Pages

Wednesday 14 August 2024

Tere Ishq Nachaya By Hoor Shamaile New Complete Romantic Novel

Tere Ishq Nachaya By Hoor Shamaile New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tere Ishq Nachaya Hoor Shamile Complete Romantic Novel 


Novel Name; Tere Ishq nachaya

Writer Name: Hoor Shamaile

Category: Complete Novel

یوسف مجھے بھی تمہارے ساتھ کیھلنا ہے اس نے یوسف  کے پاس آ کر کہا تھا جس نے ابھی بولنگ کرنے کے لئے  گیند پکڑی ہی تھی وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا پھر سب سے معذرت کر کے اسے  تھوڑا فاصلے پر لے آیا     میں اکیلا تو نہیں کیھل رہا نہ سیم میرے ساتھ  اور بھی لڑکے کھیل رہے ہیں اور وہ تمھیں کھلانے پر راضی نہیں ہونگے یوسف نے اسے سمجھایا نہیں مجھے کچھ نہیں پتا مجھے بھی تمہارے ساتھ کھیلنا ہے سیم نے ضد کی یوسف  جانتا تھا کہ وہ بہت ضدی ہے اس لئے اب اسے کچھ سوچنا ہی پڑا سب سے پہلے  اس نے سیم کا 

سر سے پاؤں تک جائزہ لیا اس نے پیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہنی تھی اور نیچے کالے رنگ کی پینٹ تھی اسکے  بواۓ کٹ بال تھوڑے سے ماتھے پر آ رہے تھے یوسف مطمئن ہوگیا  اور پھر کچھ سوچ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر باقی لڑکوں کی طرف  لے گیا دوستو ذرا میری بات سنو اس نے اونچی آواز میں کہا سب لڑکے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے یوسف نے اک نظر ان  سب کو دیکھا اور پھر بڑے  اعتماد سے بولا یہ سیم ہے میرا کزن اور یہ ہم سب کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے سب لڑکوں نے سیم کو دیکھا  اور سیم نے  حیرانی سے یوسف کو ہاں ٹھیک ہے کھیلا لیتے ہیں سیم تم  فیلڈنگ کر لو گے  اک بڑے لڑکے نے پوچھا ہاں کر لے گا یوسف نے جواب دیا سیم نے بھی سر ہلا دیا سب لڑکے اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے تم نے جھوٹ کیوں بولا یوسف اس نے پوچھا کیوں کے ہم لڑکیوں کو نہیں کھلاتے اگر میں بتا دیتا تو کوئی تمھیں کھیلانے پر راضی نہ ہوتا سمجھی سیم نے سر ہلا دیا اچھی سی فیلڈنگ کرنا اب ناک مت کٹوانا یوسف نے اسے کہا اور بولنگ کرانے کے لئے چلا گیا سیم نے بھی اپنی جگہ سنبھال لی وہ سوچ رہی تھی کہ اسے بہت اچھے سے فیلڈنگ کرنی ہے ورنہ تو یوسف کی ناک کٹ جائے  گی اور ناک کے بغیر تو وہ کتنا برا لگے گا نہ اس نے سوچ کر ہی جھرجھری لی تبھی بال اسکے پاس سے گزر کر باؤنڈری لائن پاس کر گئی سیم نے پہلے مڑ کر بال کو اور پھر دور کھڑے یوسف کو دیکھا جو غصے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا سیم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا

-------------------------------------------------------------------------------

سمعیہ بیٹا آ کر کھانا کھا لو سعدیہ بیگم نے کمرے میں داخل ہو کر کہا پر پورے کمرے پر نظر دوڑانے کے باوجود وہ انہیں کہیں نظر نہیں ای شائد واشروم میں ہو انہوں نے سوچا اور واشروم کی طرف بڑھ گئیں پر تبھی انکی نظر سمعیہ کے چھوٹے چھوٹے پیروں پر پڑی وہ پردے کے پیچھے تھی سعدیہ بیگم پریشان ہو گیں کیوں کہ جب بھی وہ یہاں ہوتی تو مطلب وہ رو رہی ہوتی تھی انہوں نے اگے بڑھ کر پردے ہٹا دیے چھوٹی سی روتی ہوئی سمعیہ پہلے حیران ہوئی اور پھر جلدی سے آنسو صاف کر لئے کیا ہوا ہے سمعیہ رو کیوں رہی ہو انھوں نے جھک کر پوچھا مما یوسف میری وجہ سے میچ ہار گیا اور اب وہ مجھ سے بات بھی نہی کر رہا اس نے مونھ لٹکا کر بتایا  سعدیہ بیگم کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ آ گئی تم پریشان نہ ہو بیٹا میں صبح ہی جا کر یوسف کے کان کھنچتی ہوں انہوں نے اسے تسلی دی نہیں مما کان مت کھنچنا کان کھنچیں گی تو یوسف کو درد ہو گی نہ اس نے معصومیت سے کہا سعدیہ بیگم ہنس دی اچھا تو پھر کیا کروں اس کے ساتھ انہوں نے اس سے ہی پوچھا مما اپ بس تھوڑا سا اسے ڈانٹ دینا لیکن زیادہ مت  ڈانٹنا اچھا بابا نہیں جیسا تم کہو گی ویسا ہی کروں گی اب جلدی چلو پاپا اور بہن انتظار کر رہے ہیں کھانے پہ سعدیہ بیگم نے کہا اور انگلی پکڑ کر اسے اپنے  ساتھ نیچے لے گیں

----------------------------------------------------------------------

سیم ادھر آؤ یوسف نے پوکارا وہ جو جھولے پر بیٹھی جھول رہی تھی فوراً اسکی بات سننے کے لئے بھاگی تم نے  چچی سے میری شکایت لگائی ہے کہ میں تم سے ناراض ہوں یوسف نے غصے سے پوچھا سیم نے سر جھکا لیا اس لئے  میں لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتا تم لڑکیاں کتنی شکایتی ہوتی ہو یوسف نے پھر غصہ کیا میں نے شکایت تو نہی لگائی صرف سچ بتایا مما کو سیم منمنائی ہنہ سچ یوسف نے غصے سے مونھ پھیر لیا میں مما کو جا کر بتاتی ہوں کے یوسف پھر مجھ سے ناراض ہو گیا ہے اور غصہ بھی کر رہا ہے سیم نے اسکے سامنے آ کر کہا  یوسف نے اسے گھورا سیم میں نے تم سے دوستی صرف اس لئے کی کیوں کہ تم نے کہا تھا تم لڑکیوں جیسی حرکتیں نہیں کرو گی پر تم پھر کر رہی ہو  اچھا نہ نہیں لگاتی شکایت پر تم مجھے بھی میچ کھلانے لے چلو سیم نے کہا نہی تم پھر میچ ہروا دو گی آج نہیں ہرواؤں گی پکا سیم نے یقین  سے کہا ٹھیک ہے اگر تم نے ہروایا تو پھر  تمھیں میرا ہوم ورک کرنا پڑے گا یوسف نے شرط رکھی  پر یوسف تمہاری رائٹنگ بہت گندی ہے اگر میں بائیں ہاتھ سے بھی لکھوں تو تمہارے جیسا نہیں لکھ پاتی سیم نے معصومیت سے کہا یوسف شرمندگی سے سر کھجانے لگا 

کیوں کہ سیم سچ ہی تو که رہی تھی

---------------------------------------------------------------------------

سمعیہ اور یوسف کزن تھے یوسف کے والد کمال صاھب بزنس مین تھے اور یوسف کی امی ہاجرہ بیگم گھر سنھبالتی تھیں یوسف انکی اکلوتی اولاد تھا سمعیہ کے والد جمیل صاھب کا بزنس الگ تھا اور انکی بیوی سعدیہ  بھی گھر ہی  سنھبالتی تھیں سمعیہ اور رمشا انکے آنگن کی کلیاں تھیں کمال صاھب اور جمیل صاھب کے  گھر باہر سے تو الگ ہی لگتے تھے پر اندر سے اک بگیچے کے ذرئیے ملے ہووے تھے اور  شام کو سب اسی بگیچے میں مل بیٹھتے تھے اس وقت بھی یہاں سب لوگ جمع تھے تمام بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے سمعیہ اور رمشا تھوڑے فاصلے پر بیٹھیں اپنا ہوم ورک کر رہیں تھی اور یوسف صاھب ویڈیو گیم کیھلنے میں مصروف تھے انہیں ہوم ورک کی فکر نہیں تھی کیوں کے آج پھر وہ سیم کی وجہ سے میچ ہار چکے تھے اور اب اسکا ہوم ورک  سیم ہی کو کرنا تھا سیم پوری دلجمی سے گندی رائٹنگ  کرنے میں مصروف تھی یوسف تھوڑی تھوڑی  دیر بعد آ کر دیکھ جاتا تھا سمعیہ تمھیں کیا ضرورت ہے یوسف کا کام کرنے کی چھوڑ دو وہ خودی کر لے گا  رمشا نے اسے ڈانٹا آپی اگر میں نے نہ کیا تو وہ مجھے کل اپنے ساتھ کھلانے نہی لے جائے گا سیم نے بتایا ہان تو نے نہ لے جائے تم میرے اور میری دوستوں کے ساتھ کھیل لینا کل ہم گریا کی شادی کرنے والے ہیں رمشا نے بتایا نہیں اپی  مجھے گریا سے کھلنا پسند نہیں ہے سیم کام کرتے ہووے بولی اف سمعیہ تم یوسف کے ساتھ رہ رہ کر بلکل لڑکوں جیسی ہو گئی ہو گریا سے نہی کھلتی چوکلٹ نہی کھاتی اور کپڑے بھی لڑکوں جیسے پہنتی ہو میری سب دوستیں تمہارا مذاق اڑاتی ہیں سمعیہ رمشا نے غصے سے کہا سمعیہ نے لاپرواہی سے  کھندے اچکاۓ دیے جیسے کے اکثر یوسف کیا کرتا تھا تم بلکل یوسف کی طرح بنتی جا رہی ہو سمعیہ رمشا نو غصے سے کہا اور اٹھ گئی سمعیہ مسکرا دی یہی تو وہ چاہتی تھی اس کی طرح بنا

یوسف باگیچے میں لگے درخت کے نیچے بیٹھا ویڈیو گیم کھیل رہا تھا اور ساتھ ساتھ سیٹی بھی بجا رہا تھا

 سمعیہ بھی اسی کے پاس آ کر بیٹھ گئی کیا کر رہے ہو یوسف ! اس نے پوچھا

 یوسف نے ویڈیو گیم پر ہی توجہ مرکوز رکھی

 سیم کیا تم اندھی ہو اس نے پوچھا

 نہیں تو بلکل بھی نہی سمعیہ نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا 

اگر تم اندھی نہیں ہو تو تمھیں یہ بھی نظر آ رہا ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں تمھیں نظر آ رہا ہے نہ اب کی بار اس نے نظر اٹھا کر پوچھا

 ہان آ رہا ہے سیم نے ہمیشہ کی طرح شرمندگی سے سر جھکا لیا

 تو جب نظر آ رہا ہوتا ہے تو تم لڑکیاں یہ سوال کیوں پوچھتی ہو اس نے ڈانٹ کر پوچھا

 تم مجھے لڑکیوں کے طعنے کیوں دیتے ہو میں تو لڑکوں  جیسی ہوں نہ سب لڑکیاں مجھے لڑکا ہی کہتی ہیں اس نے فخر سے بتایا

 یوسف نے بس کھندے اچکا دیے سیم نے بھی اسکی دیکھا دیکھی بلکل ایسے ہی کھندے  اچکاۓ

 تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد وہ پھر بولی یوسف تم تھوڑی دیر پہلے سیٹی بجا رہے تھے نہ یوسف نے اسے گھورا وہ گڑبڑا گئی

 ہان میں نے سنا تھا تم سیٹی بجا رہے تھے میں تو بس ویسے ہی پوچھ رہی تھی

 تمھیں بھی سیکھنی ہے یوسف نے ویڈیو گیم بند کر کے پوچھا 

سمعیہ نے  خوشی سے سر ہلا دیا وہ یہی تو کہنا چاہ رہی تھی یوسف نے اسے اک دفع سیٹی بجا کر دکھائی پر سمعیہ کے مونھ  سے صرف پھونک ہی نکلی پھر تقریباً دس منٹ کی بھرپور کوشش کے بعد سمعیہ سیٹی بجانے میں کامیاب ہوئی پر اس کا چہرہ  سرخ گلاب کی طرح ہوگیا کچھ خوشی سے اور کچھ پھونکیں مار مار کہ پر جب یوسف نے اس کے لئے تالی بجائی تو اسکی ساری  محنت جیسے وصول ہو گئی

 ----------------------------------------------------------------------------------- سیم تمہارے ساتھ آخر مسلہ کیا ہے وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی جب وہ دندناتا ہوا اسکے کمرے میں آیا اور غصے سے پوچھا اب میں نے کیا کیا سیم اسکی طرف موتوجہ ہوئی

تم نے چچی سے کہا کہ میں نے تمھیں سیٹی بجانا  سکھائی ہے اس نے غصے سے گھورتے  ہووے بتایا 

 تو کیا نہیں سکھائی سیم نے معصومیت سے پوچھا

 سیم کی بچی یوسف نے غصے کو قابو کرنے کے لئے مٹھیاں بیھنچ لی

 یوسف تم نے مجھے منع تو نہی کیا تھا کے میں مما کو نہ بتاؤں  یوسف نے اپنے غصے کو پر قابو کیا اور سیم کے پاس ہی اک کرسی پر بیٹھ گیا

 سیم لڑکے ہر بات ہر کسی کو نہیں بتاتے اس نے سمجھانے کی کوشش کی

 مما پاپا کو بھی نہیں سیم اور اسکے معصومیت بھرے سوال 

ہان کچھ باتیں مما پاپا کو بھی نہیں بتاتے لڑکے اس نے اک دفع پھر سمجھایا

 پھر جب مجھے  کوئی بات بتانی ہو تو کسے بتایا کروں سیم نے پوچھا 

یوسف نے کچھ دیر سوچا 

  تم مجھے ساری باتیں بتا دیا کرو ہم مین ٹو مین  بات  کریں گے ٹھیک ہے نہ یوسف نے پوچھا

 سیم نے سر ہلا دیا

 پرومس یوسف نے ہاتھ بڑھایا ہان پکا پرومس سیم نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا

-------------------------------------------------------------------------------- یوسف ! وہ روتی ہوئی اس کے پاس ائی

 یوسف نے آنکھیں کھولی اسے آج بخار تھا اس لئے چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا 

کیا ہوا ہے سیم رو کیوں رہی ہو اس نے فکر مندی  سے پوچھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا

 وہ میں آج اکیلی ہی میچ کھلنے چلی گئی تھی ...آج پھر ٹیم میری وجہ سے ہار گئی

  تم ساتھ نہیں تھے اس لئے سب بڑے لڑکوں نے مجھے بہت ڈانٹا اور کہا کے کل سے نہ آؤں اور اک نے تو مجھے  گالی بھی دی..

 بیشک یوسف ابھی بچہ تھا پر اسکی چھوٹی سے غیرت ابھی زندہ تھی کوئی اسکی دوست کو برا کہے اور وہ کچھ نہ کرے ابھی ایسا بھی وقت نہی آیا تھا

 چلو میرے ساتھ یوسف بستر سے اٹھ کر جوتے پہنے  لگا  اور پھر اسے لے کر کمرے سے باہر نکل آیا

 ہاجرہ بیگم کچن میں اس کے لئے سوپ بنا رہی تھیں وہ دونوں  ان سے چھپ کر باہر نکل  ہی رہے تھے کہ ہاجرہ بیگم  کی نظر ان پر پڑ گئی یوسف اس حالت میں کہا جا رہے ہو انکی آواز پیچھے سے ای

 بھاگو! یوسف نے کہا 

اور سیم کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے  باہر بھاگ گیا حجرہ بیگم فکر مندی سے چلاتی ہی رہ گیں

کیھل کے میدان میں اس وقت صرف چند ہی لڑکے تھے باقی سب جا چکے تھے

 سیم تمھیں کس نے گالی دی تھی

  منیر نے  سیم نے سامنے کھڑے لڑکے کی طرف اشارہ کیا

 یوسف غصے سے اس کی طرف بڑھا سیم بھی اس کے ساتھ ہو لی

 تم نے سیم کو گالی دی یوسف نے منیر کا کالر پکڑ کر پوچھا 

پہلے تو وہ حیران ہوا اس اچانک افتاد پر پھر تن کر بولا" ہان دی ہے تیرے کزن کو کیھلنا تو آتا نہیں روز ہروانے آ جاتا ہے"

 اس کے اقرار کرنے کی دیر تھی یوسف نے کیھنچ کر اسکے مونھ پر تھپڑ مارا 

  بس پھر کیا تھا دونوں میں ہاتھا پائی شروح  ہو گئی

 یوسف نے اس لڑکے کو نیچے گرا دیا اور تھپڑوں کی برسات کر دی سیم نے بھی جوش میں آ کر اک دو تھپڑ لگا دیے

 کچھ  ہی دیر میں میدان میں جو بڑے لڑکے تھے وہ بھی آ گئے اور منیر کو چھڑوا لیا یوسف نے بغیر کچھ کہے سیم کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے چل دیا منیر پیچھے سے دھمکیاں ہی دیتا رہ گیا

----------------------------------------------------------------------------

 آج اس کی طبیعت بہتر تھی اس لئے بگیچھے میں آ گیا وہ جانتا تھا اس وقت سیم بھی وہیں ہوگی وہ درخت کے نیچے بیٹھ کر سیٹیاں بجا رہی تھی

 یوسف بھی اسی کے پاس آ کر بیٹھ گیا

" تمھیں پتا ہے کل  گھر آ کر  امی سے مجھے خوب ڈانٹ پڑی" اس نے بتایا

" پر تمہارے کان پر جوں تک نہی رینگی ہوگی ہے نہ" سیم نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا

 یوسف مسکرا دیا ہان کیوں کے میرے سر میں جویں ہیں ہی نہیں

 سیم ہنس دی پھر یاد آیا تو بولی یوسف تمھیں یاد ہے نہ کل ہمارا ساتویں کلاس  کا رزلٹ ہے 

 ہان یاد ہے اس نے لاپرواہی سے کہا 

"مجھے ڈر لگ رہا ہے یوسف" 

 ارے پاگل فکر نہ کرو نہیں ہوگی  تم فیل اس نے تسلی دی

" مجھے پتا ہے میں پاس ہو جاؤں  گی میں تو تمہارے لئے فکر مند ہوں"

  تم فکر نہ کرو اگر تم پاس ہوئی تو میں بھی پاس  ہو جاؤں گا کیوں کے میں نے سارا پیپر تم ہی سے دیکھ کر لکھا تھا اس نے اطمینان سے بتایا

 یوسف تم نے مجھے کاپی کیا". سیم غصے  میں آ گئی

 "زیادہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم بھی تو مجھے کاپی کرتی ہو"

 جھوٹے میں نے کب تمھیں کاپی کیا یوسف نے اک طنزیہ نگاہ اسکے سراپے پر ڈالی سیم اسکا مطلب سمجھ کر شرمندہ ہو گئی  پر شمریندگی مٹانے کے لئے بولی

 اچھا ٹھیک ہے معاف کیا 

یوسف ہنس دیا میں نے معافی کب مانگی تم سے سیم

 سیم دانت پیس کر رہ گئی 

 اسی طرح ہنستے کودتے تو کبھی لڑتے جھگڑتے وقت کا پہیہ گھومتا گیا 

اور انکے بچپن کو سمیٹتا گیا 

بچپن

 لڑکپن

 اور پھر جوانی تک کے سفر میں بہت کچھ تبدیل بھی ہوا تھا

 رمشا آپی کی کچھ مہینے پہلے ہی شادی ہو چکی تھی

 گھر میں بھی چھوٹی بڑی بہت سی تبدیلیاں آئین تھی

 پر اگر کچھ نہیں بدلہ تھا تو سیم  کا یوسف کو کاپی کرنا جیسے وہ بولتا تھا جیسے وہ رہتا تھا یہاں تک کہ جو وہ پہنتا تھا

 جیسا یوسف کا ہیر سٹائل ہوتا ویسا ہی سیم کا ہوتا جو چیز یوسف کو پسند ہوتی لازمی بات تھی کے سیم کو بھی وہی چیز پسند کرتی وہ بلکل یوسف کی کاپی  تھی پہلی بار ملنے والے تو انہیں بھائی ہی سمجھ لیتے  

-------------------------------------------------------------------

اس وقت یوسف بیٹھا ریسکلنگ دیکھ رہا تھا 

سیم گلے میں لڑکوں کو طرح سکارف لٹکاۓ آ گئی

 "یوسف چلو گھومنے چلتے ہیں "  

میرا اس سردی میں مرنے کا ارادہ بلکل  نہی ہے  میں تو بلکل نہیں آ رہا اس نے صاف انکار کیا

 ٹھیک ہے  نہ آو میں اکیلی ہی چلی جاتی ہوں وہ کہ کر باہر نکل ائی ہیلمٹ پہنا بائیک سٹارٹ کی اور چلی گئی

 ساری سڑک سنسان پڑی تھی وہ بڑے مزے سے بائیک چلا رہی تھی...  تبھی پیچھے سے اک اور  بائیک  ای... چلانے والے نے بھی ہیلمٹ پہنا تھا

 پر وہ بائیک کو اور بائیک والے کو پہچانتی تھی

 وہ یوسف تھا وہی  یوسف جو کہتا تھا کہ وہ  لڑکیوں کو پسند نہی کرتا پر اک لڑکی ہی  کے پیچھے اس سردی میں نکل پڑا تھا 

وہ ہمیشہ  اس سڑک پر ریس لگاتے تھے

 اب بھی سیم کا ارادہ ریس لگانے کا تھا اس لئے جوں ہی یوسف کی بائیک اس کے قریب  ای اس نے سپیڈ بڑھا دی

 یوسف اسکا انداز سمجتا تھا دونوں نے خوب ریس لگائی پر ہمیشہ کی طرح جب وہ  ہارنے لگی تو اس نے بائیک کی سپیڈ کم کر کے گیر لگایا اور جھٹکے سے بائیک کا اگلا وہیل اٹھا لیا وہ ون وہیلنگ کرنے میں ماہر ہو گئی تھی

 پر یوسف کو ہمیشہ اسکی ون وہیلنگ سے مسلہ رہا تھا اس لئے اس نے اپنی  بائیک اک سائیڈ پر روک دی

 سمیہ نے اسے بائیک روکتے دیکھا تو خود بھی اس کے پاس آ کر رک گئی

 سیم میں تمھیں یہ آج آخری بار سمجھا رہا ہوں آئندہ میں تمھیں ون وہیلنگ کرتا نہ دیکھوں ورنہ میں چچی سے تمہاری شکایت لگا دوں گا"

 سمیعہ ہنسنے لگی "یوسف شکایت لڑکیاں لگاتی ہیں"

 یوسف نے غصے سے موٹھیاں بھینچ لی

 مجھے تمھیں ون وہیلنگ سکھانی ہی نہی چائیے تھی

 سمعیہ نے لاپرواہی سے  کھندے اچکا دیے یوسف کو اسکی یہ حرکت مزید  غصہ دلا گئی

 اس نے چپ چاپ اپنی بائیک سٹارٹ کی اور چلا گیا سمیعہ کو بھی اب گھر جانے کی جلدی پڑ گئی تاکہ جلدی سے جا کر اسے منا سکے

"سمیہ کدھر گئی تھی تم" 

"وہ مما  میں یوسف کے ساتھ گھومنے گئی تھی"

 "پاگل تو نہی ہو گئی اتنی سردی میں گھومنے چلی گئی خود بھی بیمار ہو گی اور بیچارے یوسف کو بھی کرو گی"

 چچی میں نے  ہی کہا تھا کے چلتے ہیں گھر بیٹھ کر بور ہو گئے تھے یوسف نے پیچھے سے آ کر بتایا 

سعدیہ بیگم نے اسے کچھ نہی کہا اور ٹی وی کی طرف موتوجہ ہو گیں جہاں انکا پسندیدہ ڈرامہ آ رہا تھا

 سیم کچن میں آ گئی یوسف بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا

 تم یہاں کیسے آ گیے اس نے فرج  میں سے کچھ کھانے کے لئے ڈھونڈتے ہووے پوچھا

 کیوں کے مجھے پتا تھا کے جب تم گھر آؤ گی تو چچی تمھیں ڈانٹیں گی اس لئے بچانے آ گیا

 ہان اچھا کیا وہ ڈھونڈنے میں ہی مصروف رہی

 یوسف  باہر آ کر بیٹھ گیا 

سمیہ کچن میں کیا کر رہی ہے" سعدیہ بیگم نے اس سے پوچھا"

 "کچھ کھانے کے لئے ڈھونڈ رہی ہے"

 یوسف بیٹا تم ہی اس کو کچھ سمجھاؤ کچھ تو گھر داری سیکھ لے انہوں نے پریشانی سے کہا 

"چچی میں کیا کہ سکتا ہوں"

 بیٹا جو تم کرو گے وہ بھی وہی کرے گی"

 یوسف کو انکی بات سمجھ میں آ گئی ٹھیک ہے چچی میں سمجھاتا ہوں وہ فوراً ہی اٹھ کر کچن میں آ گیا

 سیم اب کرسی پر بیٹھی بسکٹ کھا رہی تھی وہ بھی اک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا 

سیم میں سوچ رہا تھا کیوں نہ کوکنگ سیکھیں

 سیم نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر ہنس دی یوسف کوکنگ تو لڑکیاں کرتی ہیں

 ضروری تو نہیں ہم جو ہر بات انگریزوں کی کاپی کرتے ہیں تو ان سے یہ بھی سیکھ لینا چائیے کے انکے مرد بھی کوکنگ کرتے ہیں  اس نے سمجھایا

 تو تم واقعی کوکنگ سیکھو گے سیم حیران تھی

 یوسف نے سر ہلا دیا

 ٹھیک ہے پھر میں بھی سیکھوں گی بلکہ چلو ابھی شروح کرتے ہیں وہ  جلدی  سے اٹھ کھڑی ہوئی

  "مما جلدی سے ادھر آئیں"

 کیا بات ہے سمیہ" انہوں نے پوچھا 

مما مجھے اور یوسف کو کوکنگ سیکھنی ہے 

سعدیہ بیگم نے مشکور نظروں سے یوسف کو دیکھا

وہ بس مسکرا دیا 

مما  کہاں سے شروع کریں سمیہ خاصی پرجوش ہو گئی

 چلو آج تم لوگوں کو چاۓ بنانا سکھاتی ہوں

 دونوں نے سر ہلا دیا 

  پھر سعدیہ بیگم نے انہیں چائے بنا کر دکھائی 

مما اب ہم بنائیں گے اپ باہر جا کر بیٹھیں

 سعدیہ بیگم مسکراتی ہوئی  باہر چلی گئیں ان کے لئے یہی خوشی بہت تھی کے انکی بیٹی آج پہلی بار کوئی لڑکیوں والا کام سیکھ رہی تھی ورنہ آج تک تو صرف لڑکوں والے کام ہی سیکھے تھے

 چلو یوسف میں  پانی ابالتی  ہوں تم چیزیں نکالو

 یوسف  نے جلدی سے چیزیں نکل لیں پھر پانی ابال کر سیم نے پتی ڈالی اور یوسف نے چینی

   آخر پر آدھا دودھ سیم نے ڈالا اور آدھا یوسف نے سب کام بانٹ کر اس لئے کیے کہ وہ دونوں برابر کا کریڈٹ لے سکیں

 "یوسف تم چاۓ کپ میں ڈالو مما کو دے کر میں آؤں گی"

 "کیوں جی بنائی میں نے ہے تو دے کر بھی میں آؤں گا"

 جھوٹے تم نے تو صرف چینی ڈالی ہے اور تھوڑا سا دودھ باقی  سب تو میں نے کیا ہے"

 "اچھا تو سچی پھر بچتا کیا ہے تم نے بھی تو صرف پتی ڈالی ہے اور تھوڑا سا دودھ"

 "مما میری ہیں تو انہیں دوں گی بھی میں"

 "چچی میری ہیں میں دوں گا"

 وہ دونوں لڑتے رہی اور چاۓ ساری ابل کر باہر آ گئی یوسف نے دیکھا اور جلدی سے برنر بند کر دیا

 دیکھو میں نے چاۓ کی جان بچائی ہے یوسف نے فخر سے کہا

 بچا لی نہ اب دو سیم نے اگے بڑھ کر  چاۓ کو کپ میں ڈالا 

اب مجھے دو یوسف نے ہاتھ آگے بڑھایا 

   ہاتھ پیچھے کرو ورنہ ساری چاۓ تمہی پر گرا دوں گی"

 گرا کر تو دکھاؤ وہ تن کر کھڑا ہو گیا

 اچھا ایسا کرتے ہیں کپ کو اک طرف سے تم  پکڑو دوسری  طرف سے میں پکڑتی  ہوں پھر لے کر جاتے  ہیں

 ٹھیک ہے" یوسف نے اگے بڑھ کر کپ کو اک طرف سے پکڑ لیا اور دونوں باہر آ گیے

 سعدیہ بیگم نے انہیں اس طرح اتے دیکھا تو مسکرا دیں اور دل ہی دل  میں انکی نظر اتاری

 مما پی کر بتایں کیسی بنی ہے"

 انہوں نے اک گھونٹ بھرا لیکن چاۓ اتنی اچھی تھی کے وہ دوسرا گھونٹ نہ لے سکیں

 اچھی بنی ہے انہوں نے بمشکل  کہا 

سیم اور یوسف خوش ہو گئے 

مما اب میں روز آپکو ایسی ہی اچھی چاۓ بنا کر پلاؤں گی سیم جوش میں آ گئی

 نہیں بیٹا میں خودی بنا لیا کرو گی تم رہنے دو...

  سیم اور یوسف نے کھندے اچکا دیے                 

-------------------------------------------------------------------------------

آج موسم اچھا تھا دھوپ نکلی ہوئی تھی اور چھٹی بھی تھی اس لئے سب بگیچے میں آ کر بیٹھ گئے

 سمیہ اور یوسف بڑوں کی محفل میں بور ہوتے تھے اس لئے جھولے کے پاس  آ گئے سیم جھولے پر بیٹھ گئی اور یوسف جھلانے لگا "

"یوسف مجھے کچھ بتانا ہے"

 اب کس سے لڑ آئ ہو" اس نے اطمینان سے پوچھا" 

میں کبھی پہل نہیں  کرتی یوسف"

 ہان مجھے پتا ہے پر بتاؤ تو ہوا کیا"

 وہ کل میں جب کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ سے آ رہی تھی نہ تو میری اک کلاس فیلو نے میرا مذاق اڑایا میں  نے تھوڑی دیر برداشت کیا پر پھر بھی وہ چپ نہیں ہوئی تو میں نے اسے جا کر تھپڑ مار دیا 

"اور وہ نازک سے لڑکی تمہارا تھپڑ برداشت نہی کر سکی ہوگی اور بےہوش ہو گئی ہو گی یوسف  ہنسنے لگا

 سیم شرمندہ ہو گئی نہی بے ہوش تو نہی ہوئی پر گر ضرور گئی

 "پھر"

 پھر کیا میں وہاں سے آ گئی"

  "تو مسلہ کیا ہے"

 وہ اسکا نہ باڈی بلڈر ٹائپ بھائی اسے  لینے اتا ہے مجھے لگتا ہے کل وہ مجھے اس سے مرواۓ گی

 یوسف نے اک بھرپور قہقہ لگایا 

 سب بڑوں نے باتیں روک کر انہیں دیکھا دونوں کتنے اچھے لگتے  ہیں نہ ساتھ ہاجرہ بیگم نے کہا

 بلکل خدا کرے یہ یوں ہی ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں سعدیہ بیگم نے بھی تائید کی

 "یوسف مذاق نہ اڑاؤ دیکھنا کل وہ مجھے ضرور پٹواۓ گی"

 ٹھیک ہے کل میں بھی چلوں گا دیکھوں تو ذرا ایسی کون سی لڑکی ہے جو میری سیم کو مرواۓ گی اور ایسا بھی کون سا باڈی بلڈر ہے جو تمھیں ہاتھ لگاۓ گا

سیم انسٹیٹیوٹ سے باہر نکلی تو یوسف کو اپنا منتظر پایا 

چلو اب بتاؤ کون ہے وہ لڑکی"

سیم نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی وہ اسے اپنے بھائی کے ساتھ ہی کھڑی نظر آ گئی

وہ دونوں بھی انہیں ہی دیکھ رہے تھے

یوسف وہ رہی" سیم نے آنکھوں سے ہی اشارہ کیا

وہ دونوں بہن بھائی انہی کی طرف چل دیے

یوسف نامحسوس طریقے سے سیم کے اگے آ گیا

اس باڈی بلڈر نے آ کر یوسف کو سلام کیا یوسف نے بھی ہاتھ بڑھا دیا

میرا نام سرمد ہے اور یہ میری بہن زلیخا ہے اس نے بتایا

یوسف مسکرا دیا سیم کو تو مانو آگ ہی لگ گئی یوسف کسی لڑکی کو دیکھ کر پہلی بار مسکرایا جو تھا

" میرا نام یوسف ہے اور یہ میری کزن ہے سمیعہ"

سیم غصے کو قابو کرنے کے لئے مونھ دوسری طرف کر کے کھڑی رہی

درصل ہمیں مس سمعیہ سے کچھ کہنا تھا 

وہ اصل بات کی طرف آیا

" ہان بولئیے نہ اپنی بہن کا بدلہ لینے اے ہیں نہ اپ میں نے کل اسے مارا اب اپ مجھے مارنے آ گے ہیں سمعیہ غصے سے بولی

سرمد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی

سیم چپ رہو یوسف نے ڈانٹا

وہ اصل میں زلیخا اپ سے معافی مانگنے ای ہے سرمد نے اک گہری نظر اس پر ڈال کر کہا زلیخا نے حیرانی سے بھائی کو دیکھا وہ یہ کیا کہ رہا تھا وہ تو یہاں سمعیہ کو ڈانٹنے آیا تھا اور اب اسے دیکھ کر الٹا ہی بولے جا رہا تھا

ٹھیک ہے معاف کیا سیم سے وہاں مزید کھڑا نہی ہووے جا رہا تھا وہ اپنا غصہ قابو نہی کر پا رہی تھی اس لئے اگے بڑھ گئی

یوسف بھی خدا حافظ کہتا جلدی سے اس کے ساتھ ہو لیا

بھائی یہ اپ کیا که رہے تھے زلیخا نے غصے سے پوچھا 

ارے زلی تم بھی نہ پاگل ہو اتنی پیاری لڑکی کا مذاق اڑا رہی تھی"

بھائی یہ اپ کیا کہ رہے ہیں وہ اور پیاری ہنہ لڑکا ہے پوری"

سرمد نے مزید کچھ نہی کہا اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا زلیخا نے بھی مجبوراً تقلید کی ورنہ بھائی پر اسے غصہ بہت آ رہا تھا 

-------------------------------------------------------------------------------

سمعیہ گھر آ کر چپ چاپ اپنے کمرے میں آ گئی یوسف بھی اسی کے پیچھے آ گیا

"سیم تم غصہ کیوں ہو اب تو زلیخا نے معافی مانگ لی ہے نہ "

یوسف مجھے تم سے بات نہی کرنی تم جاؤ یہاں سے " وہ ناراضگی سے کہتی بالکنی میں آ گئی

سیم لڑکیوں کی طرح نخرے مت دکھاؤ یوسف بھی اس کے پیچھے آ گیا 

ویسے تو ہر وقت رٹ لگاۓ رکھتے ہو کہ لڑکیوں کی طرح یہ مت کیا کرو وہ مت کیا کرو پر ابھی تھوڑی دیر پہلے کیسے اس لڑکی کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے "

"کسے زلیخا کو وہ انجان بنا "

دیکھا نام بھی کیسے حفظ کر لیا ہے"

یوسف نے بمشکل اپنی ہنسی کو قابو کیا ہان تو اتنا پیارا نام ہے یاد کیسے نہیں رہے گا 

سیم کا جلن کے مارے برا حال تھا کیوں کہ اس کا ایسی صورت حال سے پہلے کبھی پالا بھی تو نہی پڑا تھا

یوسف تمھیں وہ اچھی لگی ہے اس نے ڈرتے ہووے پوچھا

یار پہلی مولاقت میں تو اچھی ہی لگی ویسے مزید ابھی کچھ نہی که سکتا اس نے بھی ستانے کی حد کر دی 

----------------------------------------------------------------------

اگلے دن وہ انسٹیٹیوٹ گئی مگر زلیخا نے اس سے کوئی بات نہی کی وہ بھی کہاں بات کرنا چاہتی تھی اس لئے چپ چاپ کلاس لے کر باہر نکل ای

سرمد سامنے ہی کھڑا تھا اسے دیکھ کر مسکرا دیا سمیہ مونھ دوسری طرف کر کے کھڑی ہو گئی

اف یہ ڈرائیور ابھی تک نہی آیا اس لئے پاپا کو کہتی ہوں کے بائیک لانے دیا کریں کمزکم انتظار تو نہی کرنا پڑتا وہ کھڑی بڑبڑا رہی تھی 

اسلام علیکم سرمد اس کے پاس آ کر بولا

وعلیکم اسلام اس نے مجبوراً جواب دیا

کیسی ہیں اپ ?

اپ کے سامنے یہاں کھڑی ہوں تو ٹھیک ہی ہونگی نہ طبیعت خراب ہوتی تو گھر پر ہوتی اس نے چڑ کر جواب دیا

سرمد مسکرا دیا

لگتا ہے آپکو بائیک چلانے کا شوق ہے اس نے سیم کی بربراھٹ سن لی تھی

"جی ہے "

مجھے بھی بائیک چلانے کا شوق ہے اس نے بتایا 

سیم نے کوئی جواب نہ دیا

وہ خود ہی دوبارہ بولا میں بہت سے ریس بھی جیت چکا ہوں بلکہ یہ سمجھیں کوئی مجھے ہرا ہی نہی سکتا ریس میں"

سیم کو اسکا یہ اعتماد اک آنکھ نہ بھایا 

میں بھی ریس کبھی نہی ہارتی اس نے بھی شوخی جھاڑی

ایسی بات ہے تو لگائیں گی مجھ سے ریس

سیم نے تھوڑی دیر سوچا ہان ٹھیک ہے کل دوپہر کو یونیورسٹی روڈ پر آ جانا پھر دیکھیں گے اس نے جلدی سے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی جو لینے آ چکی تھی سرمد مسکرا دیا اسے ریس سے سروکار نہی تھا اسے سیم کو جاننا تھا 

--------------------------------------------------------------------

یوسف اک بات بتانی تھی

وہ صوفے پر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جب سیم اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی

اپ تو شائد مجھ سے ناراض تھیں وہ شرارت سے بولا 

ٹھیک ہے نہی بتاتی وہ اٹھنے لگی

اچھا بتاؤ کیا بات ہے وہ سنجیدہ ہو گیا

وہ کل دوپہر یونیورسٹی روڈ پر میں ریس لگاؤں گی اس نے ذرا جھجکتے ہووے بتایا

نہیں یار کل مجھے کچھ کام ہے ہم پرسو لگا لیں گے ریس"

"نہیں تم سمجھے نہیں میں تمہارے ساتھ ریس لگانے کا نہی کہ رہی وہ سرمد ہے نہ اس نے مجھے چیلنگ کیا ہے اسی کے ساتھ لگاؤں گی"

یوسف تو سنتے ہی غصے میں آ گیا" تم نہی لگاؤ گی ریس اس نے حتمی لہجے میں کہا پر

" یوسف تمہارے ساتھ بھی تو لگاتی ہوں نہ "

میری بات الگ ہے سمجھی اس نے غصے سے انگلی اٹھا کر کہا

"یوسف وہ سمجھے گا میں ڈر گئی"

بھاڑ میں جائے اسکی سوچ جب میں نے منع کر دیا کے نہی جاؤ گی تو مطلب نہی جاؤ گی

سمیہ غصے سے اس کے پاس سے اٹھ گی

وہ ہوتا کون ہے مجھے روکنے والا میں اجازت لینے تھوڑی گئی تھی اس سے... میں تو صرف بتانے گئی تھی سمیہ غصے سے کھنگی کرتے ہووے بڑبڑا رہی تھی

 سعدیہ بیگم اس کے کمرے میں ایں

 سمیہ بیٹا کہیں جا رہی ہو"

 جی مما اس نے بس اتنا ہی کہا 

" کہاں جا رہی ہو اس وقت بیٹا... باہر بہت ٹھنڈ ہے مت جاؤ بیمار پڑ جاؤ گی"

 مما بس  تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی اپ پریشان نہ ہوں" وہ جلدی سے ہیلمٹ اٹھا کر باہر چلی ائی اور پھر بائیک لے کر یونیورسٹی روڈ پر پہنچ گئی

 سرمد پہلے سے ہی وہاں موجود تھا

 وہ اسے دیکھ کر مسکرایا 

سمیہ نے بھی جوابی مسکراہٹ دی

 ریس شروح کریں سمیہ نے کہا 

ہان کیوں نہیں پر پہلے یہ تو بتایں جیتنے والے کو ملے گا کیا" اس نے اشتیاق سے پوچھا

 سمیہ نے کچھ دیر سوچا پر کچھ  سمجھ نہی آیا

" آپ ہی بتایں کیا ملنا چاہیے اس نے بات سرمد پر ڈال دی

 وہ دلکشی سے مسکرا دیا 

---------------------------------------------------------

چچی سمیہ کہاں ہے یوسف نے کچن میں جھانک کر پوچھا

 وہ حیران ہوئیں ارے یوسف بیٹا تم یہاں ہو پر سمیہ تو بائیک لے کر نکلی ہے مجھے لگا تمہارے ساتھ ہی گئی ہوگی ہمیشہ تو تمہارے ساتھ ہی جاتی ہے"

 یوسف کا دماغ کھول اٹھا وہ بغیر کچھ کہے موڑ گیا

 اب اسے جلدی سے جلدی یونیورسٹی روڈ پر پہنچنا  تھا اور سیم صاحبہ کا دماغ درست کرنا تھا

---------------------------------------------------

 پہلے  وعدہ کریں جیتنے والے کو ووہی ملے گا جو میں کہوں گا"

 اگر بات میرے بس میں ہوئی تو ضرور آپکو وہی ملے گا جو اپ کہیں گے"

 تو میں چاہتا ہوں جیتنے والے کو ہارنے والا ملے"

 سیم حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے یقین  کرنا چاہ رہی ہو کیا واقعی جو وہ سمجھ رہی تھی اسکی بات کا ووہی مطلب تھا   

 کیا مطلب میں سمجھی نہیں  اس نے تصدیق چاہی

 ابھی سرمد نے کچھ کہنے کے لئے مونھ کھولا ہی تھا کہ یوسف تیزی سے آیا اور  بائیک کو ان دونوں کے درمیان لا کر بریک لگائی

 اس طرح کے سمیہ اور سرمد اب اک دوسرے کا چہرہ نہی دیکھ سکتے تھے

 یوسف نے ہیلمٹ اتارا اور سرمد کی طرف دیکھا

 جی تو سرمد صاھب سنا ہے آپکو ریس لگانے کا بہت شوق ہے سمیہ کی طرح" اس نے دونوں کو باری باری دیکھا 

سمیہ شرمندہ  ہو گئی  جی بلکل سہی سنا ہے سرمد اعتماد سے بولا

 تو چلو یوسف نے بائیک کو  ریس دی

  سرمد نے بھی ریس پر زور دیا

 یوسف میں بھی.. سمیہ منمنائی

 چپ اک لفظ مت بولنا تم سے تو میں  گھر چل کر پوچھتا ہوں"

 سمیہ مونھ   لٹکا کر کھڑی ہو گئی سرمد نے نہی سنا کیوں کے  یوسف نے سمیہ کی طرف جھک کر کہا تھا

الله کرے تم ہار جاؤ یوسف" اس نے غصے سے کہا پر دل نے نفی کی

 یوسف نے کچھ نہی کہا بس کہندے اچکا دیے

 بیسٹ اف لک سرمد "سیم نے سرمد کو مسکرا کر کہا 

 سیم  تم چپ کر کے  فنش لائن پر جا کر کھڑی ہو  یوسف نے غصے سے کہا

 وہ کہندے اچکاتی  چلی گئی دونوں نے مزید وقت ضائع نہیں کیا  اور ریس شوروح کی

 یوسف سرمد کو جیتنے نہی دینا چاہتا تھا اور سرمد یوسف سے ہارنا نہی چاہتا تھا مقابلہ بہترین رہا مگر جیتنا اک ہی کو تھا اور جیت یوسف کی ہوئی

 اس نے اک جتاتی ہوئی نظر سمیہ پر ڈالی وہ مسکرا دی

 سرمد نے یوسف کو مبارک  دی پر صاف لگ رہا تھا کے اسے ہارنا بہت برا لگ رہا تھا

 وہ خاموشی سے  اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا

 سیم اسکے پیچھے گئی

 سنئیے یوسف جیت گیا ہے کیا اب بھی جیتنے والے کو ہارنے والا ملے  گا اس نے مسکراہٹ  چھپا کر شرارت سے پوچھا

 وہ شرط صرف اپ کے لئے تھی اس نے کہ کر بائیک سٹارٹ کر دی اور چلا گیا

" سیم اگر ساری باتیں ہو گئی ہیں تو گھر چلو" یوسف بائیک اس کے پاس لے کر آیا اور پھر کہ کر چلا گیا سیم مسکرا دی اک دفع پھر اسے یوسف کو منانا تھا 

سمعیہ تم یوسف کے بغیر کیوں گئی تھی سعدیہ بیگم نے اسے چپکے سے اندر داخل ہوتا دیکھا تو پوچھا

 آئندہ نہیں جاؤں گی مما اس نے آرام سے کہا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی

 سعدیہ بیگم تاسف سے سر ہلا کر رہ گیں

 وہ  کمرے میں آ کر فوراً ہی سونے کے لئے لیٹ گئی

 اس خیال کے ساتھ کے شام کو اٹھ کر یوسف  کو منا لوں گی

 پر جب انسان نیند کی وادیوں میں کھو جاتا ہے تو اسے وقت کا احساس نہی رہتا

 سمعیہ بھی شام کو اٹھنے کا ارادہ کر کے  سوئی تھی پر اب جب اٹھی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے

 پہلا خیال ہی اسے یوسف کا آیا

" چلو کوئی بات نہی بعد میں منا لوں گی وہ کہتی ہوئی اٹھ گئی اور نیچے چلی گئی  کھانا کھانے کے بعد اور مما پاپا کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد جب دوبارہ وہ  کمرے میں واپس ای  تو سوچا کے یوسف کو کال کر لے

 پر یوسف نے فون بند کر رکھا تھا 

سمعیہ اسکی ناراضگی پر مسکرا دی

 کتنا اپنا اپنا سا لگتا تھا جب وہ یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جاتا تھا اور وہ اسے مناتی تھی

 دن میں اتنا سونے کی وجہ سے اب نیند کی وادی اس پر اپنے دروازے نہی کھول رہی تھی پر سوچ کی وادی ایسی وادی ہوتی ہے جہاں کوئی دروازہ کوئی کھڑکی کوئی روکاوٹ نہی ہوتی کوئی بھی کبھی بھی وہاں جا سکتا ہے

 سمیہ بھی یوسف کے خیال کے سنگ  اس وادی میں داخل  ہو گئی اور پھر پتا ہی نہی چلا کے کب وہ اس  وادی سے نیند کی وادی پہنچ گئی

 بی بی  جی اٹھیں بیگم صاحبہ  آپکو نیچے بولا رہی ہیں" ملازمہ کی بات پر اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولی

" کیوں بولا رہی ہیں اس نے آنکھیں رگڑتے ہووے پوچھا

 وہ جی کوئی مہمان آے بیٹھے ہیں بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ اچھے سے تیار ہو کر جلدی سے  نیچے آ جایئں"

  اچھا تم جاؤ  میں ابھی آتی ہوں وہ بستر سے اٹھتے ہووے بولی

 شائد مما کی کوئی دوست ہوں اس نے سوچا 

اور الماری سے کپڑے نکال کر واشروم میں گھس گئی

 نیچے آ کر اس نے ڈرائنگ روم کی طرف قدم بڑھاۓ پر اچانک ڈرائنگ روم سے نکلتے یوسف سے ٹکرا گئی

 ارے تمھیں کیا ہوا ہے وہ کافی غصے میں لگ رہا تھا

 یوسف نے اک غصے سے بھرپور شکایتی نظر اس پر ڈالی اور پاس سے گزر کر چلا گیا 

وہ پریشان ہو گئی

 تبھی اسے ڈرائنگ روم سے اک جانی پہچانی سے آواز ای اس نے اندر جھانک کر دیکھا پر زلیخا اور سرمد کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی

 ان کے ساتھ اک اور عورت بھی تھیں شائد انکی امی تھی

 ارے سمعیہ اندر آؤ نہ دیکھو تمہاری دوست ای ہے سعدیہ بیگم نے اسے حیرت سے کھڑے دیکھا تو کہا 

وہ چپ چاپ اندر آ گئی

 اسلام علیکم  اس نے مشترکہ سلام کیا اور مما کے پاس جا کر بیٹھ گئی سمعیہ کو ان آنٹی کا اسے یوں تنقیدی نظر سے دیکھنا عجیب سا  لگ رہا تھا 

مما کو بھی شائد آنٹی  کا اسے یوں گھورنا پسند نہی آیا تھا اس لئے اسے وہاں سے اٹھا دیا

 بیٹا اپنی دوست کو گھر تو دیکھاؤ "

جی مما وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی

 زلیخا کو  بھی اس کی تقلید کرنا پڑی

" تم میری دوست کب بنی اس نے ڈرائنگ روم سے نکلتے ہی پوچھا

 بنی نہی ہوں تو بن جاؤں گی ویسے اک بات کہوں تمھیں مجھ سے بنا کر رکھنی چائیے"

 کیا مطلب"

 مطلب بھی پتا چل جایئں گے پہلے تم دوستی تو کرو زلیخا نے ہاتھ آگے بڑھایا 

"میں لڑکیوں سے دوستی نہی کرتی سمیہ نے انکار کیا

 اچھا تو لڑکوں سے دوستی کرنے کا شوق ہے تمھیں زلیخا نے طنز کیا 

میرا صرف اک ہی دوست ہے  یوسف" اس نے غصے کو دباتے ہووے بتایا

 ویسے  بھائی  کو شائد یہ بات پسند نہ آے زلیخا نے معلومات فراہم کی اور ساتھ ہی کسی کو کال ملائی

 سمعیہ کو اسکی باتیں الجھا رہی تھیں

 آنٹی اک ضروری کال آ رہی ہے اگر اپ برا نہ منائیں تو کیا  میں باہر جا کر سن سکتا ہوں

 سرمد نے موبائل ہاتھ میں پکڑ کر پوچھا

 ہان بیٹا کیوں نہی"

 وہ سعدیہ بیگم کی اجازت ملتے ہی باہر نکل آیا 

سامنے ہی سمعیہ اور زلیخا کھڑی تھیں

 اپ لوگ میرے گھر کیوں آے ہیں جب کے میں تو اپ لوگوں کو سہی سے جانتی بھی نہی سمیہ نے الجھن دور کرنے کے لئے پوچھا 

خاصی بے مروت ہیں اپ گھر آے مہمانوں سے کوئی یہ تھوڑی پوچھتا ہے سرمد نے مسکرا کر کہا

 سمیہ  شرمندہ ہو گئی

 واشروم کس طرف ہے زلیخا ان دونوں کو تنہائی فراہم کرنا چاہتی تھی اس لئے پوچھا "آؤ میں دکھاتی ہوں"

 نہیں میں خود چلی جاؤں گی تم بتا دو"

 وہ سامنے والے کمرے میں چلی جاؤ سمیہ نے اشارہ کر کے بتایا

 زلیخا چلی گئی

 سنیں مجھے اک بات تو بتائیں"

 جی پوچھیں نہ اس نے کچھ اس طرح کہا کے سمعیہ سٹپٹا گئی

 وہ آپکو میرے گھر کا کیسے پتا چلا"

 جب کچھ حاصل کرنا ہو تو راستے بھی ڈھونڈ ہی لیتے ہیں سرمد نے گہری نظروں سے دیکھتے ہووے کہا 

مطلب ?"سمیہ کو گڑبڑ  لگی

" مطلب یہ کے ہم یہاں اپکا رشتہ لے کر آے ہیں اور اپکا پتا انسٹیٹیوٹ کے اک ملازم سے لیا ہے اس نے ساری بات سچ سچ بتا دی

" آپکی ہمت کیسے ہوئی یہ دونوں کام کرنے کی وہ غصے سے بولی

" میری بات سنیں سمیہ مجھے اپ پہلی ہی نظر میں بہت پسند ایں ہیں اپ مختلف ہیں سب سے اسی چیز نے مجھے آپکی طرف کھنچا اب میں بری مشکل سے اپنی امی کو منا کر لیا ہوں پلیز اپ منع نہی کریے گا"

 پر مجھے اپ سے شادی نہی کرنی سمجھے اپ"

 پر کیوں کیا کمی ہے مجھ میں اب کی بار وہ غصے سے بولا

 سمیہ چپ ہی رہی

 سمیہ مجھے انکار کی وجہ جاننی ہے میں جاننا چاہتا ہوں کے اپ مجھے کیوں ریجیکٹ کر رہی ہیں کیا کوئی اور پسند ہے آپکو اس نے سوال کیا

 ویسے تو آپکو سوال کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن شائد اپ کو میرے جواب سے ہی تسلی ہو جائے ہان مجھے کوئی اور اچھا لگتا ہے 

کون آواز میں شکستگی تھی

 میرا کزن یوسف پہلی دفع اس نے کسی کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا پر شائد ابھی اظہار ضروری تھا

 سرمد  بغیر کچھ کہے اندر چلا گیا اور سمیہ واپس اپنے کمرے میں چلی ائی

 اف سمیہ پریشان نہ ہو یہ سب تو زندگی میں ہوتا رہتا ہے  اس نے خود کو تسلی دی اچانک اس کو یوسف کا خیال آیا 

ہر بات یوسف سے کرنے والی اسکی سیم اس سے یہ بات بھلا کیسے چھپا سکتی تھی اس لئے یوسف کو بتانے اور اسکو منانے چل پڑی

 یوسف غصے سے کمرے میں چکر لگا رہا تھا 

کیا ہوا یوسف اتنے غصے  میں کیوں ہو ہاجرہ بیگم نے آ کر پوچھا

  نہیں مما  میں تو غصے میں نہی ہوں اس نے نفی کی

 کیا ہوا ہے یوسف بتاؤ بھی انہوں نے اسرار کیا

 کچھ نہی مما بس ذرا سیم سے لڑائی ہو گئی تھی  اس  نے مطمئن کرنے کی کوشش کی

 پھر تو وہ ابھی اتی ہی ہوگی تمھیں منانے انہوں نے مسکرا کر کہا

 نہی مما آج اس کے پاس میرے لئے وقت نہی ہوگا اس کے مہمان آے  بیٹھے ہیں اس نے طنز کرتے ہووے کہا

 کون مہمان آے ہیں انہوں نے حیرانی سے پوچھا 

" اسکا رشتہ لے کر آے ہیں"

  اچھا یعنی اب سعدیہ سے باقاعدہ بات  کرنی ہی پڑے گی انہوں نے اطمینان سے کہا "مما آپکو حیرانی نہی ہوئی"

 ارے بیٹا لڑکیوں کے رشتے تو اتے ہی رہتے ہیں اس میں  حیرانی کی کونسی بات ہے پر تم فکر نہ کرو میں آج ہی جا کر سعدیہ سے بات کرتی ہوں"

 کونسی بات"

 تمہاری اور سمیہ کی شادی کی بات انہوں نے مسکرا کر کہا

 اسے منانے کے لئے ای سمیہ کے قدم وہیں رک گئے

 مجھے اس سے شادی نہی کرنی اندر سے آواز ای تھی

 ہاجرہ بیگم کو اس جواب کی امید نہی تھی

 یوسف یہ تم کیا که رہے وہ حیران  تھیں

 مما وہ صرف میری اچھی دوست ہے اور  بس وہ جھنجلا گیا

 پر بیٹا میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ اسے ہی تصور کیا ہے "

مما اپ پہلی ماں ہونگی جو اپنے بیٹے کی شادی اس جیسی لڑکی سے کروانا چاہتی ہونگی مائیں تو نجانے کیا کیا ہنر تلاش کرتی ہیں اپنی بہو میں اور اک اپ ہیں"

 ان الفاظ سے وہ خود کو بھی گھائل کر رہا تھا پر غصہ کسی طرح کم نہی ہو رہا تھا سیم اتنی بھی بیوقوف نہی تھی کہ یہ تک نہ سمجھ پاتی کے یوسف اس جیسی لڑکی آخر کہ کس کو رہا ہے

 وہ فوراً ہی وہاں سے لوٹ ای

 سعدیہ بیگم ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں

 وہ چپ چاپ سامنے سے گزرنے لگی پر انہوں نے بولا لیا سمیہ ادھر اؤ

 وہ چپ چاپ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی

 سرمد کو کیا پہلے سے جانتی ہو"

 اسے سمجھ میں نہ آیا کیا جواب دے

 سمیہ کچھ پوچھ رہی ہوں میں"

 اس نے اثبات میں سر ہلا دیا

" تمہاری دوست زلیخا اور اسکی امی تمہارا رشتہ لے کر آئین تھی انہوں نے بتایا 

وہ بھلا کیا کہتی اس لئے چپ ہی رہی

 تمھیں وہ پسند ہے انہوں نے پوچھا 

وہ کچھ نہ بولی سر جھکا کر بیٹھی رہی

 سمیہ میں کیا پوچھ رہی ہوں جواب دو"

 سمعیہ نے سر اٹھایا اور ان کے گلے  لگ کر رو دی

" مما مجھے وہ پسند نہی ہے میں اس قابل ہی نہی ہوں کے مجھے کوئی پسند کرے مجھے شادی نہی کرنی مما مجھے نہی کرنی"

 سعدیہ بیگم نے اسے خود سے الگ کیا اور پھر اسکا چہرہ صاف کیا 

سمیہ میں نے یوسف کو ہی ہمیشہ تمہارے لئے سوچا ہے انہوں نے جیسے اسے تسلی دی 

وہ اک دفع پھر رو دی

" مما مجھے اس سے بھی شادی نہی کرنی میں صرف اسکی اچھی دوست ہوں بس"  سمیہ بیٹا شادی تو تمھیں کرنی ہے نہ اور یوسف سے بہتر لڑکا تمہارے لئے اور کوئی نہی ہو سکتا"

 مما میں ابھی شادی نہی کرنا چاہتی اپ کسی سے اس بارے میں کوئی بات نہی کریں گی ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گی وہ کہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی

 سعدیہ بیگم کو حیران و پریشان چھوڑ کر 

یوسف ادھر آؤ ذرا وہ باہر جا رہا تھا جب ہاجرہ بیگم نے اسے اپنے پاس بولایا

 "جی مما"

 بیٹھو ادھر انہوں نے اپنے پاس ہی صوفے پر بیٹھنے  کا اشارہ کیا

 وہ چپ چاپ بیٹھ گیا میں نے آج صبح ہی سعدیہ سے  سمیہ کے لئے آے رشتے کے بارے میں پوچھا تھا سمیہ نے صاف منع کر دیا ہے اس رشتے کے لئے

 یوسف کو سن کر حیرانی ہوئی وہ تو سمجھ رہا تھا کے سیم کو سرمد میں دلچسپی ہے تبھی تو وہ اس کے ساتھ ریس لگانے بھی چل دی تھی اور اب شائد وہ اسی کی مرضی سے ہی رشتہ بھی لے کر آیا ہو

 وہ رات بھر یہی سوچ  سوچ کر جلتا رہا تھا یہ دکھ بھی تھا کے سمیہ نے اس سے یہ باتیں چھپائیں

 پر مما کی بات نے اسے سکون پہنچا دیا

 مما اپ نے میرے  بارے میں تو کچھ نہیں کہا نہ"

  نہی تم نے خودی تو منع کر دیا تھا پر یوسف میں چاہتی ہوں کے تم اک دفع سنجیدگی سے سمیہ کے بارے میں  سوچو"

  مما مجھے کچھ  وقت چاہیے اس کے لئے " اس نے خوشی کو چھپاتے ہووے بڑی سنجیدگی سے کہا

 کتنا وقت انہوں نے پوچھا

 مما میں نے اور سیم نے وہ جو اسٹڈی ویزا کے لئے اپلائی  کیا تھا  ان کی طرف سے جواب آ گیا ہے ہم دونوں کو چار سال کے لئے  اسکالر شپ پر آسٹریلیا جانا ہے میں کل اسے یہی بتانے گیا تھا پر مہمانوں کی وجہ سے بتا نہی پایا تھا" 

بیٹا تم نے اتنی بڑی خوشی کی بات کیوں چھپائی مجھ سے انہوں نے گلہ کیا

 مما میں نے سوچا تھا پہلے سیم کو بتاؤں اور پھر ہم مل کر اپ سب کو بتایں گے پر شائد ایسا نہیں ہونا تھا وہ افسردگی سے بولا 

" کوئی بات نہی بیٹا تم اب جا کر بتا دینا دیکھنا وہ بھی کتنا خوش ہوگی"

" ٹھیک ہے میں ابھی جاتا ہوں وہ خوشی سے اٹھ کھڑا ہوا 

"سنو  یوسف تم نے بتایا نہی تمھیں کتا وقت چائیے"

 انہیں اچانک اپنا سوال  یاد آیا 

وہ دوبارہ ان کے پاس بیٹھ گیا

 "مما میں چاہتا ہوں پہلے ہم آسٹریلیا سے ہو آئیں پھر اپ اس بارے میں  کوئی بات کریں"

 "لیکن یوسف چار سال بہت ہوتے ہیں اتنا وقت میں تمھیں ہرگز نہی دوں گی"

 مما پلیز پہلے ہمیں  پوری توجہ پڑھائی پر دینے دیں اس نے التجا کی 

ٹھیک ہے لیکن پھر میں سعدیہ سے آج ہی تم دونوں کے رشتے کی بات کر لوں گی تاکہ جب تم دونوں لوٹو تو سیدھا شادی ہی کرائیں

 انہوں نے ارادہ ظاہر کیا "

"مما پلیز میری بات سمجیں میں چاہتا ہوں ہم وہاں صرف دوستوں کی طرح ہی رہیں اور ساری توجہ پڑھائی پر ہی  دیں کسی اور رشتے میں ہمیں ابھی نہ جوڑیں یہ میری اپ سے التجا ہے" انہوں نے اداسی سے حامی بھر لی بیٹے کی ضد وہ جانتی تھیں

 اگر وہ اس بات پر اڑ گیا تھا تو انکی  ضد کرنے کا کوئی فائدہ  ہی نہی تھا

--------------------------------------------------------------------

 سمیہ اپنے کمرے میں ہی کرسی پر بیٹھی گٹار  بجا رہی تھی یہ بھی تو یوسف نے ہی سکھایا تھا

 وہ اداسی دور کرنے کی ہر ممکن  کوشش کر رہی تھی

 جب وہ اسے صرف اپنا اچھا دوست سمجھتا ہے تو وہ اپنے جذبے  ظاہر کر کے بھلا اپنا مذاق کیوں بنواۓ اس لئے اس نے  ساری اداسی سارے دکھ  اپنے اندر ہی دبا دیے

 یوسف اچانک ہی اس کے کمرے  میں داخل ہوا وہ چونک گئی 

 سیم سیم سیم ہمارے لئے اک گڈ نیوز ہے یوسف نے خوشی سے بتایا

 سیم بس اسے بغیر کسی تاثر کے دیکھتی رہی

 یوسف ذرا حیران ہوا تم پوچھو گی نہی کیا نیوز ہے "

کیا نیوز ہے اس نے اب گٹار کو اس کے باکس میں رکھتے ہووے عام سے لہجے میں پوچھا

 ہم نے جو اسکالر شپ کے لئے اپلائی کیا تھا نہ اس کا جواب آ گیا ہے ہمیں  کوینز لینڈ یونیورسٹی میں سکالرشپ مل گی ہے"

خبر واقعی بہت خوشی کی تھی اور وہ خوش بھی ہوتی اگر دل پر وہ قیامت نہ گزری ہوتی

 سیم تمھیں خوشی نہی ہوئی یوسف نے حیرانی سے پوچھا

 نہی ایسی بات نہی ہے میں خوش ہوں اور بہت بہت  مبارک ہو  تمھیں تمہارا خواب پورا ہوگیا نہ" اس نے ہلکے سے مسکرا کر کہا

 صرف میرا خواب تھوڑی تھا یہ تو ہم دونوں کو خواب تھا نہ سیم"

" نہیں اب مجھے اس میں دلچسپی نہی رہی" اس نے بڑے آرام سے کہا 

"کیا مطلب" یوسف حیران ہوا 

مطلب یہ کے مجھے اب آسٹریلیا نہی جانا مجھے اگے نہی پڑھنا

 لمحوں میں اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا

 اس نے سوچ لیا تھا کے اسے یوسف سے اب دور رہنا ہے  وہ خود پر یہ اختیار نہی رکھتی تھی کے اسے چاہنا چھوڑ دے پر خود پر یہ جبر ضرور کر سکتی تھی کے اس سے دور رہے

 سیم تم یہ کیسے کر سکتی ہو یوسف کو اب اس پر  غصہ  آ رہا تھا 

 میں اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں یوسف میرا جو دل چاہے گا میں ووہی کروں گی" اس نے ہڈ دھرمی دکھائی

 لیکن میں تمھیں ایسا کچھ کرنے نہی دوں گا سمجھی" وہ غصے سے که کر چلا گیا

 سیم بےبسی سے  رو دی

 وہ کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی کے جب اسکا اتنا  بڑا خواب پورا ہونے جا رہا ہوگا تو اسے یوں دستبردار ہونا پڑے گا 

---------------------------------------------------------------------------

 سمیہ بیٹا یوسف بتا رہا تھا کہ  تم لوگوں کی ایپلیکیشن قبول ہو گئی ہے"

  "جی پاپا "

تین دن بعد تم لوگوں کی فلائٹ ہے پیکنگ کر لی تم نے انہوں نے پوچھا 

پاپا میں نہی جا رہی اس نے جگ سے گلاس میں پانی ڈالتے  ہووے بڑے عام سے انداز میں بتایا

  وہ سعدیہ بیگم اور جمیل صاحب اس وقت کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے

 جمیل صاحب نے کھانے سے  ہاتھ روک لیا

 کیوں نہی جا رہی"

 سمیہ کو پتا تھا کے  یوسف نے ہی پاپا سے شکایت کی ہوگی

"  پاپا میں اپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی اس نے بہانا بنایا

 یوسف ہوگا نہ تمہارے ساتھ انہوں نے اس بہانے کو رد کیا

 پاپا میں اگے مزید  نہی پڑھنا چاہتی

 پھر وہی سوال" کیوں"

پاپا لڑکیوں کے لئے واجبی سے تعلیم بھی کافی ہوتی ہے

 اک اور بونگا سا بہانہ

" تم کون سی صدی میں رہتی ہو بیٹا انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا

 پاپا بس میں نہی جانا چاہتی اب کی بار آواز میں نمی تھی

" سمعیہ میں نے تمھیں ہمیشہ اپنا بیٹا ہی تصور کیا ہے اور تم نے بھی ہمیشہ مجھے بیٹا بن کر دکھایا ہے میں ہر گز یہ نہی چاہوں گا کے میرا بیٹا کسی بھی فضول وجہ سے اپنا مستقبل خراب کرے امید ہے تم میری بات سمجھو گی اور مجھے مایوس نہی کرو گی"

 سیم سر جھکا کر سنتی رہی اور اپنے آنسو اپنے اندر ہی اتارتی رہی

 جمیل صاحب اپنی بات کہ کر کمرے میں چلے گئے

 سمیہ مجھے بھی نہی بتاؤ گی کے کیوں نہی جانا چاہتی"

 کب سے باپ بیٹی کی باتیں سنتی سعدیہ بیگم بھی  اخر بول پڑیں

 سمیہ ہاتھوں میں اپنا مونھ چھپا کر رو پڑی

 سعدیہ بیگم  اٹھ کر اس کے پاس آ گیں اور اس کے سر پر تھپکی دینے لگیں

 سمعیہ مجھے اصل وجہ بتا دو شائد میں تمہارے لئے کچھ کر سکوں"

 یوسف تم بہت برے ہو تم نے مجھے بچپن سے ہی ایسی عادت ڈال دی کے تمہارے سوا میں کسی سے اپنی باتیں که ہی نہی سکتی کاش مما میں آپکو سب بتا سکتی  وہ سوچ سوچ کر مزید روتی رہی

 سمعیہ چپ ہو جاؤ  میرا بیٹا ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتی تو مت جانا میں تمہارے پاپا سے بات کرتی ہوں جا کر پر پہلے تم چپ  ہو جاؤ  

   سمیہ نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کر لئے

 مما اپ بات کریں گی نہ"

 ہان بیٹا ضرور کروں گی"

 وہ اٹھ کر انکے گلے لگ گئی

 اس کی مشکل تو حل ہو گئی تھی پر سعدیہ بیگم کو بیٹی کا رویہ پریشان کر گیا تھا 

-----------------------------------------------------------------------------

 آج موسم خوش گوار تھا ہلکی ہلکی دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی

 وہ بگیچے میں پڑی  کرسیوں میں سے اک پر آ کر بیٹھ گئی

 یوسف بھی وہیں آ گیا اور اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا 

سمیہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہی کیا 

تو کیا کہا چچا نے"  یوسف نے  شرارت سے پوچھا

 وہی جو تم نے ان سے کہا تھا اس نے بڑے آرام سے جواب دیا

  پاسپورٹ وغیرہ تو سنھبال کر رکھ لئے ہیں نہ تم نے ویسے تمہارا آئیڈیا اچھا تھا کے اپلائی  کرنے کے ساتھ ہی پاسپورٹ بھی بنوا لیں ورنہ اب ہم اسی جھنجٹ میں پھنسے  ہوتے"

 ہنہ اس نے اتنا ہی کہا اور اٹھ کر اندر چلی گئی

 یوسف مسکرا دیا شائد چچا سے کہنے پر ناراض ہو گئی ہے 

 دن گزرتے کون سا دیر لگتی ہےآخر وہ دن بھی آ ہی گیا 

 انکی رات کی فلائٹ تھی

 سمیہ نے اور سعدیہ بیگم نے جمیل صاحب کو منانے کی بہت کوشش کی پر وہ سمیہ کے اچھے مستقبل کے لئے سخت سے سخت فیصلہ کرنے کے لئے بھی  تیار تھے

 انہوں نے ان دونوں کی اک نہ سنی

 سمیہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی

 یوسف  اگر تو میں تمہارے ساتھ آسٹریلیا پہنچ گئی تو پھر صرف تم نہیں پورا آسٹریلیا دیکھ گا کے میں تمہارے ساتھ  آخر کرتی کیا ہوں وہ بڑبڑا رہی تھی

 اچانک  ہی اسے اک خیال آیا 

وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکلی اور یوسف کے گھر چل دی

 وہ بستر پر پریشان سا بیٹھا تھا

 ارے کیا ہوا یوسف یوں کیوں بیٹھے ہو سیم نے آ کر پوچھا

 وہ دو دن بعد آج خود سے اس سے بات رہی تھی یوسف اسے دیکھ کر ہی خوش ہو گیا

 ارے کچھ  نہی بس پیکنگ کرنے میں مشکل ہو رہی ہے"

 کوئی بات نہی میں کر دیتی ہوں وہ اس کے کپڑے وغیرہ سمیٹنے  لگ گئی

 یوسف بس اس دیکھتا رہا کتنی اچھی لگتی تھی وہ یوں اس کے کام کرتے ہووے

 تم نے اپنی پیکنگ کر لی"

 ہان بس ابھی جا کر کرتی ہوں سوچا پہلے تم سے مل لوں

 ارے سیم تم مجھ سے نہی گھر والوں سے مل لو جن سے تم دور جا رہی ہوں

 میرے تو تم پاس ہی رہو گی

 ووہی تو اب میں نہیں رہنا چاہتی اس نے دل میں سوچا 

پر اس کے لئے مسکرا دی میں نے سوچا کیا پتا وہاں جا کر تم بدل جاؤ اور پھر اپنی اس پاکستانی دوست کو بھول جاؤ

 یوسف اسکی بات پر ہنس دیا 

سیم تم بھی نہ بلکل پاگل ہو دیکھنا یہ چار سال میں بلکل ساۓ کی طرح تمہارے ساتھ رہوں گا 

اب کی بار سیم اسکی بات پر ہنس دی

 ساری  پیکنگ کر کے اور یوسف سے  ڈھیر ساری باتیں کر کے  وہ اس کے کمرے سے نکل ای

 پر دل نے اک دفع پھر اسے دیکھنے کی تمنا کی

 دل کی ضد  کے اگے دماغ ہار گیا

 وہ اک دفع پھر اس کے کمرے میں آ گئی

 یوسف اسے دوسری دفع دیکھ کر حیران ہوا

 کیا ہوا کچھ بھول گئی تھی کیا"

 وہ کچھ دیر یوسف کو دیکھتی رہی

 پھر بولی یوسف   وہاں جا کر مجھے بھولو گے تو نہی

 یوسف مسکرا دیا

  میری پاگل سی سیم یہ ڈائلاگ انکو بولا جاتا ہے جنکو رخصت کیا جا رہا ہو پر تم تو میرے ساتھ  ہی رخصت ہو رہی ہو تمھیں نہی بھولوں گا ہمیشہ یاد  رکھوں گا

  کاش تمہارے ساتھ رخصت  ہو سکتی دل نے فریاد کی پر لبوں نے کچھ نہ کہا

 وہ اسے اک دفع پھر خاموشی سے دیکھے گئی اور پھر اچانک  سے مڑ کر چلی گئی

 یوسف کو اسکی حرکت عجیب لگی پہلے تو وہ کبھی ایسا نہی کرتی تھی

 شائد گھر والوں سے دوری کی وجہ سے ایسا کر رہی ہو وہ سوچ کر مطمئن ہو گیا

---------------------------------------------------------------------------  

 مما میں سونے جا رہی ہوں پلیز مجھے ڈسٹرب کوئی نہ کرے

 وہ انکے پاس آ کر بولی

 ہان ٹھیک ہے سو جاؤ رات کی فلائٹ ہے  ابھی سو جاؤ گی تو رات کو نیند نہی ہے گی

وہ سر ہلا کر کمرے کی طرف بڑھنے لگی 

سنو پیکنگ کر لی یا میں کر دوں"

 کر لی ہے مما وہ کہ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی 

--------------------------------------------------------------------

 انکی  رات ٩ بجے کی فلائٹ تھی 

   آٹھ بجے  کے قریب انہیں گھر سے نکلنا تھا

 یوسف جلدی جلدی سے اک آخری نذر سب چیزوں پر ڈال رہا تھا کے کہیں کچھ بھول تو  نہی گیا  تبھی اسے مسیج آیا 

مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا میں آپی کے پاس لاہور آ گئی ہوں  میرے لئے اپنا مستقبل خراب مت کرنا اور چپ چاپ آسٹریلیا چلے جانا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہی ہوگا"

 یوسف پہلے حیران ہوا اسے یقین ہی نہی آ رہا تھا کے یہ مسیج اسے سیم کی طرف سے آیا تھا

 وہ جلدی سے اسکے گھر کی طرف گیا

 چچی سیم کہاں ہے"

 وہ اور جمیل صاحب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے

 وہ تو اپنے کمرے میں سو رہی ہے میں ابھی جگانے جا ہی رہی تھی"

 وہ بھاگتا ہوا اس کے کمرے کی طرف گیا

 جمیل  صاحب اور سعدیہ بھی پریشانی سے اس کے پیچھے گیے

 یوسف نے دروازہ کھول کر دیکھا تو کمرہ خالی تھا واشروم بالکنی کہیں بھی وہ نہی تھی

 سمیہ کہاں گئی جمیل صاحب نے حیرانی سے سعدیہ بیگم سے پوچھا

 ان کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے

 اس نے تو کہا تھا کے وہ سونے جا رہی ہے اسے ڈسٹرب نہ کروں ان سے بس اتنا ہی کہا گیا

 وہ لاہور چلی گئی ہے یوسف نے گردن جھکا کر بتایا جیسے اسی کی غلطی ہو

 وہ یہ کیسے کر سکتی ہے جمیل صاحب غصے میں آ گیے

 فون نکل کر اسے کال کی پر اس نے کال نہی اٹھائی وہ چپ کر کے کمرے سے باہر نکل گئے

 سعدیہ بیگم اور یوسف بھی خاموشی سے انکے پیچھے چلے گئے 

 ہاجرہ بیگم اور کمال صاحب بھی وہیں آ گیے

 سب جمیل صاحب کے بولنے کے منتظر تھے

 کمال بھائی میں نے تو ہر کوشش کی کے وہ اپنا مستقبل  خراب نہ کرے پر شائد تقدیر کو کچھ اور منظور ہے پر میں  چاہتا ہوں کے اس کے پیچھے یوسف اپنا مستقبل خراب نہ کرے میری بیٹی نے تو میری بات کا مان نہی رکھا یوسف تم رکھ لو  انہوں نے یوسف کو دیکھتے ہووے کہا 

وہ خاموش رہا

 یوسف تم جاؤ گے  آسٹریلیا وہ نہی جا رہی اسکا یہ مطلب نہی کے تم بھی نہی جاؤ گے انہوں نے کہا

 سنا نہی تم نے جمیل کیا کہ رہا ہے جاؤ جا کر تیاری کرو ہم سب تمھیں چھوڑنے جائیں گے" کمال صاحب نے بھی بھائی کا ساتھ دیا  

      وہ چپ چاپ واپس گھر چلا گیا

یوسف اب مزید  چچا جان کو پریشان  نہیں کرنا چاہتا تھا 

 اس لئے چپ چاپ   انکی بات مان  لی لیکن اسے سیم پر خوب غصہ تھا ساتھ میں حیرانی بھی تھی کے آخر  اسے ہوا کیا ہے جو وہ اس کے ساتھ جانے سے انکار کرنے لگی تھی

 پر یہ باتیں سوچنے کا مزید  وقت نہی تھا

 وہ جلدی سے آ کر گاڑی  میں بیٹھ گیا سب اسے چھوڑنے جا رہے  تھے پر ان سب کے باوجود اک اس کی کمی تھی

 ایئر پورٹ  پر اسکی  فلائٹ کی آخری انانسمینٹ ہو رہی تھی وہ جلدی  سے سب سے مل کر اندر کی طرف بڑھ  گیا

 جہاز میں بیٹھ کر اس نے نظر ساتھ والی سیٹ پر ڈالی

 کاش  یہاں اس لڑکی کی  جگہ  میرے  ساتھ سیم بیٹھی  ہوتی دل نے اک ننھی سے خواھش کی پر دماغ  نے ڈپٹ دیا 

جب وہ ہی میرے ساتھ نہی چاہتی  تھی تو میں بھلا  کیوں چاہوں اس نے نگاہیں  موڑ  لی 

پر ساتھ بیٹھی لڑکی اس کی نظروں کو خود پر محسوس کر کے اسکی طرف متوجہ ہو چکی تھی

 ہائی" اس نے مسکرا کر کہا تھا 

یوسف   نے اک نظر  دیکھا اور پھر گردن  دوسری جانب موڑ  لی

"  میرا نام ماہم ہے اپکا  کیا نام ہے اس نے پھر بات شروح کی

 یوسف نے اس دفع  گردن موڑ  کر اسے دیکھا بھی نہیں بس اک میگزین نکال کر پڑھنے لگ گیا

 اس کا رویہ لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا

 اہ شاید  اپ بہرے  ہیں" اس نے افسوس سے کہا

 جیسے واقعی وہ بہرہ ہو

 وہ ایسے ہی فوراً نتیجے پر پہنچ جاتی تھی

  یوسف نے اب بھی کچھ نہی کہا

 ماہم کو چین  نہیں آیا اس نے  یوسف کے سامنے اپنا ہاتھ ہلایا جیسے اسے متوجہ کرنا چاہتی ہو یوسف کو اب کوفت  ہونے لگ گئی

 اس نے بیزاری سے ماہم کو  دیکھا  وہ میرے اک جاننے  والے  اٹولوجست ہیں ارے وہی  جو کانوں کا علاج کرتے ہیں  اپ چاہیں تو میں آپکی اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہوں  اس نے اشاروں  سے سمجھایا

 یوسف نے ہاتھ  بڑھا کر ہیڈ فونز کانوں میں ٹھونس لئے اک نظر  اسے دیکھا میں بہرہ  نہیں ہوں اور که  کر دوبارہ میگزین کی طرف متوجہ ہو گیا

 ماہم  اپنی تھوڑی دیر  پہلے کی حرکت پر خودی ہنس دی یعنی میں یوں ہی اشارے کیے  جا رہی تھی

-----------------------------------------------------------------------

سمعیہ تم نے بہت غلط کیا یہ سب تمھیں جانا چاہیے تھا " رمشا نے ڈانٹا

 آپی پلیز اب بس بھی کریں اگر آپکو میرا یہاں آنا اچھا نہی لگا تو میں چلی جاتی ہوں"

 ہان ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن سیدھا آسٹریلیا جانا "

 اف اف اف تنگ آ گئی ہوں میں یہ سن سن کے جب میرا دل نہیں ہے جانے کو تو میں بھلا  کیوں جاؤں وہ چلا اٹھی

 اچھا بابا غصہ نہ کرو ابھی تم سو جاؤ صبح بات کریں گے انہوں نے اسے تھپکی دی اور کمرے سے چلی گیں

 ان  کے جاتے ہی وہ رو دی

--------------------------------------------------------

صبح  وہ نیچے ائی تو رمشا اپی اور کامران بھائی کو ناشتے پر اپنا منتظر پایا

 اپی کے سسرال والے گاؤں میں رہتے تھے اور یہ دونوں یہاں اکیلے

 وہ سلام کر کے ان کے ساتھ بیٹھ گئی

 کامران بھائی اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے پر آسٹریلیا کا ذکر بھول کر بھی نہی کیا 

وہ پرسکون ہو گئی ورنہ اسے لگا تھا کے سب کی طرح وہ بھی باتیں ہی  سنائیں گے

 تو اب آگے کیا کرنے کا فیصلے کیا ہے کامران بھائی کے جانے کے بعد انہوں نے پوچھا

 ابھی کچھ دن تو یہیں رہوں گی پھر جب پاپا کو غصہ کم ہو جاۓ گا تو گھر واپس چلی جاؤں گی"

 پھر... انہوں نے پوچھا

 اگے ابھی سوچا نہی"

 سمیہ بہت لاپروا ہو تم"

 وہ بس مسکرا دی

------------------------------------------------------------

گیارہ بجے کے قریب انکا جہاز لینڈ ہوا

 پورا راستہ وہ لڑکی سر کھاتی ای تھی پر یوسف نے اک بھی بات کا ڈھنگ سے  جواب نہی دیا

 وہ شکر کر رہا تھا کے جان چھوٹی

 وہ ایئر پورٹ سے نکل ہی رہا تھا کے وہ پھر پیچھے سے آ گئی سنیں ذرا

 آخر مسلہ کیا ہے آپکے ساتھ "وہ غصے سے بولا

 مسلہ میرے ساتھ نہیں آپکے ساتھ ہے اپ اپنی کسی عزیزہ کی تصویر سیٹ پر ہی گرا آے تھے اس نے تصویر اس کے سامنے کرتے ہووے کہا

 گھر سے نکلتے وقت اس نے جلدی سے فریم سے سیم کی تصویر نکال کر جیب میں ڈال لی تھی اور شائد اب گرا بھی بیٹھا تھا 

اس نے جلدی سے تصویر پکڑ لی لیکن شکریہ بھی نہی کہا اور چل دیا

 بڑے ہی عجیب ہیں اپ شکریہ تو کہیں کمزکم مجھے"

 وہ اس کے ساتھ ہی چلنے لگی

 ویسے ہے کون یہ محترمہ اس نے تجسّس سے پوچھا

 دیکھیں ماہم  یوسف رک کر اسے کچھ کہنے لگا 

 لیکن وہ جلدی سے بول اٹھی واہ آپکو تو میرا نام بھی یاد ہوگیا ہے

 یوسف کو اسے کچھ کہنا فضول ہی لگا وہ چپ  کر کے اک ٹیکسی میں بیٹھ کر چلا گیا ماہم مسکرا دی

 اسے ایسے ریزرو سے لوگ کافی پسند تھے 

-----------------------------------------------------------

آپی چلیں نہ کہیں باہر چلتے ہیں میرا دم گھٹ رہا ہے گھر میں"

  رمشا مسکرا دی یہاں یوسف تھوڑی بیٹھا ہے جو تمھیں شہر گھومتا پھرے میرے تو شوھر کے انے کا وقت ہو رہا ہے میں کہیں نہی جا سکتی"

 اچھا تو نہ جایئں میں خودی چلی جاتی ہوں گاڑی کھڑی ہے نہ"

 ہان کھڑی ہے پر  سنھبل کر جانا"

 ٹھیک ہے پر شائد لیٹ بھی ہو جاؤں اپ انتظار مت کرنا آج لمبی سی ڈرائیو کا موڈ ہے  "

نہی بلکل نہی زیادہ دیر مت لگانا دس بجے تک آ جانا "

آپی صرف دو گھنٹے نہی"

 کہا نہ بس"

 وہ مونھ لٹکا کر چلی گئی

 گھر سے نکلے دو گھنٹے سے بھی زیادہ ہو گیے  تھے پر ابھی بھی گھر جانے کو دل نہی کر رہا تھا دل تو کچھ بھی کرنے کو نہی کر رہا تھا پر نادان کو بہلانا بھی تو تھا

 وہ اس وقت شیش محل روڈ پر ڈرائیو کر رہی تھی جب اچانک گاڑی جھٹکے کھا کر رک گئی

  سیم پریشانی سے بار بار چابی لگا رہی تھی پر گاڑی سٹارٹ نہی ہو رہی تھی وہ کوفت کا شکار ہو کر گاڑی سے باہر نکل ای

 جہاں اتنے لڑکوں والے کام سکھاۓ تھے کاش گاڑی ٹھیک کرنا بھی سکھا دیا ہوتا وہ دل ہی دل میں  یوسف  سے موخاطب ہوئی

 گاڑی لاک کر کے اور فون وغیرہ نکال کر وہ پیدل ہی سڑک پر ٹہلنے لگ گئی

 رات کافی ہو گئی تھی کوئی ٹیکسی بھی نظر نہیں آ رہی تھی

 وہ چپ چاپ روڈ کے اک سائیڈ پر چلتی رہی

 سامنے ہی دو تین لڑکے کھڑے تھے

 شکل سے ہی آوارہ لگتے ہیں دوسری سڑک سے چلی جاتی ہوں  اس نے دل میں سوچا اور واپس جانے لگی

 لیکن تبھی اک لڑکے نے جو کہ چرس کا کش لگا رہا تھا  اسے دیکھ لیا 

پہلے تو اسے لگا کوئی لڑکا ہے لیکن جب وہ سٹریٹ لائٹ کے نیچے سے گزری تو لڑکے نے اسکی شکل دیکھ کر سیٹی ماری

 سمعیہ اک لمحے کے لئے چونک کر روک گئی لیکن پھر موہتات ہو کر جلدی جلدی چلنے لگی

 وہ تینوں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے سمیہ نے رفتار مزید بڑھائی مگر تبھی اک لڑکا پیچھے سے نکل کر اسکے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا

 اسکی آنکھیں سرخ   ہو رہی تھیں نشے کی وجہ سے

  اف ظالم حسینہ اتنی رات کو ہم دیوانوں کی جان لینے نکلی ہو کیا اس نے نہایت لوفرنا انداز میں کہا

 سیم کا خون کھول اٹھا

 آج سے پہلے کبھی کسی نے اس سے بتمیزی نہی کی تھی

 سیم نے اک زور دار گھوسہ اسکے مونھ پر دے مارا لڑکے کے ناک سے خون بہنے لگا 

پیچھے انے والے لڑکے بھی تھوڑی دیر کے لئے روک گیے

 سیم کو کراٹے اتے تھے پر اسے پتا تھا وہ ان تینوں کا مقابلہ نہی کر سکے گی اسے اپنی کمزوری کا اس پل شدت سے احساس ہوا وہ ہوش و حواس میں رہ کر بھی ان نشے میں دھت مردوں کا مقابلہ نہی کر سکتی تھی

  اس نے سامنے والے لڑکے کو اک اور گھوسہ لگایا اور وہاں سے بھاگ گئی پیچھے والے دونوں لڑکے پہلے والے کی طرف متوجہ ہو گئے

 لیکن اس نے انہیں سمیہ کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا

 سمیہ جتنا تیز بھاگ سکتی تھی بھاگ رہی تھی لڑکے اس سے بہت پیچھے رہ گئے

  وہ داتا دربار والی سڑک پر آ چکی تھی پر اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی اس کے پیچھے ہیں اس لئے  وہ جلدی سے داتا دربار کے اندر چلی گئی

رات بہت ہو گئی تھی اس لئے رش نہی تھا

 اکثر لوگ باہر فرش پر  سو رہے تھے اور کچھ ملنگ عبادت کر رہے تھے

 اس نے اک نظر چاروں طرف دوڑائی

 بھاگ بھاگ کر اب پیاس کا شدت سے احساس ہو رہا تھا

 سامنے ہی اک کولر پڑا دکھائی دیا وہ جلدی سے کولر کے پاس گئی اور پانی نکال کر پینے لگی

 تبھی اک  عورت اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی اسے بھی پانی پینا تھا 

سیم نے جلدی جلدی سے گھونٹ بھرے اور گلاس اسے پکڑانے کے لئے ہاتھ  اگے بڑھایا 

اس عورت نے گلاس پکڑنے کی بجاۓ سیم کا جائزہ لینا شروح کر دیا وہ کوئی ملنگ سی عورت تھی

  یہ لیں گلاس سمیہ نے انہیں گلاس کی طرف متوجہ کرنا چاہا

 لیکن وہ سمیہ کو گھورتے ہووے ہی زمین پر بیٹھ گئی 

 بیٹھ ادھر اس نے پاس ہی بیٹھنے کا اشارہ کیا 

سمیہ الجھ سی گئی

 ارے بیٹھ نہ اس نے ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی نیچے بیٹھا لیا 

کیا بات کرنی ہے اسے کوفت ہو رہی تھی اس عورت کے بکھرے بکھرے ہولیے سے 

کون سی مجبوری تجھے یہاں لائی ہے

 سمیہ کو سوال پسند نہیں آیا کیا اپ ہر انے والے سے یہی پوچھتی ہیں اس نے ذرا بتمیزی سے کہا

 نہیں صرف تجھ جیسوں سے اس عورت نے بڑے آرام سے جواب دیا

 اپ یہاں کس مجبوری سے ہیں سمیہ نے ذرا تیز لہجے میں پوچھا

 وہ مسکرا دی عشق سمجھتی ہے وہی مجبور کر کے یہاں لاتا ہے جانتی ہے میرا عشق کون ہے اس نے ذرا سرگوشانہ انداز میں کہا

 یہ دربار دیکھ رہی ہے مجھے  اس سے عشق ہو گیا ہے

   سمیہ نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا جیسے کوئی زہین کم عقل کو دیکھتا ہے

تو بتا تجھے کس سے عشق ہوا ہے

 مجھے, مجھے تو کسی  سے   نہی ہوا اس نے نظریں چوراتے ہووے کہا

 تو پھر تو  اتنی بکھری ہوئی کیوں ہے

 سمیہ کا دل  چاہا سب کچھ بتا دے اسے اپنے ان کہے جذبوں کا رازدان بنا لے پر وہ چپ رہی

 ارے بتا دے دل کا بوجھ  ہلکا کر چل شاباش  بتا

 سمیہ کو لگا اب وہ مزید نہی چھپا سکے گی اور اس نے چھپایا بھی نہیں 

 مجھے میرا تایا زاد پسند تھا

 بچپن سے ہی میں اس کے جیسا بنا چاہتی تھی تاکہ وہ مجھے پسند کرے

 بچپن سے نکل کر جب  جوانی میں قدم رکھا تو مجھے اس سے محبت ہو گئی شدید محبت

 لیکن پتا ہے اسے شروح سے لڑکیاں پسند نہی تھی انکی عادتوں سے وہ چھڑتا تھا

پہلے میرا بھی دل کرتا تھا کے جب ہمارے خاندان میں کوئی شادی ہوتی یا عید پر میں بھی لڑکیوں کی طرح سجوں سنوروں پر میں ہمیشہ اس کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی خواھشات کا گلا گھونٹتی رہی

 یہاں تک کے میں  خود کو مار کر مکمل طور پر اسکی پسند میں ڈھل گئی اور میں مطمئن بھی تھی

  لیکن پتا ہے اب وہ سب  سے کیا کہتا ہے کے میں صرف اسکی دوست ہوں مجھ جیسی لڑکی سے وہ شادی تھوڑی ہی کر سکتا ہے بتاتے ہووے سیم کی آواز میں نمی شامل ہو گئی

 لیکن اب میں مزید خود کو نہیں مار سکتی مجھے میری اصلیت پتا چل چکی ہے  ابھی ابھی اک سبق سیکھ کر آ رہی ہوں کے میں لڑکوں جیسا لباس پہن کر انکے جیسی حرکتیں کر کے لڑکوں جیسی تو بن سکتی ہوں پر لڑکا نہی بن سکتی

 میں کچھ بھی کر لوں کمزور سی عورت ہی رہوں گی جو اپنا دفاع بھی نہی کر سکتی 

 آج تک کسی لڑکے نے مجھے تنگ نہیں کیا تھا میں سمجی کے یہ میرے لباس میرے حلیے کا کمال ہے پر نہیں وہ تو یوسف تھا جو میری ڈھال بنتا تھا 

وہ نظریں جکھا  کر بولی 

 الله نے جو فرق مرد اور عورت میں رکھا ہے تو اسے مٹا نہیں سکتی نہ ہی جھٹلا  سکتی ہے شکر کر تو نے اپنا یہ سبق بغیر کسی نقصان کے سکھ لیا 

 اور رہی بات تیرے عشق کی تو عشق تو ہمیشہ عاشق کو نچاتا آیا ہے

  عاشق کبھی  اپنی خوشی سے ناچتا ہے تو کبھی مجبور ہو کر اور مجبور کرنے والا اپنا دل ہی ہوتا ہے

? لیکن یہ تو بتا اب تو کیا کرے گی کیا اپنے عشق کو چھوڑ دے گی 

 تم یہ جگہ چھوڑ سکتی ہو اس نے جیسے اپنے سوال کا جواب دے دیا 

اس عورت نے قہقہ لگایا 

میں اس سے ہمیشہ سے محبت کرتی ای ہوں اور آئندہ بھی کروں گی پر کبھی کسی پر ظاہر نہی ہونے دوں گی جیسے اب تک یہ بات صرف مجھے اور میرے دل کو معلوم رہی اب بھی ایسا ہی کروں گی

 وہ عورت بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی شائد اب بات کرنے کے لئے کچھ نہی بچا تھا سمیہ چپ چاپ اٹھنے لگی

 سنو یہاں پھربھی آنا میں تمہارا انجام دیکھنا چاہتی ہوں اس نے مسکرا  کر کہا

 سمعیہ نے سر ہلا دیا اور خدا حافظ کہ کر باہر نکل ای 

  کبھی انسان کو عرصہ گزر جاتا ہے خود کو سمجھنے میں تو کبھی رب اک پل میں یہ کام کر دیتا ہے

 سمیہ کو بھی اب اپنی حقیقت معلوم ہو چکی تھی اس لئے اسے اب مزید غلطیاں نہی کرنی تھیں

 اس نے دربار سے نکل کر کامران بھائی کو کال کی اتنی رات کو انہیں تنگ کرنا اچھا بھی نہی لگ رہا تھا پر مجبوری تھی

 تھوڑی ہی دیر انتظار کرنے کے بعد وہ پریشان سے اسے لینے پہنچ گئے

 سمیہ یہ کیا پاگل پن تھا انہوں نے اتے ہی ڈانٹا

 تمھیں پتا ہے میں اور تمہاری آپی کتنے پریشان ہو گئے تھے پورا لاہور چھان مارا میں نے... ابھی بھی تم نہ ملتی تو ہم پولیس کو انفارم کرنے والے تھے

 وہ چپ چاپ شرمندگی سے سب سنتی رہی گھر پہنچ کر آپی نے بھی خوب ڈانٹا اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو مما پاپا کو میں کیا جواب دیتی وہ تو باقاعدہ رو رہی تھیں

 آپی پلیز معاف کر دیں آیندہ آپ کو شکایت نہی ہوگی پکا اس نے کان پکڑ کر کہا

 رمشا نے اسے گلے لگا لیا 

----------------------------------------------------------------

   سمیہ مما کا فون آیا تھا که رہی تھیں کے سمیہ کو کہو  واپس آ جائے"

 انہوں نے ناشتہ کرتے ہووے بتایا

 نہیں مجھے نہیں جانا  پاپا ڈانٹیں گے اس نے خوف ظاہر کیا

 کامران اور رمشا دونوں ہنس دیے

 آپی اپ پاپا کو کہیں کے مجھے خود کال کریں اور یقین دلائیں کے ڈانٹے گے نہیں تو ہی میں گھر آؤں گی

 اچھا ٹھیک ہے بابا کہ دوں گی اور ہان مما بتا رہی تھیں کے یوسف کا بھی فون آیا تھا کل ...تمہارا پوچھ رہا تھا اور تمہارے لئے پیغام دیا ہے کے اپنا فون اب اون کر لو سمیہ نے خاموشی سے سر ہلا دیا 

---------------------------------------------------------------------------

 ابھی پڑھائی سہی سے شروح نہی ہوئی تھی اس لئے اس نے  سوچا   کے فارغ وقت میں تھوڑا گھوم پھر لے

 وہ  کونیز لینڈ کے کیپٹل برسبین میں گھومنے آیا تھا

 سیم کے ساتھ مل کر اس نے بہت سی جگہیں گوگل کی تھیں کے جب وہ آسٹریلیا جایئں گے تو ان ان جگوں پر گومیں گے

 ان میں سے اک جگہ بوٹانک پارک بھی تھی جہاں وہ اس وقت موجود تھا وہ اس خوبصرت پارک کا جائزہ لے رہا تھا کے پیچھے سے کسی نے اسے بولایا

 سنئیے مسٹر

 اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ماہم کھڑی تھی

 آپکو نہیں لگتا آسٹریلیا چھوٹا سا ملک ہے یا پھر گول ہے

 اف یہ یہاں  بھی یوسف نے دل میں سوچا لیں دل کی بات چہرے پر بھی آیاں ہو رہی تھی

 سنیں آپ مجھے دیکھ کر یوں برا سا مونھ  کیوں بنا لیتے ہیں

 یوسف بغیر کوئی جواب دیے اگے چل پڑا

 وہ بھی پیچھے پیچھے ہو لی

 مجھ سے دوستی کریں گے اپ اس نے بڑے نرم سے لہجے میں پوچھا

 دیکھئے مس ماہم میں لڑکیوں سے دوستی نہیں کرتا آپ میرا پیچھا چھوڑیں"

 میں اپکا پیچھا کب  کر رہی ہوں اپ ہی میرے ساتھ چل رہے ہیں "

 اف یوسف کا موڈ خراب  ہو رہا تھا

 وہ سارا وقت اسی کے ساتھ رہی وہ چلتا تو چل پڑتی وہ روکتا تو رک جاتی پر اس سب کے دوران وہ لگاتار  بولتی  بھی رہی

 میرا نام تو آپکو اچھے سے یاد ہے ہی میں یہیں آسٹریلیا سے ہی ہوں پاپا یہاں رہتے ہیں اور مما پاکستان میں بھائی بہن نہیں ہیں  اکلوتی ہوں میں

 میری ہابی دوست بنانا ہے جیسے کے ابھی آپکو بنانے کی کوشش کر رہی ہوں وہ ذرا سا مسکرا کر بولی

 لیکن مجھے دوست بنانے کا کوئی شوق نہیں ہے میری دوست صرف اک ہی ہے وہ روانی میں بول گیا

 پر پھر پچھتایا 

اہ میری دوست اس نے میری کو خوب کھنچا کہیں ووہی تصویر والی تو نہیں اس نے چھڑا 

یوسف نے کوئی جواب نہ دیا  پر چہرہ اسکے ذکر پر کھل سے گیا

 وہ  صرف دوست نہیں ہے نہ ماہم نے آہستگی سے کہا پر آواز میں یقین سا  تھا 

یوسف حیران  ہوا کیا واقعی میرے چہرے سے ہی پتا چل جاتا ہے کے وہ میرے لئے کیا ہے اس انجان لڑکی   کو بھی پتا چل گیا  اک میری سیم ہی ہے جسے پتا نہی چلتا 

  جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

 وہ سوچ کر مسکرا دیا 

یعنی اپ مسکراتے  بھی ہیں ماہم نے حیرانی سے کہا

 یوسف کی مسکراہٹ سمٹ گئی وہ اپنی بیساختہ حرکت پر شرمندہ سا ہوگیا      

سمیہ  گھر  واپس آ چکی تھی

 پاپا کا غصہ اور ناراضگی دونوں ہی  ختم ہو چکے تھے

 وہ اپنی  لاڈلی سے زیادہ دیر  ناراض بھی تو نہیں رہ سکتے تھے وہ  ابھی ابھی انسٹیٹیوٹ سے لوٹی تھی

 مما شائد  یوسف سے بات کر رہی تھیں اس نے انکی  باتوں سے اندازہ لگایا 

اس کا بھی دل چاہا کے وہ بھی بات کرے پر اب اسے دل کی  سنی ہی نہیں  تھی وہ انکے پاس سے گزر کر اوپر  جانے لگی کے انہوں نے بلا لیا 

ہان وہ انسٹیٹیوٹ سے آ گئی ہے بلکہ  میرے پاس ہی کھڑی ہے لو بات کرو انہوں نے فون اسے تھما دیا

 تم  بات کرو میں ذرا کچن دیکھ لوں وہ کہ کر چلی گیں 

سمیہ نے مجبوراً فون کان سے لگا لیا 

اسلام علیکم "

وعلیکم اسلام کیسی  ہو اور فون ابھی تک کیوں بند ہے تمہارا میرا پیغام  نہیں ملا کیا "

میں ٹھیک ہوں تم سناؤ  اس نے فون والی بات کو نظر انداز کیا

 میں تو مزے کر رہا ہوں آسٹریلیا میں بلکے بہت سے دوست بھی بنا لئے ہیں میں نے تو"

 وہ  اسے چڑھانے  لگا جانتا تھا کے سیم کسی اور سے اسکی دوستی برداشت نہیں کرتی تھی وہ سوچ رہا تھا کے ابھی سیم ناراضگی کا اظہار  کرے گی پر سیم کا جواب اسے حیران کر گیا

 اس  کتنے  نے آرام سے کہ دیا کہ  اچھا کیا "

سیم تمھیں غصہ نہیں آیا کے میں نے کسی اور کو دوست بنایا"

 نہیں  اس میں غصے کی کون سی بات ہے تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو چاہے اک دوست بناؤ یا سینکڑوں میرا کیا واسطہ"

 سیم یہ کیا که  رہی ہو تم "

 یوسف کو اسکی لاتعلقی  بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی

  پڑھائی کیسی  جا  رہی ہے اور کیا کر رہے  ہو اس وقت "

  سمیہ  نے بات ہی بدل  دی

 یوسف تلملا گیا وہ بچہ  نہیں تھا کے اسکے انداز نہ سمجھے اتنا تو وہ جان گیا تھا کے سمیہ اس سے ناراض ہے پر کیوں یہ سمجھنے سے قاصر  تھا

 بات کرنی ہے یا میں فون رکھوں" سیم نے کہا 

ہان پڑھائی اچھی  جا رہی ہے میں  ابھی سونے کی تیاری کر رہا تھا سوچا پہلے سب سے بات کر لوں

  اتنی جلدی سونے کی تیاری سیم نے حیرانی سے گھڑی  کو دیکھا جس پر ابھی صرف چھ بج رہے تھے لیکن پھر اسے فوراً ہی یہاں  اور وہاں کے وقت کا فرق یاد آ گیا 

سیم لگتا ہے تمھیں میری  جدائی سے بہت فرق پڑا  ہے  تم بھلکڑ  ہو گئی ہو "

نہیں مجھے یاد ہے بس ذرا دماغ سے نکل گیا تھا اچھا تم سو جاؤ  پھر کبھی بات ہو گی خدا حافظ اس نے بغیر یوسف کی کوئی بات سنے فون رکھ  دیا 

فرق تو پڑا  ہے یوسف تمہاری جدائی سے بھی اور تمہاری باتوں سے بھی اس نے افسردگی سے سوچا اور اوپر  اپنے کمرے میں چلی گئی

----------------------------------------------------------

وہ کراکنیل روڈ  پر  کیفے او  مائی کے باہر  کھڑا اندر جانے کا سوچ ہی رہا تھا

 کے ماہم  اسے کچھ ہی فاصلے پر کسی لڑکی کے ساتھ اسی طرف آتی دکھی

 سہی کہتی ہے یہ آسٹریلیا بہت چھوٹا ملک ہے

 وہ جلدی سے کیفے کے اندر گھس گیا 

ورنہ اگر وہ دیکھ لیتی تو پھر پیچھے پڑ  جاتی اندر جا کر ابھی وہ اپنے لئے مینو میں سے کچھ ڈھنگ  کا کھانا ڈھونڈ رہا تھا کے ماہم  اور اسکے ساتھ اس لڑکی کو اندر آتے دیکھا

 وہ دونوں اسکے پیچھے والے ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیں

 یوسف نے مینو مونھ  کے سامنے کر لیا اس لئے وہ دیکھ نہ سکی

 بلیک سٹکی  رائس  منگوا کر وہ کھانے  کی طرف متوجہ ہو گیا ماہم  اور وہ لڑکی آہستہ آہستہ جرمن  میں کوئی بات کر رہے  تھے یوسف تک نہ چاہتے ہووے بھی انکی آواز پہنچ رہی تھی

 اچانک ہی یوسف کے ہاتھ سے چمچ چوٹ گیا

 انکی بات ہی ایسی چونکا دینے والی تھی

 اسے جان کر بہت حیرانی ہوئی کے ماہم کو کینسر ہے

 اس نے مڑ کر پیچھے بیٹھی ماہم کو دیکھا جو اسکی طرف متوجہ نہی تھی سر پر سکارف لئے اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو لئے اور  ہونٹھ کاٹتے وہ بہت معصوم سی لگ رہی تھی

 یوسف کو اس پر بہت ترس آیا اور خود پر غصہ کے اسے اس سے دوستی کر لینی چاہیے تھی

 اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی اٹھ کر جا چکی تھی یوسف سے مزید کچھ نہ کھایا گیا

 اس نے اپنی ٹیبل پر بل رکھا اور ماہم کی ٹیبل پر آ گیا 

وہ آنسو صاف کر رہی تھی اسے دیکھ کر چونکی

 سہی کہتی ہیں اپ اپکا آسٹریلیا گول ہے تبھی تو اکثر ہمیں ملا دیتا ہے " یوسف نے مسکرا کر کہا 

ماہم نے بھی مسکراتے ہووے اسے بیٹھنے کی پیشکش کی وہ بیٹھ گیا 

مجھ سے دوستی کریں گی اپ یوسف کے سوال پر وہ حیران ہوئی 

پر آپ تو شائد مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتے تھے"

 پر آپ تو چاہتی تھی نہ کہیں ایسا تو نہیں اب ارادہ بدل گیا نہیں میں اپنے ارادے  بدلتی  نہیں ہوں

 اس نے مسکرا کر کہا

 =------------------------------------------------------------------------

یوسف  روز شام کو کال کرتا تھا پر سمیہ اس وقت خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف کر لیتی آج کل وہ کوکنگ سیکھ رہی تھی

 اس لئے زیادہ تر کچن میں ہی پائی جاتی

 مما اسے کتنی ہی بار یوسف کا پیغام دے چکی تھیں کے اس سے بات کرو پر وہ سنی انسونی کر دیتی

 آج دو ہفتے گزر گئے تھے اس سے بات کیے اسی لئے وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی اسکی یاد میں آنسو بہا رہی تھی

  پر خود پر جبر کے اس سے بات بھی نہیں کر رہی تھی

 اچانک  ہی دل کو بہلانے کا اک  خیال ذہن میں آیا اس نے جلدی سے اٹھ کر لیپ ٹاپ آن کیا اور یوسف کی ای ڈی وزٹ کرنے لگی

 پہلی ہی تصویر پر اسکی نظریں اٹک گئیں یوسف کسی لڑکی کے ساتھ بوٹانک پارک میں کھڑا تھا

 ووہی جگہ جہاں ان دونوں نے مل کر جانے کا پلان کیا تھا

 تصویر کے اوپر لکھا تھا انجوینگ تھے ڈے ود فرینڈ

 سیم کی آنکھیں تیزی سے نمیکن پانی سے بھرنے لگیں

 تو یوسف تم نے محبت کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی دوستی سے بھی فارغ کر دیا ٹھیک ہی کیا مجھ جیسی لڑکی سے کسی کی  دوستی بھی کیوں ہو

ہو وہ خود ترسی کا شکار ہونے لگی تھی 

-----------------------------------------------------------------------

وہ دونوں اس وقت ہسٹنگ سٹریٹ پر ٹھل رہے تھے اس سڑک کے قریب ہی بیچ تھی جس کی وجہ سے ہوا بہت ٹھنڈی چل رہی تھی پر ماہم کی ضد کی وجہ سے وہ یہاں ٹہل رہے تھے 

 یوسف تم بہت اچھے دوست ہو سیم خوش قسمت ہے کے تمہاری سب سے اچھی دوست ہے وہ مسکرا دیا

 اس کا ذکر یوں ہی اسے خوش کر دیتا تھا

 نہیں میں خوش قسمت ہوں کے وہ صرف میری دوست ہے "

 یوسف اک بات پوچھوں

 ہان پوچھو نہ تمھیں پتا ہے نہ کے میں بیمار ہوں  اس نے دکھ سے کہا

 کیوں کیا ہوا تمھیں مجھے تو نہیں بتایا تم نے کے تم بیمار ہو یوسف اس کی بات سمجھ کر بھی انجان بنا تاکہ اسے دکھ نہ ہو

 وہ ہلکا سا مسکرائی 

 مجھے آج سے دو ماہ قبل پتا چلا کے  مجھے  کینسر ہے

تمھیں پتا ہے میں ہوسپٹل اکیلے ہی اپنی رپورٹس لینے گئی تھی

 پر رپورٹس دیکھ کر وہیں ڈھے سی گئی 

 میں دو دن گھر نہیں گئی ہسپتال میں پڑی رہی پر کسی نے نہیں پوچھا پاپا کو لگا میں دوستوں کے ساتھ ہوں اور مما تو ویسے بھی بہت کم کال کرتی ہیں

 میں قبول ہی نہیں کر پا رہی تھی کے میں مرنے والی ہوں پر پھر وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا میں نے  بھی  آخر کر اس حقیقت کو قبول کر ہی لیا

 پر گھر پر ابھی بھی کسی کو نہیں بتایا کیوں کے انکو ابھی بھی اس سے فرق نہیں پڑے گا 

تم علاج کیوں نہیں کرواتی یہاں تو ہر قسم کی ٹیکنالوجی مجود ہے"

 وہ ہنس دی

 مسٹر یوسف دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی موت سے چھٹکارے کی ٹیکنالوجی نہیں آئ پر ڈاکٹرز کہتے ہیں میں کیموتھرپی کرواؤں"

 تو کروا لو نہ یوسف نے زور دیا

 تم جانتے ہی نہیں کے وہ کتنی تکلیف دہ ہے میں نے دیکھا ہے  کیسے  تڑپ رہے ہوتے ہیں مریض اس تھرپی  کے دوران وہ دکھ سے بولی

 پر بہت سے لوگ  یہ  تکلیف برداشت کرتے ہیں ماہم  تم بھی کر لو گی اس نے حوصلہ دیا

 یوسف وہ سب بھی تو اتنی تکلیف سہنے کے بعد مر ہی جاتے ہیں نہ تو کیا فائدہ اتنی تکیلف سہ کر زندگی کے چند  دن بڑھوانے کا

 میں اپنی بچی کچی زندگی  سکوں سے گزرنا چاہتی ہوں تم مجھے فورس  مت کرو اور فکر بھی نہ کرو اتنا تو جی ہی لوں گی کے تمہاری اور سیم کی شادی دیکھ سکوں یوسف افسردگی سے مسکرا دیا انشاللہ

 یوسف اور ماہم کافی اچھے دوست بن چکے تھے

 زیادہ تر جب یوسف فارغ ہوتا تو اسی کے ساتھ مل کر کہیں گھومنے نکل جاتا

 پر اسے ہمیشہ ماہم کی طبیت کی بھی فکر رہتی وہ کسی نہ کسی طریقے سے اسے ہوسپٹل جانے کی ہمت دلاتا رہتا پر وہ بھی اپنی بات پر اڑری ہوئی تھی

 آج بھی یوسف اسی سے ملنے  جا رہا تھا

 رات کے بارہ بجے تھے  پر رش اتنا ہی تھا

 لگتا   تھا اس شہر میں کوئی سوتا ہی نہیں ہے 

 انہوں نے اک کیفے میں ملنے کا پلان بنایا تھا یوسف کیفے میں داخل ہوا تو اسے سامنے ہی بیٹھا پایا 

وہ مسکراتا ہوا اس کی طرف چل دیا

 میں زیادہ لیٹ تو نہیں ہوا اس نے بیٹھتے ہووے پوچھا 

 ہان لیٹ تو ہووے ہو پر آج تمہاری غلطی معاف کی"

 کیوں جی آج کیا خاص بات تھی"

 رکو ابھی بتاتی ہوں اس نے گھڑی پر اک نظر ڈالی جس پر پورے بارہ بج رہے تھے 

" ہیپی برتھڈے یوسف اس نے مسکرا کر کہا 

 یوسف حیران رہ گیا

 وہ جانتا تھا کے کل اسکی سالگرہ ہے

 پر رات کو وہ اسے یوں وش کرے  گی اس بات نے اسے حیران کر دیا

 وہ تو سمیہ کا عادی تھی جو رات کو کیک لے کر پہنچ جاتی تھی اس کے پاس

کیا سوچ رہے ہو یوسف اس نے پوچھا 

سیم یاد آ گئی تھی اس نے ذرا مسکرا کر کہا

 یوسف اگر برا نہ مانو تو اک بات کہوں اس نے اجازت چاہی

 ہان کہو نہ"

 مجھے لگتا ہے سیم تمھیں پسند نہیں کرتی تبھی تو نہ تمہارے ساتھ یہاں ای اور نہ ہی کبھی تمھیں کال کی"

 نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ تو میری دیوانی ہے:

 تمھیں کیسے پتا"

 بچپن سے اس کے ساتھ ہوں اتنا تو جان ہی گیا ہوں"

 پھر وہ یہاں کیوں نہیں ہے"

 یہی بات تو مجھے پریشان کرتی ہے نجانے اسے کیا ہوگیا ہے مجھ سے بات بھی نہیں کرتی شائد ناراض  ہے پر سمجھ نہیں آتی آخر کس بات پر"

 اچھا چھوڑو نہ یہ کیک کاٹو ماہم نے بات بدلنے کی کوشش کی

 یوسف نے خاموشی سے چھری اٹھا لی

---------------------------------------------------------------------------

شام کے سات بج چکے تھے اور سمیہ ٹیلی فون کے پاس کھڑی شش و پنج میں مبتلا تھی

 اک طرف اتنے سالوں کی دوستی اور محبت تھی تو دوسری طرف  چند لمحوں کی بےرخی  کچھ کڑوی باتیں اور جلن تھی

  وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کے اسے کال کرے یا نہیں

 کچھ دیر سوچنے کے بعد  دل و دماغ نے اک متفقہ فیصلہ کر ہی لیا

 وہ  چاہے مجھ سے محبت نہیں کرتا چاہے اس نے میری دوستی میں کسی کو شریک کر لیا ہے پر اتنے سال ہم نے ساتھ گزارے ہیں میں انہیں یوں فراموش نہیں کر سکتی چاہے میں اس کے لئے کچھ نہ ہوں پر وہ میرے لئے سب کچھ ہے

 اس نے نمبر ملا دیا

یوسف کیک کاٹنے ہی والا تھا کے اس کا فون بج اٹھا

 ماہم کو یہ سخت ناگوار گزرا 

یوسف نے فون دیکھا تو دنیا جہاں کی خوشی اس کے چہرے پر سمٹ ای

 اس نے فوراً سے بھی پہلے  کال اٹینڈ کی اور معذرت کر تا  اٹھ کر باہر چلا گیا 

ماہم  اکیلی بیٹھی رہ گئی

  خیریت تو ہے آج میں کیسے یاد آ گیا"

 طعنے مارو گے تو بات نہیں کروں  گی"

 وہ  ہنس  دیا 

 اچھا سنو

 ہان بولو

 ہیپی برتھڈے"

 تم لیٹ ہو گئی تم سے پہلے آج کسی نے وش کر دیا "

کس نے وہ حیران تھی

 میری دوست نے اس نے مسکرا کر بتایا 

وہ چپ ہو گئی

  لگتا ہے پاکستان میں بیٹھا کوئی جل رہا ہے اور اتنا جل رہا ہے کے بو یہاں آسٹریلیا تک آ رہی ہے"

 میں نہیں جل رہی یوسف اس نے سنجیدگی سے کہا

 سیم اک بات تو بتاؤ تم کیوں نہیں آئ آسٹریلیا "

تم کیوں پوچھ رہے  ہو تمھیں میرے نہ انے سے کوئی  فرق تو نہیں  پڑا"

 فرق تو پڑا ہے سیم وہ ابھی کچھ  بولنے ہی والا تھا کے پیچھے سے ماہم کھانستی ہوئی ای

 یوسف چلو یہاں سے میری طبیعت خراب ہو رہی ہے

 کیا ہوا ماہم تم ٹھیک تو ہو اس نے نفی میں سر ہلایا

 وہ مسلسل کھانسے جا رہی تھی  

یوسف نے جلدی سے فون بند کیا اور اسے سہارا دے کر اندر اک کرسی پر جا کر بٹھایا

 ماہم کوئی میڈیسن ہے تمہارے  پاس  یا ہوسپیٹل چلیں"

 میڈیسن ہے میرے پاس اس نے اپنے پرس کو کھنگالا

 سوری میں گھبرا گئی تھی اس لئے تمھیں ڈسٹرب کر دیا اس نے میڈیسن لینے  کے بعد  کہا

 ارے کوئی بات نہیں اب تم جلدی سے اٹھو اور گھر جا کر آرام کرو

 ہان چلو چلتے  ہیں وہ اٹھ کھڑی ہوئی

-----------------------------------------------------------------

  تمھیں  کوئی فرق نہیں پڑتا یوسف میرے ہونے یا نہ ہونے سے تمہارے پاس اور بھی کافی لوگ ہیں دل لگانے کے لئے میں ہی پاگل ہوں

  اس نے فون اسٹینڈ پر پٹخ دیا وہ یوسف  کی فون بند کرنے سے پہلے تک کی باتیں سن چکی تھی

-----------------------

 مما نادیہ کی شادی کی تاریخ کیا فائنل ہوئی ہے 

 اس نے سعدیہ اور ہاجرہ بیگم  کے پاس بیٹھتے ہووے پوچھا 

 دو مہینے بعد کی رکھی ہے سعدیہ بیگم نے بتایا

 ابھی تو پھر کافی ٹائم ہے ارے وقت گزرتے کون سا پتا چلتا ہے دیکھنا یوں چٹکیوں میں گزر جائے  گا ہاجرہ بیگم نے مسکراتے ہووے کہا

  یوسف کو کہوں گی کے وہ بھی آ کر مل جائے  اسکو گئے بھی اب چوتھا مہینہ ہے دو مہینوں تک اسکا اک سیمسٹر بھی ختم ہو جائے گا پھر چھٹیاں تو ہونگی نہ انہوں نے سیم سے پوچھا 

جی تائی کچھ دنوں کی ہونگی

 چلو وہ بھی نادیہ کی شادی دیکھ لے گا

نادیہ یوسف کی خالہ کی بیٹی تھی اور اب اسکی شادی ہونے جا رہی تھی وہ سیم اور یوسف کی فیورٹ تھی وہ دونوں اس سے پیار بھی بہت کرتے تھے 

----------------------------------------------------

اس دن کے بعد سیم نے اسے کبھی کال نہیں کی

 پر یوسف  نے ہزاروں کال اس کے لئے کیں

 لیکن  اک کا بھی جواب سیم نے نہ دیا 

آخر یوسف کو بھی غصہ آ گیا اس نے بھی کال کرنا چھوڑ دیا 

سمیہ تمہارے بال بڑے ہو گئے ہیں اس دفع نہیں کٹوانے کیا

 نہیں مما اب نہیں کٹواؤں گی

 سعدیہ بیگم تو خوش ہو گیں

 شاباش لگتا ہے اب میری بیٹی سمجھدار ہوتی جا رہی ہے

 جی مما اب سمجھ آ گئی ہے"

 تو بیٹا اب  کپڑے بھی لڑکیوں جیسے پہنا کرو نہ"

 مما میرے پاس لڑکیوں والے کپڑے ہیں ہی نہیں "

نہیں ہیں تو خرید لو نہ بیٹا""

پر مجھے اس قسم کی شوپنگ کا کوئی اندزہ ہی نہیں "

     چلو پھر ابھی جاتے ہیں تمہارے لئے کچھ اچھے اچھے سے کپڑے لے کر اتے ہیں "

وہ اٹھ کھڑی ہوئیں سمیہ کو لگا جیسے وہ اچانک ہی بہت خوش ہو گئی ہیں

 انکی  خوشی کی خاطر وہ بھی اٹھ کھڑی  ہوئی جب سب ٹھیک کرنا ہی تھا تو ابھی سے کیوں نہی

وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا

 سمعیہ اب  لڑکیوں جیسے کپڑے پہنتی تھی

 بال بھی کھندوں سے نیچے تک آ گئے تھے بائیک چلانا اور لڑکوں جیسے کام کرنا کب سے وہ چھوڑ چکی تھ

ی یوسف بھی روز شام کو کال کرتا پر اب سمیہ سے بات کروانے پر اسرار نہیں کرتا تھا

 دونوں اپنا دل اک دوسرے کی تصویریں دیکھ کر اور ساتھ گزارے دن یاد کر کے بہلا لیتے تھے

  یوسف آج تو چھٹی ہے آج ہم بیچ پر گھومنے چلتے ہیں وہ اس  وقت ماہم سے فون پر بات کر رہا تھا

 نہیں ماہم کل اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے مجھے ابھی اس پر تھوڑا کام کرنا ہے تم کسی اور کے ساتھ چلی جاؤ"

 نہیں مجھے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے اس نے ضد کی

 اچھا ٹھیک ہے کل یونی کے بعد چلیں گے"

 میرے پاس کونسا زیادہ وقت ہے یوسف گنے چنے تو دن ہیں میرے پاس میں نہیں چاہتی میری کوئی بھی خواھش ادھوری رہ جائے لیکن ٹھیک ہے اگر تم نہیں آنا چاہتے تو کوئی بات نہیں ضروری تو نہیں کہ میری ہر خواھش پوری ہو اس کی دکھ  بھری آواز یوسف کے کانوں میں پڑی

اس نے اک نظر اپنی اسائنمنٹ کو دیکھا

 کیا یہ کسی مرتے ہووے کی خواھش  سے بڑھ کر ہے

 دل و دماغ نے نہیں میں جواب دیا 

اچھا ماہم آج ہی چلتے ہیں تم کار لے کر باہر پہنچو میں ابھی اتا ہوں

 اس نے که کر فون رکھ دیا اور جلدی جلدی سے چیزیں سمیٹ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا 

----------------------------------------------------------- 

  مما میں سوچ رگی تھی کے نادیہ آپی کے گھر کچھ دن پہلے سی  ہی چلی جاؤں 

 وہ سعدیہ بیگم کے پاس بیٹھی بالوں میں تیل لگوا رہی تھی

 ارے بیٹا شادی دو ہفتوں بعد ہے تم اتنے دن پہلے جا کر کیا کرو گی

 ایسا کرنا چار پانچ دن پہلے چلی جانا انہوں نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہووے کہا 

"ٹھیک ہے مما جیسا آپ کہو"

 کاش ایسے ہی تم میری ہر بات مانتی اس نے حیرانی سے سر پیچھے کیا"

" مما اب تو میں آپکی ہر بات مانتی ہوں"

میں نے تمھیں یوسف کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کا کہا تھا تم نے میری بات مانی

 اس نے سر جھکا لیا

 مما آپ کیوں ہم دونوں کی دوستی خراب کر رہی ہیں ہم دونوں اک دوسرے کے بارے میں  ایسا نہیں سوچتے

 یوسف صرف مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے بس

 وہ مجھ سے شادی کرنے کے بارے میں سوچے کا بھی نہیں آپ کیوں یہ بات کر کے مجھے اس سے ریجیکٹ کروانا چاہتی ہیں

 وہ رو دینے کو تھی

 انہوں نے اسکا سر اپنی گود میں رخ  لیا وہ کسی سوچ میں گم ہو گیں,  سمیہ نے خاموشی سے  آنکھیں بند کر لیں

------------------------------------------------------------

کیا بات ہے یوسف آج بڑے خوش نظر آ رہے ہو

 وہ دونوں گولڈ کوسٹ شوپنگ مال اے ہووے تھے

 ہان کیوں کے میں واپس گھر جانے والا ہوں"

 کیا! ماہم چیخ اٹھی 

تم نے مجھے بتایا بھی نہیں 

بتا تو  رہا ہوں "

 کب جا رہے ہو

 کل لاسٹ اسائنمنٹ جمع کروانی ہے پرسو چلا جاؤں گا 

اس لئے تو  یہاں  آیا ہوں سوچا گھر والوں کے لئے تھوڑی شوپنگ کر لوں

 گھر والوں کے لئے یا سیم کے لئے اس نے مونھ بنا کر پوچھا 

سب کے لئے یوسف نے سنجیدگی سے کہا

 ماہم ذرا حیران ہوئی وہ یہ بات کافی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی کے یوسف سیم کی باتیں اب نہی کرتا اور   تھوڑا پریشان بھی رہتا ہے

 یوسف سیم سے ناراض ہو کیا"

 ہان اس نے بس اتنا ہی کہا

 ہان ٹھیک ہی ہے جب وہ تمھیں کوئی لفٹ نہیں کرواتی تو تمھیں بھی اس کے پیچھے دیوانہ ہونے کی بھلا کیا ضرورت ہے بندے کی کوئی سلف ریسپیکٹ بھی تو ہوتی ہے 

 یوسف نے سر ہلا دیا 

چلو جلدی سے میری مدد کرو چیزیں خریدنے میں پھر جا کر میں اسائنمنٹ کو بھی ذرا دیکھ لوں

 ٹھیک ہے چلو پہلے تمہارے مما پاپا کے لئے کچھ لیتے ہیں وہ دونوں سب کے لئے کچھ نہ  کچھ خرید رہے تھے آخر میں صرف سیم ہی رہ گئی

یوسف تم اس کے لئے بھی شوپنگ کرو گے

 ہان  پر تم تو ناراض ہو نہ اس سے "

 ماہم میں اس پر وقتی طور پر غصہ تو ہو سکتا ہوں پر میں جانتا ہوں جب وہ میرے سامنے آے گی تو میرا سارا غصہ اور ناراضگی ختم  ہو جائے گی

 ماہم کے چہرے پر جلن نمایاں ہو گئی

 یوسف میں تھک گئی ہوں"

 تم گھر چلی جاؤ میں سیم کے لئے چیزیں خرید کر ہی آؤں گا "

ماہم تلملا کر رہ گئی

----------------------------------------------------

 تم کہیں جا رہی ہو یوسف اس سے واپسی سے پہلے ملنے آیا تھا

 ہان پاکستان کا اک میرا دوست ہے جس کی کزن کی شادی ہے پر وہ اتنا بے مروت ہے کے مجھے انوائٹ بھی نہیں کیا اس لئے خود ہی مونھ  اٹھا  کر جا رہی ہوں"

 تم میرے ساتھ آ رہی ہو یوسف نے حیرانی سے پوچھا 

ماہم نے  مسکرا کر سر ہلایا

 پر تمھیں سفر نہیں کرنا چاہیے اگر تمہاری طبیعت خراب ہو گئی تو"

  وہ میرا مسلہ ہے تم بتاؤ ساتھ لے کر جا رہے ہو یا نہیں "

 مجھے تمہاری طبیعت کی فکر ہے"

 یوسف کیا تم مجھے زندگی کی کچھ آخری  خوشیوں سے محروم کرنا چاہتے ہو اس نے اداسی سے پوچھا 

یوسف بس اسے دیکھ کر رہ گیا

---------------------------------------------------------------------

سمیہ کل سے نادیہ کے گھر ہی تھی

 شادی کے ہنگامے زور پر تھے

 باقی گھر والوں نے رات کو  مہندی میں ہی شرکت کرنی تھی یوسف نے رات آٹھ بجے تک گھر پہنچنا تھا اور اس کے بعد سب گھر والوں نے یہاں آنا تھا سمیہ  ظاہر نہیں کر رہی تھی پر دل ہی دل میں اسکی آمد پر خوش بھی تھی

 رات تک کا انتظار بھی  مشکل لگ رہا تھا

مہک  سمیہ  کو بھی  اب تیار کر دو " نادیہ نے اپنی دوست سے کہا 

 ساری  لڑکیاں  انہی کے کمرے میں جمع تھیں

 آپی  میں یہ مہندی کی تھال  سجا لوں پھر ہو جاؤں گی تیار آرام سے" اس نے موم بتیاں لگاتے ہووے کہا

 سات تو بج گئے ہیں اب بھی تیار نہیں ہوئی تو لیٹ ہو جاؤ گی

  چلو شاباش اٹھو یہ بعد میں کر لینا 

وہ چپ چاپ اٹھ کے اپنے کپڑے تبدیل کرنے واشروم چلی گئی

 تب تک مہک نے بھی اک دو لڑکیوں کو فارغ کر لیا

 آجاؤ سمیہ اب تمہاری باری  وہ کپڑے تبدیل کر کے نکلی تو مہک نے سامنے  پڑی  کرسی  پر بیٹھنے کا اشارہ کیا 

 لگ تو تم یوں بھی حسین ہی رہی ہوں لیکن دیکھنا میکپ میں تو تم غضب ڈھاؤ  گی سمیہ مسکراتے ہووے کرسی پر بیٹھ گئی

 بیس منٹ میں ہی مہک نے اسے کسی دیس کی ملکہ کی طرح تیار کر دیا 

یہ لو اب  دیکھو  ذرا خود کو اس نے شیشہ اس کے سامنے کیا

 اک منٹ کے لئے تو سمیہ بھی حیران رہ گئی یہ میں ہوں کیا میں اتنی اچھی بھی  لگ سکتی  ہوں 

 مہک ہنس دی

ہان سمیہ تم اتنی ہی حسین لگ رہی ہو کے دیکھنے والا تمہارے حسن پر فدا ہو جائے گا

  وہ اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے آ کے  کھڑی  ہو گئی وہ مجھے یوں دیکھ  کر کیا کہے گا کیا میں اسے یوں اچھی لگوں گی وہ حیران تو ضرور ہوگا سمیہ  سوچ کر مسکرا دی

پھر اس نے اک نظر گھڑی  کو دیکھا جہاں اب آٹھ بج رہے تھے یوسف چونکنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس  نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کیا  

 -----------------------------------------------------

کمال صاحب  اور ہاجرہ  بیگم اسے ائیرپورٹ سے کسی لڑکی کے ساتھ نکلتا دیکھ کر چونک گئے 

 وہ خوشی  سے انہی کی طرف بڑھ رہا تھا ہاجرہ  بیگم نے آگے  بڑھ کر اسکا ماتھا  چوم لیا

 ماہم  نے انہیں سلام کیا پر انہوں نے سوالیہ نظروں سے یوسف کو دیکھا وہ کچھ شرمندہ سا ہو گیا

 مما یہ ماہم  ہے میری دوست اسے یہاں کی شادیاں دیکھنے کا شوق تھا اس لئے  ساتھ لایا  ہوں انہوں نے مسکرا کے ماہم  کو گلے لگای

ا یوسف کمال صاحب کے گلے لگ گیا چلو اب جلدی سے گھر چلو پھر مہندی کے لئے بھی جانا ہے کمال صاحب  که  کر گاڑی  کی طرف بڑھ گئے ہاجرہ  بیگم بھی انہی کے ساتھ ہو لیں

 یوسف سیم نہیں ای تمہیں لینے مجھے تو لگا تھا وہ سب سے پہلے یہاں موجود ہو گی

 نادیہ آپی کی شادی ہے نہ وہ وہیں ہوگی 

 یوسف کو بھی غصہ تو آ رہا تھا کے نہ وہ جاتے وقت ائی  تھی اور نہ ہی  اب ائی  پر ماہم  کو تو نہیں بتا سکتا تھا نہ اس لئے یہی کہنا پڑا

جب وہ سب گھر پہنچے تو  سعدیہ بیگم بھی ماہم کو دیکھ کر حیران ہوئیں

 پہلا خیال ہی ان کے دماغ میں سمیہ کا آیا  شائد اسی لئے سمیہ یوسف سے شادی کرنے پر راضی نہیں ہو رہی تھی

 وہ ہاجرہ بیگم کے پاس کچن میں آ گیں جو  انکے پینے کے لئے کولڈ ڈرنکس گلاسسس میں ڈال رہی تھیں

  یہ لڑکی کون ہے بھابی"

 یوسف کی کوئی دوست ہے شادی میں شرکت کے لئے ای ہے"

 مجھے تو معاملہ کچھ اور لگ رہا ہے ورنہ ہمارا یوسف اور کسی لڑکی کو ساتھ لے کر اے ناممکن"

 ہان سعدیہ در تو مجھے بھی لگ رہا ہے کہیں بات دوسری نہ نکلے

 دونوں خواتین پریشان ہو گیں 

 اچھا چھوڑیں چلیں جلدی سے انکو جا کر یہ دے اتے ہیں تاکہ پھر مہندی کے لئے بھی نکلیں سعدیہ بیگم نے انکے ہاتھ سے ٹرے پکڑ لیا اور باہر آ گیں 

یوسف تم لوگ بھی آؤ گے مہندی پر یا ابھی آرام کرو گے

 نہیں چچی فلائٹ میں بہت سو لیا اب آپ کے ساتھ ہی چلیں گے سیم بھی وہیں ہے نہ اس نے نہ چاہتے ہووے بھی پوچھ لیا

 ہان وہ تو دو دن سے وہیں ہے اچھا چلو اب جلدی سے جا کر تیار ہو جاؤ ہم بس نکلنے ہی والے ہیں"

 یوسف اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا 

ماہم بیٹا اپ بھی جا کر تیار ہو جاؤ وہ سامنے والا کمرہ گیسٹ روم ہے 

جی اچھا وہ بھی اپنا پرس اٹھا کر چلی گئی

-------------------------------------------------------

مما میں کسی لگ رہی ہوں 

سعدیہ اور ہاجرہ بیگم کمال صاحب کے ساتھ پہلی گاڑی میں ہی آ گیں تھی یوسف اور ماہم پچھلی گاڑی میں تھے

 ماشاللہ میری بیٹی بہت سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہے آج"

 وہ انکے گلے لگ گئی

 سمیہ ادھر آؤ ہم گانے شروح کر رہے ہیں پیچھے سے اک لڑکی نے آواز دی 

اچھا مما میں چلتی ہوں وہ که کر باقی لڑکیوں کی طرف بڑھ گئی

 ماشاللہ سعدیہ بیگم نے اک دفع پھر اسے دیکھ کر دل میں کہا

 کچھ ہی دیر میں یوسف بھی ماہم کے ساتھ پہنچ گیا 

اسکی متلاشی نگاہیں وہاں اتے ہی سیم کو ڈھونڈنے لگ گیں

 مہندی کا سارا انتظام لان میں ہی کیا گیا تھا لان کے بیچ میں اسٹیج سجایا گیا تھا اور اسٹیج کے سامنے لڑکیاں نیچے بیٹھ کر ڈھولک بجا رہی تھیں اور گانے گا رہی تھیں یوسف کو وہ لان میں کہیں نظر نہیں ای شائد اندر ہو وہ سوچ کر اک کرسی پر بیٹھ گیا

 ماہم ہاجرہ بیگم کے ساتھ تھی

 اک دفع پھر اس نے سارے لان پر نگاہ دوڑائی پر ناکام ہی لوٹی شائد اس لئے کے وہ ووہی اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں والی لڑکوں کے حلیے میں پھرنے والی سیم کو ڈھونڈ رہا تھا پر وہاں تو سمیہ تھی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ

--------------------------------------------------------------

سمعیہ اب تم کوئی گانا  سناؤ مہک نے کہا

" میں پر مجھے تو کوئی گانا پورا اتا ہی نہیں"

 کوئی بات نہیں جتنا اتا ہے اتنا سنا دو

 تم ہی بتا دو کون سا سناؤں "

 نادیہ کے  لئے کوئی سا بھی گا دو

 اچھا ٹھیک ہے اس نے گانا  شروح کیا پردیسی پردیسی جانا نہیں ہمیں چھوڑ کر ہمیں چھوڑ کر پردیسی میرا یار وعدہ نبھانا ہمیں یاد رکھنا کہیں بھول نہ جانا پردیسی پردیسی جانا نہیں آواز تھی کے کوئی جادو تھا یوسف کے کانوں میں جیسے رس سا گھل گیا ہو لڑکی کی اس کی طرف پشت تھی اس لئے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پایا پر آواز سیم جیسی ہی لگی لیکن پھر خود ہی اپنے آپ کی نفی کی سیم اس حلیے   میں اور  گانا  ناممکن

 واہ جی جتنی آپ خود خوبصورت ہیں اتنی ہی پیاری آپکی آواز ہے اک لڑکی نے کہا  

ویسے یہ گانا نادیہ کے لئے تو نہیں تھا کس پردیسی کے لیا گایا تم نے  مہک نے سرگوشی کی وہ بس مسکرا دی 

 چلو لڑکیو اٹھو اب نادیہ کو لے آؤ باہر" وہ سب اٹھ کھڑی ہوئیں

------------------------------------------------------------------

سمیہ تم اور مہک دوپٹے کو اگے سے پکڑنا اور اگر میں گھبراہٹ کے مارے گرنے لگی  تو سنھبال لینا

 نہیں یار یہ  سنھبالنے والا کام تو قاسم بھائی ہی کریں گے مہک نے شرارت سے اسکے دولہے کا نام لیا باقی سب ہنس دی

 لڑکیوں اب آؤ بھی باہر سے کسی کی آواز ای

 سب نے اک دفع پھر اپنا اپنا میکپ ٹھیک کیا سمیہ اور مہک نے دوپٹے کا  اک اک کونہ تھاما بیچ میں  کچھ شرماتی اور کچھ گھبراتی سی نادیہ کھڑی ہو گئی کمرے سے نکلتے ہی مووی میکر سامنے آ گیا اور مووی بنانے لگا فلیش انکے چہروں کو اور بھی زیادہ روشن کر رہی تھی 

ماشاللہ دلہن کتنی پیاری لگ رہی ہے یوسف نے اک عورت کی بات سن کر موبائل  سے سر اٹھایا 

نادیہ آپی واقعی پیاری لگ رہی تھیں

  یہ دلہن کے دائیں طرف کون ہے اسی عورت نے پوچھا

 یوسف نے اب کہ دائیں طرف کا کونہ تھامے لڑکی کو دیکھا ارے یہ اپنی سعدیہ کی چھوٹی بیٹی ہے بھلا سا کوئی نام تھا اب یاد نہیں آ رہا

 یوسف نے اتنا ہی سنا پھر ساری دنیا میں اس کے لئے جیسے خاموشی چھا گئی پلکوں نے جھپکنے سے انکار کر دیا ہونٹوں نے  آہستہ سے اسکا نام لیا "سی

کیا یہ واقعی سیم ہے میری سیم لیکن یہ تو

 اس نے سر جھٹکا

 پھر نظر اٹھا کر اسے دیکھا یہ کیسے ہو سکتا ہے اس کی نظریں سیم پر جم سی  گیں تھیں وہ سیم کو پاگلوں کی طرح دیکھ رہا تھا بلکل ایسے جیسے کوئی مردہ اٹھ کر آپکے سامنے کھڑا ہو جائے اور اپ اسے جس طرح دیکھو یقین ہی نہ اے کے ایسا بھی ہو سکتا ہے

 سمیہ اور باقی  لڑکیاں نادیہ کو اسٹیج پر بیٹھا چکی تھیں وہ نیچے اتر کر سعدیہ بیگم کے پاس آ گئی

 مما تائی وغیرہ سب آ گئے ہیں کیا اس نے ڈھکے چپے لفظوں میں یوسف کا پوچھا اور سعدیہ  سمجھ  بھی گیں

 ہان بیٹا سب یہیں ہیں یوسف کی اک دوست بھی ای ہے

 یوسف کی دوست  اک لمحہ بس اک لمحہ لگا تھا اسکی ساری خوشی غائب ہوتے ہووے

 آنکھوں کے سامنے فوراً ہی یوسف کی اس لڑکی کے ساتھ کھنچی گئی تصویر آ گئی کانوں میں اس دن کی فون کال کی باتیں گونجی

 اسے خود پر ہنسی ای وہ کیسے خود کو اتنا پاگل بنا سکتی ہے سب کچھ کیسے بھول سکتی ہے نہیں میں بلکل نہیں ہاروں  گی اس دل کے سامنے یوسف کے سامنے اس نے آنکھوں میں ہے آنسوں کو بہت مشکل سے اندر اتارا 

شکر  تھا مما کسی عورت سے باتوں میں لگ گئی تھیں ورنہ سوال ضرور کرتیں

 یوسف ابھی بھی اسے  ہی تکے جا رہا تھا  یقین تھا کے انے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا وہ اندر چلی گئی اور آنکھوں سے غائب ہوئی تو وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا یہ سمیہ ہی تھی اس نے خود سے کہا اور اندر کی طرف بھگا

 ابھی اندر قدم رکھا ہی تھا کے ماہم سے ٹکرا گیا 

آہ ! ماہم کی آواز نکلی

 ام ریلی سوری  تم ٹھیک تو ہو ماہم ہان ٹھیک ہوں اس نے مسکرا کر کہا 

سمیہ نے یوسف کو ماہم سے ٹکراتے اور اب باتیں کرتے دیکھ لیا تھا ماہم کو بھی وہ پہچان گئی تھی

 اسے لگا تھا وہ یوسف کو اتنے عرصے بعد دیکھ کر بہت خوش ہوگی اور سری ناراضگی خود ہی مٹ جائے گی پر نہیں ایسا نہیں ہوا تھا

 اسے یوسف کو دیکھ کر خوشی کم اور غصہ زیادہ آ رہا تھا یوسف میں بھی کوئی عام سی لڑکی نہیں ہوں جو اپنے عشق کو تم پر ظاہر کر دوں ٹھیک ہے اس کے ساتھ خوش ہو تو ایسا ہی سہی میں بھی اپنی اداسی اب تم پر ظاہر نہیں کروں گی

 وہ سوچ کرباہر کی طرف چل دی

 پر وہ انکے ساتھ سے گزر ہی رہی تھی کے یوسف کی اس پر نظر پر گئی

 سیم اس نے پکارا وہ ناچاہتے ہووے بھی روک گئی

  پلٹ کر اسے دیکھا 

یوسف کا تو دل دھڑکنا بھول گیا بہت پیاری لگ رہی ہو وہ خود کو کہنے سے روک نہ پایا 

مجھے پتا ہے لیکن پھر بھی بتانے کا شکریہ لہجے میں اجنبیت تھی 

 ماہم بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئی تھی کیا یوسف کی سیم اتنی پیاری ہے

 سیم  یہ ماہم ہے یوسف نے تعارف کروایا 

ارے یوسف تم رہنے دو میں خود ہی اپنا تعارف کروا دیتی ہوں

 میرا نام ماہم ہے میں یوسف کی دوست ہوں اور اپ.. اس نے انجان بن کر پوچھا جب کہ وہ اسے پہچان چکی تھی

 یہ سیم ہے میری دوست یوسف جھٹ بولا

 پر سمیہ کو ناگوار گزرا یوسف تم رہنے دو میں بھی اپنا تعارف خود کروا سکتی ہوں اس نے اک نظر یوسف کو دیکھ کر کہا 

ماہم میں سمیہ ہوں اور میں بھی یوسف کی دوست تھی اس نے سمیہ اور تھی پر زور دیا

 اچھا  اپ لوگ انجوے کریں میں چلتی ہوں وہ جلدی سے باہر نکل گئی

 یوسف مجھے تو لگتا ہے تم تنہا ہی محبت کا شکار ہو اس طرف تو ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں ماہم نے اس کے جانے کے بعد کہا

 یوسف مسکرا دیا اسکی سمجھ میں اصل بات آ گئی تھی

سمیہ لان کے اک کونے میں آ کر بیٹھ گئی

 یہاں روشنی بھی کم تھی اس لئے وہ آرام سے رو سکتی تھی یوسف کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا اور اس وقت وہ اسی تکلیف سے گزر رہی تھی میں کیسے برداشت کروں گی ان دونوں کو ساتھ  آخر کیسے وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی

 یوسف ماہم سے  معذرت کر کے سیم کے پیچھے آیا پر وہ اسے لان میں کہیں دکھائی نہیں دی بہت ڈھونڈنے کے بعد آخر وہ اسے اک تاریخ گوشے میں بیٹھی مل گئی 

وہ بغیر آواز کیے اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا

اتنارؤ گی تو میکپ خراب ہو جائے گا

 سمیہ نے چونک کر سر اٹھایا اور پھر جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور  مونھ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئی

 ویسے کیا اس تبدیلی کی وجہ پوچ سکتا ہوں نہیں نہیں پوچ سکتے اس نے مونھ اس کی طرف نہیں کیا 

یوسف ہنس دیا ویسے تم یوں بلکل اچھی نہیں لگ رہی

 اب کی بار سمیہ نے چہرہ اس کی طرف کیا ہان نہ اب میں کیوں اچھی لگنے لگی

 اس سے مزید رہا نہ گیا شکایت کر ہی بیٹھی

تمھیں ماہم کیسی لگی"

 اس سے کیا فرق پڑتا ہے کے مجھے وہ کیسی لگی فرق تو اس سے پڑتا ہے کے تمھیں وہ کیسی لگی "

 یوسف مسکرا دیا 

یعنی تمھیں میری سوچ سے فرق پڑتا ہے"

 ہرگز نہیں مجھے بھلا کیوں  پڑے  گا ہان البتہ تایا تائی کو ضرور اعترض ہوگا

کس بات پر اس نے حیرانی سے پوچھا

 تمہاری اس سے شادی پر ویسے اگر میری راۓ مانگو تو اس سے شادی نہ کرو مجھے تو وہ تمہاری ساتھ کچھ خاص نہیں لگی اور تایا تائی بھی تمہاری کسی باہر کی لڑکی سے شادی نہیں کریں گے اس نے چھپے لفظوں میں دل کی بات کہ دی

 یوسف کا قہقہ گونجا

 لیکن پھر اسے ستانے کے لئے بولا تم فکر نہ کرو انہیں منانا میرا کام ہے بس ذرا لڑکی سے اقرار کروانا ہے

سمیہ کا دل چاہا یوسف کے مونھ پر اک تھپڑ مارے

 بڑا آیا لڑکی سے اقرار کروانے والا میں جو اتنے سالوں سے اسے چاہتی ہوں وہ نظر نہیں آیا

 لیکن کڑا ضبط کر کے بولی ٹھیک ہے منا لینا مجھے کیا وہ کہ کر اٹھنے لگی 

کیوں کے آنکوں میں اک دفع پھر آنسو بھر رہے تھے

 لیکن یوسف نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا سمیہ نے حیرانی سے اسے دیکھا بیٹھو مجھے بات کرنی ہے اس نے سنجیدگی سے کہا

 سمیہ  اسکی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ کر بیٹھ گئی

یوسف نے اک بھرپور نظر اس حسن کی شہزادی پر ڈالی 

 اس نے سکن کلر کا پیروں تک اتا فراک پہن رکھا تھا بالوں کو اپر سے سٹریٹ اور نیچے سے تھوڑا سا کرل کیا ہوا تھا لال رنگ کا گوٹے دار دوپٹہ کہندوں پر تھا

 تمہارے بال بہت خوبصورت ہو گیے ہیں اس نے میں ساختگی میں کہا

 تمھیں یہ بات کرنی تھی"

 وہ ہوش میں آ گیا اور پھر مسکرا دیا 

...نہیں مجھے تمھیں بتانا ہے کے مجھے

 یوسف تم یہاں ہو میں کب سے تمھیں ڈھونڈ رہی ہوں ماہم نے آ کر کہا سمیہ کا دل چاہا اسے وہاں سے کسی طرح غائب کر دے

یوسف کو بھی اسکی مداخلت پسند نہیں ای تھی پر پھر بھی تحمل سے پوچھا

 کیا ہوا ہے ماہم کوئی مسلہ ہے کیا ہان  نہ میں بور ہو رہی ہوں میں نے تمھیں وہاں کتنی کمپنی دی تھی لیکن تم مجھے یہاں بلکل بھی انجوے نہیں کروا رہے

اس نے سمیہ کو نظر انداز کر کے کہا

 سمیہ تم ماہم کو کمپنی دو میں ذرا باقی سب سے مل لوں

 سمیہ نہ چاہتے ہووے بھی  اٹھ گئی  آؤ ماہم وہ کہ کر اگے اگے چلنے لگی ماہم بھی ساتھ ہو لی

 تم یوسف کی کوئی ریلاٹو بھی ہو کیا 

"ہان میں اسکی کزن ہوں"

 اچھا ویسے تو  یوسف  سبھی کا ذکر کرتا تھا اک تمہاری ہی بات کبھی نہیں کی بس سرسری سا بتایا تھا کے اسکی کوئی کزن بھی ہے

 سمیہ کو سن کر برا لگا یعنی میں اس کے لئے اتنی غیر اہم ہوں

 تمھیں پتا ہے میں یوسف کی سب سے اچھی دوست ہوں

 وہاں وہ سارا وقت میرے ساتھ ہی رہتا تھا بلکہ  اس کے یونی فیلوؤس تو مجے اس کی گرل فرینڈ ہی سمجھتے تھے

 سمیہ سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا

 ماہم تم یہاں بیٹھو میں ابھی ای  وہ جلدی سے  وہاں سے  ہٹ گئی

 کیوں کے  اگر تھوڑی دیر بھی وہاں اور رکتی تو ماہم کا منہ تھپڑوں سے لال کر دیتی  ماہم اس کے جانے کے بعد مسکرا دی

پورے مہندی کے فنکشن میں وہ ماہم کی باتیں  ہی سوچتی رہی

 یوسف سے بھی کینچی کھنچی رہی اسی طرح بارات اور ولیمہ بھی گزر گیا یوسف اس کی ناراضگی سمج رہا تھا پر فلحال چپ تھا

-----------------------------------------------

مما اب تو شادی بھی ختم ہو گئی یہ ماہم واپس کب جائے گی اس نے چاۓ پیتے ہووے پوچھا 

ابھی تین دن ہی تو ہووے ہیں انہیں آے تمھیں انکے جانے کی اتنی جلدی کیوں پڑ گئی"

 نہیں مجھے کیا جلدی ہوگی مما میں تو ویسے ہی پوچ رہی تھی"

 تمھیں پتا ہے بیٹا یہ جو ماہم ہے نہ اسے کینسر ہے"

 کیا سمیہ بہت حیران ہوئی اپ کو کس نے بتایا "

 ہاجرہ بھابی بتا رہی تھیں"

 کینسر ہے تو ادھر کیا کر رہی ہے جا کر علاج کرواۓ"

 وہ علاج کروانے سے ابھی ڈر رہی ہے یوسف بیچارہ رو بہت کوشش کر رہا ہے کے مان جائے پر وہ مانتی ہی نہیں

سمیہ کو بھی اس پر ترس آیا 

اچھا مما میں جا کر ذرا اس سے مل آؤں وہ چاۓ ختم کر کے انکی طرف چلی گئی

 اسلام و علکیم تائی

 وعلیکم اسلام کیسی ہو بیٹا

 میں ٹھیک ہوں اصل میں میں ماہم سے ملنے ای تھی کہاں ہے وہ"

 وہ تو گیسٹ روم میں ہے وہیں جا کر مل لو"

 جی اچھا وہ گیسٹ روم کی طرف چلی گئی

------------------------------------------

نہیں میں یوسف کے ساتھ ہی آؤں گی.... ارے نہیں یار اسے ابھی نہیں پتا چلا ہمارے جھوٹ کا پر میں سوچ رہی تھی کے اسے کبھی نہ کبھی تو پتا چلنا ہی ہے اس لئے علاج کا ناٹک بھی شرح کر دوں.... پھر کیا میں اس سے کہوں گی کے میری آخری خواھش پوری کر دو اور مجھ سے شادی کر لو سمپل... نہیں یار دیکھنا میں منا ہی لوں گی اسے

سمیہ پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹا وہ جرمن میں بول رہی تھی پر اتنی جرمن تو سمیہ نے بھی سیکھی ہوئی تھی کے اس کی بات سمجھ پاتی

 وہ شدید غصے میں اندر گئی ماہم اسے دیکھ کر حیران ہوئی پھر فون کان سے ہٹا کر بند کیا

 کیسی ہو سیم? سمیہ نے کھنچ کر اسکے مونھ پر تھپڑ مارا

-----------------------------------------------------------------

مما میں ذرا سمیہ کی طرف جا رہا ہوں وہ انکو بتانے آیا

 وہ تو یہیں ہے ماہم کے کمرے میں گئی ہے ابھی"

 ماہم میں کمرے میں...  وہ حیران ہوا

 میں جا کر دیکھتا ہوں وہ کہ کر گیسٹ روم کی طرف چل دیا

ماہم تم جیسی لڑکی کو تو واقعی مر جانا چاہیے ہمت کیسے ہوئی تمہاری یہ سب کرنے کی... یوسف کو پھنسانے کی

 پر میں نے کسی کو نہیں پھاسیا سمیہ

 اسے معلوم نہیں تھا کے سمیہ کو سب پتا چل چکا ہے اس لئے معصومیت سے بولی

 میں پہلی اور آخری بار کہ رہی ہوں یوسف سے دور رہو ورنہ مونھ طور دوں گی تمہارا

  یوسف اندر داخل ہو چکا تھا اور ان دونوں کی باتیں بھی سن لی تھیں

 سمیہ یہ سب کیا ہو رہا ہے"

یوسف کیا تمہارے گھر یوں ہی ہوتا ہے گھر اے مہمانوں کو یوں بے عزت  کیا جاتا ہے"

  آخر ہوا کیا ہے"

 میں اپنی ڈاکٹر سے اپنی دوائی کی بات کر رہی تھی کے اچانک  سیم نے آ کر مجھے تھپڑ مرا اور پتا نہیں کیا کیا کہے جا رہی ہے اس نے روتے ہووے بتایا

 یوسف نے حیرانی سے سمیہ کو دیکھا

 ڈاکٹر سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے  میں ہی تمھیں زہر دے دیتی ہوں مرنے میں آسانی ہوگی کب تک تکلیف برداشت کرو گی سمیہ کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا

 سمیہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو یوسف نے غصے سے کہا

 بکواس میں نہیں یہ تمہاری سہیلی کرتی ہے میں نے خود سنا ہے اسے کسی سے فون پر کہتے ہووے کہ اسے ...ابھی اس کی بات جاری تھی کے ماہم بیہوش ہو کر گر گئی

 یوسف جلدی سے اسے اٹھانے کے لئے اگے بڑھا 

واہ اب اک نیا ڈرامہ

 سمیہ چپ کر جاؤ تمھیں معلوم بھی ہے اسے کینسر ہے"

 بکواس کرتی ہے یہ سارا ناٹک ہے اسکا"

 تم  جاؤ یہاں سے سیم اس نے غصے سے کہا اور ماہم کو ہوش لانے کی کوشش کرنے لگا

 یوسف تم مجھ سے  ایسے بات کیسے کر سکتے ہو میں تمھیں بتا رہی ہوں نہ یہ جھوٹی ہے"

 سمیہ میں نے کہا نہ جاؤ "

وہ روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

--------------------------------------------

یوسف ماہم کے پاس ہی بیٹھا رہا کچھ ہی دیر میں اسے ہوش آ گیا

 ماہم میں ابھی آیا اسے سمیہ سے بات کرنی تھی

 یوسف میری طبیعت خراب ہو رہی ہے تم یہیں رہو"

 ٹھیک ہے پھر چلو ہسپتال چلتے ہیں میں مزید تمہاری ضد نہیں مانوں گا

 وہ کہ کر پچتائی

 نہیں اتنی بھی خراب نہیں ہے میں بس آرام کروں گی تم جاؤ"

 پر ماہم

 پلیز یوسف وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر آ گیا 

---------------------------------------

سمیہ بگیچے میں بیٹھی رو رہی تھی

 سیم یہ تم نے کیا حرکت کی ہے اس نے استفار کیا 

بس اتنا بتاؤ تمھیں مجھ پر عتبار ہے کے نہیں سمیہ نے آنسو صاف کر کے پوچھا

 ہے"

 وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا

 جو کہوں گی اس پر عتبار کرو گے اس نے یوسف کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا

 کروں گا"

 ٹھیک ہے تو سنو میں نے خود ماہم کو کسی سے بات کرتے سنا تھا کے اسے کینسر نہیں ہے اس نے صرف تمھیں پانے کے لئے جھوٹ بولا ہے وہ تمھیں اموشنل بلیک میل کر کے تم سے شادی کرنا چاہتی ہے یوسف کے لئے یہ انکشاف حیران کن تھا پر جلد ہی حیرانی ہی جگہ  غصے نے لے لی

 آؤ میرے ساتھ یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ماہم کے کمرے میں لے آیا

 -----------------------------------------------

وہ اپنا پاسپورٹ پرس میں رکھ رہی تھی کیوں کے وہ جانتی تھی اسکا بھانڈا پھوٹ چکا ہے

 ماہم تم نے یہ کیوں کیا یوسف نے غصے سے پوچھا

 یوسف میں تم سے محبت کرتی ہوں اس لئے یہ سب کیا میں صرف تمہارے قریب رہنا چاہتی تھی وہ اس کے پاس ای

 سمیہ نے اگے بڑھ کر اک اور تھپڑ اسکے منہ پر مارا

 خبردار جو اور بکواس کی دفع ہو جاؤ ہمارے گھر سے سمیہ کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا قتل کر دے

 سمیہ کنٹرول یور سلف یوسف نے اسے پیچھے ہٹایا 

اے لڑکی تمھیں کیا لگتا ہے تم مارتی رہو گی اور میں مار کھاتی رہوں گی اس نے اگے بڑھ کر سمیہ کو تھپڑ مارنا چاہا لیکن یوسف نے اگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا سیم کو نقصان پہچانے کا سوچنا بھی مت ورنہ آج سے پہلے جو تمہاری جان بچانا چاہتا تھا وہی اب تمہاری جان لے لے گا

 سیم حیرانی سے یوسف کو دیکھتی رہی

 اسے وہ بچپن کا یوسف یاد آ گیا تمہارے لئے بہتر یہی ہے کے چپ چاپ یہاں سے اور ہماری زندگی سے دفع ہو جاؤ 

.... پر یوسف سنا 

نہیں تم نے دفع ہو جاؤ وہ غرایا 

پر یوسف میں تم سے محبت کرتی ہوں اس نے روتے ہووے کہا 

 یہ میرا مسلہ نہیں ہے وہ کہ کر باہر چلا گیا

 سمیہ بھی اک نظر اس پر ڈال کر بھر نکل ای

---------------------------------------------

ڈاکٹر اسے ہوش آیا کیا وہ  ای سی یو کے باہر کھڑے تھے

 ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں پر کٹ بہت گہرا ہے اس لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا اپ بس دعا کریں ڈاکٹر کہ کر اگے بڑھ گیا

وہ سب پریشانی سے وہیں کھڑے رہ گئے ماہم نے ان دونوں کے جانے کے بعد اپنی نبض کاٹ لی تھی یوسف جب دوبارہ اس کے کمرے میں آیا تو اسے بیہوش پایا اس لئےجلدی سے اسے ہسپتال لے آیا 

سیم اور کمال صاحب بھی ساتھ تھے پولیس کو کمال صاحب  نے ہی سنھبال لیا تھا

 یوسف نے ماہم کے باپ کو بھی کال کر دی تھی اور انہی سے پتا چلا تھا کے وہ  سائکیک پیشنٹ تھی

 وہ سب دل سے  اس کی زندگی کے لئے دعا گو تھے غصہ اپنی جگہ پر جان زیادہ قیمتی تھی 

 کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر دبارہ باہر آیا 

سوری ہم نے اپنی پوری کوشش کی پر انہیں بچا نہیں پاۓ

 سمیہ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اسے اپنے کے پر افسوس ہونے لگا 

یوسف کو بھی بہت دکھ ہوا پر اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کے جانے والا تو جا چکا تھا

کچھ ہی گھنٹوں بعد ماہم کے پاپا بھی آ گیے انہوں نے ڈیڈ باڈی کو واپس لے جانے کا فیصلہ کیا اس طرح وہ اس کے نمازے جنازہ سے بھی محروم رہ گئے

 -----------------------------------------------------

ماہم کو مرے پورا مہینہ گزر گیا تھا

 یوسف نے یونی چھوڑ کر یہیں کمال صاحب کا بزنس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا تھا سب کچھ معمول کی طرف لوٹ آیا تھ

 سمیہ ابھی بھی یوسف سے  پہلے کی طرح  بات نہیں کرتی تھی اس کے دل میں یہ بات اب بھی کانٹے کی طرح چھبتی تھی کے یوسف اس سے محبت نہیں کرتا

 بس عام سا دوست سمجھتا ہے

-------------------------------------------------

 صبح سے ہی گھر میں اسے غیر معمولی چہل پہل نظر آ رہی تھی

  مما ہر چیز کی اچھے سے صفائی کروا رہی تھیں پاپا بھی گھر پر تھے اور بھی کسی خفیہ کام میں مصروف تھے

 مما آج کچھ خاص ہے کیا نہیں تو  تمھیں ایسا کیوں لگا" ویسے ہی خیر چھوڑیں میں یہ بتانے ای تھی کے میں ذرا پالر جا رہی ہوں"

 ہان ضرور جاؤ  بلکہ میں بھی یہی کہنے والی تھی ایسا کرنا فیشل کروا لینا اور بالوں کی ٹرمنگ بھی اچھا ٹھیک ہے وہ کہ کر چلی گئی

 اپائنٹمنٹ  نہ  لینے کی وجہ  سے پارلر میں اسے دیر لگ  گئی

 شام کو وہ تھکی سی گھر ای اور سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی

 ابھی اسے لیٹے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے یوسف اس کے کمرے میں آ گیا

 سمیہ اٹھو جلدی سے پہلے  تو وہ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی

 یوسف تم ذرا تمیز سیکھ لو کسی کے کمرے میں یوں ہی نہیں گھس جاتے اس نے بستر سے اٹھ کر ڈانٹا 

میں کسی کے کمرے میں تو نہیں آیا میں تو تمہارے کمرے میں آیا ہوں اس نے مسکرا کر کہا

 بات کیا ہے کیوں آے ہو"

 تمھیں کچھ دکھانا ہے آؤ میرے ساتھ وہ کہ کر باہر چلا گیا

 ناچار سیم کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا

 اب  روکو اس نے بگیچے کے سامنے آ کر کہا 

آخر دکھانا کیا ہے"

 آنکھیں بند کرو"

 پاگل ہو کیا میں نے کہا نہ بند کرو آنکھیں"

 نہیں کروں گی"

 تمھیں سیدھی طرح کوئی بات سمجھ ہی نہیں اتی اس نے اپنا ہاتھ اسکی آنکوں پر رکھ دیا 

 اچھا کرتی ہوں ہاتھ تو ہٹاؤ

 یہ ہوئی نہ بات سمیہ نے آنکھیں بند کر لی

 یوسف اسکا ہاتھ پکڑ کر سیدھا چلاتا گیا

 اب کھولو سمیہ نے آہستہ سے آنکھیں کھولی

 پر سامنے کا منظر دیکھ کر آنکھیں حیرانی سے مزید کھل گیں وہ جھولا جس پر وہ بچپن سے جلھولتے آے تھے

 اس درخت پر بندھا تھا جس کے نیچے وہ گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے اور یہ دونوں چیزیں روشنیوں میں نہا رہی تھیں

... یوسف یہ سب 

... تمہاری لئے سیم

 بیٹھو یہاں اس نے جھولے کی طرف اشارہ کیا 

سمیہ ابھی بھی حیران تھی

 بیٹھو نہ وہ یوسف کو دیکھتے ہووے بیٹھ گئی

 یوسف اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوگیا اور آہستہ آہستہ جھولا جھلانے  لگا 

تمھیں پتا ہے سیم مجھے بچپن سے ہی تمھیں یوں جھولا جھولنا بہت پسند رہا ہے

 کاش تمھیں بچپن سے میں بھی پسند رہی ہوتی سیم نے سوچا 

اک اور بات بتاؤں بچپن سے ہی تم بھی مجھے پسند رہی ہو سمیہ نے حیرانی سے گردن مور کر اسے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا

جھوٹ اس نے چہرہ سامنے کر لیا

 تمھیں ماننا ہی پڑے گا سیم کے میں تمھیں بچپن سے ہی پسند کرتا ہوں بلکہ نہیں محبت کرتا ہوں بلکہ یہ بھی نہیں میں تو تم سے عشق کرتا ہوں

 پھر جھوٹ

 وہ پیچھے سے ہٹ کر اس کے سامنے آ  کر بیٹھ گیا 

مجھے سے شادی کرو گی 

نہیں سمیہ نے منہ دوسری طرف کر لیا آنکوں میں آنسو آ گئے

 پر میں تو شادی ضرور  کروں گا اور تم سے ہی کروں گا"

 اتنا ہی  شوق تھا مجھ سے شادی کرنے کا تو تائی کو کیوں منع کیا تھا تم نے"

 اب کی بار اس کی آنکوں میں دیکھ کر سوال کیا میں نے کب کیا وہ حیران ہوا پھر اچانک ہی اسے یاد آیا  وہ مسکرا دیا

 تم چپ کر باتیں سن رہی تھی"

 نہیں میں تو تمھیں منانے ای تھی"

 میں نے غصے میں کھا تھا وہ سب سیم مجھے بہت برا لگا تھا جب سرمد کا رشتہ تمہارے لئے آیا تھا مجھے لگا اس میں تمہاری مرضی بھی شامل ہے  پتا نہیں کیوں میں نے وہ سب سوچا جب کہ میں جانتا تھا کے تم صرف میری ہو ہو نہ اس نے بڑے پیار سے پوچھا 

 سمیہ کا دل چاہا چلا چلا کر ہان کہے پر اب جب کہ لڑکیوں جیسی بن ہی گئی تھی تو ذرا لڑکیوں جیسے نخرے بھی تو دکھانے تھے اس لئے نہیں بول دیا 

 یوسف اس کے سامنے سے اٹھ کر پھر اسکے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا  میں آخری بار پوچ رہا ہوں مجھ سے محبت ہے کے نہیں

 سمیہ نے اک دفع پھر مسکرا کر نفی میں سر ہلایا یوسف بھی مسکرا دیا

سیدھی بات کا تم پر اثر نہیں ہوتا لو بھگتو

 یوسف نے زور زور سے جھولا جھلانا شرح کر دیا 

روکو یوسف روکو میں گر جاؤں گی

 وہ ہمیشہ سے ڈرتی تھی پہلے بتاؤ ہان یا نہ 

"نہ اس نے رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر کہا

 یوسف نے جھولے کو اور زور سے جھلایا 

روکو یوسف وہ چلا رہی تھی

 ہان یا نہ"

 ہان ہان ہان اس کی جان نکل رہی تھی

 یوسف نے اگے بڑھ کر جھولے کو تھام لیا جھولا رک گیا اس نے اک دفع پھر پوچھا ہان یا نہ"

 سمیہ نے نفی میں سر ہلایا چلو پھر تیار ہو جاؤ جھولا لینے کے لئے

 وہ دونوں ہنس دیے

وہ اک دفع پھر پیچھے آیا سمیہ تمہارے بال بہت پیارے ہیں کل انہیں کھلا چھوڑنا 

اس نے کہ کر اس کے کیچر میں جکڑے بال کھول دیے

  کیوں کل کیا خاص بات ہے کل ہمارا نکاح ہے

 کیا سمیہ چیخی پر مجھے تو کسی نے نہیں بتایا

 ارے  تمہارا دلہا تمھیں خود بتا تو رہا ہے میں اتنی جلدی نہیں کروں گی مجھے تھوڑا وقت تو دو مجھے اپنے جوتے کپڑے زیور یہ سب بھی تو لینا ہے

 وہ سب ہم نے خرید لیا ہے تم نے بس ہان کرنی ہے"

 میں تو نہیں کروں گی "

 میں نکاح کا انتظام یہیں جھولے پر کروا لوں گا پھر دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتی وہ ہنس دی

 اسے اپنے صبر کا پھل مل گیا تھا

 --------------------------------------------

انکی شادی کو دو مہینے گزر گئے تھے

 وہ دونوں آج داتا دربار پر سلام کرنے اے تھے 

سمیہ کو وہ بوڑھی عورت وہیں مل گئی 

 مل گیا تمجے تیرا عشق اس  نے  مسکراتے ہووے پوچھا

 ہان مائی تم میرا انجام دیکھنا چاہتی تھی نہ یہ ہے میرے عشق کا انجام اس نے یوسف کو پیار بھری نظروں سے دیکھا

 عشق یہی تو ہے کبھی رولاتا ہے کبھی   جھکاتا ہے تو کبھی ہساتا ہے  تو چل جا کر سوہنے رب دے حضور شکرانے کے نفل پڑھ آ رب راضی ہو گا تو جگ راضی ہوگا

 وہ کہ کر چلی گئی اور وہ دونوں نماز ادا کرنے چل دیے

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tere Ishq Nachaya Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tere Ishq Nachaya  written by Hoor Shamaile. Tere Ishq Nachaya by Hoor Shamile is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment