Haveli By Khanzadi New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 11 August 2024

Haveli By Khanzadi New Complete Romantic Novel

Haveli By Khanzadi New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Haveli By Khanzadi Complete Romantic Novel 


Novel Name: Haveli

Writer Name: Khanzadi

Category: Complete Novel

جی لالہ ہم کل صبح آئیں گے گاوں یہاں دل تو نہی لگتا لیکن کیا کریں مجبوری میں رہ رہے ہیں یہاں بس دعا کریں صبح خیریت سے پہنچ جائیں ہم اور اماں کو بھی بتا دینا کہ آ رہے ہیں ہم۔۔۔

ٹھیک ہے شفیق میں اماں کو بتا دوں گا سب بہت خوش ہو گے تم سب کے واپس آنے پر۔۔نواب بھی آئے گا نہ ساتھ۔۔؟؟

ہاں ہاں لالہ نواب بھی آئے گا ساتھ اور شانو بھی سب آئیں گے اپنے گھر واپس بس اب اور نہی دور رہنا جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔ہم کل ہی آ رہے ہیں واپس۔۔

ٹھیک ہے شفیق ہم سب کل بے چینی سے تمہارے آنے کا انتظار کریں گے اور بچوں اور بھابی کا بھی حنیف بھائی مسکراتے ہوئے بولے۔۔اور فون بند کر دیا۔۔

شانو کی اماں کہاں ہو۔۔۔؟ 

یہی ہوں کیوں اتنی زور زور سے آوازیں دے رہیں ہیں آپ۔۔۔آپ نے تو ڈرا دیا مجھے۔۔۔اور اب ہنس رہے ہیں۔۔۔

کرماں والیے۔۔میں نے تو یہ پوچھنا تھا کہ ساری تیاری ہو گئی۔۔۔صبح جانا ہے ہمیں جلدی نکلنا ہے صبح نہی تو بس نکل جائے گی اور اگلی بس پھر شام کو ملے گی۔۔اسی لیے ساری تیاریاں ابھی ختم کر لو۔۔

اچھا یہ بات تھی تیاریاں تو ساری مکمل ہیں۔۔بس شانو اور نواب کو دیکھ لوں میں زرا ان کی تیاری مکمل ہوئی ہے یا نہی۔۔شانو نے جب سے سنا ہے گاوں جانے کا اداس بیٹھی ہے تب سے۔۔کہتی ہے مجھے گاوں نہی جانا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔

ڈرنا کس بات کا اسے کہوں پریشان نہ ہو ہم ہیں اس کے ساتھ۔۔۔یہ گاوں کے نام پر اتنا ڈرتی کیوں ہے وہی تو پلی بڑھی ہے۔۔چند سال ہی تو ہوئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے۔۔اب واپس تو جانا ہی پڑے گا نا ساری زندگی یہاں تو نہی گزار سکتے نا۔۔تم دیکھو جا کر ان کو میں نماز پڑھ آوں۔۔نواب کو بھی بھیج دو۔۔

اچھا کہتے ہوئے اماں شانو کے کمرے کی طرف چل پڑی۔۔شانو بستر میں منہ چھپائے لیٹی ہوئی تھی اماں نے آواز دی تو ڈر کر اٹھ بیٹھی۔۔ککککون ہے۔۔۔؟؟

ارے میں ہوں تمہاری اماں۔۔۔شانو کیا ہو گیا ہے اتنا کیوں ڈرتی ہو۔۔میری بیٹی پہلے تو ایسی نہی تھی۔۔اسی لیے تو نواب مزاق بناتا رہتا ہے تمہارا۔۔۔اتنا مت ڈرا کرو میری بیٹی بہادر بنو۔۔۔وہ شانو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔

شانو جلدی سے اماں کے گلے لگ گئی اماں مجھے نہی جانا گاوں مجھے یہی رہنا ہے۔۔مجھے وہ مار دے گا آپ لوگ سمجھتے کیوں نہی۔۔۔ووووہ مجھے اپنے پاس بلاتا ہے اگر میں یہاں سے گئی تو وہاں بھی آ جائے گا میرے پیچھے مجھے مارنے کے لیے۔۔۔

شانو کون مار دے گا تجھے۔۔۔۔اور کون بلاتا ہے تجھے اپنے پاس۔۔نہ ڈرو ہم ہیں تمہارے ساتھ وہ بس تمہارا وہم ہے اور کچھ نہی۔۔اس بات کو سمجھو میری بچی۔۔۔یہ سب بس وہم ہے اور کچھ نہی ہے۔۔

نہی اماں یہ سب وہم نہی ہے۔۔۔وہ مجھے روز نظر آتا ہے خواب میں اس کا چہرہ نہی دیکھ پاتی میں۔۔لیکن اس کی آواز مجھے کچھ سنی سنی لگتی ہے لیکن یاد نہی آتی وہ آواز کس کی ہے۔۔

میں اسی ڈر سے سو نہی پاتی کہ اگر سوئی تو پھر سے اس کی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگ پڑتی ہیں وہ مجھے مار ڈالے گا۔۔۔کہتا ہے میں بس اس کی ہوں کسی اور کے بارے میں سوچا تو مار دے گا مجھے۔۔

اماں آپ لوگ چلے جائیں مجھے یہی رہنے دیں اگر میں یہاں سے گئی تو وہ مجھے نہی چھوڑے گا۔۔آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔شانو پاگلوں کی طرح اماں کے سینے میں سر چھپائے روتے ہوئے ڈرتے ہوئے بول رہی تھی۔۔

نہی شانو وہ جو کوئی بھی ہے تمہارا کچھ نہی بگاڑ سکے گا۔۔ہم سب ہیں نا تمہارے ساتھ اور سب سے بڑھ کر اللہ تمہارے ساتھ ہے۔۔۔تمہے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہی ہے۔۔

چلو اب اٹھ کر وضو کرو نماز پڑھو۔۔میں زرا نواب کو دیکھ لوں۔۔اس کو مسجد بھیج کر آتی ہوں میں۔۔۔شانو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔۔

نواب اٹھ جا چھوڑ دے اس فون کی جان تیرے ابا کب سے مسجد چلے گئے ہیں۔۔کہ رہے ہے تھے تجھے بھی بھیج دوں۔۔اپنے آپ تو توفیق ہونی نہی تجھے کہ کہے بغیر چلا جائے۔۔۔جا مسجد تیرے ابا انتظار کر رہے ہو گے تیرا۔۔

اچھا اماں جاتا ہوں بس یہ گیم ختم کر لوں۔۔۔آگ لگے تیرے فون کو جس نے ماں باپ کا نا فرمان بنا دیا ہے تجھے وہ تپ گئی۔۔۔کوئی شرم ہی نہی رہ گئی تجھ میں کہ باپ انتظار کر رہا ہے مسجد میں۔۔اور سب سے بڑھ کر اللہ کا پیغام آیا نماز کا۔۔۔اور تجھے گیم کھیلنے کی پڑی ہے۔۔

کچھ تو خدا کا خوف کرو چھوڑ دو اس گیم کو قبر میں اس گیم نے نہی بچانا تجھے۔۔۔نماز نے بچانا ہے۔۔اپنے اعمال درست کر لو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔۔۔جاو مسجد اور آ کر اپنا سامان پیک کرو صبح جلدی نکلنا ہے ہمیں گاوں کے لیے۔۔

جی اماں میں چلتا ہوں۔۔نواب فون رکھ کر جلدی سے باہر نکل گیا۔۔۔اور وہ بھی نماز کی تیاری میں لگ گئی۔۔ان کی عادت تھی نماز کی دونوں میاں بیوی خود بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے اور بچے بھی۔۔۔

نماز پڑھ کر سب سونے چلے گئے۔۔۔نواب نے اپنی پیکنگ کر لی کیونکہ اماں نے سختی سے کہا تھا کہ رات کو ہی پیکنگ کر کے سوئے۔۔۔شانو بھی اپنی پیکنگ کر چکی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی۔۔

اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔خود کو ایک انجانی سی جگہ دیکھتی ہے۔۔۔اور ایک شخص اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔جسے دیکھتے ہی شانو بھاگنے لگ پڑتی ہے۔۔۔بھاگتے بھاگتے وہ تھک جاتی ہے لیکن راستہ ختم ہی نہی ہوتا۔۔

وہ شخص اب بھی شانو کے پیچھے ہی آ رہا ہوتا ہے اس کی ہنسی کی آوازیں فضا میں گونج رہی ہوتی ہیں۔۔۔شانو بھاگتی چلی جاتی ہے کہ اچانک اس شخص سے ٹکرا کر گر جاتی ہے۔۔۔اور شانو کی آنکھ کھل جاتی ہے۔۔۔

شانو کا برا حال ہوتا ہے ڈر کے مارے۔۔۔اس کا چہرہ پسینے سے بھر گیا ہوتا ہے۔۔۔شانو کو بیٹھے دیکھ اماں کی بھی آنکھ کھل جاتی ہے۔۔کیا ہوا شانو وہ شانو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتی ہیں۔۔۔

کککچھ نہی اماں بس مجھے پیاس لگی تھی۔۔۔پانی پی کر سونے لگی ہوں۔۔۔شانو بہانہ گڑ دیتی ہے اور جلدی سے اٹھ کر پانی پی کر واپس آ کر لیٹ جاتی ہے۔۔۔جانتی ہے اگر اماں کو بتایا تو وہ پریشان ہو جائیں گی۔۔۔

یہ تو معمول کی بات تھی۔۔۔شانو سمجھنے سے قاصر تھی کہ کون ہے وہ شخص؟؟ کیوں پیچھا کرتا ہے میرا۔۔۔اس کا چہرہ کیوں نظر نہی آتا مجھے۔۔۔اور اس کی آواز جانی پہچانی سی لگتی ہے لیکن پھر بھی شانو پہچان نہی پاتی اسے۔۔۔

ساری رات شانو نے جاگ کر گزاری اس کے ساتھ اکثر ہی ایسا ہوتا رہتا تھا۔۔ ڈر کے مارے ساری ساری رات جاگتی رہتی تھی شانو۔۔۔۔۔فجر کی اذان کی آواز آئی تو شانو اور اماں نماز پڑھنے کی تیاری میں لگ گئی۔۔

نواب اور ابا بھی مسجد کی طرف چل پڑے۔۔۔نماز پڑھ کر اماں اور شانو دونوں ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی۔۔۔جیسے ہی وہ دونوں نماز پڑھ کر گھر آئے سب نے مل کر ناشتہ کیا۔۔۔اور تیار ہو کر گاوں کے لیے روانہ ہو گئے۔۔۔

دوپہر تک وہ لوگ گاوں پہنچ گئے بس سے اتر کر وہ لوگ تانگے پر بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ اپنے گھر کے سامنے تھے۔۔۔تین سال بعد گھر کو دیکھ کر شانو کے اماں ابا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔

نواب نے آگے بڑھ کر ابا کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ مسکراتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔اندر گئے تو سامنے ماں کو بیٹھے دیکھ جلدی سے آگے بڑھے۔۔۔اور ماں کے ہاتھ چومتے ہوئے ان کے گلے لگ گئے۔۔

تین سال بعد ماں بیٹے کو گھر میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی۔۔۔ارے اماں اب کیا بس بیٹے کو ہی سارا پیار دے دیں گی تھوڑا ہمارے لیے بھی بچا لیں شانو کی ماں بھی جلدی سے آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ گئی۔۔

شانو اور نواب کو دور کھڑے دیکھ دادی نے ان کو پاس آنے کا اشارہ دیا۔۔۔وہ دونوں بھی دادی کے گلے لگ گئے۔۔۔کیسے ہیں میرے بچے وہ دونوں کو باری باری پیار کرتے ہوئے بولی۔۔۔

میں تو ٹھیک ہوں دادی لیکن یہ آپ کی پوتی اب بھی ویسی کی ویسی ہی ہے چڑیل نواب کہتے ہوئے وہاں سے۔۔۔دادی جان دیکھا آپ نے ایسے ہی تنگ گرتا رہتا ہے یہ مجھے شانو منہ پھلاتے ہوئے بولی۔۔۔اگر ابا یہاں ہوتے تو اس کی ہمت نہی ہونی تھی بولنے کی۔۔۔

آنے دیں ابا کو پھر بتاتی ہوں اس کو۔۔ارے کوئی بات نہی شانو بھائی ہے تیرا چھوٹا وہ بھی ایک ہی۔۔

مزاق کر لیتا ہے تیرے ساتھ نہی مزاق نہی کرے گا تو کون کرے گا۔۔۔

دیکھو کون آیا ہے ولید دروازے سے اندر آتے اپنے ہی خیالوں میں مگن اوپر کی طرف جانے ہی لگا تھا کہ دادو نے ولید کو ٹوکا۔۔ ولید ادھر تو آو دیکھو تو زرا کون آیا ہے۔۔

ولید نے ایک نظر سر تا پاوں شانو کو دیکھا۔۔اسلام و علیکم شانو نے سلام کیا اور نظریں جھکا گئی۔۔۔ولید ابھی بھی شانو کی طرف دیکھ رہا تھا شاید پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

کون ہیں یہ دادو میں نے پہچانا نہی۔۔۔ولید کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔۔۔۔لو کر لو گل۔۔۔یہ شانو ہے جس کی باتیں بتاتی رہتی ہوں میں تمہیں۔۔کل بتایا تو تھا شانو آنے والی ہے۔۔۔پر تم تو جب سے انگریزوں کے ملک سے پڑھائی کر کے آئے ہو اپنوں کو بھول ہی گئے ہو۔۔۔

اوہ اچھا تو یہ ہے شانو ولید دادو کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔۔اب طبیعت ّکیسی ہے آپ کی ولید نے کہا تو شانو حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگ پڑی۔۔۔مجھے کیا ہوا تھا۔۔شانو حیرانگی سے بولی۔۔

اس سے پہلے کے ولید کچھ بولتا دادو نے ولید کو کہنی ماری۔۔۔چلو اٹھو جا کر منہ ہاتھ دھو کیا حلیہ بنا رکھا ہے اپنا جاو اوپر باتیں تو ہوتی رہے گی۔۔دادو نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا تو ولید کندھے اچکاتے ہوئے اوپر کی طرف بڑھ گیا۔۔

میں تایی جان سے مل کر آتی ہوں دادو۔۔۔شانو اٹھ کر تائی جی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔دروازے کے پاس رک کر دروازہ ناک کیا۔۔۔اسلام و علیکم تائی جان۔۔کہتے ہوئے شانو کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

جیسے ہی ان کے گلے لگنے کے لیے آگے بڑھی۔۔۔وہ بول اٹھی بس بس ٹھیک ہے وعلیکم اسلام۔۔۔کہتے ہی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔تایا جی پچھلے لان میں تھے شانو بھی وہی چل پڑی۔۔۔باقی سب بھی وہی پر تھے۔۔۔

اسلام و علیکم تایا ابو شانو کہتے ہوئے ان کے ساتھ لگ گئی۔۔۔وعلیکم اسلام کیسی ہے میری بیٹی شانو کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔۔الحمدللہ بلکل ٹھیک۔۔۔کہتے ہوئے شانو کرسی پر بیٹھ گئی۔۔

ارے بھئی چلیں سب اماں کے پاس اماں اکیلی بیٹھی ہیں اماں کو وہاں اکیلا چھوڑ کر سب یہاں آ گئے ہیں شانو کے ابا نے کہا تو سب وہاں چل پڑے۔۔اور جا کر چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔۔۔

تائی اماں سب کے لیے چائے لے کر آئی تو شانو نے جلدی سے آگے بڑھ کر ٹرے ان کے ہاتھ سے پکڑ لی۔۔لائیے تائی جان میں دے دیتی ہوں سب کو شانو مسکراتے ہوئے سب کو چائے سرو کرنے لگ پڑی۔۔۔

چائے پینے کے بعد شانو تائی جی کے پیچھے پیچھے کچن میں چلی گئی۔۔تائی جی لائیں میں آپ کی مدد کروا دوں کھانا دستر خوان پر لگوانے میں کہتے ہوئے شانو کھانا اٹھانے ہی لگی تھی کہ انہوں نے ٹوک دیا۔۔

خبردار جو کسی چیز کو بھی ہاتھ لگایا تو مجھے تمہاری کسی مدد کی ضرورت نہی ہے جاو یہاں سے۔۔۔اب کیا کرنا چاہتی ہو میرے ساتھ۔۔۔تب ہی ولید کچن میں داخل ہوا امی کھانا جلدی لگا دیں۔۔۔

تب ہی اس کی نظر شانو پر پڑی جس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔۔ولید کو دیکھتے ہی شانو آنسو صاف کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئی۔۔۔

امی یہ شانو کو کیا ہوا وہ رو کیوں رہی تھی۔۔کچھ کہا کیا آپ نے۔۔ولید جانچتی نظروں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔

کچھ نہی کہا میں نے اسے اس کی تو عادت ہے بات بات پر رونے کی ہر بات کا الٹا مطلب سمج لیتی ہے میں نے تو بس اتنا ہی کہا کہ باہر جا کر بیٹھو کھانا میں خود لگا لوں گی اتنی بات پر رونے لگ پڑی۔۔

اچھا اماں جلدی کر لیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔اچھا تم چلو میں لے کر آ رہی ہوں کھانا۔۔۔سب نے مل کر کھانا کھایا۔۔۔ولید کی نظریں شانو پر تھی۔۔وہ چپ چاپ کھانا کھا رہی تھی۔۔

خود پر ولید کی نظریں محسوس ہوئی تو شانو نے نظریں اٹھا کر ولید کی طرف دیکھا۔۔۔تو وہ مسکرا دیا اور کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔۔

کھانے کے بعد شانو پچھلے لان میں چلی گئی۔۔پچھلے لان میں جھولے پر بیٹھ گئی۔۔۔ابھی وہ جھولے پر بیٹھی ہی تھی کہ نواب وہاں آ گیا اس نے تیزی سے جھولا جھولانا شروع کر دیا۔۔۔

شانو چلا رہی تھی نواب رک جاو۔۔۔نہ کرو میں گر جاو گی لیکن نواب نے اس کی ایک نہ سنی اور تیز تیز جھولا جھولاتا رہا۔۔۔

آخر کار جب تھک گیا تو رک گیا شانو جلدی سے نیچے اتری اور نواب کے پیچھے دوڑ پڑی نواب نے شانو کو اپنی طرف آتے دیکھ کر سامنے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔

شانو بھاگتے بھاگتے حویلی میں داخل ہو چکی تھی۔ نواب اسے کہی نظر نہی آ رہا تھا۔شانو نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو اس کا سر چکرانے لگ پڑا۔۔اور وہ زمین پر گر گئی۔۔

جب ہوش میں آئی تو خود کو بستر پر پایا۔۔سب اس کے اردگرد جمع تھے۔۔۔ایک نظر سب کو دیکھتے ہی اس نے آنکھیں بند کر لی۔۔۔

سب کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔آخر شانو وہاں گئی کیسے۔۔۔دادو نے پوچھا۔۔۔؟؟

دادو وہ ہم دونوں کھیل رہے تھے کہ دوڑتے دوڑتے مجھے پتہ ہی نہی چلا کب شانو اندر چلی گئی۔۔۔ہمیں پتہ بھی نہی چلتا اگر ولید بھائی نے اپنے کمرے کی بالکونی سے اسے اندر جاتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو۔۔۔

دھیان رکھا کرو آئیندہ شانو وہاں نہ جائے تم بچے تو نہی ہو نواب اور نہ ہی کسی بات سے انجان ہو تم جانتے بھی ہو سب کچھ بہت مشکلوں سے ہم نے اسے اس جھنجال سے باہر نکالا ہے۔۔

میں نہی چاہتا کہ پھر سے شانو کی طبیعت خراب ہو بہت مشکلوں سے اس کی طبیعت سنبھلی ہے اور اگر پھر سے یہ سب کچھ شروع ہو گیا تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔۔سمجھے تم۔۔۔؟؟

جی ابا جی آئیندہ میں دھیان رکھوں گا۔۔نواب شرمندہ سا سر جھکا گیا۔۔

شانو ظہر کی نماز ادا کر کے چھت پر چلی گئی۔اور حویلی کی طرف دیکھنے لگ پڑی۔حویلی میں ایسا کیا تھا جو میں بے حوش ہو گئی۔اور یہ لوگ حویلی میں کیوں نہی جاتے وہ بھی تو اس گھر کا حصہ ہے۔

شانو اپنے ہی خیالوں میں مگن کھڑی تھی کہ اسے پتہ ہی نہی چلا کب ولید اس کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا۔۔کیا سوچ رہی ہو۔۔؟؟ ولید نے بولا

ولید بولا تو شانو ڈر گئی اس کی آواز پر۔۔ولید۔۔۔تتتم کب آئے۔۔۔الٹا اسی سے سوال کر دیا۔۔

میں تو بہت دیر سے یہاں کھڑا ہوں تم ہی پتہ نہی کن خیالوں میں گم ہو۔۔اتنا ڈرتی کیوں ہو تم میں کوئی بھوت تو نہی ہوں۔۔

ولید کی بات پر شانو مسکرا دی۔۔پتہ نہی کیوں میرا دل کیوں ڈر جاتا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر۔۔اچھا یہ سب چھوڑو مجھے یہ بتاو کے حویلی میں کیوں نہی جا سکتے ہم لوگ۔۔یہ بھی تو اس گھر کا حصہ ہے تو پھر۔۔۔؟؟

شانو کی بات پر ولید نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔کیا تم واقعی ہی نہی جانتی کہ کیوں نہی جا سکتے ہم لوگ حویلی میں۔۔۔؟؟الٹا ولید نے اسی سے سوال پوچھ ڈالا۔۔

نہی میں نہی جانتی۔۔۔شانو نے سر نا میں ہلا دیا۔۔اس سے پہلے کے ولید کچھ بولتا تائی جی وہاں آ گئی۔۔۔ولید تم یہاں کیا کر رہے ہو کلینک نہی جانا کیا۔۔۔؟؟

بس امی جانے ہی لگا تھا۔۔۔یونہی چھت پر آ گیا۔۔سوچا کچھ دیر دھوپ میں بیٹھ جاو لیکن دھوپ ہی نہی ہے بلکہ بارش کا موسم لگ رہا ہے۔۔چلو شانو نیچے ٹھنڈ لگ جائے گی۔۔

اس کی فکر مت کرو تم بچی نہی ہے وہ اپنا خیال خود رکھ سکتی ہے۔۔تم جاو کلینک کے لیے دیر ہو رہی ہے تمہے۔۔۔۔ماں کی بات پر ولید سر ہلاتا ہوا نیچے کی طرف بڑھ گیا۔۔

اس کے جاتے ہی وہ شانو پر تپ گئی۔۔۔دور رہو میرے بیٹے سے۔۔۔۔خبردار جو آئیندہ میرے ولید کے آس پاس بھی نظر آئی تو۔۔۔سب جانتی ہوں میں تم لوگوں کا یہاں آنے کا مقصد۔۔۔پہلے کے دکھ میں بھولی نہی ہوں ابھی۔۔۔۔اب اور نہی آئیندہ مجھے ولید کے پاس نظر بھی آئی تو جان سے مار دوں گی تمہے۔۔۔

اس سے پہلے کے شانو کچھ بولتی وہ نیچے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔اور شانو بھی اپنے کمرے میں جا کر رو دی۔۔۔تائی جان آپ کیوں کر رہی ہیں میرے ساتھ ایسا میں نے کیا بگاڑا ہے آپکا۔۔

شانو سمجھ نہی پا رہی تھی ان کا رویہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہے۔۔روتے روتے شانو کی آنکھ لگ گئی۔۔۔دسمبر شروع ہو چکا تھا۔۔۔ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی۔۔سردی میں اضافہ ہو چکا تھا۔۔

عصر کی نماز پڑھ کر باہر گئی تو سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔تائی جی سب کے چائے پکوڑے بنا کر لائی تھیں۔۔سب کھانے میں مصروف تھے شانو بھی وہاں جا کر بیٹھ گئی۔

باتیں کرتے کرتے پتہ ہی نہی چلا شام ہو گئ سب نماز پڑھ کر اپنے اپنے کمروں سے نکل کر ساتھ برآمدے میں بیٹھ گئے چارپائیوں پر درمیان میں تائی جی نے ایک بڑے سے لوہے کے برتن میں آگ جلا کر رکھی ہوئی تھی۔۔

شانو اپنے ہی دھیان میں بیٹھی تھی۔۔جب ولید گھر آیا وہ تھوڑا بھیگ چکا تھا بارش میں۔۔۔ولید کو دیکھتے ہی تائی جی جلدی سے آگے بڑھی۔۔۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے ولید جب پتہ تھا کہ بارش کا موسم ہے تو چھتری ساتھ رکھتے۔۔

نہی تو گاڑی میں ہی بیٹھے رہتے فون کر دیتے میں چھتری لے آتی تمہارے لیے۔۔اپنے ڈوپٹے سے ولید کا سر صاف کرتے ہوئے وہ بے چینی سے بول رہی تھی۔۔

امی آپ پریشان نہ ہو میں ٹھیک ہوں۔۔کپڑے چینج کر کے آتا ہوں۔۔کہتے ہوئے ولید تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔۔اور کچھ دیر بعد کپڑے چینج کر کے واپس آ گیا۔۔۔

ولید آ کر شانو کے ساتھ بیٹھ گیا چارپائی پر۔۔۔کیسا گزرا آج کا دن مسکراتے ہوئے شانو سے پوچھنے لگ پڑا۔۔۔تائی جی کی نظریں شانو پر ہی تھیں۔۔وہ غصیلی نظروں سے شانو کی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔۔

شانو بنا ولید کی بات کا جواب دئیے وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔شانو ابھی اپنے کمرے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ کوئی اس سے ٹکراتے ہوئے تیزی سے گزرا۔۔اور اس کے پیچھے پیچھے کوئی لڑکی بھی شانو سے ٹکراتے ہوئے گزری۔۔

شانو گرتے گرتے بچی۔۔۔کون ہیں آپ لوگ۔۔۔وہ جلدی سے بولی۔۔لیکن وہ دونوں رکے ہی نہی۔۔۔شانو اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔کون تھے یہ لوگ یہاں تو ہمارے علاوہ کوئی نہی رہتا۔۔۔شانو ان دونوں کا چہرہ نہی دیکھ سکی تھی۔۔

شانو کمرے میں آئی ہی تھی کہ ولید بھی پیچھے چلا آیا۔۔کیا بات ہے میری بات کا جواب نہی دیا تم نے ولید مسکراتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔

شانو گھبرا گئی اس کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا۔۔اس ڈر سے کہ اگر تائی جی نے ولید کو میرے کمرے میں دیکھ لیا تو پھر سے مجھ پر غصہ ہو گی۔۔

کیا ہوا ولید شانو کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر بول پڑا۔۔ککچھ نہی میری طبیعت تھوڑی خراب تھی اسی لیے کمرے میں آ گئی۔۔۔شانو کی نظریں بار بار دروازے کی طرف جا رہی تھی۔۔

کیا ہوا کوئی آنے والا ہے کیا۔۔۔؟؟ شانو کو بار بار دروازے کی طرف دیکھتے دیکھا تو ولید بول پڑا۔۔ میں نماز پڑھ لوں۔۔شانو کمرے سے نکلنے لگی تھی کہ ولید اس کے سامنے آ گیا۔۔

شانو تم مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہو یار کزن ہوں تمہارا تم تو ایسے دور بھاگتی ہو جیسے میں تمہیں کھا جاوں گا۔۔ولید کہتے ہوئے مسکرا دیا۔۔

نہی ایسی بات نہی ہے۔۔۔میں زیادہ بات چیت کرنے کی عادی نہی ہوں نہ اسی لیے اپنے کمرے میں زیادہ ٹائم گزارنا پسند کرتی ہوں میں۔۔شانو نے بہانہ بنانا چاہا۔۔۔

اچھا جب میں باہر سے آیا تب تو سب کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی تم جیسے ہی میں آ کر تمہارے ساتھ بیٹھا تو اٹھ کر اوپر آ گئی تم۔۔۔مجھے سب سمجھ آتی ہے۔۔۔میں بچہ تو نہی ہوں۔۔

اچھا لاوں دیکھوں کیا ہوا تمہاری طبیعت کو ڈاکٹر ہوں میں ابھی دیکھتا ہوں۔۔۔ولید نے جلدی سے آگے بڑھ کر شانو کے ماتھے کو چھوا تو وہ جلدی سے پیچھے ہٹی۔۔۔نہی میں ٹھیک ہوں بخار نہی ہے مجھے بس زرا سا سر درد تھا۔۔

دوائی لوں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔چلو اب نیچے اس طرح اکیلی مت بیٹھا کرو۔۔ولید نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے کی طرف جانے لگا ہی تھا کہ دروازے پے ماں کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سے شانو کا بازو چھوٹ گیا۔۔

آ کر کھانا کھا لو ولید وہ بس اتنا کہتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔۔۔شانو کا چہرہ پسینے سے بھر چکا تھا جس بات کا اسے ڈر تھا وہی ہوا تھا۔۔پتہ نہی تائی جی اب کیا سوچیں گی۔۔

چلیں اب یا یہی اکیلے بیٹھنے کا ارادہ ہے۔۔میں ایک بات بتا دوں یہاں پر اکیلی بیٹھنے کی کوشش مت کرنا یہاں بھوت ہیں تمہارے کمرے میں۔۔

کککیا۔۔شانو گھبراتے ہوئے ولید کی طرف بڑھی۔۔ولید ہنسی دباتے ہوئے بولا۔۔ ہاں اب جلدی چلو یہاں سے کہتے ہوئے ولید تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔شانو بھی تیزی سے اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔

شانو نماز پڑھ کر کھانا کھانے لگ پڑی سب کے ساتھ ولید ہنس ہنس کر سب کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔۔۔شانو کو آتے دیکھ تائی کے چہرے کے زاویے بدلنے لگ پڑے۔۔اور یہ بات شانو نے بہت اچھی طرح محسوس کی تھی۔۔

شانو کو وہ لڑکا اور لڑکی یاد آ گئے جو اس کے کمرے کے باہر اس سے ٹکرائے تھے۔۔۔اس نے سوچا شاید کوئی مہمان آئے ہو گے گھر میں لیکن دستر خوان پر تو اسے گھر کے لوگوں کے علاوہ کوئی نظر نہی آیا۔۔

شانو نواب سے آہستہ آواز میں بولی باقی لوگ کہاں ہیں گھر میں کوئی مہمان آئے ہیں کیا رازدانہ انداز میں نواب سے بولی۔۔۔تو نواب نے حیران ہوتے ہوئے شانو کی طرف دیکھا۔۔

مہمان تو کوئی بھی نہی آیا ہمارے علاوہ۔۔۔اس گھر میں بس اتنے ہی لوگ ہیں۔۔۔یہ تمہیں بھولنے کی بیماری ہے کیا۔۔نواب ہنستے ہوئے بولا۔۔

تو پھر وہ لوگ کون تھے اوپر۔۔۔شانو خواب سی کیفیت میں بولی۔۔۔کون کہاں۔۔نواب نے حیران ہوتےہوئے پوچھا۔۔

کچھ دیر پہلے جب میں اپنے کمرے میں گئی تو میرے سامنے سے تیزی سے ایک لڑکا اور لڑکی گزرے تھے میں نے آواز دی لیکن وہ دونوں رکے ہی نہی۔۔۔

شانو کی آواز پر سب نے شانو کی طرف دیکھا۔۔اسے پتہ ہی نہی چلا کب وہ اونچی آواز میں بول پڑی۔۔

نہی بیٹا ہم نے تو کسی کو اوپر جاتے ہوئے نہی دیکھا اور نہ ہی کوئی گھر میں آیا ہے تمہیں کوئی وہم ہوا ہو گا۔۔۔

نہی تایا ابو وہ دونوں میرے ساتھ ٹکراتے ہوئے گزرے تھے جب میں نے ان کو آواز دی کہ کون ہیں آپ لوگ تو وہ لوگ رکے نہی بلکہ چھت کی طرف بھاگ گئے۔۔۔میں سمجھی شاید کوئی مہمان آئے ہیں گھر میں اسی لیے میں نے دھیان نہی دیا۔۔

لیکن چھت پر تو بارش ہو رہی ہے اتنی ٹھنڈ میں کوئی چھت پر کیوں جائے گا شانو۔۔۔تائی جی کی آواز آئی۔۔۔

لیکن تائی جی میں نے خود دیکھا ہے۔۔بس کرو شانو بیٹا ہم سب کہ رہے ہیں کہ کسی کو اوپر جاتے نہی دیکھا۔۔تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔چپ چاپ کھانا کھاو۔۔۔شانو کی اماں بول پڑی۔۔

جی اماں۔۔۔شانو چپ چاپ کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔۔۔اس کے ذہن میں ولید کی کچھ دیر پہلے کی بات آ گئی۔۔اس کمرے میں بھوت ہیں۔۔۔اس کا مطلب وہ بھوت تھے۔۔۔

کھانا کھا کر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔لیکن شانو ابھی تک وہی بیٹھی تھی آگ کے پاس۔اس کا دل نہی کر رہا تھا اوپر جانے کو۔۔آخر کار ہمت کر کے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

ابھی کمرے میں قدم رکھا ہی تھا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔شانو نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہی تھا کہ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔

اس سے پہلے کے شانو مزید چیختی ولید نے جلدی سے اپنے چہرے سے ماسک اتارا۔۔۔کیا یار تم تو بہت ڈرپوک ہو۔۔۔ہاہاہاہا ولید ہنس رہا تھا۔۔

شانو رو پڑی۔۔۔جب ولید نے شانو کو روتے ہوئے دیکھا تو اس کی ہنسی کو بریک لگی۔۔۔اچھا یار تم تو بہت حساس ہو چھوٹا سا مزاق کیا ہے رونے والی کونسی بات ہے۔۔پلیز چپ ہو جاو۔۔

شانو مسلسل روئے جا رہی تھی۔۔۔شانو چپ ہو جاو ورنہ میں سچ مچ کے بھوت بلا لوں گا۔۔۔۔

میں نے سچ میں کسی کو دیکھا تھا ایک لڑکا اور لڑکی یہاں سے مجھ سے ٹکراتے ہوئے گزرے تھے۔۔شانو دروازے سے باہر آتے ہوئے اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔

شانو کی بات پر ولید سوچ میں پڑ گیا۔۔۔تو تم نے ان کا چہرہ نہی دیکھا ولید سوچ میں ڈوبتے ہوئے بولا۔۔

نہی وہ لوگ بہت تیزی سے گزرے یہاں سے۔۔۔میں نے آواز بھی دی لیکن وہ نہی رکے اگر رکتے تو میں ان کا چہرہ دیکھ لیتی۔۔۔

اچھا میں ایسا کرتا ہوں چھت پر دیکھ کر آتا ہوں تم یہی رکو بارش رک چکی ہے میں خود دیکھ کر آتا ہوں وہ لوگ ابھی بھی چھت پر ہی ہو گے۔۔

نہی ولید تم رہنے دو اس ٹائم اکیلے چھت پر نہی جاناچاہیے۔۔۔میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے آو۔۔۔وہ دونوں چھت کی طرف چل پڑے۔۔شانو ڈرتے ڈرتے ولید کے پیچھے چل رہی تھی۔۔پوری چھت پر دیکھ لیا ان دونوں نے لیکن چھت پر کوئی نہی تھا۔۔

وہ دونوں نیچے واپس آ گئے۔۔۔چھت پر تو کوئی نہی ہے۔تو پھر وہ لوگ کہاں گئے۔شانو گھبراتے ہوئے بولی۔۔

میں نے تو پہلے ہی بتایا تھا تمہیں کہ یہاں بھوت ہیں۔۔ولید ہنسی دباتے ہوئے بولا۔۔چلو اب دروازہ بند کر کے سو جاو کہی وہ اندر ہی نہ آ جائے۔۔کہتے ہوئے ولید اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔

شانو نے جلدی سے دروازہ بند کر لیا۔۔نماز پڑھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔لیکن آج اسے نیند کہاں آنے والی تھی۔۔کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ شانو کو اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس سے کسی کی باتوں کی آواز آئی۔۔۔

شانو جلدی سے کھڑکی کے پاس گئی۔۔لیکن اسے کوئی نظر نہی آیا۔۔۔البتہ ہنس ہنس کر باتیں کرنے کی آواز اسے مسلسل آ رہی تھی۔۔اب تو شانو سچ میں ڈر گئی تھی۔۔

جب اس نے نیچے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے وہی لڑکی جھولے پر بیٹھی تھی۔۔اور لڑکا اسے جھولا جھولا رہا تھا اور وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔۔

اے سنو۔۔۔کون ہو تم شانو نے اوپر سے ہی ان کو آواز دی تھی۔۔لیکن ان دونوں نے کوئی جواب نہی دیا۔اور بھاگتے ہوئے حویلی میں چلے گئے۔۔شانو جلدی سے نیچے کی طرف بھاگی۔۔

اس کا رخ حویلی کی طرف تھا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ حویلی میں داخل ہوتی۔۔۔ولید اس کے سامنے آ گیا۔۔شانو کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھ چکا تھا وہ۔۔اسی لیے اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔۔

کہاں جا رہی ہو۔۔۔تمہیں پتہ ہے نہ حویلی میں جانا منع ہے۔۔۔اور تم اس وقت وہاں جا رہی تھی۔۔اگر میں نہ آتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔ولید کا لہجہ تھوڑا سخت تھا۔۔

ولید وہ میں نے پھر سے ان دونوں کو دیکھا وہ لڑکی یہاں جھولے پر بیٹھی تھی۔۔اور وہ لڑکا یہاں کھڑا اسے جھولہ جھولا رہا تھا۔۔۔میں سچ کہ رہی ہوں ولید۔۔

اور اس کے بعد جب میں نے وہاں اوپر سے ان کو آواز دی تو وہ دونوں بھاگتے ہوئے حویلی کی طرف چلے گئے۔۔۔اسی لیے میں جلدی سے ان کے پیچھے جا رہی تھی۔۔لیکن تم نے مجھے روک لیا۔۔

شانو بس کرو یہ سب اس گھر میں ہمارے علاوہ اور کوئی نہی ہے یہ سب تمہارا وہم ہے بس اور کچھ نہی۔۔۔بس کرو کب تک بھاگتی رہو گی اس کے پیچھے جو اب ہے ہی نہی۔۔۔

بس کر دو چلو اپنے کمرے میں اور جا کر آرام کرو۔۔تم تھک چکی ہو۔۔۔ولید اسے بازو سے کھینچتے ہوئے اوپر لے گیا۔۔۔جاو اندر اور کھڑکی دروازہ بند کر کے سو جاو۔۔ 

شانو سونے کے لیے لیٹ گئی کھڑکی اور دروازہ بند کر کے۔۔۔اسے پھر سے وہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔۔شانو کا سر درد سے پھٹے جا رہا تھا۔۔اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لی تھی۔۔

تم جتنا مرضی دور بھاگ لو مجھ سے۔۔میرے اتنے ہی قریب آوں گی۔۔دیکھا آ گئی نہ تم صرف میری ہو۔۔شانو کو اپنے قریب سے یہ آواز سنائی دی۔۔اس نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں۔۔۔لیکن اسے کوئی نظر نہی آیا۔۔

ولید اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔۔۔دادو سہی کہ رہی تھی۔۔شانو یہاں آتے ہی ان یادوں میں کھو گئی۔۔مجھے اس سب سے باہر نکالنا ہو گا۔۔ورنہ تو یہ پاگل ہو جائے گی۔۔۔

اسے یہاں بلانے کا میرا فیصلہ بلکل درست تھا۔۔جو ہوا تھا اس سب سے باہر نہی نکلی ابھی تک یہ اس کی یاداشت کمزور تو ہو چکی ہے لیکن اتنی بھی نہی کہ سب بھول جائے۔۔ 

اب مجھے ہی سب کرنا ہو گا شانو کو زندگی کی طرف واپس لانا ہو گا۔۔۔ماضی کو بھولنا ہی پڑے گا اسے۔۔۔اور ایسا میں کر کے چھوڑو گا۔۔۔

اگلے دن ولید جلدی کلینک کے لیے نکل گیا۔۔اور نواب تایا جی اور ابو کے ساتھ زمینوں پر چلا گیا تھا۔۔شانو دادو کے ساتھ صحن میں بیٹھی تھی چارپائی پر دھوپ نکلی ہوئی تھی۔۔

دادو شانو کو اس کے بچپن کے قصے سنا رہی تھی۔۔اماں اور تائی جی گھر کے کاموں میں مصروف تھی۔۔شانو پوری رات سو نہی سکی تھی۔۔اسے سمجھ نہی آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔

کوئی بھی اس کی بات پر یقین نہی کر رہا تھا۔۔یہی بات شانو کو ستا رہی تھی۔۔۔شانو نے سوچا کہ کیوں نا دادو سے شیئر کروں یہ بات شاید وہ میری بات کا یقین کر لیں۔۔۔

دادو مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔کل رات میں نے پچھلے صحن میں ایک لڑکی کو دیکھا تھا اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی تھا اور وہ حویلی کی طرف بھاگ گئے تھے۔۔۔شانو نے جلدی سے اپنی بات ختم کی۔۔۔

دادو نے حیران ہوتے ہوئے شانو کی طرف دیکھا۔۔۔یہاں تو تمہارے علاوہ کوئی لڑکی نہی ہے شانو تمہیں کوئی وہم ہوا ہو گا۔۔۔۔دادو نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔۔۔

نہی دادو میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔مجھے عجیب عجیب سی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں دادو میں کل پوری رات سو نہی سکی۔۔۔مجھے ایک لڑکی اور لڑکے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔۔

لیکن مجھے سمجھ نہی آتی یہ آوازیں مجھے ہی کیوں سنائی دیتی ہیں۔۔۔کسی اور کو سنائی نہی دیتی کیا۔۔؟؟

اور مجھے کل ولید نے بھی بتایا تھا کہ یہاں بھوت ہیں۔۔دادو مجھے واپس جانا ہے آپ ابو سے بات کریں مجھے نہی رہنا یہاں۔۔اگر میں یہاں رہی تو پاگل ہو جاوں گی میں۔۔

شانو کیا ہو گیا ہے ابھی کل ہی تو آئی ہو۔۔۔اور اب تم یہاں سے کہی نہی جانے والی۔۔ تمہاری شادی طے کر دی ہے میں نے ولید کے ساتھ۔۔۔دادو نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔

میں ایسا نہی ہونے دوں گی تائی جی اچانک وہاں آ گئی۔۔میں آپ کا یہ خواب کبھی پورا نہی ہونے دوں گی اماں جان۔۔۔پہلے کے اس کے دئیے غم بھولی نہی ہوں میں ابھی۔۔۔

اسفند سے اس کی شادی بھی آپ ہی کا فیصلہ تھا نہ اماں کیا ہوا یاد تو ہے آپ کو بھولی تو نہی ہو گی آپ۔۔اس کی وجہ سے میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے۔۔اب دوسرا بیٹا کھونے کی ہمت نہی ہے مجھ میں۔۔

شانو کی امی بھی وہاں آ چکی تھی۔۔۔بھابی خدا کا واسطہ ہے شانو کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔اس کی یادداشت کمزور ہو چکی ہے وہ سب بھول چکی ہے اسے پھر سے یاد مت کروائیں۔۔۔

سب ڈرامے ہے اس کے سب جانتی ہوں میں۔۔اس کو سب کچھ یاد ہے اس نے مارا تھا میرے اسفند کو اسی لیے ڈرامے کرتی ہے یہ سب۔۔۔میرے ایک بیٹے کی جان لے کر سکون نہی ملا اسے۔۔۔

اب میرے ولید کے پیچھے پڑ گئی ہے۔۔اب کی بار میں ایسا نہی ہونے دوں گی۔۔۔ہمیں معاف کریں آپ لوگ۔۔وہ دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔۔

بس کرو زاہدہ بہت بول لیا تم نے میری بچی کے بارے میں جو کچھ ہوا تھا اس میں اس کی کوئی غلطی نہی تھی۔ .  وہ بس ایک حادثہ تھا۔۔دادو بول پڑی تھیں۔۔

شانو بس چپ چاپ سب کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔اسفند۔۔۔اس کے منہ سے یہ نام نکلا اور وہ چارپائی پر گر گئی۔۔

شانو کو گرتے دیکھ اس کی امی جلدی سے اس کی طرف بڑھی اور اس کا چہرہ تھپتپانا شروع کر دیا۔۔شانو کیا ہوا تمہیں آنکھیں کھولو۔۔۔

وہ جلدی سے فون کی طرف بڑھی اور نواب کو جلدی گھر آنے کو کہا۔۔۔شانو بے حوش پڑی تھی۔۔ولید جلدی سے گھر پہنچا نواب نے اسے فون کر دیا تھا۔۔۔

شانو کو ولید نے اٹھا کر اس کے کمرے میں بیڈ پر لٹا دیا۔۔اس کی امی اور ولید اس کے ہاتھ پاوں مل رہے تھے۔۔لیکن شانو کو ابھی تک ہوش نہی آ رہا تھا۔۔

یہ کیا ہو گیا میری بیٹی کو بھابی کو منع بھی کر رہی تھی میں کہ مت نام لیں شانو کے سامنے اسفند کا لیکن بھابی نہی رکی۔۔

ان کی بات پر ولید نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔۔چچی جان آپ پریشان نہی ہو شانو بلکل ٹھیک ہے۔بس کمزوری کی وجہ سے چکر آ گیا ہے اسے میں نے انجیکشن دے دیا ہے۔اس کا بی پی لو ہے۔۔

کچھ دیر تک ہوش آ جائے گا آپ چلیں یہاں سے اسے آرام کی ضرورت ہے۔۔۔وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو ولید نے آگے بڑھ کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔تو انہوں نے التجائی نظروں سے ولید کی طرف دیکھا۔۔

وہ یہاں سے نہی جانا چاہتی تھیں۔۔۔میرا یقین کریں چچی جان شانو بلکل ٹھیک ہے آپ چلیں میرے ساتھ وہ ان کو ساتھ لے کر باہر آ گیا۔۔اور دادو کے پاس بیٹھ گئے دونوں۔۔

ہوا کیا تھا آخر شانو صبح تو بلکل ٹھیک تھی۔۔ولید اطمینان سے بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔

یہ سب تیری ماں کی مہربانی ہے میں نے تمہارے اور شانو کے رشتے کی بات کی تو شانو پر تپ گئی۔۔کہتی کہ یہ رشتہ نہی ہونے دوں گی میں۔

اور کہنے لگی کہ اسفند کو شانو نے مارا ہے پتہ نہی کیا کیا بولتی گئی۔اور یہ حالت ہو گئی شانو کی سنتے سنتے۔۔۔سمجھا دو اپنی ماں کو تمہاری شادی شانو سے ہی ہو گی۔۔

ایسا میں ہونے نہی دوں گی۔۔اس سے پہلے کہ ولید کچھ بولتا اس کی امی وہاں آ گئی۔۔۔میں اپنے بیٹے کے ساتھ زیادتی نہی ہونے دوں گی۔۔۔۔میں نہی چاہتی جو کچھ اسفند کے ساتھ ہوا۔۔وہ ولید کے ساتھ بھی ہو۔۔

کیا ہو رہا ہے یہ سب۔۔۔ولید کے ابا کی گرجدار آواز پر ان کی آواز کو بریک لگی۔۔۔یہ کیسے بات کر رہی ہو تم اماں سے۔۔۔ایک بات میری کان کھول کر سن لو زاہدہ جیسا اماں چاہتی ہیں ویسا ہی ہو گا۔۔

اگر تمہے کوئی اعتراض ہے تو چلی جاو یہاں سے لیکن خبردار جو اماں کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا تو۔۔۔۔انجام اچھا نہی ہو گا۔۔معافی مانگوں ابھی اماں سے۔۔ 

معاف کیجیئے گا اماں جی میں نے آپ سے اونچی آواز میں بات کی لیکن مجھے آپ کا فیصلہ منظور نہی ہے۔۔۔وہ سیخ پا ہوتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔

ولید بھی ماں کے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔۔۔امی آپ کیوں ایسا کر رہی ہیں آخر برائی کیا ہے شانو میں۔۔آپ کیوں ضد پکڑ کر بیٹھ گئی ہیں آپ۔۔ 

یہ دیکھو ابھی ایک دن ہوا ہے اس لڑکی کو اس گھر میں آئے ہوئے اور ابھی تو بس شادی کی ہی بات چلی ہے اور تم اس کی خاطر اپنی ماں سے زبان درازی کر رہے ہو۔۔۔وہ ولید پر تپ گئی۔۔

نہی امی جان ایسی کوئی بات نہی ہے آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔۔۔ولید نے اپنی صفائی دینا چاہی۔۔۔۔۔۔۔۔

بس کر دو سب جانتی ہوں میں۔۔۔۔ایسے ہی میرے اسفند کو اس منحوس نے اپنے پیار کے جال میں پھنسایا تھا اور اب تمہیں پھنسا رہی ہے۔۔۔لیکن اس بار میں اسے کامیاب نہی ہونے دوں گی۔۔۔

امی جیسے آپ شانو کو سمجھتی ہیں وہ ویسی بلکل نہی ہے۔۔بھائی کے ساتھ بھی ہوا ایسا ہونا ان کی قسمت میں لکھا تھا۔۔اس میں شانو کی کوئی غلطی نہی تھی۔۔۔

آخر کب تک آپ شانو کو قصور وار سمجھتی رہیں گی۔۔۔جو ہوا اسے بھول جائیں اور شانو کو قبول کر لیں۔۔۔وہ میرے بھائی کی بیوہ ہے۔۔اور میری کزن بھی۔۔۔جب گھر میں ہی رشتہ موجود ہے تو ہم اس کی شادی باہر کیوں کریں۔۔۔

لوگ کیا سوچیں گے کہ گھر میں جوان لڑکا ہوتے ہوئے بھی اگر ہم باہر اس کے لیے رشتہ ڈھونڈیں گےتو ڈوب مرنے کا امکان ہو گا میرے لیے۔۔۔

مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہی ہے۔۔۔اور ایک بات یہ رشتہ دادو نے میری مرضی سے ہی طے کیا ہے۔۔۔میں سچے دل سے شانو کو قبول کر چکا ہوں۔۔

ان کو یہاں بھی میرے کہنے پر بلایا ہے دادو نے تا کہ میری اور شانو کی شادی ہو سکے۔۔۔میں شانو کے دکھوں کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔۔وہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مر رہی ہے۔۔۔

اسے ایک سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔اور یہ سہارا میں بننا چاہتا ہوں۔۔۔اسی لیے آپ بھی دل سے شانو کو قبول کر لیں۔میری التجا ہے آپ سے۔۔۔کہ کر ولید رکا نہی کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔

اور زاہدہ بیگم وہی سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔کسی سے میں کیا کہوں جب اپنا سکہ ہی کھوٹا ہے۔۔۔لیکن کچھ بھی ہو ولید ابھی نا سمجھ ہے میں اسے یہ غلطی نہی کرنے دوں گی۔۔۔یہ شادی نہی ہونے دوں گی میں۔۔۔

ولید باہر آیا تو سب پریشان بیٹھے تھے۔۔۔بھائی صاحب اگر بھابی کو یہ رشتہ منظور نہی تو ہم یہ رشتہ نہی کرتے کل کو آپ کے گھر کے لیے مسلے بنے گے اور ہماری بیٹی کے لیے مشکلات پیدا ہو گی۔۔

وہ تو پہلے ہی بہت دکھی ہے۔۔۔میں نہی چاہتی کہ میری بیٹی مزید دکھ دیکھے۔۔آج جو کچھ ہوا ہے کہی دوبارہ پھر ایسا ہوا تو کہی ہم کھو نہ دیں اپنی بیٹی کو شانو کی ماں پریشانی سے بولی۔۔

چچی جان آپ پریشان نہ ہو امی زیادہ دیر ناراض نہی رہیں گی وہ جلدی ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔آپ لوگ مجھ پر بھروسہ رکھیں۔۔میں شانو کو کوئی تکلیف نہی پہنچنے دوں گا۔۔

آپ لوگ بے فکر ہو کر شادی کی تیاریاں کریں۔۔باقی سب فکریں چھوڑ دیں آپ لوگ۔۔۔

ولید ٹھیک کہ رہا ہے بھابی اب شانو ہماری زمہ داری ہے آپ لوگ بے فکر ہو جائیں وہ میری بھی بیٹی ہے۔۔اور مجھے ولید پر پورا بھروسہ ہے یہ شانو کا بہت خیال رکھے گا۔۔۔آپ لوگ بھی بھروسہ رکھیں اس پر۔۔۔

ٹھیک ہے لالہ جیسے آپ کو بہتر لگے۔۔۔شانو کے ابا نے جواب دیا۔۔

اوپر کھڑی شانو ساری باتیں سن رہی تھی۔۔ولید کی اس پر نظر پڑی تو چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔اور ولید بھی ٹائم دیکھتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

نواب تم گھر میں ہی رکو ہم لوگ چلتے ہیں زمینوں پر جانا ضروری ہے تم گھر میں ہی رکو کسی چیز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔۔کہتے ہوئے وہ دونوں بھائی باہر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔

شانو اپنے کمرے میں چپ چاپ بیٹھی سارا معمہ حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔اسفند۔۔کون ہے۔؟؟ کیا تائی جی کا ایک اور بیٹا تھا۔۔اور اس کی مجھ سے شادی۔۔۔اور وہ مر گیا۔۔

تائی جی کیا کہ رہی تھیں میں نے مارا اسے۔۔۔شانو کی سمجھ میں کچھ نہی آ رہا تھا۔۔۔اگر میری شادی ہوئی ہے تو مجھے کچھ یاد کیوں نہی آ رہا۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ۔۔۔

اور ولید سے میری شادی طے کر دی دادو نے۔۔۔مجھے اس بارے میں ولید سے بات کرنی ہو گی آنے دو زرا شام کو ولید کو۔۔۔

سارا دن شانو ولید کا انتظار کرتی رہی۔۔ولید گھر آیا تو تیزی سے اس کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔شانو کو اچانک اپنے کمرے میں دیکھ کر ولید چونک گیا۔۔۔اسے پتہ ہی نہی چلا کب شانو اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آ گئی۔۔۔

شانو تم یہاں۔۔۔؟؟ کوئی کام تھا کیا۔۔؟؟ ولید کو جب کوئی اور بات نہ سوجھی تو بول پڑا۔۔شانو منہ پھلائے کھڑی ولید کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔کچھ بول ہی نہی رہی تھی۔۔۔

ولید ٹینشن میں پڑ چکا تھا۔۔۔شانو کی طرف بڑھا۔۔کیا ہوا تم کچھ پریشان لگ رہی ہو مجھے۔۔۔؟؟

ولید کی بات پر شانو کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔۔۔اسفند کون ہے ولید۔۔۔؟؟ مجھے اس بات کا جواب چاہیے۔۔مجھے ٹالنے کی کوشش مت کرنا آج میں اس بات کا جواب لیے بغیر نہی جاوں گی یہاں سے۔۔۔۔

سچ بتاو مجھے نہی تو میں پاگل ہو جاوں گی۔۔شانو مسلسل رو رہی تھی۔۔۔ایسے کون سے راز ہیں میری زندگی کے جن سے میں انجان ہوں۔۔۔؟؟؟

مجھے کیوں یاد نہی آتا کچھ آخر کیوں ولید۔۔۔؟؟؟؟شانو سر دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی۔۔وہ تھک سی گئی تھی ان سب یادوں سے پیچھا چھڑواتے چھڑواتے۔۔۔

شانو کو نیچے بیٹھتے دیکھ ولید جلدی سے آگے بڑھا اور شانو کو سہارا دیتے ہوئے صوفے پر بٹھایا۔۔اور جلدی سے پانی کا گلاس شانو کی طرف بڑھایا۔۔شانو نے پانی پینے سے انکار کر دیا۔۔

ولید نے گلاس اس کے منہ کو لگا دیا۔نہ چاہتے ہوئے بھی شانو کو پانی پینا پڑا۔۔۔اس نے بے مشکل دو گھونٹ پانی پیا اور گلاس پیچھے کر دیا۔۔اب ولید نے کوئی مزاحمت نہی کی اور گلاس سائیڈ پر رکھ دیا۔۔۔

اور خود گھٹنوں کے بل شانو کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔شانو ابھی بھی رو رہی تھی۔۔۔ولید کو اس کے آنسو اپنے دل پر گرتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔دکھ سے آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے دوبارہ آنکھیں کھول دیں اس نے۔۔۔

شانو پلیز چپ ہو جاو۔۔تمہارے آنسو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔۔میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہی دیکھ سکتا۔۔۔ولید کا لہجہ درد بھرا تھا۔۔

شانو نے نا چاہتے ہوئے بھی ولید کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا۔۔اس کی نظروں میں کیا تھا۔۔۔محبت،احساس،ہمدردی۔۔شانو کچھ سمجھ نہ سکی اور آنسو صاف کرتے ہوئے نظریں جھکا گئی۔۔

شانو جو کچھ ہوا تھا اس میں تمہاری کوئی غلطی نہی تھی۔۔جو ہوا ایسا ہونا قسمت میں لکھا تھا۔۔تم خود کو قصور وار نہ سمجھنا کبھی بھی۔۔۔میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔

بہت جلد تم میرے نکاح میں ہو گی۔۔۔مجھے اس دن کا انتظار ہے۔۔جب تم میری ہو جاو گی ہمیشہ کے لیے۔۔۔بہت جلد ہماری شادی ہے۔۔۔

اور یہ فیصلہ میرا اپنا ہے کسی نے زور زبردستی نہی کی میرے ساتھ۔۔۔یہ بھی تمہاری غلط فہمی ہے کہ میں کسی ہمدردی کے تحت تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔وہ کھلے دل سے اپنی محبت کا اقرار رہا تھا۔۔۔سہی وقت آنے پر سب کچھ بتا دوں گا میں تمہیں۔۔۔

ابھی یہ وقت ٹھیک نہی ہے۔۔تمہاری طبیعت ٹھیک نہی ہے۔۔۔جاو اپنے کمرے میں کھانا لے کر آتا ہوں میں تمہارے لیے۔۔۔شانو کا گال تھپتپاتے ہوئے ولید اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

اور اگر میں اس شادی سے انکار کروں تو۔۔۔؟؟ شانو کی آواز ولید کے کانوں میں پڑی۔۔۔اس کے باہر کی طرف بڑھتے قدم رک گئے۔۔۔وہ شانو کی طرف پلٹا۔۔

تم ایسا نہی کر سکتی۔۔۔اس شادی سے سب گھر والوں کی خوشیاں جڑی ہیں۔۔۔اور میری بھی۔۔یہ شادی میری مرضی سے طے پائی ہے۔۔اور جو کام میں طے کر لوں وہ میں مکمل کر کے چھوڑتا ہوں۔۔۔

اور اپنی بات دھرانے کا عادی نہی ہوں میں۔۔۔یاد رکھنا امید ہے میری بات تم سمجھ گئی ہو گی۔۔۔اب جاو اپنے کمرے میں کھانا وہی لے آوں گا میں۔۔۔

مجھے نہی کرنی یہ شادی۔۔۔سب کی خوشیوں کی خاطر میں ہی کیوں اپنی زندگی قربان کروں۔۔میں تب اس شادی کے لیے ہاں نہی کروں گی جب تک تم مجھے سب کچھ بتا نہی دیتے۔۔۔شانو کی سوئی ابھی بھی اسی بات پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔

ولید غصے سے شانو کی طرف بڑھا اور اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا۔۔۔ایک بار جب میں نے کہ دیا کہ سہی وقت آنے پر سب کچھ بتا دوں گا تو تم سمجھتی کیوں نہی۔۔۔

دوبارہ اس بارے میں کوئی بات نہی کرو گی تم میرے ساتھ۔۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی ولید کا لہجہ سخت ہو چکا تھا۔۔اپنی غلطی کا احساس ہوا تو۔۔۔شانو کو چھوڑ دیا۔۔اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

شانو روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔اور اندر سے دروازہ بند کر کے سر گھٹنوں پر رکھ کر رونے لگ پڑی۔۔۔۔

کچھ دیر بعد ولید کمرے میں آیا تو شانو کمرے میں نہی تھی۔۔۔وہ کھانا لے کر شانو کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔دروازہ بند تھا۔۔۔اس نے دروازہ ناک کیا لیکن شانو نے دروازہ نہی کھولا۔۔۔

ولید اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔کمرے میں جا کر اس نے کتابوں والی الماری میں سے ایک مخصوص کتاب اٹھائی تو اس کے اور شانو کے کمرے کے درمیان ایک خفیہ دروازہ کھل گیا۔۔۔

ولید کھانا لے کر شانو کی طرف بڑھا۔۔وہ بیڈ پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔۔ولید کو اچانک کمرے میں آتے دیکھ وہ چونک اٹھی۔۔۔اور حیران سی نظروں سے کبھی ولید کو دیکھتی تو کبھی کتابوں والی الماری کو۔۔۔

اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہی تھا کہ یہاں کوئی دروازہ بھی ہو سکتا ہے۔۔وہ یک ٹک ولید کو دیکھ رہی تھی۔۔ولید نے کھانا لا کر کر بیڈ پر رکھ دیا۔۔اور خود بھی وہی بیٹھ گیا۔۔۔

ایسے مت دیکھو مجھے نظر لگانی ہے۔۔۔جانتا ہوں بہت ہینڈسم ہوں میں۔۔۔لیکن اس کا مطلب یہ تو نہی کہ تم مجھے ایسے ہی دیکھتی رہو۔۔۔ولید مسکراتے ہوئے بولا۔۔

ولید کی بات پر شانو نظریں جھکا گئی۔۔یہ دروازہ کب سے ہے یہاں۔۔۔؟؟ اور مجھے کسی نے بتایا کیوں نہی۔۔۔؟؟ شانو جھکی نظروں سے بولی۔۔۔یہ اچھی بات نہی آپ چوروں کی طرح میرے کمرے میں گھس گئے ہیں۔۔۔

ضروری نہی کہ ہر بات بتائی جائے۔۔۔جس کے پاس دماغ ہو اسے خود ہی نظر آ جاتی ہیں یہ چیزیں۔۔۔ولید مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔۔اور میں کوئی چور نہی ہوں۔۔ڈاکٹر ہوں۔۔

اور یہ کمرہ میری ہونے والی بیوی کا ہے مجھے کوئی نہی روک سکتا یہاں آنے سے۔۔۔ولید پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے بولا۔۔

یہ لو کھانا کھاو۔۔ولید پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔لیکن شانو پر اس کی کسی بات کا کوئی اثر نہی ہوا۔۔وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔۔

شانو کھانا کھا لو۔۔۔ولید پھر سے بولا۔۔لیکن شانو اپنی جگہ سے نہی ہلی۔۔۔شانو۔۔۔پلیز کھانا کھا لو۔۔۔ولید نے آہستہ سے پکارا۔۔۔تو شانو نے نظریں اٹھا کر ولید کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں التجا تھی۔۔۔۔

شانو زیادہ دیر ولید کی آنکھوں میں نہ دیکھ سکی اور نظریں جکا گئی۔۔۔کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔۔ولید وہی بیٹھا اسے کھانا کھاتے دیکھتا رہا۔۔

جب شانو نے کھانا کھا لیا تو ولید نے دوائی اس کی طرف بڑھائی جسے شانو نے بنا چو چراں کیے نگل لیا۔۔۔

اب تم آرام کرو۔۔۔صبح ملاقات ہو گی۔مسکراتے ہوئے ولید جہاں سے آیا تھا وہی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔اور شانو کمبل اوڑھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔

ولید نے تو مجھے کچھ نہی بتایا لیکن میں سچ جان کے رہوں گی۔۔۔سارے راز اس حویلی میں دفن ہیں۔۔۔کل میں وہاں جاوں گی۔۔مجھے جانا ہی ہو گا اگر ان یادوں سے پیچھا چھڑوانا ہےتو۔۔۔سوچتے سوچتے شانو سو گئی۔۔۔

ولید کمرے میں آیا تو سوچوں میں گُم بالکونی میں کھڑا نیچے دیکھ رہا تھا۔۔جب اس کی امی کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔ولید کیا ہے یہ سب۔۔۔۔؟؟ وہ غصے میں لگ رہی تھیں۔۔۔

کیا ہوا امی۔۔۔۔؟؟ آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں۔۔۔؟؟ ولید کو ان کے غصے کی وجہ سمجھ نہی آئی۔۔۔یہی جو تم کرتے پھر رہے ہو۔۔ابھی شادی ہوئی نہی ہے اور تم ابھی سے اس لڑکی کے غلام بن گئے ہو۔۔وہ غصے سے بولیں۔۔۔۔

امی یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ایسا کیا کر دیامیں نے جو آپ اتنے غصے میں ہیں۔۔ولید کو سمجھ نہی آ رہی تھی ان کے اس رویے کی۔۔۔

یہی کہ تم کھانا تو اپنے لیے کہ کر اوپر لائے ہو۔۔لیکن اس کے کمرے میں کیا کر رہے تھے۔۔۔اس کے لیے کھانا لے کر آئے تھے تم۔۔۔ولید تم نے جھوٹ بولنا کب سے سیکھ لیا۔۔۔

ابھی نکاح ہوا نہی اور تمہیں انگلیوں پر نچانا شروع کر دیا ہے اس لڑکی نے ابھی سے اس کی خدمتوں میں لگ گئے ہو۔۔۔

بس کر دیں امی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ میں بس اس کے لیے کھانا لے کر آیا ہوں۔۔اس کی طبیعت ٹھیک نہی تھی بس اسی لیے۔۔۔آپ کو تو پتہ ہے سب۔۔۔

ہاں ہاں سب پتہ ہے مجھے جو ڈرامے یہ کرتی پھر رہی ہے۔۔۔میں اس کی شادی نہی ہونے دوں گی تم سے یاد رکھنا اس بات کو کان کھول کر میری بات سن لو تم۔۔کہتے ہوئے وہ غصے سے باہر نکل گئی۔۔۔

اور وہی کرسی پر بیٹھ گیا سر تھام کر۔۔۔دادو سے بات کرنی ہو گی مجھے جتنی جلدی ہو سکے یہ نکاح ہو جانا چاہیے۔۔کہی دیر نہ ہو جائے۔۔۔سوچتے ہوئے ولید دادو کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

اگلے دن ناشتے کی میز پر دادو نے اعلان کیا کہ آج شام کو ولید اور شانو کا نکاح ہے۔۔شام تک ساری تیاریاں دیکھ لو تم لوگ۔۔۔

اتنی جلدی اماں جان۔۔۔کتنی ساری تیاریاں کرنی پڑیں گی شام تک کیسے ہو گا سب کچھ شانو کی امی بول پڑیں۔۔۔

تم فکر نہ کرو بہو کوئی تیاریاں نہی کرنی بس چند مہمانوں کو بلانا ہے۔۔۔اور نکاح خواں کو بلا کر نکاح پڑھوانا ہے ان دونوں کا اور کیا۔۔۔

ولید شانو کے لیے اور اپنے لیے جوڑا تم لے کر آو گے۔۔۔وہ ولید کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں۔۔۔

جی ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔مجھے کچھ کام ہے شام کو جلدی گھر پہنچ جاوں گا۔۔ولید ایک نظر شانو پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔

شانو چپ چاپ سب سے لا تعلق ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔وہ ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے اسے کسی بات سے کوئی فرق ہی نہی پڑ رہا ہو۔۔

اور تم دونوں چند قریبی رشتہ داروں کو دعوت دے دو نکاح کی۔۔وہ اپنے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

جی اماں جان۔۔۔وہ دونوں باہر کی طرف بڑھ گئے۔۔نواب کی ان کے ساتھ چلا گیا باہر۔۔

آپ یہ ٹھیک نہی کر رہی اماں جان۔۔سب کے وہاں سے جاتے ہی ولید کی امی بول پڑیں۔۔۔یہ زیادتی ہے میرے بیٹے کے ساتھ۔۔۔میں اس لڑکی کو رہنے نہی دوں گی اس گھر میں۔۔۔

چپ کرو تم بہو۔۔۔کوئی زیادتی نہی ہو رہی تمہارے بیٹے کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مرضی سے ہو رہا ہے تم اس معاملے سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔۔

وہ بھی غصے سے بولی۔۔اور تم ہوتی کون ہو شانو کو اس گھر سے نکالنے والی۔۔۔یہ گھر اس کا بھی ہے۔۔سمجھی تم۔۔۔اب جاو اور جا کر نکاح کی تیاری کرو۔۔

وہ غصے سے آگ بگولہ ہوتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔

گھر میں زور و شور سے شانو اور ولید کے نکاح کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔۔سب مہمان آ چکے تھے۔۔شانو اور ولید بھی تیار ہو چکے تھے۔۔۔

نکاح خواں آ چکا تھا۔۔اور یوں دونوں نے نکاح میں ایک دوسرے کو قبول کر لیا۔۔نکاح کے بعد دونوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا گیا۔۔۔شانو کے چہرے پر نہ تو خوشی تھی اور نہ ہی دکھ۔۔۔

وہ تو کہی اور ہی گم تھی۔۔اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سب کچھ پہلے بھی ہو چکا ہے۔۔وہ بیٹھی تو یہاں تھی لیکن اس کا دماغ کہی اور الجھا ہوا تھا۔۔

سب گھر والے اس نکاح سے خوش تھے۔۔سوائے ولید کی امی کے وہ بے دلی سے اس نکاح کے فنکشن میں شامل ہوئی تھیں۔۔۔

رات کے دس بجے شانو کو اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا تھا۔۔سب مہمان اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے۔۔ولید نیچے ہی تھا سب گھر والوں کے ساتھ۔۔۔

شانو خواب سی کیفیت میں حویلی کی طرف بڑھ گئی۔۔سب لوگ اندر تھے کمروں میں اسی لیے کسی نے اسے جاتے ہوئے نہی دیکھا۔۔وہ اندھیرے کی پرواہ کیے بغیر چلتی چلی گئی۔۔

آج ہمارا نکاح ہو گیا۔۔۔میں بہت خوش ہوں آج۔۔۔اب تم ہمیشہ کے لیے میری ہو گئی ہو۔۔۔اب ہمیں کوئی جدا نہی کر سکتا۔۔۔ایک مردانہ آواز شانو کے کانوں میں پڑی۔۔۔

اسی آواز کے تعاقب میں وہ حویلی کی چھت پر کب پہنچ گئی اسے پتہ ہی نہی چلا۔۔۔ایک لڑکا اور لڑکی دلہا دلہن کے لباس میں کھڑے وہاں باتیں کر رہے تھے۔۔

شانو جب آگے بڑھی تو لڑکی کا چہرہ دیکھ کر شانو کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔۔۔کیونکہ وہ لڑکی کوئی اور نہی خود شانو ہی تھی۔۔یہ میں ہوں۔۔؟؟ اس نے خود سے ہی سوال کیا۔۔

ان دونوں کی نظر شانو پر نہی پڑی۔۔وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے۔۔تب ہی دو بچے سیڑھیوں سے بھاگتے ہوئے چھت پر آ گئے۔۔۔وہ دونوں بچے جھگڑتے جھگڑتے چھت کے کنارے پہنچ چکے تھے۔۔

وہ لڑکا جلدی سے ان بچوں کی طرف بڑھا۔۔اور ان کو کناروں سے ہٹنے کو کہا لیکن وہ دونوں مسلسل ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔۔۔اس لڑکے نے آگے بڑھ کر ان کو چھڑوانے کی کوشش کی تو اسے ایک زور کا دھکا لگا وہ سنھبل نہ سکا۔۔

اور حویلی کی چھت سے نیچے صحن میں جا گرا۔۔وہ لڑکی جلدی سے آگے بڑھی۔۔۔اسفند۔۔اس کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اس نام کے ساتھ۔۔۔اور وہ جلدی سے نیچے کی طرف بڑھ گئی۔۔

شانو چھت پر کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔۔وہ سمجھ ہی نہی پا رہی تھی وہ کیا کرے اس حالت میں۔۔۔اس میں ہلنے تک کی ہمت نہی رہی تھی۔۔

اسفند اٹھو۔۔۔وہ لڑکی جلدی سے اس کے پاس پہنچی۔۔لیکن اسفند اس کے سامنے دم توڑ گیا۔۔۔اور وہ چیختے چیختے بے ہوش ہو گئی۔۔۔

یہ سب شانو کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہا تھا۔۔۔آہستہ آہستہ شانو کو سب کچھ یاد آ رہا تھا۔۔وہ جلدی سے نیچے کی طرف بڑھی۔۔۔لیکن نیچے کچھ نہی تھا۔۔۔اسفند۔۔۔اس کے لبوں سے یہ نام نکلا۔۔

اسفند۔۔۔۔وہ چلائی اور چلاتے چلاتے رونا شروع ہو گئی۔۔اسے سب یاد آ چکا تھا۔۔۔اس کے اور اسفند کے نکاح کی رات وہ دونوں چھت پر آئے تھے۔۔۔اسفند چھت سے گرا تھا اور اس کے بعد اسے کچھ بھی یاد نہی تھا۔۔۔

صدمے سے اس کی یادداشت جا چکی تھی۔۔۔حویلی کا راز اس کے سامنے کھل چکا تھا۔۔۔وہ زور زور سے چلا کر اسفند کو پکار رہی تھی۔۔۔اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اسفند ابھی ابھی یہاں گرا ہو۔۔

وہ بھول چکی تھی کہ اس کا اور ولید کا نکاح ہو چکا ہے۔۔۔شانو کے چلانے کی آواز سن کر سب لوگ وہاں آ پہنچے۔۔۔۔شانو زمین پر بے ہوش پڑی تھی۔۔۔اس کے منہ پر بس یہی الفاظ تھے۔۔۔

اسفند مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔وہ تین سال پہلے والی شانو سمجھ بیٹھی تھی خود کو۔۔۔وہ اسفند کو خود سے دور جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔اسفند اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر دور آسمان میں کہی غائب ہو گیا۔۔۔

جب شانو کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں تھی اپنے بستر پر۔۔۔اور ولید بھی وہی اس کے پاس بیٹھا تھا کرسی پر اس کا ہاتھ تھامے ہوئے۔۔۔وہ شانو کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔

شانو اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔اسفند مر گیا میری آنکھوں کے سامنے اور میں کچھ نہی کر سکی شانو روتے ہوئے بولی۔۔

ولید نے آگے بڑھ کر شانو کو گلے سے لگا لیا۔۔۔نہی شانو نہی رونا بند کر دو۔۔۔۔بس آج رو لو جتنا رونا ہے کیونکہ آج کے بعد میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھو۔۔ولید شانو کے آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔کمرے سے باہر جانے کے لیے۔۔

شانو نے ولید کا بازو تھام لیا۔۔۔تو وہ مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ گیا۔۔۔اسفند تین سال پہلے مر گیا تھا۔۔میرا بڑا بھائی جو مجھے بہت عزیز تھا۔۔۔امریکہ جاتے ہوئے مجھے یہ نہی پتہ تھا کہ میں آخری بار دیکھ رہا ہوں اپنے بھائی کو۔۔۔

اس دن میری فون پر بات ہوئی تھی بھائی سے جس دن تم دونوں کا نکاح تھا۔۔۔بھائی بہت خوش تھے۔۔۔باقی سب تو تمہیں یاد آ ہی چکا ہے۔۔مجھے نہی لگتا کہ اب تمہیں کچھ بھی بتانے کی ضرورت ہے مجھے۔۔۔

وہ جو لڑکا اور لڑکی تمہیں نظر آتے تھے وہ کوئی اور نہی تم دونوں ہی تھے۔۔۔وہ تمہاری یادیں تھیں۔۔جو اس حویلی سے جڑی تھیں۔۔

جو ہونا تھا ہو چکا۔۔۔اب وہ سب کچھ میں واپس تو نہی لا سکتا میں۔۔۔لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہیں زندگی کی ہر خوشی دے سکوں۔۔کوشش کروں گا کہ تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہ آئیں۔۔

کوشش کروں گا تمہے ماضی بھلا سکوں۔۔۔کوشش کروں گا تمہیں زندگی کی طرف واپس لا سکوں۔۔۔میں کوشش کروں گا۔۔۔کیا تم میرا ساتھ دو گی۔۔اس نے شانو کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔

شانو نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ولید کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔ولید کے لبوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔

ایک فیصلہ میں نے اور کیا ہے ہماری شادی کے بعد ہم دونوں یہاں نہی رہیں گے۔۔کیونکہ امی تمہیں پسند نہی کرتیں۔۔۔ان کو کچھ ٹائم لگے گا تمہیں اپنانے میں۔۔۔

اسی لیے میں نہی چاہتا کہ ان کی وجہ سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے۔۔۔اسی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اگر تمہیں کوئی اعتراض ہو تو بتا دینا۔۔شانو چپ چاپ ولید کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔

مجھے کچھ وقت چاہیے۔۔۔ شانو مدھم آواز میں بولی۔۔

وقت کس لیے۔۔ولید نہ سمجھی میں بولا۔۔۔شادی کے لیے مجھے ابھی شادی کے لیے کچھ وقت چاہیے میں ابھی شادی نہی کرنا چاہتی۔۔۔شانو آہستہ سے بولی۔۔

اچھا کتنا وقت چاہیے۔۔۔۔ولید کچھ سوچتے ہوئے بولا۔۔

پتہ نہی۔۔۔شانو نے لا پرواہی سے جواب دیا۔۔

اوہو۔۔۔اب کوئی وقت نہی ملنا تمہیں۔۔۔پہلے میں نے دو سال بہت مشکلوں سے تمہارا انتظار کیا ہے۔۔۔ولید سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔

جو ہونا تھا ہو گیا۔۔۔اب خود کو تیار کرو آنے والے کل کے لیے۔۔۔ہمارا نکاح ہو چکا ہے۔۔۔اور اسی مہینے شادی ہے ہماری۔۔میں چاہتا ہوں کہ جب تم رخصت ہو کر میرے پاس آو تو ماضی کو بھلا کر آو۔۔

میں چاہتا ہوں تم نئے خواب بنو۔۔جن میں صرف میں اور تم ہو۔۔۔کسی تیسرے کی گنجائش نہ ہو۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!

میں جانتا ہوں یہ مشکل ہے تمہارے لیے لیکن نا ممکن نہی۔۔۔زندگی میں آگے تو بڑھنا ہی پڑے گا کب تک ماضی کے پیچھے بھاگتی رہو گی۔۔۔

اب میں تمہیں اکیلا نہی چھوڑ سکتا۔۔۔میرا نام ہی نہی جڑا تمہارے نام کے ساتھ۔۔۔بلکہ ہماری زندگیاں جڑ چکی ہیں۔۔۔

یہ پورا کا پورا ولید، ہنڈسم گھبرو نوجوان پلس ڈاکٹر اب صرف اور صرف تمہارا ہے۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا شانو کی طرف جھکتے ہوئے بولا۔۔۔

اس بات پر شانو کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔شانو کو ہنستے دیکھ کر ولید نے دل ہی دل میں اس کی خوشیوں کی دعا مانگی۔۔

ایک ہفتے بعد دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔۔۔اور شانو ولید کی زندگی میں شامل ہو گئی۔۔اور دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگ پڑے۔ 

شادی کے ایک مہینے بعد ہی ولید نے اپنا ٹرانسفر شہر کے ایک ہاسپٹل میں کروا لیا۔۔ اور شانو کو لے کر شہر آ گیا۔۔۔دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگ پڑے۔۔۔

ولید کے یہاں سے جاتے ہی اس کی ماں کو بیٹے کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگ پڑی۔۔۔آخر کار تین ماہ بعد شہر آ پہنچی شانو سے ملنے اور ان کو گھر واپس لے جانے کے لیے۔۔۔

ولید مان گیا اور ایک ماہ بعد شانو کو ساتھ لے کر گاوں واپس آ گیا۔۔۔اور سب ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگ پڑے۔۔۔

ختم شدہ


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Haveli Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Haveli written by Khanzadi .Haveli by Khanzadi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages