرتی تھی۔آج وہ شخص اسے یہاں لے کر آیا تھا۔ 

وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔

سیماب ، اسد ، لیلیٰ ، نوری اسکی اماں ، زیب اور زارا تک سامنے کھڑے جیسے انکے منتظر تھے۔ 

نازلی حیرت سے سبکو دیکھ رہی تھی۔ 

"ویلکم۔"سب نے ایک ساتھ کہا۔ نازلی جیسے بیہوش ہونے کو تھی۔اسنے نظر اٹھا کر ساتھ کھڑے ہاشم کو دیکھا۔ 

"سرپرائز اچھا لگا۔"وہ پوچھ رہا تھا۔اور نازلی کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔اسنے اثبات میں سر ہلایا۔ 

سیماب انکی طرف بڑھیں اور نازلی کو گلے لگا لیا۔ 

"میرا بچہ۔۔۔"اسکی پیشانی چومی تھی۔اسکے بعد وہ باری باری سب سے ملی۔ 

"آپ تو غائب ہوگئی تھیں آپی۔"لیلیٰ نے نم آواز میں کہا۔ 

"اب تو تمہارے سامنے ہے ناں۔"سیماب نے لیلیٰ کا سر تھپکا۔

نوری بھی آنسو صاف کرتی نازلی کو دیکھ رہی تھی۔

ہاشم ایک طرف اکیلا کھڑا تھا۔جب اسد اسکی طرف بڑھا۔ 

"چلو یار ہم بیٹھتے ہیں۔ان عورتوں کا ابھی رونا دھونا چلے گا۔"وہ ہنس کر بولا۔ہاشم مسکرا کر اسکے ساتھ چلتا صوفے پر بیٹھا۔ 

نازلی کے پاس سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔جبکہ نازلی کے دل میں سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟

لیلیٰ اور نوری انکے پاس سے اٹھ کر لانچ کی تیاری کرنے گئیں تو نازلی نے جلدی سے سیماب سے پوچھا۔

"یہ سب کیسے ہوا؟ اور آپ ہاشم سے غصہ نہیں ہیں۔ایسے ہمیں ویلکم کرنا ۔۔۔ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہی آنی۔"نازلی نے آہستہ آواز میں کہہ کر اسد سے باتیں کرتے ہاشم کو دیکھا۔ 

اسکی بات پر سیماب مسکرانے لگیں۔ 

"تمہارا شوہر محترم کل رات کو آیا تھا۔اسنے جب ہمیں سب بتایا تو تم نہ پوچھو کہ میرا ری ایکشن کیا تھا۔پر یہ بندہ  خاموشی سے سب سنتا رہا اور آخر میں اسنے یہی کہا کہ سب اسکی غلطی تھی۔تم بے قصور ہو۔وہ بس تمہیں تمہارے اپنوں سے ملا کر تمہیں خوشی دینا چاہتا ہے۔"سیماب نے رک کر نازلی کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"اسکے ہر الفاظ میں تم تھی نازلی ۔۔۔ پھر میں کیسے نہ پگھل جاتی۔میں مانتی ہوں ہاشم نے غلط کیا پر اس انسان سے بڑھ کر کوئی تم سے محبت نہیں کر سکتا۔"وہ نرمی سے بول رہی تھیں اور نازلی کا دل رفتار پکڑ گیا۔اس شخص کی محبت کا ہر ایک کو یقین تھا سوائے اسکے۔پر وہ یقین کرتی بھی تو کیسے ۔۔۔ اسنے اتنے دکھ دیکھے تھے کہ اسے محبت پر یقین نہ تھا۔۔۔۔ پر اب تو اسکا اپنا دل ہی اس سے منہ موڑ گیا تھا۔ 

"تمہیں معلوم ہے کہ ہاشم کون ہے؟"سیماب نے مسکرا کر کہا۔ نازلی نے نفی میں سر ہلایا۔

"یاد کرو تم میرے کلینک میں تھی وہاں دو لڑکے آئے تھے۔جو لڑکا تمہیں ڈاکٹر سمجھ بیٹھا تھا۔ہاشم اسی کے لالہ صاحب ہیں۔وہ گھائل شیر جو بازو پر زخم کھا کر آیا تھا۔"سیماب اسے بتا رہی تھیں اور نازلی کی آنکھیں حیرت سے پھیل رہی تھیں۔اسے سب یاد آنے لگا تھا۔تو اس دن ہاشم نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔اس ملاقات کی یاد دلاتا تھا وہ شخص اسے ہمیشہ۔۔۔۔پر اسے تب کچھ یاد نہ آیا تھا۔ 

نازلی نے ہاشم کو دیکھا۔تبھی اُسنے بھی نظر اٹھا کر دیکھا تھا تو نازلی جھٹ سے آنکھیں پھیر گئی۔

سیماب نے دونوں کا انداز دیکھا تو مسکرا اٹھیں۔

"ویسے لڑکا بہت اچھا ہے۔تمہیں اچھا لگتا ہے؟"سیماب نے سرگوشی کی تھی۔وہ اسکی آنکھوں میں چھپا راز پا گئی تھیں۔

"نن۔۔۔نہیں تو ۔۔۔"نازلی نے ہڑبڑا کر کہا۔

"کوئی بات نہیں اچھا لگنے لگ جائےگا۔"انکا انداز شرارت سے پر تھا۔نازلی کے گال دہک اٹھے۔ 

"پلیز آنی۔۔۔"وہ سر جھکا گئی۔سیماب اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر مسکرانے لگیں۔ 

"ہاشم شوہر ہے تمہارا گڑیا ۔۔۔۔ تمہیں اس سے محبت ہے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ۔۔۔ اسکی محبت کے بدلے محبت لوٹانا تمہارا فرض ہے۔"وہ پیار سے بولیں۔نازلی ایک دم انکے گلے لگ گئی۔ 

"مجھے اپنے دل کی سمجھ نہیں آرہی آنی۔"اسنے بے بسی سے کہا 

"سمجھ آجائے گی۔۔۔۔ بس تھوڑا وقت گزرنے دو۔"انہوں نے اسکی کمر سہلائی۔نازلی نے انسے الگ ہو کر مسکرا کر انہیں دیکھا۔آنکھوں میں دیے سے جل اٹھے تھے۔ 

 سب نے ساتھ مل کر لنچ کیا۔لنچ کے بعد رات تک محفل جمی رہی تھی۔ہاشم نے آج اسے سب سے بیسٹ گفٹ دیا تھا۔وہ کیسے اسکا شکر ادا کرتی۔۔۔۔رات ڈنر بھی انہوں ان سب کے ساتھ کیا۔پھر رات کے نو بجے کے قریب وہاں سے نکلے تھے۔ 

نازلی کا دل خوشی سے بھر چکا تھا۔وہ منہ پھیرے کار سے باہر دیکھ رہی تھی۔لبوں پر مدھم سی مسکان تھی۔

کار ٹریفک سگنل پر رکی۔تبھی ایک چوٹھے سے لڑکے نے ہاشم کی کھڑکی بجائی۔اسکے ہاتھ میں موتیے کے پھولوں کے گجرے تھے۔ہاشم نے ونڈو نیچے کی۔

"بھائی یہ لے لیں آپ باجی کے لئے۔۔۔"وہ مسکرا کر بولا۔ 

ہاشم نے پلٹ کر نازلی کو دیکھا جو اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔ 

"دے دو سارے۔۔۔"ہاشم نے اسے پیسے دے کر اس سے سارے 

گجرے لے لئے۔۔۔۔جو کہ تین جوڑیاں  تھیں جس میں چھ گجرے تھے۔نازلی اسے منع کرنا چاہ رہی تھی کہ یہ اتنے کون پہنے گا پر پھر خاموش ہوگئی۔

وہ لڑکا چلا گیا تو ہاشم نے نازلی کو دیکھا۔ باقی گجرے نازلی کی گود میں رکھے اور ایک ہاتھ میں تھام کر خاموشی سے دوسرا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا۔نازلی نے کچھ پل اسے دیکھا پھر دائیاں ہاتھ اسکے ہاتھ میں رکھا۔ہاشم نے گجرا اسکی کلائی میں پہنایا۔لبوں پر ہلکی مسکراہٹ پھیلی تھی۔وہ کچھ کہہ نہ  پایا پر چہرہ بتا رہا تھا وہ بہت خوش ہے۔ 

سگنل کھلا۔ٹریفک آگے بڑھنے لگی۔ہاشم بھی نرمی سے اسکا ہاتھ چھوڑتا کار آگے بڑھا لے گیا۔ 

نازلی گود میں رکھے گجروں کو چھو رہی تھی۔کار میں موتیاں کی مدھم مدھم خوشبو پھیل گئی تھی۔

ہاشم نے مدھم سا مسکرا کر اسکے چہرے کو دیکھا۔افف یہ چہرہ اسکی کمزوری تھا۔

"تم خوش ہو؟"اسنے ایک دم پوچھا۔ 

نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔پھر نظریں جھکا کر بولی۔

"بہت ۔۔۔"مدھم آواز میں کہا گیا۔

ہاشم اس پر ایک محبت بھری نظر ڈال کر خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔آنکھوں کی چمک بڑھنے لگی تھی۔ 

وہ لوگ گھر پہنچے۔نازلی ہاتھوں میں گجرے سمیٹ کر کار سے نکلی۔ 

ہاشم بھی اسکے ساتھ اندر کی طرف بڑھا۔نازلی اسکا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔پر سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے کہے۔ 

وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔نازلی اسکے پیچھے تھی۔اسنے رک کر ہاشم کی پشت کو دیکھا۔

"بات سنیں۔"وہ آہستہ سے بولی 

"جی سنائیں۔۔۔"وہ ایک دم اسکی طرف گھوما تھا۔وہ ہمیشہ اسے اسی طرح بلاتی تھی اور وہ بھی ایسے ہی جواب دیتا تھا۔ 

"تھینک یو۔"وہ پلکیں جھکا کر بولی۔

ہاشم اسے دیکھتا اسکے قریب آیا۔پھر اسکی ٹھوڑی تھام کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔ 

"مجھے تمہارا تھینک یو نہیں چاہیے۔"اسکی بات پر نازلی نے حیرت سے نظریں اٹھائیں۔

"پھر ؟"نازلی کے لب ہلے۔

"مجھے ہمیشہ تمہارے چہرے پر مسکراہٹ چاہیے۔۔۔تمہاری ان حسین آنکھوں میں چمک دیکھنا چاہتا ہوں۔تمہارے لبوں پر مسکراہٹ دیکھنے کی خواہش ہے میری ۔۔۔"وہ مگن انداز میں بولا۔نازلی نے اسکا ہاتھ تھام آہستہ سے پیچھے کیا۔ 

وہ آج خوش تھی پر اسکے  زخم ابھی بھرے نہیں تھے۔

اسکے اپنے اب بھی اس سے دور تھے۔وہ اتنی جلدی سب کیسے بھلا دیتی؟ کیسے ہنسی خوشی زندگی گزارتی ۔۔۔۔

"تھینک یو۔۔۔"ایک بار پھر سے کہتی وہ اسکے پاس سے ہو کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔

ہاشم نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر لمبی سانس کھینچی۔

نازلی نے گجرے بیڈ پر رکھے پھر خود بھی بیٹھ گئی۔کلائی میں ہاشم کے پہنائے گجرے کو دیکھا پھر ہاتھ اوپر کر کے آنکھیں بند کر اسکی مہک کو سانسوں میں اتارنے لگی۔بالکل ویسے جیسے وہ شخص اسکی سانسوں میں آہستہ آہستہ اتر رہا تھا۔

کمرے میں خان بابا ، ام جان ، ہاشم اور شہریار سب موجود تھے۔ہاشم ام جان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھا تھا جبکہ خان بابا اور شہریار صوفے پر تھے۔ 

خان بابا نے شہریار اور ماہ نور کی شادی کی تاریخ رکھ دی تھی۔ 

ہاشم کو یوں اچانک اس فیصلے کی سمجھ نہ آئی۔وہ تو آفس جا رہا تھا جب ام جان کے کال کرنے پر گاؤں آ گیا۔یہاں آ کر پتہ چلا کہ شہریار اور ماہ نور کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ 

خان بابا تو اسے بلانا بھی نہیں چاھتے تھے پر ام جان کے کہنے پر خاموش ہوگئے۔آخر وہ ماہ نور کا بھائی تھا۔اسکی موجودگی کے بغیر اسکی بہن کی شادی کی تاریخ کیسے رکھ دیتے۔ 

تاریخ طے ہو گئی۔اسنے سبکو مبارک دی۔

خان بابا کی کال آئی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکلے۔

ہاشم اٹھ کر شہریار تک آیا جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔ 

"شہریار ۔۔۔"اسنے پکارا۔شہریار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"مبارک ہو۔۔"اسنے بازو پھیلا کر کہا۔شہریار نے پیچھے بیٹھی ام جان کو دیکھا جنکی آنکھوں میں امید کی روشنی تھی۔وہ اس امید کو توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اسلیے آگے ہو کر ہاشم کے گلے لگا۔ 

"ماضی میں جو کچھ بھی ہوا میں تم سے اسکی معذرت کر چکا ہوں شہریار ۔۔۔ اسلیے ماضی کو حال میں لا کر میری بہن کو دکھ نہ دینا ۔۔۔ تم پر بھروسہ کر کے اسے تمہیں سونپ رہا ہوں۔اسکا خیال رکھنا۔"آہستہ آواز میں اسکے گلے لگ کر بول رہا تھا۔پھر پیچھے ہو کر اسکا کندھا تھپتھپایا۔ 

شہریار نے جلتی نظروں سے اسے دیکھا پر وہ پلٹ کر ام جان کی طرف بڑھ گیا۔ 

"ابھی چلتا ہوں ام جان ۔۔۔ کل آؤں گا۔"وہ انکا ہاتھ تھام کر بولا۔ 

"ٹھیک ہے بیٹا۔"ام جان نے اسکا کندھا تھپتھپایا۔وہ مسکرا کر وہاں سے نکلا۔ 

ام جان نے خاموش کھڑے شہریار کو اپنی طرف بلایا۔شہریار انکے پاس آ کر بیٹھا۔ 

"اتنے خاموش کیوں ہیں؟"ام جان نے اسکا ہاتھ تھام کر پوچھا۔ شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"میں ٹھیک ہوں ام جان ۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوں۔"اس نے انکا ہاتھ اوپر کر کے لبوں سے لگایا۔

"آپ آرام کریں اب ۔۔۔"وہ مسکرا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔ام جان نے اسے جاتے دیکھا۔دل میں کہیں ڈر بھی تھا پر انہیں شہریار پر بھروسہ تھا کہ وہ ہمیشہ ماہ نور کو خوش رکھے گا۔ 

شہریار وہاں سے اپنے کمرے کی طرف آیا۔پھر تھکے انداز میں بیڈ پر چت لیٹ کر چھت کو گھورنے لگا۔

ایک سال سے اوپر ہوگیا تھا کہ وہ ہاشم سے دور تھا۔آج اسکے گلے لگا تو پرانی یادیں پھر سے تازہ ہوگئی تھیں۔ 

چھت پر نظریں جمائے وہ ماضی میں گم ہوتا چلا گیا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شہریار گیارہ سال کا تھا جب اسکے ماما بابا کی ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوگئی تھی۔ہاشم اور وہ ہم عمر تھے جبکہ آبی ، نور اور داور کی عمر ایک تھی۔اس وقت وہ پانچ سال تھے۔

آبی اور داور کو تو شاید معلوم نہ تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو کھو چکے ہیں۔

اس وقت وہ اس درد کو سمجھنے کی عمر میں نہ تھے پر شہریار بالکل ٹوٹ سا گیا تھا۔اسے اپنے ماما بابا سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔وہ انکی پہلی اولاد تھا۔دونوں کو اس سے بہت محبت تھی اور وہ بھی انکا دیوانہ تھا۔

انکے چلے جانے کے بعد اسے ڈر تھا کہ جانے آگے انکے ساتھ کیا ہو گا۔اسنے بہت سی باتیں سن رکھی تھیں کہ جن بچوں کے ماں باپ مر جاتے ہیں انہیں لوگ پاؤں کی دھول سمجھ لیتے ہیں۔خاص کر انکے اپنے ۔۔۔۔۔ پر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ خان بابا اور ام جان نے ان تینوں کو اتنے  پیار سے سمیٹا تھا کہ شہریار کے دل میں موجود خوف کہیں دور جا سویا تھا۔

وہ جیسے ہاشم اور ماہ نور کو ٹریٹ کرتے ویسے ہی ان تینوں کو بھی کرتے تھے۔انہوں نے کبھی انہیں کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی۔

پر ماں باپ کی کمی ہمیشہ شہریار کے دل میں رہی تھی۔اسنے خود کو سمجھا لیا تھا کہ وہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔پر وہ اپنے ماما بابا کو کبھی بھول نہیں پایا تھا۔اکیلے میں وہ ہمیشہ انکی یادوں میں کھویا رہتا تھا۔

خان بابا اور ام جان کے لیے اسکے دل میں بہت محبت ، بہت عقیدت تھی۔انہوں نے اسے اسکے بہن بھائی کو پلکوں پر بٹھا کر رکھا تھا۔

انکی محبت کو دیکھ کر شہریار انکا بیٹا بن گیا تھا۔فرمابردار بیٹا ۔۔۔ جو کبھی بھی انکی بات نہیں ٹالتا تھا۔ہمیشہ انکے لیے اپنا آپ وار دینے کو حاضر ہوتا تھا۔ 

ہاشم اسکا سب سے اچھا دوست تھا۔۔۔ دونوں بچپن سے ہی  سنجیدہ مزاج تھے اسلیے دونوں کی آپس میں بہت بنتی تھی۔ہمیشہ دونوں ساتھ پائے جاتے تھے۔یونی تک دونوں ایک ہی کالج میں پڑھے تھے۔

پھر یونی میں آ کر الگ ہوگئے تھے پر انکا پیار، انکی دوستی ہمیشہ یونہی برقرار رہی تھی۔ 

وقت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ان سب کا ساتھ انکا پیار وقت کے ساتھ اور مضبوط ہوتا گیا۔ 

بچپن سے ہی شہریار کو اپنی بہن کے ساتھ شرارتیں کرتی۔۔۔ ہنستی مسکراتی وہ معصوم سی لڑکی بہت اچھی لگتی تھی۔کزن ہوتے ہوئے ایک گھر میں رهتے ہوئے بھی وہ اس سے زیادہ فرینک نہیں ہو پایا تھا۔ہمیشہ اس سے دور دور رہتا تھا۔پھر جانے کیسے آہستہ آہستہ وہ شرارتی لڑکی اسکے دل میں بستی چلی گئی تھی پر اس بات کا اقرار وہ کبھی خود سے بھی نہیں کر پایا تھا۔دل کی بات اسنے ہمیشہ سے دل میں بند کر کے رکھی تھی۔   

اسنے کبھی یہ بات ظاہر نہ ہونے دی پر پھر اچانک ایسا ہوا کہ وہ نٹ کھٹ سی لڑکی بھی اسکی محبت میں دیوانی ہوگئی ۔۔۔ شاید یہ اسکی محبت کی کشش تھی کہ وہ لڑکی اسکی طرف کھینچی چلی آئی تھی۔ماہ نور نے کبھی شہریار سے اظہار نہیں کیا تھا پر اسکا انداز اسے سب کچھ سمجھا گیا تھا۔

شہریار کبھی اس لڑکی کو یہ نہ بتا پایا کہ وہ اسے اب چاہنے لگی تھی پر وہ تو اسے سالوں سے بہت ہی خاموشی سے چاہتا آ رہا تھا۔پر کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی کہ اسے بتا پاتا اور نہ ہی ایسا کرنا اسکے مزاج کے مطابق تھا۔

اسے نہیں معلوم تھا کہ آگے یہ لڑکی اسکی زندگی میں آئے گی بھی کہ نہیں پر وہ اسے چاہتا چلا جا رہا تھا۔

پھر ایک دن اسنے خان بابا اور ام جان کی باتیں سن لیں اور اسے پتہ چلا کہ وہ لڑکی بچپن سے اسکے نام لکھ دی گئی تھی۔ وہ اسی کی تھی۔اسکے ماما بابا نے شہریار کے لیے اسے مانگا تھا اور بدلے میں خان بابا نے اپنے لاڈلے  چھوٹے بھائی سے آبی کو ہاشم کے لیے مانگ لیا تھا۔۔۔۔۔

خان بابا ابھی یہ بات کسی کو بتانا نہیں چاھتے تھے۔

وہ چاھتے تھے کہ پہلے سب بچے پڑھ لکھ لیں پھر انہیں یہ بات بتائیں گے تا کہ وہ اچھے سے سمجھ کر انکے بنائے اس رشتے کو آگے نبھا سکیں۔

یہ بات سن کر شہریار کا دل خوشی سے کھل اٹھا تھا۔ان دنوں وہ ہمیشہ مسکراتا ہوا پایا جاتا۔سب وجہ جاننا چاھتے اور وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگتا۔وہ کیا بتاتا کہ بہت جلد اسے اسکی محبت مل جانے والی تھی اور دوسرا اسکی بہن اسی گھر میں  اسکی انکھوں کے سامنے رہتی۔یہ بات اسکے دل میں سکون بھر دیتی۔ہاشم اسکا دوست ، اسکا کزن تھا اور اس سے بہتر تو کوئی دوسرا آبی کے لیے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ 

پھر وہ دن بھی آیا جب خان بابا نے سب بچوں کو اپنے کمرے میں بلایا تھا۔ 

سب خاموشی سے انکے سامنے بیٹھے تھے۔ 

خان بابا نے بات شروع کی۔

"تم سب بچے اب بڑے ہو گئے ہو۔اب تم سب رشتوں کی نزاکت کو سمجھنے لگے ہو۔اسلیے ہم نے اور آپ کی ام جان نے فیصلہ کیا کہ آپ لوگوں کو اب یہ بات بتا دینی چاہیے۔"وہ رکے جبکہ وہ سب سانس روکے سن رہے تھے۔ 

"بچپن سے ہی آپ لوگوں کے رشتے طے کر لیے گئے تھے۔ 

شہریار کا ماہ نور سے اور ہاشم کا آبی سے ۔۔۔۔ہمیں امید ہے آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔یہ ہماری اور ہمارے بھائی کی زبان کا سوال ہے ۔۔۔ آپ بچوں کو اسکا مان رکھنا ہوگا۔"وہ فیصلہ سنانے والے انداز میں کہتے انکے سروں پر دھماکہ کر گئے تھے۔ 

انکی بات پر جہاں شہریار ری لیکس سا بیٹھا تھا۔لبوں پر مدھم مسکراہٹ پھیلی تھی۔وہیں دوسری طرف ہاشم ، نور ، آبی ، داور حیرت سے گنگ بیٹھے تھے۔ 

ہاشم تو سخت شاک کی سی کیفیت میں تھا۔آبی کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔وہ ایک دوسرے کو اتنے سالوں سے بہن  بھائی کی طرح ٹریٹ کرتے آئے تھے۔ہاشم نے کبھی آبی کو نور سے کم نہ سمجھا تھا۔اسکے لیے وہ بچی تھی اور آبی بھی اسے بھائی سے کم نہ سمجھتی تھی۔بچوں کی طرح اس سے فرمائش کرنا اسے تنگ کرنا۔۔۔۔۔پھر اب اچانک اس نئے رشتے کا سامنے آنا انکے ہوش اڑا لے گیا تھا۔ 

جبکہ دوسری طرف نور حیرت سے نکلی اور شہریار کو دیکھ کر اسکے گالوں پر دھنک کے رنگ پھیلے تھے۔وہ جو اسکے دل میں بستا تھا وہ اسی کا تھا ہمیشہ سے ۔۔۔۔ اسے اللہ نے ماہ نور کا نصیب بنایا تھا۔اس شخص کو اسکے نام کر دیا تھا۔اس بات پر اسکا دل دیوانہ ہونے لگا۔وہ بہت خوش تھی کہ شہریار بن مانگے ہی اسے مل گیا تھا۔ 

شہریار نے اسے دیکھا تو وہ چہرے کی سرخی چھپانے کے لیے سر جھکا گئی۔تبھی داور نے جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کی۔

"یہ سب نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔تم سبکی جوڑیاں بن گئیں اور میں ۔۔۔ میں اکیلا ہی رہ گیا۔تمہاری ایک بہن ہونی چاہیے تھی میرے لیے۔"داور افسوس سے کہہ رہا تھا۔اسے غم تھا کہ وہ اکیلا رہ گیا۔ 

"بکواس بند کرو۔۔۔۔ خان بابا ادھر ہی دیکھ رہے ہیں۔"نور نے مدھم آواز میں کہہ کر اسے گھورا۔

"ہاں بچوں بتاؤ اب۔۔۔۔ کوئی اعتراض؟"وہ سبکو غور سے دیکھ رہے تھے۔ 

نور اور شہریار نے نہ میں سر ہلایا جبکہ آبی اور ہاشم چپ بیٹھے رہے۔ 

ہاشم ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔"خان بابا مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔"وہ بھاری آواز میں بولا۔

خان بابا نے اسے دیکھا پھر ایک نظر ساتھ بیٹھی ام جان پر ڈالی جو ڈر گئیں تھیں کہ اب کچھ غلط ہونے والا ہے۔ 

خان بابا خاموشی سے اٹھ کر ہاشم کو لیے کمرے سے باہر نکلے۔ 

پیچھے آبی لمبی سانس کھینچ کر ام جان کے سامنے بیٹھی پھر  انکے ہاتھ تھامے۔ام جان کے ساتھ وہ تینوں بھی اسکی طرف متوجہ ہوئے۔

"ام جان آپ بڑوں نے سالوں پہلے ایک فیصلہ کیا تھا۔۔۔تب آپ لوگوں نے کچھ سوچ کر ہی یہ سب کیا ہوگا پر ام جان آج اگر ہم  دیکھیں تو یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔میں اور ہاشم لالہ ہم سالوں سے بہن بھائی کی طرح رهتے آئے ہیں۔۔۔کزنز جیسے بہن بھائی نہیں جنکی بعد میں شادی کروا دی جاتی ہے۔۔۔۔۔"اسنے رک کر نفی میں سر ہلایا۔

"بلکہ بالکل ویسے بہن بھائی ام جان جیسے ماہ نور کے لیے ہاشم لالہ ہیں بالکل ویسے جیسے میرے لیے شہریار لالہ ہیں۔پھر اچانک آپ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہ رشتہ چھوڑ کر ایک نئے۔۔۔۔ وہ بھی شادی جیسے رشتے میں بندھ جائیں۔یہ نا ممکن ہے ام جان ۔۔۔"وہ نظریں جھکائے کہہ رہی تھی۔اسکی بات پر ام جان کی زبان کو تالا لگ گیا۔وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔انہیں بچپن میں انکی بات طے نہیں کرنی چاہیے تھی۔کسی کو کیا پتہ ہو کہ بچے بڑے ہو کر انکی بات مانے گے بھی کہ نہیں۔۔۔  اور اگر ایک مانے اور دوسرا مکر جائے اس طرح بھی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔بڑوں کو بھی ایسے فیصلے کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تا کہ کل کو مشکلات پیدا نہ ہوں۔ 

"یہ کیا فضول بول رہی ہو تم آبی۔"شہریار ایک دم سے اٹھ کر اس تک آیا۔ 

"آپکو نہیں معلوم کیا لالہ کہ ہاشم لالہ کو میں کیا سمجھتی ہوں یا وہ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟"وہ نم آنکھوں سے بھائی کو دیکھ رہی تھی۔ 

"رشتہ بدلے گا تو احساسات بھی بدل جائیں گے۔"شہریار نظریں پھیر کر بولا۔ 

"کچھ نہیں بدلے گا۔میں بہن بھائی کے پاکیزہ رشتے کو بھلا کر اور کوئی رشتہ قبول نہیں کر سکتی۔۔۔۔ ام جان آئی ایم سوری۔"آبی رو کر کہتی وہاں سے اٹھی اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ 

شہریار کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں پڑیں۔

"میں ذرا خان بابا اور ہاشم کو دیکھوں۔"وہ فکر مندی سے کہتا آگے بڑھا۔آبی کو اگر انکار تھا تو ضرور ہاشم بھی خان بابا کو انکار میں اپنا فیصلہ سنا رہا ہوگا۔

شہریار جلدی سے لائبریری کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ضرور اسکا انکار سن کر خان بابا غصہ ہونگے وہ انہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ اگر آبی اور ہاشم کو یہ رشتہ قبول نہیں تو رہنے دیں۔ایک رشتہ تو ہورہا تھا ناں ۔۔۔ پھر کیوں ہاشم اور آبی کو امتحان میں ڈالنا۔

اسنے لائبریری کا دروازہ ہلکے سے کھولا ہی تھا کہ ہاشم کے غصے سے بولنے کی آواز پر وہیں رک گیا۔وہ دونوں باپ ، بیٹا اسکی موجودگی سے انجان تھے۔ 

ہاشم کی غصے بھری آواز شہریار کے دل پر لگ رہی تھی۔ 

"خان بابا آپ کے بھائی سالوں پہلے اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں۔آپ نے انہیں زبان دی ہوگی پر مجھے یہ فیصلہ قبول نہیں ہے ۔۔۔۔ میں نے آبی کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا ۔۔۔ میرا جواب نہ ہے اور میری نہ ہاں میں نہیں بدلے گی۔"وہ ضدی لہجے میں بولا

"تم ہمیں ہماری زبان سے پھرنے کا کہہ رہے ہو؟"

"مردہ لوگوں کو کونسا زبان کے پھرنے سے فرق پڑے گا۔"وہ طنزیہ بولا۔شہریار کا دل تھم گیا۔وہ اسکے ماما بابا کے لیے ایسے بات کر رہا تھا۔ 

"ہاشم خان ۔۔۔۔"خان بابا کا ہاتھ اٹھا تھا۔ہاشم کے چہرے پر زور کا تھپڑ پڑا تھا۔ 

"تم وہی کرو گے جو ہم کہیں گے۔"وہ غرا کر بولے۔ 

"مردہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے آپ زندہ لوگوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں۔"اس تھپڑ نے ہاشم کا دماغ گھما دیا تھا۔وہ غصے سے لفظ چبا کر بول رہا تھا۔

شہریار کا دل نیچے ہی نیچے پاتال میں گرنے لگا۔وہ اس سب میں اسکے مرے ہوئے ماں باپ کو گھسیٹ رہا تھا۔اسے اس بات کا تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ وہ اسکے بھی کچھ لگتے ہیں۔اسے رشتے نا منظور تھا تو صاف انکار کرتا پر اسے اسکے والدین کو پیچ میں نہیں گھسیٹنا چاہیے تھا۔ 

"فضول بکواس بند کرو ۔۔۔۔"خان بابا نے لال آنکھوں کے ساتھ کہا

"فضول بندھن آپ لوگوں نے باندھا ہے۔بچپن میں رشتہ طے کر دیا آپ لوگوں نے ۔۔۔ بچپن میں تو بچوں کو اپنی ہوش نہیں ہوتی اور آپ بزرگ لوگ انکے نام سے کسی کا نام جوڑ دیتے ہیں۔آپ کو کیسے پتہ کہ کل کو وہ لوگ ایک دوسرے کو قبول کر پائیں گے بھی کہ نہیں؟سالوں بعد آپکو یاد آیا کہ آپ نے ایک رشتہ جوڑا تھا۔آبی میری بہن ہے اور آپ لوگ چاھتے ہیں کہ میں اس سے شادی کر لوں۔۔۔۔بے غیرت نہیں ہوں میں ۔۔۔ اسے سالوں بہن مانا ہے میں نے ۔۔۔اور اب آپ چاھتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کا جوڑا سو کالڈ سالوں پرانہ رشتہ نبھاؤ۔۔۔ نیور ۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں کرونگا۔"وہ دانت پیس کر بولتا جا رہا تھا۔ 

"ہم نے اپنے مرتے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آبی کو بیٹی کی طرح رکھیں گے۔اسے اپنے بیٹے کی دلہن بنائے گے۔اسکا نام ہم نے تمہارے نام کے ساتھ جوڑا تھا۔تمہیں ہماری بات ماننی ہوگی ہاشم خان۔"خان بابا نے ضدی لہجے میں کہا۔

"میں تو یہ شادی نہیں کر رہا ۔۔۔ آپ ایک کام کریں اپنے مرے ہوئے بھائی کی قبر پر جا کر انہیں بتا دیں کہ ہاشم کو انکار ہے۔وہ آپکا کیا وعدہ نہیں نبھا سکتا ۔۔۔"وہ تلخ انداز میں کہتا ہاتھ جوڑ گیا۔"مہربانی ہوگی آپکی۔۔۔"طنزیہ ہنس کر اسنے خان بابا کو دیکھا جنکا چہرہ ضبط سے لال انگارہ ہو رہا تھا۔ 

"ہاشم ۔۔۔"شہریار دروازہ پورا کھول کر غصے سے اندر داخل ہوا۔ 

"تم میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ سمجھے ۔۔۔ پر میرے  والدین کے بارے میں اس طرح بولنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔"وہ ہاشم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا۔

"جو زمہ دار ہیں انکے بارے میں ہی بولوں گا۔تم ہم باپ بیٹے کے بیچ میں مت بولو سمجھے۔"ہاشم نے چبا کر کہا۔غصہ اسکے سر پر سوار تھا وہ نہیں سوچ پا رہا تھا کہ وہ کس سے کیا بات کر رہا ہے۔ 

"تم میرے مرے ہوئے ماں باپ کو اس سب میں گھسیٹ رہے ہو اور چاہتے ہو کہ میں خاموش رہ کر سب سنوں۔۔۔۔"شہریار نے ضبط سے اسے دیکھا۔ 

"میرا دماغ مزید خراب مت کرو شہریار ۔۔۔ اور اپنے خان بابا سے بھی کہہ دو ۔۔۔ زبان انہوں نے اپنے بھائی کو دی تھی میں نے نہیں ۔۔۔ میری طرف سے صاف انکار ہے۔"وہ شہریار کی آنکھوں میں دیکھ کر چبا کر بولا۔ 

"خود تو مر گئے میرے سر مصیبت چھوڑ گئے۔"وہ غصے سے بال مٹھی میں بھینچ کر بولا۔

غصے کو اسلیے ہی حرام قرار دیا گیا ہے۔آدمی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ غصے میں کیا کر جاتا ہے۔غصے نے ہاشم کو بھی بالکل اندھا کر دیا تھا۔جو اسکے منہ میں آرہا تھا وہ بولتا جا رہا تھا۔

اسکی بات پر خان بابا کا دل ٹوٹ گیا تھا۔یہ تھا انکا ہونہار بیٹا جو اس وقت انکے سامنے کھڑا کیا کیا کہتا انکا مان توڑ گیا تھا۔جبکہ اسکی بات پر شہریار کی زبان بھی تالوں میں بند ہو گئی۔اسکے دل سے دھواں سا اٹھنے لگا۔ہاشم کو دیکھتی اسکی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔اسے رشتہ سے انکار تھا تو صاف کہتا پر وہ اتنا کچھ بول گیا تھا۔وہ بھی اسکے جان سے پیارے  ماں باپ کے بارے میں ۔۔۔۔ اسنے اچھا نہیں کیا تھا۔

شہریار کو اس سے نفرت ہونے لگی تھی۔وہ سوچوں میں گم تھا جب خان بابا کی سرد و سپاٹ آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"نکل جاؤ اس گھر سے ہاشم خان ۔۔۔۔آج سے ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ اس گھر سے اور کبھی ہماری نظروں کے سامنے مت آنا۔"برف لہجے میں کہتے وہ منہ موڑ گئے۔ 

ہاشم نے انکی پشت کو دیکھا پھر تلخی سے مسکرایا۔ 

"مجھے بھی ایسے گھر میں نہیں رہنا جہاں انسان اپنے حق میں کچھ بول بھی نہ سکے۔"وہ سپاٹ انداز میں کہتا وہاں سے نکلا تھا۔ام جان سے مل کر حویلی سے نکلتا چلا گیا۔ 

پیچھے خان بابا ایک دم لڑکھڑائے تھے۔شہریار نے جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا۔

"ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارا بیٹا ایسا نکلے گا۔"انکی آواز نم ہوئی۔"اسکے الفاظ کے لیے ہم آپ سے معافی مانگتے ہیں شہریار۔"خان بابا نے ہاتھ جوڑے۔ 

شہریار ایک دم انکے ہاتھ تھام کر انکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا۔

"ایسا نہ کریں خان بابا پلیز۔"اسنے سر جھکا کر نرمی سے کہا۔دل تو اسکا بھی چور چور ہو چکا تھا۔ہاشم اسکے دل کے بھی قریب تھا پر آج کے بعد نہیں ۔۔۔۔ اسنے خود اپنے ہاتھوں سے یہ نفرت کا بیچ اسکے دل میں بویا تھا۔ 

خان بابا اسکے آگے کچھ نہ کہہ سکے۔انکا سر جھک گیا تھا اور جھکانے والا انکا اپنا جوان بیٹا تھا۔ 

پھر بہت سے دن گزرے تھے جب وہ واپس لوٹا تھا۔ 

اسنے خان بابا اور شہریار سے اپنے کہے الفاظ کی معافی مانگی تھی۔پر دونوں نے اسے معاف نہ کیا۔وہ جو کہہ چکا تھا وہ واپس نہیں ہو سکتا تھا۔اسکے الفاظ انکا دل چھلنی کر گئے تھے۔وہ کتنی بار آیا تھا پر اس سے نہ تو خان بابا نے بات کی اور نہ ہی شہریار نے ۔۔ اسکی صورت دیکھ کر شہریار کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گزرتا ، اسکے کہے الفاظ گھنٹوں اسکے کانوں میں گھونجا کرتے تھے۔ 

گھر میں سبکو یہی لگ رہا تھا کہ ہاشم کے انکار کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔پر اسکا انکار تو ایک طرف رہا تھا پر اسکے تیر جیسے الفاظ خان بابا اور شہریار کو اس سے بد گمان کر گئے تھے۔ 

آج تک نہ شہریار نے کسی کو بتایا تھا کہ اس رات کیا بات ہوئی نہ خان بابا نے ۔۔۔ اور نہ ہی کبھی انکا بتانے کا ارادہ تھا۔وہ باقی سبکا دل بھی توڑنا نہیں چاھتے تھے۔ 

غصہ انسان سے کیا کروا جاتا ہے۔ہاشم بھی اس غصے کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔وہ اگر یہی بات اچھی طرح سے ٹھنڈے دماغ سے کرتا تو شاید آج ان سب کے بیچ یہ دوری نہ بنی ہوتی۔اسکے اور اسکے اپنوں کے درمیان یہ دیوار نہ کھڑی ہوتی۔۔۔۔۔ 

شہریار سوچوں سے نکلا۔اسے اپنی آنکھوں میں نمی محسوس ہوئی۔

اسکا دل درد سے بھر گیا۔کتنی تکلیف ہوتی ہے جب آپکا ایک اپنا اٹھ کر آپکے کسی پیارے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے جن سے آپکو بے پناہ محبت ہو۔جو آپکے دل کے قریب ہوں۔جو آپکے ماں باپ ہوں ۔۔۔۔ جو آپ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکے ہوں اور کوئی اگر انکو کچھ کہے تو کیا آپکا دل سینے سے باہر نہیں آجائے گا؟ کیا آپکو اس شخص سے نفرت نہیں ہوگی؟

نازلی سوچوں میں گم کینوس پر برش پھیر رہی تھی۔نظریں کینوس پر تھیں اور دماغ میں اس شخص کا چہرہ گھوم رہا تھا۔اس مغرور شہزادے کی سوچوں نے اس معصوم شہزادی کے دل و دماغ پر قبضہ کر رکھا تھا۔

وہ صبح سے گیا ہوا تھا اور اب رات ہونے کو آئی تھی پر وہ ابھی تک لوٹا نہیں تھا۔ جانے کہاں رہ گیا تھا۔وہ اسکے لیے فکرمند ہورہی تھی۔

تبھی چھوٹی پٹھانی کی آواز پر چونکی تھی۔اسنے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو چھوٹی پٹھانی شرارت سے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستی ہوئی اسکی طرف آرہی تھی۔نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"کیا ہوا؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

"سامنے دیکھیں۔"اسنے اشارہ کیا۔نازلی نے گردن پھیر کر کینوس کو دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ 

سامنے اس شخص کی تصویر بنی تھی۔۔۔۔ ہاں اسنے پینٹ کیا تھا اس شخص کے چہرے کو ۔۔۔۔ آنکھوں میں دکھ لبوں پر مسکراہٹ ۔۔۔۔ وہی جان لیوا مسکراہٹ جو اسکا دل لے گئی تھی۔

دل میں موجود منظر اسنے کینوس پر اتار دیا تھا۔اسکا برش ابھی بھی کینوس کو چھو رہا تھا۔اسنے جھٹ سے ہاتھ پیچھے کیا۔ 

چہرہ ایک دم گلابی ہوا تھا۔وہ اسکی سوچوں میں گم اسے پینٹ کر رہی تھی اور اسے احساس ہی نہ ہوا تھا۔۔۔۔ کیا وہ بھی دیوانی ہو رہی تھی؟ 

اسنے سامنے دیکھا ایسے لگ رہا تھا جیسے ہاشم اسکے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا ہو۔اسکی پیشانی پر شبنم کی بوندیں چمک اٹھیں۔اسنے جلدی سے برش میز پر رکھا پھر کانپتے ہاتھ کی پشت سے پیشانی صاف کی۔ 

"یہ تو سچ میں جیسے ہاشم بھائی کھڑے ہوں نازلی باجی۔" چھوٹی پٹھانی خوشی سے بولی۔

"وو۔۔۔ وہ یہ میں نے جان بوجھ کر نہیں بنائی۔"اسنے لڑکھڑائی آواز میں کہا۔ 

"انجانے میں بھی اتنی اچھی بنا ڈالی نازلی باجی ۔۔۔۔ ہاشم بھائی آئیں گے تو میں انہیں دکھاؤں گی۔"وہ مزے سے پینٹنگ کا جائزہ لیتے ہوئے بول رہی تھی۔ 

"نہیں ۔۔۔۔"نازلی نے جھٹ سے اسکا ہاتھ تھاما۔

"کیوں نہیں ۔۔۔"چھوٹی پٹھانی حیران ہوئی۔ 

"بس تم نے انہیں کچھ نہیں بتانا ۔۔۔۔ کچھ نہیں سمجھی ۔۔۔"نازلی نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ 

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔"اسنے منہ بسورا۔پھر نازلی کا گلابی چہرہ دیکھا۔ 

"آپ شرما رہی ہیں؟"معصومیت بھری شرارت  سے پوچھا گیا۔

"بالکل نہیں ۔۔۔"نازلی نے جھٹ سے منہ پر ہاتھ پھیرا۔ 

"تم کیوں آئی تھی؟"اسنے بات بدلی۔چھوٹی پٹھانی نے سر پر ہاتھ مارا۔ "وہ آپکے لیے فون ہے۔"

"کس کا؟"نازلی نے حیرت سے پوچھا۔ 

"کوئی تابین حسن آفندی ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہی تھیں آپ کو بلا کر لاؤں وہ دس منٹ بعد پھر کال کریں گیں۔"

"آپی کی کال ۔۔"اسے حیرت ہوئی۔تابین اس سے کیا بات کرنے والی تھی۔اسے ڈر لگنے لگا۔جانے اب کیا کہے گی؟

"چلو آؤ۔۔۔"وہ لائٹ اور دروازہ بند کرتی چھوٹی پٹھانی کے ساتھ نیچے آئی۔

چھوٹی پٹھانی چلی گئی۔نازلی صوفے پر بیٹھ کر کال کا انتظار کرنے لگی۔دو منٹ بعد فون بجا۔اس نے جلدی سے اٹھایا پھر  سلام دیا تو دوسری طرف سے کچھ پل خاموشی کے بعد سلام کا جواب دیا گیا۔ 

"مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔"تابین نے کہا 

"جی آپی میں سن رہی ہوں۔"نازلی جلدی سے بولی۔اسکے بعد تابین نے جو کہا اس سے نازلی کے چہرے کی رنگت اڑی۔

اسکی سانسیں ایک دم جیسے اٹکیں تھیں۔ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگی۔بات مکمل کر کے تابین رکی۔ 

"تم کرو گی ناں؟۔۔۔"پوچھا گیا۔نازلی کے حلق سے آواز نہ نکلی۔ 

"تمہیں اپنی بہن اپنے بابا جان واپس چاہیے کہ نہیں؟"وہ تلخی سے بولی 

"مجھے آپ لوگ واپس چاہیے ہو آپی۔"اسنے نم آواز میں جواب دیا۔ 

"تو بولو پھر ۔۔۔"تابین نے چبا کر کہا۔ 

"میں کروں گی جیسا آپ نے کہا ہے۔"نازلی نے آہستہ آواز میں جواب دیا۔ 

"گڈ۔۔۔"تابین نے اتنا کہہ کر فون رکھ دیا۔نازلی فون رکھتی کتنے ہی پل ویسے ہی بیٹھی رہی۔دل کی دھڑکن مدھم چل رہی تھی۔ 

 ایک نئی مصیبت اسکے گلے پڑ گئی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"تمہاری نبضیں ہمارے دم سے۔۔۔"

"جواز ڈھونڈیں گی زندگی کا۔۔۔"

"کہ لکھنے والے نے لکھ دیا ہے۔۔۔"

"مریض تم ہو ۔۔۔۔"

"طبیب ہم ہیں۔۔۔۔"

رات کو ہاشم لوٹا۔دونوں نے ساتھ ڈنر کیا پھر ہاشم اٹھ کر لائبریری کی طرف چلا گیا۔نازلی سخت پریشان تھی۔اسے ہاشم سے بات کرنی تھی پر اسے ڈر لگ رہا تھا۔

وہ کتنی دیر ہال میں چکر کاٹتی رہی۔پھر بے چینی سے تابین کی باتیں یاد کرتی ایک دم سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ 

آہستہ آہستہ زینے چڑھتی اوپر آئی۔پھر سوچوں میں گم لائبریری کی طرف بڑھی۔دروازہ کے پاس رک کر اسنے اپنے کانپتے دل کو قابو کیا۔پھر لمبی سانس کھینچ کر دروازے پر دستک دی۔ 

ہاشم ٹیبل کے پیچھے کرسی پر بیٹھا سامنے کھلی فائل کو چیک کرنے میں مصروف تھا۔بلیک شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ تھیں اور اوپری دو بٹن کھلے تھے۔سیاہ بال منتشر سے پیشانی پر بکھرے تھے۔وہ اپنے کام میں پوری طرح سے مگن تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔

"آجاؤ۔۔۔"اپنا کام کرتے مصروف انداز میں بولا۔ 

اجازت ملنے پر آہستہ سے دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی۔دھیرے سے چلتی آگے بڑھی۔اسکے میز کے سامنے کچھ فاصلے پر ہو کر کھڑی ہوئی۔

پھر نظر پھیر کر بائیں طرف گلاس وال کو دیکھا جہاں سے باہر کا منظر نظر آرہا تھا۔سیاہ رات میں چمکتی روشنیاں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔پھر بے چینی سے نظر پھیر کر اسنے ہاشم کے جھکے سر کو دیکھا۔ 

"بولو بیگم ۔۔۔ کیا بات ہے؟"وہ بنا دیکھے ہی جان گیا تھا کہ وہ سخت الجھن میں ہے۔کچھ کہنا چاہ رہی ہے پر کہہ نہیں پا رہی۔ 

"وہ ۔۔۔"نازلی اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔ 

"وہ کیا ؟"ہاشم نے سر اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ہاتھ میں پکڑا پین اب اسکی انگلیوں میں گھومنے لگا تھا۔وہ غور سے نازلی کی پریشان صورت دیکھ رہا تھا۔ 

"مجھے بات کرنی ہے آپ سے۔۔"وہ اسکے دیکھنے پر ہڑبڑائی۔

"میں دل و جان سے متوجہ ہوں۔"وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھتا اسے محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگا۔ 

"پہلے آپ مجھے ایسے دیکھنا تو بند کریں۔"اسکے مسلسل دیکھنے پر وہ جھنجھلا کر بولتی سر جھکا گئی۔

"کیوں ؟"ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر چڑانے والے انداز میں کہا۔نازلی کچھ نہ بولی بس پریشانی سے ہاتھ مسلتی رہی۔ 

"اچھا بولو تم ۔۔۔ نہیں دیکھتا تمہیں۔"وہ مسکرا کر کہتا سر جھکا گیا۔ 

"مجھے طلاق چاہیے۔"نازلی جھٹ سے بول گئی۔اسکی بات پر کمرے میں جیسے گہرا سکوت چھایا تھا۔ہاشم کتنے پل سر جھکائے بیٹھا رہا۔پھر اگلے پل جھٹ سے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔نازلی اسے اٹھتے دیکھ کر ایک دم ڈر کے پیچھے ہوئی۔ 

"کیا چاہیے تمہیں؟"وہ اسکی طرف بڑھتا چبا کر پوچھ رہا تھا۔ اسکے سرخ چہرے کو دیکھ کر نازلی کی آنکھوں میں خوف پھیلا۔وہ جیسے جیسے اسکی طرف بڑھ رہا تھا نازلی کا دل مدھم ہوتا جا رہا تھا۔وہ جلدی سے پیچھے ہوتی گلاس وال کے ساتھ جا لگی۔ 

ہاشم اس سے دو قدموں کے فاصلے پر رکا۔سنجیدہ آنکھیں نازلی کے جھکے چہرے پر تھیں۔ 

"بولو ذرا کہ تمہیں کیا چاہیے؟"وہ اسکے قریب جھکتا مدھم آواز میں پوچھ رہا تھا۔ 

"ط۔۔۔طلاق ۔۔۔۔"نازلی کی زبان لڑکھڑائی۔ 

اسکی بات پر ہاشم نے پیچھے گلاس وال پر روز سے ہاتھ مارا۔نازلی ڈر کے مارے آنکھیں بھینچ گئی۔ 

"تمہیں طلاق چاہیے۔۔۔"اسنے نازلی کا ٹھنڈا ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں لیا۔وہ جھٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔ 

"کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں طلاق دونگا؟"وہ چبا کر اسکی آنکھوں میں دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ 

"پر مجھے چاہیے۔۔"وہ مدھم آواز میں بولی۔ 

"میرے صبر کو مت آزماؤ نازلی۔۔۔ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔"وہ وارن انداز میں کہہ رہا تھا۔

"آپ ہمیشہ مجھے دھمکیاں دیتے ہیں۔"اسکی آواز نم ہوئی۔ 

"تو تم کیا ٹافی مانگ رہی ہو جو دے دوں۔۔۔تمہارے خراب دماغ کو ٹھکانے لگانا پڑے گا مجھے۔"وہ غصے سے کہہ رہا تھا۔ 

"میرا دماغ آپ نے ہی خراب کیا ہے۔۔۔ سمجھے آپ۔۔میں پہلے ایسی نہ تھی۔"وہ تپے انداز میں بولی تھی۔

"تو میں نے تمہارا دماغ خراب کیا ہے تو سنبھالنے دو ناں پھر  مجھے خود کو۔۔۔دور جانے کی کیوں سوچتی ہو۔میرے پاس رہو ۔۔۔۔اچھے سے سمیٹ کے رکھوں گا تمہیں۔"وہ نرم پڑتے آہستہ سے بولا تھا۔ 

"مجھے آپکی ضرورت نہیں۔"وہ تلخ ہوئی۔ 

"پر مجھے تو ہے۔"اسکے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔ 

"پر مجھے ۔۔۔"اسکی بات بیچ میں رہ گئی جب ہاشم نے اسکے منہ پر زور سے ہاتھ رکھا۔ 

"بس ۔۔۔ چپ۔۔۔۔"وہ حیرت سے پھیلی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

"تم اس خوش فہمی کو دل سے نکال دو کہ تم کبھی اس بندھن سے آزاد ہو سکتی ہو۔ہاشم خان مر تو سکتا ہے پر تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔اس بات کو اچھے سے ذہن میں بٹھا لو۔۔۔۔۔"اسنے سپاٹ انداز میں کہہ کر ہاتھ پیچھے کیا۔ 

نازلی چہرہ پھیر گئی۔

ہاشم جاتے ہوئے ایک دم واپس اسکی طرف پلٹا پھر دائیں ہاتھ سے  اسکا چہرہ تھام کر اپنی طرف موڑا۔

"آئندہ میں یہ بات تمہارے لبوں سے نہ سنوں۔۔۔۔سمجھ گئی ۔۔۔ کبھی نہیں ۔۔۔"سیاہ آنکھوں میں سرد تاثر تھا۔نازلی نے پلکیں اٹھا کر اسے نہ دیکھا۔اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔وہ اس شخص کو دیکھ لیتی تو شاید اسکا دل باہر آجاتا۔وہ اسکے دل سے قریب ہوتا جا رہا تھا پر اس سے زیادہ نازلی کو اپنے پیاروں کی ضرورت تھی۔وہ انہیں اپنے پاس دیکھنا چاہتی تھی۔

ہاشم نے کچھ پل اسکے چہرے کو دیکھا پھر وہاں سے ہٹ کر چلتا ہوا واپس کرسی پر بیٹھا۔ 

جبکہ نازلی وہی جمی کھڑی رہی۔ہاشم نے کرسی سے ٹیک لگا کر اسے دیکھا۔ 

"اب کیا وہیں چھپکلی کی طرح چپکی رہو گی؟یا ہٹنے کا ارادہ ہے؟"وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا پر آنکھوں میں شوخ سی چمک تھی۔وہ اپنی بات تو کہہ چکا تھا۔اسے سمجھا چکا تھا اور اب وہ بچوں کی طرح ناراض کھڑی تھی۔ہاشم اسے اداس نہیں دیکھ سکتا تھا اسلیے بول پڑا۔  

اسکی بات پر نازلی نے تپ کر اسے دیکھا۔پھر خود پر ضبط کرتی وہاں سے ہٹتی باہر کی طرف بڑھنے لگی۔ 

"سنو۔۔۔"ہاشم نے پکارا۔وہ رکی پر پلٹ کر نہ دیکھا۔ 

"رونا مت۔۔۔۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔اسکی بات پر نازلی کے رکے آنسو ایک دم ٹوٹ کر گالوں پر گرے تھے۔

"میں نے رونے سے منع کیا ہے مسز ہاشم اور آپ رونے لگ گئی  ہیں۔"وہ پیار بھرے لہجے میں بولا۔ 

نازلی نے غصے سے پلٹ کر اسے دیکھا۔اسنے آنسوؤں کو صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ 

"کیوں نہ روؤں میں ۔۔۔۔ہر بات پر آپکی مرضی نہیں چلے گی۔میں روؤں گی اور جتنا میرا دل چاہے گا اتنا روؤں گی۔۔۔ سمجھے آپ۔۔۔۔"وہ ضدی انداز میں کہہ رہی تھی۔بات کرتے آنکھوں سے ایک کے بعد ایک آنسو گر رہا تھا۔وہ سر جھکائے بڑبڑانے میں مصروف تھی۔جب ہاشم اسے دیکھتا اٹھ کر اسکی طرف بڑھا پھر اسکے عین  سامنے کھڑا ہوا۔ 

"اچھا رو لو ۔۔۔ پر آنسو بہانے کے لیے ایک عدد کندھے کی ضرورت ہوتی ہے۔لو میرے کندھے پر سر رکھ کر رو لو۔"مدھم آواز میں کہتا وہ اسکا سر تھام کر اپنے کندھے سے لگا گیا۔ 

نازلی نے اسے دور نہ کیا بلکہ اسکے کندھے سے سر ٹکا کر آنسو بہاتی اسکا کندھا بھگونے لگی۔ 

ہاشم خاموشی سے اسکا سر تھپک رہا تھا۔جب وہ رو چکی تو ہاشم نے اسے پیچھے کر کے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔اسکی ناک اور آنکھیں گلابی ہو رہی تھیں۔ 

"بس یا اور رونا ہے؟"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

"بس۔۔۔"وہ سر ہلا کر اسکے ہاتھ تھام کر پیچھے کرتی اس سے دور ہو کر پلٹی اور کمرے سے نکلنے لگی۔ 

ہاشم نے اسکی پشت کو دیکھا پھر سر جھکا کر اپنے کندھے پر اسکے آنسوؤں کے نشان دیکھ کر لمبی سانس بھرتا وہاں سے نکلا تھا۔ 

اب تو کام میں اسکا دل لگنے والا نہ تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک نازلی کو طلاق کی بات کیسے سوجھی؟وہ سوچوں میں گم سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔ 

آگے بڑھا تو نازلی کو لینڈ لائن پر کسی سے بات کرتے پایا۔اسکا رخ دوسری طرف تھا۔اسلیے وہ اسکا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ہاشم جیسے جیسے اسکے قریب ہوتا گیا ویسے ویسے نازلی کی آواز اسکے کانوں میں پڑ رہی تھی۔ 

"آپی میں نے بات کی ان سے ۔۔۔ پر وہ نہیں مان رہے ۔۔۔ میں کیا کروں اب؟آپ کی بات مان تو لی ہے میں نے پر ۔۔۔۔"وہ نم آواز میں بول رہی تھی۔ہاشم کے سر پر جیسے دھماکہ ہوا۔ 

اگلے پل اسنے تیزی سے آگے بڑھ کر نازلی کے ہاتھ سے ریسیور چھینا۔

نازلی نے اسے دیکھا تو چہرے کا رنگ اڑا تھا۔ 

جبکہ ہاشم فون پر کہہ رہا تھا۔"تابین حسن آفندی تم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتی؟ ہمیشہ الٹا کام کرنے کی تم نے قسم کھا رکھی ہے؟ میں جتنا تمہاری ان تھرڈ کلاس حرکتوں کو  اگنور کرنے کی کوشش کرتا ہوں اتنا تم مجھے اکسا رہی ہو۔میں آخری بار کہہ رہا ہوں اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ۔۔۔ اور آئندہ خبر دار جو تم نے یہاں کال کی ۔۔۔ سمجھی ۔۔۔"غصے سے بات مکمل کرتا وہ ٹھک سے فون رکھتا نازلی کی طرف پلٹا۔

"مجھے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ تمہیں یہ اوسم آئیڈیا کس نے دیا ہوگا۔تم کبھی عقل سے بھی کام لے لیا کرو نازلی ہاشم خان ۔۔۔۔کبھی تو اسکا استعمال کر لیا کرو۔۔۔۔بیوقوف لڑکی ۔۔۔"وہ اسکی کنپٹی پر انگلی رکھ کر چباتے ہوئے بولا۔ 

اسکی باتوں پر نازلی کی آنکھوں میں پانی بھرا۔ 

"خبر دار۔۔۔۔ خبر دار جو اب تم نے آنسو بہائے تو۔۔۔۔"وہ تپ کر اسے ڈانٹ رہا تھا۔

اسکی بات پر نازلی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکی روکی پھر ایک غصے بھری نظر اس پر ڈال کر اسے پیچھے کرتی اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔

اسے جاتے دیکھ کر ہاشم نے دانت پیسے۔

"پاگل لڑکی نہ ہو تو۔۔۔"پریشانی سے بڑبڑا کر کہتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔وہ کیا کرتا اس لڑکی کا؟اپنی آپی صاحبہ سے اسے اتنی محبت تھی کہ اسکے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی اور تابین کی بات ماننا اسکے لیے خطرے سے خالی نہیں تھا۔ 

ہاشم کو اسکی فکر ہونے لگی۔وہ کیسے دور کرتا اس چڑیل تابین کو نازلی سے ۔۔۔۔۔۔ سوچوں میں گم وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔رات پھر سوچوں میں گزرنے والی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی۔نازلی پچھلی سیٹ پر آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔

ڈرائیور مہارت سے ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا۔ 

نازلی نے آنکھیں کھول کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔دماغ ہاشم کی طرف گیا۔ 

وہ گاؤں جا رہی تھی۔ماہ نور کی شادی کے لیے ۔۔۔۔

ماہ نور اور آبی کی ضد تھی کہ وہ ضرور آئے۔

اسکا اپنا دل بھی کر رہا تھا پر اسے یقین تھا کہ ہاشم کسی انجانے کے گھر اسے رکنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا۔پر پھر بھی نازلی نے اس سے پوچھ لیا تھا اور جب اسنے ہاں کہہ دی تو نازلی کے لیے بیہوش ہونے کا مقام تھا۔اسے حیرت ہوئی کہ وہ دو دن اسکے کہیں رہنے پر کیسے مان گیا؟

پر جو بھی تھا وہ مان گیا تھا اور آج ماہ نور کی مہندی تھی۔وہ ظہر کے بعد گھر سے نکلی تھی۔دو گھنٹے کا راستہ تھا۔وہ کچھ دیر میں ماہ نور کے گھر پہنچنے ہی والی تھی۔ 

ایک ہفتہ چٹکیوں میں گزرا تھا اور آج ماہ نور کی مہندی کا دن آن پہنچا تھا۔ہاشم پچھلے پورے ہفتے شادی کے انتظامات میں لگا رہا تھا۔وہ اور داور دونوں مل کر سب دیکھ رہے تھے۔

نازلی نے اس سے اجازت لی ۔۔۔ اور وہ اسی کے انتظار میں تھا۔ جھٹ سے اجازت دے دی۔اسکے دماغ میں شرارت سوجی تھی کہ نازلی وہاں جائے گی اس بات سے انجان کہ وہ ہاشم کا گھر ہے اور پھر وہ وہاں آ کر اسے حیران کر دے گا۔اسکا ری ایکشن جان لیوا ہوگا پر وہ دیکھنا چاہتا تھا اور دوسرا اس طرح وہ اسے  کچھ دنوں کے لیے تابین سے بھی دور رکھ پائے گا اور اس دوران وہ تابین سے پیچھا چھڑانے کے بارے میں بھی کچھ سوچ لے  گا۔ 

اسنے نور اور آبی کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ داور کو نازلی سے دور رکھیں۔

نازلی تو داور کو نہ پہچانتی جیسے اسے نہیں پہچان پائی تھی پر داور اسے ضرور پہچان لیتا کہ یہ وہی ہوسپٹل والی محترمہ ہے۔پھر داور کی زبان کون بند کرتا وہ تو ساری رام کہانی نازلی کو بتا دیتا اور اگر وہ داور کو پہچان لیتی تو ہاشم کی پہچان بھی اسکے سامنے آجاتی جو کہ وہ نہیں چاہتا تھا۔بس وہ اچانک شادی میں نازلی کے سامنے آ کر اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ پر اسکا یہ سرپرائز نازلی کے لیے سرپرائز کم اور شاک زیادہ ہوگا۔۔۔۔۔

گاڑی حویلی کے سامنے رکی۔ڈرائیور نے جلدی سے اتر کر پیچھے کا دروازہ کھولا۔نازلی گاڑی سے باہر نکلی۔

ڈرائیور نے گاڑی سے نازلی کا بیگ نکالا جس میں اسکی چیزیں تھیں۔وہ بیگ تھام کے آگے بڑھا جب نازلی نے اسے پکارا۔ 

"یہ مجھے دے دیں۔میں خود لے جاؤں گی۔"اسکے کہنے پر ڈرائیو نے بیگ اسکی طرف بڑھایا۔

نازلی بیگ تھام کر آگے بڑھی۔بڑے سے گیٹ کے سامنے رک کر اسنے لمبی سانس لی۔اسے عجیب لگ رہا تھا وہ یہاں آ تو گئی تھی پر اب جھجھک رہی تھی کہ جانے نور اور آبی کے گھر والے کیسے ہونگے۔۔۔اسکا آنا انہیں اچھا بھی لگے گا یا نہیں ۔۔۔ وہ الجھی سی کھڑی تھی۔جب ایک دم واچ مین نے گیٹ پورا کھول دیا۔ 

نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔اسے ایسے لگا جیسے وہ کسی بادشاہ کے محل میں آگئی ہو۔سامنے بہت سے لوگ حویلی کی سجاوٹ میں مصروف تھے۔

نازلی نے دور سے آبی اور ایک لڑکی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ 

اسے دیکھ کر نازلی کے دل کو حوصلہ ہوا۔وہ مدھم سا مسکرا کر آگے بڑھی۔

"ویلکم۔۔۔"آبی نے خوشی سے اسے گلے لگایا۔نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔ 

"یہ اندر لے جاؤ۔"آبی نے اس سے بیگ لے کر لڑکی کی طرف بڑھایا۔وہ کام والی تھی۔وہ نازلی سے سلام کرتی بیگ لے کر اندر کی طرف بڑھی۔ 

"نور کہاں ہے؟"آگے بڑھتے نازلی نے اس سے پوچھا۔ 

"میڈم کمرے میں قید ہے۔۔۔۔باہر نہیں آ سکتی ورنہ تمہارا ویلکم کرنے اڑ کر آتی۔"آبی نے ہنس کر بتایا۔

دونوں ہال میں داخل ہوئیں۔ام جان بہت سی عورتوں کے ساتھ کپڑے اور چیزیں پھیلائے بیٹھی تھیں۔ 

رات کو مہندی تھی۔انہیں لڑکے اور لڑکی دونوں طرف کا کام سنبھالنا تھا۔اسلیے وہ بہت مصروف تھیں۔ 

"ام جان نازلی آگئی۔۔"آبی نے اونچی آواز میں بتایا۔ 

"آہستہ آبی۔۔"نازلی نے جلدی سے اسکا ہاتھ تھام کر ٹوکا۔ام جان سمیت سب عورتیں انکی طرف متوجہ ہوئیں۔کچھ گاؤں کی عورتیں تھیں اور کچھ رشتے دار۔۔۔۔۔ 

"اسلام و علیکم۔۔"نازلی نے دھیرے سے کہا۔سب کی نظروں کو خود پر محسوس کر کے اسے عجیب لگ رہا تھا۔ام جان جواب دیتی اٹھ کر اسکی طرف آئیں۔وہ اس چھوٹی سی لڑکی کی الجھن سمجھ رہی تھیں۔ 

"خوش آمدید۔۔"انہوں نے آگے بڑھ کر محبت سے نازلی کو گلے لگایا۔

"شکریہ ۔۔"نازلی انکی گرم جوشی پر کھل اٹھی۔ 

"ماشاء اللہ آپ تو بہت پیاری ہیں۔۔۔ آبی اور نور سے آپکی جو تعریف سنی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی۔"ام جان اس سے الگ ہو کر نرمی سے بولیں۔

"یہ تو بس ویسے ہی۔۔۔"نازلی کے گال گلابی ہوئے۔اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا جواب دے۔ 

"دیکھا ناں ام جان ۔۔۔کتنی پیاری ہے۔"آبی نے مزے سے کہا 

نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر آبی کو گھورا۔

ام جان اسکے انداز پر مسکرانے لگیں۔ 

"اچھا بچی کو تنگ نہ کرو ۔۔۔ ابھی سفر سے آئی ہے کمرے میں لے کر جاؤ نور سے بھی مل لے اور تھوڑی دیر آرام بھی کر لے۔۔۔کچھ وقت میں پھر مہندی کا ہنگامہ لگ جائے گا۔ آپ دونوں کو ہی سب کرنا ہے۔"

"وہ تو ہم کریں گے ۔۔۔ پر آپ نازلی سے کہیں کہ اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر ہر کام میں حصہ لے۔"آبی نے زو معنی انداز میں کہا۔جسے نہ ام جان سمجھ سکیں نہ نازلی ۔۔۔ 

"بالکل بیٹا ۔۔۔ یہ گھر آپکا ہی ہے۔جھجھکنا نہیں ہے آپ نے۔"وہ نازلی کا گال تھپک کر بولیں۔ 

"جی ۔۔۔"نازلی سر جھکا کر مدھم سا مسکرائی۔ام جان نے پیار سے اسے دیکھا۔وہ لڑکی انہیں اچھی لگی تھی۔ 

"ساس بہو کا پیار ۔۔۔ہائے لالہ کاش آپ دیکھ سکتے۔"آبی نے انہیں دیکھ کر شرارت سے سوچا۔

"اچھا جاؤ اب اندر۔۔"ام جان نے کہا تو وہ نازلی کا ہاتھ تھام کر کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔

وہ لوگ کمرے میں آئیں تو نور کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔

دروازے کی آواز پر چونکی پھر پلٹ کر دیکھا تو بھاگ کر نازلی کے گلے لگی۔ 

"کب سے یہ آبی تمہیں لینے گئی تھی۔میں یہاں تمہارے  انتظار میں سوکھ رہی تھی اور تم اب آئی ہو۔"نور نے اس سے الگ ہو کر ناراضگی سے کہا۔ 

"بس وہ باہر آنٹی کے ساتھ۔۔"نور نے ایک دم اسے ٹوکا۔

"آنٹی نہیں ام جان کہو ناں۔"نازلی کے ہاتھ تھام کر نرمی سے بولی۔ 

نازلی نے اسے دیکھا پھر ایک دم مسکرائی۔ 

"اوکے ۔۔۔ ام جان کے ساتھ باتوں میں لگ گئے تھے۔"اسنے ہنس کر بتایا۔ 

"دوستی ہوگئی ہے اپنی نازلی کی ام جان سے۔"آبی نے آنکھیں مٹکا کر بتایا۔ 

"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔"نور نے شوخی سے کہا۔

"اچھا بتاؤ سفر کیسا رہا؟"نور اسے ساتھ لیے بیڈ پر بیٹھی۔ 

"بہت اچھا۔۔۔میں یہاں پہلے بھی آ چکی ہوں۔"

"اچھا کب۔۔۔"نور کو حیرت ہوئی۔

"میری بڑی ماما کے بھائی یہاں رہتے ہیں۔ہم اسنے ملنے آئے تھے۔"نازلی نے مدھم آواز میں بتایا۔اسے وہ دن یاد آیا جب گاؤں کی سیر کرتے جمال آغا اور ہاشم آمنے سامنے آئے تھے۔

"اچھا ۔۔۔"نور نے سر ہلایا۔وہ سمجھ گئی تھی کہ کون تھی اسکی بڑی ماما اور انکے بھائی ۔۔۔۔۔امتل آفندی کو تو اسنے کبھی دیکھا نہ تھا اور بابا صاحب کو بھی تب دیکھا تھا جب وہ سالوں پہلے کسی مسئلہ کی وجہ سے خان بابا سے ملنے آئے تھے۔آپس میں ان دونوں حویلی والوں کا آنا جانا نہیں تھا اسلیے بچے ان سے واقف نہ تھے۔

"آؤ نازلی تمہیں نور کی مہندی کا ڈریس دکھاؤں۔"آبی چھوٹا سا بیگ لے کر بیڈ کی طرف آئی۔

وہ نازلی کو چیزیں دکھانے لگی۔نور کا موبائل بجا تو اسکرین پر نمبر دیکھ کر وہ وہاں سے ہٹتی کھڑکی کے پاس آئی۔ 

"جی لالہ۔۔۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔ 

"پہنچ گئی نازلی۔"دوسری طرف سے پوچھا گیا۔

"ہاں جی ۔۔ پہنچ گئی اور میرے سامنے بیٹھی ہے۔"اسنے ہنس کر بتایا۔ 

"خوش ہے وہ۔"ہاشم نے مدھم آواز میں پوچھا۔اسکی بات پر نور نے گردن پھیر کر بیڈ پر بیٹھی مسکراتی ہوئی نازلی کو دیکھا۔ 

"بہت ۔۔۔"اسنے مسکرا کر بتایا۔"فکر نہ کریں اپنے سسرال میں ہے ہماری نازلی۔۔"اسنے شوخی سے کہا۔ہاشم بے ساختہ ہنسا تھا۔ "آپ کب تک آئیں گے؟"

"میں آرہا ہوں داور کو پک کرنے۔۔۔ تھوڑا کام ہے وہ کر کے پھر  گھر آؤں گا۔"وہ مصروف انداز میں بولا۔ 

"اوکے پھر جلدی آ جائیں۔۔۔۔نازلی کو سرپرائز بھی تو دینا ہے۔"نور کے لہجے میں شرارت تھی۔ 

"کہیں مجھے دیکھ کر وہ بیہوش نہ ہو جائے۔"ہاشم نے بھی شوخ لہجہ اپنایا۔ 

"یہ تو جب وہ آپکو دیکھے گی تبھی پتہ چلے گا۔"وہ ہنسی۔جواباً ہاشم دلکشی سے مسکرایا۔

"اوکے مانو حویلی پہنچنے والا ہوں۔داور کو پک کر لوں۔پھر بات ہوگی۔"اسکی بات پر نور نے اللہ حافظ کہہ کر کال کاٹی۔پھر ان دونوں کی طرف بڑھی۔

"کس سے بات کر رہی تھی۔"نازلی نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"میں ۔۔۔ اپنے لالہ سے ۔۔۔"نور نے مسکرا کر جواب دیا۔ 

"وہ کہیں باہر ہوتے ہیں؟"نازلی نے الجھ کر اسے دیکھا۔  

"نہیں ۔۔۔ یہیں ہیں۔شام تک آجائیں گے۔"وہ مزے سے بولی۔نازلی نے سرسری انداز میں سر ہلایا۔آبی اور نور کے لبوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دوڑ گئی۔ 

"مجھے دولہا کو دیکھنا ہے۔"وہ جھٹ سے سر اٹھا کر بولی۔ 

"دولہا بہت خطرناک ہے۔رہنے دو۔"نور نے منہ بنایا۔ 

"شرم کرو ۔۔۔ آج اسی خطرناک بندے کے نام کی مہندی لگے گی تمہیں۔"آبی نے اسے گھورا۔ 

"یہ تو اوپر اوپر سے کہہ رہی ہے۔اندر سے تو اسے دولہا بھائی بہت پسند ہیں۔۔۔۔ ہیں ناں ماہ نور ۔۔ "نازلی نے شرارت بھرے لہجے میں کہہ کر اسے دیکھا۔ 

"ہاں ۔۔۔"نور مسکرا کر کہتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔ 

"افف یہ شرما رہی ہے۔۔۔ دیکھو نازلی۔"آبی ایک دم نور کے ہاتھ ہٹاتی زور سے ہنسی۔نور کا گلابی چہرہ دیکھ کر نازلی کے لب مسکرانے لگے۔

"میں اپنا موبائل لے کر آتی ہوں۔پھر تمہیں شہریار لالہ کی پکس دکھاتی ہوں۔"آبی آنکھ مار کر کہتی اٹھ کر کمرے سے باہر بھاگی۔ 

"کل آپ انکی ہو جائیں گیں نور صاحبہ۔۔"نازلی نے شوخی سے نور کے کان میں سر گوشی کی۔

"بس بس ۔۔۔ اب مجھے شرم سے پانی پانی نہ کرو پلیز۔۔"نور ہنس کر چہرہ پھیر گئی۔نازلی کو اسکی ادا پر پیار آنے لگا۔ 

"میری دعا ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔"وہ نور کے ہاتھ تھام کر نرمی سے بولی۔نور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔نازلی نے اسکی آنکھوں میں ہزار دیے ایک ساتھ جلتے دیکھے تھے۔دل سے دعا نکلی کہ اسکی یہ شرارتی سی پیاری دوست ہمیشہ ایسے ہی ہنستی مسکراتی رہے۔ 

"آمین۔۔۔"ماہ نور نے سر جھکا کر کہا۔لبوں پر مدھم مسکراہٹ تھی۔نازلی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتاری۔ 

 تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔

"بیٹا جی۔۔"مردانہ آواز گونجی۔نازلی نے اس جانی پہچانی آواز پر چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ 

"یہ کون ہیں۔"اسنے ماہ نور کو دیکھا۔ 

"میرے خان بابا۔۔"نور محبت سے کہتی اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی۔ 

نازلی کو بھی انہیں دیکھنے کا تجسس ہوا۔وہ بھی جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر دروازے کے سامنے آئی۔

"جی خان بابا۔"نور نے جلدی سے دروازہ کھول کر کہا۔ 

"آبی کہاں ہیں۔انہیں آپکی ام جان بلا رہی ہیں۔"وہ بیٹی کو دیکھ کر بولے۔جبکہ نازلی نے انہیں دیکھا تو اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔

"آپ کیوں بلانے آئے ہیں خان بابا ۔۔۔ کسی اور کو بھیج دیتے۔"نور نے انہیں دیکھ کر کہا۔

"آپکی ام جان نے سبکو کام پر لگا رکھا ہے۔ایک ہم ہی فارغ تھے تو ہمیں بھی لگا دیا۔"وہ مسکرا کر بتانے لگے۔نور کے ساتھ نازلی بھی مسکرا اٹھی تھی۔وہ آہستہ سے چلتی دروازے کی طرف بڑھی تھی۔

"دوست ۔۔۔"اسنے مدھم آواز میں پکارا۔ 

نور نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ خان بابا نے بھی چونک کر اس لڑکی کو دیکھا۔

"بیٹا جی آپ۔۔۔"انکی آواز میں حیرت کے ساتھ خوشی بھی تھی۔ 

"آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔"نور نے حیرت سے اپنے بابا اور نازلی کو دیکھا۔ 

"جی ہاں ۔۔۔ یہ ہماری چھوٹی سی دوست ہیں۔"خان بابا نے مسکرا کر بتایا۔نور نے چونک کر نازلی کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔واہ رے خدا وہ لوگ اسے سرپرائز دینا چاہ رہے تھے اور ان سے پہلے نازلی نے دھماکہ کر دیا تھا۔ 

"مجھے نہیں معلوم تھا آپ نور کے بابا جان ہیں۔"نازلی نے مسکرا کر نور کو دیکھا۔ 

"اور ہمیں بھی نہیں معلوم تھا کہ ہماری دوست ہماری بیٹی کی بھی دوست نکلے گی۔"خان بابا خوشگوار انداز میں بولے

نور ہونق بنی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔اب یہ خبر اسے ہاشم لالہ کو بھی سنانی تھی۔ 

آبی ہاتھ میں موبائل تھامے وہاں آئی۔سبکو دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کر پوچھنے لگی۔"کیا ہوا؟"

"تمہیں ام جان بلا رہی ہیں۔"نور نے اسے بتایا۔ 

"آجائیں بیٹا جی آپ بھی ۔۔۔ آپکو آپکی ام جان سے ملاتے ہیں۔انہیں ہماری دوست سے ملنے کا بہت شوق تھا۔"خان بابا نازلی کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولے۔

"جی ضرور ۔۔۔"نازلی خوشی سے انکا ہاتھ تھام کر باہر کی طرف بڑھی۔

آبی حیران و پریشان تھی۔اسنے نور کو دیکھا۔ 

"یہ کیا تھا؟"حیرت سے پوچھا گیا۔ 

"دوستی ۔۔۔ بہو اور سسر کی۔۔۔"نور نے کندھے اچکا کر کہا۔ 

"لو جی۔۔۔۔ سناؤ اب یہ خوش خبری لالہ کو بھی۔۔۔ خان بابا کو اگر معلوم ہوا ناں کہ انکی دوست کے ساتھ انکے بیٹے نے کیا کیا پھر تو خیر نہیں ہوگی لالہ کی۔۔۔اچھا میں گئی ام جان کی بات سننے تم ذرا لالہ کو بتاؤ اور یہ پکڑو۔"آبی تیزی سے کہتی موبائل اسے تھما کر وہاں سے بھاگی تھی۔ 

نور پیشانی مسل کر دروازہ بند کرتی موبائل اٹھا کر ہاشم کا نمبر 

ڈائل کرنے لگی۔ 

آبی ام جان کے کمرے میں آئی۔وہاں وہ تینوں مزے سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔آبی انہیں دیکھ کر سوچنے لگی کہ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر انہیں اپنے بیچ موجود رشتے کا علم ہوتا اور وہ ایسے ہی ہنستے مسکراتے ایک ساتھ رهتے۔ 

"آبی بیٹا ہم نے نازلی کے لیے جو مہندی کا ڈریس لیا تھا وہ آپ انہیں دے دیجیے گا۔"ام جان نرمی سے بولیں۔ 

"اسکی ضرورت نہیں ہے ام جان۔"نازلی نے انہیں دیکھ کر مدھم آواز میں کہا۔ 

"کیوں نہیں ہے بیٹا۔۔۔ جیسے آبی اور نور ہماری بیٹیاں ہیں ویسے آپ بھی ہیں۔"ام جان نے محبت سے اسے دیکھا۔ 

"پر پھر بھی ام جان۔۔۔"نازلی کو انسے کچھ بھی لینا عجیب لگ رہا تھا۔ 

"آپ ہی سمجھائیں اپنی دوست کو۔"ام جان نے خان بابا کو دیکھا۔

"دوست کی طرف سے تحفہ ہے بیٹا جی ۔۔۔ آپکو قبول کرنا پڑے گا ورنہ ناراضگی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔"وہ ابرو اٹھا کر بولے۔انکے انداز پر نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔ 

"ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔۔۔ اسلیے قبول کرتی ہوں۔"وہ مان گئی تو ام جان اور خان بابا مسکرانے لگے۔

آبی نے مدھم سا مسکرا کر انکی طرف دیکھا وہ لوگ ایک ساتھ بہت پیارے لگ رہے تھے۔ 

"کاش ہاشم لالہ بھی انکے ساتھ ہوتے تو سب کچھ پرفیکٹ ہوتا۔"آبی نے اداسی سے سوچا۔ 

"شکر ہے آپ آگئیں۔ہم آپکو انوائٹ کرنا چاہ رہے تھے۔آپکو کال کرتے رہے تھے پر آپکا فون آف مل رہا تھا۔"خان بابا کی آواز پر آبی ایک دم چونکی۔ 

"اوہ۔۔۔ وہ موبائل کل میں نے دراز میں ڈالا تھا۔پھر دیکھا ہی نہیں دوبارہ۔"وہ شرمندگی سے بولی۔ 

"چلیں کوئی بات نہیں آپ یہاں آ تو گئیں۔"وہ نرمی سے بولے۔نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔ 

پھر وہ آبی کے ساتھ وہاں سے ایک کمرے میں آئی۔آبی اسے وہ خوبصورت سا ڈریس دکھانے لگی جو ام جان نے اسکے لیے لیا تھا۔نازلی کو وہ ڈریس بہت اچھا لگا۔ 

نور نے ہاشم کو بتا دیا تھا۔ہاشم پہلے تو حیران ہوا پھر ہنسا تھا۔وہ زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ داور اسکے ساتھ تھا اور اگر داور کو ذرا بھی کسی بات کی خبر ہو جاتی تو وہ ہاشم کا سر کھا لیتا۔ 

وہ صرف ابھی نازلی کو سچ بتانا چاہتا تھا کہ جس گھر میں وہ آئی ہے یہ اسکا سسرال ہے۔باقی سبکو فلحال اس رشتے کے بارے میں بتانے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"اے عشق ادھر آ تجھے عشق سکھاؤں۔"

"در یار میں بٹھا کر تجھے بیعت کراؤں۔"

"تھک جاتے ہیں لوگ اکثر تیری عین پر آ کر۔"

"عین شین سے آگے تیری قل میں سماؤں۔"

"اے عشق تیرا عشق ہوں آ سنگ تو میرے۔"

"سینے سے لگا کر تجھے سر مست بناؤں۔"

"تو جھوم اٹھے دیکھ کر دیوانگی میری۔"

"آ وجد کی حالت میں تجھے رقص دکھاؤں۔"

کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا۔سکوت اتنا تھا کہ سانسوں کے چلنے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔

تابین بیڈ پر چت لیٹی تھی۔آنکھیں بند تھیں۔بند آنکھوں سے آنسو نکل کر کنپٹی سے ہوتے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔ 

وہ گھنٹہ بھر پہلے خان ولا گئی تھی۔وہاں سے اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں گھر میں نہیں ہیں۔وہ گھومنے گئے تھے۔

واچ مین نے ہاشم کے کہنے پر اسے یہی بتایا تھا۔

یہ بات سن کر تابین کا دل کرچی کرچی ہوا۔وہ دونوں شاید ہنی مون پر کہیں ملک سے باہر گئے ہونگے۔۔۔۔ 

اسے یہی لگ رہا تھا۔اس بات کو سوچ کر وہ پچھلے ایک گھنٹے سے ایسے ہی لیٹی آنسو بہا رہی تھی۔وہ اپنی زندگی میں بڑی سے بڑی بات پر بھی اتنا کبھی نہیں روئی تھی جتنا اس شخص کے کھو جانے پر رو رہی تھی۔

اسکی یاد آتی تو تابین کو ایسا لگتا جیسے کسی نے اسکے دل کو زور سے مٹھی میں بھینچ لیا ہو پھر اسکے ساتھ جب نازلی کو سوچتی تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی نے دل کو بے دردی سے سینے سے کھینچ نکالا ہو۔

وہ اس درد سے نکلنا چاہتی تھی۔اسکا وجود زخمی زخمی ہوگیا تھا پر اسکا دیوانہ دل اس بات سے انجان اپنی کیے جا رہا تھا۔

وہ جب تڑپتا تو اسکے ساتھ سارا وجود بھی بے جان ہونے لگتا۔اسے درد نے ایسے جکڑا ہوتا کہ وہ چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں پاتی تھی۔

اس دن اسنے نازلی کو کال کر کے اسے ہاشم سے طلاق لینے کا کہا تھا پر وہ شخص یہ بات جان گیا تھا اور پھر جو اسنے باتیں کیں وہ تابین کے دل کو دکھ سے بھر گئیں۔

آج وہ نازلی سے بھیک مانگنے گئی تھی کہ وہ کسی بھی طرح ہاشم کو اسے دے دے ۔۔۔ وہ اس شخص کو کھو کر زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔اسے وہ بے رحم شخص چاہیے تھا۔وہ بھلے ہی اس سے محبت نہ کرتا بس اسکے پاس رہتا ۔۔۔ وہ خود کو اس پر لٹا دیتی ۔۔۔ اسے بے پناہ محبت دیتی بس ایک بار ۔۔۔ ایک بار وہ اسکا بن کر تو دیکھتا ۔۔۔۔ پھر اسے معلوم ہوتا کہ کوئی اسے کس حد تک چاہتا ہے۔

جانے وہ اسکے لیے کیوں اتنا ضروری ہوگیا تھا۔جانے کیوں وہ اسکی سانسوں کو الجھانے کی طاقت رکھتا تھا۔کیوں اسکے دل کی ڈور  اس شخص کے ہاتھوں میں تھی جسے اسکی خاک پرواہ نہ تھی۔وہ مغرور شہزادہ تھا اور وہ خود اسکے پاؤں کی دھول ۔۔۔ جسے وہ ٹھوکر سے اڑا دیتا اور وہ دوبارہ اسکے پاؤں کے ساتھ لپٹ جاتی ۔۔۔

اے عشق تو نے اس دیوانی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔اس مغرور اونچی ناک والی تابین کی انا ۔۔۔ عزت نفس تو نے خاک میں ملا ڈالی ۔۔۔۔ ایسا کیوں کیا تو نے ۔۔۔۔۔کیوں ۔۔۔۔

تابین آنکھیں سختی سے بھینچ کر سوال کر رہی تھی پر جواب صرف خاموشی کی صورت مل رہا تھا۔

سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل بجنے لگا۔تابین کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ موبائل اٹھاتی۔اسکا وجود شل ہو رہا تھا۔وہ ہل تک نہیں پا رہی تھی۔جیسے اسکا انگ انگ ٹوٹ رہا ہو۔ 

اپنی بے بسی پر اسکی آنکھیں تیزی سے آنسو بہانے لگیں۔ 

وہ سوچ رہی تھی شاید جمال آغا ہو۔اس دن کے بعد سے اسنے جمال آغا سے کوئی بات نہ کی تھی۔جانے امریکا کون سا خزانہ لینے گیا تھا۔تابین کو اب اسکے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

موبائل بند ہوتا اور پھر سے رنگ کرنے لگ جاتا۔تابین ویسے ہی لیٹی رہی۔دماغ سوچوں میں الجھا تھا اور وجود میں جنبش نہیں ہورہی تھی۔  

جانے کتنا وقت گزرا جب کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔

"آجاؤ ۔۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

دروازہ کھلا اور کام والی اندر داخل ہوئی۔ 

"اسفندیار ملک آپ سے ملنے آئیں ہیں بی بی جی۔"کام والی نے سر جھکا کر بتایا۔ 

"ان سے کہو میں گھر میں نہیں ہوں۔"تابین نے چھت کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔ 

"دوستوں سے جھوٹ نہیں بولتے۔"مردانہ آواز پر وہ چونک کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔جہاں اسفی کھڑا تھا۔ 

"آپ جائیں ۔۔۔"اسفی نے کام والی کو دیکھ کر کہا۔وہ سر ہلا کر چلی گئی۔ 

"تم کیوں آئے ہو۔"تابین نے اسے دیکھ کر روکھے لہجے میں پوچھا۔ 

اسفی نے جواب نہ دیا اور آگے بڑھ کر لائٹ آن کی۔تابین نے جلدی سے آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔

"پلیز اسے بند کرو ۔۔۔ میری آنکھوں میں چبھ رہی ہے یہ روشنی ۔۔۔"

"روشنی سے بھاگنا بند کیوں نہیں کر دیتی۔۔"اسفی نے افسوس سے کہا۔ 

"پلیز آف کر دو لائٹ۔"تابین کی آواز نم ہوئی۔اسفی نے ایک نظر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹی اس بکھری ہوئی لڑکی کو دیکھا پھر لائٹ آف کردی۔ 

"کردی ہے۔"آہستہ سے کہتا وہ بیڈ کی طرف آیا۔پھر لیمپ آن کر کے اسکی روشنی مدھم کر دی۔تابین نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھا۔ 

"تم یہاں کیوں آئے ہو؟"اسنے سنجیدگی سے اسفی کو دیکھا۔

"تم نے کال پک نہیں کی۔" 

"تو تمہیں لگا کہ کہیں میں مر تو نہیں گئی اسلیے دیکھنے آگئے؟"وہ تلخی سے کہتی اٹھ کر بیٹھنے لگی۔

"مجھے تمہاری فکر ہو رہی تھی۔"اسے بیٹھنے میں مدد کر کے پھر وہ دور ہو کر کھڑا ہوا۔

اسکی بات پر تابین نے اسے دیکھا۔وہ زمین کو گھور رہا تھا۔

تابین  نے لمبی سانس کھینچی۔ 

"بیٹھو ۔۔۔"اب اسکا لہجہ کچھ نرم تھا۔  

اسفی پیچھے ہوتا صوفے پر بیٹھا۔وہ تابین کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ اسکی نظریں سامنے رکھے میز کو گھور رہی تھیں۔ 

"یہاں میز کو گھورنے آئے ہو؟"تابین نے ایک دم پوچھا۔اسفی نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"نہیں ۔۔۔"پھر سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

"تو پھر بات کرو ناں۔"اسنے مسکراتے لہجے میں کہا۔

"تم روتی رہی ہو؟"اسفی نے اسکی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ 

"ایسی باتیں کرنی ہیں تو تم خاموش ہی اچھے ہو۔"وہ ناراضگی سے کہتی چہرہ پھیر گئی۔اسفی نے پیشانی مسل کر اسے دیکھا۔ 

"مہمان کو کچھ کھانے کا نہیں پوچھو گی؟"اسنے بات بدلی 

تابین نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔لبوں پر ہلکی مسکراہٹ تھی۔پھر بنا کچھ کہے انٹر کوم پر چائے اور سنیکس لانے کا کہنے لگی۔ 

"اسفی۔۔۔"تابین نے ایک دم پکارا۔

"ہوں ۔۔ بولو ۔۔"اسنے مسکرا کر دیکھا۔

"تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟"

اسکی بات پر اسفی کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔پھر تابین کی نظریں خود پر محسوس کر کے مدھم سا مسکرایا۔

"آج تک تم جیسی لڑکی جو نہیں ملی۔"مدھم آواز میں بولا۔ 

"تمہیں مجھ جیسی جنونی پاگل لڑکی چاہیے؟"وہ طنزیہ مسکرائی۔ 

"تم نہ پاگل ہو نہ جنونی۔"اسفی کے لہجے میں نرمی اتری۔ 

"تم پر جھوٹ اچھا نہیں لگتا اسفی۔"وہ مسکرائی۔ 

"ایسے سچ کا کیا کرنا جو دوسروں کا دل توڑ دے۔"اسفی اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔تابین نے کچھ پل اسے دیکھا پھر نظریں پھیر گئی۔ 

تبھی دروازہ پر دستک ہوئی اور اجازت ملنے پر کام والی ٹرے لے کر اندر داخل ہوئی۔انہیں چیزیں سرو کر کے چلی گئی۔ 

اسفی نے چائے کا سپ لے کر تابین کو دیکھا۔

"آجکل تم کہیں باہر نظر نہیں آتی۔"

"تم نے ہی تو کہا تھا کہ برے دوستوں اور عادتوں سے دور رہنا چاہیے۔"وہ سینڈوچ کھاتی ہوئی بولی 

"مطلب میری باتیں تم پر اثر کرتی ہیں۔"اسفی نے خوشگوار انداز میں اسے دیکھا۔ 

"لگ تو ایسا ہی رہا ہے۔"تابین نے شرارت سے جواب دیا۔ 

اسفی کھل کر ہنسا۔

"ہوں ۔۔۔ اسکا مطلب اب مجھے روز تمہاری ایک کلاس لینی چاہیے پھر۔"وہ شوخ ہوا۔  

"فیس کیا لو گے؟"تابین نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"فیس ۔۔۔"اسفی نے کچھ پل سوچا پھر بغور اسکا چہرہ دیکھا۔ 

"تمہاری ایک زندگی سے بھر پور مسکراہٹ کافی ہوگی۔" اسکے لہجے میں اتنی میٹھاس تھی کہ ایک پل کو تابین بھی تھم سی گئی۔

پھر خاموشی سے سر جھکا کر اپنا سینڈوچ کھانے لگی جیسے اس سے زیادہ ضروری کام اور کوئی نہ ہو۔

اسفی نے اسے دیکھا پھر کپ رکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"اب میں چلتا ہوں۔"وہ ہاتھ میں بندھی گھڑی پر نظر ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔چھ بج چکے تھے اور اسے گاؤں کے لیے نکلنا تھا۔ہاشم اسے کتنی بار کال کر چکا تھا۔وہ گاؤں جانے کے لیے ہی گھر سے نکلا تھا پر تابین کے کال نہ اٹھانے پر یہاں چلا آیا تھا۔

وہ اسے اللہ حافظ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا۔تابین نے اسکی پشت کو دیکھا۔

اسفی جاتے ہوئے ایک دم رک کر پلٹا جیسے کوئی بات یاد آئی ہو۔ 

"مادام اگر آپ نے اپنا موبائل نمبر اس معصوم کو دے ہی دیا ہے تو کال پک کرنے کی زحمت بھی کر لیا کریں تا کہ بندہ چین سے جی سکے ۔۔۔۔۔آپکی مہربانی ہوگی۔"سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتا وہ ذرا سا جھکا۔پھر ایک پیاری سی مسکراہٹ تابین کی طرف اچھال کر کمرے سے نکل گیا۔

اسے جاتے دیکھ کر اسکی بات کو سوچتی تابین کے لبوں پر ایک دم خوبصورت سی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔

آنکھوں میں کسی کی محبت کی وجہ سے گلابی پن تھا اور لبوں پر کسی کی دی ہوئی خوبصورت مسکراہٹ ۔۔۔۔ پلڑا کونسا زیادہ بھاری تھا؟ 

ہونا تو مسکراہٹ والا چاہیے تھا پر یہاں جو آنسو دیتا ہے وہ دل کے زیادہ قریب مانا جاتا ہے اسکا پلڑا بھاری ہوتا ہے جبکہ مسکراہٹ دان کرنے والا اتنی اہمیت نہیں رکھتا اسکا پلڑا ہمیشہ ہلکا ہی رہتا ہے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

رات کی سیاہی نے چار سو اپنے پر پھیلا لیے تھے۔بڑی حویلی کو سجا دیا گیا تھا۔وہاں جیسے روشنیوں کا سیلاب آیا تھا۔آنکھوں کو حیران کر دینے والا منظر نظروں کے سامنے تھا۔پھول اور لائٹوں سے پوری حویلی کو اندر باہر سے سجایا گیا تھا۔ 

لان میں مردوں کے لیے انتظام کیا گیا تھا جبکہ اندر عورتوں کی محفل لگی تھی۔

مہمانوں سے آہستہ آہستہ حویلی بھرنے لگی تھی۔ہنگامہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ 

نازلی ، نور کے ساتھ ٹیرس پر کھڑی تھی۔وہ دونوں کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گئیں تو سب سے نظریں بچا کر اوپر آگئیں۔نازلی نے نور کو باہر آنے سے منع کیا پر نور بور ہوگئی تھی اسلیے ٹیرس پر کھڑے ہو کر نیچے ہوتی تیاریاں دیکھنے میں لگ گئی۔ اوپر نیم اندھیرا تھا ورنہ اگر کوئی دلہن کو اس طرح سبکو تاڑتا دیکھ لیتا تو پھر دلہن صاحبہ کی خیر نہ ہوتی۔۔۔۔۔

"میں نے شہریار بھائی کو ابھی تک نہیں دیکھا۔"نازلی نے افسوس سے کہا۔

آبی موبائل نور کو دے کر گئی تھی پر پھر کچھ دیر بعد کال کرنے کے لیے واپس لے گئی تھی۔نازلی پکس نہیں دیکھ پائی تھی۔ 

"پکس میں دیکھ کر کیا کروگی۔لائیو دکھاتی ہوں۔"نور آنکھ مار کر بولی۔پھر نیچے موجود لوگوں میں شہریار کو ڈھونڈنے لگی۔

"وہ رہے ۔۔۔"اسنے نازلی کو دیکھ کر اشارے سے بتایا۔

"کہاں ۔۔۔"نازلی نے غور کیا پر اسے نظر نہ آیا۔

"وہ وہاں درمیان میں۔۔۔۔ دو لڑکوں کے ساتھ سفید کپڑوں اور  سنجیدہ چہرے والا۔۔۔۔وہ کھڑوس سا آدمی شہریار ہے۔"نور اپنے ہی الفاظ پر ہنسنے لگی تھی۔

"اسی کھڑوس کی کل تم دلہن بنو گی۔"نازلی مسکرا کر کہتی بغور شہریار کو دیکھنے لگی جو سنجیدگی سے ان لڑکوں سے باتوں میں مصروف تھا۔

"بڑے ہینڈسم ہیں شہریار بھائی۔"نازلی نے ایک دم کہا۔ 

"پر میرے لالہ سے کم۔"ماہ نور شرارت سے بولی 

"یہاں تمہارے لالہ کا کیا ذکر۔۔۔"نازلی نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"انکا ہی تو سارا ذکر ہے۔۔۔۔ بہت ہینڈسم ہیں میرے لالہ۔۔۔۔"بھائی کا ذکر کرتے نور کی آنکھیں محبت بھر گئیں۔ 

"ذرا دکھانا اپنے لالہ کو ۔۔۔ پھر پتہ چلے گا کہ وہ کتنے ہینڈسم ہیں۔"نازلی شرارت سے مسکرا کر بولی۔اسکی بات پر نور نے اپنی ہنسی دبائی۔

"دیکھ لو گی تم انہیں بھی ۔۔۔"نور کا انداز سرسری سا تھا۔ 

"اچھا چھوڑو یہ بتاؤ شہریار بھائی سے کتنی محبت ہے؟"نازلی  نے بات بدلی تھی۔ 

نور نے شہریار کو دیکھا۔"بہت ۔۔۔۔"لہجہ دھیما اور میٹھا تھا۔ 

"پر شاید انہیں نہیں ہے۔"ایک دم اسکے لہجے میں اداسی اتری۔ 

"محبت نہ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔"نازلی نے محبت سے اسکا ہاتھ تھاما۔

"شاید ہو۔"وہ بے یقین سی تھی۔کبھی شہریار نے یقین کی ڈور اسکے ہاتھ میں تھمائی ہی نہ تھی کہ اسے شہریار کی محبت پر یقین ہوتا۔ 

"یقیناً ہوگی۔"نازلی نے اسکا ہاتھ گرمجوشی سے دبا کر چھوڑا۔پھر نور کی نظروں کا تعاقب کر کے نیچے دیکھا۔وہاں ایک شخص شہریار کے گلے مل رہا تھا۔وہ شہریار سے الگ ہوا تو نازلی نے اسکا چہرہ دیکھا۔

"یہ ۔۔۔ یہ تو ۔۔۔۔۔" 

"یہ احد ہیں ۔۔۔"نور نے بتایا تھا۔ 

"احد عالم۔۔۔۔؟"نازلی نے اسے دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

"ہاں ۔۔۔ وہی بک شاپ والا ۔۔۔"نور ہنسی۔

"یہ تو احد بھائی ہیں یار۔"

"تم جانتی ہو انہیں۔؟"نور نے حیرت سے پوچھا۔ 

"ہاں ۔۔۔ میری آنی ۔۔۔ انکے دیور ہیں احد بھائی۔"وہ ایک نظر نیچے دیکھ کر بولی جہاں احد اور شہریار اب مسکرا کر باتیں کر رہے تھے۔

"او ایم جی ۔۔۔ یہ تو کمال ہوگیا۔اب آبی تمہاری رشتے دار بنے گی۔"نور نے ہنس کر ڈرامائی انداز میں کہا۔ 

"تمہیں پتہ ہے احد بھائی فوج میں ہیں۔"نازلی نے خوش خبری سنائی۔

"اللہ ۔۔۔"نور اب کی بار اور حیران ہوئی۔"یہ تو آبی کے دل کی باتیں پوری ہورہی ہیں۔"وہ کہہ کر مسکرانے لگی۔

"آبی کو مل گیا اسکا فوجی۔"نازلی نے ہنس کر نور کے ہاتھ اور ہاتھ مارا۔ 

"کونسی آبی کو فوجی ملا؟ اس والی کو تو ابھی تک نہیں ملا۔"آبی انکی طرف بڑھتی ہوئی بولی۔ان دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ انکے ساتھ آ کر کھڑی ہوئی۔ 

"وہ آبی ۔۔۔فوجی ۔۔۔"نازلی بتانے لگی جب نور نے اسے اشارہ کیا کہ اسے کچھ نہ بتائے۔اسکا اشارہ سمجھ کر نازلی نے بات بدلی۔

"میں نے کہا آبی کو اسکا فوجی جلد ہی مل جائے گا۔"نازلی نے اسے دیکھا۔آبی نیچے دیکھ رہی تھی جہاں احد اور شہریار کھڑے تھے۔ 

"فوجی ۔۔۔ ہوں ۔۔۔۔"آبی کچھ پل رکی۔"فوجی نہ بھی ملے تو چلے گا۔مانا کہ فوجی اچھے ہوتے ہیں پر فوجیوں کے علاوہ بھی بہت سے لڑکے اچھے ہوتے ہیں۔"وہ مگن سی بول رہی تھی۔نور اور نازلی نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر آبی کو دیکھ کر ہنسی دبانے لگیں۔ 

"کون ہے وہ لڑکا جس نے آبی کی نظروں سے فوجی کو ہٹا کر خود کو بسا لیا۔"نور نے جان بوجھ کر پوچھا۔

"احد بھائی اور کون۔۔۔"نازلی نے شرارت سے جواب دیا۔ 

انکی بات پر آبی نے ہڑبڑا کر انہیں دیکھا۔ 

"ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔"اسنے جھجھک کر کہا۔

"چلو ام جان نے کہا ہے کہ تیار ہوجاؤ اب۔۔۔شکر کرو انہیں معلوم نہیں کہ تم اوپر گھوم رہی ہو ورنہ تمہاری شامت آتی۔"آبی بات بدل کر ام جان کی بات بتاتی وہاں سے بھاگی تھی۔اسے معلوم تھا اگر ذرا دیر اور انکے ساتھ رک جاتی تو اسکی خیر نہ ہوتی۔ 

اسکے نکلتے ہی وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستی ہوئیں سب سے بچ کر نیچے کمرے میں آئیں۔ 

"تم نے بتانے سے منع کیوں کیا۔"کمرے میں آ کر نازلی نے پوچھا۔ 

"تا کہ آبی کو احد بھائی کے منہ سے اس بات کا پتہ چلے ۔۔۔ تب زیادہ مزہ آئے گا۔"نور آنکھ مار کر بولی۔ 

"اے باتونی بی بی جلدی سے تیاری کرو ۔۔۔ وہاں میڈم کی مہندی ہونے والی ہے اور یہ لفنگوں کی طرح گھوم رہی ہے۔"آبی ٹوکری اٹھا کر کمرے میں آئی جس میں گجرے رکھے تھے۔ 

اسکی بات پر نور نے منہ بنایا اور نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔

"نازلی چلو مادام تم بھی اپنی تیاری شروع کرو۔"آبی نے اسے بھی حکم دیا۔نازلی نے فرمابرداری سے سر ہلایا۔

وہ تینوں پھر تیاری میں مصروف ہوگئیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہال میں ہنگامہ برپا تھا۔فضا میں مدھم مدھم سی پھولوں کی خوشبو سانسوں کو مہکا رہی تھی۔لڑکیوں کی ہنسی ، میوزک کا شور ایک خوبصورت سماں باندھ رہا تھا۔ہر کسی کے چہرے پر خوشی تھی۔

ہال کی ایک طرف گول دائرے میں گدے پیچھا کر انکے اوپر سفید چادریں ڈالی گئی تھیں۔جس پر لڑکیاں بیٹھی گانے بجانے میں مگن تھیں۔جبکہ درمیان میں چوڑیاں ، مہندی کی ٹوکریاں اور کھانے پینے کی چیزیں رکھی تھیں۔

سامنے نور کسی شہزادی کی طرح بیٹھی تھی۔اسکی ایک طرف آبی تھی اور دوسری طرف نازلی تھی۔۔۔ نور نے سبز اور یلو کنٹراسٹ کا خوبصورت سا لہنگا شرٹ پہنا تھا۔پھولوں کے زیور پہنے وہ خود بھی ایک کلی لگ رہی تھی۔چہرے پر خوشی اور حیا کی لالی اسے بہت حسین بنا رہی تھی۔ 

آبی نے سبز رنگ کا ڈریس پہنا تھا جس پر گولڈن کام ہوا تھا۔بالوں کی ڈھیلی سی چٹیا بنی ایک طرف کندھے پر پڑی تھی۔میچنگ جیولری میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ 

نازلی نے ام جان کا دیا وہی لیمن ڈریس پہنا تھا۔جسکی قمیض  پر نفاست سے موتیوں کا کام ہوا تھا۔بڑا سا دوپٹہ دائیں کندھے پر سیٹ تھا۔ہلکا میک اپ ، کالے گھنے بال آبشار کی مانند اسکی پشت پر بہہ رہی تھی۔

کانوں میں جھمکے اور ماتھے پر ٹیکا ۔۔۔۔ وہ کوئی مغلیہ شہزادی لگ رہی تھی۔اسکے نہ نہ کرنے کے باوجود آبی نے اسے اچھی طرح تیار کیا تھا۔ 

وہاں گانے گائے جا رہے تھے۔نازلی مسکراتی ہوئی تالیاں بجا رہی تھی۔اس قدر خوبصورت ماحول اسنے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اتنی رنگینی ، اتنی خوشی دیکھ کر اسکی آنکھیں روشنی سے ٹمٹما اٹھی تھیں۔ 

اسنے جھک کر نور کی بات سنتے ہال کے دروازے کی طرف دیکھا۔وہ شخص ۔۔۔۔ نازلی کی نظریں تھم گئیں۔اسنے اس شخص کی جھلک دیکھی پھر وہ کچن کی طرف بڑھ گیا۔نازلی کو اس شخص پر ہاشم کا گمان ہوا۔

وہ جانے بغیر رہ نہیں پائی کہ وہ کون ہے۔اسلیے جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"کہاں ۔۔۔"نور نے پوچھا۔ 

"پانی پی کر آتی ہوں۔"وہ جلدی سے کہتی وہاں سے کچن کی طرف بڑھی۔ 

کچن کے دروازے کے پاس رک کر اسنے اپنی سانسیں درست کیں پھر اس شخص کی پشت کو دیکھا جو مگن سا کافی بنانے میں مصروف تھا۔نازلی نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔وہاں فنکشن چل رہا تھا اور یہ آدمی یہاں کافی بنا رہا تھا ۔۔۔ واہ ۔۔۔۔۔ 

نازلی نے اسکا جائزہ لیا۔سفید لباس میں سیاہ شال فولڈ کر کے گلے میں ڈالی تھی۔پاؤں میں پشاوری چپل ۔۔۔ آستینیں کہنیوں تک فولڈ تھیں۔

نازلی نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا دل کہہ رہا تھا یہ وہی ہے پر دماغ کہہ رہا تھا لڑکی ہوش کر ۔۔۔ وہ یہاں کیسے آئے گا۔ 

نازلی نے خود پر قابو پایا پھر بولی۔"بات سنیں۔۔" 

ہاشم کے سر میں درد ہو رہا تھا تو وہ سب سے بچتا کچن کی طرف آیا تھا۔اسے کافی کی طلب ہورہی تھی اسلیے اپنے پسندیدہ کڑوی کافی بنانے میں لگ گیا۔ 

نازلی کی مدھم آواز پر بنا رکے وہ کپ میں کافی ڈالنے لگا۔لبوں پر ہلکی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔آنکھوں میں شوخ سی چمک پھیلی۔وہ تو بچتا ہوا آیا تھا پر وہ میڈم اس تک پہنچ گئی تھی۔

"جی سنائیں۔"یہ جواب سن کر نازلی کا رنگ اڑا۔اسکا شک ٹھیک نکلا تھا یہ وہی تھا۔

ہاشم اسکی طرف پلٹا۔ہاتھ میں پکڑا کپ لبوں سے لگاتے وہ نازلی کی صورت دیکھ رہا تھا۔جہاں حیرت ، ڈر و خوف کی ملی جلی کیفیت تھی۔ 

اگلے پل وہ کچن سے باہر دیکھتی اسکی طرف آئی۔وہاں اس وقت صرف وہ دونوں تھے۔باقی سب فنکشن انجوائے کرنے میں مگن تھے۔ 

وہ اس سے کچھ فاصلے پر رکی۔

"آ۔۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"اسنے پھیلی آنکھوں کے ساتھ مدھم آواز میں پوچھا۔ 

"شادی انجوائے۔۔۔۔"مختصر جواب آیا۔پر سکون انداز میں اسکی کیفیت سے لطف اٹھاتا وہ مسکرا رہا تھا۔ 

"دیکھیں ۔۔۔"نازلی نے پریشانی سے اسے دیکھا۔

"دیکھ ہی رہا ہوں۔ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"اسکی بات کاٹ کر دلکشی سے بولا 

"مجھے پریشان مت کریں ۔۔۔ کوئی آپکو دیکھ لے گا۔کیوں آگئے آپ یہاں ۔۔۔"نازلی رونے والی ہوگئی۔ 

"جہاں میری بیوی ہوگی وہاں میں بھی ہونگا ناں اور یار میں انویزبل تو ہوں نہیں ۔۔۔ ظاہر سی بات ہے سب مجھے دیکھیں گے ہی۔"انداز ہنوز پر سکون تھا۔  

"یہاں میری شادی کا کسی کو نہیں معلوم۔"نازلی ہاتھ مسل کر سر جھکا کر بولی۔ 

"تو میں بتا دیتا ہوں ناں۔"مسکراہٹ دبا کر اسنے نازلی کے جھکے سر کو دیکھا۔ 

"مجھے نہیں معلوم آپ جائیں یہاں سے ۔۔"وہ سر اٹھا کر ضدی انداز میں بولی۔

"شوہر کو یہاں سے نکالنے کی کتنی جلدی ہے تمہیں۔"ہاشم نے افسوس سے گردن ہلائی۔ 

"یہ میری دوست کا گھر ہے اور میں آپکو یہاں سے نکال سکتی ہوں ۔۔۔ جائیں آپ بس ۔۔۔"اسنے سخت لہجے میں آرڈر دیا۔ 

"دوستوں کو پا کر شوہر کو پہچاننے سے انکاری ہو۔۔۔ افسوس کی بات ہے۔۔"ہاشم کپ واپس رکھتا سر ہلا کر کہتا نازلی کے پاس سے گزرا۔

نازلی نے پر سکون ہو کر لمبی سانس کھینچی۔ 

"ویسے سوچنے کی بات ہے کہ میں یہاں موجود ہوں۔۔۔۔ اتنے حق سے گھوم رہا ہوں تو میرا کوئی تو رشتہ ہوگا ناں ان سب  سے۔۔۔"اسنے عقب سے نازلی کی طرف جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کی۔ 

اسکی بات پر نازلی کے دماغ کی گھنٹی بجی۔وہ ایک دم اسکی طرف پلٹی۔یوں پلٹنے سے سیاہ بال اسکے چہرے پر بکھرے۔

ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بال پیچھے کیے۔نازلی دو قدم پیچھے ہوئی پھر بولی۔"کیا آپ بھی کسی کے دوست ہیں؟شہریار بھائی یا خان بابا کے؟"

اسکی بات پر ہاشم کا قہقہہ گونجا تھا۔نازلی ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"ان لوگوں کی مجھ سے نہیں بنتی مسز۔۔۔دوستی نہیں کرتے وہ لوگ مجھ سے ۔۔۔"وہ مدھم سا مسکراتا نا محسوس انداز میں اس سے دل کی بات کر گیا تھا۔اسے ایک نظر دیکھ کر پلٹتا باہر کی طرف بڑھا۔ 

نازلی کو اسکی بات کی ذرا سمجھ نہ آئی۔

ہاشم دہلیز تک پہنچا تو سامنے سے آتی ام جان نے اسے روکا۔ 

"یہاں ہیں آپ ہاشم ۔۔۔چلیں آئیں باہر آپکو یاد کیا جا رہا ہے۔"ام جان عجلت میں بولی۔ہاشم نے انکے کندھے کے گرد بازو پھیلایا پھر آگے بڑھ گئے۔ 

نازلی نے انکی پشت کو دیکھا۔یہ کیا تھا؟ ہاشم کا ان سے کیا رشتہ تھا؟ نازلی کا دماغ ایک بار بھی اس بات کی طرف نہ گیا کہ وہ اس گھر کا بیٹا ہوسکتا ہے۔ 

وہ باہر آئی تو بہت الجھی ہوئی تھی۔سمجھ نہ آئی کہ کس سے اس شخص کے بارے میں پوچھے۔اسکے بارے میں کچھ بھی پوچھ کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے والی بات ہوگی۔اسلیے وہ خاموش ہی رہی۔

نور نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ۔۔۔ پر وہ اسے ٹال گئی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

مہندی کی رسم ادا کر دی گئی تھی۔ابھی رات کے بارہ بج رہے تھے پر وہاں دن کا سماں تھا۔ہنسی ، خوشبو ، میوزک ہر رنگ وہاں بکھرا تھا۔ 

نور کے ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگائی جا رہی تھی۔ایک لڑکی مہارت سے اسکے ہاتھوں پر خوبصورت ڈیزائن بنا رہی تھی۔ 

اور دوسری لڑکی دلہن کی دوستوں کو مہندی لگانے میں مصروف  تھی۔ 

نازلی خوشی سے نور کے پاس بیٹھی اسکے ہاتھ پر مہندی لگتے دیکھ رہی تھی۔ 

"افف بہت پیاری ہے۔"وہ خوشی سے بولی۔اسنے آج تک مہندی نہیں لگائی تھی۔پر اس وقت مہندی کی خوشبو اسے بہت اچھی لگ رہی تھی۔الجھی سوچوں کو ایک طرف کرتی وہ یہ خوبصورت دن انجوائے کرنے لگی۔ 

"اگلی باری تمہاری ہے۔"نور نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"میں تو نہیں لگاؤں گی یار ۔۔۔ میں نے کبھی نہیں لگائیں۔"نازلی جلدی سے بولی۔ 

"میں دلہن ہوں اور میری بات ماننی پڑے گی تمہیں۔"نور نے منہ بسور کر کہا۔

"ہوں ۔۔۔ اوکے دلہن صاحبہ۔"نازلی نے سر ہلایا تو نور اسکے معصوم چہرے کو دیکھ کر ایک دم مسکرانے لگی۔

اسکے لالہ کی جان تھی یہ لڑکی جسکی وجہ سے وہ اسے پہلے سے زیادہ عزیز ہوگئی تھی۔اسے دیکھ کر نور کو اس پر بے تحاشا پیار آتا۔

جو ہستی آپکے پیاروں کو عزیز ہو وہ آپکے دل کے بھی بہت  قریب ہوجاتی ہے۔نازلی کے لیے نور کی بھی ایسی ہی فیلنگز تھیں۔ 

کچھ وقت بعد نازلی کے دونوں الٹے سیدھے ہاتھوں پر مہندی لگا دی گئی تھی۔لڑکیوں کا ڈانس چل رہا تھا۔وہ انجوائے کر رہی تھیں جب نور نے اسے اشارہ کیا۔ 

"کیا ہوا؟"نازلی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔ 

"سامنے دیکھو۔"اسنے آنکھوں سے اشارہ کیا۔نازلی نے دیکھا دور ہال کے دروازے کے پاس آبی اور احد کھڑے کوئی بات کر رہے تھے۔آبی کے چہرے پر لالی تھی جسے وہ دونوں اتنے دور سے بھی دیکھ سکتی تھیں۔ 

"انکا معاملہ سیٹ ہوگیا۔"نور نے شرارت سے کہا۔نازلی نے اسکی طرف دیکھا پھر دونوں ہنسنے لگیں۔

احد اس سے شہریار کا پوچھ رہا تھا۔آبی کو صاف لگ رہا تھا کہ یہ بہانہ ہے اس سے بات کرنے کا ۔۔۔ ورنہ شہریار باہر تھا اور محترم اسکا پوچھنے اندر آئے تھے۔اسنے کہہ دیا کہ شہریار لالہ باہر ہیں وہاں تلاش کریں۔

"اچھا شاید باہر ہی ہو پھر۔"احد نے مایوسی سے اسے دیکھا۔ 

آبی نے اسکی صورت دیکھ کر بہت مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔ 

"جی ۔۔۔"آبی نے بال کان کے پیچھے کر کے کہا۔ 

احد جاتے جاتے ایک دم پلٹا تھا۔ 

"ویسے آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔"وہ ایک نرم مسکراہٹ اسکی طرف اچھال کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔ 

آبی پہلے حیران ہوئی پھر مدھم مسکراہٹ کے ساتھ چہرہ جھکا لیا۔وہاں سے پلٹی تو نظر ان دونوں پر پڑی جو اسے دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر آبی دانت لبوں میں دبا کر وہاں سے بھاگی تھی۔اسکی حرکت پر نور اور نازلی کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔

نازلی آبی سے بات کر کے کچن سے باہر نکلی جب ام جان نے اسے پکارا۔ 

"جی ام جان۔"نازلی انکے قریب آئی۔

"بیٹا اوپر کمرے میں کپڑوں کا ایک بیگ رکھا ہے وہ لا دیں۔"انہوں نے مصروف انداز میں کہا پھر نظر اسکے ہاتھوں پر پڑی۔"آپکے ہاتھوں پر تو مہندی لگی ہے۔۔۔ چلیں میں خود لے آتی ہوں۔"ام جان کہہ کر جانے لگیں جب نازلی نے انکا ہاتھ تھاما۔

"سوکھ گئی ہے ام جان ۔۔۔ میں لے آتی ہوں۔"وہ مسکرا کر بولی تو ام جان نے محبت سے اسکا گال تھپکا پھر دوسری طرف بڑھ گئیں۔ 

نازلی جلدی سے دوپٹہ سنبھالتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ 

وہ اوپر آئی وہاں مکمل خاموشی تھی۔اسنے کمرے کا تو پوچھا ہی نہیں تھا کہ بیگ کس کمرے میں رکھا ہے۔اسنے نظر دوڑائی اوپر پانچ کمرے تھے اب کونسے کمرے میں کپڑوں والا بیگ ہوگا۔۔۔وہ وہیں کھڑی ہو کر سوچنے لگی۔

تبھی درمیان والے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ کمرے سے باہر آیا۔نازلی کو مجسمے کی طرح کھڑے دیکھ کر اسکے قدم تھم گئے۔وہ اسے نظروں سے دل میں اتارنے لگا۔

"تیرے عشق نے بخشی ہے یہ سوغات مسلسل۔۔"

"تیرا ذکر ، تیری بات مسلسل۔۔"

"میں محبت میں اس مقام میں ہوں جہاں۔"

"میری ذات میں رہتی ہے ، تیری ذات مسلسل۔۔"

خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کر کے نازلی نے چونک کر سامنے دیکھا۔ہاشم کو دیکھ کر اسکا موڈ آف ہوا تھا۔ 

"سارے گھر میں گھوم رہا ہے یہ آدمی۔"وہ بڑبڑائی تھی۔پھر اسے نظر انداز کرتی دائیں طرف بڑھی پر وہ جھٹ سے اسکے سامنے آیا۔ 

"نظریں چرا کر کہاں جایا جا رہا ہے؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"کام ہے مجھے۔"وہ بے نیازی سے بولی۔ 

"واہ میڈم بہت مصروف ہوگئی ہیں۔"ہاشم کے لہجے میں شرارت تھی۔ 

"آپکی طرح فری نہیں ہوں۔"وہ تپی تھی۔ 

"پوچھو گی نہیں کہ میں یہاں کیسے؟"

"پوچھ چکی ہوں ۔۔۔ بتایا آپ نے ؟ نہیں ناں ۔۔۔۔جب آپکی مرضی ہوگی تب ہی بتائیں گے پھر میں بار بار کیوں پوچھوں۔"وہ ناک چڑھا کر بولی 

"بہت جاننے لگی ہو مجھے۔"وہ بے ساختہ مسکرایا۔نازلی نے کوئی جواب نہ دیا۔

"آؤ تمہیں تمہارا روم دکھاؤں۔"ہاشم نے اسکا ہاتھ پکڑا پھر اسے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔حویلی سے جانے سے پہلے وہ اسی روم میں رہتا تھا۔اسکا روم آج بھی ام جان نے ویسے ہی رکھا تھا جیسے وہ اب بھی وہاں موجود ہو۔

"کونسا روم ۔۔۔ چھوڑیں مجھے۔"نازلی نے اکتا کر ہاتھ چھڑانا چاہا۔"چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔ مجھے ام جان نے کپڑے لینے بھیجا ہے۔"وہ رہانسی لہجے میں بولی۔

"وہ آبی لے جائے گی ۔۔۔ تم فکر نہ کرو مسز۔"وہ سکون سے کہتا کمرے میں داخل ہوا پھر دروازہ بند کرنے لگا۔ 

"دد۔۔دروازہ کیوں بند کر رہے ہیں؟"نازلی نے ڈر کر اسکی پشت کو  دیکھا۔

"کیوں بند کرتے ہیں؟"اسنے الٹا سوال کیا تھا۔  

"میں آپکے غلط ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دونگی۔"نازلی نے چبا کر کہا۔ 

"استغفار ۔۔۔"ہاشم اسکی طرف پلٹا۔"مسز کبھی تو سیدھا سوچ لیا کرو ۔۔۔ دروازہ اسلیے بند کیا تا کہ کوئی ہمیں ساتھ نہ دیکھ لے۔۔۔۔"وہ دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بولا۔ 

"اتنا ڈرتے ہیں تو یہ حرکتیں ہی کیوں کرتے ہیں۔"نازلی کا انداز طنزیہ تھا۔ 

"ہاشم خان کے خون میں ڈر نام کی چیز نہیں ۔۔۔ چلو آؤ ابھی سب کے سامنے کہتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو۔"وہ سنجیدگی سے کہتا آگے بڑھا۔نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"ویسے ہی کہا ہے میں نے ۔۔۔ آپ تو سیریس ہی ہوگئے۔" وہ جلدی سے ہڑبڑا کر بولی۔

ایسی باتیں کر کے وہ خود ہی اسے کہہ رہی تھی کہ آ بیل مجھے مار ۔۔۔۔ اس آدمی کا دماغ تو گھوما ہوا ہے۔وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔وہ تو سب کہہ کر بچ کر نکل جاتا پر وہ اس جھوٹ کی وجہ خان بابا اور باقی سبکو کیا بتاتی کہ کیوں اسنے اپنی شادی کی بات چھپا کر رکھی؟

اسکے انداز پر ہاشم ہنسی دبا کر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوا۔نازلی نے اسے دیکھا پھر رہا نہیں گیا تو بول پڑی۔ 

"آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کون ہیں؟"

"تمہارا شوہر۔۔"وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ 

"پلیز بتا بھی دیں۔"اسنے التجا کی۔اسکا دماغ بہت الجھ چکا تھا وہ سوچ سوچ کر پاگل ہورہی تھی۔ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"یہ میرا گھر ہے۔خان بابا اور ام جان میرے والدین ہیں۔"وہ سنجیدگی سے بولا۔نازلی نے حیرت سے پھیلی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا۔ 

"کیا سچ میں؟"اسے یقین نہ آیا۔ 

"اب یہ جھوٹ بولنے والی بات تھوڑی ہے مسز۔"ہاشم جھنجھلایا تھا۔ 

"نور آپکی بہن ہے۔"نازلی نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"ظاہر سی بات ہے۔اگر ہمارے والدین ایک ہیں تو ہم بہن بھائی ہی ہوئے۔"ہاشم نے چڑ کر کہا۔ 

"اور ۔۔"نازلی بولنا چاہ رہی تھی پر ہاشم جلدی سے بول پڑا۔

"اور آبی ، شہریار اور داور میرے کزن ہیں۔"

اسکی بات پر نازلی کی پیشانی پر فکر کی لکیریں نمودار ہوئیں۔ 

"اب میں سب کا سامنا کیسے کرونگی۔۔۔۔"وہ خود کلامی کرتی پیچھے ہوتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ 

"شادی گناہ نہیں ہے۔"ہاشم نرمی سے کہتا اسکے ساتھ بیٹھا۔ 

"پر انہیں میرے بارے میں کیا لگے گا کہ میں نے انکے بیٹے سے اس طرح شادی کر لی۔۔۔وہ مجھے بری لڑکی سمجھیں گے۔"وہ رندھی آواز میں کہتی سر ہاتھوں میں تھام گئی۔ 

"وہ ایسا کچھ نہیں سوچیں گے۔"ہاشم نے اسکے مہندی لگے ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامے۔سوکھی مہندی نازلی کے ہاتھوں سے ہاشم کے ہاتھوں میں گرنے لگی۔ 

"تم بہت اچھی لڑکی ہو ۔۔۔ تمہیں اس گھر میں کوئی برا نہیں سمجھے گا اس بات کا تمہیں میں یقین دلاتا ہوں۔"وہ محبت سے پر لہجے میں بولا۔ 

نازلی نے خوف بھری آنکھوں سے اسکی سیاہ روشنی چھلکاتیں آنکھوں میں دیکھا۔ 

"میں نور اور آبی کا سامنا نہیں کر پاؤں گی۔"وہ نم آواز میں بولی۔

"وہ سچ جانتی ہیں۔"ہاشم نے مدھم آواز میں بتایا۔نازلی سر جھکا گئی۔ہاشم کے بتانے کے بعد نور اور آبی کی باتیں سوچ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ سچ جانتی ہیں۔ 

"معلوم ہے مجھے۔"نازلی کی آواز حلق میں پھنسی۔ 

"وہ جانے میرے بارے میں کیا سوچیں گیں۔مجھے انکا سامنا نہیں کرنا ۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے۔"وہ ایک دم روتے ہوئے بولی۔اسکے دل میں خوف بیٹھا تھا کہ سچ جان کر ہاشم کے گھر والے بھی وہی کریں گے جو اسکے گھر والوں نے کیا تھا۔تب بھی ایک محفل لگی تھی جس میں وہ بدنام ہوئی تھی اور آج یہ گھر بھی  لوگوں سے بھرا تھا۔اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ دوبارہ وہ سب کچھ سہہ پاتی۔

ہاشم نے اس لڑکی کو خاموشی سے دیکھا۔ 

"تمہیں معلوم ہے جب میں نے انہیں سچ بتایا تو انہوں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔"وہ آہستہ آہستہ اسے ساری بات بتا رہا تھا اور نازلی کے آنسو تھمنے لگے تھے۔ 

وہ اسکے وجیہہ چہرے پر نظریں جمائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"اور خان بابا۔۔۔"نازلی باقی باتوں سے مطمئن ہوئی تو خان بابا کے بارے میں سوچ کر فکر مندی سے بولی۔ 

"وہ تو تمہارے دوست ہیں اور خان بابا دوستوں پر جان وار دیتے ہیں۔دیکھنا جب انہیں معلوم ہوگا ناں تو وہ تمہاری طرف ہونگے اور میرا پھر اللہ مالک۔۔۔"وہ نرمی سے اسکا ناک دبا کر مسکرایا۔اسکی بات پر نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ چمکی۔

"میرے سارے خاندان کو دیوانہ کر رکھا ہے تم نے مسز۔"ہاشم نے نیلی آنکھوں میں دیکھ کر شرارت سے کہا۔ 

"میں نے کچھ نہیں کیا۔"نازلی جھٹ سے سر جھکا کر کہتی اپنے ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آپ گھر میں ابھی کسی کو نہیں بتائیں گے۔"اسنے ہاشم کو دیکھ کر آرڈر دیا۔ 

"آپکا حکم سر آنکھوں پر۔"وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتا اسکے سامنے کھڑا ہوا۔ 

پھر اسکے مہندی بھرے ہاتھ تھام کر آنکھوں کے سامنے کیے۔ 

"اتنے پیارے ہاتھ اوپر سے مہندی لگا لی۔میں تو گیا ناں کام سے ۔۔"وہ محبت سے کہتا سر اٹھا کر اسکے گلابی چہرے کو دیکھنا لگا۔ 

اسکے انداز پر نازلی نے جلدی سے ہاتھ چھڑائے تھے۔ہاشم مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"وہ سر جھکا کر بولی 

"مجھ سے ۔۔۔"ہاشم نے سینے پر ہاتھ باندھے۔

نازلی نے نفی میں سر ہلایا۔

"سب کا سامنا کرنے سے ۔۔"اسکی آواز مدھم تھی۔ہاشم کو اسکے معصوم انداز پر ٹوٹ کر پیار آیا۔وہ آگے بڑھا۔

"میں تمہارے ساتھ ہوں پھر ڈرنا کیسا۔"ہاتھ بڑھا کر اسکے بال پیچھے کرتا اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکا کر بولا۔ 

"پر ۔۔۔"نازلی نے مزید کہنا چاہا۔ 

"کوئی پر نہیں ۔۔۔ سکون سے شادی انجوائے کرو۔میں فلحال کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا ۔۔اوکے ۔۔۔"پیچھے ہوتا محبت سے اسکا گال تھپک کر جانے کے لیے پلٹا۔

"بات سنیں۔۔"اسنے ایک دم ہاشم کا ہاتھ تھاما۔اسکی بات ، اسکے انداز پر ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔وہ اسکے ہاتھ میں تھامے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگا۔ 

نازلی کو احساس ہوا تو اسنے جھٹ سے اسکا ہاتھ چھوڑا۔ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ 

"وہ آپ خان بابا کی اتنی تعریف کرتے ہیں پھر انسے لڑائی کیسی ہے؟"ذہن میں آیا سوال اسنے پوچھ لیا تھا۔ 

"لمبی کہانی ہے مسز کسی دن آرام سے سناؤں گا۔"وہ نرمی سے بولا پر لہجے میں اداسی تھی۔نازلی نے غور سے اسے دیکھا۔

"چلیں ۔۔۔"ہاشم نے چلنے کا اشارہ کیا۔ 

"ایک ساتھ ۔۔۔"نازلی نے آنکھیں سکڑ کر کہا 

"نہیں ۔۔ الگ الگ ۔۔۔"ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑی۔ 

وہ سر ہلا کر جلدی سے بھاگنے والے انداز میں کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی۔سیاہ بال اسکے تیز چلنے سے لہرائے تھے۔ہاشم اسکی پشت کو دیکھتا مسکراتا ہوا بیڈ پر بیٹھا۔وہ چلی گئی پر وہ اسکے سحر میں ڈوبا رہا۔وہ لڑکی اپنی اداؤں سے اسکی جان لینے کے در پہ تھی۔ 

نازلی وہاں سے باہر آئی۔ہاشم نے تو کہہ دیا تھا کہ ڈرنا نہیں پر باہر آ کر اسکی حالت خراب ہونے لگی۔ 

وہ نیچے آئی تو آبی سے سامنا ہوا۔ 

"کہاں تھی تم لڑکی؟" 

"وہ میں ۔۔۔ کپڑے لینے گئی تھی پر ملے نہیں۔۔۔"نازلی نے نظر جھکا کر کہا۔ 

"وہ تو میں لے گئی ہوں ۔۔۔تم بھاگو نور صاحبہ کے پاس ۔۔۔۔۔وہ کمرے میں اکیلی بیٹھی مکھیاں مار رہی تھی۔اسلیے اسنے مجھے تمہیں جلدی سے ڈھونڈ کر لانے کا کہا ہے۔"آبی عجلت سے بولی۔

"میں چلتی ہوں۔"نازلی نے کہا تو آبی سر ہلا کر دوسری طرف بڑھ گئی۔

نازلی لمبی سانس کھینچ کر نور کے کمرے کی طرف بڑھی۔

کوئی تین بجے کے قریب وہ لوگ سوئی تھیں۔نازلی کو تو پہلے نیند ہی نہیں آ رہی تھی۔وہ سوچوں میں الجھی رہی تھی کہ جانے صبح سبکو فیس کیسے کرے گی۔یہی سب سوچتی وہ پھر اللہ اللہ کر کے سو گئی تھی۔ 

"ہجر کے سارے موسم تمام ہوئے۔"

"لو آج سے جان من ہم تمہارے ہوئے۔"

"سب رنجشیں سب دکھ تمام ہوئے۔"

"لو آج سے جان من ہم تمہارے ہوئے۔"

"نکاح کی ڈور سے باندھ کر۔"

"ایک نئے رشتے کی شروعات کریں۔"

"تپتے صحرا کی دھوپ سے بچ کر۔"

"ٹھنڈی چھاؤں میں اپنا بسیرا کریں۔"

"لو آج سے جان من ہم تمہارے ہوئے۔"

"تم ملکہ ہو ہماری سلطنت کی۔"

"لو آج سے ۔۔۔۔ نہیں ابھی سے ۔"

"اس بادشاہ کے سارے اختیارات تمام ہوئے۔"

"لو آج سے جان من ہم تمہارے ہوئے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(از قلم علینہ)

 اگلا دن فضا میں خوشبو رچا کر طلوع ہوا تھا۔ہر طرف بہار  جیسا سماں تھا۔سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ 

مہمان آنا شروع ہو چکے تھے۔ماہ نور ان دونوں کے ساتھ روم میں تھی۔بیوٹیشن ماہ نور کو تیار کر رہی تھی۔نازلی اور آبی بھی اپنی تیاریوں میں مصروف تھیں۔آبی نے لائٹ پنک لہنگا شرٹ پہنا تھا۔بال کھلے اور میچنگ جیولری میں پیاری لگ رہی تھی۔جبکہ نازلی نے اسکائے بلیو فراک پہنی تھی جس پر موتیوں سے نفیس سا کام ہوا تھا۔

بالوں کا میسی بن ، کانوں میں جھمکے ، ہاتھوں میں چوڑیاں ۔۔۔ دوپٹہ ایک طرف کندھے پر ڈالا تھا۔وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔

رات کو جو بھی ہوا تھا اسکی وجہ سے نازلی بہت خاموش سی تھی۔اسے سب کا سامنا کرتے شرمندگی سی محسوس ہورہی تھی۔ماہ نور اور آبی نے اس سے اس متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔اسے لگا تھا شاید ہاشم انہیں بتا دے تو وہ دونوں کھل کر اس سے بات کریں پر ایسا نہیں ہوا تھا۔اس بات سے نازلی کے دل کو ذرا حوصلہ ملا تھا اور وہ بارات تک کسی طرح وقت گزارنا چاہتی تھی۔بارات کے بعد اسنے جلد ہی یہاں سے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔اسنے سر اٹھا کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ماہ نور کو دیکھا۔ بیوٹیشن اسے تیار کر چکی تھی۔اب اسکا دوپٹہ سیٹ کیا جا رہا تھا۔

ریڈ اور گولڈن کنٹراسٹ کے لہنگا شرٹ میں ، گولڈ جیولری ، نتھ اور ماتھا پٹی ، بالوں کو پیچھے کر کے جوڑا بنایا گیا تھا۔دوپٹہ سر پر سیٹ تھا۔

آنکھوں کا میک اپ ہلکا تھا اور لبوں پر لال لپ اسٹک۔۔۔۔ یہ سب چیزیں ماہ نور کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں۔وہ جیسے آسمان سے اتری ہوئی حور لگ رہی تھی۔اسکے چہرے پر انوکھی سی چمک تھی۔نظریں اسکے چہرے پر تھم سی جاتی تھیں۔

کچھ دیر بعد بیوٹیشن ،آبی کے ساتھ کمرے سے چلی گئی تو 

نازلی چلتی ہوئی ماہ نور تک آئی۔کرسی کے پیچھے کھڑی ہو کر اسنے سامنے شیشے میں ماہ نور کو دیکھا۔ 

"ماشاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"کندھے سے اسکا دوپٹہ ٹھیک کر کے بولی۔ 

ماہ نور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر اسکی طرف مڑ کر اسکا ہاتھ تھاما۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے نازلی۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔روشن آنکھوں میں خوشی کے ساتھ بہت سے خدشات بھی تھے۔ 

"سب کچھ ٹھیک ہوگا نور ۔۔۔ تم زیادہ مت سوچو۔۔۔"نازلی نے گرم جوشی سے اسکا ہاتھ دبایا۔

ماہ نور نے سر اثبات میں ہلا دیا۔ 

نازلی اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ تک لائی۔دونوں وہاں بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔کچھ دیر میں نکاح کی رسم ادا ہونے والی تھی۔جب ام جان نے آ کر بتایا تو ماہ نور کے ہاتھ پیر پھول گئے۔اسنے نازلی کو اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ماہ نور کو دوپٹہ اوڑھا کر گھونگھٹ نکالا اور نازلی نے بھی دوپٹہ سر پر لیا۔ 

کچھ دیر بعد خان بابا ، ہاشم اور داور ۔۔۔۔ نکاح خواں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔

نکاح کی رسم ادا کی جانے لگی۔ہاشم نکاح نامہ تھامے بیڈ کی طرف بڑھا۔پھر ماہ نور کے سامنے نکاح نامہ رکھ کر پین اسے تھمایا۔ماہ نور نے کانپتے ہاتھ کو مضبوط کر کے پین تھاما اور جہاں جہاں ہاشم کہہ رہا تھا وہاں سائن کر رہی تھی۔نظر شہریار کے سائن پر پڑی تو دل نے رفتار تیز کر لی۔آج سے وہ دونوں ایک دوسرے کے ہوگئے تھے۔کتنا پیارا احساس تھا ناں یہ کہ ایک مضبوط شخص آج سے صرف اور صرف اسکا ہے۔ 

ماہ نور کو نکاح نامے پر سائن کرتے دیکھ کر نازلی کو اپنا وقت یاد آیا۔اسنے سختی سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔اسے اپنے چہرے پر نظروں کی تپش محسوس ہورہی تھی پر اسنے سر اٹھا کر سامنے کھڑے اس شخص کو نہ دیکھا۔

نور سائن کر چکی تو ہاشم اسکا سر تھپک کر نکاح نامہ لے کر پلٹا۔خان بابا نے آگے بڑھ کر بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ماہ نور کی آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی۔آج سے وہ پرائی ہوگئی تھی۔بھلے ہی وہ لوگ ایک ہی گھر میں رہنے والے تھے پر اب ماں باپ کی جگہ اسکے تمام اختیارات کسی اور کے پاس ہونگے۔ اسکے والدین جنہوں نے اسے اتنا پیار دیا اسکے نخرے اٹھائے آج وہ انکے لیے پرائی ہوگئی تھی۔یہی دنیا کا دستور تھا ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا تھا اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ 

وہ لوگ کمرے سے چلے گئے تو نازلی نے نور کا گھونگھٹ اوپر کیا۔

اسکے گالوں پر آنسوؤں کے نشان تھے۔نازلی نے نرمی سے اسکے آنسو صاف کیے۔

"نئی زندگی مبارک ہو میری جان۔"اسے پیار سے گلے لگا کر بولی۔ 

ماہ نور کی آنکھوں سے خاموش آنسو بہنے لگے۔جانے یہ نئی زندگی کیا کچھ لے کر آنے والی تھی۔دل و دماغ میں جہاں سو باتیں چل رہی تھیں وہیں اس شخص کو پا لینے کی خوشی بھی  پورے وجود میں نشہ بن کر دوڑ رہی تھی۔آخر کار وہ اکڑو ، کھڑوس ، خود پسند شخص اسکا ہو گیا تھا۔اللہ نے آج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں ایک دوسرے کے نام لکھ دیا تھا۔ 

شام کے قریب بارات کا شور اٹھا۔نیچے والے پورشن سے ماہ نور کو اوپر لے کر جانا تھا۔ 

آبی تو لڑکے والوں کی طرف سے تھی اسلیے اوپر کھڑی لڑکیوں کے ساتھ ہاتھ میں پھولوں کی ٹوکری تھامے ماہ نور کا انتظار کر رہی تھی۔ 

نازلی ، ماہ نور کو تھام کر کمرے سے باہر نکلی۔ام جان نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگایا تو انکی آنکھیں بھیگنے لگیں۔تبھی ہاشم انکی طرف بڑھا تھا۔

"ام جان روئیں نہیں بس مانو کی اچھی زندگی کی دعا کریں۔"وہ محبت سے بولا تو ام جان ماہ نور سے الگ ہوئیں پھر اسکی پیشانی چومی۔"میری دعائیں ہمیشہ میری بیٹی کے ساتھ ہیں۔"انکے لہجے میں بے پناہ محبت تھی۔ 

ام جان سے مل کر وہ آگے بڑھے۔ 

ماہ نور کی ایک طرف نازلی اور دوسری طرف ہاشم تھا ۔۔۔۔

ام جان باقی سب کے ساتھ ایک طرف ہو کر کھڑی ہوتی انہیں دیکھنے لگیں۔آنکھوں میں نمی اور لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ تھی۔ 

داور ہاتھ میں کیمرے تھامے انکے ساتھ چلتا تصویریں لے رہا تھا۔

سیڑھیوں کے قریب رک کر ہاشم نے نور کا سر سینے سے لگایا۔اسکی اپنی آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھیں۔اسکی پیاری سی گڑیا آج اس سے جدا ہو رہی تھی۔وہ کب اتنی بڑی ہوگئی تھی ہاشم کو پتہ ہی نہ چلا تھا۔وہ تو اسے ہمیشہ بچوں کی طرح ٹریٹ کرتا آیا تھا۔ 

ماہ نور بھی بھائی کے سینے پر سر رکھ کر رونے لگی تھی۔بھائی بہن کی محبت کو دیکھ کر وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چمک اٹھے تھے۔ 

نازلی نے اتنے وقت میں پہلی بار سر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا۔جو آہستہ آواز میں ماہ نور کو خاموش کرواتا اسکا سر تھپک رہا تھا۔ اس وقت نازلی کو وہ بہت پیارا لگا تھا۔بہت کیئرنگ ، بہت محبت کرنے والا شخص ۔۔۔۔

اپنے لیے شاید وہ اس شخص کی محبت کو اتنا محسوس نہیں کر پائی تھی۔۔۔جانے کیوں؟۔۔ ورنہ وہ شخص محبت تو اس سے بھی انتہا کی کرتا تھا۔بس وہ ایک بار دل کو اسکی محبت کے ساتھ بہنے دیتی پھر دیکھتی کہ محبت کا نشہ کیا ہوتا ہے۔ 

اس وقت نازلی کو وہ ایک بہت اچھا بھائی لگ رہا تھا۔جو پیار سے بہت نرمی سے اپنی بہن کو خاموش کروا رہا تھا۔ 

نازلی کی آنکھیں اسکے چہرے پر تھیں جب اسنے نازلی کی طرف دیکھا۔ 

"تم مانو کو اوپر لے جاؤ۔"اسکے اچانک کہنے پر نازلی نے ہڑبڑا کر نظریں پھیریں پھر سر اثبات میں سر ہلایا۔اتنے لوگوں کے سامنے یوں پہلی بار اسکا نازلی سے بات کرنا نازلی کا دل بند کرنے لگا۔اسے ڈر لگنے لگا کہ سب انہیں دیکھ رہے ہونگے اور جانے کیا سمجھیں گے۔۔۔۔۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔وہاں کسی نے اس بات کو نوٹ تک نہیں کیا تھا سوائے داور کے جو نازلی کو غور سے دیکھنے میں مصروف تھا۔جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔

ہاشم نے ماہ نور کا ہاتھ نازلی کے ہاتھ میں دیا پھر پلٹ کر وہاں سے چلا گیا۔ 

نازلی ، نور کو لیے آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔وہ جیسے جیسے اوپر جا رہی تھیں۔آبی اور باقی لڑکیاں ہنستی ہوئیں ان پر پھولوں کی بارش کر رہی تھیں۔ 

اوپر پہنچ کر آبی نے ماہ نور کو گلے لگایا۔ 

"ویلکم بھابی صاحبہ۔"اسنے ماہ نور کا گال چوما۔ 

"شکریہ نند صاحبہ۔"سب لڑکیاں سمجھ رہی تھیں کہ ماہ نور صاحبہ مسکرا کر سر جھکا لے گی پر اسکے اس انداز پر سب کھلکھلا اٹھی تھیں۔ 

آبی اور نازلی مسکرا کر نور کو تھام کر کمرے کی طرف بڑھنے لگیں۔ 

بائیں طرف کا آخری کمرہ شہریار کا تھا۔آبی نے کمرے کا دروازہ کھولا تو گلاب کے پھولوں کی مہک نے انکا ویلکم کیا۔آبی آگے بڑھی جبکہ وہ دونوں دہلیز پر ہی رک گئیں۔

"آجاؤ ۔۔۔ آج سے یہ کمرہ تمہارا ہے مادام۔"آبی مسکرا کر ماہ نور کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لائی۔

ماہ نور کے گال گلابی ہونے لگے۔ 

"دیکھو نازلی ہماری پٹاخہ کی بولتی بند ہوگئی ہے۔"آبی نے شرارت سے کہا۔ 

"شہریار بھائی کے سامنے بولے گی ناں۔"نازلی نے بھی جواباً شرارت سے جواب دیا تو ماہ نور مسکراہٹ چھپانے کے لیے چہرہ جھکا گئی۔ 

"کمرہ بہت پیارا ہے۔"نازلی نے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔ 

بڑا سا روم تھا۔درمیان میں بیڈ تھا جسکے گرد گلاب اور موتیے کی لڑیاں لگائی گئی تھیں۔سائیڈ ٹیبلز پر بھی گلاب کی پتیاں بکھری تھیں۔

بیڈ کی دائیں طرف کھڑکی تھی جسکے آگے بھاری پردے گرے تھے۔وہیں ایک طرف صوفہ سیٹ اور میز رکھا تھا۔

بائیں طرف ڈریسنگ ٹیبل رکھا تھا جسکے آگے اب شہریار کی چیزوں کے ساتھ ماہ نور کی چیزیں بھی سیٹ تھیں۔تھوڑا آگے الماری تھی اور اسکے ساتھ واش روم کا دروازہ۔۔۔۔

"اتنے پیارے لوگوں کا کمرہ بھی پیارا ہوگا ناں۔"آبی مزے سے کہتی ماہ نور کو بیڈ پر بٹھانے لگی۔ 

نازلی نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔وہ دونوں لڑکیاں کمال تھیں۔انکی محبت کھٹی میٹھی سی تھی۔پہلے کزنز اور دوست تھیں اور آج یہ تیسرا رشتہ بھی جڑ گیا تھا۔انکو دیکھ کر وہ بے ساختہ بول پڑی۔ 

"اللہ کرے تم دونوں کی محبت یونہی برقرار رہے۔ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہو۔"اسکی بات پر دونوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"یہاں آؤ۔"نور نے اپنا مہندی بھرا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔

نازلی آہستہ سے چلتی بیڈ کی طرف آئی پھر اپنا ہاتھ ماہ نور کے ہاتھ پر رکھا۔ 

"ہم دونوں نہیں ۔۔۔ ہم تینوں۔"اسنے دوسرے ہاتھ میں آبی کا ہاتھ لیا پھر محبت سے انکے ہاتھ قریب کیے۔ 

"ہم تینوں ہمیشہ ہاتھ رہیں گیں۔"ماہ نور کا محبت بھرے انداز پر نازلی مسکرانے لگی تھی۔ 

"انشاء اللہ۔۔"آبی نے مسکرا کر کہا۔"چلو تم اس دلہن صاحبہ کے پاس بیٹھو میں تم لوگوں کے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوں۔صبح سے ایسے ہی بیٹھی ہو۔کہیں گر ور نہ جانا۔۔۔"آبی تیزی سے کہتی دروازے کی طرف بڑھی۔ 

"میں کچھ دیر میں واپس جا رہی ہوں آبی ۔۔۔ میرے لیے کچھ نہ لانا۔"نازلی نے عجلت سے کہا۔ 

"تم آج یہیں رک جاؤ۔"آبی دروازے سے پلٹ کر بولی 

"نہیں ۔۔۔اب مجھے جانا ہے۔"نازلی نے ہاتھ مسل کر کہا۔نور نے اسکے پریشان چہرے کو دیکھا۔وہ اسکی حالت سمجھ رہی تھی۔ہاشم نے اسے نہیں بتایا تھا کہ اسکی نازلی کے ساتھ کیا بات ہوئی پر نور ، نازلی کی جھجھک دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ وہ جان گئی ہے کہ وہ اور آبی اسکے اور ہاشم کے رشتے سے واقف ہیں۔

نور نے اس سے اس متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔وہ بات کر کے نازلی کو اٙن کمفرٹیبل فیل نہیں کروانا چاہتی تھی اسلیے اس بات کو کسی صحیح وقت کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ 

"اچھا ٹھیک ہے چلی جانا ۔۔۔ پہلے کچھ کھا تو لو۔"نور نے نرمی سے کہہ کر اسے اپنے سامنے بٹھایا۔نازلی نے سر ہلایا تو آبی مسکرا کر کمرے سے باہر نکلی۔ 

"اوہ مجھے ڈرائیور کو کال کر کے آنے کا کہنا ہے۔۔۔ میں کال کر کے ابھی آئی۔"وہ سر پر ہاتھ مار کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"پر وہ ۔۔۔"نور کہتے ہوئے ایک دم خاموش ہوئی۔وہ کہنے والی تھی کہ ہاشم کے ساتھ چلی جانا پر یہاں باقی سب کے لیے وہ لوگ انجان تھے پھر ایک ساتھ کیسے جاتے۔ 

"اچھا جاؤ کر لو کال۔"اسکے دیکھنے پر نور نے بات بدلی۔نازلی سر ہلا کر کمرے سے باہر نکلی۔ 

وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی جب کوئی اچانک اسکے سامنے آیا۔ 

"آپ کو میں نے کہیں دیکھا ہے۔"داور جھٹ سے بولا 

نازلی نے رک کر سر اٹھایا۔کون تھا یہ لڑکا ؟ وہ اسے نہیں جانتی تھی۔

"جی۔"نازلی نے پریشانی سے اسے دیکھا۔

"حسین لڑکی ۔۔۔ کون سی دنیا سے آئی ہیں آپ؟"وہ مسکرا کر پوچھنے لگا۔ 

"مجھے جانا ہے۔"نازلی جلدی سے کہتی سائیڈ سے ہو کر نکلنے لگی جب وہ بولا 

"یاد آگیا ۔۔۔۔"لہجے میں خوشی تھی۔ 

"کیا ؟"نازلی نے حیرت سے رک کر اسے دیکھا۔ 

"آپ وہ ڈاکٹر ہیں ناں جو اصل میں ڈاکٹر نہیں ہیں۔"وہ چٹکی بجا کر ہنسا۔دماغ تو اسکا بہت تیز چلتا تھا۔  

اسکی بات پر نازلی کی آنکھیں پھیلی۔

"آ ۔۔۔ آپ ۔۔۔"نازلی کی آواز اٹکی۔

"میں داور ۔۔۔ یاد کریں میں اپنے لالہ کو لے کر آیا تھا۔"وہ اسے یاد دلانا چاہ رہا تھا۔اور سب یاد کر کے نازلی کی پیشانی پر پسینہ چمک اٹھا۔اسے ڈر تھا اب یہ لڑکا بھی انکے نکاح کی بات نہ جان جائے۔

"اچھا ۔۔۔"وہ مدھم آواز میں کہتی جانے لگی۔ 

"مجھے یقین نہیں آرہا کہ آپ یہاں آگئیں۔"وہ خوشی سے کہہ رہا تھا۔اس سے پہلے کہ نازلی کچھ کہتی ہاشم سیڑھیاں چڑھ کر ان تک آیا۔

"کیا ہو رہا ہے؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"لالہ یہ محترمہ وہ کلینک والی ہیں۔"داور نے مزے سے بتایا۔

"اچھا۔۔۔"ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر حیرت بھرا انداز اپنایا۔اسکی ایکٹنگ پر نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"دیکھیں کتنی معصوم اور پیاری سی ہیں۔۔۔۔۔"داور نازلی کو دیکھ کر بولا۔اسکی بات پر نازلی کی پیشانی پر شکنیں پڑی۔ 

"داور ۔۔۔"ہاشم نے وارن انداز میں کہہ کر اسے گھورا۔ 

"ارے رے آپ لوگ مجھے گھوریں مت ۔۔۔میری تو بہن جیسی ہیں۔"وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔

"چلو جاؤ اب ۔۔۔۔ انہیں پریشان نہ کرو۔"ہاشم نے داور کے کندھے کے گرد بازو ڈالا پھر اسے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔

"آپ ان حسین لڑکی کی پریشانی سنیں ۔۔۔آپ سے میں بعد میں بات کرونگا۔"داور شرارت سے کہتا اسکا بازو ہٹا کر جلدی سے سیڑھیاں اتر گیا۔اسکی بات پر ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل  گئی۔وہ پلٹ کر حیران کھڑی نازلی کی طرف آیا۔ 

"اسے بھی معلوم ہے؟"نازلی نے جھٹ سے پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔۔ تکے لگا رہا ہے۔"ہاشم نے مسکرا کر کہا۔نازلی نے لمبی سانس کھینچی۔

"تمہیں کیا پریشانی ہے۔"ہاشم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"گھر جانا ہے ۔۔۔ ڈرائیور کو کال کر کے یہاں آنے کے لیے کہنا تھا۔"وہ ہاتھ مسل کر بولی۔ 

"تم میرے ساتھ جاؤ گی۔"ہاشم نے سینے پر ہاتھ باندھے۔

"آپ ہوش میں تو ہیں ۔۔۔ یہاں سب کو کیا کہیں گے؟"نازلی نے تپ کر اسے دیکھا۔

"کہہ دونگا کہ بیوی اپنے شوہر کے ساتھ ہی جاتی ہے اسلیے تمہیں لے جا رہا ہوں۔"انداز پر سکون تھا۔ 

"آپکا دماغ خراب ہے ۔۔۔ میں ڈرائیور کے ساتھ ہی جاؤں گی۔"

وہ ضدی لہجے میں بولی 

"میرا دماغ خراب ہو نہ ہو پر تمہارا ضرور ہے ۔۔۔ رات ہونے کو ہے اور میں اس وقت تمہیں ڈرائیور کے ساتھ مر کر بھی اکیلا نہ بھیجوں۔"اسکا دماغ بھی گھوما تھا۔اسلیے غصے سے بولا۔ اسکی بات پر نازلی سر جھکا گئی۔کہہ تو ٹھیک رہا تھا۔سنسان راستہ تھا اور اس پر اکیلے ڈرائیور کے ساتھ جانا ۔۔۔ نازلی نے سوچ کر جھرجھری لی۔

"لگتا ہے بات دماغ میں چلی گئی ہے۔"اسکے انداز کو دیکھ کر ہاشم نے ابرو اٹھا کر کہا 

نازلی نے سر اٹھا کر اسے گھورا۔

"کیا کہیں گے سب سے؟"

"یہی کہ میں بھی شہر کی طرف جا رہا ہوں۔تمہیں بھی چھوڑ دونگا۔"وہ شانے اچکا کر بولا 

"اور خان بابا مجھے آپ کے ساتھ بھیج دینگے؟"نازلی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

"ام جان بھیج دینگیں۔۔۔۔خان بابا پھر کچھ نہیں کہیں گے۔"ہاشم نے مسکرا کر آنکھ ماری۔ 

"ام جان کو آپ نے بتا دیا؟"نازلی کی آنکھیں پھیلی۔جانے کیوں اسے ہر کسی پر شک ہورہا تھا کہ ہاشم نے ضرور انہیں بتا دیا ہوگا۔ 

"اوہو ۔۔ نہیں ۔۔۔"ہاشم جھنجھلایا پھر بولا۔

"پر انکا ارادہ لگتا ہے کہ انہیں تم میرے لیے پسند آگئی ہو۔صبح ہی مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ نازلی بہت اچھی ہے ، تمہیں کیسی لگتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔"ہاشم ہنسی دبا کر اسے بتا رہا تھا۔اسکی بات پر نازلی کا چہرہ دہکنے لگا۔وہ سر جھکا گئی۔ 

"اب میں انہیں کیا بتاتا کہ ام جان آپکے بیٹے کو نازلی بہت اچھی لگتی ہے ۔۔۔۔ اتنی کہ حد نہیں ۔۔۔۔"اسکی طرف ذرا سا جھک کر اسنے سرگوشی کی۔

نازلی نے سر اٹھا کر اسے نہ دیکھا۔دوپٹہ زور سے مٹھی میں بھینچ کر پیچھے ہوئی پھر پلٹ کر جانے لگی۔ 

"پندرہ منٹ تک نیچے آجانا۔۔۔ تب تک میں ام جان سے بات کرتا ہوں۔"ہاشم کی آواز نے اسکا پیچھا کیا۔ 

وہ کمرے میں چلی گئی تو ہاشم بالوں میں ہاتھ پھیر کر نیچے آیا۔ 

پندرہ منٹ بعد وہ لوگ پورچ میں کھڑے تھے۔نازلی ،نور اور آبی سے مل کر وہاں آگئی تھی۔

خان بابا ، ام جان کے کہنے پر مشکل سے مانے تھے۔انکا کہنا تھا کہ وہ خود انکے ساتھ جائینگے۔پر ام جان نے انہیں سمجھایا کہ انکی بیٹی کی شادی ہوئی ہے کوئی نہ کوئی ان سے ملنے کے لیے انہیں مبارک دینے کے لیے آ رہا ہے وہ گھر سے کیسے جا سکتے ہیں۔تب کہیں جا کر خان بابا مانے تھے۔ 

"ہم سوچ رہے ہیں کہ داور کو انکے ساتھ بھیج دیتے ہیں۔"کافی دیر سوچنے کے بعد خان بابا بولے تھے۔ 

انکی بات پر ہاشم نے لمبی سانس کھینچی جبکہ نازلی نے  پریشانی سے انہیں دیکھا۔داور کو ساتھ لے کر جانے کا مطلب تھا اسے سب سچ بتا دینا اور ایسا وہ نہیں چاہتی تھی۔

خان بابا کسی بھی صورت اپنی دوست کو اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلے بھیجنے پر رضا مند نہ تھے۔ 

"داور باہر گیا ہے جانے کب آئے ۔۔۔آپ بچوں کو دیر کروا رہے ہیں۔دیکھیں رات کے سائے پھیل گئے ہیں۔جانے دیں انہیں۔۔"ام جان نے پریشانی سے کہا۔ 

"دوست میں چلی جاؤں گی۔آپ پریشان نہ ہوں۔"نازلی نے نرمی سے انکے ہاتھ تھام کر کہا۔ 

"اچھا ۔۔۔"خان بابا نے کچھ پل سوچا پھر ہاشم پر ایک نظر ڈال کر بولے۔"گھر پہنچ کر سب سے پہلے آپ ہمیں کال کر کے بتائیں گیں کہ آپ خیر سے پہنچ گئیں۔"

"جی ضرور ۔۔۔"نازلی انکے مان جانے پر مسکرائی تھی۔

"اففف میرے اللہ ۔۔۔ اتنی بے اعتباری ۔۔۔"انکی بات پر ہاشم نے بڑبڑا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ 

پھر اللہ اللہ کر کے خان بابا نے اجازت دی تو نازلی ان سے مل کر گاڑی میں بیٹھی جبکہ ہاشم نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ 

"اپنا خیال رکھیے گا۔"خان بابا کھڑکی میں جھک کر نازلی سے کہنے لگے۔انکی بات پر ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ دوڑنے لگی کہ انہیں نازلی کا کتنا خیال ہے۔ 

"جی ۔۔۔ "نازلی نے سر ہلایا۔پھر ہاشم نے کار آگے بڑھا کر گیٹ سے باہر نکالی۔ 

"سسر اور بہو کی اتنی محبت افف ۔۔۔۔ بیٹے کو تو پوچھتے ہی نہیں ہیں۔"کار گاؤں کی کچی سڑک پر چل رہی تھی جب ہاشم نے افسوس سے کہا۔ 

"وہ دوست ہیں میرے ۔۔۔"نازلی کو اسکا سسر بہو کہنا اچھا نہ لگا۔ 

"اور وہ میرے والد ہیں اور تم میری بیوی ہو تو اس طرح سے تم انکی بہو ہوئی مسز۔"ہاشم نے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ 

"اونہہ ۔۔۔"نازلی اتنا کہہ کر منہ پھیر گئی۔

کار چل رہی تھی۔کار کی ہیڈ لائٹس اور چاند کی مدھم روشنی کے علاوہ وہاں اور کوئی روشنی نہ تھی۔ 

نازلی کو اتنے غور سے باہر دیکھتے پا کر ہاشم بولا 

"تمہیں معلوم ہے رات کے اندھیرے میں یہاں گاؤں میں چڑیلیں رقص کرتی ہیں۔"اسکا لہجہ پراسرار تھا۔ 

نازلی نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔ 

"آپ مجھے ڈرانا چاہتے ہیں؟"اسنے ناک چڑھا کر پوچھا۔ 

"مجھے کیا ضرورت ہے تمہیں ڈرانےکی۔۔۔۔ میں تو بس تمہیں بتا رہا تھا۔"وہ انجان بن گیا۔ 

نازلی نے گردن پھیر کر باہر دیکھا۔سڑک کی دونوں طرف فصلیں تھیں۔وہ پلکیں جھپک کر باہر دیکھ رہی تھی۔ ہاشم کی بات کا اسے یقین نہ تھا پر پھر بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی۔ 

"تم نے دیکھا ہے کبھی چڑیلوں کا رقص ۔۔۔"وہ پھر ہنسی دبا کر پوچھنے لگا۔اسکی بات پر نازلی کو خوب غصہ آیا۔  

"نہیں ۔۔۔ پر میں نے ایک بھوت کو چڑیلوں کے رقص کی باتیں  کرتے ضرور دیکھا ہے۔"چبا کر کہتے اشارہ اسکی طرف کیا گیا۔ 

اسکی بات پر ہاشم کا قہقہہ گاڑی میں گونجا تھا۔ 

نازلی منہ بنا کر گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔

کچھ پل گزرے تھے۔کار میں مکمل سکوت چھایا تھا۔نازلی کی نظریں باہر اندھیرے میں گھور رہی تھیں۔ 

تبھی کچھ دور اسے مدھم سی روشنی نظر آئی۔وہ غور سے اس جگہ کو دیکھنے لگی۔جیسے ہی گاڑی آگے بڑھی ایک لمبے بالوں والی عورت اچانک اس طرف پلٹی۔اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔بال چہرے کے گرد جھول رہے تھے۔

اسے دیکھ کر نازلی نے ایک دم چیخ ماری۔پھر ہاشم کی طرف پلٹ کر اسکا بازو زور سے جھنجھوڑا۔

"وہ دیکھیں ۔۔۔وہ۔۔۔ چڑیل۔۔۔"اسکے حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ہاشم نے کار نہ روکی پر اسپیڈ بالکل سلو کر دی۔پھر حیرت سے بیک وئیو مرر میں پیچھے کا منظر دیکھا۔اگلے پل اس عورت کو دیکھ کر ہاشم کا ایک اور جان دار قہقہہ گاڑی میں گونجا تھا۔ 

اسکی ہنسی پر نازلی حیرت سے اسکے چہرے کو تکنے لگی۔ 

"یہ گاؤں کی عورت ہے۔۔۔ انکا دماغی مسئلہ ہے اسلیے کبھی کبھی رات کو اپنے بیٹے کے ساتھ باہر سیر کرنے آتی ہیں۔"ہاشم نے ہنسی دبا کر انکی طرف اشارہ کر کے کہا۔نازلی نے ہونق صورت کے ساتھ پیچھے پلٹ کر دیکھا۔وہاں اب اس عورت کو ایک لڑکا کندھوں سے تھام کر دوسری طرف پلٹ کر چلنے لگا۔ 

نازلی سیدھی ہو بیٹھی۔گردن بالکل نیچے جھکا دی تھی۔اسنے ہاشم سے کوئی بات نہ کی۔وہ اسے بیوقوف بنا رہا تھا۔نازلی کو اسکے مذاق پر دکھ ہوا۔ 

ہاشم نے آگے ہو کر اسکا چہرہ دیکھا۔میڈم اب آنسو بہا رہی تھی۔

"رو کیوں رہی ہو؟"اسکے سوال پوچھنے کی دیر تھی نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر اسے گھورا۔ 

"آپ کی وجہ سے ۔۔۔ پہلے حویلی میں اتنا سب ہوا ۔۔۔ آپکا گھر تھا وہ سب آپکے اپنے تھے اور آپ نے یہ بات مجھ سے چھپائی۔۔۔۔اتنی پریشان تھی میں کہ کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا اور یہاں اب اوپر سے آپ مجھے ڈرا بھی رہے ہیں ۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔۔۔۔ پہلے سے ہی میں اتنی پریشان ہوں۔۔۔ پر آپکو کیا۔۔۔"وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی

ہاشم نے اسے دیکھا پھر ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ وہیل سنبھالا اور دوسرا ہاتھ بڑھا کر نازلی کو اپنے کندھے کے ساتھ لگایا۔

"آئی ایم سوری۔۔۔"اسکی پیشانی پر لب رکھ کے مدھم آواز میں بولا۔ 

نازلی اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے ہوئی پھر سنجیدگی سے سامنے دیکھنے لگی۔ہاشم نے خاموشی سے اسکے چہرے کو دیکھا۔ 

دوپٹہ سر سے اتر چکا تھا۔بالوں کی لٹیں چہرے کو چھو رہی تھیں۔اس لباس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی بلکہ وہ تو اسے ہر لباس میں اچھی لگتی تھی۔اسکی ہر ادا اسکے پاگل  دل پر وار کرتی تھی۔

نازلی نے روتے ہوئے ناک کھینچی۔پھر ہاتھ بڑھا کر آنکھیں زور سے مسلنے لگی۔ 

ہاشم نے جلدی سے اسکا ہاتھ تھام کر روکا۔نازلی نے پلٹ کر غصے سے اسکی طرف دیکھا۔ 

"کیا کر رہی ہو۔۔۔۔ اتنی پیاری آنکھیں ہیں کیوں خراب کرنا چاہتی ہو؟ پہلے رو کر حشر کیا اب مسل کر اور کرنا چاہتی ہو۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں گلابی ڈورے تیر رہے تھے۔ 

"میری آنکھیں ہیں آپکو کیا مسئلہ ہے۔"وہ چبا کر بولی۔ 

"آنکھیں تمہاری ہیں پر ان پر حق میرا ہے۔"سنجیدگی سے سامنے دیکھ کر کہتا وہ اسکا ہاتھ چھوڑ گیا۔نازلی نے گھور کر اسے دیکھا پھر گردن پھیر گئی۔ 

باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔گھر پہنچ کر نازلی نے خان بابا کو فون کر کے بتایا پھر کمرے میں بند ہوگئی۔

دونوں تھکے ہوئے تھے آتے ہی سو گئے تھے۔ 

"ادا ہے ، خواب ہے ، تسکین ہے ، تماشہ ہے۔۔۔۔"

"میری آنکھ میں ایک شخص بے تحاشا ہے۔۔۔۔"

رات کے بارہ بج رہے تھے۔نور کب سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھک گئی تھی۔گیارہ بجے کے قریب آبی اسکے پاس سے اٹھ کر گئی تھی۔تب سے وہ بیٹھی شہریار کا انتظار کر رہی تھی۔ 

تھک کر اسنے سر بیڈ کی پشت سے ٹیک کر آنکھیں موند لیں۔دل میں جو ایک خوف تھا وہ آہستہ آہستہ پھیلتا جا رہا تھا۔وہ اسے اپنے نام تو کر چکا تھا پر اسکا دل شاید آج بھی اسی مقام پر تھا ۔۔۔اسکی محبت سے انکاری ۔۔۔ اپنی انا کے خول میں بند ۔۔۔۔

شہریار آہستہ سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی طرف بڑھ رہا تھا۔وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس تھا۔کوٹ وہ نیچے صوفے پر پھینک آیا تھا۔قدم آگے بڑھاتا وہ ساتھ کف فولڈ کر رہا تھا۔

گھر میں سب تھک کر سو چکے تھے۔وہ جان بوجھ کر دیر تک دوستوں کے بیچ رہا تھا۔

پھر آ کر لان میں بیٹھ گیا۔شادی کے ان دو دنوں میں اسنے اپنے آپ کو نارمل رکھا تھا۔تمام کام وہ سکون سے کر رہا تھا۔کل مہندی اور آج بارات ۔۔۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے سب کے بیچ رہا۔وہ کسی کو کوئی بات کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ 

اب تھک کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا تو نور کا خیال آتے ہی اسنے لب بھینچ لیے۔۔۔ اسکے ساتھ ہی ہاشم کے کہے الفاظ یاد آئے کہ ماضی کو بھول جانا اور میری بہن کو خوش رکھنا۔۔۔۔ پر کیسے ؟ ۔۔۔ شہریار کا دل جلا کر وہ چاہتا تھا کہ اسکی بہن کے دل میں پھول کھل اٹھیں۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا تھا ناں۔اب اگر وہ جلے گا تو اسکی جیون ساتھی ہونے کے ناطے ماہ نور کو بھی جلنا ہوگا۔ 

ہاشم چاہتا تھا وہ ماضی کو بھول جائے ۔۔۔ پر کیا بھول جانا اتنا آسان ہوتا ہے؟ اسکا ایک ایک لفظ شہریار کے دل میں آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ تھا۔جب بھی وہ الفاظ یاد کرتا تو اسکا دل جلنے لگتا تھا۔اسکی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ 

بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسنے کمرے کا دروازہ کھولا۔گلاب اور موتیے کے پھولوں کی خوشبو نے اسکی سانسوں کو مہکایا تھا۔

اسنے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کیا۔

پلٹ کر بیڈ کی طرف دیکھا تو پھولوں میں گھری وہ بھی کوئی گلاب کا پھول لگ رہی تھی۔آنکھیں بند تھیں۔چہرے پر بلا کا سکون تھا ۔۔۔ شہریار کتنے پل وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔دل پاگل ہونے لگا تھا پر پھر ایک دم اس لڑکی کے چہرے کا سکون اسکی آنکھوں میں چبھنے لگا تھا۔اسکا بے چین دل اس لڑکی کے چہرے سے یہ سکون ، یہ بے فکری چھین لینا چاہتا تھا۔ 

وہ آگے بڑھا اور جان بوجھ کے الماری کا پٹ کھول کر زور سے بند کیا۔مقصد ماہ نور کو جگانا تھا۔

جو وہ چاہتا تھا ویسا ہی ہوا تھا۔اگلے پل ماہ نور ہڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی تھی۔پھر نیند سے گلابی ہوتی آنکھیں اٹھا کر  شہریار کو دیکھنے لگی۔ 

جو وہاں سے ہٹتا صوفے پر بیٹھ کر اپنے شوز اتارنے لگا۔شوز اتار چکا تو اٹھ کر ایک طرف رکھے چپل پہنتا واش روم کی طرف بڑھا۔ماہ نور نے خاموشی سے واش روم کے بند دروازے کو دیکھا۔شہریار نے نہ سلام کیا نہ ایک نظر مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔۔ ماہ نور کا دل آہستہ آہستہ جیسے نیچے ہی نیچے گرنے لگا تھا۔ پر اسے امید تھی کہ شاید فریش ہو کر اس سے بات کر لے۔۔۔وہ ہاتھ مسلتی اسکا انتظار کرنے لگی۔ 

واش روم کا دروازہ کھلا تو ماہ نور نے جلدی سے اس طرف دیکھا۔چہرہ خشک کرتا وہ آگے بڑھا پھر ٹاول صوفے پر پھینک کر چلتا ہوا بیڈ تک آیا۔ماہ نور کا دل تیزی سے دھڑکا جبکہ وہ مگن سا سائیڈ ٹیبل کا دراز کھول کر کچھ نکالنے لگا۔ماہ نور نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔وہ ایسے اپنے کام میں مگن تھا جیسے اسکے علاوہ کمرے میں دوسرا کوئی موجود ہی نہ ہو۔۔۔ 

اگلے پل اسکے ہاتھ میں سگریٹ پیک دیکھ کر ماہ نور کو بہت حیرت ہوئی۔اسنے آج تک شہریار کو سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا پھر اب وہ کیوں اس بری عادت میں پڑ گیا تھا۔اسے تو ہاشم لالہ کا سگریٹ پینا نہیں پسند تھا اور اب شہریار بھی ۔۔۔۔۔

شہریار واپس جا کر صوفے پر بیٹھا پھر سگریٹ سلگا کر کش لینے لگا۔ 

ماہ نور خاموشی سے اسے دیکھے جا رہی تھی پر دوسری طرف والے کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔وہ مگن سا اپنے شغل میں مصروف تھا۔ 

اسنے ایک کے بعد دوسرا سگریٹ جلایا تو ماہ نور بولنا چاہتی تھی پر پھر زبان کو تالوں میں بند کر دیا ۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ پہلے وہ بات شروع کرے پر اسکا ایسا کوئی ارادہ نہیں لگتا تھا۔

ٹھیک ہے ۔۔ اگر وہ بات نہیں کریگا تو وہ بھی اس سے نہیں بولے گی ۔۔۔ دل ہی دل میں طے کرتی وہ بیڈ سے اٹھنے لگی کہ اس بھاری لہنگے سے جان چھڑا لے۔لہنگا سمیٹ کر اسنے مہندی بھرے پاؤں زمین پر رکھے۔

اسکے اٹھنے سے کمرے میں چھن چھن کا ایک دم سریلا سا شور اٹھا تھا۔اسکی پائل ، چوڑیاں بج اٹھی تھیں۔اسنے شہریار کو دیکھا کہ شاید اسکے اٹھ جانے پر یا اسکی چوڑیوں کی کھنک اسے اسکی طرف متوجہ کرے گی پر ایسا کچھ نہ ہوا۔۔۔۔ وہاں تو شان بے نیازی کا عالم تھا۔سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی گئی کہ وہ اسکے نام سے سجی تھی اتنا سنگھار کیا تھا۔اسکا روم روم مہک رہا تھا پر جسکے لیے اسے تیار کیا گیا تھا وہ انجان بنا بیٹھا تھا جیسے اسے اسکے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔

ماہ نور کے دل سے دھواں اٹھنے لگا۔آنکھوں کے سامنے دھند چھائی تھی۔

تبھی تیسرا سگریٹ سلگا کر کش لیتا شہریار ایک دم کھانسنے لگا تھا۔اسنے کچھ دن پہلے ہی یہ بری عادت اپنائی تھی۔پر وہ ایک سگریٹ سے زیادہ نہیں پیتا تھا۔ابھی دو سگریٹ اوپر نیچے پی کر تیسرا سلگایا تو اسکی سانس بند ہونے لگی تھی۔تبھی کھانسی شروع ہوگئی تھی۔ 

"شہریار ۔۔۔"ماہ نور جسنے اس سے نہ بولنے کی ٹھان لی تھی شہریار کو کھانستے دیکھ کر اپنا دکھ اپنے آنسو بھلائے فکر مندی سے اسکی طرف بڑھی۔

"کیا ضرورت ہے آپکو یہ سگریٹ پینے کی۔"اسنے جلدی سے اسکے ہاتھ سے سگریٹ لے کر ایش ٹرے میں پھینکا۔

"شہریار آپ ٹھیک ہیں؟"وہ پریشانی سے اسکا سینہ مسلنے لگی۔شہریار کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا تھا۔ماہ نور کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔آنکھیں تیزی سے نم ہونے لگیں۔ 

"پانی ۔۔ پانی لاتی ہوں آپکے لیے۔"وہ جلدی سے سائیڈ ٹیبل کی طرف بھاگی۔

کمرہ پائل کی چھن چھن اور چوڑیوں کی کھنک سے گونج اٹھا تھا۔شہریار نے کھانسی کنٹرول کرتے آنکھوں میں چھائے دھند کے پار اس لڑکی کو اپنے لیے فکر مند ہوتے دیکھا تھا۔وہ تیزی سے پانی کا گلاس اٹھا کر واپس شہریار کی طرف آئی۔ 

"یہ لیں شہریار۔۔"ایک ہاتھ اسکے سر کے پیچھے رکھتی دوسرے ہاتھ میں تھاما گلاس اسکے لبوں سے لگایا۔شہریار نے دو گھونٹ بھر کر گلاس پیچھے کیا۔ماہ نور نے ہاتھ بڑھا کر اسکی آنکھوں کی نمی صاف کی۔

شہریار نے رک کر اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔اسکی کھانسی کم ہوئی تھی پر مکمل رکی نہ تھی۔شہریار کے انداز کو اگنور کرتی وہ پھر گلاس اسکی طرف بڑھانے لگی۔ 

"یہ لیں تھوڑا پانی اور پی لیں کھانسی ختم ہو جائے گی۔"لہجہ بلا کا نرم تھا۔  

شہریار ایک دم اٹھا اور اسکا ہاتھ زور سے جھٹکا۔گلاس چھن سے زمین پر گر کر ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا۔ 

"اپنی یہ جھوٹی ہمدردی اپنے پاس رکھو۔"وہ آہستہ آواز میں دھاڑا تھا۔ماہ نور نے افسوس سے اسے دیکھا۔ 

"ہمدردی نہیں محبت کہتے ہیں اسے۔"پہلی بار اسنے شہریار کے سامنے محبت کی بات کی تھی۔ 

"تم لوگوں کی محبت بھی خود غرض ہوتی ہے۔"وہ طنزیہ ہنس کر ایک دم کھانسا تھا۔ماہ نور نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"کیوں ایسا کر رہے ہیں شہریار ۔۔۔ کیوں خود کو تکلیف دیتے ہیں۔"ماہ نور نے اداسی سے اس شخص کو دیکھا۔جو اسکی سانسوں میں بستا تھا پر اسے اسکی محبت کی قدر نہ تھی۔ 

"میری مرضی جو کروں ۔۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔" اسکا ہاتھ جھٹک کر وہ جانے کے لیے پلٹا۔

"اگر آج بابا جان اور چھوٹی ماما زندہ ہوتے تو کیا تب بھی آپ میرے ساتھ ایسا ہی کرتے ؟ کیا تب بھی آپکو ڈر نہ ہوتا کہ کوئی آپ سے پوچھے گا کہ تم ہماری بیٹی کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟"ماہ نور اسکا بازو تھام کر نم آواز میں بولی۔شہریار اپنے والدین کے ذکر پر تھم سا گیا۔وہ جانتا تھا کہ اسکے ماما ، بابا کو ماہ نور سے بہت محبت تھی تبھی تو اتنی چھوٹی عمر میں اسے اپنے جان سے پیارے بیٹے کے لیے مانگ لیا تھا۔پر اس وقت ماہ نور کے منہ سے اپنے ماما ، بابا کا ذکر سن کر شہریار کے دماغ میں ہاشم کی باتیں گونجنے لگیں۔ 

"میرے ماما بابا کو بیچ میں مت لاؤ۔"اسنے لفظ چبا کر جیسے اسے وارن کیا تھا۔

"کیوں نہ لاؤں ۔۔۔ انہوں نے یہ رشتہ جوڑا تھا شہریار ۔۔۔ انکا ذکر تو ہوگا۔"ماہ نور اسکی بات نہ سمجھ کر رندھی آواز میں کہہ رہی تھی۔اسکی بات پر شہریار کو آگ لگ گئی۔

"ہاں تم بہن بھائی میرے والدین کا ذکر تو ضروری سمجھتے ہو۔۔۔دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔۔"اسنے غرا کر ماہ نور کے کندھے دبوچ کر اسے دھکا دیا اور پلٹ کر بیڈ کی طرف جانے لگا۔

ماہ نور پیچھے کی طرف گری تھی۔بچنے کے لیے اسنے زمین  پر ہاتھ رکھے تھے جب ٹوٹے گلاس کے ٹکڑے اسکے ہاتھوں میں چبھے تھے۔بایاں ہاتھ تو زخمی ہونے سے بچ گیا تھا پر دائیں ہاتھ میں بڑا سا کانچ کا ٹکڑا لگ گیا تھا۔ 

اسنے سسکی لے کر دائیں ہاتھ کو سیدھا کر کے دیکھا تھا۔کانچ کا ٹکڑا ہاتھ میں لگا تھا اور زخم سے تیزی سے خون نکل رہا تھا۔ 

شہریار نے اسکے سسکی پر ایک نظر پلٹ کر اسے دیکھا تو اسکا دل بند ہونے لگا۔ماہ نور کے ہاتھ سے بہتا خون تیزی سے فرش کو  لال کر رہا تھا۔ہاتھ میں مہندی لگی تھی اسلیے خون نظر نہیں آرہا تھا پر فرش کو دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ خون کس قدر تیزی سے بہہ رہا تھا۔ 

شہریار بھاگ کر اس تک آیا اور اسکے پاس زمین پر بیٹھا۔ 

"ماہ یہ ۔۔۔ "شہریار نے اسکے ہاتھ کو قریب سے دیکھا تو اسکی زبان تالوں میں بند ہو چکی تھی۔ 

جلدی سے اسکا مہندی رچا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ماہ نور کانپ رہی تھی۔اسنے سختی سے آنکھیں بھینچ رکھی تھیں۔ شہریار کے ہاتھ تھامنے پر اسنے نم آنکھیں کھول کر شہریار کے چہرے کو دیکھا۔ 

"آئی ایم سوری۔"اسنے ماہ نور کے چہرے کی طرف نہ دیکھا۔اسکی نظریں ان مہندی سے بھرے ہاتھوں پر تھیں۔

اسنے ماہ نور کے ہاتھ سے کانچ کھینچ کر نکالا پھر اپنے ہاتھ سے  مضبوطی سے اسکے ہاتھ کو دبا کر مزید خون بہنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

ماہ نور کی بہتی آنکھیں اسکے چہرے پر تھیں جو نظر اٹھا کر اسے دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔ 

"اٹھو۔۔۔"دوسرے ہاتھ سے اسے کندھے سے تھام کر اٹھایا۔ماہ نور کی نظریں اپنے ہاتھ کو تھامے اسکے مضبوط ہاتھ پر تھیں۔خون نے اسکے ہاتھ کو بھی لال کر دیا تھا۔ 

ماہ نور نے اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھا۔وہ ایک ہی وقت میں بے رحم بھی تھا اور بلا کا نرم دل بھی ۔۔۔۔ اسے تکلیف دے کر تڑپتا خود بھی تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں سے چھلکتا درد اور بے چینی ماہ نور سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ 

پر اسکا بے رحم انداز یاد کر کے اسکا دل مٹھی میں بھینچا جا رہا تھا۔ 

اسے اپنے ساتھ لیے وہ بیڈ تک آیا۔اپنے ہاتھ سے اسکا ہاتھ چھوٹنے نہیں دیا تھا۔ماہ نور کے ہاتھ سے ٹھسیں اٹھ رہی تھیں دل کا درد الگ ہلکان کر رہا تھا۔ 

شہریار نے سائیڈ دراز کھول کر جلدی سے فرسٹ ایٹ باکس نکالا روئی لے کر اپنا ہاتھ پیچھے کرتا اسکے ہاتھ سے بہتا خون صاف کرنے لگا پھر اور روئی لے کر اس پر دوا لگاتا وہ زخم کو نرمی سے صاف کر رہا تھا۔ 

دوا لگنے سے ماہ نور کا ہاتھ مزید جلنے لگا تھا۔وہ سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔ 

شہریار اسکے چہرے کو دیکھتا اب اسکے نازک ہاتھ پر بینڈیج کرنے لگا۔ 

بینڈیج کر کے وہ کتنے پل اسکا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا۔ 

"میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا۔"وہ بھاری آواز میں صفائی دے رہا تھا۔ ماہ نور نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔بس ایک پل ۔۔ اسنے ایک پل ماہ نور کی آنکھوں میں دیکھا پھر اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھنے لگا۔

واش روم کا دروازہ بند کر کے وہ کتنے پل اپنے ہاتھ کو دیکھتا رہا جس پر ماہ نور کا خون لگا تھا۔یہ خون اسکے دل کو بھی لال کر رہا تھا۔ 

اپنا ہاتھ دھوتا وہ مسلسل خود کو کوس رہا تھا۔وہ تلخی سے بات کر جاتا تھا پر یوں اس لڑکی کو تکلیف دینا ۔۔۔۔ اسنے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔جانے اس پر کیا جنون طاری ہوجاتا تھا کہ وہ ایسا کر جاتا تھا۔ 

وہ باہر آیا تو ماہ نور کو وہیں بیٹھے پایا۔وہ بائیں ہاتھ سے کسی طرح دوپٹہ اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔جسے بہت سی پنیں لگا کر سر پر سیٹ کیا تھا۔

شہریار بالوں میں ہاتھ پھیر کر اس تک آیا۔پھر بنا کچھ کہے ہاتھ بڑھا کر سیفٹی پنس نکالنے لگا۔ماہ نور نے کچھ نہ کہا بس آنسو پیتی خاموشی سے بیٹھی رہی۔کافی کوشش کے بعد دوپٹہ پنوں سے آزاد ہوا۔اسنے دوپٹہ ایک طرف رکھا جسے اٹھا کر ماہ نور نے اپنے شانوں پر ڈالا۔جبکہ شہریار اسکے بالوں میں لگی بے شمار پنس دیکھ کر لمبی سانس کھینچنے لگا۔

"بال بھی کھولنے ہیں؟"اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔ماہ نور نے سر ہلا دیا۔ظاہر سی بات تھی اب وہ اتنے بڑے جوڑے کے ساتھ سونے سے رہی۔اسکا تو پہلے سے ہی سر دکھنے لگا تھا اس جوڑے کی وجہ سے ۔۔۔ 

اللہ کا نام لے کر شہریار نے پہلے ماتھا پٹی ہٹائی پھر ہیر پنس نکالنا شروع کیں۔بے شمار پنس دیکھ کر شہریار کا دل کیا کہ بیوٹیشن کا کان پکڑ کر لائے اور پوچھے کہ یہ کیا کیا ہے تم نے ؟ اب شہریار کو کون بتاتا کہ لڑکیوں کے فیشن کوئی آسان تھوڑی ہوتے ہیں۔ 

ایک طرح سے اسے سزا ہی ملی تھی کہ اسکی وجہ سے ماہ نور کا ہاتھ زخمی ہوا اور اب وہ اسکے بالوں سے پنس نکلنے میں لگا تھا۔ 

اللہ اللہ کر کے بال کھل گئے تو اگلا کام جیولری کا تھا۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ تھا پر یہ کام کر کے اسکا دل چاہا اپنے بال نوچ لے۔ 

"جیولری بھی۔۔۔"اسنے لمبی سانس کھینچ کر پوچھا۔ماہ نور نے سر ہلا دیا۔کوئی اور وقت ہوتا تو اس سچویشن کو بہت انجوائے کرتی پر اس وقت وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسی تھی۔ 

شہریار نے ہار اتار کر ایک طرف رکھا۔پھر جھمکے اتارنے لگا۔ماہ نور نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ جھمکوں کے بعد نتھ اتارنے لگا۔اسکے چہرے کو اس قدر قریب سے دیکھ کر اسکا دل چاہا وہ اس معصوم چہرے کو چھو کر دیکھے کہ کیا واقعی وہ اسکے سامنے اسکے اتنے قریب ہے یا یہ کوئی خواب ہے۔ 

پر اگلے پل اسنے چونک کر نظریں پھیریں اور نتھ اتار کر تمام چیزیں اٹھا کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھنے لگا۔ 

فرسٹ ایٹ باکس اٹھا کر دراز میں ڈالا پھر بنا کچھ کہے ماہ نور کو اوپر کر کے اس کے اوپر بلینکٹ ڈالا۔ 

"ٹیبلٹ لے کر آتا ہوں ۔۔ وہ لے کر سو جانا۔"وہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا۔وہ چلا گیا پر ماہ نور کی نظریں اسی جگہ پر جمی رہیں۔ 

کچھ دیر بعد وہ ٹیبلٹ اور دودھ کا گلاس لے کر واپس آیا۔ 

ماہ نور کو ٹیبلٹ تھما کر پھر گلاس دیا۔وہ ٹیبلٹ لے چکی تو اسنے گلاس لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔

"اب آرام کرو تم۔"اسے سہارا دے کر لیٹاتا اس پر بلینکٹ ٹھیک کر کے وہاں سے ہٹا۔ 

ماہ نور نے نظر پھیر کر اسے دیکھا۔ 

وہ اب کانچ کے ٹکڑے اٹھا رہا تھا۔ماہ نور کی طرف اسکی پشت تھی۔کانچ ڈس بن میں پھینک کر وہ بہت سے ٹشو لے کر زمین پر پھیلا خون صاف کرنے لگا۔ 

اسے دیکھتی ماہ نور کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی گئیں۔وہ نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔یہ تھی محبت کا خواب سجا کر شہریار کی زندگی میں آنے والی ماہ نور کی پہلی رات ۔۔۔ جہاں محبت کے علاوہ سب کچھ تھا۔۔۔۔ یا شاید صرف محبت ہی محبت تھی۔۔۔ تلخی کے پردے میں چھپی ۔۔۔۔ انا کے خول میں بند بے انتہا محبت۔۔۔۔۔۔

شہریار سب صاف کر کے ہاتھ دھوتا ماہ نور تک آیا۔اسکی بند پلکوں کو دیکھ کر وہ ذرا سا جھکا پھر اسکی سرد پیشانی پر لب رکھے۔ 

کچھ پل اسکے حسین چہرے کو دیکھتا رہا پھر بھاری دل کے ساتھ چلتا ہوا بالکنی میں آیا۔ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسکے وجود سے ٹکرایا پر اسے کوئی فرق نہ پڑا۔دل میں آگ جل رہی ہو تو سردی انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ 

وہ صبح تک وہیں کھڑا رہا تھا۔وہ اپنی ذات پر اور اس معصوم لڑکی پر غور کرتا رہا۔کیا ہوگا انکا مستقبل ؟؟ وہ اپنے آپ سے جب لڑتا تھا تو اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کر جاتا تھا۔جو بھی تھا وہ اس لڑکی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا پر اپنے آپ پر بھی اسکا زور نہیں تھا ۔۔۔ وہ کیا کرتا؟ 

صبح شہریار تیار ہو کر کمرے سے نکل چکا تھا۔ماہ نور کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں اکیلی تھی۔کسی طرح منہ دھو کر اسنے کپڑے چینج کیے تھے۔

وہ بیڈ پر بیٹھی بینڈیج میں قید اپنے ہاتھ کو گھور رہی تھی۔

یہ تھی شہریار کی محبت ۔۔۔ منہ دکھائی میں اسے شہریار کی طرف سے یہ تحفہ ملا تھا ۔۔۔ ماہ نور کے دل میں مکمل سکوت چھایا تھا۔پر یہ دل اب بھی اس شخص سے بد گمان نہ ہوا تھا۔جانے اسکا دل کیا چاہتا تھا۔کیوں اسے دکھ پر دکھ دے رہا تھا۔ 

وہ سوچوں میں گم تھی جب آبی دروازہ نوک کر کے اندر داخل ہوئی۔ 

ماہ نور نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر مدھم سا مسکرائی۔ 

"یہ ۔۔۔ یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا؟"آبی تیزی سے اسکی طرف آئی اور اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

"وہ گلاس ٹوٹ گیا تھا میں اٹھانے لگی تو ہاتھ میں لگ گیا ۔۔۔ اتنا نہیں لگا تم پریشان نہ ہو۔"اسنے مسکرا کر جھوٹ بولا تھا۔شکر تھا کہ انکا ولیمہ کل تھا ورنہ آج تو وہ کسی کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

"کیا واقعی یا ۔۔۔"آبی کہتے ہوئے ایک دم رکی۔ 

"یا ۔۔۔"ماہ نور نے ابرو اٹھایا۔ 

"شہریار لالہ نے کچھ کہا تمہیں؟"وہ نور کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔اسکی بات پر نور نظریں جھکا کر ایک دم ہنسنے لگی۔ 

"پاگل ہو ۔۔۔ شہریار بھلا مجھے کیوں کچھ کہیں گے۔"یہ کہتے اسکی آنکھیں نم ہوئیں۔ 

آبی بھلے اسکی دوست تھی پر اب شہریار اسکا شوہر تھا اور اسکا پردہ رکھنا ماہ نور کا فرض تھا۔ 

"تمہیں تم سے زیادہ جانتی ہوں میں ماہ نور ۔۔۔"آبی نے اسکا چہرہ اوپر اٹھایا۔نور کی آنکھیں نم تھیں۔ 

"مجھ سے کچھ نہ پوچھنا۔"اسنے نم آواز میں کہا 

آبی اسکے پاس بیٹھی پھر اسے گلے لگا لیا۔

"لالہ بھلے ہی میرے بھائی ہوں پر تم ہمیشہ ان سے آگے رہو گی۔میں تمہارے ساتھ انکا غلط رویہ برداشت نہیں کرونگی۔"آبی نے سنجیدگی سے کہا۔ 

نور اس سے الگ ہوئی۔"تم شہریار سے کچھ نہیں کہو گی ۔۔۔ کسی بھی معاملے میں آبی ۔۔۔ یہ اب میاں بیوی کا معاملہ ہے پلیز تم اس میں نہیں آؤ گی۔ وعدہ کرو۔"اسنے اپنا ہاتھ آبی کے سامنے کیا۔جسے کچھ دیر سوچ کر اسنے تھام لیا۔

"اوکے ۔۔"وہ لمبی سانس کھینچ کر بولی۔ 

"تمہارا ناشتہ یہیں لے آؤں یا نیچے آؤ گی؟"

"تمہارے لالہ صاحب کہاں ہیں؟"نور نے لہجہ مضبوط کر کے پوچھا تھا۔ 

"کوئی ضروری کام ہے یہی کہہ کر گئے ہیں۔"

"اچھا ۔۔۔"وہ خاموش ہوئی پھر بولی۔"چلو نیچے ہی چلتے ہیں۔"وہ آبی کا ہاتھ تھام کر اٹھی۔ 

"لالہ کو تمہارے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیے تھا۔میں نے روکا تھا پر وہ ۔۔۔"آبی شرمندگی سے بولی۔ 

"کم آن آبی ۔۔۔ ہم دونوں میں یہ چیز مت لاؤ۔۔۔ شہریار جو ہیں جیسے ہیں انکی جگہ تم کیوں گلٹی فیل کر رہی ہو۔تم اور میں جیسے پہلے تھے اب بھی ویسے ہی رہیں گے سمجھ آئی چڑیل۔۔۔"ماہ نور نے ہنس کر اسکے بال بگاڑے تو آبی ایک دم ہنسنے لگی۔پھر دونوں کمرے سے نکل کر نیچے کی طرف بڑھنے لگیں۔

تنوں تکدے کیوں نین زیادہ۔"

"میرے دل نوں نئی لگدا گوارہ۔"

"تیری نظراں میں لاکھ لاکھ اتاراں۔"

"تنوں سب توں میں دور چھپاناں۔"

"میری ہستی وی توں ، میری مستی وی توں۔"

"میں پیار دا منتر پکاراں تیرا۔"

"عشق لبدا وچ ہزاراں ۔۔۔"

"اے نہ لبدا وچ بازارں۔۔۔"

"تنوں دنیا توں دور چھپاناں۔"

"کہ رب سوہنے دا شکر گزاراں۔"

"مکھ تکدا رواں پھر بس ناں کراں۔"

"میرے مک جان ساں۔۔"

"میں اف ناں کراں۔۔"

نازلی نے تیار ہو کر گھڑی پر نظر ڈالی۔صبح کے دس بج رہے تھے۔آج ماہ نور اور شہریار کا ولیمہ تھا۔وہ جانا نہیں چاہتی تھی پر نور نے ضد باندھ لی کہ وہ ضرور آئے اسلیے وہ نا چاہتے ہوئے بھی تیار ہوگئی تھی۔ 

اسنے انگوری لانگ فراک پہنی تھی جس پر سفید کام ہوا تھا۔ سیاہ بالوں کی چٹیا بنائی تھی۔جس میں سے کچھ لٹیں نکل کر گلابی گالوں کو چھو رہی تھیں۔کپڑوں کا ہم رنگ بڑا سا دوپٹہ شانے پر پھیلا کر ڈالا تھا۔پرس تھام کر کمرے سے باہر نکلی۔  ہال میں آئی تو ہاشم کو اپنا منتظر پایا۔وہ نیوی بلیو سوٹ میں تیار کھڑا تھا۔ 

"آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟"نازلی نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ 

"گاؤں کے لیے نکلنا ہے ناں۔۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

"میں تو ڈرائیور کے ساتھ جاؤں گی۔"وہ دوپٹہ سر پر لیتے ہوئے بولی۔

"جی میڈم مجھے معلوم ہے۔۔۔۔تمہاری گاڑی آگے اور پیچھے پیچھے میری گاڑی ہوگی۔"وہ سنجیدگی سے کہتا اسے دیکھنے لگا جو ایک دم چہرہ اٹھا کر اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔دوپٹے کے ہالے میں اسکا چہرہ چمک رہا تھا۔نیلی آنکھیں ہیرے کی مانند جگمگ کر رہی تھیں۔

کل کا سارا دن ہاشم کا آفس میں ہی گزرا تھا۔رات کو جب وہ لوٹا تھا تو نازلی سو گئی تھی اسلیے اسنے اسے ڈسٹرب نہیں کیا تھا۔اس دن حویلی سے لوٹنے کے بعد وہ آج اسے نظر بھر کے دیکھ رہا تھا۔ 

"حیران کیوں ہورہی ہو یار ۔۔۔ اتنی پیاری بیوی کو کون کافر اکیلا چھوڑے گا۔"وہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔ 

"تو کیا اس دن ۔۔۔"نازلی کہتے کہتے رک گئی۔

"جی بیگم ۔۔۔ اس دن بھی گاؤں میں داخل ہونے تک میں تمہارے ساتھ تھا۔"اسنے سینے پر ہاتھ باندھے۔

اس دن بھی گاؤں جاتے وقت وہ اپنی گاڑی میں انکے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔پر جب وہ لوگ گاؤں میں داخل ہوئے تو اسنے بلاول کو دوسرے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ جھگڑا کرتے دیکھا تو رک کر انکی طرف گیا اور انکا جھگڑا ختم کروایا۔ 

اسے اپنے معاملے میں آتا دیکھ کر بلاول غصے سے وہاں سے چلا گیا تھا۔

وہ دونوں بھائی اور انکے ابا حضور ہر کسی سے پنگا لینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

وہ جانتا تھا خان بابا نے انہیں بھی شادی میں انوائٹ کیا تھا پر چھوٹی حویلی سے کوئی نہیں آیا تھا۔ہاشم کی نظر میں تو یہ  اچھا ہی تھا کیونکہ اگر وہاں سے کوئی آتا تو گڑبڑ کا خطرہ ضرور ہوتا جو کہ وہ نہیں چاہتا تھا۔ 

نازلی کا موبائل رنگ ہونے لگا۔ہاشم ایک دم سوچوں سے چونکا تھا۔ 

نازلی پرس سے موبائل نکال رہی تھی۔موبائل اسکرین پر نظر ڈالی تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔خان بابا کی کال آرہی تھی۔اسنے کال پک کی ہی تھی کہ وہ پوچھنے لگے۔ 

"آپ آرہی ہیں ناں؟"انکے سوال پر نازلی کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ہاشم خاموشی سے اسکے چہرے پر نظریں ٹکائے کھڑا تھا۔وہ شاید اسکی موجودگی کو فراموش کر چکی تھی۔ 

"جی ہاں دوست ۔۔ میں آرہی ہوں۔"وہ نرمی سے بولی 

"ڈرائیور کو بھیج دوں؟"وہ پوچھ رہے تھے۔ 

"نہیں ۔۔ میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ آرہی ہوں۔آپ فکر نہ کریں۔"اسکے لہجے میں محبت تھی۔ 

"اچھا لیں اپنی ام جان سے بات کریں ۔۔ کچھ کہہ رہی ہیں آپ سے۔"خان بابا نے مسکرا کر کہا پھر موبائل ام جان کو دیا۔ 

"نازلی بچہ۔"ام جان کے اتنے پیارے انداز میں پکارنے پر نازلی کی آنکھوں میں ستارے ٹمٹمانے  لگے۔ 

"جی ام جان۔۔۔"نازلی کے لہجے میں میٹھاس اتری۔ 

"جلدی سے آ جائیں۔۔ ہم آپکا انتظار کر رہے ہیں۔"

"جی ام جان بس نکل رہی ہوں۔"نازلی نے مسکرا کر کہا۔وہ ان سے باتوں میں لگی رہی اور ہاشم اسکے اس پیارے انداز کو دل میں اتارنے لگا۔اسنے موبائل کان سے ہٹایا۔ 

"نازلی ۔۔۔"ہاشم نے لگن سے پکارا۔ 

"ہوں۔۔۔"نازلی موبائل پرس میں ڈال رہی تھی۔

"یہاں آؤ۔۔۔"ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔ 

"کیا ۔۔۔"نازلی نے نا سمجھی سے چونک کر سر اٹھایا۔ 

"یہاں آؤ۔۔۔"دوہرایا گیا۔ 

"کیوں ؟؟"نازلی نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ 

" آؤ تو یار ۔۔۔"اسنے اپنے الفاظ پر زور دیا۔نازلی نے کچھ پل اسے دیکھا پھر اسکی طرف بڑھی۔ہاشم نے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تو جانے کیسے پر اسنے اپنا ہاتھ ہاشم کے ہاتھ کی گرفت میں دیا۔ہاشم نے آہستہ سے اسے اپنے قریب کیا۔ 

پھر اسکی حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھتا زیر لب کچھ پڑھنے لگا۔

نازلی ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔اسنے کچھ پڑھا پھر نازلی کے اوپر پھونکنے لگا۔

نازلی حیران و پریشان اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"یہ کیا تھا؟"اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسنے یہ کیا کیا تھا۔ 

"کلمہ پڑھ کے پھونکا ہے تا کہ کسی کی بری نظر نہ لگے میری جان کو۔"وہ اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکرا کر مدھم سا مسکرایا۔ 

اسکی بات پر نازلی کا دل رفتار پکڑ گیا۔یہ کیا انداز تھا اس شخص کا ؟؟ وہ تو کھو سی گئی تھی ۔۔۔۔وہ اسکی نظر اتار رہا تھا ۔۔۔ کوئی تھا اس سا جو اس انداز میں اپنے محبوب سے محبت کرتا ۔۔۔۔ نازلی کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہورہا تھا۔یہ شخص اسکی جان لینے کے در پہ تھا۔ 

اسکے ہاتھ کانپے۔۔۔۔پیشانی پر شبنم کی بوندیں چمک اٹھیں۔ 

وہ جلدی سے اسکے ہاتھ سے ہاتھ نکال کر پیچھے ہو کر کھڑی ہوئی۔

"چلیں ۔۔۔"عجلت سے کہتی وہ تیزی سے باہر کی طرف بڑھنے لگی۔وہ جتنا چاہتی تھی کہ اس شخص سے دور بھاگے اسکی باتوں میں نہ آئے پر اتنا ہی اسکا کوئی انداز کوئی نہ کوئی بات اسکے دل کو دھڑکا دیتی تھی۔وہ اپنے ساتھ اسے بھی پاگل کر رہا تھا۔ 

ہاتھ کی پشت سے پیشانی صاف کرتی وہ گاڑی میں بیٹھی۔ 

ہاشم آنکھوں پر گلرسز لگاتا اسکی گاڑی تک آیا۔ 

"خیال سے جانا ۔۔۔ ویسے تو میں بھی پیچھے ہی ہوں پر پھر بھی۔۔۔"وہ سنجیدگی سے ڈرائیور سے کہہ رہا تھا۔اسکی بات پر ڈرائیور نے جی سر کہا پھر گاڑی میں بیٹھا۔

ہاشم ایک نظر نازلی پر ڈال کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ 

پہلے نازلی کی کار گیٹ سے باہر نکلی پھر ہاشم کی ۔۔۔۔ دور روڈ کی ایک طرف کھڑی گاڑی میں بیٹھا وہ شخص انہیں دیکھتا رہا۔ انکی گاڑیاں آگے بڑھیں تو اسنے بھی اپنی گاڑی آگے بڑھا دی۔وہ اتنے دنوں سے انکا پیچھا کر رہا تھا۔بس اسے صحیح موقعہ کا انتظار تھا تا کہ وہ اپنی چال چل سکے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ آگے پیچھے حویلی پہنچے تھے۔وہاں مہمانوں کا رش تھا۔ 

نازلی تو آتے ہی سب کے ساتھ مل کر اسٹیج پر بیٹھی نور کے پاس گئی۔ 

وہ اس سے مل کر اسکے پاس بیٹھی تو نظر اسکے ہاتھ پر بندھے بینڈیج پر پڑی۔ 

"یہ کیا ہوا؟"اسنے نور کا ہاتھ تھاما۔جواباً نور نے وہی جھوٹ بولا جو اسنے آبی سے بولا تھا۔ 

نازلی کو اسکی فکر ہونے لگی تھی پر وہ ظاہر نہ کر سکی۔ 

تبھی احد اسٹیج پر آیا۔نور سے مل کر جب اسنے نازلی کو وہاں دیکھا تو اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔ 

"تم یہاں کیسے؟"وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔ 

"جیسے آپ یہاں ویسے ہی۔"نازلی ہنس کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"تم شہریار کی دوست تو نہیں ہوسکتی۔"احد نے منہ بنایا۔اسکی بات پر نازلی کے ساتھ نور بھی ہنسنے لگی تھی۔ 

"کیپٹن احد عالم میں نور اور آبی کی دوست ہوں۔شہریار بھائی کی نہیں ۔۔۔۔"نازلی نے شرارت سے آبی کے نام پر زور دیا۔احد ایک دم کھانسنے لگا۔ 

"اہم اہم ۔۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔"احد کے لہجے میں شوخی تھی۔اسکے انداز پر نازلی اور نور ہنسنے لگیں۔ 

"ویسے بہت بیوفا ہو ۔۔۔ اتنے عرصے بعد آج نظر آئی ہو وہ بھی اس محفل میں۔۔"احد نے شکوہ کیا۔ 

"آپ نے بھی تو میری خبر نہ لی۔"نازلی نے اداسی سے کہا 

"فوجی آدمی ہوں گڑیا آج یہاں تو کل وہاں ۔۔۔ پر کالز کرتا رہا تھا تمہیں ۔۔۔ پر تمہارا موبائل آف ملتا رہا۔"وہ اسکا سر تھپک کر بولا 

"گھر میں سب کیسے ہیں؟"نازلی نے مسکرا کر بات بدلی۔ 

"سب ٹھیک ہیں ۔۔۔"اسنے مسکرا کر بتایا۔ 

دور کھڑے ہاشم نے نازلی کو اس لڑکے سے بات کرتے دیکھا تو اسکی آنکھیں جلنے لگیں۔وہ کیوں اس سے بات کر رہی تھی؟ ہاشم کو ذرا اچھا نہ لگا۔وہ ان پر نظریں جمائے کھڑا تھا جب داور اسکے پاس سے گزرتے ہوئے بولا۔ 

"کچھ جلنے کی بو آرہی ہے۔۔۔۔ جانے کون جل رہا ہے۔"وہ شرارت سے کہہ کر دوسری طرف نکل گیا۔ہاشم نے دانت پیس کر اسکی پشت کو دیکھا۔اگر داور اسکے ہاتھ لگتا تو پکا جان سے جاتا۔۔۔ داور بھی تبھی دور سے وار کر کے نکل گیا تھا آخر وہ اپنے لالہ سے اچھے سے واقف تھا۔۔۔۔

کچھ دیر بعد آبی نے نازلی کو بلایا تو وہ اسٹیج سے نیچے آئی۔

جبکہ شہریار ، نور کے ساتھ آ کر بیٹھا۔ماہ نور نے سر اٹھا کر اسے نہ دیکھا جبکہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے دیکھ لیتا۔سلور خوبصورت سے لباس میں وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔وہ کل سے اس سے بات نہیں کر پایا تھا۔

ابھی اسے سر جھکائے بیٹھے دیکھ کر بول پڑا۔ 

"ہاتھ کیسا ہے اب؟"مدھم آواز میں پوچھا۔ 

"ٹھیک ۔۔۔"ماہ نور نے مختصر جواب دیا۔شہریار کے دل کو کچھ ہونے لگا وہ اتنا بولنے والی لڑکی خاموش کیوں تھی ۔۔۔ مانا کہ اس سے غلطی ہوئی تھی پر یوں خاموش ہوجانا تو صحیح نہیں تھا۔ 

دوسری طرف آبی ، نازلی کو دیکھ کر ہاتھ مسل رہی تھی۔ 

"نازلی وہ ۔۔۔"وہ جھجھک کر رکی۔ 

"وہ کیا ؟؟"نازلی نے ہنسی دبائی۔ 

"وہ احد کو تم جانتی ہو؟"وہ جھٹ سے بول گئی۔اسکی بات پر نازلی کھل کر ہنسی۔

"جی ہاں ۔۔۔احد بھائی میری آنی کے دیور ہیں۔"اسنے سرگوشی کی۔آبی نے خوشی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"سچی ۔۔۔"آبی نے مسکرا کر جلدی سے کہا۔ 

"مچی ۔۔۔"نازلی ہنسی تھی۔اسنے یہ نہیں بتایا تھا کہ احد آرمی میں تھا۔یہ سچ وہ خود اسے بتائے گا جیسا نور نے کہا تھا تب ہی زیادہ مزہ آتا۔ 

"احد بھائی بہت اچھے ہیں۔"نازلی ہنس کر اسکے کان میں سر گوشی کرنے لگی۔آبی ہنسی چھپاتی وہاں سے دوسری طرف بڑھ گئی۔آج نازلی کے چہرے سے مسکراہٹ نہیں ہٹ رہی تھی اور ہاشم کی نظریں اسکے چہرے سے ۔۔۔۔ 

"بیٹا جی ۔۔۔"خان بابا نے ہاشم کی نظریں نازلی پر محسوس کر کے نازلی کو اپنی طرف بلایا۔ 

نازلی مسکراتی ہوئی انکی طرف بڑھی۔وہ اسکا ہاتھ تھام کر اسے لیے دوسری طرف بڑھ گئے۔اب ہاشم کی طرف اسکی پشت تھی۔خان بابا پچھلے دو دن سے ہاشم کی نظریں نازلی پر محسوس کر رہے تھے۔اسلیے اسے ہاشم سے بچا رہے تھے۔

ہاشم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔خان بابا اپنے بیٹے سے اپنی دوست کو بچا رہے تھے۔پر کوئی تو انہیں بتاتا کہ وہ انکے بیٹے کی بیوی تھی۔وہ اسی کی تھی پھر کیسے اسے اس سے دور کیا جا سکتا تھا ۔۔۔ جو بھی تھا پر خان بابا کے اس انداز پر ہاشم کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی تھی۔

اسکے ساتھ کھڑے اسفی نے بھی اس منظر کو دیکھ کر قہقہہ لگایا تھا۔

وہاں سب خوش تھے۔چہروں پر خوشی اور فضا میں مہک پھیلی تھی سب کچھ ٹھیک تھا پر دور سے اس حویلی پر نظریں جما کر کھڑا وہ شخص اس خوشی کو ان سے چھین لینا چاہتا تھا وہاں وہ خوشی کی جگہ ماتم کا سکوت دیکھنا چاہتا تھا۔ 

کہنا صدا موسم ایک سا نہیں رہتا۔"

"کبھی بہاریں بھی اپنے ہونے کا پتا دے ہی جاتی ہیں۔"

"اسے کہنا یہ انا کا خول صدا چڑھا نہیں رہتا۔"

"کبھی بے بسی کی انتہا بھی اسے چٹخا ہی جاتی ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(از قلم نوشابہ چوہان)

ولیمے کا کام ختم ہوا۔سب مہمان اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو  گھر والے کام سنبھالنے میں لگ گئے۔رات کے سائے پھیل چکے تھے۔ سب دن بھر کے تھکے ہوئے تھے اسلیے جلدی ہی آرام کرنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے۔

شہریار باہر لان میں تھا۔ماہ نور اسے نہ پا کر کمرے میں آئی جلدی سے چینج کر کے پھر آبی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ 

دیر رات تک وہ آبی سے باتوں میں لگی رہی۔پھر جب گھڑی پر گیارہ بجے تو آبی نے اسے زبردستی کمرے سے نکالا۔وہ منہ بناتی اوپر آئی تھی۔

کتنے پل وہ کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑی رہی۔پھر شہریار کے سو جانے کا سوچتی آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی پھیلی تھی۔ اسنے سامنے دیکھا۔شہریار بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا کوئی بک پڑھنے میں مصروف تھا۔ 

اسکے کمرے میں آنے پر اسنے ایک نظر ماہ نور پر ڈالی پھر واپس کتاب پر نظریں جما کر پڑھنے لگا۔ 

ماہ نور آہستہ سے چلتی بیڈ کی دوسری طرف آئی۔سائیڈ ٹیبل کا دراز کھول کر فرسٹ ایڈ باکس نکالا تا کہ بینڈیج چینج کر لے۔ 

وہ باکس لے کر صوفے کی طرف بڑھنے لگی جب شہریار نے اسے پکارا۔ 

"ماہ ۔۔۔"اسکے پکارنے پر ماہ نور کے قدم تھم گئے۔ماہ ۔۔۔۔۔ کتنا اچھا لگتا تھا اسکے منہ سے ۔۔۔۔ کبھی کبھی وہ اچھے موڈ میں ہوتا تو اسے ماہ کہہ کر پکار لیتا تھا ورنہ تو جانے اسنے ماہ نور سے کیا بیر باندھ رکھا تھا کہ ٹھیک سے بات ہی نہیں کرتا تھا۔ 

ماہ نور نے گردن پھیر کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"یہاں آؤ۔"وہ کتاب بند کر کے رکھتا سیدھا ہو بیٹھا۔ماہ نور نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔ 

"میں بینڈیج چینج کر دیتا ہوں۔"وہ ہاتھ بڑھا کر بولا 

ماہ نور نے حیرت سے اسے دیکھا۔پھر آہستہ قدموں سے چلتی گھوم کر اسکی طرف آئی۔باکس اسکے ہاتھ میں رکھ کر اسکے بدلے انداز کو دیکھنے لگی۔ 

"بیٹھ جاؤ۔"سامنے اشارہ کیا۔

وہ خاموشی سے اس سے فاصلے پر ہو کر بیٹھ گئی۔

اسنے باکس کھولا پھر ماہ نور کی طرف دیکھ کر اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔

اسکی بات سمجھ کر ماہ نور نے جھجھک کر اپنا دایاں ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔

وہ اسکے ہاتھ سے بینڈیج کھولنے لگا۔بینڈیج کھلا تو وہ اسکے ہاتھ کا جائزہ لینے لگا۔زخم اب کچھ حد تک ٹھیک تھا۔ 

وہ ٹیوب لے کر آہستہ سے اسکے ہاتھ پر لگانے لگا۔ماہ نور کی نم آنکھیں اسکے چہرے پر تھیں۔

"درد تو نہیں ہورہا؟"جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ماہ نور جلدی سے پلکیں جھکا گئی کہ کہیں وہ اسکے آنسو نہ دیکھ لے۔اسنے خاموشی سے نفی میں سر ہلایا۔ 

شہریار نے ایک نظر اسکی جھکی پلکوں پر ڈالی پھر بینڈیج کرنے لگا۔ 

جب وہ فارغ ہوا تو باکس بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا پھر بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ماہ نور نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"تم یہاں سو جاؤ۔۔۔میں صوفے پر سوؤں گا۔"بنا اسے دیکھے وہ آگے بڑھنے لگا تو ماہ نور نے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"یہ کمرہ آپکا ہے۔اس پر آپکا حق ہے اسلیے صوفے پر آپ نہیں میں سوؤں گی۔"سنجیدگی سے کہتی وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"نہیں ۔۔"شہریار نے ایک دم کہا۔ماہ نور نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ 

"کیوں نہیں ؟"وہ طنزیہ ہنسی پھر رک کر اسکے چہرے کو دیکھا۔"مجھے معلوم ہے کہ اس کمرے میں میری موجودگی آپ کو گوارا نہیں پھر اپنے بیڈ پر کیسے برداشت کریں گے۔آپ شاید گلٹی فیل کر رہے ہیں کہ آپکی وجہ سے میرا ہاتھ زخمی ہوا پر میں اسکے لیے آپکو بلیم نہیں کرتی۔سو آپکو اپنا غصہ دبا کر میرے ساتھ نرمی برتنے کی ضرورت نہیں ہے شہریار ۔۔۔مجھے آپکا یہ مصنوعی نرم لہجہ نہیں چاہیے۔"وہ ایک ہی سانس میں سب کہہ گئی۔اسے یہی لگ رہا تھا کہ شہریار اسکے ہاتھ کی وجہ سے اپنا غصہ ایک طرف کر کے اسکے ساتھ نرمی سے پیش آ رہا تھا۔

اسکی بات پر شہریار خاموشی سے اسے دیکھے گیا۔وہ تو اس سے بات کرتے نظریں اسلیے چرا رہا تھا کہ اسکا معصوم چہرہ دیکھ کر اسکا دل آہستہ آہستہ نرم ہورہا تھا اسے ڈر تھا کہ اسکی آنکھوں میں ماہ نور یہ چیز دیکھ نہ لے۔پر وہ تو کچھ اور ہی سمجھی تھی۔ 

ماہ نور نے الماری سے بلینکٹ نکالا ، پھر بیڈ سے تکیہ لیتی صوفے کی طرف بڑھی۔ 

تکیہ رکھ کر لیٹتی وہ خود کو سر تک بلینکٹ سے کور کر گئی۔ جبکہ شہریار ہنوز وہیں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔کتنے پل بعد وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر بیڈ پر بیٹھا۔ 

ماہ نور کی طرف اسکی پشت تھی۔وہ گھٹنے پر کہنی ٹکائے ،ہاتھ کی مٹھی بنا کر لبوں پر رکھے سوچوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔زندگی کتنی عجیب ہوگئی تھی۔اسکی محبت اسکے قریب تھی پر اسنے خود اسے دور دھکیل دیا تھا۔وہ خود ہی اپنے دل کا دشمن بنا تھا۔ 

دل کہتا کہ آگے بڑھ کے اس لڑکی کو تھام لو۔اسے سینے سے لگا کر اسے کبھی خود سے دور نہ جانے دو پر دماغ اسے بہکا دیتا۔۔۔اسے الجھن میں ڈال دیتا۔اسکے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتا تھا۔ماضی کی باتوں کو بار بار اسکے سامنے لے کر آتا اور تب غصہ اسکے سر پر سوار ہوجاتا پھر دل کہیں دور بیٹھ کر تماشہ دیکھتا تھا۔ 

جانے کتنی دیر گزری جب اسنے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔گہری سانسوں کی آواز سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ سو گئی ہے۔

شہریار گہری سانس کھینچ کر بیڈ پر لیٹا۔بایاں بازو سر کے نیچے رکھ کر وہ چادر میں لپٹی اس لڑکی کو دیکھے گیا۔ 

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔دل کی بے چینی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی تھی۔ 

جب بات حد سے بڑھی تو وہ ایک دم اٹھ بیٹھا۔بیڈ سے اتر کر اسنے سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ پیک لیا اور بالکنی کی طرف بڑھ گیا۔لمبے کش لیتا وہ سگریٹ کا دھواں پھونک رہا تھا۔حویلی مکمل سکوت میں ڈوبی تھی۔ 

اسنے نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔پورا چاند آسمان کو روشن کر رہا تھا۔ننھے تارے ٹمٹما رہے تھے۔سب کچھ کتنا خوبصورت لگتا اگر اس چاندی بھری رات میں وہ اسکے پہلو میں کھڑی ہوتی۔اسکے ہاتھ میں ہاتھ ہوتا اور یونہی عمر تمام ہو جاتی پر یہ زندگی اتنی آسان کہاں تھی۔

اگر اتنی ہی آسانی سے گزر جائے تو یہ زندگی کیسی زندگی ہو۔

یہ کوئی فیری ٹیل نہیں جہاں ہیپیلی ایور آفٹر ہو۔یہاں ہر پل لڑنا اور لڑ کر جیتنا ہی زندگی کا نام ہے۔ 

وہ سگریٹ نیچے پھینک کر پاؤں سے مسلتا واپس کمرے کی طرف آیا۔بیڈ کی طرف جاتے ایک نظر صوفے کی طرف ڈالی۔ماہ نور کا سر ایک طرف ہوا تھا اور بلینکٹ آدھا نیچے گرا تھا۔

اسنے آہستہ سے آگے بڑھ کر اسکا سر سیدھا کیا پھر بلینکٹ اسکے اوپر ڈال کر سیدھا ہوا۔ 

ایک پل کے لیے تو دل کیا کہ وہ اسے یہاں سے اٹھا کر بیڈ پر لے جائے۔اسے اسکا یہاں سونا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔پر اگلے پل اس سوچ کو جھٹک گیا۔

دل بے ایمان ہونے لگا تو وہ جلدی سے وہاں سے ہٹا۔ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔نیند اس پر مہربان نہیں ہوئی تھی۔

فجر کی اذان ہونے لگی تو وہ اٹھ بیٹھا۔ماہ نور کو دیکھا جو آرام سے سو رہی تھی۔دل میں آیا کہ اسے بھی نماز کے لیے اٹھا دے پر اسکے ہاتھ کا سوچ کر رک گیا۔وہ خود پابندی سے نماز پڑھتا تھا اور چاہتا تھا کہ دوسرے بھی پڑھیں۔

اذان ختم ہوئی تو وہ بیڈ سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھا۔ 

نماز کی تیاری کر کے باہر آیا۔الماری سے جائے نماز اور ٹوپی نکال کر پہنی پھر جائے نماز ڈال کر کھڑا ہوتا نیت کرنے لگا۔ 

کسی احساس کے زیر اثر ماہ نور کی آنکھ کھل گئی۔کچھ پل چھت کو گھورتی رہی پھر اٹھ بیٹھی۔نظریں دائیں طرف پھیری تو پلکیں جھپکنا بھول گئی۔ 

سفید لباس ، سر پر ٹوپی پہنے اسکا سر سجدے میں جھکا تھا وہ اٹھا پھر کچھ پل بعد پھر سجدے کے لیے جھکا۔اسکے چہرے کو دیکھ کر ماہ نور کے دل میں دور دور تک سکون اتر گیا تھا۔ 

وہ التحیات پر بیٹھا۔آنکھیں سامنے جائے نماز پر جمی تھیں اور لب آہستہ سے ہل رہے تھے۔وہ پوری طرح سے نماز پڑھنے میں مگن تھا۔

اسے نماز پڑھتے دیکھ کر ماہ نور کے کیا احساسات تھے وہ بیان سے باہر تھے۔اسے معلوم تھا کہ شہریار نماز کا پابند ہے پر آج  اسے اپنے سامنے اس قدر مگن انداز میں نماز پڑھتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں ٹھنڈک اتر آئی تھی۔

اسکے لیے کل سے دل میں جو بھی شکوے تھے وہ جیسے دھل گئے تھے۔بھلا اتنے پیارے شخص سے وہ کیسے محبت نہ کرتی۔اسکے دل میں شہریار کو لے کر جو بھی بات چبھ رہی تھی اس پل سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا۔اسکا دل کسی پر سکون ندیا کی طرح بہنے لگا تھا۔ 

شہریار نے سلام پھیرا۔پھر ایک نظر ماہ نور کی طرف دیکھا تو وہ ایک دم چونک کر نظریں پھیرتی اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔ 

وہ تیاری کر کے باہر آئی تو وہ دعا کر کے منہ پر ہاتھ پھیرتا اٹھ کھڑا ہوا۔جائے نماز اٹھانے لگا جب ماہ نور آگے بڑھی۔ 

"اٹھائیں مت ۔۔ میں نے نماز پڑھنی ہے۔"اسکی بات پر وہ سر ہلاتا پیچھے ہوا۔ماہ نور جائے نماز پر کھڑی ہوئی۔

شہریار نے اسکے ہاتھ کو دیکھا۔وہ بینڈیج کھول چکی تھی۔وہ وہاں سے ہٹتا ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آیا۔ٹوپی اتار کر بالوں میں برش پھیرنے لگا۔

برش رکھ کر الماری سے شال نکالنے لگا۔اسے زمینوں کا چکر لگانا تھا۔شال کندھوں کے گرد لپیٹ کر الماری کے ساتھ ٹیک لگاتا ماہ نور کا نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ 

کچھ وقت بعد اسنے نماز ختم کر کے جائے نماز اٹھا کر بیڈ پر رکھی پھر سر اٹھا کر بیڈ کے اس پار کھڑے شہریار کو دیکھا۔ 

شہریار دوپٹے کے ہالے میں اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا۔وہ اتنی پیاری اور پاکیزہ لگ رہی تھی کہ شہریار کا دل اسکی طرف بھاگنے لگا۔ 

دل کو قابو کرتا وہ بولا۔"آجاؤ تمہارے ہاتھ پر بینڈیج کر دوں۔"وہ آگے بڑھا۔

"نہیں ہاتھ اب ٹھیک ہے ۔۔ بس ٹیوب لگا کر کھلا چھوڑوں گی۔"وہ ہاتھ کو دیکھتی مدھم آواز میں بولی۔ 

شہریار خاموشی سے ٹیوب لیتا اسکی طرف آیا۔پھر اسکا ہاتھ تھام کر ٹیوب لگانے لگا۔ماہ نور کچھ نہ بولی۔اسکی جھکی آنکھوں میں نمی پھیلنے لگی تھی۔ 

دل نے شدت سے دعا کی کہ کاش اسکے سامنے کھڑا یہ پیارا شخص اسکی محبت کو سمجھ لے۔کاش وہ اب اسکا دل نہ دکھائے۔شہریار ٹیوب لگا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتا پلٹا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 

ماہ نور نے سر اٹھا کر اسکی پشت کو دیکھا۔پلکوں میں اٹکا وہ واحد آنسو ٹوٹ کر گال پر گرا تھا۔ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی وہ اپنے زخمی ہاتھ کو دیکھ کر ایک دم مسکرائی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"چھپ چھپ دیکھتی ہوں تیری تصویر کو۔۔"

"کچھ ہوگیا رانجھے تیری اس ہیر کو۔۔"

نازلی کینوس کے سامنے بیٹھی ہاشم کی تصویر کو تکے جا رہی تھی۔وہ کب سے یہاں آئی تھی پر اس سے کوئی کام نہیں ہورہا تھا۔ہاشم کی اس پینٹنگ کے بعد اسنے ابھی تک کوئی نئی پینٹنگ نہیں بنائی تھی۔ یہاں آتی تو بس اس شخص کی تصویر اسکی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی اور وہ بنا کچھ پینٹ کیے اسے دیکھ کر وہاں سے واپس آ جاتی۔ 

"میں کیا کروں۔"اسنے پریشان لہجے میں خود کلامی کی۔جانے اسے کیا ہوتا جا رہا تھا۔

گال کے نیچے ہاتھ رکھتی وہ پینٹنگ کو دیکھتی بڑبڑانے لگی۔ 

"کیا مسئلہ ہے آپ کا؟ کیوں مجھے پریشان کر رکھا ہے۔۔۔یہاں میں دل و دماغ کو سکون پہنچانے آتی ہوں پر آپ نے یہاں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔۔۔۔ نکل کیوں نہیں جاتے میرے دماغ سے ہاشم خان ۔۔۔ چھوڑ دیں میرا پیچھا۔۔۔"وہ اسکی دلکش سیاہی مائل آنکھوں پر نظریں جما کر شکوہ کر رہی تھی۔ 

محبت سے وہ واقف نہ تھی ورنہ جان جاتی کہ اسکے دل میں محبت اپنا بسیرہ کر رہی تھی۔اسکا دل آہستہ آہستہ اس سے بیگانہ ہو رہا تھا۔اسکے دل و دماغ پر وہ شخص قابض ہوتا جا رہا تھا۔ایک وار اور ۔۔۔۔ پھر وہ لڑکی اپنے دل سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی تھی۔پھر اسکا اپنے ہی دل پر کوئی اختیار نہ رہتا۔ 

وہ اسے دیکھنے میں مصروف تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔نازلی چونک کر کرسی سے اٹھی۔ 

"کون ہے؟"اسنے جلدی سے پوچھا۔ 

"میں چھوٹی پٹھانی۔"وہ کہہ کر دروازہ کھول کر اندر آئی۔ 

"کیا ہوا؟"نازلی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ 

"آپکو بلایا جا رہا ہے۔"چھوٹی پٹھانی شرارت سے ہنسی۔ 

"کون بلا رہا ہے۔"اسنے ابرو اٹھایا۔ہاشم تو اس وقت آفس میں ہوتا تھا پھر اسے کون بلا رہا ہے۔ 

"وہی جنکی تصویر کو آپ چھپ کر دیکھ رہی تھیں۔"اسنے آنکھیں سٹپٹائیں۔ 

نازلی نے اسے گھورا پھر بولی۔"وہ اس وقت ۔۔۔"اسکا منہ بن گیا تھا۔چھوٹی پٹھانی نے اسے دیکھ کر ہنسی دبائی۔ 

"جی ۔۔۔۔ وہ تو ہاشم بھائی سیدھا اوپر آنے والے تھے پر میں نے کہا کہ میں آپکو نیچے ہی بلا لاتی ہوں۔اسلیے وہ رک گئے پر اب بھی معلوم نہیں کیا پتہ وہ اوپر آجائیں۔"وہ شانے اچکا کر بولی۔ 

نازلی نے پلٹ کر ہاشم کی پینٹنگ کو دیکھا پھر چھوٹی پٹھانی کو۔"میں جاتی ہوں۔۔۔تم یہ دروازہ بند کر دینا اوکے۔"وہ عجلت سے کہتی کمرے سے باہر بھاگی کہ کہیں ہاشم اوپر نہ آجائے۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ پینٹنگ دیکھے۔ 

وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔

ہاشم نے اسے آندھی کی طرح سیڑھیاں اترتے دیکھا اسنے لب وا کیے ہی تھے کہ اسے آرام سے اترنے کا بولے  پر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا آخری سیڑھی پر اسکا پاؤں مڑا تھا اور وہ چیخ کے ساتھ نیچے گری تھی۔ 

ہاشم جلدی سے اسکی طرف بھاگا۔اسے تھام کر سیدھا کیا پھر اسکے سامنے بیٹھا۔نازلی لب دانتوں میں دبائے اپنا بایاں پاؤں تھامے بیٹھی تھی۔

"کوئی پیچھے پڑا تھا جو تم اس طرح بھاگ رہی تھی۔"ہاشم نے اسکے سرخ چہرے کو دیکھ کر ڈانٹا۔

نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔"مجھے چوٹ لگی ہے اور آپ پوچھنے کے بجائے مجھے ڈانٹ رہے ہیں۔"اسنے افسوس سے کہا۔

"ایسے کام کرو گی تو ڈانٹ تو پڑے گی۔"وہ اسکا پاؤں چیک کرنے لگا۔ 

"ہٹیں ۔۔۔"نازلی نے اسکا ہاتھ جھٹکا۔"کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے ہاتھ لگانے کی۔"اسنے اپنا پاؤں پیچھے کیا۔پاؤں سے ٹھسیں اٹھ رہی تھیں۔اسنے ہاتھ سے سختی سے پاؤں کو تھام رکھا تھا۔ 

"تم روکو گی؟"ہاشم نے ابرو اٹھایا۔

"معاف کریں مجھے۔"اسکی بات پر وہ جھنجھلائی تھی۔

اسکی بات کا جواب تو تھا نہیں اسلیے تپ کر سر جھکا گئی۔ 

ہاشم نے اسکے ضبط سے گلابی ہوتے چہرے کو دیکھا پھر لمبی سانس کھینچ کر ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالا اور دوسرے ہاتھ سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اوپر اٹھایا۔ 

نازلی نے پیچھے ہونا چاہا پر ہاشم نے اسے گھور کر اپنی گرفت مضبوط کی۔ 

"چپ کر کے چلو۔"سنجیدگی سے کہتا وہ اسے سہارا دے کر صوفے تک لایا۔ 

اسے بٹھا کر اسکے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر اسکا پاؤں ہاتھوں میں لیا۔ 

نازلی نے پاؤں پیچھے کھینچا۔"اتنا درد نہیں ہے۔ٹھیک ہے میرا پاؤں ۔۔۔ رہنے دیں۔"وہ اسکے ہاتھ پیچھے کرنے لگی۔ 

"کم آن بیگم ۔۔ہر وقت کی ضد اچھی نہیں ہوتی ۔۔ دیکھنے دو مجھے۔"اسکے ہاتھ پیچھے کرتا وہ جھنجھلا کر بولا 

نازلی خاموش ہوگئی۔تبھی ہاشم نے اسکا پاؤں ہلایا تو اسکے لبوں سے سسکی نکلی۔ 

ہاشم نے اسے دیکھا۔"زیادہ درد ہے؟" 

"اتنا نہیں ۔۔"اسنے آہستہ آواز میں کہا۔

"چلو اٹھو ۔۔۔ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔"وہ اٹھنے لگا۔ 

"ارے اتنا بھی نہیں ۔۔ٹیوب لگا لونگی ٹھیک ہوجائے گا۔"وہ جلدی سے بولی۔

"یہ کیا ہوا۔"چھوٹی پٹھانی فکر مندی سے کہتی انکی طرف آئی۔

"تمہاری باجی صاحبہ ریس میں حصہ لینے کی پریکٹس کر رہی تھیں۔۔۔جسکی وجہ سے بھاگتے ہوئے انکا پاؤں مڑ گیا۔"ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر بتایا۔اسکی بات پر نازلی اسے گھورنے لگی۔ 

"ہیں ۔۔۔"چھوٹی پٹھانی کی آنکھیں پھیلیں۔

"ہیں ۔۔۔"ہاشم نے اسکے انداز میں کہا۔چھوٹی پٹھانی ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔"زیادہ سوچو مت چھوٹی پٹھانی ۔۔۔جاؤ اندر سے ٹیوب لے کر آؤ۔"ہاشم کی بات پر وہ سر ہلا کر چلی گئی۔ 

"آپ کبھی طنز کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔"نازلی نے اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔ 

"نہیں ۔۔"الٹا جواب آیا۔نازلی منہ بگاڑ کر چہرہ پھیر گئی اور وہ اسکے چہرے کو دیکھتا مسکراہٹ دبانے لگا۔ 

چھوٹی پٹھانی نے اسے ٹیوب لا کر دی۔جسے کھولتے وہ بولا۔ 

"دودھ کا گلاس اور ٹیبلٹ لے آؤ چھوٹی پٹھانی۔"

"دودھ نہیں ۔۔۔"نازلی جھٹ سے بولی۔

"تم لے کر آؤ۔"ہاشم اسکی بات کو اگنور کرتا چھوٹی پٹھانی سے بولا۔نازلی ، چھوٹی پٹھانی کو دیکھ کر آنکھوں سے نہ کا   اشارہ کرنے لگی کہ دودھ مت لانا۔

چھوٹی پٹھانی ان دونوں کے بیچ پھنس گئی تھی۔پیشانی پر ہاتھ مارتی وہ وہاں سے بھاگی۔اب دودھ اور ٹیبلٹ اماں کو دے کر ہی بھیجے گی۔ 

ہاشم اسکے پاؤں پر ٹیوب لگا کر کھڑا ہوا۔ 

"اب بھاگنے سے گریز کرنا اور آرام فرمانا۔"اسے دیکھ کر بولا تو نازلی نے سر ہلا دیا۔ 

گل جان دودھ کا گلاس اور ٹیبلٹ دے کر چلی گئیں۔نازلی نے نا چاہتے ہوئے بھی دودھ کے ساتھ ٹیبلٹ لی۔ہاشم کے آگے نہ کرنے کا کیا فائدہ ۔۔۔آخر میں چلتی تو اسی کی تھی۔ 

"اٹھو کمرے میں لے جاؤں۔۔۔کچھ دیر آرام کرلو۔"اسکا ہاتھ تھام کر بولا۔ 

"میں چلی جاؤں گی۔"وہ اٹھنے کو راضی نہ تھی۔ 

"پھر کہیں ٹکڑا کر گر جاؤ گی مادام ۔۔۔ اور یہ بات میں برداشت نہیں کر پاؤں گا کہ تمہیں مزید کوئی چوٹ پہنچے۔۔۔ چلو اٹھو شاباش۔۔۔"نرمی سے اسکا گال تھپک کر بولا۔ نازلی نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی وہ اسے سہارا دیتا کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ 

ہائے وہ ساری دنیا کے لیے مغرور شہزادہ اس کانچ سی لڑکی کے آگے پگھل جاتا تھا۔سب کے لیے سخت دل پر اس لڑکی کے لیے اس مغرور شخص کے دل میں بلا کی محبت اور نرمی تھی۔

اسے بیڈ پر بٹھا کر آرام کرنے کا کہتا وہ پلٹ کر جانے لگا۔ 

"سنیں۔۔۔"ہمیشہ کی طرح پکارا گیا۔ہاشم مسکرا کر اسکی طرف پلٹا۔اسکا یہ انداز ہاشم کو خوب بھاتا تھا۔ 

"جی سنائیں۔"دلکش انداز میں کہا گیا۔ 

"وہ آپ نے مجھے کیوں بلایا تھا؟"اسنے ہاشم کو دیکھا۔ 

"میں نے ۔۔۔"وہ رکا۔"کچھ دینا تھا تمہیں پر بعد میں ۔۔۔ابھی آرام کرو۔"وہ جانے لگا۔

"ابھی کیوں نہیں۔"وہ جلدی سے بولی۔اسے تجسس ہونے لگا تھا۔وہ بول کر زبان دانتوں میں دبا گئی کہ اسے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ 

ہاشم نے ہنس کر اسے دیکھا۔"ویٹ ۔۔۔"کہہ کر وہ کمرے سے نکلا۔نازلی نے خود کو کوسا۔"آرام نہیں لگتا مجھے۔۔۔"

وہ واپس آیا۔ہاتھ میں ایک درمیانے سائز کا باکس تھا۔نازلی کو وہ جانا پہچانا لگا۔

ہاشم نے آگے بڑھ کر باکس بیڈ پر رکھا پھر خود بھی بیٹھ گیا۔نازلی نے ایک دم پیچھے ہو کر پاؤں سمیٹ کر اوپر کیے۔ 

"بھاگنا بند کر دو مجھ سے بیگم ۔۔۔کبھی اگر میں تم سے دور بھاگ گیا تو لوٹ کر واپس نہیں آؤں گا۔"وہ کوٹ کی جیب سے کچھ نکالتا شرارت سے مسکرا کر بولا۔

اسکی بات پر نازلی کا دل ایک دم مٹھی میں جکڑا گیا۔جیسے اسکے دل کو یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ 

ہاشم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر اسکا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ 

"یہ تمہاری امانت۔"اسنے اسکی انگلی میں ڈائمنڈ رنگ پہنائی۔وہی رنگ جو اسنے نازلی کو نکاح کے بعد دی تھی۔جسے اس عذاب بھری رات میں اسنے اتار کر بالکنی میں پھینک دیا تھا۔ 

"یہ ۔۔۔۔"نازلی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"آج تمہاری آنی کی طرف گیا تھا۔نوری نے دی ہے۔"وہ نیلی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

"آنی کی طرف کیوں ؟؟" 

"ویسے ہی ۔۔۔تم یہ دیکھو۔"اسنے بات بدلی۔ 

"یہ یاد ہے؟"پوچھا گیا۔نازلی نے اس باکس کو دیکھا۔آنکھوں کے سامنے وہ وائٹ ڈریس گھومنے لگا۔ 

"وائٹ ڈریس ۔۔"اسنے ہاشم کو دیکھا۔

"ہاں جی ۔۔۔ جسے یقیناً تم نے پہنا نہیں ہوگا۔"وہ ابرو اٹھا کر بولا۔ 

"اور نہ ہی پہنوں گی۔"وہ چہرہ پھیر گئی۔ 

"کیوں ۔۔۔ اتنی محبت اور چاہ سے یہ پہلا تحفہ لیا تھا میں نے تمہارے لیے ظالم لڑکی ۔۔۔کبھی پہن کر تو دکھاؤ کہ اس ڈریس میں میری نازلی کیسی لگتی ہے۔"اسنے مسکرا کر نازلی کا چہرہ اپنی طرف موڑا۔

"نہیں ۔۔۔"دو ٹوک انداز میں انکار ہوا۔

"اچھا ایک کام کرنا۔"اسنے آہستہ سے کہا

"کیا ؟"نازلی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔ہاشم نے اسکے بال کان کے پیچھے کیے پھر اسکے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کر کے اسکے کان میں سرگوشی کی۔

"جب تمہیں لگے کہ تم ہاشم خان سے محبت کرنے لگی ہو تو یہ ڈریس پہن لینا ۔۔۔ میں سمجھ جاؤں گا کہ مسٹر ہاشم کی محبت کا جادو مسز ہاشم کے سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔۔۔"وہ اسکے کان میں جادو پھونک رہا تھا۔وہ اسکے اتنے قریب تھا کہ نازلی کی سانسیں اٹکنے لگی تھیں۔ 

"منتشر بالوں کو سمیٹ کے۔۔"

"حواسوں کو سیلاب کر کے۔۔"

"خود کے بہت قریب کر کے۔۔"

"وہ جو کچھ کہتا ہے تو جان لے لیتا ہے۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(از قلم حیا انور)

اسکی بات نے نازلی کے دل کے تار چھیڑ دیے تھے۔پر دل کو قابو کر کے اسنے ہاشم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کیا۔وہ اسکے چہرے کو دیکھنے لگا تو وہ اپنا گلابی چہرہ جھکا گئی۔ 

"ایسا نہیں ہوگا۔"اسنے ضدی انداز میں کہا۔ 

"ضرور ہوگا ۔۔۔ اللہ بچائے مجھے اس دن سے۔۔"بھاری آواز میں ہنس کر اسکی ہتھیلی پر لب رکھے۔

نازلی نے جلدی سے ہاتھ کھینچا۔ 

"آپ ۔۔۔"اسنے گھورا تھا۔ 

"بہت ہینڈسم ہوں ناں؟"شرارت سے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

"خواب میں۔۔۔"وہ جھنجھلائی۔اسکی باتوں سے دل دھڑک رہا تھا اور چہرہ الگ دہکنے لگا تھا۔ 

"مطلب دیکھتی ہو تم مجھے خواب میں۔"دلکشی سے بولا 

نازلی رونے والی ہوگئی۔اس شخص کا مقابلہ کرنا اسکے بس کی بات نہ تھی۔اسلیے بنا جواب دیے وہ سر گھٹنوں میں چھپا گئی۔ 

اسکے انداز پر دلکش سی ہنسی کمرے میں گونجی تھی۔ 

"اوکے آرام کرو۔"اسکا سر تھپک کر وہ ہنستا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ 

اسکے جاتے ہی نازلی نے سر اٹھا کر خالی کمرے کو دیکھا پھر آگے ہو کر باکس اٹھا کر کھولا۔اس ڈریس کو کتنے پل دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر باکس بند کر کے ایک طرف رکھا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔دماغ میں ہاشم کی باتیں گونج رہی تھیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"مات ہو سکتی ہے چالوں میں کسی بھی لمحے۔"

"عشق شطرنج کے خانوں کی طرح ہوتا ہے۔"

اگلے دن وہ جلدی اٹھ گئی تھی۔پاؤں میں درد تھا پر عادت سے مجبور وہ لان میں سیر کرنے نکل آئی تھی۔

آسمان پر کالے بادلوں کی ٹولیاں بنی تھیں۔ٹھنڈی ہوا زور و شور سے چل رہی تھی۔لگ رہا تھا آج ٹوٹ کر بارش برسنے والی تھی۔اسنے جھرجھری لے کر دوپٹہ اچھے سے لپٹا۔وہ شال لیے بنا ہی باہر آگئی تھی۔اب واپس اندر جا کر شال لینے کی ہمت نہیں تھی اسلیے ایسے ہی چلنے لگی۔ 

وہ لڑکھڑاتے پاؤں کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی جب ہاشم اسے پکارتا اسکی طرف بڑھا۔نازلی اسے دیکھ کر رک گئی۔

"تمہارا دماغ ٹھیک ہے ۔۔۔اتنی سردی میں گھوم رہی ہو اوپر سے پاؤں کی حالت دیکھو ۔۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔"وہ آتے ہی برس پڑا تھا۔

"ہاں تو ۔۔۔ اب میں اپنی مرضی سے کہیں گھوم بھی نہیں سکتی۔"نازلی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"جب حالت ٹھیک ہو تب گھومو ۔۔۔ اس طرح ایک ٹانگ پر کرتب مت دکھاؤ۔"وہ غصے سے کہتا اپنی شال اتار کر اسکے گرد لپٹنے لگا۔ 

"میں لنگڑی نہیں ہوئی ہوں جو آپ ایسے کہہ رہے ہیں۔"نازلی نے صدمے سے کہہ کر شال اتارنی چاہی۔جسے ہاشم نے مزید اچھے سے اسکے گرد لپٹ دیا۔ 

"ہوئی نہیں ہو پر اگر یہی حال رہا ناں تمہارا تو جلد ہوجاؤ گی۔"اس غصے میں اسکے لیے فکر پوشیدہ تھی۔جسے نازلی سمجھ نہ پائی۔ 

"ہاں ٹھیک ہے ہوگئی تو پھینک دیجیے گا کہیں۔"وہ چبا کر بولی۔ 

"تمہیں تو میں کسی حال میں بھی نہ چھوڑوں مسز۔۔۔پھینکنے کی کیا بات کرتی ہو۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے بولا۔ 

"ہاں جن کی طرح چمٹ گئے ہیں ۔۔۔ پھر کیسے میرا پیچھا چھوڑیں گے۔"نازلی کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھا۔ 

اسکی بات پر ہاشم نے ایک دم قہقہہ لگایا۔ 

"یہی بات ہے۔"وہ ہنسی دبا کر بولا۔اسکی ہنسی پر نازلی کو آگ لگ گئی۔وہ پاؤں گھسیٹ کر اندر کی طرف بڑھنے لگی۔ 

ہاشم بھاگ کر اسکی طرف گیا۔اسکے نخرے کرنے کے باوجود اسے تھام کر اندر لے کر آیا۔ 

دوپہر تک آسمان صاف ہو چکا تھا۔ہاشم نے آفس جانے سے پہلے اسے سختی سے چلنے پھرنے سے منع کیا تھا۔ 

اسکی ضد میں نازلی نے امجد بابا کو ڈھیر ساری چیزوں کی لسٹ بنا کر دی۔امجد بابا چیزیں لینے گئے تو پیچھے وہ تیار ہونے لگی۔پاؤں دکھ رہا تھا پر وہ کسی حد تک ٹھیک سے چل سکتی تھی۔ 

اسکا ارادہ یتیم خانے بچوں کے لیے چیزیں لے کر جانے کا تھا۔حسن ولا میں وہ مہینے میں ایک بار چیزیں وغیرہ لے کر یتیم خانے ضرور جاتی تھی۔وہاں کے معصوم بچوں کے چہرے پر خوشی دیکھ کر اسکا دل جھوم اٹھتا تھا۔اسکی چند چیزوں سے انکے چہرے کھل اٹھتے تھے انکی خوشی نازلی کے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھی۔

انگوری لباس کا ہم رنگ دوپٹہ اسنے سر پر لیا۔شال اوڑھ کر وہ پرس لیتی کمرے سے باہر نکلی۔ 

امجد بابا چیزیں لے کر واپس آ چکے تھے۔چیزیں گاڑی میں ہی رکھی تھیں۔نازلی پورچ میں آئی جب چھوٹی پٹھانی بھاگتی ہوئی اس تک آئی۔

"میں بھی آپکے ساتھ جاؤں گی۔"

"نہیں ۔۔ تمہارے پیپرز ہیں ۔۔۔ تم تیاری کرو واپس آ کر میں تم سے سنوں گی۔۔۔جاؤ شاباش۔"اسکی بات پر چھوٹی پٹھانی منہ بسور کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔ 

نازلی آگے بڑھی تو امجد بابا نے اسے روکا۔ 

"بیٹا آپ اکیلی نہ جائیں ۔۔۔ ہاشم صاحب کو اچھا نہیں لگے گا۔"امجد بابا نے جھجھک کر کہا۔ 

"میں نے ان سے پوچھ لیا ہے بابا ۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔"وہ تیزی میں جھوٹ بول گئی تھی۔اگر وہ جھوٹ نہ بولتی تو امجد بابا ہاشم کو کال کر کے بتا دیتے اور نازلی اس وقت رکنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ 

اسکی بات پر امجد بابا نے شکر بھری لمبی سانس لی اور نازلی آگے بڑھ کر گاڑی میں بیٹھی تو ڈرائیور نے کار گیٹ سے باہر نکالی۔ 

کار سڑک پر چل رہی تھی جب ایک کار انکا پیچھا کرنے لگی۔جس سے انجان نازلی خوش گوار انداز میں باہر گزرتے مناظر کو دیکھنے لگی۔ 

وہ لوگ یتیم خانے پہنچے تو نازلی کار سے نکلی۔ڈرائیور چیزیں اٹھاتا اسکے ساتھ اندر کی طرف بڑھا۔ 

چیزیں رکھ کر ڈرائیور نے کہا کہ اسے ضروری کام ہے اسلیے جب تک وہ یہاں ہے اس وقت تک وہ کام نپٹا آئے۔نازلی نے اسے اجازت دے دی۔ 

وہ چلا گیا تو نازلی بچوں کے ساتھ مصروف ہوگئی۔ان میں چیزیں بانٹنے لگی۔اس دوران اسکے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوئی تھی۔ 

دوسروں میں خوشیاں بانٹ کر دل کو کتنا سکون ملتا ہے یہ کوئی نازلی سے پوچھتا۔

دو گھنٹے وہ وہاں رہی تھی۔سب سے باتیں کرتی ان سے انکا دکھ پوچھتی وہ خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی۔ 

وہاں سے نکل کر وہ باہر آئی پر ڈرائیور موجود نہ تھا۔وہ وہاں سے ہوتی باہر سڑک تک آئی پر دور دور تک کسی گاڑی کا نام و نشان نہ تھا۔

وہ ڈرائیور کو کال کرنے لگی پر اسکا موبائل بند مل رہا تھا۔نازلی کو پریشانی نے گھیر لیا۔

اسنے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔کالے بادل پھر سے سر پر منڈلانے لگے تھے۔گھڑی دیکھی تو دن کے چار بج رہے تھے۔پر موسم کی وجہ سے دن شام جیسا سماں پیش کر رہا تھا۔ 

"آج تو گئی میں۔"وہ فکر مندی سے ہاشم کا خیال آنے پر ڈر کر بڑبڑانے لگی۔

وہ پھر سے ڈرائیور کا نمبر ڈائل کرنے لگی تھی جب ایک دم ہاشم کی کال آنے لگی۔

نازلی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ 

"ہائے اللہ ۔۔۔ لگتا ہے انہیں پتہ چل گیا۔"اس کی پریشانی کے مارے بری حالت ہونے لگی۔ 

ایک کے بعد دوسری کال آنے لگی تو اسنے جلدی سے موبائل سائلنٹ پر کر دیا۔ 

موبائل مٹھی میں بھینچ کر وہ فکر مندی سے ارد گرد نظریں دوڑانے لگی۔جب دور سے ایک کار اسکی طرف آتی نظر آئی۔  اسے لگا ڈرائیور ہوگا اسلیے خوشی سے آگے بڑھی پر جیسے ہی کار اسکے سامنے رکی اسکے قدم تھم گئے۔ 

ہاشم آفس سے باہر نکلتا مسلسل اسے کال کر رہا تھا پر وہ کال پک نہیں کر رہی تھی۔ 

کچھ دیر پہلے وہ اپنے کام میں مصروف تھا جب اسے ایک کال آئی۔جہاں اسے بتایا گیا کہ اسکے ڈرائیور کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ اسے اتنی چوٹ نہیں آئی تھی پر بازو زخمی ہوا تھا جسکی وجہ سے اسے ہوسپٹل لے جایا گیا۔ہاشم نے جب اسکا حال پوچھنے کے لیے اس سے بات کی تو معلوم ہوا وہ نازلی کو لے کر یتیم خانے گیا تھا۔ 

اس موسم میں اکیلے وہ پاگل لڑکی گھر سے نکل گئی تھی۔ہاشم اسے کالز کر رہا تھا پر وہ کال پک نہیں کر رہی تھی جسکی وجہ سے اسکی جان ہوا ہونے لگی۔ 

اسنے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی آگے بڑھائی۔رخ یتیم خانے کی طرف تھا جہاں کا ڈرائیور نے اسے پتا بتایا تھا۔ 

وہ مسلسل نازلی کا نمبر ڈائل کر رہا تھا پر دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہیں مل رہا تھا۔۔۔ اسنے غصے سے دانت پیسے۔

اسنے موبائل کان سے ہٹایا ہی تھا کہ ایک ان نون نمبر سے کال آنے لگی۔ 

اسنے جلدی سے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔ 

وہ گاڑی سے نکل کر نازلی کے سامنے آیا۔اسے دیکھ کر نازلی کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ایک لمبے عرصے کے بعد وہ شخص آج اسکے سامنے آیا تھا۔ 

"آپ ۔۔۔"نازلی نے حیرت سے کہا۔ 

"جی میں ۔۔۔ آپکا کزن جمال آغا۔"وہ سر کو خم دے کر ہنسا پھر موبائل پر ہاشم کا نمبر ملا کر موبائل اپنی شرٹ کی جیب میں ڈال دیا تا کہ ہاشم انکی باتیں سن سکے۔اس کھیل میں اسے مزہ آ رہا تھا۔

اسکی مکار ہنسی سے نازلی کو خوف آنے لگا۔

"یاد تو ہوں ناں میں تمہیں نازلی؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔اسکے انداز پر نازلی ڈر کے کچھ قدم پیچھے ہوئی۔

"ڈر کیوں رہی ہو بے بی ڈول۔"وہ حیرت سے کہہ کر مسکرانے لگا۔جیسے بڑا معصوم ہو۔نازلی کی زبان تالو میں جکڑی گئی۔ سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھ کر اسکا دل بند ہونے لگا۔  

"ویسے کہاں ہے تمہارا دیوانہ ۔۔۔ ہاشم خان دی گریٹ۔"اسنے نازلی کی طرف قدم بڑھائے۔ 

"آ ۔۔۔ آپ جائیں یہاں سے۔"نازلی نے لڑکھڑائی آواز میں کہا۔

"کیوں ۔۔۔ یہ سڑک کیا تمہارے اس شوہر نے بنوائی ہے؟"وہ نازلی کو غصے سے گھورنے لگا۔ 

نازلی نے خالی سڑک کو دیکھا پھر جلدی سے پلٹنے لگی جب جمال آغا نے اسکا بازو دبوچا۔

"کہاں جا رہی ہو ۔۔۔آج تو تمہیں میرے ساتھ جانا ہے۔"وہ غصے سے دھاڑا تھا۔ 

"چھوڑیں مجھے۔"نازلی نے اپنا بازو چھڑانا چاہا پر کامیاب نہ  ہوئی۔ 

"ایک بار کام ہو جائے پھر چھوڑ دونگا۔۔۔"وہ کمینگی سے بولا۔اسکی آنکھوں سے ہوس ٹپک رہی تھی۔نازلی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی۔اس کی سانسیں بند ہونے لگی تھیں۔اسنے اگلے پل اپنا پرس اسکے سینے پر مارا۔ 

"چھوڑو مجھے ۔۔۔"وہ غصے سے بولی۔اسکی حرکت پر جمال آغا نے غصے سے دانت پیسے پھر اسے زور سے اپنی طرف کھینچا۔

"ہاشم خان نہیں ہوں میں سمجھی ۔۔۔ جمال آغا نام ہے میرا اور تم جیسیوں کو پاؤں کے نیچے مسلنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔تھوڑا انتظار کرو ۔۔ تمہیں تمہاری اوقات دکھاؤں گا۔"وہ غرایا تھا۔نازلی کا پرس نیچے گر چکا تھا۔آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔خود کو چھڑانے کی کوشش کے باوجود نازلی کامیاب نہ ہوئی اور جمال آغا نے اسے زبردستی کھینچ کر گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر پھینکا۔

"جانے دو مجھے ۔۔"نازلی چیخ کر باہر نکلنے لگی جب جمال آغا نے زور سے دروازہ بند کیا پھر جلدی سے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔کار کے دروازے لاک کر کے زن سے کار آگے بڑھا دی۔ 

"گڈ لک ہاشم خان ۔۔۔"اسنے جیب سے موبائل نکال کر ہنس کر کہا پھر موبائل آف کر کے پچھلی سیٹ پر پھینک دیا۔نازلی خوف بھری نظروں سے کبھی اس انسان نما بھیڑیے کو دیکھتی تو کبھی آنسوؤں بھری آنکھوں سے سامنے سنسان سڑک کو۔۔۔۔آسمان پر بادل کڑک رہے تھے۔موسم خراب ہورہا تھا اور نازلی کا دل بیٹھتا جا رہا تھا۔جانے وہ اسے کہاں لے کر جا رہا تھا؟ 

کال کٹ ہوئی اور ہاشم کی سانسیں مدھم چلنے لگیں۔اتنے مضبوط شخص کے ہاتھوں میں لغزش ہونے لگی۔وہ خبیث آدمی کیا کرنا چاہتا تھا؟

اسکے خطرناک ارادے جان کر ہاشم کا دل کانپنے لگا تھا۔

پر اگلے پل اسنے سرخ آنکھوں سے سامنے دیکھا پھر زور سے اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ مار کر دانت پیسے۔ 

"یہ تم اچھا نہیں کر رہے جمال آغا ۔۔۔ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔"اسنے ایکسلیرٹر پر پاؤں رکھ کر گاڑی کی اسپیڈ خطرناک حد تک بڑھا دی۔ 

غصے سے ابلتے دماغ کے ساتھ وہ نازلی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔بیل جا رہی تھی پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔

جانے آگے کیا ہونے والا تھا۔کس کی جیت ہونے والی تھی اور کس کی مات ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نازلی سہمی سی بیٹھی تھی جبکہ جمال آغا ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ جنونی انداز میں ہاشم کے خلاف باتیں کر رہا تھا۔نازلی کو بتا رہا تھا کہ ہاشم نے کیسے ہر بار اسے مات سے دو چار کیا پر اب وہ اسے منہ کے بل گرائے گا۔ 

نازلی نے دوپٹے میں چھپائے موبائل پر ایک نظر ڈالی جسکی اسکرین روشن تھی۔اسنے ہاتھ ایک طرف کر کے دوپٹہ تھوڑا پیچھے کر کے دیکھا۔ہاشم کی کال آرہی تھی۔پر وہ کال اٹھانے ہی لگی تھی کہ کال کٹ گئی۔ 

وہ سر جھکائے ہاشم کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔جب جمال آغا نے اسکا کندھا زور سے ہلایا۔ 

"کیا سوچ رہی ہو ۔۔۔ ڈر لگ رہا ہے ناں تمہیں مجھ سے؟"وہ اسکی خوف سے پر آنکھوں میں دیکھ کر ہنسا۔ 

نازلی نے چہرہ پھیر کر ہاشم کا نمبر ڈائل کر کے موبائل سختی سے ہاتھ میں  پکڑ کر اسے جمال آغا کی نظروں سے چھپانا چاہا تھا۔

"بولو ۔۔۔۔"اسے خاموش دیکھ کر وہ ایک دم دھاڑا تھا۔ 

نازلی نے سہم کر اسکی طرف دیکھا۔

"مجھے جانے دیں ۔۔۔ اگر ہاشم ۔۔۔"اسنے اتنا ہی کہا تھا کہ جمال آغا نے اسکا کندھا زور سے ہاتھ میں جکڑا۔

"ہاشم کی ایسی کی تیسی ۔۔۔۔ اور تم مجھے اسکی دھمکی مت دو سمجھی ۔۔۔۔تمہارا وہ حال کرونگا کہ تمہارا وہ ہاشم خون کے آنسو روئے گا۔"وہ لال آنکھوں سے اسے دیکھتا نفرت کی حدوں کو چھو رہا تھا۔ 

اسکی بات پر نازلی کے وجود میں سنسناہٹ ہونے لگی۔یہ اسکے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا۔۔۔۔۔اسنے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا پھر ہمیشہ کیوں اسکے ساتھ برا ہوتا ہے؟ہاشم کیسے اسے ڈھونڈ پائے گا؟اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔

جمال آغا اسے روتا دیکھ کر ہنسا پھر اسکا کندھا جھٹکے سے چھوڑ کر بولا۔"کاش ہاشم خان یہاں ہوتا اور دیکھتا کہ اسکی بیوی کس حال میں ہے اور اسکا دشمن اسکی بیوی کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔"وہ آنکھ دبا کر بولا۔نازلی کا دل نیچے ہی نیچے گر رہا تھا۔ 

"ویسے تڑپ رہا ہوگا بیچارہ ۔۔۔ اسے تڑپانے کے لیے ہی تو کچھ دیر پہلے کال پر اسے سب سنایا تھا۔اب وہ تڑپے گا۔۔۔ تمہیں ڈھونڈے گا پر تم اسے کہیں نہیں ملوگی۔۔۔پر فکر نہ کرو ویڈیو بنا کر اسے بھیجوں گا کہ وہ دیکھے اسکی بیوی جمال آغا کی بانہوں میں کیسی لگتی ہے۔"وہ احلاق کی حدیں توڑتا خباثت سے گری ہوئی باتوں پر اتر آیا تھا۔

نازلی نے آنکھیں سختی سے بند کر کے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔اسکی گھٹیا باتیں وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔دل اللہ کے بعد اس شخص کو پکار رہا تھا۔ 

جمال آغا اسے چہرہ موڑے دیکھ کر ہنسا پھر گاڑی کی اسپیڈ خطرناک حد تک بڑھا دی۔نازلی نے خوف سے باہر دیکھا۔ 

موسم بگڑ چکا تھا۔بادل زور سے گرج رہے تھے۔ہوا سے سڑک کی سائیڈز پر لگے درخت جھوم رہے تھے۔سنسان سڑک پر صرف انکی گاڑی دوڑ رہی تھی۔نازلی نے گزرتے مناظر کو خوف بھری نظروں سے دیکھا۔وہ شہر سے کافی دور آگئے تھے۔یہاں کسی انسان کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔جانے وہ اسے کہاں لے جا رہا تھا۔۔۔۔ 

اسنے کانپتے دل کے ساتھ سوچا پھر ایک دم دھیان ہاتھ میں پکڑے موبائل کی طرف گیا۔ 

اسنے جلدی سے ہاتھ ایک طرف کر کے موبائل اسکرین پر نظر ڈالی۔۔۔۔۔ کال ملی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔  کال پچھلے بیس منٹ سے چل رہی تھی ۔۔۔۔ مطلب وہ سب سن رہا تھا۔۔۔۔۔ نازلی کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔وہ اسکے ساتھ تھا ۔۔۔۔وہ اکیلی نہیں تھی۔۔۔۔ اسنے گردن پھیر کر اس سائکو کو دیکھا پھر آنسو صاف کیے۔ یہ رونے کا وقت نہیں تھا ۔۔۔ اسے سمجھداری سے کام لینا ہوگا ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ 

اسنے موبائل پر گرفت مضبوط کی پھر جمال آغا کو دیکھ کر بولی۔ 

"ہم کہاں جا رہے ہیں؟"لہجہ مضبوط تھا۔ 

جمال آغا نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کہیں دور ۔۔۔۔"اسنے آنکھ دبائی۔نازلی نے خود پر ضبط کیا۔ 

"کہاں؟"اسنے نرمی سے پوچھا۔اسکے انداز پر جمال آغا اسے دیکھ کر زور سے ہنسا۔ 

"کہیں تمہیں میں پسند تو نہیں آگیا جو رونا دھونا چھوڑ کر نرمی سے بات کر رہی ہو؟"وہ کہہ کر ایک دم اسکی طرف پلٹا پھر بائیں ہاتھ سے اسکے منہ کو زور سے پکڑا۔ 

"اپنے یار کو بتانے کے لیے پوچھ رہی ہو۔۔۔"وہ پاگل پن سے غرایا تھا۔انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اسے ہاشم کا ڈر تھا۔وہ ہاشم سے ڈرتا تھا۔

درد سے نازلی کی آنکھوں میں جیسے مرچیں بھرنے لگیں تھیں۔اسکی نم آنکھوں کو دیکھ کر جمال آغا کے سنجیدہ چہرے پر ایک دم مسکراہٹ پھیلی تھی۔نازلی کو وہ کوئی جنونی پاگل انسان لگا تھا۔ 

"تم روتی ہو تو میرے دل کو بڑا سکون ملتا ہے۔۔۔۔ روتی رہو۔۔۔"اسنے زور سے نازلی کا منہ دبایا۔نازلی کے لبوں سے سسکی نکلی اور آنکھوں میں ٹھہرے آنسو ٹوٹ کر گالوں پر گرے۔ 

"گڈ ۔۔۔"اسکا چہرہ جھٹکے سے چھوڑ کر وہ سامنے دیکھنے لگا پھر بولا۔"بتا دیتا ہوں کہ میں کہاں لے جا رہا ہوں تمہیں۔۔ویسے بھی تم کیسے اس ہاشم کو بتاؤ گی اور تمہاری آخری خواہش سمجھ کر اس بات کو پورا کر رہا ہوں پھر اب کے بعد تم کہاں کچھ کہنے کے قابل رہو گی۔"اسنے آنکھوں میں حیوانی چمک لیے نازلی کو دیکھا جو منہ پر ہاتھ رکھے سسکیاں دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔

"شہر سے دور ۔۔۔ میرے فارم ہاؤس جا رہے ہیں جہاں خوب انجوائے کریں گے ۔۔۔ صرف تم اور میں ۔۔۔"اسنے لبوں پر زبان پھیری۔نازلی نے نفرت سے اسے دیکھا۔اسے اس شخص سے گھن آ رہی تھی۔ 

"تمہارا ہاشم اب اس جمال آغا کو جان جائے گا۔اب کی بار میرا پلان فلاپ نہیں ہوگا۔"وہ خود کلامی کر رہا تھا۔اسکا اوور کونفیڈنس ہی اسے لے ڈوبنے والا تھا۔

"اس بار ہاشم خان منہ کی کھائے گا۔"نفرت سے کہہ کر اسنے نازلی کے گال پر ہاتھ پھیرا۔نازلی نے اسکا ہاتھ جھٹکا پھر چہرہ پھیر کر دروازے کے ساتھ لگ گئی جیسے اس سے دور ہونا چاہتی ہو۔اسکی اس حرکت پر جمال آغا نے قہقہہ لگایا۔ 

"ابھی دور ہوجاؤ پر کچھ وقت بعد تم میری بانہوں میں ہوگی۔"وہ بھیڑیے کی طرح اپنے شکار کو دیکھ رہا تھا۔ 

نازلی پتھرائی نظروں سے سامنے روڈ کو گھورنے لگی جہاں اب بارش برسنا شروع ہو چکی تھی۔ 

ہاشم نے ایک ہاتھ سے سختی سے اسٹیرنگ وہیل تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں تھاما موبائل کان سے لگا رکھا تھا۔ 

آنکھیں ضبط سے لال ہورہی تھیں۔وجود غصے سے کانپ رہا تھا۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیسے جمال آغا کو اپنے سامنے لے آئے اور اسکا وہ حال کرے کہ دنیا دیکھے۔ 

اسکے گندے الفاظ ہاشم کی سماعتوں میں گونج رہے تھے۔اسکی باتیں سوچ کر ہاشم کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔اسکی ہمت کیسے ہوئی تھی کہ وہ ہاشم خان کی بیوی پر نظر ڈالتا۔اسکے بارے میں اس حد تک گر کر سوچتا۔اسکے دل سے دھواں اٹھنے لگا۔لب سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔رگوں میں دوڑتا خون ابل رہا تھا۔سارا وجود آگ کی لپٹوں میں تھا۔اسنے آنکھیں سختی سے بند کر کے کھولیں۔

اب دوسری طرف مکمل خاموشی تھی پر وہ اس لڑکی کا خوف اپنے اندر محسوس کر رہا تھا۔اسکی حالت کا سوچ کر اسکا دل سینے سے باہر آنے لگا تھا۔وہ اس لڑکی کو اپنے دل میں چھپا لینا چاہتا تھا۔۔۔ اسے جمال آغا جیسے کمینے شخص سے کہیں دور لے جانا چاہتا تھا۔

جمال آغا کی بات اسکے ذہن میں گونجی۔

"فارم ہاؤس۔۔۔"اسنے زیر لب کہہ کر دانت پیسے۔لہجہ بلا کا سرد و سپاٹ تھا۔

اسنے پاؤں ایکسیلٹر پر رکھ کر دبایا اور گاڑی کو فل اسپیڈ پر چھوڑ دیا۔آس پاس کے مناظر تیزی سے بھاگ رہے تھے۔اسکی گھورتی آنکھیں سڑک پر جمی تھیں۔ 

اسکے فارم ہاؤس سے وہ واقف تھا۔یونی کے زمانے میں جمال آغا وہاں پارٹیز رکھا کرتا تھا۔جہاں ایک دو بار وہ بھی گیا تھا جمال آغا کے کہنے پر ۔۔۔ وہ بس اسے بلا کر شو آف کرنا چاہتا تھا اور ہاشم کو اسکے انداز پر خوب ہنسی آتی تھی۔وہ تو جانا بھی نہیں چاہتا تھا پر اسفی اسے زبردستی لے جاتا کہ جمال آغا نمونے کے کارنامے دیکھیں گے اور وہاں جمال آغا کو لڑکیوں کے ساتھ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا دیکھ کر اسفی اس پر فنی کمنٹ پاس کرتا اور وہ دونوں خوب ہنستے تھے۔ 

ہاشم پرانی سوچوں سے چونکا۔تیز بارش کو گھورتا وہ ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا۔ 

موبائل ہنوز کان کے ساتھ لگا تھا۔دوسری طرف سے اب کوئی بات نہیں ہورہی تھی پر اسنے موبائل کان سے نہ ہٹایا۔دوسری طرف کی ایک ایک آہٹ پر اسکی سماعتیں غور کر رہی تھیں۔ 

گاڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔نازلی ڈر کے مارے سانس روکے بیٹھی تھی۔ سڑک سے ہٹ کر گاڑی اب کھلے میدان میں چل رہی تھی۔جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر درخت لگے تھے۔ نازلی دل ہی دل میں دعائیں کر رہی تھی۔جمال آغا کی سنجیدہ صورت دیکھ کر اسکی ہمت نہ ہوئی کہ وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو ایک نظر دیکھ لیتی کہ آیا کال ابھی تک ملی ہوئی ہے کہ نہیں۔

وہ سوچوں میں گم تھی جب گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔اسکا دل حلق میں آگیا۔اسنے سامنے دیکھا درختوں سے گھرا سر سبز میدان تھا۔

اسنے جلدی سے جمال آغا کی طرف دیکھا جو کار سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

کار بند پڑ گئی تھی۔اسنے زور سے اسٹیرنگ وہیل پر ہاتھ مارا پھر نازلی کی طرف دیکھا۔جسکی آنکھوں میں خوف ہی خوف تھا۔ 

"کار بند پڑ گئی ہے پر چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔"اسنے سر جھٹکا۔"فارم ہاؤس تھوڑے فاصلے پر ہی ہے۔۔۔ چلو اترو۔"اسکے گال کو چھو کر وہ اگلے پل دروازہ کھول کر کار سے اترا۔نازلی کی روح فنا ہونے لگی۔جمال آغا اترا پھر دروازہ بند کرتا گھوم کر اسکی طرف آنے لگا۔

کانپتے دل کے ساتھ اسے دیکھتے اسنے جلدی سے موبائل والا ہاتھ سامنے کیا۔کال ملی ہوئی تھی۔اسنے موبائل کان سے لگایا۔

"ہاشم ۔۔۔ آپ آجائیں پلیز ۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ آدمی جانے کیا کرنے جا رہا ہے۔پلیز پلیز مجھے بچا لیں۔"وہ رو کر مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔اس سے پہلے کہ دوسری طرف سے کوئی جواب آتا۔کار کا دروازہ ایک دم کھلا تھا۔جمال آغا کو دیکھ کر نازلی نے موبائل چھپانا چاہا پر وہ سب سن اور دیکھ چکا تھا۔اسکی آنکھوں سے آگ نکل رہی تھی اگلے پل اسنے نازلی کو کھینچ کر باہر نکالا۔وہ دونوں تیز بارش کے نیچے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ 

"تم کمینی اپنے یار کو خبریں دے رہی ہو۔۔۔تمہاری تو میں ۔۔۔۔"اسنے غرا کر کہتے نازلی کے بال مٹھی میں جکڑے پھر دوسرے ہاتھ سے موبائل چھیننا چاہا۔ 

"چھوڑو مجھے۔۔۔"نازلی نے غصے سے اسے دھکا دیا پر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔نازلی نے موبائل زور سے ہاتھ میں بھینچ رکھا تھا۔وہ موبائل اسے نہیں دینا چاہتی تھی۔یہ اسکی آخری امید تھی۔جس سے وہ کسی طرح بھی ہاشم کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔

"موبائل دو۔۔۔۔"جمال آغا نے گالی بک کر اسکے بالوں پر گرفت مضبوط کی۔تکلیف کے مارے نازلی کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ 

"نہیں ۔۔۔"اسنے آنکھیں کھول کر نفرت سے اس ذلیل شخص کو دیکھا۔جمال آغا نے دانت پیسے اگلے پل اسکے بالوں کو زور سے جھٹک کر چھوڑا۔نازلی تکلیف سے چیخی تھی۔وہ بھیڑیے کی طرح اس پر جھپٹا تھا۔اس ہاتھا پائی کے دوران نازلی کی شال وہیں کار کے پاس گری تھی۔دوپٹہ کندھے پر جھول رہا تھا۔

جمال آغا نے اسکے ہاتھ سے موبائل کھینچ کر زور سے زمین پر دے مارا۔جو نیچے گرتے ہی ٹوٹ چکا تھا۔ 

نازلی روتی ہوئی تیزی سے اسکی طرف لپکی پر جمال آغا نے اسے اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ 

"خدا تم پر اپنا عذاب نازل کرے ۔۔۔ چھوڑو مجھے خبیث آدمی۔۔۔رک جاؤ مت کرو یہ سب ۔۔۔۔ہاشم آگئے تو تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔"نازلی روتی ہوئی غصے سے اسے دھمکا رہی تھی کہ کسی طرح وہ شخص اپنے شیطانی عمل سے باز آجائے پر وہ تو حیوان بنا تھا۔نازلی اس سے اپنے آپ کو چھڑانے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی۔

"آج تو تمہارا خدا بھی مجھے نہیں روک سکتا پھر ہاشم خان کیا چیز ہے۔۔۔۔ آج صرف تم اور میں ہونگے۔۔۔کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔"وہ اسکے چہرے پر جھکتا قہقہہ لگا کر بولا۔جیسے خدا کے نام سے اسے ذرا ڈر نہ لگا تھا۔وہ کافر ہوگیا تھا۔

"کفر بک رہے ہو جمال آغا۔۔۔۔ یاد رکھو خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے پر جب پڑتی ہے ناں تو تم جیسے فرعون خاک میں مل جاتے ہیں۔۔۔۔مت کرو اتنا غرور ۔۔۔۔ ڈرو اللہ سے جس نے تم سے بڑے  بڑے ظالموں کو مٹی میں ملا دیا پھر تمہاری کیا اوقات ہے۔۔۔۔"نازلی نفرت سے دیکھتی اسے آئینہ دکھا رہی تھی۔اسکی آنکھیں ضبط سے گلابی ہورہی تھیں۔

اسکی بات پر جمال آغا کو آگ ہی تو لگ گئی تھی۔

"بکواس بند کرو۔۔۔۔زیادہ مولانی بننے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ تم جیسی فاحشہ سے خوب واقف ہوں میں۔۔۔ایسے ہی تو نہیں تم نے اس ہاشم خان کو پھانس لیا۔۔۔وہ ایسے ہی تو تمہارا دیوانہ نہیں ہوا تم نے اسکے سامنے اپنا آپ رکھا ہوگا۔۔۔"وہ نازلی کا منہ سختی سے دبوچ کر دھاڑا۔نازلی زور سے آنکھیں بھینچ گئی۔بند آنکھوں سے آنسو نکلے تھے جسے بارش کے پانی نے اپنے ساتھ بہا دیا۔یہ بات شاید اب ساری زندگی اسکا پیچھا نہیں چھوڑے گی کہ اسنے ہاشم خان کو پھانسا ہے۔وہ کس کس کو بتاتی کہ وہ بے قصور ہے۔اسکے کردار میں کوئی کھوٹ نہیں۔۔۔اسکا دامن صاف ہے۔

جمال آغا ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈال کر اسکا بازو اپنی گرفت میں لے کر آگے بڑھا۔نازلی اسکے ساتھ گھسیٹتی چلی جا رہی تھی۔

وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے نازلی کا دل درد سے پھٹ رہا تھا۔اسکے گندے الفاظ یاد کر کے نازلی کے وجود سے جان نکلنے لگی۔وہ اپنی عزت نہیں گنوانا چاہتی تھی۔وہ کیسے خود کو بچائے۔۔۔۔وہ دل کی گہرایوں سے اللہ کو پکار رہی تھی۔ 

اسنے خود کو گھسیٹتے اس بھیڑیے کو دیکھا۔وہ اسکی منت کرنے کو بھی تیار تھی کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ایسا نہ کرے۔۔۔

"اللہ کے لیے چھوڑ دو مجھے ۔۔۔ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ۔۔۔۔پلیز پلیز مجھے جانے دو۔"وہ روتے ہوئے اسکی منت کرتی اپنے ہاتھ کو اسکی گرفت سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔

جمال آغا نے سر پھیر کر اسے دیکھا پھر اسے تڑپ کر روتے دیکھ کر دل سے ہنسا تھا۔ 

"چھی چھی چھی ہاشم خان کی شہزادی اسکے دشمن کے آگے گڑگڑا رہی ہے۔یہ کتنا پیارا منظر ہے آہ ۔۔۔۔"وہ دل پر ہاتھ رکھ کر مزے سے بولا۔وہ اسکی بے بسی کا مذاق اڑا رہا تھا۔نازلی کا دل کر رہا تھا وہ اسکا منہ نوچ لے۔ 

وہ ہنستے ہوئے ایک دم سنجیدہ ہوا تھا۔آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ 

"تم نے میرا کچھ بگاڑا ہو نہ ہو پر اس ہاشم نے میرا بہت کچھ  بگاڑا ہے۔۔۔اسنے ہر قدم پر میرے اس دل کو جلا کر خاک کیا ہے اور اب میں اسکی زندگی کو آگ میں جھونک دونگا۔"اسنے نازلی کی پتھرائی آنکھوں میں دیکھا۔"اسکی زندگی یعنی کہ تم ۔۔۔ تمہارا وہ حال کر کے اسکے پاس واپس بھیجوں گا کہ تمہیں دیکھ کر اسکی روح تک کانپ اٹھے گی۔"وہ نفرت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔

نازلی کے وجود پر کپکپی طاری ہوگئی۔تبھی آسمان پر زور سے بادل گرجے۔نازلی نے چونک کر نفرت سے سامنے کھڑے اس حیوان کے چہرے کو دیکھا۔ 

"تم جیسے کمینے انسان سے اسی بات کی امید کی جا سکتی ہے۔جو اپنی لڑائی میں عورت کو بیچ میں لاتے ہیں۔ارے اتنے تم مرد ہو تو ہاشم کا سامنا کرو پھر میں مانوں کہ تمہارے خون میں کتنا جوش ہے۔پر تم تو عورتوں سے بھی گئے گزرے ہو۔۔۔"نازلی نے طنزیہ ہنس کر ایک طرف تھوکا تھا۔جیسے جمال آغا پر تھوکا ہو۔ 

اسکی بات اسکی اس حرکت پر جمال آغا کا چہرہ غصے سے خون چھلکانے لگا۔وہ بلبلا اٹھا تھا۔اس چھوٹی سی لڑکی نے کڑا وار کیا تھا۔

اسنے نازلی کو کندھوں سے دبوچ کر اپنے قریب کیا۔ 

"جتنی بکواس کرنی ہے کر لو پھر کچھ وقت بعد تم اپنے الفاظ پر پچھتاؤ گی ۔۔۔۔ میری مردانگی پر سوال اٹھا رہی ہو تو اسکا جواب تمہیں دے دونگا ۔۔۔پھر تمہیں خود کی صورت سے بھی گھن نہ آئی تو میرا نام بدل دینا۔۔۔"وہ ٹھنڈے لہجے میں پھنکارا تھا۔اسے ہوس بھری نظروں سے دیکھتا اسکے کندھے سے آستین کو زور سے کھینچا جو کہنی تک پھٹتی چلی گئی۔اسکے اس عمل پر نازلی پتھر کی ہوگئی۔نیلی آنکھوں میں گہرا سکوت چھا گیا تھا۔جبکہ جمال آغا اسے دیکھ کر لطف سے ہنس رہا تھا۔نازلی کتنے پل غم و غصے سے اسے دیکھتی رہی پھر اگلے پل اسکا ہاتھ زور سے جمال آغا کے چہرے پر پڑا تھا۔اس نازک لڑکی کا ہاتھ بھلا اسے کتنی تکلیف پہنچا سکتا تھا پر اسکی انا کے لیے یہ تھپڑ بم کی طرح تھا۔ 

"خدا تمہارا وہ حال کرے جمال آغا کہ تم اپنے ان الفاظ ، اپنی حرکتوں کو سوچ کر خود سے گھن کھاؤ۔۔۔تم تڑپو معافی مانگو اور تمہیں معافی نہ ملے ۔۔۔۔ تب کوئی تم پر تھوکنے والا بھی نہ ہو۔"وہ مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی پر گلابی آنکھوں سے پانی نکلتا جا رہا تھا۔اسنے روتے ہوئے اپنا دوپٹہ اچھے سے لپیٹا تھا۔ 

جمال آغا تپتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔پر پھر اسے اپنے گرد دوپٹہ لپیٹتے دیکھ کر زور سے ہنسا۔ 

"بد دعاؤں کے علاوہ تم کر بھی کیا سکتی ہو۔۔۔۔چھی چھی کمزور عورت۔۔۔"اسنے دانت کچکچا کر مسکراتے ہوئے کہا۔ 

"تم ہو کمزور مرد ۔۔۔ جو عورت کے ذریعے اپنا انتقام لیتا ہے۔تم میں اتنا دم نہیں کہ تم کسی مرد کا مقابلہ کر سکو۔"نازلی بھی جھجھکی نہیں اسے نفرت سے دیکھ کر سرد انداز میں بولی۔   جمال آغا کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی اور وہ غرا کر آگے بڑھا۔نازلی کو گردن سے پکڑ کر اسکا گلہ زور سے دبایا۔

نازلی نفرت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔اسنے اب کی بار منت نہیں کی تھی۔وہ اس ذلیل شخص کو خوشی نہیں دینا چاہتی تھی۔ 

جمال آغا نے اسے چھوڑا اور اگلے پل الٹے ہاتھ کا تھپڑ زور سے نازلی کے منہ پر مارا۔نازلی لہرا کر زمین پر گری تھی۔ 

اسکا ہونٹ پھٹا اور تیزی سے خون نکلتا ٹھوڑی سے نیچے بہنے لگا۔"تم میرے ہاتھوں مرنا چاہتی ہو کمینی لڑکی۔"اسنے نازلی کو بالوں سے پکڑ کر اٹھایا اور ایسے ہی تھامے اسے گھسیٹتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔وہ بے جان قدموں کے ساتھ چل رہی تھی۔وہ کافی دور آگئے تھے جب نازلی نے دھندلی آنکھوں اٹھائیں۔ سامنے کچھ فاصلے پر اسے فارم ہاؤس دکھائی دیا اور اسکی سانسیں اٹکنے لگیں۔وہ مر کر بھی اندر نہیں جائے گی اس خبیث آدمی کے ساتھ۔۔۔۔یہ اسکے لیے زندگی اور موت کا سوال تھا۔اسنے تمام ہمت متجمع کر کے خود کو اس سے چھڑایا پھر ساری طاقت لگا کر اسے دھکا دیا۔جمال آغا جو اسکے ہمت ہار لینے پر جیت کے نشے میں چور اسے کھینچتا آگے بڑھ رہا تھا اچانک اس حملے کے لیے تیار نہ تھا تبھی اس دھکے پر منہ کے بل نیچے گرا تھا۔ 

نازلی اسے گرے دیکھ کر پلٹی اور پھر پوری جان سے بھاگنے لگی۔اسکا دوپٹہ کہیں پیچھے گر گیا تھا۔منہ سے خون نکل رہا تھا۔بال کھل کر ہوا سے لہرا رہے تھے۔آنکھوں پر آنسوؤں نے دھند کی چادر بچھا دی تھی۔رہی سہی کثر بارش نے پوری کر دی تھی پر اسے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی۔وہ اندھا دندھ بھاگ رہی تھی۔ اسے اس کمینے شخص سے دور بھاگنا تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ اسے کہاں جانا ہے بس وہ بھاگتی جا رہی تھی۔سانسیں پھول گئیں تھی۔آکسیجن کی کمی سے اسکا حلق جلنے لگا تھا پر وہ رکی نہیں تھی۔پاؤں کے درد کو بھلا کر وہ اپنی عزت بچانے کے لیے بھاگ رہی تھی۔ 

اسے اپنے پیچھے اس شخص کی چلانے کی آواز آرہی تھی۔وہ اسکے پیچھے آرہا تھا۔نازلی اور تیزی سے بھاگنے لگی۔دل ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھا کہ وہ کہاں تک اس شخص سے بھاگے گی اور اگر اس بھیڑیے نے اسے پکڑ لیا تو ؟؟؟

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"ہم سے الجھو گے تو انجام قیامت ہوگا۔"

"ہم نے روندا ہے زمانے کے نوابوں کا غرور۔"

ہاشم وہاں تک پہنچ آیا تھا جہاں انکی گاڑی رکی تھی۔وہ جلدی سے اپنی کار سے نکل کر بھاگتا ہوا جمال آغا کی کار تک آیا جسکا ایک دروازہ کھلا تھا اور نیچے نازلی کی شال پڑی تھی۔ 

ہاشم نے جھک کر اسکی شال اٹھائی۔ دل خوف سے دھڑک رہا تھا۔قدم ایک دم لڑکھڑائے تھے۔ 

"نازلی ۔۔۔"اسنے اونچی آواز میں کہتے آس پاس نظریں دوڑائی تھیں۔پھر نیچے دیکھا تو کچھ فاصلے پر اسکا ٹوٹا ہوا موبائل نظر آیا۔ہاشم کی جان ہوا ہونے لگی۔ 

اسنے آگے بڑھ کر موبائل اٹھایا پھر سیدھا ہوتا اسے پکارنے لگا۔ 

"کہاں ہو نازلی ۔۔۔۔"وہ آگے بڑھ رہا تھا۔اسے تلاش کر رہا تھا پر دور دور تک ویرانی پھیلی تھی۔خاموش درختوں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔ہاشم اسکی شال تھامے آگے بھاگتا اسے پکار رہا تھا۔اسکا دل سینے سے باہر آ رہا تھا۔ 

بھاگتے ہوئے اسکے دماغ میں نازلی کے جملے گونجے۔

"ہاشم ۔۔۔ آپ آجائیں پلیز ۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ آدمی جانے کیا کرنے جا رہا ہے۔پلیز پلیز مجھے بچا لیں۔"یہ الفاظ اسکے دل پر حملہ کر رہے تھے۔اسکا دل پگھل کر پانی  ہونے لگا۔نازلی کی ایک ایک سسکی اور جمال آغا کا ایک ایک لفظ اسے پاگل کر رہا تھا۔موبائل ٹوٹنے تک اسنے جو کچھ بھی سنا تھا وہ ہاشم کی جان جلا رہا تھا۔اسکے دل میں قیامت سا منظر تھا۔نازلی کی شال کو ہاتھوں میں بھینچتا وہ تیزی سے آگے بھاگ رہا تھا۔ دل میں سو باتیں آرہی تھی کہ اس شخص نے کہیں نازلی کو کچھ کر نہ دیا ہو ۔۔۔ کہیں وہ اپنی زندگی کو کھو نہ دے ۔۔۔ ایک ایک سوچ اسکی رگوں میں دوڑتے خون کو لاوے میں بدل رہی  تھی۔ 

"نازلی ۔۔۔"وہ فارم ہاؤس کی طرف بھاگتا اسے پکار رہا تھا۔ 

نازلی کے قدم آگے بڑھ رہے تھے۔وہ گالیاں بکتا اس سے کچھ فاصلے پر تھا۔نازلی کی آنکھوں کے سامنے موت رقص کرنے لگی۔وہ کسی بھی حال میں اسکے ہاتھ نہیں آنا چاہتی تھی۔ 

"میں کہتا ہوں رک جاؤ ۔۔۔ بچ کر کہاں جاؤ گی۔"دور سے جمال آغا کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔ 

نازلی کی روح فنا ہونے لگی۔سانسیں تھمنے لگی تھیں۔سر چکرا رہا تھا۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا پھیل رہا تھا۔وہ لڑکھڑائی تھی جب جسم میں جان پھونک دینے والی آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی۔"نازلی ۔۔۔۔"یہ بھاری آواز اس شخص کی تھی۔یہ اسکے ہاشم کی آواز تھی۔وہ آگیا تھا ۔۔۔۔ نازلی کی آنکھوں کے سامنے سے  اندھیرا ہٹ گیا تھا اور اسکی جگہ روشنی نے لی تھی۔ 

اس آواز نے نازلی کے وجود کے ساتھ پنکھ لگا دیے تھے۔قدموں میں تیزی آگئی تھی۔دل نے تیزی سے دھڑکنا شروع کیا۔

"ہاشم ۔۔۔۔"اسنے اونچی آواز سے کہنا چاہا پر اسکی آواز جیسے بند ہو چکی تھی۔

"رک جاؤ ۔۔۔"جمال آغا غرایا تھا۔آواز میں ڈر صاف محسوس ہورہا تھا۔وہ سن چکا تھا ہاشم کی آواز ۔۔۔۔ 

نازلی سامنے دیکھتی تیزی سے بھاگ رہی تھی جب وہ اسے نظر آیا۔نازلی کو جیسے زندگی ملی تھی۔اسکی پشت نازلی کی طرف تھی۔وہ اسے پکار رہا تھا۔ 

نازلی اسکے قریب آتی گئی۔"ہاشم ۔۔۔"اسنے پوری طاقت لگا کر اسے پکارا تھا۔اسکی آواز پر وہ جھٹ سے اسکی طرف پلٹا تھا اور اگلے پل نازلی بھاگ کر آتی اسکے سینے سے لگ گئی۔ 

"میں مرنے والی تھی ہاشم اور آپ آگئے۔"اسنے نم آواز میں ہانپتے ہوئے کہا۔

ہاشم تھم سا گیا۔اسنے اپنے سینے سے لگی اس لڑکی کی حالت دیکھی تو دل بند ہونے لگا۔اسکا چہرہ وہ ابھی نہیں دیکھ پایا تھا۔وہ چہرہ اسکے سینے میں چھپائے رو رہی تھی۔ 

ہاشم نے اسکی پھٹی آستین کو دیکھا تو کنپٹی پر رگیں ابھر آئیں۔رگوں میں دوڑتا خون ٹھوکریں مارنے لگا تھا۔

اسنے ہاتھ میں تھامی شال جو کہ بھیگی ہوئی تھی وہ نازلی کے گرد لپیٹی پھر مضبوط بازو اسکے گرد پھیلائے تھے۔ 

وہ آہستہ سے اسکا سر تھپک رہا تھا۔ارد گرد سب کچھ جیسے منجمد ہوگیا تھا۔بس بارش کی آواز اور نازلی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ ہاشم کی آنکھیں ضبط سے لال ہورہی تھیں۔اگلے پل سیاہی مائل مغرور آنکھوں سے ایک واحد آنسو نکل کر نازلی کے بالوں میں جذب ہوا تھا۔اس شہزادے کے دل پر حشر برپا تھا کہ اسکی آنکھ چھلک اٹھی تھی۔ورنہ وہ اور آنسو ۔۔۔۔ انکی آپس میں کبھی نہیں بنی تھی۔بڑی سے بڑی بات پر بھی وہ مضبوط چٹان کی طرح کھڑا رہا تھا۔کبھی اسکے قدم لڑکھڑائے نہ تھے پر آج ۔۔۔۔۔

اسے کچھ فاصلے پر قدموں کے رکنے کی آواز آئی۔اسنے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا۔پھیلی آنکھوں کے ساتھ وہاں جمال آغا کھڑا تھا۔انہیں ساتھ دیکھ کر وہ پتھر کا ہوگیا تھا۔کیا نازلی نے اسے اتنی جلد بتا دیا تھا کہ وہ کہاں جا رہے تھے۔۔۔اسے لگ رہا تھا کہ اسکے گاڑی سے نکلنے کے بعد نازلی نے اسے کال ملائی تھی اور زیادہ کچھ نہیں بتا پائی تھی۔وہ اس بات سے انجان تھا کہ کال تو تمام راستے ملی ہوئی تھی اور ہاشم نے انکی ایک ایک بات سنی تھی۔ 

اسے دیکھتے ہاشم نے نازلی کو خود سے جدا کیا۔پھر نظریں نازلی کے چہرے پر پڑیں تو جیسے کسی نے زور سے دل کو پاؤں کے نیچے مسلا تھا۔ 

چہرے پر تھپڑ کا نشان تھا اور ہونٹوں سے تازہ خون نکل رہا تھا۔ ہاشم نے اپنی شرٹ پر نظر ڈالی جہاں اسکے منہ سے نکلا خون لگا تھا۔ 

ہاشم کے جسم میں شرارے دوڑنے لگے۔اسنے نازلی کو کندھوں سے تھام کر ایک طرف کیا پھر لمبے ڈگ بھرتا جمال آغا کی طرف بڑھا۔ 

"یہ تم نے اچھا نہیں کیا جمال آغا ۔۔۔۔یہ وار بہت کڑا ہے۔تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔"ہاشم نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔جمال آغا سن کھڑا تھا۔اسکا فل پروف پلان ایک بار پھر سے خاک میں مل چکا تھا۔ 

"تم نازلی کو دھمکا رہے تھے ۔۔۔ اب تم دیکھنا کہ میں تمہاری کیا حالت کرتا ہوں خبیث آدمی۔"اسنے دانت پیس کر کہتے اسکے منہ پر مکا مارا۔جس سے جمال آغا کے گال سے خون نکلنے لگا۔وہ تکلیف سے بلبلا اٹھا۔ہاشم ایک کے بعد ایک مکا اسے رسید کر رہا تھا۔

اسے ہوش نہ تھا کہ اسکا ہاتھ کہاں پڑ رہا ہے۔وہ اسکے پیٹ ، سینے اور منہ پر مارتا جا رہا تھا اور ساتھ ایک ہی جملہ دوہرا رہا تھا کہ "یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔"وہ جیسے پاگل ہورہا تھا۔جمال آغا کو زور سے دھکا دے کر نیچے گرایا۔پھر پاؤں سے اسے ٹھوکریں مارنے لگا۔جمال آغا کا سارا چہرہ خون سے بھر گیا تھا۔ 

ہاشم کا اپنا ہاتھ زخمی ہو چکا تھا پر اسے پرواہ نہ تھی۔جمال آغا نیم بیہوشی کی حالت میں تھا۔

"کیوں کیا تم نے ایسا ۔۔۔ تمہاری دشمنی مجھ سے تھی تو اسے کیوں بیچ میں لائے ہاں۔۔۔"ہاشم غصے سے ابلتا نیچے جھکا اور اسے کالر سے پکڑ کر اوپر کھینچ کر بٹھاتا پھر سے اسکے چہرے پر پنچ کرنے لگا۔

"آج میں تمہارا قصہ ہی ختم کر دونگا ذلیل آدمی۔۔۔"وہ غرا کر کہتا اسکا گلہ دبانے لگا۔

نازلی جو پتھر بنی انہیں دیکھ رہی تھی ہاشم کے اس عمل پر بھاگ کر اس تک گئی۔ 

"ہاشم چھوڑیں اسے ۔۔۔یہ مر جائے گا۔"نازلی نے اسکے بازؤں کو پیچھے کرنا چاہا۔پر ہاشم کی نفرت بھری نظریں جمال آغا پر تھیں۔ 

"ہاشم چھوڑیں اسے ۔۔۔ چھوڑیں ۔۔۔"جمال آغا کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھ کر نازلی چیخی تھی۔"مر جائے گا یہ ہاشم ۔۔۔ میں کہتی ہوں چھوڑیں۔"وہ غصے سے چلائی تھی۔ہاشم نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا وہ دھڑام سے نیچے گرا تھا۔ 

ہاشم اسکی طرف پلٹا۔آنکھوں میں بے پناہ غصہ تھا۔اسنے نازلی کو سختی سے تھاما۔

"اسنے اتنا سب کچھ کیا اور تمہیں اسکی فکر ہورہی ہے۔"وہ غرایا تھا۔غصے نے جیسے آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔وہ بھول گیا تھا کہ سامنے وہ لڑکی کھڑی تھی جسے کچھ وقت پہلے وہ دیوانہ وار ڈھونڈ رہا تھا۔ 

نازلی نے اسکی آنکھوں میں غصہ دیکھا تو نرمی سے بولی۔ 

"مجھے اسکی نہیں آپکی فکر ہے ۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوگیا تو آپکو جیل ہوجائے گی اور میں آپکو کھونا نہیں چاہتی۔"نیلی آنکھیں محبت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھیں۔

اسکی بات پر ہاشم کی آنکھوں کے تاثرات بدلے۔غصے کی جگہ نرمی نے لی۔ 

اسنے آگے بڑھ کر نازلی کا چہرہ ہاتھوں میں لیا۔ 

"میری جان ۔۔۔"اتنا کہہ کر اسنے نازلی کی روشن پیشانی پر لب رکھے۔ 

نازلی نے آنکھیں بند کیں۔چہرے پر مسکراہٹ چمکی تھی۔ 

ہاشم نے اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکا دی۔کتنے پل وہ ایسے کھڑے رہے۔آج محبت نے انہیں ایک ہی ڈوری سے باندھ دیا تھا۔محبت انکے ارد گرد رقص کرتی انکے دلوں کو آپس میں باندھ گئی تھی۔ 

کتنے پل بعد جب بادل گرجے تو وہ چونکے۔ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے لبوں سے رستا خون اپنے انگوٹھے سے صاف کیا۔اسکے اپنے ہاتھ سے بھی خون نکل رہا تھا پر اسے اپنی پرواہ نہ تھی۔اسے بس اس کانچ سی لڑکی کی فکر تھی۔ 

اسکے کیئرنگ انداز پر نازلی کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔کسی کے لیے ہم کتنے اہم ہوتے ہیں اور کسی کے لیے ہم خاک کی مانند ہوتے ہیں۔

اسنے پہلے ہاشم پھر زمین پر بیہوش پڑے جمال آغا کو دیکھا۔ 

ہاشم نے بھی اس طرف دیکھا پھر ایک خیال کے آتے موبائل نکال کر اسکی ویڈیو بنانے لگا۔ 

"یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔"اسے حیرت ہوئی۔

"اس سائیکو کی بات پوری کر رہا ہوں۔"اسنے کہہ کر لب بھینچے۔جمال آغا کے الفاظ اسکے ذہن میں گونجے تھے۔جب وہ کہہ رہا تھا وہ نازلی کی ویڈیو بنائے گا اور ۔۔۔۔ ہاشم نے سختی سے آنکھیں بند کیں۔اس سے آگے اسکے گھٹیا الفاظ ہاشم سے  سہن نہیں ہو پا رہے تھے۔ 

اسنے ایک منٹ کی ویڈیو بنائی۔جس میں جمال آغا کا خون سے تر چہرہ ، اسکے پھٹے کپڑے اور اسکی قابل رحم حالت اچھے سے دیکھی جا سکتی تھی۔ 

ہاشم نے موبائل جیب میں ڈالا پھر نازلی کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنے لگا۔

"اسکا کیا کرنا ہے؟"نازلی نے جمال آغا کی طرف اشارہ کیا۔کیونکہ رات کے سائے پھیل رہے تھے۔اس حالت میں اگر وہ مسلسل اس بارش میں رہا تو ضرور اللہ کو پیارا ہوجائے گا۔ہاشم نے رک کر اسے دیکھا۔ 

"کچھ وقت رہنے دو تا کہ اس ٹھنڈے موسم میں اسکے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہو سکے۔"ہاشم کے لہجے میں نفرت تھی۔ 

"یہ مر جائے گا۔"نازلی نے آہستہ سے کہا 

ہاشم نے بنا جواب دیے موبائل نکالا اور نمبر ڈائل کرنے لگا۔اسنے پولیس اسٹیشن کا نمبر ملایا تھا۔جہاں کا انچارج اسکا یونی فیلو احمد تھا۔ہاشم نے اسے صرف اتنا بتایا کہ جمال آغا نے اس پر حملہ کیا ہے اور اپنے دفاع میں اسنے جمال آغا کو پیٹا اور اب وہ بیہوش پڑا ہے۔اسے لے جائے اور جب وہ ہوسپٹل سے ٹھیک ہو کر آجائے تو دو دن اسے جیل کی ہوا کھلا کر وارن کر کے چھوڑ دے۔احمد بھی جمال آغا کے کارناموں سے واقف تھا اسلیے رپورٹ لکھی اور ہاشم کو آ کر سائن کرنے کا کہا اور یہ بھی کہ وہ فکر نہ کرے اس سائیکو کو وہ سنبھال لے گا۔ 

ہاشم نے موبائل جیب میں رکھ کر نازلی کو دیکھا۔

"آپ نے خود پر حملے کا ۔۔۔"اسنے الجھ کر ہاشم کو  دیکھا۔

"تم میری عزت ہو ۔۔۔ میں اس بات کو باہر نکال کر تم پر کسی بھی قسم کی کوئی بات نہیں آنے دینا چاہتا۔۔۔ویسے بھی تم اور میں ایک ہی ہیں۔تمہیں نقصان پہنچا کر اسنے ہاشم خان کی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے۔۔۔اب اسکا بدلہ تو لونگا ناں اس سائیکو سے۔"اسکے گال کو چھو کر آہستہ سے بولا۔نازلی نے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا۔ 

"چلیں ؟"ہاشم نے نرمی سے پوچھا تو اسنے سر ہلا دیا۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسکی اتنی محبت کا جواب کیسے دیتی۔ 

اگلے پل وہ بوکھلا گئی جب ہاشم نے اسکی کمر میں بازو ڈالا اور اسے اٹھا لیا۔ 

"یہ ۔۔۔"نازلی نے اسے دیکھا۔ 

"پاؤں میں چوٹ لگی ہے۔بھاگ کر اور حالت خراب ہوگئی ہوگی۔"وہ سنجیدگی سے کہتا اسے اٹھائے آگے بڑھنے لگا۔

نازلی نے کچھ پل اسے دیکھا پھر سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔ہاشم کی دھڑکنوں کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکڑا رہی تھی۔وہ خاموشی سے اسکی دھڑکنوں کو سن رہی تھی۔بارش کی اور اسکی دھڑکنوں کی آواز اسکے دل میں عجیب سر بکھیر رہی تھی۔ 

وہ کار کے پاس پہنچے۔ہاشم نے اسے گاڑی میں بٹھایا پھر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ 

نازلی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔گزرے پل آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔کیا ہوتا اگر ہاشم وقت پر نہ آتا؟ اسکا دل بند ہونے لگا۔آنکھوں میں نمی پھیلی۔ہاشم نے بنا کچھ کہے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ 

نازلی نے اسے نہ دیکھا بس آنسو پینے کی کوشش کرنے میں لگی رہی۔ 

سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔گھر پہنچ کر دونوں نے چینج کیا۔پھر ہاشم کھانے کی ٹرے تھامے نازلی کے روم میں آیا۔وہ کھلے بالوں کے ساتھ بیڈ پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔ 

اسکا وجود لرز رہا تھا۔جس سے اسے معلوم ہوگیا کہ وہ رو رہی ہے۔ 

اسنے ٹرے بیڈ پر ایک طرف رکھی پھر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ 

اسکا سر اوپر اٹھایا۔سیاہ بالوں کے ہالے میں اسکا چہرہ چمک رہا تھا۔گالوں پر آنسوؤں کے نشان تھے۔نم آنکھوں میں گلابی ڈورے بنے تھے۔ 

"رونے سے کیا ہوگا؟"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ 

"دل کا بوجھ ہلکا۔"نازلی نے نم آواز میں جواب دیا۔ 

"تو کیا میں بھی رونے لگ جاؤں؟" 

"آپ تو بہت مضبوط ہیں پھر آپ کیوں روئیں گے؟"نازلی نے ناک کھینچ کر کہا۔ 

"کچھ باتیں مضبوط سے مضبوط شخص کو بھی کمزور بنا دیتی ہیں۔"وہ اسکے شاداب چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا۔ 

"پھر آپ رو لیں۔"اسنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔ انداز میں بلا کی معصومیت تھی۔

"تمہارے کندھے پر سر رکھ کر؟"ہاشم کے لہجے میں شرارت اتری۔ 

"نہیں ۔۔۔"اسنے جھٹ سے جواب دیا۔ 

"کوئی کندھا ہی میسر نہ ہو تو رونے کیسا۔"وہ آہ بھر کر بولا 

"کیا ویسے نہیں رو سکتے؟"ہاشم کی باتوں میں الجھ کر وہ رونا بھول چکی تھی۔ 

"میں کبھی رویا نہیں۔۔۔"وہ ایک دم کہتے ہوئے رک گیا۔وہ رویا تھا اسی لڑکی کے کندھے سے لگ کر ۔۔۔۔اسکا وہ واحد آنسو اسکے سیاہ بالوں میں جذب ہوا تھا۔ 

اسے خاموش اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ بولی۔ 

"آپ کبھی نہیں روئے؟"اسنے حیرت سے پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔۔"وہ کھانے کی ٹرے آگے کرتا سنجیدگی سے بولا۔ 

"ایک بار بھی نہیں؟"اسے حیرت ہورہی تھی کہ کوئی روئے بغیر کیسے رہ سکتا تھا۔ 

"جب سے ہوش سنبھالا ۔۔۔ تب سے نہیں ۔۔۔"وہ سچ کہہ رہا تھا پر آج کے دن کو نکال کر۔ 

"اوہ ۔۔۔"نازلی اتنا کہہ کر اسے دیکھنے لگی۔ 

کوئی بتاتا اس لڑکی کو کہ آج وہ مضبوط شخص اسکے لیے ، اسکے کندھے سے لگ کر رویا تھا۔وہ مغرور شہزادہ رویا تھا اس لڑکی کی حالت دیکھ کر ، اسے کھونے کے ڈر نے اس آنسو کو قید سے آزاد کیا تھا۔وہ آنسو نازلی کی محبت کے نام ہوا تھا۔

مرد روتے نہیں ۔۔۔ اور ہاشم جیسے مرد تو کبھی نہیں روتے پر اگر وہ کسی کے لیے آنسو بہا دیں تو ہائے وہ "کسی" انکے لیے کس قدر ضروری اور اہم ہوگی ۔۔۔کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے؟

"چلو کھانا کھا لو۔"ٹرے نازلی کی طرف کی۔ 

"مجھے بھوک نہیں۔۔"نازلی نے آہستہ سے کہا۔ہاشم نے اسے دیکھا پھر پلیٹ میں سالن ڈال کر نوالہ بنا کر اسکی طرف بڑھایا۔ 

"میں ۔۔۔"نازلی نے اسکے ہاتھ کو دیکھا۔جہاں چھوٹے چھوٹے تین چار کٹ لگے تھے۔جو جمال آغا کو مارتے وقت لگے تھے۔ 

نازلی نے اسے مزید تنگ نہ کرتے ہوئے وہ نوالہ کھا لیا۔ 

وہ دوسرا نوالہ بنا کر اسکی طرف بڑھانے لگا جب نازلی نے اسکا ہاتھ تھام کر اس نوالے کو اسکے منہ کی طرف کیا۔ہاشم نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"یہ آپ کھائیں۔۔۔میں خود کھا لونگی۔"وہ نرمی سے بولی۔ہاشم نے مسکرا کر نوالہ منہ میں ڈالا۔

دونوں نے کھانا کھایا پھر نازلی کو پین کلر دے کر اسے سونے کا کہتا باہر نکلا۔نازلی سونے کے لیے لیٹ گئی۔آنکھوں کے سامنے سارے منظر فلم کی طرح چلنے لگے۔اسنے سختی سے آنکھیں بند کر کے ان سوچوں سے جان چھڑائی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ 

ہاشم نے کمرے سے باہر نکل کر احمد کو کال ملائی۔اسنے بتایا کہ جمال آغا کو ہوسپٹل لے کر جایا جا رہا ہے۔کل تک اگر ٹھیک ہوگیا تو جیل لے جائیں گے۔اسکی بات ہاشم نے بھینچے لبوں کے ساتھ سنی تھی۔پھر فون بند کرتا ماہ نور کا نمبر ملانے لگا۔ 

ماہ نور کو آج جو بھی ہوا سب بتا کر اسنے کل اسے اور آبی کو یہاں آنے کا کہا۔وہ کل ان تینوں کو آمنے سامنے لا کر اس بلی چوہے کے کھیل سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ 

پھر جلد ہی وہ گھر میں بھی سب کو سچ بتا کر نازلی کو سب کے بیچ لے جانے والا تھا۔وہ اب مزید اس لڑکی کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

ہاشم بات کر کے واپس کمرے میں آیا۔لیمپ کی مدھم روشنی میں اسنے نازلی کا چہرہ دیکھا۔وہ سو رہی تھی۔ہاشم دروازہ بند کر کے آگے بڑھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔وہ آج کی رات اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

وہ خود بھی تھکا ہوا تھا۔صوفے پر نیم دراز ہوا تو آنکھیں بھاری ہونے لگیں۔

رات کا جانے کون سا پہر تھا جب نازلی کے چیخنے پر وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہو بیٹھا۔ 

"چھوڑو مجھے ۔۔۔"وہ روتے ہوئے مسلسل کہہ رہی تھی۔ہاشم جلدی سے اٹھ کر اسکی طرف آیا۔ 

"نازلی ۔۔۔"بیڈ پر بیٹھ کر اسنے نازلی کا کندھا تھاما۔پر وہ سسکیاں بھرتی اسکے ہاتھ جھٹک رہی تھی۔ 

"نازلی اٹھو ۔۔۔ دیکھو یہ میں ہوں ہاشم ۔۔۔"اسنے نازلی کا گال تھپتھپایا۔

"ہاشم ۔۔۔"اسنے ہچکی بھر کر کہا۔آنکھیں اب بھی سختی سے بند تھیں۔اسے دیکھ کر ہاشم کے دل کو کچھ ہوا۔اسنے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگایا۔ 

"ہاں میں ۔۔۔"وہ نرمی سے نازلی کا سر تھپکنے لگا پر وہ اب بھی رو رہی تھی۔ 

"شش چپ۔۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔ میں ہوں ناں تمہارے ساتھ۔"اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا وہ آہستہ سے کہہ رہا تھا۔

"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"اسنے رندھی آواز میں کہا۔ 

"میں تمہارے پاس ہوں پھر ڈر کیسا مسز ۔۔۔بس اب اور نہیں رونا۔"وہ پیار سے اسے سمجھا رہا تھا۔نازلی اسکی باتیں سنتی اب خاموش ہوگئی تھی۔

وہ ایسے ہی اسے کندھے سے لگائے بیٹھا رہا تھا اور وہ اسے اپنے پاس پا کر پھر سے سو گئی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ 

رات ہاشم کی کال کے بعد نور ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی۔اسے جلد سے جلد نازلی کے پاس پہنچنا تھا۔ 

صبح وہ جلدی ہی اٹھ گئی تھی۔پھر سات بجے کے قریب آبی کے روم میں آئی۔اسے ساری بات بتائی اور اسے دس بجے تک تیار ہونے کا کہا تا کہ وہ دونوں خان ولا جا سکیں۔ 

کچھ وقت آبی اور ام جان کے ساتھ گزار کر وہ اپنے کمرے میں آئی۔شہریار تو صبح سے غائب تھا۔وہ لمبی سانس کھینچ کر الماری کی طرف بڑھی تا کہ شاور لے کر کپڑے چینج کر لے۔ 

اسنے پنک شلوار قمیض نکالی جسکا بڑا سا نیٹ کا دوپٹہ تھا۔وہ کپڑے لے کر پلٹنے لگی جب نظر الماری کے اندر دراز پر پڑی جس کے ساتھ چابی لگی تھی۔ویسے تو ہمیشہ لاک ہوتا تھا۔ماہ نور کو بڑا تجسس تھا کہ جانے اس میں کیا ہے۔اب چابی دیکھ کر اسنے جلدی سے کپڑے بیڈ پر رکھے پھر پلٹ کر الماری کی طرف آئی اور چابی گھما کر دراز کھولا۔ 

اور جیسے ہی نظر اندر پڑی وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی۔وہاں اسکے دیے سارے گفٹس تھے۔کچھ کھلے ہوئے اور کچھ ابھی تک پیک ہوئے تھے۔اسکی دی گھڑی ، ٹائی ، کف لنکس ، چاکلیٹ براؤن شرٹ اور اسی طرح کے بہت سے تحفے تھے پر ماہ نور کی نظریں اس پرفیوم پر تھیں۔جو اس بار اسنے شہریار کو دی تھی۔وہ ابھی تک پیک تھی۔ہر بار وہ اس سے گفٹ لینے سے انکار کرتا تھا۔پر اس بار تو جب اسنے شہریار کو پرفیوم دیا تھا اسکا رد عمل شدید تھا۔جواباً اسنے بھی کہہ دیا تھا کہ نہیں چاہیے تو پھینک دیجیے گا۔پر اسنے پھینکی نہیں تھی بلکہ باقی گفٹس کے ساتھ اسے سنبھال کر رکھا تھا۔ 

ہاتھ میں پرفیوم تھامے وہ مسکرانے لگی تھی۔دل میں روشنی سی پھوٹ پڑی تھی۔ 

وہ ایک دم خوشی سے گول گھومی۔پرانی ماہ نور واپس آگئی تھی۔اسنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی دبائی۔پھر جلدی سے پرفیوم رکھ کر دراز کو لاک کرتی بیڈ تک آئی۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ تھی۔

"دن میں اندھیر ہے ، شکووں کا ڈھیر ہے۔"

"تیری دیوانی ہوئی تیرا قصور ہے۔"

"چھوٹے سے دل نوں سمجھاواں کی۔"

"تیرے نال میں لائیاں اکھیاں۔"

"تیرے نال کیوں لائیاں اکھیاں۔"

اسنے بیڈ سے کپڑے اٹھائے پھر گنگناتی ہوئی واش روم کی طرف بڑھنے لگی۔

وہ نہا کر باہر آئی۔ٹاول سے بال خشک کیے پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی۔مسکان اسکے لبوں سے جدا نہیں ہورہی تھی۔ 

موبائل اٹھا کر آبی کو کال ملا کر اوپر آنے کا کہا تا کہ وہ اسکے بال بنائے۔اسکا ہاتھ اب ٹھیک تھا پر اتنے لمبے بالوں کو برش کر کے اسکا بازو تھک جاتا تھا اسلیے جب بھی چٹیا کرنی ہوتی یا تو وہ ام جان سے کہتی یا آبی سے ۔۔۔ 

کال کٹ کر کے اسنے من مائل او ایس ٹی لگا کر موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا۔یہ گانا اسے بہت پسند تھا۔

"یار دے ویڑھے آئی ، ٹپ ٹپ گلیاں۔"

"لبدی پھرا میں تینوں ،مل مل اکھیاں۔"

"ماہی میں تینوں سمجھاواں کی۔"

"تیرے نال کیوں لائیاں اکھیاں۔"

"تیرے نال میں لائیاں اکھیاں۔"

کمرے میں گانے کی آواز گونج رہی تھی۔ماہ نور ڈرائر سے بال خشک کرتی شہریار کو سوچ رہی تھی۔ 

تبھی دروازہ کھلا اور آبی طوفان کی طرح اندر آئی۔

"بہت جلدی ہے تمہیں لڑکی۔مجھے چینج بھی نہیں کرنے دیا۔"وہ تیزی سے کہتی اسکی طرف بڑھی۔ 

"باتیں کم کرو اور یہ پکڑو۔"اسنے برش آبی کی طرف بڑھایا۔ 

اوئے ہوئے ۔۔آج بڑی دیوانی بنی ہو اور خوش بھی ہو ۔۔۔ خیر ہے؟"آبی نے برش تھام کر شرارت سے کہا۔

"خیر نہیں ۔۔۔"ماہ نور شوخی سے کہتی ہنسی تھی۔ 

"اللہ ۔۔۔ لالہ نے لگتا ہے تمہیں ذہ تا سرہ مینا کوم کہا ہے۔"آبی نے اسکے بالوں میں برش پھیرتے آنکھ دبائی۔

ماہ نور زور سے ہنسی۔

"کاش کہہ دیں۔"لہجے میں حسرت اتر آئی۔

آبی نے پیار سے اسکا گال کھینچا۔"ضرور کہیں گے میری چڑیل اتنی پیاری ہے کہ لالہ کہے بغیر رہ نہیں پائیں گے۔"

ماہ نور نے اسکی بات پر مسکرا کر موبائل اٹھایا اور اسی گانے کو ری پلے کیا۔ 

"لالہ کو بلاؤں کہ وہ اس گانے کے ذریعے تمہارے دل کا حال سن لیں۔"آبی برش رکھ کر ڈرائر اٹھانے لگی تا کہ اسکے بالوں کو ٹھیک سے خشک کر سکے۔ 

ابھی وہ بات کہہ کر خاموش ہوئی ہی تھی کہ دروازہ کھول کر شہریار اندر آیا۔ 

"آبی تمہیں ام جان بلا رہی ہیں۔"اسنے انکی طرف دیکھ کر کہا۔

"اوہ ۔۔۔اچھا میں جاتی ہوں اور لالہ آپ ذرا یہاں آئیں۔"اسنے ماہ نور کے بال چھوڑ کر شہریار کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ 

"ہاں کہو۔"شہریار اسکی طرف آتا سوالیہ انداز میں بولا۔  

"یہ آپ ماہ نور کی چٹیا بنا دیں۔یہ خود نہیں بنا سکتی۔اسکا بازو تھک جاتا ہے۔"آبی نے بڑے مزے سے کہہ کر بھائی کو دیکھا۔

"وہاٹ ۔۔۔"اسکی بات پر شہریار اور نور دونوں نے حیرت سے ایک ساتھ کہا

ماہ نور گردن پھیرے انہیں دیکھ رہی تھی۔شہریار نے ایک نظر اسے دیکھا پھر آبی کو۔

"میں گئی آپ اپنی بیوی کے بال سمیٹیں۔"وہ ہاتھ ہلا کر شہریار سے بچ کر ماہ نور کی طرف آنکھ مارتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

"آبی گڑیا میں کیسے بناؤں گا۔"شہریار نے پریشانی سے دروازے کی طرف دیکھا پر آبی جا چکی تھی۔ 

ماہ نور مسکراہٹ دباتی سیدھی ہو بیٹھی۔شہریار اسکی طرف پلٹا۔اسکی پریشان صورت دیکھ کر ماہ نور بول پڑی۔ 

"آپ رہنے دیں ۔۔ میں کر لونگی۔"اسنے برش اٹھایا۔

"میں ٹرائے کرتا ہوں تم بتا دینا کہ کیسے کروں۔"وہ آگے بڑھا۔ماہ نور اسکے بدلے انداز پر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

دماغ میں ایک ہی جملہ گونج رہا تھا۔ 

"بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔"

اسے الجھن میں دیکھ کر ماہ نور نے ہنسی دبائی پھر اینڈ سے اپنے بال لیے اور اسے بتایا کہ کیسے کرنا ہے۔ 

وہ دیکھ کر سر ہلاتا اسکے بالوں کی چٹیا بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ 

موبائل پر گانا چوتھی بار ری پیٹ ہوا۔ماہ نور مگن سی سامنے شیشے میں اسے دیکھ رہی تھی۔جسکی پیشانی پر بل تھے اور وہ اسکے بالوں کو ہاتھ میں تھامے چٹیا بنانے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ 

"بے پرواہ میں تیرے ، عشق اچ بندھیاں۔"

"بس تیرا مکھڑا دسے۔"

"باقی تے میں اندھیاں۔"

"ماہی میں تینوں سمجھاواں کی۔"

"تیرے نال کیوں لائیاں اکھیاں۔"

"تیرے نال میں لائیاں اکھیاں۔"

اسکے مسلسل دیکھنے پر اچانک شہریار نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ جھٹ سے نظریں جھکا گئی۔ 

پھر جلدی سے موبائل اٹھا کر گانا بند کیا۔ 

شہریار نے الجھی سی کسی طرح چٹیا بنائی تھی پھر ماہ نور کو دیکھا۔ 

"کچھ لگانے کے لیے دے دو بالوں کے اینڈ پر۔"اسنے ہاتھ بڑھایا اور ماہ نور نے بلیک پونی اسکے ہاتھ میں رکھی جسے لے کر وہ بالوں میں لگانے لگا۔ 

اسنے کام ختم کر کے ماہ نور کے بال آگے کیے۔

"ٹھیک ہے؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

ماہ نور نے بال ہاتھ میں تھامے اسنے بال ٹھیک سے نہیں بنائے تھے پر ماہ نور کے لیے پرفیکٹ تھے۔اسنے محبت سے شیشے میں شہریار کو دیکھا۔ 

"بالکل ٹھیک ۔۔۔"اسنے نرمی سے کہا۔شہریار سر ہلا کر جانے لگا تو ماہ نور نے پلٹ کر اسکا ہاتھ تھاما۔ 

وہ ایک دم تھم گیا۔نظریں ماہ نور کے چہرے پر ٹکی تھیں۔

"تھینک یو۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔ 

شہریار بہت کچھ کہنا چاہتا تھا پر پھر اسکا ہاتھ تھپک کر سر ہلایا اور اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالتا وہاں سے نکل گیا۔ 

ماہ نور نے اسے جاتے دیکھا۔اس شخص کی آنکھوں میں بہت کچھ تھا پر وہ بنا کہے ہی چلا گیا تھا۔ماہ نور نے سر جھٹکا۔وہ فلحال جس خوشی میں تھی اسے کسی بھی وجہ سے مانند نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی اسلیے جلدی سے دوپٹہ لیتی کمرے سے نکلی۔ 

نیچے آئی تو آبی تیار تھی۔اسے دیکھ کر شرارت سے ہنسی۔

"بال کیسے بنے؟"اسنے جلدی سے پوچھا۔ 

"دیکھ لو۔"نور نے پلٹ کر دکھایا۔ 

"اوہ ۔۔۔"آبی کو مایوسی ہوئی۔"میں بنا دوں؟"

"جی نہیں ۔۔۔ مجھے یہی اچھے لگ رہے ہیں۔"اسنے چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا پھر ام جان کو ایک دوست سے ملنے کا کہتی پورچ کی طرف آئیں۔

وہ کار کی طرف بڑھ رہی تھیں جب شہریار انکے سامنے آیا۔ 

"کہاں جا رہی ہو؟"اسنے دونوں کو دیکھا۔ 

"وہ ۔۔ ایک دوست کی طرف۔"ماہ نور نے جلدی سے کہا۔

"میں لے جاؤں؟"اسنے نور کا چہرہ بغور دیکھا۔ 

"ن۔۔۔نہیں۔۔"ماہ نور نے کہہ کر آبی کو دیکھا۔شہریار کی یہ اچھائی اسے فلحال نہیں چاہیے تھی۔اسکے ساتھ جانے کا مطلب تھا کہ اسے ساری سچائی بتا دینا اور ماہ نور ایسا نہیں چاہتی تھی تب تک جب تک ہاشم سبکو خود نہ بتاتا۔ 

"لالہ ہم چلے جائیں گے ۔۔۔وہ ہم تھوڑا وقت رکیں گے ناں وہاں تو آپ کار میں بیٹھ بیٹھ کر بور ہوجائیں گے۔"آبی جلدی سے کہہ گئی۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ خیال سے جانا۔"ان سے کہتا وہ اندر کی طرف بڑھ گیا۔دونوں نے لمبی سانس کھینچی پھر گاڑی میں بیٹھیں۔ 

وہ لوگ خان ولا پہنچیں۔وہ ہال میں آئیں تو ہاشم انکا انتظار کر رہا تھا۔دونوں اس سے ملیں اور نازلی کا پوچھا۔ 

"اپنے کمرے میں ہے۔۔۔صبح سے باہر نہیں نکلی۔"اسنے پیشانی مسل کر بتایا۔

"ہم دیکھتے ہیں۔"ماہ نور نے کہا پھر وہ دونوں ہاشم کے بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھیں۔ 

ہاشم وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔وہ نازلی کو کافی سمجھا چکا تھا پر وہ چاہ کر بھی کل والے واقعہ سے باہر نہیں آ رہی تھی۔وہ ان تینوں کو بات کرنے کا موقع دینا چاہتا تھا تا کہ وہ ایزی ہو کر بات کر سکیں۔

نازلی بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی جب دروازہ کھلنے پر اس طرف دیکھا اور اسکی دھڑکن رک گئی۔

نور اور آبی آگے بڑھ رہی تھی اور نازلی شرم کے مارے زمین میں گڑھی جا رہی تھی۔اسکا یوں اس طرح انکے بھائی کے گھر ، اسکے کمرے میں ہونا۔۔۔بھلے ہی وہ دونوں سچائی جانتی تھیں پر پھر بھی یہ سچویشن نازلی کے لیے کافی ایمبیرسنگ تھی۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے سیدھی ہو بیٹھی۔

"نور ۔۔۔ آبی ۔۔۔"اسنے آہستہ آواز میں کہا۔اسکا چہرہ زرد ہوا تھا۔وہ دونوں اسکے سامنے بیٹھیں۔

"کیسی ہو؟"نور نے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"می۔۔۔ میں ۔۔۔"نازلی سے بات نہیں ہورہی تھی۔ 

"نازلی کم آن ۔۔ ہم تمہاری فرینڈز ہیں۔تم ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو۔"آبی نے نرمی سے کہا۔ 

"میں تم دونوں کا سامنا نہیں کر سکتی۔"اسنے سر جھکا لیا۔ 

"نازلی جو بات ہم تینوں کو معلوم ہے پھر اسے ایک دوسرے سے چھپا کر کیا حاصل ہوگا۔ہمیں سچائی کا سامنا کرنا چاہیے۔"نور نے اسکا چہرہ اوپر کیا۔ 

"پر تم دونوں کیا سوچو گی کہ میں ۔۔۔"اسکی آواز رندھی تھی۔ 

"ہم کچھ نہیں سوچتے ۔۔۔ بلکہ ہم تو خوش ہیں کہ تم ہماری بھابی بن گئی۔"آبی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ 

"نازلی بہت سی باتیں الجھی ہوئی ہیں پر یقین کرو تمہیں ہاشم لالہ کی بیوی کے روپ میں دیکھ کر میری دلی خواہش پوری ہوئی ہے۔"نور نے اسکے ہاتھ گرم جوشی سے دبائے۔

"تمہارے گھر والے ناراض ہیں اور ہمارے ہاں بھی کسی کو نہیں معلوم پر تم ہاشم لالہ پر یقین رکھو وہ سب ٹھیک کر دینگے۔"نور آہستہ سے اسے سمجھا رہی تھی۔ 

"لالہ پر یقین ہے ناں؟"آبی نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"ہاں ۔۔۔"نازلی نے جھٹ سے جواب دیا پھر انکے ہنسنے پر گلابی چہرہ جھکا گئی۔ 

"اچھا اب مجھے یوں دیکھنا تو بند کرو۔"اسنے دونوں کو دیکھا۔ 

"شرما رہی ہو؟"آبی نے آنکھیں گھمائیں۔

"آبی ۔۔۔"نازلی نے اسے گھورا۔نور نے آبی کو چپت لگائی۔

"چپ کرو آبی کی بچی ۔۔۔ دیکھو ہماری نازلی لال ٹماٹر ہو رہی ہے لالہ کے ذکر پر ۔۔۔۔"نور نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔ 

اسکی بات پر جہاں آبی کھلکھلائی وہیں نازلی بھی چہرہ جھکا کر مسکرانے لگی۔ 

دہلیز پر دروازے سے ٹیک لگائے کھڑے ہاشم نے لمبی سانس کھینچ کر انہیں دیکھا۔یہ معاملہ تو حل ہو گیا تھا۔ 

"دیکھو ذرا وہاں کون ہے۔"نور نے شرارت سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔نازلی نے سر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا جو مسکرا کر انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ 

"میری بیوی کو تنگ نہ کرنا شرارت کی پوٹلیو۔"وہ شوخی سے کہتا پلٹا تھا۔ 

"اوئے ہوئے۔"نور اور آبی نے شرارت سے ایک ساتھ کہا۔ہاشم انکی آواز سن کر ہنستا وہاں سے چلا گیا جبکہ نازلی کے گال دہک اٹھے تھے۔اسنے کتنے حق سے کہا تھا کہ میری بیوی کو تنگ نہ کرنا۔۔۔۔نازلی کے دل پر جیسے ٹھنڈے پانی کی بوندیں برسنے لگی تھیں۔دل میں بہار سا موسم ہوگیا تھا۔پھول ہی پھول کھل اٹھے تھے۔ 

آبی اور نور نے ہاشم کی اس بات کو لے کر اسے خوب تنگ کیا تھا۔پھر تینوں باہر نکلیں اور مل کر لنچ کی تیاری کرنے لگیں۔ہاشم نے نازلی کو انکے ساتھ خوش دیکھا تو اسکے دل میں سکون اتر آیا تھا۔وہ خوش تھی تو وہ بھی خوش تھا۔ 

سب نے مل کر لنچ کیا تھا۔آج خان ولا میں ان دونوں کی موجودگی کی وجہ سے جیسے بہار اتر آئی تھی۔ 

نازلی کسی حد تک پر سکون ہوگئی تھی۔آبی اور نور کی موجودگی میں یوں ہاشم کا سامنا کرنے سے اسے جھجھک ہورہی تھی پر ان دونوں نے اپنے ہمیشہ والے انداز میں اپنی مزے مزے کی باتوں سے نازلی کو ہنسنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ ری لیکس ہوگئی تھی۔ 

نازلی کو خوش دیکھ کر ہاشم کا دل کھل اٹھا تھا۔آج اسنے پہلی بار اس لڑکی کو اتنا خوش دیکھا تھا۔

وہ انکے بیچ رہا پر دماغ میں بہت سی باتوں کا جوڑ توڑ کر رہا تھا۔ 

وہ دونوں کھانا کھا کر چلی گئی تھیں۔

وہ چلی گئیں پر نازلی کے دل کو مہکا گئی تھیں۔نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کر لیا تھا۔آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔

اندھیروں میں جیسے روشنی کا ایک چراغ روشن ہوا تھا۔جسکی لو نے اسکے وجود کو روشن کر دیا تھا۔ 

وہ ہال میں بیٹھی چھوٹی پٹھانی کو پیپر کی تیاری کروا رہی تھی جب ہاشم تیار سا اپنا کوٹ ٹھیک کرتا وہاں آیا۔نظریں ہاتھ میں پکڑے موبائل پر تھیں۔وہ اتنا مگن تھا کہ اسے انکی موجودگی کا احساس نہ ہوا۔ 

نازلی سر اٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

آج وہ آفس نہیں گیا تھا پھر اب عصر کے وقت تیار ہو کر کہاں جا رہا تھا؟

اسنے سوچا ہاشم سے پوچھ لے پر پھر جھجھک کر بول نہ پائی۔ 

وہ اب موبائل پر مسیج ٹائپ کرتا آگے بڑھنے لگا۔نازلی سے رہا نہیں گیا۔اسنے ہاشم سے نظریں ہٹا کر چھوٹی پٹھانی کو دیکھا جو کتاب میں سر دیے رٹے لگانے میں مصروف تھی۔ 

"چھوٹی پٹھانی لاؤ میں تم سے سنتی ہوں۔"نازلی نے چھوٹی پٹھانی سے بک کھینچ کر جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا تا کہ ہاشم انکی طرف متوجہ ہو۔ 

"پر میں نے ابھی یاد نہیں کیا۔"چھوٹی پٹھانی جو اسکے بک چھیننے پر حیران تھی۔سنانے کی بات پر منہ بسور کر بولی۔ 

"جتنا یاد ہے سنا دو۔"نازلی نے آواز مزید اونچی کی۔

اب کی بار ہاشم رکا پھر موبائل سے نظر ہٹا کر پیچھے پلٹ کر اسے دیکھا جبکہ نازلی نیچی نظروں سے اسے دیکھتی چھوٹی پٹھانی کو پھر سے سنانے کا کہنے لگی۔ 

اسکے انداز پر ہاشم کے لبوں پر ایک دم مسکراہٹ پھیلی۔وہ لڑکی اس سے چھپانا چاہتی تھی پر وہ تو اسکے ایک ایک انداز سے واقف تھا۔ 

"مسز بچی کی جان لو گی کیا ۔۔۔پہلے بیچاری کو یاد تو کرنے دو۔"اسنے مسکراہٹ دبا کر سینے پر ہاتھ باندھے۔اسکی بات پر چھوٹی پٹھانی کے دل کو سکون ملا جبکہ نازلی نے چونکنے کے انداز میں اسے دیکھا جیسے اسکی موجودگی سے بے خبر ہو۔

"آپ یہاں ۔۔۔"آواز میں مصنوعی حیرت تھی۔ 

ہاشم نے اسے دیکھ کر ایک دم قہقہہ لگایا۔وہ لڑکی ایک بری ایکٹریس تھی۔

"جی میں یہاں ۔۔۔"وہ مسکراتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔نازلی اسکے اس طرح مسکرانے پر گلابی چہرہ جھکا گئی۔ 

"میں اب یاد کروں؟ جب تک آپ ہاشم بھائی سے پوچھ لیں کہ یہ کہاں جا رہے ہیں۔"چھوٹی پٹھانی شرارت سے کہتی اسکے ہاتھ سے کتاب لے کر وہاں سے نکل گئی۔ 

"تو تمہیں جاننا ہے کہ میں کہاں جا رہا ہوں؟"شوخی سے پوچھا۔ 

"نہیں تو ۔۔"نازلی جھٹ سے اسے دیکھتی انکار میں سر ہلانے لگی۔ 

"اوکے ۔۔۔"ہاشم سر جھٹک کر پلٹ کر آگے بڑھ گیا۔ 

"رکیں۔۔۔"وہ عجلت سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ہاشم کے قدم تھم گئے پر اسنے پلٹ کر نہ دیکھا۔لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

"کہاں ۔۔۔ کہاں جا رہے ہیں؟"جھجھک کر پوچھا گیا۔ 

"پولیس اسٹیشن۔۔"وہ سنجیدگی سے کہتا اسکی طرف پلٹا۔اسکی بات سن کر نازلی کا رنگ اڑا تھا۔ 

"ک۔۔۔کیوں ؟"اسنے اٹک کر پوچھا۔ 

"جو کھیل جمال آغا نے شروع کیا اسے ختم کرنے جا رہا ہوں۔"اسنے کہہ کر لب بھینچے۔نازلی بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

چہرہ زرد ہورہا تھا اور نیلی آنکھوں میں خوف کے سائے اتر آئے تھے۔ 

ہاشم اسکے چہرے پر نظریں جمائے اسکی طرف بڑھنے لگا۔  

اسکے سامنے رک کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"خوف کے حصار سے نکل آؤ مسز خان ۔۔۔ جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تم پر آنچ بھی نہیں آنے دونگا۔"اسنے محبت سے کہتے اسکا گال تھپکا۔پھر اللہ حافظ کہہ کر پلٹا اور باہر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

نازلی اسکی پشت کو دیکھتی رہی۔وہ اسے کیا بتاتی کہ اسے اپنی نہیں اسکی فکر تھی۔دل نے جب سے نئے سُر چھیڑے تھے تب سے اسے خود سے زیادہ اس شخص کی فکر رہتی تھی۔اب اسکی سوچیں تمام وقت ہاشم کے گرد گھوما کرتی تھیں۔ 

وہ خود سے بھی یہ بات کہنے سے ڈر رہی تھی۔دل کے کونے میں اسنے اس بات کو چھپا کر رکھا تھا۔اس میں کبھی اتنی ہمت پیدا ہونے والی نہ تھی کہ وہ اسے بتا پاتی کہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اس شہزادے کے بے انتہا عشق نے اس شہزادی کے دل کو بھی اپنے حصار میں جکڑ لیا تھا۔اسکی بے پناہ محبت ، اسکی چاہت کے آگے وہ ہار گئی تھی۔ 

وہ لمبی سانس کھینچ کر ہاشم کے لیے دعا کرتی وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔پھر چھوٹی پٹھانی آئی تو وہ اس سے سبق سننے میں مصروف ہوگئی۔ 

رات کی سیاہ چادر نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔نازلی باہر لان میں بیٹھی تھی۔

ہاشم ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔نازلی کو اسکی فکر ہو رہی تھی۔پہلے سوچا کہ اسے فون کر لے پر پھر جھجھک کر رک گئی۔

وہ سوچوں میں گم تھی جب چھوٹی پٹھانی وہاں آئی۔

"ماہ نور باجی کا فون ہے ۔۔۔ انہیں آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔"اسنے بتایا تو نازلی چونکی۔ 

"نور ۔۔۔ دن کو ہی تو مل کر گئی ہے پھر اب فون کیوں کیا۔۔۔"نازلی کا دل زور سے دھڑکا کہ کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوگئی۔ 

وہ جلدی سے اٹھ کر اندر کی طرف بڑھنے لگی۔لینڈ لائن کی طرف بڑھتے زیر لب دعائیں کر رہی تھی کہ سب ٹھیک ہو۔ 

"کیا ہوا نور ۔۔۔ سب ٹھیک ہے؟"اسنے فون اٹھاتے ہی پوچھا۔ 

"ہے بھی اور نہیں بھی ۔۔"نور کا جواب آیا۔ 

"ہوا کیا ہے؟"نازلی کو پریشانی نے گھیرا۔

"خان بابا کو تمہاری فکر ہورہی ہے۔وہ کہتے ہیں تم کال پک نہیں کر رہی اور اتنے دنوں سے ان سے بات بھی نہیں کی۔۔انہیں لگتا ہے کہ تم ٹھیک نہیں ہو۔میں نے کہا بھی کہ تم ٹھیک ہو پر انکی فکر کم نہیں ہورہی وہ تمہارا ایڈریس مانگ رہے ہیں۔۔۔"نور ایک سانس میں بولی۔ 

"اب کیا کریں؟"نازلی نے فکر مندی سے پوچھا۔ 

"اب تم جلدی سے خان بابا کو کال کرو اور انہیں بتاؤ کہ تم ٹھیک ہو۔۔۔ میں نے فلحال ٹال دیا ہے انہیں کہ تم اپنے گھر میں نہیں ہو۔اپنی آنی کی طرف گئی ہو۔اسلیے وہ خاموش ہوگئے ہیں پر اب تم فون کرنا انہیں ورنہ کل آپکے سسر صاحب آپکے گھر بیٹھے ہونگے۔"اسنے آخر میں شرارت سے کہا تو اسکی بات پر نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ 

"اوکے ہاشم آجائیں پھر میں فون کرتی ہوں انہیں۔"

"لالہ کہاں گئے ہیں؟"

"پولیس اسٹیشن۔"نازلی کی آواز مدھم ہوئی۔  

"اچھا ہے اُس منحوس جمال آغا کو اسکی جگہ یاد دلائیں۔۔۔جل ککڑا کہیں کا۔"نور نے چبا کر کہا۔پھر ایک دو باتوں کے بعد فون بند کیا۔نازلی کچھ دیر وہیں کھڑی رہی۔وہ لینڈ لائن سے خان بابا کو کال نہیں کر سکتی تھی۔اگر انکے پاس یہ نمبر ہوا تو گڑبڑ ہوجائے گی اسلیے وہ واپس لان میں آئی اور ہاشم کا انتظار کرنے لگی۔ 

خان ولا کا گیٹ کھلا اور ہاشم کی کار اندر آئی۔نازلی نے گردن پھیر کر دیکھا۔وہ گاڑی سے نکل کر اسکی طرف ہی آرہا تھا۔ 

نازلی نے سر سیدھا کیا۔وہ قریب آیا۔کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے بیٹھا۔ 

"یہاں کیوں بیٹھی ہو؟"اسنے اپنا موبائل میز پر رکھتے ہوئے کہا

"ویسے ہی۔۔"نازلی نے اسے دیکھا۔ 

"کیسے ہی؟"اسے دیکھتی سیاہ آنکھیں مسکرائیں۔

"کیا ہوا وہاں؟"نازلی نے بات بدلی۔

"ہنگامہ ۔۔۔"اسنے کرسی سے ٹیک لگا کر بتایا۔نازلی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"کیا کوئی بڑا مسئلہ ہوا؟"نازلی کے لہجے میں پریشانی تھی۔ 

"ہوں ۔۔ جمال آغا کے والد بابا صاحب وہاں موجود تھے۔وہ کسی بھی حال میں بیٹے کو جیل میں نہیں رہنے دینا چاھتے تھے۔انہوں نے اپنی ساری طاقت استعمال کی پر۔۔۔"ہاشم لب بھینچ کر رکا۔ 

"پر۔۔۔ کیا وہ لے گئے اسے؟"نازلی نے عجلت سے پوچھا۔ 

"نہیں مسز آپکے شوہر کے آگے انکی نہ چلی ۔۔۔ آج کی رات جمال آغا جیل کی ہوا کھائے گا۔پھر کل تک بیل ہو جائے گی۔آج جمال آغا کو اسکی اوقات معلوم ہو گی اور آئندہ ایسا کرنے کی جرت نہیں کریگا۔"وہ سنجیدگی سے خلا میں گھورتے ہوئے بولا 

"پھر اسکے بابا کو تو بہت غصہ آیا ہوگا۔۔"نازلی کی بات پر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔ 

"ہوں ۔۔۔ پر انہیں اپنے بیٹے کو اچھی تربیت دینی چاہیے تھی۔سیدھے کام کرتا تو آج جیل میں نہ ہوتا۔"ہاشم نے کہہ کر شانے اچکائے۔

"آپکا ان سے کیا رشتہ ہے؟"نازلی نے اسے دیکھا۔

"وہ خان بابا کے چچا زاد بھائی ہیں۔"ہاشم نے کہہ کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔پھر آہستہ سے دونوں حویلی والوں کی ہسٹری اسے بتانے لگا۔نازلی گال کے نیچے ہاتھ رکھے خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔ہاشم بات ختم کر کے رکا۔

گال کے نیچے ہاتھ رکھے مگن سی اسے دیکھتی وہ بہت معصوم لگ رہی تھی۔ہاشم کی آنکھوں میں محبت ہی محبت اتر آئی۔ 

"کون سی بات ہے تم میں ایسی؟" 

"اتنی اچھی کیوں لگتی ہو؟"

اسکے مسلسل دیکھنے پر نازلی پلکیں جھپک کر نظریں جھکاتی سیدھی ہو بیٹھی۔

ہاشم کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ پھیلی۔ 

"دل کو دھڑکا دینے والی ادائیں کہاں سے سیکھی ہیں؟"اسنے سیاہ جھکی پلکوں کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"جی ۔۔۔"نازلی نے نا سمجھی سے نظریں اٹھائیں۔ 

"میری معصوم مسز۔"اسنے پیار سے کہہ کر آگے ہوتے نازلی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ کانپ سی گئی۔ 

"وہ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔"نازلی دھڑکتے دل کو قابو کرتی ایک دم بولی۔ 

"پوچھ لو ۔۔ تمہارے سامنے ہی تو بیٹھا ہوں۔"اسکے ٹھنڈے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں جکڑا۔لبوں پر شرارتی مسکراہٹ تھی۔صاف ظاہر تھا وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔ 

"خان بابا آپ سے کس بات پر ناراض ہیں؟"اسنے جلدی سے سوال کیا۔

ہاشم کی مسکراہٹ سمٹی۔اسنے لمبی سانس کھینچی پھر اپنے ہاتھ میں جکڑے نازلی کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے بولا 

"وہ چاہتے تھے میں آبی سے شادی کر لوں ۔۔۔ پر میں نے انکار کر دیا۔"وہ آہستہ آہستہ اسے سب بتا رہا تھا۔اسنے کوئی بات نہیں چھپائی۔یہ بھی بتایا کہ اسنے غصے میں شہریار کے پیرنٹس کے لیے کیا کچھ کہا۔شروع سے لے کر آخر تک ساری بات بتا کر وہ خاموشی سے سر جھکائے اسکے ہاتھ کو گھورتا رہا۔ 

"آپکو انکے والدین کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔"نازلی نے اسے دیکھتے مدھم آواز میں کہا 

"مجھے احساس ہیں اس بات ہے ۔۔۔ میں نے معافی مانگی ہے کئی بار پر ۔۔۔"وہ ہنوز نیچے دیکھ رہا تھا۔ 

نازلی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس سے غلطی ہوئی تھی۔اسنے معافی بھی مانگ لی تھی تو خان بابا اور شہریار کو  اسے معاف کر دینا چاہیے تھا۔ 

"آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔ وہ انشاء اللہ جلد ہی مان جائیں گے۔"اسنے دوسرے ہاتھ سے ہاشم کا ہاتھ تھپکا۔اسے ہاشم کا یوں اداس ہونا اچھا نہیں لگا تھا۔ 

ہاشم نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"تم اس بات پر مجھ سے ناراض نہیں ؟ میرے ساتھ ہو؟"انداز میں بے انتہا خوشی تھی۔ 

"جی ۔۔" سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر اسکے لب خود بخود ہلے۔

"زندگی کے ہر قدم پر؟"وہ اچانک شوخ ہوا۔نازلی کی ایک بات سے اسکی ساری اداسی ہوا ہوگئی تھی۔

مگن سی اسے دیکھتی نازلی ایک دم چونکی پھر ہڑبڑا کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا۔وہ اس سے اقرار چاہ رہا تھا عمر بھر اسکا ساتھ دینا کا اور وہ اس بات کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی۔تبھی جلدی سے بولی۔ 

"مجھے خان بابا سے بات کرنی ہے ۔۔۔ میرا موبائل ٹوٹ چکا ہے۔لینڈ لائن سے بات نہیں کر سکتی۔۔۔ پھر کیا کروں؟"

ہاشم نے خاموشی سے اسے دیکھا پھر کوٹ کی جیب سے ایک نیا موبائل نکال کر اسکی طرف بڑھایا۔ 

"آتے ہوئے لیا ہے۔تمہاری سم ڈال دی ہے۔کر لو اپنے دوست کو کال۔"

نازلی نے خوشی سے اسکے ہاتھ سے موبائل لیا۔وہ اسکی ہر چیز کا بنا کہے خیال رکھتا تھا۔نازلی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

"تھینک یو۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔

جانے یہ تھینک یو موبائل کے لیے تھا اپنا خیال رکھنے کے لیے یا جمال آغا سے بچانے کے لیے ۔۔۔ بس اس وقت اسکا دل مہک رہا تھا اور وجہ سامنے بیٹھا وہ وجیہہ شخص تھا۔ 

"اوہوں ۔۔"ہاشم نے سر جھٹکا۔"ہسبنڈ اور وائف کے درمیان تھینک یو کا لفظ نہیں ہوتا ۔۔۔ میرا سب کچھ تمہارا ہے مجھ سمیت ۔۔۔ تو میری ہر چیز پر تمہارا حق ہے اور جن چیزوں پر حق ہو انکے لیے تھینک یو نہیں کہتے۔"وہ اتنی نرمی اتنے اچھے انداز میں کہہ رہا تھا کہ اسے دیکھتی نیلی آنکھوں میں ستارے اتر آئے تھے۔

اسنے کچھ پل اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھا پھر ہار کر نظریں جھکا گئی۔اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان محبت چھلکاتی دلکش آنکھوں میں مزید دیکھتی۔ 

"چلو تم کال کر لو اپنے سسر صاحب کو۔"ہاشم نے مسکرا کر کہا۔ہاشم کے حوالے سے خان بابا کو سسر کی حیثیت سے سوچ کر نازلی کے گال گلابی ہوئے۔

وہ سر جھکائے خان بابا کا نمبر ڈائل کرنے لگی جبکہ ہاشم کرسی پر ری لیکس ہو کر بیٹھا ، دائیں ہاتھ کی مٹھی بنا کر لبوں پر رکھی اور نازلی کو دیکھنے لگا۔ 

وہ بات کرنے میں مصروف ہو چکی تھی۔بات کرتے ایک نظر اس پر ڈال کر پھر جھجھک کر  اِدھر اُدھر دیکھ لیتی تو ہاشم کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ 

سیاہ آنکھیں اسکی ہر ادا نوٹ کر رہی تھیں۔پلکوں کا اٹھنا جھکنا ، نیلی آنکھیں کا اس سے گریزاں ہونا ، بائیں ہاتھ سے بار بار بالوں کو کان کے پیچھے کرنا ،گالوں پر شفق کی لالی بکھری تھی۔ گلابی لبوں پر دوسری طرف کی باتیں سن کر مدھم سی مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی۔

اسکے دیکھنے پر نازلی کو بے چینی ہونے لگی۔وہ جلدی سے بات ختم کر کے کال کاٹتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"سسر سے بات کر لی اب ذرا انکے بیٹے پر بھی نظر کرم کر لو مسز۔۔۔"انداز پر سکون اور لبوں پر مسکراہٹ ۔۔۔ ہائے وہ ظالم اسکا دل دھڑکا رہا تھا۔ 

"مجھے کام ہے۔۔۔فضول باتیں نہیں کر سکتی۔"وہ اپنے دھڑکتے دل سے پریشان تھی۔اسے ڈر تھا کہ وہ شخص اسکے دل کے دھڑکنے کی آواز نہ سن لے۔اسلیے وہاں سے بھاگنے کے لیے جلدی میں کہہ گئی۔

وہ جانے لگی جب ہاشم نے ایک دم اسکا ہاتھ تھاما پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"دل میں حسرت ہے کہ کبھی تم مجھ سے بات کرنے کے لیے بے چین رہو اور میں تمہیں ستاؤں ۔۔۔ تم سے بات نہ کروں ۔۔۔"اسنے رک کر نفی میں سر ہلایا۔

"پر یہ ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ ہاشم خان جیتے جی تو ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔۔عشق کی حد تک چاہتا ہے یہ دل تمہیں۔"اسنے سرگوشی میں کہتے نازلی کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا۔ 

"جب تک یہ دھڑکنیں چل رہی ہیں ہاشم خان تم سے دور نہیں رہ سکتا ۔۔۔ ہاں کبھی اگر یہ دھڑکنیں تھم گئیں تو تمہیں پھر کوئی تنگ نہیں کریگا۔"

اسکی بات پر اسکے سینے پر رکھا نازلی کا ہاتھ ایک دم لرز اٹھا۔ 

وہ بنا پلکیں جھپکائے ہاشم کو دیکھ رہی تھی۔وہ اسکے قریب جھکا۔ 

"مجھے کھونے سے ڈرنے لگی ہو؟"کان کے قریب اسکی مسکراتی آواز سرسرائی تھی۔نازلی کی سانسیں تھمنے لگیں۔ 

"مجھے نہیں معلوم۔"کھوئے انداز میں کہتی اگلے پل وہ اپنا ہاتھ کھینچ کر پلٹی اور اندر کی طرف بھاگ گئی۔

اپنے پیچھے اسنے ہاشم کی ہنسی میں ڈوبی بھاری آواز سنی۔ 

"پر مجھے معلوم ہے۔"اسکی بات پر نازلی نے دل پر ہاتھ رکھا اور اسکی نظروں سے اوجھل ہوتی اندر چلی گئی۔  

جبکہ ہاشم مسکراتا ہوا کرسی پر بیٹھا اور سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگا۔ 

لو آج اسکا اپنے آپ سے کیا وعدہ پورا ہوا۔وہ کانچ سی لڑکی اسکی محبت کے آگے ہار گئی تھی۔۔۔۔۔ پر نہیں ۔۔۔۔ وہ ہار کر بھی جیت گئی تھی اور وہ خود پہلے بھی ہارا ہوا تھا اور آج بھی ۔۔۔۔ پر محبت میں ہار بھی جیت جتنا سرور بخشتی ہے۔

وہ بھی فاتح تھا۔اسنے ایک معصوم ، خوبصورت دل کو جیتا تھا۔اب سے وہ دل اسکا تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

آبی آج اکیلی یونی آئی تھی۔نہ نازلی تھی نہ نور ۔۔۔ اسکا دن بہت بور گزرا تھا۔

اللہ اللہ کر کے چھٹی ہوئی تو وہ گاڑی میں بیٹھی پر آج اسکا برا دن تھا تبھی درمیان راستے میں ہی گاڑی خراب ہوگئی ۔ 

وہ پریشان سی گاڑی کے پاس کھڑی تھی اور ڈرائیور گاڑی کو چیک کرنے میں لگا تھا۔ 

"کیا ہوا ہے بابا۔"اسنے بے زاری سے پوچھا۔ 

"سمجھ نہیں آرہی بیٹا ۔۔۔ کسی مکینک کو دکھانی پڑے  گی۔"وہ پریشانی سے بولے۔ 

آبی نے پیشانی مسلی پھر موبائل نکالا۔وہ شہریار کا نمبر ڈائل کرنے لگی جب ایک گاڑی انکے پاس آ کر رکی۔ 

آبی نے سر اٹھا کر دیکھا تو گاڑی سے احد نکل رہا تھا۔جینز ، اور بلیک ٹی شرٹ سے اسکے مضبوط بازو نظر آرہے تھے۔ آنکھوں پر گلاسز لگے تھے۔وہ چلتا ہوا انکے قریب آیا۔ 

"گاڑی خراب ہوگئی ہے؟"اسنے ڈرائیور سے پوچھا۔ 

"جی۔۔زیادہ مسئلہ لگتا ہے۔"ڈرائیور نے جواب دیا۔

"آپ گاڑی کو ٹھیک کروائیں اور آبی آپ میرے ساتھ چلیں آپکو گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔ڈرائیور نے سر ہلایا وہ احد کو جانتا تھا کہ وہ شہریار کا دوست ہے اور قابل بھروسہ انسان ہے اسلیے شکر بھری سانس لی۔ورنہ اسے آبی کی فکر تھی کہ جوان لڑکی بیچ راستے میں کھڑی تھی جو کہ اچھی بات نہ تھی۔ 

"پر میں آپکے ساتھ ۔۔۔"آبی جھجھک کر رک گئی۔ 

"یوں بیچ راستے میں کھڑے ہونا اچھا نہیں ۔۔۔ آپ میرے ساتھ چل رہی ہیں۔کہیں تو میں شہریار کو کال کر کے بتا دیتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ ہیں اور میں آپکو صحیح سلامت گھر پہنچا دونگا۔"اسنے دو ٹوک انداز میں کہا 

آبی گڑبڑا گئی۔یہ نہیں کہ اسے احد پر بھروسہ نہیں تھا بس اسکی موجودگی میں وہ عجیب فیل کرتی تھی اسلیے اس سے دور بھاگتی تھی۔اپنے احساسات وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

"ایسی بات نہیں ۔۔ میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ۔"وہ موبائل بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔ 

احد کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا۔اسنے آبی کو آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ 

آبی آگے بڑھی۔احد نے اسکے لیے کار کا دروازہ کھولا وہ بیٹھی تو وہ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ 

گاڑی آگے بڑھ رہی تھی۔آبی خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ 

احد نے اسے دیکھا پھر رہا نہیں گیا تو بول پڑا۔ 

"آپ نے بولنا کم کر دیا ہے یا مجھ سے بات کرنا آپکو پسند نہیں؟"

"میں پہلے کب بولتی تھی؟"آبی نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ 

"پہلی ملاقات میں تو بہت بولی تھیں۔"وہ سامنے دیکھتا مسکرا کر بولا۔ 

"تب آپ نے مجھے بولنے پر مجبور کیا تھا۔"آبی نے منہ بنایا۔ 

"اب بولنے پر مجبور کروں تو کیا بولنے لگ جائیں گیں؟"سوالیہ انداز میں پوچھا۔

"آپ مجھے بولتے ہوئے کیوں دیکھنا چاھتے ہیں؟"آبی نے ابرو اٹھایا۔ 

"بولتے ہوئے آپ مجھے اپنی صورت تو دکھاتی ہیں ورنہ چہرہ پھیر کر بیٹھی رہتی ہیں۔"انداز میں ناراضگی تھی۔اشارہ کچھ وقت پہلے کی طرف تھا۔ 

آبی کے گال ایک دم گلابی ہوئے۔آگے وہ کچھ نہ کہہ پائی اور چہرہ پھیر گئی۔ 

"دیکھا پھر خاموشی سے چہرہ پھیر گئیں۔"احد نے افسوس سے کہا۔آبی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری۔یہ شخص بھی ناں۔۔۔۔

"کبھی خاموشی بھی بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔"منہ پھیرے ہوئے ہی جواب دیا۔ 

"سمجھنے کا موقع تو دیں ہم خاموشیاں بھی سمجھ لینگے۔"احد کی آواز مسکراتی ہوئی تھی۔ 

آبی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی۔اسنے جواب نہ دیا کہ ذرا وہ سیانا اسکی خاموشی کو سمجھ تو لے۔ 

"احد عالم سب سمجھ گیا۔"سر کو خم دے کر دلکش انداز میں کہا گیا۔آبی کا دل دھڑک اٹھا۔ 

احد نے ایک مسکراتی نظر اس پر ڈالی پھر ہاتھ بڑھا کر ٹیپ آن کیا۔ 

گاڑی میں راحت فتح علی خان کی دل کو چھو لینے والی آواز گونجنے لگی تھی۔ 

"تیرا میرا ساتھ ہو ، تاروں کی بارات ہو۔"

"یہی دل چاہے روز ، تم سے ہی بات ہو۔"

"دونوں کو نہ بھولے کبھی ایسی ملاقات ہو۔"

"میں لکھاں منگ کے دعاواں تینوں پایا اے۔"

"رب سوہنے تینوں میرے نال ملایا اے۔"

"ہاتھوں میں تیرے اب صدا میرا ہاتھ ہو۔"

"تیرا میرا ساتھ ہو ، تاروں کی بارات ہو۔"

"یہی دل چاہے روز ، تم سے ہی بات ہو۔"

"دونوں کو نہ بھولے کبھی ایسی ملاقات ہو۔"

گانے کے بول آبی کو بہت کچھ سمجھا رہے تھے۔اسے اپنے ارد گرد پھول ہی پھول بکھرے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔چہرے پر خوبصورت سی مسکان چمک رہی تھی۔اسنے پھر سے گانے کے بولوں پر غور کیا۔ 

"میں جدوں پیار نال ویکھناں وے تینوں نی۔"

"فیر قسم خدا دی انج لگے مینوں نی۔"

"جیسے سامنے ساری کائنات ہو۔"

"تیرا میرا ساتھ ہو ، تاروں کی بارات ہو۔"

"یہی دل چاہے روز ، تم سے ہی بات ہو۔"

"دونوں کو نہ بھولے کبھی ایسی ملاقات ہو۔"

"صادق ہے عشق میرا ویکھ آزما کے۔"

"دل کرے تینوں ویکھاں سامنے بٹھا کے۔"

اس بول پر آبی کا دل رفتار پکڑ گیا جبکہ احد مگن سا سامنے دیکھتا ڈرائیو کر رہا تھا۔لبوں سے مسکراہٹ جدا نہیں ہوئی تھی۔گانا ختم ہوا تو گاڑی میں خاموشی چھا گئی پر اس خاموشی میں بھی دو دل جیسے ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔

احد نے حویلی کے گیٹ کے سامنے کار روکی۔ 

آبی جلدی سے دروازہ کھولنے لگی جب اسنے پکارا۔

"آبش۔۔"اسکا مکمل نام احد کے لبوں پر بہت پیارا لگا تھا۔ 

"جی ۔۔"آبی نے پلٹ کر اسے کو دیکھا۔ 

"آپکو معلوم ہے میرے پرنٹس نہیں ہیں اسلیے میں اپنے بھائی اور بھابھی کو آپکی طرف بھیجنا چاہتا ہوں۔"اسنے آبی کی آنکھوں میں دیکھا۔

"جی ۔۔"آبی آہستہ آواز میں کہتی نظریں جھکا گئیں۔ 

"سمجھ رہی ہو ناں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟"احد نے اسکے مختصر جواب پر سمجھانے والے انداز میں کہا۔اسے لگا شاید آبی اسکی بات کو سمجھی نہ تھی۔ 

آبی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"جی سمجھ گئی اچھے سے۔آپ بھیج دیں انہیں اور تھینک یو یہاں ڈراپ کرنے کے لیے ۔۔۔۔ پھر ملیں گے۔۔۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔۔۔"وہ مسکرا کر ایک ہی سانس میں کہتی اگلے پل دروازہ کھول کر گاڑی سے اتر گئی۔ 

احد حیران سا بیٹھا رہ گیا۔پھر بات سمجھ کر ہنسنے لگا۔دور ہوتی آبی کو دیکھا۔جسنے گیٹ سے اندر جانے سے پہلے پلٹ کر ایک نظر مسکرا کر اسے دیکھا اور وہ اپنا دل تھام کر رہ گیا۔ 

"افف میں گیا۔"اسنے دل پر ہاتھ رکھا پھر دلکشی سے ہنس کر بالوں میں ہاتھ پھیرا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ 

وہ لڑکی جو پہلی نظر میں اسے اچھی لگی تھی۔پھر دوبارہ دیکھا تو دل میں اترتی چلی گئی اور اب وہ جلد ہی اسکی ہوجانے   والی تھی۔ 

"محسوس کر مجھے تو خود میں کہیں پہ۔"

"ہے تیری دھڑکن جہاں ، میں ہوں وہیں پہ۔"

نور ، آبی کو گڈ نائٹ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی پھر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر شہریار کو دیکھنے لگی جو اسکی موجودگی سے انجان الماری کھولے کھڑا دراز میں رکھی چیزیں چیک کرنے میں مصروف تھا۔

اسکی دی چیزیں استعمال نہیں کرتے تھے محترم پر پابندی سے چیک ضرور کرتے تھے۔نور مسکرا کر اسکی پشت کو دیکھ رہی تھی۔ 

پھر مسکراہٹ دبا کر آہستہ سے چلتی شہریار کی طرف بڑھنے لگی۔آج اسے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ارادہ تھا۔ 

وہ شہریار کے پیچھے کھڑی ہوئی پھر پاؤں اوپر کر کے اسکے کندھے سے دراز میں جھانکتے ہوئے بولی۔

"کیا ہورہا ہے؟"لہجے میں شرارت تھی۔ 

شہریار ہڑبڑا کر پلٹا۔نور جو اسکے قریب تھی ایک دم اسکے سینے سے ٹکرائی۔ 

شہریار نے اسے تھام کر گرنے سے بچایا۔

"کیا کر رہی ہو تم یہاں؟"یوں پکڑے جانے پر شہریار کو غصہ آگیا تھا۔ 

"آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں پہلے والی ماہ نور نہیں اب میں آپکی بیوی ہوں اور یہ کمرہ میرا بھی ہے اور میں کبھی بھی یہاں آ سکتی ہوں۔"اسنے آنکھیں گھما کر کہا۔ 

شہریار جو کچھ دنوں سے خاموش ماہ نور کو دیکھ رہا تھا اب اچانک پہلے والی ماہ نور سے پالا پڑا تو وہ حیران ہوا۔

اسنے سنجیدہ صورت بنا کر ماہ نور کو چھوڑا۔ 

"اپنا کام کرو ماہ ۔۔ زیادہ میری جاسوسی مت کرو۔"وہ دراز بند کرنے لگا تو ماہ نور نے اسے روک دیا۔ 

"آپکا کام ہی اب میرا کام ہے شہریار۔"وہ مزے سے کہتی پرفیوم اٹھا کر کھولنے لگی۔ 

"یہ کیا کر رہی ہو؟"شہریار نے تپ کر اسکے ہاتھ سے پرفیوم لینا چاہا۔ 

"آنکھوں کا استعمال کریں شہریار خان۔"وہ ایک نظر اسے دیکھتی مسکرائی۔ 

"ماہ ۔۔۔ تم مجھے غصہ دلا رہی ہو۔"اسنے لفظ چبائے۔

"آپ تو ہر وقت غصے میں رهتے ہیں۔اس میں نئی بات کیا ہے۔"اسنے پرفیوم پیک سے نکالا پھر اپنے ہاتھ پر اسپرے کر کے اسکی مہک سانسوں میں اتاری۔

"تم ۔۔۔"شہریار ایک دم رکا کیونکہ ماہ نور اس پر پرفیوم اسپرے کرنی لگی تھی۔

"جی میں ۔۔ کیا؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔پھر فضا میں پرفیوم اسپرے کرنے لگی۔شہریار نے اسکا ہاتھ گرفت میں لے کر اسے روکا پھر اسکے ہاتھ سے پرفیوم چھینا۔

"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟"وہ اسے گھورنے لگا۔  

"نہیں ۔۔۔میرا دماغ ٹھیک ہے بس میں چاہتی ہوں کہ آپکی خوشبو آپکی غیر موجودگی میں بھی میرے ارد گرد رہے۔"ماہ نور مگن انداز میں کہتی اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔شہریار نے کچھ پل اسکی آنکھوں میں دیکھا پھر جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا اور پرفیوم کو دراز میں ڈال کر لاک کیا۔

"آپکا کب تک میرے ساتھ ٹھیک ہونے کا ارادہ ہے؟"وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگی۔ 

شہریار نے ایک سرسری نظر اسے دیکھا پھر پلٹ کر صوفے کی طرف بڑھا۔ماہ نور کی بات کا اسکے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ 

اسنے صوفے پر بیٹھ کر میز سے سگریٹ پیک اٹھا کر اس میں سے سگریٹ نکالا۔

اسنے سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ ماہ نور اسکے سامنے آ کر کھڑی ہوئی۔ 

"سگریٹ پینا صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔"اسنے کہہ کر اگلے پل اسکے ہاتھ سے سگریٹ لے کر ایش ٹرے میں مسلا۔ 

شہریار نظر اٹھائے دانت پیس کر اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"تمہارا بھائی بھی پیتا ہے۔اسے کبھی روکا ہے؟"وہ تپ کر  اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"لالہ کو اسکی بیوی دیکھ رہی ہوگی ۔۔۔ آپ مجھے اپنا دھیان رکھنے دیں۔"

"بیوی دیکھ رہی ہوگی؟"شہریار کی سوئی اٹکی۔

ماہ نور نے زبان دانتوں میں دبائی۔

"میرا مطلب ہے کہ جب لالہ کی بیوی ہوگی وہ انہیں دیکھ لے گی۔"اسنے جلدی سے بات بنائی۔جلدی میں اسکے منہ سے سچ نکل گیا تھا۔ 

اسکی بات پر سر جھٹک کر شہریار نے سنجیدہ صورت کے ساتھ دوبارہ سگریٹ پیک اٹھانا چاہا جسے جھٹ سے ماہ نور نے اٹھایا پھر ڈس بن میں پھینک دیا۔ 

"یار ماہ کیوں تنگ کر رہی ہو۔۔۔"وہ آخر کار جھنجھلا کر بولا 

"نکاح نامے پر سائن کر کے آپ نے خود مجھے تنگ کرنے کا حق دیا ہے اور ویسے بھی بیویاں تو شوہروں کو تنگ کرتی ہی رہتی ہیں۔۔۔ یہ انکا کام ہے۔"وہ ہنس کر کہنے لگی۔شہریار کا اپنے بال نوچنے کا دل کر رہا تھا۔ 

"تم نے قسم کھا رکھی ہے کہ آج تم مجھے چین سے نہیں رہنے دوگی؟"اسنے برہم انداز میں پوچھا۔ 

"جی بالکل۔"اسنے معصومیت سے سر ہلایا۔ 

"ٹھیک ہے ۔۔ پھر میں آج کے لیے گھر سے جا رہا ہوں۔۔۔ بیٹھی رہو تم یہاں اکیلی اور کرو پریشان چڑیل جنوں کو۔۔۔" شہریار دانت پیس کر کہتا سائیڈ سے نکل کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ 

ماہ نور بھاگ کر اسکے سامنے آئی۔

"اچھا اچھا سوری ۔۔۔اب تنگ نہیں کرتی ۔۔۔۔آپ کہیں نہ جائیں۔"اسنے منانے والے انداز میں کہا۔شہریار بنا کچھ کہے اسے گھورتا رہا۔

"سوری ناں۔۔۔"اسنے اپنے کان پکڑ کر منہ بسورا۔

 اسکی صورت دیکھ کر شہریار کی گھورتی آنکھیں نرم پڑیں پھر محبت سے اسکے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ 

"ایٹس اوکے۔"نظریں پھیر کر آہستہ آواز میں بولا۔ 

"یہ ہوئی ناں بات۔۔۔"وہ ہنس کر اسکے قریب آئی۔

"ویسے نرم لہجے میں ، آہستہ سے بات کرتے آپ کافی ہینڈسم لگتے ہیں۔۔۔۔جن ہرگز نہیں لگتے۔"لہجے میں شوخی تھی۔ 

"ماہ ۔۔۔"شہریار نے اسے وارن کیا۔ 

"اچھا چلیں آپ یہاں بیٹھیں میں کافی بنا کر لاتی ہوں پھر اس  چاندنی رات میں ساتھ مل کر کافی پئیں گے۔"اسنے چٹکی بجا کر شہریار کا بازو تھاما پھر اسے لے کر بیڈ کی طرف بڑھی۔وہ بیڈ پر بیٹھا تو وہ پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔  

اسکے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی شہریار کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔"پاگل لڑکی۔۔۔"اسنے مسکرا کر سر جھٹکا۔

کچھ دیر بعد ماہ نور دو کپ ہاتھوں میں تھامے واپس آئی۔شہریار کمرے سے غائب تھا۔ 

"شہریار ۔۔۔"اسنے فکر مندی سے پکارا۔اسے لگا شاید وہ چلا گیا ہوگا۔اسکے چہرے پر مایوسی پھیلی۔

"ادھر ہوں ماہ۔"اسکی آواز بالکنی سے آئی۔ماہ نور کے چہرے پر خوشی دوڑی۔وہ جلدی سے بالکنی کی طرف بڑھی۔ 

شہریار کرسی پر بیٹھا تھا۔ماہ نور نے ایک کپ اسے دیا پھر اپنا کپ تھام کر اسکے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔چاند کی روشنی میں وہ دونوں کتنے پل خاموش بیٹھے اس حسین رات کو محسوس کر رہے تھے۔ 

وقت نے ایک لمبے عرصے بعد انہیں یہ رات نصیب کی تھی جہاں وہ ایک ساتھ بنا لڑے اتفاق سے مل بیٹھے تھے۔  

"آپکو یاد ہے ہماری شادی کو کتنے دن ہوگئے ہیں؟"ماہ نور نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"گیارہ دن۔۔"شہریار نے کافی کا سپ لے کر کہا۔ 

"آپکو یاد ہے؟"اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔ 

"شادی میری بھی ہوئی ہے ماہ ۔۔۔ یاد تو ہوگا۔"اسکا انداز سرسری تھا پر اسکی آنکھوں میں اس لڑکی کے لیے دنیا جہاں کی محبت سمٹ آئی تھی۔ 

وہ اسے کیا بتاتا کہ سالوں اسنے اس دن کا انتظار کیا تھا۔اسے اپنی دلہن کے روپ میں دیکھنا اسکی سب سے بڑی خواہش تھی۔

 پر وقت نے اسے ایسے موقع پر شہریار کے نام لکھا تھا جب شہریار اپنے آپ کو سمجھنے سے بھی قاصر تھا۔جب اسکی محبت نے خود پر انا کا خول چڑھا لیا تھا۔ 

محبت تو اسے ماہ نور سے بہت تھی پر جانے کب وہ اس ایک بات کو چھوڑ کر اپنی انا کے خول کو توڑ کے اسے اپنے دل کی بات بتائے گا۔۔۔۔۔ 

دونوں دیر رات تک وہاں بیٹھے ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔ ماہ نور خوش تھی کہ وہ پتھر پگھل رہا تھا اور شہریار وہ تو پہلے سے پگھل کر پانی ہو چکا تھا اب دیر تھی تو ماہ نور کے قدموں میں بہہ جانے کی ۔۔۔ اس پر اپنی محبت کا راز کھولنے کی ۔۔۔۔پھر سب کچھ حسین ہو جانے والا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تابین اور امتل آفندی ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھیں۔ 

امتل آفندی ناشتہ کرنے کے ساتھ اپنی کسی دوست سے فون پر  بات کر رہی تھیں۔ 

جبکہ تابین بے زار سی بیٹھی بے دلی سے کافی پی رہی تھی۔ 

امتل آفندی کی باتیں اسکے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ 

"اچھا ماہ نور کی شادی ہوگئی۔"انہوں نے نحوست سے کہا 

تابین نے انہیں دیکھا۔ 

"ہاں رشتہ تو ہے اس سے پر میں نے ان میں سے ایک کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا بس نام ہی سنے ہیں۔ وہ بھی تب معلوم ہوئے جب لالہ لوگوں کی طرف آنا جانا شروع ہوا۔۔۔خیر مجھے انکے بارے میں جاننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔"وہ کوفت سے کہتیں دوسری طرف کی بات سننے لگیں۔پھر کچھ دیر بعد کال کٹ کی اور ناشتے کی طرف متوجہ ہوئیں۔ 

"یہ ماہ نور کون ہے؟"تابین کو تجسس ہوا تو پوچھ بیٹھی۔ 

"ہاشم خان کی بہن۔"امتل آفندی نے منہ بگاڑ کر جواب دیا۔ 

"ہاشم خان کی بہن بھی ہے؟"تابین حیران ہوئی۔ 

"تو تم نے کیا اسے یتیم سمجھ رکھا تھا۔جسکے آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔"امتل آفندی زور سے ہنس کر بولیں۔ 

"افف ماما۔۔"تابین نے بے زاری سے انہیں دیکھا۔

"آپکا کیا رشتہ ہے ان سے؟"تابین نے ابرو اٹھایا۔ 

"ہاشم کے والد میرے تایا زاد بھائی ہیں۔"یہ بتاتے انکی صورت ایسی بنی جیسے کوئی کڑوی چیز کھا لی ہو۔ 

"وہاٹ ۔۔۔"تابین شاکڈ تھی۔وہ آج تک اس بات سے انجان تھی۔

"یہ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔"اسنے حیرت سے کہا 

"کیا کرنا تھا تمہیں جان کر ۔۔۔ یہ کوئی ضروری بات نہیں تھی۔"وہ مکھی اڑنے والے انداز میں بولیں۔ 

"کچھ تو کر ہی لیتی ماما۔"وہ سوچوں میں گم بولی پھر چونک کر انہیں دیکھا۔

"آپ ساری بات بتائیں مجھے ۔۔۔ یہ بھی کہ ہاشم اپنی فیملی کے ساتھ کیوں نہیں رہتا یہاں اکیلا کیوں رہتا ہے؟"تابین کا دماغ دوڑنے لگا۔ 

امتل آفندی کو جو معلوم تھا وہ سب تابین کو بتانے لگیں کہ ہاشم کو خان بابا نے گھر سے نکالا ہے۔بات رشتے کی تھی۔ اوپر کی جو بات انہیں بابا صاحب سے معلوم ہوئی تھی وہ انہوں نے تابین کو بتا دی۔ 

سب سن کر تابین سر ہلانے لگی۔پیشانی پر سوچ کی لکیریں تھیں۔ 

"بابا جان آگئے؟"اسنے سوچوں سے نکل کر پوچھا۔ 

"رات کو آئے ہیں پر اپنی لاڈلی بیٹی کے سوگ میں کمرہ بند ہیں۔پہلے اتنے دن بزنس کے بہانے منہ چھپائے بیٹھے رہے اور اب یہاں بھی یہی حال ہے۔"نازلی کا ذکر کرتے انکے لہجے میں نفرت اتر آئی تھی۔ 

"کم آن ماما اب ایسے تو نہ کہیں۔"باپ کے بارے میں ماں کا یہ انداز اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ 

امتل آفندی کچھ کہنے والی تھیں جب انکا موبائل رنگ ہونے لگا۔ 

انہوں نے کال اٹھائی دوسری طرف بی بی جان تھیں جنہوں نے انہیں بتایا کہ جمال آغا کل سے جیل میں ہے۔یہ خبر سن کر وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔پھر انہیں حویلی آنے کا کہہ کر فون بند کیا۔

"کیا ہوا؟"تابین انکی اڑی رنگت دیکھ کر بولی۔ 

"جمال آغا کل سے جیل میں ہے۔"

"وہاٹ ۔۔۔ کیوں؟"تابین حیران ہوئی۔ 

"اسنے ہاشم پر حملہ کیا ۔۔۔ ہاشم نے اسکے خلاف رپورٹ لکھوا دی۔"انکی بات سن کر تابین کا دل باہر آنے لگا۔ہاشم پر حملہ ۔۔۔۔ جمال آغا کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ہاشم کو کچھ کہتا ۔۔۔ بات نازلی کی ہوئی تھی کہ اسے راستے سے ہٹائیں گے پھر جمال آغا نے ہاشم پر کیوں حملہ کیا۔۔۔۔ تابین سوچوں سے نکلتی امتل آفندی کی طرف متوجہ ہوئی جو اس سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ انکے ساتھ جائے گی کہ نہیں ۔۔۔ وہ جیل تو نہیں جا سکتی تھیں اسلیے چھوٹی حویلی جا رہی تھیں۔دوپہر تک بابا صاحب ، جمال آغا کو چھڑا کر وہاں لے جانے والے تھے۔

تابین اٹھ کھڑی ہوئی۔اسے جمال آغا سے پوچھنا تھا کہ اسنے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔

دونوں ماں بیٹی گھر سے چھوٹی حویلی جانے کے لیے نکلی تھیں۔ 

وہ لوگ چھوٹی حویلی میں تھیں جب بابا صاحب ، جمال آغا کو لے کر وہاں پہنچے۔ جمال آغا کو دیکھ کر سب حیران پریشان رہ گئے۔اسکا چہرہ زخمی زخمی تھا۔آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے کٹ لگے تھے۔اسکے پھٹے کپڑوں کی جگہ نئے کپڑوں نے لے لی تھی پر وہ اسکی خراب حالت کو نہ چھپا سکے۔ 

اوپر سے اسکے چہرے کے تاثرات اسے اور خوفناک بنا رہے تھے۔تابین تو اسے ایک نظر میں پہچان ہی نہ پائی تھی۔اسکے چہرے کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔بی بی جان تو بیٹے کو دیکھ کر رونے لگیں۔امتل آفندی کی آنکھیں بھی پھٹ گئی تھیں۔ 

جمال آغا نے نظر اٹھا کر کسی کو نہ دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔"یہ کیا حال کر دیا ہے میرے بچے کا۔"بی بی جان نے روتے ہوئے بابا صاحب کو دیکھا۔ 

"تمہارے بچے کی جلد بازی کا نتیجہ ہے سب ۔۔۔ ٹھنڈے دماغ سے کام لیتا تو اس حال میں نہ ہوتا۔"وہ جھنجھلا کر بولے تھے۔انہیں اب بھی بیٹے کی غلطی نظر نہ آئی۔نظر آیا تو یہ کہ اسنے جلد بازی کی اگر اچھے سے پلان کر کے سب کرتا تو پکڑا نہ جاتا۔ 

انکی بات پر بی بی جان صوفے پر بیٹھ کر رونے لگیں۔وہ اپنے شوہر کو کیسے سمجھاتیں کہ یہ سب غلط ہے۔وہ انکی بات سنتے بھی تو نہ تھے۔جیسے وہ خود تھے ویسا ہی انہوں نے اپنے بیٹوں کو بھی بنا دیا تھا۔

جمال اور بلاول دونوں باپ کے نقشہ قدم پر چل رہے تھے۔بی بی جان کو خوف آتا تھا کہ اگر اللہ نے انکی رسی کھینچ لی تو وہ برباد ہوجائیں گے۔وہ اپنے بیٹوں کا برا بھی تو نہیں چاہتی تھیں۔دنیا کے لیے وہ لاکھ برے سہی پر ماں کے لیے وہ اسکے بیٹے تھے۔جنہیں کچھ بھی ہونے کا سوچ کر انکا دل کانپ جاتا تھا۔ہر وقت انکی یہی دعا ہوتی کہ وہ سدھر جائیں۔لوٹ آئیں صحیح راستے کی طرف کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو بربادی ہی انکا مقدر بنے گی۔ 

امتل آفندی آگے بڑھ کر انہیں چپ کروانے لگیں۔بابا صاحب خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گئے جبکہ تابین وہاں سے جمال آغا کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ 

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ اسے کہیں نظر نہ آیا۔واش روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔شاید وہ شاور لے رہا تھا۔ 

تابین صوفے پر بیٹھ کر اسکا انتظار کرنے لگی۔تبھی سامنے میز پر رکھے جمال آغا کے موبائل کی ٹیون بجی۔ 

تابین کو تجسس ہوا تو اسنے موبائل اٹھایا۔موبائل پر لاک نہیں لگا تھا۔اسلیے اسنے آرام سے موبائل کھولا۔ وہاں کوئی ویڈیو بھیجی گئی تھی۔ 

تابین نے پہلے سوچا کہ موبائل رکھ دے پر پھر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ویڈیو اوپن کی۔ 

تیز برستی بارش میں جمال آغا بیہوش زمین پر پڑا تھا اور اسکی حالت اب سے سو گنا زیادہ بری تھی۔کپڑے پٹے ہوئے تھے۔چہرہ خون سے تر تھا۔تابین کی آنکھیں پھیل گئیں۔کسی نے جمال آغا کو خوب پیٹ کر اسکی ویڈیو بنائی تھی۔ 

بارش کے شور کے علاوہ اسے اور کوئی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔جمال آغا کی حالت قابل رحم تھی۔ 

وہ ویڈیو میں کھوئی تھی جب اسکے ہاتھ سے موبائل چھینا گیا۔ 

اسنے جھٹ سے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے جمال آغا کھڑا تھا۔اسکی نظریں اب موبائل اسکرین پر تھی اور جو منظر اسے وہاں دیکھنے کو ملا اس سے توہین کے مارے اسکا چہرہ انگارہ ہوا۔جسم میں جیسے آگ سی بھڑک اٹھی۔یہ ویڈیو بھیج کر اسے یاد دیلایا گیا کہ وہ ہار گیا تھا۔وہ ایک بار پھر ہاشم خان سے بری طرح ہار گیا تھا۔ویڈیو بھیجنے والا کون تھا؟اسکا دشمن ، جسنے اسے ہار سے دو چار کیا تھا۔

ہاشم خان یہ نام جمال آغا کے چاروں گرد چکرانے لگا۔ویڈیو دیکھ کر دماغ میں وہ اذیت بھرے سارے لمحے تازہ ہونے لگے تھے۔وہ ویڈیو کو پھر سے پلے کرتا لال آنکھیں اس پر ٹکائے کھڑا تھا۔تابین کی موجودگی جیسے بھلا چکا تھا۔ 

"یہ کس نے تمہیں مارا اور یہ ویڈیو۔"تابین کی بات پر اسنے سر اٹھایا۔اسکا دل چاہ رہا تھا دنیا کو آگ لگا دے۔وہ کچھ نہ بولا اور جا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ 

"بولو جمال آغا اور یہ بھی بتاؤ کہ تم نے ہاشم خان پر حملہ کیوں کیا۔"تابین اسکے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔اچانک ہاشم کے نام پر اسکے دماغ میں گھنٹی بجی۔ 

"ہاشم ، ہاشم نے تمہاری یہ حالت کی ہے۔"اسنے پھیلی آنکھوں کے ساتھ حیرت سے پوچھا۔ 

"نہیں۔"اسنے زمین کو گھورتے ہوئے جھوٹ بولا۔تابین نے افسوس سے اسے دیکھا۔

"پلان نازلی کو راستے سے ہٹانے کا تھا پھر تم نے ہاشم پر کیوں حملہ کیا۔"تابین کا لہجہ سخت تھا۔ 

جمال آغا اسکی بات پر ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"نہیں کیا میں نے کوئی حملہ تمہارے یار پر ، سمجھی۔"اسے کندھوں سے دبوچ کر وہ غرایا تھا۔ 

تابین کو اس سے ایک پل کے لیے ڈر لگا تھا پر پھر اسنے دانت پیس کر جمال آغا کو دھکا دے کر پیچھے کیا۔ 

"زبان سنبھال کر بات کرو ، میں کوئی دبو سی لڑکی نہیں ہوں جو تم سے ڈر جائے گی اسلیے اپنا غصہ اپنے پاس سنبھال کر رکھو۔مجھ پر رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں سمجھے۔"وہ انگلی اٹھا کر چباتے ہوئے بولی

جمال آغا کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔پر زبان سے ایک بھی لفظ ادا نہ ہوا۔ 

"اور جھوٹ بولنا بند کرو ، تمہاری حالت دیکھ کر اچھے سے معلوم ہو رہا ہے کہ کس نے تمہاری دھلائی کی ہے۔۔۔بہت وقت لگے گا ٹھیک ہونے میں اسلیے آرام فرماؤ۔اب غصہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔"وہ طنزیہ مسکرا کر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہتی پلٹی اور دروازے سے باہر نکلتی چلی گئی۔  

اسکی بات نے جمال آغا کو جلا کر خاک کر ڈالا تھا۔وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھا پھر بالوں کو زور سے مٹھیوں میں بھینچا۔

تبھی پھر اسکے موبائل کی ٹیون بجی۔اسنے بیڈ سے موبائل اٹھا کر چیک کیا۔وہاں مسیج آیا تھا اسنے مسیج اوپن کیا۔ 

"کیسا لگا تمہیں اپنی ہی دوا کا ذائقہ؟"

تمہارا کزن ہاشم خان۔"اشارہ ویڈیو کی طرف کیا گیا تھا۔طنز میں ڈوبا مذاق اڑنے والا مسیج پڑھ کر جمال آغا نے اگلے پل غرا کر موبائل اٹھا کر سامنے دیوار پر دے مارا۔ 

"پچھتاؤ گے تم ہاشم خان ، پچھتاؤ گے۔"وہ ہار کے اس مقام پر تھا کہ اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے تھے۔ہاشم کے مسیج نے آگ میں جیسا پیٹرول چھڑکا تھا۔اسکی ہستی جل کر خاک ہوگئی تھی۔

وہ تابین کے سامنے ہوئی اپنی توہین سے مر رہا تھا۔اسکی مردانگی کو کہاں گوارا تھا کہ ایک لڑکی کے سامنے وہ کمزور ثابت ہوا تھا۔وہ بھی اس شخص کے مقابلے میں جسے مات دینے کے لیے اسنے بڑی بڑی باتیں کی تھیں۔

وہ لڑکی اس پر طنز کر کے چلی گئی تھی۔یہ بات وہ کیسے برداشت کرتا۔وہ بھی انہیں منہ توڑ جواب دے گا کہ وہ لوگ دیکھتے رہ جائیں گے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"اپنی سانسیں ، اپنی آہیں۔"

"تم پہ وار بیٹھے ہیں۔"

"محبت تیرے صدقے۔"

"ہم خود کو ہار بیٹھے ہیں۔"

اسنے آج حسن ولا کال کی تھی کہ کسی طرح سے بابا جان سے بات کر لے۔وہ پہلے بھی کئی بار حسن آفندی کے موبائل پر کال کر چکی تھی۔پر پہلی بار جب انہوں نے کال اٹھائی تھی اور وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی اسکی خاموشی سے وہ سمجھ گئے تھے کہ وہ نازلی ہی ہے تبھی اس کے بعد انہوں نے اسکی کال پک نہیں کی تھی۔ پھر وہ لینڈ لائن پر فون کرتی اور حسن آفندی کا پوچھتی تو جواب یہی ملتا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ 

آج بھی یہی جواب ملا تھا۔وہ جانتی تھی حسن آفندی واپس آگئے ہیں پر وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 

آج پھر اسکے دل پر اداسی کے بادل چھائے تھے۔آج پھر پرانی یادوں نے دل پر حملہ کیا تھا۔دل میں درد پھیلنے لگا تھا۔ 

وہ بیٹھی ہاشم کی پینٹنگ کو تک رہی تھی۔ہاتھ بڑھا کر اس پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا۔ 

"آپ بہت اچھے ہیں پر کاش آپ یہ راستہ نہ اپناتے ، کاش آپ خوشی کا پیغام لے کر میری زندگی میں داخل ہوتے تو آج میرے  دل کا ایک کونہ درد میں نہ ڈوبا ہوتا۔"وہ زیر لب بڑبڑا رہی تھی۔ 

تبھی ایک دم دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔وہ جھٹ سے اٹھی اور پلٹ کر کینوس کے سامنے کھڑی ہوئی۔

سامنے دروازے کے پاس ہاشم کھڑا تھا۔دروازہ کھلنے سے وہ پہچان گئی تھی کہ ہاشم ہی ہوگا کیونکہ چھوٹی پٹھانی یا کوئی نوکر ہوتا تو وہ دروازے پر دستک دیتے تھے۔ 

ہاشم کو دیکھ کر نازلی اچھے سے پینٹنگ کے سامنے کھڑی ہوئی کہ اسے پینٹنگ دکھائی نہ دے۔ 

دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔وہ چاہتی تھی ہاشم یہاں سے چلا جائے تا کہ یہ پینٹنگ والا راز راز ہی رہے۔ 

ہاشم نے قدم آگے بڑھائے تو نازلی جھٹ سے بولی۔ 

"رک جائیں۔"ہاشم حیرت سے رک کر اسے دیکھنے لگا۔

"کیا ہوا؟"اسنے ارد گرد دیکھا کہ کہیں کچھ غلط تو نہیں پر سب نارمل تھا۔ 

"آپ باہر جائیں ، میں بھی باہر آتی ہوں۔پھر بات کرتے ہیں۔"اسنے نروس انداز میں ہاتھوں کو مسل کر کہا۔ 

"اچھا۔۔۔"ہاشم نے اچھا کو لمبا کھینچا۔پھر مشکوک نظروں سے نازلی کو دیکھا کہ کوئی تو گڑبڑ ضرور ہے۔ 

وہ قدم اٹھاتا آگے بڑھا اور نازلی کے وجود میں بے چینی پھیلی۔

"ہاشم آپ جائیں میں آ کر بات کرتی ہوں ناں۔"اسنے عجلت سے کہا۔ 

"کوئی مسئلہ ہے؟"وہ چل کر اسکے قریب آتا جا رہا تھا۔ 

"ن۔۔۔نہیں کوئی مسئلہ نہیں۔"اسکے قریب آنے پر وہ اچھے سے کینوس کے سامنے کھڑی ہوئی۔ہاشم کو کینوس دکھائی نہیں دے رہا تھا پر نازلی کا انداز اسے شک میں مبتلا کر گیا کہ وہ اس سے کچھ چھپا رہی ہے۔ 

"مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو؟"وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا۔ 

"نہیں تو۔"نازلی نے پیشانی پر چمکتا پسینہ ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔

"پھر اتنی نروس کیوں ہوں۔"وہ مزید قریب ہوا۔نازلی نے ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسے روکا۔

"میں کوئی نروس نہیں ہوں۔آپ بس پیچھے ہو کر کھڑے ہوں۔"اسنے کسی حد تک لہجے کو مضبوط کیا۔ 

"اچھا جی۔"وہ سر ہلا کر کچھ قدم پیچھے ہوا۔نازلی نے لمبی سانس بھری پر اگلے لمحے اسکی سانس اٹک گئی جب ہاشم نے اس کا بازو تھام کر اپنی طرف کھینچا۔وہ اسکے سینے سے ٹکرائی۔ہاشم نے اسکے گرد بازو پھیلائے اور اسے اپنے ساتھ لگائے اسنے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔

کینوس پر پینٹ اپنا چہرہ دیکھ کر اسکی سیاہ آنکھیں تھم گئیں جبکہ اسکے سینے سے لگی نازلی کا بھی یہی حال تھا۔وہ بھی بت بن گئی تھی۔

وہ پکڑی جا چکی تھی۔ہاشم نے پینٹنگ دیکھ لی تھی۔وہ اب کیسے بتائے گی کہ اسنے کیوں بنائی پینٹنگ ، کس احساس نے اس سے ایسا کروایا تھا؟وہ تو اب انکار بھی نہیں کر سکتی تھی۔ 

ہاشم کتنے پل پینٹنگ کو دیکھتا رہا پھر مدھم سی مسکراہٹ  اسکے لبوں پر بکھرتی چلی گئی۔آنکھوں میں روشنی ہی روشنی بھر گئی۔اسنے نازلی کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اسکا سر پیچھے کیا۔اسکی لرزتی پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔گال گلابی ہو رہے تھے۔ 

سیاہ آنکھیں اس حسین چہرے کو دیکھتی رہیں۔لبوں سے مسکراہٹ جدا نہ ہوئی۔نازلی بھی سانس روکے کھڑی تھی۔ 

"ہوں ۔۔۔ تو میری خواہش پوری کردی آپ نے اور مجھے اس بات سے انجان رکھا۔۔۔۔ ایسا کیوں؟"اسنے نازلی کے کان میں سرگوشی کی۔

"چھوڑیں مجھے۔"نازلی نے بنا اسے دیکھے خود کو چھڑانے کی کوشش کی پر کامیاب نہ ہوئی۔

"پہلے جواب دو۔"اسکے بال کان کے پیچھے کر کے بولا۔ 

"نہیں دیتی۔"اسنے پلکیں اٹھا کر ضدی لہجے میں کہا۔ 

"پر میں تو جواب لے کر ہی مانوں گا۔"اسنے مسکرا کر آہستہ سے نازلی کی پیشانی سے پیشانی ٹکرائی۔

نازلی سے جتنا ہو سکا اسنے اپنا چہرہ پیچھے کیا۔ 

"مجھے پریشان نہ کریں۔"وہ چبا کر بولی۔وہ غصہ کر کے کسی طرح اس سچویشن سے نکلنا چاہتی تھی۔ہاشم کا اسکے اتنا قریب ہونا اور اس طرح جواب دینے پر مجبور کرنا اسے جھنجھلاہٹ میں ڈال رہا تھا۔اس سے کوئی جواب نہیں بن رہا تھا۔پھر کیا کہتی بھلا؟ 

"پریشان تو اب ہم آپکو ہی کریں گے مسز خان۔"اسکے لہجے میں شوخی اتری۔ 

"جانے دیں مجھے۔"نازلی نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکیلنا چاہا۔"نہیں۔"مسکرا کر چڑانے والا جواب آیا۔ 

"ہاشم ۔۔۔"نازلی نے اسے گھورا۔ 

"جی جانِ ہاشم۔"وہ ہنس کر اسکی پریشان نیلی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

"چھوڑیں مجھے۔"اسنے تپے انداز میں کہا۔ 

"پہلے جواب۔"مزے سے کہا گیا۔ 

"میں نے غلطی سے بنا دی یہ پینٹنگ ۔۔۔ مجھے معاف کر دیں۔"اسنے جھنجھلا کر کہتے ہاشم کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"غلطی سے تو اتنی شان دار پینٹنگ نہیں بنا کرتی مسز۔۔۔مصور کے دل و دماغ پہ جو چیز حاوی ہوتی ہے وہ اسے کینوس پر اتار دیتا ہے۔یہاں بھی معاملہ ایسا ہی ہے؟ ہے ناں؟"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر دلکشی سے بولتا اس سے تصدیق چاہ رہا تھا۔ 

نازلی کچھ پل اسے دیکھتی رہی پھر نظریں پھیر کر دوسری طرف دیکھ کر بولی۔

"نہیں۔"صاف جھوٹ بولا گیا۔ 

"پکا نہیں؟"اسنے مسکرا کر پوچھا۔ 

"ہاں ۔۔۔ پکا۔"ہنوز دوسری طرف دیکھتی چڑ کر بولی۔

"تم جھوٹ بالکل نہیں بول سکتی۔"ہاشم نے ہنس کر ایک ہی جملے میں اسے بتایا تھا کہ وہ سب جانتا ہے۔

اسکی بات پر نازلی نے جھٹ سے اسے دیکھا۔وہ شخص اسے اس قدر جاننے لگا تھا۔

وہ اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی جب وہ اسکے قریب ہوا اور اگلے پل گلابی گال پر لب رکھے۔

نازلی کو جیسے کرنٹ لگا۔وہ پوری جان سے کانپ کر رہ گئی۔پھر اگلے پل غصے سے اسے پیچھے کی طرف دھکیلا۔ہاشم نے گرفت ڈھیلی کر کے اسے دور ہونے دیا۔ 

"شرم کریں آپ۔"وہ چبا کر کہتی اپنا گال مسلنے لگی۔ 

ہاشم اسکے انداز پر زور سے ہنسا۔ 

"تم شاید بھول رہی ہو کہ تم میری بیوی ہو۔"مسکراتے ہوئے ابرو اٹھا کر بولا۔ 

نیلی آنکھیں اسے گھورنے لگی۔چلو محبت ہوگئی اس شخص سے یہ الگ بات تھی پر اب اسکا یوں گلے لگانا اور بوسہ دینا یہ سب نازلی کو ایک آنکھ نہ بھایا۔مطلب شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ایسے تھوڑی کرتا ہے بندہ۔۔۔۔اسکے گال لال ٹماٹر ہوگئے تھے۔ 

"مجھ سے بات مت کیجیے گا۔"وہ اسے گھور کر بولی۔ 

"میں تو بات کرونگا اور ۔۔"وہ شرارت سے کہہ کر پھر اسکی طرف بڑھا۔

"خبر دار۔"وہ جلدی سے دروازے کی طرف بھاگی۔ 

ہاشم ہنسنے لگا تھا۔"اچھا بھاگنے سے پہلے ایک بات سن لو۔"وہ جلدی سے بولا 

نازلی دروازے کے پاس پہنچ کر رکی پھر گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ 

"اسکے لیے تھینک یو نہیں کہونگا۔"وہ پینٹنگ کی طرف اشارہ کر کے رکا پھر نازلی کو دیکھا۔

"آئی لو یو۔"مدھم مسکراہٹ کے ساتھ دلکش انداز میں کہا گیا۔نازلی کتنے پل بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھتی رہی۔ پاگل ہوتے دل کے ساتھ وہاں سے باہر نکلی۔پھر بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتر کر اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی۔ 

جبکہ ہاشم بالوں میں ہاتھ پھیر کر مسکراتا کینوس پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ 

اسے ایک کے بعد ایک خوشی مل رہی تھی۔اسے یقین تھا جو تھوڑی الجھی ڈوریں رہتی ہیں وہ بھی سلجھ جائیں گی اور پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ 

شام کے قریب ہاشم کے بلانے پر اسفی اس سے ملنے کے لیے خان ولا آیا تھا۔دونوں لان میں بیٹھے تھے۔

"یار بھابی مجھے دیکھ کر بھڑک نہ جائیں۔"اسفی نے پریشانی سے کہا۔وہ نازلی کی رخصتی کے بعد خان ولا نہیں آیا تھا۔باہر ہی ہاشم سے ملاقات کر لیتا۔اسے ڈر تھا جانے نازلی اسے دیکھ کر کیسا ری ایکٹ کرتی۔آخر نکاح کے وقت اسنے اسفی سے  مدد مانگی تھی پر اسفی انکار کر گیا تھا۔ 

"بھڑکے گی تو ضرور۔۔۔اب تم اپنی خیر مناؤ۔"ہاشم نے شرارت سے اسے دیکھا۔ 

"ہاشم خان تم نے مجھے یہاں بھابی کی ڈانٹ کھلانے کے لیے بلایا ہے۔"اسفی تپا تھا۔ 

"جی بالکل۔"ہاشم نے شوخ لہجہ اپنایا۔ 

"پھر میں گیا بھائی ۔۔۔سب گڑبڑ تم نے کی اور بھابی کی نظروں میں مجھے ولن بنا دیا۔خوب کھیل گئے ہو خان۔"وہ عجلت سے کہتا اٹھنے لگا۔ہاشم نے ہنستے ہوئے اسے واپس کرسی پر بٹھایا۔ 

"یار میری مسز بہت معصوم ہے۔وہ صرف مجھ پہ بھڑکتی ہے باقی سب کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتی ہے۔"ہاشم نے اسکا کندھا تھپک کر بتایا۔اسفی نے سکون بھری سانس لی۔ 

"پھر ٹھیک ہے۔ویسے بھابی بہت اچھا کرتی ہیں تم جیسے مغرور بادشاہ کو ایسے ہی قابو کیا جا سکتا ہے۔"

"اس بادشاہ کو بڑے بڑے دشمن قابو نہ کر سکے اگر ایک نازک سی ملکہ نے قابو کیا ہے تو اس میں بادشاہ کا دل قصور وار ہے۔جو ملکہ سے جیتنا نہیں چاہتا۔اس سے ہار ہی جیت سا مزہ دیتی ہے۔بس اسی لیے۔"وہ مگن سا مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ 

اسکی بات پر اسفی اتنے وقت میں پہلی بار مسکرایا تھا۔ 

"جادو کا اثر ہوگیا ہے سٹون مین پر۔اسکا کوئی توڑ تو ہوگا؟"اسفی نے شرارت سے پوچھا۔ 

"کوئی توڑ نہیں ۔۔ نہ کوئی تعویذ دھاگہ نہ ہی کسی بابا کی جنتر منتر والی پھونکیں۔دل اب اس جادو سے کبھی نہیں نکلے گا۔"ہاشم نے ہنس کر شوخی سے جواب دیا۔

"اور دوسری طرف؟"اسفی نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"ہاشم خان کی محبت اثر کر گئی ہے پتھر دل نازک لڑکی پر۔"وہ مدھم سا مسکرا کر بولا۔

تبھی نازلی ، چھوٹی پٹھانی کے ساتھ چائے لے کر وہاں آئی۔

"اسلام و علیکم۔"اسنے پاس آتے سلام کیا۔

ہاشم کے اقرار کے بعد وہ ابھی کمرے سے نکلی تھی۔مجبوری تھی کہ اسفی مہمان آیا تھا اگر اس سے ملنے نہ آتی تو یہ اچھی بات نہ تھی۔وہ آ تو گئی تھی پر نظر اٹھا کر ہاشم کو نہیں دیکھ پائی۔ 

"وعلیکم السلام۔"اسفی نے جواب دیا۔"کیسی ہے آپ؟"جھجھک کر پوچھا۔ 

"میں ٹھیک ہوں اسفی بھائی ۔۔۔ آپ کیسے ہیں۔"اسکے نرم انداز پر اسفی کو حیرت ہوئی۔ 

"میں بھی ٹھیک ہوں بھابی۔"اسنے جواب دے کر کپ تھاما جو نازلی نے اسکی طرف بڑھایا۔ 

وہ چائے دے کر جانے لگی جب ہاشم نے اسے روکا۔ 

"کچھ دیر ہمارے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گیں؟"اسنے ابرو اٹھا کر نازلی کو دیکھا

نازلی کچھ پل خاموش رہی پھر سر ہلا کر ہاشم سے کچھ فاصلے پر رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ 

"اسفی تم سے ڈر رہا تھا؟"اسکے بیٹھتے ہی ہاشم نے بتایا۔چائے پیتا اسفی ایک دم کھانسنے لگا۔ 

اسکی بات پر نازلی نے حیرت سے پہلے ہاشم پھر اسفی کو دیکھا جو کھانسی روک کر اب ہاشم کو گھور رہا تھا۔ 

"میں کیا ڈراؤنی ہوں اسفی بھائی؟"نازلی نے افسوس سے پوچھا۔

اسفی اسے بہت ڈیسنٹ شخص لگتا تھا۔بھلے ہی اسکے مدد مانگنے پر وہ اسکی مدد نہیں کر پایا تھا۔اُس وقت ہاشم کے سر پہ جنون سوار تھا اگر اسفی اسے روکتا بھی تو اسنے کون سا رک جانا تھا۔"نہیں بھابی وہ ۔۔"اسفی کپ ٹیبل پر رکھ کر پریشانی سے بولا۔"اس سب میں آپکی کوئی غلطی نہیں تھی۔"نازلی نے سمجھ کر کہا۔اسفی پہلے اسکی سمجھداری پر چونکا پھر مشکور نظروں سے اسے دیکھا۔ 

ہاشم ، اسفی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔جیسے کہہ رہا ہو۔"میں نے کہا تھا ناں۔"اسکے دیکھنے پر اسفی مسکرانے لگا۔

تبھی ہاشم کا موبائل بجا اور وہ ایکسکیوز کرتا موبائل اٹھا کر وہاں سے دور گیا۔

اسفی نے سر جھکائے بیٹھی نازلی کو دیکھا۔ 

"آپ نے اپنی بہن سے بات کی اس سب کے بعد؟"اسنے ایک دم پوچھا۔ 

نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔ 

"وہ مجھ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتیں۔وہ اس سب کا ذمہ دار مجھے مانتی ہیں۔میں نے بتانے کی کوشش کی پر وہ میری بات سنتی ہی نہیں۔"نازلی کے لہجے میں اداسی ہی اداسی تھی۔ 

"تابین دل کی بری نہیں ہے۔وہ بس فوراً ری ایکٹ کر جاتی ہے۔ 

آپ کوشش کریں تو وہ آپکی بات سمجھ جائے گی۔"اسفی کے لہجے میں تابین کے لیے اتنی نرمی ، اتنی محبت تھی کہ نازلی حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"آپ آپی سے محبت کرتے ہیں؟"اسنے ایک دم پوچھا تھا۔ 

اسفی گڑبڑا گیا۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔"اسنے جھٹ سے جواب دیا۔ 

"آپکا لہجہ سب کہہ گیا ہے۔"نازلی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ 

"وہ بھابی۔"اسفی الجھ کر بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ 

"مان جائیں اسفی بھائی۔"نازلی نے سنجیدگی سے کہا 

"ہاں ۔۔۔ مجھے ہے تابین سے محبت ، آج یا کل سے نہیں پچھلے پانچ سالوں سے ، وہ ہاشم کی محبت میں دیوانی دیکھ ہی نہ پائی کہ کوئی اسے کتنا چاہتا ہے۔میں نے بھی اپنی محبت دل میں رکھی ہوئی ہے۔میں کبھی اسے بتا نہیں پایا اور بتانے کا فائدہ بھی کیا۔اسے ہاشم کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا۔"اسفی دکھ سے کہہ کر ہنسا۔"اسے تو بس ہاشم۔۔۔"وہ کہتے ایک دم رک کر نازلی کو دیکھنے لگا۔ 

"آئم سوری بھابی ۔۔۔ ہاشم آپکا شوہر ہے اور میں ۔۔۔ آئم ریلی سوری۔۔۔"وہ شرمندگی سے بولا 

"آپ سوری نہ کریں اسفی بھائی ، میں سب جانتی ہوں۔"نازلی نے نرمی سے جواب دیا۔ 

"آپ ہاشم سے اس بات کا ذکر نہ کریے گا۔"اسنے سر جھکا کر کہا۔

"میں کچھ نہیں کہتی ان سے اور آپکی محبت سچی ہے اسفی بھائی ایک دن آپکو آپکی منزل ضرور ملے گی۔"نازلی نے سچے دل سے کہا۔ 

اسکی بات پر اسفی ایک دم ہنسا۔لبوں پر مسکراہٹ اور دل میں درد تھا۔اسنے نازلی سے کچھ نہ کہا پر اسے یقین نہ تھا کہ وہ دیوانی کبھی اسے ملے گی۔اسنے تو کبھی تابین کے ملنے کی خواہش نہیں کی تھی وہ بس اسے بغیر کسی غرض کے چاہتا چلا آرہا تھا اور آگے بھی چاہتا رہے گا۔

تابین کے دل میں بھلے کوئی بھی ہو پر اسفی اسے چاہنا نہیں چھوڑ سکتا تھا اسکے دل میں بس وہی تھی۔اسکی جگہ دوسرا کوئی نہیں لے سکتا تھا۔وہ برسوں سے اسکے دل میں رہ رہی تھی۔جانے کیسا عشق تھا اسکا کہ وہ لڑکی اتنے سالوں سے کسی اور کو چاہ رہی تھی اور وہ تھا کہ اسکی محبت میں کمی نہیں آ رہی تھی۔

وہ ہمیشہ اس سے دور رہا تھا۔اسے حاصل کرنا تو دیوانے کا خواب لگتا تھا۔وہ کچھ عرصے سے اگر اسکے قریب جا بھی رہا تھا تو اپنے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اسے اس لڑکی کی فکر تھی۔وہ خود کو جلا کر راکھ کر رہی تھی اور وہ اسے برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔یہی اس لڑکی کے لیے اسکی محبت تھی۔جس میں وہ خود جل رہا تھا پر اس لڑکی کی تکلیف اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔

یہی تو عشق کی انتہا ہوتی ہے جس میں انسان خود کو بھول جاتا ہے اور ہر وقت محبوب کے نام کی تسبیح پڑھتا ہے۔

"میں نے برسوں عشق نماز پڑھی۔"

"تسبیح محبت ہاتھ لیے۔"

"چلا ہجر کی میں تبلیغ کو اب۔"

"تیری چاہت کی آیات لیے۔"

"ایک آگ وہی نمرود کی ہے۔"

"میں اشک ہوں اپنے ساتھ لیے۔"

ہاشم واپس آیا تو دونوں سوچوں میں گم خاموش بیٹھے تھے۔ 

"بت کیوں بنے بیٹھے ہو؟"اسنے بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا تو وہ لوگ چونکے۔

اسفی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔وہ لمحوں میں سالوں کا سفر طے کر آیا تھا۔دل میں دھواں بھر گیا تھا پر لب مسکرا رہے تھے۔وہ ہاشم کو جواب دینے لگا۔وہ دونوں باتوں میں لگ گئے اور نازلی وہاں سے اٹھ کر اندر کی طرف بڑھنے لگی۔آگے بڑھتے وہ دعا کرنے لگی کہ اللہ پاک اسفی جیسا اچھا اور مخلص شخص ہی اسکی آپی کی زندگی میں آئے۔جو اسکی آپی کے سارے غم بھلا دے اور اسکا ہاتھ تھام کر اسے محبت کی دنیا میں لے جائے۔جہاں اسکی بہن ہمیشہ خوش رہے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"تھوڑی چاندنی سی رات ہو۔"

"کچھ ان کہی سی بات ہو۔"

"میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو۔"

"میرے چہرے پر ہنسی کی۔"

"تیرے مکھڑے پر خوشی کی جھنکار ہو۔"

"میرے ہمسفر۔"

"یونہی میری زندگی کی ہر شام ہو۔"

__________________(نوشابہ چوہان)

"کیسی ہیں بھابی صاحبہ۔"داور دھڑام سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ 

نور اور آبی ہال میں بیٹھیں باتوں میں مصروف تھیں۔داور کی بات پر نور نے اسے دیکھا۔ 

"آج مانو سے بھابی ہوگئی میں۔"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔ 

"ہاں تو نئے رشتے کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ناں۔میں تمہیں مانو کہوں اور شہریار لالہ کو برا لگ جائے کہ میری بیوی کو بلی کہہ رہے ہو۔پھر میں تو گیا ناں کام سے۔"وہ منہ بنا کر کہتا آخر میں شرارت سے بول کر ہنسا۔

"داور کے بچے میں مانو بلی والی مانو نہیں ہوں ہاں لیکن تم بلے ضرور ہو۔"نور تپی تھی۔اسکی بات پر آبی ہنسنے لگی جبکہ داور نے منہ بسورا۔

"مانو بھابی تم نے مجھے بلا کہہ کر اچھا نہیں کیا۔"داور مصنوعی خفگی سے بولا۔اسکے مانو بھابی کہنے پر نور جھنجھلائی۔

"یہ بھابی کی دم تو ساتھ سے ہٹاؤ۔"اسنے کوفت سے کہا۔"ویسے بھی شہریار کو کیوں برا لگے گا۔میری ان سے شادی بعد میں ہوئی اور تمہاری بہن میں پہلے ہوں۔"

"واہ واہ کیا بات کر دی۔"داور نے تالی بجائی پھر آگے ہو کر کہنے لگا۔"اگر کبھی لالہ نے مجھے ڈانٹا تو تم اپنے بھائی کا ساتھ دوگی کہ شوہر کا؟"وہ کہہ کر اسے دیکھنے لگا۔ 

نور نے آبی کو اشارہ کیا۔ 

"مطلب تم کوئی ایسا کام کرنے کی سوچ رہے ہو جس سے تمہیں ڈانٹ پڑنے کا خطرہ ہو؟"آبی نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔ 

"سوچ نہیں رہا کر چکا ہوں۔"داور نے ٹھوڑی کھجائی۔ 

"ہائے اللہ ، کیا کر چکے ہو داور۔"نور نے جلدی سے پوچھا۔دونوں حیرت سے داور کو دیکھ رہی تھیں۔ 

"وہ ناں میں لالہ کی کار لے کر گیا تھا اور کار لگ گئی مجھ سے ۔۔۔ ہیڈ لائٹ کا جنازہ نکل گیا۔اب لالہ زمینوں سے آئیں گے اور پھر انہوں نے میرا سر پھوڑ دینا ہے۔"وہ پریشانی سے بتا رہا تھا۔وہ پہلے بھی ایک بار شہریار کی کار کا ایکسیڈنٹ کر چکا تھا۔اسکے بعد شہریار نے اسے ڈرائیونگ کرنے سے سختی سے منع کیا تھا۔پر آج دوست سے ملنے کے لیے جانا تھا تو وہ شہریار کی کار لے گیا تھا۔ 

"اب تمہاری خیر نہیں بچہ۔"آبی نے ہاتھ جھاڑے۔

"تم لوگوں کو اسلیے بتایا ہے کہ مجھے لالہ سے بچا لینا۔"داور نے معصوم سی صورت بنائی۔ 

"میں تو کچھ نہیں کر سکتی۔"آبی صاف مکر گئی۔ 

"تم تو ہو ہی چڑیل۔"داور نے تپ کر آبی کو دیکھا۔

"میری پیاری مانو ۔۔۔ تم میرا ساتھ دینا اس بیوفا کی طرح مشکل میں اکیلا مت چھوڑنا۔"وہ ماہ نور کا ہاتھ تھام کر اداسی سے بولا۔جیسے آبی کے دھوکے سے اسے بڑا دکھ ہوا ہو۔

نور اور آبی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسی ضبط کرتیں اسکے ڈرامے دیکھ رہی تھیں۔ 

"ایک شرط پر۔"نور نے اسکا ہاتھ تھپک کر کہا۔ 

"ہر شرط منظور ہے۔تم بولو تو سہی میں جان بھی وار دونگا۔"وہ اموشنل ہو کر کچھ زیادہ ہی بول گیا۔ 

"جان ہی وارنی ہے تو شہریار لالہ کے ہاتھ ہی لگ جاؤ۔مدد کیوں مانگ رہے ہو۔"آبی نے طنزیہ کہا۔ 

داور نے اسکی بات پر مکھی اڑائی۔جیسے اسکی بات سنی ہی نہ ہو۔ 

"تم کہو مانو ، کیا شرط ہے؟"اسنے نور کو دیکھا۔اس وقت شرارتی سا داور بڑا شریف لگ رہا تھا۔ 

"تم ہمیں آئسکریم کھلاؤ گے۔وہ بھی اپنی پاکٹ منی سے۔"نور نے مزے سے کہا۔داور نے خوشی سے ہاں میں سر ہلایا کہ اس میں کونسی بڑی بات ہے جبکہ آبی نے اپنا سر پیٹا۔

"کچھ مانگنا ہی تھا تو کچھ بڑا مانگتی پاگل لڑکی۔۔۔تم اس شیطان کو ہمارے بس میں کر سکتی تھی پر افسوس۔"آبی نے  جھنجھلا کر کہا۔داور ایک دم زور زور سے ہنسنے لگا۔

"چھی چھی افسوس ۔۔۔تم تو ہمیشہ چڑیلوں کی طرح مجھے اپنے بس میں کرنے کا ہی سوچتی ہو پر تم اپنے اس مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔جل ککڑی کہیں کی۔"داور نے ہنس کر کہتے آبی کو چڑایا  تھا۔اسکی بات پر نور اپنی ہنسی ضبط کرنے لگی۔  

"تم آنے دو لالہ کو پھر تمہاری ہنسی ایسی بند ہو گی ناں کہ تم ہنسنے کا طریقہ بھول جاؤ گے۔تب تمہاری صورت دیکھنے لائق ہوگی داور کے بچے۔"آبی نے اسے آنے والے لمحوں سے ڈرایا تھا۔ 

"جاؤ جاؤ۔"داور نے ہنس کر ہاتھ لہرایا۔تبھی شہریار کے بولنے کی آواز آئی۔وہ نوکر سے بات کرتا ہال میں داخل ہورہا تھا۔ 

آبی نے ہنس کر داور کو اشارہ کیا۔داور کی ہنسی کو بریک لگی۔اسنے شہریار کو پاس آتے دیکھا اور اگلے پل وہ صوفے سے دوسری طرف جمپ کرتا صوفے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ 

اسکی حرکت پر آبی اور نور پہلے حیران ہوئیں پھر انکے لیے ہنسی کنٹرول کرنی مشکل ہوگئی۔ 

شہریار انکے قریب آیا۔ 

"داور باہر آؤ۔"اسکی بھاری آواز گونجی تھی۔وہ داور کو چھپتے دیکھ چکا تھا۔

داور نے اللہ کا نام لے کر صوفے پر دونوں ہاتھ جمائے اور تھوڑا سا اوپر ہوا کہ آبی اور نور کے درمیان صوفے کے پیچھے سے صرف اسکی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ 

ان دونوں بھائیوں کے درمیان وہ دونوں مشکل سے ہنسی ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ 

"یہ کیا ہے؟ کوئی گیم کھیل رہے ہو؟سیدھی طرح سامنے آؤ۔"شہریار کی آواز میں غصہ تھا۔داور جھٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"ایک تو تم کار پوچھے بغیر لے کر گئے اور اوپر سے اس حال میں واپس لائے ہو۔میں نے تمہیں ڈرائیونگ سے منع کیا تھا پھر بھی تم نے ایسا کیوں کیا داور؟"اسنے سخت لہجہ اپنایا۔

شہریار کو اس سے پیار بہت تھا پر غلطی کرنے پر وہ سختی بھی خوب کرتا تھا۔بات گاڑی کی نہیں تھی پر اگر اسے کوئی نقصان پہنچ جاتا تو۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔ لالہ وہ۔"داور نے تھوک نگلا۔اس سے بات نہیں بن رہی تھی کہ وہ کیا کہے۔تبھی نور ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔

"شہریار اسکو ڈانٹیں مت بیچارے کو بازو پر چوٹ لگی ہے۔اسکا بازو اتنا دکھ رہا ہے۔ہاں نا داور؟"اسنے پلٹ کر داور کو آنکھ ماری۔اسکے جھوٹ بولنے پر آبی اور داور نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ شہریار کے چہرے پر غصے کی جگہ پریشانی پھیلنے لگی۔ 

"تمہیں چوٹ آئی ہے؟"شہریار فکر مندی سے کہتا اسکی طرف بڑھنے لگا۔داور نے جلدی سے اپنا بایاں بازو تھام لیا۔اب ماہ نور جھوٹ تو بول چکی تھی اب اسی کو آگے سب سنبھالنا تھا۔ 

"جی۔"وہ منہ بسور کر بولا۔

شہریار نے جلدی سے اسے تھام کر صوفے پر بٹھایا۔ 

"زیادہ درد تو نہیں ہو رہا ۔۔۔ دکھاؤ مجھے۔"شہریار اسکی آستین اوپر کرنے لگا۔داور نے ایک دم اسے روکا۔ 

"مجھے درد ہورہا ہے۔آستین اوپر کرنے کو چھوڑیں۔میرے درد کو محسوس کریں بس۔"وہ درد بھرے لہجے میں بولا۔آستین اوپر کرنے سے انکا پول کھل جانا تھا کہ کوئی چوٹ نہیں آئی۔

"کتنا ڈرامہ ہے یہ داور ، تم جھوٹ نہ بولتی تو ابھی اسکی شامت آ رہی ہوتی۔"آبی نے چبا کر نور کے کان میں سرگوشی کی۔

"چلو اٹھو تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں۔"شہریار اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"ن۔۔۔نہیں اب اتنا بھی درد نہیں ہے۔ میں آرام کرونگا تو ٹھیک ہوجاؤں گا۔"داور ہڑبڑا کر اسے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"آبی تم دودھ کا گلاس اور کچھ کھانے کے لیے میرے کمرے میں لے آنا۔میں پھر ٹیبلٹ لے کر کچھ دیر آرام کرونگا۔"آگے بڑھ کر آبی کو آنکھ مار کر کہتا وہ کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

"جن کہیں کا ۔۔۔ ڈرامے باز۔"آبی نے دانت پیسے۔پھر کچن کی طرف بڑھنے لگی۔نور بھی اسکے پیچھے جانے لگی جب شہریار نے اسے پکارا۔ 

"ماہ ۔۔"وہ رک کر اسکی طرف پلٹی۔

شہریار صوفے پر بیٹھا اور اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ 

وہ بیٹھ گئی تو شہریار نے کچھ پل اسے دیکھا پھر بولا۔ 

"تم نے داور کو بچانے کے لیے جھوٹ بولا۔۔۔یہ نہیں کہوں گا کہ تم نے غلط کیا۔اپنی طرف سے تم نے داور کو بچانا چاہا پر ماہ میں کوئی اسکا دشمن نہیں ہوں۔بات یہ نہیں ہے کہ وہ میری کار لے کر گیا تو مجھے اس پر غصہ ہے۔"اسنے رک کر نفی میں سر ہلایا۔ماہ نور سانس روکے اسے سن رہی تھی۔

"بلکہ مجھے اسکی فکر ہے۔وہ جس ایج میں ہے اس ایج کے لڑکے جذباتی ہوتے ہیں۔پچھلی بار بھی اسنے اپنے کسی دوست کے اصرار کرنے پر اسکے ساتھ ریس لگائی۔کار کو ڈیمیج کیا پر اللہ نے اسے بچا لیا۔میں نے گھر میں کسی کو یہ بات نہیں بتائی کہ سب پریشان ہونگے اور داور کو ڈرائیونگ کرنے سے روک دیا۔پر آج پھر وہ کار لے گیا۔مانا کہ آج وہ دوست سے ملنے گیا تھا پر تیز ڈرائیونگ کرتے آج پھر اسکی کار لگی۔اللہ نہ کرے اگر کل کو اسے کوئی نقصان پہنچ گیا تو۔"وہ پیشانی مسل رہا تھا۔

"میں بس چاہتا ہوں وہ سمجھدار ہوجائے پھر جو مرضی کرے کیونکہ تب اسے اپنے اچھے برے کی خبر ہوگی پر ابھی میں اسکے لا ابالی پن کی وجہ سے اسے کسی خطرے میں نہیں دیکھ سکتا بس اسلیے اس پر غصہ کر جاتا ہوں۔"وہ سر جھکا کر آہستہ سے بول رہا تھا۔ 

ماہ نور بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔وہ تو سمجھتی تھی شہریار کو غصہ کرنے کی عادت تھی۔وہ بغیر کسی وجہ کے ری ایکٹ کر جاتا تھا۔اسے حیرت ہوتی کہ کیا ہوا جو داور اسکی گاڑی لے گیا۔پر اب شہریار کی باتیں سن کر اسے لگا تھا کہ وہ اپنی جگہ بالکل ٹھیک تھا۔وہ جو کر رہا تھا وہ داور کی بھلائی کے لیے تھا۔ 

"آئم سوری۔"نور نے شرمندگی سے کہا۔ 

"میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں تھا ماہ ۔۔۔ میں بس تمہیں بتا رہا تھا کہ ہمارے اپنوں کو صحیح راہ پر لانا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔تم نے آج جو بھی کیا اسکی محبت میں ہی کیا۔پر کبھی کبھی ہماری بہت زیادہ محبت بھی ہمارے اپنوں کے لیے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔"وہ کچھ پل رکا پھر ماہ نور کو دیکھا۔"میں نے آج تمہاری وجہ سے داور کو کچھ نہیں کہا پر اب اسے سمجھانا تمہاری ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ ایسا کچھ نہ کرے۔"وہ نرمی سے کہتا اٹھ کر چلا گیا۔ 

ماہ نور لمبی سانس کھینچ کر داور کے کمرے کی طرف بڑھی۔ 

اسے دیکھ کر داور بھاگ کر بیڈ سے اترا اور اسکے ہاتھ تھام کر اسے گول گھمایا۔وہ خوش تھا کہ ماہ نور نے اسے شہریار سے بچا لیا۔ ماہ نور نے ہنس کر اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ پر اپنے سامنے بٹھایا۔وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔کہنے کو وہ لوگ ہم عمر تھے پر داور میں بہت بچپنا تھا۔شاید اسلیے کہ گھر میں باقی سب کے ساتھ وہ اور آبی بھی اسے چھوٹے بچے کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں تو وہ بھی بچوں کی طرح شرارتیں کرنے اور اپنی بات منوانے سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا۔ 

"کیا ہوا مانو ، ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ کہیں آبی نے تمہارے کان تو نہیں بھرے کہ جاؤ داور کو لالہ کی عدالت میں پیش کرو اور کہہ دو کہ تم نے بازو پر چوٹ کا جھوٹ بولا ہے۔"وہ ابرو اٹھا کر شرارتی لہجے میں بولا۔

"ایسا نہیں ہے مسٹر جن۔"نور نے مسکرا کر اسکے بال بگاڑے۔

"پھر کیسا ہے؟"وہ مشکوک ہوا۔

نور نے بات شروع کی۔وہ آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہی تھی۔اسے ساری بات بتائی جو کچھ شہریار نے اسے بتایا تھا۔ اسنے یہ بھی بتایا کہ شہریار انکے کچھ پل پہلے بولے جانے والے جھوٹ سے بھی واقف تھا۔ 

وہ کہہ کر خاموش ہوئی۔داور اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"مانو میں مانتا ہوں تب میری غلطی تھی۔میں شرمندہ ہوں اس سب کے لیے پر آج سچی میں دوست سے ملنے ہی گیا تھا۔مجھے لالہ نے منع کیا تھا تو میں نے اس دن کے بعد کبھی ریس نہیں لگائی۔"داور سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ 

"جانتی ہوں۔شہریار کو بھی سب معلوم ہے داور پر بڑا بھائی ہونے کے ناطے انہیں تمہاری فکر ہے۔کیا تم نے ایک بار بھی ان سے کہا کہ تم آئندہ ایسا نہیں کرو گے؟کیا تم نے انہیں یقین دلایا؟"اسکے پوچھنے پر داور نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"تو میرے پاگل بھائی جا کر بات کرو اپنے لالہ سے ، انہیں کہو کہ تم ایسا نہیں کرو گے۔تم انہیں خود پر یقین دلاؤ تو تم دیکھنا وہ تمہیں آئندہ کسی چیز سے نہیں روکیں گے۔"اسنے نرمی نے داور کا کندھا تھپک کر کہا۔ 

"تھینک یو مانو۔"وہ مسکرا کر اسکے گال کھینچتا کمرے سے باہر بھاگا۔آبی جو ٹرے تھامے اندر داخل ہورہی تھی اسنے حیرت سے داور کو بھاگتے دیکھا۔پھر جلدی سے آگے بڑھ کر ٹرے ٹیبل پر رکھی اور پلٹ کر مسکراتی ہوئی نور کو دیکھا۔

"یہ سب کیا ہورہا ہے؟"اسنے سوالیہ انداز میں پوچھا۔نور اٹھ کر اسکے سامنے کھڑی ہوئی اور اسے ساری بات بتانے لگی۔آبی حیرت سے سن رہی تھی۔

"چلو ہم بھی دیکھیں دونوں بھائیوں کا ملن۔"نور نے مسکرا کر  کہا پھر آبی کا ہاتھ تھاما اور کمرے سے باہر نکلتی سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔ 

شہریار بیڈ پر بیٹھا موبائل کے ساتھ مصروف تھا جب داور اسکے روم میں آیا۔ 

"لالہ۔"اسنے پکارا تھا۔شہریار حیران ہوا۔پھر اسے اجازت دی۔ 

"آؤ داور۔"وہ موبائل رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔داور آگے بڑھ کر اسکے گلے سے لگ گیا۔ 

"آئم سوری لالہ ۔۔۔"اسنے آہستہ سے کہا۔شہریار کو مزید حیرت نے گھیرا۔ 

"میں آئندہ ایسا کچھ نہیں کرونگا جس سے آپ کو پریشانی ہو۔جھوٹ نہیں بولو گا۔ڈرائیونگ بھی نہیں کرونگا۔اچھے کام کرونگا اور ریس تو ہرگز نہیں لگاؤں گا۔پکا۔"وہ بچوں کی طرح کہہ رہا تھا۔شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔

"یہ ہوئی ناں اچھے بچوں والی بات۔"شہریار نے مسکرا کر اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔

"آئی لو یو لالہ۔"داور اس سے الگ ہو کر مسکراتے ہوئے بولا 

شہریار کھل کر ہنسا تھا۔

"لو یو ٹو لالہ کی جان۔"شہریار نے ہنس کر اسکا ماتھا چوما۔اگلے پل دونوں بھائی ہنسنے لگے۔ 

دروازے کے پاس کھڑی نور اور آبی کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ تھی۔یہ کتنا پیارا منظر تھا۔داور نے پلٹ کر آبی کو دیکھا۔ 

"اب لالہ سے داور نہیں ڈرنے والا ۔۔۔ آبی تم اب کس کی دھمکیاں دوگی۔"وہ مزے سے پوچھ رہا تھا۔آبی ہنس کر آگے بڑھی اور اسکا بازو تھاما۔ 

"جن میں ویسے بھی تمہیں تنگ کرنے کے لیے کہا کرتی تھی۔سچی میں لالہ سے کبھی تمہاری شکایت تھوڑی لگائی ہے۔"اسنے محبت سے داور کا گال کھینچا تو دونوں ہنسنے لگے۔ 

دروازے کے پاس کھڑی نور کی آنکھوں میں نمی چمکی۔ان تینوں بہن بھائیوں کو ساتھ دیکھ کر اسے ہاشم کی یاد شدت سے آنے لگی تھی۔ 

"یہ سب نور کی وجہ سے ٹھیک ہوا ہے۔اب اسی خوشی میں لالہ نے نور کو گفٹ دینا ہے۔چلو داور ہم جائیں اور انہیں بات کرنے دیں۔"آبی شوخی سے کہتی داور کا بازو تھام کر کمرے سے نکل گئی۔ 

"ماہ۔"شہریار نے اسے اپنی طرف بلایا۔ماہ نور آہستہ سے چلتی اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔ 

"تھینک یو۔"اسنے ماہ نور کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا۔

اسے دیکھتیں ماہ نور کی آنکھوں میں دیے جل اٹھے۔دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہورہا تھا۔

شہریار اسکا ہاتھ تھام کر الماری کی طرف بڑھا۔اسکا نازک ہاتھ گرم جوشی سے دبا کر چھوڑا پھر الماری کھولی۔

ماہ نور بت بنی کھڑی اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھ رہی تھی۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی حسین خواب دیکھ رہی ہے۔جہاں وہ مغرور شخص اس سے نرمی برت رہا تھا۔اسے کیسے یقین آتا۔اسنے تو کبھی شہریار کا یہ روپ نہیں دیکھا تھا۔

شہریار نے دراز سے ایک میڈیم سائز کا جیولری باکس نکالا۔پھر اسے کھول کر ڈائمنڈ لاکٹ نکال کر ماہ نور کی آنکھیں کے سامنے کیا۔ 

اسکی چمک ماہ نور کی آنکھیں میں پڑ رہی تھی۔وہ بالکل ساکت کھڑی تھی۔دل کی شیپ کا خوبصورت لاکٹ تھا جس میں چھوٹے چھوٹے ہیرے چمک رہے تھے۔

"تمہارے لیے۔"شہریار نے مدھم آواز میں کہا پھر نور کا ہاتھ تھام کر اسکا رخ دوسری طرف موڑا اور اسے لاکٹ پہنانے لگا۔نور تو خواب کی سی کیفیت میں تھی۔اسکے چار سو محبت کی مہک پھیلنے لگی تھی۔ 

شہریار کا دل اسکے لیے اتنا نرم کیسے ہوا تھا؟وہ حیران تھی۔ اسے کیا خبر تھی کہ اس شخص کے دل میں اسکے لیے بہت محبت ہے پر یہ الگ بات ہے کہ اسنے کبھی اس سے اس بات کا  اظہار نہیں کیا۔وہ کبھی جتا نہ سکا کہ اسے ماہ نور سے کتنی محبت ہے۔ 

اسنے لاکٹ پہنا کر ماہ نور کا ہاتھ پکڑ کر شیشے کے سامنے کھڑا کیا۔خود اسکے پیچھے کھڑا ہو کر اسے شیشے میں دیکھنے لگا۔ 

ماہ نور کی آنکھیں اپنی گردن میں جھولتے لاکٹ پر تھیں۔پھر اسنے شہریار کو دیکھا۔وہ اسکے چمکتے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

ماہ نور کی آنکھوں سے نکلتی ہزاروں دیوں کی روشنی کا مقابلہ وہ نہ کر سکا اور نظریں پھیر گیا۔پھر اگلے پل بھاری دل کے ساتھ پلٹا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔

وہ کمرے سے چلا گیا تو ماہ نور نے گلابی گالوں پر ہاتھ رکھے۔ "افف اللہ جی ، کیا یہ سچ ہے۔"اسنے بے یقینی سے خود کلامی کی۔پھر لاکٹ کو انگلیوں کی پوروں سے چھوا۔چہرے پر مسکراہٹ بکھرنے لگی۔اسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔ 

وہ بیڈ پر بیٹھ کر لاکٹ کو دیکھتی جیسے خوابوں کی دنیا میں کھو چکی تھی۔ 

دوسری طرف شہریار لائبریری میں داخل ہوا۔کرسی پر بیٹھ کر سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔

یہ لاکٹ اسنے تب لیا تھا جب انکی شادی کی ڈیٹ پکی ہوئی تھی۔وہ نہیں جانتا تھا اسنے کیسے یہ لاکٹ خرید لیا تھا۔کیونکہ ماہ نور کو کوئی بھی گفٹ دینے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا۔تبھی منہ دکھائی میں اسنے اسے کچھ نہ دیا۔یہ لاکٹ بھی لا کر دراز میں لاک کر کے رکھ دیا تھا۔پھر آج جانے کیوں اسکا دل کیا کہ وہ ماہ نور کی امانت اسے لوٹا دے۔اسکے لیے لی گئی چیز اسے دے دے۔آج دل پچھلی تمام باتیں بھلا دینا چاہتا تھا۔مزید اپنے دیوانے دل کو روکنا اسکے لیے مشکل تھا۔ 

اس لڑکی کو اسنے ایک عرصے سے چاہا تھا اور اب وہ اسکی تھی۔اسکے قریب تھی پر وہ پتھر دل بن گیا تھا۔پر اب شاید اسکا دل مزید پتھر نہ بن سکے۔جس دل میں محبت ہو وہ زیادہ وقت تک پتھر ہونے کا دکھاوا نہیں سکتا۔ 

بس اب اور نہیں ، وہ تھوڑا سنبھال جائے پھر وہ ماہ نور کو اپنی محبت سے آگاہ کر دے گا۔ 

جب وہ اس سے اظہار کرے گا اس وقت ماہ نور کا ری ایکشن کیا ہوگا؟یہ سوچ کر ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگی تھی۔  

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ہاشم ڈرائیو کر رہا تھا جب اسکا موبائل رنگ ہونے لگا۔اسنے نمبر دیکھ کر کال پک کی۔سلام کے بعد دوسری طرف سے پوچھا گیا۔ 

"وہاں کب جانے کا ارادہ ہے؟"

"ابھی تو میں گھر جا رہا ہوں۔آج مجھے اور نازلی کو شادی میں جانا ہے اسلیے وہاں کل جائیں گے۔"وہ کہہ کر سامنے دیکھنے لگا۔دوسری طرف سے جواب دیا گیا پھر اسنے کال کٹ کر دی۔ 

شام کے سائے پھیل چکے تھے۔ہاشم کی ایک میٹنگ تھی جسے اٹینڈ کرنے کے بعد وہ گھر کی طرف جا رہا تھا۔ 

کچھ دن پہلے اسکی سکریٹری علینہ خان ولا اپنی شادی کا کارڈ لے کر آئی تھی۔اسنے اسے اور نازلی کو پکا شادی میں آنے کا کہا تھا۔ہاشم کے لیے وہ بہن کی طرح تھی اسلیے اسنے حامی بھری کہ وہ دونوں ضرور آئیں گے۔

آج علینہ کی مہندی تھی جہاں وہ دونوں جانے والے تھے۔ 

ہاشم ، نازلی کو کال ملانے لگا کہ وہ راستے میں ہے جلد خان ولا پہنچ جائے گا اسلیے وہ جلدی سے تیار ہو جائے۔

اسکی کار پورچ میں رکی۔وہ گاڑی سے نکل کر اندر کی طرف بڑھا۔ 

ہال میں داخل ہوا۔اندر بالکل خاموشی تھی۔وہ نازلی کے کمرے کی طرف بڑھا۔ 

کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔وہ اندر داخل ہوا۔نازلی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سر جھکائے کھڑی جیولری باکس سے ایئر رنگز نکال رہی تھی۔بالوں کو کیچر میں قید کیا گیا تھا۔ 

لائٹ پنک کپڑوں کا خوبصورت سا دوپٹہ بیڈ پر پھیلا تھا۔نازلی نے لانگ گھیرے دار فراک پہنی تھی۔جسکی نیٹ کی لمبی آستینیں تھیں۔اس لباس میں وہ گڑیا لگ رہی تھی۔ 

اسکی پشت ہاشم کی طرف تھی۔وہ اسے دیکھتا ایک طرف دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوا جہاں سے وہ اسے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

وہ سینے پر بازو باندھ کر خاموشی سے نازلی کی تیاری دیکھنے لگا۔ 

وہ اب ایئر رنگز پہن رہی تھی۔اسنے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا۔بالوں کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کھلے چھوڑے یا باندھ دے۔ اسنے ایئر رنگز پہن کر بالوں کو کیچر سے آزاد کیا۔سیاہ آبشار اسکی کمر پر بہنے لگا۔ 

ہاشم خاموشی سے دیوار سے سر ٹیکے اسے دیکھتا رہا۔ 

نازلی نے بالوں میں برش پھیرا پھر اوپر کر کے انہیں پھر سے کیچر میں قید کیا۔کچھ آوارہ لٹیں اس قید سے آزاد ہو کر اسکے گلابی گالوں کو چومنے لگیں۔لٹ کو کان کے پیچھے کرتی وہ وہیں سٹول پر بیٹھ کر سینڈلز پہننے لگی۔

سینڈلز پہن کر لمبی سانس کھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ایک تفصیلی نظر خود کو آئینے میں دیکھا پھر پلٹی اور بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر اوڑھا۔وہ دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی تبھی سرسراہٹ ہونے پر جھٹ سے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا بیڈ کی دوسری جانب نیم اندھیرے میں اسے کوئی کھڑا نظر آیا۔ اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ 

اگلے پل بنا دیر کیے اسنے تیزی سے پلٹ کر ٹیبل سے گلدان اٹھایا۔پھرگلدان والا ہاتھ اوپر کیا۔ارادہ اسے اس طرف پھینکنے کا تھا پر تبھی ہاشم پلک جھپکتے ہی اسکے سامنے آیا اور اسکا بازو تھام کر اسے روکا۔ 

"میں ہوں مسز۔"اسنے پر سکون انداز میں کہا۔

"شوہر کا سر پھاڑنے کا ارادہ ہے؟"پھر ابرو اٹھا کر پوچھا گیا۔

"آپ۔۔"اسے دیکھ کر نازلی نے لمبی سانس کھینچی۔ 

"جی میں ، آپکا معصوم شوہر۔"اسنے مسکرا کر جواب دیا پھر اسکے ہاتھ سے گلدان لے کر میز پر رکھنے لگا۔ 

"ایسے آتے ہیں کسی کے کمرے میں؟"نازلی نے کڑی نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"کسی کا کمرے؟"ہاشم گلدان رکھ کر اسکے سامنے آیا۔سوالیہ انداز میں پوچھا گیا تھا۔ 

"جی۔"نازلی نے جھٹ سے کہا۔

"آپ میری کون ہوتی ہیں؟"اسنے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا۔ 

"وہ۔۔"نازلی نے جھجھک کر ان سیاہ آنکھوں سے نظریں ہٹائیں۔

"میں بتا دیتا ہوں۔"اسنے ہاتھ بڑھا کر نازلی کا چہرہ اوپر کیا۔

"محترمہ آپ میری بیوی ہیں۔یہ کمرہ فلحال آپکا ہے پر۔"اسنے فلحال پر زور دیا۔نازلی نے جھٹ سے اسکا ہاتھ پیچھے کر کے اسے دیکھا۔ 

"فلحال ؟"اسنے ابرو اٹھایا۔"کیا میں نے اس گھر سے چلے جانا ہے؟جو یہ کمرہ فلحال میرا ہے اور آگے نہیں رہے گا؟"وہ تیکھے انداز میں پوچھ رہی تھی۔

"انہوں۔"ہاشم نے مدھم سا مسکرا کر نفی میں سر ہلایا پھر اسکی سوالیہ آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔"یہ کمرہ فلحال تمہارا ہے پر جلد ہی ہمارا ہو جائے گا ناں۔"اسکی ناک کو نرمی سے دبا کر مسکرایا۔ 

اسکی بات پر نازلی کے گال گلابی ہوئے۔وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔ 

"شادی میں جانے کا ارادہ ہے کہ نہیں۔"اسنے بات بدلی۔ 

"ارادہ تو ہے پر تمہیں نظروں سے ہٹانے کا دل نہیں چاہ رہا۔دل کر رہا ہے تم میرے سامنے کھڑی رہو اور میں تمہیں یونہی دیکھتا رہوں۔"اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر وہ مگن سا اسے دیکھنے لگا۔ 

"پھر آپ میری تصویر لے کر اپنے پاس رکھ لیں۔شادی میں اسے دیکھتے رہیے گا۔"نازلی نے مذاق میں اسکی طرف دیکھ کر کہا۔ 

"گڈ آئیڈیا۔"ہاشم نے اسے اپنے قریب کیا۔نازلی ہڑبڑا گئی۔ 

"میں نے مذاق میں کہا ہے۔"وہ جلدی سے بولی۔ہائے اسکی قسمت کہ مذاق کر کے اس شخص کو بتانا بھی پڑتا تھا کہ یہ مذاق تھا۔وہ تو سیریس ہی ہو جاتا تھا۔ 

"پر میں نے تو سیریس لے لیا ناں۔"وہ مزے سے بولا۔پھر اسکے مزید قریب جھکا۔ 

"تمہاری باتیں میرے لیے مذاق نہیں ہوتی۔تمہارے معاملہ میں ہاشم خان بہت سیریس ہے۔"اسکے کان میں گھمبیر آواز میں سرگوشی کی۔نازلی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ 

ہاشم نے سر پیچھے کر کے اسکی نیلی جھیل آنکھوں میں دیکھا پھر مسکرا کر ہاتھ اسکے سر کے پیچھے لے گیا اور اسکے بال کھولنے لگا۔

"ارے۔۔۔"نازلی نے اسے روکنا چاہا پر اسنے نازلی کے سیاہ آبشار بال کھول ڈالے تھے۔ 

"اب زیادہ اچھے لگ رہے ہیں۔"مگن سا ہاتھ سے اسکے بالوں کو ٹھیک کرتا بولا۔نازلی نے لمبی سانس کھینچی۔

"اب سیلفی۔"اسنے آنکھ مار کر جیب سے موبائل نکالا اور نازلی کے نہ نہ کرنے کے باوجود اپنے ساتھ اسکی تصویریں لینے لگا۔اسے اپنے ساتھ لگائے وہ مگن سا موبائل سامنے کیے مزید سیلفیز لے رہا تھا۔نازلی پیشانی پر بال ڈالے ، نظریں اٹھائے اسے گھور رہی تھی۔تبھی ہاشم نے ہنس کر اسکی آنکھوں میں دیکھا اور پک کلک کی۔ 

"ہاشم۔"نازلی نے اکتا کر اسے دیکھا۔ 

"اچھا اچھا۔"ہاشم نے ہنس کر موبائل واپس کوٹ کی جیب میں رکھا۔"چلیں۔"نازلی کو دیکھ کر بولا۔اسنے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا کہ یہ نہ ہو اسے پھر کوئی اور بات یاد آجائے۔

ہاشم مسکرا کر اسکا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر نکلا۔ 

وہ ہال میں آئے۔نازلی نے اس سے اپنا ہاتھ چھڑایا پھر چھوٹی پٹھانی کو آواز لگائی کہ اسے بتا دے وہ لوگ جا رہے ہیں۔ 

چھوٹی پٹھانی بھاگ کر وہاں آئی۔

"جا رہے ہیں آپ لوگ۔"اسنے ہانپتے ہوئے کہا۔

"ہاں جی۔"نازلی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔چھوٹی پٹھانی نے کمر کے پیچھا کیا ہاتھ سامنے کیا۔اسکے ہاتھ میں گلاب اور موتیے کے پھولوں سے بنا گجرا تھا۔اسنے ہاشم کی طرف بڑھایا۔ 

"یہ میں نے نازلی باجی کے لیے بنایا ہے۔آپ انہیں پہنا دیں۔"وہ آنکھیں مٹکا کر بولی۔ 

"ارے واہ بہت پیارا ہے۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکا سر تھپکا پھر اسکے ہاتھ سے گجرا لیا۔ 

"میں نے بہت محنت سے بنایا ہے۔"اسنے معصومیت سے کہا 

"تھینک یو۔"نازلی نے نرمی سے اسکا گال کھینچا۔ 

"ویلکم۔"چھوٹی پٹھانی نے بال جھٹک کر کہا تو اسکے انداز پر نازلی ہنسنے لگی۔ 

"پہنا دوں؟"ہاشم نے نازلی کو دیکھا۔نازلی نے خاموشی سے اپنا بایاں ہاتھ اسکی طرف بڑھا دیا۔ہاشم نے گجرا اسے پہنایا۔

"ایک بات کہوں؟"چھوٹی پٹھانی ایک دم بولی۔ 

دونوں نے اسے دیکھا۔"آپ دونوں ایک ساتھ بہت ، بہت پیارے لگتے ہیں۔ماشاء اللہ۔"اسکے لہجے میں محبت تھی۔

ہاشم نے نازلی کو دیکھا جو ایک نظر اسے دیکھ کر پلکیں جھکا گئی۔ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ 

"تم دعا کرنا اس جوڑی کو کبھی کسی کی نظر نہ لگے۔"ہاشم نے چھوٹی پٹھانی سے کہا۔ 

"وہ تو میں کرتی ہوں۔آپ لوگ ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور ابھی تو میں نے آپکے بچوں کو بھی کھلانا ہے۔ہائے کتنا مزہ آئے گا۔میں تو سارا دن انکے ساتھ کھیلوں گی۔"وہ کہہ رہی تھی اور نازلی کا چہرہ لال ٹماٹر ہورہا تھا۔وہ ہاشم سے اپنا ہاتھ چھڑا کر پیچھے ہوئی جبکہ ہاشم مشکل سے اپنے قہقہہ کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

"نازلی باجی آپ مجھے روکیں گی نہیں کہ بچوں کے ساتھ مت کھیلو اور جا کر پڑھو۔میں پھر آپ کی یہ بات نہیں مانوں گی کیونکہ مجھے آپکے بچ۔۔۔۔"

"چھوٹی پٹھانی بس۔۔۔"نازلی نے جلدی سے اسے مزید کچھ کہنے سے روکا۔لال چہرے کے ساتھ وہ اسے گھورنے لگی تو چھوٹی پٹھانی کی بولتی بند ہوئی۔ہاشم مزید خود کو کنٹرول نہ کر سکا اور قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ 

"بہت بولنے لگی ہو تم ، جاؤ جا کر پڑھائی کرو۔"نازلی نے اسے ڈانٹ کر کہا۔اسکا پڑھائی کا کہنا تھا کہ چھوٹی پٹھانی نے منہ بگاڑا اور جلدی سے وہاں سے بھاگی کہ کہیں نازلی اسے کتابیں دے کر بٹھا نہ دے۔ 

"آپ بھی ہنسنا بند کریں۔"اسنے چبا کر ہاشم سے کہا۔

ہاشم نے ہنسی روک کر لبوں پر شہادت کی انگلی رکھی۔وہ اس بات کو لے کر کچھ بھی کہہ کر نازلی کے غصے کو ہوا نہیں دینا چاہتا تھا اسلیے خود کو خاموش ہی رکھا۔ 

نازلی اس سے پہلے ہی آگے بڑھ گئی۔"اللہ تمہیں پوچھے چھوٹی پٹھانی۔"اسنے بڑبڑا کر اپنے دہکتے گالوں کو دونوں ہاتھوں سے چھوا پھر لمبی سانس کھینچ کر خود کو نارمل کرنے لگی۔ہاشم مسکراہٹ دباتا اسکے پیچھے پورچ میں آیا۔ 

نازلی فرنٹ سیٹ کی طرف بڑھی۔ہاشم ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا۔وہ دروازہ کھولنے لگی جب ہاشم نے اسے پکارا۔ 

"جی۔"نازلی نے نظر اٹھا کر دیکھا۔پھر جیسے اسکے دماغ میں گھنٹی بجی۔"خبر دار جو آپ نے چھوٹی پٹھانی کی باتوں کو لے کر کچھ بھی کہا تو۔"اسنے وارن کرنے والے انداز میں انگلی اٹھا کر کہا۔ 

ہاشم چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتا ہنسنے لگا۔ 

"صرف اتنا کہنا ہے کہ تم بے حد حسین لگ رہی ہو۔"دلکش انداز میں کہہ کر وہ اسے دیکھنے لگا۔نازلی کے چہرے پر ایک دم  مسکان چمکی جسے چھپانے کے لیے وہ سر جھکا کر دروازہ کھولنے لگی۔

ہاشم بے خود سا اسے دیکھ رہا تھا۔سیاہ آنکھوں سے نکلتی چمک اس شاداب چہرے پر پڑ رہی تھی۔وہ اس قدر دلکش و بے مثال  تھی کہ اسکی ہر ادا ہاشم کے دل پر وار کرتی تھی۔

"او ! مست ناز حسن تجھے کچھ خبر بھی ہے؟"

"تجھ پر نثار ہوتے ہیں کس کس ادا سے ہم۔"

وہ اسے دیکھ رہا تھا۔نازلی نے کار میں بیٹھنے سے پہلے ایک نظر اس پر ڈالی۔پھر جھٹ سے سیٹ پر بیٹھی گئی۔

ہاشم نے مسکرا کر سر جھٹکا پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور  گاڑی آگے بڑھا دی۔ 

گاڑی سڑک پر چلنے لگی۔ نازلی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ہاشم کی بات پر ابھی تک اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔ہاشم نے گردن پھیر کر ایک نظر اسے دیکھا پھر ہاتھ پڑھا کر ٹیپ آن کیا۔کار میں میوزک گونجنے لگا۔

"آنکھیں دیکھی تو میں دیکھتا رہ گیا۔"

"جام دو اور دونوں ہی دو آتشہ۔"

"آنکھیں یا میکدے کہ یہ دو باب ہیں۔"

"آنکھیں انکو کہوں یا کہوں خواب ہیں۔"

"آنکھیں نیچی ہوئیں تو حیا بن گئیں۔"

"آنکھیں اونچی ہوئیں تو دعا بن گئیں۔"

"آنکھیں اٹھ کر جھکی تو ادا بن گئیں۔"

"آنکھیں جھک کر اٹھیں تو قضا بن گئیں۔"

"آنکھیں جن میں قید آسمان و زمین۔"

"نرگسیں  نرگسیں سرمگیں سرمگیں۔"

"نرگسیں  نرگسیں سرمگیں سرمگیں۔"

"آفریں آفریں آفریں"

"آفریں آفریں آفریں"

نصرت فتح علی خان کی سحر زدہ آواز اور اوپر سے یہ لائنز ماحول میں سرور پھیلا رہی تھیں۔

یہ لائنز ہاشم کو بہت پسند تھیں۔آخر ان میں تمام وہ الفاظ تھے جن سے وہ نازلی کی آنکھوں کی تعریف بیان کر سکتا تھا۔

نازلی تو سحر میں ڈوبی تھی۔دل میں پھول کھل اٹھے تھے۔اسنے کبھی نہ سوچا تھا کہ کوئی اسے اتنا چاہے گا۔وہ بھی ہاشم جیسا مغرور شہزادہ ۔۔۔ اسکے لبوں پر مسکراہٹ جیسے ہمیشہ کے لیے گھر کر گئی تھی۔

وہ اپنے دل کا عالم نہیں بتا سکتی تھی۔اس وقت وہ ہواؤں میں تھی۔اس شخص کی وجہ سے۔کیا جادو گر تھا وہ۔دل کو چرانے کے ہر فن سے واقف تھا۔ 

وہ جو کبھی اس سے نفرت کرتی تھی۔پھر ایک مقام آیا کہ اسنے اپنے دل کو اس شخص سے محبت کرنے سے روکا پر پھر پتہ ہی نہ چلا اور وہ ایک جھٹکے میں اسکا دل نکال لے گیا۔ 

اور اب یہ حال تھا کہ وہ اسے اپنی طرح دیوانہ بناتا جا رہا تھا۔ 

وہ ہاشم خان کی محبت میں دیوانی ہوگئی تھی۔کیسے نہ ہوتی؟ وہ تھا ہی اس قدر دلکش کہ وہ اپنے دل کو بچا نہیں پائی تھی۔وہ شخص اسے اس سے چرا لے گیا تھا۔

وہ باہر دیکھتی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ہاشم بھی خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ 

گاڑی ایک دم رکی۔نازلی نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا۔روشنیوں سے جگ مگ کرتا گھر اسکی آنکھوں کے سامنے تھا۔

ہاشم نے کار باقی گاڑیوں کے ساتھ ایک طرف پارک کی پھر باہر نکلا۔ 

نازلی بھی دروازہ کھول کر باہر آئی۔ہاشم اسکی طرف آیا۔ 

شادی کا ہنگامہ دیکھ کر اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔پہلی بار وہ کہیں باہر شادی میں آئی تھی۔نور کی شادی میں پھر بھی اسے دوستوں کا سہارا تھا پر یہاں وہ صرف علینہ کو تھوڑا بہت جانتی تھی باقی سب تو اسکے لیے انجان ہونگے۔وہ تھوڑی نروس تھی پر ہاشم پر یہ بات ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ 

"میں تمہارے ساتھ ہوں۔"اسنے گرم جوشی سے اسکا نازک ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا تھا۔

پریشان نیلی آنکھیں اسے دیکھ کر ایک دم روشنی سے چمکنے لگیں۔اسنے مسکرا کر سر ہلایا۔دل کو حوصلہ ملا تھا۔

"گفٹ۔۔"اسنے سر پر ہاتھ مار کر ہاشم سے کہا۔ہاشم نے آگے بڑھ کر کار کی بیک سیٹ سے گفٹ نکالا۔پھر دونوں ساتھ چلتے  اندر داخل ہوئے۔

علینہ کے والد چونکہ ہاشم کو جانتے تھے اسلیے انہیں دیکھتے ہی انکا ویلکم کیا اور انہیں لے کر اندر کی طرف بڑھے۔

اندر خوب افرا تفری مچی تھی۔لان مہمانوں سے بھرا تھا۔وہ لوگ ہال کی طرف بڑھے جہاں ایک طرف اسٹیج بنایا گیا تھا۔علینہ مہندی کے لباس میں تیار اپنی دوستوں کے بیچ بیٹھی تھی۔ 

کچھ فاصلے پر سفید چادریں بچھی تھیں جس پر بیٹھی لڑکیاں   ڈھولک بجاتیں گانے گا رہی تھیں۔

ہر طرف لڑکیوں کی کھنکتی ہنسی اور انکے رنگ برنگے آنچل  ماحول کو بہار بنا رہے تھے۔ 

ہاشم نے گفٹ نازلی کو تھمایا اور اسے آگے جانے کا اشارہ کیا۔وہاں صرف لڑکیاں تھیں تو ہاشم کو آگے جانا اچھا نہ لگا۔

اسکے کہنے پر نازلی جھجھک کر آگے بڑھنے لگی۔علینہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ خوشی سے اٹھ کر اسکی طرف آئی۔

"ویلکم۔"اس نے خوشی سے کہا۔نازلی نے اسے گفٹ دیا۔جسے علینہ نے لے کر پاس سے گزرتی لڑکی کو رکھنے کے لیے دیا۔

"مبارک ہو۔"نازلی نے مسکرا کر کہا۔ 

"خیر مبارک۔"علینہ نے اسے گلے لگایا۔اسکے گرم جوشی سے ملنے پر نازلی کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ پھیلی۔

"آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔"نازلی نے الگ ہو کر اس پیاری  لڑکی کو دیکھ کر کہا۔

"شکریہ۔"وہ شرما کر چہرہ جھکا گئی۔ 

"سر نہیں آئے۔"پھر نازلی کو دیکھ کر اداسی سے پوچھا۔ 

"آئے ہیں۔وہ وہاں کھڑے ہیں۔"نازلی نے مسکرا کر دور کھڑے ہاشم کی طرف اشارہ کیا۔جو انکے دیکھنے پر مدھم سا مسکرایا۔ نازلی کو وہ اس وقت بہت پیارا لگا تھا۔جو اتنی خواتین کے بیچ صرف اسکے لیے ایک طرف ہوا کھڑا تھا کہ وہ خود کو  اکیلا محسوس نہ کرے۔ 

"آپ سر کو یہاں بلائیں کہ میں ان سے مل لوں۔پھر جانے ملاقات ہو نہ ہو۔"علینہ نے سر جھکا کر کہا۔وہ شادی کے بعد جاب چھوڑ دینے والی تھی۔اسلیے ایک بار ہاشم سے ملنا چاہتی تھی۔

اسکی بات پر نازلی نے سر ہلایا پھر پلٹ کر ہاشم کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔وہ اسکا اشارہ سمجھ کر انکی طرف بڑھنے لگا۔ 

"اسلام و علیکم سر۔"اسکے سامنے آتے ہی علینہ نے ہمیشہ والے انداز میں اسے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام ، کیسی ہیں آپ؟"اسنے نرمی سے پوچھا۔

"ٹھیک سر۔"اسنے مسکرا کر جواب دیا۔

"علینہ آپ یہاں تو سر نہ کہیں مجھے، ہاشم بھائی کہہ لیں۔یہ آفس نہیں ہے کہ آپ کا سر کہنا ضروری ہو۔"ہاشم نے مسکرا کر اسے ٹوکا تھا۔ 

"ٹھیک ہے س۔۔"وہ کہتے ہوئے زبان دانتوں میں دبا گئی۔نازلی ایک دم ہنسنے لگی۔"ہاشم بھائی۔"اسنے ہنس کر بات پوری کی تو ہاشم نے مسکرا کر اسکا سر تھپکا۔ 

"خوش رہیں۔"وہ بولا پھر نازلی کی طرف پلٹا۔

"میں باہر جا رہا ہوں۔آپ علینہ کے ساتھ رہیں۔"اسنے نرمی سے کہا۔

"یہ ہمارے ساتھ بھی رہ سکتی ہیں۔ہم بھی بہت اچھے دوست ثابت ہونگے۔"انکے قریب آتی پانچ لڑکیوں کے گروپ میں سے سب سے چھوٹی والی ہنس کر بولی۔ 

ہاشم نے ابرو اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔ 

"آپ برا مت مانیے گا۔یہ شرارتی لڑکیاں میری فرینڈز ہیں۔"علینہ نے مسکرا کر بتایا۔ 

"یہ لائبہ ہے۔"اسنے چھوٹی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جسنے کچھ وقت پہلے بات کی تھی۔"یہ عالیہ ، فاطمہ ، طاہرہ اور سوسن۔"وہ باری باری سبکا تعارف کروا رہی تھی اور وہ انہیں سلام کر رہی تھیں۔ 

"یہ ہاشم خان اور یہ انکی وائف نازلی۔"علینہ نے اب ان دونوں کا تعارف کروایا۔ 

"وہ ایکچولی انہیں آپ دونوں سے ملنے کا بہت شوق تھا تو میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ لوگ شادی میں آئیں گے تو میں انہیں آپ دونوں سے ملاؤ گی۔"علینہ نے ہنس کر کہا۔ 

"پر ہم کوئی سیلیبریٹیز تو نہیں ہیں۔"ہاشم نے ان پانچوں کو دیکھا۔جن میں سے ایک اسے غور سے دیکھنے میں مصروف تھی۔

"کسی سیلیبریٹی سے کم بھی نہیں ہے۔"طاہرہ نے مزے سے کہا 

"آپکی وائف بڑی معصوم ہیں۔"عالیہ نے نازلی کو دیکھا جو خاموشی سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔ 

"انکی معصومیت کے ہی تو ہم دیوانے ہیں۔"ہاشم نے مسکرا کر نازلی کو دیکھا۔ 

"بہت اچھا کپل ہے آپکا۔"فاطمہ نے نرمی سے کہا۔ 

"شکریہ۔"ہاشم نے سر کو خم دیا۔ 

"آپ نے ہمیں پہچانا نہیں۔"سوسن ایک دم آگے آئی۔

"جی۔"ہاشم کے ساتھ باقی سب نے بھی اسے حیرت سے دیکھا۔ 

"ہم سوسن ہیں۔"اسنے ہاشم سے کہا۔ 

"ہمیں معلوم ہے۔"طاہرہ نے لقمہ دیا۔ 

"ہم آپ سے بات نہیں کر رہے۔"اسنے طاہرہ کو گھورا۔ 

"آپ ہاشم کو کیسے جانتی ہیں؟"نازلی لا شعوری طور پر ہاشم کے قریب ہو کر کھڑی ہوئی۔

ہاشم اسکی اس ادا پر ہنسی دبانے لگا۔

سوسن کو غور سے دیکھ کر اسے یاد آیا کہ وہ اس سے کہاں ملا تھا۔ 

"ان محترمہ کی کار میری کار سے ٹکرائی تھی۔تب ہماری ملاقات ہوئی تھی۔"ہاشم نے سبکو بتایا۔ 

"اور نہیں تو کیا۔"سوسن منہ بنا کر مسکرائی تھی۔سب ایک دم ہنسنے لگیں۔ 

"نازلی آپ کو سوسن سے خطرہ محسوس ہوا؟"لائبہ نے شرارت سے پوچھا۔سب ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسی دبانے لگیں۔

"نہیں تو۔"نازلی نے ہڑبڑا کر نفی میں سر ہلایا۔ 

"انہیں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہیے۔آخر ہم انہیں کے ہیں ۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔"ہاشم محبت سے نازلی کو دیکھ کر بولا۔سبکے سامنے اس کے اس انداز پر نازلی جھجھک کر سر جھکا گئی۔انکی محبت کو دیکھ کر وہ سب حیران تھیں۔

"بہت محبت کرتے ہیں آپ نازلی سے؟"عالیہ نے ان دونوں کو دیکھا۔وہ ساتھ کھڑے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ 

"کیا آپکو محبت نظر آ رہی ہے ہمارے بیچ؟"اسنے الٹا سوال کیا۔"بہت ۔۔"سب نے ایک ساتھ کہا۔ 

"تو بہت محبت ہے۔"وہ مدھم سا مسکرایا۔

"ہمارا دل۔"سوسن نے شرارت سے ہنس کر دل تھاما۔ 

"شرم کرو ، ورنہ نازلی نے تمہیں چھوڑنا نہیں ہے۔"فاطمہ نے اسے کہنی ماری۔ 

اسکی بات سن کر نازلی ہنسنے لگی۔ 

"ہم آپکی بیوی کو چرا سکتے ہیں کچھ وقت کے لیے؟"عالیہ نے نازلی کا ہاتھ تھام کر کہا۔اسے نازلی بہت اچھی لگی تھی۔ 

"صرف کچھ وقت کے لیے ناں؟"ہاشم نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

"ہمیشہ کے لیے چرا لیا تو؟"لائبہ نے شوخی سے کہا۔ 

"تو ۔۔۔"ہاشم نے کچھ پل سوچا۔"تو کا سوال ہی نہیں چھوٹی لڑکی ، میں ایسا ہونے ہی نہیں دونگا۔"وہ دلکشی سے بولا۔ 

"اتنی دیوانگی۔"طاہرہ ہنس کر بولی 

"دیکھی ہے کہیں؟"ہاشم نے سینے پر ہاتھ باندھ کر سبکو دیکھا۔ 

"ہائے نہیں ۔۔۔"سوسن نے آہ بھر کر جواب دیا۔ 

"اف تمہاری آہیں۔"طاہرہ نے اسکے کان میں سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگی۔ 

"آپ جائیں ہم آپکی بیگم کا خیال رکھیں گے۔"فاطمہ نے اسے تسلی دی۔ 

"میں تو انکے پاس سے ہلوں گی بھی نہیں۔"لائبہ نے سر کو خم دے کر کہا۔ 

"اوکے۔"ہاشم نے مسکرا کر نازلی کو دیکھا جو ان سب کے بیچ خوش لگ رہی تھی۔وہ اسے انکے پاس چھوڑ کر باہر کی طرف بڑھا۔

"دلہن کو بھول گئی ہو آپ سب۔"نازلی نے خاموش کھڑی علینہ کا ہاتھ پکڑا۔وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔پھر وہ علینہ کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھنے لگی۔وہ سب بھی ہنسی مسکراتیں گپیں لگاتیں انکے پیچھے چلنے لگیں۔

کچھ دیر بعد سب نے نازلی کو اپنے ساتھ بٹھایا اور پھر جو گانوں کا مقابلہ شروع ہوا وہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ 

نازلی کو بھی گانا گانے کا کہا گیا پر وہ انکار کر گئی کہ وہ گانا نہیں گا سکتی۔سب کے بیچ بیٹھی وہ تالیاں بجا کر انکے ساتھ انجوئے کر رہی تھی۔ 

پھر علینہ کی مہندی ہوئی۔ہنگامہ ہنوز برپا تھا۔کافی رات ہو چکی تھی۔وہ علینہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔

"علینہ۔"اسنے مدھم آواز میں پکارا۔ 

"جی۔" علینہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"آپ کے ہونے والے شوہر کا نام تو بتائیں۔"نازلی کے لہجے میں  شوخی اتری۔علینہ کے گال گلابی ہوئے۔

"زبیر۔"اسنے شرما کر کہا پھر سر جھکا گئی۔ 

"اللہ پاک آپکی زندگی میں ڈھیر ساری خوشیاں لے کر آئیں۔" نازلی نے اسکا ہاتھ تھام کر محبت سے کہا۔علینہ کے لبوں پر پیاری سی مسکراہٹ تھی۔پھر دونوں باتیں کرنے لگیں۔جب لائبہ باہر سے بھاگتی ہوئی ان تک آئی اور نازلی کو دیکھنے لگی۔

"کیا ہوا؟"نازلی نے ڈر کر پوچھا کہ کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوگئی۔جمال آغا کی اس حرکت کے بعد نازلی کا دل ہر چھوٹی بات سے ڈرنے لگا تھا۔

"کچھ خاص نہیں ، دل دھڑکانا اس لڑکی کی ادا ہے۔"اسکے پیچھے آتی عالیہ نے ہنس کر کہا۔نازلی سکون بھری سانس کھینچ کر ایک دم مسکرائی۔

"نازلی آپکو آپکے ہینڈسم شوہر بلا رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ میری بیگم کو بلا لاؤ ہمیں جانا ہے۔"لائبہ نے شرارت سے کہا۔ 

"اوہ اچھا۔"وہ مسکرا کر علینہ کی طرف پلٹی۔ 

"بہت شکریہ آنے کا۔"علینہ نے اسکا ہاتھ تھاما۔

"مجھے بہت اچھا لگا یہاں آ کر۔"نازلی نے محبت سے کہا پھر اسکے گلے لگ کر اللہ حافظ کہتی اٹھ کر باری باری ان پانچوں  سے ملنے لگی۔

"تم میرے ساتھ باہر تک آؤ گی؟"سب سے مل کر اسنے لائبہ  سے کہا۔باہر اتنے لوگوں میں اکیلے جاتے اسے عجیب سا لگ رہا تھا۔ 

"آپ کہیں تو ہم سب ساتھ چلتے ہیں؟"طاہرہ نے ہنس کر لقمہ دیا۔

"نہیں جی۔۔۔ میں ہی کافی ہوں۔"لائبہ گردن اکڑ کر بولی۔

"بہت شکریہ پر آپ لوگ دلہن کے پاس رہیں۔میں آپکی دوست کو بھی تھوڑی دیر میں بھیجتی ہوں۔"اسنے مسکرا کر ان سب کو دیکھا۔سب نے اللہ حافظ کہا اور لائبہ اسکا ہاتھ تھام کر باہر کی طرف بڑھنے لگی۔لان میں پہنچ کر اسنے نازلی کو ہاشم کے  سامنے کھڑا کیا۔ 

"یہ آپکی بیوی آپکے سامنے ہیں صحیح سلامت۔سنبھالیں انہیں۔"اسنے شرارت سے کہہ کر ہاشم کا ہاتھ تھام کر اسکے ہاتھ پر نازلی کا ہاتھ رکھا۔ 

"تھینک یو چھوٹی لڑکی۔"ہاشم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

لائبہ نے ہنس کر سر کو خم دیا۔پھر انہیں اللہ حافظ کہتی اندر کی طرف بڑھنے لگی۔ 

ہاشم بھی علینہ کے والد سے اجازت لیتا نازلی کے ساتھ باہر نکلا۔گاڑی میں بیٹھ کر اسکا رخ گھر کی طرف موڑا۔کار میں خاموشی چھائی تھی۔ہاشم نے ایک نظر کھڑکی سے باہر دیکھتی نازلی کو دیکھا۔

"انجوائے کیا؟"اسکی بھاری آواز گاڑی میں گونجی۔ 

"ہوں۔۔۔"نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ اب سامنے دیکھ رہا تھا۔"بہت ۔۔"وہ جواب دے کر باہر چمکتی بے شمار روشنیوں کو دیکھنے لگی۔

وہ سب پیاری پیاری لڑکیاں اسے بہت اچھی لگی تھیں۔سب زندہ دل ہنستی مسکراتی لڑکیاں تھیں۔انکے ساتھ ٹائم گزار کر اسے اچھا لگا تھا۔ 

"وہ سب مجھے بہت اچھی لگیں۔"اسنے مسکرا کر ہاشم کو بتایا۔ 

"ہوں۔"ہاشم نے سر ہلایا۔"اور میں؟"اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھ کر شرارت سے پوچھا گیا۔ 

"آپ ؟"نازلی نے اسے دیکھ کر کچھ پل سوچا۔

"آپ بس ٹھیک ہی ہیں۔"مسکراہٹ دبا کر شرارت سے بولی۔ 

"بس ٹھیک ہی؟"ہاشم نے ابرو اٹھایا۔ 

"ہاں جی۔"اسنے الفاظ پر زور دے کر کہا۔ 

"آہ میری قسمت۔"وہ ٹھنڈی آہ بھر کر سامنے دیکھنے لگا۔

نازلی نے ہنسی دبا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔اب کیا بتاتی اسے کہ وہ اسے کتنا اچھا لگتا تھا۔اتنی ہمت کہاں تھی اس میں کہ وہ کچھ کہہ پاتی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"مجھے معلوم ہے اسنے میرا ہونا نہیں لیکن۔"

"میری امید مت توڑو ، مجھے پر جوش رہنے دو۔"

تابین ڈرائیو کر رہی تھی۔آنکھیں سامنے روڈ کو گھور رہی تھیں۔ وہ ابھی چھوٹی حویلی سے ہو کر آئی تھی اور اب اسکا رخ بڑی حویلی کی طرف تھا۔ 

وہ بی بی جان سے باتوں باتوں میں بڑی حویلی والوں کے بارے میں سوال کرتی رہیں۔

وہ بھی اسے ساری باتیں بتاتی چلی گئیں کہ دونوں حویلی والوں کے آپس میں کیا مسئلے ہیں یا ہاشم کو کیوں گھر چھوڑنا پڑا اور یہ بھی کہ ہاشم کے واپس آنے کے لیے ایک ہی شرط تھی کہ اسے آبی سے شادی کے لیے ہاں کرنی ہوگی یہی خان بابا کی ضد تھی۔اسے بی بی جان کی باتوں سے معلوم ہوا تھا کہ بڑی حویلی والے ہاشم کی شادی سے نا واقف ہیں۔

کیونکہ گاؤں کی عورت (جو کہ مانگنے والی تھی) اس نے بی بی جان کو بتایا تھا کہ ام جان نے اسے دعا کرنے کے لیے کہا تھا۔  انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے ایک لڑکی پسند کی تھی۔پر کچھ مسائل کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی تو انہوں نے اسے دعا کرنے کا کہا تھا کہ فقیروں کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ مانگنے والوں کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔تو ام جان نے اس مانگنے والی کو دعا کا کہا تھا اور جب وہ چھوٹی حویلی گئی تو اسنے باتوں باتوں میں یہ بات بی بی جان کو بتا دی۔ 

بی بی جان کے دل میں بڑی حویلی والوں کے لیے نفرت نہ تھی۔جیسے انکے شوہر اور بیٹوں کے دل میں تھی۔وہ بس چاہتی تھیں کہ سب ٹھیک ہو جائے۔پر جانے یہ دشمنی ان سب کو کہاں تک لے جانے والی تھی۔ 

تابین ان سے مل کر وہاں سے نکلی۔اسکا دماغ تیزی سے دوڑنے لگا تھا۔

اب وہ اس مقام پر آگئی تھی کہ اگر ہاشم اسکا نہیں تو نازلی کا بھی نہیں ہونا چاہیے۔وہ نازلی کو ہاشم کے ساتھ دیکھتی تھی تو اسکا دل پل پل مرتا تھا۔آج وہ آخری کوشش کرنا چاہتی تھی تا کہ اسکے دل کو سکون مل جائے۔

اسنے تھوڑا آگے آ کر گاڑی روکی اور پاس سے گزرتے شخص سے بڑی حویلی کا پوچھنے لگی۔وہاں تو ہر کوئی بڑی حویلی سے واقف تھا۔اس شخص نے پتا بتایا تو تابین شکریہ ادا کرتی گاڑی آگے بڑھا لے گئی۔ 

کچھ دیر بعد اسکی کار بڑی حویلی کے گیٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ 

وہ کار سے باہر نکلی۔گلاسز اتار کر گاڑی میں پھینکے۔دوپہر کا وقت تھا پر دھوپ نہ ہونے کے برابر تھی۔وہ مضبوط قدم اٹھاتی آگے بڑھی۔ 

یہاں اسے نازلی کو برا نہیں دکھانا تھا۔آج اسے نازلی کے حق میں اور ہاشم کے خلاف بولنا تھا کہ اُسنے کس طرح اسکی معصوم بہن کے ساتھ زبردستی نکاح کیا۔اور کیا کیا ہوا۔اسے آج ایک اچھی بڑی بہن بن کر اپنی چھوٹی بہن کا دکھ ، اسکی جو توہین ہوئی وہ سب کچھ ہاشم کے والدین کے سامنے رکھنا تھا۔

انہیں یہ بتانا تھا کہ ہاشم نے اسکی بہن کو قید کر رکھا ہے۔وہ اس سے آزادی چاہتی ہے پر اسنے اسے زبردستی اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ 

اسے معلوم تھا اسکی باتوں کے بعد ایک سے دوسرا فیصلہ ضرور ہو گا۔یا نازلی کو ہی غلط ٹھہرایا جائے گا یا ہاشم کی غلطی مان کر اسے نازلی کو چھوڑنے پر فورس کیا جائے گا۔دونوں صورتوں میں تابین کے دل کو سکون ملنے والا تھا۔ 

اسے بس اپنی بازی کھیلنی تھی پھر خاموشی سے دیکھنا تھا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ 

وہ شاطرانہ انداز میں مسکرائی پھر آگے بڑھ کر گیٹ پر دستک دی۔کچھ دیر بعد واچ مین نے دروازہ کھولا۔ 

"کس سے ملنا ہے آپ کو بی بی۔"پٹھان واچ مین نے اسے گھور کر پوچھا۔ 

"خان بابا سے۔"تابین نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا۔ 

"ایک منٹ رکو۔"اسنے کہہ کر گیٹ بند کیا۔ 

پھر انٹر کام سے اندر کسی لڑکی کے آنے کا بتایا۔خان بابا نے اجازت دی تو واچ مین نے تابین کو اندر آنے دیا۔ 

وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو ایک نوکرانی وہاں کھڑی تھی۔وہ تابین کو لے کر اندر کی طرف بڑھی۔ 

ہال میں خان بابا ، ام جان ، شہریار موجود تھے۔نور ، آبی اور داور  کچن میں کام کرنے کے ساتھ شرارتیں کرنے میں مصروف تھے۔ 

"کون ہے؟"نور نے داور سے پوچھا جو کچن سے باہر جھانکنے میں مصروف تھا۔ 

"ایک ماڈرن سی خوبصورت لڑکی۔"داور نے شرارت سے کہا۔

"اچھا ۔۔ کون لڑکی ہے یہ بھلا۔"آبی اور نور جلدی سے باہر نکلیں کہ دیکھیں وہ لڑکی کون ہے۔وہ تینوں سبکی نظروں سے بچ کر ایک طرف ہو کر کھڑے ہوئے۔شہریار انہیں دیکھ رہا تھا۔انکی جاسوسی پر اس نے انہیں گھورا۔پر انہوں نے دھیان نہ دیا۔ابھی انکی نظریں اس لڑکی کو تجسس سے دیکھ رہی تھیں کہ جانے وہ کون ہے۔ 

تابین نے آگے بڑھ کر خان بابا کو سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔"خان بابا نے جواب دیا۔پھر اسے بیٹھنے کا کہا۔وہ سنگل صوفے پر آرام سے بیٹھ گئی۔

وہ بھی اسکے سامنے صوفے پر ام جان کے ساتھ بیٹھے۔ 

"آپ کون ہیں بیٹا ہم نے آپکو پہچانا نہیں۔"خان بابا نے چشمے کے پیچھے سے اسے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کی۔ 

"آپ مجھے نہیں جانتے پر میں آپکو اچھے سے جانتی ہوں۔"اسنے مسکرا کر زو معنی انداز میں کہا۔ 

"تو مس آپ اپنا تعارف کروانا پسند کریں گیں؟"شہریار نے سنجیدگی سے کہا۔اسے اس لڑکی کا انداز پسند نہیں آیا تھا۔ 

"ضرور۔"اسنے ایک نظر شہریار کو دیکھا۔پھر خان بابا کو دیکھ کر بولی۔ 

"میں ہاشم خان کی بیوی کی بہن ، یعنی ہاشم خان کی سالی ، تابین حسن آفندی۔"اسنے طنزیہ ہنس کر کہا۔اسکا پر سکون انداز ان سب کا سکون چھین گیا۔ 

وہ سب جیسے پتھر ہو گئے تھے۔نور اور آبی اسکا نام ہاشم کے منہ سے سن چکی تھیں۔ 

نور کی پیشانی پر پسینہ چمک اٹھا۔وہی ہوا تھا جسکا ڈر تھا۔ 

"کیا بول رہی ہیں آپ۔"خان بابا لال چہرے کے ساتھ ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے۔آواز میں بلا کا غصہ تھا۔ 

"ابھی میں نے بات شروع بھی نہیں کی اور آپکو غصہ آگیا۔ذرا آگے آگے ساری بات تو سنیں۔اپنے بیٹے کے کارنامے سنیں کہ اسنے میری بہن کے ساتھ کیا کیا۔اسے کس طرح دنیا کی نظروں میں گرایا کہ وہ جیتے جی مر گئی۔"وہ سکون سے بیٹھی لہجے میں دکھ بھر کر بولتی چلی جا رہی تھی اور وہ سب سانس رکے سن رہے تھے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"تو لکھاں کروڑاں دی گل نہ کر۔"

"میرے اک وی یار دا مل کوئی نی۔"

وہ ہال میں کھڑا نازلی کا انتظار کر رہا تھا۔وہ کچھ دیر پہلے ہی تیار ہو کر باہر آیا تھا۔وہ بلیک سوٹ میں ملبوس تھا۔ہمیشہ کی طرح بلا کا ہینڈسم اور بارعب لگ رہا تھا۔

انہیں علینہ کی بارات میں جانا تھا۔اسنے گھڑی پر نظر ڈالی پھر نظریں اوپر اٹھائیں تو پلکیں جھپکنا بھول گیا۔وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی سامنے سے آ رہی تھی۔

سمپل بلیک فراک اسکے پاؤں سے ذرا اوپر تک تھی۔بلیک ہیلز میں قید اسکے سفید مومی پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔بالوں کا سائیڈ جوڑا بنا تھا جس سے نکلتی شریر لٹیں لہرا کر نرمی سے اسکے گالوں کو چھوتی تو ہاشم کا دل پھڑپھڑانے لگتا۔ 

بھاری کام سے بھرا دوپٹہ اسنے شانوں پر پھیلایا تھا۔وہ اسکے قریب آتی جا رہی تھی۔اور وہ اسکی ایک ایک تیاری کو نوٹ کر رہا تھا۔آنکھوں پر لائنر ، گھنی پلکوں کو مسکارا لگا کر مزید گھنا کیا گیا تھا۔لبوں پر لال لپ اسٹک اور اسکے دیکھنے پر گالوں پر بکھرتی شفق کی لالی ۔۔۔۔ اب کوئی اس حسین لڑکی کا دیوانہ نہ ہوتا تو کہاں جاتا۔اسکے پاس حسن کے وہ تمام ہتھیار تھے جس سے ایک مضبوط شخص آرام سے زیر ہوسکتا تھا اور وہ اس مضبوط شخص کو زیر کر چکی تھی۔ 

اب اپنے حسن کی روشنی دکھا کر اسکی جان لینے کے در پہ تھی۔  

نازلی اسکے دیکھنے پر گردن جھکا گئی۔اسے اپنی تیاری اوور لگنے لگی۔آنکھوں پر لائنر اور لال لپ اسٹک اسنے چھوٹی پٹھانی کی ضد پر لگائی تھی۔اب ڈر لگ رہا تھا کہ وہ بہت عجیب لگ رہی ہوگی تبھی ہاشم اسے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ 

وہ نروس سی ٹھیک دوپٹے کو ایک بار پھر ٹھیک کرتی اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔پھر کہنے کے لیے لب وا کیے جب وہ بول پڑا۔

"مارنے کا ارادہ ہے؟"سنجیدگی سے پوچھا گیا۔ 

"جی۔۔"نازلی نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔

"افف اس معصومیت پر کون نہ مر جائے۔میں تو آج گیا۔"اسنے دل پر ہاتھ رکھ کر شوخ لہجے میں کہا۔ 

"میں اچھی نہیں لگ رہی تو صاف کہیں۔یوں طنز کرنے کی ضرورت نہیں۔"نیلی آنکھوں میں خفگی اتری تھی۔وہ منہ دوسری طرف پھیر گئی۔ اسے لگ رہا تھا کہ ہاشم کو اسکی تیاری اچھی نہیں لگی تبھی ایسا کہہ رہا تھا۔ 

افف ایک تو بلا کا حسن اور اوپر سے غصہ ، ہر ایک ادا جان لیوا ، ہر وار قاتلانہ ۔۔۔۔ وہ آخر جاتا تو کہاں جاتا؟ 

ہاشم نے لمبی سانس کھینچ کر اس لڑکی کو دیکھا۔ 

"تم چاہتی ہو کہ ہاشم خان پاگل ہو جائے؟"اسنے نازلی کا چہرہ اپنی طرف موڑا۔

"میں نے ایسا کب چاہا؟"اسکی آنکھیں ہاشم کے چہرے پر تھیں۔ 

"تیاری سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔"اسنے ایک نظر نازلی کے سراپے پر ڈالی۔پھر اسکا بایاں ہاتھ تھاما۔سیاہ آنکھیں اسکی انگلی میں چمکتی ڈائمنڈ رنگ کو دیکھنے لگیں۔ 

"میں بہت دل لگا کر تیار ہوئی تھی۔"اسنے اداسی سے ہاشم کی جھکی آنکھوں کو دیکھا۔"پر میں آپکو اچھی ہی نہیں لگی۔"وہ افسوس سے بولی۔ہاشم نے نظریں اٹھائیں۔ 

"کس کافر نے کہا کہ تم مجھے اچھی نہیں لگی؟تم تو مجھے ہر روپ میں اتنی اچھی لگتی ہو کہ میں تم پر اپنا آپ وار سکتا ہوں۔"وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ کر بولا 

"ان مصنوعی چیزوں نے تمہارے حسن کو مزید نکھارا ہے پر ان سب کے بغیر بھی ہاشم خان کو تم بے حد حسین لگتی ہو۔دل و جان سے پیاری ہو۔تم مجھے اچھی لگو اس کے لیے ان مصنوعی چیزوں کی ضرورت نہیں ، مجھے تو تمہاری سادگی لے ڈوبی ہے۔میں تو تمہاری معصومیت پر مرتا ہوں ، سمجھی پاگل لڑکی۔"وہ نرمی سے اسکے گال کو کھینچ کر مسکرایا۔ 

اسکی باتوں کے سحر میں ڈوبی نازلی ایک دم سر جھکا گئی۔اسکے حسین چہرے پر دنیا جہاں کی خوشی تھی۔کچھ پل بعد اسنے نظر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا۔ 

"سمجھ گئی۔"اسکے لب ہلے۔آنکھوں میں چمک اور چہرے پر شوخ مسکراہٹ لیے وہ ہاشم سے دور ہوئی۔اسکی اس ادا پر ہاشم بے ساختہ مسکرایا تھا۔

پھر آگے بڑھ کر اسکا بازو تھاما۔"چلیں اب۔"پوچھا گیا۔نازلی نے سر ہلایا تو وہ اسے اپنے ساتھ لیے باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

دونوں خوش تھے۔ نازلی کے دل پر اس شخص نے قبضہ کر لیا تھا۔افف وہ اسے کیسے بتاتی کہ وہ دیوانی ہورہی تھی۔

دونوں علینہ کے گھر پہنچے۔وہ پانچوں اسکے انتظار میں تھیں۔ہاشم سے جدا کر کے وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ 

خوب ہلا گلا مستی مذاق چلتا رہا۔پھر علینہ کی بارات چلی گئی تو ان دونوں نے بھی واپسی کی راہ لی۔

گاڑی پورچ میں رکی۔نازلی دروازہ کھول کر اترنے لگی۔

ہاشم نے اسکا ہاتھ تھاما۔نازلی نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"کیا ہوا؟"اچانک ان سیاہ آنکھوں کی کیفیت بدلی تھی۔وہ بہت اداس اور خالی خالی لگ رہی تھیں۔اُسکی آنکھوں میں دیکھ کر نازلی کا دل دھڑک تھا۔ 

"کچھ خاص نہیں ۔۔۔ بس اتنا کہنا ہے کہ تمہاری خوشی کے لیے ہاشم خان کچھ بھی کر گزرے گا۔جو ڈوریں الجھی ہیں وہ سب سلجھ جائیں گیں۔کسی بھی قیمت پر میں تمہیں تمہاری تمام خوشیاں لوٹا دونگا۔"مدھم آواز میں کہہ کر اسنے نرمی سے اسکا ہاتھ دبا کر چھوڑا۔

نازلی اسے دیکھے گئے۔وہ اچانک ایسا کیوں کہہ رہا تھا؟کیا ہوا تھا اسے؟ وہ سمجھ نہ پائی۔

ہاشم نے اپنی کیفیت چھپانے کے لیے آنکھوں پر گلاسز لگائے۔

علینہ کی بارات جب نکلنے لگی۔وہ اپنے والد کے کندھے سے لگی آنسو بہا رہی تھی۔تب ہاشم کی نظریں نازلی پر تھیں۔اسنے ان نیلی آنکھوں میں جو حسرت ، جو اداسی تیرتی دیکھی وہ اسکا دل مٹھی میں بھینچ گئی۔اسے احساس ہوا تھا کہ اسنے اس لڑکی سے کتنا کچھ چھین لیا تھا۔محبت تو دینے کا نام ہوتی ہے اور وہ اسے خالی ہاتھ کر گیا تھا۔نازلی کی آنکھوں کی وہ کیفیت ہاشم کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوئی تھی۔بار بار وہ منظر اسکے دل پر چھریاں چلا رہا تھا۔وہ اب نازلی کو اسکی خوشیاں لوٹانے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار تھا۔

"آپ نہیں آئیں گے؟"نازلی کی مدھم آواز پر وہ سوچوں سے باہر نکلا۔ 

"نہیں ۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔"وہ سنجیدگی سے باہر دیکھ کر   بولا۔

"کب آئیں گے؟"نازلی نے جھجھک کر پوچھا۔ 

"شام تک۔"اسنے اسی انداز میں جواب دیا۔نازلی اسکے انداز پر خاموشی سے گاڑی سے باہر نکلی۔ہاشم کے اس انداز کو سوچتی وہ کار کا دروازہ بند کر کے اندر کی طرف بڑھنے لگی۔

وہ نظروں سے اوجھل ہوئی تو ہاشم گاڑی گیٹ سے باہر نکالنے لگا۔ 

گاڑی روڈ پر دوڑنے لگی۔وہ موبائل جیب سے نکال کر نمبر ڈائل کرنے لگا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تابین ہاتھ جھاڑ کر بڑی حویلی کے گیٹ سے باہر نکلی۔ 

لبوں پر پر سکون مسکراہٹ تھی۔

وہ انہیں سب کچھ بتا آئی تھی۔ہاشم کا نازلی سے نکاح ، نازلی کی بھری محفل میں توہین ، سب کا اس سے ترک تعلق کر لینا۔۔۔۔اس سب میں اسنے ہاشم کو ولن ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

اسکی باتوں پر خان بابا کا ری ایکشن اسے مزہ دے گیا تھا۔وہ جو بیٹے سے پہلے سے ہی بد گمان تھے۔تابین کی باتوں نے انہیں مزید بھڑکا دیا تھا۔تابین کی باتیں ختم ہوئیں تو خان بابا غصے سے واک آوٹ کر گئے۔شہریار اور ام جان بھی انکے پیچھے گئے تھے۔ 

تبھی نور ہوش میں آئی اور تابین کی طرف بڑھی۔ 

"آپ ۔۔۔ آپ نے سچ کو جھوٹ کے پردے میں لپیٹ کر خان بابا کو بتایا ہے۔میرے بھائی کو سب کی نظروں میں گرانا چاہتی ہیں آپ۔"اسنے غصے سے اس لڑکی کو دیکھا جو اب مسکرا رہی تھی۔ 

"اوہ تو ہاشم خان نے بہن کو سب بتایا ہوا ہے۔"وہ ابرو اٹھا کر بولی۔ 

"آپ نے یہ اچھا نہیں کیا۔"نور نے مٹھیاں بھینچیں۔

"میں نے تو سچ بتایا ہے۔پر افسوس تم دونوں بہن بھائی نے اپنے پیرنٹس کو دھوکے میں رکھا۔چھی چھی کتنی بری بات ہے۔"تابین نے معصوم سی صورت بنائی پھر نور کے قریب جھکی۔

"اب تم سبکو بتا دینا کہ جو میں نے کہا ہے اس میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے پر ۔۔۔"اسنے رک کر سنجیدگی سے نور کی آنکھوں میں دیکھا۔"پر کیا تمہارے والدین یہ جان کر ٹوٹ نہیں جائیں گے کہ بیٹے کے ساتھ بیٹی نے بھی انہیں دھوکے میں رکھا۔کیا وہ اپنی دونوں اولادوں کی طرف سے دیا گیا دھوکہ برداشت کر سکیں گے؟کہیں ان کو کچھ ہوگیا تو ۔۔۔۔"وہ نور کی کمزور رگ پر ہاتھ رکھ کر اسے سچ بتانے سے روکنا چاہتی تھی۔ 

اسنے نور کی خوف چھلکاتیں آنکھوں میں دیکھا۔تو سکون سے مسکرائی۔وہ اسکے دل میں ڈر ڈالنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

"اب چونکہ مجھ سے انہیں سچ کا معلوم ہوگیا ہے تو اب تمہارے لیے خاموشی سے تماشہ دیکھنا ہی اچھا ہے۔"بت بنی نور کا شانہ تھپک کر وہ پلٹی تھی۔ 

تبھی آبی نے نور کو آواز لگائی۔ 

"نور ۔۔۔ وہ ام جان ۔۔۔۔۔ ام جان بیہوش ہوگئی ہیں۔"تابین نے یہ بات سنی پھر پلٹ کر ایک نظر نور کو دیکھا جو حواس باختہ سی کمرے کی طرف بھاگی تھی۔ 

تابین نے سر جھٹکا پھر وہاں سے باہر نکلتی چلی گئی۔

وہ کار میں بیٹھی۔دل پر کہیں بوجھ سا تھا کہ اسکی وجہ سے ام جان کی یہ حالت ہوئی پر وہ خود بھی تو مجبور تھی۔دل کے آگے بھلا اسکی کہاں چلتی تھی۔

اسنے شانے اچکا کر کار سٹارٹ کی۔اسے اب گھر جا کر سکون سے سونا تھا۔کل تک اس سب کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکل ہی آنا تھا۔

اسنے میوزک آن کیا اور مگن سی ڈرائیو کرتی گھر کی طرف بڑھنے لگی۔دل میں سکون ہی سکون تھا اور لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

ہاشم نے سیماب کا نمبر ملا کر موبائل کان سے لگایا۔سلام کے بعد انہوں نے پوچھا۔"تم اگر کہو تو میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں؟"

"نہیں ۔۔۔ میں اکیلے میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔اپنا جرم قبول کر کے انکی دی گئی سزا قبول کرنا چاہتا ہوں۔میں انکی نظروں میں انکی بیٹی کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتا ہوں۔مجھے ہر سزا منظور ہے بس نازلی کو اسکے بابا واپس مل جائیں۔"وہ سوچوں میں گم بول رہا تھا۔ 

"سزا جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔"سیماب نے سنجیدگی سے کہا۔

"نازلی کی خوشی کے بدلے ہر سزا قبول ہے۔"وہ مدھم سا مسکرایا۔ 

"تم بندے بڑے کمال ہو۔"سیماب اسکی بات پر مسکرائیں تھیں۔انہیں نازلی کے لیے اسکی محبت پر ذرا شک نہ تھا۔

"تھینک یو ڈاکٹر صاحبہ۔"ہاشم نے شرارت سے کہا۔ 

"آنی۔۔"سیماب وارن انداز میں بولیں۔ 

"اوکے ۔۔۔ ویسا آپکا یہ انداز بالکل آپکی بھانجی جیسا ہے۔"اسکا انداز شوخ تھا۔نازلی بھی اسے جب وارن انداز میں "ہاشم"کہتی تو اسکا انداز بھی سیماب والا ہوتا۔وہ دونوں لفظ کو لمبا کھینچتیں تھیں۔

اسکی بات پر سیماب ہنسنے لگیں۔ 

"میں خوش ہوں کہ تم میری گڑیا کے نصیب میں لکھے گئے ہو۔اسے تم جیسا ہمسفر ہی ملنا چاہیے تھا۔"انکے لہجے میں نازلی کے لیے پیار ہی پیار تھا۔ 

"امید ہے کہ سسر جی بھی اس بات کو سمجھ لیں۔"وہ مدھم سا مسکرایا۔ 

"ہوں۔۔۔"سیماب سوچوں میں گم ہوئیں۔"اوکے تم جا کر بات کرو۔بیسٹ آف لک۔"انہوں نے نرم انداز میں کہا۔ہاشم نے شکریہ ادا کر کے فون بند کیا۔ 

اسکے دل میں بے چینی ہی بے چینی تھی پر چہرے کو اسنے بالکل پر سکون رکھا تھا۔ 

حسن آفندی کے واپس آنے کے بعد اسنے بہت کوشش کی تھی کہ وہ اس سے بات کر لے۔پر وہ تھے کہ بات کرنے کو تیار نہ تھے۔پر پھر انہوں نے ایک دن اس سے بات کی پر انداز انتہائی بے زار تھا جیسے وہ اسکی کوئی بات سننا نہیں چاہتے ہوں۔ہاشم نے تب انہیں ملنے کا کہا پر وہ انکار کر گئے تھے۔ 

پر کل حسن آفندی نے کال کی تھی کہ وہ اس سے مل کر ایک بار اسکی بات سننا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب اس کے پاس وقت ہو وہ ملنے آجائے۔

ہاشم نے یہ بات سیماب کو بتائی۔وہ کل ہی ان سے مل لینا چاہتا تھا پر کل انہیں علینہ کی مہندی پر جانا تھا سو سیماب نے جب اسے کال کی کہ وہ حسن ولا جائے گا کہ نہیں تو اسنے انکار کر دیا۔

آج اسنے حسن آفندی سے بات کی تھی اور انہوں نے اسے ملنے کا وقت دیا اور گھر آنے کا کہا۔ 

ہاشم سوچوں سے نکلا۔وہ حسن ولا کے سامنے کھڑا تھا۔اسنے لمبی سانس کھینچ کر گاڑی کھلے گیٹ سے اندر داخل کی۔حسن آفندی نے اسے جس وقت پر آنے کا کہا تھا وہ بالکل اسی وقت پر پہنچا تھا۔تبھی شاید انہوں نے واچ مین سے کہہ کر گیٹ کھلوا دیا تھا۔ 

وہ کار پورچ میں روک کر کار سے باہر نکلا۔ایک نوکر اسکے انتظار میں کھڑا تھا۔ 

"آئیں صاحب۔"وہ اسے لے کر اندر داخل ہوا۔ہاشم نے ارد گرد نظر دوڑائی۔اسے کوئی نظر نہ آیا۔اسنے شکر ادا کیا۔وہ امتل آفندی جیسی عورت کو سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔شاید حسن آفندی بھی اس بات سے واقف تھے تبھی ایسے وقت پر اسے گھر پر بلایا تھا جب وہ دونوں ماں بیٹی گھر میں نہیں تھیں۔ 

"صاحب اندر آپکا انتظار کر رہے ہیں۔"نوکر نے سامنے دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ 

وہ چلا گیا تو ہاشم نے دروازے پر نوک کیا۔اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا۔یہ لائبریری تھی۔اسکے اندر آنے پر بائیں طرف صوفے پر بیٹھے حسن آفندی اٹھ کھڑے ہوئے۔اسنے سلام کیا جسکا جواب دے کر انہوں نے اسے سامنے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ بیٹھا تو حسن آفندی بھی اسکے سامنے بیٹھ گئے۔انکا چہرہ بہت سنجیدہ تھا۔

ہاشم کو وہ پہلے سے کئی زیادہ کمزور اور بوڑھے لگے تھے۔ 

وہ خاموش نظروں سے ہاشم کو دیکھ رہے تھے۔انکی آنکھوں میں ہزار سوال تھے۔ہاشم کا دل بے تاب تھا۔پر چہرے پر اسنے دل کی کیفیت ظاہر نہ ہونے دی۔ 

"کیوں کیا آپ نے ایسا؟"پہلا سوال ہوا تھا۔

"محبت۔"اسنے مختصر جواب دیا۔ 

"محبت بہت پیارا جذبہ ہے۔اسکا نام لے کر آپ اپنے گناہ کو مت چھپائیں۔"انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔ 

"محبت کا جذبہ ہی ایک اچھے بھلے شخص کو اس مقام پر لا سکتا ہے سر ، ورنہ جسکا دل و دماغ اسکا ساتھ دے وہ کیوں کانٹوں بھرا راستہ چنے گا۔"اسنے سکون سے جواب دیا۔ 

"سیدھا راستہ بھی تو اپنایا جا سکتا تھا۔"حسن آفندی نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"دوسرا کوئی راستہ نہ تھا یہ آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں۔"اسکا اشارہ امتل اور تابین کی طرف تھا جسے حسن آفندی اچھے سے سمجھ گئے تھے۔ 

"ہم جن سے محبت کرتے ہیں انہیں دکھ نہیں دیتے۔اگر ہم محبت کرنے والوں کو دکھ دیں ، ان سے غافل ہو جائیں تو وہ ہم سے روٹھ جاتے ہیں۔پھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔"وہ دور ماضی میں کھوئے کہہ رہے تھے۔ 

ہاشم انکے ماضی سے واقف تھا۔سیماب نے اسے سب بتایا تھا۔انکی بات سمجھ کر اسنے انکی دکھ بھری آنکھوں میں دیکھا۔

"تبھی میں آج یہاں موجود ہوں سر ۔۔۔ میں اپنی محبت سے غافل نہیں ہوں۔میں اسے ہر خوشی دینا چاہتا ہوں۔پھر اس خوشی کی قیمت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔"اسکا لہجہ مضبوط تھا۔ 

اسکی بات پر حسن آفندی کی آنکھوں میں حیرت جاگی۔سامنے بیٹھا شخص واقعی کوئی عام شخص نہ تھا۔وہ بات کرنے کا فن اور حالات کو سمجھنا اچھے سے جانتا تھا۔ 

انہیں خاموش دیکھ کر وہ مزید بولا۔ 

"یہاں میں آپکو اپنی صفائی دینے نہیں آیا سر ، میں یہاں نازلی کو بے قصور ثابت کرنے آیا ہوں۔"اسنے ہاتھوں کو باہم ملایا۔پھر آہستہ آہستہ انہیں ساری بات بتانے لگا۔اپنی دھمکی ،نازلی کی مجبوری سب کچھ ۔۔۔۔ 

دروازے کے اس پار کھڑی تابین بت بنی سب سن رہی تھی۔وہ ہاشم کے آنے کے کچھ وقت بعد ہی آگئی تھی۔ 

پورچ میں ہاشم کی گاڑی دیکھ کر اسکا دل خوشی سے دھڑک اٹھا تھا۔نوکر سے پوچھ کر وہ جلدی سے لائبریری کی طرف بڑھی پر اندر ہوتی باتوں پر اسکے قدم تھم گئے۔وہ نازلی کے حق میں  بول رہا تھا اور تابین کا دل نیچے کہیں پاتال میں گرتا جا رہا تھا۔ 

"مجھے احساس ہے کہ میں نے کتنا غلط کیا ہے۔مجھے چاہے آپ جو بھی سزا دیں پر نازلی آپکی بیٹی ہے۔وہ آج بھی ویسی ہی معصوم اور پاکیزہ ہے جیسی پہلے تھی۔اسنے کوئی گناہ نہیں کیا۔سب کچھ میں نے کیا ہے۔میں معافی نہیں مانگوں گا کیونکہ میری غلطی معاف کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔۔۔ہاں پر آپ نازلی سے اب مزید منہ نہ موڑیں۔میں نے اسے آپکے لیے روتے دیکھا ہے۔تب میری محبت خود غرض تھی۔میں نازلی کو صرف خود تک محدود رکھنا چاہتا تھا پر اب مجھے احساس ہوا ہے کہ محبت میں محبوب کی خوشی معنی رکھتی ہے۔خود پر کچھ بھی بیتے پر محبوب کی راہوں میں روشنی کے دیے جلانا عاشق کا کام ہے۔میں نے محبت کو سمجھ لیا ہے اور اب میں نازلی کو اسکی خوشی دینا چاہتا ہوں۔"وہ حسن آفندی کی لال آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔ 

وہ بالکل خاموش تھے۔ہاشم نے بات مکمل کر کے سر جھکا لیا۔ وہاں اب مکمل سناٹا چھا گیا تھا۔ 

"ہاشم خان۔"حسن آفندی نے کچھ دیر بعد اسے پکارا۔ہاشم نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ 

"آپ نے میری بیٹی کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ایک باپ کے دل کو آپ نے اپنے پاؤں تلے روندھا ہے۔آپ احساس کر سکتے ہیں اس باپ کی اذیت کا جس نے برسوں ایک نازک پھول کی طرح اپنی بیٹی کو سنبھال کر رکھا ہو اور ایک دن آپ جیسا شخص آ کر اس پھول کو توڑ کر لے جائے۔اسے آپ سے چھین لے۔تو کیا گزری ہوگی اس باپ کے دل پر ؟ تکلیف اس پھول کو بھی ہوئی ہے اور اس مالی کو بھی۔"انہیں نے بھاری لہجے میں اپنی طرف اشارہ کیا۔"پر آپکا کیا گیا؟ نہ آپ نے وہ تکلیف سہی ، نہ آپ نے وہ لمحے جیے جن میں ہم باپ بیٹی پل پل مرے ہیں۔"وہ چبا کر کہتے اسے دیکھنے لگا۔

ہاشم کی زبان تالوں میں بند تھی۔وہ واقعی اس تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔پر کیا کوئی اسکی تکلیف کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ اپنی محبت کو اتنی کوششوں سے پا کر آج اسی محبت کی خاطر اسے کھونے کے لیے بھی تیار تھا۔یہ بھی تو آسان نہ تھا۔کوئی پوچھتا اس دیوانے کے دل سے کہ وہ کس عذاب میں تھا۔وہ اس وقت زندگی اور موت کے درمیان کھڑا تھا۔اسکے لیے آر یا پار کا فیصلہ کرنا آسان نہ تھا۔

"میں آپکی تکلیف کم نہیں کر سکتا پر آپکی دی سزا قبول کر کے آپکے دل کو کچھ حد تک سکون دے سکتا ہوں۔میں آپ کے سامنے ہوں سر جو چاہیں سزا دیں میں اف تک نہیں کرونگا۔"وہ جھکے سر کے ساتھ بھاری آواز میں بولا۔حسن آفندی کتنے پل خاموشی سے اسکی طرف دیکھتے رہے پھر بولے۔

"کیا آپ نازلی کو طلاق دے سکتے ہیں؟"طنزیہ انداز میں پوچھا گیا تھا۔

انکی بات پر ہاشم کی دھڑکنیں رکی تھیں۔جس بات کا اسے  کب سے ڈر تھا وہ اسکے سامنے تھی۔یہاں آنے کا مطلب تھا نازلی کو کھو دینا۔وہ اس بات سے واقف تھا کہ اسے طلاق کا کہا جائے گا۔وہ دل پر پتھر رکھ کر یہاں آیا تھا پر ابھی حسن آفندی کے منہ سے یہ بات سن کر اسکا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا۔

پر اب اگر اسنے نازلی کو خوشی دینے کا فیصلہ کیا تھا تو اسے اپنی بات پوری کرنی ہوگی۔کیونکہ یا تو وہ نازلی کی زندگی میں ہوسکتا تھا یا پھر نازلی کے اپنے۔۔۔وہ جانتا تھا نازلی کو اس سے زیادہ اسکے اپنوں کی ضرورت تھی۔اسلیے وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ  کر یہاں آیا تھا اور اب اسکی جان اس سے چھینی جانے والی تھی۔ 

وہ کتنے پل زمین کو گھورتا رہا۔اسکی زبان کیسے اقرار کرتی کہ ہاں وہ اپنی زندگی سے منہ موڑ لے گا کہ ہاں وہ نازلی کو طلاق دے دے گا۔

"بس یہی تھیں آپکی بڑی بڑی باتیں۔آپ تو سزا کا مطالبہ کر رہے تھے اور میں نے تو آپکو بہت آسان سزا سنائی ہے۔"حسن آفندی طنزیہ انداز میں مسکرائے تھے۔

آسان سزا؟ یہ تو کوئی ہاشم سے پوچھتا کہ یہ سزا کتنی آسان تھی۔وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔اسکے دل سے لہو ٹپک رہا تھا۔اسنے کانپتے دل کو مضبوط کیا۔مٹھیوں کو زور سے بھینچا۔وہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاں مجھے آپکی بات قبول ہے پر ۔۔۔ پر اسکی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔دل پاگل ہورہا تھا۔

"جائیں ہاشم خان اور دوبارہ مجھ سے ملنے کی ضرورت نہیں آپکو۔۔۔ میری بیٹی اگر یہاں آئے گی تو نازلی حسن آفندی بن کر کیونکہ نازلی ہاشم خان کے لیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔"وہ دانت پیس کر اٹھ کھڑے ہوئے۔پھر ایک جلتی نظر اس پر ڈال کر کھڑکی کی طرف بڑھ گئے۔

ہاشم ہنوز اسی پوزیشن میں بیٹھا تھا جیسے پتھر ہوگیا ہو۔افف اپنی محبت کو اپنے ہی ہاتھوں سے کھو دینا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ کوئی ہاشم سے پوچھتا۔ایک پل کے لیے اسکا دل کیا کہ وہ اٹھ کر یہاں سے چلا جائے۔ایک بار پھر خود غرض بن جائے۔۔۔۔پر نہیں ۔۔۔اب کی بار وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔اسنے سختی سے آنکھیں بھینچیں۔نازلی کی صورت اسکی آنکھوں کے سامنے لہرائی۔اسکی آنکھوں کی حسرت ، اسکا رونا ۔۔۔۔اگلے پل وہ جھٹ سے آنکھیں کھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔

اسنے حسن آفندی کی پشت کو دیکھا۔ 

"مجھے آپکی بات قبول ہے۔"اسنے بھاری آواز میں کہہ کر لب بھینچے۔

حسن آفندی نے حیرت سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ 

"کیا قبول ہے؟"وہ اسکا صبر آزما رہے تھے۔ 

"جو آپ نے کہا۔"اسنے سنجیدگی سے کہہ کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔

"کیا ؟؟"وہ ابرو اٹھا کر بولے۔وہ اس کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔ 

"میں نازلی کو ۔۔۔"وہ رکا۔اسکی کنپٹی پر رگیں ابھر آئی تھیں۔اسکے لیے یہ بات کہنی موت سے کم نہ تھی۔

"میں نازلی کو طلاق دینے کے لیے تیار ہوں۔"اسنے کہہ کر دانت پیسے۔

اسکی بات سن کر باہر کھڑی تابین کی آنکھوں سے آنسو گرنے  لگے۔وہ نازلی کی محبت میں سب وار دینے کو تیار تھا۔وہ نازلی کی محبت میں اس سے دور جانے کو بھی تیار تھا۔

انکی طلاق کی بات سن کر اسے خوش ہونا چاہیے تھا پر اسکا دل خالی ہونے لگا۔وہ شخص ہمیشہ محبت کے معاملے میں اس سے ایک قدم آگے رہا تھا۔پہلے اسنے اپنی جنونی محبت سے نازلی کو پا لیا اور اس دیوانی کو خالی کر دیا تھا۔

اور آج وہ اپنی محبت کی خاطر ،اسکی خوشی کے لیے اسے چھوڑنے کو تیار تھا اور وہ۔۔۔۔ وہ آج بھی خود غرض تھی۔

وہ آج اپنی محبت کو بد نام کر کے آئی تھی اور وہ شخص اپنی محبت کو سرخرو کرنے آیا تھا۔یہی فرق تھا ہاشم خان اور تابین  کی محبت میں ۔۔۔۔

ہاشم کی بات پر حسن آفندی نے اسکے ضبط سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا۔"میں جلد پپیرز تیار کروا لونگا۔پھر آپکو کال کرونگا۔جس پل نازلی کے نام سے آپکا نام ہٹے گا اس سے اگلے پل حسن آفندی کی بیٹی اس گھر میں ہوگی۔"وہ سنجیدگی سے کہہ کر پلٹے اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ 

ہاشم ٹوٹے دل کے ساتھ آہستہ سے پلٹ کر کمرے سے باہر نکلا۔دروازے کے پاس اسنے روتی ہوئی تابین کو دیکھا۔ 

اسکی حالت بتا رہی تھی کہ اس نے سب سن لیا ہے۔وہ اس وقت اتنا ٹوٹا ہوا تھا کہ تابین سے کوئی تلخ بات نہ کہہ سکا بلکہ خاموشی سے اسکے کانپتے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے۔

"تم ایک اچھی لڑکی ہو تابین ۔۔۔ خود کو میرے پیچھے بے مول مت کرو ۔۔۔میری زندگی سے نازلی نکل بھی گئی تو یہ دل ہمیشہ اس سے محبت کریگا۔میں اسکی محبت کے جادو سے نہیں نکل سکتا۔تم نے سب سن لیا ہے۔میں تمہیں دوبارہ امید کا دامن تھامنے نہیں دے سکتا کیونکہ میرے دل میں اور میری زندگی میں نازلی کے بعد اب کسی کی جگہ نہیں ہے۔وہ نہ ہو کر بھی ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔تم اپنی زندگی کو مت اجاڑو ، میرا دل تمہاری بربادی کا الزام نہیں اٹھا پائے گا۔تم پلیز اپنی زندگی میں آگے بڑھو۔ہاشم خان اب آباد نہیں ہوگا پر تمہیں آباد دیکھ کر مجھے خوشی ہوگی۔کیا تم اتنی خوشی مجھے دے سکتی ہو؟"مدھم آواز میں کہہ کر اسنے کچھ پل تابین کی نم آنکھوں میں دیکھا پھر اپنے سوال کا جواب سنے بغیر اسکے ہاتھ چھوڑ کر باہر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

تابین نے خالی نظروں سے اسے جاتے  دیکھا۔وہ چلا گیا تو وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔

آنکھوں سے آنسو نکل کر اسکے ہاتھوں کو بھیگونے لگے جہاں اس شخص کا لمس موجود تھا۔آنسو جیسے اسکے لمس کو دھو رہے تھے۔

وہ کہتا ہے کہ وہ نازلی کو نہیں بھول پائے گا۔وہ نہ ہو کر بھی ہمیشہ اسکے ساتھ رہے گی پھر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ تابین حسن آفندی بھی تو اسے نہیں بھول پائے گی۔وہ بھی تو ہمیشہ اسکے ساتھ رہتا ہے۔اگر وہ خود آگے نہیں بڑھ سکتا تو پھر وہ اسے کیسے زندگی میں آگے بڑھ جانے کا کہہ سکتا ہے۔۔۔۔ پر اسنے کہا ہے کہ اسے خوشی ہوگی اگر وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھی گی۔

کیا وہ اسے یہ خوشی دے سکتی ہے؟

ہاں ۔۔۔ وہ اسے یہ خوشی ضرور دے گی۔وہ خود ٹوٹ کر بھی  اسے یہ خوشی دے گی۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر ، آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں کے ساتھ کرب سے مسکرائی تھی۔ 

پھر پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔آج وہ آخری بار اپنی محبت کا ماتم کرنا چاہتی تھی۔ 

وہ کمرے میں آ کر بند ہوئی۔پھر دروازے سے ٹیک لگا کر زمین پر  بیٹھتی ، گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر ان میں سر چھپا کر رونے لگی۔

ام جان کو ہوش آ چکا تھا اور وہ مسلسل رو رہی تھیں۔نور انکے پاس بیٹھی انہیں خاموش کروا رہی تھی۔ 

شہریار خاموش سا صوفے پر بیٹھا تھا۔خان بابا غصے سے کمرے میں چکر کاٹ رہے تھے۔ 

آبی اور داور ڈر کے مارے کمرے سے باہر ایک طرف ہوئے کھڑے تھے۔اندر کی ہر آہٹ پر انکا دل دھڑک اٹھتا تھا۔ 

"جانے کون ہے وہ لڑکی ۔۔۔ جسے ہاشم خان نے یوں بدنام کیا۔ہمیں تو اس لڑکی کی بہن کو دیکھ کر لگتا ہے وہ لڑکی بھی ایسی ہی ہوگی۔اسکی بہن نے جتنا سچ جھوٹ کیا ہم اس سب  سے واقف ہیں۔اس لڑکی نے کیوں کیا ہاشم خان سے نکاح ، ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ اپنے ماں باپ کا سر جھکا گئی۔وہ لڑکی بھی کوئی پاکیزہ نہ ہوگی اور ہاشم خان سے تو ہم اچھے سے واقف ہیں اور اس سے اب ہم اپنے انداز میں نپٹیں گے۔"خان بابا دانت پیس کر کہتے جا رہے تھے۔ 

انکی ہر بات پر نور کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔فلحال وہاں کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ لڑکی اور کوئی نہیں نازلی ہی ہے۔خان بابا غصے سے ہاشم اور اس انجان لڑکی کو خوب سنا رہے تھے۔

نور کے دل میں ایک تو تابین کی باتوں نے ڈر پیدا کر دیا تھا۔پر اگر وہ اس چیز کو ایک طرف رکھ کر انہیں سب بتا بھی دیتی تو اسے ڈر تھا کہ نازلی کا جان کر کہیں اسکے لیے انکی محبت ، نفرت میں نہ بدل جائے کہ جو کچھ نازلی کے ساتھ اسکے گھر والوں نے کیا تھا اگر وہی سب کچھ یہاں بھی اسکے ساتھ ہوا تو وہ لڑکی کیسے جی پائے گی؟وہ نازک لڑکی مزید توہین نہیں سہہ پائے گی۔وہ مر جائے گی اور نور ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔

"شہریار آپ گاڑی نکالیں ہم ابھی اور اسی وقت خان ولا جائیں گے اور اپنے نا فرمابردار بیٹے اور اس بے حیا لڑکی کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ان سے دو ٹوک بات کرنا چاہتے ہیں۔"انکی سپاٹ آواز پر نور کا دل پھڑپھڑانے لگا۔

ایک خان ولا جانا اور دوسرا نازلی کو بے حیا کہنا ۔۔۔ یہ بات اسکے دل میں چبھی تھی۔اسکے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔خان بابا کی بات پر شہریار اٹھ کر باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

نور کے دل سے شدت سے دعا نکلی کہ کسی طرح اس وقت یہ مصیبت ٹل جائے۔اللہ نے جیسے اسکی دعا قبول کی تھی۔تبھی ام جان اٹھتے ہوئے بولیں۔

"میں بھی آپکے ساتھ جاؤں گی۔"انکی کمزور آواز پر شہریار کے قدم تھم گئے۔وہ انکی طرف پلٹا۔

"آپ بیمار ہیں ام جان۔آپ آرام کریں۔"اسنے نرمی سے کہا۔ 

"مجھے ساتھ جانا ہے ۔۔۔ ہر حال میں۔"انکا انداز ضدی اور دو ٹوک تھا۔جیسے اب کسی کی نہیں سنیں گیں۔ 

"آپ کہیں نہیں جا رہیں۔آپ آرام کریں۔ہم خود آپکے بیٹے سے اچھے سے بات کر لینگے۔"خان بابا نے چبا کر کہا۔ 

ام جان نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔انکی دنیا میں طوفان برپا  تھا اور وہ انہیں آرام کرنے کا کہہ رہے تھے۔کیا ایسا ممکن تھا کہ انکی دنیا اجڑ رہی ہو اور وہ آرام کرتی رہیں نا ممکن۔۔۔۔۔

"آپکے بیٹے سے اچھے سے بات کر لینگے۔"انکی اسی بات سے ہی تو ام جان ڈر رہی تھیں۔وہ باپ بیٹا اب ایک بار پھر سے اگر آمنے سامنے آئے تو جانے کیا قیامت آئے گی۔غصے کے دونوں تیز تھے۔اپنے غصے میں وہ کچھ بھی کر سکتے تھے اور وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی کھونا نہیں چاہتی تھیں۔

"میری شال نکالو بیٹا۔"انہیں نے خود کو مضبوط کر کے نور سے کہا۔ 

خان بابا نے جھنجھلا کر انہیں دیکھا۔وہ کبھی کبھی انہیں بہت مجبور کر دیتی تھیں۔وہ جو کسی کی نہیں سنتے تھے۔ضد کے پکے تھے وہ ام جان کے آگے ہار جاتے تھے۔ام جان کے آگے انکی ضد ٹوٹ جاتی تھی۔

"شہریار رہنے دیں ۔۔۔۔آپ کی ام جان اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹیں گیں۔انہیں ابھی آرام کرنا چاہیے۔اسلیے ہم سب صبح  خان ولا جائیں گے۔پھر جو ہوگا سبکی موجودگی میں ہوگا۔"وہ خود پر ضبط کر کے کہتے مٹھیاں بھینچ کر صوفے پر بیٹھے۔ 

انکی بات پر سر ہلا کر شہریار وہیں خاموشی سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔اسنے نور کو دیکھا جو خان بابا کے بیٹھنے پر لمبی سانس کھینچ کر ام جان کو آرام کرنے کا کہنے لگی۔شہریار کو اسکی حالت دیکھ کر افسوس ہوا۔وہ نڈھال سی تھی۔اسکے اکلوتے بھائی نے ایسا کیا تھا۔نور کو کتنا دکھ ہوگا وہ سوچ سکتا تھا۔ہاشم کی شادی کو لے کر اسنے نور کے منہ سے کئی بار باتیں سنی تھیں کہ لالہ کی شادی میں یہ کرے گی وہ کرے گی پر ہاشم نے ہر چیز پر پانی پھیر دیا تھا۔۔۔وہ خود اس لڑکی کے منہ سے ہاشم کی شادی کی بات سن کر شاکڈ رہ گیا تھا۔پر پھر اسنے جلد ہی خود کو سنبھال لیا تھا کہ ہوسکتا وہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہو پر وہ جس دو ٹوک انداز میں بات کر رہی تھی اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔شہریار کو ہاشم کی اس حرکت پر افسوس ہوا تھا۔

"ہاشم خان نے ہمیں بد نام کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔اب ہمیں سمجھ آ رہی ہے کہ ہاشم خان نے آبی سے شادی کرنے سے کیوں انکار کیا ۔۔۔ ضرور اسکے پیچھے وجہ وہ لڑکی ہی ہوگی۔جانے کتنے سالوں سے شادی کر کے بیٹھا ہے۔اتنے عرصے سے وہ ہمیں بیوقوف بناتا رہا ہے۔"خان بابا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر ڈالتے۔غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ 

انکی بات پر نور نے حیرت سے انہیں دیکھا ۔۔۔ افف اسنے یہ تو  سوچا ہی نہ تھا کہ خان بابا ایسا سمجھیں گے۔

تابین نے یہ تھوڑی بتایا تھا کہ ہاشم کی شادی کب ہوئی ، کتنا عرصہ ہوا ہے۔پھر تو خان بابا کا یہ سوچنا بنتا تھا کہ ہاشم نے نازلی کی وجہ سے ہی آبی سے شادی کرنے سے انکار کیا تھا۔ 

یہ باتیں سوچ کر نور کا دل حلق میں آگیا۔اب پرانی اور نئی بات جڑ کر اگر ایک ہوگئیں تو اس گھر کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ایک بات جسے لے کر سالوں سے باپ بیٹے کا جھگڑا ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا اب ہاشم کی شادی سے اس بات کو جوڑ دیا گیا تھا جو کہ خطرے کی بات تھی۔

نور مزید چپ نہیں رہ سکی اور انہیں دیکھ کر بولی۔

"خان بابا جیسا آپ سوچ رہے ہیں ایسا نہیں ہے۔"وہ کہہ کر ہاتھ مسلنے لگی۔

"ایسا ہی ہے ۔۔۔ ہمیں پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ ہاشم خان کسی دوسری لڑکی کے چکر میں ہے ورنہ اسے شادی سے انکار کیوں ہوتا۔ہم سب سمجھ رہے ہیں۔کل دو باتوں میں سے ایک بات ہوگی یا ہاشم خان اس لڑکی کے منہ پر طلاق مارے گا یا پھر کل ہمیشہ کے لیے وہ ہم سب کے لیے مر جائے گا۔"خان بابا کے ٹھنڈے لہجے میں کہے گئے الفاظ پر نور کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ام جان نے بھی اپنا دل تھام لیا۔

"ایسی باتیں نہ کریں۔"ام جان نے مری ہوئی آواز میں کہا۔ 

"ہم ایسا ہی کرینگے بیگم اور اس بار آپ بھی ہماری راہ میں نہیں آئیں گیں۔"وہ سرد انداز میں بولے۔

پہلے ام جان کی وجہ سے وہ ہاشم کو حویلی آنے سے نہیں روکتے تھے پر کل کے بعد کسی چیز کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ 

ام جان درد میں ڈوبی آواز میں رونے لگیں۔نور نے انہیں دیکھا پھر ایک دم اٹھ کر خان بابا کی طرف بڑھی اور انکے سامنے زمین پر بیٹھ گئی۔

"خان بابا اپنوں سے یوں منہ نہیں موڑا جاتا۔"اسنے آہستہ آواز میں کہہ کر انہیں دیکھا۔ 

"ہم منہ نہ موڑیں تو اور کیا کریں۔آپکے بھائی نے جو کیا ۔۔۔ کیا وہ ٹھیک ہے؟"انہوں نے تھک کر بیٹی سے پوچھا۔

"اسنے ہمارا سینہ چھلنی کر دیا ہے بیٹا جی۔ہم اپنے زخم کس کو دکھائیں۔ہمارا بیٹا ہمیں ہر مقام پر منہ کے پل گرا رہا ہے۔کبھی ہمارے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر ایسا ہی بیٹا ہونا تھا تو وہ ہوتا ہی نہ ۔۔۔ پیدا ہوتے ہی مر جاتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔"انکے انداز میں دکھ ہی دکھ تھا۔انکی بات پر نور کی آنکھیں نم ہوئیں۔ام جان کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی۔شہریار سنجیدہ چہرے کے ساتھ انکی طرف بڑھا۔

"ام جان پلیز روئیں نہیں ۔۔۔ آپکی طبیعت پہلے سے خراب ہے۔"اسنے بیڈ پر بیٹھ کر ام جان کو اپنے ساتھ لگایا۔

"آپ دیکھے شہریار آپکے خان بابا کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ان کی باتیں ایک ماں کے دل کو تڑپا رہی ہیں۔ان سے کہیں کہ ایسی باتیں نہ کریں۔"وہ رو کر کہہ رہی تھیں۔

شہریار نے پریشانی سے انہیں پھر پتھر چہرہ لیے خان بابا کو دیکھا۔خان بابا فیصلہ کرنے کے بعد کسی کی کہاں سنتے تھے۔

"آپ معاف کر دیں لالہ کو۔"نور نے نم آنکھوں سے باپ کو دیکھا۔وہ بھائی کی طرف سے معافی مانگ رہی تھی۔

"اب آر یا پار کا فیصلہ ہوگا۔یا وہ ہماری بات مانے گا یا پھر ہماری زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔"وہ پتھر بنے سخت لہجے میں بولے۔ 

نور نے لمبی سانس کھینچی۔وہ انہیں نازلی کا بتانے جا رہی تھی۔وہ رسک لے رہی تھی کہ کیا پتہ نازلی کے نام پر انکا دل کچھ نرم پڑ جائے پر ڈر بھی تھا کہ کہیں نازلی کا نام انکے غصے کو مزید ہوا نہ دے دے۔پر جو بھی ہو وہ انہیں سچ بتا دینا چاہتی تھی۔

اسنے خود کو مضبوط کر کے خان بابا کے چہرے کو دیکھا۔

"لالہ نے جس سے شادی کی ہے وہ اور کوئی نہیں بلکہ نازلی ہے اور انکی شادی کو ابھی دو ماہ ہوئے ہیں۔ہاشم لالہ نے رشتے سے انکار اس وجہ سے نہیں کیا تھا۔وہ آبی کو واقعی بہن مانتے ہیں۔اسلیے انکار کیا تھا۔نازلی بعد میں انکی زندگی میں آئی تھی۔"وہ ایک ہی سانس میں بول گئی۔ 

کمرے میں مکمل سکوت چھا گیا۔دروازے کے پار کھڑی آبی نے دل تھام لیا۔جبکہ باقی سب بت بنے تھے۔ 

"نازلی ۔۔۔ تمہاری دوست نازلی۔"ام جان سب سے پہلے ہوش میں آئیں۔انہوں نے حیرت سے پوچھا۔وہ بھی تو اس لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے پسند کر بیٹھی تھیں۔تو کیا انکے دل کی بات پوری ہوگئی تھی۔انہیں یقین نہ آیا۔

"جی ۔۔۔۔"نور نے پلٹ کر انہیں دیکھا۔نظر شہریار پر پڑی جو جلتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"آپ نے بھی بھائی کے ساتھ مل کر ہمیں دھوکہ دیا؟"خان بابا کی سرد آواز پر نور کا دل بند ہونے لگا۔ 

اسنے جلدی سے انہیں دیکھ کر انکے ہاتھ تھامے۔ 

"ایسا بالکل نہیں ہے خان بابا۔ہم بس سب ٹھیک کر کے آپ لوگوں کو بتانا چاہتے تھے۔لالہ سب ٹھیک کر دینگے۔وہ نازلی کے گھر والوں کو منا کر پھر نازلی کو یہاں لانا چاہتے تھے۔"وہ جلدی سے بتانے لگی۔ 

"یہی سچ ہے خان بابا۔"آبی نے اندر داخل ہو کر کہا۔وہ اندر آگئی پر داور باہر ہی رہا۔اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ خان بابا کا غصہ دیکھ پاتا۔

"اوہ تو آپ بھی اس بات سے واقف ہیں؟"خان بابا نے آبی کو دیکھ کر سپاٹ انداز میں کہا۔

آبی نے ہڑبڑا کر نظریں جھکا لیں۔

"وہ خان بابا ۔۔۔"اس نے تھوک نگلا۔اس سے کوئی بات نہیں بن رہی تھی۔

"آپ دونوں بھی ہاشم کے ساتھ مل گئیں۔یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔"خان بابا نور کے ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ان دونوں کے چہرے کا رنگ اڑا۔ 

"خان بابا ہمیں کچھ وقت پہلے ہی پتہ چلا تھا۔آپ یقین کریں ہاشم لالہ جلد ہی یہاں سب کو بتانے والے تھے۔ہم بس حالات کے ٹھیک ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور نازلی وہ ۔۔۔ وہ بہت ڈری ہوئی تھی۔اسے ڈر تھا کہ اسکے گھر والوں کی طرح یہاں بھی اگر اسکے ساتھ وہی سب کچھ ہوا تو وہ جی نہیں پائے گی۔وہ بہت معصوم ہے۔مانتی ہوں لالہ نے اچھا نہیں کیا پر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہے۔وہ نازلی سے بہت محبت کرتے ہیں۔وہ اسکا بہت خیال رکھتے ہیں۔وہ بھی لالہ سے محبت کرنے لگی ہے۔پلیز سب کچھ ٹھیک کر دیں خان بابا ۔۔۔آپ مان گئے تو پھر سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔آپ لوگ نازلی کے ساتھ برا مت کریے گا۔وہ برداشت نہیں کر پائے گی۔اسنے آپ لوگوں کی محبت کے رنگ دیکھے ہیں۔اب اسکی جھولی میں نفرت مت ڈالیے گا۔ورنہ وہ سہہ نہیں پائے گی۔وہ میری بہت اچھی دوست ہے۔میں آپکو یقین دلاتی ہوں کہ وہ اس گھر کے لیے بیسٹ ثابت ہوگی۔وہ مجھ سے بڑھ کر آپکا خیال رکھے گی۔وہ آپکو شکایت کا موقع نہیں دے گی۔آپ پلیز اسے قبول کر لیں ۔۔۔ وہ بہت اچھی ہے آپ سب جانتے ہیں ناں اسے۔"نور ایک ہی سانس میں بولتی گئی اس وقت تک جب تک اسکی آواز رندھ نہیں گئی۔

وہ زمین پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھورتی آنسو بہا رہی تھی۔

"اس لڑکی نے آپکو بھی جادو میں جکڑ لیا ہے۔"خان بابا نے بیٹی کے جھکے سر کو دیکھا۔ 

"آپکو بھی تو جکڑا تھا۔کیا آپکی دوستی اتنی کچی تھی کہ اس ایک بات سے ٹوٹ گئی۔"وہ نم آواز میں بولی۔ 

"پر نازلی کا نام جاننے کے بعد ہم نے تو اسکے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔"وہ سنجیدگی سے بولے۔ 

"پر اسکے حق میں بھی تو کچھ نہیں کہا ناں۔"وہ اداسی سے بولی۔ 

"آپ کیا یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ ہم اچھے دوست نہیں؟"انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

نور نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔"

"مطلب تو یہی ہے آپکا۔"وہ واپس صوفے پر بیٹھے۔نور کو اپنی قریب بلایا پھر آبی کو بھی پاس آنے کا کہا۔وہ بھی انکے سامنے بیٹھ گئی۔ 

"ہمیں نازلی تب ہی اچھی لگی تھی جب ہم نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔آپکو معلوم ہے وہ ہمیں کہاں ملی تھی؟"انہوں نے دونوں کو دیکھا۔دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔

"وہ ہوسپٹل میں تھی۔جب ہم نے اس سے پوچھا وہ کس کا انتظار کر رہی ہیں تو اسکا کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہے۔اسکا شوہر یعنی ہمارا نالائق بیٹا۔"وہ کہہ کر مدھم سا مسکرائے۔وہ دونوں حیرت سے انہیں دیکھنے لگے۔

نازلی کا نام سن کر خان بابا نرم پڑ گئے تھے۔وہ لڑکی واقعی ساحرہ تھی۔ہر کسی کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔نور دل ہی دل میں مسکرائی۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ نازلی کے نام پر خان بابا کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو وہ انہیں پہلے ہی سچ بتا دیتی۔

"قسمت نے کہاں سے کہاں دھاگے جوڑ کر ہم سبکو ایک ہی ڈور سے باندھ دیا ہے۔"وہ سوچوں میں گم بولے تھے۔نور نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔

"آپ نے لالہ کو معاف کر دیا؟"نور نے خوشی سے پوچھا۔

"نہیں ۔۔ ہم نے اپنی دوست کو قبول کیا ہے اپنی بہو کی صورت میں پر آپکے لالہ کو ہم اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔انہیں خوب ستا کر پھر معاف کریں گے۔"وہ مسکرا کر بولے۔ 

آبی اور نور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگیں۔ 

"آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ بہت اچھے دوست ہیں۔"آبی نے مزے سے کہا۔

"بالکل ۔۔ہم آپ دونوں سے کم تھوڑی ہیں۔"انہوں نے دونوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر شرارت سے کہا۔ 

"میں آ سکتا ہوں۔"داور نے اندر کا ماحول ٹھنڈا دیکھ کر دروازے سے سر نکال کر کہا۔ 

"آجائیں محترم۔"خان بابا نے اسے پاس بلایا۔وہ بھی تیزی سے آ کر آبی اور نور کے ساتھ بیٹھ گیا۔ 

"آپ بھی انکی پارٹی میں شامل ہیں؟"انکے پوچھنے پر داور نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔ 

"مجھے آپکے ساتھ ہی سچ کا پتہ چلا ہے خان بابا ۔۔۔ میں بھی اتنا ہی شاکڈ تھا جتنے آپ۔میں ان کے راز میں شامل نہیں ہوں۔"وہ عجلت سے بتانے لگا کہ کہیں اسے انکا ساتھی سمجھ کر اسکی کان کھینچائی نہ ہو۔ 

"اچھا ۔۔"خان بابا نے مسکرا کر اسے دیکھا۔پھر سامنے خاموش بیٹھی بیوی کو دیکھا۔

"آپ کی خواہش بھی پوری ہوگئی ہے۔"ان کی بات پر ام جان نے لمبی سانس کھینچی۔

اس ایک لڑکی نے ان سب کو آپس میں باندھ دیا تھا۔وہ تو انکے گھر میں بہار بن کر اتری تھی۔ 

"جی۔۔"وہ پر سکون انداز میں مسکرائیں۔انہوں نے اپنے دل کی بات خان بابا سے کی تھی کہ انہیں نازلی ، ہاشم کے لیے پسند ہے۔پہلے تو وہ سخت خفا ہوئے کہ انہوں نے ایسا کیوں سوچا۔وہ تو اب بھی چاہتے تھے کہ آبی اور ہاشم کی شادی ہوتی۔

پر ام جان کے سمجھانے پر وہ آبی اور ہاشم کی شادی کو ذہن سے نکال گئے تھے پر وہ اپنی معصوم دوست کو اپنے نالائق بیٹے کے لیے کبھی نہیں سوچ سکتے تھے۔پر تب انہیں کیا معلوم تھا کہ انکا بیٹا پہلے ہی انکی دوست کو اپنی دلہن بنا چکا ہے۔ 

خان بابا کو قسمت کے اس کھیل پر حیرت بھی ہورہی تھی اور ہنسی بھی آ رہی تھی۔وہ نور کی شادی میں نازلی کو ہاشم کی نظروں سے بچاتے رہے تھے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں نازلی کے لیے محبت دیکھ چکے تھے۔وہ اپنی دوست کو بچانے میں ہلکان ہوتے رہے اور انکا نالائق بیٹا معصوم بنا سب دیکھتا رہا۔اسے سیدھا تو انہوں نے کرنا تھا۔ایسے تھوڑی چھوڑ دینگے۔اسے ستا کر پھر ماننا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔۔

خان بابا اپنی سوچوں سے چونکے پھر نور اور آبی سے انکی داستان سننے لگے کہ سارا سچ کیا ہے اور ان دونوں کو ہاشم اور نازلی کی شادی کا کب معلوم ہوا۔

وہ سب ہاشم اور نازلی کی باتوں میں لگے تھے اور شہریار نا محسوس انداز میں اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ 

نور نے اسے جاتے دیکھا تو اسکا دل بیٹھنے لگا۔باقی سب ٹھیک ہوگئے تھے پر شہریار کا موڈ اسکے دل میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تابین بہت سا رو لینے کے بعد بیڈ پر لیٹی تھی۔تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور امتل آفندی اندر داخل ہوئیں۔ 

لیمپ کی مدھم روشنی کمرے میں پھیلی تھی۔وہ چل کر بیڈ تک آئیں۔انہیں دیکھ کر تابین اٹھ بیٹھی۔ 

"یہ کیا حالت بنائی ہے تم نے اپنی۔"وہ اسکے سامنے بیٹھ کر اسکی اجڑی حالت دیکھنے لگیں۔ 

"کچھ نہیں۔"اسنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر انہیں کچھ حد ٹک ٹھیک کیا۔وہ اپنا ظاہری حلیہ تو ٹھیک کر سکتی تھی پر اندر سے وہ جو ٹوٹ کر بکھر گئی تھی وہ سب کچھ شاید کبھی ٹھیک ہونے والا نہ تھا۔ 

"کچھ ہوا ہے؟"انہوں نے مشکوک نظروں سے بیٹی کو دیکھا۔

"کیا ہونا ہے ماما۔۔۔ آئم پرفیکٹلی آل رائٹ۔"اسنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر جواب دیا۔

سب تو ظاہر کو دیکھتے ہیں دل کے اندر جھانک کر کون دیکھ سکتا ہے کہ کسی کو معلوم ہو کوئی کتنا ٹوٹا ہوا ہے۔دنیا والے صرف ظاہری حال دیکھتے ہیں۔دل کا حال یا بندہ جانتا ہے یا پھر اسکا خدا۔

"اوکے۔۔"انہوں نے اسکا گال تھپکا۔پھر بولنے کے لیے لفظ تلاش کرنے لگیں۔ 

"آپ کو کچھ کہنا ہے؟"تابین نے انکی مشکل آسان کی۔

"ہوں۔۔"انہوں نے تابین کو دیکھا۔"لالہ نے آج پھر مجھ سے بات کی۔وہ ضد پر اڑے ہیں کہ انہیں جمال کے لیے تمہارا ہاتھ چاہیے۔میں انہیں صاف انکار نہ کر سکی بٹ یو ڈونٹ وری میں انہیں کسی طرح سمجھا لونگی۔"انہیں لگا تھا پچھلی بار کی طرف تابین پھر بھڑک جائے گی پر اسنے خاموشی سے انکی بات سنی۔دو دن پہلے جب انہوں نے بابا صاحب کی خواہش اسکے سامنے رکھی تو تابین کو غصہ آگیا تھا اور اسنے صاف انکار کر دیا تھا پر ابھی وہ بالکل خاموش تھی۔

"مجھے منظور ہے۔"اسنے ماں کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ 

"ہاں۔۔ کیا ۔۔"امتل آفندی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔

"آپ بابا صاحب کو ہاں کہہ دیں اور منگنی کی جگہ ڈائریکٹ شادی کی ڈیٹ لینی ہے جتنی مرضی جلدی ہو۔"وہ سنجیدگی سے بولی۔امتل آفندی حیران و پریشان تھیں۔ 

"اور ہاشم ؟"اسکی آواز مدھم تھی۔ 

"وہ میری قسمت میں نہیں ۔۔۔ بہت دیر سے یہ بات سمجھ آئی ہے۔"وہ اداسی سے مسکرائی۔ 

"پر۔۔۔"بیٹی کی اس حالت کو دیکھ کر انکا دل بیٹھنے لگا۔ 

"پر کچھ نہیں ماما ،میں بہت سراب کے پیچھے بھاگ چکی ہوں۔اب حقیقت کی طرف لوٹنا چاہتی ہوں۔کیا آپ اپنی بیٹی کو خوش نہیں دیکھنا چاہتی۔"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

کوئی اسکے  دل کا حال جانتا کہ وہ یہ قدم بھی اس ظالم شخص کی محبت میں اٹھا رہی تھی۔اسنے تابین سے اتنی سی خوشی مانگی تھی تو وہ کیوں نہ دیتی اسے یہ خوشی ۔۔۔اسکا وجود تو کل بھی فنا تھا اور آج بھی فنا ہے۔۔۔پھر خود کو اس شخص پر قربان کیوں نہ کر دیتی ۔اس ایک شخص کی محبت ہی تو اسکی زندگی تھی پھر اس شخص کی خوشی کے لیے وہ خود کو کیوں نہ وار دیتی۔

"کیوں نہیں میری جان ۔۔۔ میری بیٹی خوش رہے اس سے بڑھ کر مجھے اور کیا چاہیے۔"انہیں نے خوشی سے تابین کو گلے لگایا۔

ماں کے سینے سے لگ کر اسکی آنکھوں میں نمی پھیلی جسے اسنے پیچھے دھکیلا۔

"آپ بابا جان سے بات کر کے بابا صاحب کو جواب دے دیں۔"ان سے الگ ہو کر اسنے مسکرا کر کہا 

"اوکے مائی لولی ڈاٹر۔"وہ اسکا گال تھپک کر مسکرائیں۔پھر اسے ڈنر کے لیے آنے کا کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

تابین نے بھوک نہ ہونے کا کہہ کر انکار کر دیا۔

وہ چلی گئیں تو تابین بیڈ پر گرنے کے انداز میں چت لیٹ گئی۔نظریں چھت کو گھور رہی تھیں۔آنکھوں سے خاموش آنسو نکل کر بالوں میں جذب ہونے لگے۔ 

آج اسے لگ رہا تھا کہ صرف ہاشم نے ہی سچی محبت نہیں کی بلکہ اسکی محبت بھی سچی تھی۔ہاشم نے نازلی کی محبت میں اپنے دل کا سودا کیا ہے تو اسنے بھی ہاشم کی محبت میں اپنا آپ وار دیا ہے۔

آج دل پر قیامت گزر رہی تھی۔جسم ٹوٹ کر بکھر رہا تھا پر دل کے کسی کونے میں محبت کو نبھا لینے کا سکون بھی تھا۔آج خود غرض تابین کہیں دور جا سوئی تھی۔

وہ ہاشم کی محبت کو نہیں مٹا سکتی تھی پر اب وہ اسے پانے کی جستجو نہیں کرے گی۔اسکے پیچھے نہیں بھاگے گی۔اس کی محبت کو اب صرف اپنے دل کی چار دیواری میں محفوظ رکھے گی۔اسے دنیا کے سامنے نہیں آنے دے گی۔ 

اسنے جمال آغا کے رشتے کے لیے ہاں کہہ دی تھی۔ہاشم نہیں تو اسکے علاوہ کوئی بھی ہوتا اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔

وہ جمال آغا کے کرتوتوں سے واقف تھی پر اسے پرواہ نہ تھی۔اسے بس ہاشم کی بات کا مان رکھنا تھا۔اسے ہاشم کو اپنی محبت کے سچے ہونے کا یقین دلانا تھا کہ دیکھو صرف تم ہی سچی محبت نہیں کر سکتے ، میری محبت بھی سچائی لیے ہوئے ہے۔کہ دیکھو تمہارے ایک بار کہنے پر تمہاری خوشی کے لیے میں نے تم پر خود کو وار دیا۔ 

وہ خیالوں میں ہاشم سے مخاطب تھی۔وہ سوچتی جا رہی تھی اور آنکھوں سے شفاف پانی نکل کر اسکی نفرت ، اسکا جنون ، اسکی خود غرضی مٹاتا جا رہا تھا۔

"جس دن تیرے عشق میں جان جائے گی۔"

"سمجھ لینا۔۔۔"

"تیرا صدقہ دیا ہے ، تیری نظر اتاری ہے۔"

ہاشم دیر رات تک گاڑی سڑکوں پر دوڑاتا رہا۔کوٹ اسنے اتار کر ساتھ والی سیٹ پر پھینکا تھا۔آستینیں کہنیوں تک فولڈ تھیں۔بال منتشر تھے بالکل اسکی ذات کی طرح ۔۔۔۔ آج وہ اپنی محبت کا جوا کھیل کر آیا تھا۔نازلی کی خوشی کے لیے وہ اپنا آپ ہار آیا تھا۔

اب آگے کی زندگی کیسے گزرے گی وہ نہیں جانتا تھا۔وہ اندر سے مر رہا تھا ، ٹوٹ رہا تھا پر اسے افف کرنے کی اجازت نہ تھی۔

کیونکہ اسنے جو فیصلہ کیا تھا۔اسے اس پر قائم رہنا تھا۔کسی بھی حال میں۔۔۔۔ 

وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا جب اسکا موبائل رنگ کرنے لگا۔اسنے کال پک نہ کی۔اس وقت اسے کسی سے بات نہیں کرنی تھی۔

گاڑی کی اسپیڈ بہت تیز تھی۔اوپر سے تیز بارش کی وجہ سے گاڑی کے سلپ ہونے کا ڈر تھا۔پر ہاشم کو پرواہ نہ تھی۔ 

بادل زور سے گرجے اور انکی روشنی اسکی گاڑی پر پڑی۔اسکے دل میں بھی آج ایسا ہی حشر برپا تھا۔اسکی آنکھیں پتھر ہو رہی تھیں اور دل سے لہو ٹپک رہا تھا۔

بار بار اسکا موبائل رنگ کر رہا تھا۔آخر تنگ آ کر اسنے ساتھ والی سیٹ سے موبائل اٹھا کر دیکھا۔ 

اسکرین پر نظر ڈالی تو لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلی  جس میں کرب صاف نظر آرہا تھا۔ 

"میرے دل کو کیوں تڑپانا چاہتے ہیں۔میں پہلے سے بہت تکلیف میں ہوں۔جس لڑکی کی ایک کال کا میں نے ہر پل انتظار کیا ہے آج وہ مجھے کال کر رہی ہے اور میں ۔۔۔ میں اسکی کال پک نہیں کر سکتا۔میں فلحال اسکا سامنا نہیں کر سکتا۔میں اس کے سامنے وہی ہاشم رہنا چاہتا ہوں جو میں آج تک تھا۔میں اسکے سامنے بکھرنا نہیں چاہتا۔"وہ اداسی سے مسکرا کر اللہ سے باتیں کر رہا تھا۔

اسنے آہستہ سے موبائل واپس سیٹ پر رکھ دیا۔دل پھڑپھڑانے لگا تھا کہ وہ کال اٹھا لے۔پر وہ ایسی حالت میں نہ تھا کہ نازلی سے بات کر پاتا۔

جانے کتنے گھنٹے گزرے۔وہ دوڑتے مناظر کو دیکھتا اپنے دل کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا پر کوئی فرق نہ پڑا۔ 

اسنے گھڑی دیکھی رات کے گیارہ بج رہے تھے۔

اسنے آخر کار تھک کر گاڑی کا رخ گھر کی جانب موڑا۔اسے امید تھی کہ نازلی سو گئی ہوگی۔وہ صبح کی تھکی ہوئی تھی۔

وہ خان ولا کے سامنے آیا۔واچ مین نے گیٹ کھولا تو وہ کار پورچ میں لے آیا۔کتنی دیر کار میں ہی بیٹھا رہا۔

بارش اب بھی زور و شور سے برس رہی تھی۔ 

کافی دیر بعد لمبی سانس کھینچ کر وہ باہر نکلا پھر اندر جانے کے بجائے لان میں نکل آیا۔

بارش نے اسے تیزی سے بھیگو دیا تھا۔اسکے دل میں دھواں بھرا تھا۔وہ کس کو اپنے دل کا حال سناتا۔کون تھا جو اسکے دل پر گزرتی قیامت کا حال سنتا؟

نازلی نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے دیکھا۔پھر جلدی سے بھاگ کر باہر نکلی۔ہال کے دروازے کے باہر ایک طرف چھتری رکھی تھی۔جسے ایک گھنٹہ پہلے وہ رکھ کر اندر آئی تھی۔وہ شام سے ہاشم کا انتظار کر رہی تھی اور وہ ابھی آیا تھا اور آتے ہی لان کی سیر کرنے لگا تھا۔یہ کوئی اچھی بات تو نہ تھی۔اسنے منہ بنا کر سوچا پھر جلدی سے چھتری اپنے اوپر کی اور ہاشم کی طرف بھاگی۔اسکی پشت نازلی کی طرف تھی۔وہ بت بنا کھڑا تھا۔

اسے اپنے بازو پر نازک ہاتھ کی گرفت محسوس ہوئی۔اسنے سفید ہاتھ کو دیکھا پھر نظر ہاتھ سے ہوتی چہرے کی طرف گئیں۔ 

"چلیں اندر۔۔۔"اسنے ہاشم کا بازو کھینچا۔پاؤں اوپر کر کے چھتری ہاشم کے اوپر کی کہ وہ مزید نہ بھیگے۔

"اتنی سردی ہے اور آپ نے خود کو اتنا بھگو ڈالا ہے۔چلیں جلدی اندر ۔۔۔۔ دیکھیں میں بھی بھیگ رہی ہوں۔"اسنے اپنے دوپٹے کی طرف اشارہ کیا جو چھتری سے نکل کر سائیڈ سے بھیگ چکا تھا۔ہاشم خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر لمبی سانس کھینچ کر اسکے ساتھ قدم آگے بڑھائے۔

اسنے اب بھی ہاشم کا بازو تھام رکھا تھا۔

"آپکو اتنی رات کو بارش میں نہانے کا خیال کیوں آیا؟"وہ پوچھ رہی تھی پر وہ خاموش رہا۔

وہ لوگ اندر داخل ہوئے۔نازلی نے چھتری ایک طرف رکھی تب تک ہاشم لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

"ہاشم سنیں۔"وہ بھاگ کر اس تک آئی۔

"آپ کہاں تھے؟ اور آپکو ہوا کیا ہے؟"

اسکے سوالوں پر ہاشم نے رک کر اسے دیکھا۔نازلی کو سیاہ آنکھوں کی چمک مانند لگی۔آج ان میں وہ شوخی وہ خوشی نہ تھی۔

"کیا آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟"وہ ایک دم پریشان ہوئی۔ 

"میں ٹھیک ہوں بس ذرا سر درد ہے۔آرام کروں گا اب۔"وہ بھاری آواز میں کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔نازلی نے پلٹ کر اسے دیکھا پر اسنے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تھا۔

نازلی خاموشی سے بند دروازے کو دیکھتی رہی۔ایک بار پہلے بھی اسنے ہاشم کو اداس دیکھا تھا پر تب وہ اتنا اداس نہیں تھا یا شاید تب اسے اسکا اتنا خیال نہ تھا کہ وہ دل سے محسوس کر پاتی۔پر آج وہ اسکی اداسی محسوس کر رہی تھی۔اسکا بدلا ایک ایک انداز نوٹ کر رہی تھی۔

نازلی کو اس وقت وہ بہت اکیلا اور اداس لگ رہا تھا۔وہ وہیں کھڑی اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔پھر آہستہ سے چلتی دروازے کے سامنے رکی کہ دستک دے یا نہ دے۔ 

ہاشم کمرے میں آیا پھر دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا۔

دائیں گھٹنے پر کہنی ٹکا کر اسنے ہاتھ سے بالوں کو مٹھی میں جکڑا۔آنکھیں سختی سے بند کر رکھی تھی۔

دل میں دور دور تک جیسے صحرا بکھرا تھا۔ریت اڑ کر اسکی آنکھوں میں پڑ رہی تھی۔آنکھوں میں پانی بھر رہا تھا پر اسنے اس پانی کو پیچھے دھکیل دیا۔

وہ سوچوں میں گم تھا جب دروازے پر آہستہ سے دستک دی گئی۔ 

"ہاشم۔"نازلی نے پکارا تھا۔

اسنے آنکھوں کو زور سے انگلیوں کی پوروں سے دبایا۔

"آپ کھانا تو کھا لیں۔"پھر سے مدھم آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔یہ آواز اسکے دل کو سکون پہنچا رہی تھی پر وہ اس وقت نازلی کے سامنے نہیں آنا چاہتا تھا۔ 

"میں کھانا کھا چکا ہوں۔"اسنے بھاری آواز پر قابو پا کر جواب دیا۔ 

دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔

"دودھ کے ساتھ سر درد کی گولی لے آؤں؟"کافی دیر بعد آہستہ  آواز میں پوچھا گیا۔ 

"مجھے کچھ نہیں چاہیے نازلی ، مجھے آرام کرنا ہے۔"وہ سر ہاتھوں میں تھام کر بولا۔وہ چاہتا تھا نازلی یہاں سے چلی جائے۔

اسکے جواب پر پھر دوسری طرف سے کوئی بات نہ ہوئی۔اسنے سر دروازے سے ٹیک کر آنکھیں موند لیں۔ 

دروازے کے اس پار نازلی وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گئی۔ہاشم ایسا کیوں کر رہا تھا؟ اسکا دل مٹھی میں بھینچا گیا۔اسے اچانک کیا ہوا تھا کہ وہ اس سے بات ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ شام سے اسکی راہ دیکھ رہی تھی اور وہ آتے ہی کمرے میں بند ہوگیا تھا۔اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔

وہ ہاتھوں کو گھورنے لگی۔اسے ہاشم سے محبت ہوگئی تھی اور اب وہ بدل رہا تھا۔۔۔کیا وہ اس سے منہ موڑ رہا تھا؟

وہ کیسے برداشت کرے گی اسکی بے رخی ، اسکا ہاتھ تھام کر وہ اسے محبت کی راہوں پر لے کر آیا تھا اور اب اگر اسنے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا تو وہ کہیں کی نہیں رہے گی۔ 

وہ کیوں اسے ہر موڑ پر ایک نئی تکلیف دیتا تھا؟ پرانے زخم ابھی  پوری طرح بھرے تو نہ تھے۔اسکی محبت نے ان پر مرہم رکھا تھا تو کیا اب وہ پرانے زخموں کو ادھیڑ کر انہیں مزید گہرا کرنا چاہتا تھا؟

اسکی یہ بے رخی نازلی کی جان لینے کے در پہ تھی۔ 

آج پھر اسکی آنکھیں بھیگی تھیں اور اسکی وجہ وہ شخص تھا۔

ہاشم کافی دیر بعد اٹھا پھر لمبی سانس کھینچ کر دروازہ کھولا۔ 

انکا اندازہ ٹھیک تھا۔وہ سر جھکائے وہیں بیٹھی تھی۔اسنے منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو مضبوط کیا۔ 

"نازلی۔"اسکی بھاری آواز پر نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

نیلی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ہاشم کے دل پر جیسے کسی نے ہاتھ ڈالا تھا۔اسنے اپنا ہاتھ نازلی کی طرف بڑھایا۔وہ کچھ پل دیکھتی رہی پھر اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"سر درد میرا ہے رونا مجھے چاہیے اور رو تم رہی ہو۔"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

"آپ انجان خوب بن لیتے ہیں۔"وہ نم آنکھوں سے اسے گھورنے لگی۔ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"سر درد کی ٹیبلٹ ملے گی؟"اسنے بات بدلی۔

"جی ۔۔ میں لاتی ہوں اور آپ نے کپڑے چینج نہیں کیے۔سردی لگ گئی تو۔"اسکے لہجے میں پریشانی اتری۔ 

"تو اپنے کیے کی سزا سہہ لونگا۔"اسنے نازلی کو دیکھ کر زو معنی انداز میں کہا۔ 

"کیا مطلب؟"نازلی نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"مطلب یہ کہ بارش میں ، میں خود ہی بھیگا ہوں۔بیمار ہوگیا تو اپنی غلطی کی وجہ سے ہی ہونگا ناں۔"اسنے نازلی کے بال کان کے پیچھے کر کے نرمی سے کہا۔ 

"چلو تم جلدی سے ٹیبلٹ لے آؤ۔میں چینج کر لیتا ہوں۔"اسکے کہنے پر نازلی نے سر ہلایا پھر وہ کچن کی طرف بڑھی تو ہاشم کمرے میں آیا۔الماری سے سفید شلوار قمیض نکالی اور چینج کرنے کے لیے واش روم کی طرف بڑھا۔

وہ واپس آیا تو نازلی اسکے انتظار میں صوفے پر بیٹھی تھی۔ 

نظریں میز پر جمی تھیں جہاں دودھ کا گلاس اور ٹیبلٹز رکھی تھیں۔

ہاشم خاموشی سے جا کر بیڈ پر بیٹھا۔نازلی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔پھر اٹھ کر گلاس اور ٹیبلٹز لے کر اسکی طرف آئی۔ 

اسکی طرف گلاس بڑھایا۔ہاشم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر گلاس تھام لیا۔نازلی نے ٹیبلٹ نکال کر اسکی ہتھیلی پر رکھی۔ 

ہاشم ٹیبلٹ لے چکا تو گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا جسے نازلی وہاں سے اٹھا کر جانے کے لیے پلٹی جب ہاشم نے اسکا ہاتھ تھاما۔

"بیٹھو۔"اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر اسکے ہاتھ سے  گلاس لے کر واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ 

وہ خود کو کافی حد تک سنبھال چکا تھا۔جتنا وقت اسکا نازلی کے ساتھ رہتا تھا وہ اسے اچھے سے گزارنا چاہتا تھا۔

وہ نازلی کو اداس نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

پر اسنے یہ نہ سوچا کہ نازلی کیا چاہتی ہے؟اسنے پہلے بھی خود فیصلہ کیا تھا اور آج بھی اسنے نازلی سے بنا پوچھے خود ہی فیصلہ کر لیا تھا۔

نازلی اسکے سامنے بیٹھ گئی۔اسکی نظریں اپنے ہاتھوں پر جمی تھیں۔وہ ہاشم کے بدلے انداز کو سوچ رہی تھی۔دل میں ایک عجیب سی بے چینی چھائی تھی۔کسی انجانے سے خوف نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا اور وہ اپنے دل کا یہ خوف ہاشم کے  ساتھ شیئر نہیں کر سکتی تھی کہ وہ اسے کھونے سے ڈرنے لگی تھی کہ وہ اس سے دور نہیں جانا چاہتی پر اس میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ وہ یہ سب کہہ پاتی۔

ہاشم کتنے پل اسکے جھکے چہرے کو دیکھتا رہا۔اسکی معصوم صورت کو دیکھ کر اسکے جلتے دل کو سکون مل رہا تھا۔یہ چہرہ جو اسکے جینے کی وجہ تھا وہ جلد ہی اس سے چھین لیا جائے گا۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کانچ سی لڑکی کو اپنے ہی ہاتھوں کھو دینے والا تھا۔

"مجھ سے ناراضگی ہے؟"اسنے بھاری آواز میں پوچھا۔نازلی نے چونک کر سر اٹھایا۔

"نہیں۔"اسنے نفی میں سر ہلایا۔ 

"پھر آج اتنی خاموش کیوں ہو؟"ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"میں تو آج سے پہلے بھی کبھی اتنا نہیں بولی۔"نازلی نے مدھم آواز میں جواب دیا۔پھر نظریں پھیر کر سامنے دیکھنے لگی۔ 

وہ بھول رہا تھا کہ ہمیشہ وہ اس سے بات کرتا تھا۔ کبھی محبت بھری باتیں کرتا تو کبھی اسے پریشان کر کے اسے جواب دینے کے لیے اکساتا تھا۔

آج وہ خاموش تھا۔آج نہ اسنے کوئی محبت بھری بات کی تھی اور نہ اس سے کوئی مذاق کیا تھا پھر وہ کیسے بولتی ، کیا بات کرتی۔

وہ بولتا تھا تو وہ بولتی تھی اور آج اسکے خاموش ہونے سے  نازلی کے اندر بھی سناٹا چھا گیا تھا۔ 

"ہوں۔۔"اسکے جواب پر ہاشم نے بس اتنا کہا پھر خاموش ہوگیا۔ 

نازلی نے اسے دیکھا۔جو اب زمین کو گھور رہا تھا۔اسکا یہ انداز دیکھ کر نازلی کو رونا آنے لگا۔وہ کیوں خاموش تھا؟وہ کیوں اس سے بات نہیں کر رہا تھا؟ وہ کیا سوچ رہا تھا؟وہ اسے کیوں کچھ نہیں بتا رہا تھا؟نازلی کو بہت سے سوال تنگ کر رہے تھے پر وہ پوچھ نہ پائی۔ 

اسکی آنکھوں میں نمی پھیلنے لگی تو وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آپ آرام کریں۔شب بخیر۔"لہجے کو مضبوط کر کے کہتی وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی۔ 

ہاشم نے خاموش نظروں سے اسے جاتے دیکھا۔وہ اسے روک نہیں نہیں پایا ۔۔۔ بس جانے دیا کیونکہ اب وہ اسے روک نہیں سکتا تھا۔

جلد ہی اس لڑکی کو ہمیشہ کے لیے چلے جانا تھا۔تب وہ اسے روک نہیں پائے گا تو کیوں نہ آج سے ہی وہ اپنے اندر یہ عادت ڈال لیتااسے نہ روکنے کی۔۔۔۔۔۔۔

وہ چلی گئی تو اسنے ہاتھوں میں سر تھام لیا۔ دل کی دنیا طوفانوں کی زد میں تھی۔عجیب عالم تھا کہ اسے ہر طرف دھند نظر آ رہی تھی۔کوئی بھی منظر صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس طرف وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسا تھا اور ساتھ والے کمرے میں نازلی بیڈ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔وہ بہت الجھی ہوئی تھی۔وہ جو اسکی الجھنیں سلجھانے والا تھا آج خود الجھا ہوا تھا۔پھر اسے کون سمجھتا۔کون پیار سے اسکی الجھنیں دور کرتا؟وہ اکیلی ہوگئی تھی۔ 

وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف آئی۔پردے پیچھے کیے پھر اس پار برستی بارش پر نظریں جما کر کھڑی ہوگئی۔اسنے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر شیشے پر رکھا۔بارش کے ساتھ اسکی آنکھیں بھی برسنے لگی تھیں۔آنکھوں میں ٹھہرے آنسو ایک دم گالوں پر بہنے لگے تھے۔وہ اپنی حالت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

"ہوسکتا ہے کہ ہاشم کو بزنس کا کوئی مسئلہ ہو"اسنے پازیٹو سوچنا چاہا پر جانے کیوں دل میں ایک ہی بات اٹکی تھی کہ کہیں وہ ہاشم کو کھو نہ دے۔

کل کی بات اور تھی جب ہاشم اسکے لیے کچھ نہیں تھا پر آج۔۔۔ آج اسکے لیے ہاشم خان ضروری ہوگیا تھا۔

اسکی سانسوں کے چلتے رہنے کے لیے ہاشم خان کا اسکے ساتھ ہونا بہت ضروری تھا۔یہ بات وہ ہاشم کو بتانا چاہتی تھی۔پر کیسے بتاتی؟اس میں اتنی ہمت کہاں تھی بھلا۔۔۔۔۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"میں خاک ہوں تیری راہ کی۔"

"میری تشنگی تیرا عشق ہے۔"

"مجھے گوندھ کر اسی عشق میں۔"

"تو سنوار دے میرے کوزہ گر۔"

دیر رات تک وہ سب خان بابا کے ساتھ بیٹھے رہے۔بارہ بجے کے قریب سب اپنے کمروں کی طرف بڑھے۔

نور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی۔دل میں ڈر تھا کہ جانے شہریار کا موڈ کیسا ہو گا؟ 

وہ آہستہ آہستہ چلتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔

دروازے کے سامنے آ کر اسنے لمبی سانس کھینچی پھر آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔کمرے میں لیمپ کی مدھم روشنی پھیلی تھی۔ 

شہریار بالکنی کی طرف کھلتے سلائڈنگ ڈور میں کھڑا باہر برستی بارش کو دیکھ رہا تھا۔

نور نے پلٹ کر دروازہ بند کیا پھر آہستہ سے آگے بڑھی۔اسکے آنے کی آہٹ پر بھی شہریار کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔وہ ویسے ہی بت بنا کھڑا رہا۔ 

ماہ نور نے اسکی پشت کو دیکھا۔پچھلے کچھ دنوں سے شہریار کا رویہ اسکے ساتھ بہت اچھا تھا۔پر آج پھر سے اسے پرانے روپ میں دیکھ کر اسکا دل دھڑک اٹھا تھا۔ 

کمرے میں مکمل سکوت تھا۔پر باہر سے آتی بارش کی بوندوں کی چم چم کرتی آواز اس سکوت کو کسی حد تک توڑ رہی تھی۔ 

ماہ نور قدم اٹھاتی شہریار کی طرف بڑھی۔ 

"شہریار۔"اسکے پیچھے رک کر اسنے آہستہ سے پکارا۔پر دوسری طرف کوئی اثر نہ ہوا۔ 

"شہریار۔"اسنے اب آگے ہو کر شہریار کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ 

اسکے ہاتھ لگانے پر شہریار جھٹکے سے اسکی طرف پلٹا۔اسکے انداز پر ماہ نور جلدی سے دو قدم پیچھے ہوئی۔

"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟"وہ کاٹ کھانے کو دوڑا۔

"میں بس ویسے ہی ۔۔۔ دیکھ رہی تھی کہ آپ ٹھیک ہیں۔"اسے جلدی سے صفائی پیش کی۔اتنے دنوں بعد شہریار کا یہ روپ دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔ 

"کھڑے کھڑے مر نہیں گیا تھا میں ، ٹھیک ہی ہوں۔"اسنے جھنجھلا کر سرد لہجے میں کہا۔ 

ماہ نور نے افسوس سے اسے دیکھا کہ وہ کیسی باتیں کر رہا تھا۔ 

"آپکو اچانک ہوا کیا ہے؟"اسنے دکھ سے پوچھا۔ 

"مجھے کچھ نہیں ہوا۔میں جیسا پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہوں۔"وہ سپاٹ انداز میں بولا۔ 

"آپ کو کوئی بات بری لگی ہے؟"ماہ نور نے اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"نہ بی بی مجھے کیوں کچھ برا لگنے لگا۔آپ خوش ہیں۔باقی سب خوش ہیں تو میرے اچھا برا لگنے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔"اسکا انداز طنزیہ تھا۔ 

"فرق پڑتا ہے شہریار اسلیے تو پوچھ رہی ہوں آپ سے۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔

"بہت شکریہ تمہارے پوچھنے کا ، اب میری جان چھوڑ دو۔"شہریار ہاتھ جوڑ کر بولا۔ماہ نور کو اسکا یہ انداز ذرا نہ بھایا۔اسکی پیشانی پر بل پڑے۔ 

"آپکا مسئلہ کیا ہے شہریار ؟ اب جب کہ سب کچھ ٹھیک ہورہا ہے تو آپ اس طرح بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟"اسنے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

"میں تمہارے سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔معاف کرو مجھے۔"وہ سخت لہجے میں کہتا دوسری طرف سے ہو کر نکلنے لگا جب ماہ نور نے اسکے سامنے آ کر اسکا راستہ روکا۔ 

"آج آپ مجھے بتا ہی دیں شہریار خان کہ آپکے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ہر بات پر ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں آپ ناراض نہ ہو جائیں۔ کہیں آپکو کوئی بات بری نہ لگ جائے۔ آپ بتائیں کہ آخر آپ چاھتے کیا ہیں؟"اسنے تنگ آ کر شہریار کو گھور کر پوچھا۔ 

"میں چاہتا ہوں کہ تم اس وقت میری نظروں کے سامنے سے ہٹ جاؤ۔"اسنے چبا کر جواب دیا۔ 

"میں جواب لیے بغیر یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی۔سمجھے آپ۔"نور نے تپ کر کہا۔ 

 میری بلا سے ساری زندگی یہی جمی کھڑی رہو پر میرا دماغ مت کھاؤ۔"وہ دانت پیس کر کہتا وہاں سے جانے لگا۔ماہ نور نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔ 

"دماغ تو میں آپکا ضرور کھاؤں گی۔آپکو میری باتیں سننی ہونگی اور انکا جواب بھی دینا ہوگا۔"اسنے ضدی لہجہ اپنایا۔اسکی بات پر شہریار خاموشی سے اسے گھورتا رہا۔ 

"وجہ بتائیں مجھے؟"اسنے شہریار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔پھر اپنا ہاتھ پیچھے کیا۔ 

"تم نے مجھے دھوکے میں رکھا۔"شہریار نے سرد انداز میں کہا۔اشارہ ہاشم کی شادی والی بات کی طرف تھا۔ 

ماہ نور نے لمبی سانس کھینچی۔ 

"وہ سبکے سامنے بات ہوئی ہے شہریار ، میں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔میں نے بس اپنے لالہ کا ساتھ دیا ہے۔"اسنے مدھم آواز میں جواب دیا۔ 

"میری بیوی ہونے کے ناطے یہ تمہارا فرض تھا کہ تم مجھے یہ بات بتاتی۔"اسنے سینے پر بازو باندھ کر سنجیدگی سے کہا۔ 

"یہ بات ہماری شادی سے پہلے مجھے معلوم ہوئی تھی شہریار اور تب میں نے لالہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی۔پھر میں کیسے آپکو بتا دیتی۔کیسے اپنے لالہ کی بات کا مان توڑتی۔"اسنے تحمل سے کہا۔اسکی بات پر شہریار کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں۔ 

"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔تم پھر اپنے لالہ کی بہن بن کر ہی رہو۔"اسنے سرد لہجہ اپنایا۔نور حیران ہوئی۔

"آپ اپنا اور لالہ کا مقابلہ کیوں کر رہے ہیں شہریار۔"اسنے سنجیدگی سے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا۔ 

"مجھے مزید تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ہٹو میرے راستے سے۔"اسنے ماہ نور کو کندھوں سے تھام کر پیچھے کرنا چاہا پر وہ اپنی جگہ پر جم کر کھڑی رہی۔ 

"پر مجھے آپ سے بات کرنی ہے ، اسلیے آپ کو میری بات سننی پڑے گی۔"اسنے مضبوط لہجے میں کہا۔ 

شہریار نے اسکے کندھوں کو ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔ 

"میرے صبر کو مت آزماؤ ماہ نور۔"اسنے چبا کر کہتے ماہ نور کو گھورا۔اسکی بات کو اگنور کر کے وہ اپنی بولی۔

"آپکو ہمیشہ میرے لالہ سے مسئلہ کیوں رہتا ہے؟بات اگر رشتے سے انکار کی ہے تو آپکی بہن نے بھی انکار کیا تھا۔پھر سزا صرف میرے لالہ کو ہی کیوں مل رہی ہے؟صرف انکے ساتھ ہی آپکا رویہ ایسا کیوں ہے؟"وہ دانت پیس کر سوال پر سوال کر رہی تھی۔ 

"اس بات کو بیچ میں مت لاؤ ماہ۔"وہ مدھم آواز میں غرایا۔انداز وارن کرنے والا تھا پر ماہ نور کو غصہ آگیا تھا اسلیے وہ بولتی چلی گئی۔ 

"کیوں نہ لاؤں شہریار ؟ جب سارا مسئلہ ہی یہیں سے شروع ہوا ہے تو پھر میں کیوں نہ لاؤں اس بات کو بیچ میں۔۔۔۔"وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔ 

وہ اس سب سے تنگ آ چکی تھی۔آخر کب تک یہ سب چلتا۔وہ ختم کرنا چاہتی تھی اس قصے کو۔اپنی اس الجھن کو۔۔۔۔۔

شہریار کچھ نہ بولا بس سرخ چہرے کے ساتھ ضبط سے اسے دیکھتا رہا۔ 

"جواب دیں شہریار ، اب آپ کو یہ مسئلہ ہوگیا ہوگا کہ لالہ نے شادی کیوں کر لی؟انہیں تو آپکی بہن سے شادی ۔۔۔۔۔"

"بس ۔۔۔۔۔"شہریار دھاڑا تھا۔ساتھ ہی اسکا دایاں ہاتھ اوپر اٹھا تھا۔ماہ نور کی زبان کو بریک لگی۔اسکی آنکھیں پھٹ گئیں۔ 

شہریار کا ہاتھ ہوا میں تھا اور ماہ نور کی نظریں ، شہریار کی آنکھوں پر جمی تھیں۔ 

شہریار نے اسکی آنکھوں میں نمی پھیلتی دیکھی تو زور سے مٹھی بھینچ کر اپنا ہاتھ نیچے کیا۔ 

"ایسی باتیں منہ سے مت نکالو ماہ کہ اپنے بھائی کی طرح بعد میں تمہیں بھی پچھتاوا ہو۔"وہ ضبط سے بھاری آواز میں بولا۔ 

ماہ نور خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔اسنے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔تھپڑ بھلے ہی نہیں مارا تھا پر اسکا ہاتھ اٹھانا ہی ماہ نور کی جان لے گیا تھا۔

اسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر اسکے گالوں کو بھگونے لگے۔وہ بنا پلکیں جھپکے شہریار کو دیکھ رہی تھی۔ 

"تم جاننا چاہتی ہوں ناں کہ تمہارے بھائی نے کیا کیا۔کیوں مجھے اس سے مسئلہ ہے۔"وہ کچھ پل رکا۔"میں نے کسی کو کچھ نہ بتانے کا طے کیا تھا پر اب اگر تم جاننا چاہتی ہو تو سنو۔۔۔۔۔"وہ اسے دیکھتا آہستہ آہستہ ساری بات بتا رہا تھا۔ماہ نور کی آنکھوں سے اور تیزی سے آنسو بہنے لگے۔شہریار بات ختم کر کے کچھ پل خاموش ہوا۔ 

ماہ نور کے پاس الفاظ نہ تھے کہ وہ اسے کیا کہتی؟

"میں اسے معاف کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔مگر ہمیشہ اسے دیکھ کر ، اسکے ذکر پر مجھے اسکے کہے جملے یاد آتے ہیں اور میں خود پر سے کنٹرول کھو دیتا ہوں۔یہ سب میرے بس میں نہیں ہے۔"وہ کہہ کر پیشانی مسلنے لگا۔

ماہ نور نے اسکی پریشان صورت دیکھ کر آہستہ سے اپنے ٹھنڈے ہاتھ بڑھا کر اسکا بایاں ہاتھ تھاما۔ 

شہریار نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"آئم سوری ۔۔۔۔جو کچھ میں نے کہا اس کے لیے ، آئم سوری میرے لالہ کی طرف سے ، آئم سوری ہر اس بات کے لیے جسکی وجہ سے آپکا دل دکھا ، آپکو تکلیف پہنچی۔"وہ اسکا ہاتھ تھامے نم آواز میں آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔ 

شہریار نے لب بھینچ کر اسکی نم آنکھوں میں دیکھا۔ 

"ہو سکے تو ہاشم لالہ کو معاف کر دیجیے گا۔"اسنے مدھم آواز میں کہہ کر سر جھکایا۔کچھ پل خاموش رہی پھر نظر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"اور بے فکر رہیں۔اب کبھی ماہ نور آپکا دماغ نہیں کھائے گی۔"وہ اداسی سے مسکرائی پھر اسکا ہاتھ چھوڑ کر پلٹی اور تیزی سے کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی۔ 

شہریار بت بنا وہیں کھڑا رہا۔وہ اس لڑکی کو روک نہ سکا۔ 

ماہ نور وہاں سے نیچے آبی کے کمرے میں آئی۔وہ سو رہی تھی۔ 

وہ ایک طرف صوفے کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔سر گھٹنوں میں چھپا کر خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔ 

وہ مانتی تھی کہ ہاشم کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔اسنے جو بھی کیا تھا وہ غلط تھا پر کیا جو کچھ شہریار نے کیا تھا۔ کیا وہ ٹھیک تھا؟

کیا اسے ہاشم کی غلطی کی سزا ماہ نور کو دینی چاہیے تھی؟ 

ماہ نور کو اپنی بات پر بھی افسوس ہوا تھا کہ اسنے آبی کے لیے اتنے تلخ الفاظ کیسے استعمال کیے تھے۔وہ تو اسکی بہن ، اسکی دوست تھی۔پھر جانے کیوں وہ غصے میں سب کہہ گئی تھی۔ 

اسنے نم آنکھیں اٹھا کر بیڈ پر سوئی آبی کو دیکھا۔ 

"آئم سوری آبی۔"اسنے آہستہ سے کہا۔آنکھوں سے پانی اب بھی بہہ رہا تھا۔

گلے میں پہنے لاکٹ کو چھو کر وہ اور شدت سے رونے لگی۔ 

دوسری طرف شہریار پھر سے وہاں کھڑا برستی بارش کو دیکھنے لگا۔ماہ نور کی نم آنکھوں کا منظر بار بار اسکے سامنے آ کر اسکے دل کو بے چین کر رہا تھا۔ 

وہ جا کر ماہ نور کو دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کہاں ہے پر پھر دل کو قابو کر کے اسنے خود کو روک دیا۔ان دونوں کو کچھ وقت چاہیے تھا اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے۔۔۔۔اسلیے انکا دور رہنا ہی بہتر تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

اگلے دن صبح ہی نازلی کو ایک فون کال آئی تھی۔ہاشم آفس کے لیے نکلا تو وہ بھی جلدی سے تیار ہو کر گھر سے نکلی۔

جمال آغا کی اس حرکت کے بعد ہاشم نے اسے اکیلے کہیں بھی جانے سے منع کیا تھا اسلیے وہ ڈرائیور کے ساتھ جانے کے بجائے چپ کر خان ولا سے نکلی تھی۔اسے ڈر تھا کہ ڈرائیور کے ساتھ گئی تو وہ ہاشم تک خبر پہنچا دے گا اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ 

مین روڈ پر آ کر وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھی اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگی۔ 

اسے معلوم تھا کہ ہاشم کو اگر اسکے اکیلے باہر آنے کا پتہ چلا   تو وہ ناراض ہوگا پر نازلی کو فون پر جو کہاں گیا تھا اسکی وجہ سے وہ گھر سے نکلنے پر مجبور تھی۔اسکا دل بے حد بے چین تھا۔وہ جلد سے جلد وہاں پہنچنا چاہتی تھی۔ 

ٹیکسی آگے بڑھ رہی تھی۔وہ کھڑکی سے باہر دوڑتے مناظر دیکھ رہی تھی۔ 

دل میں ڈر تھا۔ پر صبح کی گئیں ہاشم کی باتوں کی وجہ سے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔

وہ صبح اٹھی تو بہت اداس تھی۔رات کو جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اب بھی اسکے ذہن میں چل رہا تھا۔ 

وہ بنا ناشتہ کیے اپنے کمرے میں بیٹھی رہی تھی۔اسنے اپنے کمرے کی کھڑکی سے لان میں سیر کرتے ہاشم کو دیکھا۔ 

وہ خاموشی سے اس پر نظریں جمائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

جب ہاشم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔دونوں کے بیچ کافی فاصلہ تھا پر وہ سیاہ آنکھیں جیسے اسکی روح میں جھانک رہی تھیں۔نازلی اسکے دیکھنے پر جھٹ سے پیچھے ہوئی پھر پردے کھینچ لیے۔

دل دھک دھک کر رہا تھا۔جانے اب زندگی اسے کس موڑ پر لے کر جانے والی تھی۔ 

وہ خاموش سی آ کر بیڈ پر بیٹھی۔نظریں زمین کو گھور رہی تھیں۔کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔

"آجاؤ۔"ہنوز زمین کو گھورتے اسنے اجازت دی۔اسکی پشت دروازے کی طرف تھی۔دروازہ کھلنے کی آواز آئی پر کافی دیر بعد بھی جب کوئی اندر نہ آیا تو اسنے گردن پھیر کر پیچھے دیکھا۔دروازے کی دہلیز پر ہاشم کھڑا تھا۔سیاہ آنکھیں اس پر جمی تھیں۔ 

نازلی اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔آج سے پہلے کمرے میں یا تو وہ بنا دستک دیے آجاتا تھا یا پھر دستک دے کر جواب سنے بغیر اندر آ جاتا۔اسکی اس بات سے نازلی کو چڑ تھی پر آج جب اسنے دروازے پہ دستک دی ، اجازت ملنے کا انتظار بھی کیا اور ہمیشہ کی طرح کمرے میں داخل بھی نہیں ہوا۔سب کچھ اسکی مرضی کے مطابق تھا تو پھر آج اسے کیوں ہاشم کے اس عمل پر خوشی کی جگہ دکھ ہورہا تھا؟

وہ بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔

"یہاں آؤ۔"ہاشم نے دایاں ہاتھ اسکی بڑھایا۔نازلی خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر بولی۔ 

"میں کیوں وہاں آؤں؟ آپ کیا خود چل کر یہاں نہیں آ سکتے؟"آواز میں ناراضگی تھی۔

ہاشم نے اپنا ہاتھ نیچے کیا۔"تم چاہتی ہو میں چل کر تم تک آؤں؟"ابرو اٹھا کر پوچھا گیا۔ 

"میں کون ہوتی ہوں کچھ چاہنے والی ، جیسا آپ چاہیں وہی  کریں۔"وہ طنزیہ مسکرا کر بولی۔ 

اسکی بات پر ہاشم نے لمبی سانس کھینچی پھر قدم آگے کی طرف بڑھائے۔

جیسے جیسے اسکے قدم نازلی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ویسے ویسے نازلی کی آنکھوں میں چمک پھیلتی جا رہی تھی۔ 

وہ اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔

"مسز کا موڈ کافی خراب لگتا ہے؟"ہاشم نے مدھم سا مسکرا کر کہا۔ 

"نہیں تو۔"نازلی نے سر جھٹکا۔لہجے سے صاف خفگی چھلک رہی تھی۔ 

"میں تم سے زیادہ تمہیں جانتا ہوں۔"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔

"تو دل کی بات کیوں نہیں جان رہے آپ؟ اسے بھی جان لیں ناں۔"نازلی نے دل میں کہا۔اونچی آواز میں کہنے کی ہمت نہ تھی۔ 

"اچھی بات ہے۔"وہ سوچوں کو جھٹک کر سنجیدگی سے بولی۔

"سوری۔"ہاشم کی آواز میں بلا کی نرمی تھی۔اسنے بایاں ہاتھ آگے کیا جس میں اسنے گلاب کا پھول تھام رکھا تھا۔آتے ہوئے وہ لان سے توڑ کر لایا تھا۔ 

اسنے پھول نازلی کی طرف بڑھایا۔نیلی آنکھوں میں حیرت پھیلی۔وہ سامنے کھڑے اس وجیہہ شخص کو تکتی رہی۔

اسکے مبہوت انداز پر ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔

"لے لو یار ، تمہارے لیے ہی لایا ہوں۔"بھاری آواز میں محبت ہی محبت تھی۔

نازلی نے پلکیں جھپک کر نظریں جھکائیں پھر اسکے ہاتھ میں تھامے سرخ گلاب کو دیکھا۔نازلی کے شاداب چہرے پر پھیلی خوشی دیکھنے لائق تھی۔اسنے ہاتھ بڑھا کر پھول لیا۔پھر دوسرے ہاتھ سے گلاب کی سرخ پنکھڑی کو نرمی سے چھوا۔

"معافی ملے گی اب؟"ہاشم کی آواز پر اسنے چونک کر نظریں اٹھائیں۔

"اگر سزا دوں تو؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"تمہاری دی سزا بھی سر آنکھوں پر۔دیوانہ حاضر ہے مادام۔"اسنے محبت سے پر لہجے میں کہہ کر سینے پر ہاتھ رکھ کر سر جھکایا۔

وہ اسے کیا بتاتا کہ سزا تو اسے پہلے ہی مل چکی تھی۔بس اب موت کا دن آنے کا انتظار تھا۔ جب اسے پھانسی کے تختے پر لٹکایا جائے گا۔پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ہاشم خان کا دل ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔وہ فنا ہو جائے گا۔

اسکی بات پر نازلی بالکل خاموش ہوگئی۔اب کوئی اتنے پیارے جواب پر سزا کیسے دے سکتا تھا۔دے سکتا تھا کیا ؟ نہیں ناں ؟ ایسے دیوانے پر تو بس جان ہی واری جا سکتی تھی۔ 

"معاف کیا۔"اسنے مدھم سا مسکرا کر ہاشم کو دیکھا۔

"دل سے ؟"ہاشم نے اسکی جگمگاتی آنکھوں میں دیکھا۔

"دل سے۔"اسنے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔جیسے یقین دلایا ہو کہ ہاں واقعی دل سے ۔۔۔۔ افف اس وقت نیلی آنکھوں کا ایسا منظر تھا جیسے سیاہ رات میں نیلی جھیل کے پانی میں روشن چاند کا عکس نظر آتا ہے۔ 

ہاشم ان جادوئی آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔سیاہ آنکھوں میں بھی جیسے نیلی آنکھوں کا سایہ نظر آ رہا تھا۔ 

"تیری آنکھیں ، کالا جادو۔"

"جس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔"

ہاشم نے ان آنکھوں کو تکتے گھمبیر آواز میں کہا۔

نازلی چونک کر جیسے ہوش میں آئی تھی۔اسکے دیکھنے سے وہ جادو کے حصار میں جکڑی گئی تھی اور اسکی بھاری آواز نے اسے اس سحر سے نکالا تھا۔ 

"ن۔۔۔۔ ناشتہ کریں اب؟"اسنے ہڑبڑتے ہوئے پلکیں جھکا کر جلدی سے پوچھا۔پھر نروس انداز میں بال کان کے پیچھے کیے تھے۔اب بھلا وہ اس شعر کے جواب میں کیا کہتی۔زبان کی جگہ اسکا جواب اسکی بے قابو ہوتی دھڑکنیں دے رہی تھیں۔

 اسکے انداز پر ہاشم کے لبوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ بکھری تھی۔سامنے کھڑی یہ لڑکی اسکی جان تھی۔اسنے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی اسے اتنا پیارا ہو جائے گا کہ وہ اس کے لیے کوئی حد پار کرنے سے گریز نہیں کریگا۔وہ اسکی ایک مسکراہٹ کے لیے اپنے دل کو روندھ ڈالے گا۔اسے خوشی دینے کے لیے اپنی محبت کا جوا تک کھیل جائے گا۔

اسنے ایسا کچھ نہیں سوچا تھا پر یہ سب ہوگیا تھا۔اسے پانے کے لیے وہ دنیا سے لڑا تھا اور آج اسکی خاطر اسے کھونے کے لیے بھی تیار تھا۔ہائے یہ محبت بھی کیا مرض ہے کہ جسے لگ جائے پھر اسے مارے بغیر جان نہیں چھوڑتی۔ 

"جی مسز آپ ناشتہ لگوائیں میں تب تک تیار ہو کر آتا ہوں۔"اسنے مسکرا کر نازلی کا گال تھپکا پھر پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔

"افف ہاشم ۔۔۔۔ آپکی محبت۔"نازلی نے مسکرا کر خود کلامی کی پھر ہاتھ میں پکڑے گلاب کو دیکھا۔اسے اوپر کر کے اسکی مہک سانسوں میں اتاری۔پھر ایک دم ہنسنے لگی۔

"افف میں پاگل ہوگئی ہوں۔"اسنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنی چاہی پر نہ جی ۔۔۔ چہرے سے مسکراہٹ جدا ہی نہیں ہورہی تھی۔ 

"تم تو گئی کام سے نازلی ہاشم خان۔"مسکرا کر بڑبڑاتے اسنے گلاب کو چوم لیا۔

پھر احساس ہونے پر کھل کر ہنسی۔وہ واقعی پاگل ہوگئی تھی۔ہاشم کی محبت میں پاگل نازلی۔۔۔۔۔۔

"ناشتہ ۔۔۔"اسنے سر پر ہاتھ مارا پھر گلاب کو بیڈ پر رکھ کر جلدی سے کمرے سے باہر بھاگی۔لبوں پر ہنسی ، آنکھوں میں ہزار جگنوؤں کی چمک ، وہ اس روپ میں بے پناہ حسین لگ رہی تھی۔

اسنے گل جان کے ساتھ مل کر ناشتہ لگایا۔ویسے تو چھوٹی پٹھانی اسکی مدد کرتی تھی پر پیپرز ختم ہونے کے بعد وہ کچھ دنوں کے لیے گاؤں اپنی خالہ کے گھر رہنے گئی تھی۔

کچھ دیر بعد ہاشم ڈائننگ روم میں آیا۔دونوں نے ناشتہ کیا پھر ہاشم آفس کے لیے نکلنے لگا۔ 

وہ ہال سے نکلا تو نازلی بھاگ کر اسکے پیچھے گئی۔ 

"سنیں۔"اسنے ہال کے دروازے میں رک کر کہا۔ 

ہاشم کے قدم تھم گئے۔لبوں پر مسکراہٹ لیے وہ اسکی طرف پلٹا۔

"جی سنائیں۔"اسنے محبت سے کہا۔آج کافی وقت بعد نازلی کے منہ سے اسنے یہ لفظ سنا تھا جو کہ اسے بہت اچھا لگا تھا۔ 

"آپ لنچ گھر میں کریں گے؟"اسنے ایک دم پوچھا۔ہاشم کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ویسے وہ کم ہی گھر میں لنچ کیا کرتا تھا۔زیادہ آفس میں ہی کرتا تھا۔پر آج سے پہلے نازلی نے اس سے کبھی نہیں پوچھا تھا۔ 

اسنے نازلی کو دیکھا جو اسکے جواب کی منتظر تھی۔ 

"ہاں۔"اسنے ایک دم کہہ دیا۔نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"میں انتظار کرونگی۔"اسنے ہاشم کو دیکھ کر کہا۔ہاشم سر ہلا کر پلٹا۔پلٹتے ہی اسکا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہوا تھا۔اسنے آنکھوں پر گلاسز لگائے پھر کار کی طرف بڑھا۔

نازلی وہیں کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی۔آج اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ ہاشم کے ساتھ لنچ کرے۔وہ آج ہاشم کو دنیا جہاں کی خوشیاں دینا چاہتی تھی اپنی محبت کے اظہار کی صورت میں۔جانے کیوں آج اسکا دل کر رہا تھا کہ اس شخص پر سب قربان کر دے۔وہ اسے خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ 

ہاشم چلا گیا تو وہ خوبصورت خیالات میں گم ، لبوں پر مسکراہٹ سجائے اندر آئی تھی۔ 

ابھی وہ ہال میں آئی ہی تھی کہ لینڈ لائن فون رنگ کرنے لگا۔اسنے کال اٹھائی اور جس کی آواز اسے سننے کو ملی وہ حیران رہ گئی۔پھر اسے ملنے کا کہا گیا تو اسکا دل ڈر سے کانپ گیا۔پر ملنا بھی ضروری تھا۔اسلیے کچھ دیر بعد وہ بنا کسی سے کچھ کہے گھر سے نکلی تھی۔اسنے واچ مین کو اندر بھیجا کہ اسے امجد بابا بلا رہے ہیں۔وہ اندر گیا تو نازلی جلدی سے گیٹ سے باہر نکلی تھی۔دل میں ڈر تھا پر خود کو مضبوط کر کے وہ گھر سے نکل گئی تھی۔

ٹیکسی رکی تو وہ سوچوں سے نکلی۔اسنے باہر نکل کر سامنے کیفے کا نام دیکھا۔ 

"بھائی یہ نہیں دوسرا کیفے ہے۔"اسنے ارد گرد نظر دوڑا کر کہا۔

"آپ بیٹھیں میں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔"ٹیکسی ڈرائیور نے جواب دیا۔

"کوئی بات نہیں ، زیادہ دور نہیں ہے۔میں چلی جاؤنگی۔"نازلی نے روڈ کی دوسری طرف دیکھا جہاں وہ کیفے تھا۔اسنے ٹیکسی والے کو کرایا دیا پھر پرس تھام کر آگے بڑھنے لگی۔

تبھی اسکا موبائل رنگ ہوا۔اسنے چلتے ہوئے پرس سے موبائل نکالا۔اسکرین پر دیکھا تو آنی کی کال تھی۔اس سے پہلے کہ وہ کال پک کرتی ، سامنے سے آتی تیز رفتار کار کے ٹائر اسکے بالکل قریب چڑچڑائے تھے۔وہ ہڑبڑا کر جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔ہاتھ میں تھاما موبائل اور پرس زمین بوس ہوئے۔

اس گاڑی والے نے عین وقت پر بریک لگائی تھی ورنہ نازلی کا بچنا مشکل تھا۔وہ ضرور کار سے ٹکڑا جاتی۔

اس منظر کو دیکھتے آس پاس کھڑے لوگ اسکے ارد گرد جمع ہوئے تھے۔ایک دم سے اس افراتفری پر وہ گھبرا سی گئی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تابین گاڑی سے ٹیک  لگائے کھڑی موبائل پر بات کر رہی تھی۔دوسری طرف جمال آغا تھا جو شادی کی پلاننگ کر رہا تھا کہ یہ کریں گے وہ کریں گے۔گھومنے کہاں جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

تابین بے زار سی ہوں ہاں کہتی اسکی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔اس مصیبت کو خود اسنے اپنے سر ڈالا تھا۔اب جھیلنا تو پڑے گا۔ 

وہ بات کر رہی تھی تبھی سامنے روڈ سے نازلی کو اپنی طرف آتے دیکھا اور اسکے بعد جو ہوا اس پر وہ حواس باختہ سی نازلی کی طرف بھاگی تھی۔

"تم ٹھیک ہو نازلی۔"ہجوم کو توڑ کر تابین اسکی طرف بڑھی۔ 

"ج۔۔۔ جی آپی۔"نازلی نے خود کو سنبھال کر اسے دیکھا تھا۔اتنے اجنبی لوگوں میں کسی اپنے کی صورت دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی تھی۔

نازلی نیچے بیٹھی اپنا پرس اور ٹوٹا موبائل اٹھانے لگی۔موبائل کے ٹکڑے دیکھ کر اسے دکھ ہوا تھا۔یہ ہاشم کا دیا دوسرا موبائل تھا جو ٹوٹ گیا تھا۔نازلی کو بہت دکھ ہوا تھا۔

"چلو اٹھو۔"تابین نے ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔وہ چیزیں اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آپ لوگ بھی اپنا کام کریں۔یہ ٹھیک ہے۔"اسنے ارد گرد کھڑے لوگوں سے کہا۔ 

"انکو سمجھائیں کہ ایک تو روڈ پر نہیں چلتے اور اگر غلطی سے چلنے بھی لگیں تو موبائل استعمال نہیں کرتے۔"اس کار والے لڑکے نے غصے سے کہا 

"آئم سوری۔"نازلی نے شرمندگی سے سر جھکایا۔جب وہ گزرنے لگی تھی تب وہاں کوئی گاڑی نہ تھی پھر جانے کیسے اچانک اس آدمی کی گاڑی سامنے آ گئی تھی۔ 

"آپ کو بھی دیکھ کر ڈرائیو کرنا چاہیے تھا مسٹر۔"تابین نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔پھر نازلی کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔نازلی اپنی پریشانی میں تابین کے لہجے کو نوٹ نہ کر سکی ورنہ تابین کا اسکے حق میں بولنا نازلی کے لیے حیرت کا مقام تھا۔  

"میرا موبائل ٹوٹ گیا۔"اسنے افسوس سے موبائل کے ٹکڑوں کو دیکھ کر پرس میں ڈالتے ہوئے کہا۔ 

"کوئی بات نہیں ، موبائل نیا آجائے گا۔"تابین نے اسکا ہاتھ تھپکا۔پھر یاد آنے پر ہاتھ میں پکڑے اپنے موبائل کو دیکھا۔ 

جمال آغا کی کال ملی ہوئی تھی۔اسنے نازلی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے موبائل کان سے لگایا۔

"میں تم سے بعد میں بات کرونگی۔"اسنے کیفے میں داخل ہو کر جمال آغا سے کہا۔

"نازلی کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟"دوسری طرف سے سنجیدگی سے پوچھا گیا۔ 

"ضروری بات کرنی ہے۔"تابین نے مختصر جواب دیا۔وہ اور نازلی کونے میں رکھی ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھیں۔نازلی حیرت سے تابین کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔جانے کس سے باتوں میں لگی تھی۔

"پھر کب کال کروں؟"اسنے پراسرار انداز میں پوچھا۔ 

"دو ، تین گھنٹے تک نازلی میرے ساتھ ہی ہے۔اسلیے اس بیچ کال نہ کرنا۔"تابین اسکے انداز کو سمجھے بغیر جلدی سے بولی پھر جان چھڑا کر جلدی سے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کیا۔

موبائل ٹیبل پر رکھ کر اسنے نازلی کو دیکھا۔جو اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھی۔ 

"کیسی ہو؟"اسنے نرمی سے پوچھا۔نازلی نے ابھی اسکا انداز نوٹ کیا تھا۔اسے حیرت بھی ہورہی تھی اور ڈر بھی لگ رہا تھا کہ جانے تابین اس بار کیا کہے گی۔پچھلی بار کی طرح اگر طلاق کا کہا تو۔۔۔۔۔

"ٹھ ۔۔۔ٹھیک۔"اسنے اٹک کر جواب دیا۔ 

"مجھ سے ڈر رہی ہو؟"تابین نے اداسی سے مسکرا کر پوچھا۔ 

"نہ ۔۔۔ نہیں آپی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"نازلی نے خود کو مضبوط ظاہر کیا۔پر اسکے نروس انداز میں بال کان کے پیچھے کرنے پر تابین ایک دم ہنسی تھی۔ 

"مانا کہ میں تمہیں اتنے قریب سے نہیں جانتی پر تم سے اتنی بے خبر بھی نہیں نازلی۔"اسنے مسکرا کر نازلی کی آنکھوں میں دیکھا۔نازلی کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے۔

"بتاؤ کافی لو گی؟"اسنے بات بدلی۔

"نہیں۔۔"نازلی نے ہاتھ مسلے۔"آپی آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟"اسنے تابین کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"تم سے معافی مانگنے کے لیے۔"تابین نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

"جی ۔۔"نازلی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"جی۔۔"تابین نے میز پر رکھا اسکا ہاتھ تھاما۔

"میں تم سے اپنی ہر اس بات کی معافی مانگنا چاہتی ہوں نازلی جسکی وجہ سے تم ہرٹ ہوئی ، تمہارے آنسو بہے ،پلیز مجھے اس سب کے لیے معاف کر دو۔"تابین کہہ کر سر جھکا گئی۔ 

نازلی شاکڈ رہ گئی۔کیا اسنے ٹھیک سنا تھا؟کیا واقعی تابین اس سے معافی مانگ رہی تھی؟

"آپی میں ۔۔۔"نازلی کو کہنے کے لیے الفاظ نہ ملے۔ 

"میں جانتی ہوں نازلی کہ تمہارے لیے مجھے معاف کرنا اتنا آسان نہیں ہے پر تم اپنی آپی سے محبت کرتی ہو ناں؟ تو اس محبت کے واسطے تم مجھے معاف کر دو۔میں نے بہت دیر سے جانا ہے کہ محبت میں پا لینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔کبھی کبھی محبت کو کھو کر بھی دل کو سکون مل جاتا ہے۔اب میں  ہاشم کو پانے کی جستجو چھوڑ چکی ہوں۔اب میرے دل کو ہاشم خان کی کوئی خواہش نہیں۔وہ تمہارا ہے صرف تمہارا ۔۔۔۔ اسکی خاطر ہی اپنی آپی کو معاف کردو۔"اسنے نم آنکھیں اٹھا کر نازلی کو دیکھا۔جو پتھرائی سی بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"آپی میں کبھی آپ سے ناراض نہیں تھی۔مجھے تو آپ سے اتنی محبت ہے کہ میں آپ سے ناراض نہیں ہو سکتی۔میں بس اداس تھی کہ میں نے اپنی آپی کو کھو دیا۔آپ یقین کریں میں نے ہاشم۔۔۔۔"وہ آگے بھی کہنا چاہتی تھی جب تابین نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"میں یہاں تم سے صفائی لینے نہیں آئی ہوں نازلی۔میں یہاں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں۔اور جہاں تک ہاشم کی بات ہے تو مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ کیا کیسے اور کیوں ہوا تھا۔پر میری نظر سے دیکھو تو ہاشم غلط ہوتے ہوئے بھی غلط نہیں ہے۔محبت جس چیز کا نام ہے ناں وہ انسان کو ایسا جنون بخشتی ہے کہ انسان اپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتا ہے۔اسے ایک اپنے محبوب کے علاوہ دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔اسے کسی غلطی کی پرواہ نہیں ہوتی۔وہ بس اپنے محبوب کو پانے کے لیے انتہاؤں تک چلا جاتا ہے۔"وہ مگن سی کہہ رہی تھی۔ 

"ہاشم کی محبت کا جو جنون تمہارے لیے تھا۔ویسا ہی جنون میرے سر پہ بھی تھا ہاشم کے لیے۔اب ہاشم کا جنون سچی محبت میں بدلا ہے۔ایسی محبت جس میں محبوب کو پانے سے زیادہ محبوب کی خوشی معنی رکھتی ہے۔اس شخص کی سچی محبت نے تابین حسن آفندی کی آنکھیں بھی کھول دیں۔اسکی خود غرضی ختم کر ڈالی۔اب میرے وجود میں نفرت ، جنون ، خود غرضی کی کہیں کوئی جگہ نہیں ہے نازلی ، میں اب ان چیزوں سے پاک ہوگئی ہوں۔"اسنے مدھم سا مسکرا کر نازلی کا ہاتھ گرم جوشی سے دبایا۔ 

"آپی آپ ۔۔۔ آپ بہت بدل گئی ہیں۔"نازلی نے حیرت سے کہا۔ 

"محبت نے بگاڑا تھا اور اب سنوار بھی دیا۔"اسنے مسکرا کر نازلی کا گال تھپکا۔ 

"پر۔۔۔"نازلی ایک دم رک کر سر جھکا گئی۔تابین نے اسے دیکھا۔وہ اس "پر"کے بعد کی بات سمجھ گئی تھی۔ 

"بابا کو ہاشم نے سب کچھ بتا دیا ہے۔"اس نے بتایا۔

"واقعی؟"نازلی نے جھٹ سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"ہاں ۔۔ اور بابا کو بہت غصہ آیا تھا۔"تابین نے آگے ہو کر کہا۔ 

"پھر۔"نازلی کا رنگ اڑا کہ جانے بابا جان کا کیسا ری ایکشن ہوگا۔

"پھر بابا نے آپکے شوہر کو سزا سنا دی۔"تابین نے مسکراہٹ دبائی۔

"کونسی سزا؟"نازلی نے تھوک نگلا۔ 

"وہ بابا آ کر بتائیں گے۔بس میں یہ بتا دیتی ہوں کہ بابا نے جب بہت سا سوچا اور پھر ہم دونوں کی بات ہوئی تو بابا کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔پھر آج صبح ہم دونوں تمہارے روم میں گئے۔تمہاری باتیں کرتے رہے اور ۔۔۔"تابین اسے دیکھ کر رکی۔ 

"اور ؟؟"نازلی نے جلدی سے پوچھا۔ 

"اور تمہارا پینٹنگ روم دیکھا۔بابا جان کی پینٹنگ دیکھی۔"اسنے مسکرا کر بتایا۔نازلی پہلے حیران ہوئی پھر اسکی آنکھوں میں چمک پھیلتی گئی۔ 

"آپکو اور بابا کو پینٹنگ اچھی لگی؟"اسنے خواب کی سی کیفیت میں پوچھا۔ 

"بہت ۔۔۔ مجھے تو افسوس ہوا کہ میں نے پہلے اتنی کمال پینٹنگز کیوں نہ دیکھیں۔اسپیشلی بابا جان والی ۔۔۔ اور پتہ ہے بابا جان کی آنکھوں میں تو آنسو آگئے تھے۔"تابین بتا رہی تھی اور نازلی بچوں کی طرح خوشی سے اسے سن رہی تھی۔وہ رکی تو نازلی نے کہا۔

"آپی مجھے یقین نہیں آ رہا۔کیا واقعی سب ٹھیک ہو رہا ہے یا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟"اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔ 

"یہ خواب نہیں حقیقت ہے ڈارلنگ۔"تابین نے مسکرا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔جن میں خوشی کے ساتھ نمی بھی تھی۔ 

"بابا جان کی پینٹنگ انکے روم میں لگا دی ہے۔وہ تمہاری منتظر ہے کہ تم آؤ اور دیکھو کہ تمہاری محبت سے بنائی گئی پینٹنگ اب چوبیس گھنٹے بابا جان کی نظروں کے سامنے ہو گی۔"وہ نرمی سے کہہ رہی تھی۔ 

نازلی کی آنکھ سے آنسو نکل کر گال پر گرا۔ 

"میں اپنی خوشی کیسے دکھاؤں آپی۔میں حد سے بڑھ کر خوش ہوں۔"اسنے پلکیں جھپک کر مزید آنسوؤں کو باہر آنے سے روکا۔

"ابھی یہ خوشی کی شروعات ہے میری جان۔ابھی تو بابا بھی یہاں آئیں گے اپنی بیٹی سے بات کرنے۔۔۔۔آگے آنے والی زندگی خوشیوں کی بارات لیے تمہاری منتظر ہے۔"تابین نے اسکے گال پر بہتے آنسو کو صاف کیا۔آج تابین کو اپنا آپ اجلا اور روشن لگ رہا تھا۔آج وہ سچ میں ایک اچھی بہن اور بیٹی بنی تھی۔ 

"بابا جان بھی یہاں آئیں گے؟"نازلی نے عجلت سے پوچھا۔تابین نے مسکرا کر سر ہلایا۔ 

"میں نے سوچا پہلے ہم بہنیں اپنی غلط فہمیاں دور کر لیں۔پھر بابا جان کی انٹری ہو۔"تابین نے ہنس کر بتایا۔ 

"افف آپی میں کیسے یقین دلاؤں خود کو کہ یہ سب سچ ہے۔"نازلی خوشی سے بولی۔ 

"چٹکی کاٹ کر یقین دلاؤں؟"تابین نے شوخی سے کہا۔ 

"کاٹ لیں۔"نازلی مسکرائی۔

"سچ ہی ہے۔کر لو یقین۔"تابین نے نرمی سے اسکا گال کھینچا۔"ویٹ میں بابا کو کال کر کے پوچھتی ہوں کہ وہ کہاں رہ گئے۔"تابین نے موبائل اٹھایا۔وہ حسن آفندی کا نمبر ڈائل کرنے لگی اور نازلی کہنیاں میز پر ٹکائے۔دونوں ہاتھ گالوں پر رکھ کر اسے دیکھنے لگی۔نیلی آنکھیں ہیرے کی مانند چمک رہی تھیں۔

اسنے آج وہ وہائٹ ڈریس پہن کر ہاشم سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کا سوچا تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ اسکی محبت کے اظہار سے پہلے اسے اسکے اپنوں کی رضا مندی مل جائے گی۔اسکی آپی کا ساتھ ، اسکے بابا کی محبت ،اتنی خوشی ملنے  سے وہ ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ 

وہ جلد سے جلد گھر جا کر ساری تیاری کرنا چاہتی تھی۔ہاشم نے کہا تھا کہ جب اسے اس سے محبت ہو تو وہ وائٹ ڈریس پہن لے۔وہ سمجھ جائے گا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگی ہے۔محبت تو وہ بہت پہلے سے کرنے لگی تھی۔بس آج وہ اس محبت کا اظہار کرنے والی تھی۔

آنے والے وقت کا سوچ کر اسکے گال گلابی ہوئے۔لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی۔وہ تابین کو بات کرتے دیکھ رہی تھی پر ذہن میں ہاشم کی سوچیں تھیں۔آنکھوں میں اسکی تصویر تھی۔ 

"دکھا دکھا کہ اپنا خواب سہانا مجھ کو۔"

"چھوڑ دو اب تو بار بار رلانا مجھ کو۔"

"محو تماشہ تھے سب ہی عزیز و اقارب میرے۔"

"عشق نے کر دیا کچھ ایسا دیوانہ مجھ کو۔"

"روح زخمی ہے میری ،دل بھی ریزہ ریزہ ہے۔"

"اپنے نینوں کا رکھ لیا ہے نشانہ مجھ کو۔"

"خون کے آنسو رلاتی ہے وہ یاد صبح۔"

"بھیگی زلفوں سے اپنی تیرا جگانا مجھ کو۔"

"عشق نے کر دیا مجبور مجھ کو لکھنے پہ۔"

"ورنہ آتا نہ تھا کوئی ایسا فسانہ مجھ کو۔"

"مل جائے جو صائم کو تیرے ساتھ کی امید۔"

"چھوڑ دے بیشک پھر سارا زمانہ مجھ کو۔"

_________________(از قلم شیر حسین صائم)

شہریار نے دکھتی آنکھیں کھولیں۔وہ بیڈ پر لیٹا تھا۔رات دیر تک جاگتا وہ ماہ نور کی سوچوں میں گم رہا تھا کہ جانے وہ کہاں ہوگی ، ضرور رو رہی ہوگی ، اسے کتنا دکھ ہوا ہوگا۔

اسے خود پر غصہ آیا کہ اسے ماہ نور پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔وہ ایسا کیسے کر گیا۔وہ لڑکی اسکی محبت تھی۔عاشق تو محبوب پر آنچ بھی نہیں آنے دیا کرتے پھر وہ کیسے خود ہی اپنے محبوب کو توڑ رہا تھا۔اسے ہر موڑ پر دکھ دے رہا تھا اور خود بھی دکھ سہہ رہا تھا۔ 

ساری رات سوچ سوچ کر وہ پاگل ہوتا رہا تھا۔وہ اسکی محبت میں دیوانی لڑکی جسے اسنے ہمیشہ آنسو دیے تھے۔اسکا دل توڑا تھا پر بدلے میں وہ خود بھی کہاں چین سے رہا تھا۔وہ اسے تڑپا کر خود اس سے بھی زیادہ تڑپا کرتا تھا۔ 

شاید اسے درد سہنے کی عادت ہوگئی تھی تبھی سب کچھ ٹھیک ہوجانے کے باوجود بھی وہ اس درد کو اپنے اور ماہ نور کے بیچ سے نکلنے نہیں دے رہا تھا۔ورنہ وہ لڑکی تو اسکی بنا دی گئی تھی۔بس ایک قدم کا فاصلہ تھا جسے طے کر کے وہ اسے اپنے حصار میں لے سکتا تھا۔پر وہ اپنی زندگی میں خود ہی ولن بن کر اپنا اور اس معصوم لڑکی کا جینا حرام کر رہا تھا۔ 

اسنے ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کو زور سے دبایا۔صبح فجر کی نماز پڑھ کر کہیں اسکی آنکھ لگی تھی۔پر خواب میں بھی اسنے ماہ نور کو دیکھا۔۔۔۔روتے ہوئے ، سسکتے ہوئے اور وہ خود بھی تو تھا۔اسے دور سے دیکھتا ہوا آنکھیں میں کرچیوں کی چبھن لیے۔

وہ چاہتا تو آگے بڑھ کر اس لڑکی کو تھام لیتا۔پھر نہ وہ پیاری لڑکی روتی اور نہ اسکا اپنا دل جلتا۔دونوں مل جاتے تو دلوں کو سکون مل جاتا پر وہ ایک ہو کر بھی الگ الگ تھے۔ 

اسنے گردن پھیر کر وال کلاک کو دیکھا۔صبح کے دس بج رہے تھے۔وہ آج تک اتنی دیر تک نہیں سویا تھا۔

وہ اٹھ کر بیٹھا۔کسی نے اسے جگایا بھی نہ تھا۔وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر انہیں ٹھیک کرنے لگا۔ 

وجود پر ڈھیر سارا بوجھ تھا۔دل کر رہا تھا کہیں دور بھاگ جائے۔وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ماہ نور کا تو بالکل نہیں۔ابھی وہ انہیں سوچوں میں تھا جب واش روم کا دروازہ کھلا اور ماہ نور باہر آئی۔وہ نہا کر نکلی تھی۔گھیلے بالوں کو ٹاول سے خشک کرتی وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی۔اسنے شہریار کو مکمل اگنور کیا۔

شہریار نے اسکی پشت کو دیکھا۔لیمن شلوار قمیض میں وہ بلا کی معصوم و حسین لگ رہی تھی۔ جیسے اندھیرے میں روشنی کی کرن ہو ، جیسے تپتے صحرا میں ٹھنڈی پھوار ، جیسے کانٹوں بھری ٹہنی پر نازک سا گلاب ۔۔۔۔۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ماہ نور کے چہرے پر رات والی بات کے کوئی اثرات نظر نہیں آ رہے تھے۔وہ پوری طرح سے اسے اگنور کر رہی تھی۔اسنے ماہ نور کی ہر ادا دیکھی تھی پر یہ نظر انداز کرنے والی ادا نئی تھی اور جان لیوا بھی۔

اسنے ٹاول ایک سائیڈ پر رکھا اور سیاہ بال پشت پر بکھرائے۔پھر ڈرائر سے انہیں خشک کرنے لگی۔ہوا سے لہراتے سیاہ لمبے بال شہریار پر جادو کر رہے تھے۔ 

وہ مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا۔پھر ڈرائر بند ہوا تو اسکا شور ختم ہوتے ہی وہ بھی چونک کر ہوش میں آیا۔ 

پھر لمبی سانس کھینچی۔اسے انتظار تھا کہ ماہ نور اس سے بات کرے۔اس سے پوچھے کہ وہ اٹھ گیا۔اتنی دیر تک کیوں سویا ؟ کیا اسکی طبیعت ٹھیک ہے ؟کیا وہ اسکے لیے ناشتہ لے آئے؟ پر وہاں ایسا کوئی امکان نہ تھا۔وہ اب سیاہ آبشار بالوں میں برش پھیرنے میں مصروف تھی۔ 

آج سے پہلے وہ لوگ ہزار بار لڑے تھے۔اسنے کئی بار ماہ نور کو ڈانٹا تھا پر وہ اس طرح اس سے غافل نہیں ہوئی تھی۔آج تو وہ اسے دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔یہ بات شہریار کے دل میں چبھ رہی تھی۔اسے کم از کم اسکی طرف دیکھنا تو چاہیے تھا۔مانا کہ اسنے غلط کیا تھا پر وہ اس سے لڑ لیتی ، اسے اسکی غلطی کا احساس دلاتی پر یوں تو نہ کرتی۔

ماہ نور کو روبوٹ کی طرح کام کرتے دیکھ کر شہریار نے دانت پیسے پھر جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔واش روم جانے سے پہلے ایک نظر اسے دیکھا اس امید سے کہ وہ بھی اسے دیکھے گی۔پر نہ جی ۔۔۔ آج اسنے جیسے قسم کھائی تھی کہ وہ پلٹ کر شہریار کو نہیں دیکھے گی۔ 

وہ واش روم میں چلا گیا۔دروازہ بند ہوا تو ماہ نور نے نظر پھیر کر بند دروازے کو دیکھا۔اسنے طے کر لیا تھا کہ وہ اب سے شہریار کو اسکے حال پر چھوڑ دے گی۔اب نہ اس سے بات کرے گی اور نہ اسے تنگ کرے گی۔بس اپنے کام سے کام رکھے گی۔ 

اسنے برش کر کے بال کھلے ہی چھوڑے۔اسکے بال کافی گھنے تھے اسلیے مکمل خشک نہیں ہوئے تھے۔

اسنے الماری سے اپنا بڑا سا نیٹ کا دوپٹہ نکالا۔شیشے کے سامنے آ کر اسے سر پر لیا۔دوپٹے سے نکلتی لٹیں اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ 

دوپٹے کے ہالے میں اسکا چہرہ بے حد حسین لگ رہا تھا۔پر آنکھوں میں اداسی تھی۔آج اسکے بھائی کے لیے خوشی کا دن تھا۔وہ ہاشم اور نازلی کے لیے بے حد خوش تھی پر اس خوشی میں بھی کمی تھی۔شہریار کی کمی ، اسکی محبت کی کمی ، وہ چاہ کر بھی اپنی آنکھوں سے چھلکتے دکھ کو چھپا نہیں سکی۔اسنے لاکٹ کو چھوا تو اداس مسکراہٹ نے لبوں پر بسیرا کیا۔ 

"کاش آپ میری محبت کو سمجھ پاتے شہریار کہ میں نے آپکو کس حد تک چاہا ہے پر آپ نے مجھے توڑ دیا۔مانا کہ آپ کے ساتھ برا ہوا ہے پر جو آپ نے میرے ساتھ کیا وہ بھی تو اچھا نہیں کیا۔اب یہ ماہ نور آپکو کبھی تنگ نہیں کرے گی۔کبھی نہیں۔"زیر لب بڑبڑا کر اسنے لاکٹ کو دوپٹے کے نیچے کیا۔ لمبی سانس بھر کر لبوں پر مسکراہٹ سجائی پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے چیزیں سمیٹنے لگی۔

شہریار باہر نکلا۔پھر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ماہ نور کے برابر میں کھڑے ہو کر وہ برش اٹھا کر بالوں میں پھیرنے لگا۔ 

ماہ نور نے ڈرائر کی وائر سمیٹ کر اسے دراز میں ڈالا۔پھر پلٹ کر جانے لگی جب شہریار نے برش رکھ کر اسکا ہاتھ تھاما۔ 

ماہ نور نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"یہ اٹھاؤ یہاں سے۔۔۔گر کر ٹوٹ جائیں گیں۔"اسنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بکھری اسکی سلور چوڑیوں کی طرف اشارہ کیا۔ 

ماہ نور نے یہ چوڑیاں پہننے کے لیے نکالی تھیں پر پھر دل نہیں کیا کہ پہنے اسلیے وہیں رہنے دیں۔پر وہ بھول گئی تھی کہ یہ کمرہ صرف اسکا نہیں ہے۔یہ کمرہ اس شخص کا بھی ہے۔جو ماہ نور اور اسکی چیزوں کو اپنی نظروں کے سامنے برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

اسنے بنا کچھ کہے شہریار کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا اور چوڑیوں کو اٹھا کر اپنی کلائی میں پہنتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ 

شہریار نے اسے جاتے دیکھا تو جھنجھلا کر سیٹ بال پھر سے منتشر کر ڈالے۔ 

"یہ لڑکی مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی ، اب کیا چاہتی ہے میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگوں۔"وہ کمرے میں چکر کاٹتا تپ کر بڑبڑانے لگا۔ 

کچھ دیر بعد وہ خود کو سنبھال کر نیچے آیا تو ہال میں خوب رونق لگی تھی۔ 

ام جان نوکروں سے مٹھائی کی ٹوکریاں میز پر رکھوا رہی تھیں۔آبی اور نور وہیں کھڑیں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز سیٹ کر کے رکھ  رہی تھیں۔ 

ام جان نے یہ سب کچھ خان ولا لے جانے کے لیے منگوایا تھا۔مٹھائی ، کپڑے ، مہندی ، چوڑیاں اور نازلی کے لیے سونے کا ہار جو انہوں نے اپنی بہو کے لیے بنوایا تھا۔وہ پہلی بار نازلی سے ساس ہونے کی حثیت سے ملنے والی تھیں۔وہ اپنی طرف سے اسے یہ تحفے دینا چاہتی تھیں۔وہ بے پناہ خوش تھیں۔ایک تو ان باپ بیٹے کے ٹھیک ہو جانے پر اور دوسرا نازلی کو بہو کی صورت پا کر۔۔۔۔۔انکی دلی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ 

وہ صبح سے تیاری میں لگی تھیں۔اس خوشی نے انکی بیماری کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔وہ بالکل فریش لگ رہی تھیں۔ 

وہ نکلنے والے تھے پر خان بابا سے ملنے ساتھ والے گاؤں سے لوگ آگئے تھے تو اسلیے وہ لوگ تھوڑا لیٹ ہوگئے تھے۔ 

ماہ نور نے شہریار کو دیکھا تو جلدی سے کچن کی طرف بڑھی۔ 

وہ ناشتہ تیار کروا چکی تھی۔اسنے جلدی سے میز پر ناشتہ لگایا پھر بوا سے کہا کہ شہریار کو بلا لائیں۔وہ خود شہریار سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی اسلیے ناشتہ لگا کر واپس آگئی اور آبی کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ 

شہریار اسے ایک نظر دیکھ کر بوا کے کہنے پر میز کی طرف بڑھا۔وہ بے دلی سے ناشتہ کر رہا تھا جب ام جان کام سے فری ہو کر اس تک آئیں۔

"آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے شہریار؟"انہوں نے اسکی پیشانی کو چھو کر پوچھا۔ 

"بس تھوڑا سر درد ہے ام جان۔"اسنے سچ بتایا۔رات سے اسکے سر میں شدید درد تھا۔

"آپ ناشتہ کریں پھر ٹیبلٹ لے لیں۔"وہ اسکا گال تھپک کر بولیں۔شہریار نے مسکرا کر سر ہلایا تو ام جان ماہ نور کی طرف بڑھیں۔"شہریار ناشتہ کر لے تو انہیں ٹیبلٹ دینی ہے آپ نے۔"وہ بیٹی سے کہہ کر آگے بڑھ گئیں۔ان دونوں کے بیچ کھچاؤ تو وہ کب سے محسوس کر رہی تھیں پر کچھ کہہ نہ پائیں۔پھر کچھ دن پہلے انکے بیچ سب نارمل ہوگیا تھا پر آج پھر انہوں نے ان دونوں کے بیچ خاموشی کی فضا دیکھی تھی۔ 

یہ میاں بیوی کے آپس کا معاملہ تھا اسلیے وہ اس بارے میں بات نہ کر سکیں پر بڑی ہونے کے ناطے وہ انہیں ایک دوسرے کے قریب لا کر انہیں اپنی غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع دینا چاہتی تھیں۔ 

شہریار نے ام جان کی بات پر ماہ نور کو دیکھا جو اپنے لب کاٹ رہی تھی۔تبھی اسنے نظر اٹھا کر شہریار کو دیکھا تو وہ جھٹ سے نظریں پھیر کر جوس پینے لگا۔ 

وہ ناشتہ کر چکا تو ماہ نور ٹیبلٹ لے کر اسکی طرف آئی۔وہ سامنے کھڑی تھی پر وہ جان بوجھ کر انجان بن گیا تھا جیسے اسے دیکھا ہی نہ ہو۔وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے بات کرے۔اسے کہے کہ "شہریار یہ لیں ٹیبلٹ۔"اسنے سوچا اب تو ماہ کو ضرور بولنا پڑے گا۔وہ منتظر تھا کہ وہ اسے پکارے۔اپنی سوچ پر وہ دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔جب ماہ نور نے ایک صاف پلیٹ اٹھا کر اسکے سامنے رکھی پھر ٹیبلٹ نکال کر اس پر رکھی ساتھ دودھ کا گلاس رکھا اور اگلے پل پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔شہریار نے حیرت سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو آبی کے پاس پہنچ کر اب اس سے سر جوڑے کھڑی باتیں کر رہی تھی۔ 

اسکی اس حرکت پر شہریار کا دبا غصے باہر آنے لگا جسے اسنے تھپک تھپک کر سلایا اور جھٹ سے ٹیبلٹ لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔تبھی خان بابا ہال میں داخل ہوئے تھے۔ 

"ہاں بھئی تیار ہیں سب؟"انہوں نے پر جوش انداز میں پوچھا۔ 

شہریار کے علاوہ سب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔

"کب سے خان بابا ، اب جلدی چلیں۔"داور جلدی سے کمرے سے نکل کر باہر آیا۔ 

"ہماری بیٹیاں بھی تیار ہیں؟"انہوں نے مسکرا کر آبی اور نور کو دیکھا۔ 

"جی خان بابا۔"دونوں کہہ کر ایک دم ہنسیں۔شہریار نے ماہ نور کی مسکراتی صورت دیکھی تو دل کھل سا اٹھا۔

"شہریار آپ نہیں جا رہے؟"خان بابا نے شہریار کو تیار نہ پا کر پوچھا۔نور نے چونک کر اسے دیکھا۔پہلے تو وہ جانا چاہتا تھا پر نور کے چہرے پر غصے کے تاثرات دیکھ کر بولا۔ 

"نہیں خان بابا ۔۔۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔اسلیے آپ لوگ جائیں۔شام تک تو آپ سب انہیں لے کر آجائیں گے تو میں مل لونگا۔"اسنے نرمی سے کہہ کر ایک نظر ماہ نور کو دیکھا۔جو تپے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"ٹھیک ہے بیٹا جی۔"خان بابا نے سر ہلایا۔پھر وہ ام جان کی طرف پلٹے کہ جو بھی گاڑی میں رکھوانا ہے رکھوا لیں۔وہ  سمجھتے تھے کہ شہریار اور ہاشم کی ناراضگی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اسلیے انہوں نے شہریار کو فورس کرنا مناسب نہ سمجھا۔انہیں امید تھی کہ جلد ان دونوں کے بیچ بھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 

شہریار کی نظریں ماہ نور پر تھیں کہ شاید وہ اب اسکی طرف آئے۔اس سے کہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔کہ اسے ساتھ چلنا چاہیے۔پھر اسکے کہنے پر وہ اسے تھوڑا تنگ کرے گا پھر مان جائے گا۔وہ منتظر تھا پر وہ سر جھکائے کھڑی رہی۔گاڑی میں سامان رکھا گیا۔پھر خان بابا نے انہیں آنے کا کہا تو آبی نے نور کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھینچا۔

اسنے جاتے ہوئے ایک خاموش نظر شہریار پر ڈالی پھر آبی کے ساتھ آگے بڑھتی گئی۔ 

خان بابا اس سے مل کر چلے گئے۔پیچھے شہریار کی حالت بری ہونے لگی۔ 

"حد ہوگئی ۔۔۔ شوہر کی اتنی سی بھی پرواہ نہیں ہے۔یہ کوئی تم اچھا نہیں کر رہی میرے ساتھ ماہ بیگم۔"وہ جھنجھلا کر بڑبڑاتا اوپر اپنے کمرے کی طرف گیا۔

دو گاڑیاں بڑی حویلی سے باہر نکلیں۔ایک گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ خان بابا اور ام جان تھے اور دوسری کار داور ڈرائیو کر رہا تھا۔آبی اور نور اسکے ساتھ تھیں۔اسکے وعدے کے بعد اسے شہریار سے کار ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔وہ بہت خوش تھا اور بھائی کا مان بھی رکھ رہا تھا اور اچھے بچوں کی طرح نہ تیز ڈرائیو کرتا تھا اور نہ کبھی ریس لگانے کا سوچا تھا۔ 

وہ سب ہاشم اور نازلی کو سرپرائز دینے خان ولا جا رہے تھے۔صبح سے داور کے پیٹ میں درد ہورہا تھا کہ وہ ہاشم کو سب بتا دے گا پر نور اور آبی نے اسے بڑی مشکلوں سے کنٹرول کر رکھا تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ ہاشم اور نازلی اچانک انہیں دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھیں۔

وہ جانتی تھیں کہ نازلی ان سب کو اچانک دیکھ کر ڈر جائے گی پر اس ڈر کے بعد جو خوشی اسے ملے گی وہ دیکھنے لائق ہوگی۔وہ بہت ایکسائٹڈ تھیں کہ آگے کیا ہونے والا تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"مجھے پاگل جس نے کرنا ہو۔"

"وہ ذکر تمہارا کرتا ہے۔"

ہاشم اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔سامنے فائل کھلی تھی۔بظاہر وہ کام کر رہا تھا پر اسکا ذہین منتشر تھا۔وہ الجھی ڈوریں سلجھانے نکلا تھا۔اسنے باقی ڈوریں تو سلجھا لیں تھیں پر اب اسکی اپنی الجھی زندگی کو کون سلجھائے گا؟ 

جو سلجھا سکتی ہے جب وہی اسکی زندگی سے نکل جائے گی تو پیچھے اسکی زندگی میں سب کچھ ہمیشہ کے لیے الجھا ہی رہ جائے گا۔

جب بہت کوششوں کے باوجود بھی وہ مزید کام نہ کر سکا تو اسنے فائل بند کر کے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔دل میں دھواں ہی دھواں بھرا تھا۔پورے وجود میں آگ لگی تھی۔

کبھی کبھی مضبوط ہونا بھی کتنا بڑا امتحان بن جاتا ہے ناں کہ انسان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے پر رو نہیں سکتا۔

وہ کافی دیر اسی پوزیشن میں بیٹھا رہا۔پھر اٹھ کر گلاس وال کی طرف بڑھا۔دل کہیں نہیں لگ رہا تھا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ ابھی گھر جائے اور اس لڑکی کو کہیں چھپا لے تا کہ پھر اسے ہاشم خان سے کوئی جدا نہ کر پائے ،  نہ کوئی جمال آغا ، نہ کوئی تابین اور نہ کوئی حسن آفندی ۔۔۔۔ 

وہ جب سے حسن آفندی سے ملا تھا تب سے سو باتیں سوچ چکا تھا کہ وہ مکر جائے اپنی بات سے ،اس لڑکی کو لے کر کہیں دور بھاگ جائے جہاں صرف وہ دونوں ہوں۔اس ظالم دنیا کا  کوئی بھی شخص وہاں نہ ہو۔کوئی انہیں جدا کرنے والا نہ ہو۔ 

وہ سوچوں میں گم تھا جب اسکا موبائل رنگ کرنے لگا۔ 

وہ چونکا۔پھر موبائل کی رنگ پر اسکا دل ڈوب کر ابھرا۔کل سے ہر فون کال پر اسے ایسا لگتا تھا کہ حسن آفندی کی کال ہوگی اور وہ اسے کہیں گے کہ پیپرز تیار ہوگئے ہیں آ کر سائن کر دو۔اس لمحے کا سوچ کر ہی اسکے وجود سے روح نکلنے لگتی تھی۔ 

اسنے لمبی سانس کھینچی پھر آگے بڑھ کر میز سے موبائل اٹھایا۔اسکرین پر نظر ڈالی تو ان نون نمبر تھا۔اسنے کچھ پل نمبر کو دیکھا پھر کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔ 

"نازلی ٹھیک ہے ناں ؟ یا پھر کسی مصیبت میں تو نہیں پھنس 

گئی؟"فون اٹھاتے ہی دوسری طرف سے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا گیا۔ 

"کیا بکواس کر رہے ہو تم؟"ہاشم اس اچانک حملے پر غصے سے  دھاڑا تھا۔ 

"ہاہا پہچان لیا؟"دوسری طرف سے لطف لے کر پوچھا گیا۔ 

"تم جیسا کمینہ آدمی پوری دنیا میں صرف ایک ہی ہے۔"ہاشم نے چبا کر جواب دیا۔

"شکریہ۔اسے میں اپنی تعریف ہی سمجھوں گا۔"وہ ہنسا پھر ایک دم سنجیدہ ہوا۔

"سو ٹیل می ہاشم خان۔ ویئر از یور نازلی ؟ از شی اوکے؟"وہ طنزیہ پوچھ رہا تھا۔ 

"اب اگر تم نے ایک بار بھی نازلی کا نام لیا جمال آغا تو تم میرے ہاتھوں سے ضائع ہوجاؤ گے سمجھے۔"ہاشم غصے سے غرایا تھا۔ 

"مجھے تمہارا غصہ بہت اچھا لگتا ہے۔تمہارا غصہ میرے لیے دوا کی طرح ہے۔بڑا سکون ملتا ہے۔"وہ ہنس کر کہتا کچھ پل رکا۔"ویسے ذرا گھر جا کر تو دیکھو کہ تمہاری بیوی کیسی ہے۔"اب اسکا انداز بالکل سپاٹ تھا۔ 

ہاشم کا دل کانپنے لگا کہ کہیں نازلی کسی خطرے میں تو نہیں۔ 

جمال آغا کی بات سنتے ہی وہ جلدی سے میز کی طرف بڑھا۔وہاں سے کار کی چابی اٹھائی۔فون کان سے لگائے کمرے سے باہر کی طرف بھاگا۔اسے حواس باختہ یوں بھاگتے دیکھ کر اسکے امپلویز حیرت سے اسے دیکھنے لگے پر اسے کسی کی پرواہ نہ تھی۔اس وقت نازلی کے علاوہ اسے کسی کی فکر نہ تھی۔۔۔۔اپنی بھی نہیں ۔۔۔۔

"آئی سویئر اس بار تم میرے ہاتھوں سے نہیں بچو گے جمال آغا۔"ہاشم لفٹ کی طرف تیزی سے بڑھتا دانت پیس کر بولا۔

"یہ تو آگے دیکھا جائے گا۔"دوسری طرف سے نفرت سے پر لہجے میں جواب آیا۔پھر فون بند کر دیا گیا۔ 

 لفٹ سے نیچے آتے ہاشم نے نازلی کا نمبر ٹرائے کیا پر اسکا موبائل بند جا رہا تھا۔ 

وہ تیزی سے آفس بلڈنگ سے باہر نکلا۔کار میں بیٹھ کر اسنے زن سے کار آگے بڑھائی۔

وہ کبھی نازلی کا نمبر ٹرائے کرتا تو کبھی اس کمینے کا جو ایک کال کے بعد نمبر بند کر چکا تھا۔ 

اسکے دل سے یہی دعا نکل رہی تھی کہ نازلی جہاں بھی ہو بس ٹھیک ہو۔وہ جتنا بھی مضبوط شخص ہوتا پر اس وقت اسکا دل مٹھی میں جکڑا گیا تھا۔ہاتھ کانپ اٹھے تھے۔ 

اسنے کار فل اسپیڈ پر چھوڑ دی۔پندرہ منٹ بعد وہ گھر پہنچا کار باہر ہی کھڑی کر کے وہ گیٹ کی طرف بھاگا۔واچ مین نے اسے دیکھ کر جلدی سے گیٹ کھولا۔

"نازلی بی بی کہیں گئی ہیں یا کوئی یہاں آیا ہے؟"اسنے تیزی سے پوچھا۔ 

"نہیں صاحب۔"واچ مین کو جو خبر تھی اسنے بتا دیا۔وہ تو انجان تھا کہ نازلی کہیں گئی تھی۔ 

اسکی بات پر ہاشم نے لمبی سانس بھری۔پھر جلدی سے اندر کی طرف بڑھا۔ 

"نازلی ۔۔۔"اسنے ہال میں پہنچ کر آواز لگائی۔پھر کمرے کی طرف بڑھا۔ 

"نازلی ۔۔"اسنے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔پر وہ کہیں نہیں تھی۔ 

"کیا ہوا صاحب۔"گل جان پریشان سی کچن سے باہر آئیں۔

"نازلی کہاں ہیں؟"اسنے عجلت میں پوچھا۔

"وہ تو صبح سے اپنے کمرے سے نہیں نکلیں۔"

"پر وہ کمرے میں نہیں ہے۔"ہاشم نے بے چینی سے کہا 

"اوپر ہونگی۔"گل جان نے فکر مندی سے پینٹنگ روم کی طرف اشارہ کیا۔ 

ہاشم بنا کچھ کہے اوپر کی طرف بھاگا۔پینٹنگ روم ، باقی کمرے سب جگہ دیکھا پر وہ کہیں نہیں تھی۔ 

اسکا غصے سے برا حال تھا۔وہ نیچے آیا اور سب نوکروں کو اپنے سامنے بلایا۔امجد بابا ، مالی ، واچ مین ، سودا لانے والا لڑکا اور گل جان سب سر جھکائے کھڑے تھے۔ 

"آپ سبکی موجودگی میں نازلی گھر سے نکل گئی اور آپ لوگوں میں سے کسی کو خبر نہ ہوئی۔کیا اس لیے میں نے آپ سب کو یہاں رکھا ہے؟"وہ ضبط کرتا کچھ پل کے لیے خاموش ہوا۔

"آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی گھر میں نہیں آیا اور وہ گھر سے  باہر نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی ؟ کیا اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟"آخر میں وہ غصے سے دھاڑا تھا۔ 

"میں اسے ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔دعا کریں کہ وہ مجھے صحیح  سلامت ملے ورنہ میں سب کچھ تہس نہس کر دونگا۔"وہ چبا کر کہتا اگلے پل باہر کی طرف بڑھا۔سب نے اسکا یہ روپ پہلی بار دیکھ تھا۔انہیں افسوس تھا کہ وہ نازلی کی حفاظت نہ کر سکے۔ 

امجد بابا نے سبکو بھیجا کہ ایک بار پھر گھر میں چیک کریں کہ شاید نازلی یہیں کہیں ہو پر وہ کہیں نہ ملی۔ 

ہاشم گاڑی میں بیٹھا۔تبھی اسکا موبائل رنگ ہوا۔وہی نمبر دیکھ کر وہ موبائل اٹھاتے ہی چیخ اٹھا تھا۔ 

"کہاں ہے نازلی ؟؟ میرا صبر مت آزماؤ جمال آغا ۔۔۔بتاؤ وہ کہاں ہے؟"وہ تڑپ کر پوچھ رہا تھا۔ 

"آہ ۔۔۔ کتنا سکون مل رہا ہے میرے دل کو ۔۔"وہ ہنسا تھا۔ 

"جمال آغا تمہاری دشمنی مجھ سے ہے۔مرد کی اولاد بنو اور عورت کو بیچ میں مت لاؤ۔"ہاشم کی رگیں پھولنے لگی تھیں۔خون کی جگہ جیسے آگ دوڑ رہی تھی۔ 

"بکواس بند ہاشم خان ۔۔۔ بہت سنی ہے تمہاری اب اگر تمہیں نازلی چاہیے تو تمہیں وہاں آنا ہوگا جہاں میں کہوں۔"وہ بھی جواباً دھاڑا تھا۔ 

"تو کرو بکواس کہ کہاں آنا ہے؟"ہاشم نے دانت پیس کر کہا۔

"ہمارے گاؤں۔۔۔۔جہاں سے سارا قصہ شروع ہوا تھا۔آج اس قصے کو وہیں ختم کریں گے۔"جمال آغا نے ٹھنڈے لہجے میں کہا پھر اسے آنے کی جگہ بتا کر فون بند کر دیا۔

ہاشم نے لب بھینچ کر موبائل کان سے ہٹایا۔پھر نازلی کا نمبر ٹرائے کیا پر وہ ہنوز بند جا رہا تھا۔ 

اسنے موبائل ساتھ والی سیٹ پر پھینکا۔وہ ایک بار پھر نازلی کو کے گیا تھا اور ہاشم خان کچھ نہیں کر پایا تھا۔اسنے ٹھان لی تھی کہ آج وہ جمال آغا کا ایک سے دوسرا فیصلہ کر کے رہے گا۔

وہ لال نظروں سے روڈ کو گھورتا فل اسپیڈ پر کار دوڑاتا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔اسے جلد سے جلد گاؤں پہنچنا تھا۔

جانے آگے کیا ہونے والا تھا؟ 

حسن آفندی کیفے پہنچ آئے تھے۔اس وقت وہ بیٹیوں کے سامنے بیٹھے تھے۔نازلی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔انہوں نے نازلی کا سر تھپکا۔"بس اب رونا نہیں ہے۔"وہ محبت سے بولے۔ 

"اتنے وقت بعد ملی ہوں میں آپ سے۔"اسنے دائیں ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے۔ 

"آپ اب تو مجھ سے ناراض نہیں ہیں ناں؟"اسنے معصومیت سے پوچھا۔"بالکل نہیں۔"انہوں نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"اور ہاشم سے؟"نازلی نے جھجھک کر پوچھا۔حسن آفندی نے مسکراہٹ دبا کر پہلے تابین کو دیکھا پھر نازلی کو۔

"انہیں شام تک تھوڑا اور تنگ کریں گے۔پھر شام کو آپکی طرف آ کر انکی سزا ختم کر دینگے اور انکی جھولی میں ہمیشہ کے لیے خوشیاں ڈال دینگے۔"انہوں نے مسکرا کر کہا۔ 

"سزا کیا دی ہے بابا جان ؟"نازلی نے تجسس سے پوچھا۔ 

"یہ آپکو شام کو ہی معلوم ہوگا۔"وہ اسکا ہاتھ تھپک کر مسکرائے۔تابین مسکراتی نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔اسکے دل کا میل دھلا تھا تو اب سب کچھ نکھرا نکھرا نظر آ رہا تھا۔سب کچھ اچھا اور صحیح لگ رہا تھا۔ 

حسن آفندی اب نازلی سے اسکی پینٹنگز کی باتیں کرنے میں  لگ گئے اور نازلی خوشی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔

تابین سر جھکائے میز پر شہادت کی انگلی سے لکیریں کھینچ رہی تھی۔وہ نازلی کے لیے خوش تھی کہ اب نازلی کی زندگی پر سکون گزرے گی اور شاید اسکی اپنی بھی ۔۔۔۔۔پر اسکی زندگی میں جو ایک کمی ہے۔ہاشم کو کھونے کی۔۔۔۔وہ شاید ہمیشہ باقی رہے گی۔بھلے ہی وہ سب کو دکھائے کہ وہ آگے بڑھ گئی ہے پر دل کا ایک کونہ ہاشم کی محبت سے ہمیشہ آباد رہے گا۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے ہمیشہ کے لیے بھول جائے۔وہ اسکا تھا ہی نہیں تو کیوں اسے اپنی یادوں میں رکھتی پر اپنے پاگل دل پر اسکا بس کہاں چلتا تھا۔

"ادھورے خواب کے اندر ، کبھی پلکیں بچھانا مت۔"

"ادھورے خواب آنکھوں کو،بہت تکلیف دیتے ہیں۔"

"ادھوری یاد کو دل کی زمین میں تم نہیں بونا۔"

"ادھوری یاد دھڑکن میں بہت چبھتی ، سسکتی ہے۔"

"خلش بن کر کھٹکتی ہے۔لہو میں بجلیاں بن کر بھٹکتی ہے۔"

"ادھورے پیار کو ۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔"

"چلو جانے دو اس کو تم۔"

"محبت ، پیار ، چاہت ، عشق ، ہوتے ہی ادھورے ہیں۔۔۔۔"

وہ سوچوں میں گم تھی جب نازلی نے اسے پکارا تو وہ چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔چہرے پر مسکراہٹ سجا لی۔اب تو اسے باقی کی زندگی ایسے ہی گزارنی تھی۔دل میں اگر درد بھی ہوتا تو لبوں کو مسکرانے کی عادت ڈالنی تھی۔

وہ بھی انکے ساتھ باتوں میں لگ گئی۔وہ تینوں باپ بیٹیاں کافی دیر تک وہاں بیٹھے رہے۔کافی منگوائی گئی۔حسن آفندی اب خاموشی سے کافی پی رہے تھے۔

تابین نے کافی کا سپ لے کر نازلی کو دیکھا پھر بولی۔ 

"مجھے اچھا لگا کہ میری زندگی کی نئی شروعات ہونے سے پہلے ہم میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔"وہ بات ختم کر کے مسکرائی۔"نئی شروعات؟"نازلی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔"ہاں ۔۔۔ نیکسٹ ویک میری شادی ہے۔"تابین ہنسی۔پر اسکی  آنکھوں میں اداسی تیر رہی تھی۔ 

"کس سے آپی ؟"نازلی حیران ہوئی۔

"جمال آغا سے۔"اسنے شانے اچکا کر لاپرواہی سے بتایا۔

نازلی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اسکی آنکھوں کے سامنے اسفی کا چہرہ لہرایا۔اسکی تابین کے لیے بے پناہ محبت یاد آئی۔تابین کو تو اسفی ملنا چاہیے تھا۔پھر جمال آغا کیوں؟ 

وہ تابین سے اسفی کے حوالے سے بات کرنا چاہتی تھی پر بابا جان کے سامنے کچھ نہیں کہہ پائی۔ 

"پر آپی جمال آغا سے کیوں؟"اسنے جھجھک کر تابین کو دیکھا۔تابین ایک دم مسکرائی۔

"کسی سے تو شادی کرنی ہی ہے ناں نازلی۔ویسے بھی جمال میرا اچھا دوست ہے اور ایک اچھا انسان ہے۔۔۔۔ تو اسے سمجھنے میں مسئلہ نہیں ہوگا۔اسکے ساتھ زندگی اچھی گزرے گی۔"اسنے جمال آغا کو اچھا دکھانا چاہا پر وہ جتنا کمینہ تھا وہ نازلی اچھے سے جانتی تھی۔ 

شام کو تابین سے اس متعلق ڈیٹیل میں بات کرنے کا سوچ کر اس وقت اسنے صرف سر ہلانے پر اتفاق کیا۔ 

حسن آفندی نے کافی ختم کی۔پھر بازو پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی۔"بارہ بج چکے ہیں۔مجھے ایک کام ہے۔تو آپ لوگ جانا چاہیں گیں؟یا ابھی کچھ وقت بیٹھنا ہے؟"انہوں نے دونوں کو دیکھ کر پوچھا۔ "اب جانا چاہیے بابا جان ، کافی دیر ہوگئی ہے۔"نازلی نے ٹائم  دیکھ کر جلدی سے کہا۔ہاشم نے لنچ کے لیے آنا تھا گھر اگر وہ پہلے گھر چلا گیا اور اسے وہاں نہ پایا تو ضرور غصہ ہوگا۔اسلیے نازلی کو جلد گھر پہنچنا تھا۔

"چلیں آئیں پھر ۔۔۔۔ اور تابین آپ؟"انہوں نے تابین کو دیکھا۔ 

"آپ نازلی کو چھوڑ دیجیے بابا جان ، میں نے ابھی بوتیک جانا ہے۔سو آپ سے شام کو ملوں گی۔"تابین نے مدھم سا مسکرا کر کہا۔نازلی اپنا پرس تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"اوکے آپی۔"اسنے مسکرا کر تابین کو دیکھا۔تابین اٹھ کر اسکے گلے لگی۔"شام کو ملتے ہیں۔"تابین کی آواز میں محبت تھی۔"جی انشاء اللہ۔"نازلی خوشی سے کہہ کر اس سے الگ ہوئی۔تابین پہلی بار اس قدر پیار سے اس کے گلے لگی تھی کہ نازلی کا دل خوشی سے بھر گیا تھا۔اوپر سے گھر جانے کی خوشی تھی۔ہاشم سے ملنا ، پھر شام کو بابا جان اور تابین کا آنا۔ہاشم انہیں دیکھ کر ضرور شاکڈ رہ جائے گا۔نازلی کو سوچ سوچ کر خوشی ہورہی تھی۔پھر اس سے محبت کا اظہار بھی تو کرنا تھا۔اسکا دیا وائٹ ڈریس پہن کر اسکے انتظار میں پلکیں بچھا کے بیٹھنا تھا۔وہ جب آئے گا اور اسے اس ڈریس میں دیکھا گا۔افف وہ لمحہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔اس سوچ پر اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔بابا جان نے انہیں اپنے پیچھے آنے کا کہا تو وہ اور تابین بابا جان کے ساتھ کیفے سے باہر نکلیں۔پھر اللہ حافظ کہہ کر تابین اپنی گاڑی کی طرف بڑھی اور وہ حسن آفندی کے ساتھ انکی گاڑی میں بیٹھی۔

وہ بے انتہا خوش تھی۔آج ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے سب کچھ مل گیا ہو۔اسکی جھولی خوشیوں سے بھر گئی تھی۔امید کے دیے روشن ہوتے جا رہے تھے کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔اسکی زندگی میں بہار آنے والی تھی۔بس کچھ قدموں کا فاصلہ تھا۔پھر وہ پھولوں میں کھیلے گی۔اسے کوئی دکھ نہیں ہوگا۔وہ ہمیشہ خوش رہے گی۔ 

وہ سوچوں میں گم تھی جب حسن آفندی کی بات پر چونکی۔ 

"آپکو پتہ ہے رات کو آپکی آنی نے مجھے فون کیا تھا۔"حسن آفندی نے مسکرا کر بتایا۔ 

"کیوں؟"نازلی نے تجسس سے انہیں دیکھا۔

"آپکے بابا کی کھینچائی کرنے کے لیے۔"وہ ہنس کر بولے۔ 

"کچھ زیادہ کہہ دیا انہوں نے؟"نازلی کو افسوس ہوا۔وہ بابا جان کے بارے میں آنی کے خیالات سے خوب اچھے سے واقف تھی۔ 

"آپکی آنی نے جو کہا سچ ہی کہا تھا۔کچھ ہاشم کے آنے اور کچھ سیماب کی وجہ سے میری آنکھیں کھل گئیں ناں۔"وہ مدھم آواز میں بولے۔

نازلی کو سمجھ نہ آئی کہ اب کیا کہے۔اسلیے بنا کچھ کہے سر ہلا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔

حسن آفندی خاموشی سے ڈرائیو کر رہے تھے۔

ہاشم کے جانے کے بعد وہ لائبریری میں ہی رہے تھے۔ہاشم جب آیا تھا تو اسکے سب بتانے پر وہ بہت غصہ ہوئے تھے پر آہستہ آہستہ اس سے باتیں کر کے ، اسکے خیالات جان کر ، اسکی محبت کو سمجھ کر انہیں لگا تھا کہ یہ شخص اپنی محبت میں بہت پکا ہے۔

وہ انکی طرح اپنی محبت سے غافل نہیں تھا۔اسنے نازلی کی خوشی کے لیے اپنی محبت کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا۔

ہاشم خان ایک مضبوط ،محبت کرنے والا شخص تھا۔اسے آزمانے کے لیے انہوں نے طلاق کا مطالبہ کیا۔انہیں لگا تھا کہ اس مقام پر آ کر وہ خود غرض ہو جائے گا۔اپنی بات سے پھر جائے گا۔بھلا کون اپنی محبت کو پا کر اسے کھو سکتا تھا۔یہ کوئی آسان کام تو نہ تھا۔دل سے لہو ٹپکانا پڑتا ہے۔جان جلانی پڑتی ہے۔محبت کرنے والوں کو کوئی یونہی نہیں کھو دیتا۔جسم ہزار ٹکڑوں میں ٹوٹ کر بکھرتا ہے۔تب کہیں جا کر کوئی اپنی محبت کا سودا کر پاتا ہے۔ 

اس محبت کے کھیل میں وہ خود بھی تو ہارے تھے۔اپنی غفلت کی وجہ سے محبت میں انہیں بری طرح مات ہوئی تھی۔وہ منہ کے پل گرے تھے اور ایسے زخمی ہوئے تھے کہ آج تک وہ زخم بھر نہیں پائے تھے۔

پر ہر کوئی انکی طرح تو نہیں ہوتا ناں کہ اپنی محبت سے بے پرواہ ہوجائے۔کوئی ہاشم خان جیسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا آپ اپنی محبت پر وار دیتے ہیں۔ 

طلاق کی بات ہوئی۔حسن آفندی کو لگا تھا اب ہاشم میدان چھوڑ دے گا پر اسنےحسن آفندی کو یہاں بھی حیران کیا اور انکی بات مان لی۔

اسکی اس بات کی وجہ سے وہ جان گئے تھے کہ اس شخص سے زیادہ انکی بیٹی کے لیے دوسرا کوئی شخص صحیح نہیں ہو سکتا تھا۔وہ انکی بیٹی کے لیے بیسٹ تھا۔

وہ انکی آزمائش میں پورا اترا تھا۔پھر صبح تابین ہاشم کی وکیل بن کر انکے پاس آئی تھی۔انکا دل اسکی طرف سے صاف کرنے کی کوشش کرتی رہی۔وہ انہیں لے کر نازلی کے کمرے میں آئی۔پھر پینٹنگ روم میں انہوں نے نازلی کی ساری پینٹنگز دیکھیں۔اپنی پینٹنگ دیکھ کر انہیں اپنی بیٹی کی محبت کا احساس اور بھی شدت سے ہوا تھا۔ 

کچھ وہ خود اپنی بیٹی سے بد گمان ہوگئے تھے۔کچھ لوگوں کا سوچ کر اور کچھ امتل آفندی کا ڈر تھا جسکی وجہ سے وہ نازلی  سے کٹ کر رہے تھے پر اب وہ کسی کے دباؤ میں آنے والے نہ تھے۔انہیں اب اپنی بیٹی کے حق میں فیصلہ کرنا تھا۔ 

پھر اسی صبح انہیں سیماب کی کال آئی۔سیماب نے غصے میں انہیں خوب سنائیں تھیں کہ پہلے انہوں نے اسکی آپی کا خیال نہیں رکھا اور اب وہ انکی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔کیا آج اگر زنیرہ زندہ ہوتی تو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ یہ سب ہونے دیتی؟ کیا وہ بھی اس سے ترک تعلق کر لیتی ؟ کیا وہ ایک بار بھی اپنی بیٹی کی بات نہ سنتی؟ جیسے وہ پتھر دل بنے بیٹھے ہیں کیا زنیرہ بھی ایسا ہی کرتی؟

سیماب کے ان سب سوالوں کا جواب انکے پاس تھا۔وہ جانتے تھے کہ زنیرہ اپنی بیٹی سے کبھی بد گمان نہ ہوتی بلکہ اسکی بات سنتی ، اسے سمجھتی ، انکی طرح اسے اپنی زندگی سے کبھی نہ نکالتی۔ 

سیماب کی آخری بات انکا دل چیر گئی تھی کہ کیا زنیرہ نے انسے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسکی بیٹی کا خیال رکھیے گا؟  ہاں زنیرہ نے کہا تھا پر وہ بھول گئے تھے۔مرنے سے پہلے اسنے کہا تھا کہ "حسن میری گڑیا کا خیال رکھیے گا۔"پھر وہ کیسے بھول گئے اسکی بات کو۔کیوں نازلی کا خیال نہ رکھ سکے؟ کیوں مر کر بھی زنیرہ کو دکھ دینے سے گریز نہ کیا انہوں نے؟ انہیں خود پر افسوس ہونے لگا تھا۔  

پھر انہوں نے تابین سے کہا کہ وہ نازلی کو بلائے وہ اس سے ملنا چاہتے ہیں۔یوں اب انکی ملاقات ہوئی تھی اور سب ٹھیک ہوگیا تھا۔

"بابا جان ، بڑی ماما کا کیا ہوگا؟"نازلی کی فکر مند آواز پر وہ سوچوں سے نکلے تھے۔ 

"وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔"وہ کہہ کر ہنسے تو نازلی کے لب بھی مسکرا اٹھے۔ 

"ویسے آپ پریشان نہ ہوں۔آپکی بڑی ماما بھی جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گی۔"انہوں نے اب نرمی سے کہہ کر اسے دیکھا۔

اسنے مدھم سا مسکرا کر سر ہلایا۔بڑی ماما کی طرف سے دل میں ڈر تھا پر اس وقت وہ کسی ڈر کو دل میں جگہ نہیں دینا چاہتی تھی۔وہ بس خوش رنگ خوابوں میں ہی رہنا چاہتی تھی۔حسن آفندی نے خان ولا کے باہر کار روکی۔نازلی نے انہیں اندر آنے کا کہا پر وہ شام کو آنے کا کہتے انکار کر گئے۔ 

وہ پھر انہیں اللہ حافظ کہہ کر گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔وہ ہال میں آئی تو گل جان بھاگ کر اس تک آئیں اور اسے ساری بات بتائی۔نازلی حیران و پریشان رہ گئی کہ ہاشم کو کس نے خبر دے دی بھلا۔

"آپ فکر نہ کریں میں انہیں کال کر کے بتاتی ہوں کہ میں ٹھیک ہوں۔"اسنے گل جان کو تسلی تھی۔دل اسکا بھی ڈر رہا تھا کہ ہاشم ضرور غصے میں ہوگا۔پر ہاشم کی پریشانی کا سوچ کر اسکا دل دکھا کہ اسکی وجہ سے وہ پریشان ہو رہا ہو گا۔

اسنے لینڈ لائن سے ہاشم کا نمبر ملایا۔بیل جا رہی تھی پر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔اسنے دو تین بار نمبر ملایا پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔

"شاید ہاشم واپس گھر آرہے ہونگے۔تھوڑا غصہ ہونگے شاید اسلیے کال پک نہیں کر رہے۔کوئی بات نہیں میں انہیں منا لونگی۔"اسنے سوچتے ہوئے مسکرا کر فون رکھا پھر جلدی سے اپنی کمرے کی طرف بڑھی کہ جلدی سے تیاری کر لے۔ 

اسنے باکس نکال کر وائٹ ڈریس باہر نکالا۔ جلدی سے چینج کرنے واش روم کی طرف بڑھی۔چینج کر کے آئی پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوئی۔خوبصورت سی شلوار قمیض جس پر نازک موتیوں کا نفیس سا کام ہوا تھا۔

اسنے بال کھول کر برش کیے۔ہاشم کو اسکے کھلے بال پسند تھے۔اسلیے اسنے بال کھلے چھوڑے۔دائیں کلائی میں سفید کانچ کی چوڑیاں پہنیں۔لبوں پر لپ گلوز لگایا ، پلکوں پر مسکارا لگا کر خود کو آئینے میں دیکھ کر اپنا تفصیلی جائزہ لیا۔ہاشم کا ری ایکشن سوچ کر اسکے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ پھیلی۔لب دانتوں میں دبا کر اسنے مسکراہٹ روکی۔پھر بال کان کے پیچھے کر کے بیڈ کی طرف بڑھی۔کپڑوں کا ہم رنگ خوبصورت سا دوپٹہ اٹھا کر شانوں پر ڈالا۔

 لمبی سانس کھینچ کر بیڈ پر بیٹھی۔بیڈ پر رکھا گلاب اٹھایا تو دل جھوم اٹھا۔ہاشم کا خیال دل میں بہار سا سماں پھیلا رہا تھا۔اسے اپنے چار سو محبت کا جادو چکراتے ہوئے محسوس ہوا۔ 

"کب آئیں گے آپ ہاشم۔"اسنے زیر لب کہا پھر ہاتھ میں پہنی رنگ کو دیکھا۔آنکھوں میں دنیا جہان کی خوشی تھی۔وہ مگن سی رنگ کو دیکھ رہی تھی جب کار کا ہارن بجا تو وہ ہڑبڑا کر چونکی تھی۔ہاشم کے آنے کا سوچ کر اسکا دل دھک دھک کرنے لگا جیسے پاگل ہورہا ہو۔

وہ پھول بیڈ پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔نروس انداز میں دوپٹہ ٹھیک کیا۔پھر لمبی سانس بھر کر رفتار پکڑے دل کو قابو کرتی جلدی سے باہر کی طرف بھاگی۔بھاگنے سے اسکی چوڑیاں بج اٹھی تھیں۔بال لہرانے لگے ، آنچل خوشی سے جھوم اٹھا۔ 

وہ جیسے ہی ہال کے دروازے سے باہر نکلی اسکے پاؤں کو بریک لگی۔وہاں ایک کی جگہ دو گاڑیوں اور ان میں سے نکلتے چہروں  کو دیکھ کر وہ پتھر کی ہوگئی تھی۔ 

وہ سب اسکی طرف بڑھ رہے تھے۔چہروں پر مسکراہٹ تھی۔پر نازلی کا ڈر کے مارے برا حال تھا۔

"ماشاء اللہ ہماری بہو تو ہمارا ویلکم کرنے کے لیے تیار کھڑی ہیں۔"خان بابا اسکے سامنے آ کر بولے۔

نازلی نے حیرت سے اپنے پاس سے گزر کر جاتے نوکروں کو دیکھا جو ڈھیر ساری ٹوکریاں کار سے نکال کر اندر کی طرف لے جا  رہے تھے۔

"سسر کو جواب نہیں دینگیں؟"خان بابا نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔باقی سب نے اپنی ہنسی روکی۔ 

"و۔۔۔ وہ خان بابا۔"نازلی نے پریشانی سے انہیں دیکھا۔اس کی آواز رندھ گئی تھی۔آنکھوں میں تیزی سے پانی بھرنے لگا تھا۔ 

"ارے رے بیٹا جی ۔۔۔ رونا بالکل نہیں ہے۔"انہوں نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے کے گرد بازو پھیلایا۔پھر اسے لیے اندر کی طرف بڑھے۔

باقی سب بھی انکے پیچھے اندر داخل ہوئے۔

"اب مجھے بھی ملنے دیں اپنی بہو سے۔"اندر آ کر ام جان نے آگے بڑھ کر نازلی کو گلے سے لگایا۔ 

"ام جان میں۔۔۔"نازلی نے الگ ہو کر صفائی دینی چاہی۔آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر بکھرا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہورہا تھا۔

"شش بچے ہمیں سب معلوم ہے۔آپ تو میری پیاری سی بیٹی ہیں۔آپکو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"ام جان نے محبت سے کہہ کر اسکے آنسو صاف کیے۔ 

"آپ لوگوں کو میں غلط نہیں لگی؟"اسنے نم آواز میں پوچھا۔ 

"جو غلط لگا ہے اسے ذرا آنے دیں پھر اسکی اچھے سے خبر لینگے۔"خان بابا سخت لہجے میں کہتے صوفے پر بیٹھے۔ 

"پر خان بابا وہ ۔۔۔۔"نازلی نے ہاتھ مسلے۔سمجھ نہ آئی کہ آگے کیا کہے۔آبی اور نور مسکراہٹ دبا کر اسے لیے صوفے پر بیٹھیں کہ کہیں محترمہ بیہوش نہ ہو جائے۔ 

ام جان اور داور بھی بیٹھ گئے۔داور تو دلچسپی سے نازلی کو دیکھ رہا تھا۔اسے اگر خبر ہوتی کہ لالہ نے پہلے سے اس حسین لڑکی سے نکاح کیا ہے پھر تو وہ ان دونوں کو خوب تنگ کرتا ۔۔ پر افسوس اسے بے خبر رکھا گیا۔

"وہ کیا بیٹا جی؟"خان بابا نے اسے دیکھا۔

"بولو بھی ۔۔۔لالہ کے حق میں نہیں بولو گی تو انہیں سزا پکی ملنی ہے پھر۔"نور نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔

نازلی نے پریشان نظروں سے اسے دیکھا۔وہ ہاشم کو سزا ملتے کہاں دیکھ سکتی تھی اسلیے جلدی سے بول پڑی۔ 

"وہ بہت اچھے ہیں۔آپ انہیں کچھ مت کہیے گا پلیز۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔

نور آبی تو ہنسی روک گئیں پر داور ایک دم ہنسا تھا۔پھر خان بابا کے ڈر سے ہنسی کا گلہ گھونٹا کہ کہیں ڈانٹ نہ پڑ جائے کیونکہ خان بابا نازلی کے خوبصورت جواب پر بھی بہت سنجیدہ تھے۔"کیا آپ نے ہاشم کو معاف کر دیا ہے؟"کچھ دیر بعد خان بابا نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

نازلی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔وہ جیسے اسکا چہرہ پڑھ رہے تھے پر پھر بھی اسکے منہ سے سننا چاہتے تھے۔

"جی۔"نازلی نے جلدی سے کہہ کر سر جھکا لیا۔اسکے انداز پر خان بابا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"پھر ہم اسے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔آخر ہمارا بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ہماری دوست کا شوہر بھی ہے۔"وہ اچانک شوخی سے بولے تھے۔انکی بات سے ماحول ایک دم خوشگوار ہوا تھا۔ 

نازلی سر جھکائے مسکرانے لگی۔ام جان تو اسے دیکھ کر نظریں اتار رہی تھیں۔وہی انکی خوشیوں کا سبب تھی۔ان باپ بیٹے کو ایک کرنے میں نازلی کا بڑا ہاتھ تھا۔

وہ کیسے اس لڑکی پر واری نہ جاتیں کہ اسکی وجہ سے انہیں اپنا بیٹا واپس ملنے والا تھا۔ 

"خان بابا پر آپکے بیٹے صاحب کہاں ہیں یہ بھی تو پوچھیے۔" داور نے سبکو یاد دلایا کہ ہاشم غائب ہے۔ 

"بچے ہاشم کہاں ہے؟"ام جان نے نازلی کو دیکھا۔

"آفس میں ہونگے۔لنچ کے لیے آنے والے ہیں۔"نازلی نے مدھم آواز میں جواب دیا۔اب وہ ام جان کو یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ اسکی بیوقوفی کی وجہ سے انکا بیٹا کتنا پریشان ہوگا۔ 

اسکی بات پر ام جان نے سر ہلایا۔

"میں آپ لوگوں کے لیے کچھ لاتی ہوں۔"وہ جلدی سے اٹھی۔نور اور آبی بھی اسکے ساتھ جانے لگیں تو داور بھی انکے پیچھے بھاگا۔ام جان اور خان بابا انہیں دیکھ کر ہنسے۔انکے وجود کا کھویا حصہ انہیں آج ملنے والا تھا۔بچے چلے گئے تو وہ اپنی باتیں کرنے لگے۔دکھ کے بعد اب سکھ کی باتیں ہونے لگی تھیں۔وہ سب کچن میں آئے تھے۔

"کچھ گڑبڑ ہے؟"آبی نے نازلی کے کان میں سرگوشی کی۔

"اونچا بولو مجھے بھی سننا ہے۔"داور نے پیچھے آتے مزے سے کہا۔"تم کیوں ہم لڑکیوں کے بیچ آگئے؟"نور نے اسے گھورا۔ 

"تو میں اکیلا بیچارہ کہاں جاؤں؟میرے لالہ کو لا دو پھر میں تم لوگوں کی شکل بھی نہیں دیکھوں گا۔"وہ منہ بنا کر بولا۔ 

آبی تو اسکی بات سنے بغیر فریج سے جوس کا ڈبہ نکالنے لگی۔نور اسے باہر جانے کا کہہ رہی تھی پر وہ کہاں باہر جانے والا تھا.نازلی کی تو داور سے دوستی نہ تھی اسلیے وہ خاموشی سے ٹرے میں گلاس سیٹ کرنے لگی۔ 

"بھابی جی۔"داور نے پکارا۔پر نازلی اپنے کام میں مگن رہی۔آج تک اسے کسی نے اس طرح پکارا نہ تھا کہ اسے عادت ہوتی اور وہ جواب دیتی۔داور ایک دم اسکے ساتھ کھڑا ہوا۔ 

"نازلی بھابی صاحبہ۔"پھر سے شوخی سے پکارا گیا۔ 

نازلی ہڑبڑائی تھی۔"کیا ہوا؟"اسنے داور کو دیکھا۔ 

"میں بس آپ کو اپنا تعارف دینا چاہتا ہوں۔میں آپکا چھوٹا معصوم سا دیور داور خان۔"اسنے سر کو خم دے کر کہا۔ 

اسکے انداز پر نازلی مسکرائی۔ 

"معصوم نہیں ہو تم۔"آبی نے گلاسوں میں جوس ڈالتے منہ بنا کر کہا۔"تم تو خاموش ہی رہو۔"داور نے آبی کو گھورا۔پھر نازلی کو دیکھا۔"آپ نے میری بات پر کچھ نہیں کہا۔"اسنے منہ بسورا۔"نائس ٹو میٹ یو داور۔۔۔۔ میں آپکی بھابی نازلی ہاشم خان ہوں۔"اسنے بھی مسکرا کر داور کے انداز میں جواب دیا۔وہ ایک دم کھل کر ہنسا۔"لالہ نے بیوی چن کر پسند کی ہے۔"اس نے مزے سے کہا۔"تم بھی چن کر پسند کر لینا۔"نور نے اسکا کندھا تھپکا۔"کر لونگا۔"اسنے کالر جھاڑے۔

"ویسے میں آپکو نازلی ہی کہونگا۔"اسنے نازلی سے کہا۔ 

"جو مرضی کہو۔"نازلی نے مسکرا کر جواب دیا۔

"شکریہ شکریہ۔"اسنے دل پر ہاتھ رکھ کر سر جھکایا۔ 

"چلو اب زیادہ ڈرامے نہ کرو۔"آبی نے چڑ کر اسے دیکھا۔"یہ پکڑو ۔۔۔ تم اسے باہر کے کر جاؤ ہم ابھی آتے ہیں۔"اسنے داور کو  ٹرے پکڑائی۔

"یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے تین بہنیں کھڑی ہیں اور بھائی یہ ٹرے لے کر جائے۔"داور نے افسوس سے کہا۔ 

"یہ لے جانے سے بھائی کی شان میں کمی نہیں آئے گی۔اسلیے جلدی سے ٹرے لے کر بھاگو۔"نور نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔وہ بڑبڑاتا ہوا کچن سے باہر نکل گیا۔ 

"تم بتاؤ لالہ کہاں ہیں؟"نور ، نازلی کی طرف پلٹی۔

"آفس میں ہی ہونگے۔"اسنے پریشانی سے کہا۔ 

"ٹھیک سے بتاؤ ناں ساری بات۔"آبی بولی۔ 

نازلی نے انہیں ساری بات بتائی کہ وہ بنا بتائے گئی تھی اور ہاشم گھر آیا تھا اسے نہ پا کر پریشان ہو گیا تھا۔پھر اسے ڈھونڈنے گیا پر اب اسکا فون بھی نہیں لگ رہا تھا۔ 

"اوہ لڑکی ۔۔ چلو کوئی بات نہیں پر آئندہ کہیں بھی جاؤ تو لالہ کو بتا کر جانا۔"نور نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھاما۔نازلی نے سر ہلایا۔"تم دونوں باہر جاؤ۔میں لالہ کو کال کر کے دیکھتی ہوں۔"نور نے اسکا ہاتھ دبا کر چھوڑا۔آبی اور نازلی باہر چلی گئیں۔نور نے ہاشم کا نمبر ڈائل کیا۔دوسری طرف بیل جا رہی تھی پر وہ کال نہیں اٹھا رہا تھا۔ 

نور نے تین ، چار بار ٹرائی کیا پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔اسے پریشانی ہوئی پر پھر یہ سوچ کر سکون آیا کہ شاید موبائل سائلنٹ پر ہو اور پتہ نہ چلا ہو۔

ویسے بھی کچھ وقت تک لنچ پر آ جانا تھا اسنے۔۔۔

 لمبی سانس کھینچ کر وہ بھی باہر آئی۔ 

وہاں خوشگوار ماحول بنا تھا۔سب باتوں میں مصروف تھے۔چہرے پر مسکراہٹیں بکھری تھیں۔نور نے زیر لب ماشاء اللہ کہا کہ اب اسکی پیاری سی فیملی کو کسی کی نظر نہ لگے۔ 

وہ آبی اور نازلی کے ساتھ بیٹھی۔"فون اٹھایا؟"نازلی نے فکر مندی سے پوچھا۔"نہیں ۔۔ پر تم پریشان نہ ہو۔کچھ وقت تک لنچ کے لیے تو آنا ہی ہے۔پھر تم ان سے سوری کر لینا۔"وہ مدھم آواز میں بولی۔"ویسے لالہ تمہیں کچھ بھی کہنے والے نہیں ہیں۔۔۔ یہ تو پکا معلوم ہے مجھے۔"اسنے شرارت سے کہا تو نازلی کی آنکھیں چمکنے لگی لبوں پر دلکش مسکراہٹ سجی ، وہ نور کے دیکھنے پر سر جھکا گئی۔پھر وہ سب باتیں کرتے ہاشم کا انتظار کرنے لگے کہ وہ آئے اور پرانی سب تلخیاں ختم ہوجائیں ، خوشیاں انکی زندگی میں داخل ہوں اور وہ سب ہمیشہ ساتھ مل کر رہیں۔بس ایک اس شہزادے کے آنے کی دیر تھی پھر سب کچھ ٹھیک ہوجانے والا تھا۔ہر الجھی ڈور سلجھ جانے والی تھی۔پر اگر وہ شہزادہ کبھی آیا ہی نہ تو کیا ہوگا؟ہر ڈور ٹوٹ جائے گی۔وہاں بیٹھے وہ سب ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔وہ سبکی خوشیوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔پھر کوئی بہار نہیں آئی گی۔پھر کسی کے لب نہیں مسکرائیں گے۔پھر کوئی جی نہیں پائے گا

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"نہ ملتے گر جو ہم تم سے کبھی اظہار نہ ہوتا۔"

"تو میری زندگی میں تیرے جیسا یار نہ ہوتا۔"

"نئی سی زندگی دے دی تمہاری مست آنکھوں نے۔"

"کب کے مر چکے ہوتے اگر دیدار نہ ہوتا۔"

"یہ پوچھو ہیر رانجھا سے محبت کی سزا کیا ہے؟"

"نہ کرتے عشق وہ دونوں جینا دشوار نہ ہوتا۔"

"محبت درد بنتی ہے اگر معلوم ہوجاتا۔"

"نہ یوں بے موت وہ مرتی میں زار و زار نہ روتا۔"

"ہزاروں زخم کھائیں ہیں صائم مگر یہ دعویٰٰٰ ہے۔"

"ادھوری زندگی ہوتی اگر یہ پیار نہ ہوتا۔"

________________(از قلم شیر حسین صائم)

ہاشم بے چینی سے اس وقت ان زمینوں پر کھڑا تھا۔جو بڑی اور چھوٹی حویلی والوں کے بیچ فساد کا باعث تھیں۔وہ نازلی کو سوچتے ادھر سے اُدھر چکر لگا رہا تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ جمال آغا نے اسے انہیں زمینوں پر کیوں بلایا تھا۔وہ کہیں اور بھی تو بلا سکتا تھا۔خیر اسے اس وقت صرف نازلی کی فکر تھی کہ جانے وہ کیسی ہوگی۔

وہ منحوس انسان اسے بلا کر خود غائب تھا۔جانے کہاں مرا ہوا تھا۔ہاشم مشکل سے خود پر ضبط کر کے لب بھینچے وہاں کھڑا تھا۔ورنہ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر ڈالتا پر محبت نے اسکے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔

محبت انسان کو کس قدر بے بس و مجبور کرتی ہے یہ کوئی اس وقت ہاشم سے پوچھتا۔

اس مغرور شہزادے کو محبت نے اپنا غلام بنا دیا تھا۔اپنی محبت کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھا۔

وہ دور خلا میں گھورتا سوچوں میں گم تھا۔تبھی دور سے ایک گاڑی تیزی سے اسکی طرف آ رہی تھی۔گاڑی کو پہچان کر ہاشم سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے گھورنے لگا۔ 

گاڑی کچھ فاصلے پر رکی۔جمال آغا کار سے باہر نکلا۔لبوں پر مسکراہٹ لیے وہ چل کر آتا ہاشم کے سامنے کھڑا ہوا۔ 

"ہیلو بڈی۔"اسنے ہاشم کو دیکھ کر مکار صورت کے ساتھ  کہا۔

ہاشم جو کب سے ضبط کیے کھڑا تھا۔ایک پل میں ضبط کا دامن  ہاتھ سے چھوٹا تھا اور اگلے پل اس نے جمال آغا کو گریبان سے پکڑا تھا۔ 

"کمینگی کر کے اب تم مجھ سے اس انداز میں بات کرو گے خبیث انسان۔"ہاشم نے اسے زور سے جھنجھوڑا۔

جمال آغا کا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہوا اور وہ جلتی نظروں سے ہاشم کو دیکھنے لگا۔

وہ خود بھی ہاشم کی طرح لمبا چوڑا تھا۔مضبوط بھی تھا پر ہاشم کے سامنے ہمیشہ اسکی طاقت کم پڑ جاتی تھی۔ ہر میدان میں وہ ہمیشہ ہاشم سے ایک قدم پیچھے رہا تھا اور یہی بات اسے گوارا نہ تھی۔یہی بات اسے ہاشم سے ہر بار مزید نفرت کرنے پر اکساتی تھی۔

اور اب تو وہ ایسے مقام پر تھا کہ جہاں کیا ہی کوئی دیوانہ عاشق ہوتا۔وہ اپنی محبت میں نہیں اپنی نفرت میں عاشق بن گیا تھا۔لوگ جیسے محبت میں اپنے محبوب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ویسے وہ نفرت میں اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو ہمیشہ دکھی دیکھنا چاہتا تھا۔جیسے عاشق اپنے محبوب کو مرتے نہیں دیکھ سکتا ویسے ہی وہ اپنے اس دشمن کو جیتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ 

لوگ کہتے ہیں محبت مشکل ہوتی ہے ارے کوئی انہیں بتائے کہ یہ نفرت بھی اتنی ہی مشکل ہوتی ہے۔کوئی عاشق عشق میں اتنا نہیں تڑپتا ہوگا جتنا ایک شخص نفرت میں تڑپتا ہے۔

نفرت بھی ایسی ویسی نہیں ۔۔۔۔ بچپن سے پروان چڑھتی نفرت جو جوانی سے آج اسے اس مقام تک لے آئی تھی کہ اب وہ یا تو خود اس دنیا میں رہنا چاہتا تھا یا پھر ہاشم کو رہنے دینا چاہتا تھا۔بہت برداشت کر لیا تھا اسنے ۔۔۔ اب اور نہیں ۔۔۔ آج آر یا پار ۔۔۔ کوئی ایک فیصلہ آج ہونے والا تھا۔ 

"نازلی کہاں ہے؟"ہاشم کی دھاڑ پر وہ اسے دیکھنے لگا۔ 

"کہاں ہونی چاہیے؟"اسنے پر سکون انداز میں جواب دیا۔

"بہت ہوگئے تمہارے یہ گندے کھیل ۔۔۔۔بتاؤ نازلی کہاں ہے؟"

ہاشم نے دانت پیس کر اپنے الفاظ پر زور دیا۔جمال آغا کا گریبان اب بھی اسنے تھام رکھا تھا۔جمال آغا نے خود کو چھڑانے کی ذرا سی بھی کوشش نہ کی۔جیسے اسے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ 

"ایک بات تو بتاؤ تم مجھے۔"اسنے ہاشم کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"نازلی تمہاری بیوی ہے یا میری جو تم اسکے بارے میں مجھ سے پوچھتے رہتے ہو۔"وہ طنزیہ ہنس کر اسے دیکھنے لگا۔ 

اسکی بات پر ہاشم کی کنپٹی پر رگیں ابھریں۔چہرہ لال ہوا۔پھر اسکا مضبوط ہاتھ اٹھا اور جمال آغا پیچھے کی طرف گرا تھا۔اسکا چہرہ گھوم کر رہ گیا تھا۔ 

"ہر وقت بکواس ، ہر وقت کمینگی ، تم انسان ہو یا شیطان۔۔"وہ غرا کر جمال آغا کی طرف بڑھا۔ 

"آج تمہارا قصہ ختم کرنا پڑیگا جمال آغا ورنہ تم باز آنے والوں میں سے نہیں ہو۔"اسنے جمال آغا کو کھینچ کر کھڑا کیا تھا۔وہ چہرے پر ہاتھ رکھے ہاشم کو نفرت سے دیکھ رہا تھا۔ 

"قصہ تو تمہارا میں ختم کرونگا ہاشم خان۔"وہ غصے سے چبا کر بولا۔

"شٹ اپ یو لوزر۔"ہاشم نے اسے ایک اور زور دار مکا رسید کیا۔

جمال آغا درد سے ایک طرف کو جھکا۔اسکے منہ سے تیزی سے خون نکلنے لگا۔

"آخری بار پوچھ رہا ہوں کہ نازلی کہاں ہے؟"ہاشم نے دائیں ہاتھ سے اسکا کالر پکڑ کر اسے جھٹکے سے اپنے مقابل کھڑا کیا۔

اسکی بھاری آواز غصے سے کانپ رہی تھی۔ 

جمال آغا نے اسکی بات پر شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھا۔پھر اپنے گندے الفاظ سے اسکے دل کو نوچا تھا۔ 

"تمہاری نازلی میرے گھر ، میرے کمرے ، میرے بیڈ پر ۔۔۔۔"اسنے گری ہوئی بات کر کے ہاشم کو آگ لگانے والے انداز میں دیکھا پھر مکاری سے ہنس کے لبوں پر زبان پھیری۔افف ہاشم کو جیسے اسنے جلتی آگ میں دھکیل دیا تھا۔ اسکی ہستی کو جلا کر خاک کر ڈالا تھا۔ہاشم غصے سے تپ اٹھا پھر کوئی ہاشم کو روکتا تو روکتا کیسے۔۔۔۔۔

"تم گندے غلیت آدمی ۔۔۔ تمہاری اتنی ہمت۔"ہاشم حلق کے بل دھاڑا۔پھر اسکا ہاتھ اٹھا تو رکنا بھول گیا۔جمال آغا مار کھا کھا کر زمین پر ڈھیر ہوا تھا پر ہاشم نے بس نہیں کی تھی۔وہ جیسے غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ 

جبکہ جمال آغا مار کھا کر بھی ہنس رہا تھا۔اسکی ہنسی ہاشم کو اور آگ لگا رہی تھی۔ 

"تمہارا وہ حال کرونگا کہ آج کے بعد ہنسنا اور گندی باتیں منہ سے نکالنا بھول جاؤ گے تم کمینے آدمی۔"ہاشم نے چبا کر کہتے اسکے منہ پر مکا مارا۔جمال آغا درد سے دوہرا ہوا۔ہنسی اب رکی تھی۔اسنے پھر سے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو جمال آغا نے جلدی سے چہرے کے سامنے ہاتھ کر کے اسے مارنے سے روکا۔ 

"اچھا یار ذرا رک جاؤ۔۔۔۔ اب کیا جان سے مارو گے۔"وہ بیچارگی سے بولا۔ 

"آج تو تمہارا کھیل ختم کرونگا۔"ہاشم نے چبا کر کہا۔

"مارنا مت اب اور ہمت نہیں ہے یار۔نازلی کا بتاتا ہوں سن لو۔"اسنے منہ سے نکلتے خون صاف کرتے ہوئے کہا۔خون نے اسکی سفید شرٹ کو بھی بھر دیا تھا۔ 

نازلی کے نام پر ہاشم نے اسے جھٹکے سے چھوڑا۔ 

"بکو۔۔۔"گھور کر ضبط سے کہا گیا۔ 

"نہیں ہے تمہاری بیوی میرے پاس ۔۔۔ وہ تابین کے ساتھ ہے۔سدھر گئی ہے تابین تمہاری محبت ہے۔نازلی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتی ہے اسلیے اسے بلایا ہے۔"وہ رک کر طنزیہ ہنسا۔"کہاں تو انتقام لے رہی تھی اور کہاں اب ہاتھ پاؤں جوڑ رہی ہوگی۔"اسنے تپ کر سر جھٹکا۔"خیر میں نے اسے فون کیا تھا تو مجھے تب پتہ چلا کہ نازلی کا موبائل گر کر ٹوٹ گیا ہے۔اور وہ اگلے کچھ گھنٹے تابین کے ساتھ ہے تو پھر میں نے سوچا کیوں نہ اپنے بچپن کے دشمن کے ساتھ ذرا یہ کھیل کھیلا جائے۔"وہ آنکھ مار کر ہنسا۔ہنسنے سے منہ کو تکلیف ہوئی تو چہرے کو ہاتھ سے دبانے لگا۔ 

"ویسے کیا مارتے ہو تم ۔۔۔ ایک ایک ہڈی ہلا دی ہے میری۔جبڑا تک ہل کر رہ گیا ہے۔"اسنے ہاشم کو دیکھ کر کہا۔پھر اسکی سنجیدہ صورت دیکھ کر بولا۔ 

"ہاں جانتا ہوں تمہیں یقین نہیں ہے مجھ پر۔۔۔۔ رکو تابین کے منہ سے سن لو۔"اسنے موبائل نکال کر تابین کو کال ملائی۔اس سے نازلی کا پوچھا تو اسنے بتایا وہ تو کب کی گھر جا چکی ہے اور یہ کہ انکے بیچ سب ٹھیک ہوگیا ہے۔

اسکی باتیں سن کر ہاشم کے دل میں سکون اترا تھا۔فلحال اسے حسن آفندی کا نہیں معلوم تھا۔بس تابین کا نازلی سے ملنا اور امن کا جھنڈا لہرانا ہی اسے خوشی دے گیا تھا۔اس بات پر ہاشم کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تھا۔ 

جمال آغا نے فون بند کر کے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیسا لگا پھر یہ کھیل؟"وہ مزے سے پوچھ رہا تھا۔ 

"تم اول درجے کے گھٹیا اور کمینے انسان ہو۔"ہاشم نے دانت پیس کر جواب دیا۔ 

جمال آغا درد کی پرواہ کیے بنا اب کی بار دل کھول کر ہنسا۔ 

"اسے میں اپنی تعریف ہی سمجھوں گا۔۔۔۔کیونکہ یہاں میں تم سے آگے ہوں۔پہلے نمبر پر ہوں۔ یہاں ہاشم خان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔یہاں صرف جمال آغا ہے۔"وہ مزے سے کہتا پھر ہنسنے لگا۔ہاشم کو وہ پاگل انسان لگا تھا۔

"سائیکو آدمی۔"ہاشم نے چبا کر بڑبڑایا۔پھر پلٹنے لگا کہ یہاں سے جائے۔کیا اس پاگل آدمی کے ساتھ اپنا وقت برباد کرے۔ 

"تمہاری مسلسل جیت نے مجھے سائیکو بنایا ہے ہاشم خان۔"اسکی بات کے جواب میں جمال آغا ایک دم غصے سے دھاڑا تھا۔ 

"اچھی بات ہے۔"ہاشم لاپرواہی سے کہتا جانے لگا۔ 

"تمہیں معلوم ہے آج میں نے تم سے اتنی مار کیوں کھائی ہے۔"اس سوال پر ہاشم نے رک کر اسے دیکھا۔ 

"آخری بار اپنے سب سے بڑے دشمن کی مار کا مزہ لوٹا ہے میں نے۔آگے بھلا تم کہاں زندہ رہو گے مجھے مارنے کے لیے۔۔۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں تمہارے جانے کے بعد تمہیں مس کروں۔اسلیے سوچا آخری بار تم سے مار کھا لینی چاہیے۔اب تمہارے دیے ان زخموں کو اپنے ساتھ لے کر پاکستان سے جاؤنگا اور تم میرے دیے زخموں کو لے کر اس دنیا سے جاؤگے۔"وہ سرد انداز میں اسے دیکھ کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ 

"تم مجھے مارو گے؟"ہاشم طنزیہ ہنسا۔

"خوشی سے ۔۔۔ "اسنے کار کا دروازہ کھولا۔"دل تو تھا کہ تمہیں مار کر اسی زمین میں دفن کرتا اور تمہارے باپ کو کہتا لو رکھو یہ زمین آج سے اس پر صرف تمہارا حق ہے کیونکہ اس میں تمہارا اکلوتا بیٹا دفن ہے پر۔۔۔"اسنے جھک کر کار سے کچھ نکالا۔"پر اب تمہاری مار کھا کر اتنی ہمت نہیں ہے مجھ میں کہ تمہاری قبر کھودوں اسلیے ویسے ہی سڑتے رہنا یہاں ۔۔۔۔۔تب تک جب تک کوئی یہاں آ نہیں جاتا۔کیونکہ تمہیں تو معلوم ہے ناں کہ یہاں تو کم ہی کوئی آتا ہے۔ہماری دشمنی کی وجہ سے گاؤں والے ان زمینوں پر آنے سے ڈرتے ہیں اور دونوں حویلیوں میں سے بھی کوئی یہاں آتا نہیں۔۔۔"وہ اپنی کہے جا رہا تھا اور ہاشم اسکے پاگل پن کو نوٹ کر رہا تھا۔اسے لگا تھا کہ ویسے ہی اپنی بھڑاس نکال رہا ہوگا پر جب اسنے گاڑی سے ہٹ کر سامنے آ کر پسٹل ہاشم کی طرف تانی تب ہاشم کو احساس ہوا تھا کہ جمال آغا واقعی پاگل ہوگیا ہے۔ 

"اللہ حافظ پیارے کزن۔"اسنے نفرت سے ہنس کر کہا اور پھر گولی چلی تھی۔جو سیدھا ہاشم کے سینے میں لگی تھی۔ 

سیاہ آنکھیں حیرت سے پھیل کر سمٹی تھیں۔مضبوط قدم لڑکھڑائے تھے۔اسکے لڑکھڑانے سے دوسری گولی جسے پھر  سینے کا نشانہ لے کر فائر کیا گیا تھا وہ ہاشم کے بائیں کندھے پر لگی تھی۔

خون تیزی سے نکل کر اسکے نیوی بلیو کوٹ کو لال رنگ میں تبدیل کر رہا تھا۔وہ اگلے پل لڑکھڑا کر زمین بوس ہوا تھا۔

"تیسری گولی ماروں کہ رہنے دوں؟"جمال آغا نے جیسے خود سے پوچھا تھا۔پھر کچھ سوچ کر پسٹل نیچے کر دیا۔ 

"چھی چھی سبکا مغرور شہزادہ دو گولیوں میں ہی ڈھیر ہوگیا۔"وہ ہاشم کے خون میں لت پت وجود کو دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنسا۔ 

"جمال آغا تو ہاشم خان سے زیادہ مضبوط ہے۔میں اتنی مار کھا کر بھی نہیں مرا اور تم دو گولیوں میں مرنے جا رہے ہو ۔۔۔۔افسوس۔"وہ نفرت اور خود پسندی کی ملی جھلی کیفیت میں کہہ رہا تھا۔

وہ بھول رہا تھا کہ ہاتھ کی مار اور پسٹل کی گولی میں فرق ہوتا ہے۔وہ کسی بھی حال میں خود کو ہاشم سے زیادہ طاقتور ثابت کرنا چاہتا تھا۔اسنے قریب آ کر ہاشم کی نم آسمان کو تکتی آنکھوں میں دیکھا۔"ان للہ وانا الیہ راجعون۔"اسنے مصنوعی افسوس و دکھ سے کہا پھر ہنس کر پلٹا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔"لو اب میرا کوئی دشمن نہ رہا۔"وہ مزے سے کہتا گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا اور سب کی دلوں کی دھڑکن ہاشم خان۔۔۔ وہ وہاں زمین پر لیٹا نم اور دھندلی ہوتی آنکھوں سے آسمان کو تک رہا تھا۔افف ان سیاہ آنکھوں میں انتہا کا درد تھا۔ان میں تیرتی نمی اس مضبوط شخص کے درد کی انتہا بیان کر رہی تھی۔اسکی آنکھوں کے سامنے سب اپنوں کے چہرے آ رہے تھے۔خان بابا ۔۔۔ اس سے روٹھے ہوئے اس کے پیارے خان بابا ۔۔۔۔ اسے ہر پل چاہنے والی اسکی ام جان ، اسکا بچھڑا یار ، اسکا دوست شہریار ۔۔۔ اپنے لالہ پر جان وارنے والی اسکی مانو ، اسکا ساتھ دینے والی اسکی پیاری بہن آبی ، لالہ کی جان  شرارتی سا داور ، ایک ایک کی صورت اسکی آنکھوں کے سامنے آ رہی تھی۔سب سے آخر میں اسے وہ نظر آئی۔

نیلی آنکھوں والی ۔۔۔ قاتل آنکھوں والی ، ہاشم خان کی نازلی ، اسکی جان ، اسے سب یاد آنے لگا۔اس شاداب چہرے کا  گلابی پن، لبوں کا مدھم سا مسکرانا ، کبھی اس گڑیا کا غصے میں ہونا ، کبھی اسکی حرکتوں سے تنگ آجانا۔ اسکا نروس انداز میں سیاہ آبشار بالوں کو کان کے پیچھے کرنا۔پھر کبھی اسکا رونے لگ جانا۔۔۔۔۔نیلی آنکھوں کا سمندر ہونا ۔۔۔جو اسکے لیے سب سے جان لیوا منظر ہوتا تھا ۔۔۔ لو آج وہ جان سے جانے والا تھا پر وہ اس پیاری لڑکی کے ساتھ جینا چاہتا تھا۔اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا پر۔۔۔۔۔

"مجھے اپنے مرنے کا غم نہیں لیکن۔"

"ہائے میں تجھ سے بچھڑ جاؤں گا۔"

سیاہ آنکھ سے ایک آنسو نکل کر کنپٹی سے ہوتا زمین پر گرا۔نازلی کا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے تھا۔وہ کرب سے مدھم سا مسکرایا۔نہ یہ دنیا والے اسے اس لڑکی کے ساتھ رہنے دیتے ہیں اور اب تو  موت بھی بیچ میں آگئی ہے۔اب تو بچھڑنا لازم ہوگیا ہے۔جو بھی ہوتا وہ جیتا یا مرتا پر اس لڑکی کا اس سے بچھڑنا طے ہو چکا تھا۔اسکے چہرے سے مسکراہٹ سمٹی تھی۔درد اسکے پورے وجود میں پھیل چکا تھا۔

وہ زمین ہاشم خان کے خون کو اپنے اندر جذب کرتی جا رہی تھی۔درد اتنا بڑھا کہ آخر کار آسمان کو تکتی درد میں ڈوبی سیاہ دلکش آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی چلی گئیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شہریار گھر میں بے چین بیٹھا رہا پھر جب حالت مزید بگڑنے لگی تو وہ گاڑی لے کر زمینوں کی طرف نکلا۔

جانے کیوں آج وہ ان زمینوں کی طرف آیا تھا جہاں ایک عرصے سے کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔

اسنے کار ایک طرف کھڑی کی پھر چل کر آگے بڑھنے لگا۔دور اسے ایک گاڑی کھڑی نظر آئی۔

"یہ یہاں کون آگیا۔"خود کلامی کرتا وہ آگے بڑھنے لگا۔ 

جیسے جیسے قریب آتا گیا ویسے ویسے ہاشم کی کار واضح طور پر اسکی نظروں کے سامنے آئی۔

"یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔"اسنے سوچا۔پھر آگے بڑھنے لگا پر پھر ہاشم سے سامنے کا سوچ کر اسکے اعصاب تن گئے۔ 

دل کیا یہاں سے پلٹ جائے پر جانے کونسی چیز اسے اس طرف کھینچ رہی تھی۔وہ آہستہ سے آگے بڑھا۔کار میں دیکھا تو کار خالی تھی۔ 

وہ پلٹ کر دوسری طرف آیا اور کار سے تھوڑے فاصلے پر اسنے ہاشم کو دیکھا ۔۔۔ خون میں لت پت آنکھیں بند کیے پڑا ہاشم ۔۔۔ شہریار کے قدم زمین میں جکڑے گئے۔آنکھیں پتھر کی ہوگئیں۔ 

ہاشم کے سفید چہرے کو دیکھ کر اسکا دل کانپنے لگا تھا۔اگلے پل وہ ہوش میں آ کر ہاشم کی طرف بھاگا تھا۔

"ہاشم ۔۔۔ ہاشم یار آنکھیں کھولو۔"اسنے نیچے بیٹھ کر ہاشم کا سر اپنی گود میں رکھا۔

"یہ ۔۔ یہ کس نے کیا ۔۔۔ ہاشم ۔۔۔ ہاشم ۔۔۔"اسکا دل باہر آنے کو تھا۔وہ اسکے بچپن کا دوست تھا۔بھلے ہی وہ ہاشم سے ناراض تھا پر وہ اسے مرتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ہاشم کو اس حالت میں دیکھ کر اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسکے جسم سے روح کھینچ رہا ہو۔ 

"ہاشم ۔۔۔ اٹھ میرے یار ۔۔۔ "اسنے ہاشم کا گال تھپکا۔اسکی آواز ایک دم بھاری ہوئی تھی۔آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔ 

اسنے اپنے حواس پر قابو پایا پھر ہاشم کی حالت کو نوٹ کیا۔اسے ایک گولی کندھے پر لگی تھی اور ایک دل میں ۔۔۔۔ 

اسنے جلدی سے اسکی نبض ٹٹولی۔اسے کچھ محسوس نہ ہوا۔نبض تھم چکی تھی اور اسکے ساتھ ہی شہریار کا دل بھی  تھمنے لگا تھا۔  

"یار ایسا تو نہ کر ۔۔۔ ہاشم ۔۔۔"اسنے تڑپ کر کہتے اب ہاشم کی دھڑکن چیک کی ۔۔۔ پر کچھ محسوس نہ ہوا۔اسے نہیں پتہ تھا کہ ہاشم کی دھڑکن چل رہی ہے کہ نہیں۔۔۔ اسکے اعصاب شل ہو چکے تھے۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ 

اسنے کانپتے دل کے ساتھ ہاشم کو جلدی سے اسکی کار کی بیک سیٹ پر ڈالا اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ 

اسنے گاڑی آگے بڑھائی۔گاڑی فل اسپیڈ سے آگے ہی آگے بھاگتی جا رہی تھی۔شہریار کو لگ رہا تھا وہ تیز طوفانوں کی زد میں ہے۔ذہن میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ ہاشم کو مرنا نہیں 

چاہیے۔اگر اسے کچھ بھی ہوگیا تو وہ سب بھی جی نہیں پائیں گے۔وہ سب بھی اسکے ساتھ ہی مر جائیں گے۔

ہاشم کو اس حالت میں دیکھ کر اسکی ناراضگی کہیں دور جا سوئی تھی اور وہ جو ایک عرصے سے اس سے معافی مانگتا آیا تھا آج شہریار کی ناراضگی ختم ہونے پر بھی بے خبر لیٹا تھا۔ جیسے اسے اب اس دنیا سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔جیسے وہ دنیا کو الوداع کہہ چکا ہو۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"جانے وہ نالائق کہاں رہ گیا ہے۔اب تک نہیں آیا۔"خان بابا نے فکر مندی سے گھڑی دیکھی۔دو بجنے کو تھے۔ 

"انہیں کام ہوگا خان بابا ۔۔۔ ہم کھانا لگاتے ہیں آپ لوگ کھا لیں۔ہاشم جب آئیں گے تو کھا لینگے۔"نازلی نے اٹھتے ہوئے کہا۔"مجھے تو ذرا بھوک نہیں ہے بیٹا ۔۔ بس دل عجیب ہورہا ہے۔"ام جان نے کہا۔پہلے وہ بالکل ٹھیک تھیں پر تھوڑی دیر پہلے جانے کیوں انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی انکا دل مٹھی میں بھینچ رہا ہو۔ 

"ہمیں بھی بھوک نہیں ہے۔کھانا رہنے دیں۔ہم ذرا آرام کریں گے۔"خان بابا اٹھ کھڑے ہوئے۔ام جان بھی انکے ساتھ اٹھیں کہ ہاشم کے آنے تک آرام کر لیں شاید اس سے انکی حالت ٹھیک ہوجائے۔نازلی نے انکے لیے ایک روم کا دروازہ کھولا۔وہ اندر داخل ہوئے تو وہ واپس ہال میں آئی۔وہاں داور ٹی وی لگائے بیٹھا تھا۔

وہ نور اور آبی کے ساتھ صوفے پر آ کر بیٹھی پھر ایک نظر ٹی وی پر ڈالی۔جہاں کوئی مووی لگی تھی۔

جانے اچانک دل اتنا بھاری کیوں ہورہا تھا۔اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ رونے لگ جائے۔وہ سر جھکا کر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔ 

"نازلی ۔۔"نور نے پکارا۔ 

"ہوں۔"اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"اس لباس میں بہت پیاری لگ رہی ہو۔"نور نے مسکرا کر تعریف کی۔"شکریہ۔"وہ مدھم سا مسکرائی۔"ہاشم لے کر آئے تھے۔" اسنے محبت سے دوپٹے کو چھو کر بتایا۔ 

"اوئے ہوئے ۔۔۔۔ تبھی اتنا جچ رہا ہے۔"آبی نے شرارت سے اسے دیکھا۔وہ مسکرا کر سر جھکا گئی۔آبی اور نور اسے تنگ کرنے لگیں پر اسکا دھیان ہاشم میں اٹکا رہا۔ 

تبھی نور کا موبائل رنگ ہونے لگا۔اسنے موبائل اٹھایا تو شہریار کا نام اسکرین پر چمک رہا تھا۔"لالہ ہیں؟"آبی نے آنکھیں مٹا کر پوچھا۔"ہاں ۔۔"اسنے آبی کو گھورا۔وہ شہریار سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔"اٹھاؤ فون نور ۔۔۔ کیا پتہ کوئی ضروری بات ہو۔"نازلی نے اسے دیکھ کر کہا۔ 

"اچھا ۔۔"نور منہ بنا کر اٹھی پھر تھوڑی دور جا کر فون اٹھایا۔آبی اور نازلی اسکے منہ بنانے پر اسے دیکھ کر ہنسنے لگیں۔ 

تبھی سلام کے جواب میں دوسری طرف کی بات سن کر نور کا رنگ ایک دم سے زرد ہوا جیسے کسی نے تمام رنگ نوچ ڈالے ہوں۔ 

وہ بت بنی کھڑی تھی۔اسے دیکھتی نازلی کا دل رفتار پکڑ گیا۔ 

وہ جلدی سے اٹھ کر اس تک آئی۔ 

"ک ۔۔کیا ہوا نور ۔۔۔"اسکی زبان لڑکھڑائی تھی۔ 

نور نے خالی نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"لالہ ۔۔۔"اسنے اتنا ہی کہا اور نازلی کے چہرے سے خون نچڑا 

تھا۔چہرہ ایک دم سفید ہوا تھا۔ 

"ہ۔۔۔ہاشم ۔۔۔ ہاشم کو ک۔۔۔کچھ ہوا ہے؟"اسنے اٹک کر پوچھا اور اسکے پوچھنے پر نور وہیں زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگی۔داور ، آبی بھاگ کر اسکی طرف آئے۔کمرے سے خان بابا اور ام جان بھی دل تھامے باہر آئے۔سب نور سے پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا؟  اور نازلی پتھر کا مجسمہ بنی کھڑی تھی۔ 

"جدا جو اگر ہوئے تم ہم سے۔"

"پھر ہم بھی کہہ رہے ہیں یہ قسم سے۔"

"جس پل تم جدائی کا پروانہ دوگے۔"

"ہم بھی تمہیں اپنی سانسیں تھمنے کا اشارہ دینگے۔"

"نہ آئے یقین ، تو جدا ہو کر دیکھو ہم سے۔"

"ہم بھی نہ مر مٹے تو عشق کرنا چھوڑ دینا ہم سے۔"

________________(از قلم نوشابہ چوہان)

نازلی کے دل کی دھڑکنیں ڈر ڈر کر چل رہی تھیں۔وہ خوف بھری نظروں سے ماہ نور کو دیکھ رہی تھی۔

"بتاؤ نور ۔۔۔ بولو کیا ہوا ہے؟"ام جان کانپتے دل کے ساتھ نور کا کندھا ہلا کر پوچھنے لگیں۔سب نور کے جواب کے منتظر تھے۔

"لالہ ۔۔۔ لالہ کو کسی نے گولیاں ماری ہیں ام جان۔"وہ بتا کر رونے لگی۔

ام جان کا رنگ فق ہوا۔خان بابا کے مضبوط قدم لڑکھڑائے تھے۔

"خان بابا۔"داور نے جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں تھاما۔ 

نازلی تو پہلے ہی سمجھ چکی تھی کہ ہاشم کو کچھ ہوا ہے پر نور کی بات سن کر اسے لگا جیسے کسی نے اسکے دل کو نوچا تھا۔وہ ام جان کے رونے کی آواز پر چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔پھر نور کو دیکھ کر بولی۔

"ک۔۔۔ کہاں ہیں ہاشم؟"اسکی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔  

"شہریار انہیں ہوسپٹل لے کر گئے ہیں۔"نور نے نم آنکھیں اٹھا کر نازلی کے زرد چہرے کو دیکھا۔ 

"مجھے اپنے بچے کے پاس جانا ہے ۔۔۔ مجھے ابھی ہاشم کے پاس جانا ہے۔"ام جان عجلت سے خان بابا کی طرف بڑھیں۔

جنکا چہرہ سپاٹ تھا پر ہاتھوں میں لغزش صاف دیکھی جا سکتی  تھی۔ 

"داور شہریار کو کال ملا کر پوچھیں کہ وہ کون سے ہوسپٹل میں ہیں۔"خان بابا نے بھاری آواز میں کہا۔

انکا اکلوتا بیٹا جسے ایک عرصہ انہوں نے خود سے دور رکھا تھا اور اب جب وہ اپنی ناراضگی بھلانے کو تیار تھے۔تب وہ ان سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو کر جانا چاہتا تھا۔یہ ظلم تھا۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔وہ یہ سب برداشت نہیں کر پائیں گے۔

نازلی انہیں دیکھ رہی تھی۔اسکی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گالوں پر گرنے لگے تھے۔خان بابا نے اسے دیکھا پھر بے جان قدموں کے ساتھ اسکے قریب آئے اور اسکا سر لے کر اپنے سینے سے لگایا۔

نازلی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔وہ انکے سینے پر سر رکھ کر ایک دم زار و قطار رونے لگی۔ 

خان بابا کی آنکھیں بھی ضبط سے لال ہورہی تھیں۔وہ خاموشی سے نازلی کا سر تھپک رہے تھے۔انہیں الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ وہ اسے کیا کہیں۔کیسے تسلی دیں۔۔۔۔۔وہاں موجود ہر فرد اس خبر کو سن کر ٹوٹ چکا تھا۔ہاشم ان سب کے لیے اہم تھا۔اسکی حالت کا سن کر سب پر قیامت ٹوٹی تھی۔ 

ام جان صوفے پر بیٹھ کر روتیں اپنے جگر کے ٹکڑے کے لیے دعائیں کرنے لگیں۔ 

آبی ، نور کے پاس زمین پر بیٹھی اسے خاموش کروا رہی تھی پر اسکی اپنی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ 

شہریار سے فون پر بات کرتے داور کی آنکھیں بھی نم تھیں۔اسنے بہت مشکل سے خود کو سنبھال رکھا تھا۔اسنے شہریار سے ہوسپٹل کا پوچھا۔اسکے بتانے پر وہ لوگ وقت ضائع کیے بغیر ہوسپٹل جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ 

سب پر ایک ایک لمحہ بھاری پڑ رہا تھا۔دلوں میں گہرا سکوت چھایا تھا۔

نازلی گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھی گود میں رکھے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔آج تو اسکی زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہونا چاہیے تھا پھر یہ اچانک کیسی ہوا چلی تھی جو ساری خوشیاں اپنے ساتھ اڑا لے گئی تھا اور اب پیچھے دکھ کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا۔

وہ دیوانہ شخص اسکی زندگی بن گیا تھا۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو نازلی کی زندگی میں بھی کچھ باقی نہیں بچے گا۔وہ برباد ہو  جائے گی۔خوشیاں تو جیسے اسکی قسمت میں تھیں ہی نہیں۔ 

کیا اسے خوش ہونے کا کوئی حق نہ تھا؟ 

کیا اسکے نصیب میں صرف دکھ ہی دکھ لکھے گئے تھے؟ کیا وہ کبھی سکون سے نہیں رہ سکتی تھی؟ کیا اسکے مقدر میں ہمیشہ آنسو ہی لکھے تھے؟ 

 نور نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو وہ چونکی۔اس نے نم آنکھیں اٹھا کر نور کو دیکھا۔وہ خود بھی رو رہی تھی۔وہ شخص ہر کسی کے دل میں بستا تھا۔ہر آنکھ اسکے لیے اشک بار تھی۔کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھے۔انہیں گہری چپ لگ چکی تھی۔نور خاموشی سے تسلی دینے والے انداز میں نازلی کا ہاتھ تھپک  رہی تھی۔نازلی اسکے ہاتھ میں تھامے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔آنکھوں پھر سے جل تھل ہوئی تھیں۔

کچھ دیر بعد وہ سب ہوسپٹل پہنچے۔خان بابا نے ریسپشن سے معلومات کی پھر خود کو مضبوط کر کے آگے بڑھنے لگے۔وہ سب دل میں خوف لیے انکے پیچھے چل رہے تھے۔

دور شہریار انہیں کوریڈور میں چکر کاٹتا ہوا نظر آیا۔

اسکی نظر خان بابا پر پڑی تو وہ جلدی سے انکی طرف بڑھا۔ 

"خان بابا وہ ہاشم ۔۔۔"اسنے بھاری آواز میں کہا۔ 

"کیسا ہے وہ؟"خان بابا نے لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔ 

"آئی سی یو میں ہے۔دو گولیاں لگی ہیں۔ایک کندھے میں اور ایک ۔۔۔۔۔"شہریار نے ضبط سے انہیں دیکھا۔"اور ایک سینے میں۔"وہ بات مکمل کر کے خاموش ہوا۔

اسکی بات پر ام جان زور سے رونے لگی تھیں۔آبی نے انہیں تھام کر بینچ پر بٹھایا اور داور کو پانی لینے بھیجا۔

نازلی کے جسم سے جان نکلنے لگی تھی۔ہاشم کو کیسے گولیاں لگ گئیں۔کس ظالم نے ان سب کے دلوں پر وار کیا تھا۔وہ سوچ رہی تھی اور آخر میں ہاشم کی حالت کا سوچ کر اسکا وجود کپکپانے لگا۔نور نم آنکھوں کے ساتھ اسے تھام کر آگے بڑھی اور اسے اپنے ساتھ ایک طرف رکھے بینچ پر بٹھایا۔

نازلی نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ام جان رو رہی تھیں۔انکی آنکھیں بجھ گئی تھیں۔اولاد کے بچھڑنے کا غم انکی جان کھائے جا رہا تھا۔ام جان کی حالت دیکھ کر نازلی کی آنکھوں سے تیزی سے آنسو گرنے لگے۔

خان بابا نے ان سب کو دیکھا۔انکی فیملی بکھر رہی تھی پر وہ بے بس تھے۔وہ کسی کو حوصلہ نہیں دے پا رہے تھے۔وہ دکھ بھری نظر سب پر ڈال کر ایک طرف ہو کر شہریار سے ساری بات پوچھنے لگے تھے کہ کیا ہوا تھا۔

داور پانی لے کر آیا تو آبی نے گلاس تھام کر ام جان کی طرف کیا پر انہوں نے ایک گھونٹ نہ بھرا۔ 

"مجھے پانی نہیں چاہیے بس کوئی مجھے میرے بیٹے کی صورت دکھا دو۔"وہ تڑپ کر روتے ہوئے بولیں۔

"ام جان۔"آبی نے نم آواز میں کہہ کر انہیں اپنے ساتھ لگایا۔داور ، ام جان کی دوسری طرف سر جھکا کر بیٹھ گیا۔وہ مرد تھا اسے رونے کی اجازت نہ تھی۔پر وہ اپنے دل کا کیا کرتا جو اپنے لالہ کی اس حالت پر تڑپ رہا تھا۔ضبط کے باوجود اسکی آنکھ سے آنسو گرا تھا۔

اسے دیکھتی نور نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی روکی۔اسے خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔اسے سب کو سنبھالنا ہوگا۔وہ سب ٹوٹ گئے تھے۔وہ خود بھی تو ٹوٹ گئی تھی پر اسے اپنے پیاروں کے لیے خود کو مضبوط کرنا تھا تا کہ اس برے وقت میں سب کو سنبھال سکے۔انکا سہارا بن سکے۔

اسنے داور سے نظر ہٹا کر ساتھ بیٹھی نازلی کو دیکھا جو ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رو رہی تھی۔

"شش نازلی رو نہیں ۔۔۔ لالہ کے لیے دعا کرو۔"اسنے نازلی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔

نازلی نے ہاتھ ہٹا کر گلابی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔ 

"میری تو ہر دھڑکن سے انکے لیے دعا نکل رہی ہے نور ۔۔۔ میری آتی جاتی سانسیں انکی زندگی کے لیے دعا کر رہی ہیں۔میں نے تو ہمیشہ انکی خوشی ، انکی سلامتی کی دعا مانگی تھی پھر وہ کیسے موت کی دہلیز پر کھڑے ہو گئے؟انہیں کیسے کچھ ہوگیا؟انہیں تو کچھ نہیں ہونے چاہیے تھا نور ۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔"وہ بیچارگی سے نم آواز میں کہہ رہی تھی۔اسکا دل ہزار ٹکڑوں میں تقسیم ہورہا تھا۔نور اسے دکھ سے دیکھ رہی تھی۔اسکا اپنا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔

"تم میں سے کوئی مجھے یہ کیوں نہیں کہتا کہ ہاشم ٹھیک ہوجائیں گے؟ کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا؟"وہ ٹوٹے لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ 

نور نے اسکی نم آنکھوں میں دیکھا۔وہ لڑکی اسکے لالہ کی جان تھی۔آج وہ زار و زار رو رہی تھی اور اسکے آنسو نہ برداشت کرنے والا اسکا بھائی بے خبر تھا۔

نور نے اس دروازے کو دیکھا جسکے پیچھے اسکا مضبوط بھائی  زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔جانے جیت کس کی ہونے والی تھی؟ 

آئی سی یو کے دروازے کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی نور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔

نازلی اب بھی ٹوٹے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔نور نے نظر پھیر کر ان نیلی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"لالہ کو ک۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔و۔۔۔وہ زندہ رہیں گے تمہارے لیے ۔۔۔ ہم ۔۔۔ہم سب کے لیے۔"اسنے نازلی کے کانپتے ہاتھ تھامے۔ 

"تم اٹک رہی ہو ۔۔۔ تمہاری آواز کانپ رہی ہے۔"نازلی نے خوف سے اسے دیکھا۔اسے ڈر لگ رہا تھا کہ نور کو اپنے کہے الفاظ پر یقین نہیں ہے۔وہ بے یقین ہے کہ کہیں ہاشم کو کچھ ہو نہ جائے۔۔۔۔۔ تو کیا واقعی ہاشم کو کچھ ہو جائے گا؟کیا وہ انہیں چھوڑ کر چلا جائے گا؟

"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"نور کا جواب نہ پا کر نازلی نے رندھی آواز میں کہا۔ 

نور نے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو روکا پھر آگے ہو کر نازلی کو گلے سے لگا لیا۔

"میرے اتنے بہادر لالہ کی بیوی ہو کر ڈر رہی ہو تم نازلی۔۔۔یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔۔۔۔"نور نم آواز کے ساتھ مسکرائی تھی۔اس مسکراہٹ میں دکھ و کرب تھا۔ 

"میں تمہارے لالہ کی طرح بہادر نہیں ہوں نور ۔۔۔ میں ڈرپوک ہوں۔میں انہیں کھونے سے ڈرتی ہوں۔میں نہیں بن سکتی بہادر ۔۔۔ تم پلیز اپنے لالہ سے کہو کہ وہ ایسا نہ کریں۔۔۔۔۔وہ میرے ساتھ ایسا نہ کریں ورنہ میں مر جاؤنگی۔"وہ روتے ہوئے  کہہ رہی تھی۔ 

نور کا دل مٹھی میں بھینچا گیا۔اسنے نازلی کو خود سے الگ کر کے اسکے آنسو صاف کیے۔ 

"لالہ کو ہم سب سے بہت محبت ہے۔وہ ہمیں چھوڑ کر نہیں جائنگے اور ۔۔۔"نور کی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر باہر نکلا۔ 

شہریار ، خان بابا اور داور جلدی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔ 

"وہ کیسا ہے؟"خان بابا نے لرزتی آواز میں پوچھا۔ 

"ہم نے دونوں گولیاں نکال دی ہیں۔پر سینے پر گولی لگنے کی وجہ سے انکی حالت بہت کریٹیکل ہے۔اگر کل تک وہ ہوش میں نہ آئے تو انکا بچنا مشکل ہے۔آپ لوگ انکے لیے دعا کریں۔" ڈاکٹر انکے سر پر دھماکہ کر کے خود آگے بڑھ گیا اور وہ سب پتھر کے ہوگئے۔

وہ ایک شخص ان سب سے جڑا تھا۔اسکی تکلیف وہ اپنے اندر محسوس کر رہے تھے۔وہ کیوں انہیں امتحان میں ڈال رہا تھا؟اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اسکے بغیر وہ سب بھی کچھ نہیں ہیں۔وہ سب بت بنے کھڑے تھے۔تبھی اڑی رنگت کے ساتھ اسفی وہاں آیا۔اسکی حالت بھی ان سب سے کم نہ تھی۔اسنے آ کر خان بابا کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

"کیسا ہے ہاشم؟"اسکی آواز میں انجانا سا ڈر تھا۔ 

"اسکی حالت ٹھیک نہیں ہے۔سینے میں گولی لگی ہے۔اسکی زندگی کے لیے سب دعا کرو۔"خان بابا نے پتھرائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔اسفی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ایسا کیسے ہوسکتا تھا؟ کیسے اسکا یار اس حال میں پہنچ گیا؟اسکا دوست تو بہت بہادر تھا پھر کیسے وہ موت کے منہ میں چلا گیا تھا؟

اسفی سن سا کھڑا تھا۔خان بابا مرے قدموں کے ساتھ ام جان کے پاس بیٹھے۔پھر انکا کانپتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

کہنے کو کچھ نہ تھا۔بس آج آنسو ہی ان سب کے دل کی کیفیت بیان کر رہے تھے۔ 

نازلی تو کب سے زمین کو گھور رہی تھی۔وہ اپنی ہوش بھی بھلا بیٹھی تھی۔یاد تھا تو صرف وہ شخص ۔۔۔ جو اسکی رگ رگ میں اتر چکا تھا۔اسے محبت کے اس مقام تک لا کر وہ اسے چھوڑ کر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہاشم کو اسکے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔اسکے نازک دل کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے۔

اسنے ہاتھ بڑھا کر اپنے سفید دوپٹے کا پلو تھاما۔سر جھکائے اسے دیکھتی رہی۔آنسو گر کر دوپٹے میں جذب ہوتے چلے گئے۔

آج تو اسنے اس شہزادے سے محبت کا اظہار کرنا تھا۔آج تو وہ اسے دنیا کی ہر خوشی دینا چاہتی تھی پر وہ جیسے اس سے اسکی ہر خوشی چھیننے کے در پہ تھا۔وہ اس سے دور جا کر اسے جیتے جی مارنا چاہتا تھا۔بھلا اسکے بغیر نازلی کی کیا زندگی ہوگی؟

کچھ وقت پہلے وہ کتنی شدت سے اسکا انتظار کر رہی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ آج وہ اسے دیکھتا۔۔۔۔۔اسکی سیاہ آنکھیں جب اسے اس لباس میں دیکھتیں تو تب ان آنکھوں کی کیا کیفیت ہوتی؟وہ آنکھیں تو مزید روشنیوں سے بھر جاتیں۔اس پر واری جاتیں۔اسکی نظر اتارتیں پر وہ تو اسے دیکھ ہی نہیں پائی تھیں 

اور اگر وہ سیاہ آنکھیں پھر کبھی اسکی طرف نہ اٹھیں تو؟ اگر ان آنکھوں نے اسکے چہرے کو کبھی نہ چھوا تو؟ کیسے رہ پائے گی وہ اس شخص کے بغیر؟ 

ہاشم نے اس نازک سی لڑکی کو اپنی عادت ڈال دی تھی اور اب وہ اسے اس موڑ پر لا کر اکیلا چھوڑنا چاہتا تھا۔وہ تو اب اسکے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو وہ بھی زندہ نہیں رہ پائے گی۔وہ بھی اسکے ساتھ ہی مر جائے گی۔

وہ سب وہیں بیٹھے رہے۔دوپہر سے شام اور شام سے رات کے سائے پھیلنے لگے تھے۔سب اپنی ہوش بھلائے ہاشم کے لیے فکر مند تھے۔ 

ام جان جائے نماز پر بیٹھیں اپنے پیارے بیٹے کی زندگی کے لیے دعائیں مانگ رہی تھیں۔

باقی سب کے لب بھی مسلسل دعائیں کر رہے تھے۔اللہ سے ہاشم کی زندگی مانگ رہے تھے۔

نازلی کی آنکھیں رو رو کر گلابی ہوگئی تھیں پر آنسو اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

اسفی ان سب کے لیے چائے لے کر آیا تھا۔جسے بامشکل انہوں نے حلق سے نیچے اتارا تھا۔

نازلی نے تو پانی کے دو گھونٹ بھرے تھے۔

اس سارے وقت میں شہریار اور اسفی ، ہاشم کے بارے میں ڈاکٹرز سے پوچھتے رہے تھے پر ڈاکٹرز کی طرف سے کوئی ایسا جواب نہ آیا جو ان سبکے دل کو سکون پہنچانے کا باعث بنتا۔ہاشم کی طبیعت ہنوز ویسی ہی تھی۔

شہریار دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔نظریں سامنے بیٹھی نور پر تھیں۔جسکا سر جھکا ہوا تھا۔جیسے کسی سوچ میں ڈوبی ہو۔اسکا مرجھایا چہرہ دیکھ کر اسکے دل کو کچھ ہوا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ کس قدر درد اور تکلیف میں ہوگی۔ہاشم میں اسکی جان بستی تھی۔وہ اسکا اکلوتا لاڈلہ بھائی تھا۔انسان اپنے پیاروں کی تکلیف کہاں برداشت کر سکتا ہے۔وہ سب تکلیف میں تھے۔

شہریار خود بھی تو درد میں تھا۔ہاشم اسکا بھی تو اپنا تھا۔اسکے بچپن کا دوست ، اسکا کزن ، اسکا بھائی ۔۔۔۔ بھلے ہی پچھلے کچھ عرصے سے وہ ہاشم سے ناراض رہا تھا پر اسکی یہ حالت شہریار سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔سالوں کی دوستی اور محبت اس کچھ عرصے کی ناراضگی پر بھاری تھی۔وہ ہاشم کو کسی بھی حالت میں ٹھیک ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔بس ایک بار وہ ٹھیک ہوجائے پھر وہ اپنی ساری ناراضگی بھلا کر اسے گلے سے لگا لے گا۔

پر وہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی اسے یہ موقع دے گی بھی کہ نہیں۔۔۔۔کبھی کبھی ہم اپنوں سے فاصلے طے کرنے میں اتنا وقت لگا لیتے ہیں کہ پھر جب ہم وہ فاصلے سمیٹنا چاہتے ہیں۔اپنوں کو گلے سے لگانا چاہتے ہیں تب کچھ بھی ہمارے ہاتھ نہیں آتا۔بس خاک رہ جاتی ہے جسے تیز ہوائیں اپنے ساتھ اڑا لے جاتی ہیں اور انسان پچھتاتا رہ جاتا ہے۔بالکل خان بابا اور شہریار کی طرح ۔۔۔۔وقت کو کبھی بھی گنوانا نہیں چاہیے۔اگر آپکا کوئی اپنا دور ہے ، ناراض ہے تو وقت رہتے ہی اس دوری کو کم کر دیں۔اسکی ناراضگی کو ختم کر دیں اور اگر وہ ہاشم کی طرح اپنی غلطی کی معافی مانگے تو اسے معاف کر دیں کیونکہ ایک بار وقت ہاتھ سے پھسل گیا تو لوٹ کر واپس نہیں آتا۔

رات کے گیارہ بج چکے تھے اور وہ سب وہیں موجود تھے۔ہوسپٹل اسٹاف نے انہیں گھر جانے کا کہا۔چونکہ ہوسپٹل میں وہ سب نہیں رہ سکتے تھے اور ہاشم ویسے بھی آئی سی یو میں تھا اسلیے اسکے پاس جانے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔

بس ایک یا دو بندے وہاں رک سکتے تھے۔اسلیے خان بابا نے ان سبکو جانے کا کہا۔ وہ اور شہریار وہاں رکنے والے تھے۔پر ان میں سے کوئی بھی وہاں سے جانے کو تیار نہ تھا۔وہ کیسے اس حالت میں ہاشم کو چھوڑ کر جا سکتے تھے۔پر خان بابا کے نرمی سے سمجھانے پر وہ جانے کے لیے مان گئے تھے۔نازلی وہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی پر وہ خان بابا کی بات سے انکار بھی نہیں کر سکتی تھی۔اسلیے دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہوگئی۔

جانے سے پہلے ام جان نے ہاشم کو دیکھنے کی ضد باندھ لی۔

"ڈاکٹرز اجازت نہیں دینگے بیگم ، ابھی ہاشم آئی سی یو میں ہے۔وہاں کسی کو نہیں جانے دیتے۔"خان بابا نے انہیں نرمی سے سمجھایا۔

"مجھے نہیں معلوم ، مجھے اپنے بچے کو دیکھنا ہے ورنہ میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی۔"ام جان نے نم آواز میں کہا۔

"مجھے بھی انہیں دیکھنا ہے۔"نازلی بھی مدھم آواز میں بولی 

خان بابا نے لمبی سانس کھینچی۔پھر شہریار کو اجازت لینے بھیجا۔مشکل سے پانچ منٹ کے لیے ہاشم کو دیکھنے کی اجازت ملی تھی۔

ویسے تو آئی سی یو میں پیشنٹ کے قریبی لوگوں کو کچھ وقت کے لیے ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ایک سے دو افراد پیشنٹ سے مل سکتے ہیں۔پر یہاں ہاشم کی حالت نازک تھی۔ڈاکٹرز کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔اسلیے کسی کو ملنے کی اجازت نہ تھی۔پر شہریار کے اصرار کرنے پر انہوں نے کچھ وقت کی اجازت دے دی تھی۔آئی سی یو میں ایک نرس بھی انکے ساتھ اندر کی طرف بڑھی تھی۔ وہاں داخل ہو کر نازلی کو لگا تھا کہ جیسے وہ کسی دوسری دنیا میں آگئی ہو۔سب کچھ برف کی طرح سرد تھا۔اس سرد جگہ پر آ کر نازلی کو اپنے دل پر بھی برف جمتی ہوئی محسوس ہوئی۔عجیب سا سوگ فضا میں پھیلا ہوا تھا۔شاید وہ جگہ ہی ایسی تھی جہاں صرف سوگ و غم ہی پھیلا رہتا ہے یا شاید وہاں کا ماحول سرد نہیں تھا ۔۔۔ یہ سرد احساس ، سوگ بھری فضا اسکے دل کی تھی۔اسلیے اسے آس پاس کا ماحول بھی ایسا ہی لگ رہا تھا۔

جو انسان کے دل کا موسم ہوتا ہے وہی موسم اسے اپنے ارد گرد بھی بکھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔نازلی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔ام جان آگے بڑھ رہی تھیں جبکہ نازلی وہیں تھم گئی۔نازلی کی نظریں ام جان کی پشت سے ہوتیں سامنے بیڈ کی طرف گئیں۔جہاں وہ تھا۔اسکا شوہر ، اسکا دیوانہ ، اسکی محبت کی تصویر ، اسکی ہر خوشی کی وجہ۔۔۔۔وہ مشینوں میں جکڑا اس سے انجان لیٹا ہوا تھا۔اسے نہ ام جان کی موجودگی سے کوئی فرق پڑا تھا اور نہ اسکی ۔۔۔۔ جسکی ایک جھلک ، جسکا ساتھ اس شخص کو دیوانہ کر دیتا تھا۔اسکی سیاہ آنکھوں میں ہزار دیے جلا دیتا ہے۔پر آج نہ وہ دیوانہ پن تھا اور نہ اسے دیکھتیں وہ سیاہ آنکھیں۔۔۔۔۔۔

نازلی نے غور سے اسے دیکھا۔وینٹیلیٹر سے ہوتی ٹیوب اسکے منہ میں جا رہی تھی جو اسے سانس لینے میں مدد کر رہی تھی۔مختلف مشینوں سے آتی تاریں  اسکے سینے کے ساتھ لگی تھیں۔ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔وہ مکمل طور پر مختلف تاروں سے جکڑا ہوا تھا۔اسے اس حال میں دیکھ کر نازلی کا دل تھم گیا۔چہرے سے سارا خون نچڑ چکا تھا۔وہ بنا پلکیں جھپکائے ہاشم کو دیکھ رہی تھی۔

ام جان منہ پر دوپٹہ رکھ کر روتیں اپنی سسکیاں دبا رہی تھیں۔وہ بیڈ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھیں۔وہ آگے ہو کر ہاشم کو چھونے لگیں پر نرس نے انہیں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔

"ایک بار مجھے میرے بیٹے کو چھو لینے دو۔"وہ نرس کو دیکھ کر التجا کر رہی تھیں۔انکی آنکھوں میں بے پناہ درد تھا۔

"ماں جی ڈاکٹر کی پرمشن نہیں ہے۔"نرس نے اپنی مجبوری بتائی۔"ایک ماں کو کیوں روکتے ہو۔تم سب سے زیادہ مجھے اپنے بیٹے کی فکر ہے۔"ام جان نے نم آواز میں کہا۔ 

نازلی انکی طرف بڑھی پھر انہیں تھام کر ہاشم کے قریب لائی۔

"دیکھیں ہاشم ، ام جان آپ سے ملنے آئیں ہیں۔"نازلی نے مدھم آواز میں کہا۔وہ ان بند آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔

"ہاشم میرا بچہ۔"ام جان نے اپنے کانپتا ہاتھ بڑھا کر آہستہ سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے ہاشم کے چہرے کو چھوا تھا۔وہ برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ام جان کا دل سینے سے باہر آنے لگا۔دکھتی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔وہ مزید ہاشم کو اس حالت میں نہ دیکھ سکیں اور سسکیاں دبا کر پلٹیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔نازلی یک ٹک ہاشم کو دیکھ رہی تھی۔پھر آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر بیڈ پر رکھے ہاشم کے ہاتھ کو چھوا۔اسے محسوس کر کے جیسے نازلی کے اندر زندگی دوڑنے لگی تھی۔دل پر جمی برف جیسے آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی۔

"مس اب باہر چلی جائیں۔ڈاکٹر نے زیادہ وقت رکنے کی پرمشن نہیں دی۔"نرس نے اسے دیکھ کر کہا۔نازلی نے سر اثبات میں ہلا کر ہاتھ پیچھے کیا۔ایک حسرت بھری نظر ہاشم کے وجیہہ چہرے پر ڈالی پھر پلٹ کر وہاں سے باہر نکل گئی۔ 

کچھ دیر بعد وہ سب ٹوٹے بکھرے سے ہوسپٹل سے باہر نکلے تھے۔کار آگے بڑھ رہی تھی۔واپسی کا سفر ایسا تھا جیسے وہ سب تپتے صحرا میں ننگے پاؤں چل رہے ہوں۔جیسے ہواؤں کے شور نے انکے حواس منجمد کر دیے ہوں۔

نازلی کھڑکی سے باہر بھاگتے مناظر کو دیکھ رہی تھی۔آنکھوں میں جیسے مرچیں بھری تھیں۔آنسو بہتے ہی چلے جا رہے تھے۔اسے اپنی تمام باتیں یاد آنے لگیں۔جو اسنے ہاشم سے کہیں تھیں۔اسکا دل درد سے پھٹ رہا تھا۔وہ یہ سب برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔یہ سب اسکی وجہ سے ہوا تھا۔ہاں ۔۔۔ اسنے ہی تو دعا کی تھی کہ وہ شخص اس سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجائے، کہ وہ اسکی نظروں کے سامنے کبھی نہ آئے۔۔۔۔

"تو اب ایسا ہی ہورہا ہے ناں پھر تم رو کیوں رہی ہو؟اداس کیوں ہو؟"دماغ نے طنزیہ ہنس کر کہا۔ 

"وہ تو پہلے کی بات تھی۔اب تو وہی میرا سب کچھ ہے۔میں اسے خود سے دور جاتے نہیں دیکھ سکتی۔مجھے وہ واپس چاہیے۔میں ہمیشہ اسکے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔"اسکے دل نے رو کر فریاد کی تھی۔

"بات کسی بھی وقت کی ہو۔ایک بار اگر لکھی جا چکی ہو تو پھر پوری ہو کر ہی رہتی ہے۔یہ بات بھی پوری ہوگئی تو؟ وہ اگر اب کبھی لوٹ کر نہ آیا تو؟وہ مر گیا تو؟"دماغ اسے ڈرا رہا تھا۔ 

"اللہ کے واسطے۔۔۔ ایسا مت کہو۔"نازلی کا دل تڑپ اٹھا۔

وہ ایک دم اونچی آواز میں رونے لگی۔اسکے ساتھ بیٹھی نور نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔

"میں انہیں کھونا نہیں چاہتی۔۔۔ میں مر جاؤنگی نور۔۔۔میں انکے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی۔"وہ ہچکی بھر کر بولی۔وہ رو رہی تھی اور اپنے ساتھ باقی سب کو بھی رلا رہی تھی۔ام جان ، داور کے ساتھ آگے بیٹھی تھیں۔جبکہ وہ تینوں پیچھے تھیں۔

سب کے دل کی دنیا پر حشر برپا تھا۔نازلی کے اس قدر تڑپ کر رونے پر ام جان ایک دم رونے لگیں۔

ڈرائیونگ کرتے داور کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔آبی کھڑکی سے باہر دیکھتی اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ نور نازلی کو اپنے ساتھ لگائے رو رہی تھی۔

کچھ گھنٹے پہلے وہ تمام چہرے مسکرا رہے تھے۔خوشی سے چمک رہے تھے اور اب اس مسکراہٹ کی جگہ آنسوؤں نے لی تھی۔خوشی کی جگہ دکھ نے سبکو اپنے حصار میں لیا تھا۔کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے یہ احساس کہ آپکا کوئی اپنا اتنے درد میں ہے ، کہ وہ زندگی اور موت کے درمیان کھڑا ہے۔

یا تو وہ موت کو ہرا کر زندگی کی طرف لوٹ آئے گا یا پھر موت اسے ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لے گی اور وہ سب خالی ہاتھ رہ جائیں گیں۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"مثال آتش ہے۔۔۔۔۔ یہ روگِ محبت۔"

"روشن تو خوب کرتی ہے۔"

"مگر جلا جلا کر۔"

وہ سب خان ولا پہنچ چکے تھے۔آبی ، ام جان کو لے کر کمرے کی طرف بڑھی۔انکی طبیعت خراب ہورہی تھی۔

داور خاموشی سے ٹیرس پر چلا گیا جبکہ نور اور نازلی وہیں ہال میں کھڑی تھیں۔جہاں وہ ٹوکریاں اب بھی میز پر رکھی تھیں۔رنگ برنگی چوڑیاں نازلی کا منہ چڑا رہی تھیں۔اسے اس سب سے وحشت ہونے لگی تھی۔ 

وہ وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔نور نے اداسی سے اسکی پشت کو دیکھا۔

وہ کتنی خوش تھی کہ آج نازلی اور ہاشم کی زندگی میں سب ٹھیک ہوجائے گا پر ۔۔۔۔ انسان جیسا سوچتا ہے ویسا ہی ہو یہ ضروری تو نہیں۔۔۔۔ نور نے لمبی سانس کھینچی۔

تبھی اپنے پیچھے اسے قدموں کی چاپ سنائی دی۔اسنے پلٹ کر دیکھا تو امجد بابا تھے۔

"ہاشم صاحب کیسے ہیں؟"انہوں نے آہستہ آواز میں پوچھا۔لہجے میں دکھ صاف ظاہر تھا۔ 

"وہ ٹھیک نہیں ہیں امجد بابا ، آپ انکے لیے دعا کریں۔دعا کریں کہ میرے لالہ بچ جائیں۔"نور بتاتے ہوئے ایک دم رو پڑی۔ 

امجد بابا کی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔ہاشم انکے لیے بیٹے کی طرح تھا۔ہاشم کی حالت کا سن کر انہیں بہت دکھ ہوا تھا۔

"وہ ٹھیک ہوجائیں گے بیٹا ، آپ سب حوصلہ رکھیے۔"انہوں نے نور کا سر تھپک کر کہا پھر پلٹ کر چلے گئے۔انہیں باقی سب نوکروں کو بھی ہاشم کا بتانا تھا۔وہ سب دوپہر سے پریشان تھے انہیں ہاشم کی سلامتی کے لیے دعا کرنی تھی۔

نور نے آنسو صاف کیے پھر کچن کی طرف بڑھی۔اسے سب کے لیے کھانا لگانا تھا۔دن میں بھی کسی نے کچھ نہیں کھایا تھا۔حلق سے نیچے کیا اترنا تھا پر وہ سبکو بھوکا نہیں رہنے دے سکتی تھی۔کم از کم تھوڑا بہت ہی کچھ کھا لیتے۔

کچھ دیر بعد اسنے ڈائننک ٹیبل پر کھانا لگایا اور ام جان کے لیے انکے روم میں ہی کھانا لے گئی۔

وہ کمرے میں آئی تو آبی بیڈ پر ام جان کے پاس بیٹھی انکا سر دبا رہی تھی۔ام جان لیٹی تھیں۔انکی آنکھیں بند تھیں۔اسنے آبی کو دیکھا۔"یہ کھانا۔"اسنے ٹرے ٹیبل پر رکھی۔

"ام جان کی ابھی ہی آنکھ لگی ہے۔یہ اٹھ گئیں تو میں کھلا دونگی۔"آبی نے آہستہ آواز میں کہا۔ 

"تم بھی آ کر کھا لو۔"نور نے اسے دیکھا۔ 

"میرا دل نہیں کر رہا۔"اسنے چہرہ پھیر کر اپنی نم آنکھیں چھپانی چاہیں۔ 

نور کی آنکھیں بھی دھندلانے لگیں تو وہ پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔اپنے اوپر ضبط کر کے وہ داور کے پیچھے ٹیرس پر گئی۔وہ ایک طرف رکھی کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔

نور کے آنے کی آہٹ پر بھی اسنے سر نہ اٹھایا۔نور اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔ 

"داور۔۔"اسنے پکارا پر داور کچھ نہ بولا۔ 

"داور۔"اسنے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

داور نے نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"تم رو رہے ہو؟"نور دکھ سے کہہ کر اسکے سامنے کرسی پر بیٹھی۔

"بہت درد ہو رہا ہے مانو ۔۔۔پر میں تم لوگوں کی طرح کھل کر آنسو بھی نہیں بہا سکتا۔"اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی۔نور نے نرمی سے اسکے ہاتھ تھامے۔ 

"تم جی بھر کر رو لو داور۔۔۔ اس سے دل کا بوجھ کچھ تو کم ہوگا۔"نور نے اسے دیکھ کر کہا۔اسکے کہنے کی دیر تھی اور بس داور اسکے ہاتھوں پر سر ٹکا کر بچوں کی طرح رونے لگا۔ 

نور اپنے آنسو ضبط کرتی خاموشی سے اسکے جھکے سر کو دیکھتی رہی۔

بہت سا رو لینے کے بعد داور نے سر اٹھایا۔اسکی آنکھیں لال ہورہی تھیں۔

"تم دیکھنا مانو ۔۔۔جس کسی نے بھی لالہ کے ساتھ یہ سب  کیا ہے ناں میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ایک بار ۔۔۔۔ بس ایک بار لالہ ہوش میں آجائیں اور اس شخص کا نام لے لیں پھر تم دیکھنا میں اس شخص کو زندہ زمین میں گاڑ دونگا جسنے میرے لالہ کو اتنی تکلیف پہنچائی۔"وہ چبا کر کہتا غصے سے اٹھا کھڑا ہوا۔

نور بھی اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔داور کا انداز دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔ابھی ایک بھائی کے بچھڑ جانے کے خوف نے اسے جکڑ رکھا تھا۔وہ اب دوسرے بھائی کو بھی اسی خطرے میں جاتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ 

"دیکھو داور جس نے ہمارے لالہ کے ساتھ یہ سب کیا ہے ہمیں اسے سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔جیسا اسنے کیا ویسا ہی اگر ہم بھی اسکے ساتھ کرینگے تو اس میں اور ہم میں فرق کیا رہ جائے گا۔وہ اللہ ہے ناں۔"نور نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔

"وہ سب سے بڑھ کر انصاف کرنے والا ہے۔اسنے یہ سب دیکھا ہوگا اور دیکھنا وہ انصاف بھی ضرور کریگا۔اسکی عدالت میں جب انصاف کا فیصلہ ہوتا ہے ناں تو بڑے سے بڑے فرعون خاک میں مل جاتے ہیں۔جس نے اتنی بےدردی سے ہمارے پیارے بھائی کو مارا ہے۔وہ ہم سے تو بچ سکتا ہے پر اللہ سے نہیں ۔۔۔ تم دیکھنا کہ اللہ اسکے ساتھ کیا کرتا ہے۔ہماری آہیں ہماری چپ اس پر پڑیں گی۔"نور آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی اور داور خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔ 

"تم بس لالہ کے لیے دعا کرو اور اب چلو تھوڑا کھانا کھا لو۔"اسنے نرمی سے کہا۔داور نے نفی میں سر ہلایا۔

"جب آپکا کوئی اپنا اتنی تکلیف میں ہو تب کس کافر کو بھوک لگتی ہے مانو۔تم جاؤ نازلی بھابی کے پاس ۔۔۔ انہیں تمہاری ضرورت ہوگی۔"داور سنجیدگی سے کہتا آسمان کو دیکھنے لگا۔

نور ایک نظر اس پر ڈال کر وہاں سے نیچے آئی۔

وہ سبکا دکھ بانٹ رہی تھی پر کوئی اسکا دکھ بانٹنے والا نہ تھا۔وہ جو ایک تھا وہ تو شاید اسکے دکھ کو سمجھتا ہی نہ تھا۔

پھر اسکے دکھ کو بانٹتا کیسے ۔۔۔۔۔

جب وہ نازلی کے کمرے میں آئی تو وہ نماز پڑھ رہی تھی۔وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔

سفید دوپٹے کے ہالے میں اسکا چہرہ زرد تھا۔بند پلکوں کے پیچھے سے آنسو نکل کر گالوں کو بگھوتے جا رہے تھے۔وجود آہستہ آہستہ لرز رہا تھا۔

نور نے اسے دیکھ کر دکھ سے نظریں پھیریں تبھی اسکی نظر بیڈ پر رکھے پھول پر پڑی۔جو اب مرجھا چکا تھا۔

اسنے گلاب کو اپنے ہاتھ میں لیا۔پھر نازلی کو دیکھنے لگی وہ اب دعا کر رہی تھی۔ہاتھوں میں چہرہ چھپائے روتے ہوئے دعا مانگ رہی تھی۔وہ کیا مانگ رہی تھی یہ نور اچھے سے جانتی تھی۔

نازلی نے دعا مانگ کر ہاتھ نیچے کیے پر جائے نماز سے نہ اٹھی۔ 

"بہت محبت کرنے لگی ہو لالہ سے؟"نور نے پوچھا۔ 

"بہت زیادہ ۔۔۔ اپنے آپ سے بھی زیادہ۔"اسنے بنا چونکے سامنے جائے نماز پر نظریں جما کر جواب دیا۔ 

"ان کی محبت کو ماننے لگی ہو؟"نور نے پھر سوال کیا۔ 

"نہ مانتی تو مردہ کہلاتی۔"نازلی دکھ سے مسکرائی۔ 

"اپنی محبت کا اظہار کیا؟"پوچھا گیا۔ 

"آج کرنے والی تھی۔زبان سے نہ سہی پر عمل سے ۔۔ یہ کپڑے دیکھ رہی؟"اسنے دوپٹے کو ہاتھوں میں تھام کر دیکھا۔"یہ کپڑے ہاشم نے مجھے ہماری شادی سے پہلے گفٹ کی صورت بھیجے تھے۔میں نے ڈر کے مارے انہیں اپنی الماری میں چھپا کے رکھا تھا۔پھر اتنا سب کچھ ہوا کہ میں انہیں بھول ہی گئی تھی۔کچھ وقت پہلے ہی نوری نے ہاشم کو یہ کپڑے دے دیے اور وہ انہیں لے کر میرے پاس آئے۔جانتی ہو انہوں نے مجھے کیا کہا تھا؟"اسنے نم آنکھیں اٹھا کر نور کو دیکھا۔ 

نور نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"انہوں نے کہا تھا کہ جب تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے۔جب تم ہاشم خان کی دیوانی ہوجاؤ تو تم یہ لباس پہن لینا میں سمجھ جاؤنگا کہ نازلی پر ہاشم خان کی محبت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔"وہ خواب کی سی کیفیت میں بولی

"دیکھو نور اب میں نے یہ لباس پہن لیا ہے پر مجھے دیکھنے والا بے خبر و انجان ہے۔"اسکی نیلی آنکھوں میں اتنا درد تھا کہ نور  نظریں پھیر گئی اور نازلی خاموشی سے زمین کو گھورنے لگی۔ 

"یہ پھول۔"نور نے اسکا دھیان بٹانے کے لیے پوچھا۔ 

"آج صبح تمہارے لالہ نے دیا تھا۔"نازلی کہہ کر کرب سے مسکرائی۔

نور نے اس گلاب کو دیکھا وہ بھی سامنے بیٹھی اس لڑکی کی طرح مرجھا چکا تھا۔اسنے لمبی سانس کھینچ کر گلاب واپس رکھا۔

"تم کھانا کھاؤ گی؟"اسنے بات بدلی۔ 

"نہیں۔"نازلی نے جائے نماز اٹھاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ 

"تم شہریار بھائی سے کال کر کے ہاشم کا پوچھ لو۔"اسنے جائے نماز میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ 

"اچھا۔"نور اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ کمرے سے نکلی۔اسکا موبائل ہال میں رکھا تھا۔وہ ہال میں آئی پھر ٹیبل سے موبائل اٹھا کر شہریار کا نمبر ڈائل کیا۔ 

نازلی بھی وہیں آگئی تھی۔صوفے پر بیٹھ کر نور کو دیکھنے لگی۔

نور نے سلام کا جواب دیا پھر ہاشم کا پوچھا۔

"لالہ کی اب کیا کنڈیشن ہے؟"

"ہنوز وہی حال ہے۔ایک نرس مسلسل ہاشم کی کنڈیشن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔وہ انشاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا۔"شہریار نے آہستہ آواز میں کہا۔ 

"انشاء اللہ ۔۔۔ اور خان بابا؟"

"وہ سامنے ہی بیٹھے ہیں۔"شہریار کے جواب پر نور نے گہری سانس لی۔پھر اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔

شہریار اس سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔اسے تسلی دینا چاہتا تھا پر اسکے فون بند کرنے پر مایوس ہو کر وہیں بینچ پر بیٹھ گیا۔

نور،شہریار کی کہی بات نازلی کو بتا رہی تھی اور وہ سر جھکائے انگوٹھی کو دیکھتی سن رہی تھی۔

"تم کچھ دیر آرام کر لو۔"نور نے آہستہ آواز میں کہا۔ 

"نہیں ۔۔"نازلی نے نہ میں سر ہلایا پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور خاموشی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی۔ 

نور نے اسے نہ روکا۔اسے کچھ وقت تنہائی کی ضرورت تھی۔

وہ وہاں سے ام جان کے کمرے میں آئی۔کھانا وہیں پڑا تھا۔آبی بیڈ پر بیٹھی تھی اور ام جان تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ 

وہ بھی انکے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ڈئننگ ٹیبل پر لگا کھانا بھی وہیں پڑا تھا۔ 

"نازلی کہاں ہے؟"ام جان نے پوچھا۔دن بھر رونے سے انکا گلہ بیٹھ گیا تھا۔

"اسے تھوڑی تنہائی کی ضرورت ہے ام جان۔وہ آجائے گی یہاں کچھ وقت تک۔"نور نے جواب دیا پھر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھتی آنکھیں موند گئی۔

یہ زندگی انسان کو کس قدر تھکا دیتی ہے کہ ساری زندگی انسان اسے جینے کی خاطر مرتا رہتا ہے۔ 

نازلی وہاں سے پینٹنگ روم میں آئی تھی۔

وہ ہاشم کی پینٹنگ کے سامنے بیٹھی تھی۔آنکھوں میں آنسو لیے اس پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔

"آپ نے یہ میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ہاشم۔ایسا نہ کریں پلیز ۔۔۔۔ لوٹ آئیں ۔۔۔ دیکھیں آج آپ نہیں ہیں تو یہ آنسو تھم ہی نہیں رہے ہیں۔آپ کا نہ ہونا مجھے خالی کر گیا ہے ہاشم ۔۔۔ آپ کے سوا کون ہے میرا ۔۔۔۔ آپ نے ایک غلطی کی تھی اور اسکے بدلے میں آپ نے میری جھولی میں اتنا کچھ ڈال دیا کہ میں چاہ کر بھی آپکی اس غلطی کو یاد نہیں رکھ پائی۔مجھے یاد ہے تو بس آپکی محبت۔۔۔۔۔آپکی دیوانگی۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ کسی کے سامنے نہیں جھکتے۔جھکنا آپکی فطرت میں ہی نہیں ہے پر آپکی محبت کی انتہا تو دیکھیں کہ آپ نے میرے اپنوں کے سامنے خود کو گناہ گار ثابت کر کے مجھے اس الزام سے بری کروایا۔آپ خود جھک گئے اور مجھے سر خرو کر دیا۔"وہ نم آواز میں کہہ رہی تھی۔"میں کیسے نہ آپکی دیوانی ہوتی ہاشم۔آپ نے میری ہر بات کو ہنس کر برداشت کیا ہے۔آپ نے میری نفرت کے جواب میں مجھے اتنی محبت دی کہ آخر کار میں آپکی محبت کے حصار میں قید ہوگئی۔نازلی ہاشم خان آپکی دیوانی ہوگئی۔"اسنے پینٹنگ پر بنی ان سیاہ آنکھوں کو چھوا۔"آپ کو میری آنکھیں بہت پسند ہیں پر میں آپکو کیسے بتاؤں کہ آپکی ان سیاہ آنکھوں نے مجھے کتنا دیوانہ کیا ہے۔آپکی یہ آنکھیں جب بھی میری طرف اٹھیں تب تب میرے دل نے میرا ساتھ دینا چھوڑ دیا۔یہ دل جھکتے جھکتے آخر آپکے قدموں میں لپٹ گیا۔نازلی آپکی ہوگئی۔۔۔۔ عشق ہوگیا ہے مجھے آپ سے ہاشم خان۔"وہ روتے ہوئے اظہار کر رہی تھی پر سننے والا کہیں نہیں تھا۔"دیوانی ہوگئی ہوں میں آپکی پر آپ کہیں نہیں ہیں۔۔۔ آپ آئیں اور دیکھیں کہ آپکی نازلی کس حال میں ہے۔لوٹ آئیں ہاشم ۔۔۔ لوٹ آئیں۔"وہ کینوس سے سر ٹکا کر زار و قطار رونے لگی تھی۔

وہ آ کر دیکھتا تو کہ جسکی محبت میں اسنے اپنی جان وارنے سے بھی گریز نہیں کی تھی۔آج وہ اسکے عشق میں آنسو بہا رہی تھی۔اسے پکار رہی تھی۔اس سے التجا کر رہی تھی پر وہ اسکی ہر پکار سے بے خبر تھا۔

نازلی اس سب کے بیچ بھول گئی تھی کہ آج شام کو حسن آفندی نے آنے کا کہا تھا۔وہ کیوں نہیں آئے تھے۔کیا وجہ تھی؟

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

صبح فجر کی نماز کے بعد داور ہوسپٹل چلا گیا تھا اور اسنے شہریار اور خان بابا کو گھر جانے کا کہا تا کہ وہ کچھ دیر آرام کر لیں۔خان بابا تو کسی طور وہاں سے جانا نہیں چاہتے تھے پر شہریار کو انہوں نے گھر بھیج دیا تھا کہ تھوڑا آرام بھی کر لے۔ساتھ گھر میں وہ سب اکیلی ہونگیں۔پھر انہیں لے کر یہاں بھی آنا تھا۔ 

شہریار انکے کہنے پر خان ولا آگیا تھا۔وہ کار پورچ میں کھڑی کرتا اندر کی طرف بڑھنے لگا۔جب اسے لان میں نور بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔ 

وہ سیدھا اسکی طرف ہی آیا تھا۔ 

ماہ نور خاموشی سے سامنے لگے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔ان سبکی ساری رات آنکھوں میں ہی کٹی تھی۔ 

نازلی اور آبی ، ام جان کے ساتھ کمرے میں تھیں۔نور بھی وہیں تھی پر جب اسکا دل گھبرانے لگا تو وہ باہر آگئی۔ابھی صبح کے چھ بج رہے تھے۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔اسنے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔دل میں اس قدر درد تھا کہ سانس لینے سے بھی 

چبھن محسوس ہورہی تھی۔

شہریار اسکے ساتھ آ کر بیٹھا۔ماہ نور نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"اسلام و علیکم۔"شہریار نے مدھم آواز میں کہا۔ماہ نور نے جواب دیا پھر بولی۔"لالہ کیسے ہیں؟"سوال میں بے چینی تھی۔ 

"وہی حال ہے۔ابھی تک کوئی امپرومنٹ نہیں آئی۔"شہریار نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"تم ٹھیک ہو؟"اسنے آہستہ سے پوچھا۔ 

"ہاں۔"ماہ نور نے نظریں پھیر لیں۔ 

"ہاشم ٹھیک ہو جائے گا۔"شہریار نے اسے تسلی دی۔ 

"اللہ کرے۔"ماہ نور کی آواز نم ہوئی۔شہریار کو اپنے سامنے دیکھ کر اسکا دکھ جیسے اور بڑھ گیا تھا۔ 

شہریار خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ماہ نور کی آنکھ سے آنسو نکل کر گال پر گرا تھا۔ 

"رونے سے ہاشم ٹھیک تو نہیں ہو جائے گا ماہ۔"اسنے بھاری آواز میں کہا۔اسکی بات پر ماہ نور نے اسے دیکھا۔ 

"رونے کے علاوہ کیا کروں کہ یہ درد باہر آ سکے۔میرا دل درد سے پھٹ رہا ہے شہریار۔میرا بس نہیں چل رہا کہ میں اپنے لالہ کو بالکل پہلے جیسا کر دوں۔میرا دل یہ درد سہہ نہیں پا رہا۔"اسکی آنکھوں سمندر ہوئی تھیں۔شہریار نے خاموشی سے آگے ہو کر اسکا سر اپنے سینے سے لگایا تھا۔ 

"بہا دو اپنا سارا دکھ ماہ ۔۔۔ میں تمہارے سارے آنسو اپنے اندر جذب کر دونگا۔"شہریار کے لہجے میں پیار اور دکھ دونوں تھا۔ 

"کہاں تک آپ میرا دکھ سمیٹیں گے شہریار ۔۔۔ میرے دامن میں اب آنسو ہی آنسو ہیں۔میرا دل خالی ہورہا ہے۔میری روح زخمی ہے۔میرا بھائی اس حال میں ہے کہ میں چاہ کر بھی انکا دکھ کم نہیں کر سکتی۔"وہ اس وقت صرف بھائی کی بہن تھی۔اپنے بھائی کی محبت میں تڑپ رہی تھی۔کچھ پل کے لیے وہ بھلا چکی تھی کہ وہ شہریار سے ناراض ہے۔اس وقت اسے ہاشم کے علاوہ کسی کی فکر نہ تھی۔

"میرے لالہ کو واپس لا دیں شہریار ۔۔۔ میرے لالہ کو صحیح سلامت واپس گھر لے آئیں۔۔۔۔آج کے دن تو انکی زندگی میں بہاروں نے اترنا تھا۔آج تو انہیں انکے اپنے ، انکی محبت مل جاتی۔وہ مکمل ہو جاتے پر ایسا نہیں ہوا۔میرے پیارے لالہ وہاں اس ہوسپٹل کے سرد کمرے میں پڑے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔میں کیسے برداشت کر لوں کہ کل تک جس بھائی کی خوشی میں ۔۔۔ میں جھوم رہی تھی آج اس بھائی کے دکھ میں رو رہی ہوں۔انکے زندہ رہنے کی دعائیں مانگ رہی ہوں۔"وہ روتے ہوئے مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔شہریار نرمی سے اسکا سر تھپک رہا تھا۔

وہ کیا کہتا۔کہاں سے لاتا اسکے بھائی کو صحیح سلامت۔وہ سوچ رہا تھا جب نور ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

شہریار نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی اسے جلتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ 

"یہ میں آپ سے کیوں کہہ رہی ہوں۔آپ کو میرے لالہ کے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔بلکہ آپکے دل کو تو سکون ملا ہوگا میرے لالہ کو اس حالت میں دیکھ کر ۔۔۔ لیں خوش ہو جائیں آپ کہ آپکی ناراضگی کی وجہ ختم ہونے والی ہے۔شاید میرے لالہ کے چلے جانے کے بعد آپکے دل کو سکون مل جائے اور آپ انہیں معاف کردیں۔"وہ طنزیہ انداز میں کہہ رہی تھی۔ 

"کیا فضول باتیں کر رہی ہو تم۔"شہریار ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپکی انا پرستی کی بات کر رہی ہوں میں۔"نور نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"میں ہاشم سے لاکھ ناراض سہی ماہ پر میں کبھی اسے مرتے نہیں دیکھ سکتا۔وہ میرا دوست ، میرا بھائی ہے۔اسکی زندگی کی جتنی تم سبکو فکر ہے اتنی ہی مجھے بھی ہے۔"وہ دکھ سے مدھم آواز میں کہہ رہا تھا۔

"مجھے آپکی کسی بات پر یقین نہیں ہے شہریار خان ۔۔۔"نور نے غصے سے کہا۔ 

"یقین کر لو ماہ۔"اسکے لہجے میں بلا کی نرمی تھی۔

"آپ نے مجھے خود پر یقین دلایا ہی کب ہے شہریار جو اب آپ چاہ رہے ہیں کہ میں آپکا یقین کرلوں۔"وہ دکھ سے مسکرائی پھر ایک نظر اس پر ڈال کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔ 

پیچھے کھڑے شہریار کا دل جلنے لگا۔واقعی اسنے سچ کہا تھا اسنے کب ماہ نور کو یقین کی ڈور تھمائی تھی۔وہ تو ہمیشہ دبنگ انداز میں اپنی بات اسکے سر تھوپتا آیا تھا۔کبھی اس سے  نرمی سے بات نہیں کی تھی۔ایک ایسی غلطی کی سزا اسے دیتا آیا تھا جس میں اسکی کوئی غلطی ہی نہ تھی۔وہ تو ہمیشہ اس سے محبت کرتی آئی تھی اور وہ ہر بار اسکا دل توڑتا رہا تھا۔ 

وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر آگے بڑھا۔

ایک گھنٹے بعد وہ ان سب کو لے کر ہوسپٹل کی طرف جا رہا تھا۔

حسن آفندی ، تابین اور امتل آفندی اس وقت چھوٹی حویلی میں موجود تھے۔

وہاں ہر طرف دکھ بھری سسکیاں فضا میں گونج رہی تھیں۔پتھر دل امتل آفندی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ 

ہال کے درمیان میں چار پائی پر سفید کفن میں لپٹا بلاول پڑا تھا۔

بی بی جان زمین پر بیٹھیں زور زور سے رو رہی تھیں۔ 

ارد گرد انکے رشتے دار اور گاؤں کی عورتیں بکھری تھیں۔ 

تابین نے افسوس سے بی بی جان کو دیکھا پھر نظر پھیر کر گم سم سے کرسی پر بیٹھے بابا صاحب کو دیکھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی بت ہوں۔نہ وہ ہل رہے تھے نہ پلکیں جھپک رہے تھے۔بس خاموشی سے بیٹے کے چہرے کو تک رہے تھے۔ 

انہیں اپنے بیٹوں سے بہت محبت تھی۔وہ انکا غرور تھے۔انکے دو مضبوط بازو ۔۔۔ پر آج انکا لاڈلہ بیٹا اس دنیا میں نہیں تھا۔

وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔بلاول موت کی نیند سو چکا تھا اور جمال آغا کل سے غائب تھا۔

وہ بنا کسی کو بتائے گھر سے چلا گیا تھا۔اس وقت انہیں 

اسکے سہارے کی ضرورت تھی پر وہ کہیں نہ تھا۔بابا صاحب ٹوٹ گئے تھے۔

یہ سب انکے اپنے کیے کا پھل تھا۔اولاد کو اچھی تربیت دیں تو وہ اچھے سے پروان چڑھتی ہے پر انہوں نے دونوں بیٹوں کی تربیت میں  نفرت ، حسد ، خود پسندی کا زہر گھول دیا تھا کہ انہیں اپنے آگے کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا۔

تابین ایک طرف کھڑے حسن آفندی کی طرف بڑھی۔ 

"جنازہ کب ہے بابا جان؟"اسنے انکے ساتھ کھڑے ہو کر پوچھا۔ 

"دس بجے۔۔۔۔کل سے جمال کا انتظار کر رہے ہیں پر اسے جانے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔کوئی خبر نہیں اسکی۔۔۔ آپکے بابا صاحب تو اب بھی اسکا انتظار کرنا چاہتے تھے پر گاؤں والوں کے سمجھانے پر مان گئے۔ڈیڈ باڈی کو اتنے وقت تک ایسے رکھنا اچھا نہیں ہے۔ایسے مرنے والے کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔صحیح وقت پر دفنا دینا ہی اچھا ہوتا ہے۔"حسن آفندی آہستہ آہستہ کہہ رہی تھے اور تابین انہیں سن رہی تھی۔

جمال آغا کو اپنے بھائی سے بہت محبت تھی۔بابا صاحب کا کہنا تھا کہ اگر جمال آغا کے بنا دیکھے ہی بلاول کو دفنا دیا تو جمال آغا ساری زندگی چین سے نہیں رہ پائے گا کہ وہ آخری بار اپنے پیارے بھائی کی صورت نہ دیکھ سکا۔

انہوں نے کافی کوشش کی کہ جمال آغا سے رابطہ ہو جائے پر جمال آغا کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔اسلیے مجبوراً بابا صاحب کو جنازے کا وقت رکھنا پڑا۔ایک بیٹا جان سے گیا تھا اور دوسرا جانے کہاں غائب تھا۔وہ ایک دم سے جیسے کمزور ہوگئے تھے۔انکے پاس کچھ بھی نہ بچا تھا۔

کل شام تابین اور حسن آفندی خان ولا جانے کے لیے تیار ہوئے تھے جب امتل آفندی نے انہیں بتایا کہ بلاول کا انتقال ہوگیا ہے۔اسلیے وہ اسی وقت گاؤں کے لیے نکلے تھے۔ 

بلاول کا کافی عرصے سے ساتھ والے گاؤں کے زمیندار کے بیٹے سے جھگڑا تھا۔

ویسے تو بات چھوٹے موٹے جھگڑے کے بعد ختم ہو جاتی تھی۔ایک بار بلاول کا اسی لڑکے سے جھگڑا ہورہا تھا جب ہاشم نے انہیں چھڑایا تھا۔تب بلاول کو بہت غصہ آیا تھا۔تب اگر وہ سنبھل جاتا تو آج اسکا یہ انجام نہ ہوتا۔ 

کل بلاول اس لڑکے کے گاؤں گیا تھا اور اسنے جان بوجھ کر اس لڑکے کی بہن کو چھیڑا تھا۔بات عزت پر آگئی تھی۔زمیندار کے بیٹے کو جب بلاول کی اس حرکت کا پتہ چلا تو وہ پسٹل لے کر گھر سے نکلا تھا۔ارادہ بلاول کو جان سے مارنے کا نہ تھا۔بس اسے ڈرانا چاہتا تھا۔پر بات جھگڑے میں اس قدر آگے بڑھ گئی کہ اسنے بلاول پر گولیاں چلا دی تھیں۔ 

چار گولیاں لگنے کے بعد بلاول ایک سے دوسری سانس نہیں لے سکا تھا۔لاش کو اسکے گاؤں میں پھینک دیا گیا تھا۔کسی کو معلوم نہ تھا کہ بلاول کو کس نے مار کر یہاں پھینک دیا ہے۔

شام کے وقت گاؤں کے لوگ اسکی لاش لے کر چھوٹی حویلی پہنچے تھے۔تب سے وہاں قیامت سا منظر تھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی ہوسپٹل پہنچ کر سیدھی خان بابا کی طرف آئی تھی۔

"مجھے ایک بار ہاشم سے ملنا ہے۔"اسکی آواز سنجیدہ تھی۔ 

"پر بیٹا جی۔۔۔"خان بابا نے مزید کہنا چاہا جب اسکی درد میں ڈوبی آنکھوں میں دیکھ کر خاموش ہوگئے۔

"پلیز خان بابا۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔خان بابا نے سر ہلایا۔

پھر ڈاکٹر سے اجازت لی گئی اور نازلی آئی سی یو کی طرف بڑھی۔

اسے اندر جاتے دیکھ کر ابھی خان بابا نے نظریں پھیری تھیں جب شہریار انکے سامنے آیا۔"خان بابا۔"اسنے پکارا تھا۔

"بولیں شہریار۔"خان بابا کی آواز میں ہلکی سے کپکپاہٹ تھی۔انہیں ڈر تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے۔ 

"بلاول کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔"شہریار نے جواب دیا۔انہوں نے افسوس سے سر ہلایا۔

"ان للہ وانا الیہ راجعون۔"خان بابا نے دکھ سے کہا۔

"جنازہ کب ہے؟"انہوں نے شہریار سے پوچھا۔ 

"دس بجے۔"اسنے جواب دیا۔

خان بابا سر ہلا کر ام جان کی طرف پلٹے۔ 

"ہم ابھی چھوٹی حویلی کے لیے نکلیں گے۔آپکو بھی ہمارے ساتھ جانا ہے۔" 

"پر وہ ہاشم۔"ام جان نے اٹک کر کہا۔ 

"ہمارا بیٹا ابھی زندہ ہے بیگم اور انکا بیٹا مر چکا ہے۔ہماری اب اتنی بھی دشمنی نہیں ہے کہ ہم اتنی بڑی بات پر بھی وہاں نہ جائیں۔چلیں آئیں آپ۔"خان بابا نے سنجیدگی سے کہا۔ 

"اچھا۔"ام جان نے مدھم آواز میں کہہ کر فرماں برداری سے سر ہلایا۔ 

"شہریار آپ ہمارے ساتھ جائنگے۔"خان بابا کے کہنے پر اسنے جی اچھا کہا اور داور کو وہاں چھوڑ کر وہ چھوٹی حویلی جانے کے لیے نکلے تھے۔ 

"کیوں خاموشی سادھے بیٹھے ہو۔"

"کیوں میری باتوں کا جواب نہ دیتے ہو۔"

"کیوں دل کو میرے بے چین کرتے ہو۔"

"کیوں زندگی میں میری ، خوشیوں کی رمق نہ بھرتے ہو۔"

"بقول تمہارے ، تم عاشق ہو نہ ہمارے۔"

"پھر کیوں زندگی میری ، مجھ پر ہی تنگ کرتے ہو۔"

"اب توڑ دو نہ یہ ناراضگی کے خول۔"

"کیوں دل کو میرے خون خون تم کرتے ہو۔"

"اب تو ہم بھی ہیں تمہارے عشق کے اسیر۔"

"پھر کیوں ہم سے منہ موڑے رکھتے ہو۔"

__________________(از قلم نوشابہ چوہان)

نازلی آئی سی یو میں داخل ہوئی۔وہ ابھی آگے قدم نہیں بڑھا پائی تھی۔وہیں کھڑی ٹکٹکی باندھے بیڈ پر انجان بنے لیٹے ہاشم کو دیکھ رہی تھی۔ 

اسے دیکھتی وہ آہستہ آہستہ اسکی طرف بڑھنے لگی۔

وہ بیڈ کے قریب آ کر کھڑی ہوئی اور ہاشم کی بند آنکھوں کو دیکھنے لگی۔کتنا درد ناک ہوتا ہے جب آپ اپنے کسی پیارے کو اس حال میں دیکھتے ہیں۔ 

اسنے تو ہمیشہ اس شخص کو بولتے دیکھا تھا۔اسکے وجیہہ چہرے پر ہمیشہ مدھم سی مسکان ہوتی تھی۔سیاہ آنکھوں میں شوخی لیے وہ اسے تنگ کیا کرتا تھا۔پر آج اس چہرے پر کوئی احساس نہ تھا۔ان لبوں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔وہ شوخ آنکھیں آج اسکے چہرے پر نہ تھیں۔نازلی کو لگ رہا تھا جیسے ایک عرصے سے اسنے وہ سیاہ آنکھیں نہیں دیکھی ہیں۔

اس وقت وہ چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔نہ محبت بھری گرم جوشی تھی اور نہ زندگی سے بھر پور مسکراہٹ۔

اسنے لرزتا ہاتھ بڑھا کر آہستہ سے ہاشم کی بند آنکھ کو چھوا تھا۔ 

"ہاشم یوں انجان نہ بنیں مجھ سے ۔۔۔میں آپکے اتنے قریب ہوں اور آپ میرے ساتھ اس طرح کر رہے ہیں۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔

"میں آپکی دوری برداشت نہیں کر پاؤں گی۔آپ واپس آجائیں ناں۔۔۔کھولیں اپنی آنکھوں کو پلیز۔"اسکی آواز نم ہوئی تھی۔

اسنے ہاتھ اب اس کی سرد پیشانی پر رکھا تھا۔

"میں اتنے درد میں ہوں ہاشم کہ میرا وجود ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔آپکو یہ سب دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ آپ تو میری ذرا سی اداسی برداشت نہیں کر سکتے ہیں پھر اب کیا ہوگیا آپکو؟ آپ خود مجھے آنسوؤں کا خزانہ دے رہے ہیں۔کیا یہی ہے آپ کی محبت ؟ مجھے دکھ دے کر آپکو سکون مل رہا ہے کیا؟"وہ بہتے آنسوؤں کے بیچ سوال کر رہی تھی۔پر دوسری طرف وہی سکوت چھایا تھا۔ 

"ہاشم ایک بار میری التجا سن لیں۔آپ لوٹ آئیں ۔۔۔ میں آپ سے ہر وعدہ کرنے کے کیے تیار ہوں۔"اسنے دونوں ہاتھوں میں ہاشم کا مضبوط ہاتھ تھاما۔

"میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ میں آپ سے کبھی جھگڑا نہیں کرونگی۔غصے میں کچھ بھی الٹا سیدھا منہ سے نہیں نکالوں گی۔میں آپکی ہر بات مانوں گی۔آپ جو کہیں گے وہ کرونگی آپ بس ایک بار لوٹ آئیں۔واپس آجائیں اپنی نازلی کے پاس ۔۔۔ اپنے پیاروں کے پاس ۔۔۔"وہ بیچارگی سے کہہ رہی تھی۔ایک کے بعد ایک آنسو آنکھوں سے گر رہا تھا۔ 

"آپ نے کہا تھا نہ کہ کبھی میں آپ سے بات کرنے کے لیے بے چین رہونگی اور آپ مجھے ستائیں گے مجھ سے بات نہیں کرینگے تو ہاشم دیکھیں آج میں بے چین ہوں ۔۔۔۔ حد سے زیادہ بے چین ہوں آپ سے بات کرنے کے لیے ،آپکو صحیح سلامت دیکھنے کے لیے ۔۔۔۔"اسکی آواز رندھ گئی۔

"بہت ستا لیا آپ نے مجھے۔۔۔اب تو ختم کر دیں اس خاموشی کو ۔۔۔ اتنا تو میں نے آپکو نہیں ستایا تھا جتنا آپ مجھے ستا رہے ہیں۔میں پل پل مر رہی ہوں ہاشم خان۔میں ٹوٹ رہی ہوں۔"اسنے ہچکی بھری۔اسکا سر جھکا ہوا تھا اور آنسو ہاشم کے ہاتھ پر گر رہے تھے۔

"آپکو میری قسم آپ واپس لوٹ آئیں۔دیکھیں آپ نہیں ہوئے تو میں کس کے کندھے سے لگ کر آنسو بہاؤنگی ؟ کون میرے آنسو صاف کریگا؟ کون مجھ سے آپ جتنی محبت کریگا؟ دنیا میں ہاشم خان تو ایک ہی ہے ناں اور صرف وہی نازلی کو دیوانگی کی حد تک چاہتا ہے۔نازلی کو اپنا ہاشم خان واپس چاہیے ۔۔۔کسی بھی صورت میں مجھے آپ واپس چاہیے۔۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ بس لوٹ کر آئیں میرے پاس میں آپکے بغیر نہیں جی سکتی۔"اسکا لہجہ ضدی ہوا تھا۔اسنےجھکے سر کو اٹھا کر ہاشم کے چہرے کو دیکھا۔ہنوز وہی انجانا پن ، وہی بے خبری ۔۔۔۔نازلی اسکے قریب جھکی۔پھر اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگی۔

"ٹھیک ہے ۔۔۔ مجھے ستانے میں آپکو بہت مزہ آرہا ہے ناں؟ بہت سکون مل رہا ہوگا آپکو کہ نازلی آپکے پیچھے دیوانی ہورہی اور آپ اسے یوں اگنور کر رہے ہیں۔میری بات تک نہیں سن رہے ہیں آپ۔۔۔۔"اسنے پلکیں اٹھا کر اپنے قریب اس وجیہہ چہرے کو دیکھا۔

"تو ٹھیک ہے ہاشم خان آپکو اسی حالت میں رہنا ہے ناں؟آپ مجھ سے دور جانے کی سوچ رہے ہیں ناں ؟ پر میں آپکو بتا دیتی ہوں۔آپ سے پہلے میری جان جائے گی۔میں آپکو مرتے نہیں دیکھ سکتی۔میں اپنی جان لے سکتی ہوں پر آپ سے جدائی کا غم نہیں سہہ سکتی۔نہیں لوٹنا ناں آپ نے ؟جائیں نازلی ہاشم خان نے وعدہ کیا آپ سے کہ آپ کے مرنے سے پہلے وہ خود کو آپ پر قربان کر دے گی۔پھر اسکے بعد چاہے آپ واپس آئیں نہ آئیں پر نازلی لوٹ کر نہیں آئے گی۔پھر بعد میں مرضی جسے ستائیے گا پر ان میں نازلی کہیں نہیں ہوگی۔"آخر میں اسکی آواز رندھ گئی تھی۔ 

"چاہیں تو محبت کا مان رکھ کر لوٹ آئیں ورنہ آج رات سے پہلے میں نہیں رہوں گی۔چلی جاؤں گی اس دنیا سے ، اس غم سے دور جسنے میرے وجود کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ٹوٹ گئی ہے  آپکی نازلی ہاشم ۔۔۔۔  آ کر سمیٹ لیں مجھے ورنہ بعد میں کرچیاں بھی ہاتھ نہیں لگیں گی۔"اسکے لہجے سے درد چھلک رہا تھا۔

وہ آگے ہوئی پھر ہاشم کی پیشانی کو اسکے لبوں نے چھوا تھا اسکے لبوں کے چھوتے ہی ہاشم کے وجود میں زندگی دوڑنے لگی تھی۔ 

وہ اگلے پل پیچھے ہوئی اور منہ پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے باہر نکل گئی یہ دیکھے بغیر کے اس بت بنے وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی تھی۔ 

 نازلی آنسوؤں پر قابو پاتی باہر آئی اور تبھی ایک نرس آئی سی یو کی طرف بھاگی تھی۔ 

اسکے پیچھے ایک اور نرس اور ڈاکٹر اس طرف بھاگے تھے۔

نازلی انہیں اس طرح آئی سی یو کی طرف بھاگتے دیکھ کر ایک دم ڈر کر نور کی طرف بڑھی۔

اسے خود سے خوف آنے لگا کہ کہیں اسکی باتوں سے ہاشم کو کچھ ہو تو نہیں گیا؟

نور ، آبی ، داور اور اسفی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے آیا تھا زرد رنگت کے ساتھ اس بند دروازے کو دیکھ رہے تھے۔ 

نازلی کے وجود پر کپکپی طاری ہونے لگی۔مٹھیاں بھینچے وہ خود کو اونچی آواز میں رونے سے روک رہی تھی۔

پر بس نہ چلا تو ایک دم رونے لگی۔نور نے اسے بینچ پر بٹھایا۔

"لگتا ہے انہیں کچھ ہوگیا ہے نور۔"اسنے تڑپ کر کہا 

"کیسی باتیں کر رہی ہو نازلی ۔۔۔ اچھا اچھا بولو۔"نور کا دل حلق میں آگیا تھا۔ 

"تم نے دیکھا نہیں کیسے وہ نرسز اور ڈاکٹر۔۔۔"اسنے آئی سی یو کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔آگے وہ کچھ کہہ نہ پائی۔ 

اسکی بات پر سب کے دلوں کی دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں۔ نور کی آنکھیں بھی جل تھل ہوئیں۔ 

تبھی آئی سی یو سے ایک ڈاکٹر باہر آیا تھا۔اسفی اور داور حواس باختہ سے اسکی طرف بڑھے تھے۔ 

"پیشنٹ کے والد کہاں ہیں؟"ڈاکٹر کے پوچھنے پر ان سب کا دل رک گیا کہ کہیں کوئی بری خبر نہ ہو۔  

"و۔۔۔ وہ ایک ڈیتھ ہوگئی ہے وہاں گئے ہیں۔"داور نے اٹک کر بتایا۔ڈاکٹر نے اسکی بات پر سر ہلایا۔

وہ ہاشم کے ٹھیک ہونے کی خوش خبری سب سے پہلے خان بابا کو دینا چاہتے تھے کل سے وہ انہیں دیکھ رہے تھے۔وہ نماز کے علاوہ ایک پل کے لیے بھی وہاں سے نہیں ہلے تھے۔انکے ہاتھ میں پکڑی تسبیح مسلسل گردش کرتی رہی تھی۔ایک باپ کی بیٹے کے لیے اتنی محبت اس ڈاکٹر کے دل کو لگی تھی۔اسلیے یہ خوشی بھرا لمحہ وہ خان بابا کو دینا چاھتے تھے پر وہ یہاں موجود نہ تھے۔ 

"ہاشم ٹھیک ہے ناں؟"اسفی نے بے چینی سے پوچھ کر ڈاکٹر کی توجہ ہاشم کی طرف کروائی تھی۔

وہ سب سانس روکے ڈاکٹر کے جواب کے منتظر تھے۔ 

"مبارک ہو ہی از فائن ناؤ ۔۔۔"انہوں نے مسکرا کر بتایا۔سب کے چہروں پر ایک دم سے دکھ کے بادل جھٹ گئے تھے اور اسکی جگہ خوشی کے رنگ بکھرے تھے۔نازلی تو شاکڈ سی بیٹھی تھی۔اسے لگ رہا تھا اسے شاید سننے میں غلطی ہوئی ہے۔

"ہوش آگیا لالہ کو؟"داور کی آواز میں خوشی ہی خوشی تھی۔ "انہیں ہوش آگیا تھا پر درد کی وجہ سے انہیں اینستھیزیا کا انجکشن دیا گیا ہے۔سو شام تک ہوش میں آجائیں گے اس وقت تک انہیں یہیں رکھا جائے گا۔پھر روم میں شفٹ کر دینگے۔" ڈاکٹر نے ساری ڈیٹیل بتائی۔پھر ان سے ایکسیوز کر کے آگے بڑھ گئے۔ 

"سنا تم نے نازلی ۔۔۔۔ لالہ کو ہوش آگیا ہے۔"نور نے اسکے ہاتھ تھام کر خوشی سے کہا۔ 

نازلی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"وہ لوٹ آئیں ہیں؟"نازلی نے بے یقینی سے پوچھا۔

"ہاں ہاں ۔۔۔ ہاشم لالہ لوٹ آئیں ہیں۔"آبی خوشی سے جھوم اٹھی تھی۔ 

"مجھے خواب لگ رہا ہے سب۔"نازلی ان سب کو دیکھ رہی تھی۔ 

"یہ حقیقت ہے بھابی ۔۔ یقین کر لیں۔ہم سب کی دعائیں رنگ لائی ہیں۔اللہ نے ہمارے ہاشم کو ہمیں واپس دے دیا۔"اسفی نے لمبی سانس کھینچ کر کہا تھا۔ہاشم کے ٹھیک ہونے کا سن کر اسکے دل میں سکون ہی سکون اتر آیا تھا۔ 

"میں خان بابا لوگوں کو بتاتا ہوں۔"داور خوشی سے کہتا موبائل نکال کر وہاں سے دور گیا۔ 

نازلی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اسنے ہاتھوں کو دعا کی صورت اوپر اٹھایا تھا۔وہ اس پاک ذات کا شکریہ ادا کر رہی تھی جسنے انکی دعاؤں کو رد نہیں کیا تھا بلکہ انہیں قبول کر لیا تھا۔کہتے ہیں اگر دعا میں شدت ہو تو وہ دعا ساتوں آسمانوں تک جاتی ہے۔ان سب کی دعا بھی ساتوں آسمانوں تک گئی تھی اور قبولیت پا گئی تھی۔ 

نازلی ہاتھوں میں چہرہ چھپائے روتی ہوئی ساتھ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔ہاشم اسے واپس مل گیا تھا۔جیسے اسے پوری کائنات مل گئی تھی۔ 

آئی سی یو کے دروازے کے اس پار وہ دیوانہ لیٹا تھا۔جسنے آج  بھی نازلی کی بات نہیں ٹالی تھی۔نازلی نے اسے محبت کا مان رکھنے کا کہا تھا اور ہاشم نے محبت کا مان رکھا تھا۔

محبت کا مان رکھنا پڑتا ہے کبھی مر کر تو کبھی زندہ رہ کر ۔۔۔۔ ورنہ خالی دعوے کرنے سے محبت نہیں ہوا کرتی۔محبت کے لیے ہر بازی لگانی پڑتی ہے۔خود کو جلانا پڑتا ہے۔مٹانا پڑتا ہے اور کبھی مٹا کر پھر بنانا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر سچی محبت کا حق ادا ہوتا ہے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ لوگ چھوٹی حویلی پہنچ چکے تھے۔خان بابا ، بابا صاحب کی طرف بڑھے جو ہنوز اسی کرسی پر بیٹھے بیٹے کی صورت کو تک رہے تھے۔ 

خان بابا نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا پر بابا صاحب نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔ 

"بلاول کی موت کا بہت دکھ ہے ہمیں فیروز خان۔"اس بھاری آواز پر بابا صاحب نے اب کی بار چونک کر دیکھا۔خان بابا کو دیکھ کر انکی آنکھوں میں حیرت پھیلی۔ 

"وہ پاک ذات تم سب کو صبر عطا کرے۔آمین۔"خان بابا نے آہستہ سے کہا۔بیٹے کو کھو دینے کا دکھ انکی بھی رگ رگ میں اترا تھا۔بابا صاحب اپنے بیٹے کو کھو چکے تھے اور خان بابا اس درد کی سولی پر لٹکے تھے کہ جانے کب انکا پیارا بیٹا ان سے بچھڑ جائے۔یہ سوچ انکی روح کھینچ نکالتی تھی۔وہ ایک باپ کا دکھ اچھے سے سمجھ سکتے تھے۔

بابا صاحب نے اپنی نم آنکھیں جھکا دیں۔وہ سامنے کھڑے اس شخص سے سالوں دشمنی نبھاتے آئے تھے اور وہ انکے برے وقت میں سب کچھ بھلا کر انکے پاس آیا تھا۔

دوسری طرف ام جان نے بی بی جان کو گلے سے لگایا تھا۔دونوں مائیں اپنا اپنا دکھ آنسوؤں کی صورت بہا رہی تھیں پر یہ درد تھا کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ 

ام جان ، بی بی جان سے الگ ہوئیں تو تابین انکے سامنے آئی۔

"ام جان۔"اسکے پکارنے پر آنسو صاف کرتیں ام جان نے اسے دیکھا۔تابین کو یہاں دیکھ کر وہ حیران ہوئیں۔ 

"مجھے معاف کر دیجیے گا پلیز ۔۔۔۔ جو کچھ میں نے آپ کے گھر آ کر کہا اس سب کے لیے ، میرے رویے کے لیے۔"اسنے ام جان کے ہاتھ تھام کر شرمندگی سے کہا۔

"شاید تمہارا وہاں آنا لکھا گیا تھا بچے۔ورنہ اگر تم نہ آتی تو سب کچھ ٹھیک نہ ہوتا پر ۔۔۔"ام جان سوچوں میں گم ہوئیں۔

"پر؟"تابین نے جلدی سے پوچھا۔ 

"سب ٹھیک ہونے والا تھا بیٹا پر میرا ہاشم اس سے پہلے ہی ہمیں چھوڑ کر جانے کے در پہ ہے۔میرا پیارا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔"ام جان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔

جبکہ انکی بات پر تابین کی تو دنیا ہی الٹ ہوگئی۔اسکے دل کو  جیسے کسی نے نوچ ڈالا تھا۔ 

درد نے دل سے پھیل کر جب اسکے پورے وجود پر قبضہ کیا تو اسکی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔ 

"ک۔۔۔کیا ہوا انہیں؟"اسنے اٹک کر پوچھا۔ 

"گولیاں ماری ہیں کسی بد بخت نے میرے جگڑ کے ٹکڑے کو"ام جان نے ضبط سے کہا پھر تابین سے ہاتھ چھڑا کر بی بی جان کی طرف بڑھیں۔ 

جنازہ اٹھ رہا تھا۔ہر طرف کہرام مچ گیا تھا۔رونے کی آوازیں فضا میں بلند ہونے لگیں۔ 

بی بی جان تو دیوانی ہوگئی تھیں۔انکا بیٹا ہمیشہ کے لیے انہیں چھوڑ کر جارہا تھا۔

امتل آفندی اور ام جان انہیں سنبھالتے ہوئے خود بھی رو رہی تھیں۔یہ منظر دیکھنا آسان نہ تھا۔کسی اپنے کو ہمیشہ کے لیے کھو دینا اور اسے پھر کبھی نہ دیکھنے کا سوچ کر دل پر چھریاں چلتی ہیں اور ایک ماں کے لیے تو یہ بات قیامت سے کم نہیں ہوتی۔جنازہ گھر سے چلا گیا۔خان بابا اور شہریار بھی ساتھ گئے تھے۔ام جان ، بی بی جان کو صبر کا کہہ رہی تھیں پر انکے آنسو نہیں رک رہے تھے۔وہ بیٹے کو کھو کر پاگل ہوگئی تھیں۔ 

تابین ایک طرف بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔اسے بلاول کی موت کا دکھ تھا پر یہ جو اسکی آنکھوں سے نہ ختم ہونے والے آنسو بہہ رہے تھے وہ اس شخص کے لیے تھے جس سے اسکا کوئی ناطہ نہ تھا۔وہ جو اسکا کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اسکا سب کچھ تھا۔ 

امتل آفندی اسکی طرف آئیں۔وہ اسے ام جان سے ملتے دیکھ چکی تھیں۔اسلیے آ کر اس سے پوچھا کہ وہ انہیں کیسے جانتی ہے۔تابین نے سب سچ سچ بتا دیا۔ 

امتل آفندی سر ہلا کر وہاں سے چلی گئیں۔تابین نے حیرت سے انکی پشت کو دیکھا۔امتل آفندی نے اسے یہ نہیں کہا تھا کہ تم نے غلط کیا ہے۔بچپن سے ہی وہ ایسا کرتی آئی تھیں۔تابین کوئی بھی غلطی کرتی وہ اسے ٹوکتی نہیں تھیں کہ ایسا مت کیا کرو۔۔۔ یہ غلط ہے۔انکی اسی بات کی وجہ سے ہی تابین اس حد تک آگے نکل آئی تھی کہ وہ نازلی کی جان لینے کا سوچنے لگی پر اللہ نے اسے صحیح وقت پر سنبھلنے کا موقع دے دیا تھا اور وہ مزید کوئی گناہ کرنے سے بچ گئی تھی۔ 

ام جان کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ تابین ، امتل آفندی کی بیٹی ہے اور نازلی انکی سوتیلی بیٹی۔ 

ام جان وہاں بیٹھیں بھی ہاشم کے ٹھیک ہوجانے کی دعائیں کرتی رہیں۔ 

تدفین کر کے وہ لوگ لوٹ آئے تھے۔تابین نے جلدی سے حسن آفندی کو ہاشم کا بتایا تھا۔حسن آفندی کے سر پر جیسے دھماکہ ہوا تھا۔وہ اس شخص کی صورت میں اپنی بیٹی کی خوشیاں تلاش کر رہے تھے اور وہ شخص انکی بیٹی سے بچھڑ رہا تھا۔انہیں نازلی کا خیال آیا کہ جانے وہ کس حال میں ہوگی۔کسی محبت کرنے والے کو کھو دینا کتنا درد ناک ہوتا ہے یہ وہ اچھے سے جانتے تھے۔

وہ تابین کے بتانے پر خان بابا کی طرف بڑھے جو شہریار کے ساتھ کھڑے کوئی بات کر رہے تھے۔ 

"اسلام و علیکم۔"حسن آفندی نے سلام کیا۔خان بابا اور شہریار چونکے تھے۔انہیں بابا صاحب سے حسن آفندی کا رشتہ تو معلوم ہوگیا تھا پر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ نازلی کے والد ہیں۔ 

"ہاشم اب کیسا ہے؟"انہوں نے بھاری آواز میں پوچھا۔انکے پوچھنے پر پہلے تو خان بابا کو حیرت ہوئی پھر بولے۔

"اللہ کا شکر کہ وہ اب ٹھیک ہے۔کچھ گھنٹے پہلے اسے ہوش آگیا ہے۔"جنازہ سے پہلے ہی شہریار کو داور کی کال آئی تھی اور اسنے اسے بتایا تھا کہ ہاشم کو ہوش آگیا ہے پر یہاں ہنگامے کی وجہ سے شہریار خان بابا کو یہ خوش خبری نہ سنا سکا تھا  اسلیے ابھی انہیں ساری بات بتائی تھی۔ 

"اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔"انکی بات پر حسن آفندی نے لمبی سانس کھینچ کر شکر ادا کیا۔ 

"آپ کیا ہاشم کے بزنس پارٹنر ہیں۔"انکے اس قدر فکر مند انداز پر خان بابا پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔حسن آفندی کچھ پل خاموش رہے پھر بولے۔

"میں نازلی کا فادر ہوں۔"وہ کہہ کر انہیں دیکھنے لگے۔خان بابا اور شہریار کی آنکھوں میں حیرت پھیلی۔ 

"شاید آپ لوگ اب تک نازلی سے واقف نہیں ہیں؟"حسن آفندی نے جھجھک کر کہا۔آواز میں خوف بھی تھا کہ جانے وہ جاننے کے بعد نازلی کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔انہیں لگ رہا تھا کہ وہ ہاشم اور نازلی کی شادی سے بے خبر ہیں۔ 

"ہمیں سب معلوم ہے حسن صاحب۔"خان بابا نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔"نازلی ہماری بہو ہے۔آپ اسکی طرف سے بے فکر  ہوجائیں۔ہم اسکا خیال خود سے بڑھ کر رکھیں گے۔"خان بابا مدھم سا مسکرائے۔ہاشم کے ٹھیک ہونے کی خبر سن کر انکے دل سے دکھ کے بادل چھٹ چکے تھے۔

انکی کہی اتنی اچھی بات پر حسن آفندی بھی اتنے وقت میں پہلی بار مسکرائے تھے۔ 

خان بابا نے شہریار سے ام جان کو بلانے کا کہا۔انہیں اب اپنے بیٹے کے پاس جانا تھا۔ 

وہ لوگ بابا صاحب سے اجازت لے کر وہاں سے نکلے تھے۔خان بابا نے جب ام جان کو ہاشم کے ٹھیک ہونے کی خبر دی تب سے وہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہی تھیں۔وہ جلد سے جلد ہوسپٹل پہنچ کر اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتی تھیں۔ 

انکے پیچھے آتی گاڑی میں حسن آفندی اور تابین بھی ہوسپٹل کی طرف جا رہے تھے۔ 

امتل آفندی نے جب انہیں خان بابا سے باتیں کرتے پھر انکے پیچھے جاتے دیکھا تو وہ سمجھ گئی تھیں کہ تختے الٹے جا چکے ہیں۔وہ اتنی کوشش کے بعد بھی زنیرہ کی بیٹی کو ہرا نہیں پائی تھیں۔باقی سب چاہے بدل جاتے پر وہ بدلنے والی نہ  تھیں۔وہ نازلی کو اسکی اوقات یاد دلاتی رہی گیں کہ وہ کس ماں کی بیٹی تھی اور اسنے خود کیا کیا تھا۔ 

کچھ لوگ کبھی نہیں بدلتے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔امتل آفندی بھی شاید ایسے لوگوں میں سے ہی تھیں۔نفرت کا زہر دل میں بھر کر جینے والیں اور موقع ملتے ہی اس زہر سے دوسروں کا دل چھلنی کرنے والیں۔

وہ سب ہوسپٹل پہنچ چکے تھے۔نازلی تو حسن آفندی کو دیکھ کر انکے سینے سے لگ کر خوب روئی۔وہ اسے پیار سے سمجھاتے رہے پر وہ کیا کرتی کہ ہاشم سے بچھڑ جانے کے خوف میں اسنے جو گھنٹے ، جو پل  گزارے تھے وہ اسے خون کے آنسو رلا رہے تھے۔ 

حسن آفندی کے بعد وہ تابین سے ملی۔تابین نے اسے گلے سے لگایا۔وہ کتنی خوش قسمت تھی کم از کم کھل کر رو تو سکتی تھی۔تابین کو تو اس شخص کے لیے رونے کا بھی کوئی حق نہیں تھا۔نازلی سے الگ ہو کر تابین نے اسکے آنسو صاف کیے۔ "اب تو ہاشم ٹھیک ہیں گڑیا ۔۔۔ اب رونا بند کرو اور چہرے پر مسکراہٹ سجاؤ ورنہ ہاشم کو تمہیں روتے دیکھ کر اچھا نہیں لگے گا۔"اسنے نرمی سے مسکرا کر کہا۔اسکی بات پر نازلی نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔ 

تبھی نازلی کو خان بابا نے اپنے طرف بلایا تو وہ انکی طرف بڑھی۔تابین نے نور کے پاس جا کر اپنی کہی باتوں کی معذرت کی اور نور نے اسے کھلے دل سے معاف کر دیا۔

تابین کا بڑی حویلی آنا بھی شاید سب کچھ ٹھیک ہونے کی ایک لڑی تھی۔اگر وہ نہ آتی تو شاید سب ٹھیک نہ ہوتا۔شاید نور حوصلہ کر کے خان بابا کو سچائی نہ بتا پاتی۔سچ چھپا رہتا اور مزید مسئلہ بنتے جاتے۔اسلیے جو کچھ ہوا تھا اچھے کے لیے ہی ہوا تھا۔

ام جان ،خان بابا اور حسن آفندی ہاشم کو دیکھنے آئی سی یو میں گئے۔باقی سب باتوں میں لگے تھے جبکہ تابین ایک طرف خاموشی سے کھڑی تھی۔ 

اسفی نے اسے دیکھا تو اسکی طرف بڑھا۔

"تم بھی ہاشم کو دیکھ لو۔"اسنے آہستہ آواز میں کہا۔ 

"ہاشم کو تو نازلی دیکھے گی۔میں تمہیں نہ دیکھ لوں؟"وہ مذاق میں کہہ کر مسکرائی۔پر اسکی مسکراہٹ میں کرب تھا۔ 

"بہت دکھ ہورہا ہے ناں؟"اسفی نے اسکی بات کو اگنور کیا۔ 

"تم آج کچھ زیادہ ہی سیریس نہیں ہو گئے؟"تابین نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔اسفی کو اسکی آنکھوں میں دکھ کے بادل نظر آرہے تھے۔ 

"حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔"اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"تمہیں خوشی کی ایک خبر دوں؟"تابین کے کہنے پر اسنے چونک کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"میری شادی ہونے والی ہے۔"اسنے جیسے اسفی کی جان نکالی تھی۔وہ بت بنا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"پوچھو گے نہیں۔۔۔ کس سے؟"اسکا چہرہ دیکھ کر وہ مسکرائی تھی۔ 

"کس ۔۔ سے۔"خود پر قابو پا کر اسفی نے مدھم آواز میں کہا۔ "جمال آغا سے۔"تابین نے مزے سے بتایا۔ 

"یہ کیا مذاق ہے کوئی؟"اسفی کو جھٹکا لگا تھا۔اسنے حیرت سے پوچھا۔

"نہیں۔"تابین نے نفی میں سر ہلایا۔"یہ کوئی مذاق نہیں حقیقت ہے۔"

"تم کیسے اس تھرڈ کلاس آدمی سے شادی کر سکتی ہو تابین۔"اسفی کے لہجے میں تڑپ اتری۔ 

"کیونکہ میں بھی تو اس جیسی ہی ہوں ۔۔۔۔ تھرڈ کلاس ۔۔۔ اس سے بہتر شخص کو میں ڈزرو نہیں کرتی اسفی۔"تابین نے دکھ سے مسکرا کر کہا۔ 

"تم بری ہرگز نہیں ہو تابین۔"اسفی نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔لہجے میں سچائی تھی۔ 

"تمہارے کہنے سے میں اچھی نہیں ہوجاؤں گی اسفی۔"وہ کہہ کر رکی پھر اسفی کی آنکھوں میں دیکھا۔"تم بہت اچھے ہو اسفی اور تمہیں تم جیسی بہت اچھی لڑکی ملنی چاہیے۔تم تابین سے محبت کرنا چھوڑ دو۔میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتی۔"اسکے اس قدر سنجیدگی انداز پر اسفی کی ہستی ڈول کر رہ گئی۔ 

وہ کہہ کر نازلی کی طرف بڑھ گئی اور اسفی بے جان سا بینچ پر بیٹھا۔اسے اپنی فکر نہ تھی کہ وہ تابین کو کھو دے گا۔اسے تو بس تابین کی فکر ہورہی تھی کہ وہ جمال آغا سے شادی کر رہی تھی؟ وہ کیسے اتنے کمینے انسان سے شادی کر سکتی تھی؟ تابین بھلے ہی اسے نہ ملتی پر وہ اسے جمال آغا جیسے شخص کا بھی نہیں ہونے دے سکتا تھا۔وہ چاہتا تھا تابین کو جو شخص بھی ملے وہ بیسٹ ہو۔جو تابین کو سمجھے ، اسکا خیال رکھے ، اسے ہر دکھ سے بچائے اور اس سے بے انتہا محبت کرے۔کوئی اسے بتاتا کہ تابین کے لیے بیسٹ شخص وہ خود ہی تھا۔تابین اسکی ہی ہونی چاہیے تھی۔اس سے زیادہ محبت تابین سے دوسرا کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ 

تابین ان سب کے ساتھ کھڑی تھی پر ہر تھوڑی دیر بعد وہ ایک نظر بت بنے بیٹھے اسفی پر ڈال لیتی۔ 

"اسفی بھائی آپکے دوست ہیں ناں؟"نازلی نے اسے اسفی کی طرف دیکھتے پا کر پوچھا۔ 

"ہا ۔۔۔ ہاں ۔۔۔"تابین گڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔ 

"اسفی بھائی بہت اچھے ہیں۔۔۔۔ ہیں ناں؟"نازلی نے مدھم آواز میں اس سے تصدیق چاہی تھی۔تابین نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"ہاں اسفی بہت اچھا ہے۔"وہ کہہ کر رکی پھر بولی۔

"ہاشم ٹھیک ہوجائے پھر تم دونوں کو میری شادی میں بھی آنا ہے۔میں انتظار کرونگی۔"وہ مسکرائی اور نازلی کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔تابین نے اسے یاد دلایا تھا کہ اسکی شادی ہونے والی ہے۔وہ اپنے دماغ میں آتا ہر خیال نکال دے۔ 

نازلی نے دکھ سے سر ہلایا۔تابین ، نور اور آبی سے باتیں کرنے لگی۔جبکہ نازلی خاموشی سے کبھی اسے اور کبھی اسفی کو دیکھ رہی تھی۔ 

تبھی سامنے سے سیماب ، لیلیٰ ، نوری اسے اپنی طرف آتیں دکھائی دیں۔وہ جلدی سے سیماب کی طرف بڑھی تھی اور انکے گلے لگ کر رونے لگی۔آنی میں ہمیشہ اسے اپنی ماما کی جھلک نظر آتی تھی۔

"ہاشم کیسا ہے؟"انہوں نے نازلی کو خود سے الگ کر کے پوچھا۔ 

"اب ٹھیک ہیں آنی پر دواؤں کے زیر اثر بیہوش ہیں۔"اسنے آنسو صاف کر کے بتایا۔ 

"تم رو نہیں میری جان ، وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔"سیماب نے اسکا گال تھپک کر نرمی سے کہا۔

نازلی کو روتے دیکھ کر لیلیٰ کے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔ 

"آپی۔"وہ نازلی کی طرف بڑھی۔ 

"لیلیٰ میری گڑیا۔"نازلی نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔ 

"آپ پلیز اداس نہ ہوں۔ہاشم بھائی ٹھیک ہوجائیں گے۔"اسنے نازلی سے الگ ہو کر مدھم آواز میں کہا۔

تبھی داور کی نظر اس چھوٹی سی لڑکی پر پڑی تھی۔وہ خود رو رہی تھی اور نازلی کو اداس نہ ہونے کا رہی تھی۔داور دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔جو اب اپنے آنسو صاف کر رہی تھی۔

"انشاء اللہ۔"نازلی نے نرمی سے مسکرا کر اسکا گال کھینچا۔

"نوری صاحبہ تم کیسی ہو؟"نازلی ، نوری کی طرف پلٹی۔جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ 

"میں تو ٹھیک ہوں۔پر اداس ہوں۔"اسنے دکھ سے کہا۔ 

"ہاشم بھائی کے ساتھ جس نے بھی ایسا کیا ہے ناں اسکے لیے میرے دل سے بد دعائیں ہی نکل رہی ہیں۔"اسنے تپ کر کہا تھا۔نازلی نے محبت سے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"ہوں۔۔۔۔تم دیکھنا نوری اس شخص کو اپنے کیے کا اجر ضرور ملے گا۔"وہ مدھم آواز میں بولی۔وہ سب جس دکھ ، جس کرب سے گزرے تھے اللہ اسکا بدلہ اس شخص سے ضرور لے گا۔اسے اس بات کا یقین تھا۔

 لیلیٰ ، نازلی کی باتیں سن رہی تھی جب اسے اپنے چہرے پر  نظروں کی تپش کا احساس ہوا۔اسنے گردن پھیر پر دیکھا تو وہ لڑکا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔اسکے دیکھنے پر ایک دم مسکرایا اور لیلیٰ نے گڑبڑا کر نظریں پھیر لیں۔پھر اس سے بچنے کے لیے سیماب کے پیچھے ہو کر کھڑی ہوئی۔ 

اسکی اس حرکت پر داور کھل کر مسکرایا تھا۔ 

"اہم اہم ۔۔۔"نور ، داور کے قریب آ کر کھانسنے لگی۔ 

"یہ چھپ چھپ کے مسکرایا کیوں جا رہا ہے؟"اسکے پوچھنے پر داور ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگا۔ 

"میں کب مسکرایا۔"اسنے جلدی سے چہرے کو سنجیدہ کیا۔ 

"بچو تمہیں بھی معلوم ہے کہ تم صاف جھوٹ بول رہے ہو۔"نور نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"کسے دیکھ رہے تھے؟"اس نے اب کی بار راز داری سے پوچھا۔ "وہ مانو۔۔۔"داور نے مسکرا کر بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"جی داور۔۔۔"نور نے مسکراہٹ دبا کر اسی کے انداز میں کہا۔ 

"وہ ۔۔۔ وہ لڑکی۔"اسنے آنکھوں سے لیلیٰ کی طرف اشارہ کیا اور نور کھل کر مسکرائی تھی۔  

تبھی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے شہریار نے اسے دیکھا۔اتنے وقت بعد وہ یوں کھل مسکرائی تھی۔شہریار ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا اسکی معصوم صورت کو آنکھوں کے ذریعہ دل میں اتارنے لگا۔ جبکہ دوسری طرف ماہ نور نے مسکراہٹ دبا کر داور کو دیکھا۔"تم سب نے نازلی کا رشتے دار بننے کی ہی قسم کھائی ہے۔"اسنے مذاق سے کہا۔

"میرے علاوہ اور کون ہے بھلا؟"داور نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

نور نے چونک کر اسے دیکھا۔اب وہ اسے آبی کا تو بتانے سے رہی تھی۔اسلیے جلدی سے بولی 

"میں جا کر اسکا نام پوچھ کے آتی ہوں۔"اسنے لیلیٰ کی طرف اشارہ کر کے داور کا دھیان اسکی طرف موڑا۔لیلیٰ کا نام اسے معلوم تھا۔نازلی ان سے اسکا ذکر کر چکی تھی پر داور کا دھیان موڑنے کے لیے جھٹ سے کہتی وہ آگے بڑھ گئی اور داور  مسکراہٹ دبا کر لیلیٰ کو دیکھنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد خان بابا ، ام جان اور حسن آفندی ہاشم کو دیکھ کر باہر آئے تھے۔ہاشم ہنوز بیہوشی کی حالت میں تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"وہ جو سوچ رہے تھے مجھے توڑنے کا۔"

"میرا حوصلہ دیکھ کر خراش تک نہ ڈال سکے۔"

_____________________(از قلم عالیہ)

شام کے وقت ہاشم کو ہوش آ چکا تھا۔اسے آئی سی یو سے روم میں شفٹ کیا گیا۔

ان سبکو ہاشم کے ہوش میں آنے کا پتہ چلا تو وہ خوشی سے کھل اٹھے۔

حسن آفندی اور سیماب لوگ تو جا چکے تھے۔باقی گھر کے فرد

باری باری ہاشم سے مل رہے تھے۔ 

سب سے پہلے ام جان اس سے ملی تھیں۔انکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔انہوں نے بیٹے کا چہرہ چوم ڈالا تھا۔

"میرا بچہ۔"وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھیں اور ہاشم آہستہ آہستہ انہیں سمجھا رہا تھا کہ آپ روئیں مت میں ٹھیک ہوں۔پھر آبی ، داور ، نور اس سے ملے۔پھر شہریار اسکی طرف بڑھا تو ہاشم کی آنکھوں میں حیرت پھیلی۔

"بہت ڈرایا ہے تم نے ہم سب کو یار۔"شہریار نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ 

دور کھڑی ماہ نور کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔ 

"شہریار تم۔"ہاشم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے۔ 

"بہت انتظار کروایا ہے ناں میں نے تمہیں یار ۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔"اسنے بھاری آواز میں کہہ کر ہاشم کا ہاتھ تھاما۔

"تم مجھ سے ناراض نہیں ہو؟"ہاشم کی آواز میں حیرت نمایا تھی۔ 

"نہیں ۔۔۔ اب تو بالکل نہیں۔"شہریار مسکرایا تھا اور ہاشم کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ 

تبھی اسکی نظریں ایک طرف سر جھکا کر کھڑے خان بابا کی طرف گئیں۔ 

"خان بابا۔"اسنے محبت سے پکارا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ 

"کیا آپ نے بھی اپنے بیٹے کو معاف کر دیا ہے؟"اسنے سنجیدگی سے پوچھا۔خان بابا اسکی طرف بڑھے۔ 

"کر دیا ہے معاف ہم نے اپنے نالائق بیٹے کو۔"خان بابا نے مسکرا کر کہا پر انکی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ہاشم کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔وہ اٹھنے لگا جب درد کی وجہ سے ایک دم واپس لیٹا۔اسکے درد  پر سب ایک دم فکر مند ہوئے تھے۔

"لیٹے رہو۔"خان بابا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روکا۔  

"مجھے اگر معلوم ہوتا کہ میرے اس حال پر آپ لوگ میرے ساتھ  ٹھیک ہو جائیں گے تو میں پہلے ہی دو گولیاں کھا کر گھائل ہوجاتا۔"وہ درد ضبط کرتا مسکرا کر بولا۔ 

اسکی بات پر خان بابا نے اسے گھورا۔ 

"کبھی انسان اچھی بات بھی کر لیتا ہے ہاشم خان۔"انہوں نے غصے سے کہا۔ 

"آج تو مت ڈانٹیں میرے بچے کو۔"ام جان جلدی سے آگے بڑھیں۔ 

"یہ پیار بھری ڈانٹ تو میں کھا لونگا ام جان۔"ہاشم نے محبت سے خان بابا کو دیکھا۔

انہیں دیکھتے اسکے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ اسکا وجود درد سے چور چور ہو چکا تھا پر اپنے پیاروں کے لیے اسنے چہرے پر مسکراہٹ سجا رکھی تھی۔ 

"اوئے اسفی یار اتنے دور کیوں کھڑے ہو۔"اسنے دروازے کے پاس خاموش کھڑے اسفی کو اپنی طرف بلایا۔ 

"اسفی بھائی ناراض ہیں آپ سے۔"داور نے بتایا۔ 

"کیوں بھئی؟"ہاشم کو حیرت ہوئی۔ 

"انکا کہنا ہے کہ آپ نے اکیلے کیسے گولیاں کھا لیں ایک ادھ انہیں بھی ساتھ کھلاتے۔"داور نے ہنسی دبا کر بتایا۔ 

"داور۔۔۔"اسکی بات پر خان بابا نے اسے چپ رہنے کا کہا۔ایسی باتوں سے پہلے ہی انکا دل ڈر گیا تھا۔وہ مزید کسی کو خطرے میں جاتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ 

انکے وارن کرنے پر داور نے زبان دانتوں میں دبائی۔ 

"میں تم سے ناراض ہوں خان۔تم اس طرح کیسے اکیلے سب سہہ گئے۔جانے سے پہلے مجھے ساتھ لے جاتے تو اس حال کو نہ پہنچتے۔"اسفی ناراض سا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"اگلی بار تمہیں بتا کر جاؤنگا اور گولیاں کھا کر تمہیں ضرور انفارم کرونگا کہ اسفی اب تم مجھے بچا لو۔چلو اب ناراضگی چھوڑ دو ناں یار۔"ہاشم نے شوخی سے کہا۔پھر آخر میں اسفی کے گھورا پر ایک دم مسکرایا تھا۔

"تم اچھی بات نہیں کر سکتے؟"اسفی کو اسکی بات ذرا اچھی نہیں لگی تھی۔ 

"میرے یار تم جو ہو اچھی باتیں کرنے کے لیے۔پھر میں کیسے کروں؟"ہاشم نے محبت سے اسکا ہاتھ تھاما۔اسکے انداز پر اسفی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"جلدی سے فٹ ہوجاؤ۔پھر دونوں دوست گھومیں گے ، پھیریں گے۔"اسفی نے اسکا ہاتھ تھپکا۔

پھر دونوں باتیں کرنے لگے۔اسفی نے اسے بلاول کی ڈیتھ کا بتایا۔ہاشم قدرت کے اس انصاف پر حیران رہ گیا۔اسے بلاول کی موت کا بہت افسوس ہوا تھا۔پر برے کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

"تمہیں گولیاں کس نے ماری تھیں ہاشم؟"اسفی نے اچانک سوال کیا۔سب کی نظریں ہاشم کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔ 

"بتانا ضروری ہے۔"اسنے آنکھیں سختی سے بند کر کے کھولیں۔ 

"ہاں۔"خان بابا کی بھاری آواز گونجی۔ہاشم کچھ پل خاموش رہا پھر بولا۔"جمال آغا نے۔"وہ اتنا کہہ کر خلا میں گھورنے لگا اور وہ سب حیران کھڑے رہ گئے۔وہ جمال آغا کی ہاشم سے دشمنی سے واقف تھے۔پر یہ دشمنی اس حد تک پہنچ جائے گی وہ نہیں جانتے تھے۔ 

"اللہ جمال آغا کو اسکے کیے کی سزا دیں۔"ام جان نے اوپر کی طرف دیکھ کے تڑپ کر کہا۔ 

خان بابا خاموش تھے۔اللہ نے جمال آغا کو اسکے کیے کی سزا دے تو دی تھی۔اسکے بھائی کو بھی کسی نے اسی  بے رحمی سے مارا تھا جس بے رحمی سے اس نے انکے ہاشم کو مارا تھا۔خدا نے ہاشم کو انہیں لوٹا دیا تھا اور جمال آغا کا بھائی ان سے ہمیشہ کے لیے دور ہوگیا تھا۔یہی تو انصاف تھا۔

کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ہاشم بچ گیا تھا۔انکے لیے یہ سب سے بڑی بات تھی۔ 

ہاشم نے کمرے میں نظر دوڑائی۔وہاں سب موجود تھے سوائے اس لڑکی کے جسے دیکھنے کے لیے اسکی آنکھیں ترس رہی  تھیں۔ہاشم کا دل بے چینی سے بھر گیا۔وہ جب بیہوش تھا۔تب اسے احساس ہوا تھا کہ وہ اسکے پاس آئی تھی۔اسنے اس سے بہت ساری باتیں کی تھیں۔اسے لوٹ آنے کا کہا تھا اور اب جب وہ لوٹ آیا تھا تو جانے وہ کہاں غائب ہوگئی تھی۔ 

اسکے دل کو خوف نے جکڑا کہ کہیں اسے حسن آفندی لے تو نہیں گئے؟

اسنے سب کو دیکھا پر ان سبکے چہرے پرسکون تھے۔وہ باتوں میں لگے تھے۔تبھی اسفی کے گھر سے کال آئی تو وہ چلا گیا تھا۔اسفی کے جاتے ہی اسنے اشارے سے ماہ نور کو اپنی طرف بلایا۔"نازلی کہاں ہے؟"اسنے آہستہ سے پوچھا۔ 

"یاد آرہی ہے آپکو اسکی؟"ماہ نور نے شرارت سے کہا۔ 

"ہاں۔"اسنے بلا جھجھک جواب دیا۔ماہ نور مسکرانے لگی۔ 

"وہ شکرانے کے نوافل ادا کر رہی ہے۔"ماہ نور نے مدھم آواز میں بتایا۔ہاشم کے چہرے پر سکون پھیلنے لگا۔  

"وہ نوافل پڑھ لے تو اسے کہنا ذرا اپنے مجازی خدا کو بھی اپنا چہرہ دکھا دے۔"

"فکر نہ کریں۔بھابی صاحبہ کو کہتا ہوں کہ آپ سے آ کر ملیں۔آپ انکے انتظار میں بہت بے تاب ہیں۔"نور کے پیچھے کھڑے داور نے شوخی سے کہا تو ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

تبھی شہریار نے بتایا کہ پولیس آئی ہے ہاشم کا بیان لینے۔سب کمرے سے باہر نکل گئے۔ 

ہاشم نے اپنا بیان لکھوایا۔پولیس والے چلے گئے تو وہ چھت کو دیکھتا سکون سے آنکھیں بند کر گیا۔ 

اسنے پولیس والوں سے یہی کہا تھا کہ وہ شخص اس سے رقم چیننے کی کوشش کر رہا تھا اسکے مزاحمت کرنے پر اس شخص نے اس پر گولیاں چلائی تھیں اور ہاشم اسکا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔اس دشمنی کے قصے کو ہاشم ختم کرنا چاہتا تھا۔اس میں کہیں نہ کہیں شاید اسکی بھی غلطی تھی جو جمال آغا نفرت میں اس مقام تک پہنچ آیا تھا کہ اسکی جان لینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا۔

ہاشم نے اسکا نام نہیں لیا تھا۔اسے اب اپنی زندگی میں جمال آغا کی پرچھائی تک نہیں چاہیے تھی۔وہ اسکا نام نہیں سننا چاہتا تھا نہ کبھی وہ اسکی صورت دیکھنا چاہتا تھا۔

خود کو تکلیف پہنچانے والے جمال آغا کو اسنے معاف کر دیا تھا۔اب وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا۔نہ دوستی کا نہ دشمنی کا۔۔۔۔۔۔

اسکے بیان کا خان بابا کو پتہ چلا تو وہ کمرے میں آئے۔وہ ہاشم کے سامنے کھڑے ہوئے۔ہاشم خاموشی سے انہیں دیکھنے لگا۔ 

"ہمیں فخر ہے کہ تم ہمارے بیٹے ہو ہاشم خان۔"انکی بات پر ہاشم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔یہی بات تو وہ سالوں سے انکے منہ سے سننا چاہتا تھا اور اب اس بات پر اسے کتنی خوشی ہوئی تھی وہ بیان نہیں کر سکتا تھا۔ 

"ہم اب کوئی دشمنی نہیں رکھنا چاہتے۔ہم نے وہ تمام زمینیں فیروز آغا خان کے نام لکھ دی ہیں۔ہمیں ایسی زمین نہیں چاہیے جس میں ہمارے بیٹے کا خون ملا ہے۔کل ہمارا وکیل انہیں وہ پیپرز دے آئے گا۔ہمیں تم سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔"خان بابا نے محبت سے کہا۔پھر جھک کر اسکی پیشانی چومی۔ 

ہاشم خوشی سے پاگل ہونے لگا۔باپ کی محبت کا مزہ اسنے برسوں بعد چکھا تھا اور اففف اس محبت میں اسے کتنا سکون ملا تھا وہ بیان نہیں کر سکتا تھا۔

"ہم سب گھر جا رہے ہیں پر نور ، شہریار اور ہماری دوست یہیں ہوگی۔نازلی آپ سے ابھی تک نہیں ملی محترم ۔۔۔ان سے ملیں اور انہیں یقین دلائیں کہ اب آپ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ہمیشہ اسکے ساتھ رہیں گے۔۔۔ اوکے۔۔۔۔"خان بابا نے مسکرا کر اسکا ہاتھ گرم جوشی سے دبا کر چھوڑا۔ 

"جو حکم آپکا۔"ہاشم نے مسکرا کر انہیں دیکھا تو وہ اسکا کندھا تھپک کر مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔ 

"کب ملنے آئیں گی آپ مجھ سے مسز ہاشم۔"ہاشم نے آنکھیں موندیں  تو نازلی کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلنے لگی۔لبوں پر مسکراہٹ سجائے وہ اپنی مسز کا انتظار کر رہا تھا۔

وہ سب چلے گئے تو نور بینچ پر بیٹھی نازلی کی طرف بڑھی۔نازلی زمین کو گھورنے میں مصروف تھی۔ وہ نور کی باتیں سوچ رہی تھی۔جمال آغا نے ہاشم کو مارا تھا۔وہ کس قدر گرا ہوا انسان تھا نازلی سوچ نہیں سکتی تھی۔ہاشم کی تکلیف اسکے درد کا سوچ کر اسکا دل کرچی کرچی ہورہا تھا۔ 

نور اسکے برابر میں آ کر بیٹھی۔ 

"پہلے تم نے کہا تم شکرانے کے نوافل ادا کر رہی ہو اسلیے لالہ سے بعد میں ملو گی اور اب تم یہاں بیٹھ گئی ہو۔پہلے ان سے ملنے کے لیے ، ان سے بات کرنے کے لیے بے چین تھی اور اب وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں اور تم ان سے ملنے نہیں جا رہی۔ایسا کیوں؟"نور نے اسے دیکھ کر آہستہ آواز میں پوچھا۔ 

"میں ان سے ملنا چاہتی ہوں پر میں انکے سامنے جاؤنگی تو مجھے رونا آئے گا اور انکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کہ وہ میرے آنسو پونچھتے رہیں۔وہ خود تکلیف میں ہیں اور میں انہیں تنگ نہیں کرنا چاہتی۔"وہ ہنوز زمین کو دیکھتی مدھم آواز میں بولی. "تمہیں کس نے کہا کہ لالہ تم سے تنگ ہونگے؟"نور کی بات پر اسنے نور کو دیکھا۔

"پاگل لڑکی وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے سامنے نہ ہونے سے انہیں سکون ملے گا؟ تکلیف نہیں ہوگی؟"ماہ نور نے نفی میں سر ہلایا۔

"اگر تم ان سے ملنے نہ گئی تو انہیں مزید تکلیف ہو گی۔کیا تم ایسا کرنا چاہتی ہو؟انہیں تکلیف دینا چاہتی ہو؟"ماہ نور کے سوالوں پر نازلی نے نم آنکھوں کے ساتھ نہ میں سر ہلایا۔ 

"پھر جاؤ اور لالہ سے ملو۔۔۔چاہو تو رو بھی لینا میرے لالہ تمہارے آنسو پونچھ لینگے یا پھر تم انکے آنسو پونچھ لینا۔"بات کے آخر میں نور مسکرائی تھی۔اسکی بات پر نازلی کے لب بھی  مسکرا اٹھے۔"جاؤ اب۔"نور نے اسے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ جانے لگی تو نور نے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"تمہیں وہ سفید لباس بدلنا نہیں چاہیے تھا۔"اسنے نازلی کے انگوری لباس کو دیکھ کر کہا۔ 

"اپنے لالہ کو ٹھیک ہونے دو۔وہ لباس پھر سے پہن لونگی۔"اس  نے ہنسی دبا کر نور دیکھا۔"اوئے ہوئے۔"ماہ نور نے شرارت سے کہہ کر اسکا ہاتھ چھوڑا تو نازلی مسکرا کر جلدی سے آگے بڑھ گئی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"دیکھ ساقی کیسے بستا ہے عشق وجود میں۔"

"سلطنت میری ہے رگ رگ پہ حکومت یار کی۔"

اسکے کندھے اور سینے سے درد کی ٹھسیں اٹھ رہی تھیں۔درد کو ضبط کرتا وہ آنکھیں موندیں لیٹا تھا جب آہستہ سے دروازہ کھولا گیا۔پھر دروازہ بند ہوا پر قدموں کی چاپ سنائی نہ دی۔وہ سمجھ گیا تھا کہ آنے والا کون ہے۔ 

"اب آ ہی گئی ہو مسز تو ذرا قدم آگے بڑھا کر میرے قریب بھی آ جاؤ۔"بند آنکھوں کے ساتھ بھاری لہجے میں کہا گیا۔ 

اففف نازلی کا دل دھڑک اٹھا۔آنکھیں نم ہوئیں۔ہاشم کی آواز سن کر جیسے رگ رگ میں زندگی دوڑنے لگی۔نازلی کو لگ رہا تھا اسنے یہ محبت بھرا لہجہ ، یہ آواز برسوں بعد سنی ہے۔ 

"آج میں چل کر تم تک نہیں آ سکتا یار۔خود ہی آجاؤ۔"اسکی بات پر نازلی کی آنکھ سے آنسو گرا۔ آج اسکا ایک ایک لفظ نازلی کے دل کو پگھلا رہا تھا۔آنکھیں سمندر ہو رہی تھیں۔ 

اسنے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر آنسو صاف کیے پھر اسکی طرف بڑھی۔ 

"ہاشم ۔۔"اسنے بیڈ کے پاس پہنچ کر اسے آہستہ سے پکارا۔ 

"جی جانِ ہاشم۔"اسنے سیاہ آنکھیں کھول کر نازلی کو دیکھا۔ 

ان آنکھوں میں نمی اور درد دیکھ کر نازلی کا دل بند ہوا تھا۔وہ جلدی سے اسکے قریب آئی۔ 

"آ۔۔ آپ کی آنکھیں نم ہیں۔"اسنے ہاشم کے چہرے کو چھوا۔"آپ کو درد ہورہا ہے؟"اسنے انگلی کی پوروں سے ان سیاہ آنکھوں کی نمی صاف کی۔ 

"درد ہے ۔۔۔ زخموں کا بھی اور تمہیں اتنے وقت بعد اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کا بھی۔"اسنے گھمبیر آواز میں کہہ کر نازلی کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔ 

"ایسا لگتا ہے جیسے برسوں بعد تمہارے چہرے کو دیکھا ہے۔"اسکی آواز کانپی تھی۔

اسکی حالت دیکھ کر نازلی کا وجود لرزنے لگا۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ رونے لگی تھی۔ 

ہاشم نے اسے دیکھا۔"میری آنکھیں جب بند ہوئی تھیں تب مجھے لگا تھا کہ میں دوبارہ اپنے پیاروں کو کبھی نہیں دیکھ  پاؤنگا۔۔۔۔تمہیں کبھی نہیں دیکھ پاؤنگا۔کبھی چھو نہیں سکونگا۔وہ لمحے قیامت تھے میرے لیے۔"ہاشم نے اسکی نم آنکھوں میں دیکھ کر کرب سے کہا۔ 

اسکی اتنی درد ناک بات پر نازلی کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ 

"میں بھی تو بہت ڈر گئی تھی کہ میں آپکو کھو دونگی۔میں آپکے بغیر کبھی نہیں رہ پاتی ہاشم۔"اسکی آواز نم تھی۔

"بیٹھو یہاں۔"ہاشم نے اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اسنے نازلی کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔نازلی خاموشی سے وہاں بیٹھ گئی۔

ہاشم نے نرمی سے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کیے۔

"موت تو ایک دن آنی ہی ہے نازلی ، آج بچ گیا ہوں پر جب موت کا وقت مقرر ہوگا تب تو موت آئے گی اور تب ہمیں بچھڑنا بھی ہوگا۔اسلیے بہادر بنو۔"وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ 

اسکی باتوں پر نازلی اسے گھورنے لگی۔ 

"میں ابھی مر مر کے سنبھلی ہوں ہاشم اور آپ پھر سے موت کی بات کر رہے ہیں۔جائیں مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔"وہ رندھی آواز میں کہہ کر اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔ہاشم نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی۔ 

"یار شوہر اس حالت میں پڑا ہے اور تم اس سے ناراض ہو رہی ہو؟"اسنے مسکراہٹ دبا کر کہا۔ 

"تو شوہر اگر اس حالت میں بھی ایسی باتیں کرے گا پھر ناراض ہونا تو بنتا ہے۔"وہ چہرہ پھیر گئی۔ 

"افف یہ ادائیں۔۔۔۔دل ابھی گھائل ہے مسز برداشت نہیں کر پائے گا۔"اسنے شوخی سے کہہ کر نازلی کا ہاتھ سینے پر رکھا جو پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔

"بہت درد ہورہا ہے؟"نازلی نے ایک دم پریشانی سے اسے دیکھا۔ 

"تھوڑا سا۔۔۔ پر اب تم پاس ہو تو سکون مل رہا ہے۔"وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں پھر ہم گھر جائیں گے۔"اسنے سینے پر رکھے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔جسکے اوپر ہاشم نے دونوں ہاتھ رکھے تھے۔ایک ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی۔وہ اسکے ہاتھ کو دیکھتی اسکے درد کا اندازہ لگانے لگی۔

"میری یاد آئی تھی تمہیں؟"ہاشم نے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"اتنی کہ آپ کے علاوہ کسی کا ہوش نہ تھا۔"اسنے مدھم آواز میں جواب دیا۔اسکی بات پر ہاشم کا دل دیوانہ ہوا تھا۔نازلی اپنے ہاتھ کے نیچے اسکی رفتار پکڑتی دھڑکنوں کو محسوس کر رہی تھی۔ہاشم اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔

"آپ نے بہت ستایا ہے مجھے۔۔۔۔ اتنا کہ مجھے آپکو دھمکی دینی پڑی۔"اسنے نظریں اٹھا کر ہاشم کو دیکھا۔

"دھمکی؟"ہاشم کے لب مسکرائے۔ 

"ہاں جی۔"نازلی نے منہ بسور کر سر ہلایا۔ 

"کیا؟"ہاشم نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔ 

"یہی کہ آپ سے پہلے میں مر جاؤنگی۔پھر اسکے بعد آپ جو مرضی کریے گا۔جسے مرضی ستائیے گا۔"وہ اسکی آنکھوں میں  دیکھ کر بولی۔ 

"اور دیکھو تمہاری دھمکیاں اثر کر گئیں۔میں لوٹ آیا ہوں تمہارے پاس۔"وہ نیلی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔ 

"دھمکیوں سے آپکا گہرا ناطہ ہے۔دھمکیاں دیتے بھی ہیں اور دھمکیوں پر مانتے بھی ہیں۔"وہ کہہ کر مدھم سی مسکرائی۔ 

"تم یہ دیکھو مسز کہ ہاشم خان کی دھڑکنیں بھی تمہاری کتنی  فرماں بردار ہیں۔تم  نے کہا لوٹ آؤ اور یہ پھر سے دھڑک اٹھیں۔"اسنے مدھم آواز میں کہہ کر اس شاداب چہرے کو دیکھا۔پھر ایک دم اسکے ذہن میں حسن آفندی کی کہی باتیں گونجنے لگیں۔نازلی کو طلاق دینا ہوگی۔۔۔۔ ہر لفظ اسکے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا۔

"میری دھڑکنیں بھی تو آپکی فرماں بردار ہیں۔اگر آپ نہ لوٹتے تو یہ دھڑکنا بند کر دیتیں ہاشم۔"وہ اسکی بند ہوتیں سیاہ آنکھوں کو دیکھ کر آہستہ سے بول رہی تھی۔ 

وہ ایک بار پھر سے بیہوشی میں جا چکا تھا اور نازلی اسکے پاس بیٹھی اسے تکتی رہی۔اسکا ایک ہاتھ اب بھی ہاشم کے ہاتھوں میں جکڑا تھا۔دوسرا ہاتھ بڑھا کر اسنے ہاشم کی بند پلکوں کو چھوا تھا۔ 

اس وجیہہ چہرے کو دیکھ کر نازلی پھر سے جی اٹھی تھی۔وہ شخص اسکا عشق تھا۔اسکا سب کچھ تھا۔بس وہ جلدی سے بالکل پہلے جیسا ہو جائے۔پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"مری نبض تیرے پوروں سے چھو جانے کی چاہت میں۔"

"میرے دلبر۔۔۔مجھے اکثر یونہی بیمار رکھتی ہیں۔"

رات کی سیاہ چادر نے آسمان کی روشنی کو مکمل طور پر اپنے اندر سمیٹا تھا۔نور ہوسپٹل کے لان میں خاموشی سے بینچ پر بیٹھی تھی۔ 

تبھی شہریار آ کر اسکے ساتھ بیٹھا۔ 

ماہ نور نے اسکی جانب نہ دیکھا۔وہ خاموشی سے آسمان کو دیکھتی رہی۔ 

"اب سب ٹھیک ہوگیا ہے ناں۔"شہریار نے اسکے چہرے کو دیکھا۔ 

"ہوں۔"ماہ نور نے آہستہ سے کہا۔ 

"تو تم اتنی اداس کیوں ہوں؟"وہ چاہتا تھا وہ اسکی طرف دیکھے پر وہ اسے دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔ 

"لالہ ٹھیک ہوگئے ، گھر میں سب خوش ہیں۔آپ لوگ لالہ کے ساتھ ٹھیک ہو گئے۔اتنی ساری خوشیاں پا کر میں خوش ہی ہوں۔اداس تو نہیں۔"وہ اب زمین کو دیکھنے لگی۔

"سب کی باتیں کر لیں تم نے پر اس میں میری اور تمہاری بات کہاں ہے؟"شہریار کے لہجہ میں بے چینی تھی۔ 

"آپکی اور میری بات۔۔۔"نور نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ 

"آپکی اور میری بات تھی ہی کب شہریار جو ہم اس متعلق کوئی بات کریں؟"وہ دکھ سے ہنسی۔ 

"ساری بات ہی تو ہماری ہے ماہ۔یہ الگ بات ہے کہ تم کرنا نہیں چاہتی۔"وہ سنجیدگی سے بولا 

"میں نہیں کرنا چاہتی ہماری بات ؟ یا آپ نے میرے منہ پر تالے لگا دیے ہیں؟ آپ نے مجھے گونگا کیا ہے شہریار خان۔"وہ طنزیہ کہہ کر سامنے دیکھنے لگی۔ 

"ماہ میں نے ایسا تو نہیں چاہا تھا۔میں تو ۔۔۔"وہ مزید کہنے لگا جب ماہ نور نے اسے روکا۔

"جی آپ نے ایسا نہیں چاہا تھا۔ایسا تو میں نے چاہا تھا ناں۔۔۔ہر الزام سے بری ہو کر نکل جانا تو خوب آتا ہے آپکو۔"اسنے تپ کر سر جھٹکا۔ 

"اتنی ناراض ہو مجھ سے؟"شہریار نے اسکے جھکے سر کو دیکھا۔

"نہیں شہریار خان۔۔۔۔"اسنے سر اٹھا کر شہریار کو دیکھا۔

"میں کیوں آپ سے ناراض ہونے لگی۔بھلا ناراض ہونے کا حق آپ نے مجھے دیا ہی کب ہے۔۔۔"وہ مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی۔پر اسکی آنکھوں میں تیرتی نمی اسکے دل کا حال بیان کر رہی تھی۔ 

"میں مانتا ہوں میں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں ماہ ۔۔۔ میں ان سب کی تم سے معافی مانگتا ہوں۔"اسنے نرمی سے ماہ نور کے ہاتھ تھامے۔ 

ماہ نور اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔آخر اس انا پرست شخص نے اس سے معافی تو مانگی تھی۔ 

"آپ نے مجھے اس چیز کی سزا دی ہے جس میں میرا قصور ہی نہیں تھا شہریار۔۔۔"وہ نم آواز میں بولی۔ 

"آئم سوری۔"اسنے ماہ نور کی نم آنکھوں میں دیکھا۔اس کی آنکھ سے آنسو نکل کر گال پر بہا تو شہریار نے نرمی سے صاف کیا۔

ماہ نور کو ایک دم شہریار کا خود پر ہاتھ اٹھانا یاد آیا تو اسنے گال پر رکھے شہریار کے ہاتھ کو جھٹکا۔

"ماہ بس کرو ۔۔۔ اب ناراضگی ختم کر دو۔اور کتنا ناراض رہو گی؟"شہریار کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ 

"خود چاہے جتنا مرضی ناراض رہیں اور اگلا آپ کو مناتا رہے اور دوسرے کسی کی تھوڑی سی ناراضگی بھی آپ سے برداشت نہیں ہوتی ۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا شہریار خان ۔۔۔ اگر ناراض رہنا آپکو آتا ہے تو ناراضگی سہنا بھی سیکھیں۔"وہ غصے سے کہہ کر اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر اٹھی اور وہاں سے چلی گئی۔ 

شہریار نے لمبی سانس کھینچ کر بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"جانے کب مانو گی تم ماہ۔"اسنے بے چینی سے کہہ کر آسمان کو دیکھا۔ 

اب اس ناراض لڑکی کو منانا پڑے گا۔اس لڑکی کے بغیر اسکا گزارا بھی تو نہیں تھا ناں۔

"ایک روح ، ہزار احساس اور تم۔"

"ایک میں ، ہزاروں قصے اور تم۔"

"دو آنکھیں ، ہزاروں خواب اور تم۔"

کل سے وہ سوتی جاگتی کیفیت میں تھا۔ابھی بھی کچھ پل پہلے اسکی آنکھ کھلی تھی۔

ہوسپٹل کا وہی کمرہ جسے وہ کل سے دیکھ رہا تھا۔اس وقت نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا۔

وہ کافی دیر خالی ذہن کے ساتھ چھت کو گھورتا رہا۔اسے معلوم نہ تھا کہ یہ دن کا وقت ہے کہ رات۔۔۔۔ کافی دیر بعد جب اسکا ذہن بے دار ہوا تو اسنے گردن پھیر کر دائیں طرف دیکھا۔

نازلی کرسی پر بیٹھی تھی اور سر بیڈ پر ٹکا رکھا تھا۔پلکوں کی جھالر گالوں پر سایہ کر رہی تھی۔وہ شاید تھک کر سو گئی تھی۔ہاشم کو اسکے چہرے کی آدھی سائیڈ نظر آ رہی تھی۔اسے احساس ہوا کہ اسکا ہاتھ نازلی نے اپنے میں جکڑا رکھا تھا۔جیسے وہ اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہو۔اسکے دور جانے کے ڈر سے اسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا تا کہ وہ کہیں نہ جا سکے۔ 

ہاشم اسکے چہرے کو کتنے پل دیکھتا رہا۔پلکیں نہ جھپکیں کہ کہیں وہ چہرہ نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔

وہ بچ گیا تھا۔پر کیا فائدہ ؟ وہ زندہ رہتا یا مر جاتا نازلی نے تو  اس سے جدا ہو ہی جانا تھا۔ 

وہ موت کے منہ سے واپس آیا تھا دوبارہ سے جانے کے لیے۔ہاں ۔۔۔۔ کیونکہ نازلی کا اس سے بچھڑ جانا اسکے لیے موت سے کم تو نہ تھا۔اس موت میں سانسیں بھلے ہی چلتی رہتیں پر اندر سے وہ مر جاتا۔نازلی کے جانے کے بعد اسکے پاس کچھ بھی تو باقی نہ رہتا۔اسکی محبت ، اسکی ضد ، اسکا جنون ، اسکی جان ، روح کا سکون سب کچھ تو وہ لڑکی تھی۔جب وہی اسکی زندگی میں نہیں رہے گی تو زندگی جینے لائق کہاں ہوگی۔

اس وقت بہت سی سوچوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔اسنے آخر  تھک کر آنکھیں سختی سے بند کر کے کھولیں پھر درد بھری لمبی سانس کھینچی۔

نازلی ایک دم ہڑبڑا کر تیزی سے سیدھی ہو بیٹھی۔ 

"کیا ہوا ؟ درد ہورہا ہے؟"اسنے جلدی سے پوچھا۔نیند کی وجہ سے اسکی آنکھیں گلابی ہو رہی تھیں۔

ہاشم نے اسے دیکھا۔وہ فکر مندی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"بولیں ناں؟"نازلی نے اسکے مسلسل دیکھنے پر پریشانی سے کہا۔ 

"بہت ستا رہا ہوں ناں میں تمہیں۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر آہستہ سے بولا۔ 

"آپکو ایسا کیوں لگا؟"اسنے ناراضگی سے الٹا سوال کیا۔

"میری بیماری کی وجہ سے تمہاری نیند پوری نہیں ہوتی نازلی۔"اسنے افسوس سے کہا۔ 

"ہاشم دن نکل آیا ہے۔دن میں کون سوتا ہے بھلا۔یہ تو بس ویسے ہی۔"وہ جلدی سے کہتی اسے دیکھ کر مدھم سی مسکرائی تا کہ ہاشم اس بات کو دماغ سے نکال دے۔

"مسز جو رات کو جاگے وہ دن کو سو جاتا ہے اور تمہارے رات کو جاگنے کی وجہ تمہاری میرے لیے فکر مندی ہے۔ بہت تنگ کر رہا ہوں ناں میں تمہیں ؟ میری وجہ سے تمہیں پہلے بھی اتنا کچھ سہنا پڑا اور اب بھی سہہ رہی ہو۔"اسکی آواز میں اداسی اتری۔ 

نازلی نے اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں جکڑا پھر اسے خاموشی سے دیکھنے لگی۔

ہاشم کتنے پل اسکے بولنے کا انتظار کرتا رہا پر جب وہ نہ بولی تو اسے کہنا پڑا۔ 

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"اسکی آواز مدھم تھی۔ 

"دیکھ رہی ہوں کہ ایک شخص جو خود کسی کا اتنا خیال کرتا رہا ہے۔اس سے اتنی محبت کی کہ اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹا۔اگر وہ کسی کے عشق میں اتنا دیوانہ ہو کر یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو کیا کوئی دوسرا اسکے عشق میں دیوانہ ہو کر اسکا خیال ، اسکی فکر نہیں کر سکتا؟ کیا اسے ایسا کرنے کا حق نہیں؟"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر وہ جادو پھونک رہی تھی۔ہاشم کو اسکی بات سمجھنے میں وقت لگا تھا۔ 

وہ حیرت سے اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔نازلی نے اسکی آنکھوں میں الجھن دیکھ کر لبوں پر آتی مسکراہٹ دبائی۔ 

ہاشم نے کچھ کہنے کے لیے لب وا کیے پر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔نازلی اسکا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

اسنے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو حسن آفندی اندر داخل ہوئے۔انکے پیچھے تابین بھی تھی۔ہاشم نے حیرت سے ان دونوں کو دیکھا۔حسن آفندی اسکی طرف بڑھے جبکہ تابین ، نازلی سے ملنے لگی۔ہاشم کو نازلی اور تابین کا اتنا دوستانہ انداز حیرت میں ڈال رہا تھا۔ 

"کیسے ہیں اب آپ؟"حسن آفندی کرسی پر بیٹھے جہاں کچھ پل پہلے نازلی بیٹھی تھی۔ 

"آئم فائن۔"ہاشم کہہ کر اٹھ کر بیٹھنے لگا تو نازلی جلدی سے آگے بڑھ کر اسکی پشت کے پیچھے تکیہ رکھنے لگی۔ 

"اتنا ٹھیک ہے یا اور اوپر کروں؟"اسنے تکیے کو ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔

"ٹھیک ہے۔"ہاشم نے آہستہ سے جواب دیا۔  

حسن آفندی انہیں دیکھ رہے تھے۔انہیں وہ دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگے تھے۔

تابین نے ایک نظر انہیں دیکھا پھر نظریں جھکا دیں۔اسے ہلکے سے درد کے علاوہ کوئی احساس نہیں ہورہا تھا۔نہ جلن ، نہ جنون نہ نفرت۔۔۔ بس دل میں ہلکی ہلکی سی چبھن محسوس ہورہی تھی جو کہ اب تو ہمیشہ رہنے والی تھی۔ساری زندگی اب اسے اس درد کے ساتھ ہی جینا تھا۔ 

ہاشم نے نظر پھیر کر حسن آفندی کو دیکھا۔نازلی ، تابین کی طرف بڑھی۔اسے بیٹھنے کا کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔

آج وہ آبی اور داور یہاں رکے تھے۔باقی سب خان ولا میں ہی تھے۔وہ بھی دن میں ہوسپٹل کا چکر لگاتے تھے۔

وہ باہر آ کر آبی کے پاس بیٹھ گئی تا کہ حسن آفندی ، ہاشم سے بات کر لیں۔اسے انکی موجودگی میں وہاں رکنے میں جھجھک محسوس ہو رہی تھی۔ 

"کیسے ہیں ہاشم؟"تابین نے آگے بڑھ کر پوچھا۔ 

"گڈ ۔۔۔ تم کیسی ہو؟"ہاشم نے اسے دیکھا پر اسکا دھیان حسن آفندی کی طرف تھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔دماغ میں بہت سی سوچوں نے حملہ کیا تھا۔اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اسکی موت کا پروانہ تو نہیں لائے ہیں۔ 

"میں بھی ٹھیک اور اللہ کا شکر ہے کہ آپ ٹھیک ہوگئے۔نازلی بہت پریشان تھی۔بہت روئی ہے وہ آپکے لیے۔"تابین مسکرا کر کہہ رہی تھی اور ہاشم اسکے لہجے میں آئے مثبت بدلاؤ کو محسوس کیے بنا نہ رہ سکا۔

"بس اللہ کا شکر ہے۔بچ گیا ہوں۔"اب کی بار وہ بھی ہلکا سا مسکرایا۔

تابین نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا پھر نازلی کے پاس جانے کا کہہ کر کمرے سے نکلنے لگی پر جانے سے پہلے اسنے ایک آخری نظر ہاشم پر ضرور ڈالی تھی۔محبت بھری نظر جیسے وہ اسے آخری بار دیکھ رہی ہو اور اسکی تصویر آنکھوں میں بسا رہی ہو۔اسنے اپنے دل کو قابو کر لیا تھا پر سالوں پرانی محبت کو وہ ایک جھٹکے میں دل سے نکال نہیں سکتی تھی۔اس پر اسکا بس نہ تھا۔

وہ کمرے سے چلی گئی تو کمرے میں سکوت چھا گیا۔ہاشم کو 

بہت بے چینی ہو رہی تھی کہ حسن آفندی کچھ بولتے کیوں نہیں ہیں۔ 

"زخم کیسے ہیں اب؟"کافی دیر بعد حسن آفندی نے پوچھا۔ 

"کچھ حد تک بہتر۔"ہاشم نے جواب دیا۔ 

"ڈاکٹرز کا آپکو گھر کب بھیجنے کا ارادہ ہے؟"

"اللہ جانے ۔۔۔ ویسے اگر میرے بس میں ہو تو میں ابھی یہاں سے بھاگ جاؤں۔"اسکے لہجے میں بے زاری تھی۔وہ ہوسپٹل سے ، اس روم سے تنگ آ چکا تھا۔ 

اسکی بات پر حسن آفندی مسکرائے تھے۔

ہاشم کو جانے کیوں انکے اس خوش احلاق رویے سے خطرے کی بو آ رہی تھی۔یا شاید اسکے دماغ میں جو بات چکرا رہی تھی وہ اسکے حواس کو قابو کر کے اسکے دل کو ڈرا رہی تھی۔ 

"میں چاہتا ہوں کہ آپ جلدی سے صحت یاب ہو کر گھر چلے جائیں۔"حسن آفندی کے لہجے میں نرمی تھی جسے سوچوں میں گم ہاشم محسوس نہ کر سکا۔ 

"جی ۔۔۔ ٹھیک ہوجاؤں گا پھر سے بیمار ہونے کے لیے۔"وہ دکھ سے سر جھکائے ذو معنی الفاظ میں بولا۔ 

حسن آفندی اسکی بات کا مطلب سمجھ رہے تھے۔ہاشم کا اشارہ طلاق کی طرف تھا۔ 

"کیا آپ میری بیٹی کو ساری زندگی خوش رکھیں گے؟"انہوں نے ایک دم پوچھا۔ 

ہاشم نے جھٹ سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا کہ کیا وہ اسکا مذاق اڑا رہے ہیں؟ ایک طرف انہوں نے طلاق کی بات کی تھی اور اب دوسری طرف وہ اس سے نازلی کو ساری زندگی خوش رکھنے کا پوچھ رہے ہیں۔یہ اسکے جذبات کے ساتھ مذاق ہی تو تھا۔ 

"آپ کی بات ۔۔۔"ہاشم نے کہنا چاہا پر انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔"پہلے جواب۔"آواز میں رعب تھا۔ 

"اپنی ہر خوشی اسکے نام کرونگا سر۔ بنا سوچے بنا سمجھے بنا اپنی جان کی فکر کیے اسے خوش رکھوں گا۔ہمیشہ اسکی حفاظت کروں گا۔اسکا ہر قدم پر ساتھ نبھاؤں گا۔"ہاشم کا لہجہ بلا کا مضبوط اور محبت سے پر تھا۔ 

"یہ تو ہم بھی دیکھ چکے ہیں ینگ مین۔"وہ دوستانہ لہجے میں بول کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ہاشم کو امید تھی کہ وہ آگے کچھ اور بھی بولیں گے پر وہ اسکا کندھا تھپک کر جانے لگے۔ 

ہاشم کا دل مٹھی میں قید ہوا۔وہ ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ انہیں نے طلاق کا کیا سوچا ہے اور انہیں نے ابھی اس سے یہ بات کیوں کی پر اسکی زبان ہل ہی نہیں رہی تھی۔

حسن آفندی تھوڑا آگے جا کر اسکی طرف پلٹے پھر بولے۔ 

"جلدی سے ٹھیک ہو کر میری بیٹی کو اچھے سے رخصت کر کے لے جائیں۔میں خوشی سے اسکا ہاتھ آپکے ہاتھ میں تھما کر اسے آپکے ساتھ رخصت کرونگا۔"انکے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ 

وہ مسکرا کر ہاشم کا چہرہ دیکھ رہے تھے جہاں انکی بات سمجھ کر اب حیرت بھرے تاثرات کی جگہ خوشی نے لی تھی۔آنکھوں میں روشنی بھرنے لگی۔

"سر آپ۔۔۔۔"اسکے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ 

"سر نہیں بابا جان ۔۔۔ اور آپکی معافی قبول ہوگئی ہے۔آپکا امتحان ختم ہوا۔آپ اپنے امتحان میں پاس ہو گئے ہیں۔بس اب ٹھیک ہوجائیں اور تمام خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔سی یو سون۔"وہ محبت و نرمی سے کہہ کر پلٹے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔ 

ہاشم کو لگا وہ خوشی سے پاگل ہو جائے گا۔انہوں نے اسے معاف کر دیا تھا اور اسے وہ خبر دی تھی جسنے اسکے وجود میں نئی زندگی پھونک ڈالی تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنی خوشی کیسے بیان کرے۔ 

وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے سوچوں میں گم تھا جب دروازہ کھلا۔ 

اسنے سامنے دیکھا تو نازلی کھڑی تھی۔اسے دیکھ کر ہاشم کی شرارتی رگ پھڑکی تھی۔ 

"مسز ہاشم ذرا یہاں آئیں۔"اسکے لہجے کی تازگی اور خوشی محسوس کر کے نازلی کو حیرت ہوئی۔کچھ وقت پہلے وہ بہت اداس اور مایوس لگ رہا تھا اور اب اسکا رویہ ایک دم بدل چکا تھا جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھمائی ہو اور ہاشم کی تمام اداسی اڑا لے گیا ہو۔ 

وہ اسے دیکھتی آہستہ سے اسکی طرف بڑھی اور بیڈ سے کچھ فاصلے پر ہو کر کھڑی ہوئی۔ 

ہاشم نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔جسے کچھ پل دیکھنے کے بعد اسنے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ دیا۔ہاشم نے اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں جکڑا تھا۔ 

"یہ ہاتھ میرے ہاتھ میں ہی جچتا ہے۔"وہ اسکے ہاتھ کو دیکھ کر دلکشی سے بولا 

"جادو ہوا ہے کوئی؟"نازلی پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔

"وہ تو کب کا ہوا ہے یار۔"وہ نظریں اٹھا کر اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ 

"آپکو آرام کی ضرورت ہے۔"نازلی کو لگا اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔تبھی اچانک وہ ایسی باتیں کر رہا ہے۔

"یار میں بالکل ٹھیک ہوں بلکہ اب تو بالکل فٹ اور خوش ہوں۔"اسنے نازلی کا ہاتھ کھینچ کر اسے قریب کیا پھر اپنے سامنے بٹھایا۔ 

"مجھے گڑبڑ لگ رہی ہے۔"نازلی نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"کیسی گڑبڑ؟"ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔ 

"یہ آپکی آنکھوں میں جب حد سے زیادہ چمک پھیلتی ہے ناں تب کوئی گڑبڑ ضرور ہوتی ہے۔"اسنے سمجھداری سے کہا۔ 

"اچھا پھر بتاؤ کہ اب کیا بات ہو سکتی ہے؟"اسنے دلچسپی سے پوچھا۔ 

"آپ مجھے تنگ کرنے کا سوچ رہے ہیں ناں؟"وہ جھٹ سے  بولی تو ہاشم ایک دم قہقہہ کر ہنسا۔ 

"بہت جاننے لگی ہو مجھے۔"کہتے ساتھ ہی اسنے نازلی کے کیچر میں قید بال کھول دیے تھے۔سیاہ بال اسکی کمر پر بکھرتے اسکے چہرے کے گرد طواف کرنے لگے۔ 

ہاشم محبت سے اسے دیکھتا رہا اور نازلی اسے گھورتی رہی۔ 

"آپ کو لمبے بال اتنے اچھے لگتے ہیں تو اپنے بالوں کو لمبا کر لیں اور ہمیشہ کھول کے گھوما کریں۔یوں مجھے نہ تنگ کیا کریں۔"وہ ہاتھ سے بالوں کو پیچھے کرتی ناک چڑھا کر بولی۔ 

"استغفار مسز کیسی خوفناک باتیں کرتی ہو۔تم سوچو ذرا میں لمبے بالوں میں کیسا لگوں گا؟"ہاشم کی بات پر نازلی سوچنے لگی کہ وہ لمبے بالوں میں کیسا لگے گا؟ اس سوچ کے آتے ہی وہ ایک دم ہنسی تھی جبکہ ہاشم اس سوچ پر جھرجھری لی۔ 

"بہت اچھے لگیں گے۔"نازلی نے شرارت سے اسے دیکھا۔ 

"توبہ کرو۔"ہاشم نے جلدی سے کہا۔نازلی اسکے انداز پر ہنسنے لگی۔آج جیسے زمانے بعد وہ کھل کر ہنسی تھی۔ 

ہاشم نے محبت سے اسے دیکھا۔پھر ہاتھ بڑھا کر اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔ 

"مجھے تم اچھی لگتی ہو۔تمہارے بال اچھے لگتے ہیں ، تمہاری آنکھیں اچھی لگتی ہیں ، تمہاری باتیں اچھی لگتی ہیں،تم تو مجھے ساری کی ساری اچھی لگتی ہو یار۔ تمہارے علاوہ کوئی نہیں بھاتا ہاشم خان کو ، شاید اپنا آپ بھی نہیں۔۔۔بس تم اور صرف تم ہاشم خان کے حواسوں پر چھائی رہتی ہو۔تم ہی تم میرے ہر طرف ہو۔"وہ گھمبیر آواز میں کہہ رہا تھا اور نازلی اسکی ہر بات پر دیوانی ہو رہی تھی۔اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔چہرے پر شفق کی لالی بکھرنے لگی تھی۔

وہ سوچنے لگی کہ کیا کوئی کسی سے اتنی محبت کر سکتا ہے؟  

ہاں ۔۔۔ کر سکتا ہے۔ہاشم خان جو کرتا ہے بے انتہا محبت اپنی نازلی سے اور وہ خود وہ بھی تو اسے بے حد چاہنے لگی ہے۔وہ دیوانہ تھا تو وہ اسکی دیوانی ہوگئی تھی۔ 

دیکھا جائے تو محبت کہیں نہ کہیں اپنا وجود ضرور رکھتی ہے۔بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے ہوتی ہے اور بس پھر کائنات کی ہر چیز میں محبت کی جھلک نظر آتی ہے۔ہر چہرہ کوئی کہانی سناتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ہر آنکھ میں محبت کی لو جلتی نظر آتی ہے اور تب لگتا ہے کہ دنیا میں صرف محبت ہی محبت ہے۔ہمارے چار سو محبت کا جادو پھیلا ہے جسنے ہر کسی کو اپنے حصار میں قید کر رکھا ہے۔ 

وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے جب دروازہ پر دستک ہوئی۔نازلی جھٹ سے اٹھ کر ہاشم سے دور ہوئی اور جلدی سے کھلے بالوں کو چھپانے کے لیے سر پر دوپٹہ لینے لگی۔ تبھی دروازہ کھلا۔ آبی اور داور اندر داخل ہوئے۔ 

"ہم نے ڈسٹرب تو نہیں کیا۔"داور نے ہاشم کی طرف بڑھتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔ 

"جی نہیں۔"ہاشم نے مسکرا کر جواب دیا۔داور بیڈ کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھا۔

"لالہ گھر کب جائیں گے۔یہاں تو میں بور ہوگیا ہوں۔"اسنے منہ بسورا۔ 

"واہ ہوسپٹل بیڈ پر لالہ ہیں اور بور تم ہو رہے ہو۔"آبی نے طنزیہ کہا۔ 

"تم تو میری ہر بات میں بولنا اپنا فرض سمجھتی ہو۔"داور نے  پلٹ کر اسے گھورا۔ 

"اچھا یار ابھی لڑائی نہ کرنا۔"ہاشم نے داور کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 

"نازلی آؤ نور کی کال آرہی ہے۔اس سے بات کریں۔"آبی ، نازلی کی طرف بڑھی۔نازلی نے اپنا چہرہ نارمل کیا پھر ہاشم کے ہاتھ میں پکڑے کیچر کو دیکھا۔

اسے کھلے بال تنگ کر رہے تھے پر کیا کرتی آبی اور داور کے سامنے وہ ہاشم سے کیچر مانگنے سے رہی تھی۔اسلیے ایک گھورتی نظر اس پر ڈال کر آبی کے ساتھ باہر چلی گئی۔ 

ہاشم نے ہنس کر اسکی پشت کو دیکھا۔ 

"بہت خوش لگ رہے ہیں اہم اہم ۔۔"داور شرارت سے کھانسا۔ 

"میں تو ہمیشہ خوش رہتا ہوں۔"ہاشم نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"ہم آپکو بچپن سے جانتے ہیں ہاشم خان۔ہم سے کوئی بھی بات  چھپی ہوئی نہیں ہے۔"اسنے خان بابا کے انداز میں گردن اکڑ کر کہا۔ 

ہاشم ایک دم ہنسنے لگا۔"میرے بچپن سے یا اپنے؟"اسنے شرارت سے پوچھا۔ 

"آف کورس اپنے بچپن سے بچہ۔"وہ شوخی سے ہنسا۔

"خان بابا کو آنے دو بتاؤں گا انہیں کہ تم کیا کرتے پھرتے ہو۔"ہاشم نے اسے ڈرایا تھا۔

"معاف کر دیں لالہ ۔۔ میں تو مذاق کر رہا ہوں۔"داور نے جھٹ سے کانوں کو ہاتھ لگایا۔مانا کہ خان بابا کچھ دنوں سے بہت ہنس مکھ ہوگئے تھے پر تھے وہ خان بابا ہی جو داور کی شرارتوں پر اسے خوب اچھے سے ڈانٹا کرتے تھے۔

"اچھا ٹھیک ہے۔"ہاشم نے سر کو خم دیا۔داور کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر بولا "ویسے لالہ ۔۔۔"اسکی آنکھوں میں شوخ سی چمک ابھری۔ 

"یہ آپ کب سے کیچر لگانے لگے ہیں؟"اسنے ہاشم کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ 

"جب سے گولیاں کھائی ہیں۔"ہاشم نے بات ہنسی میں اڑائی۔ 

"پر یہ تو اہم۔۔۔۔"وہ ہنس کر کھانسنے لگا۔ 

"اس کھانسی کو ابھی پیچھے دھکیلو اور خبر دار جو آگے ایک لفظ بھی کہا تو ورنہ خان بابا کی عدالت میں پیشی کرواؤں گا تمہاری۔"ہاشم نے اسے گھور کر دھمکایا اور داور کا منہ پھول 

گیا۔ہاشم نے اسے دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔

"چلو لالہ کی جان اب منہ نہ بناؤ اور ڈاکٹر سے پوچھ کے آؤ کہ مجھے کب اس جیل سے آزادی ملے گی۔تھک گیا ہوں میں یہاں۔اسنے کوفت سے کہا۔اسکی بات پر داور اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"اللہ کرے ابھی دو تین دن اور آپکو ڈاکٹرز یہاں رکھیں۔پھر مزہ آئے آپکو۔"وہ منہ پر ہاتھ پھیر کر بدلہ لینے والے انداز میں بولا۔

ہاشم اسکے بچوں والے انداز پر زور سے ہنسا۔"بہت شریر لڑکے ہو تم۔"

"آپکا بھائی جو ہوں لالہ۔"داور ایک دم ہنسا پھر پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔ 

ہاشم نے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے کیچر کو دیکھا۔"لو آج سے تم ہمیشہ کے لیے میری ہوئی۔اب کوئی بھی ہمارے بیچ نہیں آئے گا۔اب صرف ہم ہونگے دوسرا کوئی نہیں ہوگا مسز ہاشم۔"وہ زیر لب کہتا آنکھیں موند گیا۔ایک لمبے سفر کے بعد اب اسے اسکی منزل ملنے والی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تین دن بعد۔۔۔۔۔

ہاشم کو ہوسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔وہ ، خان بابا اور شہریار کے ساتھ خان ولا لوٹا تھا۔ 

جب وہ گھر میں داخل ہوا تو باقی سب اسکا ویلکم کرنے کے لیے ہال کے دروازے کے پاس کھڑے تھے۔ 

ہاشم کے زخم اب بہتر تھے۔وہ خود چل کر آیا تھا۔ڈاکٹرز نے اسے میڈیسن باقاعدگی سے لیتے رہنے کا کہا تھا۔تا کہ اسکے زخم مکمل طور پر بھر سکیں۔ 

ام جان اسے صحیح سلامت دیکھ کر اس پر واری جا رہی تھیں۔ 

نازلی ، نور ، آبی ، داور سب اس سے ملے تھے۔سبکے چہروں پر خوشی ہی خوشی تھی۔ 

چھوٹی پٹھانی نے آگے بڑھ کر خوبصورت سا گلدستہ ہاشم کو دیا۔ 

"شکر ہے آپ آگئے ہیں۔میں نے آپکو بہت یاد کیا ہے ہاشم بھائی۔"چھوٹی پٹھانی اداسی سے بولی۔ 

"چلو اب اداسی چھوڑو اب تو میں آگیا ہوں ناں۔"اسنے مسکرا کر چھوٹی پٹھانی کا سر تھپکا تو وہ مسکرانے لگی۔ 

وہ سب ہال میں بیٹھ گئے۔نازلی تو سب سے نظر بچا کر کتنی بار اسے دیکھ چکی تھی۔وہ خان بابا اور شہریار سے باتوں میں مصروف تھا۔اسے دیکھ دیکھ کر نازلی کا سیروں خون بڑھ رہا تھا۔اب وہ پہلے سے کافی بہتر تھا۔

ایک تو ویسے ہی وہ جان لے لیتا تھا اور آج اسنے بلیک شلوار قمیض پہنی تھی۔اب کوئی دل کو سنبھالتا بھی تو کیسے؟

"تمہارے ہی ہیں چھپ کر نہیں سرے عام دیکھو۔"آبی نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔

"ایسی کوئی بات نہیں۔"نازلی کے گال دہک اٹھے۔ 

"ہم سے تو نہ چھپاؤ یار۔"نور نے آنکھ مار کر کہا۔اسکی بات پر نازلی ہنسنے لگی۔ 

"سب کے سامنے تو چپ کر کے بیٹھو تم لوگ۔"ایک طرف بیٹھے داور نے آہستہ آواز میں کہا۔ 

"تمہیں کیا تکلیف ہے۔ہم بولیں گے۔"آبی نے اسے چڑانے کے لیے کہا۔

"پھر مجھے بھی اپنی گفتگو میں شامل کرو۔"وہ مزے سے بولا۔"کچھ تو شرم کرو ، بہنو کی باتوں میں بھائی نہیں شامل ہوا کرتے۔"نور نے اسے شرمندہ کرنا چاہا۔ 

"تو پھر تم لوگ میری بات میں شامل ہو جاؤ ناں۔"وہ راز داری سے آگے ہوا۔ 

"تمہاری کونسی بات۔"آبی نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"نور کو معلوم ہے۔"داور شوخی سے نور کو دیکھنے لگا جبکہ نازلی اور آبی حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ 

"اہم ۔۔۔ وہ نازلی یہ جو داور ہے ناں یہ ۔۔۔"نور کہہ کر شرارت سے داور کو دیکھنے لگی جسکی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ 

"ہاں کیا۔۔۔ بولو بھی۔"نازلی نے تجسس سے اسے دیکھا۔ 

"وہ لیلیٰ ہے ناں وہ داور کو اچھی لگنے لگی ہے۔"نور ایک دم بول گئی۔نازلی اور آبی کا منہ حیرت سے کھل گیا۔جبکہ داور سر جھکا کر بیٹھ گیا تھا۔اب وہ جتنا بھی شوخ و شرارتی ہوتا پر اس بات پر تھوڑی جھجھک ، تھوڑی شرم آنی تو بنتی تھی۔ 

"کیا واقعی داور؟"نازلی نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

"جی۔"داور نے سر جھکائے ہی جواب دیا۔نازلی کی آواز سے اسے لگا کہ نازلی کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ 

"میں کیسے یقین کروں؟"نازلی کی آواز اب بھی سنجیدہ تھی۔ 

"میں سچی کہتا ہوں میں کوئی فلرٹ نہیں کر رہا۔میں اس سے شادی کرونگا۔ایک بار جو شخص دل میں بس جائے پھر صرف وہی آپکی زندگی میں آنا چاہیے دوسرا کوئی نہیں۔"اس وقت داور کی سنجیدگی دیکھنے لائق تھی۔اسکے انداز میں ہاشم کی جھلک صاف نظر آ رہی تھی۔ 

وہ اب بھی سر جھکائے زمین کو گھور رہا تھا۔نازلی نے آبی اور نور کو دیکھ کر ہنسی دبائی۔ 

"مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ لڑکا اتنا سنجیدہ بھی ہو سکتا ہے۔"آبی نے نازلی کے کان میں سرگوشی کی۔ 

"محبت میں سنجیدگی ضروری ہے۔اس میں مذاق نہیں چلتا۔"نور نے سمجھداری سے کہا  

"پاس کردوں اسے اپنی بہن کے لیے؟"نازلی نے شرارت سے ان دونوں سے پوچھا۔ 

"تھوڑا ستا کر۔"آبی نے آنکھ مار کر کہا۔ 

"داور۔"نازلی نے اسے پکارا۔

"جی بھابی۔" اسنے نظر اٹھا کر دیکھا۔ 

"دیکھو ذرا نور اسنے کہا تھا کہ یہ نازلی کو نام سے پکارے گا اور اب اتنی شرافت سے بھابی کہہ رہا ہے۔"آبی نے شرارت سے نور کو دیکھ کر کہا۔آبی کی مسکراہٹ داور کو تپا گئی۔

"تم تو اپنی چونچ بند رکھو ، میری جو مرضی کہوں۔"وہ  جھنجھلایا تھا۔نازلی کی خاموشی اسے الجھن میں ڈال رہی تھی۔"نازلی تم ایسے لڑکے کو اپنی بہن کے لیے پسند کرو گی؟جو ہر بات پر ایسے جواب دیتا ہو؟"آبی نے داور کو دیکھ کر تپانے والے انداز میں کہا۔داور نے آبی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا پھر نازلی کو دیکھ کر بولا۔ 

"میں ایک شریف اور معصوم لڑکا ہوں بھابی ، سچی آپ چاہیں تو لالہ سے پوچھ لیں۔"اسنے ہاشم کی طرف اشارہ کر کے بڑی  معصومیت سے کہا۔اسکے انداز پر وہ تینوں ہنسنے لگیں۔ 

"میری طرف سے تو ہاں ہے۔پر آخری فیصلہ آنی کا ہوگا۔"نازلی نے ہاتھ جھاڑ کر کہا۔ 

"آپ انہیں منا تو سکتی ہیں ناں۔تھوڑی میری تعریفیں کر کے کہ میں کتنا اچھا ہوں۔"وہ گردن اکڑ کر مسکرایا۔ 

"میں جھوٹ نہیں بولتی۔"نازلی کے لہجے میں شوخی اتری۔ 

"بھابی۔۔۔۔"داور کو صدمہ لگا۔پھر وہ منہ بنا کر بیٹھ گیا۔ 

"اچھا اچھا ۔۔ منہ ٹھیک کرو میں آنی سے بات کرونگی۔"اسنے مسکرا کر کہا۔داور کا چہرہ کھل اٹھا۔ 

"سچی۔۔۔"وہ خوشی سے نہال ہو رہا تھا۔ 

"مچی۔۔۔"نازلی ایک دم ہنسی۔ساتھ ہی وہ تینوں بھی ہنس پڑے۔"آپ بہت اچھی ہیں بالکل لالہ جیسی۔۔۔ آپ دونوں کی جوڑی پرفیکٹ میچ ہے۔"داور نے نرمی سے کہا تو نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔تبھی نظر دور بیٹھے ہاشم کی طرف گئی۔وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔انکی نظر ملی تو نازلی کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔اگلے پل وہ نظریں پھیر گئی اور اسکی اس ادا سے ہاشم کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیلی۔ 

تبھی شہریار نے کوئی بات کی تو وہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔  

باتوں کے بعد سب نے ساتھ مل کر لنچ کیا۔پھر ہاشم آرام کرنے کمرے میں چلا گیا اور باقی سب پھر سے محفل جما کر بیٹھ گئے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شام کے وقت سیماب لوگ وہاں ہاشم سے ملنے آئے۔لیلیٰ ، زیب ، زارا ، نوری ، اسد بھائی اور آج تو احد بھی انکے ساتھ تھا۔ 

وہ سب لوگ لان میں بیٹھے تھے۔ہاشم ابھی بھی سو رہا تھا۔اسلیے اسے کسی نے جگایا نہیں تھا۔ام جان اور خان بابا ، سیماب اور اسد سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔ 

احد اور شہریار ایک طرف بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔جبکہ لڑکیوں کا گروپ تھوڑے فاصلے پر تھا اور داور صاحب انکے ساتھ بیٹھے تھے۔جبکہ ایک طرف لان میں چھوٹی پٹھانی ، نوری ، زیب اور زارا کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھیں۔نوری اور چھوٹی پٹھانی کا مزاج ایک سا تھا اسلیے دونوں کی بہت جلدی دوستی ہوگئی تھی۔

داور لڑکیوں کے بیچ بیٹھا تھا اور اس کے وہاں بیٹھنے پر لیلیٰ بے چین سی تھی۔کیونکہ وہ باتوں کے دوران ہر تھوڑی دیر بعد اسے  دیکھ لیتا اور یہ بات لیلیٰ کو پسند نہیں آئی تھی۔وہ سر جھکائے بیٹھی تھی تبھی سیماب اٹھ کھڑی ہوئیں کہ جانے سے پہلے ہاشم کو دیکھ لیں۔

"آئیں آنی میں آپکو اندر لے جاتی ہوں۔"نازلی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

لیلیٰ جو داور سے بچنا چاہ رہی تھی وہ بھی ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"میں نے بھی ہاشم بھائی کو دیکھنا ہے۔"اسنے جلدی سے کہا تا کہ یہاں سے بھاگ سکے۔ 

"میں بھی دیکھ لوں لالہ کو دوپہر سے نہیں دیکھا انہیں۔"داور شوخی سے کہتا اٹھ کر انکے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ 

لیلیٰ کا منہ بن گیا جبکہ داور کی مسکراہٹ لبوں سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔ 

نازلی نے داور کو وارن انداز میں دیکھا کہ یہی بیٹھے رہو پر وہ کہاں سننے والا تھا ان تینوں کے ساتھ اندر کی طرف بڑھنے لگا۔ 

آبی اور نور اسکی حرکت پر ہنس رہی تھیں۔

شہریار کی کال آنے لگی تو وہ احد سے ایکسیوز کرتا اٹھ کر ایک طرف کھڑا ہو کر فون پر بات کرنے لگا۔ 

احد نے نظر اٹھا کر آبی کو دیکھا جو اسے اگنور کرتی نور سے باتیں کر رہی تھی۔ 

"احد بھائی کی نظریں ادھر ہی ہیں۔"نور نے سرگوشی کی۔ 

"تو میں کیا کروں۔"آبی بے رخی سے کہتی خان بابا اور اسد کی طرف متوجہ ہوئی جو ہسٹری کی ایک داستان کو ڈسکس کر رہے تھے۔

نور نے افسوس سے احد کو دیکھا جو آبی کے اس انداز پر اداس سا ہوگیا تھا۔ 

نازلی نے داور سے سیماب کو ہاشم کے روم میں لے جانے کا کہا۔جبکہ خود وہ کچن کی طرف بڑھی کہ ہاشم کے لیے جوس بنا لے۔گل جان نے بتایا کہ وہ ابھی ہی اٹھا ہے۔لیلیٰ بھی اسکے ساتھ ہی کچن کی طرف بڑھ تھی۔ 

ہاشم بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا موبائل چیک کر رہا تھا۔ 

ابھی اسے تابین کا مسیج موصول ہوا تھا جس میں اسنے لکھا تھا کہ وہ اسکی خوشی کے لیے شادی کرنے والی تھی پر اسکا دولہا ہی بھاگ گیا اسلیے اب وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان سے جا رہی ہے۔اسلیے آخری بار ہاشم سے وہ اپنے کیے کی معافی مانگ رہی تھی۔اسکا مسیج پڑھ کر ہاشم نے جلدی سے اسفی کو مسیج کر کے ساری بات بتائی۔ 

وہ ہاشم سے اپنی محبت چھپا رہا تھا۔پہلے تو ہاشم بھی انجان تھا کہ اسفی تابین سے محبت کرتا ہے۔پر جب نازلی اور اسفی اس بارے میں بات کر رہے تھے۔اسے بھی سب معلوم ہوگیا تھا۔اسے خود پر افسوس بھی ہوا کہ وہ اپنے دوست کے دل کی بات نہ جان سکا۔خیر اسلیے ابھی اسنے اسفی کو مسیج کیا تھا کہ تابین جارہی ہے وہ اسے روک لے۔اسے کہیں نہ جانے دے۔باندھ لے اسے اپنی محبت کی ڈور سے۔۔۔۔

داور ، سیماب کے ساتھ ہاشم کے کمرے میں داخل ہوا۔دروازہ کھلنے پر ہاشم نے چونک کر سامنے دیکھا۔سیماب کو دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔اسنے موبائل سائیڈ پر رکھ کر  سیماب کو سلام دیا۔ 

وہ جواب دے کر ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں اور داور انہیں چھوڑ کر الٹے قدم باہر کی طرف بھاگا۔ 

"کیسے ہیں مسٹر خان؟"سیماب نے مسکرا کر پوچھا۔ 

"بالکل پرفیکٹ۔"اسنے خوش گوار انداز میں جواب دیا۔

"ماشاء اللہ بہت جلدی ریکوور کر رہے ہیں۔"سیماب نے نرمی سے کہا۔پھر وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔ہاشم انہیں حسن آفندی کے مطالبے کے بارے میں بتانے لگا۔وہ آہستہ آہستہ ساری بات بتا رہا تھا۔ 

نازلی دروازے کے اس پار بت بنی کھڑی تھی۔ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں جوس کے دو گلاس رکھے تھے۔وہ ہاشم کی ساری باتیں سن رہی تھی۔وہ اسے طلاق دینے کے لیے راضی ہوگیا تھا؟ کیا واقعی ؟ وہ کہتا تھا ناں کہ وہ اسے کبھی کھونا نہیں چاہتا تو پھر یہ سب کیا تھا؟ وہ کیوں مان گیا تھا؟ 

وہ بتا رہا تھا کہ اب حسن آفندی مان گئے ہیں وغیرہ وغیرہ پر نازلی کا دماغ اس ایک بات میں ہی اٹک گیا تھا کہ وہ اسے طلاق دینے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔ایسا کیوں کیا تھا اسنے؟  

نازلی کچن سے گئی تو لیلیٰ اکیلی کھڑی تھی۔ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑا تھا۔تبھی داور جن کی طرح وہاں حاضر ہوا اور لیلیٰ کے ہاتھ سے گلاس چھوٹا جسے داور نے جھک کر مہارت سے کیچ کر لیا۔ 

"آپ تو بہت ڈرپوک ہیں۔"اسنے گلاس میز پر رکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔ 

"جنوں سے ہر کوئی ڈرے گا۔میرا ڈرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔"لیلیٰ نے غصے سے جواب دیا۔ 

"اتنی چھوٹی سی ہو اور اتنا غصہ کرتی ہو۔"داور نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"ہٹیں سامنے سے۔۔ مجھے آپی کے پاس جانا ہے۔"اسنے تپ کر سر جھٹکا۔اسکی اس ادا پر داور کا دل دھڑک اٹھا۔ 

"مجھ سے بات کر سکتی ہیں آپ میں کھاتا ہرگز نہیں ہوں۔"وہ شوخ ہوا۔ 

"شکل سے تو یہی لگتا ہے کہ کھا جائنگے۔"وہ منہ بگاڑ کر بولی۔داور کو اسکی بات پر صدمہ لگا۔ 

"میں اتنا معصوم لڑکا آپکو حیوان لگتا ہوں؟"اسنے دکھ سے پوچھا۔ 

"جی ۔۔۔"لیلیٰ نے چبا کر جواب دیا۔پھر سائیڈ سے ہو کر جانے لگی۔جب داور نے اسے پکارا۔"لیلیٰ ۔۔۔" 

اسنے رک کر داور کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ 

"میں تو مجنوں ہوں۔لیلیٰ کا مجنوں۔"اسنے مزے سے کہا۔آنکھوں میں شرارت رقص کر رہی تھی۔ 

اسکی بات پر لیلیٰ زور سے پاؤں پٹخ کر وہاں سے باہر نکلی۔

"احد بھائی آپکو کیا ضرورت تھی میرا نام لیلیٰ رکھنے کی۔"آج داور کی بات کی وجہ سے اسے اپنے نام سے چڑ ہونے لگی تھی۔ 

"بد تمیز آدمی۔"وہ بڑبڑا کر آگے بڑھی۔جب اسکی نظر دروازے کے پاس کھڑی نازلی پر پڑی۔وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھی۔ 

"آپی آپ ابھی تک اندر نہیں گئیں۔"اس نے نازلی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونکی۔ 

"ہاں ۔۔ وہ دروازہ نہیں کھول پائی ناں۔تم کھول دو۔"اسنے ٹرے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ہاشم کی باتیں سن کر اسکا گلابی رنگ ایک دم زرد پڑ گیا تھا۔ 

لیلیٰ نے دروازہ کھولا تو وہ ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی۔ہاشم اور سیماب نے اسے دیکھا اور دونوں نے اسکے چہرے کے تاثرات ایک دم نوٹ کیے تھے۔ 

لیلیٰ آگے بڑھ کر ہاشم سے ملنے لگی۔اسکی طبیعت کا پوچھ رہی تھی وہ لیلیٰ کو جواب دے رہا تھا پر اسکی نظریں نازلی پر تھیں جسنے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ٹرے ٹیبل پر رکھی۔پھر ایک گلاس سیماب کو دیا اور دوسرا اسکی طرف بڑھایا۔اسنے نظر اٹھا کر ہاشم کو نہیں دیکھا تھا۔ 

ہاشم نے گلاس تھام لیا تو نازلی جلدی سے پلٹی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔لیلیٰ بھی جلدی سے اسکے پیچھے بھاگی تھی۔ 

انکے جاتے ہی سیماب نے لمبی سانس کھینچی۔ 

"اسنے سب سن لیا ہے۔"سیماب نے آہستہ سے کہا۔ 

"جانتا ہوں۔"ہاشم نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔

"اب محبت سے اپنی بات سمجھا لینا اسے۔تھوڑا ناراض ہوگی پر مان جائے گی۔"سیماب نے جوس کا سپ لے کر کہا۔ 

"آپ فکر نہ کریں۔منا لونگا محترمہ کو۔"ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں باہر نکلے تھے۔ہاشم نے لان میں آ کر نازلی کو دیکھا جو سنجیدہ سی سب کے بیچ بیٹھی تھی۔ 

وہ آگے بڑھ کر سب سے ملا۔احد کو دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔پھر جب معلوم ہوا کہ وہ سیماب کا دیور ہے تو ہاشم کو پتہ چلا کہ نور اور شہریار کے ولیمے پر نازلی کیوں احد سے باتیں کر رہی تھی۔اسے تب تو بڑی آگ لگی تھی۔ابھی سوچ کر ہنسی آ رہی تھی۔ 

نور نے آگے ہو کر نازلی کے کان میں سرگوشی کی پھر آبی کا ہاتھ تھام کر آگے طرف بڑھی۔ 

"کہاں لے کر جا رہی ہو؟"آبی نے جھنجھلا کر اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔ 

"ٹیرس پر۔"نور بنا رکے جواب دیتی اسے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ 

"کیوں ٹیرس پر کیا کوئی خزانہ رکھا ہے؟"آبی نے تپ کر پوچھا۔پہلے ہی وہ احد کی موجودگی کی وجہ سے غصہ تھی۔

اسنے ایک عرصہ پہلے کہا تھا کہ وہ اسکا رشتہ مانگنے کے لیے اپنے بھائی اور بھابی کو بھیجے گا اور آبی تب سے ہر دن انکے آنے کا انتظار کرتی رہی تھی پر نہ وہ آئے اور نہ ہی پھر احد اسے دوبارہ کہیں نظر آیا تھا۔اس بات پر اسکا دل ٹوٹ سا گیا تھا۔

اسکی نظروں میں احد دھوکے باز تھا۔اسنے صرف آبی کے جذبات کے ساتھ کھیلا تھا۔اسے احد سے چڑ ہونے لگی تھی اور شاید اپنے آپ سے بھی کیونکہ وہ بھی تو اس سے محبت کرنے لگی تھی۔پر وہ اپنی بات کو نبھا نہ سکا تھا۔ 

دونوں ٹیرس پر پہنچیں۔نور اسے اور احد کو ملانا چاہتی تھی تا کہ وہ ایک بار بات کر کے غلط فہمی کو دور کر لیں۔اسنے نازلی سے بات کی تھی اور اسے کہا کہ وہ احد کو لے کر اوپر آئے۔

"کیا مصیبت ہے نور۔"آبی نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔

"تم اس طرح کیوں بی ہیو کر رہی ہو احد بھائی کے ساتھ۔"نور نے سوال کیا۔ 

"میری مرضی۔"آبی نے تپ کر کہا۔ 

"آبی یار مجھے معلوم ہے تم ان سے ناراض ہو پر ایک بار بات تو کرلو۔ان سے پوچھو تو سہی کہ کیا وجہ تھی جو وہ تم سے بات کر کے بھی اپنے بھائی بھابی کو لے کر ہمارے ہاں نہیں آئے۔"نور نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔ 

"مجھے کوئی بات نہیں کرنی ان سے نور۔"آبی کی آواز نم ہوئی۔ 

"آبی ایک بار ۔۔ پلیز"نور نے پیار سے اسے دیکھا۔ 

"میں نے کتنا انتظار کیا تھا انکا نور یہ تم بھی جانتی ہو پر وہ نہیں آئے۔"اسنے پلکیں جھپک کر نمی کو پیچھے دھیکلنا چاہا۔ 

"اب مجھے انکا انتظار نہیں ہے اور نہ مجھے ان سے بات کرنی ہے۔"وہ مضبوط لہجے میں کہہ کر پلٹی تو سامنے احد کھڑا تھا اسکے پیچھے نازلی تھی۔ 

آبی کے قدم تھم گئے تھے۔نور جلدی سے آگے بڑھی۔ 

"احد بھائی بات کلیر کر لیں پلیز۔"وہ کہہ کر جھٹ سے نازلی کا ہاتھ تھام کر وہاں سے نکل گئی۔ 

نیچے پہنچ کر اسنے نازلی سے پوچھا۔"کیسے لائی ہو احد بھائی کو سب کے بیچ سے نکال کر۔"

"انکے کپڑوں پر جوس گرا کر میں نے کہا احد بھائی آپ آئیں اسے صاف کر لیں ورنہ داغ رہ جائے گا۔"نازلی نے ڈرامائی انداز میں کہا پھر وہ دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسیں۔

"ڈراموں سے سیکھا ہے؟"نور نے ہنس کر اسے دیکھا۔ 

"بالکل۔"وہ گردن اکڑ کر بولی۔دونوں لان میں آئیں۔نور آگے بڑھنے لگی جب نازلی نے اسے روکا۔"نور بات سنو۔"

"ہوں۔"اسنے پلٹ کر دیکھا۔ 

"تم شہریار بھائی سے اپنی ناراضگی ختم کر دو ناں اب۔"اسنے آہستہ سے کہا۔نور خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ 

"میں شہریار سے کبھی ناراض نہیں ہوئی نازلی پر اب میں چاہتی ہوں کہ میں ناراض رہوں اور وہ مجھے منائیں۔جب مجھے لگا کہ مجھے مان جانا چاہیے میں مان جاؤنگی۔"وہ سنجیدگی سے بولی۔ 

"پر تب تک کے لیے محترم کو ذرا تڑپنے دو۔"اب کی بار اسنے ہنس کر کہا۔نازلی نے دور بیٹھے شہریار کو دیکھا جسکی نظریں نور کے چہرے پر تھیں۔ 

"وہ تمہیں ہی دیکھ رہے ہیں۔"اس نے سرگوشی میں بتایا۔ 

"دیکھنے دو ۔۔۔ مجھے کیا۔"وہ آنکھ مار کر ہنسی۔

"بہت ظالم ہو تم۔"نازلی کو افسوس ہوا۔ 

"کبھی کبھی ظالم بننا پڑتا ہے میری جان۔"اسنے نرمی سے کہا پھر نازلی کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ گئیں۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

احد کو دیکھ کر آبی چہرہ پھیر کر کھڑی ہوگئی تھی۔کافی دیر دونوں خاموش کھڑے رہے۔پھر احد چل کر اسکے ساتھ کھڑا ہوا۔ 

"اتنی بد گمان ہوگئی ہو مجھ سے؟"اسکے لہجے میں اداسی تھی۔ 

"میرا آپ سے ایسا کوئی رشتہ نہیں کہ میں آپ سے بد گمان ہوتی پھروں۔"وہ سنجیدہ تھی پر لہجہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ بد گمان بھی ہے ، ناراض بھی ہے ، اور اسکی حرکت کی وجہ سے دکھی بھی ہے۔

"مجھ سے ہی تو اب آپکے تمام رشتے جڑنے ہیں آبی۔"اسنے گردن پھیر کر اس ناراض لڑکی کو دیکھا۔ 

"بھول ہے آپکی۔"اسنے جلا دینے والی ایک نظر احد پر ڈالی۔ 

"محبت ہے مجھے آپ سے آبی۔یہ بات آپ بھی جانتی ہیں۔"وہ محبت سے بولا۔

"میں کچھ نہیں جانتی۔"وہ سامنے خلا میں گھورنے لگی۔ 

"مجھے ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر جانا پڑ گیا تھا آبی ، اسلیے میں گھر میں کسی کو بتا نہ سکا۔وہاں سے واپس لوٹا تو آگے یہ مسئلہ بنا ہوا تھا۔اسلیے میں بھائی بھابی کو بھیج نہ سکا۔پر میں کل ان سے بات کر چکا ہوں۔وہ بہت خوش ہیں اور جلد تمہارا ہاتھ مانگنے آئیں گے۔"وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ کر بولا۔ 

"کوئی ضرورت نہیں ہے۔"آبی کی آواز میں نمی تھی۔آبی اتنی غصے میں تھی کہ وہ یہ پوچھ ہی نہ پائی کہ آخر وہ کام کیا کرتا ہے جو اسے ایمرجنسی میں کہیں جانا پڑا۔وہ اس وقت اپنے ہی دکھ میں ڈوبی تھی۔ 

احد نے کچھ پل اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھاما تو آبی نے جھٹ سے اسکی طرف دیکھا۔ 

"چھوڑیں میرا ہاتھ۔"وہ تپ کر ہاتھ چھڑانے لگی۔احد نے گرفت مضبوط کر لی۔ 

"آپکو اپنے نام کرنے کے لیے اس رشتے کے جڑنے کی ضرورت ہے آبی۔آپ میری مجبوری بھی تو سمجھیں۔میں اپنی بات سے پھرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔جو کہتا ہوں اس بات کو نبھاتا بھی ہوں۔"اسکے لہجے سے سچائی چھلک رہی تھی۔

آبی سر جھکا کر آنسو پینے کی کوشش کرنے لگی۔اس  نے کافی دیر تک جواب نہ دیا تو احد نے ایک دم اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔ "میں ایک فوجی جوان ہوں آبی۔جیسے آج ایمرجنسی کی صورت مجھے سب چھوڑ کر جانا پڑا ویسے کل کو بھی جانا پڑ سکتا ہے۔پھر کس کو پتہ کہ میں لوٹ کر آتا ہوں کہ نہیں۔۔۔ شاید آپ ایک فوجی کے ساتھ اس طرح کی زندگی نہ گزار سکیں اور میں اپنے فرض کو چھوڑ نہیں سکتا۔"وہ مضبوط لہجے میں بولا۔آبی نے جھٹ سے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔

"مجھے آپ سے محبت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔پر شاید آپ مجھے قبول نہیں کرنا چاہتیں۔آخر آپ ایک ایسے شخص کے ساتھ کیسے زندگی گزاریں گی۔جو آپ کو زیادہ وقت نہ دے سکے۔جو کسی بھی وقت ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جائے۔جسکی زندگی کا کوئی بھروسہ ہی نہ ہو۔"آبی کی آنکھ سے آنسو گرا تو احد دکھ سے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ 

"آپ بہت اچھی لڑکی ہیں۔اللہ سے دعا ہوگی کہ آپکو کوئی بہترین ہم سفر ملے۔"وہ سچے دل سے کہتا مسکرایا تھا۔آنکھوں میں اداسی ہی اداسی تھی۔دل میں درد پھیل رہا تھا۔ 

آبی اس شخص کو دیکھتی رہی۔کوئی ذرا آبی کے دل کا حال اسے بتاتا۔اسنے اس شخص سے محبت کی تھی۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس پیارے شخص سے محبت کرنے لگی تھی۔اور اب اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ فوجی ہے ۔۔۔ فوجی ۔۔۔۔ اسکی خواہش تھی کہ وہ ایک فوجی کی بیوی بنے اور اللہ نے کیسے اسکی خواہش پوری کی تھی۔وہ روتے ہوئے ایک دم ہنسنے لگی۔ 

احد نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"آپ فوجی ہیں؟"اسنے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ 

"کوئی شک ہے۔"احد نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا جو چمک رہی تھیں۔اسے لگا اس کے راستے سے ہٹ جانے کا سن کر آبی کتنی خوش ہو رہی ہے۔اسکے دل میں یہ بات چبھی تھی۔

"آپ بہت خوش ہیں؟"احد نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔جانے کیوں آبی کی ہنسی اسے دکھ میں مبتلا کر رہی تھی۔

"بہت ۔۔۔"وہ جلدی سے آنسو صاف کر کے بولی۔

"ویسے آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ فوجی ہیں؟"اسنے ناراضگی سے پوچھا۔

"یہ کوئی راز کی بات تو نہیں تھی۔نور بھابی ، نازلی سبکو معلوم ہے کہ میں کون ہوں۔کیا آپ انجان تھیں؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"ہاں انجان تھی۔"آبی نے افسوس سے کہا۔"نازلی اور نور دونوں چڑیلوں نے مجھ سے یہ بات چھپا کے رکھی تھی۔"آبی نے دانت  پیس کر کہا۔

"اس میں چھپانے کی کیا بات تھی؟"احد الجھا۔

وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ پاک فوج کی کتنی دیوانی تھی۔اسے اپنا فوجی چاہیے تھا اور اب وہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔

"بولیں آبی۔"احد نے اصرار کیا۔

"وہ احد ۔۔"آبی نے ہاتھ مسلے۔وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ ایک فوجی کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔اگر ایک لڑکی کی شادی فوجی سے ہوتی ہے تو اسے ذرا بھی یہ ڈر نہیں ہوتا کہ وہ اسے ٹائم نہیں دے پائے گا یا وہ کبھی بھی موت کے منہ میں جا سکتا ہے بلکہ یہ تو ایک لڑکی کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ وہ ایک فوجی کی بیوی بنے۔آبی کو بھی اس شخص پر فخر محسوس ہورہا تھا۔

آبی نے اسے دیکھا پھر بولی۔"میں پاک فوج کی بہت دیوانی ہوں احد۔میری یہی خواہش تھی کہ میری زندگی میں بھی ایک فوجی ہی آئے جو میرا ہمسفر بنے۔پر پھر جانے کیا ہوا کہ آپ میری زندگی میں آئے اور میری وہ خواہش کہیں پیچھے رہ گئی۔"وہ کہتی ہوئی سر جھکا گئی۔"مجھے آپ میں اپنا ہمسفر نظر آنے لگا۔میں چاہ کر بھی آپکی محبت کو اپنے دل میں پروان چڑھنے سے روک نہیں پائی۔آپ فوجی ہیں یہ بات میں نہیں جانتی تھی اور اچھا ہوا کہ نہیں جانتی تھی کیونکہ اگر پہلے یہ بات جان جاتی تو احد عالم سے محبت نہ کرتی بلکہ  ایک فوجی سے محبت کرتی۔اسکی پوسٹ سے محبت کرتی۔کیونکہ فوج کی تو میں پہلے سے ہی دیوانی ہوں۔انکی محبت تو بہت ہے میرے دل میں پر یہ محبت اس سے الگ ہے جو محبت مجھے آپ سے ہوئی  ہے۔اسلیے ہی نور اور نازلی نے بھی مجھ سے یہ بات چھپائے رکھی تا کہ میں احد عالم سے محبت کروں اسکی پوسٹ سے نہیں۔پر اب جب مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ فوجی ہیں۔میں اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتی یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔"وہ سر جھکائے خواب کی سی کیفیت میں کہہ رہی تھی اور احد حیرت و خوشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔اسے احد سے محبت تھی۔اسنے باتوں ہی باتوں میں اظہار کر دیا تھا۔

وہ رکی تو احد بول پڑا۔"آپکو مجھ سے محبت ہے؟"

"ہوں۔۔۔"وہ ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔آبی کو احساس ہوا کہ وہ کیا بول گئی ہے۔

محبت تو تھی وہ جانتا بھی تھا پر یہ بات اسکی زبان سے ادا نہیں ہوئی تھی۔اب جو بات اسکی زبان سے پھسلی تھی وہ شرم سے لال ہوگئی۔پھر ایک دم منہ پر ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹی۔ 

"وہ میں ۔۔۔"اسنے دبی آواز میں کہا۔ 

"وہ آپ کیا؟"احد سینے پر بازو باندھ کر دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا جسکی ناراضگی کہیں دور جا سوئی تھی۔ 

"کچھ نہیں ۔۔"وہ کہہ کر جانے لگی۔

"آبی ۔۔۔"احد نے جلدی سے پکارا۔آبی نے پلٹ کر دیکھا۔

"بھیج دوں ناں بھائی بھابی کو ؟ ناراضگی تو نہیں ہے اب؟" اسنے شوخی سے پوچھا۔ 

آبی نے گلابی چہرے کے ساتھ مسکرا کر گردن اثبات میں ہلائی اور جلدی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ 

اپنے پیچھے اسنے احد کا جان دار قہقہہ سنا تھا۔دل دھک دھک کر رہا تھا۔وہ مسکراہٹ دبا کر سیڑھیاں اترنے لگی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"سوچ رہی ہوں گم ہوجاؤں۔"

"اپنی ذات کے کھنڈر کھودوں۔"

"اپنی آنکھ کے خواب ٹٹولوں۔"

"اپنے آپ سے سب کچھ بولوں۔"

"درد سنبھالوں ، زخم کھنگالوں۔"

"سوچ رہی ہوں گم ہو جاؤں۔"

"یعنی کہ میں تم ہوجاؤں۔"

رات کی سیاہ چادر پچھ چکی تھی۔تابین نے بیگ گھسیٹ کر ایک طرف رکھا پھر آگے بڑھ کر امتل آفندی کے کمرے کا دروازہ کھولا۔وہ شیشے کے سامنے کھڑیں تیار ہو رہی تھی۔معمول کے مطابق کسی پارٹی میں ہی جا رہی ہونگیں۔ 

تابین کو دیکھ کر انکے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"کم ان تابین ۔۔ وہاں کیوں کھڑی ہو۔"انہوں نے ساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔ 

تابین خاموشی سے انہیں دیکھتی آگے بڑھی۔

"آپ سے بات کرنی ہے۔"اسنے آہستہ سے کہا۔

"تو کہو ناں میری جان۔"امتل آفندی سب کام چھوڑ کر مسکرا کر اسکی طرف بڑھیں۔انہیں تابین سے بہت محبت تھی۔اسلئے اسکے لیے اپنا ہر ضروری کام بھی چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ 

"آپ بیٹھیں یہاں۔"اسنے بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔ 

وہ بیٹھیں تو تابین انکے قدموں میں بیٹھ گئی پھر انکے گھٹنوں پر سر رکھ دیا۔ 

"مجھے آپ سے بہت محبت ہے ماما۔"اسنے محبت سے کہا۔امتل آفندی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔انہوں نے تابین کے سر پر ہاتھ رکھا۔ 

"مجھے بھی اپنی بیٹی سے بہت محبت ہے۔"انکے لہجے میں بلا کی محبت و نرمی تھی۔تابین کچھ پل خاموش رہی پھر سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

"آپکو اتنی ہی محبت نازلی سے بھی کرنی چاہیے تھی ماما۔"اسنے اچانک کہا۔امتل آفندی کے چہرے پر نرمی کی جگہ سختی نے لی۔

"اسکا یہاں کیا ذکر؟"انہوں نے نحوست سے کہا۔ 

"ماما کبھی آپ کو اس پر رحم نہیں آیا؟ وہ تو مجھ سے بھی چھوٹی ہے۔کیا اسے کبھی ماں کی ممتا کی ضرورت نہیں پڑی  ہوگی؟ کیا اسکا دل ماں کی محبت کے لیے نہیں تڑپا ہوگا؟"وہ سوال پر سوال کر رہی تھی۔امتل آفندی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ 

"وہ اس عورت کی بیٹی ہے تابین جس سے مجھے بے انتہا نفرت ہے۔"امتل آفندی کی آنکھیں جلنے لگیں۔ 

"جب تک وہ زندہ تھیں تب تک آپ نے ان سے اپنی نفرت نبھائی ہے ناں ماما پر اب تو سالوں ہوگئے ہیں انہیں موت کی نیند سوئے ہوئےاور ایک مرے ہوئے انسان سے کیسا انتقام ؟"وہ نرمی سے بولی۔"آپ دیکھیں جیسے میں محبت میں مجبور ہوں۔ویسے ہی آپ ، بابا جان اور زنیرہ بھی مجبور تھے۔جو گزر گیا اسے بھول جائیں۔وہ تو کب کی اس دنیا سے چلی گئیں ماما پر آپ اب تک خود کو جلا رہی ہیں۔آپ ایک ایسے وجود سے نفرت کر رہی ہیں جو اس دنیا میں ہے ہی نہیں ۔۔۔ اور اسکے ساتھ آپ خود کو بابا جان کو اور نازلی کو بھی سزا دے رہی ہیں۔"وہ امتل آفندی کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ 

"مت کریں ایسا ۔۔۔ میں چاہتی ہوں آپ سنبھل جائیں۔میں آپکو گرتے نہیں دیکھ سکتی ماما۔ اپنی بیٹی کی بات مان لیں اور ختم کر دیں اس انتقام اس نفرت کو۔"اسکی آواز نم ہوئی۔  

امتل آفندی بت بنی بیٹھی تھیں۔ 

"میں فرانس جا رہی ہوں اور شاید اب کبھی لوٹ کر نہ آؤں۔میں نے ہاشم کو پانے کی خواہش چھوڑ دی ہے پر اگر اسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتی رہی تو میرا دل پھٹ جائے گا۔میں اسکی محبت کو دل سے نوچ کر نہیں پھینک سکتی پر اس سے دور جا کر کچھ حد تک دل کو سکون پہنچا سکتی ہوں۔"اسنے مدھم آواز میں کہہ کر امتل آفندی کے ہاتھ چومے۔

"بابا جان سے مل چکی ہوں۔وہ اپنی بیٹی کو وقت دینا چاہتے ہیں۔آپ سے بھی مجھے یہی امید ہے۔"اسنے امتل آفندی کی نم آنکھوں میں دیکھا۔"میں چلی جاؤنگی پر آپکی ایک بیٹی آپکے پاس ہوگی۔تمام نفرتوں کو دل سے نکال کر اسے سینے سے لگا لیجیے گا۔یقین کریں بہت سکون ملے گا۔نفرتوں میں کچھ نہیں رکھا اصل مزہ تو محبت میں ملتا ہے۔"وہ نرمی سے کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"میں لیٹ ہو رہی ہوں۔اسلیے اب جا رہی ہوں ماما۔اللہ حافظ۔"نم آنکھوں کے ساتھ انکی پیشانی پر بوسہ دے کر وہ باہر کی طرف بڑھ گئی اور امتل آفندی نے خالی نظروں سے اسے جاتے دیکھا تھا۔ 

محبت کے معاملہ میں انکی طرح انکی بیٹی بھی بد نصیب تھی۔انہوں نے ساری زندگی محبت کے پیچھے بھاگتے گزار دی تھی پر حسن آفندی کا دل آج بھی زنیرہ کے نام پر دھڑکتا تھا۔انکی بیٹی نے بھی ایک شخص کے پیچھے خود کو بے مول کر دیا تھا پر وہ اسکا نہ ہو سکا۔

دونوں میں فرق اتنا تھا کہ تابین جلد سنبھل گئی تھی۔اسنے اپنی محبت کو بے انتہا نفرت میں بدل کر ساری زندگی خود کو اور دوسروں کو سزا نہیں دی تھی جبکہ وہ خود محبت کے نام پر نفرت کرتیں ساری زندگی گزار گئی تھیں۔ 

وہ وہیں بیٹھی خلا میں گھورتیں آنسو بہا رہی تھیں۔تابین جو باتیں کر کے گئی تھی ایک ایک بات انکے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔وہ گم سم سی بیٹھی رہ گئیں۔اپنی بیٹی کو جانے سے روک بھی نہ سکیں۔ 

تابین کو ایئر پورٹ چھوڑنے اسفی جا رہا تھا۔تابین نے اسے منع کیا تھا پر وہ اسے لینے آ گیا تھا۔ 

تابین اسکے ساتھ کار میں بیٹھی تو اسفی نے کار آگے بڑھا دی۔ 

شام کو اسے ہاشم کا مسیج آیا تھا جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ہاشم کو معلوم تھا کہ وہ تابین سے محبت کرتا ہے۔اسکا دوست سب جان گیا تھا۔ہاشم کی اپنے لیے فکر مندی دیکھ کر اسفی کو اس پر پیار آیا تھا اور تابین کے جانے کی خبر پر اسکے وجود میں درد ہی درد پھیل گیا تھا۔ 

اسنے تابین کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ اسے خود چھوڑنے جائے گا۔تابین پہلے تو نہ مانی پر اسکے اصرار کرنے پر مان گئی۔ 

سارا راستہ خاموشی میں گزرا تھا۔اسفی کچھ کہنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا تھا۔جبکہ تابین دکھ سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی کہ جانے پھر وہ کبھی اپنے ملک واپس آ سکے گی بھی یا نہیں۔۔۔۔

کار ایئر پورٹ کے سامنے رکی۔تابین ایک دم سوچوں سے چونکی۔ 

پھر مسکرا کر اسفی کو دیکھا۔جو بت بنا بیٹھا تھا۔ 

"میرا بیگ نکال دو مسٹر۔"اسنے مسکرا کر کہا۔اسفی نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ دروازہ کھولنے لگی تھی جب اسفی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"مت جاؤ تابین ۔۔۔"اسنے ایک دم کہہ دیا۔تابین نے جھٹ سے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔

"میں تمہیں اس طرح جاتے نہیں دیکھ سکتا ، رک جاؤ ، مت جاؤ یہاں سے ، تمہارے بغیر سب کچھ سونا ہو جائے گا۔اسفندیار ملک تمہیں سمیٹ لے گا۔بس ایک بار میرا ہاتھ تھام لو۔پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔"وہ آخر کار محبت کا اقرار کر گیا تھا۔اسنے اپنا ہاتھ تابین کے سامنے پھیلایا تھا۔ 

"میں خالی ہو چکی ہوں اسفی ، تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ نہ دل نہ روح ، تم ایک اجڑے گھنڈر کو کب تک سجاؤ گے۔میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتی۔تم میرا انتظار کرنا چھوڑ دو۔یہ انتظار لا حاصل ہے۔اس میں تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔میری زندگی اب ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ویران اور خالی ، اسے کوئی آباد نہیں کر سکے گا۔"وہ کرب سے بولی پھر اپنا ہاتھ اسفی کے ہاتھ سے چھڑایا۔اسفی نے اسے دیکھ کر اپنا ہاتھ نیچا کر لیا تھا۔ 

"میں تمہیں آباد کرونگا تابین ۔۔۔ میں تمہیں بے انتہا چاہوں گا اور بدلے میں تمہاری خوشی کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔"وہ مضبوط لہجے میں بولا 

تابین نے کچھ پل اسکی جذبے لٹاتی آنکھوں میں دیکھا پھر خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ 

اسفی بھی باہر آیا اور تابین کا بیگ نکال کر اسے تھمایا۔ 

"اپنا خیال رکھنا۔۔۔ اللہ حافظ۔"وہ آہستہ سے کہتی پلٹی۔اسفی نے اسے پکارا تو وہ رک کر اسکی طرف پلٹی۔ 

"تم کبھی بھی واپس آؤ۔چاہے ایک ہفتے ، ایک سال ، دس سال یا پھر ساری زندگی گزار کر لوٹو میں یہیں اسی موڑ پر تمہارا انتظار کرتا ملوں گا۔تم مجھے ہمیشہ یہیں پاؤ گی اپنے انتظار میں ، اپنی راہ میں۔۔۔"وہ محبت سے پر لہجے میں بولا اور تابین کی آنکھوں میں دکھ لہرانے لگا۔سامنے کھڑا یہ شخص بھی اسکی طرح محبت کی راہ کا مسافر تھا۔ان مسافروں کا سفر کبھی ختم ہونے والا نہ تھا۔

تابین چاہ کر بھی اسے کچھ نہ کہہ سکی۔پر نم آنکھوں کے ساتھ آخری بار اسے دیکھتی پلٹ کر آگے بڑھنے لگی۔اپنے پیچھے اسنے اسفی کی آواز سنی تھی۔اسنے "اللہ حافظ" کہا تھا اور یہ کہ "پھر ملے گے"

شاید ۔۔۔ یا شاید کبھی نہیں ۔۔۔۔ 

وہ اندر داخل ہوگئی اور اسفی بے شمار لوگوں کی بھیڑ میں بت بنا کھڑا رہا۔دل درد کی انتہاؤں پر تھا۔وہ چلی گئی تھی پر اسفی کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔اسے انتظار کرنا تھا اسکا چاہے وہ انتظار کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہوتا۔ 

کچھ دیر بعد تابین کا جہاز اڑ گیا تھا اور اسفی مرے قدموں کے ساتھ واپس آ کے گاڑی میں بیٹھا۔یہ لمحے اسکے لیے بڑے جان لیوا تھے۔وہ کتنے پل وہیں بیٹھا رہا پھر کار آگے بڑھا دی۔آج اسکے دل پر قیامت گزرنے والی تھی۔ 

سیماب لوگوں کو خان بابا نے ڈنر کر کے ہی جانے دیا تھا۔وہ چلے گئے تو نازلی اور نور کے علاوہ باقی سب آرام کرنے کے لیے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے۔وہ دونوں کچن میں تھیں۔نازلی چولہے کے پاس کھڑی تھی۔اس نے دودھ گرم کرنے کے لیے رکھا تھا جبکہ نور ایک طرف خاموش کھڑی تھی۔

کل انکے لیے خوشی کا دن تھا۔کل وہ سب بڑی حویلی جانے والے تھے۔ایک عرصے بعد ہاشم واپس لوٹ کر اپنے گھر ، اپنے پیاروں کے بیچ جانے والا تھا اور نازلی بہو کی حثیت سے بڑی حویلی میں قدم رکھنے والی تھی۔ 

نازلی نے چولہا بند کیا۔پھر دودھ کو کچھ دیر ٹھنڈا ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔"نور ۔۔"اسنے سوچوں میں گم نور کو پکارا۔ 

"ہوں۔"اسنے چونک کر نازلی کو دیکھا۔ 

"کیا سوچ رہی ہو؟"نازلی سے آہستہ سے پوچھا۔ 

"سوچ رہی ہوں۔زندگی کی کشتی طوفانوں سے ہوتی آخر کار کنارے پر آ ہی گئی ہے۔"وہ کہہ کر مسکرائی۔ 

"ابھی تمہاری نیا پار نہیں لگی ماہ نور بیگم پہلے اسے تو پار لگاؤ۔"نازلی نے اسے دیکھ کر کہا

"اس نیا کو تو اب شہریار ہی پار لگوائیں گے۔ورنہ جہاں ہے وہیں کھڑی رہے۔"وہ سنجیدہ ہوئی۔ 

"مجھے یقین ہے شہریار بھائی اس نیا کو پار لگا دینگے۔"نازلی یقین سے مسکرائی۔ 

"دیکھتے ہیں ۔۔۔"نور نے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا 

"احد بھائی اور آبی کا معاملہ تو سیٹ ہوگیا ہے۔"نازلی خوشی سے کہہ کر ٹرے میں گلاس رکھنے لگی۔ 

"ہاں ۔۔ آبی صاحبہ کو انکا فوجی مل گیا۔اسکی خواہش کیسے پوری ہوئی ہے یہ سوچ کے حیرت ہوتی ہے مجھے۔"نور نے ہنس کر کہا۔ 

"واقعی ، اب بس جلدی سے انکا رشتہ پکا ہوجائے۔"نازلی مسکرائی پھر گلاس میں دودھ ڈالنے لگی۔ 

"کل ہم سب بڑی حویلی جائیں گے، میں بہت خوش ہوں کہ تم اور لالہ بھی ساتھ ہوگے۔اففف بہار لے کر اترے گا کل کا دن۔"نور جیسے خوشی سے جھوم اٹھی تھی۔ 

"بہار تو تب آئے گی جب تم شہریار بھائی سے ناراضگی ختم کر دو گی۔"نازلی نے ٹرے اٹھا کر اسکی طرف جھک کر کہا۔ 

"منائیں گے تو مان جاؤنگی پر تھوڑا تنگ کرونگی۔"نور سرگوشی میں جواب دے کر ہنسی دبانے لگی۔ 

"گڈ۔۔"نازلی مسکرائی۔"اب میں جاؤں تمہارے لالہ صاحب کو ٹیبلٹز دے دوں۔"وہ کہہ کر وہاں سے باہر کی طرف بڑھ گئی۔ جبکہ نور کافی دیر وہاں کھڑی رہی۔شہریار اور داور ایک کمرے میں تھے جبکہ وہ اور آبی ۔۔۔اسنے نازلی سے کہا تھا کہ شہریار اسے منائے گا تو وہ مان جائے گی پر شہریار نے تو ہوسپٹل میں اس سے بات کرنے کے بعد دوبارہ بات کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔

نور بھول رہی تھی کہ اسکے بعد اس نے خود ہی شہریار کو خود سے بات کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔کبھی وہ جان بوجھ کر ایک کے ساتھ مصروف ہوتی تو کبھی دوسرے کے ساتھ  اور شہریار سب کے سامنے بات کرنے سے رہا تھا۔

اسنے لمبی سانس کھینچی پھر وہاں سے باہر نکلی۔ہال میں آ کر اسنے بائیں طرف آخری کمرے کی جانب دیکھا۔دروازہ بند تھا۔وہیں شہریار اور داور رکے ہوئے تھے۔وہ تو شاید سو بھی گیا ہوگا اور نور اسے تو نیند ہی نہیں آ رہی تھی۔باقی سب ٹھیک ہوگئے تھے پر اسکا اور شہریار کا مسئلہ ہنوز قائم تھا۔

کل کے خوشی بھرے دن میں بھی یہ ایک کمی رہ جانے والی تھی۔اسنے افسوس سے گردن جھٹکی پھر چلتی ہوئی لان میں نکل آئی کہ کچھ وقت تازی ہوا میں سانس لے کر دل کی جلن کو کم کر سکے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

نازلی ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی۔کمرے میں لیمپ کی روشنی پھیلی تھی۔ہاشم ایک طرف رکھے صوفے پر بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا۔

"ہوں ۔۔ تم کہاں ہو اس وقت؟"اسنے ایک نظر نازلی کو دیکھ کر فون پر کہا۔

وہ خاموشی سے آگے بڑھی۔ٹرے ٹیبل پر رکھی پھر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ہاشم کی ٹیبلٹز نکال کر واپس میز تک آئی۔

ٹیبلٹز میز پر رکھ کر خود دائیں طرف رکھے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ہاشم باتوں میں مصروف تھا۔لہجے میں پریشانی تھی۔اسکی باتوں سے نازلی کو معلوم ہوگیا تھا کہ دوسری طرف اسفی ہے۔

"تم یہاں آؤ یا میں وہاں آتا ہوں بس۔"ہاشم کا انداز دو ٹوک تھا۔ 

نازلی نے پریشانی سے اسے دیکھا کہ ایسا کیا ہوگیا ہے جو ہاشم اتنا سنجیدہ ہے۔ 

دوسری طرف سے کچھ کہا گیا جسکی وجہ سے ہاشم جھنجھلا کر بولا۔"اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تمہیں۔"اسکی بات پر دوسری طرف سے جواب آیا اور ہاشم نے لمبی سانس کھینچی۔ 

"اوکے ۔۔۔ پر تم باہر نہ رہو گھر جاؤ ، میں کل تم سے ملتا ہوں اوکے۔"اب کی بار اسکے لہجے میں نرمی اتری۔نازلی ہاتھ مسل رہی تھی کہ جانے کیا بات ہوگئی ہے۔ 

ہاشم نے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کیا پھر موبائل ٹیبل پر رکھا۔ کہنیاں گھٹنوں پر ٹکا کر ہاتھ کی مٹھی بنا کر لبوں پر رکھی۔ 

نازلی جو اسکی طلاق دینے والی بات سن کر اس سے بات نہ کرنے کا سوچ رہی تھی اب بولے بغیر نہ رہ سکی۔ 

"کیا ہوا ہے؟"اسنے آہستہ سے پوچھا۔

ہاشم نظریں میز پر جمائے سوچوں میں گم تھا۔نازلی کی بات پر اسنے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"تابین چلی گئی ہے ہمیشہ کے لیے۔"اسنے مدھم آواز میں بتایا۔  

"کہاں ۔۔۔ کہاں چلی گئی ہیں آپی؟"نازلی نے حیرت سے پوچھا۔

"فرانس۔۔۔اسنے مجھے مسیج کیا تھا۔معذرت کرنے کے لیے ،  میں نے اسفی کو بتاتا کہ وہ جا رہی ہے۔اسے روک لے پر وہ اسفی کے روکنے کے باوجود چلی گئی۔"وہ آہستہ آہستہ بتا رہا تھااور نازلی شاک کی سی کیفیت میں اسکی بات سن رہی تھی۔ 

"آپکو معلوم ہے کہ اسفی بھائی آپی سے محبت کرتے ہیں؟"

"ہوں ۔۔"ہاشم نے اثبات میں سر ہلایا۔ 

"آپی کو جانا نہیں چاہیے تھا۔"نازلی نے سر جھکا کر خود کلامی کی۔وہ سوچ سکتی تھی کہ اسفی اس وقت کس حال میں ہوگا۔کسی محبت کرنے والے کو کھو دینا کتنا جان لیوا ہوتا ہے وہ اچھے سے جانتی تھی۔اسنے بھی تو ہاشم کو کھو ہی دیا تھا پر پھر اللہ نے اسے نازلی کو واپس لوٹا دیا تھا ورنہ اگر وہ نہ ہوتا تو نازلی کی ہستی بھی فنا ہو جاتی۔ 

ہاشم خاموشی سے نازلی کی پریشان صورت دیکھ رہا تھا۔اسے معلوم تھا کہ نازلی چاہتی ہے اسفی اور تابین ایک ہوجائیں۔وہ خود بھی تو یہی چاہتا تھا پر جانے ایسا ممکن ہوگا بھی کہ نہیں ، وہ چاہتا تھا وہ دونوں خوش رہیں تا کہ اسکے دل کو بھی مکمل سکون مل جائے کہ تابین اسکی وجہ سے اپنی زندگی برباد نہیں کر رہی۔ 

"تم پریشان نہ ہو ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔"ہاشم نرمی سے کہا پھر سیدھا ہو کر بیٹھا۔

"انشاء اللہ۔"نازلی کی آواز مدھم تھی۔کچھ پل دونوں خاموش بیٹھے رہے۔پھر نازلی نے گہری سانس بھر کر میز سے ٹیبلٹ اٹھائی اور ایک ٹیبلٹ نکال کر ہاشم کی طرف بڑھائی۔

ہاشم نے اسکے ہاتھ سے ٹیبلٹ لے کر دودھ کا گلاس اٹھایا۔جب وہ ساری ٹیبلٹز لے چکا تو نازلی ٹیبلٹز اٹھا کر سائیڈ ٹیبل کی طرف بڑھی۔ 

"اتنی خاموش کیوں ہو؟"ہاشم نے صوفے سے ٹیک لگا کر اسے دیکھا۔ 

"ویسے ہی۔"اسنے ٹیبلٹز رکھ کر دراز بند کیا۔

"ساری بات سن لی ناں تم نے؟"ہاشم سیدھا پوانٹ پر آیا۔ 

نازلی ایک نظر اسے دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ 

"ہاں ۔۔"اسنے مختصر جواب دیا۔ 

"بہت ناراض ہو؟"ہاشم نے دور بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا جو سر جھکا گئی تھی۔ 

"نہیں ۔۔ آپ نے جو فیصلہ کیا تھا ٹھیک ہی کیا ہوگا۔"لہجے  سے ناراضگی صاف چھلک رہی تھی۔ہاشم اسے دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔پھر آہستہ سے چلتا اسکی طرف آیا۔بیڈ پر اسکی طرف رخ کر کے بیٹھا پر وہ ناراض سی سامنے دیوار کو دیکھ رہی تھی۔ 

"میں تمہیں ہر الزام سے بری کروانا چاہتا تھا نازلی ، میرے لیے آسان نہ تھا یہ فیصلہ کرنا۔میں نے خود کو مار کر یہ فیصلہ کیا تھا۔"اسکے لہجے میں دکھ تھا۔ 

"ٹھیک ہے ناں آپکا فیصلہ صحیح تھا۔اگر بابا جان نہ مانتے تو اب تک آپ مجھے طلاق دے چکے ہوتے۔"وہ طنزیہ مسکرائی۔نظر پھیر کر ہاشم کو اب بھی نہ دیکھا۔ 

"نہیں ۔۔۔ شاید اب تک میں مر چکا ہوتا۔"وہ سنجیدگی سے بولا۔نازلی نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا۔اسکی بات پر نیلی آنکھوں میں بے چینی اور دکھ واضح نظر آ رہا تھا پر اسنے لبوں کو سی رکھا تھا۔ 

کافی دیر اسے دیکھنے کے بعد اسنے لب وا کیے۔

"آپ نے کہا تھا آپ مجھے کبھی طلاق نہیں دینگے پھر آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟"اسکا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا۔ 

"تمہاری خوشی کے لیے۔"ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"میری خوشی کیا ہے؟"سوال ہوا۔ 

"تمہارے اپنوں کا ساتھ۔"ہاشم نے آہستہ آواز میں جواب دیا۔ 

"میرے اپنوں میں آپ بھی تو آتے ہیں ناں ہاشم۔"نازلی کے لب ہلے تھے پر آواز گلے میں ہی گھٹ گئی تھی۔وہ اس سے کہہ نہ پائی کہ تم بھی تو میرے اپنے ہو ، میری لیے ضروری ہو۔جیسے باقی سب کا ہونا ضروری ہے ویسے ہی تمہارا ہونا بھی تو ضروری ہے۔ 

"آپ نے پہلے بھی سارے فیصلے خود ہی کیے تھے ہاشم اور اب بھی آپ نے مجھ سے ایک بار بھی نہ پوچھا اور فیصلہ سنا دیا۔کیا یہ میرے ساتھ نہ انصافی نہیں ہے؟ میں بے جان گڑیا تو نہیں ہوں جسکے جذبات نہ ہوں۔جسے آپ ہمیشہ اپنے فیصلے کے مطابق موڑ لیں۔کیا مجھ سے پوچھنا ، میرا فیصلہ جاننا ، کیا اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے؟"اسکی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی تھی۔ 

اسکی باتوں ، اسکے آنسوؤں سے ہاشم کے دل پر وزن بڑھتا چلا گیا۔اسنے ہاتھ بڑھا کر نازلی کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔ 

"میرا خدا گواہ ہے نازلی کہ میں صرف اور صرف تمہاری خوشی چاہتا تھا۔میں نے یہ فیصلہ لیتے وقت اپنے بارے میں ، اپنے دل ، اپنی خوشی کے بارے میں ایک بار بھی نہیں سوچا۔میں بس تمہیں سر خرو کرنا چاہتا تھا۔تمہاری خوشی چاہتا تھا۔اسلیے میں نے اپنے آپ کو مار کر تمہارے بابا کی بات ماننے کا فیصلہ کیا تھا۔"وہ لمحے یاد کر کے سیاہ آنکھیں درد سے بھر گئیں۔ 

نازلی گم سم سی اسے دیکھ رہی تھی۔آنکھ سے آنسو نکل کر گال پر بہنے لگا جسے ہاشم نے نرمی سے صاف کیا۔

"تم میرا سب کچھ ہو۔تم سے جدا ہونے کی سوچ ہی میری روح کو فنا کرنے لگتی ہے۔میں تو مر ہی جاتا اگر تم مجھ سے جدا ہو جاتی۔تمہارے بغیر زندگی کا تصور بہت مشکل ہے۔تم سے میری سانسوں کی ڈور بندھی ہے۔جب تم دور ہونے لگتی ہو تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے اور اگر تم کبھی مجھ سے دور ہوئی تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی۔ڈور ٹوٹی تو ہاشم خان کی سانسیں بھی بند ہو جائیں گی۔"وہ جادو لہجے میں بولتا کوئی جادو گر لگ رہا تھا۔نازلی یک ٹک اس پیارے شخص کو دیکھ رہی تھی۔وہ اتنا اچھا اتنا پیارا تھا کہ اسکا دل کر رہا تھا وہ اسے کہیں چھپا لے۔بھلا اس جیسے اتنے انمول لوگ کہاں ملتے ہیں؟

"میں نے آج تک صرف تمہیں چاہا ہے ، بے انتہا چاہا ہے اور آگے بھی صرف تمہیں ہی چاہتا رہوں گا۔تمام عمر ، سانسوں کے چلتے رہنے تک ، بس تم ہی تم ہوگی اور دوسرا کوئی نہیں۔"ہاشم نے دھیمے سے کہہ اسکے چہرے کو قربان ہو جانے والی نظروں سے دیکھا پھر آگے ہو کر اپنے لب اسکی پیشانی پر رکھ دیے۔

نازلی کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔اسکے محبت بھرے لمس نے ایک پل میں نازلی کے وجود کو مہکا دیا تھا۔وہ ہواؤں میں اڑنے لگی تھی۔چار سو محبت ہی محبت پھیل گئی تھی۔ایک فسوں نے جیسے انہیں باندھ لیا تھا۔

ہاشم نے پیچھے ہو کر اسکا گلابی چہرہ دیکھا۔

"اب بتاؤ کیا اب بھی ناراض ہو؟"دلکش لہجے میں پوچھا گیا۔اب اتنی محبت پر کون کافر ناراض رہ سکتا تھا۔نازلی پر تو اسنے جادو کر دیا تھا۔بھلا اب کیا وہ ناراض رہ سکتی تھی؟

نہیں ۔۔۔ بالکل بھی نہیں ۔۔۔

"بولو بھی مسز یا ایسے دیکھ دیکھ کر اپنے ہینڈسم شوہر کو نظر لگاؤ گی۔"ہاشم مسکرا کر اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔"نہیں۔۔۔"نازلی دھیمے سے کہتی نظریں جھکا گئی۔ 

ہاشم نے ہنس کر اسکا گال نرمی سے کھینچا پھر اسکے ہاتھ تھام لیے۔ 

"ایک بات تو بتاؤ؟"اسنے پراسرار لہجہ اپنایا۔ 

"کیا؟"نازلی نے جلدی سے اسے دیکھا۔ 

"چاہنے لگی ہو مجھے؟"ایک دم پوچھا گیا۔

"نازلی کا دل دھک دھک کرنے لگا۔وہ کیسے بتاتی کہ وہ دیوانگی کی حد تک اسے چاہنے لگی ہے۔

"نہیں۔"نازلی کا لہجہ سنجیدہ تھا پر آنکھوں میں شوخ سی چمک ابھری تھی۔ 

"نہیں؟"ہاشم نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔لہجے میں دکھ تھا۔وہ نازلی کے جواب میں اتنا کھویا کہ نیلی آنکھوں میں چمکتی شوخی نہ دیکھ سکا۔

"ہم جس پہ جان چھڑکتے ہیں وہ کیوں اعتبار نہیں کرتے۔"

"ہم جتنا پیار کریں ان سے ، وہ ہم سے پیار نہیں کرتے۔"

نازلی نے اسکی اتری صورت دیکھی تو لبوں پر آتی مسکراہٹ دبائی۔"بالکل نہیں۔"اب کے اسکے لہجے میں مسکراہٹ اتری اور ہاشم نے گھور کر اسکے گلابی چہرے کو دیکھا۔

"اظہار سے ڈرتے ہیں ، انداز ہے یا تڑپانے کا؟"

"جب دل بے قابو ہے انکا پھر کیوں اقرار نہیں کرتے؟"

"مجھے تنگ کر رہی ہو؟"ہاشم نے اسکے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کی۔ 

"نہیں تو۔"نازلی کا انداز ہنوز شرارت لیے ہوئے تھا۔وہ آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے سامنے بیٹھے اس پیارے شخص کو  دیکھ رہی تھی۔

"لو مان لیا ہم نے ہم پیار تو کرتے ہیں۔"

"یہ بات بھی سچ ہے کہ اظہار سے ڈرتے ہیں۔"

"تصویر بنی اپنی دیکھو ان آنکھوں میں۔"

"ہے انداز الگ لیکن اقرار تو کرتے ہیں۔"

  (از قلم شیر حسین صائم)

ہاشم اسکی آنکھوں میں دیکھتا ایک دم اسکے قریب ہوا۔نازلی جھٹ سے پیچھے ہوئی پر ہاشم نے اسے کاندھوں سے تھام کر روک لیا۔پھر اسکے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی۔

"آپکو محبت تو ہے ہاشم خان سے ، بس اب اظہار چاہیے مجھے جلد سے جلد مسز ہاشم اور آپکو اظہار کرنا ہی ہوگا۔سمجھ گئی ناں؟"مسکراتی آواز میں کہہ کر اسنے دلکشی سے نازلی کے گال کو چھوتی لٹ کو پھونک مار کر اڑایا۔اسکے قریب ہونے ،اسکی بات سے نازلی کی پیشانی پر پسینہ چمک اٹھا۔

اسنے کانپتے ہاتھوں کو زور سے بھینچا۔ہاشم نے ایک دم  پیچھے ہو کر ہنس کر اسے دیکھا۔ 

"بس یہی شوخی تھی محترمہ کی ، اِدھر ہم آپکے قریب ہوئے اور اُدھر آپکے ہوش گم ، شوخی ہوا اور جان جانے لگتی ہے۔"وہ شریر لہجے میں بول رہا تھا۔نازلی شرم سے سر جھکا گئی۔

"اب بتاؤ تنگ کروگی؟"چیلنج کرنے والے انداز میں کہا گیا۔ 

"آپ زیادہ چالاک نہ بنیں۔"نازلی نے تپ کر سر اٹھایا۔ہاشم کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ دیکھ کر اسنے اسکے سینے پر پنچ مارا۔

"ہائے مر گیا۔"ہاشم نے ڈرامائی انداز میں دل تھام لیا۔نازلی کو اسکے زخم کا خیال آیا تو اسکا رنگ اڑ گیا۔

"سوری ، سوری ، آئم ریلی سوری مجھے یاد نہیں رہا کہ آپ زخمی ہیں۔"اسنے حواس باختہ انداز میں ہاشم کے سینے پر رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔چہرے سے فکر مندی چھلک رہی تھی۔

"تم میری جان لے کر ہی مانو گی۔"وہ افسوس سے بولا۔آنکھوں میں شریر سی چمک تھی۔ 

"اللہ نہ کرے ، آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں؟"وہ دکھ سے بولی 

"ہم تو بہت کچھ سمجھتے ہیں مسز۔"وہ مسکرایا۔ 

"کیا؟"نازلی نے سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔ 

"زندگی ، محبت ، سکون ، جینے کی وجہ۔"وہ اور بھی بولنے لگا جب نازلی اسکے ڈرامائی انداز کو سمجھ کر ہاتھ پیچھے کھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"آپ بھی ناں۔"اسنے منہ بسور کر سر جھٹکا۔ 

"بہت اچھا ہوں؟"ہاشم نے دلچسپی سے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا۔نازلی کچھ پل اسے دیکھتی رہی پھر بولی۔ 

"بہت۔"وہ کہہ کر ایک دم مسکرائی۔ 

"تم نے لگتا ہے آج مجھے پاگل کرنے کی قسم کھا لی ہے۔"اسنے محبت سے نازلی کا ہاتھ تھام لیا۔ 

"پاگل تو پہلے سے ہیں آپ۔"وہ ناک چڑھا کر بولی۔لبوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔ 

"پاگل کر کے کہتی ہے ، پاگل ہوگئے ہو۔"ہاشم نے افسوس سے سر جھکا کر خود کلامی کی تھی۔اسکے انداز پر نازلی کو اس پر پیار آنے لگا۔کوئی اتنا اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ اسنے آج تک ہاشم جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا تھا۔وہ سب سے منفرد تھا۔سب سے الگ ، سب سے پیارا ، جو صرف اور صرف اسکا تھا۔

"آپ سا کوئی نہیں ہے ہاشم خان ، آپ سب سے الگ ہیں۔سب سے اچھے ہیں۔"دل کی بات زبان تک آئی تھی اور اسکی بات سن کر ہاشم کا دل تھم تھم گیا۔وہ نظر اٹھا کر کافی دیر حیرت سے اسے دیکھتا رہا پھر اٹھ کر اسکے سامنے کھڑا ہوا۔ 

"مجھے یقین دلاؤ کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا۔"وہ خواب کی سی کیفیت میں بولا 

"دلاؤں یقین؟"نازلی نے شرارت سے اسے دیکھا۔ 

"ہاں۔"ہاشم اسے محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا۔نازلی نے ہنسی دبائی پھر پاؤں اوپر کر کے اسکے اچھے سے سیٹ بال دونوں ہاتھوں سے بکھیر دیے۔ 

"اب شیشہ دیکھیں آپکو یقین آجائے گا۔"وہ مسکراتی ہوئی ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ کر کچھ قدم دور ہٹی۔ہاشم حیران سا کھڑا رہ گیا۔ 

"اسکا بدلہ لونگا میں مسز یہ بات یاد رکھنا۔"وہ بالوں کو ٹھیک کرتا مصنوعی غصے سے بولا۔ 

"فلحال تو میں نے بدلہ لے لیا ہے۔آپ ہمیشہ میرے بالوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں آج میں نے کر دیے۔"وہ ہاتھ جھاڑ کر ہنسی۔ 

"چالاک ہوگئی ہو بہت۔"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔ 

"آپکے ساتھ جو رہتی ہوں۔"وہ سر کو خم دے کر بولی۔ 

ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی۔اسنے اپنا ہاتھ نازلی کی طرف بڑھایا۔جس پر بنا سوچے ، بنا جھجھکے نازلی نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ 

"آج ہماری پکی والی دوستی ہوگئی ہے۔ہے ناں؟"اسنے نازلی سے تصدیق چاہی۔ 

"جی ۔۔"نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔ہاشم دلکشی سے مسکرا کر اسے اپنے ساتھ لیے صوفے کی طرف آیا۔پھر اسے اپنے سامنے بٹھایا۔ 

"چلو اب دوستی ہوگئی ہے تو گپیں لگاتے ہیں۔تو اپنے بچپن کی اچھی اچھی یادیں شئیر کرو مجھ سے۔"وہ نرمی سے بولا۔

نازلی کی بچپن کی یادوں میں بہت سی تلخ یادیں بھی تھیں۔پر نازلی اب کسی تلخی کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنانا چاہتی تھی اسلیے مسکرا کر اسے تمام وہ باتیں بتانے لگی جو اسکی خوشی کا باعث بنی تھیں۔اپنے ماما، بابا جان کی باتیں ، تابین کے ساتھ گزرے محبت بھرے لمحوں کی باتیں ، ہاشم خاموشی سے اسے دیکھتا اسکی باتیں سن رہا تھا۔نیلی آنکھوں میں روشنی ہی روشنی تھی۔لبوں پر مسکراہٹ بہار دکھا رہی تھی۔وہ اتنی اچھی لگ رہی تھی کہ ہاشم کو ڈر لگا کہ کہیں اس لڑکی کو اسکی نظر نہ لگ جائے۔دل ہی دل میں اسکی خوشیوں کی دعا کرتا وہ اسکی باتوں کو دلچسپی سے سن رہا تھا اور وہ مگن سی بولتی جا رہی تھی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"عشق مظلوم ہے تو ، پھر ظالم کون ہے؟"

"عشق عبادت ہے تو ، کیوں معبود بدل جاتے ہیں؟"

"عشق مسیحا ہے تو ، کیوں روز دیوانے مرتے ہیں؟"

"عشق دوا ہے تو ، ہاتھ میں زہر کا پیالہ کیوں؟"

"عشق دعا ہے تو ، کیوں لوگ مانگنے سے ڈرتے ہیں؟"

"عشق ہمسفر ہے تو، کیوں پھر راہی بدل جاتے ہیں؟"

"عشق راستہ ہے تو ،کیوں پھر منزل نہیں ملتی؟"

"عشق آس ہے تو، کیوں ہر روز ٹوٹ جاتی ہے؟"

"عشق تسکین ہے تو ،کیوں رات بھر نیند نہیں آتی؟"

"سنو میرے ہمدم ، میں تم کو بتاتی ہوں۔"

"یہ ایسا روگ ہے جاناں ، کہ جسکو بھی لگ جائے۔"

"وہ جیتا ہے نہ مرتا ہے۔"

"آنکھیں بے اشک پتھرا جائیں۔"

"دل پھر بھی خون روتا ہے۔"

"تمہیں کس نے کہا پاگل عشق مظلوم ہوتا ہے؟"

سارے گھر میں مکمل سکوت کا عالم تھا اور وہ دیوانی لان میں کرسی پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ 

آج اسے پچھلی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔ایک ایک پل اسکی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا تھا اور اسکے آنسو تیزی سے بہتے چلے جا رہے تھے۔ 

جانے کتنے سال ، کتنے گھنٹے ، کتنے لمحے اسنے پل پل اس ظالم شخص کو چاہا تھا جسے اس کی قدر ہی نہ تھی۔ 

ہمیشہ اسکے تلخی بھرے لہجے پر ، اسکے ٹھکرا دینے پر وہ خود کو کہتی تھی کہ وہ واپس لوٹ کر اسکی طرف نہیں جائے گی پر پھر اسکا دل جب بھی اس ظالم کو دیکھتا تو اسکے قدموں سے لپٹ جاتا۔وہ اپنے دل کو اسکی طرف جانے سے روک نہیں پاتی تھی۔دل تو اسکا غلام تھا جہاں وہ شخص نظر آتا اسکے سامنے جھک جاتا تھا۔ 

ایک عرصہ ہوا تھا وہ یہ سب سہتی آ رہی تھی۔اس امید کے ساتھ کہ کبھی تو وہ اسکی قدر کریگا۔کبھی تو اسکی محبت کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا پر نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ہر بار وہ اسکی طرف جاتی تھی۔اس سے بات کرتی ، اسکی ناراضگی برداشت کرتی تھی اور اب وہ اس سے ایک بار ناراض ہوئی تھی اور وہ اسے منا ہی نہیں رہا تھا۔

ہمیشہ وہ اسکی طرف بڑھی تھی کیا وہ ایک بار اسکی طرف نہیں بڑھ سکتا تھا؟ 

آج سے پہلے وہ اسے مناتی آئی تھی کیا وہ ایک بار اسے منا نہیں سکتا تھا؟

وہ سوچنے لگی کہ آج وہ خاموش تھی تو وہ بھی خاموش تھا۔اگر وہ پہلے بھی اس کی طرف نہ بڑھتی ، اسکی راہ میں نہ آتی تو وہ تو اسے کب کا بھول ہی جاتا کہ دنیا میں کوئی ماہ نور نام کی لڑکی بھی ہے جو اسکی دیوانی ہے۔جو اسکی محبت کے انتظار میں بیٹھی ہے۔اگر وہ خود اسکی طرف نہ بڑھتی تو انکا یہ رشتہ تو کب کا ختم ہو جاتا۔ایک لمبا عرصہ اسنے یہ سب برداشت کیا تھا پر آخر کب تک برداشت کرتی ؟ اسکا بھی تو دل ہے۔اسے بھی تکلیف ہوتی ہے۔وہ اسکی طرف بھاگ بھاگ کر اب تھکنے لگی تھی۔اسکی خواہش تھی کہ کبھی تو ایسا ہو کہ وہ شخص بھی چل کر اسکی طرف آئے۔اسے منائے ، اس سے محبت کرے ، اسے خوش رکھے۔کیا وہ کبھی ایسا کرے گا؟ یا وہ یہ حسرت دل میں لیے ہی مر جائے گی؟

اسے اپنی بے بسی ، اپنی بیچارگی پر خوب رونا آ رہا تھا۔وہ  آواز کا گلہ گھونٹ کر خاموشی سے آنسو بہاتی جا رہی تھی۔ 

وہ خاموش سا کرسی کے پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑا کتنے پل اسکی پشت کو دیکھتا رہا پھر آگے بڑھ کر کرسی اسکے قریب رکھ کر بیٹھ گیا۔ 

ماہ نور سوچوں کے گرداب میں اس قدر پھنسی تھی کہ اسے شہریار کی موجودگی کا احساس نہ ہوا۔ 

"یہاں اکیلی بیٹھی آنسو کیوں بہا رہی ہو؟"اسکی بھاری آواز پر ماہ نور کی دھڑکنیں تھم گئیں۔ 

اسنے گردن پھیر کر دیکھا۔شہریار کو دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ 

 اسکی موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ جھٹ سے چہرہ پھیر گئی۔اس شخص سے ہی تو اسکے تمام شکوے تھے۔وہی تو تھا اسکے دکھ کی وجہ ، اسے آنسو اسی نے دیے تھے۔ہر دکھ اسکا دیا ہوا تھا اور اب وہ انجان بن کر پوچھ رہا تھا کہ رو کیوں رہی ہو؟ ایسے حالات میں اب ایک انسان روئے نہیں تو کیا خوشی سے ناچتا پھرے۔

"تو کیا دنیا کو دکھا کر روؤں؟ اپنا تماشہ بناؤں؟"وہ تلخ ہوئی۔ 

"رو ہی مت ، تم روتی اچھی نہیں لگتی۔"وہ نرم پڑا۔ 

"میں تو آپکو کسی حال میں اچھی نہیں لگتی نہ ہنستی نہ روتی۔"وہ کرب سے مسکرائی۔

"تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو ماہ۔"وہ آنسو بہاتی لڑکی کو دیکھ کر دل کی بات کر رہا تھا۔ 

"یہ احسان مجھ پر نہ کریں ، بھکاری نہیں ہوں میں کہ آپ میری جھولی میں یہ مصنوعی باتیں ڈالیں شہریار خان۔"اسنے غصے سے شہریار کو دیکھا۔اسے لگ رہا تھا وہ اسکا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے۔ 

"میں اپنا دل تمہیں کیسے دکھاؤں کہ تم مان جاؤ کہ تم میرے لیے کیا ہو۔"اسنے دکھ سے ماہ نور کو دیکھا۔ 

"میں آپکے لیے آپکے پاؤں کی دھول ہوں۔جسے جب آپکی مرضی ہوتی ہے اڑا لیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ وہ پھر سے آپکے قدموں سے لپٹ جائے گی۔"اسکے لہجے میں اذیت تھی بھلا کوئی اپنی ذات کے بارے میں ایسی بات کر سکتا ہے؟ نہیں ۔۔۔ پر وہ کر رہی تھی وہ بھی اس شخص کے سامنے جو شاید اسکی بے بسی پر بعد میں ہنسے گا کہ وہ کتنی پاگل لڑکی ہے۔  

"ایسا بالکل نہیں ہے ماہ ، تم کیا اتنی بد گمان ہو مجھ سے کہ میرے بارے میں اس حد تک سوچ رہی ہو۔"شہریار نے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"یہ سچائی ہے شہریار ، اس سچائی کو سالوں برداشت کیا ہے میں نے پر آپکو کیسے یاد ہوگا۔کرنے والا بھول جاتا ہے پر جو سہتا ہے ناں اسے ایک ایک لمحہ یاد ہوتا ہے۔اسکے دل و دماغ میں وہ تلخ یادیں ، وہ باتیں بس جاتی ہیں۔"اسنے شہریار کا ہاتھ جھٹک کر اپنے آنسو صاف کیے۔جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ 

"میں ایک ایک لمحے کی بھر پائی کرونگا ماہ ، تمہارا خیال رکھوں گا تم سے بے انتہا محبت کرونگا کہ تم سب کچھ بھول جاؤگی۔"شہریار نے اسکا چہرہ اپنی طرف موڑا۔ 

"اس احسان کی ضرورت نہیں ہے۔میں جیسی ہوں ویسی ٹھیک ہوں۔"اسنے پھر سے شہریار کا ہاتھ جھٹکا۔شہریار نے ضبط سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔

"کیسے مانو گی تم؟"اسنے ماہ نور کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"مجھے منانے کی اتنی بے چینی ، طبیعت ٹھیک نہیں لگتی شہریار خان کی۔"وہ طنزیہ ہنس کر اسے غصہ دلا رہی تھی۔ 

"ماہ ۔۔۔"اسنے وارن انداز میں کہا۔ 

"چھی چھی کتنا مشکل ہوتی ہے ناں ایک ایسے شخص کو منانا جس سے آپ کو بڑی نفرت ہو؟واقعی بہت امتحان بھرا کام ہے۔"وہ افسوس سے گردن ہلانے لگی۔ 

"تمہیں کس نے کہا کہ مجھے تم سے نفرت ہے؟"

"آپ نے ، آپ کے لہجے نے پل پل مجھے اس بات کا احساس دلایا ہے کہ ماہ نور سے آپکو اتنی نفرت ہے کہ آپ نے ہر لمحہ اسکی توہین کی ہے ، اسے ٹھکرایا ہے۔اسکی محبت کی بے عزتی کی ہے۔"بولتے بولتے اسکی آواز رندھ گئی۔

"ایسا نہیں ہے ماہ ، تم میرے دل سے بہت قریب ہو۔"اسنے ہاتھ بڑھا کر محبت سے اسکے آنسو صاف کیے۔ 

"جھوٹ نہ بولیں ، سب جانتی ہوں میں۔"وہ جھٹکے سے اٹھ کر آگے بڑھی۔شہریار تیزی سے اسکے پیچھے گیا۔لمبے ڈگ بھرتا اسکے سامنے کھڑا ہوا۔

"چاہتی کیا ہو تم آخر؟"شہریار نے بے بسی سے پوچھا۔ 

"کہ آپ میرے سامنے سے ہٹ جائیں۔"وہ چبا کر بولی۔

"تمہاری راہوں سے نہیں ہٹ سکتا۔تم ہی میری منزل ہو۔جہاں بھی جاؤں لوٹ کر تم تک ہی آؤں گا۔"وہ محبت سے کہہ رہا تھا۔ 

"کونسی کتاب پڑھ کے آئے ہیں؟ کہاں سے یہ ڈائلاگ سیکھے ہیں؟"وہ کہہ کر طنزیہ ہنسی۔شہریار کی آنکھوں میں غصہ لہرایا۔

"میرے دل کی باتیں تمہیں کتابی ڈائلاگ لگتی ہیں؟"وہ ضبط سے بولا 

"بالکل ، ڈائلاگ ، جھوٹ ، ناٹک ہے سب کچھ۔"اسنے شہریار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ 

"میرے ساتھ یہ ڈرامے مت کریں میں سب ۔۔۔۔"وہ اور بھی بولنا چاہتی تھی جب شہریار نے آگے بڑھ کر اسکے منہ پر زور سے ہاتھ رکھا۔

"بہت بول چکی ہو تم ، آرام دو اب اس زبان کو۔"اسنے گھور کر ماہ نور کی آنکھوں میں دیکھا۔"اور یہ کیا تم نے کب سے ناٹک ، ڈرامہ ، جھوٹ کی گردان لگائی ہوئی ہے ہاں ؟ میں تم سے محبت کرتا ہوں ڈیم ایٹ ،آج یا کل سے نہیں سالوں سے ،تب سے جب سے تم بھی محبت سے واقف نہ تھی۔میری محبت پر سوال نہ اٹھاؤ۔مانا کہ کبھی اظہار نہیں کیا پر میری محبت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔میری محبت میں اتنی ہی سچائی اور دیوانگی ہے جتنی تمہاری محبت میں۔"وہ حیرت سے پھیلی آنکھوں میں دیکھ کر اظہار کر گیا تھا۔ماہ نور کے حواس گم تھے۔وہ اس سے محبت کرتا تھا۔آج یا کل سے نہیں ایک عرصے سے ، کیا یہ سچ تھا؟ماہ نور کو یقین نہیں آ رہا تھا۔وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی جو کہہ رہا تھا۔"کب سے نرمی سے سمجھا رہا ہوں تمہیں پر تم ہو کہ آرام سے بات سننے پر راضی ہی نہیں۔ اب خبر دار جو تم نے میری محبت پر سوال اٹھایا۔سوال اٹھاؤ گی تو شہریار کو پھر کبھی اپنے سامنے نہیں پاؤ گی۔بہت دور چلا جاؤنگا میں سمجھی۔"وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔اسنے کچھ پل نور کی نم آنکھوں میں دیکھا پھر ہاتھ پیچھے کیا۔

اپنے ہاتھ میں اسکا ہاتھ تھاما اور اسے واپس کرسی تک لایا۔اسے بٹھا کر خود بھی کرسی اسکے سامنے رکھ کر بیٹھا۔پھر خاموشی سے اسے دیکھا۔وہ آنسو بہانے میں مصروف ہوگئی  تھی۔

"اب کیوں رو رہی ہو؟"اسکی نم آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

"دھمکی دی ہے آپ نے مجھے ، محبت کا اظہار کوئی بھی اس طرح نہیں کرتا۔یہ کیا بات ہوئی۔ایسا نہیں ہوتا۔"وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ 

"کب سے نرمی سے سمجھا رہا تھا ناں؟ سمجھی تم ؟ نہیں ۔۔۔ تمہیں یہی انداز سمجھ آتا ہے شاید۔"وہ ابرو اٹھا کر بولا۔

"ہمیشہ اسی انداز میں ہی تو بات کی ہے آپ نے مجھ سے ، پھر کوئی اور انداز سمجھ آئے بھی کیسے۔"وہ تپ کر اسے دیکھنے لگی۔ 

"اچھا آج میری ساری شکایتں لگاؤ مجھ سے ، میں سن رہا ہوں۔"وہ کہہ کر آگے ہو کر بیٹھا۔

"جانے دیں ، ساری زندگی گزر جائے گی۔اتنی شکایتیں ہیں۔"ماہ نور نے چبھتے لہجے میں کہا۔ 

"مجھ معصوم سے اتنی شکایتیں کیوں ہیں؟"شہریار نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔ 

"بات وہ کریں جو ماننے لائق ہو۔معصوم اور آپ ، یہ سن کر کہیں میں ہی مر نہ جاؤں۔"اس نے مکھی اڑانے والے انداز میں کہا۔اسنے ماہ نور کو دیکھ کر اسکے دونوں ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامے۔

"آئم سوری فار ایوری تھنگ ، میں اپنی غلطی مانتا ہوں۔سوری بھی کر رہا ہوں۔میری طرح معاف کرنے میں وقت نہ لگاؤ اور معاف کر دو اپنے پیارے شوہر کو۔"وہ سنجیدگی سے بات کرتا آخر میں شوخ ہوا۔ 

ماہ نور اسے دیکھتی رہی۔لو آج وہ چل کر اس تک آیا تھا۔اس سے محبت کا اظہار کر کے اس سے معافی مانگ رہا تھا۔وہ تو اسکی دیوانی تھی پھر کیونکر نہ معاف کرتی۔

"معاف کردیا ہے۔"اسنے دھیمے لہجے میں کہا۔ 

"واقعی؟"شہریار نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"جی۔"وہ مسکرائی۔دل بالکل ہلکا پھلکا ہو کر مہکنے لگا تھا۔ 

شہریار نے اسے دیکھا پھر اسکے دائیں ہاتھ کی پشت پر لب رکھے۔ماہ نور کانپ کر رہ گئی۔محبت کی پہلی مہر لگی تھی۔محبت بھرا پہلا لمحہ انکے بیچ ٹھہرا تھا۔

ماہ نور کی نظریں جھک گئیں۔ 

"اب کوئی دکھ تمہارے قریب نہیں آنے دونگا ماہ ، تمہیں ہمیشہ خوش رکھونگا۔ہمیشہ چاہتا رہونگا۔"وہ محبت سے پر لہجے میں کہتا اسے سکتے میں ڈال رہا تھا۔وہ خوشی سے پاگل ہونے کو تھی۔

"سچی؟"ماہ نور نے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"ہاں ، اب کوئی غلط فہمی ہمارے بیچ نہیں آئے گی۔ہم ہمیشہ خوش رہیں گے۔"اسکا لہجہ مضبوط تھا۔ 

"ویسے شہریار۔"ماہ نور نے سوچتے ہوئے پکارا۔ 

"بولیں مادام۔"وہ دل و جان سے متوجہ ہوا۔ 

"محبت کا اظہار ایسے نہیں کرتے۔"اسنے منہ بگاڑ کر کہا۔

شہریار ایک دم قہقہہ لگا کر ہنسا۔

"تم بتاؤ پھر کیسے اظہار کروں؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"بغیر دھمکی کے ، نرمی سے ، محبت سے۔"وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولی۔ 

"ہوں ۔۔۔"شہریار نے سر ہلایا۔پھر ہاتھ بڑھا کر اسکی لٹ کو آہستہ سے کھینچا۔ماہ نور مشکوک نظروں سے اسے دیکھنے لگی کہ جانے اب کیسے اظہار کریگا۔ 

"تو ماہ نور شہریار خان میں تمہیں دیوانگی کی حد تک چاہتا ہوں۔اتنا کہ تمہارے قریب اگر کسی کو دیکھ لوں تو جل جل جاتا ہوں۔تمہیں صرف اور صرف اپنا دیکھنا چاہتا ہوں۔تم سے بے حد محبت کرتا ہوں۔اتنی کہ تمہیں دکھ دے کر کبھی چین سے میں بھی نہیں رہا۔تمہاری ہر تکلیف پر میرا دل درد سے پھٹنے لگتا تھا پر شاید میں اذیت پسند ہوگیا تھا۔تمہیں اذیت دینا اور پھر خود بھی اس اذیت کو سہنے کا عادی ہوگیا تھا۔"اسنے ماہ نور کی نم و خوشی سے چمکتی آنکھوں میں دیکھا۔"پر اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔اب ہم دونوں خوش رہیں گے۔ایک دوسرے کی محبت کے سائے میں باقی کی ساری زندگی گزاریں گے۔ہمیشہ ایک ساتھ رہیں گے۔تم اور میں ۔۔۔ "وہ اسے جادو کے حصار میں باندھ رہا تھا اور وہ اسکے ساتھ جکڑتی چلی جا رہی تھی۔ 

آسمان پر روشن چاند کی چاندنی میں بیٹھے وہ آج برسوں بعد محبت سے ایک دوسرے کو تکتے محبت کی بات کر رہے تھے۔جو انکے آس پاس ایک عرصے سے موجود تھی پر ظاہر آج ہوئی تھی اور دو دلوں کو ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ باندھ گئی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ناشتہ کر کے سب ہال میں بیٹھے تھے۔ہاشم ناشتہ کر کے کمرے میں چلا گیا تھا۔نازلی کافی دیر تک اسکا انتظار کرتی رہی پر وہ باہر نہ آیا۔

تو وہ آہستہ سے اٹھ کر اندر کی طرف بڑھی۔وہ کمرے میں آئی تو سامنے وہ تیار کھڑا تھا۔

سیاہ پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس شیشے کے سامنے کھڑا بالوں میں برش کر رہا تھا۔نازلی خاموشی سے اسکی طرف بڑھی۔ 

"کہاں کی تیاری ہے؟"وہ اسکے ساتھ کھڑی ہوئی۔ 

"باہر جا رہا ہوں۔"وہ برش رکھ کر اپنے کف ٹھیک کرنے لگا۔ 

"آپ شاید بھول رہے ہیں کہ آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور ویسے بھی کچھ دیر میں ہم سب بڑی حویلی جائیں گے۔"وہ ہاشم کو دیکھ کر بولی۔ 

"میرا جانا ضروری ہے یار ، اسفی سے ملنا ہے میں نے۔"اسنے نظر اٹھا کر نازلی کو دیکھا۔ 

"اسفی بھائی کو یہاں بلا لیں پھر۔"نازلی چاہتی تھی وہ باہر نہ جائے اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی پھر وہ کیسے اسے اکیلے باہر جانے دیتی۔ 

"وہ مجھ سے ملنا ہی نہیں چاہ رہا۔اپنا دکھ چھپانا چاہتا ہے مجھ سے پاگل آدمی۔"ہاشم نے افسوس سے سر جھٹکا۔

"پر ہاشم ۔۔"نازلی نے پریشانی سے اسے دیکھا۔ 

"جانِ ہاشم جانا ضروری ہے۔میں اسفی کو اس طرح اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔"اسنے مسکرا کر نرمی سے سمجھایا پھر پرفیوم اٹھا کر اپنے اوپر اسپرے کرنے لگا۔

نازلی کی اتری صورت دیکھ کر وہ پرفیوم اس پر اسپرے کرنے لگا۔"ارے بس ۔۔۔"نازلی نے ہاتھ سامنے کر کے اسے روکنا چاہا۔

"پہلے مسکراؤ۔"ہاشم نے شرارت سے کہا۔نازلی اسکی بات پر ایک دم ہنسنے لگی۔ 

"دیڈس لائک آ گڈ گرل۔"ہاشم نے مسکرا کر پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھی۔کمرے میں خوشبو ہی خوشبو پھیل گئی تھی۔ 

"کب تک آئیں گے؟"وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر پوچھنے لگی۔ 

"جلد ہی۔"اسنے تیار ہو کر ایک بار خود کو دیکھا۔اسے فریش انداز میں دیکھ کر نازلی نے دل میں ماشاء اللہ کہا۔وہ تیزی سے صحت یاب ہورہا تھا اور اسے ٹھیک ہوتے دیکھ کر نازلی بے انتہا خوش تھی۔

"آپ پھر ہم لوگوں کے ساتھ نہیں جائیں گے حویلی؟"اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔وہ چاہتی تھی وہ اسکے ساتھ حویلی میں قدم رکھے۔ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"میں جلدی واپس آؤں گا پھر ساتھ جائیں گے۔اوکے"اسنے نرمی سے نازلی کا ہاتھ تھام کر کہا۔ 

"جی۔۔"نازلی کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی۔ہاشم مگن سا اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ 

"یہ جو تمہاری سمندر سی نیلی آنکھیں ہیں۔"

"میں اکثر ان میں ڈوب سا جاتا ہوں۔"

"پھر ابھرنے کا ہوش کب رہتا ہے۔"

"کہ میں تمہارے نینوں کے بھنور میں یوں جکڑ سا جاتا ہوں۔"

"ان آنکھوں میں جب میں کھو جاؤں تو۔"

"میں اپنے چہرے کی مصوری ہی بس نقش پاتا ہوں۔"

(از قلم نوشابہ چوہان)

"آتے ہوئے تمہارے لیے موبائل بھی لیتا آؤں گا۔"اسنے مسکرا کر نازلی کی ناک نرمی سے دبائی۔ "تیسری بار۔"نازلی ہنسی۔ 

"ہاں تیسری بار ، پہلے میرے موبائل ٹوٹتے تھے اب تم بھی میرے ساتھ شامل ہوگئی۔"وہ کہہ کر مسکرایا۔ 

"مجھ سے موبائل سنبھالے نہیں جاتے۔"نازلی نے مسکراہٹ دبا کر بتایا۔ 

"موبائل تو نیے آ جائیں گے بس مجھے سنبھال کر رکھنا۔"وہ شوخ ہوا۔نازلی ہنس کر پلکیں جھکا گئی۔

"نازلی۔"ہاشم نے اسکے گال پر ہاتھ رکھا۔ 

"جی۔"اسنے نظر اٹھا کر دیکھا۔ 

"اب میں جاؤں؟"ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"چلے جائیں۔"وہ شانے اچکا کر بولی۔

"تم یوں ہنس کر مجھے اپنے ساتھ باندھو گی تو کیسے جاؤنگا؟"

"لیں اب نہیں ہنستی۔"اسنے مسکراہٹ دبا کر لبوں پر شہادت کی انگلی رکھی۔ہاشم نے مسکرا کر سر جھٹکا۔

پھر اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔نازلی اسکے ساتھ چلتی باہر نکلی۔لبوں پر مسکراہٹ اب بھی سجی تھی پر اسنے سر جھکا رکھا تھا۔وہ دونوں ہال میں آئے تو سب انکی طرف متوجہ ہوئے۔"کہاں جا رہے ہو؟"سب سے پہلے ام جان نے پوچھا۔ 

"اسفی سے ملنے۔"اسنے انہیں دیکھ کر کہا۔ 

"آپ بیمار ہیں بیٹا جی۔"خان بابا نے اپنے خوب رو جوان بیٹے کو دیکھا۔ 

"خان بابا آپکا بیٹا اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ بیمار پڑ کر گھر میں بیٹھا رہوں۔اب تو میں بالکل ٹھیک ہوں۔اسفی ٹھیک نہیں ہے اسلیے میرا جانا ضروری ہے۔"اسنے آہستہ سے جواب دیا۔ 

"اکیلے جائیں گے؟"انہوں نے پوچھا۔ 

"جی۔"ہاشم نے سر ہلایا۔ 

"تم ڈرائیو نہیں کر سکتے ہاشم ، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔"شہریار اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"یار میں چلا جاؤنگا۔"ہاشم جھنجھلایا تھا۔سب ایسے ری ایکٹ کر رہے تھے جیسے وہ چھوٹا بچہ ہے اور پہلی بار گھر سے باہر جا رہا ہے۔ 

"نو بڈی ، میں تمہیں چھوڑ کر آؤنگا۔تمہیں جب بھی واپس آنا ہو کال کر لینا۔میں لینے آ جاؤنگا۔چلو اب۔"شہریار نے آگے بڑھ کر اسکا کندھا تھپکا۔ 

"اکیلا نہیں چھوڑو گے؟"ہاشم نے اسے گھورا۔ 

"کبھی نہیں۔"شہریار نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

سب مسکرا کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ان دونوں میں پھر سے پہلے جیسی دوستی قائم ہوگئی تھی۔انہیں اس انداز میں دیکھ کر سب خوش تھے۔ 

اسکی بات پر ہاشم نے مسکرایا پھر دونوں سب کو اللہ حافظ کہتے باہر کی طرف بڑھے۔ 

انکے لوٹ آنے کے بعد ہی وہ لوگ بڑی حویلی کے لیے نکلیں گے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شہریار نے ہاشم کو کیفے کے سامنے اتارا جہاں اسفی اسکا انتظار کر رہا تھا۔شہریار اسے چھوڑ کر ایک ضروری کام کے لیے چلا گیا۔

اسفی اور ہاشم کیفے میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔

ہاشم کے گھورنے پر اسفی مدھم سا مسکرایا تھا۔ 

"یار کیوں بیویوں کی طرح گھور رہے ہو؟"اسفی نے شوخی سے مسکرا کر کہا۔اسکے لبوں پر مسکراہٹ پر آنکھوں میں ویرانی ہی ویرانی تھی۔

"میرے سامنے یہ پریٹنڈ مت کرو اسفی کہ تم خوش ہو یا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔"ہاشم بالکل سنجیدہ تھا۔ 

"تم دیکھو مجھے کہاں سے لگ رہا ہے کہ مجھے کوئی روگ لگا ہے؟ میں بالکل فریش تمہارے سامنے ہوں یار۔"وہ پھر مسکرایا۔ 

"اسفی تم ان سے جھوٹ بولو جو تمہیں سمجھتے نہ ہوں۔میرے ساتھ یہ کھیل نہ کھیلو سمجھے۔"ہاشم جھنجھلایا تھا۔ 

"تو تم کیا چاہتے ہو خان کہ میں اداسی کا بورڈ لگا کر گھوموں، اپنے دل کا درد ہر کسی کو دکھاؤں؟"وہ تلخ ہوا۔ 

"میں چاہتا ہوں تم دکھی نہ ہو اسفی۔"ہاشم نے نرمی سے کہا۔ 

"محبت کم ہی خوشی دیتی ہے ہاشم۔"اسفی دکھ سے مسکرایا۔ 

"میں تمہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔"ہاشم نے اپنی پیشانی مسلی۔

"میں ٹھیک ہوں میرے یار۔یہ آج کی بات نہیں ہے مجھے عادت ہے اس سب کی۔"وہ ہاشم کا ہاتھ تھپتھپا کر بولا۔ 

"تابین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔"ہاشم نے دکھ سے اسے دیکھا۔ 

"تم جانتے ہو ہاشم کہ دل پر کسی کا زور نہیں چلتا۔اسے مجھ سے محبت نہیں ہے۔یہ ہم دونوں جانتے ہیں۔"اسفی نے آہستہ سے کہا۔ہاشم کو عجیب احساس نے گھیرا۔اسے لگا وہ اپنے دوست کی راہ میں رکاوٹ ہے۔بھلے ہی وہ تابین سے محبت نہیں کرتا پر تابین تو اس سے محبت کرتی ہے ناں۔اسی محبت کی  وجہ سے وہ اسفی سے دور ہوئی تھی۔ 

"اس سبکی وجہ میں ہوں ناں؟"ہاشم نے سنجیدگی سے کہا۔

"کم آن ہاشم یہ کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔جسکی قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہ اسے ضرور ملتا ہے۔یہ سب کچھ ہماری قسمت میں لکھا تھا۔اس میں ہم میں سے کسی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔"اسفی نرمی سے بولا 

"اچھا بتاؤ حویلی جا رہے ہو آج؟"اسفی نے ٹوپک چینج کیا۔

"ہاں ، سب گھر میں ہی ہیں آج جائیں گے۔"ہاشم نے لمبی سانس کھینچی۔

"سب کچھ ٹھیک ہورہا ہے۔مجھے بہت خوشی ہورہی ہے تمہارے لیے۔"اسفی نے خوشگوار انداز میں کہا۔

"ہاں ایک لمبے سفر کے بعد منزل پائی ہے۔تمہیں بھی تمہاری منزل ضرور ملے گی اسفندیار ملک۔"ہاشم نے سچے دل سے کہہ کر اسے دیکھا۔اسفی نے مسکرا کر مدھم آواز میں انشاء اللہ کہا۔ 

"اچھا کافی پیو گے؟"اسنے ہاشم کو دیکھا۔ہاشم نے اثبات میں سر ہلایا۔

کچھ دیر بعد وہ کافی پیتے ہلکی پھلکی گفتگو کر رہے تھے۔پھر شہریار آیا تو ہاشم ، اسفی سے مل کر وہاں سے چلا گیا۔

واپسی میں اسنے نازلی کے لیے موبائل لیا۔وہ دونوں گھر پہنچے۔جہاں سب حویلی جانے کے لیے تیار تھے۔ 

کچھ دیر بعد تین گاڑیاں خان ولا سے حویلی جانے کے لیے نکلی  تھیں۔  

حویلی میں جیسے بہار سی اتر آئی تھی۔وہ سب ایک ساتھ تھے اور بے انتہا خوش تھے۔شام کا وقت تھا وہ سب لان میں بیٹھے تھے۔ہر چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔پر ایک چہرے پر کچھ زیادہ ہی دلکش مسکراہٹ تھی اور وہ چہرہ تھا آبی کا۔

آج رات سیماب لوگ وہاں آنے والے تھے۔احد کے لیے آبی کا ہاتھ مانگنے۔

یہ بات ابھی تک ان تینوں کے علاوہ صرف ام جان کو ہی معلوم تھی۔نازلی تو فون کر کے بار بار آنی سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کب آئیں گے۔

"بہت خوش ہو؟"نازلی نے آبی کی طرف جھک کر کہا 

"اسکے چہرے پر چپکی مسکراہٹ کو دیکھو اور اندازہ لگا لو کہ یہ کتنی خوش ہے۔"نور نے شرارت سے آنکھ ماری۔ 

"یہ تم شہریار بھائی کو آنکھ مار رہی ہو؟"نازلی نے شوخی سے کہا 

"استغفار ۔۔۔"نور نے شرما کر کانوں کو ہاتھ لگایا تو آبی اور نازلی دونوں ہنسنے لگیں۔نور نے شہریار کو دیکھا جو ہاشم اور خان بابا کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ 

تبھی ام جان نے ان تینوں کو اشارہ کیا اور اٹھ کر اندر کی طرف بڑھیں۔انکا اشارہ سمجھ کر وہ تینوں بھی سرگوشیاں کرتیں اٹھ کر اندر کی طرف بڑھیں۔ 

موبائل پر گیم کھیلتے داور نے یہ اشارے دیکھ لیے تھے اور اسے دال میں کچھ کالا نظر آ رہا تھا۔ 

اسنے ایک نظر ان تینوں مرد حضرات پر ڈالی جو باتوں میں مصروف تھے۔وہ بھی خاموشی سے وہاں سے کھسک کر اندر کی طرف بڑھا۔ 

وہ آہستہ قدموں سے چلتا ہال میں آیا پر وہاں کوئی نہ تھا۔وہ کچن کی طرف بڑھا جہاں سے باتوں کی آواز آ رہی تھی۔ 

ام جان ان تینوں ، گل جان اور ایک اور کام والی کو سمجھا رہی تھیں کہ کیا کیا بنانا ہے۔باقاعدہ دعوت کی تیاری ہورہی تھی اور جہاں تک داور کو معلوم تھا گھر میں کوئی مہمان تو آنے والے نہ تھے پھر اتنی تیاری کیوں؟

"کیا کوئی دعوت ہے؟"وہ اندر داخل ہو کر بولا۔وہ سب چونک کر اسے دیکھنے لگیں۔ 

"نہیں تو۔"نور نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔

"پھر ام جان اتنی تیاری کیوں کروا رہی ہیں؟"اسنے ام جان کو دیکھا۔ 

"بچے یہی سمجھ لیں کہ دعوت ہے۔"ام جان سے جھوٹ نہ بولا گیا اسلیے سچ بتا دیا۔ 

"کس کی ام جان؟"داور نے تجسس سے پوچھا۔ 

"کسی کی نہیں۔"نور نے جلدی سے آگے بڑھ کر ام جان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انہیں مزید کچھ بتانے سے روکا۔ 

"آپ لوگ کام کریں۔میں اب باہر جا رہی ہوں۔"ام جان تو خود کو بچا وہاں سے باہر نکل گئیں۔جبکہ پیچھے کھڑے داور نے ان تینوں کو گھورا۔

"تم لوگ میرے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کر رہی ہو۔"اسنے دکھ سے کہا۔ 

"تم ہماری بہن نہیں اگر ہوتی تو ہم تمہیں ضرور بتاتے۔"نور نے ہنس کر اسے دیکھا۔آبی اور نازلی اس بات پر ہنسنے لگیں۔ 

"آج آبی بڑی شریف بنی ہے۔خیر تو ہے ناں آبی؟"اسنے مشکوک نظروں سے آبی کو دیکھا۔ 

آبی گڑبڑا گئی۔"ہاں ہاں خیر ہے ، مجھے کیا ہونا ہے بھلا۔تم جاؤ اپنا کام کرو جن کہیں کے۔"آبی نے تیکھے انداز میں اسے دیکھا۔داور نے لمبی سانس بھر کر شکر ادا کیا۔

"ہاں چڑیل اب لگ رہا ہے کہ تم ٹھیک ہو۔"وہ دانت نکال کر کہتا آبی کے کچھ بولنے سے پہلے جھٹ سے وہاں سے چلا گیا اور پیچھے وہ تینوں ہنس پڑیں۔ 

"سرپرائز تو اس نکمے کے لیے بھی ہوگا لیلیٰ کا یہاں آنا۔"آبی نے مزے سے کہا۔ 

"داور تو گیا پھر۔"نازلی نے مسکرا کر لقمہ دیا۔آبی ہنسنے لگی۔آج وہ بہت خوش تھی۔جو اسنے چاہا تھا وہ اسے ملنے جا رہا تھا۔"اچھا آبی جاؤ تم تیاری کرو ، ہم یہاں کا کام دیکھ لینگے۔"نازلی نے اسے باہر کی طرف دھکیلا۔ 

"اچھے سے تیار ہونا احد بھائی بھی ساتھ ہونگے۔"نور نے شرارت سے کہا تو آبی شرم سے مسکراتی باہر نکل گئی۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

سات بجے کے قریب وہ سب بڑی حویلی پہنچ چکے تھے۔سب ایک دوسرے سے مل کر اس وقت ہال میں بیٹھے تھے۔ 

داور نے جب لیلیٰ کو دیکھا تو اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔وہ خوشی سے اچھلنے لگا۔

اسنے لیلیٰ کے ساتھ کھڑی آبی ، نور اور نازلی کو دیکھا جو مسکرا رہی تھیں۔اسکا دل کر رہا تھا خوشی سے جمپ کرنے لگ جائے۔وہ جلدی سے انکی طرف بڑھا۔ 

"لیلیٰ صاحبہ ویلکم اپنے گھر میں۔"داور تیزی میں بول گیا۔لیلیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا۔نور نے داور کو کہنی ماری۔ 

"میرا مطلب ہے اپنی بہن کے گھر میں۔"اسنے مسکرا کر نازلی کی طرف اشارہ کیا۔

"شکریہ۔"لیلیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر نازلی کی طرف متوجہ ہوئی۔ 

"یہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی؟"اسنے اداسی سے آہستہ آواز میں نور سے کہا۔ 

"ہائے میرا معصوم بھائی۔"نور کو اس پر پیار آیا تو اسنے داور کا گال کھینچا۔"لڑکیاں اتنی آسانی سے کسی سے بات نہیں کرتیں۔"اسنے مسکرا کر بتایا۔

"وہ نہ کرے بات میں خود اس سے بات کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لونگا۔"داور نے ہنس کر چٹکی بجائی پھر احد کی طرف بڑھ گیا جو ہاشم اور شہریار کے ساتھ کھڑا تھا۔ 

"آپی۔"لیلیٰ نے آبی سے کہا۔آبی اسے دیکھنے لگی۔ 

"بھائی کو دیکھ لیں بیچارے اتنا وقت لگا کر آپکے لیے تیار ہوئے ہیں اور آپ نے انہیں ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں۔"اسنے شرارت سے کہا۔نازلی اور نور ، آبی کے لال چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگیں۔ 

"دیکھ لو لڑکی۔"نور نے اسے ٹہکا دیا۔آبی نے ایک نظر دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔

"یہ شرما رہی ہے۔"نازلی نے ہنس کر آبی کو دیکھا۔جبکہ ایک نظر ہی احد کو دیکھ کر آبی کا دل دھڑک اٹھا تھا۔

نیوی بلیو شلوار قمیض میں وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔وہ سب آگے بڑھ رہی تھیں تو آبی چونک کر انکے پیچھے بھاگی۔ 

وہاں محفل جم چکی تھی۔مسکراہٹیں ، قہقہہ ، چار سو خوشی ہی خوشی تھی۔ 

پھر کچھ دیر بعد بڑی سے ڈئننگ ٹیبل پر کھانا لگایا گیا۔وہاں سب موجود تھے۔خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ 

پھر کھانے سے فارغ ہوئے تو سیماب اور اسد نے وہ بات چھیڑی جس کے لیے وہ لوگ یہاں آئے تھے۔

سیماب ، اسد ، احد ، ام جان ، خان بابا ، ہاشم اور شہریار سب ہال میں بیٹھے تھے۔سیماب اپنے آنے کا مقصد بیان کر رہی تھیں۔ 

جبکہ ساری ینگ پارٹی اوپر والے پورشن میں ہال میں بیٹھے تھے۔لیلیٰ بے چینی سے اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہی تھی۔آبی بھی بے تاب سی صوفے پر بیٹھی تھی۔جبکہ نازلی اور نور باتوں میں مصروف تھیں۔داور بھی پہلے وہیں تھا پر لیلیٰ کے گھورنے پر وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔ 

"افف جانے کیا بات ہو رہی ہوگی۔ہاں کر دی ہوگی یا نہیں۔"لیلیٰ بڑبڑا رہی تھی۔ 

"بیٹھ جاؤ لیلیٰ ، اچھا فیصلہ ہی ہوگا۔"نازلی نے مسکرا کر کہا۔ 

"آپی آپ نہیں جانتی میں کتنی بے چین ہوں۔بس جلدی سے مجھے خوشی کی خبر مل جائے۔"وہ نازلی کے سامنے آ کر خوشی سے کہہ رہی تھی۔ 

"آبش آپی میری بھابی بنے گیں۔ہائے میں بہت خوش ہوں۔"وہ پھر سے چکر کاٹنے لگی۔

"اسے نہیں معلوم کہ اپنا داور اسے بھی آبی کی بھابی بنانا چاہتا ہے۔"نور نے ہنسی دبا کر نازلی کے کان میں سرگوشی کی۔ 

"معلوم ہوگیا تو داور کا حال بے حال نہ کر دے کہیں۔"نازلی نے بھی آہستہ سے جواب دیا۔دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسیں۔

"چڑیلوں میں یہاں اتنی ڈری ہوئی ہوں اور تم دونوں ہنس رہی ہو۔"آبی نے انہیں گھورا۔ 

"جب احد بھائی ہیں تو پھر ڈرنے کی کیا بات ہے۔"نور نے آنکھ ماری۔ 

"یار میں سیریس ہوں۔جانے خان بابا کیسے ری ایکٹ کریں گے۔"آبی کے لہجے میں پریشانی تھی۔ 

"کم آن آبی ڈرو نہیں ، احد بھائی کو وہ جانتے ہیں۔تم دیکھنا سب اچھا ہوگا۔"نازلی نے نرمی سے اسے تسلی دی۔

آبی مسکرانے لگی پر دل کی کیفیت اب بھی عجیب ہورہی تھی۔ 

تھوڑی دیر بعد سنجیدہ سا داور وہاں آیا۔وہ چاروں اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔ 

"کیا ہوا؟"لیلیٰ نے اسکی سنجیدہ صورت دیکھ کر پوچھا۔ 

"آپکے بھائی نے آپکے لیے کچھ دیا ہے۔"داور نے اپنی بند مٹھی آگے کی۔لیلیٰ کے ساتھ وہ تینوں بھی حیران ہوئیں کہ بھلا یہ کیا ماجرا ہے؟ 

"کیا؟"لیلیٰ نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔

"ہاتھ بڑھائیں گی تو دونگا ناں۔"داور کا انداز ہنوز سنجیدہ تھا۔

لیلیٰ نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔سوچنے لگی کہ جانے کیا ہوگا؟  

داور نے اسکی ہتھیلی پر کوئی چیز رکھی پھر ہاتھ پیچھے کرتا تھوڑا دور ہو کر کھڑا ہوا۔

لیلیٰ نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا۔اپنے ہاتھ پر رکھا موٹا سا کوکراج دیکھ کر اگلے پل اسنے زور سے چیخ ماری پھر ہاتھ زور سے جھٹک کر اسے نیچے گرایا۔

وہ تینوں حواس باختہ سی اٹھ کر لیلیٰ کی طرف بڑھیں۔ 

"کیا ہوگیا؟؟"آبی نے جلدی سے پوچھا۔

"آپی وہ کاکراج ۔۔۔وہاں ۔۔۔ وہ دیکھیں۔"اسنے فرش پر پڑے کاکراج کی طرف اشارہ کیا۔

نور نے آگے ہو کر اسکا جائزہ لیا۔"یہ نقلی ہے۔"اسنے مسکرا کر کہا۔لیلیٰ کی اڑی رنگت دیکھ کر داور زور سے ہنسا۔ 

"ڈرپوک لڑکی۔"وہ چڑانے والے انداز میں بولا۔ 

"دیکھ لیں آپی میں اس شخص کو چھوڑوں گی نہیں۔"لیلیٰ نے اپنی بے ترتیب دھڑکنوں کو نارمل کرتے ہوئے غصے سے کہا۔ 

"مت چھوڑنا۔"داور نے زو معنی انداز اپنایا۔

"داور۔۔"نور نے وارن انداز میں اسے دیکھا۔ 

"اتنا ڈرایا ہے انہوں نے مجھے۔"لیلیٰ ، نازلی کا ہاتھ تھام کر نم آواز میں بولی۔

"داور اب سوری کہو لیلیٰ کو۔"نازلی نے محبت سے لیلیٰ کا ہاتھ تھپک کر داور سے کہا۔ان دونوں کی حرکتیں بالکل بچوں جیسی تھیں۔

"اچھا سوری ۔۔۔میں نے سوچا آپ سب اتنی پریشان ہیں کیوں نہ تھوڑا فن ہو جائے۔"وہ ہنس کر لیلیٰ کو دیکھ رہا تھا۔جو تپ کر اسے دیکھتی نظریں پھیر گئی۔ 

"فن تو تب ہوتا اگر اس چیخ کی آواز پر نیچے سے کوئی اوپر آتا۔پھر خان بابا تمہیں اچھے سے پوچھتے۔"آبی نے چڑ کر کہا۔ایک تو پہلے اسکا دل ڈر رہا تھا اوپر سے اسکا پاگل بھائی اور اسکی جان نکال رہا تھا۔ 

"اچھا اچھا ۔۔ خاموشی سے بیٹھ جائیں۔میں گیا اب۔"وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا وہاں سے بھاگا کہ کہیں اب  ناک بھی  نہ رگڑنی پڑ جائے۔

انہیں نے مسکرا کر داور کو جاتے دیکھا پھر واپس صوفے پر بیٹھیں۔ 

"تم ناراض نہ ہونا لیلیٰ ، داور تھوڑا شرارتی ہے پر دل کا بہت اچھا ہے۔بس شوخ طبیعت کا مالک ہے تو کبھی کبھی اس طرح کی حرکتیں کر جاتا ہے۔"نور نے اسکے ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا۔تو وہ سر ہلانے لگی اور کیا کہتی بھلا ابھی ابھی اس محترم نے اسے ڈرایا تھا۔اسکی نظر میں تو وہ شیطانوں کا سردار تھا۔وہ ناک چڑھا کر سوچنے لگی۔ 

سب بڑوں میں بات ہو چکی تھی۔خان بابا سوچنے کے لیے وقت مانگنا چاہتے تھے۔پر سیماب نے کہا کہ وہ سب ایک دوسرے کو اچھے سے جانتے ہیں اسلیے انہیں ابھی ہی جواب چاہیے۔ 

خان بابا کو آبی سے بھی ایک بار پوچھنا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔اسلیے انہوں نے ام جان کو اس سے پوچھنے کے لیے بھیجا۔ام جان اوپر آئیں۔وہ آبی کا جواب تو جانتی تھیں پر پھر بھی ایک بار پوچھنا چاہتی تھیں۔ 

انہوں نے آبی سے پوچھا تو اسنے شرما کر ہاں میں سر ہلا دیا۔ام جان نے اسکی پیشانی چومی پھر نیچے جا کر سلیقے سے آبی کا جواب سب تک پہنچایا۔بس جواب ملتے ہی آبی ، احد کے نام ہوگئی تھی۔

انکی دعا خیر کر دی گئی۔احد کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی۔وہ ہاشم اور شہریار کے گلے لگا۔سب ایک دوسرے کو نیا رشتہ جڑنے کی مبارک باد دے رہے تھے۔ 

ماحول کے ایک دم بہار ہونے کا گمان ہونے لگا۔داور کو جب پتہ چلا تو وہ جھومتا ہوا اوپر لڑکیوں کو بتانے آیا تھا۔رشتہ پکا ہونے کا سن کر لیلیٰ ، نازلی ، نور خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں جبکہ آبی لبوں پر مدھم مسکراہٹ لیے صوفے پر بیٹھی تھی۔

"جلد ہی ہماری چڑیل پرائی ہو جائے گی۔"داور نے مسکرا کر آبی کا سر تھپکا۔لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔

"فکر نہ کرو اتنی آسانی سے میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جانے والی میرے جن بھائی۔"اسنے ہنس کر نم آنکھوں کے ساتھ داور کو دیکھا۔ 

"بس بس اب رونے نہ لگ جانا۔"نور نے آبی سے کہا پھر داور کو دیکھا۔"تم چلو ہمارے ساتھ۔نیچے مٹھائی لے کر جاتے ہیں۔"اسنے داور سے کہا جو منہ بناتا نور اور نازلی کے ساتھ نیچے آیا۔

انہوں نے سبکا منہ میٹھا کروایا۔ کافی دیر تک سب وہیں رہے۔

پھر وہ لوگ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔داور اوپر لیلیٰ کو بلانے آیا۔لیلیٰ نے جاتے جاتے آبی کے کان میں سرگوشی کی۔

"ذرا ریلنگ کے پاس آ کر ایک بار بھائی کو اپنی صورت تو دکھا دیں۔"اسکی بات پر آبی کے گال دہک اٹھے۔

وہ داور کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگی۔

"پھر ملیں گے۔"نیچے پہنچ کر داور نے دلکش انداز میں کہا۔ 

"کبھی نہیں ۔۔"لیلیٰ منہ بنا کر پلٹ کر وہاں سے چلی گئی۔ 

"افف کتنا نخرہ کرتی ہے یہ لڑکی۔"اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

آبی اٹھ کر ریلنگ تک آئی۔جھانک کر نیچے دیکھا تو سب ہال میں کھڑے تھے۔تبھی لیلیٰ کے کہنے پر احد نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا۔اسکے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔آبی کو دیکھتی آنکھوں میں روشنی ہی روشنی تھی۔

آبی کے گال گلابی ہوئے تھے۔ایک محبت بھری نظر اس پر ڈال کر وہ وہاں سے پیچھے ہوگئی۔آنکھوں میں احد کا مسکراتا چہرہ بس گیا تھا۔ 

وہ لوگ چلے گئے تو نازلی ، خان بابا کے ساتھ ہال میں بیٹھ گئی۔وہ انکے ساتھ کسی بک کو ڈسکس کر رہی تھی۔سامنے صوفے پر ہاشم اور ام جان بیٹھے تھے۔ام جان تسبیح پڑھ رہی تھیں۔

"سسر بہو کی آپس میں خوب دوستی ہے۔"ام جان نے مسکرا کر ہاشم سے کہا۔ہاشم ایک دم مسکرانے لگا۔وہ بھی کب سے یہی دیکھ رہا تھا۔خان بابا اب مسکرا کر نازلی کی بات کا جواب دے رہے تھے۔

"واقعی ام جان۔"اسنے ماں کا ہاتھ محبت سے تھاما تو وہ مسکرانے لگیں۔وہ پھر تسبیح پڑھنے لگیں اور ہاشم محبت سے خان بابا اور نازلی کو دیکھنے لگا۔اسکا دل مطمئن تھا کہ اسنے نازلی کو وہ سب کچھ دے دیا تھا جسکی وجہ سے اسکا دل دکھی تھا۔اسے تو ڈبل رشتے مل گئے تھے۔بہت سے محبت کرنے والے اب اسکے آس پاس تھے۔

باہر لان کی طرف آئیں تو شہریار نے ماہ نور کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔جبکہ ماہ نور ہنس رہی تھی۔

"کیوں روکا ہے مجھے۔"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"کچھ لایا ہوں تمہارے لیے۔"شہریار نے دوسرا ہاتھ آگے کیا۔اسکے ہاتھ میں خوبصورت سا گلاب تھا۔ 

"میرے لیے؟"ماہ نور نے خوش گوار حیرت سے پوچھا۔

"ظاہر سی بات ہے محترمہ۔"اسنے مسکرا کر ماہ نور کو دیکھا۔ماہ نور نے گلاب تھام لیا۔ 

"بہت پیارا ہے۔"اس نے محبت سے کہا۔ 

"ہاں ۔۔۔ پر میرے گلاب سے کم۔"اسنے محبت سے ماہ نور کے گال پر ہاتھ رکھا۔ماہ نور بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔افف وہ اتنا دلکش لگ رہا تھا کہ ماہ نور کا دل محبت سے بھر گیا۔اسنے ایک دم چونک کر پلکیں جھکا لیں۔

"اندر چلیں سبکے پاس؟"اسنے مسکرا کر پوچھا۔

"ہاں چلو۔"شہریار نرمی سے کہہ کر اسے لیے اندر کی طرف بڑھنے لگا۔

پھر وہ دونوں بھی باقی سب کے ساتھ محفل میں شامل ہوگئے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

امتل آفندی کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھی تھیں۔کل سے وہ کمرے میں ہی تھیں۔تابین انہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔اسکے دکھ پر ، اپنے کئی سالوں کے ضائع ہونے پر ، وہ کل سے آنسو بہا رہی تھیں۔ 

زندگی کے اتنے سال گزر گئے تھے اور انہوں نے نفرت کے علاوہ نہ کچھ پایا تھا اور نہ کسی کو نفرت کے علاوہ کچھ دیا تھا۔

وہ کسی کو کیا الزام دیتی کہ وہ اپنی ہی جلائی آگ میں جل رہی تھیں۔

وہ سوچوں میں گم بیڈ پر بیٹھی تھیں۔تبھی دروازہ کھلا اور حسن آفندی اندر داخل ہوئے۔انہوں نے لائٹ آن کی۔امتل آفندی نے خاموشی سے انہیں دیکھا۔

وہ آہستہ سے چلتے انکے سامنے آ کر بیٹھے۔ 

"میری بے بسی کا تماشہ دیکھنے آئیں ہیں؟"انہوں نے نم آواز میں کہا۔ 

"نہیں ، میں صرف اتنا کہنے آیا ہوں امتل بیگم کہ تم نے ساری زندگی نفرت کرنے میں گزار دی۔پر کیا حاصل ہوا؟"انہوں نے امتل آفندی کی لال آنکھوں میں دیکھا۔

"نفرت نے کبھی کسی کو کچھ نہیں دیا۔اتنی نفرت کر لی۔اب محبت کر کے بھی دیکھ لو شاید سکون مل جائے۔"وہ کہہ کر کچھ پل خاموش ہوئے۔

"میں کل نازلی کی طرف جا رہا ہوں۔اسے اپنے ساتھ لے کر آؤں گا تا کہ اپنی بیٹی کی دھوم دھام سے شادی کر سکوں۔اسے اپنے ہاتھوں سے رخصت کروں۔"وہ مدھم آواز میں بولے۔ 

"اور تابین کا کیا ہوگا؟"امتل آفندی نے نم آنکھوں میں پوچھا۔

"وہ پاک ذات ہے ناں۔"انہوں نے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔"اللہ تابین کے لیے جو کریں گے وہ بہترین ہوگا۔اللہ پر بھروسہ رکھو۔"انہوں نے نرمی سے سمجھایا۔ 

"ہاں میری تابین کے ساتھ بھی سب اچھا ہوگا۔"امتل آفندی نے امید کے ساتھ کہا۔ 

"میں کل شام کو گاؤں جاؤنگا۔کیا تم جانا پسند کروگی؟ نازلی کی ماں بن کر؟"وہ آہستہ سے بول کر امتل آفندی کو دیکھنے لگی پر وہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ 

کافی دیر بعد بھی جب نہ بولیں تو وہ اٹھ دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ 

"حسن ۔۔"امتل آفندی نے پکارا۔وہ رکے پھر پلٹ کر دیکھا۔ 

"میں جاؤنگی آپکے ساتھ۔"وہ مدھم آواز میں بولیں۔حسن آفندی نے کچھ پل انہیں دیکھا پھر کمرے سے نکل گئے۔ 

تابین کی باتوں نے انکے دل میں گھر کر لیا تھا۔وہ کل سے سوچ رہی تھیں اور تابین کی باتیں انہیں ٹھیک لگ رہی تھیں۔وہ شاید نازلی سے اتنی محبت نہ کر سکیں۔پر اب وہ اسکا دل نہیں دکھائیں گیں۔اس سے نفرت نہیں کریں گیں۔

ہاشم دیر سے سو کر اٹھا تھا۔نیچے آ کر اسنے ناشتہ کیا۔پھر شہریار کے ساتھ ہال میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔وہ اسے بتا رہا تھا کہ زمینوں کے کاغذ بابا صاحب کو بھیج دیے گئے تھے۔

خان بابا نے ایسا کر کے دشمنی کے اس قصے کو ہی ختم کر ڈالا تھا۔پر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اب دوسری طرف بھی ان زمینوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔بابا صاحب اپنے دونوں بیٹوں کو کھو چکے تھے۔ایک موت کی نیند سو گیا تھا اور دوسرے کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں تھا۔

ہاشم نے شہریار کی باتوں پر لمبی سانس بھری۔آخر سب کچھ ٹھیک ہو ہی گیا تھا۔

اسنے باتوں کے دوران کئی بار ارد گرد نظر دوڑائی پر نازلی اسے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔اسکے ساتھ نور اور آبی بھی غائب تھیں۔

اس نے رات سے نازلی کو نہیں دیکھا تھا۔رات وہ اسے ٹیبلٹز دے کر آبی کے کمرے میں چلی گئی تھی۔پھر وہ اسکا انتظار کرتے سو گیا تھا اور وہ لوٹی ہی نہیں تھی۔

کچھ دیر بعد شہریار کسی کام کے لیے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ہاشم بھی اٹھ کھڑا ہوا۔وہ آگے بڑھا تبھی اسنے دیکھا داور گنگناتا ہوا اپنے خیالوں میں آگے بڑھ رہا تھا۔ 

"داور۔۔"اسکی پکار پر وہ چونک کر اسکی طرف پلٹا۔

"جی لالہ۔"وہ اسکی طرف بڑھ کر اسکے سامنے کھڑا ہوا۔

"یہ لڑکیاں کہاں ہیں؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"سیدھا پوچھیں ناں لالہ کہ نازلی بھابی کہاں ہیں۔"داور نے شرارت سے کہا۔ 

"تو بتاؤ کہاں ہے؟"اسنے بنا کسی جھجھک کے کہا۔داور تھوڑا سا اسکے قریب ہوا۔ 

"تینوں کوئی کھچڑی پکا رہی ہیں۔وہ لوگ کب سے آبی کے کمرے میں بند ہیں اور مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔"داور نے راز دارانہ انداز میں بتایا۔ 

"کیسی گڑبڑ؟"ہاشم نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔ 

"کچھ تو ہوگی تبھی کمرہ بند ہیں۔"اسنے پر سوچ انداز میں کہا۔ 

"اچھا ۔۔۔"ہاشم شانے اچکا کر بولا پھر مشکوک نظروں سے داور کو دیکھا۔ 

"ویسے آجکل تو مجھے تمہاری حرکتیں گڑبڑ لگ رہی ہیں۔"اسنے بغور داور کا چہرہ دیکھا۔داور ہڑبڑا گیا۔ 

"ہائے اللہ ۔۔۔ لالہ میں نے ایسی کون سی حرکتیں کر دیں جو آپ ایسا کہہ رہے ہیں؟"اسنے منہ بسور کر پوچھا۔  

"یہ جو تم ہر وقت گانے گنگناتے رهتے ہو اور ۔۔۔"ہاشم کہہ کر رکا۔ 

"اور ؟؟"داور نے سانس روک کر جلدی سے پوچھا۔ 

"تمہاری آنکھوں کا راز پا لیا ہے میں نے داور خان۔"ہاشم مسکرا کر تھوڑا اسکے قریب جھکا۔"محبت کے حصار میں جکڑے گئے ہو ناں؟"یقین سے کہا گیا۔اسکی بات پر داور کا منہ کھل گیا۔ 

"لالہ آپ تو لو گرو نکلے۔آپکو معلوم ہوگیا؟"وہ حیرت زدہ انداز میں اسے دیکھنے لگا۔اسکی بات پر ہاشم نے قہقہہ لگایا۔

"محبت اپنا وجود ظاہر کر ہی دیتی ہے۔"اسنے مدھم سا مسکرا کر جواب دیا۔"محبت کرو لالہ کی جان پر اسے نبھانے کا فن بھی سیکھنا ورنہ محبت ، محبت نہیں رہے گی۔"اسنے نرمی سے کہا۔داور نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔

ہاشم آگے بڑھتے ہوئے رکا پھر بولا۔ 

"لیلیٰ کو زیادہ پریشان نہ کیا کرو۔لڑکیوں کو محبت و نرمی سے ہینڈل کرتے ہیں۔"

"وہ بہت نخرے کرتی ہے۔"داور نے منہ بنا کر کہا۔

"محبت کی ہے تو نخرے اٹھانے بھی سیکھو مسٹر۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکا کندھا تھپتھپایا۔ 

"وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتی لالہ۔"اسکا چہرہ اتر چکا تھا۔ 

"محبت کرنے لگے گی تو پھر صرف تم سے ہی باتیں کرے گی۔یاد رکھنا۔"ہاشم نے اسکے بال بگاڑ کر نرمی سے کہا تو داور ایک دم ہنسا۔

"محبت تو وہ مجھ سے جلد ہی کرنے لگے گی۔"داور گردن اکڑا کر بولا۔  

"اتنا یقین ہے خود پر؟"ہاشم نے مسکراہٹ دبائی۔ 

"آپکا بھائی جو ہوں۔"وہ آنکھ مار کر ہنسا تو ہاشم نے مسکرا کر سر جھٹکا۔پھر داور ، خان بابا کے بلاوے پر انکے کمرے کی طرف بھاگا اور ہاشم وہاں سے آبی کے کمرے کی طرف بڑھا کہ دیکھے تو آخر یہ لوگ کر کیا رہی ہیں۔ 

ابھی وہ کمرے سے کچھ فاصلے پر ہی تھا جب کمرے کا دروازہ کھلا۔آبی اور نور آگے بڑھیں پر ہاشم کو سامنے دیکھ کر ایک دم 

کمرے کی دہلیز پر ہی رک گئیں۔ 

پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کیے گئے۔ 

ہاشم نے مشکوک نظروں سے دونوں کو دیکھا۔ 

"یہ ہو کیا رہا ہے؟ نازلی کہاں ہے؟"اسنے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"اسے بھیج دیا۔"نور نے سنجیدگی سے کہا۔ 

"کہاں بھیج دیا؟"ہاشم کا دل دھڑکا۔

"اوپر کمرے میں۔"آبی نے مسکراہٹ دبا کر بتایا۔ہاشم نے لمبی سانس کھینچی۔ 

"یہ تم دونوں اتنا عجیب بی ہیو کیوں کر رہی ہو؟"اسنے جاتے ہوئے رک کر پوچھا۔ 

"وہ نازلی ۔۔۔"نور ڈرامائی انداز میں رکی۔ 

"کیا ہوا ہے نازلی کو؟ وہ ٹھیک ہے؟"ہاشم ایک دم سنجیدہ ہوا۔ 

"ٹھیک نہیں ہے۔آپ جا کر دیکھیں۔"نور نے سر جھکا لیا۔اگلے پل ہاشم تیزی سے سیڑھیوں سے اوپر جا رہا تھا۔

نور اور آبی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسیں۔ 

"کہیں ہمارے جھوٹ پر لالہ غصہ نہ ہو جائیں۔"آبی نے نور سے کہا۔ 

"ارے نہیں ہوتے غصہ ، ابھی انہیں جو سرپرائز ملے گا اسکے بعد انکا دل گارڈن گارڈن ہو جائے گا۔"نور نے مزے سے جواب دیا۔ 

پھر وہ سر جوڑے باتیں کرتیں مسکراتی ہوئیں ہال میں آ کر صوفے پر بیٹھیں۔

نازلی کمرے میں آئی پر آگے نہ بڑھی اور دروازے والے دیوار کے ساتھ ایک طرف ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔ 

کچھ دیر پہلے ہی آبی اور نور نے اسے اوپر بھیجا تھا۔نیچے کمرے میں ان دونوں نے اسے اچھے سے تیار کیا تھا۔

ہاں جی ۔۔۔آج اسنے وہی وائٹ ڈریس پہنا تھا جو ہاشم نے اسے گفٹ کیا تھا۔

آبی نے اسکا لائٹ سا میک اپ کیا۔نور نے اسکے بالوں پر برش کر کے انہیں کھلا چھوڑا۔ 

اسے وائٹ ننھے سے ایئر رنگز پہنائے گئے۔بائیں ہاتھ میں سفید  چوڑیاں بھی پہنائیں۔

نازلی تو نروس سی بیٹھی تھی۔وہ اس تیاری سے ڈر گئی تھی۔پہلے بھی تو ایک بار وہ تیار ہوئی تھی پھر کیا ہوا تھا؟ وہ تمام لمحے سوچ کر اسکا دل ڈر رہا تھا۔اسے لگ رہا تھا اسکی زندگی میں خوشی کے ساتھ دکھ بھی آتا ہے۔آج پھر خوشی کے لمحے آنے والے تھے اور وہ انکے ساتھ آتے دکھ بھرے لمحوں سے ڈر رہی تھی کہ کہیں پہلے کی طرح پھر اسکی خوشی غم میں نہ بدل جائے۔

وہ آبی اور نور کے ساتھ بھی انہیں سوچوں میں گم رہی تھی۔نور اور آبی نے اسے تیار کر کے اوپر جانے کا کہا۔انکے اصرار پر وہ اوپر آگئی تھی اور کچھ دیر میں وہ ہاشم کو بھی بھیجنے والی تھیں۔ 

اس سوچ پر نازلی کا دل دھڑک رہا تھا۔وہ نروس سی وہیں دیوار کے ساتھ کھڑی سوچوں میں گم ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔جب ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور ہاشم اندر داخل ہوا۔وہ بنا ارد گرد دیکھے آگے بڑھا۔وہ انجان تھا کہ اسکے پیچھے ہی نازلی 

کھڑی ہے۔نور کی بات پر اسکے حواس منتشر ہوگئے تھے۔اسلیے وہ اپنے پیچھے نازلی کی موجودگی محسوس نہ کر سکا۔نازلی نے دل پر ہاتھ رکھ کر اسکی پشت کو دیکھا کہ جانے ہاشم کو کیا ہوگیا ہے۔

"نازلی ۔۔"ہاشم نے اسے سامنے نہ پا کر پریشانی سے پکارا۔

"میں یہاں ہوں ہاشم۔"نازلی نے مدھم آواز میں کہا۔ہاشم ایک جھٹکے سے اسکی طرف پلٹا تھا۔ 

"کیا ہوا ہے تمہیں نور نے کہا تم ٹھیک نہیں ہو؟"وہ پلٹ کر تیزی سے بولا پر جیسے ہی نازلی کے سراپے پر نظر پڑی تو وہ تھم سا گیا۔سیاہ آنکھیں وہاں سے لوٹ کر آنا بھول گئیں۔ 

وہ جو دیکھ رہا تھا اس پر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔وہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔اسکی محبت کی تصویر بن کر۔خاموش نظروں سے محبت کا اظہار کر رہی تھی۔آج تو اسکا سارا وجود اسکی محبت کی گواہی دے رہا تھا۔ 

"میرا عقیدہ ، میری عقیدت۔"

"میری چاہت ، میری محبت۔"

"جو لفظ دیکھو تو ہزار ہیں۔"

"اور اگر سمیٹ دوں تو صرف تم۔"

اسکے دیکھنے پر نازلی کے گال دہک اٹھے۔وہ مزید ان سیاہ آنکھوں والے شہزادے کو نہ دیکھ سکی اور نظریں جھکا گئی۔مٹھیاں بھینچ کر اسنے ہاتھوں کی لغزش پر قابو پانا چاہا۔ 

"نازلی ۔۔"ہاشم کی بھاری آواز پر نازلی کا دل رفتار پکڑ گیا۔

"آج تو نظریں نہ چراؤ ، ایک عرصے بعد یہ وقت آیا ہے یار۔"وہ محبت سے پر لہجے میں کہہ رہا تھا۔

نازلی نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ہاشم نے خاموشی سے اسے دیکھتے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔ 

نازلی آہستہ سے قدم اٹھاتی اسکی طرف بڑھی پھر دایاں ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ دیا۔ہاشم نے مضبوطی سے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں قید کیا تھا۔ 

"میرے عشق کی انتہا ہو تم نازلی ہاشم خان۔"اسنے محبت سے ان نیلی آنکھوں میں دیکھا تھا۔جو اسکی بات پر روشنی سے بھر گئی تھیں۔ 

نازلی کی زبان اسکا ساتھ ہی نہیں دے رہی تھی کہ وہ کچھ کہہ پاتی۔وہ بس اسے دیکھے جا رہی تھی۔ 

"تم نے میرے دل کو خوشی سے بھر دیا ہے میری محبت کا جواب محبت سے دے کر۔میں اس لمحے کو کبھی اپنے دل ، اپنی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا نہیں پاؤنگا۔یہ مرتے دم تک میرے ساتھ رہے گا۔یہ لمحے میرے لیے آب حیات ہیں۔ان لمحوں  میں ہماری محبت ہے۔ہماری محبت کا پہلا موسم ، پہلا احساس جو ہم دونوں محسوس کر رہے ہیں۔"وہ مدھم آواز میں کہہ رہا تھا۔وہ خاموش ہوا تو کچھ پل انکے بیچ خاموشی ٹھہر گئی پر اس خاموشی میں بھی دو دل گفتگو کر رہے تھے۔اسے گڑیا کی طرح کھڑے دیکھ کر ہاشم کی آنکھیں مسکرائی تھیں۔ 

"تم بس خاموش اظہار کرو گی؟ کچھ کہو گی نہیں مسز؟" اسنے ہاتھ بڑھا کر نازلی کے سیاہ بالوں کو محسوس کیا۔ 

"مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کہوں؟"اسنے معصومیت سے کہہ کر ہاشم کو دیکھا۔اب بھلا اس معصومیت پر کون نہ قربان ہوجاتا۔۔۔۔ہاشم نے مسکرا کر اسکا ہاتھ لبوں سے لگایا۔

"اظہار عشق کریں محترمہ۔"اسنے شوخی سے کہا۔

"یہ کیا ہے؟"نازلی نے بائیں ہاتھ سے اپنا دوپٹہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔تا کہ وہ دیکھے کہ یہ لباس پہن کر اسنے اپنی محبت کا اظہار ہی تو کیا تھا۔

"دوپٹہ۔"ہاشم نے شرارت سے کہا۔نازلی نے گھور کر اسے دیکھا۔

"آپ چاہتے ہیں میں یہاں سے بھاگ جاؤں؟"اسنے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ 

"بھاگنے کون دے گا؟ اب تو میں قید کر کے رکھونگا گا تمہیں۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکے بال کان کے پیچھے کیے۔ 

"اگر چلی گئی تو؟"نازلی سے شرارت سے اسے دیکھا۔اسے بابا جان نے فون کر کے بتایا تھا کہ شام کو وہ اسے لینے آئیں گے۔وہ یہاں آ کر خان بابا سے بھی بات کرنے والے تھے۔

"میں ایسا بالکل نہیں ہونے دونگا۔"اب کے اسنے نازلی کے کان کی لو میں جنبش کرتے ایئر رنگ کو چھوا۔نظریں بھی اس پر جمی تھیں۔

"دیکھیں گے۔"نازلی نے اسکی توجہ ایئر رنگ کی جانب مبذول دیکھی تو اسے اچھا نہ لگا۔وہ ہاشم سے اپنا ہاتھ چھڑا کر ایئر رنگز نکالنے لگی۔

"ارے یہ کیوں اتار رہی ہو۔اتنے پیارے تو ہیں۔"ہاشم نے عجلت سے کہا۔پر نازلی نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ایئر رنگز اتار کر آگے بڑھ کے دراز میں ڈال دیے۔ 

"مجھے نہیں پسند۔"وہ منہ پھلا کر بولی۔اسے اچھا نہ لگا کہ ہاشم کی توجہ کا مرکز کوئی اور بنے۔چاہے پھر وہ کوئی بے جان چیز ہی کیوں نہ ہو۔

ہاشم نے کچھ پل حیرت سے اسے دیکھا پھر ساری بات سمجھ کر قہقہہ لگا کر ہنسا۔ 

"مسز ہاشم ایئر رنگ سے جیلس ہو رہی ہیں؟"وہ اسکے سامنے آیا۔ 

"نہیں جی۔"وہ سر جھکا کر بولی۔

"ہاں جی۔"ہاشم نے سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دیکھا۔

"ہاں ٹھیک ہے۔ایسا ہی ہے۔"نازلی جھنجھلا کر کہتی ہاتھ میں پہنی چوڑیوں سے کھیلنے لگی۔

"اب اس حساب سے تو مجھے تمہاری چوڑیوں کو بھی اتار دینا چاہیے۔"وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔ 

"کیوں؟"نازلی نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"تمہاری توجہ جو ان پر ہے مسز۔"اسنے ابرو اٹھا کر کہا۔اسکی بات پر نازلی مسکرانے لگی۔

"آپکو پسند نہیں تو اتار دیتی ہوں۔"اسنے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا جب ہاشم نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

"انہوں ۔۔۔"اسنے نفی میں سر ہلایا۔"تم سے جڑی ہر چیز مجھے پسند ہے پر تم سے زیادہ نہیں ۔۔۔ میری توجہ تم سے کبھی نہیں ہٹ سکتی۔میرے دل و دماغ میں ہر وقت تمہارا خیال رہتا ہے۔میری زندگی ہو تم نازلی، تم میری آتی جاتی سانسوں کے ساتھ رہتی ہو۔پھر تم پر سے ہاشم خان کا دھیان کیسے ہٹ سکتا ہے؟"وہ مدھم آواز میں کہتا اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا کر مسکرایا۔ 

"آپ اتنے اچھے کیوں ہیں؟"وہ آہستہ سے بولی۔ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔جہاں نمی پھیل رہی تھی۔

"کیونکہ میں نازلی کا ہاشم ہوں۔"وہ اسکی پیشانی پر بوسہ دے کر بولا۔ 

"آپکی محبت نے مجھے نئی زندگی دی ہے ہاشم۔میں کیسے آپکی محبت کا جواب دے پاؤنگی۔"اسکی آنکھ سے آنسو بہا تھا جسے ہاشم نے نرمی سے پونچھا۔ 

"آج مجھے میری محبت کا جواب مل تو گیا ہے میری جان۔" ہاشم نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیا۔

"اب ان آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں میں۔اب صرف خوشیوں کی بات ہوگی۔مسکراہٹیں ان لبوں پر بہار دکھائیں گی۔آنکھوں سے روشنی چھلکے گی۔اب میں تمہیں کبھی اداس نہ دیکھوں۔اوکے۔"وہ آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا اور نازلی کی آنکھوں سے آنسو جیسے خشک ہوتے جا رہے تھے۔ 

"آپ ساتھ ہونگے تو میں ہمیشہ خوش رہونگی۔"اسنے محبت سے ہاشم کو دیکھا۔ 

"مائی ڈئیر وائف میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔"اسکی بات پر نازلی مسکرائی تھی۔

"تمہیں خوش رکھنے کے لیے ، تمہارا خیال رکھنے کے لیے ، تم سے بے انتہا محبت کرنے کے لیے اور۔۔۔"وہ رکا۔

"اور؟"نازلی نے عجلت سے پوچھا۔

"اور تمہیں تنگ کرنے کے لیے۔"اسنے شرارت سے مسکرا کر نازلی کا گال نرمی سے کھینچا۔ 

"تنگ کریں گے آپ مجھے؟"اسنے مصنوعی خفگی سے پوچھا۔

"جی بالکل۔"ہاشم نے سر کو خم دیا۔

"کیسے؟"نازلی نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"ایسے۔۔"ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر نازلی کے اچھے سے سیٹ سیاہ بال بگاڑ دیے تھے۔پھر پیچھے ہو کر اسکے منتشر بالوں کو دیکھ کر دل کھول کر ہنسنے لگا جبکہ نازلی اسے حیرت و غصے سے گھورنے لگی تھی۔

"یہ غلط ہے۔"اسنے تپ کر بالوں کو ٹھیک کرتے اپنے سامنے کھڑے ہنستے ہوئے اس وجیہہ شخص کو دیکھا۔ 

"میں نے کہا تھا ناں کہ میں بدلہ لونگا۔"وہ مزے سے بولا۔ 

"ہونہہ۔۔۔اتنے اچھی سے نور نے بال برش کیے تھے اور آپ نے کیا حال کر دیا۔"وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتی منہ بگاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ 

"ایسے حال میں بھی واللہ قیامت لگتی ہو۔"ہاشم نے ہنسی دبا کر کہا۔ 

"جی جی آپ تو اب تعریف ہی کریں گے۔"وہ مصنوعی غصے سے بولی۔یہ کھٹی میٹھی سی لڑائی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ 

"لاؤ میں ٹھیک کر دیتا ہوں۔"وہ آگے بڑھا۔ 

"برش سے؟"نازلی نے پوچھا۔ 

"ہاتھوں سے یار۔"وہ ہاتھ بڑھا کر اسکے بال سلجھانے لگا۔سیاہ آنکھیں نازلی کے چہرے کو چھو رہی تھیں۔وہ مگن سا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"یہ اچھا کام آپ نے اپنے ذمے لگایا ہے۔"نازلی مدھم آواز میں کہہ کر مسکرائی۔ 

"نشیلی آنکھیں ، دھیما لہجہ اور حسن تو قیامت۔"

"فنا ہو جائیں گے واللہ ہم تجھے دیکھتے دیکھتے۔" 

ہاشم نے گھمبیر آواز میں شعر پڑھا تو نازلی مسکرانے لگی۔ 

"محبت نے شاعر بنا دیا؟"اسنے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

"شاعر ، دیوانہ ، غلام ، پاگل کیا کچھ نہیں بنایا تمہاری اس محبت نے مجھے۔"وہ اسکے بال ٹھیک کر کے پیچھے ہوا۔ 

"اور ہیرو بھی۔"نازلی شرارت سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"ولن بھی؟"ہاشم نے ابرو اٹھا کر پوچھا

"ہاں ۔۔شروع میں میری نظروں میں آپ ولن بھی تھے۔"وہ شانے اچکا کر بولی۔ 

"اور اب ؟"

"اب بھی ہیں۔"نازلی کی آنکھوں میں شوخی چمکی۔ 

"نہ کرو مسز کیوں اپنے بیچارے شوہر پر الزام لگا رہی ہو۔اتنا اچھا تو ہوں میں۔"اسنے افسوس سے کہہ کر معصوم سی صورت بنائی۔ 

"اچھا سنو۔"وہ پراسرار انداز میں بولا 

"جی سنائیں۔"وہ مسکرا کر بولی۔آج بات الٹ ہوئی تھی۔وہ سنا رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔ 

"ذرا آج محبت کے اظہار کی خوشی میں مبارک تو دو مجھے۔" ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر بانہیں پھیلائی تھیں۔ 

نازلی کے گالوں پر شفق کی لالی پھیلنے لگی۔ 

"جی نہیں۔۔۔"وہ سائیڈ سے ہو کر باہر کی طرف بھاگی۔ 

"یہ فیئر نہیں ہے ، نہ اظہار کیا نہ مبارک دے رہی ہو۔جاؤ پھر اب میں نے بھی نہیں بولنا تم سے۔"وہ ناراض سا سینے پر بازو باندھ کر دروازے کے پاس کھڑی اس کانچ سی لڑکی کو دیکھنے لگا۔نازلی کو دیکھتیں سیاہ آنکھوں میں خفگی تھی۔

اسکی بات پر نازلی رکی۔پھر پلٹ کر اسکی طرف بڑھی۔اسکے سامنے آ کر اپنے دونوں ہاتھ اسکے سامنے کیے۔اشارہ تھا کہ وہ اپنے ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھے۔ہاشم نے کچھ پل اسکے پھیلے ہاتھوں کو دیکھا پھر اپنے ہاتھ اسکے نازک ہاتھوں پر رکھ دیے۔جنہیں تھام کر وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔ 

"آپ میرے عشق کی انتہا ہیں ہاشم خان۔"ہاشم کی کہی بات ہی اسکے لبوں سے ادا ہوئی تھی۔اسنے بڑے پیارے انداز میں اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ہاشم کا دل پاگل ہونے لگا۔ 

نازلی نے کچھ پل اسے دیکھا پھر ہاتھ پیچھے کرتی پلٹ کر کمرے سے نکلنے لگی۔ 

"بت بن کر نہ رہیں مسٹر خان ، نیچے آئیں خان بابا آ چکے ہونگے۔"دروازے سے پلٹ کر کہتی وہ اگلے پل مسکرا کر چلی گئی اور ہاشم ۔۔۔ وہ کچھ پل بت بنا کھڑا رہا پھر اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھرنے لگی۔سیاہ آنکھوں میں محبت و خوشی کی چمک تھی۔ 

"اس عشق میں فنا ہو جاؤ گے ہاشم خان۔"وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر ہنسا۔آج اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔اسے اسکی محبت کا جواب مل گیا تھا۔وہ شہزادی اس کے عشق میں ڈوب گئی تھی اور وہ تو تھا ہی اسکا دیوانہ۔۔۔۔وہ ہاشم خان کی رگ رگ میں لہو بن کر دوڑتی تھی ۔۔۔سوچوں سے نکل کر وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر کی طرف بڑھا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

شام کا وقت تھا۔نازلی اور آبی بیٹھی باتیں کر رہی تھیں جب نازلی کا موبائل رنگ کرنے لگا۔

نازلی نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو لیلیٰ کا نام اسکرین پر چمک رہا تھا۔اسنے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔سلام کے بعد لیلیٰ بولی۔"آبش آپی آپکے ساتھ ہیں؟"

"جی جی میرے ساتھ ہی بیٹھی ہے محترمہ۔"نازلی نے مسکرا کر کہا۔جبکہ لیلیٰ دوسری طرف کھسر پھسر کرنے لگی۔نازلی سمجھ گئی تھی کہ اسکے ساتھ کون ہوگا۔ 

"لگتا ہے آبی سے بات کرنے کی کسی کو بہت بے چینی ہے۔"نازلی کے لہجے میں شرارت تھی۔اسکی بات پر آبی نے اسے حیرت سے دیکھا۔

"آپی بات کروائیں ناں ان سے۔"لیلیٰ عجلت سے بولی تو نازلی نے ہنس کر آبی کو دیکھا۔

"لو بات کرو اپنی اس بے صبری نند سے۔"اسنے آبی کو موبائل تھمایا۔تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور اجازت ملنے پر چھوٹی پٹھانی نے دروازہ کھولا۔ 

"نازلی باجی آپکو خان بابا بلا رہے ہیں۔"اسکے کہنے پر نازلی  اٹھ اسکے ساتھ باہر آئی۔

ہال میں خان بابا کے ساتھ ہاشم ، داور اور ام جان بیٹھے تھے۔وہ بھی انکے ساتھ بیٹھ گئی۔وہ اس سے حسن آفندی کے آنے کی بات کرنے لگے کہ آدھے گھنٹے تک وہ لوگ حویلی آنے والے ہیں۔ 

"اسلام و علیکم لیلیٰ۔"آبی نے خوش گوار انداز میں کہا۔ 

"وعلیکم السلام۔"دوسری طرف سے لیلیٰ کی جگہ ایک بھاری مردانہ آواز ابھری۔اس آواز پر آبی تھم سی گئی۔

"لیلیٰ نہیں لیلیٰ کا بھائی ہوں محترمہ۔"مسکراتی آواز میں کہا گیا۔اب آبی ، نازلی کی بات کا مطلب سمجھی تھی۔ 

"جی۔"وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوئی۔ 

"کیسی ہیں؟"احد نے محبت سے پوچھا۔ 

"میں ٹھیک ۔۔"وہ کہہ کر رکی۔"اور آپ؟"اسکا دل زور زور سے  دھڑک رہا تھا۔ 

"میں بہت پیارا۔"وہ شرارت سے ہنسا۔آبی کے لب مسکرا اٹھے۔ 

"آپ نے کہا نہیں۔"احد ایک دم بولا  

"کیا؟"آبی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

"یہی کہ ہاں میں بہت پیارا ہوں۔"لہجے میں شوخی تھی۔ 

"میں ایسا کیوں کہوں؟"آبی نے مسکراہٹ دبائی۔ 

"کیا میں پیارا نہیں؟"احد کو صدمہ لگا۔ 

"نہیں ۔۔"آبی کی شرارتی رگ پھڑکی تھی۔ 

"یہ ظلم ہے۔"احد نے احتجاج کیا۔ 

"پر میں ظالم تو نہیں۔"آبی نے مسکرا کر کہا۔ 

"کبھی کبھی آپ سے معصوم بھی ظلم کر لیتے ہیں آبی صاحبہ۔"وہ دکھی ہونے کی کوشش کر رہا تھا پر آواز سے چھلکتی مسکراہٹ اسے ناکام کر رہی تھی۔ 

"احد ۔۔"آبی نے پکارا۔ 

"دل لے گئیں آپ۔"اسنے دل تھام کر کہا۔آبی ہنسنے لگی۔ 

"کیسے؟"اسنے جان بوجھ کر پوچھا۔ 

"میرا نام لے کر۔"احد نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"اب نہیں لونگی۔"آبی نے آہستہ سے کہا۔ 

"مجھے اچھا لگا ہے مس۔لیتی رہا کریں۔"اسکے لہجے میں محبت اتری تھی۔آبی مدھم سی مسکرائی تھی۔ 

"کاش میں اس وقت آپکی مسکراتی صورت دیکھ سکتا۔"نرم آواز میں کہا گیا۔ 

اسکی بات پر آبی کے گال گلابی ہوئے۔اسنے ہاتھ بڑھا کر تپتے گال کو چھوا تھا۔وہ کچھ کہہ نہیں پائی تھی۔ 

"بس اب خاموش گفتگو کرنی ہے؟"احد نے ہنس کر پوچھا۔ 

"میں کیا کہوں؟"آبی مدھم آواز میں بولی۔ 

"دل کی بات کہیں۔"بھاری آواز میں کہا گیا۔

"دل کی بات آپکے سامنے ہی تو ہے۔تبھی تو آج ایک بندھن میں بندھے ہیں ناں۔"اسکے لہجے میں نرمی تھی۔ 

احد کچھ پل خاموش رہا پھر بولا۔"مجھے بہت خوشی ہے آبی کہ آپ میری زندگی کا حصہ بنی ہیں۔آپ کے آنے سے میری زندگی مکمل ہوگئی ہے۔میں آپکو ہمیشہ خوش رکھونگا۔آپکا مان کبھی نہیں توڑو نگا۔ ہمیشہ آپ کی عزت کرونگا،  آپ سے محبت کرونگا۔"وہ بولتا جا رہا تھا اور آبی مسکرا کر سن رہی تھی۔

آنکھوں میں ستارے ٹمٹما رہے تھے۔احد کا اسے آپ کہنا اسے بہت اچھا لگتا تھا۔وہ اسے بہت پیار ، بہت نرمی سے آپ کہہ کر بلاتا تھا۔۔۔ آبی تو ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکی محبت میں جکڑتی چلی جا رہی تھی۔ 

"میرے وجود میں سانسوں کی آگاہی کے لیے۔"

"تمہارا مجھ میں دھڑکنا بہت ضروری ہے۔"

ماہ نور مگن سی آگے بڑھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے لگی جب اندر سے باہر نکلتے شہریار سے ٹکڑا گئی۔ 

"ہائے ربا۔"اسکا سر شہریار کے سینے سے ٹکرایا تھا۔وہ چکرا سی گئی۔ 

"دیکھ کر چلا کریں اسٹون مین۔"وہ جھنجھلا کر بولی۔شہریار نے اسکا بازو تھاما۔

"مس نازک آپکی بھی آنکھیں ہیں آپ بھی ذرا انہیں استعمال میں لائیں۔"وہ بھی اسی کے انداز میں بولا 

"میری آنکھیں دروازے کے پار دیکھنے کی جادوئی طاقت نہیں رکھتیں۔"اسنے منہ بنا کر جواب دیا۔ 

"تو میں کون سا جادو کرنے والا بوڑھا بابا ہوں جو جان لیتا کہ تم دروازے کے اس پار سے اندر آنے لگی ہو۔"وہ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ 

"افف کتنی تیز زبان چلتی ہے آپکی۔"ماہ نور نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"تم سے کم ہی۔"شہریار نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا

"جی نہیں ۔۔"ماہ نور نے ناک چڑھائی۔ 

"پہلے ہی چھوٹی سی ناک ہے جب چڑھا لیتی ہو تو نظر ہی نہیں آتی۔"اب کے شرارت سے کہا گیا۔ 

اسکی بات پر ماہ نور نے تپ کر اسے دیکھا۔ 

"آپ نے مجھے بنا ناک والی کہا۔"وہ غصے میں آگئی۔ 

"میں نے ایسا بالکل نہیں کہا۔تم خود ہی ایسا کہہ رہی ہو تو اس میں ، میں کیا کر سکتا ہوں۔"شہریار نے شانے اچکائے۔ 

"میں نے آپکی بات دوہرائی ہے۔"

"پر میں نے تمہیں بنا ناک والی تو نہیں کہا چھوٹی ناک والی کہا ہے۔"شہریار نے ہنسی ضبط کی۔ 

"مطلب تو ایک ہی ہے ناں۔"پھر سے ناک چڑھائی گئی۔

شہریار اسے دیکھ کر ہنسنے لگا۔

"ویسے ماہ ۔۔"ایک دم محبت سے پکارا گیا۔ 

"جی ۔۔"وہ دل و جان سے اس پیارے انداز پر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔ 

"تم بنا ناک کے بھی بری نہیں لگو گی مجھے ، آخر محبت کی ہے میں نے تم سے ، تم جیسی بھی ہوگی مجھے اچھی ہی لگو گی۔"وہ نرمی سے اسے دیکھ کر مسکرایا۔ 

"آپ جن ہیں شہریار ۔۔۔ آپ بدل نہیں سکتے۔"ماہ نور نے اسکے سینے پر پنچ مارا۔شہریار نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

"میں جن اور تم میری چڑیل۔"لہجے میں شوخی تھی۔وہ مسکرا رہا تھا۔ماہ نور اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ 

"آپ بدلیں نہ بدلیں۔۔۔۔آپ جن ہوں یا بھوت پر میں آپ سے ہمیشہ محبت کرتی رہوں گی۔۔۔"اسنے پہلے شرارت سے کہا پھر آخر میں محبت سے کہہ کر سر جھکا گئی۔ 

"میں بھی تم سے ہمیشہ محبت کرونگا۔"اسنے نرمی سے ماہ نور کا چہرہ اوپر اٹھایا۔ماہ نور مسکرانے لگی۔ 

"پھر چاہے تمہاری ناک ہو یا نہ ہو یا پھر تم بوڑھی اماں بن جاؤ۔"وہ ہنسا تھا۔ 

اسکی بات پر ماہ نور کا منہ پھر سے بن گیا۔

"ہونہہ ۔۔۔" اسنے سر جھٹکا۔"ذرا جو اس آدمی کو رومینس کا آر بھی آتا ہو۔"وہ خود کلامی کرنے لگی۔جو شہریار نے سن لی اور قہقہہ لگا کر ہنسا۔

ماہ نور کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا۔وہ اسے گھوریوں سے نوازنے لگی۔ 

"رومینس کے آر کا تو معلوم ہے مجھے یار۔"اسنے مذاق میں کہا پھر ایک دم جھک کر اسکے گال پر لب رکھے۔

ماہ نور کی روح فنا ہونے لگی۔وہ جیسے بیہوش ہونے کو تھی۔ 

"آئی لو یو۔"اب کے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا گیا۔ماہ نور کی بولتی بند ہو چکی تھی۔چہرہ لال ٹماٹر ۔۔۔ وہ شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ 

"چلتا ہوں خان بابا نے بلایا ہے۔"ہنس کر کہتا اسکا گال تھپک کر وہ سائیڈ سے ہو کر باہر نکل گیا اور ماہ نور نے باہر آتے دل پر ہاتھ رکھا۔ 

"توبہ توبہ ۔۔۔"وہ لال گالوں پر ہاتھ رکھ کر جلدی سے بیڈ کی طرف بڑھی۔بیڈ پر بیٹھ کر کتنے پل لرزتی رہی تھی۔ 

"میری ہی اس زبان کو آرام نہیں لگتا۔ماہ نور تمہارا دماغ خراب ہے۔اللہ تمہیں پوچھے۔"دھڑکتے دل کو قابو کرتی وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا گلاس اٹھا کر پانی پینے لگی۔

شہریار کے قریب ہونے سے وہ کانپ کر رہ گئی تھی۔دل تو جہاز بنا کبھی اوپر اڑ رہا تھا تو کبھی نیچے گر رہا تھا۔ 

"بس بس اب زیادہ پاگل نہ ہو۔"دل سے کہا گیا۔

پھر وہ لمحے یاد کر کے جھرجھری لیتی اٹھ کر الماری کی طرف بڑھی تا کہ کپڑے نکال کر چینج کر سکے۔کچھ دیر میں حسن آفندی اور امتل آفندی آنے والے تھے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

حسن اور امتل آفندی اس وقت ہال میں بیٹھے تھے۔نازلی کی بابا سے بات ہوئی تھی تو انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ امتل آفندی بھی آئیں گی۔جب وہ اسے گلے لگا کر ملیں تو نازلی بیہوش ہونے کے قریب ہوگئی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟

بڑے سب باتوں میں لگے تھے۔وہ نازلی اور ہاشم کی شادی کی تاریخ رکھ رہے تھے۔

نازلی نے ہاشم کو دیکھا جو سنجیدہ سا انکی باتیں سن رہا تھا۔حسن آفندی کے کہنے پر کہ وہ نازلی کو لینے آئیں ہیں ہاشم کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے۔وہ بے چین نظر آنے لگا۔ 

اسنے نازلی کو دیکھا تو نازلی جھٹ سے نظریں جھکا گئی۔ 

آج سے پانچ دن بعد انکی شادی کی ڈیٹ رکھی گئی تھی۔وہ مزید شادی کو لیٹ نہیں کرنا چاہتے تھے۔خان بابا کو جلد سے جلد  اپنی بہو اس گھر میں چاہیے تھی۔ہنستی مسکراتی ہوئی۔ 

نازلی کے جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ہاشم بہت سنجیدہ لگ رہا  تھا۔

کچھ دیر میں سب نے مل کر ڈنر کیا۔تمام وقت نازلی کی نظریں ہاشم پر رہیں۔نازلی نے ساتھ کرسی پر بیٹھی نور کو دیکھا۔ 

"لگتا ہے ہاشم ناراض ہیں۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

"مجھے نہیں لگتا ، لالہ خود چاہتے ہیں کہ تم اپنے بابا کے گھر سے پوری شان سے رخصت ہو کر یہاں آؤ۔"نور نے مسکرا کر جواب دیا۔ 

"پھر اتنے خاموش کیوں ہیں؟"اسے ہاشم کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ 

"تم سے جدائی کا دکھ ہوگا ناں۔"نور نے آنکھ ماری۔

نازلی نے مسکرا کر اس سنجیدہ شہزادے کو دیکھا جو خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ 

کھانا کھا کر وہ لوگ ہال میں بیٹھے تھے۔ماحول بہت خوشگوار تھا۔آج امتل آفندی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی۔برسوں بعد نفرت کی میل دھلی تھی۔وہ خان بابا اور ام جان سے بھی بہت عزت سے ملی تھیں۔آج لگ رہا تھا کہ امتل آفندی واقعی ایک گریس فل خاتون ہیں۔ 

وہاں جانے کی باتیں ہونے لگی۔نازلی خوش تھی پر ساتھ ہی اداس بھی تھی کہ اسے سب کو چھوڑ کر جانا ہوگا چاہے کچھ دن کے لیے ہی ، ہاشم سے دور جانا ایک مشکل کام تھا۔پر ہمیشہ اسکے پاس آنے کے لیے اسے عارضی طور پر تو اس سے جدا ہونا ہی تھا۔ 

"نازلی آپ اپنا سامان پیک کر لیں۔پھر ہم جائیں گے۔"حسن آفندی نے آہستہ سے کہا۔ 

"جائیں بیٹا جی ، سامان پیک کر لیں۔"خان بابا نے محبت سے اسے دیکھا۔تو نازلی مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

آبی بھی اسکے ساتھ ہیلپ کرنے گئی تھی۔جبکہ نور کچھ دیر بیٹھی رہی پھر ہاشم کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ 

ہاشم سنجیدہ سا اٹھ کر وہاں سے نکلا تھا۔نور اسکا بازو تھام کر سیڑھیوں کی طرف لائی۔ 

"کیا کر رہی ہو مانو۔"ہاشم جھنجھلایا تھا۔ 

"آپ نے منہ کیوں پھلا رکھا ہے؟"اسنے ابرو اٹھا کر بھائی کو دیکھا۔ 

"تو اور کیا کروں؟"لہجے میں ناراضگی تھی۔

"لالہ مجھے معلوم ہے نازلی کی جدائی کا سوچ کر آپ اداس ہیں۔کیا آپ نہیں چاہتے کہ وہ اپنے بابا کے گھر سے ساری رسموں کے ساتھ رخصت ہو کر یہاں آئے؟" 

"میں یہی چاہتا ہوں مانو پر پانچ دن بہت ہیں۔"وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا 

ماہ نور ہنسنے لگی۔"میرے پیارے لالہ تو آپ فون پر بات کر لیجیے گا اپنی بیگم سے۔"اسنے محبت سے بھائی کا بازو تھاما۔ 

"چلیں اب اپنے ہینڈسم چہرے پر سمائل لائیں اور میری دوست کو خوشی سے رخصت کریں تا کہ وہ بھی وہاں اداس نہ ہو۔"اسنے نرمی سے سمجھایا تو ہاشم مسکرانے لگا۔ 

"میری چھوٹی سی مانو بہت سمجھ دار ہوگئی ہے۔"اس نے محبت سے ماہ نور کو دیکھا۔ 

"اپنے لالہ کی بہن جو ہوں۔"وہ مسکرا کر کہتی اسکا بازو تھامے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ 

وہ لوگ اوپر پہنچے تو آبی کمرے سے باہر آ رہی تھی۔ 

"میں آپکو لینے ہی آ رہی تھی۔"اسنے ہاشم کو دیکھ کر کہا۔ 

"کیوں؟"اسنے سوالیہ نظروں سے آبی کو دیکھا۔ 

"آپکی بیگم اداس ہو رہی ہیں۔ذرا مل لیں اس سے۔"وہ مسکرا کر بولی۔

پھر نور اور آبی نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور وہاں سے نیچے کی طرف بڑھ گئیں۔ 

ہاشم لمبی سانس کھینچ کر آگے بڑھا۔ 

وہ روم میں آیا تو نازلی بیڈ پر بیٹھی تھی۔وہیں ایک طرف کھلا بیگ رکھا تھا جس میں وہ اپنے کپڑے رکھ چکی تھی۔

"مادام سب انتظار کر رہے ہیں اور آپ یہاں بیٹھی ہیں۔"ہاشم لہجے کو خوشگوار بنا کر اسکی طرف بڑھا۔

نازلی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"بس سب رکھ دیا ہے۔اب جا ہی رہی تھی۔"وہ اداسی سے مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔آنکھوں میں نمی تھی۔

"مسز میں نے رونے سے منع کیا تھا۔"وہ نازلی کے قریب آیا۔ 

"ہاں تو میں کب رو رہی ہوں۔"اسکی آواز رندھی تھی۔ 

"افف سفید جھوٹ۔"ہاشم نے نرمی سے مسکرا کر اسکے گال پر بہتے آنسو کو پونچھا تھا۔ 

"مجھے آپکی بہت یاد آئی گی۔"وہ اچانک روتی ہوئی اسکے سینے سے لگ گئی۔ہاشم کا دل بھی بھاری ہونے لگا۔اتنے دنوں سے وہ اسکے ساتھ تھی اور اب اچانک وہ جا رہی تھی تو اسکا دل بہت عجیب ہورہا تھا۔وہ نرمی سے اسکا سر تھپک رہا تھا۔ 

"اچھا رو نہیں ناں یار ، ہم فون پر بات کریں گے اور ہو سکا تو تم سے ملنے بھی آؤنگا۔"اسنے مسکرا کر سرگوشی کی۔ 

نازلی نے پیچھے ہو کر اسکا چہرہ دیکھا۔ 

"ملنے نہیں آ سکتے آپ مسٹر۔"وہ مدھم سی مسکرائی تھی۔

"ابھی مجھ سے جدائی پر آنسو بہا رہی تھی اور اب کہہ رہی ہو کہ میں ملنے نہیں آ سکتا ،  بیگم بیان بدلتی ہیں آپ۔"اسنے ہنس کر نازلی کے آنسو صاف کیے۔ 

"شادی سے پہلے لڑکا لڑکی نہیں مل سکتے۔"نازلی نے بتایا تھا۔ 

"پر ہم میاں بیوی ہیں۔"ہاشم نے یاد دلایا۔ 

"پر شادی تو ہورہی ہے ناں اور اس دوران دولہا دلہن کا ملنا منع ہوتا ہے۔چلیں فون پر بات کریں گے ناں۔"اسنے نرمی سے ہاشم کو دیکھ کر کہا۔ 

"اوکے۔"ہاشم اسکے ہاتھ پر بوسہ دے کر مسکرایا۔وہ اسے پر سکون دیکھ کر مطمئن ہوگیا تھا۔

"اب بیگ بند کر لوں؟"نازلی نے اجازت چاہی۔ 

"کرلو۔"اجازت دی گئی۔وہ پیچھے ہوا اور نازلی آگے بڑھ کر  بیگ بند کرنے لگی۔ 

پھر ہاشم نے ایک ہاتھ میں بیگ اٹھایا اور دوسرے ہاتھ میں نازلی کا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر نکلا۔ 

وہ نیچے آئے تو سب انکے منتظر تھے۔نازلی باری باری سب سے ملی۔سب خوش بھی تھے اور اداس بھی ، ان سب کی آپس میں بہت بن گئی تھی۔

"جلدی سے میرے لالہ کی دلہن بن کر لال جوڑا پہن کر اس گھر میں واپس آؤ۔"نور نے اسکے گلے لگ کر کان میں سرگوشی کی۔نازلی سر ہلا کر مسکرانے لگی۔

آخر میں وہ خان بابا کے سینے سے لگی۔

"خیر سے جائیں اور ہم آپکو جلد لینے آئیں گے۔"انہوں نے مسکرا کر اسکا سر تھپکا۔ 

"انشاء اللہ دوست۔"نازلی نے مسکرا کر جواب دیا۔ہاشم دور کھڑا اس مسکراتی صورت کو دل میں اتار رہا تھا۔سسر ، بہو کو ساتھ دیکھ کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ 

"جائیں اپنی نازلی کو اللہ حافظ کہہ لیں لالہ۔پھر بعد میں رویے گا مت۔"داور نے سب کو باہر کی طرف جاتے دیکھ کر ہاشم کے  کان میں شرارت بھری سرگوشی کی۔ہاشم نے اسے گھورا پھر قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔ 

سب پورچ میں تھے۔ہاشم نے نازلی کا بیگ گاڑی میں رکھا۔پھر اسکے لیے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا۔ 

"آئی ول مس یو مسز ہاشم۔"اسنے مدھم آواز میں کہا۔نازلی محبت سے اسے دیکھتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ 

حسن آفندی ، خان بابا سے اجازت لے کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے۔امتل آفندی نے انکے ساتھ والی سیٹ سنبھالی اور گاڑی بڑی حویلی سے باہر نکلنے لگی۔

سب نے لبوں پر دعائیں لیے انہیں رخصت کیا پھر اندر کی طرف بڑھ گئے۔ 

ہاشم نے لمبی سانس کھینچی۔اسے اپنا آپ خالی خالی لگنے لگا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ لڑکی اسکے دل پر آیا بہار کا موسم اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ 

وہ وہاں سے لان میں آگیا تھا۔دل اداس تھا پر نازلی کی صورت یاد کر کے لبوں پر ایک دم مسکراہٹ بکھری تھی۔بس پانچ دن پھر وہ اسکے پہلو میں ہوگی۔ہمیشہ کے لیے اسکی بن کر اسکے پاس آجائے گی اور پھر انہیں کوئی جدا نہیں کریگا۔وہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ 

نازلی کو حسن ولا آئے تیسرا دن تھا۔اس دوران اسکی ہاشم سے اور باقی سب سے فون پر بات ہوتی رہی تھی۔حسن آفندی بیٹی کو گھر میں دیکھ کر بہت خوش تھے۔امتل آفندی اس سے زیادہ بات نہیں کرتی تھیں پر اسکے ساتھ انکا رویہ نارمل ہی تھا۔نازلی سب ٹھیک ہوجانے پر بہت خوش تھی پر کہیں اداسی نے بھی گھیر رکھا تھا۔تابین کی یاد آتی تو اسکا دل اداس ہوجاتا تھا۔اسنے بابا سے تابین کا نمبر لیا تھا پر وہ نمبر بند مل رہا تھا۔واٹس ایپ پر کونٹیکٹ کرنے کی بھی کوشش کی تھی پر وہ اپنا واٹس اپپ بھی بند کر چکی تھی۔

کل اس نے بڑی ماما کو تابین سے بات کرتے سنا تھا۔وہ ان سے تابین کا نمبر لینا چاہتی تھی پر جھجھک کی وجہ سے ان سے کچھ کہہ نہیں پائی۔

رات کی سیاہی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔وہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔تابین کے نہ ہونے سے گھر بہت سونا سونا لگ رہا تھا۔بھلے ہی اسکا تابین کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزرتا تھا پر پہلے کم از کم تابین کی گھر میں موجودگی کا احساس تو تھا۔پر اب تو نظریں اسے گھر میں ڈھونڈتیں پھر اسے نہ پا کر مایوس لوٹ آتیں۔اسکے نہ ہونے سے گھر میں عجیب سا سکوت چھا گیا تھا۔

نازلی سوچوں میں گم تھی۔اب تک جو کچھ بھی ہوا تھا اس میں تابین کا سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔اسے خود تو اتنی سختیوں کے بعد خوشی ملنے جا رہی تھی پر تابین ۔۔۔ اسکے ہاتھ تو خالی رہ گئے تھے۔اسکے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔خوشیوں کی امید تک نہ تھی جسکا دامن تھام کر وہ اپنے دن کاٹ سکتی کہ شاید آگے بہتری ہو کہ شاید کچھ وقت بعد ہی سہی اسے اسکی محبت مل جائے پر اب تو اسکے پاس یہ امید بھی نہ تھی۔وہ ٹوٹے دل کے ساتھ اپنا ملک چھوڑ کر گئی تھی۔جانے وہاں اسکے لمحے کس طرح کٹتے ہونگے۔

وہ مسلسل تابین کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اسے تابین کی شدت سے یاد آرہی تھی۔وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔کسی حد تک ہی سہی پر اُسکے دل کا بوجھ کم کرنا چاہتی تھی۔

اسنے لمبی سانس کھینچی پھر پلٹ کر بیڈ کی طرف آئی۔اپنا موبائل اٹھایا اور کمرے سے باہر نکلی۔نیچے پہنچ کر اسکا رخ بڑی ماما کے کمرے کی طرف تھا۔آج تک اسکی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ بڑی ماما کے کمرے میں جاتی پر اب جبکہ انکا رویہ اسکے ساتھ کچھ حد تک بہتر ہوگیا تھا اسلیے وہ اس وقت انکے کمرے کے سامنے کھڑی تھی۔ 

اسنے کچھ پل بند دروازے کو دیکھا پھر دل کو قابو کر کے دروازے پر دستک دی۔

تھوڑی دیر مکمل خاموشی رہی پھر دروازے کے اس پار سے اجازت دی گئی۔ 

نازلی آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔سامنے دیکھا تو امتل آفندی بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ہاتھ میں کتاب پکڑی تھی جسے کچھ دیر پہلے وہ پڑھ رہی ہونگی پر ابھی دروازہ کھلنے پر سامنے دیکھ رہی تھیں۔

نازلی انکے دیکھنے پر دروازے کے پاس ہی رک گئی۔امتل آفندی کچھ پل خاموش رہیں پھر بولیں۔

"آجاؤ۔"انہوں نے بک بند کرتے سرسری انداز میں کہا۔ 

نازلی آہستہ سے قدم اٹھاتی بیڈ کی دائیں طرف رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔ 

"کیا بات ہے؟"اسے خاموشی سے ہاتھ مسلتے دیکھ کر امتل آفندی نے پوچھا۔نازلی نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

"مجھے آپی کی یاد آرہی ہے۔آئی نو کہ آپ کو بھی انکی بہت یاد آتی ہوگی۔یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں کہیں نہ کہیں میں بھی ۔۔۔"امتل آفندی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔ 

"میں گزرے لمحوں کی بات نہیں کرنا چاہتی نازلی ، اگر تم یہی بات کرنے آئی ہو تو پھر چلی جاؤ۔"انکا انداز سپاٹ تھا۔ 

"آئم سوری۔"اس نے مری آواز میں کہا۔ 

"کوئی اور بات؟"سوالیہ انداز میں پوچھا گیا۔

"مجھے آپی سے بات کرنی ہے۔بابا جان سے انکا نمبر لیا تھا پر وہ نمبر بند مل رہا ہے۔واٹس اپپ نمبر بھی بند کر چکی ہیں۔میں آپی کے لیے بہت پریشان ہوں۔"اسنے آہستہ آواز میں سر جھکا کر کہا۔اسکی بات پر امتل آفندی نے کچھ پل خاموشی سے اسکی اداس صورت کو دیکھا پھر سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھایا۔ 

"تابین کا نمبر لکھ لو۔"انہوں نے موبائل اسکرین پر نظریں جما کر کہا۔

نازلی نے چونک کر انہیں دیکھا پھر جلدی سے موبائل اٹھایا۔امتل آفندی نے نمبر بولا تو وہ لکھنے لگی۔

وہ نمبر لکھ کر انہیں دیکھنے لگی جو موبائل رکھ رہی تھیں۔چہرہ ہنوز سپاٹ تھا۔نازلی انہیں دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"تھینک یو بڑی ماما۔"اسکے لہجے میں خوشی تھی۔امتل آفندی نے سر ہلا دیا۔نازلی دروازے کی طرف بڑھی۔

"نازلی۔"امتل آفندی کے پکارنے پر ایک دم رک کر انکی طرف پلٹی۔

"جی۔"اسنے سوالیہ انداز میں پوچھا۔امتل آفندی سائیڈ ٹیبل کے دراز سے کچھ نکالنے لگی۔ نازلی الجھن سے انہیں دیکھنے لگی۔ 

"یہ لو۔"انہوں نے ایک چھوٹی سی ڈبیہ اسکی طرف بڑھائی۔نازلی الجھی سی آگے بڑھی اور ڈبیہ تھام لی۔ 

"یہ تمہارے ڈائمنڈ ائیر رنگز ہیں۔جس دن تم یہاں سے گئی تھی اس دن نوری نے لا کر مجھے دیے تھے۔اب انہیں سنبھال کر رکھنا۔"وہ نازلی کی حیران صورت دیکھ کر بولیں پھر کتاب کھول کر نظریں اس پر جھکا دیں۔ 

نازلی نے چمکتی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔ایک بار پھر لب شکریہ ادا کرنے کے لیے ہلے تھے۔پر امتل آفندی اسکی طرف متوجہ نہ تھیں۔نازلی انہیں مصروف دیکھ کر پلٹی۔کمرے سے نکالتے ہوئے اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔ 

اپنے کمرے میں آ کر اسنے ڈبیہ کھولی اور نم آنکھوں سے ائیر رنگز کو دیکھنے لگی۔سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا پر اسکی زندگی میں ماں کی جو کمی تھی وہ کبھی پوری نہیں ہو سکتی تھی۔چھوٹی عمر میں ماں کو کھو کر وہ آج تک اس سرد رات کو یاد کرتی تو اسکا وجود کانپ سا جاتا تھا۔دنیا کی ہزار خوشیاں مل جائیں پر ماں کے نہ ہونے کی کمی اسکے دل میں ہمیشہ رہے گی۔دل کا ایک کونہ ہمیشہ اداس رہے گا کہ اسکی ماما اسکے ساتھ نہیں ہیں۔

اسنے لمبی سانس کھینچ کر ائیر رنگز کو چھوا۔اسنے انہیں کبھی خود سے جدا نہیں کیا تھا۔یہ ائیر رنگز ہمیشہ اسکے کانوں میں چمکا کرتے تھے۔پر جمال آغا سے منگنی کے لیے جب اسے تیار کیا گیا تھا تب ائیر رنگز کو اتار دیا گیا تھا۔یہاں آ کر بھی اسنے کئی بار انہیں ڈھونڈا تھا پر اسے کہیں نہیں ملے تھے پر آج بڑی ماما نے اسے دے دیے تھے۔اسے اچھا لگا تھا کہ بڑی ماما نے اسکی قیمتی چیز کو سنبھال کر رکھا تھا۔

آنسو پونچھ کر اسنے ڈبیہ بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔تبھی اسکا موبائل رنگ کرنے لگا۔ 

اسنے اسکرین پر نظر ڈالی تو ہاشم کا نام دیکھ کر چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ 

"السلام علیکم۔"اسنے کال پک کر کے خوشی سے کہا۔

"وعلیکم السلام۔"محبت سے جواب دیا گیا۔"ہوا یہ پیغام لائی ہے کہ مسز ہاشم کی آنکھیں نم ہوئی ہیں؟"

"ہوا کو جاسوس بنایا ہے آپ نے۔"نازلی ایک دم ہنسی۔ 

"یہ میرا دل جو ہے ناں یہ بے چین ہوجاتا ہے جب تمہاری آنکھیں نم ہوتی ہیں۔تو مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ جانِ ہاشم آنسو بہا رہی ہونگیں۔"وہ خاموش ہوا تو نازلی مدھم سی مسکرائی۔ 

"دل آپکا حکومت میری۔"لہجے میں انوکھی خوشی تھی۔ 

"یس مائی ڈیر وائف ۔۔۔۔ اب بتاؤ کیا بات ہوئی ہے؟"اسنے سنجیدگی سے پوچھا۔نازلی نے اسے ساری بات بتائی۔

"یہ تو اچھی بات ہے کہ پتھر میں داڑاریں پڑ رہی ہیں۔"اسنے لمبی سانس بھر کر کہا ورنہ اسے امتل آفندی سے اچھے رویے کی امید نہ تھی۔

"میں تابین آپی سے بھی بات کرونگی کہ وہ واپس آجائیں۔"نازلی نے بتایا۔ 

"امید ہے آجائے۔"ہاشم اس کے آگے کچھ نہ بولا۔کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کرتے رہے پھر ہاشم آہستہ آواز میں بولا۔ 

"تم ان باتوں کو زیادہ نہ سوچو۔سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔کچھ رنگ ابھی پھیکے ہیں پر ان میں بھی رنگ بھر جائیں گے۔ان باتوں کو لے کر پریشان نہ ہونا ۔۔۔ اوکے۔"اسکا اشارہ تابین کی طرف تھا۔

"جی۔"وہ کچھ پل رکی۔"ہاشم۔۔۔"پھر پیار سے پکارا گیا۔

"دل و جان سے حاضر مسز ہاشم۔"وہ مسکرایا تھا۔ 

"آئی مس یو۔"گلابی چہرے کے ساتھ کہا گیا۔

"کیا یہ میں نے ٹھیک سنا ہے؟"ہاشم نے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔ 

"جی۔"نازلی مسکراہٹ دبانے لگی۔

"میں کہیں مر نہ جاؤں۔"وہ ڈرامائی انداز میں بولا۔ 

"ہاشم۔۔۔"اسکے مرنے کی بات پر نازلی نے غصے سے پکارا۔ 

"اوکے اوکے ۔۔۔ ایسی بات نہیں کرتا یار۔"وہ ہتھیار ڈال کر ہنسا۔ 

"ویسے تم مجھے مس کر رہی ہو اور میں تمہیں تو کیا ایسا نہ کروں کہ میں تم سے ملنے آجاؤں؟"

"جی نہیں۔"نازلی نے جھٹ سے منع کیا۔ 

"کیوں نہیں۔"ضدی لہجہ اپنایا گیا۔ 

"ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے ابھی۔"نازلی نے سمجھایا۔ 

"جب تم میری ہی ہو تو تمہیں دیکھنے سے مجھے کون روک سکتا ہے؟"وہ ابرو اٹھا کر پوچھنے لگا۔ 

"ہاشم تنگ نہ کریں مجھے۔۔۔بس دو دن ہی تو رہتے ہیں پھر میں آپکے قریب ہونگی۔"وہ جلدی میں بول گئی پر ہاشم کی بات نے اسے احساس دلایا کہ وہ کیا بول گئی ہے۔

"کتنی قریب۔"ہاشم کی بات پر اسکے گال دہکنے لگے۔ 

"میں کال کٹ کر رہی ہوں سمجھے آپ۔"وہ تپی۔

"اچھا اچھا سوری ۔۔۔ اب کچھ نہیں کہتا۔"وہ شرافت کے دائرے میں واپس آیا۔ 

"گھر میں سب کیسے ہیں؟"نازلی نے بات بدلی۔ 

"ٹھیک ہیں ۔۔ تیاریوں میں مصروف ہیں۔جلد سے جلد اپنی بہو کو گھر لانا چاھتے ہیں۔"ہاشم کے لہجے میں سکون تھا۔ 

"میں سب کو بہت مس کرتی ہوں۔"وہ اداس ہوئی۔ 

"بس مسز جلد ہی تم سبکے ساتھ ہوگی۔تم اور میں۔۔۔"وہ کہنے لگا پر نازلی اسکی بات کاٹ کر جلدی سے بولنے لگی کہ کہیں اب وہ کچھ اور ہی نہ کہہ دے۔ 

"جی جی معلوم ہے مجھے۔"اسنے ایک سانس میں کہا۔ہاشم ایک دم ہنسنے لگا۔ 

"ڈرتی ہو مجھ سے؟"پوچھا گیا۔ 

"نہیں تو۔"اسنے نروس انداز میں بالوں کو کان کے پیچھے کیا۔ 

"واقعی؟"شریر انداز میں بولا 

"جی واقعی ۔۔۔ مجھے آپ سے نہیں بلکہ اپنی قسمت سے ڈر لگتا ہے۔مجھے اتنی محبت سے ڈر لگتا ہے جو آپ مجھ سے کرتے ہیں۔میں اس محبت کے کھو جانے سے ڈرتی ہوں ہاشم کیونکہ مجھے اتنی ڈھیر ساری محبت کبھی نہیں ملی۔مجھے ڈر لگتا ہے کہ جانے میرا دل اس خوشی کو برداشت کر سکے گا یا نہیں۔میں زیادہ خوشیوں کی عادی نہیں ہوں ناں۔پر آپ تو مجھے خوشی پر خوشی دے رہے ہیں۔میں کیسے برداشت کرونگی بھلا؟"وہ مسکرا کر معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔

ہاشم کا دل اسکے سوال پر دکھا تھا اور ساتھ ہی اسے اس شہزادی پر ٹوٹ کر پیار آیا۔

اسکا ڈر جائز تھا کہ وہ اتنی محبتوں کی عادی نہ تھی۔وہ ایک شخص جو اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے اسکی بے تحاشا محبت بھلا وہ کیسے برداشت کر پائے گی؟ اسے ڈر تھا کہ اتنی خوشی پا کر اسکا دل بند نہ ہوجائے۔ 

"میری محبت کی عادت ڈال لو نازلی ہاشم خان کہ یہ ہر دن کے ساتھ اور شدت پکڑتی جائے گی۔تم ہاشم خان کے وجود کا حصہ ہو۔تم میرا دل ہو۔میرا عشق ، میری زندگی ، تمہیں میں دنیا کی ہر خوشی اور تمام تر محبت دینا چاہتا ہوں۔تم وہ شہزادی ہو جو شان سے ہاشم خان کے دل پر راج کرتی ہے۔اس پر تمہاری حکومت ہے۔ہاشم خان سارا کا سارا تمہارا ہے۔"اسکی بھاری آواز میں اتنی شدت ، اتنی محبت تھی کہ نازلی کا دل باہر آنے لگا۔نیلی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی پر لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ تھی۔ 

"آپ میرے لیے اللہ کا تحفہ ہیں۔"اسنے نم آواز پر قابو پا کر کہا۔ 

"تمہاری آنکھ نم نہیں ہونی چاہیے نازلی۔"ہاشم نرمی سے بولا۔ 

"اتنی پیاری باتیں کریں گے تو میری آنکھیں کیسے نم نہیں ہونگی۔"وہ مدھم سی مسکرائی۔ 

"اچھی لگتی ہے۔"وہ اچانک بولا 

"کون؟"نازلی نے جھٹ سے پوچھا کہ جانے مسٹر کو اچانک کون اچھی لگنے لگی۔

"ہے کوئی۔"اسکا لہجہ شرارت لیے ہوئے تھا۔ 

"کون ہے؟"نازلی کی مسکراہٹ مانند پڑی۔اسنے تپ کر پوچھا۔ہاشم قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔

"بولیں بھی۔"نازلی بے چین ہوئی۔

"کیا بولوں؟"انداز تنگ کرنے والا تھا۔ 

"میری بات کا جواب دیں۔"اسنے بے تابی سے کہا۔ 

"آئی لو یو۔"گھمبیر آواز میں جواب آیا۔ 

"اچھی لگنے والی بات ہاشم ۔۔۔ کون اچھی لگتی ہے آپکو؟"اسکا دھیان آئی لو یو پر نہیں گیا۔اسے بس جاننا تھا کہ اسکے شوہر صاحب کو کون اچھی لگنے لگی۔

"ارے واہ میں اپنے دل کی بات کہہ رہا ہوں اور تم اچھی لگنے والی بات کے پیچھے پڑی ہو۔"وہ خفا ہوا جبکہ آنکھوں میں شوخی تھی۔ 

"ہاں ٹھیک ہے آپ کے دل کی بات سن لی ناں میں نے اب بتائیں۔"وہ پریشانی سے اپنی پیشانی مسلنے لگی۔ 

"کیا؟"وہ آج نازلی کو چھوڑنے والا نہ تھا۔ 

"کہ کون اچھی لگتی ہے؟"وہ روہانسی ہوگئی۔ 

"نازلی ۔۔۔۔ نازلی ، ہاشم خان کو بہت اچھی لگتی ہے۔اپنے آپ سے بھی زیادہ۔۔۔ بے حد بے انتہا ۔۔۔ "لہجے میں محبت کی چاشنی گھلی تھی۔ 

نازلی کا بے چینی سے حرکت کرتا پاؤں تھم گیا۔دل رک سا گیا۔ہر طرف جیسے خوشبو پھیل گئی تھی۔اتنا تنگ کرنے کے بعد وہ اتنی اچھی بات کرتا تھا کہ نازلی کا دل تھم تھم جاتا۔چہرے پر حیا کی لالی پھوٹ پڑتی۔سانسیں اپنے سر تال ایک دم سے بدل لیتیں۔اسکی جان جانے لگتی تھی اس پیارے شخص کی باتوں سے ۔۔۔ 

"اب خاموش کیوں ہوگئی محترمہ۔"چھیڑنے والے انداز میں بولا۔ 

نازلی زیر لب مسکرانے لگی۔ 

"تم جیلس ہو رہی تھی۔"ہنس کر چھیڑا گیا۔  

"ہاں ۔۔۔ کیونکہ آپ پر صرف میرا حق ہے۔آپ کو دوسری کوئی اچھی کیوں لگے بھلا؟ آپ صرف میرے ہیں۔آپکو صرف میں اچھی لگوں اور کوئی نہیں۔"وہ اپنا حق جتاتے ہوئے گردن اکڑ کر بولی۔ہاشم قہقہہ لگا کر ہنسا۔

"او مائی لوولی مسز۔"اسنے مسکراہٹ دبا کر پیار سے کہا۔

"ہم آپ کے تھے ، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔اس بات کا یقین رکھو۔"اسے تسلی کروائی گئی کہ ہاشم خان صرف اسکا ہے۔

اسکی بات پر نازلی نے لمبی سانس کھینچی۔گلابی لبوں پر مسکان ٹھہر سی گئی تھی۔ 

"کچھ کہو گی نہیں؟"ہاشم نے خواب کی سی کیفیت میں پوچھا۔ 

"گڈ نائٹ۔"نازلی نے ہنس کر کہا پھر ہاشم کے کچھ کہنے سے پہلے فون بند کر دیا۔اب تھوڑا اسے تنگ کرنے کا اسکا بھی تو حق بنتا تھا ناں۔تبھی مسیج ٹیون بجی تھی۔  

"کتنی بے مروت ہو تم ، یہاں آؤ سارے بدلے نہ لیے تو کہنا۔"مسیج کے اینڈ میں غصے والا ایموجی تھا۔نازلی مسیج پڑھ کے ہسنے لگی۔ 

"میرے اچھے ہاشم۔"زیر لب کہہ کر وہ بیڈ پر چت لیٹ گئی۔اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔جانے وہ شخص اسکا ہاتھ تھام کر اسے کس دنیا میں لے آیا تھا جہاں ہر طرف خوشیاں تھیں۔محبت کے رنگ تھے۔ہر طرف خوشبو پھیلی تھی جو اسے اپنے حصار میں جکڑ کر دیوانہ بنا رہی تھی۔ 

کافی دیر وہ اسی جادو کے حصار میں رہی پھر یاد آنے پر جھٹ سے اٹھ بیٹھی کہ اسے تابین کو کال کرنی تھی۔ 

موبائل لے کر وہ باہر لان میں آگئی۔کرسی پر بیٹھ کر اسنے تابین کا نمبر ڈائل کیا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

تابین ، امتل آفندی کے کہنے پر پیرس سے سیدھا فلائی کرتی دو دن پہلے امریکا پہنچی تھی۔دو دنوں سے وہ جمال آغا کے ہاں تھی۔بابا صاحب اور بی بی جان بھی وہاں موجود تھے۔

اس وقت سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔بابا صاحب خاموشی سے ایک نقطے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔بی بی جان موسیٰ کو بوتل سے دودھ پلا رہی تھیں۔ 

جمال آغا اپنی کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا جبکہ تابین ان سب کو دیکھ رہی تھی۔پچھلے دو دنوں سے وہ یہی دیکھتی آ رہی تھی۔وہ لوگ بہت بدل چکے تھے پر اب بدلنے کا کیا فائدہ تھا کہ اب سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ سدھرنے میں دیر کر دیتے ہیں۔جب انکی آنکھ غفلت سے بے دار ہوتی ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔جمال آغا اور بابا صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔تابین کو انکی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا تھا۔

موبائل کی رنگ نے اسے سوچوں کے گرداب سے نکالا تھا۔جمال آغا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔تابین نے موبائل اسکرین پر ان نون نمبر دیکھا۔وہ جانتی تھی اس نمبر کے پیچھے اسکا کوئی اپنا ہی ہوگا۔کچھ پل خاموشی سے موبائل کو دیکھتی رہی پھر ایک نظر جمال آغا پر ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔تھوڑے فاصلے پر جا  کر اسنے کال پک کی۔

"ہیلو۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

"آپی ۔۔۔"نازلی کی مدھم آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔اسکا محبت بھرا لہجہ سنے جیسے ایک عرصہ بیت گیا تھا۔ 

"کیسی ہو نازلی؟"اسنے محبت سے پوچھا جبکہ نازلی کے نام پر جمال آغا کے چہرے پر خوف کے سائے پھیلے تھے۔دایاں ہاتھ بے چینی سے حرکت کرنے لگا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں آپی ۔۔ آپ کیسی ہیں؟"نازلی نم لہجے میں بولی۔

"میں بھی ٹھیک ہوں۔"تابین سے بات نہیں ہورہی تھی۔ 

"آپ بنا بتائے چلی گئیں۔میں آپکو بہت مس کرتی ہوں۔"وہ کچھ پل رکی۔"کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟جو ایسے بنا بتائے چلی گئیں؟" 

"میں تم سے ناراض نہیں ہوں نازلی ۔۔ میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔ بس کچھ وقت خود کو دینا چاہتی ہوں۔"تابین نے نرمی سے جواب دیا۔ 

"پر میں آپکو اکیلے سب برداشت کرتے نہیں دیکھ سکتی آپی۔"اسکے لہجے میں اداسی تھی۔ 

"میں نے اب ہمیشہ اکیلے ہی رہنا ہے نازلی۔"تابین نے حقیقت پسندی کا دامن تھاما۔ 

"نہیں ۔۔۔ آپ کو اکیلے نہیں رہنا یہاں ہم آپ کے منتظر ہیں۔محبت آپکے لیے دامن پھیلائے کھڑی ہے۔آجائیں اور تھام لیں اس محبت بھرے ہاتھ کو۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔" نازلی نے زو معنی انداز میں کہا۔ 

"مجھے اب محبت کی چاہ نہیں۔"تابین تلخ ہوئی۔ 

"پر محبت کو آپکی چاہ ہے۔وہ ڈھونڈ رہی ہے آپکو۔آپ آجائیں ناں واپس پلیز۔"نازلی نرمی سے بولی۔ 

"نازلی۔۔"تابین نے اسے روکنا چاہا۔ 

"پلیز آپی ۔۔ پرسوں میری مہندی ہے۔میری ایک ہی تو بہن ہے اور وہ بھی مجھ سے دور ہے۔میں کیسے خوش ہو پاؤں گی جب میری بہن میرے ساتھ نہیں ہونگی۔میری خوشی تو ادھوری رہ جائے گی ناں۔"نازلی کے لہجے میں اداسی اتری۔ 

"اور جو میرے دل کا خون ہوگا اسکا کیا نازلی؟"تابین نے دکھ سے سوچا۔ 

"آپکے دل کو پھر سے جوڑنے کے لیے ہی تو آپکو بلا رہی ہوں آپی ۔۔۔ کوئی ہے جو ہتھیلی پر دل رکھے آپکا انتظار کر رہا ہے۔"نازلی نے اسکی خاموشی نوٹ کر کے دل ہی دل میں کہا۔ 

"آپ آئیں گی ناں؟"لہجے میں امید تھی۔ 

"پر نازلی ۔۔"تابین بے بس ہوئی۔ 

"میرے لیے۔"نازلی نے پیار سے کہا۔تابین نے کچھ پل سوچا پھر ٹوٹے دل پر ہاتھ رکھا۔ 

"میں آؤنگی۔"اسنے خوشی کا پیغام دے دیا تھا۔پر اسکا دل احتجاج کر رہا تھا کہ نہ جانا وہاں ۔۔۔ آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ملے گا پر اسے نازلی کی خوشی مکمل کرنی تھی۔اسے اب واپس جانا ہی تھا۔ 

"سچ آپی ۔۔ میں بہت بہت خوش ہوں ۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔ تھینک یو سو مچ ۔۔۔"وہ خوشی سے بولے جا رہی تھی اور تابین مسکرا کر اسکی باتیں سن رہی تھی۔ 

کچھ دیر دونوں بات کرتی رہیں پھر فون بند کر دیا۔جاتے جاتے نازلی نے کہا تھا کہ وہ اسکا انتظار کرے گی اور تابین کو اسکے انتظار کو ختم کرنا تھا۔اسے اپنی بہن کی خوشی میں شامل ہونا تھا پھر چاہے اسکا دل جتنا بھی روتا ۔۔۔ دل کا حال اللہ جانتا ہے یا وہ بندہ جس پر گزر رہی ہو ورنہ چہرے پر مسکراہٹ سجا لو تو دنیا والوں کو سب اچھا ہی لگتا ہے۔لوگ ظاہر کو دیکھتے ہیں دل میں جھانک کر بھلا کون دیکھتا ہے کہ اندر سے کوئی کتنا ٹوٹا ہوا ہے۔تابین کو بھی یہی کرنا تھا۔چہرے کو سجانا تھا اور دل ۔۔۔ دل کا اللہ مالک ۔۔۔۔ 

وہ موبائل کان سے ہٹا کر واپس ان سب کی طرف آئی۔موسیٰ رونے لگا تو بی بی جان اسے لے کر اندر کی طرف بڑھ گئیں۔

جمال آغا نے تابین کو دیکھا۔جیسے کچھ جاننا چاہ رہا ہو۔ 

"ہاشم اور نازلی کی شادی ہے۔پرسوں مہندی ہے۔میں کل یہاں سے نکلوں گی۔"وہ کہہ کر بابا صاحب کی طرف بڑھی۔جبکہ جمال آغا سر جھکائے زمین کو گھورنے لگا۔ 

"آجائیں بابا صاحب کب سے ایسے ہی بیٹھے ہیں۔آئیں تھوڑا آرام کر لیں۔"وہ نرمی سے انکا ہاتھ تھام کر بولی۔بابا صاحب نے خالی نظروں سے اسے دیکھا پھر خاموشی سے اٹھ کر اسکے ساتھ کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔ 

پیچھے جمال آغا اکیلا رہ گیا۔اپنے پچھتاوں کے ساتھ ، اپنے بھیانک ماضی کے ساتھ جس نے اس کی زندگی سے ساری روشنیاں چھین ڈالی تھیں۔ اسے اندھیروں میں لا چھوڑا تھا۔

ماہ نور کچن میں داخل ہوئی۔ شہریار اسکے پیچھے تھا۔وہ اندر آئی تو شہریار نے اسکا ہاتھ تھام کر اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔ 

"شہریار کیا کر رہے ہیں آپ۔"نور نے ہاتھ چھڑانا چاہا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے۔ 

"اپنی بیوی سے محبت۔"وہ پیار سے بولا۔ 

"چھوڑیں میرا ہاتھ۔"نور نے اسے گھورا۔ 

"اچھا ۔۔"اسنے ہاتھ چھوڑ کر اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر لیا۔ 

"اللہ شہریار آج کیا ہوگیا ہے آپکو۔"وہ اسکے ہاتھ ہٹانے لگی پر کامیاب نہ ہوئی۔ 

"آج میں رومنٹک موڈ میں ہوں۔"شہریار نے آنکھ ماری۔ 

"کچن میں رومینس نہیں ہوتا۔"نور نے ناک چڑھائی۔ 

"تو باہر آجاؤ۔"شہریار کی آنکھوں میں شوخی چمکی۔ 

"شہریار ۔۔۔"نور تپی تھی۔ 

"ہاں کہو۔"دوسری طرف اسکے غصے کا کوئی فرق نہ پڑا۔بلکہ اسنے آگے ہو کر ماہ نور کی پیشانی پر لب رکھے۔ 

"اللہ ۔۔۔"اسکا چہرہ گلنار ہوا۔ 

"کتنی پیاری لگ رہی ہو۔"شہریار نے انگوٹھا اسکے گلابی گال پر پھیرتے محبت سے پر لہجے میں کہا۔ 

"مجھے چائے بنانی ہے۔"ماہ نور شرم سے نظر جھکا گئی۔ 

"تم محبت کے بیچ چائے کو لا رہی ہو۔"وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔ 

"چائے محبت کا دوسرا نام ہے۔"ماہ نور نے ہنس کر اسے دیکھا۔ 

"پھر محبت بھرا ایک کپ میرے لیے بھی۔"اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔ 

"آزاد کریں گے؟"شہریار کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔ 

"دل نہیں کر رہا۔"اسنے ماہ نور کی پیشانی سے پیشانی ٹکا دی۔وہ زیر لب مسکرانے لگی تھی۔ 

"مانو اپنے لالہ کو دیکھنا ذرا۔"دور سے داور کی آواز آئی تھی۔وہ کچن کی طرف ہی آ رہا تھا۔اسکی آواز پر وہ دونوں جھٹ سے دور  ہوئے۔ 

"آہ یہ داور ہمیشہ غلط وقت پر آتا ہے۔مجھے اب تمہیں کہیں چرا کر لے جانا ہوگا جہاں صرف ہم دونوں ہی ہوں۔"شہریار نے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ماہ نور ہنسنے لگی۔

تبھی داور کچن میں داخل ہوا۔ 

"مانو دیکھو ذرا باہر آ کر ہاشم لالہ دن میں تارے گن رہے ہیں۔"وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔ 

"محبت میں دن میں بھی تارے گن لیتا ہے بندہ۔"ماہ نور ہنس کر چائے کا پانی رکھنے لگی۔ 

"تم بھی گن لو۔"شہریار نے داور سے کہا۔ 

"ہاں محبت تو مجھے بھی ہوگئی ہے۔مجھے بھی اب دن میں تارے گننے پڑے گے ورنہ میری محبت پر شک بھی کیا جا سکتا ہے۔"وہ خود کلامی کرنے لگا۔جو کہ شہریار نے سن لی۔ 

"اچھا بچو ۔۔ تو تم مجنوں بن گئے ہو۔"شہریار اسکے قریب آیا۔ 

"وہ لالہ ۔۔۔"داور سر کھجانے لگا۔ 

"چلو ذرا بتاؤ مجھے ساری بات۔"شہریار نے اسکے کندھے کے گرد بازو ڈالا۔ماہ نور نے پلٹ کر معصوم سی صورت بنائے داور کو دیکھا تو مسکراہٹ دبانے لگی۔ 

جبکہ شہریار اسکی الٹی سیدھی باتیں سنتا اسے لے کر باہر کی طرف بڑھا جہاں ہاشم ہنوز آسمان کو تکنے میں مصروف تھا۔

"سنا ہے تم تارے گن رہے ہو؟"شہریار کرسی پر بیٹھا۔ 

"اسی ماسی سے سنا ہوگا تم نے۔"اسنے داور کی طرف اشارہ کیا۔ 

"لالہ ۔۔۔"ماسی کہنے پر داور کا منہ بن گیا جبکہ شہریار نے ایک دم قہقہہ لگایا۔

"اپنا داور بھی محبت میں پڑ گیا ہے۔"شہریار نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔ 

"اس لڑکی کی اللہ خیر کرے ۔۔ کیونکہ داور نے اسے پاگل کر دینا ہے۔"ماہ نور کے ساتھ آتی آبی نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔ 

"ہونہہ تم تو خاموش ہی رہو چڑیل کہیں کی۔"داور نے تپ کر اسے دیکھا۔ 

"اچھا اب لڑائی نہ کرنا لو چائے پیو۔"ماہ نور نے اسے کپ تھمایا۔پھر باقی سب کو بھی چائے دے کر وہ دونوں بھی وہاں بیٹھ گئیں۔ 

"لالہ بڑے خاموش لگ رہے ہیں۔"آبی نے نور سے کہا۔ 

"بھابی کی یاد آ رہی ہے لالہ کو۔"داور جلدی سے بولا۔ 

"تم نے مجھے تنگ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے؟"ہاشم نے چائے کا سپ لے کر اسے گھورا۔ 

"یہ تو میرا فرض بنتا ہے لالہ پھر میں کیسے پیچھے رہ جاؤں اپنے فرض کو نبھانے میں۔"وہ شرارت سے کہہ کر ہنسا تھا۔اسکی بات پر  نا چاھتے ہوئے بھی ہاشم مسکرانے لگا۔پھر چائے ختم کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"کہاں جا رہے ہو؟"شہریار نے پوچھا۔ 

"زمینوں کا چکر لگانے۔"اسکے جواب پر شہریار بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

"چلو میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔"وہ دونوں باتیں کرتے آگے بڑھنے لگے۔داور نے انکی پشت کو دیکھا۔ 

"کل لالہ کی شادی ہے اور انہیں کام کی پڑی ہے۔یہی اگر میری شادی ہوتی ناں تو میں ایک مہینہ پہلے ہی آرام سے گھر میں بیٹھ کر تیاری کرتا۔"وہ مزے سے بولا۔ 

"اللہ ہی حافظ ہے تمہارا داور۔"آبی نے اپنے پاگل بھائی کو دیکھا۔جسنے اسکی بات پر کان نہ دھرے اور مزے سے چائے پینے لگا۔ 

"کل کی تیاری مکمل ہے ناں؟"وہ اب ان دونوں سے پوچھنے لگا۔ 

"بالکل ۔۔۔ ہم لالہ کی مہندی کر کے پھر نازلی کو مہندی لگانے جائیں گے اور رات وہیں رکیں گے۔"نور مسکرا کر بتانے لگی۔ 

"بھائی کی شادی ہے اور تم لوگ وہاں رہو گی۔"داور نے حیرت سے پوچھا۔ 

"ہاں بھائی کی شادی کے ساتھ ساتھ ہماری دوست کی بھی شادی ہے۔وہ ہماری اکلوتی دوست ہے۔اگر ہم اسکے پاس نہیں رکیں گی تو کتنا برا لگے گا اسے۔ہم دونوں طرف سے میزبانی کے فرائض سر انجام دینگے ناں۔"آبی خوشی سے بتا کر مسکرائی۔نور نے بھی اثبات میں سر ہلا کر اسکی بات سے اتفاق کیا۔ 

"پھر میں بھی جاؤنگا۔"داور بھی تیار ہوا۔دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

"دماغ ٹھیک ہے۔۔ مہندی پر لڑکیاں رکتی ہیں لڑکے نہیں  تم یہاں لالہ کے ساتھ رہو گے۔انہیں کمپنی دوگے۔"آبی نے اسے ہوش کے ناخن لینے کو کہا۔ 

"لالہ کو میری کمپنی کی ضرورت نہیں ہے۔"اسنے منہ بنایا۔"ویسے لیلیٰ بھی ہوگی ناں وہاں۔"وہ سر کھجا کر سوچنے لگا۔اسے بھی جانا تھا تا کہ لیلیٰ کا دیدار کر لیتا پر یہ اسکی چڑیل بہنیں اسے جانے کہاں دیں گیں۔

"لیلیٰ کو ہی دیکھنا ہے تو کل دیکھ لینا اور ولیمے والے دن بھی تو آئے گی ناں وہ یہاں تب دیدار کر لینا۔"نور نے اسکی سوچ کو پڑھ کر شرارت سے جواب دیا۔ 

"پر مانو۔"وہ التجا کرنے والے انداز میں بولا۔  

"پر ور کچھ نہیں۔"نور نے صاف انکار کیا۔داور کا منہ پھول گیا۔ 

نور اسکا پھولا منہ دیکھ کر بولی۔"داور ، خان بابا تمہیں جانے دینگے ؟ نہیں ناں؟ پھر کیوں ضد کر رہے ہو میرے بھائی۔"اس نے محبت سے سمجھایا۔داور نے افسوس سے سر ہلایا۔پھر کچھ دیر بعد بولا۔

"آہ ۔۔۔۔ کاش میں بھی لڑکی ہوتا۔"اسنے ٹھنڈی سانس بھری نور اور آبی اسکی بات پر ہنسنے لگیں تو اسے سمجھ آیا کہ وہ کیا بول گیا ہے۔اسلیے سر پر ہاتھ پھیر کر جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"پھر تم لیلیٰ کو دیکھنے کے لیے اتنے بے تاب نہ ہوتے۔"آبی نے اسے تنگ کرنے کا آغاز کیا ہی تھا کہ وہ جلدی سے بڑبڑاتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا کہ اگر یہاں رہا تو اسکی شامت آجائے  گی۔

اپنے پیچھے اسنے ان دونوں کی ہنسی کی آواز سنی تھی اور زیر لب خود کو کوستا اندر کی طرف بڑھنے لگا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

حسن ولا کو روشنیوں سے منور کر دیا گیا تھا۔چاروں طرف روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں۔پھولوں سے کی گئی سجاوٹ دیکھنے لائق تھی۔خوشبو کا جیسے قافلہ اٹھا تھا جو خوشیوں کے آنے کی نوید دے رہا تھا۔ 

دوسری طرف بڑی حویلی کو بھی دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔رنگ برنگے آنچل ہوا سے لہراتے ماحول کو خواب ناک بنا رہے تھے۔چہروں پر خوشی کی چمک تھی۔ 

دونوں طرف مہمانوں کا آنا شروع ہو چکا تھا۔چاروں طرف ایک ہنگامہ سا برپا تھا۔

نازلی بے چینی سے تابین کا انتظار کر رہی تھی۔وہ تھوڑی دیر میں پہنچنے والی تھی۔

آنی ، لیلیٰ ، اسد بھائی ، زیب ، زارا سب لوگ وہاں آ چکے تھے۔جبکہ احد ، ہاشم لوگوں کی طرف گیا تھا۔

نوری اور اسکی اماں کو کل ہی واپس حسن ولا بلا لیا گیا تھا۔وہ واپس آ کر بہت خوش تھیں۔ 

نازلی ابھی اپنے کمرے میں تھی۔اسے مہندی کے لیے تیار ہونا تھا پر وہ تابین کا انتظار کر رہی تھی۔ 

کچھ دیر بعد نوری بھاگی ہوئی اسکے کمرے میں آئی۔ 

"تابین باجی آگئیں۔"اسنے ہانپتے ہوئے بتایا۔نازلی جلدی سے باہر کی طرف بھاگی۔سیڑھیوں سے نیچے آئی تو دیکھا تابین امتل آفندی کے گلے لگی تھی۔جنکی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ کچھ فاصلے پر جا کر رک گئی۔ 

"بس ماما روئیں تو نہیں اب ۔۔۔ ورنہ میں واپس چلی جاؤں گی۔"اسنے امتل آفندی کو دھمکی دے کر انکے آنسو صاف کیے تو وہ مسکرانے لگیں۔ان سے الگ ہو کر وہ نازلی کی طرف بڑھی اور اسے گلے سے لگا لیا۔ 

"کیسی ہے پیاری سی دلہن۔"اسنے محبت سے پوچھا۔ 

"آپ آگئی ہیں تو بہت خوش۔"نازلی نے خوشی سے جواب دیا۔ 

"تیار نہیں ہوئی تم ابھی تک۔"تابین نے الگ ہو کر پوچھا۔ 

"آپکا انتظار تھا۔"نازلی مسکرائی۔ 

"چلو پھر تمہیں میں خود تیار کرونگی۔"اسنے نازلی کا گال چھو کر کہا۔امتل آفندی نے دونوں کو دیکھا۔انکی محبت دیکھ کر انہیں خوشی ہوئی تھی پر دل اپنی بیٹی کے دکھ پر دکھی تھا۔نازلی کی خوشی ایک طرف مگر انکا دل تابین کے لیے دکھ رہا تھا۔وہ چاہ کر بھی نازلی کی خوشی میں خوش نہیں ہوسکتی تھیں کہ انکے اپنے جگر کا ٹکڑا اذیت میں تھا پھر وہ کیسے پر سکون ہوتیں۔

تابین بابا جان اور باقی سب سے ملی پھر نازلی کو لیے اسکے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ 

"میں بھی ساتھ آجاؤں۔"لیلیٰ انکے پیچھے بھاگی چلی آئی۔اسے تابین سے جھجھک محسوس ہورہی تھی۔ 

"آجاؤ۔"تابین نے مسکرا کر اجازت دی تو وہ خوشی سے انکے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ 

نازلی نے مہندی کا لباس پہنا۔لہنگا شرٹ دھنک رنگ کا تھا۔مختلف رنگوں کا خوبصورت کنٹراس تھا۔جس میں چھوٹے چھوٹے نگ چمک رہے تھے۔نازلی لباس زیب تن کر کے انکے سامنے آئی۔کمر تک آتی شرٹ جسکی آستینیں شارٹ تھیں اور پاؤں کو 

چھوتا لہنگا اس پر بے حد جچ رہا تھا۔ 

"اللہ آپی کتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ۔"لیلیٰ اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی۔ 

"واقعی۔۔نازلی خوب بہار دکھا رہا ہے یہ ڈریس تم پر۔"تابین نے بھی تعریف کی تو نازلی مسکرا دی۔ 

پھر تابین اسے تیار کرنے لگی۔ہلکا میک اپ کیا۔پھولوں کے زیور پہنائے۔سیدھی مانگ نکال کر بال کھلے چھوڑے گئے اور پیشانی پر ماتھا پٹی لگائی گئی۔جسکے درمیان میں ایک سرخ گلاب تھا اور دونوں طرف موتیے کے پھول۔کانوں میں بالیاں اور کلائیوں میں گجرے ، جبکہ صراحی دار گردن کو خالی چھوڑا گیا تھا۔دوپٹے کو پیچھے کر کے سر پر سیٹ کیا تھا۔

پاؤں میں سینڈل پہن کر وہ مکمل تیار ہو چکی تھی۔شیشے میں اپنا سراپا دیکھا تو حیران ہوگئی۔اتنی سج دھج کے ساتھ وہ کوئی شہزادی لگ رہی تھی۔تابین اور لیلیٰ نے اسکے لیے تعریفی کلمات کہے تو وہ مسکرا کر سر جھکا گئی۔

تبھی وہاں سیماب آگئیں۔نازلی کو دیکھ کر قربان جانے لگیں۔ 

"میرا پیارا بچہ۔"انہوں نے اسکی پیشانی چومی۔نازلی کا دل پگھلنے لگا۔اسے زنیرہ کی یاد ستانے لگی۔آنکھوں میں نمی چمکی۔ 

"رونا بالکل نہیں ہے میری جان ، آج تو خوشیوں کا دن ہے۔بس خوش ہونا ہے تم نے۔"انہوں نے پیار سے سمجھایا تو نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔ 

"تابین تیار ہو کر آپ نازلی کو لے کر باہر آ جائیں۔بڑی حویلی سے مہندی کے لیے سب آنے والے ہیں۔"وہ کہہ کر باہر نکل گئیں۔نازلی کا دل دھڑکنے لگا۔وہ جانتی تھی ہاشم نہیں ہوگا پر یہ مہندی اسے اسکے نام کی ہی لگنی تھی۔ہاشم سے جڑنے کا احساس ہی اسکا دل دھڑکا رہا تھا۔ 

تابین تیار ہو کر آئی تو وہ اور لیلیٰ ، نازلی کو لے کر نیچے آئیں۔بڑے سے ہال میں ایک طرف اسٹیج بنا تھا۔زمین پر چادریں اور تکیہ رکھ کر پورا انتظام کیا گیا تھا۔لڑکیاں ناچنے گانے میں مصروف تھیں۔نازلی کو اسٹیج پر بٹھایا گیا۔اتنے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اسکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے تھے۔وہ بہت نروس ہورہی تھی۔تابین اسکے ساتھ ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگی تا کہ وہ ریلیکس ہو جائے۔ 

تھوڑی دیر میں بڑی حویلی والے مہندی لے کر آگئے۔شور و غل ، خوشی ، قہقہہ ، خوشبو ، روشنی  سب رنگ بکھرے تھے۔

ام جان ، نور ، آبی اور چھوٹی پٹھانی سب سے مل کر اسکی طرف بڑھیں۔

"کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی۔"ام جان نے اسکی پیشانی چومی۔

"افف اتنی پیاری ہے آپ نازلی باجی۔"چھوٹی پٹھانی اس پر فدا ہونے لگی۔ 

"اللہ ہاشم لالہ نے دیکھ لیا تو دل تھام لینگے۔"آبی نے شرارت سے کہا۔ 

"کاش دیکھ لیں کسی طرح۔"نور نے بھی لقمہ دیا۔نازلی نے سر اٹھا کر انہیں گھورا۔ 

"گھورتے ہوئے بھی کمال لگ رہی ہو۔"نور آنکھ مار کر کہتی اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔اسکی بات پر نازلی مسکرا کر سر جھکا گئی۔ 

تابین تھوڑی دیر وہاں بیٹھی پھر اٹھ کر باہر نکل آئی۔اسکے دل کا عجیب سماں تھا۔ہر طرف خوشیاں تھیں پر اسکے دل کی دنیا میں اداسی کا راج تھا۔ 

تھوڑی دیر بعد مہندی کی رسم ادا کی گئی۔امتل آفندی نے بھی نازلی کو گلے لگایا تھا۔نازلی کا دل خوشی سے بھر گیا۔تابین ، امتل آفندی کے بدلتے رویے کو دیکھ کر خوش تھی۔ 

ام جان لوگ لوٹ گئے تھے پر آبی اور نور وہیں رک گئی تھیں کہ صبح جلدی ہی بڑی حویلی پہنچ جائیں گی۔

لڑکیوں کا گانا بجانا چل رہا تھا۔نور ، آبی ، لیلیٰ ، نوری ، چھوٹی پٹھانی ، تابین سب نازلی کے ارد گرد بیٹھیں باتوں میں مصروف تھیں۔دو لڑکیاں نازلی کے ہاتھوں پاؤں پر مہندی لگا رہی تھیں۔

سیماب انکی طرف آئیں۔ زیب اور زارا بھی انکے پیچھے پیچھے تھے۔سیماب ، نازلی کے پاس بیٹھ گئیں۔

زیب اور زارا حیرت سے نازلی کو دیکھ رہے تھے۔ 

"ماما دلہن میری ہے۔"زیب نے نازلی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ 

"نہیں ۔۔ میری ہے۔"زارا بھی پیچھے نہ ہٹی۔انکی تکرار دیکھ کر وہ سب ہنسنے لگیں۔ 

"بچو یہ دلہن آپ کی نہیں کسی اور کی ہیں۔"سیماب نے پیار سے بتایا۔ 

"نہیں ۔۔۔ میری ہے۔"زیب نے رونے والے صورت بنائی۔ 

"لو ہاشم لالہ کو معلوم ہوا کہ انکی دلہن پر کوئی اور حق جتا رہا  ہے تو وہ جان سے گزر جائیں گے۔"نور نے شرارت سے نازلی کے کان میں سرگوشی کی تھی۔وہ لب دبا کر مسکراہٹ روکنے لگی۔ 

نور نے ابھی ہاشم کا ذکر کیا ہی تھا کہ اسکی کال آنے لگی۔ 

نور نے آبی کو اشارہ کیا۔پھر کال پک کر لی۔ 

"اب نازلی بتائے گی کہ وہ کس کی دلہن ہے۔"آبی نے جان بوجھ کر پوچھا تا کہ ہاشم بھی سن لے۔ 

"میری ۔۔۔"زارا بولی۔ 

"نہیں ۔۔ میری ۔۔۔"زیب بھی ضد پر اڑا تھا۔ 

"یا ہاشم بھائی کی؟"لیلیٰ نے ہنس کر کہا۔

"میں اپنے جانو زیب اور زارا کی دلہن ہوں۔"اسنے محبت سے دونوں کو دیکھا۔وہ آگے بڑھ کر انہیں تھام نہ سکی کہ ہاتھوں میں مہندی لگ رہی تھی۔زیب اور زارا نے خوشی سے باری باری اسکا گال چوما تھا۔ 

"چلو اب آپی کو مہندی لگانے دو۔ہم بابا کے پاس جاتے ہیں۔"سیماب ان دونوں کو لے کر وہاں سے چلی گئیں۔تابین بھی پانی پینے کے لیے اٹھی تو نور ، نازلی کے مزید قریب ہوئی۔ 

ہاشم کی کال اب بھی ملی ہوئی تھی۔ 

"لالہ ہیں۔"اسنے نازلی کے کان میں سرگوشی کی۔ 

"کہاں؟"نازلی نے چونک کر ارد گرد دیکھا۔ 

"یہاں۔"نور نے مسکرا کر موبائل کی طرف اشارہ کیا۔ 

"بات کروگی؟"شرارت سے پوچھا گیا۔

"نہیں ۔۔۔ سب یہاں موجود ہیں پھر کیسے۔۔۔"نازلی نے جھجھک کر گلابی گالوں کے ساتھ نفی میں سر ہلایا۔نور ہنسنے لگی پھر موبائل کان سے لگا کر بولی۔ 

"آپکی دلہن ابھی شرما رہی ہے اسلیے اب آپ ان سے کل ہی بات کریے گا۔آمنے سامنے"شوخی سے کہہ کر کال کٹ کر دی۔

پھر وہ سب ہنگامے میں شریک ہوگئیں۔نازلی آنکھوں میں جگنوؤں کی چمک لیے اس ماحول کو دیکھ رہی تھی۔ایک عرصے کے غم اور دکھوں کے بعد اسے یہ دن دیکھنے کو ملا تھا۔وہ خوش تھی بہت زیادہ خوش کہ آخر کار سب ٹھیک ہوگیا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ 

ہاشم لان میں کھڑا سر اٹھائے بے شمار روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔اسکے کانوں میں نازلی کی سریلی آواز گونج رہی تھی۔دل بے تاب ہونے لگا۔آنکھوں میں اسے دیکھنے کی چاہ جاگی تھی۔دل کو کہیں چین نہیں مل رہا تھا۔ اندر سب کزنز اور دوست موجود تھے۔ہاشم سب کے بیچ سے نکل کر باہر آ گیا تھا۔ 

ام جان اور خان بابا تو صبح کی تیاریوں میں لگے تھے۔اسفی اور شہریار انکے ساتھ تھے۔

ہاشم نے لمبی سانس بھر کر بالوں میں ہاتھ پھیرا پھر ایک نظر ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ڈالی جہاں رات کے دس بج رہے تھے۔دماغ میں ایک خیال آیا وہ ہلکا سا مسکرا کر پلٹا اور لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے پورچ کی طرف بڑھنے لگا۔

اسنے جیب سے گاڑی کی چابی نکال کر کار کو ان لاک کیا۔

ابھی دروازہ کھولا ہی تھا کہ اچانک داور کسی جن کی طرح اسکے سامنے حاضر ہوا۔ 

"دولہے میاں کہاں جا رہے ہیں آپ؟"اسنے مشکوک انداز میں پوچھا۔ 

"تمہیں اس سے کیا۔"ہاشم کو روکے جانا اچھا نہ لگا۔ 

"مجھے تو بہت کچھ ہے لالہ۔"اسنے آنکھ ماری پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔"آپ کو بھابی کی یاد آرہی ہے؟آپ ان سے ملنے جا رہے ہیں ناں؟"لہجہ پر یقین تھا۔ 

ہاشم نے اسے دیکھا۔"جارہا ہوں۔"پھر تھوڑا اسکے قریب جھکا۔ 

"پر یہاں کسی کو خبر نہ ہو اوکے۔"اسنے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ 

"نو پرابلم لالہ۔۔۔۔آپ جائیں اپنی دلہن سے ملنے میں یہاں کسی کو خبر نہیں ہونے دونگا۔آخر آپ کی طرح میں بھی ایک عاشق ہوں بھلا آپ کی مدد کیوں نہیں کرونگا۔"وہ گردن اکڑا کر بول رہا تھا۔انداز ایسا تھا کہ بس وہ سب سنبھال لے گا۔ہاشم کو اسکے انداز پر ہنسی آئی۔

"گڈ لالہ کی جان۔"مسکرا کر اسکا کندھا تھپک کر وہ گاڑی میں بیٹھا۔

"بھابی کو میرا سلام کہیے گا اور ہو سکا تو لیلیٰ کو بھی۔"داور جلدی سے بولا۔ 

ہاشم نے ہنس کر اسے دیکھا پھر سر ہلا کر کار سٹارٹ کردی۔ 

اسکی کار بڑی حویلی سے باہر نکلنے لگی۔کار کو جاتے دیکھ کر داور نے ٹھنڈی سانس بھری۔ 

"آہ کبھی ہمارا بھی یہ وقت آئے گا۔"زیر لب بڑبڑا کر پلٹا اور سیٹی بجاتا اندر کی طرف بڑھ گیا کیونکہ ابھی اسے ہاشم کی غیر موجودگی کو بھی تو چھپانا تھا۔

حسن ولا میں شور و غل یونہی برقرار تھا۔لڑکیوں کی ہنسی ، باتیں اور گانوں کی آوازیں ماحول کو سحر انگیز بنا رہی تھیں۔ 

وہ سب نازلی کے ارد گرد بیٹھی تھیں۔ہاتھ پاؤں پر مہندی لگے ہونے کی وجہ سے نازلی ایک ہی پوزیشن میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تھی۔ 

نور نے اسکی تھکن محسوس کی تو اسکے قریب جھکی۔ 

"کچھ دیر کے لیے اپنے روم میں آرام کر لو ناں۔"

"نہیں میں ٹھیک ہوں۔"نازلی مدھم سی مسکرائی۔آنکھوں میں گلابی ڈورے بنے تھے۔بیٹھ بیٹھ کر اسکی کمر اکڑ گئی تھی۔پر وہ اس خوشیوں بھرے دن کو پورا انجوائے کرنا چاہتی تھی۔ 

"آپ چاہیں تو مہندی کو دھو لیں ناں نازلی باجی۔"نوری نے آگے ہو کر کہا۔ 

"نہیں ابھی مت دھونا ۔۔ لگی رہنے دو اچھا رنگ آئے گا۔"آبی نے اسکے ہاتھوں کو چھو کر کہا۔مہندی سوکھ چکی تھی پر وہ چاہتی تھی کہ مہندی زیادہ دیر تک لگے رہے تا کہ رنگ خوب گہرا آئے۔ 

"لالہ کی محبت کا رنگ بڑا گہرا ہے دیکھنا نازلی کے ہاتھوں پر خوب گہرا رنگ آئے گا۔"نور محبت سے بولی۔ 

نازلی مسکرا کر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جو کہنی سے لے کر ہاتھوں تک خوبصورت ڈیزائن سے بھرے ہوئے تھے۔ 

"لان میں جائیں ذرا فریش ہوا کا لطف بھی لے لیں اور تم کمر بھی سیدھی کر لو۔"نور نے مسکرا کر کہا۔ 

"ہاں ٹھیک ہے۔"نازلی نے حامی بھری تو نور مسکرا کر سبکو بتاتی انہیں اپنا کام (گانا بجانا) جاری رکھنے کا کہتی نازلی کے ساتھ باہر آگئی۔جہاں پر مکمل خاموشی تھی۔رات کے اس پہر وہاں کوئی نہ تھا۔لان روشنیوں سے نہایا ہوا تھا۔ہلکی ہوا سے جیسے ہر چیز رقص کر رہی تھی۔اندر سے آتی میوزک کی ہلکی ہلکی آواز ماحول کو اپنے جادو میں جکڑ رہی تھی۔

نازلی نے لمبی سانس کھینچ کر تازہ ہوا کو اپنی سانسوں میں اتارا۔

"کتنی پیاری ہوا چل رہی ہے۔"اسنے مسکرا کر نور کو دیکھا۔ 

"ہاں آج تو ہر چیز ہی پیاری لگ رہی ہے۔"نور جواباً مسکرائی۔ 

"یہ بھی ہے۔دل کا موسم اچھا ہو تو دھوپ بھی اچھی لگتی ہے یہ تو پھر ہوا ہے۔"وہ مدھم سروں میں ہنسی۔ 

نور محبت سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگی۔اس چہرے پر اسنے کئی اداسی کے رنگ دیکھے تھے اور آج بے پناہ خوشیوں کے رنگ دیکھ رہی تھی۔ 

"اللہ کرے تم ہمیشہ یونہی مسکراتی رہو۔تمہں کسی کی نظر نہ لگے۔"اسنے پیار سے نازلی کا مہندی لگا ہاتھ تھام کر کہا۔ 

نازلی نے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ 

"جب تک تم جیسے پیار کرنے والے میری زندگی میں رہیں گے تب تک میں یونہی ہنستی مسکراتی رہوں گی۔"لہجہ انتہا کا نرم تھا۔ 

"پھر تو ہم تمہاری جان کبھی نہیں چھوڑیں گے۔"نور کے لہجے میں شوخی اتری۔ 

"کبھی نہیں؟"نازلی نے تصدیق چاہی۔  

"کبھی نہیں۔"نور نے مسکرا کر اسے گلے لگایا۔تبھی نور کا موبائل بجنے لگا۔نازلی سے الگ ہو کر اسنے موبائل اسکرین کو دیکھا تو ایک دم ہنسی۔ 

"کون ہے؟"نازلی کو تجسس ہوا۔ 

"آپکے دولہا۔"نور نے شرارت سے اسے دیکھا۔ 

"ہاشم۔"نازلی نے مسکراہٹ دبائی۔  

"جی ہاں ۔۔۔ جب سے یہاں آئی ہوں کوئی سو بار تو کال کر چکے ہیں تمہارا پوچھنے کے لیے۔۔۔اففف میرے لالہ تو بڑے مجنوں نکلے اپنی مسز سے ایک پل دوری برداشت نہیں انہیں۔"نور شوخی سے بول رہی تھی جبکہ نازلی کے گال گلابی ہوتے جا رہے تھے۔ 

نور نے شرارت سے اسکے چہرے کو دیکھ کر کال پک کی۔ 

"جی لالہ۔"مسکراہٹ دبا کر بولی۔ 

"جی ۔۔۔۔"اب حیرت سے کہا گیا۔نازلی اسکے چہرے کو دیکھنے لگی کہ جانے کیا بات ہوئی ہے۔ 

"جی۔۔۔"اب کے نور نے جی کو لمبا کھینچ کر نازلی کو دیکھا جو ہاتھ کے اشارے سے پوچھ رہی تھی کہ کیا ہوا۔ 

"لو تم اپنے ہسبنڈ سے بات کرو ۔۔۔ میں ذرا اندر سے ہو کر آتی ہوں۔"نور جلدی سے کہتی موبائل اسے پکڑا کر دوسری طرف بھاگ گئی۔

نازلی نے حیرت سے موبائل کو دیکھا پھر دھڑکتے دل کو سنبھال کر موبائل کان سے لگایا۔ 

"السلام علیکم۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

"وعلیکم السلام۔"ہاشم کی بھاری آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔ 

"ک ۔۔ کیسے ہیں آپ۔"جانے کیوں اس وقت ہاشم سے بات کرتے اسکا لہجہ لڑکھڑا رہا تھا۔ہاتھ نم ہو رہے تھے۔ 

"جیسا بھی ہوں بس تمہارا ہوں۔"دوسری طرف سے الٹا جواب دیا گیا۔لہجے میں شوخی تھی۔ 

"اہم ۔۔"نازلی نے گلہ کھنگارا۔"کہاں ہیں آپ؟" 

"تمہارے بہت پاس۔"سرگوشی میں جواب دیا گیا۔ 

"ہاشم۔"نازلی نے ہوا سے اڑتے اپنے دوپٹے کو تھام کر اسے مدھم آواز میں پکارا۔ 

"جی جانِ ہاشم۔"انداز ہنوز جان لینے والا تھا۔ 

"آپ سوئے نہیں۔"نازلی نے اسکی باتوں پر لبوں پر آتی مسکراہٹ دبائی۔ 

"جب تم پاس نہیں تو کس کافر کو نیند آئے گی۔"اسنے ٹھنڈی سانس بھری۔

"پھر کیا رت جگا کرنا ہے۔"وہ شرارت سے بولی۔ 

"دیدار یار کرنا ہے تا کہ دل بے چین کو کچھ پل چین تو آئے۔"محبت سے کہے الفاظ سے نازلی کی دھڑکنیں رقص کرنے لگی۔ 

"ممکن نہیں۔"نازلی نے مسکرا کر چھیڑا تھا۔ 

"ہاشم نا ممکن کو ممکن کرنا جانتا ہے مسز ہاشم۔"مسکرا کر کہا گیا۔ 

"اچھا تو کیا کریں گے۔یہاں آئیں گے کیا؟"نازلی نے شرارت سے چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھا۔

"لو آگیا۔"نازلی کو اپنے کان کے قریب سرگوشی محسوس ہوئی۔وہ چونک کر پلٹی اور اپنے بالکل قریب ، اپنے سامنے اس شخص کو کھڑے پایا۔ 

نازلی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"ہاشم آپ یہاں کیوں آگئے۔"اسنے موبائل نیچے کر کے پریشانی سے پوچھا۔ 

"تم سے ملنے آیا ہوں۔"اسنے نیلی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"یوں اچھا نہیں لگتا۔"نازلی کے چہرے پر ناراضگی اتری۔اسے ایک نظر دیکھ کر ارد گرد دیکھنے لگی کہ وہاں کوئی ہے تو نہیں  جبکہ ہاشم اسکی بات پر کان دھرے بغیر اسکے چمکتے روشن چہرے کو دیکھ رہا تھا۔وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔اسکا یہ روپ ہاشم کے دل پر قیامت برپا کر رہا تھا۔

سیاہ آنکھیں یک ٹک اسکے ناراض چہرے پر ٹھہر سی گئیں تھیں۔

"یار میں تم سے ملنے آیا ہوں اور تم خوش ہونے کے بجائے ناراض ہورہی ہو۔ناٹ فیئر۔"وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔ 

"کسی نے دیکھ لیا تو کیا سمجھیں گے ہاشم۔"نازلی نظریں جھکا گئی۔

"یہی کہ ہاشم خان کو تم سے بہت محبت ہے اسلیے وہ رات کے اس پہر تمہاری معصوم صورت دیکھنے  کی چاہ میں کھینچا چلا آیا۔"اس نے جھک کر مسکراتے لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کی۔ 

اسے قریب پا کر نازلی کی سانسیں تھم تھم گئیں۔نیلی آنکھیں کچھ پل اسکے وجیہہ چہرے پر ٹھہری پھر حیا سے پلکوں کی جھالر گالوں پر گری تھی۔ 

ہاشم اس دل ربا کے ہر انداز کو آنکھوں کے راستے دل میں اتار رہا تھا۔جانے کتنے پل گزرے وہ خاموش رہا تو نازلی نے نگاہیں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔سیاہ آنکھوں والا شہزادہ اس پر واری جا رہا تھا۔ان آنکھوں میں اسکے لیے بلا کی محبت تھی۔

اسکے دیکھنے پر نازلی کے گال گلنار ہوئے تھے۔

"حسن کو آگے راستہ نہ ملا۔"

"رہ گیا میرے یار کی حد تک۔"

ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے کو چھو کر کہا۔لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ سجی تھی۔اسکے چھونے پر نازلی کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا ہونے لگا۔ 

"آ ۔۔آپ کو نہیں آنا چاہیے تھا۔"ہاشم کے اس قدر پیار سے دیکھنے پر اسکی زبان لڑکھڑا گئی۔اسنے بات بدلنی چاہی۔

"مسز تم سے ملنے نہ آؤں تو کیا کسی اور سے ملنے چلا جاؤں؟"ابرو اٹھا کر پوچھا گیا۔پھر اسکا جواب سنے بغیر بولا۔

"لگتا ہے مجھے کسی اور سے ملنے چلے ہی جانا چاہیے کیونکہ میری بیوی تو مجھ سے ملنا نہیں چاہتی۔"اب کے اسکے بالوں کو انگلی کے گرد لپیٹ کر کہا گیا۔آنکھوں میں شوخی چمک رہی تھی۔اسکی بات پر نازلی ایک دم ساری شرم بھلا کر اسے جان لیوا انداز میں گھورنے لگی۔ 

"کون ہے وہ؟"تپ کر پوچھا گیا۔ 

اسکا انداز دیکھ کر ہاشم قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ 

"اللہ مسز اتنا غصہ ۔۔۔ ہم نے بات ہی کی اور آپ جل جل گئیں۔"وہ اب کے چڑانے والے انداز میں بولا۔ 

"آپ ایسی بات کرتے ہی کیوں ہیں۔"آواز میں ناراضگی اتری۔ 

"تم بار بار یہ کہو گی کہ مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا تو پھر میں کہیں اور جانے کی ہی بات کرونگا ناں۔"وہ آنکھ مار کر مسکرایا۔

"کہیں اور جا کر تو دیکھیں ذرا ۔۔۔"نازلی نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔ 

ہاشم نے اسکی انگلی تھام کر اس پر بوسہ دیا۔ 

"میرے تمام راستے صرف تم تک آتے ہیں۔کہیں اور جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"ہاشم نے اسکے ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑا۔

نازلی کو یہ سب خواب لگ رہا تھا۔سامنے کھڑا یہ شخص اسکی زندگی بن گیا تھا۔ایک تو آپ کسی سے محبت کرو اور جواباً وہ شخص آپ سے بے تحاشا محبت کرے ، خود کو آپ پر وار دینے کی ہمت رکھتا ہو تو بھلاآپ اس پر واری کیوں نہیں جائیں گی۔نازلی کو وہ شخص بہت بہت اچھا لگتا تھا۔جتنی وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔اس سے بد گمان تھی اب وہ اتنا ہی اسے خود سے بڑھ کر پیارا ہوگیا تھا۔اسکی سانسوں میں بس گیا تھا ہاشم خان۔

اسے یک ٹک دیکھتے خوبصورت آنکھوں میں نمی پھیلنے لگی تھی۔ 

"شش شش مسز ۔۔۔۔ واپس دھکیلو ان موتیوں کو۔میں تمہاری ان پیاری آنکھوں کو پر نم نہیں دیکھنا چاہتا۔"اسنے نازلی کی ناک کو ہلکے سے دبا کر نرمی سے کہا۔

"سمائل پلیز۔"وہ پیار سے بولا تو نازلی کے لب کِھل سے اٹھے۔چہرے کی چمک دگنی ہوگئی۔ 

"خان بابا نے آپکو آنے سے نہیں روکا۔"اسنے مسکرا کر پوچھا۔ 

"اللہ کو مانو بیگم ۔۔۔خان بابا کو بتا کر تھوڑی آؤں گا۔ذرا چھپ چھپا کے آیا ہوں۔"شرارت سے کہہ کر آنکھ ماری۔"تمہیں دیکھنے کی چاہ میں یہ عاشق کچی ڈور سے بندھا کھینچا چلا آیا ورنہ تو کوئی چانس نہیں تھا کہ یہ دولہا اپنی دلہن کو دیکھ پاتا۔خان بابا تو تمہں پہلے بھی مجھ سے چھپاتے رہے تھے یہ جانے بغیر کہ تم تو میری ہی ہو۔"وہ مسکرا کر بتا رہا تھا۔نازلی نے لب دانتوں میں دبا کر مسکراہٹ کو روکا۔

"خان بابا مجھے آپ سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔"اسنے چمکتی آنکھوں کے ساتھ جواب دیا۔

"انہیں کوئی بتاتا کہ تم صرف ہاشم خان کی پناہوں میں ہی محفوظ ہو اور تمہیں ہمیشہ وہیں رہنا ہے۔"محبت سے اسکے نازک ہاتھوں کو گرم جوشی سے دبا کر سرگوشی کی۔

"ہوں کیونکہ نازلی کو اللہ پاک نے ہاشم خان کے لیے ہی بنایا ہے۔وہی اسکا مخافظ ہے۔اسکا سب کچھ ہے۔"نازلی مدھم آواز میں بولی۔ 

"افف مسز کتنی پیاری بات کردی آپ نے۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکا ہاتھ لبوں سے لگایا۔

"یہ مہندی ۔۔"اسنے لمبی سانس کھینچ کر مہندی کو خوشبو کو سانسوں میں اتارا۔"مجھے مہندی کی سمیل کبھی اتنی خوشگوار نہیں لگی جتنی آج لگ رہی ہے۔تمہارے مہندی لگے ہاتھوں پر ہاشم خان کا دل رکھا ہے۔"وہ مبہوت انداز میں اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے کہہ رہا تھا۔

"اچھی لگی آپکو۔"نازلی نے اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر پوچھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ ہاشم کو اسکے ہاتھوں پر لگی مہندی اتنی بھائے گی۔

"بہت زیادہ۔"وہ جذب سے بولا۔نازلی کے لبوں پر مسکان سج گئی۔ 

"تم قیامت ہو مسز۔۔۔ پہلے بندہ کیا کم گھائل ہے جو آپ یہ مدھم سا مسکرا کر اسکی جان لینے کے در پر ہیں۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

"ایسی باتیں کریں گے تو پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"وہ ناراض ہوئی۔ 

"تم سے برا تو ویسے بھی کوئی نہیں ہے۔ایک اچھے بھلے شخص کو تم نے اپنے قبضے میں کیا ہے کہ اسکا خود پر کوئی اختیار ہی نہیں۔اسکے سب اختیار تمہارے ہیں۔"

"میں بری ہوں؟"نازلی نے سب باتوں میں سے یہی بات پک کی تھی۔ 

"اتنی اچھی باتیں کیں میں نے اور وہ جیسے محترمہ نے سنی ہی نہیں۔"ہاشم زیر لب بڑبڑایا۔ 

"نہ نہ مسز بیویاں بری نہیں ہوتیں یہ تو ہم شوہر حضرات برے ہوتے ہیں۔آپ سے اچھا تو کوئی نہیں اور ہم سے برا کوئی نہیں۔"وہ طنزیہ بولا۔اسکے انداز پر نازلی ہنسنے لگی۔ 

"ہنس لو ہنس لو۔"ہاشم نے مصنوعی خفگی سے کہا ورنہ اس حسین چہرے پر سجی مسکراہٹ اسکا دل نکال لے جا رہی تھی۔

"ایسے جلے انداز میں بھی آپ بڑے پیارے لگتے ہیں۔"وہ شرارت سے بولی۔ 

"کتنا پیارا لگتا ہوں؟"تجسس سے سوال ہوا۔ 

"بے انتہا۔"نازلی نے سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔ 

"مار ڈالو گی؟"اسکے دیکھنے پر کہا گیا۔ 

"اپنے ساتھ ساری زندگی باندھ کر رکھوں گی۔"وہ بھی آج موڈ میں تھی۔ 

"کہیں جانے نہیں دوگی؟"ابرو اٹھا کر پوچھا گیا۔ 

"کبھی نہیں۔۔۔"پختہ لہجے میں بولی۔ 

"تمہیں چھوڑ کر کون کافر جائے گا۔جسے پانے کی انتہا کر دی اسے چھوڑ دینے کا تو تصور ہی نہیں۔تمہیں میں نے اپنے دل میں چھپا کر رکھنا ہے۔نہ خود کہیں جاؤنگا نہ تمہیں جانے دونگا۔"اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر مضبوط لہجے اور اتنی محبت سے بولا کہ نازلی پگھل کر موم ہوگئی۔ 

"آپ ۔۔"وہ رکی۔ 

"میں؟"ہاشم نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔

"آپ ایسی باتیں کہاں سے سیکھتے ہیں؟"اسنے معصومیت سے پلکیں جھپک کر پوچھا۔ہاشم ایک دم ہنسنے لگا۔ 

"جب سامنے محبوب ہو تو پھر عاشق ایسی باتیں تو کرے گا۔محبوب بھی آپ سا ہو مسز تو عاشق کا دیوانہ ہونا تو بنتا ہے۔"نرمی سے مسکرا کر جواب دیا۔

"آج بڑے اچھے موڈ میں ہیں۔"نازلی نے اسکی مسکراہٹ کو دیکھ کر دل ہی دل میں ماشاء اللہ کہا۔

"تم جو میرے ساتھ ہو۔"مسکرا کر انگلی کی پور سے اسکی پلکوں کو نرمی سے چھوا۔اسکی بات پر نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ ٹھہر گئی۔ 

وہ دونوں ایک ساتھ خوش تھے۔جبکہ دور اپنے کمرے کی کھڑکی سے انہیں دیکھتی تابین نے پردے برابر کیے اور آنسو صاف کر کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔دل بالکل خالی تھا۔نہ اس میں کوئی نفرت تھی نہ حسد پر درد کی ٹھسیں اٹھ رہی تھیں جو سانس لینا محال کر رہی تھیں۔ 

تبھی اسکا موبائل بجا اور جب اسنے اسکرین پر اسفی کا نام دیکھا تو موبائل آف کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔اس وقت وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اگر اس سے بات کرتی تو وہ سمجھ جاتا کہ وہ اس وقت کس حال میں ہے اور یہی بات تابین کو منظور نہ تھی۔وہ اپنا دکھ کسی کو دکھانا نہیں چاہتی تھی۔یہ دکھ اسکا تھا اور اسے اسکو اکیلا ہی برداشت کرنا تھا۔وہ لمبی سانس بھر کر بیڈ پر چت لیٹ گئی۔

"ویسے داور نے تمہیں سلام کہا ہے۔"ہاشم ایک دم بولا۔ 

"آپ داور کو بتا کر آئے ہیں؟" 

"تمہں تو معلوم ہے اسکی نظریں میرا پیچھا کرتی ہیں۔یہاں آتے دیکھ لیا تھا سو سب کچھ اس پر چھوڑ کر میں یہاں چلا آیا۔"اسنے کہہ کر شانے اچکائے۔ 

"وہاں کسی کو معلوم ہوگیا تو؟"وہ پریشان ہوئی۔ 

"کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔داور سب دیکھ لے گا۔"وہ ری لیکس تھا۔اسکے یقین دلانے پر نازلی بھی بے فکر ہوگئی۔ 

"لیلیٰ کو بھی سلام دیا ہے اسنے۔"اب کے ہنس کر بتایا۔ 

"یہ داور بھی ناں۔"نازلی مسکرائی تھی۔ 

"دل کا معاملہ ہے یار بس اسکا سلام پہنچا دینا۔"ہاشم نے شرارت سے کہا۔ 

"لیلیٰ نے داور کا سر پھاڑ دینا ہے۔"نازلی نے وارن کیا۔ 

"سر پھاڑنے سے ہی محبت شروع ہوتی ہے اور پھر دل و جان میں بس جاتی ہے۔۔۔تم نے بھی اس گلدان سے میرا سر پھاڑ ہی  دینا تھا پر اللہ کا شکر میں بچ گیا تھا۔"اسنے نازلی کو یاد دلایا کہ کیسے جب وہ نکاح کے بعد اسے گھر لایا تھا تو اسنے سیدھا گلدان سے اس پر حملہ کیا تھا۔اسکی بات پر نازلی ہنسنے لگی۔ 

"تب تو میں واقعی آپ کا سر پھاڑ دیتی پر قسمت اچھی تھی آپکی جو بچ گئے۔"اسنے شوخی سے کہا۔ 

"اللہ کا شکر۔"ہاشم نے آسمان کی طرف دیکھا۔نازلی نے ہنسی دبائی۔ 

"اب آپکو جانا چاہیے۔"نازلی نے آہستہ سے کہا۔ 

"تمہں لے کر؟"شرارت سے پوچھا گیا۔ 

"مجھے لینے آپ نے کل آنا ہے۔"نازلی نے اسے یاد دلایا۔ 

"انتظار مشکل ہے۔"اسنے ٹھنڈی سانس بھری۔ 

"پر کرنا پڑیگا۔"وہ مسکرائی۔ 

"ہاں کوئی اور چارہ بھی تو نہیں ہے۔"وہ نازلی کا ہاتھ تھام کر پلٹا۔

"یہاں کہاں؟"نازلی حیران ہوئی کہ وہ گھر کی بیک سائیڈ کی طرف جا رہا تھا۔ 

"بیک ڈور سے آیا ہوں۔"اسنے بتایا۔ 

"دروازہ کس نے کھولا؟"نازلی نے رک کر اسے دیکھا۔ 

"نوری اور ماہ نور نے۔"وہ ہنسا۔ 

"نور کو معلوم ہے؟"وہ حیران ہوئی۔

"تبھی تو کال کی تھی ورنہ اندر کیسے آتا یہ تو نوری نے بیک ڈور کا آئیڈیا دیا اور میں تم تک پہنچ گیا۔"اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"یہ نوری بھی ناں۔"نازلی نے سر پر ہاتھ مارا۔ 

"چلیں اب جائیں آپ ۔۔۔ میں بھی جاتی ہوں۔ورنہ سب کہیں گے کہ دلہن کہاں غائب ہو گئی۔"وہ جلدی سے کہہ کر جانے کے لیے پلٹی جب ہاشم نے اسکا ہاتھ تھام کر روکا۔اسنے پلٹ کر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"شب بخیر تو کہہ لو مسز۔"وہ اسکے سامنے آیا۔ 

"شب بخیر۔۔۔ اب میں جاؤں؟"اس نے جلدی سے پوچھا۔

"ایسے نہیں۔"ہاشم نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"تو؟"نازلی نے اسے دیکھا تبھی اسنے نازلی کے بائیں گال پر ہاتھ رکھا۔"بہت پیاری لگ رہی ہو۔"گھمیبر آواز میں کہا گیا پھر جھک کر اسکے دائیں گال پر لب رکھ دیے۔اچانک اسکے اس انداز پر نازلی مجسمہ بن گئی۔نازک سراپا کانپ سا گیا۔

"شب بخیر۔"مسکرا کر اسکے کان میں مدھم آواز میں سرگوشی کی گئی۔ 

"اب تم جا سکتی ہو۔"پیچھے ہو کر اسکے دہکتے گالوں کو مسکرا کر دیکھتا وہ اگلے پل پلٹا اور وہاں سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔دروازے سے نکلتے ہوئے پلٹ کر ایک جان لیوا مسکراہٹ اسکی طرف اچھال کر وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا اور نازلی اپنے پاگل دل کو سنبھالتی کتنے پل وہاں کھڑی رہی۔ 

اسے یاد آیا جب وہ پہلی بار ملے تھے۔تب بھی اسنے ایسے ہی کیا تھا۔اسکا چین چھین کر اسے جانے کا کہہ دیا تھا۔فرق اتنا تھا تب درمیان نفرت تھی اور اب محبت ۔۔۔۔پر اس شخص کا انداز تب بھی ظالم تھا اور آج بھی ۔۔ وہ شخص کوئی جادو گر تھا۔جہاں ہوتا وہاں دل ضرور دھڑک اٹھتے تھے۔

اسکی دھڑکنیں چرا کر وہ چلا گیا تھا اور وہ اپنے دہکتے گال پر ہاتھ رکھے اپنے کانپتے دل کو سنبھال رہی تھی۔

"وہ شخص جیسے کہ جادو گر ہو۔"

"پھوار لہجے سے دشت دل پہ وہ جب بھی برسے۔"

"تو خشک مٹی میں جان ڈالے۔"

"بے جان پیروں میں اڑان ڈالے۔"

"وہ مسکرائے تو لعل و گل۔"

"کلی چٹخنا ہی بھول جائے۔"

"ہزار رنگوں کا وہ مجسم۔"

"وہ نرم خوہی ، وہ چپ کے لہجے میں ایک تکلم۔"

"وہ شخص جیسے کہ جادو گر ہو۔"

"افف ہاشم افف ۔۔۔"اسنے اچھلتے دل پر ہاتھ رکھ کر لمبی سانس بھری پھر خود کو قابو کرنے کی کوشش کرتی پلٹ کر اندر کی طرف بڑھنے لگی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

اگلا دن خوشیوں کی سوغات لے کر طلوع ہوا تھا۔نور اور آبی تو صبح جلد ہی بڑی حویلی روانہ ہوگئی تھیں کہ انہیں وہاں بھی بہت سی تیاریاں کرنی تھیں۔ 

حسن ولا میں بھی تیاریاں عروج پر تھیں۔نازلی نے تو صبح کمرے میں ہی ناشتہ کیا اور پھر باقی کا وقت وہیں رہی جبکہ نیچے خوب ہنگامہ تھا۔ 

آج اسکی زندگی کا سب سے حسین دن تھا۔خوشیاں ہی خوشیاں اسکے دامن سے لپیٹ دی گئی تھیں۔وہ بہت خوش تھی۔خزاں کے بعد بہار کا موسم آیا تھا جس میں وہ ایک کھلا ہوا پھول لگ رہی تھی۔ 

زندگی نے اسے سب کچھ دے دیا تھا پر اپنی ماما کی کمی آج بھی اسکے ساتھ تھی۔وہ چاہتی تھی اس خوشی میں اسکی ماما بھی شریک ہوتیں۔وہ اسے اپنے سینے سے لگا کر دعاؤں کے سائے تلے رخصت کرتیں۔سب کچھ پا لینے کے باوجود یہ ایک کمی ہمیشہ کے لیے رہ جائے گی۔کیونکہ ماں کی کمی کبھی کوئی پوری نہیں کر سکتا تھا۔ 

وہ سوچوں میں گم تھی جب دروازے پر دستک ہوئی۔اسنے اجازت دی تو حسن آفندی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ 

نازلی نے چونک کر انہیں دیکھا۔وہ چل کر آتے اسکے برابر میں بیٹھ گئے۔ 

نظریں زمین کو گھور رہی تھیں۔نازلی انکے چہرے کے تاثرات دیکھ رہی تھی۔کچھ دیر خاموشی کے بعد انہوں نے سر اٹھا کر بیٹی کو دیکھا۔ 

"آپکو اپنی ماما کی یاد  آرہی ہے؟"ایک دم سے پوچھا گیا۔نازلی جھٹ سے نظریں جھکا گئی۔ 

"ہوں۔"اسنے نم لہجے میں حامی بھری۔

"آج میری زندگی کا سب سے خاص دن ہے۔کاش ماما بھی میری ساتھ ہوتیں تو میں خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت محسوس کرتی۔میری زندگی میں کوئی کمی باقی نہ رہتی۔"لرزتی آواز کو قابو کر کے اسنے باپ کو دیکھا۔ 

حسن آفندی بھاری دل کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے۔ 

"آپکی اس کمی کی وجہ میں ہوں ناں بیٹا جی؟"انکی آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی۔

انکی آنکھوں میں دیکھ کر نازلی کے دل کو کچھ ہوا۔کھویا تو انہوں نے بھی تھا۔ایک محبت کرنے والا سب سے خوبصورت رشتہ۔۔۔

"ایسے نہ کہیں بابا جان۔"نازلی نے انکا ہاتھ تھاما۔حسن آفندی ندامت سے نظریں جھکا گئے۔ 

"آپکی وجہ سے کچھ نہیں ہوا۔یہی ہم سبکی قسمت میں لکھا تھا۔اللہ کو یہی منظور تھا۔"وہ نرمی سے بولی۔ 

حسن آفندی نے محبت سے اسکا ہاتھ تھپکا۔

"اب آپ اداس نہیں ہونگے۔"وہ مدھم سی مسکرا کر بولی۔  

"اس شرط پر کہ اب آپ بھی اداس نہیں ہونگی۔آپکی ماما اگر یہاں ہوتیں تو وہ اپنی بیٹی کو اداس ہوتا کبھی نہیں دیکھ سکتی تھیں اسلیے اب آپ اداس نہیں ہونگی اور اپنی ماما کے لیے دعا کرینگی۔۔۔اوکے۔"انہوں نے بہت پیار سے اسے سمجھایا تھا۔ 

"اوکے بابا جان۔"اسنے مسکرا کر سر ہلایا۔حسن آفندی نے محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔

"اللہ میری بیٹی کو بہت ساری خوشیوں سے نوازے۔"انہوں نے دعا دی۔نازلی کی آنکھیں چمک سے بھر گئیں۔ 

"میں آپکے لیے چائے بناؤں بابا جان؟"اسنے پیار سے پوچھا۔ 

"دلہن سے کام نہیں کرواتے۔"وہ ماؤں والے انداز میں بولے۔نازلی ہنسنے لگی۔ 

"مجھے خوشی ہوگی ناں بابا جان۔"اسنے لاڈ سے کہا۔ 

"پھر چلیں۔۔ میں بھی آپکے ساتھ کچن میں چلتا ہوں دونوں باپ بیٹی ساتھ چائے بنا کر پیئیں گے۔"وہ اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑے ہوئے۔نازلی خوشی سے انکے ساتھ کمرے سے نکلی۔ 

کچن میں پہنچ کر نازلی چائے بنانے لگی۔حسن آفندی اسکے ساتھ کھڑے رہے۔انہوں نے دو کپس نکالے۔نازلی نے ان میں چائے ڈالی پھر وہ دونوں باپ بیٹی ٹیبل کے گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے چائے پینے لگے۔حسن آفندی نے پہلا گھونٹ بھر کر جب اپنے مخصوص انداز میں اسکی تعریف کی تو نازلی کا چہرہ کھل اٹھا۔

امتل آفندی کچن کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک پل کو رکیں۔ان دونوں کو باتوں میں مصروف دیکھ کر پہلے تو سوچا پلٹ کر چلی جائیں پر پھر آہستہ سے چلتی انکے ساتھ بیٹھ گئیں۔حسن آفندی اور نازلی پہلے تو حیران ہوئے پھر مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔امتل آفندی خاموش بیٹھی رہیں۔

"آپکے لیے چائے لاؤں بڑی ماما۔"نازلی نے جھجھک کر پوچھا۔

امتل آفندی نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ خوشی سے اٹھ کر انکے لیے چائے بنانے لگی۔لبوں پر مسکراہٹ تھی۔امتل آفندی کا رویہ اب اسکے ساتھ اتنا سرد نہیں رہا تھا۔وہ بدل رہی تھیں۔نازلی کو اس بات کی خوشی تھی۔

عصر کے قریب نازلی کو تیار کرنے کے لیے بیوٹیشن آگئی تھی۔تابین ، نازلی کو پالر لے کر جانا چاہتی تھی پر نازلی نے گھر میں تیار ہونے کو ترجیح دی۔

نازلی کمرے میں بیٹھی تھی جب لیلیٰ طوفان کی طرح اسکے کمرے میں آئی۔

"بیوٹیشن آگئی ہے۔اب آپکو تیار کیا جائے گا۔ہائے۔۔۔"وہ ہانپ کر خوشی سے بتانے لگی۔وہ بڑی ایکسئاٹڈ لگ رہی تھی۔نازلی نے مسکرا کر اسے دیکھا۔وہ اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"مجھے نوری نے بتا دیا تھا۔"

"اچھا ۔۔ چلیں پھر میں اسے لے کر یہاں آتی ہوں۔"وہ کہہ کر ایک دم اٹھی۔آج تو وہ آندھی طوفان بنی تھی۔ 

"رکو ۔۔"نازلی نے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"کیا ہوا آپی۔"وہ ایک دم واپس بیٹھی۔ 

"کیوں اتنا بھاگ رہی ہو آرام سے کام کرو ناں۔"

"میری آپی کی شادی ہے میرے سر پر بڑے کام ہیں۔مجھے سب کچھ اچھا اچھا کرنا ہے آپکے لیے۔"وہ تیزی سے بولی۔ 

نازلی ہنسنے لگی۔وہ ایسے کہہ رہی تھی جیسے نازلی کی ساری زمہ داری اسی کے سر ہو۔

"اچھا اچھا گڑیا پر آرام سے ناں ایسے تو تم خود کو تھکا دوگی۔"اسنے لیلیٰ کا ہاتھ تھپتھپایا تو اسنے معصومیت سے سر ہلا دیا۔نازلی نے شرارت سے اسے دیکھا۔"تمہں سلام دیا ہے۔"

"کس نے؟"لیلیٰ الجھی۔ 

"داور نے۔"نازلی نے ہنسی دبائی۔ 

"اسکی یہ مجال۔"لیلیٰ کی پیشانی پر بل پڑے۔ 

"سلام دینا گناہ تو نہیں۔"نازلی نے شوخی سے کہا۔لیلیٰ نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر جانے لگی۔ 

دروازے کے قریب رک کر پلٹی ۔"وعلیکم السلام۔"اسنے جواب دیا۔اس سے پہلے کے جواب میں نازلی کچھ کہتی وہ ایک دم بول پڑی۔"سلام کا جواب دینا فرض ہے اسلیے جواب دیا ہے میں نے ۔۔۔اسے کہیے گا کوئی خوش فہمی نہ پال لے۔"منہ بنا کر کہتی وہ اگلے  پل دروازے سے باہر نکل گئی۔اسکی بات پر نازلی ہنسنے لگی تھی۔ 

لیلیٰ نے سیڑھیاں اترتے داور کے بارے میں سوچا پھر سر جھٹک کر منہ بنایا۔

"پاگل کہیں کا ۔۔۔ پیچھے ہی پڑ گیا ہے۔" بڑبڑا کر کہتی آگے بڑھ گئی۔ 

اگلے ایک گھنٹے میں نازلی کو تیار کر دیا گیا تھا۔نازلی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی تھی اور بیوٹیشن اسکا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی۔ 

بیڈ پر بیٹھی تابین خاموشی سے اسکی تیاری دیکھ رہی تھی۔ 

نازلی اس روپ میں اپسرا لگ رہی تھی۔چہرے پر بلا کا نور اور معصومیت تھی۔تابین کی نظریں اس پر ٹھہر سی گئیں۔

کام سے بھرا سرخ لہنگا اور گولڈن شرٹ اور سر پر اوڑھا دوپٹہ لال تھا جس پر ہلکا ہلکا گولڈن کام ہوا تھا۔ 

میک اپ زیادہ ہیوی نہیں کیا تھا۔بس اتنا تھا جس سے اسکی نیچرل لک برقرار رہتی۔ 

سیاہ آبشار بالوں کو جوڑے میں قید کر کے اسے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔جس میں سے نکلتیں چند لٹیں اسکے گلابی گالوں پر لہرا رہی تھیں۔ 

کانوں میں جھمکے ، ناک میں نتھ ، ماتھا پٹی ، ہاتھوں میں لال چوڑیاں ، پاؤں میں پہنی پائل ، وہ سر سے لے کر پاؤں تک سجی ہوئی تھی۔

یہ روپ ، یہ سنگھار اسے حسن کا کوئی شاہکار بنا رہا تھا۔شہزادیوں سا حسن تھا اسکا۔بے مثال ، لا جواب ۔۔۔ 

اسکی تیاری مکمل ہوئی تو بیوٹیشن وہاں سے چلی گئی۔ 

نازلی نے اپنے سراپے کو شیشے میں دیکھا پھر لہنگا سنبھال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

خود کو دیکھ کر اسے عجیب احساس ہوا۔وہ اچھی لگ رہی تھی پر اسے ڈر تھا کہ جانے دوسروں کو وہ کیسی لگے؟

وہ سوچوں میں گم تھی جب تابین اسکے قریب آئی۔ 

"ماشاء اللہ یو لک امیزنگ۔"اسنے محبت سے کہا 

"واقعی آپی۔"نازلی نے معصومیت سے پوچھ کر خود کو ایک بار پھر آئینے میں دیکھا۔ 

"بالکل ۔۔ حد سے بڑھ کر حسین ۔۔۔ ہاشم خان تو گیا سمجھو۔"وہ شرارت سے کہہ کر ہنسی تھی۔ہونٹوں پر مسکان تھی پر آنکھوں میں کہیں گہری اداسی چھپی تھی۔جبکہ اسکی بات سن کر نازلی کا چہرہ گلنار ہوا۔ہاشم کے خیال سے دل کے تار چھڑ چکے تھے۔لبوں پر حسین مسکراہٹ نے قبضہ کیا تھا۔ 

وہ ایک دم سے آگے بڑھ کر تابین کے گلے لگی۔ 

"سب ٹھیک سے ہو جائے گا ناں آپی۔"وہ انجانے خوف کے زیر اثر تھی۔اسے ڈر تھا کہ کہیں اسکی خوشیاں پھر سے اجڑ نہ جائیں۔کبھی اتنی خوشی جو نہیں ملی تھی۔اب جو وقت اتنی خوشیاں سمیٹ کر اسکی جھولی میں ڈال رہا تھا تو اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ خوشیاں صرف سراب نہ ہوں۔کہیں وہ پیاسی نہ رہ جائے۔ 

"انشاء اللہ سب اچھا اچھا ہوگا۔"تابین نے نرمی سے اسکی کمر سہلائی۔اسکے الفاظ نے نازلی کو حوصلہ دیا تھا۔

تابین اس سے الگ ہوئی۔"اللہ پاک تمہیں بہت ساری خوشیاں دینگے۔"اسنے پیار سے نازلی کا ہاتھ تھام کر کہا۔ 

"اور آپکو بھی۔۔۔ آمین ۔۔"نازلی اسکا ہاتھ تھپک کر بولی۔تابین نے نظریں چرا لیں پھر جلدی سے وہاں سے ہٹ کر بیڈ کی طرف بڑھی۔ 

"یہ رہا دوپٹہ جس سے تمہارا پیارا سا چہرہ چھپا کر ہاشم کو ذرا ترسائیں گے۔"شوخی سے کہتی وہ دوپٹہ اٹھا کر نازلی کے سامنے آئی۔خوبصورت بارڈر والا چمکتا ہوا لال نیٹ کا دوپٹہ تھا 

جسے تابین نے نازلی کے سر پر ڈال کر گھونگھٹ نکال دیا تھا۔اس میں سے نازلی کا چہرہ دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔ 

"اب ٹھیک ہے۔"تابین نے مسکرا کر اسے دیکھا۔نازلی کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔ 

چلو آؤ اب نیچے سب انتظار کر رہے ہونگے۔بارات بھی آنے والی ہے۔"وہ نازلی کو تھام کر آگے بڑھی۔

تبھی لیلیٰ اور نوری بھاگتی ہوئیں اوپر آئیں۔

"بارات آگئی۔"نوری نے ہانپتے ہوئے بتایا۔ 

"آپ ابھی نازلی آپی کو مت لائیں۔پہلے بارات کا ویلکم کرتے ہیں پھر لے کر جائنگے آپی کو۔"لیلیٰ نے جلدی سے تابین سے کہا۔نازلی کو واپس کمرے میں بٹھا کر وہ تینوں نیچے چلی گئیں۔ 

نازلی بیڈ پر بیٹھی دونوں ہاتھوں کو بے چینی سے مسل رہی تھی۔عجیب سے احساسات نے گھیر رکھا تھا۔دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہورہا تھا اور ایک ڈر نے بھی اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا کہ کہیں اگلے پل یہ خوشیاں اجڑ نہ جائیں۔کہیں وہ خالی ہاتھ نہ رہ جائے۔وہ سوچوں میں گم تھی جبکہ نیچے شور و ہنگامہ برپا تھا۔

سب لڑکیوں نے پھول برسا کر بارات کا ویلکم کیا تھا۔حسن آفندی اور امتل آفندی سب سے مل رہے تھے۔ 

ہاشم بلیک سوٹ میں ملبوس چہرے پر تمام تر تازگی و خوشی لیے  بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا۔شخصیت میں ایک وقار تھا جو اسے سب سے مختلف بنا رہا تھا۔ 

وہ حسن آفندی کے گلے لگا۔اسے دیکھ کر حسن آفندی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ 

ہاشم کی ایک طرف شہریار تھا اور دوسری طرف اسفی اور داور۔۔۔ جبکہ احد لڑکی کی طرف سے تھا۔وہ نازلی کا بھائی ہونے کے ناطے سب کا ویلکم کر رہا تھا۔

ہر چہرہ چمک رہا تھا۔سب کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔اسفی نے سبکا ویلکم کرتی تابین کو ایک نظر دیکھا جو نظریں چرا کر امتل آفندی کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔اسفی لمبی سانس کھینچ کر باقی سبکی طرف متوجہ ہوتا مسکرانے لگا۔دل ایک دم سے بوجھل ہوا تھا۔پر اسے اپنے یار کی خوشی میں خوش ہونا تھا۔اسے ہاشم کے ساتھ ہر مقام پر کھڑا ہونا تھا اسکا ساتھ دینا تھا بھلے ہی اسکا اپنا دل اندر سے ٹوٹ کر بکھر کیوں نہ جائے۔  

سب آگے بڑھ گئے جبکہ داور نے رک کر لیلیٰ کو دیکھا۔چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی۔لیلیٰ کی نظر اس پر پڑی تو وہ ناک چڑھا کر وہاں سے دوسری طرف بڑھ گئی۔ 

نور اور آبی تو سب سے مل کر نازلی سے ملنے کے لیے اوپر کی طرف بھاگی تھیں۔

کمرے کا دروازہ کھول کر وہ ایک دم رک گئیں۔انہیں لگا سامنے بیڈ پر لال لباس میں جیسے کوئی جیتی جاگتی گڑیا بیٹھی ہو۔نازلی دروازہ کھلنے کی آواز پر چونکی اور سامنے دیکھنے لگی۔ 

"نور ، آبی۔"وہ خوشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"ماشاء اللہ ماشاء اللہ۔۔۔"دونوں جلدی سے آگے بڑھیں۔ 

"اتنی حسین لگ رہی ہے میری دوست۔"نور نے اسکا گھونگھٹ ہٹایا۔اسے دیکھ کر وہ واری جانے لگی۔ 

"ٹوٹ کر روپ آیا ہے تم پر میری جان اور مہندی کا رنگ دیکھو کتنا گہرا ہے۔"آبی نے محبت سے اسکے ہاتھ تھام کر کہا۔

"ہاشم لالہ کا اللہ حافظ ہے۔"اسنے اب کی بار چھیڑا تھا۔بات مکمل ہوئی تو وہ اور نور ہنسنے لگیں جبکہ نازلی پلکیں جھکا گئی۔ 

"آئی ایم شیور کہ ابھی بھی لالہ کا بس نہیں چل رہا ہوگا کہ تمہں کسی طرح اپنے سامنے لے آئیں۔"نور نے ہنس کر اسکا گھونگھٹ ٹھیک کیا تھا۔

"پر ہم اتنی آسانی سے انہیں تمہارا دیدار نہیں کرنے دینگے۔"آبی نے آنکھ ماری۔

ہاشم اسٹیج پر بیٹھا ارد گرد دیکھ رہا تھا۔پھر اس نے داور کو اپنے قریب بلایا۔

"جا کر دیکھو انہوں نے نازلی کو کہاں چھپایا ہے۔ابھی تک سامنے نہیں آئی۔"

"ابھی آپکو آئے دس منٹ نہیں ہوئے اور آپکو بھابی کی کمی محسوس ہونے لگی۔"داور شوخ ہوا۔ 

"داور ۔۔۔"ہاشم نے اسے وارن انداز میں دیکھا۔

"اچھا اچھا جارہا ہوں۔"وہ ہاتھ اٹھا کر کہتا وہاں سے بھاگا۔ انکی باتیں سنتا اسفی زور سے ہنسا تھا۔ہاشم نے اسکی چڑانے والی ہنسی پر کان نہ دھرے۔ 

داور سیڑھیاں پھلانگ کر جلدی سے اوپر آیا۔اسنے چھوٹی پٹھانی سے نازلی کے کمرے کا پوچھا پھر تیزی سے اس طرف بڑھا۔ 

وہ دروازے کے قریب گیا ہی تھا کہ دوسری طرف سے لیلیٰ ایک دم دروازے کے سامنے آئی۔

"یہاں کیا کر رہے ہیں آپ؟"تیکھے انداز میں پوچھا گیا۔ 

"آپکا دیدار کرنے ہرگز نہیں آیا ۔۔۔ بھابی کو لینے آیا ہوں۔"داور نے جان بوجھ کر تپانے والا جواب دیا۔ 

"آپی کو ہم لے آئیں گے آپکو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"اسنے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا۔ 

"اس "ہم" میں مجھے بھی شامل کر لیں میں بھی تو آپکا ہی ہوں ناں۔۔۔"معصومیت سے کہا گیا۔ 

"جی ۔۔"لیلیٰ اسکی بات پر گڑبڑا سی گئی۔ 

"جی ۔۔"داور نے ہنسی دبائی۔لیلیٰ کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ 

"داور خان ۔۔۔ اپنی لمٹ میں رہیں۔"اسنے غصے سے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔ 

پر وہ بھی داور تھا کسی کی کہاں سنتا تھا۔اسکی انگلی تھام کر بولا۔"اپنی لمٹ جانتا ہوں میں مس لیلیٰ ۔۔۔ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں تو لگتی ہیں۔میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتا جو بات ہے صاف کہتا ہوں۔اور یقین کریں جلد ہی آپ بھی داور خان کی محبت میں مبتلا ہوجائیں گی۔اس بات کا مجھے یقین ہے۔"اسکی آنکھوں میں دیکھتا بہت پیارے انداز میں بولا تھا۔لیلیٰ کچھ پل کے لیے بالکل بت بن گئی پر پھر اسکے مسکرانے پر اپنا ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہوئی۔ 

"انتہائی فضول قسم کے انسان ہیں آپ۔"اسنے دانت پیسے۔ 

"جو بھی ہوں اب سے آپکا ہوں۔"وہ آنکھ مار کر کہتا پیچھے ہوا کیونکہ لیلیٰ بازو اوپر کر کے اس پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھی تھی۔وہ ہنستا ہوا سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ 

"بھابی کو لے آئیں لالہ انکا انتظار کر رہے ہیں۔"اتنا کہتا وہ جلدی سے سیڑھیاں اتر گیا۔ 

لیلیٰ لال پیلی ہوتی نازلی کے کمرے میں آئی تھی۔ 

"آپ تینوں آپیاں اس داور کو سمجھا لیں ورنہ میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔"وہ تپ کر بولی۔اسکی بات پر ان تینوں نے اسے دیکھا کہ داور نے اسے ضرور تنگ کیا ہوگا پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسی قابو کرنے لگیں۔وہ اونچا ہنس کر لیلیٰ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں اسلیے اپنی ہنسی پر قابو پایا۔ لیلیٰ پھولے چہرے کے ساتھ نازلی کے قریب آئی۔

"اچھا چلو تم اپنا موڈ ٹھیک کرو میں داور کو سیدھا کرونگی۔" نور نے نرمی سے اسکا گال کھینچ کر کہا۔ 

"پکا؟"وہ خوش ہوئی۔ 

"پکا۔"نور ہنسی۔ 

"پھر چلیں آپی ۔۔ آپکے دولہا آپکو یاد کر رہے ہیں۔"وہ نازلی سے کہہ رہی تھی۔ 

"ہاں چلو ۔۔ پر چہرہ نیچے جھکا کر رکھنا تا کہ لالہ کو دکھائی نہ دو۔اب ذرا ہم سالیاں ہونے کا حق بھی ادا کریں۔اپنے بہنوئی کو ذرا ستائیں تو سہی۔"آبی نے شرارت سے اسے سمجھایا۔نور اور لیلیٰ کے ساتھ نازلی بھی مسکرانے لگی۔ 

پھر وہ لوگ کمرے سے باہر نکلیں۔نازلی کی ایک طرف نور اور دوسری طرف آبی اور لیلیٰ تھیں۔

وہ لوگ جیسے ہی نیچے آئیں۔سبکی نظر اس لال لہنگے میں دھیرے دھیرے سے چلتی شہزادی پر پڑیں۔اسکا سر ذرا سا جھکا تھا۔دونوں ہاتھوں سے لہنگے کو تھام کر چل رہی تھی۔ 

ہاشم نے اسفی سے بات کرتے جب نظر پھیر کر سامنے دیکھا تو سیاہ آنکھیں تھم سی گئیں۔وقت رک سا گیا تھا۔

اس شہزادی کو دیکھ کر شہزادے کا دل تھم تھم گیا تھا۔

وہ قدم قدم اٹھاتی اسکے پاس آرہی تھی اور وہ خود سے دور ہوتا اس پیاری لڑکی کی ذات کے حصار میں جکڑا چلا جا رہا تھا۔ 

"ادائیں حشر جگائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

"خیال حرف نہ پائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

بہشتی غنچوں سے گوندھا گیا صراحی بدن۔"

"گلاب خوشبو چرائیں ،وہ اتنا دلکش ہے۔"

"حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے سترہ سنگھار۔"

"اسے نظر سے بچائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

"ستارے توڑ کر لانے کی کیا ضرورت ہے۔"

"ستارے دوڑے آئیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

"جفا پر اسکی فدا کر دوں سوچے سمجھے بغیر۔"

"ہزاروں ، لاکھوں وفائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

"ہم اسکے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے۔"

"گلے سے کیسے لگائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

"بہانے جھاڑو کہ پلکوں سے چار سو پریاں۔"

"قدم کی خاک چرائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

"تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں۔"

"اسے یہ کیسے بتائیں ، وہ اتنا دلکش ہے۔"

اسنے جیسے ہی اسٹیج پر پاؤں رکھا ہاشم ایک دم سحر سے نکل کر اٹھ کھڑا ہوا۔ شان سے آگے بڑھ کر اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اسے اوپر آنے میں مدد دی۔ 

اسے لے کر چلتا آگے بڑھا تبھی نور ، آبی ، لیلیٰ آگے بڑھیں اور نازلی کو تھام کر بٹھایا پھر اسکا لہنگا سیٹ کرنے لگیں۔ 

ہاشم لمبی سانس کھینچ کر اپنی کرسی پر بیٹھا۔اسکے ساتھ اسفی ، شہریار ، داور سب بیٹھے تھے۔ 

لڑکیاں سب ایک طرف ہوگئیں۔آبی اور نور بھی لڑکی کی طرف آگئیں۔پھر رسمیں ادا کی جانے لگیں۔ 

گلاسوں میں انکے لیے دودھ لایا گیا تھا جسے پینے کے لیے انہیں لڑکیوں کی ڈیمانڈ پوری کرنی تھی۔لڑکیوں کی طرف لیلیٰ سب سے آگے تھی تو دوسری طرف داور بھی پیچھے ہٹنے والا نہ تھا۔ 

ہاشم تو ان سب سے بے خبر سمٹ کر بیٹھی نازلی کی طرف متوجہ تھا۔جو نروس سی اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔

اسنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھا پھر آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اسکا ٹھنڈا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما۔وہ نازلی کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔اسے اپنا ساتھ کا احساس دلانا چاہتا تھا۔

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے مسز ، میں یہیں ہوں تمہارے ساتھ میں کچھ بھی غلط نہیں ہونے دونگا ۔۔۔ ہماری خوشیوں کو اس بار کسی کی نظر نہیں لگے گی۔سو ریلیکس ہوجاؤ۔"اسکی طرف ہلکا سا جھک کر اسکا ہاتھ نرمی سے دبا کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

اسکی بات سن کر نازلی کچھ حد تک پر سکون ہو گئی تھی۔اسنے گردن پھیر کر ہاشم کی طرف دیکھنا چاہا پر تبھی سب نے ہاشم کو اسکا ہاتھ تھامے دیکھ کر شور ڈال دیا۔ہنس کر انہیں چھیڑنے کے لیے جملے کہے جانے لگے تو وہ ایک دم سیدھی ہو بیٹھی۔اسنے ہاتھ چھڑانا چاہا پر ہاشم نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ 

وہ سب کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔اسے کسی کی پرواہ نہ تھی۔ 

سب پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوئے تو اسنے نظر پھیر کر نازلی کو دیکھا۔وہ اسکے چہرے کی ایک طرف ہی دیکھ سکتا تھا۔وہ بھی گھونگھٹ کی وجہ سے دھندلی دکھائی دے رہی تھی۔داور کے کچھ کہنے پر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔

اسنے تو اپنا پرس ہی داور کو دے دیا تھا کہ سب کچھ لڑکیوں کو دے دو بس اسکی دلہن اسکے پاس رہے اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا پر داور ، لیلیٰ کو بنا ستائے کہاں رہ سکتا تھا۔ 

آبی سب دیکھتی ایک طرف کھڑی مسکرا رہی تھی۔تبھی احد اسکے ساتھ آ کر کھڑا ہوا۔ 

"کتنا حسین ہے ناں یہ سب کچھ۔"سرگوشی کی گئی۔ 

آبی نے چونک کر اسے دیکھا پھر ایک دم مسکرائی۔ 

"ہاں بہت۔۔۔"اسے ایک نظر دیکھ کر لبوں پر مسکان سجائے  سامنے دیکھنے لگی۔ 

"آپ لڑکی کی طرف آگئیں۔"احد نے مسکرا کر پوچھا۔ 

"جی ہاں ۔۔ اس وقت میں لڑکی کی طرف ہوں۔سالی ہونے کا حق ادا کر رہی ہوں۔"وہ شرارت سے ہنسی۔

"آپ اور میں ایک ہی طرف ہیں ناں۔"آبی نے سامنے ہوتے شور و غل کو دیکھ کر مسکرا کر کہا۔

"ہمیشہ کے لیے ۔۔۔"احد زو معنی انداز میں بولا 

آبی نے ایک دم چونک کر اسے دیکھا۔اسکی آنکھوں میں محبت کی چمک دیکھ کر اسکا دل مہکنے لگا۔ 

احد نے بنا کچھ کہے اسکا ہاتھ تھام لیا تو آبی گلابی چہرہ جھکا گئی۔اسکی اس پیاری ادا پر احد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ 

اللہ اللہ کر کے لیلیٰ اور داور کا مقابلہ ختم ہوا تو سب نے سکھ کی سانس لی۔سب رسمیں ختم ہوگئی تھیں۔

نکاح چونکہ انکا ہو چکا تھا۔اسلیے رخصتی کی تیاری کرنے لگے۔ رات کے سائے پھیل چکے تھے راستہ بھی لمبا تھا اسلیے جلد سے جلد رخصتی کر دینا چاھتے تھے۔ 

نازلی باری باری سب کے گلے لگی تھی۔سیماب ، امتل آفندی ، تابین ، لیلیٰ سے ملی تو اس سے زیادہ لیلیٰ رونے لگی۔آبی اور نور اسکے قریب آئیں۔

داور کو بھی اچھا نہ لگا کہ وہ رو رہی ہے۔اسلیے وہ نور کے قریب آیا پھر جھک کر بولا "اسے کہیں روئے نہیں ہم جلد اسے بھی اپنے گھر لے آئیں گے۔"وہ بڑے جذب سے بولا تھا۔بس وہ چاہتا تھا لیلیٰ کسی طرح خاموش ہوجائے۔داور کی اس بات پر ایسی سچویشن میں بھی نور کو ہنسی آگئی۔ 

"چپ کر کے بیٹھو ورنہ لیلیٰ نے رونا چھوڑ کر تمہیں کُٹ لگا دینی ہے۔"اسنے آہستہ آواز میں وارن کیا۔ 

"غصہ کر لے پر روئے نہیں۔"اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"افف مجنوں کہیں کا۔"نور نے اسکے کندھے پر چپت لگائی۔ 

تبھی نازلی کی کسی بات پر لیلیٰ دھیرے سے مسکرائی تھی۔

داور نے اپنا دل تھام لیا۔

"یوں تو قیامت ہے ہر ادا اسکی۔"

"لیکن دھیرے سے جو مسکراتی ہے چھا جاتی ہے۔"

اسنے دل پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا اور نور ، آبی نے اپنا سر پیٹا کہ انکا جن بھائی پورا دیوانہ ہوگیا تھا۔

نازلی سب سے آخر میں حسن آفندی سے ملی۔انکے گلے لگ کر اسنے وہ سارے آنسو بہائے تھے جو پچھلے تمام عرصے سے وہ چھپاتی آئی تھی۔

حسن آفندی کی آنکھیں بھی ضبط سے لال ہورہی تھیں۔وہ خاموشی سے اسکا سر تھپک رہے تھے۔ 

"ہمیشہ خوش رہیں بیٹا جی۔"حسن آفندی نے نم آواز میں کہہ کر اسے خود سے جدا کیا۔پھر اسکا ہاتھ ساتھ کھڑے خان بابا کے ہاتھ میں دیا۔ 

"آج سے میری بیٹی آپکی ہوئی سلطان صاحب۔"ٹوٹے لہجے میں بولے۔خان بابا نے نازلی کا سر کندھے سے لگایا۔ 

"نازلی تو ہماری دوست بھی ہے بیٹی بھی اور بہو بھی ۔۔۔ ہم خود سے بڑھ کر اسکا خیال رکھیں گے آپ فکر نہ کریں۔"خان بابا نے نرمی سے کہا۔ 

احد نے بھائی ہونے کے ناطے نازلی کے سر پر قرآن پکڑا جسکے سائے تلے وہ کار تک آئی۔ 

حسن آفندی نے اسے کار میں بٹھایا۔ہاشم بھی انکے گلے لگ کر 

کار میں بیٹھا۔انکی کار کو اسفی ڈرائیو کر رہا تھا ساتھ داور بیٹھا تھا۔ 

انکی کار حسن ولا سے باہر نکلی اور پیچھے باقی گاڑیاں بھی روانہ ہوئیں۔ 

نازلی اپنے باپ کا گھر پیچھے چھوڑتی اپنے شوہر کے گھر کی طرف سفر طے کرنے لگی۔ 

اس بات کا احساس ہوتے ہی اسکا جسم ہولے ہولے لرزنے لگا۔وہ خاموش آنسو بہا رہی تھی۔ہاشم اسکی حالت نہ دیکھ سکا تو اسکے کندھے کر گرد بازو ڈال کر اسے خود سے لگا لیا۔خاموشی سے اسکا کندھا تھپک کر اسے خاموش کروانے لگا۔ 

تبھی داور ایک دم کھانسا تھا۔اسفی نے اسکے کندھے پر چپت لگا کر اسکی کھانسی بند کروائی تھی۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

وہ لوگ بڑی حویلی پہنچ چکے تھے۔ہاشم نے نازلی کو کار سے باہر آنے میں مدد دی۔

سب جلدی سے اندر کی طرف بڑھے کہ دلہن کا اچھے سے ویلکم کریں۔ 

ہال سے وہ لوگ داخل ہوئے تو آسمان سے جیسے ان پر پھولوں کی برسات ہوئی تھی۔سب نے خوشی سے تالیاں بجا کر انکا استقبال کیا تھا۔ 

ام جان مسکرا کر انکی طرف بڑھیں۔انہوں نے نازلی کو گلے لگایا۔پھر اسکا گھونگھٹ اٹھا کر اسکی پیشانی چومی۔

"میری بیٹی اپنے گھر آگئی ہے۔"محبت سے اسے دیکھ کر بولیں۔ 

پھر ہاشم کی پیشانی پر بوسہ دے کر اسے گلے لگایا۔ 

"میرا شہزادہ بیٹا۔"اسکے کندھے پر ہاتھ پھیرا۔ہاشم نے مسکرا کر انکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔ 

"میری پیاری ام جان۔"محبت سے پر لہجے میں بولا۔ان ماں بیٹے کے پیار کو دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔ 

ہاشم نے نظر پلٹ کر دیکھا تو خان بابا آہستہ آواز میں نازلی سے بات کر رہے تھے۔ظلم یہ تھا کہ وہ اسکی طرف پشت کیے کھڑی تھی۔اسکا چہرہ وہ دیکھ ہی نہیں پایا تھا۔خان بابا نے اسکا سر تھپکا پھر پلٹ کر دوسری طرف چلے گئے۔ہاشم اسکی طرف بڑھا ہی تھا کہ اسکے سامنے شہریار ، اسفی ، داور آگئے اور باری باری اسے گلے مل کر مبارک دینے لگے تو وہ انکی طرف متوجہ ہوگیا۔تبھی آبی اور نور ، نازلی کی طرف آئیں اور اسے وہاں سے لے جانے لگیں۔

"ہماری دوست تھک گئی ہے اب ذرا آرام کے ساتھ ساتھ ہم تھوڑی باتیں بھی کرینگے اور آپ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں۔"نور شرارت سے بولی۔پھر وہ لوگ نازلی کو لے کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئیں۔ 

"اوئے ظالموں لالہ کو ایک بار بھابی کا چہرہ تو دکھا دو۔"داور نے احتجاج کیا۔ 

"ابھی نہیں ۔۔۔"آبی نے بنا پلٹے جواب دیا۔نازلی مسکراہٹ دبا کر انکے ساتھ آگے بڑھ گئی۔جبکہ ہاشم لمبی سانس بھر کر رہ گیا۔ 

وہ لوگ نازلی کو ہاشم کے کمرے میں نہیں لائی تھیں۔بلکہ اوپر ہی دوسرے کمرے میں لے کر آئیں۔

اسے بیڈ پر بیٹھا کر اسکا دوپٹہ ہٹایا جس سے اسے گھونگھٹ کروایا گیا تھا۔ 

"اب تم ریلیکس ہو کر بیٹھو۔میں پانی لے کر آتی ہوں۔"نور نے تکیہ اسکی کمر کے پیچھے رکھا تو وہ ٹیک لگا کر بیٹھی۔ 

"ہوں۔"نازلی نے سر ہلایا۔اتنا وقت بیٹھ بیٹھ کے اسکی کمر اکڑ گئی تھی۔وہ پر سکون ہو کر بیٹھی۔نور کمرے سے باہر نکل گئی اور آبی اسکے سامنے بیٹھی۔ 

"کیسا فیل ہورہا ہے؟"مسکرا کر پوچھا۔ 

"بہت اچھا۔۔۔۔ پر دل اداس بھی ہے کہ سب کو پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔"اسنے آبی کو دیکھ کر اداسی سے کہا۔ 

"کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا تم نے میری جان ، سب تمہارے ساتھ ساتھ ہیں۔تم سب رشتوں کو ساتھ لے کر چلو گی۔کسی ایک کا ہاتھ تھامنے سے دوسروں کا ہاتھ چھوڑ تھوڑی دیتے ہیں۔محبت بھرے تمام رشتے ہمیشہ انسان کے ساتھ چلتے ہیں۔"آبی نے محبت سے سمجھایا تھا۔ 

"ہاں پر بابا جان کو تو اکیلا چھوڑ آئی ہوں ناں میں۔"وہ آہستہ آواز میں بولی۔

"بیٹیوں کو تو اپنے باپ کا گھر چھوڑنا ہی ہوتا ہے نازلی۔یہ بات دکھ تو دیتی ہے پر ایک باپ کے دل کو خوشی و سکون سے بھی بھر دیتی ہے۔اور ہاں اب کسی چیز سے نہ ڈرنا کیونکہ جو تمہارا ہے وہ تم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔"آبی نے اسکے ہاتھ تھام کر نرمی سے کہا۔نازلی نے سر ہلا دیا۔

"چلو اب اداسی کو چھوڑو اور ذرا ہاشم لالہ کی حالت کو سوچو تمہارا چہرہ تک نہیں دیکھا جناب نے۔بھئی میں نے سوچا کیوں ناں لالہ کو ذرا تڑپایا جائے۔۔۔ ٹھیک کیا ناں؟"وہ شوخی سے ہنس کر پوچھنے لگی۔ 

"ٹھیک نہیں کیا ۔۔۔ یہ ظلم ہے ویسے۔"نازلی نے بھی شرارت سے جواب دیا۔ 

"اوئے ہوئے ابھی سے لالہ کے فیور میں بولنے لگی ہو۔"آبی نے ہنس کر اسکی چوڑیاں بجائیں۔  

"ہاں تو میرے شوہر ہیں انکے حق میں تو بولوں گی ناں۔"نازلی بھی گردن اکڑ کر بولی۔آبی زور سے ہنسنے لگی۔ 

"اففف لالہ کو بتانا پڑیگا وہ تو خوشی سے نہال ہوجائیں گے۔"آبی بیڈ سے اتری۔نازلی نے جلدی سے اسکا ہاتھ تھام کر روکا۔ 

"آرام سے بیٹھو یہاں۔"اسنے آبی کو واپس بٹھایا۔آبی نے ہنس کے آہستہ سے اسکا گال کھینچا تو وہ بھی مسکرانے لگی۔ 

نور پانی کا گلاس تھامے کچن سے نکل رہی تھی جب شہریار ایک دم اسکے سامنے آیا۔نور چونک کر رکی۔گلاس گرنے کو تھا جسے اسنے جلدی سے سنبھالا۔

"افف شہریار ابھی گلاس گر جاتا۔"وہ تپی تھی۔ 

"تو گرتا رہے ۔۔۔ تم نے صبح سے مجھ سے بات تک نہیں کی۔"شہریار نے خفگی سے اسے دیکھا۔ماہ نور نے لمبی سانس بھری۔

"غلطی ہوگئی جہاں پناہ جو آپ سے بات نہیں کر سکی۔"اسنے آنکھیں گھما کر شوخی سے کہا۔

"یہ غلطی ماننے والا انداز نہیں ہے مس۔"وہ جھنجھلا کر بولا 

"تو کونسا انداز ہوتا ہے غلطی ماننے والا؟"نور نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔ 

"کوئی اچھا جملہ کہہ لو ، ذرا پیار سے منا لو۔"وہ سنجیدہ تھا پر آنکھوں میں شوخی چمک رہی تھی۔ 

"آپ بہت اچھے ہیں شہریار"اسنے مسکرا کر کہا۔ 

"یہ تو مجھے معلوم ہے۔تمہیں اس کے علاوہ اور کچھ کہنا نہیں آتا؟"وہ ایک دم تپا تھا۔ 

"ہاں تو اور کیا کہوں؟یہ کیا برا کہا ہے میں نے؟"وہ بھی خفا ہوئی۔ 

"کچھ اچھا سا کہو۔"وہ ضد پر اڑا تھا۔ 

"کچھ اچھا سا ۔۔۔"وہ ہنسی دبا کر بولی۔شہریار نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"آپ نے کہا ناں کہ "کچھ اچھا سا" کہوں تو میں نے کہہ دیا۔"اسکے معصومیت سے کہنے پر شہریار نے اسے گھورا۔ 

"ماہ ۔۔"اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا۔ماہ نور نے مسکرا کر اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھاما۔ 

"آئی لو یو۔"اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھے پھر مسکرا کر اسے دیکھتی ایک دم وہاں سے باہر کی طرف بھاگی۔

جبکہ شہریار پہلے حیران ہوا پھر پلٹ کر دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔اسنے ایک دم مسکرا کر بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

"یہ لڑکی بھی ناں۔"ہنس کر کہتا وہ وہاں سے باہر نکلا۔ 

ماہ نور نے پانی کا گلاس نازلی کو تھمایا پھر تینوں کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔

اسفی چلا گیا تھا تو ہاشم وہاں سے لان میں آگیا۔اسنے لمبی سانس کھینچ کر تازہ ہوا کو سانسوں میں اتارا۔وجیہہ چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھری تھی۔اسنے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ 

اسنے اپنی کی غلطی کو سدھار لیا تھا۔آج وہ نازلی کو پوری عزت اور محبت سے رخصت کروا کر اپنے ساتھ لایا تھا۔دل ہلکا پھلکا سا ہوگیا تھا۔

ہر چیز مہکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔سب کچھ ہمیشہ سے بڑھ کر حسین لگ رہا تھا۔

وہ مسکرا کر پلٹا تو اسنے اپنے روم کی لائٹ جلتی ہوئی دیکھی۔کچھ پل دیکھتے رہنے کے بعد اسنے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ 

نور اور آبی اسے لیے ہاشم کے کمرے کی طرف بڑھیں۔کمرے کا دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر قدم رکھا تو ہزاروں پھولوں کی مہک نے انکا استقبال کیا تھا۔نور نے آگے بڑھ کر لیمپ آن کیے۔

زمین پر جیسے پھولوں کی قالین بچھی تھی۔دھیرے سے قدم اٹھاتی نازلی آگے بڑھنے لگی۔

"نازلی ۔۔۔ اب تم سنبھالو اپنے کمرے کو اور ہم گئے۔"نازلی نے رک کر انہیں دیکھا۔تبھی نور نے آگے بڑھ کر اسکا گال چوما۔ 

"لالہ کی جیب خالی کر کے ہی یہاں آنے کی اجازت ملے گی انہیں۔"آبی نے اسکے گلے لگ کر ہنستے ہوئے کہا۔نازلی ایک دم مسکرانے لگی۔ 

"تم نے آج میرے بھائی کو بڑا تنگ کیا ہے۔"نور نے آبی کو گھورا۔ 

"تم جو میرے بھائی کو روز تنگ کرتی ہو میں نے کبھی کچھ کہا تمہیں۔"وہ بھی پیچھے نہ رہی۔

"احد بھائی کو اللہ بچائے تم سے۔"نور کو احد کے لیے افسوس ہوا۔ 

"چلو چلو زیادہ احد کے لیے افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ خوش قسمت  ہیں کہ انہیں میں ملی ورنہ مجھ جیسی انہیں کہاں ملتی۔"آبی نے گردن اکڑی۔ 

"خیال کرو احد کی بہن یہیں ہے۔"نور نے شرارت سے نازلی کی طرف اشارہ کیا جو انکی باتوں پر مسکراہٹ دبا رہی تھی۔ 

"تو کیا ہوا ۔۔۔ میں نے سچ ہی کہا ہے۔"آبی نے آنکھ ماری۔ 

"چلو سچ کی کچھ لگتی ۔۔۔ بہت رات ہوگئی ہے۔"نور نے اسکا بازو کھینچا اور اسے لیے کمرے سے باہر نکلی۔ 

انکے جاتے ہی نازلی نے پلٹ کر ارد گرد دیکھا۔مدھم روشنی ، پھولوں کی مہک اور فضا میں رقص کرتا محبت کا احساس کمرے کو خوابناک بنا رہا تھا۔ 

جگہ جگہ پر پھول بکھرے تھے۔بیڈ کو خالی چھوڑا گیا تھا پر بیڈ کی پچھلی دیوار پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ہر چیز اپنی جگہ خوبصورت تھی۔ 

وہ چلتی ہوئی بالکنی کے دروازے کی طرف آئی۔سلائڈنگ ڈور کھول کر اسنے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔بادلوں میں سے جھانکتے چاند کو دیکھنے لگی پھر لہنگا سنبھال کر قدم اٹھاتی باہر نکلی۔نظریں اب بھی آسمان کو تک رہی تھیں۔وہ وہیں کھڑی زندگی کے پچھلے تمام لمحے سوچتی کھو سی گئی تھی۔

نور اور آبی جیسے ہی سیڑھیوں سے نیچے اتری انکا سامنا ہاشم سے ہوا۔آبی نے آنکھیں گھما کر نور کو دیکھا۔

ہاشم انکے اشارے سمجھ رہا تھا۔اسلیے خاموشی سے آگے بڑھا۔کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا پھر وہاں بیٹھ کر سفید شرٹ کی آستینیں اوپر کی طرف فولڈ کیں۔شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے پھر میز سے ریموٹ اٹھا کر ٹی آن کی اور ریلیکس ہو کر بیٹھتا ٹی وی دیکھنے لگا۔اسکا انداز دیکھ کر آبی کا منہ بن گیا۔وہ سمجھی تھی کہ ہاشم ،نازلی سے ملنے کا کہے گا اور وہ اسے تنگ کرے گی پر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ 

آبی کا منہ بن گیا اور نور کی ہنسی نکلی تھی۔  

"آپ یہاں کیوں بیٹھ گئے۔"آبی نے آگے بڑھ کر پوچھا۔

"ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔"ہاشم نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

"بیوی کو ابھی تک نہیں دیکھا اور ٹی وی دیکھنے لگ گئے۔"وہ افسوس سے بولی۔ 

"بیوی کو اب ساری زندگی دیکھنا ہے۔فلحال ٹی وی دیکھ لوں۔"اسکا انداز ہنوز وہی تھا۔آبی نے اپنا سر پیٹ لیا۔

"یہ ہاشم خان ہیں۔تم اور سوچو لالہ کو تنگ کرنی کی۔"نور نے اسے چھیڑا تھا۔آبی نے منہ بسورا۔ 

ہاشم نے مسکراہٹ دبا کر انہیں دیکھا پھر اٹھ کر کوٹ سے کچھ نکالا۔

"یہاں آؤ میری چڑیل بہنو۔"اسنے مسکرا کر پکارا۔ 

دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگیں پھر آگے بڑھیں۔ 

ہاشم نے ایک ایک ڈبیہ انہیں تھمائی۔دونوں نے ایک ساتھ کھولی تو اندر خوبصورت سے ڈائمنڈ ٹاپس تھے۔دونوں نے سر اٹھا کر ہاشم کو دیکھا۔

"تھینک یو میری بہنیں بننے کے لیے۔"اسنے باری باری دونوں کا سر سینے سے لگایا۔دونوں ایک دم ہنسنے لگیں۔

"اوہ لالہ آپ بیسٹ ہیں۔"آبی نے خوشی سے کہا۔

"بالکل۔۔"نور نے پیار سے بھائی کو دیکھا۔

"داور کے سامنے ایسا کچھ نہ کہنا ورنہ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ کیا ہوگا۔"ہاشم نے شرارت سے دونوں کو دیکھا۔

دونوں زور سے ہنسی تھیں۔تبھی پیچھے دیکھا تو داور کھڑا تھا۔

محترم مسکرا کر انکی طرف ہی بڑھ رہے تھے۔ 

"لالہ بیسٹ ہیں یہ بات تو میں مانتا ہوں چڑیلو۔"وہ انہیں دور  کرتا خود ہاشم کے قریب کھڑا ہوا۔ہاشم نے مسکرا کر اسکا کندھا تھپکا۔

پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے غائب ہوئے تو ہاشم نے اپنا کوٹ اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔

اسنے کمرے کا دروازہ کھولا۔ارد گرد نظر دوڑائی نازلی اسے کہیں نظر نہ آئی۔دروازہ بند کرتا وہ آگے بڑھا۔کوٹ بیڈ پر رکھا پھر آہستہ سے قدم بڑھاتا بالکنی کے دروازے کی طرف بڑھا۔

اسے وہ کانچ کی گڑیا وہیں کھڑی نظر آئی۔نیلی آنکھیں آسمان 

کو تک رہی تھیں۔ہاشم کو اسکی صرف دائیں طرف دکھائی دے رہی تھی۔وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر وہیں دہلیز پر ٹیک لگا کر کھڑا ہوا اور محبت سے اپنے سامنے کھڑی سوچوں میں گم شہزادی کو دیکھنے لگا۔ 

"گلاب ٹھیک ہیں ، اچھے ہیں پر یقین مانو۔"

"یہ سرخ کپڑے اسی ایک حسیں پہ جچتے ہیں۔"

وہ سرخ لباس میں ، اس سجے سنورے روپ میں اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ ہاشم کی نظریں اسکے سراپے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔

یہ وقت یہ لمحے کس قدر حسین تھے یہ کوئی ہاشم سے پوچھتا۔وقت نے اسے بڑا ستا کر اس لڑکی کو اسکی قسمت میں لکھا تھا۔اتنے انتظار کے بعد یہ وقت نصیب ہوا تھا جب وہ دونوں محبت کے سائے تلے ایک ساتھ کھڑے تھے۔ 

نازلی جب ہنوز اسی پوزیشن میں رہی تو ہاشم آہستہ سے قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا۔ 

اسکے بالکل پیچھے کھڑے ہو کر وہ اسکے کان کے قریب جھکا۔

"مسز ۔۔"اسکی بھاری آواز نے نازلی کو خیالوں کی دنیا سے کھینچ کر باہر نکالا تھا۔وہ چونک کر اسکی طرف پلٹی۔لہنگے کی وجہ سے لڑکھڑائی تھی جب ہاشم نے ایک دم اسکا بازو تھام لیا۔ 

"سنبھل کے یار۔"وہ مدھم سا مسکرایا۔اسکے مسکرانے پر ، اسکے دیکھنے پر نازلی کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں۔وہ بس ہاشم کو دیکھے گئی۔زبان سے کچھ بول نہ پائی۔ 

ہوا سے اسکا دوپٹہ پھڑپھڑانے لگا تھا۔کانوں میں پڑے جھمکے ہولے ہولے رقص کرنے لگے۔لٹیں جھوم اٹھی تھیں۔

ہاشم نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں کو پیچھے کے کر اسکے گال کو چھوا۔سیاہ آنکھیں اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھیں۔

"اتنا حسین ، اتنا معصوم کوئی کیسے ہو سکتا ہے۔"اسنے جیسے خود کلامی کی پھر اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اسکی پیشانی پر لب رکھے۔نازلی کی لرزتی پلکیں جھکتی چلی گئیں۔

"تم میری زندگی ہو نازلی۔۔۔ہاشم خان فدا ہے تم پر۔"سیاہ آنکھیں اس پر قربان جا رہی تھیں۔ 

نازلی کے لیے اوپر دیکھنا محال ہوگیا۔اسنے دوپٹے کی دونوں سائیڈز کو مٹھیوں میں بھینچ رکھا تھا۔

"مجھ سے نظر نہ چراؤ مسز ۔۔۔ مجھ سے اب یہ برداشت نہیں ہوگا۔"اسنے سنجیدگی سے کہا۔ 

"میں آپکی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتی۔"اسکے لب دھیرے سے ہلے۔

"کیوں؟"ہاشم نے محبت سے اسکا گال سہلایا۔ 

"آپکی آنکھوں سے ظاہر ہوتی محبت میری دھڑکنیں روک دے گی ہاشم۔"اسنے آخر کار پلکیں اٹھا کر دیکھا تھا۔

ہاشم ایک دم مسکرانے لگا۔ 

"ابھی تو ہماری دھڑکنوں نے ایک ساتھ دھڑکنا شروع کیا ہے۔پھر رکنے کا تو سوال ہی نہیں۔ہاشم خان تمہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دے گا۔تم پر میں اپنی سانسیں وار دونگا۔"اسنے مسکرا کر اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکا کر آنکھیں بند کیں۔

"آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے ناں؟"نازلی نے اپنے گال پر رکھے اسکے بائیں ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔

"آخری سانسوں تک۔"ہاشم نے وعدہ کیا۔ 

"مجھ سے محبت کرتے رہیں گے؟"اسنے سر پیچھے کر کے سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔وہ جادوئی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ 

"تم سے تو میں عشق کرتا ہوں نازلی ہاشم خان اور ہمیشہ کرتا رہونگا۔جب تک سانسوں کی ڈور بندھی رہے گی ہاشم خان تمہارے عشق کے حصار میں رہے گا۔تمہاری محبت کے حصار سے میں کبھی باہر آ ہی نہیں سکتا۔تم میری روح ہو۔تمہیں چھوڑا تو سمجھوں زندگی ہار دی۔"نازلی خواب کی سی کیفیت میں بنا پلکیں جھپکے اس پیارے شخص کو دیکھ رہی تھی۔افف وہ اس قدر پیارا کیوں تھا؟کیوں وہ اسکی سانسوں پر اختیار رکھتا تھا؟کیوں وہ پل بھر میں اپنی باتوں سے اسکے دل کی دنیا اتھل پتھل کر دیتا تھا؟ہاں وہ جادو گر تھا جسکے جادو سے کوئی نہیں بچ سکتا تھا پھر وہ نازک سی لڑکی کیسے بچ پاتی وہ تو اس پر دل و جان سے فدا ہوگئی تھی۔

"باندھ دیا ناں میں نے تمہیں اپنے ساتھ؟"محبت چھلکاتیں نیلی آنکھوں میں دیکھ کر لطف لیتے ہوئے پوچھا گیا۔

"ہمیشہ کے لیے۔"نازلی مدھم سی مسکرائی۔ 

ہاشم نے کچھ پل اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھام کر اسے لیے کمرے میں آیا۔ 

"تمہیں سب اچھا لگا؟"اسے اپنے سامنے بیڈ پر بٹھا کر پوچھا۔ 

"بہت اچھا۔"نازلی نے ارد گرد دیکھ کر نظریں ہاشم کے چہرے پر ٹکا دیں۔

"اس طرح دیکھو گی تو تمہاری آنکھوں میں ڈوب جاؤنگا میں مسز۔"اسنے ہنس کر نازلی کے ہاتھ تھامے۔نازلی مسکراہٹ دبا کر نظریں پھیر گئی۔ 

"تمہارے ہاتھ کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔"اسنے نازلی کی ہتھیلیوں کو اپنے سامنے کیا۔ 

"آپکے ہاتھوں میں۔"نازلی ایک دم کہہ گئی۔ہاشم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"ہاں میرے ہاتھوں میں۔"اسنے محبت سے اسکے ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں قید کیا۔

"نازلی۔۔۔"اسنے ایک دم پکارا۔ 

"ہوں ۔۔۔"نازلی دل و جان سے اسکی طرف متوجہ ہوئی۔ 

"تھینک یو میری زندگی میں آنے کے لیے۔"اسنے نازلی کی ہتھیلیوں کو چوما۔سیاہ دلکش آنکھوں میں اسکے لیے محبت ، عقیدت ، عزت کیا کچھ نہیں تھا۔ 

نازلی کی آنکھیں تیزی سے نم ہونے لگیں۔اسنے پلکیں جھپک کر نمی کو پیچھے دھکیلا تھا۔ 

"محترمہ رونے کے بارے میں بالکل نہیں سوچنا سمجھی۔"اسنے نرمی سے نازلی کا گال کھینچا۔نازلی خود پر ضبط کرتی مسکرا کر سر ہلانے لگی۔ 

"میں ابھی آیا۔"وہ اگلے پل اسکا ہاتھ تھپک کر اٹھ کھڑا ہوا۔پھر الماری کی جانب بڑھنے لگا۔

نازلی کی نظریں اسکا پیچھا کر رہی تھیں۔اسکی پشت نازلی کی طرف تھی۔اسنے الماری سے کچھ نکالا پھر پلٹ کر اسکی طرف آیا۔ 

اسکے سامنے بیٹھ کر اسنے باکس اوپن کر کے نازلی کے سامنے کیا۔

"میری خوبصورت سی مسز کے لیے خوبصورت سا تحفہ۔"اسنے نازلی کی حیرت بھری آنکھوں میں دیکھا۔

"میرے لیے؟"اسنے باکس تھام کر آہستہ سے پوچھا۔

"بالکل۔"وہ مبہوت سا اسکے چہرے پر پھیلتے رنگوں کو دیکھ رہا تھا۔

نازلی نے نظریں جھکا کر دیکھا تو باکس میں خوبصورت سا ڈائمنڈ نیکلیس تھا۔بہت نازک اور حسین ، زیادہ ہیوی نہیں تھا۔وائٹ گولڈ کی چین تھی۔جسکے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گول چھوٹے چھوٹے ڈائمنڈز لگے تھے۔نازلی نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اسے تھاما۔ 

 "یہ تو بہت خوبصورت ہے۔"ہاشم کو دیکھ کر بولی۔ 

"تمہاری طرح۔"ہاشم اسکی آنکھوں میں دیکھ کر مدھم سا مسکرایا۔

نازلی نے کچھ پل اسے دیکھا پھر باکس ایک طرف رکھ کر دونوں ہاتھوں سے نیکلیس تھام کر ہاشم کی طرف بڑھایا۔ 

ہاشم نے مسکرا کر نیکلیس تھاما۔پھر مزید نازلی کے قریب ہوا اور ہاتھ بڑھا کر اسکے گلے میں ڈالنے لگا۔

اسکے ہاتھوں نے نازلی کی گردن کو چھوا تو نازلی کانپ سی گئی۔ہاشم اپنے چہرے کے قریب اس حسین چہرے کو دیکھنے لگا۔نیلی آنکھیں اس سے گریزاں تھیں۔مٹھیاں بھینچیں ہوئی تھیں۔اسنے سانس تو بالکل روک رکھی تھی۔۔۔۔ ہاشم اسکی حالت پر مسکرایا۔ 

"ریلیکس ۔۔۔"اسکے کان میں سرگوشی کی گئی۔نازلی کی حالت غیر ہونے لگی۔ 

ہاشم اسے نیکلیس پہنا چکا تھا۔تھوڑا چہرہ پیچھے کر کے اسنے نازلی کو دیکھا۔

"خوبصورت لگ رہا ہے ناں؟"اسنے ایک دم پوچھا۔نازلی اپنی کیفیت سے نکل کر اب اپنی گردن میں چمکتے نیکلیس کو دیکھنے لگی۔ 

"ہوں۔۔۔"اسنے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا پھر ہاشم کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ 

"تم اب بھی میرے قریب آنے سے ڈرتی ہو؟"ہاشم اسکی کچھ پل پہلے کی کیفیت کو دیکھ کر بولا۔ 

نازلی نے کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھا پھر بولی۔"مجھے اس سب پر یقین نہیں آرہا کہ آپ میرے سامنے ہیں ہاشم۔کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔میں ۔۔۔ میں ڈرتی ہوں کہ اگر آپکے قریب آئی اور آپ میری نظر کا دھوکہ ہوئے تو ؟ کہیں میرا یہ خواب ٹوٹ نہ جائے کہیں میری آنکھ کھلے اور میرے سامنے وہی تلخ حقیقتیں ہوں جن سے میں بھاگنا چاہتی ہوں۔تو پھر تب میں کیا کرونگی۔"وہ نم آنکھوں کے ساتھ بتانے لگی۔

ہاشم نے آہستہ سے آگے جھک کر اسکے گال پر بوسہ دیا پھر اسکے گرد بازو پھیلا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ 

"یہ کوئی نظر کا دھوکہ نہیں ہے میری جان ، نہ ہی خواب ہے۔یہ ایک حقیقت ہے۔ہاشم اور نازلی کی حقیقت جو تلخیوں کی دوپ   کاٹ کر آج محبت کی چھاؤں تلے ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔اب کوئی بھی ہمارے درمیان نہیں آئے گا۔ہماری محبت بھری دنیا میں اب کوئی تلخی نہیں آئے گی۔کوئی برائی ہماری اس حسین دنیا میں قدم نہیں رکھ پائے گی۔"وہ آہستہ آہستہ کہتا محبت سے اسکا سر سہلا رہا تھا۔

نازلی نے اسکی شرٹ کو سختی سے تھام رکھا تھا۔آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ 

"مجھے آپ سے دور جانے سے ڈر لگتا ہے ہاشم۔میں آپکے بغیر ایک پل نہیں رہنا چاہتی۔"اسنے نم آواز میں اپنا ڈر بتایا۔ 

"شش نازلی ۔۔۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ۔۔ میں تم سے دور کہیں نہیں جاؤنگا۔میں ہمیشہ تمہارے قریب رہونگا۔تمہارا سایہ بن کر۔۔"اسنے نازلی کے بالوں میں لب رکھے۔ 

"جمال آغا واپس تو نہیں آئے گا ناں ہاشم ؟"کب سے چھپا یہ سوال اسکی زبان پر آیا تھا۔

ہاشم ایک دم تھم سا گیا۔اسنے نازلی کو خود سے الگ کر کے اسکے بھیگے چہرے کو دیکھا۔

"تم ابھی تک اس شخص کے خوف کے حصار میں ہو؟"

نازلی نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"میں چاہتی ہوں کہ میں ان لمحوں کے بارے میں نہ سوچوں پر ہاشم میری سوچوں پر میرا بس نہیں ہے۔مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ آ کر آپکو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔کہیں وہ مجھے آپ سے دور نہ کر دے۔"اسنے آخر میں ہچکی بھری۔ 

ہاشم نے لمبی سانس کھینچ کر اسکے آنسو صاف کیے۔ 

"تمہیں مجھ پر یقین ہے؟"اسنے سنجیدگی سے پوچھا۔ 

"خود سے بڑھ کر۔"نازلی نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ 

"تو مسز ۔۔۔ ہاشم خان پر یقین رکھو کہ اب کی بار ایسا کچھ نہیں ہوگا۔کوئی جمال آغا یا کوئی دوسرا تیسرا ہمیں الگ نہیں کر سکتا۔اللہ نے ہمیں ایک کیا ہے تو کسی کی کیا مجال جو ہمیں جدا کر سکے۔"اسنے پیار سے نازلی کے گال کو چھوا۔

"تو بتاؤ اب بھی اس ڈر کو دل میں جگہ دوگی؟"ابرو اٹھا کر پوچھا۔

"نہیں۔۔"اسنے معصومیت سے جواب دیا۔

"رونا بھی نہیں ہے اب۔"نرمی سے کہا گیا۔ 

"کبھی کبھی تو رویا جا سکتا ہے ناں۔"نازلی آہستہ سے بولی۔

"رونے کے لیے کندھا حاضر ہے۔جب رونا آئے تو میرے کندھے سے لگ کر رو لینا۔"اسنے مسکرا کر نازلی کی ناک دبائی۔ 

"اور جب خوشی ہوں تو؟"نازلی نے مسکرا کر پوچھا۔ 

"تو کندھے سے لگ کر ہنس لینا مسز بندہ حاضر ہے۔"وہ سر کو خم دے کر بولا۔ 

نازلی نے محبت سے اسے دیکھا پھر اگلے پل اسکے کندھے سے لگ گئی۔ہاشم نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اسکے گرد مضبوط بازوؤں کا حصار باندھ لیا۔ 

"یہ رونے کے لیے کندھے سے لگی ہو یار یا خوشی میں؟"سوالیہ انداز میں پوچھا گیا۔ 

"آپ سمجھ لیں۔"وہ کہہ کر ہنسی تھی۔ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔اسے خود میں سمیٹ کر اسنے سکون سے آنکھیں بند کر لیں۔ 

نفرت ، تلخی ، جدائی کیا کچھ نہیں گزرا تھا انکے اوپر پر ایک لمبے عرصے کے سفر کے بعد آج دونوں کو اپنی منزل ملی تھی۔انکی زندگی میں ملن کا موسم آیا تھا۔محبت نے دونوں دیوانوں کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا تھا۔انتہا کا عشق کرنے والے اپنے عشق کو پا ہی لیتے ہیں۔محبت اگر سچی ہو تو بھلے ہی سو طوفانوں میں کشتی گھری ہو آخر کار ساحل تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ 

"من کی لاگی من ہی جانت۔"

"تم جانت ہو سارا خمار پیا۔"

"موہے غیر کی اب ہو کیا چاہت۔"

"موہے بس ایک تو درکار پیا۔"

ہاشم جاگنگ کر کے واپس لوٹا۔کمرے میں آیا تو دیکھا نازلی کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔سیاہ بال پشت پر لہرا رہے تھے۔لائٹ گرین لباس میں وہ تازہ کلی لگ رہی تھی۔ہاشم آہستہ سے اسکے قریب آیا اور اسکے گرد بازوؤں کا گھیرا بنا کر ٹھوڑی اسکے کندھے پر رکھی۔نازلی چونکی پھر ذرا سی گردن پھیر کر اسے دیکھا۔

"کیا سوچا جا رہا ہے۔"اس نے مدھم آواز میں پوچھا۔

"سوچ رہی تھی کہ محترم کب آئیں گے اور کب ہم نیچے جائیں گے۔"وہ مدھم سی مسکرا کر بولی۔ 

"ہوں ۔۔۔تو سوچیں میرے ہی گرد گھوم رہی تھیں۔"اسنے نازلی کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ 

"جی ہاں۔"نازلی نے مسکان دبا کر سر ہلایا۔ 

"چلیں اب آپ جلدی سے تیار ہو جائیں۔پھر نیچے چلتے ہیں۔"اسنے ہاشم کے بازوؤں کا گھیرا توڑنا چاہا پر دوسری طرف گرفت مضبوط تھی۔ 

"ایسے تو نہیں چھوڑونگا مسز۔"ہاشم نے اسکے کان کے قریب پھونک ماری۔

"ہاشم ۔۔۔"نازلی ایک دم ہنسنے لگی۔اسے ایسے گدگدی ہوتی تھی۔اسے کھل کر ہنستے دیکھ کر ہاشم اسکی ہنسی میں کھو گیا۔نازلی موقع پا کر اسکے حصار سے نکلی پھر اسکے بازو کو دونوں ہاتھوں  سے تھام کر اسے واش روم کی طرف لے کر آئی۔

"جلدی سے فریش ہو کر آئیں اب۔"اسنے واش روم کا دروازہ کھولا۔ 

"رعب ڈالا جا رہا ہے؟"ہاشم نے دیوار سے ٹیک لگا کر پوچھا۔

"جی ہاں۔"نازلی نے گردن اکڑ کر جواب دیا۔

"افف کیا دن آگئے ہیں۔"ہاشم نے شوخی سے کہہ کر بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

نازلی مسکراہٹ دبا کر پلٹی اور الماری سے اسکے لیے بلیک شلوار قمیض نکالی پھر اسے کپڑے تھما کر واش روم کے اندر دھکیلا۔

"افف کتنی ظالم ہوگئی ہو۔"ہاشم نے مصنوعی حیرت سے کہا۔

"ہونا پڑتا ہے۔"اسنے ہنس کر واش روم کا دروازہ بند کیا۔

ہاشم شاور لے کر باہر آیا تو نازلی موبائل کے ساتھ لگی تھی۔

اسے دیکھ کر مسکرائی پھر موبائل پر مسیج ٹائپ کرنے لگی۔

ہاشم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آیا اور بالوں میں برش پھیرنے لگا۔

"آنی کا سلام قبول کریں۔"اسنے مسکرا کر ہاشم سے کہا۔ 

"وعلیکم السلام ۔۔ میری طرف سے بھی سلام۔"ہاشم نے جواب دے کر پرفیوم اسپرے کیا۔تبھی نازلی بھی بات ختم کر کے جلدی سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آئی اور دوپٹہ ٹھیک سے سر پر لینے لگی۔ہاشم اپنی تیاری مکمل کر کے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اسے دیکھنے لگا۔

اسنے دوپٹہ ٹھیک کیا پھر نیکلیس کو چھو کر دیکھا۔وہ اپنے خیال میں مسکرائی تو ہاشم اسکی مسکراہٹ دیکھ کر مسکرا دیا۔ 

"مسز ہاشم۔۔"ہاشم نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ 

"ہوں ۔۔"اسنے ایک دم ہاشم کو دیکھا۔

"چلیں چلیں۔۔۔سب انتظار کر رہے ہونگے۔"پھر یاد آنے پر جلدی سے بولی۔ 

ہاشم نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔جس پر اسنے محبت سے اپنا ہاتھ رکھا اور ہاشم اسے لیے باہر کی طرف بڑھا۔ 

وہ نیچے آئے سب ناشتے پر انکا انتظار کر رہے تھے۔دونوں باری باری سب سے ملے۔پھر ناشتہ کرنے لگے۔ 

ناشتے کے دوران ولیمے کی تیاریوں کی باتیں ہونے لگیں۔ 

"لالہ نے تمہارے لیے خود ولیمے کا ڈریس پسند کیا ہے۔"نور نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔

"وائٹ؟"نازلی مسکرائی۔ 

"یس ۔۔۔ لالہ کا فیوریٹ کلر۔"آبی نے لقمہ دیا۔ 

"اور نازلی کا بھی۔"نور نے مسکرا کر کہا۔ 

"کتنے ملتے ہیں یہ ایک دوسرے سے ماشاء اللہ۔"آبی نے نظر اتاری تھی۔ 

"گفٹ تو دکھاؤ کیا ملا۔"آبی نے ایک دم پوچھا۔

"یہ ۔۔۔"اسنے نیکلیس کی طرف اشارہ کیا۔  

"ماشاء اللہ ۔۔۔"آبی نے محبت سے کہا۔ 

"بہت پیارا لگ رہا ہے تم پر۔"نور نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر بولی۔نازلی کے لبوں پر میٹھی سی مسکان پھیل گئی۔جو ہاشم کی نظروں سے چھپی نہ رہ سکی۔ 

"آہ ۔۔۔"تبھی داور نے ٹھنڈی آہ بھری۔ہاشم نے چونک کر اسے دیکھا۔ 

"جانے میرا وقت کب آئے گا۔"اسنے افسوس سے کہا۔ 

"ابھی ہی۔"شہریار جو اسکی دوسری طرف بیٹھا تھا ایک دم بولا۔ 

"کیسے؟"داور خوش ہوا۔ 

"کیونکہ میں خان بابا کو بتانے لگا ہوں کہ داور جلد سے جلد  شادی کرنا چاہتا ہے۔"شہریار نے ہاشم کی طرف آنکھ مار کر شوخی سے کہا۔ 

"یہ کہیے ناں کہ خان بابا کے ہاتھوں میری کھینچائی کروانا چاہتے ہیں۔"وہ دکھ سے کہتا خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔جبکہ ہاشم اور  شہریار اسے دیکھ کر مسکراہٹ دبانے لگے۔ 

ولیمے کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔حویلی کو نئے سرے سے سجایا جا رہا تھا۔سب کاموں میں لگے تھے۔ 

کام ختم ہوا تو سب اپنی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ 

آبی کے روم میں وہ تینوں اور چھوٹی پٹھانی تیار ہو رہی تھیں۔نور اور آبی نے مل کر نازلی کو تیار کیا پھر خود اور چھوٹی پٹھانی کو تیار کرنے لگیں۔

نازلی تیار سی بیڈ پر بیٹھی انکی تیاری دیکھ رہی تھی۔خاموشی سے بیٹھی وہ معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی۔سفید لباس اس پر خوب جچ رہا تھا۔پاؤں کو چھوتی فراک جسکی آستینیں لمبی تھیں۔کپڑے آستینوں سے لے کر کمر تک نفیس موتیوں کے کام سے بھرے ہوئے تھے جبکہ کمر کے نیچے ڈریس سمپل تھا۔دوپٹے کو ایک سائیڈ پر ڈالا تھا۔بالوں کی سیدھی مانگ نکال کر   کھلا چھوڑا گیا تھا۔

جیولری میں اسنے ہاشم کا دیا ڈائمنڈ نیکلیس پہنا تھا اور ہاتھ میں رنگ تھی۔میک اپ بھی بہت لائٹ کیا گیا تھا۔اس سب تیاری میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ 

جبکہ نور نے بلیک ، آبی نے پیچ اور چھوٹی پٹھانی لال فراک 

میں حسین لگ رہی تھیں۔ 

وہ سب تیار ہو چکی تھیں جب دروازے پر دستک ہوئی۔اجازت ملنے پر داور اندر آیا۔

"وہ ذرا بات سنو تم لوگ۔"سب اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔ 

"کیا ہوا؟"آبی نے اسے دیکھا۔

"وہ لیلیٰ نہیں آئی ابھی تک؟"اسنے سر کھجا کر پوچھا۔اسکی بات پر وہ سب ہنسنے لگیں۔ 

"دیکھو تم زیادہ اسے تنگ نہ کیا کرو ۔۔ وہ پریشان ہوتی ہے سمجھے۔"آبی نے اسے وارن کیا 

"میں معصوم سا بھلا کہاں کسی کو تنگ کرتا ہوں۔" 

"اچھا معصوم سے ۔۔ تو اب لیلیٰ کو بھول جاؤ اور اپنا کام کرو۔"آبی نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔ 

"وہ نہیں بھولتی جہاں جاؤں۔"

"ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں۔" 

وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر بڑی ادا سے بولا پھر پلٹ کر کمرے سے نکل گیا۔

"افف پاگل کہیں کا۔"نور زور سے ہنسی۔ابھی اسکی بات مکمل ہوئی ہی تھی جب پھر دستک ہوئی پوچھنے پر دوسری طرف سے شہریار نے اسے پکارا۔ "نور ذرا یہاں آنا۔"

"آج جانے دونوں بھائیوں کو کیا ہوگیا ہے۔"نور نے حیرت سے کہا۔آبی اور نازلی ہنسنے لگیں۔

"جاؤ جاؤ ورنہ لالہ یہیں سے اٹھا کر لے جائنگے۔"آبی نے اسے دروازے کی طرف دھکیلا تو وہ جلدی سے باہر نکلی۔ 

اسکے باہر آتے ہی شہریار نے اسکا ہاتھ تھاما۔نور ارد گرد دیکھنے لگی۔مہمان آنے شروع ہو چکے تھے اور وہ سب کے سامنے اسے اس طرح لے کر جارہا تھا۔

"شہریار سب دیکھ رہے ہیں۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

"تو بیوی کو ہی لے کر جا رہا ہوں کسی اور کو تو نہیں۔"شہریار نے لاپرواہی سے جواب دیا۔نور لمبی سانس بھر کر رہ گئی۔ 

شہریار اسے لیے کمرے میں آیا۔ماہ نور نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"کیا ہوا؟"اسنے پریشانی سے پوچھا۔ 

"یہاں آؤ ماہ۔"شہریار بیڈ پر بیٹھا اور اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔نور وہاں بیٹھ گئی۔تبھی شہریار نے سائیڈ ٹیبل سے ایک باکس نکالا۔نور نے حیرت سے اسے دیکھا۔شہریار نے باکس کھولا تو اندر ہر رنگ کی چوڑیاں تھیں۔

ماہ نور کی آنکھیں چمکنے لگیں۔افف اس شخص کو تو گفٹ دینا بھی نہیں آتا تھا۔آندھی طوفان کی طرح اسے سبکے سامنے لے کر آیا تھا کہ وہ سمجھی جانے کیا بات ہوگئی ہے اور اب محترم 

اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ 

"ہاتھ لاؤ۔"اسنے بلیک چوڑیاں اٹھا کر کہا۔ماہ نور نے اپنا بایاں ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔جسے تھام کر وہ چوڑیاں پہنانے لگا۔ 

نور محبت سے اس شخص کو دیکھتی رہی۔اس شخص نے اسے خوب ستایا تھا پر اب اس سے اتنی ہی محبت کرتا تھا۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔۔۔ اسے پھولوں کی طرح رکھا تھا اسکے جن نے۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر مسکرائی۔

شہریار نے اسے دیکھا۔"کیوں مسکرایا جا رہا ہے؟"چوڑیاں پہنا کر وہ اب اسکی چوڑیوں کو چھو کر دیکھنے لگا۔ 

"سوچ رہی ہوں کہ جن ہیرو بھی بن سکتے ہیں۔"اسنے شرارت سے کہا۔ 

"اور چڑیل ہیروئن۔"شہریار نے بھی اسی کا تیر واپس لوٹایا تھا۔پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر دونوں ایک دم  ہنسے تھے۔ 

"چلو اب۔"وہ اٹھا اور ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اٹھایا۔ 

"شہریار۔"وہ آگے بڑھنے لگا جب ماہ نور نے اسے پکارا۔وہ رک کر پلٹا۔

ماہ نور بنا کچھ کہے آگے بڑھی اور شہریار کے سینے سے لگ گئی۔وہ پہلے تو حیرت ہوا پھر اپنی زندگی کو بازوؤں میں سمیٹ لیا۔

"آپ سا پیارا کوئی نہیں ہے شہریار خان۔"اسنے محبت سے پر لہجے میں کہا۔شہریار کے وجیہہ چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ 

"اور تم سی حسین کوئی نہیں ہے۔"شہریار نے اسکی پیشانی چومی۔ماہ نور نے مسکرا کر اسے دیکھا پھر اسکا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر آئی۔اسکی زندگی اس قدر حسین ہوجائے گی اسنے کبھی نہیں سوچا تھا۔پر اس ایک شخص کی وجہ سے اسکی زندگی خوشبوؤں سے مہک اٹھی تھی۔ 

سب مہمان آ چکے تھے۔ہاشم ، نازلی اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ہاشم نے چاکلیٹ کلر کا سوٹ پہنا تھا۔سب انہیں مبارک باد دے رہے تھے۔سیماب انسے ملیں اور انہیں خوش دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں۔حسن آفندی کا بھی یہی حال تھا۔

تابین اور امتل آفندی بھی وہاں موجود تھیں۔تابین ، نازلی کے لیے خوش تھی۔نازلی سے مل کر اسکے دل کو سکون ملا تھا۔

لیلیٰ تو تتلی کی طرح اڑتی پھر رہی تھی۔پر جہاں داور نظر آتا وہاں سے غائب ہوجاتی۔ 

ہاشم اور نازلی اسٹیج پر بیٹھے تھے۔جب مہمانوں کا رش کم ہوا تو ہاشم نے اسے دیکھا۔ 

"تم بہت پیاری ، بہت پاکیزہ اور انمول ہو نازلی۔"اسکی بھاری آواز نازلی کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔نازلی نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔اسکی بات نے سیدھا دل پر اثر کیا تھا۔وہ ایک دم مسکرانے لگی پھر اپنا نازک ہاتھ ہاشم کی طرف بڑھا دیا۔جسے جان لیوا مسکراہٹ کے ساتھ اسنے نرمی سے تھام لیا۔

تبھی پاس سے گزارتے داور نے سیٹی بجائی تھی۔نازلی کے گال ایک دم گلابی ہوئے تھے۔پر ہاتھ اب بھی ہاشم کے ہاتھ میں تھا۔اس عمل کے علاوہ اسکے پاس الفاظ نہ تھے کہ وہ اسکی بات کا جواب دے پاتی۔ 

آبی آگے بڑھ رہی تھی جب احد نے اسکا راستہ روکا۔ 

"آپ تو مجھے بھول ہی گئی ہیں۔"اس نے شکوہ کیا۔ 

آبی کو داور کا کہا شعر یاد آیا تو اسنے مسکرا کر احد کو دیکھا۔ 

"یاد تو کرتی ہوں میں آپکو۔"وہ ایک دم بولی۔ 

"واقعی؟"احد نے خوشی سے پوچھا۔آبی نے گردن ہلا دی۔ 

"تو جب یاد کیا کریں تب کال کر لیا کریں ناں محترمہ۔"

"تو کیا میں آپکو چوبیس گھنٹے کال کیا کروں؟"اسکی زبان پھسل گئی تھی۔احساس ہوا تو اسنے ایک دم زبان دانتوں میں دبائی۔ 

احد نے حیرت و خوشی سے اسے دیکھا۔لبوں پر مسکراہٹ بہار دکھانے لگی۔آبی ایک دم جانے لگی جب احد نے اسکا ہاتھ تھام کر روکا۔ 

"رشتہ تو پکا ہو چکا ہے جلد منگنی کی تاریخ لینے بھیجوں گا بھائی بھابی کو۔"اسنے نرمی سے کہہ کر اسکا ہاتھ چھوڑا۔ 

آبی آگے بڑھی پر کچھ قدم چلنے کے بعد رک کر پلٹی اور مسکرا کر احد کو دیکھا۔احد کا دل ہاتھوں سے جانے لگا۔وہ چلی گئی اور احد کی نظروں نے دور تک اس پیاری لڑکی کا پیچھا کیا تھا۔ 

تابین ایک طرف کرسی پر بیٹھی تھی جب اسفی اسکی طرف آیا۔ہاتھ میں دو جوس کے گلاس تھے۔جس میں سے ایک اسنے تابین کے سامنے رکھا اور دوسرا اپنے سامنے رکھ کر کرسی پر بیٹھا۔"کیسی ہو؟"

"تمہاری سامنے ہوں دیکھ لو۔"تابین نے مسکرا کر روکھا جواب دیا۔ 

"ظاہری طور پر تو بہت خوش لگ رہی ہو۔پر اور کوئی جانے نہ جانے میں تمہارے دل کا حال جانتا ہوں۔"وہ نرمی سے بولا۔ 

"تم میرے دل کا حال کیوں جانتے ہو اسفی؟جسے جاننا چاہیے تھا اسنے تو کبھی جانا ہی نہیں۔"اسکا لہجے میں اداسی اتری۔ 

"کیونکہ میرے اپنے دل کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ایک چوٹ کھایا ہوا دوسرے چوٹ کھائے ہوئے کا درد اچھے سے جانتا ہے۔"وہ اب جوس پینے لگا۔ 

"تم خود کو اس راہ پر مت لاؤ اسفی۔"تابین دکھ سے بولی 

"ممکن نہیں۔"انداز لاپرواہ تھا۔ 

"درد کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔"تابین طنزیہ ہنسی۔

اسکی بات پر اسفی نے مسکرا کر گلاس نیچے رکھا پھر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے بولا۔"اس درد سے تو میں برسوں گزرا ہوں تابین ، تمہیں کچھ عرصے پہلے پتہ چلا کہ جس سے تم محبت کرتی ہو وہ کسی اور کو چاہتا ہے پر میرا سوچو میں تو برسوں سے یہ جانتا تھا کہ جس سے میں محبت کرتا ہوں وہ کسی اور کی محبت میں مبتلا ہے۔اور وہ "کسی اور" بھی کون ۔۔۔ میرا یار ۔۔ میرا دوست ۔۔۔ کیا میرے درد کا اندازہ لگا سکتی ہو تم ؟ تمہیں اپنی محبت کے ملنے کی امید تو تھی پر میرے ہاتھ میں تو کوئی امید کی روشنی تک نہ تھی۔آج تم جس مقام پر کھڑی ہو تابین ۔۔۔ اسفندیار مالک اس پر ایک عرصے سے کھڑا ہے۔"وہ بول رہا تھا اور تابین سانس روکے سن رہی تھی۔ 

"میں نے تمہیں اپنا ہاتھ تھام لینے کا کہا تھا پر تم چلی گئی۔مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے تھا۔تمہاری محبت بھی نہیں کیونکہ میرے دل میں تمہارے لیے اتنی محبت ہے کہ اگر ساری زندگی تم مجھ سے محبت نہ بھی کرو تو میں تمہیں چاہتا چلا جاؤنگا۔میرے لیے میری محبت کافی ہے۔تم مجھے ملو تب بھی اور نہ ملو تب بھی۔میری محبت میں اتنا ظرف ہے تابین کہ مجھے آج بھی تمہاری خوشی کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔میں نے سوچا تھا میں اس بار تمہیں روک لونگا۔کہیں جانے نہیں دونگا پر اگر تمہاری خوشی سب سے بھاگنے میں ہے تو میں اب کی بار تمہیں نہیں روکوں گا۔محبت کو چھوڑ دینا میرے بس میں نہیں ہے۔وہ ساری زندگی تم سے ہی رہے گی پر آگے سے یہ اسفندیار تمہاری راہ میں کبھی نہیں آئے گا۔"ضبط سے لال ہوتی آنکھوں کو اس پر سے ہٹا کر وہ اٹھا اور وہاں سے دور ہوتا چلا گیا۔جبکہ تابین بت بنی بیٹھی تھی۔اسفی کی باتیں اسکے ذہن میں گونج رہی تھیں۔وہ وہیں بیٹھی اسکی ایک ایک بات پر غور کرنے لگی۔ 

سب فنکشن کو خوب انجوائے کر رہے تھے۔رات کے سائے گہرے ہوئے تو سب کھانے کے بعد آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگے۔ 

سیماب اور حسن آفندی کی فیملی ابھی وہیں تھی۔سب لوگ محفل لگا کر بیٹھے تھے۔

نور ، آبی اور لیلیٰ سب کے لیے چائے بنانے گئی تھیں۔

داور بھی انکے پیچھے پیچھے تھا۔لیلیٰ جب نازلی کو ڈریس چینج کرنے کا کہنے ہال میں آئی پھر واپس کچن کی طرف جانے لگی تو راستے میں داور اسکے سامنے آ گیا۔ 

"آج بڑا چھپا جا رہا ہے مجھ سے خیر تو ہے؟"اسنے شوخی سے پوچھا۔

"میں کیوں چھپنے لگی آپ سے۔"لیلیٰ نے نظریں چرا کر ناک چڑھائی۔

"نظریں بھی چرا رہی ہو دال میں کچھ تو کالا ہے۔"وہ مشکوک ہوا۔

"ایسی صورت سے نظریں ہی چرائی جا سکتی ہیں۔"وہ طنزیہ بولی۔ 

"ہاں ورنہ اتنی ہینڈسم صورت کو مسلسل دیکھنے سے محبت ہونے کا ڈر ہے اسلیے نظریں چرا کر تم خود کو بچا رہی ہو۔"اسنے جیسے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔

"اونہہ ۔۔۔ خوش فہمیاں۔۔۔ ہٹیں میرے راستے سے۔"لیلیٰ کو غصہ آنے لگا۔

"اب تو آپکے راستے میں ہم ہی ہم ہیں۔آپ ہمیں ہٹا نہیں پائیں گی۔"وہ کالر جھاڑ کر بولا۔

لیلیٰ نے زور سے زمین پر پاؤں پٹخا اور جانے کے لیے پلٹی۔ 

"ارے رے آرام سے نازک پاؤں میں چوٹ آجائے گی۔"وہ بڑے پیار سے بولا اور لیلیٰ نے جاتے جاتے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔

"ہائے میں گیا۔"داور نے ڈرامائی انداز میں دل پر ہاتھ رکھ کر گرنے کی ایکٹنگ کی۔ 

"ڈرامے باز۔"لیلیٰ نے دانت پیس کر کہا پھر کچن میں جانے کے بجائے واپس سب کے بیچ آ کر بیٹھ گئی۔دماغ میں داور ہی داور کے سینز چل رہے تھے۔اسکے لیے اس جن سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا تھا۔ 

نازلی چینج کرنے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔وہ کمرے میں آئی تو ہاشم کو بیڈ پر بیٹھے پایا۔وہ کچھ پریشان سا لگ رہا تھا۔

"کیا ہوا ہاشم؟"اسنے آگے بڑھ کر فکر مندی سے پوچھا۔ہاشم نے موبائل اسکی طرف بڑھایا۔ 

تابین کا مسیج آیا ہوا تھا کہ اسے جمال آغا کے متعلق ان دونوں سے کوئی بات کرنی ہے۔اسلیے وہ لان میں انکا انتظار کر رہی ہے۔

مسیج پڑھ کر نازلی کا وجود لرزنے لگا۔اسے لگنے لگا کہ اسکا ڈر سچ کا روپ دھارنے والا ہے۔اسکے ہاتھ سے موبائل بیڈ پر گرا تھا۔

اسنے خوف سے ہاشم کی طرف دیکھا۔ہاشم نے اٹھ کر اسے گلے لگایا۔"کچھ نہیں ہوگا۔سب ٹھیک ہے۔"اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر نرمی سے سمجھایا پھر اسکا ہاتھ تھام کر نیچے آیا۔وہ بیک ڈور سے لان میں آئے تا کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ 

تابین کرسی پر بیٹھی انکا انتظار کر رہی تھی۔وہ دونوں اسکے سامنے جا کر بیٹھے۔

"کیا بات ہے آپی؟"نازلی نے ڈر کر پوچھا جبکہ ہاشم خاموشی سے زمین کو گھور رہا تھا۔تابین نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ہاتھ بڑھا کر میز سے اپنا موبائل اٹھایا۔

"جمال آغا نے تم دونوں کے نام ایک پیغام بھیجا ہے۔میں نے اتنے دن انتظار کیا تا کہ تم لوگوں کی خوشیوں میں جمال آغا کا کوئی ذکر نہ ہو پر اسنے مجھے ایک پیغام دیا تھا جو مجھے تم لوگوں تک پہنچانا ہی تھا۔"

اسنے موبائل کو پانچ چھ بار ٹچ کیا پھر انکی طرف بڑھا دیا۔نازلی نے جلدی سے موبائل تھاما۔ہاشم بھی اسکی طرف متوجہ ہوا۔

دونوں نے موبائل اسکرین پر جو بھی دیکھا اسنے انہیں حیرت میں ڈال دیا۔ایک چھوٹی سی ویڈیو تھی جس میں چند باتیں ہی کی گئی تھیں۔نازلی بار بار ویڈیو پلے کر کے خود کو یقین دلانا چاہ رہی تھی کہ وہ جو بھی دیکھ رہی ہے وہ سچ ہے۔ 

موبائل میں جمال آغا کی ویڈیو تھی۔وہ وہیل چیر پر بیٹھا تھا۔چہرہ اتنا خراب ہو چکا تھا کہ اسے پہچاننا مشکل ہورہا تھا۔نازلی نے ایک بار پھر ویڈیو پلے کی۔۔۔۔۔

"تم دونوں مجھے معاف کر دو ، تم دونوں کے ساتھ بہت برا کیا ہے میں نے پر اصل میں ، میں نے تم لوگوں کے ساتھ نہیں اپنے ساتھ برا کیا ہے۔میرے کیے کی سزا اللہ نے مجھے دے دی ہے۔تم دونوں مجھے معاف کر کے میرے دل سے بوجھ ہٹا دو ورنہ میں جی نہیں پاؤنگا۔" 

ویڈیو ختم ہوچکی تھی۔نازلی نے سر اٹھا کر تابین کو دیکھا۔

"یہ ۔۔۔" وہ حیران تھی۔ 

"یہی سچ ہے نازلی۔۔۔بندہ اگر خاموش رہ بھی لے پر اللہ ظلم کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔"تابین نے سنجیدگی سے کہا۔

"پر یہ سب کیسے ۔۔۔"نازلی نے اٹک کر پوچھا۔

تابین آہستہ آہستہ انہیں ساری بات بتانے لگی۔ 

جمال آغا ، ہاشم پر فائر کرنے کے بعد امریکا بھاگ گیا تھا تا کہ کسی بھی الزام سے بچ سکے۔وہیں اسنے ایک امریکن لڑکی (روز) سے شادی کر رکھی تھی اور اسکا چند ماہ کا بیٹا (موسیٰ )بھی تھا۔

جمال آغا کا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا پر روز کے ساتھ اسکے نا جائز تعلقات تھے۔روز ایک غریب پر انتہا کی خوبصورت لڑکی تھی۔اسے جمال آغا سے اچھا خاصا پیسہ مل رہا تھا۔اسلیے وہ جمال آغا جیسے مال دار آدمی کو کسی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔جمال آغا اور اسکے ریلیشن کے دوران وہ پریگننٹ ہوگئی اور جمال آغا سے اس بات کو چھپائے رکھا تا کہ وہ اسے ابورشن کے لیے فورس نہ کر سکے۔جمال آغا واپس پاکستان آگیا اور اسنے ہاشم سے اپنی سالوں پرانی دشمنی پھر سے تازہ کر دی۔ 

پھر وہ بیچ میں ایک دم غائب ہوگیا تھا۔اسے مجبوراً امریکا جانا پڑا تھا۔وجہ روز اور اسکا بچہ تھا جو دنیا میں آ چکا تھا۔جمال آغا نے پہلے تو یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ اسکا بیٹا ہے پر جب ڈی این اے ٹیسٹ ہوا تو بچے کا باپ وہی نکلا۔

وہ کبھی روز سے شادی نہ کرتا اگر وہ پولیس کو بیچ میں نہ لاتی۔اسنے شادی سے بچنے کے لیے اسے ڈھیر سارے پیسے بھی آفر کیے تھے پر وہ نہ مانی۔اسے تو ساری زندگی جمال آغا کے پیسے پر عیش کرنی تھی۔پھر وہ تھوڑے پیسوں میں کیسے مان جاتی۔آخر کار جمال آغا کو اس سے شادی کرنی ہی پڑی۔پر شادی کے بعد اسنے پلٹ کر نہ دیکھا اور روز کو بھی کوئی پرواہ نہ تھی۔وہ بچے کو بےبی سٹر کے حوالے کر کے خود عیش کی زندگی جی رہی تھی۔ 

 پھر جمال آغا ایک دن اچانک لوٹ آیا تھا۔امریکا آ کر اسنے کسی سے رابطہ نہیں رکھا تھا۔بس مزے سے اپنے دن رات کاٹ رہا تھا۔تبھی ایک دن اسنے اپنا نمبر آن کیا۔وہ کلب سے گھر کی طرف جا رہا تھا جب راستے میں بابا صاحب کا فون آیا تھا۔انہوں نے اسے بتایا کہ ایک ہفتے پہلے بلاول کی موت ہو چکی ہے اور یہ کہ ہاشم خان زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔انکی اس بات پر جمال آغا ہوش میں نہ رہا۔ایک تو پہلے ہی اسنے ڈرنک کر رکھی تھی۔بھائی کی موت کا سن کر اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسکی نظروں میں زمین و آسمان گھوم رہے ہوں۔اسکا دماغ بالکل ماؤف ہو چکا تھا۔ہاشم کے زندہ رہنے کی بات تو شاید وہ سن بھی نہیں پایا تھا۔وہ دنیا کی نظر میں جتنا بھی برا کیوں نہ ہوتا پر اسے اپنی فیملی سے بہت محبت تھی۔بلاول میں تو اسکی جان تھی۔ایک ہی تو بھائی تھا اسکا۔اسکا آخری دیدار بھی اسے نصیب نہیں ہوا تھا۔تبھی ڈرائیو کرتے ہوئے اسکا بہت خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔جس میں وہ اپنی دونوں ٹانگیں کھو بیٹھا۔اسکی ٹانگیں چور چور ہو چکی اسلیے ڈاکٹرز کو انہیں کاٹنا پڑا۔چہرہ بھی بری طرح سے بگڑ چکا تھا۔وہ ایک ماہ ہوسپٹل میں گزار کر گھر آیا تھا۔تبھی اسنے روز کی حرکتیں دیکھیں کہ وہ ساری ساری رات گھر سے باہر گزارتی ہے۔اسنے اسے روکنا چاہا پر وہ کھلی فضاؤں میں اڑنے کی عادی تھی اور ایک معذور اور بد صورت شخص کو دیکھ دیکھ کر وہ تنگ آ چکی تھی۔اسلیے جمال آغا سے طلاق اور بہت سارا پیسہ لے کر وہ نئے شکار کی تلاش میں نکل گئی تھی۔جمال آغا تنہائی سے ڈرنے لگا تھا۔بچے کو بےبی سٹر ہی سنبھل رہی تھی اسکی دیکھ بھال کے لیے بھی ایک کام والی رکھی تھی۔رات کی تنہائی میں اسے اپنے کیے تمام ظلم یاد آتے تو وہ ڈر جاتا ، روتا تھا ۔۔۔ اللہ سے معافی مانگتا تھا پر اسے کہیں چین نہیں مل رہا تھا۔ 

آخر اسنے بی بی جان اور بابا صاحب کو اپنے پاس بلا لیا تھا۔وہ ایک بیٹے کو کھو کر دوسرے بیٹے کی ایسی حالت دیکھ کر ٹوٹ سے گئے تھے۔پر وہ ماں باپ تھے اسے باقی سب کی طرح تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔بی بی جان اسے بھی سمبھالتی تھیں اور موسیٰ کو بھی ۔۔۔۔ 

جمال آغا کسی بھی طرح ہاشم اور نازلی سے معافی مانگنا چاہتا تھا اسلیے اسنے بی بی جان سے کہلوا کر تابین کو پیرس سے امریکا بلوایا۔تابین اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی اور اسے افسوس بھی ہوا۔انسان کیا کچھ نہیں کرتا جب اسکے بس میں سب کچھ ہوتا ہے پر جیسے ہی اللہ کی لاٹھی چلتی ہے تو وہ بے بس و مجبور ہو کر رہ جاتا ہے۔ 

اسنے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ وہ اس نفرت بھرے راستے سے لوٹ آئی تھی ورنہ آج اسکا بھی یہی انجام ہوتا جو جمال آغا کا ہوا ہے۔ 

اللہ کہتا ہے ایک بار مجھ سے سچے دل سے معافی مانگو میں معاف کر دونگا۔اسنے بھی سچے دل سے اللہ سے معافی مانگی تھی اور وہ اللہ کے نا فرمان بندوں کی لسٹ سے نکل گئی تھی۔ 

کاش جمال آغا بھی پہلے سمجھ جاتا تو آج اس حال میں نہ ہوتا۔

تابین ساری بات بتا کر خاموش ہوئی۔نازلی کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ہاشم نے آہستہ سے اسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔تابین نے انکے ہاتھوں کو دیکھا پھر زمین کو دیکھ کر بولی۔ 

"تم دونوں اسے معاف کر دو وہ بہت تکلیف میں ہے۔شاید تم لوگوں کے معاف کرنے سے اسکی تکلیف کچھ کم ہوجائے۔"

"ہم نے اسے تب ہی معاف کر دیا تھا جب میں ہوش میں آیا تھا تابین ۔۔۔ پر پھر بھی اگر تم کہتی ہو تو میں دل سے کہتا ہوں کہ ہم نے اسے معاف کیا اللہ بھی اسے کرے اور اسکی تکلیف دور کرے۔"ہاشم سنجیدہ چہرے کے ساتھ اتنا کہتا اٹھا اور وہاں سے اندر کی طرف بڑھ گیا۔تابین نے نازلی کو دیکھا۔

"ہم نے جمال آغا کو معاف کیا آپی۔"نازلی نے آنسو صاف کر کے موبائل تابین کو تھمایا اور اٹھ کر چلی گئی۔ 

تابین نے لمبی سانس کھینچ کر موبائل اٹھایا اور جمال آغا کو کال کر کے بتانے لگی کہ انہوں نے اسے معاف کر دیا تھا تا کہ معافی کا سن کر اسکی زندگی کچھ آسان ہو سکے۔ 

سب چلے گئے تو نازلی اپنی کمرے میں آئی۔اسنے کپڑے چینج کیے پھر کمرے سے باہر نکلی۔ 

رات بہت ہو چکی تھی۔سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔اسے لگا تھا ہاشم نیچے ہوگا پر وہ اسے کہیں نظر نہ آیا۔ 

وہ وہاں سے لان کی طرف آئی۔مدھم روشنی میں وہ اسے دور کھڑا نظر آیا۔اسکی پشت نازلی کی طرف تھی۔نازلی آہستہ سے چلتی اسکی طرف بڑھنے لگی۔ 

ہاشم سوچوں میں گم تھا اسلیے اسکی موجودگی کا احساس نہ ہوا۔ 

نازلی اسکے پیچھے رکی۔پھر آہستہ سے اسکے کندھے سے پیشانی ٹکا کر اسکا بایاں ہاتھ تھام لیا۔ 

ہاشم نے اپنے ہاتھ میں نرم ہاتھ کو محسوس کیا تو ہلکی سے گردن پھیر کر اسے دیکھ کر مسکرایا۔نیلی آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ہاشم نے اسکے نازک ہاتھ پر گرفت مضبوط کی۔

"آپ پریشان ہیں؟"اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔ 

"اونہوں ۔۔"ہاشم نے نفی میں سر ہلایا۔

"بس سوچ رہا ہوں۔"اسنے آہستہ سے کہا۔ 

"کیا؟"نازلی نے اسے دیکھا۔ 

"کہ اللہ بہت بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ہماری تکلیف کا بدلہ اللہ نے جمال آغا سے خوب لیا ہے۔"وہ نازلی کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

"آپ نے بہت درد سہا ہے ناں؟"نازلی نے اداسی سے اسکے چہرے کو دیکھا۔وہ مدھم سا مسکرایا۔ 

"ہوں ۔۔۔ جسم و دل زخمی ہوگیا تھا۔اتنا کہ سانس تک لینا محال تھا۔"اسنے لمبی سانس کھینچ کر بتایا۔

نازلی اسکے سامنے آئی پھر دکھ سے اسے دیکھا۔ 

"اور ہمارے سامنے اتنے بہادر بنے رہے آپ کہ سب ٹھیک ہے۔ہمیں کیوں نہیں بتایا۔"اسکی آواز مدھم تھی۔

"اپنوں کے لیے خود کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔اپنوں کو خوشیاں دی جاتی ہیں۔انہیں اپنی وجہ سے دکھی نہیں کیا جاتا۔"اسنے محبت سے اسکے بال کان کے پیچھے کیے۔"اور تم جو میرے ساتھ تھی۔میرے تمام زخم بھرتے گئے۔تمہیں قریب پا کر دل پھر سے دھڑک اٹھا تھا۔"اسنے نازلی کا ہاتھ تھام کر سینے پر رکھا۔

نازلی نے اپنی ہتھیلی کے نیچے اسکی دھڑکنوں کو محسوس کیا۔"تمہارے ہی نام سے دھڑک رہی ہیں۔"ہاشم نے ایک دم کہا۔نازلی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

"واقعی؟"اسنے شرارت سے پوچھا۔

"ہوں۔"ہاشم مسکرا کر اسکے ہوا سے اڑتے بال ٹھیک کرنے لگا۔ 

"سونا نہیں آج؟"نازلی نے مسکرا کر پوچھا۔

"کچھ دیر کھلی ہوا میں بیٹھتے ہیں۔"ہاشم اسکا ہاتھ تھام کر بینچ تک لایا۔پھر دونوں وہاں بیٹھ گئے۔

نازلی نے اپنا سر اسکے پر رکھا تو ہاشم نے اسکے کندھے کے گرد بازو پھیلا دیا۔دونوں خاموشی سے وہاں بیٹھے ان لمحوں کو ایک دوسرے کے سنگ جی رہے تھے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

انکی شادی کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔نازلی نے صبح اٹھ کر نماز پڑھی پھر نیچے آبی اور نور کے ساتھ کچن میں آگئی۔ 

آج ہاشم کی برتھڈے تھی۔اسنے تو نازلی کو نہیں بتایا تھا پر ابھی اسے نور اور آبی سے معلوم ہوا تھا۔نور نے اسے بتایا تھا کہ ہاشم کو گفٹ وغیرہ پسند نہیں ہیں۔اسلیے اسکی برتھڈے کے دن وہ سب اسکے لیے اسپیشل اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتی ہیں اور ہاشم کو یہ بات بہت پسند تھی۔

وہ ناشتہ تیار کرنے لگیں جب چھوٹی پٹھانی وہاں آئی۔

"نازلی باجی چلیں۔"اسنے جلدی سے کہا۔ 

"کہاں؟"آبی نے پوچھا۔ 

"پھول توڑنے۔"نازلی نے مسکرا کر بتایا۔ 

"لالہ کے لیے؟"نور نے شوخی سے اسے دیکھا۔

"ہاں ۔۔"نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔"انہیں گفٹس پسند نہیں پر پھول تو لے ہی سکتے ہیں ناں۔"وہ مزے سے بولی۔ 

"واہ میری شیرنی جاؤ پھول توڑ کر اپنے شوہر کو پیش کرو۔"آبی نے اسکا کندھا تھپکا۔

نازلی لبوں پر مسکان سجائے چھوٹی پٹھانی کا ہاتھ تھام کر باہر کی طرف بڑھی۔

جبکہ آبی اور نور اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔ 

لان میں پھولوں کے پاس پہنچ کر اسنے چھوٹی پٹھانی کے ہاتھ سے فلاور کٹر لیا پھر آگے بڑھ کر پھول کو ٹہنی سے کاٹنے لگی۔ 

اسنے ایک پھول توڑ کر چھوٹی پٹھانی کو پکڑایا۔

"ہائے باجی کتنی پیاری خوشبو ہے اسکی۔"چھوٹی پٹھانی نے پھول کو سونگھ کر کہا۔ 

"تمہیں کیا لگتا ہے ہاشم کو یہ سب اچھا لگے گا؟"اسنے مصروف انداز میں پوچھا۔ 

"آپ انہیں کچھ بھی دیں انہیں اچھا ہی لگے گا۔ہاشم بھائی کو آپ سے بڑی محبت ہے۔"وہ آنکھیں مٹکا کر بولی۔نازلی ایک دم ہنسنے لگی۔"بڑا پتہ ہے تمہیں۔"

"جی میں سب جانتی ہوں۔"چھوٹی پٹھانی نے گردن اکڑی۔ 

"چلو شریر لڑکی اسے پکڑو۔"نازلی نے مسکرا کر اسے گلاب پکڑایا۔جنہیں وہ تھام کر گلدستے کی صورت دینے لگی۔ 

"نازلی باجی آپکو خوش دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔"وہ معصومیت سے نازلی کے چہرے کو دیکھ کر بولی۔

نازلی نے مسکرا کر اسکا گال نرمی سے کھینچا۔ 

"خوش رہو پیاری پٹھانی۔"محبت سے کہہ کر اسنے گلاب اسکی طرف بڑھایا۔"یہ تمہارے لیے۔"

"ہائے اللہ۔۔۔"چھوٹی پٹھانی خوشی سے نہال ہوگئی۔ 

"شکریہ شکریہ نازلی باجی۔"اسنے گلاب کو دیکھ کر چمکتے چہرے کے ساتھ کہا۔نازلی مسکرا کر اپنا کام کرنے لگی۔ 

ہاشم بیڈ سے نیچے اترا۔کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔اسنے ارد گرد دیکھا نازلی کہیں نظر نہ آئی۔ 

بیڈ سے اٹھ کر وہ کھڑکی کی طرف بڑھا۔پردے پیچھے کیے تو نظر نیچے لان کی طرف گئی۔

وہ اسے پھولوں کے قریب کھڑی دکھائی دی۔پھولوں میں گھری وہ خود بھی ایک پھول لگ رہی تھی۔چھوٹی پٹھانی سے باتیں کرتی مسکرا رہی تھی۔اسے دیکھ کر ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔وہ لڑکی جیسے صبح کی پہلی کرن تھی۔دل فریب ، چمکتی ہوئی اور پاکیزہ۔اسے دیکھ کر ہر بار ہاشم کا دل دیوانہ ہوجاتا تھا۔اسے نازلی سے اس قدر محبت تھی کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔وہ اڑتے بالوں کو چہرے سے پیچھے کر کے پھر مسکرائی اور ہاشم کا دل سینے سے باہر آنے لگا۔

"ایک دن تو جان سے جاؤنگا میں اپنی مسز کی اس مسکراہٹ کی وجہ سے۔"بالوں میں ہاتھ پھیر کر سوچتا ایک مسکراتی نظر اس حسینہ پر ڈال کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ 

نازلی اور چھوٹی پٹھانی کام مکمل کر چکی تھیں۔چھوٹی پٹھانی اپنی اماں کے بلانے پر انکی طرف چلی گئی اور نازلی کچن میں آئی۔اسنے پھولوں کو میز پر رکھا۔پھر اپنے بال ٹھیک کرنے لگی۔ 

اسے مصروف دیکھ کر آبی نے شرارت سے نور کو اشارہ کیا۔

نازلی نے اپنا دوپٹہ پھیلا کر کندھوں پر ڈالا۔پھر ہاتھ میں پہنی رنگ ٹھیک کی۔

"اہم اہم ۔۔۔"نور نے گلہ کھنگارا۔نازلی نے رک کر اسے دیکھا۔ 

"کرو کرو اپنی تیاری آخر لالہ کو پھول پیش کرنے جانا ہے۔"آبی نے آنکھیں گھما کر اسے چھیڑا۔نازلی کے گال گلابی ہونے لگے۔ 

"وہ ۔۔۔ میں بس ویسے ہی۔"وہ آستین ٹھیک کرتی نروس انداز میں مسکرائی۔

"اوئے آبی خبر دار جو تم نے میری دوست کو تنگ کیا۔"نور نے آگے بڑھ کر نازلی کا ہاتھ تھاما۔ 

"میں تو تنگ کرونگی۔"آبی بھی آگے بڑھی۔ 

"آبی۔۔۔"نازلی نے بچارگی سے اسے دیکھا۔آبی ایک دم مسکرائی۔پھر اسکا نیکلیس ٹھیک کیا۔ 

"بس ۔۔۔ اب تمہاری تیاری مکمل ہو گئی ہے۔"آبی نے اسے سر سے پیر تک دیکھا۔لائٹ پنک کپڑوں میں وہ بہت فریش لگ رہی تھی اور اوپر سے پشت پر لہراتے سیاہ بال۔۔۔۔ اسے قیامت بنا رہے تھے۔ 

"کیسی لگ رہی ہوں؟"آبی کے اتنے غور سے دیکھنے پر اسنے جھٹ سے پوچھا۔ 

"قیامت۔۔۔"آبی ایک دم ہنسی۔نازلی کو سمجھ نہ آئی تو اسنے نور کو دیکھا۔ 

"مطلب بہت بہت پیاری لگ رہی ہو۔"نور نے مسکرا کر کہا۔

نازلی نے لمبی سانس بھری۔ 

"اب جاؤ اس سے پہلے کہ لالہ نیچے آجائیں۔"نور نے اسے گلدستہ پکڑایا۔ 

"بھاگ کر جاؤ نازلی۔"آبی نے ایک دم کہا اسکے انداز پر نازلی ہڑبڑا کر پلٹی اور تیزی سے کچن کے دروازے سے نکلنے لگی۔ 

"نازلی آرام سے جاؤ ۔۔ اس پاگل کی بات نہ سنا کرو۔"نور نے آبی کو چپت لگا کر کہا۔ 

"اوکے۔"نازلی پلٹ کر مسکرائی پھر آگے بڑھ گئی۔ 

وہ کمرے کے باہر کھڑی تھی۔دل جیسے ہاتھ پاؤں میں دھڑک رہا تھا۔اسنے بائیں ہاتھ سے گلدستہ مضبوطی سے تھام کر کمر کے پیچھے کیا پھر آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ 

ہاشم شیشے کے سامنے کھڑا کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا۔ 

اسے آئینے میں دیکھ کر مسکرایا۔ 

"تو آپکو میری یاد آگئی۔"وہ ایک دم بولا 

"وہ میں ذرا مصروف تھی۔"نازلی نے اسکی پشت کو دیکھ کر جواب دیا۔ 

"کیا مصروفیت تھی؟"ہاشم پلٹا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھنے لگا۔ 

اسے قریب آتے دیکھ کر نازلی کی سانسیں اٹکنے لگیں۔ 

"ہوں ۔۔۔ میں بس وہ۔۔۔"ہاشم نے اسکے سامنے کھڑے ہو کر اسکے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر خاموش کروایا۔ 

"اتنی نروس کیوں ہو۔"سحر انگیز آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا گیا۔ 

نازلی نے اسکی انگلی پیچھے کی پھر بالوں کو کان کے پیچھے کیا۔ "نہیں تو ۔۔۔"وہ کہہ کر مسکرائی۔ 

"جب تم یہ کرتی ہو ناں۔"ہاشم نے اسکی طرف ہاتھ کر کے  اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کرنے کا اشارہ کیا۔

"تب تم نروس ہوتی ہو۔"وہ کہہ کر نازلی کو دیکھنے لگا۔ 

"ویسے کیا چھپا رہی ہو مجھ سے؟"اسنے کمر کے پیچھے کیے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔نازلی کچھ نہ بولی تو وہ غور سے اسے دیکھنے لگا۔  

"اچھا ناں بتاتی ہوں اب یوں تو نہ دیکھیں۔"وہ جھکے سر کے ساتھ بولی۔ 

"تو بتاؤ ہاتھ میں کیا ہے؟"ہاشم نے دلچسپی سے پوچھا۔

"ہوں ۔۔۔"نازلی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر آہستہ سے ہاتھ سامنے کر کے گلدستہ اسکی طرف بڑھایا۔

"آپکے لیے۔"وہ معصومیت سے بولی۔ہاشم نے مسکرا کر گلدستہ تھام کر اسکی خوشبو کو سانسوں میں اتارا۔

"ہیپی برتھڈے۔"اس نے اپنا ہاتھ ہاشم کی طرف بڑھا کر وش کیا۔

"تھینک یو۔"ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔اسنے نازلی کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔ 

"میرے لیے تو یہی گلدستہ کافی تھا۔"اسنے نازلی کی طرف اشارہ کیا تو نازلی کے گال دہک اٹھے۔ہاشم نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔گلدستہ ٹیبل پر رکھ کر وہ نازلی کو دیکھنے لگا۔ 

"تمہیں ضرور نور اور آبی نے بتایا ہوگا۔"

"ہوں ۔۔ آپ نے تو بتانا ضروری نہیں سمجھا۔"وہ ناراضگی سے بولی۔

"میں سیلیبریٹ نہیں کرتا۔"وہ دلچسپی سے اسکی ناراض صورت دیکھ رہا تھا۔

"میں جانتی ہوں پر انسان وش تو کر ہی سکتا ہے ناں۔"

"پر تم تو مجھے گلدستہ گفٹ کر چکی ہو۔"وہ مسکرایا۔ 

"یہ تو بس ویسے ہی ۔۔۔ میرا دل کیا آپکو کچھ پیارا سا دوں  جسے دیکھ کر آپ مسکرانے لگیں۔"وہ ایک دم محبت سے بولی۔ 

"تو تم میرے سامنے آجاتی اور میں دل و جان سے فدا ہوجاتا۔۔۔تمہیں دیکھ کر ہی تو ہاشم خان نے مسکرانا سیکھا ہے۔"اسنے کہہ کر نازلی کے مخلمی گال کو چھوا۔اسکی بات پر نیلی آنکھیں جھک گئیں۔چہرے پر نظروں کی تپش محسوس کر کے نازلی نے گلہ کھنگارا۔

"اہم ۔۔۔ وہ آپکو پھول اچھے لگے؟"ایک دم بات بدلی گئی۔اسکی گریزاں نگاہوں کو دیکھ کر ہاشم مسکراہٹ دبا کر اسکے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا۔ 

"بہت اچھے لگے۔"وہ اسکے قریب ہوا۔ 

"کیا تم مجھے اس طرح وش کرو گی۔غیروں کی طرح ہاتھ ملا کر؟"افسوس سے کہا گیا جبکہ آنکھوں میں شوخی چمک رہی تھی۔نازلی نے جھٹ سے اسے دیکھا۔

سیاہ آنکھیں اسکے چہرے پر تھیں۔ان میں نازلی کے لیے محبت ہی محبت تھی۔ 

نازلی کا دل دیوانہ ہوگیا۔وہ شخص اسے اتنا پیارا تھا تو وہ ظاہر کیوں نہیں کرتی تھی۔کیوں اسے بتانے سے جھجھک جاتی کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔

اسنے ہاشم کے وجیہہ چہرے کو دیکھ کر سوچا۔پھر خاموشی سے اسکے قریب ہو کر اسکے کندھے پر سر رکھ دیا۔

"ہیپی برتھڈے۔"اسنے محبت بھرے لہجے میں کہہ کر پاؤں اوپر کر کے اسکے گال پر لب رکھے۔

اسکے چھوتے ہی ہاشم کی دھڑکنیں رکی تھیں۔اسنے خوش گوار حیرت سے سر جھکا کر نازلی کو دیکھا جو مسکرا کر اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔ 

ہاشم نے ایک دم مسکرا کر اسے اپنی مضبوط پناہوں میں قید کیا۔ 

"آج تو واقعی میری زندگی کا بیسٹ دن ہے۔"اسنے نازلی کے بال سہلا کر سرگوشی کی۔ 

جبکہ نازلی اسکے ساتھ لگی مسکرا رہی تھی۔نیلی آنکھوں میں خوشیوں کے دیے جل رہے تھے۔جن آنکھوں میں ہمیشہ دکھ بسا کرتے تھے آج وہاں اس شخص کی وجہ سے روشنیوں کا راج تھا۔ 

"آپ اگر میری زندگی میں نہ آتے ہاشم تو میں کبھی ان اندھیروں سے نہ نکلتی۔آپ نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔مجھے اتنا سب کچھ دیا ہے کہ میرا دامن کم پڑ رہا ہے۔میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے آپکو میری قسمت میں لکھا۔انہوں نے آپ جیسا پیارا ، محبت کرنے والا شخص مجھے دیا۔"وہ مدھم آواز میں بولتی جا رہی تھی اور ہاشم اسے بانہوں میں سمیٹے مسکرا کر اسکی باتیں سنتا چلا جا رہا تھا۔ 

رات کے لیے انہوں نے اسپیشل ڈنر بنانے کا انتظام کیا تھا۔وہ سب کچن میں لگی تھیں۔

نازلی کو اتنا کچھ بنانا تو نہیں آتا تھا پر وہ سبکی مدد کر رہی تھی۔ 

تبھی کچھ دیر بعد سیماب لوگ بھی بڑی حویلی آگئے تھے۔وہ سب جب مل بیٹھے تھے تو ایک محفل سی لگ گئی تھی۔ 

لڑکیاں ساری کچن میں تھیں۔لیلیٰ کو کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا اسلیے وہ ڈئننگ ٹیبل پر برتن سیٹ کر رہی تھی۔

نازلی سلاد بنا رہی تھی جبکہ آبی ، نور اور چھوٹی پٹھانی کھانا برتنوں میں ڈال رہی تھیں۔ 

"آپی میں ہیلپ کروں آپکی؟"لیلیٰ انکی طرف آئی۔نور نے اسے ڈونگا تھمایا اور میز پر رکھنے کا کہا۔وہ ٹیبل پر چیزیں رکھتی کچن سے ڈائننگ روم کے چکر کاٹنے لگی۔ 

"لیلیٰ تو بہت اچھی بچی ہے۔کتنا کام کرتی ہے۔"آبی نے اسے سراہا۔ 

"ہاں شادی کے بعد پھر تم دونوں مل کر کام کرنا اور میری آنی کو آرام کرنے دینا۔"نازلی نے شرارت سے اسے دیکھا۔آبی شرما کر چہرہ پھیر گئی۔ 

"آج ہم منگنی کی تاریخ لینے ہی تو آئے ہیں آپی۔"لیلیٰ نے آبی کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔ 

"منگنی پھر شادی ۔۔۔ آبی تو ہمیں چھوڑ کر جا رہی ہے نازلی۔۔۔پھر تو صرف ہم دونوں ہی رہ جائیں گے۔"نور نے افسوس سے کہہ کر نازلی کو دیکھا۔ 

"اول تو میں ابھی یہیں ہوں اتنی جلدی تم چڑیلوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہی اور دوم میری شادی ہوگی میں کہیں مر تو نہیں جاؤنگی جو تم چھوڑ جانے کی بات کرتی ہو۔"آبی نے منہ بنایا۔تو ان سبکی ہنسی نکل گئی۔ 

"ہاں میں بھول گئی تھی چڑیلیں اتنی آسانی سے جان نہیں چھوڑتیں۔"نور نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے کہا۔ 

آبی نے منہ بسورا جبکہ وہ سب مسکراہٹ دبانے لگیں۔ 

کھانا لگ گیا تھا۔سب نے مل کر خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔کھانے کے بعد سب بڑے ہال میں بیٹھ گئے۔ 

ہاشم ، نازلی اور شہریار ، ماہ نور بھی وہاں موجود تھے۔

بس داور ، لیلیٰ اور آبی کو وہاں سے دور رکھا گیا تھا۔وہاں آبی اور احد کی منگنی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی۔آبی کے روم 

میں داور بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔اسے صدمہ ہوا تھا کہ اسے بچہ کہہ کر ایک طرف کر دیا۔

اسکی مارچ دیکھ دیکھ کر لیلیٰ کو ہنسی آ رہی تھی۔ 

"بیٹھ جاؤ داور۔"آبی اسے دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھی۔اسلیے بول پڑی۔

"نہیں آبی نہیں ۔۔۔ میں آج بڑے صدمے میں ہوں۔آج مجھے کچھ نہ کہو۔"اسکے اموشنل ہونے پر ایک دم لیلیٰ کی ہنسی نکل  گئی۔ 

داور نے رک کر اسے گھورا تو وہ مزید ہنسنے لگی۔ 

"ٹھیک ہے محبت اپنی جگہ پر میں اپنا مذاق برداشت نہیں کرونگا سمجھی۔"اسنے سنجیدگی سے کہتے لیلیٰ کو گھورا۔ 

"داور ۔۔"آبی نے اسے ٹوکا جبکہ لیلیٰ ایک دم سنجیدہ ہوئی پھر منہ پھیر کر بیٹھ گئی۔

داور کو غلطی کا احساس ہوا تو اسنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر لیلیٰ کو دیکھا پر لیلیٰ نے پھر پلٹ کر اسکی طرف دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ 

کچھ دیر بعد نور اور نازلی خوش خبری لے کر حاضر ہوئیں۔دو دن بعد کی تاریخ رکھ دی گئی تھی۔

وہ آبی کو گلے لگا کر مبارک دے رہی تھیں۔لیلیٰ انکی بات سن کر بھائی کو مبارک دینے باہر کی طرف بھاگی۔داور بھی ایک دم اسکے پیچھے گیا۔

اسنے لیلیٰ کو روکنے کے لیے اسکا ہاتھ تھاما۔لیلیٰ نے پلٹ کر غصے سے اپنا ہاتھ جھٹکا تھا۔

"تم مجھ سے اتنی ناراض کیوں رہتی ہو یار؟"اسنے پریشانی سے پوچھا۔ 

"آپ سے میرا ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے جو میں آپ سے ناراض ہوتی پھروں۔"وہ لاپرواہی سے بولی۔ 

"رشتہ تو ہے۔"داور نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ 

"آپ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔"وہ تپی تھی۔ 

"جو لوگ دل میں بس جائیں پھر انہیں چھوڑا نہیں جاتا۔"وہ سنجیدہ ہوا۔لیلیٰ سر جھٹک گئی۔چہرے پر ناراضگی تھی۔ 

"تم روٹھی روٹھی رہتی ہو، کوئی ترکیب بتاؤ مسکرانے کی۔"

"میں زندگی گروی رکھ دونگا، تم قیمت تو بتاؤ مسکرانے کی۔"

داور نے اسکے ناراض چہرے کو دیکھ کر شعر پڑھا۔ 

"داور آپ ۔۔۔"لیلیٰ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"مجھے تم سے محبت ہے لیلیٰ ، میں اس معاملے میں بہت سیریس ہوں۔یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔"اسنے آہستہ آواز میں کہا۔

اسکی بات پر لیلیٰ نے منہ پھیر لیا۔

"تم میرے ڈانٹنے کی وجہ سے ناراض ہو؟"اسنے کچھ پل پہلے کا ذکر کیا۔لیلیٰ کچھ پل خاموش رہی پھر اسے گھورنے لگی۔ 

"مجھے آج تک کسی نے نہیں ڈانٹا۔نہ میرے بھائیوں نے نہ بھابی نے انہوں نے ہمیشہ مجھ سے محبت کی تو پھر آپ نے مجھے کیوں ڈانٹا ہاں۔۔۔"اسنے پھولے منہ کے ساتھ کہا۔ 

"آئم سوری ۔۔۔"داور نے کانوں کو ہاتھ لگا کر معصوم سی صورت بنائی۔وہ اسے کیا بتاتا کہ محبت تو وہ بھی اس سے بہت  کرتا ہے۔"تم چاہو تو مجھ پر ہنس سکتی ہو میں اب کچھ بھی نہیں کہونگا۔۔۔پکا۔۔۔"وہ محبت سے بولا۔ 

"میں اتنی بھی بری نہیں ہوں جو کسی پر ہنسوں۔وہ تو مجھے بس اس سچویشن پر ہنسی آ گئی تھی۔"وہ آہستہ آواز میں بتانے لگی۔ 

"پھر تم نے مجھے معاف کیا؟"داور نے امید سے پوچھا۔ 

"ہاں جی۔"اسنے جیسے احسان کیا۔داور نے ہنس کر کانوں کو چھوڑا۔ 

"پھر دوستی کر لیں؟"اسنے لیلیٰ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ 

"سوچ کر بتاؤں گی۔"وہ شانے اچکا کر کہتی پلٹ گئی۔داور ہونق بنا اسے جاتے دیکھنے لگا۔پلٹ کر جاتے لیلیٰ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔جبکہ داور نے افسوس سے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔"یہ محبت بھی بڑی ظالم چیز ہے۔"اسی ہاتھ کو بالوں میں پھیرتا وہ وہاں سے ہٹا تھا۔فلحال اسکے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ لیلیٰ اور اسکے درمیان امن کی فضا تو قائم ہوئی تھی۔ 

وہ سب ہال میں مل بیٹھے تھے۔چائے پیتے سب باتوں میں مصروف تھے۔

محبت نے اس گھر میں جیسے ڈیرہ ڈال لیا تھا۔وہاں خوشیوں کا بسیرا تھا۔ہر چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

"آخری بار اسے ملنا ہے بچھڑنے کے لیے۔"

"سوچتا ہوں کہ ملاقات معطل کر دوں۔"

رات کے آٹھ بج رہے تھے۔اسفی اپنے کمرے میں تھا جب اسے تابین کی کال آئی۔وہ واپس جا رہی تھی ہمیشہ کے لیے۔اسنے نے اسفی سے پوچھا تھا کہ کیا اب کی بار وہ اسے چھوڑنے نہیں آئے گا؟

اسکی بات پر اسفی کا دل لہو لہان ہوا تھا۔اسنے دل پر پتھر رکھ کر اسے ایئر پورٹ چھوڑنے کی حامی بھری تھی۔وہ عاشق تھا اسکا کام تھا کہ محبوب کی خوشی کے لیے اسے اپنے ہاتھوں سے رخصت کرتا اور اسکے لبوں سے آہ تک نہ نکلتی۔ 

اسنے اٹھ کر تیاری کی۔پھر کار لے کر گھر سے نکلا۔حسن ولا کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکی تو اسے تابین کو بلانا نہیں پڑا۔کچھ پل بعد وہ ہاتھ میں بیگ تھامے گیٹ سے باہر نکلی۔ 

اسفی کار سے اترا اسکا بیگ گاڑی میں رکھا پھر اسکے لیے کار کا دروازہ کھولا۔

تابین ایک نظر اسے دیکھ کر کار میں بیٹھ گئی۔اسفی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا پھر گاڑی آگے بڑھا دی۔ 

آدھا راستہ گزر چکا تھا۔دونوں خاموش تھے۔اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ 

تابین نے اسکی طرف دیکھا۔اسکے چہرے سے تھکاوٹ صاف نظر آرہی تھی۔ 

"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔"اسنے ایک دم کہا۔ 

"ہوں ۔۔ نہیں میں ٹھیک ہوں۔"وہ ہنوز سامنے دیکھ رہا تھا۔ 

تابین نے ہاتھ بڑھا کر اسکا بازو چھوا۔پھر فکرمندی سے اسے  دیکھا۔"تمہیں بخار ہے اسفی۔"

"ٹھیک ہو جائے گا۔"وہ لاپرواہی سے بولا۔ 

"ایسے کیسے ٹھیک ہو جائے گا۔تمہیں آرام کرنا چاہیے تھا۔تم مجھے انکار کر دیتے۔"تابین نے پریشانی سے اسے دیکھا۔ 

"میں تمہیں انکار نہیں کر سکتا۔"اسنے ایک دم تابین کی آنکھوں میں دیکھا اور تابین رک سی گئی۔

"تم مجھ سے اتنی محبت کیوں کرنے لگے اسفی ، میں تو کوئی اتنی اچھی نہ تھی جو تم جیسا شخص مجھ جیسی سے محبت کرتا۔"اسکے لہجے میں اپنی ذات کے لیے تلخی اتری۔ 

"تم جو آج ہو تابین وہ تم ہمیشہ سے تھی۔بس اس اصلیت کو پہچاننے میں بہت دیر کر دی تم نے۔۔۔"اسکے لہجے میں نرمی تھی۔ 

"میں ہر چیز سے اتنی غافل کیوں تھی اسفی میں کیوں نہیں تمہاری طرح ہر بات کو سمجھ پائی۔"اسکی آواز نم ہوئی۔ 

"تم صحیح راستے کی طرف لوٹ آئی ہو تابین کیا اس سے بڑھ کر اچھی بات اور کوئی ہو سکتی ہے؟"اسفی نے پیار سے اسکا ہاتھ تھپتھپایا۔ 

"کاش میں تمہیں پہلے سمجھ پاتی۔"وہ ٹوٹے لہجے میں بولی۔ 

"گزری باتوں کو بھول جاؤ تابین اور اپنی آگے کی زندگی کو بہتر کرو۔زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرو۔اس طرح دکھ سہہ کر تو زندگی نہیں گزرے گی۔"وہ کہہ کر خاموش ہوا۔

تابین بھی مزید کچھ نہ بولی بس نم آنکھوں کے ساتھ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔آگے کی زندگی کو وہ کیسے بہتر کرتی جب دل ہی کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔پر ۔۔۔ اسے کوشش تو کرنی چاہیے تھی ناں؟ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی۔۔۔۔ کسی محبت کرنے والے کا ہاتھ تھامنے کی۔۔۔۔۔

اسفی نے کار ایئر پورٹ کے سامنے روکی پھر خاموشی سے بیٹھا رہا۔وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر خاموش تھے۔ 

"تابین فلائٹ کا وقت ہورہا ہے۔"اسفی نے بھاری آواز میں کہا۔ 

"تم مجھے اب کی بار نہیں روکو گے اسفی؟"تابین نے مدھم آواز میں پوچھا۔ 

"میرے پاس تمہیں روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔"وہ کہہ کر کار سے اترا۔پھر گھوم کر تابین کی طرف کا دروازہ کھولا۔ 

تابین مسکرا کر کار سے نکلی۔ 

"بڑے پتھر ہوگئے ہو۔"تابین اسکا کندھا تھپک کر ہنسی۔

"تم کیوں چاہتی ہو تابین کہ میرا ضبط ٹوٹ جائے۔"اسنے سرخ آنکھوں سے تابین کو دیکھا۔ 

"میں چاہتی ہوں کہ تمہارا ضبط ٹوٹ جائے اسفی۔میں چاہتی ہوں کہ تم جیسا محبت کرنے والا شخص مجھے تھام لے۔"وہ نم آنکھوں کے ساتھ بولی۔ 

"تم روک لو ناں مجھے اسفی۔"اسنے اسفی کا ہاتھ تھام کر التجا کی۔ 

"میں تمہیں روکوں گا تو کیا تم رک جاؤ گی؟کیا تم میرا ہاتھ تھام لوگی۔"اسفی کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں۔ 

"ہوں ۔۔۔"تابین نے اثبات میں سر ہلایا۔ایک آنسو آنکھ سے گر کر گال پر بہنے لگا۔ 

"تو رک جاؤ تابین ، مجھ سے دور کہیں نہ جاؤ۔میں تمہیں سمیٹ لونگا۔تمہیں تھام لونگا۔تم سے بے انتہا محبت کرونگا۔تمہیں دکھوں سے بچا کر رکھوں گا۔ہمیشہ تمہاری حفاظت کرونگا۔"اسنے محبت بھرے لہجے میں کہہ کر اسکے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا۔ 

جسے اگلے ہی پل تابین نے نم آنکھوں کے ساتھ تھام لیا۔ 

"میں تمہارا ساتھ دینے کی سچے دل سے کوشش کرونگی اسفی۔تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔میں نہیں جانتی کہ میں تم سے محبت کر پاؤں گی کہ نہیں پر میرا وعدہ ہے تم سے کہ میں تمہیں ہر مقام پر اپنے ساتھ کا یقین دلاؤں گی۔جو محبت ہے میرے دل میں اس پر میرا اختیار نہیں ہے پر میں تم سے ہمیشہ وفا نبھاؤں گی۔"وہ بہتے آنسوؤں کے درمیان کہہ رہی تھی۔ 

اسفی نے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کیے۔ 

"مجھے تم پر مکمل یقین ہے تابین ۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے بس تمہارا ساتھ میرے لیے کافی ہے اور رہی بات محبت کی تو جب دو مخلص ساتھی ایک ساتھ رہتے ہیں تو محبت انکے درمیان آ ہی جاتی ہے۔پر اگر کبھی ایسا وقت نہ بھی آیا تو بھی میرے لیے میری محبت کافی ہے۔میں اسے ہم دونوں میں بانٹ لونگا۔"اسنے آخر میں مسکرا کر کہا تو تابین نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔ 

"تم مجھے کبھی چھوڑ تو نہیں جاؤ گے ناں اسفی۔"تابین نے آہستہ سے پوچھا۔ 

"اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو بھلا کون چھوڑتا ہے۔"وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔تابین نے اسکے کندھے پر سر رکھا۔اس جواب کے ساتھ ہی اسکے سوال ختم ہو چکے تھے۔اسنے اسفی کے کندھے پر سر رکھ کر وہ تمام کرب بہایا تھا جو وہ کبھی کسی سے شئیر نہیں کر سکی تھی۔ 

اسفی اسے تسلی دیتا اسکا سر تھپک رہا تھا۔جب وہ آنسو بہا چکی تو اسفی نے اسے دیکھا۔ 

"چلیں اب ؟خوشیوں بھری زندگی کی طرف۔"اسنے محبت سے کہا۔تابین نے مسکرا کر سر ہلایا۔پھر دونوں کار میں بیٹھ کر واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔آخر کار انکی زندگی میں بھی خوشیوں نے دستک دے ہی دی تھی۔ 

"بتاؤ کون کہتا ہے ، محبت بس کہانی ہے۔"

"محبت تو صحیفہ ہے ، محبت جاودانی ہے۔"

"محبت کو خدارا تم ، کبھی بھی جھوٹ نہ سمجھو۔"

"محبت معجزہ ہے ، معجزوں کی ترجمانی ہے۔" 

نازلی صبح تیار ہو کر کمرے سے نکلی۔اسنے خان بابا کے لیے چائے بنائی۔خان بابا لان میں بیٹھے تھے۔نازلی چائے لے کر لان میں آئی۔خان بابا اخبار پڑھ رہے تھے۔نازلی انکے سامنے بیٹھی پھر چائے کپ میں ڈال کر انکی طرف بڑھائی۔

خان بابا نے اخبار رکھ کر کپ تھاما۔"شکریہ بیٹا جی۔"

"بیٹی کو شکریہ نہیں کہتے ناں خان بابا۔"نازلی نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔

"چلیں ہم نے اپنا شکریہ واپس لیا۔"وہ مسکرا کر چائے پینے لگے۔"یہ ہوئی ناں بات۔"نازلی نے اخبار اٹھا کر کہا 

"آپ کو اخبار پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے؟"اسنے ہیڈ لائنز پر نظر ڈال کر پوچھا۔ 

"جی ۔۔۔ خبریں ملک کے حالت سے آگاہ رکھتی ہیں۔"خان بابا نے اسکی صورت دیکھی۔اخبار پڑھتے ہوئے اسکے چہرے پر جھنجھلاہٹ دیکھ کر خان بابا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔

"آپکو اخبار پڑھنا نہیں پسند؟"انہوں نے چائے کا سپ لے کر پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔۔ اس میں اتنی خوفناک خبریں ہوتی ہیں۔جنہیں پڑھ کر میرا دل دکھتا ہے۔"وہ اداسی سے بولی۔ 

"میری بیٹی بہت حساس ہے ناں اسلیے۔"انہوں نے کپ رکھ کر نرمی سے کہا

"لوگ اتنے بے رحم کیوں ہوگئے ہیں خان بابا ۔۔۔ جہاں دیکھو وہیں مسئلہ ہیں۔بھائی بھائی کا دشمن ہے۔اب تو بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ماں کتنا خوبصورت رشتہ ہے پر دیکھیں اس دن میں نے نیوز میں دیکھا کہ ایک بیٹے نے دولت کے لیے اپنی ماں کو قتل کر دیا۔کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے۔انسان حیوان بن گئے ہیں۔کوئی کسی کا نہیں ہے۔کتنی افسوس کی بات ہے۔"وہ اخبار رکھ کر آہستہ آواز میں بول رہی تھی۔ 

اسکی باتیں سن کر خان بابا نے لمبی سانس بھری۔ایسی خبریں تو وہ آئے دن پڑھتے تھے۔جنکا انہیں افسوس بھی تھا پر وہ مضبوط دل کے آدمی تھے بات کو دل سے لگا کر نہیں بیٹھتے تھے پر سامنے بیٹھی وہ لڑکی بہت حساس تھی۔اس سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا تھا۔اسلیے خان بابا نے سوچا اسکو دنیا کا بہتر چہرہ بھی دکھائیں تا کہ وہ دنیا والوں سے صاف کٹ کر نہ رہ جائے۔ 

"بیٹا جی برے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی تو پائے جاتے ہیں۔جہاں ہمیں بری خبر ملتی ہے وہیں کوئی نہ کوئی اچھی خبر بھی سامنے آتی ہے کہ آج فلاں نے فلاں کی مدد کی۔

عبدالستار ایدھی کے نام سے تو آپ واقف ہونگی ۔۔۔۔ انہوں نے ساری زندگی عجازی میں گزار کر بیشمار بے گھر لوگوں کو چھت دی۔انہیں سہارا دیا۔اس کے علاوہ اور بھی ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں لوگ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی مدد کرتے ہیں کیونکہ انکے اندر انسانیت زندہ ہوتی ہے۔بس بات یہ ہے بیٹا جی کہ انسان کو اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ رکھنا چاہیے۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرے تو دنیا جنت بن سکتی ہے۔ہمیں ، آپکو  اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنا حصہ ڈال دیں۔باقی پھر جو اللہ کو منظور ہو۔"وہ بہت نرمی سے بات کر رہے تھے۔

"ٹھیک کہا آپ نے۔"نازلی نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔ 

"آپ تو بہت اچھا بولتے ہیں خان بابا۔ویسے آپ موٹیویشنل سپیکر بھی بن سکتے ہیں۔"وہ مزے سے بولی تو اسکی بات سن کر خان بابا ایک دم قہقہہ لگا کر ہنسے۔ 

"اب ان بوڑھی ہڈیوں میں اتنی جان نہیں ہے۔"انہوں نے مسکرا کر کہا۔ 

"ارے بوڑھا کسے کہہ رہے ہیں آپ۔میرے خان بابا تو آج بھی گبرو جوان ہیں۔"وہ گردن اکڑ کر بولی۔

اسکی بات پر خان بابا نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ 

"اللہ کو مانیں بیٹا جی ، کسی نے سن لیا تو ہنسیں گے۔" 

"ارے نہیں۔۔۔ کسی کی یہ مجال تھوڑی ہے۔"اس نے مسکرا کر کہا۔خان بابا نے مسکراہٹ روک کر اسے دیکھا۔ 

"ویسے آپکے ہاتھ کی چائے پی کر ہمیں فیل ہورہا ہے کہ ہم پہلے سے جوان ہوگئے ہیں۔"انہوں نے مذاق کیا۔نازلی منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔ 

"یہ کچھ زیادہ نہیں ہوگیا دوست۔"اسنے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔

"تھوڑا سا۔"خان بابا نے آگے ہو کر اسکا سر تھپکا۔

"اب ذرا بتائیں آپکی ام جان کہاں ہیں؟" 

"ام جان منگنی کی تیاریوں میں لگی ہیں۔میں نے کہا بھی کہ میں اور نور دیکھ لینگے پر ام جان ٹنشن بہت لیتی ہیں۔"وہ کہہ کر ایک دم اٹھی۔ 

"ہائے اللہ ام جان نے مجھے کپڑے لانے کا کہا تھا اور میں یہاں باتیں کرنے کے لیے بیٹھ گئی۔"وہ جلدی سے بھاگنے لگی۔ 

"ذرا ہمارے نالائق بیٹے کو بھی اٹھا کر یہاں بھیجیں ان سے منگنی کے حوالے سے کچھ باتیں ڈسکس کرنی ہیں۔"خان بابا نے مسکرا کر کہا تو نازلی  اچھا کہتی جلدی سے اندر کی طرف بھاگی۔خان بابا نے ہنس کر اسے جاتے دیکھا پھر اخبار اٹھا کر پڑھنے لگے۔ 

نازلی نے پہلے ام جان کو آبی کے روم سے ڈریس لا کر دیا۔آبی کی منگنی کے لیے کل ہی وہ لوگ یہ ڈریس لے کر آئے تھے۔

پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔اندر داخل ہوئی تو کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔سامنے دیکھا تو ہاشم اب بھی سو رہا تھا۔وہ پہلے بھی اسے اٹھا کر گئی تھی پر محترم گہری نیند میں تھے اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

وہ آہستہ سے آگے بڑھی۔اسکے قریب رک کر اسنے ہاتھ بڑھا کر اسکے سیاہ بالوں کو چھوا۔اسکی نظریں ہاشم کے چہرے پر تھیں۔سیاہ دلکش آنکھیں اس وقت بند تھیں اور چہرے پر بلا کا سکون تھا۔وہ ہر چیز سے بے خبر سو رہا تھا۔ 

اسے دیکھ کر نازلی کو شرارت سوجی۔اسنے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھایا۔پھر تھوڑا سا پانی ہتھیلی پر ڈال کر ہاشم کے چہرے پر گرا دیا۔

اگلے پل ہاشم ایک دم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا جبکہ نازلی ہنسی روکتی جلدی سے گلاس رکھ کر پیچھے ہونے لگی پر ہاشم نے جھٹ سے اسے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔

"تو یہ پانی گرانے والی آپ محترمہ ہیں؟"اسنے بھاری آواز میں کہہ کر سر اٹھا کر نازلی کو دیکھا۔

"نہیں تو ۔۔۔"دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ نفی میں سر ہلایا۔ 

"اچھا جی۔"ہاشم نے اسکا دوپٹہ تھام کر اپنا چہرہ صاف کیا۔ 

"بالکل۔۔"وہ کہہ کر جانے لگی۔ہاشم نے اسکا بازو تھام کر اپنے سامنے بٹھایا۔ 

"کہاں بھاگ رہی ہو۔"اسنے بھاری آواز میں کہہ کر ایک دم نازلی کے کندھے پر سر رکھا۔نیند کی وجہ سے اسکا سر بھاری ہورہا تھا۔

"میں تو بس آپکو جگانے آئی تھی۔"وہ جلدی سے بولی۔ہاشم کے قریب ہونے سے اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

"میں تو جاگ گیا ہوں۔"اسنے ہنوز اسی انداز میں جواب دیا۔

"تو پھر جانے دیں ناں مجھے۔"نازلی نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر پوری طاقت سے اسے پیچھے دھکیلا۔ 

"اب جگا چکی ہو مسز تو پھر ذرا گڈ مارننگ بھی کہہ لو۔"اچانک اسکی آنکھوں میں دیکھ کر شوخی سے بولا۔ 

"پہلے ہاتھ چھوڑیں پھر کہتی ہوں۔"نازلی مسکرا کر بولی 

ہاشم نے کچھ پل اسے دیکھ کر اسکا ہاتھ چھوڑا۔نازلی اٹھی پھر ایک دم دونوں ہاتھ بڑھا کر اسکے سیاہ بالوں کو بکھیر دیا۔ 

"گڈ مارننگ ہاشم خان۔"ہنس کر کہتی وہ دروازے کی طرف بھاگی۔ 

"چیٹر۔۔"ہاشم نے تپ کر اسے جاتے دیکھا۔ 

"میں نے کہاں چیٹنگ کی۔۔۔"اسنے دروازے سے پلٹ کر پلکیں جھپک کر معصومیت سے کہا۔

"بتاتا ہوں۔"ہاشم اٹھنے لگا۔ 

"ارے رے رہنے دیں۔"وہ جلدی سے ہاتھ اٹھا کر بولی۔"ویسے آپ کو خان بابا نے بلایا ہے سو فریش ہو کر جلدی سے نیچے آجائیں مسٹر ہسبنڈ۔"وہ مسکرا کر کہتی اگلے پل وہاں سے غائب ہوگئی۔ 

اسکے جاتے ہی ہاشم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری۔وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بیڈ سے اترا اور واش روم کی طرف بڑھنے لگا۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

سب تیاریاں مکمل تھیں۔مہمان آنا شروع ہو چکے تھے۔

نازلی نے بیڈ سے اپنا دوپٹہ اٹھایا۔اسنے خوبصورت سے لائٹ بلیو کپڑے پہنے تھے۔ان کپڑوں نے اسکی آنکھوں کی کشش کو مزید بڑھا دیا تھا۔بالوں کا میسی بن بنایا تھا۔کانوں میں وائٹ جھمکے چمک رہے تھے۔اسنے دوپٹے کو شانوں پر پھیلا کر ہیلز پہنیں اور جلدی سے کمرے سے باہر نکلی۔وہ انگوٹھی کو ٹھیک کرتی آگے بڑھ رہی تھی جب سامنے سے نیوی بلیو سوٹ میں آتے ہاشم سے ٹکرائی۔سر اسکے کندھے سے ٹکرایا تھا۔وہ لڑکھڑائی تو ہاشم نے جلدی سے اسے کمر سے تھام کر گرنے سے بچایا۔"مسز آرام سے ۔۔۔ ابھی گر جاتی تو۔"اسنے فکرمندی سے کہا۔ 

"آپ ہیں ناں مجھے سنبھلنے کے لیے۔"وہ ایک دم مسکرائی۔ 

"جی جی آپکا باڈی گارڈ تو ہمیشہ حاضر ہے۔"اسنے سر کو خم دیا۔نازلی ہنسی تھی۔ 

"کیسی لگ رہی ہوں؟"اس نے معصومیت سے پوچھا۔ 

"دلکش ۔۔۔"ہاشم نے جھک کر اسکے گال پر بوسہ دیا۔ 

نازلی کے چہرے پر لالی بکھر گئی۔ہاشم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔"آپ اوپر کس لیے آئے۔"اسنے جلدی سے بات بدلی۔ 

"تمہارے لیے۔"اسکے ایئر رنگ کو چھوا گیا۔ 

"پھر چلیں۔"نیلی آنکھیں اٹھا کر اسنے ہاشم کو دیکھا۔ 

"قاتل آنکھیں۔"اسکی پلکوں کو نرمی سے چھو کر آہستہ سے بولا۔نازلی نے اسے دیکھا پھر گلہ کھنگار کر بولی۔ 

"نیچے سب انتظار کر رہے ہونگے۔"

اسکی بات پر ہاشم مسکرایا۔پھر اسکے دہکتے گال پر ہاتھ رکھا۔ 

"آئی لو یو۔"سرگوشی کی گئی۔نازلی کی آنکھوں میں ستارے ٹمٹما اٹھے۔ہاشم نے نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھاما اور دونوں سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ 

نیچے مہمانوں کا رش تھا۔نازلی سب سے پہلے حسن آفندی سے ملی۔باری باری وہ سبکے گلے لگ رہی تھی۔اسنے دیکھا کہ تابین نہیں آئی تھی۔اسے کال کرنے کا سوچتی وہ آبی کے روم کی طرف بڑھی۔

وہ اندر آئی تو بیوٹیشن آبی کو تیار کر چکی تھی۔ 

انگوری گاؤن میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔جیولری ،میک اپ  نے اسکے حسن کو مزید نکھار دیا تھا۔نازلی نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔ 

"حسین لڑکی ۔۔"اسنے محبت سے آبی کو دیکھ کر کہا۔آبی مسکرانے لگی۔ 

"آگئے ہیں احد بھائی ۔۔ انکی نگاہیں تمہیں دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔"اسنے آبی کو چھیڑا تو وہ شرما گئی۔  

تبھی نور اور لیلیٰ بھی کمرے میں آئیں۔ 

چلیں چلیں میری بھابی کو باہر لائیں اب۔"لیلیٰ نے اعلان کیا۔

اسکی بات پر آبی کے ہاتھ ٹھنڈے ہوئے۔سبکا سامنے کرنے کا سوچ کر اسکے چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ 

"یار مجھے عجیب فیل ہورہا ہے۔"اسنے نور اور نازلی کو دیکھا۔ 

"کچھ نہیں ہوتا ہم تمہارے ساتھ ہیں ناں۔"نور نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

"چلو لمبی سانس لو اور ریلیکس ہوجاؤ۔"نازلی نے محبت سے کہا۔پھر اسے ساتھ لیے وہ لوگ باہر آئیں۔ 

انہیں دیکھ کر سب انکی طرف متوجہ ہوئے۔وہ آبی کو لے کر اسٹیج کی طرف بڑھیں۔

احد ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔آبی کو دیکھ کر وہ دیکھنا رہ گیا۔جبکہ آبی میڈم نے پلکیں جھکا رکھی تھیں۔وہ جتنی بھی شوخ و شرارتی ہوتی پر اس وقت اسکی جان ہوا ہو رہی تھی۔احد کے سامنے ہونے کے احساس سے ہی اسکا دل سینے کی دیواروں سے ٹکرانے لگا تھا۔

اسے لا کر کرسی پر بٹھایا گیا۔نازلی جانے لگی تو آبی نے ایک دم اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

"تم ذرا یہی رکو میرے پاس۔"اسنے سرگوشی کی تو نازلی نے مسکرا کر سر ہلایا۔جبکہ احد کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔وہ اپنی کرسی پر بیٹھا۔آبی اسکی طرف سے چہرہ پھیر کر بیٹھی تھی جیسے اگر اسے دیکھ لے گی تو وہ اسے کھا ہی جائے گا۔ 

"ریلکیس ہو جاؤ ۔۔ احد بھائی بھی حیران ہو رہے ہیں کہ جانے تم پر کونسی چڑیل چڑھ گئی ہے۔"نازلی نے اسکے کان میں آہستہ سے کہا۔ 

"مجھے ایسا لگ رہا ہے میں احد کو جانتی ہی نہیں۔۔۔ بس بڑا عجیب فیل ہورہا ہے۔دل باہر آنے کو ہے۔"آبی نے اپنی مجبوری بتائی۔"یہ جو تمہیں عجیب فیل ہورہا ہے اسے محبت و حیا کی کیفیت کہتے ہیں۔"نازلی ہنس کر بولی تبھی نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو اسکی آنکھیں حیران رہ گئیں۔ 

سامنے سے اسفی اور تابین مسکراتے ہوئے ایک ساتھ آرہے تھے۔ 

"احد بھائی آپ ان محترمہ کا خیال رکھیں۔یہ ذرا شرما رہی ہے۔ میں بس ابھی آئی۔"وہ جلدی سے کہہ کر وہاں سے نیچے اتری۔آبی ہونق بنی اسے جاتے دیکھ رہی تھی جبکہ احد نے کھنگار کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

"اللہ پوچھے تمہیں نازلی۔"آبی ہاتھ مسل کر زیر لب بڑبڑائی۔

"آپ سیدھی ہو کر بیٹھ جائیں۔یقین کریں میں آپکو کھاؤں گا ہرگز نہیں۔"احد نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔اسکی بات پر آبی ذرا سی سیدھی ہو کر بیٹھی۔ 

"میں تو بس ویسے ہی۔"وہ منمنائی تھی۔اسکی پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔گال گلابی ہورھے تھے۔اسے دیکھ کر احد نے لبوں پر آتی ہنسی کا گلہ گھونٹا تھا۔

"میں کوئی پرایا تو نہیں ہوں آبی جو آپ مجھے سے جھجھک رہی ہیں۔آپ مجھے دیکھ لیں میں وہی احد ہوں جسے آپ سے بے انتہا محبت ہے۔"احد بلا کی نرمی سے بولا۔اسکی بات پر آبی نے لرزتی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"مجھ سے ڈر تو نہیں لگ رہا ناں؟"اسنے شرارت سے پوچھا۔ 

"نہیں ۔۔"آبی نفی میں سر ہلا کر مسکرائی۔احد کے مسلسل دیکھنے پر وہ نظریں جھکا گئی پر اسکے لبوں پر مسکراہٹ سج گئی تھی۔احد بھی پر سکون ہو کر اس خوبصورت سماں کو انجوائے کرنے لگا۔ 

نازلی ایک طرف کھڑے اسفی اور تابین کے سامنے رکی پھر انہیں سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بھابی۔"اسفی نے نرمی سے جواب دیا۔جبکہ تابین نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔ 

"کیسی ہیں آپی؟"اس سے جدا ہو کر نازلی نے پوچھا۔ 

"بالکل ٹھیک۔۔۔۔ اور بہت خوش۔"تابین کے لبوں پر پرسکون مسکراہٹ تھی۔

نازلی نے اسفی کو دیکھ کر جیسے پوچھا تھا کہ اس "ساتھ" اور "مسکراہٹ" کے پیچھے کیا راز ہے۔اسفی نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا۔ 

"اللہ آپکو ہمیشہ خوش ہی رکھے۔"نازلی نے محبت سے کہا۔ 

تابین نے مسکرا کر آمین کہا پھر امتل آفندی کے بلانے پر ان سے ایکسکیوز کرتی اس طرف بڑھ گئی۔ 

"یہ ہو کیا رہا ہے اسفی بھائی پلیز جلدی بتائیں مجھے۔"اس نے بے چینی سے پوچھا۔ 

"تابین نے میرا ہاتھ تھام لیا ہے بھابی۔اسنے میری محبت کو قبول کر لیا ہے۔میرا ساتھ قبول کر لیا ہے۔"اسفی نے دلکشی سے بتایا۔اسکے چہرے پر دنیا جہاں کی خوشی تھی۔ 

"کیا ۔۔۔ واقعی ؟"نازلی کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ 

"جی ہاں بھابی۔"اسفی نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔ 

"افف اللہ مجھے اتنی اتنی اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ میں بتا نہیں سکتی۔"وہ ہنس کر کہہ رہی تھی۔تبھی ہاشم انکی طرف آیا۔اسے دیکھ کر نازلی نے خوشی سے کھلے چہرے کے ساتھ اسے ساری بات بتائی۔اسکی بات سن کر ہاشم کو بھی خوشی ہوئی تھی کہ آخر کار تابین نے ایک اچھا فیصلہ کر لیا تھا۔

نازلی اسے بتا کر تابین کی طرف بڑھی۔ 

اسنے امتل آفندی کے ساتھ کھڑی تابین کو پکارا پھر محبت سے اسے گلے لگا لیا۔تابین حیران ہوئی پر پھر بات سمجھ کر مسکرا کر اسکی کمر سہلائی۔ 

"میں آپکے لیے بہت خوش ہوں آپی بہت بہت زیادہ۔"وہ مدھم آواز میں کہہ کر تابین سے الگ ہوئی۔ 

"میری دعا ہے کہ اللہ آپکو زندگی کی وہ تمام خوشیاں دے جسکی آپ حق دار ہیں۔"اسنے نرمی سے تابین کے ہاتھ تھامے۔امتل آفندی نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔تابین کے اس فیصلے نے انکے دل کو بھی پر سکون کر دیا تھا۔اب انہیں اس بات کا غم نہ تھا کہ انکی بیٹی اکیلی رہ جائے گی۔ 

نازلی نے انکی مسکراتی نظریں خود پر محسوس کیں تو اسکا دل خوشی سے پھیل کر سمٹا۔ایک کے بعد ایک خوشی مل رہی تھی۔سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا۔اللہ اس قدر بھی کسی پر مہربان ہوتا ہے کہ اسے سب کچھ دے دیتا ہے۔نازلی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کیسے کرتی جسنے اسکی جھولی خوشیوں سے بھر دی تھی۔اسکے دل کی تمام خواہشات پوری کر ڈالی تھیں۔ 

"آخر تمہیں بھی تمہاری منزل مل ہی گئی میرے یار۔"ہاشم نے محبت سے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا۔ 

اسفی نے مسکرا کر اپنے دوست کو گلے لگا کر اسکا کندھا تھپکا۔"تم سب کی دعاؤں کا اثر ہے۔"وہ ہاشم سے الگ ہو کر بولا۔"اور تمہاری محبت کا۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکے کندھے کو تھپتھپایا تو اسفی ہنسنے لگا۔ 

تھوڑی دیر بعد منگنی کی رسم ادا کی گئی۔احد اور آبی نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔

سب لوگوں نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا پھر انہیں باری باری مبارک دینے لگے۔

لیلیٰ تو خوشی سے ایک ایک کو گلے لگا رہی تھی۔وہ نور سے مل کر آگے بڑھی تو سامنے داور کو کھڑے پایا۔ 

"مبارک ہو۔"اسنے مسکرا کر داور کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ 

داور پہلے تو حیرت ہوا پھر جلدی سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے بھی مبارک دی۔ 

"یہ صرف مبارک کی حد تک ہے یا یہ دوستی بھرا ہاتھ ہے۔"اسنے اپنے ہاتھ میں تھامے اسکے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔"آپکو کیا لگتا ہے؟"لیلیٰ نے شرارت سے اسے دیکھا۔ 

"مجھے تو بہت کچھ لگتا ہے یار۔"داور مسکرایا تھا۔ 

"تو یہ ۔۔۔ "بہت کچھ ہی ہے"۔۔۔۔۔"لیلیٰ ہنس کر کہتی اس سے ہاتھ چھڑا کر جانے لگی۔داور جو اسکی بات پر حیرت میں ڈوب چکا تھا ایک دم چونکا۔

"بہت کچھ ہے؟؟ ۔۔۔ یعنی دوستی؟"اسنے بے تابی سے پوچھا۔ 

"نہیں اس سے تھوڑا آگے۔"وہ پلٹ کر مسکرائی۔ 

"م ۔۔۔ محبت ۔۔۔"داور نے دل کو تھام لیا۔ 

"ہو بھی سکتی ہے۔"ہنس کر کہتی وہ آگے بڑھ گئی اور داور خوشی سے پاگل ہونے لگا۔

"افف اللہ میں کیا کروں ، کہاں جاؤں ، میں تو گیا ، پکا گیا۔۔۔۔"وہ دل کو تھامے بڑبڑاتا ہوا اسکے پیچھے پیچھے جانے لگا۔جبکہ اسکے آگے چلتی لیلیٰ اسکی باتیں سن کر ہنس رہی تھی۔اسکی ہنسی بتا رہی تھی کہ اسے اس پاگل لڑکے سے محبت ہو ہی گئی تھی۔ 

اسٹیج پر وہ دونوں کھڑے تھے۔وہاں رش کم ہوا تو احد اسکی طرف جھکا۔ 

"مبارک ہو مس۔"سرگوشی کی گئی۔ 

"آپکو بھی۔۔"آبی جواب دے کر شرم کے مارے پلکیں جھکا گئی۔ احد نے مسکرا کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔جسے چھڑانے کی اسنے کوشش نہ کی کیونکہ اب سے ہمیشہ کے لیے اسکا ہاتھ اس شخص کے ہاتھ میں ہی رہنا تھا۔

شہریار اور ماہ نور ایک طرف کھڑے تھے۔شہریار نے ہاتھ میں تھاما گلاب ماہ نور کی طرف بڑھایا۔ 

"ہائے اللہ۔"ماہ نور کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔اسنے ہاتھ بڑھا کر گلاب تھام لیا۔ 

"میری زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کے لیے تھینک یو۔"اسنے ماہ نور کی آنکھوں میں دیکھ کر محبت سے کہا۔ 

"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا شہریار کہ ہم کبھی یوں ایک ساتھ ہونگے۔"ماہ نور پھول کی ملائم پنکھڑی کو چھو کر آہستہ سے بولی۔

"اللہ نے ہمیں ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا تھا ماہ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم ایک دوسرے سے جدا رهتے۔"شہریار نے محبت پاش نظروں سے اسکے معصوم چہرے کو دیکھا۔ 

"آپ تو بڑے اچھے ہوگئے ہیں۔"وہ شرارت سے ہنس کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیا پہلے نہیں تھا؟"شہریار نے اسے گھورا۔ 

"اتنے نہیں جتنے اب ہیں۔"اسکی آنکھوں میں محبت کی لو تھی۔شہریار کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔اسنے ماہ نور کا ہاتھ تھام لیا۔ماہ نور کے سنگ زندگی اتنی حسین تھی کہ وہ پھر سے جی اٹھا تھا۔ورنہ پہلے وہ غصے کی آگ میں خود بھی جلتا تھا اور اس معصوم لڑکی کو بھی جلاتا تھا پر جب سے غصے کی آگ ٹھنڈی ہوئی تھی اور محبت نے اپنے وجود کا احساس دلایا تھا تب سے وہ دونوں دو جسم ایک جان بن گئے تھے۔ 

دیر رات تک فنکشن چلتا رہا۔پھر آخر آہستہ آہستہ سب مہمان رخصت ہوگئے۔ 

گھر میں بھی سب تھکے ہوئے تھے اسلیے اپنے کمروں میں  سونے چلے گئے۔ 

ہاشم اور نازلی کچھ دیر لان میں بیٹھنے کے بعد اندر کی طرف بڑھنے لگے۔ہاشم نے کوٹ اتار کر نازلی کی طرف بڑھایا جسے نازلی نے تھام کر اپنے بازو پر ڈال دیا۔ہاشم آستینیں اوپر کرنے لگا۔وہ ہال میں پہنچے ہی تھے کہ ہاشم کا موبائل بجنے لگا۔نازلی نے لمبی سانس بھر کر اسے دیکھا۔وہ جیب سے موبائل نکال رہا تھا۔ 

"ضروری کال ہے۔"ہاشم نے مسکرا کر اسکا گال تھپکا پھر کال پک کر کے صوفے پر بیٹھ کر بات کرنے لگا۔

کوئی بزنس کی بات چل رہی تھی۔نازلی نے بور ہو کر اسے دیکھا پھر اسے اپنے جانے کا اشارہ کرتی پلٹ کر آگے بڑھ گئی۔

ہاشم کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔وہ نظروں سے اوجھل ہوئی تو وہ دوسری طرف کی بات کا جواب دینے لگا۔

وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے کمرے میں آئی۔ 

اسنے ہاشم کا کوٹ ہینگ کیا پھر جھمکے اتار کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے اور الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔ 

اسنے پلین بلیک ڈریس نکالا اور چینج کرنے چلی گئی۔چینج کر کے آئی تو آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں کو کھول کر برش کرنے لگی۔

اسنے برش رکھ کر بیڈ سے دوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈالا۔تبھی آئینے میں اسکی نظر گلے میں پہنے نیکلیس پر پڑیں۔نیکلیس اسکی صراحی دار گردن میں چمک رہا تھا۔وہ اس پر ہاتھ پھیر کر دھیرے سے مسکرائی۔ 

"لگتا ہے مسٹر کی کال لمبی چلی گی۔"زیر لب بڑبڑا کر وہ بالکنی کی طرف آگئی۔جیسے ہی اسنے بالکنی میں قدم رکھا ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اسکا استقبال کیا تھا۔ 

اسنے لمبی سانس کھینچ کر ہوا میں پھیلی پھولوں کی خوشبو کو سانسوں میں اتارا پھر سر اٹھا کر سیاہ آسمان کو دیکھا جس پر چمکتا چاند بڑی شان سے روشن تھا اور اسکے ارد گرد بے شمار ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ 

افف سب کچھ کس قدر حسین تھا۔اتنا مکمل ، اتنا حسین اسے کبھی کچھ نہیں لگا تھا۔اسے ہر چیز بھا رہی تھی۔ہوا کا چلنا ، پھولوں کا ہولے ہولے جھومنا ، وہ چاند ، ستارے ، آسمان سب کچھ آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہا تھا۔۔۔ وہ سوچنے لگی کہ آج سے پہلے بھی تو وہ ساری چیزیں موجود تھیں تب تو اسے یہ سب کچھ اتنا نہیں بھایا پھر آج اسے وہ سب کچھ اس قدر حسین کیوں لگ رہا ہے؟

کوئی اسے بتاتا کہ آج اسکا دل خوشی کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔اسکا دل خوش تھا تو اسے ہر چیز خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ہر چیز من کو بھا رہی تھی۔ 

اسنے مسکرا کر آسمان کو دیکھا۔سیاہ لباس میں اسکا چہرہ چمک رہا تھا۔نیلی آنکھوں میں نور بھرا تھا۔گلابی لبوں پر مسکان سجی تھی۔سیاہ بال پشت پر لہرا رہے تھے۔

اسے پتہ نہ چلا کہ ہاشم کب سے اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا 

دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

نازلی مسکرا کر پلٹی تو سامنے ہاشم کو پایا۔ 

"بڑی خوش ہو۔"وہ دو قدموں کا فاصلہ طے کرتا اسکے قریب آیا۔ 

"میں آپکو اپنی خوشی کی انتہا نہیں بتا سکتی ہاشم۔"وہ ہاشم کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر مسکرائی۔ 

"پر میں سننا چاہوں گا مسز"ہاشم نے اسکے گال پر ہاتھ رکھا۔ 

"میں اتنی خوش ہوں کہ میرا دل کر رہا ہے میں ہوا کے سنگ اڑنے لگوں اور سب سے بڑھ کر آپ پر سب کچھ وار دوں۔"نیلی آنکھیں محبت سے اسکی طرف اٹھیں۔ 

"ہوں تو بات یہ ہے مسز کہ آپکو مجھ پر پیار آ رہا ہے؟"اسنے چھیڑا تھا۔ 

"بہت بہت زیادہ۔"ہنس کر کہتی وہ اسکے کندھے سے لگ گئی۔ 

"آپکو نہیں پتہ آج میری ہر خواہش پوری ہوگئی ہے۔تابین آپی کو لے کر میرا دل اداس تھا۔انکے تنہا ہونے کی وجہ میں تھی۔پر آج جب اسفی بھائی نے بتایا کہ آپی نے انکا ساتھ قبول کر لیا ہے تو ہاشم میرے دل میں لگی وہ آخری گرہ بھی کھل گئی۔میرا دل ہلکا پھلکا ہوگیا۔"وہ آہستہ آواز میں بتا رہی تھی۔ 

ہاشم محبت سے اسکے بالوں کو سہلانے لگا۔ 

"تابین کے تنہا ہونے میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا نازلی۔تم میری زندگی میں اگر نہ بھی آتی تو بھی اس جگہ پر تابین نہ ہوتی۔یہ دل کے معاملے ہیں میری جان ، جب دل کو ایک شخص سے محبت نہیں ۔۔۔ تو نہیں۔۔۔"وہ کچھ پل رکا۔"مجھے تابین سے محبت نہیں تھی تو میں اسے کیسے قبول کرتا۔ میرے دل کو تمہاری چاہ تھی نازلی اور دیکھو آخر میری چاہت مجھے مل گئی۔۔۔۔مجھے تم مل گئی۔"اسنے پیار سے کہہ کر اسکے بالوں میں لب رکھے۔"اور تابین نے اسفی کا ہاتھ تھام کر بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔دیکھنا جلد ہی وہ اسفی سے محبت بھی کرنے لگے گی۔"اسنے پر یقین لہجے میں کہا۔

"انشاء اللہ۔"نازلی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"آپ سے ایک بات پوچھوں؟"اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ ایک دم بولی۔ 

"ضرور پوچھو۔"ہاشم نے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھا۔ 

"آپ مجھ سے اتنی محبت کیوں کرنے لگے؟مطلب تابین آپی اتنی پیاری ، اتنی ماڈرن تھیں۔آپ سے محبت بھی کرتی تھیں۔آپکے ساتھ کھڑی اچھی بھی لگتی تھیں۔پھر آپ نے انہیں کیوں نہیں چنا؟مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں تھی جو آپ مجھے پانے کے لیے اتنا کچھ کرتے۔"اسکے سینے پر رکھے اپنی ہاتھ کو ہلکے سے حرکت کرتی نظریں جھکا کر پوچھ رہی تھی۔ہاشم اسکے چہرے کو دیکھے گیا۔افف یہ پاگل لڑکی ۔۔۔ اسے کوئی بتاتا کہ وہ کس قدر خاص تھی۔کس قدر دل دھڑکا دینے والی تھی۔اسکی ہر ادا قاتل تھی۔وہ تو کوئی جادو گرنی تھی جو ایک ہی نظر میں دوسروں کو اپنے سحر میں باندھ لیتی تھی۔پھر اسے یہ غلط فہمی کیوں تھی کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو کوئی اسے پانے کے لیے جان کی بازی لگا دیتا۔ 

"تمہاری اس بات کا میں کیا جواب دوں؟"ہاشم نے کچھ پل خاموشی کے بعد الٹا سوال کیا۔ 

"جو آپکے دل میں ہے کہہ دیں۔"وہ پلکیں اٹھا کر ایک دم ہلکے سے مسکرائی۔ ہاشم نے خاموشی سے اسے دیکھا پھر اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں تھاما۔ 

"تمہیں پہلی نظر میں دیکھ کر یہ پتھر جیسا آدمی تم پر فدا ہوا تھا۔تمہاری معصومیت ، تمہاری ہر ہر ادا پر ہاشم خان قربان ہے۔تم ہاشم خان کے لیے اتنی خاص ہو کہ تم پر وہ اپنی جان تک وار سکتا تھا۔۔۔۔۔جسے دیکھ کر میرا دل دھڑکا تھا وہ تم تھی نازلی ، تابین نہیں ۔۔ تابین جو بھی ہو پر وہ میری نازلی نہیں ہے۔۔۔۔مجھے اپنی نازلی کو نہ تابین سے نہ کسی اور سے کمپئیر کرنا ہے۔تم میرے لیے ہر کسی سے بڑھ کر خاص ہو ، پیاری ہو ، میری زندگی ہو ، میرا سب کچھ ہو۔"گھمبیر آواز میں کہتا وہ اسے پگھلا رہا تھا۔نازلی کا دل موم ہوتا گیا۔

"آئندہ خود کو کسی سے مت ملانا۔تم انمول ہو میرے لیے ،خود کو دوسروں سے کم سمجھ کر بے مول مت کرو۔"ہاشم نے اسکی پیشانی کو چوما۔نازلی کی آنکھ سے موتی ٹوٹ کر گرا۔وہ اسے کیا بتاتی کہ بچپن سے اسکے دل میں یہی بات ڈالی گئی تھی کہ اس میں کچھ خاص نہیں وہ بہت عام سی ہے۔ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دل نے یہ بات قبول بھی کر لی تھی کہ تابین بیسٹ ہے اور وہ کچھ بھی نہیں ۔۔۔ پر اسے سامنے کھڑے اس شخص نے یقین دلایا تھا کہ وہ خاص ہے ، انمول ہے وہ اسکی جان ہے۔"پھر سے آنسو۔۔"ہاشم نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔  

"یہ خوشی کے آنسو ہیں۔"وہ مسکرائی۔ 

"مطلب خوشی اور غم دونوں میں تم نے آنسو ضرور بہانے ہیں؟"اسکے آنسو پونچھ کر مسکرایا۔ 

"جی ہاں ۔۔۔"نازلی نے مزے سے سر ہلایا۔ 

"مسز تمہارے انہی آنسوؤں میں تمہارا شوہر بہہ جائے گا کسی دن۔"اسنے نازلی کو ڈرایا تھا۔  

"میں آپکو بہنے نہیں دونگی بے فکر رہیں۔"اسنے مسکرا کر سر کو خم دیا۔ہاشم ایک دم ہنسنے لگا۔ 

"ویسے ۔۔"وہ رکا۔ 

"کیا؟"نازلی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ 

"تمہارا کہنا ہے کہ میں تمہیں تابین کے ساتھ کھڑا اچھا لگتا تھا۔ایسا کیوں؟"اسنے ابرو اٹھائے۔  

"آپ جب بھی آپی کے ساتھ ہوتے تو ایک ساتھ آپ دونوں اچھے لگتے تھے۔مجھے تو یہی لگا تھا کہ آپ آپی سے شادی کریں گے۔تو میں آپ دونوں کو ایک ساتھ ہی سوچتی تھی۔"وہ پلکیں جھپک کر مسکرائی۔ 

"اللہ توبہ ۔۔۔۔ ویسے معصومیت کی بھی انتہا ہے مسز ، تم نے کبھی بندے کی نظریں نوٹ نہ کیں کہ وہ کس کا دیدار کرتی ہیں اور بس خود سے کہانیاں بناتی رہی۔"وہ جھنجھلا کر بولا۔  

"ہیلو ہیلو مسٹر آپ بھول رہے ہیں کہ آپ نے مجھے اسی بات پر دھمکا کر نکاح کے لیے راضی کیا تھا۔"وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔"اچھا ناں اسکے لیے تو میں معذرت کر چکا ہوں۔"ہاشم ٹھوڑی کھجا کر مسکرایا۔

"ویسے یار اگر میں تب وہ سب نہ کرتا تو آج تم میرے سامنے نہ ہوتی۔تو ایک طرح سے جو ہوا اچھا ہی ہوا۔"آخر میں آنکھ مار کر بولا تو نازلی ہنسنے لگی۔ 

"ہاشم خان بہت چالاک ہیں آپ۔"اسکے سینے پر انگلی رکھ کر بولی۔"اور تم بہت معصوم۔"اسکا ہاتھ تھام کر اسے لیے اندر کی طرف بڑھا۔ 

"کیا ہوا؟"نازلی نے اسے دیکھا۔ 

"تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم ایک ساتھ کیسے لگتے ہیں۔"ہاشم نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے آئینے کے سامنے کھڑا کیا۔پھر خود اسکے پیچھے کھڑا ہوا۔ 

"اب بتاؤ ہم ایک ساتھ کیسے لگتے ہیں؟"اسنے جھک کر نازلی کے کان میں دھیرے سے کہا۔

نیلی پر کشش آنکھیں آئینے پر ٹھہر سی گئیں۔وہ ایک ساتھ کھڑے بے مثال لگ رہے تھے۔

معصوم شہزادی اور اسکا مغرور شہزادہ ۔۔۔۔۔

ہاشم اسکی آنکھوں کی کیفیت سمجھ کر آگے ہوا اور اسکے گرد بازوؤں کا حصار باندھ دیا۔ 

"لگ رہے ہیں ناں لاجواب۔"اس نے مسکرا کر سرگوشی کی۔نازلی نے سحر سے نکل کر اثبات میں سر ہلایا۔ 

"تو ماشاء اللہ کہو۔"اسکے بالوں میں لب رکھ کر بولا۔ 

نازلی نے مسکرا کر ماشاء اللہ کہا پھر ہاشم کو دیکھنے لگی۔ہاشم نے ان نیلی آنکھوں میں دیکھا۔ان پر کشش آنکھوں نے اسے اپنے جادو میں جکڑ لیا تھا۔ 

"آہ تم مجھے اتنی اچھی کیوں لگتی ہو؟"اسنے دلِ بے چین کو سنبھال کر اچانک پوچھا۔

اسکے سوال پر نازلی ہنسنے لگی۔ہاشم نے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔"جواب دو یار۔۔"اصرار کیا گیا۔ 

"افف مجھے نہیں معلوم ہاشم۔"اسکے اتنی محبت سے دیکھنے پر نازلی شرما کر چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔ہاشم نے مضبوط بازو اسکے گرد حمائل کیے۔

"آپ بتائیں۔"نازلی نے مدھم آواز میں پوچھا۔

"مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ مجھے بس تم اچھی لگتی ہو بے حد ، بے انتہا ، بس اتنا جان لو کہ تم ہاشم خان کے عشق کی انتہا ہو۔اسکے جینے کی وجہ ہو ، تمہارا ہونا ہی ان دھڑکنوں کے دھڑکنے کی وجہ ہے۔تم ہو تو سب کچھ ہے تم نہیں تو کچھ نہیں۔"اسے اپنے بازوؤں میں بھینچ کر وہ مدھم آواز میں جادو پھونک رہا تھا اور وہ سحر میں جکڑی اسکی باتیں سن رہی تھی۔

انکے گرد محبت چکرا رہی تھی۔انہیں اس دنیا سے دور کر کے اپنی دنیا میں لے گئی تھی۔جہاں نہ دنیا والوں کی تلخی تھی نہ محبت کے چھن جانے کا ڈر۔وہاں صرف وہ دونوں تھے اور انکی بے انتہا محبت تھی۔

ان شہزادہ شہزادی کی کہانی مکمل ہو چکی تھی۔انہوں نے اپنی محبت کو پا لیا تھا۔زندگی اب اسی محبت کے سائے تلے گزرنے والی تھی۔جہاں اگر کبھی دکھ کے بادل چھائے بھی تو وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے پائے جائیں گے اور زندگی کی دھوپ کو چھاؤں میں بدل دینگے۔ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دینگے۔ وہ محبت کرنے والے تھے اور محبت کرنے والے کسی بھی حال میں ایک دوسرے کا دامن نہیں چھوڑتے۔۔۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Intaha E Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Intaha E Ishq written by Preewish.Intaha E Ishq by Preewish is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment