Figaar E Ishqam By Zoya Shah New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday, 28 August 2024

Figaar E Ishqam By Zoya Shah New Complete Romantic Novel

Figaar E Ishqam By Zoya Shah New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Figaar E Ishqam By Zoya Shah New Complete Romantic Novel 

Novel Name: Figaar E Ishqam

Writer Name: Zoya Shah

Category: Complete Novel

اے لڑکی چل اٹھ ، جلدی سے اٹھ ۔۔۔

بھاری مردانہ آواز اسکے کانوں میں پڑی اور ساتھ ہی بازو پر سختی سے ٹھوکر محسوس ہوئی 

وہ لڑکی جسکا جسم پہلے سے ہی زخموں سے چور تھا ہڑبڑاتے ہوئے خود کو سمبھال کر اٹھی ابھی ابھی تو اسے نیند آئی تھی مگر اس دنیا نے ہر قسم کے ظلم اس پر ڈھائے تھے اور اب اسے اس اندھیری چار دیواری جو قید سے بھی بد تر تھی میں سکون بھی میسر نہ تھا 

چل باہر ! 

کیا اس نے غلط سنا تھا ؟ وہ آدمی اسے باہر چلنے کو کہہ رہا تھا جس نے پچھلے تین سال سے دنیا کی ایک جھلک نہیں دیکھی تھی جو سورج کی کرنوں سے بھی محروم تھی جو کسی نازک پھول کی طرح مرجھا گئی تھی کیا واقعی اسے باہر جانے کا کہا گیا تھا 

ہم ۔۔۔ ہم باہر ۔۔ ہم باہر جا سکتے ہیں ؟ 

وہ ہاتھ کو جس پر تقریبآ زخم کے ساتھ زخم تھا دل پر خوشی سے رکھتے ہوئے بولی 

چل ۔۔ وقت نہیں ہے میرے پاس سر آتے ہی ہوں گے ۔۔  اس آدمی نے اسے بازو سے پکڑ کر کہا

ہم نہیں چل سکتے ۔۔۔ وہ بازو دکھنے پر کراہ گئی تھی

تیرے اسی جھوٹ کی قبر کھودنے سر خود آ رہے ہیں پچھلے سال سے تو یہی کہہ رہی ہے تو چل نہیں سکتی ۔۔۔ وہ آدمی غرایا

جب کہ "سر " سن کر اس لڑکی کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرائے تھے 

۔۔۔

چٹاخ ! 

ایک زوردار تھپڑ اسکے نازک چہرے پر پڑا تھا 

اسکے کندھوں تک آتے میلے بال لہرائے اور وہ دیوار سے لگی تھی

آہ۔۔

سر کو ایک جانب سے تھامتی ہوئی وہ کراہ گئی ساتھ ہی سہارہ نہ پا کر وہ نیچے گری تھی

تم پر ترس ؟ ۔۔۔

اتنا کہہ کر وہ ٹوٹے دل کے ساتھ ہنسا تھا

میں تو تمھیں ایسی ٹھیس پہنچانا چاہتا تھا جو تم زندگی بھر اپنے دل پر محسوس کرو بےحد نفرت کرتا ہوں تم سے اور زندگی بھر کروں گا تمہارے عزیز باپ نے مجھ سے میری زندگی میرا سب چھین لیا اور اب تم مجھ سے انسانیت کی امید رکھ رہی ہو ؟

مرجان کاظمی سے ؟ 

وہ اسے کندھے سے جکڑتے ہوئے غرایا

ہمارے پاس ۔۔۔ بھی کچھ نہیں رہا۔۔۔

تھپڑ کی وجہ سے اسکے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا اور وہ اسکی خاکستر رنگی آنکھوں میں آدھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے دھیمے سے بولی تھی

 وہ سنجیدگی سے اسکی براؤن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے لب بھینچ گیا تھا واقعی وہ اس سے سب چھین چکا تھا کچھ باقی نہیں تھا اس لڑکی کے پاس اب ۔۔۔

ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہا ۔۔۔ وہ دھیرے سے کہہ کر اسکے کندھے پر گر سی گئی تھی 

وہ درر سے آنکھیں میچتا ہوا اسے خود سے جھٹکتے ہوئے دور گرا چکا تھا 

ٹھیک کہا تم نے ۔۔۔ 

ندیم ۔۔۔ اسے باہر سڑک پر پھینک دو اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔ 

گارڈ کو سرد لہجے میں کہہ کر وہ آخری نظر اسکے ساکت وجود پر ڈالتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا 

۔۔۔

وہ یکدم لرز اٹھی تھی

بری یادوں کے سائے اسے چاروں طرف سے گھیر چکے تھے ۔۔ 

ہمیں ۔۔ ہمیں کہیں نہیں جانا۔۔۔ وہ بازو چھڑاتے ہوئے ڈھے گئی تھی

چل اٹھ سر آتے ہی ہوں گے۔۔

گارڈ نے دانت جما کر غصے سے کہا 

ہم نہیں جائیں گے ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے گھٹنوں میں سر دبا کر چہرہ چھپا چکی تھی 

گارڈ نے غصے سے پہلے اسے کوئی چیز سمجھ کر پیر سے ٹھوکر ماری اور پھر بڑے بڑے قدم لیتا ہوا کمرے سے چلا گیا تھا

۔۔۔۔

کیا کروں دروازے پر ناک کروں یا نہیں ؟ 

اب کی بار وہ گھبرا کر ناخن چباتے ہوئے بولی تھی

کیا کر رہی ہو زونی پورا دن یہیں کھڑی رہو گی تو کالج کون جائے گا ؟ نہیں ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔۔ بی آ سٹرانگ گرل ۔۔۔ 

خود کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اسنے دھیرے سے دروازے پر انگلی سے دستک دی تھی 

اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تھا

کم آن دروازہ کھول دو سڑیل مجھے دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے وہ دانت کچکچا گئی تھی 

زونی  ؟ یہاں کیا کر رہی ہو آپ ؟ 

کشمالہ بیگم جو کچن سے کام نمٹا کر ابھی باہر آئی تھی اسے دروازے کے سامنے بت بنا دیکھ کر پوچھا 

وہ چاچی ۔۔۔ سوری ۔۔۔ 

وہ زبان کو پھسلتے ہوئے روک گئی تھی 

امی جان ۔۔ دراصل مجھے کالج جانا تھا اور  دیر بھی ہو رہی ہے اور مرجان بھائی دروازہ نہیں کھول رہے ۔۔۔  لفظ بھائی پر زور دیتے ہوئے وہ ہلکی سی خفا ہو کر بولی تھی

تو بیٹا نجم سے کہہ دو وہ چھوڑ آئے گا ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے لاپرواہی سے کہا

اصل میں وہ بہت دھیرے کار چلاتے ہیں انکے ساتھ گئی تو کل صبح پہنچوں گی ۔۔۔ بہانہ بناتے ہوئے وہ مسکرائی

کشمالہ بیگم نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا پھر کندھے اچکا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی انہیں کہاں پرواہ تھی

اس بار لڑکی نے تپ کر زور سے دروازے پر دستک دی تھی ساتھ ہی یکدم دروازہ کھلنے پر اسکی آنکھیں خوف سے پھیلی تھی

وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ مجھے کالج چھوڑ دیں گے ؟ وہ بتیسی نکالتے ہوئے بولی تھی ساتھ ہی پیشانی سے پسینہ صاف کیا 

نہیں ۔۔۔ 

سرد لہجے میں لاپروہ لہجے میں کہہ کر

وہ اسکے منہ پر دروازہ بند کر چکا تھا

جبکہ وہ غصے سے تن فن کرتی ہوئی بیگ کندھے پر ٹانگ کر لائونج کی طرف چلی گئی تھی 

اسکی آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے جنہیں وہ ہاتھ سے سختی سے رگڑتے ہوئے صاف کر چکی تھی 

۔۔۔۔۔

نجم بیٹا زونی کو کالج چھوڑ دو وہ انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ آفرین بیگم نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا

لیکن امی وہ تو تھوڑی دیر پہلے ہی چلی گئی ۔۔۔ نجم نے موبائل کان سے ہٹاتے ہوئے کہا

لیکن کس کے ساتھ گئی ہے ؟ آفرین بیگم نے نجم کو حیرت سے دیکھا تھا

شاید مرجان کے ساتھ گئی ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے ٹیبل سے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا

آفرین بیگم کشمالہ بیگم کو دیکھ کر خاموش ہوئی تھی اگلے ہی پل انہیں پریشانی لاحق ہوئی تھی 

مرجان ۔۔۔ بیٹا زونی کہاں ہے ؟ 

وہ جو پہلے ہی جلدی میں تھا  آفرین بیگم کے سوال پر مجبوراً رکا تھا۔۔

مجھے آئیڈیا نہیں۔۔۔

 ۔۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح سرد لہجے میں گویا ہوا 

مگر وہ تو تمہارے روم کے باہر  صبح سے کھڑی تھی بیٹا ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے طنز کیا جس پر وہ مزید سنجیدہ ہوا تھا

ٹھیک ہے بیٹا جاؤ ۔۔۔ ۔۔ ہو سکتا ہے ڈرائیور کے ساتھ گئی ہو ۔۔۔ آفرین بیگم نے اسکی بڑھتی سنجیدگی بھانپتے ہوئے کہا

وہ بلیک سن گلاسز لگاتے ہوئے مغرورانہ چال کیساتھ باہر چلا گیا تھا

جبکہ نجم نے اسکی پشت کو سرد نظروں سے دیکھا تھا

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ جو گھٹنوں میں سر دیئے کب سے سسک رہی تھی یکدم پزل ہوئی تھی

میں نے اسے کہا تھا  مگر یہ نہیں مانی۔۔ کہتی ہے چل نہیں سکتی ۔۔۔ گارڈ بھاری قدموں کی آہٹ کیساتھ اندر داخل ہوتے وقت بولا جبکہ اسکے پیچھے بھی قدموں کی آہٹ سنائی پڑی تھی 

ڈاکٹر چیک کریں ؟ 

وہ جلدی سے آواز کی سمت دیکھ گئی تھی ۔۔۔ یہ آواز تو وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی ۔۔۔  پوری دنیا میں وہ اس آواز کو پہچان سکتی تھی 

آپ پلیز لائٹ سوئچ آن کر دیں اور کوئی کھڑکی کھول دیں کمرے میں دم گھٹتا ہو گا بالکل بھی ہوا نہیں آ رہی  ہے ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کے کہنے پر

گارڈ نے لائٹ سوئچ آن کیا تھا  اور کھڑکی بھی کھولی تھی

۔۔۔ بے چینی سی وہ اس سمت میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔ وہ اپنا ستمگر بےصبری سے دیکھنے کی خواہش رکھتی تھی ۔۔۔ 

وہ وائٹ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا ،،  کلائی پر  برینڈڈ گھڑی باندھے وہ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں رکھے اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا 

سنہرے بال جیل سے خوبصورتی سے سیٹ کیے گئے تھے ،،  دودھیا سفید رنگت ،،  وہی مڑی پلکوں کے سائے میں سنجیدہ ہیزل گرے آنکھیں ،، آج ان میں کہیں نہ کہیں ہمدردی تھی ۔۔۔ اور طنز تھا وہ مسکرانا چاہتا تھا اسکی بےبسی پر ۔۔۔

کسی قلم  کی نوک  سے بنائے گئے  ہلکی بیئرڈ میں انتہاہ کا حسیں چہرہ اسکے کٹاؤ دار لب جنہیں وہ بھینچے اسے ہی دیکھ رہا تھا 

انتہاہ کا حسیں تھا ۔۔۔ مگر تھا تو اسکا ستمگر ۔۔۔

وہ بےبس نظروں سے اسے کچھ پل دیکھتی رہی ۔۔

ڈاکٹر اسکا معائنہ کرنے کیلئے اسکے قریب بیٹھا جس پر وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی تھی لیکن خود کو کمپوز کرتے ہوئے وہ رک گئی تھی

ڈاکٹر نے اسکی نبض دیکھی ۔۔۔ ڈاکٹر بھی اسے ہمدرد نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ زخموں سے چور تھی

 بکھرے بال ۔۔ رنگت جو گندمی ہو گئی تھی ۔۔۔۔ میلے کپڑے ۔۔۔ اجڑی حالت 

ڈاکٹر نے گھبرائی ہوئی نظر سے پیچھےدیکھا جس ہر وہ دو قدم آگے بڑھا کر اسکے سامنے آ کر رکا تھا

کیا آپ شروع سے ہی نہیں چل سکتی ؟ 

ڈاکٹر کے سوال پر وہ لڑکی ایک بار پھر اسکی جانب دیکھ گئی تھی 

نہیں یہ پہلے ٹھیک تھی کچھ دںوں سے کھانا نہیں کھا رہی اور کیا۔۔۔

 کیا الیکٹرک شاکز کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے ؟

گارڈ کی بات پر ڈاکٹر کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا

اٹس پاسیبل ۔۔۔ اگر زیادی مقدار میں ۔۔۔ الیکٹرک شاکز بغیر کسی ٹریٹمنٹ کی غرض سے دیئے جائیں تو دماغی اور جسمانی طور پر انسان نارمل ایکٹیویٹی سے ڈسمس ہونے لگتا ہے ۔۔۔ 

گارڈ نے اپنے مالک کی طرف دیکھا تھا جسےزرا برابر فرق نہیں پڑا تھاسن کر ۔۔

وہ تو یہی چاہتا تھا یہ لڑکی تڑپ تڑپ کر مر جائے۔۔۔

اسکا مطلب یہ لڑکی اب کبھی نہیں چل پائے گی ؟ گارڈ نے فکر سے کہا

ہو سکتا ہے اگر پریزینٹ ریٹ پر انہیں ایسےہی فزیکلی اور مینٹلی ٹارچرکیا گیا تو  مکمل ڈس ایبل ہو جائے گی ۔۔۔ ہو سکتا ہے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔۔۔

آپ جا سکتے ہیں ۔ اگر ضرورت پڑی تو ندیم آپکو لے آئے گا۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا

گارڈ ڈاکٹر کو لیکر کمرے سے نکل گیا تھا

وہ گھٹنے ٹیکتا ہوا اسکے چہرے پر جھکا ۔۔۔

وہ گھبراتے ہوئے ہتھیلیوں کو رگڑ کر پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔ 

مر کیوں نہیں جاتی۔۔۔۔ 

وہ سرد لہجے میں اسکے بالوں  میں انگلیاں پھنساتے ہوئے بولا 

اسکی براؤن آنکھوں میں آنسوں آئے تھے ۔۔۔ اور موتی کی صورت میں اسکے میلے چہرے سے بہہ گئے تھے

یو آر ڈائنگ۔۔۔ افسوس ۔۔چچچ ۔۔۔ وہ اسکے چہرے کو قریب لاتے ہوئے گویا ہوا

وہ مسلسل اسکی ہیزل گرے آنکھوں میں دیکھتی جا رہی تھی ۔۔۔

ابھی مار دیں مجھے ۔۔۔ وہ دھیمے سے بولی تھی

وہ پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکال کر اسکے سر پر رکھ چکا تھ  

ماردیں ۔۔۔ 

وہ آنکھیں میچتے ہوئے دھڑکتے دل کیساتھ بولی تھی

جبکہ وہ  جو اسے تنگ کرنے کی نئی ترکیب سوچ رہا تھا اچانک  پسٹل کو دھیرے سے پیچھے کرتے ہوئے اسکے گردن سے دبوچ چکا تھا

جانتی ہو میں تمھیں زندہ رکھنا چاہتا ہوں ، چاہے تمہارے جسم میں خون کی ایک بوند باقی نہ رہے ، تم سڑ جاؤ لیکن یہ سانسیں چلنی چاہیے ہر حالت میں ، تمھیں ان اذیتوں سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے دیکھی اور محسوس کی ہیں ،، بکھرے سخت لہجے میں کہتا ہوا وہ اسے اور قریب کر چکا تھا

خوف سے اسکا وجود کانپ رہا تھا 

وہ خوف بننا چاہتا ہوں تمہارا جسے تصور کرتے ہی تم لرز جاؤ ، جو تمہاری زندگی کا سب سے بڑا ڈر ہو ، جو تمہاری تباہی کی وجہ ہو ، جسے سوچ کر تمھارا دل دھڑکنے لگے ۔۔۔ 

وہ کانپتی ہوئی سرخ نم آنکھوں سے اسکی گرے آنکھوں میں دیکھ کر ایک ہی سوال کر رہی تھی میرا قصور کیا تھا ؟؟

دروازے پر دستک ہوئی تھی وہ اسکے بالوں سے انگلیوں کو نکالتے ہوئے  اور سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کھڑا ہوا تھا 

صاحب آپ نے بلایا  ؟ 

ایک ملازمہ اندر آتے ہوئے بولی تھی جبکہ لڑکی کی یہ حالت دیکھ کر اسکا خون سفید ہوا تھا

اسکا اتنا خیال رکھیں کہ یہ دو دن میں چلنے لائق ہو جائے ۔۔۔ اسکے بعد آپ کو آپکی منہ مانگی قیمت ملے گی اور آپکو یہاں کام کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔۔۔ 

وہ حکم دیتا ہوا کمرے سے چلا گیا تھا 

اسکے ٹھیک جاتے ہی کھڑکی سے ایک سایہ گزرا تھا ۔۔۔اسکے جاتے ہی

ملازمہ اس لڑکی کے پاس بیٹھتے ہوئے اسکے زخموں پر مرہم لگانے لگی تھی  جبکہ وہ مردہ سی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھتی رہی جہاں سے وہ ستمگر گزرا تھا 

۔۔۔۔

مرجان کاظمی دنیا کے ٹاپ بزنس مین میں سب سے پہلا ۔۔۔

پوری دنیا جانتی ہے ۔۔۔  اتنا بڑا رئیس پوری دنیا میں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملے گا ... پوری 3 کمپنیاں سنبھالتا ہے اور وہ بھی دنیا میں ٹاپ پر چل رہی ہیں ۔۔۔ 

ہمیں اس سے کوئی تکلیف نہیں مگر اسے ہم سے ہے ۔۔۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ہمارا کام بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے ۔۔۔ ڈرگ سپلائے نہیں ہو رہے ۔۔ دھندھا ٹھپ ہو چکا ہے ہمارا نقصان ہو رہا ہے۔۔۔ ہمارے آدمی پکڑے گئے ۔۔۔۔ کچھ مارے گئے کچھ قید میں ہیں ۔۔۔ 

اور جس درندہ صفت  مرجان کاظمی کو میں جانتا ہوں ہمارے آدمیوں سے ایک ایک لفظ نکلوا لے گا ۔۔۔ لیکن اس سے پہلے وہ ہم تک پہنچے ہمیں اس تک پہنچنا ہو گا ۔۔۔

ایک اندھیرے کمرے میں بڑی سکرین پر مدھم روشنی میں مرجان کاظمی کی فوٹوز اور ڈیٹیلز کی ویڈیو چل رہی تھی اور اندھیرے میں چھپی ایک شخصیت اس پر تبصرے کر کے پورے کمرے میں موجود لوگوں کو اس کی شخصیت سے آشنا کرا رہی تھی ۔۔۔ ان کے چہرے اندھیرے میں چھپے تھے

تبھی ٹیبل پر پڑے فون پر بیل بجی تھی  

تمہارے لئے بہت بڑی خبر ہے مرجان کاظمی اس وقت پاکستان میں ہے ۔۔۔ اپنے کسی خفیہ فارم ہاؤس پر میں لوکیشن بھیج رہا ہوں نکلنے ہی والا ہے ۔۔۔ بلیک مرسیڈیز ہے کار کا  نمبر میسج کر رہا ہوں لوکیشن کیساتھ ۔۔۔ 

اور پھر ؟ 

سگریٹ کا کش لیتے ہوئے وہ شخص کرسی پر بیٹھتے ہوئے بھاری آواز میں بولا

Boooom !!

دوسری طرف سے مکروہ قہقہ سنائی دیا تھا

دونوں  فون پر  قہقہ لگاتے ہوئے ہنسے تھے ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

اسے بالکل پرواہ نہیں میری ۔۔۔ زونی منہ بناتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی جبکہ اسکی دوست نے چوئینگم کا ببل پھوڑتے ہوئے اسے گھورا 

تو تم اسکے پاس جانے کی کوشش کرو نہ آخر کب تک اس سے ڈرتی رہو گی ۔۔۔ اسکی دوست ردا نے مشورہ دیا

بس کرو پورے گھر والے یہاں تک کہ ڈیڈ بھی اسکے گھومے پھرے دماغ سے واقف ہیں ایک بار ٹھان لے تو کسی کی نہیں سنتا اور غصہ تو اسکا دوسرا نام ہے ۔۔۔ زونی نے کتاب غصے سے کھولتے ہوئے کہا

میرے پاس ایک آئیڈیا ہے سنو ۔۔۔ 

زونی ردا کی طرف مخاطب ہوئی اور وہ اسے دھیرے دھیرے کان میں الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے لگی ۔۔۔

اور زونی ہاں میں سر ہلاتے ہوئے مسکرائی

۔۔۔

۔۔۔

سر آپ گئے نہیں ۔۔۔

ندیم  نے (جو کہ اسکا اسپیشل گارڈ تھا )  کافی کا کپ اسکے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا 

میں اسے ساتھ لیکر جانا چاہتا ہوں ۔۔۔ 

وہ کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا 

لیکن سر ایسا فیصلہ  اچانک کیوں  !؟ 

کوئی مجھ پر نظر رکھ رہا ہے ۔۔۔ اور آج فارم ہاؤس میں کوئی آیا تھا جسے تم میں سے کسی نے نہیں دیکھا میرے پاس پسٹل تھی میں اسے مارنا چاہتا تو مار سکتا تھا ۔۔۔ 

وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے لب بھینچ چکا تھا ۔۔

ملازمہ اس لڑکی کو لئے گارڈن میں اسے چلانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ کمزوری کی وجہ سے لڑکھڑا رہی تھی 

 مجھ سے اتنی بڑی لاپرواہی کیسے ہو گئی میں ابھی سیکیورٹی ٹائٹ کر دیتا ہوں اور اسکی ڈیٹیل نکالتا ہوں لیکن آپ نے اسے مارا کیوں نہیں ؟  ندیم نے حیرت سے پوچھا

اسنے ضرور بیک اپ کو اطلاع دی ہو گی وہ میری لوکیشن جانتے ہیں اور مجھے مارنے کے لیے بھی نکلیں گے ۔۔۔ 

گارڈ پریشان ہوا لیکن اپنے مالک کو مطمئن اور پرسکوں دیکھ کر حیران بھی ہوا تھا وہ جانتا تھا اسے تو کچھ نہیں ہونا تھا لیکن آنے والوں کی آج موت لازم و ملزوم ہو گئی تھی ۔۔۔

ہزار بار کہہ چکی ہوں کم کھایا کر  اب کوئی مانتا ہی نہیں کہ میں تم سے پورے تیس منٹ بڑی ہوں

علیزے نے منہ پھلاتے ہوئے نیشال کے ہاتھ سے گول گپے کی پانچویں پلیٹ کھینچ کر ٹیبل پر رکھی تھی 

مماں دیکھیں ناں یہ پھر سے بڑی بہن ہونے کا طعنہ دے رہی ہے 

نیشال نے بھرپور احتجاج کیا تھا جب کہ کشمالہ بیگم نے دونوں کو تیکھی نظروں سے گھورا تھا جس پر دونوں خاموش ہو چکی تھی 

اتنی بڑی ہو گئی ہو دونوں مگر حیرت ہے کہ زرا برابر عقل نہیں آئی ارے میں تو تم دونوں کو بیاہنے کا سوچ رہی تھی  مگر ۔۔۔

نیشال نے کشمالہ بیگم کی بات کاٹی 

ہاں تو علیزے آپی مجھ سے بڑی ہیں پہلے انکو بیاہ دو  میرا تو ہوتا رہے گا بعد میں ۔۔۔ 

نیشال نے منہ بسورا اور علیزے کو دیکھ کر برابر چھیڑا جس پر وہ غصے سے اٹھ کر روم کی طرف چلی گئی تھی

آپ کو دوسروں کی اولاد سے فرصت مل جائے تو اپنی اولاد کا بھی سوچ لینا ۔۔۔ 

شان نے آفس کی فائل کشمالہ بیگم کے سامنے میز پر پٹختے ہوئے کہا 

اپنی بکواس بند رکھو جانتے ہو اگر کسی نے تمھیں سن لیا ہوتا تو آفت آ جاتی ۔۔۔

کشمالہ بیگم نے آنکھیں پھیلا کر غصے سے کہا جس پر شان ہاتھ سے رہنے دو کا طنزیہ اشارہ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا

کچھ کرنا ہو گا ۔۔۔

نیشال نے آدھ منہ کھول کر اپنی ماں کو دیکھا جو گہری سوچ میں غرق ہو چکی تھی

 ۔۔۔

۔۔۔۔

میں تم سے ایک بات پوچھوں ؟ تم کون ہو اور ان صاحب سے تمھارا کیا تعلق ہے ؟ 

ملازمہ نے اس لڑکی کو ہاتھ سے پکڑ کر سہارہ دیا اور پوچھا

ہمارا کوئی تعلق نہیں ان سے ،، اور جہاں تک ہم کون ہیں کہ بات ہے وہ اب معنی نہیں رکھتا ،، ہم سب کچھ کھو چکے ہیں ۔۔

دھیمے سے لہجے میں کہتی ہوئی وہ باغیچے میں نزدیک پڑے سیمنٹ کے بینچ کے سہارے بیٹھی تھی 

پھر وہ تم پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہیں ؟ تم ان کے آگے کچھ بولتی بھی نہیں ہو ،، اور تم بھاگ کیوں نہیں جاتی یہاں سے ؟؟

ہم یہاں سے بھاگ کر جائیں گے بھی تو کہاں ؟ سب برباد ہو گیا ۔۔

لڑکی کی آنکھوں میں آنسوں کی نمی سی چمکی تھی ۔۔۔

تمہارا نام کیا ہے تم مجھے فرزانہ کہہ سکتی ہو ۔۔۔ 

ہمارا نام تعبیر ہے ۔۔۔ وہ مختصر سا کہتے ہوئے رکی تھی

سرد نگاہوں سے وہ ٹیرس پر کھڑا نہ جانے کب سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔

میں آپکو بی جان کہہ سکتی ہوں ؟ آپ عمر میں بالکل میری بی جان جیسی ہیں ۔۔۔ 

ملازمہ نے تعبیر کو ہمدردی کی نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔ کتنی معصومیت تھی اس لڑکی میں ۔۔۔ 

ہاں بیٹا بالکل بلاؤ مگر سر کے سامنے خیال رکھنا ۔۔۔ 

وہ کافی کا مگ ٹیرس کی دیوار پر رکھتے ہوئے اٹھا تھا 

آسمان پر کالے بادل امنڈ آئے تھے اور ٹھنڈی ہوا بھی چل پڑی تھی 

تعبیر نے ایک بار پھر ناجانے کیوں ٹیرس کی طرف دیکھا تھا 

ہوا کی وجہ سے اسکے سنہری بال بار بار اسکی پیشانی پر بکھر رہے تھے وہ کسی ایک نقطے پر گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا 

ایک گارڈ سر جھکائے اسکے قریب رکا تھا ۔۔۔

تعبیر نے اسکے لبوں کو ہلتے محسوس کیا ۔۔۔۔ وہ بغیر اسکی جانب دیکھے سنجیدگی سے گارڈ سے کچھ کہہ رہا تھا  گارڈ سر جھکاتے ہوئے واپس چلا گیا تھا 

کچھ دیر میں وہی گارڈ نیچے آیا تھا

سر کا آرڈر ہے آپ فارم ہاؤس کے اندر رہیں موسم خراب ہونے والا ہے ۔۔۔

ہم کچھ دیر رکنا ،، 

فرزانہ نے تعبیر کا ہاتھ تھامے ہوئے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا ،، وہ اسکے سہارے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی فارم ہاؤس کے اندر چلی گئی تھی

گارڈ دونوں کو واپس بھیج کر جا چکا تھا

ندیم ! کچھ پتا چلا ؟؟

اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سن کر وہ سنجیدگی سے پوچھ بیٹھا تھا

نہیں سر ، پورے پاکستان میں نہیں ہے !!

 یہ تیسری بار ہوا ہے کہ ایک ایک گھر ڈھونڈنے کے بعد بھی کچھ نہیں ملا ۔۔۔۔۔۔

تو پوری دنیا میں ڈھونڈو ، دنیا کے ہر ایک کونے میں اسے تلاشو ،، لیکن مجھے وہ ہر حال میں چاہیے ۔۔ 

اسکے سخت لہجے پر ندیم ایک سے دو قدم پیچھے ہٹا تھا وہ مرجان کے غصے سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔

سر پوری کوشش کر رہے ہیں ، انشاء اللہ جلدی آپکو وہ مل جائے گا جسکی آپکو تلاش ہے ۔۔۔

ندیم اتنا کہہ کر چلا گیا تھا وہ جانتا تھا اسکا علاج صرف تنہائی ہے ورنہ وہ سب تباہ و برباد کر دیتا ہے جو اسے نظر آتا ہے ۔۔۔ 

بارش شروع ہو چکی تھی اور تیز ٹھنڈی ہوا اپنے زور و شور پر تھی ۔۔۔ ایسے لگتا تھا جیسے کسی کے دل کا حال بیان کر رہی ہو ۔۔۔

وہ اپنا وائٹ کورٹ اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے ، شارٹ کے بازو کہنیوں تک موڑ کر بارش کی آغوش میں آیا تھا

ٹھنڈی پرسکوں بوندیں اسکے بےسکوں وجود میں جیسے سکوں کی اک لہر چھوڑ رہی تھی وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے اس احساس سے آشنا ہو رہا تھا جو اسکے جینے کی وجہ تھا ۔۔۔

""رکو بھاگو مت ہم پہلے بھی گر گئے تھے، مماں نے کہا تھا بارش میں بھاگنا نہیں چاہیے رکو ۔۔۔ ورنہ میں ماموں سے آپکی شکایت کروں گی ""

وہی معصوم خوش گوار کھلکھاہٹیں اسکے کانوں میں گونجی تھی

اسکی آنکھوں سے آنسوں بارش کی بوندوں میں سے ملتے ہوئے گم سے گئے تھے 

آآآآآآآہ !!

ایک دردناک غراہٹ اور غصے کیساتھ وہ ٹیرس پر موجود پھولوں کے واس سمیت سب کچھ توڑ رہا تھا

"مجھے پھول پسند ہیں انہیں مت توڑو " 

پھر سے ایک معصوم باریک آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی

وہ دونوں کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے درد اور بےچینی سے دھاڑا 

کیوں ! کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑتی تم ؟! 

وہ صدمے سے نڈھال گھٹنوں کے بل ڈھے سے گیا تھا

جب کہ گارڈز جو اسکی آواز سن کر وہاں آئے تھے اسے اس حالت میں دیکھ کر فوراً وہاں سے چلے گئے تھے وہ اسکے درد سے شاید آشنا تھے وہ جانتے تھے مرجان کاظمی کو کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں نہ ہی اسے کسی کی تسلیاں چاہیے ۔۔۔ وہ برداشت کر سکتا تھا جیسے بچپن سے کرتا آیا تھا ۔۔۔ 

"نہیں مماں ہم آپکے ساتھ نہیں جائیں گے ،، ہمیں ہمارے بیسٹ فرینڈ کیساتھ رہنا ہے " 

وہ درد سے نڈھال ہو رہا تھا ۔۔۔ دل میں اٹھتا ہوا درد ۔۔۔ اسے تکلیف دے رہا تھا بمشکل لڑکھڑاتے ہوئے وہ اٹھا بارش اسے مکمل بھگا چکی تھی  وہ کمزور نہیں تھا مگر اس میں دل تھا ۔۔۔ ہر انسان کی طرح ۔۔۔ پوری دنیا کے سامنے وہ مرجان کاظمی تھا جسے کسی کا خوف نہیں تھا جسکی کوئی کمزوری نہیں تھی ۔۔۔  

وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے تک پہنچا تھا دروازے کو سختی کیساتھ بند کرتے ہوئے بیڈ تک آیا اور کبڈ کا دروازہ کھولا تھا

لیکن شاید اسے وہ چیز نہیں ملی تھی جو وہ ڈھونڈ رہا تھا 

کیا وہ اپنی دوائی ڈھونڈ رہے ہیں ؟ 

ایک گارڈ نے جو شاید نیا تھا دوسرے گارڈ کے کان میں دھیرے سے پوچھا تھا

جبکہ دوسرا گارڈ اسے جلدی سے ونڈو سے کھینچ کر وہاں سے لے جا چکا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا اگر اس وقت ان دونوں کو وہ دیکھ لیتا تو دونوں کی موت طے تھی ۔۔۔

ندیم !!

وہ غصے سے گرجا 

سر ؟!!

ندیم جلدی سے اندر آیا تھا 

وہ بیڈ کے سہارے نیچے بیٹھا تھا اسکی آنکھیں سرخ تھی 

وہ کہاں ہے ؟؟ وہ غصے سے غرایا 

سر ۔۔۔ معاف کر دیں ۔۔۔۔ صبح جب آپ نے بیگز میڈ کو دینے کیلئے کہے تھے  شاید  میں نے وہ غلطی سے اس لڑکی کو دی دیا ۔۔۔۔۔

ندیم کی آواز کانپ رہی تھی وہ جانتا تھا کتنی بڑی غلطی ہوئی تھی اس سے اب وہ یقیناً جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سوچ رہا تھا ۔۔۔ 

۔۔۔۔

۔۔۔۔

امی مرجان کہاں ہے ؟ 

کشمالہ بیگم نے بھنویں اچکا کر زونی کو دیکھا جو کالج سے آتے ہی مرجان کا پوچھ رہی تھی 

وہ آفس ہے ہمیشہ کی طرح ۔۔۔ ایک منٹ تم صبح کالج کس کے ساتھ گئی تھی بچہ ہم پتا ہے کتنے پریشان تھے ؟ 

کشمالہ بیگم نے زونی کی پیشانی پر بوسہ دیتے کہا 

وہ مرجان بھائی نے منع کر دیا تھا تو ہم ڈرائیور کے ساتھ گئے تھے ۔۔۔ اچھا امی بابا کدھر ہیں ؟ 

بیٹا وہ میٹنگ کے لئے گئے ہیں آتے ہی ہوں گے کوئی بات ہے تو مجھے بتا دو ؟ کشمالہ بیگم نے زونی کو گلے لگایا ۔۔۔

ہاں مگر میں آپکو اکیلے نہیں بتاؤں گی اب تو جو بات ہو گی ڈیڈی کے سامنے ہی ہو گی ۔۔۔ اوکے ۔۔

زونی جلدی سے اپنے روم می طرف بھاگی تھی 

کچھ تو چل رہا ہے اس لڑکی کے دماغ میں ۔۔۔ مجھے پتا لگانا پڑے گا اس سے پہلے بات منور تک جائے ۔۔۔ 

کشمالہ بیگم سوچتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔

جبکے انکے جاتے ہی نیشال چپکے سے کچن میں گھسی تھء فریج سے صفائی کرنے کی صاف نیت کیساتھ ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

بیٹا یہ کپڑے مجھے دیدو میں انکو دھو دوں گی ۔۔۔ اور اب کیسا لگ رہا ہے طبعیت بہتر ہوئی ؟ 

فرزانہ نے تعبیر سے پرانے کپڑے لیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

پہلے سے بہت بہتر لگ رہا ہے بی جان ۔۔۔ آپ نے بالکل درست کہا تھا ہم فریش ہو گئے ۔۔۔ 

تعبیر نے گیلے بالوں سے ٹاول نکال کر دوپٹہ گلے میں ڈالتے ہوئے کہا اور آئینے میں اسنے خود کو ایک نظر دیکھا ۔۔۔

بہت دنوں بعد وہ اچھا محسوس کر رہی تھی 

وائٹ سمپل سوٹ میں اور اوپر ریڈ چنری دوپٹہ پہنے اسکی گندمی رنگت نکھر کر سامنے آ رہی تھی ۔۔۔

یکدم روم کا دروازہ زور سے کھلا تھا

ندیم اس سے پہلے کچھ کہتا تعبیر کو اس دوپٹے میں دیکھ کر اسکا رنگ زرد ہو چکا تھا ۔۔۔

یہ ۔۔۔ یہ دوپٹہ مجھے واپس کر دیں ۔۔۔جلدی ۔۔۔

ندیم نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔ جبکہ تعبیر نے خوف سے دوپٹے کو مٹھی میں کس کے پکڑا تھا ۔۔۔

ٹائم نہیں ہے پلیز واپس کریں ۔۔۔ 

ندیم خود اس کے گلے سے دوپٹہ نہیں نکال سکتا تھا اسکا ضمیر گوارہ نہیں کرتا تھا وہ بری کشمکش میں پھنس چکا تھا ۔۔۔

فرزانہ حیران پریشان دونوں کو دیکھ رہی تھی 

ندیم !!

اس سے پہلے ندیم کچھ اور کہتا اسکے قدم جم گئے تھے مرجان کی آواز سن کر ۔۔۔

آپ پلیز باہر چلیں ۔۔۔ وہ فرزانہ کو لیکر فوراً روم سے نکلا تھا ۔۔۔ جب کہ تعبیر کے ہاتھوں میں ٹھنڈا پسینہ آیا تھا اسکی آواز سن کر ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

ہائے نیشال جلدی سے کھا لے کوئی آ گیا تو بلاسٹ ہو جائے گا ۔۔۔ جلدی جلدی آئس کریم کا دوسرا ڈبہ چاٹتے ہوئے وہ بھرے منہ سے بولی ۔۔۔ 

جبکہ کچن میں آتا ہوا نجم برتنوں کے بیچ و بیچ گولڈن بالوں والا سر دیکھ کر ٹھٹکا تھا ۔۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔نجم نے غصے سے پوچھا

کیونکہ ابھی ابھی اسکا دل نیشال کے گولڈن بال دیکھ کر حلق میں آیا تھا اسے لگا کوئی سنہری ٹیل والا جانور کچن میں آ دھمکا ہے ۔۔۔ 

وہ ناں نجم بھ۔۔۔بھا ۔۔ئی ۔۔۔ 

بھرے ہوئے منہ کیساتھ وہ الٹا سیدھا ہی بول پائی تھی ۔۔۔

جبکہ اس موٹی بِلی کو دیکھ کر نجم کا منہ کا زاویہ خراب ہوا تھا ۔۔۔

آپ کھاؤ گے ؟؟

آئس کریم کا خالی ڈبہ اسکی جانب کرتے ہوئے وہ بتیسی نکالتے ہوئے بولی جبکہ خالی ڈبہ دیکھ کر نجم نے بھنویں اچکا کر اسے گھوری سے نوازا تھا ۔۔ 

مطلب وہ اکیلے ہی سردی میں ایک پورا  فیملی پیک کا ڈبہ کھا گئی تھی ۔۔ اسکی حیرت تب بڑھی جب اس نے ٹیبل پر دوسرا ڈبہ خالی دیکھا ۔۔۔

کسی دن پھٹ جاؤ گی غبارے کی طرح ۔۔۔ 

نجم نے تپ کر کہا جس پر نیشال نے رونے والی شکل بنائی ۔۔۔

ہاتھی کا بچہ پال رکھا ہے ہم نے گھر میں ۔۔۔

وہ منہ میں بڑبڑاتا ہوا پیچھے جانے کے لئے مڑا

کیا کہا آپ نے میں ہاتھی کا بچہ ہووووووووووں ۔۔۔۔

نیشال سلپ ہوئی تھی

کھاتے وقت تھوڑی آئس کریم نیچے گری تھی جس پر نیشال کا پیر آیا تھا

مار ڈالا مجھے ۔۔۔۔

نیشال جلدی سے نجم پر سے اٹھی تھی

نجم کمر پکڑتے ہوئے درد سے سسک پڑا تھا اتنا بڑا ہاتھی جو گرا تھا اس پر ۔۔۔  جب کہ نیشال شرم سے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی تھی

نجم نے کمر پکڑ کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا تھا جو اسکی کمر توڑ گئی تھی ۔

جب کہ پلر کے پیچھے چھپی ژالے کا فلک شگاف قہقہ سن کر نجم شرم سے لال ہوا تھا ۔۔۔

ہاہاہاہا ہاؤ رومنٹک ۔۔۔ ژالے کہہ کر وہاں سے ہوا کی طرح بھاگی تھی ۔۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

کچھ پتا چلا کیا وہ ابھی تک گھر سے باہر نہیں نکلا ۔۔ اچھا ٹھیک ہے کب تک چھپے گا کبھی تو باہر آئے گا ۔۔۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے وہ شخص فون پر بولا ۔۔۔

ہاں نظر رکھو پل پل کی خبر چاہیے ۔۔۔ دوسری طرف سے کچھ سننے کے بعد اسنے غصے سے سگریٹ پھینک کر اس پر پیر رگڑا تھا 

چاہے اسے شک ہو جائے ، چاہے وہ سیکیورٹی جتنی بڑھا دے مجھے مرجان کاظمی کی موت کا اعلان سننا ہے ۔۔۔

بولتے ہوئے اسکے منہ سے سگریٹ کا دھواں ہوا میں خارج ہوا تھا ۔۔۔

جب بھی گھر سے باہر نکلے ۔۔۔ اسے ۔۔۔ اسکے گارڈز کو ۔۔۔ اسکی گاڑی سب پر اتنی گولیاں چلنی چاہیئے کہ ہواؤں میں خوف کی ایسی لہریں دوڑ جائیں کہ آئندہ مرجان کاظمی جیسا شخص اس دنیا میں جنم لینے سے پہلے ہزار بار سوچے ۔۔۔

اندھیرے کمرے میں وہ ایک دروازے کے پیچھے غائب ہوا تھا 

۔۔۔۔

۔۔۔۔

سخت غصے میں وہ زور دار آواز سے دروازہ کھول چکا تھا ۔۔۔ 

فرزانہ نے لاونج میں دروازہ کھلنے کی آواز سن کر دل ہی دل میں تعبیر کے لئے دعا کی تھی نہ جانے کیا ہو گا اب ۔۔۔ 

وہ سوچتے ہوئے کانپ گئی تھی ۔۔۔

تعبیر نے خوف بھری نظروں سے اسکی حالت دیکھی تھی ۔۔۔ بکھرے بال ۔۔۔ سرخ آنکھیں ۔۔۔ اور اسکے بھگے ہوئے کپڑے ۔۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ دوپٹہ لینے کی ۔۔۔ اسکے گلے میں وہ دوپٹہ دیکھ جر اسکی آنکھیں لال انگارہ ہوئی تھی جبکہ تعبیر نے خوف سے اپنی گردن پر پہنے دوپٹے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ قدم پیچھے لئے تھے

اسکا دل شدت سے دھڑک رہا تھا ساتھ ہی اسے اپنا وجود کانپتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

ہاؤ ڈیئر یو ؟ آئی سوئیر ۔۔۔ آج میں جان لے لوں گا تمہاری ۔۔۔ 

کسی زخمی شیر کی طرح وہ اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے دھاڑا تھا ۔۔۔

اسکے غصے کی شدت سخت گرفت کی صورت میں تعبیر نے اپنے کندھوں پر محسوس کی 

تعبیر نے خوف سے آنکھیں بھینچی تھی ۔۔

کیا سمجھتی ہو تم خود کو ؟ اسے دونوں کندھوں سے پکڑتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا 

اتارو اسے ۔۔۔ واپس کرو مجھے ۔۔۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے خود کو کمپوز کر گیا تھا پیچھے ہٹتے ہوئے اسنے تعبیر کی طرف ہاتھ بڑھایا دوپٹہ لینے کے لئے ۔۔۔

تعبیر نے دوپٹے پر ہاتھ رکھتے ہوئے خوف سے سر کو ناں میں جنبش دی تھی ۔۔

آئی سیڈ ۔۔۔ دوپٹہ دو مجھے ۔۔۔

وہ سرخ انگار آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ بڑھا چکا تھا غصے کی شدت سے اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا ۔۔۔ تعبیر ڈرتے ہوئے پیچھے دیوار سے لگی تھی۔۔۔

تو تم چاہتی ہو یہ میں اپنے طریقے سے واپس لوں ؟

وہ سرد لہجے میں اسکے دائیں بائیں جانب دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرار ہونے کے راستے بند کرتے ہوئے گویا ہوا

ایسا مت کریں سر پلیز ۔۔۔

وہ کانپتی آواز میں اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھ کر یکدم خوف سے نظریں جھکا چکی تھی ۔۔۔ 

آج تک پچھلے تین سالوں میں آپ جو کچھ کرتے آئے ہم نے برداشت کیا اک سوال تک نہیں کیا ہم خود کو آپکا گناہ گار تک مان بیٹھے تھےکہ شاید ہی ہم سے جانے انجانے میں کچھ ایسا ہوا ہو جس کی قیمت جس گناہ کا خمیازہ ، ہم آج اس صورت میں بھگت رہے ہیں ۔۔۔

نظریں جھکاتے ہوئے وہ بولتی گئی ۔۔۔ اور وہ سپاٹ نظروں سے لب بھینچے اسے دیکھ رہا تھا اور خاموشی سے سن رہا تھا

آپ نے ہمیں تھپڑ تک مارے ۔۔ ہمیں مینٹلی ٹارچرکیا ہم تب کچھ نہیں بولے لیکن آج آپ ہمارے گلے سے ہمارا دوپٹہ مانگ رہے ہیں جو آپکو کبھی نہیں دینگے ہم ۔۔

وہ نظریں اٹھاتے ہوئے اسکی سرخ آنکھوں میں آنکھیں ڈال گئی تھی ۔۔۔

وہ سرد نظروں سے اسکی براؤن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اسکی ہمت کی داد دے رہا تھا اتنی کمزور بھی نہیں تھی وہ ۔۔۔ پوری دنیا مرجان کاظمی کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے سے خوف کھاتی تھی ۔۔۔ 

آج ہمیں جواب چاہیے ۔۔۔ کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں آپ ہم سے ؟ کیوں نہیں چھوڑ دیتے ہمیں ۔۔ ؟ کیا قصور ہے ہمارا ؟؟

قصور ؟ قصور کی بات کرتی ہو تم ؟ قصور میرا بھی نہیں تھا ۔۔ قصور میری فیملی کا نہیں تھا ۔۔۔  وہ کڑک دار لہجے میں بولا تھا ۔۔ اسکی قہر برساتی دھاڑ پر تعبیر کانپی تھی ۔۔۔ 

تعبیر کی ہمت جواب دے گئی تھی اسکا کھڑا رہنا محال ہو رہا تھا وہ دوبارہ پیرالائز ہو رہی تھی اسکا وجود کانپ رہا تھا ۔۔۔

جانتی ہو تمھارے باپ نے کیا کیا ؟ تمہارے باپ نے میری ہنستی کھلتی فیملی اجاڑ دی ۔۔۔اور جانتی ہو کیا کیا ؟

ایک دس سال کے لڑکے سے اسکی فیملی اسکی کل کائنات چھین لی ۔۔۔ ایک دس سالہ لڑکا ۔۔ اپنی آنکھوں سے اپنا جلتا گھر دیکھتا رہا ۔۔ اپنوں کی دردناک چیخیں سنتا رہا لیکن کچھ نہیں کر پایا ۔۔۔ 

مٹھی بھینچتے ہوئے وہ دیوار پر زور سے مارتے ہوئے کہر بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا 

اسکے بالوں میں سختی سے انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ اسے نفرت سے دیوار سے لگا چکا تھا

جس انسان نے دولت کے لئے کئی معصوم جانوں کو موت کی نیند سلا دیا کیا میرا اتنا حق نہیں بنتا کہ میں اسکی اکلوتی بیٹی کو ٹارچر کروں ؟ 

اسکے چہرے کو ہاتھ سے جکڑتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولا

اکلوتی !؟ 

تبسم  آپی !؟ وہ ٹھیک ہیں ۔۔۔

ڈیڈ ایسا نہیں کر سکتے !؟ 

وہ پیرالائز ہوتے ہی  خوف سے دوبارہ بےہوش ہوئی تھی ۔۔۔

جبکہ وہ ایک نام مرجان کاظمی کے دل کی دھڑکن بڑھا چکا تھا۔۔

ڈیم اٹ ۔۔۔ اٹھو ۔۔۔ 

اسکے چہرے کو سختی سے تھپتھپاتے ہوئے وہ بےچینی سے گویا ہوا۔۔۔

ندیم ڈاکٹر کو بلاؤ ابھی ۔۔۔ 

ندیم خود ڈاکٹر کو لینے چلا گیا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

اسلام آباد ایئرپورٹ :- 

بلیک گلاسز لگاتے ہوئے وہ ایک بیگ کیساتھ ایئرپورٹ سے باہر آئی تھی 

سلیو لیس بلیک شرٹ ۔۔ نیچے بلیک سٹائلش پینٹ ،، ریڈ ہائی ہیلز  ، کندھے تک آتے گولڈن بال ۔۔۔ دودھیا رنگت ۔۔۔ چہرے پر ڈھیر سارا میک اپ تھوڑا عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔۔ ڈارک ریڈ لپ اسٹک اسے لائٹ سے زیادہ ڈم دیکھا رہی تھی ۔۔۔

تمھیں منع کیا تھا پاکستان آنے سے بیوقوف لڑکی ۔۔۔

اسے کسی نے کھینچ کر وائٹ مرسیڈیز میں بیٹھاتے ہوئے کہا 

مجھے ڈیڈ سے ملنا تھا انکل وائے ڈونٹ یو انڈرسٹینڈ ؟ میرا ان سے رابطہ نہیں ہو رہا آپکا نمبر بند تھا واٹ دا ہیل از رانگ ود یو یار ؟ 

وہ گلاسز اتارتے ہوئے غصے سے بولی تھی جس پر اسکی سیاہ آنکھیں واضح ہوئی تھی

بےوقوف لڑکی تم کچھ نہیں سمجھتی ہو تم نے یہاں آ کر کتنی بڑی غلطی کی ہے ۔۔۔ ڈرائیور تم ہوٹل کی طرف چلو ۔۔۔ اور تم وہاں پہنچنے تک ایک لفظ نہیں بولو گی ۔۔۔  

وہ واٹ۔ ایور کہتے ہوئے انکھوں پر دوبارہ گلاسز لگا چکی تھی ۔۔۔

گاڑی تیزی سے روڈ پر دوڑی تھی ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

کاظمی مینشن :- 

ڈیڈا ہماری بات سنیں ناں پلیز ۔۔۔ زونی نے منور صاحب کو گلے لگاتے ہوئے خفگی سے کہا ۔۔۔

یس مائی پرنسیس !! 

منور صاحب نے فائل سائڈ پر رکھتے ہوئے پوری توجہ بیٹی پر مرکوز کی تھی 

ڈیڈا ہمیں کچھ چاہیے اور وہ ہمیں صرف آپ لا کر دے سکتے ہیں ! 

زونی نے منور صاحب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے لاڈ سے کہا جس پر منور صاحب کو بیٹی پر رج کر پیار آیا تھا 

ہماری پرنسس کو کیا چاہیے ؟! بولیں ہم ابھی لا کر دیتے ہیں ؟ 

سچ ؟!  زونی خوشی سے چہکتے ہوئے بولی

ہاں بالکل پہلے کبھی آپ کو منع کیا ہے ؟!  بولیں آپکو کیا چاہیے بچے ؟! 

ڈیڈا ، ہمیں مرجـان چاہیے ۔۔۔ ہم بہت پیار کرتے ہیں انکو ۔۔۔ آپ ہمیں مرجان لا کر دیں بس ۔۔۔ 

اسکی فرمائش پر منور صاحب قدرے سنجیدہ ہوئے تھے 

تو یہ تو اچھی بات ہے ناں ۔۔۔ ہماری بچی شادی کے بعد بھی ہمارے ساتھ ہی رہ جائے گی اور جہاں تک مرجـان کو منانے کی بات ہے وہ منور کی بات کبھی نہیں ٹالے گا ۔۔۔ وہ جیسے ہی گھر آ رہا ہے ہم دونوں اس سے بات کریں گے اور اسی ہفتے اپنی بچی کی انگیجمینٹ کر دیں گے خوش ؟

کشمالہ بیگم نے روم میں آتے ہوئے کہا جبکہ منور صاحب کافی سنجیدہ لگ رہے تھے مگر کچھ بولے نہیں تھے ۔۔۔ 

زونی نے خوشی سے چہکتے ہوئے کشمالہ بیگم کو گلے لگایا تھا ۔۔۔

آفرین بیگم دروازے سے ہی واپس لوٹ گئی تھی بغیر کچھ بولے ۔۔ 

وہ آبدیدہ ہوگئیں تھی ان کی آنکھوں میں آنسوں تھے ۔۔۔ 

کیا میں اپنی اولاد اپنی سگی بیٹی ۔۔۔  کا فیصلہ کرنے میں معمولی رائے دینے کا بھی حق نہیں رکھتی ۔۔۔ وہ آنسوں پونچھتے ہوئے خود کو کمرے میں بند کر چکی تھی۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

مرجان چینج کرنے کے بعد سیدھا تعبیر کے روم میں آیا تھا ڈاکٹر اسکی نبض دیکھ کر چیک اپ کے بعد ندیم سے کچھ کہہ رہے تھے جبکہ فرزانہ تعبیر کے پاس بیٹھی ہوئی اسے ہمدردی کی نظروں سے دیکھ رہی تھی 

انکو فوبیا ہو سکتا ہے ۔۔۔ جس طرح آپ نے بتایا ۔۔ ان کا بار بار فینٹ ہو جانا ۔۔۔ وجود کا کانپنا ۔۔۔سر چکرانا ۔۔ پسینہ آنا ۔۔۔ یہ خوف کی وجہ سے ہے ۔۔۔ اور بلڈ پریشر بھی بہت گر گیا ہے ڈیپریشن کی وجہ سے ۔۔۔ 

یہ کچھ دوائیں ہیں انہیں وقت پر دیتے رہیئے گا ۔۔ ندیم ڈاکٹر کو لیکر باہر چلا گیا تھا جبکہ مرجان چھوٹے چھوٹے قدم لیتا ہوا تعبیر تک آیا وہ ابھی تک بیڈ پر بےہوش پڑی تھی ۔۔۔

یہ ۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو آپ ؟!

فرزانہ نے گھبرا کر مرجان سے پوچھا اور خوف سے بیڈ سے اتری تھی۔۔۔ مرجان عجیب قسم کی وائرز تعبیر کی کلائی پر باندھ رہا تھا اور پیروں میں بھی باندھی تھی ۔۔۔ 

اگر آپ سے دیکھا نہیں جاتا تو باہر ویٹ کریں ۔۔ وہ چیئر کھینچ کر تعبیر کے برابر رکھتے ہوئے سرد لہجے میں بولا تھا ۔۔۔

فرزانہ گھبراتے ہوئے فوری طور پر باہر نکل گئی تھی ۔۔۔ وہ ایک نظر سنجیدگی سے اس بےہوش پڑی لڑکی کو دیکھتے ہوئے پاکٹ سے ایک ریموٹ کنٹرول نکال چکا تھا ۔۔۔

سوری پرنسس بٹ ویک اپ ناؤ !! 

اسنے ایک بٹن دباتے ہوئے اسکی جانب دیکھا ۔۔۔۔ تعبیر کا پورا وجود لرز اٹھا تھا ۔۔۔ آنسوں اسکی آنکھ سے بہتے ہوئے کشن میں جذب ہوئے تھے ۔۔۔

اسکا پورا وجود کرنٹ پر کانپ اٹھا تھا۔۔۔

بہت بےحس انسان ہیں آپ ۔۔۔۔ تعبیر کی بھرائی ہوئی آواز اور ٹوٹے بکھرے لہجے پر وہ اسکے پاس چیئر پر بیٹھا تھا ۔۔۔

تبسم کون ہے کہاں ہے کہا جانتی ہو اسکے بارے میں سب بتاؤ ورنہ آج ان شاکز سے تمھاری جان نکل جائے گی ۔۔۔ 

انکا بھی بتا دوں ؟ تاکہ انہیں بھی ایسے ہی ٹارچر کرو ؟ وہ نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی جبکہ اسنے سرد نظر سے اسے دیکھتے ہوئے ریموٹ کا بٹن دبایا اس بار پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ چارج تعبیر کو چھو گزرا تھا ۔۔ تعبیر نے آنکھیں میچتے ہوئے درد سہا تھا۔۔۔

نہیں بتاؤں گی کچھ نہیں بتاؤں گی ۔۔۔ میری طرح انکو ٹارچر نہیں کرنے دوں گی ۔۔۔ وہ درد سے سسکتے ہوئے چیخی ۔۔۔

وہ غصے سے ریموٹ دیوار میں مارتے ہوئے اسے کندھوں سے جکڑ چکا تھا ۔۔ اسکی سخت انگلیاں تعبیر کو اپنے بازو میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔

ہمیں نہیں پتا ۔۔۔ وہ اس وقت کہاں ہیں اگر ہمیں معلوم بھی ہوتا ہم پھر بھی آپکو ہرگز نہ بتاتے ۔۔۔  تعبیر نے اسکی ہیزل گرے آنکھوں کو دیکھ کر کہا ۔۔ جو سرخ ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔

میرا صبر کا امتحان مت لو ۔۔۔ میں اس معاملے میں بےحد خراب ہوں ۔۔۔ اس سے پہلے میری برداشت کی لیمٹ ختم ہو جائے ۔۔۔ سب بتا دو ۔۔۔

قہر برساتی نظر سے وہ اسکے کندھوں پر گرفت سخت کرتے ہوئے گویا ہوا

تعبیر نے پہلی بار اسکی آنکھوں کو اتنے قریب سے دیکھا تھا ۔۔۔ بے حد حسیں تھی اسکی آنکھیں ۔۔۔ ایک ایک نقوش ۔۔۔  لیکن اس وقت کو کیا سوچ رہی تھی ؟! 

وہ اسے سختی سے چھوڑ چکا تھا ۔۔ تعبیر کا سر بیڈ کے کراؤن سے لگا وہ سسکی تھی ۔۔۔

وہ جانے کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹا جب تعبیر نے اسکا ہاتھ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے تھاما  وہ سنجیدگی سے رکا تھا اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آخر کیوں روک رہی تھی اسے ۔۔۔

مبارک ہو آپ کو ۔۔۔ آپ میرا سب سے بڑا خوف بننا چاہتے تھے ناں ۔۔۔ آپ بن گئے سر ۔۔۔ میرا سب سے بڑا ڈر ۔۔۔ جو مجھے موت کے قریب لے جا کر ایکدم سے پیچھے کھینچ لیتا ہے ۔۔۔ مجھے زندگی اور موت کے بیچ رکھتا ہے ۔۔۔ 

وہ سسکتے ہوئے بولی 

مرجان نے سختی سے آنکھیں بھینچی تھی ۔۔۔ کچھ دیر وہ اس سے آنکھیں ملانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ۔۔۔ مگر پھر نفرت سے اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کمرے سے جا چکا تھا ۔۔۔

تعبیر نے ہونٹوں کو سختی سے کچلا اور روتے ہوئے کشن میں سر دیا ۔۔۔ کشن نے اسکی  درد سے بھری چیخیں اپنے اندر سموئی تھی  

۔۔۔

۔۔۔

فائنلی ہینڈسم ، تم میرے ہونے والے ہو ۔۔۔ صرف میرے ۔۔۔ زونی نے موبائل پر مرجان کی فوٹو دیکھتے کہا

تم میری ضد تھے ۔۔ میری طلب ۔۔۔ تمھیں کب سے پا لینا چاہتی تھی میری جان ۔۔۔  اب اور دوری نہیں ۔۔۔

تم میرے ہو صرف میرے ۔۔۔

تمہاری انکھیں ۔۔۔ افف خدا کتنی فرصت سے بنایا ہو گا تمھیں مرجان ۔۔۔ زونی نے موبائل کو سینے سے لگاتے ہوئے کھلکھلا کر کہا

دیوانی ہوں میں تمہاری مرجان ۔۔۔ کئی سال ویٹ کیا ہے اس دن کے لئے ۔۔۔ میری انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی ۔۔۔ مرجان کاظمی ۔۔۔ میرے بن جاؤ ۔۔۔ 

وہ اسکی فوٹو سینے سے لگا کر سو گئی تھی  

۔۔۔۔

۔۔۔۔

رات 2 بج کر 30 منٹ :- 

فارم ہاؤس :- 

تعبیر فرزانہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسکے سہارے باہر آئی تھی ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گارڈز کو کچھ سمجھا رہا تھا ۔۔۔

فارم ہاؤس کے گیٹ کے ٹھیک سامنے پانچ گاڑیاں کھڑی تھی ایک بلیک مرسیڈیز تھی جسکے آگے اور پیچھے دو کاریں تھی جو شاید سیکیورٹی کی تھی ۔۔۔

چلیں مس ... گارڈ نے تعبیر کے برابر رک کر کہا تعبیر نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا جو مرسیڈیز میں بیٹھ رہا تھا ۔۔۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے پیچھے مڑا تھا ایک سرد سی نظر اس نے تعبیر پر ڈالی تھی ۔۔۔

وہ ہونٹ بھینچتی ہوئی پزل سی گارڈ کے پیچھے چل دی تھی ۔۔۔ گارڈ مرسیڈیز کا پچھلا دروازہ کھول چکا تھا ۔۔۔ تعبیر کی دھڑکن بڑھی تھی ۔۔۔ وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی مرسیڈیز میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔

وہ نہیں جانتی تھی کہاں جانا ہے کیا ہونے والا ہے ۔۔۔ اسے بس حکم دیا گیا تھا کہ ہم چل رہے ہیں اور وہ  کسی قیدی غلام کی طرح سر کو خم دیتی ہوئی حکم پر عمل پیرا پو بیٹھی تھی۔۔۔

وہ فرنٹ سیٹ پر شان سے براجمان تھا ۔۔۔

آگے کی دو گاڑیاں اسکے اشارے پر چلی تھی ۔۔۔ تعبیر کے دل میں بےچینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔ نہ جانے کیوں ۔۔۔

اب راستہ سنسان ہو چکا تھا  یہاں آبادی بالکل نہیں تھی چاروں طرف اندھیرا تھا سڑک پر بس گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس جل رہی تھی 

رکو  ! 

وہ کوئی آواز محسوس کرتے ہوئے کار رکوا چکا تھا

یکدم کار کو بریک لگی تھی

 ۔۔۔  تعبیر کا دل شدت سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔ 

ڈیم اٹ ۔۔ Get out of the car immediately !!

ڈرائیور مرجان کی کال پر کار روکتے ہوئے باہر نکل کر اسکی سائڈ کا گیٹ کھول چکا تھا ۔۔۔

بیپ ۔۔ بیپ ۔۔۔ بیپ ۔۔

تعبیر کا دل حلق میں آیا تھا ۔۔۔

وہ جلدی سے کار سے نکلتے ہوئے تعبیر کو جھٹکے سے کار سے نکال چکا تھا ۔۔۔۔

بیپ ۔۔۔ بیپ ۔۔۔ بیپ ۔۔۔ بیپ ۔۔۔

سامنے اور پیچھے کی دو کاریں بلاسٹ ہوئی تھی ۔۔۔ 

تعبیر نے خوف سے  بھاگتے ہوئے آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔  مرجان نے اسے زوردار جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا تھا 

Beeeeeeeep ...

انکے ٹھیک پیچھے مرسیڈیز بلاسٹ ہوئی تھی ۔۔۔ اندھیرے میں 5 جلتی ہوئی گاڑیوں نے دن سی روشنی پیدا کر دی تھی 

ڈرائیور نے فوراً فون نکال کر کہیں کال کی تھی ۔۔۔ 

جبکہ ان پر ایکدم سے چاروں اطراف سے فائر ہوئے تھے ۔۔۔  ڈرائیور سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ساکت ہو کر سڑک کے بیچ و بیچ گرا تھا ۔۔۔

تعبیر اسکے ساکت وجود کو دیکھ کر چیخی ۔۔۔

وہ حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے اسے لیکر کسی چیز کے آسرے میں آنا چاہتا تھا چاروں طرف سے بلیک سوٹ میں ملبوس گارڈز نے ان پر فائرنگ کی تھی ۔۔۔

ہم مر جائیں گے ۔۔۔ہمیں مار دیں گے سب ۔۔۔۔ تعبیر نے روتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر کہا 

وہ ایک درخت کے  چوڑے تنے کی پناہ میں تھے 

وہ سنجیدگی سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے اسے اپنے  سینے سے لگا گیا تھا ۔۔۔

ہمیں مار دیں گے ۔۔۔ ہم نہہں بچیں گے سر ۔۔۔

وہ اسکا کوٹ مٹھی میں مظبوطی سے پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ کوائٹ ۔۔ رونا بند کریں۔۔۔

نہیں ۔۔۔ ہم نہیں بچیں گے ۔۔۔

وہ روتے ہوئے اسکے کوٹ میں سر چھپا چکی تھی اور وہ فرار ہونے کے راستے کی تلاش میں تھا ۔۔۔

فائرنگ بند ہو گئی تھی

مرجان کاظمی ۔۔۔

دونوں نے آواز کی سمت دیکھا تھا۔۔۔

اگر تم چاہتے ہو یہ لڑکی یہاں سے زندہ سلامت واپس جائے تو سرینڈر کر دو ۔۔۔ اور یاد رہے کوئی ہوشیاری نہیں ۔۔۔ ہمارا ٹارگٹ تم ہو ۔۔۔ ہمارا ہدف یہ لڑکی نہیں اگر تم چاہتے ہو یہ زندہ سلامت یہاں سے واپس جائے تو فوراً سرینڈر کر دو اور خود کو ہمارے حوالے کر دو ۔۔۔۔

تعبیر نے اسکے کوٹ کو اور مظبوطی سے پکڑا تھا ۔۔۔

نہیں ہمیں نہیں جانا ۔۔۔ ہم آپکے ساتھ رہیں گے ۔۔۔

وہ ہونٹ بھینچتی ہوئی اسکی گرے آنکھوں میں دیکھتے بولی تھی 

جیسا کہہ رہا ہوں ویسا کرو ۔۔۔  یہاں سے چلی جاؤ ۔۔۔۔ وہ اسے خود سے الگ کرتے ہوئے سنجیدگی سے ان لوگوں کی طرف دیکھتے گویا ہوا 

نہیں ۔۔۔  ہم نہیں جائیں گے ۔۔۔ ہم آپکے ساتھ رہیں گے ۔۔۔

مار دیں گے وہ تمھیں  بھی ۔۔۔

اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ اسے سمجھا رہا تھا جب کہ وہ سر کو ناں میں جنبش دیتے ہوئے رو رہی تھی 

مرجان کاظمی ۔۔۔ 

تمہارا وقت ختم ہوا میں صرف تین تک گنوں گا اگر تم وہاں سے باہر نہیں آئے اور خود کو ہمارے حوالے نہیں کیا تو ہم اس لڑکی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔۔۔

وہ سرعت سے اٹھا تھا ۔۔۔  

نہیں ہمیں اکیلا مت چھوڑیں ۔۔۔ وہ گھبرا ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ چکی تھی 

جیسا کہہ رہا ہوں کرو ۔۔۔ 

وہ سنجیدہ ہوا ۔۔۔

تعبیر نے دھیرے سے اسکا ہاتھ چھوڑا تھا ۔۔۔

Guards ...  Put down the guns ...

وہ سرینڈر کر رہا ہے ۔۔۔

کمانڈ ملتے ہی گارڈز نے بندوقیں نیچے کی تھی ۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ اٹھائے سنجیدگی سے درخت کی آڑ سے نکلا تھا اسکے پیچھے مخالف سمت میں چلتی تعبیر ڈگمگاتے قدموں کیساتھ اس سے ہر قدم کیساتھ دور جا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے گارڈز کو دیکھ رہا تھا جو اسکے سرینڈر کرنے پر بےحد حیران تھے ۔۔۔

وہ چلتے ہوئے گارڈز کے بالکل سامنے رکا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

Kill the girl  ۔۔۔۔۔

تعبیر کے قدم جم سے گئے تھے ۔۔۔

مرجان کے مل جاتے ہی کمانڈر ان چارج نے چال بدلی تھی ۔۔۔۔ 

ایک گارڈ نے  تعبیر کے  سر پر گن رکھی تھی 

مرجان نے خونخوار نظروں سے اس گارڈ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

If you break your promise, so will I. 

وہ کڑک دار لہجے میں کہتے ہوئے کوٹ کی پاکٹ سے دو پسٹل نکالتے ہوئے گارڈ پر فائر کر چکا تھا

خاموش فضا میں دو گولیاں ایک ساتھ چلی تھی ۔۔۔

خون کا ایک فوارہ کمانڈر کے سر کے بیچ و بیچ سے نکلا اور وہ ساکت ہو کر زمین پر گرا ۔۔۔ جبکہ دوسری گولی اس گارڈ کو سینے میں لگی تھی جو تعبیر پر گولی چلانے والا تھا ۔۔۔  گارڈز میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا ۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں پسٹل لئے تعبیر کی طرف تیزی سے بڑھا تھا جو بیچاری گارڈ کے مر جانے پر صدمے سے ماتھا پیٹنے کو تیار کھڑی تھی ۔۔۔

اسکے پیچھے فائرنگ کی بوچھاڑ ہوئی تھی وہ تیزی سے تعبیر کو کھینچتے ہوئے ایک پتھر کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔

آپ نے مار دیا انکو ۔۔۔ وہ خوف سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے اسے گھور گئی تھی ۔۔۔

اگر اب تم چپ نہ ہوئی میں تمھیں بھی انکے پاس پہنچا دوں گا ۔۔۔ وہ مصنوعی غصے سے اسے ڈرا چکا تھا۔۔۔ 

وہ مکمل چپ ہو گئی تھی

یہاں سے ایک انچ مت ہلنا ۔۔۔ اسے حکم دیتے ہوئے۔۔۔۔ وہ پسٹل لوڈ کرتے ہوئے جلتی ہوئی گاڑیوں کی طرف بڑھا تھا

🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂

رکو ۔۔۔۔

نیشال جو دبے پاؤں کچن سے نکل رہی تھی نجم کی آواز پر رکی تھی ۔۔۔

آج پھر تم  اپنے ہی گھر میں چوری پر اتر آئی ہو ۔۔۔

نیشال نے جلدی سے کیک کی پلیٹ اپنے پیچھے چھپائی تھی اور اسکی طرف آنکھیں پھیلاتے ہوئے مڑی تھی 

آپکی پرابلم کیا ہے بھائی؟ میں جب بھی کچن آؤں گی کیا چوری کی نیت سے آؤں گی یا کچھ کھانے ہی آؤں گی ؟ نیشال نے تیکھے لہجے میں کہا

تو کچن میں اور کس نیت سے آتے ہیں ؟ وہ ٹشو اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے ہنسی دبا کر بولا 

نیشال نے ٹشو کو گھورا جس پر وہ پاکٹ سے موبائل نکالتے ہوئے اسے اسی کی شکل دیکھا چکا تھا ۔۔۔ اسکے ہونٹ کیک سے بھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔

مر گئی ۔۔۔

وہ ٹشو سے منہ صاف کر چکی تھی ۔۔۔

یہ پیچھے کیا چھپایا ہے ۔۔۔ نجم نے ایک آئی برو اٹھایا

یہ وہ۔۔۔ علیزے آپی کو بھوک لگی ہے ۔۔۔ سائڈ پر ہٹیں مجھے انکے لئے کچھ کھانے کو لے جانا تھا ۔۔۔

بہانہ بناتے ہوئے وہ فوراً ہوا ہوئی

نجم ہنستے ہوئے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔

🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂

بادل زور دار گرج کیساتھ بارش کی پیشگوئی کر چکے تھے ۔۔۔

ٹھنڈی ہوا چل پڑی تھی 

کہاں گئے وہ دونوں ڈھونڈو ۔۔۔ ورنہ آج باس ہمیں نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔ 

گارڈز انہیں ڈھونڈنے کے لئے علیحدہ ہو گئے تھے ۔۔۔ 

وہ ساکت پڑے گارڈ تک پہنچا تھا ۔۔۔ اسکی AKM گن اٹھاتے ہوئے اسنے اسے لوڈ کیا تھا ۔۔۔

تعبیر نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا جو پسٹل پاکٹ میں رکھتے ہوئے دوسری AKM گن پر میگ لگا رہا تھا ۔۔ 

وہ دونوں گن اٹھاتے ہوئے ایک پتھر اٹھا کر مخالف سمت میں ڈال چکا تھا۔۔۔

میں نے وہاں آہٹ سنی ۔۔۔ کوئی تھا وہاں ۔۔۔

ایک گارڈ پتھر کی سمت دیکھتے ہوئے بولا

گارڈز آہٹ کی جانب متوجہ ہوئے تھے ۔۔۔۔

اسکے ارادے جان کر

تعبیر نے ڈرتے ہوئے دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھے تھے ۔۔۔۔

فائرنگ کی آواز خاموش فضا میں طوفان کی طرح گونجی تھی ۔۔۔  وہ دونوں گن سے بڑی مہارت سے فائرنگ کر رہا تھا جبکہ مخالف سمت سے آتی ہوئی فائرنگ پر ڈوج ہو رہا تھا ۔۔۔ کوور فائر کرتے ہوئے وہ جلتی کاروں کو کوور کی طرح استعمال کر رہا تھا ۔۔۔۔

بےوقوفو کیا کر رہے ہو دوسری سمت سے اٹیک کرو ۔۔۔  کچھ گارڈ کال پر دوسری جانب بڑھے تھے جس طرف تعبیر تھی ۔۔۔

Not A Chance ۔۔۔۔

وہ طنز سے کہتے ہوئے ایک گھٹنا ٹکاتے ہوئے انکی جانب متوجہ ہوا تھا

وہ رخ بدلتے ہوئے لیفٹ سائڈ پر پری فائرکر رہا تھا ۔۔۔ گارڈز واپس رائٹ سائڈ کی طرف دوڑے تھے ۔۔۔۔

ہم بری طرح پھنس چکے ہیں۔۔۔ گارڈ نے کال پر گھبرا کر بتایا تھا

 ایک بندہ نہیں مر رہا تم سے ایڈیٹ !! 

دوسری طرف سے  جواب سن کر وہ شخص آگ بگولہ ہو گیا تھا

تعبیر نے آدھ منہ کھول کر اسے دیکھا جو سب گارڈز پر بھاری پڑ رہا تھا ۔۔۔۔ 

🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂

کیا تم واقعی سوچتے ہو 20 لوگ اسے مار سکتے ہیں ؟ دو کو وہ پہلے ہی مار چکا تھا ۔۔۔ وہ سب مارے جائیں گے ۔۔۔ تم بےوقوف ہو ۔۔۔ سب گارڈز مار دے گا وہ ۔۔۔

گلاس میں ڈرنک ڈالتے ہوئے ایک اندھیرے میں ڈوبا ہوا وجود طنز سے ہنسا تھا ۔۔۔

تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو ۔۔۔

پہلا شخص حیران ہوا تھا ۔۔۔

میں بہت قریبی تعلقات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں وہ 20 تو کیا ایسے 100 لوگ بھی مار ڈالے گا ۔۔۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ کون ہے مگر تم واقف نہیں ہو ۔۔۔ اسکے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ۔۔۔ اسکی کوئی کمزوری نہیں ہے ۔۔۔  ڈرنک پیتے ہوئے وہ شخص اٹھا ۔۔۔

تو اب کیا کیا جائے ؟! پہلا شخص سوچ میں پڑ گیا تھا ۔۔۔

اسکی کمزوری ۔۔۔۔ گارڈز کے مطابق اسکے ساتھ ایک لڑکی دیکھی گئی ہے ۔۔۔ فائنلی مرجان کاظمی کی زندگی میں کوئی آ ہی گئی ۔۔۔ نظر رکھو اس پر ۔۔۔ اور ایسا کوئی قدم مت اٹھانا جس سے وہ تم تک پہنچ جائے ۔۔۔۔ یہ جان لو اگر وہ تم تک پہنچ گیا ۔۔۔ سب برباد ہو جائے گا ۔۔۔ تمھارے ٹکڑے کردیگا وہ ۔۔۔۔

ڈرنک کا خالی گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ اندھیرے کمرے سے جا چکا تھا پہلے شخص کو حیرت میں ڈال کر ۔۔۔۔

20 لوگوں کو بھی مار سکتا ہے ؟ آخر کون ہے یہ مرجان کاظمی ۔۔۔۔

پہلا شخص غصے سے ٹیبل پر سے ڈرنکس نیچے گراتے ہوئے چلایا 

🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂

وہ تو ہماری گاڑی کی طرف جا رہا ہے ۔۔۔

گارڈ نے خوف سے چیختے ہوئے سب کو اسکی طرف متوجہ کیا ۔۔۔

تو کیا ہوا ؟

دوسرا گارڈ لاپرواہی سے بولا تھا۔۔۔

گاڑی می۔۔۔۔ میں باس نے۔۔۔ مم۔۔۔ مشین گن رکھوائی تھی ۔۔۔۔ پہلا گارڈ گڑبڑا گیا تھا

کیا؟! 

باقی بچے کھچے گارڈز حیرت سے چونکے تھے ۔۔۔

وہ اب کسی کو نہیں چھوڑے ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔

گن ریلوڈ کی آواز پر وہ سب خوف سے مخالف سمت میں دوڑے تھے ۔۔۔۔ 

تعبیر حیرت سے پتھر کے پیچھے سے نکلی  

وہ گن پر سپریسر لگاتے ہوئے بھاگتے گارڈز کی طرف فائرنگ کر رہا تھا ۔۔۔

مار کے ہی چھوڑے گا کیا ۔۔۔ تعبیر نے چور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔۔۔

کچھ گارڈز زخمی ہو کر وہاں گرے تھے جبکہ کچھ بھاگ نکلے تھے ۔۔۔۔

بارش شروع ہو گئی تھی ۔۔۔ وہ مشین گن کار میں رکھتے ہوئے تعبیر کی جانب مڑا تھا ۔۔۔ 

وہ روتے ہوئے اسکے سینے سے لگی تھی ۔۔۔  بارش نے شدت پکڑی تھی ۔۔۔

ہم بچ گئے ۔۔۔

 تعبیر نے سر اٹھاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔۔

وہ اسکی  بےوقوفی اور معصومیت پر ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔۔ تعبیر نے چونک کر اسے دیکھا وہ ہنستا بھی تھا ؟؟ 

چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے ۔سنجیدگی سے کہتا۔۔ وہ کار کی طرف مڑا تھا ۔۔۔۔

تعبیر کو اپنے پیچھے آہٹ سنائی دی ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے پیچھے مڑی تھی ۔۔۔

ایک زخمی گارڈ جو نیچے گرا تھا پسٹل لوڈ کرتے ہوئے اسکا رخ مرجان کی طرف کر چکا تھا ۔۔۔۔۔

ســر !! 

تعبیر چیختے ہوئے اسکی سمت بھاگی تھی ۔۔۔ 

گولی چلنے کی آواز ویرانے میں گونجی ۔۔۔

وہ دونوں زمین پر گرے تھے ۔۔۔ وہ تعبیر کو تھامتے ہوئے گرا تھا۔۔۔ تعبیر نے  خوف سے آنکھیں بھینچی تھی  گارڈ نے اٹھتے ہوئے دوسری گولی مرجان کے کندھے پر ماری تھی ۔۔۔

وہ درر سے کراہتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے پسٹل سے گارڈ پر فائر کر چکا تھا ۔۔۔ گارڈ کراہتے ہوئے گرا تھا۔۔۔

مرجان نے تعبیر کو سہارے سے اٹھایا 

آہ !!

تعبیر بازو پکڑتے ہوئے درر سے آنکھیں بند کرتے ہوئے کراہ گئی تھی ۔۔۔

بارش  اور ہوا تیز ہو رہی تھی موسم خراب ہو چکا تھا

کچھ نہیں ہوا تم ٹھیک ہو ۔۔۔ مرجان نے اسے سہارہ دیتے ہوئے اٹھایا تھا

تعبیر  نے اپنے بازو کی طرف دیکھا اسکی کہنی پر  چوٹ آئی تھی اور خون نکل رہا تھا ۔۔۔

اسکا مطلب دونوں گولیاں مرجان کو لگی تھی ؟!

تعبیر نے روتے ہوئے اسے دیکھا جو اسے اٹھاتے ہوئے اپنا سیدھا بازو پکڑے اٹھا تھا۔۔۔

خون ۔۔ خون نکل رہا ہے سر ۔۔۔ وہ کمزور دل لڑکی خون دیکھتے ہی فوراً رو گئی تھی 

کچھ نہیں ہوا ۔۔۔ چلو ۔۔۔ اسکی کلائی تھامتے ہوئے وہ گاڑی کی طرف بڑھا

لیکن ۔۔۔ آپ کو گولی لگی ہے ۔۔۔

تعبیر نے کانپتی آواز میں کہا ۔۔۔ روتے ہوئے اسکی آواز بیٹھ گئی تھی

آپ۔۔۔ آپ  ٹھیک  نہیں ہیں ۔۔۔ میں کیا کروں ؟! 

اسکا بازو دیکھتے ہوئے وہ روتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔۔۔

وہ اسے اپنے درد پر  بےقابو روتا دیکھ کر حیران تھا اتنے ظلم کے بعد بھی وہ اسکی اتنی پرواہ کیوں کرتی تھی ؟؟.

تعبیر نے دوپٹہ گلے سے نکالتے ہوئے اسکے بازو پر رکھا ۔۔۔ وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

ہم کیا کریں گے اب ۔۔۔ ہمیں اسپتال جانا چاہیے ۔۔۔ لیکن میں کیسے لے جاؤں ؟! اللہ ۔۔۔ میں کیا کروں گی ۔۔۔۔ وہ مسلسل رو رہی تھی اور اسے زخم دیکھ کر ٹوٹ رہی تھی ۔۔۔

وہ ڈھے سا گیا تھا۔۔۔

اسکا سر اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے وہ بری طرح رو رہی تھی ۔۔۔

🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂

دروازے پر دستک سن کر ژالے اٹھی اور آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولا 

ندیم ؟! 

وہ اسے دیکھ کر چونکی 

کیا سر یہاں آئے ہیں میم ؟! 

وہ نظریں جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔

نہیں کیا بھیا ؟! وہ تو نہیں آئے ؟! آدھی رات کو وہ یہاں کیا کرنے آئیں گے ؟! ژالے نے حیرانگی سے پوچھا

میرا مطلب گھر سے تھا ۔۔۔ 

ندیم نے اسکی بےوقوفی پر ماتم کیا

نہیں گھر بھی نہیں آئے ۔۔۔ 

ژالے نے منہ بسورا

اوکے ۔۔۔

وہ واپس جانے کے لئے مڑا ۔۔۔

سڑیل ۔۔۔

ندیم رکا تھا اسکا دیا خطاب سن کر ۔۔۔ 

میرا مطلب تھا ایریل۔۔۔ وہ مجھے یاد آیا میں نے کل بہت کپڑے دھونے ہیں ۔۔۔ وہ دروازہ بند کرتے ہوئے زور سے ہنسی تھی جس پر ندیم نے دروازے کو گھوری سے نوازا تھا 

سر اگر گھر نہیں تو کہاں ہیں ؟ کہیں کوئی حادثہ ۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے جلدی سے لائونج میں کھڑی کار میں بیٹھا تھا ۔۔۔

مجھے خود جانا چاہیے تھا سر کیساتھ ۔۔۔ وہ خود کو کوستا ہوا کار کو بھیگے روڈ پر دوڑا چکا تھا ۔۔۔

وہ اچھے سے جانتا تھا وہ اس وقت بھی ڈرائیو کر سکتا تھا مگر وہ اسے آزمانے کے لئے اس ارادے کو ترک کر چکا تھا ۔۔۔

سس۔۔۔سر آپ ۔۔۔ آپ ۔۔ مجھ سے بولیں نہ ۔۔۔ خاموش مت رہیں ۔۔۔

وہ اسکے بھیگے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے بھرائے لہجے میں بولی تھی

وہ دھیرے سے آنکھیں کھول چکا تھا ۔۔۔

ہم اسپتال جائیں گے ۔۔۔ میں ۔۔ میں لیکر جاؤں گی ۔۔۔ وہ اسکا بازو دھیرے سے تھامتے ہوئے اسے اٹھاتے ہوئے بولی مگر بھلا وہ  تتلی جیسی لڑکی کیسے سمبھال سکتی تھی اسے ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے اسے اپنی خاطر روتا پیٹتا دیکھ رہا تھا ۔۔۔ 

بمشکل وہ اسے کھڑا کر چکی تھی ۔۔۔ 

مجھے ۔۔۔ مجھے راستہ نہیں پتا ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے آس پاس دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

دور سے آتی  روشن شے دیکھ کر وہ اور سہمی تھی

ندیم نے مرجان کی حالت دیکھ کر فوراً کار روکی اور باہر آیا ۔۔۔

وہ دونوں بری طرح بھیگے ہوئے تھے ۔۔۔۔ 

سر۔۔ یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔ ندیم نے مرجان کو سہارہ دیتے ہوئے پریشانی سے پوچھا

وہ تعبیر کی طرف سنجیدگی سے دیکھتا ہوا کار میں بیٹھا تھا جبکہ ندیم نے مزید سوال پوچھنے سے گریز کیا تھا۔۔۔

تعبیر بیک سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔۔

فارم ہاؤس چلو ندیم ۔۔۔ !

اسکے حکم پر تعبیر اور ندیم دونوں چونکے تھے ۔۔۔

مگر آپکو گولی۔۔۔

میں نے تم سے صلاح نہیں مانگی ۔۔۔ 

اسکے روکھے لہجے پر تعبیر خاموش ہوئی تھی ۔۔۔

ندیم کار تیزی سے دوڑاتے ہوئے فارم ہاؤس تک لایا تھا ۔۔۔ 

وہ خود کار کا دروازہ کھولتے ہوئے نیچے اترا تھا ۔۔۔ گارڈز اسکی حالت میں دیکھ کر پریشان ہوئے تھے ۔۔۔

وہ کوٹ اتار کر نیچے پھینکتا ہوا تعبیر کا دوپٹہ بازو پر باندھ چکا تھا ۔۔۔ 

مجھے ایک ایک شخص کی ڈیٹیل چاہیے ۔۔۔ کل صبح ۔۔۔ وہ دو ٹوک لہجے میں کہتا ہوا فارم ہاؤس کے اندر جا چکا تھا ۔۔۔

آپ اندر لے جائیں ۔۔۔ ندیم تعبیر کو فرزانہ کے حوالے کرتے ہوئے فوراً مرجان کے پیچھے گیا تھا

۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

بیٹا خیال سے کرو ۔۔۔ فرزانہ نے فرسٹ ایڈ بوکس تعبیر سے لیتے ہوئے کہا جو مرجان کا سوچ کر غلطی سے اینٹی سیپٹک گرا بیٹھی تھی

آپ پلیز جا کر پتا کریں ناں سر اب کیسے ہیں ؟ تعبیر نے فرزانہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

بیٹا میں ایسے تو نہیں جا سکتی ۔۔۔

دروازہ کھلنے پر وہ دونوں دروازے پر آئے ندیم کی طرف متوجہ ہوئی تھی

سر نے بلایا ہے آپکو ۔۔۔ 

تعبیر جلدی سے اٹھی تھی

بیٹا یہ تو لگوا لو ؟ فرزانہ کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ فوراً ندیم کے ساتھ گئی تھی 

کیا ڈاکٹر آ گئے ہیں ؟ تعبیر کے سوال پر ندیم نے ہونٹوں کو سختی سے بھینچا 

نہیں سر نے منع کیا ہے ۔۔۔ وہ دروازے پر رکتے ہوئے بولا 

آپ نہیں آ رہے ؟

 تعبیر نے اسے پریشانی سے دریافت کیا

نہیں ۔۔۔ 

وہ کہہ کر واپس لوٹ گیا تھا ۔۔۔

تعبیر نے دھڑکتے دل کو سمبھالا اور دروازہ کھولا سامنے کا منظر اسکی  روح کو خطا کرنے کیلئے کافی تھا 

وہ ایکسٹریکٹر سے اپنے کندھے پر موجود گہرے گھاؤ سے گولی نکال چکا تھا ۔۔۔

تعبیر کے قدم ڈگمگائے تھے ۔۔۔ وہ بیچاری وہیں جم گئی تھی 

وہ بینڈیج کرنے کے بعد شرٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کر چکا تھا ۔۔۔ کانپتے وجود کیساتھ وہ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے اسکا طائرانہ جائزہ لے رہا تھا تعبیر کی ٹانگیں اب بھی کانپ رہی تھی

وہ یکدم اٹھا جس ہر تعبیر نے خوف سے جھٹکا کھایا ۔۔۔ مگر خود کی بےوقوفی پر وہ شرمندگی سے نظریں جھکا چکی تھی ۔۔۔ 

تم جا سکتی ہو ۔۔۔

وہ فرسٹ ایڈ کٹ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے سرد لہجے میں گویا ہوا

آپ ۔۔۔ اب ۔۔۔ کیسے ہیں ؟ 

وہ اٹک اٹک کر کہتی ہوئی فوراً نظریں جھکا گئی تھی

تمہارا کیا خیال ہے ؟

وہ  مغرور الٹا سوال کر گیا تھا

آپ اگر ڈاکٹر کو بلا لیتے تو بہتر ہوتا ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے بولی تھی

اچھا اور اب میں تم سے آرڈرز لوں گا ؟ وہ اسکے قریب آ کر رکا تھا

نہیں ۔۔۔ سوری !! 

وہ ہونٹ بھینچتی ہوئی گڑبڑا گئی تھی 

کل تم میرے ساتھ میرے گھر چل رہی ہو اور وہاں تم فرزانہ کی بیٹی بن کر رہو گی ۔۔۔ وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے بولا جس پر تعبیر کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگا تھا 

اگر تم نے تھوڑی سی بھی ہوشیاری دیکھائی۔۔ اور کسی سے اس بارے میں کچھ کہا ۔۔۔ تمہاری یہ بڑی بڑی آنکھیں نکال کر ان سے گوٹیاں کھیلوں گا۔۔۔ وہ  دھمکاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا 

تعبیر کی گردن پر گٹھلی سی نمودار ہوئی اور پھر غائب ہو گئی ۔۔۔ گھبراہٹ سے اسے پسینے چھوٹ رہے تھے۔۔۔

جج ۔۔۔جی !!

وہ سٹپٹائے لہجے میں بولی

اور کسی سے بھی بےوجہ گفتگو سے پرہیز کرو گی ورنہ ۔۔۔

جج۔۔۔جی 

وہ جلدی سے بولی اسکی دھمکی سے بچنے کے لئے ۔۔۔

وہ فرسٹ ایڈ کٹ اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے اسے جانے کا اشارہ کر چکا تھا۔۔۔

وہ ۔۔۔ ہم

تعبیر اسکی گرے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گھبرا کر چپ ہوئی تھی 

ندیم دروازے پر ناک کرتے ہوئے اندر آیا تھا ۔۔۔۔ اسکے ہاتھ میں کافی کا کپ تھا ۔۔۔ 

مرجان نے سپاٹ نظروں سے اسے کٹ واپس رکھتے ہوئے دیکھا 

مرجان اس سے کافی کا کپ لے چکا تھا تعبیر فرسٹ ایڈ کٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کمرے سے باہر آئی تھی ۔۔۔ اسکا دل دھک دھک کر رہا تھا

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

اب تک ہم صرف مرجان کاظمی پر نظر رکھ رہے تھے ۔۔۔ مگر اب ہم اسکی پوری فیملی پر نظر رکھیں گے ۔اور خاص طور پر وہ لڑکی جو اسکے ساتھ تھی۔۔۔۔ کانفرنس روم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ہمیشہ کی طرح آج پھر اسکرین پر مدھم روشنی میں ویڈیو چل رہی تھی ۔۔۔

یہ منور کاظمی ہے ۔۔۔ سہیل رضا کاظمی سے چھوٹا بھائی ۔۔۔ مرجان کا بڑا چاچا ۔۔۔ 

اپنی بیوی کو چھوڑ کر آسرے کے نام پر سہیل کی بیوی سے نکاح کر کے بیٹھا ہے مگر کہانی کیا ہے وہ راز ہے !!

 سہیل نے دوسری شادی کی تھی ،، وہاں سے دو اولاد ہوئی

ایک وہ مرجان کاظمی اور دوسری اس سے چھوٹی بہن ژالے کاظمی ۔۔۔۔

پہلی شادی میں ، سہیل کے تین بچے ہیں ۔۔۔ 

علیزے۔۔۔ سب سے بڑی بیٹی ، پھر نیشال ،، اور پھر شان ۔۔۔

جبکہ منور کے صرف دو بچے ہیں ۔۔۔

زونیرا اور نجم کاظمی ۔۔۔

سب خاموشی سے اسکی بات سن رہے تھے 

سب سے بڑا بھائی ۔۔۔ اور اسکی فیملی فائر ایکسیڈنٹ میں جل کر مر گئے مگر یہ لڑکا اور اسکی بہن بچ گئے منور نے انہیں کیوں گھر رکھا ہے کوئی نہیں جانتا ۔۔۔۔ شاید بھائی کی اولاد کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے یا پھر مقصد کوئی اور ہم نہیں جانتے ۔۔۔ سب سے چھوٹا بھائی آغا ہے ۔۔۔ 

اسکے تین بچے ہیں ۔۔۔

دائم ۔۔۔ حرب اور ماریہ ۔۔۔۔

فلحال لندن میں مقیم ہیں ۔۔۔

اور یہ لڑکی جو آج رات دیکھی گئیں اسکے بارے میں سب پتا لگانا ہے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

اگلی صبح :- 

ندیم نے بیگ کار میں رکھتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔

ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہمیں گھر کیوں لے جا رہے ہیں ۔۔۔ تعبیر نے فرزانہ کے سامنے دل کی بھڑاس نکالی 

بیٹا کوئی بہتری ہو گی ۔۔۔ کل جو کچھ ہوا اسکے بعد تمھیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔ فرزانہ نے اسے سمجھایا

ہم کیسے ایڈجسٹ کریں گے ۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گی ناں ؟! فرزانہ کا ہاتھ تھامتے وہ گھبرائی

ہاں بیٹا میں آپکے ساتھ ہی رہوں گی ۔۔۔ سب بہت اچھے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔۔۔

دونوں کار میں بیٹھی تھی ۔۔۔

وہ ٹیرس پر کھڑا سنجیدگی سے انہیں جاتا دیکھ رہا تھا ۔۔۔ تعبیر نے سرعت سے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔ وہ اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

ندیم نے کار سٹارٹ کر تھی ۔۔۔ تعبیر مسلسل اسے نظروں سے دور جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

اور پھر وہ نظروں سے کہیں دور گم گیا تھا ۔۔۔

اسلام و علیکم انکل !

وہ فون کان پر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا

وعلیکم السلام بیٹا آپ کہاں ہو ؟ اور کل رات آپ واپس نہیں آئے سب خیریت تھی ناں ؟ 

منور صاحب نے دریافت کرنا چاہا

سب خیریت ہے ۔۔۔آج بزنس میٹنگ کیلئے اسلام آباد جا رہا تھا سوچا آپکو بتا دوں ۔۔۔ سرد لہجہ تھا 

بیٹا فلحال کینسل کر دو ۔۔۔ آغا انکل آ رہے ہیں علیزے اور دائم کی انگیجمینٹ کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ 

سوری میں شرکت نہیں کر سکتا !!

کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے وہ فون پاکٹ میں رکھتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔

بیڈ پر پڑا سرخ دوپٹہ دیکھ کر اسکے قدم رکے تھے ۔۔۔ آہستگی سے دوپٹہ اٹھاتے ہوئے اسنے سینے سے لگایا تھا

I will find you Zara ۔۔۔۔

دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے وہ بیگ اٹھاتے ہوئے اس میں دوپٹہ رکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔۔

گارڈ پہلے ہی اسکا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گلاسز لگاتے ہوئے کار میں بیٹھ کر ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

ندیم نے کار کاظمی مینشن کے سامنے روکی تھی ۔۔۔ فرزانہ بیگ نکالتے ہوئے کار سے اتری تعبیر نے گھبراتے ہوئے پورے محل نما گھر کا جائزہ لیا ۔

بیٹا ۔۔۔

جج۔۔جی 

فرزانہ کیساتھ وہ اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔

میں تو کہتی ہوں اب علیزے کو چھیڑنا بند کر دینا چاہیے بیچاری لال ہو رہی ہے ۔۔۔ زونی نے ماریہ کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے تالی بجائی جبکہ علیزے نے شرم سے منہ پھیرا نیشال مٹھائی کھانے میں مصروف تھی جبکہ ژالے آفرین بیگم کیساتھ کچن میں ہاتھ بٹا رہی تھی 

یہ کون ہے اب ۔۔۔

ماریہ نے فرزانہ کیساتھ اندر آتی تعبیر دیکھ کر منہ بسورا 

اوہ یہ ۔۔۔ یہ میڈ کی بیٹی ہے ۔۔۔ کام کے لئے ہی آئی ہو گی ۔۔۔

زونی نے ناک سے مکھی اڑائی 

پیاری ہے نہیں ؟! علیزے نے اسکے معصوم نقوش پڑھتے ہوئے کہا جبکہ زونی اور ماریہ ایک دوسرے پر گری تھی ہنستے ہوئے ۔۔۔۔

فضول ہے تم لوگوں کیساتھ بیٹھنا بھی ۔۔۔ علیزے اٹھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

فرزانہ تم آ گئی ؟

کشمالہ بیگم نے فرزانہ کیساتھ کھڑی تعبیر کا طائرانہ جائزہ لیا

یہ میری بیٹی ہے ۔۔۔  فرزانہ نے جلدی سے کہا 

اوہ ۔۔۔ تو اچھی بات ہے گھر میں کام بہت زیادہ ہیں ہاتھ بٹا دے گی تمہارا ۔۔۔

تعبیر نے فرزانہ بیگم کو دیکھا جو ہمدردی کی نظروں سے اسے دیکھ گئی تھی مطلب یہاں بھی اس بیچاری کو سکون سے نہیں بیٹھنے دینا چاہتا تھا وہ ظالم۔۔۔

  کشمالہ بیگم کہتے ہوئے اسیسٹینٹ کیساتھ ڈیکوریشن ڈسکس کرنے لگی کیونکہ آج علیزے اور دائم کی انگیجمینٹ تھی 

سروینٹ کوارٹر اس طرف ہیں بچی ۔۔۔ زونی نے تعبیر کا مزاق بناتے ہوئے اشارہ کر کے کہا ۔۔۔ 

فرزانہ تعبیر کو ساتھ لیکر چلی گئی تھی

تم جل کیوں رہی ہو اس سے ؟! ماریہ نے زونی کو کندھا مارتے ہوئے کہا

ارے کہاں ۔۔۔ میں اس میڈ کی بیٹی سے جلنے لگی میرا بھی کوئی اسٹینڈرڈ ہے ۔۔۔ زونی نے فخر سے کہا 

اففف ۔۔۔ ماریہ اسکی ادا پر ہنسی تھی ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

چھیڑ چھیڑ کر تنگ کر دیا ہے مجھے۔۔۔۔۔ علیزے اس سے پہلے چیختی دائم نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے دیوار سے لگایا ۔۔۔

بدتمیز یو فلرٹ کیا کر رہے ہو کسی نے دیکھ لیا تو ۔۔۔ علیزے نے اسکا ہاتھ منہ سے ہٹاتے ہوئے تنک کر کہا 

لو بھائی اپنے ہونے والے شوہر سے ایسے بات کرو گی ارے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی عزت ہوتی ہے ۔۔۔ دائم نے ہنسی دباتے ہوئے کہا 

تم جیسے فلرٹ فوجی میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھے پہلے تم میری بہن نیشال پر لائن مار رہے تھے جب پتا چلا میں علیزے ہوں تو میرے پیچھے لگ گئے ۔۔۔ علیزے نے تیوری چڑھائی 

ارے تو علیزے سمجھ کر اس سے فلرٹ کیا دیکھو میری نیت کتنی صاف ہے ۔۔۔ وہ ایک آنکھ دباتے ہوئے شرارت سے بولا 

ہٹو جانے دو مجھے ۔۔۔ علیزے نے احتجاج کیا 

ارے بابا دیکھ تو لینے دو لندن سے یہاں تک آیا ہوں جی بھر کر دیکھ تو لوں ؟  وہ اسے چھیڑتے ہوئے گویا ہوا جبکہ علیزے لال ہوئی تھی شرم سے ۔۔ 

ویسے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میری علیزے نیشال جتنی اتنی موٹی تو نہیں تھی۔۔۔ یا پھر شاید کھا کھا کر ہو گئی ہو ۔۔۔ وہ اسے برابر چھیڑ رہا تھا اور وہ شرما رہی تھی 

ارے امی آپ۔۔۔  

دائم جلدی سے پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔ اور علیزے موقع پا کر فوراً ہوا ہوئی تھی جب تک دائم اسکی چالاکی سمجھا تھا وہ بھاگ گئی تھی ۔۔۔۔

وہ ہلکا سا مسکرایا تھا اسکی شرارت پر 

۔۔۔۔

۔۔۔۔

وہ جو فلائٹ لینے کے لئے ابھی پہنچا تھا موبائل کی بیل بجنے پر سائڈ پر آیا اور اسکرین پر زونی کا نام دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوا تھا 

کیا چاہیے اب ؟

وہ اکتائے لہجے میں بولا تھا جبکہ زونی کا دل چکنا چور ہوا تھا 

میں آپکو فون بھی نہیں کر سکتی اتنی حق بھی نہیں مجھے ؟ زونی نے خفا لہجے میں کہا 

نہیں ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے آس پاس دیکھتے ہوئے گویا ہوا تھا

لیکن میرا حق ہے ۔۔۔ اور صرف میرا حق ہے ۔۔۔ زونی نے محبت سے کہا 

کیا بکواس کر رہی ہیں آپ ؟

 وہ غصہ کرنے کے لئے تیار کھڑا تھا 

دیکھیں مرجان اب آپ مجھے دھتکار نہیں سکتے ۔۔۔ ہماری انگیجمینٹ ہونے والی ہے آج ۔۔۔  ڈیڈا نے تم سے کچھ نہیں کہا ؟

وہ غصے سے مٹھی بھینچتے ہوئے کال ڈسکنیکٹ کر چکا تھا ۔۔۔ 

زونی نے حیرت سے فون کو دیکھا کال ڈسکنیکٹ ہو گئی تھی

سر فلائٹ ٹیک آف کے لئے ریڈی ہے آپکا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ گارڈ نے بیگ لیتے ہوئے کہا وہ سنجیدگی سے بیگ پر ہاتھ رکھ چکا تھا گارڈ رکا تھا

کینسل کر دو ۔۔۔

وہ دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوئے تیزی سے کار کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔ 

گارڈ نے فوراً اسکے حکم پر عمل کیا تھا ۔۔۔ 

وہ بغیر کچھ بولے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کار کو فل اسپیڈ میں سڑک پر دوڑا چکا تھا ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

وہ سڑک پر کھڑی ٹیکسی کا ویٹ کر رہی تھی آج اسکی بھی فلائٹ تھی ۔۔۔ 

گاڈ ۔۔۔ واٹ دا ہیل ۔۔۔ اس فضول گاڑی کو ابھی خراب ہونا تھا ۔۔۔ وہ کار کے ہوڈ پر مکا مارتے ہوئے غصے سے تنک کر بولی تھی 

سامنے سے آتی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ کر اسنے لفٹ کے لئے ہاتھ ہلایا تھا

جبکہ وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔

نہیں یہ کار میں نہیں جانے دوں گی ۔۔۔۔ میری فلائٹ مس ہو جائے گی ۔۔۔ وہ جلدی سے کار کے سامنے آئی تھی ۔۔۔۔

اچانک سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی لڑکی دیکھ کر اسنے فوراً بریکس لگائے تھے ۔۔۔ کار اس سے ایک انچ فاصلے پر رکی تھی 

وہ غصے سے سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے کار سے اترا تھا ۔۔۔

جبکہ وہ اسے کار سے اترتا دیکھ کر اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی ۔۔۔

اچانک سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی لڑکی دیکھ کر اسنے فوراً بریکس لگائے تھے ۔۔۔ کار اس سے ایک انچ فاصلے پر رکی تھی 

وہ غصے سے سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے کار سے اترا تھا ۔۔۔

جبکہ وہ اسے کار سے اترتا دیکھ کر اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی ۔۔۔

نظر نہیں آتا آپکو ؟ اگر بریکس نہ لگائے ہوتے تو مر جاتی ۔۔۔ وہ اسکے مقابل آتے ہوئے غصے سے بولا  جبکہ وہ آدھ منہ کھولے اسے کن اکھیوں سے تکنے میں مصروف تھی 

سنائی نہیں دیتا آپکو ؟

 اسکا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا 

آپ ۔۔۔ آپ  

اسے بولنے کے لئے لفظ کم پڑ رہے تھے ۔۔۔ وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے جزباتوں سے اسے دیکھ رہی تھی 

میں بہت بڑی فین ہوں آپکی ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ مجھے آٹو گراف ملے گا ؟! 

وہ جلدی میں اپنی فلائٹ کی ٹکٹ نکال کر اسکی طرف بڑھا چکی تھی جبکہ وہ جو غصے سے آتش فشاں کی طرح آگ برسانے کو تیار تھا اسکی بےوقوف حرکت پر حیران ہوا تھا

آپ میرے فیورٹ پرسن ہیں اس پوری دنیا میں نمبر ون۔۔۔ میں ہمیشہ سے آپ سے ملنا چاہتی تھی اور آج آپ مجھے مل گئے پلیز مجھے آٹو گراف دے دیں ۔۔۔ وہ بچپنے سے کہتی ہوئی اسے کوئی دماغی مریضہ لگی تھی 

تو کیا اس کے لئے بیچ سڑک میں کود جاؤ گی ؟! 

وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ جو مسلسل بغیر پلکیں جھپکائے اسے تک رہی تھی 

ہاں اگر مجھے پتا ہوتا تو  یہ آپکی ہی کسر ہو گی میں آپکی کار سے ٹکرا جاتی ۔۔۔ وہ خوشی سے چہک پڑی تھی جبکہ وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے غصہ ضبط کر گیا تھا 

اور پلیز ایک اور ریکویسٹ ہے مجھے ایئرپورٹ ڈراپ کر دیں میری فلائٹ چھوٹ  جائے گی ۔۔۔

وہ حیران تھا ۔۔۔ وہ غصے سے اسے سنا چکا تھا اور وہ بےوقوف اتنی محبت سے پیش آ رہی تھی 

بائے دا وے ۔۔۔ 

I'm Tabasum ... you can call me Zara ..

اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے وہ مسکرائی جبکہ اسکا نام سن کر اسکے دل کی دھڑکن بڑھی تھی ۔۔۔

اسکے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے اسکی نظر اسکی بریسلٹ پر پڑی تھی ۔۔۔ جس پر MZ کے لیٹرز تھے ۔۔۔

وہ لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کار کے ہوڈ سے آسرے لگا تھا ۔۔۔ اسکا دل نہیں مان رہا تھا وہ اسے مل گئی تھی

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

ہمارا پانڈا کیا کر رہا ہے  ۔۔۔

نجم کی آواز پر نیشال نے منہ گول گپہ بنایا تھا 

دیکھو لڑائی لڑائی معاف کرتے ہیں اور مجھے آپ سے بہت ڈر لگتا ہے اگر دوبارہ کبھی جان بوجھ کر مجھ پر گر گئی میرا تو خدا ہی حافظ ہو جائے گا اس لئے صلح کر لیتے ہیں ۔۔۔ نجم نے اسے برابر طعنہ مارا تھا وہ جو  اپنے اور علیزے کے لئے گجرے بنا رہی تھی  منہ پھلاتے ہوئے باریک تار اسکے ہاتھ میں چبھو چکی تھی

وہ چیختے ہوئے ہاتھ پیچھے کھینچ چکا تھا 

اپنی حد میں رہو ورنہ تمھاری ایک ایک پسلی توڑ دوں گی ،، اور خبردار جو مجھے پانڈا کہا تو ۔۔۔ وہ تیوری چڑھا کر بولی

اچھا دوستی نہیں ہو سکتی ؟ وہ انگلی منہ میں ڈالتے ہوئے درد سہہ کر بولا تھا ۔۔۔

نہیں کبھی بھی نہیں ۔۔۔ نیشال نے زبان نکالتے ہوئے منہ چڑھایا تھا

اب بھی نہیں ؟ وہ لارج سائڈ پیزا اسکے سامنے رکھتے ہوئے بولا جس پر نیشال کے پیٹ میں چوہوں نے اعلانِ جنگ کیا 

ہاں اب سوچ سکتی ہوں ۔۔۔ وہ پیزا اٹھاتے ہوئے مسکرا کر بولی 

نجم نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا جسے وہ مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ میں لیکر زور سے دبا گئی تھی ۔۔۔ 

یہ لڑکی میرا قیمہ کر دے گی ایک دن ۔۔۔ دل میں کہتا ہوا سرخ ہوتے ہاتھ کو پاکٹ میں ڈالتا ہوا وہ وہاں سے ہوا ہوا تھا۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔

کہاں تھی آپ ؟ 

دھیرے سے کہتے ہوئے وہ اسے محبت کی نظر سے دیکھ رہا تھا

پہچان لیا ؟

 وہ مسکرائی تھی اسکے محبت بھرے لہجے پر ۔۔۔

چودہ سال ہو گئے ۔۔۔ جانتی ہو ؟ میں یاد بھی ہوں ؟

 وہ سنجیدگی سے بولا تھا

بالکل ساتھ کھیلا کرتے تھے ایک ساتھ رہتے تھے ہمیشہ ریمیمبر ؟ 

اسکی مسکان اور گہری ہوئی تھی ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے چلتے ہوئے اسکے روبرو آیا تھا ۔۔۔

کیا ہوا اب بھی  کوئی شک ہے ؟ کچھ بھی پوچھ سکتے ہو مرجان۔۔ میں تمہاری زارا ہی ہوں ۔۔۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے مسکرائی ۔۔۔

وہ آنکھیں سکون سے بند کرتے ہوئے اسے سینے سے لگا چکا تھا 

Silly Boy ...

وہ ہنستی ہوئی اسے گلے لگا چکی تھی ۔۔۔

میں جانتا تھا آپ مل جائیں گی مجھے ایک دن ۔۔۔ 

اب ایئرپورٹ چھوڑ دو گے ؟ وہ طنزاً پیچھے ہوئی 

نیور ۔۔۔ 

وہ لب بھینچتے ہوئے دھیمے سے بولا 

میری فلائٹ ہے ۔۔۔ 

میری بھی تھی ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا

تھی ؟ وہ حیران ہوئی 

کینسل ہو گئی گھر فنگشن ہے ۔۔۔ چل رہی ہو ؟ وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھ گیا تھا

کس حق سے ۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی

اسکے سوال پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا 

ہاں بتاؤ بھی کس حق سے اور مجھے ہی کیوں ڈھونڈ رہے تھے ۔۔۔ وہ آئی برو اچکاتے ہوئے شرارت سے پوچھ رہی تھی

کیا ہر بات بتانی ضروری ہے ؟ وہ مسکرایا تھا 

ہاں جب تک بتا نہیں دیتے میں تو یہاں سے ہل بھی نہیں رہی ۔۔۔ اور یہاں خیمہ لگا کر بیٹھ جاؤں گی اگر رات ہو گئی تو ۔۔۔ وہ گاڑی کے ہوڈ پر بیٹھ گئی تھی

جس پر وہ دلکش انداز میں مسکرایا تھا

مرجان  ایک بات کہوں ۔۔۔میں پیار کرتی ہوں آپ سے ۔۔۔ 

وہ دھیرے سے اسے مخاطب کر گئی تھی جس پر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا تھا 

"" تم جانتے ہو مجھے کتنا کچھ سہنا پڑا ۔۔۔ جب کڈنیپرز مجھے لیکر گئے تو مجھے بری طرح ٹارچر کیا گیا ۔۔۔ مجھے مارا گیا ۔۔۔۔ مجھے بھوکا رکھا گیا ۔۔۔ چودہ سال تک مجھے مسلسل ٹارچر کیا گیا لیکن پھر شہوار کو جب پتا چلا کہ ماموں جان نے اپنی پراپرٹی کے 40٪ شیئرز میرے نام کیئے ہیں تو اسنے مجھے زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ 

مرجان سنجیدگی سے اسکی بات سن رہا تھا

""مجھے اسنے پڑھایا لکھایا لیکن پاکستان سے دور ۔۔۔  تاکہ وہ ماموں جان کی پراپرٹی ہتھیا سکے ۔۔۔  میں نے بہت کوشش کی تم تک پہنچنے کی لیکن میں مجبور تھی ۔۔۔ "" وہ رو پڑی تھی 

""اسکی بیٹی نے مجھے ہر حساب سے نیچا دیکھایا مجھے یتیم ہونے کے تعنے دیئے گئے مجھے بہت اذیت دی گئی ،، لیکن شاید میں تمہارے لئے زندہ تھی ۔۔۔ جب شہوار گھر آیا تو وہ ۔۔۔ وہ بہت خوش تھا وہ کہہ رہا تھا وہ تمھارا گھر جلا کر آیا ہے ۔۔۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوا مرجان میں مر جانے کے قریب تھی لیکن کچھ دن بعد پتا چلا تم اور ژالے بالکل صحیح سلامت ہو  منور انکل تمھیں اپنے گھر لائے ہیں میرے دل کو قرار آیا تھا ۔۔۔ 

تم جانتی ہو جب ڈیڈ کڈنیپرز کے پاس کیش لیکر گئے تو انہوں نے کہا تم غلطی سے کھائی میں گر گئی ہو ۔۔۔ بہت ڈھونڈا سب نے امید کھو دی تھی لیکن میں جانتا تھا تم ہو ۔۔۔ میں محسوس کرتا تھا تم واقعی ہو ۔۔۔ 

وہ مسکراتے ہوئے اسے گلے لگا چکی تھی ۔۔۔

میں نے بہت ڈھونڈا ۔۔۔ اور اب جا کر مجھے ملی ہو ۔۔۔ اسکے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے وہ محبت سے بول رہا تھا جبکہ وہ دل میں  نئے جزبات ابھرتے ہوئے محسوس کر رہی تھی 

تمھاری آنکھیں مرجان ۔۔۔ آئی جسٹ لووڈ اٹ ۔۔۔۔

اسکی آنکھوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے وہ مسکرائی ۔۔۔

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

تم کیوں سکون سے بیٹھی ہو اٹھو اور اپنی ماں کیساتھ صفائی میں مدد کرو ۔۔۔ ماریہ نے تعبیر کو طعنہ دیا جو تھک ہار کر ابھی ہی بیٹھی تھی 

تعبیر کا سانس پھول رہا تھا ابھی تو وہ کچن سے کام سے فارغ ہوئی تھی 

وہ لب بھینچتی ہوئی اٹھی 

ایک کام کرو میرے لئے چائے بنا دو تم بنا لو گی ناں ؟ زونی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے روب سے کہا

جی ۔۔۔ وہ بوجھل قدموں کیساتھ دوبارہ کچن میں گئی تھی 

یہ چینی کہاں ہو گی اب ۔۔۔ وہ اوپر کی شیلف دیکھتے ہوئے بولی 

اففف یہاں تک ہاتھ ہی نہیں جائے گا کیا کروں ۔۔۔ ایڑھیاں اٹھاتے ہوئے بمشکل اسکی انگلیاں شیلف سے لگی تھی 

اسے اپنے پیچھے کسی کا احساس ہوا وہ گھبراتے ہوئے پیچھے مڑی تھی 

اوہ ریلیکس ڈول ۔۔۔ میں صرف ڈبہ اٹھانے میں مدد کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ شان نے شیلف سے ڈبہ نکال کر تعبیر کی طرف بڑھایا تعبیر نے گھبراتے ہوئے اسے دیکھا جو اسے سر سے پاؤں تک گھور رہا تھا

جلدی سے ڈبہ لیکر وہ اس سے پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔ وہ انگلی سی پیشانی مسلتا ہوا اسے گھورتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

چائے بنا کر وہ زونی کو دے چکی تھی

فضول  اور کتنی گرم ہے یہ! 

ایک گھونٹ بھرتے ہوئے وہ گرم چائے کا کپ اسکے پیروں میں گرا چکی تھی ۔۔۔

گرم چائے تعبیر کے پاؤں جلا چکی تھی ۔۔۔

تمھیں کوئی کام آتا بھی ہے یا فضول کی روٹیاں توڑنے آئی ہو اس میں تھوڑی سی بھی چینی نہیں ہے ۔۔۔ زونی نے ڈرامہ کرتے ہوئے اسے کھری کھری سنائی

وہ سر جھکائے خاموشی سے سن رہی تھی 

معاف کرنا  بیٹا میں اسے سمجھا دوں گی ۔۔۔ فرزانہ نے آ کر اسے بچایا 

وہ روتے ہوئے سروینٹ کوارٹر کی طرف دوڑی تھی ۔۔۔

اب اتنی بڑی بات بھی نہیں تھی ۔۔۔ زونی نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے ۔۔۔۔ فرزانہ نے نیچے گری چائے اور ٹوٹے کپ کے ٹکڑے سمیٹے تھے ۔۔۔

ماریہ اور زونی ہنستے ہوئے وہاں سے جا چکی تھی ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

آہ ۔۔۔

اسکی کہنی دیوار سے رگڑ کھا گئی تھی ۔۔۔ زخم ابھی سوکھا نہیں تھا دوبارہ خون بہنے لگا تھا ۔۔۔ 

وہ درد سے بازو پکڑتے ہوئے پیروں کی طرف دیکھ چکی تھی جن پر چھالے پڑ گئے تھے ۔۔۔

کس گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں ہم اللہ پاک ؟ وہ سسکتے ہوئے گھٹنوں میں سر دے گئی تھی ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

گارڈ نے اسکی وائٹ مرسیڈیز دیکھ کر فوراً گیٹ کھولا تھا ۔۔۔ کار  پارک کرتے ہوئے وہ گارڈ کے گیٹ کھولنے پر شان سے نیچے اترا تھا

زونی کھڑکی سے اس مغرور حسیں شہزادے کو دیکھتے ہوئے مسکرائی

وہ مسکراتے ہوئے فرنٹ سیٹ سے اسے ہاتھ دیتے ہوئے کار سے باہر لایا تھا ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام چکی تھی ۔۔۔

زونی پہلے تو حیران ہوئی تھی پھر غصے سے کمرے سے نکلتے ہوئے لائونج تک آئی تھی 

گھر کے سبھی فرد اسکے آنے کی خبر سے واقف تھے ۔۔۔۔ سوائے تعبیر کے اسکے مطابق وہ اسلام آباد جا چکا تھا 

ہماری گیسٹ ہیں ۔۔۔ شادی تک یہاں رہیں گی ۔۔۔۔ گیسٹ روم اس طرف ہے ۔۔۔۔ وہ اسکا بیگ لیتے ہوئے اسکی کلائی تھام کر ایک طرف مڑا تھا

زونی نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا جبکہ باقی سب معمولی بات سمجھ کر کام میں جٹ گئے تھے کیونکہ اسے بزنس پارٹنر وغیرہ اکثر آتے رہتے تھے ۔۔۔

فرزانہ تعبیر کو دیکھنے کے لئے گئی تھی وہ نیچے بیٹھی گھٹنوں میں سر دیئے سو گئی تھی

کتنی مشکل زندگی ہے تمہاری میری بچی ۔۔۔ ناجانے کب یہ اذیتیں کم ہوں گی ۔۔۔ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرزانہ نے اسکے پیروں کو دیکھا جن پر صاف چھالے نمایاں تھے ۔۔۔

نہیں آپ پلیز رہنے دیں میں کر لوں گی ۔۔۔

اس سے پہلے وہ خود ان پر مرہم لگاتی تعبیر نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا

بیٹا انفیکشن ہو جائے گا ۔۔۔ 

نہیں خیر ہے اگر آپکو مدد کی ضرورت پڑے تو مجھے آواز دیجیے گا ۔۔۔ وہ دوبارہ گھٹنوں میں سر دیئے خاموش ہو گئی تھی 

فرزانہ اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی تھی 

۔۔۔

۔۔۔۔

مرجان کوئی پرابلم تو نہیں ہو گی ناں ؟ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسکو دیکھ کر بولی 

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ ریسٹ کرو رات کو انگیجمینٹ سیریمنی ہے ۔۔۔ 

تمہاری ۔۔۔ وہ شرارت سے کہتی ہوئی اسے بھڑکا چکی تھی

تم کچھ زیادہ بول رہی ہو ۔۔۔ وہ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے گھور گیا تھا

ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔مت کرنا ۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے منہ پر ہاتھ دے گئ تھی 

وہ کچھ سوچتے ہوئے باہر چلا گیا تھا اسکا رخ منور صاحب کے کمرے کی طرف تھا ۔۔۔

کرنا کیا چاہتے ہو تم اس لڑکی کو گھر میں لا کر ۔۔۔ زونی نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے غصے سے اسکا کوٹ پکڑا تھا

اپنی حد میں رہ کر بات کریں ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ کوٹ سے نکالتے ہوئے اس سے دو قدم پیچھے ہٹا تھا

حد تم کراس کر رہے ہو کون ہے وہ لڑکی کہاں سے اٹھا کر لائے ہو ؟! تمھیں پتا بھی ہے آج تمہاری میرے ساتھ انگیجمینٹ۔۔۔

جسٹ شٹ اپ ۔۔۔ ایک لفظ اور نہیں ۔۔ کس نے کہہ دیا تم سے کہ میں تم سے شادی کروں گا ؟ دماغ ٹھکانے ہے تمھارا ؟ وہ کڑک دار لہجے میں کہتا ہوا زونی کو کانپنے ہر مجبور کر گیا تھا

نان سینس ! وہ غصے سے آتش فشاں بنا منور صاحب کے کمرے میں جا چکا تھا 

ارے بیٹا آؤ ناں ہم تمھارا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ کشمالہ بتا رہی تھی تمہارے ساتھ کوئی مہمان ہے کون ہے وہ بیٹا ؟!

 منور صاحب نے لہجے میں شیرنی گھول کر اسے کو پیش کی تھی

بزنس پارٹنر ہیں ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے جھوٹ بول چکا تھا 

بیٹا انگیجمینٹ کے لئے تو تیار ہو ناں ؟ کشمالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اسکے زخموں پر نمک پاشی کی 

مرجان نے سپاٹ نظروں سے اپنی سوتیلی ماں کو دیکھا جو عذاب کی چلتی پھرتی مورت تھی 

سوچ لو بیٹا ۔۔۔ اب آخر میچور ہو رہے ہو آہستہ آہستہ سارے بزنس کی ذمہ

داریاں بھی تم نے دیکھنی ہیں اور کچھ ایسی باتیں ہیں جو تمھارا جاننا بہت ضروری ہے۔۔ ایسے کرو گے تو کیسے چلے گا ۔۔۔۔ کہنے کو تو کشمالہ بیگم نے دھیرے سے اسکے کان کے قریب کہا مگر منور صاحب نے برابر سنا تھا

۔۔ کشمالہ کی بات پر منور صاحب نے انہیں نظروں سے سراہا تھا

آپ سوچتی ہیں پراپرٹی کا سن کر میں یہ منگنی کر لوں گا ۔۔۔ یہ مضحکہ خیز ہے ۔۔۔ وہ  پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے  دگیرے سے کہہ کر مسکرایا 

میرے خیال سے ہاں۔۔۔پراپرٹی کا پتا نہیں مگر اپنے ڈیڈ سے جڑی باتیں ضرور جاننا چاہو گے نہیں ؟؟ اور پراپرٹی کا کیا ہے  آخر یہ سب تمہارا ہی تو ہے لیکن فلحال تو منور کے پاس ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے چالاکی سے کہا

ٹھیک ہے ۔۔۔ کر لیتے ہیں ۔۔۔ لیکن آپکی مائنڈ گیمز زیادہ دیر تک کام نہیں کریں گی ڈیئرسٹ موم ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا کمرے سے باہر آیا تھا 

منور وہ پراپرٹی کے لئے نہیں لیکن ان باتوں کے لئے ضرور ایسا کرے گا ۔۔۔ فکر مت کرو ۔۔۔ کشمالہ بیگم مسکرائی تھی اپنی کامیابی پر اور منور صاحب گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے بیٹی کی ضد کی وجہ سے انہیں کیا کچھ کرنا پڑ رہا تھا

انگیجمینٹ کی تیاریاں زور و شور پر تھی پورے گھر کو بہترین انداز میں سجایا گیا تھا پورا گھر روشنی سے نہایا ہوا تھا اور پنک پھولوں کی ڈیکوریشن نے اس محل نما حویلی کو چار چاند لگا دیئے تھے حویلی کو فل سیکیورٹی دی گئی تھی 

 گھر میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے ۔۔ 

وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ناجانے کب سے شاور کے نیچے آنکھیں بند کئے کھڑا تھا 

آخر کیا جانتی ہیں وہ ڈیڈ کے بارے میں جو بزنس ریلیٹڈ بھی ہے ؟ مجھے پتا لگانا ہو گا وہ ہوا میں تیر کبھی نہیں چلائیں گی جہاں تک میں جانتا ہوں ضرور کچھ ہے جو وہ چھپا رہی ہیں ۔۔۔ وہ ماتھے پر آتے گیلے بال ہاتھ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے خود سے ہم کلام ہوا تھا 

مجھے اس ڈرامے کو ساتھ لیکر چلنا پڑے گا ۔۔۔ اور اگر وہ جھوٹ بول رہی ہیں انہیں اسکا حساب الگ سے دینا ہو گا ۔۔۔ وہ شاور بند کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔۔۔

بیٹا یہ کپڑے پہن لو ۔۔۔ اور نیچے چلو مہمان آ رہے ہیں اور ۔۔۔

جی مجھے پانچ منٹ دیں میں آتی ہوں ۔۔۔

تعبیر بچے ۔۔۔

وہ فرزانہ  کی طرف دیکھ گئی تھی

بیٹا آج بڑے صاحب کی بھی انگیجمینٹ ہے ۔۔۔ 

تعبیر کو ایسے لگا جیسے کسی نے اسے گہری کھائی میں دھکیلا تھا وہ بےچین ہوئی تھی جیسے کوئی اپنا بچھڑنے کو تھا

فرزانہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی تھی 

لیکن ہم بےچین کیوں ہو رہے ہیں ۔۔۔ انکی مرضی وہ جو بھی کریں ۔۔۔ وہ ہم سے کیوں پوچھیں گے ۔۔۔ وہ خود کو سمجھاتے ہوئے چینج کرنے کے لئے چلی گئی تھی 

۔۔۔

زونی بےبی پنک میکسی فراک میں بالوں کا خوبصورت جوڑا بنائے بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔ 

ہائے آج بھائی فلیٹ ہونے والے ہیں ۔۔۔ ماریہ نے شرارت سے کہا 

جبکہ زونی کے ذہن میں اسکی کہی باتیں گھوم رہی تھی ۔۔۔ تم مجھ سے بھاگ نہیں سکتے ہر صورت ہر حالت میں تمھیں یہ منگنی کرنی ہو گی مرجان ۔۔۔ فتور ہو تم میرا ۔۔۔

وہ سوچتے ہوئے شان سے خود کو مرر میں دیکھ رہی تھی 

تم سے ایک سوال ہے آخر اس میڈ کی بیٹی کے ساتھ اتنا خراب برتاؤ کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ ماریہ کے سوال پر زونی کا کھلتا چہرہ مرجھایا تھا

وہ تھرڈ کلاس میڈ کو مرجان کے کہنے پر گھر لایا گیا ہے  اور وجہ صرف اتنی ہے کہ وہ بیچاری اپنے سو کالڈ جھونپڑے میں اکیلی ہوتی تھی ڈیڈ بتا رہے تھے ۔۔۔ 

اور اس کا مطلب میں یہ سمجھوں کہ تم اس سے جیلس ہو ؟ ماریہ نے جلتے پر تیل ڈالا تھا

نہیں ہرگز نہیں لیکن مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ جو چیز میری ہے اسکی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے بھی ۔۔۔ 

ماریہ نے  طنز سے تالی بجا کر اسے خودغرضی پر داد دی تھی 

۔۔۔۔

ارے خیال سے ابھی گر جاتی ۔۔۔ علیزے نے نیشال کے پیر کے نیچے سے فراک اٹھایا ۔۔۔ 

ارے ارے میری جان میری پیاری بہنا تم اپنا خیال کرو ۔۔۔ آج تمھاری منگنی ہے میری فکر چھوڑو ۔۔۔ نیشال نے اسکو گلے لگاتے ہوئے پیار سے کہا جس پر علیزے مسکرائی 

وہ وائٹ میکسی فراک میں بالوں کو سٹریٹ کئے ہوئے لیفٹ سائڈ پر فینسی پِن لگائے ہوئے تھی ۔۔۔ 

جبکہ نیشال سی گرین ہیووی فراک میں بالوں کا فرینچ ڈیزائن بنائے ہوئے تھی۔۔۔

نیشال تمھیں امی بلا رہی ہیں ۔۔۔ ماریہ کی آواز پر وہ اٹھ کر باہر چلی گئی تھی جبکہ اسکے جاتے ہی دائم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دروازہ بند کر چکا تھا

علیزے کے طوطے اڑے تھے

آپ ؟ وہ ہکی بکی اسے گھور رہی تھی 

وہ وائٹ کرتہ پہنے ، بالوں کو سیٹ کئے۔۔۔ منہ پر شدید معصومیت کا نقاب لگائے  کافی ہینڈسم لگ رہا تھا

دیکھو آپ فوراً ادھر سے جاؤ اگر کسی نے دیکھ لیا ۔۔۔

وہ اسے حسرت سے دیکھ رہا تھا

جسٹ امیزنگ ۔۔۔ وہ اسکی طرف بڑھتے ہوئے مسکرایا تھا جبکہ علیزے کے گالوں پر سرخ لالی سے ابھری تھی وہ فوراً نظریں جھکا چکی تھی 

میں صرف آپکو دیکھنا چاہتا تھا دیکھ لیا اور یہ جو آپ بار بار مجھے چلے جانے کو کہتی ہیں اس کا حساب ٹھیک اسی ہفتے میں آپ سے گن چن کر لوں گا تب ناں آپ مجھے بھگا پائیں گی اور ناں آپکو بھاگنے دوں گا ۔۔۔ وہ  نصف فاصلے پر رکا تھا علیزے نے شرمندگی سے اسکی جانب دیکھا تھا وہ واقعی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا کرتے میں ۔۔۔ 

میں واپس جا رہا ہوں لیکن آپکی بات مان کر نہیں ۔۔ مجھے احساس ہے کہ اگر یہاں ہمیں کسی نے ساتھ دیکھ لیا تو کیا ہو گا ۔۔۔ 

وہ مسکراتے ہوئے اسے آخری نظر دیکھ کر کمرے سے چلا گیا تھا جبکہ علیزے اپنی تیز ہوتی دھڑکن کو اعتدال میں لانے کے لئے لمبی سانس لے گئی تھی ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

 سلیو لیس ریڈ میکسی فراک میں بالوں کو کرل کئے ڈارک میک اپ میں وہ خود برائڈ لگ رہی تھی ۔۔۔ ڈارک ریڈ لپ اسٹک ایک بار پھر ہونٹوں پر رگڑتی ہوئی وہ مرر سے پیچھے ہوئی تھی جب روم کا دروازہ کھلا تھا 

وہ اپنی جگہ پر جم گئی تھی اسے دیکھ کر ۔۔

بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ پہلے ہی قیامت ڈھانے پر تھا  ۔۔۔۔ گولڈن بالوں کو جیل سے نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔ مگر ہیزل گرے آنکھوں میں آج کچھ اداسی تھی ۔۔۔ ۔ اسکی سنجیدگی نے اسکی کشش میں اضافہ کیا  ہوا تھا ۔۔۔ 

وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اسکے قریب آئی تھی۔۔۔

کسے مارنا چاہتے ہو مرجان کاظمی ؟ 

وہ مسکراتے ہوئے اسکے کوٹ کو کھینچ گئی تھی اسکی اس حرکت نے صرف اسکی سنجیدگی میں اضافہ کیا تھا ۔۔۔

تو تم راضی ہو گئے انگیجمینٹ کے لئے ۔۔۔ میں تمھارے دل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ۔۔۔  وہ اسکی آنکھوں میں مسلسل بڑھتی سنجیدگی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

ایسا نہیں ہے 

وہ سنجیدگی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے گویا ہوا

تو پھر ثابت کرو تم اب بھی مجھے چاہتے ہو ؟  وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے قریب ہوئی تھی 

یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟ وہ اسکے قریب آنے پر سپاٹ لہجے میں بولا تھا

کم آن اتنے معصوم کیوں بن رہے ہو ؟ پوری دنیا کی لڑکیاں تم پر مرتی ہوں گی کبھی تم نے یہ سب نہیں کیا ؟ اسکا ہاتھ اپنی کمر پر رکھتے ہوئے وہ شوخی سے بولی

تو تم یہ سوچتی ہو ؟ وہ اسکی گہری سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں بولا 

میں یہ سوچ رہی ہوں کہ وہ زونیرا نامی لڑکی آخر کار تمھارے دل میں جگہ بنا ہی گئی ۔۔۔ اور اگر نہیں تو ثابت کرو کتنی محبت کرتے ہو مجھ سے ۔۔۔۔ 

اسکی فرمائش پر وہ اسے دونوں کندھوں سے نرمی سے پکڑتے ہوئے قریب کر چکا تھا ۔۔۔  وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی اسکے قریب تر ہوئی تھی ۔۔۔

وہ اسے سختی سے خود سے دور کر چکا تھا۔۔۔ جس پر اس لڑکی کے دل پر چوٹ لگی تھی

کیوں نہیں ؟ پیار نہیں کرتے مجھ سے ؟ وہ آنکھوں سے بہتے آنسوں کو سختی سے صاف کر گئی تھی

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر جا چکا تھا جس پر وہ غصے سے موبائل دیوار میں مار چکی تھی ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔

 کہاں جا رہے ہو رکو تم ۔۔۔

ایک گارڈ نے دو ویٹرز کو روکا جو سر جھکائے مینشن میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے

سر ہمیں آرڈر دیا گیا تھا کھانا سروہ کرنے کے لئے ۔۔۔ ان میں سے ایک فوراً بولا

تو کنریکٹ پیپر تو تمھارے پاس ہو گا وہ دیکھاؤ اسکے بغیر تم اندر نہیں جا سکتے۔۔۔ گارڈ نے سختی سے کہا 

 وہ ہمارے مینیجر کے پاس ہے آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔۔ وہ چالاکی سے بولا تھا 

ٹھیک ہے تم یہیں رکو ۔۔۔

گارڈ جو تفتیش کے لئے پیچھے گیا تھا وہ فوراً موقع دیکھ کر دونوں اندر داخل ہوئے تھے 

اپنا کام یاد رکھنا اور کوئی بھی گڑبڑ ہو خود کو اڑا دینا مگر ایک لفظ منہ سے نکلنا نہیں چاہیے ۔۔۔

دوسرا ویٹر سر ہاں میں ہلاتے ہوئے لوگوں میں غائب ہوا تھا۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

تعبیر صبح سے کام میں مصروف تھی اب بھی وہ مہمانوں کو ڈرنک سرو کرنے کے بعد تھکی ہاری کرسی پر بیٹھی تھی ۔۔۔

تم تھک گئی لگتا ہے ؟ ژالے نے مسکرا کر اسے مخاطب کیا تھا جس پر وہ گھبرا کر اٹھی تھی

ارے بیٹھو بیٹھو گھبراؤ مت میں کوئی نیا کام نہیں دوں گی تمھیں ۔۔۔ ژالے نے مسکرا کر کہا جس پر تعبیر نے سکھ کا سانس لیا

تو تم فرزانہ بی کی بیٹی ہو ؟ ژالے نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تعبیر نے گھبراہٹ سے محض ہاں میں سر ہلایا تھا مگر سامنے سے سیڑھیاں اترتے دشمنِ جاں کو دیکھ کر اسکی دھڑکن بڑھی تھی ۔۔۔ 

ژالے نے مسکرا کر فخر سے اپنے بھائی کو دیکھا تھا جو سب کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا ۔۔۔

سبھی مہمانوں نے تالیاں بجاتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا تھا ۔۔۔ 

اہمممم! 

تعبیر نے ژالے کے دھیرے سے کھنکارنے پر اس پر جمی نظریں گھمائی تھی 

تو تمھیں میرے بھیا کیسے لگے ؟ 

تعبیر ںے بغیر پلکیں جھپکے ژالے کو کچھ دیر گھورا تھا

ہاں ویسے ہی پوچھ رہی ہوں ؟ ژالے نے مسکرا کر کہا

وہ ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ پتا ۔۔۔ نہیں 

تعبیر نے انگلیوں کو مروڑتے ہوئے بوکھلا کر کہا ژالے مسکراتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی تھی آفرین بیگم کی طرف جو ابھی ابھی نیچے آئی تھی 

تعبیر نے خفا نظروں سے اس ظالم کو دیکھا جس نے ایک بار بھی اسکی طرف نہیں دیکھا تھا

وہ مہمانوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھا جب زونی نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔ 

Ladies And Gentleman , Can i Have your Attention Please ......

وہ سب کو مخاطب کرتے ہوئے مرجان کیساتھ اسٹیج پر آئی تھی وہ سنجیدگی سے اسکے ساتھ اسٹیج پر آیا تھا 

آپ سب جانتے ہیں آج مرجان اور میری انگیجمینٹ ہے ۔۔۔۔۔ کیوں ناں اس سیریمنی کو تھوڑا خاص بنایا جائے ۔۔۔  Please Music 

سب نے تالیاں بجائی تھی....

تمھیں کیا لگتا ہے کیا وہ واقعی شادی کرے گا ؟ کشمالہ بیگم نے منور صاحب کے سوال پر ان کی طرف مسکرا کر دیکھا 

آپ نہیں جانتے اسوقت اس کے لئے اسکی فیملی سے  جڑی یادوں سے بڑھ کر  کچھ نہیں ہے بیچارہ بچہ ہے ۔۔۔ ٹوٹا ہوا ہے۔۔۔ اپنے باپ سے جڑی ایک ایک چیز ڈھونڈ رہا ہو گا ۔۔۔ 

کشمالہ بیگم نے اسکی جانب دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہا جو مجبوراً زونی کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا وہ بار بار اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ رہی تھی جبکہ وہ بس اکتایا ہوا مجبوراً یہ سب کر رہا تھا 

لیکن وہ زخمی شیر ہے کسی بھی وقت جھپٹ سکتا ہے اور جس پراپرٹی کی تم بات کر رہی تھی اتنی آسانی سے اسے واپس کر دو گی ؟ منور صاحب نے دلچسپی سے دریافت کیا 

پاگل مت بنو منور اب تک ہم نے اس پراپرٹی کے لئے جو کچھ کیا ہے ان حقائق کو جھٹلا کیسے سکتے ہو ؟ کشمالہ بیگم نے کڑی نظروں سے منور صاحب کو دیکھا

ہاہاہاہا ۔۔۔ 

ماسٹر مائنڈ تو آپ ہیں ۔۔۔۔ ماننا پڑے گا آپکو ۔۔۔ منور صاحب نے خوشامد کی تھی جس پر کشمالہ بیگم مسکرا دی تھی 

زارا ابھی ہال میں آئی تھی جہاں فنگشن چل رہا تھا ۔۔۔ 

کپل ڈانس کے نام پر ڈرامہ چل رہا ہے ۔۔۔ وہ منہ بسورتے ہوئے خود سے بولی تھی 

ایک ویٹر اس سے ٹکرایا تھا

اندھے ہو نظر نہیں آتا سارا ڈریس خراب کر دیا ایڈیٹ ۔۔۔ وہ میکسی پر جوس سے لگا دھبا دیکھتے ہوئے پھنکاری تھی 

ویٹر اسکے ہاتھ میں ایک چٹ تھماتا ہوا سوری میم کہہ کر فوراً وہاں سے جا چکا تھا

آس پاس دیکھتے ہوئے اسنے چِٹ کو مٹھی میں دبایا اور تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی 

""آخر کرنا کیا چاہتی ہو تم جب تم سے کہا گیا تھا پاکستان سے فوراً چلی جاؤ تو کیوں نہیں گئی اور خود دشمن کے علاقے میں گھوم رہی ہو کھلے عام بغیر یہ سوچے کہ تمھاری سچائی جانتے ہی وہ تم پر جھپٹ پڑے گا میری بات مانو بےوقوف مت بنو ابھی وقت ہے وہاں سے نکل جاؤ ورنہ بہت پچھتاؤ گی میری پریشانیاں کم نہیں ہیں ان میں مزید اضافہ مت کرو "" 

کبھی نہیں پیارے انکل ۔۔۔ وہ چِٹ کو پھاڑتے ہوئے ڈسٹ بن میں ڈال کر منہ بناتے ہوئے مسکرائی تھی 

اپنا کام کئے بغیر تو ہرگز نہیں جاؤں گی۔۔۔ مسکراتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے یار اس جوتی کو ابھی ٹوٹنا تھا ۔۔۔ ژالے نے غصے سے شوز پیر سے نکالا جسکی زپ ٹوٹ گئی تھی

اففف ان کاموں کی وجہ سے میرا پیارا جوتا ٹوٹ ہی گیا ۔۔۔ اب کیا کروں گی ننگے پاؤں تو گھوم نہیں سکتی ۔۔۔ آنکھیں گھما کر خفگی سے کہتی ہوئی وہ شوز ہاتھ میں پکڑ چکی تھی

کیا کروں ۔۔۔ آس پاس دیکھتے ہوئے اسکی نظر ندیم پر پڑی تھی

ارے سڑوووو ۔۔۔ آپ میرے کام نہیں آئیں گے تو کون آئے گا ۔۔۔ وہ شرارت سے کہتی ہوئی جوتا ہاتھ میں ہی پکڑے اسکی جانب بڑھی تھی جو گارڈز کو کچھ سمجھا رہا تھا

گارڈز اسکے پیچھے رکی ژالے کو دیکھ کر فوراً وہاں سے جا چکے تھے وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا 

مجھے تھوڑی سی مدد چاہیے آپ کریں گے ۔۔۔ وہ شوز پیچھے چھپاتے ہوئے معصومیت سے بولی جس پر ندیم نے مجبوری میں ہاں میں سر ہلایا تھا

 میرا شوز ٹوٹ گیا ہے اور مجھے میچنگ شوز ہی چاہیے آپ میرے ساتھ مال چلیں گے ؟ وہ شوز اسکو دیکھاتے ہوئے مسکرائی جس پر اسنے سرد نظروں سے شوز کو دیکھا جو زرا سا ٹوٹ گیا تھا

لیکن یہ بن سکتا ہے ۔۔۔۔

 وہ نرمی سے بولا تھا

مگر کیسے ؟ ژالے نے آئی برو اچکاتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسے گھورا تھا

وہ لمبی سانس خارج کرتے ہوئے اس سے شوز لیکر اسے سائڈ پر لایا تھا ۔۔۔

اسے چیئر پر بیٹھاتے ہوئے وہ نیچے بیٹھا تھا

ارے نہیں ایسا مت کریں ۔۔۔ وہ فوراً کھڑی ہوئی تھی

پلیز مجھے کرنے دیں ۔۔۔ ژالے نے مسکراتے ہوئے اسکی جانب دیکھا جو نظریں جھکائے اسکے پیر میں شوز ڈالتے ہوئے زپ بنانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔

اتنے بھی سڑو نہیں ہو ۔۔۔ وہ دھیرے سے بولی جو اسنے بخوبی سنا تھا ۔۔۔ 

ہو گیا میم ۔۔۔

وہ نظریں جھکائے ہی بولا تھا اور فوراً اٹھ کر جانے کی تیاری میں تھا ۔۔

اتنے سنجیدہ کیوں رہتے ہو ؟ اور مجھے میم مت کہا کرو میں چھوٹی ہوں تم سے ۔۔۔ وہ تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی 

جس پر وہ نظریں اٹھاتے ہوئے گہری نیلی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بغیر جواب دیئے فوراً وہاں سے چلا گیا تھا 

کچھ تو ہے تم میں بھی ۔۔۔ ژالے مسکراتے ہوئے شوز کو دیکھ گئی تھی جو پہلے کی طرح بالکل ٹھیک ہو چکا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

علیزے اور دائم اسوقت اسٹیج پر تھے ۔۔۔ نیشال اور ماریہ پھولوں سے سجی تھالیاں لئے ہوئے تھی جن میں رنگز رکھی گئی تھی 

دائم نے مسکراتے ہوئے رنگ نکال کر علیزے کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا وہ شرماتی ہوئی اسکے ہاتھ میں ہاتھ رکھ چکی تھی وہ محبت سے اسکی انگلی میں انگوٹھی پہنا چکا تھا 

ہائے میری تو آنکھیں ہی بھر آئیں گی ۔۔۔ نجم نے نیشال کے پیچھے سے گھنگھنا کر کہا جس پر وہ اسکی انگلی پکڑتے ہوئے زور سے مروڑ گئی تھی وہ منہ مروڑتا ہوا بس ہنس دیا تھا 

علیزے نے رنگ نکال کر دائم کا ہاتھ تھاما تھا جس پر وہ نظروں میں ڈھیروں محبت سموئے اسے دیکھ گیا تھا 

علیزے نے مسکراتے ہوئے اسے رنگ پہنائی تھی لائونج تالیوں سے گونج اٹھا تھا نیشال نے علیزے کو گلے لگاتے ہوئے مبارکباد دی تھی دوسری طرف حرب نے اور آغا صاحب نے سب سے پہلے دائم کو گلے لگا کر مبارکباد دی تھی 

تعبیر اسٹیج سے دور کھڑی خاموشی سے سب دیکھ رہی تھی جب فرزانہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ جلدی سے پیچھے مڑی تھی مگر فرزانہ کو دیکھ کر وہ افسردہ ہوئی تھی کیا وہ کسی اور کا انتظار کر رہی تھی یہ تو اسکا دل جانتا تھا 

کشمالہ بیگم زونی کو لئے اسٹیج پر گئی تھی جبکہ آفرین بیگم جو زونی کی طرف قدم بڑھا چکی تھی کشمالہ بیگم کو دیکھ کر اپنی جگہ پر تھم سی گئی تھی منور صاحب مرجان کو لیکر اسٹیج پر آئے تھے ۔۔۔ ژالے اور ماریہ نے رنگز اٹھا رکھی تھی زونی کی نظریں صرف مرجان پر تھی جبکہ کونے میں کھڑی زارا سینے پر ہاتھ باندھے سارے مناظر دیکھ رہی تھی 

زونی نے ماریہ سے رنگ لیکر مرجان کی طرف بڑھائی وہ سنجیدگی سے ہاتھ آگے بڑھا چکا تھا ۔۔

تم میرے ہو ۔۔۔ زونی نے نظروں سے اسے کہا تھا جو وہ سمجھ گیا تھا 

اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے زونی نے اسے رنگ پہنائی تھی اور اسکے ہاتھ کی پچھلی جانب  دو برابر تلِ پر ہونٹ رکھ کر محبت سے اسے دیکھا تھا وہ ہاتھ پیچھے لیتے ہوئے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا 

اوئے ہوئے ۔۔۔ ماریہ نے تالی بجاتے ہوئے زونی کی ہمت کی داد دی تھی جس پر سب نے تالیاں بجائی تھی ۔۔۔

تعبیر کا چہرہ مرجھا گیا تھا ۔۔۔ وہ اٹھ کر جانا چاہتی تھی ۔۔۔ "یہ ہمیں کیا ہو رہا ہے کیوں برا لگ رہا ہے ہمیں ؟ کیوں حق جتانا  چاہ رہے ہیں ہم ؟ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ہمیں اتنے جذبات کس کے لیے "",

فرزانہ نے اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھا اور پھر اسٹیج کی طرف جہاں مرجان زونی کو رنگ پہنا رہا تھا 

تعبیر اٹھ کر  منہ پر ہاتھ دیتی ایک جانب بھاگی تھی فرزانہ بھی اسکے پیچھے گئی تھی

وہ کچن میں آ کر دل کھول کر روئی تھی ۔۔۔۔

کیا ہو رہا ہے آخر ۔۔۔ یہ کیا ہے ؟ کیوں برا لگ رہا ہے ہمیں ۔۔۔ مسلسل تین سال ہم پر بےانتہا ظلم کرنے والے اس شخص کے لئے ہمارے دل میں اٹھتے جزبات ؟ کیوووں ؟ وہ چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے روئی تھی 

فرزانہ نے آ کر اسے گلے لگایا تھا

ہمیں کیا ہو رہا ہے بی جان آپ بتائیں ۔۔۔ یہ کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔ ہم خود کو نہیں سمبھال سکتے ۔۔۔  ہم انہیں نہیں کھونا چاہتے کیوں ؟ 

وہ روتے ہوئے رکی تھی ۔۔۔ اسے سامنے کھڑے دیکھ کر ۔۔۔

فرزانہ نے گھبراتے ہوئے اسے دیکھا وہ پاکٹس میں ہاتھ ڈالے ناجانے کب سے وہاں موجود تھا 

وہ جلدی سے آنسوں چھپاتے ہوئے فرش سے اٹھی تھی مگر اسکی بھیگی پلکیں اسکے رونے کا ثبوت تھی 

وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اس کے برابر آیا تھا فرزانہ بےحد گھبرائی ہوئی تھی کیا وہ سب کچھ سن چکا تھا ؟ 

تعبیر کا ہاتھ سختی سے پکڑتے ہوئے وہ اسے لیکر ایک جانب چل پڑا تھا  بغیر یہ سوچے کہ کوئی انہیں ساتھ دیکھ کر کیس سوچتا ۔۔۔۔وہ اسکے ساتھ بےبس کھینچی چلی جا رہی تھی فرزانہ نے دل میں سب ٹھیک ہونے کی دعا کی تھی وہ  بھلا کیا کر سکتی تھی 

اسے کمرے میں لا کر بیڈ پر دھکا دیتا ہوا وہ دروازہ بند کر چکا تھا وہ گھبرائی ہوئی جلدی سے گرا  دوپٹہ اٹھا پہن چکی تھی اسکے ہاتھ خوف سے کانپ رہے تھے 

وہ بےحد غصے میں تھا مگر کیوں ؟

منع کیا تھا تمھیں ڈرامہ کرنے سے ۔۔۔ اسے کندھوں سے جھنجھوڑ کر وہ کڑک دار لہجے میں بولا وہ ایک طرف اسکے غصے سے گھبرا کر آنکھیں بند کر گئی تھی تو دوسری طرف اسکے لمس کو کندھے پر محسوس کرتی ہوئی کانپ گئی تھی

ہم __ آئندہ نہیں __روئیں گے .

وہ  بند آنکھوں سے بہتے آنسوں روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی 

وہ غصہ بھانپتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا 

آوٹ ..

دو قدم پیچھے ہو کر وہ سرد لہجے میں کہتا اسکے دل پر وار کر گیا تھا

وہ جلدی سے اٹھتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی ۔۔

ویٹ !!

وہ گھبراتے ہوئے رکی تھی تعبیر کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ ابھی حلق سے باہر آ جائے گا اسکا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کر رہا تھا اب تک وہ مینٹلی ٹارچر برداشت کرتی آئی تھی مگر جذباتوں سے دل پر لگی ٹھیس کا کیا کرتی ؟! 

تم رو رہی تھی رائٹ مگر کیوں ؟  آج تو تمھیں کسی نے کچھ بھی نہیں کہا  ۔۔۔ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا جس پر تعبیر کا دل اور تیزی سے دھڑک اٹھا ۔۔۔ وہ اس کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتی تھی 

وہ ۔۔۔ ہمارے سر میں درد تھا۔۔۔ نظریں جھکاتے ہوئے وہ صاف جھوٹ بول گئی تھی جس پر وہ چلتا ہوا اسکے سامنے رکا ۔۔۔

وہ لب بھینچتی ہوئی گھبراہٹ سے ہاتھوں کی انگلیاں الجھائے انہیں مروڑنے لگی تھی

جھوٹ!

وہ اسکا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑتے ہوئے اوپر اٹھاتے ہوئے  سیدھا اسکی  براؤن آنکھوں میں دیکھ گیا تھا جن میں آج صرف دکھ ، پریشانی اور ملال تھا 

وہ اسکے قریب ہونے پر جھٹکا کھاتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔ اسکا بازو نوکیلے ڈیکوریشن پیس کے ساتھ لگا تھا ۔۔۔

وہ درد سے آنکھیں بھینچتی ہوئی سسکی تھی 

Why are you so scared to come near me? 

وہ دھیرے سے اسکے کان کے قریب سرگوشی کر چکا تھا جس سے تعبیر کی ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ سا دوڑا تھا 

ایکدم دھماکہ ہوا اور لائٹ جا چکی تھی

تعبیر نے گھبراتے ہوئے اسکا کوٹ پکڑا تھا جس پر وہ سنجیدگی سے اسے (بھیگی بلی بنا)دیکھ گیا تھا

مرجان میں کیا کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔

زونی کے ہاتھ سے کافی کا کپ زمین پر گرا تھا ان دونوں کو اتنا قریب دیکھ کر ۔۔۔

ایکدم دھماکہ ہوا اور لائٹ جا چکی تھی

تعبیر نے گھبراتے ہوئے اسکا کوٹ پکڑا تھا جس پر وہ سنجیدگی سے اسے (بھیگی بلی بنا)دیکھ گیا تھا

مرجان میں کیا کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔

زونی کے ہاتھ سے کافی کا کپ زمین پر گرا تھا ان دونوں کو اتنا قریب دیکھ کر ۔۔۔

جبکہ لائٹ کے آتے ہی وہ فوراً اسکا کوٹ چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی تھی 

ہاؤ ڈیئر یو ۔۔۔

 زونی نے گلہ پھاڑتے ہوئے تعبیر کو دیکھ کر کہا

آپ جیسا سمجھ رہی ہیں ۔۔۔ ویسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔ 

اپنی بکواس بند رکھو ۔۔۔ زونی نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے مرجان سے دور کیا جبکہ وہ مسکراتے ہوئے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرامے کو انجوائے کر رہا تھا

تم جیسی مڈل کلاس لڑکیوں کو اچھے سے جانتی ہوں امیر ذادے پھنسانے کے لئے پتا نہیں کیا کچھ نہیں کرتی تم ۔۔۔ اسکی صفائیاں جھٹلاتی ہوئی وہ غصے سے بولتی جا رہی تھی جبکہ مرجان تعبیر کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا تھا  کیا وہ اسے زلیل ہوتا دیکھنا چاہتا تھا ؟

ہم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔ آپ غلط سمجھ رہی ۔۔۔

چٹاخ !

زونی کا تعبیر کو تھپڑ مارنا مرجان کو سنجیدہ کر گیا تھا 

وہ گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے انکھوں میں ڈھیروں درد سموئے اسے دیکھ گئی تھی جو سنجیدگی سے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ رہا تھا

تم جیسی لڑکیاں پتا ہے کیا ہوتی ہیں ؟ بازارو عورتیں ۔۔۔ تم ان میں سے ہو ۔۔۔ اچھے سے جانتی ہو مرجان اور میری انگیجمینٹ ہوئی ہے پھر بھی ۔۔۔ تم جیسی تھرڈ کلاس لڑکیوں کی اوقات ہی کیا ہے تم سوچتی ہو وہ تم جیسی لڑکیوں کو لفٹ دے گا ؟ اپنی اوقات دیکھی ہے تم نے نوکرانی کی بیٹی ہو تم ۔۔۔ 

وہ نظریں جھکاتے ہوئے لب بھینچ گئی تھی 

تمھارا قصور نہیں ہے قصور تمھاری پرورش کا ہے ۔۔۔ تمھیں بچپن میں ہی تمھاری ماں شہزادے کی کہانیاں سناتی ہو گی جس سے تم بگڑ گئی ہو ۔۔۔ افسوس تمھاری ماں۔۔۔

میری ماں کے بارے میں ایک لفظ مت کہنا ۔۔۔

وہ جو کب سے خاموش کھڑی تھی یکدم چیخی تھی مرجاننے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا مگر کچھ بولا نہیں تھا 

تو کیا کر لو گی ہاں ۔۔۔ سو کالڈ نوکرانی؟ زونی نے اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا

رہنے دو ۔۔ زونی کی کلائی پکڑتے ہوئے وہ اسے تعبیر سے دور کر چکا تھا

نہیں مرجان اسکی ہمت تو دیکھو ۔۔۔ تمھیں دو تھپڑ لگانے چاہیے تھے اسکے منہ پر ۔۔۔ جسٹ لوک ایٹ ہر۔۔۔۔ اسکی اتنی ہمت کیسے ہوئی یہ تمھارے روم میں آئے ۔۔۔ زونی نے مرجان کا ہاتھ تھامتے ہوئے تعبیر کو دیکھا کر کہا جس پر وہ نفرت سے سر کو خم دیتی ہوئی افسردہ نظروں سے مرجان کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی

مرجان نے اسکے جاتے ہی زونی کا ہاتھ چھوڑا تھا

اگنور کرو ۔۔۔ میں کل ڈیڈ سے کہہ کر اسے گھر سے نکلوا دوں گی ۔۔۔ اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے وہ مسکرائی جبکہ وہ سنجیدگی سے بند دروازے کی طرف دیکھ چکا تھا آج تک وہ صرف اسے فزیکلی اور مینٹلی ٹارچر کرتا آیا تھا مگر آج بات اسکی پرورش تک آ گئی تھی جسے شاید وہ ہرگز سہہ نہیں پائی تھی ۔۔۔

میں سروینٹ سے کہہ کر یہ صاف کروا دوں گی ڈونٹ وری۔۔۔۔ 

I Think You Shoud Leave

۔۔ اسے کلائی سے پکڑتے ہوئے وہ کمرے سے نکال چکا تھا

کیا ؟! یہ تو بری بات ہے ایسے تو مت کرو ۔۔۔ وہ دروازہ بجاتے ہوئے تنک کر بولی تھی 

بیٹا کیا ہوا ہے ۔۔۔فرزانہ  جو سونے کی کوشش کر رہی تھی فوراً بستر سے اٹھی تھی اسکی حالت دیکھ کر 

وہ دروازہ بند کرتے ہوئے دیوار کے سہارے ڈھے گئی تھی اور منہ پر ہاتھ دیتے ہوئے کرب کی آخری حد پر بلک بلک کر رو رہی تھی 

بچے کیا ہوا ہے ۔۔۔ فرزانہ نے اسکا آنسوں سے بھیگا چہرہ صاف کیا مگر مسلسل آنسوں اسکے چہرے کو بھگو چکے تھے ۔۔۔

فرزانہ جلدی سے اٹھی اور پانی کا گلاس اسکے خشک ہونٹوں تک لے گئی جسے وہ سر سے جھٹکتے ہوئے پینے سے انکار کر چکی تھی

میری بچی مجھے بتاؤ تو کیا ہوا ہے آخر ۔۔۔ فرزانہ نے گلاس رکھتے ہوئے شفقت سے اسے گلے لگایا تھا جس پر وہ بری طرح ٹوٹی تھی ۔۔۔ اسکی ماں اسے ایسے ہی چپ کراتی تھی جب وہ رویا کرتی تھی ۔۔۔

ہم مر جانا چاہتے ہیں بی جان اس اذیت ناک زندگی سے ہم تنگ آ چکے ہیں ۔۔۔ ہمیں ہماری ماں کے پاس جانا ہے بی جان ۔۔۔ وہ روتے ہوئے سر گھٹنوں میں چھپا گئی تھی ۔۔۔  فرزانہ کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے اسکی بےبسی دیکھ کر ۔۔۔

ہم اور نہیں سہہ پائیں گے ہمیں ایسی زندگی نہیں چاہیے جس میں ہر گزرتے دن کیساتھ ملال بڑھتا چلا جائے ۔۔۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ہم موت مانگیں مگر ہمیں نصیب نہ ہو ۔۔۔ اس اذیت بھری زندگی سے موت بہتر ہے ناں بی جان ۔۔۔ وہ مسلسل تڑپتے ہوئے رو رہی تھی اور فرزانہ اسے چپ کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی 

ہم مرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ یا خدا آج ہمیں موت سے آشنا کر دے ۔۔۔۔ اب اور نہیں سہہ پائیں گے۔۔۔۔

ایسا نہیں کہتے بچے ۔۔۔ فرزانہ نے تعبیر کے چہرے پر بکھرے ہوئے بال ہٹاتے ہوئے شفقت سے کہا مگر وہ زرا بھی برداشت نہیں کر پا رہی تھی فرزانہ کی تمام کوششیں ناکام ہو رہی تھی 

روتے ہوئے وہ بری طرح کھانس رہی تھی۔۔ بیٹا پانی پی لو میری بات مانو ۔۔۔ فرزانہ نے ایک بار پھر پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھا کر کہا مگر وہ سر کو خم دیتی ہوئی انکار کر گئی تھی 

ہم۔۔۔ہمارا دم گھٹ۔۔۔۔  رہا ہے بی جان۔۔۔  

وہ گردن کو سختی سے پکڑتے ہوئے کھانسی تھی

یا خدا ۔۔۔ 

فرزانہ نے جلدی سے ونڈو کھولی تھی تاکہ تازہ ہوا اندر آئے

وہ فرش پر گری بری طرح کھانس رہی تھی ۔۔۔

میں کیا کروں خدایا ۔۔۔ اسکے تڑپتا دیکھ کر فرزانہ کے پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔۔۔۔

بڑے صاحب ۔۔۔

فرزانہ چلاتی ہوئی کمرے سے باہر  بھاگی  تھی ۔۔۔ جبکہ تعبیر گہرے گہرے سانس لے رہی تھی مسلسل رونے کی وجہ سے اسکا سانس بند ہو رہا تھا۔۔۔

وہ جو لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا فرزانہ کے دروازہ پیٹنے پر سنجیدگی سے اٹھ کر دروازہ کھولا تھا ۔۔۔

بڑے صاحب وہ ۔۔۔ وہ لڑکی ۔۔۔ وہ ۔۔۔

ہانپتے ہوئے فرزانہ بول نہیں پا رہی تھی

وہ فرش پر ۔۔۔ اسے سانس نہیں لیا جا رہا ۔۔۔ وہ ۔۔

اسکی آدھی بات سمجھ کر وہ فوراً سروینٹ کوارٹر کی طرف تیزی سے بڑھا تھا 

میں کہہ رہا ہوں وہ مشکوک ہیں ۔۔۔ دائم نے حرب سے بحث کرتے ہوئے کہا دونوں لائونج سے اپنے کمروں کی طرف جا رہے تھے جب انہوں نے مرجان کو فرزانہ کیساتھ سروینٹ کوارٹر کی طرف جاتے دیکھا

کیا ہوا ہو گا بھائی ۔۔۔ دائم نے حیرت سے حرب کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔ جبکہ حرب کی نظر ویٹرز پر پڑی تھی جو پھولوں کے گلدستے کے قریب کھڑے کچھ کرنے میں مصروف تھے

کیا ہو رہا ہے وہاں ؟ حرب نے دونوں کو سختی سے مخاطب کیا جس پر دونوں کے چہروں کا رنگ اڑا تھا

وہ سر نے یہ  پھول نئے پھولوں سے بدلنے کے لئے کہا تھا۔۔ وہ دونوں بیک وقت بولے تھے 

لیکن یہ تو فریش ہیں ۔۔۔ دائم نے تفتیش کی 

وہ دونوں گھبراتے ہوئے ایک جانب دوڑے تھے

میں نے کہا تھا یہ دونوں مشکوک ہیں صبح سے یہ پورے گھر میں گھوم رہے تھے ۔۔۔ دائم اور حرب دونوں انکے پیچھے دوڑے تھے 

انکو ہرگز مت جانےدینا ۔۔۔ حرب نے دائم کو آڈر دیا جس پر وہ منہ بسور گیا تھا

یعنی میں انکو چھوڑ دوں گا برو ؟ دائم نے بھاگتے ہوئے شوشا چھوڑا  جس پر حرب نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا

اچھا سوری چلو پکڑتے ہیں۔۔۔  دائم تیزی سے بھاگتا ہوا ایک ویٹر کو دبوچ چکا تھا جبکہ دوسرا اسکے پکڑے جانے پر خود ہی رک گیا تھا ۔۔۔

بڑے دنوں بعد مرغے ملے ہیں آج تو مست تیل میں فرائی کر کے کھاؤں گا ۔۔۔ دائم نے ویٹر کو گردن سے دبوچتے ہوئے طنز کیا جس پر دونوں ویٹرز خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کی جانب دیکھ گئے تھے ۔۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

وہ جلدی سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر آیا تھا 

وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھ گئی تھی 

وہ دھیرے سے چلتے ہوئے اس کےقریب بیٹھا تھا

تماشا۔۔۔۔۔ دیکھنے آئے ۔۔۔ ہو ۔۔۔۔۔ مر کیوں نہیں جانے دیتے آپ۔۔۔۔ سر ۔۔۔ ہمیں آپکی ہمدردی نہیں۔۔۔۔

جسٹ شٹ اپ ۔۔۔ پانی پیئو ۔۔۔ پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھاتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا

آپ کے ہاتھ سے پانی ۔۔۔ پینے سے اچھا ہم مر ہی جائیں ۔۔۔ وہ حقارت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر خالی لہجے میں ہنسی تھی

میں آخری بار کہہ رہا ہوں پانی پیئو۔۔۔ اب کی بار وہ سخت لہجے میں بولا

ہمیں نفرت ہے آپ سے ۔۔۔ وہ سر زمین پر ٹکاتی ہوئی بولی 

اور آپ سے جڑی ہر شے سے ۔۔۔ ہم 

بات مکمل نہیں کر پائی تھی وہ اسے زمین سے اٹھا چکا تھا۔۔۔

فرزانہ نے منہ پر ہاتھ رکھا تھا  وہ اسے اٹھائے کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔ 

ہمیں نیچ۔۔۔۔۔ نیچے اتاریں۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے احتجاج کر رہی تھی 

ڈیم اٹ بھائی رک جاؤ ادھر مت جاؤ ۔۔۔۔ حرب جو  ویٹرز کو گارڈز کے حولے کر کے مرجان سے بات کی غرض سے اسکی طرف بڑھا تھا دائم نے اسکا کوٹ پکڑتے ہوئے دھیرے سے کہا جس پر وہ غصے سے لال ہوا تھا بےحد بچپنا تھا دائم میں جو اسے تپاتا تھا ۔۔۔۔

دیکھو ۔۔۔ وہ اکیلے نہیں ہیں ۔۔۔ حرب کے کندھے سے شرارت سے لگتا ہوا وہ شوخی سے بولا جس پر حرب بھی چونکا تھا وہ تعبیر کو اٹھائے ناجانے کہاں جا رہا تھا ۔۔۔

یہ کہاں جا رہے ہیں ۔۔ لڑکی کو لئے ۔۔۔ حرب نے حیرانگی سے پوچھا

آپکو بتا کر جائیں ؟ دائم کی بات پر وہ اسے گردن سے پکڑتے ہوئے زور دار مکا اسکی کمر میں مار گیا تھا

ہاہاہا ۔۔۔ دائم قہقہ مارتے ہوئے ہنس کر بھاگا تھا 

اسوقت کہاں جا رہے ہیں ؟ حرب نے سنجیدگی سے سوچا تھا اور کچھ سوچتے ہوئے وہ کار کی چابیاں لئے انکے پیچھے دبے پاؤں چل دیا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

""تمھاری وجہ سے وہ بلڈی ویٹرز پکڑے گئے اگر وہ ٹھیک ہوتے تو اب تک واپس لوٹ آئے ہوتے مطلب صاف ہے وہ پکڑے گئے نہ تم وہاں ہوتی ناں ہمیں یہ سب دیکھنا پڑتا"" 

وہ فون کان سے ہٹاتے ہوئے منہ کا زاویہ بگاڑ گئی تھی 

میں نے نیا فون لیا ہے ایٹ لیسٹ اس پر اپنی سو کالڈ ڈانٹ سے میرا دماغ خراب مت کریں انکل ۔۔۔۔ اور میں اپنا بدلہ لئے بغیر اس گھر سے نہیں جانے والی ۔۔۔ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تھی 

""سو بی اٹ ۔۔۔ مگر یاد رکھنا اس بار میں تمھاری مدد کے لئے نہیں آنے والا ۔۔۔ تم سے بڑھ کر مجھے میری عزت ، میری ریپوٹیشن ۔۔۔ اور میرا کام عزیز ہے "" 

کال ڈسکنیکٹ ہو گئی تھی 

واٹ نان سینس ۔۔۔ وہ فون رکھتے ہوئے بیڈ پر لیٹتے ہوئے فوراً سو گئی تھی 

۔۔۔

آغا مجھے زونیرا بہت پسند ہے  ۔۔۔ قصا بیگم نے کافی کا کپ آغا صاحب کی طرف بڑھایا جس پر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گئے تھے 

آپکی بات کا مقصد  سمجھ رہا ہوں مگر اسکی منگنی مرجان سے ہو چکی ہے ۔۔۔  آغا صاحب نے سنجیدگی سے کپ لیتے ہوئے کہا 

میں جانتی ہوں شاید خدا کو یہی منظور تھا مگر میں بچپن میں ہی آفرین سے زونیرا کو مانگ بیٹھی تھی کتنی پاگل تھی میں ۔۔۔ قصا بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا مگر وہ دل میں اداس تھی

وہ مرجان کو پسند کرتی ہے آپ جانتی ہیں ۔۔ کافی کا سپ لیتے ہوئے وہ قصا بیگم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر بولے تھے

مرجان واقعی بہت سمجھدار اور پیارا بچا ہے بالکل اپنی ماں پر گیا ہے ۔۔۔ وہ بھی بےحد خوبصورت تھی ۔۔۔ گوری رنگت تھی اور ویسی ہی آنکھیں بالکل ویسی ۔۔۔ مجھے آبش کا چہرہ نظر آتا ہے مرجان میں ۔۔۔ قصا بیگم پرانے دن یاد کر افسردہ ہوئی تھی 

جو کچھ ہوا ہمیں اسکا بےحد افسوس ہے لیکن منور نے بچوں کو سہارہ دیکر بہت نیکی کا کام کیا ہے ۔۔۔ 

آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔۔ قصا بیگم نے آغا صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔

ایک ہفتے میں بہت کام کرنے ہیں ۔۔۔ بےحد مصروفیات ہیں ۔۔۔ آپ کر لیں گی ؟ آغا صاحب نے باتوں میں دریافت کرنا چاہا

ہمارے بچوں کی شادی ہے آغا ۔۔۔ ہم ضرور کریں گے ۔۔۔ قصا بیگم پرجوش لہجے میں بولی تھی جس پر آغا صاحب مسکرائے تھے ۔۔۔

 ۔۔۔۔

 چھوڑیں  ہمیں ۔۔۔ وہ مسلسل احتجاج کر رہی تھی وہ اسے کار میں بیٹھاتے ہوئے سیٹ بیلٹ لگا کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا

ہٹائیں اسے ۔۔۔ کہاں لے جا رہے ہیں آپ ہمیں ۔۔۔

وہ غصے سے کہتی ہوئی سیٹ بیلٹ ہٹانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھی 

وہ کار کو تیز رفتار میں اندھیری سڑک پر دوڑا چکا تھا ۔۔۔

کار کی اسپیڈ دیکھ کر تعبیر کا دل تیزی سے دھڑکا تھا ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے گڑبڑا کر گیئر شفٹ پر مرجان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئی تھی مگر اسکے ٹھنڈے لمس کو محسوس کرتے وہ فوراً ہاتھ اٹھا چکی تھی 

پلیز سر دھیرے۔۔۔  چلائیں ۔۔۔ ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔۔۔ کار کی اسپیڈ مسلسل تیز ہو رہی تھی وہ دھیرے سے اسکی جانب کہتے ہوئے بولی تھی 

وہ آنکھوں میں ڈھیروں سنجیدگی لئے کار کو تیزی سے سڑک پر دوڑا رہا تھا وہ سہمی ہوئی خدا سے کچھ نہ ہونے کی دعائیں کر رہی تھی

"کچھ نہیں بولو گی آج تم ۔۔۔وہ سب سنو گی جو میرے دل میں ہے ۔۔۔ آج تک میں نے نہیں کہا مگر تم صرف ایک طرفہ تماشا دیکھ کر فیصلہ نہیں کر سکتی ۔۔۔ بےحد برا ہوں میں تمھارے نظروں میں رائٹ ہوں میں برا ۔۔۔ بےحد برا ہوں ۔۔۔ "" 

کار کو تیزی سے بریکس لگاتے ہوئے وہ سیٹ بیلٹ ہٹا کر نیچے اترتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا تھا اسکی طرف کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ سختی سے اسے باہر نکال چکا تھا ۔۔۔ 

وہ ایک ویرانے میں تھی دور دور تک آبادی نہیں تھی تعبیر سہم گئی تھی وہ کیوں لایا تھا اسے ایسی جگہ ۔۔۔

سختی سے اسکا بازو پکڑتے ہوئے وہ اسے ایک جانب لیکر چل دیا تھا وہ گھبراتے ہوئے خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی

#قسط⁰۹

وہ ایک پرانی بلڈنگ کے سامنے  اسے لیکر رکا تھا ۔۔۔ مگر سب جل چکا تھا اندازہ لگانا مشکل تھا کیا وہ ایک گھر تھا ؟؟؟

"دیکھ رہی ہو ۔۔۔ میری فیملی ہوا کرتی تھی یہاں ۔۔۔ میری فیملی تم سمجھتی ہو فیملی کا مطلب ۔۔۔ اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے وہ بےحد قریب کرتے ہوئے دھاڑا تھا اسکی آواز میں افسردگی، دکھ ، شرمندگی سب تھا 

اسکی دھاڑ پر تعبیر کی آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے ۔۔۔ وہ لب بھینچتی ہوئی اسکی آنکھوں میں دیکھ گئی تھی

"سب برباد کر دیا تمھارے ڈیڈ نے ۔۔۔ سب ۔۔۔ اک دس سال کے لڑکے کے سامنے اسکے ماں باپ جلتے رہے ۔۔۔ میری پھوپھی جان کو ۔۔۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ گولی مار گیا تھا ۔۔۔ ڈو یو انڈرسٹینڈ ۔۔۔ "" 

اسکی آنکھوں میں جمی وہ برفیں آج سب پگھل گئی تھی ۔۔۔ آج تعبیر نے اسے روتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔ کتنا غم سمائے بیٹھا تھا وہ اپنے دل میں ۔۔۔ 

""آخر کیوں ۔۔ کیا قصور تھا میرا ۔۔۔۔ میرا بچپن چھن گیا تھا اس دن مجھ سے ۔۔۔ بات صرف دولت کی تھی ۔۔۔ مانگ لیا ہوتا ۔۔۔ دے دیتے ڈیڈ سب ۔۔۔ مجھ سے میری جینے کی وجہ میری زارا چھین لی تمھارے باپ نے ۔۔۔ ایک چار سال کی معصوم بچی جو گناہوں ڈے پاک تھی اس کو موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش سمجھتی ہو تم ""

وہ سختی سے کہتے ہوئے اسکے کندھوں میں انگلیاں دھنساتا چلا گیا وہ درد سے آنکھیں بند کر گئی تھی 

"" درد ہو رہا ہے؟ اس درد کا کیا جو میں پچھلے چودہ سالوں سے اس دل میں سموئے بیٹھا ہوں ۔۔۔ اس نفرت کا کیا جو میں  تمھارے باپ سے ۔۔۔تم سے ۔۔۔  تم لوگوں سے جڑی اک اک شے سے کرتا ہوں ۔۔۔ یہی چاہتی تھی ناں تم میں تمھارے سامنے رو کر اپنے غم بیاں کروں ؟ مجھے تکلیف دینا چاہتی تھی ؟ دے چکی ہو تم بےوقوف لڑکی ۔۔۔ تم سے نفرت کرنے کی میری ہر کوشش ناکام ہوئی ۔۔۔  تمھاری یہ شکل۔۔۔ یاد دلاتی ہو تم اسکی ۔۔۔۔ اسے دھکے دیتے ہوئے وہ دھاڑا 

تعبیر منہ پر ہاتھ رکھتی سسکیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی مگر آج وہ ناکام ہو رہی تھی وہ کیوں رونا چاہتی تھی اسکی حالت پر ؟

 آج میں تمھیں آزاد کرتا ہوں جاؤ۔۔۔ چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔ آئندہ میرے سامنے مت آنا ۔۔۔ ورنہ جان سے مار دوں گا ۔۔۔ اتنی تکلیف دوں گا برداشت نہیں کر پاؤ گی ۔۔۔ تمھیں آج تک میں صرف مینٹلی ٹارچر کرتا آیا تم جیسی لڑکی کبھی اپنوں کے کھونے کا غم نہیں سمجھ سکتی ۔۔۔ چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔ جسٹ آؤٹ ۔۔۔  اور آئندہ میری نظروں کے سامنے مت آنا ۔۔۔

اسے جھٹکتے ہوئے وہ خود سے بہت دور کر چکا تھا

 نہیں ۔۔۔ وہ روتی ہوئی اسکا ہاتھ پکڑ گئی تھی

ایسا مت کہیں میں کہاں جاؤں گی مرجان ۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی میرا نام لینے کی ۔۔۔ اسے گردن سے دبوچتے ہوئے وہ غرایا  

ہمارا کیا قصور ہے ؟ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رو کر پوچھ گئی تھی

تمھارا قصور صرف اتنا ہے تم اس جلاد کی بیٹی ہو جس نے میرا گھر اجاڑ دیا ۔۔۔ اور کیوں رہنا چاہتی ہو تم تو آزاد ہونا چاہتی تھی ناں ؟ پھر کیوں نہیں جا رہی ؟ پیار کرتی ہو مجھ سے ؟ اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

اسکے تیز دھڑکتے دل کیساتھ وہ تیز ہوتی سانسوں کو بخوبی محسوس کر رہا تھا

"کچھ لوگ اکیلے ہو جانے کے خوف سے بےقدررے لوگوں کیساتھ بندھے رہتے ہیں "" 

وہ دھیمے سے کہتی ہوئی خود سے اور اس سے جھوٹ بول گئی تھی

وہ مسکرایا تھا اسکے لفظوں پر 

اکیلی نہیں ہو تم پوری دنیا ہے تمھارے لئے ۔۔۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر دوبارہ میرے سامنے بھی کبھی آئی ناں جان لے لوں گا میں تمھاری ۔۔۔ اسے چھوڑتے ہوئے وہ پیچھے ہوا تھا 

وہ روتے ہوئے اسکی جانب بڑھی ۔۔۔

سوچنا بھی مت ۔۔۔ سٹے اووے خونی کی بیٹی ۔۔۔ 

تعبیر کو اپنے قدم زمین میں دھنستے ہوئے محسوس ہو رہے تھے 

بھول جاؤ تمھاری زندگی کے وہ تین سال جن میں میں تھا ۔۔۔ تمھیں سزا نہیں دے سکتا ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ چلی جاؤ ...

ہم چاہتے ہیں آپکو ۔۔۔ 

وہ جو جانے کے لئے  پیچھے مڑا تھا اسکے لفظوں پر تھم گیا تھا 

ہمیں اکیلا چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔ہم کہاں جائیں گے ؟ 

اگر دوبارہ یہ لفظ اپنے منہ سے نکالا تو خدا قسم آگ لگا دوں گا تمھیں ۔۔۔ اسکے چہرے کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے وہ نفرت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر چھوڑ گیا تھا 

وہ بوجھل قدموں کیساتھ سڑک پر گری تھی

مت جائیں ! 

وہ مٹھی بھینچتے ہوئے کار کے ہوڈ پر مار گیا تھا ۔۔۔ 

تعبیر نے روتے ہوئے آنکھیں بھینچی تھی ۔۔۔

میری زندگی سے نکل جاؤ ۔۔۔ وہ نفرت سے دھاڑتے ہوئے کار میں بیٹھ کر وہاں سے جا چکا تھا

سنسان اندھیری سڑک میں وہ اکیلی رہ گئی تھی چاروں طرف اندھیرا اور سناٹا تھا صرف خاموشی تھی ۔۔۔ صرف خاموشی ۔۔۔ اور تنہائی تھی جس سے وہ بےحد گھبراتی تھی ۔۔۔ ایک ہی پل میں اسکی پوری زندگی بدل گئی تھی ۔۔۔ 

 ہلکی ٹھنڈی ہوا میں وہ اٹھ کر سنسان سڑک پر چل دی تھی چاروں طرف خاموشی چھائی تھی مگر اسکے دل میں اٹھتے طوفان کا کیا ؟ وہ بس مر جانا چاہتی تھی وہ اس ستمگر سے کیسے عشق کر بیٹھی تھی جس نے ہمیشہ اسے غم کے سوا کچھ نہیں دیا تھا وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی وہ اسے چھوڑ گیا تھا 

آسمان پر بادل گرجا تھا وہ سہمتے ہوئے خود کو اپنے بازوں سے چھپاتے ہوئے سر جھکائے سڑک پر سر چھپانے کی جگہ تلاش رہی تھی دور دور تک کچھ نہیں تھا صرف تنہائی کے ۔۔۔

اس بار بادل تیزی سے گرجا تھا وہ کار کو بریکس لگاتے ہوئے رکا تھا ۔۔۔ 

____ایکدم دھماکہ ہوا اور لائٹ جا چکی تھی

تعبیر نے گھبراتے ہوئے اسکا کوٹ پکڑا تھا جس پر وہ سنجیدگی سے اسے (بھیگی بلی بنا)دیکھ گیا تھا____

وہ لب بھینچتا ہوا اسکی یادوں کو جھٹلا چکا تھا مگر وہ جانتا تھا وہ ڈرتی ہے بادل کی گرج سے اچانک ہونے والی آہٹ تک سے ۔۔۔۔  پھر کیوں اکیلا چھوڑ آیا تھا اسے ؟

چلتے ہوئے اندھیرے میں اسکے پیر کو پتھر سے ٹھوکر لگی تھی وہ منہ کے بل گری تھی ۔۔۔ 

_____ہمیں مار دیں گے ۔۔۔ ہم نہہں بچیں گے سر ۔۔۔

وہ اسکا کوٹ مٹھی میں مظبوطی سے پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ کوائٹ ۔۔ رونا بند کریں۔۔

وہ روتے ہوئے اسکے کوٹ میں سر چھپا چکی تھی___

وہ اسکی یادوں کو مسلسل جھٹک رہا تھا 

وہ اٹھتے ہوئے دوبارہ سنسان سڑک پر چل دی تھی بارش بےحد تیزی سے شروع ہو گئی تھی وہ گھر پہنچ چکا تھا اسوقت رات کے بارہ بج رہے تھے اور وہ اسے سنسان سڑک پر اکیلا چھوڑ آیا تھا ۔۔۔

حرب بھی سب کچھ دیکھ کر واپس لوٹ آیا تھا وہ اسوقت کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف گیا تھا اسوقت مرجان سے کچھ کہنا آگ میں تیل ڈالنے کے برابر تھا ۔۔۔ وہ خود کو کمرے میں بند کر چکا تھا

۔۔۔۔۔

اپنی خبر، نہ اس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے 

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے 

پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی 

لیکن جو تم سے مل کے ہوا ہے، یہ عشق ہے 

تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابین عقل و دل 

بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے 

بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون 

اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے 

کیا رمز جاننی ہے تجھے اصل عشق کی؟ 

جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے 

شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد 

اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے 

زیر قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا 

بند قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے 

ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض 

اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے 

شفاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال 

سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے 

یعنی کہ کچھ بھی اس کے سوا سوجھتا نہیں؟ 

ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے 

جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس 

جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے 

اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا 

اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے 

سجدے میں ہے جو محو دعا وہ ہے بے دلی 

یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے 

ہوتا اگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست 

اس کی رضا شکست انا ہے، یہ عشق ہے 

شاہ~ ماننے میں تأمل تجھے ہی تھا 

میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے

۔۔۔۔۔

فرزانہ کو جیسے ہی مرجان کے گھر آنے کی خبر ہوئی وہ سیدھی اسکے کمرے کی جانب گئی تھی جہاں سے گزرتا حرب اسکو دیکھ کر رکا تھا اس سے پہلے وہ دروازے پر دستک دیتی حرب اسکے سامنے آیا تھا 

اسوقت کیا چاہیے آپکو ؟ وہ دروازے کے سامنے کھڑا ہوتے ہوئے بولا

میری بیٹی ۔۔۔ وہ صاحب ۔۔

حرب سمجھ چکا تھا ۔۔۔

وہ ٹھیک ہے ۔۔۔ دراصل اسکی طبعیت تھوڑی خراب تھی اس کئے اسپتال ایڈمٹ کرنا پڑا ۔۔۔ کل تک واپس آ جائے گی آپ فکر مت کریں ۔۔۔ حرں نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا اسے ٹالنے کے لئے 

مگر وہ وہاں اکیلی ؟ اسکے پاس کوئی ہونا چاہیے ناں میں وہاں جاتی۔۔۔

نہیں آپ آرام کریں وہاں پروپر میڈیکل کیئر کے لئے ڈاکٹرز کا پورا سٹاف ہے آپ پریشان مت ہوں سب بہتر ہو گا ۔۔۔ 

حرب فرزانہ کو واپس بھیج کر اپنے کمرے کی جانب جا چکا تھا جبکہ اسکے جاتے ہی گارڈ نے مرجان کے دروازے پر دستک دی تھی

وہ سخت ٹھنڈ میں شاور کے نیچے دونوں مٹھیاں بھینچے دیوار پر رکھتے آنکھیں موندے بھیگ رہا تھا ۔۔۔

سر ارجینٹ ہے ۔۔۔ گارڈ نے دوبارہ دروازے ہر ناک کیا تھا ۔۔۔

وہ سرخ انگار آنکھوں کو کھول چکا تھا ۔۔۔ کیا وہ رو رہا تھا ؟ 

شاور بند کرتے ہوئے وہ غصے کی آخری حدود پر دروازہ کھول چکا تھا 

گارڈ نے اسکی حالت دیکھی گارڈ بری طرح سہم گیا تھا وہ بہت غلط وقت پر آیا تھا بمشکل وہ بولا تھا

سر دو آدمی مینشن میں چوری چھپے گھس آئے تھے ۔۔جب ان سے حرب سر ۔ نے سوال کرنا چاہا تو انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی ۔۔ ان سے بہت پوچھا مگر کچھ نہیں بتا رہے ،۔۔

کہاں ہیں وہ اور مجھے اب بتا بتا رہے ہو ۔۔۔ وہ سخت لہجے میں بولا

سوری سر۔۔۔ وہ آپکے روم میں ہیں ۔۔ آپ گھر نہیں تھے اس لئے آپکے آنے کا انتظار کر رہے تھے فون کر کے آپکو ڈسٹرب نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ گارڈ نے سر جھکاتے ہوئے کہا اور پھر اسکے اشارے پر چلا گیا

کون ہے جو میرے معملات میں دخل اندازی کر رہا ہے اتنی ہمت میرے گھر میں ۔۔۔ وہ دروازہ بند کرتے ہوئے سوچ گیا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

ہم کچھ نہیں جانتے ،، ہمیں صرف پورے گھر میں کیمرے نصب کرنے کا آرڈر ملا تھا اسکے لئے ہمیں 10 لاکھ روپے ملے تھے دینے والے کا چہرہ نہیں دیکھ پایا ۔۔۔ 

درد سے چیختے ہوئے وہ ایک ہی بار میں سب بول گیا تھا

ندیم اور حرب نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا تھا جو وہ کتنی دیر سے پوچھنا چاہ رہے تھے اسنے صرف پانچ منٹ میں سب اگلوا لیا تھا۔۔۔

سر پلیز چھوڑ دیں ۔۔۔ میری فیملی ہے ۔۔۔ میں نے سب مجبوری میں کیا میرے پاس پیسے نہیں تھے ۔۔۔  گرم ابلتا پانی دیکھ کر اسے ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے جبکہ دوسرا آدمی خوف سے آنکھیں پھیلا گیا تھا

کیا کیا آپ نے اس لڑکی کیساتھ؟ وہ جو سنجیدگی سے ہاتھ جھاڑتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا یکدم رکا تھا

چھوڑ دیا اسے اکیلے اسوقت  بڑے صاحب اتنے کٹھور دل کیسے ہو سکتے ہیں آپ ارے عمر ہی کیا ہے اس کی بچی ہے وہ کہاں جائے گی رات کے اس پہر ؟ فرزانہ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا تھا

 میرے معاملات سے دور رہو ... اور یہ بات مجھے بار بار دھرانی کیوں پڑتی ہے ۔۔۔ اسکا زکر سنتے ہی اسکا خون کھول اٹھا تھا ۔۔۔ مٹھیاں بھینچتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں بولا تھا جس پر فرزانہ ٹھٹک کر رہ گئی تھی 

معاف کریں بڑے صاحب  زادے ہمیں کوئی حق نہیں تھا آپکے معاملات میں بولنے کا اگر آپ اس لڑکی کو نکال ہی چکے ہیں تو یہ میرے پاس نہیں رہنا چاہیے اسے اپنے پاس رکھ لیں ،، میرا کام ختم ہوا میں کل ہی اس گھر سے چلی جاؤں گی ... دوپٹے کی گانٹھ کھولتے ہوئے وہ ہاتھ میں کچھ باریک سی چمکتی چیز اسکی جانب بڑھا چکی تھی جسے وہ سنجیدگی سے دیکھ چکا تھا 

اسکا ہاتھ کانپا تھا وہ بریسلٹ اٹھاتے ہوئے ...

یہ کیسے آئی آپکے پاس ... وہ بریسلٹ لیتے ہوئے گمبھیر آواز میں گویا ہوا تھا 

وہ لڑکی۔۔۔ اسی کی تھی بہت پہلے میرے حوالے کر چکی تھی یہ کہہ کر کہ یہ اسکے لئے بہت خاص ہے اسنے زندگی کے ہر موڑ پر اسکا ساتھ دیا ہے اسکی ساتھی ہے یہ مگر افسوس یہ میں اسے لوٹا نہیں پائی ... معاف کریں بڑے صاحب زادے ... وہ ہاتھ جوڑتی ہوئی وہاں سے جا چکی تھی جبکہ مرجان کاظمی کو اپنے پیروں سے زمین کھینچتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

وہ بریسلٹ کو مٹھی میں بھینچتے ہوئے تیزی سے گیسٹ ہاؤس کی طرف بڑھا تھا 

                                              ✩✩✩✩✩✩

وہ چادر سے منہ ڈھکتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل آئی تھی تیز تیز قدم چلتی ہوئی وہ سنسان سڑک پر چل رہی تھی آس پاس دیکھتے ہوئے چادر سے چہرہ چھپائے وہ مشکوک لگ رہی تھی 

کہاں مر گئے آپکے ڈرائیور  الہام انکل ۔۔ وہ فون کان پر رکھتی ہوئی تنک کر دھیرے سے بولی تھی 

گلی کر پاس ایک کار کھڑی ہے چپ چاپ اس میں بیٹھ جاؤ اور تم نے میری بات مان کر بہت بہتر فیصلہ کیا ہے ... کال ڈسکنیکٹ ہو گئی تھی وہ تیزی سے چلتی ہوئی گلی تک پہنچی تھی جب کوئی بازو سے پکڑتے ہوئے اسے سختی سے کھینچ چکا تھا اور اسکے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اسکا چہرہ روڈ لائٹس میں دیکھ کر اسکی روح فنا ہوئی تھی 

چٹاخ !

ایک زور دار تھپڑ اسے اس وجود دور گرا چکا تھا

نہیں مجھے مت مارو ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑتی ہوئی گڑگڑائی تھی 

جانتی ہو مرجان کاظمی سے جھوٹ بولنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے ، اور اتنا بڑا جھوٹ ؟ وہ اسے بازو سے کھینچتے ہوئے دبوچ گیا تھا

اس میں میری کوئی غلطی نہیں ، میں تم سے پیار۔۔۔

جسٹ شٹ اپ ... اسکے کڑک دار لہجے پر وہ سہمی ہوئی کانپ گئی تھی

میں سچ کہہ رہی ہوں میں تم سے بدلہ لینا چاہتی تھی مگر میں نہیں لے پائی میرا وہاں آنے کا مقصد تمھارے لیپ ٹاپ سے وہ ڈرائیو نکالنا تھا جس میں تمھارا پرسنل ڈیٹا ہے اور جب تم تبسم کو لیکر باہر گئے میں تب نکال سکتی تھی ناں تمھارا لیپ ٹاپ اوپن پڑا تھا تمھارے روم میں لیکن۔۔۔ لیکن میں نے نہیں نکالی میں پیار کر بیٹھی تم سے  ۔۔۔ میرا یقین کرو میں تمھارا برا نہیں چاہتی۔۔۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں سب بغیر ہوچھے ہی بتا رہی تھی 

جبکہ لفظ تبسم پر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

ہاں وہی ہے تبسم تم جان گئے ہو ناں ؟جب میں نے تمھیں اس نوکرانی سے بریسلٹ لیتے دیکھا تو میں ڈر گئی تھی تمھیں سب پتا چل جائے گا اس لئے ۔۔۔ اس لئے میں بھاگ نکلی .... مجھے خوف تھا تم مجھے مار دو گے .. وہ گھبراتے ہوئے کہتی ہوئی نظریں جھکا گئی تھی 

زارا ... وہ زارا تھی ... وہ اسکے بازو پر گرفت ہلکی کرتے ہوئے صدمے اور افسوس کیساتھ ایک قدم پیچھے ہٹا تھا 

وہ سہمی ہوئی بھاگنے کی کوشش میں پیچھے ہٹی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا تھا 

نہیں ۔۔۔ ایک سٹیپ اور نہیں ۔۔۔ وہ پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکالتی ہوئی اسے گن پوائنٹ پر لے گئی تھی جبکہ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلا تھا 

اب بھی وقت ہے سب بھول کر میرے ساتھ چلو ... میں پیار کر بیٹھی ہوں تم سے میں قسم کھاتی ہوں کسی سے تمھاری آئیڈنٹٹی کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گی تم کون ہو کیوں ہو راز رہے گا مجھ سے نکاح کر لو ہم یہاں سے دور چلے جائیں گے... گھبراتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ کر وہ جلدی سے بولی تھی جس پر وہ کرخت نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا جو اسکے لیپ ٹاپ سے اسکے بارے میں سب کچھ جان چکی تھی

ٹھیک ہے جیسے تم کہو گی ویسا ہی ہو گا ... وہ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے اسکی طرف بڑھا تھا جس پر وہ حیران ہوئی تھی اور کانپتے ہاتھوں سے پسٹل اسکی طرف کر گئی تھی 

ٹیک اٹ ایزی گرل .... تم جانتی ہو میں کون ہوں ... کیا میں تم جیسی نازک لڑکی سے مر جاؤں گا ۔۔۔ چچچچ ... ہاؤ سوئیٹ ... وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے اسکے اردگرد گھوم رہا تھا جیسے کوئی عقاب اپنے شکار پر جھپٹنے کی تاک میں ہو وہ سہمی ہوئی پسٹل نیچے کر گئی تھی کیونکہ اب وہ پھنس چکی تھی

کیونکہ تم میرے بارے میں سب جان چکی ہو تمھارا زندہ رہنا میرے لئے خطرے سے خالی نہیں اور دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو تمھیں گنی چنی سزائیں دینا باقی ہیں فرسٹ اس جھوٹ کے لئے جو تم نے مجھ سے بولا اور اپنے باپ کے پیارے پیارے کارناموں کے لئے ... انفیکٹ بہت مزہ آنے والا ہے .... وہ  اسکے کان کے قریب بول کر اس کے سر پر بم پھوڑ چکا تھا 

تمھاری زارا کو انکل نہیں چھوڑیں گے وہ اسے مار دیں گے تم کیا سوچتے ہو اب تک انکل نے اس پر نظر نہیں رکھی ؟ تم ڈیڈ کو مار چکے ہو مگر ابھی بہت لوگ ہیں جنہیں تم نہیں جانتے وہ اس لڑکی پر شروع سے نظر رکھے ہوئے ہیں جب سے تم پر اٹیک ہوا وہ سب جانتے ہیں تم نے اگر اسے ملنے کی کوشش بھی کی تو انکل اسے فوراً مار دے گے.....

وہ پھرتی سے اسکی گردن دبوچتے ہوئے اسکا بازو مروڑ چکا تھا کرچ کی آواز کیساتھ وہ چیخی تھی ۔۔۔

ابھی صرف بازو کی ایک ہڈی توڑی ہے اگر اسے ایک معمولی سی کھروچ بھی آئی تمھارا جینا حرام کر دوں گا ۔۔۔ وہ پھنکارتے ہوئے کہہ کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہاں سے جا چکا تھا وہ زمین پر بیٹھتی ہوئی کراہ گئی تھی جب تین سیاہ کپڑوں میں ملبوس گارڈز وہاں نمودار ہوئے تھے وہ گھبراتے ہوئے اٹھی تھی اسے لیکر کار میں بیٹھاتے ہوئے وہ اسکے آرڈر پر اسے نامعلوم سیکریٹ ہاؤس پر پہنچا چکے تھے ۔۔۔۔

                                              ✩✩✩✩✩✩

چھے دن بعد :-

یارر میری بیٹی کو سمبھال لو گی پلیز صرف تھوڑی دیر کے لئے مجھے ارجینٹلی گاؤں جانا ہے اور اسے لیکر نہیں جا سکتی ۔۔۔ وہ جو ڈش واش کرنے میں مصروف تھی پیچھے مڑتے ہوئے ایک پانچ سالہ بچی پر نظر پڑی تھی وہ بڑی بڑی براؤن آنکھوں سے اسے دیکھ بھی رہی تھی اور  اپنی پونی کیساتھ کھیل رہی تھی 

کیوں نہیں آپا آپ اسے میرے پاس چھوڑ دیں شفٹ کے بعد ہم پارک گھومنے چلیں گے ۔۔۔وہ بچی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکرائی تھی جس پر بچی اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے مسکرائی تھی 

دیکھو آپی کو زیادہ تنگ مت کرنا میں واپسی پر تمھارے لئے بہت ساری چاکلیٹ لیکر آؤں گی ۔۔۔  اسکے سر پر بوسہ دیتی ہوئی وہ چادر پہنتی بولی تھی

اوکے مماں۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی 

سمبھال لو گی ناں ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھ گئی تھی جس پر تعبیر نے ہاں میں سر ہلا کر اسے مطمئن کیا تھا 

بہت وقت لگا تھا اسے خود کو سمبھالنے میں لیکن وہ اب سمبھل گئی تھی اپنے ماضی سے نکل آئی تھی بےحد کوششوں کے بعد مگر اس دشمنِ جاں کو نہیں بھلا پائی تھی اب بھی اسکی سحر انگیز آنکھیں اسکے دل و دماغ میں بسی تھی ۔۔۔ 

وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے وہاں سے جا چکی تھی جبکہ بچی کو شیلف پر بیٹھاتے ہوئے وہ دوبارہ ڈش دھونے میں مصروف ہو گئی تھی وہ ایک ریسٹورنٹ میں جاب کرنے لگی تھی اور وہیں پر ہی رہتی تھی صباء اسکی اچھی دوست بن گئی تھی اکثر دونوں ایک دوسرے کی مدد کر دیا کرتی تھی آج وہ اپنی بیٹی اسکے پاس چھوڑ گئی تھی

ہمیں بھوک لگی ہے ،، وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جلدی سے بولی تھی جس پر تعبیر نے مسکراتے ہوئے بس ایک منٹ کہہ کر جلدی سے ڈش دھونا شروع کیا تھا 

                                            ✩✩✩✩✩✩

سر وہ اسے لے گیا ،، ایک آدمی منہ کپڑے سے ڈھکے سر جھکائے کھڑا تھا جبکہ اسکے سامنے ایک شخص سگار پیتے ہوئے اسکی بات پر شیشے کا گلاس اسکی طرف پھینک گیا تھا گلاس اسے سر میں لگا تھا وہ سر پکڑتے ہوئے نیچے گرا تھا

بےوقوف ایک کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا ، لے گیا وہ شہوار کی بیٹی کو اسی بات کا ڈر تھا ۔۔۔ وہ بھاری آواز میں پھنکارتے ہوئے بولا تھا

باس وہ لڑکی ایک ریسٹورنٹ میں جاب کر رہی ہے اور مرجان کاظمی کا کچھ پتا نہیں وہ پچھلے چھے دنوں سے اسکے آس پاس بھی نہیں بھٹکا شاید اسے بھڑک لگ گئی ہے ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں ،، ایک گارڈ نے آ کر اسے تمام صورت حال سے آگاہ کیا 

اور ایف۔کے انڈسٹری کیساتھ ڈیل کا کیا ہوا کیا وہ راضی ہوئے ؟ وہ سگار پیتے ہوئے بولا تھا

جی باس وہ راضی ہو گئے میٹنگ کے لئے پرانی فیکٹری میں ملنے پر اتفاقِ رائے ہوا ہے ۔۔۔

چلو کچھ تو اچھا ہوا ،۔۔ اور اس بےوقوف کو لے جاؤ اور اسکی مرہم پٹی کروا دو ورنہ مر جائے گا بلک بلک کر ۔۔۔ 

جی باس ۔۔۔ وہ نیچے پڑے آدمی کو لیکر کمرے سے جا چکا تھا اسکے جاتے ہی کمرے کی لائٹس روشن ہوئی تھی

سب سے ٹاپ سیریئل کِلر کو رپورٹ کرو اور اسے کہو کہ الہام درانی ملنا چاہتا ہے اس سے ۔۔۔ وہ فون پر کسی کو آرڈر دیتے ہوئے بولا تھا

                                             ✩✩✩✩✩✩

کاظمی مینشن :-

ٹھیک سے کرو یہ کیا تھرڈ کلاس پھول لگا رہے ہو منع کیا تھا ناں گیندے کے پھولوں کی ڈیکوریشن نہیں ہو گی اور بلو لائٹنگ مہندی کے فنگشن پر دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا …… کشمالہ بیگم ڈیکوریٹرز پر ہاتھ جھاڑ رہی تھی اور وہ سر جھکائے بس سن رہے تھے 

سب جلدی سے فکس کرو مہمانوں کے آنے سے پہلے سارا کام ٹھیک سے ہو جانا چاہیے ورنہ تمھارا دھندا بند کروا دوں گی … روب سے کہتی ہوئی وہ گارڈن کی طرف بڑھی تھی جہاں مین اسٹیج اور کارپٹ بچھائے جا رہے تھے اسکے جاتے ہی سب جلدی سے کام میں جٹ گئے تھے

پورے مینشن کو دلہن کی طرح سجایا جا رہا آج علیزے اور زنیرا دونوں کا مہندی کا فنگشن ایک ساتھ ہونا تھا 

یہ پیلے پردے وہاں لگاؤ اور وائٹ والے مین اینٹرینس پر لگاؤ .… اور  درختوں پر وائٹ لائٹنگ لگانا … ندیم ڈیکوریٹرز کو سمجھا رہا تھا

بڑا ہی کوئی مصروف قسم کا آدمی ہے … ژالے نے آنکھیں گھماتے ہوئےاسکی جانب دیکھ کر کہا وہ خود پر کسی کی نظر محسوس کرتے ہوئے پیچھے مڑا تھا

وائٹ  کاٹن کے شلوار قمیض سوٹ میں کندھوں پر  بلیک شال ڈالے وہ کافی اٹریکٹیو لگ رہا تھا ژالے نے بغیر آنکھیں جھپکے اسے دیکھا وہ فوراً نظریں چراتے ہوئے واپس کام میں مصروف ہو گیا تھا 

اب دیکھتی ہوں کیسے بات نہیں کرتے ۔۔۔ وہ شوز کی سٹریپ جان بوجھ کر توڑ چکی تھی

سنو ۔۔۔ مجھے تھوڑی مدد چاہیے ... شرارت سوجھتے ہی وہ اٹھ کر اسکے پاس آ کر رکی تھی

وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا 

وہ میرے شوز کی سٹریپ ٹوٹ گئی ہے ۔۔۔ وہ جلدی سے بڑبڑائی تھی جس پر وہ سرد نظروں سے اسکے پیر کو دیکھ گیا تھا 

تو آپ کسی اور سے بھی مدد لے سکتی ہیں میم ، وہ نظریں جھکائے ہی بولا تھا

مجھے میم مت کہا کرو بہت ہی عجیب لگتا ہے اور سٹریپ ہی تو تم جوڑ دو گے ناں ۔۔ وہ شرارت سے بولی تھی جس پر وہ  سٹریپ جوڑنے کی غرض سے سنجیدگی سے نیچے جھکا تھا وہ مسکرائی تھی بہت کیرنگ تھا وہ اور اسی لئے وہ بار بار اس سے بات کرنا چاہتی تھی بہانوں سے ہی سہی۔۔۔

آپ بیٹھ جائیں ۔۔۔  سر اٹھاتے ہوئے وہ اسکی جانب دیکھ کر بولا تھا ژالے مسکراتے ہوئے چیئر کھینچ کر بیٹھ گئی تھی 

کشمالہ بیگم کی نظر ان دونوں پر پڑی تھی ژالے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ سنجیدگی سے سٹریپ جوڑنے میں مصروف تھا

وہ مسکراتے ہوئے ان دونوں کے پاس آئی تھی

ژالے میرا بچا کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ وہ لہجے میں شیرنی گھولتے ہوئے بولی تھی جبکہ ندیم سنجیدگی سے اٹھا تھا انہیں دیکھ کر سر جھکاتے ہوئے۔۔۔

ژالے نے گھبرا کر ندیم کو دیکھا تھا

بیٹا یہاں نوکروں میں کیا کر رہی ہو تم۔۔۔۔ جاؤ اندر اور اپنی بھابھی کو تیار کرنے میں مدد کرو … وہ ندیم کو دیکھ کر طنز سے بولی تھی 

اور تم جا کر کام کرو … ندیم سر جھکاتے ہوئے وہاں سے جا چکا تھا ژالے نے افسردگی سے اسے جاتے دیکھا تھا

بیٹا اپنے سٹینڈرڈ کے لوگوں میں رہا کرو سمجھ رہی ہو ناں ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے میٹھے لہجے میں کہا ژالے سر کو ہاں میں ہلاتی ہوئی گولڈن بھاری لہنگا سمبھالتے ہوئے مینشن کے اندر جا چکی تھی ندیم نے سب بخوبی سنا تھا مگر وہ کچھ نہیں بولا تھا

                                             ✩✩✩✩✩✩

حرب مرجان کا  مہندی کا ڈریس لیکر اسکے کمرے کی طرف بڑھا تھا دھیرے سے دروازہ کھولتے ہوئے وہ اندر آیا تھا ۔۔

خمار  آلود آنکھوں سے وہ سر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھ کر دوبارہ کشن پر سر رکھ گیا تھا

بھائی یہ کیا ہے ؟ آج آپکی مہندی کا فنگشن ہے اور آپ ابھی تک سو رہے ہیں … حرب حیرانگی سے پوچھ گیا تھا 

اپنی بکواس بند کرو … وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے آنکھیں موند گیا تھا

یہ کیا ہے ؟ آپ نے شراب پی ہے بھائی ؟ 

 وہ بیڈ کے قریب پڑی وائن کی خالی بوتلوں کا ڈھیر دیکھ کر چونکا تھا وہ سرخ آنکھوں سے اسے بدمزہ ہو کر دیکھ گیا تھا 

یہ کیا حال بنایا ہوا ہے بھائی ۔۔۔ پورے کمرے کی بکھری حالت پر  جب حرب کی نظر پڑی تو وہ مزیدحیران ہوا ، وہ آنکھیں دوبارہ موندتے ہوئے سو گیا 

کیا ہوا ہے بھائی ؟ وہ دھیرے سے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھ رہا تھا وہ آنکھیں موندے بس کروٹ بدل گیا تھا

اگر اتنی ہی خاص ہے تو واپس کیوں نہیں لے آتے خود کو تکلیف دیکر کسے بےوقوف بنانا چاہتے ہیں آپ بھائی ؟ 

حرب کی بات پر وہ سرخ انگار آنکھوں سے اسے دیکھ چکا تھا

معزرت چاہتا ہوں لیکن آپکی حفاظت میری پہلی ذمہ داری ہے اس لئے جب کل آپ اکیلے گھر سے گئے کل رات میں نے آپکا پیچھا کیا اور سب دیکھ اور سن لیا ۔۔۔

وہ اسکا گریبان پکڑ چکا تھا 

آپ محبت کر بیٹھے ہیں اس سے بھائی …حرب نے لب بھینچتے ہوئے سچ کہا تھا وہ اسکا گریبان چھوڑتا ہوا پیشانی پر بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک جانب دیکھ گیا تھا 

حرب نے اسکے ہاتھ میں وہی سرخ دوپٹا دیکھ کر اسکی جانب دیکھا  جو پوری رات اسے سینے سے لگائے سویا رہا ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کچھ سوچ رہا تھا

یہ سب آپ کے فیصلے پر ہے اگر وہ اتنی خاص ہے تو جائیں اسی پل اسے لیکر آئیں ۔۔۔ وہ کہتے ہوئے اسکا ڈریس اسکے پاس رکھتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا تھا 

وہ سپاٹ نظروں سے اپنے مہندی کے سوٹ کو دیکھ گیا تھا 

#قسط۱۱

آفرین … کہاں ہوتی ہو آج کل تمھیں تو باہر ہونا چاہیے تم اندر ۔۔۔ تم رو رہی ہو کیا .؟

قصا بیگم کمرے میں داخل ہی ہوئی تھی جب انہوں نے جلدی سے آفرین بیگم کو چہرہ صاف کرتے دیکھا 

وہ غم چھپانے کے لئے مسکرا دی تھی 

آفرین تم رو رہی تھی ؟ آخر کیا ہو گیا اس گھر میں کتنا کچھ بدل گیا ہے ۔۔۔ قصا بیگم کی بات پر وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی تھی 

تم اچھے سے جانتی ہو قصا ۔۔۔ مرجان زارا سے بچپن سے محبت کرتا تھا۔۔۔  اور اب میری ہی بیٹی کی ضد پر شاید وہ مجبوری میں یہ شادی کر رہا ہے ۔۔۔ اور منور صاحب نے ایک بار نہیں پوچھا مجھ سے کہ میں کیا چاہتی ہوں آخر وہ میری بچی ہے قصا کیا میرا حق نہیں ہے ؟ آفرین بیگم روتے ہوئے بولی تھی

قصا بیگم نے آفرین بیگم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں دلاسہ دیا 

میں جانتی ہوں کشمالہ کے آنے کے بعد گھر کے حالات قدرے سنجیدہ ہو گئے ہیں منور تمھیں وہ مقام نہیں دیتا تم کیوں نہیں بولتی اپنے حق میں آفرین .؟ آخر وہ تمھاری اولاد ہے تم کشمالہ کو اچھے سے جانتی ہو پھر بھی اسے اپنی اولاد کو کنٹول کیسے کرنے دے سکتی ہو ۔۔۔ وعدہ کرو مجھ سے کہ آج منور صاحب سے اس بارے میں بات کرو گی ۔۔۔ 

آفرین بیگم نظریں جھکا گئی تھی وہ ہرگز منور صاحب کے سامنے نہیں بول سکتی تھی اور انکی چپی کا فائدہ پچھلے کئی سالوں سے کشمالہ بیگم اٹھا رہی تھی ۔۔۔

                                            ✩✩✩✩✩✩

کیا اسنے تم سے اس بارے میں بات کی ؟ منور صاحب نے کشمالہ بیگم کی جانب دیکھتے پوچھا جو مرر میں دیکھ کر کان میں جھمکے ڈال رہی تھی 

نہیں منور اسنے ابھی تک کچھ نہیں کہا اور میں حیران ہوں وہ اپنے باپ سے جڑی باتیں جاننے میں کوئی جلدی نہیں دیکھا رہا اور تو اور یہ شادی بھی کر رہا ہے اسکے دماغ میں کچھ تو چل رہا ہے منور ۔۔۔ کشمالہ بیگم چالاکی سے بولی تھی

ہو سکتا ہے اسے صرف بزنس اور پراپرٹی میں دلچسپی ہو ۔۔۔ منور صاحب نے داڑھی کھجاتے ہوئے کہا 

نہیں منور کچھ اور ہے جو وہ چھپا رہا ہے اور ہم کوئی جلد بازی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہم سے چار قدم آگے رہتا ہے ایک بھی اوور سٹیپ اور ہمارے سارے راز کھل جائیں گے اسکے بعد وہ ہمیں دھکے مار کر اس گھر سے رفع دفع کر دیگا ۔۔۔ وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے منہ بسورتی بولی جس پر منور صاحب سر کھجا کر رہ گئے 

                                            ✩✩✩✩✩✩

باس الہام درانی  آیا ہے ۔۔۔

منہ ماسک سے ڈھانپے ایک گارڈ اسے کمرے تک لیجا کر دروازہ بند کرتے ہوئے بولا تھا

وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اندھیرے میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا اس کی شخصیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا 

اس لڑکی کو مارنا ہے  ڈیمن آج ہی !

وہ ایک فوٹو ٹیبل پر ڈالتے ہوئے حقارت سے بولا جس پر وہ کرسی گھماتے ہوئے ٹیبل سے فوٹو اٹھا گیا تھا 

اتنی چھوٹی ؟ وہ اسکی معصومیت دیکھتے ہوئے سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا بھاری گمبھیر آواز میں بولا تھا

معصومیت پر مت جاؤ صرف اپنا کام کرو ،، جتنی رقم چاہیے مل جائے گی مگر پولیس کو بھڑک بھی نہیں لگنی چاہیے کہ یہ مرڈر ہے ۔۔ الہام درانی خباثت سے بولا تھا

چالیس ۔۔۔

وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا

چالیس لاکھ ایک لڑکی کے لئے ؟ الہام درانی چونکا تھا

یہ مت بھولو تم ایک معصوم  زی روح کو مروا رہے ہو اور میں لڑکیوں کو نہیں مارتا ۔۔۔ ،، اور اگر ڈیل فکس نہیں تو میں تمھارا نام اس فوٹو سمیت پولیس کے حوالے کر سکتا ہوں ۔۔۔ وہ سرد لہجے میں بولا تھا الہام درانی کو پسینے چھوٹے تھے

ٹھیک ہے میری بلا سے جو کرنا ہے کرو اسکے ٹکڑے کر کے کہیں بھی پھینک دو بس پتا نہیں چلنا چاہیے کہ یہ انسان ہے اور قتل ہوا ہے ۔۔۔ دنیا کے بہترین سیریل کلر ہو مجھے ڈس اپوئنٹ مت کرنا ۔۔۔ اور یہ رہا کیش ۔۔۔

بریف کیس اسکے سامنے کھولتے ہوئے وہ خباثت سے بولا

وہ گارڈ کو اشارہ کر چکا تھا جو جلدی سے پیسے گنتے ہوئے ہاں میں سر ہلا گیا تھا

ہو جائے گا ۔۔۔ وہ اسے مطمئن کر چکا تھا

وہ لڑکی اس وقت وانڈرلینڈ ریسٹورنٹ میں ہے ، میرے آدمیوں کی اس پر نظر ہے فکر مت کرو تمھیں کچھ نہیں کہا جائے گا اسے اٹھوا لو وہاں سے پھر اسکے ساتھ جو بھی کرو مگر اسے مار دینا ۔۔ الہام درانی کہہ کر گارڈ کیساتھ باہر نکل گیا تھا وہ سگریٹ ہونٹوں میں دباتا ہوا تصویر میں موجود اس نازک جان کا طائرانہ جائزہ لے چکا تھا ۔۔۔

                                            ✩✩✩✩✩✩

ہائے آج تو بھائی فلیٹ ہونے والے ہیں شاید ،، ماریہ نے ہمیشہ کی طرح خوشامد کی تھی جس پر زنیرا کھل اٹھی تھی 

وہ پیلے رنگ کے ہیووی لہنگے میں بالوں کو رول لئے ہوئے سموکی آئیز میک اپ کیساتھ ریڈ لپ اسٹک لگائے ہوئے ،  فلاورز جیولری پہنے ہوئے تھے

 فلیٹ ہو جائے گا ناں پکا ۔۔۔ ایک بار پھر خود کو مرر میں دیکھتے ہوئے وہ شک کر گئی تھی

ارے جھلی بالکل نہیں ہوں گے  فلیٹ ہم سب جانتے ہیں وہ تم سے زیادہ ہینڈسم ، ڈیشنگ ، ہاٹ ۔۔۔ 

زنیرا نے غصے سے کشن ماریہ کے منہ پر مارا اسکی لپ اسٹک پھیل گئی تھی 

نکمی میرا میک اپ خراب کر دیا ۔۔ ہینڈ مرر سے ٹشو سے پھیلی لپ اسٹک صاف کرتی ہوئی وہ خفگی سے بولی تھی 

آئندہ اگر میرے مرجان کے بارے میں ایسی تھرڈ کلاس لینگویج استمعال کی تو تمھارا منہ توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گی ۔۔۔ زنیرا منہ پھلاتی ہوئی بولی 

ہی ہی ہائے جل گئی میں تو ۔۔۔ ماریہ نے منہ بسورا 

علیزے ہاتھوں میں چوڑیاں ڈالتے ہوئے اٹھی ہی تھی جب سامنے کھڑے دائم کو دیکھ کر ڈر گئی

جان چلی جاتی میری ڈر سے ۔۔۔ کب سے کھڑے ہیں آپ یہاں ۔۔۔ علیزے نے آنکھیں پھیلا کر اس سے پوچھا جو پیلے کلر کے جامعہ وار سوٹ پر کوٹ پہنے ہوئے تھا جس پر گولڈن تلے کا کام کیا گیا تھا انتہا کا ہینڈسم لگ رہا تھا وہ مسکراتے ہوئے اسے سر سے پاؤں تک دیکھ گیا تھا وہ پیلے ہیوی شرارے پر گرین چولی پہنے ہوئی تھی کندھے پر نفاست سے سیٹ کی گئی ییلو چنری ۔۔۔ لمبے بالوں کو کھولے ہوئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی

ہیلو ؟

وہ اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر بولا 

وہ آنکھیں جھپکتی ہوئی شرم سے منہ پھیر گئی تھی

آپ پلیز جائیں ادھر سے ۔۔۔ کیوں آتما بن کر بھٹکتے رہتے ہیں ۔۔۔ وہ اسکا دل جلا گئی تھی 

میں صرف آپکو یہ پہنانے آیا تھا مگر جب آپکو پرواہ ہی نہیں تو آپ خود پہن لیجئے گا ۔۔۔ وہ ناراضگی سے اسکے ہاتھ میں  پھولوں کے گجرے دیتا ہوا جانے لگا جب علیزے نے اسکا ہاتھ تھاما

سوری ۔۔۔ وہ دھیرے سے کہتے ہوئے اسے پیچھے سے گلے لگا گئی تھی

پاگل لڑکی ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے نرمی سے بولا جس پر وہ کھل کر مسکرائی تھی

                                            ✩✩✩✩✩✩

سب معمول کے مطابق چل رہا تھا جب فضا میں فائرنگ نے سب کو بہرہ کر دیا تھا 

کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا ۔۔۔ کچھ آدمی منہ بلیک کپڑے سے ڈھکے اسلحے کیساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے تھے 

وہ بچی سہمی ہوئی تعبیر کے پیچھے چھپی تھی تعبیر نے گھبراتے ہوئے اسے کاؤنٹر کے پیچھے چھپایا تھا 

تعبیر کو دیکھ کر ایک آدمی نے باقی کے آدمیوں کو اشارہ کیا وہ اسکا بازو پکڑ چکے تھے ۔۔۔

چھوڑو ہمیں ۔۔۔ وہ نفرت سے بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے چیخی تھی ریسٹورنٹ میں موجود سب لوگوں کو یہاں تک کہ مینیجر کو سانپ سونگھ گیا تھا 

چھوڑو ہماری آپی کو ۔۔۔ وہ پانچ سال کی بچی کاؤنٹر کے ہیچھے سے نکلی تھی تعبیر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ آدمی کو پیچھے دھکا دیتے ہوئے بولی 

نہیں ۔۔ بیٹا آپ جاؤ  یہاں سے ۔۔۔ وہ بچی کو دور کرتے ہوئے رو کر بولی تھی 

باس اسکے ساتھ ایک بچی ہے تقریباً پانچ سال کی ۔۔۔ کان میں لگے ٹوتھ پر وہ انگلی رکھتے ہوئے اسے آگاہ کر چکا تھا

Bring them both here۔۔۔

تعبیر نے اسکا حکم سن کر اس بچی کو سینے سے لگایا تھا

نہیں میں چلوں گی مگر یہ نہیں پلیز یہ میری زمیداری ہے اسے نہیں ۔۔۔۔ تعبیر نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا

آدمی نے باقیوں کو اشارہ کیا وہ ان دونوں کو پکڑتے ہوئے ریسٹورنٹ کے باہر رکی بلیک کرولا کار میں بٹھا چکے تھے ۔۔۔

تعبیر کے بےحد احتجاج کرنے پر آدمی نے اسکے منہ پر زوردار تھپڑ مارا تھا وہ گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے سسکی تھی اسکے ہونٹ سے خون رس رہا تھا

آپی ۔۔۔ وہ بچی اسے گلے لگاتے ہوئے رونے لگی تھی

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ اسے دلاسہ دیتے ہوئے وہ گھبرا گئی تھی 

کچھ ہی دیر میں کار ایک انجان جگہ پر رکی تھی دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی بس ایک پرانی حویلی تھی آدمی انہیں لئے حویلی کے اندر داخل ہو گئے تھے 

ان دونوں کو اندھیرے کمرے میں بند کر دیا گیا تھا

کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا ایک پرچھائی نمودار ہوئی اسکے پیچھے تین آدمی بھی اندر آئے تھے 

وہ سامنے پڑے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس سہمے وجود کو دیکھ گیا تھا جو اسوقت اس بچی کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی 

وہ وائن کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے سنجیدگی سے انہیں دیکھ رہا تھا

وہ سہمی ہوئی اندھیرے میں اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی مگر صرف اسکی پرچھائی کے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا 

ہمیں جانے دیں پلیز ہم کسی سے آپکے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے ... وہ کانپتی آواز میں اسکی پرچھائی سے مخاطب ہوئی وائن کا گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھ کر اسکے قریب نیچے بیٹھا تھا جس پر وہ خوفزدہ ہو کر دیوار سے لگی تھی

اسکے اشارے پر آدمی بچی کو وہاں سے لیجا چکا تھا  

تم یہاں سے جا سکتی ہو مگر ایک شرط ہے ۔۔۔ اسکے قریب ہو کر وہ سرد ترین لہجے میں بولا تھا 

وہ گھبراتے ہوئے اسکی جانب دیکھ گئی تھی

"مجھ سے نکاح کر لو اسکے بعد میں تمھیں چھوڑ سکتا ہوں البتہ اگر تم کسی اور طریقے سے یہاں سے بھاگنے کا سوچ رہی ہو تو بھول جاؤ ۔۔۔ میں تمھاری جان لے سکتا ہوں مگر تمھیں جانے نہیں دوں گا ۔۔۔

اسکے گمبھیر لہجے پر وہ سہمی ہوئی اسکی سنہری سحر انگیز آنکھوں میں دیکھ گئی تھی جو اندھیرے میں بھی واضح تھی ۔۔۔

تمھارے پاس سوچنے کے لئے صرف ایک منٹ ہے اسکے بعد تمھاری ایک نہیں سنی جائے گی اور جو میں کروں گا وہ لازمی تمھیں پسند نہیں آئے گا یوئر ٹائم سٹارٹس ناؤ ۔۔۔  سلگتے ہوئے لہجے میں کہتا ہوا وہ اسکے سر پر بجلی گرا چکا تھا 

اسکی آنکھیں لباب پانی سے بھری تھی ، وہ سختی سے ہاتھ گال پر رگڑتی ہوئی آنسوں صاف کر گئی تھی جبکہ وہ اسکے رونے پر سنجیدگی سے اسکے نازک کندھوں کو گرفت میں لیتا ہوا اسے قریب تر کر چکا تھا

"ایک انسو اور نہیں تم ان میں سے ایک آنسوں کی قیمت بھی ادا نہیں کر پاؤ گی " وہی سرد لہجہ تھا

  اسکی گرم سانسیں اپنے کان پر محسوس کرتی ہوئی وہ لرز گئی تھی 

جب اسکی نظر اسکے ہونٹ سے رستے خون پر پڑی وہ آنکھوں میں دہشت لئے اپنے پیچھے کھڑے تین آدمیوں کو دیکھ چکا تھا

سر بہت چیخ رہی تھی اس لئے میں نے ۔۔۔ آدمی سر جھکاتے ہوئے بولا تھا

وہ اٹھ کر اسے گردن سے دبوچ چکا تھا

ہمت کیسے ہوئی تیری ،، کہا تھا ایک کھروچ بھی نہیں آنی چاہیے باسٹرڈ ،، اسکی گردن کو سختی سے دباتے ہوئے وہ اسے دیوار میں مار چکا تھا 

آدمی بری طرح کراہ اٹھا تھا تعبیر نے سہمی ہوئی نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا جو کوئی جنونی انسان لگ رہا تھا

انہیں چھوڑ دیں پلیز ، وہ اسے مارنے کے قریب تھا جب وہ کانوں پر ہاتھ دیتے ہوئے سسک کر بولی تھی 

اسے چھوڑتے ہوئے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے وہ اس سہمی ہوئی لڑکی تک آیا وہ رو رہی تھی 

آپ جو بولیں گے میں وہی کروں گی مگر اُس بچی کو جانے دیں پلیز وہ میری ذمہ داری تھی میں اسے اپنی منہوس قسمت میں نہیں جھونک سکتی وہ معصوم ہے پلیز اسے جانے دیں میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے بیشک مار دیں مگر اسے جانے دیں … سسکتے ہوئے وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ چکی تھی 

نکاح کریں گی آپ ؟ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا

آپ جیسا کہیں گے ویسا کروں گی ،، دونوں ہاتھ ہونٹوں پر رکھتی ہوئی وہ سسکیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی

قاضی کو بلاؤ ،، وہ اٹھتے ہوئے پیچھے کھڑے آدمیوں سے مخاطب ہوا تھا جو اب تک اس بات کو مزاق سمجھ رہے تھے اسکی بات پر حیران و پریشاں ہوئے تھے

گو…

وہ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے باہر جا چکے تھے 

تعبیر نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا تھا جسے وہ جانتی تک نہیں تھی جسے اسنے دیکھا تک نہیں تھا وہ اس کا محرم بننے والا تھا ۔۔۔

                                             ✩✩✩✩✩✩

مرجان بیٹا باہر آئیں سب مہمان آ گئے ہیں مہندی کا فنگشن سٹارٹ کرنا ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہا وہ تیسری بار دروازہ بجا چکی تھی 

"مجھے آپکے بےتکے فنگشنز میں کوئی انٹرسٹ نہیں آپ اچھے سے جانتی ہیں یہ سب صرف پراپرٹی کے لئے کر رہا ہوں بات نکاح تک ہوئی تھی اس سے زیادہ کی امیدیں مجھ سے وابستہ مت کریں ڈیئرسٹ موم "

کشمالہ نے آنکھیں گھما کر بند دروازے کو دیکھا 

مگر بیٹا میں مہمانوں سے کیا کہوں گی ؟ کشمالہ بیگم نے منہ بسورتے ہوئے کہا 

یہی کہ مجھے اس بےتکے فنگشنز میں کوئی انٹرسٹ نہیں ۔۔۔

کشمالہ بیگم منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی اسکے ساتھ بحث فضول تھی 

مماں مرجان کہاں ہے ۔۔۔ زونی نے کشمالہ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھا 

بیٹا اسکی طبعیت ٹھیک نہیں وہ آج فنگشن اٹینڈ نہیں کر پائے گا ۔۔ کشمالہ بیگم نے محبت بھرے لہجے میں کہہ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرا

کیا ہوا ہے اسے ؟ میں اسے لیکر آتی ہوں ۔۔۔

نہیں نہیں بچے آپ مہندی لگوا لو آرام سے بعد میں جا کر مل لینا وہ ابھی سو رہا ہو گا ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا

زونی نے افسردگی سے ہاں میں سر ہلایا تھا

یہ حرب بھائی کہاں سو گئے ہیں جا کر ۔۔ دائم نے پورے مینشن میں نظریں گھمائی تھی مگر اسے وہ نظر نہیں آیا تھا 

ارے دیکھ کر ۔۔۔

نیشال نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا وہ ہاتھ میں اسکا لہنگا سمبھالے کھڑا تھا 

ابھی گر جاتی موٹی بِلی ۔۔۔ نجم نے مسکرا کر کہا 

ہی ہی تو تم پکڑ لیتے ناں موٹے بِلے ۔۔۔ اسکے ہاتھ سے لہنگا چھینتے ہوئے وہ منہ کا ڈیزائن بنا کر بولی

میں تمھیں کیسے پکڑ سکتا ہوں ہاں تم مجھے پکڑ سکتی ہو ۔۔۔ نجم نے شرارت سے کہا جس پر وہ منہ پھلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی 

                                             ✩✩✩✩✩✩

ندیم رکیں پلیز  ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے رکا تھا 

ژالے بھاری لہنگا سمبھالتی ہوئی جلدی سے اسکی جانب بڑھی جب لہنگا اسکے پیر کے نیچے آ گیا اس سے پہلے وہ گرتی ندیم اسے کندھوں سے تھام چکا تھا 

دونوں کی آنکھیں کچھ دیر کے لئے ملی تھی 

وہ سنجیدگی سے اسے سیدھا ٹھہراتا ہوا اس سے کچھ قدم پیچھے ہوا تھا 

ماما نے دن کو جو کچھ بھی کہا وہ ۔۔۔

انہوں نے ٹھیک کہا میم ۔۔ آپ جانتی ہیں میں محض ایک غلام ہوں اس گھر کے ایک ایک فرد کا مجھ پر احسان ہے خدا کے واسطے آپ دور رہیں مجھ سے میں آپکے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں اس غلام کو اپنی اصلی اوقات میں رہنے دیں .… وہ سرد لہجے میں کہتے ہوئے جانے کے لئے مڑ گیا تھا

غلام نہیں ہو ندیم , بھائی کے لئے ہمارے لئے آپ فیملی کی طرح ہو اور کیوں اپنی اوقات کو نیچا گرا کر پیش کر رہے ہیں آپ ؟ کیا ہم نہیں جانتے آپ کا تعلق کہاں سے ہے آپ کسی رائل فیملی سے کم نہیں ہیں ہماری طرح ۔۔۔ وہ دھیرے سے بولی اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے ۔۔۔

میں محض ایک نوکر ہوں اس نوکر کو اپنی اوقات میں رہنے دیں ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑ کر معزرت کرتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا ژالے کو اشک بار چھوڑ کر ۔۔۔

                                             ✩✩✩✩✩✩

یہ پہن لو ۔۔۔ اسنے گھبراتے ہوئے اس بیگ کی طرف دیکھا جو آدمی اسکی طرف اچھال چکا تھا 

وہ دھیرے سے بیگ سے  سرخ بھاری لہنگا نکالتے ہوئے کوفت سے اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے بیگ کو دور پھینک چکی تھی 

چپ چاپ بات مان لو لڑکی ۔۔۔ تم اچھے سے جانتی ہو وہ بچی اب بھی ہمارے پاس ہے ۔۔۔ آدمی کی بات سنتے ہوئے وہ نفرت سے لہنگا اٹھا چکی تھی 

آدمی کمرے سے باہر جا چکا تھا 

وہ سرخ آنکھوں کیساتھ لہنگے کو مٹھی میں بھینچتی ہوئی دل ہی دل میں قرب سے چیخی تھی 

                                             ✩✩✩✩✩✩

طبّیب یوں کوشش نہ کر ، تُجھے کیا خبر میرے مرض کی۔            

تو عشق کر، پھر چوٹ کھا ، پھر لکھ دوا میرے درد کی۔                

                                             ✩✩✩✩✩✩

وہ بھاری  سرخ لہنگا سمبھالتے ہوئے دو آدمیوں کیساتھ اندر داخل ہوئی تھی آنکھیں رو رو کر سوجھی ہوئی تھی یہاں تک کہ آنسوں خشک ہو گئے تھے مگر وہ اب بھی رو رہی تھی آنکھوں میں ہوتی جلن کیساتھ بھی وہ مسلسل رونا چاہتی تھی

لڑکھڑاتے بوجھل قدموں کیساتھ وہ اندھیرے کمرے میں جس میں محض ہلکی سی سرخ روشنی تھی ڈگمگاتے قدموں کیساتھ صوفے پر ڈھے سی گئی تھی آج اسکے لئے سب ختم ہونے کے قریب تھا

وہ سپاٹ نظروں کیساتھ اسکا اداس مرجھایا چہرہ دیکھ چکا تھا مگر اسے فرق  بالکل فرق نہیں پڑ رہا تھا 

__ہماری وجہ سے بہت کچھ ۔۔۔ بہت کچھ غلط ہو گیا اس بچی کیساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دیں گے ہم خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے کبھی نہیں ۔۔۔ مگر آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کس گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں ہم کیوں ہماری معمولی زندگی میں سکون کا ایک پل میسر نہیں موت بھی مانگتے ہیں تو وہ روٹھ کر منہ پھیر لیتی ہے ؟ آخر اتنی سزا کس گناہ کی ؟ کس جرم کی پاداش میں اتنا سب بھگتنا پڑ رہا ہے ہمیں ۔۔۔ اتنا کٹھن امتحان ؟ اتنی مشکل زندگی ؟ کب پیار میسر آئے گا ہمیں ؟ کب کوچ کر جائے گی ہماری روح اس فانی دنیا سے ؟__ 

بیٹا بولیں کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟

قاضی صاحب نے تیسری بار پوچھا تھا

وہ سوچوں کے سمندر سے باہر آئی تھی وہ دنیا جہاں سے غافل اپنی سوچوں میں غرق تھی کچھ نہیں سن پائی تھی وہ ۔۔۔۔

 قبول ہے ...

وہ مردہ سی آواز میں بولی تھی 

ایسا کیسے کر سکتے ہیں ہم ؟ جسے ہم جانتے تک نہیں اس کے ساتھ نکاح کیسے کر سکتے ہیں ؟ کیا یہی ہماری قسمت تھی ؟ کیا یہی ہمارا مستقبل ہے ؟ وہ کیا کرے گا ہمارے ساتھ ؟ ہم زندہ رہیں گے بھی یا نہیں ۔۔۔

کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟ 

قبول ہے ۔۔۔

اسکی بھاری گمبھیر آواز تعبیر کے کانوں میں پڑی تھی وہ لب بھینچتی ہوئی  نکلتی سسکی کو روکنے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھ گئی تھی 

اسکا دستخط دیکھے بغیر وہ کانپتے ہاتھوں کیساتھ نکاح نامے پر دستخط کر چکی تھی 

نکاح ہو چکا تھا ۔۔۔ ایک آدمی فون پر ریکارڈ کرنے کے بعد فون اسکی طرف بڑھا چکا تھا وہ فون لیتے ہوئے اٹھا تھا 

اس بچی کو واپس چھوڑ کر آؤ اور خیال رہے اسے زرا سی بھی چوٹ نہیں آنی چاہیے ۔۔۔ وہ جاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا 

تعبیر نے سرد آہ بھرتے ہوئے اسکی پرچھائی کو کمرے سے جاتے دیکھا تھا 

                                             ✩✩✩✩✩✩

مہندی کا فنگشن اختتام پذیر ہوا تھا مگر وہ مغرور ابھی تک باہر نہیں آیا تھا

زنیرا غصے سے تن فن کرتی ہوئی تقریباً دس بار اسکا دروازہ پیٹ گئی تھی مگر وہ اسے الٹی سیدھی سنا کر اندر ہی بند بیٹھا تھا 

ابے دروازہ کھول حرب کمینے ۔۔۔۔ دائم نے تپ کر دروازے پر مکا مارا دروازہ کھل گیا تھا ۔۔۔

وہ غصے سے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

تو اپنے بھائی کی مہندی میں بھی نہیں آئے گا ۔ ایک تو مرجان بھائی اپنے کمرے میں چھپ کر بیٹھے ہیں ۔۔ غصے سے منہ بسورتا ہوا وہ بولا

جا نہیں آؤں گا ۔۔۔ اسکے منہ پر دروازہ بند کرتے ہوئے وہ دائم کا دماغ خراب کر چکا تھا

جا بے تیری شادی بھی ہو گی قسم کھاتا ہوں تیری شادی کی ایک ایک رسم ناں بگاڑی تو میں آغا شاہ کا بیٹا نہیں ہوں۔۔۔ دائم غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئےبولا

ہاں جا تجھے میری شادی میں آنے کا موقع تک نصیب نہیں ہو گا ۔۔۔ حرب کی دبی آواز آئی تھی

 منہ بسورتا ہوا دائم وہاں سے جا چکا تھا

حرب ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اپنے کمرے سے نکل کر مرجان کے کمرے میں گھس گیا تھا

                                             ✩✩✩✩✩✩

وہ بھاری لہنگے کو فولڈ کرتی ہوئی نیچے بیٹھ گئی تھی رات ہونے کو تھی اور وہ پریشان تھی کیا وہ بچی وہاں پہنچی بھی ہو گی یا نہیں ؟ 

کمرے کا دروازہ کھلتے ہی وہ جلدی سے اٹھی تھی سہمی ہوئی وہ دروازے سے اندر آتے وجود کو گھور رہی تھی کمرے کی لائٹ جلاتے ہوئے وہ اسکی طرف بڑھا جس پر اسکی روح دنیا سے کوچ کرنے کے لئے تیار تھی

کوئی ساٹھ سال کا مریل بڈھا اسکے سامنے کھڑا تھا جسکے سر کے بال داڑھی موچھیں سب سفید تھے چہرہ تو تیزاب ڈالی گئی شکل جیسا لٹک گیا تھا

میرے پاس مت آنا ۔۔۔ وہ جلدی سے ٹیبل پر پڑی ٹوکری سے چاقو اٹھاتی ہوئی اسکی جانب کرتے ہوئے گھبرائی اسے دیکھ کر تو مانو اسکی جان ہی نکل گئی تھی اس کے بعد وہ مر جانے کے لیے تیار تھی 

ارے میری بیوی ہو تم ۔۔۔ وہ قہقہ لگاتے ہوئے ہنسا تھا

بدتمیز ٹھرکی بڈھے ۔۔۔ شرم نہیں آئی۔۔۔ اندھیرے میں چھپ کر مجھ سے نکاح کیا میں تمھاری بیٹی کی عمر کی ہوں میں نے مجبوری میں کیا یہ سب لیکن اگر ۔۔۔ پتا ہوتا کہ ۔۔۔ وہ کہتے ہوئے نفرت سے سر کو خم دے گئی تھی ۔۔۔ میں زہر ۔۔۔ کھا لیتی 

خالی گھبراہٹ کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ غصے سے بولی تھی 

اب اتنا بھی بوڑھا نہیں ہوں ۔۔۔ وہ سفید داڑھی کھجاتے ہوئے اسے اور غصہ دلا چکا تھا

گھٹیا ۔۔۔ کمینے انسان دور رہو ۔۔۔ وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ چاقو ہلا گئی تھی 

لیکن میرا نکاح ہوا ہے تم سے اور میرا حق ہے ۔۔۔ وہ دھیرے سے چلتے ہوئے اسکے برابر آیا تھا وہ غصے سے اسکے ہاتھ پر چاقو مار چکی تھی وہ محض مسکرایا تھا اسکا دیا زخم دیکھ کر 

غصے سے تعبیر کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا وہ آج یا اسے یا خود کو مار دینا چاہتی تھی

چھوڑو مجھے ذلیل انسان ۔۔۔ وہ نفرت سے اسے پیچھے دھکیلنا چاہتی تھی مگر وہ زرا بھی نہیں ہلا تھا اس سے ۔۔۔ 

میں مر جاتی اس سے اچھا ۔۔۔ یہ کیا کر دیا میں نے ۔۔۔ وہ غصے سے چیخی تھی 

تو تم کیا سوچ رہی تھی تم جیسی بدصورت لڑکی کے لئے کوئی شہزادہ آئے گا ۔۔۔ وہ کھنکارتے ہوئے طنز کر گیا تھا جس پر وہ نفرت سے نظریں پھیر گئی تھی 

وہ پورا زور لگا کر اسے دور دھکا دیکر غصے سے چاقو اپنی کلائی پر رکھ چکی تھی 

ہم آج خود کو ہی ختم کر دیں گے ۔۔۔ کلائی سے نکلتے خون کو دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوا تھا

رکو ۔۔۔ وہ گمبھیر آواز میں بولا تھا اسکی  یکدم بدلی آواز پر تعبیر نے حیرانی سے اسے گھورا تھا 

وہ آنکھوں سے لینز نکالتے ہوئے نیچے پھینکتا ہوا اسکے قریب آیا تھا ۔۔۔ تعبیر کا دل شدت سے دھڑکا تھا وہی مسحور کر دینے والی ہیزل گرے  حسیں آنکھیں ۔۔۔

کافی ہے ؟ یا کچھ اور دیکھنا پسند کرو گی ۔۔۔ دھیرے سے کہتا ہوا وہ اسکا دل دھڑکا گیا تھا

نظروں سے اسے مسحور کرتے ہوئے اسکے ہاتھ سے دھیرے سے چاقو لیکر دور پھینک چکا تھا

کک۔۔۔کک۔۔۔کون 

وہ گھبرائی ہوئی اسے سر سے پاؤں تک گھور گئی تھی

وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے چہرے سے پلاسٹک کی مصنوعی جلد اکھاڑ رہا تھا تعبیر منہ پر ہاتھ رکھے حیرت غصے اور خوف سے اسے دیکھ رہی تھی 

وہ اپنے اصل روپ میں آ کر سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھ گیا تھا جو دل میں اس بڈھے سے بچ جانے پر پہلے تو خوش ہوئی تھی مگر جلد ہی غصے سے ابل پڑی تھی 

ہمت کیسے ہوئی ہم سے جھوٹ بولنے کی ۔۔۔ اسے خود سے دور کرتی ہوئی وہ غصے سے بولی تھی جبکہ وہ تو بے ساختہ اسے محبت سے دیکھ رہا تھا 

ہم کبھی معاف نہیں کریں گے بہت بڑا جھوٹ بولا ہے آپ نے ہم سے ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی تھی 

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا 

                                             ✩✩✩✩✩✩

یہ کیا کر رہے ہو تم ۔۔۔ آدمی جو فریج میں گلاس رکھ رہا تھا فوراً گھبرا کر پیچھے دیکھ گیا تھا

تم کس سے پوچھ کر یہاں شراب لائے ہو  اپنے لئے سر تمھیں چھوڑیں گے نہیں ۔۔۔ دوسرے آدمی نے اسے پہلے وارننگ دی تھی 

وہ گھبراتے ہوئے منہ میں باقی گھونٹ بھر کر فریج سے گلاس اٹھا چکا تھا 

سر نے جوس منگوایا ہے جا کر دیکر آؤ ۔۔۔ دوسرا آدمی کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا 

جوس چاہیے اچھا ۔۔۔ وہ نشے سے مست ہوتے ہوئے  بولا فریج سے جوس نکال کر ایک خالی گلاس اٹھا لایا تھا 

اپنے گلاس میں جوس ڈالتے ہوئے وہ شراب اور جوس مکس کر چکا تھا 

اب نہیں نظر آئے گی ۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے گلاس کو دیکھ کر بولا 

ادھر بات سنو۔۔۔

دوسرے گلاس میں جوس بھرتا ہوا وہ پیچھے آدمی کے بلانے پر جلدی سے اسکے پاس گیا تھا 

جا کر سر کیلئے کار ریڈی کرواؤ جوس میں بھجوا دوں گا ۔۔۔ وہ ہاں میں سر ہلاتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا جبکہ دوسرا آدمی گلاسوں میں کنفیوز ہو کر ڈرنک کا گلاس لیکر دینے چلا گیا تھا 

                                            ✩✩✩✩✩✩

دروازے پر ناک کر کے اندر داخل ہوتا ہوا وہ جوس کا گلاس اسے تھما کر واپس لوٹ آیا تھا

ہم ہرگز نہیں پیئیں گے ۔۔۔ وہ غصے سے اسکا ہاتھ جھٹک گئی تھی

میرے پاس اور بھی بہت طریقے ہیں جن سے تم واقف ہو ۔۔۔ وہ مصنوعی سختی سے گویا ہوا جس پر وہ گھبرا کر غصے سے گلاس لیتے ہوئے ایک گھونٹ بھر کر منہ کا زاویہ بگاڑ گئی تھی 

ڈرامہ بند کرو پیئو فوراً ۔۔۔ وہ اسے آنکھیں دیکھا گیا تھا جس پر وہ کڑوے گھونٹ بھرتی ہوئی آدھا گلاس پی گئی تھی

وہ سنجیدگی سے گہری سوچ میں ڈوبا اس سے معافی مانگنے کے الفاظ تلاش رہا تھا 

جبکہ تعبیر کو آنکھوں کے سامنے سب گھومتا ہوا نظر آنے لگا تھا

"میں جانتا ہوں میں نے اب تک تمھارے ساتھ بہت غلط "

مشکل سے اسنے چند لفظ ہی بولے تھے جب 

ہاہاہا ۔۔۔ اسکے اچانک قہقہ مارنے پر وہ پریشانی سے اسکی طرف دیکھ گیا تھا

وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی لوٹ پوٹ ہر کر ہنس رہی تھی 

کیا ہوا ہے ۔۔۔ وہ اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے پریشانی سے گویا ہوا تھا

یہ ہوا ہے مسٹر سڑووووو ۔۔۔ 

وہ پاس پڑا ہوا جوس کا آدھا گلاس اسکے سر پر انڈیل کر زور سے ہنسی تھی  سر سے ٹپکتا ہوا جوس چہرے پر بہتا ہوا وہ سنجیدگی سے اس پاگل لڑکی کو دیکھ گیا تھا جسکا دماغ خراب ہو چکا تھا 

پاس پڑا ہوا جوس کا آدھا گلاس اسکے سر پر انڈیل کر زور سے ہنسی تھی  سر سے ٹپکتے ہوئے جوس  کیساتھ اب اسے چہرے پر بہتا ہوا  محسوس کر وہ سنجیدگی سے اس پاگل لڑکی کو دیکھ گیا تھا جسکا دماغ خراب ہو چکا تھا 

وہ گلاس اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے لڑکھڑا کر اٹھی وہ سنجیدگی سے گلاس کو سونگھ چکا تھا

سپاٹ نظروں سے پینٹ کی پاکٹ سے رومال نکال کر چہرہ صاف کرتے ہوئے وہ اس مصیبت کی طرف مڑا تھا

اس سے پہلے وہ شراب کی بو سونگھ کر گارڈز کی کھال ادھیڑتا وہ ہنستی ہوئی لہنگا سمبھالے صوفے پر چڑھی تھی

گر جائیں گی آپ نیچے اتریں فوراً ۔۔۔ اسکی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا وہ پریشانی سے بولا تھا

ہم اڑ رہے ہیں واؤوووو ۔۔۔ لہنگا اٹھا کر وہ صوفے پر چڑھتی خوشی سے چہکتے بولی تھی 

وہ سنجیدگی سے سر پڑ گیا تھا اسکی بیوقوفی پر

انکل ۔۔۔ دیکھیں ہم اڑ رہے ہیں ۔۔۔ 

لفظ_ انکل_ پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے غصے سے اور افسردگی سے اسے دیکھ گیا تھا وہ اتنا بھی بڑا نہیں تھا اس سے بس یہی کوئی نو دس سالوں کا ہی تو فرق تھا اسکے مطابق جو کم ہی تھا

وہ صوفے سے کودتی ہوئی کھلے دروازے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر بھاگ گئی تھی 

ندیم ۔۔۔ سب کو نکالو یہاں سے ۔۔۔

کرخت لہجے میں کہہ کر وہ اٹھا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کوئی اسکی بیوی جو کوئی اور ہی مخلوق لگ رہی تھی کی ایسی الٹی سیدھی حرکتیں دیکھے

وہ غصے سے لال ہوتا ہوا اس مصیبت کے پیچھے بھاگا تھا 

بارش  کے کھڑے پانی میں وہ بچوں کی طرح کود کر سارا پانی آس پاس اڑا رہی تھی وہ لب بھینچتا ہوا دور کھڑا اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا 

کم آن انکل آپ بھی آ جائیں ۔۔۔ وہ اسے بھی بارش میں بلاوا دے گئی تھی وہ سنجیدگی سے ناں میں سر ہلا چکا تھا

منہ کے ڈیزائن بناتی وہ گارڈن میں پڑا پانی کا پائپ اٹھاتے ہوئے اسے چلا کر پائپ سے اسے نہلا چکی تھی

وہ ایک بار پھر چہرہ صاف کر چکا تھا اسے غصہ نہیں آ رہا تھا 

ندیم اور باقی گارڈز نے حیرت سے اس سڑیل کو دیکھا جو سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پیشانی پر بکھرے گیلے بال ہاتھ سے پیچھے ہٹا چکا تھا بغیر اسے ڈانٹے ۔۔۔

ندیم گارڈز کو جانے کا کہہ کر خود بھی وہاں سے چھو  ہوا تھا اس سے پہلے وہ اس مصیبت کا غصہ ان پر اتارتا 

چلیں یہاں سے……… اسے بازو سے تھامتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا جس پر وہ منہ بگاڑتی ہوئی بازو چھڑا کر اسے گھوری سے نواز بیٹھی تھی 

ہم …… نہیں …… جائیں …… گے 

ایک ایک لفظ چبا کر کہتی ہوئی وہ اسے برابر غصہ دلا گئی تھی 

                                             ✩✩✩✩✩✩

دروازے پر دستک سن کر کشمالہ بیگم میگزین سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اٹھی تھی دروازہ کھولا تو زونی جلدی سے اندر داخل ہوئی تھی 

مماں ہمیں آپسے بات کرنی ہے بہت ضروری ۔۔ کشمالہ بیگم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی تھی

بچہ ایسا کیا ہو گیا جو آپ اتنا لیٹ یہاں آئی ہیں ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے مصنوعی ڈرامہ خیز پریشانی سے پوچھا

مماں وہ نوکرانی کی بیٹی ۔۔۔ وہ تعبیر ۔۔۔ کل وہ مرجان کے روم میں دیکھی میں نے اور ۔۔۔ دانت پیستے ہوئے وہ بات کرتی رکی تھی 

جبکہ اسکی بات پر کشمالہ بیگم نے حیرت سے اسے تکا تھا 

وہ دونوں بہت پاس تھے ۔۔۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرجان پر ڈورے ڈال رہی ہے اسے گھر سے نکال پھینکیں ورنہ میں اسکا منہ نوچ لوں گی ۔۔۔ غصے سے ابلتی ہوئی وہ دانے پیس کر بولی تھی 

مگر فرزانہ تو کہہ رہی تھی کہ وہ واپس گھر چلی گئی ہے اور فرزانہ کو بھی آفرین نے اس لئے روکا کیونکہ شادی کا گھر ہے اور کافی کام ہوں گے تو اسکی ضرورت پڑے گی ورنہ فرزانہ بھی آج چلی جاتی ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے اسے تسلی دی مگر زونی کی بات پر اسکے اندر تو مانو  چلتے طوفان کی شدت بڑھ گئی تھی 

اچھا ہی ہوا کل ہم نے اسکی بہت بےعزتی کی تھی ۔۔۔ نوکرانی ہو کر اسکے ہاتھ تو دیکھیں کتنے لمبے ہو گئے ۔۔۔ زونی نے منمناتے ہوئے کشمالہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر کہا

لیکن بیٹا یہ بھی تو ہو سکتا ہے مرجان نے اسے بلایا ہو ؟ 

کشمالہ بیگم نے زخموں کی نمک پاشی کی تھی زنیرا جلدی سے اسکی گود سے سر اٹھاتے ہوئے افسردہ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھ گئی تھی 

ہاں سوچو ناں ۔۔۔ اسکا سر گود میں رکھتے ہوئے وہ نئی چال چلنے کو تیار تھی 

ایک نوکرانی کی اتنی اوقات ہو گئی کہ وہ ایسا کرے اور مرجان وہ تو سمجھدار بچہ ہے اسے روکنا چاہیے تھا ناں اسے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے اسکے ذہن میں آج پھر ہمیشہ کی طرح زہر بھرا تھا جو وہ بچپن سے کرتی آ رہی تھی اس وجہ سے بچے اپنی حقیقی ماں سے دور ہو رہے تھے 

مرجان صرف میرا ہے وہ ایسا نہیں کریگا ۔۔۔ آپ ایسا مت سوچیں مماں ۔۔۔ عہ کشمالہ بیگم کو گلے لگا کر کہتی ہوئی کمرے سے چلی گئی تھی مگر اسکی کہی ہر ایک بات اسکے ذہن میں گھر کر چکی تھی 

وہ اپنے روم کے بجائے مرجان کے روم کی طرف گئی تھی دروازے پر دستک دیکر وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تھی 

کمفرٹر میں لیٹا حرب بےمزہ ہو کر سر اٹھاتے دروازے کو گھوری سے نواز گیا تھا

پورا دن مجھے مرجان بھائی آپ نے ڈی-جے کی طرح استعمال کیا خود تو وائس ریکارڈ کر کے چلے گئے یہاں میں میوزک لگاتا رہوں چاچی کے لئے وہ ،، تمھاری منگیتر کے لئے وہ ۔۔۔ اور باقیوں کے لئے یہ ۔۔۔

وہ منہ میں بڑبڑایا تھا

مرجان اوپن دی ڈور ۔۔۔ بہت ہو گیا تمھارا کیا میں میٹر نہیں کرتی ہاں ؟  آج تمہاری اور میری مہندی سیریمنی تھی تمھیں احساس بھی ہے میں مہندی لگے ہاتھوں کیساتھ تمھارا انتظار کرتی رہی ۔۔۔ پھنکارتی ہوئی وہ درازے پر پیر مار گئی تھی

حرب نے اکتاہٹ سے تپ کر دروازہ کھولا تھا جبکہ اسے دیکھ کر زنیرا حیران کی جگہ غصہ ہوئی تھی

آپ کیا کر رہے ہیں یہاں اور مرجان کہاں ہے ۔۔۔ دانت پیستی ہوئی وہ بولی

وہ ضروری کام سے باہر گئے ہیں ۔۔۔ حرب نے کمپوز لہجے میں بتایا 

تعبیر بھی گھر نہیں اور مرجان ۔۔۔

وہ سوچتے ہوئے جل گئی تھی غصے سے لال ہوتی وہ بغیر کچھ بولے اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی 

                                            ✩✩✩✩✩✩

بارش تیز ہو گئی تھی مگر وہ اندر جانے کا نام نہیں لے رہی تھی جب اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ اسے اپنے کسرتی بازوں زبردستی اٹھا چکا تھا

بدتمیز انسان چھوڑو مجھے ۔۔۔ 

اسکی معصوم سی گالی پر وہ بس لب بھینچ گیا تھا

ہمیں بارش میں کھیلنا ۔۔۔۔ آچھھ 

وہ بولتے ہوئے چھینکی تھی جس پر وہ بس منہ دبا ہنس گیا تھا 

ہمیں نیچے اتارو ۔۔۔

اسکے ہاتھ پر کاٹتی ہوئی وہ پھنکاری تھی جس پر اسکی مسکان اور گہری ہوئی تھی

اگر آپ اسی طرح بےوجہ بحث کرتی رہی تو میں آپکو ۔۔۔

آپکو کیا بولوووو ۔۔

آچھھ۔۔۔

اسکی ناک سے ناک ٹکاتے  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بپھری ہوئی بولی اور پھر غصے سے منہ پھیرتے چھینکی  جس پر وہ مسکرایا تھا

چینج کر لیں ۔۔۔

کیوووووں ؟ ہمیں یہ بہت پسند ہے ۔۔۔ لہنگا پکڑتے ہوئے وہ خفگی سے  اسکی بات کاٹتے بولی تھی 

لیکن آپ بھیگ چکی ہیں اور ٹھنڈ پڑ رہی ہے میری بات مانیں ۔۔۔ اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے وہ اسے نرمی سے سمجھا رہا تھا

نہیں کریں گے کیا کر لو گے ؟ اور اتنے اچھے سے پیش کیوں آ رہے ہیں آپ اپکی ناک پر تو چوبیس گھنٹے غصہ سوار رہتا تھا ۔۔۔ آنکھیں گھما کر کہتی ہوئی وہ اب زیادہ ہی منمنا گئی تھی 

جیسا کہہ رہا ہوں ویسا ہی کرو گی اور ایک لفظ اور نہیں ۔۔۔ سختی سے کہتا ہوا وہ اس معصوم کا دل دھڑکا گیا تھا 

وہ اپنے ہونٹوں پر معصومیت سے انگلی رکھ چکی تھی 

وہ کبڈ سے اپنی ہی وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ نکال کر اسے دے چکا تھا جس پر وہ آدھ منہ کھول کر کچھ کہنا چاہتی تھی مگر مجبوری سے بس اپنے لب کاٹ گئی تھی 

جب وہ چینج کر کے آئی تو وہ بےساختہ ہنسی دبا گیا تھا شرٹ اسے بےحد کھلی تھی اور پینٹ کو بار بار فولڈ کرتے کرتے وہ اکتا گئی تھی 

یہ بہت کھلا ہے ۔۔۔ ناک سکیڑ کر کہتی ہوئی وہ بہت معصوم لگی تھی 

شرٹ کے بازو فولڈ کرتی ہوئی وہ خاموشی سے اسے دیکھ گئی تھی جو آنکھوں میں ڈھیروں محبت سموئے اسے دیکھ رہا تھا فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ فون کو سنجیدگی سے دیکھ گیا تھا وہ چلتی ہوئی اسکے پاس آئی تھی وہ فون کان سے لگاتے ہوئے اٹھا تھا 

اسلام و علیکم دادا سائیں!!

وہ بےحد احترام کیساتھ بولا تھا جس پر تعبیر نے آئی برو اچکاتے ہوئے اسے بےیقینی سے گھورا تھا

"وعلیکم السلام میرا شیر"

"کیسا ہے میرا شیر "

"الحمدللہ دادا سائیں سب خیریت ہے "

وہ ایک نظر اس مصیبت پر ڈالتے ہوئے بولا جو بڑے غور سے اسکی بات سن رہی تھی اسکے خود کو یوں دیکھنے پر وہ منہ پھلاتی ہوئی رخ موڑ گئی تھی 

"میں آواز سے اندازہ لگا سکتا ہوں میرے شیر کو جو چاہیے تھا وہ مل گیا "

وہ ہلکا سا مسکرایا تھا اسے دیکھ کر ۔۔۔ 

"خیال رکھنا میری نواسی کا اور اسے تنگ مت کرنا جانتے ہو بہت چھوٹی ہے تم سے سمجھ رہے ہو "

دادا صاحب کی بات پر وہ سرد آہ بھرتے ہوئے اسے دیکھ چکا تھا جو بغیر پلکیں جھپکے دونوں کی باتیں غور سے سن رہی تھی مگر سمجھ نہیں پا رہی تھی بچپن سے وہ یہی تو سنتا آیا تھا بہت چھوٹی ہے خیال رکھا کرو ۔۔۔

"جی دادا سائیں" 

کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے وہ پیچھے ہی مڑا تھا جب وہ کشن اسکے منہ پر پھینک گئی تھی جسے وہ مہارت سے کیچ کر چکا تھا

وہاں سو جاؤ ۔۔۔ نیچے اشارہ کرتے ہوئے وہ اکڑ کر بولی تھی جس پر مرجان صاحب کا پارہ چڑھا تھا 

تم بھول رہی ہو یہ میرا روم ہے ۔۔۔ وہ لب کاٹتا ہوا غصے سے بولا تھا

اچھاااااااا ؟ وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے بیڈ پر کھڑی ہوتی بولی تھی 

کتنے بڑے قطب مینار جیسے ہو شرم نہیں آتی ایک چھوٹی سی لڑکی سے لڑتے ہوئے ۔۔۔ وہ اسے قد کا طعنہ دیتے ہوئے ہاتھ سے مکھی اڑا گئی تھی جس پر وہ سرد آہ بھرتے ہوئے صوفے پر کشن رکھتا ہوا لیٹ گیا تھا وہ جانتا تھا وہ نشے میں ہے اور وہ اس سے لڑ بھی نہیں سکتا تھا 

وہ اسکے شرافت سے لیٹنے پر بھی سکوں سے نہیں بیٹھی تھی دوسرا کشن اٹھاتے ہوئے وہ اسکے سر پر پھینک گئی تھی اب کی بار وہ غصے سے اٹھا تھا 

وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی ہنس کر اپنے اوپر کمفرٹر لے گئی تھی 

                                          ✩✩✩✩✩✩

کیا کہہ رہے ہو ؟ الہام درانی غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے صوفے سے اٹھا تھا

وہ چالاکی سی اس لڑکی کو لے گیا اس سے نکاح کر لیا ۔۔۔ 

اپنے آدمی کی بات سن کر وہ آگ بگولہ ہوا تھا

وہ اور کوئی نہیں خود ڈیمن ہے ۔۔ اب جان گئے ہو اسکی گیمز وہ تم سے دس قدم آگے رہتا ہے۔۔۔ تمھارے ناک کے نیچے سے وہ شکار لے اڑا مجھے نہیں لگتا تم اس سے مقابلے کے لائق ہو ہم ڈیل کینسل کرتے ہیں اور مزید بات تب ہو گی جب تم اس سے لڑنے کے قابل ہو جاؤ گے کون جانتا ہے وہ کیا کچھ کر سکتا ہے ۔۔۔

ایف اے انڈسٹری کے کلائنٹس اٹھتے ہوئے اسے اچھی خاصی سنا چکے تھے وہ مٹھی بھینچے زخمی شیر کی طرح مرجان کاظمی کو مارنے کا سوچ چکا تھا

اب تو تم میرا چہرہ میرا نام سب جان گئے ہو اب کھیل میں مزہ آئے گا جب دونوں طرف سے حملہ سامنے سے ہو گا ۔۔۔ وہ مٹھی میں سگریٹ مسلتا ہوا اسکا چورا چورا کر چکا تھا 

                                         ✩✩✩✩✩✩

وہ تیکھے نقوش چہرے پر سجائے اس پر سے کمفرٹر کھینچ چکا تھا وہ جلدی سے آنکھ بند کرتی ہوئی نیند میں ہونے کا ڈرامہ کر گئی تھی

اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھا کر بیڈ کے کراؤن سے لگائے وہ اپنی ہیزل گرے آنکھیں اسکی براؤن آنکھوں میں گاڑھ گیا تھا جس پر وہ تھوڑی سہمی تھی 

"اس خوش فہمی میں ہرگز مت رہنا کہ میں تمھارا نشے میں مست ہونے کا لحاظ کروں گا اگر میں کچھ بول نہیں رہا اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مس  زارا مرجان شاہ کاظمی آپ کچھ بھی کریں گی  ۔۔ میں برداشت کر لوں گا یہ سب صرف دادا سائیں کی وجہ سے برداشت کر رہا ہوں اور  شرافت سے سو جائیں ورنہ اس چونچ پر ٹیپ لگا دوں گا اور ان ہاتھوں کو ہتھکڑی لگا دوں گا اور آپکے ان پیروں کو جنہیں سکون نہیں آ رہا کاٹ کر ہاتھوں میں تھما دوں گا ۔۔۔ ہنوز اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا جس پر وہ  پلکیں جھپکاتی ہوئی اپنے لب کاٹتی نظریں جھکا گئی تھی

 اس پر سے ہٹتا ہوا وہ صوفے پر لیٹ گیا تھا وہ ناک کیساتھ آنکھیں سکیڑتی اسے دیکھ کر فوراً سو گئی تھی ۔۔۔

اسکے نیند میں جاتے ہی وہ صوفے سے اٹھا اسکا سر کشن پر ٹھیک سے رکھتے ہوئے کمفرٹر ٹھیک سے اس پر ڈالتے ہوئے وہ اسکے چہرے پر بکھرے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے اس کی پیشانی پر لب رکھ گیا تھا 

ہمممم؟؟

وہ نیند میں کسمسائی تھی 

"میں جانتا ہوں میں نے بہت ظلم کئے ہیں آپ پر اور صرف میری معافی سے سب ٹھیک نہیں ہو گا ۔۔۔ لیکن میں ہر کوشش کروں گا میری چھوٹی جانِ جہاں پر کوئی آنچ نہ آئے ۔۔۔ 

گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے وہ آخری نظر اس کمفرٹر میں چھپے وجود کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا 

                                           ✩✩✩✩✩✩

اگلی صبح /کاظمی مینشن 

پورے گھر کی ڈیکوریشن کمپلیٹ ہو گئی تھی پورے گھر میں ریڈ کارپٹ بچھایا گیا تھا سرخ اور سفید پھولوں کی ڈیکوریشن کی گئی تھی سفید پردے لگائے گئے تھے پورا گھر نفیس انداز میں سجایا گیا تھا میڈیا صبح سے مینشن کے گیٹ پر موجود تھی مگر گارڈز نے انہیں اندر نہیں جانے دیا تھا 

ایک سفید کلر کی چمچماتی مرسیڈیز مینشن کے گیٹ کے سامنے رکی تھی سامنے کی دور کاروں سے گارڈز نکل کر حفاظت کے لئے دائیں جانب رکے تھے پیچھے کی دو کاروں سے گارڈز بائیں جانب رکے تھے 

ایک گارڈ نے ادب سے سر جھکاتے دروازہ کھولا تھا

بلو تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ پرکشش شخص باہر آیا تھا میڈیا گیٹ سے اسکی طرف بڑھی تھی مگر گارڈز انہیں اسکے قریب آنے سے روک گئے تھے 

وہ گارڈ کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے خود  بیک سائڈ کا دروازہ کھول چکا تھا وہ کنفیوز سی گھبراتے ہوئے مرسیڈیز سے باہر آئی تھی

گارڈ نے گیٹ کھولا تھا 

اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ مینشن کی طرف چل دیا تھا میڈیا رپورٹرز ان دونوں کو لائیو کوریج کر رہے تھے 

"بریکنگ نیوز پاکستان اور دنیا کے جانے مانے بزنس مین مرجان شاہ کاظمی آج اسپیشل اناؤسمینٹ کرنا چاہتے ہیں مگر کیا ہو گی انکی اناؤسمینٹ ؟ اور انکے ساتھ یہ لڑکی کون ہے "

واٹ دا ہیل ۔۔۔

زونی نے غصے سے ریموٹ نیچے پھینکا تھا وہ اسے تعبیر کیساتھ ہرگز نہیں دیکھ سکتی تھی اور وہ تو اسکا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اسکے ساتھ باقی سب بھی نیوز دیکھ کر لائونج میں جمع ہوئے تھے 

تعبیر گھبراہٹ کے مارے پریشانی سے سب کو دیکھ رہی تھی اور اس ظالم کو بھی جو اسے صبح صبح کھری کھری سنا کر اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا ۔۔۔۔

اوہ بیٹا یہ سب کیا چل رہا ہے اس نوکرانی کیساتھ ۔۔۔

وہ کشمالہ بیگم کی بات کاٹتے ہوئے گویا ہوا تھا

"پہلی بات تعبیر میری بیوی ہے "

اسکے الفاظ نے مانا سب کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی بس ندیم اور حرب نہیں چونکے تھے وہ واقف تھے اسکے نکاح سے ۔۔۔

زونی کی آنکھوں سے پانی سارے بند توڑ کر باہر نکلا تھا

یہ تم جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔۔ منور صاحب غصے سے تلملا اٹھے تھے 

"میراپوتا بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے" 

پیچھے سے رعب دار لہجے پر سب ٹھٹکے تھے 

شہنشاہ کاظمی لائونج میں داخل ہوئے تھے منور صاحب کی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں ابھری تھی جبکہ آغا صاحب خوشدلی سے انہیں گلے لگا گئے تھے وہ شفقت سے آغا صاحب کو کندھے سے پکڑتے گلے لگا چکے تھے 

گھر کی سبھی عورتوں نے جلدی سے سر پر دوپٹا لیا تھا تعبیر گھبراتی ہوئی اسکا ہاتھ دبا گئی تھی جس پر اسنے دھیرے سے اسکا ہاتھ دبا کر اسے تسلی دی تھی 

میں مرجان اور زارا کے نکاح سے واقف ہوں یہ نکاح میری مرضی سے ہوا ہے۔ ۔۔۔ وہ سرد بھاری آواز میں کہتے ہوئے سب کے سر پر بجلی گرا چکے تھے جبکہ لفظ زارا پر تعبیر نے انجان نظروں سے مرجان کو گھورا تھا 

زارا نام سن کر سب حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ گئے تھے جبکہ منور صاحب کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے اسکا نام سن کر ۔۔۔ وہ خالی گھونٹ بھر حلق تر کرتے ہوئے کشمالہ بیگم کی جانب دیکھ گئے تھے جو انہیں نفی میں سر ہلاتے ہوئے کوئی اشارہ کر گئی تھی 

مرجان اور زارا کا نکاح میں بچپن میں ہی طے کر چکا تھا اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے منور صاحب کی طرف اشارہ کر گئے تھے جو کسی بت کی طرح ہلنے کے قابل نہیں لگ رہے تھے 

پھر کس کی اتنی جرات ہوئی کہ میرے فیصلے کے خلاف جا کر مرجان اور زنیرا بی بی کی شادی کا فیصلہ کیا گیا ؟ وہ کرخت لہجے میں کہتے ہوئے سب کو نظریں جھکانے پر مجبور کر گئے تھے 

زنیرا غصے سے آگے بڑھی تھی مگر آفرین بیگم نے اسکا بازو پکڑ کر اسے روکا تھا وہ شہنشاہ کاظمی کے غصے سے واقف جو تھی 

"بابا سائیں پچھلے دس سالوں میں جو کچھ ہوا اسکے بعد میں چاہتا تھا مرجان ماضی بھلا کر آگے بڑھے اور اسی لئے ۔۔۔۔

زارا اسکا ماضی نہیں ۔۔۔ وہ زندہ سلامت ہے اور اسکے ساتھ ہے الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا کرو ۔۔۔ دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوئے وہ منور صاحب کی بولتی بند کر چکے تھے 

گھر میں شادی کی جو تقریب تھی وہ  وقت کے مطابق ہی ہو گی نکاح کے وقت پر نکاح کروایا جائے گا  ۔۔۔ کل ولیمے کی تقریب میں پورا پاکستان نہیں پوری دنیا دیکھے گی کاظمی خاندان کے چشم و چراغ  ہمارے بیٹوں کی شادی کی تقریب  کی شان و شوکت کیساتھ رونمائی ہو گی  ۔۔۔ وہ حکم دیکر اٹھے تھے 

اور بچپن میں ہم نے حرب شاہ اور زنیرا بی بی کا رشتہ طے کیا تھا اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج نکاح کے وقت پر ان دونوں کا نکاح پڑھوایا جائے ۔۔۔ اور یہ ہمارا شہنشاہ کاظمی کا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔

وہ اتنا کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے سب کو مانو سانپ سونگھ گیا تھا ۔۔۔

کیا کہہ کر گئے ہیں دادو ڈیڈڈڈڈ ۔۔۔ 

سب زنیرا کے چیخنے پر اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے  

منور صاحب نے اسے چپ کروانے کے لئے گلے لگایا مگر وہ غصے سے انہیں پیچھے دھکا دے چکی تھی 

ہونک بنی وہ مرجان کے ڈامنے آئی تھی

ہمت کیسے ہوئی تمھاری مجھے دھوکا دینے کی ارے مجھ پر اس نوکرانی کو ترجیح کیسے دے سکتے ہو تم مرجان کاظمی ۔۔۔ وہ اسکے سامنے آتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں بولی 

یہ سب آپکے ڈیڈ اور موم کی وجہ سے ہوا پوری مس انڈرسٹینڈنگ وہاں سے شروع ہوئی ۔۔۔ کشمالہ بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا جو دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے ناں میں سر ہلا گئی تھی 

شادی نہیں سودا ہو رہا تھا اور محبت کے نام پر سودے سے کی گئی شادی منظور ہوتی آپکو ؟ وہ گمبھیر لہجے میں کہہ کر اسکا دل توڑ گیا تھا

وہ سرخ آنکھوں سے کشمالہ بیگم کی طرف اور منور صاحب کی طرف دیکھ گئی تھی کیوں اس نے ایک بار بھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ انہوں نے مرجان کو شادی کے لئے کیسے منایا تھا ۔۔۔

میں یہ ڈرامہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر مجھے فورس انہوں نے کیا اپنے جواب اپنی ماں سے اور اپنے ڈیڈ سے طلب کریں اور آخری بار کہہ رہا ہوں تعبیر میری بیوی ہے اور اگر کسی نے اسے اس حق سے محروم رکھنے کی کوشش کرنے کی بھی کوشش کی تو سب کو جلا کر رکھ دوں گا ۔۔۔ 

سخت لہجے میں کہتا ہوا وہ اسکا ہاتھ تھام کر اپنے کمرے کی طرف جا چکا تھا جبکہ تعبیر نے خالی نظروں سے اسکی جانب دیکھا جو پورے گھر والوں سے اسکی خاطر لڑ چکا تھا ۔۔۔

زنیرا تیز قدموں کیساتھ حرب کے کمرے کی طرف گئی تھی کیونکہ ان کا کمرہ ایک ہی فلور پر تھا سب نے سمجھا وہ اپنے کمرے کی طرف گئی ہے

                                          ✩✩✩✩✩✩

دروازے پر دستک سن کر وہ دوسرے کان سے ہینڈ فری نکال کر دروازہ کھول چکا تھا دھڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے وہ اسکی شرٹ کا گریبان پکڑ چکی تھی 

خوش تو ہو گے تم اور تمھاری ماں ۔۔۔ وہ روتے ہوئے چیخی جس پر وہ اسکا ہاتھ گریباں سے نکالتے ہوئے اسے سرد نظروں سے دیکھ چکا تھا

مجھے نفرت ہو گئی ہے تم سے ۔۔۔ میرے اور مرجان کے بیچ آنے والے تم ہو بچپن سے تم سے اتنی نفرت کرتی آئی ہوں کہ بتا نہیں سکتی ارے میں تمھاری طرف دیکھتی ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے ۔۔۔ اسے دھکا دیتی ہوئی وہ چیخ کر بولی تھی مگر وہ سنجیدگی سے بس سن رہا تھا

تم خود ۔۔۔ خود منع کرو گے اس نکاح سے یاد رکھنا اگر میرا تم سے نکاح ہوا میں جان لے لوں گی اپنی ۔۔۔ انگلی دیکھاتے ہوئے وہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ گئی تھی 

یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟ وہ دھیرے سے بولا تھا 

انجان بن رہے ہو ہاں ۔۔۔

اسے گریبان سے پکڑتے ہوئے وہ زوردار تھپڑ اسے منہ پر مار چکی تھی ۔۔۔

"دماغ خراب ہے تمھارا "

کالی سیاہ آنکھوں میں ایک طوفان سا اٹھا تھا وہ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے غصے سے چلایا

دماغ خراب ہی تو ہے میرا ۔۔۔ کیوں آخر کیوں گھٹیا شخص ۔۔۔ تم میرے اور مرجان کے بیچ آ گئے ۔۔۔ آئی سوئیر اگر تمھارا میرے ساتھ نکاح ہوا میں تمھاری زندگی عزاب بنا دوں گی مجھ پر صرف مرجان کا حق ہے سن رہے ہو تم ۔۔۔ 

حقارت بھری نظروں سے وہ اسے دھکا دیکر پیچھے ہٹا تھا

جسٹ آؤٹ ۔۔۔ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ دھاڑا 

تمھیں جینے لائق نہیں چھوڑوں گی میں حرب شاہ تمھاری زندگی جہنم بنا دوں گی ۔۔۔ وہ چیختی چلاتی ہوئی باہر نکلی تھی 

وہ سرد آہ بھرتے ہوئے صوفے کی پشت پر سر گراتے ہوئے آنکھیں موند گیا تھا 

                                         ✩✩✩✩✩✩

زارا ۔۔۔ زارا ۔۔۔ زارا ۔۔

لفظ زارا اسکے ذہن میں بری طرح گونج رہا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا رہا تھا اسے اپنا وجود بھاری محسوس ہو رہا تھا صوفے کے سہارے لگتی ہوئی وہ سر پکڑ گئی تھی 

وہ جو کوٹ اتار کر صوفے پر رکھنے کے لئے پیچھے مڑا تھا اسکے گرنے سے پہلے اسے تھام چکا تھا 

وہ آدھی بند آنکھوں سے اسکا چہرہ دیکھتی ہوئی بے حوش ہوئی تھی 

اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹاتے ہوئے وہ ڈاکٹر کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھ گیا تھا اسکا سر بہت گرم تھا شدید بخار تھا

ڈاکٹر کو فوراً آنے کا کہہ کر وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا وہ بےحوشی میں کچھ بڑبڑا رہی تھی 

"نہیں …… ہمیں ……مت لیکر جاؤ…… نہیں چھو…… ڑ …… دو ……"

"جان"

وہ لرزتے ہوئے کراہ گئی تھی جبکہ تیرہ سال بعد اسکے لبوں سے اپنا بچپن کا نام سن کر اسکے سوکھے بنجر دل پر جیسے بارش کی پہلی بوند گری تھی 

"میں  ساتھ ہوں کچھ نہیں ہوا ریلیکس " 

اسکا ہاتھ دھیرے سے دباتے ہوئے وہ اسکے کان میں سرگوشی کر چکا تھا وہ لمبا سانس لیتے ہوئے پرسکوں ہوئیں تھی 

فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ بغیر نمبر دیکھے کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون سنجیدگی سے کان سے لگا چکا تھا

"نکاح مبارک ہو ڈیمن "

 چار لفظ اسکا خون گرم کر چکے تھے ۔۔۔ وہ لب بھینچتا ہوا اس معصوم وجود کو دیکھ کر خود کو کمپوز کر گیا تھا 

"ماننا پڑے گا تمھاری چالاکی کو  ڈیمن مگر افسوس تم میرے سارے پتے نہیں دیکھ پائے تمھاری بچپن کی محبت تو تمھیں مل گئی مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے اسے حاصل نہیں کر پاؤ گے "

کیا کہنا چاہتے ہو ۔۔۔۔ دھیمے لہجے میں بولا تھا کیونکہ اسکی کل کائنات اس وقت سو رہی تھی 

"ہاہاہا ،، ارے  تمھاری زارا۔۔۔۔ بیٹا تم نے سوچا نہیں کہ اسے تم یاد کیوں نہیں ہو اسے وہ گھر یاد کیوں نہیں وہ اپنے رشتہ داروں کو کیوں نہیں پہچان پائی ؟ "

مرجان نے سنجیدگی سے سوئی ہوئی تعبیر کو دیکھا 

"پچھلے دس سالوں میں اسکے ساتھ بہت غلط ہوا اسے ایسی دوائیاں دی گئی ہیں جن سے اسکا برین واش ہو چکا ہے "

وہ مٹھی بھینچے بیڈ سے اٹھا تھا مگر وہ  بےہوشی میں اسکی انگلی تھام گئی تھی جس پر وہ مجبوراً غصہ پی گیا تھا

"تم نے دیکھا ہے ناں اسے پینک کرتے ہوئے  وہ یکدم بےہوش ہو جاتی ہے ناں ۔۔۔ ارے اسے پینک اٹیک آتے ہیں بیٹا اور تمھارے شاکز کی وجہ سے پتا ہے کیا ہوا ؟ اسکی پاسٹ میموری کمپلیٹلی برین سے ریممو ہو گئی " 

دوسری طرف سے زوردار قہقہ سنائی دیا تھا وہ سنجیدگی سے آنکھیں بند کر چکا تھا 

"اور سب سے پیاری بات اگر تم نے اسے اسکے ماضی سے مطابق کچھ بھی یاد دلانے کی کوشش کی تو وہی پینک اٹیک  ۔۔۔۔صدمہ سہہ نہیں پائے گی اور فوراً سے مر جائے گی "

اسکی ہیزل آنکھوں میں دہشت ابھری تھی غصے اور جنون سے اسکا ہاتھ کانپا تھا

"گیم تو ابھی شروع ہوئی ہے تمھاری فیملی اور تمھاری جانِ جاں کے علاوہ اور بہت کچھ داؤ پر ہے اور دیکھتا ہوں تم کس کس نقصان کی بھرپائی کرتے ہو "

کال ڈسکنیکٹ ہو گئی تھی وہ غصے سے  فون کو مٹھی میں دبا گیا تھا 

آہہہ ..

وہ سر پکڑتے ہوئے آنکھیں کھول گئی تھی وہ سب غصہ بھلا کر اسکی طرف دیکھ گیا تھا جو اسے اپنے پاس بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر غصے اور خوف سے بوجھل ہوئی تھی 

میں نہیں جانتی یہ کونسی گیمز آپ میرے ساتھ کھیل رہے پیں ایک بات یاد رکھئے گا سر ۔۔۔ مجھے آپ سے بےحد نفرت ہے۔۔۔۔ اور اسے آپ محبت میں نہیں بدل پائیں گے ۔۔۔ وہ آنکھوں میں آنسوں لئے اسے اپنے جزباتوں سے باور کروا چکی تھی مرجان کاظمی کو اپنے دل میں اٹھتا درد بخوبی محسوس ہوا تھا مگر وہ اسکی نفرت کے لائق تھا اب تک اسنے بےحد ظلم کئے تھے اس پر اسے پورا حق تھا اس سے نفرت کرنے کا ۔۔۔۔

ژالے ڈاکٹر کیساتھ اندر آئی تھی وہ سنجیدگی سے بیڈ سے اٹھا تھا تعبیر نے آخری بار اسے دیکھ کر نظروں کا رخ بدلا تھا 

انکو سخت بخار ہے اتنا بخار کیسے ہو گیا ۔۔۔

ڈاکٹر نے مرجان کی طرف دیکھ کر سوال کیا 

کل رات بارش میں بھیگ گئی تھی۔۔۔ اور رات ٹھیک سے سوئی نہیں ۔۔۔ وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے سنجیدگی  سے بتا گیا تھا جبکہ ژالے نے دونوں کو دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روکا تھا 

تعبیر نے کوفت سے اسکی طرف دیکھا جو بغیر پرواہ کئے سب بول چکا تھا

 یہ دوائیاں استعمال کریں جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گی میں انجیکشن لگا دیتا ہوں ۔۔۔

وہ گھبراتے ہوئے اٹھی تھی انجیکشن کا نام سن کر ۔۔۔ ژالے اب کی بار ہنس پڑی تھی 

ڈاکٹر آپ مجھے دیں میں لگا دوں گا ۔۔۔ وہ انجیکشن لیتے ہوئے سنجیدگی سے بولا جس پر تعبیر کی خوفزدہ نظریں ڈاکٹر سے مرجان پر منتقل ہوئی تھی 

ضرور ۔۔۔ ڈاکٹر نے انجیکشن اسکے حوالے کیا ژالے مسکراتی ہوئی دونوں کو اکیلا چھوڑ کر ڈاکٹر کے پیچھے چلی گئی تھی 

ہم  انجیکشن نہیں لگوائیں گے ۔۔۔ وہ گڑبڑا کر کہتی ہوئی کمفرٹر خود کو لپیٹتے بولی 

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے انجیکشن نکال رہا تھا

ہم نے کہا ہم نہیں لگوائیں گے آپکو سنائی نہیں دیتا ۔۔۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہوئی تھی اسکا سر بیڈ کے کراؤن سے لگا تھا 

"اور میں نے کہا آپ لگوائیں گی" وہ دھیرے سے کہتا ہوا اسکی ہرٹ بیٹ بڑھا چکا تھا

ہمیں سوئی سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔ وہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی گڑبڑا کر بولی تھی 

آہہہہ۔۔۔  ابھی وہ اسکی طرف بڑھا ہی تھا کہ وہ فلک شگاف چیخ مار چکی تھی 

بیچاری آفرین بیگم پریشانی سے اندر آئی تھی مگر سامنے کا منظر دیکھ کر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی تھی وہ آنکھوں پر کشن دیئے چھپ رہی تھی اور وہ انجیکشن اٹھائے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

بیٹا بالکل درد نہیں ہو گا ۔۔۔ اسکی آنکھوں سے کشن ہٹاتے ہوئے آفرین بیگم نے نرمی سے کہا وہ دانت پیستے ہوئے مرجان کو گھور رہی تھی اسکا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ فوراً بھاگ جاتی 

آفرین بیگم نے اسکا بازو پکڑا تھا وہ ڈر سے آنکھیں بند کر چکی تھی مگر کچھ ہی سیکنڈ بعد کچھ محسوس ناں ہونے پر وہ آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھ چکی تھی جو انجیکشن لگانے کے بعد خالی انجیکشن ڈسٹ بن میں ڈال چکا تھا

دیکھو بیٹا پتا بھی نہیں چلتا ۔۔۔ آفرین بیگم نے شفقت سے اسے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا 

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کمرے سے جا چکا تھا جس نے ایک انجیکشن لگواتے ہوئے پورا گھر سر پر اٹھایا تھا 

بیٹا آؤمیں تمھیں تیار کروا دیتی ہوں آج علیزے اور دائم کا نکاح ہے گھر میں مہمان آئیں گے تم بہو ہو آخر اس گھر کی ۔۔۔ اور اسکے بعد آرام کر لینا۔۔۔ آفرین بیگم اسے زبردستی لیکر گئی تھی جہاں علیزے کو پروفیشنل تیار کر رہی تھی 

                                        ✩✩✩✩✩✩

اپنے غصے کو قابو میں رکھو منور ۔۔

کشمالہ بیگم نے دھیرے سے کہا جس پر منور صاحب خاموش ہوئے تھے 

میں جانتی ہوں بہت بڑا ہنگامہ ہوا ہے لیکن اگر آپ نے جزبات میں آ کر کچھ کر دیا تو ساری اصلیت سامنے آ جائے گی اور پھر اس گھر میں قدم رکھنے کے لئے بھی ترسو گے ۔۔۔ میری پوری محنت پر پانی پھر جائے گا ۔۔۔ پیشانی پر آئی سلوٹیں میک اپ سے چھپاتی ہوئی وہ چالاکی سے منور کو سمجھا رہی تھی 

ہم یہ شادی اس لئے کروانا چاہتے تھے کہ وہ تمھارا داماد بن جائے مگر ایسا نہیں ہوا خیر ۔۔اب وہ لڑکی لوٹ آئی ہے ۔۔۔۔ جیسا شہنشاہ صاحب چاہتے ہیں ویسا ہی ہونے دو انہیں بھڑک نہیں لگنی چاہیے ہمارا پلان کیا ہے ۔۔۔ وہ جیولری پہنتی بولی 

اور اپنی بیٹی کا کیا کروں ؟ منور صاحب نے سر پکڑتے ہوئے کہا

اسے میں سمبھال لوں گی ۔۔۔ مرر میں دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی تھی 

کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ 

آفرین بیگم کی آواز پر دونوں حیرانی سے دروازے کی جانب دیکھ گئے تھے کیا وہ سب سن چکی تھی ؟

وہ میری بیٹی ہے میں اسے سمبھال لوں گی۔۔۔ اور جہاں تک بات وڈیرا سائیں کی ہے وہ بالکل ٹھیک کہہ گئے ہیں میری بچی کی شادی حرب سے ہی ہو گی ۔۔۔ میں نے قصا کو زبان دی تھی ۔۔۔ وہ منور کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جو انہیں آنکھیں دیکھاتے ہوئے زیرِ لب کچھ بڑابڑا گئے تھے 

وہ اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکی تھی کشمالہ بیگم اور منور صاحب کو کشمکش میں ڈال کر ۔۔۔۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسکے منہ میں زبان بھی ہے ۔۔۔کشمالہ بیگم نے منور صاحب کی طرف طنز سے دیکھ کر کہا جس پر وہ اور غصہ ہوئے تھے آفرین بیگم پر

                                        ✩✩✩✩✩✩

علیزے سہیل ولد سہیل احمد حق مہر بیس لاکھ سکہ رائج الوقت کیا آپکو دائم آغا شاہ سے یہ نکاح قبول ہے !!

سرخ ہیووی برائیڈل لہنگے میں ملبوس وہ عروسی ملبوسات کیساتھ گولڈن ہیووی جیولری میں ڈارک برائیڈل میک اپ کئے بےحد حسیں لگ رہی تھی 

وہ مسکراتے ہوئے سامنے لگے گولڈن پردے کے اس پار بیٹھے اپنے محرم کو دیکھ گئی تھی نظریں اٹھا کر محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ گیا تھا

وائٹ کرتہ سوٹ میں وہ انتہا کا ہینڈسم لگ رہا تھا مگر غرور نہیں تھا نظروں میں ۔۔۔۔

قبول ہے ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی 

دائم آغا ولد آغا خان حق مہر بیس لاکھ سکہ رائج الوقت کیا آپکو علیزے سہیل سے یہ نکاح قبول ہے ؟

وہ شرماتے ہوئے نظریں جھکا گئی تھی

قبول ہے ۔۔۔ 

وہ مسکرا کر فوراً بول پڑا تھا جس پر سب مسکرائے تھے آخر اسے اپنی محبت ملی تھی جب سے اسے معلوم ہوا تھا علیزے ہی اسکی شریکِ حیات ہے وہ کسی اور لڑکی کے بارے میں سوچنے سے بھی کتراتا تھا لمبے انتظار کے بعد آخر اسے اسکی منزل نصیب ہوئی تھی 

آغا صاحب منور صاحب کو گلے لگا کر مبارکباد دے رہے تھے وہاں دوسری طرف آفرین بیگم اور قصا بیگم خوشی سے گلے ملی تھی کشمالہ بیگم کے چہرے پر بھی خوشی جھلک رہی تھی 

                                             ✩✩✩✩✩✩

اتنا بھاری لہنگا ۔۔۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی صوفے سے اٹھی تھی اسے کسی نئی نویلی دلہن کی طرف سجایا گیا تھا آفرین بیگم کے کہنے پر مگر وہ بیچاری سمبھال نہیں پا رہی تھی ہیوی جیولری اور اتنے ایکپینسیو لہنگے کو 

اچانک سے پورے روم کی لائٹ چلی گئی تھی وہ خوفزہ نظروں سے اسے پاس دیکھتے باہر جانے کا راستہ تلاش رہی تھی

کک۔۔۔کون۔۔۔۔ہے

 جب اسے اپنی کلائی پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا وہ کانپتے ہوئے پیچھے آنکھیں بند کر گئی تھی

اسے سختی سے کھینچ کر کسی نے دیوار سے لگایا تھا 

اس سے پہلے وہ چیختی اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مخالف نے اسکی چیخ کو گلے میں ہی دفن کر دیا تھا

 امممم۔۔۔ امممم

وہ کسی پنجرے میں بند چڑیا کی طرح پھڑپھڑائی تھی آخر وہ کرنا کیا چاہتا تھا ؟

اسکی کلائی کو سختی سے مروڑا گیا تھا جس پر وہ  بےبسی سے سسکی تھی

کک۔۔۔کون۔۔۔۔ہے

 جب اسے اپنی کلائی پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا وہ کانپتے ہوئے پیچھے آنکھیں بند کر گئی تھی

اسے سختی سے کھینچ کر کسی نے دیوار سے لگایا تھا 

اس سے پہلے وہ چیختی اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مخالف نے اسکی چیخ کو گلے میں ہی دفن کر دیا تھا

 امممم۔۔۔ امممم

وہ کسی پنجرے میں بند چڑیا کی طرح پھڑپھڑائی تھی آخر وہ کرنا کیا چاہتا تھا ؟

اسکی کلائی کو سختی سے مروڑا گیا تھا جس پر وہ سسکی تھی

                                            ✩✩✩✩✩✩

وائٹ تھری پیس سوٹ میں ، سیدھی کلائی پر رولیکس گھڑی باندھے وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے شہنشاہ کاظمی کے روبرو صوفے پر اپنی پرکشش شخصیت   کیساتھ براجمان تھا

شہنشاہ کاظمی نے ہی میڈیا کو اناؤسمینٹ کے لئے بلوایا تھا منور صاحب اور آغا صاحب اسٹیج پر انکی اناؤسمینٹ کا انتظار کر رہے تھے وہ سنجیدگی سے مرجان کاظمی سے دھیمی آواز میں گفتگو کر رہے تھے اور وہ سرد نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا کر انہیں جواب دے رہا تھا

شہنشاہ کاظمی اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج پر آئے مائیک آن کرتے ہوئے وہ رعب دار لہجے میں بولے تھے 

"آپ سب کو یہاں مدعو کرنا کا مقصد ایک ضروری اناؤسمینٹ ہے جو میں پچھلے کئی مہینوں سے کرنا چاہتا تھا مگر صحیح وقت کی تلاش میں تھا "

منور صاحب نے حیرت اور افسوس سے شہنشاہ کاظمی کو دیکھا وہ اس اناؤسمینٹ سے بالکل بےخبر تھے ۔۔۔ 

سبھی کیمرے ان پر نصب تھے ۔۔۔ 

"کاظمی انڈسٹریز کی برانچز پوری دنیا میں موجود ہیں اور ایم۔کے بیسٹ برینڈ کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے آج میں کاظمی انڈسٹریز کی ساری زمہ داریاں آفیشلی اپنے شیر میرے جگر کے نام کرتا ہوں "

وہ شان سے اٹھا تھا اپنی جگہ سے ۔۔۔

منور صاحب نے مٹھی بھینچی تھی 

وہ شہنشاہ کاظمی سے پین لیکر پیپرز پر دستخط کر چکا تھا 

سبھی نے خوشی کا اظہار کیا تھا کیونکہ پوری دنیا اسکے نام اور کام سے واقف تھی جس نے چند سالوں میں پوری دنیا میں اپنے نام کا لوہا منوایا تھا اس وقت وہ دنیا کے بہترین بزنس مینجمنٹ کی فہرست میں ٹاپ پر تھا ۔۔۔

Any Questions ?

وہ میڈیا سے مخاطب ہوا تھا 

سب اسکی طرف دلچسپی سے متوجہ ہوئے تھے اس وقت پوری دنیا ہی اسے ٹی وی پر لائیو دیکھ رہی تھی آخر وہ ایک سیلیبرٹی تھا 

سر ہم آپ سے جاننا چاہتے ہیں کیا آپ سنگل ہیں یا پھر آپکی لائف میں کوئی ہے ؟ ایک صحافی کے سوال پر وہ مسکرایا تھا

 میں سنگل نہیں ہوں ۔۔۔

وہ کئی لڑکیوں کے دل توڑ چکا تھا یہ کہہ کر ۔۔۔ 

سر ریسینٹلی ہونے والی وارداتوں اور کڈنیپکنگ کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے ؟ ایک اور صحافی بولا تھا جس پر وہ سنجیدگی سے شہنشاہ کاظمی کی طرف دیکھ چکا تھا

"کیا ایک بزنس مین کو ان سب میں بولنا چاہئے " وہ چالاکی سے آئی برو اچکاتا ہوا الٹا سوال کر گیا تھا جس پر شہنشاہ کاظمی نے اسے داد دی تھی دل میں ۔۔۔

                                         ✩✩✩✩✩✩

وہ گھبرائی ہوئی لہنگا سمبھالتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اسکا پیر مڑا تھا اس سے پہلے وہ گرتی وہ اسے اپنے مظبوط بازوں میں تھام گیا تھا  خوف سے وہ اسکا کوٹ مٹھی میں دبا گئی تھی وہ اسے دیکھ کر فوراً اسکا کوٹ چھوڑ چکی تھی ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ وہ سنجیدہ ہوا تھا وہ اسکا کوٹ چھوڑتی ہوئی آنسوں صاف کرتی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی وہ سنجیدگی سے اسکے پیچھے گیا تھا جب وہ دھاڑ سے دروازہ بند کر چکی تھی 

دروازہ کھولیں ۔۔۔

وہ نرمی سے بولا تھا اسکی آنکھوں میں آنسوں اسکے دل پر چوٹ لگا چکے تھے 

کیوں بار بار ہمیں خود سے نفرت کرنے پر مجبور کرتے ہیں آپ ۔۔۔ آخر کیوں ؟ وہ دروازے سے پشت لگاتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں بولی تھی وہ ناسمجھی سے دروازے کو دیکھ گیا تھا بھلا اسنے اب کیا کیا تھا ۔۔۔

نفرت ہے ہمیں آپ سے آپکے قریب آنے سے ۔۔۔ کیوں ہمیشہ آپ ہمیں تکلیف دیتے ہیں خوف کھاتے ہیں ہم آپ سے ۔۔۔ یو نو واٹ یو آر اے Beast !!

وہ گھٹنوں میں سر دیتے ہوئے  اپنی کلائی پر زخم دیکھ کراہ گئی تھی

جب کہ وہ اسکے الفاظ پر گہری تکلیف سے گزرا تھا 

ہمیں نفرت۔۔۔۔ ہوتی ہے جب ۔۔۔۔آپ ہمارے قریب آتے ہیں ۔۔۔ 

وہ دروازے سے سر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کر چکا تھا وہ کیوں اسے  اس قدر تکلیف دے رہی تھی 

اسکے ٹھیک پیچھے دبی مسکراہٹ کیساتھ ایک پرچھائی لائونج کی طرف بڑھ گئی تھی 

ہمیں خور سے بےحد نفرت ہو رہی ہے ۔۔۔ ہر موڑ پر آپ نے ہمیں دھوکا دیا ہے ۔۔۔ ہم اپنی جان لینا چاہتے ہیں ۔۔۔ خود سے نفرت ہوتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی اسے آج ۔۔۔ اسکی جان لینے والی بات پر وہ بپھرے ہوئے شیر کی طرح جنونی ہو کر دروازے کو دھکا مار چکا تھا

ایسا کچھ نہیں کریں گی آپ ۔۔۔ 

وہ روتی ہوئی ایک بار پھر اپنی کلائی دیکھ گئی تھی جس پر سرخ رنگ کا دھبا نما زخم واضح تھا

You Are A Beast۔۔۔ ایک بےحد گھٹیا انسان ۔۔جو صرف فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔۔۔۔۔

۔۔۔ چیخ کر کہتی ہوئی وہ اسکی پریشانی اور غصے میں مزید اضافہ کر گئی تھی

وہ پوری شدت سے دروازے کو دھکا مار کر کھولتے ہوئے اندر آیا تھا وہ سہمی ہوئی اسے غصے سے لال ہوتا دیکھ کر دروازے کی جانب بھاگی تھی جب وہ سختی سے اسکی کلائی پکڑ چکا تھا 

"تم جانتی بھی ہو کیا کچھ کہہ دیا تم نے " اسکے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں بولا تھا 

اسے بےحد نزدیک دیکھ کر وہ خوف سے لرز گئی تھی 

"میری محبت کو کس چیز سے تشبیہ دے رہی ہو تم ہاں ۔۔؟ کیا میں گھٹیا ہوں ؟ ""

اسے بےحد قریب کرتے ہوئے وہ دھاڑا تھا اسکی ایک ایک بات نے اسے بےحد تکلیف دی تھی اور وہ برداشت نہیں کر پایا تھا وہ آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے اسکی وحشت سے بھرپور آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جس میں صاف غصہ جھلک رہا تھا

"تم جانتی ہو میرے عشق کی شدت کو ؟ پوری زندگی تمھاری تڑپ میں گزارنے والے کو کس سے تشبیہ دے رہی ہو ؟ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے وہ کڑک دار لہجے میں گویا ہوا جس پر وہ سختی سے آنکھیں بند کر گئی تھی 

"شوہر ہوں  میں تمھارا یاد رکھنا " 

اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے  اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ گمبھیر لہجے میں بولا

"پورا حق ہے میرا لیکن اگر میں تمھیں سپیس دے رہا ہوں وقت دینے کی کوشش کر رہا ہوں تو وہ صرف میرا عشق ہے ورنہ پوری دنیا مرجان کاظمی کو اسکی مرضی کرنے سے روک نہیں سکتی " 

اسے کندھوں سے چھوڑتے ہوئے وہ پیچھا ہو کر بولا وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ناجانے کیوں اسکی باتوں میں سچائی نظر آ رہی تھی اسے ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے اسے آخری نظر دیکھ کر کوٹ سیٹ کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلا گیا تھا جب کہ وہ بیٹھتے دل کیساتھ آنسوں صاف کر گئی تھی 

                                           ✩✩✩✩✩✩

مجھے یہ نکاح قبول نہیں ۔۔ 

اسکے دو ٹوک لہجے پر سب نے حیرانی سے اسکی جانب دیکھا تھا جو اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا تھا ابھی تو نکاح شروع ہی ہوا تھا  دلہن بنی زنیرا نے اسے نظروں سے سراہا تھا

آخر میرا تھپڑ رائیگاں نہیں گیا ۔۔۔ وہ زیرِ لب بڑبڑائی تھی 

شہنشاہ کاظمی اہنی جگہ سے اٹھ کر اسے سامنے آئے تھے وہ ادب اور خوف سے نظریں جھکا گیا تھا 

چٹااااخ !

ایک زوردار تھپڑ نے سب کو چونکا دیا تھا آفرین بیگم اور قصا بیگم نے اضطراب سے اسکی جانب دیکھا تھا جو گال پر ہاتھ رکھتا ہوا ابھی بھی ادب سے سر جھکائے کھڑا تھا

تمھاری اتںی ہمت کیسے ہوئی ہمارے فیصلے کے خلاف جاؤ ۔۔۔ وہ گرج دار لہجے میں بولے تھے وہ لب بھینچتا ہوا بس نظریں جھکا چکا تھا

"تم اسی لائق ہو حرب شاہ تم پر یہ بےعزتی سوٹ کرتی ہے " 

زنیرا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ گئی تھی مگر حالات کی نزاکت کا سوچ کر وہ جلدی سے مسکراہٹ چھپا گئی تھی

آغا صاحب ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنے بیٹے کے سامنے آئے تھے 

بابا سائیں اسے معاف کر دیں بچہ ہے غلطی میں بول بیٹھا ہو گا ۔۔۔ یہ نکاح ضرور کرے گا مجھے سمجھانے کا وقت دیں ۔۔۔ ہاتھ جوڑتے ہوئے التجائی لہجے میں بولے تھے 

سنو لڑکے ۔۔۔ یہ نکاح ابھی اسے وقت ہو گا ۔۔۔ شروع کرو نکاح ۔۔۔ اور اگر تم اس بات سے پلٹے اس گھر میں تم اور تمھاری فیملی قدم نہیں رکھے گی ۔۔۔ 

قصا بیگم نےافسردگی کیساتھ اپنے بےبس بیٹے کو دیکھا تھا جبکہ کشمالہ بیگم منہ کے ڈیزائن بناتی ہوئی پورا مزہ لے رہی تھی

زنیرا کو اپنا پلین چوپٹ ہوتا نظر آ رہا تھا مگر اسکی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ شہنشاہ کاظمی کے سامنے بولتی یہ صرف حرب کر سکتا تھا اسکی خاطر وہ خود کو برا دیکھا گیا تھا مگر اسکا نام نہیں لیا تھا 

آغا صاحب نے حرب کو سمجھانے کی کوشش کی تھی وہ سرد سی نظر زنیرا پر ڈالتے ہوئے بےبسی سے اپنی ماں کی طرف دیکھ چکا تھا جو نظروں میں ہی اسے سمجھا رہی تھی 

وہ  دکھ درد اور ناجانے کتنی تکلیف برداشت کرتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر بیٹھا تھا جبکہ زنیرا اسکے بیٹھنے پر حقارت بھری نظروں سے اسے دیکھ گئی تھی 

کچھ ہی دیر میں نکاح پڑھوا لیا گیا تھا

ناچاہتے ہوئے وہ دونوں ایک رشتے میں جڑ گئے تھے جس میں صرف نفرت تھی ایک دوسرے کے لئے ۔۔۔ 

                                          ✩✩✩✩✩✩

آفرین بیگم اور قصا بیگم تعبیر کو سب مہمانوں سے انٹروڈیوس کروا رہی تھی وہ سہمی ہوئی اسکی جانب دیکھ رہی تھی جو ناجانے کب سے لو دیتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسکی نظروں میں بےحد محبت تھی مگر وہ تعبیر نہیں دیکھ پا رہی تھی وہ صرف اس سے خوف کھاتی تھی ڈر تھا اسے جسکی وجہ سے وہ اسکے ساتھ رہ گئی تھی 

مسلسل اسکی نظروں کی تپش خود پر محسوس کر تعبیر کی پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے ظاہر ہوئے تھے وہ نظریں جھکاتے ہوئے دوپٹے کا کونا مٹھی میں مروڑتے ہوئے ایک بار پھر اسکی طرف دیکھ گئی تھی اسکی حالت پر ترس کھا کر وہ مہمانوں سے کچھ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا سکھ کا سانس لیتی ہوئی وہ کچھ حد تک کمپوز ہوئی تھی 

سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ گارڈن میں ٹہلنے کے لئے آیا تھا جب اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سن کر وہ پیچھے دیکھ گیا تھا 

سلام دادا سائیں ۔۔۔

وعلیکم السلام میرے جگر ۔۔۔ اکیلے گھومنے کی وجہ دریافت کر سکتا ہوں ؟ شہنشاہ صاحب مسکراتے ہوئے پوچھ چکے تھے اور ساتھ ہی گارڈن میں پاس پڑی چیئرز کی طرف اشارہ کر گئے تھے وہ لب بھینچتا ہوا سرد نظروں سے انہیں دیکھ کر کرسی پر بیٹھا تھا 

کوئی پریشانی ہے میرے شیر کو ؟ 

وہ نہیں سمجھ رہی دادا سائیں ۔۔۔ میں اور برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔۔۔ سرد آہ بھرتے ہوئے وہ نظریں جھکا کر بولا تھا جبکہ شہنشاہ صاحب نے پہلی بار اپنے پوتے کو یوں بےبس پایا تھا کس حد تک جنونیت تھی اسکے عشق میں ۔۔۔  وہ کچھ بھی کر سکتا تھا اسکی خاطر 

وقت دو اسے شیر ۔۔۔ اسکا دل نازک ہے ۔۔۔ عمر ہی کیا ہے اسکی صرف سترہ سال کی ہے سمجھتے ہوئے بھی وقت لگے گا ناں ... اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اسے دلاسہ دیکر بولے تھے 

"میں آنسوں نہیں دیکھ سکتا اسکی آنکھوں میں دادا سائیں یہاں چوٹ لگتی ہے مجھے ۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا تھا جس پر شہنشاہ کاظمی بس سنجیدگی سے اسے دیکھ گئے تھے اتنا جنونی وہ کب ہو گیا تھا اتنا پوزیسیو وہ کب ہوا تھا ؟ اتنی محبت کرتا تھا وہ اس سے ؟

میری موجودگی سے اسے نفرت ہے وہ خود کہہ چکی ہے میں پچھلے تیرہ سالوں سے اسکے انتظار کی آگ میں جل رہا ہوں مگر وہ ملی بھی تو ایسے وہ مجھے نہیں پہچانتی میں اجنبی ہوں اسکے لئے ، اس سازش میں ملوث ہر ایک شخص کو حساب دینا ہو گا اور میں کسی ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا " 

وحشت ناک لہجے میں کہتا ہوا وہ شہنشاہ کاظمی کو گھبرانے پر مجبور کر گیا تھا وہ بس سر ہلاتے ہوئے اسکی جانب دیکھ گئے تھے

                                        ✩✩✩✩✩✩

تعبیر تھکی ہوئی ابھی کمرے میں ہی آئی تھی جلدی سے بیڈ پر لیٹتی ہوئی وہ اسے کمرے میں ناں پا کر سکوں کا سانس لے گئی تھی اسکی غیر موجودگی میں وہ زیادہ ہی پرسکوں رہتی تھی  

واش روم کا دروازہ کھلا تھا

دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ کرنٹ کھا کر اٹھی اور سر گھما کر دروازے کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔

آواز تو آئی تھی ۔۔۔وہ دھیرے سے کہتی ہوئی اٹھ کر دروازے تک آئی جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی وہ پیچھے مڑی تو خوف سے اسکی آنکھیں پھیلی وہ جلدی سے رخ بدل گئی تھی 

شرم سے اسکے گال سرخ پڑے تھے اسے شرٹ لیس دیکھ کر ۔۔۔  جبکہ وہ اسے ایسے گھبراتا دیکھ کر صوفے سے شرٹ اٹھا کر پہن چکا تھا 

رکو۔۔۔۔

اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ باہر بھاگ نکلی تھی وہ سپاٹ نظروں سے اس ڈرپوک کو دیکھ چکا تھا 

ہم نہیں رہیں گے اس کمرے میں ۔۔۔ ہرگز نہیں رہیں گے ہمیں بالکل بھروسہ نہیں ہے  ۔۔۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی شہنشاہ کاظمی کو دیکھ کر رکی تھی جو اسے دیکھ چکے تھے 

بیٹا آپ اسوقت یہاں ۔۔۔ سب خیریت ہے ۔۔۔

وہ شفقت سے تعبیر کے سر پر ہاتھ رکھتے گویا ہوئے جس پر اسے تھوڑا سا سکوں اور ہمت ملی 

وہ ۔۔۔ وہ ہمیں ۔۔۔ ہمیں انکے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔ اسے دیکھ کر ہکلاتے ہوئے اسکی طرف اشارہ کرتی کہہ کر وہ اسکا پارہ ہائی کر چکی تھی  وہ مٹھی بھینچتے ہوئے بےبسی سے شہنشاہ صاحب کو دیکھ گیا تھا جو اسے آنکھیں دیکھا رہے تھے 

کیوں بیٹا ۔۔۔ ایسا کیا ہو گیا آپ دونوں کے درمیان لڑائی ہوئی ہے ؟ شہنشاہ صاحب نے شفقت سے دریافت کیا

نہیں ۔۔۔ ہمیں ڈر لگتا ہے ان سے ۔۔۔ وہ منمنائی تھی جبکہ اسکا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا وہ آنکھیں سکیڑے اسے گھوری سے نواز گیا تھا جس پر وہ اور گھبراہٹ کا شکار ہوئی تھی 

اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ آفرین بچے ۔۔۔۔ بچی کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔۔۔

آفرین بیگم جو کام مکمل کر کے وہاں سے گزر رہی تھی شہنشاہ صاحب کی بات پر بغیر کچھ بولے ہاں میں سر ہلا کر تعبیر کو ساتھ لے جانے لگی 

وہ سنجیدگی سے شہنشاہ صاحب کو دیکھ چکا تھا

کہا تھا اسے ڈرانا مت آخر اب کیا کر دیا تم نے ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے اسے گھورتے پوچھا وہ سرد آہ بھرتے ہوئے بغیر کچھ کہے خالی قدموں کیساتھ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا اسے سخت غصہ آ رہا تھا اس لڑکی پر بھلا اسنے ایسا کیا کر دیا تھا جو وہ اتنا بھاگ رہی تھی اس سے ۔۔۔

بیٹا لڑائی ہو گئی آپ دونوں کی ؟ آفرین بیگم نے اسے بلینکٹ دیتے ہوئے پوچھا وہ بلینکٹ لیتے ہوئے لب بھینچ گئی تھی 

کوئی بات نہیں مگر ایسے نہیں کیا کرتے ایک دوسرے کو سمجھنا سیکھو ۔۔۔ آفرین بیگم نے اسکے سر پر بوسہ دیکر اسے سمجھایا جس پر وہ ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ بیڈ پر لیٹ گئی تھی 

                                        ✩✩✩✩✩✩

دائم کانفیڈینٹ ہو کر  اپنے کمرے میں آیا تھا جہاں علیزے دلہن بنی بیڈ پر اسکا انتظار کر رہی تھی مسکراہٹ دباتے ہوئے وہ کمرے کا دروازہ بند کر چکا تھا 

وہ پلو سے چہرہ چھپاتے ہوئے شرمائی تھی دھیرے سے چلتا ہوا وہ بیڈ تک آیا وہ جلدی سے رخ بدل گئی تھی 

اتنی شرماہٹ ؟ وہ حیران ہوا تھا بھلا وہ کب سے شرمانے لگی تھی 

وہ بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھا ہی تھا جب وہ گھبرا کر بیڈ سے اتری تھی 

ریلیکس اتنا پینک کیوں کر رہی ہو ؟ وہ حیران ہوا تھا اسکی اس حرکت پر ۔۔۔

ہمی۔۔۔ شرم ۔۔۔ آتی ہے ۔۔۔

دھیرے سے کہتی ہوئی وہ مرر کے سامنے آئی تھی 

افف خدا یہ لڑکی ۔۔۔ وہ منہ بسورتا ہوا اٹھ کر اسکے پاس گیا تھا محبت سے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اسکے کندھے پر سر رکھ چکا تھا

ہاہاہاہا ۔۔۔۔ نجم کا قہقہ پورے کمرے میں گونجا تھا وہ بوکھلائے پیچھے ہٹا تھا وہ گھونگھٹ سے منہ نکالتے ہوئے اسے زبان دکھا کر چڑھاتا ہوا لہنگا اٹھا کر باہر بھاگا تھا

کمینے ۔۔۔ چھوڑوں گا نہیں تجھے ۔۔۔ سارا موڈ خراب کر دیا ۔۔۔ وہ بدمزہ ہو کر اسے سو گالیاں دے چکا تھا 

واش روم سے نکلتی علیزے منہ پر ہاتھ دیکر ہنسی تھی جس پر وہ شرمندگی سے لب بھینچ گیا تھا

                                        ✩✩✩✩✩✩

وہ سنجیدگی سے کمرے میں داخل ہوا تھا جب قالین پر اپنا سامان بکھرا دیکھ کر وہ شاک ہو کر اسے دیکھ چکا تھا جو دلہن کے لباس میں ملبوس تھی اسکی الماری سے سب کچھ نکال کر نیچے پھینک رہی تھی 

آر یو آؤٹ آف یوئر مائنڈ ؟ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے وہ سختی سے بولا تھا جس پر وہ نفرت سے بازو چھڑاتے ہوئے اسے دھکا دے چکی تھی 

اپنی حد میں رہو حرب شاہ ۔۔۔ میرے قریب آنے کی ایک کوشش اور میں تمھارا منہ لال کر دوں گی تھپڑوں سے ۔۔۔ غصے سے کہتی ہوئی وہ اسے دھکا دیکر بولی تھی

میری چیزیں اس طرح نیچے پھینک کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں آپ ؟ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا

آپ ؟ اپنے ڈرامے بند کرو آپ کسے کہہ رہے ہو اتنی عزت کرتے ہو میری ۔۔۔ پھر کیوں نکاح کیا مجھ سے بولو یہ جانتے ہوئے کہ میں تم سے نفرت کرتی ہوں مجھے ترس آتا ہے خود پر تم جیسے شخص سے جسے میں کبھی زندگی میں دیکھنا پسند نہ کرتی نکاح کیسے کر بیٹھی ۔۔۔ طنزیہ انداز میں کہتی ہوئی وہ اسکے دل پر انگلی رکھ کر بولی جس پر وہ آنکھیں بند کرتا ہوا پیچھے ہٹا تھا 

اپنی ماں سے کہہ دینا مجھ سے اچھی سنسکاری بہو بننے کی امیدیں وابستہ نہ رکھیں دل ٹوٹنے پر بہت تکلیف ہوتی ہے اور مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا جب امیدیں لگا لی جائیں اور وہ پوری ناں ہوں ۔۔۔ 

میری ماں کو تکلیف دینے کے بارے میں سوچنا بھی مت ۔۔۔وہ کرخت لہجے میں بولا تھا بہت پوزیسیو تھا وہ اپنی ماں کو لیکر 

سو کالڈ تھرڈ کلاس تم اور تمھارے جزبات نکلو یہاں سے فوراً ۔۔۔ وہ اسے بازو سے پکڑ کے اسکے ہی کمرے سے نکال چکی تھی ۔۔۔

اسے بس ترس آ رہا تھا اس لڑکی پر اس لئے وہ نرمی سے پیش آ رہا تھا

                                             ✩✩✩✩✩✩

وہ سونے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا بار بار کروٹ بدلتے ہوئے وہ اکتا گیا تھا کل وہ اسکی نظروں کے سامنے تھی اور اب وہ دیکھنے کے لئے بھی سامنے موجود نہیں تھی 

بہت ہو گیا تمھارا ،، بہت وقت دے دیا میں نے تمھیں اب اور نہیں ۔۔۔ اگر اتنے وقت میں تم میں کوئی سدھار نہیں آیا تو بعد میں بھی نہیں آئے گا ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا بیڈ کے کراؤن سے سر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کرتے بولا تھا

بےوقوف لڑکی ۔۔۔ 

اسے یاد کرتے ہوئے وہ مسکرا دیا تھا کچھ سوچنے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھا تھا دھیرے سے بغیر آہٹ کئے وہ دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

پانی کی بوتل ہاتھ میں لئے وہ گھبراہٹ کیساتھ آس پاس دیکھ رہی تھی کچن میں مدھم روشنی تھی جبکہ باقی گھر کی لائٹس آف تھی 

ہمیں اکیلے نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔۔ پریشانی سے لب کاٹتی ہوئی وہ خود کو کوس رہی تھی جب اسے اندھیرے میں ایک پرچھائی دیکھائی دی گھبرا کر منہ پر ہاتھ دیتی ہوئی وہ چیخنے سے گریز کر گئی تھی شیلف کے پیچھے چھپتے ہوئے وہ چور نظروں سے اس پرچھائی کو گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھ گئی تھی 

اسوقت کون ہو سکتا ہے ؟ وہ پانی کی بوتل شیلف پر رکھتے ہوئے کانپتے قدموں کیساتھ اس پرچھائی سے کچھ فاصلے پر چل دی تھی پرچھائی کہیں گم ہو گئی تھی وہ درخت کے سائے سے ہٹ کر سامنے آئی تھی آس پاس نظریں گھمانے پر بھی اسے کچھ نظر نہیں آیا تھا 

مگر وہ ہمارا وہم نہیں تھا ہم نے دیکھا تھا کسی کو ۔۔۔ وہ گارڈن کا جائزہ لیتے پریشانی سے بولی 

آہہہہہ۔۔۔

ایک دبی دبی چیخ اسکے حلق سے نکلی تھی

کسی نے اسے پیچھے سے سوئمنگ پول میں دھکیلا تھا ۔۔۔ 

وہ گھباہٹ سے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے پانی میں ڈوب رہی تھی 

بچاؤ ہمیں ۔۔۔ ہیلپ

وہ پوری شدت سے چیخی تھی ۔۔۔  

ہیلپ می پلیز ۔۔۔

وہ جو کوئی بھی تھا اسے دھکا دیکر وہاں سے فوراً جا چکا تھا 

بچائو ہمیں ۔۔۔ پانی میں ہاتھ مارتے ہوئے وہ پھر سے چیخی تھی وہ مکمل ڈوبنے کو تھی پانی اسکی پیشانی تک پہنچ چکا تھا

اسکی چیخ اسنے بخوبی سنی تھی تیز قدموں کیساتھ وہ لان میں آیا تھا پانی میں اٹھتے ببلز دیکھ کر وہ فوراً پانی میں کودا تھا  اسکے ڈوبتے وجود کو وہ مظبوط بازوں میں تھام گیا تھا  اتنی دیر میں اسکا وجود برف کی طرح ٹھنڈا پڑ گیا تھا وہ بےحوشی کی حالت میں بھی تھر تھر کانپ رہی تھی اسکا چہرہ سفید پڑ رہا تھا

اسے پول سے لیکر وہ باہر آیا تھا ایک سرد سی نظر آس پاس ڈالتے ہوئے وہ اسکا چہرہ تھپتھپا رہا تھا 

گیٹ اپ زارا

 ۔۔۔  پلیز گیٹ اپ ۔۔۔ آنکھیں کھولو دیکھو میری طرف ۔۔

اسکا سر سینے سے لگاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا اسکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کتنا پریشان تھا وہ اس وقت ۔۔۔

وو۔۔۔وہ

اسکے کانپتے ہونٹوں نے حرکت کی تھی

اسکے ٹھنڈے نازک ہاتھوں کو اپنے مظبوط ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ انہیں آپس میں رگڑ رہا تھا ۔۔۔

س۔۔۔سر ۔۔۔ ہمیں ٹھنڈ۔۔۔ ٹھنڈ لگ۔۔۔

وہ اسکے ہاتھوں کو سختی سے  اپنے کانپتے ہاتھوں کیساتھ پکڑ کر بولی تھی 

اسے اپنے مظبوط بازوں میں تھامے وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔ اسکے ٹھیک پیچھے ہی کسی نے سوکھے پتوں پر پیر رکھا تھا مگر وہ ان سنی کرتے ہوئے اسے لیکر آگے بڑھ گیا تھا

ہم۔۔۔ نے کسی کو دیکھا ۔۔۔ وہ ۔۔۔ ہمیں دھکا دیکر ۔۔۔ 

 میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے وہ ٹاول سے اسکے بالوں کو خشک کرتے ہوئے بولا تھا وہ مسلسل کانپ رہی تھی اسکا چہرہ صاف کرتے ہوئے وہ اٹھا

ہمارے پاس ۔۔۔ رکیں۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی تھی ۔۔۔ اسکا ٹھنڈا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے وہ اسکے قریب بیٹھا تھا 

ککک۔۔۔کوئی ۔۔۔ہمیں مارنا چاہتا ہے ۔۔۔

وہ اپنے ہاتھ پر اسکا ہاتھ رکھتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بتا رہی تھی وہ سنجیدگی سے اسکی کلائی پر سرخ نشان دیکھ کر چونکا تھا یہ چوٹ کب آئی تھی اسے

س۔۔۔سر !

وہ سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ چکا تھا 

ہمیں اکیلا چھوڑ کر مت جائیے گا ۔۔۔  اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ سہمی آواز میں بولی تھی 

کیسے چھوڑ سکتا ہوں آپکو زارا۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ پر لب رکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

                                           ✩✩✩✩✩✩

یہ کیا کیا تم نے اگر وہ مر جاتی تو ؟ درخت کے پیچھے  کھڑے دو سائے آپس میں بحث کر رہے تھے 

تو کیا ؟ مر جاتی مجھے اس لڑکی سے کوئی ہمدردی نہیں ۔۔۔ سختی سے کہا گیا تھا

یہ مت بھولو کہ وہ تمھیں دیکھ چکا ہوتا ۔۔۔ احمقوں کے جیسے مت سوچو ۔۔۔  یہ بات یاد رکھنا اگر اسے بھڑک تک بھی لگی تم کیا کر رہے ہو وہ تمھیں زندہ زمین میں دفنا دے گا ۔۔۔ نسوانی آواز تھی

دیکھتے ہیں ۔۔۔  طنزیہ لہجہ تھا

                                         ✩✩✩✩✩✩

  دھیرے سے آنکھیں کھولتی ہوئی وہ اسے اپنے پاس چیئر پر بیٹھا دیکھ رہی تھی وہ سنجیدگی سے کچھ سوچ رہا تھا اسکی آنکھوں میں ڈھیروں سردپن تھا بہت کچھ چل رہا تھا اسکے ذہن میں ۔۔۔

سر ۔۔ وہ دھیمے سے بولی تھی وہ نظریں اٹھاتے ہوئے اسکی جانب دیکھ گیا تھا مگر اس سے زیادہ بولنے کی اسکی ہمت نہیں ہوئی تھی وہ گھبراتے ہوئے ایک جانب دیکھ کر خاموش ہوئی تھی اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اٹھا تھا گلاس میں پانی بھرتے ہوئے  سائڈ ٹیبل سے دوائی اٹھا کر وہ اسکی طرف بڑھا چکا تھا بغیر کوئی احتجاج کئے وہ اسکی ہتھیلی سے ٹیبلٹ اٹھا کر پانی کیساتھ کھا کر دوبارہ لیٹ گئی تھی 

ٹھنڈ لگ رہی ہے ؟ 

وہ چیئر پر بیٹھتے ہوئے نرمی سے گویا ہوا تھا وہ لب بھینچتی ہوئی ہاں میں سر ہلا چکی تھی 

وہ فائر پلیس میں آگ جلاتے ہوئے چیئر کھینچ کر پاس رکھتے ہوئے اسکی جانب بڑھا تھا وہ سہمی ہوئی اسکی ایک ایک بات جانچ رہی تھی جس سے اسکی ہمدردیاں جھلک رہی تھی 

اسکا ہاتھ تھام کر اسے چیئر پر بیٹھاتے ہوئے وہ اس پر کمفرٹر ڈال چکا تھا شدید  سردی میں حرارت کا احساس ہوتے ہوئے وہ سکوں سے آنکھیں بند کر گئی تھی وہ بک شیلف سے ایک کتاب نکالتے ہوئے مناسب فاصلے پر صوفے پر بیٹھا تھا وہ ہمیشہ ٹینشن میں مطالعہ کیا کرتا تھا تعبیر نے اسے سنجیدگی سے گلاسز لگاتے ہوئے دیکھا گلاسز میں وہ بہت پرکشش لگ رہا تھا آج پھر وہ ہاتھ موڑ کر اس پر ٹھوڑی ٹکاتا ہوا سنجیدگی سے مطالعہ میں مصروف ہوا تھا وہ بغیر آنکھوں جھپکے اسے دیکھ رہی تھی اتنی کشش کیسے ہو سکتی ہے کسی میں ؟ وہ سنجیدگی سے کتاب پڑھنے میں مصروف تھا اس بات سے بےخبر کہ وہ اسے پچھلے آدھے گھنٹے سے ایسے ہی دیکھ رہی تھی

 مسلسل اسے دیکھتے ہوئے وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی تھی ۔۔۔

یہ شاید دوائی کا اثر تھا جو وہ سکون سے سو گئی تھی 

                                      ✩✩✩✩✩✩

سورج کی کرنیں تعبیر کے چہرے پر پڑی تھی وہ آنکھوں پر ہاتھ دیتی ہوئی بیڈ سے اٹھی تھی کمرے میں اور کوئی نہیں تھا ٹائم دیکھا تو نو بج رہے تھے  وہ جلدی سے اٹھی تھی ٹیبل پر پڑا شاپنگ بیگ دیکھ کر وہ اسے اٹھا چکی تھی اس میں اسکے لئے کپڑے تھے وہ سکھ کا سانس لیتے ہوئے لائٹ پنک کلر کا سمپل سوٹ اٹھاتے ہوئے فریش ہونے کے لئے چلی گئی تھی 

بیٹا جوس لو ۔۔۔ قصا بیگم نے زونی کی طرف گلاس بڑھاتے ہوئے محبت سے کہا جس پر وہ اکتاہٹ کیساتھ منہ بناتے ہوئے پکڑ چکی تھی کشمالہ بیگم اسکے منہ کے ڈیزائن دیکھ کر مسکرائی تھی حرب خاموشی سے بریڈ پر جیم لگا رہا تھا اور اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا جو  کل سے اسکی ماں سے بےحد بدتمیزی سے پیش آ رہی تھی علیزے اور دائم فریش لگ رہے تھے دونوں نے خوشدلی سے سب سے بات کی تھی ژالے ندیم کو لیکر تھوڑی پریشان تھی اس لئے وہ زیادہ بات نہیں کر رہی تھی منور صاحب آغا صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے گہری سوچ میں غرق ناشتہ کر رہے تھے 

شیر ناشتہ کرو دھیان کہاں ہے تمھارا ۔۔۔

مرجان  جو کب سے پلیٹ کو خالی نظروں سے دیکھنے میں مصروف تھا شہنشاہ صاحب کی بھاری آواز پر سر ہلاتے ہوئے کافی کا کپ اٹھا چکا تھا وہ دھیرے سے چلتی ہوئی ڈائننگ ہال میں آئی تھی 

آفرین بیگم نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا تھا جو ایک دوسرے کو دیکھ کر فوراً نظریں پھیر چکے تھے 

بیٹھو بیٹا ۔۔۔ آفرین بیگم نے مرجان کے پاس والی کرسی اسکے لئے کھینچی جس پر وہ سہم گئی تھی 

پاگل لڑکی ۔۔۔ ساتھ بیٹھنے سے اتنا گھبرا رہی ہے میری محبتوں کو کیسے برداشت کرے گی ۔۔۔ تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے گھبراہٹ کیساتھ اسکے قریب بیٹھی تھی زنیرا نے سرد سی نگاہ دونوں پر ڈالی تھی  ماری نے بخوبی اسکی نظروں کا جائزہ لیا تھا کشمالہ بیگم مسلسل زنیرا کو دیکھ رہی تھی وہ اس بات سے باخبر تھی کہ وہ مرجان کے لئے کتنی پوزیسیو ہے وہ کبھی اسے کسی اور کیساتھ برداشت نہیں کرے گی ۔۔۔

ڈیڈ آج آسٹریلیا سے انویسٹرز  آنے والے ہیں آئی ہوپ آپکو یاد ہو گا ۔۔۔ شان نے جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے منور صاحب کو یاد دلایا جس پر وہ ہاں میں سر ہلا گئے تھے 

تو مرجان میرا شیر دیکھ لے گا ۔۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے روعبدار لہجے میں کہا جس پر کشمالہ بیگم نے شان کو گھورا تھا جس کے تیور بدل گئے تھے منور صاحب کی چمچ پر گرفت سخت ہوئی تھی 

لیکن بریفنگ شان دے گا بابا سائیں ۔۔۔ منور صاحب بول پڑے تھے جس پر شہنشاہ صاحب نے طنزیہ نظر شان پر ڈالی تھی

 واقعی شیر ہے کسی بھی پل گردن تک پہنچ جائے گا۔۔ اور اکھاڑ کر پھینک دے گا ؟ ۔۔۔ تعبیر نے گھبراتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر سوچا تھا جو اسکے ایسے اچانک دیکھنے پر ایک آئی برو اٹھا کر اسے سرد نظروں سے دیکھ گیا تھا وہ لب بھینچتی ہوئی فوراً نظریں چرا گئی تھی

حرب بیٹا کچھ بولو آپ صبح سے چپ ہو ۔۔ کشمالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کیا وہ بریڈ کا بائٹ لیتے ہوئے رکا تھا زنیرا نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔

طبعیت ٹھیک نہیں ہے چاچی جان ۔۔۔ وہ اکھڑ کر کہتا ہوا وہاں سے اٹھ کر جا چکا تھا جس پر زنیرا نے ہنس کر ہوا میں مکھی اڑائی اسے کہاں فرق پڑتا تھا وہ منہ بنائے ۔۔۔

قصا بیگم نے پریشانی سے اپنے بیٹے کو جاتے دیکھا وہ کل سے بےحد سنجیدہ اور خفا  لگ رہا تھا 

کافی کا ایک سپ لیتے ہوئے وہ سنجیدگی سے تعبیر کو دیکھ گیا تھا وہ ہاتھ باندھے اپنی پلیٹ کو دیکھے جا رہی تھی مگر کچھ کھا نہیں رہی تھی 

"خود کھاؤ گی یا میں کھلاؤں ؟ 

دھیرے سے کہتا ہوا وہ اسے  بری طرح کھانسنے پر مجبور کر گیا تھا پاس بیٹھی زنیرا نے دونوں کو تیکھے چتونوں سے دیکھا تھا

وہ جلدی سے بریڈ کو اٹھا کر پلیٹ میں رکھ گئی تھی ۔۔۔  

نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہ اٹھا تھا ۔۔۔ اسکے پیچھے دائم اور ندیم بھی نکل چکے تھے اسکے ساتھ آفس کے لئے ۔۔۔۔ 

                                         ✩✩✩✩✩✩

بیٹا کل رات کہاں گئے تھے آپ ۔۔۔ آفرین بیگم کے سوال پر وہ جوس کا گلاس رکھتے ہوئے گھبرا کر انہیں دیکھ گئی تھی 

وہ ۔۔۔ ہم اپنے ۔۔۔۔روم میں تھے ۔۔۔ وہ مختصر بولی 

کون ہم ؟ ژالے نے ہم پر زور ڈالتے ہوئے پوچھا جس پر وہ گڑبڑا گئی تھی جبکہ زنیرا چمچ پلیٹ میں پھینکتے ہوئے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی تھی آفرین بیگم نے افسردگی سے بیٹی کو دیکھا کشمالہ بیگم بھی زنیرا کے پیچھے اٹھ کر چلی گئی تھی 

ویسے ایک بات پوچھوں میں نے پہلے بھی ایک بار پوچھا تھا ؟ میرے بھائی تمھیں کیسے لگتے ہیں ؟ ژالے نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا جس پر وہ گڑبڑا گئی تھی

ہم آتے ہیں ۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھی تھی

ارے بھابھی بیٹھئے تو ۔۔۔ ژالے نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے شرارت سے کہا وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ میری جان بچ جائے ۔۔۔

ارے رہنے دو کیوں تنگ کر رہی ہو اسے ۔۔۔ علیزے نے مسکراتے ہوئے کہا آفرین بیگم برتن سمیٹ کر جا چکی تھی 

ارے ایک بات ہی تو پوچھی ہے میرے بھائی کیسے لگتے ہیں بھابھی کو دیکھو بتا ہی نہیں رہی ۔۔

 ژالے نے ہنسی دباتے ہوئے کہا جس پر علیزے ہنس پڑی تھی

ٹھ۔۔۔ٹھیک ہیں ۔۔۔وہ جلدی میں بولی 

بس ٹھیک ہیں ؟ 

ژالے نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا 

ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ ارے مت چھیڑو اسے ۔۔۔ علیزے بری طرح ہنس پڑی تھی تعبیر کے چہرے کی اڑی ہوئی ہوائیاں دیکھ کر ۔۔۔۔

ژالے مسکراتے ہوئے سر کو خم دے گئی تھی  وہ فوراً اٹھ کر کمرے میں آئی تھی انکی باتوں سے اسے شرمندگی کا احساس ہو رہا تھا

                                        ✩✩✩✩✩✩

اتنی جلدی نہیں مماں ۔۔۔ میں اتنی جلدی ہار نہیں مان رہی میں نے اسے بچپن سے چاہا ہے ۔۔۔ زنیرا نے دانت پیستے ہوئے کہا 

لیکن میرا بچہ اسے تو اپنی زارا مل گئی ہے ناں اور منور بتا رہے تھے آج وہ مری کے لئے نکل جائیں گے ۔۔۔ کشمالہ بیگم کی باتوں نے جلتے پر تیل کا کام کیا تھا

مگر کیوں ؟ وہ شاک سی ہوئی تھی

بیٹا افکورس ہنی مون کے لئے ۔۔۔ تم سے زیادہ چالاک تو وہ لڑکی نکلی دیکھو کیسے اسے پھنسا لیا ۔۔۔ 

وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھی تھی 

بیٹا کہاں جا رہی ہو ؟ 

ہم بھی مری جا رہے ہیں ۔۔۔ وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے بولی تھی 

حرب اور آپ ؟

 کشمالہ بیگم کی بات پر وہ اور غصہ ہوئی تھی

ہی از جسٹ آ فوول ۔۔۔ طنزا سے کہتی ہوئی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی

افسوس کیساتھ میری بیٹی۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ کچھ بھی بہتر ہونے والا ہے اور اتنی جلدی تو بالکل نہیں ۔۔۔ 

وہ کندھے اچکا کر کہتی ہوئی مسکرائی تھی 

                                       ✩✩✩✩✩✩

پروجیکٹر آن کرتے ہوئے شان نویسٹرز کو بریفنگ دے رہا تھا کانفرنس روم کے بیچ و بیچ ایک بڑی شیشے کی لکژری ٹیبل لگائی گئی تھی انگلیوں میں پین گھماتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسکی ایک ایک بات سن رہا تھا لیکن انویسٹرز زیادہ خوش نہیں لگ رہے تھے شہنشاہ صاحب ہاتھ باندھے سرد نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے منور صاحب تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے شان کو بریفنگ دیتے دیکھ کر ۔۔۔

So our goal is just to export cheap material ?

ایک امریکی انویسٹر مسکراتے ہوئے پوچھ گیا تھا جس پر شان بریفنگ دیتے ہوئے رکا تھا

مرجان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی وہ پین انگلیوں میں گھماتے ہوئے شان کو پریشانی کے گھونٹ بھرتے دیکھ گیا تھا

I don't think we can invest in this corporation ۔۔۔

دوسرا انویسٹر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا تھا منور صاحب نے پریشانی سے شان کو دیکھا تھا جو ٹینشن سے ہلکان ہو رہا تھا 

I would like to say something ۔۔۔

وہ اپنی پرکشش شخصیت کیساتھ کہتے ہوئے اٹھا تھا ۔۔۔ سب انویسٹرز اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے 

Safety is the first responsibility of our Bridge Corporation Program ... We can export cheap material but it is against our legacy ... 

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے پراجیکٹر آف کر چکا تھا شان کوٹ درست کرتے ہوئے اپنی جگہ پر بیٹھا تھا 

So what would you say about that? Mr. Marjan Kazmi....

انویسٹرز نے دلچسپی سے پوچھا تھا

We will use standard materials, not cheap materials ...

 ہمارا 

پہلا مقصد سیفٹی ہے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ۔۔۔ وہ پین ٹیبل پر رکھتے ہوئے مسکرایا

But how do we make a profit? 

انویسٹر نے پین اٹھاتے ہوئے پوچھا

The two best companies in the world will easily invest in this project and as far as profit is concerned, the name of Kazmi Corporation is at the top right now ۔۔۔ Mr Johnson ...Profit will be more than you think ۔۔۔

ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا سبھی انویسٹرز نے ہاں میں سر ہلایا تھا وہ جسنتے تھے پوری دنیا میں اسکا سکہ چلتا ہے اپنی سیٹ سے اٹھ کر تالیاں بجاتے ہوئے اسے سراہا تھا شان کڑوے گھونٹ بھرتا ہوا کانفرنس روم سے باہر نکل گیا تھا 

We will be very happy to be a part of this corporation. It is our good-fortune that we are investing in this project with Marjan Kazmi, the best businessman in the world.

وہ سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے منور صاحب کو دیکھ گیا تھا جو خالی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے شہنشاہ کاظمی نے مسکراتے ہوئے اپنے لختِ جگر کو سینے سے لگایا تھا 

سبھی انویسٹرز نے پراجیکٹ کے آفیشیل پیپرز پر سائن کر کے ڈیل پکی کی تھی یہ یقیناً کاظمی کارپوریشن کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی ۔۔۔

#قسط_۱۷

                                          ✩✩✩✩✩✩

 تعبیر جو دروازے کھلنے کی تاڑ میں تھی آہٹ پر فوراً آنکھیں بند کر چکی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا تھا کتنا ڈرامہ کرتی تھی وہ ۔۔۔ 

بیڈ کے نیچے سے بیگ نکالتے ہوئے وہ اسکے کپڑے اٹھا کر اس میں ڈال چکا تھا تعبیر نے کشن سے سر اٹھا کر اس کو دیکھا جو اسے بغیر کچھ بولے اسکی چیزیں سمیٹ رہا تھا 

بیگ اٹھا کر وہ اسکی جانب بڑھا تھا اسکے اوپر سے کمفرٹر کھینچتے ہوئے وہ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے اٹھا چکا تھا

یہ کیا کر رہے ہیں آپ... وہ ڈرتے ہوئے اپنا بازو چھڑا کر بولی 

ہم جا رہے ہیں یہاں سے ۔۔۔ اگر کچھ اور لینا ہے تو مجھے بتا دو ۔۔۔۔  ہم آدھے گھنٹے میں نکل رہے ہیں ۔۔۔ کلائی پر بندھی گھڑی کھول کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا

لیکن ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر پوچھ رہی تھی اب کہاں لے جانا چاہتا تھا وہ اس بیچاری کو ۔۔۔

میں تمھارے ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا

 ۔۔۔ لہجہ تھا یا سلگتی ہوئی آگ وہ یکدم اسکے سخت لہجے پر اچھل پڑی تھی خوف سے ۔۔۔ جبکہ وہ اسے اتنا سہما دیکھ کر سپاٹ سی نظر اس پر ڈال گیا تھا

وہ۔۔۔ علیزے آپی بتا رہی تھی آپ۔۔۔ ہمیں ۔۔۔ لیکر 

وہ بولتے ہوئے رہ گئی تھی دوپٹے کا کونہ پکڑ کر انگلیاں مروڑتے ہوئے وہ تین بار حلق تر کر گئی تھی

لیکر کیا ؟

 وہ کوٹ اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے  پوچھ رہا تھا

وہ ہڑبڑاتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ۔۔۔

ہمیں لیکر ۔۔۔ وہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی کنفیوز ہو کر اسے دیکھ گئی تھی جو لو دیتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

آپکو لیکر بھاگ رہا ہوں  رائٹ ؟؟

 اسکی کلائی نرمی سے تھامتے ہوئے وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا جس کے نتیجے میں تعبیر پر کپکپی طاری ہوئی 

نن۔۔۔نہیں۔۔۔

لب کاٹتی ہوئی بولی اسکی نظروں سے چھپ جانا چاہتی تھی وہ ۔۔۔

نہیں بھاگنا چاہتی میرے ساتھ؟

 اسکا ہاتھ پکڑ کر دل پر رکھتے ہوئے وہ اسکی ٹھوڑی اٹھا کر اسکی براؤن آنکھوں میں دیکھ کر بولا 

اسکے دل کی تیز دھڑکن محسوس کرتی ہوئی تعبیر کی گھنی پلکوں نے جھرجھری سی لی تعبیر کی تیز دھڑکن وہ محسوس کرتے وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا

اچھا تو بھاگ جانا چاہتی ہو ؟ 

گمبھیر لہجے میں کہتا ہوا وہ اسکی جان لینے کے قریب تھا 

ہم۔۔۔ہمیں۔۔۔جانے۔۔۔دیں ۔۔۔پلیز !

وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی لہجہ اکھڑا ہوا تھا سانسیں تھی کہ اتھل پتھل ہو رہی تھی

جائیں ...

اسے سینے میں بھینچتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا جبکہ اسکے پرفیوم کی ہلکی مسحور کر دینے والی مہک سے وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی اسکی شرٹ کو مٹھی میں دبا گئی تھی 

ٹھک ۔۔۔ ٹھک

تعبیر جلدی سے اس سے الگ ہوئی تھی وہ بدمزہ ہو کر اسے دیکھ گیا تھا 

اہممم۔۔۔  آپ دونوں چل رہے ہیں یا ہم خود چلے جائیں ۔۔۔ علیزے نے دبی مسکراہٹ کیساتھ دروازے پر ناک کرتے ہوئے پوچھا 

وہ کبرڈ سے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلا گیا تھا تعبیر نے دوپٹے سے پیشانی پر پسینے کی بوندیں صاف کرتے ہوئے دروازہ کھولا 

ہم ریڈی ہیں اور کتنی دیر لگے گی ؟ علیزے نے مسکراتے ہوئے پوچھا تعبیر نے گھبراتے ہوئے بیگ اٹھایا تھا اسے کیا پتا تھا وہ سڑیل کتنی دیر فریش ہونے میں لگاتا تھا ۔۔۔

اچھا چلیں بھائی آ جائیں گے ۔۔۔ علیزے نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا

نہیں ۔۔۔ ہم آتے ہیں ۔۔ وہ مسکرا کر ہاتھ چھڑا چکی تھی وہ صرف مرجان کیساتھ کمفرٹ ایبل تھی پورے گھر والے اسکے لئے اجنبی تھے ۔۔۔

اوکے یار ۔۔۔ علیزے خفگی سے کہتی ہوئی لان کی طرف بڑھ گئی تھی جہاں زنیرا اور حرب پہلے ہی انکا انتظار کر رہے تھے 

میں نہیں جانتا تم کونسے کھیل کھیلنا چاہتی ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا میں تمھاری مائنڈ گیمز نہیں کھیلوں گا ۔۔۔ حرب نے کانوں میں ہینڈ فری ڈالتے ہوئے اکھڑ کر کہا 

تم واقعی سوچتے ہو میں ہمارے سوئیٹ سوئیٹ ہنی مون کے لئے جا رہی ہوں ۔۔۔ کتنی سستی سوچ ہے تمھاری کون لڑکی تم جیسے لڑکے کیساتھ وہاں جانا چاہے گی سو کالڈ مڈل کلاس فیشن لیس ۔۔۔ وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی تھی حرب فون مٹھی میں غصے سے دباتے ہوئے کار کی طرف مڑا تھا جب وہ غصے سے اسکا ہاتھ پکڑ گئی تھی

"کہیں تم یہ تو نہیں سوچ کر میرے ساتھ جا رہے کہ وہاں تم مجھے امپریس کر لو گے اور میں اس رشتے سے راضی ہو جاؤں گی "

یو نو واٹ ۔۔۔ تمھاری اس چھوٹی سوچ پر مجھے حیرت ہو رہی ہے ۔۔۔ جانتی ہو میں نے یہ کیوں کیا صرف اپنی موم کی خاطر ۔۔۔ کیونکہ انہوں نے چاچی جان سے وعدہ کیا تھا اور تم سوچتی ہو تم نے مجھ پر احسان کیا ہے ؟ وہ سختی سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولا تھا

تم سے نکاح کرنے سے بہتر تو میں کسی لولہے لنگڑے سے شادی کر لیتی ایٹ لیسٹ یہ شکل تو دیکھنے سے بچ جاتی جو ہر وقت مجھے پچھتاوا دلائے گی کہ میں نے کیا کھو دیا اور پایا بھی تو کیا ؟ وہ غصے سے اسکی شرٹ پکڑ گئی تھی 

اسے زوردار دھکا دیتے ہوئے وہ حرب نے اسکی کلائی پکڑی تھی

اپنی حد میں رہو ۔۔۔ ورنہ میں اپنی حدیں پار کر دوں گا اور لڑکیوں پر ہاتھ اٹھانا میری فطرت میں نہیں ہے جتنا جلدی اپنی اس چھوٹی سوچ کو بدل دو گی اتنا بہتر ہو گا تمھارے حق میں ۔۔۔ سختی سے اسکی کلائی چھوڑتے ہوئے وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا 

مجھے اس فضول رشتے میں رہنے کا کوئی شوق نہیں ہے حرب شاہ ۔۔۔ مجھے طلاق دے کر میری جان چھوڑ دو ۔۔۔ بدتمیزی سے کہتی ہوئی وہ اسے بےحد غصہ دلا گئی تھی مگر علیزے اور دائم کو دیکھ کر وہ مٹھی بھینچتے ہوئے سارا غصہ ضبط کر گیا تھا

ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔۔۔ وہ دھیرے سے کہتی ہوئی حرب کو دیکھ گئی تھی جو بمشکل غصہ برداشت کر گیا تھا

مرجان تعبیر کیساتھ کچھ ہی دیر بعد لان میں آیا تھا ۔۔۔ کافی سردی پڑ رہی تھی  بلیک کوٹ تعبیر کے کندھوں پر ڈالتا ہوا وہ گارڈز کو بیگ کار میں رکھنے کا اشارہ کر گیا تھا 

تعبیر نے اسکے کوٹ کو ٹھیک سے خود کو چھپایا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا کتنی نازک لڑکی ہے وہ ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے سب کو ڈھیروں دعاؤں کیساتھ رخصت کیا تھا علیزے دائم کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے سو گئی تھی جبکہ زنیرا کانوں میں ہینڈ فری ڈالے میوزک لگا کر بیٹھی تھی حرب سنجیدگی سے ونڈو سے باہر سنسان سڑک کو دیکھ رہا تھا 

تعبیر کچھ ہی دیر میں گہری نیند میں چلی گئی تھی ناجانے کب وہ نیند میں اسکے کندھے پر سر ٹکا گئی تھی ۔۔ باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی مرجان محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکا سر اپنے سینے سے لگا گیا تھا

دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ

یاد رہ جائے گی یہ رات قریب آ جاؤ

ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے کی 

آج بس میں نہیں جذبات قریب آ جاؤ 

سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے 

جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ 

اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے 

زندگی بھر کا ہے اب ساتھ قریب آ جاؤ

                                         ✩✩✩✩✩✩

وہ مری کے ایک لکژری ہوٹل میں رکے تھے علیزے بیگ نکالتے ہوئے دائم کے پیر پر مار گئی تھی وہ آنکھیں سکیڑتا ہوا اسے گھوری سی نواز گیا تھا جس پر وہ ہونٹوں سے سوری کا نوٹس بورڈ بناتی ہوئی اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی 

زنیرا اپنا بیگ نکالتے ہوئے حرب سے آگے ہی چل دی تھی وہ سنجیدگی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ گیا تھا بہت بےفکر لڑکی تھی وہ اور شاید خودغرض بھی ۔۔۔

ہائے !!

تعبیر نے نیند میں آدھی آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا تھا جو کسی لڑکی سے ہاتھ ملا رہا تھا وہ منہ بناتی ہوئی کار سے اتری تھی 

آئی انڈرسٹینڈ سر ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ یہ آپکے ساتھ کون ہیں ؟ وہ مسکراتے ہوئے تعبیر کی طرف دیکھ گئی تھی جس پر تعبیر نے اپنے انٹروڈکشن کے لئے مرجان کی جانب دیکھا تھا 

Naina, meet my wife ۔۔۔ 

وہ لڑکی پہلے بےحد حیران ہوئی تھی مرجان کی بات پر

اوہ آئی سی ۔۔۔ وہ فراغ دلی سے تعبیر کی طرف ہاتھ بڑھا گئی تھی جسے گھبراہٹ کیساتھ تعبیر نے شیک کیا تھا 

میں مرجان کی پرسنل سیکرٹری ہوں ۔۔۔ we are cooperating together ۔۔۔ وہ خود کا انٹروڈکشن کرواتے ہوئے بولی جس پر تعبیر اندر سے جل بھن گئی تھی 

Let's go Sir ?

وہ مرجان کو مخاطب کرتی ہوئی بولی جس پر وہ سنجیدگی سے ہاں میں سر کو جنبش دیتے ہوئے تعبیر کی طرف دیکھ کر بولا

"ارجینٹ کام ہے علیزے کیساتھ رہنا اکیلی کہیں مت جانا میں صبح تک آ جاؤں گا " 

نہیں ۔۔۔ 

اسکے صاف انکار پر مرجان چونکا تھا

ہم یہاں اکیلے نہیں رہیں گے اور اگر ہمیں اکیلا ہی چھوڑنا تھا تو ساتھ لیکر آنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ وہ تیکھے لہجے میں کہتی ہوئی اسکا ہاتھ پکڑتی ہوئی اسے اپنی جیلسی سے باور کراوا گئی تھی 

اور آپ یہ کام صبح بھی کر سکتے ہیں ہماری طبعیت ٹھیک نہیں ہے ہمیں ریسٹ کرنا ہے ۔۔۔ وہ منہ بنا کر کہتی ہوئی نینا کو شاک کر گئی تھی 

اوہ ۔۔۔ا وکے انجوائے یوئر ایوننگ ۔۔۔ نینا پھیکے لہجے میں کہتی ہوئی مرجان کو اسکے ساتھ چھوڑ گئی تھی جبکے اسکے جاتے ہی تعبیر نے مرجان کو خفگی سے دیکھ کر بیگ اٹھایا اور علیزے کے پیچھے چلی گئی تھی 

اتنی ہمت کہاں سے آ گئی ڈرپوک لڑکی میں ۔۔ مرجان اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہہ کر اسے پیچھے چل دیا تھا 

ہمیں ڈر لگ رہا ہے وہ غصہ کریں گے ۔۔۔ علیزے کا دوپٹہ پکڑتی ہوئی وہ بچپنے سے بولی جس پر وہ ہنس پڑی تھی 

وہ تمھارا شوہر ہے تمھاری مرضی تم اسے جانے دو یا نہیں اور ہم یہاں گھومنے آئے ہیں کب تک بھیگی بلی بنی رہو گی لڑکی ۔۔۔ مظبوط بنو اور روب چلاؤ میری طرح ۔۔۔ وہ دائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی جو دونوں بیگز لئے کمرے میں داخل ہوا تھا 

مگر ہماری آواز تک نہیں نکلتی ۔۔۔ وہ مرجان کو دیکھتے ہوئے لب بھینچ گئی تھی وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا پتا نہیں کیسے گزارہ کرنے والی تھی وہ ۔۔۔ 

میں معزرت خواہ ہوں دادا سائیں اچانک سے سب کینسل کرنا پڑا لیکن میرا یہاں ہونا بےحد ضروری ہے ۔۔۔ وہ شہنشاہ صاحب سے فون پر بات کرتے ہوئے دھیرے سے بتا رہا تھا

آپ ولیمے کی تقریب ہمارے آنے کے بعد بھی رکھ سکتے ہیں دادا سائیں ۔۔۔ 

ٹھیک ہے شیر میں مانتا ہوں کوئی ضروری کام ہو گا ۔۔۔ شہنشاہ صاحب کال ڈسکنیکٹ کر چکے تھے جبکہ مرجان آس پاس دیکھتے ہوئے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا تھا

سر ؟ 

کاؤنٹر پر کھڑے مینیجر نے اسے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا تھا

کیا سب ریڈی ہے ؟

 مینیجر کو دیکھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے پوچھا تھا جس پر وہ جلدی سے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے ایک بلیک کلر کا بیگ اسکی طرف بڑھا چکا تھا 

سنجیدگی سے بیگ لیتے ہوئے وہ لفٹ کی طرف بڑھا تھا تعبیر نے چور نظروں سے اسے دیکھا تھا 

اس بیگ میں کیا ہو گا اور اتنا لیٹ کہاں جا رہے ہیں ؟ وہ سوچوں کے بھنور میں الجھی تھی جب ایک ویٹر اس سے ٹکرایا 

سوری میم ۔۔۔ ریئلی سوری غلطی سے ہو گیا ۔۔۔ ویٹر ہکلاتے ہوئے جلدی سے فرش پر بکھرا سامان اٹھانے لگا تعبیر نے غور سے اسکے سامان کا جائزہ لیا تھا وہ پسٹل پر نیپکن رکھتے ہوئے پلیٹ کے اوپر دوسری پلیٹ رکھتے ہوئے فوراً وہاں سے غائب ہوا تھا پسٹل دیکھ کر تعبیر کو ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے 

دل کی سن کر وہ خوفزدہ ہو کر واپس اپنے روم میں آئی تھی وہ ڈارک بلیک پینٹ پر ہی بلیک ہوڈ پہنے ہاتھوں پر لیتھر کے بلیک گلوز پہنے شوز کے لیسز باندھ رہا تھا 

آپ کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔ وہ سہمی ہوئی پوچھ گئی تھی بیڈ سے اٹھتے ہوئے وہ اسکے روبرو آیا تھا تعبیر نے سر اٹھا کر اسکی ہیزل آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں ڈھیروں سردپن تھا 

جب تک میں واپس نہیں آ جاتا پرومس کریں آپ یہاں سے باہر نہیں جائیں گی ۔۔۔  نرمی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

ہمیں آپکو کچھ بتانا تھا ۔۔۔ وہ نظریں جھکاتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بولی تھی

بولیں ۔۔۔ میں سن رہا ہوں ۔۔اسکے چہرے پر آآتے بالوں کو کان کے پیچھے سرکاتے ہوئے وہ محبت سے پوچھ رہا تھا

اسکے نرم لہجے پر وہ اور پریشان ہوئی تھی ۔۔۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی بتانا چاہتی تھی کہ اسکا دل گھبرا رہا ہے مگر کہنے کی ہمت نہیں کر پائی تھی بس گھبراہٹ کیساتھ آخری نظر اسے دیکھ رہی تھی 

کچھ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ہمیں گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔۔۔ سہم کر ہونٹ کاٹتی ہوئی وہ اسکی آنکھوں کو ایک بار پھر دیکھ گئی تھی 

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ تعبیر کی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کہہ کر جا چکا تھا اپنے ساتھ شاید وہ اسکا دل بھی لے گیا تھا 

اللہ پاک پلیز کچھ غلط نہ ہو ۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے دروازے کو خالی نظروں سے دیکھ گئی تھی کچھ سوچ کر اسنے نیوز چینل لگایا تھا ریموٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے وہ بیڈ پر بیٹھی تھی 

" مری  میں طوفانی بارش اور آندھی کی پیشگوئی اور شدید برفباری کا امکان ،، وارننگ جاری کر دی گئی ہے"

سنتے ہی وہ گھبرا گئی تھی

وہ ٹینشن سے ریموٹ پر گرفت سخت کرتے ہوئے لب بھینچ  کر اسکی سلامتی کی دعا کر گئی تھی دروازے پر ناک ہوئی تھی وہ گھبراتے ہوئے اٹھی تھی دروازہ کھولا تو وہ حیران اور خوف سے اپنی جگہ جم گئی تھی 

                                         ✩✩✩✩✩✩

ٹھنڈی ہوا چل پڑی تھی ہلکی برف باری ہو رہی تھی موسم بےحد خوش گوار تھا وہ موبائل پر کچھ دیکھتے ہوئے روڈ پر چل رہا تھا ایک بلیک کلر کی کار کچھ فاصلے پر کھڑی نظر آئی تھی وہ موبائل پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے ہوئے سرعت سے دائیں بائیں دیکھ گیا تھا 

کیوں بے کون ہے تو ۔۔۔کیا کر رہا ہے یہاں ۔۔۔

کار کا ہوڈ ڈالتے ہوئے ایک دبلا آدمی اسکا راستہ روکتے ہوئے بھاری آواز میں بولا تھا 

تمھارے باپ کی سڑک ہے ؟ وہ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے اسے غصہ دلا گیا تھا 

تجھے تو ۔۔۔

وہ اسکے ہوڈ کے گریبان کو پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھا کر دانت پیستے ہوئے بولا تھا جبکہ وہ پھرتی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسکا بازو موڑ گیا تھا 

کرررچ !

وہ بازو پکڑتے ہوئے روڈ پر گرا کراہ اٹھا تھا جبکہ دوسرا آدمی کار سے نکلتے ہوئے اسکی طرف بڑھا تھا جبکہ سامنے روڈ پر پڑے اپنے ساتھی کی لٹی ہوئی حالت دیکھ کر وہ چونکا تھا

کونسی ہڈی جڑوانا چاہو گے ۔۔۔ وہ مٹھی بھینچتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر سرعت سے بولا تھا

اے شاڑے ۔۔۔ زیادہ شان پتی نہیں ۔۔ کون ہے تو بول ۔۔۔ وہ چاقو نکالتے ہوئے اسی دیکھا کر بولا جس پر وہ محض ہنسا تھا

بوول ۔۔ کون ہے تو ۔۔۔ چاقو اٹھائے اسکی طرف قدم بڑھاتے ہوئے وہ دانت کچکچا کر بولا تھا

ڈیمن !

اسکا نام سن کر آدمی کے قدم سڑک پر جم گئے تھے 

وہ چاقو پھینکتے ہوئے الٹے پاؤں پیچھے بھاگنے کی سوچ میں اپنے ہی ساتھی پر چڑھتے ہوئے نیچے گرا تھا

چچچچ۔۔۔ اتنا خوف ۔۔۔ طنز کرتے ہوئے وہ اسے بالوں سے پکڑ چکا تھا 

بولو۔۔۔ کہاں کہاں پلانن کرنے والے تھے ۔۔۔ 

دونوں کے چہروں کا رنگ اڑا تھا اسکی بات سن کر ۔۔۔

بولو ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ۔۔۔ کرخت لہجے میں کہتا ہوا وہ دونوں کو گردن سے دبوچ چکا تھا

مم۔۔معاف کر دو ۔۔۔ آپکو۔۔۔ ڈسٹریکٹ کرنے کے لئے ۔۔۔ ہمیں پیسے دیئے گئے تھے ۔۔۔ ہمیں کسی جگہ بلاسٹ کا آرڈر نہیں ملا ۔۔۔ ممم۔۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ خوف سے کانپتے ہوئے وہ بس اتنا ہی کہہ پایا تھا

کس نے دیا آرڈر بولو ۔۔۔ 

ن۔۔۔نام نہیں پتا ۔۔۔ اسنے منہ ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔ چھ۔۔۔چھ فٹ کا ہو گا ۔۔۔ اسکے ہاتھ میں ۔۔۔ ایک انگوٹھی تھی ۔۔۔ فیروزہ ۔۔۔ فیروزہ پہنا تھا اسنے ۔۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے اسے چھوڑ چکا تھا گردن پکڑتے ہوئے وہ سڑک پر بیٹھا لمبے لمبے سانس لے رہا تھا ۔۔۔۔

                                        ✩✩✩✩✩✩

آپ یہاں کیوں آئے ۔۔۔ اسے دیکھ کر وہ ٹھٹکتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹی تھی 

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں بیٹا ۔۔۔ اب بھی وہی کہوں گا ۔۔۔

آپ پلیز یہاں سے چلے جائیں مجھے آپکی کوئی بات نہیں سننی ۔۔۔ وہ اس شخص کیساتھ پچھلی ملاقات یاد کرتے ہوئے گڑبڑا گئی تھی جب وہ ریسٹورنٹ میں اس سے ملنے آیا تھا

میں کہتا تھا ناں وہ ایک گینگسٹر ہے ۔۔۔۔ دیکھو ثبوت کیساتھ آیا ہوں کتنی بےدردی اور بے رحمی سے اسنے شہوار کو مارا دیکھو ۔۔۔ فلیش ڈرائیو اسکی طرف بڑھاتے ہوئے الہام درانی مصنوعی آنسوں بہا گیا تھا وہ لب بھینچتی ہوئی کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ اس سے فلیش ڈرائیو لے چکی تھی 

لیپ ٹاپ میں فلیش ڈرائیو لگاتے ہوئے وہ سہمی ہوئی نظروں سے الہام درانی کو دیکھ گئی تھی جو شہوار کا پرانے بزنس پارٹنر اور فیملی فرینڈز میں سے ایک تھا 

لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ایک ویڈیو چلی تھی ۔۔۔ وہ صوفے پر براجمان تھا شہوار ملک اسکے سامنے تڑپ رہا تھا وہ اسکے زخمی ہاتھ کو پیر سے کچل رہا تھا 

تعبیر نے  خوف سے کانپتے ہوئے ہاتھ منہ پر دیئے تھے 

گولی چلنے کی آواز آئی تھی شہوار ساکت ہو گیا تھا ۔۔۔ تعبیر کی آنکھوں سے آنسوں کی جھڑیاں بہہ گئی تھی دبی ہوئی چیخ اسکے حلق میں ہی خطا ہوئی تھی اسکی آواز بیٹھ گئی تھی وہ بولنے لائق نہیں رہی تھی ۔۔۔ 

میں سچ کہتا تھا  ناں بیٹا وہ ایک گینگسٹر ہے ۔۔۔ اس ملک کو  تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے ۔۔۔ تمھیں میری بات تب سن لینی چاہیے تھی جب اسنے تمھیں اغوا کر کے تم سے زبردستی نکاح کیا تھا ۔۔۔۔ تم نے دیکھا تھا ناں وہ کس حد تک گر سکتا ہے ؟ کاش تم نے میری بات مان کر پہلے ہی اسکا ڈیٹا مجھے ٹرانسفر کر دیا ہوتا ۔۔۔ الہام درانی نے مسکرا کر اسکا آنسوں سے بھیگا چہرہ دیکھا اسکی آنکھوں میں خوف تھا مرجان کاظمی کے لئے بےحد خوف ۔۔۔۔

اب بھی وقت ہے بیٹا اسکے خلاف ثبوت ڈھونڈنے میں میری مدد کرو ۔۔۔ میں تمھارا انکل ہوں ناں ۔۔ میں شہوار کو انصاف دلوا سکتا ہوں ۔۔۔  تعبیر کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ لہجے میں مٹھاس گھول کر بول رہا تھا اوہ وہ اسکی چال میں پھنس رہی تھی ۔۔۔

میری رائے پر غور ضرور کرنا ۔۔۔ الہام درانی کہہ کر فوراً فون پر میسج پڑھتا ہوا اٹھ کر وہاں سے نکلا تھا کیونکہ اسے اسکے آدمیوں نے مرجان کے آنے کی خبر دی تھی ۔۔۔۔

وہ فلیش ڈرائیو لیپ ٹاپ میں ہی چھوڑ کر کمرے سے باہر بھاگی تھی ۔۔۔

اسنے ڈیڈ کو مار دیا ۔۔۔ خونی ہیں وہ ۔۔۔ سسکیوں کو دباتے ہوئے وہ تیزی سے بھاگ رہی تھی وہ نکل جانا چاہتی تھی اسکی قید سے ۔۔۔ 

ڈیڈ ۔۔۔ 

وہ روتے ہوئے ہوٹل سے باہر آئی تھی اسکی آنکھوں کے سامنے ملک شہوار کا چہرہ تھا جو اسے بےحد پیار کرتا تھا مگر کسی لالچ کی غرض سے جس بات سے وہ بےخبر تھی ۔۔۔ 

زارا ۔۔۔ 

وہ اس سے کچھ قدموں کے فاصلے پر رکا تھا وہ نظروں میں ڈھیروں بےچینی اور خوف سموئے اسکی طرف دیکھ گئی تھی جبکہ اسکا آنسوں سے بھیگا چہرہ ، سرخ سوجھی آنکھیں دیکھ کر مرجان کاظمی کے دل نے دھڑکنا بند کیا تھا 

دور رہو مجھ سے۔۔۔

 ۔۔۔ وہ چیختی ہوئی اس سے دور ہٹتی بولی تھی جبکہ وہ آج پھر اسکی بےمطلب بےرخی پر اندر ہی اندر ٹوٹتا جا رہا تھا 

خونی ہو تم۔۔۔۔ ایک گینگسٹر ۔۔۔۔ دور رہو مجھ سے مرجان کاظمی ۔۔۔۔ بےحد نفرت کرتی ہوں میں تم سے ۔۔۔ تمھارے نام سے تمھارے وجود سے ۔۔۔ تم سے جڑی ایک ایک بات سے نفرت کرتی ہوں۔۔۔۔

کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ چیخی تھی  جبکہ اسکے لئے اب کھڑا رہنا کٹھن ہو رہا تھا وہ کس قدر بےرحمی سے ہر آئے دن  اسکا دل یوں چکنا چور کر دیتی تھی ۔۔۔

محبت کرتے تھے ناں تم مجھ سے ۔۔۔۔ کبھی نہیں ملوں گی میں تمھیں ۔۔۔ کبھی حاصل نہیں کر پاؤ گے ۔۔۔  وہ صدمے سے نڈھال ہوتی ہوئی ہر قدم کیساتھ اس سے دور ہو رہی تھی 

وہ آپکے ڈیڈ نہیں تھے زارا ۔۔۔۔

جسٹ شٹ اپ ۔۔۔۔ اور کتنے جھوٹ بولو گے مجھ سے ۔۔۔ وہ اپنے چہرے پر تھپڑ مارتی ہوئی اسے بےحد تکلیف دے رہی تھی 

کاشش ۔۔۔ کاش تمھاری ذندگی میں آنے سے پہلے میں مر گئی ہوتی ۔۔۔ دلدوز سسکیاں بھرتی ہوئی وہ پیچھے ہو رہی تھی 

وہ شخص جو پوری دنیا کے سامنے ایک بےحس اور پتھر دل کا مالک تھا آج چیخ چیخ کر رونا چاہتا تھا ۔۔۔ آج وہ اپنے دل کے سارے غم آنسوں میں بہا دینا چاہتا تھا ۔۔۔ اسکی ہیزل آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔۔ ایک آنسوں اسکی آنکھ سے اسکے رخسار پر گرا تھا ۔۔۔۔ آج وہ رلا چکی تھی اسے ۔۔۔

زارا ۔۔۔۔۔

وہ اسکے پیچھے سے آتی ہوئی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ کر دھاڑا تھا

آہہہ۔۔۔

مدھم سی چیخ ۔۔۔ بلکہ ایک سسکی سی اسکے حلق سے خطا ہوئی تھی وہ چھوٹا سا خون میں لت پت وجود اسکی آنکھوں کے سامنے سڑک پر گرا تھا وہ صدمے سے نڈھال گھٹنوں پر ڈھے گیا تھا اسکی آنکھوں کی بینائی جا چکی تھی ۔۔۔۔ 

گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی  سڑک پر دوڑ گئی تھی ۔۔۔ آس پاس سے لوگ سڑک پر جمع ہوئے تھے ۔۔۔ حرب اور دائم بھی شور سن کر سڑک پر نکل آئے تھے سامنے کا دل دہلا دینے والا منظر انہیں ہلا کر رکھ گیا تھا اسکے لمبے سلکی بال خون سے بھرے ہوئے تھے اسکی پیشانی تک خون بہہ نکلا تھا جبکہ وہ کسی دیوانے کی طرح خالی نظروں سے  بغیر کوئی حرکت کئے اسے دیکھ رہا تھا وہ ساکت سی آنکھیں موندے بےحد معصوم لگ رہی تھی 

حرب تیزی سے مرجان تک آیا تھا اور اسے زمین سے اٹھایا تھا وہ کسی زندہ لاش میں تبدیل ہو چکا تھا کیا موڑ لیا تھا اسکی زندگی نے ۔۔۔۔ 

دائم اور حرب نے اسے سمبھال کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا ۔۔۔ جبکہ لوگ پہلے ہی ہاسپیٹل فون کر ایمبولینس بلا چکے تھے ۔۔۔ 

بھائی سمبھالیں خود کو ۔۔۔ حرب نے اسکا کندھا ہلاتے ہوئے دھیرے سے کہا تھا ۔۔۔۔

مجھے ۔۔۔کچھ ۔۔۔۔ نظر نہیں آ رہا ۔۔۔ اسکے پاس لے کر چلو ۔۔۔

وہ گمبھیر لہجے میں کہتا ہوا آنکھیں بند کر گیا تھا ۔۔۔

                                       ✩✩✩✩✩✩

Cheers !

گلاس آپس میں ملاتے ہوئے سب قہقہ لگا کر ہنسے تھے 

میں یقین نہیں کر پا رہا کیا وہ مرجان کاظمی تھا ۔۔۔ تم نے چہرہ دیکھا تھا اسکا ۔۔۔ افسوس ۔۔۔ 

ان میں سے ایک شخص خباثت سے کہتے ہوئے ہنسا تھا

محبت ۔۔۔مسٹر کپور ۔۔۔ محبت نے بڑے بڑے لوگوں کو دیوانہ کیا ہے ۔۔۔ وہ تو پھر بھی کماری طرح ایک انسان ہی ہے ۔۔۔ مسٹر رائے نے ڈرنک گلاس میں ڈالتے ہوئے  مسکرا کر کہا 

اگر وہ مر گئی تو ۔۔۔ مسٹر کپور نے بھنویں اچکا کر پوچھا تھا 

تو سمجھو مرجان کاظمی کا نام اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا ۔۔۔ مسٹر رائے نے قہقہ لگایا تھا

لیکن اگر وہ بچ گئی تو تم دونوں کو اس زخمی شیر سے کون بچائے گا ۔۔۔ الہام درانی نے دونوں کو ڈرایا تھا جس پر وہ فلک شگاف قہقہ لگا چکے تھے 

وہ بچے گی تب ناں ۔۔۔ یہ عشق بڑا کم بخت ہوتا ہے ۔۔۔ محبوب مر جائے تو عاشق کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتا ہے ۔۔۔۔ مسٹر رائے نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا

جس پر سب ایک بار پھر ہنس پڑے تھے

                                       ✩✩✩✩✩✩

مرجان بھائی کو ہوش آ گیا ۔۔۔

اسے ہوش میں آتا دیکھ کر دائم نے جلدی سے سب کو بلایا تھا شہنشاہ صاحب جو ہاتھ میں تسبیح لئے کب سے دعا کر رہے تھے جلدی سے اٹھ کر اسکے بیڈ تک آئے تھے 

وہ سنجیدگی سے اٹھا تھا سب کو اپنے پاس دیکھ کر ۔۔۔

زارا ۔۔۔ دادا سائیں زارا۔۔۔ وہ کیسی ہے ۔۔۔

اسکا خیال آتے ہی وہ بےقراری سے پوچھ گیا تھا

شہنشاہ صاحب نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے لیٹنے کا اشارہ کیا تھا

وہ جلدی سے ہاتھ پر لگی ڈرپ کو کھینچ کر اتار چکا تھا ۔۔۔ 

صبر رکھو بچے ۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی تھی 

وہ کہاں ہے بابا سائیں ۔۔۔ سینے میں اٹھتے ہوئے درد کو محسوس کرنے کے بعد بھی انجان کرتے ہوئے وہ مسلسل اسکا پوچھ رہا تھا

وہ ۔۔۔ آئی سی یو میں ہے ۔۔۔ بیٹا 

لفظ تھے یا زہریلا خنجر جو اسکے سینے میں دھنستا چلا جا رہا تھا وہ ایک کھروچ برداشت نہیں کر سکتا تھا اس پر اور وہ آئی سی یو میں تھی ۔۔۔۔

وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر آئی سی یو کی طرف گیا تھا جبکہ حرب اور دائم بھی اسکے پیچھے گئے تھے 

                                            ✩✩✩✩✩✩

یہ سب کیا ہو گیا ۔۔۔ ژالے سر جھکائے بیٹھی کب سے سسک رہی تھی جب کسی نے اسکی طرف پانی کا گلاس بڑھایا تھا سوجھی آنکھوں سے وہ اسکی جانب دیکھ گئی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا

ہمیں نہیں چاہیے ۔۔۔ لب کاٹتی ہوئی وہ سرد لہجے میں بول تھی 

آپ نے کل رات سے کچھ نہیں لیا ۔۔۔ وہ سرد لہجے میں بولا تھا

میں ان حالات میں کیسے کچھ کھا سکتی ہوں میرے بھیا بھابھی کی حالت دیکھی ہے آپ نے ؟ وہ روتے ہوئے آئی سی یو کی طرف دیکھ گئی تھی جہاں پر ڈاکٹرز اسے اندر جانے سے منع کر رہے تھے ندیم سرد نظروں سے اسلی جانب دیکھتے ہوئے خانوش ہوا تھا

سب کو پیچھے ہٹاتے ہوئے وہ اندر آیا تھا 

مشینوں میں جکڑا ہوا اسکا نازک وجود بالکل ساکت تھا ۔۔۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی صرف مشینوں کی بیپس تھی  مگر دلوں میں اٹھتے طوفانوں کا کیا ؟ وہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے اسکے بیڈ تک آیا تھا اسکا ڈرپ لگا چھوٹا ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ سینے سے لگا گیا تھا ۔۔۔ پرکشش حسیں آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے ۔۔۔ 

"کیسے کر سکتی ہو ایسا میرے ساتھ" 

سرد لہجے میں کہتا ہوا وہ اس سے شکایت کر رہا تھا 

زنیرا نے گلاس ونڈو کے شیشے پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھا تھا جب آفرین بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔

وہ آنسوں پونچھتے ہوئے پیچھے مڑی تھی

"دوسروں کی قیمتی چیزیں دیکھ کر اپنی خاص چیزیں توڑا نہیں کرتے میری بچی " 

آفرین بیگم کے لفظ اسے دل پر لگتے ہوئے محسوس ہوئے تھے انکا مطلب مرجان سے تھا

اور جو چیز آپکی ہو اور اسے آپ سے چھین کر کسی اور کو تھما دیا جائے اسکا کیا ؟ زنیرا نے خفا لہجے میں اپنی ماں سے پوچھا 

اور جو بےوجہ بغیر کسی قصور کے آپکی وجہ سے سزا بھگتیں انکا کیا ؟ 

آفرین بیگم کے سوال پر وہ گھبرا کر حرب کی طرف دیکھ گئی تھی جو سر جھکائے انگلیوں سے پیشانی مسلتے ہوئے ناجانے کن سوچوں میں غرق تھا

اسکا کوئی قصور نہیں ہے میری بچی ۔۔۔ یہ قسمت بڑے عجیب کھیل کھیلتی ہے ۔۔۔ کل تک جو ہمارے پاس ہوتا ہے ہم سے ایکدم چھین جاتا ہے ۔۔۔ بعض اوقات ایک لمبے عرصے کے انتظار کے بعد آپ اپنی تمنا کو پا لیتے ہو لیکن زندگی میں ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب وہ آپ سے دور چلی جاتی ہے ۔۔۔ میرا بچہ زندگی کی کتاب کے سب اوراق ہمارے مطابق نہیں ہوتے ۔۔۔  بس اگر کوئی ایسا ورق آ جائے سامنے جس میں راحتیں ناں ہوں تو صبر کیجیے ۔۔۔ اس پاک ذات پر بھروسہ رکھ کر کہ اسنے ہمارے حق میں بہتر سوچا ہو گا ۔۔۔

زنیرا نے سرد نظروں سے حرب کو دیکھا تھا جو پشت دیوار سے لگاتے ہوئے ڈپریشن سے آنکھیں موند گیا تھا 

جاؤ اسکے پاس ۔۔۔ زنیرا کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ شفقت سے بولی جس پر وہ خالی نظروں سے اپنی ماں کو دیکھتی ہوئی حرب کے پاس جا کر بیٹھی تھی جس پر وہ سنجیدگی سے آنکھیں کھولتے ہوئے اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ گیا تھا وہ لب کاٹتی ہوئی نظریں جھکا گئی تھی کشمالہ بیگم نے سرد نظروں سے دونوں کو ساتھ بیٹھے دیکھا تھا ۔۔۔ زنیرا کچھ دیر یونہی بیٹھنے کے بعد اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئی تھی آفرین بیگم نے مسکراتے ہوئے حرب کو دیکھا تھا جو اسکا ہاتھ دھیرے سے دبا کر اسکی ہمت بڑھا رہا تھا ۔۔۔

میری بچی کو اب تک تم نے جس راستے پر گامزن کئے رکھا وہ اس راستے سے ہٹ رہی ہے مگر مجھے حیرت ہوتی ہے ایک ماں ہو کر کسی کی اولاد کیساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو ۔۔۔ آفرین بیگم کی بات سن کر کشمالہ بیگم نے حیرانی سے انہیں دیکھا جیسے اسنے کچھ کیا ہی نہیں تھا

مجھ پر بےوجہ کے الزام مت لگاؤ آفرین ۔۔۔ کشمالہ بیگم دانت پیستے ہوئے بولی تھی 

وہ میرا خون ہے ماں ہوں میں اسکی ۔۔۔ اسکی زندگی تم جیسی عورت کو مزید برباد کرنے نہیں دوں گی اب تک میں چپ تھی تو صرف اپنی اولاد کے لئے لیکن اب اپنی اولاد پر ایک آنچ نہیں آنے دوں گی ۔۔۔ آفرین بیگم دو ٹوک لہجے میں کہتی ہوئی کشمالہ بیگم کو وارننگ دے گئی تھی جس پر وہ منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے ان کو جاتا دیکھ گئی تھی 

                                         ✩✩✩✩✩✩

ماضی :- 

یہ ترکی کے نمبر ون ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کے ایک کشادہ گراؤنڈ کا منظر تھاایک چار سال کی بچی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے رو رہی تھی جبکہ کچھ بچے اس پر ہنس رہے تھے 

اسکے تو بابا بھی نہیں ہیں ۔۔۔ ایک دبلا گورا لڑکا انگلش میں کہتے ہوئے اسکی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے ہنس کر بولا تھا جس پر اسکی بڑی بڑی براؤن آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے وہ سسکتے ہوئے اپنی یونیفارم جھاڑ کر نیچے سے اٹھی تھی 

مارو اس کو ۔۔۔ ایک دس سالہ لڑکا اسکا بیگ کھینچ کر زمین پر پھینکتے ہوئے ہنسا تھا وہ روتے ہوئے آس پاس دیکھ رہی تھی مگر سب بچے اس کا تماشا دیکھ رہے تھے 

تبھی کسی نے اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے اٹھایا تھا وہ نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھ گئی تھی اسکی ہیزل گرے آنکھوں میں غصہ تھا اسکا بیگ نیچے سے اٹھا کر اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے وہ ان لڑکوں کی طرف دیکھ گیا تھا جو اسے دیکھ کر ٹھٹکے تھے 

ہاؤ ڈیئر یو ۔۔۔ اس لڑکے کے یونیفارم کا کالر پکڑتے ہوئے وہ غصے سے چیخا تھا جبکہ اسکا دوست اسے چھڑانے کے لئے اسے پیچھے سے کھینچتے ہوئے پہلے لڑکے سے دور ہٹا رہا تھا

وہ گھبرائی ہوئی انہیں لڑتا دیکھ رہی تھی 

پیچھے سے لڑکے کو دھکا دیتے ہوئے وہ پہلے لڑکے کے منہ پر مکا مار چکا تھا اسکے ناک سے خون بہہ نکلا تھا 

نووو۔۔۔ جان ۔۔۔ وہ خون دیکھتے ہی منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے گھبرا کر بولی تھی جبکہ وہ دوسرے لڑکے کو گردن سے دبوچ چکا تھا

پلیز ۔۔۔ نوو ۔۔

۔ وہ سہمی ہوئی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکا بازو پکڑ کر اسے روکتے ہوئے رو پڑی تھی وہ کھا جانے والی نظروں سے ان لڑکوں کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا جو اسکے پیچھے ہٹتے ہی فوراً وہاں سے بھاگ گئے تھے 

ڈونٹ فائٹ پلیز ۔۔۔ اسکا بازو پکڑتے ہوئے وہ سسک کر بولی تھی جس پر وہ سنجیدگی سے شرٹ کی پاکٹ سے رومال نکالتے ہوئے اسکے آنسوں صاف کر گیا تھا وہ مسکراتے ہوئے اسے گلے لگا کر ہنسی تھی 

                                            ✩✩✩✩✩✩

وینٹیلیٹر پر پڑے ساکت وجود نے ہچکولے کھائے تھے ۔۔۔ وہ بری طرح لرز اٹھی تھی 

ریچارج اگین پلیز۔۔۔

 پیشنٹ کی دھڑکن کم ہو رہی ہے ۔۔۔ شی از ڈائینگ۔۔۔ 

ڈاکٹر نے نرس کو دیکھ کر پریشانی سے کہا تھا ۔۔۔

وہ دروازے پر کھڑا سرد نظروں سے سب دیکھ رہا تھا آج پھر اسے انہی الیکٹرک شاکز کی اذیت سے گزارا جا رہا تھا مگر وہ بےبس تھا ۔۔۔ 

دوبارہ شاک دینے پر وہ زرا سی لرز کر دوبارہ ڈھے سی گئی تھی ۔۔۔

ریچارج اگین ۔۔۔ لاسٹ ٹائم ۔۔۔ ریڈی ؟

ڈاکٹر نے اسے تیسرا شاک دیا تھا۔۔۔

اس بار اسنے حرکت نہیں کی تھی 

بیپ۔۔۔

بیپ۔۔۔بیپ۔۔۔ بیپ۔۔۔

اسکے سر کے قریب پڑی مشین سے آواز آئی تھی ساتھ ہی مشین کے مانیٹر پر اتار چڑھاؤ کرتی لکیر ایک سیدھی لکیر میں تبدیل ہوئی تھی

ڈاکٹر نے ماسک اتارتے ہوئے آخری بار اسکے  مشینوں میں جکڑے ساکت وجود کو دیکھا تھا ۔۔۔ 

وہ دروازہ کھولتے ہوئے بوجھل قدموں کیساتھ اندر آیا تھا۔۔۔ 

سوری مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔۔ یوئر پیشنٹ از نو مور ۔۔۔ ڈاکٹر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سرد آہ بھری تھی ۔۔

ڈاکٹر نے ماسک اتارتے ہوئے آخری بار اسکے  مشینوں میں جکڑے ساکت وجود کو دیکھا تھا ۔۔۔ 

وہ دروازہ کھولتے ہوئے بوجھل قدموں کیساتھ اندر آیا تھا۔۔۔ 

سوری مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔۔ یوئر پیشنٹ از نو مور ۔۔۔ ڈاکٹر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سرد آہ بھری تھی ۔۔

شہنشاہ کاظمی کیساتھ سبھی اندر آئے تھے وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اسکے قریب رکا تھا 

ژالے اور علیزے خود کو نہیں سمبھال پائی تھی وہ دونوں رو پڑی تھی آفرین بیگم نم آنکھوں کیساتھ ژالے کا کندھا دبا گئی تھی ۔۔۔

وہ کچھ دیر یونہی ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔۔۔  شہنشاہ صاحب اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکی طرف آئے تھے

"ہمیں اکیلا چھوڑ دیں دادا سائیں"

نہیں بچے۔۔۔

پلیز دادا سائیں ۔۔۔

وہ دو ٹوک لہجے میں بولا تھا

قصا بیگم اور آفرین بیگم ژالے اور علیزے کو باہر لے گئی تھی ژالے تو صدمے سے نڈھال ہو کر بےحوش ہو گئی تھی ۔۔۔ 

بھائی ۔۔۔

میں نے کہا ہمیں اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔ وہ کرخت لہجے میں کہتے ہوئے حرب کو ٹوک چکا تھا وہ سر جھکاتا ہوا باقیوں کیساتھ آئی سی یو سے باہر نکل گیا تھا 

چیئر کھینچ کر اسے قریب رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بیٹھا تھا آنکھوں میں انتہا کا سرد پن تھا 

"کس نے دیا تمھیں حق میری زندگی میں آ کر مجھے خود سے عشق کرنے پر مجبور کرنے کے بعد جب بےانتہا عشق کر بیٹھا تو یوں چھوڑ جانے کا " 

پوری شدت سے اسے کندھوں سے جھنجھوڑ کر وہ دھاڑا تھا اسکا ساکت وجود اس قدر قوت پر لرز اٹھا تھا

"جانا ہی چاہتی تھی تو یہ بےپرواہ عشق اپنے ساتھ لیکر جاتی ۔۔۔ تڑپانا چاہتی ہو مجھے تم ۔۔۔ پوری زندگی تمھارے لئے تڑپا ہوں کیوں آئی تھی میری زندگی میں تم آخر جب یوں چھوڑ کر جانا تھا " سائڈ ٹیبل پر پڑا سامان نیچے گراتے ہوئے وہ زخمی شیر کی طرح دھاڑا تھا

ایک بات یاد رکھنا زارا  مرجان کاظمی تمھیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا عشق کیا ہے میں نے ۔۔۔ عشق کی آگ میں جھلس رہا ہوں پچھلے تیرہ سال سے ۔۔۔ اس کے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ اسکا چہرہ بےحد قریب کر گیا تھا 

"ایک بات یاد رکھنا بچپن سے لیکر اب تک صرف تمھاری طلب رہی ہے مجھے سب کچھ کھو کر بھی تمھیں پانے کا جنون نس نس میں رہا ہے ،، اور اس عشق میں میری تباہی کی وجہ تم ثابت ہوئی ۔۔۔ میں بےحس تھا مگر تم تو بےوفا نکلی چھوڑ گئی تم تو "۔۔ وہ طنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے اسے چھوڑ چکا تھا 

اسکی آنکھ سے آنسوں کی ایک لڑی ٹوٹ کر کشن میں جذب ہوئی تھی جسے اسنے نہیں دیکھا تھا

                                           ✩✩✩✩✩✩

"میں نے تمھیں ٹارچر کیا مانتا ہوں لیکن وہ تو جسمانی زخم تھے ناں ان زخموں کا کیا جو تم نے مجھے میری روح پر دیئے ہیں ۔۔۔ تم سوچتی ہو یہ مرجان کاظمی ۔۔۔ جو دنیا کے سامنے بےحس ظالم ناجانے کیا کچھ بن کر گھومتا ہے تمھاری کمی سہہ پائے گا ۔۔۔  بولو ۔۔۔ کچھ کہتی کیوں نہیں ہو ۔۔۔ 

وہ کرب کی آخری حدود پر تھا ۔۔۔

"چاہے دور تھے ہم ، ہمارے بیچ بےحد فاصلے تھے مگر ایک آس تو تھی اس دل میں اس دل میں راحت تھی دور صحیح مگر نظروں کے سامنے تو تھی ناں " اسے سینے سے لگاتے ہوئے وہ آنکھیں میچتے ہوئے سرد لہجے میں بول رہا تھا 

"نہیں جی سکتا تمھارے بغیر زارا ۔۔۔ نہیں جی سکتا ، کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہو "

"بےحد سختی سے وہ اسکے چھوٹے سے وجود کو سینے میں بھینچ گیا تھا اس قدر سختی پر اسکے وجود نے جھٹکا کھایا تھا درد کی ایک لہر سی اسکے وجود میں اٹھی تھی وہ بری طرح کھانسی تھی ۔۔۔

اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھامتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا تھا جس کی آنکھوں سے آنسوں موتی کی طرح گر رہے تھے اور وہ کھانس رہی تھی ۔۔۔

ڈاکٹر جو کہ اسے لے جانے کے لئے اندر آئے تھے اسے کھانستے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے ۔۔۔۔

it's... it's impossible ... how ? Nurse asap ...Provide oxygen ۔۔۔۔

ڈاکٹر جلدی سے نرس سے کہتے ہوئے اسکی طرف بڑھا تھا جبکہ مرجان نے اب تک اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا وہ ابھی تک کھانس رہی تھی لمبے سانس لیتے ہوئے ۔۔۔

اسے آکسیجن پروائڈ کی گئی تھی اسکے بےسکوں وجود میں سکوں آیا تھا وہ پرسکوں ہو گئی تھی ۔۔۔ 

                                           ✩✩✩✩✩✩

منور صاحب جو ابھی ابھی وہاں اسکی موت کی خبر سن کر پہنچے تھے گلاس ونڈو سے سب دیکھ کر مٹھی بھینچتے ہوئے ڈاکٹر کے کلینک کی طرف بڑھے تھے 

وہ ٹھیک ہیں ۔۔۔ نارمل ہیں ۔۔۔ یہ کوئی معجزہ ہے مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔ ڈاکٹر نے اسکے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا اسکے بےسکوں دل کو قرار آیا تھا 

کیسے ہو سکتا ہے وہ لڑکی زندہ کیسے بچ گئی ۔۔۔ منور صاحب ڈاکٹر کی ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے غصے سے پوچھ رہے تھے 

میں۔۔۔ نہیں جانتا ۔۔۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے زہر کا انجکشن دیا تھا اسکی ہرٹ بیٹ بھی بند ہوئی تھی سب نے دیکھا ۔۔۔  ڈاکٹر نے پریشانی سے جواب دیا تھا

مگر وہ زندہ ہے ۔۔۔ کیسے ؟

منور صاحب نے دانت پیسکر کہا ڈاکٹر نے تھوک نگلتے ہوئے دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں شہنشاہ صاحب کھڑے تھے منور صاحب کا وجود ٹھنڈا پڑ گیا تھا انکو دیکھ کر ۔۔۔

                                           ✩✩✩✩✩✩

All hopes are not lost بیٹا۔۔۔

زنیرا نے سر اٹھاتے ہوئے کشمالہ بیگم کی طرف دیکھا تھا جو ہاتھ میں جوس لئے اسکے پاس والی سیٹ پر بیٹھی تھی

لگتا ہے جیسے خدا نے تمھاری سن لی ۔۔۔ وہ جوس کا گلاس اسکے ہاتھ میں تھماتی بولی تھی حرب جو اسکے لئے بریک فاسٹ کے لئے کچھ لینے گیا تھا کچھ ہی فاصلے پر رکا تھا انکی بات پر ۔۔۔

آپکا مطلب کیا ہے ۔۔۔ وہ خالی نظروں سے کشمالہ بیگم کو دیکھ گئی تھی 

بیٹا افکورس مرجان کی بات کر رہی ہوں ۔۔۔ 

زنیرا نے سرد نظروں سے کشمالہ بیگم کو دیکھا اسکے ذہن میں ابھی تک آفرین بیگم کی باتیں گردشِ دوراں تھی ۔۔

آپ غلط ہیں ۔۔ وہ نظریں جھکاتے ہوئے بولی تھی حرب نے سرد سی نظر اس پر ڈالی تھی 

میرا نکاح ہو چکا ہے ۔۔۔ حرب سے ۔۔۔ وہ میرے شوہر ہیں ۔۔۔ وہ جوس کا گلاس سائڈ پر رکھتے ہوئے انگلیاں مروڑتے بولی تھی 

کشمالہ بیگم کو تو جیسے سر پر بجلی گرتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔ وہ اپنی ہی کہی بات پر شرمندہ ہو چکی تھی 

میں خوش ہوں حرب کیساتھ آپ دوبارہ اپنی رائے پر غور کیجئے گا شائد آپ کو بھی سمجھ لگ جائے ۔۔۔ وہ کہتے ہوئے دھیرے سے اٹھی تھی 

کشمالہ بیگم نے لب بھینچ کر اسکی طرف دیکھا تھا جو حرب کے قریب سے گزر گئی تھی 

بہت شاطر ہو تم لڑکی ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا گئی تھی ۔۔۔

                                             ✩✩✩✩✩✩

چٹاخ !

ایک ڈناٹے دار تھپڑ ۔۔۔

آج انہوں نے پہلی بار منور صاحب پر ہاتھ اٹھایا تھا منور صاحب سر جھکا گئے تھے 

ایک معصوم سی بچی کی جان کیسے لے سکتے ہو تم ۔۔۔ اتنے کیسے گر گئے تم ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے اسے گریبان سے پکڑا تھا 

ڈاکٹر پریشانی سے ساری صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا وہ سوچ کر ہی پریشان ہو رہا تھا کہ اسنے یہ کام کیا ہی کیوں ناجانے اب کیا ہونے کو تھا ۔۔۔

جان سے مار دے گا وہ تمھیں ۔۔۔ تمھارے چاچا ہونے کا بھی لحاظ نہیں کرے گا جانتے ہو ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے گرج دار لہجے میں کہا جس پر خوف سے منور صاحب کے ہاتھ کانپے تھے 

ایسی اولاد پر تھو ہے ۔۔۔ جانتا تھا جائیداد کی چمک دمک نے تمھاری آنکھیں چندھیا دی ہیں مگر تم دماغ سے اندھے ہو کر ایک معصوم بچی کی جان لے لو گے یہ نہیں سوچا تھا ۔۔۔  شہنشاہ صاحب نے حقارت سے اسکا گریبان چھوڑا تھا وہ کوٹ ٹھیک کرتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھ گئے تھے ۔۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

آؤ بچے ۔۔۔  اب کیسی طبعیت ہے ہماری بچی کی ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا 

وہ سپاٹ سی نظر منور صاحب پر ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے سر ہلا چکا تھا ۔۔۔

وہ ٹھیک ہے ۔۔۔ ہوش نہیں آیا مگر خطرے سے باہر ہے ۔۔۔

منور صاحب ایک نظر شہنشاہ صاحب کو دیکھ کر کلینک سے باہر نکل گئے تھے ۔۔۔

مرجان مٹھیاں بھینچے انہیں جاتے ہوئے دیکھ گیا تھا

                                            ✩✩✩✩✩✩

ژالے نے دھیرے سے آنکھیں کھولی تھی وہ دیوار سے ٹیک لگائے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ آفرین بیگم اور قصا بیگم اسکے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔

بیٹا خیال سے ۔۔۔ آفرین بیگم نے اسے پیار سے اٹھا کر بٹھایا تھا 

بھابھی اور بھائی ؟ 

وہ پریشانی سے آس پاس دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی

وہ ٹھیک ہے خدا کا لاکھ شکر ہے کوئی معجزہ ہوا ہے وہ ٹھیک ہے ۔۔۔ قصا بیگم نے مسکراتے ہوئے اسے خوشخبری سنائی تھی جس پر اسکا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا تھا

سچ ؟ وہ بےیقینی سے مسکرائی تھی

بیٹا یہ دوائی لیکر آؤ ۔۔۔ اور کچھ کھانے کے لئے لے کر آنا خالی پیٹ دوائی نہیں کھا سکتی ۔۔۔ صبح سے کسی نے کچھ نہیں کھایا ۔۔۔۔ قصا بیگم نےندیم سے کہا وہ ہاں میں سر ہلا کر دوائی کا پرچہ لیکر باہر چلا گیا تھا 

                                           ✩✩✩✩✩✩

ماضی :-

وہ سنجیدگی سے اپنی پڑھائی میں مصروف تھا آج اسے بہت مار پڑی تھی سکول میں لڑائی کرنے پر اس لئے غصے سے منہ پھلائے وہ سارا غصہ کتاب کو گھور کر نکال رہا تھا 

جان ۔۔۔

اسکی آواز پر وہ خفگی سے رخ بدل کر بیٹھا تھا 

ماموں نے پھر آپکو مارا ۔۔۔ وہ اسکے پاس بیٹھتی ہوئی بولی

سو واٹ ۔۔۔ وہ روز ہی مارتے ہیں ۔۔۔ وہ طنز کرتے ہوئے بولا تھا 

آپکو فائٹ نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی جس پر وہ تیکھی نظروں سے اسے گھور چکا تھا وہ روز ہی کسی مصیبت میں پھنس جاتی تھی جسکی وجہ سے اسے لڑنا پڑتا تھا اور سہیل صاحب اسے بدتمیز جیسے خطاب کیساتھ بہت مارتے تھے مگر وہ تو ڈیٹھوں کا ڈیٹھ تھا ۔۔۔ 

یو آر مائی اینجل ۔۔۔  وہ محبت سی بولی تھی جس پر وہ سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ گیا تھا 

آپ ہمیشہ مجھے پروٹیکٹ کرتے ہو ۔۔۔ اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بول رہی تھی جبکہ وہ لب بھینچتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ چکا تھا

آپ ناراض ہو ہم سے ؟ ماموں نے آپکو ہماری وجہ سے مارا ۔۔۔ وہ خفگی سے کہتے ہوئے اسکے پاس آ کر بیٹھی تھی 

جاؤ یہاں سے ۔۔۔ مجھے پڑھنا ہے ۔۔۔ وہ بک اٹھاتے ہوئے بولا تھا 

وہ جلدی سے اٹھتے ہوئے اسکا چہرہ پکڑتی اس کے گال پر ہونٹ رکھ کر ہنستے ہوئے بھاگی تھی ۔۔۔

اففف موم ۔۔۔

وہ غصے سے چڑھتے ہوئے بک نیچے پھینک گیا تھا 

تابش بیگم جلدی سے اندر آئی تھی وہ گال پر ہاتھ رگڑتا ہوا خفگی سے انہیں دیکھ گیا تھا

پھر سے ؟ 

تابش بیگم نے حیرانی سے اسے دیکھ کر پوچھا تھا

اس بےوقوف کو سمجھائیں مجھے غصہ دلاتی ہے بار بار ۔۔۔ وہ ایک بار پھر گال پر ہاتھ رگڑتے ہوئے غصے سے بولا تھا

بیٹا وہ چھوٹی ہے ژالے کو بھی ایسے ہی کرتی ہے ۔۔۔ تابش بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہنس کر  سمجھایا جس پر وہ اکتا کر آنکھیں پھیر گیا تھا 

                                           ✩✩✩✩✩✩

منہ پھلائے وہ اپنے سامنے پڑی پلیٹ کو کب سے گھو رہی تھی آج پھر وہی سبزی بنی تھی جس سے اسے سخت نفرت تھی ۔۔۔

کھا لو موٹی ۔۔۔

لفظ موٹی پر وہ ناک سکیڑ کر اسکی طرف دیکھ گئی تھی جو شوق سے کھا رہا تھا 

جان گندا ہے ۔۔۔ وہ خفگی سے بولی تھی جس پر تابش بیگم اور رامین بیگم مسکرائی تھی انکی روز کی نوک جھونک سے ہی تو گھر میں رونک تھی ۔۔۔

تم گندی ہو ۔۔۔ وہ اسکی طرف چمچ پھینکتے ہوئے بولا تھا جس پر وہ غصے سے اٹھتی ہوئی پلیٹ نیچے پھینک کر وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔

میں لیکر آتا ہوں ۔۔۔ وہ کرسی کھینچ کر اٹھتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا جس پر رامین بیگم اور تابش بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا ژالے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی تھی ۔۔۔

ہمیں نہیں آنا ۔۔۔ ہاتھ چھڑاتی ہوئی وہ منہ بسور گئی تھی 

دیکھو میرے پاس کیا ہے ۔۔۔

وہ جو آنکھوں پر چھوٹے چھوٹے ہاتھ دیئے ناراض ہونے کا ڈرامہ کر رہی تھی آنکھ سے انگلی ہٹا کر اسکی طرف دیکھ گئی تھی 

خوشی سے مسکراتے ہوئے وہ اسکی مٹھی کھول گئی تھی جس میں ایک بریسلٹ تھی 

واؤ۔۔۔ اٹس سپارکلنگ ۔۔۔ وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسکی کلائی پر بریسلٹ پہنا رہا تھا

پر یہ بہت کھلا ہے ۔۔۔ کلائی کو دیکھتے ہوئے وہ خفگی سے بولی تھی وہ مسکراتے ہوئے بریسلٹ کر ڈبل کر کے اسکی کلائی پر باندھ چکا تھا 

اب تو چلو گی ۔۔۔۔ اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے وہ مسکرایا تھا

یس ۔۔۔ وہ ہنستی ہوئی اسکے ہاتھ میں ہاتھ دیکر اٹھی تھی۔۔۔

                                          ✩✩✩✩✩✩

ڈاکٹر ہم کب تک گھر لے جا سکتے ہیں زارا کو ۔۔۔ قصا بیگم نے پریشانی سے دریافت کیا تھا جبکہ ڈاکٹر اسے انجیکشن دیکر انکی طرف مخاطب ہوئے تھے 

دیکھیں پیشنٹ خطرے سے باہر ہیں آپ گھر لے جانا چاہتے ہیں تو بیشک لے جا سکتے ہیں مگر بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور کب تک ہوش آئے گا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔۔۔۔ 

ندیم کار نکالو ہم گھر جا رہے ہیں ۔۔۔ مرجان کی بات سن کر سب نے اسکی طرف دیکھا تھا 

یہاں سے بہتر خیال گھر پر رکھا جا سکتا ہے ۔۔۔ منور صاحب کو سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بولا جس پر وہ گڑبڑا گئے تھے 

اوکے جیسے آپ بہتر سمجھیں ۔۔۔ 

ہاسپیٹل سے وہ اسے اپنے فارم ہاؤس لایا تھا  اس بارے میں صرف شہنشاہ صاحب جانتے تھے جہاں بےحد سیکیورٹی تھی وہ اکثر یہاں آیا کرتا تھا اس جگہ کے بارے میں ندیم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا ڈاکٹرز اور نرسس کا پورا سٹاف اسنے اسکے خیال رکھنے کے لئے تیار کروایا تھا ۔۔۔

سب گھر الگ کار سے گئے تھے اور وہ اسے لیکر الگ سے فارم ہاؤس گیا تھا ۔۔۔

ایک آنچ نہیں آنے دوں گا اب زارا ۔۔۔ پرومس ۔۔۔ اسے بیڈ پر لیٹاتے ہوئے وہ اسکی پیشانی پر لب رکھ سنجیدگی سے بولا تھا وہ آنکھیں بند کئے بالکل خاموش تھی ۔۔۔ اسکی خاموشی مرجان کاظمی کے دل پر بوکھ بن رہی تھی وہ اسے مسکراتے دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔ ہمیشہ ۔۔۔

سر ۔۔۔ آپکے لئے کال ہے ۔۔۔

ندیم دروازے پر ناک کرتے ہوئے بولا تھا وہ سنجیدگی سے اٹھ کر باہر آیا تھا فون کان سے لگاتے ہوئے وہ لائونج کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔

مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔ کتںے فخر کی بات ہے آپ جیسی  بڑی شخصیت سے بات کرنے کا موقع ملا ۔۔۔ مگر افسوس کیساتھ خبر اچھی نہیں ہے ۔۔۔ حال ہی میں ایک ویرانے سے 20 ڈیڈ باڈیز برآمد ہوئی تھی شدید خراب حالت میں انڈرسٹینڈ ؟  ۔۔۔ اور وہاں کچھ جلتی ہوئی کاریں پائی گئی تھی افسوس سب جل چکا تھا مگر ایک کار سلامت تھی اس میں ہمیں بےحد خطرناک مشین گن دیکھنے کو ملی ہے جس پر بےحد خطرناک شخصیت کے فنگر پرنٹس ملے ہیں کچھ کہنا چاہیں گے آپ ۔۔۔ بائے دا وے انسپیکٹر ہاشم ۔۔۔ ایٹ یوئر سروسز ۔۔۔

وہ مسکرایا تھا ۔۔۔۔

کہاں ملنا چاہیں گے آپ انسپیکٹر ہاشم ۔۔۔ وہ مغرور لہجے میں بولا تھا

حیران ہوں مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔ آپ پر اتنا بڑا کیس ہے اور آپ اتنے مطمئن ؟ ملنے تو آپ پولیس اسٹیشن ہی آئیں گے یہ آپ بتا دیں کہ خود آنا پسند کریں گے یا کسی کو بھیج کر منگوایا جائے ؟

میں نہیں آ رہا اگر آپکو تفتیش کرنی ہی ہے تو آپ آئیں مسٹر ہاشم ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے کال ڈسکنیکٹ کر چکا تھا ۔۔۔

ندیم نے پریشانی سے اسکی طرف دیکھا تھا جسے بالکل بھی پرواہ نہیں تھی ۔۔۔

کوٹ ٹھیک کرتے ہوئے وہ ڈاکٹرز کو سختی سے آرڈر دیکر فارم ہاؤس سے نکل چکا تھا ۔۔۔

دروازے پر ناک کرتی ہوئی وہ اندر آئی تھی بیڈ پر لیٹا وہ سر اٹھاتا اسکی طرف دیکھ کر دوبارہ کشن پر سر رکھتے آنکھیں موند گیا تھا

میری بات سنو گے ؟ 

اسکے بجھے لہجے پر وہ اٹھ کر بیٹھا تھا مگر بولا کچھ نہیں تھا 

میں جانتی ہوں کہ گھر میں بہت کچھ چل رہا ہے ۔۔۔ لیکن میں اپنی غلطیوں کے لئے معافی مانگنا چاہتی ہوں ۔۔۔

وہ سرد نظروں سے اسکی جانب دیکھ گیا تھا

ہمارا نکاح جن حالات میں بھی ہوا اس میں آپکا کیا قصور تھا ۔۔۔ اسکی طرف دیکھتی ہوئی وہ دھیمے لہجے میں بول رہی تھی 

اگر یہ تمھارا کوئی نیا پلان ہے ۔۔۔

نہیں ۔۔۔ میرا یقین کریں میں امی کی قسم کھاتی ہوں ۔۔ وہ جلدی سے اسکی بات کاٹتے بولی تھی جس پر وہ سرد آہ بھر کر اسے دیکھ گیا تھا

تو آپ مجھے معاف کریں گے ؟ 

سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ پوچھ رہی تھی جبکہ وہ گہری کشمکش میں تھا 

تو آپکو اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ؟ 

اسکے سوال پر وہ مسکرا گئی تھی 

نہیں ۔۔۔ 

وہ سپاٹ نظروں سے اسکے کھلے چہرے کو دیکھ رہا تھا کیوں یقین نہیں آ رہا تھا اسے ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم اس بارے میں کل بات کریں گے ۔۔۔ منہ پر بلینکٹ لیتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا تھا جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتی ہوئی بیڈ سے اپنا تکیہ اٹھا گئی تھی 

یہ کیا کر رہی ہو ؟ وہ اسے صوفے پر لیٹتے ہوئے دیکھ کر حیرانگی سے پوچھ رہا تھا

آپ سو جائیں میں یہاں سو جاؤں گی ۔۔۔ مسکراتے ہوئے کہہ کر وہ صوفے پر لیٹ گئی تھی جبکہ وہ اسکے شیریں لہجے پر کچھ زیادہ ہی حیران ہوا تھا ایک دن میں آخر وہ اتنی کیسے بدل سکتی تھی ؟ وہ سوچتے ہوئے منہ پر بلینکٹ ڈال کر سو گیا تھا جبکہ زنیرا اسکے سوتے ہی دھیرے سے روم سے باہر نکلی تھی 

                                            ✩✩✩✩✩✩

آپکا مطلب ہے شہنشاہ صاحب کو سب پتا ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا تھا 

انہوں نے ڈاکٹر کیساتھ میری ساری گفتگو سن لی تھی ۔۔۔ لیکن یہ تھپڑ میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔۔۔ منور صاحب گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے غصے سے چبا کر بولے تھے

لیکن وہ خاموش کیوں ہیں سب جاننے کے بعد انہوں نے آپکو دھکے مار کر باہر کیوں نہیں نکالا ۔۔۔

منور صاحب نے سرد سی نظر کشمالہ بیگم پر ڈالی تھی ۔۔۔

وہ آپکے اوچھے ہتھکنڈوں سے واقف نہیں ہیں انہیں لگتا ہے آپ نے یہ سب صرف پراپرٹی کے لئے کیا ہے مگر دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو آپ۔۔۔ کشمالہ بیگم کہتے ہوئے ہنسی تھی جیسے انہیں خود بھی یقین نہیں کہ منور صاحب اتنا سب کر چکے ہیں

بس کشمالہ ۔۔۔ اس بارے میں یوں کھلے عام بات کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔۔۔ وہ دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے سرگوشی کرتے بولے تھے  جس پر کشمالہ بیگم منہ کے ڈیزائن بناتے ہوئے خاموش ہوئی تھی 

                                           ✩✩✩✩✩✩

کوٹ کندھے پر رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے لائونج تک پہنچا تھا ذہن تھا کہ شل ہو رہا تھا اسے جواب چاہیے تھے بہت سارے سوال اسکے ذہن میں گردشِ دوراں تھے مگر وہ صحیح وقت کی تلاش میں تھا ۔۔۔

مرجان بھائی ۔۔۔

اسے تو مانو جھٹکا لگا تھا سن کر ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا وہ ہاتھ میں کافی کا کپ لئے مسکراتی ہوئی اسکی طرف بڑھی تھی وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے لب بھینچ گیا تھا

آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا یہ پی لیں ۔۔۔ کافی کا کپ اسکی طرف بڑھاتی ہوئی وہ مسکرا کر بولی تھی وہ سنجیدگی سے پہلے کپ کو اور پھر اسے چہرے کو گھور گیا تھا

کیا ملایا ہے اس میں ۔۔۔؟ 

 وہ آئی برو اچکاتے ہوئے  پوچھ کر اسکا دل دھڑکا گیا تھا

ہاہاہا۔۔۔ کچھ بھی نہیں ملایا آپکو یقین نہیں تو میں پی کر دیکھا دیتی ہوں۔۔۔ وہ بےوجہ مسکرائی تھی

ضرورت نہیں ۔۔۔

 وہ سنجیدگی سے بولا تھا

کچھ دیر بات کر سکتے ہیں ؟ 

کس بارے میں ؟ وہ اکھڑے ہوئے لہجے میں بول رہا تھا 

مجھے بےحد افسوس ہے جو کچھ ہوا ۔۔۔  ساتھ ہی خوش ہوں زارا ٹھیک ہے ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بول رہی تھی وہ سنجیدگی سے بس سن رہا تھا

پچھلے دنوں میں جو کچھ موم ڈیڈ نے کیا میں اس سے بےخبر تھی ٹرسٹ می ۔۔۔ میں کبھی آپ کو فورس نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔  تو کیا آپ سب بھلا کر نارمل ہو سکتے ہیں ؟  میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ 

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا بھلا اتنی جلدی عقل کیسے آ سکتی تھی اسے۔۔۔

اگر آپ کافی لے لیں گے تو میں مان جاؤں گی آپ ناراض نہیں ہیں ۔۔۔ کپ اسکی طرف بڑھاتی وہ مسکرائی تھی 

اب کونسا گیم کھیل رہی ہو ۔۔۔ وہ طنزیہ لہجے میں پوچھ گیا تھا جس پر وہ اداس ہوئی تھی 

مجھے امی نے سمجھایا میں سمجھ گئی میں غلط تھی ۔۔۔ وہ نظریں جھکاتے ہوئے شرمندگی سے بولی تھی جس پر وہ سرد آہ بھر گیا تھا 

آپ غصہ نہیں ہیں ناں ڈیڈ اور موم سے پلیز آپ نارمل ہو جائیں میں چاہتی ہوں گھر میں سب خوش رہیں ۔۔۔

 وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی 

وہ سوچ میں پڑا تھا ۔۔۔

معاف کیا  ناں پھر ؟ وہ اسکی طرف کپ بڑھاتے بولی تھی وہ زچ ہو کر اس سے کپ لیکر ایک سپ لیتا ہوا اسکو دوبارہ کپ تھما کر جا چکا تھا ۔۔۔

اسکے جاتے ہی اسکا اداس چہرہ مسکراہٹ میں ڈھلا تھا مسکرا کر سر کو خم دیتی ہوئی وہ کپ سے کافی پیتے ہوئے اپنی روم کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔

                                        ✩✩✩✩✩✩

اگلے دن :- 

سر ۔۔۔ کوئی آپ سے ملنے آیا ہے ۔۔۔

ندیم نے اسے نیند سے آ کر جگایا تھا وہ خمار آنکھوں سے اسکی طرف دیکھ کر دوبارہ سو گیا تھا 

سر ۔۔۔ ارجینٹ ہے ۔۔۔ 

وہ بدمزہ ہو کر اٹھا تھا فریش ہو کر سمپل سوٹ میں وہ باہر آیا تھا ۔۔۔

اوہ تو مسٹر مرجان کاظمی کی نیند میں میں نے خلل ڈال دیا ۔۔۔ انسپیکٹر ہاشم اٹھتے ہوئے مسکرایا تھا

کتںی تکلیف دہ بات ہے افسوس چچچ ۔۔۔ وہ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے  چیئر پر بیٹھا تھا

تو مسٹر مرجان کاظمی آپ خود بتانا چاہیں گے آپ وہاں کرائم سین پر کیا کرنے گئے تھے ۔۔۔  انسپیکٹر ہاشم نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے پوچھا تھا

آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں وہ میں ہی تھا ۔۔۔ وہ مسکرا کر کہتا ہوا کافی کا کپ ہونٹوں سے لگا گیا تھا 

آپکے فنگر پرنٹ ملے ہیں مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔ انسپیکٹر ہاشم سنجیدہ ہوا 

تو وہ تو کہیں سے بھی کلیکٹ کیے جا سکتے ہیں ۔۔۔ جسٹ لائک دیٹ ۔۔۔ وہ اسکے کپ پر چمچ لگاتے ہوئے مسکرایا تھا جس پر وہ گھبرا کر کپ میز پر رکھ گیا تھا 

اگر آپ سوچتے ہیں کہ میں آپکے بڑے نام کی وجہ سے آپکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا تو یہ آپکی بھول ہے ۔۔۔ 

چچچ۔۔۔ آپ اپنی کاروائی جاری رکھیں اور میں انشاء اللہ کاپریٹ کروں گا ۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ مسکرایا تھا انسپیکٹر ہاشم غصے سے اٹھتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا ندیم اسکے یوں ایک انسپیکٹر کو تپانے پر دل ہی دل میں ہنس دیا تھا۔۔۔

بڑے صاحب ناشتے کی میز پر سب آپکا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔ سروینٹ نے آ کر اسے آگاہ کیا تھا ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے اٹھتا ہوا ڈائننگ ہال کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔

آؤ شیر ۔۔۔ شہنشاہ صاحب خوشدلی سے بولے تھے 

سلام دادا سائیں ۔۔۔ وہ سلام کرتے ہوئے چیئر کھینچ کر بیٹھا تھا 

وعلیکم السلام میرے بچے۔۔۔ طبعیت کیسی ہے ؟ 

جی بہتر دادا سائیں ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تھا 

آپ جوس لیں گے ؟ زنیرا نے حرب کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا جس پر سبھی حیران ہوئے تھے  کشمالہ بیگم مسکرائی تھی ۔۔۔

نہیں ۔۔۔ وہ دھیرے سے کہتے ہوئے بریڈ پر جیم لگانے میں مصروف ہوا تھا 

دادا سائیں کچھ ارجینٹ کام ہے میں آج رات امریکہ جا رہا ہوں ۔۔۔

منور صاحب نے پریشانی سے اسکی طرف دیکھا تھا جبکہ شہنشاہ صاحب قدرے پریشان ہوئے تھے 

بیٹا اچانک ؟ سب خیریت تو ہے ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے دریافت کیا 

بزنس ریلیٹڈ ہے دادا سائیں پرہشانی والی کوئی بات نہیں ۔۔۔ وہ بےحد سنجیدہ لگ رہا تھا 

شان موبائل اٹھاتے ہوئے ڈائننگ ہال سے جا چکا تھا وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھ کر اسکے پیچھے گیا تھا منور صاحب نے اٹھنا چاہا تھا مگر شہنشاہ صاحب کے گھورنے پر وہ گڑبڑا کر واپس اپنی جگہ پر بیٹھے تھے ۔۔۔

کیا مطلب ہے تمھارا کہ ویب سائٹ ہیک ہو گئی ہے۔۔۔۔ 

شان غصے سے لال ہو رہا تھا 

"سچ کہہ رہا ہوں کسی نے چالاکی سے ویب سائٹ ہیک کی ہے اسکے علاوہ ہمارا سارا ڈیٹا ہیکر کے پاس جا چکا ہے ۔۔۔ اسکے پاس ہمارے سب پلانز کا پورا چارٹ موجود ہو گا ہمیں لوکیشن ۔۔۔ ٹارگٹ سب چینج کرنا پڑے گا " 

فون پر کسی نے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا تھا 

لیکن اتنی جلدی سب کیسے ہو گا ۔۔۔ شان نے پیشانی مسلتے ہوئے کہا 

اسکی فکر تم کیوں کر رہے ہو ۔۔۔

اپنے پیچھے سے آئی سرد بھاری آواز پر اسکے ہاتھ سے فون زمین پر گرا تھا ۔۔۔

کیا ہوا ویب سائٹ ہیک ہو گئی ؟ ڈیٹا لیک ہو گیا ؟ سارا چارٹ کینسل کرنا پڑ گیا ؟ یا پھر  ڈبل سمگلنگ کرنے کا سوچ رہے ہو ۔۔۔ اسکے پاس آتے ہوئے وہ آخری لائن دھیرے سے بولا تھا جس پر وہ شل ہو گیا تھا 

زندہ تو تمھیں تب بھی ناں چھوڑتا جب تم نے اسے پول میں دھکیلا تھا ۔۔۔ اسکے بعد تمھارا چانک گھر سے غائب ہونا ۔۔۔ کیا سمجھتے ہو میں بےوقوف ہوں ؟ کچھ نہیں دیکھ سکتا ؟ وہ اسکے گرد چکر لگاتے ہوئے مسکرا کر بول رہا تھا اور وہ خوف سے کانپ رہا تھا آج اسکی ساری سچائی وہ جان چکا تھا ۔۔۔

اسے ڈرانے کی تمھاری کوششیں ۔۔۔ اس پر بری نظر ڈالنا ۔۔۔ کیا میں کچھ نہیں دیکھ پایا ؟ بےوقوف تم تھے ۔۔۔ جو تم سوچتے رہے میں ان سب سے انجان ہوں ۔۔۔ وہ کرخت لہجے سے بول رہا تھا

اب بھی وقت ہے ۔۔۔ ہمارے ساتھ مل جاؤ بہت پرافٹ ۔۔۔

اسکا بازو پکڑ کر موڑتے ہوئے وہ اسکی زبان پر قفل لگا گیا تھا وہ درد سے کراہ اٹھا تھا ۔۔۔

سوچ کیسے لیا تم نے میں تم جیسے غداروں کیساتھ کام کروں گا ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا 

تم خود ایک سیریئل کِلر ہو ۔۔۔ کیا میں نہیں جانتا کتنے لوگوں کو تم نے مارا ہے ۔۔۔ شان بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کراہ کر بولا تھا جس پر وہ انوکھے انداز میں مسکرایا ۔۔۔

تم تو سب جانتے ہو میرے بارے میں ۔۔۔ کچھ سوال جواب ہو جائیں چلو ۔۔۔ اسے بازو سے دبوچتے ہوئے وہ اسے مینشن کے بیک سائڈ پر لایا تھا ۔۔۔ گرین کلر کی کارپٹ گراس سے ہٹاتے ہوئے وہ ایک خفیہ دروازہ کھول چکا تھا ۔۔۔

یہ ۔۔۔ یہ سب کیا ہے ۔۔۔ شان کی جان حلق میں آئی تھی وہ اسے لئے زمین میں بنے ایک تہہ خانے اتر رہا تھا ۔۔۔

اسکے اندر جاتے ہی حرب نے آ کر دروازہ بند کرتے ہوئے اوپر دوبارہ کارپیٹ گرایا تھا 

                                        ✩✩✩✩✩✩

ماضی :- 

آج سکول میں سالانہ فنگشن تھا اینول کے دن سب بچے نئے کپڑوں میں خوبصورت لگ رہے تھے وہ پنک کلر کے  باربی فراک میں بہت پیاری لگ رہی تھی 

تبسم آؤ میرے ساتھ ۔۔۔ ژالے نے مسکرا کر اسے اپنے پاس بلایا تھا وہ جواباً مسکراتی ہوئی اسکے پاس آئی تھی ۔۔۔ 

آپی جان کہاں ہے ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی تھی 

وہ وہاں ہے ۔۔۔ اسٹیج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ژالے نے اسے بتایا تھا وہ ڈیکوریشن کرنے میں سینیئر بچوں کی مدد کر رہا تھا ۔۔۔ 

آپی ہمیں وہ چاہیے ۔۔۔ گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ ضد کر کے بولی تھی ۔۔۔ ژالے نے اسکے اشارے کی سمت دیکھا تھا جہاں ایک بوڑھا آدمی غبارے بیچ رہا تھا ۔۔۔

اچھا چلو ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ وہاں تک آئی تھی ۔۔۔

انکل مجھے پنک چاہیے ۔۔۔ وہ جلدی سے بولی تھی ۔۔۔ 

بوڑھے آدمی نے سرد سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا تھا جو ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اس کے پیچھے آ کر رکا تھا 

دونوں کسی سازش سے بےخبر اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی جب اس آدمی نے وائٹ کلر کا رومال نکال کر زارا کے منہ پر دیا تھا وہ گھبراتے ہوئے احتجاج کر گئی تھی اور پھر بےہوش ہوئی تھی ژالے نے  مظبوطی سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا مگر وہ آدمی اسے دھکا دیکر گراتے ہوئے اسے اٹھا کر وہاں سے گیٹ کی جانب بھاگا تھا ۔۔۔۔

مرجان بھیا ۔۔۔۔۔۔ ژالے چیختی ہوئی اسے بلا رہی تھی وہ دوڑتا ہوا اسکے پاس آیا تھا جو کہنی سے نکلتے ہوئے خون کو دیکھ کر رو رہی تھی ۔۔۔

بھیا وہ تبسم کو لے گیا ۔۔۔  وہ روتے ہوئے بتا رہی تھی وہ دوڑتا ہوا گیٹ سے باہر آیا تھا مگر وہ پہلے ہی اسے کار میں ڈال کر لے جا چکے تھے ۔۔۔

بیڈ پر پڑے اس ساکت سے وجود کو جھٹکا لگا تھا وہ بےحوشی میں سسک رہی تھی 

نہ۔۔۔نہیں ۔۔۔ ہمیں۔۔۔۔ چھوڑ ۔۔۔۔دیں

دروازہ کھولتے ہوئے وہ اندر آیا تھا وہ پسینے میں شرابور تھی

ہمیں جانے دیں ۔۔۔ وہ سسکتے ہوئے التجا کر رہی تھی 

سب ٹھیک ہے ۔۔۔ یو آر سیف ۔۔۔ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا تھا 

وہ لمبے سانس لیتی ہوئی دوبارہ خاموشی کی وادیوں میں اتر گئی تھی ۔۔۔

وہ سرد آہ بھرتے ہوئے اسکے ہاتھ پر پیشانی ٹکا گیا تھا 

"سب میری وجہ سے ہو رہا ہے کاش میں آپکو سیف رکھ سکتا ۔۔۔جب جب میں نے آپکو پروٹیکٹ کرنے کی کوشش کی ہے آپکو نقصان پہنچا بیٹھا ۔۔۔ میں گناہگار ہوں آپکا ۔۔۔ کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں آپ نے میری وجہ سے ۔۔۔ وہ خود کو کوستے ہوئے سرد لہجے میں بول رہا تھا 

"یہ میری سزا صحیح ۔۔۔ میں دور چلا جاؤں گا ۔۔۔ جب تک آپ ٹھیک نہیں ہوتی ۔۔۔ میں دور رہوں گا ۔۔۔ اسکا ہاتھ دھیرے سے چھوڑتے ہوئے وہ اٹھا تھا ۔۔۔"

وہ اسے روکنا چاہتی تھی ۔۔۔ کہنا چاہتی تھی وہ سب سن رہی ہے مگر اٹھنے کی ہمت نہ تھی ۔۔۔  "

 میں جا رہا ہوں زارا ۔۔۔ آخری بار اسے دیکھ کر کہتا ہوا وہ وہاں سے جا چکا تھا 

                                        ✩✩✩✩✩✩

ماضی :- 

بےوقوف یہ کسے اٹھا لائے ۔۔۔ سہیل کی بیٹی کو اٹھا کر لانا تھا ۔۔۔

وہ سہمی ہوئی اندھیرے میں کھڑی دو پرچھائیاں دیکھ رہی تھی 

مگر صاحب وہاں دو لڑکیاں تھی ہمیں معلوم نہیں تھا ۔۔۔ 

بےوقوف یہ اسکی بیٹی نہیں ہے ۔۔۔ 

شہوار صاحب اسے معاف کر دیں مگر یہ لڑکی ہے تو انکے ہی خاندان کی ناں ؟ وہ اسکے لئے بھی تو پیسے دے ہی دے گا ۔۔۔ ایک تیسری پرچھائی دیکھائی دی تھی 

وہ سہمتے ہوئے انہیں دیکھ کر اندھیرے  میں چھپ گئی تھی 

یہ اسکی بیٹی نہیں ہے مگر وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں ۔۔۔ اور سنا ہے کہ اس میں جان بستی ہے اسکی آخر ایسے کیسے کوئی اپنی جائیداد کا 40٪ حصہ کسی اور کی اولاد کے نام کر دیتا ہے ۔۔۔  آدمی کی بات پر 

شہوار نے داڑھی کھجائی تھی 

مگر منور کو جو پیسے چاہیے  انکا کیا ۔۔اسکے کہنے پر ہی تو ااس لڑکی کو اٹھوانا تھا ۔۔۔۔  وہ سوچ کو جھٹکتے ہوئے بولا تھا 

تو دوگلی چال چلو ناں ۔۔۔ پیسے لیکر منور کودے دو اور لڑکی اپنے پاس رکھ لو جیسے ہی 18 کی ہوئی  پراپرٹی پیپرز پر دستخط کروا کر پراپرٹی ہتھیا لینا ۔۔۔ 

ایک آدمی خباثت سے بولا تھا 

لیکن 14 سال انتظار ؟ شہوار نے سرد آہ بھری تھی وہ سہمی ہوئی انکی باتیں سن رہی تھی ۔۔۔

جائیداد کے لئے اتنا تو کر سکتے ہو باس ۔۔۔ 

ٹھیک ہے تم  وہ دوسری لڑکی لیکر پہاڑی پر جاؤ سہیل کو فون کر کے اطلاع دو کہ اگر لڑکی چاپیے تو 50 لاکھ لیکر وہاں ملے اور جیسے ہی پیسے لے لو اس لڑکی کو نیچے پھینک دینا ۔۔۔ 

وہ ڈرتے ہوئے اٹھی تھی اپنی جگہ سے ۔۔۔

اور اسکا کیا ؟ آدمی نے اس معصوم وجود کی طرف اشارہ کیا تھا

اسے میں اپنے ساتھ رکھوں گا ۔۔۔ میری بیٹی ہے آخر اب سے ۔۔۔ وہ خباثت سے کہتے ہوئے ہنسا تھا ۔۔۔

بہت ہوا منور اب تمھاری کمانڈ پر نہیں چلوں گا اب میں صرف اپنے بارے میں سوچوں گا۔۔۔ جس میں صرف میرا فائدہ ہو گا ۔۔۔ دل میں سوچتے ہوئے شہوار مسکرا دیا تھا

                                    ✩✩✩✩✩✩

کچھ دن بعد :- 

کچھ پتا چلا شان کہاں ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے منور صاحب سے پوچھا تھا وہ جواب میں سر کو خم دیتے ہوئے افسردہ ہوئے تھے 

مگر اچانک سے کہاں جا سکتا ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم کو آج اپنے بیٹے کی فکر جی جان سے کھائے جا رہی تھی اسے غائب ہوئے 6 دن ہو چکے تھے پولیس ڈھونڈھ ڈھونڈ کر پریشان تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ کہاں ہے ۔۔۔

منور صاحب کے فون کی رنگ ٹون بجی تھی کشمالہ بیگم نے فون کی طرف دیکھا جس پر ان نان نمبر تھا ۔۔۔

یہ کیسا نمبر ہے۔۔۔ اتنے کم ہندسے ؟ کشمالہ بیگم نے فون اٹھاتے ہوئے حیرت سے پوچھا منور صاحب نمبر دیکھ کر پریشان ہوئے تھے جو ایک وژوئل نمبر تھا ۔۔۔ 

کال کنیکٹ کرتے ہوئے انہوں نے پریشانی سے فون کان سے لگایا تھا۔۔۔۔

اگر بیٹے کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتے ہو تو جیسا کہتا ہوں ویسا کرو ۔۔۔ 

وہ گڑبڑا کر اپنی جگہ سے اٹھے تھے ان کے ہاتھ کانپے تھے ۔۔۔

ورنہ اسکا وہی حال ہو گا جو شہوار چودھری کا ہوا ۔۔۔  سلگتے ہوئے لہجے میں کہا گیا تھا

فون انکے ہاتھ سے زمین پر گرا تھا کشمالہ بیگم نے صدمے سے منور صاحب کو دیکھا تھا جنکی آنکھوں میں آج صحیح معنوں میں خوف کے سائے لہرا رہے تھے ۔۔۔

ماضی :- 

تبسم بیٹا آئیں کھانا کھا لیں ۔۔۔ شہوار صاحب نے آملیٹ پلیٹ میں رکھتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا جو دور کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی 

انیلہ بیگم نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی بیٹی کی پلیٹ میں روٹی رکھی تھی 

نن۔۔۔نہیں ہم ۔۔۔ ہم بعد میں کھا لیں گے ۔۔۔ وہ گھبرا کر کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی 

آپ نے اس لڑکی کو سر پر چڑھا رکھا ہے ۔۔۔ دیکھیں کیسے صاف انکار کر کے گئی ہے ۔۔۔ انیلہ بیگم نے زہر کند لہجے میں کہا تھا جس پر شہوار صاحب اسے دیکھ کر رہ گئے تھے 

مماں ہمیں تبسم نام پسند ہے ۔۔۔ آپ ہمیں تبسم بولا کریں ۔۔۔ وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی تھی جس پر انیلہ بیگم نے شہوار صاحب کو گھورا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے بیٹا آپ تبسم بن جائیں وہ تعبیر ٹھیک ہے ناں ۔۔۔ شہوار صاحب نے مسکرا کر کہا جس پر وہ مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلا گئی تھی ۔۔۔ 

انیلہ بیگم اسکے کمرے میں آتے ہوئے دھاڑ سے دروازہ کھول گئی تھی وہ جلدی سے بیڈ سے نیچے اترتے ہوئے آنسوں صاف کر چکی تھی ۔۔۔

کب بند ہوں گے تیرے یہ ڈرامے ۔۔۔ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے وہ انیلہ بیگم دانت پیستے ہوئے بولی تھی جس پر وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ گئی تھی 

ناجانے کیوں باہر کا کچرا گھر میں اٹھا کر لائے ہیں ۔۔۔ تجھے زیادہ ضرورت نہیں ہے انکی ہمدردیاں سمیٹنے کی سمجھ آ رہی ہے تجھے ۔۔۔ اسے کندھوں سے جھنجھوڑتی ہوئی وہ حقارت سے بولی جس پر وہ ناسمجھ نادان لڑکی سر ہلا کر رہ گئی تھی ۔۔۔

آج تجھے کھانا نہیں ملے گا اور خبردار تو نے یہ مگرمچھ کے آنسوں بہائے تو ۔۔۔ ایک تھپڑ کھاؤ گی میرے سے ۔۔۔ ہاتھ اٹھاتے ہوئے وہ چلا کر بول رہی تھی وہ گھبراتے ہوئے آنکھوں پر ہاتھ دے گئی تھی ۔۔۔

چل جلدی سے تیار ہو سکول جانا ہے ۔۔۔ا سکا ہاتھ سختی سے پکڑتے ہوئے وہ اسے کھینچ گئی تھی 

۔۔۔۔۔

                                          ✩✩✩✩✩✩

مجھے نہیں کھانا وائے ڈونٹ یو انڈرسٹینڈ ۔۔۔ 

چٹاخ!

وہ ناشتے کی ٹرے زمین بوس کرتے ہوئے چلایا تھا جس پر تابش بیگم نے اسے زوردار تھپڑ چہرے پر مارا تھا ۔۔۔

یہ کیا کر رہی ہو تم تابش ۔۔۔ رامین بیگم نے اسکے سامنے آتے ہوئے تابش بیگم کی طرف دیکھ کر کہا جو خود تکلیف سے آنسوں بہا گئی تھی 

ٹھیک ہے مار لو مجھے ۔۔۔ لیکن جب تک میری ڈول نہیں آ جاتی میں نہیں کھاؤں گا ۔۔۔ وہ چیخ کر کہتا ہوا بیگ پٹخ کر کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

کیسے یقین دلاؤ اسے میں وہ نہیں آئے گی ۔۔۔ تابش بیگم روتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی کر بولی تھی رامین بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سرد آہ بھری تھی ۔۔۔

کتنا وقت گزر گیا ہے رامین کتنی خوشیاں ہوا کرتی تھی اس گھر میں ۔۔۔ تابش بیگم نے افسردگی سے کہا تھا 

اسے مارا مت کرو تابش تم جانتی ہو وہ اسکے ساتھ کتنا اٹیچ رہا ہے ۔۔۔ اسے وقت لگے گا میری اولاد تھی وہ لیکن اسکے لئے اسکا سب کچھ تھی ایک پل وہ اس سے الگ نہیں رہتا تھا اسے وقت دو تابش ۔۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا ۔۔۔ رامین بیگم نے اسے جھوٹی تسلی دی تھی ورنہ وہ خود اندر ہی اندر ٹوٹ کر رہ گئی تھی انکی کل کائنات انکی بیٹی تھی جسے لاپتہ ہوئے کئی دن گزر گئے تھے ۔۔۔

مرجان آؤ ہمارے ساتھ بیٹھو ۔۔۔ زنیرا نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جس پر وہ ہاتھ چھڑاتا ہوا گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا ۔۔۔

ڈیڈی دیکھیں وہ ہمارے ساتھ نہیں بیٹھ رہا ۔۔۔ وہ منور صاحب سے شکایت کر گئی تھی جو آج انہیں سکول چھوڑنے جا رہے تھے کیونکہ سہیل صاحب پولیس اسٹیشن گئے تھے ۔۔۔

بیٹا آپ پیچھے بیٹھ جاؤ ۔۔۔ وہ مرجان سے بولے تھے جس پر وہ سنجیدگی سے لب بھینچتا ہوا بیگ اٹھا کر پیچھے بیٹھا تھا زنیرا نے مسکراتے ہوئے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

جان بھیا آپ سیڈ ہو ؟ ژالے نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ سنجیدگی سے کار سے باہر دیکھ گیا تھا ۔۔۔

ڈونٹ وری زارا مل جائے گی ۔۔۔ ژالے نے مسکرا کر کہا تھا جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتا ہوا لب بھینچ گیا تھا 

نہیں وہ ہمیں پسند نہیں وہ نہیں ملے گی ۔۔۔ زنیرا نے خفگی سے کہا تھا جس پر وہ غصے سے اسکا بازو پکڑ گیا تھا

ہمیں درد ہو رہا ہے چھوڑو ۔۔۔ زنیرا نے روتے ہوئے کہا تھا جس پر وہ نفرت سے اسکی کلائی چھوڑ گیا تھا ۔۔۔

 ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

کیا مطلب ہے آپ کا ۔۔۔ سہیل صاحب نے میز پر کیس کی فائل پٹختے کہا تھا 

دیکھیں آپ کے مطابق آپکو پیسے دینے کے لئے بلایا گیا اور انہوں نے آپکے سامنے بچی کو کھائی میں پھینک دیا پھر آپ کسے تلاشنا چاہتے ہیں بچی کی ڈیڈ باڈی ۔۔۔۔

جسٹ شٹ اپ انسپیکٹر ۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہیں آپ ۔۔۔ سہیل صاحب نے کرخت لہجے میں کہا تھا 

دیکھیں مسٹر سہیل آپ کی سنی سنائی باتوں پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے آپ سب شاید بھول گئے ہیں کہ آپکے گھر میں کوئی بچی نہیں تھی کیونکہ اسکے اسکول جانے پر پتا چلا ہے کہ اس اسکول میں ایسے کسی بچی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔۔۔۔

لیکن اسکے برتھ سرٹیفکیٹ کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں آپ ۔۔۔ سہیل صاحب چلا گئے تھے 

وہ کسی اور کی بچی کا ہو گا ۔۔۔ انسپیکٹر نے ہوا میں بات اڑائی تھی ۔۔۔ 

آپ اپنی انویسٹیگیشن صحیح سے کریں گے ورنہ میں آپکے خلاف بھی کیس دائر کر سکتا ہوں ۔۔۔سہیل صاحب نے سنجیدگی سے اٹھتے ہوئے کہا 

آپ جو کرنا چاہتے ہیں آپ کر سکتے ہیں لیکن ہم ایک مری ہوئی بچی کو دنیا میں نہیں ڈھونڈ سکتے ۔۔۔ انسپیکٹر نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا سہیل صاحب آبدیدہ ہو گئے تھے ۔۔۔

۔۔۔۔

۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے سڑک پر چل رہا تھا   بلیک پینٹ پر بلیک لیتھر جیکٹ پہنے ہاتھوں پر بلیک لیتھر گلوز پہنے ۔۔۔ شدید سردی تھی آج پھر وہ گھر سے بھاگ نکلا تھا اسے گھر میں چین نہیں ملتا تھا وہ تنہا رہ گیا تھا ۔۔۔ سامنے سے آتے ہوئے ایک وجود کو دیکھ کر وہ رکا تھا اسکی اسکن کے نیچے اسکے مسلز ٹائٹ ہوئے تھے جبکہ وہ آدمی اسے دیکھتے ہی فوراً وہاں سے بھاگا تھا ۔۔۔

وہ جی جان سے اسے پیچھے دوڑا تھا وہ۔اسکی آخری امید تھا اپنی ڈول تک پہنچنے کی ۔۔۔۔ 

سردی جما دینے والی تھی تنگ گلیوں میں بھاگنے کی آہٹ سنائی دے رہی تھی وہ تیزی سے اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔۔۔ پیچھے دیکھتے ہوئے وہ آدمی کسی شے سے ٹکرا کر گرا تھا ۔۔۔ وہ کسی عقاب کی طرح اس پر جھپٹا تھا ۔۔۔

بول کہاں ہے میری ڈول ۔۔۔ اسکے منہ پر مکا مارتے ہوئے وہ چلایا تھا جبکہ وہ خود کو بچاتے ہوئے پاکٹ سے پسٹل نکال کر اسکے ماتھے پر رکھ گیا تھا

وہ تو مر گئی لڑکے ۔۔۔ وہ خباثت سے کہتا ہوا اسے غصہ دلا چکا تھا ۔۔۔

تیری دوست تھی ہاں ؟ افسوس وہ تو مر گئی اب تجھے بھی اسکے پاس بھیج دیئے دیتا ہوں ۔۔۔ 

وہ لپک کر اسکا بازو پکڑتا ہوا اس سے پسٹل چھین کر اسکے منہ پر مار چکا تھا اسکے ہونٹ سے خون نکلا تھا ۔۔۔

بول کہاں ہے ورنہ تجھے مار دوں گا میں ۔۔۔ اسکے سینے پر دباؤ ڈالتے ہوئے وہ غرایا تھا ۔۔۔ 

دیکھو۔۔۔ ۔۔۔بب۔۔۔بچے گگ۔۔۔گولی چل جائے گی ۔۔۔۔ وہ خوف سے کانپ گیا تھا ۔۔۔

بول ۔۔۔ اسکے منہ پر مکا مارتے ہوئے وہ چیخا تھا

ووو۔۔۔ وہ زندہ سلامت ہے ۔۔۔ وہ وہ ۔۔۔ وہ زندہ ہے ۔۔۔ وہ گڑبڑا کر بولا تھا جبکہ اسکے زندہ ہونے کی خبر سن کر اسکے  سوکھے صحرا سے دل پر بہار سی آئی تھی ۔۔۔ 

وہ اسکی گرفت کمزور ہوتی محسوس کر فوراً اسے دھکا دیکر اٹھتے ہوئے بھاگا تھا ۔۔۔ 

سنسان اندھیری رات میں گولی چلنے کی آواز گونجی تھی ۔۔۔ وہ کراہتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے زمین پر گرا تھا ۔۔۔ وہ پسٹل دیکھتے ہوئے شل قدموں کیساتھ اسکی ساکت پڑی لاش تک آیا تھا پسٹل کو پاس بہتی ندی میں پھینکتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ گیا تھا آج اس چودہ سال کے لڑکے نے پہلا خون کیا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ 

                                         ✩✩✩✩✩✩

آنکھیں سختی سے کھولتے ہوئے وہ اٹھا تھا گھڑی رات کے ڈھائی بجا رہی تھی ۔۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا سائڈ لیمپ روشن کرتا ہوا وہ سنجیدگی سے چل کر ونڈو سے پردہ اٹھا گیا تھا ۔۔۔

ٹھنڈی کپکپا دینے والی سرد ہوا اسے مظبوط وجود سے ٹکرائی تھی ۔۔۔ وہ سکوں سے آنکھیں میچتا ہوا گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا ۔۔۔ سامنے اندھیرے شہر میں چھوٹی چھوٹی روشنیاں جل رہی تھی ۔۔۔

وہ امریکہ آ گیا تھا اسے چھوڑ کر ۔۔۔ وہ خود کو اسکی اس حالت کا زمہ دار ٹھہرا رہا تھا پل پل خود کو کوس رہا تھا کہ یہ سب اسکی وجہ سے ہو رہا ہے خود کو اس سے دور رکھ کر سزا دینا چاہتا تھا وہ سوچتا تھا وہی گناہ گار ہے جس کے گناہوں کی سزا وہ معصوم بھگت رہی ہے ۔۔۔

۔۔۔۔۔

رات یوں دل میں تیری کھوئی یاد آئی ۔۔۔۔

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے ۔۔۔

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم ۔۔۔

جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے ۔۔۔۔

خشک صحرا سی میری دنیا میں تیرا یوں آنا ۔۔۔۔

جیسے اندھیری گلیوں میں خود آفتاب آ جائے ۔۔۔۔۔

جیسے ویران سوکھی بنجر زمین پر معجزے سے ۔۔۔۔۔

کیسے کسی برسوں پرانے پیڑ پر  گلابی حسیں بہار آ جائے ۔۔۔۔۔

میری تنہا راتوں کو تیری یادوں کا اس قدر حسیں بنانا۔۔۔۔۔

جیسی تپتی دھوپ میں پھر ٹھنڈی ہوا آ جائے ۔۔۔۔۔

جیسے طوفان میں بھٹکے مسافر کو ۔۔۔۔۔

سر چھپانے کو میسر پناہ گاہ آ جائے ۔۔۔۔۔

تیرا اس قدر ٹوٹ کر مجھے چاہنا چائے ۔۔۔۔۔

جیسے صدیوں سے پیاسے کو میسر آب حیات آ جائے۔۔۔۔۔

تیرے عشق کا یوں میری نس نس میں بس جانا زارا ۔۔۔

جیسے غم کے طلبگار کو شدت سے ملال آ جائے ۔۔۔۔۔

وہ سوچوں میں گم پھر کہیں اپنا ماضی دیکھنے میں غرق ہوا تھا ۔۔۔

۔۔۔

 وہ سپاٹ نظروں سے مسجد کے باہر کھڑا تھا جبکہ سہیل صاحب پریشانی سے  اسکی طرف دیکھ رہے تھے 

ہم اندر نہیں جائیں گے ۔۔۔  وہ ایک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے سرد لہجے میں بولا تھا جس پر سہیل صاحب نے اسکا بازو پکڑا تھا

کیا بدتمیزی ہے یہ مرجان ۔۔۔۔ 

میں تب تک انکے پاس حاضر نہیں ہو سکتا جب تک یہ مجھے میری ڈول سے نہیں ملا دیتے ۔۔۔ 

سہیل صاحب نے اسکی بازو پر گرفت مظبوط کی تھی وہ چھوٹا سا لڑکا آخر کہنا کیا چاہتا تھا 

بدتمیزی مت کرو مرجان چلو نماز کا وقت ہو رہا ہے ۔۔۔ سہیل صاحب اسے زبردستی اندر لیجانا چاہتے تھے ۔۔۔

نہیں جاؤں گا میں ۔۔۔ وہ چلاتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔ 

سہیل صاحب نے آج پھر اس پر ہاتھ اٹھا دیا تھا ۔۔۔

نہیں جاؤں گا ۔۔۔ کبھی نہیں ۔۔۔ کچھ نہیں مانگوں گا ان سے میں ۔۔۔۔ مجھے میری ڈول سے انہوں نے دور کیا ہے ۔۔۔۔ وہ سرد لہجے میں کہتا ہوا پیچھے ہٹتا چلا گیا تھا ۔۔۔

مرجان۔۔۔ 

سہیل صاحب چلائے تھے ۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا تھا ۔۔۔ 

آیک سرد آہ بھرتے ہوئے وہ آسمان کی جانب دیکھ گیا تھا ۔۔۔

" ہاں تب میں غلط تھا" 

وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا 

"مجھے میری روح سے ملانے والی پاک ذات آپکی ہے مولا ۔۔۔ میں کیسے بھول گیا میں تو کافر ہو گیا تھا عشق میں ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس گناہگار پر آپ نے کرم فرمایا مجھے میرا سب کچھ لوٹا دیا "

وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا 

اس امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا ۔۔۔ میں نے کفر چنا تھا اندھیروں کو چنا جہالت چنی ۔۔۔ لیکن یا الٰہی ۔۔۔  تیرے کُن کا محتاج یہ گناہگار انسان آج اپنی ہمت ہار بیٹھا ہے ۔۔۔ وہ میرے پاس ہے مگر بےحد دور ہے ۔۔۔ میں نے پچھلے تیرہ سالوں میں تیری عبادت نہیں کی ۔۔۔ پھر بھی اس گناہگار پر اتنا کرم مجھے میری بےجان زندگی میں روح پھونک دی ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے آنکھیں بند کر گیا تھا ۔۔۔

مولا تو رحیم ہے ۔۔۔ اسکی ہیزل آنکھوں سے آنسوں موتی کی طرح گر رہے تھے آج اسکی محبت نے اسکے اور اسکے رب کے درمیان سارے فاصلے مٹا دیئے تھے جس محبت کی خاطر وہ اس ہستی سے دور ہوا تھا اسی محبت کی خاطر آج وہ اس ہستی کے بےحد قریب پہنچا تھا ۔۔۔

وضو کرنے کے بعد وہ نمازِ تہجد کے لئے جائے نماز بچھا کر اللہ کے حضور تیرہ سال بعد سجدہ دے چکا تھا ۔۔۔

دعا میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسکے ہاتھ کانپے تھے ۔۔۔ اسنے اپنے کانپتے ہاتھوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔

"اسے ان تمام اذیتوں سے نکال دے مولا جو میں نے جانے انجانے میں اسے دی ہیں اسے ان تمام مشکلوں کے گھیراؤ سے آزاد فرما جن میں وہ معصوم روح جگڑی ہوئی ہے ۔۔۔ اس پر آنے والی ہر مصیبت کو  پہلے مجھ سے گزار ۔۔۔ اسے تندرستی عطا فرما "

                                      ✩✩✩✩✩✩

ڈاکٹر پیشنٹ کو بہت پسینہ آ رہا ہے ۔۔۔ 

نرس کی بات سن کر ڈاکٹر کمرے میں آئے تھے وہ بری طرح پسینے میں شرابور تھی ۔۔۔ وہ بےحوشی میں سسک رہی تھی 

______ســر !! 

تعبیر چیختے ہوئے اسکی سمت بھاگی تھی ۔۔۔ 

گولی چلنے کی آواز ویرانے میں گونجی ۔۔۔

وہ دونوں زمین پر گرے تھے ۔۔۔ وہ تعبیر کو تھامتے ہوئے گرا تھا۔۔۔ تعبیر نے  خوف سے آنکھیں بھینچی تھی  گارڈ نے اٹھتے ہوئے دوسری گولی مرجان کے کندھے پر ماری تھی ۔۔۔____

نہییییں !!

وہ چیختے ہوئے یکدم سے اٹھی تھی ۔۔۔

ڈاکٹر نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا وہ سینے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بری طرح کانپ رہی تھی ۔۔۔

نرس نے پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا تھا ۔۔۔

مرجان ۔۔۔ کک۔۔۔کہاں ہے۔۔۔ وہ ۔۔۔ کک۔۔کہاں ہے ۔۔۔ وہ 

وہ کانپتے ہاتھوں کیساتھ نرس کے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔

وہ۔۔۔ سر 

وہ ۔۔۔ وہ ٹھیک ہیں ناں ۔۔۔ کک۔۔۔۔ کیا ۔۔کچھ ہوا ہے ۔۔۔

دیکھیں آپ پلیز ریسٹ کریں آپکو ابھی ہوش آیا ہے ۔۔۔

نہیں۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کانپتے ہوئے وجود کیساتھ اٹھی تھی 

میم آپ گر جائیں گی آپ پچھلے کئی دنوں سے کوما میں تھی پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اسکا نمبر ڈائل کیا تھا وہ نماز پڑھ کر ابھی فارغ ہی ہوا تھا جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجی تھی ۔۔۔  وہ جائے نماز رکھتے ہوئے موبائل سنجیدگی سے دیکھ کر کال کنیکٹ کر چکا تھا ۔۔۔

سر میم کو ہوش آ گیا ہے مگر کسی کی بات نہیں سن رہی مسلسل آپکا پوچھ رہی ہیں ۔۔۔ ڈاکٹر نے جلدی سے بتایا تھا

اسکے دل کو قرار آیا تھا سن کر دوسری طرف وہ اسکی لاپرواہی سن کر سنجیدہ ہوا تھا ۔۔

میم پلیز بات سنیں ۔۔۔ نرس کی آواز اسنے فون پر بھی سنی تھی ۔۔۔ 

نہیں ۔۔۔ ہمیں ابھی انکے پاس لیکر چلو

 وہ بےصبری سی پوچھ رہی تھی اسکی آواز سن کر اسکے بےسکوں وجود میں سکوں کی لہر دوڑ گئی تھی ۔۔۔

میم پلیز رک جائیں آپ ٹھیک سے نہیں چل پا رہی ۔۔۔نرس منتیں کر رہی تھی وہ جلدی سے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے باہر نکلی تھی ۔۔۔

وہ کال ڈسکنیکٹ کرتا ہوا ندیم کو کال کر چکا تھا ۔۔۔  اسے فلائٹ کی ٹکٹ بک کرنے کا کہہ کر وہ پیکنگ میں مصروف ہوا تھا اسے جلدی پہنچنا تھا واپس۔۔۔۔

اسکے کمرے کا دروازہ جلدی سے کھول کر وہ اندر آئی تھی براؤن آنکھوں میں خوف اور پریشانی تھی پورے کمرے میں اسے ڈھونڈتے ہوئے وہ دیوار پر لگے اسکے پورٹریٹ کے پاس رکی تھی ۔۔۔

پرکشش ہیزل گرے آنکھیں دنیا جہاں کی سرد روی آنکھوں میں سموئے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ لرزتا ہوا ہاتھ وہ اسکے پورٹریٹ پر پھیر رہی تھی بڑے بڑے نین کٹوروں میں آنسوں کا جھرنا بہتا چلا گیا  پریشانی سے لب کاٹتی ہوئی وہ اسکی آنکھوں کو انگلیوں کے کناروں سے چھوتی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔۔۔

لڑکھڑاتے قدموں کیساتھ وہ اسکی دوسرے پورٹریٹ کے پاس آئی تھی وہی سردپن تھا آنکھوں میں ،، وہی کشش تھی وہی بےحد حسیں نقوش چہرے پر واضح تھے ۔۔۔ بیڈ کے پیچھے بھی اسکا ایک بہت بڑا پورٹریٹ تھا سنہری بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔ ہلکی مسکان تھی اسکے حسیں لبوں پر ۔۔۔ نم آنکھوں کیساتھ چلتی ہوئی وہ بیڈ کر قریب رکی تھی جب اسکی نظر سائڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ کی مدھم روشنی میں پڑی ڈائری پر پڑی ۔۔۔ 

ڈائری اٹھاتے ہوئے وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی ۔۔۔ کمرے میں اسکے پرفیوم کی ہلکی محسور کر دینے والی مہک تھی جس سے وہ بخوبی واقف تھی ۔۔۔ جو اسے اسکی موجودگی کا احساس دلانا چاہ رہی تھی ۔۔۔  ڈائری کو پہلا صفحہ نکالتے ہوئے وہ مسکرائی تھی جس پر اسکی بچپن کی فوٹو تھی ۔۔۔ محبت سے اسکے معصوم نقوش پر انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ اگلا صفحہ نکال چکی تھی ۔۔۔ 

"آج پھر اسکی یادوں نے گھر سے باہر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ڈیڈ نے آج پھر  بھاگ جانے کی وجہ سے مارا ۔۔۔ لیکن وہ اذیت اس درد سے کہیں بڑی ہے"

پہلی سطر پڑھ کر اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا یہ تب کی بات تھی جب اسے کڈنیپ کیا گیا تھا وہ اسکے بغیر گھر میں نہیں رہ پاتا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں سے ایک چمکتا ہوا موتی ڈائری کے صفحہ پر گرا تھا ۔۔۔ 

وہ اگلہ صفحہ نکال کر پڑھ رہی تھی ۔۔۔ 

"مار دیا میں نے آج اس گھٹیا شخص کو جو اسے مجھ سے دور کرنے کا ذمہ دار تھا ،، لیکن وہ مجھے ابھی تک نہیں ملی ۔۔۔۔ "

__سنسان اندھیری رات میں گولی چلنے کی آواز گونجی تھی ۔۔۔ وہ کراہتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے زمین پر گرا تھا ۔۔۔ وہ پسٹل دیکھتے ہوئے شل قدموں کیساتھ اسکی ساکت پڑی لاش تک آیا تھا پسٹل کو پاس بہتی ندی میں پھینکتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ گیا تھا__

وہ کانپتا ہوا ہاتھ ہونٹوں پر دیکر حلق میں اٹکے آنسوں کو دھکیل کر کانپ کر رہ گئی تھی ۔۔۔ اسنے خون کیا تھا ۔۔۔

مم۔۔۔ما۔۔۔۔ر۔۔۔ڈڈ۔۔۔الا۔۔۔اسے 

وہ سسکتے ہوئے بمشکل بولی تھی 

کک۔۔۔کیسے ۔۔۔ما۔۔۔۔ر سک۔۔۔تے۔۔۔ہو۔۔۔تم۔۔۔کسی ۔۔۔کو 

وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ ڈائری کو مظبوطی سے پکڑ کے سینے سے لگاتے ہوئے اسکے پورٹریٹ کو دیکھتے ہوئے بولی تھی ،، ۔۔۔۔

میم ۔۔۔ پلیز آپ واپس چلیں ۔۔۔

نرس کمرے میں آئی تھی مگر اسکا آنسوں سے بھیگا چہرہ دیکھ کر دروازے پر ہی رک گئی تھی ۔۔۔

نہ۔۔۔نہیں۔۔۔ہم۔۔۔ یہیں۔۔۔رکیں گے ۔۔

آنسوں پونچھتے ہوئے وہ ڈائری کو مظبوطی سے پکڑتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔

اگر آپکو کچھ چاہیے ہو تو آپ آواز دیجیے گا میں باہر ہی ہوں۔۔۔ سر کچھ دیر میں پینچ جائیں گے یہاں  ۔۔۔ نرس کہہ کر واک آؤٹ کر گئی تھی وہ لب بھینچتی ہوئی دوبارہ ڈائری کو کھول چکی تھی ۔۔۔۔

"اسے بھولنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں نہیں بھول پا رہا ۔۔۔ مجھے نفرت ہو گئی ہے اس گھر سے جس میں تم صرف اپنی یادیں چھوڑ گئی ہو ۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا اس قدر خاص ہو میرے لئے کہ مجھے تمھارے بغیر یہ دنیا خالی نظر آئے گی ۔۔۔ میں ذہن سے عاری ہو رہا ہوں تمھاری وہ معصوم کھلکھاہٹیں میرے دماغ میں گونجتی ہیں مجھے تکلیف دیتی ہیں ۔۔۔۔ میں کچھ نہیں کر پا رہا ۔۔۔ کیسی کسک دے گئی ہو دل پر رہ رہ کر تڑپ رہا ہوں ۔۔۔ "

ڈارک براؤن آنکھوں میں آنسوں تیرتے ہوئے اسکے رخساروں  سے بہتے ہوئے اسکی ڈائری پر گر رہے تھے ۔۔۔ 

اگلا صفحہ نکالتے ہوئے وہ آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے رکی تھی "

"مار دیا آج اس انسپیکٹر کو "

وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ ہاتھوں سے گرتی ڈائری تھام گئی تھی "

"ڈیڈ کیساتھ آج پولیس اسٹیشن گیا تھا ہمیشہ کی طرح وہ انسپیکٹر بہانے بنا رہا تھا وہ کہہ رہا تھا میری ڈول اس دنیا میں نہیں رہی ۔۔۔ وہ اسکے ہونے پر شک کر رہا تھا ۔۔۔ ڈیڈ مجھے لیکر آج پھر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے تھے ۔۔۔ میں آج پھر گھر سے نکل گیا تھا ۔۔۔ اسکے گھر گیا تھا میں ۔۔۔ وہ کسی سے فون پر پیسوں کی بات کر رہا تھا ۔۔۔۔ اسے انویسٹیگیشن نہ کرنے کے لئے لاکھوں روپے دیئے گئے تھے ۔۔۔ میں نے اسے گولی مار دی " 

کوئی حق نہیں اسے جینے کا ۔۔۔

اسے اپنا سانس رکتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا وہ چودہ سال کی عمر میں دو قتل کر چکا تھا اسکے لئے۔۔۔

نہ۔۔نہیں۔۔۔یی۔۔۔یہ۔۔۔نہیں۔۔۔ہو۔۔۔سکتا 

خوف سے کانپتے ہوئے وہ ڈائری بیڈ پر رکھتی ہوئی اٹھی تھی ۔۔۔ 

تت۔۔۔تم۔۔۔۔خخ۔خون۔۔۔کک۔۔۔کیسے۔۔۔کرسکتے۔۔۔ہو ۔۔۔ خونی۔۔۔ہو ۔۔تم

وہ لرز گئی تھی سائڈ ٹیبل پر پڑے فون کی رنگ ٹون سن کر ۔۔۔

کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ وہ فون اٹھا کر کان سے لگا گئی تھی ۔۔۔

سر جیسا کہا تھا کر دیا ۔۔۔ ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیئے ہیں ۔۔۔ 

فوٹوز بھیجی ہیں دیکھ لیں ۔۔۔ کال ڈسکنیکٹ ہوئی تھی وہ لرزتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ فون کو دیکھ گئی تھی

ہ۔۔۔ہہ۔۔۔ہہہ۔۔۔۔ہہہ 

خوف سے  ہانپتے ہوئے وہ خون میں بھرے ہوئے وجود دیکھ کر فون پھینک چکی تھی

وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی چیخ کا گلہ گھونٹ گئی تھی۔۔۔۔ 

اتنے بےرحم کیسے ہو سکتے ہو تم مرجان کاظمی ۔۔۔ وہ ڈائری اٹھا کر نیچے پھینکتے ہوئے چیخی تھی ۔۔

ڈائری سے کچھ فوٹوز نکل کر گری تھی ۔۔۔ وہ ڈگمگاتے قدموں کیساتھ نیچے بیٹھتے ہوئے ان فوٹوز کو اٹھا کر دیکھ گئی تھی ۔۔۔

پہلی فوٹو اس آدمی کی تھی جسے وہ مار چکا تھا ۔۔۔ دوسری فوٹو اس انسپیکٹر کی تھی جو خون سے بھری وردی میں آنکھیں کھولے لاش میں تبدیل ہوا تھا ۔۔۔  تیسری فوٹو میں ایک اور آدمی تھا جس کی ٹانگ پر گولیاں ماری گئی تھی ۔۔۔ وہ پہنچان نہیں پا رہی تھی ۔۔۔ مگر وہ اسے جانتی تھی ۔۔۔

پپ۔۔۔پرنسپل

وہ فوٹو پھینکتی ہوئی اٹھی تھی ۔۔۔ ایک اور فوٹو سامنے آئی تھی جس میں ملک شہوار کا چیرا پھاڑا وجود دیکھ کر وہ کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخ گئی تھی ۔۔۔ 

نرس بھاگتے ہوئے اندر آئی تھی ۔۔۔ وہ رکتی ہوئی سانسوں کیساتھ زمین پر گر کر تڑپ رہی تھی ۔۔۔

ڈاکٹر ۔۔۔ نرس اسکی حالت دیکھ کر چیخی تھی ۔۔۔ ڈاکٹر جلدی سے اندر آئے تھے اسکے نیلے پڑتے ہونٹ اور اسکا ٹھنڈے پسینے میں شرابور وجود دیکھ کر وہ بےحد پریشان ہوئے تھے ۔۔ 

پینک اٹیک آیا ہے ٹیک ہر ٹو بیڈ ۔۔۔ 

نرس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹایا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر نے آکسیجن ماسک لگا کر اسے پرسکوں کیا تھا اسکی آنکھوں سے آنسوں جھرنے کی طرح بہہ رہے تھے ۔۔۔ 

ندیم جلدی سے کمرے میں آیا تھا نیچے گری ڈائری اور فوٹوز دیکھ کر وہ شل قدموں کیساتھ آگے بڑھ کر وہ اٹھاتا ہوا اپںے کوٹ کی جیب میں رکھ کر وہاں سے جلدی سے واک آؤٹ کر گیا تھا ۔۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

ISI Military Intelligence  Secret _Office:- Unknown Place

آر یو شور آباوٹ دیٹ ؟؟ 

یس سر ۔۔۔ انفارمیشن بالکل درست ہے ملک شہوار ٹیررسٹ یونٹ کی سرگرمیوں میں ملوث تھا ۔۔۔ ایک  آرمی یونیفارم میں ملبوس آفیسر ایک فلیش ڈرائیو لیپ ٹاپ میں لگا کر سینیئر آفیسر کے سامنے رکھتے ہوئے بولا تھا 

آفس میں بیٹھے سب آفیسرز کی نظریں لیپ ٹاپ پر مرکوز ہوئی تھی ۔۔۔

لیکن اسے کسی نے بری طرح موت کے گھاٹ اتار دیا اسکی باڈی ملی تو جسمانی اعضاء جسم سے الگ تھے ۔۔۔ جسم کا سارا خون نکال لیا گیا تھا۔۔ جیسے کسی جانور نے چیر پھاڑ دیا ہو ۔۔۔

سینیئر آفیسر مسکرایا تھا اسکی بات سن کر ۔۔۔

اتنی بےدردی سے کون مار سکتا ہے سر اور آپ مسکرا کیوں رہے ہیں ؟ دوسرے آفیسر نے اس بزرگ سینئر آفیسر کی جانب دیکھ کے اچھنبے سے پوچھا تھا ۔۔۔

یقیناً آپ ہم سے کچھ چھپا رہے ہیں سر ۔۔۔ تیسرا آفیسر مسکراتے ہوئے شہوار کی فوٹو دیکھ کر بولا تھا ۔۔۔

ایک ایک کر کے وہ سب لوگ اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کی خوشحالی کو برباد کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ وہ بزرگ سینئر آفیسر مسکراتے ہوئے مظبوط لہجے میں بول کر اٹھے تھے ۔۔ 

لیکن جنرل یہ کون کر رہا ہے اتنی بےدردی سے کون مار سکتا ہے کسی کو ۔۔۔ دوسرا آفیسر پریشانی سے دریافت کر رہا تھا ۔۔۔

ہمیں ایک ویڈیو ریسیو ہوئی ہے اور یہ ویڈیو ہمیں کراچی کے پولیس اسٹیشن سے انسپیکٹر ہاشم نے بھیجی ہے۔۔۔ جو اسٹیٹ پولیس اسپیشل برانچ سے ہمارے ساتھ اس مشن میں کام کر رہا ہے  ۔۔۔ یونیفارم میں ملبوس آفیسر لیپ ٹاپ پر ویڈیو چلاتے ہوئے بولا تھا ان بزرگ سینئر آفیسر کے علاوہ سب نے غور سے ویڈیو کو دیکھا تھا ۔۔۔

کیا ؟ اسے ڈیمن نے مارا ہے لیکن وہ خود ایک بہت بڑا مافیا لیڈر ہے ۔۔۔ تیسرا آفیسر پریشانی سے اٹھتے ہوئے بولا تھا 

حاشم کے مطابق وہ اس ڈیمن تک پہنچ چکا ہے وہ جانتا ہے یہ کون ہے بہت جلد وہ ہمارے قبضے میں ہو گا پھر ایک ایک لفظ کا جواب ہمیں دنیا کا سب سے بڑا گینگسٹر خود دیگا ۔۔۔ یونیفارم میں ملبوس آفیسر نے سنجیدگی سے بتایا تھا سینیئر آفیسر جنرل کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہرائے تھے ۔۔۔ 

باقی آفیسرز ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے کام میں مصروف ہوئے تھے ۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

مسٹر مرجان کاظمی۔۔

وہ اپنے پیچھے سے آتی ہوئی آواز پر کان سے فون ہٹاتے ہوئے سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا 

یو آر انڈر اریسٹ ۔۔۔۔

انسپیکٹر ہاشم نے اسکے چہرے کے سامنے ہتھ کڑی لہرائی تھی جس پر وہ الٹا مسکرایا تھا

تم جانتے نہیں میں کون ہوں ۔۔۔ وہ بیگ کے ہینڈل سے ہاتھ نکالتے ہوئے ہتھ کڑی پکڑ کر انگلیوں میں گھماتے ہوئے مسکرایا تھا جس پر ہاشم طیش میں آگیا تھا۔۔۔

تم ایک گینگسٹر ایک کریمنل ہو ۔۔۔ شہوار کا خون کیا ہے تم نے اسکا میرے پاس ثبوت ہے اسکے علاوہ تم نے بیس لوگوں کو اکیلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جسکا حساب میں تمھاری ایک ایک ہڈی توڑ کر لوں گا ۔۔۔ انسپیکٹر ہاشم نے دانت پیستے ہوئے کہا وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا 

ایئر پورٹ پر تماشا بنا کر کیا کرنا چاہتے ہو ؟ آس پاس دیکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بولا تھا

کاپریٹ کرو ۔۔۔ ورنہ یہاں میڈیا اکھٹی ہو جائے گی اور کاظمی خاندان کا نام خراب ہو جائے گا آپ ایسا چاہیں گے مسٹر مرجان کاظمی ؟ انسپیکٹر ہاشم کے طنزیہ سوال پر وہ سنجیدگی سے ہاتھ آگے بڑھا چکا تھا وہ اسکے ہاتھ میں ہتھ کڑی ڈالتے ہوئے باقی دو  پولیس آفیسرز کیساتھ جو سمپل سوٹ میں ملبوس تھے جیپ میں بیٹھتے ہوئے پولیس اسٹیشن کی طرف جیپ کو دوڑا چکا تھا ۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

حرب سنجیدگی سے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب زنیرا کے فون کی رنگ ٹون بجی وہ نیند میں کسمسا کر منہ پر بلینکٹ ڈال کر کروٹ بدلتے ہوئے سو گئی تھی ۔۔۔ وہ سپاٹ سی نظر فون پر ڈال کر دوبارہ کام میں مصروف ہوا تھا 

بیپ بیپ ۔۔۔

میسج آنے کی بیپس پر وہ ایک بار پھر اسکے فون کی جانب دیکھ چکا تھا جس پر دوبارہ کال آ رہی تھی ۔۔۔ وہ لیپ ٹاپ گود سے ہٹا کر بیڈ پر رکھتے ہوئے اٹھ کر ٹیبل تک آیا تھا ان نان نمبر سے تیسری بار کال آ رہی تھی وہ سنجیدگی سے زنیرا کی طرف دیکھ گیا تھا جو دنیا جہاں سے غافل گھوڑے بیچ کر سو گئی تھی ۔۔۔

خاموشی سے کال کنیکٹ کرتے ہوئے اسنے فون کان سے لگایا تھا

What's up Baby.... 

اسکی گرفت فون پر مظبوط ہوئی تھی مردانہ آواز میں کہے گئے یہ لفظ سن کر۔۔۔

فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی جانِ من ۔۔۔ اتنا کیوں تڑپا رہی ہو دیدار کے لئے ۔۔۔ کمینگی سے کہتے ہوئے وہ دوسری طرف سے مسکرایا تھا 

حرب کی آنکھوں میں خون اترا تھا ۔۔۔ وہ مٹھیاں بھینچے کھڑا غصہ ضبط کر رہا تھا

کالج آ جاؤ اپنا دیدار کروا لو جانم ۔۔۔ہم تڑپ رہے ہیں ۔۔۔

وہ کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے فون بند کر کے رکھتا ہوا زنیرا پر سے بلینکٹ ہٹا کر ایک ہی جھٹکے میں اسے بازو سے پکڑ کر اٹھا چکا تھا وہ نیم وا آنکھوں سے اسے اتنا قریب دیکھ کر اچھلی تھی ۔۔۔ 

کس کی کالز آ رہی ہیں تمھیں اس وقت اور کون ہے جو تمھارے دیدار کے لئے تڑپ رہا ہے ۔۔۔ اسکا کندھا سختی سے جھنجھوڑ کر وہ اسکی کالی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے بولا تھا 

کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔۔۔۔ وہ پریشانی سے اسکی کالی سیاہ آنکھوں میں دیکھ گئی تھی جن میں بےحد غصہ تھا 

ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔ جو کرنا چاہو کرو لیکن اس وقت تم میری بیوی ہو میرا نام جڑا ہے تمھارے ساتھ ۔۔۔ عزت ہو تم میری ۔۔۔ اگر کچھ ایسا قدم اٹھایا جس سے میرا یا میری فیملی کا نام خراب ہوا میں تمھیں جان سے مار دینے میں دیر نہیں کروں گا۔۔۔ اسکا چہرہ ہاتھ میں جکڑ کر کرخت لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسکا دل تیزی سے دھڑکا چکا تھا ۔۔۔ وہ سہمی ہوئی نظروں سے اسکی سیاہ آنکھوں کو دیکھ گئی تھی ۔۔۔

اسکے کندھے کو سختی سے آزادی بخشتے ہوئے وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے کروٹ بدل کر سو گیا تھا جبکہ زنیرا نے فون اٹھا کر نمبر دیکھا تھا۔۔۔

بےوقوف ایڈیئٹ ۔۔۔ اس وقت فون کیوں کیا ۔۔۔ وہ اسکا نمبر دیکھ کر دل میں اسے گالیاں نکالتے ہوئے واپس صوفے پر لیٹ گئی تھی حرب کی کہی ہوئی ایک ایک بات اسکے ذہن میں گھوم رہی تھی ۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

#قســ۔ـط_۲۳

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

بولو ورنہ ۔۔۔

انسپیکٹر ہاشم مسلسل اسے کوڑے لگا رہا تھا مگر وہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔

اسکے مظبوط کسرتی وجود پر جو زنجیروں سے جکڑا گیا تھا سرخ نشان پڑ گئے تھے  اسکا جسم پسینے میں شرابور تھا جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا مگر اسے پرواہ کہاں تھی

بتاؤ کیا مقصد پے تمھارا ۔۔۔ کس کے لئے کام کر رہے ہو ۔۔۔

زوردار ضرب لگاتے ہوئے وہ چیخ کر پوچھ رہا تھا وہ مسکراتے ہوئے اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ گیا تھا ۔۔۔

باقی پولیس آفیسرز پریشانی سے سب دیکھ رہے تھے آخر کس مٹی کا بنا تھا وہ اتنی مار کھانے کے بعد بھی کچھ نہیں بتا رہا تھا ۔۔۔۔

کیوں مارا شہوار کو مرجان کاظمی بتاؤ ۔۔۔۔ ایک اور زوردار ضرب لگائی گئی تھی وہ مسکرایا تھا ۔۔۔

اسکے مظبوط چوڑے سینے پر کوڑے کی ضرب نے سرخ نشان چھوڑے تھے ۔۔۔ 

کتنے نازک ہاتھ ہیں تمھارے ہاہا ۔۔۔۔چچچ ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر اسکا غصہ اور بڑھا چکا تھا ۔۔۔

وہ لگاتار پورے زور و غصے کیساتھ اس پر کوڑے برسا رہا تھا پولیس آفیسرز حیرانی سے اسکی ہمت دیکھ رہے تھے جو سپاٹ نظروں سے بغیر پلکیں جھپکے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا ۔۔۔

تھک ہار کر غصے سے کوڑے برسا کر جب وہ تھکا تو کرسی پر ڈھے سا گیا ۔۔۔

بس اتنی ہی ہمت تھی ۔۔۔۔ وہ مسکرایا تھا 

تجھے کوئی نہیں بچا سکتا ۔۔۔ جب تک تو جواب نہیں دے ۔۔۔۔

سیل کے اندر آتے ہوئے کانسٹیبل کو دیکھ کر وہ چپ ہوا تھا۔۔۔

وہ خوفزدہ نظروں سے اسکے مظبوط زخمی وجود کو دیکھتے ہوئے انسپیکٹر ہاشم کی جانب دیکھ گیا تھا

کیا ہوا ہے ؟ انسپیکٹر ہاشم نے اٹھتے ہوئے پوچھا

سس۔۔۔سر ان۔۔۔انہیں۔۔۔چھوڑ۔۔۔دیں 

وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کپکپا کر بولا تھا جس پر ہاشم نے اسے سنجیدگی سے دیکھا تھا جو انگوٹھے کی نوک سے ہونٹ سے نکلتا ہوا خون صاف کرتے ہوئے مسکرایا تھا ۔۔۔

کیوں چھوڑ دوں۔۔۔ ہاشم نےدانت پیسے تھے 

سر ۔۔۔ جج۔۔۔جنرل آئے ہیں ۔۔۔ دوسرا پولیس آفیسر سیل سے اسے بتاتے ہوئے فوراً وہاں سے جا چکا تھا

کیوں جنرل تمھارے لئے کیوں آئے ۔۔۔۔ کون ہو تم بتاؤ ۔۔۔۔ ہاشم نے اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئےگڑبڑا کر پوچھا جس پر وہ سپاٹ نظروں سے اسکی آنکھوں میں اپنی سرخ انگار آنکھیں ڈال کر اسے ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر گیا۔۔۔

سس۔۔۔سر یہ ۔۔ یہ آرمی میں ہے ۔۔۔

اسکا پاسپورٹ ہاتھ میں لئے ایک کانسٹیبل ہکلاتے ہوئے اندر آیا تھا جسے کچھ دیر پہلے ہاشم نے اسکے سامان کی تلاشی لینے کے لئے کہا تھا 

Lols ..

وہ فلک شگاف قہقہ لگاتے ہوئے ہنسا تھا ہاشم نے جلدی سے کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ اسکا وجود زنجیروں سے آزاد کیا تھا وہ ٹیبل سے اپنی وائٹ شرٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے ہاشم کو سنجیدگی سے دیکھ گیا تھا جسکے سارے رنگ اڑے ہوئے تھے ۔۔۔

تم سمجھتے ہو یہ جو تم نے مجھے دیا ٹارچر ہے ؟ وہ ہاشم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا 

یہ میرا وارم اپ ہے ۔۔۔ جو میں ہر صبح کرتا ہوں ۔۔۔ بھاری گمبھیر آواز میں کہتا ہوا وہ اسکا پور پور کانپنے پر مجبور کر گیا تھا ۔۔۔ 

ہاشم واٹ نان سینس از دس ۔۔۔ جنرل خود  آ چکا تھا ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے سیدھا ہوتا ہوا سیلوٹ کرتے ہوئے مسکرایا تھا ۔۔۔

کمانڈو۔۔۔ واٹ از دس بوائے ۔۔۔ وہ اسے گرمجوشی سے گلے لگاتے ہوئے افسوس سے بولے تھے جبکہ باقی سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔ ہاشم نے شرمندگی سے نظریں جھکائی تھی ۔۔۔

تمھارا سینیئر آفیسر ہے یہ ۔۔۔ ڈیم اٹ انسپیکٹر ہاشم یو ڈس اپوائنٹڈ می ۔۔۔ جنرل نے سخت لہجے میں کہتے ہوئے اسے اور شرمندہ کیا تھا

اٹس فائن سر ۔۔۔ کچھ خاص درد نہیں ہو رہا ۔۔۔ مرجان مسکراتے ہوئے بولا تھا جس پر جنرل نے اسکے کندھے پر تھپکی دیکر اسے داد دی تھی ۔۔۔

لیٹس گو مائی بوائے ۔۔۔ مرہم پٹی کروا لو۔۔۔۔ اینڈ یو ۔۔ اگلی بار سوچ سمجھ کر انویسٹیگیشن کرنا یہ تمھاری پہلی اور آخری غلطی تھی مسٹر ہاشم ۔۔۔۔ 

یس سر ۔۔۔ وہ شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے بولا تھا 

لیٹس گو کمانڈو ۔۔۔اسے سیل سے نکال کر وہ اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن سے باہر لائے تھے ۔۔۔

شہوار مر چکا ہے ۔۔۔ الہام درانی نیکسٹ ۔۔۔ وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے بتا رہا تھا 

مائی چائلڈ ٹیک ریسٹ ۔۔۔ یو آر ہرٹ ۔۔۔ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ نرمی سے بولے تھے 

ڈیوٹی کیم فرسٹ سر ۔۔۔۔ جب تک اپنے ملک کے ایک ایک غدار کو سزا نہیں دے دیتا سکون سے نہیں بیٹھوں گا ۔۔۔ اور ایسے لوگوں کیلئے میرا قانون الگ ہے ۔۔۔۔ 

آئی ایم پراوڈ آف یو بٹ بی کیئر فل نیکسٹ ٹائم ہمارے ادارے سے کچھ لوگ انکے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔۔۔ یو ہیوٹو فائنڈ دیم ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولے تھے 

نو وریز سر ۔۔۔ایک ایک کو حساب دینا ہو گا ۔۔۔ وہ لہجے میں دنیا جہاں کی سرد روی سموئے بولا تھا 

ناؤ لیٹس گو ۔۔۔ میں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔

سر آئی ہیو ٹو گوسمویئر ایلس ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا ۔۔ 

ویئر مائی بوائے ؟ سب ٹھیک ہے ؟ جنرل نے پریشانی سے دریافت کیا تھا وہ دھیمے سے مسکرایا تھا

آئی انڈرسٹینڈ کمانڈو ۔۔۔ گو اسیپ ۔۔۔  جنرل سب سمجھ میں لا کر مسکراتے ہوئے کارمیں بیٹھ کر وہاں سے جا چکے تھے ۔۔۔ وہ سرد آہ بھرتے ہوئے پاکٹ سے فون نکال کر ایک جانب چل دیا تھا ۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

سر یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔ ندیم نے پریشانی سے پوچھا وہ فرسٹ ایڈ کٹ اٹھائے اسکے سامنے صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔۔

لمبی کہانی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر کو بلاؤ ۔۔۔

آپکے لئے ؟

 ندیم نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا جس پر وہ سنجیدگی سے ایک آئی برو اٹھا گیا تھا بھلا اسے ڈاکٹر کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔

او۔۔۔اوکے ۔۔ ندیم ہاں میں سر ہلا کر ڈاکٹر کو ساتھ لایا تھا 

سر ۔۔۔ آپ نے جو ٹیسٹ کروانے کے لئے کہا تھا وہ سب ہوگئے ہیں ۔۔۔ انکی یاداشت واپس آ چکی ہے یہ سڈن شاک کی وجہ سے ہوا اسکے بعد جس وقفے کے دوران وہ کوما میں رہی انکی میموری ری سٹور ہوتی رہی ۔۔۔ انہیں سب یاد آ چکا ہے اورایک بری خبر ہے ۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے ڈاکٹر کی جانب دیکھ گیا تھا جو اسکی نظروں سے خوفزدہ ہو کر چپ ہوا تھا

انہیں ایسا انجکشن دیا گیا تھا جسکی وجہ سے انکی ہارٹ بیٹ سٹاپ ہو گئی تھی ۔۔۔

وہ مٹھی بھینچتے ہوئے دل میں اٹھتا طوفان قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اسکی آنکھوں میں اترتا خون دیکھ کر ڈاکٹر بولتے ہوئے رکا تھا۔۔۔۔

لیکن دل پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے وہ بچ گئیں ۔۔۔ اٹس اے میریکل ۔۔۔۔ لیکن وہ ابھی ابھی کوما سے باہر آئی ہیں اور انکے ٹیسٹ کرنے سے پتا چلا ہے وہ فوبیا کی وجہ سے پینک کرتی ہیں جسکی وجہ سے انکا مائنڈ بلاک ہو جاتا ہے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں ۔۔۔ وژن بلور ہو سکتا ہے اور فوبیا کی وجہ سے سانس رک سکتا ہے اور یہ استھما کی شروعات ہے اگر حالت بگڑے تو انہیلر استعمال کریں ۔۔۔ اور کچھ میڈیسن ہیں یہ وقت پر دیں کھلی فضا میں رہیں گی تو جلدی ٹھیک ہوں گی ۔۔۔ انہیں سٹریس سے دور رکھیں ۔۔۔ ڈپریشن کی وجہ سے حالت بگڑ سکتی ہے۔۔۔ ڈاکٹر کہہ کر اسکی اجازت لیکر ندیم کیساتھ جا چکے تھے ۔۔۔ 

کبڈ سے سمپل سوٹ لیکر وہ فریش ہونے چلا گیا تھا ۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

چادر کھینچ کر چہرے کو مزید ڈھکتی ہوئی وہ بیک سائڈ سے فارم ہاؤس کے لان تک پہنچی تھی گیٹ پر ٹائٹ سیکیورٹی دیکھ کر وہ گھبراتے ہوئے درخت کے پیچھے چھپی تھی ۔۔۔

سوری۔۔۔ مگر میں آپکے ساتھ نہیں رہوں گی ۔۔۔ کبھی نہیں ۔۔۔ وہ دل میں ہی عہد کرتی ہوئی گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں چار سے پانچ گارڈز اسلحہ اٹھائے گھوم رہے تھے ۔۔۔

کیسے جائیں گے ہم ۔۔۔ اور ہم کہاں جائیں گے یہاں سے ۔۔۔ ہم۔۔۔ہم ۔۔۔کسی دارلامان میں رہ لیں گے ۔۔۔ مگر آپ جیسے بےرحم شخص کیساتھ نہیں رہیں گے ۔۔۔ چادر کے کونے کو مٹھی میں مروڑتے ہوئے وہ ایک قدم آگے بڑھا چکی تھی جب کسی نے سختی سے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسے مخالف سمت کھینچا تھا ۔۔۔ 

آہ۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ چیختی اسکے منہ پر وہ سختی سے ہاتھ رکھتا ہواوہ اسے بازؤں میں اٹھا چکا تھا

خوفزدہ نظروں سے اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر وہ لرز گئی تھی ۔۔۔ سنجیدگی سے اسے لئے وہ اپنے کمرے میں لایا تھا وہ خوف سے کانپ رہی تھی ۔۔۔ اسے بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

ہم۔۔۔ہم۔۔۔اپنے روم۔۔۔میں۔۔۔جانا۔۔۔چاہ۔۔۔تے۔۔۔ہیں

خشک حلق تر کرتی ہوئی وہ مردہ سی آواز میں بولی تھی جس پر وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ گیا تھا ۔۔۔

ہم۔۔۔جج۔۔جاتے۔۔۔ہیں 

رکو۔۔۔

وہ جلدی سے بیڈ سے اتری تھی جلدی سے دروازے کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی وہ جم سے گئی تھی اسکے سرد لہجے پر ۔۔۔

آپ اسی روم میں رہیں گی ۔۔۔ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے وہ حکم دیتا بولا تھا

تم۔۔۔تمھارے ساتھ۔۔۔نہیں۔۔۔رہیں۔۔۔گے ہم

وہ لب کاٹتی ہوئی اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھ لرزتے لہجے میں بولی تھی

وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اسکے سامنے رکا تھا خوف سے قدم پیچھے رکھتی ہوئی وہ دیوار سے لگی تھی 

کیا لگتی ہو تم میری ؟ 

اسے دیوار سے چپکا دیکھ کر وہ ایک ہاتھ دیوار پر رکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کرخت لہجے میں پوچھ رہا تھا 

"کک۔۔۔کزن"

وہ حلق میں اٹکے آنسوں کو جھٹلاتی ہوئی کپکپاتے ہوئے لہجے میں بولی تھی  اسکے جواب پر وہ ضبط سے مٹھی بھینچ کر دیوار پر زور سے مار چکا تھا ۔۔۔

وہ سہمی ہوئی آنکھیں سختی سے میچ گئی تھی آنسوں کا ایک موتی اسکے دہکتے گال سے بہہ کر فرش کی ذینت بنا تھا 

" آپکی بب۔۔۔بیوی ہوں"

وہ لرزتے ہوئے الفاظ میں بمشکل بولی تھی 

" ریمیمبر جسٹ ون تھنگ ۔۔۔۔ بیوی اپنے شوہر کیساتھ رہتی ہے اسکے روم میں ۔۔۔ انڈرسٹینڈ اور یہ بات مجھے بار بار دہرانے پر مجبور کرو گی تو تکلیف تمھیں ہو گی ۔۔۔ 

سلگتے ہوئے لہجے میں کہتا ہوا وہ اسکی سہمی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا وہ لب بھینچتی ہوئی اسی جانب سہمی نظروں سے دیکھ کر محض ہاں میں سر ہلا گئی تھی 

"میرے ساتھ رہنا ہو گا ۔۔۔۔ اور تم نہیں آپ کہنا سیکھو ۔۔۔ شوہر ہوں میں آپکا ۔۔۔۔ اسکے نازک کندھوں کو مظبوطی سے تھام کر وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا وہ سسکی لیتے ہوئے خاموشی سے اسکی ہیزل آنکھوں میں دیکھ گئی تھی جن میں اسکے لئے بےپناہ جنون اور عشق کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ۔۔۔

"جج۔۔۔جی" 

وہ بمشکل بھرائی ہوئی آواز میں اتنا کہہ پائی تھی دل بےحد شدت سے دھڑک رہا تھا اسے اتنا قریب دیکھ کر "

وہ سنجیدگی سے دیوار سے ہاتھ ہٹا کر پیچھے ہٹا تھا اسکے ہاتھ پر زخم ہو چکا تھا جو کچھ دیر پہلے وہ ضبط نہ کرنے کی صورت میں مٹھی بھینچ کر خود کو ہی دے چکا تھا 

"سس۔۔سر۔۔۔ مر۔۔۔مرجان "

اسکی سخت گھوری پر وہ جلدی سے اپنے بولے الفاظ واپس لیکر انکی درستگی کرتی ہوئی سٹپٹا گئی تھی

"ایک بات یاد رکھنا اب تک میں محبت سے پیش آتا رہا ۔۔۔ صرف میری محبت دیکھی ہے آپ نے ۔۔۔ لیکن آج آپ نے بھاگنے کی کوشش کی مجھ سے دور جانے کی کوشش کی میری زارا کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ یہ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا " 

اسکے چہرے پر جھکتا ہوا وہ سرگوشیانہ انداز میں بولا جبکہ اسکی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی ہوئی وہ لرز گئی تھی ،، نازک وجود لرز اٹھا تھا اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی دل بےتحاشہ دھڑک رہا تھا

"جان لے لوں گا انڈرسٹینڈ " 

اسکے چہرہ کو ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسے بتا رہا تھا ۔۔۔ براؤن آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے ۔۔۔ سارے بند توڑ کر آنسوں موتیوں کی طرح اسکے سرخ دہکتے گالوں پر بہہ نکلے تھے وہ ہچکی لیتے ہوئے سسکی تھی ۔۔۔ لمبا سانس لیتی ہوئی وہ سینے پر ہاتھ رکھ گئی تھی ۔۔۔ اسکی بگڑتی حالت دیکھ کر وہ پریشانی سے پیچھے ہٹا تھا ۔۔ ۔

ہم۔۔۔ہمیں۔۔۔ وہ ۔

وہ اکھڑتی سانسوں کیساتھ تڑپتے ہوئے اسکے کندھے پر سر گراتے ہوئے سسکی تھی ۔۔۔ وہ جلدی سے اسے تھام کر بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے ڈرار سے انہیلر نکال کر کانپتے ہاتھوں کیساتھ اسکے ہونٹوں سے لگا چکا تھا ۔۔۔

ہہہ۔۔۔ہم۔۔۔یں۔۔۔ سان۔۔س نہ۔۔۔یں۔۔۔

ریلیکس ۔۔۔ جسٹ بریتھ ۔۔۔ سانس لیں ۔۔۔ 

اسکا کانپتا ہوا نازک ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھوں میں تھامتے ہوئے وہ اسے کمپوز کرنے کی کوشش کر رہا تھا ہیزل  گرے آنکھوں میں بےچینی تھی ۔۔۔ فکر تھی ۔۔۔ سنجیدگی تھی ۔۔۔ 

انہیلر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے وہ لمبی سانس لیتی ہوئے اکھڑتی سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسکا لرزتا ہوا وجود دیکھ کر وہ بےحد تڑپ رہا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں کامل عشق تھا ۔۔۔ بےپناہ شدت تھی ۔۔۔ 

وہ دھیرے سے انہیلر ہونٹوں سے ہٹاتے ہوئے اپنا  کانپتا ہاتھ اسکے ہاتھ سے ہٹا چکی تھی ۔۔۔ مگر وہ ابھی تک لرز رہی تھی اسکے ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے پڑ چکے تھے آنکھوں سے آنسوں بےتحاشہ جھڑکیوں کی طرح گر رہے تھے ۔۔۔۔

سوری ۔۔۔ جسٹ فارگیو می ۔۔۔ اسے سینے میں بھینچتے ہوئے وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے کرب سے دل پر لگی کسک کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا آج پھر اسکی محبت نے اسے تکلیف میں مبتلا کر دیا تھا ۔۔۔ 

وہ لب کاٹتی ہوئی آنکھیں بند کر گئی تھی اسکے آنسوں کی ایک بوند اسکے ہاتھ کی پچھلی جانب موجود تل پر گری تھی ۔۔۔ وہ اسکا آنسوں ہتھیلی پر لیتے ہوئے ہتھیلی بند کرتے ہوئے اسکے بالوں پر لب رکھتے ہوئے سرد آہ بھر گیا تھا ۔۔۔

وہ بری طرح کانپتے ہوئے اسکے مظبوط حصار سے نکلنے کے لیے مچلی تھی ۔۔۔ 

پلیز۔۔۔ہمیں۔۔۔جانے ۔۔۔دیں ۔۔۔ہمیں۔۔۔نہیں۔۔۔رہنا۔۔۔آپکے۔۔۔ساتھ 

وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی ہوئی پیچھے ہوئی تھی وہ جو کب سے ضبط کر رہا تھا سرخ انگار آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے چھوڑ چکا تھا ۔۔۔

وہ کانپتے ہوئے قدموں کیساتھ اس سے پیچھے ہٹتی چلی گئی تھی ۔۔۔ وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے  بیڈ سے اٹھا تھا ۔۔۔ 

ڈرتی ہو مجھ سے ۔۔۔ 

وہ سرد لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔

آپ پیار کے لائق نہیں ہیں ۔۔۔ 

وہ نظریں جھکاتے ہوئے  ٹوٹے لہجے میں بولی تھی 

اسے اپنے دل پر لگتی ٹھیس محسوس ہوئی تھی ۔۔۔ 

ہم۔۔۔۔ہم کچھ بھی ضائع نہیں کر رہے ۔۔۔ نہ زندگی کو ۔۔۔نہ وقت کو ۔۔۔نہ اپنے آپ کو ۔۔۔ 

وہ نظریں جھکائے بول رہی تھی وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سن رہا تھا

اگر ہم آپکو یاد رکھے ہوئے ہیں تو صرف اس لئے ۔۔۔ کیونکہ ہم اپنے بچپن کے دوست کو بھلا نہیں سکتے ۔۔۔ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے ۔۔۔ لیکن آپکے اندر کے بیسٹ سے ہمیں بےحد نفرت ہے ۔۔۔ 

رو کر کہتی ہوئی وہ دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی ۔۔۔

اسلی ہیزل آنکھوں میں چمک سی ابھری تھی ۔۔۔۔ سرد آہ بھرتے ہوئے وہ مٹھی بھینچ کر سختی سے دیوار پر مار چکا تھا ۔۔۔

اسکے ہاتھ پر گہری چوٹ آئی تھی ۔۔۔ دروازے سے پشت لگاتے ہوئے وہ حلق سے نکلتی سسکیوں کو دبا گئی تھی ۔۔۔  آنکھوں میں آنسوں کا سمندر تھا مسلسل رونی کی وجہ سے اسکی آنکھیں سوجھ چکی تھی ۔۔۔  

مرر کے سامنے پڑا سارا سامان الٹتے ہوئے وہ دھاڑا تھا ۔۔۔ 

سہمی ہوئی وہ دروازے سے اٹھی تھی ۔۔۔ چیزیں ٹوٹنے کی آواز آئی تھی ۔۔۔ ندیم جلدی سے اندر آیا تھا ۔۔۔ وہ اسکے پیچھے سہمی ہوئی آندر آئی تھی ۔۔۔

جسٹ گیٹ آؤٹ ندیم ۔۔۔

وہ بھاری غراہٹ دار لہجے میں بولا تھا ندیم الم کی کیفیت میں پیچھے ہوا تھا ۔۔۔۔

وہ آنکھیں پونچھتی ہوئی اسکی جانب بڑھی تھی وہ غصے سے لرزتے ہاتھوں کو دیوار سے لگائے آنکھیں میچے کھڑا تھا ۔۔۔ ندیم نے اسے اشارے سے روکا تھا وہ جانتا تھا کس قدر جنونی انسان تھا وہ ۔۔۔ 

وہ سن ہوتے قدموں کیساتھ اسکے برابر رکی تھی اسکی موجودگی سے بےخبر وہ کانپتے ہاتھوں کی مٹھی بھینچتے ہوئے ایک بار پھر دیوار پر مار گیا تھا ۔۔۔

وہ اسکا درد محسوس کرتے ہوئے آنکھیں میچ گئی تھی ۔۔۔ ندیم کمرے سے جاچکا تھا ۔۔۔ 

پلیز ۔۔۔ خود کو۔۔۔۔۔۔چوٹ مت پہنچائیں ۔۔۔

وہ ہنوز کھڑا بس آنکھیں کھول گیا تھا ۔۔۔ 

م۔۔۔مرجان

وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے رکا تھا ۔۔۔  درد تھا جو اسے اندر ہی اندرسمیٹ رہا تھا 

سو۔۔۔سوری ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔ غصہ۔۔۔مت کریں 

وہ سہمی ہوئی اسکا ہاتھ کانپتے ہاتھوں کیساتھ پکڑتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔ وہ سرد آہ بھرتے ہوئے گھٹنے ٹکاتے ہوئے نیچے ڈھے سا گیا تھا اسکی سرخ انگار  آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر وہ پہلے تو ڈر گئی تھی مگر وہ ہنوز بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

ڈونٹ۔۔۔ کرائے۔۔۔ پلیز 

اینجل ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھ گیا تھا وہ اسے بچپن میں اینجل کہا کرتی تھی ۔۔۔

ڈونٹ کرائے ۔۔۔ کانپتے ہاتھوں کیساتھ اسکے آنسوں صاف کرتی ہوئی وہ اسکے سینے سے لگی تھی ۔۔۔ اسکی بےقرار دھڑکنوں کو سکوں میسر آیا تھا ۔۔۔  اسے سختی سے سینے سے لگاتا ہوا وہ اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے اسے خود میں بھینچ گیا تھا۔۔۔

اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک محسوس کرتی ہوئی وہ اسکی شرٹ مٹھی میں دبا گئی تھی ۔۔۔۔

وقت رک سا گیا تھا ۔۔۔ 

ڈونٹ کرائے ۔۔۔ کانپتے ہاتھوں کیساتھ اسکے آنسوں صاف کرتی ہوئی وہ اسکے سینے سے لگی تھی ۔۔۔ اسکی بےقرار دھڑکنوں کو سکوں میسر آیا تھا ۔۔۔  اسے سختی سے سینے سے لگاتا ہوا وہ اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے اسے خود میں بھینچ گیا تھا۔۔۔

اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک محسوس کرتی ہوئی وہ اسکی شرٹ مٹھی میں دبا گئی تھی ۔۔۔۔

وقت رک سا گیا تھا ۔۔۔ 

جسٹ لیوو ۔۔۔ ناجانے کیا سوچ کر وہ اسے خود سے دور کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا یہ وہ ہی جانتا تھا کتنی تکلیف ہوئی تھی اسے یہ کہنے میں ۔۔۔

ہم۔۔۔نہیں۔۔۔جائیں۔۔۔گے ۔۔۔آپکو۔۔۔چوٹ۔۔۔لگی ہے۔۔۔  اسکے ہاتھ پر زخم دیکھ کر وہ گھبراتے ہوئے انکار کر چکی تھی 

ان چوٹوں کا کیا جو یہاں دی ہیں آپ نے ۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر دل پر ہاتھ رکھتا ہوا اسکی روح تک کو چھانتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا تھا اسکی براؤن آنکھوں میں آنسوں کا جھرنا سا بہہ گیا تھا ۔۔۔ بڑے بڑے آنسوں کے قطرے اسکے گالوں کو بھگوتے چلے گئے تھے ۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھا تھا ۔۔۔ بالکنی میں جا کر سگار سلگاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے باہر اندھیری دنیا کو دیکھ گیا تھا ۔۔۔ ٹھنڈی جما دینے والی ہوا چل رہی تھی اور آسمان پر گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھی ۔۔۔  چاند کہیں بادلوں کی آڑ میں چھپ گیا تھا ۔۔۔ 

اسے سگار پیتے ہوئے دیکھ کر وہ گھبرا سی گئی تھی ۔۔۔ بالکنی میں لگے ہوئے سفید ریشمی پردے ہوا کی تال پر رقص کر رہے تھے 

بےپرواہ  ہونٹوں سے دھواں ہوا میں خارج کرتا ہوا وہ سپاٹ نظروں سے باہر دیکھ رہا تھا ۔۔۔

پپ۔۔پلیز۔۔۔یہ۔۔۔یہ۔۔۔م۔۔۔مت۔۔۔پیئں 

چادر کا کونا مٹھی میں مروڑتے ہوئے وہ سٹپٹائے لہجے میں بولی تھی جس پر وہ بغیر کچھ بولے سگار نیچے گراتے ہوئے اسے بےرحمی سے اپنے قیمتی شوز سے رگڑ کر پیروں تلے روند چکا تھا ۔۔۔ وہ سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اپنی جان ہتھیلی پر محسوس ہو رہی تھی اسے ۔۔۔

نہیں رہنا چایتی ناں اس کمرے میں چلی جاؤ یہاں سے ۔۔۔

 لہجے میں دنیا جہاں کا سردپن تھا

اسکے لہجے پر لرزتی ہوئی وہ بوجھل قدموں کیساتھ دروازے کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا بیڈ کے پاس پڑی ڈرار سے وائن نکال کر گلاس میں انڈیل رہا تھا ۔۔۔

اسکی اس حرکت پر وہ مزید سہم گئی تھی جلدی سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی مگر وہ باہر سے بند تھا اسکے ہاتھ ٹھنڈے پڑے تھے ۔۔۔ 

وہ وائن کا گلاس واپس ٹیبل پر رکھتے ہوئے قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جس پر وہ دروازے سے پشت لگاتے چپک گئی تھی ۔۔۔ 

دد۔۔۔روازہ۔۔۔۔بند۔۔ہے

حلق میں اٹکے آنسوں کو دھکیلتی ہوئی وہ سسکتے ہوئے بولی تھی 

اسے اٹھ کر اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ مکمل دروازے سے چپک گئی تھی ۔۔۔ 

اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے وہ دروازے کے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ مکمل دروازے سے چپکی تھی 

اتنا خوف کھاتی ہو مجھ سے ؟ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا اسکی سحر انگیز آنکھوں میں وہ خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کر رہی تھی دل بےچین ہو رہا تھا  اس نازک وجود کی تیز دھڑکن وہ بخوبی سن پا رہا تھا ۔۔۔

پلیز ۔۔ دور۔۔۔رہیں 

وہ کانپتے  ہاتھ اسکے کندھے پر رکھ کر اسے دھیرے سے دور کرتی ہوئی ہول ہوتے دل کیساتھ بولی تھی 

نہیں تو کیا ۔۔۔

 اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے دل پر رکھتا ہوا وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

بڑی بڑی براؤن آنکھوں نے اسکے حسیں نقوش کو سرعت سے دیکھا تھا سمپل وائٹ شرٹ  اور بلو سمپل ٹراوزر میں وہ رف سے حلیے میں بھی اسے اٹریکٹ کر رہا تھا ۔۔۔  

اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچتے ہوئے وہ اسکا دل تیزی سے دھڑکا چکا تھا ۔۔۔  بےبسی سے وہ اسکے چوڑے سینے سے ٹکرائی تھی ۔۔۔ اسکے وجود میں لرزش پیدا ہوئی تھی ۔۔۔ وہ کانپ گئی تھی ۔۔۔

اتنا خوف ؟ کسی دن مر مت جانا میرے ہاتھوں سے ۔۔۔ اسکے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے وہ اسکا چہرہ بےحد قریب کرتے ہوئے خمار لہجے میں بولا تھا ۔۔۔ 

اسکے ہونٹوں نے حرکت کی تھی مگر آواز نہیں نکلی تھی حلق سے ۔۔۔ وہ سہمی ہوئی نظروں سے اسکی مسحور کر دینے والی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی جو اسے اپنے سحر میں جکڑ رکی تھی ۔۔۔ 

فائن ،، آپ جا سکتی ہیں لیکن Ointment لگانے کے بعد ۔۔۔۔ آپکے اینجل کو بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔ دیکھیں ۔۔ 

اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے وہ لہجے میں نرمی لائے بولا تھا وہ خوفزدہ نظروں سے اسکے ہاتھ کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں دیکھ گئی تھی 

او۔۔۔اوکے ۔۔۔ ہم۔۔۔ لگا دیتے ہیں 

فرسٹ ایڈ کِٹ لیکر وہ جلدی سے اسکی جانب بڑھی تھی اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے مرہم اٹھا کر اسکے ہاتھ پر لگانے لگی ۔۔۔

اسکے چہرے پر آئی بالوں کی لِٹ وہ سنجیدگی سے اسکے کان کے پیچھے کرتے ہوئے اسکے عام گندمی رنگت میں نکھرے ہوئے تیکھے نقوش دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسکی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی ہوئی وہ ٹینشن سے چادر کو پیشانی پر ڈالتے ہوئے اسکی نظروں سے چھپنے کی ناکام کوشش کر گئی تھی ۔۔۔ اسکی اس حرکت پر وہ بےپرواہ مسکرایا تھا 

ہو۔۔۔گیا 

جلدی سے کہتے ہوئے وہ اٹھی وہ سرعت سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے فرار ہونے سے قبل گرفت میں لے چکا تھا 

پلیز ۔۔۔ آپ نے کہا تھا آپ ہمیں جانے دیں گے ۔۔۔ 

اسکی مظبوط گرفت میں وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی

لیکن آپ نے کام پورا نہیں کیا ۔۔۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ اسکی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے مغرور لہجے میں گویا ہوا تھا جس پر وہ گھبراتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر تھم گئی تھی

یہاں زخم باقی ہیں ۔۔۔ دل پر اسکا ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا تھا جبکہ اسکے دل کی دھڑکن محسوس کرتی ہوئی وہ کسی بھی پل بےہوش ہونے کو تھی ۔۔۔ اسکے بےحد قریب کھڑی وہ کانپ رہی تھی اسکے دل کی ایک ایک بیٹ وہ سن پا رہی تھی 

تو ؟ کیا سوچا آپ نے آپ پوری رات یہاں رکنا چاہیں گی یا پھر مرہم لگا کر جانا چاہتی ہیں ؟ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا جبکہ وہ بجھتی ہوئی سانسوں کی شمعوں کو ٹمکانے کی کوششوں میں پلکوں کی جھالر بجھائے نظریں فرش پر مرکوز کئے تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔ دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ کسی بھی پل حلق سے باہر آنے کو تھا ۔۔۔۔

شرٹ کو اتارتے ہوئے اس نے ایک سرد سی نظر اس کے لرزتے ہاتھوں کو دیکھا تھا جن سے وہ بمشکل مرہم کو اٹھائے کھڑی تھی

بوجھل قدموں کیساتھ وہ اسکے قریب آ کر رکی تھی ۔۔۔ نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھی براؤن آنکھوں میں آنسوں کا جھرنا بہنے م

کو تیار تھا مگر آج وہ کوئی ترس کھانے کی نیت میں نہیں تھا

ڈو اٹ ۔۔۔

سنجیدگی سے حکم صادر کرتا ہوا وہ اسکی جان ہوا کر رہا تھا ۔۔۔ کانپتے ہوئے ہاتھ کو اسنے بمشکل اسکے مظبوط کندھے پر رکھا تھا  وہ سپاٹ نظروں سے اسے ڈرپوک کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔آنکھیں سختی سے میچتی ہوئی وہ فوراً ہاتھ واپس کھینچ چکی تھی

ناٹ آ سنگل چانس ۔۔۔

اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے  تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ سختی سے بولا تھا ٹینشن سے ہونٹ کاٹتی ہوئی وہ خود کو کمپوز کرتی اسکی جانب دیکھ گئی تھی اسکے مظبوط وجود پر زخم کے ساتھ زخم تھے ۔۔۔ اسکا دل ایک پل کے لئے دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔۔ بیٹھتے ہوئے دل کیساتھ وہ اسکے زخم دیکھ رہی تھی  براؤن آنکھوں سے آنسوں بےساختہ نکلتے چلے گئے ۔۔۔۔ آخر کار جزبات خوف پر غالب آ گئے تھے وہ دل میں اٹھتے طوفان سمیٹتے ہوئے نم آنکھوں سے اسے مرہم لگاتے ہوئے بار بار اسکی جانب دیکھ رہی تھی جو کن اکھیوں سے اسے معصوم نقوش کو ہیزل گرے پرکشش آنکھوں میں سمو رہا تھا ۔۔۔

پوچھنا چاہتی تھی اتنی چوٹ کیسی آئی اسے مگر جذباتوں نے اسے بولنے لائق نہیں چھوڑا تھا حلق میں آنسوں اٹک کر رہ گئے تھے ۔۔۔ سکوت اختیار کئے وہ بھیگی آنکھوں کیساتھ اسکے زخموں پر مرہم لگاتے ہوئے جھرجھری سی لیتے ہوئے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھ گئی تھی ۔۔۔

پرکشش گرے آنکھیں اسکی براؤن آنکھوں سے ٹکرائی تھی ۔۔۔ وہ اسکی روح تک اتر گیا تھا اسکی نظروں سے ۔۔۔ 

اسکی آنکھوں کے سحر میں وہ خود کو ہمیشہ سے بےبس محسوس کرتی تھی ان میں ایک عجب سی کشش تھی جو اسے ناں صرف متاثر کرتی تھی بلکہ اسے مسحور کر دیتی تھی ۔۔۔ اسکی کلائی پکڑتے وہ اسے قریب کر رہا تھا ۔۔۔ وہ بےبس سی پیچھے کو کھسکی تھی مگر اسکی سخت گرفت مزید سخت ہو گئی تھی ۔۔۔ اپنے قریب اسے بیٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقوش کو دیکھ رہا تھا اور وہ سٹپٹائی ہوئی نظریں جھکائے فرش کو گھورنے میں مصروف تھی ۔۔۔ 

اتنا خوف کیوں زارا ؟

اسکی سرد آواز پر وہ سہمی ہوئی  ہونٹوں پر قفل لگائے اسے محض دیکھ گئی تھی ۔۔۔۔

ہم۔۔۔۔ہم نے ۔۔۔بھاگنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔آ۔۔۔ آپ ہم سے خفا ہیں ۔۔۔آپ ہمیں سزا دیں گے ۔۔ جیسے آپ باقیوں کو دیتے ہیں ؟

وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے نظریں جھکائے لرزتے لہجے میں بولی تھی

سپاٹ سی نظروں سے اسے دیکھ کر وہ اسکا ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں لیتے ہوئے دھیرے سے دبا چکا تھا تبسم کو مانو کرنٹ سا لگا تھا ۔۔۔ 

آپ کو سزا کیسے دے سکتا ہوں ۔۔۔ گمبھیر آواز میں کہتے ہوئے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے ہوئے وہ محبت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔ اسکے چہرے کو بےحد قریب دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رہ گئی تھی ۔۔۔ گھنی پلکوں نے جھرکھری سی لی تھی ۔۔۔ اسکی بلیک چادر سر سے سرکتی ہوئی اسکی گندمی رنگت کو واضح کر گئی تھی ۔۔۔ 

مر۔۔۔مرجان۔۔۔

دھڑکتے دل کیساتھ اسکا نام لیا تھا اسنے ۔۔۔

سے اگین ۔۔۔ 

اسکے براؤن سلکی بالوں میں چہرہ چھپاتے وہ سنجیدگی سے بولا تھا وہ لرزتی ہوئی آواز میں دوبارہ بولی تھی

"مر۔۔۔جان"

سرخ  تپتے گالوں پر آئے بالوں کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسکی سرد انگلیوں کو اپنے گرم ہوتے گالوں پر محسوس کرتی ہوئی وہ آنکھیں میچ گئی تھی

بادل زور دار لہجے میں گرجا تھا وہ کرنٹ کھاتے ہوئے اسکا کندھا سختی سے پکڑ گئی تھی جس پر ایک حسیں مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں پر رقص کیا تھا ۔۔۔ 

آپ میرے ضبط کا امتحان لے رہی ہیں۔۔۔

اسکے کان میں سرگوشیانہ انداز میں بول کر وہ اسکی جان ہوا کرنے میں کامیاب ہوا تھا وہ جلدی سے اسکا کندھا چھوڑتی ہوئی بےبسی سے اسے دیکھ چکی تھی ۔۔۔

اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے ایک ہاتھ سے اسکا کندھا تھامتے ہوئے وہ اسکے لرزتے ہوئے ہونٹوں پر جھکا تھا ۔۔۔ سختی سی آنکھیں میچتی ہوئی وہ کانپ گئی تھی 

کمرے میں سکوت چھا گیا تھا ۔۔۔  بارش کی بوندیں زمین پر گرنے کی ہلکی آہٹ پیدا کر رہی تھی خنک ہوا چل اٹھی تھی ۔۔۔ 

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

اگلی صبح :- 

زونی بیٹا تھوڑی دیر رک جاؤ حرب آتا ہی ہو گا ۔۔۔ آفرین بیگم نے اسے بیگ کندھے پر رکھتے ہوئے دیکھ کر نرمی سے کہا لیکن اگلے ہی پل وہ اسکے کپڑے دیکھ کے حیران ہوئی تھی وہ تنگ جینز پر وائٹ گھٹنوں سے اوپر آتی شرٹ پہنے ہوئے تھی جبکہ دوپٹہ اسکارف کی صورت میں 

نہیں امی میں پہلے ہی لیٹ ہو رہی ہوں وہ ناجانے کب تک آئے گا ۔۔۔ میں ڈرائیور کے ساتھ ہی چلی جاؤں گی ۔۔۔ جلدی سے کہتی ہوئی وہ کرسی کھینچ کر پیچھے کرتے ہوئے اٹھی تھی ۔۔۔ سیڑھیاں اترتا حرب اسے دیکھ کر رکا تھا ایک سرد سی نظر اسکے لباس پر پڑی تھی

ڈونٹ وری آئی ول مینیج ۔۔۔ تھینکس بائے دا وے ۔۔۔ مسکرا کر اسے کہتی ہوئی وہ جلدی سے وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی وہ سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے آفرین بیگم کو دیکھ گیا تھا جو افسردگی سے اسے دیکھ رہی تھی 

کوئی بات نہیں بیٹا ۔۔۔ آؤ ناشتہ کر لو ۔۔۔ آفرین بیگم نے شفقت سے کہا 

نہیں رہنے دیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔ وہ سرد لہجے میں کہتا ہوا واپس پلٹا تھا جہاں قصا بیگم آنکھوں میں ڈھیروں اداسی لئے اسے دیکھ رہی تھی 

آؤ بیٹا ناشتہ کر لو ۔۔۔ اسکا ہاتھ نرمی سے پکڑتی ہوئی وہ اسے ٹیبل تک لائی تھی ۔۔۔ 

بیٹا سب ٹھیک ہے ناں ۔۔۔ قصا بیگم نے اسکی پلیٹ میں آملیٹ رکھتے ہوئے پوچھا وہ رات کا سوچ کر مٹھی بھینچتے ہوئے غصہ ضبط کر گیا تھا ۔۔۔

آفرین بیگم نے پریشانی سے اسکی پیشانی پر آئے ہوئے بل دیکھے تھے ۔۔۔ 

جی امی جان ۔۔۔ سب ٹھیک ہے ۔۔۔ سرد لہجے میں کہتا ہوا وہ سنجیدگی سے ناشتہ کرنے میں مصروف ہوا تھا

قصا بیگم اور آفرین بیگم نے ایک دوسرے کو  پریشانی سے دیکھا تھا 

میرے خیال سے اسے کیا پہننا چاہیے آپکو اسے سمجھانے کی ضرورت ہے اگر بچوں کو سمجھایا ناں جائے تو وہ بگڑ جاتے ہیں ۔۔۔ آفرین بیگم کی طرف دیکھ کر سرد لہجے میں کہتا ہوا وہ اپنا کھانا ادھورا چھوڑ کر اٹھ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا ۔۔۔

آفرین بیگم نے سرد آہ بھری تھی ۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

#قسط__۲۵

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

بی بی جی ناشتہ تیار ہے بڑے صاحب زادے آپکا ناشتے کی میز پر انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔ 

وہ آخری نظر خود کو مرر میں دیکھتی ہوئی گھبرا کر دروازے کی طرف مڑی تھی ملازمہ اسے کچھ دیر پہلے ہی کپڑے دیکر گئی تھی مگر آج تک اسنے ایسے  کپڑے نہیں پہنے تھے اس لئے اسے عجیب لگ رہا تھا

جی۔۔۔ہم۔۔۔آتے۔۔ہیں 

وہ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے جلدی سے بولی تھی ۔۔۔

ہمیں بہت۔۔۔عجیب لگ رہا ہے ۔۔۔

مرر میں دیکھتے ہوئے وہ خود سے بولی تھی ۔۔۔ یا پھر وہ بےوجہ کی ہچکچاہٹ کا شکار تھی کل رات جو کچھ ہوا اسے بعد سے اسے ہر شے میں ہی خامیاں نظر آ رہی تھی ۔۔۔

بےبی پنک کلر کا سلک کا سوٹ پہنے جس پر شیشوں کا کام بڑی نفاست سے کیا گیا تھا سر پر وائٹ دوپٹہ اوڑھتی ہوئی جس پر گوٹا کناری کا کام کیا گیا تھا آخری نظر خود کو مرر میں دیکھ کر دروازہ کھول کر کمرے سے واک آؤٹ کر گئی تھی ۔۔۔۔

اسلام و علیکم ۔۔۔

اسے سلام کرتی ہوئی وہ کرسی کھینچ کر اس سے دور بیٹھی تھی 

وعلیکم السلام ۔۔۔

ایک نظر میں ہی اسکا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔۔۔ اسکی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی ہوئی وہ دوپٹہ مزید سر سے نیچے کرتی سرخ ہوتے گال چھپا گئی تھی اسے کنفیوز دیکھ کر وہ مسکرایا تھا ۔۔۔

ملازمہ خاموشی سے کھانا سرو کر کے چلی گئی تھی ۔۔۔۔ دونوں خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی کل رات کی اسکی گستاخی کے بعد وہ بےحد شرمندہ تھی اور اس سے کتراتے ہوئے بار بار نظریں اٹھا کر اسکے دیکھتے ہی واپس نظریں جھکا لیتی ۔۔۔۔ 

آج ہم  گھر واپس جا رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ہم کہیں اور جائیں گے ۔۔۔ 

اسکے اچانک بولنے پر وہ لب بھینچتی ہوئی اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ چکی تھی

کک۔۔۔کہاں

گھبرا کر پوچھا تھا

وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے سنجیدگی سے اٹھا تھا ۔۔۔ وہ گھبرا کر اسکی جانب دیکھ گئی تھی ۔۔

یو ول سی ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا ٹیبل سے فون اٹھا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا وہ ٹینشن سے دوپٹے کا کونہ ہاتھ میں دباتے ہوئے اٹھی تھی ۔۔۔

اسکے دروازے سے کان لگاتی ہوئی وہ کچھ سننے کی سعی میں مصروف ہوئی تھی ۔۔۔ جبکہ دروازے پر قدموں کی آہٹ سن کر وہ سنجیدگی سے دروازہ کھول چکا تھا دروازے کھلتے ہی وہ سہارہ ناں پا کر اسکے سینے سے لگی تھی ۔۔۔

کب باز آئیں گی آپ ۔۔۔ اسکا کندھا نرمی سے پکڑتے ہوئے وہ گمبھیر آواز میں پوچھ رہا تھا وہ جلدی سے جھٹکا کھا کر اس سے پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔

سر ۔۔۔ پھر کیا کرنا ہے ۔۔۔ ندیم نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا 

لیٹس گو ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ ایک جانب چل دیا تھا جبکہ وہ سہمی ہوئی اسکا ہاتھ دیکھ گئی تھی ۔۔۔ ندیم بھی ان کے پیچھے چل دیا تھا

اسے لئے وہ ایک تہہ خانے میں اترتا چلا گیا ۔۔۔ اندھیرے میں ڈوبا وہ تہہ خانہ دیکھ کر زارا کی جان ہتھیلی پر آئی تھی وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ اسکا مظبوط بازو پکڑ کر چل رہی تھی ۔۔۔ 

لائٹس آن کرو ۔۔۔ اور ۔۔۔ دروازہ کھولو 

لیکن سر ۔۔۔ ندیم نے حیرانی سے اسکی جانب دیکھا تھا اور پھر ہاں میں سر ہلاتا ہوا ایک سٹیل راڈ سے بنا پنجرے کا دروازہ کھول چکا تھا ۔۔۔

کم ان بیوٹی ۔۔۔ لیٹس ہیو سم فن ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کھینچتے ہوئے وہ سرد بھاری لہجے میں بولا تھا جبکہ اسکی روح تک کانپ اٹھی تھی پنجرے کو دیکھ کر ۔۔۔ 

ڈونٹ وری ۔۔۔ چھوٹا سا پیٹ ہے ۔۔۔ اسے کھانا ہی کھلانا ہے کم آن۔۔۔ اسے کندھوں سے تھام کر آگے کرتے ہوئے وہ شریر لہجے میں بولا تھا ۔۔۔ ندیم نے لائٹس آن کی تھی ۔۔۔

آہہہہہ۔۔۔

وہ چیختی ہوئی اسکے مظبوط بازو کو چپک گئی تھی ۔۔۔  ندیم نے ہنسی دباتے ہوئے سر جھکایا تھا ۔۔۔

سامنے سویا ہوا بلیک پینتھر اپنی سنہری آنکھیں کھول کر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ گیا تھا۔۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھتا ہوا اسکی جانب بڑھا تھا ۔۔۔

ممم۔۔۔مرجان۔۔۔ہمیں۔۔۔

 وہ کانپتی ہوئی اسکی شرٹ مٹھی میں مروڑتے ہوئے سسکی تھی 

ٹیک اٹ ایزی ۔۔۔ آگے جائیں ۔۔۔ 

وہ دھیرے سے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے آگے کر چکا تھا وہ کانپتی ہوئی قدم پیچھے لے گئی تھی 

مم۔۔۔مرجان۔۔۔نہیں۔۔۔پلیز۔۔۔ہم ۔۔۔ہم آپکی ہر بات ۔۔۔مانیں گے ۔۔۔ پپ ۔۔پلیز اسے۔۔۔اسے

وہ بلیک پینتھر چلتا ہوا اسکے بالکل سامنے رکا تھا وہ بری طرح لرز رہی تھی جبکہ وہ تھوڑے فاصلہ پر کھڑا شوق سے  سب ملاحظہ فرما رہا تھا

وہ بلیک پینتھر اسے کسی لزیز کھانے کی ڈش سمجھ کر دیکھ رہا تھا جبکہ وہ اٹکی سانسسں کیساتھ مسلسل پیچھے ہو رہی تھی 

وہ اچانک غرایا تھا

وہ کانوں پر ہاتھ دیتی ہوئی خوف سے نیچے گر گئی تھی ۔۔۔ 

سر ۔۔۔ ندیم آگے بڑھا تھا مگر وہ اسے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے آگے بڑھا تھا ۔۔۔

پینتھر نے اسکے پیچھے رکے ہوئے مرجان کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ وہ خوفزہ نظروں سے اسے اپنے سامنے کھڑا دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

وہ چلتے ہوئے اسکے سامنے رکا تھا ۔۔۔ اسے سونگھ کر وہ سر جھکائے اسکے قدموں میں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔

ییی ۔۔یہ کیا کر رہا ہے ۔۔۔ 

وہ خوفزدہ ہوتی ہوئی جلدی سے اٹھی تھی ۔۔۔ مرجان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر پینتھر کے سر پر پھیرا تھا 

آہہہ۔۔۔ 

وہ ہچکچاتے ہوئے ہاتھ پیچھے کھینچ چکی تھی اسکی سنہری آنکھیں دیکھ کر ۔۔۔ 

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ ٹیک اٹ ایزی ۔۔۔ اسکا ہاتھ دوبارہ سے اسکے سر پر چلاتے ہوئے وہ اسکے پاس بیٹھا تھا ۔۔۔ 

کھلاؤ اسے یہ ۔۔۔ اسکا کھانا تبسم کے حوالے کرتے ہوئے وہ ایک اور حکم صادر کر چکا تھا جس پر وہ خوف سے اسے گھور چکی تھی

کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔  

یییہ۔۔۔ ہمیں کھا لے گا ۔۔۔

وہ خوفزدہ لہجے میں اسکی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر ہکلا کر بولی تھی جس پر وہ بےساختہ مسکرایا تھا ۔۔۔

کچھ نہیں کرے گا ۔۔۔  دیکھیں ۔۔۔

بڑی بےفکری سے وہ اسکی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا جس پر وہ اپنا پنجہ بڑھا کر اسکے ہاتھ پر رکھ گیا تھا

تبسم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسکی طرف بڑھایا تھا وہ بڑی خوشی سے اسکے ہاتھ سے میٹ کھا رہا تھا ۔۔۔

ہاہا۔۔۔ ہمیں گدگدی ہو رہی ہے ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ چاٹتے ہوئے اسکے ہنسنے پر سنہری آنکھوں سے اسے دیکھ چکا تھا ۔۔۔

اسے مسکراتا دیکھ کر کہیں ناں کہیں مرجان کاظمی کو بھی سکوں مل گیا تھا ۔۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

کہاں رہ گئی تھی تم لڑکی ۔۔۔ اپنی دوستوں کی یاد نہیں آتی ۔۔۔ لیکچر ہال میں زونی کیساتھ بیٹھتی ہوئی ردا اور نایاب نے اسے چھیڑا تھا جس پر وہ ناک سکیڑتی ہوئی آنکھیں گھما گئی تھی 

سنا ہے نکاح ہو گیا ہے ضرور جیجو کی وجہ سے نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ ردا نے قہاہ لگاتے ہوئے اسے کندھے سے ٹھوکر لگائی تھی 

شٹ اپ ایڈیٹ ۔۔۔ وہ بےوقوف مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔۔۔ منہ بسورتے ہوئے وہ اسکی برائی کر رہی تھی ۔۔۔ ایک ایک بات اپنی دوستوں کو بتا ڈالی تھی ۔۔۔

تو اسکا مطلب تمھارا نکاح حرب سے ہوا ہے اففففف ۔۔۔ پھوٹی قسمت ۔۔۔ مرجان جتنا ہینڈسم نہیں ہے ۔۔۔ نو کمپیریزن ۔۔۔ نایاب نے ہاتھ ہلاتے ہوئے لاپرواہی سے کہا جس پر وہ جل بھن گئی 

چھوڑو اتنا برا بھی نہیں ہے ۔۔۔ ردا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا 

نہیں یارر ۔۔۔ مجھے مرجان ہی چاہیے ۔۔۔ وہ سرد آہ بھرتے ہوئے ڈیسک پر سر ٹکاتے ہوئے آہ بھر کر بولی جس پر نایاب اور ردا نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی ۔۔۔ 

تو اب کیا کرو گی مار دو گی کیا اسے ؟ نایاب نے آئی برو اچکاتے ہوئے پوچھا جس پر زونی نے ڈیسک سے سر اٹھاتے ہوئے گہری نظر سے اسے دیکھا تھا

کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔۔ ردا نے نایاب کو ٹوکا ۔۔۔

ایکچلی پلین برا نہیں ہے ۔۔۔ زونی نے مسکرا کر نایاب کو دیکھا تھا جس پر وہ بھی چونک گئی تھی 

تم اسے مار دو گی کیا ۔۔۔ 

ردا نے آدھ منہ کھول کر پوچھا تھا ۔۔ 

زونی گہری سوچ میں پڑ گئی تھی ۔۔۔ لیکچر شروع ہو چکا تھا ۔۔۔ پروفیسر ڈائس پر موجود لیکچر دینے میں مصروف تھے زونی کی سوچ کہیں اور ہی تھی وہ یکدم پروفیسر کی طرف متوجہ ہوئی تھی

(.....) 

اور یہ پوائزن  باڈی سیلز کو آکسیجن کیچ کرنے سے روکتا ہے ۔۔۔ اسکا ایفیکٹ برین اور ہارٹ پر زیادہ ہوتا ہے کیونکہ برین اور ہارٹ  سیلز وائڈ کوانٹٹی میں آکسیجن یوز کرتے ہیں ۔۔۔۔

وہ پین رکھتے ہوئے ہاتھ اٹھا چکی تھی ۔۔۔

پروفیسر بولتے ہوئے رکے تھے

یس مس زونیرا ؟ 

Professor, will you repeat the name of this poison, I did not hear it properly, sorry۔۔۔

نایاب نے چور نظروں سے ردا کو دیکھا جو اسکے سوال پر کافی پریشان ہوئی تھی 

سائینائیڈ ۔۔۔ 

تھینکس پروفیسر ۔۔۔ 

مسکراتی ہوئی وہ واپس اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی

کیا چل رہا ہے تمھارے دماغ میں ۔۔۔ ردا نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔

جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔ 

وہ منہ کے ڈیزائن بناتی ہوئی بےپرواہی سے بک کے ورق پلٹ کر بولی تھی ۔۔۔

"حرب شاہ بہت شوق ہے ناں تمھیں فالتو میں گالم گلوچ کرنے کا ۔۔۔ آپکو تو میں بولنے لائق ناں چھوڑوں ڈیئر ہبی " 

وہ دل میں عہد کرتی ہوئی انگلیوں میں پین گھماتی ہوئی بےوجہ مسکرائی تھی ۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

نیویارک / امریکہ :- 

بزنس کا دیوالیہ نکل جائے گا ۔۔۔ آخر کر کیا رہے ہو تم لوگ ۔۔۔ ایک ایک کر کے میرے سارے آدمی مر رہے ہیں پہلے وہ بلڈی پرنسپل ۔۔۔ وہ انسپیکٹر ۔۔۔ پھر میرا لیفٹ ہینڈ شہوار ۔۔۔   بےوقوف ۔۔۔ کیسے انویسٹرز ڈھونڈے تم نے ۔۔۔ کرسی پر گھومتے ہوئے وہ سامنے پڑی چھوٹی سی شیشے کی ٹیبل کو پیر مارتے ہوئے گرا کر دھاڑا تھا ۔۔۔

ریلیکس لوسیفر ۔۔۔ 

جسٹ شٹ اپ ۔۔۔ یو مورون ۔۔۔ آخر تم چاہتے کیا ہو میں یہاں بیٹھ کر اپنا نقصان کروں ؟ کب تک میٹیریل سمگل کر رہے ہو کچھ آئیڈیا ہے ؟ میرا کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے اور تمھارے مطابق میں ریلیکس رہوں مسٹر  ایکس کپور  ۔۔۔۔ وہ ایک ہی منٹ میں مسٹر کپور کی گردن دبوچتے ہوئے غراہٹ دار لہجے میں بولا تھا 

وہ مر جائے گا لوسیفر ۔۔۔ مسٹر رائے نے گھبراتے ہوئے مسٹر کپور کی جانب دیکھ کر کہا جس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا لمبے سانس خارج کرتے ہوئے وہ فینٹ ہونے کے قریب تھا ۔۔۔

باسٹرڈ ۔۔۔ سب بےوقوف ہیں ۔۔۔ کوئی جانتا ہے آخر وہ سوکالڈ ڈیمن کون ہے اور کیوں دخل اندازی کر رہا ہے میرے بزنس میں ؟ 

مسٹر کپور کو دھڑام سے نیچے پھینکتا ہوا وہ پھنکارا 

الہام بےحد پریشان ہے اسے لگتا ہے کوئی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے دوسری طرف وہ بزنس مین مرجان کاظمی اسکے پیچھے پڑا ہے ہاتھ دھو کر ۔۔۔

ویٹ آ منٹ ،، مرجان کاظمی ؟ کیا چاہتا ہے وہ ۔۔۔

اسکا نام سنتے ہوئے وہ چونکا تھا ۔۔۔

کچھ علم نہیں ۔۔ ہر ایک ڈیل کا ستیا ناس کروا رہا ہے ۔۔۔ ہمارے کلائنٹس چھوڑ چکے ہیں ہمیں ،، اسے مروانے کی کوشش کی تو ہمارے ہی 20 لوگوں کو مار ڈالا اسنے ۔۔۔

پاکستان کی ٹکٹ بک کرو ارحم ۔۔۔ مرجان کاظمی سے ون آن ون کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔۔۔ شیشے کی بال میز پر گھماتے ہوئے وہ اپنے سیکرٹری کو حکم صادر کرتے ہوئے اٹھ کر آفس سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

♥️♥️♥️♥️♥️♥️♥️

ندیم نے سر جھکاتے ہوئے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا تبسم نے رک کر اسے ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھا تھا ۔۔۔

اسپیشل انویٹیشن دینا پڑے گا بیٹھنے کا ۔۔۔ 

اسکے برفیلے لہجے پر وہ جلدی سے سیٹ پر بیٹھی تھی ندیم نے دروازہ بند کیا تھا ۔۔۔ 

انگلیوں کو مروڑتے ہوئے وہ سرعت سے اسے دیکھتے ہوئے رخ بدل گئی تھی ۔۔۔

بلیک کلر کی لینڈ کروزر فراٹے بھرتی ہوئی سڑک پر دوڑ گئی تھی ۔۔۔ گاڑی کی اسپیڈ دیکھ کر وہ دوپٹے کو مٹھی میں جکڑ چکی تھی ۔۔۔

ڈونٹ بی سکیئرڈ بیوٹی ۔۔۔ آپکی جان اتنی آسانی سے نہیں جانے دوں گا ۔۔۔ میرے ہاتھوں سے مریں گی آپ ۔۔۔ اسکا ہاتھ تھام کر گیئر شفٹ پر رکھتے ہوئے وہ اسے اپنے مظبوط ہاتھ سے ڈھانپ چکا تھا

جبکہ اسکی  ظالم پیشکش پر وہ لب بھینچتی ہوئی ہاتھ واپس کھینچ چکی تھی ۔۔۔ 

ہمارے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش بھی مت کریئے گا آپ ورنہ ہم نانا صاحب سے کہیں گے ۔۔۔ منہ پھلا کر کہتی ہوئی وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی

میں آپکی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا انوسینٹ بیوٹی ۔۔۔ میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا بہت وقت دے چکا ہوں آپکو پہلے ہی ۔۔۔ دوبارہ سے اسکا ہاتھ ہونٹوں سے چھو کر دل پر رکھ چکا تھا جب کے اسکے ڈیٹھ پن پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے دل میں اسے کئی القابات سے نوازتی ہوئی کار کی ونڈو سے باہر دیکھ گئی تھی ۔۔۔

کار ایک ایکسپینسیو جیولری شاپ کے سامنے رکی تھی ۔۔۔  

لیٹس گو ۔۔۔ 

اسکا سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے وہ کار سے باہر نکلا تھا ۔۔۔ جبکہ وہ اتنی ایکسپینسیو جیولری شاپ کو دیکھتے ہوئے حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ کار سے باہر نکلی تھی ۔۔۔  

ویلکم سر ۔۔۔ گارڈ نے اسے فوراً پہچان کر خوش آمدید کہا تھا وہ سرعت سے سر کو خم دیتے ہوئے اسے لیکر اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔

ہمیں۔۔۔کچھ نہیں لینا ۔۔۔ ہمیں واپس جانا ہے گھر ۔۔۔ سب کی نظریں خود پر محسوس کرتی ہوئی وہ سہم کر اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے دھیرے سے بولی تھی ۔۔۔

کائونٹر پر کھڑے مینیجر نے خود انہیں خوش آمدید کہا تھا ۔۔۔  اور وہ کلیکشن انکے سامنے رکھی تھی جس کے لئے وہ پہلے ہی آرڈر کر چکا تھا ۔۔۔

ہمیں کچھ نہیں ۔۔۔

اسکا ہاتھ دھیرے سے دباتے ہوئے وہ اسکے منہ پر قفل لگا چکا تھا ۔۔۔ سرد سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے وہ کلیکشن کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ 

ٹرائے دس ون ۔۔۔ 

اسکی طرف ایک چھوٹی سی وائٹ ڈائمنڈ نوزرنگ بڑھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا جبکہ نوز رنگ دیکھ کر وہ حیرانی سے اسے دیکھ گئی تھی اتنی چھوٹی سی چیز کے لئے وہ خود اسکے ساتھ آیا تھا ۔۔۔

سامنے رکھے مرر میں تبسم نے بغیر کسی احتجاج کے وہ ڈائمنڈ نوزرنگ پہنی تھی ۔۔۔  

گھبراتے ہوئے اسنے اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بل پے کرتے ہوئے اٹھا تھا ۔۔۔ جبکے اسکی اس طرح بےرخی پر وہ اداس ہوئی تھی ۔۔۔

اسکا ہاتھ تھامے وہ باہر نکلا تھا ۔۔۔

جب ۔۔۔ کچھ خاص نہیں لگ رہی تو ۔۔۔ یہاں لانے کا کیا مقصد تھا ۔۔۔ سر جھکائے وہ دھیرے سے بڑبڑائی تھی ۔۔۔ 

"سوچ رہا ہوں چھوڑ کر شعر و شاعری میں "

"اسکی نفیس نتھ پر ایک کتاب لکھ دوں "

وہ سنجیدگی سے کار کا گیٹ کھولتے ہوئے بولا تھا جس پر وہ حیرانی سے اسکی سمت دیکھتے ہوئے رکی تھی ۔۔۔

کیا خبر ہے ؟ 

لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کئے وہ اپنے سیکرٹری کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے بھاری آواز میں گویا ہوا تھا 

سر ۔۔۔  وجاہت صدیقی اپنی بیٹی کی شادی کر رہا ہے آج رخصتی ہے ۔۔۔ 

وہ سپاٹ نظروں سے سیکریٹری کو دیکھتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کر چکا تھا

سیکریٹری خوفزدہ نظروں سے اسکی تنی ہوئی رگیں دیکھ کر زرا پیچھے ہوا تھا ۔۔۔

گارڈز کو ریڈی کرو ،، آج صدیقی کو اسکی  وفاداری کا انعام دیتے ہیں۔۔۔۔ 

سس سر ۔۔  آپ خود جائیں گے ؟ وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولا تھا

نہیں ۔۔۔ صرف گارڈز ۔۔۔۔ اگر میں گیا تو وہاں سے ان لوگوں کے ٹکڑے بھی نہیں ملیں گے ۔۔۔ اور میں چاہتا ہوں مرجان کاظمی کو اسکے خاص آدمی کی لاش کو تابوت میں سجا کر پیش کیا جائے ۔۔۔ 

اسکا عہد سن کر سیکریٹری پور پور کانپ اٹھا تھا ۔۔۔  

جج۔۔جی سر ۔۔۔ بمشکل کہتے ہوئے وہ فوراً آفس سے باہر نکل کر سکھ کا سانس خارج کرتے ہوئے اسکے حکم پر گارڈز کو وارن کرنے کے لئے نکل گیا تھا ۔۔۔۔

                                       ★★★★★★★

بابا ۔۔۔ آپ سے ایک بات پوچھیں ہم ؟ 

صدیقی صاحب نے شفقت سے اپنی لاڈلی بیٹی کا سر گود میں رکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔۔۔

بابا ۔۔۔ ہمارے نام کا کیا مطلب ہے ؟  وہ معصومیت سے صدیقی صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھ رہی تھی 

بیٹا ۔۔۔ عشیق کا مطلب ہے محبت ۔۔۔ عشق ۔۔۔ 

صدیقی صاحب نے محبت سے جواب دیا

لیکن ہم سے کوئی پیار نہیں کرتا سوائے آپ کے ۔۔۔ وہ انکی گود سے سر ہٹاتے ہوئے خفگی سے بولی تھی

بیٹا آج آپکا نکاح ہے ناں کاشف سے ۔۔۔ وہ آپ سے بےحد محبّت کریں گے ۔۔۔ بیٹی کا سر تھام کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے وہ شفقت سے بولے 

لیکن ہمیں آپکے پاس رہنا ہے بابا آپ ہمیں کیوں خود سے دور بھیجنا چاہتے ہیں ۔۔۔ وہ خفا لہجے میں بولی تھی جس پر صدیقی صاحب کی آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے ۔۔۔

بیٹا ۔۔۔ میں چاہتا ہوں میری بچی ہمیشہ سلامت اور خوش رہے ۔۔۔ کاشف آپکو لیکر دبئی چلا جائے گا اور پھوپھی جان بھی آپکا بےحد خیال رکھیں گی ۔۔۔۔ صدیقی صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر کہا تھا ورنہ اپنی کل کائنات اپنی اولاد کو اپنے سے دور بھیجنا انکے لئے بےحد تکلیف دہ تھا ۔۔۔ 

وہ لب بھینچتی ہوئی صدیقی صاحب کو گلے لگاتے ہوئے مسکرا دی تھی ۔۔۔ صدیقی صاحب نے سرد آہ بھرتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

"میں مجبور ہوں میری بچی ۔۔۔ میں نہیں جانتا میرا سایہ کب تک تم پر رہےگا ۔۔۔۔جو کچھ میں نے کیا ہے وہ درندہ صفت انسان سب جان چکا ہو گا۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو یتیم ہونے کے بعد یوں در در کی ٹھوکریں کھانے نہیں دے سکتا ۔۔۔ اپنی موت سے پہلے تمھیں رخصت کر دینا چاہتا ہوں۔۔۔ " 

دل میں سوچتے ہوئے وہ آنکھیں میچتے ہوئے آہ بھر گئے تھے ۔۔۔ 

بیٹا اب آپ جلدی سے تیار ہو جائیں ۔۔۔ آپی تارا آپکو تیار کر دیں گی ۔۔۔ 

وہ ہاں میں سر ہلاتی ہوئی اٹھی ایک آخری نظر اپنے بابا کو دیکھ کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی

                                      ★★★★★★★

آ جاؤ ۔۔

دروازے پر ناک کرتی ہوئی وہ اجازت ملنے پر کمرے میں داخل ہوئی تھی شہنشاہ صاحب ہاتھوں میں ایک کتاب تھامے اسکی ورق گردانی میں مصروف تھے اپنی پوتی کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے کتاب بند کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھ چکے تھے 

اسلام و علیکم نانا صاحب ۔۔۔ وہ ادب سے کہتی ہوئی انکی جانب جھکی تھی

وعلیکم السلام نانا کی جان ۔۔۔ بیٹھیں ہمارے پاس ۔۔۔۔

 وہ مسکراتے ہوئے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے تھے

وہ نظریں جھکائے دوپٹے کو سر پر ٹھیک کرتی ہوئی انکے پاس بیٹھی تھی ہنوز آنکھیں فرش پر جمائے وہ بکھری بکھری سی لگ رہی تھی چہرہ مرجھایا ہوا تھا ۔۔۔ 

کیا بات ہے بچے ؟ 

نانا صاحب ۔۔۔ ہمیں ۔۔۔ مر۔۔۔مرجان کیساتھ نہیں رہنا ۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔ہمیں طلاق دلوا دیں ۔۔۔ دوپٹے کا کونا ہاتھوں جکڑتے ہوئے وہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولی تھی جبکہ اسکی بات سن کر شہنشاہ صاحب کے نورانی چہرے پر پریشانی کے سائے سے لہرائے تھے ۔۔۔

ایسا کیوں بچے ۔۔۔ آخر کیا ہوا ہے ؟ کیا مرجان نے کچھ کہا آپ سے ؟ شہنشاہ صاحب نے نرم لہجے میں پوچھتے ہوئے اسکی طرف شفقت سے دیکھا تھا جس پر براؤن نین کٹوروں میں آنسوں بھرنے شروع ہوئے تھے ۔۔۔

وہ۔۔۔ وہ ۔۔ قاتل ہیں ۔۔۔۔  وہ غلط انسان ہیں وہ ۔۔۔ کتنے لوگوں کو مار چکے ہیں ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ وہ خونی ہیں ۔۔۔

آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر اسکے چھوٹے ہاتھوں پر گرتے چلے گئے تھے جبکہ شہنشاہ صاحب نے سنجیدگی سے اپنی پوتی کو دیکھا تھا ۔۔۔

ہمیں انکے ساتھ نہیں رہنا نانا صاحب پلیز ۔۔۔ ہم ۔۔۔ ہم ہاتھ جوڑتے ہیں پلیز ہمیں ان سے آزاد کر دیں ۔۔۔ ہمیں خوف آتا ہے ان سے ۔۔۔۔ 

ہاتھ جوڑتی ہوئی وہ سوجھی آنکھوں سے شہنشاہ صاحب کو دیکھتے ہوئے بولی تھی شہنشاہ صاحب کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔۔۔ دروازہ کھولتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔

اسے دیکھ کر خوفزدہ ہوتی وہ فوراً بیڈ کے کونے سے اٹھی تھی ۔۔۔۔ اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ لب بھینچتی ہوئی نظریں جھکا چکی تھی ۔۔۔

مرجان رک جاؤ ۔۔۔ ہماری پوتی کو ہمارے پاس رہنے دو ۔۔۔۔

شہنشاہ صاحب کے سخت لہجے پر وہ جو اسکا ہاتھ سختی سے تھامے اسے ساتھ گھسیٹنے کی نیت سے اسے سخت گھوری سے نواز چکا تھا سرد نظروں سے شہنشاہ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے اسکی کلائی پر گرفت سخت کر چکا تھا 

ہم۔۔۔ ہم۔۔۔نہیں۔۔۔جائیں گے آپکے ساتھ ...اسکے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑاتے ہوئے وہ شہنشاہ صاحب کے پاس رکتے ہوئے سہم کر بولی تھی ۔۔۔

وہ قہر برساتی نظروں سے اسے آخری بار دیکھتے ہوئے دھاڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے کمرے سے واک آؤٹ کر گیا تھا

دروازے کے دھاڑ سے بند ہونے پر وہ آنکھیں میچتے ہوئے سسک گئی تھی ۔۔۔

بیٹھیں ہمارے پاس بچے ۔۔۔ اسے بیٹھاتے ہوئے شہنشاہ صاحب نے گلاس میں پانی ڈال کر اسکی جانب بڑھایا تھا وہ سسکتے ہوئے گلاس ہونٹوں سے لگا چکی تھی ۔۔۔ وہ نازک دل لڑکی اسکی قہر برساتی نظروں کو بھلا نہیں پائی تھی ۔۔۔

بچے آپکو پتا ہے جب آپ چھوٹے تھے تو مرجان آپکو بہت پیار کرتا تھا ۔۔۔

وہ گلاس کو ہونٹوں سے الگ کرتی ہوئی حیرت سے انہیں دیکھ گئی تھی 

وہ آپکی خاطر روز ہی سہیل سے مار کھاتا تھا ۔۔۔ بچے آپکو اسکول میں پریشان کرتے تھے اور وہ ان سے لڑائی کرتا تھا جس کی کمپلینٹ تقریباً ہر روز پرنسپل آپکے ماموں سے یعنی سہیل سے کرتے تھے جس کی وجہ سے مرجان روز مار کھاتا تھا ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر وہ ہلکی سی مسکرائی تھی ۔۔۔

جب آپ پیدا ہوئی تو بہت مسکرایا کرتی تھی اس لئے آپکا نام مرجان نے ہی تبسم زارا رکھا تھا ۔۔۔

وہ حیرت سے شہنشاہ صاحب کو دیکھ گئی تھی اسے تو یہ بات پتا ہی نہیں تھی ۔۔۔ 

تبسم کا مطلب ۔۔۔ مسکراہٹ ۔۔۔ ہے آپکو پتا ہے ناں ۔۔۔

اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے وہ پوچھ رہے تھے جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتی ہوئی نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔

ایک بار آپکو ٹھنڈ کی وجہ سے شدید بخار ہوا تھا ۔۔۔ مجھے اب بھی یاد ہے ۔۔۔ اسنے پورے دو دن کھانا نہیں کھایا تھا ۔۔۔ ہر وقت آپکے پاس بیٹھ کر آپکو دیکھتا رہتا ۔۔۔ 

شہنشاہ صاحب کی بات سن کر وہ شرمندگی سے نظریں جھکا گئی تھی وہ تو اسے بیسٹ کہتی تھی جبکہ وہ اسکی خاطر اتنا کیئرنگ بچپن سے ہی تھا ۔۔۔ 

نانا صاحب ۔۔۔ وہ ہم سے پیار کرتے ہیں ؟

لہجے میں ڈھیروں معصومیت تھی 

شہنشاہ صاحب مسکرا دیئے تھے ۔۔۔ 

اس میں کوئی شک نہیں بچے ۔۔۔ آپکے جانے کے بعد اسکا دل پتھر ہو گیا ۔۔۔ وہ اپنے بچپن کو جی نہیں سکا ۔۔۔  اپنی جان سے عزیز دوست سے جدائی نے اسے بدل کر رکھ دیا وہ بہت سخت کٹھور دل بن گیا تھا ۔۔۔۔  

تبسم نے لب بھینچے ۔۔۔

اسکے بعد ماں باپ سے جدائی کا صدمہ وہ سہہ نہیں سکا مگر مجھے اب بھی یاد ہے وہ بالکل نہیں رویا تھا ۔۔۔ وہ غم وہ صدمے اسکے دل کے کسی کونے میں موجود ہیں ۔۔۔انکا درد وہ روز محسوس کرتا ہو گا ۔۔۔ مجھے اچھے سے یاد ہے وہ روز رات کو میرے پاس آیا کرتا تھا ۔۔۔ اور ایک ہی سوال کرتا تھا دادا سائیں کیا مجھے میری زارا مل جائے گی ؟

اسکے سرخ گال آنسوں سے بھیگ رہے تھے ۔۔۔ وہ خود بےحد محبت کرتی تھی اس سے وہ جانتی تھی مگر ایک خوف تھا ۔۔۔ جو دل سے جانے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔ کہ وہ ایک خونی ہے ۔۔۔ 

"اور میں روز کہا کرتا تھا ہاں بیٹا ۔۔۔ ضرور ملے گی ... میں نے بچپن میں ہی اسکے دل میں آپکے لئے جزباتوں کو دیکھ کر آپکے نکاح کا فیصلہ کیا تھا جس پر آپکی امی نے بالکل اعتراض نہیں کیا تھا اور ناں ہی سہیل نے ۔۔۔ وہ جانتے تھے مرجان کی جان صحیح معنوں میں اسکی زارا میں بستی ہے ۔۔۔ " 

وہ نظریں جھکائے پرانے دن یاد کرتی ہوئی سسک گئی تھی ۔۔۔ 

ژالے ایک کپ کافی بھیج دینا ۔۔۔ کچن میں کھڑی ماریہ کو وہ ژالے سمجھ کر حکم صادر کرتا ہوا فون کان سے لگائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا

ماریہ (جو کچن میں قدم رکھنے سے کتراتی تھی )نے جلدی سے چولہے پر پاانی چڑھایا تھا اسکی بات ناں ماننا موت کو دعوت دینے کے برابر تھا ۔۔۔ 

وعلیکم السلام ۔۔۔ کیسی طبعیت ہے آپکی صدیقی صاحب ؟ 

دروازہ سنجیدگی سے بند کرتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا تھا

"مرجان ۔۔۔ وہ سب جان چکا ہے میرے بارے میں ۔۔۔ کہ اب تک میں نے تمھاری مدد کی اسکا سراغ لگانے میں ۔۔۔ ان سب کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہے وہ الہام درانی نہیں ہے ۔۔۔ وہ کوئی اور ہے " 

فون پر گرفت مظبوط کرتا ہوا وہ ایک غیر مرئی نقطے کو سرخ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا

مجھے کل ایک لیٹر موصول ہوا جس میں مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ۔۔۔ مرجان آج میری بچی کا نکاح ہے ۔۔۔ میں اسے رخصت کر دینا چاہتا ہوں ۔۔۔ لیکن اگر مجھے کچھ ہو جائے۔۔۔ میری بیٹی کو کچھ مت ہونے دینا ۔۔۔ میں اسکی ذمہ داری تمھیں سونپتا ہوں ۔۔۔ میری بیٹی کا خیال رکھنا ۔۔۔ وہ بھائی مانتی پے تمھیں ۔۔۔ 

آپکو کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ میں پہنچ رہا ہوں وہاں ۔۔۔  

وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہوا کبڈ سے کپڑے نکالتے ہوئے گویا ہوا تھا 

نہیں بیٹا ۔اآپکا زندہ رہنا مجھ سے زیادہ ضروری ہے آج کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ آپ یہاں مت آئیں ۔۔۔ اور نکاح کا وقت ہو چکا ہے ۔۔۔  میں رکھتا ہوں ۔۔۔ 

وہ سرد نظروں سے فون کو دیکھ گیا تھا کال ڈسکنیکٹ ہو چکی تھی ۔۔۔ 

                                    ★★★★★★★

مجھے میرا بیٹا چاہیئے منور ۔۔۔  پولیس سے کنیکشن کیوں یوز نہیں کر رہے تم ؟ کیوں مدد نہیں لے رہے 

میں کر رہا ہوں جو مجھ سے ہو رہا ہے کشمالہ چلانا بند کرو ۔۔۔

منور صاحب ماتھے کو مسلتے ہوئے آج پہلی بار کشمالہ بیگم پر چلائے تھے 

ناجانے کس حال میں ہو گا کاش میں نے آپکا ساتھ ناں دیا ہوتا آج میرا بیٹا آپکے کرموں کی سزا بھگت رہا ہے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے زہر خند لہجے میں کہا جس پر منور صاحب میز پر رکھے لیمپ کو نیچے گراتے ہوئے طیش میں آتے ہوئے اٹھے

تم ان سب گناہوں کو مجھ پر کیسے ڈال سکتی ہو ۔۔۔ تم دولت چاہتی تھی تم نے مروایا تابش اور اس معصوم لڑکی کی ماں کو ۔۔۔۔  منور صاحب نے تیکھی چنوتوں سے کشمالہ بیگم کو دیکھتے ہوئے اسے حقیقت کا آئینہ دیکھایا جس پر وہ نفرت سے نظریں پھیرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی تھی 

کہاں جا رہے ہو تم ؟

منور صاحب کو دروازہ کھول کر باہر جاتے دیکھ وہ اجھنپے سے پوچھ رہی تھی

اس پاگل کو دیکھنے بھوک افلاس سے مر ہی ناں جائے ۔۔۔ منور صاحب زہریلے لہجے میں کہتے ہوئے دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گئے تھے ۔۔۔

میرا بیٹا ٹھیک ہو کاش ۔۔۔ یا خدا ۔۔۔ ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بےبسی سے بولی تھی 

                                     ★★★★★★★

کیا کہا فیروزہ یا نیلم ؟

دائم  ندیم سے فون پر بات کر رہا تھا اور اس انگوٹھی کر رتن کے بارے میں پوچھ رہا تھا مرجان نے اسے پوری فیملی اور ڈسٹینٹ فرینڈز کی فوٹوز دیکھنے کے لئے کہا تھا وہ اس نیلے رتن والی انگوٹھی والے شخص کو ڈھونڈنا چاہتا تھا اور اسکا خیال تھا وہ کوئی انکا قریبی ہے ۔۔۔ 

علیزے کے کان کھڑے ہوئے تھے لڑکیوں کے نام سن کر ۔۔۔  جبکہ دائم اسکی چور نظروں کو خود پر محسوس کرتے ہوئے  فون کان سے ہٹاتے ہوئے چپ ہوا تھا 

کیا بک رہے تھے ۔۔۔ وہ غصے سے آنکھیں پھیلاتی ہوئی اسے گھور کر بولی تھی جس پر وہ منہ بسورتے ہوئے لیپ ٹاپ اٹھا کر گود میں رکھتے ہوئے کچھ ٹائپ کرنے لگا تھا

اگر مجھے پتا چلا ناں تمھارا کسی نیلم یا فیروزہ سے چکر چل رہا ہے تمھاری گردن کاٹ کر پنکھے کیساتھ لٹکا دوں گی ۔۔۔ چھری اٹھا کر اسکی گردن پر رکھتی ہوئی وہ تلملا کر بولی تھی

اور میں تمھاری یہ ہاتھ سے بھی بڑی زبان ناں کاٹ دوں آج ۔۔۔ اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا جس پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی

شادی کے بعد سارے مردوں کی محبت میں کمی آ جاتی ہے ۔۔۔ مگر مچھ کے آنسوں بہاتی ہوئی وہ بیڈ پر نیم دراز ہوئی تھی دائم نے آنکھیں گھما کر اس ڈرامے کو دیکھا جو سسک رہی تھی ۔۔۔

بس بھی کرو علیزے ۔۔۔ اسکے کندھے کو نرمی سے پکڑتے ہوئے اسکا رخ اپنی جانب کرتے ہوئے وہ محبت سے بولا تھا

آپ محبت ہی نہیں کرتے اب ۔۔۔ وہ منمناتے ہوئے اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

خدا قسم یہاں رہتی ہو ہر پل ۔۔۔ اسکا ہاتھ دل پر رکھتے ہوئے وہ شوخی سے بولا جس پر وہ مسکرا کر اسکے دل پر مکا مارتے ہوئے ہنسی تھی ۔۔۔

چلو ہنسی تو صحیح میری جان ۔۔۔ اسکی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بولا تھا ۔۔۔

اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتی ہوئی وہ اسکے کندھے پر سر رکھے ہی نیند کی وادیوں میں چلی گئی تھی ۔۔۔  وہ سپاٹ نظروں سے لیپ ٹاپ پر فوٹوز دیکھنے میں مصروف ہوا تھا

                                     ★★★★★★★

ارے مری(ماریہ) اس وقت کیا کر رہی ہو کچن میں جانو ؟ زونی نے اسے چائے بناتے ہوئے دیکھ کر حیرت سے پوچھا ۔۔۔

ارے وہ کافی چاہیے تھی مرجان بھائی کو ۔۔۔ 

تو مجھے کہا ہوتا ۔۔۔ زونی نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر ماریہ نے آئی برو اٹھا کر منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے اسے دیکھا ۔۔۔ 

جسٹ کڈنگ ۔۔۔ اصل میں حرب کو بھی چاہیے تھی تم ایک کپ اور بنا دو یہ میں دیکر آتی ہوں ۔۔۔مرجان کے کمرے کی طرف انگلی کرتے ہوئے ۔۔۔ جلدی سے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے ماریہ کو آدھ منہ کھولے چھوڑ کر وہ فوراً مرجان کے روم کی طرف بھاگی تھی 

واٹ دا ہیل ۔۔۔ میں نوکرانی ہوں کیا سب کی چائے بناتی رہوں ۔۔۔ غصے سے پانی چولہے پر چڑھاتی ہوئی وہ تنک کر بولی تھی ۔۔۔

میرا بیوٹی فیس خراب ہو جائے گا ہیٹ سے ۔۔۔ دوپٹے سے پیشانی پر آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے وہ آنکھیں گھما کر بولی تھی ۔۔۔

تم تو سڑ ہی جاؤ مریل عورت ۔۔۔ نیشال جو کچن کے فریج میں پڑا کسٹرڈ چوری کرنے آئی تھی اسے دیکھ کر منہ پھلاتے ہوئے بڑبڑائی تھی ۔۔۔

کیا کہا تم نے ۔۔۔ ماریہ نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے اجھنپے سے پوچھا ۔۔۔

ارے میں کہہ رہی تھی تم کتنی اچھی ہو ۔۔۔ نیشال نے دانت تلے زبان دبائی 

اوہ وہ تو میں ہوں ۔۔۔ ماریہ نے بالوں کو کندھے سے پیچھے ناز سے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

مر جاؤ ۔۔۔ آج مجھ معصوم کو بھوکا ہی سونا پڑے گا ۔۔

وہ مسکرا کر منہ میں بڑبڑاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی  بےبس محسوس کرتے ہوئے بیچاری آج کھانے سے رہ گئی تھی ناں ۔۔۔۔

( ماریہ نے ان سنی کرتے ہوئے کندھے اچکائے تھے)

                                     ★★★★★★★

بغیر دروازے پر ناک کیے وہ اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔ اسے دیکھ کر وہ تھم گئی تھی ۔۔۔

شرٹ لیس وہ ٹاول بالوں میں رگڑتے ہوئے اسے دیکھ کر رکا تھا 

سب سے پہلی نظر اسکی گردن کے پاس بنے سورج کے ٹیٹو پر ڈالتی ہوئی وہ مسکراہٹ دبا گئی تھی

سوری سوری ۔۔۔میں یہ دینے آئی تھی ۔۔۔ مجھے نہیں پتا تھا یہ ہو جائے گا ۔۔۔۔ وہ جلدی سے صفائی دیتے ہوئے کپ کو اوپر اٹھا کر اسے دیکھاتے ہوئے بولی 

نیکسٹ ٹائم ناک کر دینا ۔۔۔ اسکے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا ۔۔۔

جان بوجھ کر پیر موڑتے ہوئے وہ اسکے کندھے کو پکڑتے ہوئے گرنے کا ڈرامہ کر چکی تھی ۔۔۔  ایک ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے وہ بمشکل اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے گرنے سے بچا گیا تھا ۔۔۔

دروازہ کھولتے ہوئے وہ روم میں آتے ہوئے رکی تھی ۔۔۔ 

اسے بےپرواہی سے چھوڑتے ہوئے وہ پیچھے ہٹا تھا وہ مسکرا کر بالوں کی لِٹ کان کے پیچھے کرتی ہوئی دروازے پر رکی تبسم کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔۔۔

تبسم نے سرسری سی نظر اس پر ڈالی تھی وہ صوفے سے بلیک شرٹ اٹھاتے ہوئے پہن رہا تھا ۔۔۔

گڈ نائٹ گرل ۔۔۔  تبسم کو دیکھ کر دھیرے سے ایک آنکھ دبا کر کہتی ہوئی کمرے سے واک آؤٹ کر گئی تھی ۔۔۔

تبسم نے سر کو خم دیتے ہوئے اسے اگنور کیا تھا ۔۔۔ اسکی نظروں میں صاف اداسی تھی ۔۔۔ 

ایک خالی نظر اس پر ڈالتے ہوئے وہ وارڈروب سے کپڑے لیکر چینج کرنے چلی گئی تھی ۔۔۔ سرد نظروں سے وہ بند دروازے کو دیکھتے ہوئے ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کرتے ہوئے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے لیپ ٹاپ اٹھائے کام میں مصروف ہوا تھا مگر اسکا ذہن کہیں اور تھا ۔۔۔ کیوں وہ اسکی محبت نہیں سمجھ رہی تھی ۔۔۔ کیوں دور ہونا چاہتی تھی وہ اس سے ۔۔۔ کافی کا کپ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔۔۔

پچھلے تیرہ سالوں سے وہ اسکی محبت کے لئے ترس رہا تھا اور وہ اس سے الگ ہونا چاہتی تھی ۔۔۔

سمپل وائٹ ڈریس میں سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے وہ بیڈ سے کشن لیتے ہوئے صوفے پر رکھ چکی تھی ۔۔۔

یہ کیا کر رہی ہو تم ۔۔۔

وہ گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر بولا تھا

اسے نفرت کہتے ہیں جو ہم آپ سے کرتے ہیں۔۔۔اسے زونی کیساتھ دیکھ کر۔۔۔۔ شہنشاہ صاحب کی ساری باتیں دل و دماغ سے نکال باہر کرتی ہوئی وہ لاپرواہی سے بولی تھی

 وہ چادر کو جھاڑتے ہوئے غصے سے بول کر خود پر ڈالتے ہوئے سو گئی تھی

لیپ ٹاپ کو بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ اٹھ کر اسکے پاس آیا تھا ۔۔۔

ہم سے دور رہیں ۔۔۔ بہت دور ۔۔۔

چادر چہرے پر ڈالتے ہوئے وہ بےرخی سے بولی تھی 

وہ مٹھیاں بھینچے غصہ ضبط کرتے ہوئے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ کر اسے اپنے مظبوط بازوں میں اٹھا چکا تھا

کیا بدتمیزی ہے یہ ۔۔نیچے اتاریں ہمیں۔۔۔ وہ حیرت اور خوف سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے اسکے سینے پر مکے رسید کرتے ہوئے غصے سے لال ہوتی بولی

اسے بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے وہ اسکے دونوں ہاتھہ کلائیوں سے تھامتے ہوئے انہیں ہتھ کڑی میں بند کر چکا تھا 

خوفزدہ نظروں سے اپنے بندھے ہاتھ دیکھ کر وہ لرز گئی تھی ۔۔۔  

ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔ 

اسے کندھے سے جکڑتے ہوئے وہ انگار لہجے میں بولا تھا 

جب جب تم اپنی نفرت کا اظہار مجھ سے کرو گی مجھے تکلیف ہو گی اور اسکے نتیجے میں میں تمھیں بھی تکلیف دوں گا ۔۔۔۔ اسکا چہرہ بےحد قریب کرتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں بولا

اسکی آنکھوں سے ندیاں بہہ گئی تھی جس پر وہ بس سنجیدگی سے سر کو خم دے گیا تھا ہر وقت وہ بس رو دیتی تھی ۔۔۔

کیا کرنے آئی تھی وہ چڑیل یہاں ۔۔۔ اتنے قریب کیا کر رہی تھی وہ آپکے ۔۔۔ 

اسکے اچانک سوال پر وہ آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے حیرت سے دیکھ چکا تھا

جواب دیں ۔۔۔ پیار مجھ سے کرتے ہیں آپ اور قریب اسکے جاتے ہیں ۔۔۔ نفرت سے ہتھ کڑی میں بند ہاتھ اسکی مٹھی سے نکالتے ہوئے وہ اکھڑ کر بولی تھی

اس طرح باندھ دینے سے کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔ ہمیں ڈرانا بند کریں ۔۔۔ ورنہ ہم بھاگ جائیں گے یہاں سے۔۔۔ ڈھونڈتے رہنا اپنی زارا کو پھر ۔۔۔ اسکی ہیزل آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولی تھی 

بھاگنے کی بات کرنا ضروری ہے ۔۔۔ اسکی براؤن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا

اسکے سوال پر وہ آنکھیں پھیرتے ہوئے سسکی تھی ۔۔۔

کیا سوچتی ہیں آپ میں خونی ہوں ؟ مرڈرر ہوں ۔۔۔ ایک ظالم بےرحم درندہ ہوں جو بےوجہ لوگوں کو مار دیتا ہے ۔۔۔  سلگتے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے خوفزدہ کر چکا تھا 

وہ سہمی ہوئی بیڈ کے کراؤن سے لگی تھی ۔۔۔  ہر بار وہ نازک دل لڑکی اسکے لہجوں سے ڈر جاتی تھی ۔۔۔۔

سب جاننا چاہو گی ۔۔۔ ؟ اسکے چہرے کو جکڑتے ہوئے وہ سخت لہجے میں بولا 

وہ سہمی ہوئی ناں میں سر ہلاتے ہوئے آنسوں بہا گئی تھی ۔۔۔۔ 

ایک بات جان لیں زارا ۔۔۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔۔۔ میں پچھلے تیرہ سالوں سے دیوانوں کی طرح آپکو ڈھونڈتا رہا ۔۔۔  اور  کیا دیا آپ نے مجھے بدلے میں ۔۔۔ یہ نفرت ۔۔۔ یہ حقارت بھری نظر ۔۔۔ یہ تکلیفیں ۔۔۔ انکا مستحق نہیں ہے تمھارا اینجل ۔۔۔ کیوں نہیں سمجھتی ہو وہی مرجان ہوں ۔۔۔ جس کے بغیر آپ ناں چین سے کھاتی تھی ناں سوتی تھی ۔۔۔ یہ دل اگر پتھر ہوا ہے تو اسکی وجہ آپکی جدائی ہے جسے پر مزید پتھر کر رہی ہیں بار بار یہ کہہ کر کہ آپ مجھ سے نفرت کرتی ہیں ۔۔۔۔ کیا قصور ہے میرا ۔۔۔ 

اسکا چہرہ بےحد قریب کرتے ہوئے وہ بول رہا تھا جبکہ وہ بغیر پلکیں جھپکے سرخ آنکھوں سے اسکی ہیزل آنکھیں دیکھ رہی تھی جن میں عشق میں ہارا ایک شخص نظر آ رہا تھا ۔۔۔  

یہی قصور ہے بےپناہ محبت کرتا ہوں آپ سے ۔۔۔ یا یہ قصور ہے میرا کہ آپکی محبت کے لئے ترس رہا ہوں انتظار میں ہوں کب میری زارا مجھ سے کہے گی میں آپ سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ 

اسکی گرم سانسیں چہرے پر محسوس کرتی ہوئی وہ آنکھیں میچ گئی تھی ۔۔۔

میرا انجام آپ ہیں ۔۔۔ میری منزل میرے راستے ۔۔۔ میری ہر خوشی آپ سے جڑی ہے زارا ۔۔۔  اسکا گرم چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا مسلسل نمکین پانی کی بوندیں اسکی براؤن آنکھوں سے ٹوٹ کر گر رہی تھی

مت دیں اتنی تکلیف کہ یہ دل سہنے سے عاری ہو جائے ۔۔۔ دور رہنا چاہتی ہیں آپ مجھ سے ۔۔۔ ٹھیک ہے دور رہیں ۔۔۔ لیکن میری بن کر رہیں کبھی الگ نہیں کر سکتا خود سے زارا ۔۔۔ میری جان بستی ہے آپ میں ۔۔۔ بےبس ہوں اپنے جزباتوں کو لیکر ۔۔۔۔ مجبور ہوں دل کے ہاتھوں ۔۔۔ بےپناہ عشق کرتا ہے یہ آپ سے ۔۔۔  ہیزل آنکھوں میں نمی پیدا ہوئی تھی ۔۔۔ 

وہ سہمی ہوئی تیز دھڑکتے دل کیساتھ اسکی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی جن میں سرخی پھیل رہی تھی ۔۔۔ 

کبھی طلاق نہیں دوں گا زارا ۔۔۔ کبھی نہیں ۔۔۔ بھول جائیں ۔۔۔ مر جاؤں گا لیکن خود سے الگ نہیں کروں گا ۔۔۔ اسکا نازک وجود کندھوں سے  گرفت میں لیتے ہوئے وہ سخت لہجے میں بولا ۔۔۔

وہ لرزتے ہوئے وجود کیساتھ اسکے جنوں کی بڑھتی حدوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

لیکن اکے سر پر تو  نفرت کا بھوت سوار تھا اسے زونی کیساتھ دیکھ کر 

ہم۔۔۔ہم۔۔۔نفرت کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔  خوفزدہ لہجے میں

وہ لرزتے ہوئے بولی تھی جس پر وہ سرخ آنکھوں سے اسکا آنسوں سے بھیگا چہرہ دیکھ کر رکا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔ نفرت کریں ۔۔۔ بےانتہا کریں ۔۔۔ لیکن اگر آپ نے اس جنونی وحشی درندے سے دور جانے کی ایک بھی کوشش بھی کی ناں ۔۔۔ جان سے مار دوں گا ۔۔۔ 

باسکے بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے  اسکا چہرہ بےحد پاس کرتے ہوئے وہ اسے کپکپا دینے والے لہجے میں بولا تھا ۔۔۔ 

آج کے بعد کبھی قریب نہیں آؤں گا آپکے ۔۔۔ اسکا چہرہ چھوڑتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کہہ کر کمرے سے باہر نکل چکا تھا 

وہ دبی دبی سسکیوں کے بیچ روتے ہوئے کشن میں چہرہ دے کر صدمے سے نڈھال ہوتی چلی گئی 

                              ★★★★★★★

سرخ برائیڈل ہیوی میکسی پر ہیوی برائیڈل جیولری پہنے وہ مغموم سی چال چلتی ہوئی پروفیشنلز کیساتھ مین ہال تک پہنچی تھی 

صدیقی صاحب نے اپنی بیٹی کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے اسے سینے سے لگایا تھا 

سبز جھیل سی آنکھوں سے  ایک موتی ٹوٹ کر اسکے گلابی گال پر گرا تھا آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ صدیقی کے سینے سے لگتے ہوئے سسکی تھی 

نہیں بچے ۔۔۔ رونا نہیں ۔۔۔ شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اسے اسٹیج تک لائے تھے ۔۔ فائزہ بیگم (عشیق کی پھوپھو) نے اسے مسکراتے ہوئے گلے لگا کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیکر ڈھیروں محبت سے کہا

ماشاءاللہ ۔۔۔ میری بچی کتنی پیسری لگ رہی ہے ۔۔۔ 

کیسے بتائیں بابا جان ۔۔۔ ہمارادل گھبرا رہا ہے لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو جائے گا ۔۔۔ ہم دور نہیں جانا چاہتے آپ سے بابا جان ۔۔۔ اپنی عشی کو دور مت کریں خود سے ۔۔

بھاری چنری کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے وہ نظریں جھکائے گلابی پھولوں  سے سجی اسٹیج کے بیچ و بیچ پڑے سفید صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔۔ سامنے گولڈن نیٹ دار پردہ لگایا گیا تھا ۔۔۔ پردے کے سامنے ہی کاشف وائٹ شیروانی میں ملبوس بہت اٹریکٹیو لگ رہا تھا ۔۔۔

نکاح شروع کریں مولوی صاحب ۔۔۔ صدیق صاحب نے عشیق کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکا حوصلہ بڑھایا اور مولوی صاحب سے کہا ۔۔۔

سامنے بیٹھے کاشف نے ایک طائرانہ نظر سامنے بیٹھی پری سی معصوم اس  لڑکی  کے جو اسوقت بھاری لہنگے میں ملبوس تھی نازک وجود پر ڈالی تھی۔۔۔ 

لائٹ سے میک اپ میں بڑی بڑی سبز آنکھوں پر گولڈن شمری لگائے ،، باریک عنابی ہونٹوں پر ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگائے وہ کوئی پری معلوم ہو رہی تھی ساتھ ہی بھاری پلکوں کی جھالر بجھائے اس وقت بےحد الجھی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔

عشیق بنتِ وجاہت  احمد صدیقی آپکا نکاح ۔۔۔

مولوی صاحب نے خوفزدہ نظروں سے آواز کی مت دیکھا تھا 

فضا میں فائرنگ کی آواز نے سب کو حیران و پریشاں کر دیا تھا سب اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی جان بچانے کے لیے دوڑے تھے ۔۔۔ بلیک سوٹ میں ملبوس کچھ لوگ منہ بلیک رومال سے ڈھانپے صدیقی مینشن میں گھسے تھے ۔۔ 

صدیقی صاحب عشیق کا ہاتھ پکڑے اسٹیج سے نیچے اترے تھے ۔۔۔ فون نکال کر مرجان کا نمبر ملانا چاہا مگر گارڈ نے لپک کر اسکے ہاتھ سے فون لیکر زمین پر پھینکتے ہوئے اس پر اپنا بوٹ رکھ کر اسے کچل ڈالا تھا۔۔۔۔

کوئی ہوشیاری نہیں بوڑھے آدمی ۔۔۔ ایک گارڈ نے اسکے سینے پر بندوق رکھ کر سخت لہجے میں کہا ۔۔۔ عشیق ڈرتے ہوئے صدیقی صاحب کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑ گئی تھی 

پپ ۔پلیز بابا۔۔۔کو کچھ مت کرنا ۔۔۔

وہ ڈوبتی ہوئی آواز میں بولی 

اچھااا؟ نہیں تو کیا۔۔۔ نازک کلی ۔۔۔ وہ گارڈ آئی برو کھجاتے ہوئے اسکا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے ہوئے خباثت سے بولا 

صدیقی صاحب نے اپنی بچی کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔

کیا سوچ رہا تھا بڈھے ؟ تو اتنی آسانی سے بچ نکلے گا ؟؟ تیری لاش آج سجا کر مرجان کاظمی کو پیش کرنی ہے ۔۔۔ صدیقی صاحب کو گریبان سے پکڑتے ہوئے وہ مکروہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا 

نن۔۔۔نہیں۔۔۔  

اسکے ارادے جان کر عشیق کا دل ڈوب سا گیا تھا 

رکو۔۔۔ 

کاشف اسٹیج سے اترتے ہوئے صدیقی صاحب کی طرف بڑھا تھا

نہیں کاشف ۔۔۔ 

فائزہ بیگم نے چیختے ہوئے اسے روکا تھا گارڈ اسکی جانب پسٹل کرتے ہوئے گولی چلا گیا تھا 

گارڈ نے گولی چلائی تھی اسکی پیشانی کے بیچ و بیچ خون کا فوارہ سا پھوٹا تھا وہ ساکت ہو کر زمین پر گرا تھا عشیق نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخ کا گلہ گھونٹا تھا ۔۔۔۔ 

کاشفففف۔۔۔ میرے بچےےے ۔۔۔

فائزہ بیگم صدمے سے ماتم کرتی ہوئی جوان بیٹے کی لاش پر گری تھی ۔۔۔

صدیقی صاحب نے صدمے سے آنکھیں میچی تھی ۔۔۔ 

بب۔۔۔بابا۔۔۔ کک۔۔۔۔کاشف ۔۔۔کو۔۔۔مم۔۔۔مار۔۔۔دیا 

وہ نڈھال سی ہوتی ہوئی گھٹنوں پر گری تھی ۔۔۔ صدیقی صاحب نے اسکے بےجان وجود کو سمبھالا تھا اسکی آنکھوں سے آنسوں بہتے چلے گئے تھے ۔۔۔۔ 

چل بوڑھے زیادہ وقت نہیں ہے ۔۔۔ گارڈ نے صدیقی صاحب کا گریباں پکڑتے ہوئے انہیں عشیق سے الگ کیا تھا

باباااا۔۔۔ بابا کو کچھ مت کرو ۔۔۔ پلیز 

وہ چیختی ہوئی گارڈ کا پیر پکڑتے ہوئے ہاتھ جوڑ چکی تھی

فکر کیوں کرتی ہے ہاں ۔۔۔ تیرے پاس ہو آؤں گا واپسی ۔۔۔  گارڈ نے خباثت سے کہتے ہوئے اسکے چہرے کو جکڑتے ہوئے کہا وہ حقارت سے اسکا ہاتھ جھٹکتی ہوئی پیچھے کھسکی تھی ۔۔۔ 

اپنے ناپاک عزائم کو میری بچی سے دور رکھو خبیث انسان ۔۔۔ صدیقی صاحب اسکا گریبان پکڑتے ہوئے دھاڑے تھے 

وہ پسٹل کا پچھلا حصہ صدیق صاحب کے سر میں مار چکا تھا ۔۔۔ وہ درد سے کراہتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈھے سے گئے تھے ۔۔۔ 

بابااا۔۔۔

عشیق چیختی ہوئی انکی جانب بھاگی تھی جب گارڈ نے اسے بازو سے دبوچا تھا ۔۔۔

اتنی جلدی کیا ہے تجھے ۔۔۔ 

چھ۔۔۔چھوڑو۔۔۔ باباااا ۔۔۔

مسلسل آنکھوں سے بہتے آنسوں کی وجہ سے اسکی گرین آنکھوں میں سرخی سی واضح ہو رہی تھ۔۔۔۔جھیل سی سبز آنکھوں ڈے مسلسل آنسوں کی لڑیاں ٹوٹ کر اسکے گلابی گالوں پر گر رہی تھی ۔۔ بیٹھتی ہوئی آواز کیساتھ وہ خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

صدیقی صاحب نے بےبس نظروں سے اپنی بیٹی کی جانب دیکھا تھا اور پھر کاشف کے بےسدھ پڑی لاش کو ۔۔۔۔

اللہ پاک۔۔۔۔ معاف کر دینا مجھے ۔۔۔ میں۔۔۔۔میں۔۔۔باپ۔۔۔ہونے۔۔۔کا۔۔۔حق ادا۔۔۔نہیں کر سکا ۔۔۔۔ میری بچی کو ۔۔۔ اپنی حفظ و امان ۔۔۔ میں رکھنا ۔۔۔ 

ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف بےبس نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ عشیق کی جانب دیکھ گئے تھے جو روتے ہوئے انکی جانب آنے کی کوشش کر رہی تھی مگر گارڈز اسے پکڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔

چل بڈھے تیرا ٹائم اوور ہوا ۔۔۔ تو جاننا چاہے گا یہ سب کیسے ہوا ؟ تیرے مرجان کاظمی نے سیکیورٹی تو بہت پروائیڈ کی تھی مگر افسوس کھانے میں زہر ملایا گیا تھا وہ سب تو ایک گھنٹا پہلے ہی ایڑھیاں رگڑتے ہوئے مر گئے ۔۔۔ 

گارڈ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا صدیقی صاحب دنیا جہاں سے بےگانہ ہوئے اپنی بچی کو اپنی جانب آتا دیکھ رہے تھے وہ گارڈز کو دھکا دیتی ہوئی انکی جانب دوڑ کر آئی تھی ۔۔۔

بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے بابا۔۔۔ یہ سب کون ہیں بابا ۔۔۔  کیوں مارنا چاہتے ہیں بابا۔۔۔۔

صدیقی صاحب کا چہرہ اپنے سرخ مہندی لگے ہاتھوں میں لیتی ہوئی وہ سسکیوں کے بیچ بولی تھی 

اپن...ے۔۔۔ بابا۔۔۔ کو معاف کر دینا ۔۔۔  اورر ۔۔۔ رر۔۔ اپنا خیال رکھ۔۔۔نا۔۔۔ میر۔۔۔میری۔۔۔بیٹی ہو تم۔۔۔ بی۔۔۔سٹرونگ ۔۔۔

صدیقی صاحب نے اسکی آنسوں سے بہتے ہوئے آنسوں کانپتے ہاتھوں کیساتگ صاف کرتے ہوئے روندھے لہجے میں کہا تھا بیٹج کی یہ حالت دیکھ انکی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے ۔۔۔

یہ۔۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے بابا ۔۔۔ 

وہ روتے ہوئے صدیقی صاحب کو 

گلے لگاتے ہوئے بولی ۔۔۔ گارڈ نے اسکا بازو سختی سے دبوچتے ہوئے اسے اپنے باپ سے الگ کیا تھا وہ چیختی ہوئی صدیقی صاحب کی جانب ہاتھ بڑھا کر سسکی تھی ۔۔۔

صدیقی صاحب نے درد سے آنکھیں بھینچی تھی

اسکی آنکھوں کے سامنے گارڈ نے پسٹل لوڈ کرتے ہوئے صدیقی صاحب کے وجود میں ساری گولیاں پیوست کی تھی ۔۔۔

باباااااا۔۔۔

وہ چیخی تھی ۔۔۔ اسکی آواز میں بےحد  کرب اور بےانتہادرد تھا ۔۔۔ 

باباااا۔۔۔ بابا ۔۔۔کو۔۔۔مم۔۔۔مار دیا ۔۔۔

وہ صدمے سے گرتی چلی گئی تھی صدیقی صاحب کی کھلی آنکھوں نے اسکے گرتے ہوئے وجود کو دیکھا تھا مگر اب وہ اسے تھامنے کی حالت میں نہیں تھے ۔۔۔۔

میری۔۔۔بچی۔۔۔کو ۔۔۔ اپنی۔۔۔ حفظ ۔۔۔ و امان۔۔۔میں۔۔۔رکھنا۔۔۔مولا

آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بکھرے ہوئے لہجے میں بول کر ساکت ہوئے تھے ۔۔۔

باباااااااا ۔۔۔ 

وہ صدیقی صاحب کی لاش پر گرتے ہوئے انکا کندھا ہلاتے ہوئے چیخ رہی تھی ۔۔۔۔

بابااا ۔۔۔ اٹھیں بابا ۔۔۔ ہمیں۔۔۔ہمیں چھوڑ کر مت جائیں بابا ۔۔۔ ہم کہاں جائیں گے بابا ۔۔۔ ہم آپکے بغیر نہیں رہ سکتے بابااا۔۔۔۔ 

اس لڑکی کا کیا کریں باس ۔۔۔ پیچھے کھڑے ہوئے گارڈ نے پہلے گارڈ سے پوچھا جس نے صدیقی صاحب پر گولیاں چلائی تھی 

کیا کیا جائے ۔۔۔ وہ داڑھی کھجاتے ہوئے خباثت سے بولا تھا ۔۔۔۔ 

عشیق صدمے سے نڈھال اپنے باپ کی لاش پر آنسوں بہا رہی تھی ۔۔۔ مسلسل رونے کیوجہ سے اسکے آنسوں خشک ہو چکے تھے آنکھیں سوجھ کر سرخ ہو گئی تھی ۔۔۔ مگر دل تھا جو درد سے پھٹ رہا تھا ۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اپنے مر جانے کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔۔۔ اسکی کل کائنات آج ختم ہع چکی تھی ۔۔۔۔ وہ لڑکی جو باپ کے سہارے جی رہی تھی آج زمانے کے رحم و کرم پر تھی اسے کچھ معلوم نہیں تھا اسکے ساتھ کیا ہونے والا تھا ۔۔۔

                                       ♥♥♥♥♥♥♥♥

چل اٹھ بہت ہو گیا تیرا رونا دھونا ۔۔

گارڈ نے اسے کندھے سے دبوچتے ہوئے غرا کر کہا وہ کندھے پر درد محسوس کرتے ہوئے سسکی تھی اسکی سخت انگلیاں اسے اپنے نازک کندھے میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی  ۔۔۔ صدیق صاحب کا بےجان ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھوٹتے ہوئے زمین پر گر کر ساکت ہوا ۔۔۔ 

چل اب ۔۔۔ اسے آگے کو دھکا دیتے گارڈ اسکے پیچھے چل دیا تھا ۔۔۔

ہمیں بابا کے پاس ۔۔۔

چپ ۔۔ ایک دم چپ ۔۔۔ ورنہ ایک تھپڑ بھی برداشت سے باہر ہو گا ۔۔۔

وہ سہمی ہوئی نظروں سے گارڈ کو دیکھتے ہوئے بوجھل قدموں کیساتھ چل دی تھی آج تک صدیق صاحب نے اسے ڈانٹا تک نہیں تھا وہ تو سخت لہجوں پر بھی رو دیتی تھی مگر صحیح کہتی ہے دنیا جب لڑکی کے سر سے باپ کا سایہ ہٹ جائے تو پوری دنیا بےرحم ہو جاتی ہے ۔۔۔۔

بیٹھ کار میں ۔۔۔  

کار کا دروازہ کھولتے ہوئے گارڈ نے سختی سے اسے کار کی طرف دھکا دیا تھا اسکی پیشانی کار کے ہوڈ سے لگی تھی ۔۔۔ درد کی لہر اسکے سر میں دوڑ گئی تھی ۔۔۔۔

باس ہمیں بھی لے چلیں ۔۔۔ ہم بھی دل بہلا لیں گے ۔۔۔دو اور  گارڈز انکے قریب آتے بولے تھے جبکہ انکے ارادے جان کر وہ لرز گئی تھی ۔۔۔

نن۔۔۔نہیں ۔۔۔ہم ۔۔۔ ایسا ۔۔۔ نہیں ہونے دیں گے ۔۔۔ کب۔۔ھی ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ہمیں بھاگنا۔۔۔ہو گا یہاں سے ۔۔۔ میں آپکی بیٹی ہوں بابا ۔۔۔ میں کچھ نہیں ہونے دوں گی اپنے ساتھ۔۔۔

سختی سے ہاتھ سے آنسوں صاف کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں عہد کر چکی تھی سہمی ہوئی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لے رہی تھی جبکہ گارڈز گہری گفتگو میں مصروف تھے 

بب۔۔۔۔باس پولیس آ گئی ہے

تینوں گارڈز نے گھبرا کر ہڑبڑائے ہوئے اپنی طرف بڑھتے گارڈ کو دیکھا تھا ۔۔۔

وہ موقع دیکھ کر فوراً سے وہاں سے بھاگی تھی ۔۔۔

انکی لاشیں لے لی تم نے ؟ سب ہو گیا ناں ۔۔۔

گارڈ نے باقی دو گارڈز سے استفسار کیا ۔۔۔۔ انہوں نے ہاں میں سر ہلا کر اسے مطمئن کیا تھا 

ارے عقل کے دشمنو ۔۔۔ وہ لڑکی کہاں گئی بےوقوفوں ۔۔۔

عشیق کا خیال آنے پر وہ اسکی سمت دیکھ چکا تھا جہاں وہ موجود نہیں تھی ۔۔۔ اسے ناں پا کر ۔۔۔ غصے سے لال ہوتے ہوئے دھاڑا تھا ۔۔۔ باقی گارڈز جلدی سے وہاں پہنچے تھے ۔۔۔

اسے راستے میں ڈھونڈ لیں گے زیادہ دور نہیں گئی ہو گی ۔۔۔  گارڈ نے کار سٹارٹ کرتے ہوئے مشورہ دیا سب نے اس کے مشورے سے اتفاقِ رائے کیا کار تیزی سے روڈ پر دوڑتے ہوئے وہ آس پاس نظریں گھما کر اسے تلاش رہے تھے ۔۔۔

انسپیکٹر ہاشم اپنی ٹیم کیساتھ کسی مہمان کی اطلاع ملنے پر فوراً وہاں پہنچا تھا سب بکھرا ہوا تھا ۔۔۔ مگر صدیق صاحب انکے داماد اور انکی بیٹی کو نا پاکر اس نے فوراً مرجان کو فون ملایا تھا ۔۔۔۔

میرے  جوان بچے کو مار ڈالا۔۔ میرے بھائی کو مار ڈالا ۔۔۔ میری بچی کو لے گئے وہ ذلیل لوگ  ۔۔۔ فائزہ بیگم صدمے سے نڈھال زمین پر بیٹھی ہوئی چیخ چیخ کر بول رہی تھی ۔۔۔ 

انویسٹیگیشن کرو ۔۔۔ اور وہ لوگ کون تھے کہاں سے آئے تھے سب معلوم کرو ۔۔۔ 

ہاشم آرڈر دیتے ہوئے دوبارہ فون کو کان سے لگا چکا تھا مگر مرجان فون نہیں اٹھا رہا تھا

کال کنیکٹ ہوتے ہی ہاشم نے جلدی سے اسے آگاہ کیا تھا کیونکہ صدیقی صاحب اسکے لئے کام کرتے تھے اس لئے پہلی اطلاع اسے دی گئی تھی وہ کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچا تھا ۔۔۔ 

ہمیں انفارمیشن جیسے ہی ملی ہم یہاں پہنچ گئے لیکن وہ صدیقی صاحب کو قتل کر چکے تھے افسوس کیساتھ ۔۔۔ ہاشم نے اسکے ساتھ چلتے ہوئے بتایا اسکی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ۔۔۔

انکی بیٹی غائب ہے ۔۔۔ اور یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ صدیق صاحب کے ہونے والے داماد کو بھی انہوں نے مار دیا ۔۔۔ ہمیں باڈیز نہیں ملی ۔۔۔ 

نہیں چھوڑوں گا اب میں تمھیں ۔۔۔ تم جو کوئی بھی ہو تمھیں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہو گا ۔۔۔۔ مٹھیاں بھینچے وہ دھاڑا ۔۔۔ ہاشم نے شرمندگی سے سر جھکایا تھا وہ دیر سے پہنچا تھا ۔۔۔ 

                                      ♥♥♥♥♥♥♥♥

سنسان سڑک پر وائٹ کلر کی لینڈ کروزر فراٹے بھرتے ہوئے دوڑ رہی تھی ہوا کا سینا چاک کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے روڈ پر نظریں گاڑھے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا کار ڈرائیو کر رہا تھا تھا ۔۔۔ اسے صدیقی صاحب کی موت کی اطلاع مل چکی تھی اسے خوش ہونا چاہیے تھا اپنے رقیب کی موت پر ۔۔۔ مگر اسکا دل کہیں ناں کہیں اداس تھا ۔۔۔ ایک سکوت سا چھایا ہوا تھا اسکے دل و دماغ پر ۔۔۔ 

کیا ہو گیا ہے تمھیں۔۔ تم انسان نہیں ہو ۔۔۔ تمھارے پاس دل نہیں ہے ڈیم اٹ ۔۔۔ پھر کیوں ۔۔۔ کیوں دھڑک رہا ہے اتنی تیزی سی ۔۔۔ 

وہ اسٹیئرنگ پر سختی سے ہاتھ مارتے ہوئے دھیمی آواز میں بول رہا تھا

                                       ♥♥♥♥♥♥♥♥

لمبا سانس ہوا کے سپرد کر وہ ہانپتے ہوئے رکی تھی۔۔۔ پسینے میں شرابور وہ تھکی ہوئی آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے ہانپ رہی تھی ۔۔۔ اسکا وجود زلزلوں کی زد میں تھا ۔۔۔ خوف سے کانپتے ہوئے وہ سنسان سڑک کو دیکھ رہی تھی آج وہ بالکل اکیلی تھی کچھ باقی نہیں رہ گیا تھا اسکے پاس ۔۔۔

یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا ۔۔۔ ہوا میں شدید خنکی تھی ۔۔۔ آسمان تاروں سے بھرا ہوا تھا  اور سبزی مائل پیلے لیمپ ہموار سخت سڑک پر دور دور تک اپنی مدھم روشنی بکھیر رہے تھے ۔۔۔

وہ سردی محسوس کرتے ہوئے ہیووی دوپٹے کو خود کے گرد لپیٹتی ہوئی ہاتھ رگڑتے ہوئے دھیرے دھیرے سے چل رہی تھی ۔۔۔

پیچھے سے آتی ہوئی تیز روشنی پر اسے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔۔۔ اسکے قدموں کی چاپ میں تیزی آئی تھی سنسان سڑک پر پایل کی چھن چھن سنائی دی تھی وہ پیچھے دیکھتے ہوئے بوجھل قدموں کیساتھ ایک بار پھر بھاگی تھی ۔۔۔ 

اللہ پاک ۔۔۔ پلیز ہمیں ان سے بچا لیں ۔۔۔ سسکی بھرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں اللہ سے مدد طلب کر رہی تھی ۔۔۔ کار اسکے بےحد نزدیک پہنچ چکی تھی ۔۔۔

وہ رہی وہ لڑکی ہاہا کہاں تک بھاگے گی۔۔۔ گارڈ نے ونڈو سے سر نکال کر قہقہ لگایا تھا جس پر اسے اپنا دل کسی کھسئی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ سانسیں تیز ہوئی

اللہ پاک پلیز ہمیں مار دیں ۔۔۔ اسی وقت مار دیں ۔۔۔ ہماری جان چلی جائے ۔۔۔ سسکتے ہوئے وہ خوف سے آنکھیں میچتے ہوئے بھاگ رہی تھی ۔۔۔ سامنے سے آتی ہوئی تیز رفتار گاڑی کو بھی وہ نہیں دیکھ پائی تھی ۔۔۔ 

چررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روڈ پر گاڑی کے ٹائرز سنسناہٹ پیدا کرتے رکے تھے ۔۔۔ کار اس سے ٹھیک ایک انچ پر رکی تھی ۔۔۔

آااااہہہ ۔۔۔

وہ چیختی ہوئی آنکھوں پر ہاتھ دیکر  خوف سے وہیں بےہوش ہو چکی تھی ۔۔۔ 

کار سے باہر نکلتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اس عروسی لباس میں سجی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر رکا تھا ۔۔۔ جبکہ سامنے سے آتے ہوئے گارڈز نے فوراً گاڑی کو واپس بھگایا تھا ۔۔۔ وہ اس شخص کو نہیں پہچان سکے تھے ۔۔۔ اس لئے وہاں سے فوراً نکل گئے تھے ۔۔۔

اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے براؤن بالوں کو سرد انگلیوں سے ہٹاتے ہوئے وہ تھم سا گیا تھا ۔۔۔

دودھیا سی رنگت ۔۔۔ چہرے پر بلا کی معصومیت ۔۔۔ اور اسکی گھنی پلکوں کی جھالر نے اسکی بےحد حسیں گرین آنکھوں کو چھپائے رکھا تھا مگر وہ اسکے بےپناہ حُسںن پر ششدر رہ گیا تھا آج تک اسنے اس قدر معصومیت سے بھرپور نقوش چہرے کو نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ باریک عنابی سرخ ہونٹ خوف سے کانپ رہے تھے ۔۔۔ چھوٹی سی ناک میں موجود وہ نتھ جسکا مہرون موتی اسکے ہونٹوں سے ٹکرا رہا تھا  ۔۔۔ اسکے دل کی دھڑکن کی رفتار میں تیزی کا باعث بنا تھا 

آج اس پتھر دل شخص کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔۔۔ وہ کچھ پل یونہی اسکے قریب بیٹھا اسکے حسیں نقوش چہرے کو حفظ کرتا رہا ۔۔۔  

 کچھ دیر بعد نرمی سے اسکا چہرہ تھپتھپایا مگر وہ بےہوش ہی رہی ۔۔۔

کار سے پانی لا کر سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر ہلکی پھلکی پانی کی بوندوں کا چھڑکاؤ کیا تھا ۔۔۔  وہ پھر بھی خفا ہی رہی ۔۔۔ مسلسل بھاگنے کی وجہ سے اسکے جسم میں باقی سکت ختم ہو گئی تھی۔۔۔ صدمے نے اسے اس قدر کسک دی تھی کہ وہ نڈھال ہو گئی تھی ۔۔۔  

اسکےہلکے سے وجود کو مظبوط بازو میں بھرتے ہوئے اسنے کار کی بیک سائڈ کا دروازہ کھول کر اسے نرمی سے کسی اینٹیک پیس کی طرح سمبھال کر سینٹ پر سلایا تھا ۔۔۔ یہ وہ ہی جانتا تھا کس قدر احتیاط سے اسنے یہ کام کیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اسے ایک خراش بھی آئے ۔۔۔

اسکی چوڑیوں نے ہلکی آہٹ پیدا کی تھی جس پر وہ مہبم سا مسکرایا تھا۔۔۔ اگر اسکے ورکرز اسے اس طرح مسکراتے دیکھ لیتے تو فوراً بےہوش ہو جاتے وہ بھلا کہاں مسکراتا تھا ۔۔۔ 

سرد سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہوئے گاڑی کو اپنے فارم ہاؤس کی طرف  تیز اسپیڈ میں گامزن کر چکا تھا ۔۔۔

                                      ♥♥♥♥♥♥♥♥

خود پر کسی کی لو دیتی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے وہ نیند میں کسمسائی تھی ۔۔۔

نم آنکھوں کو دھیرے سے وا کرتے ہوئے وہ ہوش میں آنے لگی سر میں درد کی ٹھیس ابھری سر کو تھامتے ہوئے اسنے دھندلے مناظر دیکھے کچھ ہی دیر میں دھندلے مناظر  شفاف تصویر میں بدل گئے ۔۔۔ وہ ایک کشادہ عالی شان کمرے میں موجود تھی ۔۔۔ فرش پر ڈارک بلو قالین بچھائی گئی تھی ،، ونڈو پر لگے ریشمی سفید پردی ہوا سے حرکت کر رہے تھے ۔۔۔  دیواروں پر آف وائٹ کلر کا پینٹ کیا گیا تھا ۔۔۔ کمرے کے بیچ میں ایک شیشے کی ٹیبل رکھی گئی تھی اسکے سامنے ہی لکژری بلیک صوفے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔ خود کو انجان جگہ پا کر اسکا دل ڈوبنے لگا ۔۔۔ 

وہ جو کب سے اسے اپنے کمرے میں موجود ایل سی ڈی پر کیمرے سے دیکھ رہا تھا سنجیدگی سے دروازہ کھولتے ہوئے اسکے روبرو آیا تھا ۔۔۔

سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ جلدی سے بیڈ سے اتری تھی ۔۔۔

کک۔۔۔کون ہیں آپ ؟

روندھی ہوئی باریک آواز سنائی دی ۔۔۔

اسکی باریک آواز پر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی ۔۔۔

اور آپ نے ۔۔۔ چچ۔۔۔چہرہ کیوں چھپایا ہے ۔۔۔ کوو۔۔ن ہیں آپ بولیں ؟ ۔۔۔ہم۔۔۔ وہاں بےہوش ہوئے تھے ۔۔۔ کک۔۔۔کیوں لیکر آئے آپ ہمیں یہاں۔۔۔۔ کیا مق۔۔۔صد ہے آپکا ؟؟ 

کانپتے ہوئے لہجے میں مسلسل اس پراسرار ہستی کو دیکھتے ہوئے وہ لرزتے ہوئے بولی 

تو آپ واپس جانا چاہتی ہیں ؟

سرد بھاری دلفریب آواز نے اسکے دھڑکتے دل کو سختی سے جکڑا تھا ۔۔۔ 

ہمم۔۔۔ہمیں۔۔۔ واپس جانا ہے

خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ لہنگے کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولی تھی

واپس اپنے گھر ؟

سوالیہ  روعبدار لہجہ تھا ۔۔۔

جبکہ لفظ گھر سن کر اسکی سبز آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر اسکے گال پر لڑھک گئے ۔۔۔ سختی سے لب بھینچتی ہوئی وہ نظریں پھیر کر دبی دبی آواز میں سسکی تھی ۔۔۔

نہ۔۔نہیں۔۔۔ آپ ہمیں۔۔۔کسی قریبی ۔۔۔ یتیم خانے میں چھوڑ دیں ۔۔۔

گال کو سختی سے رگڑ کر آنسوں صاف کرتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی ۔۔۔

میں آپکو  کسی یتیم خانے میں نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔ البتہ۔۔۔۔میرے پاس ایک بہتر آپشن ہے ۔۔۔

سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھتے ہوئے بھاری گمبھیر آواز میں بولا وہ سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے رکی 

مجھ سے نکاح کر لیں اور یہاں رہیں ۔۔۔ 

اسکے آپشن نے جیسے اس معصوم لڑکی کے سر پر بم گرایا تھا ۔۔۔ اسکی پیشکش پر وہ کانپ کر رہ گئی تھی ۔۔۔  آج ہی اسے والد کی وفات ہوئی تھی اور اب اسے نکاح کی پیشکش کی گئی تھی ۔۔۔ وہ بھی ایک انجان ہستی سے جس سے وہ کچھ گھنٹوں پہلے ملی تھی ۔۔۔

آپکے پاس ایک گھنٹے کا وقت ہے ۔۔۔  میں آپکو کسی یتیم خانے میں نہیں چھوڑنے والا ۔۔۔ اگر آپ گھر نہیں جا سکتی تو میرے ساتھ یہاں رہیں میرے نکاح میں رہ کر ۔۔۔ اور سگر آپ ایسا نہیں کرتی تو میں آپکو ٹھیک اسی جگہ چھوڑ کر آؤں گا جہاں سے آپ کو لایا تھا ۔۔۔

سر آواز میں کہتے ہوئے وہ صوفے سے اٹھ کر کمرے سے واک آؤٹ کر چکا تھا ۔۔۔

ہونٹوں پر ہاتھ دیتے ہوئے وہ گھٹنوں پر ڈھے کر سسکتی چلی گئی ۔۔۔ 

اللہ پاک ۔۔۔ اتنا مشکل امتحان کیوں ؟ بچپن میں ہی آپ نے ہم سے ہماری امی کو چھین لیا ۔۔۔ ایک ۔۔۔ ایک بابا ہی تو تھے ۔۔۔ انکو بھی آپ نے لے لیا ۔۔۔ کک۔۔۔کیا کریں گے اب ہم ۔۔۔ کک۔۔۔کہاں۔۔۔ججا۔۔ئیں گے ۔۔۔

بلک بلک کر روتے ہوئے وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ کر ہچکیوں کے بیچ بولنے لگی 

کک۔۔۔کاشف کو بھی مم۔۔مار دیا ۔۔۔ بابااا ۔۔۔ 

صدیقی صاحب کا ساکت وجود اسکی نظروں کے سامنے آیا

سسکتے ہوئے اپنے کلائی میں پہنی سرخ چوڑیاں کو دیوار پر مارتے ہوئے کرب سے چیخی تھی  ۔۔۔۔

ہم۔۔۔ہم۔۔۔ واپس نہیں جائیں گے ۔۔۔ وہ۔۔۔وہ لوگ ہمیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ہم ۔۔ ہم نہیں جائیں گے ۔۔۔کک۔۔۔کبھی نہیں ۔۔۔

سر کو جنبش دیتے ہوئے وہ روتے ہوئے خود کلامی کر رہی تھی

🖤🖤  بابا ۔۔۔ آپ سے ایک بات پوچھیں ہم ؟ 

صدیقی صاحب نے شفقت سے اپنی لاڈلی بیٹی کا سر گود میں رکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔۔۔

بابا ۔۔۔ ہمارے نام کا کیا مطلب ہے ؟  وہ معصومیت سے صدیقی صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھ رہی تھی 

بیٹا ۔۔۔ عشیق کا مطلب ہے محبت ۔۔۔ عشق ۔۔۔ 

صدیقی صاحب نے محبت سے جواب دیا

لیکن ہم سے کوئی پیار نہیں کرتا سوائے آپ کے ۔۔۔ وہ انکی گود سے سر ہٹاتے ہوئے خفگی سے بولی تھی

بیٹا آج آپکا نکاح ہے ناں کاشف سے ۔۔۔ وہ آپ سے بےحد محبّت کریں گے ۔۔۔ بیٹی کا سر تھام کر اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے وہ شفقت سے بولے 

لیکن ہمیں آپکے پاس رہنا ہے بابا آپ ہمیں کیوں خود سے دور بھیجنا چاہتے ہیں ۔۔۔ وہ خفا لہجے میں بولی تھی جس پر صدیقی صاحب کی آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے ۔۔۔

بیٹا ۔۔۔ میں چاہتا ہوں میری بچی ہمیشہ سلامت اور خوش رہے ۔۔۔ کاشف آپکو لیکر دبئی چلا جائے گا اور پھوپھی جان بھی آپکا بےحد خیال رکھیں گی ۔۔۔۔ صدیقی صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر کہا تھا ورنہ اپنی کل کائنات اپنی اولاد کو اپنے سے دور بھیجنا انکے لئے بےحد تکلیف دہ تھا ۔۔۔ 

وہ لب بھینچتی ہوئی صدیقی صاحب کو گلے لگاتے ہوئے مسکرا دی 🖤🖤

بابا۔۔۔ بابا کو مار دیا ہمارے بابا کو ۔۔۔  ایک بار پھر تلخ یادوں نے اسے گھیرے میں لیا تھا گھٹنوں میں سر دیتے ہوئے وہ مسلسل آنسوں بہا رہی تھی 

                                    ♥♥♥♥♥♥♥♥

نہ جانے ایک گھنٹا کب گزرا تھا 

دروازے پر دستک ہوئی تھی وہ آنسوں صاف کرتی ہوئی مردہ قدموں کیساتھ دروازہ کھول چکی تھی

سامنے ایک دودھیا رنگت گوری سی لڑکی مخصوص یونیفارم میں کھڑی تھی

آپکو سر نے بلایا ہے ۔۔۔  مسکراتے ہوئے خوشدلی سے بولی تھی 

وہ سر ہلاتے ہوئے بوجھل قدموں کیساتھ چلتی ہوئی اسکے ساتھ ایک عالی شان محل نما ہال میں آئی تھی لائٹنگ رات میں بھی دن سا منظر پیش کر رہی تھی ۔۔۔ ہال کے بیچ و بیچ لکژری ویلویٹ کے بلیک صوفے رکھے گئے تھے ۔۔ وہ پراسرار شخصیت پوری وجاہت کیساتھ صوفے پر براجمان تھا ۔۔ 

کیا سوچا آپ نے ؟ 

اسکے لرزتے ہوئے وجود کو دیکھ کر وہ سنجیدہ لہجے میں بولا

لب کاٹتی ہوئی وہ پریشانی سے سر جھکا گئی تھی ۔۔۔ 

میں آپکے جواب کا منتظر ہوں ۔۔۔

دوبارہ وہی سرد دلفریب آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔۔

ٹھیک ، ٹھیک ہے ہم آپ سے نکاح کریں گے ۔۔۔

وہ دبی ہوئی آواز میں نظریں جھکائے بولی تھی

سامنے ویلویٹ کے بلیک صوفے پر بیٹھے اس شخص کے عنابی ہونٹوں پر ایک دلکش مسکراہٹ نے رقص کیا تھا مگر وہ اسکا چہرہ ڈھکا ہونے کی وجہ سے اسکی پرکشش مسکراہٹ سے محروم رہی تھی ۔۔

لی۔۔۔لیکن 

وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولتی ہوئی رکی 

لیکن کیا ؟! 

اسکی سرد دلفریب آواز پر وہ نظریں اٹھاتے ہوئے اسکی جانب دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔

ہمیں۔۔۔ اپنا ۔۔۔نن۔۔۔نام بتائیں ۔۔۔ اور ۔۔۔چچ۔۔۔چہرہ دیکھائیں ۔۔۔

وہ بھاری لہنگے کو مٹھی میں مروڑتے ہوئے پلکوں کو جھرجھری دیتے ہوئے بولی تھی

افسوس میں ایسا نہیں کر سکتا ،، اور یہاں تو بالکل نہیں ۔۔۔ وہ اپنے گارڈز کو دیکھتے ہوئے تشویش سے بولا تھا ۔۔۔

میں آپ پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا لہذا میرے گارڈز آپکو اس سڑک تک چھوڑ دیں گے جہاں سے میں آپکو لایا تھا ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے صوفے سے اٹھا تھا ۔۔۔

نن۔۔۔نہیں۔۔۔ ہم۔۔۔یہ۔۔نکاح۔۔۔کریں گے ۔۔۔ ہمیں واپس وہاں مت بھیجیں ۔۔۔  خوف سے کانپتے ہوئے وہ فوراً ہڑبڑا کر بولی تھی ۔۔۔

وہ ماسک کے پیچھے مبہم سا مسکرایا تھا ۔۔۔

مم۔۔مگر ۔۔۔ہمیں آپکا نن۔۔نام نہیں پتا ۔۔۔ 

وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے فرش پر بچھی ڈارک بلو قالین کو گھورتے ہوئے بولی تھی

وہ سب جاننے کی آپکو ضرورت نہیں ،، ریحان ۔۔ مولوی صاحب کو لیکر آؤ ۔۔۔ سرعت سے اس عروسی لباس میں پور پور سجی اس سراپا قیامت کو دیکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کہہ کر اس کشادہ ہال سے واک آؤٹ کر گیا تھا ۔۔۔

اسکا اسپیشل گارڈ اسکے صادر کئے گئے حکم پر فوراً مولوی صاحب کو لینے نکل گیا تھا

بابا ۔۔۔۔ ہمیں معاف کر دینگے ناں آپ ۔۔۔ ہم آج کے دن اپنی زندگی کی نئی شروعات اس طرح کرنے جا رہے ہیں ۔۔۔ ہم مجبور ہیں ہم واپس نہیں جا سکتے وہاں بابا ۔۔۔ وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھیں میچ کر خود کلامی کے دوران بولی تھی 

وہ لڑکی اسے لیکر کمرے کی جانب چلی گئی تھی 

                                        ♥♥♥♥♥♥♥♥

یہ کیا کرنے جا رہے ہو تم ۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے سامنے کھڑے ہوئے شخص کو دیکھ کر صوفے سے پشت لگاتے ہوئے آنکھیں موندے لیٹا تھا ۔۔۔

تم جانتے بھی ہو وہ لڑکی کون ہے ؟ صدیقی کی بیٹی ہے ۔۔۔ اسکے باپ کو تم نے آج ہی مروایا ہے ۔۔۔ اسکے منگیتر کو مروایا ہے تم نے ۔۔۔ اسے بربادی کی راہ پر لانے کے بعد اسکے ساتھ نکاح کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو تم ؟ 

وہ بدمزہ ہوتے ہوئے پرکشش نیلی آنکھیں وا کرتے ہوئے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھ سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ 

میں نہیں جانتا کیوں ۔۔۔ مجھے ہمدردی ہو رہی ہے اس بےسکوں وجود سے ۔۔۔۔۔ پیشانی پر بکھرے ہوئے براؤن سلکی بالوں کو ہاتھ پھیر کر کہتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا

تو نکاح کیوں کرنا چاہتے ہو اس سے ؟ ہمدردی افسوس کر کے بھی جتائی جا سکتی ہے ۔۔۔ معافی مانگ ۔۔۔

نیور ۔۔۔ ایوور ۔۔۔ ڈونٹ یو ڈیئر ۔۔۔  اسے کبھی پتا نہیں چلے گا اسکی فیملی کو میں نے مارا ہے ۔۔۔ جنونی انداز میں کہتے ہوئے وہ سامنے کھڑے شخص کو حیرت سے چونکنے پر اکتفا کر چکا تھا ۔۔۔۔

اسکا مطلب لفظ عشق سے بےحد نفرت کرنے والا وہ درندہ صفت انسان آج ایک چھوٹی سی لڑکی سے عشق کر بیٹھا ہے ۔۔۔ لہجہ طنزیہ تھا ۔۔۔ 

کر بیٹھا ہوں اس سے عشق ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ وہ میرے حواسوں پر چھائی ہوئی ہے ۔۔۔ آنکھیں میچتے ہوئے وہ سر صوفے پر گراتے ہوئے کرخت لہجے میں بول رہا تھا ۔۔۔ 

اسکی ان آنکھوں میں بےحد معصومیت ہے ۔۔۔ جب سے اسے دیکھا ہے دل بےسکوں ہے ۔۔۔ میں اسے حاصل کر کے اس تیز دھڑکتے دل کو تسکین دینا چاہتا ہوں ۔۔۔ 

آنکھیں موندے وہ سرد لہجے میں بول رہا تھا ۔۔۔

اور جب اسے پتا چلا اسکے باپ کے قاتل تم ہو ۔۔۔۔

وہ کبھی نہیں جان پائے گی ۔۔۔ پسٹل لوڈ کرتے ہوئے اس پر سپریسر لگا کر وہ سامنے کھڑے شخص کے دل پر گولی چلا چکا تھا ۔۔۔

دھڑام سے اسکا ساکت وجود زمین بوس ہوا تھا ۔۔۔

سر ۔۔۔ 

مولوی صاحب آ گئے ہیں ۔۔۔

دروازے پر  ریحان کی دستک سن کر پسٹل نیچے گراتے ہوئے وہ چہرہ ماسک سے ڈھانپتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا تھا ۔۔۔۔ 

میم پلیز یہ ڈرہس جلدی سے پہن لیں مجھے آپکو تیار بھی کرنا ہے اور اگر دیر ہو گئی تو سر بہت غصہ کریں گے ۔۔۔۔ 

بوکھلائی ہوئی عشیق جو کب سے آدھ منہ کھولے سامنے بیڈ پر رکھی ہوئے گولڈن ہیوی میکسی کو دیکھ رہی تھی پیچھے کھڑی سٹائلسٹ کی بات پر انگلیوں کو مروڑنے لگی 

یہ۔۔۔یہ بہت ۔۔۔ مہنگی ہو گی ۔۔۔

میکسی پر جڑے خوچصورت نگینوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ حیرانی سے بولی جبکہ پیچھے کھڑی سٹائلسٹ پریشانی سے بار بار دروازے کو دیکھ رہی تھی 

میم پلیز آپ چینج کر لیں تاکہ میں آپکو تیار کر دوں ۔۔۔ سر بہت ناراض ہوں گے ۔۔۔ 

لل۔۔لیکن ہم پہلے سے ہی دلہن کے لباس میں ہیں ؟ وہ اپنے سرخ ہیوی لہنگے کو دیکھتے ہوئے معصومیت سے بولی

میم سر نے یہ اسپیشل آپکے لئے بھیجا ہے وہ چاہتے ہیں آپ یہ پہنیں ۔۔۔ سٹائلسٹ نے اسے سمجھایا

ٹھ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔ ہم ۔۔۔ ہم چینج کر لیتے ہیں ۔۔۔ 

بےحد بھاری گولڈن میکسی کو اٹھا کر چینج کرنے کے لئے وہ واش روم کی جانب بڑھ گئی 

گاڈ ۔۔۔ کہاں پھنس گئی میں ۔۔۔  اگر ایک بھی غلطی ہو گئی سر میرے ہاتھ کاٹ دیں گے ۔۔۔ اپنے کانپتے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے وہ بوکھلا کر دھیرے سے بولی تھی 

پتا نہیں اس بیچاری معصوم لڑکی کا کیا ہو گا ۔۔۔ ایسے ڈینجرس انسان کیساتھ کیسے رہے گی بھلا ۔۔۔

ناخن چباتے ہوئے وہ پریشانی سے عشیق پر ترس کھاتے ہوئے سوچنے لگی ۔۔۔

یہ۔۔۔ بہت بھاری پے ہم۔چل نہیں پا رہے ۔۔۔

واش روم سے آتی ہوئی عشیق نے بدحواس ہو کر کہا وہ لڑکھڑاتے ہوئے اس بھاری میکسی میں چل رہی تھی

ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ جسٹ بیوٹیفل ۔۔۔

سٹائلسٹ اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔۔ 

پلیز یہ ۔۔ یہ ہم سے مینیج نہیں ہو رہا ۔۔۔ کمر تک آتے براؤن سلکی بالوں کو کہنی سے پیچھے کرتے ہوئے وہ روندھی ہوئی آواز میں بولی جبکہ سٹائلسٹ تو اسے گھورنے میں مصروف تھی 

ہاں ۔۔۔ میم آپ پلیز یہاں بیٹھیں میں آپکو ریڈی کر دیتی ہوں ۔۔۔

اسکا خیال آنے پر وہ جلدی سے بولنے لگی اور اسے مرر کے سامنے بیٹھانے لگی ۔۔۔

یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ بہت بھاری ہے ۔۔۔ اور ہمیں جبھ رہی ہے ۔۔۔

عشیق نے معصومیت سے شکایت کی جس پر سٹائلسٹ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔۔۔

اسکے چہرے پر لائٹ میک اپ کرنے کے بعد اسکے ہونٹوں پر ریڈ لپ اسٹک لگاتے ہوئے وہ مسکرا کر پیچھے ہوئی ۔۔۔

عشیق نے حیرانی سے خود کو مرر میں دیکھا وہ کوئی پری معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔  اسکے لمبے بالوں کر فرینچ سٹائل بنانے کے بعد وہ اسکے سر پر ایک باریک نفیس سا تاج رکھ چکی تھی ۔۔۔ 

عشیق نے معصومیت سے اپنا عکس دیکھا وہ خود کو پہچان نہیں پا رہی تھی جبکہ سٹائلسٹ نے سکھ کا سانس لیا اب تک وہ جکڑے ہوئے کلیجے کیساتھ سب کر رہی تھی کیونکہ اسے صاف وارننگ دی گئی تھی ایک بھی غلطی اور اسکے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے ۔۔۔ 

                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

مولوی صاحب آ گئے ہیں ۔۔۔

دروازے پر  ریحان کی دستک سن کر پسٹل نیچے گراتے ہوئے وہ چہرہ ماسک سے ڈھانپتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا تھا ۔۔۔۔ 

سر یہ  ڈراؤنا ماسک اتار دیا بھابھی ڈر جائیں گی ۔۔۔۔ 

ریحان نچلا ہونٹ دانت تلے دبا کر ہنسی روکتے ہوئے کہا جس پر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے رکا 

پٹے گا مجھ سے کسی دن ۔۔۔

اسکے سرد لہجے پر ریحان ہنسی روکے بغیر نہ رہ سکا ۔۔۔

دونوں مین ہال میں پہنچے تھے جہاں مولوی صاحب انکا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ اسے دیکھتے ہوئے مولوی صاحب نے حلق تر کیا تھا وہ آدھی رات کو ریحان کیساتھ صرف اس لئے آئے تھے کیونکہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔۔۔ 

دل۔۔۔دلہن کہاں ہے نکاح پڑھوانا ہے ۔۔۔ مولوی صاحب نے دبے ہوئے لہجے میں کہا  ریحان نظریں جھکاتے ہوئے ہنسی دبا گیا تھا ۔۔۔ پاس کھڑے اس شخص نے اسکے پیر پر پاؤں رکھا تھا جس پر وہ بالکل فوجی کی طرح سیدھا ہوا تھا ۔۔

سس۔۔سوری سر ۔۔

دھیرے سے بولتے ہوئے وہ فوراً چپ ہوا

اسے یہاں لانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ اس سے بعد میں دستخط کروا لئے جائیں گے ۔۔۔ 

سنجیدگی سے کہہ کر وہ مولوی صاحب کے سامنے صوفے پر بیٹھا ۔۔

مولوی صاحب نے نکاح نامہ اسکے سامنے رکھا سرد نظروں سے پین کو دیکھتے ہوئے وہ نکاح نامے پر دستخط کر چکا تھا ۔۔۔

                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

گہری نیند میں سوئی زارا نے دھیرے سے آنکھیں وا کرتے ہوئے  بیڈ کی دوسری سائڈ دیکھا جو خالی تھی پھر سامنے پڑے صوفے کو دیکھا جہاں وہ موجود نہیں تھا ۔۔۔

کہاں چلے گئے ۔۔۔ کہیں ہماری باتوں سے ناراض ۔۔۔

اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے وہ حیران ہوئی وہ تو اسے ہتھ کڑی لگا کر گیا تھا لیکن اب وہ آزاد تھی ۔۔۔

ہمیں وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا ۔۔۔ آنکھیں ملتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی 

باہر دیکھتے ہیں شاید باہر ہوں ۔۔۔ بلینکٹ ہٹاتے ہوئے وہ نیچے اتری ۔۔۔ گھڑی پر نظر پڑی آدھی رات گزر چکی تھی ۔۔۔

چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے وہ باہر نکلی ۔۔۔ باہر ہو کا عالم تھا گھر کی لائٹس بند تھی سب سو رہے تھے ۔۔۔

ہمیں۔۔۔ڈڈ۔۔ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ کک۔۔۔کہاں ہوں گے اسوقت ۔۔۔ 

سہمی آنکھوں سے آس پاس دیکھتے ہوئے وہ لائونج تک پہنچی تھی ۔۔۔

بھابھی آپ یہاں ؟

ژالے کے اچانک بولنے پر وہ ڈر سے اچھلی تھی ۔۔۔

ارے ریلیکس ۔۔۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اس لئے کافی بنانے آئی تھی آپ یہاں کیسے بھیا نے آنے دیا آپکو اسوقت باہر ۔۔۔

شریر لہجے میں بولتی ہوئی وہ اسے شرمندہ کرنے لگی 

نن۔۔۔نہیں وہ ۔۔

بالوں کی لِٹ کو کان کے پیچھے اڑیستی ہوئی وہ متذبذب لہجے میں بولی

کیا ہوا لڑائی ہو گئی ؟ 

ژالے نے اسکی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے استفسار کیا 

ہاں ۔۔۔

سرد آہ بھرتے ہوئے وہ سر ہلا کر بولی تھی جس پر ژالے مسکرائی ۔۔۔ 

اور وہ چلے گئےناراض ہو کر۔۔۔

زارا نے افسردہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بتایا 

آئیں میرے ساتھ ۔۔۔ مجھے آج پرابلم بتائیں اور آپکی یہ ژالے پکا آپکی پرابلم کا حل نکال کر آپکو دے گی ۔۔۔

اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ اسے اپنے کمرے میں لے آئی تھی ۔۔۔ بیڈ پر اسے بیٹھاتے ہوئے وہ اسکے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔ وہ نظریں جھکائے انگلیوں کو مروڑنے میں مصروف ہوئی تھی ۔۔۔

دیکھیں بھابھی بتا دیں وہی یہ ناں ہو کے بھائی ہی نکل جائیں آپکے ہاتھ سے ۔۔۔ ژالے نے شرارتی لہجے میں کہا جس پر زارا نے ہڑبڑاتے ہوئے اسے سب بتا ڈالا

اووفف ۔۔۔ بس اتنی سی بات ہے ؟ آپکو ان سے ڈر لگتا ہے ارے وہ ہیں ہی سڑیل ۔۔۔ ژالے نے ایک آنکھ دباتے ہوئے مسکرا کر کہا جس پر زارا نے اسکی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلا کر اسے دیکھا

مگر بہت ڈیشنگ ہیں ۔۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا بھابھی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے انکو۔۔۔۔ دیکھ رہی ہو اس زنیرا کو ۔۔۔ آج کل کیسے بھنبھناتی پھر رہی ہے اور تو اور کبھی سوشل میڈیا اکاؤنٹس تو چیک کریں بھائی کے لڑکیوں کے کمنٹس ہی کمنٹس نظر آئیں گے انکے سنیپس پر ۔۔۔ 

زارا نے منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے ژالے کو ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا ۔۔۔ 

تت۔۔۔تو ۔۔ میں کیا کروں گی 

اپنا خیال آنے پر زارا نے ماتم کرتے ہوئے سوچا 

اس لئے ابھی بھی وقت ہے دیکھیں بھائی آپ کو کچھ نہیں کہیں گے آپ جو بھی کریں گی آپ نے دیکھ لیا ناں بس ڈانٹتے ہیں ۔۔۔ آپ اپنے گن چن کر سارے بدلے لے لو ان سے ۔۔۔ 

نن۔۔نہیں۔۔۔ وہ ہمیں مار ڈالیں گے ۔۔۔

حلق تر کرتی ہوئی وہ روہانسے لہجے میں بول گئی

ارے نہیں کرتے کچھ ۔۔۔ میری گارنٹی ہے ۔۔۔ آپ انہیں دبا کر تنگ کرو اتنا تنگ کرو کہ پاگل ہو جائیں اور جب آپکا بدلہ پورا ہو جائے آپ ان سے اظہارِ عشق کر دیجیئے گا ۔۔۔

کک۔۔۔کیا۔۔

زارا نے آخری بات پر متفق ہونے سے انکار کیا جبکہ وہ ہی جانتی تھی یہ سچ تھا

اچھا ناں وہ بعد کی بات ہے آپ ایگری کو رہی ہو کہ نہیں ۔۔۔ بدلہ لینا ہے یا نہیں ۔۔۔ ژالے نے سوالیہ نظروں سے اسکے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ کر استفسار کیا

مگر کیسے ۔۔۔ زارا نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا 

وہ مجھ پہ چھوڑ دیں کب کیا کرنا ہے میں بتاؤں گی بھائی کان پکڑ کر آپ سے معافی مانگیں گے لکھوا لو ۔۔۔ ژالے نے مسکرا کر ونک کرتے ہوئے کہا 

ویسے ایک اور بات بھابھی ۔۔۔ میرے بھیا برے نہیں ہیں میں جانتی ہوں وہ کبھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے کسی بےقصور کو تکلیف پہنچے ۔۔۔ 

زارا نے لب بھینچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور پھر ژالے اسے آگے کا پلان سمجھانے لگی ۔۔۔ جسے سنتے ہوئے زارا کے ہوش و حواس بیگانہ ہونے لگے ۔۔۔ 

                                🖤🖤🖤🖤🖤🖤

دلگیر نظروں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے اسنے کانپتے ہوئے ہاتھ کیساتھ پین تھاما تھا ۔۔۔  وہ خود ہی اس سے نکاح نامے پر دستخط کروانے آیا تھا اسے منظور کہاں تھا کوئی اور اسکی روحِ جان کو دیکھے 

وہ ہنوز نظریں اس پر جمائے اسکے حسن میں کہیں کھو سا گیا تھا دوسری جانب

ایک آس تھی اس معصوم دل میں وہ اسے دیکھ لینا چاہتی تھی مگر وہ دشمنِ جاں اسکی بات نہیں مان رہا تھا ۔۔۔ اسکے دل میں بےحد ارمان تھے جو شاید آج ان دستخط کے ساتھ ہی ختم ہو جانے کو تھے ۔۔۔ 

وہ بھی ان لڑکیوں میں سے تھی جو خواب دیکھا کرتی تھی خوبصورت شہزادوں کے ۔۔۔ افسانوی دنیا میں رہنے والی وہ لڑکی آج  زمانے کی تلخیوں کے بیچ دب کر رہ گئی تھی ۔۔۔

یہاں سائن کریں ۔۔۔

اسکی سرد آواز پر وہ خیالوں کے بھنور سے باہر آئی ۔۔۔

سبز جھیل سی آنکھوں سے ایک نمکین پانی کی بوند سامنے پڑے نکاح نامے پر گری تھی ۔۔۔ آنکھیں میچتے ہوئے اسنے سرد آہ بھری ۔۔۔ پھر ہمت باندھتے ہوئے اس جگہ دستخط کر دیئے جہاں اسنے بتایا تھا ۔۔۔ 

عشیق صدیقی لکھتے ہوئے اسکے دل میں طوفون سا اٹھا ۔۔۔ وہ ٹھیک سے نہیں رو پائی تھی اور وہ غم اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا ۔۔۔  

دستخط کرنے کے بعد وہ پین نکاح نامے کیساتھ اسکی جانب بڑھا چکی تھی ۔۔۔  آج وہ اس ظالم کی ہو گئی تھی ۔۔۔  نکاح نامہ ہاتھ میں تھامتے ہوئے وہ ریحان کو تاثر دیتا ہوا کمرے سے واک آؤٹ کر چکا تھا ۔۔۔ ریحان نے سٹائلسٹ کی طرف ایک چیک بڑھایا تھا جسے لیتے ہوئے اسکے ہاتھ کانپے تھے ۔۔۔

اٹس ۔۔۔اٹس بلینک ۔۔۔۔

سٹائلسٹ نے حیرانی سے ریحان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

You can fill it yourself. As much as you want ۔۔۔۔

ریحان نے اسکے کہے الفاظ سٹائلسٹ کے سامنے دہرائے

سٹائلسٹ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ مسکرا دی تھی بس ۔۔۔ 

ریحان کمرے سے جا چکا تھا جبکہ سٹائلسٹ نے مسکراتے ہوئے عشیق کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا

تم بہت لکی ہو ۔۔۔ وہ بہت چاہتا ہے تمھیں ۔۔۔ 

اسکی بات پر عشیق نے بےیقینی سے اسے ڈبڈبائی نظروں سے دیکھا ۔۔۔ وہ رونے کی تیاریاں پکڑ رہی تھی 

یس میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ اسنے مولوی صاحب کو بھی اندر نہیں آنے دیا ۔۔۔ وہ تمھیں دنیا سے چھپا کر اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے ۔۔۔  اس سے زیادہ پیار اور کون کرے گا ۔۔۔  اور میں بہت لکی ہوں مجھے آپکو تیار کرنے کا موقع ملا ۔۔۔ یو آر این اینجل ۔۔۔ خالص روح ہو تم ۔۔۔ بہت خالص ۔۔۔ گناہوں سے پاک ۔۔۔ اور بہت خوبصورت ہو ماشاءاللہ ۔۔۔

سٹائلسٹ نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ وہ بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی 

آ جائیں میں آپکو آپکے روم تک چھوڑ دیتی ہوں ۔۔۔ اسکا ہاتھ تھام کر اسے اٹھاتے ہوئے وہ اسے دوسرے کمرے میں لے جانے لگی جبکہ عشیق بوجھل قدموں کیساتھ اسکے ساتھ کھینچی چلی گئی ۔۔۔

                                🖤🖤🖤🖤🖤🖤

مرجان واٹ دا ہیل از ہیپننگ ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے فون کان سے لگائے صدیقی صاحب کے روم کی ایک ایک چیز ٹٹول رہا تھا ۔۔۔ اور جنرل کیساتھ بات بھی کر رہا تھا 

سر ۔۔ میں کرائم پوائنٹ پر ہوں ۔۔۔  دراز میں پڑے صفحات اوپر نیچے کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے فون پر بولا تھا

ایکذیکٹلی ۔۔۔ تم وہاں کیا کر رہے ہو ؟ کس نے کہا تمھیں انویٹیشن میں حصہ لینے کے لئے ۔۔۔ جنرل نے سخت لہجے میں پوچھا

وہ میرے پرسنل اسسٹنٹ تھے ۔۔۔ اور انہیں قتل کیا گیا ہے آپ واقعی سوچتے ہیں میں اس کیس سے دور رہوں گا ۔۔۔ پیپرز کو دراز سے نکالتے ہوئے وہ سرد لہجے میں بولا 

لیکن اس سے تمھاری آئیڈنٹٹی ریوویل ہونے کا خطرہ ہے ایجنٹ ۔۔۔ ہم خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔۔۔

جنرل نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا لیکن اسے پرواہ کہاں تھی ۔۔۔ 

آئی ڈونٹ گیو آ ڈیم سر ۔۔۔ اور۔۔۔

وہ بولتے ہوئے رکا تھا پیپرز کے بیچ و بیچ ایک لفافہ دیکھ کر ۔۔۔ 

سر گیو می آ سیکنڈ اینڈ ٹرسٹ می ۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جس سے میرے ملک کو کوئی نقصان پہنچے ۔۔۔۔ 

کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے وہ لفافہ کھولتے ہوئے اٹھا تھا ۔۔۔۔

Дорогой Сиддики, старик... Осталось ровно сорок восемь часов твоей жизни... После этого я украшу твое тело в гробу и сам подарю его  Казми......Люцифер 

روسی زبان میں صاف صاف لکھا گیا تھا کہ ٹھیک اڑتالیس گھنٹے بعد صدیقی صاحب کو مار دیا جائے گا ۔۔۔ اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ انکی لاش کو تابوت میں سجا کر مرجان کاظمی کو پیش کیا جائے گا ۔۔۔ خط کے آخر میں  صرف اسکا آدھا ادھورا  نام لکھا گیا تھا ۔۔۔

مٹھی میں خط کو جکڑتے ہوئے وہ خون چھلکاتی نظروں سے اسکا نام دھیرے سے بولا تھا 

لوسیفر ۔۔۔ یو ویل ہیوو ٹو پے فار اٹ ۔۔۔ 

                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

بیڈ کے بیچ و بیچ بیٹھی وہ پری سی لڑکی بمشکل بند ہوتی آنکھوں کو جھپکاتے ہوئے نیند کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی

ہمیں۔۔۔نیند آ رہی ہے ۔۔۔کیا کریں ہم۔۔ گھڑی کو دیکھتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔۔۔ رات کے دو بجنے کو تھے ۔۔۔

نہیں۔۔۔نہیں سونا۔۔۔نہیں 

دھیرے سے اپنے گال تھپتھپاتے ہوئے وہ کمرے کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔

جس کمرے میں وہ پہلے تھی یہ اس سے بہت بڑا تھا ۔۔۔ آف وائٹ کلر کا فرنیچر کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا ۔۔۔ فرش پر ڈارک بلو قالین بچھائی گئی تھی ۔۔۔ دیواروں پر لگے ہوئے پورٹریٹ میں صرف اسکی سمندر سے گہری نیلی آنکھیں واضح تھی ۔۔۔  

اگ۔۔۔گر۔۔ہم۔۔۔سو۔۔۔گئے۔۔۔تو۔۔۔وہ۔۔۔بہت۔۔۔ناراض۔۔۔ہوں۔۔گے 

بےبسی سے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑانے لگی 

کون ناراض ہوں گے ؟

اسکی سرد آواز سنتے ہی وہ کرنٹ کھاتے ہوئے سیدھی ہوئی تھی ۔۔۔ وہ دبے پاؤں آیا تھا ناجانے کب سے پیچھے کھڑا اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔

 وہ۔۔۔ ہم ۔۔۔ وہ 

لب کاٹتی ہوئی وہ پلکوں کو جھرجھری دیتے ہوئے نظریں جھکائے متذبذب لہجے میں بڑبڑائی اسکی موجودگی نے عجیب سے کیفیت طاری کر دی تھی اس پر ۔۔۔ خوف کیساتھ کچھ اور تھا جسکی وجہ سے اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا ۔۔۔ جب بھی اسکی آواز سنتی تھی مسررور ہو جاتی تھی اسکے دلفریب لہجوں میں ۔۔۔

عشیق کا نازک ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اسے مرر کے سامنے لایا تھا ۔۔۔ اسکی ٹھنڈی انگلیوں کو اپنی مرمری کلائی پر رینگتا محسوس کر وہ سختی سے آنکھیں بند کر گئی 

“I just Love You Asheeq ...and that's the beginning and end of everything.” — 

اسکی کان میں کی گئی سرگوشی پر وہ آنکھیں کھولتے ہوئے مرر میں اسے اپنے کان پر جھکا دیکھ کر تھم سی گئی تھی ۔۔۔

I ۔۔۔۔ I...want.....to see ....you ...please

دھیمے لہجے میں وہ مٹھی بھینچے مشکل سے بولی تھی ۔۔۔ اسکی فرمائش پر وہ مبہم سا مسکرایا ۔۔۔

I have something for you ۔۔۔

مٹھی میں دبائی ہوئی ایک ریڈ کلر کی ڈبی اسکے سامنے کرتے ہوئے وہ سرگوشیانہ انداز میں بولا ۔۔۔ پلکوں کی جھالر گراتے ہوئے اسنے اس ڈبی کو دیکھا جس میں سیک ہارٹ شیپ کا ڈائمنڈ پینڈینٹ تھا ۔۔۔ 

Promise Me Asheeq ... You will never take this pendant apart from yourself ۔۔۔

پینڈینٹ کو اسے پہناتے وہ گمبھیر آواز میں بولا 

Ok...Okay ..

وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے نظریں جھکا چکی تھی ۔۔۔ اسکی سرد انگلیوں نے اسکی گردن پر سرد لمس چھوڑا ۔۔۔ لرزتے وجود کو بمشکل کمنٹرول کرتے ہوئے وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔

I...Want To See You Please ۔۔۔

وہ دوبارہ سے ڈبڈبائی آواز میں بولی تھی ۔۔۔ 

اگ۔۔۔گر آپ بب۔۔۔برے بھی ریکھتے ہوں گے ۔۔۔ تت۔۔۔تو۔۔۔کوئی۔۔۔مس۔۔۔ئلہ نہیں۔۔۔ 

وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے مری ہوئی آواز میں بولی جبکہ اسکی معصومیت نے اسے مسکرانے پر مجبور کیا ۔۔۔

کوئی مسئلہ نہیں ؟ مگر میں بہت ڈراؤنا دکھتا ہوں ۔۔۔ 

اسے ڈراتے ہوئے وہ شریر لہجے میں بولا جس ہر عشیق کا دل بیٹھ گیا ۔۔۔

ڈڈ۔۔۔ڈراونا ؟؟

وہ آنکھیں پھیر کر اسکا ماسک میں چھپا چہرہ دیکھ کر گڑبڑا کر بولی ۔۔۔

ہمم ۔۔۔ بچے مجھ سے ڈرتے ہیں ۔۔۔ مجھے بھوت کہتے ہیں ۔۔

وہ بڑی لاپرواہی سے اسکے سر پر بجلی گرا چکا تھا ۔۔۔ اسکی سبز آنکھوں میں آنسوں کا جھرنا بہتا ہوا نظر آیا ۔۔۔ 

آپ ۔۔۔ آپ ۔۔۔ سچ کہہ رہے ہیں ۔۔

وہ روہانسے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

دروازے کی طرف بڑھ کر دروازہ لاک کرتے ہوئے وہ اسکے پاس آ کر بیٹھا ۔۔۔ وہ نظریں جھکائے آنسوں بہانے میں مصروف تھی ۔۔۔ 

دھیرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے اسنے اسکے نازک ہاتھ کو دبایا تھا ۔۔۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے تھم گئی تھی ۔۔۔ سبز آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھی ۔۔۔  

"سمنـدر سی گہرہ نیلی آنکھیں اسے اپنی روح ٹٹولتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ وہ اسکے دل تک اتر گیا تھا ۔۔۔  پیشانی پر بکھرے براؤن سلکی بالوں کی دو لٹیں اسکی کشش میں اضافہ کر رہی تھی ۔۔۔  وہ وجاہت کا منہ بولتا شاہ کار تھا۔۔۔۔ 

بےیقینی سے عشیق نے ہاتھ سے اسکے چہرے کو چھوا جس پر وہ اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے اس پر  ہلکے گلابی ہونٹ رکھتے ہوئے محبت کی پہلی مہر ثبت کرتے ہوئے مسکرایا ۔۔۔  مسکرانے پر اسکے لیفٹ گال پر ڈمپل واضح ہوا ۔۔۔ 

I... I'm dreaming ...

بےیقینی سے اسکے چہرے کو چھوتے ہوئے وہ گھبرا کر بولی جیسے ابھی اسکا خواب ٹوٹ جائے گا ۔۔۔

اسکی پیشانی پر جھکتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اپنے دہکتے ہونٹوں کا لمس اسکی پیشانی پر چھوڑ رہا تھا ۔۔۔ آنکھیں میچتے ہوئے وہ لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اسکے کندھے پر ہلکا سا دباؤ ڈالتے ہوئے اسے پیچھے ہٹانے کی درخواست کر رہی تھی ۔۔۔  

اسکی پیشانی سے آنکھوں تک کاسفر اسنے کچھ ہی پلوں میں طے کیا تھا ۔۔۔ وہ اسکی اسیر ہو رہی تھی دل شدت سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔ اسکے پرفیوم کی محسود کے دینے والی ہلکی خوشبو اسے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔

"آج مجھے میرے جینے کی وجہ ملی ہے عشیق۔۔۔ اور وہ وجہ آپ ہیں ۔۔۔ محبت کر بیٹھا ہوں آپ سے ۔۔۔ بےانتہا ۔۔۔ اس محبت کی کوئی حد نہیں ۔۔۔ "

اسکی سبز آنکھوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔۔ 

عشیق کے گالوں پر شرم و حیا کی سرخی پھیلی تھی ۔۔۔ وہ بلش کرتے ہوئے نظریں جھکا کر مسکرائی ۔۔۔

یہاں دیکھیں ۔۔۔

اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں تھامتے ہوئے وہ محبت بھرے لہجے میں گویا ہوا عشیق نے معصومیت سے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھا جہاں اسکے لئے بےپناہ عشق نظر آیا ۔۔۔ بےحد نزدیکی سے وہ دونوں ایک دوسرے کے حسیں نقوش چہرے حفظ کر رہے تھے ۔۔۔

ہم۔۔۔ہمیں۔۔۔نیند۔۔۔آئی ہے ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں ڈوبتے ہوئے وہ بمشکل خود کو اسکے  مسحور کر دینے والے بھنور سے نکالتے ہوئے بولی تھی

چینج کر لیں ۔۔۔ آپکی وارڈروب ریڈی ہے ۔۔۔ اور فوراً سے سو جائیں ۔۔۔ اس سے پہلے میرا ارادہ بدل جائے ۔۔

اسکی دھمکی پر وہ جلدی سے میکسی پکڑتے ہوئے اٹھی اور وارڈروب سے نائٹ سوٹ لیکر واش روم میں گھس گئی ۔۔۔

اسکی جلد بازی پر وہ بےساختہ مسکرایا تھا ۔۔۔

کلک سے دروازہ کھلنے پر وہ سر کے پیچھے سے بازو ہٹاتے ہوئے اسکی جانب دیکھتے ہوئے حیرانی سے اٹھا ۔۔۔

بڑا سا دوپٹہ خود کو لپیٹے وہ منہ پھلائے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

یہ سب کیا ہے ۔۔۔

حیرت سے آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا ۔۔۔

یہ ۔۔یہ ڈریس بہت چھوٹا تھا ۔۔۔ وہ سرخ گالوں پر ہاتھ رگڑتے ہوئے شرمندگی سے بولی وہ بمشکل نچلا ہونٹ دباتے ہوئے ہنسی روک چکا تھا ۔۔۔ 

ہم ۔۔۔ ایسے ۔۔۔کپڑے نہیں پہنتے ۔۔۔ خفگی سے کہتے ہوئے وہ بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ کر اسے گھورنے لگی ۔۔۔

یہاں آؤ ۔۔۔

کک۔۔۔کیوں ۔۔۔ آئیں

اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ گھبرا کر اٹھتے ہوئے بولی جو اسے اپنے پاس لیٹنے کی پیشکش کر رہا تھا ۔۔۔

یہاں آؤ ۔۔۔

اس بار سختی سے حکم صادر کیا گیا وہ گھبرا کر اسے دیکھتی ہوئی اسکے پاس آ کر لیٹی تھی ۔۔۔ دل شدت سے دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔ 

اسکے کندھے سے تھام کر اسکا سر اپنے مظبوط بازوں پر رکھتے ہوئے وہ اسکے چہرے پر بکھرے ہوئے بالوں کی لِٹ سے کھیلتے ہوئے مسکرایا ۔۔۔

آپ۔۔۔کا ۔۔۔نن۔۔۔نام کیا ہے ۔۔۔

اچانک سوال پر وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ چکا تھا جس پر وہ سٹپٹا کر آنکھیں گھما گئی تھی ۔۔۔ 

ہم۔۔۔ کیا بلائیں گے آپکو ۔۔۔  کچھ دیر بعد وہ پھر بول پڑی ۔۔۔ 

شیری ۔۔۔ 

وہ سپاٹ لہجے میں بولا ۔۔۔

یہ۔۔۔یہ کیسا نام ہوا ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ مسکرا دیا ۔۔۔

پورا نام۔۔۔

شش۔۔۔ چپ چاپ سو جائیں ۔۔۔ ورنہ میں سونے نہیں دوں گا ۔۔۔ 

وہ ہونٹ کاٹتی ہوئی اسکے دھمکی آمیز لہجے پر ڈر گئی تھی ۔۔۔

اور اس سے زیادہ آپکو جاننے کی ضرورت بھی نہیں ۔۔۔ Kitten۔۔۔ اسکے سختی سے بھینچے ہوئے ہونٹ کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے وہ مسکرا کر بولا

اسکے دیئے ہوئے نام پر وہ آنکھیں سکیڑتی ہوئی چپ ہوئی تھی۔۔۔ 

اسکے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلاتے ہوئے وہ مسکرایا تھا ٹھیک پانچ منٹوں میں ہی وہ اسکے سینے پر سر رکھتے ہوئے سو گئی تھی ۔۔۔

سر آپ پلیز گھر جائیں ۔۔۔ میں یہاں سب دیکھ رہا ہوں جیسے ہی کچھ ملے گا میں سب سے پہلے آپکو اطلاع کروں گا ۔۔۔

مرجان جو کب سے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر آنکھیں سرخ کر چکا تھا انسپیکٹر ہاشم کی بات پر سر جھٹکتے ہوئے اگلی فوٹیج لگانے لگا

سر پلیز ۔۔۔ آپ ریسٹ کریں ۔۔۔

ہاشم نے اسکے سامنے سے لیپ ٹاپ ہٹاتے ہوئے کہا جس پر وہ سرخ انگار آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا

مجھے اس کیس سے دور رکھ کر کیا ملے گا تمھیں ہاشم ؟ سرد لہجے میں کہتے ہوئے وہ ہاشم کو تقریبآ ڈرا چکا تھا

نہیں میرا ایسا کوئی مقصد نہیں ۔۔۔ میں صرف یہی چاہتا ہوں  جو سر چاہتے ہیں آپ اس کیس سے دور رہیں ۔۔۔ اور پولیس کو اپنا کام کرنے دیں ۔۔۔ وہ نہیں چاہتے ملیٹری ایسے کیسز دیکھے آپکے سر پر اس سے بڑی ذمہ داری ہے ۔۔۔ ہاشم نے تاسف سے کہتے ہوئے اسے دیکھا جو سرد نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اور اس فوٹیج میں صرف وہی لوگ نظر آ رہے ہیں جن کے بارے میں ہم لوگوں سے پہلے ہی پوچھ گچھ کر چکے ہیں ۔۔۔ یہ سب کس نے کروایا وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔۔۔۔ ان سب نے ایک منٹ کے لئے بھی ماسک نہیں اتارا اور یہ لوگ دیکھنے میں سیریل کلر لگ رہے ہیں ۔۔۔ جو کام ہوتے ہی فوراً نکل گئے ۔۔۔ اور جہاں تک میرا خیال ہے جنرل نہیں چاہیں گے کہ انکا اسپیشل ایجنٹ اس طرح کے چھوٹے کاموں کو دیکھے ۔۔۔ اور اسکی اصلیت سامنے آ جائے

 ہاشم نے چائے کا کپ اسکے سامنے رکھتے ہوئے اپنے کپ سے ایک گھونٹ بھرتے ہوئے اسے بتایا 

چائے کا کپ سپاٹ نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ گہری سوچ میں پڑ گیا تھا ۔۔۔

لوسیفر ۔۔۔ یہ نام کہاں سنا تھا ۔۔۔ نہیں کچھ تو ہے ۔۔۔ جو میں بھول رہا ہوں۔۔۔ 

ماتھے پر بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں بولا 

کچھ کہا آپ نے سر ؟ ہاشم جو سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ رہا تھا اسکے بڑبڑانے پر جلدی سے بولا ۔۔۔

نہیں ۔۔۔ 

چائے کا کپ ہاتھ میں گھما کر اسے سرد نظروں سے تکتے  ہوئے وہ ہنوز لہجے میں بولا 

لوسیفررر ۔۔۔۔

وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے گہری سوچ میں غرق ہوا تھا ناجانے کیوں اسے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا جیسے اسنے یہ نام کہیں سنا تھا ۔۔۔

سر آپ جائیں پلیز ۔۔۔ اے ایس آئی سر پہنچتے ہی ہوں گے میڈیا ضرور یہاں پہنچے گی ان سے کیس کی ڈیٹیلز کے لئے ۔۔۔  اگر انہوں نے آپکو یہاں دیکھ لیا تو طرح طرح کے سوال پوچھیں گے ۔۔۔

ہاشم کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے وہ آخر کار اٹھا اور آخری نظر صدیق صاحب کے  لائٹنگ اور پھولوں سے سجے گھر کو دیکھ کر سرد آہ بھرتے ہوئے واپس کار میں بیٹھ کر کار کو زن سے بھگا لے گیا تھا۔۔۔۔ 

اسکے جانے پر انسپیکٹر ہاشم نے سکھ کا سانس لیا 

                                🖤🖤🖤🖤🖤🖤

سسکیوں کے بیچ وہ منہ پر ہاتھ دیتے ہوئے آواز کا گلہ گھونٹ رہی تھی ۔۔۔   اسکے سامنے وہ بےشک سکوں سے سو گئی تھی مگر وہ  اتنے بڑے سانحے کے بعد سکوں سے کیسے سو سکتی تھی ۔۔۔ 

بابا ۔۔۔ 

بجھی ہوئی آواز میں بولتے ہوئے آنسوں اسکی آنکھوں سے سارے بند توڑ کر باہر آئے تھے ۔۔۔  سسکیوں کی وجہ سے اسکا نازک وجود ہلکے جھٹکے لے رہا تھا ۔۔۔

آنکھیں وا کرتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اپنے سینے پر سر رکھے اس معصوم سی لڑکی کو دیکھا جو اسکے جاگنے سے بےخبر آنسوں بہانے میں مصروف تھی ۔۔۔  عشیق کے آنسوں اسکی وائٹ شرٹ میں جذب ہو رہے تھے ۔۔۔

عشیق ۔۔۔

نرمی سے اسکے کندھے کو تھامتے ہوئے اسکا نام پکارا جس پر وہ جلدی سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے چہرے پر مسکان سجائے اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔

کیا ہوا ہے ؟

اسکے چہرے پر آتے بالوں کی لِٹ کو پیچھے ہٹاتے ہوئے وہ محبت سے چور لہجے میں پوچھنے لگا 

ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ بےساختہ سسکی لیکر رہ گئی تھی ۔۔۔  ناجانے وہ کب سے رو رہی تھی ۔۔۔ جس کا منہ بولتا ثبوت اسکی آنکھوں میں پھیلی ہوئی سرخی تھی ۔۔۔ سبز آنکھوں کے پپوٹے سرخ پڑ گئے تھے ۔۔۔۔ اور خمدار پلکیں بھیگی ہوئی تھی ۔۔۔

 آج ۔۔۔ آج ہمارے ۔۔۔بابا ۔۔۔ کو مار ۔۔۔ دیا ۔۔۔  ہماری ۔۔۔ آنکھوں کے سامنے ۔۔۔ انکو۔۔۔گگ۔۔۔گولی مار دی ۔۔۔

سسکتے ہوئے وہ  اسکے سینے پر سر رکھتے ہوئے بےحد درد بھرے لہجے میں بولی جس پر اسے اپنے دل میں  ٹھیس اٹھتی محسوس ہوئی ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے آنکھیں میچتے ہوئے اسکے سر کو سینے سے لگا چکا تھا ۔۔۔

اور ۔۔۔ اور وہ لوگ ۔۔۔ ہمارے ساتھ بب۔۔بہت غلط کرنا چاہتے تھے وہ۔۔۔ وہ غلط باتیں کر رہے تھے۔۔۔ وہ وہ کہہ رہا تھا ۔۔ ہمیں مار کر ۔۔۔۔ ہمیں وہ دریا برد کر دے گا۔۔۔ ہم ڈر گئے تھے ۔۔۔   ہمیں ہمارے بابا کی لاش پ۔۔۔پر رونے تک۔۔۔نہیں دیا ۔۔۔ ہمیں دھکا دیا ۔۔۔ اور تھپ۔۔۔تھپڑ مارنے کی بات کی ۔۔۔ اسکی شرٹ کا کالر پکڑتے ہوئے وہ ڈوبتی ہوئی آواز میں روتے ہوئے سب بتا رہی تھی اور وہ تنے ہوئے اعصاب کیساتھ اسکی ایک ایک بات سن رہا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا ۔۔۔ 

 ہمارے بابا کیساتھ ۔۔۔ کک۔۔۔کاشف کو مار دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ہمیں کک۔۔۔کہیں لیجانا چاہتے تھے ۔۔۔  

مسلسل رونے کی وجہ سے اسے آنکھوں میں چبھن محسوس ہو رہی تھی مگر وہ دل کھول کر رو لینا چاہتی تھی ۔۔۔ مگر آج رونے سے بھی درد کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ وہ کس منہ سے اسے چپ ہونے کا کہتا ۔۔۔ خود وہ اسکے باپ کی موت کی وجہ تھا ۔۔۔ 

آپ ۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ مل کر ہمارے بابا کے قاتلوں کو سزا دلوائیں گے ناں ۔۔۔ اسکا  مظبوط ہاتھ تھامتی ہوئی وہ اسکی جانب دیکھ کر پرامید لہجے میں بول رہی تھی

وہ لب بھینچے اسکی سوجھی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جو سبز سے سرخی مائل ہو رہی تھی ۔۔۔

I am with you .. But ... For now... You need rest ...

نہیں۔۔۔نہیں ہم ۔۔۔ہم نہیں سو سکتے۔۔۔ ہمارے بابا کو مار دیا انہوں نے ہم کیسے سوسکتے ہیں ۔۔۔ ان درندہ صفت لوگوں کو سزا دلوائیں گے ہم ۔۔۔ نفرت ہے ہمیں ان سے ۔۔۔ اللہ پاک دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ سب ۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ انصاف کریں گے اور ۔۔۔ جس طرح ہم سے ہمارے بابا کو چھینا ہے ناں انہوں نے ۔۔۔ ان سے بھی اللہ پاک ۔۔۔ کوئی بہت اپنا چھین لیں گے ۔۔۔ 

گلے میں ہوتی چبھن کیساتھ وہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولی جبکی اسکا ایک ایک لفظ اس شخص کو اپنے دل میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح چبھتا ہوا محسوس ہوا اس کے لئے سب کچھ وہ معصوم لڑکی تھی جو اسے آج ہی ملی تھی ۔۔۔  جس سے دور ہونے کا تصور بھی موت تھا۔۔

لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے وہ اسکے بال سہلانے لگا وہ مسلسل سسکیوں کے بیچ رو رہی تھی ۔۔۔

اب سمجھا تھا وہ معصوم سی لڑکی کیوں  اتنی آسانی سے اس کیساتھ نکاح کرنے کے لئے راضی ہوئی تھی وہ واپس ان درندوں میں نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔۔  

شش۔۔شیری 

ہمم۔۔

وہ گہری سوچ میں غرق بس اتنا ہی بولا تھا ۔۔۔  جبکہ کچھ سیکنڈ بعد وہ  خود کو سوچوں کے سمندر سے نکالتے ہوئے اسکی جانب متوجہ ہوا جو ہنوز نظروں سے اسے دیکھنے میں مصروف تھی ۔۔۔  

ابھی میرا نام لیا آپ نے ۔۔۔ مسکراتے ہوئے پوچھا جس پر وہ سرخی مائل آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

ہمیں ۔۔ ہمیں کمپلین لکھوانی ہے ان لوگوں کو سزا دلوائیں گے ۔۔۔ آپ آپ چلیں گے ہمارے ساتھ ؟ اور ہمیں ۔۔ بابا کو بھی دیکھنا ہے آپ ہمیں واپس ۔۔۔

نہیں۔۔۔آپ واپس نہیں جائیں گی ۔۔۔

اسکی بات بیچ میں ہی ٹوک کر وہ سخت کاٹدار لہجے میں بولا جس پر وہ تو سہم گئی تھی اب تک وہ نرم لہجے میں بات کر رہا تھا اور اسکے یوں اچانک سخت لہجے پر وہ ڈر گئی تھی ۔۔۔ 

شیری پلیز ۔۔۔ اسکے کندھے سے سر اٹھاتے ہوئے وہ التجائیہ لہجے میں بولی ۔۔۔

آپ وہاں ۔۔۔ نہیں۔۔۔ جائیں گی ۔۔۔ انڈرسٹینڈ ۔۔۔

اسکے کھلے بالوں میں ہاتھ ڈال کر قدرے سختی سے اسکا چہرہ اوپر کو اٹھاتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں ایک ایک لفظ چبا کر  بولا جس پر وہ لرزتے ہوئے سر کو دھیرے سے ہاں میں جنبش دیکر خاموش ہو گئی تھی ۔۔۔

عشیق ۔۔۔ میں بس چاہتا ہوں آپ محفوظ رہیں ۔۔۔ میں آپکو وہاں کیسے بھیج سکتا ہوں اگر وہاں وہ لوگ ہوئے تو میں۔۔۔ میں ان سے اکیلے نہیں لڑ پاؤں گا ۔۔۔ اور وہ آپکو مجھ سے دور لے جائیں گے ۔۔۔ 

اسکے چہرے پر آتے آوارہ بالوں کو انگلیوں کے پوروں سے پیچھے ہٹاتے ہوئے نرمی سے بولا جس پر وہ معصوم لڑکی بغیر کچھ سوچ میں لائے اسکی بات پر متفق ہوتے ہوئے آنکھیں میچ کر سو گئی ۔۔۔ 

مٹھی میں بیڈ شیٹ بھینچے وہ بمشکل غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔  آج وہ کچھ توڑ نہیں سکتا تھا کیونکہ آج وہ اکیلا نہیں تھا ۔۔۔ اسکے پاس ایک پری سو رہی تھی جو آہٹ ہونے پر دوبارہ اٹھ سکتی تھی ۔۔۔ 

سرد آہ بھر کر وہ آنکھیں میچ کر بیڈ سے پشت لگائے  کسی گہری سوچ میں پڑ گیا تھا ۔۔۔

                                  🖤🖤🖤🖤🖤🖤

صدمے سے فون کی سکرین پر سکرول کرتے ہوئے اسکی حیرانی میں اضافہ ہوتا چلا گیا 

لاکھوں کی تعداد میں لائکس تھے اور کمنٹ باکس لڑکیوں کی کمنٹس سے بھرا پڑا تھا جس پر اس بیچارے نے کوئی ری ایکٹ تو نہیں کیا تھا مگر پھر بھی وہ گناہگار ہی نظر آیا اسے ۔۔۔

God Dashing You ...

Handsome Charming Man ... Uff My Crush ... You Stole My Heart ... God your Eyes I Just Love You ... You're so dashing .... you're my desire .... You are in my Heart Marjan ...

آخری کمنٹ پڑھتے ہوئے وہ جل بھن گئی 

پپ۔۔۔پیار کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور اتنی لڑکیوں کے کمنٹس ۔۔۔ ہونٹ پاؤٹ کر کے روتے ہوئے وہ بولی ۔۔۔ بڑے بڑے آنسوں اسکی آنکھوں سے سارے بند توڑ کر بہنے لگے ۔۔۔ 

چھوڑیں گے نہیں آپکو ہم ۔۔۔

سختی سے گالوں کر رگڑتے ہوئے وہ مرجھائے لہجے میں بولی 

آؤ تو صحیح پوچھتی ہوں تم سے ۔۔۔ پتا نہیں کہاں ہونگے اس وقت ۔۔۔ بیوی کو اکیلا چھوڑ کر کہاں گھوم رہے ہیں ۔۔۔ آنسوں بہاتے ہوئے وہ معصومیت سے بولی 

                                  🖤🖤🖤🖤🖤🖤

باس ۔۔۔ میڈم آئی ہیں ۔۔۔

گارڈ کو دیکھتے ہوئے وہ چونکا ۔۔۔

کون ؟  حیرانی سے پوچھا گیا

میں ۔۔۔۔

تاسف سے چلتے ہوئے آف وائٹ سلیو لیس شرٹ کے نیچے آف وائٹ جینز پہنے بلیک  چھے انچ کی اونچی ہیل  پہنے ٹک ٹک کرتی وہ اندر داخل ہوئی جس پر الہام درانی کا چہرہ زرد پڑ گیا ۔۔۔

تم زندہ ہو ؟ اسے دیکھتے ہوئے حیرانی سے پوچھا 

میں وہاں سے بھاگ نکلی ۔۔۔ صوفے پر بیٹھتے ہوئے ببل پھوڑتے ہوئے وہ لاپرواہی سے بولی جس پر الہام درانی نے اکتا کر آنکھیں گھمائی 

اور ویسے بھی کیا بگاڑ سکتا ہے میرا ۔۔۔ معمولی بزنس مین ۔۔لیکن دیکھ کر لگتا ہے آپکو اپنی تعبیر بچی کے بچ جانے کی اتنی خوشی نہیں ہوئی۔۔۔ فون کی سکرین پر انگلیاں چکاتے ہوئے طنز سے بولی

الہام درانی نے بےپرواہی سے انگلیوں کو چٹخایا ۔۔۔

آپ سو جائیں ناں انکل ۔۔۔ رات بہت ہو گئی ہے ۔۔۔ میں بھی ریسٹ کرتی ہوں بہت تھک گئی ہوں۔۔۔ انگڑائی لیکر اٹھتے ہوئے مسکرائی جبکہ الہام درانی نے صدمے سے اسے دیکھا جو مصیبت آدھی رات کو انکی نیند میں خلل ڈالنے آ دھمکی تھی ۔۔۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر جلدی سے دروازہ بند کرتے ہوئے اسے کال ملائی ۔۔۔

میں پہنچ گئی ہوں ۔۔۔ وہ اپنے فارم ہاؤس پر ہی ہے ۔۔۔ سرگوشی کرتے ہوئے وہ جلدی سے دروازے کو دیکھ گئی جیسے کوئی ابھی آ جائے گا ۔۔۔ 

اسے شک تو نہیں ہوا ۔۔۔۔

دوسری جانب ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان اسنے سنسان سڑک پر سرعت سے نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا 

نہیں ۔۔۔ مگر وہ خوش نہیں ہے مجھے دیکھ کر ۔۔۔

منہ کے ڈیزائن بناتی ہوئی وہ اپنے لمبے ناخن دیکھ کر بولی 

اسے شک نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ 

نہیں ہو گا ۔۔۔ بےفکر رہو ۔۔۔ میں کل آتی ہوں ۔۔۔ فلیش ڈرائیو کے ساتھ ۔۔۔ گڈ نائٹ ۔۔۔ 

مسکراتے ہوئے بولی جبکہ وہ بغیر جواب دیئے کال ڈسکنیکٹ کر گیا جس پر اسنے منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے فون کی بلیک سکرین کو گھوری سے نواز ڈالا

                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

اگلی صبح :- 

رکو ۔۔۔

ورسٹ پر لیڈیز واچ باندھتی ہوئی وہ رکی تھی ۔۔ 

یہ لیکر جاؤ ۔۔۔

پنک کلر کے شاپنگ بیگ کو اسکے پاس رکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا

یہ کیا ہے ۔۔۔

سپاٹ سی نظر اسکی سیاہ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے زونی نے شاپنگ بیگ کو ٹٹولا جس میں سے ایک بلیک کلر کی شیشوں والی ایک خوبصورت سی چادر نکالی ۔۔۔ 

یہ پہن کر جاؤ ۔۔۔ 

سرد نظروں سے اسکی ڈریسنگ کو دیکھتے ہوئے کہا گیا 

میں نے آج تک چادر نہیں لی مسٹر حرب شاہ ۔۔۔

طنزیہ لب و لہجے میں کہتے ہوئے وہ ہونٹوں کے یک طرفہ کنارے سے  مسکرائی ۔۔۔ 

تو آج لیکر جائیں ۔۔۔ لہجہ نرم رکھتے ہوئے وہ مرر کے سامنے سے پرفیوم اٹھاتے ہوئے بولا ۔۔۔

دھیان کہاں ہے آپکا مسثر ۔۔۔ یہ لیڈیز پرفیوم ہے ۔۔۔ اسکے ہاتھ کو پکڑتے ہوئے وہ ہنس پڑی ۔۔۔  وہ سنجیدگی سے اسکے پرفیوم کو دیکھتے ہوئے واپس رکھ چکا تھا ۔۔۔

لگا لو ۔۔۔ میں مائنڈ نہیں کروں گی ۔۔۔ 

اسے شرمندہ کرتے ہوئے بولی جس پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے پیچھے ہٹتا چلا گیا ۔۔۔

اور یہ میں ہرگز نہیں پہنوں گی ۔۔۔ میرے سٹائل کو سوٹ نہیں کرتی ۔۔۔ 

چادر کو دوبارہ بیگ میں رکھتے ہوئے بغیر اسکی آنکھوں کا تاثر دیکھے وہ اسکے جزباتوں کو پیروں تلے روند گئی تھی ۔۔۔

گڈ بائے ۔۔۔

بیگ اٹھا کر کندھے پر رکھتی ہوئی انگلیاں مخصوص انداز میں ہلا کر کہتی ہوئی وہ کمرے سے نکل گئیجس پر وہ مٹھیاں بھینچے سرد آہ بھر گیا تھا ۔۔۔ 

                                  🖤🖤🖤🖤🖤🖤

کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے اسکی پہلی نظر بیڈ پر پڑی تھی مگر وہ وہاںں نہیں تھی ۔۔۔

سرخ سوجھی آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے اسے کمرے میں ناں پا کر وہ تھکا ماندا بیڈ پر ڈھے گیا بلینکٹ کو منہ تک لیتے ہوئے وہ آنکھیں موند گیا۔۔۔ پوری رات ناں سونے کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں سوئیاں چبھ رہی تھی ۔۔۔

    گیلے بالوں میں ٹاول رگڑتی ہوئی وہ واش روم سے باہر نکلی بلینکٹ میں دبکے ہوئے مرجان کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں جیسے خون اترا ۔۔۔

ٹاول کو صوفے پر پھینکتی ہوئی وہ اسکے سر تک پہنچی ۔۔۔     

ہمت کیسے ہوئی آپکی میرے بیڈ پر لیٹنے کی ۔۔۔

وہ جو تھک ہار کر مسلسل لیپ ٹاپ پر دماغ دوڑا کر اب آ کر لیٹا تھا اسکی چیختی ہوئی آواز پر منہ بلینکٹ سے نکالتے ہوئے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ 

اٹھو۔۔۔ فوراً اٹھو ۔۔۔

چٹکی بجا کر تنک کر کہتے ہوئے اس پر سے بلینکٹ کھینچ کر نیچے ڈالتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی 

یہ۔۔یہ کیا کر رہی ہو پاگل ہو گئی ہو ۔۔۔

وہ صدمے سے اسکی پیشانی پر ٹیمپریچر چیک کرتے ہوئے فکرمندی سے بولا 

ہٹاؤ اپنا ہاتھ ۔۔۔

اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ غرائی ۔۔۔ جس پر وہ صدمے سے اسے دیکھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا ۔۔۔

یہ پکڑو اپنا تکیہ نکلو میرے کمرے سے ۔۔۔

اسکے ہاتھ میں تکیہ تمھاتے ہوئے وہ تنک کر بولی جس پر وہ آنکھیں پھیلائے اسے گھورنے لگا جو اسے اسکے ہی کمرے سے نکال رہی تھی

قصور کیا پے میرا ؟

تکیہ تھامتے ہوئے وہ معصومیت سے بولا

بتاؤں میں ۔۔۔

بازوں کہنیوں تک کرتی ہوئی وہ جلدی سے بیڈ پر چڑھی اور بیڈ کے بیچ پڑا ہوا فون اٹھا کر اسکے ہاتھ میں پٹختے ہوئے تھما گئی ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے فون کو دیکھنے لگا اور پھر اسکی جانب دیکھا ۔۔۔ 

یہ لڑکیاں کونسے ملک کی تمھاری بہنیں ہیں جو تمھارے فوٹوز پر دل ول بھیجتی ہیں ۔۔۔

وہ حیرانی سے فون کو آن کرتے ہوئے اپنا آفیشیل انسٹا گرام اکاؤنٹ چیک کرنے لگا ۔۔۔  جس پر تقریبآ لاکھوں کی تعداد میں لائکس کیساتھ لڑکیوں کے کمنٹس تھے۔۔۔۔

بہنیں لگتی ہیں تمھاری ہاں ؟ سیلیبرٹی ہو تو کچھ بھی کرو گے ۔۔۔ بلاک کرو ان سب باندریوں کو ۔۔۔۔ پاگل نہیں ہوں میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آپکے نکاح میں آ کر بیٹھی ہوں اس گھر میں ۔۔۔ اور آپ ایسے سنیپس شیئر ہی کیوں کرتے ہیں ۔۔۔ آئی برو اٹھاتے ہوئے غرائی۔۔۔ 

کمر پر دونوں ہاتھ جماتی ہوئی وہ اکڑ کر بولی  وہ نچلا ہونٹ دانت تلے دباتے ہوئے مسکراہٹ دبا گیا ۔۔۔ 

نیا اکاؤنٹ بنائیں ۔۔۔ وہ بھی ۔۔۔ لڑکی کے نام کا ۔۔۔اور ۔۔۔ اور اسکا پاسورڈ مجھے بھیجیں ۔۔۔ میں روز انباکس چیک کروں گی ۔۔۔ اپنا فون اٹھاتے ہوئے وہ کچھ ٹائپ کرتے ہوئے جلدی سے بولی ۔۔۔ وہ بیچارہ مشکل سے ہنسی دبائے کھڑا تھا ۔۔۔

اور ہینڈسم وینڈسم نہیں ہو آپ ۔۔۔۔ا ن سب لڑکیوں کی آنکھیں خراب ہیں۔۔ آئی سمجھ ؟ 

اسکی ستواں ناک کی نوک پر انگلی رکھتے ہوئے وہ آنکھیں نکال کر بولی جس پر وہ مبہم سا مسکرایا ۔۔۔

اور یہ بھی لیکر جاؤ ۔۔۔ بلینکٹ اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے وہ احسان مندی سے بولی 

وہ بلینکٹ سمبھالتے ہوئے مسکرایا ۔۔۔

اور ایک بات ۔۔۔ 

وہ جو جانے کے لئے قدم بڑھا چکا تھا اسکی بات پر رکا ۔۔۔

اگر میں نے آئندہ کسی لڑکی کیساتھ دیکھا ناں آپکو ۔۔۔ 

سیخ کباب بنا دوں گی آپکا ۔۔۔

سڑی بھنی وہ اسے دیکھتے ہوئے جل کر بولی جس پر وہ بےساختہ مسکرایا۔۔۔۔

ہنس کیوں رہے ہو ۔۔۔ مزاق کر رہی ہوں میں ؟

اسکے سامنے رکتے ہوئے وہ منہ بسورتے ہوئے بولی ۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔ 

وہ جان بچاتے ہوئے کندھے اچکا کر مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔

تشریف لے جائیں ۔۔۔ اور اگر اس کمرے میں رہنا ہے اپنے سارے اکاؤنٹس کے پاسورڈ مجھے دینے پڑیں گے ۔۔۔ ورنہ پڑے رہنا گیسٹ ہاؤس میں ۔۔۔

اسے کمرے سے باہر ٹھہراتے ہوئے وہ طنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے مسکرائی ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیچھے ہٹا ۔۔۔

جاؤ جاؤ ۔۔۔

ہاتھ سے اسے دور ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ منہ بنا کر بولی ۔۔۔ 

اچھا رکنا ۔۔۔  

بند ہوتے دروازے پر ہاتھ رکھتا ہوا وہ شریر لہجے میں بولا 

کیا ہے ۔۔۔

اسکی بدتمیزی سے بولنے  پر بھی اسے بےحد پیار  آیا تھا۔۔۔

کس حق سے مجھے یہ سب کہہ رہی تھی ۔۔۔

بلینکٹ اور تکیہ سائڈ پر رکھتے پوئے سینے پر ہاتھ جماتے ہوئے وہ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے بولا جس پر وہ گڑبڑا گئی ۔۔۔ 

کک۔۔۔کیوں ۔۔۔ بب۔۔۔بہت حق ہیں میرے ۔۔۔

آنکھیں پھیرتی ہوئی وہ دروازے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی جس پر وہ سنجیدگی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے دیوار سے لگا گیا ۔۔۔ مگر حیرت سے اسے دیکھا جب وہ اسکے قریب ہونے پر الٹا بےشرموں کی طرح مسکرائی ۔۔۔

کیا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر سرگوشی کرتے ہوئے کہا 

دماغ کی تاریں تو آپکی بھڑی ہوئی ہیں ۔۔۔جنہیں بہت جلد میں ٹھیک کر دوں گی ۔۔۔ بہت شوق ہے ناں لڑکیوں سے تعریفوں کے پل بندھوانے کا ۔۔۔ 

اسکی کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بےشرمی سے بولی جس پر وہ چونکا ۔۔۔ بھلا ایک رات میں ایسا کونسا جن اسکے سر پر سوار ہو چکا تھا ۔۔۔ 

افف خدا۔۔۔۔ اس لڑکی کو کیا ہو گیا ہے ۔۔۔

اسکے چیکس کھینچتے ہوئے وہ شرارت سے بولا جس پر وہ بپھری شیرنی بنتے ہوئے اسکا ہاتھ جھٹک گئی ۔۔۔  جبکے پیچھے سے آتی قدموں کی آہٹ پر وہ مسکراہٹ دباتی ہوئی اسکے  ستواں ناک پر اپنی چھوٹی سی ناک جماتی ہوئی مسکرائی ۔۔۔ وہ چونکا

استغفرُللہ ۔۔۔

قصا بیگم کے ہاتھوں سے ناشتے کی ٹرے گر چکی تھی ۔۔۔ مرجان نے صرمے سے پیچھے دیکھا قصا بیگم ان دونوں کو مبہوت نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

دد۔۔۔دیکھیں ناں۔۔۔ ممانی۔۔۔ کک۔۔۔کہیں بھی شروع ہو جاتے ہیں ۔۔۔

شرم سے لال ہوتی وہ آنکھیں جھکائے پیچھے ہٹتے  بولی جبکہ مرجان نے سپاٹ اور حیرت بھری نظروں سے اس ڈرامے کو دیکھا ۔۔۔ 

مرجان کچھ تو شرم کرو ۔۔۔ وہ تو بچی ہے تمھیں تو سمجھ ہے ۔۔۔ یوں کھلے عام باہر اچھا لگتا ہے کیا۔۔۔۔ اگر شہنشاہ صاحب نے دیکھ لیا ہوتا تو ۔۔۔ قصا بیگم نے اسے دو چار سنائی جبکہ وہ انگلیاں چٹخاتی ہوئی شرم و حیا کی مورت بنے نظریں جھکا گئی ۔۔۔ 

اس لڑکی کو ہوا کیا ہے ۔۔۔ مرجان نے اسے دیکھتے ہوئے بڑبڑا کر کہا۔۔۔

آئی سمجھ ؟ تنگ مت کیا کرو اسے ۔۔۔۔ اور باہر یہ سب آئندہ مت کرنا ۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔۔ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی قصا بیگم نے استغفار کہا ۔۔۔

جسٹ ویٹ ایڈ واچ ڈیئر مرجان کاظمی ۔۔۔ آپکی بہت کلاسیں لگنا باقی ہیں ۔۔۔ اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے دھیرے سے مسکرا کر بولی جس پر وہ چونکا ۔۔۔ 

زارا ۔۔۔ بیٹے آپ چلو میرے ساتھ ۔۔۔ کڑی نظروں سے مرجان کو دیکھتے ہوئے قصا بیگم نے زارا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا جس پر وہ معصومیت سے جی ممانی کہہ کر انکے ساتھ چل دی ہاں پیچھے سے مرجان کو ناک چڑھانا نہیں بھولی تھی ۔۔۔

سرد آہ بھرتے وہ بلینکٹ اور تکیے سمیت کمرے میں گھس گیا تھا ۔۔۔ 

                                  🖤🖤🖤🖤🖤🖤

شان۔۔۔ میرے بیٹے ۔۔۔

کشمالہ بیگم نے خوشی سے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔

بس کریں موم ۔۔ میں تھک چکا ہوں سونے دیں مجھے ۔۔۔

بیڈ پر لیٹتا ہواوہ اکھڑے لہجے میں بولا جبکہ کشمالہ بیگم تو اسے زندہ سلامت لوٹنے پر ہی اتنی خوش تھی ۔۔۔۔

تم۔۔۔ تم ٹھیک ہو ناں بیٹا ۔۔۔

موم پلیززز ۔۔۔ سونے دیں گی آپ یا میں کسی دوسرے روم میں سو جاؤں ۔۔۔ 

تنگ آ کر وہ تقریبآ چلایا جس پر کشمالہ بیگم نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کر اسکی جانب دیکھا ۔۔۔

جائیں یہاں سے پلیز اور خدا کے لئے ڈیڈ کو بتا دینا ورنہ خوامخواہ میں پریشان ہوتے رہیں گے ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں زندہ سلامت ہوں ۔۔۔ مجھے فلحال تنگ ناں کریں ۔۔۔ مجھے سونا ہے ۔۔۔ آئی ایم ٹائرڈ ۔۔۔

ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔ میں ناشتہ کمرے میں ہی بھجوا دوں گی ۔۔۔۔

کشمالہ بیگم اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کمرے سے باہرنکلی جبکے انکے جاتے ہی شان جلدی سے بلینکٹ سے نکلا ۔۔۔۔ منور صاحب کا لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے اس میں ایک فلیش ڈرائیو ڈالتے ہوئے لیپ ٹاپ کا سارا ڈیٹا کاپی کرنے لگا ۔۔۔۔

"کام ہو گیا ہے کچھ ہی دیر میں ڈیٹا کاپی ہو جائے گا ۔۔۔  لکژری شاپنگ مال میں ملتے ہیں ۔۔۔ دو بجے " 

فون پر میسج ٹائپ کر کے سینڈ کرتے ہوئے وہ سکون کا سانس خارج کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کو دیکھنے لگا جس پر ڈیٹا کاپی ہونے ہی والا تھا ۔۔۔

                                   🖤🖤🖤🖤🖤🖤

یہ ایک اندھیرا کمرا تھا ۔۔۔ روشنی کا نام و نشان نہیں تھا ۔۔۔۔  کمرے میں گھپ اندھیرے کے باعث کچھ بھی نظر آنے سے قاصر تھا ۔۔۔۔

سس۔۔۔سر معاف کر دیں … میں نے سارا کام ویسے ہی کیا تھا جیسے آپ نے کرنے کو کہا تھا … 

ایک آدمی کرسی سے بندھا ہوا گڑگڑا کر بول رہا تھا ۔۔۔ اسکا پورا وجود رسیوں سے جکڑا ہوا تھا ۔۔۔  جبکہ اسے پیچھے کھڑے چند گارڈز خوفزدہ نظروں سے سامنے صوفے ہر بیٹھے اس شخص کو دیکھ رہے تھے جو بےنیازی سے ایک تیز دھار چمکتا چاقو انکی نظروں کے سامنے لہرا رہا تھا ۔۔۔

کیا کہا تھا میں نے ۔۔۔۔

وہ یکدم اٹھتے ہوئے اسے بالوں سے نوچتے ہوئے دھاڑا اسکی دھاڑ پر گارڈز کے مانو پور پور کانپ اٹھے تھے ۔۔۔۔

آپ۔۔۔ آپ نے کہا تت۔۔۔تھا۔۔۔کک۔۔۔کہ۔۔۔لڑ۔۔۔کی کے۔۔باپ کو۔۔۔اسکے۔۔۔سس۔۔سامنے۔۔۔مم۔۔۔مت۔۔۔مارنا 

گارڈ نے کانپتے ہوئے لرزتے لہجے کہا ۔۔۔

اور تم نے کیا کیا ۔۔۔

اسکے بالوں کو سختی سے نوچتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں غرایا ۔۔۔

گارڈ کا وجود ٹھنڈا پڑ رہا تھا وہ جانتا تھا آج وہ مرنے والا ہے۔۔۔۔

آپ۔۔۔ آپ نے کہا تت۔۔۔تھا۔۔۔کک۔۔۔کہ۔۔۔لڑ۔۔۔کی کے۔۔باپ کو۔۔۔اسکے۔۔۔سس۔۔سامنے۔۔۔مم۔۔۔مت۔۔۔مارنا 

گارڈ نے کانپتے ہوئے بےحد لرزتے ہوئے خوفزدہ لہجے کہا ۔۔۔

اور تم نے کیا کیا ۔۔۔

اسکے بالوں کو سختی سے نوچتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں غرایا ۔۔۔

کرسی پر بندھے اس گارڈ کا  خوف سے وجود ٹھنڈا پڑ رہا تھا وہ جانتا تھا آج وہ مرنے والا ہے۔۔۔۔

سر ۔۔۔ میم اٹھ نہیں رہی ۔۔۔۔ اور ساتھ یہ بھی کہہ رہی ہیں ناشتہ آپکے ساتھ ہی کریں گی ۔۔۔

دروازے پر دستک دیکر سب کچھ جلدی سے بتاتے ہوئے فی میل سروینٹ فوراً وہاں سے بھاگ نکلی تھی ۔۔۔  

گارڈ نے سکھ کا سانس خارج کرتے ہوئے اسے دیکھا ۔۔۔ اسکی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھی یہ اسکے خوف کی نشانی تھی 

یہ مت سوچنا تم یہاں سے زندہ بچ کر جاؤ گے ۔۔۔ 

سپاٹ سی نظر انکو دیکھ کر دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے وہ فوراً ڈارک روم سے باہر نکلا ۔۔۔ باہر سے لاک لگاتے ہوئے وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔ 

ایک مبہم سی دلکش مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا طواف کیا جب اسنے کمرے کا دروازہ کھولا وہ کمفرٹر میں دبکی ہوئی بکھری سی حالت میں سو رہی تھی ۔۔۔ 

دبے پاؤں چلتے ہوئے وہ اسکے قریب رکا ۔۔۔ براؤن لمبے سلکی بال تکیے پر پھیلے ہوئے تھے ۔۔۔ گھنی پلکوں کی سیاہ جھالر نے اسکی حسیں آنکھوں کو چھپا رکھا تھا ۔۔۔ 

عشیق ۔۔۔ 

اسکی بھاری خوبصورت آواز پر وہ کسمسائی ۔۔۔ اور کروٹ بدل کر پھر سے سو گئی ۔۔۔  اسکی اس حرکت پر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی ۔۔۔

اسکے پاس بیٹھتے ہوئے وہ مسکرایا جو دنیا جہاں سے غافل نیند میں ڈوبی ہوئی تھی

عشیق ۔۔۔ اٹھ جائیں۔۔۔

اسکے معصوم نقوش چہرے پر بکھرے بالوں کو سیمٹتے ہوئے وہ بےحد دلفریب لہجے میں گویا ہوا 

سبز آنکھیں دھیرے سے وا ہوئی ۔۔۔ اسے اپنے پاس دیکھ کر وہ جلدی سے کمفرٹر اپنے اوپر لیتے ہوئے اٹھی ۔۔۔ ڈبڈبی نظروں سے اسکا جائزہ لیا ۔۔۔

بلیک کلر کی سمپل شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں ملبوس وہ اپنی پرکشش نیلی آنکھوں سے سنجیدگی سے اسے اپنا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے دیکھ رہا تھا  ۔۔۔ 

اسکی لو دیتی نظروں سے کتراتے ہوئے وہ شرم سے سرخ ہوتے گالوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی نظریں چرا گئی ۔۔۔  اسکے شرمانے پر وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔

فریش ہو جائیں اور بریک فاسٹ میں کیا لیں گی آپ ۔۔۔ وارڈروب سے اسکے کپڑے نکال کر اسے تھماتے ہوئے وہ گمبھیر مصروف لہجے میں استفسار کرنے لگا ۔۔۔ 

کچھ بھی لیکن نان ویج ناں ہو ۔۔۔ 

اسکی بات پر وہ تقریبآ چونکا ۔۔۔

کیوں ؟ سرعت سے پوچھا ۔۔

ہم ۔۔۔ ہم ویجیٹرین ہیں ۔۔۔

وہ صدمے سے آنکھیں پھیلائے اسکے سامنے آ کر رکا ناجانے کہاں سے وہ ویجیٹرین لڑکی پکڑ لایا تھا۔۔۔ اسکے مسلمان ہونے پر بھی شک و شبہ کی گنجائش ہونے لگی  ۔۔۔ جس پر وہ گھبرا گئی ۔۔۔

کس لئے ؟ اور نان ویج نہیں کھاتی ؟ ہیلتھ ایشوز کی وجہ سے یا کوئی اور وجہ ہے ؟؟ 

 وہ تو گھبرا ہی گیا تھا 

ہاں۔۔۔ ہم نان ویج نہیں کھاتے شروع سے ۔۔۔  اسکے حیرت زدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ بولی 

کوئی خاص وجہ ؟ 

لہجہ کمپوز کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

بس شروع سے نہیں کھاتے ۔۔۔ وجہ نہیں پتا ۔۔۔  ۔۔۔

نظریں جھکاتے ہوئے بولی وہ دھیرے سے سر کو ہاں میں خم دیتے ہوئے کچھ سوچ کر مسکرا کر بولا ۔۔۔ 

ہم آتے ہیں ۔۔۔ 

کہتے ہوئے وہ جلدی سے واش روم میں بند ہو گئی ۔۔۔ اسکی جلد بازی ہمیشہ اسکی مسکراہٹ کا باعث بنتی تھی ۔۔۔  اب بھی بنی تھی ۔۔۔

                                🖤🖤🖤🖤🖤🖤

ژالے کہاں جا رہی ہو بیٹا ۔۔۔ آفرین بیگم جو کچن سے کام کرنے کے بعد ابھی باہر آئی تھی اسے تیار ہو کر نکلتے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

آ جاؤ زارا ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ چاچی جان ۔۔۔ ہم شاپنگ مال تک جا رہی ہیں۔۔۔ میں نے بابا سے پرمیشن لے لی ہے ۔۔۔  اور بھابھی بھی جا رہی ہیں ہمیں شاپنگ کرنی ہے تھوڑی سی ۔۔۔ ژالے نے جلدی سے زارا کو اشارہ کیا ساتھ ہی آفرین بیگم کو جواب دیا

اوہ ۔۔۔ کون جا رہا ہے تمھارے ساتھ ۔۔۔ آفرین بیگم نے فکرمندی سے دیکھتے ہسئے استفسار کیا ۔۔۔

وہ حرب بھائی آفس جا رہے ہیں جاتے ہوئے ڈراپ کر دیں گے ۔۔۔ واپسی پر آتے ہوئے پک کر لیں گے ۔۔۔ ژالے نے زارا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے جلدی سے سب کہا ۔۔۔ سچھا اللہ حافظ بھائی نکل رہے ہیں ۔۔۔ اور حرب کو لاونج سے نکلتا دیکھ کر اسکے پیچھے چلی گئی ۔۔۔ اللہ حافظ بیٹا ۔۔۔۔ آفرین بیگم مسکرائی

اچانک سے کیوں جا رہی ہو اور مجھے کیوں لے جا رہی ہو۔۔۔ 

ارے بھابھی ۔۔۔ صبر کریں شاپنگ ہی تو کرنی ہے آپ کا سٹائل ہی خراب ہے اپنا لوک چینج کریں زرا سا ۔۔۔

ژالے نے اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا جبکہ پوری بات سننے سے پہلے زارا کا پارہ چڑھ گیا ۔۔۔

ارے ریلیکس ۔۔۔ پہلے چلو تو صحیح ۔۔۔۔۔

اسکا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے کار میں بیٹھ گئی ۔۔۔  جبڑے بھینچے زارا منہ پھلائے کار کی ونڈو سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔ 

حرب خاصا سنجیدہ لگ رہا تھا صبح جو زونی کر کے گئی تھی اسکے بعد وہ بمشکل ہی غصہ ضبط کئے ہوئے تھا ۔۔۔ ورنہ اندر اٹگتے طوفانوں سے وہ سب تہس نہس کر دینا چاہتا تھا

میرا سٹائل خراب ہے پتا نہیں اور کیا کیا کرنے پڑے گا مجھے پھنس گئی میں تو ۔۔۔  منہ میں بڑبڑاتی ہوئی وہ دانت پیس کر بولی جبکے ژالے اسکی بات سن کر مسکرائی ۔۔۔۔۔

۔۔۔

یہ ہیں وہ فلیش ڈرائیوز ۔۔۔ تعبیر اور شان نے فلیش ڈرائیو اسکے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ سرد نظروں سے دونوں کو دیکھتے ہوئے فلیش ڈرائیو اپنے سامنے پڑے لیپ ٹاپ میں لگانے لگا ۔۔۔

تم ٹھیک ہوئے ۔۔۔بڑی کٹ پڑی تھی تمھیں تو  ۔۔ تعبیر نے شان کے کندھے کو چھوا جس پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے آہ بھر کر کندھے کو جھٹکا گیا ۔۔۔

دکھ گیا ؟ سوری ۔۔ مجھے نہیں پتا تھا مرجان تمھیں اتنا پیٹ ڈالے گا۔۔۔

وہ طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی 

اچھا اور مجھے نہیں پتا تھا مرجان تمھیں ایک ہفتہ بھوکا رکھے گا اور تنھاری یہ شکل میک اپ کے بغیر کسی اجڑی آتما سی نظر آئے گی ۔۔۔ شان نے دانت کچکچائے جس پر وہ ناک سکیڑتے ہوئے اسے آنکھیں دیکھا گئی

وہ سنجیدگی سے دوسری فلیش ڈرائیو کو لیپ ٹاپ میں لگاتے ہوئے چیک کرنے لگا ۔۔۔

ویسے تم تو اپنے باپ کا بدلہ لینے نکلی تھی اتنا خاص سدھار کیوں اور کیسے واقع ہوا_ کہ تم مرجان کیساتھ  مل گئی

شان نے اسے لفظوں سے مزید لتاڑا 

تمھیں مجھ سے کوئی تکلیف ہے تو صاف صاف بول کیوں نہیں دیتے فضول میں چونچ ہلا کر کیوں اپنے بھونڈے پن کو واضح کر رہے ہو ۔۔۔ تعبیر نے بھی برابر سنائی

مقصد صرف یہ جاننا ہے کی کیا تمھارا دماغ ٹھیک ہو گیا ہے یا اس پر فدا ہو گئی ہو ۔۔۔ شان نے بےساختہ ہنس کر کہا جبکہ اسکی آخری سطر پر مرجان نے اسے گھوری سے نوازا جس پر سہ منہ پر قفل لگا گیا 

ہی ہی ۔۔۔ جو باپ  پیسوں کی خاطر اپنی بیٹی کو کسی اور کی بیٹی اور کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر پیش کر سکتا ہے میں اسکے لئے کیوں اپنی زندگی خراب کروں ۔۔۔ 

اسکی بات پر شان نے دونوں ہاتھ ملاتے ہوئے  طنز سے ہلکی سی تالی بجائی جس پر وہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے اکتا کر رہ گئی ۔۔۔

اور تم کیسے سدھر گئے میں نے تو سنا تھا کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہتی ہے ۔۔۔ 

مائنڈ یوئر لینگویج  مس وکٹوریہ۔۔۔ کس کباڑ خانے سے اٹھ کر آئی ہو بولنے تک کی تمیز نہیں ۔۔۔ شان نے تاسف سے اسکی بدتمیزی پر ماتم کیا جبکہ لفظ مس وکٹوریہ پر وہ مسکرا گئی  

مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔ کچھ کھلاؤ گے یا بھوکا مارو گے مجھے ۔۔۔ تعبیر نے اسے سنجیدگی سے کام میں مصروف دیکھ کر  اسکے کام میں خلل ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔ جس پر وہ لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھا ۔۔۔

وہ صحیح کہہ رہی ہے اس فلیش کے چکر میں میں نے کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ شان نے تعبیر کی تردید کی جس پر وہ مسکرائی ۔۔۔

ٹھیک ہے پاس میں ایک ریسٹورنٹ ہے جا کر کھا لو ۔۔۔ لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔

کیا مطلب کھا لو ؟ تم نہیں چلو گے ۔۔۔ آفٹر آل اب تو ہم پارٹنرز ہیں ۔۔۔

اسکی بات پر وہ سرد آہ بھرتے ہوئے اکتا کر آنکھیں گھما گیا ۔۔۔

چلو کھانا تو میں کھا لوں گی اسکے ساتھ ۔۔۔ مجھے کچھ لینا ہے سامنے مال ہے دو منٹ چلو ۔۔ اور پھر مجھے آفس کے راستے میں ڈراپ کر دینا ۔۔۔ ٹیبل سے پرس اٹھاتے ہوئے وہ گلاسز لگاتے ہوئے اسکے برابر رکتے ہوئے مسکرا کر بولی 

میرے پاس ٹائم نہیں ہے ۔۔۔   مرجان کلائی پر بندھی رولیکس واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے سرد آواز میں بولا 

بس دو منٹ پلیز پلیز پلیز ۔۔۔

شان نے لمبا سانس خارج کرتے ہوئے آنکھیں گھمائی ۔۔۔ 

میں جا رہا ہوں ۔۔۔ تم کھانا کہیں اور کھا لینا ۔۔۔ اسے کوفت سے دیکھتے ہوئے کمپوز لہجے میں بولا ۔۔۔

جاؤ جاؤ ۔۔۔ 

ہاتھ سے اسے جلدی جاؤ کا اشارہ کرتی ہوئی وہ ہائی ہیل سے ٹک ٹک کرتی ہوئی مرجان کیساتھ مال میں گھس گئی تھی ۔۔۔

بل تم بھرو گے یا میں اپنا کریڈٹ کارڈ نکالوں ویسے یہ سوٹ نہیں کرتا ایک اتنا بڑا بزنس مین اپنے ساتھ آئی لڑکی کو شاپنگ تک ناں کروائے ۔۔۔۔ 

اسے تاسف سے دیکھتے ہوئے نچلا ہونٹ دبا کر بولی ۔۔۔

جسٹ ڈو اٹ فاسٹ ۔۔۔اور فضول کی باتیں مت کرو ۔۔۔۔ اسکی طرف کریڈٹ کارڈ بڑھاتے ہوئے فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔

اوکے۔۔۔ اینڈ تھینک یووو۔۔۔ ڈیئررر

اسکا کریڈٹ کارڈ لیتے ہوئے وہ مسکرا کر آگے بڑھ گئی ۔۔۔ جبکہ لفظ ڈیئر پر وہ لمبا سانس ہوا کے سپرد کر چکا تھا ۔۔۔  پیچھے مڑتے ہوئے وہ کسی سے ٹکرایا تھا

سوری بڈی ۔۔۔ غلطی سے ہو گیا ۔۔

اسکا فون نیچے سے اٹھاتے ہوئے سامنے کھڑا شخص مسکرا کر اسکی جانب بڑھاتے بولا تھا ۔۔ اٹس فائن ۔۔۔ فون اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے وہ آفس کے ای میل چیک کرنے میں مصروف ہوا تھا

                                🖤🖤🖤🖤🖤🖤

بھابھی یہ چیک کریں ناں ۔۔۔ آپ تو سارے سمپل ڈریس ہی لے رہی ہیں ۔۔۔

ژالے کو گھورتے ہوئے اسنے ڈریس کو دیکھا ۔۔۔ وہ مہرون کلر کا سلک کا ڈریس لئے (جس پر گولڈن نفیس کام نفاست سے کیا گیا تھا) مسکرا رہی تھی ۔۔۔

ڈریس لیتے ہوئے وہ رکی تھی ۔۔۔ 

بھابھی ؟ 

ژالے نے اسکے چہرے کے سامنے ہاتھ ہلایا جس پر وہ جبڑے بھینچے اسکی جانب اشارہ کر گئی ۔۔۔ 

تعبیر کا ہاتھ تھامے وہ اکتائے ہوئے تاثرات چہرے پر سجائے چل رہا تھا ۔۔۔

 دیکھو ۔۔۔  صحیح تھی تم ۔۔۔ میرے پیچھے یہ اور لڑکیوں کیساتھ گھومتے ہیں ۔۔۔ دھوکے باز ۔۔۔ فریبی ۔۔۔۔ انسان

زارا نے مٹھی بھینچتے دانت پر دانت جمائے تھے

ژالے نے بےیقینی سے اپنے بھائی کو دیکھا اور سر پر  صدمے سے ہاتھ رکھا اور دل ہی دل میں اسے سو گالیوں سے نوازا ۔۔۔

بھابھی ؟

اسے اپنے پاس نا پا کر وہ سٹپٹا گئی تھی ۔۔۔ بھابھی کہاں گئی ۔۔۔

آس پاس دیکھتے ہوئے ہڑبڑاتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔

یہ کیسا ہے ۔۔۔ 

ریڈ کلر کا ڈریس نکالتے ہوئے وہ مرجان کو دیکھاتے پوچھنے لگی جس پر اسکی پیشانی پر لاتعداد بل پڑے ۔۔۔

اچھا اچھا ۔۔۔ سڑ کیوں رہے ہو ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔ تمھیں مجھ سے بہت کام پڑیں گے اس لئے محبت سے پیش آؤ ورنہ میں نہیں کروں گی تمھارے کام ۔۔۔

اور تم یہ یاد رکھنا میں صرف  اس لئے برداشت کر رہا ہوں ۔۔۔ کیونکہ تم جانتی ہو میں کون ہوں ورنہ تمھاری ایک ایک ہڈی توڑ کر پھینک چکا ہوتا ۔۔۔

اسکی بات پر وہ الٹا مسکرائی ۔۔۔ 

اوہ ۔۔۔ مسٹر مرجان کاظمی کو غصہ آ گیا ۔۔۔ چچچ ۔۔۔

اسکا بلو کوٹ ٹھیک کرتی ہوئی وہ مسکراہٹ دبا کر بولی ۔۔۔  وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسے پیچھے ہٹا چکا تھا ۔۔۔ 

حد ہو گئی ۔۔۔۔ 

زارا اسے دیکھتے ہوئے جو ہاتھ میں آ رہا تھا شاپنگ بیگ میں بھرتی جا رہی تھی ۔۔۔ 

بہت شوق ہے ناں دوسری لڑکیوں کیساتھ گھومنے کا ۔۔۔ آج تک مجھے تو شاپنگ نہیں کروائی ۔۔۔ سارے مرد ہی ایسے ہوتے ہیں شادی کے بعد ۔۔۔ ساری محبت ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔ 

صدمے سے اسے دیکھتی ہوئی وہ ہینگرز سے سارے کپڑے اتار کر شاپنگ بیگز بھر چکی تھی ۔۔۔ 

یہ سب چاہیے ۔۔۔ ہانپتی ہوئی وہ جلدی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھی اور سامان سامنے بیٹھی لڑکی کی طرف بڑھاتے بولی ۔۔۔ 

لڑکی نے حیرانی سے سامنے پڑے بیگز دیکھے جو تعداد میں اتنے تھے کہ سامنے کا پورا منظر بلاک کر چکے تھے ۔۔۔ 

اوکے میم ۔۔۔ جسٹ گیو می آ سیکنڈ ۔۔۔

کیبورڈ پر ٹائپ کرتے ہوئے اسنے تین لاکھ کا بل بنا کر پرچہ اسکی طرف بڑھایا جس پر وہ مسکرائی ۔۔۔

ایکچلی وہ میرے ہزبینڈ ہیں ۔۔۔

مرجان کی طرف اشارہ کرتے وہ  ہونٹوں پر بکھرتا متبسم دبا کر بولی ۔۔۔۔۔ 

اوہ ۔۔۔ لڑکی نے رشک بھری نظروں سے سامنے کھڑے اس حسیں مرد کو  دیکھا ۔۔۔

آپ بل ان سے لے لیں ۔۔۔ اوکے ۔۔۔ 

شاپنگ بیگز اٹھاتے ہوئے وہ ژالے کی جانب بڑھ گئی تھی جو اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہو گئی تھی ۔۔۔ 

سر ایکس کیوز می ۔۔۔ 

وہ جو کب سے تعبیر کی شاپنگ ختم ناں ہونے پر تپا ہوا تھا پیچھے کھڑی لڑکی کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔

سر آپکی وائف نے شاپنگ کی ہے اور انہوں نے کہا ہے میں بل آپ سے لے لوں ۔۔۔۔ لڑکی نے پرچہ اسکی طرف بڑھایا تھا جسے وہ حیرانی سے لے چکا تھا جبکہ لفظ وائف پر تعبیر نے لپ سٹک سے بھرے سرخ ہونٹ  سختی سے بھینچے تھے ۔۔۔ 

بل دیکھ کر وہ سرد آہ بھرے بغیر ناں رہ سکا ۔۔۔ 

بھابھی کہاں گئی تھی آپ ۔۔۔ اور یہ کیا ہے ۔۔۔ اسے اپنا ہاتھ پکڑتا دیکھ اور اتنے سارے بیگز دیکھ کر وہ چونکی ۔۔۔۔ 

چلو تو صحیح ۔۔۔

اسے بازو سے پکڑتی ہوئی وہ تاسف سے بولی ۔۔۔ 

ارے آپ بھی یہاں ہیں ہائے ۔۔۔ صحیح کہتے ہیں سب دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔۔۔ میں بھی سوچ رہی تھی میں کریڈٹ کارڈ تو گھر ہی بھول گئی ۔۔۔ کتنا اچھا ہوا آپ یہاں آ گئے ۔۔۔

اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر لہجے میں شیرنی گھولتے ہوئے اسکے گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ سے بولی ۔۔۔جس پر وہ چونک پڑا۔۔۔ جبکہ تعبیر سڑ بھن گئی تھی

 جبکہ مال میں سب لوگ انہیں حیرانی سے تکنے میں مصروف تھے ۔۔۔ مرجان کاظمی کو کون نہیں جانتا تھا مگر وہ شادی شدہ ہے یہ بات ابھی کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔ اس لئے سب ہکا بکا انہیں دیکھ کر سرگوشیاں کر رہے تھے ۔۔۔ 

آپ پے کر دیں گے ناں ڈیئر ہبی ۔۔۔

دانت پیستے ہوئے وہ مسکرا کر بولی جس پر وہ آنکھیں سکیڑ گیا تھا ۔۔۔

گھر تو آؤ بتاتی ہوں آپکو میں ۔۔

مسکرا کر اسکی ٹائی ٹھیک کرتے ہوئے اسکی گرے آنکھوں میں دیکھتی ہوئی زہر خند لہجے میں بولی جس پر وہ اور زیادہ چونکا تھا ۔۔۔ صبح سے وہ اسے جھٹکے پر جھٹکا دے رہی تھی ۔۔۔۔

فون کی رنگ ٹون بجنے پر وہ آخری تیز نظر اس پر ڈالتی ہوئی فون کان سے لگائے ژالے کیساتھ باہر نکل گئی تھی ۔۔۔ژالے نے پیچھے سے مرجان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔ اور ہاتھ جوڑنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔  جبکہ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بل پے کرنے لگا ۔۔۔۔

فون پر ای میل ریویو ہونے کا میسج آیا تھا مگر وہ ان دیکھا کرتے ہوئے تعبیر کو تیکھی چنوتوں سے دیکھتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا اور وہ بس منہ بسورتے رہ گئی تھی ۔۔

                                   🖤🖤🖤🖤🖤

آج وہ ڈرائیور کیساتھ نہیں آئی تھی ۔۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر اسٹیئرنگ تھامے بیٹھی وہ گہری الجھنوں میں ملوث سختی سے انگلیاں چٹخاتی ہوئی سامنے مصروف روڈ پر رکی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"کہاں مر گئے تھے تم کب سے فون ملا رہی ہوں میرا کام کرنا ہے تم نے یا کسی اور سے بولوں 

کسی کو فون ملاتے ہی جیسے ہی کال کنیکٹ ہوئی وہ نان سٹاپ بولتی گئی ۔۔۔

" فکر کیوں کرتی ہو مائی لوو _ کہا ناں کام ہو جائے گا میں یونی پہنچ چکا ہوں بےفکر ہو کر آؤ _ تمھارا کام میں سب سے پہلے کر کے دوں گا مائی بیوٹی"

تم ناں اپنی حد میں رہو _ اور یہ فضول القابات سے نوازنا بند کرو _ اور غصہ مت دلایا کرو ادھر ادھر کی ہانک کر _ گاڈ نان سینس کس بےوقوف سے میں کام لینے والی ہوں اس کا تو میں گلا دبا دوں ۔۔

آخری سطر دل میں ہی بول کر آنکھیں گھما کر رہ گئی تھی

کیفیٹیریا میں ملتے ہیں پھر _ اور میری شرط یاد رکھنا _ کہ میں بغیر کسی مقصـد کے کسی کا کام نہیں کرتا ۔۔

نان سینس _ ایک بار میرا کام ہو جائے تمھارا منہ لال کر دوں گی تھپڑوں سے ،، کال ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے وہ زیر لب بڑبڑائی

کسی نے کار کے شیشے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ پہلے تو وہ گھبرا گئی تھی مگر پھر فوراً ہی کمپوز ہو کر شیشہ نیچے کر گئی تھی ایک نورانی چہرے والے بزرگ سفید داڑھی ، سفید بھنویں اور سفید ہی لٹھے جیسے سفید سوٹ میں ملبوس اسکے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے ۔۔۔

بیٹا کچھ امداد کر دو ، خدا تمھارا بھلا کرے گا ، اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو ۔۔۔ وہ شفقت سے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے جس پر وہ بدتمیزی سے آنکھیں پھیر گئی 

دیکھیں بابا آپ لوگوں کو مانگنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے جو بھی گاڑی رکتی ہے آپ لوگ مانگنے کے لئے آ جاتے ہیں اور بعض بھلے لوگ آپکو دے بھی دیتے ہیں مگر مجھے معاف کر دیں میں جلدی میں ہوں آپ پلیز پیچھے ہٹ جائیں پہلے ہی ذندگی اجیرن ہو گئی ہے  اور اب اسی اللہ کے واسطے آپکو امداد چاہیے۔۔۔ ونڈو کا گلاس اوپر کرتے ہوئے وہ بےفکری سے بولی   

زندگی اجیرن تو نادان لوگ خود کرتے ہیں بیٹا  اپنے نادان فیصلوں سے ۔۔۔ اور جب اسکے عبرتناک نتائج سامنے آتے ہیں تو ساری کرنی خدا پر ڈال دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ تو قسمت میں لکھا تھا ۔۔۔

بزرگ کی بات پر وہ سیٹ بیلٹ لگاتے ہوئے رکی تھی ۔۔۔

انسان  بہترین کی تلاش میں بہتر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ،، دوسروں کے پاس کیا ہے رشک کرتا ہے مگر اپنی چیزوں پر کبھی خدا کا شکر ادا نہیں کرتا ۔۔۔۔

وہ ندامت اور شرمندگی سے بزرگ کی جانب دیکھ رہی تھی جیسے وہ سب اسکے بارے میں ہی بول رہے تھے ۔۔۔

تو کیا انسان کی جو خواہشات ہیں انہیں دل میں ہی دفن کر لے ۔۔۔ جو انسان چاہتا ہے اسے پانے سے گریزاں ہو جائے ؟ 

وہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے دل میں اٹھتا سوال لبوں سے آشنا کروا گئی تھی 

بیٹا یہاں بات میرے اور آپکے چاہنے کی نہیں ہے یہاں بات صرف اتنی ہے کہ اس پاک ذات کی رضا کس میں ہے _ تقدیروں کا لکھا معمولی انسان کہاں بدل سکتے ہیں اور مجھے رزق آپ سے نہیں اس پاک ذات سے ملنا ہے یہاں نہیں تو وہاں صحیح ۔۔۔

وہ حیرانی سے کار کا گلاس نیچے کرتے ہوئے ان بزرگ کی جانب متوجہ ہوئی

اور جب انسان خود تقدیر بدلنا چاہے تو اسکا نتیجہ کیا ہو گا ؟

اسکے سوال پر بزرگ کے نورانی چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ۔۔

اور اگر کوئی انسان ایسا کرنے کی سوچ رکھتا ہے تو وہ اسکے خوفناک نتائج کا سامنا کرنے کی بھی سکت رکھتا ہو ۔۔۔ بےشک وہ ذات سخت عذاب دینے والی ہے ۔۔۔ 

اتنا کہہ کر وہ بزرگ وہاں سے گزر گئے تھے وہ اضطرابی کیفیت میں کار سے باہر نکلی تھی مگر بزرگ دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہے تھے ۔۔۔۔

کیا مطلب تھا انکا؟ کیا میں کچھ غلط کرنے جا رہی ہوں  ۔۔۔

لب بھینچے خوفزدہ نظروں آس پاس انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ دھیمے لہجے میں دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے خود سے ہم کلام ہوئی 

                                     🖤🖤🖤🖤🖤

کمرے میں آتے ہوئے وہ جلدی سے دروازہ بند کرتی ہوئی بیڈ پر ڈھے گئی تھی چہرہ کشن میں چھپاتے ہوئے وہ رونے لگی 

مسلسل آنسوں اسکی براؤن آنکھوں سے ٹوٹ کر اسے سرخ گالوں پر ٹوٹ رہے تھے بالوں کی چند لٹیں اسکے چہرے پر بکھری ہوئی تھی اسکی نم آنکھوں کے سامنے ماضی کا ایک منظر لہرایا تھا 

……

……

چٹاخ ! 

ایک زوردار تھپڑ اسکے نازک چہرے پر پڑا تھا 

اسکے کندھوں تک آتے میلے بال لہرائے اور وہ دیوار سے لگی تھی

آہ۔۔

سر کو ایک جانب سے تھامتی ہوئی وہ کراہ گئی ساتھ ہی سہارہ نہ پا کر وہ نیچے گری تھی

تم پر ترس ؟ ۔۔۔

اتنا کہہ کر وہ ٹوٹے دل کے ساتھ ہنسا تھا

میں تو تمھیں ایسی ٹھیس پہنچانا چاہتا تھا جو تم زندگی بھر اپنے دل پر محسوس کرو بےحد نفرت کرتا ہوں تم سے اور زندگی بھر کروں گا تمہارے عزیز باپ نے مجھ سے میری زندگی میرا سب چھین لیا اور اب تم مجھ سے انسانیت کی امید رکھ رہی ہو ؟

مرجان کاظمی سے ؟ 

وہ اسے کندھے سے جکڑتے ہوئے غرایا

ہمارے پاس ۔۔۔ بھی کچھ نہیں رہا۔۔۔

تھپڑ کی وجہ سے اسکے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا اور وہ اسکی خاکستر رنگی آنکھوں میں آدھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے دھیمے سے بولی تھی

 وہ سنجیدگی سے اسکی براؤن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے لب بھینچ گیا تھا واقعی وہ اس سے سب چھین چکا تھا کچھ باقی نہیں تھا اس لڑکی کے پاس اب ۔۔۔

ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہا ۔۔۔ وہ دھیرے سے کہہ کر اسکے کندھے پر گر سی گئی تھی 

وہ اسے خود سے جھٹکتے ہوئے دور گرا چکا تھا 

ٹھیک کہا تم نے ۔۔۔ 

ندیم ۔۔۔ اسے باہر سڑک پر پھینک دو اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔ 

گارڈ کو سرد لہجے میں کہہ کر وہ آخری نظر اسکے ساکت وجود پر ڈالتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا

……

……

بہت زیادتیں کی ہیں آپ نے میرے ساتھ اور اسکے بعد بھی آپ مجھ سے یہ امید رکھیں کہ میں آپ کا پیار قبول کر لوں  

اسکے ہونٹوں پر ایک درد سے بھرپور متبسم پھیلا تھا آنکھوں سے آنسوں کی بوندیں مسلس برس رہی تھی 

جب چاہا قبول کر لیا جب چاہا پھینک دیا کیا میرے جذباتوں کی کوئی قدر نہیں … میں کوئی شے نہیں ہوں جسے جب چاہا اپنے پاس رکھ لیا جب چاہا دور پھینک دیا  آپکو آپکے ہی طریقے میں جواب دوں گی میں ۔۔ یہ آپکی سب سے بڑی خوش فہمیوں میں سے ایک ہے کہ میں آپکو معاف کر دوں گی جو درد آپ نے مجھے دیئے ہیں وہ آپکو بھی ملیں گے ایک بار بھی آپ نے مجھ  سے ان سب گناہوں کی معافی مانگنا گوارا نہیں کیا اور جو گھٹیا کام آپ کر رہے ہیں وہی آپکی ذلت و رسوائی کا باعث بنیں گے 

آنکھوں سے آنسوں صاف کرتی ہوئی وہ دھیمی آواز میں بولی تھی 

کمرے کا دروازہ کھلا وہ گھبراتے ہوئے فوراً کشن سے سر اٹھا چکی تھی  شہنشاہ صاحب کو دیکھ کر وہ دوپٹہ سر پر ڈالتی ہوئی سرخی مائل آنکھوں کو جھکا چکی تھی 

کیا فیصلہ کیا آپ نے بچے مرجان یہاں نہیں ہے  اس لئے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو فیصلہ آپکا ہو گا میں اس میں آپ کے ساتھ ہوں 

وہ مسلسل فرش پر نظریں جمائے انگلیوں کو مروڑنے میں مصروف تھی دل گہری کشمکش میں تھا وہ اسے تکلیف بھی دینا چاہتی تھی اور ایک طرف اسکا بچپن کا دوست تھا جو ناجانے کہاں گم گیا تھا جس جان کو وہ جانتی تھی یہ وہ تو ہرگز نہیں تھا جواب دینے میں صاف ہچکچاہٹ تھی جسے شہنشاہ صاحب نے بخوبی غور سے دیکھا گلے میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے 

ہم اپنی بات پر قائم رہیں گے وقت آنے پر ہم وہی کریں گے جو ہم نے آپ سے کہا تھا نانا صاحب ،، اسنے قدرے دھیمے لہجے میں کہا تھا مگر اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی جو اسکے دماغ میں بری طرح گونج اٹھی تھی

جبکہ شہنشاہ صاحب نے سرد آہ بھرتے ہوئے ہاں میں سر ہلا کر اسکے فیصلے کی تردید کی تھی کہ وہ اسکے ساتھ ہیں ۔۔ 

تم اسے صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتی کہ تمھیں اس سے طلاق چاہیے دیکھو میری مانو تو اپنی امی کو سب سچ بتا دو کہ تم دونوں اس رشتے سے خوش نہیں ہو وہ خود ہی تمھارے دادا صاحب سے بات کر لیں گی اور کسی ناں کسی طرح تم دونوں کو الگ کروا دیں گی 

لیکن مجھے ان کی مدد نہیں چاہیے ردا تم کیوں نہیں سمجھتی وہ کتنی بڑی خودغرض ہیں میں جانتی ہوں وہ ہر شے میں اپنا فائدہ پہلے ڈھونڈھتی ہیں میری مدد تو دور وہ الٹا سب بگاڑ دیں گی

زنیرا نے کندھے اچکاتے ہوئے ڈیسک پر بیٹھتے ہوئے کہا ردا بھی اسکے ساتھ بیٹھ گئی

میں کشمالہ آنٹی کی بات نہیں کر رہی میری جان میں آفرین آنٹی کی بات کر رہی ہوں وہی تمھاری امی ہیں ناں وہ ضرور سمجھیں گی 

خدا کا خوف کرو ردا وہ کبھی نہیں مانیں گی الٹا وہ مجھے جھڑپنے لگتی ہیں جب حرب کیساتھ صحیح برتاؤ ناں کروں جب حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں مجھے یہی قدم اٹھانا پڑے گا تم فکر مت کرو دیکھو میں نے اس سے بات کر لی ہے اسے صرف پیسے چاہیے 

زنیرا نے ردا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے مطمئن کرنا چاہا

بات صرف پیسوں کی نہیں ہے اس میں حرب کا کوئی قصور نہیں ہے تم اسکے ساتھ ہی ایسا کیوں کرنا چاہتی ہو اور

تم جو بھی کہہ لو میں اس قتل جیسے گناہ میں تمھارا ساتھ ہرگز نہیں دوں گی 

ردا نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے بےرخی سے کہا اور کتاب کھول کر پڑھنے لگی وہ بہت سمجھا چکی تھی زنیرا کو مگر زنیرا تھی جو سمجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی

زنیرا نے کچھ بولنے کے لئے ہونٹ کھولے ہی تھے جب وہ دوبارہ اسکی جانب رخ کرتے ہوئے بول پڑی

دیکھو مجھے لگتا ہے تمھیں اسے ایک موقع دینا چاہیے تم جو بھی کہو وہ تمھارا شوہر ہے ایٹ لیسٹ اسے آزما تو لو میں نہیں چاہتی تمھارا یہ فیصلہ بھی باقی فیصلوں کی طرح جلد بازی میں کیا گیا ہو جس کے آخر میں تمھیں خود ہی پچھتاوا ہو 

زنیرا نے لب بھینچے تھے وہ اب کچھ اور نہیں بولنا چاہتی تھی کیونکہ ردا بار بار حرب کی طرف داری کر رہی تھی جس پر زونی کا خون جل رہا تھا لیکچر شروع ہوا تھا مگر زونی کا دل و دماغ کہیں اور ہی اٹکا تھا مسلسل انگلیاں مروڑتے ہوئے وہ آنکھیں پھیر پھیر کر دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی دل تھا جو منع کر رہا تھا اور دماغ بار بار کہہ رہا تھا کر ڈالو

                          ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

آغا  پرسوں والی وہ  بلیک فائل کہاں ہے 

جلدی سے آنکھوں کو بازو کے کف سے صاف کرتے ہوئے وہ ہاتھ میں تھامی فوٹو تکیلے تلے دباتے ہوئے پیچھے مڑ کر مسکرائے 

شہنشاہ صاحب نے سنجیدگی سے ان کی سرخ آنکھوں کو دیکھا اور پھر ایک طائرانہ نظر سے تکیہ کو دیکھا جو اس پر ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھ رہے تھے 

بابا صاحب وہ فائل یہ ہے آپ کسی اور کو بھیج دیتے آپ نے کیوں زحمت کی 

بیڈ کے پاس پڑے سائڈ باکس سے بلیک فائل اٹھاتے ہوئے وہ چلتے ہوئے شہنشاہ صاحب کی طرف بڑھانے لگے 

فائل کو لیتے ہوئے وہ بیڈ کی جانب بڑھے جبکہ آغا صاحب اپنی جگہ پر منجمند ہو چکے تھے 

تکیے کے نیچے سے فوٹو نکال کر وہ دیکھ کر سرد نگاہ آغا صاحب پر ڈالتے ہوئے انکے سامنے رکے وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے سر گرائے کھڑے تھے 

کون ہے یہ آغا 

فوٹو ان کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے شہنشاہ صاحب نے کرخت لہجے میں پوچھا

میری بچی تھی !

شہنشاہ صاحب کا ذہن شل ہوتا محسوس ہوا وہ خالی سی نظر آغا صاحب کو دیکھتے ہوئے لڑکھڑاتے قدموں کیساتھ بیڈ کے کنارے پر نا سمبھلتے ہوئے بیٹھے 

میں بہت پہلے بتا دینا چاہتا تھا بابا سائیں میں نے دوسری شادی کی تھی میں کبھی بھی قصا سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا آپ کے فیصلوں کے خلاف جانے کی ہمت نہیں تھی سچ بولنے کی طاقت نہیں تھی جھوٹ بولتا تو خود سے نظریں ناں ملا پاتا اس لئے سب دل میں دفنا دیا 

شہنشاہ صاحب نے لرزتے ہوئے ہاتھ کیساتھ آغا صاحب کو پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ کچھ بولنے کی کیفیت میں نہیں تھے آغا صاحب سر جھکائے شہنشاہ صاحب کے قریب بیٹھے تھے ڈھیروں شرمندگی نے انہیں آن گھیرا تھا 

اب کہاں ہے وہ 

آغا صاحب کو سر میں درد کی ٹھیس اٹھتی محسوس ہوئی شہنشاہ صاحب کے سوال پر 

بتاؤ آغا کون تھی وہ اور اسوقت کہاں ہے اور یہ بچی کہاں ہے 

میں ۔۔۔ میں۔۔۔ن۔۔نے لاوارث چھوڑ دیا

چٹاخ !

شہنشاہ صاحب نے ایک زوردار تھپڑ آغا صاحب کے چہرے پر رسید کیا تھا وہ سرخ آنکھیں شرمندگی سے جھک گئی تھی مگر ڈھیروں شرمندگی افسوس اور بےانتہا کرب  آنکھوں سے  بے اختیار آنسوں کے بہنے کا باعث بنا 

میں کیا کرتا بابا سائیں آپ کے فیصلوں پر ہمیشہ جھکنا پڑا سہیل کو  بھی ،، مگر افسوس وہ تاب ناں لاتے ہوئے آخر کار تھک کر دنیا سے کوچ کر گیا ،، اسکے بعد مجھے پھر  منور کو ،، کیا کرتا میں آپ پہلے ہی رشتہ طے کر چکے تھے ایک بار بھی ہم سے نہیں پوچھا گیا ہمیں تب بتایا گیا جب  اگلے نکاح ہونے کے قریب تھا اتنی ہمت نہیں تھی آپ کے سامنے اپنی بات رکھ سکتا اسکی ماں اسے جنم دیتے ہی دنیا سے رخصت ہو گئی میں کیا کرتا 

اس معصوم لڑکی کا کیا قصور تھا جسے تم نے لاوارث چھوڑ دیا گھٹیا شخص ،، میرا بیٹا کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے مجھے ، گھن آ رہی ہے تم سے اس بچی کے اس دنیا میں آنے کی وجہ تم تھے پھر کیسے لاوارث چھوڑ دیا اسے 

شہنشاہ صاحب آغا کا گریبان پکڑتے ہوئے گرجدار آواز میں بولے اور وہ شرمندگی سے بس سر جھکا گئے 

وہ زندہ بھی ہے یا نہیں جانتے ہو تم 

بس کریں بابا سائیں مجھے سب سچ بولنے پر مجبور مت کریں آپ نے سہیل کو پسند کی شادی کرنے پر اس گھر سے بےعزت کر کے نکال دیا میں کیا کرتا بتائیں اس تین سال کی بچی کو میں نے یتیم خانے میں چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ اسکا کوئی وارث نہیں  کچھ سال بعد جب میں وہاں  اسے دیکھنے گیا وہ وہاں نہیں تھی انکا کہنا تھا وہ وہاں سے کہیں چلی گئی کیا بچا میرے پاس صرف تلخ یادیں شرمندگی افسوس ،، مگر میرے اس فیصلے کی سب سے بڑی وجہ آپ ہیں آپ خود 

شہنشاہ صاحب کو آغا صاحب سے یہ امید نہیں تھی وہ اتنا بول گئے تھے انکا گریبان چھوڑتے ہوئے وہ صدمے سے نڈھال پیچھے ہٹتے چلے گئے انکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ رہے تھے 

معاف کر دیں بابا سائیں مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا آپکے سامنے 

آغا صاحب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا مگر شہنشاہ صاحب دھیرے سے سر کو خم دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے تھے آغا صاحب نے نیچے گری ہوئی اس معصوم سی بچی کی فوٹو اٹھا کر سینے سے لگائی تھی 

                        ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

فلیش کو لیپ ٹاپ سے نکالتے ہوئے اسنے دوسری فلیش لگائی تھی جو بالکل خالی تھی 

یہ کیسے ہو سکتا ہے میں نے خود سب چیک کیا تھا پورا ریکارڈ تھا ان میں 

سنجیدگی سے لیپ ٹاپ کو چیک کرتے ہوئے وہ خود کلام ہوا 

اسکے فون کی رنگ ٹون بجی وہ بغیر نمبر دیکھے کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون کان سے لگاتے ہوئے لیپ ٹاپ چیک کرنے لگا 

کیا ہوا ایجنٹ ؟ فلیش خالی ہے 

وہ بھاری آواز میں کہے گئے لفظوں پر ٹھٹکا 

کون ہو تم ۔۔۔

چچچچچچ ،، مال میں تم کسی سے ٹکرائے تھے یاد آیا ؟

مرجان نے دماغ پر زور ڈالا تھا جب وہ مال میں کسی سے ٹکرایا تھا جس پر اسکا فون نیچے گرا تھا نیچے سے اسکے کسی نے فون اٹھا کر دیا تھا

ہاں یاد آیا ؟ تب ہی تمھاری پاکٹ سے فلیشز نکال کر پلک جھپکتے ہی چینج کر لی تھی یو نو واٹ میں ایکسپرٹ ہوں۔۔۔۔۔

 وہ اپنی نادانی پر آنکھیں میچ کر سرد آہ بھر گیا تھا 

ابھی سے ڈس اپوئنٹ ہو گئے ایجنٹ ؟ تمھارے جنرل کو تو بڑا ناز ہے تم پر ابھی تو آمنا سامنا ہو گا ابھی سے سسک رہے ہو بعد میں کیا ہو گا ،، طنزیہ قہقہ لگاتے ہوئے وہ چیئر پر گھومتے ہوئے بولا تھا

تم جانتے ہو میں اس کال سے تمھیں ٹریس کر سکتا ہوں بہٹ بڑی غلطی کی ہے تم نے ڈائریکٹ کال کر کے ۔۔ مرجان نے سپاٹ لہجے میں کہا جس پر وہ فلک شگاف قہقہ لگاتے ہوئے ہنس دیا تھا 

تم سے چار قدم آگے چلتا ہوں نمبر دیکھو اور اگر تم میں اتنی ہمت ہے تم واقعی مجھے ٹریس کر سکتے ہو تو کروووو فوراً سے کرو میں کال ڈسکنیکٹ بھی نہیں کروں گا جلدی جلدی کرو چھوٹے ۔۔۔

مرجان کا خون کھول اٹھا تھا وہ لیپ ٹاپ پر فون سے نمبر دیکھتے ہوئے کچھ ٹائپ کرنے لگا جبکہ اسکرین پر  لکھا لفظ _Error_دیکھ کر وہ چونکا تھا

کیا ہوا ؟ وژوئل نمبر ہے ؟ چچچچچ ،، یہ تو نمبر ہی نہیں ہے ہاہا ،، معمولی ہیکر سمجھ رہے ہو ؟  

کون ہو تم ۔۔۔ کیوں کر رہے ہو یہ سب۔۔۔ہمت ہے تو اپنا نام۔۔۔

ہاں لکھو میرا پورا نام ۔۔ لوسیفر ۔۔۔ ہیش ٹیگ 302 

بکواس بند کرو کوڈ نیم نہیں اپنا اصل نام بتاؤ ۔۔۔

مرجان نے لیپ ٹاپ کو سختی سے بند کرتے ہوئے جبڑے بھینچ کر دھیمے لہجے میں کہا

تمھارا سو کالڈ سیکرٹری آتا ہی ہو گا  میرا نام بھی دیکھ لینا ۔۔۔ اس سے پوچھ لینا ۔۔۔کال کنیکٹ ہی ہے میرا پیغام سن لو اوپن چیلینج دے رہا ہوں تجھے پورے پانچ منٹ ہیں تیرے پاس جتنے ہاتھ پیر ہلانے ہیں ہلا لے پہلا تیرا گریڈ ٹاپ بزنس لسٹ سے ڈی گریڈ میں کروں گا  صرف پانچ منٹ صرف پانچ منٹ ۔۔۔۔ اسکے بعد تجھے کسی کے سامنے منہ دیکھنے لائق نہیں چھوڑوں گا بلک بلک کر روئے گا تو پھر تو کوٹ کچہری کے چکے لگائے گا پھر تو پھڑپھڑائے گا روئے گا تجھ سے ایک ایک چیز چھین لوں گا جس طرح تیرے  اس سو کالڈ صدیقی کو مارا ہے تیرا ایک ایک ساتھی مرے گا اور آخر میں تو اور تیری تنہائی ۔۔۔ 

مرجان نے مٹھیاں بھینچی 

سر ۔۔۔

وہ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے سیکرٹری کو دیکھ کر چونکا تھا  جو ہانپ رہا تھا

سر ہماری کمپنی ریسینٹلی ورلڈ ٹاپ بزنس رینکنگ سے پہلے سے پانچویں نمبر پر آ گئی ہے آپکا رینک ڈاؤن ہو چکا ہے ۔۔۔

لیپ ٹاپ مرجان کی طرف بڑھاتے ہوئے سیکریٹری نے ڈرتے ہوئے کہا وہ سرد ہوتے ہاتھوں کیساتھ اس سے لیپ ٹاپ لیکر دیکھتے ہوئے چیک کرنے لگا ۔۔۔ جس پر اسکا نام ٹاپ بزنس مین رینکنگ سے نکل چکا تھا ۔۔۔ وہ سرد آہ ہوا کے سپرد کرتے ہوئے پیشانی کو ہاتھ سے مسلنے لگا ۔۔۔ 

سر یہ ہیں نمبر ون پر ۔۔۔ روس کے نمبر ون بزنس مین ۔۔۔ اب تک کے ریکارڈ ہولڈر ہیں ۔۔۔  یوزر نیم 

مسٹر شاہ ویر حیدر شیرازی

وہ سیکرٹری سے ایک بار پھر لیپ ٹاپ لیتے ہوئے اسکی پروفائل دیکھ کر چونکا تھا ۔۔۔۔

اب مقابلے میں مزہ آئے گا ،، ڈی گریڈ تو تم ہو چکے ہو آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے ہیکنگ کی کلاس لینی ہو تو میرے پاس آ جانا مفت میں سکھا دوں گا  دبی مسکراہٹ کیساتھ کہہ کر وہ مرجان کے تن بدن میں آگ لگا چکا تھا

وہ فون کان سے ہٹاتے ہوئے سرخ ہوتے چہرے کیساتھ اٹھا تھا سیکریٹری پیچھے ہٹا تھا وہ فون غراتے ہوئے دیوار میں مار چکا تھا ۔۔۔ سیکریٹری نے کان پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھیں بھینچی تھی 

                          ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

ژالے بیٹا یہاں بیٹھو میرے ساتھ 

جی امی بولیں 

کشمالہ بیگم نے ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے شیریں لہجے میں مخاطب کیا تھا وہ فوراً سے مسکراتی ہوئی انکے قریب آ کر بیٹھ گئی تھی 

بیٹا وہ زنیرا اور حرب کے نکاح میں تم کلثوم سے ملی تھی ناں ۔۔۔

آپکا مطلب خالہ جان سے ؟ جی ہاں میں ملی تھی 

ژالے نے مسکراتے ہوئے سر کو ہاں میں ہلا کر جواب دیا تھا جبکہ اسکے جواب پر کشمالہ بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی

بیٹا وہ انکا بیٹا ہے ناں حمزہ ۔۔۔

ژالے نے اسکا نام سنتے ہی کشمالہ بیگم کو ہلکا سا گھورا تھا جس پر وہ مسکرا دی

بیٹا انہیں تم بہت پسند آئی ہو کلثوم نے تو تمھارا فوٹو بھی بنا لیا بعد میں مجھے بھیجا اور کہہ رہی تھی بہت پیاری بچی ہے وہ حمزہ کے لئے تمھیں مانگنا چاہ رہی تھی ژالے کے چہرے پر سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اسکی آنکھوں میں اداسی پھیلتی چلی گئی 

مگر ہمیں ابھی شادی نہیں کرنی امی جان ۔۔

بیٹا کوئی زور زبردستی نہیں ہے اور ویسے بھی ایک ناں ایک دن تو ہونی ہی ہے میں نے کلثوم کو آج لنچ پر بلایا ہے حمزہ بھی آئے گا تم دونوں مل لو گے ناں تو آپس میں ایک دوسرے کو جان لو گے پھر مجھے بتا دینا ۔۔۔ ٹھیک ہے

کشمالہ بیگم نے ژالے کو گلے لگاتے ہوئے کہا جبکہ وہ تو خاموش ہی ہو گئی تھی 

جج۔۔۔جی 

لب بھینچتی ہوئی وہ سر کو ہلاتے ہوئے بس اتنا ہی بول پائی تھی

                         ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

کتنی دیر لگا دی نوکر ہوں میں تمھاری پچھلے آدھے گھنٹے سے انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔

 گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے وہ اسے سامنے  بےنیازی سے کرسی پر بیٹھتا دیکھ کر تنک پڑی تھی

معزرت خواہ ہوں ، معافی نہیں مل سکتی ڈیئر ؟

جسٹ ڈونٹ کال میں ڈیئر ۔۔۔ بتاؤ وہ لائے ہو ؟ آئی برو اٹھاتے ہوئے آس پاس دیکھ کر پوچھا جس پر وہ کھلکھلا کر ہنسا 

یہ لو تمھاری وجہ سے میں نے کیمسٹری لیب سے چوری کی ہے ،، اچھے سے جانتی ہو یہ پوائزن ہے ایسے کوئی کسی کو نہیں دے دیتا ۔۔۔ 

وہ جلدی سے شیشی لیتے ہوئے پرس میں اڑیس چکی تھی ۔۔۔

یہ لو تمھارے پیسے ۔۔۔  اب میرے سامنے بھی مت آنا ۔۔

پرس سے پیسوں کو اسکے سامنے نکال کر ڈالتے ہوئے وہ جلدی سر پرس کندھے پر رکھتے ہوئے اٹھی وہ جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑ چکا تھا

پیسوں کی بات کس نے کی ؟ مجھے تو کچھ اور چاہیے ۔۔۔

 کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔

وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولی تھی ساتھ ہی کلائی کو جھٹکا تھا 

ایک ڈیٹ ۔۔۔ ایک ڈیٹ پر چلو میرے ساتھ ۔۔۔

وہ اٹھتے ہوئے بےشرمی سے بولا تھا جس پر وہ بغیر سوچے سمجھے ایک زوردار تھپڑ اسکے منہ پر جڑ چکی تھی 

کیفیٹیریا میں بیٹھے سبھی سٹوڈنٹس نے حیرت اور تعجب کی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا تھا

                             ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

کہاں تھے تم پچھلے کچھ دنوں سے ۔۔

وہ  ایک بائٹ لگا ایپل ہاتھ میں گھماتے ہوئے مسکرایا تھا 

تم سے پوچھ رہا ہوں میں لوسیفر ۔۔۔

مجھے ڈکٹیٹ کرنا بند کرو بوڑھے آدمی ۔۔۔ پیر تو قبر میں ہیں ہی پورا میں ناں پہنچا دوں۔۔۔۔ وہ سیب کا دوسرا بائٹ لیتے ہوئے سلگتے ہوئے لہجے میں بولا جس پر سامنے کھڑا ہوا شخص سر کو خم دیتا ہوں ایل سی ڈی کو آن کر چکا تھا 

بریکنگ نیوز :

انڈین بزنس مین مسٹر رائے کی لاش  سڑک پر ملی ہے پوسٹ مارٹم کے لئے لاش سٹی ہاسپیٹل منتقل کر دی گئی ہے پولیس انویسٹیگیشن کر رہی ہے اور کیس سائن کرنے والے ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ ان کے سینے پر گولی چلائی گئی ہے ۔۔۔

چچچ۔۔ بیچارا بڈھا ۔۔۔

اسکے احساس سے عاری لہجے پر وہ ایل سی ڈی نفرت سے بند کرتے ہوئے اسکے سامنے کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔

واٹ  ناؤ؟ 

وہ سیب کو پلیٹ میں رکھتے ہوئے سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے معصومیت سے کندھے اچکا چکا تھا

یہ تم نے کیا ہے ۔۔۔ 

کیاااا میں نے کیا ہے اتنااا بڑا اعزاز .... وہ صدمے سے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے نیلی آنکھوں کو گھما گیا تھا 

تمھارے علاوہ یہ کون کر سکتا ہے۔۔۔ پہلے بھی تم 615 بندے مار چکے ہو کسی کو بھڑک نہیں لگی ۔۔۔  کیوں مارا اسے بتاؤ ۔۔۔ 

مسٹر ریچرڈ ایلیگوارتھ ۔۔۔ ریلیکس ۔۔۔ بی پی لو ہو جائے گا ۔۔۔ 

صوفے سے اٹھتے ہوئے وہ مسکرا کر سامنے کھڑے شخص کا براؤن کوٹ ٹھیک کرتے ہوئے اسے تپا چکا تھا 

میں بتاتا ہوں اس نے کیوں مارا رائے کو ۔۔۔

وہ اکتاہٹ کیساتھ آنکھیں گھماتے ہوئے ہال سے اندر داخل ہوتے ہوئے مسٹر کپور کو دیکھ کر پیچھے ہٹا 

اس نے کسی لڑکی کیساتھ نکاح کر لیا ہے اور اسے گھر لے آیا جب رائے نے منع کیا تو اسنے اسے  جان سے ہی مار ڈالا 

مسٹر کپور کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا دیا تھا ۔۔۔

کیا تم نے نکاح کر لیا ؟

وہ صدمے سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے اس ڈیٹھ کو دیکھ کر حیرت سے بولے جس پر وہ سنجیدگی سے کندھے اچکا گیا 

 تم نے نکاح کر لیا ؟ تم سے پوچھ رہا ہوں ۔۔۔

ہاں کر لیا ۔۔ وہ بات کاٹتے ہوئے لاپرواہی سے بولا جبکہ اسکی بات سن کر جیسے اس شخص کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگا تھا

کس سے ؟

اپنی تکلیف بتاؤ مجھے نہیں یاد میں نے کوئی ایسا کنریکٹ سائن کیا ہو جس میں میں نے کہا ہو کہ میں نکاح بھی تمھاری اجازت سے کروں گا ۔۔۔

نکاح کی ضرورت ہی کیا تھی تمھیں اس لڑکی ۔۔۔

وہ پسٹل پاکٹ سے نکالتے ہوئے  لپک کر اس شخص کو گردن سے دبوچتے ہوئے صوفے پر گرا کر اس پر جھکا مسٹر کپور خوف سے چند قدم پیچھے ہٹے ۔۔

اس کے بارے میں کوئی بھی بکواس نہیں انڈرسٹینڈ ۔۔۔ اور ایسی بکواس تو بالکل نہیں عمر کا لحاظ بھی نہیں کروں گا 

 کہا تھا میرا دماغ گھومتے ہوئے ایک سیکنڈ نہیں لگتا اپنے بچے کھچے دن تو سکون سے جی لو کیوں مرنا چاہتے ہو مجھ سے اور کام ہو رہا ہے ناں تمھارا کیوں میرے معاملات میں مداخلت کر رہے ہو ۔۔۔ 

پسٹل کو اسکی ٹھوڑی پر رکھتے ہوئے وہ ایک ایک لفظ چبا کر کاٹدار لہجے میں بولا

ایک معمولی سی لڑکی کے لئے تم مجھے مار دو گے تمھیں پال پوس کر بڑا کیا میں نے تمھیں اپنا نام دیا ورنہ سڑک پر سڑ رہے ہوتے تم 

وہ شخص اسکے اس قدر سخت لہجے پر تمسخرانہ لہجے میں اس پر وار کر چکا تھا 

وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتا ہوا اپنے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا مسٹر کپور نے اسکی ٹائٹ بلیک شرٹ کے نیچے تنے ہوئے اعصاب دیکھے اسکے بازو کے مسلز ٹائٹ ہوئے تھے جسکی وجہ سے اسکی شرٹ بازؤں سے چپک گئی تھی 

تم یہ بھی جانتے ہو تم آج جو کچھ ہو میری وجہ سے ہو میں نے تمھیں اس قابل بنایا ہے تم ایک آدمی سینکڑوں پر بھاری پڑ سکتے ہو میں نے تمھیں بنایا ہے وہ جو پوری دنیا میں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملے گا بچپن سے لیکر اب تک پورے دس سال لگے مجھے ۔۔۔۔ تمھاری ٹریننگز پر ۔۔۔  تم پر کتنا پیسا لگایا ہے جانتے ہو تم انسان ہو کر بھی انسان نہیں ہو ایک عام آدمی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا جتنی طاقت تم میں بھری گئی ہے ۔۔۔

مسٹر کپور کی زبان تالو سے چپک گئی تھی وہ حیرت سے ان دونوں کی باتیں سن کر سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے وہ پسٹل پینٹ کی پاکٹ میں رکھتا ہوا پیچھے ہٹا تھا مسٹر ریچرڈ ایلیگوارتھ نے اٹھتے ہوئے کوٹ ٹھیک کیا وہ سرد نظروں سے اسے دیکھ کر اس عالی شان کمرے سے واک آؤٹ کر چکا تھا 

کیا مطلب تھا تمھارا آخر ایسا کیا ہے کہانی کا یہ پہلو تو میں جانتا ہی نہیں تھا کون ہے وہ کیا کہانی ہے اسکی میں کچھ سمجھا نہیں 

مسٹر ریچرڈ ایلیگوارتھ مسکراتے ہوئے ٹیبل پر پڑی وائن کا گلاس اٹھاتے ہوئے مسٹر کپور کو اپنے ساتھ چلنے کا تاثر دیتے ہوئے ایک اور کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے مسٹر کپور انکے پیچھے دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تھے وہ لاک میں چابی گھماتے ہوئے دروازہ بند کر کے اندر پڑے آف وائٹ لکژری ویلویٹ کے صوفے پر براجمان ہوئے مسٹر کپور بھی انکے ساتھ بیٹھے 

یہ دس سال پہلے کی بات ہے میں اس وقت روس میں مقیم تھا میں ایک سافٹ ویئر ایجنسی کا ہیڈ تھا تب ہمارا مقصد ایسے شارپ مائنڈرز کو ڈھونڈنا تھا جو مستقبل میں ہمارے کام آ سکیں ڈرگ سمگلنگ ، لڑکیاں سمگل کرنا ، ٹارگٹ کلنگ، اللیگل ویپن سپلائے کرنا ، بم بلاسٹ کر کے کسی بھی کنٹری میں خوف و ہراس پھیلا کر اسکی گورنمنٹ سے اپنے معاہدے پر عمل درآمد کروانا  ،،  بینک روبری ،، ڈیٹا چوری کرنا اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہی ہمارا ٹارگٹ تھا  ہماری ایجنسی کیساتھ چند اور ملکوں کی سیکرٹ ایجنسیاں بھی کام کر رہی تھی جیسے بھارت کی را ایجنسی ،، امریکہ کی ایجنسیاں۔۔۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں  کو دباؤ میں رکھنا انکی معاشرتی گروتھ کو روکنا ہمارا مقصد تھا ہم لارج سکیل پر خوف و ہراس پھیلاتے تھے حکومت دباؤ میں آ کر وہ سب کر دیتی تھی جو ہم چاہتے تھے اور اس بار میں بزنس کے سسلے میں کچھ ایسے ہی شارپ مائنڈرز کو ڈھونڈنے کی غرض سے ویب سائٹس پر کچھ کوڈنگ ایمیجز اپلوڈ کر رہا تھا ہماری ویب سائٹ ایک انٹرنیشنل ویب سائٹ تھی جس پر کچھ ایسی گوڈنگ پزل گیمز اپلوڈ کی جاتی جو شارپ مائنڈرز بچے بڑے شوق سے کھیلتے تھے انکا رزلٹ مانیٹر کیا جاتا تھا جس بات سے وہ انجان تھے ،، اس رزلٹ کے زریعے ان کی یوزر آئی ڈی ہمارے آفس میں سٹیکس کی صورت میں آتی ہمارا ایک سٹاف ان یوزر آئی ڈی کے ذریعے ان بچوں کی ڈیٹیلز نکالتا تھا اور وہاں سے ایک لسٹ بنائی جاتی تھی ان بچوں کی جو مستقبل میں ہمارے سکواڈ کو جوائن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔۔۔

تو پھر کیا ہوا اور اس بات کا لوسیفر سے کیا تعلق ہے ؟ مسٹر کپور نے داڑھی کھجائی تھی 

وہاں مجھے لوسیفر ملا ایک ڈس ایبل بچہ مگر مائنڈ اتنا شارپ کے میرے دیئے پزل گیم کو ناں صرف کچھ ہی سیکنڈ میں مکمل کر لیا بلکہ میری ہی ویب سائٹ کو صرف اٹھارہ سال کی عمر میں ہیک کر لیا 

مسٹر کپور جو جوس کا ایک ایک گھونٹ سکون سے گلے میں انڈیل رہے تھے اچانک اچھو کرتے ہوئے گلاس کا جوس اپنے اوپر انڈیل چکے تھے 

شاکنگ رائٹ ؟ میں بھی چونکا تھا وہ ایک لاوارث بچا تھا افسوس ۔۔ کسی سرکاری عام سے سکول میں پڑھتا تھا اسوقت وہ آئی سی ایس کر رہا تھا اور سب سے خاص بات یہ تھی وہ چل نہیں سکتا تھا وہ ڈس ایبل تھا ،،  مگر اسکا مائنڈ اسکی میموری اتنی شارپ تھی کہ وہ میری ویب سائٹ کو ہیک کر چکا تھا میں پاکستان گیا لیکن فنڈز ڈونیشن کی نیت سے وہاں مجھے لوسیفر ملا اور خوش قسمتی سے وہ ایک بہت ہی عجیب ذہنیت کا مالک تھا ۔۔  اور یہ میرے لئے بہت بڑی خوشخبری کی بات تھی ۔۔۔مجھے ایک منٹ لگا اسکا مائنڈ واش کرنے میں ۔۔۔ وہ باقی بچوں کیساتھ نہیں کھیلتا تھا وہ اکیلا بیٹھا رہتا اسکے ہاتھ میں ہمیشہ ایک کمپیوٹر ہوتا تھا وہ ہر بار کچھ ناں کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتا تھا میں اسے سکالرشپ سکیم کے تحت پاکستان سے روس لانے میں کامیاب ہوا یہاں میں نے اس پر دنیا کے بہترین سو کے قریب کوڈڈنگ ٹیچرز لگا دیئے ناں صرف اسے ڈیجیٹل ورلڈ کا بادشاہ بنا دیا بلکہ اسے فزیکلی اس قابل بنا دیا کہ وہ چل پائے ،، Krav Maga , MMA, Filipino Martial Arts ,,Muay Thai ,, BJJ

جیسی مشکل  مارشل آرٹس تیکنیک سکھائی جن میں اب وہ ماسٹرز کر چکا ہے وہ اکیلا سیکنڑوں پر بھاری ہے اور پچھلے دس سالوں میں وہ اس قابل ہو چکا ہے کہ اکیلا ایک سکواڈ کے برابر ہے میرے بعد وہ مجھ سے بہتر میرا بزنس آگے چلائے گا اس وقت دنیا لوسیفر کا نام سن کر تھر تھر کانپتی ہے وہ دنیا کا سب سے شارپ  انٹرنیشنل مافیا لیڈر ہے 

آپ نے سانپ کو دودھ پلایا ہے مسٹر ایلیگوارتھ ،، مجھے ڈر ہے وہ واپس آپ کو ہی ناں ڈس لے ۔۔۔

مسٹر کپور نے مرعوب لہجے میں کہا جبکہ مسٹر ایلیگوارتھ الٹا اسکی جانب دیکھ مسکرا گئے 

پہلے اسکی کوئی کمزوری نہیں تھی کپور ،، مگر اب تو ہے ناں ،، اب وہ لڑکی جو اسکی کمزوری بن چکی ہے سمجھ رہے ہو ایک بیسٹ کی زندگی میں ایک بیوٹی آ چکی ہے ہاہاہاہا امیزنگ رائٹ ۔۔۔ اگر لوسیفر نے میرے ساتھ غداری کی کوشش بھی کی وہ لڑکی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ۔۔۔

مسٹر کپور نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا 

نجم اوئے نجم ۔۔ اٹھ چل 

وہ بلینکٹ منہ سے ہٹاتے ہوئے آنکھیں مسلتے ہوئے اٹھ بیٹھا 

کیا ہوا بھائی ؟ اتنی رات کو کیا مصیبت آن پڑی ہے جو آپ مجھے جگا رہے ہیں 

سامنے کھڑے دائم سے حیرت سے سوال کرتے ہوئے اسے گھور گیا 

چلو میرے ساتھ ضروری کام ہے تم سے

اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی  بیڈ سے اتار کر ساتھ گھسیٹتا ہوا وہ بولا

مگر کہاں ؟

نجم نے سر کھجاتے ہوئے کہا

مرجان بھائی نے بلایا ہے 

دائم کا جواب سن کر تو نجم کی ہوائیاں اڑ گئی تھی وہ دل ہی دل میں اپنی سلامتی کی دعائیں کرتا ہوا اسکے ساتھ چل دیا تھا 

بیٹھو یہاں ۔

مرجان نے اسے کمرے میں آتے دیکھ کر کاوچ کی طرف اشارہ کیا

وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے گھبرا کر اسکے سامنے بیٹھا 

حرب دروازہ بند کرتے ہوئے آ کر مرجان کی دائیں جانب رکھے سنگل صوفے پر بیٹھا 

میرا  ایک کام کرو گے ؟

مرجان نے اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا جس پر وہ بغیر سوچے گھبراہٹ کیساتھ ہاں میں سر ہلا گیا 

تمھیں ایک ہفتے تک اس گھر میں کسی پر نظر رکھنی ہے ۔۔

کس پر نظر رکھنی ہے حرب بھائی اور آخر کیوں ؟ 

وہ حرب کی بات کاٹتے ہوئے گڑبڑا کر بولا

پہلے پوری بات تو سن عقل کے دشمن یہ پکڑ آج سے تو نجم نہیں نجمہ بائی ہے ۔۔۔ 

کیاااا؟

سفید ساڑھی جو دائم نے اسکی گود میں گرائی تھی وہ صدمے سے پکڑتے ہوئے اٹھ کر  آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولا

دائم نے نچلا ہونٹ دبا کر مسکراہٹ کا گلا گھونٹا

وہ صحیح کہہ رہا ہے  ہم گھر میں بتا دیں گے نجم اپنے دوست کی شادی میں گیا ہے کچن انکل منور کے روم کے بالکل سامنے ہے اس لئے نظر رکھنے میں آسانی ہو گی اور اگر تو اپنے کیریکٹر سے باہر نکلا بھائی تجھے دنیا سے نکال دیں گے ۔

حرب نے بےنیازی سے اسے مرجان کے ارادوں سے آگاہ کیا جس پر وہ منہ کا زاویہ بگاڑ کر رہ گیا 

اور تمھیں کچھ اور بھی کام کرنے ہیں جو وقت آنے پر ہم تمھیں بتا دیں گے ۔

دائم نے مسکراتے ہوئے کہا

لیکن میں ہی کیووووں ؟

وہ معصومیت سے ان تینوں کو دیکھتے ہوئے بولا 

کیونکہ تجھے بہت شوق ہے لڑکی بننے کا ۔۔ دائم نے نفاست سے اسے اسکے کارنامے یاد دلائے جو علیزے اور دائم کی شادی پر اسنے کیے تھے جسے زہن میں لا کر وہ خفگی سے دانت پیس کر رہ گیا 

لیکن میں اپنے ہی ڈیڈ پر نظر کیوں رکھوں کیا کیا ہے انہوں نے ؟ 

اسکی بات پر دائم اور حرب نے مرجان کی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا 

کیونکہ وہ کچھ ایسا کر رہے ہیں جو ناں تمھارے لئے بہتر ہے اور ناں ہی اس ملک کے لئے ۔۔ 

مرجان کی بات سن کر وہ ششدر رہ گیا اسے یقین نہیں آ رہا تھا ایک طرف مرجان تھا دوسری طرف اسکا اپنا سگا باپ ۔۔۔ اسکے ڈھیروں کشمکش نے آن گھیرا 

آخر ایسا کیا کر رہے ہیں وہ مجھے پوری بات بتائیں جب تک آپ نہیں بتائیں گے میں آپکی مدد نہیں کر سکتا 

دائم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا جبکہ مرجان نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا کچھ ہی دیر میں وہ اسے ایک ایک بات سے آگاہ کر چکا تھا

آئی کانٹ بیلیو دس ڈیڈ ایسا کر سکتے ہیں کیا وہ واقعی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے میں مدد کروں گا لیکن میں صرف ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں آپ سب سے پلیز ڈیڈ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ایٹ لیسٹ تب تک جب تک سب کلیئر نہیں ہو جاتا مطلب وہ واقعی میں یہ سب کر رہے ہیں یا نہیں ابھی ہمارے پاس ثبوت نہیں ہے ناں ۔۔۔

حرب نے سنجیدہ نظر مرجان پر ڈالی وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے انہیں مطمئن کر چکا تھا 

                            ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

اللہ۔۔۔ جو میں نے آج کیا ہے ناں اسکے بعد مرجان مجھے چھوڑیں گے نہیں ۔

ناخن چباتے ہوئے وہ کمرے کے چکر لگانے میں مصروف تھی دوپٹے کا کونا ہاتھوں میں مروڑتے ہوئے وہ بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی اور  دن کو کئے ہوئے کارنامے کے بارے میں سوچ رہی تھی آج اسنے چائے گرا دی تھی اس کے ہاتھ پر اور وہ بغیر کچھ بولے بس اٹھ کر چلا گیا تھا اسکے بعد سے وہ گھر نہیں آیا تھا اور روم میں تو بالکل نہیں 

کیوں کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہوتا قسم کھا رکھی ہے تم نے مجھے ہر جگہ شرمندہ کروانے کی ؟ مرر میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے وہ خود پر برس پڑی 

کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا وہ جلدی سے مرر کے سامنے پڑی چیزیں ٹٹولنے لگی جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو 

وہ سنجیدگی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے بیڈ کر قریب رکا ایک بار بھی اسکی جانب ناں دیکھا

یہ اٹھا کر میرے روم سے چلی جائیں۔۔۔

 بیڈ سے اسکا تکیہ اٹھا کر اسکی جانب پھینک کر مصنوعی غصے سے بولا

وہ اپنے پیروں میں گرے تکیے کو اٹھاتی ہوئی اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر منہ پھیر گئی 

دروازے پر دستک سن کر وہ شرٹ کے بازو کہنی تک فولڈ کرتے ہوئے دروازہ کھولنے لگا 

زارا نے گردن گھما کر دروازے پر کھڑی کسی عورت کو دیکھا جو سفید ساڑھی پہنے کھڑی تھی 

صاحب آپکی کافی ۔۔۔

نجم نے ہلکی  نسوانی آواز میں کہتے ہوئے اسکی جانب کپ بڑھایا جسے وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے لے چکا تھا یقیناً اسے حرب نے ساری کمپنی دے دی تھی جو کچھ اسے کرنا تھا 

تم کون ہو ۔۔؟

وہ دروازے پر نازل ہوتے ہوئے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے رعب سے پوچھنے لگی مرجان نے ہنسی چھپانے کے لئے کپ سے کافی کا سپ لیا 

یہ نئی میڈ ہیں اور میں نے ہائر کیا ہے اب سے اس گھر میں ہی رہیں گی ..

مرجان نے سپاٹ لہجے میں اسے بتایا زارا نے اسے غور سے دیکھا وہ چہرے پر پلو ڈالتے ہوئے وہاں سے ہوا ہو گیا تھا 

عجیب مرجان نے اسے ہائر کیوں کیا ؟؟۔۔ 

وہ دل میں سوچتے ہوئے خود سے بولی تب اسکے ذہن میں اچانک جھماکا ہوا

ایک منٹ ۔۔۔ آپ ہمیں روم سے کیوں نکالنا چاہتے تھے  کیا آپکو پتا تھا یہ میڈ آنے والی ہے ۔۔۔

وہ آئی برو اٹھاتے ہوئے سوالیہ لہجے میں بولی

اسکے سوال پر مرجان جو بےنیازی سے کافی کا سپ بھرنے والا تھا اچھو کرتے ہوئے اسے دیکھنے لگا 

میں صفائی دینا ضروری نہیں سمجھتا ۔۔۔

وہ بڑے تجربے کیساتھ ہنسی دباتے ہوئے بولا 

زارا نے اسے تیکھی نظروں سے گھورا وہ لاپرواہی سے کپ سائڈ پر رکھتے ہوئے لیٹ گیا 

زارا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا ۔۔

وہ مزید مسکراہٹ ناں چھپا سکا اس لئے کروٹ بدلتے ہوئے منہ پر ہاتھ دیکر ہنسی کا گلا گھونٹا ۔۔ 

زارا نے برداشت کا کڑوا گھونٹ بھر کر تکیہ صوفے پر رکھا اور لیٹ گئی ۔۔۔

                          ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

میم سر آ گئے ہیں وہ اپنے کمرے میں ہیں ۔۔

میڈ بتا کر چلی گئی تھی

وہ جلدی سے بیڈ سے نیچے اتری اسکے آنے کی اطلاع سن کر وہ بےحد خوش ہوئی تھی وہ پچھلے دو دنوں سے گھر نہیں آیا تھا اور وہ اسکے لئے پریشان ہو رہی تھی اب آ کر اسے میڈ نے اطلاع دی تھی کہ وہ گھر آ چکا ہے لیکن اسکے پاس پہلے ناں آنے کا غصہ بھی اسکے ننھے ذہن میں چنگاریاں اڑا رہا تھا 

باریک ہونٹوں کو سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کئے وہ بھاری بھاری قدم رکھتی ہوئی اسکے کمرے میں گھس آئی تھی وہ بلیک صوفے پر  ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا سنجیدگی سے اپنے گارڈز کیساتھ سیکیورٹی کی صورتحال ڈسکس کر رہا تھا جب وہ تن فن کرتی ہے اندر داخل ہوئی

گارڈز سر جھکاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے تھے وہ کمر پر دونوں ہاتھ جماتے ہوئے منہ پھلا کر اسے گھورنے لگی جو ماسک کے پیچھے اپنی مسکراہٹ کو چھپا رہا تھا 

اتاریں اس ماسک کو ۔۔

تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اکھڑ کر بولی

دروازہ بند کر کے آئیں ..

وہ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اسے حکم صادر کر گیا وہ منہ پھلاتے ہوئے دروازے کو بند کر کے اسکے پاس آئی اسکے چہرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے کچھ سیکنڈ اسکے حسین نقوش کو نظروں سے جانچا اور پھر خفگی سے اسے سینے سے لگا کر رو پڑی

اسکے رونے پر اسکی پیشانی پر لکیروں کا ایک جال سا نمایاں ہوا

عشیق ۔۔۔ ڈونٹ کرائے ۔۔۔

اسکے کانپتے ہاتھ کو تھام کر  اسے اپنے ہاتھ میں لیا نرمی سے انگوٹھے سے اسکے ہاتھ کی پشت کو سہلاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا گیا 

ہمیں لگا آپ بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہمیں بابا کی بہت یاد آ رہی تھی اور آپ بھی نہیں تھے ہم کیا کرتے 

سبز آنسوں سے بھیگی آنکھوں نے اسکی نیلی آنکھوں سے سوال کیا ایک پل کے لئے وہ اسکی آنکھوں کے بہکاوے میں آ گیا تھا 

کیوں گئے آپ ہمیں چھوڑ کر ۔۔

اسکا ہاتھ ہلاتے ہوئے اسنے خفگی سے دریافت کیا جس پر وہ اسکی نظروں کے بھنور سے باہر نکلا 

آئندہ نہیں جاؤں گا ۔۔

وہ مسکرا کر اسے منانے کی تیاریاں کرنے لگا

اگر آپ گئے تووو کیا پنیشمینت دیں ہم آپکو ڈیسائڈ یوئرسیلف ۔۔۔ 

وہ اسکے بےحد قریب بےججھک بیٹھتے ہوئے آئی برو اٹھا کر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی 

اسکے عنابی ہونٹوں پر بکھرے متبسم نے اسکے پتھر دل کو موم کر ڈالا تھا وہ ناجانے کیوں پرسکوں محسوس کرتا تھا اسکے قریب وہ اپنی ذات تک بھول بیٹھتا تھا اتنی معصومیت تھی اس لڑکی میں 

یقین کرتی ہیں آپ مجھ پر ؟ 

وہی دلفریب نرم لہجہ ۔۔ وہی دھڑکن کو روک دینے والی بھاری گمبھیر آواز ۔۔۔ 

عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا وہ مسکراتے ہوئے اسکی جھیل سی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہاں میں سر ہلا گئی 

اسکے جواب پر وہ مبہم سا مسکرایا عشیق کے چہرے پر حیا کی سرخی پھیلی وہ اسکی مسکراہٹ پر شرماتے ہوئے نظریں جھکا گئی کان کے پیچھے سے کچھ آوارہ بالوں کی لٹوں نے اسکے گلابی گالوں کو چھوا

وہ اسکے گلابی ہوتے گالوں سے ہاتھ سے لِٹ پیچھے ہٹاتے ہوئے تھم سا گیا گھنی پلکوں نے جھرجھری سی لی اسکے چھوٹے سے دل نے اسکی سرد انگلیوں کے چھونے پر اسپیڈ پکڑی تھی ۔۔۔

اسکی گھبراہٹ ریکھتے ہوئے وہ مسکرا کر ٹھوڑی سے اسکا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے اسکے چہرے پر جھکا 

وہ سختی سے آنکھیں میچ چکی تھی

شش۔۔۔شیری

وہ گھبرا گئی تھی 

اسکی چھوٹی سی ناک پر اپنی ستواں ناک رکھتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا  اسکی اس حرکت پر وہ اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے جلدی سے اٹھ کر کمرے سے بھاگ گئی تھی 

وہ ہلکی سی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا ہوا صوفے سے پشت لگاتے ہوئے آنکھیں موند گیا تھا

                          ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

(دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے کیسا سائیکو تھا وہ بےوقوف ایک تھپڑ نہیں اسے سو تھپڑ مارنے چاہیے تھے) 

زونی فون کی سکرین پر انگلیاں چلاتے ہوئے غصے سے لال ہو کر بڑبڑائی حرب نے سنجیدگی سے اسکی بڑبڑاہٹ سنی 

اگر آپکو نیند نہیں آ رہی تو کیا ہم باہر چلیں میں بور ہو رہی ہوں ۔۔۔ 

اسکی بات جیسے حرب کو ہضم نہیں ہوئی تھی وہ بلینکٹ ہٹاتے ہوئے بیڈ کے کراؤن سے پشت لگاتے ہوئے اسے گھورنے لگا وہ اسکے ساتھ باہر جانا چاہتی تھی کیا واقعی 

کہاں جانا چاہتی ہو ؟

وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا

کیا ریسٹورنٹ چل سکتے ہیں ؟ 

وہ موبائل سائڈ پر رکھتے ہوئے چہک پڑی

حرب نے اسکے پرجوش چہرے کو دیکھتے ہوئے لب بھینچے 

ٹھیک ہے ۔۔ چادر لے لو میں ڈیڈ کو بتا کر آتا ہوں ہم باہر جا رہے ہیں ادر وائز وہ ہمیں ناں پا کر پریشان ہوں گے ۔۔۔

میں چادر نہیں پہنتی ناں ہی مجھے عادت ہے میں ایسے ہی جاؤ گی ۔۔۔

وہ ایک چھوٹا سا سکارف گلے میں ڈالتے ہوئے کشیدگی سے بولی حرب نے سرد آہ بھر کے اسکی جانب دیکھا سلیو لیس پنک شرٹ کے نیچے پنک جینز  ، کندھوں تک آتے گولڈن بال کھلے ہوئے تھے ۔۔۔ 

کوئی مسئلہ ہے ؟

زونی نےا سے خود کو گھورتے ہوئے دیکھ کر پوچھا

نہیں۔۔۔

وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے رخ  پھیر گیا

حرب نے اٹھتے ہوئے سائڈ دراز سے کار کی چابی نکالتے ہوئے کہا چابی اٹھا کر کوٹ پہنتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا زونی نے جلدی سے اپنے پرس کو ٹٹولا اور اس میں سے ایسڈ کی شیشی نکالتے ہوئے اپنی جینز کی پاکٹ میں رکھ لی اور کمرے سے باہر نکل گئی 

                         ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

یہ ایک انجان جگہ تھی چاروں صرف آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا ویرانے کے بیچ و بیچ ایک پرانا سا گھر تھا جو رات کے اس پہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا 

سنسان اندھیری رات میں گیراج کا شٹل اٹھنے کی آواز گونجی اور ساتھ ہی بھاری قدموں کی آہٹ سنائی دی 

اندھیرے میں زنجیروں سے جکڑے سے وجود نے قدموں کی آہٹ پر خود کو سمیٹتے ہوئے دیوار سے لگایا

باس پچھلے دو دنوں سے ٹھیک سے کھانا نہیں کھا رہا اور سخت بخار ہے ناں دوائی کھا رہا ہے ناں پانی پی رہا ہے ۔۔

پاس کھڑے ہوئے دبلے پتلے آدمی نے آنے والے کو اسکی تفصیل سے آگاہ کیا 

کھانا نہیں کھائے گا تو مر جائے گا تجھے مرنا ہے ہاں ۔۔۔

اسے بالوں سے نوچتے ہوئے وہ غرایا جس پر وہ وجود سہم گیا

ڈاکٹر کو فون کرو اسے کہو منور نے بلایا ہے فوراً یہاں پہنچو ۔۔۔ وہ اس وجود کے سامنے گھنٹوں کے بل بیٹھتا ہے وہ وجود سہمتے ہوئے پیچھے ہوتا ہے 

ارے میرے سے کیوں ڈر رہا ہے بھائی ہوں تیرا سہیل ۔۔ دیکھ مجھے بھائی ہوں تیرا ۔۔۔

اسکا چہرے بالوں سے پکڑ اوپر اٹھاتے ہوئے مکروہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا 

میرا بچا۔۔۔۔ مرجان ۔۔۔ شاہ ۔۔۔

لڑکھڑاتی بھاری  دھیمی آواز کمرے میں گونجی

بکواس بند رکھ ۔۔۔ کون شاہ ؟ تیرا ایک ہی بیٹا تھا بےوقوف ان دنوں میں تیری عقل کو بھی دیمک چاٹ گئی ہے ایک تو سمجھ نہیں آ رہا تجھ جیسا آدھ مرا آدمی سائن کیسے کرے گا پراپرٹی پیپرز پر ۔۔

حقارت بھرے لہجے میں کہہ کر اسکا چہرہ جبڑوں سے جکڑتے ہوئے منور صاحب دھاڑے 

وہ گھبرا کر پیچھے ہوتے ہوئے آنکھیں بھینچ گئے تھے 

اگر مجھے پراپرٹی کی ضرورت ناں ہوتی بہت پہلے مر چکا ہوتا ۔۔۔ 

منور صاحب زہر خند لہجے میں کہتے ہوئے اٹھے اور گیراج سے باہر نکل آئے 

یا اللہ۔۔۔۔ تو غفور الرحیم ہے ۔۔۔۔ میری اولاد کی حفاظت فرما ۔۔۔

ہاتھ جوڑ کر آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے وہ بےبس لہجے میں بولے 

                         ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

        بھائی اٹھیں بھائی ۔۔۔

مرجان نے دھیرے سے  نیند سے چور آنکھیں وا کی نجم ساڑھی کے پلو میں منہ چھپائے کھڑا اسے اٹھا رہا تھا

کیا چاہیے تمھیں اب ۔۔۔

وہ سامنے صوفے پر لیٹی زارا کو دیکھ نجم پر برس پڑا 

بھائی باہر چلیں کچھ بتانا ہے ۔۔۔ نجم نے جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا مرجان نے ایک نظر زارا کو دیکھا جو گہری نیند میں تھی پھر زچ ہو کر بلینکٹ ہٹاتے ہوئے اٹھ کر اسے پیچھے چلا گیا زارا نے اسکے جاتے ہی آنکھیں کھول کر انکو دیکھا

آج میں نہیں چھوڑوں گی آپکو ۔۔

غصے سے آگ بگولہ ہوتی ہوئی اٹھ کر دانت پیستے ہوئے بولی اور پھر انکے پیچھے چلی گئی      

بھائی ۔۔ ڈیڈ کہیں گئے ہیں اس وقت ۔۔۔

مرجان نے حیرانی سے اسے دیکھا 

ہاں میں نے خود دیکھا وہ اسوقت کہیں جا رہے تھے ۔۔۔ نجم نے یقین دہانی کرائی

 کوئی اور ساتھ تھا یا اکیلے گئے ہیں ؟ مرجان نے استفسار کیا

میں نے غور نہیں کیا مگر گھر سے اکیلے ہی گئے ہیں آدھی رات کو کون گھر سے نکلتا ہے یار ۔۔۔ مجھے خود اب ڈیڈ پر شک ہو رہا ہے ۔۔۔

نجم نے شکی مزاج میں کہا۔۔ 

یہاں سے چلو کوئی دیکھ لے گا بھائی ۔۔۔ نجم نے جلدی سے قدم بڑھایا جس پر اسکا پیر ساڑھی میں آیا تھا وہ مرجان پر گر پڑا اسکی وائٹ شرٹ پر نجم کی لپ اسٹک کا نشان لگا تھا ۔۔۔۔ 

زارا نے دور کھڑے ہو کر ان دونوں کو گارڈن میں پھولوں کے بیچ بےحد قریب دیکھا  ۔۔۔ اسکے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی ۔۔۔         

ش۔۔شرم ناں آئی آپکو ۔۔۔

وہ چیختی ہوئی بولی تھی جبکہ اس کی اچانک آواز سن کر وہ دونوں (جو بےحد پاس کھڑے تھے)   تقریباً اچھلے تھے ۔۔۔

ساڑھی میں چھپے نجم نے فوراً منہ پر گھونگھٹ ڈالا تھا جبکہ وہ بڑی سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھ گیا تھا جسکے گال سرخ پڑ گئے تھے غصے سے ۔۔۔ 

وہ۔۔۔بھی۔۔۔ گھر کی نوکرانی اس بڈھی کیساتھ گل چھڑے اڑاتے ہوئے شرم ناں آئی آپکو ۔۔۔ وہ سسکتی ہوئی اسکو دیکھ کر بولی تھی جبکہ وہ تقریبآ حیرت سے اسکی بیویوں والی سوچ پر ماتم کر رہا تھا

کبھی ۔۔۔ہمارے تو اتنا پاس نہیں آئے آپ جتنا اس بڈھی کے قریب کھڑے تھے اور یہ کیا ہے ۔۔۔ اسکی وائٹ شرٹ پر لگا ہوا لپ اسٹک کا نشان دہکھ کر وہ صدمے سے آنکھیں پھیلاتی ہوئی اسکا گریبان پکڑنے کو تیار تھی ۔۔۔

صاحب۔۔۔ 

 نجم بڑی بےشرمی کیساتھ زنانہ آواز نکالتے ہوئے اسکے سینے سے سر لگاتا ہوا سسکا تھا ۔۔۔

دد۔۔۔دور ہٹو ۔۔۔ بےحیا عورت

اسے بازو سے پکڑتی ہوئی وہ غصے سے لال ہوتی بولی تھی جس پر وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے سنجیدگی سے نجم کا ہاتھ پکڑ گیا تھا 

ہم جو بھی کریں آپکو کیا ؟ آپ جب مجھے شوہر ہی نہیں مانتی تو حق کس بات کا جتانے آئی ہیں ۔۔۔ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے نہایت بےشرمی سے بولا تھا ۔۔۔

ن۔۔نانا صاحب سے ۔۔۔ ہم۔۔۔شکایت کریں گے آپکی ۔۔۔ وہ آنکھوں سے بہتا ہوا آنسوں کا جھرنا صاف کرتی ہوئی سسکیاں بھرتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔

دھوکا دیتے شرم نہیں آئی ۔۔۔ اس رات تک تو پیار کی باتیں کر رہے تھے اور آج ۔۔۔ چھی ۔۔۔ وہ ماتھا پیٹتے ہوئے بولی تھی 

نجم گھونگھٹ کے نیچے مشکل سے اپنی ہنسی روکے کھڑا تھا ۔۔۔

نہی۔۔۔ رہیں گے آپکے ساتھ۔۔۔۔ جج۔۔جا رہے ہیں ہم آپنے نانا صاحب کے پاس ۔۔۔۔ وہ آنسوں بہاتی ہوئی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی جبکہ لفظ جانے پر وہ جلدی سے نجم کا ہاتھ چھوڑ گیا تھا

ارے بھائی رکیں تو ۔۔۔ یہ تو بتا دیں کتنا پیار کرتے ہیں آپ مجھ سے ۔۔۔ نجم نے قہقہ لگاتے ہوئے پوچھا تھا جس پر وہ ایک زوردار چپت اسکے سر میں لگاتے ہوئے اپنی معصوم بیوی کے پیچھے گیا تھا جو بڑی شدت سے آنسوں بہاتے ہوئے بیگ میں کپڑے بھر رہی تھی ۔۔۔ 

زارا ۔۔۔

ناٹ آ سنگل ورڈ مسٹر مرجان کاظمی ۔۔۔ بہت ہو گیا ۔۔۔ ہم یہاں ایک منٹ نہیں رکیں گے ۔۔۔ ظالم تو آپ تھے ہی مگر آج بےوفائی کی ساری حدیں پار کر دی آپ نے ۔۔۔ وہ غصے سے بلبلاتی ہوئی بیگ پٹختے ہوئے اسکے سامنے رکھتے ہوئے بولی تھی وہ سپاٹ نظروں سے اسکی غصے سے سرخ ہوتی ناک دیکھ کر مسکراہٹ کو روک ناں سکا ۔۔۔ 

کہاں جا رہی ہیں آپ ۔۔۔ وہ گمبھیر لہجے میں بولا تھا 

ہم آپکے ساتھ نہیں رہیں گے ۔۔۔ رہیں آپ اسے بڈھی کیساتھ ۔۔۔ اتنی معصوم خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایسی حرکتیں کرتے آپکو حیا نہیں آتی ۔۔۔ وہ آنکھوں کو صاف کرتی ہوئی بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی 

یعنی آپ مجھے واقعی شوہر مانتی ہیں ۔۔۔  وہ اسکے کان کے قریب سرگوشیانہ انداز میں بولا تھا جس پر وہ لرز اٹھی تھی ۔۔۔ 

نن۔۔۔نہیں ۔۔۔ آپ جج۔۔۔جو کریں ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ اسے دور ہٹاتی

وہ حلق تر کرتی ہوئی بےمروتی سے لڑکھڑاتے لفظوں میں بولی تھی 

آئی کین ایکسپلین ۔۔۔ اف یو وانٹ ۔۔۔ لیکن اگر آپ جانا چاہتی ہیں میں کل ہی نجمہ بائی کو اس روم میں لے آؤں گا ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولا تھا

وہ جاتے ہوئے رکی تھی اسکی بےپرواہی پر آج وہ کھل کر جلی بھنی ہوئی تھی ۔۔۔ 

ایک منٹ ۔۔۔ ہم کیوں جائیں ادھر سے ۔۔۔ غصے سے بیگ اسکے سامنے پٹختی ہوئی وہ منہ بسورتے ہوئے بولی تھی جس پر وہ چونکا تھا ۔۔۔

میں نجمہ بائی کے پاس چلا جاؤں ؟

وہ بڑی بے نیازی سے بولا تھا جس پر اسے اور غصہ آیا تھا 

ناک سکیڑ کر اسے سخت گھوری سے نوازتے ہوئے وہ غصے سے اسکا ہاتھ پکڑتی ہوئی اسے چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ کر گئی تھی وہ بڑی سنجیدگی سے چیئر پر بیٹھا تھا ۔۔۔

بیگ کی زپ کھول کر اس سے دو دوپٹے نکالتے ہوئے وہ اسکی جانب بڑھی تھی جس پر وہ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ گیا تھا ۔۔۔

اسکے ہاتھ چیئرز کی سائڈ پر رکھتے ہوئے تیکھے نقوش سے اسے گھورتی ہوئی وہ اسے چیئر سے ہی باندھ رہی تھی

یہ ۔۔۔ کیا کر رہی ہیں آپ ۔۔۔

وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔

خبردار جو آئندہ رات کو اٹھ کر آپ اس کمرے سے باہر گئے ۔۔۔ اور اگر کسی دوسری لڑکی  یا کسی بڈھی کی طرف دیکھا بھی تو ۔۔۔ تو ۔۔۔ تو ہم آنکھیں نکال لیں گے آپکی ۔۔۔۔ 

حکمانہ لہجے میں کہتی ہوئی وہ اسے تقریباً حیران کر گئی تھی 

ہیلوو ۔۔۔

مرجان نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے کہا جس پر وہ سہانے خواب کی دنیا سے باہر نکلی وہ اسکے سامنے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔۔۔

کاش کہ باندھ ہی دیتے ۔۔۔۔ وہ دانت پیس کر کہتی ہوئی بیگ لیکر کمرے سے واک آؤٹ کر گئی تھی 

بس ایک دن اور مائی بیوٹی ۔۔۔ اسکے بعد آپکی ساری ناراضگی دور ہو جائے گی ۔۔۔

 مرجان نے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے دلفریب لہجے میں کہا ۔۔۔

کار ایک لکژری اٹالین ریسٹورنٹ کے سامنے روکتے ہوئے حرب سیٹ بیلٹ ہٹا کر کار سے باہر نکلا جزبات سے عاری چہرہ تھا  اسکے اترتے ہی زونی بھی کار سے باہر آئی تھی وہ سپاٹ نظریں ریسٹورنٹ پر جمائے اسکے برابر چل رہا تھا اور وہ بغیر پرواہ کئے اس سے آگے چلنے کی سعی کر رہی تھی

ویلکم سر ۔۔۔

ریسٹورنٹ کا مینیجر حرب کو جانتا تھا کیونکہ وہ اکثر یہاں آیا کرتا تھا اس لئے آج بھی خود اسے خوش آمدید کہہ کر وہ خود اسے اندر لیکر گیا تھا

مینیو زونی کے سامنے رکھتے ہوئے وہ فون اٹھاتے ہوئے لاپرواہی سے اسکرین پر انگلیاں چلانے لگا

آپ پلیز ابھی دو کپ کافی لا دیں ۔۔۔ 

ویٹر کو آرڈر دیتے ہوئے زونی نے حرب کی طرف دیکھا جو بےنیازی سے فون پر مصروف تھا

مجھے کچھ بات کرنی تھی تم سے یہاں دیکھو چھوڑو اسے ابھی

اسکے ہاتھ سے فون کھینچ کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ بدتمیزی سے بولی مگر وہ ضبط کر گیا جیسے وہ ہمیشہ کرتا تھا

بولیں ...

وہی سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا

مجھے تم سے طلاق چاہیے ۔۔۔

اسکی بات تھی یا کوئی چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا ۔۔۔ 

حرب نے بےیقینی سے اسکی جانب دیکھ کر ہونٹ بھینچے اسے اس بات کی تع ہرگز امید نہیں تھی وہ کچھ مثبت سسچ رکھتے ہوئے اسکے ساتھ یہاں آیا تھا مگر وہ ابھی تک اپنی ضد پر اری ہوئی تھی 

ہم دونوں جانتے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہیں دیکھو میری بات سمجھو ۔۔

زونی نے اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا جس پر وہ نظریں جھکاتے ہوئے ہاتھ پیچھے ہٹا گیا

ہم کبھی خوش نہیں رہ پائیں گے مجھے نہیں رہنا تمھارے ساتھ تم مجھے طلاق دے دو پلیز تاکہ ہم دونوں خوش رہ سکیں ۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہو گا اور آئندہ اس بارے میں آپ مجھ سے کوئی بات نہیں کریں گی ۔۔۔

دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے چپ کروا چکا تھا 

تم نے اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا میرے لئے اس کے علاوہ میں سوچ رہی تھی شاید بات کرنے سے سب ٹھیک ہو جائے مگر نہیں میں غلط تھی تم کبھی بھی ایسا نہیں کرو گے ۔۔۔

سوچتے ہوئے اسنے پاکٹ سے ایسڈ کی شیشی نکالی اور مٹھی میں بھینچ لی ویٹر کافی ٹیبل پر رکھ کر جا چکا تھا زونی نے چور نظروں سے حرب کو دیکھا وہ فون پر کچھ دیکھ رہا تھا جلدی سے ایسڈ کی شیشی کا ڈھکن کھول کر وہ کچھ بوندیں اسکے کپ میں ٹپکا چکی تھی ناجانے یہ کرتے ہوئے کیوں اسکا ہاتھ کانپا تھا

اوکے فائن جیسے تمھیں صحیح لگے کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے ۔۔

اپنی کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے زونی نے لاپرواہی سے کندھے اچکا کر کہا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ کر اپنا کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے کافی کا سپ لے چکا تھا 

زونی نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اسکی جانب دیکھا وہ قدرے سنجیدہ لگ رہا تھا ماتھے پر شکنوں کا جال سا تھا اور کندھوں پر بےحد بوجھ سا محسوس ہوا 

لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے وہ کافی کا کپ ٹیبل پر رکھ کر پانی کا گلاس اٹھا چکا تھا مگر اس سے پہلے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی بھرتا وہ بری طرح کھانستے ہوئے پانی کا گلاس نیچے گرا چکا تھا

حررب۔۔۔

زونی کے ہاتھ سے فون چھوٹ چکا تھا وہ جلدی سے اسکی چیئر کی طرف بھاگی 

وہ سر جھٹکتا ہوا وہاں سے اٹھا آس پاس سے کچھ لوگ انکی جانب متوجہ ہوئے تھے  حرب کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا 

ررکو ۔۔

زونی نے اسے روکنا چاہا مگر

وہ بغیر اسکی بات سنے ٹیبل اسے نیپکن اٹھا کر وہاں سے واک آؤٹ کر گیا مگر زونی نے بخوبی وائٹ ٹشو پر خون کے داغ دیکھے تھے

یہ میں نے کیا کر دیا اگر اسے جچھ ہو گیا تو نہیں مم میں اتنی خودغرض کیسے ہو سکتی ہوں وہ میرا کزن ہے یہ میں نے کیا کر دیا ۔۔

شرمندگی سے نظریں جھکاتے ہوئے اسنے پیشانی پر اضطرابی کیفیت میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا  نظریں پاس کی ٹیبل پر پڑی جہاں بیٹھا ایک لڑکا اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ نظریں جھکاتے ہوئے فون پر مصروف ہوئی 

پتا نہیں حرب کیسا ہو گا یہ میں نے کیا کر دیا اللہ پاک پلیز مجھے معاف کر دیجیے گا میرا مقصد اسے مارنا نہیں تھا میں صرف اس سے دور ہونا چاہتی تھی ۔۔

وہ دل ہی دل میں اسکی سلامتی کی دعا کیساتھ اپنے رب سے معافی مانگنے لگی 

You won't mind my company, will you?

وہ موبائل سے نظریں ہٹاتے ہوئے سرسری نظر سامنے بیٹھتے ہوئے ایک لڑکے پر ڈال کر فوراً اپنی چیئر سے اٹھی تھی یہ وہی لڑکا تھا جو پچھلے کئی منٹوں سے اسے گھور رہا تھا مگر وہ اگنور کر رہی تھی

ارے ۔۔۔ ارے ۔۔۔ بھاگ کہاں رہی ہو رکو تو حسینہ ۔۔۔ 

خباثت سے کہتے ہوئے وہ لڑکا اسکا ہاتھ پکڑ چکا تھا 

دد۔۔۔دیکھو۔۔۔ہاتھ۔۔۔چھوڑو۔۔۔میرا۔۔۔

متذبذب لہجے میں کہتے ہوئے اسکے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا فون تک نیچے گرا چکی تھی  

ریسٹورنٹ میں بیٹھے سبھی لوگ بڑے شوق سے سارا منظر ملاحظہ فرما رہے تھے 

اسکے سکارف کو پکڑتے ہوئے وہ مسکرایا تھا

سیکیورٹی ۔۔۔۔ 

وہ چیخی تھی

دور۔۔۔ دور رہ ورنہ گولی بھیجے میں ڈال دوں گا ۔۔۔

وہ پاکٹ سے پسٹل نکالتے ہوئے گارڈ کو مزید آگے بڑھنے سے روک چکا تھا جبکہ وہ پسٹل دیکھ کر سہمی ہوئی لڑکی بےجان سی ہوئی تھی

اسکی سہمی آنکھوں نے ریسٹورنٹ کے ہال میں حرب کو تلاش کیا تھا مگر صد افسوس وہ کہیں بھی نہیں تھا

چھ۔۔۔چھوڑو۔۔۔ میں۔۔۔میں اپنے۔۔۔شوہر کو بلاؤں گی ورنہ ۔۔۔

وہ کانپتی ہوئی آواز میں بمشکل بولی تھی 

ہاہاہا۔۔۔  شوہر بھی ہے تیرا؟ افسوس ۔۔۔

وہ قہقہ لگاتے ہوئے اسکی کلائی کھینچتے ہوئے اسے ساتھ لے جانے لگا 

وہ دھڑام سے پیچھے پڑی ٹیبل پر گرا تھا ۔۔۔ زونی نے خوف سے آنکھیں بھینچی تھی 

کمینے ۔۔۔ تیری اتنی ہمت ۔۔۔ میری بیوی کو چھوئے گا تو بول ۔۔۔

اسکی گردن دبوچتے ہوئے اسکا چہرہ جکڑتے ہوئے حرب دھاڑا تھا ۔۔۔

زونی کا دل دہل اٹھا تھا اسکی دھاڑ پر ۔۔۔ وہ اسکارف کو کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ گلے میں ڈالتی ہوئی پیچھے ہٹی تھی 

بیوی ہے وہ میری غلیظ انسان۔۔۔ حرب شاہ کاظمی کی بیوی  ۔۔۔ ہمت کیسے ہوئی تیری اسکی جانب دیکھنے کی بھی ۔۔۔

ایک ہاتھ سے اسکی گردن دبوچتے ہوئے اسکا سر ٹیبل پر ٹکاتے ہوئے اسکے منہ پر مکا مارتے ہوئے وہ گرجدار لہجے میں دھاڑا تھا 

زونی کی سیاہ آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر  اسکے سرخ گالوں پر گرے تھے ۔۔۔ 

وہ لڑکا اس کی گرفت سے نکلنے کی ہر کوشش کر چکا تھا اب وہ آدھ موہ بدحال ہو چکا تھا اسکے ناک سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔

آج جان سے مار دوں گا میں تجھے ۔۔۔ اسکے پیٹ میں لات مارتے ہوئے وہ اسے ٹیبل سے نیچے گرا چکا تھا وہ کھانستے ہوئے منہ سے خون بہا رہا تھا حرب کی وائٹ شرٹ پر خون کے داغ لگ چکے تھے مگر وہ جنونی انسان آج اسے جان سے مارنے کا عہد کر چکا تھا

سس۔۔۔سر پلیز چھوڑ دیں ۔وہ مر جائے گا۔۔ 

ریسٹورنٹ کا مینیجر اسکا بازو پکڑتے ہوئے التجائی لہجے میں بولا تھا

دور ہٹو ورنہ تمھارا بھی یہی حال ہو گا ۔۔۔

مینیجر کا گریبان پکڑتے ہوئے وہ اسے دور دھکیلتے ہوئے کرخت لہجے میں بولا تھا ۔۔۔ مینیجر خوفزدہ نظروں سے اس جنونی انسان کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔

زونی لرزتے ہوئے قدموں کیساتھ اسکی جانب بڑھی تھی جو اس بےہوش لڑکے کو ابھی تک منہ پر مکے مارتا ہوا  جان سے مارنے کی سعی میں مصروف تھا

اسکا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا ۔۔۔ لمبے سانس لیتے ہوئے وہ بغیر اپنی پرواہ کئے اس کے چہرے پر گھونسے برسا رہا تھا ۔۔۔ وہ مکمل بےہوش ہو چکا تھا یا شاید مر چکا تھا ؟

پپ۔۔۔پلیز۔۔۔حرب۔۔۔ چلیں یہاں سے ۔۔۔

اسکا مظبوط بازو پکڑتے ہوئے وہ سسکیوں کے بیچ بولی تھی 

دور ہٹو۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑوں گا آج اسے ۔۔۔

اسکا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتے ہوئے وہ سرد مہری سے بولا 

وو ۔۔۔وہ مر جائے گا حرب ۔۔۔ چھوڑ دیں پلیز ۔۔۔

اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے زونی نے التجائی نظروں سے اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔۔

اس لڑکے کو شوز کی ٹھوکر سے دور کرتے ہوئے وہ پیچھے ہٹا تھا 

سب لوگ اسے حیرت اور تعجب کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔ پیشانی پر بکھرے بال ۔۔۔ رف حلیہ ۔۔۔ وہ ایسے تو بالکل نہیں آیا تھا اسکی حالت کسی جنونی دیوانے سے کم نہیں لگ رہی تھی 

 ،، مغرورانہ چال چلتے ہوئے وہ زنیرا کا ہاتھ تھامے ریسٹورنٹ سے توڑ پھوڑ کرنے کے بعد باہر نکلا تھا ۔۔۔

اپنا بلیک کوٹ اتار کر اسے کندھوں پر ڈالتے ہوئے وہ سنجیدگی سے کار کی جانب بڑھا تھا جبکہ اسکے کوٹ کو مٹھی میں دباتے ہوئے وہ آنکھوں سے آنسوں بہاتے ہوئے دوسری مٹھی میں دبائی ہوئی اس زہر کی شیشی کو شرمندگی سے دیکھتے ہوئے دور اچھال چکی تھی ۔۔۔ 

کار کی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ نم آنکھوں کیساتھ سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔۔

سرد نظروں سے روڈ کو دیکھتے ہوئے اسنے کار کو فل اسپیڈ میں سڑک پر دوڑا دیا تھا ۔۔۔ راستے گھٹن کے ماحول والی خاموشی میں گزرا ناںو ہ کچھ بولا تھا اور ناں ہی زونی مگر اسکی پیشانی پر شکنوں کا جال اور اسکے تنے ہوئے اعصاب دیکھ کر آج پہلی بار زونی کو اس سے خوف آ رہا تھا گھر پہنچتے ہی وہ دھاڑ سے کمرے کا دروازہ کھولتے ہائے اندر داخل ہوا زونی بمشکل اسکے پیچھے ہی پہنچی تھی جب اسنے اسکے منہ پر دروازہ بند کر دیا

حررب دروازہ کھولیں پلیز ۔۔۔

گھبراتے ہوئے زونی نے دروازے پر دستک دیکر کہا وہ گھبرا رہی تھی کہیں وہ طیش میں آ کر کچھ غلط ناں کر بیٹھے ۔۔۔

جسٹ گیٹ آؤٹ ۔۔۔ اکیلا چھوڑ دو مجھے ۔۔۔

اندر سے دبی دبی مگر طیش سے بھرپور آواز آئی متذبذب نظروں سے دروازے کو دیکھتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ گئی تھی تیز دھڑکتے دل کیساتھ وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے ۔۔۔۔

                             ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے وہ سرد نظروں سے سامنے ابھی ابھی بنائی ہوئی  صدیقی صاحب  اور کاشف کی قبروں کو دیکھ رہا تھا ذہن میں ڈھیروں خیالات تھے ایک طرف اس معصوم لڑکی کا خیال جس سے وہ جھوٹ بول رہ تھا جس کی کل کائنات اسکے بابا تھے جنہیں وہ بےدردی سے مار بیٹھا تھا اور دوسری طرف اسکی محبت تھی جس وہ اس لڑکی سے بےانتہا کر بیٹھا تھا  پچھلے کئی منٹوں سے وہ ہنوز کھڑا ہوا صدیقی صاحب کی قبر کو دیکھ رہا تھا اسنے مرجان کے پاس صدیقی صاحب کی لاش بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا اور نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد اسکے ہی آدمیوں نے  صدیقی صاحب کو سپردِ خاک کیا تھا 

ہلکی خنک ہوا اسکے مظبوط وجود سے ٹکرا رہی تھی اسکی پیشانی پر بکھرے بال اسکا رف سا حلیہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ وہ کس قدر کرب سے گزر رہا تھا اسکے ٹھیک پیچھے  بلیک سوٹ میں ملبوس گارڈز سر جھکائے کھڑے اسکے بولنے کا انتظار کر رہے تھے مگر وہ خاموش تھا 

آپ ۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ مل کر ہمارے بابا کے قاتلوں کو سزا دلوائیں گے ناں ۔۔۔ 

نہیں۔۔۔نہیں ہم ۔۔۔ہم نہیں سو سکتے۔۔۔ ہمارے بابا کو مار دیا انہوں نے ہم کیسے سوسکتے ہیں ۔۔۔ ان درندہ صفت لوگوں کو سزا دلوائیں گے ہم ۔۔۔ نفرت ہے ہمیں ان سے ۔۔۔ اللہ پاک دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ سب ۔۔۔ وہ ۔۔۔ وہ انصاف کریں گے اور ۔۔۔ جس طرح ہم سے ہمارے بابا کو چھینا ہے ناں انہوں نے ۔۔۔ ان سے بھی اللہ پاک ۔۔۔ کوئی بہت اپنا چھین لیں گے ۔۔۔ 

اسکا بولا گیا ایک ایک لفظ اسکے ذہن کو شل کر رہا تھا آج ان پرکشش حسیں آنکھوں میں انتہا کا سردپن تھا اور خوف تھا اسے کھونے کا خوف ۔

وہ کبھی نہیں جان پائے گی اسکے والد کا قاتل میں ہوں ۔۔۔ 

وہ بھاری گمبھیر لہجے میں دھیرے سے خود سے ہم کلام ہوا تھا 

تب تک میں تمھیں اپنے عشق میں اسیر بنا لوں گا عشیق ،، مجبور ہو جاؤ گی مجھ سے محبت کرنے کے لئے میرا عشق ہر وہ غم بھلا دے گا جو آپکے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے  یہ میرا وعدہ ہے ۔۔۔ شاہ ویر حیدر شیرازی کا وعدہ ہے 

وہ ایک سرد سی نظر سے صدیقی صاحب کی قبر کو دیکھتے ہوئے پیچھے مڑ گیا گارڈ نے اسکی بلیک لینڈ کروزر کا دروازہ کھولا وہ گلاسز لگاتے ہوئے کار میں بیٹھا اور کار فراٹے بھرتی ہوئی سڑک پر دوڑ گئی اسکے پیچھے دو اور کارز دوڑ گئی تھی جو اسکے گارڈز کی تھی۔۔۔

                                   ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

کیسی عجیب میڈ ہے اتنی لمبی اور منہ بھی چھپا کر رکھا ہے اتنی شرمیلی ؟؟ 

نیشال نے بریڈ کا بائٹ لیتے ہوئے ساتھ کھڑے نجم کو دیکھ کر سوچا

بیٹا یہ نجم دیکھائی نہیں دے رہا کہاں ہے وہ ؟؟

شہنشاہ صاحب نے منور صاحب کو دیکھ کر پوچھا جس پر نجمہ بائی بنا نجم کھانس کر رہ گیا

منور صاحب نے لاپرواہی سے اسکی خالی چیئر دیکھی انہیں بھلا اولاد کا خیال کہاں تھا وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن تھے 

دادا سائیں وہ اپنے دوست کی شادی میں گیا ہے مجھے بتا کر گیا میں بتانا بھول گیا آپ کو ۔۔۔

دائم نے جلدی سے کہا جس پر شہنشاہ صاحب نے دھیرے سے سر کو اثبات میں ہلایا

زارا نے خفا نظروں سے مرجان کو دیکھا جو بار بار نجمہ بائی کی طرف دیکھ کر نظروں سے کوئی اشارہ کر رہا تھا

پلیٹ کو سامنے سے ہٹاتے ہوئے وہ کرسی پیچھے دھکیل کر اٹھی مرجان نے سپاٹ نظروں سے اسے اٹھتے دیکھا وہ منہ کے ڈیزائن بناتی ہوئی مجھے بھوک نہیں کہہ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی شہنشاہ صاحب نے اسے جاتے ہوئے بےبس نظر سے دیکھا اور پھر سامنے بیٹھے بےپرواہ مرجان کو دیکھا

ماسی زرا مجھے جیم اٹھا کر دیں ۔۔۔ 

دائم نے مسکراتے ہوئے نجم سے کہا جس پر وہ سڑ گیا جیم اسکے سامنے رکھتے ہوئے نجم نے منہ بسورتے ہوئے کہا

نان سینس دائم بھائی ۔۔۔

وہ اسکے پیر پر پاؤں رکھتے ہوئے دانت رگڑتے ہوئے  ہلکی آواز میں بولا دائم نے واپسی اسکے پیر پر  سختی سے پیر رکھا جس پر وہ چیخ ضبط کر کے رہ گیا 

تو نے جو میرے ساتھ کیا تھا میں بھولا نہیں ہوں چوزے ۔۔۔  اور ہرگز مت بھولنا ابھی تو تمھاری اور مار لگے گی

دائم نے اسے دیکھتے ہوئے ونک کرتے کہا نجم نے دل میں اسے ہزار گالیوں سے نوازا تھا

                                   ☆✼★━━━━━━━━━━。☆✼★

غصے کی حالت میں وہ بیڈ پر  سخت گرمی میں منہ پر بلینکٹ لئے سو رہی تھی پسینے میں شرابور تھی مگر پھر بھی ناجانے کیوں وہ خود پر ترس نہیں کھا رہی تھی اسکی سمجھ سے باہر تھا آخر کیوں وہ اس قدر جل رہی تھی اسے کسی اور کیساتھ دیکھ کر 

ماضی :- 

وہاں رہتے ہوئے اسے تقریبآ دس سال گزر گئے تھے مگر وہ خوشی نام کی ہر ایک شے سے دور ہو چکی تھی زندگی بہت مشکلات سے کٹ رہی تھی اتنی سی عمر میں جس بچی کو نفرت نام کا مطلب تک پتا نہیں تھا وہ ان کالے دل لوگوں میں جنہیں صرف نفرت کرنے کا ہنر آتا تھا ناجانے کتنی مشکلوں میں جی رہی تھی اسے ہر روز کچھ دوائیاں دی جا رہی تھی یہ کہہ کر کہ اس کے ڈیپریشن کے لئے ہیں اسے سردرد س نجات ملے گی مگر ان دوائیوں نے صرف اسکے ذہن کو سن کیا تھا وہ حد سے زیادہ سونے لگی تھی اور بےحد کمزور پڑ گئی تھی چہرے سے رونق غائب ہو رہی تھی اور رنگت دودھیا سے گندمی پڑ رہی تھی انیلہ بیگم گھر کے تقریباً سارے چھوٹے بڑے کام اس سے کرواتی تھی اور اسکے باوجود بھی اسے روز ہی انکی نفرت کا نشانہ بننا پڑتا تھا 

یہ اسکی زندگی کی ایک اور صبح تھی وہ کمرے میں سکول جانے کی تیاری کر رہی تھی اور تعبیر اسکے قریب بیٹھی اسکی کلائی پر بندھی بریسلٹ کو گھور رہی تھی

یہ بریسلٹ مجھے دو ۔۔۔

اسکی بات پر زارا نے کلائی پر بندھی بریسلٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا

میں نے تمھیں کہا ناں مجھے یہ بریسلٹ دے دو 

اسکا ہاتھ سختی سے دبوچتی ہوئی تعبیر نے غصے سے کہا جبکہ زارا نے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے دونوں ہاتھ پیچھے چھپا لئے 

اتارو یہ بریسلٹ ۔۔

تعبیر نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے سختی سے بریسلٹ کو کھینچ کر کہا زارا نے پورے زور کیساتھ تعبیر کو پیچھے دھکیلا جس پر وہ گر پڑی 

مماں  اس منہوس نے مجھے دھکا دیا دیکھو مماں میرے بازو سے خون نکل رہا ہے ممااااں ۔۔

وہ اشک بہاتے ہوئے چیخ کر بولی جس پر  انیلہ بیگم بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی 

چٹاخ ۔۔

ایک زوردار تھپڑ زارا کے چہرے پر مارتے ہوئے اپنی بیٹی کو سینے سے لگا کر اسکے آنسوں پوچھنے لگی 

کرموں جلی پتا نہیں کہاں سے آ کر ہمارے گھر میں بیٹھ گئی ہے مر کیوں نہیں جاتی منہوس اب تو میری بیٹی کو مارے گی اتنی بڑی ہو گئی تو ۔۔۔

اسے بازو سے دبوچ کر جھنجھوڑتے ہوئے انیلہ بیگم نے دانت پیس کر کہا جس پر زارا کی براؤن آنکھوں میں آنسوں تیرے 

تعبیر نے مسکراتے ہوئے مگر مچھ کے آنسوں صاف کئے 

چھ۔۔چھوٹی مماں میں نے دھ۔۔۔دھکا نہیں دیا ۔۔۔ وہ می۔۔۔میری بریسلٹ چھین رہی تھی 

سسکیوں کے بیچ بولتے ہوئے اسنے معصومیت سے اپنی صفائی دی جس پر انیلہ بیگم نے آنکھیں پھیر کر اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھا 

چلو میری پرنسز بابا آپ کو اس سے بھی اچھی بریسلٹ بنوا کر دیں گے ۔۔۔

سچی مماں ؟

تعبیر نے انیلہ بیگم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے لاڈ سے کہا اور زارا کو حقارت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے انیلہ بیگم کے ساتھ چلی گئی 

اور تم جلدی یونیفارم چینج کر کے نیچے آؤ ورنہ دو تھپڑ اور لگاؤں گی ۔۔۔ 

انیلہ بیگم نے اسے انگلی دیکھاتے ہوئے وارننگ دی اور پھر تعبیر کو لیکر کمرے کا دروازہ دھاڑ سے بند کرتے ہوئے باہر نکل گئی زارا نے ہاتھ سختی سے سرخی مائل آنکھوں پر رگڑ کر آنسوں صاف کئے اور چینج کر کے بیگ اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی تھی 

آج اسنے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا

تعبیر فرسٹ ایئر میں تھی جبکہ زارا کی ایک کلاس  بیچ میں ہی چھوٹ چکی تھی نتیجہ مس ہونے کی وجہ سے وہ میٹرک میں تھی شہوار ملک نے اپنی بیٹی کا نام اسکے نام سے بدل دیا تھا اور پیسے دلوا کر اسکے بےفارم پر خود کو اسکا باپ بنوا دیا تھا کیونکہ اسے پتا چل چکا تھا کہ اسکی فیملی اب تک اسے ڈھونڈ رہی ہے اور وہ مرجان کے نام سے بھی اچھے سے واقف تھا تو بڑی ہی ہوشیاری سے اسکے کتنے آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا تھا 

ہائے تبسم کیسی ہو میری جان ایک منٹ یہ کون ہے تمھارے پیچھے ؟؟

تعبیر کی دوست نے اسے گلے لگاتے ہوئے پیچھے کھڑی زارا کو دیکھ کر منہ بناتے ہوئے پوچھا

یہ ہماری میڈ ہے ۔

تعبیر نے زارا کو دیکھ کر مسکرا کر کہا  تعبیر کی دوستیں زارا کو دیکھتے ہوئے قہقہ لگا کر ہنسی جس پر وہ لب بھینچتی ہوئی بیگ کندھے پر رکھتے ہوئے اپنی کلاس کی جانب بڑھ گئی تھی آنکھوں میں نمی تھی اور پاؤں چلنے سے انکار کر رہے تھے وہ خود کو زبردستی کمپوز رکھنے کی کوشش کر رہی تھی ان دنوں میں وہ اپنی فیملی سب بھول گئی تھی مگر اسکا دوست جان جہیں ناں کہیں اسکے دل کے کسی کونے میں اب بھی موجود تھا 

کلاس روم میں اینٹر ہوتے ہوئے وہ رکی کلاس میں ایک بھی سٹوڈینٹ موجود نہیں تھا بیگ کو کندھے سے اتارتے ہوئے اسنے اپنی سیٹ پر رکھ کر پوری کلاس میں نظریں دوڑائی مگر کوئی بھی کلاس میں موجود نہیں تھا 

مگر ٹائم تو ہو گیا ہے لیکچر کیوں شروع نہیں ہوا اور کلاس میں بھی کوئی نہیں ۔

کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے اسنے پریشانی سے سوچا جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی

کلاس روم میں پرفیوم کی ہلکی مسحور کر دینے والی مہک پھیلی تھی 

 کسی کے آنے کی امید پا کر وہ خوشی سے پیچھے مڑی جب کسی نے اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے اسکے منہ پر رومال رکھا

ایک گھٹی گھٹی چیخ اسکے حلق سے خطا ہوئی وہ گھبراتے ہوئے ڈائس کو پکڑتے ہوئے اس انجان وجود سے الگ ہونے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ ایک ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑ کر کمر سے لگاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے رومال اسکے منہ پر دے گیا 

زارا کی نظروں کے سامنے سب دھندھلانے لگا سر بری طرح چکرا اٹھا وہ مزید احتجاج کرنے سے عاری وجود کیساتھ اسکے کندھے پر سر گراتے ہوئے ڈھے گئی  ایک سرد نظر اسکے گندمی رنگ چہرے پر پڑی تو اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی گھنی پلکوں نے اسکی براؤن آنکھوں کو چھپا رکھا تھا 

مسٹر کاظمی آپکا کام ہو گیا ؟

پرنسپل اندر آتے ہوئے مسکرا کر پوچھنے لگا 

اور کیش ریسیو ہوا ؟

وہ سپاٹ نظروں سے پرنسپل کو دیکھتے ہوئے دریافت کرنے لگا 

ہو گیا ہے مسٹر کاظمی لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی اس لڑکی کے لئے آپ نے لاکھوں روپے کیوں ضائع کئے ؟ 

پرنسپل نے اس سانولی لڑکی پر نظریں گاڑھے سوال کیا 

مائنڈ یوئر بزنس ،، اور اس سکول سے اس لڑکی کا پورا ریکارڈ غائب ہو جانا چاہیے ادروائز ۔۔۔ 

آئی انڈرسٹینڈ مسٹر کاظمی ڈونٹ وری اس سکول میں تعبیر شہوار ملک تو کبھی پڑھتی ہی نہیں تھی ۔۔۔

پرنسپل نے مسکراتے ہوئے کہا وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسے لیکر اپنی مرسیڈیز میں ڈالتے ہوئے وہاں سے کار بھگا لے گیا تھا 

ایک اندھیرے کمرے میں اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کی وہ ٹھنڈے فرش پر بکھری حالت میں سو رہی تھی سہمی ہوئی براؤن آنکھوں نے چاروں طرف خوف سے دیکھا مگر چاروں طرف اندھیرا تھا 

کوئی ہے۔۔۔۔

اسکی دھیمی آواز بھی اس اندھیرے کمرے میں ایسے گونجی جیسے کسی پہاڑی پر ٹھہر کر چلایا جائے 

قدموں کی آہٹ سنتے ہوئے وہ خوفزدہ ہو کر دیوار سے لگ کر بیٹھی تھی 

کک۔۔۔ کون ہے وہاں ۔۔

دروازہ کھلتے ہی سامنے ایک قدآور سایہ نظر آیا جسے دیکھ کر وہ گھبراتے ہوئے بولی

اسکی آواز جیسے اسے منجمد کر گئی تھی وہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہوئے اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اسے دیکھنے لگا 

دد۔۔۔دور رہیں کک کون ہیں آپ اووور ہمیں یہاں کیوں لایا گیا ہے ہم۔۔ہمیں واپس جانا ہے بابا کہاں ہیں ۔۔

کوون بابا ؟ وہی شہوار ملک وہی گھٹیا قاتل شخص ؟ 

لفظ بابا پر وہ مٹھی بھینچتے ہوئے اسکے نازک کندھے پر گرفت سخت کرتے ہوئے غرایا

ی۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ 

وہ ڈگمگاتے لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے بولی

ایکذیکٹلی ہاؤ ڈو یو نو رائٹ ۔۔ تمھیں کیسے پتا ہو گا تعبیر شہوار ملک ۔۔۔ تمھیں کیسے پتا ہو گا ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے وہ کرخت لہجے میں بولا اسکے لب و لہجے پر وہ لرز کر رہ گئی 

آپ ۔۔آپ کو می۔۔میرا نام کیسے پتا ۔۔۔

غلط تھا میں تم زارا کیسے ہو سکتی ہو غلط تھا میں بہت غلط تھا اس دل سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہو گئی میں نے کیوں ایک پل کے لئے تمھیں زارا سمجھ لیا 

دل میں سوچ کر وہ ایک پل کے لئے آنکھیں میچتے ہوئے مٹھی بھیجچ کر ضبط کر گیا 

آپ پلیز ہکیں واپس چھوڑ دیں ہم نے کیا بگاڑا ہے آپکا بابا ہمارا ویٹ کر رہے ہوں گے وہ پریشان ہو رہے ہوں گے ۔۔۔

ہاتھ جوڑتے ہوئے اسنے التجائیہ نظروں سے اسے دیکھ کر درخواست کی

یو ول سٹے ہیئر فار ایور ۔۔۔ کبھی واپس نہیں جاؤ گی سمجھی ۔۔

اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے وہ گرجدار لہجے میں بولا اور وہ کانپ کر رہ گئی براؤن آنکھیں جن میں رونے کی وجہ سے سرخی پھیکی تھی ایک پل کے لئے اسکی پرکشش ہیزل گرے آنکھوں سے ٹکرائی ۔۔ کیا ٹکراؤ تھا مرجان کاظمی کا دل تیزی سے دھڑکا ۔۔۔ اسکے کندھوں کو چھوڑتے ہوئے وہ اٹھا اور دھاڑ سے دروازہ بند کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا 

وہ کندھوں کو پکڑتے ہوئے گھٹنوں میں سر دیکر رونے لگی 

حال :- 

یہ ٹیبل پر رکھ دو ۔۔۔

اسکی آواز سن کر وہ منہ سے بلینکٹ ہٹاتے ہوئے آنکھیں صاف کرنے لگی جن میں بےانتہا سرخی پھیلی ہوئی تھی میڈ ناشتے کی ٹرے رکھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی زارا نے بےتاثر نظروں سے مرجان کی جانب دیکھا جو ناشتے کی ٹرے اسکے سامنے رکھتے ہوئے اسکے قریب بیٹھنے لگا

یہ لیکر چلے جائیں یہاں سے فوراً ۔۔۔

وہ نظریں جھکاتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں بولی جا پر وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے اسکی جانب بڑھا گیا 

ہم نے کہا آپ چلے جائیں یہاں سے فوراً ۔۔۔

اسکے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے اسنے تقریباً چیخ کر کہا مگر وہ کمپوز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گلاس واپس ٹیبل پر رکھنے لگا

ہمیں نہیں کھانا لے جائیں یہ یہاں سے اور ہمیں اکیلا چھوڑ دیں ۔۔۔

نظریں پھیرتے ہوئے وہ بجھی ہوئی آواز میں بولی رونے کی وجہ سے اسکی آواز بیٹھ گئی تھی جسے مرجان نے بخوبی محسوس کیا

اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں آپکو ۔۔۔

وہ نظریں جھکاتے ہوئے محبت سے چور لہجے میں بولا جس پر وہ طنزیہ لب و لہجے سے اسے دیکھ کر وہ گئی 

اور تکلیف دینے کا ہنر بھی تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہے آپ میں  ۔۔۔

طنزیہ انداز میں اسے دیکھ کر کہتے ہوئے وہ ہنس دی مرجان نے سپاٹ نظروں سے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھا 

زارا ناشتہ کر لیں اگر آپکو میری موجودگی سے مسئلہ ہے میں چلا جاتا ہوں مگر آپ ناشتہ کر لیں ۔۔۔

وہ اٹھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا زارا نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے ناشتے کی ٹرے اٹھا کر زمین پر پھینک دی مرجان نے مٹھی بھینچتے ہوئے ضبط کیا 

جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے آپ ہماری ؟ شرم نہیں آتی آپکو ہم سے نظریں ملاتے ہوئے کتنے بڑے بےشرم شخص ہیں آپ بتائیں ؟ پورے تین سال ہمیں ذلیل کیا مانتے ہیں آپ نہیں جانتے تھے ہم تعبیر نہیں،،  افسوس اس چیز کا نہیں آپ نے ظلم کئے مگر ایک بار بھی آپ نے معافی نہیں مانگی کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو ؟ کوئی چیز نہیں ہم جسے جب چاہا اپنے پاس رکھ لیا جب چاہا اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔۔۔ جذبات ہیں ہمارے اندر اور ایک بات کان کھول کر سن لیں ہماری کوئی محبت نہیں ہے ہمیں آپ سے محبت ہم صرف اپنے دوست جان سے کرتے تھے جو اس درندہ صفت انسان میں کہیں مر گیا ہے ۔۔۔

نفرت سے اسے دھکا دیتے ہوئے وہ چیخ کر بول رہی تھی اور وہ سرد نظروں سے اسے محض دیکھ رہا تھا

لاکھ گنا بہتر ہوں گے آپ ہم سے جانتے ہیں ہم اور آپکو اسی چیز کا غرور ہے مسٹر مرجان کاظمی آپکو اپنی انا عزیز ہے آپ جھکنا نہیں چاہتے اپنی محبت کے سامنے بھی نہیں ۔۔۔

اسکی شرٹ کا کالر پکڑتے ہوئے وہ چیخ کر بولی وہ آنکھیں میچتے ہوئے اسکی باتوں کو ضبط کرنے لگا

کاش کاش ہم بتا سکتے کتنی نفرت کرتے ہیں ہم مرجان کاظمی سے کاش ہم بتا سکتے ہم تو ایک پل بھی نہیں رہنا چاہتے آپکے ساتھ ہمارا دوست جان مر چکا ہے جس سے ہمیں محبت تھی اور شروع سے لیکر آج تک یہ ہمارا قصور ہے صرف ہمارا ہمیں آپ سے ہمدردی رہی  ایک ایسے درندے سے جس میں دل نام کی چیز نہیں کاش اس پل مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہوتا  مگر انسانیت ہے ہم میں ناجانے کیوں شروعات سے ہمیں آپ میں ہمارا جان نظر آتا تھا  اور آپکے ظلم و ستم کے باوجود ہم آپکو جان سمجھ کر آپ سے محبت کر بیٹھے کتںے بڑے بےوقوف تھے ناں ہم ؟ اور اس ے بھی بڑی بات جب ہم نے آپ سے کہا آپ ہمیں آدھی رات کو بہچ سڑک چھوڑ کر چل دیئے ؟؟ مگر کیا کروں میں ایک لڑکی ہوں میرا دل پتھر نہیں ہے تمھاری طرح ۔۔۔

مرجان کو دھکا دیتے ہوئے اسنے دیوار سے لگایا وہ آنکھیں میچے اسکی ایک ایک بات سن رہا تھا مگر ایک لفظ نہیں بولا تھا اسے حق تھا اور وہ پورے حق کیساتھ بول رہی تھی 

اور جب آپکو اندازہ ہوا میں ہی زارا ہوں آپ نے زبردستی مجھ سے نکاح کیا اور یہاں لے آئے ور پھر آپ نے محبت کا ڈرامہ کیا سو واٹ اس کا مجھے افسوس نہیں کیونکہ میں بھی اب تک ڈرامہ ہی کر رہی تھی نانا صاحب سے بات ہو چکی ہے ہماری ہم کل ہی یہاں سے جا رہے ہیں نہیں رہیں گے آپکے ساتھ اور یہی آپکی سب سے بڑی سزا ہو گی ۔۔۔

مسکراتے ہوئے اسکی ہیزل آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ اپنے ہر لفظ کیساتھ اسکے دل زخمی کر رہی تھی اسکے آخری لفظ اسے اپنے دل پر کسی پگھلے سیسے کی طرح کاٹتے ہوئے محسوس ہوئے 

                                                  بےبی پنک کاٹن کی شارٹ قیمض اور ٹروزر پر بےبی پنک کناری کا نفیس دوپٹہ پہنے وہ بالوں میں برش کر کے مرر سے پیچھے ہٹی دروازے میں کھڑے اس حسنِ مغرور نے سنجیدگی سے اسکا جائزہ لیا جبکہ اسے دیکھ کر وہ خفا سی نظر سے اسکے حلئے کا جائزہ لینے لگی 

بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ پہنے بازوں کو کہنیوں سے فولڈ کئے پیشانی پر ہمیشہ کی طرح بالوں کی چند لکیریں بکھیرے دونوں ہاتھ سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں گھسائے دیوار سے کندھا ٹکائے کھڑا وہ دل چرانے کی پوری تیاری میں آیا تھا مگر وہ آج اس سے خفا ہونے کا پورا ارادہ بنا چکی تھی 

ایک آئی برو اٹھا کر اسنے سامنے کھڑی عشیق کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جبکہ عشیق نے اداسی کیساتھ رخ بدل لیا اور مرر کے سامنے نظریں جھکائے انگلیاں چٹخانے لگی اسے اداس دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا اسکے قریب آیا

کیا ہوا میری عشیق کو ؟!

اسکے کان کے قریب جھک کر بھاری گمبھیر سرگوشی کی جس پر عشیق کا دل پگھلا وہ ایک پل کو ناراضگی دور کر کے اسکے سینے سے لگنا چاہتی تھی مگر خود کو روک گئی وہ ستمگر ہمیشہ ہی اسے محبت کے گہرے بھنور میں ڈال کر اپنی طرف کر لیتا تھا 

ہم آپ سے ناراض ہیں شیری ۔۔۔ 

نظروں کو جھکا کر دھیمے لہجے میں شکایت کی گئی

اسکے نازک کلائی کو اپنے مظبوط ہاتھ میں لیکر اسنے نرمی سے اسکا رخ اپنی جانب کیا عشیق کی آنکھوں میں آنسوں آئے وہ مذید نظریں جھکا گئی مگر اسکی پلکوں کی لڑی سے  ایک موتی ٹوٹ کر اسکے گلابی گال پر بہہ گیا جسے بغیر دیر کئے شاہ ویر نے اپنے انگوٹھے سے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھا  عشیق نے نظریں اٹھا کر اسکے ہاتھ کی ہتھیلی پر پڑا وہ آنسوں دیکھا 

اسکی قیمت پتا ہے آپکو ؟ 

وہ سنجیدگی سے اس موتی کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا عشیق نے نفی میں سے ہلاتے ہوئے لب بھینچے 

It is priceless, nothing in the world can pay for it. These tears are dearer to me than my life You know ..

شاہ ویر نے اس موتی کو دیکھتے ہوئے گمبھیر سرگوشی کی جس پر عشیق نے اسے محبت سے دیکھا 

اور ہم ؟! 

عشیق کے سوال پر شاہ ویر نے نظریں ہتھیلی سے اسکے چہرے کی جانب کی عشیق نے معصومیت سے اسکی نیلی حسیں آنکھوں کو دیکھا جن میں اسکے لئے بےپناہ عشق دیکھائی دیا 

I would give my life for one smile of yours ...

عشیق کے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی وہ بے اختیار اسکے مظبوط سینے سے لگ گئی شاہ ویر نے مسکراتے ہوئے اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھے اور محبت کی مہر ثبت کی 

آپ مجھ سے ناراض تھی میری جان !؟ 

شاہ ویر نے اسے اسکی ناراضگی یاد دلائی جس پر وہ سر کو اوپر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھ گئی جبکہ شاہ ویر کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلتے چلے گئے 

آپ کیوں مسکرائے ؟! 

عشیق اسکی حسیں مسکراہٹ پر بے اختیار مسکرائی اور پوچھا 

میری عشیق کتنی چھوٹی سی ہے دیکھو ۔۔ 

شاہ ویر اسکے برابر آتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولا عشیق  نے آنکھیں سکیڑی وہ اسکے سینے تک آتی تھی 

آپ اتنے لمبے ہیں تو ہم کیا کریں؟! 

عشیق نے خفگی سے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے آنکھیں گھما کر کہا جبکہ شاہ ویر نے اسکے سرخ ہوتے گال دیکھ کر بمشکل نچلا ہونٹ دباتے ہوئے مسکراہٹ کا گلا گھونٹ دیا

کس نے کہا آپ چھوٹی ہیں یہ دیکھیں آپ بھی بڑی ہیں۔۔ 

شاہ ویر ایک پل میں  اسکی کمر سے نرمی سے تھام اٹھا کر اپنے برابر کرتے ہوئے وہ محبت سے بولا جب کہ عشیق نے اچانک اس حرکت پر آنکھیں پھیلائی تھی ۔۔ 

شیری ۔۔۔ہم گر جائیں گے ۔۔۔

اسکے کندھوں کو مظبوطی سے تھامتے ہوئے وہ آنکھیں میچتے ہوئے بولی 

آپ ناراض کیوں تھی جب تک آپ نہیں بتائیں گے میں آپکو نیچے نہیں اتار رہا ۔۔

مسکراتے ہوئے اسنے اس ہلکی گڑیا کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا جبکہ اسکی اس حرکت پر عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا 

کم آن بتائیں ۔۔ 

نہیں ہم نہیں بتائیں گے ۔۔

عشیق نے آنکھیں میچتے ہوئے نفی میں سر ہلایا 

مرضی ہے آپکی مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے میں آپکو ایسے اٹھا کر گھومتا رہوں گا ۔۔۔ 

شاہ ویر اسے اٹھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھا عشیق کے دل نے اسپیڈ پکڑی 

ہمیں آپکے ساتھ رہنا تھا پر آپ بار بار کہیں چلے جاتے ہیں اس لئے ہم ناراض تھے ہمیں جانے دیں پلیز شیری ۔۔۔ 

عشیق نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا جب کہ شاہ ویر اسے اٹھائے کمرے میں لے آیا اور کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور اسے بیڈ ہر بٹھایا اور اسکے قریب بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے اسے دیکھا وہ واقعی ڈری ہوئی تھی  

just Tell me one thing ?!okay ...

شیری نے سنجیدگی سے کہا

okay ..

عشیق نے اسکی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے سر کو ہاں میں خم دیا اور کہا 

Do You Trust Me ?! 

عشیق نے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھا وہ ناجانے کب اسکے اتنا قریب ہوئی تھی وہ اس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتی تھی 

i do ...

عشیق نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ اسکا جواب سنتے ہوئے وہ کچھ سیکنڈ اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا عشیق نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام کر اسے خیالوں کے سمندر سے نکالا وہ محض مسکرا دیا تھا 

عشیق نے اسکے ہاتھ کو دیکھا اور مسکرائی اسکا ہاتھ بھی اسکی طرح بہت خوبصورت تھا انڈیکس فنگر پر ایک تِل تھا عشیق نے شہادت کی انگلی اس تِل پر رکھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسکے ہاتھ کو دیکھا وہ مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھ گئی تھی شاہ ویر کے دل نے ایک بیٹ مس کی ۔۔

You Are a Blessing ۔۔

اسکے ہاتھ پر ہونٹ رکھتے ہوئے عشیق نے سرگوشی کی شاہ ویر کو اپنا دل ٹھہرتا ہوا محسوس ہوا وہ بھول چکا تھا کہ وہ اسوقت کہاں ہے کون ہے  وہ اس چھوٹی سی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا وہ اسکا اسیر ہو چکا تھا 

                                 。☆✼★ZOYA_SHAH_NOVELS。☆✼★

آنکھوں سے آنسوں صاف کرتی وہ گیلری سے ہوتے  ہوئے گھر کے لائونج میں پہنچی تھی آخری نظر شہنشاہ صاحب کی طرف اٹھائی اور پھر بغیر کسی سے کوئی سوال جواب کئے وہ ڈرائیور کیساتھ وہاں سے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئی تھی اسنے ایک بار بھی اسکے بارے میں سوچنے کی غلطی نہیں کی تھی وہ جانتی تھی اگر وہ اسکے خیال کو ذہن میں لائے گی تو ہرگز چھوڑ کر نہیں جا پائے گی ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے کار کاظمی مینشن سے دور ہوتی جا رہی تھی ۔

مسافِر عِشق کا ہوں میری منزِل مُحبّت ھے

تیرے دِل میں ٹھر جاؤں اگر تیری اِجازت ہو! 

ذہن  بری کشمکش میں تھا دل کہہ رہا تھا دور مت جاؤ بہت مشکل سے یہ فاصلے ختم ہوئے تھے اب ان دوریوں کو مت بڑھاؤ اور دماغ دل کی ایک ایک بات جھٹلا کر  چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا اسے معافی مانگنی چاہیے تھی اسنے کیوں نہیں مانگی کیا وہ محبت نہیں کرتا کیا اسے احساس نہیں ہوا کیا اسکا غرور اسکے عشق پر غالب آ جاتا ہے اگر نہیں تو وہ اتنی دیر کیوں لگا رہا تھا وہ مجھے خدا حافظ تک کہنے نہیں آیا کیا یہ ہے اسکی محبت ؟! 

زارا نے ٹائم دیکنے کے لئے پرس سے موبائل نکالا جب اسکی نظر  سکرین پر اپنے ہی عکس پر پڑی 

بدصورت لڑکی ، کون تم سے محبت کریگا صحیح تو کہتی تھی تعبیر اور اسکی مماں تم تو سانولی رنگت  اور عام نقوش کی مالک ہو تمھیں تو کوئی محبت نہیں کریگا تم تو ہمیشہ زمانے کی ٹھوکریں کھاؤ گی دربدر بھٹکو گی کوئی نہیں اپنائے گا  تمھیں ۔

اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے وہ ریزہ ریزہ دل کیساتھ بھی ایک دھیمی سی مسکان ہونٹوں پر سجا گئی تھی ڈرائیور نے گاڑی روکی تھی 

وہ ایئر پورٹ کی مین اینٹرینس پر پرس سے ٹکٹ نکالتے ہوئے اتری تھی ڈرائیور اسے ڈراپ کر کے واپس گاڑی موڑ چکا تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اسکے براؤن بال ہوا میں لہرا رہے تھے سر پر بلیک  شیشوں والی چادر درست کرتے ہوئے وہ ویٹنگ روم کی طرف بڑھ گئی تھی کیونکہ فلائٹ میں ابھی کچھ وقت تھا

موبائل کی گیلری اوپن کر کے  اسکا فوٹو نکالتے ہوئے وہ ناچاہتے ہوئے سرخی مائل آنکھوں کیساتھ لبوں پر تلخ مسکان سجا چکی تھی اسکے ایک ایک حسین نقوش کو بغور دیکھتے ہوئے زارا کا دل بیٹھتا چلا گیا 

اسکے ٹھیک پیچھے کوئی دبے بھاری قدموں کیساتھ ویٹنگ روم میں داخل ہوا تھا پاکٹ سے بلیک رومال نکالتے ہوئے کسی نے اسکے چہرے پر دیا تھا اسکے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا تھا وہ کچھ سیکنڈ احتجاج کرنے کے بعد ہوش کی وادیوں سے کوسوں دور جا چکی تھی وہ نیچے سے موبائل اٹھا کر اسے سوئچ آف کر کے اپنے لیتھر کوٹ کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے اسے لیکر کمرے کے دوسرے دروازے سے ایئر پورٹ کی پچھلی جانب پہنچا تھا بلیک لینڈ کروزر کا بیک گیٹ کھول کر اسے سکون سے سیٹ پر لٹاتے ہوئے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا اسنے چہرے کو بلیک ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا اسکی پرکشش ہیزل آنکھیں اگر زارا دیکھ لیتی تو اسکی روح پرواز کر جاتی  ۔۔

                                  。☆✼★ZOYA_SHAH_NOVELS。☆✼★

واٹ نان سینس آج پہلی بار ڈرائیور لیٹ ہو گیا ہے موسم خراب ہو رہا ہے مجھے گھر جانا ہے 

ورسٹ پر بندھی سکائے بلو واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے زنیرا نے سڑک پر نظریں گھمائی مگر دوردور تک گاڑی کا نام و نشان نہیں تھا 

ڈیم اٹ یار ان سگنلز کو بھی ابھی جانا تھا بارش شروع ہونے والی ہے 

آسمان کی طرف دیکھ کر فون کو پرس کی زپ کھول جر اس میں رکھتے ہوئے وہ ایک درخت کی پناہ میں آئی جب ایک گاڑی چررر کی آواز کیساتھ اسکے ٹھیک سامنے رکی 

کس طرف جانا ہے آپکو سسٹر ؟! 

ڈرائیونگ سیٹ کا ونڈو مرر نیچے ہوا اور ایک لڑکی نے مسکراتے ہوئے پوچھا 

مجھے کاظمی مینشن چھوڑ دو گی پلیز؟! 

زنیرا نے جلدی سے پرس کو سنبھالتے ہوئے آگے بڑھ کر کہا لڑکی نے ہاں میں سر کو جنبش دی اور اسکے لئے فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھول دیا زنیرا تھینکس کہہ کر سیٹ پر بیٹھ گئی 

لڑکی نے چالاکی سے اسکی  سائڈ کا گیٹ ریموٹ سے لاک کر دیا تھا گاڑی سٹارٹ ہو کر سڑک پردوڑ گئی تھی 

زنیرا کو اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور وہ پیچھے مڑی جب کسی نے اسکے منہ پر کلوروفارم سپرے کیا ایک دھندھلا سا منظر اسے دیکھائی دیا جس میں وہی لڑکا تھا جسے اسنے کینٹین میں تھپڑ مارا تھا اور ساتھ ہی ایک قہقہے کیساتھ گالی سنائی دی اور پھر وہ بےہوش ہو چکی تھی 

تھینکس لیسا اب اس سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے اگر یہ اپنی مرضی سے میرے ساتھ ڈیٹ پر چلی جاتی تو اسے سب کے سامنے ذلیل ناں ہونا پڑتا ویل ویل ویل رمیز ، زیبی آ جاؤ یار ایڈریس پر ہمارے پاس نیا وکٹم ہے ۔۔۔وہ فون کانسے لگا کر زنیرا کو دیکھتے ہوئے خباثت سے بولا تھا 

ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی لڑکی نے قہقہ لگایا تھا 

وہ ایک پرنای فیکٹری کے سامنے کار روکتے ہوئے کار سے اسے گھسیٹتے ہوئے اندر داخل ہو گئے تھے

حرب کہاں جا رہے ہو ؟! 

دائم نے اسے اپنے کیبن سے نکلتے دیکھ کر فوراً پوچھا حرب کے قدم ٹھہرے 

ڈرائیور بھابھی کو چھوڑنے گیا ہو گا زنیرا کو کالج سے لینا ہوگا موسم خراب ہو رہا ہے ۔۔

حرب نے سنجیدگی سے کہا 

ہممم ،،اچھا جاؤ یار میں باقی کام دیکھ لوں گا ۔۔

دائم نے اسکے کندھے پر ہاتھ سے تھپکی دی حرب سنجیدگی سے کوٹ کندھے پر ڈالتا ہوا آفس سے باہر نکلا ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی  اسے بس جلدی سے وہاں پہنچنا تھا ناجانے کیوں اسکا دل بے چین ہو رہا تھا 

گاڑی سڑک پردوڑ گئی تھی کچھ ہی منٹوں میں وہ وہاں پہنچا تھا مگر کالج کے گارڈ سے پتا چلا کہ وہ پہلے ہی کسی کیساتھ کار میں جا چکی تھی 

حرب نے اسکا نمبر ملایا مگر سگنل ناں ہونے کی وجہ سے کال ڈسکنیکٹ ہو رہی تھی بار بار  اور حرب کا دل بیٹھ رہا تھا 

مجھے کیوں بری فیلنگ آ رہی ہے ڈرائیور کیساتھ نہیں گئی تو پھر کس کیساتھ گئی ہے نہیں یار میں کیوں نیگیٹو سوچ رہا ہوں کیا پتا وہ گھر ہو ؟! آئی شوڈ چیک ،،وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کاظمی مینشن کی طرف روانہ ہو چکا تھا گھر پہنچ کر اسے گارڈ سے پتا چلا شہنشاہ صاحب کی طبعیت خراب ہو گئی اس لئے سب ہاسپیٹل گئے ہیں  اور ساتھ یہ بھی پتا چلا کہ ابھی زنیرا گھر نہیں پہنچی ۔۔

حرب نے واچ پر ٹائم دیکھا پنتالیس منٹ ہو گئے تھے اور وہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی اسے کئی برے خیالوں نے آن گھیرا وہ دوبارہ گاڑی لیکر اسے ڈھونڈنے نکل گیا تھا 

وہ نہیں جانتا تھا وہ کیوں اتنا پرہشان ہورہا تھا اس لڑکی کے لئے جو اسے امپورٹینس نہیں دیتی تھی جسے پرواہ نہیں تھی  وہ جئے یا مرے مگر وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا 

زنیرا کو سر میں بےحد درد محسوس ہوا تھا جب اسے ہوش آیا وہ ایک پرانی فیکٹری کے اندھیرے کمرے میں ایک کرسی سے بندھی ہوئی تھی کمرے میں گھپ اندھیرا تھا محض ایک چھوٹا سا بلب جل رہا تھا جو بار بار آف ہو جاتا تھا 

That Bitch ۔۔۔ 

اس لڑکی کا خیال آتے ہی اسکے لبوں سے گالی خطا ہوئی اور ساتھ ہی کمرے کا دروازہ کھلا تین لڑکے اندر داخل ہوئے تھے 

تم ۔۔۔ یو باسٹرڈ ہمت کیسے ہوئی تمھاری ۔۔

اس لڑکے کو پہچانتے ہی وہ چیخ کر بولی جبکہ وہ خباثت سے مسکراتے ہوئے اسکے قریب نیچے ایک گھٹنا ٹکاتے ہوئے بیٹھا 

دیکھو تو کتنی خوبصورت چیز ہے مگر افسوس زبان کی کچی ہے کب کہاں کیا بولنا ہے یہ کسی نے نہیں سکھایا ۔۔

اسکے چیرے پر بکھرے بالوں کی لٹ کو  کمینگی سے پیچھے کرتے ہوئے وہ قہقہ لگا کر بولا زنیرا نے نفرت سے سر جھٹکا باقی دو لڑکے بھی ہنس پڑے تھے 

زنیرا نے تیز دھڑکتے دل کیساتھ آس پاس دیکھا اسکے ہاتھ پیر باندھ دئے گئے تھے اور وہ اب ان درندوں جے رحم و کرم پر تھی جوناجانے کیا چاہتے تھے اس سے ۔۔۔

زنیرا نے اپنی سمارٹ واچ کو دیکھا اور اسکا دل تیزی سے دھڑکا وہ جی پی ایس سے لوکیشن تو شیئر کر ہی سکتی تھی مگر ان کے سامنے نہیں ۔۔۔

مجھ۔۔مجھے پانی چاہیے پلیز۔۔۔

زنیرا نے بےچارگی سے کہا 

تینوں لڑکے قہقہ لگا کر ہنسے تھے 

دیکھ یار کیسے پلیز کہہ رہی ہے چل جا لیکر آ ۔۔۔

پہلے والے لڑکے نے پیچھے کھڑے ہوئے لڑکوں سے کہا 

مجھے بھوک بھی لگی ہے پلیز میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تم جو کہو گے میں کروں گی ۔۔۔ زنیرا نے بکھرے ہوئے انداز میں کہا  جیسے وہ بےحد ڈری ہوئی ہو 

کیا یاد کرے گی رک آتا ہوں ۔۔۔

خباثت سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ اس پر جھک کر بولا زنیرا نے نفرت سے سر کو جھٹکاوہ لڑکا ہنستے ہوئے باہر نکل گیا تھازنیرا نے جلدی سے حرب کو لوکیشن سینڈ کی تھی اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگی 

حرب فون پر میسج دیکھتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ کم کرچکا تھا 

زنیرا کا میسج ؟ 

وہ اسٹیئرنگ پر گرفت مظبوط کرتے ہوئے لوکیشن معلوم کر چکا تھا گاڑی کو تیز کرتے ہوئے وہ اسے اس فیکٹری کے راستے پر ڈال چکا تھا 

                                  。☆✼★ZOYA_SHAH_NOVELS。☆✼★

ڈاکٹر سب ٹھیک ہے ناںکچھ سیریس مسئلہ تو نہیں ناں ۔۔۔

منور صاحب نے ڈاکٹر سے دریافت کیا وہ جیسے ہی شہنشاہ صاحب کا چیک اپ کر کے باہر آئے

ٹینشن کی وجہ سے بی پی لو ہو گیا پریشانی کی بات نہیں ہے یہ دوائیاں وقت پر لیں گے اور آرام کریں گے تو جلدی بہتر ہو جائیں گے ۔۔

ڈاکٹر نے تسلی بخش لہجے میں کہا 

ہم لے جا سکتے ہیں گھر ؟! 

کشمالہ بیگم نے پوچھا ڈاکٹر نے اجازے دی اور وہ شہنشاہ صاحب کو لیکر گھر روانہ ہو گئے 

شہنشاہ صاحب کو  زارا کی فکر کھا رہی تھی اور مرجان بھی صبح سے گھر نہیں آیا تھا ناجانے کہاں تھا وہ ۔۔۔

وہ مرجان کے دشمنوں سے واقف تھے اسلئے وہ دل پر لے گئے تھے کیونکہ اب تک انکا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا

                                。☆✼★ZOYA_SHAH_NOVELS。☆✼★

الہام درانی اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا جب اسکی نظر تعبیر پر پڑی وہ صوفے پع بیٹھی فون پرسکرول کر رہی تھی 

تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟

الہام درانی کا پارہ چڑھا 

اوہ انکل مجھے آپکی یاد آ رہی تھی اس لئے یہاں آ گئی مگر آپ تو کمرے میں ہی نہیں تھے ۔۔۔ وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے مسکرائی 

جاؤ میں آرام کرنا چاہتا ہوں ۔۔ 

الہام درانی نے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے باہر کا راستہ دیکھایا 

وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی اسکی ہیل نے فرش پر ٹک ٹک کی آواز پیدا کی تھی 

دروازہ بند کر کے وہ اپنے لیپ ٹاپ کو نکال کر ویڈیو کال جوائن کرچکا تھا جس پر کانفرنس کال چل رہی تھی اورشہر میں سب سے بڑا بلاسٹ کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا

                                。☆✼★ZOYA_SHAH_NOVELS。☆✼★

عشیق بیڈ پر نیم دراز ہوئی اور بلینکٹ اوڑھ کر سو گئی گارڈز کیساتھ کچھ سیکیورٹی ایشوز ڈسکس  کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا تھا عشیق بلینکٹ میں چپھی ہوئی پولر بیئر لگ رہی تھی اسنے اے سی کی کولنگ کم کی اور عشیق پر بلینکٹ ٹھیک سے ڈالا اور اسکے  پاس لیپ ٹاپ لیکر بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر کام میں مصروف ہو گیا 

آئی لوو یو ۔۔۔

اسنے بےیقینی سے آئی برو اٹھایا تھا عشیق نے کشن کو گلے لگاتے ہوئے نیند میں کروٹ بدل کر مسکراتے ہوئے کہا  تھا

وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر رکھ کر  اسکے معصوم چہرے پر ہلکا ساجھکا وہ نیندمیں مسکرا رہی تھی شاہ ویر کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری 

عشیق آپ نے یہ مجھے کہا ؟! 

اسنے دھیرے سے اسکے کان میں سرگوشی کی 

ہمممم ۔۔۔ 

عشیق نیند میں منمنائی 

شاہ ویر کے دل نے ایک بیٹ مس کی وہ تو اپنا کام بھول گیا تھا اب 

دوبارہ کہیں عشیق ؟!!

دوبارہ سرگوشی کی

آئی لوو یوو ۔۔

عشیق نے مسکراتے ہوئے نیند میں کہا 

میرا دل اب کوئی گستاخی کر دے گا عشیق ۔۔۔ 

شاہ ویر نے سنجیدگی سے سرگوشی کی  عشیق مسکرائی وہ  گہری نیند میں  یہ سب خواب سمجھ رہی تھی 

وہ کیا ؟! 

عشیق نے منمنا کر کہا شاہ ویر نے نرمی سے اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کی آوارہ لِٹ کو پیچھے کیا اسکی ٹھنڈی انگلیوں کے لمس نے عشیق کی دھڑکن تیز کی  ۔۔۔

وہ نیند سے جاگ چکی تھی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔  اسکے گلابی گال کو انگھوٹے سے سہلاتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر جھکا تھا عشیق نے آنکھیں وا کی تھی اور اسکے دل کی دھڑکن نے شدت پکڑی تھی  اسنے اٹھنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اسکی ساری کوششیں ناکام کر گیا تھا ۔۔۔  بیٹھتے دل کیساتھ عشیق نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھیں میچی تھی 

ڈیم اٹ !

پچھلے  کچھ گھنٹوں سے وہ چیئر ہر بندھی ہوئی تھی اور کمرے میں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا کلائی کو جھٹکا دیتے ہوئے زنیرا خود سے بڑبڑائی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ تینوں لڑکے اندر داخل ہوئے تھے 

برو اسکے ہاتھ کھول دیتے ہیں ۔

نہیں رکو ۔

اس لڑکے نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے اس لڑکے کو ٹوکا تھا زنیرا نے شکی نظروں سے اسے دیکھا جو اسکی ورسٹ پر بندھی گھڑی کو غور سے دیکھ رہا تھا

زنیرا نے خود کو جھٹکا دیکر اسکا دھیان گھڑی سے ہٹانا چاہا مگر وہ ایک ہی پل میں زوردار تھپڑ اسکے گال پر رسید کر چکا تھا اسکے تھپڑ نے زنیرا کے گال پر سرخ چھاپ چھوڑی  وہ درد اور غصے سے ہس کر رہ گئی 

مٹھیاں بھینچتی ہوئی وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ گئی تھی 

دیکھو کیا تیور ہیں جانتی ہے یہاں اسکی پروٹوکول نہیں ہو گی پھر بھی آنکھیں ایسے دیکھا رہی ہے جیسے ابھی مجھے جان سے مار دے گی یہی غرور تو توڑنا ہے تیرا سب کے سامنے تھپڑ مارا تھا تو نے مجھے یاد ہے تجھے ۔

لڑکے نے اسکا جبڑا جکڑتے ہوئے دانت پیس کر کہا زنیرا نے نفرت سے  محض سر جھٹکا تھا اسکی آنکھوں میں ڈھیروں نفرت تھی اسکے بس میں نہیں تھا ورنہ وہ اب بھی ایک زوردار تھپڑ اسکے منہ پر رسید کرتی

بیچاری بےبس ہے آج تو کچھ نہیں کر سکتی کوئی نہیں بچا سکتا چچچ دروازہ بند کر زیبی ۔۔۔۔ 

اس لڑکے نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اس لکڑی کے دروازے کو بند کیا تھا ساتھ ہی وہ اسکا اسکارف کھینچتے ہوئے زمین پر گرا چکا تھا 

بہت غرور ہے ناں تجھے بہت اکڑ ہے تجھے آج تیری ساری اکڑ میں نکال دوں گا ۔۔ 

اسے بالوں سے نوچتے ہوئے وہ دانت پیستے بولا 

پلیز حرب ۔۔۔ پلیز جلدی آ جاؤ ۔۔

زنیرا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے دل میں دعا کی تھی

                               。☆✼★Ⓩ︎Ⓞ︎Ⓨ︎Ⓐ︎ Ⓢ︎Ⓗ︎Ⓐ︎Ⓗ︎ Ⓝ︎Ⓞ︎Ⓥ︎Ⓔ︎Ⓛ︎Ⓢ︎。☆✼★

صبح کی  روشنی کھڑکی سے کمرے میں پڑی تھی  وہ آنکھیں وا کرتے ہوئے وال پر لگی واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے اٹھی تھی آج وہ پہلے کی نسبت جلدی اٹھی تھی کھڑکی کو گھورتی ہوئی وہ اٹھی آخر پردے کس نے اور کیوں ہٹائے تھے اس دھوپ نے اسکی نیند میں خلل پیدا کرنے کی حماقت کیسے کی تھی  وہ سلیپرز پیروں میں ڈالتی ہے اور کھڑکی کی طرف بڑھتی ہے جب کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور  فی میل سروینٹ بریک فاسٹ ٹرالی لیکر کمرے میں داخل ہوتی ہے 

گڈ مارننگ میم ۔۔۔ 

ٹیبل پر ناشتہ لگاتے ہوئے سروینٹ بولی

آج بریک فاسٹ جلدی کیوں لگا رہی ہو اور شیری کہاں ہیں ؟ 

بالوں میں کیچر درست کرتی ہوئی وہ سوال کرنے لگی 

میم سر نے ہی ونڈو سے پردے ہٹانے کے لئے کہا تھا اور آپکو جلدی ریڈی ہونے کے کہا آپ ناشتہ کر لیں باہر ڈرائیور آپکا ویٹ کر رہا ہے ۔۔۔

کیوں کس لئے ؟ عشیق نے حیرت سے اسے گھورا 

میم آپکو کالج چھوڑنا ہے ۔۔۔

سروینٹ نے ہلکی سی مسکان لبوں پر سجا کر کہا جیسے اسے یہ کہتے ہوئے بےاختیاری طور پر ہنسی آئی تھی 

ہمیں کہیں نہیں جانا  آپ اپنے سر کو کہہ دو جا کر 

عشیق کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر ہکلاتے ہوئے بولی کالج کا نام سن کر اسکا دل حلق تک ہی تو آ گیا تھا 

میم سر ہم سے ناراض ہوں گے اور شاید پنشمینٹ بھی دے دیں آپ پلیز ریڈی ہو جائیں ۔۔۔ 

سروینٹ نے گھبراتے ہوئے کہا عشیق نے لب بھینچے کل تک سب ٹھیک تھا آج وہ اس کے سر پر  کالج کا بمب پھوڑ چکا تھا وہ مردہ قدموں کیساتھ وائٹ یونی فارم لیکر فریش ہونے چلی گئی سروینٹ نے سکھ کا سانس لیا تھا 

شیری آپ نے اچھا نہیں کیا ہمارے ساتھ ہم سے ایک بار بھی نہیں ہوچھا ہم کالج نہیں جانا چاہتے اور آپ سے دور تو بالکل نہیں۔۔۔

بالوں میں برش پھیرتے ہوئے وہ نم آنکھوں سے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے خود سے ہی ہمکلام ہو رہی تھی

وہ دبے پاؤں اندر داخل ہوا مگر عشیق نے اسکا عکس مرر میں دیکھ لیا تھا سرخی مائل آنکھوں نے اسے کچھ سیکنڈ گھورا اور پھر بال باندھنے کی ناکام کوشش کی مگر یہ بھی اس سے ناں ہو سکا اسکے بال بہت لمبے تھے اور اسنے کبھی بھی خود انکو نہیں باندھا تھا اسکی کیئر ٹیکر ہی اسکے سارے کام کرتی تھی

وہ مبہم سا مسکرایا اور اسکے قریب آتے ہوئے اس کے ہاتھ سے برش لیا 

آپ نے ایسا کیوں کیا ؟! 

سبز جھیل سی آنکھوں میں نمی آئی اور آنسوں کے ٹکڑے گلابی گالوں پر لڑھک گئے  اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر شاہ ویر کی دھڑکن رکنے لگی وہ برش سائڈ پر رکھ کر اسکا چہرہ اپنی جانب کرتے ہوئے اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا عشیق نے روتے ہوئے ہچکی لی 

ہمیں نہیں جانا آپ ہمیں خود سے الگ کیوں کر رہے ہیں آئی پرومس ہم آپکو تنگ نہیں کریں گے ناں ہی ضد کریں گے آپ ہمیں اکیلے کالج مت بھیجیں  ۔۔۔ 

وہ سسکی لیتے ہوئے اسکی ہلکی بیئرڈ پر نازک ہاتھ رکھتے ہوئے بولی دونوں نظروں کا تکرار ہوا شاہ ویر کے دل نے ایک بیٹ مس کی جبکہ عشیق کو اسکی کل رات کی گئی گستاخی یاد آئی اور اسکے گلابی گالوں پر حیا کی سرخی پھیلی اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہ کچھ انچ پیچھے ہوئی نظروں نے باقاعدہ جھرجھری لی تھی دل شدت سے دھک دھک کر رہا تھا شاہ ویر کے لبوں پر مسکراہٹ نے پرکشش  سارقص کیا  اسکا ڈمپل واضح ہوا 

وہ سر کو ہلکے سے جنبش دیکر نظریں جھکا چکی تھی

If you will not study, how will you become successful My Heart ? 

اسکے گال کو نرمی سے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے وہ گمبھیر آواز میں بولا عشیق نے خفا نظروں سے اسکی آنکھوں میں جھانکا 

I want to stay with you, I don't want to go anywhere else ۔

خفگی سے جواب دیا گیا تھا اور لہجے میں صاف ناراضگی جھلک رہی تھی

I promise I will come to pick you back from college myself okay ?! 

عشیق نے منہ پھلائے اسے دوبارہ دیکھا مگر جواب نہیں دیا تھا وہ تو ناراض ہو گئی تھی اور اب اسے اس لڑکی کو منانا تھا 

okay come here Let me do your hair ۔۔۔

اسے کندھے سے تھام کرچیئر پر بٹھاتے ہوئے وہ نرمی سے اسکے باپوں میں برش پھیرنے لگا اور وہ دل ہی دل میں ہم آپ سے کبھی بات نہیں کریں گے جیسے خیالات سوچتی ہوئی لب بھینچ گئی 

                    。☆✼★Ⓩ︎Ⓞ︎Ⓨ︎Ⓐ︎ Ⓢ︎Ⓗ︎Ⓐ︎Ⓗ︎ Ⓝ︎Ⓞ︎Ⓥ︎Ⓔ︎Ⓛ︎Ⓢ︎。☆✼★

سر میں بےحد درد کیساتھ جسم میں بہت تھکان محسوس ہو رہی تھی بمشکل آنکھوں کو کھولتے ہوئے اسکی نظر سامنے چیئر پر بیٹھے وجود پر پڑی بلیک لیتھر کوٹ بلیک لیتھر شوز بیک گلوز بلیک ماسک وہی ہیزل آنکھیں وہ تو اسے جانتی تھی یہ شخص تو اسکے دل کے بےحد قریب تھا چہرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے وہ اسکی سمت بڑھا 

زارا کی آنکھوں سے آنسوں کی لڑیاں ٹوٹی تھی وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا 

وہ خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جھرجھری لے چکی تھی پیر شل ہو چکے تھے اٹھنے کی ہمت نہیں تھا 

وہ شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ چکا تھا  زارا کا دل ڈوبتا چلا گیا 

مجھے معاف کر دیں زارا میں نے جو کچھ کیا اسکے سامنے یہ معافی کچھ بھی نہیں ہے آپکی ہر سزا قبول ہو گی مگر مجھ سے دور جا کر اس دل کا کرب مت بڑھائیں ۔۔

نظریں جھکائے وہ یہ سب کہہ کر آج اپنے غرور توڑ چکا تھا آج اسنے محبت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے یا پھر وہ اسے مغرور سمجھتی تھی مگر وہ تو صرف اس سے محبت کرتا تھا اور آج محبت میں وہ جھک گیا تھا

                      。☆✼★Ⓩ︎Ⓞ︎Ⓨ︎Ⓐ︎ Ⓢ︎Ⓗ︎Ⓐ︎Ⓗ︎ Ⓝ︎Ⓞ︎Ⓥ︎Ⓔ︎Ⓛ︎Ⓢ︎。☆✼★

زنیرا کے ہاتھ کھولتے ہوئے لڑکے نے اسے بازو سے اپنی جانب کھینچا تھا اسکی ٹانگیں کھڑے رہنے سے اجتناب کر رہی تھی وہ خوف سے کانپ رہی تھی اسکا وجود لرز رہا تھا آج صحیح معنوں میں اسے خوف آیا تھا آج اسے اپنی انا سے ہٹ کر کچھ اور نظر آیا تھا کس طرح سب اس کے برے رویہ برداشت کرتے تھے کس طرح وہ حرب سے اسکی امی سے اور پوری فیملی سے بدتمیزی سے پیش آتی تھی آنسوں اسکے گالوں کو بھگوتے ہوئے زمین بوس ہو رہے تھے آنسوں کی وجہ سے اسکی نظروں کے سامنے کا منظر دھندھلا سا گیا تھا ۔ مجھے معاف کر دینا حرب ۔ آنکھیں میچتے ہوئے اسنے اندر ہی اندر چیخ کر کہا تھا جب کمرے کا دروازہ زوردار دھاڑ کیساتھ زمین پر گرا تھا زنیرا نے بےیقینی سے آنکھیں کھولی تھی 

بلیک یونیفارم میں بلیک ماسک سے چہرہ ڈھانپے کچھ لوگ اندر داخل ہوئے تھے جن کے پاس اسلحہ تھا 

Don't Move Otherwise, the bullets will pass through your Head !

 دو یونیفارم میں ملبوس گارڈز اے_کے گنز ہاتھ میں تھامے آگے آتے ہوئے بولے زنیرا اس لڑکے کو دھکا دیتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی  تینوں نے سرینڈر کرتے ہوئے گارڈز کے اشارے پر ہاتھ اوپر اٹھائے تھے 

Ma'am, go outside, give your address and you will be delivered safely to your home 

ایک گارڈ نے اسے مطمئن کر کے باہر جانے کا اشارہ کیا زنیرا نے کانپتے ہوئے وجود کو باہر گھسیٹا سامنے ہی بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک شخص فون پرکسی سے بات کر رہا تھا زنیرا نے آس پاس نظر گھمائی اور بھی بہت سی لڑکیاں وہاں ہاسٹیجیز تھی جنہیں صحیح سلامت وہاں سے نکالا جا رہا تھا زنیرا نے سکھ کا سانس لیتے ہوئےدل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا تھا

Please tell me your name and address. 

ایک گارڈ ڈائری اور پین لئے اسکی طرف بڑھا تھا وہ سٹپٹا گئی تھی اچانک سے ۔۔۔

Leave this girl alone I'll handle ۔

فون پر بات کرتے ہوئے اسنے گارڈ کو سنجیدگی سے کہتے ہوئے اشارہ کیا گارڈ سر کو ہاں میں ہلاتے ہوئے اس سے دور ہٹ گیا تھا وہ فون کو پینٹ کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے اسکی طرف مڑا تھا زنیرا نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا ۔۔

Kazmi Mansion right?

وہ کار کی کیز نکالتے ہوئے سنجیدگی سے بولا زنیرا نے حلق تر کرتے ہوئے محض ہاں میں سر ہلایا تھا 

Let's Go This Way ....

وہ آگے چلتے ہوئے بولا زنیرا نے گھبراتے ہوئے اسکا پیچھا کیا تھا کچھ ہی فاصلے پر وہ رکا تھا زنیرا نے اسکی نظروں کا پیچھا کیا سامنے حرب کھڑا تھا ۔۔۔

آنسوں بےاختیار  زنیرا کی پلکوں سے ٹوٹتے چلے گئے وہ بغیر کسی کی پرواہ کئے اس کی سمت بھاگی تھی  حرب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا وہ دوڑتی ہوئی سیدھی اسکے سینے سے سمٹ گئی تھی  حرب نے اپنے مظبوط بازؤں کا گھیرا بنایا تھا اسکی پشت پر ۔۔۔

پیچھے کھڑے شخص نے سنجیدگی سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے تھے بارش نے حرب اور زنیرا دونوں کو بھگو دیا تھا زنیرا نے کانپتے ہوئے حرب کو دیکھا تھا وہ اس شخص کودیکھ رہا تھا 

He ..He Saved Me..

زنیرا نے حرب کا ہاتھ تھامتے ہوئے سسک کر کہا حرب نے سرد نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ مبہم سا مسکرایا اور سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا حرب کچھ سیکنڈ اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا وہ باقی گارڈز جو آرڈر دے رہا تھا اور وہ اسکی گائیڈ کے مطابق سب کو صحیح سلامت گھر پہنچانے کے لئے روانہ ہو رہے تھے ۔۔۔

آئی ایم سو۔۔سوری ۔۔

زنیرا نے کانپتے ہوئے کہا حرب نے اپنا بلو کوٹ اتار کر اسکے کندھے پر ڈالا اور اسے لیکر گاڑی میں بٹھایا اور وہاں سے روانہ ہو گئے تھے 

وہاں کھڑے شخص نے سنجیدگی سے آنکھوں سے بلیک سن گلاسز اتارے تھے اسکی نیلی پرکشش آنکھوں نے حرب کی گاڑی کا کچھ فاصلے تک پیچھا کیا تھا یہاں تک کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہو  چکی تھی ۔۔

انہیں ڈارک روم شفٹ کر دینا لیٹ می ہینڈل دس مائی سیلف ۔۔۔  گلاسز واپس لگاتے ہوئے وہ کار کی طرف بڑھتے بولا گارڈز نے ان لڑکوں کو ہتھ کڑیاں لگائی تھی ایک گارڈ نے اسکی بلیک مرسیڈیز کا گیٹ کھولا اور وہ اسے اشارہ کرتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ ہر براجمان ہوتے ہوئے وہاں سے کار نکال چکا تھا

                     。☆✼★Ⓩ︎Ⓞ︎Ⓨ︎Ⓐ︎ Ⓢ︎Ⓗ︎Ⓐ︎Ⓗ︎ Ⓝ︎Ⓞ︎Ⓥ︎Ⓔ︎Ⓛ︎Ⓢ︎。☆✼★

زارا روتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ چکی تھی مرجان نے سرد نظروں سے اسے دیکھا تھا اسکی براؤن آنکھوں میں سرخی پھیلی تھی اور چہرہ تھا جو آنسوں سے تر تھا 

زارا اٹھتے ہوئے مرجان  کے مظبوط سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی مرجان نے سکون سے آنکھیں بند کرتے ہوئے اسے اپنے سینے میں بھینچا 

آئی ایم ریئلی سوری زارا جسٹ فارگیو می ۔۔۔ 

اسے سختی سے سینے سے لگاتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا اور ساتھ اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھے 

جسٹ ڈونٹ ۔۔۔ پلیزز ۔۔۔ 

زارا نے روتے ہوئے کہہ کر اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔۔ مرجان نے اسکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھے اور اسے مظبوطی سے اپنے حصار میں چھپا چکا تھا وہ بری طرح اسکے حصار میں سسک رہی تھی مرجان اسکی تیز دھڑکن بخوبی سن رہا تھا مگر وہ اسے خود سے الگ نہیں کرنا چاہتا بہت انتظار کے بعد اسے یہ لمحہ نصیب ہوا تھا 

مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گی ناں آپ ۔۔۔ 

مرجان نے اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے نرمی سے پوچھا زارا نے ناں میں سر ہلاتے ہوئے اسکی ہیزل آنکھوں میں جھانکا جن میں اسکے لئے سوائے محبت کے کچھ نہیں تھا کتنی محبت کرتا تھا وہ اس سے کتنا انتظار کیا تھا اس نے

 ۔۔۔ 

زارا نے لب بھینچتے ہوئے آنکھیں میچی ایک موتی دوبارہ اسکے گال پر ٹوٹ کر گرا ۔۔۔

ڈونٹ کرائے زارا ۔۔۔۔ 

مرجان نے اسے دوبارہ سینے سے لگایا تھا زارا نے سسکی بھرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا 

یہاں دیکھیں میری طرف ۔۔۔ 

مرجان نے اسکا چہرہ ٹھوڑی سے تھامتے ہوئے اپنی جانب کیا زارا نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا تھا

آپکو پتا ہے آج کیا ہے ؟ 

مرجان نے مسکراتے ہوئے اسکے گال کو سہلاتے ہوئے پوچھا زارا نے ناں میں سر ہلایا تھا 

Happy Birthday My LOVE ...

مرجان نے دھیرے سے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی

اسکے یہ لفظ ادا کرتے ہی کمرے کی لائٹس روشن ہوئی تھی اور اوپر سے ان پر گلاب کی پتیوں کی برسات ہوئی تھی زارا نے حیرانی زے آس پاس دیکھا تھا یہ ایک بہت بڑا ہال تھا جسے پنک پھولوں سے اور وائٹ پردوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔ نیچے ریڈ قالین بچھایا گیا تھا ۔۔۔ 

                   。☆✼★Ⓩ︎Ⓞ︎Ⓨ︎Ⓐ︎ Ⓢ︎Ⓗ︎Ⓐ︎Ⓗ︎ Ⓝ︎Ⓞ︎Ⓥ︎Ⓔ︎Ⓛ︎Ⓢ︎。☆✼★

تمھیں پتا ہے یہ نیوبی کون ہے ؟! 

کچھ لڑکیوں کا گروپ عشیق کے سامنے رکا تھا   آخری فری لیکچر تھا وہ اداس بیٹھی تھی گارڈن میں اور شیری کے بارے میں سوچ رہی تھی کیسے اسنے ایک پل میں اسے خود سے الگ کر دیا تھا بغیر یہ سوچے کہ وہ اکیلی گھبراتی ہے 

تم نئی ہو کیا نیوبی ۔۔۔ 

ایک لڑکی نے اسکے لمبے بالوں کو کھینچا تھا وہ گھبراتے ہوئے اٹھی تھی دوسری لڑکی نے ہنستے ہوئے اسکی بریڈ کو کھینچا تھا اسکے بال کھل چکے تھے  

سٹے اوے ۔۔۔ 

عشیق نے غصے سے اسے پیچھے دھکا دیا تھا کتنی محبت سے صبح اسکے شیری نے اسکے بال بنائے تھے یہ سوچ کر ہی اسے غصہ آیا تھا جبکہ دوسری لڑکی کو تو جیسے آگ لگ گئی تھی

اریشہ بیگ دینا اسکا مجھے ۔۔ 

اس لڑکی نے پہلے والی لڑکی سے کہا اور اسنے فورآً عشیق کا بیگ اٹھاتے ہوئے اسے پکڑایا تھا  عشیق نے بیگ لینے کی کوشش کی مگر اریشہ نے اسے دھکا دیا وہ گرتے ہوئے سمبھل گئی تھی

ویل ویل ویل لیٹس سی اس بیچ کے پاس کیا ہے ؟! 

اس لڑکی نے اسکا بیگ زمین پر الٹ دیا تھا عشیق کی بکس نیچے گری تھی

سبھی لڑکیاں ہنسی تھی عشیق نے لب بھینچتے ہوئے نیچے بیٹھی اور خاموشی سے اپنی بکس سمیٹنے لگی جب اریشہ نے اس لڑکی کو اشارہ کیا تھا اور وہ اسکے ہاتھ پر بوٹ رکھ چکی تھی 

عشیق نے سسکتے ہوئے ہاتھ کو پیچھے کھینچا اسکی انگلیاں سرخ پڑ چکی تھی ۔۔

کیا ہو رہا ہے وہاں ۔۔۔

ٹیچر کی آواز پر سب لڑکیاں وہاں سے ہٹنا شروع ہو گئی تھی 

حمنا ملک ۔۔۔ جسٹ ریمیمبر مائی نیم نیوبی یہ تو سٹارٹ ہے تمھیں تو کل دیکھوں گی میں ۔۔ 

وہ اسکی بک پر پیر رکھتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی عشیق کی گرین آنکھوں میں آنسوں کا جھرنا سا جمع ہوا مگر وہ رونا نہیں چاہتی تھی بکس کو بیگ میں رکھتے ہوئے وہ ہاتھ سے سختی سے آنسوں صاف کر چکی تھی واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے وہ  سر پر بلیک چادر ڈالتے مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی کیونکہ چھٹی کا وقت ہو چکا تھا ۔۔

گیٹ پر دوبارہ اسے حمنا نظر آئی تھی وہ بغیر کسی چادر کے گلے میں چھوٹا سا وائٹ سکارف ڈالے کھڑی تھی عشیق کو دیکھ کر وہ ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے اسکے پاس آ کر رکی تھی عشیق نے سر سے چادر درست کی تھی 

افشاں ۔۔۔جسٹ لوک ایٹ دس مڈل کلاس گرل  ۔۔۔حمنا نے عشیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوسری لڑکی سے کہا افشاں نے طنزیہ نظروں سے عشیق کو سر سے پاؤں تک دیکھا تھا 

ایسی لڑکیوں کو کونسے لڑکے گھاس ڈالتے ہوں گے یو نو بہن جی ٹائپ لڑکیاں ۔۔۔ افشاں نے حمنا کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے تالی بجا کر کہا اور ساتھ ہی ہنسی تھی عشیق نے لب بھینچتے ہوئے گیٹ کی طرف دیکھا تھا جیسے وہ انہیں نظر انداز کر رہی ہو 

اوہ یس جیسے وہ مالی کا بیٹا ۔۔۔حمنا نے زور سے ہنستے ہوئے کہا افشاں تو فلک شگاف قہقہ لگا چکی تھی اور ہنستے ہوئے منہ پر ہاتھ دے چکی تھی 

یو نو مجھے ویسے مین پسند ہیں میچور ۔۔۔ ڈیشنگ ۔۔۔ ہینڈسم ۔۔۔ ویلتھی اینڈ ہاٹ ۔۔۔ 

حمنا نے سامنے رکتی لینڈ کروزر سے اترتے ہوئے شخص کی طرف اشارہ کیا عشیق نے اسکی نظروں کا تعاقب کیا

گرے شرٹ اوپر گرے ہی کاژول اوور کوٹ اور اس کے نیچے بلیک پینٹ وانٹ سنیکرز وہ تو جیسے سب کی اٹینشن حاصل کرچکا تھا

 وہ حسنِ مغرور گلاسز اتارے ہوئے اسے ہی تلاش رہا تھا گیٹ سے ۔۔۔ 

ہی از سو ڈیشنگ آئی مین ۔۔۔ افشاں نے رشک بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔ 

عشیق کندھے پر بیگ درست کرتی ہوئی گیٹ کی طرف بڑھ گئی تھی  چہرے پر اداسی کے سائے تھے شاہ ویر نے اسکے لئے مرسیڈیز کا فرنٹ گیٹ کھولا تھا عشیق چادر درست کرتی ہوئی سیٹ پر بیٹھی تھی بغیر یہ دھیان دیئے کہ اس وقت تقریباً سبھی لوگ انہیں دیکھ رہے تھے  گیٹ بند کرتے ہوئے وہ بغیر کسی کی طرف نظریں اٹھائے مغروانہ انداز میں  ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا  تھا آخر وہ غرور کیوں ناں کرتا حسنِ یوسف کی منہ بولتی تصویر تھا وہ ۔۔۔ 

حمنا تو پوری جل بھن گئی تھی جبکہ افشاں آدھ منہ کھولے انہیں گھور رہی تھی ۔۔۔

گاڑی میں اسوقت بےحد سناٹا تھا وہ سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا کچھ سیکنڈز کے وقفے کے بعد وہ عشیق کی جانب دیکھتا مگر وہ ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی اور مکمل خاموش تھی  شاہ ویر کی نظر اسکے ہاتھ پر پڑی تھی جس پر سرخ نشان کا زخم سا واضح تھا  وہ اس بات سے بے خبر کہ وہ اسکی جانب دیکھ رہا تھا دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنے میں مصروف تھی نظریں سڑک کر مرکوز کئے اسنے اسکا چھوٹا سا ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں لیا تھا عشیق نے اب بھی اسکی جانب نہیں دیکھا تھا وہ تو گہری سوچوں کے سمندر میں کہیں ڈوب چکی تھی وہ اسوقت کسی اور کی موجودگی سے بالکل بےخبر تھی 

ماضی :- کچھ سال پہلے 

بیڈ پر بیگ پھینکتے ہوئے وہ نیچے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھ گئی تھی صدیقی صاحب اسکے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے تھے بکھرے بال سرخ آنکھیں  کمرے میں اسکی ہلکی ہلکی سسکیاں سنائی دے رہی تھی صدیقی صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تو اسنے سر اٹھایا تھا سبز نین گٹورے آنسوں سے بھر چکے تھے وہ رو رو کر اپنا پورا چہرا بھگو بیٹھی تھی 

کیا ہوا ہے ہماری پرنسس کو بابا کو نہیں بتائیں گی آپ؟ 

صدیقی صاحب نے اسکے چہرے پر بکھرے بال درست کرتے ہوئے اسکے آنسوں صاف کرتے ہوئے پوچھا تو عشیق کا دل پگھل گیا آنسوں پہلے سے زیادہ کثرت سے اسکے  گلابی گالوں پر بہنے لگے وہ روتے ہوئے اپنے بابا کے حصار میں چلی گئی صدیقی صاحب نے اسکے سر پر بوسہ دیا اور اسے تسلی دی کچھ دیر بعد وہ چپ ہوئی تھی اور بتانا شروع کیا تھا کہ کس طرح آج اسے کلاس کی لڑکیوں نے پھر سے تنگ کیا اور اسکی نوٹ بک پھاڑ دی 

کوئی بات نہیں ہم اپنی برنسس کو نئی نوٹ بکس لیکر دیں گے بیٹا اینڈ بابا نے آپکو کیا سکھایا سٹے سٹرونگ کسی سے بھی نہیں ڈرنا چاہیے اور جب آپکے ساتھ زیادتی ہو تو آپکو اپنے حق میں بولنا چاہیے ناں کہ رونا چاہیے آپ تو میری ہرنسس ہو سٹرونگ پرنسس ۔۔۔ 

صدیقی صاحب نے اسے نیچے سے اٹھایا اور آسکے آنسوں صاف کئے وہ انکی بات پر مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلا گئی تھی 

حال : 

بابا ۔۔

عشیق کے لب ہلے تھے اور ساتھ ہی بجھی بجھی سرگوشی سنائی دی

شاہ ویر نے گاڑی کو بریکس لگائے تھے  

ہمارے پاس ہمارے بابا نہیں ہیں اب ہمارے بابا نہیں ہیں شیری ۔۔۔

وہ اچانک ہی اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے صدمے سے بولی تھی شاہ ویر کا دل کسی گہری کھائی میں ڈوبتا چلا گیا 

ہم کیسے رہیں گے اب ہم کیسے رہیں گے ہمارے بابا چلے گئے ہمیں چھوڑ کے ۔۔۔ 

خشک ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ سسکیوں کا گلا گھونٹ چکی تھی مگر دل میں چھپا کرب آنسوں کی صورت میں چہرے پر جھلکا وہ اندر ہی اندر ٹوٹتی چلی جا رہی تھی اسکا ذہن شل ہوتا جا رہا تھا سر میں درد کی ٹھیس اٹھ رہی تھی دل بیٹھتا جا رہا تھا پورے جسم کی طاقت جواب دے گئی تھی  

ہمیں ہمارے بابا کے پاس جانا ہے ہمیں ہمارے بابا کے پاس لیکر چلو ہمیں نہیں رہنا یہاں ہمیں جانا ہے ہمیں زندہ نہیں رہنا نہیں رہ سکتے ہم ایسے ہم سے برداشت نہیں ہو رہا بابا کیوں چلے گئے آپ ہمیں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر

دونوں ہاتھوں سے چہرے ڈھانپتے ہوئے وہ سسک کر کہہ رہی تھی اسکی آواز میں بےحد درد تھا اپنے بابا کو کھونے کا درد اور تھا ہی کون اسکی زندگی میں صدیقی صاحب کا چہرہ اسکی بند آنکھوں کے سامنے آیا اور وہ روتی چلی گئی 

شاہ ویر نے مٹھی بھینچتے ہوئے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے ٹینشن ریلیس کی تھی اسکے کندھے بھاری ہو رہے تھے آج تک ناجانے وہ کتنے لوگوں کو مار چکا تھا لیکن آج اس لڑکی کے رونے کی آواز اسے اپنے دل میں پگھلے سیسے کی مانند کھاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی عشیق نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے نظریں پھیر کر آنسوں صاف کئے تھے  وہ دل کا بوجھ ابھی تک اندر دبائے ہوئی تھی اور مزید دبا گئی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے کار دوبارہ سٹارٹ کی تھی عشیق کی نظریں ونڈو سے باہر آسمان پر امنڈتے ہوئے سیاہ بادلوں کو دیکھ رہی تھی اسوقت اسکے دل کی بھی کچھ یہی کیفیت تھی غم کا طوفان تھا اسکے دل میں مگر وہ اس طوفان کو ابھی تک ختم نہیں کر پائی تھی 

㋛︎✿︎♡︎

کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے وہ باتھ روم کی طرف بھاگی تھی دل دھاڑیں مار کر رونے کا کر رہا تھا مگر اسکے سامنے رو کر وہ مزید خود کو شرمندہ نہیں کر سکتی تھی حرب نے سختی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے روکا تھا زنیرا کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوئے تھے 

دماغ خراب تھا تمھارا بولو جسے تم جانتی تک نہیں کیوں گئی اسکے ساتھ آئی سیڈ یہاں دیکھو اور جواب دو ۔۔۔

اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے وہ دھاڑ کر بولا زنیرا نے کانپتے ہوئے آنکھیں بند کی تھی 

اگر کچھ غلط ہو جاتا کیا کرتا میں بولو کب عقل آئے گی تمھیں کب آخر کب ۔۔۔

آخری لفظوں پر دباؤ ڈالتے ہوئے وہ اسکی کلائی کو مروڑتے ہوئے غرا کر بولا زنیرا نظریں جھکائے سسک رہی تھی 

حرب کی پیشانی پر شکنوں کا جال تھا اسنے مٹھی بھینچی تھی زنیرا نے اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا جو مسلسل غصے کی وجہ سے کانپ رہا تھا حلق تر کرتے ہوئے زنیرا نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا وہ اسکی کلائی چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا 

طلاق چاہیے تھی ناں تمھیں میں حرب شاہ  کاظمی آج پورے حوش و حواس میں تمھیں زنیرا  شاہ کو ۔۔۔۔

نہیںں ۔۔

زنیرا روتے ہوئے اسکے سینے سے سمٹتے ہوئے چیخی تھی حرب کا دل شدت سے دھڑکا تھا 

پپ۔۔پلیز ایسا ایسا مت کریں ایسا مت کریں حرب ۔۔

اسکی چوڑی پشت پر کمزور بازؤں کا گھیرا بناتے ہوئے وہ متذبذب لہجےمیں بولی اسے یہ کہتے ہوئے اپنے حلق میں کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہوئے تھے حرب بےسدھ کھڑا تھا کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا زنیرا اسکے تیز دھڑکتے دل کی دھڑکن کو سن پا رہی تھی زنیرا نے پیچھے ہوکر اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھا تھا پیشانی پر بکھرے گیلے بال کوٹ جو اسنے زنیرا کو پہنایا تھا وائٹ شرٹ اسکے مظبوط جسم سے چپک گئی تھی وہ بری طرح بھیگ چکا تھا کیوں ہوا تھا ایسا وہ اسے بچانے  کے لئے آیا تھا وہ اسکی حفاظت کرنا چاہتا تھا مگر کس حق سے ؟ جس لڑکی نے کبھی اسے اہمیت نہیں دی تھی کیوں وہ اس کی اتنی پرواہ کرتا تھا زنیرا نے ہونٹوں کو سختی سے بھینچا تھا وہ سرد سپاٹ چہرہ لئے اسے دیکھ رہا تھا کچھ نہیں بولا تھا وہ آج پھر خاموش ہو چکا تھا وہ تو تب بھی کچھ نہیں بولا تھا جب اس لڑکی نے اسے زہر تک دینے کی کوشش کی تھی 

زنیرا نے ٹھہرے ہوئے جھرجھری لی تھی  حرب نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا وہ ٹھنڈ کی وجہ سے کانپ رہی تھی مگر اسکے جواب کی منتظر تھی 

آپ چینج کر لیں  گھر والے ہاسپیٹل گئے ہیں وہ آتے ہی ہوں گے 

وہ سنجیدگی سے کچھ دیر بعد بولا تھا زنیرا نے خالی نظروں سے اسکے بےتاثر چہرے کو دیکھا تھا وہ کبڈ کی طرف بڑھا زنیرا کی نظروں نے اسکا پیچھا کیا اسکے لئے کاٹن کا وائٹ سوٹ نکال کر اسے تھمایا اور اپنے لئے سادہ وائٹ سوٹ  نکالا 

مجھے طلاق نہیں چاہیے آپ سے مجھے آپکے ساتھ رہنا ہے ۔۔

وہ کپڑوں پر گرفت مظبوط کرتے ہوئے نظریں جھکا کر دھیرے سے بولی حرب کبڈ بند کرتے ہوئے رکا تھا زنیرا اسکا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھی وہ اسکی پشت کو گھور رہی تھی جب وہ کبڈ بند کرتے ہوئے پیچھے مڑا 

وہ بیڈ پر کپڑے ڈالتے ہوئے مظبوط قدموں کیساتھ اسکی طرف بڑھا زنیرا نے قدم پیچھے لئے وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سنجیدگی سے اسکی طرف بڑھ رہا تھا زنیرا کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا  زنیرا دیوار کے ساتھ چپک گئی تھی اسکے ہاتھ پیر پھولے تھے جب اسکی پشت دیوار سے لگی تھی وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ کر کچھ انچ کے فاصلے پر رکا تھا 

کیوں رہنا ہے میرے ساتھ ۔۔۔

گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اسنے اسکے برابر دیوار پر ہاتھ رکھ کر ہوچھا  زنیرا نے تھوک نگلتے ہوئے حلق تر کیا اور اسکی طرف دیکھا وہ اسکی بڑی بڑی آنکھوں میں ہی دیکھ رہا تھا 

وہ  وہ کیوں کہ آپ کیوں کہ آپ برے نہیں ہیں اور میں 

زنیرا نے نظریں چراتے ہوئے کمرے میں نظریں دوڑائی  اسکے جواب سے مطمئن ناں ہوتے ہوئے حرب نے سر کو ہلکی سی جنبش دی تھی  زنیرا نے پھر سے جھرجھری لی حرب نے لب بھینچے اور پیچھے ہٹا زنیرا تیز دھڑکتے دل کیساتھ کپڑے لیکر واش روم کی طرف بھاگی تھی حرب نے پیشانی کو دو انگلیوں سے مسلا تھا جب اسکی چیخ سنائی دی وہ واش روم کی طرف بھاگا تھا سامنے ہی وہ فرش بوس ہو کر اسے شرمندگی سے دیکھ رہی تھی حرب نے اسکے شوز پر غور کیا تھا وہ چھے فٹ کی ہیل پہنے واش روم میں گھسی تھی  اور اب اسکا پیر مڑ چکا تھا

زنیرا نے شرمندگی سے اسے پھر سے گھورا تھا وہ اسکے قریب نیچے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اسکے پاؤں سے شوز نکالتے ہوئے اٹھا زنیرا نے اسے پہلی بار نفرت سے ہٹ کر محبت کی نظر سے دیکھا وہ شوز سائڈ پر رکھتے ہوئے اسکی طرف ہاتھ بڑھا چکا تھا زنیرا نے اسکے مظبوط ہاتھ کو دیکھا پھر بغیر کچھ سوچے اسکا ہاتھ تھام کر اٹھی تھی حرب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا وہ ہلکی سی مسکرائی تھی مگر فوراً مسکراہٹ کو چھپا چکی تھی 

㋛︎✿︎♡︎

واش روم سے سمپل بلیک سوٹ میں چینج کرنے کے بعد وہ ٹیبل کی طرف بڑھا جس پر اسکا فون نجانے کب سے بج رہا تھا دنیا جہان سے غافل زارا سکون سے آنکھیں موندے بیڈ پر سو رہی تھی رات کے تقریباً دو بجے کا وقت تھا وہ کام سے ابھی فارغ ہوا تھا 

بولو

کان فون پر رکھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا 

سر انسپیکٹر ہاشم بول رہا ہوں صدیقی صاحب کے مرڈر پر انویسٹیگیشن کرتے ہوئے کچھ عجیب و غریب دلائل سامنے آ رہے ہیں آپکو اسوقت ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں جس لڑکی کی شادی تھی وہ انکی حقیقی اولاد نہیں تھی انفیکٹ انکی کوئی اولاد نہیں تھی اس لڑکی کو انہوں نے کسی یتیم خانے سے اڈاپٹ کیا تھا 

مرجان کے ہاتھ ٹھنڈے پڑنے لگے 

اور دوسری عجیب بات آپ نے کہا تھا مسٹر صدیقی صاحب آپکے لئے کام کرتے تھے کیا یہ سچ ہے ؟!  

انسپیکٹر ہاشم کے سوال نے مرجان کو گہری پریشانی میں مبتلا کیا تھا وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد گویا ہوا 

وہ میرے لئے امپورٹنٹ ڈیٹا کلیکٹ کرتے تھے میں انکی بہت رسپیکٹ کرتا تھا کیونکہ وہ پچھلے پانچ سالوں سے بہت ایمانداری کیساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور حال ہی میں انکا کمپنی میں پروموشن ہوا تھا ۔۔۔ 

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ انکا ڈارک ویب کیساتھ گہرا تعلق تھا اور وہ تعلق انفارمیشن کلیکٹ کرنے کے بجائے وہاں سے ڈرگز خریدنے کا تھا ۔۔۔  

مرجان کی پیشانی پر شکنیں ابھری تھی وہ مٹھی بھینچتے کمرے سے باہر نکلا تھا 

ان ایڈیشن وہ ناں صرف ڈرگز پرچیز کرتے تھے بلکہ انکو سپلائے بھی کرتے تھے ۔۔۔  

مجھے اب تک کی انویسٹیگیشن کی فائل چاہیے ۔۔ مرجان نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا 

اوکے سر میں کل ہی آتا ہوں آپکے پاس ۔۔ خدا حافظ

اور کتنے لوگ میرا بھروسہ توڑیں گے اس لڑکی کو ڈھونڈنا ہو گا فرسٹ آف آل مجھے عشیق کو ڈھونڈنا ہو گا وہ ضرور کچھ ناں کچھ جانتی تھی اسکا اچانک شادی سے غائب ہونا کیا یہ اتفاق ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر بھاگی ہے ہو سکتا ہے وہ انکے ساتھ ملی ہو مجھے سب سے پہلے اس لوسیفر کا پتا لگانا ہے ڈیم اٹ اور شاہ ویر حیدر از آن ٹاپ بزنس رینک کیا یہ بھی اتفاق ہے ؟ خیر  شاہ ویر حیدر شیرازی تمھیں ملنے کا وقت  بھی قریب ہے ۔۔۔ 

نائٹ سوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے سوچا ۔۔۔

㋛︎✿︎♡︎

بیڈ کی سائڈ پر بیٹھی ہوئی وہ کب سے کچھ سوچ رہی تھی شاہ ویر سپاٹ تاثرات چہرے پر لئے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اس وقت کے بعد سے شیری نے اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ اسکی بات سننے سے انکار کر رہی تھی وہ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے خاموشی سے جاگنے میں اسکا ساتھ دے رہا تھا 

ہمارے بابا کو جس نے بھی قتل کیا ہے ہمیں اسکا پتا لگانا ہو گا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے اگر شیری ہماری مدد کریں گے تو ہم ضرور پتا لگا لیں گے اور ویسے بھی شیری کوئی عام بزنس مین نہیں لگتے  اتنی ویلتھ کسی عام بزنس مین کے پاس نہیں ہو گی پر وہ تو ہمیں اپنا نام تک نہیں بتا رہے ہم کیسے ان سے مدد لیں گے 

عشیق نے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر سوچا شاہ ویر نے خود پر عشیق کی نظر محسوس کرتے ہوئے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر دوسری جانب نظریں پھیرتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کر گئی شاہ ویر سرد آہ بھرتے ہوئے دوبارہ لیپ ٹاپ پر مصروف ہوا تھا 

ہمیں آپکا لیپ ٹاپ چاہیے ہمیں کالج سے پراجیکٹ ملا ہے اسے پورا کرنا ہے ۔۔۔

عشیق نے کچھ سوچ کر اطمینان سے کہا جبکہ شاہ ویر نے سر اٹھا کر سنجیدگی سے اسے دیکھا 

کیسا پراجیکٹ ؟! 

شاہ ویر نے سپاٹ لہجے میں پوچھا عشیق نے حلق تر کیا اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا آج پہلی بار وہ کسی سے جھوٹ بول رہی تھی 

آپ ۔۔ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی آپ کو آئی _ٹی کے بارے میں کیا پتا ؟! 

عشیق نے ہوا میں تیر چھوڑا جب کہ اسکی بات پر ویر کے کٹاودار ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلی  جس کے نتیجے میں اسکے لیفٹ سائڈ کا ڈمپل واضح ہوا ۔۔۔ وہ نچلا ہونٹ دباتے ہوئے بمشکل مسکراہٹ ضبط کر گیا عشیق نے دھڑکتے دل کیساتھ اسے دیکھا وہ اب پھر سے سیریئس ہو گیا تھا 

آپ تو بزنس مین ہیں آپکو سی ، سی پلس پلس کے بارے میں کیا پتا ؟! اس لئے ہم کہہ رہے ہیں ہمیں دے دیں ہم کر لیں گے !! 

عشیق نے دوبارہ نادانی سے کہا ورنہ اگر اسے پتا چل جاتا کہ اسکے سامنے بیٹھا ہوا شخص انفارمیشن ٹیکنالوجی کا  بادشاہ ہے اسکو اپنے لفظوں پر بےحد شرمندگی ہوتی

اوکے یہ لیں ۔۔

وہ بلیک ویلوٹ کے صوفے سے اٹھ کر اسکے سامنے بیڈ پر اپنا بلیک لیپ ٹاپ رکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا عشیق نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ لیپ ٹاپ لیا 

یہ تو جا ہی نہیں رہے میں انکی پروفائل کیسے دیکھوں گی ۔۔

عشیق نے ناخن ہونٹوں میں دباتے ہوئے سوچا ویر نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے تھے ۔۔

ہمیں بھوک لگی ہے ۔۔ 

عشیق نے لب کاٹتے ہوئے کہا جبکہ ویر نے ایک آئی برو اٹھایا تھا وہ اسے ٹالنے کے چکر میں تھی اور اتنا معصوم وہ نہیں تھا کہ چلا جاتا وہ اسکی ایک ایک بات بخوبی سمجھ رہا تھا 

فائن میں کچھ آرڈر کر دیتا ہوں ۔۔

وہ بیڈ پر عشیق کے سامنے لیٹتے ہوئے سنجیدگی سے بولا جبکہ عشیق نے دل ہی دل میں خود کو سو گالیاں دی 

ہمیں نہیں کرنا یہ لیں ،۔۔۔ وہ لیپ ٹاپ بند کر کے اسکے سامنے رکھتے ہوئے تنگ ہو کر بولی جبکہ ویر نے لیپ ٹاپ سائڈ رکھتے ہوئے جلدی سے اسکی گود میں سر رکھا تھا عشیق کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے 

یہ۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ اٹھیں ادھر سے ۔۔۔ اسکا کندھا ہلاتی ہوئی وہ گھبرا کر بڑبڑائی مگر وہ آنکھیں موندنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سو چکا تھا 

شیرررری ۔۔۔

وہ روہانسی ہوئی ویر ناچاہتے ہوئے مسکرایا تھا 

ایک بات بتائیں پھر میں اٹھ جاؤں گا پرومس ۔۔۔  ویر نے مسکراہٹ دبائی عشیق نے گھبرا کر اسے دیکھا پھر ہاں میں سر ہلایا

میں آپکا کیا لگتا ہوں ؟! 

وہ معصومیت سے بولا جبکہ عشیق کے گالوں پر سرخی پھیلی وہ ہونٹ آپس میں پیوست کر گئی

آپ آپ ہمارے فرینڈ ہیں ۔۔۔

وہ کچھ سوچتے ہوئے گڑبڑا کر بولی جبکہ اسکے جواب پر ویر نے قہقے کا گلا گھونٹا ۔۔

اچھا تو آپ کا نکاح کس سے ہوا تھا ؟!

ویر نے سنجیدگی سے کہا وہ آج اسے تنگ کرنے کی تیاری میں تھا عشیق نے تھوک نگلتے ہوئے اسے دیکھا 

ہمیں آپکا نام جاننا ہے ۔۔۔ عشیق نے آخر کار اپنی خفگی ظاہر کی شاہ ویر نے اسکی گرین آنکھوں میں دیکھا عشیق کی پلکوں نے جھرجھری لی 

وہ لیپ ٹاپ پر کچھ اوپن کرتے ہوئے اسکے سامنے رکھ چکا تھا عشیق نے لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا تھا 

Shahveer Haider Sherazi is currently included in the list of top businessmen of the world In fact, he has been awarded the world's number one business rank at this time 

عشیق کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی سہ یہ تو جانتی تھی کہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہے مگر وہ اتنا خاص انسان تھا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی ۔۔ 

عشیق کے ذہن میں اب تک کے سارے واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے کس طرح اس شخص نے اسے ان آدمیوں سے بچایا تھا کس طرح اس نے اس سے نکاح کیا تھا کس طرح اس نے اسے اتنی محبت دی تھی بغیر کسی غرور کے کس طرح وہ اب اسے محبت کرتا تھا کس طرح وہ اسکی پرواہ کرتا تھا ۔۔۔

عشیق ہلکی سی مسکرائی وہ آج پھر اس پر پہلے زے زیادہ بھروسہ کر بیٹھی تھی 

Happy Now ? 

اسکے سوال پر عشیق نے سر کو ہاں میں ہلایا تھا 

آپ تیار ہو گئی ؟! 

ورسٹ پر رولیکس کی واچ پہنتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے پوچھا عشیق کا موڈ خاصا خراب تھا کل کالج میں جو کچھ ہوا تھا اسکے بعد وہ تو بالکل کالج نہیں جانا چاہتی تھی مگر وہ یہ سب شاہ ویر کو نہیں بتا رہی تھی 

جی ۔۔ سر پر چادر لیتے ہوئے وہ بولی

گڈ چلیں میں چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔ 

نہیں ہم ڈرائیور کے ساتھ چکے جائیں گے آپ مت جائیں ہمیں چھوڑنے 

عشیق نے فوراً ٹوکا اسے حمنا کے کہے ہوئے لفظ یاد آئے تھے وہ اندر ہی اندر جیلس ہو گئی تھی 

لیکن میں آفس جا رہا ہوں میرا آفس اسی طرف ہے میں آپکو چھوڑ دوں گا راستے میں ۔۔۔ وہ صوفے سے وائٹ کورٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے اطمینان سے بولا عشیق نے آنکھیں سکیڑی وہ اسے دیکھتے ہوئے رکا جو اسے گھور رہی تھی 

وائٹ تھری پیس سوٹ کے نیچے وائٹ ہی بوٹس بالوں کو ہمیشہ کی طرح جیل سے بڑی نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا عشیق نے منہ کا زاویہ تقریباً بگاڑا جسے اسنے بخوبی نوٹس کیا 

کیا ضرورت تھی اتنا بننے ٹھننے کی جان بوجھ کر لڑکیوں کی اٹینشن لیتے ہیں ۔

دل میں سوچ کر وہ منہ مروڑ گئی

ہم چلے جائیں گے ڈرائیور کے ساتھ

اس سے پہلے وہ بیگ اٹھا کر کمرے ڈے باہر نکلتی اپنی جگہ سے ٹس سے مس ناں ہوتے ہوئے اسنے اسکی نازک کلائی کو پکڑتے ہوئے اپنی جانب کھینچا وہ اتنی قوت پر بغیر خود کو سمبھالے اسکے سینے سے آ کر ٹکرائی اسکے پرفیوم کی ہلکی بےباک کر دینے والی مہک عشیق کے روم روم میں اترتی چلی گئی وہ آنکھیں سختی سے بند کر کے اسکے وائٹ کوٹ کو مٹھی میں مظبوطی سے جکڑ چکی تھی

Just Tell me What Happened My Doll ...

اس کا ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنی مظبوط انگلیوں کو اسکی باریک چھوٹی انگلیوں سے الجھائے گمبھیر آواز میں گویا ہوا عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا 

آپ ایسے جان بوجھ کر ریڈی ہوتے ہیں تاکہ لڑکیاں آپ کو دیکھیں کیوں ؟!

عشیق نے ناراضگی سے اسکے کوٹ سے اپنی باریک ناک رگڑتے ہوئے سسکی لیکر کہا اسکی معصوم شکایت پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

ہم نے نوٹس کیا تھا جب آپ ہمیں لینے آئے تھے سب لڑکیاں آپکو دیکھ رہی تھی ہمیں برا لگا آپ صرف ہمارے ۔۔۔۔

فرینڈ ہو ۔۔۔

وہ لفظوں کو تولتی ہوئی آخر میں ہچکچا کر بولی جبکہ لفظ فرینڈ پر وہ بس مسکراہٹ ضبط کر رہ گیا 

دیکھیں میری طرف ۔۔

اسکے چہرے کو محبت سے اپنے مظبوط ہاتھوں کے پیالے میں تھامتے ہوئے مسکرایا عشیق نے خود کو اسکی نیلی پرکشش آنکھوں میں ڈوبتے ہوئے محسوس کیا اور کیا غضب ڈھاتا تھا اسکا وہ ڈمپل جب وہ مسکراتا تھا 

آپکے فرینڈ کو کسی اور فرینڈ کی ضرورت بھی نہیں ہے اور میری تو جان ہیں آپ میری چھوٹی سی معصوم سی نازک سی اینجل۔۔۔

رونے کی وجہ سے اسکی سرخ ہوتی ناک کی نوک  پر انگلی  رکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بولا عشیق نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ کو اپنی ناک سے ہٹایا تھا اسکے گال سرخ پڑے تھے وہ بلش کر رہی تھی ۔۔۔

شاہ ویر کا دل موم ہو چکا تھا ایک معصوم سی لڑکی نے اسکے پتھر دل کو پگھلا دیا تھا ۔۔۔

                                                     🖤🖤🖤🖤🖤🖤

بھابھی ؟! 

ژالے نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا کچن سے کشمالہ بیگم اور آفرین بیگم بھی باہر نکل آئی تھی صوفے پر بیٹھے شہنشاہ صاحب کے دل کو ٹھنڈک ملی تھی دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھر کے اندر داخل ہوئے تھے  ژالے نے مسکراتے ہوئے زارا کو گلے لگایا آفرین بیگم بھی اسے گلے لگا گئی تھی اور سب سے بڑی بات زنیرا بھی اسے دیکھ کر مسکرائی تھی زارا نے بھی ہلکی مسکان اسکی جانب اچھالی 

مرجان نے شہنشاہ صاحب کو سلام کیا صحت دریافت کی اور دائم کے کمرے کی طرف بڑھ گیا علیزے کے مطابق وہ اب تک سورہا تھا لہزا مرجان اسکی کلاس لگانے گیا تھا 

میں نے کہا تھا بھابھی نہیں جائیں گی بھیا نے روک لیا ناں آپکو ۔۔۔ 

ژالے نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور زارا نے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلاتے ہوئے مسکرا کر شہنشاہ صاحب کو دیکھا جو اٹھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھ چکے تھے 

سلامت رہو اور ہمیشہ خوش رہو میرے بچے ۔۔۔ 

زارا آمین کہتے ہوئے مسکرائی تھی 

دائم مرجان کو اندر آتے دیکھ کر آلسی بلی کی طرح بلینکٹ میں گھوم گیا مرجان نے آنکھیں سکیڑی 

بھائی خدا کا واسطہ ہے مجھے مت اٹھانا کل پوری رات میں نے آفس میں کام کیا ہے حرب بھائی بھاگ گئے تھے زنیرا بھابھی کا بہانہ بنا کر جائیں انکے کان کھینچیں مجھے سونے دیں ۔۔۔

دونوں کانوں پر کشن رکھتے ہوئے حرب نے منمنا کر کہا مرجان نے آنکھیں گھماتے ہوئے اسے آخری بار دیکھا اور کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا کیونکہ وہ آلس میں ڈوبا ہوا ابھی تو نہیں اٹھنے 

والا تھا 

اففف مماں دیکھیں ناں نجم بھائی چھپکلی سے ڈرا رہے ہیں 

نیشال بھاگتی ہوئی کشمالہ بیگم کے پیچھے آ کر چھپی کشمالہ بیگم نے غصے سے اسے دیکھا نجم شرافت کی مورتی بنا سر کو ناں میں ہلانے لگا 

بچے ہو کیا  تم لوگ اور آپ کیسے بھاگ رہے ہو ۔۔ علیزے نے نجم کو سر میں چپت لگائی اور وہ منہ چڑھا کر رہ گیا نیشال نے زبان نکالتے ہوئے اسے چڑھایا اور اپنے کمرے میں بھاگ گئی

زنیرا کافی کا کپ لئے کمرے میں داخل ہوئی حرب زور سے چھینکا تھا زنیرا کی تو جان نکلی تھی اچانک اسکی چھینک سے اسے لگا کوئی زلزلہ آیا ہے اسکے مطابق تو وہ سو رہا تھا حرب نے اس ناگہانی آفت کو دیکھا جو ہاتھوں میں کپ لئے دروازے سے چپکی ہوئی تھی

آپ __آپ کو زکام ہے ؟ 

حرب نے تقریباً حیرت سے اسے دیکھا وہ تو اسے تم بلاتی تھی آج وہ آپ ہو گیا تھا 

جی ہاں آپکی وجہ سے ہوا ہے ۔۔ حرب نے بےنیازی سے کہا زنیرا نے لب کاٹتے ہوئے شرمندگی سے نیچے دیکھا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے کافی کا کپ اسکے پاس چھوٹی ٹیبل پر رکھ دیا 

اس میں کیا ملایا ہے کونسا ایسڈ ہے انٹروڈیوس کروا دو ۔۔۔

حرب نے سنجیدگی سے کہا جبکہ اسکی بات پر زنیرا نے حیرانی سے اسے دیکھا زنیرا کی ٹانگیں تھرتھرائی تھی 

کیوں حیران ہو رہی ہو ؟ آپکو لگا میں نہیں جانتا تھا اس میں آپ نے ایسڈ کی ڈراپس گرائی تھی ؟ میں جانتا تھا آفکورس میں نے دیکھا تھا ۔۔۔ 

حرب کی کہی بات پر زنیرا نظریں اوپر اٹھانے سے قاصر ہوئی ڈھیروں ندامت نے اسے آ گھیرا اچانک ایک خیال اسکے ذہن سے ٹکرایا اگر وہ جانتا تھا تو اس نے وہ کیوں پیا ؟ 

زنیرا نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا وہ کافی کا کپ لئے اس میں سے سپ لیتے ہوئے اسے دیکھ گیا 

کچھ چیزیں انسان کو وہ بھی کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں جو وہ کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا کسی کو حاصل کرنے کی جدو جہد کسی کو یہ قبول کروانے کہ جدو جہد کہ وہ ہماری زندگی میں کتنا معنی رکھتا ہے کسی کو یہ بتانے کی جدو جہد کے اس کے جانے سے ذندگی کے رنگ اڑ جائیں گے کسی کو سمجھانے کی جدو جہد کہ تم غلط ہو کسی کو صحیح راستے پر لانے کی جدو جہد ۔۔۔  

وہ بولتے ہوئے رکا اور زنیرا کی طرف دیکھا اسکی آنکھوں سے آنسوں موتیوں کی طرح گر رہے تھے  وہ بغیر ایک پل ضائع کئے کمرے سے باہر نکل گئی تھی حرب نے سنجیدگی سے بند دروازے کو دیکھا تھا

                                                     🖤🖤🖤🖤🖤🖤

ہیلو نیوبی۔ 

عشیق دروازے پر ہی رک گئی تھی سامنے سے آتی افشاں کو دیکھ کر  لیکچر حال میں سناٹا چھا گیا تھا سب انہیں دیکھنے لگے عشیق کو اب خود پرغصہ آ رہا تھا کاش اسنے شیری کو ان کے بارے میں بتا دیا ہوتا لیکن وہ سمجھ رہی تھی وہ دوبارہ اس کے منہ نہیں لگیں گی لیکن وہ غلط تھی 

بولو ناں نیوبی وائے سو سکیئرڈ ؟! 

افشاں نے اسکی بریڈ پکڑتے ہوئے کہا عشیق نے بیگ اپنی سیٹ پر رکھتے ہوئے اسے دھکا دیا افشاں ڈائس سے لگی تھی دروازے سے اندر آتی حمنا وہیں تھم گئی تھی 

عشیق کا چہرہ غصے سے لال ہوا تھا کل یہی لڑکیاں اسکے بیسٹ فرینڈ کق گھور رہی تھی یہی سوچ کر اسکے اندر آگ بھڑک اٹھی تھی 

بچ کہا تھا ناں کل تم نے مجھے ۔۔۔

اسکا بازو سختی سے مروڑ کر عشیق نے اسے ڈائس سے لگایا پوری کلاس کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا آخر اتنی ہمت اس میں کہاں سے آ گئی تھی ۔۔۔ 

عشیق پلیز چھوڑو اسے میں معافی مانگتی ہوں آئندہ ہم میں سے کوئی بھی تمھیں ایسا کچھ نہیں بولیں گے ۔۔۔۔ حمنا نے افشاں کا بازو چھڑاتے ہوئے نرمی سے کہا عشیق نے شکی نظروں سے اسے دیکھا وہ کیسے سدھر گئی تھی اور معافی بھی مانگ لی تھی ؟! 

لیٹس بی فرینڈز پلیززز 

حمنا نے اسکی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا عشیق نے سرد نظروں سے اسکے ہاتھ کو دیکھا 

آئی ایم سوری  ۔۔ 

افشاں نے حمنا کے اشارے پر فوراً کہا عشیق نے کچھ سیکنڈ سوچنے کے بعد حمنا سے ہاتھ ملایا تھا 

حمنا عشیق کے پاس والی سیٹ پر ہی بیٹھی تھی اور اسکے ساتھ کافی اچھا برتاؤ کر رہی تھی افشاں حیران تھی کہ اسکے ذہن میں آخر چل کیا رہا تھا ؟! 

                                                    🖤🖤🖤🖤🖤🖤

وااٹ ؟!  میرے بغیر ہی آپ نے سب پلان کر لیا ؟!  

چیئر سے اٹھتے ہوئے وہ غرایا 

کم آن بوائے تم اپنی ذاتی ذندگی میں اتنا مصروف تھے کہ میں نے سوچا تمھیں ڈسٹرب ناں کیا جائے ۔۔۔

فون کی دوسری جانب سے مسٹر رچرڈ کی آواز سنائی دی

اوکے فائن کہاں پر اور کس ٹائم پر ایٹ لیسٹ ٹیل می سمتھنگ ۔۔ 

وہ میز پر  کنفیوژن میں انگلیاں  بجاتے ہوئے بولا 

شہر کے سب سے بڑے ریلوے اسٹیشن پر ٹھیک تین بجے بوووووم ۔۔

مسٹر رچرڈ کا مکروہ قہقہ اور پھر فون کی بیپس ۔۔ 

ریحان ڈیم اٹ ۔۔۔وہ فون کو پاکٹ میں رکھتے ہوئے جلدی سے اپنے آفس سے نکلتے ہوئے دھاڑا اسکا سیکریٹری جلدی سے وہاں بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوا ۔۔۔ 

ساری میٹنگ کینسل کر دو اور اگر کوئی میرا پوچھے تم کہو گے میں گھر چلا گیا طبعیت ناساز تھی یو گیٹ دیٹ ؟! 

وہ ہاتھوں پر بلیک گلوز پہنتے ہوئے تیزی سے بولا ریحان نے پریشانی سے بس ہاں میں سر ہلایا تھا 

وہ جلدی سے بلیک اوور کوٹ کندھوں پر ڈالتا ہوا  شیرازی انڈسٹری سے باہر نکلا تھا ۔۔۔

نو نیڈ ۔۔۔ 

گارڈ کو اشارہ کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا اور ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہوئے کار کو وہاں سے ریلوے اسٹیشن کی طرف دوڑا چکا تھا 

مرجان بھائی ۔۔۔ 

حرب تقریباً دوڑتے ہوئے اسکے کمرے میں داخل ہوا وہ انسپیکٹر ہاشم کیساتھ گیسٹ ہاؤس میں بیٹھا صدیقی صاحب کا کیس ڈسکس کر رہا تھا ۔۔۔

کیا ہوا ؟!

حرب کا اڑا ہوا رنگ دیکھ کر مرجان نے پوچھا 

بھائی ۔۔۔ ریلوے اسٹیشن پر  ۔۔۔ بم فکس کیا گیا ہے ۔۔۔ ہمیں ابھی جانا ہو گا ۔۔

انسپیکٹر ہاشم صوفے سے ایک سیکنڈ میں اٹھے 

تمھیں کیسے پتا ؟! وہ حیرانی سے بولے 

ہمیں میل ریسیو ہوا ہے پر فلحال اسکا ٹائم نہیں ہے یہ غلط انفارمیشن بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمیں ابھی جانا ہو گا ۔۔۔ حرب نے مرجان کو دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا مرجان جلدی سے اٹھا اور

 انسپیکٹر ہاشم انکے پیچھے تیز رفتار قدموں کیساتھ واک آؤٹ کر گیا 

چہرے پر بلیک ماسک لگاتے ہوئے وہ بلیک سنیکرز کے لیسز باندھتے ہوئے گاڑی سے نکلا اسکا رخ سیدھا  سٹیشن بلڈنگ کی طرف تھا اسکی نیلی پرکشش آنکھیں آس پاس کا طائرانہ جائزہ لے رہی تھی سٹیشن بلڈنگ کی طرف جاتے ہوئے اسکے قدم ٹھہرے ۔۔

نہیں مسٹر رچرڈ وہاں پلین کریں گے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ہوں اور اسوقت سب سے زیادہ لوگ ۔۔۔

سوچتے ہوئے اسکی نظر ریلوے ٹریک پر کھڑی ریل گاڑی پر پڑی تھی جس میں کثیر تعداد میں لوگ بیٹھے  تھے 

ڈیم اٹ ۔۔۔ ڈیم اٹ ڈیم اٹ ۔۔۔ وہ کہتے ہوئے آگے بڑھا

سب ٹرین سے باہر نکلیں پلیززز ۔۔۔

مرجان دھاڑا تھا وہ یکدم چونکا تھا مرجان اور حرب پولیس کی بھاری نفری کیساتھ وہاں پہنچے تھے  سب لوگ چونکے تھے 

مرجان اور حرب باقی ٹیم کیساتھ سب لوگوں کو ٹرین سے نکالتے ہوئے انکی تلاشی لینے لگے تھے 

کوئی یکدم لوگوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ان کے بیچ و بیچ ایک بیگ پھینکتے ہوئے وہاں سے بھاگا تھا بیپس کی آواز نے لوگوں میں افراتفری مچائی تھی

بھائی اس میں بم ہے بھائی ۔۔۔

حرب نے مرجان کو بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دھاڑ کر کہا انسپیکٹر ہاشم اور انکی ٹیم اس آدمی کے پیچھے گئے تھے ۔۔۔

مرجان بیگ کی طرف بڑھا تھا اسنے بڑی احتیاط سے بیگ کی زپ کھولی تھی جس پر پانچ منٹ ہر سیکنڈ کیساتھ کم ہو رہے تھے 

حرب کال جنرل ہوئی نیڈ ایکسپلاسوز  آرڈیننس ڈسپوذل ٹیم ناؤ ۔۔۔ مرجان نے دھاڑ کر کہا

حرب نے جلدی سے فون نکالا اور کال ملا کر فون مرجان کی طرف بڑھایا لوگ بغیر ہوش کئے ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے وہاں سے نکل رہے تھے جبکہ آرمی کی ایک کثیر نفری انہیں وہاں سے سیفلی نکالنے کا کام کر رہی تھی ۔۔۔

مرجان بھائی یہ ٹائم بم ہے اسکی رینج بہت زیادہ ہے اسٹیشن کے قریب بہت سے دیہات ہیں  ۔۔۔ ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے

مرجان  ہاں میں سر ہلاتے ہوئے سکواڈ کو لینے کے لئے بڑھا تھا جو جنرل کے مطابق کسی بھی وقت پہنچنے والا تھا

حرب کے پاس اسوقت بہت سے ملیٹری آفیسر موجود تھے 

آئی کین ڈیفیوز اٹ ۔۔۔

سبھی نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا تھا اسنے چہرہ بلیک  ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا نیلی آنکھیں ۔۔ حرب نے شاید اسے پہچانا تھا 

مزاق کرنے کا وقت نہیں ہے لڑکے جاؤ یہاں سے ۔۔۔

ایک ملٹری نوجوان نے اسے وہاں سے ٹالنا چاہا

آئی ایم ناٹ کڈنگ ۔۔صرف ایک منٹ باقی ہے ۔۔۔ کھونے کے لئے کیا ہے آپکے پاس لیٹ می ٹرائے ؟! 

وہ سنجیدگی سے بولا ملیٹری آفیسر نے اسے سامنے آنے کا اشارہ کیا وہ چوٹا سا سیزر پینٹ کی پاکٹ سے نکالتے ہوئے ایک گھٹنا ٹکائے بیگ کے سامنے بیٹھا اور بیگ سے بم کو مہارت سے نکالا 

مرجان باقی ٹیم کے ساتھ ابھی وہاں پہنچا تھا سکواڈ ابھی تک نہیں پہنچا تھا مگر وہ سامنے کا منظر دیکھ کر چونکا تھا 

آدھا منٹ باقی تھا اور وہ سامنے سنجیدگی سے ان وائرز کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔  کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا سب مرنے کے لئے تیار تھے اسنے کچھ سوچتے ہوئے آنکھیں میچی تھی اور پھر انہیں کھولتے ہوئے مہارت سے ایک وائر کٹ کی تھی 

بیپس بند ہو چکی تھی ٹھیک پانچ سیکنڈ پہلے وہ ڈیفیوز کرنے میں کامیاب ہوا تھا ۔۔۔

Damn it man You did It you really Did It ...

ملیٹری آفیسر نے اسکا ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا تھا مرجان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا 

What's your name Boy ? 

جنرل کو ڈسپوذل کی اطلاع مل چکی تھی وہ ابھی وہاں آ پہنچے تھے اسکا ہاتھ مسرت سے تھامتے ہوئے وہ فخر سے اسے ہلاتے ہوئے بولے 

I'm Nobody Sir I'm Nobody 

وہ مسکراتا ہوا وہاں سے گزر گیا تھا باقی ٹیم انویسٹیگیشن پر مصروف ہوئی تھی کیونکہ وہ آدمی پکڑا جا چکا تھا 

Lucifer ...

بھاری گمبھیر آواز مغروانہ انداز ۔۔۔

وہ مرجان کے قریب سے گزرتا ہوا  بھاری سرگوشی کرتے ہوئے بولا مرجان کے وجود میں سردی کی لہر دوڑی تھی وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا وہ بلیک ہوڈ چہرے پر ڈالتے ہوئے اسے دو انگلیوں سے خدا حافظ کا اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا 

آخر کون ہے جو میری ہی آستین میں چھپا سانپ ہے کون ہے جو میرے ناک کے نیچے مجھ سے ہی غداری کر رہا ہے آخر کون ۔۔

مسٹر رچرڈ چیئر کو پیچھے دھکیل کر نیچے گراتے ہوئے اٹھ کر چنگھاڑے سب نے ایک دوسرے کو فق نظروں سے دیکھا کسی کے چہرے پر اطمینان نہیں تھا سوائے اس واحد شخص کے وہ انگلیوں میں پلاٹینم کا ایکسپینسیو پین گھماتے ہوئے سب کے فق چہروں کو طائرانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا کانفرنس ہال میں اسوقت  ہو کا عالم تھا کوئی بولنے کی ہمت نہیں کررہا رہا تھا لوسیفر نے اکتائی ہوئی نظروں سے سب کو دیکھا 

مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا ملیٹری انٹیلیجنس کی ٹیم وہاں صحیح وقت پر کیسے پہنچی ایسا ممکن ہی نہیں ہو سکتا ایسے لگتا ہے جیسے کوئی پہلے سے جانتا تھا وہاں کیا ہونے والا ہے 

مسٹر کپور نے خجل نظروں سے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے کہا انکے لہجے میں صاف ڈر تھا کیونکہ مسٹر رچرڈ کے مطابق انکی ٹیم کے سب لوگ یہاں موجود تھے اورانہی میں سے کوئی غدار تھا 

ویٹ کیا کہا تم نے ۔ 

مسٹر رچرڈ نے بات بیچ میں ٹوکی اور اسکے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ پھیلتی گئی 

گڈ پوائنٹ کپور لیکن سوچو اگر انہیں پتا تھا بلاسٹ سٹیشن ہر ہی ہونے والا ہے تو وہ وہاں سیکیورٹی سخت رکھتے اور اس بلاسٹ کو ناممکن بنانے ہی ہر ممکن کوشش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔۔۔  مسٹر رچرڈ نے چالاکی سے کہا سب نے اسکی بات پر متفق ہوکر سر ہلایا تھا لوسیفر نے لب بھینچے

اور جس طرح سننے میں آیا ہے کسی ان نان پرسنیلٹی نے ڈیفیوز کیا ناں کہ انکے سکواڈ نے کیا سوچتے ہو کیا اسٹیشن کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں مل سکتی ہے ؟!  اور یہ بات کلیئر ہے بلاسٹ سے کچھ وقت پہلے ہی انہیں اطلاع ملی 

مسٹر کپور نے آئی برو اچکائے 

تمھارا کیا خیال ہے لوسیفر ؟! 

وہ سوچوں کے دھاروں سے  نکلتے ہوئے مسٹر رچرڈ کو دیکھنے لگا جنہوں نے اسے مخاطب کیا تھا

تم مینیج کر لوگے مجھے آج ہی وہ فوٹیج چاہیے مائی بوائے ۔۔ 

ہممم فائن میں فوٹیج حاصل کر لوں گا لیکن اسکے بعد کیا ؟! 

لوسیفر نے سنجیدگی سے سب کے چہرے پڑھتے ہوئے کہا 

اس سے پہلے مرجان کاظمی کو اوپر پہنچانے کا انتظام کرو ہمارے ہر معاملے میں دخل دینے وہ کہیں سے بھی ٹپک پڑتا ہے اس راستے کے کانٹے کو ہٹا دیا جائے ۔۔۔ 

الہام درانی نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا لوسیفر نے سپاٹ نظروں سے الہام درانی کو دیکھا الہام درانی نے بھی اسے گھوری سی نوازا تھا مگر دوبارہ مسٹر رچرڈ کی طرف متوجہ ہوئے 

گڈ پوائنٹ درانی اس بزنس مین کو ٹھکانے لگانے کے لئے میرا شیر ہے ناں ۔۔

لوسیفر کے کندھے پر فخر سے ہاتھ رکھتے ہوئے مسٹر رچرڈ نے قہقہہ لگایا لوسیفر کے لب کچھ دیر کو پھیلے پھر دوبارہ سکڑ گئے 

ہاں لوسیفر پہلے مرجان کاظمی کو ٹھکانے لگاؤ فوٹیج کپور لے آئے گا ۔۔ الہام درانی نے جلدی سے کہا لوسیفر نے آئی برو اُٹھائے جیسے وہ کہنا چاہتا ہو میں تمھاری بات کیوں مانوں لیکن مسٹر رچرڈ نے بھی کچھ دیر بعد یہی کہا وہ سنجیدگی سے سر ہاں میں ہلا کر خاموش ہوا تھا ۔۔

                                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

آؤ تمھیں کینٹین دیکھاتے ہیں 

لیکچر جیسے ہی ختم ہوا حمنا جلدی سے عشیق کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اٹھتے بولی عشیق ناچاہتے ہوئے بھی اسکے ساتھ کھینچی چلی گئی کیونکہ وہ فرینڈلی ہونے کی کوشش کر رہی تھی اور عشیق بری نہیں بننا چاہتی تھی افشاں عشیق کا بیگ اٹھائے انکے پیچھے تیوری چڑھئے چل حمنا آج اسے کم ہی لفٹ دے رہی تھی

بتاؤ تم کیا کھاؤ گی آج کی ٹریٹ میری طرف سے آفٹر آل میں نے کل جو کیا یہ اسکے بدلے میں ایز آ سوری ۔ حمنا نے کینٹین میں پہنچ کر ایک چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود بھی بیٹھ گئی عشیق کے بہت انکار کے بعد بھی اسنے  افشاں کو سینڈوچ اور جوس لانے کو کہا افشاں فورآ ہی حمنا کا آرڈر لینے چلی گئی تھی وہ بیچاری اور کیا کرتی 

عشو میں تم سے ایک بات پوچھوں ۔۔۔

حمنا نے عشیق کو دیکھتے ہوئے پوچھا عشیق نے ٹیبل سے نئریں اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا پھر لب بھینچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا

وہ جو تمھیں کل لینے آیا تھا وہ کون تھا ؟! 

عشیق نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے حمنا کو دیکھا وہ خجل سی ہوئی پلکوں نے لرزش کی 

بولو ناں عشو کون ہے وہ ۔۔ 

حمنا نے اسکا ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا 

وہ ہمارے ۔۔۔ 

عشیق نے لب کاٹتے ہوئے نظریں جھکائی جب افشاں سینڈوچ کی پلیٹ انکے سامنے رکھ گئی افشاں نے عشیق کے گلابی پڑتے گالوں کو غور سے دیکھا اور ہنس پڑی حمنا نے اچٹتی نظروں سے اسے گھورا 

سورری سورری لیکن جس طرح عشو بلش کر رہی ہے ایسے لگ رہا ہے وہ اسکے اہمممم اہمممم ہیں ۔۔۔ افشاں اپنی کہی بات پر خود ہی ہنس پڑی عشیق ہلکی سی مسکرائی اور نظریں جھکا گئی حمنا نے ٹیبل کے نیچے مٹھی بھینچ ڈالی دانت پر دانت جما کر اسنے افشاں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو وہ اپنی ہنسی کا گلا گھونٹ گئی 

اچھا لو ناں کچھ کھا لو ۔۔۔ 

حمنا نے بات بدلتے ہوئے جوس کا گلاس اسکے قریب رکھتے کہا عشیق ناں چاہتے ہوئے بھی انکی کمپنی میں پھنس کر رہ گئی تھی 

                                                 🖤🖤🖤🖤🖤🖤

دروازے پر ناک کرتے ہوئے وہ رکا تھا اندر سے مسٹر رچرڈ مسٹر کپور اور الہام درانی کی آوازیں سنائی دے رہی تھی وہ دروازے پر ہی تھم گیا اور انکی باتیں غور و فکر میں لانے لگا 

ہاہاہا اسکا مطلب کپور وہ بات نہیں جانتا ؟!

الہام درانی کا قہقہ سنائی دیا ساتھ ہی مسٹر رچرڈ کی  طنزیہ منہ دبی ہنسی سنائی دی 

کونسی بات مجھے نہیں معلوم ؟! 

مسٹر کپور نے اچھنبے سے پوچھا 

یہی کہ لوسیفر مرجان کا سگا بھائی ہے ۔۔۔

اسے اپنے پیروں تلے سے زمین کھینچتی ہوئی محسوس ہوئی 

وہ دم سادھے مٹھی بھینچ گیا اور اپنے شل ہوتے دماغ کو کمپوز کرنے لگا کہ شاید اسنے غلط سنا ہو 

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟! 

مسٹر کپور نے حیرت و استعجاب سے پوچھا 

جانتے ہو سہیل سے ہماری کیا پرسنل دشمنی تھی وہ ملک کی حفاظت کرنے والوں کے تلوے چاٹنے والوں میں سے تھا سالا آرمی کے لئے خدمات انجام دے رہا تھا بلیک مافیاز بزنس برانچز کو ایکسپوز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کمینے نے میں نے اسے اچھے پیسے آفر کئے کہ اپنی سروسز سے پیچھے ہٹ جاؤ میں تمھیں دس گنا زیادہ منافع دوں گا لیککککککن نہیں نہیں نہیں وہ کہا غداری کر سکتا تھا اپنے ملک کیساتھ اس کا سب سے بڑا بیٹا جو دنیا کے مطابق جنم لیتے ہی مر گیا اسے تو میں نے اسپتال سے بدلوا دی تھا ہاہاہاہا اور اسے ڈاکٹرز نے مردہ بچہ دیکھا دیا ہارٹ بریکنگ چچچچچ اور اس سے بھی بڑی بات میں نے اسکے بیٹے کو کرمنل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی سب ایسے ظاہر کیا جیسے یہ سب اتفاق تھا لیکن دراصل وہ میرہ کسٹڈی میں تھا میں نے اسے وہ بنایا جو اسکا باپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر افسوس اسکا دوسرا بیٹا میرے لئے راستے کا کانٹا بن گیا لیکن نو ریگریٹس اب شاہ ویر ہی اپنے چھوٹے بھائی مرجان کاظمی کو ٹھکانے لگائے گا ۔۔۔۔ 

جبڑے بھینچے وہ طیش سے کانپ رہا تھا اسکی نیکی آنکھوں میں انگارے پھوٹنے کو تھے اسکا وجود گرم آتش فشاں بنتا جا رہا تھا پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکالتے ہوئے اسنے پسٹل ری لوڈ کی مگر کچھ سوچتے ہوئے اسے واپس پینٹ کی پاکٹ میں رکھ چکا تھا اسکی کہر برساتی آنکھوں میں وحشت ابھری تھی  تنے ہوئے اعصابوں کیساتھ اسنے بمشکل اپنے مظبوط وجود کو اس فارم ہاؤس سے باہر دھکیلا تھا اسکا سر پھٹ جانے کو تھا چہرہ طیش غم و الم سے سرخ پڑ رہا تھا اسے سکون کی تلاش تھی اور اسکا سکون وہ لڑکی تھی کار کا گیٹ سختی سے بند کرتے ہوئے اسنے تیز رفتار میں گاڑی کو اپنے اپارٹمنٹ کی طرف دوڑایا تھا 

🖤🖤

ندیم پتر کہاں تھا تو تو نے فون ہی نہیں اٹھایا میرا ۔۔۔

جیسے ہی اسنے فون کان سے لگایا اسکی ماں نے تشویش سے پوچھا

سوری اماں میں زرا مصروف ۔۔۔

آگ لگے تیری مصروفیات نو ۔۔۔ تینو اس بڈھی ماں دا وی خیال نئی ؟! 

ندیم نے دو انگلیوں سے پیشانی مسلی 

اچھا چھڈ ساریاں گلاں میں ناں تیرے لئے ایک سوہنی کڑی ۔۔

اماں پلیز ۔۔ ندیم نے کوفت سے جنگھاڑ کر کہا جیسے یہ اسکے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی 

پتر گل سن ۔۔۔

اماں میں بعد میں کال ۔۔۔

پیچھے سے آتی ژالے کو دیکھ کر اسنے اتنا کہہ کر کال کٹ کی اور فون وائٹ قمیض کی پاکٹ میں رکھا 

آپ مجھے ڈراپ کر دیں گے آج میرا پیپر ہے ۔۔۔

ژالے نے آئی برو اچکاتے پوچھا ندیم نے مینشن کی طرف دیکھا  جہاں کشمالہ بیگم کسی سے فون پر بات کر رہی تھی

ہاں ان سے اجازت لے لی ہے ۔۔۔ انہوں نے کہا چلی جاؤ 

ژالے نے اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے جلدی سے کہا وہ لب بھینچ کر کشادہ شانوں پر ڈالی بلیک شال کو درست کرتا ہوا کار کا بیک ڈور کھول چکا تھا ژالے نے منہ کا ایسا زاویہ بنایا جیسے کڑوا بادام کھا لیا ہو پھر منہ بسورتی ہوئی بیک سیٹ پر بیٹھی وہ بغیر ایک لفظ بولے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا گارڈ نے مینشن کا گیٹ کھولا تھا اور کار مینشن سے باہر نکل گئی تھی

                                                       🖤🖤🖤🖤🖤🖤

آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا موسم خاصا خراب تھا تیز ہوا چل رہی تھی اور تاروں سے بھرا آسمان بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا رات بہت کالی تھی اپنے کمرے میں  بیڈ پر بیٹھی وہ اپنا ہوم ورک کر رہی تھی جب گیٹ کھلنے کی آواز پر وہ چونکی اتنا لیٹ تو وہ گھر آتا ہی نہیں تھا اگر اسے دیر ہو جاتی وہ وہیں رک جاتا تھا مگر آج تک اتنی دیر سے نہیں آیا تھا عشیق کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوئی 

وہ بکس سمیٹ کر بیگ میں رکھتے ہوئے اٹھی جب ملازمہ دروازے پر ناک کرتے ہوئے اندر آئی

میم آپکو سر بلا رہے ہیں ۔۔۔ 

وہ ڈری سہمی بوکھلائی ہوئی آواز میں بولی عشیق نے اسکے زرد رنگ کو دیکھا وہ متواتر کانپ رہی تھی 

کیا ہوا آپکو؟! 

عشیق نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا 

میم سر بہت غصے میں ہیں آج تک انہیں اتنے غصے میں نہیں دیکھا آپ پلیززز خیال رکھئے گا  ۔۔۔ انکا غصہ بہت ۔۔۔

عشییییییییق ! 

گرجدار لہجے پر عشیق سمیت وہ ملازمہ دونوں کانپ اٹھی عشیق کے حلق پر گٹھلی  نمودار ہوئی اور غائب ہو گئی وہ مردہ قدموں کیساتھ کمرے سے باہر نکلی  اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اسکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے تھے فراک کا کنارہ مٹھی میں دبائے دروازے پر انگلی سے ناک کیا  آج تک عشیق نے اسے خود کا نام اتنی سختی سے لیتے ہوئے نہیں سنا تھا اس لئے وہ اپنی جگہ پریشان تھی وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی وہ اس وقت کس کرب سے گزر رہا تھا 

کم ان ۔۔۔

عشیق نے تھوک نگلی اسکی سرد مہری بھرے لہجے پر پھر نظریں فرش پر گاڑھے اندر داخل ہو گئی صوفے پر سر کو پیچھے گرائے وہ  آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا اسے دیکھنے کے لئے سر اٹھایا عشیق نے لب بھینچ کر نظریں ناچاہتے ہوئے اسکی جانب اٹھائی دونوں کی نظروں کا تکرار ہوا اسکی پرکشش نیلی آنکھوں میں آج سردپن تھا اور کچھ حد تک سرخی بھی جسے  نوٹس کرتے ہوئے اس معصوم کا  دل دھک کر رہ گیا

دروازہ بند کرو اور یہاں آؤ ۔۔۔

وہی سرد لہجہ عشیق نے سر کو ہاں میں ہلایا اور دروازہ بند کیا اسنے سپاٹ نظروں سے اسکی ڈریسنگ دیکھی وائٹ نائٹ سوٹ میں ڈھیلی شرٹ کے نیچے وائٹ کی ڈھیلا ٹروزر جس پر بھالو بنے ہوئے تھے لمبے بالوں کو کیچر میں کیچ کیا گیا تھا پاؤں میں سوفٹ سلیپنگ سلیپرز تھے عشیق مردہ قدموں کیساتھ چلتی ہوئی اسکے اشارے پر صوفے پر اسکے قریب بیٹھی وہ تھر تھر کانپ رہی تھی آج تک اسنے اس معصوم دل والی کیساتھ ایسا رویہ نہیں رکھا تھا  کمرے میں خاموشی چھا گئی 

آپ آپ کو  کک کیا ہوا ہے  شش شیری ۔۔

عشیق نے ڈرتے سمبھلتے بغیر اسکی طرف دیکھے پوچھا اسنے جواب نہیں دیا تھا بس اسکی گرین آنکھوں میں جھانکا جن میں بےحد خوف تھا

سچ میں بھروسہ کرتی ہو مجھ پر ؟

اسکے یوں اچانک سوال پر وہ گھبرا گئی گھنیری پلکوں کی جھالر کو اٹھاتے ہوئے اسنے اسکی سرد آنکھوں میں دیکھا اور بےاختیار سر کو ہاں میں ہلایا

اسکی اس عام سی حرکت نے بھی اسکا دل تیزی سے دھڑکایا اسے ایسے سکون آیا جیسے صدیوں سے سوکھی بنجر زمین پر بارش کی ہلکی پھوار پڑی ہو ۔۔

عشیق نے ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھا وہ اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے سینے سے لگا گیا عشیق کی دھڑکن تیز ہوئی کچھ دیر یونہی اسے سینے میں بھینچے سکون محسوس کرتا وہ آنکھیں بند کر گیا  

پھر اسے زرا سے پیچھے کرتے ہوئے اسکے چہرے کو قریب کیا

 ساتھ ہی وہ لرز گئی نیلی آنکھوں نے اسکے چہرے کے ایک ایک نقوش کا بےحد  قریب سے جائزہ لیا تھا  عشیق کے سوکھے لب تھرتھرائے  

آپ کو کک ۔۔کیا ہوا ہے آپ۔۔۔ہم۔۔۔ہمیں نہیں بب۔۔بتائیں گے ۔۔۔

آپ جان کر کیا کریں گی اینجل ۔۔۔

اسنے اسکے بالوں میں چہرہ چھپاتے ہوئے بھاری سرگوشی کی عشیق نے جھرجھری لی  وہ اسکی مہک اپنے پور پور میں انڈیل رہا تھا جیسے وہ اسکے سکون کی واحد وجہ ہو جیسے وہ اسکے جینے کی وجہ ہو 

آپ۔۔۔ آپ کو کمفرٹ کک۔۔۔کرنے کی کوششش ۔۔

عشیق نے ڈرتے ہوئے کہا جس پر اسنے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا عشیق نے دوسری جھرجھری لی 

آپکے بیسٹ فرینڈ کو کسی نے بہت ہرٹ کر دیا ہے اینجل آپ ہی بتائیں کیا کروں اب میں ۔۔ 

وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے اسکی پیشانی ہر ہونٹ رکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا عشیق نے لب بھینچے وہ لاجواب ہو گئی تھی اسکی بڑھتی شدتوں پر وہ آج پگھلنے کو تھی 

عشیق نے ڈرتے ہوئے اسکے چہرے کو اپنے مومی ہاتھوں میں لیا اسکا دل حلق میں  آ کر دھڑک رہا تھا جیسے سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا وہ کانپتے ہاتھوں کو اسکی ہلکی بیئرڈ پر رکھتے ہوئے اسکے چہرے کو چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسکی پیشانی پر تھرتھراتے ہونٹ رکھ گئی شاہ ویر کے دل نے ایک بیٹ مس کی 

ڈونٹ وری سب ٹھیک ہو جائے گا جب بابا پریشان ہوتے تھے ناں تو وہ بھی ہمارے پاس آتے تھے ہم انکو ہگ کرتے تھے تو وہ ٹھیک ہو جاتے تھے ۔۔۔

وہ معصومیت سے مسکراتے ہوئے بولی شاہ ویر کا دل پگھلتا چلا گیا اتنی معصوم کیوں تھی وہ کیسے تھی  ؟! 

عشیق نے مسکراتے ہوئے اسکی پیشانی پر بکھرے بالوں کو ٹھیک کیا وہ تو مسلسل اسکے معصوم نقوش حفظ کر رہا تھا کچھ دیر پہلے وہ کتنے غصے میں آیا تھا اور ایسے حالات میں وہ کمرے کی ایک ایک چیز توڑا کرتا تھا لیکن آج تو وہ کچھ منٹوں میں ہی نارمل ہونے لگا تھا 

عشیق کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسنے اپنی مظبوط انگلیاں اسکی باریک انگلیوں سے الجھائی عشیق نے اسکا خوبصورت مردانہ وجاہت سے بھرپور ہاتھ دیکھا اور پھر صوفے سے پشت لگاتے ہوئے آنکھیں موند گئی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسکے چھوٹے سے کندھے پر سر رکھا تھا عشیق ہلکی سی مسکرائی تھی اور کچھ ہی دیر میں نیند کی وادیوں میں چلی گئی شاہ ویر نے اسے صوفے سے اپنی مظبوط بازوں میں تھاما اور اسے بیڈ پر بےحد آرام سے سلایا تاکہ اسکی نیند میں خلل پیدا ناں ہو پھر اس پر بلینکٹ ڈالتے ہوئے اسکے قریب لیٹ گیا عشیق نے نیند میں کروٹ لیتے ہوئے اسکے کندھے پر سر رکھا تھا سکون کی ایک لہر اسکے پورے بےسکوں وجود میں دوڑ گئی اسکا سر نرمی سے کشن سے اٹھا کر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے وہ اسے سینے سے لگا کر کچھ ہی منٹوں میں سو چکا تھا ۔۔۔

                                                        🖤🖤🖤🖤🖤🖤

وقت اپنی پوری رفتار سے گزر رہا تھا آج بم بلاسٹ والے واقعے کو دس دن گزر گئے تھے نیوز پیپرز ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے تمام شوز میں صرف اس پراسرار شخص کا ذکر تھا جو اچانک سے کسی معجزے کی طرح آیا تھا اور  سب کو بچا کر کہیں غائب ہو گیا تھا ایک پوری ٹیم تشکیل دی گئی تھی اس کیس کی ڈیٹیل نکالنے کے لئے لیکن ریلوے اسٹیشن کی مین بلڈنگ سے مسٹر کپور نے وہ سی سی ٹی وی فوٹیج بڑی مکاری سے ہتھیا لی تھی یہ الہام درانی کے آفس کا منظر تھا وہ اپنے آفس میں بیٹھے ایل ای ڈی کی بلینک سکرین پر نظریں گاڑھے ہوئے تھے جب انکا سیکرٹری دروازے پر ناک کر کے انکی اجازت طلب کرنے کے بعد اندر داخل ہوا اسکے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا وہ الہام درانی کو تھمانے کے بعد وہاں سے جا چکا تھا الہام درانی نے لفافہ کھولا جس میں ایک فیلش ڈرائیو تھی جو یقیناً مسٹر کپور نے ہی انہیں بھیجی تھی جس میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی ساری ویڈیوز تھی وہ بھی جاننا چاہتے تھے آخر کون ہے جو ان کے ہر پلان کو خراب کر رہا ہے 

فلیش ڈرائیو کو لگا کر ایل سی ڈی کو آن کرتے ہوئے وہ فوٹیج چیک کرنے لگے ایک پل کے لئے وہ دنگ رہ گئے الہام درانی کی پیشانی پر شکنوں کا جال ابھرا  وہ جلدی سے ٹیبل پر پڑے فون کی طرف لپکے جب ایک مظبوط گرفت نے انکے ہاتھ کو بیچ میں ہی روکا تھا 

ناٹ سو فاسٹ مسٹر الہام درانی  

زہر کند لہجے میں کہتے ہوئے اسنے پاکٹ سے پسٹل نکال کر انکی پیشانی پر رکھ کر ٹریگر دبا دیا تھا پسٹل پر سپریسر کی وجہ سے گولی چلنے کی آواز نہیں آئی تھی الہام درانی ایک پل میں ساکت ہوئے تھے انکی مردہ آنکھوں نے اسکی نیلی وحشت سے بھرپور آنکھوں کو گھورا تھا 

کاش کہ تمھیں مجھے اب تک کئے گئے ہر برے کام کا کثیر تعداد میں صبر کیساتھ صلہ دیتا افسوس ہوا درانی بہت افسوس ہوا لیکن ملک کیساتھ غداری نہیں کرنے دوں گا میرے وطن کیساتھ نہیں تیرا پالتو کتا صدیقی مرا اسکے بعد وہ رائے اور اب تو الہام درانی پھرررر کپور اور  اور اور ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اچانک رکا تھا  الہام درانی کی طرف طنزیہ انداز میں دیکھا 

منور صاحب بھی تو ہیں ۔۔۔ 

وہ پسٹل کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے آفس میں ٹہلتے ہوئے سوچنے لگا 

درانی از ڈیڈ ۔۔۔سبھی لوگ کانفرنس کریں گے اور نیو لیڈر شپ کسے ملتی ہے وہ دیکھنا ہو گا کچھ دن تک کوئی کچھ نہیں کریگا سب مجھے ڈھونڈیں گے میرے پاس ٹائم ہے ۔۔۔

اسکے فون کی رنگ ٹون بجی سکرین کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے وہ بولا

ہیلو سر مبارک ہو آپکا الہام درانی مر چکا ہے 

فون کی دوسری طرف سے جنرل کی غصے  سے بھرپور آواز سنائی دی تھی 

شاہ ویر یہ تم نے کیا کیا ؟! 

کیا لڑکی ہے یاررر ۔

چلتے ہوئے اسکے قدم خود بخود ٹھہرے کندھے پر تھامے بیگ پر گرفت سخت ہوئی تھی ساتھ ہی ایک نفرت بھری نظر سامنے سٹیئرز پر بیٹھے تین لڑکوں پر پڑی تھی جو شکل سے ہی لوفرز لگ رہے تھے 

ارےیہ تو رک گئی کیوں بیوٹی آنکھیں کیوں دیکھا رہی ہو پرنسپل سے کمپلینٹ کرو گی  ؟ ایک پست قامت لڑکا بیچ سے اٹھتے ہوئے اسکے سامنے کھڑا ہوتے ہوئے طنز و مزاح سے اسے گھورتے بولا 

عشیق نے سرسری نظر سے پیچھے دو لڑکوں کو دیکھا جنہوں نے بےساختہ اسکی بات پر ایسے قہقہ لگایا تھا جیسے کوئی بہت ہی فنی بات سن لی ہو اور اب ہنسی روکنا مشکل ہو رہا ہو 

افف یہ سبز آنکھیں یہ تو مار ہی ڈالیں گی مجھے  ۔

وہ لڑکا دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر کمینگی سے بولا عشیق نے لب بھینچتے ہوئے برداشت کرنے کی کوشش کی تھی حمنا اور افشاں کچھ فاصلے پر ہی رکی تھی اس سے وہ جانتی تھی یہ کالج کے سب سے نکمے اور آوارہ لڑکوں کا گروپ تھا 

ہائے یہ تو دیوانہ ہو گیا ہاہاہا ۔ پیچھے بیٹھے لڑکوں نے بآواز میں کہتے ہوئے قہقہ لگایا 

گرل فرینڈ بنو گی بہت عیش کرواؤں ۔۔

چٹاخ ۔۔۔

پیچھے بیٹھے دونوں لڑکے غم و غصے سے فورآ اٹھے تھے انکے چہرے پر حیرانی تھی وہ لڑکا گال پر ہاتھ رکھے اسے حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا انکے آس پاس کافی سٹوڈینٹس جمع ہوئے تھے 

خبردار جو آئندہ کسی بھی لڑکی کیساتھ اس طرح پیش آئے تو یہ تھپڑ ضرور یاد کر لینا اور کمپلیٹ نہیں کروں گی تمھاری آخری چانس سمجھ لو ۔۔۔ وہ انگلی اٹھاتے ہوئے سختی سے گویا ہوئی 

اس بار تو  صرف تھپڑ مارا ہے اگلی بار ایسی حرکت کرنے کی کوشش بھی کی تو جوتی اتار کر تمھارا منہ لال کر دوں گی اپنے گھر کی تربیت یہاں دیکھانے کی کوشش مت کرو یہ تھپڑ اگر تم جیسوں کو بچپن میں پڑ جاتے تو شاید آج ضرورت ناں پڑتی ۔

وہ چھوٹی سی لڑکی سب کو حیران و سرگردان چھوڑ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی افشاں اور حمنا اسکے پیچھے چل دی تھی ان لڑکوں نے بےعزت نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا آج پورے کالج میں انکی عزت افزائی جو ہوئی تھی 

                                                            🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

بس بھی کرو ۔

شان نے اکتا کر سر پکڑتے ہوئے کہا تھا وہ مرر میں لپ اسٹک کو اور ڈرک کرتے ہوئے ہونٹ پر ہونٹ رگڑتی ہوئی پیچھے مڑی تھی 

یار تمھیں کیا ملتا ہے اتنا میک اپ تھوپ کر  ۔

شان نے اسکا میک اپ سے بھرا چہرہ دیکھ کر تپ کر کہا وہ ہمیشہ ہی اتنا ڈارک میک اپ کرتی تھی آج اسنے تنگ آ کر بول دیا تھا 

آج مرجان سے ملنے جا رہی ہوں بہت ٹائم بعد اس لئے ٹھیک سے تیار ہوئی ہوں ۔ وہ پرس میں لپ اسٹک رکھتے ہوئے آنکھ ونک کر کے بولی شان نے آنکھیں گھمائی تھی 

تمھیں سمجھ نہیں آتا یار وہ شادی شدہ ہیں ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ گئی ہو ۔

شان نے اٹھتے ہوئے سچی بات کی جس پر تعبیر نے ایسے منہ بنایا جیسے کڑوا بادام چبا گئی ہو 

اب چلو خدا کے لئے میرا سر کھانے مت بیٹھ جانا ۔

شان نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تعبیر پرس اٹھاتی ہوئی ایک ادا سے اسکے سامنے بال لہراتی ہوئی گزر گئی شان نے اکتا کر آنکھیں گھمائی تھی دونوں ریسٹورنٹ سے نکلے تھے بغیر یہ غور کئے کہ کچھ فاصلے پر کوئی انہیں غور سے دیکھ رہا تھا 

منور صاحب نے فون کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے ڈرائیور کو انکی کار کے پیچھے چلنے کا آرڈر دیا تھا اور گروپ میل چیک کرنے لگے جب گروپ میں الہام درانی کی موت کی خبر نظر آئی تھی  گروپ میں ارجینٹ میٹنگ کا میل بھی پوسٹ کیا گیا تھا جس میں سبھی کو شرکت کرنے کا سختی سے کہا گیا تھا 

مرجان الہام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا تھا اور جہاں تک کپور کا کہنا تھا اسنے وہ فوٹیج الہام کو بھیجی تھی کیا الہام کی موت کی وجہ وہ ویڈیو ہے کیا مرجان کو اسکے آفس میں جانے کا پاس مل سکتا ہے یقیناً نہیں وہ ایسی بےوقوفی کبھی نہیں کریگا پھر کس نے مارا کہیں رچرڈ صحیح تو نہیں تھا ہمارا ہی کوئی آدمی ان کیساتھ کام کر رہا ہے یقیناً ڈبل پارٹی کر رہا ہے اور وہ کون ہے یہ جاننا ہو گا ۔۔۔

دو انگلیوں کو پیشانی پر رکھتے وہ سر جھکائے سوچ رہے تھے جب کار کو بریکس لگے کچھ ہی فاصلے پر شان اور تعبیر مرجان کیساتھ نظر آئے منور صاحب کی حیرت کی انتہا ناں رہی جب انہوں نے مرجان اور شان کو گلے ملتے دیکھا تھا 

میرے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ کر لیا مرجان اس شے کی قیمت تمھیں ادا کرنی ہو گی پہلے میری پراپرٹی ہتھیائی تمھارے باپ نے پھر تم نے اور اب میرا بیٹا ۔۔ نہیں تمھیں ایسا نہیں کرنے دوں گا ۔۔۔

ڈرائیور یہاں سے لیفٹ لو ۔۔

وہ ڈرائیور کو الہام درانی کے آفس کا راستہ بتاتے ہوئے جلدی سے وہاں سے نکل گئے تھے آفس پہنچ کر وہ سیل ایریا کی طرف بڑھے اسوقت پولیس وہاں سے جا چکی تھی وہ چلتے ہوئے آفس میں داخل ہوئے فرش پر جگہ جگہ خون کے چھینٹے تھے اور آفس میں خون کی بدبو بھی پھیلی ہوئی تھی منور صاحب ناک کو ماسک سے ڈھانپ کر آس پاس دیکھ رہے تھے جب انکی نظر نیچے ٹیبل کے نیچے گرے فون پر پڑی جس کی سکرین ابھی تک روشن تھی انہوں نے جھک کر فون اٹھایا جس پر پچھلے کچھ گھنٹوں سے ریکاڈنگ لگی ہوئی تھی انہوں نے جلدی سے فون کو رومال کیساتھ اٹھایا اور ریکارڈنگ سیو کر کے اسے شروع سے سنا ۔۔۔

ناٹ سو فاسٹ مسٹر الہام درانی۔۔۔

 کاش کہ تمھیں مجھے اب تک کئے گئے ہر برے کام کا کثیر تعداد میں صبر کیساتھ صلہ دیتا افسوس ہوا درانی بہت افسوس ہوا لیکن ملک کیساتھ غداری نہیں کرنے دوں گا میرے وطن کیساتھ نہیں تیرا پالتو کتا صدیقی مرا اسکے بعد وہ رائے اور اب تو الہام درانی پھرررر کپور اور  اور اور ۔۔۔

منور صاحب بھی تو ہیں ۔۔۔ 

اپنا نام سن کر جیسے منور صاحب کو ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے وہ رومال کو چہرے پر رگڑتے آس پاس دیکھتے لمبے سانس لیتے ہوئے آفس سے باہر تیز قدموں کیساتھ بھاگے تھے  انکا رخ مسٹر رچرڈ کے سیگریٹ رہائش گاہ کی جانب تھا 

                                                       🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

مرجان سنجیدگی سے کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اسنے کار سٹارٹ کی اور آفس کی جانب موڑ دی اسکا دماغ شل ہونے کو تھا وہ اس بات سے انجان تھا کہ الہام درانی کو کس نے مارا تھا اوہ وہ بھی اسکے آفس میں گھس کر اسکی سوجھ بوجھ ختم ہونے کو تھی وہ ناں گھر کو وقت دے پا رہا تھا اور ناں ہی وہ کام میں دھیان لگا پا رہا تھا صدیقی صاحب کا مرڈر کیس پوری طرح کلوز ہو چکا تھا اور اسنے خود ہی بند کروایا تھا کیونکہ وہ اس بات تک پہنچ چکا تھا کہ صدیقی صاحب واقعی ان مافیاز کیساتھ کام کر رہے تھے اور اسے دھوکا دے رہے تھے ہاں لیکن اسنے عشیق کی تلاش جاری رکھی تھی یہ سوچ کر کہ شاید اسے کوئی سراغ مل جائے جس سے یہ کڑیاں جڑ جائیں مگر ابھی تک اسے عشیق کا کچھ پتا نہیں چلا تھا گاڑی سنسان سڑک پر دوڑ رہی تھی ہوا میں خنکی تھی سورج بادلوں میں چھپا تھا اسکی کار کے ٹھیک سامنے  ایک بلیک ایلفا رومیو کی ایکسپینسیو لکژری کار رکی تھی  اگر وہ فورآ سے بریکس  ناں لگاتا تو ایکسیڈینٹ ہو چکا ہوتا 

وہ تن فن کرتے ہوئے کار سے نیچے اترا پیشانی پر ڈھیروں بل پڑے 

آر یو بلائنڈ نظر نہیں آتا ؟! 

وہ سختی سے بولا جب کار کا فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھلا اور وہ باہر نکلا آج اسنے اپنی پرکشش شخصیت کو نہیں چھپایا تھا گرے تھری پیس سوٹ میں وہ سحرانگیز لگ رہا تھا مرجان بھی کہاں حسن میں کم تھا مگر اسے دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوا تھا آج پہلی بار وہ اسے حقیقت میں مل رہا تھا 

مسٹر شاہ ویر حیدر شیرازی ۔۔

وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے بولا شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا

 بتا سکتے ہو اس طرح بیچ سڑک میں میرا راستہ روک کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو تم ؟ 

شاہ ویر کی پیشانی پر ایک بل پڑا  وہ چند قدم چلتے ہوئے اسکے سامنے آیا اور اسکا کوٹ درست کرتے ہوئے ایک مبہم سی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی 

عمر میں بڑا ہوں آپ سے مسٹر مرجان کاظمی عزت کرنا سیکھیں ۔۔ 

وہ ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مغرور لہجے میں بولا مگر یہی مرجان کا پارا ہائی کرنے کے لئے کافی تھا وہ آگے بڑھتے ہوئے اسکی شرٹ کا گریبان پکڑ چکا تھا شاہ ویر نے بھی اسکی شرٹ کا گریبان پکڑا تھا 

کیا چاہتا ہے تو بتا کون ہے سب نظر آ رہا ہے پیچھا کر رہا ہے میرا ؟! ایک منٹ تو ان مافیاز کیساتھ کام کر رہا ہے بوول ۔۔ بوول ورنہ زندہ گاڑھ دوں گا یہیں۔۔

اسے گریباں سے پکڑ کے کھینچتے ہوئے مرجان نے جبڑے بھینچ کر کہا شاہ ویر کی آنکھوں میں وحشت ابھری وہ اسے دور دھکا دیتے ہوئے اسکا سر پکڑ کر کار کے ہوڈ سے لگا گیا 

اگر میرا تجھ سے واسطہ ناں ہوتا تو تیرے ٹکڑے کر دیتا میں میری برداشت سے باہر ہے تو بھی ۔۔ 

وہ اسکا سر پکڑتے ہوئے اپنے چہرے کے سامنے رکھتے ہوئے کاٹدار لہجے میں بولا مرجان نے جبڑے بھینچ کر اسے دیکھا وہ ایک پل میں اسے ایک جانب دھکا دیتے ہوئے پیچھے ہٹا تبھی سنسان سڑک پر  گولی چلنے کی آواز گونجی وہ ایک درد بھری آہ کیساتھ پیچھے ہوا اسکی دائیں ٹانگ پر گولی لگی تھی مرجان نے حیرت سے اسے دیکھا وہ پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکالتے ہوئے اسکی طرف اچھال گیا اور دوسرا پسٹل خود ری لوڈ کر چکا تھا مرجان نے پسٹل ری لوڈ کرتے ہوئے اسے بےیقینی سے گھورا تھا 

مجھے مارنے کی سوچنا بھی مت ساری گولیاں تمھارے دماغ میں ڈال دوں گا ۔۔۔ 

اسے خود کو گھورتے ہوئے دیکھ کر وہ ڈانت پیستے بولا مرجان نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سامنے گاڑی سے اترتے کچھ آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے ماسک سے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا پاکٹ سے رومال نکال کر ٹانگ پر باندھتے ہوئے وہ کار کی دوسری جانب سے ان پر گولیاں چلانے میں مصروف ہوا مرجان نے بھی اسکا بھرپور ساتھ دیا تھا 

انہیں ٹھکانے لگا کر وہ پسٹل ساتھ بہتی ندی میں ڈالتے ہوئے نیچے گھاس پر بیٹھا اسکی ٹانگ سے مسلسل خون بہہ رہا تھا مرجان نے پسٹل اسکے قریب پھینکا شاہ ویر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی 

کیوں بچایا مجھے تم نے ۔۔

مرجان کا غرور ابھی تک نہیں گیا تھا 

پچھتا رہا ہوں ۔

شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا مرجان کی پیشانی پر بل پڑے لیکن پھر وہ کچھ سوچ کر انہیں پیشانی سے ہٹا گیا اور تیزی سےگاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی سے فرسٹ سیڈ بکس اٹھا لایا 

مجھے تمھاری مدد نہیں چاہیے ۔۔۔

شاہ ویر نے اٹھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا مرجان نے بھی اسکے پاس  نیچے فرسٹ ایڈ بکس گرایا جس پر شاہ ویر کے لب پہ مسکراہٹ پھیلی آخر وہ بھی اسکا بھائی تھا غرور تو اس میں بھی تھا 

کر لینا خود اور آئندہ میرے سامنے بھی آئے تو مار ڈالوں گا اور ایک بار بھی نہیں پوچھوں گا کون ہو۔۔۔۔

مرجان نے اسے گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ سرد آہ بھر کر رہ گیا 

مرجان کار میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گیا تھا شاہ ویر نے بینڈیج کی اور فون پر کسی کو کال ملائی اور وہاں سے اپنی موجودگی کے سارے ثبت مٹاتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا کچھ ہی دیر بعد تیز بارش شروع ہو چکی تھی اور سڑک کو انکی گاڑیوں کے پرنٹس سے  ناآشنا کر گئی تھی 

                                                       🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

کمرے کا دروازہ دھیرے سے بند کر کے وہ اندر آئی پیشانی پر ہاتھ کی پشت لگائے وہ شائد نیند میں تھا مگر اسکی موجودگی محسوس کرتے ہوئے آنکھیں کھول کر اسکی جانب دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا 

بلیک سمپل شلوار قمیض جس پر شیشوں کا کام کیا گیا تھا سر پر بلیک شیشوں والی چادر لئے اسکی نظریں خود پر محسوس کرتی اسے ہی دیکھ رہی تھی 

حرب نے سنجیدگی سے نظروں کا زاویہ بدلا زنیرا نے بیگ صوفے پر رکھا اور دوپٹہ سر پرلیا حرب دیکھتا رہ گیا وہ ماڈرن لڑکی ناجانے کہاں گم گئی تھی یہ تو کوئی اور ہی تھی 

آپ کو کچھ چاہیے ۔۔۔

مسلسل اسے خود کو تکتا دیکھ کر وہ گلا کھنکار کر بولی

آپ نے ایسی ڈریسنگ کیوں کی ہے ۔۔۔

حرب نے سنجیدگی سے پوچھا زنیرا نے ایک نظر خود کو دیکھا جیسے دیکھ رہی ہو کیا میں بری لگ رہی ہوں ؟ 

اب ہم ایسی ہی ڈریسنگ کریں گے ۔۔۔

وہ نرمی سے بولی حرب نے ہممم کہا اور ایک بار پھر اسکی جانب دیکھا وہ بیچارا نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا اس پر سے ۔۔۔

اگر ہم ٹھیک ٹھاک لگ رہے ہیں تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں ہمیں ۔۔۔

وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی حرب نے کھنکار کر گلہ درست کیا اور فورآ اٹھ جر کمرے سے نکل گیا زنیرا نے مسکراہٹ دبائی تھی 

آپ ٹھیک ٹھاک سے کافی ٹھیک لگ رہی ہیں ۔۔۔

وہ جاتے جاتے بولا تھا زنیرا نے چونک کر اسکی طرف دیکھا جو یہ کہہ کر ہی ہوا ہو گیا تھا اور پھر مسکرائی تھی

🖤🖤🖤🖤

                                                     🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

گیلے بالوں میں برش پھیرتی ہوئی وہ نیند میں ڈوبتی جا رہی تھی ناجانے کیوں اسے اتنی نیند آ رہی تھی وہ مظبوط قدم اٹھاتے ہوئے اندر داخل ہوا تھا عشیق نے آنکھوں کو جھپک کر اسے دیکھا وہ کچھ لنگڑا کر چل رہا تھا 

آپ کو کیا ہوا ؟! 

وہ برش مرر کے سامنے رکھ کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتی ہوئی اسکے قریب بیٹھتی بولی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھا جن میں بےحد تھکان تھی  عشیق نے دوبارہ نیند سے آنکھیں جھپکی ویر نے اسے دوبارہ دیکھا 

سورری ہم آپکا ویٹ کر رہے تھے ہمیں بہت نیند آ رہی ہے ہم سو سکتے ہیں ؟! 

اسے بےبسی سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جبکہ اسکے سوال پر وہ مبہم سا مسکرایا

آپ میرا ویٹ کر رہی تھی کس لئے ؟! 

اسکے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے اسنے مسکرا کر پوچھنا چاہا اسکے ٹھنڈے لمس پر وہ جھجھری لیکر رہ گئی 

آپ کے پاس سونا ہے ہمیں اکیلے نیند نہیں آتی ۔۔

وہ خفگی سے بولی جس پر اسنے مسکراتے ہوئے اپنی مظبوط بازوںکو اسکے لئے کھولا تھا وہ مسکراتی ہوئی اسکے سینے سے لگ گئی تھی پورے دن کی تھکاوٹ ایک پل میں دور ہو گئی تھی ویر کی ۔۔۔ 

عشیق ۔۔۔

ہممممم ۔۔۔

وہ نیند میں بڑبڑائی تھی اسکی آنکھیں بند ہو چکی تھی 

اگر میں کہوں کہ میں نے آپ سے کچھ چھپایا ہے تو کیا آپ ناراض یوں گی ؟! 

عشیق نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا اسکی نظروں میں ایک ٹہراؤ سا تھا اور وہ بےصبری سے اسکا جواب کا منتظر تھا 

تو ہم آپ سے خفا ہو جائیں گے اور آپ سے دور چلے جائیں گے ۔۔

عشیق نے تو مزاق میں کہہ ڈالا تھا مگر اگلے ہی پل وہ شدت سے اسکا بازو پکڑتے ہوئے اسکی گردن میں ہاتھ ڈالے اسے اپنی جانب کھینچ گیا تھا عشیق کی آنکھیں خوف و حیرانی سے پھیلی تھی اسکا چہرہ اس سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور اسکی گرم سانسیں اسکے سرخ گالوں کو جھلسا رہی تھی 

اگر آپ نے دوبارہ چھوڑ کر جانے کی بات کی تو جان سے مار دوں گا سمجھی ۔۔

اسنے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا آنکھوں میں ایک جنون سا نظر آیا عشیق کی گردن پر گٹھلی نمودار ہو کر منجمد ہوئی اسنے تھراتی پلکوں کی جھالر کو اٹھا کر اسکی آنکھوں میں جھانکا جن میں ایک ہی پل میں ایک جنونی شخص جھلکا 

ہم ۔۔ ہم نے مزاق کیا تھا ہمیں لگا آپ بھی مزاق ۔۔

مزاق میں بھی نہیں دور جانے کا بالکل مت کہنا ۔۔۔

سرد آہ ہوا کے سپرد کرتے ہوئے وہ اسکے نازک کندھے پر سر رکھتے ہوئے خفا لہجے میں بولا 

کیووں ؟! 

عشیق نے گھبراتے ہوئے پوچھا تھا اسکا دل بار بار اس سے محبت کا اظہار سننا چاہتا تھا جیسے ۔۔۔

کیونکہ شاہ ویر حیدر شیرازی کو عشیق سے بےحد محبت ہے اور یہ محبت ہر بڑھتے دن کیساتھ بڑھتی جا رہی ہے آپ سے دور جانے کا تصور بھی میری روح تک کانپنے پر مجبور کر دیتا ہے میری آج تک کوئی کمزوری نہیں رہی مگر اب ۔۔۔اب میں آپکے عشق میں گرفتار ہو چکا ہوں ۔۔۔

اسنے گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اسکے بالوں پر شدت سے لب رکھے تھے  

اسیر ہو چکا ہوں آپکا ۔۔۔

اسنے بھاری سرگوشی کی تھی عشیق کے وجود میں سردی کی لہر دوڑی وہ گھبراتے ہوئے محض ہاں میں سر ہلا گئی تھی اسکا دل اسوقت شدت سے دھڑک رہا تھا 

گڈ گرل ۔۔۔ 

اسکی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے وہ اسے سینے سے لگا کر بولا عشیق نے مسکراتے ہوئے آنکھیں موندی تھی ۔۔۔

آہہہہہہ۔۔

وہ گارڈن کی طرف جا رہی تھی جب ایک کمرے سے دردناک چیخ سنائی دی اسنے مڑ کر اس جانب دیکھا جہاں سے چیخ سنائی دی تھی کمرے کا دروازہ بند تھا طرح طرح کے خیال اسکے ذہن میں گردش کرنے لگے اور پھر وہ ان سب کو جھٹکتی ہوئی آگے بڑھ گئی 

آہہہہہہہہ!!

وہی چیخ اب کی بار اور بھی زیادہ دردناک تھی اسکے قدم چلنے سے انکاری ہوئے اسنے دوبارہ اس دروازے کو دیکھا تھا شاہ ویر کے مطابق وہ سٹور روم تھا جس میں پرانا سامان پڑا ہوا تھا اور اندر صفائی ناں ہونے کی وجہ سے اسے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی 

یہ ہمارا وہم نہیں ہے اندر سچ میں کوئی ہے اور چیخ رہا ہے ۔۔

وہ دوپٹہ کا پلو مٹھی میں مروڑتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی اور دروازے پر ہاتھ سے تھوڑا سا دباؤ ڈالا بدقسمتی سے دروازہ  جلدی میں کھلا ہی چھوڑ دیا گیا تھا 

وہ سہمی ہوئی اندر قدم بڑھا چکی تھی اندر گھپ اندھیرا تھا کچھ بھی نہر آنے سے قاصر تھا اسکا پیر کسی چیز پر پڑا تھا 

سس۔۔۔سر پلیز مت ماریں خدا کے لئے مم۔۔۔مت ماریں 

کسی کی درد بھری آواز میں پکار پر وہ خوف سے اچھلی وہ منہ پر سختی سے ہاتھ دیکر چیخنے سے خود کو روکتے ہوئے پیچھے ہٹی شاید اسنے اندھیرے میں کسی کے ہاتھ پر پیر رکھا تھا 

کک ۔۔۔کون ہے وہاں ۔۔۔

لرزتی ہوئی آواز میں پوچھتے ہوئے وہ دو قدم پیچھے ہٹی جبکہ اب کمرے میں مکمل سناٹا تھا ۔۔۔

پلیززز ۔۔۔ پلیز ہمیں بچا لو وہ ہم سب کو مار ڈالے گا ۔۔

اندھیرے میں کمرے کے کونے سے ایک پرچھائی اسکی طرف دوڑی وہ چیختے ہوئے پیچھے ہٹی 

وہ ہم سب کو مار دے گا وہ تمھیں بھی مار دے گا تم اسکے دشمن کی بیٹی ہو وہ تمھیں بھی مار ڈالے گا جیسے اسنے تمھارے باپ کو مروایا ۔۔۔

عشیق کے قدم ٹھہرے اسنے بےیقینی سے سامنے دیکھا جہاں اب دو پرچھائیاں نظر آ رہی تھی اسنے کانپتے ہوئے ہاتھ کیساتھ موبائل کی فلیش آن کی تھی سامنے کا منظر اسکا دل دہلا دینے کے لئے کافی تھا وہ انہیں صحیح سے پہچان بھی ناں پاتی شاید کیونکہ وہ خون میں لت پت تھے مگر وہ انہیں بھلا بھی نہیں سکتی تھی یہی تو تھے اسکے باپ کے قاتل ۔۔۔

تت۔۔۔تم ۔۔۔ تم 

اسے اپنے حلق میں کانٹے اگتے ہوئے محسوس ہوئے بولنے سے وہ قاصر ہو چکی تھی دماغ میں ہزاروں سوال ابھرتے چلے گئے وہ لوگ یہاں کیا کر رہے تھے اور اس حالت میں کیا شاہ ویر نے ہی انہیں سزا دی تھی اگر ہاں تو اسنے اسے بتایا کیوں نہیں تھا اور کل رات شاہ ویر کونسے سچ کو چھپانے کی بات کر رہا تھا کیا چھپا رہا تھا وہ ہم سے کیا یہی سب اگر ہاں تو کیوں ۔۔۔ 

ہمیں بچا لو ہمیں آرڈر دیا گیا تھا صدیقی کو مارنے کے لئے ہم نے اپنی مرضی سے ایسا کچھ نہیں کیا ۔۔۔

عشیق نے لرزتے ہوئے لبوں کیساتھ کچھ کہنا چاہا مگر آواز اسکے حلق میں ہی دم توڑ گئی 

کس نے ہمارے بابا کو مروایا بتاؤ بتاؤ ہمیں ۔۔۔ 

وہ نیچے جھکتی چیخی دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ان میں سے پہلے آدمی نے سر کو ناں میں ہلایا تھا 

وہ ہمیں مار ڈالے گا اگر ہم نے سچ بتایا ۔۔۔

بتاؤ ہمیں کس نے مارا ہمارے بابا کو اور کیوں ورنہ ہم ۔۔۔

وہ پیچھے کو لپکی اور پیچھے سٹول پر پڑی پسٹل اٹھائی دونوں آدمیوں کے چہرے پر خوف کے سائے لہرائے تھے وہ اٹھ کر بھاگنے کی حالت میں نہیں تھے ورنہ وہ تب بھاگ نکلتے جب دروازہ کھلا تھا مگر وہ بھاگتے بھی تو کہاں پورے اپارٹ میں بھاری نفری میں سیکیورٹی تھی 

پپ۔۔پسٹل رکھو میں میں بتاتا ہوں ۔۔۔

دوسرا آدمی  گڑبڑاتے ہوئے بولا جبکہ پہلے آدمی نے اب اسے نہیں ٹوکا تھا عشیق بےچینی سے کبھی پہلے آدمی کو دیکھتی تو کبھی دوسرے کو وہ آج اپنے والد کے قاتلوں کے کتنے قریب تھی وہ سچ کے کتںے قریب تھی وہ سب جان لینا چاہتی تھی 

پہلے آدمی نے ڈرتے ہوئے خوفزدہ نظروں سے دروازے کو دیکھا اور پھر دھیرے دھیرے سب بتانا شروع کیا عشیق کی آنکھوں کے سامنے سب فلم کی طرح چلنے لگا کیسے اسکے بابا کو اسکی آنکھوں کے سامنے مارا گیا کیسے اسکے اپنے اسکی آنکھوں کے سامنے رو رہے تھے تڑپ رہے تھے اسکی آنکھیں آنسوں سے بھرتی چلی گئی وہ دردناک لمحے اسکے دل کو چیر دینے والے لمحات تھے 

وہ صدمے سے اٹھی اسکی آنکھوں کی ساری چمک ایک پل میں غائب ہوئی تھی اسکے چہرے کی ساری رونق اڑ گئی تھی 

اس نے ہمیں کیوں نہیں مارا  ۔۔۔

اسکے سوکھے لبوں سے رونق سے قاصر آواز خطا ہوئی دونوں آدمیوں نے خاموشی سے ایک دوسرے کو گھورا تھا مگر وہ اس بات کا جواب جانتی تھی وہ اسے بچا لایا تھا کیونکہ وہ اسے پیار کرتا تھا وہ تو اس سے عشق کرتا تھا 

ایک مرجھائی ہوئی درد سے بھرپور مسکراہٹ نے اسکے خشک لبوں کا احاطہ کیا اور وہ ہنسی دونوں آدمیوں نے اسے پاگل تصور کیا تھا جس صدمہ برداشت ناں کرتے ہوئے دماغ سے عاری ہو گئی تھی اسے اپنا وجود بےحد بھاری محسوس ہو رہا تھا اسکے پیروں نے کھڑے رہنے سے انکار کیا تھا وہ لڑکھڑاتی ہوئی پیچھے ہٹی فون اور پسٹل اسکے ہاتھ سے گر چکا تھا وہ بےجان چال چلتی ہوئی کمرے سے نکل گئی اگر کوئی اسے اس حال میں دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا کہ یہ لڑکی پاگل ہو چکی ہے رونے کی وجہ سے آنکھوں سے کاجل پھیل گیا تھا سبز آنکھوں میں سرخ رنگ کے ڈورے پر گئے تھے وہ حوش و حواس سے بیگانہ اپنے کمرے کی طرف آئی اور دروازے کو اندر سے لاک کیا اور گھٹنوں پر گرتی چلی گئی  اسکا ریشمی دوپٹہ کندھے سے سرک کر نیچے گرا تھا اسے کسی شے کا حوش نہیں تھا شدتِ گریہ سے سرخ آنکھیں بند کرتے ہوئے اسنے اپنے بالوں کو جکڑا تھا

کیووووووووں شاہ ویر حیدر  کیوووووں !!

اسکی دردناک چیخ نے کمرے کی ایک ایک شے کو اداس کیا تھا کبھی اس کمرے میں اسکی کھلکھلاہٹیں گونجتی تھی 

کیوں کیا تم نے ایسا میرے ساتھ ۔۔۔ آخر کیوں سب چھین لیا مجھ سے سب میرے بابااااااا ۔۔۔۔ 

وہ بالوں کو سختی سے مٹھی میں جکڑتے ہوئے چیخی

ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا یہاں تک کہ اسکا پورا وجود لرز اٹھا تھا  شدید غصے اور تکلیف کی وجہ سے اسے اپنا ذہن ماؤف ہوتا محسوس ہوا آس پاس کا منظر دھندھلایا اتنا بڑا صدمہ اس کے لئے برداشت سے باہر تھا  اسکے سلکی بال آنسوں سے تر چہرے کو چپکتے چلے گئے مگر اسے پرواہ تک ناں ہوئی اسکے لب تھرتھرائے پورے جسم میں لرزش ہوئی وہ کانپتی چلی گئی  مگر آنسوں تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے 

                                                          🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

آپ یہاں ؟! 

مرجان نے حیرانی سے آغا صاحب کو دیکھا تھا جو اسکے کمرے کے باہر کپ سے پریشانی میں مبتلا ٹہل رہے تھے اسکے باہر آنے پر وہ جلدی سے اسکی طرف مڑے 

مرجان مجھے تمھاری مدد چاہیے ۔۔۔

آغا صاحب نے اسکے ہاتھ تھامتے ہوئے ہڑبڑا کر کہا مرجان نے سنجیدگی سے انکی حالت دیکھی اضطراری کیفیت تھی چہرے پر بےحد بےچینی تھی 

جی ۔۔۔ جی انکل 

مرجان نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے کہا مقصد انہیں تسلی دینا تھا 

چلو میرے ساتھ ۔۔۔

اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے وہ اسے لاونج میں لائے تھے 

انکل آپ بتائیں گے کیا ہوا ہے ؟! 

مرجان انکے ساتھ چلتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا مگر اب وہ اسے لئے باہر گیراج تک آئے تھے 

میری بیٹی کو ڈھونڈنے میں میری مدد کرو مرجان میں ہاتھ جوڑتا ہوں میری مدد کرو۔۔۔

مرجان پہلے تو انکے کہے الفاظ پر آنکھوں میں ڈھیروں حیرت لئے انہیں دیکھتا رہا پھر گلہ کھنکھارا اور انکے ہاتھ کو تھاما

کیا ہوا ہے ماریہ کو انکل ؟! 

نہیں ماریہ نہیں مرجان اوہ خدا میں کیسے بتاؤں تمھیں ۔۔۔

آغا صاحب اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے آس پاس دیکھتے پیشانی مسلتے بولے مرجان نے آج پہلی بار انہیں اس حال میں دیکھا تھا 

تم میرے ساتھ چلو میں سب بتاتا ہوں ۔۔ اسے اپنے ساتھ کار میں بیٹھاتے ہوئے بولے شہنشاہ صاحب نے کمرے کی ونڈو سے ساری کاروائی دیکھی تھی مگر مرجان کو نہیں روکا تھا انکے ذہن میں اسوقت کچھ اور ہی چل رہا تھا 

کیاااا؟!  

منور صاحب نے بیگ بیڈ سے نیچے ویل پر ٹھہرا کر ہونک بنی کشمالہ بیگم کو دیکھا 

میں کہیں نہیں جا رہی منور ۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر بیزاری سے بولی 

ٹھیک ہے رہو یہاں اور وہ مجھے بھی نہیں چھوڑے گا اور ساتھ میں تم بھی ۔۔۔

میں نے کیا کیا ہے ؟!

کشمالہ بیگم نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا جبکہ انکے اس تاثر پر منور صاحب قہقہ لگا کر رہ گئے 

نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ؟! 

یاد دلاؤں ؟!

سہیل کو کون مروانا چاہتا تھا اور اسکی بیوی کو کس نے مروایا اسکی بہن کو مروانے میں میرا ساتھ کس نے دیا پراپرٹی کسے چاہیے تھی ؟!  

کشمالہ بیگم کے چہرے کی رنگت زرد پڑی تھی سامنے دروازے پر کھڑے شہنشاہ صاحب کو دیکھ کر منور صاحب اسکی پیلی رنگت دیکھ کر دروازے کی طرف مڑے مگر اب کہنے کو کچھ نہیں تھا شہنشاہ صاحب کے چہرے پر طیش ، اضطراب،،  الم سب تھا۔۔۔

بابا سائیں۔۔۔

بس ۔۔

شہنشاہ صاحب کی گرجدار آواز سب نے سنی تھی سب اپنے کمروں سے باہر نکلے تھے 

ایس پی صاحب کو فون ملاؤ حرب ۔۔۔ 

حرب نے حیرانی سے شہنشاہ صاحب کو دیکھا اور ہونک بنے منور صاحب اور کشمالہ بیگم کو منور صاحب تو شہنشاہ صاحب کے پیروں میں گر پڑے تھے اور کشمالہ بیگم نے ہاتھ جوڑے تھے سب گھر والے حیران و سرگردان سب دیکھ رہے تھے کچھ بولنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی 

ہم نے کہا ایس پی صاحب کو فون لگاؤ ۔۔۔

حرب نے دوسرے گرجدار لہجے پر سر ہاں میں ہلاتے ہوئے ایس لی صاحب کو فون ملایا تھا شہنشاہ صاحب نے وحشت بھری نظروں سے ان دونوں کو دیکھا تھا آج انکی زندگی بدلنے والی تھی اور وہ شہنشاہ صاحب کرنے والے تھے 

                                                        🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

کپور صاحب ترچھی نظروں سے اسے صوفے پر بیٹھا مگر مچھ کے آنسوں بہاتا دیکھ رہے تھے 

ایک انکل الہام ہی تو تھے میرے سب کچھ پاپا کی ڈیتھ کے بعد اُنہوں نے مجھے ماں میرا مطلب بابا کی طرح پالا تھا ۔۔

آنکھوں کو ٹشو سے صاف کر کے ناک ٹشو سے رگڑ کر وہ بھرائی آواز میں بولی کپور صاحب نے افسوس سے سر ہاں میں ہلایا تھا 

انکل کہاں جاؤں گی میں انکل بچا ہی کیا ہے میرے پاس میں ہی منہوس ہوں انکل ۔۔۔

وہ زبان دانتوں تلے دبا کر اللہ ناں کرے بڑائی اور پھر سر سے رونے لگی 

بیٹا سب ٹھیک ہو جائے گا بھگوان سب بھلا کریں گے ۔۔۔

بھگوان کے بچے مجھے آسرا تو دو مجھے تمھاری فلیش ڈرائیو بھی چاہیے بول دو ناں میرے گھر میں رہ لو بیٹی ۔۔۔

تعبیر نے منہ کا زاویہ بگاڑ کر انہیں دیکھا اور پھر سے بلک بلک کر رونے لگی 

کپور صاحب کے کان پھٹ جانے کو تھے مجبوراً انہوں نے اسے تسلی دیکر یہ کہا کہ وہ انکی فیملی کیساتھ رہ سکتی ہے تو وہ خوشی سے سر ہاں میں ہلا کر آنسوں پوچھنے لگی 

کمرے کا دروازہ دھاڑ کیساتھ کھلا تھا تعبیر تو اچھل ہی پڑی تھی چار بلیک وردی میں ملبوس اندر داخل ہوئے تھے  انکے بیچ و بیچ ایک بلیک پینٹ پر بلیک ہوڈی  میں ملبوس شخص اندر داخل ہوا تھا  اسکے دونوں ہاتھوں میں نائن ایم ایم پسٹل تھے ۔۔۔

کیوں کپور چائے پانی نہیں پوچھو گے ؟! 

وہ ایک قدم آگے بڑھا کر مغروانہ لہجے میں بولا کپور صاحب نے اسکی آواز پہچانی تھی مگر اسنے تو وہ سی سی ٹی وی فوٹیج بغیر دیکھے ہی الہام کو بھیجی تھی اسے کیسے پتا ہوتا وہ یہاں کیا کر رہا ہے تعبیر نے اسکی نیلی پرکشش آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پہلے نیت خراب کی لیکن پھر اسکے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر وہ بھڑک کر رہ گئی 

یہ مزاق ہے لوسیفر ۔۔۔ کیوں اور کیا لگتا ہے تم مجھے ڈرا پاؤ گے ؟! 

کپور نے کمپوز لہجے میں کہا جبکہ لفظ لوسیفر پر تعبیر کے طوطے اڑے تھے 

لللل۔۔۔لوسیفففففرر 

اسنے سنجیدگی سے اس کانپتی ہوئی لڑکی کو دیکھا جو ابھی بےہوش ہونے والی تھی 

دددددد۔۔۔ دیکھو انکو مار دو میں انکی کچھ نہیں لگتی ۔۔۔

کپور صاحب کو آگے کرتے ہوئے وہ ہکلا کر بولی کپور نے فق نظروں سے اس دغا باز لڑکی کو دیکھا جو کچھ منٹ پہلے ہی منہ بولی بیٹی بنی تھی 

ایک گارڈ تعبیر کو پکڑ کر اسکے اشارے پر کمرے سے لے گیا تھا کپور حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھے اور شاید وہ سمجھ بھی رہا تھا یہ مزاق نہیں ہے ۔۔۔۔

لوسیفر سرینڈر کرو ورنہ یہاں سے زندہ نہیں جاؤ گے ۔۔۔

اسپیکر میں سختی سے مسٹر رچرڈ کے اسپیشل گارڈ نے آرڈر دیا تھا لوسیفر نے ونڈو سے باہر دیکھا مسٹر کپور کے گھر کو چاروں طرف سے مسٹر رچرڈ کے گارڈز نےگھیرا تھا ۔۔

اب کیا کرو گے ہاں ؟! 

مسٹر کپور نے مکروہ قہقہ لگایا اسکی نیلی آنکھوں میں چمک ابھری  اسکے  اشارے پر باقی تین گارڈز پیچھے کے دروازے کی طرف بڑھے تھے 

وہ بیک پیک سے سٹنر گرینیڈ کوک کرتے ہوئے مسٹر کپور کے سامنے پھینک کر دو گرینیڈ لیفٹ اور رائٹ گراتے ہوئے پیچھے کی کھڑکی سے باہر لپکا تھا تین سیکنڈز میں دائیں اور بائیں جانب دو دھماکے ہوئے تھے اور ہر طرف دھواں پھیلا تھا 

بےوقوف یہ کیا کرمنلز بنیں گے ۔۔۔

وہ ہوڈی کو سر پر گراتے ہوئے طنزیہ لب و لہجے میں کہہ کر اپنے گارڈز کیساتھ پیچھے کھڑی لینڈ کروزر میں بیٹھتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلا تھا مسٹر کپور سٹنر کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے دیکھنے کی حس سے محروم ہو چکے تھے جب تک سب نارمل ہوا تھا وہاں اس شیطان کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔۔۔

                                                       🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

ایس پی صاحب شہنشاہ صاحب سے اجازت لیکر منور صاحب اور کشمالہ بیگم کو لیکر پولیس اسٹیشن روانہ ہوئے تھے انہوں نے سختی سے کہا تھا کہ یہ پوری زندگی جیل میں ہی سڑیں اور ان سے سختی سے پوچھ گچھ کرنے کا آرڈر دیا تھا بہرحال تو ایس پی صاحب انہیں مطمئن کر کے نکل گئے تھے مگر وہاں سے نکلتے ہوئے منور صاحب نے سکھ کا سانس لیا تھا کیونکہ ایس پی صاحب تو انکے ساتھ ملے ہوئے تھے انکے پرانے دوست تھے 

ہمیں فلحال میرے آدمی کے گھر چھوڑ دو وہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا اور کسی سے ضروری ملاقات بھی تو کرنی نے ۔۔ کشمالہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے وہ یاد دہانی کرواتے بولے کشمالہ بیگم کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری 

ایس پی صاحب انہیں ڈراپ کر کے جا چکے تھے دروازے پر دوسرے بار دستک دینے کے بعد بھی اندر سے جواب نہیں ملا تھا منور صاحب نے ماسٹر کی سے دروازہ کھولا تھا سامنے ہی انکا آدمی فرش پر بےہوش پڑا تھا اسکے سر کی پچھلی جانب سے خون بہہ رہا تھا 

یا خدااا منوررررر ۔۔۔

کشمالہ بیگم نے خوف سے کانپتے ہوئے کمرے کے کونے کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں پر زنجیریں موجود تھی مگر ان میں جکڑا ہوا شخص تو آج فرار ہو چکا تھا آج اتنے سالوں بعد اسے آزادی ملی تھی 

منور صاحب کے چہرے کے سارے رنگ اڑے تھے انہوں نے لرزتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ ایس پی صاحب کو فون ملایا تھا اور اسے ڈھونڈنے کا کام سونپا تھا 

کشمالہ بیگم کے چہرے پر آج پہلی بار اس قدر خوف کے سائے لہرا رہے تھے 

اب انکا وقت آ پہنچا تھا۔ اہے وہ بھاگ نکلے تھے مگر وہ جانتے تھے آنے والا وقت ان پر کس قدر بھاری ہونے والا تھا 

                                                         🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤

ریحان فائل تھامے کار میں بیٹھا تھا جب اسکی نظر چلڈرن ہوم کے اندر جاتے مرجان اور آغا صاحب لر پڑی تھی اسے تجسس ہوا تھا وہ فائل فرنٹ سیٹ پر رکھتے ہوئے واپس چلڈرن ہاؤس کے اندر داخل ہوا تھا آغا صاحب تیز تیز قدموں کیساتھ آفس روم کی طرف جا رہے تھے انکے پیچھے مرجان چہرے پر سرد تاثرات لئے سنجیدگی سے چل رہا تھا ریحان ونڈو کے قریب رکا تھا 

سر آپ کس بچی کی بات کر رہے ہیں بہت سال گزر گئے ہیں اور یہاں سے روز ہی لوگ بچے اڈاپٹ کرتے ہیں ہمیں کیسے پتا ہو گا آپ کس کی بات کر رہے ہیں  ؟! 

میری بیٹی میری اپنی بیٹی تھی وہ مجھے میری بچی واپس چاہیے ہر قیمت پر چاہیے کہاں ہے کیسی ہے مجھے میری بچی چاہیے ۔۔۔

آغا صاحب نے گرجتے ہوئے کہا مرجان نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا وہ سب جان چکا تھا مگر وہ مجبور تھا انہیں اسکی مدد لازمی کرنی تھی کیونکہ آغا صاحب نے اسے بتایا تھا کہ وہ شہنشاہ صاحب کی اجازت کیساتھ ہی اپنی بچی کی تلاش کر رہے ہیں اور شہنشاہ صاحب نے اسے گھر لیکر آنے کی بھی اجازت دے دی تھی ۔۔۔

سر ایک منٹ آپ ڈیٹ اور ڈیٹیلز بتائیں ہم چیک کرتے ہیں ۔۔۔

کمپیوٹر پر انگلیاں چلاتے ہوئے آدمی بولا اور وہ اسے ڈیٹیل بتانے لگے ریحان نے ونڈو سے اندر جھانکا تھا 

سر صدیقی صاحب نامی  شخص نے اس بچی کو کچھ سال پہلے اڈاپٹ کیا ہے یہ انکا ایڈریس ہے ۔۔۔ 

ریحان تو چونکا ہی تھا مرجان نے حیرانی سے اس آدمی کو دیکھا اور پھر وہ پیپر ان سے لیا تھا جس پر صدیقی صاحب کا ایڈریس تھا 

عشیق ۔۔۔

مرجان نے پیپر تھامتے ہوئے کہا آغا صاحب کے چہرے پر چمک ابھری 

تم ۔۔۔ تم جانتے ہو میری بیٹی کہاں ہے ؟! 

آغا صاحب نے مرجان کے کندھے تھامے تھےمرجان نے سنجیدگی سے سر ہاں میں ہلایا تھا ریحان بھاگتا ہوا وہاں سے باہر نکلا تھا اور شاہ ویر کا فون ملایا تھا جو سوئچ آف آ رہا تھا 

ڈیم اٹ سر فون اٹھائیں پلیززز ۔۔۔

وہ فون کان سے لگائے تیز رفتار قدموں کیساتھ گاڑی تک آیا اور گاڑی کو فل اسپیڈ میں دوڑا لے گیا تھا ۔۔۔

میم آپ نے بلایا ؟! 

میڈ نے دروازے پر ناک کر کے اجازت مل جانے کے بعد اندر داخل ہو کر پوچھا عشیق کی سرخ آنکھیں دیکھ وہ ایک پل کو چونکی تھی بکھرے بال سرخ چہرہ وہ کہیں سے بھی عشیق نہیں لگ رہی تھی

ہاں آپ سب گھر جا سکتے ہیں آج ۔۔۔ 

وہ کبڈ سے سرخ ساڑھی نکالتے ہوئے مردہ لہجے میں بولی میڈ نے حیرانی اور فکرمندی سے اسے دیکھا وہ کہیں سے بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی

پر میم سر نے کہا ہے انکی غیر موجودگی میں ہم یہاں رہ کر آپکا خیال ۔۔

ہمیں کچھ وقت اکیلے میں گزارنا ہے اس لئے کہہ رہے ہیں آپ جائیں ہم بات کر لیں گے شاہ ویر سے وہ کسی سے ناراض نہیں ہوں گے ۔۔۔

اسکی بات کاٹ کر وہ اپنی ہی کہی بات کو کچھ دیر سوچتی رہی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ آج کے بعد وہ کبھی اس سے مل نہیں پائے گی وہ خوبصورت لمحات جو انہوں نے ساتھ میں گزارے تھے سہ سب اسکے دل و دماغ میں گھر کر چکے تھے  وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کبھی اسے اپنے شیری سے دور جانا لڑ سکتا تھا کچھ ہی وقت میں وہ پھر  بھی میڈز اور باقی سروینٹس کو گھر بھیج چکی تھی اور تیار ہونے لگی اسکی آنکھوں میں آج وہ چمک نکیں تھی جو چمک ہمیشہ اسکی جھیل سی سبز آنکھوں میں ہوا کرتی تھی چہرہ مرجھایا ہوا تھا دل بےحد عزاب سے گزر رہا تھا  مگر صدیقی صاحب کی شفقت اور محبت آج سیر کے پیار پر غالب آ رہی تھی

پیار کرتے ہو ناں ہم سے تو پھر آج تمھاری آنکھوں کے سامنے ہم خود کو ختم کریں گے  اور اپنے بابا کا بدلہ بھی لیں گے تم سے پوری ذندگی تم پچھتاؤ گے اپنی آنکھوں کے سامنے محبت کی موت کون برداشت کر سکتا ہے ہمارے تو جینے کی وجہ ہی ختم ہو گئی ہے شاہ ویر حیدر  ایک آس تھی دل میں کہ سب ختم نہیں ہوا ہمارے پاس تھا ہی کیا صرف ایک بابا تھے۔۔۔۔ ہمارا سب کچھ جنہیں تم نے ختم کر دیا ہم تو اسی دن مر گئے ہوتے اگر تم ہمیں بچاتے نہیں اسکے بعد جھوٹ پر جھوٹ بولے ہم سے تم نے ۔۔۔

آئینے میں خود کے عکس کو دیکھتی ہوئی وہ بول رہی تھی 

اگر ہم یہ جانتے  ہوتے کہ جن اندھیروں سے تم ہمیں نکال لائے ان سے بڑے اندھیروں میں ہمیں رکھو گے تو ہم اسی پل خدا سے اپنی موت کی دعا کر لیتے ۔۔۔

بےجان سی نظر خود کے عکا کو دیکھتے ہوئے وہ بہکتی آواز میں بولی 

کاش ہم پہلے جان گئے ہوتے اپنے بابا کے قاتل کو اپنے اس قدر قریب کبھی ناں آنے دیتے تنھیں دل میں جگہ دی تھی شاہ ویر حیدر کیا بگاڑا تھا ہمارے بابا نے تمھارا ۔۔۔

آئینے کے سامنے پڑی ساری چیزیں ایک ہی جھٹکے کیساتھ نیچے گراتے ہوئے وہ چیخ کر بولی تھی 

                                                        🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍

ارے ٹھیک سے کریں بوا آپ ہمیشہ ہی اوپر سے کر کے کام ادھورا چھوڑ کر چلی جاتی ہیں ۔۔۔

ژالے نے گارڈن صاف کرتی ہوئی ملازمہ سے کہا  جب نظر گیٹ پر پڑی تھی  ایک بزرگ تھے جو گیٹ کے قریب ہی نیچے بیٹھے تھے اور گارڈ انہیں ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا 

کیا ہوا ہے ؟! 

ژالے نے بزرگ کی جانب دیکھ کر کہا جو ایک پرانی پھٹی ہوئی شال شانوں پر ڈالے ہوئے تھے انکے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے اور سر کے بال سفید تھے اور میلے بھی ۔۔۔

بی بی جی کب سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر جانے کا نام ہی نہیں لے رہے کہہ رہے ہیں کسی کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔  

ژالے نے گارڈ کی بات سن کر انکی جانب دیکھا وہ سر جھکائے نیچے بیٹھے تھے 

بابا آپ کو کس سے ملنا ہے ۔۔۔

انکے جھریوں سے بھرے ہاتھ کو تھامتے ہوئے ژالے نے نرمی سے پوچھا تب ہی ان بزرگ نے نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا ژالے نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے مگر وہ کچھ بول ناں پائی تھی اسکا دل کہہ رہا تھا وہ اس شخص کو جانتی ہے مگر اسکی آنکھیں نہیں مان رہی تھی 

بچے کیا ہوا ہے ۔۔۔

آفرین بیگم نے ژالے کو گیٹ پر دیکھ کر اسکی جانب بڑھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا 

پتا نہیں چاچی جان یہ بابا پتا نہیں کس کا انتظار کر رہے ہیں یہاں بیٹھ کر ہم نے پوچھا لیکن ہمیں نہیں بتا رہے بتا کیا وہ جواب تک نہیں دے رہے ۔۔

ژالے نے افسرد ہو کر کہا آفرین بیگم نے اس بزرگ کو دیکھا جو سر جھکائے زمین پر ہاتھ سے لکیریں بنا رہے تھے 

ژالے بچے آپ اندر جاؤ میں پوچھتی ہوں ۔۔۔

لفظ ژالے سن کر انہوں نے بےیقینی سے سر اٹھایا تھا ژالے نے بھی انکی جانب دیکھا تھا 

ژالے۔۔۔ میری بچی ۔۔

وہ اٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولے ژالے نے گھبراتے ہوئے انہیں دیکھا تھا آفرین بیگم نے اب انکے چہرے پر غور کیا تھا 

سہیل بھائی صاحب ۔۔ 

آفرین بیگم نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں کہا تھا 

پاپا ۔۔۔ 

ژالے نے روتے ہوئے انکے ہاتھ تھامے تھے اور انکلے گلے سے لگتی بےاختیار پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی آفرین بیگم کی آنکھوں میں بھی نمی آئی تھی سہیل صاحب نے ژالے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکا آنسوں سے تر چہرہ صاف کیا تھا 

ہم سب کو بتاتے ہیں ۔۔۔

آفرین بیگم کہہ کر جلدی سے لاونج کی جانب بڑھ گئی تھی آج کاظمی مینشن میں رونقیں لوٹ آئی تھی  

سہیل ۔۔۔ 

شہنشاہ صاحب کی آواز میں نمی تھی انکی پرنور آنکھوں میں نمی جھلکی سہیل صاحب نے ادب سے سر جھکاتے ہوئے انکے ہاتھ تھام کر انہیں چوما ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے سہیل صاحب کو گلے لگایا تھا بہت دیر دونوں اسی کیفیت میں روتے رہے ۔۔۔

دادا سائیں آپ نے بلایا ۔۔

مرجان شہنشاہ صاحب کے کہنے پر لاونج تک پہنچا تھا جہاں پہلے ہی سب موجود تھے اسے ایک منٹ نہیں لگا تھا سہیل صاحب کو پہچاننے میں ۔۔۔ آغا صاحب  سہیل صاحب کو گلے لگائے کھڑے تھے مرجان چلتے ہوئے سہیل صاحب کے قریب رکا تھا سہیل صاحب نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا تھا مرجان جتنا بھی مظبوط تھا وہ اپنے بابا کو آج بھی یاد کرتا تھا آج اپنے بابا کو زندہ سلامت دیکھ کر  اسکی آنکھوں میں وہ چمک واپس لوٹ آئی تھی جو بچپن میں اسکی آنکھوں میں ہوا کرتی تھی آج کاظمی مینشن میں رونقیں ہی رونقیں تھی 

                                                       🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍

وہ گہری سوچ میں مگن کمرے میں داخل ہوا تھا مگر کمرے کے منظر نے اسکے ذہن سے تمام سوچیں کو جھٹک پھینکا آئینے کے سامنے کھڑی نظریں جھکائے وہ خود پر پرفیوم چھڑکتے ہوئے پیچھے مڑی تھی 

اسکی نیلی پرکشش آنکھوں نے گہری نظر سے سامنے کھڑی ہوئی لڑکی کا جائزہ لیا تھا 

ریڈ ساڑھی میں وہ انتہا کی حسیں لگ رہی تھی لمبے براؤن بالوں کو کھلا چھوڑا گیا تھا جو اسکے کمر تک کسی لہراتے آبشار کی طرح معلوم ہو رہے تھے چہرے پر آج پہلی بار اسنے میک اپ کیا تھا جو اسکی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا سبز جھیل سی آنکھیں کاجل کیساتھ اور  شمری کیساتھ نفاست سے سجائی گئی تھی اسنے آج پہلی بار نوز میں چھوٹی سی پِن پہنی تھی جس پر باریک سا ڈائمنڈ چمک رہا تھا ہونٹوں پر ریڈ لپ اسٹک نے اسکے عروسی ہونٹوں کو بےحد کسس بخش دی تھی 

وہ اپنی جگہ پر جم سا گیا تھا وہ شاید اسکے حسن میں اتنا مگن ہوا تھا کہ اسکی آنکھوں میں پھیلی سرخی نہیں دیکھ پایا تھا  کمرے میں بھی پھولوں کی سجاوٹ کی گئی تھی

 یہ سب کیوں ؟! 

کچھ پل خاموش رہنے کے بعد سنجیدگی سے دریافت کیا گیا 

ہم کچھ کہنا چاہتے تھے آپ سے اور اسکے لئے اس سے بہتر وقت اور کوئی نہیں تھا  ۔۔۔

کلائی میں سرخ چوڑیاں ڈالتی ہوئی وہ نظریں جھکائے مدھم آواز میں بولی وہ بہت کوشش کے بعد اپنی آواز کو کمپوز رکھنے میں کامیاب ہوئی تھی 

کیا ہے آج ؟! 

وہ گہری سوچ میں پڑا تھا 

آپکا برتھ ڈے ہے شاہ ویر اور ہم آپکو سرپرائز دینا چاہتے تھے  ۔۔۔

وہ چوڑیاں کلائی میں پہن کر اسکی جانب مڑ کر بولی  اسنے ایک گہری نظر سے دوبارہ اسکا جائزہ لیا کتنا مشکل ہو رہا تھا اسکے لئے اس سے نظریں ہٹانا مگر آج پہلی بار شاہ  ویر حیدر کا دل بےحد شدت سے دھڑک رہا تھا  جبکہ اپنا نام پہلی بار اسکے لبوں سے سن کر اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اسنے بےاختیایری سے اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں سرخ ڈورے صاف واضح تھے اسکا مظبوط دل ڈوبتا چلا گیا 

آپ نے پوچھا ہی نہیں ہمیں آپ سے کیا کہنا تھا ۔۔۔

وہ بمشکل چلتی ہوئی اسکے بےحد قریب آ کر رک کر بولی تھی انکے چہرے کچھ انچ کے فاصلے پر تھے مگر وہ تو سب بھلا کر اسکی سوجھی ہوئی آنکھوں کو ہی دیکھے جا رہا تھا آخر کہاں دیکھ سکتا تھا وہ اسکی آنکھ میں ایک بھی آنسوں ۔۔۔

شاہ ویر ۔۔۔۔

اسنے بےساختہ اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھوا تھا وہ سنجیدگی سے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا 

کیا ہوا ہے عشیق ؟! 

اسکے اچانک سوال پر وہ اسکی پرکشش آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہلکی سی مسکرائی تھی محض ۔۔۔

آپ نے کتنا کچھ کیا ہے ہمارے لئے کیا ہم اتنا نہیں کر سکتے  آپکے لئے ۔۔۔

اسکے سینے سے لگتی ہوئی وہ جلے ہوئے دل کیساتھ بولی اسکے کندھوں کو نرمی سے تھام کر وہ اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے اسکے قریب بیٹھا تھا 

کیا چھپا رہی ہیں آپ مجھ سے ۔۔ آپکی آنکھوں کو کیا ہوا کیا آپ روئی ہیں ؟! 

اسکے سوال پر اسکا دل کرچی کرچی ہوتا چلا گیا آنسوں آنکھوں تک آئے جنہیں وہ نفرت سے پی گئی اسکا دل اس شخص سے سوال کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔

بولیں عشیق کیا ہوا ہے اور کیا کہنا چاہتی تھی آپ؟!

اسکے چہرے کو تھامتے ہوئے وہ محبت سے چور لہجے میں بولا 

آپ نے کہا تھا ناں آپ ہم سے بےپناہ عشق  کرتے ہیں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ سے ۔۔۔

وہ بولتے ہوئے رکی اور اسکے تاثرات کا جائزہ لینا چاہا اسکی آنکھوں میں اسکے لئے فکر تھی وہ سنجیدگی سے اسکے جواب کا منتظر تھا 

ہم آپ سے بےحد نفرت کرتے ہیں ۔۔

وہ ساڑھی کے پلو سے پسٹل نکال کر اسکے سینے میں گولی چلاتے ہوئے چیخی وہ سینے کے مقام پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھوں میں ڈھیروں محبت لئے اسکی جانب دیکھ گیا تھا اسکا ہاتھ خون سے بھر چکا تھا  وہ کچھ قدم پیچھے ہٹی تھی وہ اسکی طرف بڑھنا چاہتا تھا مگر وہ نہیں جا پایا۔۔۔

قاتل ہو تم قاتل گنہگار ہو تم ہمارے اور اسکی سزا آج ہم تمھیں دیکر جائیں گے ہماری کل کائنات ختم کرنے والے ۔۔۔۔۔ ہمارے بابا کو ختم کرنے والے درندے ہو تم ۔۔۔ 

وہ کانپتے ہوئے ہاتھ کیساتھ دوسری گولی اسکے کندھے پر مارتے ہوئے چیخی  گولی خطا ہوئی وہ ایک لفظ تک نہیں بولا تھا ناں اسنے خود کو بچانے کی کوشش کی تھی بس اسکے لٹھے کی مانند ہوتے سفید چہرے کو دیکھ رہا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے کا منظر دھندھلایا تھا زیادہ  خون بہہ جانے کی وجہ سے ۔۔۔

وہ اسے گھٹنوں پر گرتا دیکھ کر پسٹل نیچے پھینکتے ہوئے اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے پیچھے کو ہٹی اسکی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہو رہی تھی 

بمشکل سینے پر دباؤ ڈال کر خون کو روکتے ہوئے وہ اٹھا 

ہمارے قریب مت آنا گھن آ رہی ہے ہمیں آپ سے ۔۔۔

دیوار سے لگتی ہوئی وہ گلے پر زور ڈالتی ہوئی بولی اسے اپنے حلق میں کانٹے اگتے ہوئے محسوس ہوئے 

عشیق میری بات سنیں صرف ایک بار ۔۔۔

وہ گمبھیر لہجے میں بولا وہ ہاتھ سے اسے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے دیوار سے پشت لگائے گھنٹوں پر گرتی چلی گئی وہ اسے ایک ہی پل میں سینے میں بھینچتے ہوئے آج پہلی بار رویا تھا پہلے تو وہ احتجاج کرتی ہوئی اسے خود سے دور کرتی رہی مگر آخر کار وہ رو پڑی تھی

اسکی باریک سسکیاں سن کر وہ اسے سینے سے بھینچ کر روتا چلا گیا اسکے دل میں بےحد کرب تھا  دل پر لگی کسک وہ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا ایک وہی تو تھی جسے وہ کھونے سے ڈرتا تھا۔۔۔۔

کچھ دیر درد بھری سسکیاں سنائی دی یکدم وہ خاموش ہوئی اسےکے چہرے پر نظریں پڑی اسے جان جاتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ اسکا چہرہ اور پورا وجود لٹھے کی مانند سفید ہو چکا تھا ۔۔۔

عشیق ۔۔۔

اسکے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے وہ بےجان لہجے میں اسے پکارنے لگا

اسکے عنابی ہونٹوں سے سرخ رنگ کا خون بہہ نکلا تھا اسنے دھیرے سے آنکھیں کھولی تھی ۔۔۔ 

ہم۔۔۔ ہم نے خود کو ۔۔۔۔۔۔۔ ختم۔۔۔ کر۔۔۔دیا  اپنے ۔۔۔ بابا کے قاتل سے محب۔۔۔محبت کرنے کی سزا۔۔۔ دی۔۔۔ خودد۔۔۔ کو 

وہ دھیرے سے کہہ کر آنکھیں بند کر چکی تھی ۔۔۔

کمرے میں موت سا سناٹا چھایا تھا 

یہ بھی محرومی ھے کہ دُکھ کے وقت 

لپٹنے کے لیے کوئی ساتھ میسر ہی نا ہو 

پورچ میں  کار رکنے کی آواز آئی تھی یہ ریحان کے ساتھ کام کرنے والا شاہ ویر کا اسپیشل ڈرائیور تھا 

زبیرررر ۔۔۔

اسکی گرجدار آواز سن کر سہ جلدی سے اندر داخل ہوا تھا اسکی وائٹ شرٹ خون سے سرخ ہو گئی تھی مگر اسے پرواہ تھی تو صرف اسکی ۔۔۔

سررر ۔۔۔ یہ سب کیسے ہوا اور کس نے کیا ؟؟

زبیر انہیں اس حال میں دیکھ کر اسکے قریب جھکتے اسے سمبھال کر بولا ۔۔۔

گاڑی نکالو جلدی سے عشیق کو لیکر ہاسپیٹل چلو 

سر خون نکل رہا ہے آپ پلیز چلیں  میرے ساتھ ۔۔۔

میں نے کہا گاڑی نکالو اور عشیق کو لیکر چلو ۔۔۔ 

اسکی بات کاٹتے ہوئے وہ غرایا زبیر نے جلدی سے دروازہ کھولا وہ خود زخمی تھا مگر اسے یہ گوارہ نہیں تھا کہ عشیق کو زبیر گاڑی میں لیکر جاتا زبیر نے گاڑی کا بیک گیٹ کھولا عشیق کو بیک سیٹ پر لٹاتے ہوئے وہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے اسکا سر اپنے کندھے پر رکھتے ہوئے اسکے پاس بیٹھا تھا زبیر نے تیزی سے گاڑی کو ہاسپیٹل کی طرف دوڑایا تھا ۔۔۔

عشیق میرے ساتھ رہیں پلیز بات کریں مجھ سے ۔۔۔

اسکے لٹھے کی طرح سفید چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے وہ کرب سے بولا مگر وہ تو خفا تھی اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی تھی وہ تو شاید اس لئے اسکی سانسیں بھی دھیرے دھیرے اس سے دور ہو رہی تھی ۔۔۔

کچھ نہیں ہو گا آپکو عشیق کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔

اسکے بالوں پر لب رکھتے ہوئے اسنے آنکھیں میچی تھی ۔۔۔

ہاسپیٹل پہنچ کر  اسے تھامے وہ آئی سی یو تک پہنچا تھا ڈاکٹرز نے اسے اسٹریچر پر لٹایا تھا وہ بےبس نظروں سے ڈاکٹرز کو اسے آئی سی یو کی طرف لیجاتے دیکھتا رہا اور کچھ ہی دیر میں وہ حوش و خرد سے بیگانہ ہوتے ہوئے نیچے ڈھے گیا اسکی دھندلی نظر نے آخری بار آئی سی یو کے بند دروازے کی جانب دیکھا تھا اور پھر سب اسکی آنکھوں کے سامنے سیاہ دنیا میں غرق ہوا ۔۔

                                                        🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍

یہ کیا دیکھ رہی ہو تم فون پر ماریہ ۔۔

قصا بیگم کی آواز سن کر اسنے جلدی سے فون کو الٹا کیا تھا 

ارے مماں آپ نے ڈرا دیا مجھے ۔۔ قصا بیگم کو دیکھ کر دوبارہ فون پر انگلیاں سکرول کرتے ہوئے وہ خفگی سے بولی

بیٹا سب باہر ہیں انکل سہیل سے نہیں ملیں گی آپ اٹھیں ۔۔۔

اوہ مماں میں نے مل لیا ہے ان سے اب کیا انکے ساتھ چپک کر بیٹھی رہوں ؟! 

وہ گیلری بند کرتے ہوئے پیچھے مڑتے بدتمیزی سے بولی قصا بیگم نے کچھ سیکنڈ کے لئے اسے دیکھا اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی 

ڈیم یارررر ۔۔۔

وہ فون پر کوئی فوٹو دیکھتے ہوئے مسکرا کر بڑبڑائی اور پھر سے انگلیوں کو سکرین پر سکرول کرنے لگی 

                                                     🤍🤍🤍🤍🤍🤍🤍

مغرب کا وقت ہوا تھا 

اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کی تھی سب دھندھلا سا رہا تھا کچھ سیکنڈ میں اسکا وژن نارمل ہوا تھا وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھی تھی مگر اسکے دونوں ہاتھوں پر ڈرپس لگی تھی جسکی وجہ سے وہ بیڈ تک ہی محدود ہوئی

اسنے بےیقینی سے خود کو دیکھا تھا اسکے ہاتھ ابھی تک سفید تھے جیسے انکا خون نچوڑ لیا گیا ہو اسکے ہاتھوں میں لرزراہٹ پیدا ہوئی اور وہ بڑھتی گئی

ہم۔۔۔ہم زندہ ہیں ۔۔۔ ہم۔زندہ ہیں 

وہ کانپتے ہوئے ہاتھ لبوں پر رکھتے ہوئے صدمے سے کانپتے ہوئے دھیرے سے بولی اسنے ڈرتے ہوئے ہاسپیٹل کے کمرے کا جائزہ لیا آس پاس کوئی نہیں تھا ہاتھ سے ڈرپس کی سوئی کھینچ کر نکالتے ہوئے وہ جلدی سے اٹھی مگر اگلے ہی پل کسی نے اسے کھینچ کر بیڈ پر گرایا تھا وہ شدت سے کانپ اٹھی اسکا سر بری طرح چکرایا 

سوچنا بھی مت انڈرسٹینڈ ۔۔۔۔ 

اسکی آواز سن کر اسے اپنی روح وجود سے جاتی ہوئی محسوس ہوئی وہ کانپنے لگی تھی کیونکہ اسنے اسے مارنے کی کوشش کی تھی اور وہ اس سے بھی یہی امید کر رہی تھی اسکے بالوں میں سختی سے انگلیاں الجھا کر اسکا چہرہ اپنی جانب کھینچ کر اسنے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا وہ لرزتی چلی گئی خوف سے آنکھیں میچی تھی اسنے ۔۔۔ 

مگر اسنے شدت سے اسکی ہیشانی پر لب رکھے تھے اسکے سینے پر دباؤ ڈالتے ہوئے وہ اسے پیچھے ہٹا گئی تھی درد کی ایک ٹھیس اسکے سینے میں ابھری عشیق ڈرتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی اسنے انجانے میں اسکے زخم کو دکھا دیا تھا ۔۔

ہمارے بابا کے قاتل ۔۔۔

جسٹ شٹ اپ ناٹ آ سنگل ورڈ انڈرسٹینڈ ۔۔۔

وہ جبڑے بھینچے اسے انگلی دیکھاتے ہوئے سخت لہجے میں بولا عشیق نے خوف سے اسکی آنکھوں میں دیکھا 

ہاں مارا میں نے اسے کیونکہ وہ غلط تھا کچھ نہیں جانتی تم اسکے بارے میں لہذا تمھیں کوئی حق نہیں ہے اور اگر دوبارہ تم نے خود کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔

عشیق نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ کر نفرت سے نظریں پھیری  

ڈاکٹر اندر داخل آئی تھی 

ڈاکٹر اگر آپ ایک منٹ بھی اس روم سے باہر گئی تو یاد رکھئے گا مجھے ایک سیکنڈ نہیں لگے گا آپکو اس ہاسپیٹل سے سسپینڈ کروانے میں ۔۔۔

وہ سخت نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھ کر عشیق کو دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا ڈاکٹر نے گھبرا کر اسے جاتے دیکھا اور پھر عشیق کو دوبارہ ڈرپس لگانے لگی ۔۔۔

ہم ہاتھ جوڑتے ہیں ہمیں بچا لیں پلیز ہمیں بچا لیں وہ ہمیں مار ڈالے گا ۔۔۔

ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے عشیق نے گھبرا کر کہا ڈاکٹر نے حیرت سے اسے دیکھا تھا 

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں پتا ہے آپکی وجہ سے انہوں نے اب تک کیا کچھ کیا ہے انہوں نے یہاں کے بیسٹ سٹاف کو آپکی نگرانی پر لگایا تھا آپ پچھلے پانچ گھنٹوں سے بےحوش تھی آپ نے پوائزن لیا مگر انہیں گولی لگی تھی انہیں آرام کی ضرورت تھی مگر وہ پورا وقت آپکے پاس بیٹھے رہے اور سٹاف کو سختی سےکہہ دیا تھا کہ اگر آپکو کچھ ہوا تو وہ ہم سب میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے وہ آپکے لئے ہم سب کو مارنے کو تیار تھے اور آپ کہہ رہی ہیں وہ آپکو مار دیں گے ؟! 

عشیق نے بےتاثر نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا 

میں ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز مجھے یہاں سے نکالیں مجھے نہیں رہنا اس کے ساتھ وہ ایک غنڈا ہے وہ مجھے مار ڈالے گا وہ یہ سب مجھے بعد میں سزا دینے کے لئے کر رہا ہو گا یقیناً میں آپکے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے یہاں سے نکالیں خدا کے لئے مجھے یہاں سے نکالیں ۔۔۔ 

عشیق نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کرب سے کہا ڈاکٹر نے بےبس نظروں سے اسے دیکھا تھا اور کچھ دیر بعد سر کو ہاں میں ہلایا تھا ۔۔۔

اوکے آپ ابھی ویک ہیں آپ آرام کریں میں کچھ دیر بعد آپکو لینے آؤں گی اوکے ۔۔۔ 

تھینک یو ڈاکٹر ۔۔۔

عشیق نے اسکا ہاتھ تھام کر اسکا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر چلی گئی تھی ۔۔۔

سر ریحان کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا ۔۔۔ میں آپکو بتا نہیں پایا کنڈیشن ہی کچھ ایسی تھی میں کیا کرتا ۔۔

زبیر نے شرمندگی سے سر جھکاتے کہا شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا 

کہاں ہے وہ اب ؟!

سر وہ ۔۔ مسٹر رچرڈ کے آدمیوں نے جان بوجھ کر اسکا ایکسیڈینٹ کروایا اسے سر پر گہری چوٹ آئی تھی کچھ دیر کومہ میں رہا اور اسکے بعد ۔۔ 

زبیر نے سر جھکایا تھا شاہ ویر نے مٹھی بھینچ کر طیش کو ضبط کرنا چاہا مگر وہ ناں کر پایا تھا ریحان کی موت اسکے لئے بہت بڑا صدمہ تھا ۔۔۔

سر اسکا نماز جنازہ کروا دیا گیا ہے اور اس کے پاس یہ فائل تھی ۔۔۔

زبیر نے ایک بلیک فائل جس پر ریحان کے خون کے سرخ نشان تھے شاہ ویر کی طرف بڑھائی شاہ ویر نے فائل لیتے ہوئے سائڈ پر رکھی تھی زبیر نے اسکی پیشانی پر بل پڑتے دیکھے تھے 

سر  ؟!! 

ریحان کی فیملی کو جس بھی چیز کی ضرورت ہو انہیں فورآ مہیا کر دینا انہیں کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔ 

وہ سر جھکائے سنجیدگی سے بولا 

جی سر ۔۔۔ 

زبیر نے فخر سے اسکی جانب دیکھ کر کہا تھا وہ تھا ہی ایسا بروں کیساتھ برا اور اپنوں کیساتھ نرم دل مگر کچھ لوگ صرف اسے برا سمجھتے تھے جن میں اسکی محبت بھی شامل تھی ۔۔۔

ڈاکٹر کیساتھ چلتی ہوئی وہ ہاسپیٹل سے باہر نکل آئی تھی بےحد مشکل کیساتھ آخر کار وہ اس کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی سر ہر بلو چادر اوڑھتی ہوئی وہ سڑک پر چل رہی تھی ڈاکٹر فاخرہ نے اسے بیت منتیں کی مگر وہ انکا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چل دی تھی آخر کار وہ آزاد ہو گئی تھی 

ماضی میں گزرا ہوا وقت وہ مسکراہٹیں وہ یادیں اسکی آنکھوں کے ساننے گھوم رہے تھے سامنے سے ایک تیز رفتار گاڑی اس سے ایک انچ کے فاصلے پر بریک لگا گئی تھی ڈرتے ہوئے اسنے آنکھوں پر ہاتھ دیا تھا۔۔۔

ڈرتے ہوئے اسنے آنکھوں پر ہاتھ رکھے تھے رات کے اس پہر سنسان روڈ پر گاڑی کے ٹائر کی چررررر کرتی  بریک کی  ناگوار آواز نے کانوں میں خجل پیدا کیا تھا 

آپ ٹھیک ہیں ؟!

کار سے نکلتے ہوئے اسنے فکر سے بھرپور لہجے میں پوچھا تھا اسنے گھبراتے ہوئے آنکھیوں سے ہاتھ ہٹائے تھے دونوں اپنی جگہ جم سے گئے تھے 

وہ کچھ پل اپنی جگہ سن کھڑی رہنے کے بعد بغیر کوئی پرواہ کئے دوڑتی ہوئی اسے گلے لگاتے ہوئے روتی چلی گئی مرجان نے سنجیدگی سے لب بھنچتے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی 

مررجان بھائی ۔۔ ہمیں لے چلیں یہاں سے جلددی وہ وہ ہمیں ڈھونڈ لے گا ۔۔

کانپتے ہوئے اسنے ایک نظر پیچھے ہاسپیٹل کی جانب دیکھ کر کہا تھا مرجان نے بےیقینی سے اسکے برف کی طرح ٹھنڈے ہاتھوں کو چھوا وہ برف کی طرح ٹھنڈی پڑ رہی تھی اور رنگ ایسے بدل گیا تھا جیسے اسکے وجود سے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو 

پلیزز ہمیں بچا لیں وہ ہمیں مار دے گا ۔۔

اسکے ہاتھ پکڑتی ہوئی وہ گھبرا کر بار بار آس پاس دیکھ رہی تھی جیسے کسی کے آنے کا خوف ہو جیسے کوئی ایک پل میں اسے یہاں سے دوبارہ کسی ایسی جگہ لیجانا چاہتا ہو جہاں جانے سے وہ گریزاں تھی 

مرجان نے سپاٹ نظروں سے سامنے دور تک نظر دوڑائی تھی مگر کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اسے تلاش رہا ہوتا ۔۔

آپ گاڑی میں بیٹھیں ۔۔۔

جلدی سے سر کو ہاں میں ہلاتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھی تھی چادر سے خود کو اچھی طرح چھپایا تھا نظریں اب بھی اسی راستے پر ٹکی ہوئی تھی وہ تھر تھر کانپ رہی تھی اسکی ٹانگیں لرز رہی تھی مرجان نے ہمدردی سے اسے دیکھا اور پھر کار سٹارٹ کی اسکا رخ کاظمی مینشن کی جانب تھا اسکے ذہن میں ڈھیروں سوالات تھے مگر ان سب کے جواب اسے مینشن پہنچ کر ہی ملنے والے تھے اس لئے اس نے ان سوالات کو پوچھنا فلحال ضروری تصور ناں کیا تھا 

وہ صرف اس سے دور بھاگنا چاہتی تھی بغیر یہ دھیان میں لائے کہ وہ تو اسکی قسمت میں لکھی جا چکی تھی وہ کیسے بھاگ سکتی تھی اس سے دور وہ تو اسکے نکاح میں تھی

وہ سنجیدگی سے تیز قدموں کیساتھ آئی سی یو کی طرف بڑھ رہا تھا دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ ہی رکھا تھا جب ڈاکٹر فاخرہ بیچ میں آئی تھی 

سوری سر انہیں ابھی نیند کا انجیکشن دیا ہے وہ بار بار کہہ رہی تھی اسے نیند نہیں آ رہی اس لئے کرنا پڑا وہ فلحال سو رہی ہے بہتر ہو گا اسے آرام کرنے دیا جائے ۔۔

ڈاکٹر فاخرہ کی بات سن کر اسنے سنجیدگی سے گلاس ونڈو سے اندر دیکھا تھا ڈاکٹر فاخرہ نے اسکی جگہ ایک اور پیشینٹ کو شفٹ کیا تھا جو  دوسری جانب رخ موڑے چین کی نیند سو رہی تھی شاہ ویر کی کشادہ پیشانی پر بل پڑے تھے  وہ پوری دنیا جی بھیڑ میں اسے پہچان سکتا تھا آئی سی یو کا دروازہ سختی سے کھول کر وہ اندر داخل ہوا تھا سکی جگہ کسی اور لڑکی کو بیڈ پر دیکھ کر اسکی آنکھیں سرخ انگارا ہوئی اسنے کہر برساتی نظر سے ڈاکٹر فاخرہ کو دیکھا تھا جو انگلیاں مروڑتے ہوئے خوف سے مسلسل نظریں یہاں وہاں دوڑا رہی تھی 

کہاں ہے وہ ۔۔

لہجے میں انتہا کی سرد مہری تھی مگر لہجہ جارحانہ تھا 

ڈاکٹر فاخرہ نے ہونٹ بھینچ کر نظریں اٹھائے اسکی شعلہ آنکھوں کو دیکھا جن میں سرخی پھیل رہی تھی 

وہ وہ بھاگ گئی کہاں گئی یہ مجھے نہیں پتا میں قسم کھاتی ہوں مجھے نہیں پتا ۔۔

نظریں فرش میں گاڑھے ڈاکٹر فاخرہ نے سہمے ہوئے انداز میں کہا اسکی پیشانی پر بل پڑے تھے کٹھور نظر سے ڈاکٹر کو دیکھ کر وہ آئی سی یو سے باہر نکلا تھا ڈاکٹر فاخرہ بھی اسکے پیچھے تیز قدموں سے چلی تھی

سر پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ وہ بہت ڈری ہوئی تھی اور بار بار مجھ سے ریکوئسٹ کر رہی تھی کہ میں انہیں کسی بھی طرح یہاں سے نکالوں میں کیا کرتی سر پلیزز رک جائیں انچارج سے کچھ مت کہیے گا پلیز سر ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے رکا تھا ڈاکٹر فاخرہ کے قدم بھی ٹھہرے تھے 

اگر اس دوران میں اسے ایک کھروچ بھی آئی ناں ۔۔

وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر زبیر کو کال ملاتے ہوئے ہاسپیٹل سے باہر نکلا تھا ڈاکٹر فاخرہ نے سہمی نظروں سے اس جنونی شخص کو دیکھا تھا زبیر کچھ ہی دیر میں گاڑی لیکر وہاں پہنچا تھا وہ اسے ڈھونڈنے نکل گئے تھے 

آئی سوئیر عشیق اسکی سزا آپکو ضرور ملے گی ۔۔

گاڑی کی گلاس ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے اسنے سرگوشی کی تھی

سارا سفر خاموشی میں گزرا تھا اس لڑکی نے ایک بار بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے وہ بس اس شخص سے کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی اور شاید یہی ہو رہا تھا یا پھر یہ صرف اسکا بھرم تھا جو کچھ ہی وقت میں ٹوٹنے کو تھا یہ تو خدا ہی جانتا تھا 

گاڑی کے لئے گارڈ نے کاظمی مینشن کا ہیوی گیٹ کھولا تھا وہ ہونق بنی کسی ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھنے میں مصروف تھی مرجان نے گاڑی پارک کر کے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھا تھا جو ساکت بیٹھی کسی گہری سوچ میں ڈوب رہی تھی 

مرجان نے گلہ صاف کرتے ہوئے اسکی جانب دیکھا وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے سوری کہہ کر اسکے گیٹ کھولنے پر نیچے اتری تھی کاظمی مینشن آج روشنیوں میں نہلایا ہوا تھا ویسے اس وقت سب سو چکے ہوتے تھے نگر آج بہت وقت بعد سہیل صاحب کے یوں گھر زندہ سلامت لوٹنے کی خوشی  میں کوئی جلدی نہیں سویا تھا سب پورچ میں بیٹھے خوشگواری سے گفتگو میں ملوث تھے عشیق نے گھبرا کر اسکا ہاتھ پکڑا تھا مرجان کے لئے بھی وہ چھوٹی بہن کی طرح ہی تھی جب بھی وہ صدیقی صاحب کے یہاں جاتا تھا وہ خوش دلی سے اسے ملتی 

مرجان نے اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے پورچ میں قدم بڑھایا تھا سبھی نے اسکی جانب دیکھا تھا اور پھر اس خوبصورت نقوش چہرے کی مالک لڑکی کی جانب ۔۔

زارا کافی کپ میں ڈالتے ہوئے رکی تھی اسنے اچٹتی نظر مرجان کے ہاتھ پر ڈالی تھی جو عشیق کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا اس لڑکی کے چہرے پر واضح گھبراہٹ تھی 

مرجان بھائی آپ ہمیں اپنے گھر کیوں لے آئے ۔۔

وہ دھیمے لہجے میں گھبراہٹ کا شکار بولی 

اسکا جواب بہت جلد آپکو مل جائے گا  ۔۔۔

اتنا کہہ کر مرجان نے آغا صاحب کے کمرے کا رخ کیا تھا وہ شاید اپنے کمرے میں تھے سب کی نظروں نے انکا پیچھا کیا تھا قصا بیگم اٹھ کر انکے پیچھے چل دی تھی زارا کچھ فاصلے پر کھڑی انہیں دیکھتی رہ گئی دروازے پر ناک کرتے ہوئے مرجان دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا عشیق گھبراتے ہوئے کبھی دروازے کو دیکھتی تو کبھی مرجان کو شہنشاہ صاحب بھی آغا صاحب کے کمرے میں ان سے کسی موضوع پر محوِ گفتگو تھے جب مرجان نے دستک دی تھی آغا صاحب نے دروازہ کھولا تھا اگلے ہی لمحے وہ اپنی جگہ پر جم گئے تھے عشیق نے گھبراتے ہوئے مرجان کا ہاتھ پکڑا تھا آغا صاحب اسے کیسے ناں پہچانتے اسکی معصومیت سے بھرپور سبز آنکھیں وہ کیسے بھول سکتے تھے ۔۔۔

میری بچی ۔۔۔ ؟!

آغا صاحب نے مرجان کی طرف بےیقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا مرجان نے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا عشیق ڈرتے ہوئے مرجان کے پیچھے ہوئی تھی قصا بیگم نے ناسمجھی سے اس لڑکی کو اور پھر آغا صاحب کو دیکھا تھا 

آپ پوچھ رہی تھی ناں میں آپکو یہاں کیوں لایا اسکا جواب آپکو چاچو بتائیں گے ۔۔۔ مرجان نے عشیق کو دیکھتے ہوئے کہا عشیق نے تاسف سے آغا صاحب کو دیکھا تھا جن کی آنکھوں سے بےتحاشہ آنسوں جاری ہوئے تھے شہنشاہ صاحب نے پہلے ایک سرد نظر اس لڑکی پر ڈالی وہ سادہ سے لباس میں ملبوس معصوم حسیں نقوش کی مالک تھی انہیں دیکھ کر وہ  سرعت سے سر پر چادر درست کر گئی تھی شہنشاہ صاحب کے لبوں پر متبسم بکھرا تھا عشیق نے انکی آنکھوں میں اپنے لئے فخر دیکھا تھا 

اسوقت سب کچھ عشیق کی سمجھ سے باہر تھا وہ یہاں کسی کو نہیں جانتی تھی سوائے مرجان کے اور اسی لئے وہ اسی کو بار بار دیکھ رہی تھی 

یہ لڑکی کون ہے آغا ؟!

آخر کار قصا بیگم نے خاموشی توڑی تھی شہنشاہ صاحب نے آغا سب کو دیکھ کر سر کو تاسف سے ہلایا تھا 

یہ میری بیٹی ہے قصا ۔۔۔

بس یہی سننے کی دیر تھی دو دل تیزی سے دھڑکے تھے ایک عشیق کا اور ایک قصا بیگم کا عشیق نے بےیقینی سے آغا صاحب کو دیکھا تھا جبکہ قصا بیگم کی آنکھوں میں نمی پیدا ہوئی آفرین بیگم اور باقی سب بھی سب جاننے اور سننے کے منتظر تھے آغا صاحب نے بولنا شروع کیا تھا ۔۔۔

"ہاں سب نے صحیح سنا یہ لڑکی میری بیٹی ہے میں اتنا کٹھور دل کیسے ہو گیا تھا جب میں نے اس معصوم سی بچی کو یتیم خانے میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اسکے ماں باپ مر گئے ہیں میں نہیں جانتا تھا یہ پچھتاوا مجھے پوری ذندگی بھر رہے گا میں پوری زندگی اس بچی کو ڈھونڈتا مارا مارا پھروں گا " 

سر جھٹکتے ہوئے آغا صاحب نے عشیق کی جانب دیکھا تھا جس کی آنکھوں میں آنسوں تیر رہے تھے 

ایسا کیسے کر سکتے ہو تم آغا میں نے پوری زندگی تمھارے لئے وقف کر دی اور تم تم نے دھوکا دیا مجھے تم ایسا کیسے کر سکتے ہو آغا کیسے کر سکتے ہو تم ایسا اور اب تم اس ناجائز لڑکی کو ۔۔۔

قصا بیگم کی بات سن کرعشیق کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹ کر اسکے گال پر گرا تھا 

آغا صاحب کی آنکھوں میں آنسوں کیساتھ سرخی ابھری

ناجائز نہیں ہے میری اولاد ہے میری بچی ہے یہ اور نکاح کیا تھا میں نے گناہ نہیں قصا اور خبردار اگر تم نے میری اولاد کے لئے دوبارہ ایسے گھٹیا الفاظ کا چناؤ بھی کیا ۔۔۔

آغا صاحب نے سخت تاثرات کیساتھ قصا بیگم کو چپ کروایا تھا وہ ماریہ کا ہاتھ پکڑتی اسے وہاں سے کھینچ لے گئی تھی جبکہ ماریہ تیکھی نظر سے عشیق کو دیکھنا نہیں بھولی تھی 

عشیق نے نم آنکھوں سے آغا صاحب کو اور پھر شہنشاہ صاحب کو دیکھا شہنشاہ صاحب اسکے سر پر ہاتھ رکھتے اسے تسلی دیتے ہوئے قصا بیگم اور ماریہ کی طرف بڑھ گئے تھے آفرین بیگم اور ژالے بھی انکے ساتھ گئی تھی 

آپ ہمارے بابا ہیں آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟!

عشیق نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا جبکہ لفظ بابا پر آغا صاحب کی آنکھیں بھر آئی تھی انہوں نے نیچے جھکتے ہوئے اسکی چھوٹی سی پیشانی پر بوسہ دیا اور اسے سینے سے لگایا عشیق روتے ہوئے انکے سینے سے لگی ہچکیاں لے رہی تھی یہی تو اسکی معصومیت تھی اسنے آغا صاحب سے اسے یوں چھوڑ جانے کی شکایت نہیں کی تھی وہ تو دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی جہاں ایک طرف باپ کو کھونے کا صدمہ اس کے دل کو ریزہ ریزہ کر رہا تھا وہاں اپنی فیملی سے دوبارہ ملنے پر اسے ایک سکوں میسر آیا تھا وہ اس شخص کو تو بھول ہی گئی تھی جو اسے دیوانوں کی طرح اسوقت سنسان سڑکوں پر ڈھونڈ رہا تھا 

آغا صاحب نے آج کے لئے عشیق کو اپنے ساتھ رہنے کا کہا تھا وہ اپنی بیٹی سے جی بھر کر باتیں کرنا چاہتے تھے اسے سب بتانا چاہتے تھی وہ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد مان گئی تھی 

ایک ہفتے بعد :- 

زبیر ہاتھ میں بلیک فائل تھامے کمرے میں داخل ہوا تھا کمرے کا منظر چونکا دینے والا تھا   

 وہ کمرہ جو کبھی خوبصورتی کی مثال ہوا کرتا تھا آج بالکل بکھرا ہوا تھا سارا سامان کسی نے بےدردی سے زمین بوس کیا تھا کمرے کے کونے میں نیچے بیڈ اے ٹیک لگائے وہ سر بیڈ پر گرائے سموکنگ کر رہا تھا زبیر نے فائل سائڈ باکس پر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا وہ کہیں سے بھی شاہ ویر حیدر شیرازی نہیں لگ رہا تھا پیشانی پر بکھرے بال رف سی وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس تھا نیچے قریب ہی شراب کی کثیر تعداد میں بوتلیں بکھری پڑی تھی 

سر یہ کیا حال بنا لیا ہے آپ نے اپنا آپ پوری دنیا کے لئے ایک آئیڈیل بزنس ٹائیکون ہیں آپ اس طرح ایک معمولی سی لڑکی کے لئے اپنا  ایسا حال کیسے کر سکتے ہیں ۔۔

زبیر نے اسکے قریب نیچے بیٹھتے ہوئے تاسف سے کہا اسنے نظریں فرش سے اٹھا کر اسکی جانب دیکھا زبیر ایک پل کو شاک ہوا اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر اسکی آنکھوں نے کیسے ایک ہفتے میں رنگ بدلا تھا آج ان نیلی پرکشش آنکھوں میں زرا بھی پرکشش نہیں تھی ایک عشیق میں ہارا ہوا شخص تھا ان میں فگارِ عشق ہو چکا تھا عشق نے اسے گھائل کر دیا تھا ۔۔۔

سر پلیزز آپ خود کو سنبھالیں آپ کیسے بھول سکتے ہیں آپ شاہ ویر حیدر شیرازی ہیں جسے دنیا آئیڈیل کی نظر سے دیکھتی ہے ۔۔۔

وہ سر جھٹکتا ہوا بیڈ پر سر گرائے آنکھیں میچ چکا تھا وہ اسے پھر سے یاد آئی تھی جس رات وہ اسے ملی تھی 

 ۔۔۔۔۔۔یہاں آؤ ۔۔۔

کک۔۔۔کیوں ۔۔۔ آئیں

اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ گھبرا کر اٹھتے ہوئے بولی جو اسے اپنے پاس لیٹنے کی پیشکش کر رہا تھا ۔۔۔

یہاں آؤ ۔۔۔

اس بار سختی سے حکم صادر کیا گیا وہ گھبرا کر اسے دیکھتی ہوئی اسکے پاس آ کر لیٹی تھی ۔۔۔ دل شدت سے دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔ 

اسکے کندھے سے تھام کر اسکا سر اپنے مظبوط بازوں پر رکھتے ہوئے وہ اسکے چہرے پر بکھرے ہوئے بالوں کی لِٹ سے کھیلتے ہوئے مسکرایا ۔۔۔

آپ۔۔۔کا ۔۔۔نن۔۔۔نام کیا ہے ۔۔۔

اچانک سوال پر وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ چکا تھا جس پر وہ سٹپٹا کر آنکھیں گھما گئی تھی ۔۔۔ 

ہم۔۔۔ کیا بلائیں گے آپکو ۔۔۔  کچھ دیر بعد وہ پھر بول پڑی ۔۔۔ 

شیری ۔۔۔ 

وہ سپاٹ لہجے میں بولا ۔۔۔

یہ۔۔۔یہ کیسا نام ہوا ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ مسکرا دیا تھا۔۔۔۔

ایک آنسوں ٹوٹ کر اسکی آنکھ سے بیڈ شیٹ میں جذب ہوا زبیر نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جو ماضی سے نہیں نکل پا رہا تھا 

تم ٹھیک کہہ رہے ہو اس لڑکی کو اتنی آسانی سے نہیں جانے دوں گا ایلکس سے بات ہوئی تمھاری کب کی میٹنگ ہے ۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے وارڈروب کی طرف بڑھا تھا زبیر نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا 

سر آج دو بجے ہے ۔۔۔

ٹھیک ہے ارینج کر دو میٹنگ کینسل نہیں ہو گی ۔۔۔

وہ وارڈروب سے بلیک تھری پیس سوٹ نکالتے ہوئے مغرور لہجے میں بولا تھا 

جی سر ۔۔۔

وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر فائل اسکے حوالے کرنے کے بعد وہاں سے جا چکا تھا 

عشیق نے دھیرے سے آنکھیں وا کی تھی زارا کمرے کی ونڈو سے پردے ہٹا رہی تھی 

گڈ مارننگ ۔۔۔

اسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر زارا نے مسکرا کر کہا وہ بھی گڈ مارننگ کہتے ہوئے مسکرائی تھی 

آپ فریش ہو جاؤ میں ناشتہ بھجوا دیتی ہوں ۔۔۔ زارا نے وارڈروب سے اسکے کئے ڈریس نکالتے ہوئے کہا عشیق نے ڈریس لیتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا تھا

کیا ہوا ؟!

زارا اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولی 

چھوٹی مماں ابھی تک ناراض ہیں ہم سے ہم انہیں کیسے منائیں آپ بتاؤ ۔۔۔ 

زارا اسکی معصومیت پر کھل کر مسکرائی تھی 

وہ ٹھیک ہو جائیں گی انہیں تھوڑا ٹائم دو اور آپ تو ہو اتنی کیوٹ آپ سے کوئی کیسے ناراض رہ سکتا ہے چلیں آپ جلدی سے ریڈی ہو جائیں میں ناشتہ بھجوا دیتی ہوں ۔۔

جی ۔۔۔

عشیق فریش ہونے چلی گئی تھی اور زارا کمرے سے باہر ہی نکلی تھی جب اسے مرجان نے کھینچ کر ایک جانب کیا تھا 

کیا بدتمیزی ہے یہ ۔۔۔

زارا نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا 

آپ کے پاس اپنے شوہر کے لئے بالکل ٹائم نہیں ہے زاروو ۔۔

اسکے گال کو کھینچتے ہوئے وہ مصنوعی خفگی سے بولا جا پر زارا نے آنکھیں سکیڑی تھی 

کم آن کوئی نہیں دیکھ رہا ۔۔۔

اسکے کان پر جھکتے ہوئے مرجان نے دھیرے سے سرگوشی کی تھی زارا پہلے تو مسکرائی مگر پیچھے سے آتی زنیرا کو دیکھ کر اچھلی تھی مرجان نے مڑ کر پیچھے دیکھا تھا سنجیدگی سے ۔۔۔

زنیرا مسکرائی تھی زارا کو دیکھ کر اور پھر منہ پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہاں سے فورآ نکل گئی تھی 

پیچھے ہٹیں شرم بھی نہیں آتی آپ کو ۔۔۔

اسے کندھے سے پیچھے ہٹاتی ہوئی شرم سے لال ہوتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی تھی جبکہ مرجان نے کڑے تیوروں سے جاتی ہوئی زارا کو گھورا تھا ۔۔۔

حرب نے بے مزہ ہو مر آنکھیں کھولی تھی اسکے مطابق یہ منحوس دائم تھا جو اس پر سے بلینکٹ کھینچ چکا تھا مگر زنیرا کو دیکھ کر اسکی آنکھیں کھلی تھی

گیارہ بج رہے ہیں آپکو آفس نہیں جانا تو ناں جائیں لیکن اتنی دیر سوئے مت رہیں دادا صاحب نے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے ۔۔۔

بلینکٹ کو درست کر کے بیڈ پر رکھتی ہوئی وہ مصروف سی بولی حرب نے بےتاثر نظروں سے اسے دیکھا اسکی ڈریسنگ ایک دم سے بدل گئی تھی اب تو وہ ناں جیمز پہنتی تھی اور ناں ہی شارٹ شرٹس اور اسکے رویہ میں بھی تبدیلی آ رہی تھی۔۔۔ اور اس لئے شاید وہ اسکے دل میں مقام بنانے میں بھی کامیاب ہو رہی تھی 

۔۔۔۔

مسٹر کپور کی آج انڈیا کی واپس کی فلائٹ تھی وہ جلدی میں پیکنگ کرنے میں مصروف تھا کیونکہ اب تک جو کچھ اسنے کیا تھا اسے ان سب کا انجام قریب ہوتے نظر آ رہا تھا اس لئے وہ پاکستان سے فرار ہونے کی تگ و دو میں تھا 

بیگ کو اسکے گارڈ نے گاڑی کی ڈگی میں رکھا تھا وہ جلدی ڈے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا اور گارڈ نے گاڑی سٹارٹ کی تھی گاڑی تیزی سے ایئرپورٹ کی جانب بڑھ رہی تھی جب مسٹر کپور کے فون کی رنگ ٹون بج اٹھی 

ہیلو رچرڈ بولو ؟! 

کپور کہاں ہو تم جانتے ہو لوسیفر ہمارے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے ۔۔

جانتا ہوں رچرڈ میں اس لئے پاکستان سے فورآ واپس بھارت جا رہا ہوں ۔۔۔ 

کیا کہا تم واپس جا رہے ہو اور مشن کا کیا ہوا ؟!  مسٹر رچرڈ نے دانت پیسے 

مجھے تمھارے کسی مشن میں کام نہیں کرنا تم جانتے ہو لوسیفر کتنا ظالم اور شاطر پے  ان دن تو میں جیسے کیسے بچ گیا لیکن تمھاری وجہ سے میں دوبارہ اپنی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔۔۔ 

کال کٹ کرتے ہوئے کپور نے پھنکار کر کہا جب اسکی سماعت میں بیپس کی آواز پڑی ۔۔۔

ڈڈڈ۔۔۔ڈرائیورر گگگ۔۔۔گاڑی روکوو۔۔

وہ چلایا تھا ڈرائیور نے ایک دم گاڑی کو بریکس لگائے تھے ایک زور دار دھماکہ ہوا تھا اور گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی تھی آگ میں جھلستی گاڑی آنکھ جھپکتے ہی تباہ ہوئی تھی

کچھ فاصلے پر  چلتا ہوا وہ مغرور چہرے سے وائٹ ہوڈ ہٹاتے ہوئے اپنے مغروانہ انداز میں مسکرایا تھا ۔۔۔

آسمان پر بادل گرجے تھے اور تیز بارش شروع ہوئی تھی وہ سنجیدگی سے بغیر بارش کی پرواہ کئے ویران سڑک پر چل دیا تھا  بارش نے کچھ ہی منٹوں میں اسے بھگو دیا تھا

میں جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے ۔۔۔

وہ دن آخری ہو میری زندگی کا ۔۔۔

اسکی یادوں میں گم سم وہ بھیگی سڑک پر چلتا جا رہا تھا 

ہم نے نوٹس کیا تھا جب آپ ہمیں لینے آئے تھے سب لڑکیاں آپکو دیکھ رہی تھی ہمیں برا لگا آپ صرف ہمارے ۔۔۔۔

فرینڈ ہو ۔۔۔

وہ لفظوں کو تولتی ہوئی آخر میں ہچکچا کر بولی جبکہ لفظ فرینڈ پر وہ بس مسکراہٹ ضبط کر رہ گیا

اسکی بات یاد کرتے ہوئے وہ مبہم سا مسکرایا تھا ساتھ ہی اسکی بےوفائی یاد کر کے وہ سنجیدہ ہوا کس طرح بڑی ہی آسانی کیساتھ وہ اسے چھوڑ گئی تھی کتنا مظبوط سمجھتا تھا وہ خود کو ایک لڑکی کے جانے سے وہ خود کو تباہ کر بیٹھا تھا 

اسکے فون کی رنگ ٹون بجی تھی کان میں  بلیک ٹوتھ لگا کر وہ سڑک پر چلتا گیا ۔۔

کیا ہوا اپنی محبوبہ کو ڈھونڈ رہے ہو ایک ہفتے سے ؟!

اسکے قدم ٹھہرے تھے 

وہ میرے پاس ہے لوسیفر تمھاری محبوبہ پچھلے ایک ہفتے سے میرے ساتھ ہے ۔۔۔ ہاہاہاہا 

مسٹر رچرڈ کی یہ بات اسے انگارے کی طرح سلگا گئی تھی 

جھوٹ۔۔

وہ سنجیدگی سے بولا تھا مقصد شاید تیز دھڑکتے دل کو تسلی دینا تھا 

ایک ہفتے سے ڈھونڈ رہا ہے ناں تجھے وہ کیوں نہیں ملی کیونکہ وہ میرے پاس ہے اگر اسے زندہ سلامت دیکھنا چاہتا ہے تو میرے پاس اسی وقت آ جر خود کو سرینڈر کر ورنہ تیری عاشقی کیساتھ میں وہی کروں گا جو میں اپنی ۔۔۔

اپنی گندی زبان سے اسکا نام تک نہیں لینے دوں گا تمھیں اسکا یاد رکھنا اگر اس پر تھوڑی سی بھی آنچ آئی تمھاری خاک بھی نہیں بچے گی ۔۔۔

وہ سختی سے کہتا ہوا دانت کچکچا کر بولا اسکی خون چھلکاتی نظروں نے دور سے آتی بلیک کار کو دیکھا تھا 

اس کار میں چپ چاپ بیٹھ جاؤ اور یہاں آ جاؤ یاد رکھنا اگر تم نے کوئی چالاکی کی یا میرے آدمیوں کو مارا پیٹا تمھاری عاشقی کیساتھ کیا ہو گا تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔

مسٹر رچرڈ نے کمینگی سے کہہ کر کال کٹ کی وہ سنجیدگی سے سامنے رکتی کار میں بیٹھا تھا دو گارڈز نے بلاجھجک اسے گن پوائنٹ پر کیا تھا جبکہ تیسرے گارڈ نے اسکے ہاتھ میں ہتھ کڑیاں لگائی تھی 

۔۔۔۔

انکل آپکی چائے ۔۔۔

عشیق نے مسکراتے ہوئے سہیل صاحب کے سمانے ٹیبل پر چائے کا کپ رکھا سہیل صاحب جو گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے اسکی آواز پر مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے کپ ہاتھ میں تھام گئے اور اسے سامنے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا 

بیٹا آپ کالج نہیں گئی آغا نے کہا تھا کل آپکا ایڈمیشن کروانا تھا ۔۔۔

چائے کا سپ لیتے ہوئے سہیل صاحب نے پوچھا عشیق نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے نظریں جھکائی 

ہمیں نہیں پڑھنا انکل ہم بہت ٹائم بعد اپنی فیملی سے ملے ہیں ہم اپنا سارا وقت یہاں گزارنا چاہتے ہیں اور پڑھائی میں دلچسپی بھی نہیں رہی اب ۔۔۔

بچے ایسے نہیں کہتے آپ کو پڑھائی جاری رکھنی چاہیے ۔۔۔ سہیل صاحب نے اسے سمجھانا چاہا مگر وہ کسی بھی طرح راضی ناں ہوئی تھی زارا نے بھی آ کر عشیق کی ہی سائڈ لی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اسوقت کچھ بہت حساس  ہے جو وہ چھپا رہی ہے اور بتانا بھی نہیں چاہتی 

سہیل صاحب نے مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیئے تھے کہ اب بھلا دونوں بہنیں مل گئی ہیں میں اکیلا کیا کہہ سکتا ہوں ۔۔۔

اسلام و علیکم دادا صاحب ۔۔۔

شہنشاہ صاحب کو دیکھ کر اسنے پیشانی پر دوپثہ درست کرتے اٹھ کر تہذیب سے کہا شہنشاہ صاحب نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور پھر آغا صاحب اور سہیل صاحب کیساتھ کچھ امپورٹینٹ بزنس ڈسکشن کے لئے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے کیونکہ منور صاحب اب نہیں تھے لہزا وہ ہی یہ سب دیکھتے تھے 

عشیق کا دل اچانک ڈوبتا چلا گیا اسے بےحد گھبراہٹ محسوس ہوئی ایکدم ہی اسے شاہ ویر کا خیال آیا تھا زارا نے اسے گھبراتے ہوئے دیکھ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا عشیق کے دل میں درد کی ایک شدت اٹھی 

وہ ڈرتے ہوئے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی زارا اسے دیکھتے رہ گئی وہ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے دروازے سے پشت لگائے نیچے بیٹھتی چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ناجانے کیوں اسکا دل اتنا گھبرا رہا تھا 

۔۔۔۔

گارڈ نے اسے دھکا دیتے ہوئے سامنے بلیک صوفے پر بیٹھے مسٹر رچرڈ کے پیروں میں گرایا تھا اسنے لہو رنگ آنکھوں سے مسٹر رچرڈ کو دیکھا تھا ایک پل کے لئے مسٹر رچرڈ کے وجود میں جھرجھری کی لہر دوڑ گئی تھی اسکی آنکھوں میں اس جنون اور وحشت تھی 

دیکھو یہ ہے تمھارا اصل روپ تم ایک وحشی جانور ہو ۔۔۔

اسکا چہرہ ہاتھ میں پکڑ کر نوچتے ہوئے رچرڈ نے زیر کند لہجے میں کہا ویر نے سر جھٹکا تھا 

اور اس وحشی جانور کو انسان کس نے بنا دیا ایک معمولی سی دو کوڑی کی لڑکی نے ؟! 

رچرڈ نے مکروہ قہقہ لگاتے ہوئے اسے بالوں سے پکڑتے ہوئے اسکا چہرہ اوپر اٹھایا

عشیق کہاں ہے بووول ۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا 

ہاہاہا مجھے کیا پتا وہ تو تیری محبوبہ ہے تجھے پتا ہو گا کہاں گئی یا پھر کسی دوسرے کیساتھ۔۔۔

اسنے مسٹر رچرڈ کا سر پکڑتے ہوئے سامنے پڑی شیشے کی میز پر مارا تھا میز کے ٹکڑے ہوئے تھے اور رچرڈ کا سر بھی پھٹ گیا تھا پانچ آدمیوں نے آ کر اسے پکڑا تھا مگر وہ کسی زخمی شیر کی طرح پھر بھی رچرڈ کی طرف جھپٹنے کی کوشش میں تھا 

رچرڈ نے سر سے نکلتے خون کی بوند کو انگی پر لیتے ہوئے قہقہ لگایا تھا 

تو نے الہام کو مار ڈالا کپور کو مار ڈالا میرا ہی کتا ہو کر تو میرے آدمیوں کو مارے گا میرے پلانز چوپٹ کرے گا بول ۔۔۔

رچرڈ جانتا تھا اسکے آدمی اسے اسکی طرف نہیں بڑھنے دیں گے اس لئے وہ اسکے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے چیخ کر بولا 

خون کی ایک بوند آسکے نچلے لب سے فرش پر گری تھی 

تجھے اب بھی موقع دیتا ہوں ہمارا مشن کمپلیٹ کر بہت جلد ہی سارا اسلحہ روس سے یہاں پہنچنے والا ہے اسے لوکیشنز پر سیفلی ٹرانسفر کر اور جہاں جہاں ہمارا پلان تھا وہاں بلاسٹ کر ۔۔۔ بوول 

وہ طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا اسکے لبوں پر بکھرتا تبسم رچرڈ کو جلا گیا تھا 

ورنہ تیری ایک ایک ہڈی میرے آدمی توڑ دیں گے یہاں سے زندہ سلامت تو نہیں جائے گا بول کرے گا میرے لئے کام بول ۔۔۔

اسکا چہرہ جکڑتے ہوئے رچرڈ نے دانت پیس کر پوچھا وہ تاسف سے سر جھٹک کر  سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا 

رچرڈ نے دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں سے منور صاحب اندر داخل ہوئے تھے ویر کے لبوں سے مکراہٹ غائب ہوئی تھی 

اسنے قہر برساتی نظر منور صاحب پر ڈالی جو اسے اس حال میں دیکھ کر مسکرائے تھے 

افسوس اسکا باپ نکل گیا میرے چنگل سے لیکن دیکھو تو کون پھنسا ہے ہمارے چنگل میں خود شاہ ویر حیدر شیرازی ۔۔۔

منور صاحب نے زہریلے لہجے میں کہتے ہوئے اسکے بال جکڑے تھے اسنے بےیقینی سے انہیں دیکھا تھا 

ہاں میرے پیارے بچے تیرا باپ زندہ ہے ۔۔۔

سر کو ہاں میں ہلاتے ہوئے منور صاحب نے اسکی گردن پر ہاتھ رکھتے کہا مگر وہ تو اس ہی بات سے سرشار ہوا تھا کہ اسکے والد زندہ ہیں ۔۔۔ اسکے بےسکوں وجود میں سکوں کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اسکے مطمئن چہرے کو دیکھ کر رچرڈ نے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا تھا وہ انکا فون اٹھا لایا تھا 

بات کریگا اپنے باپ سے ہاں بول آخری بار بات کریگا اپنے باپ سے ؟! 

رچرڈ نے اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے اسکے چہرے پر مکا مارتے ہوئے کہا اسکے ناک سے خون کا فوارہ نکلا تھا آنکھوں کے سامنے کا منظر دھندھلایا کیونکہ گولی لگنے کی وجہ سے وہ پہلے ہی بہت کمزور تھا وہ گھٹنوں کے بل گرا تھا ۔۔۔

منور صاحب اسکے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ثانگ رکھتے ہوئے براجمان ہوئے رچرڈ نے فون اسپیکر پر ڈالا تھا ۔۔۔

آغا صاحب نے فون اٹھایا تھا رچرڈ نے فون سہیل صاحب کو دینے کے لئے کہا تھا ویر نے سپاٹ نظروں سے رچرڈ کو دیکھا تھا 

سہیل کاظمی صاحب آپکا بڑا بیٹا شاہ ویر آپ سے کچھ کہنا چاہتا تھا سنو ۔۔۔

رچرڈ نے مکروہ لہجے میں کہتے ہوئے فون کا اسپیکر اسکی جانب کیا تھا ۔۔۔

شاہ !!

سہیل صاحب کا دل بیٹھا تھا انکے لبوں سے صرف ایک ہی لفظ ادا ہوا تھا

ڈیڈ ۔۔۔

وہ مدھم لہجے میں بولا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے سب دھندھلا رہا تھا سہیل صاحب کا دل گہری کھائی میں ڈوبتا چلا گیا تھا اب تک وہ یہ تو رچرڈ کے آدمیوں سے سنتے آئے تھے کہ انکا بڑا بیٹا زندہ ہے مگر آج اسکی آواز سن کر انکے وجود میں جہاں ایک زندگی کی نئی کرن پھوٹی وہاں اسکے لئے دل ڈوبتا چلا گیا کیونکہ وہ جن لوگوں کے قبضے میں تھا وہ انسان نہیں حیوان تھے 

تمھارا پیارا بیٹا یہاں آخری سانسیں گن رہا ہے سہیل رکو تمھیں لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھاتے ہیں ۔۔کیمرے کا رخ اسکی جانب کرتے ہوئے رچرڈ نے قہقہ لگایا ویر نے نیم وا آنکھوں سے سکرین کی طرف دیکھا تھا سہیل صاحب کو اپنا وجود سمبھل سے باہر محسوس ہوا آخر کونسا باپ اپنی اولاد کو اس حال میں دیکھ سکتا تھا

ڈیڈڈڈ ۔۔۔ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکا ۔۔۔

وہ آنکھیں مکمل بند کرںے سے پہلے اتنا کہہ کر بےہوش ہوا تھا سہیل صاحب کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر چہرے پر بکھرے 

رچرڈ کے اشارے پر ایک آدمی پیٹرول اٹھا لایا تھا  منور صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی 

میں ہاتھ جوڑتا ہوں اسے چھوڑ دو تمھیں جو بھی چاہیے میں دینے کے لئے تیار یوں خدا کے لئے میرے بیٹے کو چھوڑ دو ۔۔۔

نہیں نہیں سہیل میرا اس کیساتھ پرسنل ذاتی حساب ہے اس نے مجھے دھوکا دیا میرے سینکڑوں افراد کو اسنے میرے ہی ناک کے نیچے مار ڈالا اتنی ہمدردی اس ملک سے کیوں کیا دیا اس ملک نے اسے ۔۔۔  یہ بھول گیا اسی ملک کی سڑکوں پر یہ کتوں کی طرح پھرتا رہا جب اسے کچھ کھانے کو نہیں ملتا تھا لوگوں نے اسے دھکے مارے میں نے ہر کوشش کی اسکے دل میں اس ملک کے لئے نفرت پیدا کرنے کی مگر اس نے مجھے ہی دھوکا دے دیا بلڈی باسٹرڈ ۔۔۔

دانت پیس کر کہتے ہوئے رچرڈ نے پیٹرول اس پر چھڑکنا شروع کیا سہیل صاحب نے ہاتھ جوڑے تھے ۔۔

منور صاحب نے لائٹر نکالا تھا ۔۔

یہ اسکے لئے اور تمھارے سارے پاکستانی ایجینٹس کے لئے ایک سبق ہو گا ہمارے ہی ناک کے نیچے رہ کر ہماری انفارمیشن کلیکٹ کر کے ہمارا ایک ایک پلان چوپٹ کرنے کی سزا کیا ہوتی ہے ۔۔۔

رچرڈ نے منور صاحب کو اشارہ کیا تھا منور صاحب نے لائٹر جلایا تھا ۔۔۔

سہیل صاحب نے آنکھیں بند کی تھی وہ بھلا اپنے زندہ سلامت بیٹے کو جلتے ہوئے کیسے دیکھ سکتے تھے جب کمرے کا دروازہ دھاڑ کیساتھ نیچے گرا تھا ۔۔۔ مرجان حرب اور زبیر آگے آئے تھے انکے پیچھے ملیٹری انٹیلیجنس کی پوری ٹیم تھی جنہوں نے آتے ہی وہاں موجود آدمیوں پر فائر کئے تھے فضا میں فائرنگ کی آواز نے سنسنی خیز مقابلے کی پیشگوئی کی تھی منور صاحب موقع دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے تھے جبکہ رچرڈ کو مرجان نے گردن سے دبوچ کر پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا زبیر جلدی سے ویر کی جانب بڑھا تھا اور اسکی نبض ٹٹولی تھی اسکی سانسیں چل رہی تھی حرب نے باقی ٹیم کیساتھ وہاں موجود آدمیوں کو گرفتار کروایا تھا اور انہیں ہتھ کڑیاں لگانے کے بعد وہاں سے انٹیلیجنس آفس منتقل کیا تھا رچرڈ نے اٹھ جر بھاگنے کی کوشش کی تھی مرجان نے اسکی ٹانگ پر گولی چلائی تھی کیونکہ اسے ہر قیمت پر وہ زندہ چاہیے تھا ۔۔۔

مرجان ویر کیساتھ کچھ ملیٹری آفیسرز کیساتھ ہاسپیٹل کی طرف روانہ ہوا تھا حرب اور دائم رچرڈ کو لیکر ملیٹری انٹیلیجنس آفس کی طرف روانہ ہوئے تھے 

۔۔۔۔

سہیل صاحب شہنشاہ صاحب اور آغا صاحب ہاسپیٹل پہنچے تھے ۔۔

اسکی پیشانی کی دائیں جانب بینڈیج لگی تھی وہ کمزوری اور ڈیپریشن کی وجہ سے بےہوش ہوا تھا سہیل صاحب اسے دیکھتے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے وہ سنجیدگی سے انہیں دیکھ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا سہیل صاحب نے اسے لیٹے رہنے کا اشارہ کیا مگر وہ تو اٹھ  کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔ 

سہیل صاحب نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اسے سینے سے لگایا ویر نے آنکھیں بھینچی تھی وہ کہاں واقف تھا اپنوں کا پیار کیا ہوتا ہے اسکا لقرا بچپن تو مشکلات میں گذرا تھا 

شہنشاہ صاحب بھی آغا صاحب کیساتھ کمرے میں آئے تھے ویر نے شہنشاہ صاحب کے ہاتھ تھامتے ہوئے پہلے آنکھوں سے لگائے اور پھر ان پر لب رکھے تھے شہنشاہ صاحب نے اسے سینے سے لگایا اور خوب روئے تھے ۔۔۔ آغا نے سہیل صاحب جے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں سہارا دیا تھا 

مرجان ڈاکٹر کیساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا مرجان نے بھی اسے سخت گھوری سے نوازا تھا شہنشاہ صاحب اور  سہیل صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا مرجان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا اسکے پاس آیا ویر نے اچٹتی نظروں سے بھنویں سکیڑ کر  اسے دیکھا تھا مرجان کی پیشانی پر بل پڑے تھے آغا صاحب نے فکرمندی سے دونوں کو یوں بپھرا ہوا دیکھا 

ایک جھانپڑ لگانا چاہیے تمھیں۔۔۔

مرجان نے سخت تاثرات چہرے پر سجائے کہا جبکہ اسکی بات پر سہیل صاحب حیران ہوئے وہ اس سے چھوٹا تھا پھر بھی ایسے بات کر رہا تھا ۔۔۔

مرجان کیوں لڑ رہے ہو اس سے ۔۔ آغا صاحب نے اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے سرعت سے پوچھا 

اسکا دماغ خراب ہے خود کو ناجانے کیا ہی چیز سمجھتا ہے ایک فلیش ڈرائیو اس سے سمبھالی نہیں جاتی یہ کیا سیگریٹ ایجنٹ بنے گا ۔۔۔

شاہ ویر نے سپاٹ لہجے میں کہا مرجان نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے بھنویں سکیڑی تھی شہنشاہ صاحب دونوں کو دیکھ کر مسکرائے تھے 

آغا صاحب اور سہیل صاحب شہنشاہ صاحب کیساتھ باہر چلے گئے تھے ڈاکٹر کیساتھ شاہ ویر کی کنڈیشن ڈسکس کرنے کے لئے ۔۔۔

تم نے ہیکنگ کہاں سیکھی  ویسے میرا ڈیٹا ہی اڑا دیا تھا تم نے کمپیوٹر سے ۔۔۔ 

مرجان نے سنجیدگی سے چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہا ویر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی

روس سے ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا 

مجھے کچھ بیسکس بتاؤ گے ؟! 

مرجان نے منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے کہا شاہ ویر نے اسکے کندھے پر مکا مارا تھا مرجان نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔

کشمالہ بیگم نے منور صاحب کے سامنے سوکھی روٹی اور دال کی ایک پلیٹ رکھتے ہوئے اچٹتی نظروں سے انہیں دیکھا تھا 

کیوں گھور رہی ہو مجھے ؟! میرے پاس فلحال کچھ نہیں ہے اور اگر ہم یہاں سے نکلے تو پکڑے جائیں گے پولیس تو پولیس اب فوج ہمیں ڈھونڈ رہی ہو گی ۔۔۔ 

منور صاحب نے کوفت سے کہا کشمالہ بیگم  سر پیٹتے ہوئے نیچے بیٹھی تھی

انڈین را ایجنسی اب بھی ہمارے ساتھ کنٹیکٹ میں ہے اور کچھ اور ایجنسیوں سے بھی رابطے میں ہوں جلد ہی ہم یہاں سے نکل جائیں گے ۔۔۔ 

منور صاحب نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کشمالہ بیگم نے منہ کا زاویہ خراب کرتے ہوئے سر کو جھٹکا تھا

۔۔۔۔

 نیشال بیٹا کہاں ہیں آپ ۔۔۔

جی چاچی جان ۔۔۔

جلدی سے وہ نیچے آئی تھی آفرین بیگم کے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی جس میں رنگ برنگی مٹھائی تھی نیشال کے پیٹ میں گڑ گڑ ہوئی تھی 

یہ کس خوشی میں چاچی جان ۔۔۔

نیشال نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے کہا ۔۔۔

بیٹا تمھاری انگیجمینٹ فکس کی ہے آج تمھارے دادا صاحب نے ۔۔۔

نیشال کے جبڑے ڈراپ ہوئے تھے 

کس کیساتھ چاچی جان ۔۔۔

آفرین بیگم نے مسکراتے ہوئے زنیرا کو دیکھا جو مسکراہٹ دبائے کھڑی تھی 

بتائیں ناں زارا بھابھی آپ بتائیں ؟!! کون ہے وہ ؟! 

اہمممم اہممم جس کیساتھ تم لڑتی ہو بہت ۔۔۔

زارا نے اسے یاد دلایا جس پر اسکے گال لال پڑے وہ مٹھائی چھوڑ کر علیزے کے کمرے میں بھاگ گئی تھی ۔۔۔

شرماتا دیکھو اسے ۔۔۔

ماریہ نے زنیرا کو کندھا مارا جس پر زنیرا بھی ہنس پڑی زارا نے مسکراتے ہوئے آفرین بیگم کو مٹھائی کھلائی تھی آفرین بیگم نے بھی اسے میٹھائی کھلائی تھی دور کھڑی عشیق انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی جب ژالے اسکے کندھوں سے پکڑ کر آفرین بیگم کے پاس لے آئی تھی آفرین بیگم نے اسے بھی میٹھائی کھلائی تھی قصا بیگم نے نفرت سے عشیق کو مسکراتے دیکھا تھا وہ اب تک اسے قبول نہیں کر پائی تھی کرتی بھی کیسے ؟! 

نجم جب یونیورسٹی سے گھر آیا تو سب لڑکیوں نے اسے بےحد چھیڑا وہ لال ہوتا ہوا کمرے میں گھس کے بیٹھ گیا تھا اور باہر ناں آنے کی قسم کھائی تھی 

۔۔۔۔

اٹھو میرے شیر ڈاکٹر نے کہا ہے ہم۔گھر جا سکتے ہیں ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے اسکے کندھے پر تھپکی دی تھی وہ آنکھیں وا کرتے ہوئے شہنشاہ صاحب کو دیکھنے لگا 

میں آپکے ساتھ گھر نہیں جا سکتا دادا سائیں ۔۔۔

اسکی بات پر سہیل صاحب اور مرجان نے سنجیدگی سے ایک دوسرے کو دیکھا 

کیوں نہیں بیٹا ؟!

شہنشاہ صاحب نے تشویش سے ہوچھا 

اسے عشیق یاد آئی تھی دل شدت سے رویا تھا اسکی کل کائنات وہ لڑکی تھی وہ بس نظریں جھکا چکا تھا ۔۔۔

چلو بھی لڑکے اپنی فیملی کیساتھ رہو گے تم ۔۔۔

آغا صاحب نے اسکے کندھے کو تھپتھپا کر اسکی ہمت بڑھائی وہ مبہم سا مسکرا کر دوبارہ نظریں جھکا چکا تھا 

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں انکل مجھے موو آن کر لینا چاہیے کیا کروں گا اکیلا رہ کر دوبارہ اس زندگی میں میں نہیں جانا چاہتا ۔۔۔

وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے مسکرایا مرجان نے اسے سہارا دیکر اٹھایا تھا وہ اپنے گھر جا رہا تھا آج اپنی ہی فیملی میں ساتھ ہی آج رات نیشال اور نجم کی انگیجمینٹ کا فنگشن رکھ دیا گیا تھا شہنشاہ صاحب کئی دنوں سے سوچ رہے تھے یہ سب لیکن وہ موقع کی تلاش میں تھے اور اس سے بہتر موقع انہیں نہیں ملنا تھا اس لئے انہوں نے خوشی میں ایک اور خوشی کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔

                                       کاظمی مینشن آج سفید روشنیوں میں نہایا ہوا تھا کسی بھی کونے میں اندھیرا نہیں تھا پورے گھر میں لائٹنگ کی گئی تھی گیٹ سے لیکر پورچ تک جاتے راستےپر ریڈ کارپٹ پچھایا گیا تھا قالین کے دائیں اور بائیں جانب سروینٹس ہاتھوں میں پھولوں کی تھالیاں لئے کھڑے تھے شہنشاہ صاحب نے آج کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی آج انکا بڑا بیٹا جو واپس آ گیا تھا لاوئنج سے لیکر پورے ہال کو وائٹ اور گلابی پھولوں سے سجایا گیا تھا کاریڈور پر سفید پردے لگائے گئے تھے کاظمی مینشن آج کسی شاہی محل کا منظر پیش کر رہا تھا 

شہنشاہ صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا وہ گہری نظر سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا وہ لڑکی اسکے حواسوں پر ابھی تک چھائی ہوئی تھی وہ چاہ کر بھی اسے ایک منٹ کے لئے بھی بھول نہیں پا رہا تھا شہنشاہ صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے اسنے سرعت سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا اور سروینٹ نے اسکی سائڈ کا گیٹ کھولا تھا 

وہ اپنی پوری وجاہت کیساتھ گاڑی سے باہر نکلا تھا لاونج میں کھڑی تمام حسیناؤں نے جو انگیجمینٹ کے فنکشن کے لئے پوری شدت سے تیار ہو کر آئی تھی اسکی جانب رشک بھری نظروں سے دیکھا تھا کیونکہ وہ عام سے حلیے میں بھی کسی کا بھی دل دھڑکانے کا ہنر رکھتا تھا مگر اسنے ایک بھی بار اس سمت میں نہیں دیکھا تھا اسکی نظریں تو اپنی محبت کو دیکھ کر پیاس بجھانے کا ہنر رکھتی تھی یہ ایک ہفتے اسکے لئے بہت بڑی اذیت کا دورانیہ تھا جس میں وہ اس کے بغیر رہا تھا وہ سکوں سے سو نہیں پایا تھا اس ایک ہفتے میں ۔۔۔

وہ گہری سنجیدگی کیساتھ ریڈ کارپٹ پر شہنشاہ صاحب اور سہیل صاحب کے ہمراہ چلتا آ رہا تھا اور سروینٹس ان پر پھولوں کی پتیوں کی برسات کر رہے تھے اسکا دل ایک پل کے لئے کثرت سے دھڑکا تھا جیسے وہ آس پاس تھی اس ہی بات کو دل میں لیکر اسنے سنجیدگی سے اپنی پرکشش آنکھوں سے ایک نظر آس پاس ڈالی تھی مگر صد افسوس وہ خود کو غلط ثابت کرتے ہوئے شہنشاہ صاحب کیساتھ آگے بڑھ گیا تھا ۔۔۔

ارے تم تیار نہیں ہوئی ؟

زارا ہیووی لائٹ پنک بال گاؤن تھامے عشیق کے کمرے میں داخل ہوئی تھی اسکی پیچھے ایک خوبصورت لڑکی بھی کمرے میں داخل ہوئی تھی عشیق نے جلدی سے آنسوں صاف کئے تھے مگر اسکی سرخی مائل آنکھیں اسکے رونے کی گواہ بن رہی تھی 

آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں ماشاءاللہ ۔۔۔

عشیق نے اسکے لائٹ میک اپ میں لگ رہے حسیں چہرے کو دیکھ کر کہا جس پر وہ مسکرا گئی تھی 

سسٹر آپ انہیں بھی تیار کر دیں اور کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے ۔۔۔ زارا نے پاس کھڑی بیوٹیشن سے کہا جس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تھا

نہیں زارا میں خود تیار ہو لوں گی پلیز آپ ۔۔۔

کووئی ضرورت نہیں ہے میں نے ہی زارا کو کہا ہے بیوٹیشن کیساتھ تمھیں تیار کرنے کے لئے چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ اور کوئی بہانہ نہیں ۔۔۔ آفرین بیگم نے عشیق کو مصنوعی آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا جس پر وہ مسکرا کر رہ گئی تھی 

زارا مرجان اور باقی سب آ گئے ہیں جاؤ انکے ڈریس ریڈی ہیں سب کو پہنچا دو مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں میں نیشال اور علیزے کو دیکھ کر آتی ہوں ۔۔۔

جی چاچی جان ۔۔۔

زارا کہہ کر مرجان کا ڈریس لیکر کمرے میں داخل ہوئی تھی اسنے فورآ آنکھوں پر ہاتھ دیا تھا وہ شرٹ لیس صرف ٹروزر میں  بالوں میں ٹاول رگڑتے ہوئے باہر نکلا تھا اسے یوں دیکھ کر زارا ٹھٹھکی تھی جبکہ مرجان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی 

یہ ڈریس پہن لینا میں جا رہی ہوں ۔۔۔

وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی مگر ہیوی بال گاؤن کی وجہ سے وہ تیزی سے بھاگ نہیں پائی تھی مرجان نے جلدی سے اسے کلائی سے پکڑتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا تھا وہ شرم سے آنکھیں میچ چکی تھی 

کہاں بھاگ رہی تھی میری جانم؟! 

اسکے کان پر جھکتے ہوئے اسنے بھاری سرگوشی کی زارا کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا ہوئی

وووہ ۔۔ چاچی جان نے ہمیں بہت سے کام بتائے ہیں ہمیں جانے دیں مرجان ورنہ وہ ناراض ہوں گی ۔۔۔ 

زارا نے ہچکچاتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے پیچھے ہونے کی کوشش کی سعی میں کہا 

اور اگر میں ناراض ہو گیا تو ۔۔۔

اسکی کمر میں بازو حمائل کرتے ہوئے اسے مزید اپنے قریب کرتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تھا زارا نے ابھی تک آنکھیں نہیں کھولی تھی اس بیچاری کا دل حلق میں جو آ چکا تھا 

پلیززز جانے دیں ۔۔

وہ لرزتی پلکوں کی جھالر گراتے ہوئے بےبسی سے بولی 

آنکھیں بند کرنے سے کیا ہو گا چھور تو ویسے بھی نہیں رہا آپکو میں اتنی جلدی ۔۔۔

اسکے کان پر جھکتا وہ نرمی سے بولا تھا زارا بےاختیار مسکرائی تھی اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیکر اسنے اسکی بند آنکھوں پر لب رکھے تھے ۔۔۔

یو آر لکنگ گارجیس مائی لوو ۔۔۔ 

اسکی آنکھوں سے لب اسکی باریک ناک پر رکھتے ہوئے وہ معنی خیزی سے بول رہا تھا 

مرجان جانے دیں پلیزز ۔۔۔ 

وہ نظریں جھکائے ہی سرخ ہوتی بولی اسنے مسکراتے ہوئے اسکے گال کو لبوں سے چھوا ۔۔

زارا بھابھی ۔۔۔

دونوں یکدم پیچھے ہوئے تھے زارا جلدی سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی طرف مسکراہٹ اچھالتی باہر کو نکلی تھی وہ مبہم سا مسکرایا تھا اور اپنا وائٹ ٹکسیڈو اٹھایا تھا اور چینج کرنے چلا گیا 

زارا بھابھی چاچی جان نے کہا ہے نیشال کو لے آؤ گیسٹ اسکا پوچھ رہے ہیں ۔۔۔

ہاں چلو سٹیج ریڈی ہے میں نیشال کو لیکر آتی ہوں آپ چاچی جان کیساتھ نجم کو لے آؤ۔۔۔

جی بہتر ۔۔۔

ژالے بلیک گاؤن اٹھاتی ہوئی جلدی سے آفرین بیگم کے کمرے کی جانب بڑھی تھی اور زارا نیشال کے روم میں چلی گئی تھی

ماشاءاللہ دیکھو تو کتنی پیاری لگ رہی پے ہماری نیشو ۔۔۔

زارا نے اسے وائٹ ہیوی گاؤن میں دیکھ کر کہا نیشال نے شرم سے آنکھیں جھپکتے ہوئے مسکرا کر اس سے تعریف وصول کی 

ایک میں ہی رہ گئی گاؤن سے کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔

علیزے نے جوس کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے خفا لہجے میں کہا نیشال اور زارا مسکرائی تھی کیونکہ وہ پریگنینٹ تھی اور ایسی ڈریسنگ کرنے سے اسے دائم نے منع کیا تھا اس لئے وہ سمپل میکسی ہی پہن پائی تھی ۔۔۔

چلو کوئی بات نہیں بےبی آپکے برتھ ڈے پر مماں میکسی نہیں گاؤن ہی پہنیں گی ۔۔۔ علیزے نے منمنا کر کہا زارا اور نیشال اب کی بار کھل کر ہنسی تھی ۔۔۔

 بھابھی مماں کو بہت مس کر رہی ہوں میں ۔۔۔ نیشال نے زارا کا ہاتھ پکڑتے افسردہ ہو کر کہا زارا نے اسے گلے لگایا تھا علیزے کے چہرے پر بھی اداسی تھی آخر جو بھی تھا کشمالہ انکی ماں تھی اور زندگی کے اتنے خاص موقعوں پر  اپنے تو یاد آتے ہی ہیں ۔۔۔

سب ٹھیک ہو جائے گا نیشو ۔۔ زارا نے اسکے بال سہلاتے ہوئے کہا اور وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی ہاں میں سر ہلانے لگی علیزے نے بھی نیشال کو گلے لگایا تھا 

۔۔۔۔۔

مرر کے سامنے کھڑا وہ سنجیدگی سے اپنا عکس دیکھ رہا تھا 

بلیک ٹکسیڈو میں وہ انتہا کا حسیں لگ رہا تھا بالوں کو جیل سے مخصوص انداز میں سیٹ کیا گیا تھا چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی نظروں میں عجب سرد پن تھا مگر یہ سب کچھ صرف اسکی وجاہت اور کشش کو اور بڑھا رہے تھے پرفیوم کو سنجیدگی سے اسنے خود ہر چھڑکا تھا جب اسکے دروازے پر دستک ہوئی وہ شرٹ کا کالر درست کرتا ہوا بلیک کوٹ کو سٹریٹ کر کے دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا سہیل صاحب اسکا دروازے پر انتظار کر رہے تھے اس وجاہت کے شاہ کار کو دیکھ کر وہ مسکرائے اور اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اسے سینے سے لگا گئے وہ اب تک وہ وقت نہیں بھول پائے تھے جب رچرڈ نے اسے زخمی کیا تھا وہ تو اسے کھو ہی بیٹھے تھے ۔۔

ڈیڈ ڈونٹ وری میں ٹھیک ہوں ۔ انکی آنکھوں میں ڈھیروں فکر اور اضطراب دیکھ کر اسنے سپاٹ لہجے میں کہا سہیل صاحب نے سر کو ہاں میں ہلایا اور اسکا مظبوط بازو تھام کر اسے نیچے لائونج کی طرف لیکر بڑھ گئے انہیں اپنے سپیشل گیسٹ سے جو ملوانا تھا اپنے چاند سے بیٹے کو ۔۔

حمنا افشو(افشاں) میری جان۔۔۔

ماریہ نے مسکراتے ہوئے دونوں کو گلے لگایا تھا دونوں اسکی پرانی سکول میٹس تھی اور تینوں میں کافی گہری دوستی تھی اس لئے ماریہ نے انگیجمینٹ پر انہیں خاص طور پر انوائیٹ کیا تھا 

تینوں فراغ دلی سے ایک دوسرے سے ملی تھی جب حمنا کی نظر سیڑھیاں اترتی عشیق پر پڑی وہ وائٹ ہیووی بال گاؤن میں کوئی اپسرا لگ رہی تھی چہرے پر نفاست سے لائٹ میک اپ کیا گیا تھا ماریہ تو اسے دیکھ کر ہی جل بھن گئی تھی

یہ یہاں بھی ہے ۔۔

افشاں منہ میں ہی بڑبڑائی تھی جس پر حمنا نے ہونٹ سکیڑے تھے 

ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔۔۔

آفرین بیگم نے عشیق کو گلے لگاتے کہا عشیق پھیکی سی مسکرائی تھی اسکا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا آخری بار وہ ویر کے لئے اتنا تیار ہوئی تھی اسے بہکانے کے لئے مگر اسنے اسے چھوا تک نہیں تھا وہ تو اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر ہی ٹوٹ گیا تھا عشیق کی پلکوں پر آنسوں جم گئے تھے وہ رو بھی نہیں سکتی تھی اسوقت بہت سے چہرے اسے دیکھ رہے تھے 

ماریہ کو وہ اس گاؤن میں بالکل نہیں بھا رہی تھی وہ ویٹر کو روکتی ہوئی ٹرے سے جواس کا گلاس اٹھا کر اسکی جانب بڑھی تھی جب زنیرا نے اسکا بازو پکڑا تھا ۔۔۔

میں دیکھ رہی ہوں تم کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہو گھر میں ہنگامہ کرنے کی ضرورت نہیں تم دیکھ نہیں رہی گیسٹ آئے ہوئے ہیں کیوں مفت میں ڈرامہ کرنا چاہتی ہو ۔۔

زنیرا نے اسکا بازو جھٹکتے ہوئے سخت لہجے میں کہا جس پر ماریہ نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا 

نجم اور نیشال اسٹیج پر موجود تھے زنیرا نے اچٹتی نظروں سے آخری بار ماریہ کو وارن کیا اور نیشال کی رنگ والی پھولوں سے سجائی تھالی لیکر اسٹیج کی طرف بڑھ گئی علیزے کے ہاتھ میں دوسرے تھالی تھی 

ماریہ نے غصے سے گلاس ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھا اور عشیق کی طرف بڑھ گئی جو مسکرا کر کچھ فی میل گیسٹ کیساتھ بات کر رہی تھی اسکے بازو کو پکڑتی وہ چہرے پر زہر کند مسکراہٹ سجائے اسے ایک جانب کھینچ گئی تھی

کیا ہوا آپکو ؟!

اسے لائونج کے قریب ایک جانب بازو سے جھٹکتی ہوئی وہ رکی تھی جس پر عشیق نے گھبرا کر ہوچھا تھا 

منہوس لڑکی تم یہاں ہمدردیاں سمیٹنے آئی ہو ناں پہلے میرے ڈیڈ کو اپنی سائڈ کیا اب پورے گھر والوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے چکر میں ہو ۔۔۔

ماریہ نے اسکے بازو میں انگلیاں سختی سے پیوست کرتے ہوئے دانت پیس کر کہا عشیق کی آنکھوں میں نمی پیدا ہوئی تھی اسکے الفاظ سن کر ۔۔۔ 

تم منہوس ہو پیدا ہوتے ہی تم اپنی ماں کو نگل گئی اسکے بعد ڈیڈ کو پتا چل گیا کہ تم منہوس ہو اس لئے وہ تمھیں سڑک پر پھینک آئے ناجانے اب کیا سوچ کر وہ تم جیسی منہوس کو اس گھر میں لے آئے ہیں ہماری زندگی اجیرن کرنے کے لئے ۔۔۔

آنسوں کی پہلی بوند اسکی آنکھ سے ٹوٹ کر گلابی گال پر بہہ گئی

تمھارے یہی ڈرامے پورے گھر والوں کو پاگل بنا سکتے ہیں لیکن مجھے اور مماں کو نہیں ہمیں اچھے سے پتا ہے یہاں دولت کے حصول کے لئے تم منہ مارنے آئی ہو اپنی ماں کا تو سر کھا گئی اب ناجانے یہاں کس کا سر کھاؤ گی ۔۔۔

اور یہ ڈریس بھی میرے بابا کی کمائی سے آیا ہے جسے پہن کر تم ہوا میں اڑ رہی ہو اسکی قیمت بھی پتا ہے تمھیں تم جیسی سڑک چھاپ لڑکی نے تو آج تک ایسے ڈریس خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوں گے ۔۔۔

نفرت بھری نظر سے اسے دیکھ کر ماریہ تیزی سے لائونج کی طرف بڑھ گئی تھی عشیق نے گاؤن کا کونہ مٹھی میں بھینچا تھا اسکی آنکھوں سے موتی مسلسل ٹوٹ کر اسکے گالوں پر بکھرتے جا رہے تھے وہ جلدی سے ہال کی طرف بڑھی تھی اسکا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا 

سو کالڈ لڑکی پورا موڈ خراب کر دیا میرا ۔۔۔

ماریہ تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے بغیر راستے کو دیکھے چل رہی تھی جب اسکا گاؤن اسکے پیر کے نیچے آیا تھا وہ گرتے ہوئے ساتھ کھڑے شخص کا کندھا پکڑ چکی تھی اسنے اسے کندھے سے تھاما تھا وہ گرتے ہوئے رہ گئی تھی ایک پل کے لئے وہ تھم گئی تھی اس کے حسیں نقوش چہرے کو دیکھ کر کوئی اتنا حسیں بھی ہو سکتا تھا اسے اسکے پیروں پر کھڑا کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے پیچھے ہٹا تھا ماریہ کی نظروں نے اسکا پیچھا کیا تھا سہیل صاحب اسے مہمانوں سے انٹروڈیوس کروا رہے تھے ماریہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی سہیل صاحب نے ہاسپیٹل سے ہی انہیں یہ خوش خبری کال کر کے سنائی تھی اور انکے آنے کی اطلاع بھی دی تھی مگر جلدی میں وہ اسے دیکھ نہیں پائی تھی اور اب جب دیکھا تھا تو وہ دیکھتی رہ گئی تھی بالوں لی لٹ کس کان کے پیچھے  اڑیستی وہ چمکتے ہوئے چہرے کیساتھ آغا صاحب کی طرف بڑھ گئی تھی جو ابھی ابھی سہیل صاحب کے قریب آ کر رکے تھے اور ویر سے کوئی بات کر رہے تھے

۔۔۔۔

نیشال نے مسکراتے ہوئے نجم کو  تالیوں کی گونج میں سرعت سے انگوٹھی پہنائی تھی ۔۔۔

مبارک ہو جیجو ۔۔ علیزے نے نجم کو چھیڑا جس پر وہ مسکرا کر رہ گیا 

آفرین بیگم اور زارا کچن میں سروینٹس کو سوئیٹس اور باقی سب سروو کرنے کے بارے میں 

وہ کمرے میں آ کر دروازے کو سختی سے بند کرتی ہوئی وارڈروب کو کھول کر وائٹ سمپل سا سوٹ نکال کر واش روم میں گھس تھی آنکھوں سے مسلسل آنسوں موتیوں کی طرح گر تھے چینج کر کے اسنے اپنا چہرے مرر میں دیکھا تھا کاجل پھیل چکا تھا وہ بیسن سے نل ان کر کے چہرے کو رگڑتے ہوئے دھونے لگی نمکین پانی کے قطرے ابھی تک اسکی آنکھوں سے برس رہے تھے چہرے کو نفرت سے رگڑتے ہوئے ٹاول چہرے پر سختی سے رگڑ کر چہرہ سرخ کر چکی تھی آنکھیں مسلسل رونے کے باعث سرخ پڑی تھی ماریہ کے کہے گئے الفاظ ابھی تک اسکی سماعت سے بار بار ٹکر کر اسکی روح کو زخمی کر رہے تھے وہ لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتی ہوئی کمرے میں گئی اور لمبے بالوں کو کیچر میں قید کیا وائٹ دوپٹہ سر پر اوڑھتی ہوئی وہ بیک ڈور سے لاونج کی پچھلی جانب آئی تھی جہاں ایک ٹیبل اور صوفے رکھے گئے تھے ساتھ ہی پول کا شفاف پانی روشنیوں میں ہیرے کی مانند چمک رہا تھا وہ بےجان قدموں کیساتھ پول کے کنارے پر بیٹھی تھی پیروں کو پول میں ڈالا تھا ٹھنڈے پانی نے اسکے بےسکوں جسم میں ٹھنڈک کی لہرا دوڑا دی تھی وہ بےتاب نظروں سے کاظمی مینشن کو دیکھنے لگی یہاں سب کچھ تھا مگر ایک اسکی کمی اسے اندر ہی اندر کھا رہی تھی جسے وہ چھوڑ آئی تھی 

یہ لڑکی یہاں بھی ہے ۔۔۔

حمنا کی آواز پر وہ چونکی تھی پیروں کو پول سے نکالتے ہوئے وہ اٹھی تھی 

لیکن اب اپنی اوقات میں نظر آ رہی ہے ۔۔۔

اسکے سمپل وائٹ سوٹ کی طرف اشارہ کرتی افشاں نے طنز کیا عشیق نے تاسف سے سر جھٹکا تھا

دراصل یہ ہماری میڈ ہے یہاں کام کرتی ہے ہماری ملازمہ کی بیٹی ہے ۔۔۔

ماریہ نے مسکراتے ہوئے آ کر انکی گفتگو میں حصہ لیا تھا افشاں اور حمنا نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے تالی بجا کر قہقہ لگایا تھا عشیق نے سرد نظروں سے ماریہ کو دیکھا جو اسے طنزیہ نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہی تھی 

ہم کچھ بول نہیں رہے اسکا مطلب یہ نہیں آپ ہمیں کسی کے سامنے بھی بےعزت کریں ۔۔۔

عشیق نے بھنویں سکیڑی تھی اسکے لہجے میں کچھ نہیں تھا ناں دھمکی ناں غرور ناں بدتمیزی وہ تو خالی لہجہ تھا جیسے اسکی روح خالی ہو گئی تھی ۔۔۔

تم خود کو بہت حسیں سمجھتی ہو یہ تمھارے سفید چمڑی اور سبز آ مینڈک جیسی آنکھیں کسی کو اٹریکٹیو نہیں لگتی سمجھی تم سب تم پر ترس کھاتے ہیں اس لئے تم اس گھر میں پڑی ہو گائز چلو چلتے ہیں میرا دماغ پھر سے خراب ہو جائے گا ورنہ اس لڑکی کی وجہ اسے ۔۔۔

حمنا اور افشاں طنزیہ نظروں سے عشیق کو دیکھتے ہوئے آگے چلی گئی تھی ماریہ جاتے جاتے رکی تھی اور اسکے چہرے کو ہاتھ سے جکڑا تھا ۔۔۔

بدصورت لڑکی ۔۔۔ 

اسے پیچھے کو دھکیلتی ہوئی وہ زہر کند لہجے میں بولی جبکہ عشیق  اس دھکے کے لئے تیار نہیں تھی  ناں ہی ماریہ نے اسے سنبھلنے کا موقع دیا تھا سہ سیدھی پول میں گری تھی ماریہ کے چہرے پر مسکراہٹ نے رقص کیا تھا 

بچ۔۔۔  

وہ اسے دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی پول بہت گہرا تھا وہ  پانی میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے اوپر آنے کی کوشش کرنے لگی مگر بےسود پانی اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا اسے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی اسکے لمبے بال کیچر سے نکل کر پانی میں لہرا گئے تھے ماریہ پیچھے ہوتی گئی اور کچھ ڈوری پر رک کر اسکا تماشا ملاحظہ کرنے لگی 

رفتہ رفتہ وہ پانی کی آغوش میں جا رہی تھی اسکے ہاتھ پیروں کی حرکت میں کمی واقع ہو رہی تھی اسکی آنکھیں اور سانسیں آخری دم پر تھی 

وہ سنجیدگی سے فون کان سے لگائے کسی سے بات کر رہا تھا جب پانی میں کچھ ڈوبتا ہوا نظر آیا اس وقت صرف اسکے بال ہی نظر آ رہے تھے وہ مکمل پانی میں ڈوب چکی تھی وہ فون کو پاکٹ میں رکھتے ہوئے تیز قدموں کیساتھ پول کے قریب آیا تھا جب اسے پانی کی گہرائی میں کوئی عکس نظر آیا تھا وہ بغیر دیئر کئے کوٹ پول کے کنارے پر پھینک کر پانی میں کودا تھا وہ حوش و حواس سے بیگانہ پانی کی گہرائی میں ڈوبتی جا رہی تھی اس تک پہنچ کر اسنے اسے کمر سے پکڑتے ہوئے اسے اپنے مظبوط بازؤں میں تھاما تھا اسکے چہرے پر اسکے لمبے بال لہرا رہے تھے اسے تھام کر وہ پول کر کنادے تک لایا تھا دور کھڑی ماریہ جلدی سے مٹھیاں بھینچ کر انکی جانب بڑھی تھی 

اسے پول کے کنارے پر سلاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسکی نبض ٹٹولی تھی اسکی نبض بالکل مدھم چل رہی تھی ماریہ دوڑتی ہوئی انکے پاس آ کر رکی تھی ایک سنجیدہ سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے اسنے اسکے بھیگے ہوئے چہرے سے چپکے گیلے بالوں کو پیچھے ہٹایا تھا اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا اسکے چہرے کو دیکھ کر ہاتھ اسکے چہرے پر ہی جم کر رہ گیا تھا ماریہ نے حیرانی سے اسکے تاثرات دیکھے تھے اسکے چہرے پر سنجیدہ تاثرات اچانک ہی فکرمندی کے عجب تاثرات میں ڈھلے تھے 

اسکی ناک کے قریب ااتھ لیجا کر اسکی سانسیں دیکھی جو دھیرے دھیرے ڈوب رہی تھی ماریہ حیران و پریشاں اسے دیکھ رہی تھی جسکے چہرے پر اضطراب تھا جو بڑھتا ہی جا رہا تھا 

گیٹ اپ عشیق ۔۔۔

اسکے گیلے چہرے کو ایک ہاتھ سے تھپتھپاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اسکا سر تھام کر اوپر اٹھایا تھا  اور لہجے میں دنیا جہاں کی فکر سموئے بولا تھا مگر  سب بےسود تھا 

اسکا سر دوبارہ نیچے رکھتے ہوئے اسنے اسکے پیٹ پر  ہاتھ سے دباؤ ڈالا تھا اسکے منہ سے پانی نکلا تھا سکھ کا سانس لیتے ہوئے اسنے دوبارہ اسکے پیٹ پر دباؤ ڈالا تھا اب کی بار پانی بہت کم نکلا تھا اسنے دوبارہ اسکی نبض دیکھی جو دھیرے دھیرے ڈوب رہی تھی بغیر ایک پل کی دیر کیے وہ اسکے چہرے پر جھکا تھا ماریہ نے نفرت سے اسے اسکے چہرے پر جھکتے ہوئے دیکھ رخ بدلا تھا اس پر جھکتا وہ اپنی سانسیں اس میں منتقل کرنے لگا تھا اسنے دھیرے سے آنکھوں کو وا کیا تھا سب دھندلا سا نظر آیا تھا شاہ ویر کی جان میں جان آئی تھی اس پر سے اٹھتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسکا جائزہ لیا تھا جو دوبارہ آنکھیں بند کر گئی تھی مگر اب وہ دھیرے دھیرے ہوش میں آ رہی تھی ماریہ نے نفرت سے اسے دیکھا مگر پھر چہرے پر فکرمندی کے تاثرات آباد کر گئی 

یہ کیسے ہوا یہ پول میں کیسے گری ؟

الٹا اسنے شاہ ویر سے سوال کیا جس پر اسنے سپاٹ نظروں سے ماریہ کو دیکھا اور اپنا بلیک کوٹ اٹھایا تھا نظر اسکے بھیگے وجود پر پڑی تھی باریک لباس میں اسکے بھیگے سراپے پر وہ بےحد سنجیدہ ہوا اور اسکے کندھوں پر کوٹ ڈال کر اسے نیچے سے اپنی مظبوط بازوں میں اٹھایا 

میں لے جاتی ہوں اس کا کمرہ پاس میں ہی ہے آپ نیچے اتار دیں ۔۔۔

وہ جلدی سے آگے ہوتی بولی مگر وہ بغیر اسکی بات سنے اسے اٹھائے بیک ڈور سے گھر میں داخل ہو گیا تھا کیونکہ فنگشن چل رہا تھا سب اسوقت ہال میں موجود تھے اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر اسنے پیر سے دروازہ بند کیا تھا اور اسے ایک بار پھر سپاٹ نظروں سے دیکھا وہ اب تک اسکے مظبوط بازوں میں جھول رہی تھی اسکے سردی سے سفید پڑتے لب بےساختہ تھرتھرا رہے تھے یہاں تک کے سردی کے باعث وہ مکمل ہی کانپ رہی تھی وہ خود بھی بھیگ چکا تھا مگر اسے اپنی پرواہ کہاں تھی اسے یونہی تھامے وہ واش روم کا دروازہ پیر سے کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا اور اسے شاور کے نیچے کھڑا کیا وہ سہارا ناں پاتے ہوئے اسکے سینے پر سر گرا گئی اسنے سنجیدگی سے  لب بھینچ کر اسے تھاما تھا شاور آن کرتے ہوئے اسنے اسکا چہرہ ایک بار تھپتھپایا وہ آنکھیں نہیں کھول رہی تھی مسلسل کانپ رہی تھی گرم پانی کی بوندوں نے دونوں کو سکون بخشا وہ اسے سینے میں بھینچتے ہوئے سکوں سے آنکھیں بند کر گیا اور وہ سکون سے لمبی سانسیں لینے لگی اور جسم کی کپکپاہٹ میں کمی واقع ہوئی اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کرتے ہوئے آس پاس کا جائزہ لیا تھا پلکوں پر پانی کی بوندوں نے اسکا منظر دھندھلایا وہ ٹھیک سے نہیں دیکھ پائی تھی لیکن اسکے پرفیوم کی مخصوص مہک جب اسکی سماعت میں پڑی  وہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہوئی تھی اسے اپنے بےحد قریب دیکھتے اسکی سانسیں دوبارہ اٹکی تھی خوف اسکے روم روم میں دوڑ گیا تھا وہ کانپتے ہوئی پیچھے ہوئی ٹھنڈی دیوار سے پشت لگائے اسنے جھرجھری لی اسنے بےحد سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا اور ایک قدم بڑھا کر اسکے دائیں بائیں دیوار پر ہاتھ رکھ کر فرار ہونے کے تمام راستے بند کئے تھے لزرتے لبوں نے کچھ کہنا چاہا جب اسنے سختی سے اسکے نازک سے کندھے کو اپنے ہاتھ کی سخت گرفت میں لیکر اسے اپنی جانب کھینچا تھا وہ اسکے چہرے سے کچھ انچ کے فاصلے پر رکی تھی اسکا پورا وجود کانپ اٹھا تھا اسے اپنے اتنا قریب دیکھ کر وہ اپنی موت کا بننے والا سبب  اپنی آنکھوں سے بےحد قریب سے سامنے دیکھ رہی تھی 

شش۔۔۔شی۔۔۔

اسکے لرزتے لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسکی بولتی بند کر کے  اسنے کرخت نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھا اور اسکے بےحد قریب ہوا شاور کے پانی کی بوندیں ابھی تک ان پر گر رہی تھی عشیق کی بھیگی سیاہ  پلکوں نے جھرجھری لی اسے قریب ہوتے دیکھ کر وہ آج اسکی جان لینے پر تلا تھا 

اسکے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے اسنے اسے کندھے سے پکڑتے ہوئے قریب کیا تھا عشیق نے ڈرتے ہوئے آنکھیں میچی تھی اسکی گرم جھلسا دینے والی سانسیں اسے اپنی گردن پر محسوس ہوئی 

وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں بول پا رہی تھی آواز حلق میں ہی اٹک گئی تھی اسکے لبوں پر جھکتے ہوئے اسنے اسکے کندھے میں انگلیاں سختی سے پیوست کی تھی وہ درد سے سسک کر رہ گئی تھی اسکے لبوں پر لب رکھ کر وہ اسکی سانسیں بھی روک گیا تھا عشیق نے کانپتے ہاتھوں سے اسکے کندھے پر سخت گرفت ڈالی تھی 

اس پر ترس کھا جر وہ کچھ دیر بعد اس سے الگ ہوا تھا اور بغیر ایک لفظ کہے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کمرے سے واک آؤٹ کر گیا تھا عشیق نے روتے ہوئے لبوں پر ہاتھ رکھتے سسکیوں کا گلا گھونٹا تھا

۔۔۔۔۔

ماریہ ڈرتے ہوئے اپنے کمرے میں انگلیاں چٹخانے کے ساتھ ساتھ کمرے کے چکر لگانے میں مصروف تھی 

اوہ گاڈ اسنے اس منہوس کو بچا لیا اگر اس نے مجھ سے پوچھا میں وہاں کیا کر رہی تھی تو میں کیا بولوں گی اگر ڈیڈ کو پتا چل گیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔

انگلیاں مروڑتے ہوئے وہ کمرے کا چکر کاٹتی ہوئی خود سے بڑبڑائی 

کہاں گئی تھی تم ۔۔۔ قصا بیگم نے کمرے میں آتے ہوئے اپنے ہیچھے دروازہ بند کرتے پوچھا وہ قصا بیگم کو دیکھ کر جلدی سے انکی جانب لپکی اور انہیں گلے لگا کر رونے میں مصروف ہوئی 

مماں میں نے عشیق کو پول میں دھکا دیا لیکن ویر نے اسے بچا لیا ۔۔۔

وہ روتے ہوئے بچوں کی طرح منمنائی شاید قصا بیگم کے بےجا لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑ دیا تھا جو اپنی غلطی پر نہیں اسکے بچ جانے پر آنسوں بہا رہی تھی 

قصا بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا 

ہاں اور انہوں نے مجھے بھی وہاں دیکھ لیا اگر بابا کو پتا چل گیا اسے میں نے دھکا دیا تھا تو ۔۔۔ ماریہ نے آنسوں صاف کر کے جلدی سے ہڑبڑاہٹ کیساتھ پوچھا 

تم چپ رہنا اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو میں جواب دے دوں گی لیکن آج کے بعد مجھ سے پوچھے بغیر ایسی کوئی حرکت مت کرنا یہ لڑکی بہت چالاک ہے دھیرے دھیرے سب کی اٹینشن اور ہمدردی سمیٹ رہی ہے اگر تمھارے ڈیڈ کو بھڑک بھی لگی کہ تم نے ایسی حرکت کی ہے وہ ہمیں گھر سے نکالنے میں ایک منٹ نہیں لگائیں گے اس لڑکی کو یہاں میں رہنے نہیں دوں گی تم بس صبر کرو ۔۔۔

اسکے سر کو پیار سے سہلاتے ہوئے قصا بیگم نے  دھیمے لہجے میں کہا 

۔۔۔۔۔

وہ فریش ہونے کے بعد کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے دراز سے ایک فائل (جو زبیر نے اسے دی تھی ) نکالتے ہوئے بیڈ کی جانب بڑھا اور سائڈ پر بیٹھتے ہوئے فائل کو کھولا تھا یہ عشیق کا بائیو ڈیٹا تھا جسے لینے کے لئے ویر نے ہی ریحان کو چلڈرن ہاؤس بھیجا تھا جس کے نتیجے میں وہ مارا گیا تھا اسکا دل ایک پل کو اس قدر تیزی سے دھڑکا تھا جب وہ اسے پہلی بار ملی تھی کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھا تھا کمرے کا دروازہ لوک کرتے ہوئے اسنے اپنا لیپ ٹاپ نکالا تھا اسکی انگلیاں تیزی سے کیبورڈ پر چلی تھی اسکا یہ عمل بھی دل دھڑکانے والا تھا بےحد سنجیدہ سپاٹ چہرہ جو لیپ ٹاپ کی سکرین پر فکس تھا اسکی نیلی آنکھوں پر لگے گلاسز نے اسکی کشش میں بےحد اضافہ کیا ہوا تھا اسکی امانت کی انگلی میں باریک بلیک راؤنڈ رنگ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی وہ گھر کی فوٹیج چیک کر رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا عشیق اتنی بھی نادان نہیں تھی جو خود پول میں کود جاتی اور وہاں ماریہ کی موجودگی اسکے خدشات کو ہوا دے رہی تھی ۔۔۔  وہ ڈائریکٹ گھر کے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس سے اس پر خدشات اٹھتے اس لئے اسنے کیمرا سسٹم کریک کیا یہ اسکے لئے کونسی نئی بات تھی ایک ایک فوٹیج اسکے لیپٹاپ میں فولڈرز کی صورت میں واضح ہوئی اسکے حسیں کٹاؤ دار لبوں پر ایک پرکشش مغرور مسکراہٹ نے رقص کیا تھا جس سے اسکے لیفٹ گال کا ڈمپل واضح ہوا اب جو کام باقی تھا وہ فوٹیج چیک کرنا تھا 

۔۔۔۔۔

اسلام و علیکم ۔۔۔

عشیق نے ڈائننگ ہال میں آتے ہوئے سب کو سلام کیا اور اپنی چیئر پر بیٹھ گئی ٹیبل پر ناشتہ لگ چکا تھا 

وعلیکم السلام بچے کل آپ کہاں چلی گئی تھی فنکشن کے دوران ۔۔۔

آفرین بیگم نے اسکی پلیٹ میں ناشتہ سروو کرتے ہوئے پوچھا 

ماریہ نے قصا بیگم کی طرف دیکھا جنہوں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا 

وہ ہماری طبعیت ناساز تھی سر درد ہو رہا تھا اس لئے ہم اپنے کمرے میں چلے گئے تھے ۔۔ 

نظریں جھکائے صاف جھوٹ بولتی ہوئی اسنے گلاس میں جواس ڈالا 

اب کیسی طبعیت ہے ؟!

اب بہتر ہیں ۔۔

زارا کے سوال پر اسنے مسکرا کر کہا زارا بھی مسکرائی عشیق نے ایک نظر سہیل صاحب کے قریب رکھی خالی چیئر پر ڈالی ۔۔۔

شاہ کہاں ہے سہیل طبعیت ٹھیک ہے اسکی ناشتہ بھجوا دو اسے کمرے میں ہی ۔۔۔

شہنشاہ صاحب نے فکرمندی سے کہا 

نہیں دادا سائیں اسکی ضرورت نہیں ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تھا ماریہ نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا تھا عشیق نے فورآ نظریں اپنی پلیٹ پر ٹکائی تھی شہنشاہ صاحب اسے دیکھ کر مسکرائے تھے عشیق نے لب بھینچتے ہوئے فورک پر گرفت مظبوط کی تھی کل رات کے واقعات اسکی نظروں کے سامنے لہرائے اسکی پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں ابھری سہیل صاحب ناشتہ کر کے ہاتھ نیپکن سے صاف کرتے ہوئے اٹھے عشیق کی حیرت تب بڑھی جب وہ اسکے قریب والی چیئر کو جس پر سے سہیل صاحب اٹھے تھے کھینچتے ہوئے اس پر بیٹھا تھا عشیق نے ڈرتے ہوئے اپنی چیئر کو تھوڑا دور کیا تھا وہ بےساختہ نچلا ہونٹ دباتے ہوئے ہنسی روک پایا تھا ماریہ نے فورک کو پٹخنے کے انداز میں پلیٹ پر رکھا جس پر زنیرا نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور ساتھ ہی آفرین بیگم اور قصا بیگم نے بھی اسے دیکھا

سورری ۔۔

وہ مصنوعی مسکراہٹ کیساتھ کہہ کر بریڈ پر جیم لگانے لگی 

ماریہ بیٹا آپ کہاں تھی فنکشن کے دوران؟! 

آفرین بیگم کے سوال پر قصا بیگم نے انکی جانب بےتاثر نظروں سے دیکھا تھا عشیق نے بھی اسے دیکھا تھا اور شاہ ویر نے سپاٹ سی نظر اس پر ڈالی تھی

ماریہ میرے ساتھ تھی آفرین ۔۔۔

قصا بیگم کو دیکھتے ہوئے آفرین بیگم نے جواب میں سر ہاں میں ہلایا تھا  عشیق نے اداس سی نظر قصا بیگم پر ڈالی جو اپنی بیٹی کے لئے صاف جھوٹ بول رہی تھی ۔۔۔

ویر ناشتہ کر لو پھر کچھ چیزیں ہیں جو ڈسکس کرنی ہیں ۔۔۔

جی بہتر انکل ۔۔۔ 

آغا صاحب مسکراتے ہوئے اٹھے عشیق کے سر پر ہاتھ رکھا جس پر وہ مسکرائی اور پھر شہنشاہ صاحب کے ہمراہ وہ چلے گئے عشیق نے ڈرتے ہوئے اسکی جانب دیکھا جو سنجیدگی سے ناشتہ کر رہا تھا وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے کمرے کی جانب تیز قدموں کیساتھ بڑھ گئی 

آپ آج گھر پر رہیں گے ؟! 

ماریہ کے سوال پر اسنے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

مجھے کچھ کوڈ سیکھنے تھے ڈیڈ بتا رہے تھے آپ سے بہتر کوئی نہیں سمجھائے گا ۔۔۔ ماریہ نے مسکراتے ہوئے کہا 

میرے پاس ٹائم نہیں ہے ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ماریہ نے افسردگی سے قصا بیگم کو دیکھا پھر اسکی نظر اسکے گولڈن سمارٹ فون پر پڑی ماریہ نے آفرین بیگم کی جانب دیکھا جو برتن سمیٹ کر جا چکی تھی سب ڈائننگ ہال سے جا چکے تھے وہ جلدی سے اسکا فون اٹھاتے ہوئے اسکے کمرے کی جانب بھاگی تھی اسے بات کرنے کا بہانہ جو چاہیے تھا اس سے ۔۔۔

ماریہ نے اسکے روم کے دروازے پر ناک کیا اسنے سنجیدگی سے بس کم ان کہا تھا ماریہ جلدی سے اندر داخل ہوئی تھی اسکے دل میں تتلیاں اڑ رہی تھی 

آپ اپنا فون ٹیبل پر ہی بھول گئے تھے اس لئے میں دینے آئی تھی۔۔۔

وہ فون اسکی جانب بڑھاتے ہوئے مسکرائی تھی اسکے لبوں پر ایک مغرور سی مسکراہٹ نے رقص کیا تھا وہ  پینٹ کی پاکٹ میں کچھ ڈالتے ہوئے اسکی جانب بڑھا تھا ماریہ کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اس کے ہاتھ سے فون لیتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا ماریہ تو اسکی اٹینشن پا کر ہی خوشی سے جھومنے کو تیار تھی 

اور کچھ ؟!

وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا 

ہائے میرا دل لے اڑے ہو تم میں کیا کروں ۔۔۔

وہ دل میں ہی کہتے ہوئے مسکرائی تھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی اسے گھورنے ٹھہر گئی تھی 

بلیک پینٹ پر بلیک ہاف سلیوز ٹی شرٹ میں وہ بہت اٹریکٹیو لگ رہا تھا 

آپ جا سکتی ہیں ...

اسنے کچھ سوچ کر کہا 

آپ پلیز مجھے بس ایک گھنٹا دے دیں مجھے کوڈ سمجھا دیں پلیززز ۔۔۔ 

اسکا ہاتھ پکڑتی ہوئی وہ التجائی لہجے میں بولی شاہ ویر کے چہرے پر تاثرات ایک دم سے چینج ہوئے تھے اسنے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالا تھا 

عشیق کو پول میں گرانے کی وجہ جان سکتا ہوں ؟!

وہ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کرخت لہجے میں بولا ماریہ اسکے یوں اچانک سوال پر ہکی بکی رہ گئی تھی 

مم۔۔میں نے کسی کو پول میں دھکا نہیں دیا  ۔۔۔

یہی اسکی برداشت کی انتہا تھی اسکی گردن کو سختی سے پکڑتے ہوئے اسنے اسے دیوار سے لگایا تھا اور پاکٹ سے لائٹر نکال کر جلایا تھا ماریہ کو ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے ۔۔۔

یہ۔۔۔یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟! 

وہ ڈرتے ہوئے اسکا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹا کر اٹکتے ہوئے بولی اسکی سانسیں جو رکتی جا رہی تھی 

جھوٹ سے سخت نفرت ہے مجھے صاف صاف بتاؤ کیوں گرایا اسے پول میں ۔۔۔

اسکی گردن پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسنے غرا کر کہا ماریہ بری طرح کھانسی تھی 

میں ۔۔۔ میں نے کسی کو نہیں گرایا ۔۔۔ 

وہ کھانستے ہوئے اکھڑتی سانسوں کیساتھ بولی

فائن ۔۔۔ ایسے نہیں بتاؤ گی ۔۔

لائٹر اسکے چہرے کے قریب کرتے ہوئے وہ قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا اسے اپنے گال پر آگ کا سیک محسوس ہوا 

ممم۔۔۔میں نے دھکا دیا تھا اسے پلیزز مجھے جانے دیں ۔۔۔

وہ جلدی سے ہڑبڑاتے ہوئے بولی اسنے لائٹر پیچھے گراتے ہوئے اسکی گردن دوبارہ دبوچی 

جاؤ اور معافی مانگو اس سے اگر تم نے ایسا نہیں کیا میں انکل کو سب بتا دوں گا اسکے بعد جو وہ کریں گے وہ ۔۔۔

نہیں ڈیڈ کو کچھ مت بتانا پلیززز میں سوری کروں گی اس سے ۔۔۔

ماریہ نے جلدی سے حلق تر کرتے ہوئے گڑبڑا کر کہا وہ سنجیدگی سے پیچھے ہٹا تھا 

کل دوپہر تک کا ٹائم ہے تمھارے پاس اس سے معافی مانگنے کے لئے ۔۔۔

وہ اسے کرخت نظروں سے دیکھتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولا

وہ گردن تھامتے ہوئے لمبے لمبے سانس لینے لگی اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگی تھی آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

اے سی بند کریں مرجان مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے ۔۔۔

زارا نے بلینکٹ سے منہ نکال کر کہا وہ جو بیڈ کی دوسری سائڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ چلا رہا تھا اسے دیکھ کر مسکرایا وہ تو سوچ رہا تھا وہ سو گئی ہے ۔۔۔ 

لیکن مجھے تو گرمی ہو رہی ہے اففف کتنی گرمی ہے یہاں ۔۔۔

وہ لمبا سانس لیتے ہوئے مسکرا کر بولا زارا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے گھورا تھا پھر نظر اسکے پاس پڑے اے سی کے ریموٹ پر پڑی مرجان نے بھی اسکی نظروں کا تعاقب کیا وہ ریموٹ کی طرف لپکی مگر مرجان نے جلدی سے ریموٹ اٹھا لیا تھا 

مرجان مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے ریموٹ دیں ۔۔۔ کسی جنگلی بلی کی طرح وہ اس پر جھپٹی وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر رکھتے ہوئے جلدی سے ریموٹ اپنی پشت سے لگا گیا اور دوسرے ہاتھ سے اسکا بازو پکڑتے ہوئے اسے خود پر گرایا ۔۔۔

اسکے ارادے بھانپتے ہوئے وہ جلدی سے پیچھے ہوئی جب اسنے دوسرے ہاتھ سے اسکا دوسرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے قبضے میں لیا 

مرجان چھوڑیں مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔۔

اسکی مظبوط گرفت میں پھڑپھڑاتی ہوئی وہ اکتا کر بولی 

کچھ زیادہ نخرے نہیں کرنے لگ گئی آپ مسز ۔۔۔

اسکے دونوں ہاتھوں کو ایک ہاتھ میں پکڑتے ہوئے اسکی کمر سے لگائے دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرے پر آئی بالوں کی آوارہ لِٹ کو کان کے پیچھے اڑیستے ہوئے معنی خیزی سے بولا زارا نے لب بھینچ کر اسے دیکھا 

ریموٹ چاہیے ؟! 

زارا نے معصومیت سے ہاں میں سر ہلایا تھا 

اوکے دے دوں گا پہلے مجھے کس کریں یہاں پر ۔۔۔ وہ گال پر انگلی رکھتے ہوئے مسکرا کر بولا زارا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ چھڑانے کی سعی میں مصروف ہوئی 

آپ ایسے بچ کر نہیں جا سکتی میری بات مانیں جو کہا ہے وہ کریں اور ریموٹ لے لیں مجھ سے ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔  پہلے ریموٹ دیں پھر۔۔۔

وہ ہاتھ آگے کرتی ہوئی آئی برو اچکاتے بولی مرجان نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھوں کو آزاد کیا زارا جلدی سے ریموٹ پر جھپٹی تھی اور ریموٹ اٹھا کر بیڈ سے نیچے اتری تھی 

یہ چیٹنگ ہے ۔۔۔

مرجان نے بھنویں سکیڑی تھی وہ قہقہ لگاتے ہوئے اے سی بند کر چکی تھی مرجان نے مصنوعی خفگی کیساتھ اسے دیکھا اور پھر لیپ ٹاپ اٹھا کر سنجیدگی سے ٹائپ کرنے لگا 

اچھا سوری آپ تو ناراض ہو گئے ۔۔۔

زارا اسے ناراض سمجھ کر اسکے قریب آ کر بیٹھتے ہوئے کان پکڑ کر بولی مرجان کی پیشانی پر بل پڑے اسنے بھنویں سکیڑی تھی 

سورری ناں مرجان بات تو کریں۔۔۔

اسکے بازو کو پکڑتی ہوئی وہ لاڈ سے بولی مرجان نے مسکراہٹ دبائی اور دوبارہ لیپ ٹاپ پر ٹائپ کرنے لگا ۔۔۔

اچھا یہ لیں ۔۔۔

اسکے گال پر لب رکھتے ہوئے وہ جلدی سے ہیچھے ہوتے بولی مرجان نے لیپ ٹاپ سائڈ پر رکھا اور اسے اپنے قریب کرتے ہوئے سینے میں بھینچا ۔۔۔ وہ بےساختہ مسکرائی تھی 

میری زارو کتنی معصوم ہے ناں ۔۔۔ اسکے بالوں پر لب رکھتے ہوئے وہ مسکرا کر بولا زارا نے مسکرا کر اسکے سینے پر سر رکھتے ہوئے آنکھیں موندی تھی

۔۔۔۔۔۔۔

آدھی رات کا وقت تھا جب اسکی آنکھ کھلی کھڑکی کے سامنے کھڑا سایہ دیکھ کر اسکی جان نکلی وہ بلینکٹ مٹھی میں بھینچے کانپتے ہوئے اس جانب دیکھنے لگی وہ سایہ اب اسکی طرف ہی بڑھ رہا تھا ۔۔۔

ددددد۔۔۔ دیکھو اگر تتتت ۔۔۔تم بھوت ہو ناں مجھ سے دور رہو ۔۔۔۔ ممممم۔۔۔ میں ورنہ ۔۔۔۔۔ میں ورنہ رونے لگ جاؤں گی ۔۔۔

وہ بیڈ کر کراؤن سے لگتی ہوئی دونوں ہاتھ لبوں پر دیتے ہوئے گھبرا کر بولی مگر وہ پرچھائی تو اسکی جانب ہی بڑھ رہی تھی ۔۔۔

شششش۔۔۔شیری

وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ بلینکٹ خود سے ہٹاتی ہوئی بیڈ اے اترتے ہوئے چلائی اور دروازے کی طرف بھاگی تھی مگر وہ کھڑکی سے آنے سے پہلے دروازہ باہر سے لاک کر کے آیا تھا ۔۔۔

ییہ۔۔۔یہ کھ۔۔۔کھل کیوں نہیں رہا ۔۔۔

کانپتے ہاتھوں کیساتھ اسنے دروازے کے ہینڈل کو مروڑتے ہوئے گڑبڑا کر کہا اور پھر پیچھے دیکھا وہ سایہ اسکے بالکل قریب آ چکا تھا ۔۔۔

شیررررری۔۔۔ بببب۔بچاو ۔۔۔

وہ بجھی بجھی آواز میں خود کو سمیٹتی ہوئی دروازے سے لگتی بولی تھی جب اسنے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا تھا اس سے پہلے وہ چیختی وہ اسکے لبوں پر اپنی مظبوط ہتھیلی رکھتے ہوئے اسکی چیخ کا گلہ گھونٹ چکا تھا ۔۔۔

ییہ۔۔۔یہ کھ۔۔۔کھل کیوں نہیں رہا ۔۔۔ اللہ پاک پلیز ہماری مدد کریں ۔۔۔۔

کانپتے ہاتھوں کیساتھ اسنے دروازے کے ہینڈل کو مروڑتے ہوئے گڑبڑا کر کہا اور پھر پیچھے دیکھا وہ سایہ اسکے بالکل قریب آ چکا تھا ۔۔۔

شیررررری۔۔۔ بببب۔بچاو ۔۔۔

وہ بجھی بجھی آواز میں خود کو سمیٹتی ہوئی دروازے سے لگتی بولی تھی جب اسنے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا تھا اس سے پہلے وہ چیختی وہ اسکے لبوں پر اپنی مظبوط ہتھیلی رکھتے ہوئے اسکی چیخ کا گلہ گھونٹ چکا تھا ۔۔۔

مممم۔۔۔ممممم 

سر کو جھٹک کر وہ مسلسل چیخنے کی کوشش کر رہی تھی مگر سب بےسود تھا 

اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے ہٹانے کی سعی میں اسنے اسکے ہاتھ پر ناخن سے خراشیں ڈالی تھی 

اچانک ایک خیال اسکے ذہن میں آیا اگر وہ بھوت تھا تو وہ اسے چھو کیسے رہی تھی ؟!

ککک۔۔۔کون ۔۔۔

حلق تر کرتے ہوئے اسنے ڈر کر پوچھا

آپکا شوہر ۔۔۔

اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسنے اسکے کندھے پر ٹھوڑی رکھی تھی یہ الفاظ اسکے سر پر بم گرانے کے لئے کافی تھی 

شش۔۔۔شاہ

کیوں چھوڑ کر گئی مجھے  ۔۔۔ 

اچانک ہی سختی سے اسکے کندھے کو تھامتے ہوئے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسنے جنونی لہجے میں کہا عشیق خوف سے اچھلی تھی اسنے خشک لبوں پر زبان پھیری تھی اسکے پاس اب کوئی جواب نہیں تھا ۔۔۔

جانتی ہو کتنا تڑپا میں تمھارے لئے ۔۔ تم لڑکیاں خود کو بہت حساس سمجھتی ہو چھوٹی چھوٹی بات پر رو کر دل ہلکا کر لیتی ہو ہم کیا کریں بولو ۔۔۔ 

اسکے کندھے میں انگلیاں پیوست کرتے ہوئے وہ بجھی آواز میں غرایا عشیق نے ڈر کر آنکھیں میچی 

 پوری پوری رات میں باہر بھٹکتا رہا کہ شاید کہیں پر مل جاؤ یہ ایک ہفتہ کیسے گزرا جانتی ہو تم تمھیں احساس ہے میرا بولوو جواب دووو مجھے عشیق مجھے جواب چاہیے۔۔۔۔

اسکے کندھوں کو سختی سے جھنجھوڑ کر وہ کرخت لہجے میں بولا عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا  اسنے ڈرتے ہوئے اسکی شرٹ کو مٹھی میں بھینچ کر اسی کے سینے میں ہی منہ چھپایا تھا اور روتی چلی گئی ۔۔۔ اسنگ سنجیدگی سے اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے اپنے سینے سے الگ کیا تھا 

ایک بار بھی میری بات جاننے کی کوشش کی وہ شخص قاتل تھا ناجانے کتنے ہی معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا خونی تھا جسکی سزا میں نے اسے دی ایسے لوگوں کو جینے کا کوئی حق نہیں جن کے دل میں انسانوں کے لئے ہی احساس نہیں ۔۔۔ 

اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے اسکا چہرہ قریب کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا اسے اشارہ دلانا چاہتا تھا جو وہ اسکے ساتھ کر چکی تھی

اور کوئی خونی نہیں ہوں میں اپنے ملک کے لئے کر رہا تھا یہ سب ان لوگوں کو انکے انجام تک پہچانا میرا فرض تھا ہے اور رہے گا اور مجھے ضرورت پڑی تو میں دوبارہ وہی کروں گا میں ایسی ہزار محبتیں اپنے وطن پر نچھاور کر سکتا ہوں میری تو جان تک قربان ہے میرے ملک پر ۔۔۔ اگر اب بھی تمھیں لگتا ہے میں غلط ہوں میں یہاں سے چلا جاؤں گا کیونکہ میں تھک چکا ہوں ۔۔۔ 

تمھیں اس دل میں جگہ دیکر بہت بڑی غلطی کر دی میں نے کاش تم مجھے ناں ملی ہوتی کاش تم سے محبت ناں ہوئی ہوتی کاش میں اتنا بےبس ناں ہوتا کاش میں عشق میں یوں دربدر تمھیں ڈھونڈتے ہوئے ناں بھٹکا ہوتا ۔۔

اسے سختی سے چھوڑتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ کر اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے غرایا عشیق ہچکیوں کے بیچ رو رہی تھی اسکا چہرہ آنسوں سے بھیگ چکا تھا ۔۔۔ 

مجھے مار دیتی مگر خود کی جان لینے کی کوشش کی تم نے کیوووں کیسے سوچ لیا تم نے میں تمھارے بغیر جی لوں گا میں کچھ بھی نہیں ہوں میں بےبس ہوں مجھے اسی وقت مار دیتی ناں پھر بھی مجھے تم سے شکایت ناں ہوتی تم نے میری محبت کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی ۔۔۔ 

عشیق نے ہاتھ کو گال پر رگڑ کر آنسوں صاف کرتے ہوئے اسکی جانب ایک قدم بڑھایا مگر وہ اس سے دو قدم پیچھے ہٹ چکا تھا اسنے پسٹل نکالا تھا ۔۔۔

عشیق نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ ڈر گئی تھی شاید وہ اسے خود پر گالی چلانے کی سزا دینا چاہتا ہے مگر اسنے پسٹل اپنے سینے کے مقام پر رکھا تھا عشیق کی ٹانگیں لڑکھڑائی تھی ۔۔۔

نفرت کرتی ہو ناں مجھ سے میں خود کو ہی ختم کر دیتا ہوں ۔۔۔ ٹریگر پر انگلی رکھتے ہوئے اسنے سپاٹ لہجے میں کہا تھا اور گولی چلائی تھی ۔۔۔

عشیق کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخ کر اٹھی تھی اسکا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا دوپٹے کے پلو سے اپنا پسینے سے تر چہرہ صاف کیا تھا دک شدت سے دھڑک رہا تھا جلدی سے کمرے کی لائٹ آن کی کمرے میں بلا کا سناٹا تھا وہ جلدی سے شوز پیروں میں ڈال کر اٹھی اور کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے باہر نکل گئی تھی اسکا رخ اسکے کمرے کی طرف تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

مماں چلیں ڈیڈ کے پاس اور ان سے کہیں شاہ ویر اور ہمارا نکاح کروائے ۔۔۔

قصا بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا جو اچانک ہی کمرے میں بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی تھی 

تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے وقت دیکھا ہے تم نے کیا ہو رہا ہے ؟!  قصا بیگم نے اسکا دماغ ٹھکانے لگانا چاہا

میں اپنی جان لے لوں گی ۔۔۔ وہ کہیں سے چاقو بھی اٹھا لائی تھی اسنے کلائی پر رکھ کر چیخ کر کہا قصا بیگم نے جلدی سے بیڈ اے اترتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اس سے چاقو چھیننے لگی مگر وہ پیچھے ہٹ گئی ۔۔۔

ابھی جائیں بابا کے پاس اور ان سے کہیں ماریہ اور شاہ ویر کا نکاح کروائیں اسی ہفتے نجم اور نیشال کے ساتھ ۔۔۔ وہ کلائی پر چاقو کا دباؤ ڈال کر چیخ کر بولی اسکی کلائی سے خون کی دو بوندیں فرش پر گری تھی 

اپنی ماں کو کس بات کی سزا دے رہی ہو پاگل ہو گئی ہو تم دماغ خراب ہے تمھارا بتاؤ ہوا کیا ہے ۔۔۔ قصا بیگم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا وہ چاقو نیچے پھینک کر قصا بیگم کے گلے میں بازو حمائل کر کے رونے لگی اور سب بتانے لگی 

وہ اسے لائک کرتا ہے اس لئے اسکے لئے میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا آپ پلیز ڈیڈ سے بات کریں اس سے پہلے بہت دیر ہق جائے ویر میرا ہے مماں میں اسے اس منہوس کا نہیں ہونے دوں گی وہ دھیرے دھیرے ہم سے سب چھین رہی ہے پہلے بابا کو چھینا اب ویر کو چھین رہی ہے مماں میں ویر کو بہت پیار کرتی ہوں آپ پلیز ڈیڈ اے بات کریں آپ کریں گی ناں ۔۔۔

وہ جنونی انداز میں  روتے ہوئے بولی قصا بیگم نے اسکے چہرے پر بکھرے بال سمیٹتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا اور اسکا سر اپنے کندھے پر ٹکایا تھا وہ سسکیاں بھرتی رہ گئی تھی۔۔

۔۔۔۔۔

اسنے دستک سن کر صوفے سے شرٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے دروازہ کھولا تھا وہ اچانک سی اسکے سینے سے لگی تھی بغیر کسی کی پرواہ کئے ۔۔۔

وہ کچھ سیکنڈ سنجیدگی سے اپنی جگہ کھڑا رہا پھر اسے نرمی سے خود سے تھوڑا دور کیا 

کیا کر رہی ہیں آپ یہاں ؟!

بےحد سنجیدگی سے پوچھا لہجے میں ناں غصے تھا ناں ہی ناراضگی ۔۔

ہمیں۔۔۔ہمیں آپ سے بات ۔۔۔

آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔ اسے کمرے سے باہر نکالتے ہوئے اسنے سپاٹ لہجے میں کہا عشیق کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹوٹ کر اسکے گال پر بہا اسنے بےبس نظروں سے اسے دیکھا تھا

آپ معاف نہیں کرنا چاہتے ہمیں شیری ؟!

آپ یہاں سے چلی جائیں ۔۔۔

ہم نہیں جائیں گے ۔۔۔

وہ دروازہ بند کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا جب عشیق نے دروازے پر ہاتھ رکھ کر اسکی بات کاٹی تھی 

اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسنے فورآ دروازہ بند کیا تھا عشیق کادل کرچی کرچی ہوا وہ بےجان سے ہوئی اور ایک قدم پیچھے لیا پھر دوسرا اور پھر تیسرا اسکے دروازے کو دیکھتے ہوئے وہ پیچھے ہو رہی تھی آنسوں اسکی آنکھوں سے بےتحاشہ بہہ رہے تھے ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی دل پر بےحد بوجھ کیساتھ کیسے اسنے اسکی ایک بات بھی نہیں سنی تھی اور اسے روم سے باہر نکال دیا تھا ۔۔۔

دروازے پر دستک سن کر وہ لیپ ٹاپ بند کر اٹھا تھا 

ڈیڈ آئیں ناں پلیز ۔۔۔

کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے ایک مبہم مسکراہٹ کیساتھ اسنے سہیل صاحب کو اندر آنے کی دعوت دی تھی وہ لیپ ٹاپ پر  کیمرہ سسٹم سے انہیں یہاں آتے ہوئے دیکھ چکا تھا شاید اس لئے عشیق کو واپس بھیجا تھا مگر وہ بیچاری تو سو آنسوں بہا کر اب بلینکٹ میں منہ چھپائے رونے کا شغل فرما رہی تھی 

نہیں شاہ بس دیکھنے آیا تھا سب ٹھیک ہے تم جانتے ہو پچھلے دنوں میں جو کچھ ہوا ہے اسکے بعد فکر لگی رہتی ہے ۔۔۔

ڈونٹ وری ڈیڈ سب ٹھیک ہے ۔۔

انکا ہاتھ تھام کر مسکراتے ہوئے تسلی دی تھی سہیل صاحب نے اسے گلے لگایا تھا وہ اب تک اسے ٹھیک سے نہیں مل پائے تھے اور دل تھا جو بار بار اسکی طرف کھینچا چلا آتا کیونکہ ناں وہ اسکا بچپن دیکھ پائے تھے ناں ہی اسے باپ کا پیار دے پائے تھے ناں ہی بچپن میں اس پر باپ کا سایہ رہا تھا اس لئے وہ خود کو اس چیز کا ذمہ دار سمجھ کر بےساختہ رو دیئے تھے

ڈیڈ ریلیکس سب ٹھیک ہو جائے گا ہوئی آر ٹوگیدر ناؤ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔  انکے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے اسنے سپاٹ لہجے میں کہا سہیل صاحب نے سر کو دھیرے سے ہاں میں جنبش دیکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر اسے سونے کا کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے ۔۔۔

۔۔۔۔

اگلی صبح:-

آپکی چائے ۔۔۔

آغا صاحب حیرت سے پیچھے پلٹے تھے قصا بیگم کو ان سے بات کرنا گوارہ نہیں کر رہی تھی انکی چائے ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی تھی اور انکی جانب دیکھا بھی تھا ۔۔

قصا  میری بات سنو۔۔۔

آغا صاحب کے بلانے پر وہ رکی تھی یہی تو وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے روکیں ۔۔۔

آغا اب کوئی فائدہ نہیں بات سننے کا ۔۔۔۔ قصا بیگم نے نظریں جھکائے خفا لہجے میں کہا آغا صاحب اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے صوفے پر بٹھا گئے تھے 

قصا مجھے معاف کر دو میں معافی چاہتا ہوں لیکن میں یہ بوجھ دل سے نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ میری بچی ہے قصا میں اس لئے اسے یہاں لایا ۔۔۔

میں سمجھتی ہوں آغا میری بھی تو بیٹی ہے ۔۔۔  قصا بیگم نے نظریں جھکائے شیریں لہجے میں کہا آغا صاحب نے مسکرا کر اسے دیکھا 

لیکن آج میں آپکے پاس اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لئے آئی ہوں آغا میں ۔۔۔

وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے انکی جانب دیکھ کر بولی آغا صاحب نے پریشانی سے اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھے تھے ۔۔۔

ماریہ شاہ ویر کو پسند کرتی ہے ایک ماں آپکے پاس آئی ہے اپنی بیٹی کے لئے آغا آپ سہیل بھائی اور شہنشاہ صاحب سے بات کریں ۔۔۔۔

آغا صاحب نے سنجیدگی سے انہیں دیکھا پھر کچھ پل گہری سوچ میں پڑ گئے تھے کیونکہ یہ بات انہوں نے بھی غور کی تھی انگیجمینٹ کے فنگشن میں ماریہ کا دھیان شاہ ویر کی طرف تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے قصا میں بات کرتا ہوں ۔۔۔

آپ وعدہ کریں اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لئے آپ یہ کریں گے ۔۔۔ 

آغا صاحب کا ہاتھ پکڑتی ہوئی وہ جلدی سے بولی آغا صاحب سنجیدہ ہوئے تھے مگر قصا بیگم کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر انکا دل پگھلا تھا اور انہوں نے ہاں میں سر ہلا کر اسکا ہاتھ تھاما تھا قصا بیگم کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی تھی 

۔۔۔۔۔

تمھیں کیا ہوا ہے لڑکی بڑی اداس رہتی ہو آج کل ۔۔۔ علیزے نے سینڈوچ کا بائٹ لیتے ہوئے کہا سب ناشتہ کر کے جا چکے تھے اسوقت ڈائننگ ہال میں علیزے نیشال زنیرا عشیق اور زارا تھی جو شادی کی تیاریوں کے بارے میں ڈسکشن کیساتھ ساتھ ہنسی مزاق بھی کر رہی تھی مگر عشیق کا اترا چہرہ دیکھ کر آخر علیزے نے پوچھ ہی لیا 

ہاں میں نے بھی نوٹس کیا ہے کچھ اداس رہتی ہے ۔۔ نیشال نے اسکے چہرے پر پھیلی اداسی دیکھ کر کہا 

کچھ بھی نہیں آپی۔۔۔ وہ بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑیستی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی 

چلو گرلز ہمارے لئے چائے بنا کر لاؤ ۔۔۔  دائم نے انکی گفتگو میں ملوث ہوتے ہوئے پاس پڑی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا اسکے ہمراہ حرب شان اور شاہ ویر بھی تھے ۔۔۔ 

کیوں ہم کیوں بنائیں جاؤ خود بنا لو ۔۔۔ علیزے نے منہ مروڑا نیشال نے شرما کر نجم کو دیکھا جو اسکے شرمانے پر گلہ پھاڑ قہقہ لگانے کو تیار تھا 

ہمم۔۔۔ بناتے ہیں ۔۔۔ شاہ ویر کی لو دیتی نظریں خود پر محسوس کر وہ جلدی سے اٹھی تھی علیزے نے ماتھا پیٹا تھا بھلا کیا ضرورت تھی اسے بنانے کی ۔۔۔

چلو میں ہیلپ کر دیتی ہوں ۔۔۔ زنیرا نے اٹھتے ہوئے کہا جبکہ زارا نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود عشیق کیساتھ چلی گئی زنیرا نے حرب کو دیکھا جو اسے ہی سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا

بھائی کیا چل رہا ہے اتنی ہی یاد آ رہی ہے تو اسکے ساتھ بیٹھ جائیں ناں ؟!

علیزے نے حرب کو چھیڑا جو لال ہوتا ہوا چہرے کا رخ پھیر گیا تھا زنیرا نے ہنسی دبائی تھی ۔۔۔ ماریہ فون پر انگلیاں سکرول کرتی ہوئی وہاں سے گزری جب شاہ ویر کو دیکھ کر وہ رکی تھی ۔۔۔ 

ارے تم کہاں جا رہی ہوآو بیٹھو چائے آتی ہی ہو گی ۔۔۔ علیزے ںے اسکا مزاق اڑایا مگر وہ تو جیسے انویٹیشن کے چکر میں تھی مسکراتے ہوئے وہ شاہ ویر کے سامنے پڑے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی تھی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں زے اسکی ڈریسنگ کا جائزہ لیا  اور فورآ نظرین پھیر لی تنگ بلیک ٹائٹس پر شارٹ بلیک شرٹ اور اس پر شارٹ بلیک لیتھر جیکٹ ۔۔ بالوں کو ٹیل پونی کئے ڈارک میک اپ میں وہ بےحد اوور لگ رہی تھی ۔۔۔ 

اچھا تو چائے کون بنا رہا ہے ؟! ماریہ نے فون پاکٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا 

عشیق اور زارا ۔۔۔ علیزے کی بات پر وہ مسکرائی اور کھڑی ہو گئی

میں لیکر آتی ہوں ۔۔۔ 

اتنا کہہ کر وہ جلدی سے جچن کی جانب بڑھی تھی 

زارا آپکو مماں نے بلایا ہے ۔۔۔ کچن میں داخل ہوتی ہوئی وہ جلدی سے بولی زارا نے سر ہاں میں ہلایا اور کچن سے باہر چلی گئی کیونکہ شادی کا گھر تھا اسے آفرین بیگم اور قصا بیگم بلاتی رہتی تھی کسی نا کسی کام کی غرض سے ۔۔۔ عشیق نے بےتاثر نظر سے ماریہ کس دیکھا اور چائے بنانے لگی ۔۔۔

ماریہ نے شیلف پر پڑا کپ جان بوجھ کر نیچے گرایا جو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا عشیق نے ڈرتے ہوئے کپ کو دیکھا

اوہ یار کیا کرتی ہو تم یہ مماں کا فیورٹ سیٹ کا کپ تھا جلدی سے اسے اٹھاؤ انہوں نے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گی ۔۔۔ ماریہ نے مصنوعی فکر کیساتھ کہا عشیق نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور کپ کے ٹکڑے سیمٹنے لگی ماریہ نے جلدی سے چائے میں کثیر تعداد میں نمک ڈالا تھا اور پھر فوراً پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔ 

تم کر لینا میں جا رہی ہوں ۔۔ 

وہ بےفکری سے کہہ کر کچن زے باہر نکل گئی عشیق نے چائے کو چولہے زے اتارا اور کپوں میں ڈالنے لگی اتنے میں زارا بھی آ گئی تھی اسے قصا بیگم نے ہی یہ سوچ کر روک لیا تھا کہ ماریہ نے کسی وجہ زے ہی اسے جھوٹ بول کر میرے پاس بھیجا ہو گا ۔۔۔

اب دیکھو تمھاری کیسے انسلٹ کرواتی ہوں میں ڈیئررر عشیق ۔۔۔ ماریہ اپنی جگہ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے سوچ کر مسکرائی 

وہ چائے کی ٹرے لیکر سب کو ایک ایک کپ دینے لگی شاہ ویر کی باری پر اسکا ہاتھ کانپا تھا وہ جلدی سے سب کو چائے دیکر واپس اپنی جگہ کر بیٹھی تھی ۔۔۔

عشو کیا ہوا ہے تمھیں یار ۔۔۔ 

علیزے نے دھیرے سے پوچھا تھا ابھی کسی نے چائے نہیں پی تھی وہ سنجیدگی سے کپ تھامے ہوئے اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا جو اسکی لو دیتی نظروں سے ان کمفرٹ ایبل ہوکر انگلیاں الجھانے میں مصروف تھی۔۔۔۔ 

چائے کا سپ لیتے ہوئے اسنے سپاٹ نظروں سے عشیق کو دیکھا تھا جو گھبرا کر اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔  ماریہ نے مسکراتے ہوئے شاہ ویر کو دیکھا جسے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی

اب دیکھو بچو تمھارے انسلٹ پکی ہے ۔۔۔ ماریہ نے فون پر انگلیاں سکرول کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہا مگر وہ تب چونکی جب اسنے بےفکری سے چائے کا دوسرا سپ لیا تھا ۔۔۔ 

حرب نے دائم کو فون پر کچھ دیکھایا تھا اور وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے تھے شان نے بےنیازی سے کپ اٹھایا تھا اور سپ لیا تھا اسکے کان اور ناک سے دھواں نکلا تھا ایسی چائے پی کر ۔۔۔ وہ پھیکا سا مسکرایا اور کپ واپس رکھ دیا شاہ ویر نے بمشکل ہی نچلا ہونٹ دبا کر ہنسی روکی تھی اسکے چہرے پر ایک منٹ میں بارہ  جو بجی تھی ۔۔۔ وہ زرا سا کھانسا اور پھر کپ کو گھورا اور پھر کھانستے ہوئے اٹھا ۔۔۔ عشیق سمیت باقی سب نے اسے دیکھا تھا جو اپنے کمرے میں گھسا تھا ۔۔۔ 

یہ اسے کیا ہوا ؟

علیزے نے کندھے اچکاتے پوچھا نیشال اسکی اس کیفیت پر پیٹ پکڑ کر ہنسی تھی جبکہ زنیرا نے اسے سر میں جھانپڑ لگایا تھا اور وہ چپ ہوئی تھی ۔۔

وہ پورا کپ پی کر اٹھا تھا ماریہ نے بےیقینی سے اسے دیکھا اسکی نیلی آنکھوں میں سرخی تھی کتنی مشکل سے اسنے چائے پی تھی مگر وہ تو اسکے ہاتھ کی زہر بھی کھا سکتا تھا یہ تو چائے تھی ۔۔۔

The tea was excellent whoever made it ۔۔

وہ فون کان سے لگاتے ہوئے جاتے جاتے بولا تھا عشیق کے گال سرخ پڑے تھے علیزے نے عشیق کو بلش کرتے ہوئے دیکھ کر ہنسی روکی تھی جبکہ ماریہ نے دانت پیسے تھے اور شان کا کپ اٹھا کر مسکرائی اسکے خیال سے چائے عشیق نے ٹھیک کر دی تھی اور شان کسی اور وجہ سے اٹھ کر گیا تھا یہی سوچ کر اسنے چائے کا بڑا سا سپ لیا تھا اور پھر اسنے سب کی نظریں خود پر محسوس کر اس سپ کو بمشکل گلے سے اتارا اسے اپنا حلق جلتا ہوا محسوس ہوا اسکی آنکھوں سے آنسوں نکلے وہ فون ٹیبل پر گراتی ہوئی تیزی سے اٹھی تھی زنیرا اور علیزے نے اسے حیرت سے اپنے کمرے کی جانب بھاگتے ہوئے دیکھا جبکہ عشیق نے کپ کو دیکھا تھا اور بڑھ کر کپ اٹھایا اور اس میں سب چھوٹا سا سپ لیا جب اسکا حلق جل کر رہ گیا ۔۔۔ 

اسنے گھبرا کر شاہ ویر کے خالی کپ کو دیکھا تھا اور پھر کچن سے پانی لینے کے لئے بھاگی تھی ۔۔۔ 

یہ ہو کیا رہا ہے یارا ۔۔۔ نیشال نے قہقہہ لگایا جبکہ زارا نے پریشانی سے عشیق کو کچن کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔۔

اچھا چلو میں بتانا ہی بھول گئی امی نے کہا تھا جیولری کلیکشن دیکھانے والی اسسٹنٹ آتی ہی ہو گی ہمیں اسکے بعد ڈریس بھی دیکھنے ہیں ۔۔۔ زنیرا نے انہیں یاد دلایا تھا سب اٹھ کر آفرین بیگم کے کمرے کی جانب بڑھی تھی 

۔۔۔۔۔

یہ ایک پرانا ٹرین اسٹیشن تھا جہاں پر ایک ریل گاڑی آ کر رکی تھی آبادی آس پاس ناں کے برابر تھی ٹرین سے کچھ لوگ لکڑیوں کی پیٹیاں نکالنے میں مصروف ہوئے تھے جب کسی ایک شخص سے ایک پیٹی نیچے گری تھی جس میں سے دو آٹو گنز باہر گری تھی ۔۔

بےوقوف ٹھیک سے نہیں کر سکتے تم ۔۔۔

ٹرین سے نکلتے دوسرے شخص نے اسے دھکا دیکر غرا کر کہا جس پر وہ معافی مانگتے ہوئے دوبارہ پیٹیاں اٹھانے میں مصروف ہوا تھا ان پیٹیوں کو یاک ٹرک کے ذریعے ناجانے کہاں لے جایا جا رہا تھا ۔۔

۔۔۔

وہ پانی کا گلاس پکڑے جلدی سے اسکے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا 

کیا ضرورت تھی اسے پینے کی شاہ ویر کیوں کیا آپ نے ایسا ۔۔۔  وہ دھیمے لہجے میں کہتی ہوئی جلدی سے اسکے دروازے پر ناک کرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔

کیا سوچتی ہو تم اندھی ہوں میں ، مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ 

اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس نیچے گرا تھا کیونکہ ماریہ نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھینچ کر لیجاتے ہوئے کہا

چھوڑو ہمارا ہاتھ ۔۔

اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہ پیچھے ہٹی تھی 

کیوں شاہ کے پیچھے پڑی ہو تمھیں لگتا ہے یہاں سب بےوقوف ہیں تم اسکے آگے پیچھے گھومو گی اور ہم تو اندھے ہیں ناں جیسے ہمیں تو کچھ نظر ہی نہیں اتا جیسے کہ تمھارے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔۔

اپنی حد میں رہیں بہت بول لیا آپ نے کون ہوتی ہیں آپ ہمارے کیریکٹر کو جج کرنے والی ۔۔۔  عشیق نے سختی سے کہتے ہوئے اسے جھٹکا جس پر وہ ششدر رہ گئی 

آج کے بعد اگر آپ نے ہمارے کیریکٹر پر ایک بات بھی کی تو ہم برداشت نہیں کریں گے آپ ہماری بہن ہیں اس لئے ہم نے بابا سے کچھ نہیں کہا لیکن اگر اب ہم اس رشتے کا لحاظ نہیں کریں گے کیونکہ یہاں بات ہمارے کیریکٹر پر ہو رہی ہے اور ہمارا کیریکٹر کیسا ہے یہ ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہمیں شوق نہیں ہے کسی کے آگے پیچھے گھومنے کا ۔۔۔ اسکے کندھے کے قریب سے وہ گزر گئی ماریہ نے حیرت سے اسے دیکھا جو اسے کھری کھری سنا کر نکل گئی تھی 

بہت زبان چل رہی ہے ناں تمھاری ویٹ کرو تم تمھاری آنکھوں کے سامنے ہمارا نکاح ہو گا اور تم سڑتی رہ جانا ۔۔۔ پیر پٹخ کر وہ اپنی لاڈلی ماں کے پاس چل دی تھی 

۔۔۔۔۔

سہیل کچھ بات کر سکتا ہوں تم سے ۔۔۔

ارے آغا آؤ بیٹھو ۔۔۔ 

سہیل صاحب نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے آغا صاحب کو چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا آغا صاحب کچھ سوچتے ہوئے چیئر پر بیٹھے تھے 

سہیل میری بات شاید تمھیں تھوڑی عجیب لگے ۔۔۔ 

آغا صاحب کہتے ہوئے رہ گئے سہیل صاحب نے انکی جانب دیکھا جو کافی حد تک پریشان لگ رہے تھے وہ خود بےحد کشمکش میں تھے اچانک سے ہی وہ کیسے شاہ ویر اور ماریہ کی بات کر دیتے ۔۔۔

میں اپنی بیٹی کے لئے ۔۔۔ 

بابا ۔۔۔ 

مرجان نے آفس میں داخل ہوتے ہوئے سہیل صاحب کو مخاطب کیا تھا آغا صاحب کی بات ادھوری رہ گئی تھی 

میٹنگ روم میں سب ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ مرجان نے ٹیبل سے کچھ فائلز اٹھاتے ہوئے سہیل صاحب کو یاد دہانی کروائی سہیل صاحب نے آغا صاحب کی جانب دیکھا جیسے جانے کی اجازت مانگ رہے ہوں 

ہاں میٹنگ کے بعد بات کرتے ہیں ۔۔۔ آغا صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا تینوں میٹنگ روم کی جانب بڑھ گئے تھے 

۔۔۔۔۔۔

یہاں ہم اس جھونپڑی میں سڑ رہے ہیں وہاں پر شادیاں ہو رہی ہیں منور ناجانے وہ کونسا منہوس وقت تھا جب میں آپکی باتوں سے متفق ہو بیٹھی تھی ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے سڑے ہوئے لہجے میں کہا منور صاحب نے تنگ نظروں سے کشمالہ بیگم کو دیکھا تھا وہ ناک چڑھائے بیٹھی تھی 

تو جاؤ واپس چلی جاؤ تم سے اچھی تو آفرین تھی کم سے کم جو حالات تھے گزارہ کر لیتی تھی ۔۔۔

کیا کہا تم نے آفرین اچھی ہے مجھ سے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے حیرت سے منور صاحب کو گھورا جو اپنی کہی بات پر لب بھینچ کر رہ گئے تھے ۔۔۔

میرے ہی نصیب پھوٹے ہوئے ہیں آپکا کوئی قصور نہیں ۔۔۔

کشمالہ بیگم نے سر پیٹ کر کہا تھا منور صاحب نے سرد آہ بھری تھی تب سے اب تک کشمالہ بیگم انہیں کوئی ہزار طعنے دے چکی تھی اور وہ تنگ آ چکے تھے انکے پاس تو اس وقت زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں تھے کیونکہ مرجان نے انکے سارے اکاؤنس بلاک کروا دیئے تھے لہذا اب وہ کنگال ہو کر ایک چھوٹے سے بوسیدہ گھر میں رہائش پذیر تھے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

زارا آپ سے ایک بات پوچھوں ۔۔۔

زارا نے  مصروف سا ہاں میں سر ہلایا تھا کیونکہ دونوں کچن میں کام کر رہی تھی 

اگر کوئی آپ سے ناراض ہو تو اسے کیسے مناتے ہیں ۔۔۔

اسکے عجیب و غریب سوال پر زارا کو کھانسی چھوٹی ۔۔

یہ تو کسی پر ڈیپیمڈ کرتا ہے ناں کہ وہ کسی کون ہے ۔۔۔ علیزے نے چپکے سے کچن میں داخل ہو کر کہا اسکے عجیب و غریب جواب پر زارا نے فروٹ کاٹتے ہوئے آنکھیں گھمائی تھی وہ آج کل کچھ زیادہ ہی چنچل مزاج ہو گئی تھی اور سب کی لاڈلی بھی ہو گئی تھی 

کیا مطلب آپکا ؟!

عشیق نے معصومیت سے پوچھا زارا نے سر پیٹا تھا اپنا ۔۔۔ 

میری معصوم سی جان دیکھو اب جو ناراض ہے وہ کون ہے یہ پوچھ رہی ہوں اسے منانے کا طریقہ بھی اسکی شخصیت پر ڈیپینڈ کرے گا ۔۔۔ علیزے نے اسکے قریب بیٹھتے ہوئے زارا کی پلیٹ سے سیب اٹھاتے ہوئے کہا زارا نے بےساختہ اسکے ہاتھ پر چپیڑ ماری تھی مگر وہ جلدی سے سیب اٹھا گئی تھی عشیق نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا 

ویسے تمھیں کس کو منانا تھا جسے بھی منانا ہے منا لو کل سے مایوں کا فنگشن سٹارٹ ہو رہا ہے پھر فرصت نہیں ملے گی ۔۔ علیزے نے ایپل کا بائٹ لیا زارا نے بھنویں اٹھا کر سر کو جنبش دی تھی وہ علیزے بی بی سے تنگ جو آ گئی تھی جو اسے الٹے سیدھے مشورے دے رہی تھی 

ارے ہٹو تمھیں کیا پتا میں ہوں ناں آ جاؤ میری جان میں بتاتی ہوں کیسے مناتے ہیں ۔۔۔ علیزے نے عشیق کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا عشیق زارا کو دیکھ کر ہنسی تھی جو منہ مروڑتے ہوئے وہاں سے نکل گئی تھی 

دیکھو پہلے تو جو ناراض ہو اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہیں ۔۔۔  پھر اسے دیکھتے رہتے ہیں دیکھتے رہتے ہیں دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔

عشیق نے حیرانی سے اسے دیکھا زنیرا جو فریج سے پانی لینے آئی تھی منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے قہقے کا گلا گھونٹ چکی تھی 

پھررر ؟!

عشیق نے معصومیت سے پوچھا 

پھر اس کو ایسے پکڑ کر ایک کس دے دو ۔۔۔

اسکے چہرے کو پکڑتی ہوئی علیزے نے اسکی گال پر بوسہ دیا جس پر وہ چونک گئی ۔۔۔

ہاہاہاہا ۔۔۔

زنیرا کا فلک شگاف قہقہ کچن میں گونجا عشیق نے شرماتے ہوئے گال پر ہاتھ رکھا تھا علیزے نے زنیرا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تالی بجائی تھی ۔۔

ہاہاہاہا۔۔۔ ایسا مت کرنا عشیق یہ لڑکی پاگل ہو گئی ہے ۔۔ زنیرا نے اسے سمجھایا وہ شرما کر وہاں سے بھاگ گئی تھی زنیرا نے علیزے کے سر میں چپت لگائی تھی وہ ہنستے ہوئے ایپل کا دوسر بائٹ لے گئی تھی ۔۔۔

۔۔۔

عشا کی نماز کے بعد سب لاونج میں جمع ہوئے تھے یہی تو وقت ہوتا تھا سب مل بیٹھ کر باتیں کرتے تھے 

ساری تیاریاں ہو گئی ؟! 

جی بھائی صاحب ساری تیاریاں ہو گئی اللہ کے کرم سے۔۔۔ آفرین بیگم نے سہیل صاحب کی بات کا جواب دیا آغا صاحب گہری سوچ میں تھے وہ اس کشمکش میں تھے کہ سہیل صاحب اور شہنشاہ صاحب سے کیسے بات کی جائے ۔۔۔ 

شاہ کہاں ہے بچے؟! 

شہنشاہ صاحب نے اسکی غیر موجودگی محسوس کرتے ہوئے پوچھا 

دادا سائیں وہ کچھ امپورٹینٹ کیس ہینڈل کر رہا ہے دوپہر کو ہم ہیڈ کوارٹر گئے تھے سر نے کچھ ڈیٹیلز ہمارے ساتھ شیئر کی جن پر اسے ری سرچ کرنی تھی ۔۔۔ 

مرجان نے سنجیدگی سے بتایا شہنشاہ صاحب نے سر کو دھیرے سے ہاں میں ہلایا تھا 

بیٹا عشیق کہاں ہے ؟! 

ماریہ نے آنکھیں گھمائی تھی آغا صاحب کے سوال پر ۔۔۔

انکل وہ تھک گئی تھی اس لئے میں نے اسے دوائی دیکر سونے کا کہہ دیا کل کافی کام ہوں گے گھر میں ریسٹ نہیں کر پائے گی اس لئے ۔۔۔ 

زارا کی بات پر سر ہلاتے ہوئے آغا صاحب نے لب بھینچے تھے ۔۔۔

بیٹا آپ آرام نہیں کر رہی ؟ 

آفرین بیگم نے اسے لاونج میں اینٹر ہوتے دیکھ کر پوچھا 

سوری وہ ہمیں نیند نہیں آ رہی تھی اس لئے ۔۔۔ عشیق نے ژالے کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا ژالے نے مسکراتے ہوئے اس پر اپنی شال ڈالی تھی کیونکہ سردی پڑ رہی تھی 

شکریہ ۔۔۔ 

عشیق نے مسکرا کر کہا  

ڈیکوریشن والے کل صبح آ جائیں گے انہیں سب سمجھا دیا ہے وہ مایوں کے فنگشن کے حساب سے ڈیکوریشن کر دیں گے ۔۔۔ 

صحیح۔۔۔ 

حرب کی بات سنتے ہوئے مرجان نے جواب دیا تھا 

بابا صاحب میں کچھ بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ 

بولو آغا ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے سنجیدگی سے آغا صاحب کو دیکھ کر کہا جو خاصے ہریشان نظر آ رہے تھے قصا بیگم مسکرائی تھی کافی دیر سے وہ آغا صاحب کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ بات شروع کریں آخر کار انہوں نے بات شروع کر ہی دی تھی

میں شاہ ویر اور ماریہ کو لیکر بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔

شہنشاہ صاحب سنجیدہ ہوئے جبکہ سہیل صاحب سمیت سب نے آغا صاحب کی جانب دیکھا سوائے ماریہ اور قصا بیگم کے ۔۔

اگر آپ اجازت دیں تو میں آج ماریہ اور شاہ ویر کے نکاح کی ڈیٹ رکھنا چاہتا ہوں نیشال اور نجم کے نکاح کیساتھ ۔۔۔ 

شہنشاہ صاحب نے کچھ کہنا چاہا جب سہیل صاحب مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کر آغا صاحب کو گلے لگا گئے تھے 

اس سے اچھی بھلا کیا بات ہو سکتی ہے آغا ۔۔۔ ہے ناں بابا سائیں۔۔۔ 

شہنشاہ صاحب نے سہیل صاحب کے چہرے پر خوشی دیکھ کر کچھ کہنے کا ارادہ ترک کیا اور مسکرا کر سر ہاں میں ہلایا تھا 

عشیق کو اپنے پیروں تلے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اسکا دل ڈوب گیا تھا ۔۔۔ 

مرجان وہ فائل کہاں رکھی ہے تم نے ۔۔۔

شاہ ویر کو دیکھ کر سب ہی مسکرائے تھے جس پر اسنے سنجیدگی سے سب کو دیکھا تھا عشیق کی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھی مگر اسنے بہتر ناں سمجھ کر اسکی جانب دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔

مبارک ہو بھائی ۔۔۔ نجم کو سپاٹ نظروں سے دیکھ کر اسنے سہیل صاحب کی جانب دیکھا تھا 

بیٹا ہم نے آپکی اور ماریہ کے نکاح کی ڈیٹ فکس کی ہے ۔۔۔۔ 

شاہ ویر کو شدید جھٹکا لگا تھا اسنے سنجیدگی سے عشیق کی جانب دیکھا تھا اسکا وجود کانپ رہا تھا وہ بمشکل آنسوں ضبط کئے بیٹھی تھی 

جاؤ زارا زنیرا بیٹا مٹھائی لیکر آؤ ۔۔۔ 

قصا بیگم نے جلدی سے کہا زارا اور زونی مسکراتے ہوئے مٹھائی لینے چلی گئی تھی

بھائی صاحب ایک بار بچوں سے بھی پوچھ لیں انکی مرضی ۔۔۔ آفرین بیگم کی بات پر قصا بیگم کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی 

بڑوں کے فیصلے میں چھوٹوں کا کیا کام ہے ویسے بھی  یہ بابا سائیں اور بھائی صاحب کا فیصلہ ہے  اس میں کسی اور کی مرضی کی کیا گنجائش ہے ۔۔۔ 

آفرین بیگم قصا بیگم کی بات سن کر خاموش ہوئی ۔۔۔

سوری ہمیں ٹھنڈ لگ رہی ہے ۔۔۔ 

وہ کپکپاہٹ پر قابو پاتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی اور اٹھی 

جاؤ بچے آرام کرو ۔۔۔

آفرین بیگم نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا وہ اٹھ کر اندر چلی گئی تھی ماریہ کے چہرے پر چمک تھی آنکھوں میں غرور تھا اسے پانے کا وہ سنجیدگی سے لب بھینچے سر جھکائے کھڑا رہا سہیل صاحب کے چہرے پر بکھری خوشی وہ سمیٹنا نہیں چاہتا تھا 

میں آتا ہوں سبمٹ کرنا ہے کچھ ۔۔۔  

رکو بچے ۔۔۔ سہیل صاحب نے اسے روکا 

آپ خوش ہیں اس رشتے سے ؟! سہیل صاحب نے سوال کیا عشیق نے  جاتے جاتے آنسوں سے بھری آنکھوں سے شاہ ویر کو دیکھا جس کے چہرے پر سپاٹ تاثرات چھائے تھے وہ سہیل صاحب کو براہ راست جواب دیکر ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا 

ڈیڈ آپ نےشاید جلد بازی کر دی ۔۔۔

وہ سپاٹ لہجے میں کہہ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا شہنشاہ صاحب نے سنجیدگی سے اسے جاتے دیکھا تھا  اور پھر اٹھتے ہوئے اسکے پیچھے چل دیئے تھے 

سہیل صاحب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جسنے جاتے ہوئے ایک بار بھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا تھا 

۔۔۔۔

وہ ٹیرس پر کھڑا ہوا دور اندھیرے میں کہیں غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اسکے سلکی بال ہوا میں لہرا کر بار بار اسکی پیشانی پر آ رہے تھے مگر وہ گہری سوچوں میں گم سم کھڑا اپنے ذہن پر اس لڑکی کے بارے میں سوچ سوچ کر دباؤ ڈال رہا تھا جو پہلے اسے چھوڑ گئی تھی بہت تہمل لے بعد اسنے آگے بڑھنا چاہا اپنی فیملی کیساتھ مگر قدرت نے اسے پھر اس ہی لڑکی سے ملایا تھا اور اب اسکے لئے ایک اور کڑا امتحان تھا 

شاہ ۔۔۔ 

شہنشاہ صاحب کی آواز پر اسنے بھینچے ہوئے لب وا کئے تھے اور پیچھے مڑا تھا شہنشاہ صاحب اسکے برابر آ کر رکے تھے اور اسی جانب دیکھنے لگے جس جانب وہ کچھ وقت پہلے دیکھ رہا تھا 

یہاں ٹھنڈ ہے دادا سائیں اندر چل کر بات کرتے ہیں ۔۔۔  ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کو اسنے اب محسوس کیا تھا شہنشاہ صاحب محض مسکرا دیے تھے 

کیا چل رہا ہے آپکے ذہن میں ۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں آپ خوش نہیں لگ رہے ۔۔۔ 

وہ شہنشاہ صاحب کی بات سن کر سنجیدہ ہوا تھا سر کو خم دیکر اسنے نظریں ایک پل کو جھکائی اور لب بھینچے شہنشاہ صاحب نے مسکرا کر اسے دوبارہ دیکھا جو خاصا کشمکش میں مبتلا لگ رہا تھا ۔۔۔

ایسی کونسی شے ہے جس نے میرے شیر بیٹے کو گہری کشمکش میں ڈال دیا ہے ؟! 

شہنشاہ صاحب کے سوال پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا ۔۔۔

میں یہ شادی نہیں کر سکتا دادا سائیں ۔۔۔

اسکے مختصر سے مگر براہ راست جواب لر شہنشاہ صاحب کچھ دیر گہری سوچ میں پڑ گئے تھے

اور وجہ کیا ہے اسکی ؟! 

شہنشاہ صاحب کے سوال نے اسے مزید سنجیدہ کیا وہ نظریں اٹھاتے ہوئے کچھ پل اندھیرے میں کچھ تلاشتا رہا ۔۔۔

ٹھیک ہے شاہ وقت لوو ۔۔۔ میں تم پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا جب بتانا مناسب سمجھو بلاجھجک بتا دینا ۔۔۔ 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتا شہنشاہ صاحب اسے اضطرابی کیفیت میں دیکھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے تسلی بخش لہجے میں بول کر وہاں سے جا چکے تھے اسنے لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے آنکھیں میچی تھی ہوا کا ٹھنڈا جھونکا اسکے سپاٹ چہرے کو چھو کر گزرا تھا

۔۔۔۔

آج گھر میں مایوں  اور مہندی کا فنگشن تھا ڈیکوریٹرز ڈیکوریشن میں مصروف تھے کاریڈور اور ٹیرس کے ساتھ ساتھ لاونج اور مین ہال کو بھی پیلے پردوں سے سجایا جا رہا تھا اور ساتھ ہی سفید اور پیلے گلاب کے پھولوں سے سجایا جا رہا تھا گھر میں بےحد مصروفیات تھی سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے 

دروازے پر دستک سن کر عشیق نے جلدی سے آنکھیں صاف کی اور اپنا حلیہ درست کر کے دروازہ کھولا دروازے پر ماریہ کھڑی تھی عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا اسے دیکھ کر ۔۔۔

ہممم تم نے مٹھائی تو کھائی ہی نہیں میں نے سوچا تمھیں خود دیکر آتی ہوں ۔۔۔ اور یہ تمہارا ڈریس چاچی جان نے بھجوایا ہے پہن کر ریڈی ہو جانا تھوڑی دیر میں ۔۔۔ دیکھو اب ہونے والی دلہن خود تم سے مبارک باد لینے آئی ہے  عنقریب ہی شاہ ویر ہاں کر دے گا ۔۔۔۔مبارک نہیں دو گی مجھے عشییییییق ؟! 

وہ اسکے نام پر دباؤ ڈال کر بولی عشیق نے اس کے ہاتھ سے ڈریس لیکر صوفے پر رکھا ۔۔۔ 

مبارک ہو آپکو ۔۔

وہ بیزار لہجے میں بولی جس پر ماریہ مسکرائی ۔۔۔

تمھیں دیکھ کر لگتا ہے تم دل سے نہیں کہہ رہی کیووں کیسا لگ رہا ہے بہت آگے پیچھے دوڑتی تھی شاہ ویر کے تم نے سوچا تمھاری یہ سبز سبز آنکھیں اسے پھنسا لیں گی یا تمھاری یہ لمبی زلفیں اسے پھنسا لیں گی ۔۔۔ ان کو تو کٹوا ہی دو ۔۔۔ ارے رکو میں ہی کاٹ دیتی ہوں ۔۔۔

ساتھ پری ٹیبل سے چھوٹا سا سیزر اٹھاتے ہوئے ماریہ نے اسکا بازو پکڑا تھا عشیق نے اسے پیچھے دھکا دینا چاہا مگر اسکی گرفت مظبوط تھی اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسنے اسکی کمر سے لگاتے ہوئے سزر اسکے بالوں کے قریب کیا تھا جب کسی کے مظبوط ہاتھ نے اسکی کوشش ناکام بناتے ہوئے اسے پیچھے کو براہ راست دھکا دیکر ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا تھا ۔۔۔ وہ بےیقینی سے اپنے سرخ گال پر ہاتھ رکھ کر اسکی جانب دیکھ رہی تھی عشیق نے جلدی سے اپنا نیچے گرا ہوا دوپٹہ اٹھایا تھا ۔۔ 

عشیق نے نم آنکھوں سے اسکی چوڑی مظبوط پشت دیکھی تھی جو اسکے سامنے ڈھال کی طرح کھڑا ہوا تھا 

You slapped me Shahveer ??

ماریہ نے گال پر ہاتھ رکھے چیخ کر کہا جب نظر اسکے لال پڑتے چہرے پر پڑی تو وہ خاموش ہوئی تھی 

Today you have crossed all limits ۔۔۔

وہ جبڑے بھینچتے ہوئے کرخت لہجے میں دھاڑا تھا عشیق نے اسکی گرجدار آواز پر جھرجھری لی تھی جبکہ ماریہ کا چہرہ سرخ پڑا تھا غصے سے ۔۔۔

You always take this girl's side. Who the hell is this girl? Why are you so sympathetic? Tell mee... 

کیوں لیتے ہو ہر وقت اس لڑکی کی  سائڈ بولو یہ جیئے یا مرے تمھیں کیااا بولو ۔۔۔

وہ بدتمیزی سے عشیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخی جبکہ اب کی بار پہلے سے بھی زیادہ شدت دار تھپڑ اسکے دوسرے گال پر پڑا تھا درد اور الم کے سبب اسکی آنکھیں آنسوں سے بھری تھی ۔۔۔ عشیق نے ڈرتے ہوئے اسکا مظبوط ہاتھ پکڑا تھا جس کی مٹھی بنائے وہ طیش سے سرخ پڑ رہا تھا ۔۔۔

شیی۔۔۔شیری نوو ۔۔۔

اسکے ہاتھ کو پکڑ کر عشیق نے سہمے ہوئے قریب ہوتے  دھیمے لہجے میں کہا جبکہ  عشیق کو اسکا ہاتھ پکڑتا دیکھ کر ماریہ غصے سے اسکی طرف بڑھی مگر وہ  بازو سے جکڑتے ہوئے اسے عشیق سے بہت پیچھے ہٹا چکا تھا ۔۔۔

ماریہ کی چیخ و پکار سن کر تقریباً گھر کے سبھی فرد وہاں جمع ہوئے تھے ۔۔۔ قصا بیگم ماریہ کو روتے دیکھ کر آگے آئی تھی ۔۔

منہوس اب تم نے کیا کر دیا ۔۔۔  قصا بیگم نے پیچھے کھڑی تھرتھراتی عشیق سے کہا جو انکی بات پر شرمندگی سے نظریں جھکا چکی تھی جبکہ قصا بیگم کے الفاظ آغا صاحب کو دل میں پگھلتے سیسے کی مانند تکلیف دے گئے تھے ۔۔۔

شاہ ویر نے مٹھی بھینچی تھی عشیق نے اسکا ہاتھ دبایا تھا وہ اسے روکنا چاہتی تھی ۔۔۔ 

مماں یہ لڑکی جب سے آئی ہے شاہ ویر کے پیچھے پڑی ہے ۔۔ اور آج اسکی وجہ سے شاہ ویر نے مجھے تھپڑ مارا ۔۔۔

ماریہ نے عشیق کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے نفرت بھرے لہجے میں کہا 

قصا بیگم نے عشیق کو حیرت غم و غصے سے دیکھا اور اسے تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا جسے شاہ ویر نے روکا تھا عشیق نے ڈرتے ہوئے آنکھیں بند کی تھی قصا بیگم کے چہرے پر حیرت و تعجب کے آثار واضح تھے وہ بھلا کیوں اسے بچا رہا تھا ؟! 

عشیق پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی نہیں کریں گی آپ ۔۔۔ وہ انکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا سہیل صاحب نے قدم  آگے بڑھاتے ہوئے ایک زوردار تھپڑ شاہ ویر کے چہرے پر جڑ دیا تھا ۔۔۔

بڑی ہیں وہ تم سے ہمت کیسے ہوئی تمھاری ان سے ایسے بات کرنے کی ۔۔۔  سہیل صاحب نے سرخ ہوتے چہرے کیساتھ کہا آفرین بیگم نے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا انہیں امید نہیں تھی سہیل صاحب اپنے بڑے بیٹے پر ہاتھ اٹھائیں گے ۔۔۔

کیا لگتی ہے یہ تمھاری ۔۔۔  جس کے لئے تم سب سے لڑ جانے کو تیار ہو ۔۔۔۔ قصا بیگم نے عشیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زہر کند لہجے میں کہا 

بیوی ہے میری ۔۔۔ 

وہ جبڑے بھینچے کاٹ دار لہجے میں بولا تھا 

اسکے الفاظ نے وہاں کھڑے ہوئے سبھی افراد کے چہرے کے رنگ اڑا دیئے تھے عشیق کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر اسکے گالوں پر بکھرتے چلے گئے ۔۔۔

کیا لگتی ہے یہ تمھاری ۔۔۔  جس کے لئے تم سب سے لڑ جانے کو تیار ہو ۔۔۔۔ قصا بیگم نے عشیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زہر کند لہجے میں کہا 

بیوی ہے میری ۔۔۔ 

وہ جبڑے بھینچے کاٹ دار لہجے میں بولا تھا 

اسکے الفاظ نے وہاں کھڑے ہوئے سبھی افراد کے چہرے کے رنگ اڑا دیئے تھے عشیق کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر اسکے گالوں پر بکھرتے چلے گئے ۔۔۔

نم آنکھوں سے عشیق نے اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا جس سے مظبوطی سے شاہ ویر نے عشیق کا ہاتھ تھاما تھا وہ گھبراہٹ کے عالم میں لرز رہی تھی اور شاید اسی لئے شاہ ویر نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے یہ احساس دلایا تھا کہ وہ اب ابھی اسکے ساتھ کھڑا ہے عشیق نے شرمندگی سے نظریں جھکا لی تھی کیونکہ وہ اس تھپڑ کا زمہ دار خود کو ٹھہرا رہی تھی جو سہیل صاحب نے شاہ ویر کو مارا تھا ۔۔

مزاق ہو رہا ہے یہاں پر ،، کل ہی سہیل بھائی صاحب نے خود شاہ ویر اور ماریہ کا رشتہ طے کیا اور آج انکا بیٹا کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی اس کی بیوی ہے ؟ 

قصا بیگم کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اس لئے وہ کسی آتش فشاں کی طرح انگارے اگلنے کو تیار تھی 

سہیل نے کوئی رشتہ طے نہیں کیا تھا ۔۔۔

شہنشاہ صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے قصا بیگم تھم گئی تھی جبکہ آغا صاحب نے سر کو دھیرے سے ہاں میں جنبش دیکر اسکی بات پر ردعمل ظاہر کیا تھا 

اور شاہ ویر نے کب اس رشتے کے لئے رضا مندی ظاہر کی تھی ؟! کل رات ہی شاہ نے ہمیں انکار کر دیا تھا ہم نے ہی اسے وقت دیا سوچ لینے کے لئے مگر وہ صحیح لفظوں میں ہمیں کل رات ہی انکار کر چکا تھا ۔۔۔

سہیل صاحب نے شہنشاہ صاحب کی جانب دیکھا مگر بولے کچھ نہیں تھے انہوں نے ایسے ہی شاہ ویر پر ہاتھ اٹھا دیا تھا مگر وہ والد تھے اسکے ناں ہی شاہ ویر نے اس تھپڑ پر کوئی ردعمل دیا تھا ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا اور ایک پیپر کیساتھ واپس آیا تھا جو اسنے قصا بیگم کے ہاتھ میں تھمایا تھا ماریہ نے جلدی سے قصا بیگم کے ہاتھ سے وہ پیپر لیا تھا جو انکے نکاح نامے کی کاپی تھی ۔۔۔ ماریہ کے ہاتھ کانپے تھے اسنے رندھی نظروں سے شاہ ویر کو دیکھا پھر عشیق کو سہیل صاحب نے قصا بیگم کے ہاتھ سے نکاح نامہ لیا تھا اور ایک ایک کر کے سب نے دیکھا تھا کسی کے چہرے پر حیرت تھی تو کسی کے چہرے پر تعجب ۔۔۔ 

کیا قصور تھا میرا میں نے تو صرف تم سے پیار کیا تھا ۔۔۔

ماریہ نے چیختے ہوئے شاہ ویر کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر سپاٹ تاثرات کے سوا کچھ بھی نہیں تھا قصا بیگم نے ماریہ کو چپ کرواتے ہوئے اسے گلے لگایا مگر وہ انہیں پیچھے ہٹاتے ہوئے چیختی چلی گئی 

میں نے تم سے پیار کیا صرف تمھیں چاہا تم نے کیا کیا شاہ ویر حیدر کاظمی بولووو ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے دروازے کی جانب دیکھ گیا تھا جہاں سے ایک لڑکا زبیر کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا تھا سب نے اسی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

ماریہ نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا اسکے اوسان خطا ہوئے تھے ۔۔

کون ہو تم وہیں رک جاؤ اندر آنے کی اجازت کس نے دی تمھیں ۔۔۔

شہنشاہ صاحب نے اسے لاونج میں ہی رکنے کا حکم دیا تھا 

رکیں دادا سائیں ۔۔۔ 

شاہ ویر نے سپاٹ لہجے میں کہا اور اسکی جانب بڑھا ماریہ کے ہاتھ پیر کانپ پڑے تھے 

یہ لڑکی مجھ سے محبت کے دعوے کر رہی ہے پوچھیں اس سے یہ لڑکا کون ہے ؟!

ماریہ کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ لب و لہجے میں کہا قصا بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے ماریہ کو دیکھا تھا جو اب تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔ شہنشاہ صاحب آغا صاحب اور سہیل صاحب کی نظریں ماریہ پر تھی 

مم۔۔۔میں نہیں جانتی یہ کون ہے ۔

وہ تیکھے لہجے میں بولی مگر اسکے لہجے میں اور چہرے پر خوف کے سوا کچھ نہیں تھا جس پر شاہ ویر نے سنجیدگی سے اپنی پاکٹ سے ماریہ کا فون نکالا ماریہ کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوئے تھے اسکے ہاتھ میں اپنا فون دیکھ کر جس پر کچھ سکرول کرتے ہوئے اسنے آغا صاحب کی جانب بڑھایا جسے آغا صاحب نے سپاٹ نظروں سے دیکھا قصا بیگم نے ماریہ کے بازو میں انگلیاں پیوست کی ماریہ نے بھرائی ہوئی آنکھوں کیساتھ قصا بیگم کو دیکھا قصا بیگم خود نوٹس کر چکی تھی کچھ دنوں سے جب وہ فون کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہوتی تھی ان کے آتے ہی وہ فون بند کر دیتی تھی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ 

آغا صاحب نے ماریہ کے پیار بھرے میسیجز خود اپنی آنکھوں سے دیکھے پھر اس لڑکے کی طرف بڑھے جب شاہ ویر نے انہیں روکا ۔۔۔

میں معزرت خواہ ہوں مجھے کسی لڑکی کے کردار پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں بنتا لیکن جو میری بیوی کے پاک کردار پر انگلی اٹھائے گا اسکا ہاتھ توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔۔۔ اور میں یہ ہرگز برداشت نہیں کروں گا کوئی میری وائف کے کیریکٹر پر بات کرے ۔۔۔

قصا بیگم اور ماریہ کی جانب دیکھتے ہوئے وہ گرم لہجے میں بولا ماریہ نے تو شرم سے نظریں ہی نہیں اٹھائی تھی جبکہ قصا بیگم نے مٹھیاں بھینچ کر بےعزتی ضبط کی تھی ۔۔۔

یہ بات اس گھر سے باہر نہیں جانی چاہیے ہمارے خاندان کی بدنامی ہم کسی صورت برداشت نہیں کریں گے ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے اس لڑکے کو دیکھ کر خونخوار لہجے میں کہا جس پر اسنے سلیقے سے سر جھکاتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا آغا صاحب تو اسے مار ڈالنے کے دم پر تھے مگر مرجان نے انہیں روکا تھا قصا بیگم سے جب برداشت ناں ہوا تو انہوں نے سب کے سامنے ماریہ کو ایک زوردار تھپڑ رسید کر ڈالا ماریہ گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے روتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔ قصا بیگم قہر برساتی نظروں سے عشیق کو دیکھتے ہوئے وہاں سے گئی تھی 

 جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں گھر میں شادی کا موقع ہے ہے بھائی صاحب ۔۔۔ آفرین بیگم نے شل کھڑے سہیل صاحب سے کہا جنہوں نے سر کو دھیرے سے جنبش دیتے ہوئے وہاں سے جانے میں غنیمت جانی وہ جاتے جاتے ایک سنجیدہ نظر سے شاہ ویر کو دیکھنا نہیں بھولے تھے ۔۔۔ 

مجھے معاف کر دیں ڈیڈ  آپ مجھے جو سزا دینا چاہیں دے سکتے ہیں اس میں عشیق کی کوئی غلطی نہیں یہ سب میری وجہ سے ہوا میں نے ہی اسے اس نکاح کے لئے فورس کیا تھا۔۔۔

اس نے سپاٹ لہجے میں کہہ کر نظریں جھکائی جب کہ عشیق نے شہنشاہ صاحب کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر ناں میں سر ہلایا تھا ۔۔۔

نن۔۔۔نہیں دادا صاحب ۔۔۔۔ اس۔۔۔ میں ۔۔۔ ہماری بھی غلطی ہے ۔۔ہمیں شاہ نے فورس نہیں کیا تھا ۔۔۔  

وہ کانپتے ہوئے لہجے میں بمشکل  خود کو بھی برابر کی شریک دار ٹھہرا کر اپنے الفاظ مکمل کر پائی تھی جبکہ اسکے یوں اچانک بول پڑنے ہر شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا اور اسکے منہ پر قفل لگا تھا اسکی آنکھوں میں دیکھ کر ۔۔۔  یعنی وہ سارا الزام خود پر لینا چاہتا تھا 

بھائی صاحب جو کچھ ہوا اسے بھول جائیں بچے معافی مانگ رہے ہیں ۔۔۔ آفرین بیگم نے خاموش کھڑے آغا صاحب سے کہا جنہوں نے سہیل صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا سہیل صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری تھی 

عشیق نے شہنشاہ صاحب کے سامنے رکتے ہوئے ہاتھ جوڑے تھے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔۔

دادا صاحب ۔۔۔ پلیز آپ شاہ ویر کو معاف کر دیں ۔۔۔ ہماری وجہ سے آپ سب کو تکلیف ہوئی  ۔۔۔ 

وہ بولتے ہوئے رکی تھی جب شہنشاہ صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا وہ ان دنوں میں اسکی تربیت اور تہذیب بخوبی دیکھ چکے تھے اور انہیں فخر محسوس ہوتا تھا اسے دیکھ کر ۔۔۔ آغا صاحب مسکرائے تھے مگر سہیل صاحب اب تک سنجیدہ ہی کھڑے تھے 

مجھے سزا دیں ڈیڈ ۔۔۔  آپ مار سکتے ہیں مجھے لیکن میری نظروں میں یہ غلطی نہیں ہے میں نے نکاح کیا ہے اپنی محبت سے اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ۔۔۔ 

نظریں جھکائے وہ سپاٹ انداز میں بولا سہیل صاحب نے اسے سینے سے لگایا تھا آفرین بیگم اور ژالے مسکرائی تھی ۔۔۔  خاموش کھڑی زارا اور زونی نے سکون کا سانس لیا تھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائی تھی ۔۔۔ 

میں نے ہاتھ اٹھایا آپ پر شاہ ۔۔۔  سہیل صاحب نے اسکی کشادہ پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے ٹوٹے لہجے میں کہا جس پر اسنے سہیل صاحب کے دونوں ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگائے اور پھر ان پر لب رکھے ۔۔۔

آپ کو حق ہے ڈیڈ آپ مجھے ڈانٹ سکتے ہیں ہاتھ بھی اٹھا سکتے ہیں ۔۔۔ وہ انکے ہاتھ پر لب رکھتا ہوا سرعت سے بولا سہیل صاحب نے اسے سینے سے لگایا تھا انکی آنکھوں میں نمی تھی وہ یقیناً پچھتا رہے تھے اس پر ہاتھ اٹھا کر ۔۔۔ 

آفرین بیگم نے روتی ہوئی عشیق کو چپ کروایا تھا اور اسے پیار کیا تھا ۔۔۔ شاہ ویر نے شہنشاہ صاحب سے بھی معافی مانگنی چاہی مگر وہ تو فخر سے اسے سینے سے لگا چکے تھے ۔۔۔

آغا صاحب عشیق کے پاس آئے عشیق نے نم آنکھوں سے انکی جانب دیکھا وہ بےحد شرمندہ تھی اس لئے ان سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی ۔۔۔

کیا میری بچی خوش ہے اس رشتے سے  ؟!

وہ سرخ ہوتے چہرے کیساتھ جی  بابا ہی کہہ پائی تھی  شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا جو کہہ رہی تھی وہ خوش ہے اسکے ساتھ اسکا دل شدت سے دھڑکا تھا کچھ دن پہلے تو وہ اسے چھوڑ آئی تھی یہ کہہ کر کہ وہ اس سے نفرت کرتی ہے اور آج وہ کہہ رہی تھی وہ خوش ہے ۔۔

جاؤ بیٹا تیاریاں کرو بہت کام پڑا ہے ۔۔۔  اور اب ہماری بچی کی بھی رخصتی ساتھ میں ہی ہو گی۔۔۔ 

جی انکل ۔۔۔ زنیرا زارا اور ژالے سہیل صاحب کی بات سن کر وہاں سے گئی تھی مرجان باقی سب کیساتھ اپنے کام میں مصروف ہوا تھا عشیق نے ڈرتے ہوئے شاہ ویر کو دیکھا جو کچھ دیر پہلے غصے سے سرخ انگارا بنا ہوا تھا اسکی جانب دیکھتے ہوئے بھی وہ ڈر رہی تھی ۔۔۔  سہیل صاحب اور آغا صاحب شہنشاہ صاحب کو کمرے میں چھوڑنے گئے تھے 

جاؤ بچے ۔۔۔ اپنے کمرے میں جاؤ ۔۔۔ 

جج ۔۔جی ۔۔۔ عشیق اپنے کمرے کی طرف مڑی تھی آفرین بیگم کی بات سن کر جب شاہ ویر کو دیکھ کر رکی تھی وہ سنجیدگی سے اسے نظروں سے کہہ چکا تھا 

""ہمارے کمرے میں "" 

جس پر وہ حلق تر کرتے ہوئے گڑبڑائی تھی ۔۔۔

نہیں بچے عشیق ٹھیک جگہ جا رہی ہے ۔۔۔  نجم اور نیشال کے نکاح کیساتھ ہی عشیق کی رخصتی ہو گی آپ اپنے کمرے میں جائیں ۔۔۔ آفرین بیگم نے مسکراتے ہوئے شاہ ویر کے سر پر بم پھوڑا وہ عشیق کو سپاٹ نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے میں گھس گیا تھا عشیق نے سکھ کا سانس لیا تھا ورنہ اس معصوم کا تو دل حلق میں اچھل پڑا تھا اسے غصے میں دیکھ کر ہی ۔۔۔ 

آفرین بیگم عشیق کو اسکے کمرے میں لے گئی تھی ۔۔۔

۔۔۔۔

گھر میں مہندی اور مایوں کا فنگشن تھا مہمان آنا شروع ہو چکے تھے پورے گھر میں آج رونق تھی سب بےحد قیمتی پیلے جوڑوں میں یہاں وہاں ٹہل رہے تھے گھر کے مرد حضرات نے وائٹ کرتے پہن رکھے تھے ۔۔۔

ہیلوووو برووو۔۔۔

اسنے بھنویں سکیڑی تھی جب نجم شان اور دائم اسکے کمرے میں گھسے تھے بغیر اجازت ۔۔۔ وہ بالوں کو جیل سے بڑی مہارت سے بٹھا رہا تھا ۔۔۔

آئے ہائے بڑی تیاریاں ہو رہی ہیں بھائی ۔۔۔ دائم نے اسکے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا جس پر وہ ٹھنڈا سانس لیکر رہ گیا 

کم آن برووو آج تو ہنس لیں ہمیشہ ہی آپ سرد طبعیت رہتے ہیں ۔۔۔ نجم نے کھلکھلا کر کہا مگر اسکے چہرے کا ایک مسل بھی اوپر نیچے نہیں ہوا وہ سپاٹ کا سپاٹ ہی رہا ۔۔۔

اچھا بھائی آپ بتائیں آپکا موڈ کیسے ٹھیک ہو گا ہینڈسم تو آپ بہت لگ رہے ہیں اس وائٹ کرتے میں ۔۔۔ لیکن ایسے سیریئس رہیں گے تو کیسے چلے گا ۔۔۔   شان نے اسکی طرف تعریف کیساتھ شکوہ اچھالا مگر وہ مصروفیت سے اپنے بال ہی بناتا رہا ۔۔۔

اچھا بھائی آپکا موڈ کیسے ٹھیک ہو گا بتائیں ۔۔۔ دائم نے اسکے پاس کھڑے ہوکر مرر میں دیکھ کر کہا اسنے سکون سے اسے دیکھا پھر وارڈروب کی طرف بڑھ گیا تینوں نے اسے حیرت سے دیکھا جو وارڈروب سے ایک ہاکی نکال چکا تھا ۔۔۔

بھائی اتنی سی بات میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے ۔۔۔ نجم نے صوفے  کو پھلانگتے ہوئے کہا جبکہ شان اچھلا تھا ہاکی دیکھ کر ۔۔۔

کس سے پوچھ کر آئے تم لوگ میرے کمرے میں ہاں ۔۔۔ وہ لبوں پر شیطانی مسکراہٹ سجائے بولا جبکہ دائم پھیکا سا ہنستے ہوئے سب سے آگے دروازے کی جانب بھاگا تھا ۔۔۔

بھائی آئندہ نہیں آئیں گے ۔۔۔

شان نے دائم کے پیچھے جاتے ہوئے کہا شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے نجم کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے کھسک رہا تھا اسے دیکھ کر وہ ہاہا کرتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا تھا شاہ ویر نے مسکراتے ہوئے ہاکی کو سائڈ پر پھینکا اور مرر میں خود کو درست کیا جب مرجان مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔

میرے ساتھ یہ کام کرنے کی سوچنا بھی مت میں نہیں ڈرتا تم سے  ۔۔ اسے پیچھے مڑتا دیکھ کر مرجان مسکرایا جس پر وہ بھی مسکرایا 

ویرر ۔۔۔  سر کا میل ریسیو ہوا تھا کچھ گڑبڑ ہے ایکدم ہی سب بند ہو گیا تمھیں نہیں لگتا ہوئی انہونی ہونے والی ہے ۔۔۔

تم سوچتے ہو میں نے اب تک کچھ نہیں کیا انکل منور پچھلے دو دونوں سے ان لوگوں کیساتھ کنیکشن میں ہیں اور میں نے انہیں ٹریس کر لیا ہے لیکن میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتا وہ ضرور ان سے ملنے کی کوشش کریں گے اور میں نے ان پر نظر رکھی ہے اس سے پہلے وہ کچھ کریں ہم انہیں کچھ کرنے کے لائق ہی نہیں چھوڑیں گے جنرل سے بات ہو گئی ہے ہمارا سکواڈ ریڈی ہے کسی بھی وقت ہمیں نکلنا پڑ سکتا ہے یو آر فائن رائٹ ؟؟

مرجان پیلے تو حیرت سے اسے دیکھتا رہا اسنے سب اکیلے ہی کر لیا تھا پھر مسکرایا اور اسکی فسٹ پر  دھیرے سے فسٹ ماری ۔۔۔

۔۔۔۔۔

حرب کلائی پر واچ پہنتے ہوئے تھم گیا تھا وہ  سر پر دوپٹہ پہنتی ہوئی مرر کے سامنے رکی تھی نارنجی رنگ کے کناری کے کام والے  شلوار قمیض سوٹ میں سر پر  گولڈن کناری کے کام والا ہیوی دوپٹہ لئے وہ بےحد پیاری لگ رہی تھی حرب کے دل نے ایک بیٹ مس کی زنیرا نے کلائی میں گجرے ڈالتے ہوئے اسے دیکھا جو وائٹ کرتے میں بےحد پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔ 

دونوں کی نظریں ایک پل کے لئے ایک دوسرے پر جم گئی تھی زنیرا نے سر کو دھیرے سے جھٹکتے ہوئے  مرر میں خود کا عکس دیکھا حرب بےاختیاری طور پر اسکی جانب بڑھا تھا وہ اسکا عکس اپنے پیچھے دیکھ کر رکی تھی اسکی گھنی پلکوں نے جھرجھری لی ۔۔۔

ماشاءاللہ یو آر لکنگ بیوٹیفل ۔۔۔ 

اسکے لائٹ میک اپ میں سجے  چہرے پر نظریں جمائے وہ مسکرا کر بولا تھا زنیرا کے گال سرخ پڑے تھے وہ لب کاٹتی ہوئی نظریں جھکا گئی تھی 

حرب نے پاکٹ سے ایک وائٹ کلر کی ڈبی نکالی تھی اور اسے کھولا اس میں ایک باریک اور بےحد نفیس نیکلیس تھا جس پر H🤍Z لکھا تھا 

May I ??

زنیرا نے مسکراتے ہوئے سر کو ہاں میں ہلایا تھا حرب نے اسکے بالوں کو انرمی سے ایک سائڈ کرتے ہوئے اس نیکلس کو اسکے گلے کی زینت بنایا  زنیرا نے مسکراتے ہوئے ان لیٹرز کو انگلیوں سے ٹریس کیا ۔۔۔

تھینکس حرب ۔۔۔ اٹس بیوٹیفل ۔۔۔ 

مرر میں اسکا عکس دیکھ کر وہ مسکرا کر بولی حرب کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا 

.....

پیلے ہیوی لہنگے کو دونوں ہاتھوں سے اٹھائے وہ دروازے کی طرف بڑھی تھی اور دروازہ کھولا 

آفرین بیگم نے مسکرا کر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا لمبے کھلے بال جو کمر سے نیچے تک آبشار کی طرح لہرا رہے تھے کانوں میں بڑے بڑے جھمکے گلے میں نفیس باریک سا نیکلس پہنے کلائیوں میں گولڈن برائیڈل بینگلز وہ کوئی دلہن ہی تو لگ رہی تھی جسکی آج مہندی تھی چہرے پر لائٹ گولڈن میک اپ کیا گیا تھا لبوں پر لائٹ پیچ کلر کی لپ سٹک تھی ۔۔۔

ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔

شکریہ ۔۔۔ عشیق نے لب بھینچے وہ شاہ ویر کا سوچ سوچ کر پریشان تھی آج نہیں تو کل اسکا سامنا تو کرنا تھا اسکی ناراضگی کیسے دور کرتی یہی سوچ سوچ کر اسکی جان نکلی جا رہی تھی ۔۔۔ 

بیٹا یہ گجرے پہن لو ۔۔۔ اور پھر چلو نیچے سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔

جی میرا ؟! 

عشیق نے گھبراتے ہوئے پوچھا 

بیٹے آپکا بھی تو مایوں اور مہندی کا فنگشن ہو گا آپ بھول گئی ؟!

جج۔۔۔جی 

وہ بمشکل خود کو بےہوش ہونے سے روک پائی تھی ۔۔۔

شش۔۔شاہ بھی باہر ہیں ؟! وہ گجرے لیتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔

نہیں بچے ۔۔۔ فنگشن سیپریٹلی رکھا گیا ہے ہمارا فنگشن الگ ہے اور انکا دوسرے پورشن میں ۔۔۔

عشیق نے سکھ کا سانس لیا اور جلدی سے گھرے پہن کر آفرین بیگم کے ساتھ باہر چلی گئی آفرین بیگم نے اسے نیشال کے ساتھ ہی بٹھایا تھا اسنے بھی ییلو ہیوی لہنگا پہن رکھا تھا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی بالوں کا فرینچ سٹال بنائے اور چہرے پر لائٹ میک اپ کئے ۔۔۔ 

زارا ۔۔۔

جی آئی ۔۔۔

وہ کچن سے ہلدی کی تھالی لئے آفرین بیگم کے بلاوے پر تیزی سے باہر آئی مرجان نے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا تھا وہ آنکھیں پھیلاتی ہوئی اسکے سینے سے لگی جبکہ مرجان نے گرتی ہوئی تھالی کو دوسرے ہاتھ سے تھاما ۔۔۔

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔

زارا نے آنکھیں سکیڑی تھی اسے دیکھ کر ۔۔۔ 

میں اپنی بیگم کو دیکھنے آیا تھا ۔۔۔ اسکے چہرے سے بالوں کی لٹ پیچھے ہٹاتے ہوئے وہ معنی خیزی سے بولا جس پر زارا نے اسکے سینے ہر مکا مارا تھا ۔۔۔

مجھے جانے دیں باہر رسم شروع کرنی ہے ۔۔۔ اسکے ہاتھ میں اپنی کلائی کو گھما کر چھڑاتے ہوئے وہ منہ پھیر کر بولی ۔۔۔

آ ہاں ایسے تو نہیں جاؤں گا ۔۔۔ جس لئے آیا ہوں وہ تو کر کے جاؤں گا ۔۔۔ 

زارا نے کچھ بولنے کے لئے لب وا کئے وہ جلدی سے ہلدی سے ہاتھ رنگتا ہوا اسکے گال پر لگا گیا زارا نے آنکھیں پھیلائی وہ اسکی دوسری گال کو بھی پیلا کر چکا تھا ۔۔

مرج۔۔۔

وہ بولتے ہوئے رکی جب اسنے اسکی ناک کی نوک پر بھی انگلی سے ہلدی کا ڈوٹ لگایا اور کھل کر مسکرایا۔۔۔

مرجان میرا میک اپ ۔۔۔ 

وہ صدمے سے اسے دیکھ کر دبے لہجے میں غرائی مگر وہ مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ میں ہلدی کی تھالی تمھا کر معصومیت سے وہاں سے نکل گیا زارا دانت پیستے رہ گئی تھی 

زارا؟!

آفرین بیگم نے اسکا ہلدی سے بھرا چہرہ دیکھ کر حیرت سے اسے پکارا جس پر وہ شرمندہ ہوتی ہلدی کی تھالی انکی طرف بڑھا کر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی تھی آفرین بیگم سب سمجھتے ہوئے بس مسکرا دی تھی 

۔۔۔

ماریہ اٹھو سب مہمان باہر تمھارا پوچھ رہے ہیں کیا جواب دوں گی میں انہیں ۔۔ 

جائیں اور انہیں کہہ دیں ماریہ مر گئی ہے ۔۔۔ 

وہ سرخ آنکھوں سے قصا بیگم جو دیکھتے ہوئے چیخی 

بکواس بند کرو اپنی اور تیار ہو کر نیچے آؤ جو کچھ تم نے کیا ہے اسکے بعد تمھیں منانے کوئی نہیں آئے گا اس لئے خود پر قابو رکھو اور جلدی نیچے آؤ ۔۔۔

وارڈروب سے اسکا ڈریس نکال کر بیڈ ہر پھینک کر قصا بیگم کمرے سے نکل گئی تھی ۔۔۔

تمھیں میں سکوں سے نہیں جینے دوں گی عشیق ۔۔۔ 

وہ بیڈ سے کپڑے اٹھا کر کڑوے لہجے میں کہہ کر واش روم میں بند ہوئی تھی

۔۔۔۔

آپی آپکے ہاتھ پر کیا لکھنا ہے ۔۔۔

مہندی لگانے والی کی بات سن کر وہ سوچوں کے سمندر سے باہر نکلی تھی اور لب بھینچ کر اسنے اپنے حنائی ہاتھوں کو دیکھا ۔۔۔

شاہ ویر لکھنا ہے آپی۔۔۔

ژالے نے مسکراتے ہوئے کہا عشیق کے گال سرخ پڑے تھے 

آپی کیا ضروری ہے یہ ۔۔۔

عشیق نے گھبراتے ہوئے نظریں جھکا کر کہا جس پر ژالے نے ہنسی روکی

ارے بہت زیادہ ضروری ہے تمھیں کیا پتا ۔۔۔ علیزے نے اسکے پاس رداز ہوتے ہوئے کہا عشیق نے لب بھینچے تھے 

ارے تم کہاں تھی لڑکی ؟! 

زارا کو آتے دیکھ کر ژالے نے پوچھا جس پر وہ سرخ پڑی علیزے کی ہنسی چھوٹی ۔۔۔

تم کچھ زیادہ ہی چنچل نہیں ہو گئی ۔۔۔ زارا نے علیزے کو کندھے پر چپت لگا کر کہا جس پر وہ مسکرائی۔۔۔

اس میں کیا برائی ہے بھلا الٹا میں بھی یہی سوچ رہی ہوں تھوڑا شرارتی ہونے میں کوئی برائی نہیں ۔۔۔ 

نیشال کی بات پر زنیرا نے آنکھیں گھمائی

تم اور شرارتی مت ہونا ہم سب کا خدا ہی حافظ ہو جائے گا ۔۔۔ زنیرا کی بات پر سب ہنسی تھی عشیق نے مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا اسکی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی وہ سنجیدگی سے پلر کیساتھ ٹیک لگائے اسے ہی دیکھ رہا تھا عشیق نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے گڑبڑا کر نظریں پھیری ۔۔۔  وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہاں سے ہٹ گیا تھا عشیق نے کچھ پل بعد دوبارہ وہاں دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔

آئیں یہ ہے شاہ ویر کی دلہن ۔۔۔ 

ماریہ ابھی تیار ہو کر نیچے آئی تھی اسکے کان میں جیسے ہی یہ الفاظ پڑے اسکے لبوں سے وہ مصنوعی مسکراہٹ بھی اڑ گئی تھی وہ نفرت بھری نظروں سے عشیق کو دیکھنے لگی جہاں آفرین بیگم عشیق کو اپنی دوستوں سے ملوا رہی تھی ۔۔۔

ماشاءاللہ بہت پیاری ہے  ۔۔۔ 

انکی دوستیں بھی اسکی تعریف کئے بنا نہیں رہ پائی تھی ۔ ماریہ منہ کا زاویہ خراب کر کے کافی پل اسے یونہی گھورتی رہی ۔۔

کہتے ہیں کہ خوشیوں کو نظر بھی جلدی لگتی ہے میں سوچتی ہوں میری نظر تمھیں کب لگے گی ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے دل میں ہی سوچ کر جل بھن گئی تھی ۔۔۔

یہ مرجان بھی ناں موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب مجھے تنگ کرنے کا منصوبہ بنایا جائے ۔۔۔ وہ لہنگا اٹھائے بڑبڑاتی ہوئی چل رہی تھی جب اسے اپنے سامنے دیکھ کر رکی اور ناک سکیڑی ۔۔۔

اب کیا چاہیے آپ مرد حضرات میں نہیں رہ سکتے دو پل ؟! 

وہ سینے پر ہاتھ باندھتی ہوئی چبا چبا کر بولی جس پر مرجان مسکرایا۔

اب کیا کریں بیوٹی میرا دل ہی نہیں لگ رہا پتا ہے میرا دل کیا کر رہا ہے ۔۔۔ وہ اسکے کان پر جھکتا ہوا بولا زارا نے آئی برو اٹھائے ۔۔۔

آپکو اٹھا کر کہیں بھاگ جاؤں ۔۔۔

اسکی بات سن کر زارا لرز گئی ۔۔۔

ککک۔۔۔کیوں۔۔غنڈے ہیں کیا آپ۔۔۔۔ اپ۔۔۔اپنی بب۔۔ بیوی کو کون اغوا کرتا ہے ۔۔۔ 

وہ گڑبڑاتے ہوئے جھمکے کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی مرجان کے لبوں پر متبسم بکھرا ۔۔۔

وہ پاس پڑی ہوئی مہندی کی تھالی سے مہندی اٹھا چکا تھا اور زارا کا ہاتھ تھاما ۔۔۔

نہیں میرے ہاتھ خراب نہیں کرنے ۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ پیچھے کرتی ہوئی ناک چڑھا کر بولی مرجان نے آس پاس دیکھتے ہوئے اسے اٹھایا تھا ۔۔۔

یہ کیا حرکت ہے چھوڑییں ہمیں کوئی دیکھ لے گا ۔۔ وہ شرم سے لال ٹماٹر ہوئی تھی وہ اسے اٹھائے اپنے روم میں لایا اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے اسکے قریب بیٹھا ۔۔۔۔ اور اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے اس پر مہندی لگانے لگا زارا کی آنکھیں حیرت سے پھیلی جب اسنے اپنے ہاتھ کو دیکھا وہ کتنی باریکی اور نفاست سے اسکے ہاتھ پر مہندی لگا رہا تھا ۔۔۔

مرجان آپکو مہندی لگانا آتا ہے ؟! 

وہ حیرانی سے بولی جس پر وہ مصروف سا مسکرایا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

شاہ ویر ۔۔۔

جی دادا سائیں ۔۔

وہ جو سنجیدگی سے موبائل پر ضروری میل چیک کر رہا تھا شہنشاہ صاحب کی آواز پر سر اٹھاتے ہوئے بولا انکے ساتھ کھڑے جنرل کو دیکھ کر وہ کھڑا ہوا تھا اور انہیں سلام کیا تھا پیچھے سہیل صاحب بھی آئے تھے ۔۔۔

سہیل صاحب جتنا کچھ آپ نے ہماری ٹیم کے لئے کیا وہ قابلِ قبول ہے لیکن جو کچھ شاہ ویر نے کیا ۔۔۔ 

جنرل نے اسکے کندھے پر فخر سے ہاتھ رکھا تھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

میں بیان نہیں کر سکتا اتنے سالوں سے اپنی ذندگی کو مشکل میں ڈالے وہ ان گینگسٹرز کے بیچ رہا اور میرے لئے انفارمیشن اکھٹی کی آنے والے خطرات سے آگاہ رکھا ۔۔۔  میرا غرور ہو تم شاہ ویر ۔۔۔  

سہیل صاحب کی آنکھوں میں فخر دیکھا تھا شاہ ویر نے اپنے لئے ۔۔۔

اور مرجان ۔۔۔ مائی بوائے ۔۔  وہ مرجان کو گلے لگاتے ہوئے فراغ دلی سے بولے تھے ۔۔

سر ہمیں الرٹ رہنا ہو گا دے آر اپ ٹو سمتھنگ بگر دس ٹائم ۔۔۔

ڈونٹ وری بوائے ۔۔۔ تمھاری شادی ہے میں تمھیں مصروف نہیں رکھوں گا ہماری انٹیلیجنس ٹیم فلحال سب دیکھ رہی ہے تم صرف اپنی شادی پر دھیان دو ۔۔۔ جنرل نے مسکرا کر اسے باور کرایا کہ واقعی اسکی شادی ہے وہ تو گہری مصروفیات میں یہ بھول ہی بیٹھا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔۔

زنیرا بچے آپ یہ لے لو اور عشیق کو ہلدی لگا دینا ٹھیک سے اور ہاں علیزے آپ نیشال کو لگا دو گی ۔۔۔

جی ضرور ۔۔۔ علیزے نے ہلدی کی تھالی لیتے ہوئے کہا اور زنیرا نے بھی سر کو ہاں میں ہلایا تھا عشیق نے لب بھینچے تھے اسکے پیروں پر بھی مہندی تھی ہاتھوں پر بھی وہ اٹھ نہیں پا رہی تھی ۔۔۔

ارے رکو جلدی مت کرو مہندی کو رہنے دو ابھی کلر ڈارک ہو جائے پھر ہم روم میں چل کر اسے واش کر لیں گے اور آپکو ہلدی لگا لیں گےاس سے چہرے پر نکھار آئے گا ۔۔۔اور  کل کنفرم بھائی نظریں نہیں ہٹا پائیں گے ۔۔۔۔ زنیرا نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر کہا جس پر وہ سرخ پڑی ۔۔۔

مجھے بھی ایسے ڈائیلاگ مار دیا کرو ۔۔۔ نیشال نے منہ پھلائے علیزے کو کہا جس اسکے گال کھینچ کر ہنسی تھی ۔۔۔

ارے واہ زارا بھابھی آپ نے کہاں سے مہندی لگوا لی ۔۔۔ ژالے نے اسے شوخ نظروں سے دیکھ کر کہا جس پر وہ مسکرائی 

مرجان نے لگائی ہے ۔۔۔ 

علیزے نے ہنستے ہوئے نیشال کو کندھا مارا جس پر وہ قہقہ لگا گئی زارا بلش کرتے ہوئے آفرین بیگم کیساتھ وہاں سے نکل گئی تھی ورنہ وہ جانتی تھی ان سب لڑکیوں نے اسے چھیڑنا تھا ۔۔۔ 

ژالے یہ بک کیوں اٹھا کر بیٹھی ہو ۔۔۔ ؟!

زنیرا نے اسکی گود میں پڑی کتاب دیکھ کر کہا جس پر وہ مسکرا دی

یار پیپر ہے میرا فنکشن مس نہیں کر سکتی اور پیپر بھی بہت اہم ہے اس لئے دونوں ایک ساتھ دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ 

بڑی لائق فائق ہے ۔۔۔ 

علیزے نے مسکرا کر کہا جس پر ژالے نے منہ بناتے ہوئے سر جھٹکا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

مہندی واش کر کے وہ بیڈ پر دراز ہوئی تھی اسکے کمر میں درد ہو گیا تھا بیٹھ بیٹھ کر اب جا کر اسے سکون آیا تھا ۔۔۔  اسنے اپنے حنائی ہاتھوں کو دیکھا جن پر مہندی کا ایسا رنگ چڑھا تھا کہ سب دیکھتے ہی رہ گئے تھے وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر دھیمی سی مسکرائی اور اسکے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔ 

کیسے وہ اسکے قریب رہتی تھی کتنی خوشیاں تھی جب وہ ساتھ تھے کیسے وہ اسکے بغیر سوتی تک نہیں تھی سوتی بھی تو اسکے سینے میں سر چھپا کر خود کو بےحد محفوظ سمجھ کر ۔۔۔ آنسوں کا ایک موتی اسکی آنکھوں سے ٹوٹا اور کشن میں جذب ہوا

ہم نے جلد بازی کی شیری ہمیں آپکی بات سننی چاہیے تھی ہم نے آپ پر گولی چلائی ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔۔۔ اور آپ ۔۔۔ آپ نے ہمیں کچھ بھی نہیں کہا ۔۔ 

وہ گال پر بہتے ہوئے نمکین پانی کی بوندیں کلائی سے صاف کرتے ہوئے مدھم لہجے میں خود سے ہم کلام تھی 

وہ روتے ہوئے وہ پل یاد کرنے لگی جب اسنے اس پر گولی چلائی تھی وہ اپنا زخم بھول کر کس طرح اسکی طرف بڑھا تھا کس طرح اس نے اسکے گرتے وجود کو سمبھالا تھا کس طرح وہ اسے سینے میں بھینچ کر رویا تھا ۔۔۔ سسکیوں کے بیچ وہ سوچتی ہوئی کرب کے آخری ایام پر پہنچی تھی اسکی سانسیں اکھڑی تھی روتے ہوئے ۔۔۔ 

زنیرا جو اسکے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی حرب کے بلانے پر رکی تھی ۔۔۔

کیا ہوا ؟!

زنیرا نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جو خاصا پریشان لگ رہا تھا ۔۔۔

کچھ دیکھانا تھا آپکو ۔۔۔ وہ جلدی سے بولا زنیرا نے بھنویں اٹھا کر اسے دیکھا پھر اسکے ساتھ چل دی تھی حرب نے جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر مسکرا کر  اسے دیکھا تھا جو سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے کمرے میں داخل ہوا تھا ۔۔۔

وہ کشن میں منہ چھپائے مسلسل رو رہی تھی اسے ڈھیروں شرمندگی نے آن گھیرا تھا وہ کسیے اسکی جان لینے کی کوشش کر سکتی تھی وہ کتنا پیار کرتا تھا اس سے ۔۔۔ 

آئی ایم سوری شیررری ۔۔۔

وہ کشن میں منہ چھپائے روتے ہوئے بولی وہ اپنی جگہ پر رکا تھا اسے روتے دیکھ کر ۔۔۔ 

ہم بہت پیار کرتے ہیں آپ سے شیری ہمیں معاف کر دیں  ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے آپ پر گولی چلانے کے بارے میں۔۔۔

وہ ہچکیوں کے بیچ روتے ہوئے بولی تھی اسے روتے ہوئے دیکھ اسکی دھڑکن مدھم پڑی تھی جبکے اسکے اظہارِ محبت پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکے لمبے بال اسکی کمر پر بکھرے ہوئے تھے اسکا دوپٹہ صوفے پر تھا وہ منہ کے بل لیٹی کشن میں منہ چھپائے مسلسل رونے کا شغل فرما رہی تھی وہ سنجیدگی سے اسکی جانب بڑھتے ہوئے اسے بازو سے مظبوطی سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔۔۔

        وہ سنجیدگی سے اسکی جانب بڑھتے ہوئے اسے بازو سے مظبوطی سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔۔۔

.....

خشک ہونٹوں پر زبان ہھیرتی وہ دوپٹے کے بلوں میں کچھ چھپائے کچن میں داخل ہوئی تھی سامنے کھڑی ژالے کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکی تھی ژالے بک ہاتھ میں پکڑے کچن کے چکر لگا رہی تھی اور پڑھ بھی رہی تھی 

اسے بھی یہی جگہ ملی تھی پڑھنے کے لئے ۔۔ ماریہ زیرِ لب بڑبڑاتی ہوئی پیچھے پلٹی تھی اور ایک منٹ کے لئے رکی اسکے ذہن میں اپنے آپ ہی ترکیب تیار ہوتی گئی جس پر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلتی گئی ۔۔۔

تمھیں چاچی جان نے بلایا ہے ۔۔ 

وہ اسکے سامنے رکتی سینے پر ہاتھ باندھتے بولی ژالے نے مصروف سی نظر اس پر ڈالی تھی اب تک اسکی اکڑ جو کم نہیں ہوئی تھی ۔۔

وہ مجھے کیوں بلائیں گی ؟!

ژالے نے آئی برو اٹھاتے ہوئے سوالیہ لہجے میں پوچھا 

مجھے کیا پتا کشمالہ چاچی نے جن لوگوں کیساتھ تمھارا رشتہ طے کروایا تھا آج انکو چاچی جان کے ساتھ بات کرتے دیکھا تھا میں نے شاید تمھارا رشتہ پکا ہو گیا ہو ۔۔۔ 

آنکھیں گھما کر کچن کا جائزہ لیتے ہوئے ماریہ نے عجلت سے کہا ژالے کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے وہ بک پر گرفت مظبوط کرتی ہوئی آفرین بیگم کے کمرے کی جانب تیز قدموں سے بڑھی تھی ماریہ نے دوپٹے کے پلو سے ایک سفید  رنگ کی شیشی نکالی تھی اور پھولوں سے سجی ہلدی کی تھالی میں ملائی تھی شیشی سے ایک قطرہ اسکی انگلی پر گرا تھا وہ آہ بھر کر ہاتھ پیچھے کھینچ گئی تھی اسکی انگلی پر سرخ رنگ کا چھالا نکلا تھا وہ ہاتھ کو درد سے ہلاتی ہوئی کافی دیر برداشت کرتی رہی پھر چمچ اٹھایا اور اس سے ہلدی میں اس ایسڈ کو مکس کیا اور فورآ وہاں سے بھاگ گئی تھی کچھ دیر بعد وہی ہلدی کی تھالی لئے زنیرا عشیق کے کمرے کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔

۔۔۔۔۔

اسکی حیرت کی انتہا ناں رہی جب اسنے اپنی کمزور بازو کو اسکے مظبوط پشت پر رکھ کر اسکے سینے میں سر چھپایا تھا وہ تو سوچ رہا تھا وہ ڈر جائے گی اسکے یوں اچانک آنے پر مگر وہ تو اندر ہی اندر ٹوٹ رہی تھی اسکے اسوقت بےحد ضرورت تھی اسکی اور وہ صحیح وقت پر آیا تھا ۔۔۔

ہمیں معاف کر دیں شاہ ۔۔۔

وہ اسکے وائٹ کرتے سے ناک رگڑتے ہوئے معصومیت سے چور لہجے میں بولی وہ بےساختہ مسکرایا تھا اسکی اس حرکت پر ۔۔۔ 

ہمیں معاف کر دیں گے ناں آپ ۔۔۔ 

وہ اسکے کرتے کو دونوں مٹھیوں میں پکڑتی رندھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی

نہیں۔..

وہ سپاٹ لہجے میں بولا عشیق نے روتے ہوئے پلکیں جھپکی تھی لب کاٹتی ہوئی وہ پیچھے ہٹی تھی اس سے اور پھر شرم سے اسکا چہرہ سرخ پڑا تھا جب اسکی نظر صوفے پر پڑے اپنے دوپٹے پر پڑی تھی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے کانپتے ہوئے دیکھا اور صوفے سے دوپٹا اٹھا کر عشیق کے لرزتے کندھوں پر ڈالا تھا عشیق کی گھنی پلکوں نے لرزش کی تھی وہ دوپٹہ  درست کر کے نظریں جھکا گئی تھی 

آپ ہمیں معاف نہیں کریں گے ؟! 

نظریں جھکائے انگلیاں چٹخاتے ہوئے بولی 

جو کچھ آپ نے کیا ہے کیا وہ معافی کے قابل ہے ؟!.

وہ سپاٹ لہجے میں بولا عشیق نے لب کاٹے اسکی آنکھیں پھر سے نمکین پانی برسانے میں مصروف ہوئی ۔۔

لیکن ہمیں معافی چاہیے ۔۔۔

وہ ڈبڈبی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے معصومیت سے بولی شاہ ویر کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی یعنی وہ معافی بھی مانگ رہی تھی اور اسے آرڈر بھی کر رہی تھی کہ اسے معافی دے دی جائے ۔۔۔

آپ نے جو کیا اسکی سزا آپکو ملے گی ۔۔ وہ سرد لہجے میں بولا عشیق کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا

کک۔۔۔کیسی سزا ۔۔۔

وہ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگی ۔۔

یہ آپکو کل پتا چلے گا ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا عشیق تو سہم ہی گئی تھی اسکی دھمکی پر ۔۔۔

۔۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اپنے پورشن کی طرف جا رہا تھا جب اسکی سماعت میں سسکیوں کی آواز پڑی تھی بےاختیار اسکے قدم رک گئے تھے اسنے دروازے کو سرد نظروں سے دیکھا اور پھر لمبا سانس لیتے ہوئے اندر داخل ہو گیا تھا 

وہ گھٹنوں میں سر دیئے رو رہی تھی اسے آس پاس کا ہوش نہیں تھا وہ بس روئے جا رہی تھی جب اسے پاس کسی کا احساس ہوا اسنے سر اٹھایا تھا وہ اسکے قریب نیچے ہی گھٹنا ٹکائے بیٹھا تھا اسکی نم سرخ آنکھیں دیکھ کر ۔۔۔ 

بھائی ۔۔۔ وہ اسے نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولی جبکہ لفظ بھائی پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا ۔۔۔

کیا ہوا ؟! 

کچھ بھی تو نہیں بھائی بس ویسے ہی ۔۔۔ وہ جلدی سے آنسوں صاف کر کے مسکرائی تھی مگر وہ اسے روتے دیکھ چکا تھا اس لئے اسکی اس حرکت نے اسے سنجیدہ کیا 

کیا ہوا ہے بتائیں مجھے ؟! 

اسکے ساتھ اٹھتے ہوئے وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگا جس پر ژالے نے نظریں جھکائی ۔۔۔

بھائی چھوٹی امی نے اپنی فرینڈ کے بیٹے سے میرا رشتہ فکس کر دیا تھا مجھ سے بغیر پوچھے یہاں تک کہ کسی کو بھی پتا نہیں تھا آج وہ لوگ آئے تھے اور وہ چاہتے ہیں جلدی سے شادی ہو جائے ۔۔۔۔ وہ نظریں جھکائے ہی بول رہی تھی کیونکہ جب سے وہ آیا تھا ایک بار بھی انہیں بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اس لئے وہ زرا سہمی ہوئی بھی تھی اور کیونکہ وہ اسکا بڑا بھائی تھا اس لئے بھی ڈر رہی تھی

آپ کیا چاہتی ہیں ۔۔ 

وہ پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے بولا ۔۔

مجھے پیپر دینا ہے اور جاب کرنا چاہتی ہوں میں نے یہاں تک پہنچنے کے لئے بہت محنت کی ہے میں پڑھائی نہیں چھوڑ سکتی  ۔۔ وہ نظریں جھکائے ڈرے ہوئے لہجے میں انگلیاں الجھائے بولی 

اور ؟! 

وہ سنجیدگی سے بولا

اور وہ لوگ چاہتے ہیں میں شادی کے بعد پڑھائی جاری ناں رکھوں ناں ہی جاب کروں ۔۔۔ وہ ہچکی لیتے ہوئے گڑبڑا کر بولی 

وہ دل کی بات کسی سے نہیں کر پا رہی تھی مرجان اسے ٹائم نہیں دیتا تھا آفرین بیگم تھی ہی اتنی اچھی کہ وہ انہیں ناں نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ وہ کافی اچھے خاندان کا رشتہ تھا اور شہنشاہ صاحب کے جاننے والے تھے ۔۔۔

آپ پڑھائی کریں اور پیپر دینے کی تیاری کریں کوئی آپکو نہیں روک رہا ۔۔۔ 

ژالے کی آنکھوں میں چمک ابھری ۔۔۔

انہیں برا لگے گا اگر میں پڑھائی جاری رکھوں گی ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے اداس ہو کر بولی ۔۔۔

پھر انہیں جانے دیں اور بہت اچھے رشتے آ جائیں گے اپنا خواب پورا کریں اور یہ میرا وعدہ ہے آپ کو کوئی نہیں روکے گا ۔۔۔ 

ژالے نے مسکراتے ہوئے اسے گلے لگایا تھا وہ مسکراتے ہوئے اسکے بال سہلا گیا تھا ۔۔۔

آپ ورلڈ کے بیسٹ بھائی ہیں ۔۔۔ ژالے نے خوشی سے چہک کر کہا ۔۔۔

اوکے ناؤ بوسٹ یوئر موڈ اور پیپر کی تیاری کریں ۔۔۔

اسکی آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسنے مسکرا کر کہا ژالے نے سر ہاں میں ہلایا تھا مسکرا کر ۔۔۔ 

تھینک یو سو مچ بھائی ۔۔۔  

وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے اسکے کمرے سے واک آؤٹ کر گیا تھا وہ خوشی سے جھوم کر بک اٹھاتے ہوئے پڑھنے بیٹھی تھی ۔۔۔

سووری  آئی ایم سو سوری ۔۔۔

زنیرا جو جلدی میں عشیق کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی اس سے ٹکرائی تھی نتیجے میں کچھ ہلدی اسکے ہاتھ پر گری تھی ۔۔۔ وہ  جلدی سے بولی تھی 

وہ اٹس اوکے کہہ کر پاکٹ سے رومال نکال کر آگے بڑھ گیا تھا  اطنے پورشن میں پہنچ کر اس سے پہلے وہ ہلدی صاف کرتا اسے ہاتھ پر جلن محسوس ہوئی اسنے سپاٹ نظروں سے اپنے ہاتھ کو دیکھا تھا جس پر سرخ چھالے پڑ رہے تھے اور بےحد جلن ہو رہی تھی ۔۔۔۔ اسنے سپاٹ نظروں سے ہاتھ کو دیکھا اور پھر تیز قدموں کیساتھ اپنے پورشن سے اسکے کمرے کی طرف بھاگا تھا ۔۔۔

زنیرا نے ہلدی اسکے چہرے کے پاس ہی کی تھی جب وہ ایک جھٹکے کیساتھ وہ تھالی دور اچھال چکا تھا ۔۔۔ عشیق نے تھالی گرنے کی آواز پر آنکھیں میچی تھی زنیرا نے خوف سے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔

کیا ملایا تھا اس ہلدی میں آر یو بلائنڈ خیال نہیں رکھ سکتی تم ۔۔۔ 

وہ زنیرا پر غرایا تھا زنیرا نے فرش پر گری ہلدی دیکھی اور جب اسکی نظر اسکے ہاتھ پر پڑی اسنے بےاختیار لبوں پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔ عشیق نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے دیکھا جس پر سرخ چھالے پڑ رہے تھے ۔۔۔

یہ۔۔۔یہ کیسے ہوا شاہ ۔۔۔

عشیق نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا جبکہ وہ تو زنیرا کو کھا جانے کے دم پر تھا ۔۔۔

آئی آئی ڈونٹ نو بھائی۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ تو امی نے بنائی تھی اور زارا بھابھی نے ۔۔۔ 

زنیرا نے اسکی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کے ڈرتے ہوئے بتایا ۔۔۔

میں۔۔۔ میں بلا کر آتی ہوں امی کو ۔۔۔ 

وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکلی تھی اور آفرین بیگم کے کمرے کی طرف بھاگی تھی ۔۔۔

شیررری ۔۔۔

اسکے خوبصورت ہاتھ کو ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی جبکہ اسکی آنکھوں میں اپنے لئے اتنی پرواہ دیکھ کر اسکا روم روم سرشار ہوا تھا ۔۔۔

ہم آئس لیکر آتے ہیں ۔۔ 

وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی جب اسنے سنجیدگی سے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اسے اپنے قریب کیا تھا ۔۔۔

کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔ جسٹ ڈونٹ وری اینجل ۔۔۔

لفظ اینجل پر اسکی آنکھیں آنسوں سے بھری تھی وہ اسے پہلے اسی نام سے پکارا کرتا تھا یعنی اسنے اسے معاف کر دیا تھا ۔۔۔ 

شیری۔۔۔

جسٹ ٹیک کیئر اوکے  صرف آج رات تک ۔۔ کل میری اینجل میرے پاس ہو گی ۔۔۔ اسکے گال کو انگوٹھے سے نرمی سے سہلاتے ہوئے وہ اسکی پیشانی پر لب رکھ کر سنجیدگی سے  کہہ کر کمرے سے باہر نکلا تھا 

عشیق نے لب بھینچ کر اسے جاتے دیکھا تھا ۔۔۔ اور ایک نظر نیچے گری ہلدی کی تھالی پر ڈالی تھی ۔۔

۔۔۔۔

کمرے کی لائٹ اچانک جانے پر وہ ہکلا کر اٹھی تھی ۔۔۔

واٹ نان سینس اب یہ لائٹ کو کیا ہوا اس گھر میں کب کیا ہو جاتا ہے پتا ہی نہیں چلتا بلڈی ہیل ۔۔۔

وہ غصے سے بڑبڑاتی ہوئی بیڈ سے نیچے اتری اور دروازے کی طرف بڑھی تھی جب کسی نے اسکے منہ پر مظبوط ہاتھ رکھ کر بےحد سختی سے اسے ایک جانب کھینچا تھا ۔۔۔

امممم۔۔۔۔

وہ آنکھیں پھیلائے خوف سے منہ ہی منہ میں بربڑائی تھی اسکی وحشت سے بھرپور  نیلی آنکھیں دیکھ کر ۔۔۔

I warned you. Despite this, you did not stop your vile actions ۔۔۔

اسکے چہرے کو اپنے ہاتھ میں جکڑتے ہوئے وہ خونخوار لہجے میں بولا ماریہ کا دل حلق میں آیا تھا ۔۔۔

مم۔۔۔میں نے کک۔۔کیا کیا اب؟!

وہ کانپتے ہوئے بولی 

تم اچھے سے جانتی ہو میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں ۔۔۔ اسکی گردن دبوچ کر وہ وحشت بھرے لہجے میں بولا ۔۔

مجھ۔۔مجھ سے غلطی ہوگئی میں وعدہ کرتی ہوں اب ایسا کچھ نہیں کروں گی میں سچ میں کچھ نہیں کروں گی ۔۔۔ 

خوف سے اسکا وجود کانپ رہا تھا وہ اچھے سے جانتی تھی اب وہ اسے نہیں چھوڑنے والا تھا ۔۔۔

وہ دوسرا ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ جکڑتے ہوئے اس میں وہی ہلدی رکھ چکا تھا ۔۔

لگاؤ اسے اپنے چہرے پر ابھی ۔۔۔ 

ماریہ کے ہوش اڑے تھے اسکا حکم سن کر ۔۔۔

پپ۔۔۔پلیز نو شاہ ویر آئی پرومس میں ۔۔۔

میں نے کہا لگاؤ اسے ۔۔۔ 

وہ دبے لہجے میں غرایا ۔۔۔ اور اگر تمھاری آواز اس کمرے سے باہر گئی آئی سوئیر میں تمھارے ٹکڑے کر دوں گا ۔۔۔

ماریہ نے ڈرتے ہوئے ہلدی کی تھالی میں دونوں ہاتھ ڈالے تھے وہ روتے ہوئے ہاتھ پیچھے ہٹا کر چیختی چلی گئی  اس سے پہلے وہ واش روم کی طرف ہاتھ دھونے کے لئے بڑھتی اسنے سختی سے اسکا بازو پکڑ کر اسے پیچھے کیا تھا ۔۔۔

بازو پر سخت گرفت کے درد اور ہاتھوں پر سخت جلن کی وجہ سے اسکی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوئے تھے مگر اسے اس پر ترس نہیں آیا تھا ۔۔۔ اسکے ہاتھوں پر صاف چھالے پڑ گئے تھے ۔۔۔

اگر میری عشیق کی جانب بری نظر سے دیکھنے کی کوشش بھی کی ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں دیکھتا وہ لفظ چباتے ہوئے بولا ماریہ نے روتے ہوئے اسکی وحشت سے بھری آنکھیں دیکھی

I will give you such a terrible punishment, you will remember it for the rest of your life ۔۔

اسکے جاتے ہی وہ چیختی ہوئی واش روم کی طرف بھاگی تھی اور اپنے ہاتھوں کو ٹھنڈے پانی سے دھویا مگر اسکے دونوں ہاتھوں پر سرخ رنگ کے چھالے ہو چکے تھے جلن سے اسکی جان جا رہی تھی ۔۔۔ وہ روتے ہوئے قصا بیگم کے کمرے کی طرف بھاگی تھی ۔۔۔۔

مماااں ۔۔۔ دروازہ کھولیں ممااااں۔۔

وہ دروازہ پیٹتے ہوئے چیخی کیونکہ اسکے ہاتھ میں چھالے تھے جس وجہ سے اسے بےحد درد ہوا تھا قصا بیگم نے دروازہ کھولا وہ روتے ہوئے انکو گلے لگا گئی جب قصا بیگم نے اسکے ہاتھوں کو دیکھا تو انکی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے ۔۔۔

ممماااں بہت جل رہا ہے ۔۔۔ کککچھ کریییییں ۔۔۔

قصا بیگم  اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کچن سے برف لینے کے لئے چلی گئی تھی وہ روتے ہوئے بس ہاتھوں پر پھونکیں مارتی رہ گئی تھی

۔۔۔۔

بیٹا تم ٹھیک ہو ناں تمھیں کچھ نہیں ہوا ناں ۔۔۔۔ آفرین بیگم کو جب سے پتا چلا تو وہ تو بہت پریشان ہو گئی تھی تب سے تیسری بار وہ عشیق سے پوچھ چکی تھی ۔۔۔

عشیق کو تو اسکے ہاتھ کی ٹینشن کھا رہی تھی کس طرح وہ اسکے پاس آیا تھا بغیر اپنے ہاتھ کی پرواہ کئے وہ اسکا درد محسوس کر پا رہی تھی اسنے اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھا تھا کتنا گہرا رنگ ہوا تھا اسکے ہاتھوں پر ۔۔۔ وہ تو اسکی ہر ایک بات پر دیوانی ہوئی بیٹھی تھی وہ بس جلد از جلد اپنے شیری کے پاس واپس جانا چاہتی تھی اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہے ۔۔۔

۔۔۔۔

مرر کے سامنے کانوں سے جھمکے اتارتے ہوئے وہ مسکرائی تھی وہ سمپل ڈریس میں واش روم سے باہر نکلا تھا اسے مسکراتا دیکھ کر وہ رکا ۔۔۔

کیا ہوا ؟!

کچھ بھی نہیں کچھ دیر پہلے آپ اتنے اچھے لگ رہے تھے اور اب ۔۔۔ زنیرا نے ہنسی دبائی حرب کا موڈ خراب ہوا تھا ۔۔۔

میں نے آپ سے کہا کہ آپ میک اپ میں کتنی اچھی لگ رہی تھی اور اب دیکھیں ؟! 

کیا کہا آپ نے ۔۔۔

زنیرا نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھ کر پوچھا 

یہی کہ آپ اب بھی پیاری لگ رہی ہیں ۔۔۔

زنیرا نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ ایک منٹ میں اپنی بات کہہ کر پلٹا تھا بڑا چالاک تھا وہ بھی ۔۔۔

آپ بھی برے نہیں لگ رہے میں نے ویسے ہی کہا تھا ۔۔۔ زنیرا نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر حرب نے آئی برو اچکائے تھے ۔۔

حررب ۔۔۔

جی ؟! 

زنیرا نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراہٹ کا گلا گھونٹا تھا ۔۔۔

کیا ہواا ؟!  حرب نے معصومیت سے پوچھا 

آپ نے جی ایسے کہا جیسے کوئی وائف اپنے ہڈبینڈ کو کہتی ہے ۔۔۔ زنیرا نے ہنستے ہوئے منہ پر ہاتھ دیا تھا جبکہ حرب نے ناک چڑھایا تھا اسے دیکھ کر ۔۔۔

۔۔۔۔۔

آخر کار وہ انتظار کی گھڑی آ پہنچی تھی کاظمی مینشن آج سرخ گلاب کے پھولوں سے مہک اٹھا تھا آج نیشال اور نجم کا نکاح تھا اور عشیق کی رخصتی ٹھیک نکاح کے بعد رکھی گئی تھی عشیق ہی چاہتی تھی کہ انکا نکاح رخصتی سے پہلے ہو کیونکہ یہ انکے لئے خاص دن تھا اور وہ چاہتی تھی اسکی وجہ سے ان کے خاص دن میں کوئی کسر ناں رہ جائے 

ژالے اسے ہیوی ڈارک ریڈ لہنگا جس پر گولڈن نگینے جڑے ہوئے تھے دیکر گئی تھی اور وہ اسے گھورنے میں مصروف تھی کیونکہ وہ بیچاری اتنا ہیوی لہنگا نہیں پہن سکتی تھی اور ساتھ میچنگ ڈائمنڈ جیولری کو دیکھ کر تو اسکی اجن ہی نکل رہی تھی ۔۔

دروازے پر دستک سن کر وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی قصا بیگم کو دیکھ کر وہ چونکی تھی وہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لئے اندر داخل ہوئی تھی 

بیٹے آپ نے کھانا نہیں کھایا چلو کھانا کھا لو پھر دن میں وقت نہیں ملے گا سب اپنے کام میں مصروف ہوں گے کچھ کھا لو ۔۔۔ اسکے سامنے ناشتے کی ٹرے رکھتے ہوئے وہ شیریں لہجے میں بولی عشیق نے کھانے کی ٹرے کو دیکھتے ہوئے قصا بیگم کو دیکھا جو اسکے لہنگے کو دیکھ رہی تھی 

ارے واہ بہت پیارا لہنگا ہے یہ تو نیشال کے لہنگے  سے بھی زیادہ پیارا ہے ۔۔۔ 

شاہ ویر نے پسند کیا تھا چھوٹی امی ۔۔۔ قصا بیگم نے اسکے امی کہنے پر مٹھی بھینچ کر ضبط کیا وہ کہاں برداشت کر سکتی تھی عشیق انہیں امی کہے ۔۔۔

چلو تم کھانا تو کھا لو بھوکے پیٹ کیسے رہو گی ؟! 

عشیق نے تھوڑا سا ناشتہ کیا تھا بس ۔۔۔  جب آغا صاحب دروازے پر ناک کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے ۔۔۔ قصا بیگم کو وہاں دیکھ کر وہ چونکے تھے ۔۔۔

پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آغا میں اپنی بیٹی کے پاس آئی تھی آج اسکی رخصتی ہے میں چاہتی ہوں اسکے دل میں کوئی بات ناں رہ جائے میں اسے ماں بن کر رخصت کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔

آغا صاحب کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی وہ سمجھ رہے تھے شاید ہی قصا بیگم نے عشیق کو اپنا لیا ہو مگر انکے ذہن میں کیا چل رہا تھا یہ وہ ہی جانتی تھی 

۔۔۔۔۔

آپی مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔

کیااا نہیں یار ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تجھے کھانا کھلایا تھا ۔۔۔ علیزے نے دلہن بنی نیشال کو تیکھی نظروں سے دیکھ کر حیرت سے کہا 

مجھے تو بھوک لگتی ہی ہے اب کیا کروں ۔۔۔ نیشال نے معصومیت سے کہا جس پر علیزے نے ماتھا پیٹا

دیکھ نیشال آج تو اپنی بہن کی بےعزتی نہیں کروائے گی بھوک پر کنٹرول کر تھوڑی دیر میں قاضی صاحب آ جائیں گے نکاح کا وقت ہونے والا ہے ۔۔۔

ہائے میں مر ہی ناں جاؤں بھوک سے ۔۔۔ نیشال نے منمنا کر کہا لگ تو وہ بیت پیاری رہی تھی ریڈ لہنگے میں ڈراک میک اپ میں ہیوی جیولری میں مگر اسکا بچپنا نہیں گیا تھا دلہن بن کر ۔۔۔ اسے نجم کے بجائے کھانے کی پڑی ہوئی تھی ۔۔۔ 

علیزے بیٹا چلو نیشال کو لیکر قاضی صاحب آ گئے ہیں ۔۔۔ 

نیشال آفرین بیگم کو دیکھ کر ساری بھوک بھول گئی تھی آفرین بیگم کے ہمراہ زنیرا بھی تھی ۔۔۔ 

نیشال کو لیکر وہ باہر اسٹیج پر آئی تھی اسٹیج کے بیچ و بیچ سفید پردہ لگایا گیا تھا جس کے دوسری طرف نجم بیٹھا تھا اسنے بادامی رنگ کا کرتا پہنا تھا جو اس پر بہت جج رہا تھا نیشال اسے دیکھ کر مسکراہٹ بھانپ گئی تھی آج تک اسنے بس اسکی انسلٹ ہی کی تھی وہی بیچارہ اسے مناتا رہتا تھا انہیں کیا پتا تھا وہ ایک رشتے میں جڑ جائیں گے ۔۔۔ 

نجم نے اسکا خوبصورت چہرہ دیکھا وہ کوئی پری محسوس ہو رہی تھی سرخ لہنگے میں ۔۔۔

 سب شہنشاہ صاحب کا انتظار کر رہے تھے جیسے ہی وہ آئے تھے نکاح شروع ہوا تھا ۔۔۔۔

نیشال بنتِ سہیل احمد آپکا نکاح نجم احمد ولد منور احمد سے سکہ رائج الوقت دس لاکھ حق مہر طے پایا گیا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔

نیشال کا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ چھوٹی سی شرارتی سی لڑکی اب اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ اسکا نکاح ہو رہا تھا ۔۔۔قبول ہے 

وہ تیسری بار کہہ کر نظریں جھکا گئی تھی 

علیزے نے سکھ کا سانس لیا تھا وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی نیشال کوئی گڑبڑ ناں کرے ۔۔۔ 

نجم احمد ولد منور احمد کیا آپکو نیشال بنتِ سہیل احمد اپنے نکاح میں قبول ہے ۔۔۔ 

قبول ہے ۔۔۔

نیشال کے لبوں پر تبسم بکھرا تھا اسکا مسکراہٹ میں دیا گیا جواب سن کر ۔۔۔

دونوں نے نکاح نامے پر دستخط کئے تھے ۔۔۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی تھی ۔۔۔ 

۔۔۔۔

بھابھی جی ۔۔۔

ژالے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اسے چھیڑنے کی غرض سے آئی تھی مگر اس حسن کی پری کو دیکھ کر وہ مبہوت رہ گئی تھی یقیناً شاہ ویر نے اسکے لئے پرفیکٹ لہنگا پسند کیا تھا  اسکے علاوہ وائٹ ڈائمنڈ جیولری نے اسکے حسن کو چار چاند لگائے تھے بیوٹیشن نے اپنا کمال دیکھایا تھا وہ عام سے حلیے میں بھی اس حسن کے مغرور شہزادے کا دل دھڑکانے کا ہنر رکھتی تھی مگر آج تو  اسکے دل پر بجلیاں گرنے والی تھی وہ بیڈ پر بیٹھی انگلیاں چٹخا رہی تھی گھبرہٹ کے مارے ۔۔۔ 

ژالے آپی یہ اتار دیں ۔۔۔ وہ نتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معصومیت سے بولی تھی 

ارے پگلی یہی تو بہت پیارے لگ رہی ہے رہنے دو اسے ۔۔۔ وہ نتھ کو درست کرتی ہوئی اسے سمجھانے لگی عشیق نے ٹھنڈی آہ بھری تھی ۔۔۔

بیٹا تیار ہو ناں آپ ۔۔۔ آفرین بیگم کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی تھی اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا بیچاری کو وہ ایڈوانس میں جو دھمکی دیکر گیا تھا کہ آج اسے سزا  ملے گی ۔۔۔

جج۔۔جی ۔۔

وہ گھبراتے ہوئے بولی تھی ژالے اور زارا نے اسے اٹھنے میں مدد کی تھی اسکا لہنگا تھا ہی اتنا بھاری اوپر سے جتنے نگینے اس پر جڑ دیئے گئے تھے وہ بیچاری چلنے سے عاری ہو گئی تھی ۔۔۔  سر پر سرخ چنری والا دوپٹہ بھی بہت بھاری تھا ۔۔۔

آغا صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دعائیں دی تھی اور اسے لیکر وہ باہر آئے تھے عشیق کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا مرجان کیساتھ وہ اسٹیج پر بیٹھا کوئی بات کر رہا تھا جب اسکی نظر اس سراپا قیامت پر پڑی تھی دونوں نظروں کا تکرار ہوا تھا وہ اس حسنِ یوسف کو دیکھتی رہ گئی تھی کتنا حسیں تھا وہ مگر آج تو اسکے چہرے پر ایک الگ ہی چمک تھی وہ بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا  بالوں کو  جیل سے مخصوص انداز میں بٹھایا گیا تھا وہ اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔۔۔

اونہہہہممم ۔۔۔

مرجان نے دھیرے سے کھنکار کر گلا صاف کیا تھا شاہ ویر نے لب بھینچتے ہوئے نظروں کا زاویہ بدلا تھا مگر عشیق اس سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی آغا صاحب اسے اسٹیج تک لائے تھے وہ سہمی ہوئی اسکے قریب صوفے پر بیٹھی تھی اور ژالے اور زارا نے فوٹوز بنانا شروع کیا تھا میڈیا کو اسنے سیکیورٹی سے کہہ کر گیٹ پر ہی روکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کوئی بھی اسکی عشیق کو دیکھے اس لئے اسنے فوٹو گرافر تک کو نہیں آنے دیا تھا ۔۔۔ 

عشیق کت ٹھنڈا ہاتھ اسنے اپنے مظبوط ہاتھ میں لیتے ہوئے اسکے ہاتھ کو انگوٹھے سے سہلایا تھا عشیق کی گھنی پلکوں نے جھرجھری لی تھی اسکے ہاتھ کے گرم لمس پر ۔۔۔ اس کے علاوہ وہ جب سے اسکے قریب بیٹھی تھی اسکے کلون کی ہلکی مہک اسے اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔

چلو اٹھو بند کرو اپنے ڈرامے اب ۔۔۔ قصا بیگم نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے اٹھایا وہ صدمے سے سرخ چہرہ لئے قصا بیگم کو دیکھ کر بازو جھٹک گئی تھی 

بےوقوف اٹھو میں نے کہا ناں سب ٹھیک ہو گا چلو میرے ساتھ باہر ورنہ تمھارے بابا خود آ جائیں گے یہاں ۔۔۔۔

آئی ڈونٹ کیئر میں اس عشیق کو اپنے شاہ ویر کیساتھ نہیں دیکھ سکتی جائیں یہاں سے ابھیییی ۔۔۔ وہ چیخی قصا بیگم نے تنگ نظروں سے اسے دیکھا اور زبردستی اسکا بازو پکڑ کر اسے نیچے سے اٹھایا

میں نے کہا ناں وقت دو مجھے جو تم چاہتی ہو وہی ہو گا اٹھو اور چہرہ صاف کر کے باہر چلو ۔۔۔

وہ ٹشو سے آنسوں صاف کرتی ایک زبردستی کی مسکان چہرے پر سجائے باہر نکل گئی تھی قصا بیگم کیساتھ ۔۔۔ 

گھبراہٹ کیساتھ وہ کمرے کو دیکھ رہی تھی 

کمرے میں گلاب کی پتیوں کی ڈیکوریشن کی گئی تھی سامنے ٹیبل پر پھولوں کی پتیوں کی ڈیکوریشن کیساتھ کینڈل جل رہی تھی ژالے  اسکا لہنگا بیڈ پر بٹھانے کے بعد درست کر رہی تھی 

آپ میرے پاس ہی رکنا مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ کر جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی ژالے نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا 

کیوں بھابھی میں یہاں رک کر کیا کروں گی یارر ۔۔۔ 

وہ ۔۔ وہ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔

وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے گھبرا کر بولی 

بھائی سے ؟! 

ژالے کے سوال نے اسکے دل کی دھڑکن تیز کی تھی وہ گھبراہٹ سے دروازے کو دیکھنے لگی 

بھابھی مجھے جانے دیں یارررر ۔۔ ژالے نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا عشیق نے اسکے ہاتھ کو مظبوطی سے پکڑا تھا 

ارے بھابھی یہ آپکے ہاتھ کیوں ٹھنڈے پڑ رہے تھے کیا ہوا ہے ۔۔۔ ژالے نے اسکے ٹھنڈے ہاتھ دبائے تھے وہ بیچاری تو پریشان ہی ہو گئی تھی 

وہ ہمیں سزا دیں گے ۔۔۔۔ 

عشیق نے بھرپور معصومیت سے کہا 

کیوں سزا دیں گے آپکو بھائی ؟! 

ژالے نے منہ کھولے پوچھا 

ہم نے انکو ۔۔۔ گولی ماری تھی ۔۔۔

ہاہاہا کیا ۔۔۔ ژالے نے ہنستے ہوئے اسکی بات کو ہوا میں اڑایا تھا ۔۔۔

ہم سچ کہہ رہے تھے ۔۔۔ 

عشیق نے اسے یقین دلانا چاہا مگر وہ تو ہنستی چلی گئی 

بھابھی آپ بیٹھو بھائی آتے ہی ہوں گے انہوں نے مجھے یہاں دیکھ لیا تو میری شامت آ جائے گی بیسٹ آف لک ۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے بھاگ گئی تھی عشیق کو ٹھنڈے پسینے چھوٹے تھے ۔۔۔

۔۔۔۔۔

مرجان ۔۔۔

وہ جاتے جاتے رکا تھا اسنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ چپکا کر اسکی طرف دیکھا تھا 

کیا ہوا ہے ۔۔ وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ کر بولا 

کچھ بھی نہیں ۔۔۔ تم جاؤ ناں ۔۔

وہ اسکے کندھے پر تھپکی دیتا ہوا مسکرایا 

میں دیکھ رہا ہوں کچھ چل رہا ہے تمھارے دماغ میں بتاؤ کیا ہوا ہے ؟! 

مرجان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جو اسے دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کوئی گڑبڑ ہوئی ہے مگر مرجان اسے بتا کر اسکا خاص دن بگاڑنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔

رچرڈ بھاگ گیا ہماری کسٹڈی سے ۔۔۔

اسکی پیشانی پر بل پڑے تھے ۔۔۔

لیکن تم پریشان ناں ہونا جاؤ تم ہمیں لوکیشن مل گئی ہے جلد ہی وہ ہماری کسٹڈی میں ہو گا ۔۔۔

میں کہیں نہیں جا رہا ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا مرجان نے اسے بےبس نظروں سے دیکھا تھا جو اسکے ہاتھ سے گاڑی کی چابیاں لیکر گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔

ہم ہینڈل کر لیں گے جاؤ شاہ۔۔۔۔ 

میں جانتا ہوں تم ہینڈل کر لو گے لیکن میں اپنے بھائی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ان لوگوں میں ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں کہہ کر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا مرجان مسکرایا تھا اور اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا وہ گاڑی تیز رفتار میں اسکے بتائے ہوئے ایڈریس کی طرف موڑ چکا تھا ۔۔۔ 

۔۔۔۔

وہ مسکراتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا مگر اسے دیکھ کر وہ چونکا وہ بڑے سکون سے  سامنے ہڑے لارج سائز پیزا کیساتھ انصاف کر رہی تھی اسے دیکھ کر وہ بڑا بائٹ لیتے لیتے رہ گئی تھی آنکھیں شرمندگی سے پھیلی ۔۔۔

بھوکڑ لڑکی آج تو کم کھاؤ ۔۔۔ 

وہ اسے بلا جھجک کھاتا دیکھ کر پھٹ پڑا تھا 

تمھیں کسی نے روکا ہے کیا آو تم بھی کھاؤ ۔۔۔ 

وہ بھرے ہوئے منہ کیساتھ بمشکل بول پائی تھی نجم نے سرد آہ بھری تھی اور دوبارہ اسکی طرف دیکھا جو بےشرموں کی طرح کھا رہی تھی 

میں شوہر ہوں تمھارا شادی کے پہلے دن تم کیا کر رہی ہو یہ ۔۔۔ نجم نے تپ کر کہا جس پر وہ منہ بسور گئی

کھانا کھا رہی ہو کیا تکلیف ہے میرے کھانے سے تمھیں نہیں ہو رہا ناں تمھارا خرچہ میری بہن نے لیکر دیا ہے میں تو پورا کھاؤں گی ۔۔۔ 

یہاں سے اٹھ جاؤ مجھے سونا ہے تھک گیا ہوں میں ۔۔۔ نجم نے اسے صوفے کی راہ دیکھائی 

کیوں اٹھوں ؟! یہ میرا بھی بیڈ ہے تمھیں زیادہ نیند آ رہی ہے جا کر صوفے پر سو جاؤ میں یہ کھا کر ہی اٹھوں گی ۔۔۔ وہ دوسرا پیس اٹھاتے ہوئے بائٹ لیکر بولی نجم کا دل کیا اپنا سر دیوار میں مار دے وہ تن فن کرتا ہوا وارڈروب سے کپڑے لیکر واش روم میں گھسا تھا نیشال نے اسے دیکھتے ہوئے پیزا کا بڑا بائٹ لیا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

پسٹل کو پشت سے لگائے وہ باقی ٹیم کیساتھ ایک پرانی فیکٹری پہنچے تھے جہاں رچرڈ کو اسکی ٹیم نے چھپایا تھا کافی ری سرچ کے بعد انہیں اس لوکیشن کا پتا چلا تھا شاہ ویر اور مرجان آگے چل رہے تھے اور باقی فورس انکے پیچھے گنز تھامے چل رہی تھی ویر نے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھا کر فائر کیا تھا پسٹل پر سپریسر کی وجہ سے گولی چلنے کی آواز نہیں آئی تھی وہ انہیں پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا ۔۔۔

سر سنا ہے آج آپکی شادی تھی ۔۔۔

فورس میں پیچھے چلتا ایک فوجی مسکرا کر شاہ ویر سے بولا جس پر وہ پیچھے مڑا تھا مرجان نے ہنسی روکی تھی ۔۔۔

اینی پرابلم ؟!

وہ آنکھیں سکیڑے بولا 

نہیں سر لیکن آپ جیسے آفیسر بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی شادی چھوڑ کر مشن پر نکل پڑتے ہیں ۔۔۔

مرجان نے قہقے کو بمشکل روکا تھا

تعریف ہو گئی ہو تو کام کر لیں ؟!

وہ بھنویں سکیڑے بولا جس پر وہ فوجی مسکراتے ہوئے اسکے پیچھے چل دیا تھا 

دروازے کو پوری قوت سے ٹانگ مار کر اسنے نیچے گرایا تھا ۔۔۔

منور صاحب حیرت سے نیچے گرے دروازے کو دیکھتے رہ گئے تھے وہ آرمی کیساتھ اندر داخل ہوا تھا

واٹ آ سرپرائز انکل ۔۔۔

پسٹل کو منور صاحب کی جانب کرتے ہوئے مرجان نے مسکرا کر کہا جبکے مسٹر رچرڈ کو وہ پیچھے سے فرار ہوتے دیکھ چکا تھا لہزا اسنے ایک سیکنڈ نہیں لگایا تھا اس اسے تک پہنچ کر اسے پکڑنے میں ۔۔۔

۔۔۔۔

وہ کھا پی کر بیڈ پر سو گئی تھی نجم نے آنکھیں سکیڑی تھی اسے دیکھ کر ۔۔۔

کیسی لڑکی ہے یار یہ ۔۔۔ 

اسنے پیزا کا خالی ڈبا اٹھا کر ایک طرف رکھا اور اسے گھوری سے نوازا جو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی ۔۔۔

اس پر کمبل ڈال کر وہ بیڈ کے دوسرے کنارے پر لیٹا اور خود پر کمبل ڈالا مگر وہ اس پر سے کمببل کھینچ کر اپنے اوپر ڈال چکی تھی ۔۔۔

واٹ دا ہیل ۔۔۔ 

وہ دانت پیستے ہوئے اٹھا تھا ۔۔۔

یہ میرے جہیز کا کمبل ہے جاؤ اپنا اٹھا کر پہنو ۔۔۔

وہ پورا کمبل خود پر لیتے ہوئے بڑبڑائی نجم نے دو انگلیوں سے پیشانی مسلی تھی  اور اٹھ کر صوفے پر لیٹا تھا 

۔۔۔۔

رات کے دس بج رہے تھے وہ وال پر لگی گھڑی کو بار بار گھور رہی تھی مگر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا ۔۔۔

حد ہو گئی ہمیں اتنی نیند آ رہی ہے اور کتنا انتظار کریں ہم ۔۔۔

وہ نیند سے چور آنکھیں جھپکتے ہوئے بڑبڑائی تھی 

اللہ جی یہ ہمیں اتنی نیند کیوں آ رہی ہے ۔۔۔

وہ سر کو تھامتی ہوئی بولی اسکا سر گھوم رہا تھا نیند کی وجہ سے ۔۔۔  ہم سے نہیں بیٹھا جا رہا اور ۔۔۔

وہ بیڈ کے کراؤن سے سر ٹکاتی آنکھیں موندتے بولی مگر پھر جلدی سے آنکھیں کھولی کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی ۔۔۔

وہ بند ہوتی آنکھوں کو کھولتے ہوئے نظریں جھکا گئی تھی وہ دروازہ کھول کر اندر آیا تھا عشیق نے جھر جھری لی تھی اسے دیکھ کر ۔۔۔

کوٹ اتار کر صوفے پر رکھتے ہوئے اسنے محبت بھری نگاہوں سے اس سراپا قیامت کو بیڈ پر بیٹھے دیکھا اسکی نظروں کی تپش خود پر محسوس کر کے اسنے شرم و حیا سے نظریں جھکائی ۔۔۔  ورسٹ سے واچ اتار کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسنے شرٹ کے کف کے بٹن کھولے کر بازو کو کہنیوں تک موڑا تھا ۔عشیق نے بند ہوتی آنکھوں کیساتھ اسکی ساری کاروائی دیکھی عشیق تھوڑی پیچھے کو کھسکی اسے اپنے سامنے براجمان ہوتے دیکھ کر جبکہ اسکے کٹاؤ دار لبوں پر متبسم بکھرا اسے ڈر کر پیچھے کھسکتے دیکھ کر 

ہم چینج کر لیں ۔۔

وہ نظریں جھکائے ہی تاسف سے بولی 

نہیں ۔۔۔

اسکے صاف انکار پر وہ چونکی تھی وہ ہاتھ کی مٹھی بنائے ہونٹوں پر رکھے بڑی قریبی نظر سے اسے دیکھ رہا تھا عشیق نے حلق تر کرتے ہوئے اسے دیکھا 

ہمیں بہت نیند آ رہی ہے اور ٹھنڈ بھی لگ رہی ہے کیا ہم سو سکتے ہیں؟! 

نہیں ۔۔۔

صاف انکار کیا گیا تھا جس پر اسکا دل ڈوب گیا تھا  نیند سے بھاری ہوتے سر کو قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا اسکے لئے شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسکی نیند سے بند ہوتی آنکھیں دیکھی ۔۔۔

خبردار اگر آپ سوئی تو ۔۔۔

ہممم۔۔ نہیں سونا چاہتے لیکن ہمیں نیند آ رہی ہے ہم کیا کریں ۔۔۔

وہ غصے سے بولی جبکہ اسکی بات سن کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی وہ سرخ ہوتی ہوئی نظریں جھکا گئی 

اوکے چینج کر لیں ۔۔

اسکے سرخ ہوتے گال کو اسنے نرمی سے انگوٹھے سے چھوا وہ جلدی سے سمبھلتے ہوئے اٹھی مگر اسکا سر چکرایا تھا وہ صحیح وقت پر اسے تھام چکا تھا۔۔۔

بی کیئر فل مائی ڈول۔۔۔  اسے قریب کرتے ہوئے وہ مسکرایا عشیق نے جھرجھری لی اسکے کلون کی مہک اسے مدہوش کر رہی تھی اور وہ بیچاری پہلے ہی نیند سے دوچار تھی ۔۔۔

ہمیں نیند آ رہی ہے شاہ ۔۔۔

وہ اسکے کندھے پر سر گراتے ہوئے آنکھیں بند کر گئی ۔۔۔

عشیق سونا نہیں ہے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اسکے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا عشیق نے تھوڑی سی آنکھیں وا کی تھی ۔۔۔ اسکا منظر دھندھلا رہا تھا وہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی ۔۔۔ اور اپنی کیفیت پر خود حیران تھی ۔۔۔

اسکے ٹھنڈے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ پریشان ہوا 

آپکے ہاتھ اتںے ٹھنڈے کیوں ہے اینجل ؟! کھانا کھایا تھا آپ نے صبح ؟!  اس کا چہرہ نرمی سے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولا

جی ۔۔۔ امی نے کھانا کھلایا تھا ہمیں تھوڑا سا ۔۔ ہمیں بس نیند آ رہی ہے۔۔۔ 

وہ اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی 

اوکے آپ چینج کر لیں ۔۔۔ اسکا چہرہ کندھے سے اٹھاتے ہوئے وہ نرمی سے بولا وہ بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر رکی تھی مرر کے سامنے رک کر وہ جلدی سے اپنی جیولری اتارنے لگی ۔۔۔

آرام سے کریں اینجل ۔۔۔

اسے جلدی سے ایئرنگ اتارتے ہوئے دیکھ کر وہ سرد لہجے میں کہتے ہوئے آگے آیا اور اسکا ہاتھ ہٹاتے ہوئے نرمی سے بھاری  ایئرنگ کو اسکے کان سے نکالا ۔۔۔ 

عشیق آئینے میں اسکا عکس دیکھ کر مسکرائی تھی وہ بڑی سنجیدگی سے اسکا دوسرا ایئرنگ اتا رہا تھا عشیق نے اپنے حنائی ہاتھوں سے سرخ چوڑیاں اتار کر سامنے رکھی وہ اب اسکے بھاری دوپٹے سے سوئیاں نکال رہا تھا ۔۔۔  نیند کی وجہ سے بار بار اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھی ۔۔۔

دوپٹے کو سائڈ پر رکھتے ہوئے اسنے اسکے بالوں سے پن نکالی تھی وہ سب کچھ تو خود کر رہا تھا وہ کھڑی سنجیدگی سے اسے اپنے کام میں مصروف دیکھ رہی تھی ۔۔۔  اسکے  لمبے براؤن بالوں کو  آزادی بخش کر وہ اسکا نیکلس اتارنے میں مصروف ہوا تھا اسکی ٹھنڈی انگلیوں نے عشیق کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کی تھی نیکلس اتار کر اسنے اسکا رخ اپنی جانب کرتے ہوئے اسکی نتھ کو اتارا عشیق نے حیا سے نظریں چرائی تھی اسوقت اسکا چہرہ بےحد قریب تھا اسکے ۔۔۔  

آپ بہت اچھے ہیں شیری۔۔۔

وہ نظریں جھکائے بولی شاہ ویر کے جیولری اتارتے ہاتھ ساکت ہوئے تھے پھر مبہم سا مسکرایا اور اسکا جھومر اتار کر سائڈ پر رکھا 

میرا ایسا کوئی بھی ارادا نہیں تھا مسز شاہ ویر حیدر لیکن آپکی آنکھوں کی بےبسی نے میرا دل پگھلا دیا جائیں اور چینج کر لیں ۔۔۔ اسکی پیشانی پر لب رکھے وہ سنجیدگی سے بولا عشیق نے محبت بھری نظر سے اسے دیکھا اور پھر لہنگا سنبھالتی ہوئی  وہ واش روم میں چلی گئی ۔۔۔

وہ مسکراہٹ دباتا ہوا وارڈروب کی طرف بڑھا اور اپنا وائٹ کلر کا ٹراؤزر اور وائٹ ہی شرٹ نکالی اور واش روم کے دروازے کے قریب پڑے صوفے پر رکھی اور خود بالکنی کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔ 

ہائے میں نے جلدی میں کپڑے تو لئے ہی نہیں ۔۔۔

وہ معصومیت سے آس پاس دیکھتی اچھنبے سے بولی اور پھر اگلی ہی سوچ پر اسکا دل تیزی سے دھڑکا کہ وہ باہر بھی نہیں جا سکتی تھی ۔۔۔  اسکا  ہی ٹاول اچھی طرح سے لپیٹ کر وہ کمرے میں آئی جب صوفے پر اسکے کپڑے دیکھے وہ خود تو بالکنی کی جانب چلا گیا تھا تاکہ وہ گھبرائے ناں ۔۔۔ جلدی سے کپڑے اٹھا کر وہ واش روم میں بند ہوئی ۔۔۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ مسکراتا ہوا واپس آیا تھا ۔۔۔

اسکے کپڑے اسے کافی لمبے تھے وہ اسکے ٹراؤزر کو نیچے سے کافی فولڈ کئے اور شرٹ جو اسکے گھٹنوں تک آ رہی تھی بازو فولڈ کرتے ہوئے باہر نکلی تھی اسے وہ پل یاد آیا تھا جب وہ پہلی بار اسے ملی تھی ایک شریر مسکراہٹ نے اسکے خوبصورت لبوں کو چھوا تھا وہ مسکراہٹ دباتا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا وہ اسکی لو دیتی نظروں پر کنفیوز ہوتی ہوئی اسکے قریب رکی تھی ۔۔۔ 

اسکے میک اپ سے پاک چہرے کو ہاتھوں میں لیکر وہ بےساختہ مسکرایا تھا کتنے وقت بعد وہ اسے ملی تھی کتنے جذبات تھے اسوقت جن سے وہ اسے آشنا کروانا چاہتا تھا اسکے مومی ہاتھ کو اپنے مظبوط ہاتھ میں تھام کر اس پر اپنے لب رکھے تھے اس کے ہاتھ پر  ۔۔۔ 

وہ لب کاٹتی ہوئی اسکے حسیں نقوش چہرے کو غور سے دیکھنے لگی ۔۔۔

اسکے خشک لبوں کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے وہ مسکرایا۔۔۔

اسے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ ٹیبل پر پڑے گلاس میں پانی ڈال کر اسکی طرف بڑھا تھا عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ اپنی ایک ایک حرکت کیساتھ اسے اپنا اسیر کر رہا تھا اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھامتے ہوئے اسنے لبوں سے لگایا اور آنکھیں سکیڑی ۔۔۔

شاہ یہ کڑوا ہے بہت ۔۔۔

وہ ایک گھونٹ بھرتے ہوئے منہ خراب کر گئی جبکہ شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے گلاس کو دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ سے گلاس لیکر ایک گھونٹ بھرا۔۔۔

عشیق یہ بالکل نارمل ہے ۔۔۔

نہیں شیری یہ کڑوا ہے ۔۔۔ بلکہ بہت کڑوا ہے ۔۔۔

وہ منہ خراب کرتی ہوئی بولی تھی شاہ ویر نے آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا اسے لگا وہ بہانے بنا رہی ہے ۔۔۔

آپ ہمیں کڑوا پانی پلا کر پنشمینٹ دینا چاہتے ہیں ۔۔  عشیق نے معصومیت سے اسے گھورا وہ جو سپاٹ نظروں سے گلاس کو دیکھ رہا تھا اسکی بات پر مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔

اتنی چھوٹی پنشمینٹ تو آپکو نہیں ملے گی جانم آپ نے گولی ماری تھی مجھے میں آپکو ایسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں ؟! 

وہ اسکے پیروں تلے زمین کھینچ چکا تھا عشیق نے ٹیکشن سے ہونٹ بھینچے ۔۔۔

آپ کیا پنشمینٹ دیں گے ہمیں ۔۔۔ 

وہ گھبراتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی جبکہ اسے ٹیبل پر گلاس رکھ کر اپنی طرف پلٹتا دیکھ کر وہ رکی ۔۔۔ 

آپکو کیا لگتا ہے جانم ۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے اپنے سینے میں بھینچتے ہوئے بولا عشیق نے اسکی مسحور کر دینے والی مہک پر سکون سے آنکھیں بھینچی ۔۔۔

ہم سچ میں آپکو گولی مارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ تو ہم نے غصے میں کر دیا ۔۔۔ عشیق اسکے مظبوط بازوں کے حصار میں منمنائی 

آپ سوچ بھی نہیں سکتی تھی جاناں لیکن آپ نے گولی تو مار دی پتا ہے ابھی تک زخم نہیں بھرا ۔۔ وہ اسکے بالوں کو لبوں سے چھوتا گمبھیر لہجے میں بولا

آئی ایم سوری شیررری ۔۔۔ وہ سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی 

لیکن یہ معافی آپکو سزا سے نہیں بچا سکتی ۔۔۔ وہ اسکے چہرے کو تھامتے ہوئے اس پر جھکتے ہوئے معنی خیزی سے بولا عشیق نے بند آنکھیں جھٹ سے کھولی تھی ۔۔۔

شیررری آپ سچ میں ہمیں معاف نہیں کریں گے ۔۔۔ 

اسکی نیلی سحر انگیز آنکھوں میں دیکھتے وہ روہانسے لہجے میں بولی 

نہیں عشیق میں نے بہت پہلے معاف کر دیا تھا آپکو میں ناراض ہی کب تھا میں تو ہرٹ تھا آپ نے خود کو تکلیف نہیں دی تھی مجھے دی تھی آپ اچھے سے جانتی تھی میں آپ پر ایک آنچ نہیں آنے دے سکتا ۔۔۔

ہم مر جانا چاہتے تھے ۔۔ وہ نظریں جھکائے بولی اسکے بالوں میں شدت سے انگلیاں پھنسائے وہ اسکا چہرہ بےحد قریب کر چکا تھا ۔۔۔

اور میرا خیال نہیں آیا تھا جیتے جی آپ مجھے مار دیتی اگر خدا نخواستہ آپکو کچھ ہو جاتا میں خود کو کبھی معاف ناں کر سکتا ۔۔۔ 

ہم آپکے بغیر جینا نہیں چاہتے تھے اس لئے ہم نے خود کو بھی ۔۔۔

وہ اسکے لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش کر چکا تھا عشیق نے آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔  اسکے سر میں درد کی شدت اٹھی وہ اسکی کمر میں بازو حمائل کرتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر جھکا تھا عشیق کے ہونٹ لرزے تھے اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھی ڈر سے۔۔۔۔ اگر وہ اسے تھامے کھڑا ناں ہوتا تو وہ گر جاتی ۔۔۔

اسکے لبوں پر لب رکھتے ہوئے وہ اسکی سانسیں روک چکا تھا ۔۔۔

۔۔۔۔

نیند میں کروٹ بدل کر اسنے آنکھیں کھولی تھی مرجان اپنی جگہ پر تھا ہی نہیں وہ پریشانی سے اٹھی تھی واش روم کا دروازہ کھلا تھا وہ پریشانی سے پورے کمرے میں اسے تلاشنے لگی مگر وہ کمرے میں تھا ہی نہیں ۔۔۔

کہاں گئے یہ ۔۔۔

وہ جلدی سے بلینکٹ ہٹاتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتری اور دوپٹہ لیکر باہر نکل گئی جب ٹیرس کا دروازہ کھلا دیکھا وہ دوپٹہ درست کرتے ہوئے اوپر چلی گئی تھی وہ کافی کا کپ سامنے رکھے ٹھنڈی ہوا کو آنکھیں بند کئے محسوس کر رہا تھا ۔۔۔ وہ مسکرائی تھی اسکے ہوا میں اڑتے بال دیکھ کر ۔۔۔ 

مسٹر مرجان کاظمی آپ تو بڑے رومینٹک نکلے مجھے نہیں پتا تھا آپ ایسے موسم میں باہر بھی نکلتے ہوں گے ۔۔۔ اسکے قریب رکتی وہ مسکرا کر بولی مرجان کے سپاٹ چہرے پر چمک ابھری تھی اسکی آواز سن کر ۔۔۔

آپ سوئی نہیں ؟!

سو رہی تھی لیکن آپکو ناں پا کر پریشان ہو گئی آپکو ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہوں ۔۔۔  

وہ مدھم سا مسکرایا

یہاں ٹھنڈ ہے زارا ۔۔۔

لیکن آپ یہاں ہیں تو میں بھی یہاں پر ہی رکوں گی مرجان ۔۔۔ وہ اسکے سینے سے سر ٹکاتی مسکرائی مرجان نے مسکرا کر اسکے بالوں کو سہلایا ۔۔۔

آپ پریشان ہیں کسی بات کو لیکر ؟! 

ہاں زارا انکل منور ان لوگوں کیساتھ آج اریسٹ ہوئے ہیں ۔۔۔  زارا نے چونک کر اسے دیکھا کتنا بوجھ وہ اکیلے دل پر لئے گھوم رہا تھا

یقیناً ان لوگوں کیساتھ مل کر ہی انہوں نے ہمارے گھر کو جلایا تھا اور موم اور باقی سب کی موت جے زمہ دار بھی وہی۔۔۔ وہ مٹھی بھینچے شیلنگ پر رکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا 

آپ ایسا مت کہیں وہ ایسا کیوں کریں گے مرجان۔۔۔

وہ ایسا ہی کریں گے زارا میں جانتا ہوں انہیں پراپرٹی کے لئے وہ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں میرے بہت سے اپنوں کو وہ مجھ سے چھین چکے ہیں اب کسی اپنے کو کھونے سے بھی ڈرتا ہوں میں ۔۔۔  

زارا نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا مرجان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جس کا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا پڑ گیا تھا ۔۔۔

آپکو ٹھنڈ لگ رہی ہے چلیں واپس چلتے ہیں ۔۔۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ جانے کے لئے پلٹا جب زارا نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور اسے روکا ۔۔۔

آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں مرجان آپکے اپنے آپکے ساتھ ہیں اور صحیح سلامت ہیں اور جو بھی اس کام میں ملوث ہیں وہ سب اپنے انجام کو پہنچیں گے انشاء اللہ ۔۔۔

مرجان نے سنجیدگی سے اسکے مطمئن چہرے کو دیکھا اور پھر لب بھینچتے ہوئے سر کو سپاٹ انداز میں  ہاں میں جنبش دی تھی 

چلیں ۔۔۔ اسکا ہاتھ تھامتی وہ مسکرائی اور وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا اسے اپنے سینے سے لگائے اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اسکے ساتھ چل دیا تھا

۔۔۔۔۔

 اسکی اکھڑتی سانسوں پر ترس کھا کر وہ ایک قدم پیچھے ہوا تھا لمبے سانس لیتی وہ اسے بےبس نظروں سے دیکھ کر شرم و حیا سے نظروں کا توازن برقرار ناں رکھ پائی اور گھنیری پلکوں کو جھکا گئی نیند اسکے دماغ پر اثر انداز ہو رہی تھی اسے آنکھیں کھولنے میں مشکل پیش آ رہی تھی اور ساتھ ہی جاگنے کی وجہ سے آنکھوں میں جچبھن ہو رہی تھی جسکے نتیجے میں اسکی آنکھیں پانی سے بھر گئی تھی ۔۔۔

وہ سمبھلتی ہوئی بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی سر گھٹنوں پر بازو رکھتی وہ سر کو ہاتھوں میں گرا گئی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا اور اسکے قریب بیٹھا تھا خاموشی سے اسکی نظروں نے اسکے تھکان سے مرجھائے چہرے کو دیکھا تھا ۔۔۔ 

وہ فون کی طرف بڑھا تھا کیونکہ فون کی رنگ ٹون بجنے پر عشیق نے سر اٹھا کر اسکے فون کو دیکھا تھا وہ فون اٹھائے ونڈو کی جانب بڑھا اور سنجیدگی سے زبیر کی بات سننے لگا عشیق نے دھندلی نظر سے اسے دیکھا جو فون کان سے لگائے سپاٹ لہجے میں اسے کچھ سمجھا رہا تھا وہ اٹھ کر اسکی جانب بڑھی جب اسکا سر چکرایا تھا وہ بڑھ کر اسے تھام چکا تھا وہ بےہوش ہوتی ہوئی اسکے کندھے پر سر گرا چکی تھی ۔۔۔ 

میں نے جو کہا وہ ہو جانا چاہیے ۔۔۔ وہ فون پر سختی سے آرڈر دیتے ہوئے فون کو سائڈ پر رکھ کا اسکا چہرہ تھپتھانے لگا مگر وہ ہوش کی دنیا سے بہت دور جا چکی تھی ۔۔۔

ایک تلخ اور تکلیف دہ سوچ نے اسکے دل کو جکڑا وہ اسکی سانسیں اور نبض دیکھنے لگا مگر وہ بالکل صحیح سلامت تھی بس گہری نیند میں تھی ۔۔۔ 

اسے تھامے وہ بیڈ پر لیٹا گیا اور سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا پھر کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ اسکا چہرہ ہاتھ سے تھپتھپایا مگر وہ ٹس سے مس ناں ہوئی 

اچھا نہیں کیا آپ نے عشیق ۔۔۔ وہ خفا لہجے میں کہتا ہوا اس پر بلینکٹ ڈال کر بڑبڑایا اسکے خیال سے وہ سو گئی تھی جبکہ اس بیچاری کیساتھ کیا ہو رہا تھا یہ وہ بھی نہیں جانتی تھی 

اپنے دہکتے چہرے پر کسی کا ٹھنڈے ہاتھ کا لمس محسوس کر کے اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کی تھی 

اٹھیں اور یہ پی لیں ۔۔

اسے سہارا دیکر اٹھاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا وہ اسکے ہاتھ سے مگ لیتے ہوئے اسے دیکھنے لگی پھر نظر کھڑکی سے جھانکتی سورج کی روشنی پر پڑی 

صبح ہو گئی ہم کب سوئے تھے ؟! وہ کافی کا مگ ہاتھوں میں دباتے ہوئے خوفزدہ لہجے میں بولی شاہ نے سنجیدگی سے اسکے اضطراری چہرے کو دیکھا 

 صبح نہیں دن کے گیارہ بج رہے ہیں ۔۔۔ ڈونٹ وری آپ یہ پی لیں پھر ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔

ڈاکٹر کے پاس کیوں ۔۔ وہ کافی کا سپ لیتے لیتے رہ گئی

کیونکہ آپکو بہت تیز بخار ہے ۔۔

اسکے سلگتے ہاتھوں کو اپنے ٹھنڈے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے وہ سپاٹ لہجے میں بولا اسکے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس پا کر وہ کانپی 

اچھوووو ۔۔۔

وہ کافی کا کپ جلدی سے اسکے پاتھ میں تھماتے ہوئے ہاتھ چہرے پر دیکر چھینکی

سوری ہمیں ٹھنڈڈڈ۔۔۔

اچھوووو ۔۔۔

وہ دوبارہ بولتے ہوئے چھینکی شاہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی عشیق نے مسکراتے ہوئے اسکی خوبصورت مسکراہٹ دیکھی اور اسکے ہاتھ سے کافی کا مگ لیتے ہوئے پینے لگی ۔۔۔

ہممم ۔۔ یہ کس نے بنائی بہت اچھی ہے ۔۔۔ عشیق نے کافی کا سپ لیتے ہوئے اسے چمکتے چہرے کیساتھ دیکھ کر استفسار کیا  

یہ آپکے خدمت گزار نے بنائی ہے محترمہ !!

وہ سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر بولا عشیق کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی اسنے بلینکٹ سے دوسرا ہاتھ نکال کر اسکا ٹھنڈا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا وہ سنجیدگی سے اسکا بخار سے سرخ چہرہ دیکھتے ہوئے اسکے ہاتھ پر لب رکھتے ہوئے سینے سے لگا گیا تھا وہ اسکی محبت سے بھری نگاہوں میں دیکھ کر مسکرائی تھی 

                                        •••________♥️________•••

یہ لوگ کہاں رہ گئے ناشتہ تک نہیں کیا ابھی تک انہوں نے ۔۔۔ آفرین بیگم نے پلیٹیں خشک کرتے ہوئے ژالے سے کہا جو کام میں انکی مدد کر رہی تھی 

ارے چاچی جان انہیں رہنے دیں ناں ساتھ میں  جب بھوک کا احساس ہو گا آ جائیں گے باہر ۔۔ ژالے کی بات پر آفرین بیگم نے اسے سر میں جھانپڑ لگایا تھا وہ سر نیچے کرتے ہوئے منہ پر ہاتھ دیتی مسکرائی تھی 

اسلام و علیکم!!

وعلیکم السلام بیٹا کہاں کی تیاری ہے ۔۔۔ آفرین بیگم نے اسے تیار دیکھ کر تاسف سے پوچھا وہ گرے اون کا کوٹ اوڑھے ہوئے تھی اور گرم کپڑے پہن رکھے تھے

ایکچلی مرجان نے مری کی ٹکٹ بک کی ہیں ہم مری جا رہے ہیں پچھلی بار کا ٹریپ ٹھیک نہیں گیا اس لئے ۔۔ وہ گزرے لمحوں کو یاد کرتی نظریں جھکائے بولی جب نظر سیڑھیاں اترتے مرجان پر پڑی بےساختہ ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی اسے دیکھ کر ۔۔۔

اچھا خیال سے جانا بچے اور پہنچ کر فون کرنا ۔۔۔

فلائٹ میں ایک گھنٹا باقی ہے شاہ ویر کہاں ہے ؟!

وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے اسکے پورشن کی طرف دیکھتے ہوئے بولا 

بیٹا پتا نہیں ابھی تک تو ناشتہ بھی نہیں کیا انہوں نے ۔۔۔ 

میں جا کر پتا کرتی ہوں ۔۔۔ زارا نے مسکرا کر کہا جبکہ ژالے بھی اسکے پیچھے ہونے کو تیار تھی جب وہ دونوں سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے۔۔۔

عشیق نے لائٹ گرین کلر کی قمیض  جس پر سفید کڑھائی کا کام کیا گیا اور آف وائٹ ٹروزر پہن رکھے تھا سفید دوپٹہ سر پر لیئے وہ اسکے پیچھے دھیمے قدموں کیساتھ چلتی ہوئی ڈائننگ ہال میں آئی تھی ۔۔۔ 

بیٹا ناشتہ لگا دوں ؟! آفرین بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا  شاہ ویر نے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا اور مرجان کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔۔

ایسے کیوں گھور رہے ہو ۔۔۔  شاہ ویر نے آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے گھورا جو اسے چھیڑنے کے بہانے تلاش رہا تھا عشیق زارا کی طرف مسکان اچھالتے ہوئے اسکے قریب چیئر پر بیٹھی تھی 

شاہ دادا صاحب نے مری کے لئے ہمارے ساتھ تمھاری بھی ٹکٹس بک کروائی ہیں پیکنگ کر لینا ایک گھنٹے میں فلائٹ ہے ہم نکل رہے ہیں ۔۔۔ 

مرجان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ عشیق کے چمک سے عاری چہرے کو دیکھ چکا تھا 

ہم نہیں جا سکتے فلحال ۔۔۔ 

وہ سپاٹ لہجے میں بولا زارا نے مرجان کو پریشانی سے دیکھا 

لیکن کیوں ؟! 

مرجان ہم نہیں جا رہے That's It آپ لوگ انجوائے کریں ۔۔۔ وہ سرد لہجے میں کہتا ہوا عشیق کو دیکھنے لگا جو بےبس نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ اسکی وجہ سے نہیں جا رہا تھا کیونکہ اسے زکام کیساتھ شدید بخار تھا ۔۔۔

میں دادا صاحب کو آگاہ کر دیتا ہوں کہ تم نہیں جا رہے ۔۔۔   مرجان کہہ کر شہنشاہ صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا

ماریہ بی۔بی بھی اپنے کمرے سے اب باہر نکلی تھی انہیں ڈائننگ ہال میں دیکھ کر وہ ایک پل کو رکی ۔۔۔

شاہ ویر نے اسکی پلیٹ میں ناشتہ رکھا تھا جسے دیکھ کر پھر وہ جل بھن گئی ۔۔۔ مٹھیاں بھینچ کر وہ ڈائننگ ہال میں اینٹر ہوئی۔۔۔

آفرین بیگم نے اسے بھی ناشتہ لگا کر دیا تھا وہ انہیں گھورتی ہوئی بریڈ پر جیم لگانے میں مصروف ہوئی تھی ۔۔۔ 

عشیق چیئر پیچھے کرتے ہوئے  جلدی سے اٹھی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا وہ  ہونٹوں کو ہاتھوں سے ڈھانپتی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی شاہ ویر بھی اسکے پیچھے اٹھ کر گیا تھا آفرین بیگم اور زارا نے گھبرا کر انہیں دیکھا ماریہ نے منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے شاہ ویر کی پلیٹ میں اسکا توڑا ہوا نوالہ دیکھا جو وہ وہیں چھوڑ کر  اسکے پیچھے اٹھ گیا تھا ۔۔۔

وہ واش روم کا دروازہ کھولتے ہوئے جلدی سے بیسن کے پاس آئی اسے ابکائی آئی تھی اسنے کھانستے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھا وہ ہاتھ کو دیکھتے ہوئے  چونک گئی تھی اسکے ہاتھ پر خون جو لگ گیا تھا ۔۔۔ وہ جلدی سے ہاتھ کو دھو کر قلی کرتے ہوئے ٹشو سے ہونٹوں کو صاف کر کے ڈسٹبن میں ڈال کر  باہر نکل گئی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ مسکراتی ہوئی باہر نکلی تھی ۔۔۔

کیا ہوا ۔۔ 

شاہ نے اسکا چہرہ ایک ہاتھ سے تھامتے ہوئے فکرمندی سے استفسار کیا 

سوری بس وومٹنگ ہو گئی ۔۔ وہ اسکے ہاتھ پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اسے کندھے سے تھامتے ہوئے اسے صوفے پر بٹھایا اور خود گھٹنا ٹکائے اسکے پاس بیٹھا ۔۔۔

آپ نیچے مت بیٹھیں ناں ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے جلدی سے بولی مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے فکرمندی سے دیکھنے لگا ۔۔۔

کیا کھایا تھا کل آپ نے ۔۔۔؟!

ہم نے بس کھانا کھایا تھا کل ۔۔۔  اور کچھ الٹا سیدھا نہیں کھایا

کون لیکر آیا تھا وہ کھانا ۔۔۔  وہ اسکے مرجھائے ہوئے پھول سے چہرے کو نظروں کے حصار میں لئے ہی بولا

چھوٹی امی لیکر آئی تھی ۔۔۔ 

اسکی کشادہ پیشانی پر بل پڑے تھے وہ اسکے آگ کی طرح سلگتے ہاتھوں کو سپاٹ نظروں سے دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں پڑ گیا تھا۔۔۔

                                        •••________♥️________•••

وہ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے یونی کے لئے تیار ہو رہی تھی آج اسکا پیپر تھا سر پر چادر لیتے ہوئے وہ بیگ کندھے پر لٹکائے باہر نکلی تھی

مرجان بھائی پہلے مجھے ڈراپ کر دیں ۔۔۔ وہ انہیں گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر جلدی سے بولی 

سوری ہم لیٹ ہو رہے ہیں فلائٹ کے لئے ندیم تم چھوڑ کر آؤ یونی خیال سے جانا تم چھوڑ دو گے ؟!

وہ بیک سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولا

 ندیم نے سپاٹ نظروں سے مرجان کو دیکھا پھر سر کو تاسف سے ہلاتے ہوئے وہ گاڑی کو نکال چکا تھا مرجان اور زارا نکل چکے تھے  کیونکہ انکی فلائٹ تھی وہ کچھ پل کے لئے سکون چاہتے تھے اس لئے شہنشاہ صاحب نے انہیں مری جانے کا کہا تھا اور وہ مان گئے تھے ۔۔۔ یا پھر مرجان کے ذہن میں کچھ اور چل رہا تھا

ژالے نے آنکھیں سکیڑ کر اس سڑو کو دیکھا جو اسے بغیر ایک نظر دیکھے گاڑی سٹارٹ کئے اسکا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔

وہ پاؤں پٹختی فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولنے لگی 

آپ پیچھے بیٹیھں محترمہ !! 

وہ سپاٹ لہجے میں بولا ژالے نے آنکھیں گھمائی تھی اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی ندیم نے گہرا سانس خارج کرتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی تھی  کیونکہ اس سے بحث کرنا فضول تھا وہ منواتی تو ذپنی ہی تھی ایک وہی تو تھا جب پر وہ رعب جھاڑ لیتی تھی 

رکووو رکووو مجھے گول گپے کھانے ہیں ۔۔۔

وہ جلدی سے بریک لگا چکا تھا بغیر اسکی بات پوری سنے وہ جلدی سے اٹھ کر گاڑی کا گیٹ کھولتے ہوئے نیچے اتری ندیم نے سر جھٹکتے ہوئے گاڑی کا گیٹ کھولا اور نیچے اترا وہ گول گپے کی پلیٹ لیتے ہوئے بچوں کی طرح خوش ہوئی تھی کیونکہ اسے گھر میں یہ سب کھانے کی اجازت نہیں تھی اس لئے آج وہ  ساری کمیاں پوری کرنا چاہتی تھی ۔۔۔

میں لیٹ ہو رہا ہوں ۔۔۔ وہ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں بولا ژالے نے منہ میں پورا گول گپہ لیتے ہوئے اسے گھورا وہ سرعت سے نظریں پھیر گیا تھا 

امممممم ۔۔۔ بھیا تھوڑا اور مصالحہ ڈالیں ناں ۔۔۔ وہ پلیٹ آگے بڑھاتے ہوئے مسکرائی ندیم نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا آج تک اسنے اسکے چہرے پر اتنی خوشی نہیں دیکھی تھی اسکا چہرہ خوشی سے ایسے دمک رہا تھا جیسے ایک چھوٹے بچے کو وہ کھلونا مل جائے جسکی اسے بچپن سے طلب ہو ۔۔۔ 

آپ کھائیں گے ؟! 

وہ اسکی طرف مڑ کر چہک کر بولی ندیم نے سر کو جھٹکا تھا ۔۔۔  وہ کندھے اچکاتے ہوئے جلدی سے دوسرا گول گپہ منہ میں ڈال گئی ۔۔۔

ہائے مزہ آ گیا ۔۔۔وہ تیز مرچوں سے سرخ ہوتے چہرے کیساتھ بھی مسکرائی اور ہاتھ سرخ ہوتے چہرے کے سامنے نچاتے ہوئے بولی وہ جو لب بھینچے ہوئے کھڑا تھا بےساختہ مسکرایا تھا ۔۔۔ ژالے نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا تھا  ورنہ وہ کھانا بھول جاتی وہ کہاں مسکراتا تھا وہ تو کھانے میں مصروف تھی آج اسے موقع جو ملا تھا ۔۔۔ 

خالی پلیٹ رکھتے ہوئے اپنے پرس کو ٹٹولنے لگی وہ اپنے والٹ سے پیسے نکال کر اس آدمی کی طرف بڑھا کر اسے دیکھتے ہوئے واپس گاڑی تک آیا تھا ژالے نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر واپس گاڑی میں آ کر بیٹھی بادل تیزی سے گرجا تھا وہ سہمی تھی اچانک بادل کے گرجنے پر ۔۔۔ 

ندیم نے سیٹ بیلٹ لگاتے ہوئے اسکی گھبراہٹ محسوس کی بغیر اسے دیکھے پھر گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔

وہ تیز مصالحے والے گول گپے کھا تو چکی تھی اب رہ رہ کر اسکا حلق جل رہا تھا زبان پر تو مانو آگ لگی تھی ۔۔۔ ندیم نے سپاٹ نظروں سے اسے پرس سے ٹشو نکال کر آنکھوں سے پانی صاف کرتے دیکھا اسکا ناک بھی سرخ ہو گیا تھا ۔۔۔ وہ گاڑی ایک شاپ کے سامنے روکتے ہوئے جلدی سے گاڑی سے نکلا تھا ژالے نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا جو بارش میں گاڑی سے ایسے ہی نکل گیا تھا 

وہ آدھ بھیگا واپس آیا تھا سنجیدگی سے اسکی طرف پانی کی بوتل بڑھاتے ہوئے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کی تھی ژالے نے نظریں جھکاتے ہوئے بوتل کا ڈھکن کھولا اور پانی پینے لگی ٹھنڈے پانی نے اسکے حلق کو تقویت بخشی تھی 

گاڑی یونی کے سامنے رکی تھی ۔۔۔

ژالے نے چادر درست کی بارش مدھم ہو گئی تھی وہ جلدی سے بیگ کندھے پر ڈالتی ہوئی اٹھی ۔۔۔

تھینکس ۔۔۔ 

وہ اسے کہہ کر یونی کی طرف بڑھ گئی تھی وہ سنجیدگی سے اسے جاتا دیکھتا رہا وہ یونی میں اینٹر ہو گئی تھی وہ لمبا سانس لیتے ہوئے مطمئن ہو کر گاڑی کو واپس موڑ چکا تھا بغیر یہ دیکھے کہ کوئی گہری نظروں سے دونوں کا پیچھا کر رہا تھا ۔۔۔

                                      •••________♥️________•••

اور وہ اسکے لئے اپنا کھانا چھوڑ کر اٹھ کر چلا گیا ۔۔ ماریہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا قصا بیگم ہاتھ پر لوشن لگاتی رہی

میں آپ سے بات کر رہی ہوں مماں ۔۔

انکا دھیان خود پر ناں پا کر ماریہ نے تنک کر کہا

میں سن رہی ہوں میری بچی ۔۔۔ قصا بیگم نے محبت سے کہا

مماں اب تو کوئی فائدہ ہی نہیں ہے دونوں ایک ہو گئے ہیں ۔۔۔

وہ گھٹنوں پر سر رکھتے ہوئے نفرت سے بولی قصا بیگم مسکرائی

کمال ہے میں اس لڑکی کے مرنے کی تیاری کر چکی تھی اگر تمھیں شاہ ویر میں اب کوئی دلچسپی نہیں رہی تو رہنے دیتے ہیں ۔۔۔

کیااا مماں آپ عشیق کو مارنا چاہتی ہو ؟!

وہ حیرت سے اچھلتے ہوئے بولی 

اری بیوقوف لڑکی دھیرے بول کوئی سن لے گا ۔۔۔ قصا بیگم نے اسے جھاڑ پلائی۔۔۔

ماریہ اٹھتے ہوئے پیچھے مڑی جب وہ فریز ہوئی تھی دروازے کو دیکھ کر ۔۔۔ 

کیوں چپ ہو گئی ہو ۔۔۔

قصا بیگم اسکی جانب دیکھتے بولی جب نظریں سامنے دروازے میں کھڑی زنیرا پر پڑی تھی اسکے چہرے کو دیکھ کر لگتا تھا وہ سب سن چکی تھی 

ارے آؤ ناں زنیرا بچے دروازے میں کیوں کھڑے ہو ۔۔ قصا بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا زنیرا نے سرد نظروں سے ماریہ کو دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا گئی تھی

آپ عشیق کو مارنا چاہتی ہیں صرف اس لئے کیونکہ وہ آپکی سوتیلی بیٹی ہے اتنی نفرت کسی انسان کو کسی انسان سے کیسے ہو سکتی ہے امی ؟! زنیرا نے قصا بیگم کو دیکھ کر سپاٹ لہجے میں پوچھا قصا بیگم کے چہرے کا تو رنگ اڑے تھے وہ ماریہ کو دیکھنے لگی جو خود خوف سے انہیں دیکھ رہی تھی ۔۔۔

جب ایک برا انسان برا کام کرتا ہے تو اتنا افسوس نہیں ہوتا کشمالہ چاچی جو کچھ کر کے گئی ایٹ لیسٹ ان سے یہ توقع رکھ سکتے تھے ہم کیونکہ انہوں نے کبھی اس گھر کا بھلا نہیں چاہا آپ ایسا کریں گی میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی امی جان اتنی نفرت ایک معصوم سی لڑکی کے لئے ۔۔۔ زنیرا نے نفرت سے سر جھٹکا تھا قصا بیگم نے اسکے ہاتھ تھامے تھے ۔۔۔

بیٹا تم صحیح کہہ رہی ہو مجھے بھی پچھتاوا ہو رہا ہے تم کسی سے کچھ نہیں کہو گی ناں ؟!

زنیرا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلی تھی 

آپ سوچتی ہیں میں ایسا چاہوں گی اس گھر میں دوبارہ کسی وجہ سے فساد پڑے پہلے ہی بہت مشکل کے بعد اس گھر میں خوشیاں لوٹی ہیں میری آپ سے گزارش ہے امی کہ آپ ان خوشیوں کو اپنے ہاتھوں سے برباد ناں کریں انکل آغا آپکو کبھی معاف نہیں کریں گے وہ اپنی بیٹی سے بےحد پیار کرتے ہیں ۔۔۔

قصا بیگم کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالتی ہوئی وہ بغیر پیچھے دیکھے کمرے سے واک آؤٹ کر گئی تھی 

مماں اب کیا ہو گا اگر اسنے بابا کو یا گھر میں کسی کو بھی بتا دیا تو ہم کہاں جائیں گے ۔۔۔۔ ماریہ نے قصا بیگم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے فکرمندی سے استفسار کیا قصا بیگم لب بھینچ کر گہری سوچ میں پڑ گئی تھی ۔۔۔

                                      •••________♥️________•••

مرجان نے روم کا دروازہ کھول کر زارا کو اندر بھیجا اور خود فون نکال کر نمبر ڈائل کرتے ہوئے فون کان سے لگا گیا ۔۔۔

ہم پہنچ گئے شاہ گھر اطلاع کر دو گے ؟! 

ضرور ۔۔۔ لیکن تم نے مجھے بتایا نہیں تم وہاں کسی اور مقصد سے گئے ہو ۔۔۔ شاہ کے سپاٹ لہجے پر مرجان نے آنکھیں گھمائی تھی

تمھاری کل ہی شادی ہوئی ہے بھابھی کو وقت دو میں سب ہینڈل کر لوں گا ۔۔۔ مرجان نے اسے چھیڑا مگر وہ تو سنجیدہ ہو گیا تھا ۔۔۔

میں اس وقت بھی آفس میں ہوں لہذا پوائنٹ پر آؤ بات مت گھماؤ ۔۔۔ شاہ ویر نے تنک کر کہا 

کیا  تم آفس میں ہو اسوقت ؟! 

مرجان نے گھڑی پر وقت دیکھا نو بج رہے تھے ۔۔۔ 

دس بجے میٹنگ ہے اور مسٹر ظہیر کو تو تم جانتے ہو انہوں نے صاف کہہ دیا وہ ڈیل کریں گے تو تم سے کریں گے شان ہینڈل نہیں کر پایا اس لئے مجھے جانا پڑا اب دیکھو یا ڈیل کریں گے یا مریں گے ۔۔۔ شاہ ویر نے انگلیوں میں پلاٹینم پین گھماتے ہوئے سنجیدگی سے بتایا 

تم یی بات بات پر مارنے مرنے کی باتیں کیوں کرتے ہو بات تحمل سے بھی ہو سکتی ہے ۔۔ مرجان نے آنکھیں سکیڑ کر کہا جس پر شاہ ویر مسکرایا 

مزاق کر رہا ہوں تم بتاؤ پارٹی کب ہے اور کسے ڈھونڈنے گئے ہو وہاں ؟! 

تم یہ سب کیسے جانتے ہو تم نے نظر رکھی ہے مجھ پر ؟؟

مرجان کا منہ حیرت سے کھلا تھا وہ آس پاس دیکھتا دھیرے سے بولا

تم بھول رہے ہو میں سب پر طائرانہ نظر رکھتا ہوں تم کیا سوچتے ہو مجھے آئیڈیا نہیں ہوا تمھارا اچانک مری جانا ۔۔ میں اچھے سے جانتا ہوں تمہیں انوائیٹ کیا گیا ہے پارٹی میں اور تم وہاں نظر رکھنے کے لئے گئے ہو ۔۔۔  فائل سامنے کھول کر رکھتا ہوا وہ سپاٹ انداز میں بولا تھا 

داد دیتا ہوں تمھیں لیکن مجھے فلحال جانا پڑے گا تیاری کرنی ہے ۔۔۔

وائے ناٹ ۔۔۔ گڈ لک ۔۔۔ ضرورت پڑے تو فون کرنا ۔۔۔

وہ کال منقطع کرتے ہوئے سامنے آفس کا دروازہ کھولتے زبیر کو دیکھ کر بلیک کوٹ درست کرتے ہوئے اٹھا ۔۔۔

سر میٹنگ روم میں سب آپکا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ زبیر نے دروازہ کھولتے کہا وہ سنجیدگی سے اٹھا اور مغروانہ انداز میں میٹنگ روم میں اینٹر ہوا مسٹر ظہیر تو حیرت سے اٹھے تھے 

وہ بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ اور اس پر بلیک کوٹ پہنے بالوں کو جیل سے بٹھائے اپنی سحر انگیز شخصیت سے سب کو اپنے سحر میں جکڑ چکا تھا اسے دیکھ کر انکے ساتھ باقی کلائنٹس بھی اٹھے تھے ۔۔۔

پلیز ہیوو آ سیٹ ۔۔ وہ سب کو ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی چیئر پر براجمان ہوا 

واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز آغا ۔۔۔ ہمیں نہیں پتا تھا دنیا کے نمبر ون بزنس ٹائیکون مسٹر شاہ ویر حیدر ہمیں یہاں مل جائیں گے ۔۔۔ مسٹر ظہیر تو اسکی موجودگی سے ہی بہت متاثر ہو گئے تھے ۔۔

ناٹ سرپرائزنگ مسٹر ظہیر آپ میرے بھائی کیساتھ ڈیل کرنا چاہتے تھے مگر وہ آؤٹ آف کنٹری گیا ہے بزنس کو لیکر اس لئے میں یہاں ہوں آپکی خدمت میں کیونکہ جہاں تک میں جانتا ہوں آپ مرجان کیساتھ ڈیل فکس کرنا چاہتے تھے ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں کہتا سب کو چونکا گیا

مرجان تمھارا بھائی ہے ؟!  ظہیر صاحب نے چونک کر پوچھا

آفکورس شاہ ویر میرا بڑا بیٹا ہے ۔۔ سہیل صاحب نے فخر سے کہا ظہیر صاحب مسکرائے 

میں ہمیشہ سے ہی آپ سے ملنے کا خواہشمند تھا مسٹر شاہ ویر حیدر ۔۔۔ اتنی کم ایج میں آپ نے بزنس کو ماسٹر کر لیا متاثر کن بہت متاثر کیا ہے آپ کے چرچوں نے اور آج آپ کی شخصیت کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا جو کچھ ہم نے آپکے بارے میں دنیا سے سنا وہ بالکل درست ہے فرقان فائل لاؤ ہم ضرور انویسٹ کریں گے اور سکسٹی پرسینٹ نہیں نائنٹی پرسینٹ ۔۔۔ وہ اپنے سیکریٹری کو اشارہ کرتے ہوئے بولے جبکہ انکے ساتھ بیٹھے ساتھی تھوڑے حیران ہوئے اسکے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی تھی ۔۔۔ 

ظہیر سوچ لو اگر نقصان ہو گیا تو ۔۔۔

آج تک جتنے لوگوں نے مسٹر شاہ ویر حیدر کیساتھ انویسٹ کیا ہے انہیں گھاٹا نہیں اٹھانا پڑا ۔۔۔ ظہیر صاحب نے  اپنے ساتھ بیٹھے انویسٹر کو باور کروایا  فائل سائن کرتے ہوئے اسکی جانب بڑھا دی تھی شاہ ویر نے مسکراتے ہوئے فائل کا مطالعہ کیا اور پھر اس پر سائن کرتے ہوئے فائل سہیل صاحب کی طرف بڑھا دی وہ مغرور شہزادہ فخر سے اپنی چیئر سے اٹھا اور ظہیر صاحب کو مصافحہ کرتے ہوئے میٹنگ روم سے نکل گیا ۔۔۔

سہیل صاحب اور آغا صاحب نے اسے ستائشی نظروں سے دیکھا آج اسنے ناں صرف لاس ہونے سے بچایا تھا بلکہ انہیں پچاس کروڑ کا ایڈوانٹیج ہوا تھا ۔۔۔

                                      •••________♥️________•••

اپنا کوٹ اتار کر اپنی مرسیڈیز کی فرنٹ سیٹ پر رکھا اور پاکٹ سے گاڑی کی چابیاں نکالی جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجی اسنے سرعت سے فون نکال کر کان سے لگایا اور ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو کر گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔ 

یس آئی ایم لسٹننگ !!

شیری ۔۔۔

وہ جو لب بھینچے سنجیدگی سے بولا تھا  فون کان سے ہٹا کر سکرین پر جگمگاتا اینجل نام دیکھ کر مسکرایا

عشیق کی آواز پر دل تک ٹھنڈا پڑا تھا جسکے نتیجے میں ایک حسیں مسکراہٹ اسکے لبوں پر بکھری ۔۔۔

یس مائی اینجل ۔۔۔  

وہ بےحد نرمی سے گویا ہوا تھا ۔۔۔ 

ہمیں بھوک لگی ہے اور گھر کا کھانا بھی اچھا نہیں لگ رہا گلے میں بہت جلن ہے ہمیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہمیں آئس کریم کھانی ہے ہمارا فیورٹ فلیور ہو وینیلا ۔۔۔

اسکی معصوم سی خواہش پر اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

اوکے میری جان ۔۔۔ وہ محبت بھرے لہجے میں بولا اور گاڑی کو آئس کریم پارلر کے سامنے روکا ۔۔ 

ہم آپکو بہت مس کر رہے ہیں آپ جلدی سے آ جائیں ۔۔۔

میں آ رہا ہوں جانم بس آپکی آئس کریم لے کر ۔۔۔

کان میں بلیو ٹوتھ لگاتے ہوئے وہ اس سے بات کرتے ہوئے اندر داخل ہوا لوگوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا وہ اپنی پرکشش شخصیت کیساتھ اس سے بات کرتے ہوئے مبہم مسکان لبوں پر سجائے چل رہا تھا ۔۔۔ 

وہ آئس کریم کا آرڈر دیکر اسے پیک کرنے کا آرڈر دیکر اس سے بات کرتے ہوئے مسکرایا تھا وہاں بیٹھی تمام لڑکیوں نے اسے رشک بھری نظروں سے دیکھا تھا  وہ سمپل سے حلئے میں بھی اس قدر پرکشش لگ رہا تھا  بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ کی سلیوز کہنیوں تک فولڈ کئے سفید کلائی پر بندھی سمارٹ واچ اور یہاں تک کہ  اسکی سفید انگلیوں میں موجود راؤنڈ بلیک رنگ بھی اٹینشن اٹریکٹ کر رہی تھی وہ تھا ہی اتنا پرکشش ۔۔۔

اپنا آرڈر لیکر وہ پے کرتے ہوئے بغیر کسی کی طرف غور کئے پارلر سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

شیری ہمار گلہ بہت دکھ رہا ہے صبح سے بہت جلن ہے اور کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا سب کڑوا لگ رہا ہے  ۔۔۔ 

اسکی رندھی ہوئی آواز پر وہ سنجیدہ ہوا ۔۔۔

بس پہنچ رہا ہوں جانم ۔۔۔ 

وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوتے ہوئے نرمی سے بولا اور گاڑی کی اسپیڈ تیز کرتے ہوئے کاظمی مینشن کا رخ کیا ۔۔۔

وہ فون کان سے ہٹاتے ہوئے جلدی سے بیڈ سے اترنے لگی جب اسکا سر چکرایا اور وہ بیڈ سے نیچے گری تھی ۔۔۔ اسکے منہ سے خون نکلتا چلا گیا ۔۔۔ 

عشیق ؟! 

وہ جلدی سے بولا تھا مگر فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر بہت دور گرا تھا ۔۔۔ اسکی انکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر فرش پر گر رہے تھے ۔۔۔

ششش۔۔۔ششی۔۔۔ر۔۔

اسکے لب دھیمے انداز میں تھرتھرائے مگر آواز حلق تک محدود ہو گئی تھی 

وہ کاظمی مینشن پہنچا تھا جلدی سے گاڑی کو روکتے ہوئے وہ پیکٹ تھامتا دوسرے ہاتھ میں فون پکڑتا تیز قدموں سے اندر داخل ہوا تھا 

تیز قدموں سے اپنے پورشن کی طرف بڑھا تھا کمرے کا دروازہ کھول کر وہ ساکت ہوا تھا سامنے ہی وہ  فرش پر آنکھیں موندے بےجان پڑی تھی اسکی ہلکی گرین قمیض پر جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا اس سے کچھ دوری پر فون پڑا تھا جس کی جانب وہ ہاتھ بڑھائے ہوئے تھی مگر اسکا ہاتھ ساکت تھا ۔۔۔ اسکے وجود کی طرح ساکت

اسکے ہاتھ سے پیکٹ اور فون نیچے گرا تھا آنکھوں کے سامنے دوبارہ وہی منظر لہرایا تھا مگر اس بار وہ ساکت تھی کوئی حرکت نہیں تھی اسکے بےجان وجود میں وہ بالکل ساکت تھی ۔۔۔ 

وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا اور اسکا چہرہ تھپتھایا تھا اسکی نبض دیکھی جو بالکل ڈوب چکی تھی اسکی سانسیں دیکھی جو ناں کے برابر چل رہی تھی ۔۔۔

اسے بازوں میں اٹھاتے ہوئے وہ تیزی سے باہر کو نکلا ۔۔

ڈرائیورررر ۔۔۔

دل خراش لہجہ تھا کوئی بھی سن لیتا تو دل ڈوب جاتا اسکا بےحد درد تھا اسکی آواز میں اور کتنا برداشت کرنا تھا اسنے اپنی زندگی میں جب بھی اسنے سوچا تھا اب سب ٹھیک ہو جائے گا تب ہی سب بگڑ جاتا تھا ۔۔۔ 

اسکی آواز پر ڈرائیور جلدی سے لائونج میں آیا تھا ڈرائیور کے علاوہ سب ہی لاوئونج میں جمع ہوئے تھے ۔۔۔

یا خدا کیا ہوا عشیق کو ۔۔۔

آفرین بیگم نے صدمے سے کہا ایک ہی منٹ میں انکے ہاتھ پیر برف کی طرح ٹھنڈے ہوئے تھے قصا بیگم اور ماریہ بھی اپنے کمرے سے نکل آئی تھی آغا صاحب دوڑ کر اپنی بیٹی کے پاس آئے تھے جس کے منہ سے خون بہہ کر سوکھ چکا تھا ۔۔۔

گاڑی نکالو فاسسسٹ ۔۔۔۔

جی بڑے صاحب ۔۔۔ ڈرائیور اتنا کہہ کر جلدی سے لائونج سے نکلا وہ اسے بازوں میں تھامے جلدی سے باہر نکلا اسکے پیچھے آغا صاحب سہیل صاحب اور حرب بھی باہر نکلے تھے آفرین بیگم کا بی پی لو ہو گیا تھا ژالے اور زنیرا نے انکو سمبھالا تھا ۔۔۔

امی آپ پلیز پریشان ناں ہوں ۔۔ زنیرا نے آفرین بیگم کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں اپنے ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے کہا وہ صوفے پر ڈھے سی گئی تھی ۔۔۔

ماریہ نے چور نظروں سے قصا بیگم کو دیکھا جو آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسوں لئے کھڑی تھی 

ہائے کیا ہو گیا میری بچی کو اللہ کیسے امتحان لے رہا ہے تو ہمارے میری بچی کو مار دیا ہائے ۔۔۔ 

وہ ماتھا پیٹتی ہوئی نیچے بیٹھتی بولی 

نیشال جاؤ انہیں پانی دو اور ۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔

علیزے کے کہنے پر نیشال جو قصا بیگم کی طرف بڑھی تھی زنیرا کے ہاتھ پکڑنے پر رکی اور اسے حیرت سے تکنے لگی ۔۔۔

ہائے میری بچی کو مار ڈالا ۔۔۔ 

ماریہ نے نچلا ہونٹ دبا کر اپنی ماں کی ایکٹنگ دیکھی اور پھر انہیں چپ کروانے کا ڈرامہ کرنے لگی آفرین بیگم نے قصا بیگم کی طرف اشارہ کیا جیسے کہنا چاہتی ہوں انکے پاس جاؤ اور انہیں دلاسہ دو مگر زنیرا نے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا ۔۔۔

قصا بیگم نے روتے ہوئے زنیرا کو دیکھا جو نفرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی یقیناً اسکی نظروں میں آج انکے لئے ساری عزت ختم ہو گئی تھی جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ اچھے سے جانتی تھی اور شرمندہ بھی تھی کیونکہ وہ کچھ نہیں کر پائی تھی وہ اندر ہی اندر خود کو کوس رہی تھی کیوں اسنے کسی کو اس بارے میں نہیں بتایا ۔۔۔

یا اللہ پاک اس معصوم لڑکی کو اپنی امان میں رکھئے گا اسکا کوئی قصور نہیں ہے  اگر مجھے پتا ہوتا قصا امی وہ سب پہلے ہی کر چکی ہیں جو وہ کہہ رہی تھی تو میں کچھ کرتی مجھے لگا میری وارننگ پر وہ رک جائیں گی اللہ پاک پلیز عشیق کو کچھ ناں ہو۔۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے آنکھیں بند کرتی دل ہی دل میں دعا کرنے لگی ۔۔۔

                                      •••________🖤________•••

ہاسپیٹل کے آس پاس کھڑے سبھی لوگوں نے اس دیوانے کو دیکھا جو اسے بازوں میں بھرے تیزی سے ہاسپیٹل میں داخل ہوا تھا اسکی سفید شرٹ پر کہیں کہیں خون لگا تھا اسکے سلکی بال جو ہمیشہ جیل سے مخصوص انداز میں بٹھائے گئے ہوتے تھے آج بکھر کر پیشانی پر آ چکے تھے وہ دنیا جہاں سے بیگانہ اسے اٹھائے اندر داخل ہوا ۔۔۔

ڈاکٹررررر کہاں ہے  یہاں کے تجربہ کار انچارج ڈاکٹر کو بلاؤ ۔۔۔

وہ خود کو تکتی نرس کو دیکھ کر غرایا جو جلدی سے سر ہاں میں ہلاتی ہوئی ڈاکٹر کو بلانے گئی تھی ایک نرس ڈاکٹر کیساتھ اسٹریچر لیکر آئی تھی اسے اسٹریچر پر لٹاتے ہوئے اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا اسکے سفید پڑتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے وہ اتنے قدم ساتھ چلا تھا جتنے چل سکتا تھا آئی سی یو کے دروازے پر ڈاکٹر نے اسے روکا تھا ۔۔۔

جسٹ سیوو ہر ادروائس میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔

وہ ڈاکٹر کو سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولا ڈاکٹر اسے تسلی دیکر اندر گئے تھے  

سہیل صاحب نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا وہ لمبا سانس خادج کرتے ہوئے پیچھے مڑا تھا آغا صاحب اور سہیل صاحب حرب کیساتھ وہاں آ پہنچے تھے ۔۔۔

میری بچی کو کیا ہوا ہے شاہ بولو تمھاری زمہ داری تھی ناں وہ بتاؤ کیا ہوا ہے اسے ۔۔۔ آغا صاحب اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے بکھرے لہجے میں بولے سہیل صاحب نے انکو روکنا چاہا کیونکہ وہ شاہ ویر کی حالت دیکھ چکے تھے وہ خود بہت بڑے صدمے میں تھا اسنے بےتاثر نظروں سے آئی سی یو سے نکلتے ڈاکٹر کو دیکھا آغا صاحب بھی ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئے تھے 

سوری سر میں یہ کیس نہیں لے سکتا پیشینٹ آلموسٹ ڈیڈ ۔۔۔

اس سے پہلے ڈاکٹر کچھ کہہ پاتے وہ انکے کوٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے انہیں دیوار سے لگا چکا تھا

کیوں نہیں لو گے یہ کیس ہاں ۔۔۔ تم لو گے تمھارے فرشتے بھی لیں گے اگر اسے کچھ ہوا آئی سوئیر میں ۔۔۔

سہیل صاحب نے اسکا ہاتھ ڈاکٹر صاحب کی گردن سے نکالا وہ لہو رنگ آنکھوں سے ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹا ڈاکٹر نے گھبرا کر لمبا سانس لیا تھا 

دیکھیں ہم اپنی طرف سے پوری کوشش۔۔۔

مجھ ہر حال میں  میری وائف زندہ سلامت چاہیے ۔۔۔ وہ انکی بات کاٹتے ہوئے کرخت لہجے میں دھاڑا

سر آپکی وائف کو سلو پوائزن دیا گیا ہے جو دھیرے دھیرے اثر کرتا ہے پہلے گلے پر اثر کرتا ہے دھیرے دھیرے باڈی میں پھیلتا ہے اور اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں وجود کو اندر سے کھا لیتا ہے آپ پلیز یہ انجیکشن منگوا دیں یہ یہاں سے نہیں ملیں گے ۔۔۔۔ وہ ڈاکٹر سے لسٹ لیکر جلدی سے باہر نکلا تھا سہیل صاحب نے آغا صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا وہ سر کو ہاتھوں میں گراتے ہوئے سر جھکا گئے تھے حرب ریسیپشن پر کچھ پیپرز بھرنے چلا گیا تھا ۔۔۔

                                      •••________🖤________•••

وہ جلدی سے کبرڈ سے اپنی نیلی شیشوں والی چادر نکال کر سر پر ڈالتے ہوئے پرس اٹھاتی پیروں میں ڈھیلی سی جوتی ڈالتے باہر نکلی جب قصا بیگم نے اسے بازو سے پکڑا تھا 

خبردار اگر آپ نے مجھے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہوں میں انکل آغا کو سب بتا دوں گی اور شاہ ویر بھائی کو بھی ۔۔۔ یہ سب آپ نے اور آپکی بیٹی نے کیا ہے ۔۔۔ زنیرا ہاتھ چھڑاتی ہوئی چیخی

کوئی پچھتاوا نہیں مجھے اس منہوس کی وجہ سے میری بیٹی اپنے حق سے محروم ہو گئی وہ آغا جو ہر وقت ماریہ کی خیریت پوچھتے رہتے تھے وہ اس منحوس ناجائز لڑکی پر ساری محبتیں لٹا رہے ہیں ۔۔۔ قصا بیگم نے تنک کر کہا 

وہ ساری محبتیں عشیق پر نچھاور نہیں کرتے تھے آپکی چھوٹی سوچ کی وجہ سے آپکو ایسا لگتا رہا وہ ماری کے ساتھ بھی ویسا رویہ رکھتے تھے آپکی تنگ نظری کی وجہ سے آج وہ لڑکی زندگی موت کی جنگ لڑ رہی ہے آپکی اصلیت میں آغا انکل کو بتا کر رہوں گی ۔۔۔ 

آنسوں صاف کرتی وہ چیخ کر بولی اور آگے بڑھ گئی ۔۔۔

ٹھیک ہے جاؤ حرب نے میرے کہنے پر یہ شادی کی تھی میرے کہنے پر وہ تمھیں طلاق بھی دے سکتا ہے ۔۔۔

انکی بات اسکے قدموں کو ساکت کر گئے دل تیزی سے دھڑکا وہ کیوں اسے کھونے کا سن کر ڈر گئی تھی اسکی سیاہ آنکھوں سے آنسوں جاری ہوئے چادر کے نیچے اسنے اسکے پہنائے لاکٹ کو مٹھی میں دبایا تھا

ٹھیک ہے اسے طلاق دینی ہے مجھے دے دے طلاق لیکن آپکی اصلیت میں سب کو ضرور بتاؤں گی ۔۔۔ 

وہ تیزی سے کہتی ہوئی پیشانی پر چادر کھینچ کر درست کرتی ہوئی باہر نکل گئی تھی قصا بیگم کو ساکت چھوڑ کر 

                                     •••________🖤________•••

اسکے لیفٹ اور رائٹ دونوں ہاتھوں پر ڈرپس لگی ہوئی تھی کیونکہ اسکا خون بےحد بہہ گیا تھا اسکی آنکھوں سے آنسوں مسلسل ٹوٹ کر کشن میں جذب ہو رہے تھے ۔۔

ہم آپکو بہت مس کر رہے ہیں آپ جلدی سے آ جائیں ۔۔۔

میں آ رہا ہوں جانم بس آپکی آئس کریم لے کر

بس پہنچ رہا ہوں جانم ۔۔۔ 

ایک اور آنسوں ٹوٹ کر کشن میں جذب ہوا تھا اسکی یادیں اسکے دل کو اندر ہی اندر کاٹ رہی تھی وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی 

 ہاتھ میں ڈاکٹر کے بتائے وہ مخصوص انجیکشن تھامے جلدی سے ہاسپیٹل کے اندر داخل ہوا تھا جو اسنے آؤٹ آف کنٹری سے پرسنل فلائٹ کے ذریعے منگوائے تھے ۔۔۔

ڈاکٹر کو انجیکشن تھمائے وہ آغا صاحب کے قریب پڑی ویٹنگ چیئر پر بیٹھا تھا آغا صاحب جو دونوں ہاتھ جوڑے پیشانی گرائے آنکھیں میچے دعا کر رہے تھے اسکی موجودگی پر آنکھیں کھولتے اسے دیکھ گئے ۔۔۔

یہ جس نے بھی کیا ہے ناں چھوڑوں گا نہیں میں ۔۔۔ ذندہ دفنا دوں گا جس نے بھی میری عشیق کو نقصان پہنچانے کی ہمت کی ہے ۔۔۔ وہ جبڑے بھینچے دبے لہجے میں غرایا آغا صاحب نے دھیرے سے ہاں میں سر کو جنبش دی تھی 

حرب دیوار کیساتھ ٹیک لگائے کھڑا سنجیدگی سے انہیں دیکھ رہا تھا جب وہ تیز قدموں کیساتھ چلتی گیلری میں اینٹر ہوئی تھی شاہ ویر سمیت سب نے اسے دیکھا تھا اسکے پیروں میں جوتی تک نہیں تھی راستے میں اسے گاڑی نہیں ملی تھی وہ چلتے ہوئے یہاں تک پہنچی تھی اور اسکے پیر سے بھی خون نکل رہا تھا شاید راستے میں اسے کچھ لگا تھا راستے میں اسکا شوز ٹوٹ گیا تھا جسے وہ وہیں پھینکے یہاں تک پہنچی تھی اور ہانپ رہی تھی حرب اس سے پہلے اسکی طرف بڑھتا وہ جلدی سے شاہ ویر کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔

کیسی ہے عشیق اور آپ سب؟!

وہ اسکے قریب رکتی دھیمے لہجے میں بولی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے سر کو ناں میں جنبش دی تھی وہ نم آنکھوں سے آئی سی یو کو دیکھ گئی تھی جس پر ریڈ سائن کا بورڈ روشن تھا ۔۔۔

آپ میری بات سنیں ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتی ہانپتی ہوئی وہ جلدی سے بولی حرب نے سرد نظروں سے اسے اسکا ہاتھ پکڑتے دیکھا تھا وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا اسکے ساتھ اٹھ کر گیا تھا حرب نے انہیں ساتھ جاتے دیکھ کر مٹھیاں بھینچی مگر کچھ بولا نہیں تھا 

سہیل صاحب تسبیح ہاتھ میں تھامے ورد کر رہے تھے انہوں نے شہنشاہ صاحب کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا کیونکہ وہ شوگر کے مریض تھے اور معمولی پریشانی پر بھی انکا شوگر لیول ہائی ہو جاتا تھا جو انکے لئے ٹھیک نہیں تھا دائم آفس میں تھا شان کیساتھ اور مرجان اور زارا کو اطلاع کسی نے نہیں دی تھی  حرب چلتا ہوا گیلری سے گارڈن کی طرف نکل گیا تھا 

                                      •••________🖤________•••

مجھے آپکو کچھ بتانا ہے بھائی ۔۔۔ یہ سب قصا امی نے کیا ہے انہوں نے ہی عشیق کو زہر دیا ہے ۔۔۔ وہ ہانپتی ہوئی جلدی سے بولی جبکہ اسکی بات سن کر اسنے سرعت سے مٹھیاں بھینچی تھی اسکے بازو کے مسل ٹائٹ ہوئے تھے اور پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں واضح ہوئی ۔۔۔ وہ بہت تکلیف کیساتھ ضبط کر گیا کیونکہ اس وقت اسکی اینجل کو اسکی ضرورت تھی 

ہمیں پتا تھا وہ کچھ ناں کچھ کرنا چاہتی ہیں مگر ہم نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اگر ہم نے پہلے بتا دیا ہوتا تو شاید آج عشیق کیساتھ یہ ناں ہوتا ۔۔۔۔ وہ شرمندگی سے نظریں جھکاتی رو کر بولی 

وہ جبڑے بھینچے اسے سختی سے کاندھوں سے پکڑ گیا تھا زنیرا نے ڈرتے ہوئے نظریں جھکائی ۔۔

حرب نے دور سے انہیں دیکھا تھا وہ اسکے کاندھے تھامے کھڑا تھا حرب نے بےساختہ مٹھیاں بھینچی تھی

بھائی ہمیں نہیں پتا تھا وہ عشیق کو زہر دے چکی ہیں ۔۔۔ وہ سر کو دھیرے سے ہلاتی روتے ہوئے بولی شاہ ویر نے لمبا سانس لیتے ہوئے اسکے کندھے سے گرفت ہلکی کرتے ہوئے ہاتھ ہٹایا تھا زنیرا نے روتے ہوئے سر جھکایا تھا ۔۔۔

ہمیں معاف کر دیں اس میں ہماری بھی غلطی ہے ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی شاہ ویر نے لب بھینچ کر سر جھٹکا تھا

آپ جا سکتی ہیں ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا 

بھائی وہ ٹھیک ہو جائیں گی ہم سب دعا کریں گے وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی انشاء اللہ ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی اسے تسلی دیتے ہوئے بولی اسنے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا اور آگے بڑھ گیا تھا زنیرا آنکھیں صاف کرتی ہوئی جلدی سے اسکے پیچھے گئی تھی جب گیلری کے دروازے کے پاس کھڑے حرب کو دیکھا اسکی آنکھوں میں سرخی تھی ۔۔۔

حرب آپ ٹھیک ہیں ۔۔۔ وہ اسکی طرف ہاتھ بڑھاتی بولی مگر وہ اسکا ہاتھ جھٹکتا ہوا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا زنیرا نے نم آنکھوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھا

اسکا دل تیزی سے دھڑک اٹھا تھا اس سوچ پر کہ وہ کیا واقعی قصا بیگم کے کہنے پر اسے طلاق دے دے گا ؟؟

                                     •••________🖤________•••

یہ مری کے سب سے لکژری ہوٹل کا منظر تھا پورا پرل ہوٹل روشنیوں میں نہایا ہوا تھا قیمتی ملبوسات زیب تن کئے مرد اور خواتین ریڈ کارپٹ کے ذریعے اندر کی جانب بڑھ رہے تھے میڈیا کا ایک جھرمٹ کیمروں کی روشنیوں میں سب کے فوٹوز لے رہا تھا مین اینٹرینس پر ایک چمچماتی وائٹ مرسیڈیز رکی تھی سب کی نظروں اس پر جمی تھی گارڈز کی ایک بھاری نفری آس پاس تعینات ہوئی تھی ڈرائیور نے گاڑی سے اترتے ہوئے سرعت سے بیک سیٹ کا دروازہ کھولا تھا وہ ایک پیر پوری وجاہت سے گاڑی سے باہر نکال چکا تھا میڈیا کی ساری توجہ اس پر تھی وہ اپنی سحر انگیز شخصیت کیساتھ مرسیڈیز سے باہر نکلا تھا سلکی بلیک بال جیل سے بٹھائے گئے تھے اسکے حسیں چہرہ کیمروں کی لائٹس میں چمک رہا تھا بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ اور اس پر کاژول بلیک گھٹنوں تک آتا اوور کوٹ اور اسکے نیچے وائٹ سنیکرز لئے وہ سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی سکت رکھتا تھا  

لڑکیوں کا اندر جاتا جھرمٹ جیسا تھم گیا تھا  وہ ستائشی نظروں سے اس حسن کے شہزادے کو دیکھ رہی تھی جب اسکے پیچھے وہ آف وائٹ کناری والے سیدھے سوٹ میں باہر آئی تھی اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اندر کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔

زارا نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اسے پاس دیکھا تھا وہ اسکا ہاتھ مظبوطی سے تھامے اندر داخل ہو گیا تھا ۔۔۔

مرجان ۔۔۔ اٹس بیوٹیفل لیکن ہم بہت کنفیوز ہو گئے ہیں یہاں بہت لوگ ہیں ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ دھیرے سے ہلاتی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا اور آس پاس لوگوں کی گریٹنگز سر کو دھیرے سے جنبش دیکر لیتا ہوا میں ہال کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔

اوہ ہائے مرجان یو آر لکنگ ڈیشنگ ۔۔۔ 

وہ نسوانی آواز پر دائیں جانب متوجہ ہوا جہاں اسکی پرانی بزنس پارٹنر میرا کھڑی مسکرا رہی تھی وہ جلدی سے اسکی توجہ پا کر اسکی طرف بڑھی اور اسے گلے لگایا تھا زارا نے آدھا منہ کھولا تھا ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے میرا کو پیچھے ہٹاتے ہوئے زارا کا ہاتھ پکڑتا اسے آگے کر گیا تھا ۔۔۔

میرو میٹ مائی وائف زارا مرجان کاظمی ۔۔۔ 

میرا نے پھیکی مسکراہٹ کیساتھ زارا کی طرف ہاتھ بڑھایا جس پر وہ مسکرائی اور اسکی گیسچر کا جواب دیا اسے ہاتھ ملا کر ۔۔۔  میرا پھیکا سا مسکراتی ہوئی وہاں سے ہٹ گئی تھی 

کون تھی یہ اور آپکو گلے کیوں لگایا اس نے ۔۔۔ زارا نے اسکے جاتے ہی مرجان کو گھورتے پوچھا جس پر وہ مسکرائے بغیر ناں رہ سکا ۔۔

زارو یہ ناں میری گرل فرینڈ تھی ۔۔۔ وہ اسکے کان پر جھکتا دھیرے سے  جھوٹ بول کر اسے تپا گیا ۔۔۔

اوہ تھی اب نہیں ہے ؟! زارا نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے اسکی ہیزل آنکھوں میں جھانکتے مسکرا کر پوچھا جس پر اسکی مسکان گہری ہوئی وہ جواب دینا اسی سے ہی سیکھی تھی آخر بیوی تھی وہ اسکی ۔۔۔

زارا ویٹ فار می ۔۔۔ وہ اسے کہتے ہوئے سامنے کھڑے کچھ مہمانوں کی طرف بڑھ گیا جنہوں نے خوشدلی سے اسے گلے لگایا تھا وہ ویٹر کو روک کر ایک گلاس پکڑ چکا تھا ۔۔۔

ہاں خود کھا پی لیں یہاں بھوک سے جان نکلی جا رہی ہے ۔۔۔ وہ آنکھیں گھماتی ہوئی آس پاس دیکھتی بڑبڑائی اور پھر پاس سے گزرتے ویٹر کو روک کر اسکی ٹرے سے ایک گلاس اٹھا گئی ۔۔۔

آخر میں بھی انجوائے کرنے آئی ہوں  ۔۔۔ وہ اسے گھورتی ہوئی گلاس سے ایک بڑا سپ لے گئی جب اسکا پورا منہ کڑوا ہوا۔۔۔

کیا بکواس ٹیسٹ ہے اس سے اچھا تو میں پانی پی لیتی ۔۔ وہ آنکھیں گھماتی اکتا کر بولی اور اسے دیکھنے لگی جو سنجیدگی سے مہمانوں سے محوِ گفتگو تھا ۔۔۔

ہمیں اکیلا چھوڑ کر خود گپ شپ کر رہے ہیں ۔۔۔ وہ گلاس سے دوسرا سپ لیتے ہوئے بڑبڑائی جب مرجان کی نظر اسکے گلاس پر پڑی تھی وہ مہمانوں کو ایکسکیوز می کہہ کر تیز قدموں کیساتھ اسکی طرف بڑھا اور اسکے ہاتھ سے گلاس لیا ۔۔۔

زارا یہ کیا حرکت ہے ۔۔۔ وہ گلاس ساتھ پڑی ٹیبل پر رکھتے ہوئے متذبذب لہجےمیں بولا زارا نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا 

آپ بھی تو یہ پی رہے تھے ۔۔ وہ گال پھلائے معصومیت سے بولی

میں پی لیتا ہوں مجھے ایفیکٹ نہیں کرتی ہے سافٹ ڈرنکس لیں یہ سب نہیں ۔۔۔ وہ سرعت سے بولا زارا نے اسکی بات پر آدھا منہ کھولا

ہائے یہ ۔۔۔ یہ شراب تھی ؟! وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی حیرت و استعجاب سے بولی وہ تاسف سے سر جھٹک گیا تھا اور گلاس کو دیکھا جو آدھا خالی تھا ۔۔۔

یہیں رکیں کہیں نہیں جانا میں پانی لیکر آتا ہوں ۔۔۔ وہ جلدی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھا تھا جب وہ واپس آیا تو وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی

ڈیم اٹ اب یہ لڑکی کہاں چلی گئی ۔۔۔ وہ گلاس وہیں چھوڑتا ہوا اسے ڈھونڈنے نکل گیا تھا 

                                  •••________🖤________•••

وہ سب آئی سی یو کے باہر بیٹھے اسکی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے جب قدموں کی آہٹ پر شاہ ویر کے علاوہ باقی سب نے سر اٹھایا مگر وہ سر کو ہاتھوں میں گرائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا ۔۔۔

زنیرا نے نفرت سے قصا بیگم کو دیکھا جو آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لئے وہاں آ پہنچی تھی ۔۔

آغا کیسی ہے میری بچی ؟! وہ آغا صاحب کے قریب بیٹھتی انکا ہاتھ پکڑتی بولی زنیرا نے نفرت سے سر جھٹکا تھا 

ڈاکٹر ابھی تک باہر نہیں آئے کچھ پتا نہیں دعا کرو ۔۔۔ آغا صاحب نے بجھی آواز میں کہا قصا بیگم نے نظریں اٹھا کر زنیرا کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی انہیں سپاٹ نظروں سے دیکھ رہی تھی حرب کچھ دوری پر ویٹنگ چیئر پر بیٹھا زنیرا کو دیکھ کر کچھ سوچ رہا تھا ۔۔۔ 

بیٹا میں کھانا لے آئی ہوں سب کو دے دو کسی نے بھی ڈنر نہیں کیا ۔۔۔ قصا بیگم نے جار زنیرا کی طرف بڑھاتے کہا جس پر وہ سرد نظروں سے انہیں گھورتے ہوئے انکے ہاتھ سے جار  لے چکی تھی ۔۔۔

سب کو کھانا سرو کر کے وہ اسکے سامنے رکی تھی جو سر ہاتھوں میں گرائے ہوئے تھا حرب کے نوالہ توڑتے ہاتھ ساکت ہوئے تھے ۔۔۔

بھائی آپ بھی کچھ کھا لیں ۔۔۔ 

وہ ہاتھ سے پلیٹ کو دور گرا چکا تھا زنیرا نے شرمندگی سے نظریں جھکائی ۔۔۔

کھانے کی پڑی ہے سب کو وہاں میری بیوی کس کیفیت میں ہے اندازہ ہے کسی کو ؟! 

وہ اٹھتے ہوئے غرایا اور کرخت نظروں سے سب کو دیکھتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔

انکل میں انکو بلا کر لاتی ہوں آپ کھانا کھا لیں آپکا بی پی لو ہو جائے گا ۔۔۔ وہ سہیل صاحب کو اٹھتے ہوئے دیکھ کر نرمی سے بولی حرب نے اسے جاتے ہوئے دیکھا قصا بیگم نے حرب کی آنکھوں میں صاف جلن دیکھی وہ مٹھی بھینچے اپنی پلیٹ ایک طرف رکھ چکا تھا ۔۔۔

اچھا تو بدگماں ہو رہے ہو اپنی بیوی سے میرے بچے یہ تو بہت اچھی بات ہے وہ لڑکی مجھے اس گھر سے نکالنا چاہتی ہے سکون سے تو اسے میں بھی رہنے نہیں دوں گی چاہے اس کے لئے تمھیں بدگماں ہی ناں کرنا پڑے ۔۔۔ وہ حرب کو اٹھتا دیکھ کر سوچتی ہوئی اسکے پیچھے چلی گئی تھی ۔۔

بھائی آپ پلیز کچھ کھا لیں اگر عشیق بھابھی کو پتا چلتا کہ آپ نے صبح ناشتے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا تو وہ کتنا ہرٹ ہوتی ۔۔۔ 

وہ سپاٹ نظروں سے غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہا تھا

اب کیا چاہتی ہیں آپ مجھ سے مجھے کچھ پل کے لئے اکیلا چھوڑ دیں مجھے بھوک نہیں ہے آپ واپس اپنی فیملی کے پاس جائیں میں جانتا ہوں آپ شرمندہ ہیں لہذا مجھے کوئی شکوہ نہیں آپ واپس جائیں ابھی ۔۔۔ وہ بغیر اسے دیکھے کرخت لہجے میں بولا ۔۔۔

بھائی وانس یو سیووڈ می۔۔۔ اس دن اگر آپ صحیح وقت پر ناں آتے تو شاید آج میں اس طرح سر اٹھائے یہاں ناں کھڑی ہوتی اس لئے میں آپکی مدد کرنا چاہتی ہوں اس لئے نہیں کہ مجھے کوئی خاص ہمدردی ہے میں صرف آپکا احسان اتارنا چاہتی ہوں ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی 

وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھا اور اندر چلا گیا تھا 

اللہ پاک پلیز سب ٹھیک کر دیں عشیق کو جلدی سے ٹھیک کر دیں اسے اپنی امان میں رکھئے گا ۔۔۔ وہ  تاروں بھرے آسمان کو دیکھتی ہاتھ جوڑتے بولی تھی ۔۔۔

کیا سوچ رہے ہو بچے ۔۔۔ قصا بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا وہ جو سپاٹ نظروں سے انہیں کھڑا دیکھ رہا تھا پیچھے مڑا ۔۔۔

کچھ بھی نہیں امی آپ باہر مت رکیں ٹھنڈ ہے چلئے اندر چلتے ہیں ۔۔۔

حرب ۔۔۔

وہ اندر کی طرف بڑھ رہا تھا جب قصا بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑتے اسے روکا ۔۔

جی امی جان ؟! 

میں دیکھ رہی ہوں اور سمجھ رہی ہوں ۔۔۔ وہ شاہ ویر کی اتنی ہمدرد کیوں ہے ؟! 

حرب نے لب بھینچے تھے ۔۔۔

بیٹے میں دیکھ رہی ہوں تمھیں کیسا لگ رہا ہے اسے تمھاری پرواہ نہیں اس لڑکے کی پرواہ تم سے زیادہ کر رہی ہے ۔۔۔  حرب نے نظریں جھکائے سر کو جھٹکا تھا ۔۔۔

ہاں میں دیکھ رہی ہوں کیا چل رہا ہے ان کے درمیان یہ سب بہت پہلے سے چل رہا ہو گا یقیناً ہو سکتا ہے وہ ملتے ہوں ۔۔۔

حرب نے سر اٹھا کر قصا بیگم کو دیکھا جب اسے وہ لمحہ یاد آیا جب وہ زنیرا کو بچانے گیا تھا مگر وہ پہلے ہی اسکے ساتھ موجود تھا حرب نے جبڑے بھینچے تھے ۔۔۔

وہ تاسف سے سر جھٹک کر وہاں سے نکل گیا تھا بغیر ایک لفظ کہے قصا بیگم نے دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجا کر اسے دیکھا جو زنیرا کے پیچھے ہی گیا تھا ۔۔۔

                                  •••________🖤________•••

""اگر آج اسے کچھ ہو گیا میں بھی اسکے ساتھ مٹ جاؤں گا میرے جینے کی وجہ وہ لڑکی ہے میرے مالک اگر اسے مجھ سے جدا ہی کرنا تھا تو اسے میری ذندگی میں بھیجا ہی کیوں تھا میں بہت بڑا گنہگار ہوں میرے پاس خواہ کوئی نیکی ناں ہو لیکن میں نے محبت صاف دل سے کی ہے تو پھر کیسے وہ مجھ سے الگ ہو سکتی ہے آپ مجھ سے میرے جینے کی وجہ مت چھینیں میرے پروردگار مجھے میری خوشیاں واپس لوٹا دیں میں نے آج تک آپ سے دعا میں کچھ نہیں مانگا ناں ہی آپ سے شکوہ کیا کیوں میں بچپن میں میرے والدین کے محبت بھرے ٹھنڈے سائے سے محروم رہا یقیناً یہ میری قسمت تھی جس پر صبر شکر پڑھ کر میں نے وہ لمحے کاٹ لئے لیکن اب میری ذندگی اس لڑکی سے جڑ گئی ہے مجھے میری عشیق لوٹا دیں میرے مولا مجھے میری محبت لوٹا دیں ""

وہ گھٹنوں پر بازو رکھے اپنا سر ہاتھوں میں گرائے آنکھیں بھینچے اپنے رب سے مدد طلب کر رہا تھا

وہ بیڈ پر ساکت پڑی ہوئی تھی گزرتے وقت کیساتھ اسکی سانسیں مدھم پڑ رہی تھی ڈاکٹرز بےبس کھڑے تھے وہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر چکے تھے مگر سب ناکام ہوا تھا وہ زہر نہیں نکال پائے تھے اسکے جسم سے ۔۔۔ اسکے ذہن میں اب تک کے سارے لمحات کسی دھندھلائی فلم کی طرح چل رہے تھے ۔۔۔

مجھے مار دیتی مگر خود کی جان لینے کی کوشش کی تم نے کیوووں کیسے سوچ لیا تم نے میں تمھارے بغیر جی لوں گا میں کچھ بھی نہیں ہوں میں بےبس ہوں مجھے اسی وقت مار دیتی ناں پھر بھی مجھے تم سے شکایت ناں ہوتی تم نے میری محبت کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی ۔۔۔ 

عشیق نے ہاتھ کو گال پر رگڑ کر آنسوں صاف کرتے ہوئے اسکی جانب ایک قدم بڑھایا مگر وہ اس سے دو قدم پیچھے ہٹ چکا تھا اسنے پسٹل نکالا تھا ۔۔۔

عشیق نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ ڈر گئی تھی شاید وہ اسے خود پر گولی چلانے کی سزا دینا چاہتا ہے مگر اسنے پسٹل اپنے سینے کے مقام پر رکھا تھا عشیق کی ٹانگیں لڑکھڑائی تھی ۔۔۔

نفرت کرتی ہو ناں مجھ سے میں خود کو ہی ختم کر دیتا ہوں ۔۔۔ ٹریگر پر انگلی رکھتے ہوئے اسنے سپاٹ لہجے میں کہا تھا اور گولی چلائی تھی ۔۔۔

بیڈ پر پڑا اسکا مشینوں میں جکڑا وجود لرز اٹھا تھا اور اسکے منہ سے خون سفید فام کیساتھ نکلتا گیا۔۔۔

سبھی ڈاکٹرز اور نرسز نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا وہ کانپتا ہوا ہاتھ حلق پر رکھ کر آنکھیں وا کرتے ہوئے کراہ گئی تھی ۔۔۔

 ہم ۔۔ ارا۔۔۔ گل۔۔۔ا۔۔دک۔۔ھ ۔۔۔رہ۔۔۔ا ہ۔۔ے (ہمارا گلہ دکھ رہا ہے )

وہ دھیمے لہجے میں کراہ گئی ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کیا تھا وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھی اور ٹشو سے اسکا چہرہ صاف کیا وہ آنکھیں کھول چکی تھی ۔۔۔

اٹس میریکل سارا پوائزن وومٹنگ کے ذریعے نکل گیا ۔۔۔ ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا آئی سی یو سے نکلتے ڈاکٹر کو دیکھ کر ۔۔۔

شی از سیف مسٹر شاہ ویر ۔۔۔ آپکی وائف بالکل ٹھیک ہیں اور خطرے سے باہر ہیں ۔۔۔

وہ سکون کا سانس لے چکا تھا

کیا میں اپنی بچی سے مل سکتا ہوں ؟! 

 آغا صاحب دیکھیں فلحال انہیں انڈر ابزرویشن رکھا جا رہا ہے وہ بہت کمزور ہیں اسوقت اور زہر نے انکے گلے کو بری طرح ڈیمیج کیا ہے اس لئے وہ کچھ دن بول نہیں پائیں گی اور ہمیں ڈایا لائسز کرنی ہو گی تاکہ ریمیننگ بلڈ پیئور ہو جائے آپ سب پلیز ویٹ کریں ۔۔۔ 

ڈاکٹر اتنا کہہ کر وارڈ بوائے کیساتھ وہاں سے گزر گئے تھے سہیل صاحب نے اسے سینے سے لگایا تھا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا آغا صاحب  اسے مسکراتے دیکھ کر مسکرائے تھے کتنے وقت بعد وہ اس طرح مسکرایا تھا ۔۔۔

کیا ہوا بابا ۔۔۔ زنیرا نے آغا صاحب کو دیکھتے پوچھا 

بچے عشیق ٹھیک ہے ۔۔۔ 

سچ میں اللہ پاک تیرا لاکھ شکر ہے ۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑتی مسکرائی تھی پیچھے کھڑی قصا بیگم ساکت ہوئی تھی وہ الٹے قدم پیچھے ہٹی تھی بغیر کسی کی نظر میں آئے ۔۔۔

میں گھر اطلاع دے دیتی ہوں ۔۔۔زنیرا نے مسکرا کر فون نکالتے کہا اور کال ملاتے ہوئے باہر نکل گئی شاہ ویر نے گلاس ونڈو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکا مشینوں میں جکڑا ہوا نازک سا وجود دیکھا وہ آنکھیں موندے سکون سے سو رہی تھی ۔۔ 

                                   •••________🖤________•••

واٹ دا ہیل ۔۔۔ 

وہ جلدی سے تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اسکے پاس آیا تھا جو شیلنگ پر چڑھی ہوئی ہاتھ کھولے اڑنے کی کوشش کر رہی تھی اسکے یوں خود کو پکڑنے پر وہ چونکی مگر اسے موقع ناں دیکر وہ اسے اٹھا چکا تھا ۔۔۔

سڑووو نیچے اتارو ہمییں اڑنا ہے ۔۔۔ وہ اسکے سینے پر مکے مارتے ہوئے چیخی مرجان نے آنکھیں گھمائی تھی ۔۔۔

بیوقوف لڑکی کہا تھا سافٹ ڈرنک پیئو ۔۔۔ وہ اسکا معصوم چہرہ دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بڑبڑایا جس پر وہ مسکراتے ہوئے اسکے گال پکڑ کر کھینچ گئی 

وہ بیچارہ اسے اٹھائے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا کیونکہ وہ نشے میں تھی اور اسوقت بہتر یہی تھا کہ وہ گھر نکل جاتے ۔۔۔

نہیں جانا ہمیں نہیں جانا ہمیں نہیں جاناااااااا ۔۔ اسکے سینے ہر مکے برساتی وہ چیخی

اسے فرنٹ سیٹ ہر بٹھا کر وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا مگر وہ جلدی سے کار سے نکل کر ایک طرف بھاگ گئی تھی ۔۔۔

زارااااا ۔۔۔ وہ دبے لہجے میں غرایا 

وہ دوپٹہ اتار کر پھینکتی ہوئی اس سے آگے بھاگ گئی تھی اور وہ بیچارا اسے پکڑنے کے لئے پیچھے تیز قدموں کیساتھ چل دیا تھا اسکا دوپٹہ اٹھاتا ہوا۔۔۔

ووووہوووووو ۔۔۔

وہ آگے بھاگتے ہوئے خوشی سے جھوم کر بولی تھی ساتھ ہی چکرا کر لڑکھڑائی تھی جب وہ وقت پر اسے تھام گیا تھا ۔۔۔

ہمیں چھوڑ دیں ہینڈسم ہمیں کھیلنا ہے ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے بولی جبکہ اسکے لفظ ہینڈسم پر وہ سرخ پڑا تھا وہ تو اسے معصوم سی لڑکی سمجھتا تھا بھلا وہ ایسے الفاظ بھی استعمال کر سکتی تھی اسکے لئے ۔۔۔

کیا کہا آپ نے ۔۔۔ وہ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے سنجیدگی سے بولا

ہم نے کہا ہینڈسم  ہمیں کھیلنا ہے۔۔ وہ اسکا کوٹ پکڑتی چبا چبا کر بولی مرجان بےساختہ مسکرایا تھا

اچھا چلیں ہم گھر چلتے ہیں وہاں کھیلیں گے مل کر ۔۔۔ وہ نرمی سے بولا جب کہ اسنے معصومیت سے ہونٹ پاؤٹ کئے تھے ۔۔۔

وہ کون ہے ۔۔۔

مرجان نے اسکی انگلی کی سمت دیکھا وہ جلدی سے اس سے الگ ہوتی آگے بھاگ گئی تھی مرجان نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا 

ہمیں پکڑوووووو ۔۔۔ وہ اسے چڑھا کر آگے بھاگتے ہوئے بولی مرجان نے آنکھیں سکیڑی تھی آج رات یقیناً وہ اسے بھگا بھگا کر ہلکان کرنے والی تھی ۔۔۔

                                  •••________🖤________•••

جی الحمدللہ رب پاک کا کرم ہے وہ بالکل ٹھیک ہے پتا نہیں ڈاکٹر کب ڈسچارج کریں گے ہم ہاسپیٹل ہی ہیں ابھی ۔۔۔ وہ آفرین بیگم کو مطمئن کر کے کال منقطع کر کے واپس اندر جانے کے لئے مڑی تھی جب حرب نے اسکا بازو سختی سے پکڑتے ہوئے اسے پیچھے کو کھینچا تھا وہ گرتے گرتے بچی تھی ۔۔۔

افسوس نہیں ہو رہا تمھیں وہ بچ گئی ؟! 

وہ اسے دیکھتا طنزیہ لہجے میں بولا زنیرا نے سرد نظروں سے اسے دیکھا تھا جب سے وہ ہاسپیٹل آیا تھا الجھا ہوا تھا اور اسکے ساتھ بھی برا برتاؤ کر رہا تھا ۔۔۔ 

کیا مطلب ہے آپکا ؟! 

ہاں تم مطلب کی بات کرتی اچھی لگتی ہو تمھیں شرم نہیں آئی پہلے تم مرجان کے پیچھے تھی پھر تم اسکے بڑے بھائی کے پیچھے پڑ گئی اور اتنی گر گئی کہ وہاں اسکی بیوی مرنے کو تھی یہاں تم لوگ ہاسپیٹل کے گارڈن میں عشق لڑا رہے تھے ۔۔۔ وہ زخمی لہجے میں بولا زنیرا نے سرخ بھبھوکا چہرہ لئے اسے دیکھا تھا اسکی آنکھیں آنسوں سے بھری تھی 

حرب یہ آپ کہہ رہے ہیں آپ ایسا سوچتے ہیں ؟؟۔۔۔ وہ صدمے سے ڈوبتی آواز میں بولی تھی 

میں ایسا نہیں سوچتا میں دیکھ رہا ہوں ناجانے کب سے تمھارے درمیان یہ سب چل رہا ہے پہلے تمھیں کوئی کڈنیپ کرتا ہے اور وہ وہاں مجھ سے پہلے وہاں پہنچ کر تمھیں بچاتا ہے اور تمھیں گھر بھی خود چھوڑنے کی دعوت دیتا ہے اور جب میں وہاں پہنچتا ہوں تم اچھی بیوی کا ڈرامہ کرتے ہوئے میرے ساتھ چل دیتی ہو ۔۔۔

وہ اسکے کندھے میں انگلیاں دھنسائے دانت پیس کر بولا زنیرا کی آنکھوں سے آنسوں قطرہ قطرہ اسکے گال پر گر رہے تھے ۔۔۔

اور جب تمھارے یارر کو گھر میں کھلا پاس مل جاتا ہے پھر تم اسکے آگے پیچھے گھومتی ہو اور ہاسپیٹل میں تو تمھیں کھلی چھوٹ مل گئی تھی اندھا ہوں میں بولو نظر نہیں آتا مجھے ؟! بولووو ۔۔۔

اسکا چہرہ ہاتھ میں جکڑتے ہوئے وہ جبڑے بھینچے بولا 

حرب آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں میں مانتی ہوں ہمارے رشتے میں کامپلیکیشنز تھی لیکن سب ٹھیک ہو گیا تھا ناں ۔۔۔

ایکزیکٹلی ۔۔۔ تم نے ایسے دیکھایا سب ٹھیک ہو گیا مجھ سے محبت کرنے کے جھوٹے ڈرامے کئے اور اپنے یار کیساتھ بھی تعلق رکھا ۔۔۔

زنیرا نے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا نفرت سے ۔۔۔ وہ زخمی شیر کی طرح دوبارہ اسے کندھے سے دبوچ گیا تھا ۔۔۔

میں اسی وقت تمھیں طلاق دے دیتا ہوں جاؤ اپنے یار کے پاس پھر ۔۔۔۔۔

حرب میں صرف آپ سے محبت کرتی ہوں کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ۔۔۔ وہ روتے ہوئے تڑپ کر بولی تھی حرب کی گرفت نرم ہوئی تھی وہ روتی چلی گئی اسکا چہرہ سرخ بھبھوکا ہو چکا تھا رو رو کر ۔۔۔ 

چادر سے آنسوں صاف کرتی ہوئی وہ اسے بےبس نظروں سے دیکھ کر وہاں سے جا چکی تھی حرب نے آنکھیں میچے لمبا سانس لیا تھا ۔۔۔

وہ کسی کی کال پک کرتے ہوئے وہاں سے ایک جانب چل دیا تھا ۔۔

                                 •••________🖤________•••

ڈاکٹر نے دو گھنٹے بعد اس سے ملنے کی اجازت دی تھی رات کے دو بج رہے تھے سہیل صاحب اور آغا صاحب کو اسنے بہت منت سماجت کے بعد گھر بھیجا تھا یہ کہہ کر کہ وہ وہاں ہے سب ٹھیک ہے زنیرا اسر حرب وہاں ہی رکے تھے ۔۔۔ آئی سی یو کا دروازہ کھولتا وہ دبے قدموں کیساتھ اندر آیا تھا تاکہ آہٹ کی وجہ سے اسکے سکون میں خلل ناں پڑے وہ بس اسے دیکھنا چاہتا تھا ایک بار ۔۔۔

اسکے کلون کی ہلکی مہک آئی سی یو میں پھیلی تھی آنکھوں کو دھیرے سے وا کرتے ہوئے اسنے اپنا مشینوں میں قید دائیاں ہاتھ اسکی جانب اٹھایا تھا جسے وہ ایک ہی پل میں تھام چکا تھا ۔۔۔

ریلیکس ۔۔۔ 

اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ اسکے قریب چیئر رکھتے ہوئے اسکے بالوں میں نرمی سے انگلیاں چلاتے ہوئے بولا عشیق کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر کشن میں جذب ہوئے ۔۔۔

ڈونٹ کرائے مائی اینجل ۔۔۔ اسکی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے وہ محبت سے بولا مسلسل آنسوں اسکی آنکھوں سے ٹوٹ رہے تھے ۔۔۔

ہم بہت ہیار کرتے ہیں آپ سے شیری ہم دور نہیں جانا چاہتے تھے آپ سے ۔۔۔ وہ دل میں ہی کہہ پائی تھی کیونکہ بولنے کی کوشش میں اسے اپنے حلق میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

نم آنکھوں سے اس نے اسکا حلیہ دیکھا تھا سفید خون سے رنگ شرٹ پیشانی پر بکھرے بال زرد رنگت چمک سے عاری وہ نیلی آنکھیں کچھ گھنٹوں کی جدائی نے شاہ ویر حیدر کاظمی کا کیا حال کیا تھا ۔۔۔

ایک اور آنسوں اسکی آنکھ سے ٹوٹا ۔۔۔

وہ دھیرے سے ہاتھ اٹھا کر اسکے حلئے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سسکی تھی کیونکہ وہ آج کہیں سے بھی شاہ ویر حیدر کاظمی نہیں لگ رہا تھا وہ تو کوئی غریب لٹا ہارا شخص لگ رہا تھا ۔۔۔ 

آئی نو لیکن میں گھر نہیں جا سکتا تھا آپکو چھوڑ کر لیکن آپ کا شیری تھوڑی دیر میں دوبارہ فریش ہو کر ہینڈسم بن جائے گا ڈونٹ وری ۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ پر لب رکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا عشیق نم آنکھوں کیساتھ ہلکی سی مسکرائی تھی ۔۔۔

نرس اندر آئی تھی ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر وہ مسکرائی تھی اسکی ڈرپ اتار کر وہ اسے سکون کا انجیکشن دیکر چلی گئی تھی۔۔۔

وہ محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ 

آپ ٹھیک ہو جائیں گی بہت جلد ۔۔۔ اسکے بال سہلاتے ہوئے وہ نرمی سے بولا اسنے اپنا ہاتھ دھیرے سے حلق پر رکھا تھا وہ بتانا چاہتی تھی کتنی تکلیف ہو رہی ہے اسے حلق میں ۔۔۔ 

مجھے معاف کر دیں میری وجہ سے یہ سب ہو گیا اگر میں آپکے ساتھ ہوتا تو یہ سب ناں ہوتا لیکن آئی پرومس یہ جس نے بھی کیا ہے اسے اسکے انجام تک پہنچاؤں گا ۔۔۔ وہ دل میں عہد کرتے ہوئے سوچ چکا تھا ۔۔۔

وہ ہاتھ اٹھا کر دروازے کی طرف اشارہ کر گئی تھی جہاں پر زنیرا کھڑی تھی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا وہ اندر آئی تھی عشیق دھیمی سی مسکرائی اسے دیکھ کر ۔۔۔

آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی انشاء اللہ ۔۔۔ زنیرا نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے مسکرا کر کہا عشیق نے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا ۔۔۔

                                •••________🖤________•••

ہم نے کہا جانے دیں ہمیں ۔۔۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولی جبکہ وہ اسکے ہاتھ اسکے دوپٹے سے باندھ چکا تھا ۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے خاموش بیٹھی رہیں ورنہ منہ پر بھی ٹیپ لگا دوں گا ۔۔۔ وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا زارا نے اسکے گیئر شفٹ پر رکھے ہاتھ کو پیر مارا تھا جس پر وہ بھنویں سکیڑ گیا تھا ۔۔۔

ہم ڈرائیونگ نہیں کرنے دیں گے آپکو ہمیں چاکلیٹ کھانی ہے ابھی اسی وقت گاڑی روکیں ۔۔۔ وہ منہ بسور کر بولی مرجان نے سنجیدگی سے گاڑی روکی تھی 

زارا مجھے غصہ دلانا بند کریں ۔۔۔ وہ اب کی بار سنجیدگی سے بولا جس پر زارا کی آنکھوں سے آنسوں کے فوارے چھوٹ پڑے ۔۔۔

آپ بہت کھڑوس ہیں بالکل پیار نہیں کرتے ہم سے آپ کوئی بات نہیں مانتے ہماری ہمارا جان تو ہماری ہر بات مانتا تھا ۔۔۔ وہ ونڈو کی طرف خفا ہو کر رخ کرتے منمنائی مرجان گاڑی کو لاک لگا کر باہر نکل گیا تھا زارا نہ منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے اسے دیکھا وہ واپس ایک بہت پڑے پیکٹ کیساتھ آیا تھا جس میں ہر قسم کی چاکلیٹس تھی ۔۔۔

ہمارے ہاتھ کھولو جلدی ۔۔ وہ خوشی سے اچھلتی ہوئی بولی مرجان نے مسکرا کر اسکے ہاتھ کھولے وہ دو چاکلیٹ ایک ساتھ کھول کر کھانے بیٹھی تھی ۔۔۔

نکمی لڑکی ۔۔۔ وہ اسے بچوں کی طرح چاکلیٹ کھاتا دیکھ کر مسکرایا جبکہ اسکی بات سن کر زارا نے چاکلیٹ والا ہاتھ اسکے گال پر لگایا تھا ۔۔۔ 

مرجان نے آنکھیں سکیڑی تھی ۔۔۔

ہاہاہاہا یو آر لکنگ بیوٹیفل ۔۔۔ وہ دوسرے ہاتھ کو اسکی دوسری گال پر مل چکی تھی وہ ڈرائیونگ سے ڈسڑیکٹ نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے وہ خاموش ہی رہا ۔۔۔ گاڑی کو اپنے ہوٹل کے سامنے روک کر وہ اسے دیکھنے لگا جو معصومیت سے اسکی طرف دونوں بازو کر گئی تھی مرجان نے مسکراتے ہوئے اسے اٹھایا تھا آس پاس کھڑے لوگوں نے انہیں مسکرا کر دیکھا تھا وہ اسکی لمبی ناک کو پکڑے کھینچ رہی تھی  مگر وہ بےبس سا اسے اٹھائے بس ہوٹل کے اندر کی طرف رہا تھا تاکہ اسے لوگوں کی نظروں سے دور لے جا سکتے 

                                     •••________🖤________•••

کیا ہوا مماں آپ واپس آ گئی کیا وہ مر گئی ؟! 

ماریہ نے بیڈ سے اترتے ہوئے قصا بیگم کو کمرے کا دروازہ بند کرتے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

ارے نکمی زنیرا نے شاہ ویر کو سب بتا دیا  میں آغا سے ڈر رہی تھی اسنے تو اس وحشی جنونی انسان کو بتا دیا ناجانے کیا کرے گا اب وہ ۔۔  قصا بیگم نے ماتھا پیٹ کر کہا جبکہ ماریہ کا منہ کھل چکا تھا ۔۔۔

میں نے کچھ نہیں کیا آپ نے عشیق کو زہر دی تھی آپکو سوچنا چاہیے تھا ناں کہ جب شاہ کو لتا چلے گا تب کیا ہو گا۔۔۔ وہ تھوک نگلتے ہوئے بولی جبکہ قصا بیگم نے اسے سخت گھوری سے نوازا تھا 

دماغ ٹھیک ہے تیرا میں نے یہ سب تیرے لئے کیا ماں کا ساتھ دینے کے بجائے پیچھے ہٹ رہی ہے ۔۔۔ قصا بیگم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا 

میرے ہاتھ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے وہ میرے ٹکڑے کر دے گا آئی سوئیر مماں آپ اسے ایک بار قریب سے دیکھیں وہ بےشک بہت پیارا ہے لیکن غصے میں وہ کوئی جنونی جانور لگتا ہے جو کسی کو بھی ادھیڑ کر کھا جائے گا عشیق کے ساتھ ہی ٹھیک ہے وہ مجھے اپنا قیمہ نہیں بنوانا اس سے ۔۔۔ ماریہ نے اچھنبے سے کہا 

منہوس تو مجھے پہلے بتاتی تیری وجہ سے میں نے اس کم ذات کو زہر دیا تھا ۔۔۔ قصا بیگم نے صدمے سے اسکے کندھے جھنجھوڑ کر کہا 

میں نے آپکو نہیں کہا مجھے نہیں چاہیے شاہ ویر میری پناہ میرے فرشتوں کی پناہ ایسے ڈینجرس بندے کیساتھ میں نہیں رہ سکتی اسکا ایک تھپڑ ناجانے مجھ معصوم کیساتھ کیا کر ڈالے ۔۔۔ وہ گال پر ہاتھ رکھتے تصور کر گئی تھی قصا بیگم نے اکھڑتی نظروں سے اپنی نالائق بیٹی کو دیکھا جو ایک منٹ سے اپنے ٹریک سے ہٹ گئی تھی ۔۔۔

آپ کہاں جا رہی ہیں مماں ۔۔۔ وہ انکو چادر پہنتے دیکھ کر پوچھنے لگی

مرنے جا رہی ہوں چلے گی ماں کیساتھ ۔۔۔ 

قصا بیگم نے تنک کر کہا جس پر ماریہ نے منہ کا زاویہ بگاڑا تھا ۔۔۔

                                      •••________🖤________•••

وہ ہاتھ کی مٹھی بنائے ٹھوڑی کے نیچے رکھے اسے دیکھ رہا تھا جو ہونق بنی اسے ہی تک رہی تھی ۔۔

کیا لگا ہے میرے چہرے پر زارا ؟!

وہ پھٹ پڑا تھا پچھلے ایک گھٹنے سے وہ مسلسل اسے دیکھ دیکھ کر تپا رہی تھی 

آپ بہت برے ہیں ہم آپکو محبت کی نظر سے دیکھ رہے تھے آپکو وہ بھی راس نہیں ۔۔۔ وہ ہونٹ سکیڑتی خفا لہجے میں بولی مرجان نے سنجیدگی سے اس بےشرم کو دیکھا 

آپ سو جائیں اور آج جو کچھ آپ نے مجھ سے کہا ہے وہ کل آپکو ایک ایک بات بتاؤں گا آپکو شرمندگی ہو گی لہذا اب بھی وقت ہے آپ سو جائیں ۔۔۔

ہمیں کیوں شرمندگی ہو گی ہم اپنے شوہر کیساتھ کیا ایسی باتیں نہیں کر سکتے ۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھتی اسکے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے لاڈ سے بولی مرجان چونکا

کیسی باتیں ۔۔۔ وہ چونکتے ہوئے بولا ۔۔۔

ایسی ویسی ۔۔۔ وہ آنکھیں گھماتے ہوئے ہنس پڑی مرجان کا چہرا سرخ پڑا ۔۔۔

ہائے میرے انوسینٹ شوہر تو بلش کرنے لگے ۔۔۔ وہ اسکے گال کھینچتی مسکرائی تھی مرجان تو چونک ہی گیا تھا ویسے وہ انتہا کی معصوم تھی اور اب جو کچھ وہ بول رہی تھی وہ سن کر وہ سرخ پڑ رہا تھا ۔۔۔

ایک بات بتائیں ۔۔۔ وہ دلچسپی سے بولا زارا نے مسکراتے ہوئے آئی برو اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا 

میں آپکو کیسا لگتا ہوں سچ سچ بتائیں ۔۔۔ 

آپ ؟! 

ہاں میں ۔۔۔ 

آپ بہت ہینڈسم ہیں ۔۔۔ لیکن آپ سڑیل بھی ہیں ۔۔۔  لیکن ہم بہت پیار بھی کرتے ہیں آپ سے کیونکہ آپ ہماری جان ہیں ۔۔۔ ہماری جان ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی مرجان کے دل کو ٹھنڈک پہنچی تھی 

اور ہم آپکو کیسے لگتے ہیں ؟! وہ اسکی ہیزل آنکھوں میں دیکھتے ہوئے استفسار کر گئی

آپ میرے لیے وہی "یُسر" ہو 

جس کے بارے میں رب فرماتے ہیں 

"ان ّ معَ العُسر یُسْراً"

( بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے 

ہاں تم "یُسر" ہی تو ہو 

آسانی 

سکون ۔۔۔۔۔ ! 

دکھوں کی گہری کھائی سے نکل کر مل جانے والی راحت⁦۔۔۔ 

وہ اسکی پیشانی پر لب رکھتے ہوئے مسکرا کے بولا زارا نے ستائشی نظروں سے اس کے حسیں چہرے کو کچھ دیر دیکھا پھر اسکے چہرے کو ہاتھ میں بھرتے ہوئے اسے دیکھا وہ تھوڑا سا جھکا تھا کیونکہ زارا کی ہائٹ کم تھی وہ مسکراتے ہوئے اسکی پیشانی پر ہونٹ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

آج آپ ہمارے جان لگ رہے ہیں وہی جان جس سے اسکی زارا بہت پیار کرتی تھی کھڑوووس  مرجان کاظمی نہیں ۔۔ 

وہ مسکراتے ہوئے اسے سینے سے لگا گیا تھا اسکی چوڑی پشت پر بازو کا گھیرا بناتے ہوئے وہ اسکے سینے سے لگ گئی تھی اور سکون سے آنکھیں میچ گئی تھی

آئی لوو یو سو مچ مائی لووو ۔۔۔

آئی لوو یو ٹو جان ۔۔۔  وہ دھیمے لہجے میں کہتی ہوئی اسے دنیا جہاں کا سکون بخش گئی تھی کتنے سالوں بعد اسنے اسے جان کہا تھا یقیناً آج انکے درمیان وہ ساری غلط فہمیاں بالکل مٹ گئی تھی جن کی وجہ سے وہ تھوڑی دوری پر تھے ایک دوسرے سے ۔۔۔

                                     •••________🖤________•••

اگلی صبح :- 

اسنے دھیرے سے آنکھیں وا کی تھی اور سامنے ہی اسے چیئر پر بیٹھے بیٹھے سوتا دیکھ کر وہ ہلکی سی مسکرائی تھی وہ سر ایک طرف گرائے آنکھیں موندے ہوئے بیٹھا تھا یقیناً وہ پوری رات اسکے پاس ہی بیٹھا رہ گیا تھا ۔۔۔ 

کوئی اتنا پیار کیسے کر سکتا ہے کسی کو شیری ،، ہمارا بچپن تو پیار کے لئے ترسا ہے ہمارے پاس ماں نہیں تھی دوسرے بچوں کو انکی ماں کیساتھ دیکھتے تو ہمارا دل بےحد دکھتا تھا آخر ہماری ماں کیوں نہیں ہیں ہمیشہ ہی ہم اللہ پاک سے پوچھتے تھے آخر ایسا کیا گناہ تھا ہمارا جو ہم ماں کی محبت سے محروم رہے لیکن آپ کے مل جانے کے بعد ہمیں کوئی کمی نہیں رہی اللہ پاک نے ہمیں بہتر کی جگہ بہترین سے نواز دیا اتنا پیار دیا ہے آپ نے ہمیں اتنی محبت کوئی کیسے کر سکتا ہے کسی کو شیری کوئی کیسے کر سکتا ہے ۔۔۔ آنسوں اسکی گھنیری پلکوں کو بھگو چکے تھے وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی اسکا رف حلیہ دیکھ کر اسے بےحد تکلیف ہو رہی تھی کتنا خیال رکھتا تھا وہ اپنے لک کا وہ شاہ ویر حیدر کاظمی جو اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتا تھا آج کس حالت میں تھا اتنا رف سا سادہ سا حلیہ سلکی بال الجھے بکھرے ہوئے تھے اسکے حسین نقوش چہرے پر بےحد تھکان تھی بیئرڈ ہلکی سی بڑھی ہوئی تھی پہلے سے اسکی وائٹ شرٹ کا رنگ رف وائٹ ہو گیا تھا کتنا بدل گیا تھا وہ ایک دن میں ہی اس سے دور رہ کر ۔۔۔

خود پر اسکی نظریں شاید وہ نیند میں بھی محسوس کر چکا تھا خمدار پلکیں جو نیلی آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے تھی دھیرے سے اٹھی تھی اسکی پرکشش آنکھوں نے سامنے لیٹی اس معصوم نقوش چہرے والی لڑکی کو دیکھا جو اسکے جینے کی وجہ تھی وہ پھر اسکا حلیہ دیکھ کر رو دی تھی ۔۔۔

اسکے آنسوں اپنی ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسکا ہاتھ تھام چکا تھا ۔۔۔

مت رویا کریں اینجل بہت ہرٹ ہوتا ہے ۔۔۔ وہ اسکی گرین آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا عشیق نے لب بھینچ کر دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا اور ہاتھ کو دھیرے سے اٹھا کر اسکی رف شرٹ کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔

میں چینج کر لوں گا اینجل ڈونٹ وری ۔۔۔ 

عشیق نے دھیرے سے سر کو ناں میں ہلا کر دروازے کی طرف اشارہ کیا تھا جیسے کہنا چاہتی ہو ابھی جائیں ۔۔۔

اوکے اینجل میں جاتا ہوں ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ نرمی سے واپس رکھتا ہوا اٹھا تھا اور باہر چلا گیا تھا ۔۔۔

یہ آپکے گارڈ دیکر گئے ہیں  ۔۔۔ زنیرا نے اسے باہر نکلتے دیکھ کر کہا وہ سنجیدگی سے سر ہاں میں ہلا کر اس سے بیگ لیکر فریش ہونے چلا گیا تھا جس میں اسکے کپڑے تھے جو اسنے زبیر کو کہہ کر کل رات منگوا لئے تھے حرب جو پیچھے ویٹنگ چیئر پر بیٹھا تھا نظریں اٹھا کر فون تھام کر باہر نکل گیا تھا زنیرا بھی اسکے پیچھے گئی تھی 

آپ نے طلاق کے پیپرز بنوا لئے ؟!

زنیرا کے پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی وہ صدمے سے ساتھ لگے درخت کے تنے کو پکڑ گئی تھی کیونکہ اس میں ٹھہرنے کی سکت نہیں رہی تھی یہ سن کر ۔۔۔

              •••________🖤________•••

سر میں شدید درد محسوس کرکے اسنے آنکھیں کھولی سر کو ایک جانب سے تھامتے ہوئے وہ اٹھی اور آس پاس دیکھا وہ ایک پرانے سے کمرے میں تھی جسکی دیواروں پر ٹیڑھے ترچھے حروف لکھے ہوئے تھے قصا بیگم نے ڈرتے ہوئے ایک کونے میں دیکھا جہاں حرکت ہوئی تھی 

آہہہہہہپ ۔۔۔

وہ چیختے ہوئے پیچھے ہوئی تھی ایک سفید کپڑوں میں ملبوس بکھرے بالوں والی عورت اسکی جانب دونوں ہاتھ بڑھائے بڑھی تھی 

ددد۔۔دور ہٹ دور ہٹ میرے سے ۔۔ وہ اسے دھکا دیتے ہوئے جلدی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی اور دروازے کو پیٹنے لگی ۔۔۔

اے خبردار جو اب تو نے دروازہ بجا کر میرا دماغ خراب کیا پاگل جاہل عورت جا بیٹھ جا کونے میں ۔۔۔ باہر سے ایک بھاری نسوانی آواز آئی۔

یہ ۔۔یہ میں کہاں ہوں ۔۔۔ قصا بیگم نے چیختے ہوئے پوچھا 

تو پاگل ہے اور تو اسوقت پاگل خانے میں ہے اور کہاں ہو سکتی ہے ۔۔۔  

وارڈن عورت نے قہقہہ لگا کر بتایا قصا بیگم نے خوف سے پیچھے دیکھا جہاں وہ عورت بیٹھی دیوار کو ناخنوں سے کھروچ رہی تھی ڈر کی ایک لہر انکے پورے وجود میں دوڑ گئی۔۔۔

میں پاگل نہیں ہوں مجھے باہر نکالو میں پاگل نہیں ہوں ۔۔۔ وہ صدمے سے چیختے ہوئے دروازہ پیٹتے بولی جبکہ دروازے کے باہر سے بس قہقہ ہی سنائی دیا۔۔۔

جا آرام سے بیٹھ جا اپنی برادری کی عورتوں کیساتھ ۔۔۔ 

قصا بیگم نے چادر سے پیشانی سے پسینہ صاف کیا اور کونے میں بیٹھ کر سب یاد کرنے لگی کل رات جب وہ گھر سے نکلی تھی کسی نے راستے میں انکے چہرے پر رومال رکھا تھا اور اسکے بعد کا انہیں کچھ یاد ناں آیا۔۔۔

اے تیرے لئے فون ہے یہ لے ۔۔۔ وارڈن عورت نے اندر داخل ہوتے ہوئے اسکی طرف فون بڑھا کر کہا قصا بیگم نے کانپتے ہاتھوں سے جلدی سے فون لیا تھا 

کیسی ہیں آپ امید ہے اپنا نیا گھر پسند آیا ہو گا فکر مت کریں آپکا سچ گھر بتا دوں گا سب یہی سمجھیں گے آپ خود سے یہ گھر چھوڑ گئی جتنی گری ہوئی حرکت کی آپ نے اگر آپ میری چاچی ناں ہوتی تو شاید اس وقت آپ قبر میں پڑی ہوتی کیونکہ جو بھی میلی نظر سے میری محبت کی طرف دیکھے گا اسے دیکھنے لائق نہیں چھوڑوں گا ۔۔

قصا بیگم کا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا تھا غم و غصے سے ۔۔۔

اور اگر میری عشیق کو کچھ ہو جاتا آپ یقیناً اس وقت زندہ ناں ہوتی وہ صحیح سلامت ہے میرے ساتھ ہے اور آپ وہاں رہنے کی عادت ٹال لیں کوئی لینے نہیں آئے گا آپکو اپنی بچی کھچی ذندگی آپ نے وہاں ہی کاٹنی ہے کیونکہ آپ ایک ذہنی مریضہ ہیں اور آپ جیسے مخلص لوگوں کے لئے یہ بہترین جگہ ہے  اب آپ صحیح معنوں میں سمجھ پائیں گی اپنی کیفیت کو کیونکہ اسوقت آپ اپنے جیسی عورتوں میں موجود ہیں ۔۔۔

ایسا مت کرو بیٹا ۔۔۔

وارڈن نے اسکے ہاتھ سے فون کھینچا تھا ۔۔۔

چل آرام سے بیٹھ اب ۔۔۔ کمرے کا دروازہ دھاڑ سے بند کرتی ہوئی وہ طنز کر گئی تھی قصا بیگم نے صدمے سے دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے آنسوں بہائے تھے جبکہ وہ پاس بیٹھی اس عورت کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر جلدی سے  اٹھ کر اس سے دور جا بیٹھی  

ہاہاہا ۔۔۔  وہ عورت انہیں ڈرتا دیکھ کر تالیاں بجانے لگی تھی قصا بیگم خوف سے کانپ پڑی تھی وہ ہنستے ہنستے اچانک ہی چیخی قصا بیگم نے جھرجھری لی وہ عورت اب اپنے بال مٹھیوں میں پکڑے کھینچ رہی تھی اور ہنس رہی تھی قصا بیگم نے نفرت سے رخ موڑا تھا 

                                   •••________🖤________•••

میم پلیز پی لیں تھوڑا سا ہی صحیح پھر آپکو میڈیسن  دینی ہے ۔۔ نرس جوس کا گلاس اسکے ہونٹوں سے لگاتی بولی جبکہ وہ منہ کا زاویہ بگاڑتے ہوئے سر جھٹک گئی تھی

رہنے دیں میں کرتا ہوں ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اندر آیا تھا عشیق نے مسکرا کر اسے دیکھا جو صحیح معنوں میں حسن کا شہزادہ ہی تھا بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے بالوں کو نفاست سے بنایا گیا تھا ۔۔۔ 

نرس نے جوس کا گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور باہر نکل گئی 

 اینجل اب ٹھیک ہے ؟

وہ سنجیدگی سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا عشیق نے مسکراتے ہوئے سر کو  دھیرے سے ہاں میں ہلایا تھا ۔۔۔

اوکے اب آپ میری بات مانیں اور یہ پی لیں ۔۔۔ وہ جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے اسکی جانب بڑھتا بولا عشیق نے لب بھینچ ڈالے تھے شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا جو حلق پر ہاتھ رکھ گئی تھی 

ابھی بھی دکھ رہا ہے ؟! 

وہ سر کو ہلا گئی تھی ۔۔

اوکے کیا چاہیے آپکو ۔۔۔ 

اسکی پیشکش پر وہ مسکرا گئی تھی ہاتھ سے باہر کا اشارہ کر گئی تھی 

آپکو باہر جانا ہے ؟! وہ ونڈو کی طرف دیکھتا بولا عشیق نے سر کو ہلایا تھا ۔۔۔

اوکے چلیں ۔۔۔ وہ اسے نرمی سے بیڈ سے اٹھا چکا تھا عشیق کا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا تھا وہ اسے اٹھائے باہر گارڈن کی طرف نکل گیا تھا ۔۔۔ راستے میں بہت سے لوگوں نے انہیں مسکرا کر دیکھا تھا وہ دونوں لگتے ہی اتنے پیارے تھے ایک ساتھ لوگ سراہے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔۔۔ عشیق نے گلاب کے پھولوں کے پاس پڑے سیمنٹ کے بینج کی طرف اشارہ کیاتھا وہ اسے نرمی سے اس پر بٹھا چکا تھا عشیق نے ہاتھ سے اسے قریب بیٹھنے کو کہا تھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے ۔۔۔

عشیق نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا تھا وہ جو گہری سوچ میں ڈوبا تھا سر جھٹک کر اسکی جانب متوجہ ہوا تھا ۔۔۔

وہ مسکراتے ہوئے سامنے سے آتے آئس کریم والے کی طرف اشارہ کر چکی تھی ۔۔۔

آپکو آئس کریم چاہیے ؟! 

وہ مسکراتے ہوئے سر کو ہاں میں ہلا گئی تھی وہ اسکے لئے آئس کریم لینے چلا گیا تھا عشیق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

شیری بہت اچھے ہیں آپ اتنی اٹینشن اور پیار تو ہمیں کبھی نے ذندگی میں نہیں دیا تھا ۔۔۔ وہ اسے اپنی جانب آئیس کریم اٹھائے بڑھتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے دل میں بولی تھی ۔۔۔

ویٹ میں کھلاتا ہوں ۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ کو نرمی سے تھامتا ہوا اسکے قریب بیٹھتا بولا عشیق نے محبت بھری نظر سے اسکا حسین نقوش چہرا دیکھا تھا پھر مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ سے آئس کریم کھانے لگی ۔۔۔

بیٹا کھانا تو کھا کر جاؤ ۔۔۔

نہیں چاچی جان لیٹ ہو رہی ہوں ۔۔۔ وہ چادر کھینچ کر پیشانی پر کرتی جلدی سے آگے بڑھتے بولی مگر سامنے دیکھتے ہوئے وہ رک گئی تھی اسکے چہرے سے مسکان ایک منٹ میں غائب ہوئی تھی 

ارے میری بہو صبح صبح کہاں جا رہی ہے ۔۔۔ سمیرا بیگم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے مسکرا کر کہا ژالے نے آفرین بیگم کی جانب دیکھا جو مسکراتے ہوئے اٹھ کر انہیں خوشدلی سے ملی تھی 

آئیے بیٹھیے ۔۔۔ آپ یہاں اسوقت سب خیریت تھی ۔۔۔ آفرین بیگم نے انہیں صوفے پر بٹھانے کے بعد پوچھا ژالے نے گھبرا کر گھڑی پر ٹائم دیکھا تھا پیپر شروع ہونے میں صرف آدھا گھنٹا رہتا تھا اسے جلدی پہنچنا تھا ۔۔۔

آفرین میں اسی ہفتے نکاح کروانا چاہتی ہوں ژالے اور کاشف کا اور میں تو انگوٹھی بھی لائی ہوں ملائکہ بیٹا انگوٹھی نکالو ناں ۔۔۔

جی مماں ۔۔۔ انکی بڑی بیٹی نے مسکراتے ہوئے پرس سے رنگ نکالی تھی آفرین بیگم نے بےبس نظروں سے پاس کھڑی ژالے کو دیکھا تھا جس نے دونوں ہاتھوں کو سختی سے آپس میں پیوست کیا تھا ۔۔۔

آؤ بیٹا ۔۔۔ سمیرا بیگم نے اسکی طرف دیکھ کر کہا ژالے نے گڑبڑا کر نظریں جھکاتے ہوئے خشک لبوں پر زبان پھیری تھی ۔۔۔

سووری وہ بھائی کی کال آ گئی ہے میں سن کر آتی ہوں ۔۔۔ وہ گھبراتے ہوئے فون کو کان سے لگائے ایک جانب بھاگ گئی تھی سمیرا بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا آفرین بیگم نے بےبسی سے انگلیاں چٹخائی تھی کیونکہ ژالے تو ان کو صاف منع کر چکی تھی اور وہ سمیرا بیگم کو صاف انکار نہیں کر پا رہی تھی ۔۔

آفرین بیگم اس سے پہلے کچھ کہتی سمیرا بیگم انہیں شادی کی باتوں میں الجھا گئی تھی 

آنسوں صاف کرتی ہوئی وہ جلدی سے آگے بڑھی تھی اور کسی سے ٹکرائی تھی اسکے ہاتھ سے فون نیچے گرا تھا ژالے نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو وائٹ شرٹ بلیک پینٹ میں ملبوس تھا لب بھینچ کر اسنے نیچے جھک کر اپنا فون اٹھایا اور آنکھیں رگڑتی ہوئی ایک جانب بڑھنے کو تھی جب سامنے سے آتے کاشف کو دیکھ کر رکی تھی ۔۔۔

اسلام و علیکم ۔۔۔ وہ کاشف کو دیکھ کر چادر درست کرتی ہوئی پزل ہو کر نظریں جھکائے بولی کاشف نے سرد نظروں سے ندیم کو دیکھا جو پیچھے ہٹنے کو تھا ۔۔۔

تم کون ہو ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا ندیم نے سپاٹ نظروں سے ژالے کو دیکھا اور بغیر جواب دیئے پلٹنے کو تھا جب کاشف نے اسکی شرٹ کا گریبان پکڑا تھا ندیم نے سپاٹ نظروں سے اسکے ہاتھ کو اپنا گریبان پکڑے دیکھا ۔۔۔

میری ہونے والی بیوی ہے سمجھا جتنا دور رہ سکتا ہے رہ کل تم دونوں روڈ پر کھڑے پانی پوری کھا رہے تھے میری بیوی ہے سمجھاا ۔۔۔ اسے پیچھے دھکا دیتا ہوا کاشف ژالے کا ہاتھ پکڑے بولا ژالے نے نم آنکھوں سے ندیم کو دیکھا جو لمبا سانس خارج کرتے ہوئے غصہ ضبط کر گیا تھا ۔۔۔

آپکے پیپر کا وقت ہو گیا ہے ۔۔۔ وہ ژالے کو دیکھتے سپاٹ لہجے میں بولا ژالے نے بےبسی سے اپنی کلائی تھامے ہوئے کاشف کو دیکھا ۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے گھر سے باہر جانے کی اور ویسے بھی پڑھائی کا کوئی فائدہ  نہیں ہمارے یہاں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلا کرتی ناں ہی پڑھائی کرتی ہیں چلو واپس جاؤ گھر میں ۔۔۔  وہ پان کھاتا ہوا بولا ژالے نے نفرت سے اسے دیکھا اور ہاتھ چھڑانے لگی ۔۔۔

میں نے کہا گھر جاؤ ۔۔۔ وہ اسکی کلائی پر سختی سے گرفت بناتا بولا ژالے درد سے سسکی ندیم نے سنجیدگی سے آگے بڑھ کا اسکے ہاتھ سے ژالے کا ہاتھ نکالا تھا کاشف نے زہریلی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو نظریں جھکائے اسے گاڑی کی طرف جانے کا اشارہ کر چکا تھا ژالے نے لب بھینچ کر کاشف کو دیکھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی ندیم نے سپاٹ نظروں سے کاشف کو دیکھا اور پھر گاڑی کی طرف بڑھ گیا کیونکہ شاہ ویر نے ہی اسے کال کے کہ کہا تھا کہ وہ خیال سے اسے یونیورسٹی چھوڑ دے کیونکہ آج اسکا بہت اہم پیپر تھا ۔۔۔

تجھے تو میں دیکھ لوں گا لڑکی شادی تو میرے سے ہی کرنی پڑے گی تیرا دماغ ٹھکانے ناں لگایا تو کاشف میرا نام نہیں ۔۔۔ وہ پان تھوکتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔

                                  •••________🖤________•••

افففف مرجااان ۔۔ 

وہ دبی دبی آواز میں غرائی جو بڑے سکون سے سویا ہوا تھا ۔۔۔ 

مرجااااان ۔۔۔ 

وہ اسکے کان کے قریب چیخی تھی جس پر اسنے بےمزہ ہو کر آنکھیں کھولی تھی 

کیا ہوا ۔۔۔ وہ نیند میں بڑبڑایا 

میرے اوپر سے اٹھیں آپکا کشن نہیں ہوں میں میری کمر دکھ رہی ہے ۔۔۔ وہ اسکے کندھے پر مکا مارتی غرائی مرجان نے شرارت سے آنکھیں کھولی تھی 

اٹھیں ابھی ۔۔۔ وہ پھر سے غرائی وہ مسکراہٹ دباتا ہوا اٹھا تھا ۔۔۔

ہائے ایسے لگ رہا ہے میرے اوپر سے ٹرک گزر گیا ہے ۔۔۔ زارا نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جس پر وہ آنکھیں سکیڑ گیا تھا ۔۔۔

ہاتھی جتنے بھاری ہیں آپ مرجان ۔۔۔  وہ اسے دیکھتے ہوئے منہ بناتے بولی جس پر وہ مسکراہٹ ضبط کر گیا ۔۔ 

اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ چونکی جو اسے کمر سے تھامتے ہوئے اپنے قریب کر چکا تھا زارا نے آنکھیں پھیلائی تھی حیرت سے ۔۔۔

کل رات پتا ہے آپ نے مجھے کیا کچھ کہا ۔۔۔ وہ اسکے ناک کی نوک پر انگلی رکھتے ہوئے شریر لہجے میں بولا زارا نے اسے گھورا 

کیا کہا ہم نے ؟!

آپ نے مجھے ہینڈسم کہا جو کہ میں ہوں کوئی شک نہیں مگر آپ نے کہا مجھے بہت اچھا لگا ۔۔۔ وہ شرارت سے اسکے چہرے سے بالوں کی لٹ کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولا زارا کے گال سرخ پڑے تھے 

ہم نے ایسا ویسا کچھ نہیں کہا ہو گا آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔  

آپ نے کہا میری جان اب آپ مکر نہیں سکتی ۔۔۔ وہ اسکے کان پر جھکتا بولا 

کک۔۔کوئی ثبوت ہے تو دیکھائیں ۔۔۔ وہ گڑبڑائی 

ثبوت تو اب آپکو دینا پڑے گا ۔۔۔۔ وہ معنی خیزی سے بولا

کیسا ثبوت ۔۔۔ وہ چونکی

محبت کا دعوہ کیا ہے آپ نے مسز اور مجھے اسکا ثبوت چاہیے آج ابھی اسی وقت ۔۔۔ وہ اسکی  براؤن سادہ سی آنکھوں میں دیکھتے دھیمے لہجے میں بولا زارا کو کرنٹ سا لگا تھا  اسنے حلق تر کرتے ہوئے اسکی ہیزل آنکھوں کو دیکھا جو اسکے چہرے کا قریبی جائزہ لے رہی تھی ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے اسکی آنکھوں پر لب رکھ گیا زارا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اسکے پرفیوم کی ہلکی مہک کو اپنے روم روم میں اترتا محسوس کیا وہ اسکی آنکھوں سے اسکے گلابی پڑتے گال پر لب رکھ چکا تھا ۔۔۔

جج۔۔۔جان ۔۔۔

جان نہیں مرجان ۔۔۔ اور اب تک آپ صرف اپنے دوست سے واقف تھی کیونکہ آپ  مرجان کاظمی سے بھی محبت کا دعوہ کر چکی ہیں لہذا اب مرجان کاظمی کو برداشت کرنا بھی سیکھ لیں ۔۔۔ جو آپکا شوہر ہے  ۔۔۔

وہ آخری لائن دھیمے لہجے میں بولا زارا کی گھنی پلکوں نے جھرجھری لی تھی اگلے ہی پل وہ اسکا چہرہ ٹھوڑی سے اوپر کو اٹھاتا ہوا اسکے لبوں پر جھکا ۔۔

                                 •••________🖤________•••

وہ روتے ہوئے الٹے قدموں پیچھے کو ہٹتی چلی گئی اور پھر بغیر پیچھے دیکھے مڑی تھی جب وہ کسی سے ٹکرائی تھی ۔۔۔

آہ ۔۔۔ اسکا سر اسکے سر سے لگا تھا حرب نے مڑ کر پیچھے دیکھا جو سر تھامے اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جو سپاٹ نظروں سے حرب کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر رک گیا تھا 

شاباش ۔۔۔ 

حرب نے طنزیہ انداز میں تالی بجائی تھی زنیرا نے لب کاٹتے ہوئے سر جھکایا تھا جبکہ ویر ناسمجھی سے اسے دیکھا جو انکی طرف ہی بڑھ رہا تھا ۔۔۔

کتنا عجب اتفاق ہے تم بار بار ہی اپنے یار سے ٹکرا جاتی ہو کبھی ہاسپیٹل کے گارڈن میں کبھی گھر میں کبھی ہاسپیٹل سے باہر۔۔۔  وہ شاہ ویر کی طرف دیکھتا دانت پیس کر بولا تھا زنیرا نے سرعت سے اسکے تنے اعصاب دیکھے اس کے سختی سے مٹھی بھینچنے پر اسکی تنی ہوئی رگیں صاف نظر آئی تھی ۔۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔۔

وہ ضبط کرتے ہوئے اسے دیکھتے بولا تھا ۔۔۔

میں کچھ کہنے لائق رہا ہی نہیں ہوں میرے بھائی پہلے تمھارے چھوٹے بھائی کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اسکی شادی ہو گئی تو مجبور ہو کر مجھ سے شادی کر لی اور جب مجھ سے بہتر مرد دیکھا تو اسکی طرف گامزن ہو گئی دیکھو کتنا لوز کیریکٹر ہے اس لڑکی کا ۔۔۔ 

شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے زنیرا کو دیکھا جو نظریں جھکائے آنسوں بہا رہی تھی

مگر کوئی بات نہیں آج رات ہی تمھیں ڈائیوورس پیپرز مل جائیں گے پھر رہنا اپنے یار کیساتھ ۔۔۔ وہ شاہ ویر کو دیکھتے ہوئے کاٹدار لہجے میں بولا شاہ ویر نے جبڑے بھینچ کر اسکا گریبان پکڑا تھا زنیرا نے روتے ہوئے اسکا ہاتھ حرب کے گریبان سے ہٹایا تھا شاہ ویر نے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا کیونکہ زنیرا کا ہاتھ اسکے ہاتھ پر آیا تھا

ہاہا  واہ دیکھو کیسے تمھاری بات مانتا ہے تم نے ٹوکا اور وہ رک گیا ۔۔۔ حرب نے زخمی لہجے میں کہہ کر شاہ ویر کو دیکھا جسکا چہرہ ضبط کر کر کے سرخ پڑ گیا تھا۔۔۔

حرب اسوقت کسی زخمی شیر کی طرح بپھرا ہوا تھا اسکی غیرت یہ سب گوارہ نہیں کر رہی تھی یا شاید بات کچھ اور تھی ۔۔۔

بھائی پلیز آپ جائیں غلط فہمی ہے سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ زنیرا نے شاہ ویر کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر التجائی لہجے میں کہا

ارے واہ کیا کہا بھائی ۔۔۔ میرے سامنے بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے تمھیں اسے میں تو سب جانتا ہوں ناں ۔۔۔

اپنی بکواس بند کرو اس سے پہلے میں کچھ غلط کر دوں ۔۔۔ شاہ ویر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا وہ اسکی گردن کو ہاتھ میں جکڑتا کرخت آواز میں بولا 

غلط ہی تو کر رہے ہو تم پچھلے دنوں سے میں تو بیوقوف ہوں مجھے نظر ہی نہیں آیا ایک طرف یہ شریف زادہ اپنی بیگم سے محبت کے دعوے کرتا ہے ایک طرف یہ بےوفا عورت مجھ سے محبت کے دعوے کرتی ہے اور کڈنیپنگ کے نام پر تم سے ویران جگہوں پر ملتی ہے ۔۔۔ 

چٹاخ ۔۔۔  ایک زوردار تھپڑ

حرب گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سرخ آنکھوں سے دیکھنے لگا جسکا چہرہ سرخ بھبھوکا ہوا تھا زنیرا نے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔

ایک لفظ اور نہیں جس پر الزام لگا رہا ہے ناں میری بہن جیسی ہے سمجھا اور اگر تو نے ایک غلط اور لفظ اسکے کردار پر بولا جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا سمجھا ۔۔۔ وہ سرخ ہوتے چہرے کیساتھ غراتے ہوئے پیچھے کو ہٹا تھا حرب نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا جو مٹھیاں بھینچے وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا زنیرا نے اسے خالی نظروں سے دیکھا تھا اسکے کہے گئے الفاظ اسکے دل پر خنجر کی طرح لگے تھے ۔۔۔

جب نبھانے کا ظرف ناں ہو تو تعلق نہیں بناتے حرب شاہ کاظمی ۔۔۔ ایک لڑکی سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن جب بات اسکے کردار پر آتی ہے تو وہ خاموش نہیں بیٹھتی ۔۔۔ وہ متذبذب لہجےمیں کہہ کر آنسوں صاف کرتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی اور پھر بغیر پیچھے دیکھے وہاں سے ناجانے کس جانب نکل گئی تھی حرب نے بھینچے لب وا کر کے اسے جاتے دیکھا تھا ۔۔۔

وہ تیز قدموں کیساتھ اسکے پیچھے بھاگا تھا جو دنیا بھر سے غافل سی نڈھال چال چلتے ہوئے سڑک کے بیچ و بیچ چل رہی تھی  گاڑیاں اسکے آس پاس ہوا کی طرح دوڑ رہی تھی مگر اسکے ذہن میں تو اسکے کہے الفاظ گردش کر رہے تھے آنسوں اب پلکوں پر اور گالوں پر سوکھ گئے تھے مگر آنکھوں سے سرخی نہیں گئی تھی وہ بےجان قدموں کیساتھ بس چلتی جا رہی تھی اسکے سر سے اسکی نیلی شیشوں والی چادر سرک کر اسکے کندھے پر آئی تھی حرب نے اسکے بکھرے الجھے ہوئے بالوں کو دیکھا وہ ایسی تو نہیں تھی کیا اسکے لفظوں نے اسے اتنی تکلیف دی تھی ؟! اگر سچ میں وہ ایسی تھی تو اسکے الفاظ نے اسے اتنی تکلیف کیوں دی تھی حرب نے دائیں طرف سے آتی تیز رفتار گاڑی کو دیکھا جو اسکی سمت ہی بڑھ رہی تھی وہ بےجان سی بغیر جوتی کے بس چلتی جا رہی تھی وہ بغیر ایک پل گنوائے اسکی جانب دوڑا تھا 

ایک ہی پل میں اسے کھینچ کر اپنے سینے میں بھینچتے ہوئے وہ ایک جانب ہوا تھا گاڑی تیز اسپیڈ سے سڑک سے گزر گئی تھی زنیرا نے اسے پیچھے کو دھکا دیا تھا آس پاس کے لوگ رک گئے تھے انہیں دیکھ کر ۔۔۔

کوئی حق نہیں بنتا حرب شاہ بہت درد دے چکے ہو مجھے اب صرف سانسیں ہی بچی ہیں میرے پاس جنہیں میں گنوا دینا چاہتی ہوں کیونکہ کچھ نہیں بچا اب میرے پاس جو الزامات تم نے مجھ پر لگائے ہیں انکے بعد عزت ، سکون ، سب ہی تم نے چھین لیا ہے مجھ سے ۔۔۔  زنیرا نے چیختے ہوئے زار زار روتے اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتے کہا حرب کی آنکھوں میں آنسوں تیرے تھے ۔۔۔

مر جانے دو مجھے نہیں جینا مجھے اب ۔۔۔ وہ روتے ہوئے پیچھے ہٹی

محبت کرتا ہوں آپ سے اسکے بعد بھی اگر جانا چاہتی ہیں تو  ٹھیک ہے مجھے بھی مر جانے دیں پھر۔۔۔

 حرب اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے سختی سے سینے میں بھینچتے ہوئے بولا تھا زنیرا ایک پل کو ساکت ہوئی تھی 

                                •••________🖤________•••

وہ سرخ چہرہ لئے گیلری کے چکر کاٹ رہا تھا کسی صورت اسے سکون نہیں آ رہا تھا عشیق کے پاس جا کر وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسکے فون کی رنگ ٹون بجی وہ کال کنیکٹ کرتے ہوئے فون کان سے لگا گیا ۔۔۔

آپکے بینک اکاؤنٹ میں ان نان اکاؤنٹ سے بٹ کوائن کرنسی کا ایک بہت بڑا اماونٹ بھیجا گیا ہے اتنا بڑا اماونٹ کہ ہمارے فائنینشل مانیٹرنگ یونٹ نے آپکو فورآ یہاں حاضر ہو کر وضاحت کرنے کا آرڈر دیا ہے کیونکہ آپ انٹیلیجنس سکواڈ کے کیپٹن رہ چکے ہیں اس لئے آپکو ڈائریکٹ گرفتار نہیں کیا گیا ہے ۔۔۔

وہ مٹھی بھینچ گیا تھا ۔۔۔

اور دوسری بات آپکو آپکی جاب سے ہٹا دیا گیا ہے ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے لیٹر موصول ہو چکا ہے آپ اپنا میل ریسیو کر لیں ۔۔۔ 

کال ڈسکنیکٹ ہو گئی تھی وہ فون کے میسجز کی لسٹ نکال کر جلدی سے انگلیاں سکرول کرنے لگا تھا جب ایک میسج اسکی نظروں کے سامنے آیا تھا ۔۔۔

Mr. Shahveer Kazmi. An amount of fifty billion has been sent to your account. Kindly check your account ۔۔۔۔ in case of any error, contact our organization. 

شاہ ویر نے لمبا سانس ہوا کے سپرد کیا اور اسکے نیچے ان نان نمبر سے آیا ہوا میسج دیکھا ۔۔۔

Good Bye Agent ...

اچھا تو تمھارا کام ہے یہ ۔۔۔

وہ سپاٹ لہجے میں بڑبڑایا تھا اور فون پاکٹ میں ڈال کر ڈاکٹرز کو سختی سے آرڈر دیکر وہ وہاں سے نکلا تھا 

                               •••________🖤________•••

الیکشن سر پر ہیں ہمیں ہر صورت میں الیکشن جیتنے ہوں گے پہلے ہی بہت نقصان کروا بیٹھا ہوں میں ۔۔۔  ریاض  جو اسوقت کے بڑے سیاستدانوں میں سے ایک تھے صوفے پر بیٹھ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے بولے ۔۔۔

فکر کیوں کرتے ہو سب ٹھیک سے ہو گا ایک دو بلاسٹ ہوں گے عوام میں خوف و ہراس پھیل جائے گا اور الزام آئے گا حکومت پر اور انہیں ووٹ کم پڑیں گے ۔۔۔ 

مجھے تو تمھاری چالوں کی سمجھ نہیں آتی کیسے کر لیتے ہو ابرار ؟! 

بس دیکھ لو لیکن سب سے پہلے اس دو کوڑی ہے ہمارے ایجینٹ کو نوکری سے ہٹانے کا لیٹر جاری کر دیا ہے میں نے ملک کو سدھارنے کا ذمہ لیکر بیٹھ گیا ہے ۔۔۔ ہمارے ہر منصوبے کی دھچیاں اڑا دیتا ہے ۔۔۔ ابرار کرسی پر بیٹھتے سگریٹ کا دھواں نکالتے بولے

رچرڈ اور منور پکڑے گئے ہیں ۔۔۔ انکا کیا کرنا ہے ؟!  ریاض بیگ نے تاسف سے پوچھا 

کیا کر سکتے ہیں اگر اس وقت ہم وہاں گئے تو انٹیلیجنس کی نظروں میں آ جائیں گے جب تک الیکشن نہیں ہوتے تب تک اپنے پہلے منصوبے کیساتھ رہتے ہیں وہ ہمارا نام نہیں بتائیں گے اور وہ ایجینٹ کون ہے ۔۔۔

اسکی فکر مت کرو وہ اب ہمارے راستے سے ہٹ چکا ہے تھا کوئی معمولی سا ملیٹری آفیسر  ہو گا اور کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔ 

صحیح کہہ رہے ہو لیکن کافی خرچہ ہو گیا اسکو ہٹانے میں ۔۔۔ ریاض بیگ نے منہ بناتے ہوئے کہا

کونسا خرچہ ہو گیا ریاض جتنی کرنسی اسکے اکاؤنٹ میں ڈلوائی ہے اسکو پکڑوانے کے لئے وہ انویسٹیگیشن والے حکومت کے حوالے کریں گے ناں اور حکومت کس کی ہو گی ؟! 

ریاض بیگ نے مسکرا کر ابرار بگٹی کو دیکھا دونوں نے قہقہ لگایا تھا ۔۔۔

                              •••________🖤________•••

وہ بلیک ہوڈ چہرے پر ڈالے اس اندھیری دنیا میں داخل ہوا تھا جہاں روشنی کا نام و نشان نہیں تھا پراعتماد قدم اٹھاتا ہوا وہ اندھیرے کو چیرتا ہوا چل رہا تھا ۔۔۔

پاسورڈ ؟!

وہ ایک دروازے کے سامنے رکا تھا جسکا پرائیویسی سسٹم روشن ہوا تھا وہ فنگر پرنٹ لگاتا ہوا دروازہ کھلتے اندر داخل ہوا تھا سب نے بیک وقت اسے دیکھا تھا یہ ایک بہت بڑا ڈیجیٹل ورلڈ تھا جسکا وہ بادشاہ تھا انڈرگراونڈ ماریانا ویب کا جہاں جو اسکی زیر نگرانی چلتا تھا ۔۔۔

ویلکم بیک لوسیفر ۔۔۔

وہ بغیر اس بلیک ہوڈ میں بولتے ہیکر کو جواب دیئے آگے بڑھ گیا تھا یہاں سب ہی بلیک ہوڈز میں ملبوس تھے اپنی اپنی چیئرز پر بیٹھے وہ سامنے پڑے کمپیوٹرز کی طرف متوجہ ہوئے تھے  دنیا کی ڈارک ویبز اور انکے تمام راز اس کالی دنیا میں موجود تھے جن کو یہ ہیکرز دیکھتے تھے

جیک نیڈ ہوئر ہینڈ ۔۔۔ وہ اپنے پرسنل روم میں آتا وہاں موجود ہیکر کو مخاطب کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا 

یس لوسیفر واٹ ڈو یو وانٹ ؟! وہ ہیکر اپنی چیئر سے اٹھتا اسکے پاس آیا تھا اسنے اپنے کمپیوٹر پر کچھ کوڈز لکھنے کے بعد سکرین کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔۔

کین یو چینج دس انٹو۔سمتھنگ ایلس ۔۔۔  وہ کمپیوٹر کیبورڈ پر انگلیاں چلاتے سنجیدگی سے بولا وہ ہیکر اسکے کندھے کر پاس جھکتا سکرین کو دیکھنے لگا 

یس آفکورس لوسیفر۔۔۔  وہ ہیکر تاسف سے بولا تھا

کنورٹ دس کرنسی ٹو این ادر کرنسی اینڈ سیگریٹلی ٹرانسفر سمال اماونٹس ٹو تھری ٹو فار اکاؤنٹس۔۔۔  وہ اپنی چیئر سے اٹھتا اسے اشارہ کرتے ہوئے بولا 

بٹ واٹ ول یو ڈو ود سچ آ لارج اماونٹ اینڈ دس کرنسی بیلانگز ٹو گورنمنٹ واٹ ڈو یو وانٹ ٹو ڈو ود دس ؟ ہیکر نے کیبورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا 

یو ول سی جیک ۔۔۔  وہ دوسرے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوا اور اس پر اپنا بینک اکاؤنٹ کی ڈیٹیل دیکھنے لگا جس میں سے اچانک سے ہی دس بلین کا اماونٹ کہیں غائب ہوا تھا اسنے سنجیدگی سے اپنے بلیک ہوڈ کی پاکٹ سے فون نکالا تھا جس پر منی ٹرانسفر کا میسج نہیں آیا تھا یقیناً اسنے ناٹیفیکشن سنوز کر دیئے تھے جو ناں کہ بینک کو موصول ہوا تھا ناں ہی اسے ۔۔۔

ویل یو وانٹ سمتھنگ ایلس لوسی ؟! 

وہ ہیکر اسکی جانب مڑتے بولا ۔۔

اوکے فار ناؤ یو کین لیوو ول کال یو لیٹر ۔۔۔ وہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے مسکرایا تھا ۔۔۔

اوکے ایز یو سے ۔۔۔ وہ ہیکر اسکے کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

زبیر مجھے مین روڈ پر موجود سپر مارکیٹ سے پک کر لو ۔۔۔ وہ فون پر کہتا ہوا اپنے روم سے باہر نکلا تھا ۔۔۔

کچھ ہیکرز سے کچھ پوائنٹ ڈسکس کرنے کے بعد وہ وہاں سے نکل چکا تھا ۔۔۔

                                   •••________🖤________•••

نہیں کھانا مجھے ۔۔۔ قصا بیگم نے غصے سے پلیٹ کو دور دھکیلا تھا جس میں پانی کی طرح پتلی دال تھی اور روٹیاں جلی ہوئی تھی وہ پاگل عورت اپن کھانا کھانے کے بعد اسکے کھانے پر جھپٹی تھی قصا بیگم نے نفرت سے اسے کھاتے دیکھا وہ انہیں اپنی طرف دیکھتے دیکھ کر انہیں آنکھیں دیکھا گئی تھی جس پر وہ خوفزدہ ہو کر کھسک کر پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔

وہ پاگل عورت اٹھ کر اسکی جانب بڑھی وہ ڈرتے ہوئے دیوار سے چپکی تھی وہ عورت انہیں گردن سے دبوچ چکی تھی ۔۔۔

بچاؤ یہ یہ مجھے ۔۔۔ماڑ ڈالے گی ۔۔۔ قصا بیگم نے چیختے ہوئے اسکے ہاتھ کو اپنی گردن سے ہٹانے کی کوشش کی تھی مگر وہ تو انہیں مارنے پر ہی تلی تھی ۔۔۔

وارڈن نے اندر آ کر اس پاگل عورت کو پیچھے ہٹایا تھا قصا بیگم گردن پر ہاتھ رکھتے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اس پاگل عورت کو دیکھنے لگی جو انہیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

قصا بیگم نے ڈرتے ہوئے آنکھیں بند کی اور گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھ کر رونے لگی 

وہ پاگل عورت انہیں روتا دیکھ کر تالیاں بجاتے ہوئے قہقے لگانے لگی تھی ۔۔۔

                                    •••________🖤________•••

وہ بیگ کندھے سے ہٹاتی ہوئی لائونج میں داخل ہوئی سہیل صاحب اسکا ہی انتظار کر رہے تھے وہ روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی سہیل صاحب نے اسے سنجیدگی سے دیکھا تھا اور اسکے پیچھے چلے گئے تھے ۔۔۔

سہ بیگ بیڈ پر ڈالتے ہوئے روتی چلی گئی سہیل صاحب دروازے پر دستک دیکر اندر آئے تھے ژالے نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھا جو اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکے پاس بیٹھے تھے ۔۔۔

کیا ہوا ہے میری لاڈلی بیٹی کو کسی نے کچھ کہا ؟!  سہیل صاحب کے محبت بھرے لہجے پر وہ موم ہوئی اور روتے ہوئے انہین گلے لگا گئی۔۔۔

بابا ہمیں یہ شادی نہیں کرنی ہمیں پڑھائی کرنی ہے آپ سمیرا آنٹی کو منع کر دیں سہ کاشف بہت برا ہے وہ پان کھاتا ہے اور وہ بدتمیزی سے بات کرتا ہے ہم سے ہمیں نہیں کرنی اس گھر میں شادی وہ سب بہت برے ہیں ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی سہیل صاحب نے دھیرے سے سر کو ہلا کر اسکے بال سہلائے اور اسے خاموش کروایا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے بیٹا اگر آپ خوش نہیں ہیں تو ہم میں سے کوئی بھی زبردستی آپکو وہاں شادی کرنے کے لئے فورس نہیں کریگا میں آج ہی ظفر اللہ صاحب کو منع کر دیتا ہوں ۔۔۔ 

ژالے نے مسکراتے ہوئے سہیل صاحب کا ہاتھ اٹھا کر اس پر لب رکھے ۔۔۔

تھینک یو بابا۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی سہیل صاحب نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیکر اسے تسلی دی اور خاموش کروا کر وہاں سے چلے گئے تھے ۔۔۔

وہ بیڈ پر لیٹتی ہوئی اسکے بارے میں سوچنے لگی کیسے اس نے صبح اسکی طرف داری کرتے ہوئے اسے کاشف سے بچایا تھا ۔۔ وہ سوچتے ہوئے مسکرا گئی تھی

                                  •••________🖤________•••

اسنے دھیرے سے ہاتھ اٹھا کر نرس کو اشارہ کیا تھا ۔۔۔

یس میم آپکو کچھ چاہیے ۔۔؟!

عشیق نے اپنے پاس پڑی خالی چیئر کی طرف اشارہ کیا تھا نرس اسکے پاس بیٹھی تھی۔۔۔

ش۔۔۔۔شا۔۔۔ہ 

وہ دھیمے لہجے میں بس اتنا ہی بول پائی تھی

اوہ  ۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔ آپکے ہڈبینڈ وہ دوپہر سے یہاں نہیں ہیں انہیں کوئی کال آئی تھی اس لئے وہ چلے گئے تھے ہاں پورے سٹاف کو سختی سے آپکا خیال رکھنے کا کہہ کر گئے ہیں بہت پیار کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ نرس نے مسکرا کر کہا عشیق دھیمی سی مسکرائی تھی 

آپ ۔۔۔ مجھ۔۔۔ے۔۔۔ کا۔۔۔ل کر۔۔۔نے دیں۔۔گی ؟! 

آپ اپنے ہڈبینڈ کو کال کرنا چاہتی ہیں ؟! 

عشیق نے دھیرے سے سر کو ہاں میں ہلایا تھا نرس نے اپنا فون نکال کر اسکی طرف بڑھایا وہ آہستہ سے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے اسکا نمبر لکھ چکی تھی ۔۔۔

لونگ بیپس ۔۔۔۔۔ 

۔۔۔۔۔

اسنے فون نہیں اٹھایا تھا وہ اداس ہو گئی تھی ۔۔۔

شاید وہ مصروف ہوں ۔۔۔ آپ ریسٹ کریں نو بجنے کو ہیں آپکو ریسٹ کی ضرورت ہے ۔۔۔ نرس اسے سونے کا کہہ کر چکی گئی عشیق نے آس بھری نظروں سے ونڈو سے باہر دیکھا تھا مگر آج وہ دشمنِ جاں اسے انتظار کروا گیا تھا وہ اسکی عادی ہو چکی تھی ایک۔پل۔بھی اس سے دور نہیں رہ سکتی تھی ۔۔۔

آپ کہاں ہیں شیری ۔۔۔ وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے دل میں سوچتے ہوئے اداس ہوئی تھی ۔۔

اسکی مرسیڈیز ایک ویران سے علاقے میں رکی تھی آس پاس ایک بھی گھر نہیں تھا وہ فرنٹ سیٹ سے نیچے اترا تھا اسکی نیلی آنکھوں نے سنجیدگی سے اس بنجر زمین کا جائزہ لیا تھا اسنے سپاٹ نظروں سے اپنی طرف بڑھتی ایک چھوٹی بچی کو دیکھا تھا جسکے میلے سے چہرے پر چمک ابھری تھی اسے دیکھ کر ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے نیچے بیٹھا تھا وہ اسکی طرف بڑھتی اسکی ماں نے اسے بازو سے پکڑا تھا وہ سنجیدگی سے اٹھا تھا لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے وہاں ایک گھیرا بنایا تھا دیکھنے میں وہ سب غریب غرباء تھے 

زبیر بھی اسکے پیچھے گاڑی سے اترا تھا

وہ بچی اسکی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھی مگر اسکی ماں اسے ٹوک رہی تھی ۔۔۔

آپ بچی کو کیوں روک رہی ہیں آنے دیں اسے ۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔۔۔

صاحب آپکے بہت احسان ہیں آپ  یہاں آ کر مہینے بھر کا راشن دیکر جاتے ہیں ہماری کیا اوقات ہے ہم تو یہ تک نہیں جانتے آپ کون ہیں ہم آفت ذدہ لوگوں کا کبھی کسی نے خیال نہیں کیا ہم اگر سڑک پر ہاتھ بھی پھیلانے جائیں تو لوگ دور ہٹ جاتے ہیں یہ کہہ کر کے ہم کم ذات لوگ ہیں۔۔۔ وہ عورت نظریں جھکائے بولی

اور آپ نے اس بچی کو کیوں روکا ؟! 

وہ سنجیدگی سے بولا

امی کہتی ہیں ہم میلے اور گندے لوگ ہیں اور میرے پاس اچھے کپڑے بھی نہیں ہیں میرے کپڑے میلے ہیں آپکے کپڑوں کو مٹی لگ جائے گی ۔۔۔ وہ بچی خفا لہجے میں ناک چڑھاتے بولی جس پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسنے سنجیدگی سے گاڑی کی طرف دیکھا تھا اور اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تھا وہ بچی مسکراتے ہوئے اسکے پاس آئی وہ مسکراتے ہوئے اسے اٹھا چکا تھا سب لوگوں نے اسے فخر سے دیکھا تھا کس طرح اسنے اپنے سٹیٹس کی پرواہ کئے بنا اسے اٹھا لیا تھا ۔۔۔

وہ فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولتے ہوئے ایک پنک کلر کا شاپنگ بیگ اسے تھما چکا تھا جس میں اسکے لئے نئے کپڑے تھے وہ اکثر یہاں آتا جاتا تھا اور اس بچی سے اسے بے لوث محبت ہو گئی تھی اسے اپنی اولاد ہی سمجھتا تھا وہ ۔۔۔

زبیر گاڑی سے سامان نکال کر ان لوگوں کو باری باری دے رہا تھا جو اسے ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے مسکرا رہے تھے ۔۔۔

آپ پڑھنے جاتی ہیں ؟! وہ اس بچی کی طرف دیکھتے بولا جس پر اسنے سر کو ناں میں ہلایا تھا ۔۔۔۔

صاحب کیسے پڑھائیں بچوں کو آپکا احسان ہے ہمیں دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے ورنہ ہم جیسے تو روز ہی سڑکوں پر بھوک افلاس سے مر جاتے ہیں ۔۔۔  وہ سنجیدگی سے بچی کو دیکھ چکا تھا جو اپنے میلے بالوں سے کھیل رہی تھی اسکے دل میں ٹھیس سی لگی تھی کبھی وہ بھی اس طرح ہی ان ویران سڑکوں پر گھوما کرتا تھا مگر خدا نے اسے کہاں سے کہاں پہنچایا تھا ۔۔۔۔

نہیں میں یہ نہیں ہونے دے سکتا جو میرے بس میں ہے وہ میں ضرور کروں گا ۔۔۔ وہ دل میں عہد کر چکا تھا 

میرا احسان نہیں ہے ناں ہی میں اسے احسان سمجھتا ہوں میرے مالک نے مجھے توفیق دی ہے جس کے لئے میں اپنے خدا کا شکر گزار ہوں آپ اس ذات کا شکر ادا کریں جس کے کرم کی وجہ سے آپ تک رزق پہنچ جاتا ہے ۔۔ وہ اس بچی کو نیچے اتارتا ہوا اسکے بالوں پر بوسہ دیتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا اسکی ماں کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے کس طرح وہ اس بچی کو شفقت اور محبت دے رہا تھا ۔۔۔ 

زبیر نے سارا سامان ان میں تقسیم کر کے گاڑی کا گیٹ بند کیا تھا ۔۔۔

آپ پھر کب آؤ گے اینجل انکل۔۔۔

 وہ بچی اسے دیکھتے مسکرا کر پوچھنے لگی اسکے لفظ پر وہ رکا تھا وہ پیچھے پلٹا تھا جو اسے دیکھے مسکرا گئی تھی ۔۔۔

یہ ورڈ کہاں سے سیکھا آپ نے بیٹا ؟! وہ ایک گھٹنا ٹکائے اسکے پاس بیٹھتا بولا ۔۔۔

اچھے لوگوں کو اینجل کہتے ہیں مجھے امی نے بتایا تھا ۔۔۔ وہ اپنی ماں کی طرف اشارہ کرتے بولی وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے اسکے بکھرے بالوں کو پیار سے سہلا کر اٹھا تھا ۔۔۔

اللہ آپ جیسے مخلص لوگوں کو سلامت رکھے ہمارے لئے تو فرشتہ بن کر آتے ہو خدا زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب کرے کبھی غم نصیب ناں ہوں ۔۔۔ 

وہ لوگوں کی ڈھیروں دعاؤں کے سائے میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا تھا ۔۔۔

                                      •••________🖤________•••

وہ تیزی سے جاگنگ کر رہا تھا وائٹ سنیکرز پر وائٹ ہاف سلیوز شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس پیشانی پر بکھرے بال چہرہ سرخی مائل ہو چکا تھا دوڑ دوڑ کر پیشانی پر پسینے کی بوندیں تھی روڈ صبح کے اس پہر سنسان پڑا تھا کیونکہ ابھی تک سورج نہیں نکلا تھا ۔۔۔

وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھتا لمبا سانس لیتے ہوئے رکا تھا اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وہ کچھ سیکنڈ اپنی جگہ رکا رہا اور پھر یکدم پیچھے مڑا تھا مگر پیچھے کوئی نہیں تھا وہ پاکٹ سے رومال نکال کر چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے دوبارہ تیزی سے دوڑنے لگا تھا اسکے کانوں میں ہلکی سی وائبریشن ہوئی تھی اسنے رک کر بغیر پیچھے مڑے ایک کائیں نظر سے پیچھے کا جائزہ لیا اسے ایک پرچھائی سی نظر آئی تھی اسکے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی وہ تھا ہی ایسا ڈرنے کا تو نام نہیں لیتا تھا وہ ڈیٹھ ۔۔ سنیکرز کے لیسز باندھنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اسنے سنیکرز کے کونے سے ایک چاقو نکالا تھا اور اسے گھماتے ہوئے وہ پاکٹ میں ڈال چکا تھا دوبارہ اٹھ کر وہ آگے بڑھ گیا تھا قدموں کی ہلکی آہٹ اسے اب بھی سنائی دے رہی تھی اپنے پیچھے ۔۔۔ 

وہ ایک کھلے علاقے میں نکل آیا تھا یکدم ہی وہ پیچھے مڑا تھا ایک بلیک پینٹ بلیک شرٹ میں بلیک ماسک سے منہ ڈھانپے دراز قد آدمی ہاتھ میں ہاکی لئے اسکی طرف بڑھا تھا ۔۔۔

لو جی صبح صبح ہاکی کھیلنے نکل پڑا ہے وہ بھی سڑک پر ۔۔۔ وہ منہ میں ہی بڑبڑایا تھا اور مبہم سا مسکرایا تھا ۔۔۔

کم آن برو ٹائم نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔ وہ اسے ہاتھ سے اپنی طرف بڑھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اکتائے ہوئے لہجے میں بول کر اسے تپا گیا تھا وہ ہاکی اٹھائے اسکی طرف بڑھا جب اسنے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے ہاکی پکڑتے ہوئے اسکے منہ پر کک ماری تھی وہ کچھ قدم دور جا گرا تھا دو اور ویسے ہی آدمی منہ ڈھانپے کہیں سے نکلے تھے ۔۔۔

آ جاؤ ۔۔۔ وہ ہاکی نیچے پھینکتا انہیں آنے کا کھلا پاس دے گیا ایسے ہی تو نہیں وہ بڑے بڑے ریسلرز کو دھو چکا تھا ریسلنگ کا تو وہ ماہر تھا ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ انہیں دھول چٹا چکا تھا وہ تینوں سڑک پر پڑے کراہ رہے تھے کوئی بازو پکڑے کراہ رہا تھا تو کوئی ٹانگ پکڑے ۔۔۔ 

کس نے بھیجا ہے یہ تو بتا دو ۔۔۔ وہ ان میں سے ایک آدمی کے ہاتھ پر پیر رکھتا شاطرانہ لہجے میں بولا وہ آدمی درد سے چیخا تھا ۔۔۔

ارے بتا بھی دو بڑا وزنی ہوں میں ہاتھ ٹوٹ جائے گا تمھارا ۔۔۔ وہ جھکتے ہوئے ڈیٹھ لہجے میں بولا تھا ۔۔۔

ااااہہہ ۔۔۔ انیس ملک نے ۔۔۔ وہ کراہتے ہوئے اتنا ہی بولا تھا وہ سنجیدگی سے اسکے ہاتھ پر اور دباؤ ڈال چکا تھا ۔۔۔

جھوٹ وہ ہمارے پالیٹیشن ہیں وہ نہیں بھیج سکتے تمھیں ۔۔۔

وہ سچ کہہ رہا ہے ہمیں پیسے دیئے گئے تھے تمھیں زخمی کرنے کے ڈرانے دھمکانے کے لئے ۔۔۔ دوسرا آدمی کراہتے ہوئے بولا مرجان نے لب بھینچتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتا ہوا چاقو نکال کر پہلے آدمی کی گردن پر رکھ گیا تھا ۔۔۔

سچ سچ بتاؤ کس نے بھیجا ورنہ گردن کاٹ دوں گا ۔۔۔ 

میں سچ کہہ رہا ہوں انیس ملک کیساتھ دو اور لوگ بھی تھے مگر میں انہیں نہیں جانتا مگر وہ بھی سیاسی جماعت کے لگتے تھے ۔۔۔ 

مرجان نے حیرانی سے اسے دیکھا اور جلدی سے فون نکال کر شاہ ویر کو کال ملائی تھی وہ تیز قدموں کیساتھ ہوٹل کی طرف چل دیا تھا ۔۔۔

                                     •••________🖤________•••

شاہ ۔۔۔ 

وہ گیلری کے دروازے پر ہی رکا تھا پریشان کھڑے آغا صاحب کو دیکھ کر ۔۔۔

کیا ہوا انکل ؟! 

زنیرا آغا صاحب کے پیچھے سے سامنے آئی تھی شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھا تھا ۔۔۔

جو کچھ قصا نے کیا اسکے لئے میں ہاتھ جوڑ کر ۔۔۔ 

نہیں انکل آپ ایسا کر کے مجھے شرمندہ کر رہے ہیں ۔۔۔ وہ آغا صاحب کے ہاتھ تھامتے ہوئے بولا ۔۔۔

مگر قصا گھر نہیں ہے وہ کہاں ہو سکتی ہے ۔۔۔ آغا صاحب نے زنیرا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو انگلیاں چٹخاتے ہوئے نظریں پھیر گئی تھی 

ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ ہم نے سب کو بتا دیا ہے وہ شاید گھر سے کہیں چلی گئی ہوں ۔۔۔ زنیرا نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے کہا آغا صاحب نے سرد نظروں سے مطمئن کھڑے شاہ ویر کو دیکھا ۔۔۔

ڈونٹ وری انکل میں انکل یوسف سے کہتا ہوں وہ ڈھونڈ ۔۔۔

نہیں بیٹا وہ اب جہاں ہے بہتر ہے وہیں رہے میں اسے اپنے گھر میں نہیں دیکھ سکتا  اور ناں ہی وہ قابل ہے وہ میری بچی کی گنہگار ہے میں اسے اپنی بیوی کا درجہ نہیں ہوں گا اب ۔۔۔ آغا صاحب اتنا ہی کہہ کر وہاں سے نکل گئے تھے زنیرا نے اسے دیکھا وہ بےتاثر چہرے کیساتھ وہاں کھڑا ہوا تھا ۔۔۔

بھائی جو کچھ حرب نے کہا ہم انکی طرف سے آپ سے معافی مانگتے ہیں یہ سب غلط فہمی تھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں ۔۔۔ وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے بول رہی تھی وہ سنجیدگی سے وہاں سے گزر گیا تھا  یقیناً وہ اسکے لئے اور مسائل نہیں بڑھانا چاہتا تھا وہاں رک کر زنیرا نے لب بھینچے تھے ۔۔۔

وہ گلاس ونڈو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا جو گہری نیند میں تھی اس لئے جا کر اسکی نیند میں خلل ڈالنے کی غلطی اسنے نہیں کی تھی۔۔۔

سر آپ کے سگنیچر چاہیے تھے میم کو آج ڈسچارج کیا جا رہا ہے ۔۔ وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا نرس ہاتھ میں فائل اور پیپرز لئے کھڑی تھی اسنے پین لیکر پیپرز کو پڑھ کر مطمئن ہو کر سائن کر دیا تھا ۔۔۔

بیٹا میں گاڑی منگواتا ہوں ۔۔۔ 

اسکی ضرورت نہیں انکل میں عشیق کو گھر نہیں لیکر جا رہا ہم کینیڈا کے لئے نکل رہے ہیں ۔۔۔

آغا صاحب چونکے تھے اسکے ارادے سن کر۔۔۔

پر بیٹا وہ بیمار ہے اور اسے ریسٹ کرنا چاہیے آپ اسے سفر پر لیجانا چاہتے ہیں ؟!

انکل وہ میری بیوی ہے اور میں اسے کہیں بھی لیکر جا سکتا ہوں اور فلحال مجھے یہی بہتر لگتا ہے اگر ہم کچھ وقت کے لئے پاکستان سے چلے جائیں ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں آغا صاحب کو دیکھتے بولا 

کب تک واپس آؤ گے ۔۔۔

کچھ نہیں کہہ سکتا فلحال ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اسکے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا آغا صاحب نے اسے سرد نظروں سے دیکھا جو اسے اٹھائے انکے قریب سے گزر گیا تھا ۔۔۔

آغا صاحب نے سرد آہ بھری تھی ۔۔۔ اسے کار میں آرام دہ طور پر لٹاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے اپنا فون اٹھایا جس پر مرجان کی بارہ مس کالز تھی ۔۔۔

سوری بڈی ناٹ ناؤ ۔۔۔

 وہ فون سوئچ آف کرتے ہوئے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گیا تھا 

                                     •••________🖤________•••

مرجان نے ہیڈ کوارٹر میں بھی اطلاع دی تھی اس لئے منور صاحب اور رچرڈ سے تفتیش میں تیزی آ گئی تھی مگر وہ ایک لفظ بتانے کو تیار نہیں تھے ناں ہی وہ ایک لفظ منہ سے بول رہے تھے 

مرجان فون ہاتھ میں تھامے بار بار اسکا نمبر ملا رہا تھا مگر نمبر سوئچ آف تھا اسنے سپاٹ نظروں سے دائم کے میسیجز چیک کئے جس میں اسنے عشیق سے متعلق بتایا تھا وہ پہلے تو پریشان ہوا مگر اسکے بعد کے میسیج جن میں اسنے بتایا تھا وہ ٹھیک ہے پڑھ کر پرسکون ہوا تھا 

زارا اسے دیکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھی تھی وہ آج بےحد سنجیدہ لگ رہا تھا ایک تو شاہ ویر کی فکر تھی وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا دوسری طرف سے اسے کوارٹر سے اطلاع ملی تھی کہ شاہ ویر کو اسکی پوسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے اور مرجان کو بھی ہٹایا جانے کا سوچا جا رہا تھا مگر جنزل کی ضد کی وجہ سے ابھی تک لیٹر ایپروول نہیں ہوا تھا ۔۔۔

اسکا مطلب ہمارے ہی پالیٹیشنز باہری ایجنسیوں کیساتھ مل کر نظام میں ردوبدل کر رہے ہیں ڈیم اٹ یار خود ہی اپنے ملک کیساتھ اقتدار کی خاطر اتنی بڑی غداری کیسے کر سکتے ہیں  ۔۔۔  مرجان نے تاسف سے سر جھٹکتے سوچا تھا 

                                    •••________🖤________•••

ہیملٹن / کینیڈا :- 

سورج کی کرنیں کھڑکی سے اسکے چہرے پر پڑی تھی اسنے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کروٹ بدل کر چہرے پر بلینکٹ دیا تھا اسکے نتھنوں سے پھولوں کی ہلکی مہک ٹکرائی اسنے نیند میں ہوتی بھاری آنکھیں کھولی تھی خود کو ایک انجان کمرے میں دیکھ کر وہ جلدی سے اٹھی تھی یہ ایک کشادہ کمرہ تھا وائٹ فرنیچر تھا فرش پر شہد رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا دیوار پر خوبصورت پھولوں کے والپیپر لگے ہوئے تھے وہ بیڈ سے اترتی ہوئی بغیر پیروں میں کچھ پہنے آگے بڑھی اور گلاس وال کو تھوڑی مشقت کے بعد دھکیلا سامنے کا منظر اسکی روح کو سکون بخش چکا تھا سامنے ہی گارڈن تھا جس میں طرح طرح کے پھول تھے جن کی مہک سے وہ ترو تازہ ہو گئی تھی مسکراتے ہوئے وہ گارڈن میں نکل آئی تھی سبز نرم گھاس پر اوس تھی جسکی وجہ سے اسکے پیروں کو بےحد ٹھنڈک محسوس ہوئی اسے سکون مل گیا تھا وہ چلتے ہوئے ان پھولوں کے پاس آئی تھی جو اسنے آج تک نہیں دیکھے تھے ۔۔

بیوٹیفل ۔۔۔ وہ ایک جامنی پھول کو انگلیوں سے چھوتی ہوئی دھیمے لہجے میں بول کر نیچے بیٹھی تھی ۔۔۔

اسنے دھیرے سے سر کو پھیر کر آس پاس کا جائزہ لیا یہ ایک بہت بڑا سا گھر تھا جس کے سامنے کا گارڈن کافی چوڑا تھا ایک طرف پول تھا جس میں نیلا شفاف پانی سورج کی کرنوں سے جگمگا رہا تھا ۔۔۔

شیری ۔۔

اسکا خیال آتے ہی وہ جلدی سے اٹھی تھی اور گھر کے اندر تیز قدموں کیساتھ داخل ہوئی تھی اسے تلاشتی ہوئی وہ ایک دروازے کے سامنے رکی جس کی دوسری جانب سے آہٹ سنائی دے رہی تھی حلق کو تر کرتی ہوئی وہ بغیر ناک کئے دروازہ کھول چکی تھی 

اس کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو چکی تھی اسکا حلق خشک ہوتا چلا گیا گالوں پر سرخی بکھری 

وہ متانت بھری نظروں سے اسے دیکھ کر رکا تھا عشیق کا چہرہ سرخ پڑا تھا 

وہ ایک ہاتھ میں اپنی وائٹ شرٹ جبکے دوسرے ہاتھ میں سفید ٹاول تھامے کھڑا اسے ہی دیکھتے رکا تھا عشیق نے لب بھینچ کر اسکے چہرے کو دیکھا جو مسلسل جم کرنے کی وجہ سے سرخی مائل ہو چکا تھا یقیناً وہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا ۔۔۔

عشیق کا پورا حلق خشک پڑ چکا تھا اسنے متذبذب نظر سے اسے دیکھا اسکا مظبوط کسرتی جسم اور اسکے خوبصورتی سے تراشے ہوئے ایبس کو دیکھ کر اسنے شرم سے نظریں جھکائی تھی اور پھر فوراً پلٹی تھی سرخ ہوتے چہرے پر  دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے اسے ہی دیکھتا شرٹ کو سیدھا کرتا ہوا شرٹ پہن چکا تھا  اور گلا کھنکار کر اسے متوجہ کیا تھا عشیق خشک لبوں پر گھبراہٹ کیساتھ زبان پھیرتے ہوئے پیچھے مڑی ۔۔۔

سس۔۔سوری وہ ہم آپکو ڈھونڈ ۔۔۔ 

اٹس فائن آپ زیادہ گلے پر زور ناں دیں وہ ٹاول رکھتا ہوا اسکی جانب بڑھا عشیق کے گال ابھی تک سرخ تھے ۔۔۔

اب کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ۔؟! نرمی سے اسکا ہاتھ تھماتے ہوئے وہ محبت بھرے لہجے میں گویا ہوا عشیق نے پلکوں کی جھالر اٹھا کر اسکے حسیں چہرے کو دیکھا جو مشقت کی وجہ سے ہلکا سرخ پڑا ہوا تھا ۔۔۔

ہم ٹھیک ہیں ۔۔ وہ مختصر بولی اسکی طلسماتی شخصیت اسے اپنے سحر میں جو جکڑ چکی تھی وہ اتنا کہہ کر دوبارہ نظریں جھکا چکی تھی ۔۔۔

ہممم ۔۔۔ آپ فریش ہو جائیں میں بھی فریش ہو کر ملتا ہوں اپنی اینجل کو پھر ۔۔۔ اسکے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا عشیق نے اسکے ہاتھ کو دیکھا جو اسکی طرح بہت خوبصورت تھا ۔۔۔ پھر سر کو ہاں میں ہلاتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی ۔۔۔

                                   •••________🖤________•••

کیا کہا تم نے کہاں گئے وہ پیسے اسکے اکاؤنٹ سے اور تم نے ابھی تک اسے اریسٹ تک نہیں کروایا ۔۔۔ انیس ملک نے ریاض بیگ کو گھورتے ہوئے پھنکار کر کہا 

مجھے کیسے پتا ہو گا یہ تو آج ایجنسی سے پتا چلا کہ اسکے اکاؤنٹ میں ایسی کوئی کرنسی ہے ہی نہیں میں نے خود ڈلوائی تھی کہاں گئے وہ پیسے ۔۔۔ ریاض بیگ نے غراتے ہوئے کہا ابرار بگٹی نے اسے گھورا تھا

تم نے کہا تھا وہ صرف دو کوڑی کا ملیٹری آفیسر ہے پھر اسنے یہ کیسے کر لیا اور تمھارے آدمیوں نے کونسے چاند چڑھائے ہیں پٹ کر آ گئے اس ایک ایجینٹ سے  ۔۔۔  اب کی بار ابرار بگٹی نے انیس ملک کو دیکھ کر طنز کیا تھا 

مجھے تو یہ فکر کھائے جا رہی تھی الیکشن سے پہلے ہمارے مال میں فائرنگ کروانے والے منصوبے پر یہ دونوں پانی ناں پھیر دیں ۔۔۔ ریاض بیگ نے دانت پیس کر کہا 

کسی کام کے نہیں ہو تم دونوں اور ناں ہی تمھارے آدمی ایک آدمی نہیں مروا سکتے تم ۔۔۔ ابرار بگٹی نے انیس ملک کو گھورتے ہوئے کہا 

تم نے کیا کر دیا خود کروڑوں کا نقصان کروا کے بیٹھے ہو وہ دو کوڑی کا ملیٹری آفیسر تمھارے پیسے لے اڑا اور تم نے کیا کیا ؟! انیس ملک نے اٹھتے ہوئے پھنکار کر کہا جس پر ابرار بگٹی تو بھڑک اٹھے جبکہ ریاض بیگ نے ٹھنڈ رکھی تھی

پتا لگاؤ اسنے یہ کیسے کیا آخر کون ہے وہ جو یہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔۔۔ ریاض بیگ نے دونوں کو گھورتے ہوئے کہا جس پر دونوں متفق ہوئے تھے

                                •••________🖤________•••

ہم کہاں ہیں شیری ۔۔۔

وہ بریڈ کا بائٹ لیتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی 

ہم کینیڈا میں ہیں میری جان اور اگلے کچھ سال تک ہم یہاں ہی رہنے والے ہیں ۔۔۔ وہ تاسف سے کافی کا سپ لیتے ہوئے بولا عشیق بریڈ کو پلیٹ میں رکھتے ہوئے اسے گھور گئی تھی 

آپ مزاق کر رہے ہیں ؟! وہ بھنویں سکیڑے بولی جس پر شاہ ویر نے مسکراہٹ دبائی

نہیں اینجل آج تک میں نے کونسا مزاق کیا ہے آپ سے جو اب کروں گا ؟! وہ ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے بولا عشیق نے اسکی نیلی آنکھوں کو دیکھ کر فورآ نظروں کا زاویہ بدلا تھا وہ ناجانے کیوں نظریں نہیں ملا سکتی تھی اس سے جب بھی وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتی تھی وہ اسکے سحر میں مبتلا ہو جاتی تھی ۔۔۔

اینجل ؟!

جی ؟! وہ اسکی جانب دیکھتے بولی  شاہ ویر کی استفہامیہ نظروں نے اسکے مرجھائے چہرے کو غور سے دیکھا تھا وہ اپنی چیئر کو پیچھے کر کے اٹھا اور اسکے پاس چیئر کھینچ کر بیٹھا عشیق نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا جو اسکا ہاتھ تھام کر اسے سنجیدگی  دیکھ رہا تھا اسکے ہاتھ کی پشت پر ہونٹ رکھتے ہوئے اسے اپنے دل کے مقام پر رکھا اور اسے اپنے سینے سے لگایا

بہت ڈر گیا تھا میں اینجل ۔۔۔ اسکی آنکھوں پر لب رکھتے ہوئے اسنے متذبذب لہجے میں کہا عشیق نے آنکھیں میچی تھی ۔۔۔

میں نہیں جانتا اتنا عشق کب ہوا مجھے آپ سے مگر اس عشق میں صرف اضافہ ہو رہا ہے اور مجھے ڈر لگتا ہے آپکو کھونے سے اس لئے آپکو لیکر میں یہاں آ گیا میں کھونا نہیں چاہتا آپکو اینجل آئی جسٹ کانٹ اس لئے میں آپکو لیکر یہاں آ گیا ۔۔۔  اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے وہ گمبھیر لہجے میں بولا

اسنے معصومیت سے اسکی نیلی آنکھوں کو دیکھا جن میں نمی تھی ۔۔۔  وہ پہلی بار کچھ بولنے سے پہلے اتنی کنفیوز ہوئی تھی 

ہم بھی آپ سے دور نہیں جانا چاہتے تھے ہمیں آپکے ساتھ رہنا ہے صرف آپکے ساتھ ۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں بولی یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں نمی آئی تھی 

وعدہ کریں آپ مجھ سے کبھی بھی دور نہیں جائیں گی  ۔۔۔ وہ بچوں کی طرح معصومیت سے اسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا عشیق نے مسکرا کر اسکے ہاتھ کو دیکھ کر اسکے سفید خوبصورت ہاتھ پر اپنا باریک سا مومی ہاتھ رکھا اسکے چہرے پر سمائل دیکھ کر اسکے دل کو ٹھنڈک پڑی تھی جیسے کسی بنجر زمین پر  ٹھنڈی اوس پڑی ہو 

اور آپ پڑھائی بھی کنٹینیو رکھیں گی انکل بتا رہے تھے آپ نے کالج جانے سے منع کر دیا تھا ۔۔۔ وہ اچانک ہی سنجیدہ ہوا تھا عشیق نے منہ پھلا کر اسے دیکھا تھا 

ہمیں نہیں پڑھنا ۔۔۔ وہ منہ پھلائے ہی خفا آواز میں سرعت سے بولی تھی شاہ ویر کی پیشانی پر ایک بل پرا جسے دیکھ کر وہ کھسیانی ہوئی 

آپکی پروفائل ملی تھی مجھے اور اس میں جانتی ہیں آپ مجھے کیا ملا ؟! وہ اٹھتے ہوئے بولا عشیق نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اندر سے کچھ اٹھانے چلا گیا تھا ایک فائل تھامے وہ باہر آیا تھا عشیق نے سر کو موڑتے ہوئے فائل کو دیکھا جس میں اسکی بچپن کی فوٹوز اور ڈرائنگز تھی ۔۔۔

واؤ یہ ہم ہیں ۔۔ وہ خوشی سے اچھلتی ہوئی فائل کو اٹھانے لگی مگر شاہ ویر نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوئے فائل اٹھائی عشیق نے لب بھینچ کر اسے گھورا اور پھر ضبط کر کے بیٹھ گئی 

یہ آپ نے لکھا تھا پڑھیں اسے ۔۔۔ وہ ایک پیپر اٹھا کر اسکی طرف بڑھا گیا جس پر رف رائٹنگ میں کچھ لکا ہوا تھا

"Santa .. Please make me IT expert "

وہ ہلکی سی مسکرائی تھی جب وہ چھوٹی تھی تو ایسی بجکانے کام کرتی تھی ۔۔۔

یہ تو ہم نے بہت پہلے لکھا تھا ہم ایلیمنٹری سکول میں تھے اور ہمیں آئی ٹی ایکسپرٹ بننے کا شوق چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ وہ معصومیت سے سرخ ہوتی بولی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا 

اور ایسی خواہش کی وجہ پوچھ سکتا ہوں آپ سے ؟!

دراصل ہم نے نیوز دیکھی تھی ایک بہت ماہر ہیکر نے بینک ڈیٹا ہیک کر کے سسٹم کریک کر کے بہت سارا اماونٹ نکال لیا تھا اور بعد میں انویسٹیگیشن سے پتا چلا اسنے وہ اماونٹ قہر زدہ علاقوں میں غریبوں میں ڈسٹریبیوٹ کر دیا تھا ہم بھی اچھا کام کرنا چاہتے تھے اس لئے ہم نے ڈیسائڈ کیا ہم بھی آئی ٹی ایکسپرٹ بنیں گے ۔۔۔ وہ سرخ ہوتی نظریں جھکائے بولی ایسے ہی تو خواب تھے اسکے ۔۔۔

وہ مبہم سا مسکرایا تھا وہ تو بچپن سے ہی اس سے انسپائر تھی یعنی انکے دلوں کا تعلق بہت پرانا تھا ۔۔۔

آپ ہم پر ہنس رہے ہیں شیری یا ہمارے خواب پر ؟  وہ منہ پھلائے بولی ۔۔۔

نہیں سوچ رہا ہوں آپکی اس ہیکر سے ملاقات کروا دی جائے ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تھا عشیق خوشی سے کھل اٹھی تھی 

یس پلیز شیری ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑتی جلدی سے بولی تھی عشیق کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی ۔۔۔

آپ کو نام پتا ہے اس ہیکر کا ؟! وہ آئی برو اٹھاتے ہوئے بولا

ہممم۔۔۔۔ نیوز والے بتا رہے تھے اسکا یوزر نیم پر ہمیں یاد نہیں شاید ۔۔۔ ہمممم ۔۔۔ وہ گال پر ہاتھ رکھتے سوچتی ہوئی بولی وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

ہاں اسکا نام لوسیفر تھا ۔۔ وہ جلدی سے بولی تھی

اوکے میں آپ کو اس ہیکر سے ملوا دیتا ہوں لیکن وعدہ کریں آپ پڑھائی نہیں چھوڑیں گی ۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا کیونکہ وہ اسکا یہ خواب پورا کرنا چاہتا تھا وہ اسے اتنی مظبوط بنانا چاہتا تھا جو اسکے سہارے کے بغیر پوری دنیا سے لڑنے کا جذبہ رکھتی ہو ۔۔۔ 

اوکے پرومس اگر وہ ہمیں کہیں گے ہم ضرور پڑھیں گے ہی از مائی انسپائریشن ۔۔۔ عشیق نے مسکرا کر اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تھا جسے وہ مسکراتے ہوئے تھام چکا تھا ۔۔۔

آپ مزاق کر رہے ہیں وہ ہم سے کیوں ملیں گے وہ تو بہت بڑے ہیکر ہیں ۔۔۔ وہ اداسی سے ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھا جو کچھ دیر پہلے چمک رہا تھا ۔۔۔

کم ود می۔۔۔ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا عشیق نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔

نیشال تم رو رہی ہو ؟! 

وہ جلدی سے آنکھیں صاف کر چکی تھی مگر علیزے نے اسے روتے ہوئے دیکھ لیا تھا وہ دروازہ بند کرتے ہوئے اسکے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھی تھی جو جلدی سے سر اٹھا کر اسے مسکراتے ہوئے دیکھنی لگ گئی تھی

تم رو رہی تھی نجم نے کچھ کہا تم سے تمھاری لڑائی ہوئی کیا ہوا بتاؤ ؟! 

اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے علیزے نے  پریشانی سے استفسار کیا  

آپی مماں کی بہت یاد آ رہی ہے ۔۔۔ اسے گلے لگاتے ہوئے نیشال نے سسک کر کہا علیزے نے لب بھینچ کر اسکے بال سہلائے جو رونے کا شغل فرما رہی تھی 

لیکن نیشو یہ بھی تو دیکھو ناں امی نے اس گھر والوں کیساتھ بابا کیساتھ کیا کچھ کیا انکی وجہ سے آنی اور چھوٹی مماں کی ڈیتھ ہوئی ۔۔۔ نیشال کے آنسوں صاف کرتے ہوئے علیزے نے کہا 

آپی مجھے مماں کی بہت یاد آ رہی ہے وہ کیسے مجھے ڈانٹتی تھی جب میں زیادہ کھانا کھاتی تھی مجھے مماں سے ملنا ہے آپی ۔۔۔ نیشال نے آنسوں پوچھتے ہوئے سسک کر کہا علیزے دروازے کو دیکھتے ہوئے برف بنی تھی سہیل صاحب سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔

بابا ۔۔۔ نیشال اٹھتے ہوئے انکے پاس آئی اور انہیں گلے لگا کر رونے لگی ۔۔۔

بابا آپ مماں کو ایک چانس دے دیں ہمارے لئے پلیز ہم مماں سے بات کریں گے وہ سب سے معافی مانگیں گی آپ ہماری خاطر مماں کو معاف کر دیں پلیز بابا ۔۔۔ نیشال نے سہیل صاحب کے ہاتھ تھامتے ہوئے التجائی لہجے میں کہا سہیل صاحب اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بغیر ایک لفظ کہے وہاں سے چلے گئے تھے نیشال نے نم آنکھوں سے علیزے کو دیکھا جو سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھی یقیناً وہ اپنی ماں کو معاف نہیں کرنا چاہتی تھی مگر نیشال نازک مزاج تھی اس لئے وہ انہیں یاد کر کر کے اندر ہی اندر پگھل رہی تھی 

                                        ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

آپ ہمیں کہاں لیکر جا رہے ہیں ہماری آنکھوں سے ہاتھ تو ہٹا لیں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا شیرری ہمیں ڈر لگ رہا ہے ،، وہ گھبراتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی بولی جو اسنے اسکی آنکھوں پر رکھے تھے ۔۔

ویٹ اینجل ۔۔ 

وہ دھیمے لہجے میں بولا تھا اور ایک دروازہ کھولا تھا اور اسکی آنکھوں کے سامنے سے ہاتھ ہٹایا تھا عشیق نے حیرانی سے اس کمرے کا جائزہ لیا تھا جو اسکا پرائیویٹ کمپیوٹر سسٹم روم تھا جہاں سے وہ آپریٹ کرتا تھا عشیق دھیمے قدموں کیساتھ آگے بڑھی تھی وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتا اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا جو اسکے کمپیوٹر کے سامنے رکی تھی جس پر اسکے نام (لوسیفر) کا لاگو لگا ہوا تھا اسکے بلیک نی اون کیبورڈ پر عشیق نے انگلیاں پھیری تھی جس کے بٹنز اسکی انگلیوں کے ٹچ کو محسوس کر ہلکی نیلی روشنی کیساتھ چمکے تھے عشیق ٹیبل پر اور بہت سے کمپیوٹر تھے جو ایک ساتھ کنیکٹ تھے جن پر سبز رنگ کے کوڈز چل رہے تھے وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا ایک کمپیوٹر کے پاس آیا جو مین آپریٹر تھا کمپیوٹر کے کیبورڈ پر اسکی لمبی خوبصورت انگلیوں نے مہارت سے حرکت کی تھی سامنے پڑے کمپیوٹرز کی اسکرینز کا رنگ بدلا تھا 

Lucifer loves his Angel very much  ۔۔۔

عشیق نے لب وا کرتے ہوئے کمپیوٹر کی اسکرینز پر بلنک کرتے ہوئے میسج کو دیکھا جو اب رنگ بدل چکا تھا ۔۔۔

بیوٹیفل ۔۔۔ بےاختیار اسکے لبوں نے حرکت کی تھی  اچانک ہی اسکے ذہن میں جھماکا ہوا اسنے دوبارہ سے وہ میسج دیکھا تھا 

لوسیفر ؟! 

وہ اپنی جگہ شل ہوئی تھی وہ میسج دیکھ کر ۔۔۔

یس مائی اینجل لوسیفر بالکل ٹھیک پڑھا آپ نے ۔۔۔ وہ اسکے کان پر جھکتا دھیمے لہجے میں بولا عشیق کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی وہ اپنی جگہ جم سی گئی تھی دھڑکن نے شدت پکڑی تھی پوری ذندگی جس شخص سے وہ انسپائر تھی جس کے جیسا بننا اسکا خواب تھا جس سے ملنے کا وہ تصور کرتی تھی جو اسکے لئے ایک مثال تھا وہ اسکے سامنے تھاوہ صرف اسکے سامنے نہیں تھا بلکہ وہ اسکا ہم سفر تھا  پوری دنیا جس کے بارے میں جاننا چاہتی تھی وہ وہی تھا عشیق کا ہاتھ ٹیبل پر جم گیا تھا شاہ ویر نے ہاتھ بڑھا کر اسکے چھوٹے سے نرم ہاتھ پر اپنا مظبوط ہاتھ رکھا تھا عشیق نے نظریں جھکاتے ہوئے اسکی کلائی پر بنا ہوا لوسیفر نام کا ٹیٹو دیکھا اسکے لبوں پر مسکان بکھرتی چلی گئی ۔۔۔

اب تو  پڑھائی سے انکار نہیں کر سکتی آپ مس عشیق کاظمی  ۔۔۔ وہ اسے ٹیبل پر بٹھاتے ہوئے شریر لہجے میں کہتا اسکے چہرے کے قریب چہرہ کرتے دھیمے لہجے میں بولا عشیق نے ستائشی نظروں سے اس حسیں مغرور انسان کو دیکھا جو ہر بار ایک ہی سیکنڈ میں اسکا دل جیت لیتا تھا اور وہ دیکھتی رہ جاتی تھی ۔۔۔

ہم کیسے مان لیں آپ لوسیفر ہیں ۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بھنویں اٹھتی بولی 

اوہ تو کیسے یقین آئے گا آپکو میری جان ؟!  وہ بھی ایک آئی برو اٹھاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکتا بولا عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا جب اسکی نیلی آنکھوں سے نظریں ٹکرائی ۔۔۔

آپ ۔۔۔ پانچ منٹ کے لئے پوری دنیا کا سرور گلچ کر دیں ۔۔ وہ شرارت سے آنکھیں گھماتے ہوئے بےفکری سے بولی تھی 

وہ سپاٹ نظروں سے کمپیوٹر کی طرف جھکا تھا عشیق تھوڑی پیچھے ہوئی تھی اسے لگا وہ اس پر جھکا تھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسے گھبراتے ہوئے دیکھ کر وہ کچھ ذیادہ ہی کھسیانی ہو جاتی تھی کیونکہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتی تھی اسکی قربت میں لہٰذا وہ اجتناب کرتی تھی اسکے سحر میں پڑنے سے ۔۔۔

عشیق نے چوری چوری اسے دیکھا تھا جو سنجیدگی سے اپنی چیئر پر بیٹھا کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیاں چلا رہا تھا اور ساتھ ہی مانٹیر پر کچھ کوڈز کو چلتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

ہم نے تو ویسے ہی کہا تھا اگر نہیں ہو رہا تو رہنے دیں ۔۔۔ عشیق نے اسکے کندھے کر قریب سر کرتے ہوئے کمپیوٹر کو دیکھا جس پر کوڈز سپیڈ سے دوڑ رہے تھے وہ سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھتے رکا تھا جسکا چہرہ اسکے بہت قریب تھا عشیق بھی تھم گئی تھی اسکے چہرے کے خوبصورت نقوش پڑھنے میں اس قدر ڈوب گئی تھی کہ اسے دنیا کا ہوش ہی ناں رہا ۔۔۔

اہممم ۔۔۔ وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے گلہ صاف کرتے کھنکار گیا تھا عشیق نے پلکیں جھپکی تھی اور کمپیوٹر کو دیکھا اسنے فون پر نیوز چینل لگا کر اسکی طرف بڑھایا تھا 

"بریکنگ نیوز پاکستان سمیت پوری دنیا کا سرور گلچ ہو چکا ہے خبر ایجنسی کا کہنا ہے کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے انٹرنیٹ سسٹم کریک کر گیا ہے آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے سرور ہیک کیا گیا ہے مگر حقیقت کیا ہے اور اس گلچ کی ریسورس کو ابھی تک ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکا "

عشیق نے حیرانی سے اسے دیکھا جو سنجیدگی سے دوبارہ کنیکشن ری سٹور کرنے میں مصروف ہوا تھا ۔۔۔

امیزنگ ۔۔۔جسٹ امیزنگ ۔۔۔  وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کیساتھ بولی تھی سرور ریسٹور کرتے ہوئے اسنے مصروف سی نظر سے اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ہمیں لگا آپ مزاق کر رہے ہیں آپ نے تو انٹرنیٹ کی ایسی تیسی کر دی شیری ۔۔ وہ لبوں پر ہاتھ رکھتی مسکرا کر بولی

آپکے لئے تو جان بھی حاضر ہے اینجل یہ تو کچھ بھی نہیں ۔۔ اسکے ہاتھ کو اپنے مظبوط ہاتھ سے سہلاتے ہوئے اسنے سنجیدگی سے کہا 

عشیق نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ رکھا تھا 

 شاہ ویر مبہم سا مسکراتے ہوئے دوبارہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوا تھا 

                                        ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

اب یہ نیٹورک کو کیا ہو گیا ہے یار ریاض ۔۔ 

ابرار بگٹی نے سگریٹ کا کش بھرتے ہوئے کہا جس پر ریاض بیگ نے کندھے اچکائے تھے ناسمجھی سے ۔۔۔

ہو گا کوئی مسئلہ مجھے کیا پتا لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی اتفاق نہیں ہو رہے پہلے کرنسی غائب ہو گئی اسکے بعد نیٹورک کا ستیا ناس ہو گیا کون کر رہا ہے ایسا ۔۔۔

تم خدا کے لئے خاموش ہو جاؤ ایسے انسانوں کے معاملے میں دخل دینے کا انجام بڑا خراب ہو سکتا ہے جو بھی جس لئے بھی کر رہا ہے کرتا رہے ہمارا اس سے کیا واسطہ ایسے شخص کیساتھ پنگے کرو گے تو اپنی کشتی ڈبا بیٹھو گے ۔۔۔ ریاض بیگ نے داڑھی کھجا کر کہا 

اچھا اور اگر یہ ہمارا کوئی دشمن نکلا تو پھر ایک ساتھ ہم قبر میں جا کر لیٹیں گے ۔۔۔ ابرار بگٹی نے منہ بناتے ہوئے کہا ریاض بیگ نے سوچتے ہوئے اپنی جلتی سگریٹ کو دیکھا جس میں سے دھواں نکل رہا تھا ۔۔۔

تم صحیح کہہ رہے ہو یہ کوئی عام انسان نہیں ہے ہمیں احتیاط رکھنی ہو گی تم بھول رہے ہو ایسے ہیکرز ہم جیسوں کے الٹے سیدھے ہتھکنڈوں کی جانکاری رکھتے ہیں اور ایک آڈیو یا ویڈیو لیک کر کے ہمارے اقتدار کا اور ہمارا جنازہ نکال سکتے ہیں ۔۔۔  ابرار بگٹی نے سوچتے ہوئے کہا جس پر ریاض بیگ نے سر کو ہاں میں ہلایا تھا 

وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اس شخص سے ٹکرانے جیسی غلطی پہلے ہی کر بیٹھے ہیں انکا انجام تو اب وہ لکھنے والا تھا اپنے ہاتھوں سے

                                      ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

بالوں میں برش پھیرتے ہوئے وہ رکی تھی وہ دروازے پر ناک کرتے ہوئے اندر داخل ہوا تھا برش کو مرر کے سامنے پھینک کر وہ پیچھے ہٹی تھی 

زنیرا میری بات سنیں ۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑتا اسے اپنے سامنے لاتا سپاٹ انداز میں بولا

اب کیا کہنا چاہتے ہیں آپ کچھ باقی رہ گیا ہے ۔۔۔ وہ پیشانی پر بل ڈالے سرد انداز میں جواب دے گئی حرب نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا 

میں معافی۔۔۔

آپکی معافی سے جو الزام آپ نے میرے کردار پر لگائے وہ ہٹ جائیں گے ؟! 

وہ ہاتھ چھڑاتی اسکی آنکھوں میں دیکھتے سخت لہجے میں بولی حرب نے شرمندگی سے اسے دیکھا تھا 

حرب شاہ معافی ہر زخم کو بھر نہیں سکتی ۔۔۔ وہ کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی وہ اسے بازو سے پکڑتے ہوئے دیوار سے لگاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانک گیا تھا ۔۔۔

میں معافی مانگ رہا ہوں اور جب تک آپ معاف نہیں کر دیتی میں معافی مانگتا رہوں گا ۔۔۔ وہ اسکے قریب ہوتا گمبھیر لہجے میں بولا زنیرا نے اسکی سیاہ آنکھوں کو کچھ پل دیکھا اور پھر اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھی حرب نے سرد آہ بھری تھی 

بہت بڑی غلطی کر دی میں نے آپ کی بات پر بھروسہ کر کے امی ،، آپ نے اپنے ہاتھوں سے ہمارا رشتہ طے کیا تھا اور اسی رشتے کو آپ نے تباہ کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ وہ دیوار پر ہاتھ کی مٹھی بنا کر مارتا ہوا کرخت لہجے میں بولا تھا 

                                   ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

سر شاہ ویر کہاں ہے ناں تو وہ میری کالز اٹھا رہا ہے ناں میرے میسیجز دیکھ رہا ہے ۔۔۔ مرجان نے سنجیدگی سے ٹیبل پر فائل پٹخ کر کہا خاموش بیٹھے جنرل نے اسے سرد نظروں سے دیکھا 

جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں مرجان وہ جہاں بھی ہے مجھے بتا کر گیا ہے میں نے ہی پرمیشن دی ہے اسے وہ آن ڈیوٹی ہے اپنا کام کر رہا ہے وہ ۔۔۔ جنرل نے اسے سنجیدگی سے دیکھ کر بھاری لہجے میں کہا مرجان نے مٹھیاں بھینچی

آپ جانتے نہیں وہ میرا بھائی ہے مجھے جاننے کا حق ہے وہ کہاں ہے کیا کر رہا ہے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اسے پہلے بھی ان لوگوں نے اسے جان سے مارنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ 

وہ تمھارا بڑا بھائی ہے مرجان وہ سب جانتا ہے کب کیا کرنا ہے ۔۔ جنرل مسکرائے تھے اسکے چہرے پر شاہ ویر کے لئے فکر دیکھ کر ۔۔۔

ٹھیک ہے نہیں بتانا آپکو؟! میں خود پتا لگا لوں گاوہ کہاں ہے ۔۔۔ کوٹ کو درست کرتا وہ آفس سے نکل گیا جنرل نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا دونوں بھائی انتہا کے ڈیٹھ اور ضدی تھے لڑتے بھی تھے اور ایک دوسرے کی فکر جی جان سے کرتے تھے ایک دوسرے کی خاطر جینے مرنے کو تیار تھے اور وطن کے لئے بھی ۔۔۔

جنرل نے تاسف سے مسکراتے ہوئے سر جھکایا تھا فائل پر 

                                 ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

مرجان آپکا فون آ رہا ہے افف اللہ کہاں چلے گئے ہیں یہ اس فون نے بج بج کر میرے سر میں درد کر دینا ہے ۔۔ منہ پھلائے اسنے بیڈ پر پڑا اسکا فون اٹھایا اور کال کنیکٹ کرتے ہوئے کان سے لگایا 

ہیلو سر ۔۔۔

نسوانی آواز پر وہ سیدھی ہوئی تھی 

جی کس سے بات کرنی ہے آپکو !؟ وہ آئی برو اچکاتے ہوئے سنجیدگی سے بولی تھی 

میم یہ مرجان سر کا نمبر ہے آپ انکی وائف ہیں ناں آپ پلیز انہیں فون دے دیں گی ؟! وہ لڑکی خوشگوار لہجے میں بولی تھی 

آپکو کیا بات کرنی ہے ان سے اور آپ ہیں کون ؟! 

زارا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ۔۔۔

میم میں انکی ڈاکٹر ہوں وہ پچھلے ایک ہفتے سے یہاں نہیں آئے انکا ویکلی چیک اپ چل رہا تھا ۔۔۔

کیسا چیک اپ ۔۔۔ زار اچونکی ۔۔

میم انکے میگرین ایشو اور پینک اٹیکس کی وجہ سے ۔۔۔

کیا بات کر رہی ہو انہیں پینک اٹیکس آتے ہیں ؟!  زارا کے ہاتھ سے فون چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا تھا مگر پھر وہ رکی تھی کچھ سوچ کر جب وہ فارم ہاؤس پر اکثر آیا کرتا تھا ایک بار زارا نے اسکے پینک اٹیک کا سامنا کیا تھا زارا کے ہاتھ ٹھنڈے پڑے تھے اسکا دل دھڑکنا بھول چکا تھا ۔۔۔

میم آپ سن رہی ہیں ؟!

جج۔۔۔جی آپ انکی ہیلتھ کے بارے میں مجھے ڈیٹیل سے بتا سکتی ہیں ؟! زارا نے آنکھ سے ٹوٹتا آنسوں جلدی سے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا تھا

وائے ناٹ میم وہ بچپن میں بہت بڑے صدمے سے گزرے ہیں میں انکی ڈاکٹر ہوں انکی فیملی ہسٹری کے بارے میں جانتی ہوں انکی فیملی کو کسی نے گھر کیساتھ جلا دیا تھا بعض اوقات انسان رو کر دل و دماغ پر سے بوجھ ختم کر لیتا ہے کچھ انسان رو نہیں پاتے اور وہ صدمہ انکے ذہن میں ایک میموری کی طرح سٹور ہو جاتا ہے جو جذباتی ہونے پر انسان کی میموری سے برسٹ ہونے لگتا ہے انسان کو چاروں طرف سے سپیسیفک آوازیں سنائی دیتی ہیں آنکھوں کیسامنے وہ سب مناظر چلتے ہیں مرجان سر رات کو ٹھیک سے سو نہیں پاتے تھے پچھلے کئی سالوں سے انکا ٹریٹمنٹ چل رہا ہے پچھلے کچھ دنوں سے وہ آئے نہیں اس لئے مجھے کال کرنا پڑا ۔۔۔

زارا کا چہرہ آنسوں سے بھیگ چکا تھا اب تک وہ کتنا کچھ اکیلے سہہ رہا تھا اسے وہ رات یاد آئی جب وہ آدھی رات کو اٹھی تھی اور قہ وہاں نہیں تھا یقیناً وہ اب تک تنہائیوں سے اکیلے لڑ رہا تھا ۔۔۔

میم ؟!

وہ انشاء اللہ کل سے آئیں گے چیک کے لئے ۔۔۔ شکریہ ۔۔۔

وہ کال منقطع کرتے ہوئے فون رکھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی اور سر کو ہاتھوں میں گرا لیا ۔۔۔

مرجان کیوں نہیں بتایا آپ نے ہمیں اکیلے سب سہتے رہے آپ ۔۔۔ وہ آنکھیں بند کرتی دھیمے لہجے میں کہہ کر اندر ہی اندر خود کو کوستی چلی گئی ۔۔

                                    ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

نیند میں کروٹ بھرتے ہوئے اسنے تھوڑی سی آنکھیں وا کر کے کھڑکی کی طرف دیکھا جس کا سفید پردہ ہوا سے ہل رہا تھا بلینکٹ کو مٹھی میں مروڑتے ہوئے اسنے  تھوڑا سا سر اٹھا کر اس پردے کو غور سے دیکھا ۔۔۔

ہائے اللہ بھوت آ رہا ہے ۔۔۔ وہ بیڈ کے کراؤن سے چپکی تیز ہوا نے پردے کو تیزی سے جھٹکا تھا  جس کے نتیجے میں وہ یکدم اسکی جانب  اڑا تھا وہ چیختی ہوئی کمرے سے باہر بھاگ گئی تھی بغیر پیروں میں جوتی ڈالے ۔۔۔

تیزی سے دوڑتی ہوئی وہ اس سے ٹکرائی جو پیپرز کا بنڈل اٹھائے اپنے کمرے میں ری سرچ کی غرض سے جا رہا تھا پیپر نیچے گرے تھے ساتھ ہی وہ دونوں بھی اسنے جلدی سے گرتی عشیق کے سر کے نیچے اپنا ہاتھ دیکر اسکا سر فرش پر لگنے سے بچایا وہ اسکا کندھا پکڑتے اسے بھی گرا چکی تھی ۔۔۔

ہائے بھوت آ رہا ہے وہاں سے میرے پیچھے ۔۔۔ آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ چیخی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جو اسکے کان کے قریب چیخ رہی تھی اور آنکھیں سکیڑی تھی

بھووووت۔۔۔

عشیق میرا کان دکھ رہا ہے بس کریں کچھ نہیں ہے وہاں ۔۔۔  وہ سنجیدگی سے اس پر سے اٹھتا بولا تھا وہ منہ پھلائے اسے گھورتی ہوئی اپنے کپڑے جھاڑ کر اٹھی شاہ ویر نے طائرانہ نظر سے اسکا جائزہ لیا لمبے بال بکھرے ہوئے تھے وہ گلابی کلر کے بھالوں کے پرنٹ والے نائٹ سوٹ میں ملبوس تھی وہ لبوں پر ہاتھ رکھتا دوسری جانب منہ کرتا مسکرایا تھا عشیق نے اسے گھورا تھا 

کیا ہوا آپ ہم پر ہنس رہے ہیں ۔۔۔ وہ اسکا بازو کھینچتی اسے اپنی جانب کرتے تنک کر بولی جس پر اسنے معصومیت سے سر کو ہلایا تھا

وہاں سچ میں بھوت تھا ہم نے اسکی پرچھائی دیکھی تھی بلیک کلر کی وہ دیوار پھلانگ رہا تھا ۔۔۔

اچھا بس مان لیتے ہیں آپ اب آرام سے جا کر ریسٹ کریں ۔۔۔ اسکے چہرے پر بکھرے بال درست کرتا ہوا وہ نرمی سے بولا ۔۔۔

نہیں ہمیں ڈر لگتا ہے ہم آپکے روم میں سوئیں گے ۔۔۔ وہ پیچھے دیکھتی ڈرتے ہوئے بولی پیپر کلیکٹ کرتے شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جو اسکے سمانے بیٹھتی پیپر چننے میں مصروف ہوئی تھی

ہم نے سچ میں کسی کو دیکھا تھا شیری ۔۔ وہ منہ پھلاتے ہوئے نظریں جھکائے بڑبڑائی جسے اسنے سنا نہیں تھا ۔۔۔

آپ چل رہی ہیں ؟! 

وہ پیپر سمیٹ کر اٹھتے ہوئے بولا عشیق جلدی سے اٹھ کر اسکے پیچھے چل دی تھی پیپر ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ بیڈ پر سے اپنا لیپ ٹاپ اور فائلز ہٹانے میں مصروف ہوا تھا عشیق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا وہ وائٹ ہاف سلیوز شرٹ اور بلیک پینٹ میں بہت کیوٹ لگ رہا تھا اسکی نظریں خود پر محسوس کر کے بلینکٹ درست کرتا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا وہ جلدی سے سر کو پھیر کر اسکے کمرے میں نظریں گھمانے لگی تھی وہ سامان اٹھا کر اپنے ڈیسک پر رکھتے ہوئے اپنی چیئر پر براجمان ہوا اور کام میں مصروف ہوا عشیق نے آنکھیں گھمائی تھی اسکے یوں بےفکر بیٹھنے پر ۔۔۔

آپ ہمیں ٹائم نہیں دینا چاہتے شاہ ویر ۔۔۔ 

اسکے سامنے سے فائل اٹھاتے ہوئے اسکے گلاسز اتارتی وہ اسکے سمانے ٹیبل پر بیٹھتی خفا لہجے میں بولی شاہ ویر نے چونکتے ہوئے اسے دیکھا وہ بھلا ایسی کہاں تھی ۔۔۔

کل سے آپ یونی جائیں گے اس لئے بہتر ہو گا آپ سو جائیں ۔۔۔ وہ اسکے پاتھ کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے مسکرایا عشیق نے آنکھیں سکیڑی تھی ۔۔۔

اوکے ہم چلے جائیں گے لیکن آپ ہم سے بات ہی نہیں کر رہے آپ یہاں کام کرنے آئے ہیں تو ہمیں گھر ہی چھوڑ دیتے کم سے کم ہم زارا آپی اور زونی آپی کیساتھ بات کر لیتے ہم تو بور ہو رہے ہیں ۔۔۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھتی ناراضگی سے بولی 

پھر میرا گزارہ کیسے ہوتا آپکے بغیر ؟!  وہ فائل سائڈ پر رکھتا ہوا اسے سنجیدگی سے دیکھتا بولا عشیق نے مسکراہٹ دبائی تھی ۔۔۔

ہمیں بھوک لگی ہے ہمیں پین کیک کھانا ہے ۔۔۔

فائن کل کھاتے ہیں ۔۔۔

ابھی چاہیے ۔۔ اسے مصروف ہوتا دیکھ کر وہ فائل اٹھا کر اپنی پشت سے لگاتی شرارتی لہجے میں بولی شاہ ویر نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا وہ مزید فائل پیچھے کھسکا چکی تھی ۔۔۔

اوکے چلیں ۔۔۔ وہ ہتھیار ڈالتا کرسی سے اٹھتا بولا ۔۔۔

ہم باہر جا رہے ہیں سچی ؟! وہ فائل رکھتے ہوئے جلدی سے اٹھی اسکے چہرے پر خوشی دیکھ کر وہ پرسکون ہوتے ہوئے اسے چینج کرنے کا کہہ کر خود بھی چینج کرنے چلا گیا تھا ۔۔۔

                                    ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

اسے بیڈ سے اٹھتا دیکھ کر زارا نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے روکا تھا ۔۔۔

زارا میں آتا ہوں مجھے فریش ایئر چاہیے ۔۔۔ وہ ہاتھ چھڑا کر اٹھنے لگا جب وہ اسکے سامنے بازو پھیلاتی اسے روک چکی تھی زارا نے ہمدردی سے اسے دیکھا جسکی آنکھیں سرخ پڑ رہی تھی اور چہرہ پسینے میں شرابور تھا ۔۔۔

ہم سب جانتے ہیں آپکو باہر جانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی مرجان نے سرد ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا پھر لمبا سانس لیتے ہوئے بیڈ کے ایج پر بیٹھا اور سر کو ہاتھوں میں گرا لیا ۔۔۔

زرا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی تھی وہ آنکھیں بھینچے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں بھینچ چکا تھا ۔۔۔

زارا پلیز ۔۔۔ آپ باہر جائیں۔۔۔ وہ کمپوز لہجے میں بولا مگر وہ اسکے ٹوٹے لہجے پر ٹوٹتی چلی گئی ۔۔۔

نہیں ہم آج آپکو اکیلے نہیں چھوڑیں گے آپ ہمیشہ اکیلے سہتے ہیں ہم نہیں جائیں گے ۔۔۔ وہ سن ہوتے پیروں پر کھڑی ہوتی بولی مرجان نے اٹھتے ہوئے اسکی کلائی پکڑی تھی اور اسے لیکر دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔

مرجان نہیں جائیں گے ہم کب تک آخر آپ اکیلے سہیں گے ۔۔۔ وہ کلائی چھڑاتی بکھرے لہجے میں بولی مرجان نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا اور دروازہ کھول کر اسے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر دیا ۔۔۔

ماضی :- 

وہ گفٹس کلیکٹ کرتا ہوا ونڈو سے باہر اپنے دوست کو گاڑی سے نکلتا دیکھ کر سہیل صاحب کو انکی طرف اشارہ کرتا ہوا باہر نکلا تھا ۔۔۔

تم آ گئے عاطف ۔۔۔ 

ہیپی برتھڈے مرجان ۔۔۔ اسکا دوست اسے گلے لگاتے ہوئے بولا مرجان مسکرایا تھا اچانک ایک زوردار دھماکہ ہو تھا وہ جلدی سے پیچھے مڑا تھا اسکا پورا گھر آگ کی لپیٹ میں تھا ۔۔۔

بابااااااا ۔۔۔ موووووم ۔۔۔ آآآنی ۔۔۔ ژاااالے

وہ چیختے ہوئے اندر کی طرف بھاگا تھا مگر اسکے دوست کے فادر نے اسے روکا تھا کیونکہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں تھا ۔۔۔

بھیااا ۔۔۔

وہ ژالے کی آواز سن کر پیچھے مڑا تھا جو اپنی دوست کا ہاتھ پکڑے اسے معصومیت سے دیکھ رہی تھی اسے سینے سے لگاتے ہوئے وہ روتا چلا گیا فائر بریگیڈ کے وہاں پہنچنے تک پورا گھر جل چکا تھا جو کچھ دیر پہلے اسکے سالگرہ کی تقریب میں سجا ہوا تھا وہ سرخ آنکھوں کیساتھ بس اپنے گھر کو جلتا دیکھتا رہ گیا اسکی آنکھوں میں آنسوں جم گئے تھے ۔۔۔

حال:-

موووم ۔۔۔ 

زارا نے ٹوٹ کر اسکی کمرے سے آتی درد بھری دھاڑ سنی تھی اور ساتھ ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی وہ روتے ہوئے ہاتھ منہ پر دے گئی تھی ۔۔۔ 

مرجان پلیز دروازہ کھولیں پلیز مرجان آپکو ہماری قسم دروازہ کھولیں پلیز کچھ غلط مت کرنا اپنے ساتھ ۔۔۔ وہ دروازے پر ہاتھ مارتی روتے ہوئے بولی اسکی آواز سن کر وہ جو نیچے بیڈ کے سہارے بیٹھا اپنی بربادی کا ماتم منا رہا تھا جلدی سے اٹھا اور دروازہ کھولا زار انے اسکا بکھرا حلیہ دیکھا وہ دروازہ کھول کر واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھا تھا وہ اپنے آپ میں ہی نہیں تھا ۔۔۔ زارا نے دروازہ بند کیا تھا اور بےجان قدموں کیساتھ اسکی طرف بڑھی تھی

مرجان ۔۔۔ وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی ۔۔۔ اسنے لاپرواہی سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا جیسے وہ اسے جانتا تک نہیں تھا 

جان۔۔۔ وہ گھٹنوں سے سر اٹھاتا اسے خمار آنکھوں سے دیکھ گیا زارا کے دل کے کئی ٹکڑے ہوئے تھے اسے ایسی حالت میں دیکھ کر ۔۔۔

زارا ؟! 

وہ اسے حیرت سے دیکھتا ہوا بولا زارا نے روتے ہوئے اسکے ہاتھ کو دیکھا جو بےیقینی سے اسکے چہرے کو چھو چکا تھا۔۔۔

میں زارا ہوں مرجان میں آپکی زارا ہوں آپکی زارا ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑتی اسکے قریب بیٹھتی بولی ۔۔

زارا ۔۔ زارا ہو ؟! 

وہ کسی بچے کی طرح اسے خواہش بھری نظروں سے دیکھتے بولا زارا نے ہچکی لیتے ہوئے سر کو ہلایا تھا ۔۔۔

میری زارا ہو ۔۔۔ وہ اسکا چہرہ تھامتے روتے ہوئے بولا زارا ٹوٹ کر روئی تھی وہ اسے سینے میں بھینچتے رونے لگا ۔۔۔ 

زارا ہمارا گھر جلا دیا انہوں نے زارا موم اور آنی کو بھی ۔۔۔ وہ روتے ہوئے کسی بچے کی طرح اسے بتا رہا تھا اور وہ روتے ہوئے سن رہی تھی ۔۔۔

لیکن۔۔۔ لیکن تم ٹھیک ہو ۔۔ میری زارا میرے پاس ہے ۔۔۔ وہ نم آنکھوں کیساتھ مسکراتے ہوئے اسکا چہرہ تھامتے بولا زارا نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے سر کو ہلایا تھا اور اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی کو ٹکایا تھا دونوں نے آنکھیں میچی تھے ۔۔۔ 

میری زارا ۔۔۔ وہ آنکھیں میچتا ہوا دھیمے لہجے میں بولا زارا نے بھیگی آنکھوں سے اسے مسکراتا دیکھا تھا ۔۔۔ اسے چہرے کو ہاتھوں میں تھام کر اسنے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا مرجان نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ شاید ہوش میں آ رہا تھا ۔۔۔

آپکی زارا آپکے پاس ہے اور ہمیشہ آپکے پاس ہی رہے گی جان ۔۔۔ وہ اسکے لبوں پر لب رکھتی ہوئی روتے ہوئے بولی اسنے سکون سے آنکھیں میچی تھی

 وہ جو اسکے چنری والے سرخ دوپٹے کی ہلکی مہک سے خود کو کمپوز کرتا تھا آج اسکے پاس اسکی زارا تھی اور وہ صحیح سلامت تھی ۔۔۔

اسکی آنکھوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے رکا تھا زارا نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا جو اسکے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

.....رابطے بھلے نہ ہوں چاہتیں تو رہتی ہیں

درد کے توسط سے نسبتیں تو رہتی ہیں

چھوڑ جانے والے کو روک تو نہیں سکتے

مدتوں مگر انکی عادتیں تو رہتی ہیں... 

زارا نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔

وہ دروازے پر ہی رک گئی تھی وہ پرفیوم کا خود پر بےدریغ استعمال کرتے ہوئے اسے دیکھتے رکا تھا

مہندی کلر کے شیفون کے کرتہ ڈریس میں جس پر بلیک باریک کڑھائی کا کام کیا گیا تھا سر پر مہندی رنگ کا کڑھائی والا دوپٹہ لئے وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ بلیک شرٹ اور بلیک پینٹ میں ہمیشہ کی طرح پرکشش لگ رہا تھ اسے خود پر نظریں جمائے دیکھ کر وہ مبہم سا مسکرایا  پرفیوم کو مرر کے سامنے رکھا اور صوفے سے اپنا بلیک اوور کوٹ اٹھایا ۔۔۔

اینجل باہر ٹھنڈ ہے آپ کو گرم کپڑے پہننے چاہیے تھے ۔۔ وہ ورسٹ پر بلیک سمارٹ واچ باندھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا عشیق نے اپنے کپڑوں کو دیکھ کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔

پیاری لگ رہی ہیں آپ ۔۔۔ اسکی جانب بڑھتا ہوا وہ گمبھیر لہجے میں بولا جوں جوں وہ قریب آ رہا تھا اسکے پرفیوم کی مہک بھی بڑھ رہی تھی اسکے کندھے پر اپنا کوٹ رکھ کر درست کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا جو ناجانے کب سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔

اینجل کیا دیکھ رہی ہیں آپ ۔۔۔ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا وہ دھیمے لہجے میں بولا عشیق نے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا اور نظریں پھیری تھی وہ اسکی محبت میں ہر گزرتے دن کیساتھ گرفتار ہو رہی تھی ۔۔۔

چلیں ؟! وہ اسے سوچوں میں گم سم دیکھ کر مبہم سا مسکراتے ہوئے بولا ساتھ ہی اپنا بلیک کوٹ اسکے کندھوں پر درست کر کے ڈالا تھا کیونکہ باہر ٹھنڈ تھی

جی ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکے ساتھ باہر نکلی تھی وہ اپنی بلیک BWM 18 سیری گاڑی کو نکال چکا تھا چوکیدار نے گیٹ کو کھولا تھا عشیق نے فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی 

اسنے روڈ پر سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے گیئر شفٹ سے ہاتھ اٹھا کر اسکا ہاتھ گیئر شفٹ پر رکھ کر اسکے ٹھنڈے مومی ہاتھ پر اپنا خوبصورت گرم ہاتھ رکھا تھا عشیق جو ونڈو سے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی اسکی جانب دیکھتے ہوئے ہلکی سی مسکرائی تھی 

عشیق ۔۔۔

ہاں جی ۔۔۔ وہ اسکی جانب دیکھتے جواب دیتی بولی جو سنجیدگی سے روڈ کو دیکھتے ہوئے ڈرائیونگ کر رہا تھا 

میں بہت خوش قسمت ہوں مجھ جیسے عام سے شخص کی ذندگی میں میرے پروردگار نے اتنی معصوم سی خوبصورت سی نادان سی لڑکی لکھ دی میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں ۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا تھا

آپ عام سے شخص نہیں ہیں شیری میں بہت عام سی لڑکی ہوں ہر لڑکی سوچتی ہے اسکا ہمسفر ایسا ہو گا میں یہ سوچتی ہوں مجھے میرے مالک نے ان تمام خوابوں سے بڑھ کر عطا کیا ہے جو میں نے کبھی دیکھے تھے ۔۔۔ وہ اسکے خوبصورت ہاتھ کو دیکھتی مسکراتے ہوئے بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا کیونکہ عشیق نے اسکے ہاتھ کی خوبصورت انگلیوں میں اپنی باریک انگلیوں کو الجھایا تھا ۔۔۔

کینیڈا کے سب سے بڑے ریسٹورنٹ (فارٹیون بے ) کے سامنے گاڑی روکی تھی عشیق نے ریسٹورنٹ کی روشنیوں میں چمکتی بلڈنگ دیکھی وہ اپنی سیٹ سے اتر کر ویٹر کو رکنے کا اشارہ کرتا ہوا خود اسکی سائڈ کا گیٹ کھول چکا تھا آس پاس کے لوگوں نے رک کر انہیں دیکھا وہ بہت سمپل سی بن کر آئی تھی کیونکہ اسے یہاں کی روٹین کا پتا نہیں تھا لوگوں کی نظریں خود پر محسوس کر کے وہ ان کمفرٹ ایبل ہوئی تھی ساتھ ہی لوگوں نے اس ڈیسینٹ سے پرکشش شخصیت کے مالک کو بھی دیکھا جو اتنی سمپل لڑکی کے لئے خود گاڑی کا گیٹ کھول چکا تھا شاہ ویر نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے دیکھا جو اسکے ہاتھ میں ہاتھ ڈالتے ہی مسکرا گئی تھی اسے لیکر وہ مغرور انداز میں لوگوں کی ستائشی نظروں کیساتھ اندر داخل ہوا تھا ۔۔

اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے وی آئی پی ذون کی طرف لایا تھا اور فرنٹ رو کی ٹیبل کی طرف بڑھا اسکے لئے چیئر کو پیچھے کر کے اسے بٹھا کر وہ سنجیدگی سے بیٹھا تھا اور فون پر ہیڈ کوارٹر سے آیا میل چیک کرنے لگا عشیق نے گھبراتے ہوئے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسکی توجہ اپنی جانب کھینچی ۔۔۔

وہ اسے کنفیوز دیکھ کر فون ٹیبل پر رکھتا ہوا چیئر اسکے قریب رکھتے ہوئے بیٹھا تھا 

شیری ہمیں نہیں پتا کیا آرڈر کرنا ہے یہ مینیو تو کسی اور ہی زبان میں لکھا ہے ۔۔۔ اور لگ رہا ہے بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔ وہ انگلیاں چٹخاتے روہانسے لہجے میں بولی

آپ نے ڈنر ٹھیک سے نہیں کیا تھا شاید اس لئے۔۔ وہ اسے سنجیدگی سے دیکھتا بولا

ہمیں بہت بھوک لگی ہے میٹ کو چھوڑ کر کچھ بھی منگوا لیں۔۔ وہ آس پاس دیکھتی منمنائی وہ ویٹر کو اشارہ کرتے ہوئے اسے آرڈر لکھوانے لگا عشیق نے گلاس وال سے نیچے چمکتا ہوا پانی کا پول دیکھا لوگ وہاں کھڑے فوٹوز بنا رہے تھے ۔۔۔

آپ میٹ کیوں نہیں کھاتی اینجل ایک بار ٹرائے کریں آپکو شاید پسند آ جائے ۔۔۔ 

کیوں آپکو کوئی مسائل درپیش ہیں ایک ویجیٹیریئن لڑکی کیساتھ رہنے میں ۔۔ وہ ہاتھ پر ٹھوڑی رکھتے ہوئے اسے دیکھتے مسکرائی اسکی اس ادا پر اسکا دل پگھلا تھا وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

کیا ہوا بڑے خوش لگ رہے ہو ۔۔۔ ابرار بگٹی نے انیس ملک کو مسکراتے دیکھ کر دریافت کیا 

دراصل اس ایجنٹ کا پتا چل گیا اس وقت کینیڈا میں ہے ہمارے جاسوس نے خبر دی ہے وہ کوئی معمولی سا ملیٹری آفیسر نہیں ہے وہ شاہ ویر حیدر کاظمی ہے ۔۔۔ انیس ملک نے ناگواری سے بتایا جبکہ ریاض بیگ کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا 

تمھارا مطلب شاہ ویر حیدر کاظمی وہ بزنس ٹائیکون؟!  وہ حیرانی سے بھنویں اٹھاتا کپ میز پر رکھتا بولا 

ہاں وہی وہی لیکن فکر مت کرو آج ہی انڈین ایجنسی کے کارندے اسے ٹھکانے لگا دیں گے وہ کل سے نظر رکھے ہوئے ہیں اس پر ۔۔۔ 

وہ کینیڈا میں کیا کر رہا ہے ۔۔ ریاض بیگ نے داڑھی کھجا کر پوچھا ۔۔۔

وہ وہاں اکیلا نہیں ہے یارو وہ اپنی بیگم صاحبہ کیساتھ وہاں گیا ہے اور میں اسکی بیگم صاحبہ کو بھی شوٹ کرنے کا آرڈر دیا ہے  ۔۔۔ شراب کا گھونٹ حلق میں انڈیلتا ہوا انیس ملک خباثت سے بولا 

لو جی انہوں نے سب اکیلے کر دیا اور اس دوسرے ایجنٹ کا کیا کرنا ہے ۔۔۔ ابرار بگٹی نے  سوال کیا

اسکا بھی علاج سوچ لیا ہے لیکن فلحال رچرڈ اور منور کو چھڑانے کی طرف دھیان دو کل انہیں دوسری جیل میں منتقل کیا جائے گا ہمارے پاس چانس ہے اپنے آدمیوں کو بھیج کر انہیں وہاں سے نکلوا لو ۔۔۔

پھر وہی خون خرابا ۔۔۔ ریاض بیگ نے سر جھٹکتے لاپرواہی سے شانے اچکائے تھے 

تم کیا سوچتے ہو یہ جو اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں پاور کیساتھ یہ ایمانداری سے وہاں تک پہنچے ہیں تم جانتے نہیں سیاست کتنی گھٹیا چیز ہے  اگر ہم خون میں ہاتھ رنگ رہے ہیں تو کونسی نئی بات ہے پہلے بھی بڑے پیمانے پر سیاست اسی طریقہ کار سے چلتی آئی ہے خون خرابا کونسی بڑی بات ہے ویسے بھی جب ایک حکمران عوام کے خون پسینے کے پیسے کھاتا ہے وہ بھی تو ایک قتل کے برابر ہی ہے روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگ سڑک پر بھوک پیاس سے مر جاتے ہیں اور ہم جیسے سکون سے ایئر کنڈیشنگ کمرے میں ٹھنڈی ہوا لیتے ہیں یہ تو نیچرل سائیکل ہے میرے یار اگر دو چار غریب غرباء ہم مروا دیتے ہیں اقتدار کی خاطر تو کونسی خرابی ہو جائے گی ۔۔۔ انیس ملک نے قہقہ لگایا ریاض بیگ اور ابرار بگٹی نے شراب کے گلاس اٹھائے تھے مسکراتے ہوئے

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

وہ سٹیل روڈ ہاتھوں میں تھامے کھڑی نیچے چمکتے پانی کو دیکھ رہی تھی شاہ ویر امپورٹنٹ کال ریسیو کرنے کے لئے ریسٹورنٹ کے بیک گراؤنڈ میں گیا تھا ۔۔

عشیق نے مسکراتے ہوئے اپنے پاس کھڑے ایک کپل کو دیکھا جو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے فوٹوز بنا رہے تھے ۔۔۔

ہے گرل کین یو ہیلپ اس ۔۔۔ وہ انگلش لڑکی اسے اشارہ کرتے بولی عشیق انکی جانب بڑھ گئی لڑکی نے اسے کیمرا تھمایا اور اپنے ہڈبینڈ کیساتھ مسکراتے ہوئے ٹھہری عشیق نے مسکراتے ہوئے انکے فوٹوز بنائے 

تھینک یو یو آر سو بیوٹیفل ۔۔۔ وہ لڑکی اس سے کیمرا لیتے خوشدلی سے بولی عشیق ہلکی سی مسکرا دی تھی وہ آسمان کو دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں پڑی تھی ناجانے کیوں اسے بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی آسمان پر ستارے جگمگا رہے تھے  اکیلی کھڑی وہ کچھ سوچ رہی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے اکیلے کھڑا دیکھا پھر فون پاکٹ میں ڈالتے ہوئے اسکی جانب بڑھا کسی نے نرمی سے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا وہ چونکی تھی اسے دیکھ کر مگر پھر ہلکی سی مسکرائی اور آسمان کو دیکھنے لگی ۔۔۔

کیا سوچ رہی ہیں آپ اینجل ۔۔ آسمان پر جگمگاتے ستاروں کے جھرمٹ کو دیکھتا وہ سپاٹ لہجے میں بولا

یہی کہ میں ایک اچھی وائف نہیں ہوں ۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں بولی تھی شاہ ویر کے چہرے پر سپاٹ تاثرات چھا گئے تھے ۔۔۔

ایسا کیوں کہا آپ نے ۔۔۔ وہ آسمان کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا 

ویسے ہی شاید جواب آپ جانتے ہیں پہلے آپکو چھوڑ کر چلے گئے بغیر آپکی بات سنے اسکے بعد چھوٹی مماں نے جو کیا اس دوران آپکو ٹائم ہی نہیں دیا ۔۔ وہ نظریں جھکاتے بےجان لہجے میں بولی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا گھنیری پلکوں نے اسکی گرین آنکھوں کو آڑھ میں لیا تھا ایک آنسوں ٹوٹ کر اسکے گال پر گرا تھا اور پھر دوسرا اور پھر تیسرا ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے اسکی کلائی تھامتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا گیا تھا بغیر کسی کی پرواہ کئے اور وہ روتے ہوئے اسکے کندھے پر سر رکھ گئی تھی ۔۔۔

آپ کیسے سوچ لیتی ہیں ایسی باتیں  ہممم ؟؟ آپ میرے ساتھ ہیں دیٹس آل آئی نیڈ رائٹ ناؤ اور جہاں تک آپکے فرائض کی بات ہے فلحال آپ صرف پڑھائی کریں کیونکہ فلحال سب سے ضروری آپکی سٹڈیز ہیں ۔۔۔ وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی کوئی اتنا اچھا کیسے ہو سکتا تھا ۔۔۔

آپ ناراض نہیں ہوں گے ؟! 

وہ سر اٹھاتی دھیمے لہجے میں بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

نہیں جانم بالکل بھی نہیں لیکن اگر آپ پڑھائی پر فوکس نہیں کریں گی پھر لازمی ناراض ہو سکتا ہوں ۔۔۔ وہ آسمان کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تھا وہ مسکرائی تھی 

اور جیسے ہی آپکی پڑھائی اینڈ ہو جائے گی اسکے بعد آپ اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں ۔۔ اسکی پیشانی پر لب رکھتا وہ دھیمے لہجے میں بولا عشیق کے گال سرخ پڑے تھے  ۔۔۔

آپ بہت اچھے ہیں شاہ ویر ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکی شرٹ پکڑتی منمنائی وہ مسکراتا ہوا اسکے بالوں کو سہلانے لگا ۔۔۔

چلیں ؟!  

جی بہت لیٹ ہو گئے ہیں ۔۔۔  اسکے یاد دلانے پر وہ پیچھے ہوتی جلدی سے بولی تھی وہ سنجیدگی سے سر کو تاسف سے ہلاتا ہوا اسے وہاں رکنے کا کہہ کر بل پے کرنے چلا گیا تھا عشیق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا جو مصروف سا آگے بڑھ گیا تھا 

اچانک ہی فائر ہوا ماحول میں خوف کی لہر دوڑ گئی سب یہاں وہاں بھاگے تھے ۔۔۔

No one will budge, we're only here looking for two people, if they surrender themselves to us we'll get out of here unharmed. 

ایک آدمی بلیک ماسک سے چہرہ ڈھانپے ہاتھ میں بیرل گن اٹھائے آس پاس دیکھتا بولا سب لوگ اپنی جگہ پر جم گئے تھے عشیق نے ڈرتے ہوئے شاہ ویر کی جانب دیکھا جو ان لوگوں کو سپاٹ نظروں سے دیکھتا تھوڑا پیچھے  ہوا پاکٹ سے پسٹل نکال کر پشت سے لگاتا لوڈ کر چکا تھا عشیق نے ڈرتے ہوئے اس آدمی کو دیکھا تھا جو اسے بھیڑ میں پہچان کر اسکی طرف ہی بڑھا تھا عشیق کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑے تھے اس سے پہلے وہ آدمی اسے چھوتا ایک فائر ہوا وہ آدمی بےجان سے ہو کر نیچے گرا اسکی پیشانی سے فون کا فوارہ نکلا تھا لوگوں نے خوف و ہراس سے اسکی جانب دیکھا تھا جو بغیر کسی خوف و خطر کے آگے آیا تھا ۔۔۔

I'm Here Don't even be foolish enough to touch my wife or none of you will come back alive ۔

عشیق کا ہاتھ پکڑتا وہ اسے اپنے پیچھے کرتا وہ باقی کھڑے مشکوک آدمیوں کو دیکھتا کرخت لہجے میں بولا تھا عشیق نے سہمی ہوئی نظروں سے ان آدمیوں کو دیکھا تھا جو ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے انکی طرف بڑھے تھے ۔۔۔

Agent, Surrender, your wife can leave here unharmed ۔۔

دوسرا آدمی آگے بڑھتا بندوق کی نال اس کی جانب کرتا کاٹدار لہجے میں بولا شاہ ویر نے سنجیدگی سے پیچھے سہمی عشیق کو دیکھا ۔۔۔

Okay, let her go safely. I'm surrendering ..

وہ پسٹل اس آدمی کی طرف بڑھاتا سپاٹ لہجے میں بولا اس آدمی نے تیسرے آدمی کو اشارہ کیا جو اسکے ہاتھ سے پسٹل کھینچنے کے لئے آگے ہوا 

Let my wife go first۔۔

آئی برو اٹھاتا وہ پسٹل انگلی میں گھماتا اسے تپا گیا آدمی نے اپنے گارڈز کو کچھ اشارہ کیا اور وہ پیچھے ہٹے تھے 

ہم نہیں جائین گے آپکو چھوڑ کر ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتی وہ دھیمے لہجے میں بولی 

فار گاڈ سیک عشیق جائیں یہاں سے فورآ کچھ نہیں ہو گا مجھے ۔۔۔ اسکے چہرے کو ایک ہاتھ سے تھامتا وہ سنجیدگی سے ان گارڈز کو دیکھتا بولا جو تعداد میں تقریباً دس تھے 

شیری۔۔۔

آئی سیڈ گوو۔۔ اسکی کلائی کو سختی سے جھٹکتا وہ غرایا عشیق نے جھرجھری لیکر اسے دیکھا اور پھر سہمی نظروں سے ان آدمیوں کو دیکھتی دھیمے قدموں کیساتھ وہاں سے ایک جانب نکل گئی تھی

وہ ڈرتی ہوئی وہاں سے بھاگی تھی جب اسنے سامنے کھڑے گارڈ کو دیکھا اسکی دھڑکن تیز ہوئی تھی وہ ایک دروازے کو کھولتی وہاں سے دوسری جانب بھاگی تھی وہ گارڈ بھی اسکے پیچھے دوڑا تھا ۔۔۔

Give me the pistol, agent ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے اس جانب دیکھنے لگا جہاں سے وہ باہر گئی تھی اور پھر لوگوں کو دیکھا جو خوف سے اسے دیکھ رہے تھے وہ سنجیدگی سے پسٹل اس آدمی کی طرف بڑھا چکا تھا لوگوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔۔۔

That girl must have been caught too, let's get rid of these Weaklings ..

وہ آدمی قہقہ لگاتا بولا اور اس آدمی نے شاہ ویر کے ہاتھوں کو ایک ہتھ کڑی لگائی تھی وہ سنجیدگی سے ان لوگوں کو دیکھتا مبہم سا مسکراتا وہاں سے نکلا جن میں بچے بھی شامل تھے وہ انکی جان خطرے میں کیسے ڈالتا ۔۔۔

بےوقوف کہاں ہے وہ لڑکی ۔۔۔ باہر کھڑے گارڈ کو دیکھتا وہ آدمی دانت پیستا بولا شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا جسکے ساتھ عشیق تھی ہی نہیں ۔۔۔

سر وہ بھاگ گئی ہر کمرے میں دیکھ لیا کہیں بھی نہیں ہے باہر بھی نہیں ہے ۔۔۔ وہ آدمی پشیماں لہجے میں بولا ۔۔

امیزنگ جاب اینجل میری شیرنی ہیں آپ تو ۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اسے داد دیتا بڑبڑایا

بھاڑ میں جائے چھوڑو اسے جو ہمیں چاہیے تھا وہ تو مل گیا ۔۔ وہ آدمی شاہ ویر کی جانب دیکھتا بولا جو چہرے پر جہاں دنیا کی معصومیت سجا گیا تھا ۔۔۔

وہ سہمی ہوئی ایک ٹیبل کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھی تھر تھر کانپ رہی تھی اور رونے کا شغل فرما رہی تھی ۔۔۔

پلیز اللہ پاک شیری کو کچھ ناں ہو پلیز اللہ پاک ۔۔ وہ ہاتھ جوڑتی گڑگڑاتی ہوئی بولی 

چلو گاڑی میں ۔۔۔ آدمی نے رعب سے اسے آگے کو دھکا دیا تھا اور کہا تھا وہ منہ بناتا آگے چل دیا تھا ۔۔۔

ابھی نہیں ویٹ فار مائی کال میکس ۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بڑبڑایا تھا آدمی نے مڑ کر اسے دیکھا تو معصومیت سے اسے دیکھتے چپ ہوا تھا ۔۔۔

کیا بولا تو ؟! وہ آدمی پھنکارتا بولا۔۔

میں کب کچھ بولا ۔۔۔ وہ تاسف سے سر ہلاتا معصومیت سے بولا سب آدمیوں نے ایک دوسرے کا منہ دیکھا تھا وہ اتنا معصوم تو تھا نہیں جتنا کچھ انہوں نے سنا تھا پھر وہ ایسے کیوں بیہیو کر رہا تھا ۔۔۔

اسے گاڑی میں بٹھا کر وہ ایک انجان جگہ پر آئے تھے جہاں پر انکے گروہ کے اور آدمی بھی موجود تھے ۔۔۔

آج تیرے ٹکڑے کریں گے بڑا شوق ہے ناں تجھے ہمارے سیاسی معملات میں پڑنے کا  ۔۔۔ آدمی نے دانت پیس کر اسے گاڑی سے اتارا تھا

 تم سب بھارتی را ایجنسی کے چوزے ہو ناں ۔۔۔ وہ قہقہ لگاتا سب کو چونکا گیا 

کیا بولا تو ۔۔۔ وہ آدمی اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتا بولا 

اور تم روس سے ہو ۔۔۔ وہ ایک حبشی آدمی کو دیکھتا قہقہ لگا کر بولا سب نے ایک دوسرے کے منہ کو دیکھا تھا ۔۔۔

تجھے کیسے پتا بول ۔۔۔ وہ اسکا گریبان پکڑتا پھنکارا وہ اسے تپاتے ہوئے مسکرا گیا تھا ۔۔۔

سنسان روڈ پر ایک بلیک لینڈ کروزر چررر کی آواز کیساتھ رکی تھی اسکے پیچھے ایک اور اور اسکے پیچھے ایک اور اس طرح چھے گاڑیاں وہاں رکی تھی سبھی نے بلڈنگ کی کھڑکی سے گاڑیوں کو رکتے دیکھا ۔۔۔

کیا ہو رہا ہے بول ورنہ گولی چلا دوں گا بوول ۔۔۔ 

وہ آدمی گھبراتے ہوئے پسٹل اسکے ماتھے پر رکھتا بولا 

وہ مسکراتا ہوا کان سے چھوٹی سی چپ نکال کر اسکے منہ پر مار چکا تھا ۔۔۔

جی پی ایس چپ نام کی چیز کا پتا ہے گوار لوگو ؟!

 وہ سنجیدگی سے انہیں دیکھتا بولا وہ لوگ خوف و ہراس سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔

میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو مار ڈالو اسے ۔۔۔ وہ آدمی چیخا ۔۔۔

وہ چیئر سے اٹھتا اس چیئر کو پیر سے اٹھاتا دوسرے پیر سے اسے کک مار کر اس آدمی کے منہ پر مار چکا تھا فون کا فوارہ اسکے منہ سے نکلا وہ نیچے گرا تھا باقی آدمیوں نے اس پر فائرنگ کی وہ تیزی سے ایک سیمنٹ کے پلر کے پیچھے رکا تھا ۔۔۔

سٹاپ فائرنگ  ۔۔۔ بلیک ہوڈز میں ملبوس کچھ قد آور آدمی وہاں داخل ہوئے تھے وہ سنجیدگی سے نیچے گری چابی کو ہتھ کڑی میں گھماتے ہوئے نیچے سے پسٹل اٹھاتا ہوا آگے بڑھا تھا جب ایک آدمی نے اسکے بازو پر فائر کیا تھا گولی اسکے بازو کو چھو کر گزری تھی وہ اس پر فائر کرتا ہوا دوسرے آدمی کو گردن سے پکڑتا زمین پر پٹخ گیا تھا ۔۔۔

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

کمرے کی لائٹ بند ہوئی تھی وہ ڈرتے ہوئے

خاموشی سے وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور دروازے کو کھولنے کی کوشش کی تھی مگر دروازہ بند ہو چکا تھا شاید ریسٹورنٹ بند ہو چکا تھا ۔۔۔

کوئی ہے پلیز دروازہ کھولیں ۔۔۔ وہ دروازے پر ہاتھ مارتی چلائی مگر وہاں کوئی ہوتا تو دروازہ کھولتا سٹاف اور مینیجر پہلے ہی خوف سے سب کو وہاں سے نکال کر ریسٹورنٹ بند کر کے جا چکے تھے ۔۔۔ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی کیونکہ یہ کولڈ سٹوریج تھی ۔۔۔

پلیز دروازہ کھولیں کووووئی ہے ۔۔۔ 

پلیز دروازہ کھولیں ۔۔۔۔ 

چلا چلا کر اسکی آواز بیٹھ گئی تھی 

اللہ پاک پلیز شیری کو اپنی حفظ و امان میں رکھئے گا۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتی کانپتی ہوئی کونے میں بیٹھتی اسکے کوٹ میں خود کو چھپاتے بولی تھی اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو کر برف بن چکے تھے 

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

یو اوکے لوسیفر یو نیڈ میڈیکل ٹریٹمنٹ لیٹس گو ۔۔۔ میکس جو اسکا کافی اچھا دوست تھا اسکا ہاتھ تھامتا اسکے بازو کو دیکھتا بولا جس سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔

تھینک یو فار سیونگ می میکس ۔۔۔ مینس الوٹ ۔۔۔ یو گائز گو میں مینج کر لوں گا ان لوگوں کو ریڈ رومز ٹرانسفر کرو انکی چمڑی اتارنے میں بہت مزہ آئے گا ۔۔ وہ ان لوگوں کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتا لب بھینچے بولا ۔۔۔

فائن میں سب ہینڈل کر لوں گا لیکن فلحال تم میرے ساتھ ہسپتال چلو ۔۔۔

میں ٹھیک ہوں میکس مجھے اسے ڈھونڈنا ہے ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں کہتا بازو پر ہاتھ رکھتا بولا

فائن لیکن پہلے تم میرے ساتھ ہسپتال چل رہے ہو اور اس زخم پر سٹیچز لگوا لو ان لوگوں سے اپنے طریقے میں ایک ایک آدمی کا نام اگلوا لیں گے ۔۔۔ 

بغیر اسے بولنے کا موقع دیئے میکس اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھاتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی کو ہسپتال کی طرف دوڑا چکا تھا ۔۔۔

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

شش۔۔۔شیری ۔۔۔

وہ تھرتھراتے لبوں کیساتھ مسلسل اسکا نام لے رہی تھی وجود کانپ رہا تھا ہونٹ سفید پڑ چکے تھے ٹھنڈ کی وجہ سے ۔۔۔ 

اسکا کوٹ مٹھی میں بھینچتی وہ روتی چلی گئی ۔۔۔

اللہ پاک ہمارے شیری کو کچھ نہیں ہونا چاہیے انکے حصے کی ساری مشکلیں آپ مجھے دے دیں ہم سہہ لیں گے ہمارے شیری کو کچھ نہ ہو ۔۔۔ وہ کانپتی ہوئی اسکے کوٹ پر لب رکھتی روتے ہوئے بولی گرم آنسوں کے قطرے اسکے گالوں کو بھگو گئے تھے 

                                          ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر زارا نے مسکرا کر اسے دیکھا جو سکون سے سو گیا تھا کچھ دیر پہلے اسکا جسم بخار سے جھلس رہا تھا اور اب وہ بالکل نارمل تھا ۔۔۔

آپکی زارا ہمیشہ آپکے ساتھ ہے اور رہے گی ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتی وہ دھیمے لہجے میں بولی اور اسکی پیشانی پر آئے اسکے سلکی بالوں کو پیچھے کیا وہ گہری نیند میں تھا ہاں اسکا ہاتھ تھام کر ہی سویا تھا وہ ابھی تک چھوڑا نہیں تھا اسکا ہاتھ اس نے ۔۔۔

کتنے معصوم سی ہیں آپ مرجان لیکن کبھی بہت تنگ کیا کرتے تھے آپ ہمیں اور بہت ڈرایا بھی کرتے تھے ۔۔۔ وہ اسے دیکھتی ہلکی سی مسکرائی اور بولی وہ آنکھیں کھولتا مسکرایا تھا زارا نے چونک کر اسے دیکھا جو آنکھیں کھولے اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اور اس دوران سب سے بڑی سزا مجھے ملی میری زارا میرے پاس تھی اور میں اسے دنیا جہان میں دیوانوں کی طرح ڈھونڈتا پھر رہا تھا آپکی جدائی نے میرا حال بگاڑ دیا تھا رہی سہی کسر دشمنوں نے پوری کر دی اور میں نفسیاتی مریض بن گیا ۔۔۔ وہ ہلکا سے مسکراتے ہوئے بولا جبکہ اسکی بات زارا کے دل پر خنجر کیطرح لگی تھی چھوٹی سی عمر میں ہی اسنے بیت کچھ سہہ لیا تھا ۔۔۔

میری کل کائنات آپ ہیں زارا جتنے سال میں نے آپکے بغیر آپکی یادوں میں گزارے ہیں وہ میری ذندگی کا سب سے مشکل وقت تھا ۔۔۔

وہ پرسکون سا ہو کر اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے بولا تھا 

ایسا مت کہیں اب آپ بالکل ٹھیک ہیں اور ہم آپکے پاس ہیں  ۔ وہ اسکے سینے پر سر رکھتی بولی 

لیکن اگر سچ میں میں آپکو کھو دیتا تو آج مرجان کاظمی زندہ ناں ہوتا ایک امید تھی میرے دل میں جو مجھے آپکے ہونے کا احساس دلاتی تھی ۔۔۔ زارا نے دھیرے سے سر کو ہلاتے ہوئے اسکے خوبصورت ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس پر بوسہ دیا تھا ۔۔۔

آپ اکیلے نہیں ہیں یاد رکھئے گا آپکی زارا ہے آپکے پاس آپکی فیملی ہے آپکے ساتھ ۔۔۔ کچھ بھی اکیلے نہیں سہیں گے اب آپ جان ۔۔۔ 

وہ مبہم سا مسکرایا تھا زارا نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرتی ہوئی سو گئی ۔۔۔

اسنے سنجیدگی سے اس پر بھی بلینکٹ ڈالا تھا  

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

گاڑی کو پارک کرتا ہوا وہ سپاٹ نظروں سے آس پاس دیکھ رہا تھا

عشیق کہاں ہیں آپ ۔۔۔ وہ فون نکال کر اس کے نمبر پر کال کرتا بولا مگر وہ کال نہیں اٹھا رہی تھی کیونکہ اسکا فون تو وی آئی پی زون میں ہی رہ گیا تھا ۔۔۔

اسنے سنجیدگی سے ریسٹورنٹ کی بلڈنگ کو دیکھا تھا اور آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔

ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اسے چھو کر گزرا تھا وہ آنکھیں وا کرتے ہوئے گاڑی کو لوک کرتا ہوا گیٹ پر کھڑے چوکیدار کے پاس آیا تھا ۔۔۔

صاحب آپ ۔۔۔ چوکیدار اسے دیکھ کر چونکا تھا ۔۔۔

میری وائف  ۔۔۔ میں اپنی وائف کو ڈھونڈ رہا ہوں ۔۔۔ کیا وہ ہمارے جانے کے بعد یہاں سے باہر گئی تھی یہ انکی فوٹو ہے ۔۔۔ وہ فون پر اسکی فوٹو دیکھاتا بولا ۔۔۔

نہیں صاحب آپکے ساتھ اندر تو جاتے دیکھا تھا لیکن باہر جاتے نہیں دیکھا ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے بلڈنگ کو دیکھنے لگا۔۔۔

آپ گیٹ کھول دیں گے میں ایک بار تسلی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔۔

جی صاحب مگر جلدی سے کرئے گا اگر ریسٹورنٹ کے مینیجر کو پتا چل گیا تو میری نوکری چلی جائے گی ۔۔۔ وہ گیٹ کا لوک کھولتے ہوئے بولا اسنے سپاٹ نظروں سے گیٹ کو دیکھا اور پھر تیز قدموں کیساتھ اہنے فون کی ٹارچ لائٹ آن کرتے ہوئے اندر داخل ہو گیا تھا ۔۔۔

عشیق کہاں ہیں آپ ۔۔۔

اسکی سماعت میں جیسے ہی اسکی آواز پڑی ٹھنڈے فرش پر پڑے اسکے وجود نے حرکت کی تھی وہ کانپتے ہوئے ہاتھ کو دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی مگر اسکے پیر سن ہو چکے تھے ٹھنڈ کی وجہ سے وجود سفید پڑ چکا تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے وہ محروم ہو رہی تھی ٹھنڈ اسکے دماغ کو اسکے جسم کو اپنی پناہ میں لے چکی تھی ۔۔۔

ہاتھ کی مٹھی بنا کر وہ ٹھنڈے فرش پر ٹکاتی اٹھنے کی کوشش کرنے لگی 

ششش۔۔۔شاہ ۔۔۔ ہ۔۔ہم ۔۔

اسکے لب تھراتھرائے تھے مگر آواز نے اسکا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا ۔۔

وہ دیوانہ وار ہر دروازے پر رک کر اسے ڈھونڈھ رہا تھا مگر ہر بار ہی اسے مایوسی ہو رہی تھی چاروں طرف دیکھ کر وہ مایوس ہوا تھا اور واپس جانے کے لئے پلٹا تھا جب اسکے قدم ٹھہرے تھے اس نے سنجیدگی سے اپنا پیر پیچھے لیا تھا اسکا  نیچے گرا پینڈینٹ دیکھ کر وہ رکا تھا جو اسکے پیر کے نیچے آیا تھا اور شاید ٹوٹ بھی گیا تھا اسنے سپاٹ نظروں سے اسے اٹھا کر دیکھا اور آس پاس دیکھا تھا ۔۔۔

وہ کانپتی ہوئی آنکھیں بند کر گئی تھی وہ بالکل سفید پڑ گئی تھی سردی کی وجہ سے ۔۔۔

وہ کولڈ سٹوریج کے دروازے کے سامنے رکا تھا اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا

اینجل۔۔۔۔

 اسنے دروازے پر ہاتھ رکھ سپاٹ نظروں سے اسکے پینڈینٹ کو دیکھا پھر اچانک سختی سے دروازے پر ہاتھ مارتے بولا تھا برف بنی عشیق کے لب تھرتھرائے اسنے اسکی آواز ضرور سنی تھی مگر سردی کی وجہ سے اسکا پورا وجود شل پڑ گیا تھا ۔۔۔

عشیق کیا آپ اندر ہیں ؟!  جواب دیں

وہ دوبارہ دروازے پر ہاتھ رکھتا بولا تھا اسکا دل ناجانے کیوں اتنی شدت سے دھڑک رہا تھا بغیر پرواہ کئے اسنے دروازے کو زوردار دھکا لگا کر کھولا تھا سامنے ہی وہ اسکے کوٹ کو مٹھیوں میں بھینچے فرش پر گری ہوئی نظر آئی تھی وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا تھا اسکے ہاتھ کو چھوتے ہوئے وہ شل ہوا اسکے ہاتھ برف سے بھی زیادہ ٹھنڈے تھے اسے جلدی سے اٹھاتا ہوا وہ باہر نکلا تھا فلیش لائٹ کی روشنی میں اسنے اسکا سفید پڑا چہرا دیکھا اسکا دل تیزی سے دھڑکا وہ اسے اٹھائے جلدی سے باہر کی جانب بڑھا تھا چوکیدار نے پریشانی سے انکو دیکھا تھا وہ دیوانہ وار بار بار ایک ہاتھ سے اسکا چہرہ تھپتھپا کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ آنکھیں نہیں کھول رہی تھی ۔۔۔

وہ چوکیدار کو شکر گزار نظروں سے دیکھتا اپنی گاڑی کی بیک سیٹ کا گیٹ کھولتا اسے بیک سیٹ پر لٹا گیا اسنے سنجیدگی سے اپنے بازو سے بہتا خون دیکھا شاید اسکے بازو کے سٹچز کھل گئے تھے اسے اٹھانے کی وجہ سے ۔۔۔ وہ کرخت نظروں سے اپنے بازو سے بہتا خون دیکھتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی کو تیز اسپیڈ سے اپنے گھر کی جانب دوڑایا ۔۔

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

اسوقت اپنی کوٹھی پر ریاض بیگ سکون سے خواب خرگوش کی نیند سو رہا تھا جب اسکے فون نے بجنا شروع کیا وہ بےمزہ ہو کر فون اٹھا کر کان سے لگا گیا

کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔

دوسری طرف کی بات سن کر وہ تن فن کرتا اٹھ بیٹھا تھا 

لیکن وہ کینیڈا میں تھا بےوقوف وہاں سے ملیٹری انٹیلیجنس کی ٹیم کیسے بچانے آ سکتی ہے ۔۔۔ ریاض بیگ پھنکارا 

""وہ ملیٹری انٹیلیجنس کے آفیسر نہیں تھے ناں ہی انکا یونیفارم ملیٹری آفیسرز والا تھا وہ خود مشکوک لگ رہے تھے میں نے ایسا سیاہ مشکوک ہوڈ والا لباس آج تک نہیں دیکھا ""  فون کی دوسری طرف سے آواز آئی

کیا سیاہ ہوڈ والا لباس ۔۔۔  ریاض بیگ سوچ میں پڑا اب تک ہونے والے تمام واقعات اسکے دماغ میں گھومنے لگے  نیٹورک کا جانا اکاؤنٹ سے پیسے غائب ہونا وغیرہ۔۔

""اور سر وہ ان لوگوں کو ریڈ رومز ٹرانسفر کی بھی بات کر رہا تھا"" 

ریاض بیگ کو پسینے چھوٹے تھے ۔۔۔

ٹھ۔۔ٹھیک۔۔۔ہے۔۔۔تت۔۔۔تم۔۔۔فون۔۔۔رکھو 

وہ ہکلاتے ہوئے کہہ کر کال منقطع کرتا جلدی سے بیڈ سے اترا اور تیزی سے اپنی گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکلا تھا  اسکی نیندیں اڑ گئی تھی اور اب ناجانے آدھی رات کو اسے کونسی دوڑیں لگی تھی 

                                    ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

اسے فائر پلیس کے سامنے صوفے پر لٹاتے ہوئے وہ فائر پلیس میں آگ جلاکر بیڈ سے بلینکٹ لیکر اس پر ڈال گیا وہ بلینکٹ کو مٹھی میں بھینچتی کانپ گئی ۔۔  متذبذب نظر سے اسے دیکھتا ہوا وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکلا اور کچن میں اسکے لئے گرم کافی بنانے میں مصروف ہوا جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجی ۔۔۔

لوسیفر ان لوگوں کو ریڈ رومز ٹرانسفر کر دیا ہے وہ پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں سب کے نام بتا دیں گے کیا کرنا ہے ۔۔۔

انہیں موت کی آخری حد تک ٹارچر کرو انہیں یہ احساس دلاؤ کہ کتنی بڑی غلطی کی ہے آج انہوں نے انگلیاں کاٹ دو بےشک ہاتھ کاٹ دو پیر کاٹ دو مگر انہیں زندہ رکھو کل انکا لائیو ٹیلی کاسٹ انکے مالک دیکھیں گے اور سوچیں گے میرے وطن کی طرف اور میری فیملی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا نتیجہ کس قدر بھیانک نکل سکتا ہے ۔۔۔ وہ فون پر گرفت مظبوط کرتا کرخت لہجے میں بولا 

اوکے ۔۔۔ میکس نے کال منقطع کی تھی وہ لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتا کافی کا کپ اٹھائے تیز قدموں کیساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھا وہ بلینکٹ میں بھی تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔

اینجل اٹھیں یہ پی لیں سردی کم ہو جائے گی ۔۔۔اسے سہارہ دیکر اٹھاتا ہوا وہ سپاٹ لہجے میں بولا وہ تھوڑی سی آنکھیں وا کرتے ہوئے اسکے کندھے پر سر ٹکا گئی تھی اسکے سفید لب تھرتھرا رہے تھے اسنے اسکا ٹھنڈا ہاتھ تھامتے ہوئے کپ اسکے تھرتھراتے ہونٹوں سے لگایا تھا وہ چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتی گرم کافی کو حلق میں انڈیل رہی تھی ۔۔۔  آدھا کپ پی کر اسنے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا تھا وہ کپ سائڈ پر رکھتا اسکے قریب بیٹھتا اسکا سر اپنے کندھے پر ٹکاتا اسکے ہاتھ کی ہتھیلی کو اپنے مظبوط ہاتھ سے رگڑنے لگا ۔۔۔ وہ سر کو ہولے سے گراتی ہوئی آنکھیں بند کرنے لگی ۔۔۔

اینجل ہوش میں رہیں پلیز ۔۔ اسکے چہرے کو ہلکا سا تھپتھپاتا وہ فکرمندی سے بولا عشیق نے آنکھیں وا کی تھی ۔۔۔ 

ہمیں بہت سردی لگ رہی ہے ہم مر جائیں گے ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بڑبڑائی جبکہ اسکے۔یہ الفاظ تو اسکے دل سے دھڑکن اور سانسوں کو کھینچ چکے تھے ۔۔۔

ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں آپ۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا آپکو ۔۔۔ اسکے ہاتھ کو اپنی ہتھیلی سے رگڑتا وہ کرخت لہجے میں بولا وہ دھیمی سی مسکرائی تھی ۔۔۔

اتنا پیار کیوں کرتے ہیں آپ ہم سے شاہ ۔۔۔ 

اسکے دوسرے ہاتھ کو تھماتا وہ ایک پل کو ساکت ہوا  پھر سنجیدگی سے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتا اسکی ہتھیلی کو دھیرے سے اپنے ہاتھ سے رگڑنے لگا ۔۔۔

بولیں ۔۔۔ ورنہ ہم سو جائیں گے ۔۔۔ وہ ضد کرتے ہوئے منمنائی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھ ۔۔۔

یہ کونسا وقت ہے ضد کا ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا وہ پھر سے مسکرائی تھی اسکے چہرے پر اپنے لئے  اس قدر فکر دیکھ کر وہ خود کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی سمجھ رہی تھی کتنا پیار کرتا تھا وہ آخر اس سے ۔۔۔

ہم کل یونی نہیں جا پائیں گے شیری ۔۔ وہ ہلکی سی مسکرائی تھی ۔۔۔

آپ کو اس وقت یونی کی پڑی ہے سیریئسلی ؟! وہ سنجیدگی سے بولا تھا وہ اس بار گہری مسکرائی تھی

ایک بات بولیں ہم شیری ؟!

ہممم ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بس اتنا ہی بولا تھا ۔۔۔

ہم ناں بہت پیار کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ 

وہ ایک پل کو ساکت ہوا اور سپاٹ نظروں سے اسکے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا تھا نیم وا آنکھوں سے وہ اسکے حسین نقوش چہرے کو گہری نظر سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ہمیں نیند آ رہی ہے ۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے اسے صوفے سے اٹھا چکا تھا اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اسنے اس پر بلینکٹ درست کر کے ڈالا۔۔۔۔۔

ہمارے پاس رہیں ۔۔ وہ اسکا ہاتھ پکڑتی ہوئی سرگوشی کرتے بولی ۔۔۔

بس پانچ منٹ ۔۔۔ وہ اسکی پیشانی پر بکھرے بال پیچھے کرتا اور پھر محبت سے اس جگہ لب رکھتا ہوا بولا وہ مسکرائی۔۔۔ 

وہ سنجیدگی سے فرسٹ ایڈ کٹ لیکر وہاں سے باہر نکلا تھا کیونکہ اسوقت اسکی بلیک شرٹ تقریبآ خون سے بھر گئی تھی ۔۔۔ شرٹ اتار کر نیچے ڈالتا ہوا وہ مرر کے سامنے آیا اور بازو کی بینڈیج کرنے میں مصروف ہوا جب اسکے فون کی بیل دوبارہ بجی وہ فون اسپیکر پر کرتا ہوا دوبارہ بینڈیج کرنے میں مصروف ہوا تھا ۔۔۔

شاہ ویر تم ٹھیک ہو ہمیں اطلاع ملی تم پر اٹیک ہوا ہے ۔۔۔ جنرل کی پشیماں آواز سن کر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔۔

آفکورس سر میں بالکل ٹھیک ہوں صحیح سلامت ہوں۔۔۔ وہ تاسف سے جھوٹ بول چکا تھا ۔۔۔

شاہ میں نے تم سے پہلے کہا تھا جس کام میں تم پڑ چکے ہو وہ خطرے سے خالی نہیں ہے وہ لوگ تم پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں تم کیوں نہیں سمجھتے میں جانتا ہوں تمھیں گولی لگی ہے مگر تمھیں تو احساس نہیں ہے خود کا ناں اپنی فیملی کا اپنے ساتھ ساتھ تم اس لڑکی کی جان بھی خطرے میں ڈال رہے ہو ۔۔۔ بینڈیج کرتا اسکا ہاتھ ساکت ہوا تھا ۔۔۔

آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں سر لیکن میں اسکے بغیر نہیں رہ سکتا یہ بھی تلخ حقیقت ہے ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے زخم پر آنٹمنٹ لگاتا بولا 

اسے کچھ وقت کے لئے خود سے دور رکھو ان فیکٹ میں کہوں گا اسے کہیں چھپا دو وہ لوگ اچھے سے جانتے ہیں وہ تمھاری کمزوری ہے وقت پہلے سا نہیں ہے تم اکیلے ہینڈل کر سکتے تھے لیکن اگر اسے کچھ ہو گیا کیا تم برداشت کر پاؤ گے کیا تم اتنا بڑا بوجھ دل پر لیکر جی پاؤ گے ؟! وہ سپاٹ نظروں سے آئینے میں اپنا عکس دیکھتا رکا تھا ۔۔۔

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں کل ہی اسے یونائٹڈ سٹیٹس بھیج رہا ہوں وہاں وہ سیف رہے گی ۔۔۔ وہ کچھ دیر خاموشی کے بعد بولا لہجے میں دنیا جہاں کی سرد مہری تھی 

لیکن وہ اکیلی کیسے رہے گی کیا تم اسے منا لو گے ؟!

وہ مجھ سے وعدہ کر چکی ہے وہ ہر صورت میں اپنی پڑھائی پوری کرے گی اور میں شاید اس وعدے کا فائدہ اٹھانے والا ہوں ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تھا 

جیسا تمھیں بہتر لگے میرے لئے تم میری اولاد جیسے ہو میں ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں خدا تمھیں اپنی امان میں رکھے کیا کرنا چاہتے ہو اب ۔۔۔

 وہ بینڈیج کرنے کے بعد کبرڈ سے گرے کلر کی شرٹ نکالتا اسے سیدھا کرتا اپنے کمرے سے نکل گیا جنرل سے بات کرتے ہوئے ۔۔۔

                                   ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

زنیرا بیٹے اسوقت یہاں کیا کر رہی ہو ؟!  آفرین بیگم جو کچن سے پانی لینے آئی تھی اسے لائونج میں صوفے پر لیٹے دیکھ کر چونکی تھی وہ سٹپٹا کر اٹھی تھی وہ تو حرب سے ناراض ہو کر یہاں آئی تھی اسے کیا پتا تھا آفرین بیگم اسے یہاں دیکھ لیں گی 

وہ نظریں جھکاتی انگلیاں چٹخاتے لگی اسکے پاس جواب جو نہیں تھا

بیٹا کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ ؟! اسکے ہاتھ کو تھامتی آفرین بیگم نے پشیماں لہجے میں پوچھا وہ اپنی ماں کو اضطراری نظروں سے دیکھ کر انہیں گلے لگا گئی

امی حرب نے مجھ پر اور شاہ ویر بھائی پر الزام لگائے مجھے کیریکٹر لیس کہا بھائی شاید اسی وجہ سے گھر چھوڑ گئے ہیں  ۔۔۔ وہ روتی چلی گئی آفرین بیگم نے اسکے بکھرے بال سہلاتے ہوئے اسکی ساری بات سنی

لیکن بعد میں انہیں سمجھ آ گئی وہ غلط ہیں اس لئے وہ ہم سے معافی مانگ رہے ہیں مگر ہم معاف نہیں کر رہے ۔۔ زونی نے گال سے آنسوں صاف کرتے ہوئے ہچکی لی آفرین بیگم نے اسے صوفے پر بٹھایا اور اسکے پاس بیٹھ گئی 

بیٹا ایک بات کہوں جب آپ کا اور حرب کا نکاح ہوا تھا تب آپ نے اسکے ساتھ جو کچھ کیا اسے جو کچھ سنایا کیا اسکی معافی مانگی آپ نے اس سے ؟! 

زنیرا نے چونک کر آفرین بیگم کو دیکھا پھر لب بھینچ کر نظریں جھکا گئی 

غلطی سب سے ہوتی ہے آپ نے اس پر ہاتھ تک اٹھایا اسنے بھی اٹھایا ہو شاید لیکن آپ نے اپنے کئے کی شاید معافی نہیں مانگی مگر وہ مانگ رہا ہے آپکو ذندگی ساتھ گزارنی ہے میرے بچے ایسی باتوں کو جھٹلا نہیں سکتی تو مل بیٹھ کر حل ڈھونڈو وہ وہاں ہے آپ یہاں ہو ایسے تو کسی مسئلے کا حل نہیں نکلے گا ۔۔۔ زنیرا نے سر کو دھیرے سے ہلایا تھا ۔۔

جاؤ میری بچی ۔۔۔ آپ سمجھدار ہو اپنے ذہن سے سوچیں ۔۔

جی امی ۔۔ وہ آفرین بیگم کا ہاتھ تھامتی انہیں دیکھ کر ہلکی سی مسکرائی اور اپنے کمرے میں چلی گئی تھی 

شہنشاہ صاحب سے بات کرنی ہو گی وہ ہی شاہ ویر کو واپس لا سکتے ہیں ۔۔۔ آفرین بیگم سوچتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

گھڑی رات کے ڈھائی بجا رہی تھی وہ سنجیدگی سے صوفے پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا جو نیند میں ابھی تک ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی اسکے دل و دماغ میں اسوقت جنگ چل رہی تھی اور دل ہارنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہ کیسے اسے خود سے دور بھیجتا یہی سوچ سوچ کر وہ پشیماں تھا

کیسے دور کر سکتا ہوں آپکو خود سے اینجل ۔۔ وہ گہری نظر سے اسے دیکھتا خود سے بولا پھر اٹھا اور اسکے پاس آیا اسکے ٹھنڈے چہرے کو اپنے گرم ہاتھ کی پشت سے چھوا وہ گرمائش محسوس کرتی ہوئی اسکا ہاتھ نیند میں اپنے چہرے سے لگا کر اسکے ہاتھ پر ہی سر رکھ گئی تھی وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

میں سب ٹھیک کر دوں گا انشاء اللہ اور پھر آپکو اپنے پاس واپس لے آؤں گا مجھے معاف کر دیں گی ناں آپ میں خود سے دور بھیجنے لگا ہوں آپکو ۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا وہ نیند میں کسمسائی تھی 

اپنے ہاتھ کو آہستگی سے واپس لیتے ہوئے وہ اٹھا تھا مگر وہ اسکا ہاتھ پکڑ گئی تھی ۔۔۔

۔۔۔ وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا جو آنکھیں وا کئے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسکا ہاتھ اب بھی برف جتنا ٹھنڈا تھا ایک جانب وہ پریشان تھا کیا اسنے سب ان لیا تھا جو کچھ اسنے کہا تھا ۔۔۔

آپ سوئی نہیں ۔۔۔ ؟؟ وہ اسکے قریب بیٹھا اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے نرمی سے بولا وہ دھیرے سے سر کو ناں میں ہلاتی ہوئی اسکے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام گئی

ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے ایسے لگ رہ ہے آپ ہمیں خود سے الگ کر دیں گے آپ ایسا کبھی مت کرنا ۔۔۔ اسکے کندھے پر سر رکھتی وہ دھیمی آواز میں بولی اسنے سرد آہ بھرتے ہوئے آنکھوں کو بند کیا تھا ۔۔۔

ایسا کبھی نہیں ہو گا عشیق ۔۔۔ وہ اسکے چہرے کو تھامتا سپاٹ لہجے سے بولا تھا

آپ ہمیں اینجل بلایا کریں جب آپ ہمیں عشیق کہتے ہیں ہمیں لگتا ہے آپ ہمیں پرایا کر رہے ہیں ۔۔۔  وہ اداس لہجے میں بولی تھی شاہ ویر کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی وہ کر بھی تو یہی رہا تھا سپاٹ نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھتا ہوا وہ دل ہی دل میں خود کو کوس رہا تھا 

آپ پریشان ناں ہوا کریں جب آپ پریشان یا غصہ ہوتے ہیں ہمیں بہت ڈر لگتا ہے آپ سے ۔۔ وہ اسکا چہرہ تھامتی معصومیت سے بولی اسکی نیلی آنکھوں نے تاسف سی نظر سے اسکی گرین آنکھوں کو دیکھا تھا وہ دل کے ہاتھوں کتنی بار مجبور ہوا تھا ۔۔۔

میں اپنی اینجل کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا یہاں تک کہ غصے میں بھی نہیں میرا سکون ہیں آپ ۔۔۔ وہ مبہم سا مسکراتا ہوا بولا وہ مسکرائی تھی شاہ ویر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جو گہری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

کیا ہوا ؟! ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا وہ ہلکی سی مسکراتی ہوئی اسکے قریب ہوتی اسکے لبوں پر لب رکھ چکی تھی اب وہ اپنے دل کے ہاتھوں بےحد مجبور ہوا تھا آنکھیں میچتا ہوا وہ اسکے بالوں میں انگلیاں الجھائے وہ اسے بےحد قریب کر چکا تھا ایک آنسوں اسکی نیلی آنکھوں سے ٹوٹے تھا  ۔۔۔

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

میٹنگ روم کا دروازہ دھاڑ سے کھلا تھا ریاض بیگ سٹپٹایا ہوا اندر داخل ہوا انیس ملک اور ابرار بگٹی سمیت انکے باقی ساتھیوں نے اسے گھورا تھا جو منہ اٹھائے ہی وہاں آ پہنچا تھا 

کیا ہوا اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہو ؟!  ابرار بگٹی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا 

تمھارے آدمیوں نے کہا تھا ناں وہ معمولی دو کوڑی کا ملیٹری آفیسر ہےوہ ناصرف بہٹ بڑا بزنس ٹائیکون ہے بلکہ اسکی پہنچ وہاں تک ہے جہاں تک تمھارا اور میرا تصور بھی نہیں جا سکتا تم جانتے ہو کل جن لوگوں نے اسےبچایا وہ کون تھے ؟! کرمنلز تھے وہ ڈارک ویبز کے دنیا کے سب سے خطرناک مجرم جن تک پولیس کے ہاتھ تو دور کی بات ہے جنکے نام تک پوشیدہ ہیں ۔۔۔

کیا دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا ۔۔۔

تم صحیح کہہ رہے ہو مجھے لگتا ہے اسنے کل کچھ زیادہ ہی پی لی ہے اس لئے بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے ۔۔۔ انیس ملک نے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے ابرار بگٹی کو دیکھ کر لاپروائی سے کہا 

وہ بہت بڑا مافیا ڈون ہے ان فیکٹ وہ بہت بڑا کرمنل ہے ۔۔۔ ریاض بیگ نے دانت پیسے

کیا بکواس ہے یار وہ ملیٹری انٹیلیجنس کے لئے کام کرتا ہے ہم سب جانتے ہیں ۔۔۔ ابرار بگٹی نے ناگواری سے بوکھلائے ہوئے ریاض بیگ کو گھورتے ہوئے کہا

میں سچ کہہ رہا ہوں کسی کو نہیں چھوڑے گا وہ سن لو تم سے ۔۔۔ ریاض بیگ بوکھلائے ہوئے انداز میں کہہ کر کرسی پر بیٹھا جب سب کے فونز پر بیک وقت ایک میسج آیا تھا سب نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اپنا فون اٹھایا جس پر ایک ان نان وژول نمبر سے ایک لنک فارورڈ کیا گیا تھا ۔۔۔

اسے مت کھولنا میں کہہ رہا ہوں یہ اس ہیکر کا کام ہے ۔۔۔ ریاض بیگ نے گھبراتے ہوئے فون ٹیبل پر رکھا جبکہ ملک انیس نے منہ بناتے ہوئے لنک پر کلک کیا اسکے فون پر ایک ان نان ویب سائٹ اوپن ہوئی تھی ۔۔۔

آہہہہہہہہہہہ ۔۔۔ ایک دردناک چیخ کی آواز فون سے سنائی دی

سب اپنی جگہ سے اٹھے تھے انیس ملک کا چہرہ زرد پڑا تھا وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں کیساتھ فون کو ٹیبل کے بیچ و بیچ رکھ چکا تھا سب کی نظریں فون پر پڑی تھی جس پر ایک ذہن کو شل کر دینے والی لائیو ویڈیو چل رہی تھی 

سکرین کی سائڈ پر اسپیڈ میں کوڈز دوڑ رہے تھے ۔۔۔

یہ۔۔۔یہ ڈارک ویب سائٹ ہے تم نے اسے اوپن کیوں کیا ہے ؟! ابرار بگٹی نے بوکھلا کر کہا جبکہ انیس ملک تو اپنے آدمی کو پہچان کر ہی مر دینے کے دم پر تھا جو اسوقت کرسی سے زنجیروں سے بندھا ہوا تھا دو کالے ہوڈز میں ملبوس قد آور آدمی اسکے پاس کھڑے تھے ایک کی سکرین کی طرف پشت تھی جبکہ دوسرا پیچھے کھڑا بلیڈز تیز کر رہا تھا اسکی کلائی پر ایک بچھو کا ٹیٹو تھا

وہ شخص اسکے سامنے چھوٹے سے اسٹول پر مختلف اقسام کے اوزار رکھ رہا تھا جبکہ دوسرا شخص ان اوزاروں کو ہاتھ میں لیکر انکا معائنہ کر رہا تھا کرسی پر بندھا آدمی تھر تھر کانپ رہا تھا ۔۔۔

افسوس تم جیسے دو کوڑی کے(گالی) سمجھتے ہو کہ تم جب جو کرنا چاہو کر سکتے ہو تمھیں کوئی نہیں روک سکتا ۔۔۔ پہلا شخص اوزار واپس رکھتا سکرین کی طرف مڑتا کرخت آواز میں بولا تھا سب ہی چونکے تھے اسکی آواز میں ایک رعب تھا 

تم لوگوں کے پاس صرف ایک ہفتہ ہے اس دوران میں میری جو جو مانگیں ہیں پوری کرو ورنہ جو حال اب اس کم ذات کا ہونا ہے وہ تم سب کا ہو گا۔۔۔ وہ کہہ کر بلیڈ اٹھاتا ہوا کرسی پر بندھے آدمی کے ہاتھوں پر اور بازو پر بلیڈ سے کٹ لگانے لگا اسوقت جتنے لوگ بھی میٹنگ روم میں موجود تھے سب نے دہشت سے آنکھیں پھیری تھی اس شخص کی دردناک چیخیں انکے کانوں میں چبھ رہی تھی ایک چاقو اٹھاتا ہوا وہ شخص اسے سکرین کی جانب کر چکا تھا جب نے ڈرتے ہوئے اس چاقو کو دیکھا تھا جو فلٹ نہیں تھا بلکہ آڑھا ترچھا تھا جسکی کئی نوکیں تھی ایک ہی جھٹکے کیساتھ اس شخص نے اس آدمی کی انگلیاں کاٹے تھی جیسے وہ کوئی گوشت کا ٹکڑا ہو ۔۔۔ انیس ملک نے فون کو دور پھینکا تھا جس کی سکرین ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھی میٹنگ روم میں موت سی خاموشی پھیلی تھی کسی میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی ۔۔

                                   ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

ہیلو میکس کیا کام ہو گیا ۔۔۔ وہ پیچھے دیکھتا جہاں وہ سکون سے سوئی ہوئی تھی سنجیدگی سے بولا تھا 

اور فلائٹ کی ٹکٹ بک کر دی تم نے کتنے بجے کی فلائٹ ہے ۔۔ وہ ونڈو کے گلاس پر ہاتھ رکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں استفسار کر رہا تھا جب اسکی آواز سن کر عشیق نے آنکھیں کھولی تھی وہ گلاس ونڈو میں کھڑا سنجیدگی سے کسی سے فون پر بات کر رہا تھا عشیق نے بلینکٹ ہٹایا تو وہ سرخ پڑی وہ اسکی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھی شرم سے سرخ پڑتی وہ بلینکٹ سے نکلنے کا ارادہ ترک کر گئی کل رات کے خیالات آتے ہی اسکے گال سرخ پڑے وہ سنجیدگی سے پیچھے مڑا تھا وہ فورآ نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔

آپ اٹھ گئی تیار ہو جائیں بریک فاسٹ ریڈی ہے ۔۔۔ اسے دور سے ہی دیکھتا وہ سنجیدگی سے کہہ کر کمرے سے نکل گیا عشیق نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا اتنا سرد لہجہ کیوں تھا اسکا ۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھ کر اسکے پیچھے گئی تھی 

کیا ہوا ہے آپکو شیری ۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتی وہ اسے پورچ میں ہی روک چکی تھی اسنے کرخت نظروں سے اسے دیکھا اور اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا عشیق کے لبوں سے مسکان ایک ہی پل میں غائب ہوئی تھی ۔۔۔

میں نے کہا آپ فوراً ریڈی ہو جائیں ہم نکل رہے ہیں یہاں سے ۔۔۔ وہ سرد لہجے میں کہتا ہوا اسے دیکھ گیا جو اسکے اکھڑے لہجے پر ٹوٹ گئی تھی 

لیکن آپ ایسا رویہ کیوں اختیار کر رہے ہیں ہمارے ساتھ کوئی غلطی ہوئی ہے ہم سے ۔۔۔ وہ اسکی طرف محبت سے دیکھتی بولی ۔۔۔

فار گاڈ سیک عشیق میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہے جتنا کہا ہے اتنا کریں اور پیکنگ کریں ایک گھنٹے میں ہم نکل رہے ہیں ۔۔ اسے سختی سے کہتا وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا عشیق نے لب بھینچ کر اسکا تب تک نظروں سے تعاقب کیا جب تک وہ اپنے کمرے تک ناں پہنچا دروازہ اسنے سختی سے بند کیا تھا عشیق اداس چہرے کیساتھ اپنے کمرے میں آئی اور وارڈروب سے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلی گئی 

کمرے میں آ کر اسنے سختی سے دیوار پر ہاتھ کی مٹھی بنا کر پنچ مارا تھا ایک پینٹنگ کرچی کرچی ہو کر نیچے گری ساتھ ہی اسکے ٹکڑے اسکے ہاتھ میں دھنس گئے اسکی نیلی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر گرنے لگے دیوار سے سر ٹکاتا وہ دوسری مٹھی بھی دیوار پر مار گیا ۔۔۔

آئی ایم سوری اینجل ۔۔۔ آنکھیں میچتا وہ گمبھیر آواز میں بولا تھا

وہ فریش ہو کر کچن میں بریک فاسٹ کر کر اٹھی تھی جب وہ اسکا بیگ جس میں اسنے کچھ دیر پہلے پیکنگ کی تھی لیکر نیچے آیا تھا 

ہم کہاں جا رہے ہیں شیری  اور آپکا بیگ کہاں ہے ؟!  وہ ہاتھ صاف کرتی ہوئی اسکے پاس رکتی بولی تھی 

ہم نہیں صرف آپ۔۔۔  وہ نظریں پھیرتا سنجیدگی سے بولا عشیق نے بےیقینی سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

کیا آپ کل رات کی وجہ سے ہم سے ناراض ہیں ؟! وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے آنسوں سے بھری آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی

کب ختم ہو گا آپکا یہ بچپنا میں تنگ آ گیا ہوں آپ سے عشیق ہر وقت بچپنا کیا دماغ خراب ہے آپکا ۔۔ اپنا ہاتھ جھٹکتا ہوا وہ پیچھے ہٹتے اس پر چلایا عشیق نے جھرجھری لیتے ہوئے خوف سے آنکھیں بند کی تھی شاہ ویر کا دل دھڑکنا بھول چکا تھا وہ تو ایسے لہجوں سے اس سے بات ہی نہیں کرتا تھا ناں ہی وہ سخت لہجوں کی عادی تھی ۔۔۔

سر ٹائم ہونے والا ہے فلائٹ کا ۔۔۔ میکس پورچ میں داخل ہوتا ہوا بولا تھا دونوں نے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

ہم نہیں جائیں گے آپکو چھوڑ کے آپ ناراض ہوں لیں ہم سے لیکن ہمیں خود سے دور مت بھیجیں ۔۔۔ وہ اسکا بازو تھامتی رندھی ہوئی آواز میں بولی شاہ ویر نے چہرے کا رخ پھیر کر آنکھیں میچی تھی میکس نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا کتنا مشکل ہو رہا تھا اسکے لئے ۔۔۔

آپ مزاق کر رہے ہیں ناں شیری ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے ہمیں خود سے الگ مت کریں ہم آپکو کبھی تنگ نہیں کریں گے ہمیں خود سے الگ مت کریں بہت پیار کرتے ہیں آپ سے آپکے بغیر نہیں رہ سکتے ہم کبھی بھی آپکو تنگ نہیں کریں گے ۔۔۔ وہ روتی ہوئی اسکا ہاتھ پکڑتی بولی ۔۔۔

میکس لے جاؤ عشیق کو ۔۔ وہ پیچھے ہٹتا ہوا کرخت لہجے میں بولا 

پلیز ہمیں معاف کر دیں ہم آئندہ آپکے پاس بھی نہیں آئیں گے کبھی ناراض نہیں کریں گے ایسا مت کریں شیری ۔۔ وہ ہاتھ جوڑتی ہوئی اسکے سامنے آئی اسکے برداشت کا پیمانہ لبریز ہوا تھا ضبط کی آخری حدود میں تھا وہ مٹھی بھینچے اسنے میکس کو دیکھا تھا ۔۔۔

پلیز بھابھی چلیں آپ میرے ساتھ ۔۔ میکس آگے آتا ہوا نرمی سے بولا عشیق نے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا ۔۔۔

آپ یہی سزا دیں گے ہمیں کل رات تک آپ ہم سے محبت کے دعوے کر رہے تھے اور آج آپ ہمیں اپنی زندگی سے نکال کر ایسے کہیں بھی پھینک دینا چاہتے ہیں ۔۔۔ وہ چیخی تھی اسکی آواز میں بےحد کرب تھا 

ہاں دل بھر گیا ہے میرا ۔۔۔وہ دل پر پتھر رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا عشیق نے ڈوبتی نظروں سے اسے دیکھا وہ بےجان سی ہوئی تھی یا پھر وہ سوچ رہی تھی اسنے ٹھیک سے نہیں سنا ۔۔۔

مزاق کر رہے ہیں ناں آپ ۔۔ وہ بےجان لہجے میں بولی

نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں دل بھر گیا ہے میرا آپ سے ۔۔ میں جان چھڑانا چاہتا ہوں آپ سے ۔۔۔ وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے بولا

وہ سرخی مائل آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے پاس آئی تھی 

چٹاخ ۔۔۔ ایک زوردار تھپڑ وہ اسکے چہرے پر مار چکی تھی وہ سرد آہ بھرتے ہوئے لاپرواہی سے اسے دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔

آپ جیسے شخص سے محبت کرنا ہماری ذندگی کی سب سے بڑی بھول تھی یقین نہیں آ رہا آپ یہ کہہ رہے ہیں  ۔۔۔ وہ ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتی ہوئی پیچھے ہٹی تھی میکس نے سرد نظروں سے شاہ ویر کو دیکھا جو دیوار سے پشت لگاتا ہوا بےجان نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو اپنا بیگ تھامے آگے بڑھ گئی تھی

دنیا کے کسی بھی کونے میں پڑے رہیں گے ہم لیکن خدا سے یہی دعا کریں گے زندگی میں کبھی بھی آپ ہماری نظروں کے سامنے ناں آئیں ۔۔۔ وہ اسے دیکھتی  پلٹ کر نفرت سے کہتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی میکس لب بھینچتا ہوا اسکے پیچھے چلا گیا تھا شاہ ویر نے سرد آہ بھرتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھا تھا کچھ ہی سیکنڈ میں وہ اس سے بہت دور چلی گئی تھی بہت دور ۔۔۔

وہ ابھی صدمے سے سنبھلا ہی تھی جب اس گیٹ پر گولی چلنے کی آواز آئی وہ پاکٹ سے پسٹل نکالتے ہوئے تیز قدموں سے گیٹ کی طرف بڑھا تھا کچھ قدموں پر وہ رکا تھا چوکیدار کی لاش گیٹ کے سامنے پڑی تھی وہ سینے پر ہاتھ رکھے نیچے پڑا تھا اسکی آنکھوں کی پتلیاں ساکت تھی وہ پاکٹ میں پسٹل رکھتے ہوئے تیزی سے چوکیدار کی طرف بڑھا جو بےجان ہو چکا تھا کیونکہ گولی دل کے مقام پر لگی تھی وہ پشیماں نظروں سے چوکیدار کو دیکھتے ہوئے اسکی ساکٹ آنکھوں پر ہاتھ رکھتا انہیں بند کرتے ہوئے اٹھا تھا جب اسکی نظر پاس پڑے ہوئے ایک کاغذ پر پڑی وہ سنجیدگی سے اسے اٹھا چکا تھا ۔۔

""تم سوچتے ہو تم بہت بڑے کھلاڑی ہو ؟؟ تم سوچتے ہو تم میرے آدمیوں کو مروا دو گے اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں گا گیم تو تم نے شروع کیا ہے تم نے میرا آدمی مارا میں نے تمھارا آدمی مارا لیکن ابھی تم پر ادھار ہے میں نے تمھارے پالتو کتے ریحان کو مروایا اور اب تمھارا چوکیدار مر گیا یہ تمھارے لئے سبق ہے ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے سے پرہیز کرو ورنہ تمھارے ملک کیساتھ تمھارا ایک ایک عزیز دوست رشتہ دار تمھارے کئے کی سزا بھگتے گا "" 

پیپر کو مٹھی میں بھینچتا وہ اسے مروڑ کر نیچے پھینکتا ہوا فون نکال کر کسی کا نمبر ملا چکا تھا لیکن دل پرسکون تھا کیونکہ وہ یہاں اسکے پاس نہیں تھی وہ خطرے سے دور تھی ۔۔

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

بیٹا کہاں جا رہے ہو مجھے آفس چھوڑ دو گے بڑے دن ہو گئے میں آفس نہیں گیا گھر بیٹھ بیٹھ کر جی بھر گیا ہے ۔۔ ندیم جو کار کی چابی لئے لائونج سے نکل رہا تھا شہنشاہ صاحب کی آواز پر رکا

سائیں ۔۔ وہ انکے لئے ادب سے راستہ بناتا ہوا سر جھکائے پیچھے ہوا شہنشاہ صاحب مسکراتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گئے تھے ندیم نے سپاٹ نظروں سے کچھ فاصلے پر کھڑی ژالے کو دیکھا جو بیگ کندھے پر لٹکائے اسے ہی گھور رہی تھی 

ہمیں یونی چھوڑنا تھا آپ نے دادا صاحب کو کیوں روک لیا ۔۔ وہ منہ سجھائے بولی ندیم نے تاسف سے سر جھٹکا

میں انہیں انکار کیسے کرتا آپ چلیں میں راستے میں ڈراپ کر دوں گا آپکو ۔۔ وہ آگے بڑھتا سرد لہجے میں بولا ژالے نے اسکے پیچھے ہاتھوں کو طنز میں نچایا اور پھر اسکے ساتھ چل دی ۔۔۔

دادو آج تو آپ میری یونیورسٹی چلیں میرے ساتھ ۔۔۔ ژالے شہنشاہ صاحب کے ساتھ پیچھے بیٹھتی مسکرائی جس پر وہ بےساختہ مسکرا گئے تھے گاڑی سڑک پر رفتار سے دوڑ رہی تھی جب ندیم نے اچانک بریکس لگائے تھے ۔۔

کیا ہوا ندیم ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے فکرمندی سے پوچھا ۔۔۔

سائیں سڑک کے بیچ و بیچ کوئی بےہوش پڑا ہے ۔۔ ندیم نے سپاٹ نظروں سے سڑک پر پڑے ایک شخص کو دیکھ کر کہا جو ایک پرانی چادر لپیٹے پڑا ہوا تھا ٹریفک ناں کے برابر تھی 

سائیں میں دیکھتا ہوں ۔۔ وہ انہیں مطمئن کرتا نیچے اترا اور اسکی جانب بڑھ گیا ژالے نے گھبراتے ہوئے ونڈو سے باہر دیکھا تھا اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا۔۔

ندیم کو بھی کچھ مشکوک لگا تھا وہ اسلئے اسنے اپنی شال کے نیچے ہی پسٹل کو لوڈ کیا تھا اور اسکی طرف بڑھا تھا 

دادووو ۔۔۔ ژالے نے چیختے ہوئے انہیں گاڑی کے گلاس سے نیچے جھکایا تھا گولی انکے سر کے اوپر سے گزری تھی ندیم پلٹا تھا انکی گاڑی کے قریب دو مشکوک آدمی ہاتھ میں اسلحہ لئے پہنچے تھے وہ اس سے پہلے گاڑی کی طرف بڑھتا نیچے پڑے آدمی نے اسے پیچھے سے گردن سے دبوچا تھا 

شہنشاہ صاحب کو ایک آدمی نے بازو سے پکڑتے ہوئے نیچے گرایا تھا ۔۔۔

دادوو ۔۔ ژالے روتے ہوئے گاڑی سے اتر کر شہنشاہ صاحب کی طرف بڑھی جب دوسرے آدمی نے اسے بالوں سے پکڑا تھا اسکی چادر کھینچ کر نیچے گراتا ہوا وہ قہقہ لگا گیا شہنشاہ صاحب کے سر پر چوٹ لگی تھی سہ چاہ کر بھی اٹھ نہیں پا رہے تھے ندیم نے بازو کی کہنی سے اس آدمی کو نیچے گرایا تھا اور اسکے منہ پر ایک کک ماری تھی دوسرا آدمی شہنشاہ صاحب کو وہیں چھوڑ کر اسکی طرف بڑھا اور اس پر فائر کیا وہ گاڑی کے پیچھے ہوا تھا مگر گولی اسکے کندھے کو لگی تھی ژالے چیخی تھی وہ کندھے پر ہاتھ رکھتا اس آدمی طر گولی چلا چکا تھا گولی اس آدمی کے سر میں لگی تھی وہ تڑپتا ہوا سڑک پر گرا تھا تیسرا آدمی ژالے کو بازو سے پکڑے اس کی گردن پر پسٹل رکھ چکا تھا 

کوئی چالاکی نہیں ورنہ اسے مار ڈالوں گا ۔۔ وہ ٹریگر پر انگلی رکھتے ہوئے دانت پیس کر بولا ندیم اپنی جگہ پر ساکت ہوا تھا شہنشاہ صاحب نے بےبس نظروں سے اسے دیکھا انکی نظروں کے سامنے کا منظر دھندلا گیا تھا  سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے ۔۔

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

تم لوگ فکر مت کرو کچھ نہیں ہو گا مجھے حیرت ہے اس سستے ایجنٹ نے تم سب کو اتنا ڈرا دیا ۔۔۔  آکاش آفندی جو انڈیا کا سب سے بڑا ڈون تھا کانفرنس کال پر سب کو جھاڑ پلا رہا تھا

مگر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ہماری آنکھوں کے سامنے اسنے ہمارے آدمی کی انگلیاں کاٹ دی ۔۔ ریاض بیگ نے سٹپٹا کر بتایا 

پتا تو اسے اب چلے گا جب اسکے خاندان کے افراد پر خطرہ منڈلائے گا دیکھتا ہوں کس کس کو بچاتا ہے سالا ہاہاہاہاہا ۔۔ آکاش آفندی نے خباثت سے کہتے ہوئے قہقہ لگایا تھا

ریاض بیگ نے داڑھی کھجاتے ہوئے انیس ملک کو دیکھا جو آئی برو اچکاتے ہوئے منہ کا زاویہ بدل گیا تھا جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اگر آکاش آفندی دیکھتا تو اسکا بھی یہی حال ہوتا۔۔

مجھے تو یہ سوچ کر ڈر لگ رہا ہے اگر اسے پتا چل گیا آکاش آفندی کا اور ہمارے اگلے منصوبے کا تو وہ ہماری گردنیں کاٹ دے گا ۔۔۔ ابرار بگٹی نے پیشانی مسلتے نیچے دیکھتے ہوئے بڑبڑا کر کہا جس پر ریاض بیگ نے سر جھٹکا ۔۔

اب پچھتا کر کوئی فائدہ نہیں تم لوگ ہی اقتدار کے بھوکے اب برداشت کرو  اور ایک۔ہفتے میں اس نے جو کچھ کرنے کو کہا ہے کر ڈالتے ہیں ویسے بھی الیکشن ہونے والے ہیں ہمیں پیسے تو لگانے ہی تھے اسکول اور سرکاری ہسپتال بنوا لیتے ہیں بہت ووٹ پڑیں گے اور وہ بھی ہماری جان چھوڑ دے گا۔۔۔  ریاض بیگ نے دانت پیسے 

ہم لوگ بھوکے ہیں اقتدار کے تم تو حاجی ہو ۔۔۔ ابرار بگٹی نے طنز کیا ریاض بیگ نے سر جھٹکا تھا 

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

ٹائی کی نوٹ ٹائٹ کرتے ہوئے اسنے صوفے سے کوٹ اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر وہاں کوٹ ناں پر کر وہ چونکا تھا زنیرا کوٹ اٹھائے اسکی طرف بڑھی تھی سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسنے حرب کو کوٹ پہنایا تھا حرب نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا 

کیا اس دن کے بعد آپ کی شاہ ویر بھائی سے بات ہوئی ؟! وہ نظریں جھکائے بولی تھی 

نہیں لیکن میں انہیں کال کر کے معافی مانگنے کا سوچ رہا تھا ۔۔۔ وہ کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوا سنجیدگی سے بولا زنیرا نے لب بھینچ کر سر کو ہاں میں ہلایا تھا ۔۔۔

اور آپ نے مجھے معاف کرنے کے بارے میں کیا سوچا ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے کوٹ درست کرتا بولا زنیرا نے گلا صاف کیا تھا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا اسے سرخ ہوتا دیکھ کر ۔۔۔

آپ صاف صاف کہہ سکتی ہیں کہ آپ مجھ سے ناراض نہیں رہ پا رہی ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تھا زنیرا نے چونک کر اسے دیکھا جسے زرا بھی شرم نہیں آئی تھی ایسی بات کرتے ہوئے ۔۔۔

کیا آپکو زرا بھی پچھتاوا نہیں جو آپ نے کہا مجھے ۔۔۔ وہ۔ تنک کر بولی 

معافی مانگ چکا ہوں اور اگر آپ چاہیں تو پوری ذندگی مانگتا رہوں گا ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا زنیرا نے گڑبڑا کر آس پاس دیکھا 

کوئی ضرورت نہیں ہے میں نے بھی بہت زیادتیاں کی ہیں آپ کیساتھ پہلے ۔۔ وہ شرمندگی سے نظریں جھکاتے بولی

لیکن میں نے ان غلطیوں کے لئے آپکو بہت پہلے معاف کر دیا تھا آپکو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ وہ اسے دیکھتا بولا زنیرا نے نظریں اٹھا کر اسکی سیاہ آنکھوں کو دیکھا 

اور جن سے محبت کی جاتی ہے انکی غلطیاں نظر انداز کر دینی چاہیے جیسے آپ نے کر دی ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا زنیرا نے نظریں جھکائی تھی وہ سنجیدگی سے آسکی جانب بڑھتا اسکی کمر میں بازو حمائل کرتا اسے قریب کر گیا تھا زنیرا کی سانسیں اٹکی تھی 

جب آپ بلش کرتی ہیں خدا قسم مجھ سے ہنسی قابو نہیں ہوتی ۔۔ اسکے سرخ پڑتے گال کو ہاتھ سے کھینچتا وہ شریر لہجے میں بولا زنیرا نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا اور مکا بنا کر اسکے سینے پر مارا تھا وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے اسکے گال کو لبوں سے چھو گیا زنیرا لال پڑتی اسے پیچھے دھکا دیتی کمرے سے نکل گئی تھی وہ بھی مسکراہٹ دباتا کوٹ درست کرتا ہوا کمرے سے آفس کے لئے نکل گیا تھا 

                                         ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

ندیم نے اسکے کہنے پر پسٹل نیچے پھینکا تھا دوسرا آدمی ناک سے خون صاف کرتا ہوا اٹھ کر پسٹل اٹھا چکا تھا 

یار اس حسینہ کا کیا کریں اسکو ایسے یی مار دینا بےوقوفی ہو گی ۔۔ وہ آدمی خباثت سے ژالے کو دیکھتا بولا جو اسکی بات سن کر شرمندگی سے نظریں جھکا گئی تھی ندیم نے مٹھی بھینچی تھی شہنشاہ صاحب نے دھندھلائی نظروں سے سب دیکھا انکے سر سے خون بہہ رہا تھا ندیم نے انہیں سہارا دیا تھا آکر ۔۔۔

ندیم میری بچی کو بچا لو ۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولے تھے  ندیم نے سنجیدگی سے ان آدمیوں کو دیکھا جو ژالے کو خباثت سے دیکھ رہے تھے وہ شہنشاہ صاحب کو گاڑی کے آسرے لگاتا ہوا شال سے دوسرا پسٹل نکال کر اس آدمی پر فائر کر چکا تھا جو ژالے کی طرف بڑھا تھا دوسرا آدمی ژالے کو نیچے دھکا دیکر اس پر فائر کرنے لگا ندیم نے فوراً سے اس پر فائر کیا تھا وہ نیچے گرا تھا کچھ ہی سیکنڈ میں سب ہوا تھا وہ سنجیدگی سے چلتا ہوا اسکی چادر نیچے سے اٹھاتا ہوا نظریں جھکائے اسکی جانب بڑھا گیا ژالے نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکے ہاتھ سے چادر لی تھی شہنشاہ صاحب نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر وہ بےہوش ہوئے تھے ندیم اور ژالے جلدی سے انکی طرف بڑھے اور انہیں گاڑی میں بٹھایا ندیم نے سپاٹ نظروں سے اپنے بازو کو دیکھا جو اسکی سفید کاٹن کی قمیض کو سرخ کر چکی تھی گاڑی کو اسنے تیزی سے اسپتال کی طرف دوڑایا تھا شہنشاہ صاحب کی پیشانی سے بہتا خون دیکھ کر۔۔۔

ژالے نے روتے ہوئے شہنشاہ صاحب کی پیشانی پر اپنی چادر رکھی جہاں سے خون بہہ رہا تھا ۔۔۔

                                      ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

ایک ہفتے بعد:- 

مرجان یہ کوئی طریقہ ہے میں نے ہزار بار کہا ہے آپ گیلا ٹاول بیڈ پر ڈال دیتے ہیں ۔۔ زارا نے منہ بناتے ہوئے بیڈ پرا پڑا ٹاول اٹھایا 

دراصل وہ کیا ہے ناں مجھے آپکی یہ چھوٹی سی ناک جب آپ غصہ کرتی ہیں سرخ پڑتی ہوئی بڑی بھاتی ہے میں کیا کروں اب ۔۔۔ وہ شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا شریر لہجے میں بولا زارا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا تھا 

ٹھیک ہے ڈھیٹھوں کے ڈھیٹھ ہیں آپ ۔۔ وہ تنک کر کہتی ہوئی وہاں سے نکلی تھی وہ بس مسکرا گیا تھا 

اسلام و علیکم ۔۔۔ سائیں آپکی طبعیت کیسی ہے ۔۔ ندیم جو شہنشاہ صاحب کے بلانے پر گھر آیا تھا لاونج میں آفرین بیگم کو انکے ساتھ بیٹھے دیکھ کر پہلے تو چونکا پھر شہنشاہ صاحب سے مخاطب ہوا جو صوفے پر بیٹھے اسے دیکھ کر مسکرائے تھے 

وعلیکم اسلام آؤ بیٹا بیٹھو ہم بہتر ہیں مولا کا کرم ہے ۔۔۔ اسے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے ندیم نے سنجیدگی سے صوفے کو دیکھا مگر وہ وہاں بیٹھا نہیں تھا ادب سے ہاتھ باندھتا وہ اپنی جگہ پر جم گیا تھا ۔۔۔

بیٹھ جاؤ بیٹا کچھ ضروری بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔ آفرین بیگم نے اسے دیکھتے مسکرا کر کہا وہ سر ہلاتا ہوا سنجیدگی سے صوفے پر بیٹھا ۔۔۔

میری ایک بات مانو گے ندیم ۔۔ شہنشاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔

حکم کریں سائیں ۔۔۔ وہ تاسف سے بولا تھا

میری پوتی ژالے سہیل سے نکاح کرو لو ۔۔۔

ندیم چونکتے ہوئے اٹھا تھا آفرین بیگم نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا جو نظریں جھکا گیا تھا ۔۔۔

سائیں یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔ وہ نظریں جھکائے متذبذب لہجے میں بولا ۔۔۔

میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں تم سے بہتر محافظ اسے شاید دنیا میں ناں ملے ۔۔۔ شہنشاہ صاحب نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

وہ کچھ دیر سنجیدگی سے نظریں جھکائے کھڑا رہا ۔۔۔

کیا سوچا آپ نے بیٹا ؟! آفرین بیگم نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

جیسا آپ کا حکم سائیں۔۔ وہ ہاتھ جوڑتا سنجیدگی سے بولا شہنشاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے اٹھ کر اسے گلے لگایا تھا آفرین بیگم مسکراتے ہوئے گھر والوں کو خوشخبری دینے چلی گئی تھی بہت وقت بعد تو گھر میں خوشیاں لوٹ رہی تھی ۔۔۔

                                   ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

ٹیرس پر کھڑا وہ سنجیدگی سے سامنے پھیلے ہوئے شہر کو دیکھ رہا تھا سب اپنی مصروفیات میں مصروف نظر آ رہا تھا وہ سنجیدگی سے سٹیل روڈ ہاتھوں میں تھامے سپاٹ نظروں سے ایک غیر مرئی نقطے کو ناجانے کب سے دیکھ رہا تھا ۔۔

بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ اور اس پر بلیک کاژول اوور کوٹ پہنے آنکھوں پر گلاسز لگائے وہ ساکت کھڑا تھا جب اسکے فون کی رنگ ٹون بجی ۔۔۔

اسلام و علیکم انکل ۔۔۔ 

وہ فون کان سے لگاتا گمبھیر لہجے میں بولا

وعلیکم السلام شاہ بیٹا عشیق سے بات ہو سکتی ہے میں کب سے اسکا نمبر ٹرائے کر رہا ہوں نمبر بند ہے ۔۔۔

اسکی گرفت روڈ پر مظبوط ہوئی تھی سرد آہ بھری تھی اسنے ۔۔۔

انکل وہ یہاں نہیں ہے ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا 

کہاں ہے وہ ۔۔۔ آغا صاحب کی پشیماں آواز سنائی دی

یونائیٹڈ سٹیٹس میں ۔۔۔ وہ کثیر رقبے پر پھیلا شہر دیکھتا ہوا گمبھیر لہجے میں بولا 

کیا دماغ خراب ہے تمھارا تم نے اکیلا اسے وہاں کیوں بھیج دیا اور کتنی بار مجھے پچھتانا پڑے گا اپنی بیٹی کا ہاتھ تمھیں سونپنے پر ۔۔۔ آغا صاحب کرخت لہجے میں بولے تھے 

آپ نے کونسا پروٹیکٹ کیا اسے انکل آپکی خود کی بیوی نے اسے زہر دیکر جان لینے کی کوشش کی آپ مجھے یہ کہتے ہوئے اچھے نہیں لگیں گے ۔۔۔ وہ طنزیہ انداز میں بولا آغا صاحب چونکے تھے اسکے کٹھور جواب پر وہ ایسا تو تھا ہی نہیں کیسے اسنے ایسا جواب صاف انکے منہ پر دے دیا تھا انکو ۔۔ وہ کال منقطع کرتے ہوئے سرد آہ بھر گئے تھے ۔۔۔

ہیلو میکس کیسا جا رہا یے سب ۔۔۔ وہ فون کان پر رکھتا بولا

"سب ٹھیک چل رہا ہے انہوں نے شرطوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے وہاں سرکاری اسپتال اور اسکول بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے بجٹ کا حجم وغیرہ اور اماونٹ وغیرہ سب مختص ہو گئے ہیں پروجیکٹ تین مہینوں میں ہی مکمل ہو جائے گا""

ٹھیک ہے وہ آڈیوز الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے لیک کر دینا ۔۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا ۔۔۔

ہاہاہا اب مجھے ہمارا لوسیفر نظر آ رہا ہے جو کہیں گم ہو گیا تھا ۔۔ میکس نے مسکرا کر کہتے ہوئے کال منقطع کی تھی ۔۔۔

صحیح کہا تم نے لوسیفر اور شیری میں بہت فرق ہے میں سوچتا تھا میرے پاس دل ہی نہیں ہے مگر وہ ناجانے کس طرح اس رات ایک معصوم سی لڑکی کو دیکھ کر دھڑک اٹھا تھا ۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا 

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

ایک مہینے بعد :- 

اتنے سیریئس کیوں رہتے ہو میں نے تمھیں پچھلے مہینے سے مسکراتے نہیں دیکھا ۔۔ میکس نے کیبورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے سرعت سے کہا وہ سنجیدگی سے فائل کا مطالعہ کر رہا تھا فائل رکھتے ہوئے اسے تلخ نظر سے دیکھنے لگا ۔۔

کیا ضرورت تھی اسے ایسے گھر سے نکالنے کی سچائی بتا کر بھی تو بھیج سکتے تھے ۔۔ میکس نے اسے سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میں اسے دیکھانا چاہتا ہوں کہ وہ میرے بغیر بھی رہ سکتی ہے کمزور نہیں ہے وہ وہ سوچتی ہے وہ میرے سائے میں محفوظ ہے مگر میں چاہتا ہوں وہ میرے سائے سے محروم ہو کر مظبوط بنے وہ بنے جو وہ چاہتی تھی مگر میری وجہ سے اسکی پڑھائی چھوٹ گئی اسکے خواب ادھورے نہیں چھوڑنا چاہتا میں ۔۔۔ وہ سپاٹ نظروں سے میکس کو دیکھتے ہوئے بولا

اور جو حال تمھارا ہو رہا ہے مجھے لگتا ہے اگر تین چار سال اسکے بغیر رہے تو تم ہم سب کق کچا کھا جاؤ گے ۔۔۔ میکس نے مسکراہٹ دبائی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ کر دوبارہ فائل کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔

یار مسکرا بھی دو وہ نہیں دیکھ رہی ۔۔۔ میرے سامنے سڑیل بننے کی ضروت نہیں ۔۔۔ میکس نے اسکی طرف فائل اچھالتے ہوئے قہقہ لگایا شاہ ویر نے فائل کو پکڑ کر ٹیبل پر رکھی اور اسے سخت گھوری سے نوازا جس پر اسکا منہ لٹک گیا تھا

کیا خبر ہے کیسا چل رہا ہے ہمارا کام ۔۔ وہ بات بدلتا بولا

جیسا چاہتے تھے ویسا چل رہا ہے لوسیفر ان فیکٹ بہت تیزی سے کام جاری ہے ۔۔۔ میکس نے مسکرا کر کمپیوٹر کو دیکھتے کہا 

ہممم ۔۔۔ وہ فون پاکٹ سے نکالتا کال کنیکٹ کرتا ہوا فون کان سے لگا گیا ۔۔۔

بھااااائی ۔۔۔ 

وہ مبہم سا مسکرایا تھا ژالے کی لاڈ بھری آواز سن کر میکس نے چونک کر اسے دیکھا تھا وہ تو  اسکی لاکھ کوششوں کے بعد بھی مسکرا نہیں رہا تھا ۔۔۔

میرا نکاح ہے آج کیوں نہیں آ رہے آپ میں کٹی ہو جاؤں گی آپ سے ۔۔۔

میری فیری کا نکاح ہے ماشاءاللہ مبارک ہو ۔۔ وہ نرمی سے بولا تھا میکس دوبارہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوا تھا 

یس بھائی لیکن آج آپکو آنا ہی پڑے گا میرے نکاح میں آج رات ہے اور آپ آ رہے ہیں بسسسسس ۔۔۔ ژالے نے رعب سے کہا اسے پتا تھا وہ اسکے لاڈ اٹھاتا تھا ۔۔

اوکے میں آ جاؤں گا ۔۔۔ وہ مبہم سا مسکرایا تھا کہہ کر ۔۔۔

آہ تھینک یو بھاااائی ۔۔ وہ خوشی سے کہہ کر کال منقطع کر گئی تھی ۔۔۔

میکس کل الیکشن ہیں آج سہ آڈیوز لیک کر دو ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اسے دیکھنے لگا جس پر اسمے سر ہلایا تھا اور کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کیا تھا

ہو گیا لوسیفر ۔۔۔ ہاہا کتنی بڑی دھاندھلی کر دی تم نے اپنا کام بھی کروا لیا اور بیچاروں کی آڈیوز بھی لیک کر دی ۔۔۔میکس نے سر جھٹکتے طنز کیا 

وہ فون پاکٹ میں رکھتا ہوا اٹھا تھا میکس کو فلائٹ کی ٹکٹ بک کرنے کا کہہ کر وہ آفس سے اپنے اپارٹ کی طرف نکل گیا تھا ۔۔۔

                                    ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

بریکنگ نیوز:- الیکشن سے ایک دن پہلے ریاض بیگ ،، ابرار بگٹی اور انیس ملک کی آڈیوز لیک ۔۔ ملک میں ہونے والی دہشتگردی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں ۔۔

ریاض بیگ نے ڈرتے ہوئے ٹی وی بند کی تھی وہ جلدی سے اٹھا اور کھڑکی سے باہر دیکھا جہاں ایف آئی اے کے آفیسرز اسے اریسٹ کرنے کے لئے گیٹ سے داخل ہو رہے تھے ۔۔۔

نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ اس (گالی) نے ہمیں دھوکا دیا اسکے کہنے پر سب کیا اسنے پھر بھی آڈیوز لیک کر دی آکاش آفندی صحیح کہتا تھا بہت بڑا گیمر ہے وہ ۔۔۔ ریاض بیگ نے دانت پیس کر کہا جب دروازے سے ایف آئی اے کے آفیسرز سیکیورٹی کیساتھ اندر آئے تھے ۔۔۔

مسٹر ریاض بیگ آپ کے خلاف اریسٹ وارنٹ ہے ہمارے پاس ۔۔۔ ایک آفیسر نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے کہا وہ تو پسینہ پسینہ ہو گیا تھا آفیسر نے آگے بڑھ کر اسکی کلائی پر ہتھ کڑی لگائی تھی آفیسرز اسے لیکر باہر نکلے تھے میڈیا کی کثیر تعداد اسکے حویلی کے باہر موجود تھی اور ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی ریاض بیگ نے میڈیا کے ہجوم سے اسے دیکھا تھا جو فاتحانہ مسکراہٹ کیساتھ اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلا چکا تھا ریاض بیگ نے حقارت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ تو رچرڈ اور منور صاحب کو نکلوانے کی تیاریاں کر رہا تھا مگر اسنے تو چال ہی بدل دی تھی 

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

عروسی لباس میں پور پور سجی وہ گہری نظر سے بک کے رٹے مار رہی تھی جب وہ وائٹ سمپل سے شلوار قمیض میں واش روم سے باہر نکلا اسے مصروف دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔۔

وہ بک کو شرمندگی سے تکیے کے نیچے دیتے ہوئے سیدھی ہو کر بیٹھی تھی 

آپ پڑھ سکتی ہیں میں جانتا ہوں کل آپکا پیپر ہے ۔۔ وہ سنجیدگی سے اسے شرماتا دیکھ کر بولا ژالے نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔۔

ہم سچ میں پڑھ لیں ندیم ؟! وہ آدھ منہ کھولتی بولی جس پر وہ ناچاہتے ہوئے مسکرا گیا تھا ۔۔۔

بالکل آپ پڑھ سکتی ہیں کل آخری پیپر ہےناں آپکا کتنے بجے ہے؟!  وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھتا اسکی بک کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

کل  آٹھ بجے ہے پتا نہیں اتنی جلدی کیسے اٹھوں گی اور سب کیسے ہو گا بہت ٹینشن ہو رہی ہے ۔۔ ژالے نے اداس ہو کر کہا

آپ کر سکتی ہیں مجھے یقین ہے ۔

 وہ اسکا ہاتھ تھامتا بولا تھا  ژالے نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا اور سر ہلایا تھا

دن کو کچھ کھایا تھا آپ نے ؟! وہ اسے دیکھتا بولا ژالے نے سر ناں میں ہلایا تھا ۔۔

آپ چینج کر لیں میں کچھ لیکر آتا ہوں ۔۔ وہ کہتا ہوا سنجیدگی سے اٹھا ژالے نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا تھا ۔۔۔

آپ بہت اچھے ہیں ندیم آپ جیسا ہمسفر پا کر احساس ہوا مجھے آپ سے بہتر کوئی مل ہی نہیں سکتا تھا ۔۔ لیکن میرے شاہ ویر بھائی بھی میرا بہت خیال رکھتے تھے انکی لاڈلی ہوں میں۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی ندیم نے مسکرا کر اسے دیکھا اسکے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوتا وہ کمرے سے باہر گیا تھا ژالے مسکراتی ہوئی چینج کرنے چلی گئی تھی ۔۔

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

چار سال بعد:- 

یونائیٹڈ سٹیٹس :- 

بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے اس پر بلیک گھٹنوں سے نیچے آتا سٹائلش بلیک اوور کوٹ پہنے حجاب بنائے چہرے کو بلیک ماسک سے ڈھانے وہ بلیک کلر کا پرس ٹٹولتی ہوئی جلدی سے بس سے اتری تھی وہ سنجیدگی سے اپنا فون ڈھونڈ رہی تھی جب ایک آدمی نے اس سے پرس جھپٹا تھا اور آگے دوڑا تھا ۔۔۔

You Little thief, give me back my purse ...

وہ غصے سے چلاتی ہوئی اسکے پیچھے تیز قدموں سے دوڑی تھی آدمی نے چونک کر اسے مڑ کر دیکھا تھا جو اس سے زیادہ تیز دوڑ رہی تھی وہ بوکھلاتے ہوئے ایک گلی میں مڑا تھا وہ تیزی سے ایک تنگ گلی میں مڑی تھی آدمی دوڑتے ہوئے رکا تھا وہ اسکے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔

Return my bag quickly or I will break your bones and hand it to you ۔۔

وہ ایک قدم اسکی طرف بڑھاتی بولی آدمی پیچھے بھاگنے کی سوچتا اس سے پہلے وہ پاکٹ سے پسٹل نکال چکی تھی ۔۔

Give me back my bag kid ۔۔۔ وہ پسٹل اسکی جانب کرتی شاطرانہ مسکراتے کیساتھ بولی اس آدمی نے پرس نیچے رکھ کر ہاتھ اوپر اٹھائے تھے 

Beware, if you try to run away, you will die ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے چلتی ہوئی اسکی جانب بڑھتی بولی وہ آدمی خوف سے آس پاس دیکھتا گھبرا رہا تھا جب ایک پولیس آفیسر وہاں رکا تھا اسکے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر ۔۔۔

Help this girl is trying to rob me ۔۔۔وہ آدمی پولیس آفیسر کو دیکھتا سٹپٹا کر بولا 

وہ سخت نظروں سے اس آدمی کے پیٹ میں پنچ مار کر ایک کک اسکے منہ پر مار چکی تھی اسکے ناک سے خون بہہ گیا تھا پولیس آفیسر تیزی سے انکی طرف بھاگ کر آیا تھا ۔۔۔

I hate lies ۔۔ وہ اسکے منہ پر کک مارتی ہوئی کرخت لہجے میں بولی جب پولیس آفیسر نے اسے بازو سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا تھا وہ آدمی آدھ موہ ہو کر اٹھ کر وہاں سے بھاگ نکلا تھا ۔۔

Is your mind okay girl? Come to the police station with me 

پولیس آفیسر نے اسے سخت گھوری سے نوازتے ہوئے کہا ۔۔

Be in boundary Officer ...

وہ پولیس آفیسر کا ہاتھ جھٹکتی اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے بولی 

Who the hell Are you ?

وہ آفیسر غصے سے لال ہوتا بولا تھا

CIA Agent ...

وہ اپنا پاس نکال کر اسکے منہ پر مارتی بولی پولیس آفیسر نے حیرانی سے اسکا پاس دیکھا اور اسے دیکھا 

Sorry Mam I'm Really Sorry ..

وہ پاس اسکے ہاتھ سے لیتی ہوئی اپنے پرس میں رکھتی پسٹل نیچے سے اٹھاتی ہوئی کوٹ کی پاکٹ میں رکھتی ہوئی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی تھی ۔۔۔

ہیلو منال بس پہنچ رہی ہوں ۔۔ فون کان سے لگاتے ہوئے چلتے ہوئے بولی ۔۔ 

کیا یار عشیق اتنی دیر کون لگاتا ہے ۔۔ اسکی دوست خفگی سے بولی تھی ...

شاہ ویر ۔۔۔

وہ سنجیدگی سے کرسی سے اٹھا تھا سینئر جنرل کی  آواز  سن کر وہ اسکے انچارج کیساتھ آج خود اسکے آفس میں آئے تھے ۔۔۔

آئی ایم پراوڈ آف یوو شاہ ویر مائی لیپرڈ ۔۔۔ جنرل نے اسے گرم جوشی سے سینے سے لگایا تھا وہ زرا سنجیدگی سے انہیں دیکھنے لگا

سر آپ یہاں سب خیریت ہے ناں ؟! وہ سنجیدگی سے دریافت کرنے لگا ۔۔۔

مائی بوائے تم جانتے ہو گے ریاض ،،ابرار ۔۔ انیس اور انکے گینگ کو آج کورٹ کی طرف سے عمر قید کی سزا اور جرمانہ عائد ہوا ہے تم جانتے ہو جب تک وہ ادائیگی پوری نہیں کر دیتے تب تک انہیں پھانسی نہیں دی جا سکتی ۔۔ لیکن انکی سزا مسٹ ہے ۔۔۔ جنرل نے مسکرا کر کہا 

آفکورس میں جانتا ہوں سر ۔۔ وہ سنجیدگی سے بولا تھا 

کیا ہوا ہے شاہ ۔۔ تمھارے چہرے سے لگ نہیں رہا تم خوش ہو ۔۔ جنرل نے اسے غور سے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

سر میں آؤٹ آف کنٹری جا رہا ہوں کچھ دنوں کے لئے ۔۔۔

ہاہا آئی سی تمھیں لیوو چاہیے اوکے مگر صاف صاف کہہ دیتے تب بھی مل جاتی ایسے چہرا لٹکانے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ جنرل نے اسے مصافحہ کیا اور پھر اسے ایک لفافہ تھمکا کر چلے گئے جس میں اسکا پروموشن لیٹر تھا وہ لیٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے گلاس وال میں اپنا عکس دیکھنے لگا ۔۔

گلاسز اتار کر اسنے سنجیدگی سے گلاس میں اپنی نیلی آنکھوں کو دیکھا جن میں چمک تو تھی ہی نہیں وہ چمک اس لڑکی کے ساتھ ہی چار سال پہلے چلی گئی تھی ۔۔ 

کیسی ہوں گی آپ اینجل اور کیسی دِکھتی ہوں گی آپ چار سال بعد ؟ ۔۔ وہ ہلکا سا مسکرایا تھا اسکا سوچ کر ۔۔۔

                                     ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

بس کرو یار کان پک گئے ہیں میرے وہی گھسی پٹی محبت کی داستانیں سن سن کر ۔۔ عشیق نے کانوں پر ہاتھ رکھتے منال کو تیکھی نظروں سے دیکھتے کہا جس پر وہ اپنی دوست علیشبہ کے ہاتھ پر ہاتھ مارتی تالی بجا کر قہقہ لگا گئی

ہاں اسے کوئی سیڈ کہانی سناؤ ویسے تم ابھی تک سنگل کیوں ہو شادی کیوں نہیں کر لیتی ۔۔۔ علیشبہ نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا جس پر وہ بھنویں سکیڑ کر فون پر انگلیاں سکرول کرنے لگی ۔۔۔

ہاہا تم اس بزنس مین کو جانتی ہو وہ شاہ ویر حیدر کاظمی کو ۔۔ 

اتنے سال بعد اسکا نام سن کر عشیق کا دل تیزی سے دھڑکا تھا اسکی فون پر چلتی انگلیاں ساکت ہوئی تھی اسکا نام سن کر منال نے علیشبہ کو اشارہ کیا تھا دونوں نے اسکے بدلتے تاثرات دیکھے ۔۔۔

ہاں وہ ہینڈسم شاہ ویر حیدر کاظمی اسے کون نہیں جانتا یارر ۔۔ علیشبہ نے مسکرا کر کہا عشیق نے موبائل پرس میں رکھا تھا 

میں نے عشیق کو اسکی فوٹو سے باتیں کرتے دیکھا تھا کیا لگتا ہے ویسے تم بھی اس کی دیوانی ہو کیا ہاں اگر ہو بھی تو کوئی مسئلہ نہیں وہ ہے ہی اتنا حسیں کہ پوری دنیا کی لڑکیاں اسکی نیلی نیلی حسیں پرکشش دل پر لگتی آنکھوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ترستی ہیں ۔۔۔ منال نے مسکرا کر کہا عشیق پرس اٹھاتے ہوئے اٹھی تھی 

ارے میں مزاق کر رہی ہوں عشق رکو تو ۔۔ 

وہ انہیں کرخت نظروں سے دیکھ کر اٹھ کر وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔

عشق میری بات تو سنتی جا اوئے  عشق یارر ۔۔۔ علیشبہ اسے اسکے نک نیم سے بلاتی رہی مگر اسنے پلٹ کر ناں دیکھا ۔۔۔ گھر پہنچ کر اسنے غصے سے پرس بیڈ پر رکھا کمرے کا دروازہ بند کیا اور کبڈ سے فوٹو البم نکالی جو اسکے فوٹوز سے بھری پڑی تھی وہ البم نیچے پھینکتی ہوئی دراز سے لائٹر اٹھا کر اسکے فوٹوز کو آگ لگا چکی تھی 

 اسنے آگ کے لپیٹ میں آتے اسکے فوٹوز دیکھے ۔۔۔

آپ کیسے سوچ لیتی ہیں ایسی باتیں  ہممم ؟؟ آپ میرے ساتھ ہیں دیٹس آل آئی نیڈ رائٹ ناؤ اور جہاں تک آپکے فرائض کی بات ہے فلحال آپ صرف پڑھائی کریں کیونکہ فلحال سب سے ضروری آپکی سٹڈیز ہیں ۔۔۔ وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی کوئی اتنا اچھا کیسے ہو سکتا تھا ۔۔۔

آپ ناراض نہیں ہوں گے ؟! 

وہ سر اٹھاتی دھیمے لہجے میں بولی وہ مبہم سا مسکرایا تھا 

نہیں جانم بالکل بھی نہیں لیکن اگر آپ پڑھائی پر فوکس نہیں کریں گی پھر لازمی ناراض ہو سکتا ہوں ۔۔۔ وہ آسمان کو دیکھتا سنجیدگی سے بولا تھا وہ مسکرائی تھی 

اور جیسے ہی آپکی پڑھائی اینڈ ہو جائے گی اسکے بعد آپ اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں ۔۔ اسکی پیشانی پر لب رکھتا وہ دھیمے لہجے میں بولا عشیق کے گال سرخ پڑے تھے  ۔۔۔

آپ بہت اچھے ہیں شاہ ویر ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے اسکی شرٹ پکڑتی منمنائی وہ مسکراتا ہوا اسکے بالوں کو سہلانے لگا ۔۔۔

اسکے دماغ میں جھماکا ہوا وہ تیزی سے آگ میں ہاتھ مارتے ہوئے اسکے فوٹوز نکالنے لگی اسکے ہاتھ جل گئے تھے مگر وہ دیوانی ہوئی اسکے فوٹوز جو آگ کی لپیٹ میں تھے انہیں  اپنے ہاتھ سے آگ کی لپیٹ سے نکال رہی تھی ۔۔۔

تم ایسا نہیں کر سکتے تمھیں اگر دل ہی بھرنا ہوتا تم مجھ سے نکاح ناں کرتے تم اسوقت بھی میرا فائدہ اٹھا سکتے تھے جب میرا کوئی وارث نہیں تھا جب میں سڑک پر پڑی ہوئی تھی نہیں شاہ تم نے کیوں کیا ایسا کیوں جھوٹ بول کر خود سے الگ کیا کیوووں شاااااااہ  کیوں کیا ایسا میرے ساتھ ۔۔۔

 اسکے فوٹو کو دیکھتی وہ ٹوٹے لہجے میں بولی  اور اسکا نام لیتی چلائی تھی

 بیوفا کہہ کر مجھ کو بدنام نہ کر

تو میری الفت کا تماشہ عام نہ کر

گر نہیں ھے پیار تو صاف کہہ دے

جگ ہنسائی جابجاء مری ہر گام نہ کر

میں نے مانا نکما ہوں جہان بھر کا

مگر میری عزت یوں تو نیلام نہ کر

ابھی تو ابتداء ھے پیار کی اپنے

تو ابھی سے اسے ظالم انجام نہ کر

جس سے ٹھیس پہنچے دل کو اپنے

بھولے سے کبھی ایسا تو کام نہ کر

مجھ کو مرنے دے شاہ دھلیز پر اپنی

ھے حسرت کل یہی تو تمام نہ کر

عشق بیٹا آپ اندر ہو ۔۔۔ انکل یوسف کی آواز سن کر وہ جلدی سے آنسوں صاف کرتی اٹھی اسکے فوٹوز کو بلینکٹ کے نیچے چھپاتے ہوئے وہ جلدی سے آنکھیں صاف کرتی دوپٹہ درست کرتی دروازہ کھولنے لگی 

بیٹا کب سے آواز دے رہا تھا آپکو کہاں تھے آپ۔۔۔ یوسف صاحب جن کے پاس انکی دو اور بیٹیوں کیساتھ وہ اب تک رہتی آئی تھی انہیں فکر مندی سے دیکھتے بولے 

جی سوری انکل میں ہینڈ فری لگا کر بیٹھی تھی ۔۔ وہ مسکرائی تھی ۔۔۔

بیٹا یہ لیٹر آیا ہے آپ کے لئے اور تیار رہئے گا کل  مہمان آنے والے ہیں ۔۔۔ یوسف صاحب اسکے ہاتھ میں لفافہ تھماتے بولے

کون آ رہا ہے انکل ؟! عشیق نے لفافہ لیتے ہوئے تاسف سے پوچھا

بیٹا ریلیٹو ہیں آپ کل وقت سے گھر آ جانا ۔۔۔ یوسف صاحب کہہ کر چلے گئے تھے۔۔۔

 عشیق نے سنجیدگی سے لفافہ کو دیکھا اور اسے کھولا جو اسکی ٹیم کی طرف سے تھا ۔۔۔

وہ لیٹر پڑھتی ہوئی پشیماں ہوئی تھی ۔۔۔

کبرڈ سے کپڑے نکال کر وہ چینج کر کے باہر آئی تھی دونوں پاکٹس میں پسٹل ڈالتے ہوئے وہ اوپر اوور کوٹ پہن کر تیز قدموں کیساتھ باہر نکلی تھی اسے اس وقت سیگریٹ آپریشن پر جانا پڑا تھا ۔۔۔

                                  ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

اگلے دن :- 

مماں دیکھیں ناں یہ چڑیل کشش ہمیں مار رہی ہے ۔۔ علیزے نے مسکراتے ہوئے پیچھے دیکھا جو چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے بیٹے میرال کی دھلائی کر رہی تھی اسکے دیکھنے پر وہ معصومیت سے دونوں ہاتھ پیچھے کر گئی تھی ۔۔۔

زارا تمھاری بیٹی  کشش اپنے سے ایک سال بڑے میرال کو مار رہی ہے یہ سیکھا رہی ہو تم اسے ۔۔ مرجان نے اسے گود میں لیتے ہوئے کہا وہ مرجان کو مسکراتے ہوں گال پر کس دی چکی تھی جس پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا

 ہاں بالکل آپ پر گئی ہے مرجان ۔۔وہ کچن سے آواز لگاتے بولی تھی علیزے ہنسی تھی جبکہ مرجان نے تیکھی نظروں سے کچن کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

ڈیڈا آپکی آنکھیں بہت پیالی ہیں ۔۔ 

اسکی ٹوٹی پھوٹی اردو پر وہ مسکرا چکا تھا ۔۔

آپکی آنکھیں بھی ڈیڈا پر گئی ہیں کشو ۔۔ مرجان نے اسکی چھوٹی سی ناک کو کھینچا 

شچی ؟! وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگی وہ ہنس پڑا تھا وہ بولتی ہی ایسے تھی ۔۔۔

آپ ریڈی ہو جائیں جلدی سے مرجان بھائی نے کہا ہے آج وہ آفس نہیں جائیں گے ۔۔۔  زنیرا نے جلدی سے اسے کوٹ پہناتے ہوئے کہا حرب نے مسکراتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑتے اسے قریب کیا ۔۔۔

کچھ تو شرم کریں ۔۔۔ زنیرا نے آنکھیں پھیلائی تھی جو اسکے قریب ہوا تھا ۔۔۔

ہاہاہاہا ۔۔ وہ معصوم سے قہقہ سن کر ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے معصوم سی مرحا آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی ۔۔۔

مماں میں نے کچھ نہیں دیکھاا ۔۔۔ وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھتی بولی زنیرا نے منہ بسور کر حرب کو دیکھا جو جاتے جاتے اسکے گال پر لب رکھ گیا تھا وہ شرمندگی سے گال پر ہاتھ رکھ گئی تھی

ہاہا پاپا نے مماں کو کس کیا ۔۔وہ ہنستی ہوئی اونچی آواز میں کہتے ہوئے کمرے سے باہر بھاگی تھی زنیرا اسے پکڑنے کے لئے اسکے پیچھے بھاگی تھی جو اونچی آواز میں انکا راز کھول رہی تھی ۔۔۔

نیشال گھر میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں ان بچوں کو دیکھتی ہوں تو ماضی کے سارے غم بھول جاتی ہوں ۔۔ آفرین بیگم نے نیشال کودیکھتے مسکرا کر کہا جو اپنی بیٹی علیشہ کو کھانا کھلا رہی تھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلا گئی تھی ۔۔۔

چاچی جان آپکی ماریہ سے بات ہوئی بہت عرصہ ہو گیا وہ یہاں نہیں آئی علیزے آپی بتا رہی تھی کہ وہ یہ شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ تو آغا انکل کے کہنے پر اسنے کر لیا کیونکہ انکل کو لگ رہا تھا وہ قصا بیگم کے جانے سے اکیلی ہو گئی ہے۔۔۔ نیشال نے علیشہ کو گود میں لیکر پوچھا آفرین بیگم افسردہ ہوئی

نہیں نیشال بچے میری بات نہیں ہوئی اس سے اور ناں ہی اسنے رابطے کی کوشش کی ہے اور وہ رخصتی کے وقت بھی مجھ سے یہ کہہ کر گئی تھی اس گھر میں کبھی واپس نہیں آنا چاہے گی ۔۔ آفرین بیگم نے افسردگی سے کہا تھا 

لیکن جو کچھ قصا چاچی نے کیا اس کے بعد انکل آغا کبھی بھی ان کو اس گھر میں رہنے کی اجازت ناں دیتے اگر اس دن عشیق کو کچھ ہو جاتا تو ۔۔ نیشال کہتے ہوئے رکی تھی دروازے سے آتی کشمالہ بیگم کو دیکھ کر پرانی چادر اور پرانے لباس میں وہ بےحد کمزور نظر آ رہی تھی آفرین بیگم چونکتے ہوئے اٹھی تھی ۔۔۔

نیشال ۔۔۔ 

وہ نیشال کو دیکھتی روتے ہوئے اسکی طرف بڑھی تھی اسکی گود میں کھیلتی علیشہ کو دیکھ کر اسکی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی تھی نیشال ایک قدم پیچھے ہوئی تھی انہیں اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ۔۔۔ کشمالہ بیگم کے قدم ساکت ہوئے

کیوں آئی ہیں آپ یہاں۔۔ علیزے انہیں دیکھتے ہوئے رکی تھی اور پھر اطمینان سے بولی تھی کشمالہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑے میرال کو دیکھا جو انہیں دیکھ کر علیزے کے پیچھے ہوا تھا ۔۔۔

بیٹا میں تمھاری نانی ہوں آو میرے پاس ۔۔ کشمالہ بیگم نم آنکھوں سے اسے دیکھتے نیچے بیٹھتی بولی مگر میرال علیزے کے پیچھے چھپ گیا تھا ۔۔۔

آپ بیڈ وومن ہو مجھے پتا ہے آپ میری نانی نہیں ہو ۔۔ وہ اسے دیکھتا مصنوعی غصے سے بولا کشمالہ بیگم کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹتے چلے گئے تھے

                                  ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

بلیک مرسیڈیز سے نکلتا وہ سامنے کے منظر دیکھ کر مسکرایا تھا جہاں کبھی آبادی نہیں ہوا کرتی تھی جہاں کی زمین بنجر تھی وہاں نئے مکانات تعمیر ہو چکے تھے وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھا تھا ریحان اور میکس بھی اسکے ہمراہ تھے وہ پرسکون نظروں سے آس پاس دیکھ رہا تھا لوگ جو اپنے کاموں میں مصروف تھے اسے دیکھ کر گھروں سے نکل آئے تھے ۔۔

امی اینجل انکل آئے ہیں ۔۔

آج کئی سالوں بعد اسنے یہ لفظ سنا تھا اسکی نیلی آنکھوں میں نمی آئی تھی وہ مسکراتا ہو ایک گھٹنا ٹکائے نیچے بیٹھا تھا وہ چھوٹی سی بچی جو چار پانچ سال کی تھی اب کافی بڑی ہو گئی تھی مگر وہ  پھر بھی اسے پہلے کی طرح گلے لگا گئی تھی ۔۔

انکل آپ نے پرومس پورا کیا میں اب سیونتھ کلاس میں ہوں اور ہم سب سکول جاتے ہیں ۔۔۔ آل تھینکس ٹو یوو انکل ۔۔ وہ خوشی سے کھلکھاتی ہوئی بولی وہ پرسکون ہوا تھا کم سے کم کسی کو تو اسنے سکون مہیا کیا تھا چاہے وہ خود کتنی اذیت میں تھا ۔۔۔

سب لوگوں نے اسکا شکریہ ادا کیا تھا ۔۔۔

بیٹے رکئے ۔۔ وہ جو سب کی دعائیں لیکر جانے کے لئے مڑا تھا ایک بزرگ کی آواز پر رکا تھا جو لٹھے کی طرح سفید لباس میں ملبوس تھے انکے سر کے بال اور داڑھی بھی سفید تھی ۔۔۔

بابا کچھ چاہیے آپکو ۔۔ وہ انہیں سہارا دیتا ہوا سنجیدگی سے بولا جس پر وہ مسکرا دیئے تھے ۔۔۔

یہ دنیا آپ جیسے نیک اور مخلص انسانوں کی بدولت تو چل رہی ہے ورنہ اس دنیا میں اتنے گنہگار اور منکر موجود ہیں جن کے اتنے گناہ ہیں کہ یہ دنیا بھی ان کا بوجھ ناں اٹھا پائے ۔۔۔ وہ بزرگ اسے قریب رکتے اسکا ہاتھ پکڑتے شفقت سے بولا تھا وہ سنجیدگی سے سر کو دھیرے سے ہلا گیا تھا

بابا میں بھی بہت بڑا گنہگار ہوں جانے انجانے میں بہت سے لوگوں کو تکلیف دی ہے میں نے ۔۔ وہ سر جھٹکتا ایک جانب دیکھتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا وہ بزرگ مسکرا دیئے تھے

بیٹا تم ایمان رکھو اللہ پر وہ بہتر لیکر بہترین دیتا ہے میری بات سمجھ رہے ہو ۔۔۔

وہ سپاٹ نظروں سے انکی جانب دیکھنے لگا جن کے پر نور چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی ۔۔۔

وہ آزمائے گا دنیا کی ہر محبت دیکھا کر پھر کہے گا بتا کون ہے تیرے میرے سوا ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے تھے شاہ ویر نے حیرانی سے انکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

آپ ۔۔۔ آپ کیسے جانتے ہیں یہ سب ۔۔۔ وہ چونکتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

تم نے خواہ گناہ کئے ہوں ذندگی میں مگر وہ رب تمھیں آزمائش میں ڈال کر تمھیں ضرور آزماتا ہے تم اپنی محبت سے دور ہوئے تو تم خدا کے قریب ہوئے تم نے نماز شروع کر دی اور پچھلے چار سال سے تم باقاعدگی سے نماز پڑھ رہے ہو اور تہجد بھی ۔۔۔ وہ پاک ذات راضی ہے تم پر تم اپنی ہر آزمائش میں کامیاب ہوئے ہو ۔۔۔ 

وہ لب وا کئے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ ناں کہہ انکے پر نور چہرے کو بس دیکھتا رہ گیا جو دمک رہا تھا نور سے ۔۔۔

کچھ راتیں اس لئے بھی خالی ہوتی ہیں کیونکہ اللہ چاہتا ہے میرا بندا مجھ سے باتیں کرے ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی وہ سر جھکاتا ہوا لب بھینچے سر کو ہاں میں ہلا گیا تھا ۔۔۔

تمھارا بچپن جیسا بھی گزرا ہو شاہ تم نے کبھی شکایت نہیں کی ناں امید نہیں ہوئے مایوس نہیں ہوئے اور اس لئے وہ تمھیں عطا کی گئی جو تمھارے دل کے بےحد قریب ہے جس نے تمھیں جینے کی وجہ دی مگر پھر تمھیں آزمایا گیا اسے دور کر دیا گیا شاید خدا چاہتا تھا تم اسکے قریب ہو جاؤ اسکی عبادت کرو تم نے وہی کیا ۔۔۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کیوں قریب ہوئے تم خدا کے ۔۔۔ وہ بزرگ استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھتے بولے

مجھے ذہنی سکون میسر نہیں تھا بابا میں اکیلا پڑ چکا تھا میں اسکا مستقبل خراب نہیں کر سکتا تھا ناں ہی اسے کھو سکتا تھا ۔۔۔ وہ ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا

 اور آج جس مقام پر تم ہو وہ تمھاری قابلیت ضرور ہے مگر خدا نے تمھیں توفیق عطا کی ہے ان غریبوں کی مشکلات آسان فرمانے کی اور ایک بات خدا کو تمھیں صرف تمھاری جائے نماز پر کی گئی عبادت پسند نہیں آئی تم جانتے ہو اللہ کیا پسند کرتا ہے ؟! 

وہ سنجیدگی سے انکی جانب دیکھنے لگا ۔۔۔

عبادتیں صرف جائے نماز پر نہیں ہوتیں میرے بچے بلکہ یہ دھیمے لہجے ، عاجزانہ اور ہمدردانہ رویوں سے  بھی ہوتی ہیں ۔۔ وہ سنجیدگی سے انکی پرنور آنکھوں کو دیکھ گیا تھا  ۔۔۔

آپ اسکے لئے دعا کرتے رہے  تہجد میں خود کو چھوڑ کر اتنی محبت کرتے ہو اس سے ۔۔ وہ بزرگ مسکرائے تھے وہ سر جھکا گیا تھا ۔۔۔

جاؤ بچے زیادہ دیر نہیں روکوں گا آپکو  اور فلائٹ ہے ناں آپکی اللہ کی امان میں رہو ۔۔ وہ بزرگ کہتے ہوئے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ گئے تھے ۔۔۔

وہ عاجزانہ نظروں سے انکو دیکھتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا اسکے قدم ساکت ہوئے تھے ۔۔۔وہ میری فلائٹ کے بارے میں اور میرے بارے میں اتنا سب کیسے جانتے ہیں کون ہیں وہ ۔۔۔ 

وہ سوچتے ہوئے پیچھے مڑا مگر وہ تو وہاں تھے ہی نہیں وہ آس پاس بہت دور تک انہیں ڈھونڈتا رہا مگر وہ اسے نہیں ملے تھے ۔۔۔

 "" تم سے شروع ہوا تہجد کا یہ سلسلہ ۔۔

تم سے ہی تو ملا مجھے رب کا راستہ ""

                                       ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

سہیل صاحب پورچ میں ہی ساکت ہو چکے تھے کشمالہ بیگم کو دیکھ کر ۔۔

نیشال میری بچی علیزے میری بات سنو اپنی ماں کو معاف نہیں کرو گی  ۔۔۔ کشمالہ بیگم روتے ہوئے انہیں دیکھتے بول رہی تھی

تمھاری غلطیاں ہی اتنی ہے وہ کس کس غلطی کے لئے تمھیں معاف کریں ۔۔ سہیل صاحب کرخت لہجے میں بول کر سب کو خاموش کر گئے تھے شہنشاہ صاحب مرجان کیساتھ پورچ میں آئے تھے مگر کشمالہ بیگم کو دیکھ کر وہ بھی ساکت ہو چکے تھے سب ہی حیران و سرگردان سہیل صاحب کو دیکھتے تو کبھی کشمالہ بیگم کو ۔۔۔

سہیل مجھے معاف کرو دو خدا کے لئے مجھے معاف کر دو ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے سہیل صاحب کا آگے ہاتھ جوڑتے روتے ہوئے کہا سہیل صاحب اسے سپاٹ نظروں سے دیکھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹے تھے کشمالہ بیگم نے بھیگی آنکھوں سے انکو دیکھا ۔۔

کس کس غلطی کے لئے معاف کر دوں میری بچی زارا کو مجھ سے دور کرنے کے لئے تابش کو مارنے کے لئے میری بہن رامین کو مارنے کے لئے میری چھوٹی سی فیملی اجاڑنے کے لئے ۔۔۔ میرا خوشیوں سے کھلتا ہنستا گھر اجاڑنے کے لئے اس گھر میں رہ کر پراپرٹی اپنے نام کروانے جیسے گرے ہوئے خیالات پالنے کے لئے ۔۔۔ سہیل صاحب کی گرجدار آواز پر سب شل ہوئے تھے کشمالہ بیگم نے روتے ہوئے سر جھکایا تھا ۔۔۔

خدا تو تمھیں معاف کر سکتا ہے مگر میں نہیں کر سکتا میرا دل اتنا بڑا نہیں ہے چکی جاؤ اس گھر سے اسی وقت۔۔ سہیل صاحب باہر کی جانب ہاتھ کرتے ہوئے کاٹدار لہجے میں بولا کشمالہ بیگم نے روتے ہوئے نیشال اور علیزے کو دیکھا جو انکی دیکھنے پر سر جھٹک گئی تھی ۔۔۔

کشمالہ بیگم نے اپنی شال کے نیچے سے پسٹل نکالا تھا اور اسکا رخ مرجان کی طرف کیا تھا سبھی ساکت ہوئے تھے مرجان اپنی جگہ سے زرا بھی نہیں ہلا تھا ۔۔۔

نہیں رکو تم ایسا کچھ نہیں کرو گی ۔۔ سہیل صاحب نے اسے روکنا چاہا مگر وہ ٹریگر پر انگلی رکھ کر سب کو پیچھے ہٹنے کا کہہ چکی تھی

یہ سب تمھاری اس کم بخت اولاد کی وجہ سے ہوا ہے جس کی وجہ سے تم مجھ سے دور ہوئے اور پوری پراپرٹی اس کم ذات اور اسکی کم ذات ماں کے نام کر دی میرے پاس تو کچھ بچا ہی نہیں منور جیل میں مر رہا ہے مجھے کیا ملا یہ سب کر کے میں آج اسے مار کر جاؤں گی یہاں سے ۔۔۔ کشمالہ بیگم نے چیختے ہوئے جنونی انداز میں کہا جب کسی نے انہیں پیچھے سے دھکا دے کر نیچے گرایا تھا اور پسٹل اٹھایا تھا ۔۔۔

میرے بھائی پر گولی چلائیں گی آپ ہمت کیسے ہوئی آپ کی ہاں ۔۔۔ ژالے سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے چیخی تھی مرجان نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا جو اسے مشکل سے ٹائم دیتا تھا پر تھی تو وہ اسکی بہن ہی ۔۔۔

کشمالہ بیگم نے اس کے ہاتھ سے پسٹل کھینچنا چاہا مگر وہ انہیں ایک اور دھکا دے گئی تھی ۔۔۔

بابا پولیس کو فون لگائیں ان سے کہیں یہاں ایک بہت بڑی مجرمہ اور نفسیاتی عورت موجود ہے جس نے دو قتل کئے ہیں اور آج میرے بھائی پر گولی چلانے کی حماقت کی ہے آ کر اسے اریسٹ کریں ورنہ میں گولی چلا دوں گی  ۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولی تھی  کشمالہ بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا سہیل صاحب نے پولیس اسٹیشن کال کی تھی ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں پولیس وہاں آ کر کشمالہ بیگم کو اریسٹ کر چکی تھی سہیل صاحب اور آغا صاحب انکے ساتھ گئے تھی اس بات کی تسلی کے لئے کہ اب وہ جیل سے کبھی باہر ناں آئیں ۔۔۔

مرجان نے سنجیدگی سے ژالے کو گلے لگایا تھا وہ روتے ہوئے اسکے گلے لگا گئی تھی ۔۔۔ 

بابا مماں اور ماموں کیوں رو رہے ہیں ۔۔۔ ندیم کو دیکھتا انکا بیٹا مہریز معصومیت سے پوچھنے لگا مرجان نے اسے اٹھاتے ہوئے اسکے گال پر بوسہ دیا تھا وہ منہ بسورتا ہوا پیچھے ہوا تھا اسکی بیئرڈ جو چبھی تھی اس معصوم کو گال پر ۔۔ سب گھر والے مسکرا گئے تھے انہیں دیکھ کر ۔۔۔

                                   ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

یار تم تو ناراض ہی ہو گئی تھی میں تمھیں منانے ہی آئی ہوں اب ۔۔ منال نے منمنا کر کہا وہ مصروف سی کبرڈ میں کپڑے رکھ رہی تھی

تو اس وقت آنے کی کیا ضرورت تھی کل صبح آ جاتی تم سے انکل یوسف نے اس وقت آنے کی وجہ نہیں پوچھی کیا ۔۔ عشیق نے آنکھیں گھماتے ہوئے کبرڈ بند کرتے پوچھا 

ارے نہیں وہ کوئی مہمان آئے ہوئے تھے انہیں گیٹ سے 

 ریسیو کر رہے تھے گاڑی بھی پارک کروا رہے تھے شاید ۔۔ منال نے لاپرواہی سے شانے اچکا کر کہا 

کون مہمان اوہ میں تو بھول ہی گئی انکل نے کہا تھا مہمان آنے ہیں اوہ میں کیسے کپڑوں میں ملبوس ہوں یارر شٹ ۔۔ وہ اپنے سلک کے بلیک نائٹ سوٹ کو دیکھتی شرمندگی سے بولی 

ہاں جاؤ جاؤ چینج کر لو ایسے کوئی منڈا ہوا تے فیر اسنے فدا ہو جانا ۔۔ منال نے قہقہ لگایا عشیق نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا جس پر وہ منہ پر ہاتھ رکھتی ہنسی کا گلا گھونٹ چکی تھی کبرڈ سے پیچ کلر کی سمپل شلوار قمیض جس پر گولڈن اور وائٹ گوٹے کا نفیس باریک کام کیا گیا تھا نکال کر چینج کرنے چلی گئی منال مسکراتے ہوئے اسے بیڈ پر لیٹ گئی اور چھت کو تکنے لگی وہ چینج کر کے باہر آئی اور بالوں سے کیچر نکال کر مرر کے سامنے بالوں کو برش کرنے لگی ۔۔

ہائے عشققققققق تیرے بال اتنے لمبے ہیں تو کاٹتی نہیں انکو کیا ۔۔ وہ اسکی کمر سے نیچے جاتے گولڈن بالوں کو دیکھتی منہ کھولتے بولی عشیق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا

تجھے ٹاسک فورس والے کچھ نہیں کہتے آئی مین تو تو چھپی رستم نکلی مجھے لگا تیرے بال نارمل ہوں گے اتنے لمبے بال کیوں رکھے ہیں توں نے آپریشن کے ٹائم تجھے مشکل نہیں ہوتی ؟! منال نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔۔۔

کیا کروں بہت بار کاٹنے کی کوشش کی انکو لیکن میرا دل نہیں کرتا پچھلے چار سالوں سے انکی کٹنگ نہیں کی بس یہ بڑھتے گئے ۔۔۔ عشیق نے مرر میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے کہا اسے وہ لمحہ یاد آیا جب ماریہ نے اسکے بال کاٹنے کی کوشش کی تھی اور شاہ ویر نے ماریہ کے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔ 

عشق آپی چھوٹی سی ہیلپ کر دیں گی آپ ۔۔۔  حرا جو یوسف صاحب کی چھوٹی چھوٹی بیٹی تھی دروازہ کھولتے ہوئے منمنا کر کہا عشیق نے بالوں میں کیچر لگا کر سر ہلایا تھا ۔۔۔

وہ ناں بابا کے فرینڈ کے کوئی بیٹے آئے ہیں فلائٹ ہے بعد تھک گئے ہیں وہ فریش ہو رہے ہیں یہ انکے کپڑے پریس کرنے ہیں آپ کر دو وہ روحا اور میں ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں ۔۔ عشیق نے ناک چڑھایا تھا اسکی بات سن کر ۔۔۔

دیکھاؤ کر دیتی ہوں ۔۔ وہ اسکے ہاتھ سے کپڑے لیتی منہ بناتے بولی حرا فورآ ہی بھاگ گئی تھی منال نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔

تم بھی چلو نیچے ورنہ وہی میں کپڑے پریس کروں اور تم یہاں میرے کمرے کی جاسوسی شروع کر دو ۔۔ اسے دروازے کا راستہ دیکھاتی عشیق نے تنک کر کہا منال ہنستے ہوئے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔۔۔

بہت بڑی نکمی ہیں یہ دونوں لڑکیاں سارے کام مجھ سے کرواتی ہیں یار ۔۔۔  استری کو آن کرتے ہوئے وہ شرٹ سیدھی کرتی ہوئی منہ بنا کر بولی ۔۔۔

ہائے عشی رک جاؤ ۔۔۔ منال نے اسکے ہاتھ سے شرٹ لیتے ہوئے سونگھ کر آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا ۔۔

کیا ہو گیا ہے اب ۔۔۔عشیق نے دانت پیسے وہ پہلی ہی تنگ آئی ہوئی تھی اسے کام جو کرنا پڑ رہا تھا ۔۔۔

کیا فریگرینس ہے ہائے میں مر گئی ۔۔۔ منال نے شرٹ کو دوبارہ سونگھتے ہوئے لمبی سانس لی کر کہا عشیق نے اسے گھورتے ہوئے اسکے ہاتھ سے شرٹ لی تھی اور اسے سونگھا وہ ساکت ہوئی تھی دل کی دھڑکن نے شدت پکڑی سانسیں تیز  ہُوئی تھی وہ یہ مخصوص کلون کی ہلکی مہک کیسے بھول سکتی تھی ۔۔

کیا ہو گیا پاگل ہو گئی ہو ؟!

منال کی آواز نے اسے سوچوں کے سمندر سے کھینچا تھا وہ ہچکچاتے ہوئے اسکی جانب دیکھتے ہوئے نارمل ہو کر شرٹ پریس کرنے لگی 

کیا ہوا کس سوچ میں پڑ گئی تھی ۔۔ منال نے اسے شکی نظروں سے دیکھتے پوچھنا چاہا

کچھ نہیں ہوا تم جاؤ میرے لئے ایک گلاس پانی پے آؤ بہت گلا سوکھ رہا ہے ۔۔۔ عشیق نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا منال کندھے اچکاتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئی تھی

عشیق نے استری کو سائڈ رکھ کر دوبارہ سے اسکی مہک کو سونگھا تھا وہ جتنی بار بھی وہ مہک سونگھتی اسکا دل تیزی سے دھڑکتا ۔۔۔

وہ یہاں نہیں آ سکتا نہیں وہ یہاں نہیں آ سکتا چار سال بعد وہ یہاں آیا ہے آخر کیوں نہیں یہ میری غلط فہمی ہے میں غلط سوچ رہی ہوں وہ یہاں نہیں ہے ۔۔۔ تمام سوچوں کو جھٹکتی ہوئی وہ شرٹ پریس کرنے میں مصروف ہوئی منال نے اسے پانی کا گلاس دیا جسے وہ گھبراہٹ کے مارے پورا ہی پی گئی ۔۔۔

کیا ہوا پسینہ کیوں آ رہا ہے اتنا تمھیں اور تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے ناں عشق ۔۔ منال نے اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھتے کہا وہ نرمی سے اسکا ہاتھ ہٹا چکی تھی

میں بالکل ٹھیک ہوں ٹینشن مت لو تم گھر جاؤ میں بھی تھک گئی ہوں یہ کر کے سونے جا رہی ہوں بس ۔۔ وہ استری بند کرتے ہوئے بولی ۔۔۔

اوکے خیال رکھنا اللہ حافظ ۔۔۔ منال اسے گلے لگا کر وہاں سے چلی گئی تھی 

عشیق چلتی ہوئی باہر نکلی تھی یوسف صاحب کسی سے بات کر رہے تھے اس شخص کی عشیق کی جانب پشت تھی مگر اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا وہ شرٹ مٹھی میں پکڑتی جلدی سے پلر کے پیچھے ہوئی جب یوسف صاحب اسکے ساتھ گھر کی طرف بڑھ گئے تھے عشیق نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے نظریں گھما کر گیلری کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے وہ گزر رہا تھ وہ ساکت ہوئی تھی اسے چار سال بعد دیکھ کر آنکھوں کے سامنے ماضی سے لیکر اب تک کی ساری یادیں کسی فلم کی طرح چلتے گئے اور آنسوں ٹوٹ کر اسکے گالوں پر بہتے چلے گئےوہ سسکیوں کا گلا گھونٹ کر آنسوں صاف کرتی ہوئی سر جھٹک کر بیک ڈور سے گھر کے اندر آئی تھی آنسوں مسلسل اسکی آنکھوں سے ٹوٹ رہے تھے ۔۔

میں سمجھ نہیں پا رہی کیا چاہتے ہو تم مجھ سے پہلے خود سے بےوجہ الگ کر دیتے ہو جب میں نے خود کو سمبھالنا سیکھ لیا توتم واپس لوٹ آتے ہو اور مجھے تکلیف دیتے ہو ۔۔ وہ سسکتے ہوئے اسکی شرٹ پریس کر رہی تھی اور رو بھی رہی تھی ۔۔۔

وہ کچھ فاصلے پر اسے دیکھ کر رکا تھا جو اسکی طرف پشت کئے اسکے ہی کپڑے پریس کر رہی تھی وہ ذو معنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ساکت ہوا تھا اسکے براؤن بال اب گولڈن ہو چکے تھے یا شاید اسنے جان بوجھ کر کلر چینج کیا تھا ہائٹ پہلے سے بڑھ گئی تھی ۔۔۔

وقت کتنا جلدی گزرتا ہے اینجل ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا دھیمے لہجے میں خود سے بولا تھا وہ شرٹ سیدھی کرتے ہوئے سر اٹھاتی اسکی طرف پلٹی تھی وہ فون کان پر رکھتے ہوئے پلٹا تھا عشیق نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا جو اسکی جانب دیکھ تک نہیں رہا تھا ۔۔۔

آپ جانتے ہیں میں یہاں ہوں یا پھر آپ میری موجودگی کو جان بوجھ کر اندیکھا کر رہے ہیں۔۔۔ وہ سر جھٹکتی سوچ گئی تھی ۔۔

وہ سنجیدگی سے اسے آخری نظر دیکھتا ہوا فون کان سے لگائے باہر نکلا تھا اسے امپورٹنٹ کال آئی تھی ہیڈ کوارٹر سے 

                                ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

مرجان کیا آپ ابھی تک دن کی بات کو لیکر پریشان ہیں  ۔۔۔زارا نے اسکے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے سر ہو ناں میں ہلا چکا تھا ۔۔

میں دیکھ رہی ہوں آپ پریشان ہیں ۔۔ زارا نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔

زارا شاہ ویر یہاں نہیں رہنا چاہتا کتنی بات دادا سائیں اور میں نے اسے واپس لانے کی کوشش کی ہے مگر وہ صرف ژالے کے نکاح میں شرکت کے لئے آیا تھا اور باہری باہر ہی نکل گیا تھا بغیر کسی کو بتائے کیا کروں میں مجھے فکر رہتی ہے اسکی آپ جانتی ہیں انکل منور جن لوگوں کیساتھ کام کرتے تھے وہ سب ابھی اریسٹ نہیں ہوئے ۔۔۔ 

میں آپکی پریشانی سمجھتی ہوں انشاء اللہ سب بہتر ہو جائے گا وہ عشیق کو لیکر ڈیپریس ہیں ژالے بتا رہی تھی آج وہ اسے واپس لینے گئے ہیں میں عشیق سے بات کروں گی وہ شاہ ویر بھائی کو واپس لے آئیں گی ۔۔۔ زارا نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی وہ مسکراتا ہوا اسے دیکھتا تاسف سے سر ہلا گیا تھا ۔۔۔

زارا میں بہت خوش قسمت ہوں کتنی بڑی نعمت سے مجھے نوازا ہے خدا نے مجھے ۔۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتا اس پر لب رکھتا سنجیدگی سے بولا 

وہ کیسے؟! زارا نے مسکراتے ہوئے پوچھا 

آپ نے مجھے خوشیاں دی میرے مرض کی دوا آپ بنی اور اتنی پیاری گڑیا  دی مجھے جو آپ سے بھی زیادہ کیوٹ ہے ۔۔ وہ پاس سوئی کشش کا گال کھینچتے بولا جا پر وہ نیند میں ہی اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتی اسکی ہتھیلی پر سر رکھ گئی زارا اور مرجان مسکرائے تھے اسے دیکھ کر ۔۔۔

اب یہ ایسے ہی سوئے گی پوری رات بیٹھے رہیں آپ ۔۔ زارا نے بلینکٹ درست کرتے ہوئے مسکرا کر کہا ۔۔۔

میں کیا کہہ رہا تھا یہاں بیٹھیں زرا ۔۔۔وہ اپنےپاس بیڈ پر ہاتھ رکھتا بولا زارا تشویش سے اسے دیکھتے ہوئے وہاں بیٹھی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسکا سر اپنے کندھے پر ٹکا گیا تھا ۔۔۔

سو جائیں ۔۔ وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے مسکرا کر بولا زار نے مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھاما وہ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا گیا تھا اور سکون سے آنکھیں بند کی تھی زارا بھی اسکے کندھے پر سر رکھے سو گئی تھی ۔۔۔

                                    ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

حرا اور مرحا یوسف صاحب کیساتھ ڈنر کر چکی تھی  اور سونے جا چکی تھی عشیق ہلکا پھلکا کھا کر اٹھ گئی تھی اپنے کمرے میں گھستی وہ دروازہ لاک کرتی ہوئی بیڈ پر لیٹی تھی۔۔

مجھے لگا تھا مجھے لینے آیا ہو گا کیونکہ اسے احساس ہو گیا ہو گا اپنی غلطی کا مگر میں غلط تھی تمھیں احساس نہیں ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا ۔۔۔  وہ کبرڈ سے نائٹ سوٹ نکالتی لب بھینچتی بڑبڑاتے ہوئے واش روم میں گھس گئی تھی ۔۔

وہ چینج کر کے باہر ہی نکلی تھی جب اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی اسے اپنے سامنے اپنے بیڈ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے براجمان دیکھ کر وہ آئی برو اٹھاتا ہوا اسکے حلئے کا جائزہ لیتا ہوا لبوں پر مبہم سی مسکان سجا چکا تھا وہ سرخ ہوتی جلدی سے کبرڈ سے دوپٹہ اٹھا کر پہن چکی تھی ۔۔۔

کیا دیکھ رہے ہو ایسے  ۔۔ آپکو کسی نے یہ چیز نہیں سیکھائی کے کسی کے بھی کمرے میں آنے سے پہلے اجازت مانگی جاتی ہے ۔۔۔ وہ تنک کر بولی اسکی مسکان اور گہری ہوئی تھی اسکی بات پر۔۔۔

فار یوئر کائنڈ انفارمیشن مس عشیق شاہ ویر حیدر کاظمی میں اپنی بیوی کے کمرے میں ہوں اور مجھے کسی کی پرمیشن لینے کی ضرورت نہیں اپنی ہی وائف کے کمرے میں آنے کے لئے ۔۔ وہ اٹھ کر اسکے قریب ٹہلتا ہوا معنی خیزی سے بولا عشیق نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسے ہر زاویے سے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے شکاری اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے درست موقع کی تلاش میں ہو ۔۔۔

نکلو میرے کمرے سے اسی وقت ۔۔ وہ پیشانی پر بل ڈالے دروازے کی طرف اشارہ کرتی بولی جب وہ اسکی کلائی سختی سے پکڑتا اسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی اس سے کچھ انچ کے فاصلے پر خود کو روک چکی تھی اگر وہ ایسا ناں کرتی تو وہ یقیناً اسکے چوڑے سینے سے ٹکرا جاتی ۔۔۔ 

لیمٹس کراس کر رہے ہیں آپ مسٹر شاہ ویر حیدر کاظمی مت بھولیں یہ آپکا فارم ہاؤس نہیں جہاں آپ کسی کو بھی بلا کر اسکا فائدہ ۔۔۔

 وہ اسکے بالوں میں انگلیاں سختی سے الجھاتا اسکا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے چپ کرا گیا تھا 

ایسے الفاظ میری اینجل نہیں کہہ سکتی تھی کون ہو تم کیا کر دیا تم نے میری اینجل کیساتھ ۔۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا مگر وہ تو طنزیہ انداز میں مسکرائی تھی

اپنی اینجل کو خود اسکے شیری نے اپنے ہاتھوں سے مار ڈالا تھا اس دن ۔۔ وہ اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتی خالی لہجے میں بولی تھی۔۔۔

اینجل ۔۔

نہیں اس نام سے آپ اب مجھے کبھی نہیں پکار پائیں گے چلے جائیں یہاں سے میرے کرب مت بڑھائیں میں نے عادت ٹال لی ہے بغیر کسی کے آسرے سہارے کے جینے کی میں اور میری تنہائیاں ساتھ ہیں کسی اور کا ساتھ نہیں چاہیے چلے جائیں اسی وقت ویسے بھی آپ آگے بڑھ چکے ہیں اپنی ذندگی میں جہاں میرے  تیسرے بےوجہ کردار کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔

آپ بےوجہ نہیں ہیں ناں ہی آپکا کردار کوئی تیسرا ہے ۔۔۔  اسکا چہرہ تھامتے ہوئے وہ سنجیدگی سے بولا تھا وہ تو جانتا ہی نہیں تھا وہ اتنی پوزیسیو تھی اسے لیکر ۔۔۔ اسکا ہاتھ اپنے رخسار سے ہٹاتے ہوئے وہ طنزیہ لب و لہجے میں اسے ناجانے کب سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

 مسٹر شاہ ویر حیدر کاظمی اب کیا چاہیے آپکو مجھ سے اس رات دل نہیں بھرا تھا ہاں ؟! ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی بےجان لہجے میں بولی

بہت تکلیف ہوئی تھی اسے اسکے ان لفظوں سے وہ اسے سرد نظروں سے دیکھتا ایک قدم پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔

عشیق میں نے جو کچھ بھی کیا آپکے لئے کیا ۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا وہ اسکی بات کاٹ چکی تھی

اوہ یس آپکے احسان ہیں مجھ پہ میں جانتی ہوں بہت احسان ہیں اس لئے آپ یہاں اس وقت صحیح سلامت کھڑے ہوئے ہیں اگر کوئی اور مرد ایسا کرتا وہ اسوقت زندہ سلامت میرے سامنے ناں کھڑا ہوتا کسی کو حق نہیں ہے مجھے تکلیف دینے کا آپکو بھی نہیں مگر آپ نے  تکلیف دی اچھے سے جانتے تھے جو لڑکی ایک دن تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی اسے خود سے ایسے الگ کر کے پھینک دیا جیسے وہ تمھاری کچھ تھی ہی نہیں ۔۔  اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا وہ چیختی ہوئی اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کاٹدار لہجے میں بولی وہ بےجان نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

آپکی جان کو خطرہ تھا ہماری جان کو خطرہ تھا کیوں نہیں سمجھ رہی آپ ؟؟ 

 میرے لئے ضروری تھا آپکو خود سے الگ رکھنا دادا صاحب پر اٹیکس کئے انہوں نے ژالے پر اٹیک ہوا میری فیملی کو خطرہ تھا سب سے زیادہ آپکو تھا آپ پر بھی اٹیک ہوا تھا کیا چاہتی تھی آپ اپنی تسکین کے لئے آپکی تسکین کے لئے میں آپکی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ؟! اسکا ہاتھ پکڑتا وہ اسے قریب کرتا متذبذب لہجےمیں بولا وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے ساکت ہوئی تھی

اپنی خاظر اپنے دلی سکون کی خاطر میں آپکو اپنے ساتھ رکھ لیتا ان خوابوں کو اپنی محبت کے لئے توڑ دیتا جو آپ بچپن سے دیکھتی آئی تھی ویسے کمزور چھوڑ دیتا آپکو جسے شیری کے بنا نیند نہیں آتی تھی جسے یونیورسٹی میں لڑکیاں بچی سمجھ کر تنگ کرتی تھی جو چھوٹی چھوٹی بات پر رونے لگتی تھی جو میرے پیار کے لئے اپنے خواب تک توڑنے کو تیار تھی ویسے چھوڑ دیتا ؟؟ اسکے ہاتھ کو چھوڑتا وہ پیچھے ہٹتا دبے لہجے میں غرایا تھا 

اور مجھے ایسے ہی خود سے بدگماں کر کے یہاں بھیج دیا کیوں نہیں بتایا تھا مجھے کہ کیا مجبوری ہے تمھاری۔۔۔ کیا سوچتے ہو کیا سمجھتے ہو خود کو تم ہاں سمجھتے کیا ہو خود کو بولو ۔۔ دونوں ہاتھوں سے اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتی وہ کرب سے بھرے لہجے میں بولی تھی 

میں مانتا ہوں میرا طریقہ غلط تھا لیکن اگر میں ایسا ناں کرتا آج بھی میرے سامنے وہی عشیق کھڑی ہوتی جو میرے بغیر کچھ نہیں تھی جسے میرا سہارا چاہیے تھا لیکن یہ چار سال جس طرح میں نے کاٹے ہیں آپ جانتی ہیں ؟!! 

اسکا دل پگھلا تھا آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر گال پر لڑھک گئے تھے وہ ہاتھ کی پشت سے آنسوں صاف کرتی اسکا ہاتھ پکڑتی اسے دروازے کی طرف لیجنے لگی ۔۔۔

چلے جائیں اسی وقت مجھے اکیلا چھوڑ دیں ۔۔۔ دروازہ کھولتی وہ اسکا ہاتھ چھوڑتی بےجان آواز میں بولی تھی

کہیں نہیں جا رہا میں ۔۔ وہ دروازے پر ہاتھ رکھتا سپاٹ لہجے میں بولا

میرے روم سے فورآ باہر نکلو ورنہ جان سے مار دوں گی ۔۔ وہ نڈر لہجے میں اسے پیچھے دھکا دیتی ہوئی دوبارہ بولی تھی 

ب آپکو میری طرف کی بات سننی ہو گی جو کچھ مجھ پرگزرا ہے جو کچھ میں نے برداشت کیا ہے وہ سننا ہو گا ۔۔۔ وہ اسے کندھوں سے پکڑتے دیوار سے لگاتا بولا تھا

کیا ہو سکتا ہے آپکو ہاں ۔۔۔ آپ کو بہت لڑکیاں مل گئی ہوں گی  آپ زندگی میں آگے بڑھ گئے ہوں گے ۔۔۔ وہ حقارت سے مسکرائی تھی بغیر یہ سوچے کہ اسکے الفاظ کسی خنجر کی طرح اسکے دل کو زخمی کر رہے ہیں مگر وہ ضبط کئے ہوئے تھا وہ آج ہر صورت اسے منانا چاہتا تھا

آپکی غفلتوں کو کیا خبر جانم ۔۔۔

ہماری اداسیاں عروج پر ہیں ۔۔۔

وہ اس کے دائیں بائیں دیوار پر ہاتھ رکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا 

میں مزاق نہیں کر رہی اگر اسی وقت تم میرے کمرے سے باہر ناں نکلے میں جان لے لوں گی تمھاری اور یہ تم بھی جانتے ہو کہ میں ایسا کرنے میں زرا بھی جھجھک نہیں کھاؤں گی ۔۔۔ 

وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی شرٹ کا گریبان پکڑتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھتی ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولی تھی 

اففف آپ تو واقعی جان لینا چاہتی ہیں میری کر لیں جو کرنا ہے میں یہاں سے کہیں نہیں جا رہا آپکو لئے بغیر میری جان ۔۔۔ وہ اسکے سر کے پاس دیوار پر ہاتھ رکھتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا  آخری الفاظ پر زور دیتا ذو معنی لہجے میں بولا تھا آنکھیں اب بھی اسکی آنکھوں میں جھانک رہی تھی ۔۔۔

اگر تمھیں سچ میں مرنے کا شوق ہے تو تمھارا یہ شوق میں پورا کر ہی دیتی ہوں مسٹر  شاہ ویر حیدر کاظمی ۔۔۔ وہ پینٹ کی پاکٹ سے پسٹل نکالتی ہوئی اسے لوڈ کرتی اسکی گردن سے لگا گئی وہ مبہم سا مسکرایا تھا اسکی دلیری پر ۔۔۔

میں صرف تین تک کاؤنٹ کروں گی ابھی اسی وقت اپنی بےعزتی سمیٹو اور یہاں سے نکلو ورنہ میں اس بار گولی بالکل صحیح مقام پر چلاؤں گی ۔۔۔ وہ ٹریگر پر انگلی رکھتی اسکی گردن پر پسٹل کا دباؤ ڈالتی کرخت لہجے میں بولی ۔۔۔

یہ ادائیں میری جان پہلے ہی لے چکی ہیں میں ڈیٹھوں کا ڈیٹھ یہاں سے ایک انچ بھی نہیں ہلنے والا انڈرسٹینڈ ۔۔ وہ اسکے سرخ ہوتے گال پر انگوٹھا رکھتے مسکرایا جسے وہ دوسرے ہاتھ سے جھٹک گئی تھی ۔۔

ایک ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی سنجیدگی سے بولی تھی 

وہ مسکراتا ہوا اسکے چہرے کر قریب چہرہ کر گیا تھا بےفکری سے ۔۔۔

کم آن مس عشیق  شاہ ویر حیدر کاظمی شوٹ می ۔۔۔ وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے اسکی سرخ ہوتی ناک کی نوک پر انگلی رکھتا ہوا بولا جس ہر وہ سلگ گئی تھی

دو ۔۔۔ وہ آنکھوں میں ڈھیروں سردپن لئے اس اسے گھورتی بولی تھی جس پر وہ گہرا مسکرایا تھا۔۔۔

آخری بار کہہ رہی ہوں چلے جاؤ ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے کیا واقعی تم اپنی محبت کو پانے کے لئے دوسری بار اپنی محبت سے گولی کھانے کو تیار ہو  ۔۔ وہ اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتی طنزیہ لب و لہجے میں بولی 

وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ گیا تھا ۔۔۔

تین ۔۔۔ وہ ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھاتی بولی

جو کرنا ہے کر لیں اپنی اینجل کو لئے بنا شیری کہیں نہیں جائے گا ۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا ۔۔۔  

وہ ٹریگر پر انگلی کا دباؤ دے چکی تھی گولی چلنے کی آواز رات کی پرسکونی کو برباد کر چکی تھی ۔۔۔

شاہ ویر نے سپاٹ نظروں سے اسکے ہاتھ کو دیکھا تھا جو اسنے عین وقت پر موڑ کر مرر پر گولی چلائی تھی جو ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا  یقیناً وہ اس پر گولی نہیں چلا پائی تھی عشیق کی آنکھیں آنسوں سے بھر چکی تھی پسٹل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا تھا وہ دیوار سے ٹیک لگاتی ہوئں نیچے بیٹھتی چلی گئی لبوں پر ہاتھ رکھے وہ سسکیوں کے بیچ روتی چلی گئی شاہ ویر اسکے قریب نیچے گھٹنا ٹکائے بیٹھا تھا ۔۔

مظبوط کہہ رہے ہو مجھے نہیں ہوں میں مظبوط تمھاری محبت ہمیشہ میری مظبوطی کی طرف جانے کی راہ میں حائل ہوئی ہے کیوں تھی میں کمزور جانتے ہو کیونکہ میں جانتی تھی شاہ ویر ہے ناں وہ ۔۔۔ وہ سب ٹھیک کر دے گا جو مجھے تنگ کرے گا شاہ اسے مارے گا اسے پنشمینٹ دے گا اور مجھے پروٹیکٹ کرے گا مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی سٹرونگ ہونے کی شاہ ویر حیدر کاظمی کیونکہ تم نے مجھے تم پر انحصار کرنے پر مجبور کیا اسیر کر دیا تمھاری محبت نے مجھے  تمھارا میں اپنے جذبات نہیں سمجھ پائی تھی جو لڑکی اپنی محبت کو پا لینے کی خوشی میں صبح چمکتے چہرے کیساتھ اٹھتی ہے اسے ایسے الفاظ کہہ کر تم جیتے جی مار دیتے ہو کیا میرے جذبات کی کوئی قدر نہیں تمھاری نظروں میں اب تم چار سال بعد میری زندگی میں واپس آئے ہو اور کہہ رہے ہو تمھیں دوبارہ اپنی زندگی میں شامل کر لوں ۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے اسے دیکھتی دیوار سے سر ٹکاتی مدھم لہجے میں بولی تھی اسکے لمبے بال اسکے بھیگے چہرے سے چپک گئے تھے وہ عشیق تو لگ ہی نہیں رہی تھی وہ کوئی دیوانی لگ رہی تھی جس نے قدم قدم پر ٹھوکریں کھائی ہوں اور اب وہ تھک گئی ہو راستے کی تلاش کرتے کرتے جس میں اب منزل تک جانے کی سکت ہی باقی ناں رہی ہو وہ لب بھینچے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا 

اٹھیں پلیز ۔۔ وہ اسکے چہرے سے چپکے بالوں کو درست کرتے ہوئے نرمی سے بولا وہ ہاتھ چھڑاتی ہوئی سر کو جھٹک کر ایک جانبکر گئی تھی 

ٹھیک ہے اگر آپ ذندگی کو اپنے انداز میں تنہائی میں گزارنا چاہتی ہیں اگر میری موجودگی آپکو تکلیف دے رہی ہے اگر میں واقعی آپکا گنہگار ہوں تو ۔۔۔ وہ پسٹل اسکے ہاتھ میں رکھتا ہوا بولا عشیق نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔

آپ اسی وقت مجھے ختم کر دیں ویٹ میں آپکو وائس نوٹ دے دیتا ہوں جس میں میں یہ قبول کر لیتا ہوں میں نے خود کو خود گولی ماری ۔۔ وہ فون نکالتا سرعت سے بولا تھا عشیق کا ہاتھ کانپ اٹھا تھا جس میں اسنے کچھ سیکنڈ پہلے پسٹل رکھا تھا اسکا دل ڈوبتا چلا گیا سانسیں تیز ہوئی وہ بےجان نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو وائس نوٹ بنا کر اسکی جانب ایسے بڑھا چکا تھا جیسے وہ ایک چھوٹی سی معمولی سی چیز تھی ۔۔۔

کوئی آپ سے کچھ نہیں کہے گا آپ اسی وقت مجھے مار دیں ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے اسکے دوسرے ہاتھ میں فون تھماتا تحمل سے بولا عشیق کے دونوں ہاتھ کانپ رہے تھے اسکا حلق بالکل خشک ہو چکا تھا 

شوٹ می عشیق مار دیں مجھے یہ میری سزا صحیح آپکو تکلیف دینے کے لئے ۔۔ وہ اسے دیکھتا بولا عشیق نے اسکی نیلی آنکھوں میں دیکھا یونہی کچھ دیر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا وہ پسٹل اور فون نیچے گراتی ہوئی اس کے سینے سے لپٹ گئی تھی روتے ہوئے ۔۔۔

وہ لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتا ہوا اسے اپنے سینے میں بھینچ چکا تھا کچھ دیر اسکے سینے سے سمٹ کر وہ اسکی مخصوص مہک کو اپنے روم روم میں اتارتی رہی اور روتی رہی اس سے پیچھے ہوتے ہوئے اسنے تڑپ کر اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اسکی حسیں نیلی آنکھوں کو لبوں سے چھوا پھر اسکے حسیں نقوش چہرے کو اور روتے ہوئے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا تھا وہ اسے نیچے سے اٹھاتا ہوا بیڈ پر بٹھاتا ہوا ٹیبل سے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر اسکے قریب کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے گلاس کو اسکی جانب بڑھایا  عشیق نے گلاس لیتے ہوئے کچھ گھونٹ بھر کر گلاس سائڈ باکس پر رکھا تھا وہ بہت شرمندہ تھی وہ بہت کچھ کہہ چکی تھی اسے وہ  اپنے آف وائٹ رومال سے اسکے بھیگے ہوئے چہرے کو صاف کرنے لگا ۔۔۔

میں چھوٹی بچی نہیں ہوں شاہ ۔۔۔ وہ نظریں جھکائے بولی تھی وہ مبہم سا مسکرایا تھا ۔۔۔

میں جانتا ہوں آپ چھوٹی بچی نہیں ہیں ۔۔ اسکے چہرے کو دیکھتا وہ سنجیدگی سے بولا تھا عشیق نے اسکی پرکشش آنکھوں کو دیکھا تھا  اگلے ہی پل وہ اس کا سر کشن پر رکھتا اسکے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی مظبوط انگلیوں کو الجھائے اس پر جھکا تھا عشیق نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اسکے دہکتے لبوں کو اپنے لبوں پر محسوس کیا تھا وہ اسکے لبوں سے اسکی گردن پر جھکا تھا اسکی گرم  دہکتی سانسوں کو عشیق نے اپنی گردن پر محسوس کیا وہ اسکے ہاتھ کی پشت پر ناخن سے سکریچ کرتی ہوئی آنکھیں سختی  سے بند کر چکی تھی اسنے سائڈ لیمپ کو بجھایا تھا 

رات ڈھائی بجے وہ اسے آزادی بخشتا اٹھا تھا وہ گہری نیند میں تھی وہ اپنا فون اٹھاتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا

                                    ♡✫✫✫❥♥️❥✫✫✫♡

آپی اٹھ جائیں آپ نے نماز نہیں پڑھنی آج ؟! ۔مرحا کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی وہ جلدی سے آنکھیں وا کرتے ہوئے اٹھی تھی 

آپی آپ بال کھول کر سوئی تھی ؟؟ ۔۔۔ مرحا نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا عشیق نے ساتھ پڑے کشن پر اپنے بالوں کو بکھرا دیکھا وہ مسکراتی ہوئی اٹھی تھی خود سے بلینکٹ ہٹاتے ہوئے وہ جھجھکی تھی ۔۔۔

مرحا آپ لوگ کل رات کہیں گئے تھے ؟! وہ بلینکٹ مٹھی میں پکڑتی بولی 

آپکو پتا لگ گیا اوہ نوووو ہم آئس کریم کھانے گئے تھے بابا کیساتھ آپی لیکن آپکو نہیں بتانا تھا ناں  ۔۔ مرحا نے معصومیت سے اپنا راز خود فاش کیا جس پر وہ مسکرائی تھی 

اچھا آپ ناں نماز پڑھ لو میں حرا موٹی کو اٹھا دوں وہ ابھی تک سوئی ہوئی ہے آپ ہمیشہ ہمیں اٹھاتی ہیں آج آپکو میں اٹھانے آئی دیکھو ۔۔۔ وہ دروازے سے جاتی ہوئی اسے طعنہ دے گئی جس پر وہ ہلکی سی مسکرائی تھی خود سے بلینکٹ ہٹاتے ہوئے وہ اٹھی وہ اپنے نائٹ سوٹ میں ہی تھی خود کو دیکھتی وہ مسکرائی اور پھر بالوں کو فولڈ کرتی ہوئی کبرڈ سے کپڑے نکالنے لگی اور پھر فریش  ہونے چلی گئی ۔۔۔ 

نماز ادا کر کے وہ کمرے سے باہر نکلی اور کچن میں سب کے بریک فاسٹ کو تیار کرنے کا کہہ کر وہ اسکی کافی بنانے میں مصروف ہوئی تھی لبوں پر مسکان سجا کر ۔۔۔

"مرحا انکل کہاں ہیں کل رات کے بعد سے نہیں ملے" مرحا کے گلاس میں جوس ڈالتی ہوئی وہ قدرے سنجیدگی سے بولی تھی کیونکہ وہ اکثر گھر ہی رہتے تھے یوں انکا اچانک غائب ہونا اسے تھوڑی پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا اور ساتھ ہی وہ بار بار شاہ ویر کے کمرے کی طرف دیکھتی جس کا دروازہ بند تھا حالانکہ وہ جانتی تھی اسے تو جلدی اٹھنے کی عادت تھی پھر کیوں وہ ابھی تک نہیں آیا تھا

"آپی بابا کل رات تو ہمارے ساتھ ہی آئے تھے ہم نے آئس کریم کھائی اور بہت انجوائے کیا لیکن صبح سے وہ بھی نظر نہیں آئے" بریک فاسٹ کرتی مرحا نے بریڈ کا بائٹ لیتے ہوئے بتایا عشیق نے تاسف سے سر ہلایا تھا   

  مرحا اور حرا کو بریک فاسٹ سروو کرنے کے بعد وہ سیدھی اسکے کمرے میں گئی تھی جس کا دروازہ تو پہلے سے ہی کھلا تھا یعنی لاک نہیں تھا وہ دروازے کے ہینڈل کو پکڑتی اندر داخل ہو گئی تھی وہ کمرے میں نہیں تھا نظروں سے اسکے کمرے کا جائزہ لیتی ہوئی اسکی نظریں واش روم کے کھلے دروازے پر پڑی تھی 

"اگر یہاں نہیں تو کہاں ہیں آپ شاہ "  ذہن میں ٹینشن کی ایک لہر اٹھی تھی وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی راستے میں وہ یوسف صاحب کا کمرہ دیکھنا نہیں بھولی تھی جو انکی موجودگی سے عاری تھا اپنے کمرے میں آتی وہ ٹینشن سے اپنا فون ڈھونڈنے لگی جو اسے نیچے پڑا ہوا ملا جلدی سے فون اٹھاتی وہ چونکی فون پر تقریباً دس سے بارہ مس کالز تھی جو اسکے ہیڈ کوارٹر سے تھی ساتھ ہی چند ای میل موصول ہوئے تھے جنہیں پہلے ہی کوئی اوپن کر کے دیکھ چکا تھا ۔۔

"شاہ " وہ فورآ سمجھی تھی یقیناً وہ صبح اسکے کمرے میں آیا تھا اور اسکا فون چیک کیا تھا اسنے 

"آکاش آفندی آج رات "هيجي" کلب میں ڈرگز کی سمگلنگ کرنے والا ہے جو پاکستان اور افغانستان کے سمگلرز اس سے ریسسیو کریں گے ہمیں ساتھ اطلاع ملی ہے وہ امریکہ اور کینیڈا کے لئے بھی کچھ پلان کر رہا ہے سکواڈ آج رات نو بجے ہوٹل پہنچے گا وانٹ یو دیئر ایجنٹ " 

"اوہ نوو  اسکا مطلب میرے میلز شاہ ویر نے دیکھ لئے اور وہ "هيجي" کلب کے لئے نکل چکا ہے  لیکن انکل کہاں ہیں " خوف اسکے روم روم میں دوڑ چکا تھا جلدی سے یوسف صاحب کا نمبر ملاتی ہوئی وہ کبرڈ سے اپنا ڈریس نکالتی ہوئی باہر نکلی تھی 

"انکل کبھی اپنا نمبر سوئچ آف نہیں کرتے ضرور کچھ ہوا ہے شاہ کو بتاتی ہوں " وہ سیڑھیاں اترتی شاہ ویر کا نمبر ملاتے ہوئے گیلری تک پہنچی تھی جہاں مرحا اور حرا کھیل رہی تھی

"شاہ بہت بڑی پرابلم ہو گئی ہے انکل یوسف مسنگ ہیں اور فون بھی نہیں اٹھا رہے " جیسے ہی کال کنیکٹ ہوئی وہ تیزی سے بولی تھی 

"واٹ انکل یوسف مسنگ ہیں کب سے مسنگ ہیں وہ " 

اسکی آواز سن کر اسے کچھ حد تک سکوں ملا تھا اسنے جلدی سے اسے سب کچھ بتایا تھا 

"آپ گھر پر رہیں اور گھر سے باہر نہیں نکلیں گی آپ میں پہنچ رہا ہوں وہاں جسٹ ڈونٹ پینک اوکے " 

"یس"  وہ کال منقطع کرتی پیچھے مڑی تھی جب اسکے ہاتھ اے فون چھوٹ کر فرش پر گرا تھا پانچ نقاب پوش سیاہ سوٹ میں ملبوس مشکوک آدمی گھر میں گھسے تھے مرحا اور حرا جو گیلری میں کھیل رہی تھی انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہوئی تھی

"احذر ، إذا فاتتك مكانك ، فسنقتل الفتاتين." (ہوشیار رہو اگر تم نے اپنی جگہ چھوڑی ہم دونوں لڑکیوں کو مار دیں گے )  ایک آدمی نے مرحا کے گردن پر چاقو رکھتے ہوئے غرا کر عشیق کی جانب دیکھ کر کہا 

وہ انکی زبان سمجھ چکی تھی جو پروفیشنل کلرز تھے اور شاید کسی مشن کے تحت یہاں ہائر کئے گئے تھے دوسری لفظوں میں وہ ٹیررسٹ یونٹ سے تھے ۔

"لن أفعل أي شيء ، ليس لدي سلاح ، اترك الفتاة تذهب" (میں کچھ نہیں کروں گی میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے بچی کو جانے دو ) وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتی ہوئی انکی زبان میں بولی تھی مرحا گھبراتے ہوئے کبھی عشیق کو دیکھتی تو کبھی حرا کو جس کی پیشانی پر پسٹل رکھا ہوا تھا دوسرے آدمی نے ۔۔۔

"اقتل هاتين الفتاتين وخذ هذه الفتاة معك " (ان دونوں لڑکیوں کو مارو اور اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔") پیچھے کھڑا آدمی دونوں کو اشارہ کرتا ہوا بھاری آواز میں بولا تھا 

"شاہ"  وہ جلدی سے بولی تھی دروازے کی طرف دیکھ کر جب سب آدمی پیچھے مڑے تھے وہ جلدی سے کمر کے پیچھے سے پسٹل نکالتی مرحا اور حرا کو اپنے پیچھے کرتی انہیں گن پوائنٹ پر لے چکی تھی وہ لوگ چونکے تھے اسکی دلیری پر ۔۔

عین وقت پر وہ پہنچا تھا آدمی اسکی طرف مڑے اس سے پہلے وہ شاہ پر فائر کرتے عشیق نے  دو گولیاں ایک ساتھ چلائی تھی دونوں نیچےگرے تھے جبکہ باقی دونوں نے عشیق پر گولی چلائی وہ تیزی سے نیچے جھکتے ہوئے اس آدمی کے پیر پر فائر کر گئی جبکہ اسنے پسٹل نکال کر اس آدمی کے سر میں فائر کیا تھا دو گولیاں ایک ساتھ اس آدمی کو لگی تھی مرحا اور حرا ایک دوسرے کو گلے لگائے بیٹھی سسک رہی تھی وہ آدمی عشیق کو دھکا دیتا ہوا اوپر اسکے کمرے کی طرف دوڑا تھا ۔۔۔

"میرے پاس آکاش آفندی کے خلاف بہت سے ریکارڈز ہیں وہ انہیں ڈیلیٹ کرنا چاہتے ہیں " وہ تیزی سے پلٹتی شاہ ویر سے کہتی ہوئی اوپر چڑھی تھی جبکہ وہ چوتھے آدمی کو گولی مارتا ہوا اسکے پیچھے گیا تھا ۔۔۔

"فریز" 

وہ پیر سے دروازہ کھولتی ہوئی پسٹل کے ٹریگر پر انگلی رکھتی سرد آواز میں بولی تھی اسکے  پیچھے شاہ ویر بھی آیا تھا دونوں کے پسٹل کا رخ آدمی پر تھا جو بغیر گھبرائے گولی چلا چکا تھا شاہ ویر نے اسے کندھے سے پکڑ کر اپنے ساتھ نیچے گرایا تھا گولی دیوار پر لگی تھی وہ آدمی عشیق کے لیپٹاپ سے فلیش ڈرائیو نکالتے ہوئے تیزی سے کھڑکی سے کودا تھا وہ جلدی سے پسٹل اٹھاتی ہوئی کھڑکی سے اسکے پیچھے کودی تھی شاہ ویر نے چونک کر اسے دیکھا تھا اور پھر اسکے پیچھے کودا تھا وہ آدمی گاڑی کی طرف دوڑ رہا تھا شاہ ویر اور عشیق دونوں نے ایک ساتھ گولی چلائی تھی وہ آدمی کراہتے ہوئے نیچے گرا تھا شاہ ویر نے لب بھینچ کر عشیق کو دیکھا تھا کیونکہ عشیق کی گولی اس آدمی کو پہلے لگی تھی عشیق نے اسکے ہاتھ سے فلیش ڈرائیو کھینچتے ہوئے اسکے ہاتھ پر پیر رکھ کر اسکے ہاتھ کو مسلا تھا جس پر وہ چیخ پڑا تھا ۔۔۔ 

"بس کرو جان لو گی کیا اسکی خود ہی مر جائے گا " وہ پینٹ کی پاکٹ میں پسٹل ڈالتا طنزیہ انداز میں بولا جا پر وہ آنکھیں نکالتی اسکی جانب مڑی تھی 

"کہاں گئے تھے ہاں مجھے بغیر بتائے خود کو بہت بڑا ہیرو سمجھتے ہو بولو " اسکے کوٹ کو پکڑتی وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھتی بولی جا پر وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے اسکی کلائی پکڑتا اسے قریب کر گیا تھا ۔۔

"یاد آ رہی تھی میری صاف صاف کہہ دیں " 

وہ ہلکی سی مسکرائی تھی اور پھر مرحا اور حرا کو آتے دیکھ کر گھٹنوں پر بیٹھتی ان دونوں کو گلے لگا گئی وہ دونوں رونے لگی تھی 

"انکل یوسف آفس میں ہیں پریشان ہونے کی بات نہیں انہوں نے آفس کی لائن سے فون کیا تھا " وہ انہیں دیکھتا سنجیدگی سے بولا 

"گرلز آپ سٹرونگ بچے ہو ناں میرے ہمم رونا نہیں چلیں میں آپکو آنٹی مریسہ کے گھر چھوڑ دیتی ہوں مجھے کام ہے میں جلدی واپس آ کر آپکو لے جاؤں گی "  عشیق نے دونوں کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا دونوں نے سر کو ہاں میں ہلایا تھا دونوں اسوقت بہت ڈری ہوئی تھی 

"شاہ  ڈراپ کر دیں گے آپ؟!" وہ اسکی جانب دیکھتی بولی جس پر اسنے سر ہلایا تھا اور گاڑی کا گیٹ کھولا تھا ۔۔۔

                                    ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

گھٹنوں پر سر رکھے وہ نیچے بیٹھی جیل کے بارز سے باہر دیکھ رہی تھی جب  لیڈی کانسٹیبل ایک عورت کو جیل کا دروازہ کھولتی اندر ڈالتی ہوئی دروازے بند کر گئی اسنے سپاٹ نظروں سے اس عورت کو دیکھا تھا جو اسے ہی گھور رہی تھی 

"کیا کیا ہے تو نے " وہ عورت اسکے قریب بیٹھتی دلچسپی سے بولی 

" میں نے اپنی سوتن اور نند کو جلا کر مار ڈالا " وہ بےجان سے عام لہجے میں بولی تھی اس عورت نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا تھا 

"تمھیں پچھتاوا نہیں" وہ عورت اسے گھورتی ہوئی بولی جس پر وہ سرد آہ بھر چکی تھی 

"پہلے تو نہیں تھا لیکن جب میرے چھوٹے سے نواسے نے مجھے نفرت بھری نظروں سے دیکھا اور مجھے بری عورت کہا میرے پاس آنے سے انکار کیا  تو تب پچھتاوا ہوا " وہ جیل سے باہر غیر مرئی نقطے کو دیکھتی مردہ سی آواز میں بولی تھی 

"تجھے کوئی معاف نہیں کرے گا ہاہا تو یہیں سڑتی رہے گی " وہ عورت اسکے بازو پر ہاتھ رکھتی تسلی بخش کم مگر طنزیہ لہجے میں ضرور بولی تھی وہ مسکرا گئی تھی اس عورت کو دیکھ کر 

"میں معافی کے قابل بھی نہیں ہوں حسد اور لالچ نے میری ذندگی برباد کر دی اور اس بربادی کی سب سے بڑی وجہ میں خود ہوں " وہ ہنسی تھی خود پر

 "ہاہا تو جو بھی کہہ لے تو قاتلہ ہے توں نے دو خون کئے ہیں کوئی تجھے معاف نہیں کرے گا تجھے خدا بھی معاف نہیں کرے گا " وہ عورت اتنا کہہ کر اٹھتی ہوئی کونے میں جا کر بیٹھی تھی 

"ذندگی میں کبھی حسد مت کرنا کبھی لالچ مت رکھنا ذندگی دوسرا موقع ہر کسی کو نہیں دیتی میرا تو دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی حساب باقی ہے ایک ماں کے لئے اس سے بڑی سزا اور کیا ہو گی کہ اسکے بچوں نے اسے ٹھکرا دیا " وہ نم آنکھوں سے آنسوں صاف کرتی گھٹنوں میں سر دیتے ہوئے بولی تھی 

                                 ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

"فکر مت کرو وہ دونوں ٹھکانے لگ چکے ہوں گے اس لڑکی نے بہت ناک میں دم کیا تھا میرے وہ ایک ایجینٹ کم تھا اسکے بعد یہ لڑکی بھی مجھ پر ری سرچ کرنے لگ گئی خیر سائن کرو میک کس کا انتظار کر رہے ہو " آکاش آفندی سیگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا اپنے ڈیلر سے محو گفتگو تھا جب کلب کے وی آئی پی زون کا دروازہ دھاڑ سے کھلا تھا 

وہ اسپیشل ٹاسک فورس کیساتھ وہاں پہنچے تھے آکاش آفندی چونک کر اٹھا تھا 

"تم دونوں ذندہ کیسے ہو ان (گالی) سے ایک لڑکی تک نہیں ماری گئی باسٹرڈ " آکاش آفندی اسے نفرت سے دیکھتا دھاڑا تھا میک نے پاکٹ سے پسٹل دھیرے سے نکالی تھی اور شاہ ویر کی جانب کی تھی جو آکاش آفندی کو ہتھ کڑیاں لگوا رہا تھا عشیق کی نظر اسکے ہاتھ پر پڑی تھی جس میں پسٹل تھی اور پسٹل کا رخ شاہ ویر کی طرف تھا وہ تیز دھڑکتے دل کیساتھ ایک قدم پیچھے لیتے ہوئے ایک سیکنڈ میں پسٹل نکال چکی تھی میک نے ٹریگر پر انگلی رکھی ہی تھی جب عشیق نے اسکے ہاتھ پر فائر کیا تھا  شاہ جلدی سے عشیق کی طرف پلٹا تھا جس کا ہاتھ کانپ رہا تھا مگر  وہ اسے بچا چکی تھی میک کراہتا ہوا پیچھے صوفے ہر گرا تھا اسکے ہاتھ اے پسٹل گر چکی تھی ٹاسک فورس نے اسے فوری اریسٹ کیا تھا اور اسے ساتھ موجود سبھی ڈیلرز کو بھی  اریسٹ کر لیا گیا تھا 

"تھینکس مائی اینجل"

شاہ ویر نے سرد آہ بھرتے ہوئے اسے کندھے سے پکڑ کر سینے سے لگاتے ہوئے کہا تھا وہ دھیرے سے سر ہلاتی ہوئی اسکے سینے سے سر ٹکا گئی تھی "

                               ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

کچھ مہینوں بعد :- 

وہ دونوں واپس لوٹ آئے تھے اپنی فیملی میں ،، شاہ ویر نہیں آنا چاہتا تھا مگر عشیق نے اسے منا ہی لیا تھا کیونکہ روز ہی آغا صاحب ، سہیل صاحب اور شہنشاہ صاحب کال کر کے انہیں واپس آنے کی درخواست کرتے تھے آخر کار شاہ ویر نے ہتھیار ڈال دیئے تھے وہ ہنسی خوشی کاظمی مینشن میں رہ رہے تھے سب معمول پر آ گیا تھا وہ دونوں ایک ہی ملیٹری انٹیلیجنس کے ساتھ کام کر رہے تھے عشیق نے سی آئی اے کو خیرباد کہہ دیا تھا کیونکہ وہ اپنے ملک میں آنا چاہتی تھی اور اپنے ملک کے لئے فرائض انجام دینا چاہتی تھی شاہ ویر نے اسے کافی روکا تھا مگر وہ تو بہت ضدی ہو گئی تھی آج بھی وہ سرچ  آپریشن کے بعد دو ٹیررسٹ کے سکواڈ کو نقطئہ انجام تک پہنچا چکے تھے ان لوگوں کو اریسٹ کیا جا رہا تھا  

"میں نے منع کیا تھا آپکو یہاں خطرہ ہے "  عشیق کے ہاتھ پر بینڈیج کرتا ہو اوہ کرخت لہجے میں بولا تھا جبکہ وہ تو مسکراتے ہوئے اسکے خوبصورت ہاتھوں کی خوبصورتی دیکھ رہی تھی 

"آپ سے بات کر رہا ہوں میں آپ گھر بیٹھ کر بھی ہمیں انفارم رکھ سکتی تھی کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی " وہ اسکی جانب دیکھتا سنجیدگی سے بولا تھا "

"میری فکر کرنا چھوڑ دیں مسٹر شاہ ویر حیدر کاظمی مائی لوو اور ایک چیز میری سمجھ سے باہر ہے میری دوست منال کہتی تھی کہ دھیرے دھیرے وقت کیساتھ مرد کی محبت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے مگر آپکو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا " وہ اسے دیکھتی پیارے سے لہجے میں بولی تھی وہ کچھ دیر اسکی گرین آنکھوں کو دیکھتا رہا جن میں بہت چمک تھی

"آپکی غلط فہمی ہے اینجل اور وقت کیساتھ اس محبت میں صرف اضافہ ہو گیا " وہ بینڈیج کرنے کے بعد اسکے ہاتھ پر لب رکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا عشیق مسکرائی تھی

"میں کیسے مان لوں اچھا یہ بتائیں میں  اب بھی کتنی عزیز ہوں آپکو " وہ اسکا ہاتھ تھامتی اپنے ہاتھ میں لیتی بولی وہ جو گھٹنوں کے بل بیٹھا اسے پہلے ہی بہت پیارا لگ رہا تھا اسکے ایک آئی برو اٹھانے پر عشیق کا دل پگھلا تھا ۔۔۔

"اگر کبھی مجھے ایسی آزمائش سے گزرنا پڑا جس میں مجھے آپ میں اور میری کسی بہت ہی خاص شے میں کسی ایک آپشن کو چننا پڑا تو میں آپکا انتخاب کروں گا چاہے وہ قیمتی شے میری جان ہی کیوں ناں ہوئی" وہ اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا اسکی آنکھوں میں دیکھتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا عشیق نے محبت سے اسے دیکھا تھا 

"چلیں " وہ اٹھتا اسکا ہاتھ تھامتا بولا قہ بینچ سے اٹھی تھی جب اسکا سر چکرایا تھا اس سے پہلے وہ گرتی وہ اسے اپنے مظبوط بازؤں میں تھام چکا تھا اسکی نظروں کے سامنے سب دھندھلایا تھا 

                                  ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

اسنے دھیرے سے آنکھوں کو کھولا تھا وہ اسپتال کے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور ڈاکٹر اسکی نبض دیکھ رہی تھی 

"کیا ہوا تھا مجھے ڈاکٹر پلیز بتائیں" وہ جلدی سے اٹھتی بولی جبکہ ڈاکٹر نے اسے مسکرا کر دیکھا تھا جبکہ اسکی پریشانی میں مذید اضافہ ہوا تھا 

"آپ پلیز باہر چلیں آپکے ہڈبینڈ نے پورے سٹاف کو بہت پریشان کیا ہوا ہے وہ ہمیں سسپینڈ کروا دیں اس سے پہلے انہیں سب بتا دیتے ہیں " ڈاکٹر مسکراتی ہوئی اسے لیکر باہر آئی تھی وہ چیئر سے اٹھا تھا انہیں باہر آتا دیکھ کر ۔۔۔

"کیا میری وائف ٹھیک ہیں " وہ اسکا ہاتھ تھامتا ڈاکٹر کی طرف دیکھتا ہوا بولا جس پر ڈاکٹر مسکرا گئی تھی

"مبارک ہو آپکی وائف پریگنینٹ ہیں " 

عشیق نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جس کے لبوں پر اتنی پیاری مسکان پھیلی تھی کہ وہ ایک پل کو اسکی مسکان میں ہی گم گئی تھی 

"اور اب آپکو اپنی وائف کا بہت خیال رکھنا ہے یہ انکی چیک اپ فائل ہے آپ کو ہر ویک یہاں آ کر چیک اپ کروانا ہے "  ڈاکٹر اسکی طرف فائل بڑھاتی ہوئی دونوں کو مبارک دیکر جا چکی تھی شاہ ویر نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا جسکے گال سرخ پڑ رہے تھے لبوں سے مسکراہٹ جانے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔

"شکریہ میری جان مجھے اتنی بڑی خوشی دینے کے لئے " وہ اسکی پیشانی پر لب رکھتا مسکرایا تھا وہ مسکراتے ہوئے نظریں جھکا گئی تھی 

                                  ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

آٹھ مہینوں بعد:- 

"سر کوئی میم آپ سے ملنے آئی ہیں" سیکریٹری اسکے آفس کا دروازہ کھولتی ہوئی بولی تھی 

کون ہیں نام بتایا اپنا انہوں نے " 

 وہ فائل سر نظریں اٹھاتا ہوا سیکریٹری کی طرف دیکھ گیا 

"جی کوئی ماریہ ہیں کیا میں انہیں بھیج دوں" سیکرٹری نے تاسف سے پوچھا وہ فائل بند کرتے ہوئے چیئر سے اپنا کوٹ اٹھاتا ہوا اٹھا تھا

"نہیں آپ جا سکتی ہیں " وہ کوٹ پہنتا ٹیبل سے اپنا فون اٹھاتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا 

"اوکے سر " سیکریٹری چلی گئی تھی وہ آفس کا گلاس ڈور کھولتا ہوا باہر آیا تھا وہ آفس کے کاؤنٹر پر کھڑی تھی 

"اسلام و علیکم" اسے دیکھ کر وہ جلدی سے بولی تھی 

"وعلیکم السلام آئیں" وہ آگے بڑھ گیا تھا اور وہ اسکے پیچھے چل دی تھی گاڑی کا گیٹ ڈرائیور نے کھولا تھا مگر وہ اسے جانے کا اشارہ کرتا ہوا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی وہ گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا 

"کیسے ہیں آپ اور عشیق کیسی ہے گھر سب کیسے ہیں " وہ ونڈو سے باہر دیکھتی بولی تھی 

"سب ٹھیک ہیں" سہ مختصر سا بولا تھا ماریہ نے سر ہلایا تھا

"آپ نے کیوں میری بات مان لی آپ جانتے ہیں میں نے ماضی میں بہت تکلیفیں دی ہیں آپ سب کو پھر کیوں آپ مجھے میری امی سے ملوانے لے جا رہے ہیں میری گھر واپس لوٹنے کے بدلے " وہ سرد لہجے میں بولی تھی ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے ۔۔۔

"کیونکہ انکل اور چاچی جان سمیت سب بےحد پریشان ہیں آپکے لئے اور اسکے ساتھ ساتھ رخصتی کے وقت آپ جو کچھ کہہ کر گئی سب بےحد تکلیف میں ہیں " وہ گیئر شفٹ بدلتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا ماریہ نے سر ہلایا تھا  

"جب آپ نے اپنی امی سے ملنے کی شرط رکھی تو میں خاصا حیران ہوا آخر آپ اتنے سالوں بعد ان سے مل کر کیا کرنا چاہتی ہیں " وہ کچھ دیر بعد بولا تھا وہ اداس ہوئی تھی اسکے سوال پر 

"کیونکہ ان سب کی ذمہ دار میں ہوں انہوں نے جو کچھ کیا میرے لئے کیا میری ضد تھے آپ اور میں نے بچپنے میں شاید ذیادہ ہی ضد کر دی جو انہیں ایسے قدم اٹھانے پڑے  اس لئے میں ان سے معافی مانگنا چاہتی ہوں" ماریہ نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے شرمندگی سے کہا 

"اور  کیا آپکے بھائی کو بدگماں بھی انہوں نے آپکی وجہ سے کیا تھا " وہ سپاٹ لہجے میں اسٹیرنگ ویل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا 

ماریہ نے سرد نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے لب بھینچے تھے 

"رائٹ انکے دل میں نفرت تھی عشیق کے لئے جسے انہوں نے آپکی ضد کا نام دیا سچ تو یہ ہے وہ انکل کی دوسری شادی والی بات دل پر لے گئی تھی " وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا تھا 

"آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن میں پھر بھی ان سے ملنا چاہوں گی " ماریہ نے ونڈو سے باہر دیکھا 

وہ گاڑی کو بریکس لگاتے ہوئے سیٹ بیلٹ ہٹاتے ہوئے گاڑی کا گیٹ کھول کر نیچے اترا تھا ماریہ سر پر چادر درست کرتی اسکے پیچھے چل دی تھی پاگل خانے کا بوڈ پڑھ کر وہ بےجان ہوئی تھی مگر دل میں ایک سکون تھا کہ ایٹ لیسٹ وہ زندہ ہیں ورنہ جو کچھ انہوں نے کیا تھا اسکے بعد وہ تو انکی جان بھی لے سکتا تھا 

ایک روم کا دروازہ کھولتی وارڈن وہاں سے چلی گئی تھی ماریہ بےجان قدموں کیساتھ اندر داخل ہوئی تھی ایک عورت بکھرے بالوں کیساتھ گھٹنوں پر سر ٹکائے( سفید لباس میں جو بہت میلا تھا ) چاک سے زمین پر لکیریں مار رہی تھی 

"مماں" ماریہ کی بھرائی ہوئی آواز پر وہ عورت سر اٹھا گئی تھی ماریہ نے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا اور ایک قدم اسکی طرف بڑھائے تھے جو اسے دیکھتی جلدی سے اٹھی تھی

"تو یہاں کیا کر رہی ہے کم ذات تیری وجہ سے میں یہاں ہوں مار ڈالوں گی میں تجھے مار ڈالوں گی تجھے " وہ اسکا گلہ دباتی چیخی شاہ ویر نے انکے ہاتھ اسکی گردن سے نکال کر انہیں پیچھے دھکا دیا تھا یعنی ان دنوں میں ابھی تک انکے دل کا حسد ختم نہیں ہوا تھا چاہے وہ پاگل ہو گئی تھی ماریہ نے ڈرتے ہوئے ایک قدم پیچھے لیا تھا 

"تیری وجہ سے ہوا  ناں سب تیری وجہ سے سب نے مجھے ٹھکرا دیا اللہ کرے تیری بیوی مر جائے تیری اولاد مر جائے " وہ ہنستی ہوئی اسے دیکھتی نیچے بیٹھ کر بولی شاہ ویر نے مٹھیاں بھینچی تھی 

"تو بھی مر جا نکل جا تو میری بیٹی نہیں ہے جا نکل جا ادھر سے " وہ ماریہ کو دیکھتی سر جھٹکتی نفرت سے بولی اور پھر زمین پر لکیریں مارنے لگی ماریہ روتے ہوئے کمرے سے نکلی تھی 

"تیری عشیق مر جائے گی ہاہا " وہ جاتے جاتے پلٹا تھا انکی بات سن کر

"میری بددعا ہے تیری بیوی مر جائے تیری اولاد مر جائے تیرا خاندان مر جائے تو مر جائے " وہ قہقہہ لگاتی ہوئی اپنے ہی منہ پر تھپڑ مارنے لگی شاہ ویر نے سرد آہ بھری تھی اور پھر وہاں سے نکل گیا تھا 

"گھر چلیں بھائی مجھے اپنی فیملی کے پاس جانا ہے ، ماریہ چادر سے آنکھیں صاف کرتی ہوئی دھیمے لہجے میں بولی تھی وہ گاڑی کو کاظمی مینشن کی طرف موڑ چکا تھا ذہن شل ہو رہا تھا قصا بیگم کی باتیں اسکی سماعت سے بار بار ٹکرا رہی تھی 

"آپ پریشان ناں ہوں انہوں نے حوش و حواس میں یہ سب نہیں کہا " ماریہ نے اسے پشیماں دیکھ کر کہا 

"بددعائیں بھی حوش و حواس میں نہیں دی جاتی جذباتوں میں بہہ کر دی جاتی ہیں  "  وہ کرخت لہجے میں بولا تھا ماریہ چپ ہو گئی تھی

                              ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

کچھ دن بعد :- 

وہ دھیمے قدموں کیساتھ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اسکا پیر سلپ ہوا تھا کسی نے اسے گرنے سے بچایا تھا ایک پل کو تو اسکی دھڑکن ہی رک گئی تھی خود کو گرتا دیکھ کر مگر پھر اسکی جان میں جان آئی تھی ماریہ نے اسکا بازو پکڑتے ہوئے اسے سیڑھیوں سے آرام سے اتارا اور اسے صوفے ہر بٹھایا عشیق نے اسکا ہاتھ تھاما تھا 

"تھینکس اگر آج آپ ناں ہوتی تو شاید " وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی تھی

"میں نے ماضی میں جو کچھ کیا اسے سدھارنے کی کوشش کر رہی ہوں عشق مجھے معاف کرو دیا ناں تم نے " ماریہ نے اسکے ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا تھا 

"مماں مجھے بھوک لگی ہے " حسن( ماریہ کا بیٹا) اسکا دوپٹا پکڑتا منمنایا تھا عشیق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا 

"بولو ناں عشیق معاف کر دیا ناں مجھے " ماریہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا جس پر اسنے مسکرا کر سر ہلایا تھا ماریہ حسن کو لیکر کچن کی طرف گئی تھی جب اچانک ہی اسکے چہرے سے مسکان غائب ہوئی تھی وہ لمبے سانس لیتی ہوئی ہاتھ سے کچن کی طرف اشارہ کر رہی تھی جبکہ دوسرا ہاتھ وہ پیٹ پر رکھے کراہ رہی تھی آفرین بیگم اسے دیکھتی رکی تھی 

"چاچی جان " وہ کراہتی ہوئی انہیں اشارہ کرنے لگی آفرین بیگم جلدی سے اسکے پاس آئی تھی ماریہ بھی کچن سے باہر نکلی تھی 

"بھیااا گاڑی نکالیں جلدی" ماریہ کی آواز پر حرب اور باقی سب باہر آئے تھے اسے لیکر مرجان ماریہ اور آفرین بیگم اور زارا ایک کار میں گئے تھے جبکہ باقی سب بھی دوسری کار سے انکے پیچھے گئے تھے زارا نے شاہ ویر کو کال کی تھی جو آفس میں امپورٹنٹ میٹنگ کے لئے گیا تھا 

"بھائی عشیق کی طبعیت اچانک بگڑ گئی ہے ہم سب سٹی ہاسپیٹل جا رہے ہیں " 

یہی الفاظ سننے کی دیر تھی وہ فون کان سے ہٹاتا ہوا جلدی سے اپنی چیئر سے اٹھا تھا میٹنگ روم میں سب نے اسے چونک کر دیکھا تھا جو بغیر ایک لفظ کہے تیز قدموں کیساتھ میٹنگ روم سے باہر نکلا تھا آفس کے سبھی ورکرز نے اسے دیکھا تھا جو تیز قدموں سے بغیر کسی کو دیکھے وہاں سے نکلا تھا اور گاڑی کو تیز اسپیڈ سے ہاسپیٹل کی جانب دوڑا چکا تھا " 

"نہیں میرے مالک کچھ نہیں ہونا چاہیے میری عشیق کو میرے بچے کو ۔۔۔ میں نے اتنے گناہ نہیں کئے جن کی اتنی بڑی سزا مجھے دی جائے میرے مالک رحم فرما " وہ گیئر شفٹ بدلتا متذبذب لہجے میں بولا تھا 

گاڑی پارک کرتا وہ تیز قدموں سے ہاسپیٹل میں داخل ہوا تھا بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا تھا وہ تیز قدموں سے کاؤنٹر سے اسکا روم نمبر پوچھتا ہوا گیلری میں اینٹر ہوا تھا سامنے ہی اسکی پوری موجود تھی سب کے چہرے ساکت تھے ۔۔۔

" کیا ہوا ہے ڈاکٹر کیسی ہیں اب میری وائف " وہ فکرمندی سے ڈاکٹر سے دریافت کرنے لگا جو بےحد پریشان تھی 

"آئی ایم سوری ٹو سے سر لیکن آپکی وائف کی کنڈیشن بہت ڈینجرس ہے ہم آپکی وائف اور بےبی سے کسی ایک کو بچا سکتے ہیں ہمیں ابھی آپریشن کرنا پڑے گا " ڈاکٹر کی بات سن کر اسکے ہاتھ ٹھنڈے پڑے تھے ۔۔

"میں اپنی وائف سے ملنا چاہتا ہوں"

ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کیا تھا وہ سنجیدگی سے اندر آیا تھا وہ ایک غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھی آنسوں ٹوٹ کر کشن میں جذب ہو رہے تھے اسے دیکھ کر اسکے آنسوں  میں روانی  میں تیزی آئی تھی آنسوں اسکے گالوں پر بہنے لگے وہ انگلیوں کے پوروں سے اسکے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام چکا تھا 

"شیری آپ جانتے ہیں ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں کامپلیکیشنز ہیں اور " وہ سسکی تھی بات کرتے ہوئے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا کتنی تکلیف میں تھی وہ اس وقت اور اسکی سخت ضرورت تھی اسے آج پھر سے 

"آپ پلیز سائن کر دیں اور پرمیشن دے دیں آپریشن کی ہمارے بےبی کو بچا لیں " 

اسکی پیشانی پر بل پڑے تھے عشیق کی بات سن کر  چہرے کیساتھ نیلی ہیزل آنکھوں میں سرد مہری چھائی تھی

"آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں ایسا کبھی نہیں ہو گا میں سوچ بھی نہیں سکتا ایسا کرنے کے بارے میں یہاں ایسی بات کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا عشیق میں کھو ہی نہیں سکتا اپنی جینے کی وجہ بہت بار کھو چکا ہوں آپکو میں عشیق " وہ اسکا ہاتھ تھماتا سپاٹ لہجے میں بولا تھا

"شاہ میری بات سنیں ہم بہت وقت ساتھ گزار چکے ہیں رائٹ میں خوش ہوں ان لمحات کے لئے جو میں نے آپکے ساتھ گزارے وہ میری ذندگی کے سب سے خوبصورت اور پر سکون لمحات میں سے تھے آپ پلیز پرمیشن دے دیں میرے بےبی کو بچا لیں اس ننھی سی جان کو۔ بچا لیں  " وہ اسکے ہاتھ سے ہاتھ نکالتی اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے روتی ہوئی بولی تھی اسکی آواز میں بھی کپکپاہٹ تھی وہ ڈر رہی تھی اس سے آج کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھی وہ اس سے وہ شے مانگ رہی تھی جس کے لئے وہ پوری دنیا سے لڑ چکا تھا اب تک اسکی نیلی آنکھوں میں طوفان سا امنڈ آیا تھا 

"وقت گزار لیا تو محبت ختم ؟!  کیا سوچ رہی ہیں آپ  اور کیا میری محبت  آپکے ساتھ صرف وقت گزارنے کی محتاج تھی بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں آپ یہ سوچ کر میں پوری ذندگی بھی گزار دوں آپکے ساتھ تو وہ مجھے کم لگے گی میں کبھی پرمیشن نہیں دے سکتا اس کنڈیشن کی اور اگر آپ کو کچھ ہوا میں آپکو ایڈوانس میں بتا رہا ہوں میں خود بھی ایک سیکنڈ زندہ نہیں رہوں گا لہذا آپ سوچ لیں آپ کیا کرنا چاہتی ہیں " وہ اٹھتا ہوا سپاٹ لہجے میں بولا تھا عشیق کی آنکھوں سے آنسوں پھر سے جاری ہوئے تھے 

"آپکی وائف پھر کبھی ماں نہیں بن پائیں گی سر اگر اس وقت ہم ابورٹ کرتے ہیں " اسکے قدم ساکت ہوئے تھے ڈاکٹر کی آواز سن کر عشیق نے لمبا سانس لیا تھا اسے لگا تھا جیسے کسی نے اسکے  تیزی سے دھڑکتے دل پر ضرب لگائی تھی ۔

"کیا آپ اپنی وائف کیساتھ پوری ذندگی بغیر اولاد کے رہ سکتے ہیں " ڈاکٹر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا وہ آنکھیں میچتا سرد آہ بھر چکا تھا 

"کیا آپ اب بھی اپنی وائف کو اپنی اولاد پر ترجیح دیں گے مسٹر شاہ ویر کاظمی آئی انڈرسٹینڈ آپ اپنی وائف سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن اس وقت آپکو فیوچر کے بارے میں سوچنا چاہیے کیا اب بھی آپ اپنی وائف کو بچانا چاہتے ہیں " ؟؟ 

عشیق نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا تھا جو ساکت کھڑا دل و دماغ سے لڑ رہا تھا ایک پل کو وہ بھی سوچ بیٹھی تھی وہ اپنی اولاد کو چنے گا 

" آپ میری وائف کو بچائیں "  سنجیدگی سے کہتا ہوا کمرے سے باہر نکلا تھا 

عشیق نے نم آنکھوں سے  اسے دیکھا تھا جبکہ ڈاکٹر نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا 

"آپ بہت لکی ہیں میم آپکے ہذبینڈ اتنا ہیار کرتے ہیں آپ سے " 

وہ کشن پر سر رکھتی گہری سوچ میں پڑی تھی اسکی کہے گئے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے 

"اگر کبھی مجھے ایسی آزمائش سے گزرنا پڑا جس میں مجھے آپ میں اور میری کسی بہت ہی خاص شے میں کسی ایک آپشن کو چننا پڑا تو میں آپکا انتخاب کروں گا چاہے وہ قیمتی شے میری جان ہی کیوں ناں ہوئی""

آنسوں ٹوٹ ٹوٹ کر کشن میں جذب ہوتے گئے وہ روتی چلی گئی تھی جب اسکی سانسیں تیز ہوئی تھی سائڈ پڑی مشین نے بیپس کی آوازیں دی تھی ڈاکٹر نے پریشانی سے اس آلے پر اسکی بڑھتی ہوئی دھڑکن دیکھی تھی

"میم پلیز رونا بند کریں آپ پلیز ریلیکس ہو جائیں آپکو ہارٹ اٹیک بھی آ سکتا ہے میم پلیز " 

ڈاکٹر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دیتے ہوئے بولی مگر وہ تو روتی ہی جا رہی تھی 

"ہماری محبت آج ہماری محبت کی نشانی کو  ہی ختم کرنے چلی ہے یا اللہ پاک یہ کیسی آزمائش ہے مجھ میں برداشت کی سکت نہیں ہے میرا دل پھٹ جانے کو ہے مجھے میری اولاد سے محروم ناں کریں میرے مالک میں اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اسے مسکراتے دیکھنا چاہتی ہوں میرے مالک میں جیتے جی مر جاؤں گی " وہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی تھی اسکے الفاظ پر ڈاکٹر بھی افسردہ ہوئی تھی نرس نے متذبذب چہرے سے اسے دیکھا تھا اور پھر رخ پلٹتی آنکھوں سے آنسوں صاف کرنے لگی تھی 

"میم بھروسہ رکھیں کچھ نہیں ہوگا پلیز آپ رونا بند کریں آپ پریشان ہو رہی ہیں اس لئے آپکا بےبی بھی پریشان ہو رہا ہے "" ڈاکٹر نے اسکا ٹھنڈا پڑتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کہا تھا اسنے سر دھیرے سے اوپر اٹھایا تھا ور پھر دوبارہ ار کشن پر گرا چکی تھی دل کے مقام پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ الجھتی سانسوں کے بیچ تڑپ پڑی تھی

"نرس" 

نرس ڈاکٹر کے بلانے پر تیزی سے انکی جانب بڑھی تھی وہ بیڈ کی چادر مٹھیوں میں بھینچتے ہوئے آنکھوں کو سختی سے بند کر چکی تھی آنسوں اسکی گھنیری پلکوں سے موتیوں کی طرح ٹوٹ رہے تھے

" آپ میری وائف کو بچائیں " " آپ میری وائف کو بچائیں "" آپ میری وائف کو بچائیں "

اسکے کہے ہوئے الفاظ اسکے دل پر کسی ضرب کی طرح لگ رہے تھے وہ بےحد کرب میں تھی اسوقت اور کیوں ناں ہوتی جس ننھی سی جان کو اس نے اتنے مہینوں میں اپنے وجود کا حصہ بنا کر پالا تھا اسے کیسے خود سے الگ کر دیتی اپنی جان کی حفاظت کی خاطر ۔۔ 

"اگر کبھی مجھے ایسی آزمائش سے گزرنا پڑا جس میں مجھے آپ میں اور میری کسی بہت ہی خاص شے میں کسی ایک آپشن کو چننا پڑا تو میں آپکا انتخاب کروں گا چاہے وہ قیمتی شے میری جان ہی کیوں ناں ہوئی""

ایک اور آنسوں ٹوٹا تھا اسکی آنکھوں سے ۔۔۔

"شاہ مجھے ایک بات بتائیں آپ سب کا اتنا خیال کیوں رکھتے ہیں آپ خود سے پہلے دوسروں کا کیوں سوچتے ہیں "  بہت وقت پہلے اپنا ہی پوچھا گیا سوال اسکی سماعت سے ٹکرایا تھا 

"خوشی جو آپ کسی دوسرے کو ہدیہ کرتے ہیں..!!

اپنا راستہ خود بناتی ہوئی آپ کے پاس لوٹ آتی ہے۔ اپنی دعاوں سے لوگوں میں خوشیاں بانٹنا شروع کریں یقین جانیں آپکی اپنی زندگی بھی آسان ہو جائے گی جانِ شاہ "  وہ مسکراتا ہوا جواباً بولا تھا

 کشن سے سر اٹھاتی وہ لمبا سانس لیتی ہوئی تڑپ کر دوبارہ سر کشن پر گرا گئی تھی ڈاکٹرز اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے تھے مگر اسکی حالت بگڑتی جا رہی تھی انہیں اسی وقت آپریشن کرنس تھا مگر انہیں اجازت نہیں ملی تھی ساتھ ہی ٹینشن کی وجہ سے اسے ہارٹ اٹیک آنے کا بھی خدشہ تھا

شاااہ ۔۔ وہ کرب کی آخری حد سے چلائی تھی باہر دیوار سے ٹیک لگائے وہ سر گرائے دنیا جہاں سے لاتعلقی کا اظہار کئے نیچے دیکھ رہا تھا جب اسکی درد بھری آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی تھی اسنے کرب سے آنکھوں کو بند کیا تھا آفرین بیگم نے اور زارا نے اسے دیکھا تھا جو مٹھیاں بھینچے ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا 

"آپکی ذات بڑی کریم ہے میرے مالک میں بہت وقت آپ سے لاتعلق رہا ہوں آپکی عبادت نہیں کی لیکن پھر بھی آپ نے مجھے ہر اس شے سے نوازا جس کا میں طلب گار تھا اسے بچا لیں میرے مالک میں کسی صورت اسے پھر سے جدا نہیں کر سکتا خود سے اگر یہ پھر آزمائش ہے تو میں آخری سانس تک یہی کہوں گا میں آپ سے مانگتا رہوں گا اپنی رحمت سے نواز دیں مجھے آج پھر سے مالک " وہ آنکھیں بند کئے دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا "

""اللہ کرے تیری بیوی مر جائے تیری اولاد مر جائے "" 

"میری بددعا ہے تیری بیوی مر جائے تیری اولاد مر جائے تیرا خاندان مر جائے تو مر جائے "

وہ آنکھیں سختی سے مزید میچ گیا تھا قصا بیگم کے کہے گئے الفاظ اسکی چاروں اطراف گھوم رہے تھے اسکے سر میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھی

" وہ جانتا ہے کہ میرا_بندہ جب تھک جاتا ہے تو روتا ہے، یہ دنیا والے اس کو رلا دیتے ہیں، وہ پھر یہ نہیں دیکھتا کہ، اس کا ماضی کیسا تھا، یا اعمال کیسے تھے، وہ بس عطا کر دیتا ہے، اور سارے آنسوؤں کو سمیٹ لیتا ہے" 

وہ آنکھیں کھول چکا تھا ان بزرگ کی خوبصورت آواز سن کر اسنے تاسف سے آس پاس دیکھا تھا جہاں کوئی نہیں تھا سوائے اسکی فیملی کے ۔۔

                                      ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

جلدی سے کھانا کھاتا ہوا اسکا ہاتھ ساکت ہوا تھا اسے حلق میں بےحد تکلیف محسوس ہوئی تھی چیختے ہوئے اسنے کھانے کی تھالی کو دور اچھالا تھا اور کھانستے ہوئے حلق پکڑتی اٹھی تھی وارڈن حیرت سے اسے دیکھتی اندر آئی تھی جو تڑپتے ہوئے کبھی یہاں گرتی تو کبھی وہاں ۔۔

"اے کیوں ناٹک کر رہی ہے چل سیدھی ہو کے بیٹھ اور کھانا کھا " اسے بازو سے پکڑتی وارڈن تنک کر بولی تھی وہ بازو کو جھٹکتی ابکائیاں لیتی نیچے گرتی چلی گئی تھی حلق میں ہوتی جلن کیساتھ اسے اپنا گلا جلتا ہوا محسوس ہوا تھا 

صحیح کہتے ہیں ناں کہ جب کسی کیساتھ برا کرتا ہے تو خدا پاک کی ذات اسے اس کرب سے ضرور گزارتی ہے جو اسنے کسی بےجرم کو دیا ہوتا ہے 

"ظفر کہاں مر گئے ہو " وارڈن نے باہر نکلتے کہا تھا ایک ضعیف بوڑھا آدمی اسکے بلانے پر آ پہنچا تھا 

"کیا ڈالا تھا کھانے میں وہ دیکھو مر رہی ہے وہ " وارڈن نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا 

"کچھ بھی تو نہیں ملایا سب نے وہ کھانا کھایا تھا کسی کو کچھ نہیں ہوا بی بی " 

وراڈن اسکے کمرے میں آئی تھی جو سب کو بد دعائیں دیتی ہوئی فرش پر ایڑھیوں کو رگڑتی ہوئی تڑپ رہی تھی 

"خدا کا خوف کر گھٹیا عورت مرتے ہوئے بھی بددعائیں دے رہی ہے " وارڈن نے اسکے سامنے رکتے ہوئے کہا جو منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا رہی تھی 

"صحیح کہتے ہیں لوگ جب برا انسان برائی کرے تو اسکی کی گئی برائی کا انجام اتنا برا نہیں ہوتا جتنا ایک اچھے انسان کی کی گئی برائی کا ہوتا ہے کیونکہ سمجھ بوجھ کے بعد بھی وہ جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے " اسے دیکھتی وارڈن نے سر جھٹک کر کہا وہ اسکی تمام کہانی سے واقف تھی 

"صحیح کہا آپ نے بی بی جی " پیچھے کھڑا ظفر دھیمے لہجے میں بولا تھا

"خدا غرق کرے تم سب کو " وہ کھانستے ہوئے بولی تھی 

"کل تک تو صاحب اور اپنی بیٹی کو بد دعائیں دے رہی تھی جو تیری خیریت دریافت کرنے آئے تھے جو کچھ تو نے کیا اسکے بعد بھی مگر جاہل عورت دیکھ کیا ہوا تیرے ساتھ تیری بد دعائیں تجھے ہی کھا رہی ہیں اور کر حسد اور میل پال اپنے دماغ میں دوسروں کے لئے اب بھی وقت ہے جو کچھ تو نے کیا اسکی معافی مانگ لے "  وارڈن اسے دیکھتی ہوئی پیچھے ہٹی تھی جس کا وجود ساکت ہو گیا تھا اسکی آنکھوں کی پتلیاں ساکت تھی  وارڈن نے اسکی نبض دیکھی تھی جو بجھ گئی تھی

"ظفر اسے دفنانے کا انتظام کرو اسکے گھر والے کبھی یہاں نہیں آئیں گے " 

"جی بی بی "  اتنا کہہ کر وہ دونوں باہر نکلے تھے 

"ایک شخص کا گزر ہوا کسی بازار سے تو اس نے دیکھا کہ

وہاں ایک بزرگ کھڑے رو رہے ہیں

وہ بزرگ کے پاس گیا اور رونے کی وجہ پوچھی 

تو بزرگ نے کہا کہ "میں ان غافل لوگوں اور رب کے درمیان صلاح کرانا چاہتا ہوں رب تو مانتا ہے لیکن یہ لوگ نہیں مانتے"

پھر اسی شخص کا گزر قبرستان سے ہوا تو وہی بزرگ وہاں کھڑے رو رہے تھے۔۔۔

اس شخص نے جا کر وجہ پوچھی کہ آج آپ کے رونے کی وجہ کیا ہے؟

تو بزرگ نے جواب دیا:

آج بھی میں اسی بات پر رو رہا ہوں میں رب

 اور اس کے بندوں کی صلاح کرانا چاہتا ہوں 

"آج یہ قبرستان والے تو مانتے ہیں پر رب نہیں مانتا"

زندگی بہت مختصر ہے اور توبہ کا دروازہ موت تک کھلا ہے اس سے پہلے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو جائے اپنے رب کو راضی کرلیں۔۔

                                        ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

رات کے دس بج رہے تھے وہ گیلری میں ویٹنگ چیئر پر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھائے بیٹھا دنیا سے غافل گہری سوچ میں تھا گھر والوں کو بہت منتوں کے بعد اسنے گھر بھیجا تھا کیونکہ بچے گھر پر اکیلے تھے ہڑبڑی میں سب آ گئے تھے اور اب سب پریشان تھے صرف آفرین بیگم اور زارا یہاں موجود تھی مرجان اور حرب سب کو گھر ڈراپ کرنے گئے تھے

اسنے سنجیدگی سے سر اٹھا کر سرخی مائل آنکھوں سے آفرین بیگم کو دیکھا تھا جو اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ گئی تھی

اسکی توجہ حاصل کر کے وہ اسکے ساتھ بیٹھی تھی 

"بیٹا آپکو پتا ہے مشکل وقت ہمیشہ آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے " 

وہ سر ہلا گیا تھا دھیرے سے 

"میں کئی بار ان آزمائشوں سے گزرا ہوں " وہ سر جھٹکتا بولا تھا 

"ہر شخص کا کوئی نہ کوئی اسماعیل ہوتا ہے جس کو اللّہ کی راہ میں قربان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے. مگر اسے قربان کیے بنا اللّہ کا قرب نصیب نہیں ہوتا.

 کسی کا مال، کسی کی اولاد، کسی کا نفس، کسی کا عہدہ اور کسی کا پیار اس کے اسماعیل ہوتے ہیں.

دنیا میں آزمائش انہی کے لیے ہے جنہیں اللّہ چاہتا ہے، اور قربانی و صبر وہی کرتے ہیں جو اللّہ کو چاہتے ہیں " 

وہ آفرین بیگم کی بات سنتا سر کو دھیرے سے ہلا چکا تھا

"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں " وہ سنجیدگی سے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو الجھاتا بولا تھا 

"اللہ پر بھروسہ رکھو وہ کبھی کچھ غلط نہیں ہونے دیں گے جو انہیں منظور ہو گا وہی ہو گا بس دعا کرو " 

"بےشک چاچی جان ٹھیک کہہ رہی ہیں بھائی " وہ سر ہلاتا ہوا سپاٹ نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھنے لگا

وہ گھٹنوں پر بازو رکھے سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا جب اسکے کانوں میں چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آئی تھی آفرین بیگم اور زارا نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا

آپریشن روم کا دروازہ کھلا تھا کچھ دیر بعد ۔۔۔

ڈاکٹرز کا چہرہ جذباتوں سے عاری تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ڈاکٹر نے دروازہ کھول کر انہیں اندر آنے کی اجازت دی تھی

"سر آپکا بیٹا" 

نرس سفید کمبل میں اس ننھی سی جان کو اٹھائے اسکے پاس آئی تھی جو بہت ہیلدی تھا گورا چٹا دودھیا رنگت بالکل شاہ ویر پر گیا تھا وہ آنکھیں بند کئے وہ سکون سے سو رہا تھا آفرین بیگم اور زارا نے مسکراتے ہوئے  بسمہ اللہ کہہ کر اسے لیا تھا مگر وہ تو اس طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا وہ بوجھل قدموں کیساتھ چلتا ہوا اسکے بیڈ کی جانب آیا تھا اسکی آنکھیں بند تھی دونوں ہاتھوں نے بلینکٹ کو مٹھی میں بھینچا ہوا تھا چہرے پر بال بکھرے ہوئے تھے اسنے کانپتے ہوئے ہاتھ کیساتھ اسکے چہرے پر بکھرے اسکے گولڈن بالوں کو ہٹایا تھا اسکی آنکھیں بند تھی وہ اسکا ہاتھ پکڑتا اسکے چہرے پر ہلکا سا جھکا تھا دوسرے ہاتھ سے اسنے اسکے سرخ رخسار کو چھوا تھا جس پر آنسوں بہتے بہتے سوکھ گئے تھے ڈاکٹرز اور نرسز سمیت زارا اور آفرین بیگم اسے ہی دیکھ رہی تھی اسکی دھڑکنیں تھمی ہوئی تھی عشیق نے دھیرے سے آنکھیں کھولی تھی اسکی دھڑکنیں بحال ہوئی تھی اسکے ہاتھ پر لب رکھتے ہوئے نم آنکھوں سے اسکی پیشانی پر لب رکھ گیا تھا وہ ہلکی سی مسکرائی تھی 

"کوئی معجزہ ہی ہوا ہے مسٹر شاہ ویر ورنہ آپریشن میں بھی بہت خطرہ تھا سب بہت کامپلیکیٹڈ لگ رہا ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں انکا ہی معجزہ ہے یہ جو آج آپکی وائف اور آپ کا بچہ دونوں صحیح سلامت ہیں " ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا تھا اسنے تشکر بھری نظروں سے گلاس وال سے آسمان کو دیکھا تھا جس پر ٹمٹماتے تارے آنکھوں کو تراوت بخش رہے تھے  ایک مبہم سی مسکان نے اسکے ہونٹوں کو چھوا تھا 

آفرین بیگم  ڈاکٹرز کیساتھ بچے کو لیکر آبزرویشن کے لئے گئی تھی اور زارا نے گھر اطلاع دینے کے لئے مرجان کو کال کی تھی  عشیق نے اسکے حلئے کو دیکھا تھا بکھرے بال اسکا بگڑا ہوا حلیہ دیکھ کر وہ آنکھیں سکیڑ گئی تھی  

"یہ کیا حال بنا رکھا ہے آپ نے شاہ "  اسکا ہاتھ پکڑتی وہ خفگی سے بولی تھی وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا بس مبہم سا مسکرایا تھا 

"اتنا پیار کرتا ہے شاہ ویر حیدر کاظمی اپنی بیوی سے کہ جب بھی اسکی بیوی کو کچھ ہوتا ہے وہ اپنا ہینڈسم ڈیشنگ لوک بھول کر ایک عام سا انسان لگنے لگتا ہے "  وہ آنکھیں سکیڑتی اسے دیکھتی بولی تھی 

"ڈیم اٹ اگر آج آپکو کچھ ہو جاتا میں خود کو کسی گاڑی سے گچلوانے کو تیار تھا " 

عشیق کے لبوں سے مسکراہٹ ایک پل میں غائب ہوئی تھی اسکی ایسی بات سن کر 

"سوچ کیسے لیا آپ نے یہ سب نہیں بولتی میں آپ سے " وہ خفا ہوئی اور سر کو پھیرا 

اسکے ہاتھ میں انگلیاں الجھائے وہ محبت سے اسے دیکھ رہا تھا وہ دوبارہ اسے دیکھنے لگی تھی 

"میں نے سوچ لیا ہے ہمیں ایک ہی بچہ بہت ہے "

عشیق نے حیرت سے اسے دیکھا تھا 

" جس تکلیف سے آج آپ گزری ہیں اگر میں نے دوبارہ آپکو اس حال میں دیکھا تو میں مرجاؤ گا آئی سوئیر" عشیق کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے 

"پلیز ڈونٹ کرائے " 

"آپ نے ہمارا بےبی دیکھا کیسا دیکھتا ہے وہ " عشیق نے مسکراتے ہوئے پوچھا وہ دھیرے سے سر ہلا گیا تھا

"کیوں نہیں دیکھا شاااہ " وہ آئی برو اٹھاتی خفگی سے بولی

"میں  پہلے دیکھنا چاہتا تھا میری اینجل کیسی ہے " وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا تھا عشیق نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا وہ اسکی پیشانی پر جھکتا محبت کی مہر ثبت کر گیا تھا 

                                     ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

چار مہینوں بعد :- 

"چاچی اسکی آنکھیں تو دیکھیں" ۔۔ کشش اسکے قریب بیٹھی اسے حیرانی سے دیکھتی ہوئی بولی تھی عشیق نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا

"اسکی آنکھیں ناں بالکل باربی ڈول جیسی ہیں یہ میری باربی ڈول ہے " کشش نے اسکے گول مٹول گالوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے کہا وہ چھوٹے سے ہاتھوں کو اسکے چہرے پر لگاتا ہوا مسکرایا تھا

"ارے وہ ہنس رہا ہے " عشیق مسکراتی ہوئی اسکے پاس آئی تھی شاہ ویر فریش ہو کر باہر آیا تھا اسے مسکراتا دیکھ کر اسکو سکون ملا تھا 

"شاہ دیکھیں کیسے سمائل کر رہا ہے عاشر" اسکے بلانے پر وہ اسکے قریب رکا تھا جو شاہ کو دیکھ کر مسکرایا تھا عشیق نے اسے اٹھایا تھا شاہ ویر نےمسکراتے ہوئے اسکی ٹھوڑی پر انگوٹھا رکھا تھا جس پر اسکی مسکان اور گہری ہوئی تھی

"چاچو آپ نے اسکا نام عاشر کیوں رکھا اسکا نام باربی ڈول رکھنا تھا ناں " کشش منمنائی 

"ویسے آپ نے بھی مجھے وجہ نہیں بتائی آپ نے ہمارے بےبی کا نام عاشر کیوں رکھا " عشیق نے آنکھیں گھما کر اسکی نیلی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا کشش نے مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھا تھا 

"عاشر کا ع دراصل عشیق کا ع ہے عاشر کا ا دراصل اینجل کا ا ہے اور عاشر کا ش دراصل شاہ کا ش ہے اور عاشر کا ر دراصل ویر کا ر ہے " 

عشیق نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا کشش کمرے سے بھاگ گئی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسکے کندھے پر سر ٹکاتا عاشر کو دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا

"اتنا پیارا نام کب سوچا آپ نے شاہ " عشیق نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا 

"یہ نام میں نے تب سوچا تھا جب ہم بہت دور تھے ایک دوسرے سے  جب آپکی یادوں کے سہارے میں جی رہا تھا جب آپکو دیکھنے کے لئے میری آنکھیں ترس رہی تھی " 

عشیق نے لب وا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا جو گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا

                                      ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢♡

تیز قدموں کیساتھ پولیس اسٹیشن سے نکلتا ہوا وہ اپنی کار میں بیٹھا تھا اسکے ساتھ مسٹر رچرڈ اور منور صاحب اور کشمالہ بیگم بھی تھے پولیس اسٹیشن کا کھلا دروازہ جب منظر پیش کر رہا تھا کانسٹیبل اور باقی سارے پولیس آفیسرز بےجان پڑے تھے کچھ فرش پر تو کچھ اپنی سیٹوں پر بےجان پڑے ہوئے تھے 

"کمال کرتے ہیں ڈی ایس پی صاحب مجھے امید نہیں تھی آپ ایسا کر لیں گے " مسٹر رچرڈ نے سیٹ سے پشت لگاتے ہوئے سکون سے کہا جبکہ منور صاحب مسکرا دیئے تھے

"میں نے فلائٹس کی ٹکٹ بک کر لی ہیں  ہمارے پاسپورٹ بھی بدل گئے ہیں بس گیٹ اپ چینج کرنا ہے اور ہم آج ہی واپس روس جا رہے ہیں بھاڑ میں گئی نوکری میں اتنا تو کما ہی چکا ہو کہ آرام سے بیٹھ کر کھا سکوں آخر کار وہ عیش و عشرت کی زندگی میسر آ ہی گئی مجھے پوری ذندگی دو نمبری کرنے کا کوئی تو فائدہ ہوا ہاہا " ڈی ایس پی صاحب نے مکروہ قہقہ لگایا تھا اسکا یہ قہقہ عرش تک گیا تھا ناجانے کتنے لوگوں کو ستایا تھا اس غلیظ انسان نے اس دولت کے لئے 

"صحیح کہا مرجان اور شاہ کے ذہن میں بھی نہیں ہو گا ہمارا آخری آدمی باقی تھا جس طرف انکا دھیان ہی نہیں گیا اور دیکھو اسکا نتیجہ ناں صرف سزا سے بچ گئے بلکہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو رہے ہیں " منور صاحب نے پرجوش لہجے میں کہا 

"شکر ہے دوسری جیل منتقل سے پہلے ہی ہم چھوٹ آئے یہاں سے " رچرڈ نے قہقہ لگایا تھا۔ڈی ایس پی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ہنسے تھے انکے ساتھ کشمالہ بیگم ناچاہتے ہوئے بھی انکے ساتھ چل دی تھی آخر کیا بچا تھا اسکے پاس اب سوائے اپنی قسمت اور سزا سے بھاگنے کے۔

آسمان پر بادل گرجے تھے اور آندھی چل پڑی تھی منظر کو دھندھلا دینے والی اس آندھی نے سب کو حیران کیا تھا ہر طرف مٹی تھی کچھ دیکھنے سے قاصر تھے سب لوگ یہاں وہاں دوڑے تھے  کشمالہ کا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ خدا کے قہر سے ڈری تھی آج 

آہہہہہہہہہ !!

ماحول میں دلخراش چیخیں گونجی تھی ایک ہی پل میں انکی گاڑی آگ کے لپیٹے میں آئی تھی آگ لگے ان گنہگاروں کے وجود  چیختے چلاتے گاڑی سے  خود کو بچانے کی کوشش میں تھے اور چیخ رہے تھے مگر لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے خوفزدہ نظروں سے انکا انجام دیکھ رہے تھے 

ایک آدمی کچھ فاصلے پر رکا تھا اپنے آئل ٹینکر کو دیکھتے ہوئے وہ تو چائے پینے کے لئے ہی پاس کے ہوٹل پر رکا تھا گاڑی ناجانے کیسے اپنے آپ یہاں تک چل آئی تھی گاڑی میں تو کوئی تھا ہی نہیں فضا میں کچھ دیر ان گنہگاروں کی چیخیں گونجتی رہی اور پھر موت سا سناٹا چھا گیا تھا 

ایک سفید لباس میں ملبوس درویش بزرگ لوگوں کے ہجوم میں رکے تھے انکی پر نور آنکھوں نے انکی جلتی گاڑیوں کا دیکھا تھا 

"یاد رکھیں یہ دنیا مکافات عمل ہے جب آپ کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں یا اسکے ساتھ زیادتی کرتے ہیں تو اسی منٹ کے ساٹھویں سیکنڈ میں  آپکا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو جاتا ہے  بےشک مکافات عمل دستک نہیں دیتی اور ناں ہی اسے کسی در کے کھلنے کا انتظار ہوتا ہے  یہ تو جہاں جاتی ہے اپنے لئے دروازہ کھول لیتی ہے  یاد رکھو جو کچھ آج تم دوسروں جے ساتھ کرو گے کل وہ تمھارے ساتھ ہو گا اسی لئے کسی کی زندگی جہنم بنا کر کسی کو برباد کر کے سکون سے جینے کی سوچ اپنے دل و دماغ سے جھٹلا دو سہ پاک ذات سب کا برابر حساب کرتا ہے اور بےشک وہ سخت عذاب دینے والی ذات ہے "

                                     ♡🅛🅘🅢🅐  🅦🅡🅘🅣🅔🅢 ♡

"مرجان دیکھیں یہ لڑکی بہت تنگ کرتی ہے مجھے" زارا برش اٹھائے اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی اور وہ بال کھولے کبھی بیڈ پر چڑھ جاتی تو کبھی صوفے پر مرجان جو کمرے میں داخل ہی ہوا تھا دونوں کو کمرے میں بھاگتے ہوئے دیکھ کر مسکراتے ہوئے رکا تھا

"بابا مماں کیساتھ مل کر ہمیں پکڑیں ناں"  کشش نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا تھا مرجان مسکراتے ہوئے فائل ٹیبل پر رکھتا بیڈ کی طرف بڑھا تھا زارا بھی آگے ہوئی تھی 

"پکڑو پکڑو ہمیں پکڑو" وہ بیڈ کے بیچ میں اچھلتی ہوئی شرارتی لہجے میں بول رہی تھی مرجان اور زارا نے ایک ساتھ اسے پکڑنے کے لیے اسکی جان ہوئے تھے وہ ہنستی ہوئی نیچے اتر گئی تھی مرجان اور زارا کا سر آپس میں ٹکرایا تھا

"ہائے اللہ " زارا سر پکڑتے ہوئے بیٹھی تھی کشش منہ پر ہاتھ رکھتی ہنسی تھی 

"بابا آپ مماں کو میجیکل کس دے دو مماں ٹھیک ہو جائیں گی " کشش منہ پر ہاتھ رکھتی ہنستے ہوئے باہر بھاگی تھی

"رکو بتاتی ہوں تمھیں بابا کی چمچی" زارا تنک کر کہتی اسکے پیچھے اٹھتی جانے لگی جب مرجان نے اسکا ہاتھ پکڑتے اسے پیچھے گرایا تھا وہ اسکے اوپر گری تھی

"کیا خیال ہے زیادہ درد ہو رہا ہے تو میجیکل کس دے دیتا ہوں " وہ ہنسی دباتا ہوا معنی خیزی سے بولا تھا زار انے سرخ ہوتے ہوئے اسے دیکھا تھا 

"کوئی ضرورت نہیں ہے چھوڑیں دروازہ کھلا ہوا ہے " 

"تو کیا ہوا سب لائونج میں ہیں کچھ دیر میں فیملی فوٹو بنوانی انٹیریئر ہال میں لگانے کے لئے فوٹوگرافر آتا ہی ہو گا تب تک آپکا درد ٹھیک کر دیتے ہیں " بغیر اسکا جواب سنے مرجان نے اسکے سرخ گال پر لب رکھے تھے وہ لال ہوتی ہوئی اسے پیچھے ہٹاتی اٹھی تھی ژالے منہ پر ہاتھ دیتی ہوئی فورآ دروازے سے پیچھے ہوئی تھی زارا نے مرجان کو تیکھی نظروں سے دیکھا تھا وہ شرافت سے کندھے اچکاتا انکے ساتھ نیچے آیا تھا لاونج میں پوری فیملی جمع تھی 

ویلویٹ کے بلیک صوفے مخصوص انداز میں پڑے تھے فرنٹ صوفے پر شہنشاہ صاحب سہیل صاحب اور آغا صاحب کیساتھ بیٹھے تھے انکے پیچھے باقی فیملی تھی ندیم نے مسکراتی ژالے کا ہاتھ تھاما تھا نیشال نے نجم کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا علیزے نے شرارتاً دائم سے کندھا ملایا تھا جس پر وہ مبہم سا مسکرایا تھا مرجان نے زارا کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھائی تھی زونی اور حرب دونوں مسکرائے تھے عشیق نے نہریں اٹھائے اسے دیکھا تھا جو اسکے کندھے سے کندھا ملاتا اسے دیکھتا مسکرایا تھا ایک بہت پیاری مسکان نے عشیق کے ہونٹوں کو چھوا تھا پوری فیملی کے لبوں پر مسکان تھی ماریہ آفرین بیگم کو دیکھتی مسکرا گئی تھی فوٹوگرافر نے پکچر لی تھی سب کی 

فون پر تعبیر کا نمبر جگمگاتا دیکھ کر شان ہنکارا بھرتا تھوڑا پیچھے ہوا تھا اور فون کان سے لگایا تھا 

"وہ مجھے بتانا تھا کہ میں یورپ میں شفٹ ہو گئی ہوں میں نے شادی کر لی ہے میں سیٹل ہو گئی ہوں تمھارا پروپوزل ریجیکٹ ہو گیا " شان نے آنکھیں گھمائی تھی اور کال منقطع کرتے ہوئے اسکا نمبر بلیک لسٹ کیا تھا 

"ہاں ہم جیسے تو بس مردم شماری میں گنتی کے لئے پیدا ہوئے ہیں " وہ دانت پیستے کھسیانا ہوتا ہوا واپس ہال میں آیا تھا

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Figaar E Ishqam Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Figaar E Ishqam written by Zoya Shah . Figaar E Ishqam by Zoya Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages