Pages

Thursday 15 August 2024

Mohabbat Aik Samundar By Beena Khan New Complete Romantic Novel

Mohabbat Aik Samundar By Beena Khan New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Aik Samundar By Beena Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name: Mohabbat Aik Samundar

Writer Name: Beena Khan

Category: Complete Novel

میٹرک کلاس کا آج لاسٹ پریکٹیکل دے کر وہ گھر آئی تو خاموش سی تھی کھانا بھی نہیں کھایا آتے ہی اپنے روم میں چلی گئی رات کے کھانی پہ بھی اس نے برائے نام ہی کھایا اور اٹھ گئی ماما نے پوچھا بھی مگر وہ طبیعت کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں آگئی طبیعت میں تھوڑا بوجھل پن سا تھا وہ آکے بیڈ پہ بیٹھ گئی آج کے واقعے کے بارے میں سوچنے لگی آج اسکول میں اس کے ایک کلاس فیلو نے اسے پرپوز کیا تھا وہ کنفیوز ہوگئی تھی کہ کیا جواب دے وہ فطرتا بہت شرمیلی سی تھی اسے کچھ نہ سمجھ آیا اور وہ لڑکا جو اس کے جواب کے انتظار میں تھا  اسے جواب دیے بغیر گھر آگئی

خیر کچا ذہن تھا کچھ دنوں تک وہ ڈسٹرب رہی اور پھر سب بھول گئی اسکول بھی ختم ہو گیا تھا اب وہ فری تھی

 وہ اسکول سے ہی بہت اچھی فٹ بال پلئیر تھی اب کالج

 میں بھی وہ اسپورٹس میں اپنا نمایا کردار ادا کرتی رہی 

وہ فٹ بال کھیل کے آئی پانی پی رہی تھی کہ اس کی فرینڈز چلی آئیں 

" یار عنیزہ دیکھو وہ لڑکا کتنا ڈیشنگ ہے نا" ہما کی بات پہ یشل اور عنیزہ نے بھی مڑ کے دیکھا سامنے علی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا ان تینوں کے دیکھنھ پر علی نے بھی دیکھا 

" توبھہ ہما کسی کو تو چھوڑ دو ہر آنے جانے والا تمہیں ہینڈسم لگتا ہےہر ایک پہ مر جاتی ہو" یشل چڑ کر بولی تو عنیزہ نے بھی اس کی تائید کی

" اففففف..... مر کون رہا ہے میں تو جسٹ بول رہی ہوں اور یہ صرف میں ہی نہیں کالج کی ہر لڑکی کہتی ہے"

" ویسے یہ بات تو ہما ٹھیک کہہ رہی ہے ہر لڑکی فدا ہے اس بندے پر پر یہ کسی کو گھاس بھی نہیں ڈالتا..... کل بھی وہ زینی والوں کا گروپ کہہ رہا تھا ایسا بندہ لائف میں نہیں دیکھا  پتا نہیں کس کا نصیب ہو گا یہ"  عنیزہ نے بتایا

" ٹوپک چینج کرو یار کیا لے کر بیٹھ گئے" یشل نے کہا " یہ بتاؤ سر کریم والے نوٹس بنے یا نہیں" یشل نے باتوں کا رخ چینج کردیا تھا 

                    ---------

وہ گھر آئی تو بے حد تھکی ہوئی تھی کھانا کھایا اور سو گئی شام میں اٹھ کے لان میں چلی آئی چاروں بہن بھائی لڈو کھیل رہے تھے اور مصطفٰی کسی بات پہ ناراض ہورہا تھا 

" کیا ہوا میرے بھییا کو کون تنگ کررہا ہے" وہ ان کے پاس آکے بولی

" آپی دیکھو نا ئی غزل مجھےبار بار ہرا رہی ہے گیم میں میں نے نہیں کھیلنی" وہ چڑ کے بولا

ارے میں ہوں نا میں اپنے بھائی کے ساتھ کھیلوں گی"

" رئیلی آپی اوہ گریٹ اب دیکھنا میں اس غزل کو کیسے ہراتا ہوں" وہ خوشی سے بولا تو غزل چڑ گئی

" ہاں بھائی تو آپی کا ہے میں تو بہن نہیں ہوں نا ان کی" وہ منہ پھلا کے بیٹھ گئی " ایک دن چلی جاؤں گی نا تو یاد کریں گی" وہ ہنس دی

" کہاں جانے لگی ہو تم ابھی تو بہت چھوٹی ہو"

" میں بات نہیں کررہی آپ سے "

" آں..... میری گڑےا تو ناراض ہو گئی مجھ سے" وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کے بولی

" ہاں" وہ ناراضی سے بولی

"اچھا نیکسٹ تمہاری ہیلپ کرواؤں گی جان دیکھو نا بھائی چھوٹا ہے" 

" میں بھی تو چھوٹی ہوں" 

"اچھا اوکے نیکسٹ ٹائم تم اب خوش" 

" پکا???"

" یس پکا" 

مسٹر اینڈ مسز وقار آفندی کے پانچ بچے تھے چار بئٹیاں اور ایک بیٹا بڑی بیٹی یشل ابھی میٹرک کے پیپر دے رہی تھی وہ بہت زیادہ لائق تھی  دوسری بیٹی کا نام مشعل تیسری کا نام امل اور چوتھی کا نام غزل تھا اور بیٹے کا نام مصطفٰی تھا 

زندگی بہت اچھی بسر ہو رہی تھی دونوں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بڑے ناز سے پالا تھا اور اچھی تعلیم و تربیت دے رہے تھے 

                       -------

دن یوں ہی تیزی سے گزرتے گئے یشل کا کالج میں ایڈمیشن ہوگیا تھا وہ ایف ایس سی پری میڈیکل کررہی تھی 

آج اتفاق سے سر احسان کی کلاس نہیں ہوئی تھی سب اسٹوڈنٹس بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ کوئی اس کے پاس آکے رکا 

" یشل ایکسکیوزمی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں " یشل ڈائس کے پاس کھڑی اپنی فرینڈز سے نوٹس ڈسکس کررہی تھی علی کے یوں کہنے پہ اس نے پلٹ کے دیکھا یہ تو وہی لڑکا تھا جس نے اسے میٹرک کلاس میں پرپوز کیا تھا  

" جی کہیے" 

علی گھٹنے کے بل نیچے بیٹھا اور دائیں ہاتھ میں پکڑی رنگ اس کی طرف بڑھائی پوری کلاس یک دم متوجہ ہوئی

" ول یو میری می یشل???" یشل کا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا اس نے نظر اٹھا کے پوری کلاس کو دیکھا سب ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے اور پھر علی کو دیکھا جو اس کی محبت میں ڈوبا اس کی ایک ہاں کا منتظر تھا

" یشل آئی لو یو سو مچ..... پتا نہیں کب سے میں تم سے محبت کرتا ہوں یہ میں خود بھی نہیں جانتا.....بس مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہاری محبت میں رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں اور تمہیں پانے کی چاہ رکھتا ہوں..... پلیز جواب دو" وہ بےصبری سے اس کی ایک ہاں کا منتظر تھا

یشل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبتوں کا سمندر موجزن تھا اور پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا

" یس آئی ڈو" یشل نے ایک ٹرانس کی کیفیت میں کہا اور شرما کے مسکرادی پوری کلاس خوشی سے شور مچانے لگی یشل یوں مسکراتی ہوئی بہت حسین لگ رہی تھی اتنے لوگوں میں وہ بہت زیادہ شرما رہی تھی علی نے بیت چاہت سے اس کا گلابی پڑتا چہرہ دیکھا اور مسکرا دیا اور کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ جو وہ پہلے ہی تھامیں ہوئے تھا اس میں رنگ پہنا دی

"تھینک یو تھینک یو مائے پرنسز ..... لو یو" علی محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا یشل مسکرادی.

                      -------

علی ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس کے بابا کی ڈیتھ ہو چکی تھی وہ چار بھائی اور تین بہنیں تھیں پہلے عمر پھر  شفق پھر عمار پھر انابیہ پھر علی اور حیدر اور لاسٹ میں فاطمہ تھی بابا کی ڈیتھ کے بعد ان کی ماں نے ان کی دیکھ بھال کی اچھی سے اچھی تعلیم و تربیت دی  عمر شفق اور عمار کی شادی ہو چکی تھی اور باقی بہن بھائی سب  اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے

علی کا ایڈمیشن بھی بہت اچھے اسکول میں تھا ان کی ماں نے ان لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا تھا اب اس کی باری تھی اپنی ماں کے لیے کچھ کرنے کی وہ بہت ہارڈ ورکنگ اسٹوڈنٹ تھا وہاں اس کی ملاقات یشل سی ہوئی آہستہ آہستہ وہ اسے پسند کرنے لگا اور یہ پسندیدگی محبت میں کب بدلی وہ جان ہی نا پایا اور سب سمجھ آئی تو بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے پاس گیا  اور اسے پرپوز کردیا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چلی گئی.

                      --------

شام میں سب چائے پی رہے تھے کہ علی تیار ہو کے آیا بلیک کرتے میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا  سنہری رنگت دمک رہی تھی صرف یہیں نہیں علی ویسے بھی بہت خوبرو تھا چھے فٹ سے نکلتا قد چوڑے شانے بلیک آئیز اور بلیک سلکی بال جو ماتھے پہ گرتے تھے وہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا

" کہیں جا رہے ہو???" بھابی نے پوچھا

" جی بھابی " اس نے مختصراً کہا

" اچھا باہر جا ہی رہے ہو تو لیلیٰ کو بھی لے جاؤ گھر میں بھی بور ہو رہی ہے یہ" شہلا بھابی نے فوراً اپنی بہن کو آگے کیا 

" آج نہیں بھابی پھرکبھی ابھی مجے تھوڑا کام ہے" کہہ کر وہ جانے لگا تو لیلیٰ بولی

" یہ کیا بات ہوئی مہمان سے عزیز تمہیں اپنے کام لگ رہے ہیں ناٹ فئیر"

" پلیز لیلٰی کہا ہے نا میں بزی ہوں اور ویسے بھی صبح تو تم بھابی کے ساتھ شاپنگ پہ گئی تھیں میں پھر کبھی لے چلوں گا باہر ورنہ اگر ابھی جانا ہے  توتم عمر بھائی کے ساتھ چلی جانا " اس نے امی کو اللٰہ حافظ کہا اور گیٹ عبور کیا

                    ----------

 یہ وقار کو تو دیکھو ذرا کیسی عیش سے جی رہا ہے ذرا بہن بھائی کا خیال نہیں کہ ان کو بھی کچھ دے دے" یہ بولنے والے وقار آفندی کے چھوٹے بھائی احمد آفندی تھے جو وقار آفندی کے سامنے بھائی بھائی کرتے نا تھکتے تھے

" تم تو چھوڑو چھوٹے ہو میں تو بڑی ہوں تم لوگوں سے مجھ کو بھی آج تک کچھ نہیں دیا حالانکہ اتنی دولت ہے اس کے پاس"

" خیر باجی یہ تو نا کہیں آپ پہلے خود بولتی ہیں کہ جب بھی وقار بھائی صاحب آتے ہیں اتنے تحائف لاتے ہیں اور کیش الگ دیتے ہیں " انعم نے کہا 

" تو ان تحائف اور دو پیسوں سے میرا کیا ہوگا پہلے بڑے بھائی صاحب نے بھی یہ ہی کیا انہوں نے بھی اپنی کمائی دولت میں سے ہمیں کچھ نہ دیا اور اب یہ وقار..... اللٰہ تو ان پہ بہت ہی مہربان ہے" رابعہ بولیں جو کہ وقار آفندی کی بڑی بہن تھیں

" یہ تو سچ کہہ رہی ہیں آپ" دونوں میاں بیوی نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی

" ویسے ان کی دولت پہ ہمارا بھی تو کچھ حق ہے نا آخر کو سگے بہن بھائی ہیں ان کے آپ لوگ" زرمینہ بھی بولی

" ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو ہمیں کچھ تو کرنا ہی پڑے گا" ہاشم آفندی بھی بولے

" پر کیا???" سمیہ ( وقار آفندی کی دوسری بہن)  بولیں تو ہاشم آفندی سوچ میں پڑ گئے

رات گہری ہو رہی تھی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی لب آپ ہی آپ مسکرارہے تھے بار بار آج کا واقعہ اس کے ذہن میں آرہا تھا کئی بار سونے کی کوشش کی مگر ناکام رہی تھک کے وہ اٹھ بیٹھی

 یہ محبت بھی کیا شے ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا تک نہ تھا جس کے بارے میں وہ صرف سنتی آئی تھی آج اسے وہ محبت ہوگئی تھی اسی انسان سے جس انسان نے اسے میٹرک میں پرپوز کیا تھا..... پھر اس نے اسے میٹرک میں کیوں ہاں میں جواب نہیں دیا تھا ??? اس نے اپنے دل سے پوچھا

" شاید میں اس وقت ذہنی طور پہ تیار نہیں تھیں" خود ہی جواب دیا

" پر ذہنی طور پہ تو میں آج بھی تیار نہ تھی پھر.....????"

"شاید یہ اس کی محبت کی شدت اور سچائی تھی جو اس کی آنکھوں میں دکھ رہی تھی"

" ہاں" اور اس بات پہ اس کا دل بھی ایمان لے آیا ایک بہت دلفریب مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا

.                           --------

" ہائے کیسی ہو???" دوسرے دن وہ کالج آئی تو بہت کنفیوز تھی یہ سوچ سوچ کے بار بار گھبرا رہی تھی کہ وہ کلاس میں کیسے جائے گی اور اگر علی اس کے سامنے آگیا تو... اس کا تو دم ہی نکل جانا ہے وہ یہ سوچتے سوچتے کلاس کی طرف جا رہی تھی کہ علی چلا آیا  وہ ایک دم چونکی اور نظر اٹھا کے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ہونٹوں پہہ بہت پیاری مسکراہٹ تھی وہ جھجکی

" آپ..... ہاں میں یقین نہیں آرہا ???" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا

" نہیں" وہ جھینپی اور نگاہیں جھکا لیں

" تو بتاؤ کیسے یقین دلاؤں???" وہ شرارت سے بولا  تو وہ بوکھلا گئی " ایسی بات نہیں ہے میں وہ نہیں کہہ رہی میں....." اس نے کچھ کہنا پر اس کی آنکھوں میں ناچتی شرارت کو دیکھ کے جھینپ گئی " کلاس کا ٹائم ہورہا ہے " کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی وہ ہنس دیا " ارے رکو لڑکی میں بھی آرہا ہوں " وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا.

                   ---------

یہ ان کا معمول بن گیا تھا وہ کالج میں سارا دن ساتھ رہتے تھے اس سے بات کیے بنا اسے دیکھا بنا علی کا دن نہیں گزرتا تھا یشل کے پاس ابھی سیل فون نہیں تھا سو ان کی زیادہ تر بات کالج میں ہی ہوتی تھی

پھر جب وہ لوگ انٹر میں آئے تب یشل نے اپنا پرسنل سیل فون لیا اب تو وہ کالج میں ہی نہیں بلکہ ہر ٹائم چیٹنگ پہ ہوتے دونوں کو ایک دوسرے کی عادت سی ہوگئی تھی.

                       -------

" ہائے بہنا کیسی ہو???" وہ لان میں بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی ہونٹوں پہ بہت دلفریب مسکان سجی ہوئی تھی کہ کسی نے اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی وہ چونکی

" آپ....." وہ سامنے ارسلان بھائی کو دیکھ کے چونکی ارسلان اس کے تایا کے بیٹے تھے اس کے بچپن کے دوست اور بھائی انہوں نے کبھی اسے بہنوں سے کم نہیں سمجھا تھا اور نہ اس نے کبھی بھائیوں سے

تایا تائی کی وفات ہوگئی تھی اس لیے وہ جب بھی خود کو اکیلا فیل کرتے وقار آفندی اپنے چاچا کے گھر آجاتے وقار آفندی بھی انہیں بیٹوں سے کم نہیں سمجھتے تھے

" ہاں میں کہاں گم ہو بڑا مسکرایا جا رہا ہے وہ بھی اکیلے اکیلے کیا بات ہے کزن"

" کچھ بھی نہیں بھائی بس ایسے ہی" وہ بوکھلائی

" ارے ایسے کیسے کچھ نہیں چلو بتاؤ" ان کے بہت کہنے پہ اس نے سب کچھ انہیں بتا دیا ارسلان بھائی ہنس

" اچھا تو یہ بات ہے"

" جی" 

" تم نے چاچو چاچی کو بتایا??"

"جی بتایا تھا ماما کو" 

" تو انہوں نے کیا کہا??? "

" کچھ نہیں یو نو نا بھائی ماما میری بیسٹ فرینڈ ہیں میں ان سے کچھ نہیں چھپاتی تو علی کے بارے میں بھی سب بتادیا میں نے وہ مجھے کچھ نہیں بولیں بس مجھ سے ایک وعدہ لیا ہے"

" کیسا وعدہ ???"

" انہوں نے کہا کہ بیٹا اس نے تمہیں پرپوز کیا اور تم نے ایکسپٹ بھی کرلیا بٹ..... اپنے بابا کا یقین اور غرور کبھی مت توڑنا اس یقین اور غرور کو ہمیشہ اپنے ساتھ لے کر چلنا تاکہ کبھی بھٹکو نہیں" یشل کی ماما اس معاملے میں کافی آزاد خیال تھیں  وہ محبت کے خلاف نہیں تھیں

" گڈ یہ تو پھر اچھی بات ہے تم ان کی نصیحت پہ ہمیشہ عمل کرنا اوکے" انہوں نے کہا تو اس نے سر ہلا دیا. 

                  -----------

آج کل علی بہت ہی خوش نظر آرہا تھا صبح جلدی جلدی ناشتہ کرکے کالج چلا جاتا آتا تو بجائے تھکن ہونے کے مسکرارہا ہوتا یا کچھ نا کچھ گنگنا رہا ہوتا تھا سارا دن اپنے سیل فون پہ لگا ہوتا اور شام میں باہر نکل جاتا شہلا بھابی کو رلی کی حرکتیں کچھ مشکوک سی لگ رہی تھیں وہ جب بھی علی کو لیلٰی کو باہر لے جانے کا کہتیں وہ صاف انکار کردیتا

آج بھی ایسا ہی ہوا تھا تو وہ جی جان سے جل کے رہ گئیں

" دیکھ رہی ہو تم علی کو اس کے رنگ ڈھنگ دیکھیں ہیں تم نے" بھابی غصے سے لیلٰی کے روم میں آئیں وہ جو نیل پینٹ لگا رہی تھی چونک کے انہیں دیکھا

" کیا ہو گیا ہے آپی" اس کی یہ بے پرواہی شہلا کو بہت کھلی

" تن بیٹھ کے یہ نیل پینٹ لگاؤ اور اگر علی ہاتھ سے نکل گیا نا تو مجھے مت کہنا" اس نے نیل پینٹ کی شیشی بند کی اور ان کی طرف متوجہ ہوئی

" کیا ہوا ہے بتائیں تو???" 

" علی کی حرکتوں پہ ذرا نظر رکھو مجھے اس کی حرکتیں کچھ مشکوک سی لگ رہی ہیں"

" مطلب???"

" مطلب یہ کہ کہیں کسی لڑکی کے چکر میں تو نہیں پڑ گیا وہ.... اگر ایسا ہوا نا تو اس گھر میں بہو بننے کے جو خواب دیکھ رہی ہو نا اسے خواب سمجھ کے بھول جانا" 

" تو اس میں پریشانی والی کی بات ہے" اس کے اس طرح کہنے پہ شہلا کا دماغ گھوم گیا

" تم اس بات کو اتنا ہلکا لے رہی ہو"

" ہاں لے رہی ہوں..... یو نو نا آپی لڑکوں کو تو ایسی عمر میں محبت ہو ہی جاتی ہے اس میں پریشانی والی کیا بات ہے "

" اس میں پریشانی کی ہی بات ہے تمہیں معلوم ہے نا علی رشتوں کے معاملے میں کتنا ٹچی ہے اور جو مرد رشتوں کے معاملے میں اتنے ٹچی اور حساس ہوں نا وہ دل لگانے کے لیے محبت نہیں کرتے اور نا ہر ایک سے کرتے ہیں"

" اوہ کم آن آپی..... یہ جسٹ کہنے کی باتیں ہیں اور فرض کرلیں اگر اسے محبت ہو بھی گئی ہے کسی سے تو علی کو ایسی سوکالڈ محبت تو کچھ سال پہلے بھی ہوئی تھی نا کیا ہوا اس کا..... اس نے آنٹی کو اس لڑکی کے بارے میں بتایا تھا اور پھر اسے جا کے پرپوز بھی کیا تھا پر اس نے کویہ جواب نہیں دیا تھا بھول گیا نا اس محبت کو بھی علی..... تو اگر اسے محبت اب دوبارہ بھی ہوگئی ہے تو بے فکر یہ بھی وہ بھول جائے گا" شہلا بھابی سوچ میں پڑ گئی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہی تھی میٹرک میں ایسا واقعہ ہوا تو تھا وہ ایک دم مطمئن ہوگئیں

" سو بہنا ٹینشن مت لو علی صرف میرا ہے"

" ہاں ٹھیک ہے بٹ پلیز لیلٰی علی پہ دھہان دیا کرو اس کے آس پاس رہا کرو"

" اوکے" اس نے کہا اور دوبارہ نیل پینٹ لے کے بیٹھ گئی

.                          -------

آج سنڈے تھا وہ گہری  نیند میں تھی کہ اس کا سیل فون بجا اس نے مندی مندی آنکھوں سے اسکرین کو دیکھا اور مسکرائی

" ہائے سویٹی گڈ مارننگ" علی کی خوشگوار آواز اس کے کانوں میں گونجی 

" گڈ مارننگ"

" سو رہی ہو کیا ???" علی نے پوچھا

" ہممم..... سورہی تھی پر آپ نے جگا دیا "

" اوہو..... میری سویٹی سو جاؤ"

" اب ایسی بھی بات نہیں ہے"

" پھر کیسی بات ہے ???" اس نے شرارت سے پوچھا

" کوئی بات نہیں ہے" وہ مسکرائی

" کوئی بات نہیں ہے چلو پھر میں فون رکھتا ہوں"

" علی...... " وہ چیخی علی ہنس دیا

" خود ہی تو کہہ رہی ہو کہ کوئی بات نہیں ہے"

" میں نے ایسے تھوڑی کہا ہے"

" پھر کیسے کہا ہے???" اس نے پھر پوچھا

" افففففف...... علی کتنے سوال کرتے ہو آپ" اس نے چڑ کے کہا تو علی ہنسنے لگا

" اوہ مائے انوسینٹ گرل..... تم سے بات کرنے کا دل چاہ رہا ہے"

" آپ بات کر تو رہے ہیں"

" ایسے نہیں نا تمہیں دیکھنا ہے"

" ابھی.....????" اس نے پوچھا 

" ہاں نا اگر پوسینل ہے تو ورنہ نہیں"

" ابھی کیسے???"

" اچھا ایسا کرو بالکنی پہ آؤ"

" کیوں???"

" بس آؤ نا" وہ بالکنی پہ آئی تو باہر علی کو دیکھا وہ اسی کو دیکھ رہا تھا وہ مسکرائی

" آپ یہاں...??? اس وقت???"

" ہممممم تمہیں دیکھنے کو دل چاہ رہا تھا" وہ مسکرائی ایک غرور سا ہوا اسے کیا کوئی سچ میں اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے یہاں چلا آیا

" علی ....."

" ہاں کہو علی کی جان" وہ اس کے یوں کہنے پہ جھینپی

" وہ علی میں نے ماما کو آپ کے بارے میں بتادیا ہے" وہ بالکنی میں کھڑی اس سے بات کررہی تھی علی کچھ دیر کو خاموش ہوا پھر بولا

" انہوں نے تمہیں کچھ کہا تو نہیں نا"

" نہیں علی انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا پتا ہے علی میری مام بہت نائس ہیں وہ میری بیسٹ فرینڈ ہیں میں ان سے کچھ بھی نہیں چھپاتی میں ان کو  آپ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا ہاں انہوں نے مجھے سمجھایا"

" بہت اچھی بات ہے یشل مجھے ناز ہے تم پر" وہ مسکرا دی

                   -----------

" وقار آفندی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ابھی میں نے بھابی کو فون کیا تو انہوں نے بتایا مجھے" رابعہ نے ہاشم آفندی کو فون کر کے اطلاع دی تو وہ منہ بنا کے بولے

" اب انہیں پوچھنے جانا پڑے گا میرا دل نہیں ہو رہا وہاں جانے کا وہاں..... فضول کےچونچلے....."

" ہوش سے کام لو ہاشم ہمارا کون سا دل ہو رہا ہے اسے پوچھنے کا پر اس کے سامنے ہم نے اپنا امیج اچھا رکھنا ہے بگاڑنی نہیں ہے اس سے سمجھ آئی"

" ہاتھ تو ہمارے پھر بھی کچھ نہیں آنا ہے تو فائدہ بہت گھنا ہے وہ وقار"

" وہ تو ہے" رابعہ نے بھی سر ہلایا

" وہاں جا کے اس کی جھوٹی محبتیں دیکھنا مجھے بالکل منظور نہیں ہے..... اتنی ہی محبت ہے تو اپنی دولت میں سے کچھ حصہ ہی دےدے اپنے بہن بھائیوں کو پر نا جی نا دولت میں کمی نہیں آجائے گی"

" آئے ہائے تو ہم نے جا کے کونسی  اس کو سچی محبت دکھانی ہے دکھاوا ہی کرنا ہے ہم نے بھی "

" آپ احمد کو کہہ دیں وہ چلا جائے گا آپ لوگوں کے ساتھ پر میں...."

" بس کرو ہاشم میں نے احمد سے بات کرلی ہے وہ بھی جا رہا ہے اور تم بھی جا رہے ہو زرمینہ کو بھی کہہ دو کہ کل تیاری کرلے"

" ٹھیک ہے" انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی ہامی بھرلی 

                     ---------

شام میں وہ سب لوگ وقار آفندی کے گھر موجود تھے

" کیا بھائی صاحب آپ اپنی طبیعت کا بالکل دھیان نہیں رکھتے کچھ دن کی چھٹیاں کرلیں آفس سے" وہ ہاشم جو کل آنے پہ راضی نہیں ہو رہے تھے آج ان کے لہجے میں شیرینی گھلی ہوئی تھی

" ہاں بھائی کمزور بھی ہوگئے ہیں آپ" سمیہ بولیں وقار آفندی ہنسے

" ارے ٹینشن مت لو تم سب..... بس تم لوگوں کو دیکھ لیا میں ٹھیک ہوگیا" وہ خوشدلی سے بولے

" یہ تو آپ کی محبت ہے بھائی صاحب " انعم بولیں

"اور بھابی آپ لوگ سنائیں کیسے ہیں آپ سب" انعم نے عطیہ سے پوچھا 

" الحمداللٰہ انعم ہم ٹھیک ہیں..... تم لوگ سناؤ بڑے دنوں بعد چکر لگا ہے"

" ارے بھابی مصروفیات ہی اتنی ہوگئی ہیں زندگی کی کہ وقت نکالنا مشکل ہے" انعم کی جگہ زرمینہ نے جواب دیا

" ہاں یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو زرمینہ تم لوگوں نے ناحق زحمت کی میں تو بالکل ٹھیک ہوں اور تم لوگوں کے آنے سے تو اور بہتر محسوس کررہا ہوں " وقار آفندی بے حد خوش تھے 

" ارے زحمت کیسی بھائی ہو تم ہمارے تمہیں نہیں پوچھیں گے تو اور کس کو پوچھیں گے ورنہ آجکل کے رشتوں کا تو خون ہی خشک ہو گیا ہے " رابعہ مسکرائیں

" یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو تم....." وقار بولے

" اب آپ لوگ آہی رہے تھے تو بچوں کو بھی لے آتے  ویسے بھی کافی دنوں بعد آئے ہیں آپ لوگ"  عطیہ مسکرائیں

" ارے بچے تو اپنی مرضی کے مالک ہیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھابی آپ تو جانتی ہی ہیں آجکل کے بچوں کو"

" یہ تو سہی کہہ رہی ہو انعم بچوں کا اپنا ٹف شیڈول ہے" 

" جی بھابی" 

پھر وقار آفندی اور عطیہ نے انہیں رات کو کھانے پہ زبردستی روک لیا تھا اور جاتے وقت احمد آفندی نے اپنے بزنس کا جھوٹا بہانا بنا کر ان سے پانچ لاکھ لے لیے تھے جاتے وقت وقار آفندی نے سب کو تحائف دے کر رخصت کیا.

شام میں وہ لوگ ایک پارک میں موجود تھے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران علی نے اسے اپنے گھر کے بارے میں بتایا یشل بہت دلچسپی سے اسے سن رہی تھی کہ علی ایک دم اٹھا وہ چونکی

" آؤ چلیں???"

" کہاں???"

" مجھ پہ بھروسہ ہے???" علی نے اس کا ہاتھ تھام کے پوچھا

" حد سے زیادہ " وہ دل سے بولی

" تو چلو گی???"

" ہاں" وہ علی کا ہاتھ تھامیں اس کے ساتھ چل دی

کچھ دیر بعد وہ ایک گھر میں داخل ہوئی

" علی یہ کس کا گھر ہے ہم کہاں آئیں ہیں " اس نے علی سے پوچھا وہ مسکرایا اور پھر اس نے اپنی امی بہنوں کو آواز دی اور اسے ساتھ لیے اندر آیا 

" یعنی علی اسے اپنے گھر لایا ہے" اس نے دل میں سوچا وہ کنفیوز ہوگئی اس کی امی اور بہنیں آگئی تھیں

" امی دیکھیں کون آیا ہے??? " علی نے اپنی امی اور بہنوں جو دیکھا جو  حیرانی سے اسے ایک لڑکی کے ساتھ کھڑا دیکھ رہی تھیں

" امی میں نے یشل کے بارے میں آپ کو بتایا تھا نا" علی نے کہا تو وہ مسکرائیں

" ادھر آؤ بیٹی" وہ کنفیوز سی آگے بڑھی امی نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گئیں

" علی نے بتایا تھا تمہارے بارے میں پر تم تو میری توقع سے زیادہ پیاری ہو " وہ پیار سے بولیں

" بھائی یہ کون ہیں " فاطمہ علی کے کان میں بولی

" تمہاری بھابی" علی مسکراکے بولا

" رئیلی واؤ" وہ خوش ہوگئی اور اس سے خوش گپیوں میں لگ گئی شہلا بھابی اور لیلٰی سے یہ سب ہضم ہی نہیں ہورہا تھا وہ غصے سے اندر چلی گئیں 

کچھ ہی دیر بعد یشل ان سے فری ہو کر بات کرنے لگی تھی اور علی کی بہنوں اور بھائی حیدر سے اس کی اچھی دوستی ہوگئی تھی

                        ---------

" دیکھا کہا تھا نا میں نے تم سے کہ علی کے انداز بدلے ہوئے ہیں دیکھ لیا تم نے اب بھگتو" شہلا بہت غصے میں تھیں

" کہا تھا میں نے کہ وہ کوئی چاند ضرور چڑھائے گا پر تم نے ایک نہیں مانی میری دیکھ لیا نتیجہ آج وہ اس لڑکی کو گھر والوں سے ملوا کے بھی لے گیا اب تمہارے پاس کچھ نہیں بچا سوائے ہاتھ ملنے کے"

" اب چپ کیوں ہو بولو بھی" شہلا نے غصے میں اس سے کہا

" کیا کہوں میں آپی یہ علی تو بہت شاطر نکلا ہے مجال ہے جو ذرا سی بھنک بھی پڑنے دی ہو پر میں بھی لیلٰی ہوں اتنی آسانی سے تو علی سے دستبردار نہیں ہوں گی " وہ اٹھ کے کھڑی ہوئی

" اب کیا کرو گی تم"

" ابھی سوچا نہیں ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے پر دیکھنا آپی علی صرف اور صرف میرا ہو گا " 

" لو کچھ سوچا ہے نہیں اور بول ایسے رہی ہو جیسے سب ہمارے ہاتھ میں ہے" 

" ہم نے کچھ بھی نہیں کھویا ہے آپی میں نے کہا ہے نا علی صرف میرا ہے تو بس آپ مطمئن رہیں" لیلٰی نے کہا تو وہ خاموش ہوگئیں.

                      ----------

وہ گھر آئی تو بے حد خوش تھی گھر میں کوئی تھا نہیں بابا آفس ماما بھی باہر گئی ہوئی تھی اور بہن بھائی ٹیوشن گئے تھے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آئی چینج کرکے بیٹھی ہی تھی کہ علی کی کال آگئی

" ہائے کیسی ہو???" اس نے پوچھا تو یشل مسکرائی

" ابھی تھوڑی دیر پہلے دیکھا تو تھا کہ کیسی ہوں"

" ہاں دیکھا تو تھا پر اب بتاؤ اب کیسی ہو" 

" اب بالکل ٹھیک بہت خوش بہت بہت بہت علی آپ کے گھر والے بہت اچھے ہیں" وہ خوشی سے بولی

" ارے سچ میں.....??? مجھے پتا ہوتا کہ تم اتنی خوش ہوگی تو اپنے گھر سے جانے ہی نہیں دیتا میں تمہیں" وہ شوخی سے بولا تو وہ جھینپی

" اب ایسی بھی بات نہیں ہے"

" تو پھر کیسی بات ہے???" اس نے الٹا سوال کیا

" اففففف علی" علی ہنسا

" جی علی کی جان" علی پیار سے بولا

" توبہ ہے" وہ بولی تو ہنستا چلا گیا

" علی میرا آپ کے گھر اچانک آنا ..... آئی مین کہ آپ کی امی کو تو برا لگنا چاہیے تھا نا کہ کسی لڑکی کو آپ ایسے منہ اٹھا کہ گھر لے آئے....."

" پہلی بات تم کسی نہیں میری یشل ہو دوسری بات کہ وہ میرا گھر ہی نہیں تمہارا گھر بھی ہے اور تیسری اور آخری بات کہ جیسے تمہاری ماں تمہاری دوست ہیں  ویسے ہی میری ماں میری دوست ہے اور میں نے تمہارا ابھی تھوڑی امی کو بتایا ہے امی کو تو تمہارا پچھلے دو سالوں سے پتا ہے جب میں نے پہلی بار تم کو پرپوز کیا تھا  اسی شام میں امی کو تمہارا بتا دیا تھا اور آج تمہیں ملوانے لے گیا " یشل کے دل میں علی کی محبت اور بڑھ گئی تھی کوئی اسے اتنا چاہتا ہے یہ احساس ہی اس کے لیے بہت خوش کن تھا

" تھینک یو علی" 

" کس لیے???"

" اتنا مان اور اتنی محبت دینے کے لیے " 

" اونہوں ..... تھینک یو تو مجھے تمہارا کرنا چاہیے "

میری زندگی میں آنے کے لیے" علی نےجذب سے کہا

                       ---------

"وقار بھائی تو بالکل ٹھیک تھے آپ فالتو ہم سب وہاں لے کر گئیں" ہاشم تو جب سے آئے تھے تپے ہوئے تھے

" ارےرشتے نبھانے کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں کہ نہیں ..... اگر تم نا جاتے تو پھر بات بنتی" رابعہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا

" بننے دیتی بات مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ناحق زحمت ہوئی آپ کو بھی اور ہمیں بھی"

" زرمینہ تم ہی سمجھاؤ اسے" رابعہ کا رخ اب زرمینہ کی طرف تھا 

" میں کیا سمجھاؤ آپا.... ہاشم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم فضول وہاں گئے عطیہ بھابی نے تو ایک دو بار طنز بھی کردیا ہم جو سارے اٹھ کے چلے گئے تھے" زرمینہ نے بھی منہ بنایا اور شوہر کی تائید کی

" یہ تو بھابی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں" کب سے خاموش بیٹھی انعم نے بھی مداخلت کی " عطیہ بھابی کیسے کہہ رہی تھیں کہ آہی رہے تھے تو بچوں کو بھی لے آتے"

" جب پیسہ آجاتا ہے نا تو بندہ ایسے ہی سب کو حقیر سمجھنے لگتا ہے" احمد بولے

" تم تو بولو ہی مت احمد میاں جب بھی جاتے ہو مجال ہے جو خالی ہاتھ آجاؤ ہمیشہ کوئی تگڑی رقم لے کے ہی آتے ہو" رابعہ بولیں

" ویسے آپا بھائی نے ہمیں بھی تو بہت سے تحفے دیئے ہیں" سمیہ نے تحائف کی طرف اشارہ کی

" ہم کیا کریں ان تحفوں کا..... یہ سب چیزیں تو ہم بھی لے لیں فقیر سمجھا ہوا ہے ہمیں تو" رابعہ نے نخوت سے کہا 

" ارے چھوڑیں آپا تحفے تو قیمتی ہی ہیں سارے" زرمینہ بولی اور ایک ایک چیز نکال کے دیکھنے لگی رابعہ نے کن اکھیوں سے دیکھا واقعہ تحفے قیمتی تھے

" ارے ہٹ میرے بھائی نے اتنے پیار سے دیے ہیں میں بھی تو دیکھو" وہ بھی ان چیزوں کو دیکھنے لگیں تو زرمینہ سمیہ اور انعم ایک دوسرے کو دیکھ کے معنی خیزی سے ہنس دیں

 واقعی لالچ بڑی بلا ہے 

                        ---------

سیکنڈائیر بھی ہو چکا تھا علی نے ایم بی اے کے لیے لاہور کی یونیورسٹی میں اپلائے کیا تھا اور یشل نے کراچی میں ہی ایک یونی میں ایڈمیشن لے لیا تھا اس کا ارادہ لاء کا تھا حالانکہ اس نے ایف ایس سی میڈیکل کی تھی

علی کا بھی لاہور کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہو گیا تھا اس نے یشل کو یہ بات بتائی تو وہ بہت افسردہ ہوگئی تھی

جانے سے ایک دن پہلے علی نے اسے ڈنر پہ چلنے کو کہا وہ مان گئی

" علی میں بھی چلوں???" علی تیار ہو کے نکل ہی رہا تھا کہ لیلٰی پیچھے پیچھے آگئی 

" لیلٰی میں یشل کے ساتھ ڈنر پہ جا رہا ہوں سو تمہارا جانا بنتا نہیں ہے" علی نے کہا تو لیلٰی جی جان سے جل گئی

" علی ویسے بھی کل تو تم چلے جاؤ گے یہ ٹائم تم ہناعے ساتھ ہی اسپنٹ کرلو" آواز میں مٹھاس پیدا کی

" لیلٰی اتنے دن تم سب کے ساتھ ہی تھا میں بلکہ آج کا سارا دن..... چلتا ہوں یشل ویٹ کررہی ہو گی" کہہ کر وہ چلا گیا لیلٰی پاؤں پٹخ کے رہ گئی اور شہلہ کے پاس چلی آئی جو کپڑے تہہ کررہی تھی

" سمجھتا کیا ہے علی خود کو..... میں بھی دیکھتی ہوں یہ محبت کتنے دن چلتی ہے" وہ غصے میں بڑبڑا رہی تھی

" کیا ہو گیا ہے اب" شہلا نے پوچھا

" وہ علی خود کو سمجھتا کیا ہے آپ کو پتا ہے آج علی اس یشل کو ڈنر پہ لے کر گیا ہے اس یشل کی ہمت کیسے ہوئی میرے علی کو مجھ سے چھیننے کی" وہ زور زور سے چلانے لگی شہلا نے کمرے کا دروازہ جلدی سے بند کیا تاکہ اس کی آواز باہر نہ جانے پائے

" آہستہ بولو لیلٰی گھر میں اگر کسی کو پتا چل گیا نا کہ میں نے یہاں تمہیں کیوں بلایا ہے تو سب میرا جینا حرام کردیں گے"

" اور اب تم اس یشل کو کیوں بلیم کررہی ہو حالانکہ یہ موقع تم نے خود علی کو  دیا ہے کتنا کہا تھا کہ اس کے ساتھ رہا کرو پر نہیں "

" تو مجھے کیا پتا تھا اتنا معصوم نظر آنے والا علی اتنا چالاک ہو گا میرے لیے تو کبھی ٹائم نکالا نہیں اور اس یشل کو ڈنر پہ لے جایا جا رہا ہے" وہ تو پاگل ہی ہو گئی تھی

" تو کچھ کرو نا تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھنے اور کڑھنے کا کیا فائدہ اس یشل نام کا کانٹا جو تمہارے رستے میں آیا ہے اسے ہٹانے کا کوئی راستہ سوچو" شہلا نے کہا

" ہممم سہی کہہ رہی ہیں آپ آپی اب تو جلد سے جلد کچھ کرنا ہی ہو گا" لیلٰی نے کہا

                     -----------

ایک دم سی سب بہت خوبصورت سا ہو گیا تھا علی کی ہمراہی میں وہ بہت خوش رہنے لگی تھی

آج وہ علی کے ساتھ ڈنر پہ آئی تھی اس نے اپنی آنکھوں سے ملتا جلتا گرین کلر کا ڈریس زیب تن کی تھی سرخ و سفید رنگت جو کہ میک اپ سے پاک تھی ہونٹوں پہ نیچرل پنک کلر کا لپ گلوز لگایا ہوا تھا اور لمبے سلکی بالوں کو ایک کندھے پہ ڈالا ہوا تھا خوبصورت ہاتھوں میں نازک سا بریسلیٹ اور کانوں کے ٹاپس نے اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دئیے تھے

علی بلیک تھری پیس میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا  علی اپنے گھر کے بارے میں اسے پہلے ہی سب بتا چکا تھا وہ یہ رشتہ سچائی سے نبھانا چاہتا تھا جو جھوٹ سے پاک ہو اور یشل کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا

علی نے آرڈر دیا اور پھر یشل سے بولا

" مس کرو گی مجھے???"  یشل کے کھانا کھاتے ہاتھ رکے " نہیں" یشل اداس ہوئی پر لہجے میں بشاشت لاتے ہوئے گویا ہوئی 

" سوچ لو ہم پہلے کی طرح مل نہیں سکیں گے" علی نے کہا

"کوئی بات نہیں " وہ دل پہ جبر کر کے مسکرا کے بولی علی اس کی دلی کیفیت سمجھ رہا تھا 

" تم مجھے روز دیکھ بھی نہیں پاؤ گی" وہ پھر بولا

"کوئی بات نہیں" آواز بھرانے لگی

" سوچ لو بات بھی نہیں ہو سکے گی " علی کے یوں کہنے پر کب سے جھکی نظریں اٹھیں

" کیوں ???" اب کو سوال کیا گیا

" بھئی میں بزی ہو جاؤں گا تو تمہیں ٹائم کیسے دوں گا "  علی نے مسکراہٹ دبائی

" یعنی بھول جاؤ گے مجھے" یشل نے بھرائی آواز میں کہا آنکھیں جیسے جلنے لگیں تھیں اور دو آنسو ٹوٹ کے گر پڑے علی ایک دم پریشان ہوا یشل اٹھ کے وہاں سے چلی گئی گویا ناراضی کا بھرپور  انداز..... جا کے بالکنی میں کھڑی ہوگئی علی بھی وہیں چلا آیا 

ارے میری جان تو ناراض ہو گئی " علی نے اس کا ہاتھ تھاما

" جائیں آپ مجھے بات نہیں کرنی " یشل نے ہاتھ جھٹکا

" مجھے تو آپ بھول جائیں گے نا  جا کے تو پھر یہاں کیوں آئے ہیں"شکوہ لبوں سے نکلا

علی نے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا

" کوئی اپنی زندگی سے بھی غافل ہو سکتا ہے" علی کے یوں کہنے پہ نظر اٹھا کے اسے دیکھا

" تمہیں پتا ہے تم میری جان ہو ..... ہر سانس میں تم بستی ہو تو تم نے سوچ کیسے لیا کہ میں تمہیں بھول جاؤں گا تم میرے لیے ان قیمتی شے میں سے ہو جس کو اگر ویران جگہ پہ رکھو تو وہ بھی آباد ہو جائے جسے اندھیرے میں رکھو تو وہ جگہ روشن ہو جائے..... جیسے میرا دل.. پتا ہے یہ تمہاری روشنی سے منور ہے کیونکہ تم یہاں رہتی ہو" علی نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا یشل اسے سن رہی تھی اس کی بات کے اختتام پہ اس نے اس سے پوچھا 

" تو پھر یہ کیوں کہا کہ بھول جاؤ گے?" 

" وہ تو تمہیں تنگ کرنے کو کہا تھا پر تم تو رونے لگیں" اور ہنسا

" اگر تمہیں بھول جاؤں گا تو میرا دل ویران نہیں ہو جائے گا ?" اس نے یشل سے کہا یشل دل سے مسکرائی

" اچھا اب چلو ڈنر نہیں کرو گی" علی نے اسے یاد دلایا تو وہ اس کے ساتھ چلنے لگی

" بات کرو گے نا روز???" یشل نے بیٹھتے ہوئے پوچھا 

" ہاں بابا روز " علی مسکرایا

" صبح میری بالکنی پہ کون آئے گا???" یشل نے پھر پوچھا

" تمہاری عادتیں بہت خراب ہوگئی ہیں" علی نے کہا

" کی کس نے ہیں ???" یشل نے بھی اترا کے کہا

" آفکورس  مابدولت نے" علی نے جھک کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے مؤدب ہو کے کہا تو یشل ہنس دی.

                      ---------

اور پھر وہ چلا گیا یشل بہت اداس رہنے لگی تھی یونی میں بھی اس کی کمی فیل ہوتی تھی حالانک وہ روز فون پہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے وہ اس میلوں کے فاصلے پہ تھا یشل کو یہ ہی بات سب سے زیادہ افسردہ کرتی تھی

ابھی بھی وہ علی کو ہی سوچ رہی تھی کہ اس کی کال آگئی

" ہائے کیسی ہو???"

" ٹھیک....." اس نے مختصر سا جواب دیا

" یہ کیا بات ہوئی سہی سے بتاؤ" علی نے پھر پوچھا

" آپ کب آؤ گے???" اس نے الٹا سوال کردی

" ارے ابھی تو مجھےیہاں  آئے تین دن ہوئے ہیں اور تم آنے کی باتیں کررہی ہو"

" تو تین دن کم ہیں" وہ اداسی سے بولی

" اوہو..... یعنی محترمہ مجھے مس کررہی ہیں " علی بڑے دل سے مسکرایا یشل جھینپی

" میں نے ایسا کب کہا???"

" کیوں ایسا نہیں ہے کیا مجھے مس نہیں کررہی " علی نے پوچھا

" جی نہیں"

" نہیں....???? ٹھیک ہے میں پھر فون بند کرتا ہوں " وہ مصنوعی ناراضی سے بولا تو یشل گڑبڑائی

" میں نے ایسا کب کہا???"

" اففففف لڑکی کبھی کچھ کہہ ہی دیا کرو"

" کررہی ہوں نا مس..... کیا ہے" وہ اس کے ناراضی کے ڈر سے فوراً بولی علی نے قہقہہ لگایا  یشل جھینپی

" کب آئیں گے???" وہ اپنی جھینپ مٹانے کو بولی

" ابھی تو فی الحال نہیں آسکتا" وہ پھر اداس ہوئی اور خاموش ہوگئی

" یشل یار پلیز اداس مت ہو دیکھو " یشل کی آنکھیں نم ہونے لگیں

" یشل پلیز" علی بھی یک دم افسردہ ہوگیا یشل رونا شروع ہوچکی تھی

" یشل پلیز تم روتی ہو نا تو ایسا لگتا ہے میری دنیا ویران ہوگئی ہے ایسا لگتا ہے ساری دنیا اداس ہوگئی ہے یشل پلیز چپ ہو جاؤ میرا دل بند ہو جائے گا ورنہ " یشل کے رونے کو ایک دم بریک لگا

" اللٰہ نہ کرے علی ایسا مت کہیں" 

" تو پھر چپ ہو جاؤ جلدی سے" یشل نے جلدی سے اپنے آنسو پوچھے

" اچھا نہ نہیں روتی پر پلیز آئیندہ مت بولنا ایسا " اس نے بھاری آواز میں کہا

" اوکے بابا اب نہیں کہتا بس..... اچھا یہ بتاؤ اسٹڈی کیسی جا رہی ہے " علی نے اس کا دھیان بٹانے کو کہا تو یشل اسے بتانے لگی

                     ----------

" بزنس میں بڑا لاس ہو رہا ہے مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے سوچ رہا ہوں وقار بھائی سے مانگ لوں" ہاشم بولے تو زرمینہ منہ بنا کے بولی

" آپ کو تو ان کے گھر جانا پسند نہیں ہے پھر???"

" اب اپنے کام کے لیے تو بندہ چلا ہی جاتا ہے اور ویسے بھی احمد بھی تو کتنے لے لیتا ہے ان سے پیسے انہوں نے کچھ نہیں کہا کبھی.. اب کے بار میں لے لوں گا"

" یہ تو ٹھیک کہہ رہے ہیں احمد تو جب جاتا ہے رقم لے کے ہی آتا ہے اس بار بھی پانچ لاکھ لے کے آیا ہے وقار بھائی سے"

" ہمممم چلو کل چلیں گے"

" ہاں ٹھیک ہے" زرمینہ نے کہا

یشل سو کے اٹھی اور فریش ہو کے باہر آئی لاؤنج سے باتوں کی آواز آرہی تھی

" کون آیا ہے??? میں جا کے دیکھتی ہوں " وہ خود سے بولی اور لاؤنج میں چلی آئی لاؤنج میں آکے اسے خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ لاؤنج میں اس کے ماموں مامی آئے ہوئے تھے

" واٹ آ پلیزینٹ سرپرائیز کب آئے آپ لوگ???" وہ خوشی سے بولی

" جب تم سو رہی تھیں تب" مامی نے اسے پیار سے ھلے لگایا

" ماما مجھے اٹھایا کیوں نہیں اور نہ بتایا کہ آپ لوگ آرہے ہیں???" وہ ماما سے بولی

" ارے بیٹا ہم نے تو کسی کو بھی نہیں بتایا تھا سوچا آپ

 سب کو سرپرائیز دیا جائے" ماموں پیار سے بولے

" بہت اچھا سرپرائیز ہے" وہ خوشی سے بولی

" اور تمہیں اٹھایا اس لیے نہیں کیونکہ بھابی نے منع کردیا تھا کہ تم یونی سے تھکی ہوئی آئی ہوگی"  ماما نے جواب دیا

" ڈئیر کزن یہاں بھی تو دیکھو بھائی کو بھول گئیں " اشعر نے اس سے کہا

" ارے اشعر بھائی بھی آئے ہیں مل گئی آفس سے فرصت آپ کو"

" یس مل گئی اور اگر فرصت نہیں ملتی تو اس بار تو کسی بھی طرح آنا ہی تھا میں نے آخر کو اتنے دنوں سے ملا نہیں ہوں اپنی سسٹر سے" 

" بہت اچھا کیا " وہ بولی 

                     -----------

رات کو یشل روم میں آئی سیل چیک کیا تو دیکھا علی کی 10 بجے کی تین مس کالز لگی ہوئی تھیں اور اب گیارہ بج رہے تھے

" اوہوں علی نے کال کی تھی اور مجھے پتا ہی نہیں چلا" وہ افسوس سے بولی اور اسے کال بیک کی دو تین بیلز کے بعد فون ریسیو ہوا

" سوری علی مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ آپ نے کال کی ہے وہ ماموں مامی آئے ہوئے ہیں نا تو ان سے باتوں میں پتا ہی نہیں چلا" وہ جلدی جلدی بتانے لگی معاً علی ناراض ہی نا ہوجائے

" اٹس اوکے یار" علی مسکرایا

"تھینکس" یشل بولی 

" اتنی فارمل مت ہوا کرو میری یشل بنو اجنبی یشل نہیں" 

" سوری" وہ بولی

" پھر فارمل" علی پھر بولا یشل ہنسی

" تو پھر کیا بولوں آپ ہی بتادیں"

" آئی لو یو کہو.. آئی مس یو کہو" علی فوراً شوخ ہوا

" منہ دھو رکھیں ایسا میں کچھ نہیں بول رہی" یشل ہنسی

" اففففف لگتا ہے تمہارے منہ سے یہ سننے کے لیے کوئی اسپیشل طریقہ یوز کرنا پڑے گا" 

" جیسے کے کیا???" یشل نے پوچھا

" مرنے کا ڈرامہ ..... اکثر موویز میں ایسا ہی ہوتا ہے نا کہ ہیرو ایکٹنگ کرتا ہے مرنے کی اور اس کی ہیروئین اقرار کردیتی ہے" 

" اوہ ہیلو مسٹر یہ رئیل لائف ہے حال میں پہنچ جائیں " یشل بولی

" اچھا سنو" علی نے کہا

 "جی"

" پرسوں آرہا ہوں میں " علی نے  بتایا تو یشل کا چہرہ کھل گیا

" رئیلی..... واؤ کب? کس ٹائم?" یشل نے کھلکھلا کے پوچھا

" ہمممم..... یعنی انتظار ہو رہا ہے ہمارا" علی مسکرایا

" جی نہیں..... زیادہ خوش فہم نہ ہوں" یشل فوراً بولی علی ہنسا

" کبھی ماننا مت تم"

" اقرار صنف نازک کو سوٹ نہیں کرتا " یشل نے اترا کے کہا

" یعنی ڈھکے چھپے لفظوں میں اقرار کررہی ہو"

" جی نہیں "

" اففففف لڑکی کبھی تو ہاں کہہ دیا کرو" علی نے مصنوعی ناراضی سے کہا

" کیوں کروں جب کہ اقرار کرنے کے لیے آپ ہو میرے پاس" یشل نے پیار سے کہا تو علی مسکرادیا.

                     -----------

لیلٰی کا موڈ آج شاپنگ کا تھا فاطمہ تو اپنی دوست کے گھر گئی ہوئی تھی

" شہلا آپی کو کہتی ہوں" وہ اٹھی اور کچن کی طرف آئی

" آپی شاپنگ پہ چلیں آج" شہلا کچن میں کام کررہی تھی کہ لیلٰی چلی آئی

" ابھی??? ابھی تو کام پڑا ہے اتنا سارا"

" آپ فارغ ہو جائے تو چلتے ہیں" وہ بولی

" ہاں ٹھیک ہے"

" تمہیں پتا ہے علی آرہا ہے?" شہلا بولی تو لیلٰی چونکی

" کب???"

" یہ تو پتا نہیں پر دو تین دن تک آجائے گا"

" اوہ..... یار پھر تو کل پہلی فرصت میں پارلر جاؤں تھوڑی فریشنیس تو ہو چہرے پہ جب وہ مجھے دیکھے " لیلٰی کو فکر لگ گئی

" تم بس انہی کاموں میں رہنا " شہلا چڑ گئیں

" تو پھر کیا کروں?"

" کہتے ہیں مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہو کے گزرتا ہے" شہلا نے کہا

" اوہ پلیز آپی میں نہیں بنا سکتی یہ کھانا وانا ہاتھ خراب ہو جائیں گے میرے" وہ منہ بنا کے بولی

" تو پھر بیٹھی رہو ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے" 

" اچھا اس بحث کو چھوڑیں فارغ ہو جائیں تو مجھے بتا دینا شاپنگ پہ چلیں گے" کہہ کر وہ پلٹ گئی.

                       --------

" اے کزن آج شاپنگ پہ چلیں" وہ لان میں ٹہل رہی تھی کہ اشعر چلا آیا

" آج..... کل تو آپ لوگ آئے ہو" یشل نے کہا

" ہاں تو آج کیا شاپنگ پہ جانا منع ہے" اشعر نے پوچھا

" ارے نہیں نہیں..... اچھا چلیں چلتے ہیں" وہ فوراً مان گئی

" علی بھی آرہے ہیں کل ان کے لیے بھی اچھا سا گفٹ لے لوں گی" اس نے سوچا اور ماما سے پوچھنے چلی گئی

ماما سے اجازت لے کے اس روم سے اپنا پرس اٹھایا اور چل دی.

                        --------

اشعر نے تو شاپنگ کرنے میں لڑکیوں کو بھی مات دے دی تھی اسے کوئی چیز پسند ہی نہیں آرہی تھی کتنی شاپس انہوں نے چھان ماری تھیں ابھی بھی وہ ایک شاپس نکلے تھے کہ یشل بولی

" حد ہے اشعر بھائی کوئی چیز ہی پسند نہیں آرہی آپ کو"

" یار میں بہت چوزی ہوں..... یو نو نا اتنا ہینڈسم بھی تو ہوں" اشعر بولا

" آپ نے لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے شاپنگ کرنے میں آئیندہ تو میں آپ کے ساتھ آئی" وہ بول  رہی تھی کہ کوئی بہت تیزی میں گزرا اسے زور سے دھکا لگا وہ گرنے ہی لگی تھی کہ اشعر نے اسے بازو سے پکڑ کےسنبھالا

" آر یو اوکے سسٹر " اشعر نے فکر مندی سے پوچھا 

" جی اشعر بھائی ٹھیک ہوں میں"

" یار لوگ کیا اندھے ہیں جو دیکھ کے نہیں چلتے" 

" چھوڑیں آجائیں آگے چلتے ہیں" 

                       ---------

" آپی یہ یشل ہے نا???" وہ لوگ شاپس سے نکلیں تو لیلٰی نے ان کو یشل کی طرف متوجہ کیا

" ہاں پر یہ اس کے ساتھ کون ہے" لیلٰی نے پوچھا

" مجھے کیا پتا کون ہے..... اور تم کیا اسے دیکھنے لگ گئیں چلو چلیں" شہلا نے کہا

" بھابی ایسے کیسے چلی جاؤں ذرا سیل دینا اپنا"

" اب کیا کرنے لگی ہو ???" شہلا نے پوچھا

" یار ان کی ایک پک لے لیتی ہوں کیا پتا کبھی کام ہی آجائے ہمارے " لیلٰی نے ان کی پک لی اور پھر اس نے دیکھا کہ کوئی تیزی میں اس کے پاس سے گزرا اور وہ گرنے لگی تو اسے اسی لڑکے نے سنبھالا کیمرہ تو آن ہی تھا لیلٰی نے کھٹا کھٹ کئی تصویریں لے لیں اس کا شیطانی  دماغ بہت تیزی سے کام کررہا تھا.

                       ---------

وہ لوگ گھر آئیں لیلٰی کی خوشی کا آج کوئی ٹھکانہ نہ تھا رات کو شہلا اس کے پاس آئیں جو اپنے سیل پہ مصروف تھی

" کیا کروگی ان تصویروں کا" شہلا نے پوچھا

" بس دیکھیں آپ" لیلٰی نے کوئی نئی سم لی تھی وہ سیل میں لگائی

" اب کیا کرو گی???"

" دیکھیں نا" لیلٰی نے کہا اور سیل کی طرف متوجہ کیا لیلٰی نے وہ تمام کی تمام تصویریں علی کے نمبر پہ بھیج دیں

" یہ کیا کررہی ہو تم???" شہلا نے کہا

" یشل کو راستے سے ہٹانے کی تیاری کررہی ہوں" لیلٰی مزے سے بولی

" اب علی یہ پکس دیکھے گا تو اس یشل کو گولی ہی مار دے گا" وہ ہنسنے لگی

" افففف توبہ لڑکی تم تو بہت خطرناک ہو" شہلا بھی ہنسنے لگیں.

                       ---------

علی یشل کو کال کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے کچھ تصویریں موصول ہوئیں اس نے وہ اوپن کی تو اس کے سر پہ بم سا پھٹا

" نہیں یہ یشل نہیں ہوسکتی" اس کا دل ماننے سے انکاری تھا  اس نے دوبارہ ان تصویروں کو دیکھا وہ بلاشبہ یشل ہی تھی اور ایک میسج تھا 

" شریفوں کے سرِ بازار کارنامے دیکھو" علی کا تو دماغ ہی گھوم گیا اس نے نمبر دیکھا ان نون نمبر تھا علی نے غصے میں موبائیل دور پھینک دیا

یہ بات دوسرے رات کی تھی لیلٰی شہلا کے پاس چلی آئی

" آپی علی آیا نہیں  پورا دن گزر گیا آج کا" لیلٰی نے پوچھا

" ارے تم اتنا بڑا کام کرچکی ہو لڑکی اس کا کچھ تو اثر ہوا ہوگا نا اس پہ " شہلا نے کہا لیلٰی مسکرائی

" اب دیکھنا جب وہ لوٹے گا تو وہ صرف اور صرف میرا ہوگا" اس نے یقین سے کہا

" اور اگر ایسا پھر بھی نہ ہوا تو?" 

" تو میں نے ابھی ہار نہیں مانی ہے اسے اپنا بنا ہی لوں گی"

" اچھا ابھی آپ کو ایک کام کرنا ہے?" لیلٰی نے کہا

" کیا?" شہلا نے پوچھا

" آپ کو علی کے دل میں جو غلط فہمی در آئی ہے اسے ہوا دینی ہے" لیلٰی نے کہا

" ارے لڑکی اسے شک ہو جائے گا کہ یہ سب کیا دھرا ہمارا ہے " شہلا گھبرائیں 

" ارے ایسا کچھ نہیں ہوگا میں آپ کو بتاتی ہوں" لیلٰی نے کہا اور اپنے پلان کے بارے میں اسے آگاہ کرنے لگی

                       -----------

پچھلی رات سے وہ بے حد ڈسٹرب تھا ایک طرف وہ یشل پہ بھروسہ کرتا تھا پر وہ تصویریں..... وہ تو جھوٹی نہیں تھیں اور جس طرح اس لڑکے نے اسے بازوؤں سے پکڑا ہوا تھا..... علی نے سر ہاتھوں میں تھام لیا کل سے یشل کی کال آرہی تھی پر وہ بہت ڈسٹرب تھا کیا بات کرتا  اس سے

کون تھا یہ جس نے اس کو یہ تصاویر بھیجیں تھیں گھر کا تو ہو ہی نہیں سکتا کوئی کیونکہ سب نے ہی یشل کو دل سے قبول کیا تھا پھر یہ کون تھا..... اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا

کہ اس کا پھر سیل بجا " یشل پلیز " وہ اکتایا ہوا تھا سیل اٹھا کے دیکھا تو یشل کے بجائے شہلا بھابی کا نمبر دیکھ کے چونکا اور ریسیو کیا سلام دعا کے بعد وہ بولیں

" علی مجھے سمجھ نہیں آرہا میں تم کو یہ بات کیسے بتاؤں ..... اور تم پتا نہیں کیا رییکٹ کرو" وہ بولیں

" کیا بات ہے بھابی"

" علی بات یشل سے ریلیٹڈ ہے" شہلا نے سامنے بیٹھی لیلٰی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس نے " کیری اون" کا اشارہ کیا

علی چونکا " کیا بات بھابی خیریت"

" علی میں بہت دنوں سے تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی مجھے یشل کے رنگ ڈھنگ ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں"

" مطلب?"

" مطلب یہ کہ میں نے اسے کئی دفعہ اسے کسی نہ کسی لڑکے کے ساتھ ہاتھ میں ڈالے آتے جاتے دیکھا ہے جب بھی میں شاپنگ کرنے یا کہیں بھی گئی وہ مجھے کہیں نا کہیں کسی نا کسی کے ساتھ نظر ہی آئی" علی کا دل ایسے جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا 

" بھابی کیا پتا اس کا کوئی کزن ہو" اس نے اس کا بودا سا دفع کیا

" ارے چھوڑو جو کزن یا بھائی ہوتے ہیں نا وہ پتا چلتے ہیں ... اور ذرا بات سنو میری تم اگر وہ کزن بھی ہیں تو کیا وہ اس طرح لے کے گھومیں گے یشل کو" علی خاموش ہوا ورنہ دل تو خون کے آنسو رو رہا تھا 

" اور تمہیں پتا ہے کہ آج صبح ایک ان نون نمبر سے مجھے   موصول ہوئی ہیں" علی کا سانس رکا " علی اس کو یہ سب کرنے سے روکو کل کو اس نے ہمارے گھر کی عزت بننا ہے کیا عزت رہ جائے گی ہماری "  

" تو کیا وہ تصاویر اس کے گھر تک بھی پہنچ گئیں ہیں " اس نے سوچا

"بھابی میں آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں" کہہ کر بنا جواب سنے اس نے فون رکھ دیا

" کام ہو گیا " بھابی نے خوشی سے کہا 

" اوہ واؤ آپی کیا ایکٹنگ کی ہے مان گئی آپ کو" اس نے خوشی سے شہلا کو گلے لگا لیا.

                         --------

علی نے فون رکھ دیا ایک دم سے ہی اس دم گھٹنے لگا تھا ہر چیز سے وحشت ہونے لگی تھی اس نے غصے میں ساری چیزیں تہس نہس کردیں اب  وہ چھے فٹ کا لمبا چوڑا آدمی ذمین پہ سر جھکائے شکست خوردہ آدمی کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا آنسو بھل بھل اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھےسامنے ہی دیوار پہ اس کی پک لگی تھی وہ چلتا ہوا اس تک آیا

" اتنا بڑا دھوکہ یشل..... اتنا بڑا دھوکا کیا کمی رہ گئی تھی میری محبت میں" وہ چیخ رہا تھا " بتاؤ" اس نے فریم پہ زور سے ہاتھ مارا کہ فریم کا نازک شیشہ ٹوٹ گیا اور کچھ کانچ اس کے ہاتھ میں لگ گئے 

" مجھے تم سب لڑکیوں سے الگ لگتی تھیں پر تم بھی وہی نکلیں "

" دھوکا دیا ہے تم نے مجھے یشل میں کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں " اس نے اپنی آنکھیں بے دردی سے رگڑیں 

                         ---------

یشل کب سے روم میں بیٹھی علی کو کال پہ کال کیے جا رہی تھی پریشانی سے ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے اس کا دل انجانے خوف سے لرز رہا تھا کبھی ایسا ہوا نہیں تھا کہ علی نے اس کی کال اگنور کی ہو پر آج دو دن سے سے زیادہ ہوگئے تھے پر اس کی کوئی خیر خبر نہیں تھی 

" کہیں علی کو کچھ......." اس کا دل کانپا " نہیں نہیں اللٰہ نہ کرے" اس نے اسے دوبارہ کال کی پر جواب ندارد......

" یشل بیٹے کیا کررہی ہو... روم سے باہر آؤ تمہاری مامی اور اشعر کب سے تمہارا پوچھ رہے ہیں اور اب تو ڈنر کا ٹائم ہو رہا ہے " وہ جو ادھر ادھر ٹہل رہی تھی ماما کی بات پہ رکی

" جی ماما آتی ہوں"

" جلدی آنا" کہہ کر وہ چلی گئیں 

وہ پھر اسے کال کرنے لگی

" علی کیا ہو گیا ہے کہاں ہو آپ" علی نے واپس آنے کا بھی کہا تھا پر وہ نہیں آیا تھا جانے وجہ کیا تھی

ماما کی آواز پہ وہ پھر چونکی اور سیل رکھ کے روم سے باہر چلی گئی ان دو تین دنوں میں پتا نہیں کتنے میسجز اور کالز کر چکی تھی وہ پر کسی بجی میسج یا کال کا ریپلائی نہیں آیا تھا وہ بہت ڈسٹرب تھی

.                            -----

کھانا کھا کے وہ دوبارہ روم میں آئی اور پھر سے اسے کال کرنے لگی اس بار کال ریسیو ہوئی یشل نے سکھ کا سانس لیا

" شکر علی آپ نے کال تو ریسیو کی میں کب سے کال کررہی تھی آپ کو آپ ٹھیک ہیں نا?" یشل نے پوچھا

" مجھے کال کیوں کررہی تھیں?" علی نے سپاٹ لہجے میں کہا

" کیا ہوگیا ہے علی آپ کو نہیں کروں گی تو کس کو کروں گی" یشل نے کہا

" بہت سے لوگ ہیں جو تمہارے منتظر ہوں گے" علی نے کہا یشل سمجھی وہ اسے تنگ کرنے کو کہہ رہا ہے تبھی مسکرائی اور شرارت سے بولی

" ہاں ہیں تو....." یشل بولی تو علی کے دل سے ہوک اٹھی

" تو جاؤ ان سے بات کرو" علی نے ضبط سے کہا

" کوئی آپ کی طرح اسپیشل نہیں ہے نا کس سے بات کروں?"

" اوہ شٹ اپ یشل بے وقوف کسی اور کو بناؤ جا کے" وہ ایک دم ضبط کھو بیٹھا 

" کیا ہو گیا علی?" یشل حیرانی سے بولی کبھی علی نے اس سے اس طرح بات نہیں کی تھی

" یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو مجھے کیا ہوا ہے..... تمہیں خود پتا ہوگا کہ تم نے کیا ہے یا کیا کرتی پھر رہی ہو" علی نے معنی خیزی سے کہا تو یشل نے ناسمجھی سے پوچھا

" کیا مطلب?"

" مجھ سے مطلب پوچھ رہی ہو تم واہ"

" صاف صاف بات کریں علی پہیلیاں نہ بجھوائیں" 

" اچھا صاف صاف بات کروں تو یہ بتاؤ کہ وہ لڑکا کون تھا جس کے ساتھ تم شاپنگ کرتی پھر رہی تھیں" علی نے پوچھا

" کب???" یشل نے پوچھا اور اشعر کا تو اس کے ذہن میں ہی نہیں تھا علی مسکرایا

" تم اس ایک لڑکے کو بھول گئیں یشل کتنوں کے ساتھ شاپنگ کرتی رہتی ہو?" علی نے زہر میں ڈوبا طنز کیا 

" شٹ اپ علی آپ کی ہمت کیسے ہوئی اس طرح بات کرنے کی" یشل کو علی کا یوں کہنا ذرا اچھا نہ لگا اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں

" تو کس طرح بات کروں میں نے سمپل یہ پوچھا ہے ایک دو دن پہلے تم کس کے ساتھ شاپنگ پہ تھیں" یشل کو یاد  آیا وہ اشعر بھائی کے ساتھ گئی تھی پچھلے دنوں شاپنگ پہ

" علی وہ اشعر بھائی تھے میرے ماموں کے بیٹے..... اور وہ بھائی ہیں میرے آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے"

" اچھا " علی نے صرف اتنا کہا یشل کی دل کو کچھ ہوا ایک غلط فہمی کی وجہ سے وہ اس سے دور جا رہا تھا وہ کیسے اسے دور جانے دیتی

" علی آپ کو برا لگا میرا اس طرح سے اشعر بھائی کے ساتھ جانا" یشل نے پوچھا علی خاموش رہا

" علی سوری علی میں آئیندہ نہیں جاؤں گی پلیز یوں طپ نہ رہیں... مجھ سے ناراض نہ ہوں پلیز علی" وہ رونے لگی تھی 

" یشل میں بزی ہوں بعد میں کال کرتا ہوں" علی نے کہا

" نہیں پہلے بتائیں معاف کردیا آپ نے مجھے?" یشل نے روتے ہوئے کہا 

" یشل میں کرتا ہوں بعد میں کال" وہ اکتایا اس کا رونا اسے تکلیف بھی دے رہا تھا

" پہلے بتائیں" وہ بضد تھی

" اچھا کردیا معاف اب رونا بند کرو میں بزی ہوں بعد میں کرتا ہوں کال " علی جھنجلایا

" تھینک یو علی" یشل بولی علی فون رکھ چکا تھا 

یشل کو معلوم بھی نہیں تھا علی اتنی سی بات کا اتنا شدید ردعمل دے گا وہ حیران تھی

وہ علی سے بے حد محبت کرتی تھی اس لیے اسے اپنے اس رشتے کو بچانا تھا اور اس لیے علی کے آگے نا چاہتے ہوئے بھی وہ جھک گئی تھی.

                           -------

علی تھک کے بیڈ بیٹھ گیا اور سر ہاتھوں میں تھام لیا 

کس کا یقین کیا جائے..... یشل کا یا بھابی کا

یشل اس سے جھوٹ نہیں بولے گی پر..... بھابی کو جھوٹ بول کے کیا ملے گا..... اور پھر وہ تصاویر ان کو بھی بھیجی گئی ہیں اس کے علاوہ انہوں نے بھی یشل کو دیکھا ہے کسی کے ساتھ وہ جھوٹ نہیں بول سکتیں..... تو کیا یشل......." وہ ایک دم کھڑا دیا اور کھڑکی میں جا کے کھڑا ہو گیا وہ اس وقت بہت تکلیف میں تھا فیصلہ ہو چکا تھا.

اس دن کے بعد سے سب کچھ بدل گیا تھا وہ علی جو اس سے بات کیے بغیر اسے دیکھے بغیر رہتا نہیں تھا وہ اب کئی کئی دن ہو جاتے اس سے بات نہیں کرتا تھا یشل روز اسے کال کرتی روز میسج کرتی پر جواب ندارد ہوتا

وہ بہت ڈسٹرب رہنے لگی تھی یہ کیا ہورہا تھا اس کی زندگی میں

اکثر علی کا موبائل آف ملتا اور اگر اون بھی ہوتا تو کال ریسیو نہ کرتا  اور اگر کرتا بھی تو اس کے پاس بزی ہونے کا بہانہ موجود ہوتا وہ جو دن میں  چوبیس میں سے سولہ گھنٹے بات کیا کرتے تھے اب دن کیا ہفتے گزر جاتے وہ اسے پوچھتا نہیں تھا

یشل ان دنوں بہت ڈسٹرب رہنے لگی تھی غلطی کہاں ہوئی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ کئی بار اس سے میسجز کر کے معافی مانگ چکی تھی پر اسے ایک کا ریپلائی نہ 

..... علی نے جیسے اس سے لاتعلقی اختیار کر چکا تھا. 

.                           -------

شہلا برابر علی کو ورغلاتی رہتی تھی اور علی ان کی ہر بات کو سچ سمجھتا کہ بھابی بھی کبھی جھوٹ بول سکتی ہے..... دن یوں ہی تیزی سے گزرتے رہے دونوں میں فاصلے بڑھتے جا رہے تھے دونوں ہی خوش نہ تھے علی کئی بار اپنے گھر آیا پر یشل سے ملنے ایک بار بھی نہ گیا شہلا اور لیلٰی اس تبدیلی سے بے حد خوش تھیں

سچ کو تمیز ہی نہیں بات کرنے کی

 جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا  بولتا ہے.....

.                           -------

وہ روز اسے کال کرتی اور آج اتفاق سے کال ریسیو کی گئی تھی کہ علی پھر وہی بولا "میں بزی ہوں"

" علی آئی نو ایسا کچھ نہیں ہے.... پلیز مجھے میری غلطی تو بتائیں " یشل بولی

" کیا مطلب میں بہانے بناتا ہوں ہر بار" وہ بے رخی سے بولا یشل نے انگلی کی پور سے انکھوں کی نمی صاف کی پھر بولی

" کوئی بات نہیں..... مجھے معلوم ہے تھا آپ یہ ہی کہو گے"

" مجھے بھی معلوم تھا اب تو تم سمجھ گئی ہوگی" وہ معنی خیزی سے بولا

" ہمممم شاید...... یا شاید نہیں بھی....." کچھ دیر کو وہ

 خاموش ہوئی پھر بولی" علی آپ بہت ظالم ہیں"

علی نے ایک گہرہ سانس لیا

" زندگی سے اور وقت سے بڑا  ظالم بھی کوئی ہوا ہے...... خیر میں فون رکھتا ہوں" کہہ کر اس نے فون رکھ دیا

" سہی کہتے ہیں آپ علی زندگی اور وقت سے بڑا طالم کوئی نہیں ہوتا" یشل نے بند فون کو دیکھ کر کہا 

                      ----------

یشل لان میں گم سم سی بیٹھی تھی آج چھے ماہ ہوئے تھے علی نے ایک بار اسے پلٹ کے نہ پوچھا تھا..... کیا محبت ایسی ہوتی ہے???

کہ تھوڑی سی غلط فہمی پہ اپنے محبوب سے کنارہ کشی کرلی جائے محبت کا دل تو بہت فراخ ہوتا ہے پھر یہ کیا ہوا تھا کیا اس دنیا کی طرح محبت کے قوانین و اصول بھی بدل چکے ہیں شاید ہاں..... وہ تو اسے اپنی زندگی کہتا تھا اپنی جان مانتا تھا یشل سے دوری تو اسے موت کے مترادف لگتی تھی تو اب یہ کیا تھا... یہ تو الٹا ہو گیا تھا مرنے کا دعوے دار وہ تھا اور مر وہ رہی تھی وہ بھی پل پل..... 

وہ انہی سوطوں میں گم تھی  کہ اس کا موبائیل بجا بے دلی سے اس نے اپنا سیل اٹھایا دیکھا تو علی کالنگ کا نام جگمگا

 رہا تھا وہ اس کا دل ایک دم خوشگواری میں دھڑکا جلدی سے کال ریسیو کی

" ہیلو..... علی" آواز میں گرم جوشی تھی

" یشل مجھے ملنا ہے تم سے" مگر دوسری طرف لہجہ سپاٹ تھا نہ سلام نہ دعا نہ یہ پوچھا گیا کہ میں نے اتنے دن فون نہیں کیا تو ٹھیک تو ہو تم

" رئیلی علی... میں بھی آپ سے ملنا چاہتی ہوں میں بہت بہت مس کررہی تھی آپ کو" آنکھوں میں یک دم آنسو بھر

 آئے تھے پر ہونٹوں پہ دلفریب مسکان تھی

" جگہ اور ٹائم میں تمہیں میسج کردوں گا تم آجانا " کہہ کر وہ فون رکھنے لگا تو یشل بولی

" علی کیسے ہیں آپ?"

" ٹھیک" مختصر جواب ملا کچھ دیر خاموشی رہی تو علی بولا

" میں رکھتا ہوں فون" 

" سنو" ایک دم یشل بولی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی آنسو بہت تیزی سے اس کا چہرہ بھگونے لگے تھے

کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے نا وہ وقت جب آپ کو کسی سے بات کرنے کی طلب ہو اور وہ اپنے آپ کو مصروف ظاہر کرے

اس کی بے اعتناعی پہ اس کا دل کٹ رہا تھا

" آج اپنی یشل سے نہیں.. پوچھو گے کہ..کیسی ہے وہ?" لہجے میں ایک حسرت تھی

دوبارہ پھر ان دونوں کے درمیان خاموشی در آئی پھر علی بولا

" جب ملنے آؤ گی تب پتا چل جائے گا کہ تم کیسی ہو.... خیر میں بزی ہوں اللٰہ حافظ" کہہ کر اس نے فون رکھ دیا

کہتے ہیں نا کہ 

جب اپنی اہمیت خود بتانی پڑ جائے تو سمجھ لو کہ اب تمہاری کوئی اہمیت نہیں رہی.....

.                             -----

یشل علی کی بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچ گئی تھی علی وہاں پہلے سے موجود تھا اتنے دنوں کے بعد دیکھ رہے تھے دونوں ایک دوسرے کو..... یشل کی آنکھوں میں نمی در آئی

" کیسے ہیں?" آج بھی یشل ہی بولی تھی

" ٹھیک..... خیر بیٹھو"

جب وہ بیٹھ چکے تو علی بولا

"یشل..... میرا ماننا یہ ہے کہ جس رشتے میں اعتبار نہ ہو اس رشتے کو ختم ہو جانا چاہیے  میں نے اتنے دن ہمارے اس رشتے کو لے کے بہت سوچا بہت.... میں نے سوچا کے بتادوں تمہیں تاکہ وقت پہ ہم اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرلیں.... مجھے سمجھ نہیں آتی تمہیں مجھ میں ایسا کیا اچھا لگا تھا کہ تم نے میری محبت قبول کرلی تھی..... ابھی ہم اتنا قریب نہیں آئے ہیں کہ دور نہ جا سکیں پوری زندگی پڑی ہے ہماری کبھی نہ کبھی میں تمہیں  اور تم مجھے بھول ہی جاؤ گی.... بہتر ہے وقت پہ اپنی ہم راہیں  جدا کرلیں..... میں زبردستی رشتوں کا قائل نہیں ہوں کل کو یہ نہ ہوں کہ ہمیں پچھتانا پڑے سو....." اس نے بات کہتے کہتے ادھوری چھوڑ دی اور یشل کی طرف دیکھا جو دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی بنا آنکھیں جھپکے

" میرا خیال ہے آگے کی بات تم سمجھ گئی ہو گی" علی کھڑا ہوا

اللٰہ حافظ" کہہ کر وہ جانے لگا یشل ہمت کر کے کھڑی ہوئی

" میرا قصور بتاسکتے ہیں ?"

علی پلٹا " مجھ سے ملنا " اور کہہ کر چلا گیا 

                      ----------

وہ پتا نہیں کیسے اپنے آپ کو گھسیٹتے گھسیٹتے گھر لائی تھی اپنے کمرے میں آکے دروازہ لاک کیا اور وہیں بیٹھتی چلی گئی گھر میں اس وقت شاید  کوئی نہیں تھا اس کا دل کیا چیخ چیخ کر روئے

آج اس کے اوپر قیامت ٹوٹی تھی..... اسے آج پتا چلا تھا برباد ہونا کسے کہتے ہیں

وہ بے تحاشا رو رہی تھی آج ایسا لگتا تھا اس کی روح فنا ہو جائے گی اور پھر ایک دم اسے زور کا چکر آیا اور وہ بے سد ذمین پہ گری

.                       --------

" افففففف آپی مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا علی اب جب بھی آتا ہے یشل سے ملتا ہی نہیں ہے....." لیلٰی کے پاؤں خوشی سے ذمین پہ نہیں ٹک رہے تھے

" زیادہ خوش مت ہو ابھی وہ اسی سے ہی ملنے گیا ہوا ہے" شہلا نے اس کی خوش فہمی ختم کرنا چاہی 

" ارے آگیا ہے علی ابھی ابھی آیا ہے اور آپ کو ایک بات بتاؤں?" لیلٰی بولی

" ہاں بولو"

" ابھی فاطمہ علی سے یشل کا پوچھ رہی تھی تو علی نے اسے جھڑک دیا اور کہا کہ خبردار جو آج کے بعد اس کا نام بھی لیا..... اففففف آپی آپ کو میں بتا نہیں سکتی مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے"

" کیا سچ میں??? ایسا کہا علی نے???" شہلا نے بے یقینی سے کہا 

" ہاں آپی یقین نہیں آرہا نا" لیلٰی ہنسی

" مجھے تو لگتا ہے یہ اس کی آج یشل سے آخری ملاقات تھی" شہلا بولی

" ہاہ..... سکون مل گیا آج مجھے ورنہ اس یشل نے تو جینا حرام کیا ہوا تھا میرا" لیلٰی بولی

ارے چلو کیا آج کے دن بھی اس کو یاد کرنے بیٹھ گئی ہو..... اب ایک بات سنو میری علی کے ساتھ اب زیادہ سے زیادہ رہو سمجھ آئی" 

" ہاں ہاں اب آپ دیکھتی جائیں" 

                       ---------

کسی سے محبت انسان کو بہت کمزور کردیتی ہے.... نہت بےبس بہت مجبور..... اتنا کہ پھر انسان اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو جاتا ہے

یشل اس وقت ہاسپٹل میں تھی اسے نروس بریک ڈاؤن ہوتے ہوتے بچا تھا

بہت دیر تک جب وہ روم سے باہر نہ نکلی دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو دروازہ کا لاک توڑا گیا اور جب جا کے دیکھا تو وہ بے سد پڑی تھی اسے فورا ہاسپٹل لے جایا گیا تھا

سب نے اس سے وجہ پوچھنی چاہی مگر اس نے ایک لفظ منہ سے نہ نکالا بہت کوششوں کے بعد بھی جب وہ نہ بولی تو سب نے پوچھنا ترک کردیا اور کچھ ڈاکٹرز کی بھی ہدایت تھی کہ اس پہ زور نہ دیا جائے کیونکہ پھر اس کے برین پہ اثر ہو سکتا تھا عطیہ اور ارسلان کو کچھ کچھ اندازہ تو تھا ہی پر انہیں بھی کنفرم نہیں تھا کہ بات کیا ہے

کچھ دن بعد اسے ڈسچارج کردیا گیا گھر آکے بھی وہ کسی سے بات نہ کرتی بہن بھائی شور کرتے باتیں کرنے کی کوشش کرتے پر وہ کچھ نہ بولتی

اس رات جب ماما نے اس سے پوچھا تو تب یشل کہ ہونٹوں پہ لگا قفل ٹوٹا اور اس نے سب کچھ بتادیا آج پھر سے وہ بے ٹھاشا روئی تھی کہ ماما کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا ارسلان کو بھی پتا چلا تو اسے بھی بہت دکھ پہنچا

                       ----------

زندگی کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر رہی تھی پر علی کی محبت اس کے دل میں جہاں کی تہاں موجود تھی وہ اسے لاکھ بھلانے کی کوشش کرتی پر ہمیشہ ناکام ہوتی

" میں آپ کو بھولنا چاہتی ہوں علی..... پر آج بھی آپ میرے دل کا حصہ ہو....آپ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ مجھے آپ میں کیا اچھا لگتا ہے.....میں آپ کو کیسے بتاتی مجھے آپ میں کیا اچھا نہیں لگتا تھا.... آپ کا میرے اردگرد گھومنا..... آپ کی ہر وقت کی توجہ.... آپ کا جان چھڑکنے والا ہر انداز.....

میں ریت کی ایک دیوار کی طرح تھی مجھے ٹوٹنے سے خوف آتا تھا پر آپ نے مجھے سنگ مرمر سمجھ لیا اور بےدردی سے توڑ دیا

میں نے سنا تھا کہ لوگ محبت کے بعد بدل جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں پر میں نے تو تمہیں کبھی لوگوں میں گنا ہی نہیں تھا.....

وہ بیڈ پہ بیٹھی کراؤن سے ٹیک لگائے سوچ رہی تھی دو آنسو ٹوٹ کے اس کی آنکھوں سے گرے تھے

خوش تو وہ بھی نہیں تھا اپنے فیصلے سے.. پر وہ اس دل کا کیا کرتا جو اب کسی طور مانتا ہی نہیں تھا

کہتے ہیں نا کہ مرد کے دل میں اگر شک کا بیج پیدا ہو جائے تو وہ اپنی جڑیں مضبوط تو کرسکتا ہے پر ختم نہیں کرسکتا

علی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملا تھا غلط ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں تھا حالات ہی اپسے پیدا ہوگئے وہ بھی کیا کرتا

کتنی ہی دیر وہ سڑکوں پہ پھرتا رہا گھر آکے اس نے شاور لیا گویا اپنے اندر کی گھٹن کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کرنا چاہی پر وہ تو ویسی کی ویسی ہی تھی

اس نے اپنا سر ہاتھوں میں لے لیا

نہیں  مجھ  کو  شکایت  اب  کسی  سے

بظاہر  خوش  ہوں  لیکن  سچ  بتادوں

میں  اپنے  آپ  سے  روٹھا  ہوں........

بس  اپنے  آپ سے  روٹھا  ہوا   ہوں

کتنی ہی دیر وہ یوں ہی بیٹھا رہا کہ دروازہ ناک ہوا اس نے پوزیشن تب بھی طینج نہ کی وہ ابھی کسی سے بھی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا

" علی آجاؤ کھانا کھالو" دروازہ ناک کرکے لیلٰی اس کے کمرے میں داخل ہوئی علی کچھ نہ بولا

" علی" لیلٰی نے پھر کہا " افففففف ایک تو یہ مجنوں" لیلٰی دل ہی دل میں تپی لیکن لہجے میں مٹھاس بھر کے بولی

" علی آر یو اوکے???" وہ چلتی ہوئی اس تک آئی

" کیا ہوا ہے???" وہ بناوٹی پن سے بولی حالنکہ اچھی طرح جانتی تھی کہ کیا ہوا ہے اسے

" علی" لیلٰی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا علی چونکا پھر اس کا ہاتھ اپنے کندھے پہ دیکھ کے غصے کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ گئی

" ڈونٹ ٹچ می لیلٰی یہ کیا طریقہ ہے..... اور یہ تم کس سے پوچھ کے میرے روم میں آئی ہو" لیلٰی بھونچکا سی اسے دیکھ رہی تھی

" علی میں تو..کھانے کے لیے بلانے..."

"تم کھانے کے لیے بلانے آئی ہو??? فاطمہ کہاں ہے جو تم آئی ہو.....چلو نکلو یہاں سے فورا" علی نے لہاظ برائے طاق رکھ کے کہا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا

" علی یہ تم مجھ سے کس طرح بات کررہے ہو میں مہمان ہوں " لیلٰی نے کہا

" تو کیا مہمان ہر ایک کے کمرے میں یوں منہ اٹھا کے آجاتے ہیں..... مہمان ہو تو مہمان بن کے رہو آئی سمجھ ..... اور تمہیں پتا نہیں ہے کہ غیر آدمیوں کے کمرے میں یوں منہ اٹھا کے نہیں آتے ہیں" علی نے غصے میں اسے اچھی خاصی جھاڑ پلادی تھی لیلٰی کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا

                       -------

" پلیز......" علی نے پھر دروازی کی طرف اشارہ کیا جس کا مطلب تھا " دفع ہو جاؤ"

لیلٰی تلملاتی ہوئی باہر نکل گئی.

                           ---------

یشل نے اپنے آپ کو پڑھائی میں بےحد مصروف کرلیا تھا 

" ہائے بہنا" ابھی بھی وہ کتابوں میں سر کھپا رہی تھی کہ ارسلان بھائی کی آواز پہ چونکی

" کیسی ہو???" انہوں نے مسکرا کے کہا

" ٹھیک....." وہ مسکرائی پر آنکھوں میں اداسی کا ڈیرہ تھا

" لگ تو نہیں رہی ہو?" وہ پھر بولے وہ کچھ بولنے لگی کہ ماما چلی آئیں 

" ارے ارسلان بیٹا آپ کب آئے ....."

" اسلام و علیکم چاچی بس ابھی آیا ہوں"

" وعلیکم السلام بیٹا بیٹھو نا" انہوں نے کہا

" چاچی یہ یشل کو دیکھیں کتنی پڑھاکو ہوگئی ہے مجال ہے جو کتابے بند کرکے بھائی سے بات ہی کرلے" اس نے کتابیں لے کے بیٹھی یشل کو دیکھ کے کہا

" یشل بیٹا جاؤ کتابیں رکھو اور بھائی سے تو باتیں کرو" عطیہ چاہتی تھیں وہ جلد سے جلد نارمل ہو جائے اس کی یہ حالت ان سے دیکھی ہی نہیں جاتی تھی

یشل بکس رکھنے گئی ت عطیہ ارسلان سے بولیں

" بیٹا اسے سمجھاؤ زندگی ایسے نہیں گزرتی.. یہ تو ایسے اپنے آپ کو گھلا رہی ہے اپنا نقصان کررہی ہے" 

" چاچی آپ بےفکر رہیں میں بات کرتا ہوں یشل سے آپ ٹینشن نا لیں " ارسلان نے انہیں تسلی دی 

" مجھے امید ہے کہ وہ تمہاری بات ضرور سمجھے گی" عطیہ بولیں

ارسلان یشل کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کررہا تھا کہ باتوں باتوں میں ارسلان بولے

" تمہیں معلوم ہے دنیا میں سب سے قیمتی چیز کیا ہے?"

" ہممم...." یشل نے ہاں میں سر ہلایا

" بتاؤ?"

" انسان کی زندگی میں سب سے قیمتی چیز زندگی ہے" 

" یہ کیسا الجھا ہوا جواب ہے" ارسلان بھائی نے پوچھا تو یشل بولی

" جیسی زندگی ہے ویسا ہی جواب ہے"

" بالکل نہیں .....  زندگی کو الجھا ہوا ہم خود بناتے ہیں یشل"

" تو پھر آپ ہی بتائیں کہ زندگی کیا ہے?"

" مجھ سے پوچھو تو زندگی کی سب سے بہترین اور قیمتی چیز خواب ہے..... کیونکہ اگر خواب نہ ہوں تو زندگی جینے کے لائق نہیں ہوتی"

" اور جن کے خواب ہی ٹوٹ جائیں تو وہ کیا کرے مر جائے"

" بالکل نہیں..... خواب ٹوٹتے ہیں تو نئے سرے سے ہم انہیں بن بھی لیتے ہیں اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں..... ہاں کچھ خواب پورے نہیں ہوتے..... پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم زندگی سے منہ موڑ لیں یا ان ٹوٹے ہوئے خوابوں کو یاد کرکے ہم اپنے اچھے دن بھی گنوا دیں..... یشل زندگی ہمیشہ جینے کا نام ہے اسے گزارو مت نئے سرے سے خواب دیکھو اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرو"

 "یہ بہت مشکل ہے ارسلان بھائی" یشل دکھ سے بولی

" مشکل ہے پر ناممکن نہیں..... تم کسی ایک کی یاد میں اتنے سارے محبت کرنے والوں کو دکھ دے رہی ہو یشل سوچو تمہارے پیرنٹس کس اذیت سے گزرے ہیں پچھلے دنوں جب تم ہاسپٹل میں تھیں" وہ دھیرے دھیرے اسے سمجھا رہے تھے

" تم ان کا تو سوچو گڑیا" 

"ارسلان بھائی ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں جس نے مجھے چھوڑ دیا میں اس کے پیچھے ابھی تک بھاگ رہی ہوں اور اپنے سے محبت کرنے والوں کو تکلیف ہی تو دے رہی ہوں" اس نے دل میں سوچا

" آئی ہوپ تم میری بات سمجھ رہی ہوگی" ارسلان بھائی نے کہا تو اس نے مسکرا کے سرہلادیا

" انشآاللٰہ دیکھنا تمہارے نصیب میں اس سے بھی اچھا اور بہتر کوئی ہوگا" انہوں نے مسکرا کے کہا تو یشل خاموش ہوگئی کیا کہتی کہ

ضرورت  اچھے کی نہیں ہوتی اس کی ہوتی ہے جس سے محبت ہو......

                      --------

لیلٰی تلملاتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی غصے سے اس کا برا حال تھا علی نے آج اس کی اچھی خاصی انسلٹ کی تھی

" ہمت کیسے ہوئی اس کی مجھے اتنا کچھ سنانے کی سمجھتا کیا ہے وہ اپنے آپ کو..... یشل کی یادوں میں مجنوں ہی بن گیا ہے ہونہہ..... اتنی تذلیل تو آج تک میری کسی نے نہیں کی اور یہ علی....." غصے سے اس کا چہرہ لال ہ رہا تھا

" لیلٰی آجاؤ یہاں کیوں بیٹھی ہو?" فاطمہ نے اسے آواز دی

" یہ تم اپنے بھائی سے نہیں پوچھتی ہو.. گھر آئے مہمان کے ساتھ کوئی ایسا رویہ رکھتا ہے" لیلٰی تو ویسے ہی کڑھ رہی تھی فاطمہ آئی تو اسے سنانے لگ گئی

" ہوا کیا ہے کیا کہا ہے بھائی نے"

" یہ تم اسی سے پوچھو" اتنے میں شہلا بھی چلی آئی

" کیا ہوا?"

" آپی علی نے میری بہت انسلٹ کی ہے حالانکہ آپ نے ہی مجھے کہا تھا نا کہ علی کو کھانے کے لیے بلالوں"

" واٹ علی نے انسلٹ کی تمہاری " شہلا مڑیں اور اپنئ ساس کو مخاطب کرکے بولیں

" دیکھ رہیں آپ امی علی نے میری بہن کی بےعزتی کی ہے میں نے ہی اسے کہا تھا کہ علی کو کھانے کے لیے بلا لائے" شور کی آواز پہ علی بھی روم سے باہر آیا

" علی میں کیا سن رہی ہوں تم نے لیلٰی سے بدتمیزی کی ہے.. میں ایسا تو نہیں سمجھتی تھی تمہیں" علی خاموش کھڑا تھا لیلٰی کو لگا وہ اس سے معزرت کرے گا اپنے رویے کی پر.....

" امی پلیز یہ مہمان ہیں ایک طرح سے.. اور جو میں نے انہیں کہا وہ اتنا غلط بھی نہیں ہے  کہ غیر مردوں کے کمرے میں منہ اٹھا کے نہیں آجاتے .." لیلٰی کو ایک بار پھر سب کے سامنے اپنی انسلٹ ہوتی ہوئی فیل ہوئی

"بہرحال آئیندہ سے فاطمہ آئے مجھے بولنے جو بھی بولنا ہے.. مجھے بھوک نہیں ہے اور مجھے کوئی ڈسٹرب بھی نہ کرے" وہ بول کے پھر اپنے روم میں چلا گیا.

                        ------

علی نے گھر میں سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ یشل کا نام کوئی نا لے نا اس سے کوئی رابطہ رکھے

علی کی امی اور بہنوں کو یقین ہی نہیں تھا کہ یشل ایسی ہو سکتی ہے وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں انہیں یہ کسی کی سازش لگتی تھی

علی کے منع کرنے باوجود علی کی بہنیں اور امی اس سے ہر ٹائم رابطے میں رہتے تھے جس کا انہوں نے علی کو بھی نہیں بتایا تھا

                    -----------

اس دن کے بعد سے وہ زندگی کی طرف آنے لگی تھی پھر سے ہنسنے بولنے لگی تھی وقار اور عطیہ اسے ایسے دیکھ کے بے حد خوش تھے اور وہ اپنے پیرنٹس جو دیکھ کے

پر اسے کیا پتا تھا اس کی یہ خوشیاں بھی عارضی ہیں

یہ صبح دس بجے کا وقت تھا یشل یونی گئی ہوئی تھی اس سے چھوٹی سیکنڈ نمبر والی بہن کالج گئی تھی اور سب سے چھوٹا مصطفیٰ اس گیا ہوا تھا امل اور غزل نے آج چھٹی کرلی تھی وہ گھر تھیں

یشل آج جلدی یونی سے گھر کے لیے نکل گئی تھی پتا نہیں کیوں دل اتنا گھبرا رہا تھا وہ جیسے ہی گھر کے قریب پہنچی تو دیکھا بہت سے لوگ اس کے گھر کے پاس جمع تھے کچھ لوگ گھر کے اندر تھے اس کا دل گھبرایا تیزی سے چلتے ہوئے وہ گھر کے قریب پہنچی تو کسی کی آواز اس کے کان میں پڑی

" بڑی ہی دردناک موت ہوئی ہے سلینڈر پھٹا ہے گھر میں.. چاروں میں سے کوئی بھی نہیں بچا.. یہاں تک کے چہروں کی شناخت مشکل ہو رہی ہے.. بیچارے تینوں بچے جائیں گے کہاں اتنا ہنستا بستا گھر تھا وقار بھائی کا"

یشل کے پیروں کے نیچے سے ذمین ہی نکل گئی ایسا لگا جیسے آسمان پھٹا ہو اس کے اوپر وہ سن کھڑی رہ گئی.

اس دن پھر وہ بےتحاشا روئی  تھی اتنا کہ لگتا تھا کہ جیسے وہ بھی مر جائے گی تین دن تک تو اس کو یہ ہی نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں ہے اس کے بہن بھائی کہاں ہیں اس کے گھر والوں کا کفن دفن کیسے ہوا اور جب تین دن بعد ہوش آیا تو اس کا دل پھٹنے لگا تھا ان چند دنوں میں وہ بہت تیزی سے بربادی کی طرف گھسیٹی گئی تھی

کیا وہ اب بھی زندہ تھی اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی.....????

علی کے سب گھر والے آئے تھے اس کے پاس پر جس کا انتظار تھا وہ ہی نہیں آیا تھا

کبھی کبھی مرنے کے لیے ذہر کی ضرورت نہیں پڑتی حساس انسانوں کو تو لوگوں کے رویے ہی مار دیتے ہیں اور وہ موت زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے

.                       ------------

وقار آفندی اور عطیہ کے انتقال کو ایک ماہ ہوگیا تھا اس دن کے بعد نہ پھپو نے آکے پوچھا نہ کسی چاچا نے..... کیا رشتےدار اس طرح ہوتے ہیں....???

کہ اپنے خونی رشتوں کو ہی نہ پوچھیں خونی رشتے بھی بھائی کے بچے

مامی تو انہی کے پاس رکی ہوئیں تھیں کیونکہ وہ لوگ ابھی چھوٹے تھے

اسے لگتا تھا جیسے وہ ایک تپتے صحرا میں آکھڑی ہوئی ہے 

جہاں دور دور تک کوئی سایہ نظر نہیں آتا تھا ایک دم سے وہ بہت اکیلی ہوگئی تھی

محبت ہو بھی جائے تو

 میرا یہ بخت ایسا ہے

 جہاں پہ ہاتھ میں رکھ دوں

 وہاں پہ درد بڑھ جائے

 محبت سرد پڑ جائے......

                           ---------

" وقار تو چلا گیا دنیا سے اب..... جو دولت ملتی تھی نا وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی اب تو..... کاش کچھ ہمارے نام ہی کرکے چلا جاتا ہم بھی دعا دے دیتے" رابعہ کو تو افسوس ہی ہورہا تھا دولت کے ہاتھ سے چلے جانے کا..... کہتے ہیں بھائی تو بہنوں کی جان ہوتے ہیں اور بہنیں تو انہیں خوش دیکھ کے ہی خوش رہتی ہیں ان پہ اپنی جان لٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں پر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی تھی..... یہاں بہنوں کو بھائ کے مرنے سے زیادہ بھائی کی دولت کے چلے جانے کا دکھ ہو رہا تھا

" اب کیا کہہ سکتے ہیں چھوڑیں اس بات کو..... بچوں کی خیر خبر لے کر آئیں" ذرمینہ بولیں

" ارے چھوڑو جس مقصد کے لیے ہم وہاں جاتے تھے اب وہ مقصد ہی ختم ہو گیا ہے اب جا کے کیا کرنا وہاں" رابعہ جھٹ بولیں

" سب کچھ بچوں کے نام کروا کے گیا ہے" وہ پھر شروع ہوگئی تھیں

" ویسے میں نے ایک حل سوچا ہے اس کا جس سے ہمارے پاس پوری دولت آسکتی ہے " کب سے چپ ہاشم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا

" کیا حل ہے جلدی بتاؤ" پھپو کی آنکھیں چمکیں

" کیوں نا ہم وقار کی بیٹی یشل کی شادی اپنے بچوں میں سے کسی سے کردیں"

" تو اس سے کیا ہو گا  پوری دولت اس کے پاس تھوڑی ہے اس کے ابھی ایک بہن اور ایک بھائی موجود ہے اور بھائی کا حصہ بہنوں سے زیادہ ہوتا ہے" رابعہ بد مزا ہوئیں تو انعم بھی فورا بولیں

" وہ تو ابھی چھوٹے ہیں اور یشل کی دولت تو ہاتھ میں آہی جائے گی ہمارے..... باقی کی ہم اسے سے زبردستی ہتھیا لیں گے"

" ہاں جیسے وہ فورا دے دی ہمیں ہونہہ..... یہ آج کل کے بچے بہت تیز ہیں ایک نمبر کے ڈھیٹ"

" تبھی تو ہم یشل کا انتخاب کررہے ہیں..... اس میں اور لوگوں کی طرح چالاکی نہیں ہے جس رخ پہ موڑیں گے مڑ جائے گی..... اور ذرا سا ٹارچر کریں گے تو اس کے بہن بھائی خود اپنا حصہ بھی ہمیں دے دیں گے" سمیہ بولیں

" مجھے تو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا ہے ہم یتیموں کا حق کھا کے اچھا نہیں کریں گے ہاشم" زرمینہ کو ڈر لگ رہا تھا

" ارے کچھ نہیں ہوتا ہم بھی ضرورت مند ہیں اور ویسے بھی ہم اس دولت کے بدلے ایک یتیم کا گھر بھی تو بسا

 رہے ہیں نا تو اس کے عوض اگر کچھ لے لیں گے تو کچھ نہیں جائے گا" رابعہ بولیں تو زرمینہ خاموش ہوگئیں

" ارے یشل کو بہو بنائے گا کون?" انعم بولیں

"ارے میری بھتیجی ہے میں اسے اپنے معیز سے لے لوں گی" رابعہ فورا بولیں " دولت آنے کی ابتداء میرے گھر سے ہی ہونی چاہیے کیونکہ میں بڑی ہوں تم سب سے" رابعہ نے فورا جتا کے واضح کیا کہ وہ بڑی ہیں  ارسلان جو ان کے پاس کسی کام سے آیا تھا اس نے ان کا لفظ لفظ سنا تھا.

                       --------

رات کا تیسرا پہر تھا علی کو کسی طور قرار نہیں تھا 

پتا نہیں کیسی ہو گی وہ....??? اس کے پیرنٹس کے انتقال کی خبر ملی تھی اسے پر وہ نہیں گیا

وہ اس سے ہر رشتہ توڑ آیا تھا اسے ڈر تھا کہ اگر اس حالت میں اسے دیکھا تو وہ برداشت نہیں کرپائے گا بےبس ہوجائے گا اسے دیکھ کر..... بہت چاہنے کے باوجود وہ نہ گیا آج ایک ماہ ہوگیا تھا ان کے انتقال کو..... اس کا دل بے چین تھا

وہ پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن بے سود..... اس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا اپنا سیل اٹھایا اور فون کی گیلری میں گیا 

وہ سارا دن سوچتا تھا کہ وہ اسے بھول جائے گا وہ اپنے دوستوں میں زیادہ رہنے لگا تھا ان کے ساتھ ہنستا مسکراتا خوش نظر آنے کی کوشش کرتا..... اس نے اپنے آپ کو بےحد مصروف کرلیا وہ اپنے آپ کو ایک لمحہ بھی فری نہ رہنے دیتا

لیکن ان سب کے باوجود ..... جب وہ رات کو سونے کے لیے لیٹتا تو ایک بار ضرور اپنے سیل کی گیلری میں جاتا جہاں پہ اس نے اس کی  بہت سی یادیں سنبھالی ہوئیں تھیں

وہ چاہ کر بھی ان یادوں کو مٹا نہیں پایا تھا یہ یادیں اس کے جینے کا اثاثہ تھیں تب اس کا دل بے اختیار کہتا تھا

" تم کچھ بھی کرلو وہ تمہارے دل میں اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ موجود ہے تمہارا دل ویران نہیں تنہارا دل اب بھی آباد ہے" اور اس بات پہ ہر بار کی طرح وہ سر جھٹک لیتا تھا اور ابھی بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا.

                          -----------

" اوہ مائے گاڈ اتنا بڑا دھوکا..... یہ لوگ اتنے بےحس ہیں کہ بھائی سے زیادہ فکر انہیں دولت کی ہے..... نہیں میں اور ان لوگوں کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا ماما بابا کے بعد ایک وہی تو میرے اپنے ہیں..... مجھے ہر حال میں انہیں پروٹیکٹ کرنا ہے اس بھائی نام کا مان مجھے ہی رکھنا ہے" وہ وہیں سے پلٹا تھا.

.                           ----------

"آپی ہوم ورک کروا دیں" مصطفٰی نے اس سے آکے کہا

" ہوں ہاں.. جاؤ لے آؤ کروا دیتی ہوں" وہ چونکی مصطفٰی اپنا بیگ لینے چلا گیا

مامی بھی اپنے گھر چلی گئیں تھیں کب تک رکتیں وہ بھی انہیں بھی تو اپنا گھر دیکھنا تھا اب وہ تینوں اس بڑے سے گھر میں اکیلے ہوتے تھے رات کو سوتے ہوئے بھی مصطفٰی کو ڈر لگتا ڈر تو اسے بھی لگتا تھا پر وہ ظاہر نہیں کرتی تھی کیونکہ اب ان کی زندگی یہ ہی تھی اب انہیں اپنی زندگی سے سمجھوتہ کرنا تھا

اس نے سر جھٹکا اتنے میں مصطفٰی بھی اپنا بیگ لے آیا  وہ اسے ہوم ورک کروانے لگی مشعل اپنے روم میں تھی اتنے میں ارسلان بھائی چلے آئے

" ارسلان بھائی آپ....." یشل چونکی

" ہاں گڑیا تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے"

" اچھا رکیں میں آپ کے لیے چائے بنواتی ہوں" وہ اٹھنے لگی تو وہ بولے

" نہیں گڑیا جلدی میں ہوں میں مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے" 

" کیا بات ہے بھائی" یشل بولی

" ہے کچھ بات....." وہ مصطفٰی کے سامنے بولنے سے اوائیڈ کررہے تھے

" مصطفٰی مشعل آپی کو بولو وہ آپ کا ہوم ورک لرادیتی ہے" یشل نے مصطفٰی کو وہاں سے اٹھایا

" جی اب کہیں بھائی" یشل بولی تو ارسلان نے ساری بات اسے بتا دی یشل تو ہقابقا رہ گئی یہ سن کے

" ارسلان بھائی یہ آپ کو کیسے پتا چلا" کچھ دیر بعد وہ بولی تو لہجے میں دکھ سا تھا

" میں آج کسی کام سے وہاں گیا تھا تب سنا..... یقین نہیں آرہا نا..... مجھے بھی نہیں آیا تھا پر ایسا ہی ہے"

" میں.. میں منع کردوں گی انہیں یہ شادی نہیں کروں گی"  یشل کی آواز لڑکھڑائی

" یشل دیکھو گڑیا ہمارے پاس کوئی نہیں ہے جو ہمارے حق میں بولے.. جو تھے وہ چلے گئے.. انہیں پتا ہے اب تم لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے تو وہ اپنی مرضی بھی کر جائے گے لوگ بہت بےحس ہیں یشل"

" تو میں کیا کروں ارسلان بھائی مجھے سمجھ نہیں آرہی " وہ رونے والی ہورہی تھی

" تم لوگ ایسا کرو یہ ملک چھوڑ دو" ارسلان بھائی بولے " اور اپنی نئی زندگی کی شروعات کرو.... یہاں رہو گی تو یادیں تم لوگوں کو آگے بڑھنے نہیں دیں گی.. تمہارے پاس اب صرف یہ دو تمہارے اپنے بچے ہیں تم ان کے مسقبل کا سوچو یشل" وپ اسے سمجھانے لگے

" پر ہم جائیں گے کہاں ???" یشل بولی

" میرا ایک دوست ہے اس کے پیرنٹس ہیں امریکہ میں تم ان کے پاس چلی جاؤ ویسے بھی میرا دوست ان کے ساتھ نہیں رہتا ہے کچھ دن وہاں رہ لینا میں ان سے بات کرلوں گا پھر جب گھر کا انتظام ہو جائے تو اپنے گھر میں شفٹ ہو جانا"

" پر بھائی ایک انجان ملک میں وہاں کے لوگ سب اجنبی سا ہوگا ہم کیسے......" اس بے بات ادھوری چھوڑی

" یشل اس شناسا ملک کے لوگوں نے کیا دیا تمہیں..... کچھ نہیں نا تو ایک بار انجان لوگوں کو بھی آزمالو "

وہ خاموش رہی

" میں انکل آنتی سے بات کرلوں گا انکل ڈاکٹر ہیں وہاں اور آنٹی ایک اسٹور چلاتی ہیں بہت اچھے ہیں وہ لوگ آئم شیور تمہیں بھی وہ لوگ پسند آئیں گے" ارسلان بھائی اسے ان لوگوں کے بارے میں بتارہے تھے اور وہ سن رہی تھی

                         ---------

اس وقت وہ کراچی ائیر پورٹ پہ کھڑی تھی ہیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ملک کو خیرآباد کہنے کے لیے..... آنکھوں سے آنسو رواں تھے کتنی ہی اچھی بری یادیں تھیں یہاں..... ماں باپ بین بھائی کی قبریں تھیں..... وہ تھا جسے اس نے خود سے زیادہ چاہا تھا..... سب چھوڑ کے جا رہی تھی وہ

علی کے گھر والے سب اس سے رابطے میں تھے پر ایک وہی تھا جو بےحس بن گیا تھا

"یہاں سے جاتے ہوئے تم سے غصہ نہیں ہوں میں.....بس ایک مایوسی سی ہے تم سے کہ تم مجھے سمجھ ہی نہیں پائے یا شاید میں ہی نہیں سمجھ پائی تمہیں.....محبتیں یوں ہی پروان نہیں چڑھتیں علی.. بھروسہ لینا پڑتا ہے.. بھروسہ دینا پڑتا ہے... خیر اللٰہ حافظ جاؤ آزاد کیا" وہ سوچوں کے گرداب میں گم تھی کہ اس کی فلائیٹ کی اناؤسمنٹ ہوئی تو وہ چونکی

تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی زندگی کا یہ باب بند کرکے چلی گئی تھی جہاز لینڈ کر چکا تھا

جاؤ آزاد کیا تم کو

 اپنی یادوں سے

 اپنی باتوں سے

 اپنی آنکھوں سے 

اپنے خوابوں سے

 اپنی سوچوں سے

 اپنے جذبوں سے

 سنو !!! آزاد ہو تم اب

 سنو!!! خوش ہی رہنا تم اب

 سنو یہ دعویٰ تو نہیں لیکن

 تمہیں میں یاد آؤں گی کہ

 شاید پھر رلاؤں گی

 لیکن

  پریشان مت ہونا

 جو میرا خیال آئے تو

 اسے بےدردی سے جھٹک دینا 

کہ شاید اتنا حق بھی نہیں ہے تم پہ

 اب سنو!!!  آزاد ہو تم اب

 سنو تم خوش ہی رہنا اب.......

یہاں سے اس کی زندگی کا نیا بابا کھلا انہیں یہاں آئے ایک ہفتہ ہوا تھا ان کا بلکل دل نہیں لگ رہا تھا نئی نئی جگہ تھی نئے نئے لوگ..... خیر....

آنٹی حلیمہ بہت اچھی خاتون تھیں وہ ان کا بہت دھیان رکھ رہی تھیں کبھی کبھی وہ کہتیں کہ

" مجھے ایسا لگتا ہے میرے خاموش گھر میں جیسے پھر سے رونق آگئی ہے" ان کی پر شفقت طبیعت کی وجہ سے وہ لوگ ان سے جلدی گھل مل گئے

اس دن یشل ان کے ساتھ کچن میں کام کروا رہی تھی کہ وہ بولیں

" تم اتنی طپ کیوں رہتی ہو??? حالانکہ تمہارے بھائی بہن تمہارے برعکس پھر بھی بولتے ہیں "

" آنٹی سچ بتاؤں تو میرا دل ہی نہیں چاہتا اب بولنے کو ..... کچھ بچا ہی نہیں ہے میرے پاس خوش ہونے کو یا بولنے کو سب تو کھو بیتھی ہوں میں" وہ دکھ سے بولی

" نہیں بیٹا ایسا نہیں کہتے یہ تو سراسر ناشکری میں کاؤنٹ ہو جاتا ہے..... جب ہم سب کھو دیتے ہیں نا تب بھی ہمارے پاس ایک چیز ہوتی ہے وہ ہے امید..... جب تک ہم میں امید کی کرن ہے ہم تب تک زندہ ہیں ہماری زندگی اس ایک امید پہ تو ڈیپینڈ کرتی ہے..... امید کے بغیر جینا تو موت کے برابر ہے بیٹے" وہ اسے اپنے پرشفقت انداز میں سمجھانے لگیں

" تو پھر آنٹی میرے اندر تو امید کی کوئی کرن ہے ہی نہیں..... تو کیا میں....." اس نے بات ادھوری چھوڑ دی

" بالکل نہیں..... کون کہتا ہے کہ تم میں امید کی کرن نہیں ہے..... تم اس امید کے سہارے ہی تو یہاں آئی ہو کہ اپنی زندگی پھر سے شروع کرو گی بتاؤ کیا ایسا نہیں ہے?" وہ خاموش رہی پھر بولی

" آنٹی میں امید پہ نہیں لوگوں لوگوں کے رویوں سے ہار کے آئی ہوں..... مجبور تھی میں" وہ افسردہ ہوئی

"ہونہوں.. تم ہار کے نہیں آئیں تم لوگوں کے تلخ رویون کی وجہ سے آئی ہو..... اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم ان سے ہار کے آئی ہو تو سمجھ لو کوئی جیت نہیں سکتا جب تک ہارنے والے پیدا نہیں ہوتے..... زندگی میں ہار جیت تو چلتی ہی رہتی ہے اور پھر ہار اتنی بھی بری چیز نہیں ہے.. یہ پھر سے ہمیں اٹھنے میں اور پھر سےکچھ کرنے.. اور بہتر کرنے کی ہمت دیتی ہے..... یشل بیٹا ہر حال میں اللٰہ کی اس پاک ذات کا شکر کرو کہ اتنے برے حالات میں بھی اس نے تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا"

" جی آنٹی آپ ٹھیک کہتی ہیں" وہ بولی

" ہمممم.. گڈ.. اور سنو میرے ساتھ کل میرے اسٹور پہ چلو گی ویسے بھی تم گھر پہ رہ کے بور ہو جاؤ گی اور فضول کی سوچیں تمہارے  ذہن میں آئیں گی..... تم میرے پاس جاب کرلو ویسے بھی مجھے ضرورت ہے اس کے لیے میں تمہیں سیلری بھی دوں گی.. تم اپنے پیرنٹس کے پیسوں سے گھر خرید ہی رہی ہو پر اسے چلانا اپنے پیسوں سے .. ان پیسوں کو بچاؤ اور اپنی اور اپنے بہن بھائی کی پڑھائی میں لگاؤ.. انہیں اپنے پیروں پہ کھڑا کرو.. اور ہاں اپنی پڑھائی دوبارہ اسٹارٹ کرو"

"  جی آنٹی" وہ مسکرائی

"تو پھر کل سے تیار رہنا..ا وکے"

" اوکے"

زندگی آسان نہیں ہوتی

 اسے آسان بنایا جاتا ہے

 کچھ صبر کرکے کچھ برداشت کرکے

 اور بہت کچھ نظرانداز کرکے

                        ---------

یہ یشل والوں کے جانے کے ایک دن بعد کی بات ہے

رابعہ ہاشم احمد اور انعم آج یشل والوں کے گھر پہ آئے سوچا تھا آج یشل کو کنوینس کرلیں گے شادی پہ پر.....

پر جب گیٹ کے پاس آئے تو بڑے سے تالے نے ا نکا منہ چڑایا

" یہ لوگ کہاں گئے?" احمد بولے

" ارے کسی سے پتا تو کرو ہیں کہاں یہ بچے" رابعہ بولیں احمد نے سر ہلایا اور پاس سے گزرتے ایک آدمی سے پوچھا

" بھائی یہ لوگ کہاں گئے ہیں گھر بند ہے?"

" ارے یہ لوگ تو کل ہی امریکہ چلے گئے اور وہی شفٹ ہوگئے ہیں... اکیلے تو تھے بیچارے اچھا ہے اپنی زندگی پھر سے شروع کریں گے" وہ بتا کے چلا گیا وہ لوگ تلملاتے گھر واپس آگئے

" غضب خدا کا کیسے آوارہ بچے نکلے.. ماں بپ کی قبر کی مٹی تک خشک نہ ہونے دی انہوں نے اور نکل پڑے سیر سپاٹوں پہ" وہ گھر آتے ہی شروع ہوگئیں

" سہی کہہ رہی ہیں آپا ..... انہوں نے تو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ہمیں" انعم بولی " ارے آپ لوگ تو سگے چاچا پھپو تھے.. پر آج کل کے بچے رشتوں کو کیا سمجھیں"

" بڑی اچھی تربیت کی ہے وقار نے اپنے بچوں کی... ہونہہ .... بڑا فخر تھا اسے اپنے بچوں  پہ" ہاشم بولے

" جب دیکھو اپنی اولاد کی تعریفوں کے پل باندھتا رہتا تھا ہونہہ..... ہوتا ابھی زندہ تو بتاتی میں اسے.. کہ اس کے بچے کیسے منہ زور ہوگئے ہیں" رابعہ کا غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا

" ہائے میری کروڑوں کی دولت..... یہ بدبخت بچے لے گئے" رابعہ اپنا سر پکڑ کے افسوس سے بولیں جہسے ان کی دولت پہ ڈاکہ ڈل گیا ہو

" اب بس بھی کردیں آپا..... آپ بھی جانتی ہیں کہ وہ دولت تو بس آپ کے خوابوں تک آپ کی تھی اب تو آنکھیں کھول لیں" احمد نے کہا تو وہ انہیں گھور کے رہ گئیں

                         --------

" سب شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ چل رہی تھی پندرہ دن ہوگئے تھے انہیں مشعل اور مصطفٰی نے اپنی پڑھائی پھر سے اسٹارٹ کردی تھی صرف یشل ہی تھی جو پڑھائی چھوڑے جاب کرنے میں مصروف تھی انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر لے لیا تھا کل انہوں نے وہاں شفٹ ہو جانا تھا

" بیٹا آپ کی کوالیفیکیشن کیا ہے?" جہانزیب انکل نے چائے پیتے ہوئے پوچھا وہ زیادہ تر اپنے اپنی ڈیوٹی پہ ہاسپٹل ہوتے تھے بہت کم شام میں چائے پہ ساتھ ہوتے

" انکل میں نے ایف ایس سی کیا ہے اور اسی سال یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا لاء کررہی تھی میں" وہ بتانے لگی

" تو اب کیا ارادہ ہے?" انہوں نے پوچھا

" ابھی تک کچھ سوچا نہیں ہے انکل" وہ بولی

" تو بیٹا سوچو یہ جاب تو عارضی سی ہے"

" جی انکل" وہ بولی

" آپ نے ایف ایس سی کس سبجیکٹ میں کیا ہے?"

" انکل پری میڈیکل میں"

" مممم...... گڈ تو پھر آپ لاء پڑھ کے کیا کرو گی آپ کی جگہ تو میڈیکل لائن ہے" 

" جی انکل بٹ مجھے شوق تھا اس لیے"

" بیٹا لاء کی تو آج کل زیادہ ویلیو نہیں ہے آپ ایم بی بی ایس کرو اس سے آپ کا مستقبل سنور جائے گا.....آپ تو ماشآاللٰہ ذہین بھی لگتی ہو آپ کا تو ایزیلی ایڈمیشن یو جائے گا" 

" اور رہی جاب تو وہ تو آپ شام میں بھی کرسکتی ہیں..... آپ کیا کہتی ہیں ?"

" بلکل.. ٹھیک کہا آپ نے.. یشل آپ ایم بی بی ایس کی تیاری کرو بیٹا " انہوں نے کہا پتا نہیں کیوں وہ چاہ کے بھی ا نکی بات ٹال نہیں سکتی تھی

" ٹھیک ہے آنٹی"

                            ------

یشل جا چکی تھی اسے پتا چلا تو اسے شاکڈ لگا

وہ چلی گئی کیا اب وہ اسے کبھی دیکھ پائے گا....??? اس کے رگ و پے میں اداسی اترنے لگی

" افففف میں پھر اسے سوچ رہا ہوں " اس نے سر  جھٹکا پر دل کی حالت وہی رہی

تو یہ طے تھا ان کا بچھڑنا.......

" تو وہ میرے دل میں آئی ہی کیوں...."  وہ اپنے آپ سے بولا اور سر کو اپنے ہاتھوں میں گرا لیا

یار فریدا اتھے کی وسنا

 جتھے یار نظر ہی نا آوے

وہ تو اب بالکل نارمل رہنے کی کوشش کررہا تھا پھر اس کے جانے کا دکھ کیوں..... 

ان دنوں وہ بہت ڈسٹرب تھا لیلٰی جب دیکھو اس کے آس پاس منڈلاتی رہتی اوپری اوپری سہی پر اس کی دلجوئی کرتی..... کبھی اس پہ وہ چیختا کبھی ڈانٹتا پھر آہستہ آہستہ اس نے یہ بھی چھوڑ دیا  اور خاموش رہنے لگا اب وہ لیلٰی کو کچھ نہ کہتا اور یہ ہی بات لیلٰی کے لیے خوش آئیند بات تھی

                    -----------

ڈوبتے کو تو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے لیلٰی اسے وہی تنکا لگتی اس بات سے بے خبر کے اس کی دنیا تباہ کرنے والی وہی ہے..... وہ زیادہ سے زیادہ لیلٰی کے ساتھ رہنے لگا لیلٰی اپنی باتوں سے اس کا ذہن کچھ دیر کو  بٹا  دیتی تھی پر ایک خالی پن پھر بھی اس کے دل میں رہتا

.                          ---------

میرا لہجہ میری باتیں

بہت ہی عام ہیں لیکن

میں جزبے پاک رکھتی ہوں

محبت خاص رکھتی ہوں 

وہ ڈائیری لکھ رہی تھی پتا نہیں کیوں کہ آج علی اسے بہت یاد آرہا تھا کس سے شئیر کرتی اپنی فیلنگز

" علی آپ کہتے ہو کہ میں بھول جاؤں آپ کو.... کیسے بھول جاؤں علی آپ نے تو اپنی محبت ہی نہیں ڈالی میرے دل میں بلکہ آپ کی عادت تک ہوگئی ہے مجھے"

" میں  تو بہت ایمانداری سے آپ کی طرف بڑھی تھی پھر آپ کو کہاں میری محبت میں بےایمانی کا انصر نظر آگیا" اس کی آنکھیں آج پھر نم ہوئیں

" اتنی جلدی بھلا دیا مجھے علی آپ نے" 

کوئی تم سے پوچھے کون ہوں میں

 تم کہہ دینا کوئی خاص نہیں

 ایک دوست ہے کچا  پکا سا

 ایک جھوٹ ہے آدھا سچا سا

 اک خواب ادھورا پورا سا  

اک پھول ہے روکھا سوکھا سا

 اک سپنا ہے بن سوچا سا

 اک اپنا ہے اندیکھا سا

 اک رشتہ ہے انجانا سا  

حقیقت میں افسانہ سا

 کچھ پاگل سا دیوانہ سا

 بس اک بہانہ اچھا سا

 جیون کا ایسا ساتھی ہے

 جو دور ہو تو کچھ پاس نہیں

  کوئی تم سے پوچھے کون ہوں میں

 تم کہہ دینا کچھ خاص نہیں!!!!!

اس نے ڈائیری لکھی اور بند کردی

دن یوں ہی تیزی سے گزرتے رہے اس کا ایم بی بی ایس میں ایڈمیشن ہو گیا تھا اور اس نےاپنے آپ کو پڑھائی میں مصروف کرلیا تھا اس لے بہن بھائی بھی اعلٰی تعلیم حاصل کررہے تھے اور یہ سب ارسلان بھائی کی بدولت ہی تھا جنہوں نے سخت وقتوں میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور بھائی بن کے دکھایا

وہ اپنی زندگی میں بہت آگے نکل گئی تھی پر اب بھی وہ اسے بھلانے میں ناکام تھی دن تو جیسے تیسے گزر جاتا پر جب شام کے سائے گہرے ہونے لگتے تو اس کی یاد کا پنچھی اس کے دل میں ڈیرہ ڈال لیتا جس سے وہ چاہ کے بھی نکل نہ پاتی لوگ اسے خوش مزاج کہتے تھے پر اندر کا حال صرف وہی جانتا ہے جس پہ بیتی ہو

لوگ خوش مزاج کہتے ہیں مجھے

میں نے اکثر خود کو اداس پایا ہے

دن گزرتے رہے وہ ایم بی بی ایس کے فورتھ ائیر میں تھی مشعل ایم بی اے کررہی تھی اور مصطفٰی فرسٹ ائیر پری انجینئیرنگ کررہا تھا جب اچانک مصطفٰی کے کہنے پر ان کا پاکستان جانے کا پروگرام بنا ماما بابا کی قبر پہ بہت سال ہوگئے تھے وہ نہیں گئے تھے اب وہ جانا چاہتے تھے

.                           ---------

اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جب انہوں نے پاکستان کی سرذمین پہ قدم رکھا

بہت سی تلخ یادیں اس کے ذہن میں تازہ ہوئیں پر اس کے برعکس مشعل اور مصطفٰی بے حد خوش تھے

جب انہوں نے اپنے گھر میں قدم رکھا تو ایک سکون سا انہیں محسوس ہوا واقعی اپنا گھر اپنا ہوتا ہے اور جو اپنائیت اور سکون اپنے گھر میں محسوس ہوتا ہے وہ اور کہیں نہیں ہوتا وہ گیٹ عبور کرچکے تھے ایک بار وہیں کھڑے ہو کے اپنے خاموش گھر کو دیکھا جہاں کبھی ان بہن بھائی کی ہنسی گونجتی تھی جس میں ماما بابا کی ہنسی کی آوازیں بھی شامل ہوتی تھیں آج بھی وہ ویسا ہی تھا پر اب کی بار وہ گھر خاموش تھا وہاں کوئی بولنے والا نہیں تھا کوئی ہنسنے والا نہیں تھا ان تینوں کی ہی آنکھیں نم تھیں وہ چلتے چلتے گھر کے اندر آگئے ارسلان بھائی ان سے ملنے آئے تھے پھر کچھ دیر بعد چلے گئے

.                                --------

دوسرے دن وہ لوگ اپنے ماما بابا کی قبر پہ گئے وہاں پر وہ پھر بچوں کی طرح بے تحاشہ روئے تھے زخم پھر سے ادھڑنے لگے تھے کتنے خوش باش رہ رہے تھے وہ لوگ اور پھر ایک دم کیسے اچانک ان پہ قیامت ٹوٹی تھی یہ صرف وہی جانتے تھے مصطفٰی ان میں سب سے چھوٹا تھا حد سے زیادہ حساس.. وہ وہاں بیٹھ کے اتنا رویا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا  بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد وہ لوبے دلی سے گھر آئے کہ بہرحال انہیں جانا ہی تھا.

اگلے دن ارسلان بھائی اسے اپنے ہاسپٹل لے آئے تھے وہ ڈاکٹر تھے وہ ان کا ہاسپٹل دیکھ رہی تھی اور ارسلان بھائی سے باتیں بھی کررہی تھی کہ کوئی انہہں بلانے آگیا

" سر ایک ایمرجنسی کیس ہے آپ کو ڈاکٹر خلیل بلا رہے ہیں آپ کی ہیلپ چاہیے"

" اوکے میں آتا ہوں" انہوں نے کہا

" سوری گڑیا میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں اگر موڈ ہے تو پاسپٹل دیکھ لو اگر بور ہو رہی ہو تو گھر چلی جاؤ بے شک" وہ بولے

" نہیں اب آئی ہوں تو ہاسپٹل دیکھ کے ہی جاؤں گی آپ اپنی ڈیوٹی کریں بے شک" وہ مسکرائی تو وہ " اوکے" کہہ کر چلے گئے 

وہ کوریڈور میں کھڑی تھی جہاں پہ لائن میں لیبز بنی ہوئی تھیں وہ اور آگے آئی تو اس کی نظر علی کی امی پہ پڑی ساتھ میں شفق آپی تھیں اس کے قدم خود باخود ان کی طرف بڑھے ان کے پاس پہنچ کے اس نے انہیں سلام کیا

" ارے یشل تم " انہوں نے فورا اسے گلے لگایا " ہائے میری بچی آگئی کیسی ہے?" وہ بولیں

" آنٹی ٹھیک ہوں آپ دونوں کیسی ہیں?"  وہ ان سے حال چال پوچھنے لگی

" یشل اتنے سال بعد پاکستان کی یاد آئی تمہیں" آپی بولیں

" آپی یاد تو روز آتی ہے پر یہاں آنے کا مین مقصد یہ تھا کہ ماما بابا کی قبر پہ جانا تھا بہت سال ہوگئے ہیں نا"

" بہت اچھا کیا بیٹا " آنٹی بولیں

" آپ خیریت سے آئیں یہاں?" 

" ہاں سب خیریت ہے وہ بس چیک اپ کروانے آئی تھی اپنا"  آپی بولیں

چیک اپ کیوں.... کیا ہوا آپی آپ کو?" وہ فکرمندی سے بولی

" ارے جنت کا بھائی یا بہن آنے والی ہےتو اسی سلسلے میں آئی تھی "

 اوہ مبارک ہو بہت بہت " وہ حقیقتا خوش ہوئی تھی

" خیرمبارک....."

" اچھا سنو کل جنت (علی کی بھانجی) کی برتھ ڈے ہے تم نے آنا ہے ہر حال میں" انہوں نے فورا اسے انوائیٹ کیا

" آپی میں.....نہیں آسکوں گی پرسوں فلائیٹ ہے میری میں واپس جا رہی ہوں"

" پرسوں فلائیٹ ہے نا کل تو نہیں"

" پر پیکنگ تو رات کو کرنی ہو گی نا" 

" میں کچھ نہیں سن رہی یشل بس آنا ہے تم نے" وہ بضد تھیں یشل کو مانتے ہی بنی

" اوکے آپی"

                     ----------

کافی عرصہ بیت گیا 

جانے اب وہ کیسا ہوگا??

وقت کی ساری کڑوی باتیں

 چپکے چپکے سہتا ہوگا

اب بھی بھیگی بارش میں وہ

بن چھتری کے چلتا ہوگا

مجھ سے بچھڑے عرصہ بیتا

اب وہ کس سے لڑتا ہوگا

اچھا تھا جو ساتھ ہی رہتے

بعد میں اس نے سوچا ہوگا

اپنے دل کی ساری باتیں

خود سے خود ہی کہتا ہوگا

کافی عرصہ بیت گیا ہے

نہ جانے وہ کیسا ہوگا......????

اس نے ڈائیری لکھ کے بند کی اور چئیر کی پشت سے ٹیک لگا لیا اور آنکھیں بند کرلیں

ایک بے چینی سی تھی اس کے اندر

" پتا نہیں اتنے سالوں بعد میں اسے یاد بھی ہونگی یا......"

" پتا نہیں مجھے دیکھ کے کیسے رییکٹ کرے"

" اور اگر میں اس کے سامنے کمزور پڑگئی تو...... نہیں نہیں" اس نے آنکھیں کھولیں

" بہت مشکل سے سنبھالا ہے اپنے آپ کو پھر سے بکھرنے نہیں دے سکتی"  اس نے دل میں سوچا

وہ سوچوں میں گم بیٹھی تھی کہ مشعل چلی آئی

" آپی میں اپنی فرینڈز کی طرف جا رہی ہوں آج گیٹ ٹو گیدر پارٹی رکھی ہے ہم فرینڈز نے"

" ٹھیک ہے پر ٹائم سے آجانا اوکے" 

" جی آپی..... آپ اپنی فرینڈز سے نہیں ملیں گی? مصطفٰی کو دیکھیں یہاں ہم کو بھولا بیٹھا ہے"

" ہمممم کل جاؤں گی میں..... اچھا ہے نا اسے بھی انجوائے کرنے دو"

" اوکے آپی میں جاتی ہوں بائے" کہہ کر وہ چلی گئی

                       ---------

علی کے گھر والوں نے بہت گرم جوشی سے اس کا ویلکم کیا علی اسے کہیں نظر نہ آیا تھا حیدر نے اسے فون پہ بتایا تھا کہ اس نے لاہور میں ہی جاب اسٹارٹ کردی ہے وہ بیٹھی تھی کہ فاطمہ آکے بولی

" اوہ یشل آپی مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے آپ کے آنے کی..... اب تو آپ نہیں جاؤ گی نا"

" یہ آپ لوگوں کی محبت ہے فاطمہ..... پر میں ہمیشہ کے لیے نہیں آئی کل میری فلائیٹ ہے میں واپس چلی جاؤں گی" یشل نے بتایا تو وہ افردہ ہوگئی

" ارے یار اداس نہ ہو ابھی تو ہوں نا تمہارے پاس " وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کو بولی تو وہ مسکرائی

اتنے میں شہلا بھابی اور لیلٰی بھی چلی آئیں اور یشل کو دیکھ کے بد مزہ ہوئیں 

" اففففف آپی یہ کیوں آگئی قسم سے زہر لگتی ہے یہ لڑکی مجھے" لیلٰی نفرت سے بولی

" مجھے تو جیسے بہت شہد لگتی ہے نا" شہلا بولی

" آگئی میرے علی پہ پھر سے ڈورے ڈالنے ہونہہ...."

" تم میری بات سنو..... سارا  ٹائم تم علی کے ساتھ ساتھ رہنا ذرا تنہائی کا وقفہ نہ چھوڑنا ان کے درمیان"

" ہممم سمجھ گئی آپی" وہ بولی

" آؤ اس آفت کی پرکالا سے مل کے آتے ہیں" وہ بولیں تو لیلٰی نے بھی تقلید کی

دونوں یشل سے ملی یشل پھر آنٹی کے پاس بیٹھ گئی

" حیدر یہ علی کہاں گم ہے?" فاطمہ بولی

" علی آئے نہیں ابھی تک " لیلٰی یشل کے سانے بن کے بولی"

" دیکھو ذرا شام میں فون کیا تھا میں نے کہ جلدی گھر آجانا آپ اور ابھی تک نہیں آئے" یشل ایسی بن گئی جیسے سن ہی نا رہی ہو.....شہلا بھابی نے اس کا سکون دیکھا تو بولیں

" ارے یشل تمہیں اہم بات تو بتانا ہی بھول گئے ہم..... تمہیں معلوم ہے لیلٰی اور علی کی پچھلے دنوں منگنی ہوگئی ہے" یشل کو ایک دم جھٹکا لگا لیلٰی کو دیکھا جو مسکرارہی تھی یشل کا رنگ پھیکا پڑنے لگا شہلا نے بہت مزے سے اس کے تاثرات دیکھے

آنٹی نے بھی پہلو بدلہ ایک دم سب اس سے نظریں چرانے لگے تھے وہ سب اس سے کانٹیکٹ میں تھے پر علی کی منگنی کا تو کسی نے ذکر ہی نہیں کیا تھا یعنی اسے لاعلم رکھا گیا تھا وہ ضبط کرکے بولی

" مبارک ہو لیلٰی"

" خیر مبارک" وہ مسکرائی " اب آیا نہ مزا"

اتنے میں علی بھی آگیا لیلٰی فورا اس کی طرف بڑھی یشل نے صرف ایک نظر اسے دیکھا اور پھر رخ پھیر لیا وہ ان بیتے سالوں میں اور ہینڈسم ہوگیا تھا

                        ----------

وہ لیلٰی سے مسکرا کے کوئی بات کررہا تھا اس نے ابھی تک یشل کو نہیں دیکھا تھا یوں ہی باتیں کرتے کرتے اس کی نظر یشل پہ پڑی تو پھر پلٹنے سے انکاری ہوگئی

کیا یہ سچ میں یشل تھی..... یا اس کا وہم جو کئی سال سے اسے ہوتا آرہا تھا

نہیں یہ اس کی یشل ہی تھی وہ تیزی سے آگے بڑھا کے لیلٰی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

"مت بھولو علی تم منگیتر ہو میرے یشل تمہاری کچھ نہیں لگتی"اس کے قدم تھم گئے

یشل اپنے آپ کو کنٹر کرتی رہی اس سے وہاں بیٹھا ہی نہیں جا رہا تھا ناجانے کیوں اتنا رونا آرہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا دل بند ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کا پہرہ بٹھالیا تھا

جنت کی برتھ ڈے سیلیبریٹ یوئی علی بہت بیتاب تھا اس سے بات کرنے کے لیے.. دل چاہ رہا تھا سب بھلا دے اور اس کے پاس چلا جائے پر لیلٰی اس کے ساتھ سائے کی طرح چپکی ہوئی تھی

کیک کٹنے کے فورا بعد یشل سب سے معذرت کرتی اٹھ گئی کہ اب بیٹھنا محال تھا سب نے روکا بھی مگر وہ پیکنگ کا بہانہ کرتی اٹھ گئی 

علی کو لگا جیسے اس کی دنیا ہی ختم ہورہی ہو وہ ایک بار پھر دور جارہی تھی وہ اپنے روم میں چلا گیا وہ جا چکی تھی اپنے گھر..... وہ وہاں بیٹھ کے کیا کرتا ..

" تمہیں ایسے جانے نہیں دینا چاہیے تھا" دل نے کہا اس نے ہر بار کی طرح سر جھٹکا

بڑے سکون سے رخصت تو کردیا اس کو

پھر اس کے بعد محبت نے انتہا کردی

                       --------

اس دن پھر سے وہ پہلے والی یشل بن کے بے تحاشہ روئی تھی وہ رونا نہیں چاہتی تھی پر آنسو خودباخود بہے چلے جا رہے تھے وہ بار آنسوؤں کو صاف کرتی پر پھر بھی ناکام رہتی باتھ روم میں جا کے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے پر کوئی اثر نہ ہوا وہ بکھرتی چلی گئی

کون کس کا ساتھی ہے, ہم تو غم کی منزل ہیں

پہلے بھی اکیلے تھے ,آج بھی اکیلے ہیں

اس کے زخموں سے خون رسنے لگا تھا اب..... ظاہری زخموں کی تو چلو بینڈیج ہو ہی جاتی ہے پر جو باطنی زخم ہوں ان کی بینڈیج کیسے ہو گی وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ ہی ٹھیک ہوتے ہیں ان کی سب سے بڑی بینڈیج وقت ہے

نہیں تم سے کوئی شکایت

بس اتنی التجا ہے

جو حال کر گئے ہو

وہ کبھی دیکھنے مت آنا

وہ ساری رات روتی رہی تھی آج ان کی فلائیٹ تھی فجر کی اذان پہ اس کی آنکھ کھلی تو نماز پڑھنے کے لیے اٹھی نماز کے بعد اس نے اپنے سکون کی دعا مانگی اور جائے نماز سمیٹی

اسکے پاس کوئی نہیں تھا جس سے وہ شکوہ کرتی گلہ کرتی اپنے دل کی بات کرتی..... اس معاملے میں وہ بے حد غریب تھی کہ اس کے پاس کوئی ایسا انسان نہیں تھا جس سےاپنے دکھ سکھ شئیر کرتی 

اس کے دل میں ایک حسرت سی تھی کہ کاش کوئی ہوتا جو اس کی سنتا اپنی سناتا سمجھانے والے بہت تھے وہ ان کی سنتی بھی تھی پر اپنی کسے سناتی پہلے ماما سے شئیر کرتی تھی وہ چلی گئی پھر ارسلان بھائی وہ بھی اپنی لائف مٰن مصروف تھے انہیں بار بار تنگ لرنا اچھا بھی نہیں لگتا تھا

وہ چاہتی تھی کہ کوئی ہو کہ جس کے ساتھ وہ بہت سارا ہنسے بہت سارا روئے پر ایسا اس کے پاس کوئی تھا ہی نہیں

نہ شکایتیں نہ گلہ کرے

کوئی ایساشخص ہوا کرے

جو میرے لیے ہی ہوا کرے

مجھ ہی سے باتیں کیا کرے

کبھی روئے جائے وہ بے پناہ 

کبھی بے تحاشہ اداس ہو 

کبھی چپکے چپکے دبے قدم

میرے پیچھے آکے ہنسا کرے

میزن طویل سفر میں ہوں اگر.....

میری واپسی کی دعا کرے

اس نے پلٹ کے ایک بار اپنے گھر کو نظر بھر کے دیکھا آج وہ لوگ واپس جا رہے تھے وہ گھر ایک بار پھر سے ویران ہونے جا رہا تھا..... اس کے مکین جو کبھی وہاں اس گھر میں رہا کرتے تھے وہ اس گھر کو اکیلا چھوڑ کے جا رہے تھے انہوں گیٹ عبور کیا اور اسے تالا لگا دیا

کچھ دیر بعد وہ لوگ کراچی ائیرپورٹ پہ موجود تھے یشل کو اس شہر اور یس شہر کے رہنے والوں سے گھبراہٹ ہورہی تھی وہ جلد سے جلد یہاں سے جانا چاہتی تھی

وہ علی کے گھر والوں سے ناراض تھی کیونکہ وہ ہر روز ان سے بات کرتی تھی پر انہوں ایک بار بھی علی اور لیلٰہ کی منگنی کا ذکر نہیں کیا تھا

کچھ ہی دیر میں فلائیٹ کی اناؤسمنٹ ہوئی تو وہ لوگ اٹھے..... وہ واپس جا رہی تھی کبھی نہ آنے کے لیے.... پر وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ بہت جلد یہاں واپس آنے والی ہے کیونکہ اسے واپس آنا ہی تھا

انسان کیسا ہوتا ہے نا....??? اپنی قسمت سے مایوس ہو کے اللٰہ کو بھول جاتا ہے اور دنیا میں گم ہونے کی کوشش کرتا ہے پر جب وہ ہی دنیا اسے ٹھکرادیتی ہے تو وہ دوبارہ اللٰہ کا در کھٹکھٹاتا ہے اور اللٰہ اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا.....کبھی مایوس نہیں کرتا.....

                --------------

تین دن ہوگئے تھے یشل کسی  بھی فون نہیں اٹھا رہی تھی نہ حیدر لی نہ فاطمہ کی نا شفق آپی کی.....

ابھی بھی اس کا سیل مسلسل بج رہا تھا اور وہ کب سے کب سے اگنور کررہی تھی دل ہی نہیں تھا کسی سے بات کرنے  کا لیکن.... پھر کچھ سوچ کے اس نے فقن ریسیو کیا

" ہیلو..... یشل فون کیوں ریسیو نہیں کررہی تھیں کیا بہت ناراض ہو" وہ بولیں 

" آپ کق میری ناراضی کی فکر ہے؟" وہ بولی

" کیوں نہیں ہے میری جان تم تو اپنی ہو ہماری" شفق آپی بولیں

"اپنی ہوتی تو آپ آج مجھ سے یہ بات چھپاتیں"

" یشل تمہین دکھ ہوتا اس لیے ہم نے تمہیں نہیں بتایا..... سوری یشل" وہ خاموش رہی

" یشل جاننا چاہو گی کہ اس نے منگنی کیوں کی لیلٰی سے" یشل تب بھی کچھ نہ بولی

" تمہارے جانے کے بعد وہ بالکل ٹوٹ گیا تھا بکھر گیا تھا انہی دنوں لیلٰی اس کے ساتھ رہبے لگی..... پھر لیلٰی کی امی کے توسط سے  فاطمہ کا رشتہ آیا نہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں تھی تو ہاں کردی گئی رشتہ پکا ہونے کے ایک سال بعد لیلٰی کی امی نے ہماری امی کو فون کیا اور کہا کہ علی اور لیلٰی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تق آپ علی سے میری لیلٰی کو لے لو..... امی نے کہا بھی کہ علی رضامند نہیں ہیں پر وہ بضد ہوگئیں اور امی کو بولیں کہ اوچ لو اس بارے میں ورنہ.... فاطمہ کا رشےتہ بھی میں نے ہی کرایا ہے پر اس رشتے کی ختم کرنے کی ذمہدار آپ لوگ ہوں گے

تم تو جانتی ہو نا امی کو فوراً بلیک میلنگ میں آگئی ہم نے بہت سمجھایا پر پھر بھابی نے ہنگامہ ڈال دیا رقز روز وہ جھگڑے کرنے لگیں بھابی کو تو تم جانتی ہی ہو  جب جب تم آئیں ان کے چہرے کے زاویے بگڑ جاتے تھے  امی نے گھبرا کے علی کی بہت منت سماجت کی قسمیں واسطے دیے تب  کے وہ مانا ہے ورنہ اس کے دل میں لیلٰی کی کوئی گنجائش نہیں ہے..... اس کے دل میں آج بھی تم ہو یشل بس ایک مس انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے تم دونوں کے بیچ میں" یشل نے گہرا سانس لیا پھر بولی

" کوئی بات نہیں جو چیز میرے نصیب میں نہیں وہ مجھے نہیں مل سکتی..... شاید علی اور میرا بچھڑنا ہی قت میں تھا اور علی کی قسمت میں لیلٰی کا آنا اگر اس میں ہی اللٰہ کی رضا ہے تو میں اللٰہ کی رضا میں خوش ہوں"

" بس دکھ اتنا ہے کہ علی نے میرا ایک بار بھی اعتبار نہیں کیا میں اسے سب سچ بتا چکی تھی.... اس کے باوجود بھی..... ایسی محبت کا فائدہ کیا جس میں اعتبار نہ ہو"

" ٹھیک کہہ رہی ہو یشل..... واقعی علی کی غلطی ہے پر جان آدمی آدمی ہی ہوتا ہے وہ اپنی عورت پہ لگی ایک ذرا سی تہمت برداشت نہیں کر سکتا....."

" وہ پکس علی کو جا طرح دکھائی گئیں اچھے سے اچھے آدمی کا دماغ گھوم جائے" ل

" بس آپی میں بیتی باتوں کو دہرانا نہیں چاہتی جق ہونا تھا وہ ہوگیا مجھے کسی سے شکایت نہیں صرف علی کے رویے نے تکلیف دی مجھے"

اس کی آواز بھرائی " میں بزی ہوں آپی بعد میں کال کرتی ہوں" کہہ کر اس نے فون رکھ دیا

                   -----------

دن یوں ہج پر لگاتے اڑ گئے یشل ایم بی بی ایس کمپلیٹ ہق گیا تھا اور وہ اب جہانزیب انکل کے ساتھ ان کے ہاسپٹل میں جاب کررہی تھی مشعل کا ایم بی ہو گیا تھا اور مصطفٰی انجینئیرنگ کررہا تھا

وہ بہت قابل ڈاکٹر تھی اپنا کام ذمہ داری سےکرتی حیدر سے اسے پتا چلا تھا کہ علی نے اب اپنی کمپنی کھڑی کی ہے بہت ترقی کررہا ہے وہ یشل اس کے لیے دل سے خوش تھی اور اس خوشی میں اس نے اپنی سہلری اور کچھ اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکلوا کے اس کے لیے ایک چھوٹا سا علی پیلس بنوایا جو بے حد خوبصورت تھا یہ اس کے لیے ایک محبت بھرا گفٹ تھا.

                  -------------

آج فاطمہ کے سسرالیوں نے دعوت پہ آنا تھاسبتیاری میں لگے ہوئے تھے کپ حیدر کا سیل بجا

"حیدر.... حیدر بیٹا فون دیکھو اپنا" فون مسلسل بج رہا تھا تبھی وہ بولیں

" امی حیدر تو گھر پہ نہیں ہے" فاطمہ بولی

" تو بیٹا تم اٹھا لو کیا پتا کسی کو ضروری کام ہو بتادو اسے "

" جی امی" اسنے فون رسیو کیا

" ہیلو"

" جی یہ حیدر کا نمبر ہے؟"

" ہاں جی آپ کون...؟؟؟؟"

" جی ان ایک عزیز کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے میں نے ہاسپٹل پہنچا دیا ہے انہیں "

" کون عزیز؟" وہ کانپی

" ان کے این آئی سے پہ تو علی ذوالفقار لکھا ہے..... بہت سریا حالت ہے ان کی" ایک دم اا کے ہاتھ سے فون چھوٹ کے گرا

" ارے کیا گرا ہے فاطمہ؟" امی کی آواز آئی 

" فاطمہ کا کا فون تھا؟" ان کی پھر آواز آئی قہ اب بھی کچھ نہ بولی

" فاطمہ بتا بھی؟" وہ اس کے اس چلی آئیں

اتنے میں حیدر بھی آگیا 

" ام..امی وہ.. وہ" 

" میرا دل گھبرا رہا ہے فاطمہ بتا بھی"

" کیا ہوا ہے فاطمہ" حیدر نے بھی پوچھا

" علی.. بھائی کا ایکسیڈنٹ" یہ سننا تھا کہ امی بے یوش ہوکے گری

" امی...ی سنبھالیں" وہ امی کی طرف بڑھا

" کا نے بتایا تمہیں؟" بھابی فکرمندی سے پوچھا

" فون آیا تھا" اس نے سہل کی طرف اشارہ کیا حیدر نے فون اٹھایا

" بھابی آپ امی کو سنبھالیں لیلٰی تم عمر بھائی کو کال کرو جلدی" وہ موبائیل اٹھاتا جلدی سے وہی نمبر ڈائل کرتا گھر سے نکلا تھا.

                    ---------

آج یشل نے سوچا فاطمہ کو کال کرے اس نے کال کی بٹ اس کا نمبر بند تھا پھر شفق کو کیا ان جا نمبر بھی بند پھر اس نے حیدر کو کیا نا جانے دل کیوں گھبرا رہا تھا کبھی اہسا نہیں ہوا تھا کہ ان کے نمبر بند ہوں

حیدر نے کال رسیو کی تو وہ بولی

" حیدر کیا ہو گیا پے فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے تم لوگ؟"

" آپی علی بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ان کی حالت سریس ہے ہم ہاسپٹل میں ہیں" وہ بتا رہا تھا اور یشل کو ایک دم شاکڈ لگا اسے لگا جیسے اس کی جان ہی نکل گئی ہو

" آپی ڈاکٹرزبھی اپنا کام سہی سے نہیں کررہے ہیں ان کی حالت خطرے میں ہے" وہ رو دیا تھا رو تو وہ بھہ رہی تھی پھر ضبط کرکے بولی

" حیدر حیدر سنبھالو خود کو..... علی کو کچھ نہیں ہوگا آرہی ہوں میں" وہ اسے تسلیاں دے رہی تھی حالنکہ اسے خود اب تسلیوں کی ضرورت تھی

اس نے کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ وہ کبھی پاکستان آئے گی اور وہ بھی ام حالات میں.....

پر اسے نہیں پتا تھا اب جب وہ جا رہی ہے تو اب وہاں سے آنہیں پائے گی..... چاہ کے بھی دور نہیں جا سکے گی..... کوئی دور جانے ہی نہیں دے گا.

وہ پاکستان آچکی تھی اور آتے ہی علی کا کیس اس نے سنبھال لیا تھا علی کی حالت دیکھ کے اس کا دل کٹ رہا تھا وہ اسے جلد سے جلد صحت یاب دیکھنا چاہتی تھی

ڈاکٹرز واقعی سست روی سے کام کررہے تھےکہ انہیں دیکھ کے یشل کو غصہ ہی آرہا تھاسب سے پہلے تو اس نے ان کی طبیعت صاف کی بھڑاس تو نکالنی تھی نا اب جیسے بھی جہاں بھی نکلتی

اف یہ محبت کے ستائے ہوئے لوگ

اپنا غصہ ہمیشہ ادھر ادھر نکالتے ہیں

ڈاکٹرز نے جہسے ہی دیکھا کہ باہر کی اسپشلسٹ آئی ہے ان کے کام میں تیزی آگئی اب علی کی کئیر سہی طرح سے ہورہی تھی

علی آئی سی یو میں تھا گو کپ اس کی حالت اب بھی خطرے میں تھی پر اب ڈاکٹر پرامید تھے

لیلٰی تو بامشکل آدھا گھنٹہ ہاسپٹل رکی اور پھر گھر چلی گئی بقول اس کہ

" ہاسپٹل کی بو سے میرا دل خراب ہوتا ہے اور پیشنٹس کو دیکھ کر مجھے وامیٹنگ ہوتی ہے" کسی نے اسے روکا بھی نہیں نہ وہ رکی

"یشل بیٹا علی ٹھیک تو ہو جائے گا نا" وہ آئی سی یو سے نکلی تو وہ بولیں

" اللٰہ نے چاہا تو بہت جلد علی ٹھیک ہوجائیں گے آنٹی آپ فکر نہ کریں اور کچھ دیر گھرہو آئیں"

" میں بھی امی کو یہ ہی کہہ رہی ہوں پر امی مان ہی نہیں رہی ہیں" شفق بولیں

" آنٹی آپی ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ گھر چلی جائیں حیدر ہے نا یہاں" اس نے حیدر کو دیکھا جو ابھی ابھی گھر سے آیا 

جی امی آپ لوگ  چلی جائیں" وہ بھی بولا تو شفق اور وہ طلی گئیں

علی کا وجود پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا وہ علی کو اس طرح دیکھتی تو اسے بے حد تکلیف ہوتی وہ اپنی پوری جان لگا کے بھی اسے ٹھیک کرنا چاہتی تھی.

                     ---------

دنیا میں پاؤں گیلے کیے بنا سمندر تو پار کیا جا سکتا ہے پر .....آنکھیں گیلی کیے بنا محبت کو پار نہیں کیا جا سکتا بھلے پھر وہ محبت آللٰہ ہو ہو یا انسان سے

وہ علی سے بے انہاحبت کرتی تھی وہ اکثر سوچتی کہ اتنی شدید تر محبت اسے کیوں کر ہوئی.... کاش یہ محبت علی کو اس سے ہوتی 

 کیا ہے یہ محبت جو اسے علی سے باندھے ہوئے ہے کہ علی سے دور جانا اس کے لیے موت کے برابر ہے کہ بے دھیانی میں بھی اسے ہی سوچے جاتی ہے کہ بارش کی پہلی بوند, سورج کی کرنیں, ہوائیں, چاند راتیں کہ جب وہ دونوں بیٹھ کے ساری رات بات کیا کرتے تھے سب یاد دلاتی تھی

محبت کیا ہو تم آخر?

بتاؤ نا

کسی مستانے کی مستی ہو?

کسی صوفی کا سجدہ ہو?

کسی زاہد کا تقوٰی ہو کسی بھلے کے گھنگرو ہو?

کسی مفتی کا فتوٰی ہو?

کوئی الجھن ہو تم یا کوئی سلجھی ہوئی شے ہو? 

محبت کیا ہو تم آخر?

وہ سوچ کے رہ گئی.

                     ---------

" آپی علی اب کیسا ہے?" شہلا گھر آئیں تو لیلٰی نے پوچھا

" تمہیں فرصت مل گئی اسے پوچھنے کی"

" مجھ سے ہاسپٹل کے چکر نہیں لگتے پلیز" وہ چڑی

تو فون تو کیا جا سکتا ہے نا?" 

" فون..... آپی یہاں سب غم کی تصویر بنے ہیں کوفت ہورہی ہے مجھے یہاں..... اب فون کروں گی تو پہلے تو وہ اپنے دکھڑے روئیں گی پھر اس کی طبیعت بتائیں گی اس سے اچھا ہے نا ہی کرو"

" تمہیں پتا ہے اس کی طبیعت کتنی خراب ہے"

"آپ کو بڑی فکر ہورہی ہے اس کی"

" فکر اس کی نہیں تمہاری ہے اگر کل کو اسے کچھ ہوگیا تو تم پہ کیا بیتے گی اور اگر اللٰہ نہ کرے اسے کوئی بیماری ہوگئی تو"

" پہلی بات تو یہ آپی کہ میں انیسویں دہائی کی عورت نہیں ہوں جو اس کے مرنے پہ بین ڈالے گی یا صدمے سے چور ہوگی..... دوسری بات یہ کہ اگر اسے کوئی اور بیماری ہو گی تو تب کی تب سوچیں گے"

"تمہیں پتا ہے  وہاں یشل آئی ہوئی ہے نا سنبھالا ہوا ہے اس نے علی کو" 

" تو کیا ڈاکٹرز کا اور کیا کام ہوتا ہے سنبھالنے دیں اسے.....وہ علی کے گھروالوں کے دلوں میں اپنا امیج بنائے رکھنا چاہتی ہے تو خوشی سے رکھے اس سے کیا ہوتا ہے... علی تو بدگمان ہی ہے نااس سے تو بس پھر مجھے کوئی فکر نہیں"

کہہ کر وہ چلی گئی شہلہ نے اپنا سر پیٹ لیا

                    ---------

علی کی حالت اب خطرے سے باہر تھی پر اس کی بیک بون شدید متاثر تھی ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ شاید ہی وہ اب چل پائے اور اگر چلنا شروع بھی ہوا تو اس کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے علی کے پھر سے اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کے چانسز ہیں تو پر بہت کم.....

اور کچھ مساج وغیرہ بتائے تھے جو کہ صرف ایک وائف ہی کرسکتی تھی  سب یہ سن کے بہت غمگین تھے اور پریشان بھی اب کیا کریں.....

" آنٹی آپ لیلٰی اور علی کی شادی کردیں تاکہ لیلٰی اس کی صحیح طریقے سے کئیر کر سکے" یشل نے یہ مشورہ کس دل سے دیا تھا یہ بس وہی جانتی تھی

" شہلہ ہمیں لگتا ہے اب لیلٰی اور علی کی شادی کردینی چاہیے علی کو ضرورت بھی ہے" وہ بولیں شہلہ بوکھلائی

"جی امی.. پر پہلے لیلٰی سے پوچھ لیں"

" ہممم....ٹھیک کہہ رہی ہو" انہوں نے کہا

" اففففف لیلٰی تو ہتھے سے اکھڑ جائے گی یہ سن کے" انہیں فکر ہوئی

                     ---------

علی کو آئی سی یو سے روم میں شفٹ کردیا ھیا تھا سب ادھر ہی موجود تھے علی کے ہوش میں آنے کے بعد وہ صرف ایک بار علی کے سامنے آئی تھی اس کے بعد سے علی کی نظریں اسے ڈھونڈ رہی تھیں

" لیلٰی بیٹا جو ڈاکٹرز نے بتایا وہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا" امی نے خود ہی بات شروع کی کہ اچھا ہے یہ بات دونوں کے سامنے ہی ہو جائے شہلہ نے پہلو بدلا ان کی چھٹی حس بار بار کچھ غلط ہونے کا سائرن دے رہی تھی کیونکہ لیلٰی حد سے زیادہ منہ پھٹ تھی

" اگر اس نے غلطی سے کچھ غلط..... نہیں نہیں" انہوں نے جھرجھری لی

" امی یہ باتیں تو گھر جا کے بھی کرسکتے ہیں" وہ بولیں

" بالکل..... پر ابھی بات کرنا مناسب رہے گا کیونکہ ابھی یہ دونوں ہی آمنے سامنے ہیں دونوں کی رائے بھی معلوم ہو جائے گی" انہوں نے کہا پھر لیلٰی کی طرف متوجہ ہوئیں

" لیلٰی بیٹا دیکھو تم دونوں کی منگنی ہوگئی ہے شادی بھی ہوجائے گی تو کیا یہ سہی نہیں  ہے کہ ابھی تم دونوں کی شادی کردی جائے علی کی کئیر بھی ہو جائے گی ڈاکٹرز نے کچھ مساج بتائیں ہیں جو صرف ایک بیوی ہی کرسکتی ہے تم....."

لیلٰی کے تو سر پہ لگی اور تلوؤں پہ بجھی

" ایک منٹ" اس نے ان کی بات کاٹی " اس کا مطلب آپ مجھے اپنے معذور بیٹے کی خدمت کے لیے لے کے جا رہی ہیں"

" اللٰہ نے کرے بیٹا اللٰہ نے چاہا تو وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا"  وہ بولیں علی اسے دکھ سے اسے دیکھ کر رہ گیا

" کب تک....? کب تک ٹھیک ہو گا یہ" وہ علی کی طرف اشارہ کرکے بولی

" دس سال.. پندرہ سال..... یہ بھی کم ہیں اس کے ٹھیک ہونے کے لیے.... مجھے معلوم ہے اس کی حالت اور میں جانتے بوجھتے اپنی عمر اس کی خدمتیں کر کے گنوا دوں" اس کے لہجے میں کاٹ تھی

" لیلٰی بس کرو خاموش ہو جاؤ" شہلا بولیں 

" آپ کو کیوں اتنا دکھ ہو رہا ہے جو مجھے چپ کروا رہی ہیں آپ.... آپ کو تو خود اس دن کا ڈر تھا" وہ بولی تو شہلہ سب کے سامنے شرمندہ ہوگئی

" آنٹی آپ یای یشل کو بولیں کہ کرلے اس معذورسے شادی..... بڑا شوق ہے نا اسے خدمت خلق کآ پہلے بھی اسی نے سنبھالا ہے نا اس کو تو اب بھی سنبھال لے گی" 

" لیلٰی بس....." شہلہ اسے چپ کروانا چاہتی تھیں پر وہ تو کسی کے کنٹرول میں کہاں آنے والی تھی

" آپی آپ نے ناحق مجھے علی میں انوالو کیا فضول اس کے چکر میں یشل کو ہٹایا رستے سے مجھے کیا پتا تھا کہ یہ دن....." ایک دم لیلٰی کی زبان کو بریک لگا

اس کی بات پہ سب چونکے

" کیا مطلب تمہارا لیلٰی?" حیدر اس کے سر پہ پہنچ گیا لیلٰی کی سانس رکی

" کچھ نہیں میں تو بس....." لیلٰی اٹکی

" کیا میں تو بس بولو" وہ غصے سے چیخا شک تو اسے کب سے تھا اس پہ پر آج کنفرم لگ رہا تھا

" وہ....." اس نے شہلہ کو دیکھا جو اپنی جگہ چور سی بنی ہوئی تھی

 علی خاموش تھا پر اس کی دماغ اس ایک بات پہ مفلوج ہونے لگا تھا

" حیدر لیلٰی بس کرو ہاسپٹل میں تماشا نہیں کرو گھر جا کے بات کرتے ہیں" عمر بولے

" نہیں بھائی..... یہ آج یہاں سے جائے گی تو سب کلئیر کر کے جائے گی" وہ بہت غصے میں تھا

" بولو" وہ پھر چیخا تو لیلٰی نے سب بتادیا اور شہلہ تو جیسے زمین میں گڑھ گئیں

امی آگے بڑھیں اور کھینچ کے ایک تھپڑ اسے مارا

" میرے گھر میں رہ لر میرے ہی بچوں کی زندگیوں سے کھیل کھیلا تم نے.... اور وہ بھی اتنا گھناؤنا کھیل..... شرم آئی تمہیں یہ سب کرتے ہوئے بھول گئی تھیں کیا کہ تم بھی ایک لڑکی ہو" امی بہت غصے میں تھیں اور علی وہ تو دکھ اور تکلیف کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر چکا تھا کتنا غلط کیا اس نے یشل کے ساتھ.. پر اس نے ایک شکوہ بھی منہ سے نہیں نکالا

گلٹ لفظ تو بہت چھوٹا تھا جو اسے ہورہا تھا وہ یشل سے بے حد شرمندہ تھا

اس نے یشل پہ اعتبار نہ کیا بلکہ اس پہ اپنے گھر والوں کو ترجیح دے دی پر اس کے گھر والوں نے اس کی ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا

اور اس لڑکی نے شکایت تو دور کی بات ایک شکوے بھری نظر تک نہ ڈالی اس پہ 

بہت اندر تک جلا دیتی ہیں

وہ شکایتیں, جو کبھی بیاں نہیں ہوتیں......

                       ----------

سب لوگ گھر آگئے تھے کسی نے شہلہ سے کوئی بات نہ کی تھی امی کے کہبے پہ لیلٰی اسی وقت گھر چھوڑ کے چلی گئی تھی

رات کو جب عمر گھر آئے تو شہلہ جاگ رہی تھی وہ جلدی سے ان تک آئی

" عمر.. عمر مجھے معاف....." وہ بول بھی نہ پوئی تھی کہ عمر کا ایک بھاری ہاتھ اس کے گال پہ پڑا

" دفع ہو جاؤ یہاں سے تم تنہاری شکل بری لگ تہی ہے مجھے نفرت ہورہی ہے تم سے..... اتر گئیں آج تم میرے دل سے"

" عمر ایک موقع دیں دیں ایک.... میں آئیندہ کبھی ایسا نہیں کروں گی" وہ بری طرح رو رہی تھیں

" آئیندہ.. آئیندہ کی نوبت چھوڑی ہے تم نے"

" عمر پلیز...." اس نے ان کا بازو تھاما

" دفع ہو جاؤ یہاں سے سنا تم کل تم اس گھر میں نظر نہ آؤ سمجھیں" کہہ کر وہ باہر نکل گئے

                       --------

"ہمیں معاف کردو یشل بیٹاہم گنہگار ہیں تمہارے" امی روتے ہوئے بولیں

" نہیں آنٹی آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں آپ کی تو کوئی غلطی نہیں ہے"

" میرے گھر کے فرد نے ہی تمہیں تکلیف پہنچائی یشل میں کیسے گنہگار نہ ہوئی پھر میں شرمندہ ہوں بہت"

" آنٹی آپ میری ماں کی جگہ ہیں اور مائیں معافی مانگتی بالکل اچھی نہیں لگتیں....." وہ بولی

" آنٹی پلیز روئیں نہیں اب تو سب ٹھیک ہوگیا ہے بس اللٰہ کا شکر ادا کریں" وہ بولی تو انہوں نے اس کا ماتھا چقم لیا اور اسے دعا دی

" یشل علی سے ناراض ہو تم?" انہوں نے پوچھا

" بالکل بھی نہیں آنٹی آپ ایسا نہ سوچیں پلیز اچھا آجائیں آپ میرے ساتھ چلیں کچھ کھا لیں صبح سے  کچھ نہیں کھایا آپ نے" وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئی.

                      ----------

علی نے  کچھ دنوں میں ڈسچارج  ہو جانا تھا ہاسپٹل سے.... اس کا کام ختم ہوگیا تھا وہ اب واپس جانے کی تیاری کرنی تھی 

" یشل...." یشل جو علی کی رپوٹس چیک کررہی تھی پلٹی

" جی آنٹی آئیں بیٹھیں نا"  وہ بولی

" میں نے سنا ہے تم واپس جا رہی ہو?"

" جی آنٹی علی بھی اب بلکل ٹھیک ہیں تو......"

" یشل ایک اور احسان کرو گی ہم پہ?"

" ارے آنٹی آپ حکم کریں احسان کس بات کا" وہ مسکرائی

"برا تو نہیں مانو گی....??? یہ تو نہیں سمجھو گی کہ میں خود غرض بن رہی ہوں یا اپنے بیٹے کا سوچ رہی ہوں"

" نہیں آنٹی آپ کہیں" وہ مسکرائی اور ان کے ہاتھ پہ زہاتھ رکھا

" یشل علی سے شادی کرلو" یشل کی مسکراہٹ سمٹی وہ انہیں دیکھتی رہ گئی جو اتنی آس سے اس سے پوچھ رہی تھیں وہ شاکڈ بیٹھی تھی

وہ شاکڈ سی کھڑی تھی یہ وہ کیا کہہ رہی تھیں

" بولو بیٹا?" انہوں نے پھر پوچھا

" آنٹی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں"

" بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں بیٹا سچ پوچھو تو ہمیشہ علی کی دلہن کے روپ میں میں نے تمہیں ہی دیکھا ہے اور اب تو ویسے بھی حالات ٹھیک ہو گئے ہیں  ساری غلط فہمی بھی دور ہوگئی ہے"

" آنٹی پر....." اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے

" بیٹا نہ مت کرنا میں تمہارے پاس بہت امید لے کر آئی ہوں"

" آنٹی آپ.. نے علی سے پوچھا?"

" بیٹا جب سب ٹھیک ہو ہی گیا ہے تو علی سے کیا پوچھنا میں جانتی ہوں وہ اب منع نہیں کرے گا" وہ خاموش رہی

" بتاؤ بیٹا..... کیا میں خاموشی کو انکار سمجھوں?" انہوں نے پوچھا یشل اب بھی کچھ نہ بولی وہ اب بھی نہ ہاں کی کشمکش میں تھی

" کوئی بات نہیں بیٹا..... جب دل کی رضامندی نہ ہو تو اس رشتے کا بھی کوئی فائدہ نہیں" وہ مایوس ہوئیں تو یشل بولی

" ایسا نہیں ہے آنٹی بس میں سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں علی راضی بھی ہیں یا.... پتا نہیں مجھے ہاں بھی کرنی چاہیے یا نہیں پر"

" پر....???"

" پر اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے میرے لیے علی کی زندگی سے بڑھ کے کچھ نہیں ہے میں اسے جلد سے جلد اپنے پاؤں پہ کھڑا دیکھنا چاہتی ہوں .. میں تیار ہوں آنٹی" وہ بولی تو وہ ایک دم خوش ہوئیں اور اسے گلے سے لگالیا

" شکریہ بیٹا بہت بہت شکریہ میرا مان رکھنے کا" وہ اس کا ماتھا چوم کے بولیں

                -----------

 اس نے فون کر کے ارسلان بھائی مشعل اور مصطفٰی کو بلا لیا تھا اس کے دونوں بہن بھائی حیران پریشان تھے پر ارسلان بھائی نے انہیں ساری بات بتا کے ریلیکس کردیا تھا

علی کو بالکل یقین نہیں تھا کہ اب وہ پھر سے کبھی اپنے پیروں پہ کھڑا بھی ہو سکے گا.. اور صرف اسی وجہ سے وہ شادی سے انکار کررہا تھا کہ اس پیاری لڑکی کو ملے بھی تو ایک اپاہج..... جس کا بوجھ  وہ ساری زندگی اٹھاتی رہے گی..... اتنا کچھ کیا ہے یشل نے اس کے لیے.. اتنی تکلیف سہی صرف اس کی وجہ سے..... نہیں.. وہ اتنا خودغرض نہیں ہے جو جانتے بوجھتے یشل کو اس تکلیف میں ڈالے گا 

اس نے امی سے بھی کہا کہ وہ یہ شادی نہیں کرسکتا پر وہ تو اس کی سن ہی نہیں رہی تھیں اسے غصہ بھی آرہا تھا 

یشل کسی کام سے آئی تو وہ بولا

" یشل تم اس شادی سے انکار کردو" اس کے لہجے میں سختی تھی

" کیوں?" وہ ایڑی کے بل گھومی

" مجھے تم سے شادی نہیں کرنی دیٹس اٹ" وہ جتنی سختی سے بول سکتا تھا اس نے بولا

" کیوں نہیں کرنی ?" 

" یہ میں تمہیں کیوں بتاؤں تم بس جا کے امی کو انکار کردو"

" نہیں" وہ فورا بولی 

" کیا مطلب تمہارا?" وہ ابرو اچکا کے بولا

" مطلب سمپل ہے میں آپ سے ہی شادی کروں گی" وہ دوٹوک بولی

" وجہ?"

" وجہ صرف آپ کی صحت ہے..... زیادہ خوش مت ہونا کہ اس کی وجہ کچھ اور ہے" وہ بھی چڑ گئی 

" مجھے کویہ خوشی ہے بھی نہیں ..... اور میری صحت کی فکر کرنے کا شکریہ پلیز جا کے انکار کرو مجھے نہیں کرنی یہ شادی" وہ بھی چڑا

" کیوں کروں انکار"

" تم نہیں کرو گی انکار ?" وہ بولا

" نہیں..."

" ٹھیک ہے کرو میری خدمتیں پر مجھ سے کوئی صلے کی امید نہ رکھنا " وہ غصہ ہوگیا

" انکار کی کوئی وجہ?" یشل بولی

" لیلٰی سے محبت....." یشل کا دل دکھا پر پھر ہمت سے بولی

" تو کرنی تھی نا اس سے شادی....."

" اس نے انکار کردیا تھا میری حالت دیکھ کے..... پر کہتے ہیں نا محبت درگزر کرنا جانتی ہے تمہاری خدمتوں کی وجہ سے اگر میں ٹھیک ہوگیا تو اپنی لیلٰی کے پاس پھر سے چلا جاؤں گا" وہ اسے تپا بھی رہا تھا یشل کو گہرا دکھ پہنچا تو کیا سچ میں اس کی محبت ختم ہوگئی ہے اس کے لیے

"اور ہاں میں تمہیں طلاق دے دوں گا" اس نے کہا یشل نے اس کو ایک نظر دیکھا اور پلٹ گئی

                  ---------

دوسرے دن ان کا نکاح ہاسپٹل میں ہی سادگی سے ہوگیا تھا یہ ان کے نکاح کے دوسرے دن کی بات ہے ڈاکٹرز کی تجویز پہ آج وہ لوگ امریکہ جا رہے تھے علی کو لے کہ کیونکہ ڈاکٹرز کا کہنا تھا وہاں پہ ان کا اچھا علاج ہوسکتا ہے اور علی جلد صحت یابی کی طرف لوٹ سکتے ہیں

یشل علی کو اپنے گھر کے بجائے علی پیلس لے کے آئی جو اس نے خاص علی کے لیے بنوایا تھا علی اس کی محبت پہ حیران تھا اتنی شدید محبت کرتی تھی وہ اس سے.....اسے اپنے اوپر فخر محسوس ہوا

اور یشل اسے تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ خوش ہو یا روئے.....

خوش وہ اس بات پہ تھی کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر میں علی کبھی آئے گا بھی.....

اور دکھ یہ تھا کہ وہ اب اس سے محبت کا دعوے دار نہیں رہا تھا

وہ علی کا بہت خیال رکھتی تھی حالنکہ وہ اس سے کوئی بات نہ کرتا بلکہ ہر بار اس کے لہجے میں تلخی ہوتی یشل کا دل کٹ کے رہ جاتا

علی بھی کیا کرتا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی عمر اس کی خدمت کرنے میں گزار دے جیسے لیلٰی کا کہنا تھا وہ بھی تو لڑکی تھی اس کے بھی تو کچھ ارمان ہوں گے..... پھر وہ کیوں کررہی تھی یہ..... وہ اس کو اپنے لہجے کی تلخی سے عاجز کرنا چاہتا تھا  تاکہ وہ اسے خود چھوڑ جائے کیونکہ اتنے سالوں کے بعد اسے پایا تھا اس نے اب چھوڑنے ہمت نہیں اس میں .... وہ یشل کو یہ تو کہہ چکا تھا کہ وہ اسے چھوڑ دے گا اور لیلٰی کا ذکر بھی اس نے جان بوجھ کے ہی کہا تھا اور یشل کے دل کی حالت اس سے چھپی نہیں رہ سکی تھی اسے دکھ ہوا تھا اسے اس طرح بول کے پر.....

پر علی بھول گیا تھا کہ یہ محبت ہے جو یشل کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے وہ علی کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار تھی پھر یہ تکلیف تو کچھ بھی نہیں تھی دن گزرنے کے ساتھ ساتھ علی بہت تیزی سے صحت یابی کی طرف آرہا تھا یشل بہت خوش تھی اور علی حیران کہ وہ تو بالکل مایوس ہوگیا تھا پھر.....

پھر ایک دن آیا جب علی نے پہلی بار ذمین پہ اپنے قدم رکھے اور اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا تو احساس تشکر سے یشل کی آنکھیں نم ہوگئیں انہی دنوں امی فاطمہ اور حیدر بھی وہیں آئے ہوئے تھے وہ بھی اسے اپنے پیروں پہ کھڑا دیکھ کے بے حد خوش تھے آج پورے چھ ماہ بعد علی اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا تھا

یشل خوش تھی کہ علی ٹھیک ہوگیا تھا

پر ساتھ ساتھ اندر سے دل دکھ رہا تھا کہ اب علی اسے چھوڑ دے گا

                             --------

آج علی کی برتھ ڈے تھی سب نے سوچا کیوں نا اسے سرپرائیز پارٹی دی جائے..... سب صبح سے تیاری میں لگ گئے شام میں علی کو سرپرائیز دیا گیا تو اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی

سب نے اسےسالگرہ کی مبارک باد دی اور گفٹس بھی پر یشل نے اسے صرف مبارک باد دی جس پہ علی نے شرارت سے کہا

" میڈم گفٹ کہاں ہے میرا ..... صرف وش کردینے سے کام نہیں چلے گا"

"صبر کریں مل جائے گا " وہ بولی

"رئیلی...? آج مل جائے گا میرا گفٹ?"

 وہ شرارت سے بولا

" اتنی جلدی کیا ہے ?" وہ سنجیدگی سے بولی

" حد کرتی ہو مجھے جلدی نہیں ہوگی تو کس کوہوگی..... پھر مجھے اپنی محبت کو منانا بھی ہے جو پتا نہیں کب سے ناراض ہے" وہ اسے نظروں کے حصار میں لے کے بولا پر وہ تو کچھ اور ہی سمجھ رہی تھی

" ارے بھئی باقی باتیں بعد میں کر لینا پہلے کیک کاٹ لیں" مشعل بولی تو وہ لوگ کیک کی طرف آگئے دونوں نے مل کے کیک کاٹا کیک کاٹنے کے بعد پکس بنوائی گئیں خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا یہ اس کی زندگی کا سب سے یادگار دن تھا

                                --------

 وہ روم میں آئی تو علی اسی کا ویٹ کررہا تھا 

" میرا گفٹ?" وہ چلتا ہوا اس تک آیا اور بولا یشل نے بہت شانے بےنیازی سے اسے اگنور کیا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک لفافہ نکالا علی اسے ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا وہ لفافہ لے کے اس تک آئی اور اس کی طرف وہ لفافہ بڑھایا

" یہ کیا ہے?" علی نے پوچھا

" آپ کا گفٹ " وہ بولی علی نے لفافہ کھولا اس میں کچھ پیپرز تھے اس نے پیپرز کو کھولا تو شاکڈ رہ گیا

" ڈائیورس پیپرز"  اس کے منہ سے نکلا یشل اس کے سائیڈ سے نکلنے لگی کہ علی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

" یہ کیا ہے?" علی نے پوچھا

" آپ کی خواہش..... آپ ٹھیک ہوگئے ہیں اب.. آپ نے ہی کہا تھا نا کہ آپ مجھے ٹھیک ہونے کے بعد طلاق دے دیں گے تو..... اور.. لیلٰی کے پاس آپ جاسکتے ہیں" وہ بہت ضبط سے بولی 

"لیلٰی کے پاس تو میں ویسے بھی جا سکتا ہوں تمہیں چھوڑنے کی مجھے ضرورت نہیں ہے ویسے بھی اسلام میں چار جائز ہیں" وہ اسے تپانے کو بولا

" بس شادی کے بام پہ سب شریعت یاد آجاتی ہے فورا " اس نے ہاتھ چھڑایا اور جانے لگی تو علی نےپھر سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اپنے مقابل کیا

" ہاتھ چھوڑیں میرا علی" وہ چڑ گئی

" چھوڑنے کے لیے تھوڑی تھاما ہے" وہ ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے بولا جو ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا

" علی پلیز..... جہاں محبت نہ ہو وہاں یہ سب باتیں بیکار ہیں" وہ رودینے کو تھی علی سنجیدہ ہوا

" یشل...." اس نے پکارا وہ سو جان سے اس کی طرف متوجہ ہوئی

" مجھے معاف کرو گی یشل" وہ بولا تو یشل حیران سی اسے دیکھنے لگی

" میں جانتا ہون میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے تم سے محبت تو کی پر اعتبار نہیں کیا..... اور یہ ہی میری سب سے بڑی غلطی تھی پر تم تب بھی مجھ سے محبت کرتی رہیں ایک لفظ شکایت کا نہیں کہا تم نے مجھے کیوں یشل?" وہ خاموشی سے اسے بولتا ہوا سن رہی تھی

" میں نے تمہیں چھوڑ کے اپنے گھر والوں پہ اعتبار کیا مگر انہوں نے ہی مجھے دھوکا دیا..... اور اس لڑکی کے ساتھ زیادتی پہ زیادتی کرتا رہا جو مجھ سے بےوفائی کرنا تو دور ایسا سوچ بھی نہیں سکتی..... یشل میں گنہگار ہوں تمہارا ہوسکے تو معاف کردو مجھے" اس نے ہاتھ جوڑے تو یشل کانپ گئی اور اس کے ہاتھ فورا تھامیں

" نہیں..... نہیں علی یہ ہاتھ بندھے ہوئے بالکل اچھے نہیں لگتے" وہ بولی " ان ہاتھوں کو تھامنے کی خوہش بہت کی ہے میں نے پر ان ہاتھوں کو بندھے ہوئے دیکھنے کا کبھی میں نے سوچا تک نہیں ہے" وہ رو رہی تھی

"تم نے مجھے معاف کردیا یشل ?" وہ جیسے یقین کرنا چاہ رہا تھا

" میں ناراض ہی کب تھی آپ سے علی بس ایک دکھ تھا کہ آپ نے میرا اعتبار نہیں کیا بس اور کچھ نہیں" وہ اپنے بات کہ اختتام پہ روتے روتے مسکرائی تو علی نے اسے اپنے گلے سے لگالیا اور اس کے گرد بازوؤں کا حصار باندھ دیا اور اسکے ماتھے پہ بوسا دیا.....اپنے رشتے کا  پہلا استحقاق ادا کیا..... یشل شانت سی اس کے سینے پہ سر رکھے اس کی دھڑکن کو سن رہی تھی

"علی....." وہ مدھم سا بولی

" ہمممم....."

"آپ کیا لیلٰی سے....." 

" نہیں " وہ اس کی بات کاٹ کے بولا " وہ تو بس میں نے یونہی کہہ دیا تھا" یشل نے سر اٹھایا 

" کیا ہے رکھے رہو نا سر.. اٹھایا کیوں" وہ بدمزہ ہوا

"پہلے یہ بتائیں یونہی کیوں کہاں تھا" وہ بولی 

" ئشل ان دنوں جو میری حالت تھی میں مایوس تھا اپنے آپ سے کہ کبھی چل بھی پاؤں گا یا نہیں اور تم سے شادی کرکے میں زندگی بھر تم پہ بوجھ بن کے نہیں رہ سکتا تھا اور طلاق کا بھی بس میرے منہ سے نکل گیا تھا میں چاہتا تھا کہ تم مجھ سے مایوس ہوجاؤ اور مجھے چھوڑ کے چلی جاؤ کیونکہ تمہیں چھوڑنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی" وہ بولا 

" آپ کو کیوں لگا کہ آپ مجھ پہ بوجھ بن جائیں گے یا میں آپ کے رویے سے مایوس ہو جاوں گی?" وہ نروٹھے پن سے بولی

" تو پھر یہ کیا ہے?" اس نے وہ کاغذ لہرایا 

" یہ تو آپ کی خوشی کے لیے....."

" ایک بات تم اپنے ذہن میں بٹھالو کہ میری خوشی تم سے ہے سمجھ آئی اور آئیندہ یہ " اس نے کاغذ کی طرف اشارہ کیا " مجھے نظر آیا نا تو...." وہ کاغز پھاڑتے ہوئے بولا

" آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں علی" وہ ناراض ہوگئی اور اپنا رخ پھیر لیا

" ارے ڈانٹ رہا ہوں تو کیا ہوا بعد میں پیار بھی تو کروں گا نا" وہ اس کندھے تھم کے جھک کے اس کے کان میں بولا تو یشل سرخ پڑگئی

" بہت بدتمیز ہیں آپ" وہ بولیں اور دور ہوئی

" جیسا بھی تمہارا ہی ہوں" وہ مسکرایا اور یشل کو گلے سے لگا لیا آج اسے بےحد سکون محسوس ہوا تھا آج وہ مکمل تھے رات چاہے جتنی لمبی کیوں نا ہوں ڈھل ہی جاتی ہے ان کی بھی وہ دن گزر ہی گئے تھے اور ایک نیا اور روشن سویرا ان کا منتظر تھا

کچھ لمحے ایسے ہی گزرے کہ ایک دم دروازہ ناک ہوا یشل شرماتے ہوئے پیچھے ہٹی

امی دروازہ کھول کے اندر آئیں

"تم لوگ بزی تو نہیں تھے .. میں کہیں غلط وقت پہ آگئی کمرے میں" وہ مسکرائیں تو یشل جھینپی

" نہیں امی ایسی بات نہیں ہے آپ آئیں نا بیٹھیں" یشل نے آگے بڑھ کے ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں بیڈ پہ بٹھایا

" دیکھو تم لوگوں کی شادی ہوگئی ہے یہ صرف گھر کے لوگ ہی جانتے ہیں" وہ بولنے لگیں " میں چاہتی ہوں تم دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہو جیسے اوروں کی ہوئی ہے"

" پر امی..... اس کی کیا ضرورت ہے ہم ولیمہ دھوم دھام سے کرلیں گے نا" علی بولا

" یہ کیا بات ہوئی ارے لڑکیو  کے بڑے ارمان ہوتے ہیں اپنی شادی کو لے کر یہ کیا تم خالی خولی نکاح پہ ہی دم بھر رہے ہو..... " وہ کچھ بولنے لگا تو وہ بولیں" بس میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یشل اور تمہاری شادی بھی بہت دھوم دھام سے کی جائے گی تب تک یشل میرے ساتھ میرے کمرے میں رہے گی" ان کی بات پہ علی کو شدید صدمہ پہنچا جبکہ یشل نے اپنی مسکراہٹ دبائی

" امی..... یہ غلط بات ہے"

" ارے کیا غلط ہے ایک ماہ کی ہی بات ہے صرف" وہ بولیں تو علی کا حیرت سے منہ کھل گیا

" ایک ماہ صرف" وہ بولا اور یشل کو دیکھا جو اپنی مسکراہٹ کنٹرول کررہی تھی

" تمہیں بڑی ہنسی آرہی ہے"وہ چڑا

" تو کیا روؤں?" یشل معصومیت سے بولی

" اسے چھوڑو یشل تم چلو میرے ساتھ" وہ اٹھیں تو اسے بھی اٹھالیا وہ چپ چاپ ان کے ساتھ چلتی بنی

علی پیچھے سے روکتا ہی رہ گیا

.                            --------

ٹھیک ایک ماہ بعد وہ علی کی دلہن بن کے اس گھر آگئی دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں بہت خوش اور مطمئن تھے علی کی محبت میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا یشل کو اپنے آپ پر بہت رشک آتا تھا کہ اس کا شوہر اسے بے انتہا چاہتا ہے تو دوسری طرف اسے اس کے حد سے زیادہ رومانٹک ہونے پہ چڑ ہوتی علی چاہتا تھا وہ ہر وقت اس کے پاس رہے......

شہلہ کو گھر سے تو نکال دیا تھا پر عمر اور شہلا کا بیٹا ابھی چھوٹا تھا اور اسے ماں کی اور باپ دونوں کی ضرورت تھی اس لیے اسے گھر واپس لے آئے یشل کو ان سے بھی کوئی شکایت نہیں تھی پر وہ یشل سے خار کھائے رہتی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کے اسے خوب سناتی اس لیے عمر نے اپنا گھر علیحدہ لے لیا لیلٰی کا بھی انہیں پتا چلا تھا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے اور پھر کچھ دنوں بعد خبر آئی کہ اس لڑکے نے لیلٰی کے ساتھ زیادتی کرکے اسے کچرے میں پھینک دیا تھا اور وہاں سے اس کی لاش ملی تھی اس کا سن کے علی اور یشل کو بہت دکھ پہنچا وہ دل سے اس کی مغفرت کے لیے دعاگو تھے.....

دن گزرتے گئے اور رمضان کا مہینہ بھی آکے گزرنے لگا تھا کہ انہی دنوں یشل کو خوشخبری ملی کہ وہ ماں بننے والی ہے وہ بے اینہا خوش تھی جلد سے جلد علی کو بتانا چاہتی تھی اور اس کے لیے عید کا انتظار کررہی تھی کہ علی کو یہ سرپرائیز عید پہ دیا جائے ..... خیر عید کا دن بھی آپہنچا جب یشل نے اسے اتنی بڑی خوشی کی خبر سنائی تو علی خوشی سے پاگل ہی ہو گیا تھا وہ اس دن بے انتہا خوش تھا وہ جتنا اپنے رب کا شکر ادا کرتا اتنا کم تھا پریگنینسی کے دوران علی نے اس کا بے انتہا دھیان رکھ رہا تھا کہ انہی دنوں حیدر نے بتایا کہ اسے جاب کی طرف سے باہر بھیجا جا رہا ہے مستقل طور پہ اور ساتھ ہی مشعل سے شادی کی خواہش بھی ظاہر کردی یشل بہت خوش تھی کیونکہ حیدر اس کی بہن کے لیے ایک اچھا لائف پاٹنر ثابت ہو سکتا تھا اور پھر دونوں ہی گھرانوں میں شادی کا شور مچ گیا یشل  کا ایک پاؤں یہاں ہوتا تو دوسرا پاؤں وہاں..... علی اس کا حد سے زیادہ دھیان رکھنے لگا تھا کیونکہ انہی دنوں اس کی ڈلیوری کے دن قریب تھے

حیدر اور مشعل کی شادی ہوگئی تھی اور علی والے انہیں آج ائیر پورٹ چھور کے آئے تھے

علی کو میٹنگ کے لیے تین دن کے لیے سنگاپور جانا تھا  پر وہ یشل کی حالت دیکھ کے جانے سے منع کررہا تھا کیونکہ اس کی ڈلیوری کے یہ ہی دن تھے پر یشل کی ضد پہ وہ چلا گیا

آج تیسرا دن تھا اسے گئے ہوئے شام تک علی نے پاکستان آجانا تھا صبح سے ہی یشل کی طبیعت خراب تھی پر اس نے ظاہر نہ ہونے دیا

جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو امی نے فکرمندی سے بولا

" یشل لگتا ہے ہاسپٹل جانا پڑے گا بیٹا ہمت کر کے اٹھو" اور ساتھ ہی فاطمہ کو آواز دی

" نہیں امی جب علی آجائیں گے تب چلی جاؤں گی ابھی تو ٹھیک ہوں" وہ بولی

" نہیں بیٹا تاخیر اچھی بات نہیں اٹھو "

" نہیں امی علی آجائیں پھر..... میں ٹھیک ہوں اپنے کمرے میں جا رہی یوں کچھ دیر آرام کروںگی" کہہ کر وہ اٹھ گئیں امی کو ایک دم فکر لگ گئی یشل سن ہی نہیں رہی تھی

کمرے میں جا کے وہ لیٹی تو طبیعت ایک دم ہی بہت زیادہ خراب ہوگئی کہ برداشت سے باہر ہوگئی اور پھر اس کی آنکھوں میں ایک دم اندھیرہ چھا گیا

.                                -----

" امی امی یشل ٹھیک تو ہے نا " وہ پاکستان پہنچا تو ائیرپورٹ سے آتے ہوئے اس نے گھر فون کیا تو فاطمہ نے اسے بتایا وہ فورا سے پیشتر ہاسپٹل پہنچا

" پتا نہیں علی ڈاکٹرز ابھی تک آپریشن تھیٹر سے نہیں آئے ہیں" وہ خود بہت فکرمند تھیں کہ ڈاکٹر روم سے نکلی علی فورا ان کے پاس آیا

" ڈاکٹر میں علی.. میری وائف ہیں اندر.. کیسی ہیں وہ....???"

" مبارک ہو مسٹر علی آپ  ٹوئینز بچوں کے بابا بن گئے  ہیں" ڈاکٹر مسکرائیں

" اللٰہ تیرا شکر.... مبارک ہو علی بیٹا" امی خوشی سے بولیں

" خیر مبارک امی آپ کو بھی مبارک ہو" وہ خوشی سے بولا

" ڈاکٹر کیا ہم مل سکتے ہیں ان سے?" علی بولا

" مسٹر علی ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں آپ لوگ دعا کیجیے" علی سن کے سناٹے میں آگیا وہ پھر سے یشل کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ڈاکٹر ان کے پاس بچے لے آئیں تھیں جنہیں علی نے ایک نظر دیکھا تک نہیں اس کا روں رواں یشل کی صحت کے لیے دعاگو تھا

.                            ------

یشل اب خطرے سے باہر تھی اسے روم میں شفٹ کردیا گیا تھا اور علی اس سے لگ کہ ہی بیٹھ گیا تھا شگق آپی ہنسیں

" اب تو بیوی کا پیچھا چھوڑ کے اپنے بچوں کی خبر لے لو علی" یشل جھینپ گئی

" بیوی کا پیچھا چھوڑوں امپاسبل .....لاؤ ذرا میرے بچے تو دکھاؤ" وہ فاطمہ سے بولا

" ارے میرے بچے کتنے پیاے ہیں نا سارا حسن انہوں نے اپنے بابا کا چرالیا ہے" وہ انہیں پیار کرتے ہوئے بولا

" میری بیٹی تو بالکل پرنسز لگ رہی ہے" وہ بغور انہیں دیکھ کے کومنٹ پاس کررہا تھا

" ارے یشل بھی کم تھوڑی ہے بچی تو بالکل ماں پہ گئی ہے" امی نے فورا یشل کی ہمایت کی علی نے اسے دیکھا پھر بولا

" جی نہیں صرف ان دونوں کی آنکھیں میری یشل جیسی ہیں باقی تو یہ پوری بابا کی کاپی ہے " علی مسکرا مسکرا کے ان کو کومنٹ دے رہا تھا اور یشل اسے دیکھ دیکھ کے مسکرا رہی تھی 

زندگی بہت ہی خوبصورت ہوگئی تھی ایک دم سے

سچ ہے محبت ایک سمندر جیسی ہی تو ہے جس کی گہرائی کو ناپنا مشکل ہے یہ تو بہت وسیع ہوتی ہے بہت..... پر کم ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہیں

شادی کے آٹھ سال بعد اللٰہ نے علی اور یشل کو ایک اور بیٹے سے نوازا تھا وہ دونوں جتنا اپنے رب لا شکرادا کرتے کم تھا ان کی زندگی خوش مطمئن اور آسودہ تھی.....

خت شدہ

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Aik Samundar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Aik Samundar written by Beena Khan. Mohabbat Aik Samundar by Beena Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment