Pages

Monday 12 August 2024

Dharkanon Ka Ameen Novel By Ana Ilyas New Complete Romantic Urdu Novel

Dharkanon Ka Ameen Novel By Ana Ilyas New Complete Romantic Urdu Novel   

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dharkanon Ka Ameen By Ana Ilyas Complete Romantic Novel 

Novel Name: Dharkanon Ka Ameen

Writer Name: Ana Ilyas

Category: Complete Novel

 

شديد ٹريفک جام ميں وہ بری طرح پھنسے تھے۔ 

"اف يار ٹائم بہت کم رہ گيا ہے" فرنٹ سيٹ پر بيٹھی۔ ہاتھ ميں بندھی گھڑی ديکھتے ہوۓ۔ وہ کوفت زدہ لہجے ميں ڈرائيونگ سيٹ پر بيٹھے فاران سے مخاطب ہوئ۔ 

فاران نے ايک نظر اسکے بيزار چہرے پر ڈالی۔ انہيں کورٹ کے لئے دير ہورہی تھی۔

اسی لمحے ٹريفک چل پڑی۔ 

"افف شکر" آنکھيں تشکر سے بند کرکے جيسے ہی کھوليں نظر سيدھی دائيں جانب سے غلط موڑ کاٹ کر آنے والی گاڑی پر پڑی۔ غلط موڑ کاٹنے کا نتيجہ يہ ہوا کہ اپنےصحيح راستے پر جانے والے ايک موٹر سائيکل سوار سے اس گاڑی کی بری طرح ٹکر ہوئ۔ 

وہ تو اس موٹر سائيکل والے کی قسمت اچھی تھی کہ موٹر سائيکل تو اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر دور گری۔ وہ خود بھی گرا مگر زندگی بچ گئ۔ 

يکدم بھيڑ لگ گئ۔ 

"روکو۔۔ روکو۔۔ اسے تو ميں بتاتی ہوں" وہ فاران سے کہتے ہوۓ۔ گاڑی رکتے ہی مرنے مارنے والے انداز ميں گاڑی سے نکلی۔ 

تيز قدم وہاں رکے جہاں گاڑی والا موٹر سائيکل سوار کو سخت سست سناتا يہ باور کروا رہا تھا کہ غلطی موٹر سائيکل والے کی ہے۔ 

"او بھائ صاحب" يماما ماتھے پر تيوری چڑھاۓ گاڑی والے سے مخاطب ہوئ۔ 

"غلط موڑ کاٹ کر خود آئے اور اسے غريب جان کر اپنی دولت کا رعب جھاڑ رہے ہو" وہ آستينيں اوپر کرتی غرائ۔ 

بھانت بھانت کی بولياں بولنے والے سب ايک نسوانی مگر کڑک دار آواز پر لمحہ بھر کو سب گنگ رہ گۓ۔ 

دھان پان سی يماما کی گرج دار آواز نے سب کو ساکت کيا۔ 

"ايکسکيوزمی ميم۔۔ آپ اس معاملے سے ذرا دور ہی رہيں" گاڑی والا شخص نہايت تڑخ کر بولا۔ 

"کيوں دور رہوں۔ باپ کی سڑک ہے۔۔۔ دور رہو۔۔" اس کی بات پر پھر سے وہاں خاموشی چھائ۔ 

"تم جيسوں کی وجہ سے نجانے کتنے مجبور لقمہ اجل بن جاتے ہيں۔ اور کہنے کو يہ ملتا ہے کہ بائيک والے تو بائيک چلاتے نہيں اڑاتے ہيں۔۔۔ ہٹو۔۔ گاڑی کا نمبر نوٹ کروں" ماتھے پر بل ڈالے اسے ايک جانب کرتی نمبر نوٹ کرنے لگی۔ 

وہ حيران اسکی کاروائ ديکھ رہا تھا۔ 

بلکہ سبھی حيران تھے۔ 

"تم سے اگلی ملاقات اب تھانے ميں ہوگی۔" اسے گھوری ڈال کر دھمکی دينے سے باز نہيں آئ۔ 

" بھائ تم اپنے گھر جاؤ۔ ايسوں کو سيدھا کرنا مجھے خوب آتا ہے" بائيک والے لڑکےسے مخاطب ہوئ جو اب بھيڑ ہٹا کر اپنی بائيک کی جانب بڑھا تھا۔باقی سب حيران تھے۔ 

"او مس۔۔ نمبر کيوں نوٹ کيا ہے ميری گاڑی کا تمہيں پتہ نہيں مين کون ہوں" يماما کا راستہ روکتے ہوۓ وہ غصے مين بولا۔ 

"پتہ تو تمہيں نہيں کہ ميں کون ہوں۔ کورٹ ۔۔ کچہری ميں تم جيسے ہزاروں دھمکی لگاتے ہيں۔ ايک کو بھی بخشتی نہيں۔ تم کيا چيز ہو" اسکی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالتی اسکی دھمکی کو کسی خاطر ميں لاۓ بغیر گاڑی کی جانب بڑھی۔ 

"تم کب باز آؤ گی۔ ان حرکتوں سے" فاران اپنے ساتھ والی سيٹ پر اسے بيٹھتے ديکھ کر کڑے تيوروں سے پوچھنے لگا۔

'کبھی نہيں" وہ مزے سے چہرہ تھوڑا سا اٹھا کر بولی۔ 

" سنو فاران ميں نے وکالت کی ڈگری اسی لئے حاصل نہيں کی کہ بس کورٹ۔۔ کچہری۔۔ يا پھر اپنے آفس ميں بيٹھ کر لوگوں کے مسئلے حل کرواؤں۔" فاران کے گاڑی چلاتے ہی اسکی بھی زبان فراٹے بھرنے لگی۔

"ہم جس شعبے ميں ہيں۔ اس کا مطلب ہے لوگوں ميں انصاف قائم کرنا۔۔ اور انصاف صرف پيسہ دے کر ہی بانٹنا نہيں ہے۔ مجھے جہاں جہاں بہتر لگا ميں اس انصاف کو پھيلاؤں گی" ونڈ اسکرين کے پار ديکھتے اس کے لہجے ميں جو درد تھا وہ فاران سے چھپا نہيں رہ سکا۔ اسے اپنی يہ دوست بہت عزيز تھی۔ 

بلکہ عزيز نہيں۔ اس کے لئے بہت خاص فيلنگز اسکے دل ميں تھيں۔ جنہيں يماما ہر مرتبہ جھٹلانے پر تلی رہتی تھی۔

"اچھا يہ بتاؤ تم نے سب پروفس جمع کرلئے ہيں؟" فاران اسے زيادہ دير اس تکليف ميں نہيں ديکھ سکتا تھا جو اس کے چہرے سے اس لمحے ہويدہ تھی۔ 

"ہاں۔۔اس مرتبہ اس گھٹيا شخص کو چھوڑنا نہيں۔ ايسی عبرت ناک سزا دلوانی ہے کہ اس کی سات پشتيں بھی ياد رکھيں" اس کے لہجے ميں ايک عجيب سا عزم تھا۔ 

"ان شاءاللہ اس بار يہ نہيں بچے گا" فاران نے بھی صدق دل سے دعا کی۔

__________________

قيديوں کی مخصوص گاڑی ميں اس لمحے بالکل خاموشی چھائ ہوئ تھی۔ 

قيدی ايک تھا جبکہ پوليس کے آٹھ اہلکار بيٹھے تھے۔ 

ہاتھوں ميں بھاری بھرکم ہتھکڑياں پہنے ہوۓ بھی وہ اس قدر آرام اور سکون سے بيٹھا تھا جيسے اسے ڈيتھ سيل کی جانب نہيں بلکہ اس کی بارات پر لے جارہے تھے۔ 

ايک مخصوص شرارتی مسکراہٹ مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوۓ تھے۔ سامنے بيٹھے دو اہلکار اسکے جھکے سر کو خشمگيں نگاہوں سے ديکھ رہے تھے۔ کندھوں تک آتے لمبے بال اسکے چہرے پر پڑے ہوۓ تھے۔ آنکھيں جھکی ہوئ تھيں۔ بھاری بھرکم داڑھی اور مونچھوں ميں مسکراتے لب پوليس اہلکاروں کو طيش دلا رہے تھے۔ 

ان کے سامنے بيٹھا شخص کوئ عام غنڈا موالی نہيں تھا۔ 

خطرناک دہشتگرد شہنشاہ تھا۔ جس کو پندرہ دن سے پوليس نے قيد کررکھا تھا۔ 

مگر يہ کوئ پہلی بار نہيں تھا۔ بہت بار اسے قيد کيا اور ہر بار وہ بغير وکيل کے اسی طرح ايک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے کچھ نہ کچھ ايسا گاڑی کے ساتھ کرتا کہ سب کی آنکھوں ميں دھول جھونک کر فرار ہوجاتا۔ 

اب کی بار پوليس نے اسے پکڑ کر سيدھا ڈيتھ سيل کی جانب روانہ کيا۔ اور اسکے ساتھ آٹھ پوليس اہلکار بھيجے تاکہ اس بار فرار کی کوئ صورت نہ بن سکے۔ 

گاڑی نے جيسے ہی شہر سے نکل کر ويران راستہ اپنايا پوليس اہلکار اور چوکنا ہو کر بيٹھے۔ 

"ہمممممم" شہنشاہ نے اب ہولے سے سر نيچے کئے ہوۓ ہی گنگنانا شروع کيا۔ 

"ابے چپ کر تيری بارات لے کر نہيں جارہے" اسکے ساتھ دائيں جانب بيٹھے پوليس اہلکار نے ايک دھپ اسکی کمر پر رسيد کی۔ 

شہنشاہ ہولے سے مسکرايا۔ نظريں مسلسل نيچے جھکی تھيں۔ 

گنگناہٹ بند ہوئ۔ 

شہنشاہ نے اسی طرح گنگناتے ہوۓ سامنے بيٹھے اہلکار کو نظريں اٹھا کر ديکھا۔ 

چمکتی سياہ خوبصورت آنکھوں ميں سے شرارت ٹپک رہی تھی۔ 

پوليس اہلکار اسکے يوں خود کوٹکٹکی باندھ کر ديکھنے پر گڑبڑايا۔ 

اسی اثناء ميں شہنشاہ نے اسے آنکھ ماری۔ وہ اور گڑبڑايا۔ 

يکدم گاڑی ہچکولے کھاتی ڈولنے لگی۔ 

"ابے کيا کررہا ہے" پيچھے بيٹھا ايک اہلکار خود کو سنبھالتے ہوۓ چلايا۔

ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ايک گاڑی زن سے ان کے قريب سے گزری۔۔ اور بے تحاشا دھواں پوليس کی گاڑی کے آس پاس بکھرا۔۔

لمحوں ميں انکی آنکھوں اور گلے ميں وہ دھواں بھرنا شروع۔۔ 

بے تحاشا کھانسی چھڑی۔ 

کسی کو اس غنڈے کا ہوش نہ رہا جسے انہوں نے باحفاظت ڈيتھ سيل پہنچانا تھا۔ 

سب کو اپنی اپنی پڑ گئ۔ گاڑی سے بھاگتے ہوۓ وہ اترے اور ايسے مقام پر پہنچے جہاں وہ دھواں نہ ہو۔ 

طبيعت سنبھلی تو ايک افسر کو شہنشاہ کا خيال آيا۔ 

"ابے او۔۔۔" اس نے پاس کھڑے دو ماتحتوں کو ايک ساتھ تھپڑ رسيد کئے۔

"وہ غنڈہ کہاں دفعان ہوگيا" وہ غرايا۔ 

"سر جی يہيں تو تھا۔۔

گاڑی ميں ہی بندھا ہوگا۔ اس کا ايک ہاتھ تو ہتھکڑی کے ساتھ ہم نے گاڑی سے باندھ ديا تھا۔ جس وقت ہم اترے ہيں۔ تب اپنا کہاں ہوش تھا کہ اسے کھول کر اتارتے"ايک نے وضاحت دی۔ 

"سر جی وہ وہيں ہوگا" دوسرے نے تسلی دی۔ جبکہ افسر انہيں گھور کر گاڑی کی جانب تيزی سے بڑھا۔ 

اور وہی ہوا جس کا اسے شک گزرا تھا۔ 

وہاں شہنشاہ کی جگہ کھلی ہتھکڑی لٹک رہی تھی۔ 

"پھر بھاگ نکلا کمينہ" اس نے غصے سے دانت کچکچا کر ايک دو اور گںدی گالياں بھی اسے دے ڈاليں۔ کيونکہ اسے اپنی متوقع بے عزتی ہوم منسٹر کے ہاتھوں ہوتی نظر آرہی تھی۔ جس کی ايما پر انہوں نے شہنشاہ کو پکڑا تھا۔ 

"اب رو سر پکڑ کر نہيں ہے وہ" باقی سب بھی جيسے ہی گاڑی کی جانب آئے وہ افسر گاڑی کے دروازے پر زور سے ہاتھ مار کر بولا۔

سب منہ لٹکاۓ کھڑے تھے

________________________

اس وقت شديد مصروفيت کا عالم تھا کچھ دير ميں ہی اسے کيس کے سلسلے ميں کورٹ پہنچنا تھا۔ 

تيزی سے ہاتھ چلاتے وہ سب ثبوت جنہيں اس نے صفحات پر اتار رکھا تھا انہيں اکٹھا کرکے فائل ميں ترتيب سے رکھتی جارہی تھی۔ 

کل ہی  سرتاج ملک کے خلاف اس نے بہت سے ثبوت اکٹھے کئے تھے۔ 

موبائل پر ہونے والی بيل نے اسکے کام ميں بری طرح خلل ڈالا۔ 

فائل ميں سب صفحات رکھے جاچکے تھے۔ اس نے فائل اٹھا کر سينے سے لگائ۔ اور ايک ہاتھ سے بيگ اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور پھر اسی ہاتھ سے فون پر آنے والی کال کو يس کرکے کان سے لگاتی تيزی سے آفس سے باہر نکلی۔ 

"ہيلو" اسکی ميٹھی آواز نے دوسری جانب جيسے آگ لگا دی۔ 

"(گالی) بات سن۔۔ تو جتنی اونچی اڑان بھرنے کی کوشش کررہی ہے۔۔ تو جانتی نہيں مجھے ابھی" گالی سن کر جو اس کا ميٹر آؤٹ ہونے لگا تھا اگلی بات سن کر اعتدال پر واپس آيا۔ 

"اچھا کيا کروگے۔۔ اغوا کرواؤ گے۔ پھر ريپ کی کوشش کروگے۔۔۔ تم جيسے بزدل اور حرام پيسوں پر پلنے والے اور کر ہی کيا سکتے ہيں" اس کا ٹھنڈا مگر زہر خند لہجہ سرتاج ملک کو مزيد آگ بگولا کر گيا۔ 

"جب تيرے جسم کا ايک ايک حصہ ميرے پالت نوچ کھائيں گے۔ تب پوچھوں گا کون سی بہادری اور کہاں کی بہادری"اس نے پھر سے اپنے گھٹيا انداز ميں اسے دھمکايا۔۔

"ارے جاؤ۔۔۔ عدالت ميں آکر بات کرو۔۔ يہ گیدڑ بھبھکياں مجھ پر اثر کرنے والی نہيں۔ تم جيسے کمينوں کے لئے ہی يہ ڈگری حاصل کی ہے۔ تمہيں اور تمہارے سارے خاندان کو تمہارے انجام تک نہ پہنچايا نا تو اسی دن اس ڈگری کو آگ لگا دوں گی" اس کا برفيلا اور نڈر لہجہ چند پل کے لئےسرتاج ملک کو خاموش کرواگيا۔

يماما نے اس کے مزيد بولنے سے پہلے فون بند کيا۔ نہ اس کا تنفس  تيز چل رہا تھا۔ نہ چہرے پر کسی درشتگی کے آثار تھے۔ پرسکون چہرہ لئے وہ فاران کے ساتھ گاڑی ميں بيٹھی کورٹ کی جانب رواں دواں تھی۔

______________________

"اس کمينی کو چھوڑوں گا نہيں ميں" غصے سے اپنا فون ميز پر پٹختے وہ ہاتھوں کی انگلياں چٹخانے لگا۔ 

"تم نے پتہ کروايا ہے اس کا بيک گراؤنڈ" اپنے سامنے کھڑے مينجر کو اسی غصيلے انداز ميں پوچھا۔ 

"جی سر۔۔ آگے پيچھے کوئ نہيں ہے اس کا۔ يتيم خانے کون چھوڑ کر گيا يہ بھی نہيں پتہ۔ بس اتنا معلوم ہوا ہے۔ ہمارے گاؤں کی ہے۔ مگر کس کی اولاد ہے کوئ کاغذات نہيں ہيں۔۔۔باپ کے نام کی جگہ بھی يتيم خانے کے مالک نے اس فيملی کا نام لکھا ہے جو اسے سپانسر کرتی ہے۔ بس اور کوئ ڈيٹيل نہيں ہے اس کی" مينجر نے ساری معلومات ايک ہی سانس ميں سنا ڈاليں۔

"ہمم" اس نے گہرا سانس ليا۔ چند دن ہی ہوئے تھے اس لڑکی کو سرتاج ملک کے خلاف کيس شروع کۓ۔ جس ميں پہلے يماما نے اس کے ناجائز اثاثوں پر اٹيک کيا۔ پھر اسکی اسی کے گاؤں ميں ہونے والی بربريت کے بے شمار قصوں کو دنيا کے سامنے لانا شروع کيا۔ 

کہيں پر لڑکيوں کو اغوا کرکے انکے ساتھ زيادتی کے قصے تھے تو کسی کی زمين پر ناجائز قبضے کی کہانی۔ کہيں پر گاؤں کے لوگوں کی زمينوں پر ناجائز ملکيت اور ناجائز ٹيکس کے مسئلے تھے تو وہيں ان ميں سے کسی کے آواز اٹھا لينے پر اسے اذيت ناک موت مارنے کے واقعات۔

سرتاج ملک کو سمجھ نہيں آرہی تھی کہ کيسے اس لڑکی کے پاس يہ سب ثبوت اکٹھے ہوۓ۔ 

شروع شروع ميں اس نے ٹی وی چينلز کی مدد سے اسکے خلاف بنائ گئ ويڈيوز کو عام کرنے کی کوشش کی مگر بہت سے چینلز نے يہ کہہ کر انکار کر ديا کہ وہ ہوم منسٹر کے خلاف يہ سب نہيں چلا سکتے۔ 

وہاں سے مايوس ہوکر اس نے الگ سے اپنا يو ٹيوب چينل بنايا۔ ٹوئيٹر اور فيس بک کا استعمال کرکے سب ويڈيوز عام کيں۔ 

مگر سرتاج ملک کے پالتو لوگوں نے وہاں بھی اسے جينے نہ ديا۔ اور پھر اسکے اکاؤنٹس باری باری ہيک کرنا شروع کئے۔ 

انہی دنوں جب ملک ميں حکومت بدلتے ہی ناجائز جائيداديں رکھنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئ يماما کو گويا موقع مل گيا۔ 

اس نے کورٹ ميں سرتاج ملک کے خلاف کيس شروع کروا ديا۔ 

وہ نہيں جانتی تھی کہ کيسے اور کس نے ججوں کا ساتھ ديا۔ مگر سرتاج ملک کے خلاف کيس شروع ہوگيا اور ساتھ ہی اسے کيس چلنے تک اسکی سيٹ سے برطرف کرديا گيا۔ 

اس نے بہتيرے ہاتھ پاؤں مارے۔۔۔ 

مختلف گمنام کالز کرکے يماما کو دھمکياں ديں۔۔

نہ صرف يہ بلکہ اسکے فليٹ پر اسکی غير موجودگی ميں بندے بھيج کر اس کی ہر چيز کو توڑ پھوڑ کر رکھ ديا۔ 

مگر وہ پھر بھی پيچھے نہيں ہٹی۔ 

فاران نہ صرف اس کا دوست تھا بلکہ اسی فيملی کا سپوت تھا جو اسے بچپن سے اب تک سپانسر کررہے تھے۔

اس نے بھی بہت سمجھايا کہ وہ اپنی جان کو اس قدر خطرے ميں نہ ڈالے مگر يماما کے سر پر ايک ہی دھن سوار تھی۔ سرتاج ملک کی پوری فيملی کو جيل ميں ديکھنے کی۔

________________________

"تم ايسا کچھ نہيں کروگے" پچھلے آدھے گھنٹے سے شمس اس کا غصہ کم کرنے کوشش کررہے تھے۔ مگر وہ تھا کہ ايک عجيب جنون اس پر سوار تھا۔ 

"ميں اسکی بوٹياں اسی کے پالتو کتوں کو کھلاؤں گا۔ کيا سمجھ کر اس نے دھمکی دی ہے" لال انگارہ آنکھيں سامنے ديوار کو ديکھ رہی تھيں۔ چہرے کی رگيں تنی ہوئ تھيں۔ 

"ميری طرف ديکھو نائل" اب کی بار انہوں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا رخ اپنی جانب کرنا چاہا۔ 

جب جب وہ غصے ميں آتا تھا وہ اسے اسی طری قابو کرتے تھے۔ 

"اس وقت نہيں" وہ انکاری ہوا۔ 

"نائل" انہوں نے بالآخر زبردستی اس کا رخ اپنی جانب کرکے۔ 

دونوں ہاتھوں ميں چہرہ پکڑ کر زبردستی اس کا رخ اپنی جانب کيا۔ 

اس نے چہرہ تو ان کے سامنے کر ليا مگر آنکھيں بند کرليں۔ 

وہ انہيں چھوٹا سا بچہ لگا۔ وہ ايسے ہی کرتا تھا جب اسے پتہ چلتا شمس اسکے غصے کو زير کرليں گے۔ وہ آنکھيں بند کرليتا۔ 

"نائل ۔۔ آنکھيں کھولو" اب کی بار انہوں نے اسکے چہرے کو جھٹکا ديا۔ 

بالآخر ہميشہ کی طرح اسے ہار ماننی پڑی۔ 

"جب جب تم اپنی عقل پر اپنے جذبات کو حاوی کرتے ہو۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحيت ختم ہوجاتی ہے" اسکی آنکھوں ميں ديکھ کر وہ اسے بہت کچھ باور کروا رہے تھے۔ 

اس کا غصہ يک لخت ختم ہوا تھا۔ اور ہر بار ايسا ہوتا۔ نجانے ان کی آنکھوں ميں کيا جادو تھا يا کيا محبت تھی کہ نائل جب غصے کی حالت ميں انکی جانب ديکھ ليتا سارا غصہ ختم ہوجاتا۔ 

"وہ ميرا اس دنيا ميں واحد رشتہ ہے" اسکی آنکھوں کی بے بسی انہوں نے اپنے دل پر محسوس کی۔

"ميں جانتا ہوں۔ اسی لئے۔۔ تمہيں عقل سے کام لينا ہے جذبات سے نہيں۔۔ورنہ اسے بھی کھو دوگے" ان کی بات پر اسکا درد انتہاؤں کو چھو گيا۔

کرب سے اس نے آنکھيں چند لمحوں کے لئے بند کيں۔ شمس نے بڑھ کر اسکی روشن پيشانی چوم لی۔ 

"تم مجھے بہت عزيز ہو۔۔ميں تمہيں اس طرح۔۔ اتنی تکليف ميں نہيں ديکھ سکتا۔ کيا ميں نے اتنے سال تمہيں يہی سکھايا ہے؟" انکی بات پر اس نے آنکھيں کھول کر اپنی کالی گہری آنکھوں سے انہيں ديکھا۔ 

"نہيں" ضبط سے وہ بمشکل يہی کہہ سکا۔ جو مان انہيں اس پر تو وہ کيسے اس مان کو توڑ ديتا۔ 

"تو بس پھر خود کو تيار کرو۔۔ ايک نئ جنگ کے لئے۔۔ تمہارے لئے ميں جتنے پاپڑ بيلتا ہوں۔ کسی کو خبر بھی ہوگئ نا۔ تو مجھے اور ميرے کارندوں کو اندر ڈال ديں گے۔" ان کی بات پر ايک پھيکی سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر بکھری۔ 

"ميں کبھی اسے نزديک سے ديکھ پاؤں گا؟" اس کا ذہن ابھی بھی اسی ميں اٹکا ہوا تھا۔ 

"ان شاءاللہ بہت جلد۔۔تمہيں مجھ پر بھروسہ ہے نا۔۔۔ميں موقع ديکھتے ہی اسے تمہارے پاس لے آؤں گا۔ فکر مت کرو۔۔ جتنی مجھے تمہاری فکر ہے ۔۔اتنی ہی تم سے جڑی اس ہستی کی بھی فکر ہے۔۔مگر تمہيں وعدہ کرنا ہوگا۔ کہ جذبات نہيں عقلمندی سے کام لوگے" اب وہ اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹا چکے تھے۔ وہ بھی سيدھا ہو کر اثبات ميں سر ہلا کر رہ گيا۔ 

"تم تو ميرے شير ہو۔۔ ميرے چيتے ہو۔۔ پھر يہ گدھوں والی حرکتوں پر کيوں اتر آئے" اب وہ اسے اچھی طرح لتاڑ رہے تھے۔ 

اس نے خفگی سے انہيں ديکھا۔ 

اور پھر اپنی جاندار مسکراہٹ کی چھب دکھلائ۔ 

"جذبات بڑے بڑوں کو گدھا بنا ديتے ہيں سر۔۔" اسکی بات پر شمس نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے پھر سے اپنے ساتھ لپٹايا۔

وہ انہيں بے حد پيارا تھا۔ ايک ہی تو اولاد تھی ان کی۔ اللہ نے کسی معجزے کے تحت انہيں نائل نوازا تھا وہ کيسے اسے تکليف ميں ديکھتے۔

"يہ لڑکی ميرے ہاتھوں نہيں بچے گی" سرتاج کا بيٹا غصے سے بھرا گھر ميں داخل ہوا۔ 

"ميں آئندہ آپ کی کسی پيشی پر نہيں جاؤں گا۔ بے عزت کرنے کے لئے مين ہی رہ گيا ہوں" سرتاج کے بيڈ کے سامنے موجود کرسی پر بيٹھا وہ باپ سے تنک کر بولا۔ 

"ہوا کيا ہے؟" وہ حيران پريشان اسے غصے سے بل کھاتے ديکھ رہا تھا۔ 

خور آرام دہ انداز ميں اپنی راکنگ چئير پر بيٹھا تھا۔ 

"آپ نے اسے آج پھر صبح کال کی تھی؟" وہ باپ کی بات کا جواب دينے کی بجاۓ اس سے استفسار کررہا تھا۔ 

"ہاں مگر ميں نے کسی اور نمبر سے کال کی تھی" وہ بيٹے کی بات پر چونکا۔ 

"آپ جتنے مرضی نمبر بدل ليں۔ وہ ثبوت اٹھا کر عدالت ميں پيش کرديتی ہے۔ نجانے کہاں تک اس کی پہنچ ہے سب کالز کا ڈيٹا تک نکوال کر لاتی ہے۔ آپ اپنے ساتھ ہميں بھی حوالات کی ہوا کھلوائيں گے۔ 

مجھے يہاں نہيں رہنا ۔۔ ميری فرانس کی سيٹس بک کروائيں۔ ميں آپکے کيس تک وہيں رہوں گا" وہ ہٹ دھرمی سے بولا۔ 

سرتاج اسکی باتيں سن کن ہکا بکا رہ گيا۔ 

"باپ کو اس سچوئيش ميں چھوڑ کر تمہيں سکون کی پڑی ہوئ ہے۔۔۔ارے تم لوگوں کے لئے ہی يہ سب دو نمبرياں کيں تھيں" وہ افسوس سے بيٹے کو ديکھتے ہوۓ بولا۔ 

"تو ہم نے کہا تھا کہ ہميں حرام کی عادت ڈاليں۔ اور ويسے بھی آپ نے بھی بہت عياشياں کی ہيں۔ ممی کی ڈيتھ کے بعد کون سی ايسی يہاں کی ماڈل ہے جس پر آپ نے ہاتھ نہ صاف کئے ہوں۔ 

اور مفت ميں تو وہ آپکو اپنے جلوے دکھانے نہيں آتيں۔ بھاری بھاری معاوضے ليتی ہيں۔۔" وہ آج اپنے ہی باپ کو آئينہ دکھا رہا تھا۔ 

"بکواس مت کرو۔۔ دفع ہوجاؤ ميں خود ہی نمٹ لوں گا" سچ کب کسی کو ہضم ہوا ہے۔۔ 

سرتاج بھی بيٹے کے منہ سے نکلنے والا سچ ہضم نہيں کرپايا۔ 

"ميں صرف ايک صورت ميں يہاں رہوں گا۔ آج جس طرح اس لڑکی نے ميری بے عزتی کی ہے۔ اسے اس کی کڑی سزا ميں دوں گا۔ مگر اسے يہاں لانے کا بندوبست آپ کريں گے" باپ کی ٹيبل پر دھرے شراب کے گلاس کو ديکھتے ہوۓ وہ دانت کچکچا کر بولا۔۔

"لے آؤں گا۔۔ فکر کيوں کرتے ہو۔ آج تک تم لوگوں کی کوئ بات ٹالی ہے۔۔

مگر اتنا گرم گرم کھانے کی ضرورت نہيں۔۔ ابھی سب ميڈيا۔۔ جرنلسٹ اور اين جی اوز تک اسکے ساتھ ملے ہوۓ ہيں۔ پہلے ان کو ہٹاؤں پھر اس تک بھی پہنچيں گے۔" اس کا پراسرار لہجہ وقار کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرگيا۔ 

موبائل پر بجنے والی کال کی آواز پر وہ چونکا۔ 

"ہاں سميع کيسے ہو؟" وہ اپنے کسی دوست سے گفتگو ميں مصروف تھا۔ 

"ہاں يار آجا ويسے بھی اس وقت بہت غصے ميں ہوں۔ کہيں باہر نہيں آسکتا" باتيں کرتا ہوا وہ سرتاج کے کمرے سے باہر آگيا۔ 

"تو آۓ گا تو پھر ہی تفصيل بتاؤں گا" دوسری جانب سے يقين اسکے موڈ کی خرابی کا پوچھا گيا تھا۔ 

"ٹھيک ہے آجا ميں انتظار کررہا ہوں" دوسری جانب سے آنے کی ہامی بھر لی گئ تھی۔ وقار نے فون بند کيا اور اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔

______________________

ربيعہ کے بہت اصرار پر آج شام وہ تھوڑا وقت نکال کر گھر آئ ہوئ تھی۔ 

"تميں ذرا احساس نہيں۔۔ کہ تمہيں کچھ ہوگيا تو ہمارا کيا حال ہوگا" چاۓ اور اسنيکس کے ساتھ ساتھ ربيعہ اس کی ڈانٹ سے بھی تواضع کررہی تھيں۔

"اف خدايا! اماں " وہ بے بسی سے ماتھے پہ ہاتھ مار کر بولی۔ 

سامنے ہی صوفے پر رافع بيٹھا اسکی حالت انجواۓ کررہا تھا۔ 

"پليز تم سمجھاؤ انہيں" اسے دانت نکالتے ديکھ کر يماما نے پہلے تو اسے گھورا پھر مدد طلب کی۔ 

"اماں آپ تو کم از کم يہ بات نہ کريں۔ آپ کو پتہ ہے ميں اس فيلڈ ميں عورتوں کی طلاقيں کروانے يا ان کے گھر جوڑے رکھنے کے لئے نہيں آئ تھی۔ مجھے کريمنلز کے خلاف کيس کرنے ہيں" وہ ايک نئۓ سرے سے انہيں پھر سمجھا رہی تھی۔ 

"اچھا کيس کرو۔۔ مگر يہ جوآۓ دن تمہيں دھمکياں ملتی ہيں۔ جو چند ہفتے پہلے تمہارے فليٹ پر ہوا۔ تم ہمارے پاس رہتی بھی تو نہيں نا کہ مجھے تمہارے حوالے سے تسلی رہے" ان کا آج اسے بلانے کا مقصد ہی يہ سب سمجھانا تھا۔ حالانکہ وہ جانتی تھيں کہ يہ سب کرنا بے سود ہے۔ مگر وہ اپنی ممتا کا کيا کرتيں جس کی وجہ سے وہ ہر بار اس آس ميں اسے سمجانے بيٹھ جاتی تھيں کہ شايد وہ انکی بات مان لے۔ 

"يہ سب تو اس فيلڈ کا حصہ ہيں۔ دھمکياں نہ مليں تو يہ تشويش کی بات ہے۔۔ آپ بس يہ يقين رکھيں۔ کہ جس اللہ نے مجھے اتنے برے حالوں ميں بھی بچا ليا تھا۔ وہ آگے بھی بچا لے گا۔ اور اگر نہيں بچ سکی۔ تو مرنا تو ہے ہی نا۔۔۔ تو بس جب موت آئ ہوگی تو کوئ جگہ کوئ رشتہ مجھے نہيں بچا سکتا" اسکی بے خوف باتيں سن کر رافع اور ربيعہ دونوں کا دل خوف سے کانپ اٹھتا تھا۔ 

لڑکياں تو نازک مزاج ہوتی ہيں۔ مگر حالات نے اسے بے خوف بنا ديا تھا۔ اور اسی بے خوفی کی وجہ سے اسے کبھی کسی کا ڈر اور خوف نہيں رہا تھا۔ شايد جو لوگ موت کو نزديک سے ديکھ ليتے ہيں ان ميں موت کا خوف اسی طرح ختم ہوجاتا ہے۔ يماما کو بھی اب موت کا ڈر نہيں تھا۔

"ميں نے تمہيں بہت محبت سے اپنايا تھا۔۔ماں بن کر ہميشہ تمہارے لئے سوچا ہے" وہ بمشکل اپنے آنسوؤں پر بند باندھ کر بوليں۔ 

محبت سے مسکراتے وہ اٹھ کر انکے صوفے پر انکے پاس بيٹھی۔ 

"اماں۔۔ ہمارا ايمان ہے نا کہ ہر رشتہ ہمارے ساتھ ہميشہ ہمارے ساتھ نہيں رہے گا۔

ان کے کندھے کے گرد اپنا بازو رکھے وہ انہيں سمجھا رہی تھی۔ جو چہرہ نيچے کئے صوفے کی ہتھی کو انگوٹھے ناخن سے کھرچتے بمشکل اپنے آنسو روکتے ہوۓ سر ہلا کر بوليں۔ 

رافع بس خاموشی سے لب بھينچے ان دونوں کو ديکھ رہا تھا۔ 

يماما کی باتيں ہر بار کی طرح آج بھی اسے تکليف پہنچا رہی تھيں۔

"پليز اماں۔۔ ميں آپ کو دکھ نہيں دينا چاہتی مگر۔ ميں اتنی حقيقت پسند ہوچکی ہوں کہ ميں موت اور مر جانے کے خوف ميں مبتلا نہيں ہوتی۔ پليز اماں ميں کسی بھی صورت اپنی زندگی کے اس مشن کو ختم نہيں کرسکتی" وہ بے چارگی سے بولی۔ وہ جانتی تھی کہ ربيعہ اس سے بہت پيار کرتی ہيں۔ بارہ سال کی تھی وہ جب انہوں نے يتيم خانے جاکر اسے ايڈاپٹ کيا تھا۔ رافع کے بعد وہ دوبارہ ماں نہيں بن سکتی تھيں۔ اسی تشنگی کو مٹانے کے لئے ربيعہ اور احمد نے فيصلہ کيا کہ وہ يتیم خانے سے کسی بچی کو ايڈاپٹ کريں گے۔ 

ڈری سہمی سی يماما کو ديکھتے اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کا سنتے ہی انہوں نے فورا سے پيشتر اسے ہی ايڈاپٹ کرنے کا فيصلہ کيا۔ 

مگر اس يتيم خانے کے اصولوں ميں شامل تھا کہ جس بھی بچے يا بچے کو ايڈاپٹ کيا جاۓ۔ اسکے والدين اسکے پيپرز ميں اپنا نام لکھواتے ہيں سپانسر کی حيثيت سے۔ بچی يا بچہ رہتے يتيم خانے کے پاس ہيں۔ وہ انکے رہنے، کھانے پينے، تعليم اور باقی اخراجات سپانسر اٹھاتے ہيں۔ اور ہر ويک اينڈ پہ وہ بچہ يابچی اپنی سپانسر فيملی کے ساتھ وقت گزارنے جاتے ہيں۔ 

ربيعہ کو اتنا اطمينان ہی بہت تھا کہ رافع کے علاوہ دنيا ميں اب ان کی ايک بيٹی بھی ہے۔ 

انہوں نے اسے بے تحاشا پيار ديا تھا۔اور اس نے بھی ہميشہ انہيں اپنے ماں باپ کی جگہ سمجھا تھا۔ 

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ ہونے والے تکليف دہ واقعہ نے اسے نڈر اور بے خوف بنا ديا تھا۔ 

اور اسی چيز سے اب ربيعہ ڈرتی تھيں۔ 

اپنی تعليم مکمل کرنے کے بعد اس نے الگ فليٹ ميں رہنے کو ترجيح دی تھی۔ 

اسے اپنی زندگی کی فکر نہيں تھی مگر وہ اپنی وجہ سے ربيعہ ۔ احمد اور رافع کو کسی نقصان سے دوچار ہوتا نہيں ديکھ سکتی تھی۔ اسی لئے وہ ان کے ساتھ نہيں رہتی تھی۔ 

وکيل بن کر آۓ دن ملنے والی دھمکيوں نے اسے اور بھی  نڈر بنا ديا تھا۔ وہ صرف اپنے ساتھ ظلم کرنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے زندہ رہنا چاہتی تھی۔

"تم نے آج پھر ميری ماں کو رلا ديا نا" رات ميں اسے اسکے فليٹ تک چھوڑنے کے لئے جاتے ہوۓ فاران بولا۔ 

وہ آج باقی دنوں کی نسبت زيادہ خاموش تھی۔ 

"وہ ميری بھی کچھ لگتی ہيں" فاران کی بات پر ناراضگی سے اسکی طرف ديکھا۔ جو آنکھوں ميں خفگی لئے ڈرائيو کرہا تھا۔ 

"مگر افسوس تم ابھی تک ہميں دل سے اپنا نہيں سمجھتيں" يماما اب اسکے دن بدن بڑھنے والے تقاضوں سے پريشان ہونے لگی تھی۔ 

"پليز فاران ۔۔۔ميں جس بات کو اگنور کررہی ہوں ۔۔ ميرے خيال ميں اب مجھے اسے ڈسکس کرلينا چاہئيۓ" وہ سنجيدگی سے اب اس سے مخاطب تھی۔ 

اب اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ يہ بات اب اسے فائنلی فاران کے ساتھ کرلينی چاہئيے۔ تاکہ اسکے دل ميں جو جذبات پل رہے ہيں انہيں وہيں روک ديا جاۓ۔ اسے اپنا يہ دوست بہت پيارا تھا اور وہ اپنی وجہ سے اسے دکھ نہيں دينا چاہتی تھی۔ 

"ديکھو فاران ! ميرے خيال ميں تمہيں کوئ اچھی سی لڑکی ديکھ کر اب شادی کر لينی چاہئيے" فاران جو غور سے اسکی بات سن رہا تھا۔ اسکے مشورے پر جھٹکے سے اسکی گاڑی رکی۔ 

بےيقين نظروں سے اسے ديکھا۔ 

جو اسکے يوں ديکھنے پر رظريں چرا کر رہ گئ۔ 

"اچھا" استہزائيہ مسکراہٹ فاران کے لبوں پر بکھری۔ 

بمشکل اس پر سے نظريں ہٹا کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ 

"ميں تمہيں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ شادی اب ميری ترجيحات ميں کہيں بھی نہيں ہے۔ مجھے اس رشتے کی نہ کوئ چاہ ہے۔ نہ ہی ميں کبھی شادی کروں گی۔ اور کيوں نہيں کروں گی۔ يہ بھی تم اچھے سے جانتے ہو" اب کی بار اسکی جانب ديکھتے اس نے بہت کچھ باور کروايا۔ 

"زندگی ايک شخص پر نہيں رکتی۔" فاران نے اسے سمجھانا چاہا۔ 

"اور جب زندگی وہی ايک شخص ہو تو؟" يماما کے سوال پر وہ لا جواب ہو گيا۔ 

"فاران ميری زندگی ميں اب کسی اور کی گنجائش نہيں ہے۔۔ پليز تم۔۔ تم مجھے بہت عزيز ہو۔۔ ميں تم سے بے حد پيار کرتی ہوں۔ 

مگر يہ پیار بہترين دوست والا ہے۔" اسکی بات پر وہ بمشکل خود پر ضبط کرگيا۔ کيا کچھ نہيں ٹوٹا تھااندر

"پليز ميرے جذبوں کی يوں تذليل مت کرو"فاران نے ضبط کرتے ہوۓ اسے ٹوکا۔ 

"ميں ايسا سوچ بھی نہيں سکتی۔ ميں۔۔ ميں اس سب کی قدر کرتی ہوں مگر ميں تمہارے سچے جذبوں کے قابل نہيں ہوں" وہ بے بسی سے بولی۔ 

فاران ہونٹ بھينچے بس سامنے ديکھ کر ڈرائيو کئے جارہا تھا۔

"کس قدر سخت دل ہو تم" فاران نے اسکے فليٹس کی بلڈنگ کے سامنے گاڑی روکتے ہوۓ تاسف سے اسے ديکھا۔

"اسی لئے کہہ رہی ہوں۔ ميں تمہارے اتنے انمول جذبوں کے قابل نہيں۔ہميشہ تم نے مجھے مشکلوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے سمجھايا ہے۔ اميد کرتی ہوں اب تم خود کو بھی اس سے نکلنے پر سمجھاؤ گے" بہت مشکل سے اس نے فاران کی جانب ديکھا۔ 

وہ اپنا بہترين دوست کسی صورت کھونا نہيں چاہتی تھی۔ 

وہ بے بسی سے مسکرايا۔ہونٹ بھينچ کر ہولے ہولے ہاتھ اسٹيرنگ پر مارنے لگا۔ اندر کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔ 

وہ نہيں جانتی تھی کہ کب اسکی دوستی محبت ميں بدلی۔ 

وہ اب ان جذبوں کو محسوس ہی نہيں کرتی تھی۔ تو اسے پتہ کيسے چلتا۔ 

"پليز فاران۔۔ ميں اميد کرتی ہوں آئيندہ ہم ميں اس ٹاپک سے متعلق کوئ بات نہيں ہوگی۔ اور تم مجھ سے ميرا دوست نہيں چھينوگے۔ ميرے پاس اب اور تمہارے اور اماں اور بابا کے علاوہ ہے ہی کون۔يہ بھی نہ رہے تو ميں تو ويسے ہی مر جاؤں گی" وہ بے بسی کی انتہا پر تھی کسی بھی طرح فاران کو اس سب سے روکنا چاہتی تھی۔ 

"ميں يہ دونوں کام کرلوں گا۔ مگر اس محبت کو ختم نہيں کرسکتا" سر اٹھا کر سامنے ديکھتے وہ بڑے ضبط سے گويا ہوا۔ 

"ميں دعا کرتی ہوں۔ تمہيں کوئ اتنی بہترين ملے کہ يہ سب تمہيں کچھ سالوں بعد ايک حماقت کے سوا کچھ نہ لگے" اسکے چہرے پر اب پتھريلے تاثرات آچکے تھے۔ 

"اونہہ۔ بددعا دے رہی ہو" نظريں اسکے چہرے کی جانب موڑيں۔ 

"مر کر بھی تمہيں بددعا نہيں دے سکتی۔ تم بہت بہت خاص ہو" اس وقت وہ ضبط کی انتہاؤں پر تھی۔ 

"خود کو يوں ضائع مت کرو۔۔ ميں بس يہ سانسيں گزار رہی ہوں جو اللہ نے ميرے لئے مختص کررکھی ہيں۔ ورنہ مجھ ميں جينے کی کوئ خواہش نہيں۔ تم يہ اچھے سے جانتے ہو۔ اور کيوں نہيں ہے يہ بھی جانتے ہو۔ بس جتنی زندگی ہے" وہ بھی خاموشی سے سامنے ديکھتے ہوۓ بولی۔ 

"پليز فاران ميں تمہيں اپنی وجہ سے نہ تو کسی تکليف ميں ديکھ سکتی ہوں نہ تکليف دينے کا سوچ سکتی ہوں۔ آئم سوری پليز" وہ بے بسی سے اسکی جانب ديکھ کر بولی۔ جو اسے ديکھنے سے احتراز برت رہا تھا۔ 

"کہہ چکا ہوں نا اب دوبارہ اس بارے ميں بات نہيں کروں گا" اسے يقين دہانی کروائ۔ 

"اپنا خيال رکھنا۔ خدا حافظ" يماما نے بھی مزيد بات کرنا مناسب نہيں سمجھا۔ 

گاڑی سے اتر کر بلڈنگ کی جانب بڑھی۔ 

فاران نے اس کٹھور کو دور جاتے ہوۓ ديکھا۔  

________________________

"اگر يہ کيس ختم ہوا يا تم نے پيسے کھاۓ تو ياد رکھنا نہ صرف تمہارے حلق سے وہ پيسے نکلواؤں گا بلکہ تمہارے خاندان کو بھی زندہ نہيں چھوڑوں گا"نجانے رات کے اس پہر يہ کون فون پر بکواس کررہا تھا۔ 

"ابے کون ہے۔۔ زندگی عذاب کی ہوئ ہے تم جيسے لوگوں نے" غفار نے سائيڈ ٹيبل سے ٹائم پيس اٹھا کر ديکھا رات کے دو بج رہے تھے۔ 

"شہنشاہ سے تو واقف ہوگے ہی" دوسری جانب سے لئے جانے والے نام پر غفار کی آنکھيں بھک سے کھليں۔

"تت۔۔ تت ۔۔۔تم" اسکی گھگھی بندھ گئ

"ہاں ميں۔۔۔۔شہنشاہ۔۔۔کان کھول کر ميری بات سنو" اب کی بار وہ تھوک نگلتا اٹھ بيٹھا۔ وہ بھی ايسے مودب کہ جيسے شہنشاہ سامنے ہی بيٹھا ہو۔ 

شہنشاہ کے نام سے وکيل ۔۔جج اور پوليس والے تھر تھر کانپتے تھے۔ وہ اپنے مخالف جانے والے کو ايسے غائب کرتا تھا کہ اس کا نام و نشان پھر کبھی کسی کو نہيں ملتا تھا۔ 

"مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم سرتاج کے ساتھ اسکے کيس کے سلسلے ميں گٹھ جوڑ کر رہے ہو۔۔ ياد رکھنا۔۔ اگر يہ کيس ختم ہوا يا پينڈنگ ميں گيا۔۔ تو تمہاری لاش بھی تمہارے گھر والوں کو نہيں ملے گی" شہنشاہ کی بات پر وہ جتنا بھی چونکتا کم تھا۔ 

کيونکہ کل ہی اسے سرتاج نے بلايا تھا۔ اور اس کے خاص اڈے پر ساؤنڈ پروف کمرے ميں سرتاج، غفار اور وقار کے علاوہ اور کوئ نہيں تھا۔ سرتاج نے اسے منہ مانگی رقم آفر کی تھی۔ اس کيس کو پينڈنگ ميں ڈالنے کی۔ اور غفار نے اس سے سوچنے کا وقت مانگا تھا۔ 

يہ کيس وہ اتنی آسانی سے اسی لئے اب ختم نہيں کرسکتا تھا کہ سرتاج کا نام اب ملکی سطح پر موجود کالے دھندوں والوں کی لسٹ ميں شامل ہوچکا تھا۔ 

اور حکومتی بنيادوں پر جو ايک سيل ايسے لوگوں کے لئے تشکيل ديا گيا تھا اس کا چارج ايک فوجی کے پاس تھا۔ 

اور فوج غداروں کو کسی صورت نہيں چھوڑتی يہ سب جانتے تھے۔ اسی لئے غفار کشمکش ميں تھا کہ سرتاج کے کيس کو کس طرح وہاں سے ہٹايا جاۓ  اور اسی سلسلے ميں اس نے وقت مانگا تھا۔ 

مگر وہ حيران تھا کہ انکی ملاقات کا شہنشاہ کو کيسے معلوم ہوا۔ 

"زندہ ہو يا ابھی سے کوچ کر گۓ۔" اسکی طنز بھری آواز فون سے ابھری۔ 

"مم۔۔ ميں تمہيں سوچ کر۔۔۔"

"شہنشاہ سوچنے کی مہلت نہيں ديتا۔۔ ہاں يا نا۔۔ تيسرا کوئ راستہ ميں نے کبھی کسی کو نہيں ديا۔۔ مجھے۔۔۔۔ تم مجھے ٹال رہے ہو" غفار کی بات کاٹ کر وہ غرايا۔

"اگر ميں نے اسکی بات نہيں مانی تو اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ وہ ميرے خاندان کو نقصان پہنچاۓ گا"

"اور ميں تو جيسے تمہارے خاندان کو ہيروں کے ہار پہناؤں گا۔۔ يہ گارنٹی ديتا ہوں۔ اگر يہ کيس پروسيڈ کرتے رہے تو تم اور تمہارے خاندان کی حفاظت کا ذمہ ميں ليتا ہوں۔ مگر کام کرنے کی صورت میں۔۔ اتنی سی بھی ہيرا پھيری کی نہ تو شہنشاہ تمہيں تمہاری سوچ سے بھی پہلے پالے گا اور انجام ميں تمہيں بتا چکا ہوں" شہنشاہ کا غراتا لہجہ اسے پسينے سے شرابور کرگيا۔ 

"پسينہ صاف کرو اپنا۔۔۔ اٹھو اور پانی وانی پيو۔۔۔جگ تو خالی پڑا ہے تمہارا" اسکی بات پر غفار کا تھر تھر کانپنا بنتا تھا۔ يعنی وہ اسے ديکھ رہا تھا۔

"اور ہاں يہ کال ٹريس کروانے کی غلطی مت کرنا۔۔۔۔کوشش کروگے بھی تو منہ کی کھاؤ گے" کہتے ساتھ ہی شہنشاہ نے فون بند کرديا۔ 

اس نے بھی کال اينڈ کرکے جيسے ہی سائيڈ پر موبائل رکھا موبائل سے ايک چنگاری نمودار ہوئ اور وہ وہيں پر جل گيا۔

غفار دل پر ہاتھ رکھے يہ خوفناک منظر ديکھ رہا تھا۔ 

اس کا موبائل اسکی نظروں کے سامنے جل گيا تھا۔ اب وہاں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ 

وہ حقيقت ميں شديد خوفزدہ ہوچکا تھا۔ 

شہنشاہ کی بات ماننے کے علاوہ اسکے پاس دوسرا راستہ صرف موت اور يقينا تکليف دہ موت کا تھا۔  

_____________________

آج جيسے ہی وہ گاڑی ميں بيٹھی وہاں پہلے سے ہی سفيد ٹيلوپ کا بکے پڑا ہوا تھا۔ 

وہ نہ تو خوفزدہ تھی نہ پريشان ہاں مگر حيران ضرور ہوتی تھی۔ پچھلے ايک ہفتے سے يہی ہورہا تھا۔ 

کبھی فليٹ کی بالکونی پو ايسا ہی بکے ملتا۔۔کبھی کچن کے آگے بنی کھڑکی ميں۔۔ کبھی آفس پہنچتی تو اسکی ٹيبل پر پہلے سے پڑا ہوتا۔ 

اور آج تو گاڑی کے اندر۔۔۔

رات ميں اسے اچھی طرح ياد تھا کہ جس وقت وہ ايک سيمينار اٹينڈ کرکے واپس آئ تھی تب اچھی طرح گاڑی کو لاک کيا تھا شيشے بھی بند کئے تھے۔ 

"آخر کون ہوسکتا ہے۔۔ کيا سرتاج يا وقار؟" اس کا دماغ انہی دونوں کی جانب گيا۔ 

" دشمن گولياں تو تحفے ميں مار سکتے ہيں مگر پھول نہيں دے سکتے۔" اپنی سوچ کی نفی کرتے اس کا دھيان يکدم فاران کی جانب گيا۔ 

"اف يہ بندہ" اسے شديد غصہ آيا۔۔ وہی ہوسکتا تھا۔ حالانکہ اس دن کے بعد سے اس نے دوبارہ اس حوالے سے يماما سے بات نہيں کی تھی۔ 

"خاموشی سے کنوينس کرنا چاہتا ہے" يماما اسٹيرينگ پر ہاتھ رکھے کچھ دير سوچتی رہی۔

پھر ايک گہری سانس بھر کر گاڑی سٹارٹ کی۔ 

وہ دوبارہ فاران سے اس بارے ميں بات نہيں کرنا چاہتی تھی۔ مگر يہ حرکتيں اسے پھر سے اس سے بات کرنے پر اکسا رہی تھيں۔ 

ابھی وہ آفس آکر اسی سوچ ميں غرق تھی کہ فاران کو فون کرے يا اسکے آفس جا کر اس سے اس حرکت کی بابت دريافت کرے کہ اس کا موبائل بج اٹھا۔ 

بے توجيہی سے اس نے نمبر پر غور کئے بنا موبائل اٹھايا۔ 

"ہيلو"اسکی ہيلو کے جواب ميں چند لمے دوسری جانب خاموشی ہی قائم رہی۔ 

"سرتاج اور اسکے بيٹے کا آئندہ تم نے فون اٹينڈ نہيں کرنا" دوسری جانب سے ايک گھمبير آواز نے اسے جو وارننگ دی وہ سن کر يماما جتنا حيرت سے دوچار ہوتی کم تھا۔ 

"يہ دنيا ميں کون پیدا ہوگيا مجھے حکم دينے والا" ايک ابرو اچکا کر اس نے سوچا۔ 

"کيوں۔۔ تمہارے پھوپھا لگتے ہيں وہ جو درد اٹھ رہا ہے" طيش ميں وہ اسی پر چڑھ دوڑی۔ 

"ايک دفع کی بات بھيجے ميں نہيں بيٹھتی تمہارے۔ جب کہا ہے کہ ان کمينوں کا فون نہيں اٹھانا تو نہيں اٹھانا" اسکے انداز پر اس نے فون کان سے ہٹا کر اب کی بار نمبر ديکھا۔ چار ہندسوں والا عجيب سا نمبر تھا۔

"اور آپ يہ بتانا پسند کريں گے کے آپ کون ہيں؟ميں آپکی بات کس خوشی ميں مانوں" وہ دانت کچکچا کر بولی۔ کسی کا ايسا حاکمانہ لہجہ اس نے کبھی برداشت نہيں تھا کيا۔ 

"تمہارا چاہنے والا" اسکی بات پر دوسری جانب سے پہلے تو قہقہہ گونجا اور اسکے بعد جو الفاظ اس شخص نے بولے يماما کو چار سو چاليس والٹ کا کرنٹ لگا گۓ۔ 

"فاران اگر يہ سب بکواس تمہاری ہے تو يقين کرو۔۔ تمہارا دماغ سيدھا کردوں گی" وہ اب کی بار کچھ سمجھتے ہوۓ بھنا کر بولی۔ 

"تمہارے اس عاشق کو تمہاری ايک بار کی ڈوز ہی کافی تھی۔۔ميری جان" اس طرز تخاطب پر يماما کا دل کيا يہ جو بھی گھٹيا انسان ہے اس کا منہ توڑ کر رکھ دے۔ اور يہ ايک بار کی ڈوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اپنا ننھا سا دماغ زيادہ خرچ مت کرو۔۔ سوچتے ہوۓ اور بھی حسين لگتی ہو۔۔" يماما کی ريڑھ کی ہڈی چندلمحوں کے لئے سنسنائ۔ 

"منہ توڑ دوں گی تم جيسوں کا۔۔۔۔ گھٹيا انسان" يماما نے آخرکار اپنی حيرت کو پس پشت ڈالتے ہوۓ اپنے ازلی انداز ميں اسے لتاڑا۔ 

"سو بار ميری رانی۔۔۔۔سو بار" دوسری جانب جيسے کوئ فرق ہی نہيں پڑا تھا۔ شرير مسکراتا لہجہ يماما کو آگ بگولا کر گيا۔ 

غصے ميں فون بند کيا۔ 

سامنے ٹيبل پر پڑے ٹيولپ کو ايک نظر ديکھ کر ہاتھ ميں اٹھايا اور زور سے سامنے ديوار پر مارا۔ 

"سرتاج اگر يہ تمہارا بندہ ہے نا تو چھوڑوں گی نہيں۔ 

موبائل پھر سے اٹھا کر فورا سے کاشف کا نمبر ملايا۔ 

"ہيلو کاشف ميرے موبائل پر ابھی جو کال آئ تھی اس کا ريکارڈ چاہئيے مجھے کوئيک" يہ وہی شخص تھا جس سے وہ اپنے فونز کا ريکارڈ ہميشہ نکلوا کر اپنے دشمنوں کے منہ پر انہی کی باتيں مارتی تھی۔ 

"ابھی تو کوئ کال نہيں آئ تمہارے موبائل پر" اس نے سامنے ريکارڈ چيک کرتے ہوۓ کہا۔ 

"کيا بکواس کررہے ہو۔۔ تھوڑی دير پہلے ہی ايک چار ہندسوں کے نمبر سے مجھے کال آئ ہے" اس نے جھنجھلا کر کہا۔ 

"نہيں يماما تمہارے موبائل پر جو لاسٹ کال آئ تھی وہ کل رات کی ہے اور يقينا فاران کی ہے" اسکی بات پر وہ مزيد حيران ہوئ۔ 

"اچھا ميں فون بند کرتی ہوں" کہتے ساتھ ہی اس نے جيسے ہی اپنے موبائل کا کال لاگ چيک کيا تاکہ ابھی آنے والی کال کو ديکھ سکے ۔۔ مگر وہ يہ دیکھ کر حيران رہ گئ کہ اسکے موبائل ميں آخری کال کل رات کی ہی تھی۔ 

جس نمبر سے ابھی اسے کال آئ تھی اس نمبر کا نام و نشان بھی اسکے موبائل ميں کہيں نہيں تھا۔ 

"يہ کيا مذاق ہے" اب کی بار وہ اور بھی الجھی۔

سر پکڑ کر بيٹھ گئ۔

کچھ دير وہ سر پکڑ کر بيٹھی رہی۔ 

اسے کوئ خوف نہيں تھا۔ وہ مرنے سے ڈرتی بھی نہيں تھی۔ 

"بس اللہ جی اس کيس کا فيصلہ ہونے تک زندگی دے ديں" وہ سرتاج اور اسکے خاندان کو کڑی سزا دلوانے تک زندہ رہنا چاہتی تھی۔ 

بہت حساب چکانا تھا اسکے خاندان کو۔۔۔ نہ صرف يماما کا بلکہ ان سب غريب اور نادار لوگوں کا جو وقتا فوقتا اسکی درندگی کی بھينٹ چڑھتے رہے تھے۔ 

آج سرتاج کے بھائ کے خلاف ثبوت اکٹھے کرچکی تھی۔ کل ہی کسی گمنام نمبر سے اسے کچھ ثبوت فراہم کرنے کا کہا گيا تھا۔ 

وہ نہيں جانتی تھی کہ اس فون کے پيچھے کون تھا۔ اسے صرف ثبوت سے مطلب تھا۔ 

اسکے آفس کے گارڈن ميں ايک گملے ميں ايک سی ڈی کی نشاندہی کی گئ تھی۔

جيسے ہی اسے فون پر اطلاع ملی وہ نہايت پرسکون انداز ميں اس گملے سے وہ سی ڈی پکڑ لائ۔ 

گھر جاکر جب اس نے اس سی ڈی کو پلئير ميں آن کيا۔وہ يہ ديکھ کر دنگ رہ گئ کہ بہت سے مشکل دشمن عناصر کے ساتھ مل کر سرتاج کے بھائ وہاج نے نہ صرف پوليس کے چند ايماندار آفيسرز کو غائب کروايا تھا بلکہ چند ايک مقامات پر بم بلاسٹ کرنے کا پلين بھی مرتب کيا گيا تھا۔ 

"يعنی يہ لوگ اپنی جائيداديں بنانے کی خاطر ملک کو کھوکھلا کرنے ميں بھی ملوث ہيں" اس نے دکھ سے سوچا۔ 

اب اسے جلد ازجلد يہ سب اہم ثبوت کورٹ ميں پيش کرکے اسکے بھائ کو بھی اندر کروانا تھا۔ 

"اس ملک کی نسلوں کو برباد کرنے چلے ہو۔۔ ميں تمہاری نسلوں کو برباد کردوں گی" وہ عزم لئے آج يہ سب ثبوت دينا چاہتی تھی۔ مگر اس فون کال نے اسے پريشان کرديا تھا۔

ابھی بھی وہ پيچھے ہٹنے والوں ميں سے نہيں تھی۔

وہ کافی دنوں بعد وقار سے ملا تھا۔ 

"بہت دنوں بعد چکر لگايا" وقار نے مصافحہ کرتے ہی خفگی سے پوچھا۔ پچھلے دو سال سے سميع سے اسکی کافی دوستی ہوگئ تھی۔ 

سميع سے اسکی ملاقات کينيڈا ميں ايک سيمينار کے دوران ہوئ تھی۔ 

پہلے پہل اچھی سلام دعا ہوئ اور پھر يہ سلام دعا گہری دوستی ميں بدل گئ۔ 

سميع اپنے والدين کا اکلوتا بيٹا تھا۔ گارمنٹس کا بزنس تھا۔ اور اس سے زيادہ وقار اسکے بارے ميں نہيں جانتا تھا۔ 

مگر وہ وقار سے اپنی دوستی پوری طرح نبھا رہا تھا۔ 

وقار اس نئے مسئلے کے بارے ميں بھی اس سے ہر طرح کا مشورہ لے رہا تھا۔ 

"تم اس دن بھی بہت پريشان تھے۔ ليکن مجھے کہيں جلدی جانا تھا تو تم نے پوری بات نہيں بتائ تھی۔ اب بتاؤ ہوا کيا تھا" وہ دونوں اس وقت وقار کے جم ميں موجود تھے۔ دونوں ايک ٹيبل اور اس کے ساتھ رکھی کرسيوں پر سے دو پر آمنے سامنے بيٹھے تھے۔

يہ جم اوپر سے تو ورزشی جم معلوم ہوتا تھا۔ مگر اسکی بيسمينٹ ميں شراب اور جوۓ کا اڈا تھا۔ 

وقار نے اسے يماما کے متعلق سب بات بتائ۔ 

"يہ لڑکی حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ پہلے سوچا تھا اسے اٹھوا کر اسکے کہے لفظوں کی ايسی سزا دوں گا کہ ساری زندگی موت بھی مانگے گی تو وہ بھی اسکے قريب نہيں آئے گی۔ اسے سسکا سسکا کر ماروں گا۔۔اپنی آگ بھی بھجاؤں گا۔ اور جو جو اس گنگا ميں ہاتھ دھونا چاہے گا اسے اجازت دوں گا" وقار کے چہرے پر اس لمحے چٹانوں کی سی سختی کے ساتھ ساتھ شيطانيت ٹپک رہی تھی۔ 

"مگر اب وہ اس کی مہلت نہيں آنے دے رہی۔ اگر اب ہم نے اسے اغوا کروايا تو معاملہ بہت خراب ہوجاۓ گا۔ سب الزام ہم پر آئے گا۔ اور ہم مزيد اس کيس ميں پھنس جائيں گے" سميع خاموشی سے اسکی سب باتيں سن رہا تھا۔ 

"تو پھر اب کيا سوچا تم نے؟" کچھ دير کی خاموشی کے بعد سميع کی آواز آئ۔

"اب سوچا ہے اس کا قصہ ہی ختم کرديا جاۓ۔ روڈ ايکسيڈنٹ ميں اسکی موت" اسکی آنکھوں سے ايسے چنگارياں نکل رہی تھيں جيسے يماما اس لمحے اسکے سامنے ہو۔ 

"ليکن اگر يہ بھی تمہارے حق ميں نہيں گيا تو" اس کی بات پر ايک غرور سے بھری مسکراہٹ اسکے چہرے پر بکھری۔ 

"اسی لئے تو تم سے يہ سب بات کی ہے۔ ميں جانتا ہوں تم بھی کم شيطانی سوچ کے مالک نہيں ہو" اسکی بات پر وہ محظوظ کن مسکراہٹ ہونٹوں ميں دبا گيا۔ 

"يعنی۔ جال تک تو تم نے سوچ ليا۔ اب يہ جال بچھانا کيسے ہے وہ ميں نے سوچنا ہے" سميع بائيں آنکھ دبا کر مسکراتے ہوۓ بولا۔ 

وقار اسکی شرارت پر قہقہہ لگاۓ بنا نہ رہ سکا۔ 

"ايسے ہی تو دو سالوں سے تم سے دوستی نہيں رکھے ہوا" دونوں شيطان ذہنيت کے حامل انسان ملے ہوۓ تھے۔

"تو بس پھر۔۔ کل تم پہلی فرصت ميں اسکے آفس جاؤ۔ کيونکہ ابھی اگلی پيشی ميں چار دن ہيں۔ تب تک شايد يہ رام ہوجاۓ اور اگر نہ ہوسکی تو بس پھر اگلا قدم اسکی موت کی صورت ہوگا" اسکے لہجے ميں سفاکی تھی۔ 

"ٹھيک ہے۔ ميں نے اسی لئے تم سے مشورہ لينا مناسب سمجھا تھا" وقار نے تائيد ميں سر ہلاتے ہوۓ کہا۔

___________________

رات ميں جس وقت وہ گھر آيا شمس جاگ ہی رہے تھے۔ 

"آپ سوئے نہيں ابھی" وہ لاؤنج ميں داخل ہوا تو سامنے ہی صوفے پر بيٹھے وہ يقينا کافی پی رہے تھے۔ 

"تم جب تک باہر رہو مجھے نيند نہيں آتی" ان کی محبت پر سرشار ہوتا وہ آگے بڑھ کر انکے ماتھے پر پيار کرتا انکے ساتھ ہی صوفے پر بيٹھ گيا۔ 

"کبھی کبھی تم پيار نچھاور کرنے ميں اپنی ماں سے بھی بازی لے جاتے ہو" ان کے مسکراتے لہجے ميں کہے گے الفاظ اسے قہقہہ لگانے پر مجبور کرگۓ۔ 

"يقينا تمہاری بيوی کبھی اس بات کی شکايت نہيں کرے گی کہ تم پيار کا اظہار کرنے ميں کنجوس ہو۔۔ جو باپ کے ساتھ اتنی محبوبانہ حرکتيں کرے۔۔ وہ بيوی کے ساتھ۔۔۔" ان کی ادھوری بات پر وہ پھر سےقہقہہ لگاۓ بغير رہ نہيں سکا۔ 

"ڈيڈی پليز" اب وہ بلش کررہا تھا۔ اور وہ محبت سے بيٹے کا روپ ديکھ رہے تھے۔ 

"خدا جلد ہی مجھے يہ وقت دکھاۓ جب ميری بہو تمہاری ہی طرح تمہاری حرکتوں پر بلش کرے" ان کی بات پر اب کی بار اس نے مسکراتے چہرے ليکن خفگی بھری نظروں سے انہيں ديکھا۔ 

"آپ کيا اس وقت ميرے مستقبل پر روشنی ڈالنے کے لئے ہی جاگ رہے تھے" اب کی بار قہقہہ لگانے کی بارے شمس کی تھی۔ 

"نہيں ميری جان تمہارے ميسج نے مجھے پريشان کرديا تھا۔ جلد ہی اس کا کوئ بندوبست کرنا پڑے گا" اب کی بار انکے چہرے پر پريشانی کے آثار نظر آۓ۔ 

نائل نے ايک سنجيدہ نظر ان پر ڈالی۔ 

"جی ڈيڈی۔۔۔ميرا وآئس ميسج بھی سن ليا ہوگا آپ نے۔" 

"ہاں۔۔ تم نے اچھا کيا اسے وہاں بھيج کر۔۔ يہ بے حد ضروری تھا ورنہ ہمارے ہاتھ ثبوت نہ آتا۔ کہ وہ کيا سوچے بيٹھے ہيں" انہوں نے کافی کا آخری گھونٹ بھرتے کپ ٹيبل پر رکھتے ہوۓ کہا۔ 

"تم کافی لوگے؟" انکے سوال پر وہ يکدم چونکا۔ 

"نہيں ۔۔ابھی پی کر ہی آيا ہوں" اسکے جواب پر وہ محض سر ہلا کر رہ گۓ۔ 

"ميں نے ہفتے والے دن کا پلين کيا ہے۔ اب آپ نے اسے وہاں سے نکلوانے کے سب انتظامات کروانے ہيں" 

"تم ہتھيلی پر سرسوں تو نہيں جما رہے؟"

"ميرا خيال ہے پہلے ہی بہت دير ہوچکی ہے۔ اور ويسے ہی جمعہ کو جيسے ہی اس بار کا فيصلہ پتہ چلے گا۔ وہ ضرور ہاتھ پاؤں مارے گا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ اشتعال ميں کچھ کرے ميں اسے ہوا دے کر اپنا کام نکلوا لوں" اس کی بات پر وہ مزيد کوئ سوال اٹھا ہی نہيں سکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ نائل پہلے ہی اسکے لۓ کتنا تڑپا ہے۔ وہ اور مہک اسکی ايک ايک تکليف سے آگاہ تھے۔ وہ مزيد اسے کيسے تکليف ميں ديکھ سکتے تھے۔ 

"ٹھيک ہے ميں سب کو بريفنگ دے دوں گا۔ ان سے کورڈينيٹ پھر تم کرلينا" انکی بات پر وہ قدرت مطمئن نظر آيا۔ 

"چلو اب جاکر سوؤ" صوفے سے اٹھتے وہ اس کا کندھا تھپتھا کر بولے۔ 

"ميں تھوڑی دير کے لئے غائب ہوسکتا ہوں" اسکے شرارتی انداز ميں کئے گۓ سوال پر وہ جاتے جاتے پلٹے۔ 

"تم زيادہ شوخے ہوتے جارہے ہو۔۔" انکے لہجے ميں چھپے اقرار اور خفگی کے ملے جلے تاثرات نے اسے مزہ ديا۔ 

"مہک تہجد کے لئے اٹھتی ہے۔ اب سوچ لو صرف ڈيڑھ گھنٹا ہے تمہارے پاس" وہ جانتا تھا وہ کبھی منع نہيں کريں گے۔ مگر وہ انکی اجازت کے بغير اور انہيں بتاۓ بغير اس کے پاس جاتا بھی نہيں تھا۔ 

"اب زيادہ دانت مت نکالو۔۔ جلدی جاؤ اور جلدی آؤ" انکی بات پر وہ مسکراتے ہوۓ سر نفی ميں ہلاتا تيزی سے اٹھا۔ 

_______________________

آج رات اس کا سونے کا کوئ ارادہ نہيں تھا۔ 

وہ چاہتی تھی کہ وہاج کا کيس بھی وہ ساتھ ہی شروع کردے تاکہ دونوں بھائيوں کو بيک وقت قانون آڑے ہاتھوں لے۔ لاؤنج ميں موجود صوفے کے قريب نيچے گدا بچھاۓ وہ آرام دہ انداز ميں تکيہ ديوار سے لگاۓ۔ پچھلے چار گھنٹوں سے ليپ ٹاپ ٹانگوں پر دھرے ايک ہی پوزيشن ميں بيٹھی۔ وہاج کا پورا کيس تيار کررہی تھی۔ 

اسے کل ہی يہ کيس فائل کرنا تھا۔اسی لئے رات کو سونے کی بجاۓ وہ کام ميں مصروف تھی۔ 

چار گھنٹوں بعد جب کافی حد تک کيس بن چکا تب اس نے ليپ ٹاپ سے نظريں ہٹائيں۔ سامنے لگی گھڑی ميں وقت ديکھا تو رات کے ڈھائ بج چکے تھے۔ 

ليپ ٹاپ سائيڈ پر رکھتی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اوپن کچن کی جانب گئ۔  

کافی کپ ميں ڈال کر وہ پھينٹنے لگی۔ 

ساتھ ساتھ کيبنٹس ميں جھانکنے لگی کہ کچھ کھانے کو بھی ملے جاۓ۔ 

اسی دوران لائٹ چلی گئ۔ 

کچھ دنوں سے يو پی ايس کی بيٹری بھی خراب ہوچکی تھی۔ 

اب يکدم لائٹ جانے پر اسے ياد آيا کہ وہ روز آج لوں گی ۔۔آج لوں گی ۔۔کے چکر ميں بھول جاتی تھی۔ 

"اس ملک ميں تو بجلی کا بحران ختم نہيں ہونا۔ ہميں اپنا بندوبست خود ہی کرنا پڑے گا" افسوس سے سوچتے وہ مڑی تاکہ جہاں وہ کام کررہی تھی وہاں پڑے موبائل کی ٹارچ آن کرسکے۔ 

يہ بھی شکر تھا کہ چاند کی روشنی پوری آب و تاب سے بالکونی سے ہوتی اسکے لاؤنج ميں آرہی تھی۔ 

ہر چيز کا ہيولا سا نظر آرہا تھا اسکے لئے اتنا ہی بہت تھا۔ 

اندازے سے نيچے فرش پر بچھاۓ ميٹرس کے قريب گئ تو کسی کی موجودگی کا شدت سے احساس ہوا۔ 

ميٹرس کے ساتھ پڑے صوفے پر سرسراہٹ اس نے صاف محسوس کی۔ 

ابھی وہ بيٹھی اپنا موبائل اٹھا کر صوفے کو غور سے ديکھ ہی رہی تھی کہ کوئ اسکے کان کے قريب آيا۔ 

"کيسی ہے ميری رانی" گمبھير لہجے نے لمحہ بھر کو اسے دہشت زدہ کيا۔ 

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس ہيولے کو ديکھ رہی تھی جو اب بھی اسکے چہرے کے قريب تھا۔ 

چند ہی لمحے لگے تھے اسے خود کو سنبھالنے ميں جلدی سے کھڑی ہوئ۔ 

"کيوں آۓ ہو يہاں؟" درشت لہجے ميں سوال کيا۔ 

ساتھ ہی ساتھ کپ پہ گرفت سخت کی۔ 

"اپنی رانی سے ملنے بھی نہيں آسکتا تو تف ہے پھر ميری بہادری پر۔۔۔"لہجے ميں بدمعاشوں والا ٹچ تھا۔ 

"مل لئے اب نو دو گيارہ ہوجاؤ" وہ بھی يماما تھی۔ کسی سے نہ ڈرنے والی

وہ جو کوئ بھی تھا۔۔ يماما کے انداز پر قہقہہ لگاۓ بغير نہيں رہ سکا۔ 

"دوری کي باتيں جانے دو۔۔"دل پر ہاتھ رکھے وہ بڑے انداز ميں گنگنايا۔ 

"اگر تو تم سرتاج يا وقار کے بندے ہو اور مجھے فضول ميں دھمکانے کی خواہش سے آۓ ہو تو ايک بات ذہن نشين کرلو۔۔ مين مر تو جاؤں گی مگر ان کے کيس سے پيچھے نہيں ہٹوں گی" وہ اسے وارن کرتے ہوۓ بولی۔ 

اب وہ ہيولا صوفے سے اٹھ کر اسکے قريب کھڑا تھا۔ 

بھاری بھرکم داڑھی اور لمبے بال تھے مگر اندھيرے کے سبب اسکے چہرے کی ہئيت واضح نہيں ہورہی تھی۔ 

"مريں ميری جان کے دشمن" محبت سے چور لہجے ميں بولے والے جملے پر وہ دنگ رہ گئ۔ 

بات سنو تم۔۔ يہ اپنا ٹھرکی انداز کسی اور پہ جا کر آزمانہ يہاں کوئ فرق نہيں پڑنے والا"

وہ پھر چٹانوں کے سے سخت لہجے ميں بولی۔"

"کسی اور کی ان باتوں سے تمہيں فرق واقعی نہيں پڑنا چاہئيے۔۔ ورنہ اس شخص کی موت ميرے ہاتھوں لکھی جاۓ گی"اپنی بات ختم کرکے اسکے چہرے پر بکھری لٹوں کو پھونک ماری۔

"ارے جاؤ" وہ اسکی ديدہ دليری پر حيرت سے نکلتے ہوۓ اسکی بات کو ہوا ميں اڑانے کے سے انداز ميں بولی۔ 

"جاؤں گا بھی۔۔ اور تمہيں لے کر بھی جاؤں گا۔ مگر آج نہيں۔۔آج تو بس يار کے ديدار کو آيا تھا۔۔"اسے زچ کرنے والے شرير لہجے ميں اپنی بات کہہ کر بالکنی کی جانب بڑھا۔ 

پھر غصے سے مٹھياں بھينچے کھڑی يماما کی جانب مڑا۔ 

"جو وارننگ صبح دی تھی اسے ياد رکھنا۔ سرتاج اور اسکے بيٹے کا فون اب نہيں اٹھانا" اسکی بات سن کر وہ جو اپنا غصہ ضبط کررہی تھی تڑخ ہی گئ۔ 

"کروں گی۔۔۔فون بھی اٹينڈ کروں گی۔ اور اب تو اسے دھمکانے اسکے گھر بھی جاؤں گی۔۔ کرلو جو کرنا ہے" اسکی توقع کے عين مطابق وہ جل کر بولی۔ 

اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

"ميری چيتی۔۔۔۔ جب اس نڈر انداز ميں بولتی ہو نا۔۔۔

ہاۓ بہت گھائل کرديتی ہو۔۔۔۔کسی سے زير نہ ہونے والا شہنشاہ۔۔۔۔اپنی چيتی کی ہر ادا سے زير ہوجاتا ہے۔۔۔" اس کے بےباک انداز اور اپنے نام کا دھماکا کرنے پر يماما کا دماغ کھول کر رہ گيا۔

وہ کيسے نہ جانتی اس شخص کا جو ہر وکيل۔۔ ہر پوليس والے کی زبان پر ازبر تھا۔ نجانے کتنے کيسيز ميں انوالو تھا اور ہر بار پوليس کی حراست سے اتنی آسانی سے غائب ہوجاتا کہ سب حيران رہ جاتے۔ 

مگر يہ سمجھ نہيں آتی تھی کہ جب غائب ہی ہونا ہوتا تھا تو پکڑائ کيوں ديتا تھا۔ يا پھر مقصد پوليس کو يہ باور کروانا ہوتا تھا کہ وہ شہنشاہ کے سامنے بے بس ہيں۔ 

ايک بار تو اسکے مرنے کی خبر بھی سنی تھی۔ مگر وہ بھی محض ايک ڈرامہ تھا شايد۔ 

"تم۔۔ تم شہنشاہ ہو۔۔ وہی گھٹيا دہشت گرد جو نجانے کتنے کيسيز ميں انوالو ہے" اس نے حيران ہوتے پوچھا۔ 

"جی جناب دنيا کے لئے دہشتگرد ليکن اپنی رانی کا ادنی سا خادم" اسکی بات پر وہ نہايت ادب سے کورنش بجا لايا۔ 

"تم۔۔۔ تم ميری پيچھے کيوں پڑ گۓ ہو۔۔ تمہيں تو ہزاروں مل جائيں گی" اب کی بار وہ پريشان ہو کر بولی۔ 

"افففف ايک دہشتگرد کا بھی مجھ پر دل آنا تھا" وہ دل ميں کلس کر رہ گئ۔ 

"ہاں مل تو جائيں گی۔ مگر ان ميں کوئ اتنی دبنگ يماما نہيں ہوگی۔ مجھے تو بس يہی چاہئيے" وہ ضدی لہجے ميں بولا۔ 

"ميں کھلونا ہوں کہ چاہئيے۔ اپنے دماغ سے يہ بھوت اتار دو تو بہتر ہے۔۔۔ اور اب دفع ہوجاؤ يہاں سے ورنہ يہ کپ ميں تمہارے سر پر توڑ دوں گی" جانتی تھی اسے پوليس بلانے کی دھمکی دينا بے کار ہے۔ وہ تو پوليس کو جيب ميں لئے پھرتا ہے۔ 

"زہے نصيب۔۔ کبھی يہ موقع بھی تمہيں ديں گے۔۔ جلدی کاہے کی ہے" وہ اسکی دھمکی پر مسکراتا ہوا۔ پلٹا اور بالکنی سے چھلاوے کی طرح نکل گيا۔ يماما اسے ديکھنے کے لئے آگے بڑھی۔ 

ليکن نجانے کتنی پھرتی سے نکلا کہ اسے نظر ہی نہيں آيا۔ 

اسی لمحے لائٹ آگئ۔ وہ پريشان ہوتی اندر آئ۔ وہ بہتيرے مشکل کيسيز بھگتا چکی تھی۔ مگر اس عشق و عاشقی کے کيس کا کيا کرتی۔

يہ کيس بے حد پيچيدہ تھا۔

وقار باہر باہر جانے کے لئے جيسے ہی گاڑی کی جانب بڑھا، جہاں اس کا ڈرائيور اور گارڈز منتظر تھے کہ چوکيدار کو اپنی جانب آتے ديکھ کر گاڑی کی جانب اسکے بڑھتے قدم رک گئے۔ 

"کيا موت آگئ ہے تجھے" وہ ناگواری سے اپنے سے کئ گنا بڑے اور بوڑھے چوکيدار سے مخاطب ہوا۔ 

"وہ وہ صاحب جی يہ خاکی لفافہ آيا ہے" وہ ہانپتے ہوۓ ايک عدالتی نوٹس اسکی جانب بڑھا کر بولا۔ 

وقار نے جھپٹنے کے انداز سے وہ لفافہ لے کر چاک کيا۔ بوڑھا چوکيدار اسکے تيور بھانپتے ہوۓ تيزی سے واپسی کی جانب مڑا۔ 

نوٹس پڑھتے ہی اسکے تاثرات خطرناک ہوچکے تھے۔ 

"گاڑی بند کرو۔۔ ميں ابھی نہيں جاؤں گا" غصے سے بمشکل اتنا ہی بولا۔ 

دھپ دھپ کرتا رہائشی حصے کی جانب بڑھا۔ 

سرتاج اپنی باقی فيملی کو پہلے ہی باہر بھجوا چکا تھا۔ اب اس ملک ميں وہ اور وقار کے علاوہ وہاج اور اسکی فيملی موجود تھے جو کہ گاؤں ميں حويلی اور زمينوں کی نگرانی کرتے تھے۔ 

"کيا ہوا ہے۔۔ تم تو باہر جارہے تھے۔۔ موڈ کيوں خراب ہے" سرتاج لاؤنج ميں بيٹھا اپنے مجبوب مشروب کے ساتھ شغل ميں مصروف تھا کہ وقار کو غصے سے لال چہرہ لئے اندر آتا ديکھ کر حيران ہوا۔ 

"ہمارے کالے دھندے تو سرعام ہوچکے ہی تھے۔ اب چچا کے لئے بھی نوٹس آگيا ہے" اس نے غصے سے وہی لفافہ اسکی جانب کيا۔ 

سرتاج نے پيشانی پر بل ڈالتے اس کا گستاخانہ لہجہ ہضم کيا۔ 

لفافہ جيسے ہی کھولا وہاج کے خلاف عدالت سے نوٹس والا کاغذ برآمد ہوا۔ جس ميں دہشتگردوں کا ساتھ دينے اور انہيں دو نمبر طريقوں سے ملک ميں آنے کا راستہ دينے پر الزام نہ صرف عائد کيا گيا تھا بلکہ اسکی چند دنوں بعد پيشی بھی تھی اور پيش نہ ہونے کی صورت ميں گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہونے کی پيشگی وارننگ تھی۔ 

سرتاج سر پکڑ کر بيٹھ گيا۔ 

"يہ لڑکی اب قتل ہوگی ميرے ہاتھوں" وقار غصے ميں بھرا بيٹھا تھا۔ 

سامنے رکھی وہسکی کی بوتل سے گلاس بھر کر غٹا غٹ پی گيا۔ 

"جينا حرام کر ديا ہے اس حرامزادی نے" سرتاج نوٹس ايک جانب پھينک کر مغلظات بکنے لگا۔ 

"فون کريں چچا کو۔۔ ہميں مصيبتوں ميں پھنسا کر نہ تو ہمارا ساتھ ديا۔۔ اب اپنے بھگتان تو بھگتيں" منہ آستين سے صاف کرتے باپ کو تيکھی نظروں سے ديکھتے ہوۓ بولا۔ 

سرتاج نے اسی وقت وہاج کو فون کيا۔ 

"بھائ صاحب ۔۔۔۔ يہ ۔۔يہ سب سی اس کمينی کو کيسے پتہ چلا" وہاج بھی حيران پريشان بيٹھا تھا۔ 

"وہ کوئ عام لڑکی نہيں۔۔ مجھے لگتا ہے بڑی بڑی طاقتيں اسکے ہمراہ ہيں۔ بيٹھے بٹھاۓ ہماری زندگی کو عذاب سے دوچار کرديا ہے اس نے" سرتاج تو پہلے ہی اپنے کيس کی وجہ سے غصے ميں تھا۔  

"ميں نے اس خبيث جج کو بھی رام کرنے کی بہتيری کوشش کی تھی مگر وہ گھٹيا انسان ۔۔۔۔۔۔جواب ہی نہيں ديا اس نے ميری آفر کا۔۔۔اوپر سے فيملی بھی پتہ نہيں کہاں چلی گئ ہے اسکی۔ سوچا تھا کوئ قاتلانہ حملہ اسکے بيوی بچوں پر کرواؤں گا تو عقل ٹھکانے آجاۓ گی اس گندگی کے پوٹ کی۔ 

مگر جب سے وہ آفر کی اسکے بعد سے تو اسکی فيملی گھر سے راتوں رات غائب ہوگئ ہے۔ اکيلا ہی ہے اب۔۔۔افف لگتا ہے ہر جانب سے گھيرا تنگ ہورہا ہے" وہ اپنی رام کہانی سنانے لگا۔ 

"تم بس کل ہی شہر پہنچو۔۔ اس سے پہلے کے حالات خراب ہوجائيں۔ ہميں تو اکيلا چھوڑ کر تم سب گاؤں بھاگ گۓ تھے۔۔ اب اپنے کرتوتوں کو خود بھگتو۔ مجھ سے ايک ٹکے کی بھی اميد مت لگانا" اس لمحے دونوں کو اپنی اپنی پڑ گئ تھی۔ کون بھائ کہاں کا بھائ

"اچھا کيا آپ نے۔۔ يہ رشتے دار ہيں ہی اس قابل۔ جوتی کی نوک پر رکھنا چاہئے انہيں" وقار ساری بات سنا چکا تھا۔ اپنی راۓ دينے لگا۔ 

"اور تمہارا وہ دوست سميع کسی کام کا نہيں نکلا وہ۔۔ " اس کی بات ان سنی کرکے سرتاج اس پر چڑھ دوڑا۔ 

"ميرے ہی دوست کسی کام کے ہيں۔۔ آپ کے تو سب جان نچھاور کرنے والے اب کونوں کھدروں ميں چھپے ہوۓ ہيں" اس نے بھی اينٹ کا جواب پتھر سے دينا ضروری سمجھا۔ 

"اسکے ايکسيڈينٹ کا پورا پلين تيار ہے۔ آپ بس اپنی فکر کريں" وہ طنزيہ ہنسی ہنستا اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔  

"الو کا۔۔۔۔۔" سرتاج منہ ميں بڑبڑا کر رہ گيا

__________________________

سرتاج کی فيصلہ کن پيشی سے ايک دن پہلے سميع کی ہدايات کے مطابق وقار اپنے گن مينز سميت يماما کے آفس پہنچ چکا تھا۔ 

"ميڈم وقار اپنے بندوں سميت آيا ہے" اس کے پی اے نے وقار کو دروازہ کھول کر اندر آتے ديکھ کر فورا يماما کو فون گھمايا۔ 

"اوۓ تيری ميڈم اندر بيٹھی ہے" بلال کے سامنے رکھی کرسی کو ٹھوکر مار کر اپنے مخصوص مغرور لہجے ميں بولا۔ 

"اسے اندر آنے دو" يماما نے دوسری جانب وقار کی آواز سنتے ہی بلال کو حکم ديا اور فون کھٹ سے بند کرديا۔

بلال نے تھوک نگل کر سر اثبات ميں ہلايا۔ 

اپنی مونچھيں مروڑ کر بلال کو گھوری سے نوازتا وہ يماما کے آفس کی جانب بڑھا۔ 

بغير ناک کئے زوردار آواز سے دروازہ کھولتا وہ اندر کی جانب بڑھا۔ 

يماما اپنی کرسی کی پشت سے ٹيک لگاۓ پرسکون انداز ميں بيٹھی وقار کے مغرور انداز کو تيکھی نظروں سے ديکھ رہی تھی۔ 

اس کا پرسکون انداز وقار کو آگ بگولا کرگيا۔ 

ہاتھ بڑھا کر کرسی کھينچی۔ 

"ايک منٹ۔۔"يماما نے ہاتھ اٹھا کر اسے اسکے اقدام سے روکا۔ 

وہ بھنويں اچکا کر اسے ايسے ديکھنے لگا جيسے کہہ رہا ہو مجھے روکنے کی ہمت کيسے کی۔ 

"ميرےآفس کا فرنيچر ميں نے حلال کی کمائ سے خريدا ہے تم جيسے حرام کھانے والے اس پر بيٹھ کر اسے ناپاک کرديں گے۔ لہذا جلدی جو بکواس کرنی ہے وہ کرو۔۔ اور يہاں سے اپنی شکل گم کرو" تيکھے چتون سے اسے ديکھتی اسے اسکی اوقات ياد دلا گئ۔ 

يماما کی باتوں پر وہ کيسے طيش ميں نہ آتا۔

اس نے غصے سے نتھنے پھلاۓ۔ ہلکا سا رخ موڑ کر چنگاریاں برساتی نظروں سے اپنے گن مينز کو ديکھا۔ 

انہون نے فورا يماما کی جانب اپنی گنز تانيں۔ 

اب اس نے رخ موڑ کر بھنويں اچکا کر جتاتی نظروں سے يماما کو ديکھا۔ 

وہ ہلکا سا قہقہہ لگا گئ۔ 

"تانو  شاباش نہ صرف يہ گنز تانو بلکہ ايک آدھ گولی بھی چلا لو۔۔ مجھے اپنے مرنے کی کوئ فکر نہيں۔۔۔ ہاں مگر ميرے آفس ميں لگے کيمرے يہ سب منظر قيد کرکے اس وقت ميرے يوٹيوب چينل پر لائيو کوريج شروع کرنے کو بے تاب ہيں۔۔۔" يماما نے اپنے ليپ ٹاپ کا رخ انکی جانب کيا جہاں ان کی ايک ايک حرکت سی سی ٹی وی کيمروں ميں ريکارڈ ہورہی تھی۔ 

"ديکھو لڑکی" وقار نے غصہ ضبط کرتے اپنے گن مينز کو گنز نيچے رکھنے کا اشارہ کيا۔ 

"کيوں اپنی جان کی دشمن بن رہی ہو۔۔کتنی عمر ہے تمہاری پچيس۔۔ چھبيس سال" اس نے اب کی بار تمہيد باندھی۔ 

"کيوں اپنی جان کی دشمن بن رہی ہو۔ ديکھو۔۔ جتنے پيسے کہو گی ديے ديں گے۔ تم بس اس کيس کو ختم کرو" اب وہ منتوں پر اتر آيا۔ 

يماما اپنی سيٹ سے کھڑی ہوئ۔ 

"ميری عمر چاہے۔۔ چھبيس کو چاہے ساٹھ سال ہو جاۓ۔ مگر تم جيسے درندوں اور ملک دشمن عناصر کو کسی قيمت پر نہيں چھوڑوں گی۔ ميری قيمت تم جيسے ناسوروں کو جيل کی سلاخوں کے پيچھے لے جاکر کڑی سے کڑی سزا دلوانا ہے۔ اور اس سے کم پہ تو ميں مر کر بھی بات طے نہ کروں" ايک ايک لفظ چبا کر بولتی وہ وقار کو زچ کررہی تھی۔ 

"ميں تمہاری چمڑی ادھڑوا دوں گا" يہ جان کر بھی کہ وہ سی سی ٹی وی کيمروں کی زد ميں ہے۔ يماما کی باتوں پر خود کو کنٹرول نہ کرسکا۔ 

"اونہہ۔۔۔۔ ابھی تو چکی پيسنے کی يا تختہ دار پر لٹکنے کی تياری کرو۔۔ مجھ تک آنے کے خواب ۔۔ خواب ہی رہنے دو" کندھے اچکا کر گويا اسے چينلج کرتے آئينہ دکھا گئ۔ 

وقار چند لمحے شعلے برساتی نظروں سے اسے ديکھتا رہا جيسے اسے نظروں سے ہی جھلسا دے گا۔ 

مگر بے بسی کے مارے کچھ کرنہ سکا۔ 

غصے سے تن فن کرتا نکل گيا۔ 

يماما نے ساری ريکارڈنگ بند کی۔ اور فورا سے پيشتر اسے اپنے يوٹيوب چينل پر اس ہيڈ لائن کے ساتھ چلا دی۔

"ملک کے لٹيروں کا ايک اور کارنامہ" 

يس کے بٹن کے ساتھ ہی وہ ويڈيو وائرل ہونے کو تيار تھی۔   

وائرل ہوتے ہی سب سے پہلا ويور شہنشاہ کے نام سے تھا۔ 

يماما نے اچھنبھے سے نام پڑھا۔ 

ساتھ ہی اسکے موبائل کی سکرين جگمگائ۔ 

ہاتھ بڑھا کر سائيڈ پر رکھا موبائل اٹھايا۔ 

"شاباش ميری چيتی" کسی اجنبی نمبر سے آنے والے ان جانے پہچانے الفاظ پر وہ دانت کچکچا کر رہ گئ۔ 

"سوہنيو۔۔ دانت اتنی زور سے نہ بھينچو۔۔ ايک دو ٹوٹ گۓ تو نقصان تو ميرا ہی ہوگا نا" ابھی وہ ٹھيک سے غصہ بھی نہ کر پائ تھی کہ اسکے ايک اور ميسج نے اسے سيخ پا کرديا

"کمينہ" کچھ سوچ کر اسے ايک نۓ لقب سے نوازتی۔ ليپ ٹاپ کی اسکرين غصے سے بند کی۔

کسی سے زچ نہ ہونے والی يماما۔۔

اس دہشتگرد عاشق سے زچ ہو کر رہ گئ تھی۔

__________________________

جمعہ کے دن يماما کی خواہش کے عين مطابق فيصلہ آيا۔ 

سرتاج پر جتنے کالے دھندوں کے الزامات تھے وہ سب ثابت ہو چکے تھے۔ اور اس پر چودہ سال قيد بامشقت عائد ہوچکی تھی۔ ضمانتوں سے متعلق سب اپيليں مسترد کر دی گئيں تھيں۔ 

کمرہ عدالت سے ہی سرتاج کو ہتھکڑی لگا کر جيل پہنچانے کا انتظام کر ديا گيا تھا۔

وقار غصے ميں بھرا بيٹھا تھا۔ سميع بھی اسکے ساتھ وہيں موجود تھا۔ 

وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے شرر بار نگاہوں سے يماما کو ديکھ رہا تھا۔ جو اس وقت کيس جيتنے کی خوشی ميں سب سے مبارکباديں وصول کررہی تھی۔ 

"تم فکر کيوں کرتے ہو۔۔ کل ہی اس فسادن کا کام تمام کرواتے ہيں" وہ وقار کے کان ميں گھسا اسے تسلياں دے رہا تھا۔ 

کيونکہ اب اگلی باری وقار اور وہاج کے جيل جانے کی تھی۔ 

"کل ہر صورت مجھے اسکی موت کی خوشخبری ملنی چاہئے ورنہ جيل تو جانا ہی ہے۔ تو اسی کے قتل سے ہاتھ رنگ کر کيوں نہ جيل جاؤں" يماما کے فاتحانہ چہرے کو بھسم کرنے والی نظروں سے ديکھتا ہوا بولا۔ 

"پاگل ہوگۓ ہو عقل سے کام لو" وہ اسے گھرکنے لگا۔ 

"عقل ختم کرکے رکھ دی ہے اس ڈائن نے" اب ان دونوں کا رخ باہر کی جانب تھا۔ 

جہاں ميڈيا دونوں کو گھيرے سوالوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔ اور وہ ابھی بھی ڈھٹائ سے اپنے سچا اور معصوم ہونے کی جھوٹی گواہياں دے رہا تھا۔ 

"يہ سب سازش ہے ہماری فيملی کے خلاف۔ يہ سب جج بکے ہوۓ ہيں۔" وہ وہی زبان بول رہا تھا جو برسوں سے وہ باپ کو بولتے ديکھتا آيا تھا۔ جھوٹ اور بس جھوٹ کی زبان۔

اپنے گناہوں پر پردہ پوشی کی زبان۔

_________________________

کچھ دير پہلے ہی وہ فاران اور باقی سب دوستوں کو اپنے کيس کی ايک کڑی حل ہونے کی صورت ميں ٹريٹ دے کر آئ تھی۔ 

فليٹ کالے سٹائلش سے جوتے اتار کر گلے ميں مفلر کی صورت لپيٹا دوپٹہ صوفے کے ايک جانب رکھ کر اسی پر ڈھير ہوگئ۔ 

زندگی ميں پہلی بار وہ خوشی سے کسی ٹريٹ کے لئے تيار ہوئ تھی۔ 

کالے ہی نيٹ کے ديدہ زيب کپڑے پہنے کانوں ميں اينٹيک ائيرنگز تھے بالوں کو پونی سے ہٹ کر آج اچھا سا ہئير سٹائل ديا گيا تھا۔ آگے سے مانگ نکال کر ايک ايک لٹ کو ٹوئيسٹ کی شکل دے کر کانوں کے پيچھے لے جاکر پن سے باندھا ہوا تھا اور باقی کے بالوں کو لوز کلرز ڈال کر کھلا ہی چھوڑا ہوا تھا۔ 

آنکھوں پر پہلی بار لائنر کا استعمال کيا تھا۔ 

تھوڑا سا اناڑی انداز ميں لگا تھا۔ مگر اس کا گزارا ہوگيا تھا۔ 

پنک کلر کی لپ اسٹک اب بھی اسکے ہونٹوں پر موجود تھی۔ ہلکی ہو چکی تھی مگر پھر بھی موجود تھی۔ 

صوفے پر نڈھال سی بيٹھی وہ ابھی تک سرشار تھی۔ 

ايک گہری پرسکون سانس فضا کی سپرد کرتی وہ آنکھوں کے کناروں پر اٹکنے والے بھولے بسرے آنسو کو بے دردی سے اپنی آنکھ سے مٹاتی جوتے اٹھا کر اندر رکھنے کے لئے بڑھی۔ 

کيا کيا۔۔ اور کون کون آج ياد نہ آيا تھا۔ وہ بے درد لمحے کسی فلم کی طرح اسکی نگاہوں کے سامنے آج سارا دن رہے تھے۔ جنہوں نے اس سے سب کچھ چھين کر اسے تپتی دھوپ ميں لا کھڑا کيا تھا۔ جہاں سے آگے بڑھنے کے لئے اس کے پاس سواۓ اللہ کی ذات اور چند مددگاروں کے سوا اپنا کوئ نہ تھا۔ 

اتنے سال اس نے کيا کيا نہ جھيلا يہ کوئ نہيں جانتا تھا۔ 

تنہائ کاعذاب بڑا تکليف دہ ہوتا ہے۔ اور اسے يہ عذاب ساری زندگی جھيلنا تھا۔ 

مگر اپنے دشمنوں کو انکے انجام تک پہنچانے کے عزم نے اسے يہ تکليف محسوس کرنے کا وقت کم ديا تھا۔ 

اسی لئے اتنے عرصے بعد وہ سب ياد آۓ تھے۔ جو اسے پلک جھپکتے ميں تن تنہا کرگۓ تھے۔ 

کمرے ميں پہنچ کر وہ جو کچھ دير پہلے بے حد خوش تھی يکدم پژمردہ سی ہوگئ۔ 

جوتوں کو الماری ميں رکھ کر ابھی وہ سيدھی ہوئ ہی تھی کہ ڈور بيل بجی۔ 

وہ حيران ہوئ کہ اس لمحے کون ہوسکتا ہے۔ 

کمرے سے نکل کر صوفے پر پڑا دوپٹہ کندھے پر ڈالا۔ 

"کون" دروازہ کھولنے سے پہلے اندر سے پوچھا۔ 

اسکے فليٹ کا آئ ہول چند دن پہلے ہی خراب ہوا تھا۔ 

اس نے سوچا ہوا تھا کہ آج کی پيشی سے فارغ ہو کر ويک اينڈ پر لگوا لے گی۔ لہذا اس وقت وہ دروازے کے اس پار نہيں ديکھ سکتی تھی۔ 

"يماما ہيں کيا؟ مجھے ايک کيس کے سلسلے ميں ان سے ملنا ہے" کم و بيش اسی سے ملتی جلتی آواز ميں ايک لڑکی بولی۔ 

يماما نے حیرت سے وقت ديکھا۔ ساڑھے گيارہ بجے کون کيس ڈسکس کرنے آگيا۔ 

سوچوں سے نکلتے اس نے دروازہ کھولا۔ 

مگر اپنے سامنے بالکل اپنی شکل والی لڑکی کو ديکھ کر وہ جتنی بھی حيرت زدہ ہوتی کم تھا۔ 

"ہيلو يماما" اسکی ہم شکل لڑکی مسکراتے ہوۓ يماما کے حيرت زدہ چہرے کو ديکھتے۔ 

يکدم تيزی سے اندر بڑھتی اسے بھی اپنے ساتھ کھينچ کر لاتی۔ دروازہ بند کرتے ہی اسکے منہ پر ايک کپڑا رکھ گئ۔ 

يہ سب اتنی اچانک ہوا کہ يماما کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا اور چند لمحوں بعد وہ اپنی ہمشکل لڑکی کے بازؤں ميں ڈھير ہوچکی تھی۔ 

"تم کيوں فکر کرتے ہو۔۔ميں نے کہا تو ہے کہ کل کی ساری تياری مکمل ہے۔" سميع آج رات وقار کے ساتھ ہی تھا۔ 

دونوں اسی کے کمرے ميں بيڈ پر آمنے سامنے بيٹھے تھے۔ وہسکی پر وہسکی چڑھا کر بھی وقار کی طبيعت ميں سکون نہيں آيا تھا۔

"ميرے اندر آگ لگی ہوئ اس لمحے" شراب کے خمار اور کچھ غصے سے لال انگارہ ہوتی آنکھيں اس نے سميع کے چہرے پر ٹکائيں۔ 

"ميں جانتا ہوں يار۔ تيری حالت سے انجان نہيں ہوں۔ اسی لئے ميرا ايک بندہ يماما کے فليٹ کی بلڈنگ کے باہر ہے۔ کل وہ جس وقت بھی وہاں سے نکلے گی۔ ميرا بندہ اسے فالو کرے گا اور پھر کسی کم رش والی جگہ پر آتے ہی اسکی گاڑی کو ہٹ کردے گا۔ 

اسکی گاڑی کے پہيوں کی ہوا وہ آج رات ميں ہی نکال دے گا۔ تاکہ وہ جہاں بھی ڈولے ميرا بندہ غير محسوس انداز ميں اسے مزيد ہٹ کرے۔ اور ديکھنے والے يہی سمجھيں کہ يہ گاڑی بے قابو ہو کر کسی کھمبے يا پھر کسی درخت سے ٹکرا گئ ہے۔ 

وہيں سے يماما کو ميرا بندہ گاڑی سے نکال کر ہسپتال لے جانے کے لئے نکالے گا۔ اور راستے ميں ہی اسے ہم شراب کے ہمراہ زہريلی دوا کھلا ديں گے۔ تاکہ وہ مر جائے۔ پوسٹ مارٹم ميں يہی پتہ چلے گا کہ اس نے کوئ گندی شراب پی تھی اور اسی وجہ سے اسکی گاڑی نشے کی حالت ميں بے ڈول ہوئ اور وہ ہاسپٹل لے جانے تک مر گئ۔ ميں نے اپنے ايک اور بندے کو ہاسپٹل ميں الرٹ کرديا ہے۔ وہ ڈاکٹر ميرا بہت اچھا دوست ہے اور جو ميں نے اسے ہدايات دی ہيں۔ وہ اسکے مطابق ہماری مرضی کی رپورٹ بنا دے گا۔" سميع نے تفصيل سے اسے سب سمجھايا۔ وقار کو کسی قدر تسلی ہوئ۔ 

"ٹھيک ہے ويسے تو ميں نے بھی اپنا ايک بندہ اسکے فليٹ کے باہر کھڑا کروا ديا تھا" وقار کی بات پر سميع خاموش ہی رہا۔ 

"بس کل وہ اپنا گندا وجود لے کر اس دنيا سے دفع دور ہو جاۓ۔" سميع کے لہجے ميں يماما کے لئے شديد کڑواہٹ تھی۔ 

"ہو جاۓ گی۔۔ ہو جاۓ گی۔۔ تم بس اب ريسٹ کرو۔۔ "

سميع نے اس کا کندھا تھپتھپا کر اسے تسلی دی۔ 

"نيند اب کہاں يار" سميع نے ٹھنڈی آہ بھری۔ 

"تمہارے چچا نيچے ہی ہيں؟" سميع کے پوچھنے پر وقار استہزائيہ ہنسا۔ 

"ہاں يار مرے ہوۓ ہيں ادھر ہی۔۔۔ اپنی مصيبتيں کم ہيں کہ وہ بھی ادھر ہی دھرنا ڈال کر بيٹھ گۓ ہيں۔ ميں نے تو کہہ ديا ہے کہ اپنے اپارٹمنٹ ميں جائيں۔ کل صبح چلے جائيں گے" وقار کی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گيا۔ 

"چل يار تو بھی ليٹ جاکر ۔۔۔ ساتھ والا روم ميں نے تيرے لئے سيٹ کروا ديا تھا۔ کسی چيز کی ضرورت ہو تو بلا جھجھک بتا دينا ۔ تم تو اس وقت اپنوں سے بڑھ کر ثابت ہوۓ ہو" وقار نے ممنون لہجے ميں کہا۔ 

"ارے نہيں يار۔ ياروں کے بھی کام نہ آئيں تو ايسی دوستی کس کام کی۔ چل ڈئير صبح خوشخبری کے ساتھ ملاقات ہوگی" سميع اس کے بيد سے اٹھتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔

______________________

جس لمحے اسکی آنکھ کھلی سر شديد بھاری ہورہا تھا۔ بمشکل اس نے آنکھيں کھوليں۔سر کو تھامے وہ آہستہ سے اٹھ کر بيٹھی۔ 

ليکن جوں ہی نگاہ اردگرد کے ماحول سے مانوس ہوئ اسکی آدھ کھلی آنکھيں پٹ سے کھل گئيں۔ وہ اپنے کمرے ميں نہيں تھی۔ يہ تو کوئ اور ہی کمرہ تھا۔ چھوٹا مگر ڈبل بيڈ تھا۔ سامنے ديوار گير الماری تھی۔ چھت چھوٹی تھی اور ديواريں لکڑی کی بنی ہوئ تھيں۔ بيڈ کے قريب چيتے کی شکل کی رگ بچھی تھی۔ نائٹ بلب کی روشنی بھی خاصی تيز تھی۔ دائيں جانب جيسے ہی اس نے نظر گھمائ کوئ بہت توجہ سے اسکی جانب ديکھ رہا تھا۔ 

کندھوں سے بھی نيچے آتے گھنے بال، ويسی ہی گھنی سياہ مونچھيں اور داڑھی۔ روشن چمکتی آنکھيں تنی ہوئ بھنويں، مسکراتے لب۔ رات کی تاريکی کے ہمرنگ اس نے کالی شلوار قميض اور کندھوں پر کالی ہی شال لے رکھی تھی۔ 

ہاتھوں ميں اور گلے ميں ڈھيروں چينيں موجود تھيں۔ ہاتھوں ميں بھی بے حساب انگوٹھياں اور پاؤں ميں پشاوری چپل۔ ايک ٹانگ دوسری ٹانگ پر بڑے کروفر ميں ٹکاۓ ايک بازو کرسی کے پيچھے رکھے۔ سيدھے ہاتھ کی کہنی کرسی کی ہتھی پر ٹکاۓ ہاتھ کی مٹھی بنا کر ہونٹوں کے آگے رکھے وہ يماما کے فق چہرے کو بڑی توجہ اور کسی قدر پيار سے ديکھ رہا تھا۔ 

"تت۔۔ تم" يماما شايد زندگی ميں پہلی بار کسی کے سامنے ہکلائ تھی۔ 

"تمہارا خادم" بڑی ادا سے مٹھی ہونٹوں کے آگے سے ہٹا کر آنکھوں کو لمحہ بھر کے لئے بند کرکے اپنے گھمبير لہجے ميں بولا۔ 

يماما نے غصے سے ايک نظر اس پر ڈال کر ہاتھوں پر سر گرا ليا۔ 

"کيا ہوا عزيزم" يماما خاموشی سے بے ہوشی سے پہلے کا واقعہ ياد کرنے لگی۔ اسے ياد آيا کہ اسی کی ايک ہمشکل لڑکی

رات ميں کسی کيس کے سلسلے ميں اسکے فليٹ ميں آئ تھی اور بس پھر وہ دروازہ کھلتے ہی تيزی سے اندر آئ اور اسکے منہ پر کوئ تيز دوائ والا کپڑا رکھا۔ 

"کوچ کرنے کا پروگرام تو نہيں" اس کی گمبھير آواز اسے واپس حال ميں کھينچ لائ۔ 

"کس قدر گھٹيا انسان ہو تم" سر اٹھا کر دائيں جانب اسے ديکھتے ہوۓ اپنے مخصوص نڈر مگر تاسف بھرے لہجے ميں بولی۔ 

"نوازش ۔۔۔۔کچھ اور تعريف کرو نا" وہ بھی کہاں باز آنے والوں ميں سے تھا۔ مسکراہٹ دباۓ اس کا غصے سے تپتا ہوا چہرہ نظر بھر کر ديکھا۔ 

"ميں نے تمہارا تو کبھی کوئ کيس نہيں لڑا نہ مجھے تم سے کوئ سروکار۔۔ پھر ميرے ساتھ يہ سب کرنے کی وجہ" اب کی بار وہ بيڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوتی دونوں بازو کمر پر دائيں بائيں جانب ٹکاۓ اس سے باز پرس شروع کرچکی تھی۔ 

"ہائے سوہنيو۔۔۔۔ يہی تو غلطی آپ سے سرزد ہوئ۔ تم نے کبھی مجھ پر نظر کرم ہی نہيں کی۔ بس يہی بات دل کو ٹھاہ کرکے لگی" اسکے مقابل کھڑے ہوتے بڑے انداز سے دل پر ہاتھ رکھ کر بولتا اسے زچ کررہا تھا۔ 

"اچھا بڑا غم ہے۔۔ مجھے چھوڑو پھر ديکھو تختہ دار پر نہ لٹکا ديا تو ميرا نام بھی يماما نہيں" بازو سينے پر باندھتے سر جھٹکتے اسے چيلنج کيا۔ 

"نانانانا۔۔۔۔۔۔اب تو غلطی سرزد ہوگئ اب کوئ تلافی نہيں سواۓ۔۔۔۔۔" تھوڑا سا اور فاصلہ سميٹتے اب کی بار وہ ہلکا سا اسکی جانب جھکا۔ يماما نے ناگواری سے اسکی يہ حرکت ديکھی۔ 

"سواۓ ميرے قريب رہنے کے" آنکھ دبا کر شرير مسکراہٹ اس پر اچھالتا پيچھے ہوا۔ 

"ديکھو ۔۔۔ تمہاری يہ خواہش صرف خواہش ہی رہے گی۔ مجھے اپنی زندگی سے ويسے بھی کوئ محبت نہيں اور اسے ختم کرتے مجھے کوئ دکھ بھ نہيں ہوگا۔ لہذا تم جو ناپاک ارادے لے کر ميری جانب آۓ ہو بہتر ہے کہ انہين ارادے ہی رہنے دو۔ سوچنے کا حق تمہيں تھا تم نے سوچا۔ مگر اسکے پورے ہونے يا نہ ہونے کا اختيار اب ميرے پاس ہے۔ لہذا ميں تمہيں وارن کررہی ہوں کہ ابھی سے پيچھے ہٹ جاؤ۔ ورنہ ميں بہت زہريلی ہوں" يماما کی وارننگ پر وہ مصنوعی حيرت سے اسے ديکھتے ہولے ہولے سر ہلانے لگا۔ 

"يہی انداز تو مار ڈالتے ہيں مجھے۔ مگر تمہارے حصول سے پہلے ميں مرنا کسی صورت گوارا نہيں کروں گا" جھک کر کرسی کے پاس رکھے ٹيبل سے اپنا موبائل اٹھاتے وہ دروازے کی جانب بڑھا۔ 

"او مسٹر۔۔۔۔۔ کدھر۔۔۔۔ مجھے چھوڑو پہلے" يماما اسے خاموشی سے دروازے کی جانب بڑھتے ديکھ کر چلائ۔ اپنی طرف سے وہ اسے کافی آئيںہ دکھا چکی تھی۔ 

"کہاں چھوڑوں۔۔۔ دل کی زمين پر تو چھوڑ ديا ہے تمہيں۔ اور بدقسمتی سے ايک ہی دل ہے۔ دس بارہ ہوتے تو سب پر چھوڑ ديتا" مڑ کر اسے ديکھتے وہ اسی محبت بھری ٹون ميں بولا۔ 

"تمہارا مسئلہ کيا ہے۔۔ يا اللہ۔۔۔ ديکھو شہنشاہ يا جو کوئ بھی تم ہو۔۔ مجھے پليز واپس چھوڑ آؤ۔ ميں تمہارے کسی کام کی نہيں۔ نہ يہ تھرڈ کلاس محبت بھرے ڈائيلاگز سے ميں پگھلنے والی ہوں۔ ميں ايک سبزی والے کی مجبت تو قبول شايد کرلوں ليکن ايک دہشتگرد۔۔ کيا سوچ کر تم نے ايسا سوچا بھی" وہ شديد الجھن کا شکار تھی۔ کيسے اس مصيبت سے نکلے۔ وہ اب تھوڑا لہجہ نرم رکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کررہی تھی۔ 

مگر سامنے بھی شہنشاہ تھا لوگوں کو ہرانے والا۔۔ راج کرنے والا۔ اپنی منوانے والا۔۔ اپنی فطرت سے کيسے ہٹتا۔

"ميں نے سن بھی ليا اور سمجھ بھی ليا۔ ميری پھلجھڑی۔ مگر مسئلہ يہ ہے کہ اس بار شہنشاہ کے دل نے دغا کيا ہے اور شہنشاہ نے پہلی بار دل کی سنی تھی۔ اب اتنی آسانی سے تو ميں اپنے دل کی نافرمانی نہيں نا کرسکتا" ہاتھ باندھے بڑے عجز سے وہ ايسے اسے سب کہانی سنا رہا تھا جيسے يہ سب سننے ہی تو يماما يہاں آئ ہے۔ 

"تم ميری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو۔۔ ميں بکواس کر رہی ہوں کہ مجھے يہاں سے جاناہے تو بس جانا ہے" يماما اب کی بار طيش ميں آچکی تھی۔ 

"اگر يہ تمہاری نرمی ہے تو ميری جان تمہارا جلال کيا ہوگا۔ چلو آج وہ بھی ديکھ ليتے ہيں" بڑے آرام سے اب کی بار وہ واپس مڑا اور کرسی پر جاکر اسی انداز ميں مٹھی ہونٹوں پر ٹکاۓ بيٹھ گيا۔ 

"تم۔۔تم کس قسم کے ڈھيٹ ہو۔۔ مجھے واپس بھيجو بس ابھی اور اسی وقت" وہ بھی مڑ کر اسکے سر پر کھڑی حکميہ انداز ميں بولی۔ 

"دروازہ کھلا ہے۔۔ تم جاسکتی ہو۔ ميں بھی ديکھو بغير کسی اسلحے کے بيٹھا ہوں۔ تمہارے پيچھے بھی نہيں آؤں گا۔ جانا چاہتی ہو شوق سے جاؤ۔ سب دروا‌زے کھلے ہيں" اسکے اتنی آسانی سے مان جانے پر يماما نے مشکوک نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"اب جاؤ بھی۔ کھڑی ميرا منہ کيا ديکھ رہی ہو۔ يا پھر يہ چاند چہرہ دل کو بھا گيا ہے۔" ايک آنکھ دباۓ وہ پھر شوخ لہجے ميں بولا۔ 

يماما اسکے چہرے پر لعنت بھيجتی۔ دروازے کی جانب مڑی۔ 

اسے يہ موقع گنوانا نہيں تھا۔ ساتھ ہی ساتھ پيچھے مڑ کر ديکھتی کہ کہيں وہ پيچھے آ تو نہيں رہا۔کمرے سے نکل کر چھوٹی سی راہداری کے بعد سيڑھياں نيچے کی جانب جارہی تھيں۔ يہ ايک چھوٹا سا لکڑی کا کاٹيج تھا۔ 

مدہم روشنی ہر سو پھيلی ہوئ تھی۔ 

نيچے اترنے تک اسے احساس ہوگيا تھا کہ اسکے اور شہنشاہ کے علاوہ اس وقت يہاں کوئ نہيں تھا۔ 

سيڑھيوں سے اتر کر ايک چھوٹا سا سيٹنگ روم تھا۔ اردگرد بھی چند کمرے تھے۔ 

ليکن يماما کو اس وقت اس کاٹيج کا جائزہ لينے کا قطعی کوئ شوق نہيں تھا۔ 

تيزی سے وہ داخلی دروازے کی جانب بڑھی۔ آہستہ سے اس کا لاک گھما کر تصدي‍ق کی ۔۔کہ آيا لاک ہے يا کھلا ہے۔ 

مگر وہ حيرت زدہ رہ گئ جب وہ دروازہ بھی اسے کھلا ہوا ملا۔ 

جيسے ہی دروازہ کھولا۔ اندھيری رات ميں جو کچھ اسے باہر دکھائ ديا وہ کوئ عام جگہ نہيں بلکہ کوئ پہاڑی علاقہ تھا۔ 

اندھيرے ميں آنکھيں پھاڑنے پر اسے اندازہ ہوا کہ اس کاٹيج کے باہر ايک پتلی سی پگڈنڈی کے ايک جانب گھنا جنگل اور اونچی اونچی چوٹياں تھيں جبکہ دوسری جانب گہری کھائ تھی۔ 

وہ کہاں اور کدھر تھی۔ اپنے شہر ميں تو ہر گز نہيں تھی۔ اور يہاں سے باہر جانے کا کيا راستہ تھا وہ بالکل انجان تھی۔ 

دو قدم جو وہ باہر نکال چکی تھی۔ 

آہستہ سے دوبارہ دہليز کے اندر کئے۔ 

بے بسی سے دروازہ بند کرکے اس سے ماتھا ٹکا ديا۔ 

نجانے يہ خبيث انسان اسے کہاں لے آيا تھا۔ اس پہر وہ باہر جا ہی نہيں سکتی تھی۔ 

باہر جانے کا کوئ فائدہ ہی نہيں تھا۔ 

"ارے ابھی تک يہيں کھڑی ہو گئ نہيں" اپنے پيچھے شہنشہاہ کی آواز سنتے ہی اس کا دل کيا اس بدتميز شخص کا سر پھاڑ دے۔ 

وہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ يہاں سے نہيں نکل سکتی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے کہاں اٹھا لايا ہے تبھی اتنے سکون سے اسے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ 

"کہيں دہشت سے بے ہوش ہونے کا ارادہ تو نہيں" اسکے پھر سے بلانے پر وہ سيدھی ہوتی اسکی جانب مڑی۔

"تم ڈھيٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ايک کمينے انسان بھی ہو" غصے سے اسے ايسے ديکھا جيسے نظروں سے ہی کھا جاۓ گی۔ 

"اور کوئ تعريف رہتی ہے تو آج وہ بھی کردو۔۔ويسے تو ميں اب اپنی زندگی کی ہر صبح اور ہر رات انہی تعريفی کلمات سے سننے کا سوچے بيٹھا ہوں۔ اور مجھے پورا يقين ہے تم ميری اميدوں پر پورا اترو گی" اسکی بے بسی پر زير لب مسکراتے ہوۓ وہ چمڑے کے بنے خوبصورت اور ديدہ زيب صوفے پر بيٹھ چکا تھا۔ 

اپنے اسی مغرور انداز ميں۔ 

"حسرت ہی رہے گی" وہ بھی ايک ايک لفظ چبا چبا کر بولی۔ 

"تو کيا پھر ميری محبت ميں قيد ہو کر پيار بھری باتيں کرو گی"وہ صاف اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ 

"مر کر بھی نہيں۔۔۔ تمہاری منصوبہ بندی پر چوٹ کی تھی۔۔۔۔ دن اور رات والی۔۔ ان شاءاللہ اس تاريک رات کے بعد اگلا کوئ دن ايسا نہيں آگے گا۔ جب تمہاری يہ فضول شکل ديکھوں" جوابی کاروائ کرکے وہ سيڑھياں چڑھ گئ۔ اتنا تو اندازہ ہوگيا کہ اسکی نيت غلط نہيں۔ ورنہ ابھی تک اسکی کڑوی کسيلی باتوں پر کم ظرف مردوں کی طرح اپنی مردانگی دکھانے کی کوشش کرچکا ہوتا۔ 

"کہيں آج رات مرنے کے ارادے تو نہيں" اسے سيڑھياں چڑھتا ديکھ کر وہ پھر سے بولا۔ 

"مريں ميرے دشمن" شہنشاہ کی ہی بات اسے لوٹائ۔ 

اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ 

"ارے ہم تو آپکے اسيروں ميں سے ہيں" وہ بھی اونچی آواز ميں بولتے اسے چڑانے سے باز نہيں آيا۔ 

جواب ميں دروازہ جس زوردار انداز سے يماما نے بند کيا وہ جواب ہی شہنشاہ کے لئے کافی تھا۔ 

وہ خود اٹھ کر دوسرے کمرے کی جانب بڑھ گيا۔ اسکی چیتی کو اتنا ہی نڈر اور بے خوف ہونا چاہئيے تھا جتنی کہ وہ تھی۔ 

مجال ہے ايک آنسو بھی بہايا ہو۔ يا ترلے منتيں کی ہوں۔ وہ  کسی بھی خطرناک شچوئيشن ميں جذبات کو عقل پر حاوی نہيں ہونے ديتی تھی۔ اور يہی اسکی اب تک کاميابی تھی۔ اسے اس بات سے فرق ہی نہيں پڑتا تھا کہ کس دہشتگرد کے ہاتھ وہ لگی ہے۔ بس اب ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے کيا طريقہ اختيار کرنا تھا۔ 

يہ آج رات اسے سوچنا تھا۔

___________________________

"نائل آيا نہيں ابھی تک" مہک تہجد کے لئے اٹھيں۔ ان کی عادت تھی۔ جب بھی تہجد کے لئے اٹھتيں۔ نوافل پڑھ کر نائل کے کمرے کی جانب جاتيں۔ آيات پڑھ کر اس پر پھونک مارتيں اور پھر واپس اپنے کمرے ميں آتيں۔ 

آج جس وقت وہ نوافل پڑھ کر اسکے کمرے ميں گئيں۔ کمرہ خالی تھا۔ 

بے شکن چادر سے اندازہ ہوگيا تھا کہ وہ آج رات پھر سے نہيں آيا۔ 

اپنے نہ آنے کا وہ مہک کو کبھی نہيں بتاتا تھا۔ ہاں باپ کو ضرور خبر کرديتا تھا۔ 

وہ نيچے اپنے کمرے ميں آئيں جہاں شمس بھی جاگ چکے تھے۔ 

اور قرآن کی تلاوت ميں مصروف تھے۔ 

"ہمم" انہوں نے کچھ بھی کہنے سے احتراز کيا۔ 

"ايک تو آپ باپ بيٹا کے يہ راز و نياز مجھے سمجھ نہيں آتے۔ آپکی بھی انوکھی فوج کی نوکری ہے کہ جس کی مسٹری ميں کبھی حل نہيں کرسکی۔ 

بيٹے کو بھی اپنے نقش قدم پر چلا رہے ہيں۔ اسکی تو فوج کی نوکری بھی نہيں۔ پتہ نہيں کس قسم کی نوکری کرتا ہے۔ميری تو سمجھ سے باہر ہے۔ ميں آپکو بتا رہی ہوں اگر وہ غلط کاموں ميں پڑا نہ تو ميں آپ کو کبھی معاف نہيں کروں گی۔ کس مشکل سے اللہ نے نوازا ہے اسے۔" وہ مسلسل بولتی جارہی تھيں۔ 

اور ہر بار ايسا ہی ہوتا تھا۔ جب جب وہ گھر سے باہر جاتا وہ اسی طرح غصے کا اظہار کرتيں۔ 

"کچھ نہيں ہوگا بيگم۔۔ آپ خوامخواہ پريشان ہوتی ہيں" وہ قرآن بند کرکے اسے سينے سے لگاتے کھڑے ہوۓ۔ الماری ميں اوپر کرکے رکھا۔ اور ان کی جانب پلٹے۔ 

"مجھے يہ بتائيں وہ اتنے مہينوں جب غائب ہوتا ہے تو کون سی ٹريننگ کرتا ہے۔ شمس ديکھيں آپ کی بار ميں نے يہ سب برداشت کرليا۔ مگر بيٹے کے لئے يہ سب نہين کروں گی" 

"ہاں تو مين کون سا بگڑ گيا" وہ مسکراتے ہوۓ انکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ 

"ہاں تو ميں تب موجود تھی نہ آپکی لگاميں کسنے کو۔۔۔ اس لڑکے کا ميں کيا کروں۔ کہيں اور مانتا ہی نہيں بس ايک ہی زد ہے۔۔ کہ وہ نہيں تو کوئ نہيں۔ اب ہم کہاں سے اسے لے کر آئيں۔" ماں تھيں نا کيسے بے بس نہ ہوتيں۔ 

"اللہ سے اچھی اميد رکھيں۔ اللہ نے اسکے لئے بہترين رکھا ہوگا۔" انہيں بيڈ پر بٹھاتے ہوۓ وہ ان کے ساتھ بيٹھے۔ 

"ميری تو ہر لمحہ يہی دعا ہے۔ کہ اللہ اگر وہی اسکی قسمت ميں ہے تو کسی طرح اسے زندہ کردے۔۔ يا۔۔۔" انکی آواز بھرانے پر شمس نے انہيں ساتھ لگايا۔ 

"کيا ہوگيا ہے آپ کو اتنے بہادر بيٹے کی ماں ہيں۔ اس طرح مت کريں" ان کی پشت سہلاتے انہيں تسلی دينے لگے۔ 

"کب تک آۓ گا؟" مہک کے سوال پر وہ مسکراۓ بنا نہيں رہ سکے۔ 

"کل دوپہر تک آئۓ گا۔ پھر خوب اسکے کان کھينچنا۔ ميں تو نوکری پر ہوں گا۔ آپ دل کے ارمان نکالنا" ان کے تنگ کرنے والے انداز پر وہ نم آنکھوں سميت مسکرا اٹھيں۔ 

مہک کی تو جان تھی نائل ميں۔۔ وہ دور ہوجاتا تو انکی جان پر بن جاتی۔

اسی کو سوچتے وہ پھر سے مصلی بچھا کر اسکی حفاظت اور خيريت کی دعائيں کرنے لگيں۔

صبح ناشتے کی ميز پر وہ دونوں آمنے سامنے بيٹھے تھے۔ 

"لگتا ہے رات بھر سوئے نہيں" سميع نے وقار کی سرخ آنکھوں کو ديکھ کر کہا۔ 

"ميں تب تک نہ سکون سے سو سکتا ہوں اور نہ ہی چين سے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ جب تک وہ منحوس لڑکی مر کھپ نہيں جاتی" وقار سامنے موجود چاۓ کے کپ کو گھورتے ہوۓ بولا۔ 

"ميں نے ابھی اپنے بندے کو فون کيا تھا۔ فی الحال تو اسکے فليٹ ميں کوئ ہلچل نہيں ہے جيسے ہی وہ نکلتی ہے ميرا بندہ اسے فالو کرے گا" سميع نے اب تک کی صورتحال بتائ۔ 

"ٹھيک ہے" وقار سپاٹ لہجے ميں بولا۔ 

اسی لمحے سميع کے موبائل کی رنگ بجی۔

"ہيلو۔۔ ہاں۔۔ کيا حالات ہين" سميع کی بات پر وقار اسکی جانب متوجہ ہوا۔ 

"اچھا نکل پڑی ہے۔۔ ويری گڈ۔ بس پلين کے مطابق کام ہونا چاہئيے" سميع کے پرجوش لہجے پر وقار کچھ دير پہلے کی بيزار کيفيت سے باہر آچکا تھا۔ 

اس نے گھڑی کی جانب ديکھا جہاں صبح کے دس بج چکے تھے۔ 

"کيا بنا" سميع نے جوں ہی فون بند کيا۔ وقار نے بے چينی سے پوچھا حالانکہ وہ جان چکا تھا۔ 

"وہ کوٹ جانے کے لئے نکل کھڑی ہوئ ہے۔ تم بھی اپنے بندے سے کہو کہ ان کے پیچھے لگ جاۓ" سميع کی ہدايت پر اس نے فورا عمل کيا۔ 

"ہيلو ۔۔ہاں مبشر۔۔ اچھا ٹھيک ہے تم اسے ديکھ چکے ہو۔۔ چلو يہ تو بہت اچھا ہوگيا۔ بس تم بھی اپنی گاڑی اسکے پيچھے لگا لو" اس نے مبشر کو بھی وہی ہدايات ديں جو سميع نے کہيں تھيں۔ 

"بس يار اب کام ہوجاۓ" وقار نے فون بند کرتے ہی اپنی خواہش کا اظہار کيا۔

"ہو گا۔۔ ہوگا۔۔ ميں کبھی کچی گولیاں نہيں کھيلتا۔۔ تم فکر مت کرو۔۔ بس اب تھوڑا ريليکس ہو کر چاۓ تو پيو" سميع نے اسے تسلی دی۔ 

وہ اپنے کپ کی جانب متوجہ ہوا۔

________________________

بريکنگ نيوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاران نے آج ليٹ آفس جانا تھا۔ رات ميں يماما نے جو پارٹی دی تھی۔ وہاں سے واپس آتے ہی وہ کافی ليٹ ہوگيا تھا لہذا صبح اس نے آفس ليٹ جانے کا سوچا۔ 

ابھی تھوڑی دير پہلے ہی وہ لاؤنج ميں آيا تھا۔ 

ربيعہ اس کے اٹھتے ہی اس کے لئے ناشتہ بنانے کچن کی جانب چل پڑيں۔

اس نے ٹی وی آن کيا ہی تھا کہ بريکنگ نيوز کا سنتے ہی چينل چينج کرتا ہاتھ وہيں رکا۔ 

"مشہور و معروف وکيل يماما صديقی جنہوں نے پچھلے دنوں ہی ايک مشہور سياستدان کا کيس لڑا۔ اور کل اس سياستدان گھرانے کے ايک سربراہ کو سزا دلوانے ميں کامياب ہوگئيں۔ 

مگر ابھی تھوڑی دير پہلے وہ گھر سے آفس کے لئے نکلی ہی تھيں کے کچھ دور جانے کے بعد ان کی گاڑی سڑک پر لہرائ اور سڑک کے ساتھ بنے فٹ پاتھ پر چڑھ گئ۔ وہيں موجود ايک درخت کے ساتھ بری طرح ٹکرائ۔ 

موقع پر ہی انکے پيچھے آتی گاڑيوں ميں سے ايک نے انہيں نکال کر اپنی گاڑی ميں منتقل کيا۔ اور زخمی حالت ميں انہيں ہاسپٹل لے جايا گيا ہے۔ 

ہمارے نمائندہ اسی جگہ موجود ہيں جہاں اب سے کچھ دير پہلے يماما صديقی کی گاڑی درخت سے ٹکرائ تھی۔۔ جی راحيل ۔۔ آپ ابھی وہيں ہيں۔ تو ناظرين کو بتائيے گا کہ يہ سب کيسے اور کب ہوا"؟ وہ نيوز اينکر تو اپنی روزمرہ کی ڈيوٹی نبھانے لگی۔ 

مگر نيوز سنتے فاران کی حالت بری تھی۔ 

ٹی وی پر دو سکرينز چل رہی تھين۔ ايک ميں يماما کی گاڑی کی حالت دکھائ جارہی تھی۔ دوسری سکرين پر اسکی مسکراتی تصوير تھی۔

ربيعہ اسکے لئے ناشتہ لے کر جيسے ہی لاؤنج ميں داخل ہوئيں۔ سامنے موجود ايل سی ڈی پر يماما کی تصوير ديکھتے ہی يکدم پريشان ہوئيں۔ 

"کيا ہوا ہے؟"وہ خوفزدہ آواز ميں فاران سے بوليں۔ 

جو اس لمحے ساکت بيٹھا تھا۔ 

نيوز اينکر پھر سے وہی سب دہرانے لگی۔ 

يکدم فاران اپنی جگہ سے اٹھا۔ 

"ميری بچی۔" ربيعہ کے منہ سے سب سن کر چيخ نما آواز نکلی۔ 

"ميں ہاسپٹل جا رہا ہوں" فاران اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔ 

چند منٹ بعد ہی والٹ۔ موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھاۓ وہ تيز قدموں سے واپس آيا۔ 

"ميں ہاسپٹل جارہا ہوں" اس کی سنجيدہ آواز پر ربيعہ جو ٹی وی ديکھتے ساتھ ہی رو رہی تھيں۔ گردن موڑ کر فاران کو ديکھا۔ 

"ميں بھی چلوں گی" اسے ماں بن کر پيار ديا تھا۔ کيسے نہ اس وقت تکليف سے گزرتيں۔ 

"ماں ابھی آپ کا وہاں جانے کا فائدہ نہيں ہے۔ ميں جاکر اسکی کنڈيشن ديکھوں۔ آپ بس دعا کريں۔ بابا کو کال کردينا" وہ انکے قريب آکر انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے تسلی ديتے ہوۓ بولا۔ 

"مجھے فون کرکے اسکے پل پل کی خبر دينا" آنسو صاف کرتے وہ بھرائ ہوئ آواز ميں بولی۔ 

"جی" وہ بس اتنا ہی کہہ سکا۔ اور تيزی سے باہر کی جانب بڑھا۔

____________________________

رات ميں سوچتے سوچتے نجانے اسکی کب آنکھ لگی۔ صبح جب اسکی آنکھ کھلی اس وقت بھی وہ رات والی ہی پوزيشن ميں چيتے کی شکل کی بنی ہوئ رگ پر بيٹھی تھی۔ سر اور بازو بيڈ پر دھرے تھے۔ 

سر گھما کر ادھر ادھر ديکھا دائيں جانب کی ديوار پر گھڑی نظر آگئ۔ گيارہ بج چکے تھے۔ اتنا اسے ياد تھا کہ فجر کی نماز تک وہ جاگتی رہی تھی۔ اور نماز پڑھ کر ہی وہ رگ پر بيٹھی بيٹھی آگے کا لائحہ عمل طے کرنے لگی تھی۔ 

کمر کو تھوڑی دير دائيں بائيں کرکے جسم کا اکڑا پن دور  کيا۔ دوپٹہ شانوں پر ٹھيک کيا بال ادھ کھلے ہی تھے۔ پنيں اتار کر بالوں کو تھوڑا سا ٹھيک کرکے دوبارہ بالوں ميں لگائ۔ دروازہ دھکيلا تو وہ کھلا ہوا ہی ملا۔ 

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی باہر آئ۔ 

سيڑھيوں کے سرے پر کھڑے ہوکر نيچے لاؤنج ميں جھانکا۔ 

سامنے ہی ميز پر ناشتے کا سامان رکھے اس سے نبرد آزما ہوتا ہوا شہنشاہ نظر آيا۔ 

يماما کا حلق تک کڑوا ہوگيا۔ 

دھپ دھپ کرتی نيچے آئ۔ قدموں کی آواز سن کر بھی شہنشاہ کی مصروفيت ميں کوئ اثر نہ آيا۔ وہ اسی دل فشانی سے ناشتہ کرنے ميں مصروف رہا۔ 

"مجھے آج واپس چھوڑ کر آؤ" اسکے سر پر کھڑی اسے حکم دينے والے انداز ميں تڑخ کر بولی۔ 

چاۓ پيتے ہوۓ شہنشاہ نے سيدھے ہوتے اس کا غصے سے بھرپور چہرے کا بھرپور ہی انداز ميں جائزہ ليا۔ پھر کمر صوفے کی پشت سے ٹکاتا اسے ناشتہ کرنے کا اشارہ کيا۔ 

"ناشتہ کرے گی ميری جوتی" اپنی بات نظر انداز کئے جانے پر يماما کا دماغ مزيد گھوم گيا۔ اس پر شہنشاہ کی اندر تک جھانکتی آنکھيں۔ اور چہرے پر کھلنے والی مسکراہٹ اور چمک۔ 

"ارے واہ تمہاری جوتی بھی ناشتہ کرتی ہے۔ بھئ ايسی جدت تو آج تک کسی نے نہيں سنی ہوگی۔ تم اور تمہاری ہر چيز سچ ميں بہت انوکھی ہے۔" صاف مذاق اڑاتا لہجہ تھا۔ 

"تمہيں ايک بکواس کی سمجھ نہيں آتی۔ مجھے واپس چھوڑ کر آؤ۔۔" اب وہ حلق کے بل چلائ۔

شہنشاہ نے ناگواری سے کان ميں انگلی ڈال کر گھمائ۔ 

"آہستہ بولو۔۔ ميرے کان بالکل ٹھيک ہيں۔ مجھے تمہاری آہستہ آواز ميں کہی ہر بات بھی سمجھ آجاۓ گی۔" اطمينان برقرار تھا۔ اور تو اور اب ايک ٹانگ پر دوسری ٹانگ ٹکاۓ وہ مزے سے چاۓ پينے ميں مصروف تھا جيسے يہی سب کرنے تو آيا ہو۔ 

"تمہارا آخر مقصد کيا ہے مجھے يوں اغوا کرنے کا۔ کون سا کام مجھ سے نکلوانا چاہتے ہو۔ مجھے بتاؤ۔ ميرے بس ميں ہوا تو ميں آج ہی کردوں گی۔ مگر پليز مجھے واپس چھوڑ آؤ۔ ديکھو ابھی ميں ايک بہت ضروری کيس پر کام کررہی ہوں۔ ميرے اس طرح اغوا ہونے سے ميری زندگی کا اصل مقصد ختم ہوجاۓ گا" اب کی بار وہ اسکے سامنے والے صوفے پر بيٹھ کر اسے سمجھانے والے انداز ميں بولی۔ 

"تو پھر يہ سمجھو کے ميری زندگی کا بھی يہی مقصد ہے" شہنشاہ نے اسکے چہرے سے بمشکل نظريں ہٹا کر کہا۔ 

نظريں کپ پر تھيں۔

"کيا؟ لڑکيوں کو اغوا کرنا تمہاری زندگی کا مقصد ہے؟" وہ اچنبھے اور کسی قدر طنز سے بولی۔ 

"اوہ نہيں جھلی کڑئيے۔۔۔تم اکيلی ہی ہزاروں کے برابر ہو۔۔۔اب کتنی بار بتاؤں۔ کہ تم شہنشاہ کے دل کو بھاگئ ہو۔۔اب دلوں کے معاملے تو کچھ نہيں ديکھتے۔ کوئ مجبوری۔۔ کوئ مصلحت۔۔۔نا۔۔۔" خالی کپ ٹيبل پر رکھتے ہوۓ۔ اسے ايک بار پھر ناشتے کا اشارہ کيا۔ 

"ايک کا کرو۔۔مجھے زہر کھلا دو۔۔" وہ دانت پيس کر بولی۔

اس کی جھنجھلاہٹ پر شہنشاہ کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ 

"تمہيں کبھی کسی نے بتايا نہيں شايد تم يوں دانت پيستے ہوۓ بہت ہی پياری لگتی ہو۔۔" اب وہ صوفے کے ساتھ پشت ٹکاۓ داياں ہاتھ داڑھی پر ٹکاۓ مزے سے اسکا تلملاتا چہرہ ديکھ رہا تھا۔ 

"بھاڑ ميں گۓ تم۔۔ اور بھاڑ ميں گئ تمہاری سوچ" اس کا بس نہيں چل رہا تھا کہ شہنشاہ کے اس لمحے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ 

"ہاۓ۔۔ بھاڑ ميں تو واقعی چلا گيا ہوں۔ اب ديکھو نا تم سے محبت کرنے کے بعد تو لگتا ہے کہيں کا نہيں رہا۔۔بھاڑ ہی مناسب جگہ ہے۔" يماما نے تيکھے چتونوں سے اسے ديکھا۔ 

پھر خاموشی سے اسے نظر انداز کئے اردگرد کا جائزہ لينے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ دماغ ميں يہاں سے بھاگنے کے منصوبے بنانے لگی۔ 

شہنشاہ بھی خاموشی سے اس کا جائزہ لينے ميں مگن تھا اور يماما اسکی خود پر جمی نظروں سے اچھی طرح واقف تھی۔ 

"يہاں سے باہر جانے کے منصوبے مت بناؤ۔ بظاہر تمہيں يہاں کوئ نظر نہيں آئے گا ليکن ميرے بندے ہر پل يہاں کی نگرانی کر رہے ہيں" اب کی بار شہنشاہ اپنے مخصوص گمبھير مگر کسی قدر سنجيدہ لہجے ميں اسے تنبيہہ کرنے لگا۔ 

"اگر مجھے جاننے کا دعوی ہے تو اتنا تو اچھی طرح جانتے ہوگے کہ ميں عام دبو لڑکی نہيں۔ جو سکون سے بيٹھ جاؤ۔ آج نہيں تو کل۔۔۔ کل نہيں تو پرسوں۔۔ ميں يہاں سے نکل بھاگوں گی۔چاہے جتنے مرضی پہرے بٹھاؤ" اب کی بار وہ بھی ريليکس انداز ميں کمر صوفے سے ٹکاۓ اسکی کے انداز ميں بيٹھ گئ۔ 

"ميری جان جگر دبو ہو ہی نہيں سکتی تھی" شہنشاہ کے لوفرانہ انداز پر وہ جو سکون سے بيٹھی تھی ايک بار پھر اس کی رگيں تن گئيں۔ 

"خیر ناشتہ کرو۔۔ خالی پيٹ نہ تمہارا دماغ چلے گا اور نہ ہی منصوبے بن سکيں گے۔ خود ميں جان شان لاؤ تاکہ مقابلہ کرنے ميں مزہ بھی آۓ۔" شہنشاہ اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے بنے کمروں ميں سے ايک کی جانب چل پڑا۔ 

يماما کی چبھتی نظروں نے اس کا پيچھا کيا۔ پھر سر جھٹک کر وہ سامنے رکھے ابلے انڈوں۔ جيم اور سلائسز کی جانب متوجہ ہوئ۔ 

خاموشی سے ناشتہ کرنے ميں مصروف ہوگئ۔ جو بھی تھا اتنا تو اسے اندازہ ہو گيا تھا کہ وہ اسے کوئ نقصان نہيں پہنچاۓ گا۔ فی الحال تو اسے ايسا ہی لگا تھا۔

________________________

جب تک فاران وہاں پہنچا تب تک ڈاکٹرز نے يماما کے مرنے کی تصديق کردی۔ 

"مجھے اسکی ڈيڈ باڈی ديکھنی ہے" فاران اس وقت ضبط کی انتہاؤں پر تھا۔ 

ايمرجنسی کے باہر ميڈيا کا رش تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق ايکسيڈنٹ کے بعد يماما کا چہرہ مسخ ہو چکا تھا۔ 

اور ڈاکٹرز نے يہاں تک کہا تھا کہ اس نے کوئ زہريلی شراب پی ہے جس کی وجہ سے يہ حادثہ پيش آيا ہے۔ 

فاران کو اندر جانے کی اجازت نہيں دی جارہی تھی۔ 

"سوری سر۔۔ اس وقت ہم کسی کو بھی ڈيڈ باڈی تک نہيں جانے دے سکتے۔" وہاں موجود ايک ڈاکٹر نے اسے اندر جانے سے روکا۔ 

"وہ ميری فيملی تھی" 

"جی سر ہم جانتے ہيں۔ ليکن ابھی يہ معاملہ پوليس کيس سے مکمل طور پر نکل جاۓ پھر ہم ڈيڈ باڈی آپکے حوالے کرديں گے" اس ڈاکٹر کی بات پر فاران نے غصے سے اسے گھورا۔ 

پھر وہاں پر موجود پوليس کے بندوں کے پاس گيا۔ وہ سب فاران کو وکيل کی حيثيت سے بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ 

ان سے سب بات کلئير کروا کر۔ اور اس معاملے کی مزيد کوريج ختم کروائ۔ پوليس کے کہنے پر ڈاکٹرز نے ڈيڈ باڈی فاران کے حوالے کی۔ 

اس کا چہرہ تو پٹيوں ميں جکڑا ہوا تھا۔ 

مگر کانوں ميں موجود ائير رنگز جو خون ميں لتھڑے ہوۓ تھے فاران انہيں بہت اچھے سے پہچانتا تھا۔ 

ابھی کل رات پارٹی ميں اس نے يہی ائیر رنگز تو پہنے ہوۓ تھے۔ 

جسامت بھی سب يماما کی تھی۔ سرخ آنکھوں سے وہ اسے يوں موت کی آغوش ميں سوئے ديکھ رہا تھا۔ آنسو آنکھوں سے بہنے کو بے تاب تھے۔ 

جس يتميم خانے ميں يماما پڑھی بھلی تھی اسکے اونر صديقی صاحب بھی وہيں موجود تھے۔ غم سے نڈھال وہ اس کا مردہ وجود ديکھ رہے تھے۔ 

ايمبولينس ميں وہ يماما کی ڈيڈ باڈی کے ساتھ بيٹھ گۓ اور فاران اپنی گاڑی ميں بيٹھ کر گھر کی جانب روانہ ہوا۔ 

ابھی اس نے پوليس سے مزيد تفتيش روکنے کا کہا۔ 

وہ خود اسکی گاڑی ديکھنا چاہتا تھا۔ مگر اس سے پہلے اسے يماما کی تدفين کے ضروری مراحل طے کرنے تھے۔ 

اسے يہ يقين ہی نہيں تھا کہ يماما نے شراب پی ہوگی۔ 

گاڑی چلاتے ڈاکٹرز کی اس ساری بکواس پر اس کا دماغ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ 

وہ اسے بہت اچھے سے جانتا تھا۔ يماما نے آج تک کبھی کسی نشے کو ہاتھ تک نہيں لگايا تھا۔ وہ تو ان سب چيزوں سے نفرت کرتی تھی۔ 

فاران نے پوليس کو کہہ کر اس کا فليٹ بھی سيل کروانے کا کہا تھا۔ 

پوليس فی الحال فاران کی فيملی کی اجازت کے بغير اس کے فليٹ کی چھان بين نہيں کرسکتی تھی۔ 

_________________________

"مبارک ہو دوست" وہ دونوں اس وقت ٹی وی پر چلنے والی خبر ديکھ کر خوشی سے بغلگير ہوۓ۔ سميع نے اسے خوشی سے بھرپور لہجے ميں مبارکباد دی۔ 

"يہ سب تمہارے بغير ممکن نہيں تھا دوست" وقار اسکی پيٹھ تھپکتے ہوۓ بولا۔ 

"آج تو ہم جشن منائيں گے" وقار خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ بولا۔ 

دونوں يماما کی موت کی تصديق پر بے حد خوش تھے۔ 

"کيوں نہيں۔ سمجھو اب سکون کے دن آنے والے ہيں" سميع اور وہ پھر صوفوں پر بيٹھ چکے تھے۔ 

وقار پاس پڑے انٹرکام پر بيل دی۔ 

تھوڑی ہی دير بعد ايک ملازم ہاتھ باندھے اندر آيا۔ 

"بھئ آج رات کلب ميں زبردست سی پارٹی ہوگی۔ وہاں کی صفائ وغيرہ کرواؤ۔ جتنی شرابيں ختم ہوچکی ہيں۔ گودام سے نئ بوتليں نکلواؤ۔ ساتھ ميں باربی کيو کا انتظام بھی ہو۔ اور ہاں وہ جو بيک سائيڈ پر گيسٹ رومز کا ايريا ہے وہاں کی بھی صفائ کرواؤ۔ آج ہم بھر پور طريقے سے جشن منائيں گے۔" سب ہدايات ديتے ہوۓ وہ صوفے پر مزيد پھيل کر بيٹھا۔ 

"جگر تمہيں بھی آج خوش کرديں گے" ساتھ والے صوفے پر بيٹھے سميع کے بازو پر ہاتھ رکھ کر زور سے دباتے ہوۓ وہ جوش سے بولا۔ 

"بتاؤ۔ کون سی ماڈل يا ايکٹرس ميرے جگر کو پسند ہے آج اسے بلاتے ہيں تيرے لئے" وہ آنکھ دبا کر بولا۔ 

"ارے يار۔۔۔ ميں تو عرصہ ہوا شوبز کی دنيا سے دور ہی رہا ہون۔ مجھے نہيں معلوم آج کل کون کون ہے يہاں" سميع صاف گوئ سے بولا۔ 

"چل پھر تيرے لئے اپنی مرضی کی فٹ والی ماڈل کا انتظام کرتے ہيں۔ تو نے مجھے خوش کيا۔ اب تجھے خوش کرنا بھی تو ميرا فرض ہے نا" پھر سے ايک آنکھ دباتے خباثت سے ہسنتے ہوۓ بولا۔

سميع نے بھی اسکی ہنسی ميں اس کا بھرپور ساتھ ديا۔

يماما کو دفنانے کے بعد فاران سيدھا اس جگہ پہنچا جہاں اسکی گاڑی درخت سے ٹکرائ تھی۔ 

وہاں پہلے سے ہی پوليس نے اپنے بندے بھيج کر اس جگہ کو بھی سيل کرديا تھا۔ 

فاران غم سے نڈھال اس جگہ پہنچ چکا تھا۔ اسے ذرا برابر اميد نہين تھی کہ يہ صرف حادثہ تھا۔ اسے پورا يقين تھا کہ اسے مروايا گيا تھا۔ 

اور کس نے يہ ابھی اسے شک تھا۔ مگر وہ دل ميں مصمم ارادہ کرچکا تھا کہ وہ يماما کے مقصد کو نہ صرف يوں ہی چھوڑ دے گا۔ بلکہ اب وہ اسکے قاتلوں کو بھی انجام تک پہنچاۓ گا۔ 

بس اب اسے ثبوت اکٹھے کرنے تھے۔ 

وہاں پہنچ کر سب سے پہلے اس نے گاڑی تک رسائ کی۔ 

گاڑی کے ٹائر اس نے فورا جانچے تو وہ پنکچر تھے۔ 

وہاں سے ہٹ کر وہ فورا گاڑی کے اندر کی جانب بڑھا۔ 

دروازہ کھولا تو اسکی چند فائلز ڈرائيونگ سيٹ کے ساتھ موجود سيٹ پر بکھری پڑی تھيں۔ 

پوری گاڑی چھان ماری مگر اس کا موبائل کہيں بھی نہيں تھا۔ 

نہ ہی اس کا بيگ تھا۔ مگر چند فائلز تھيں۔ مگر يہ وہ والی تھيں جن کے کيسے وہ ڈيل کرچکی تھی۔ تو اب ان فائلز کو لے کر کہيں جانے کا کوئ مقصد نہيں تھا۔ 

اس نے پھر بھی وہ فائلز وہاں سے اٹھا ليں۔ 

باہر نکلا تو فنگر پرنٹس لينے کے لئے ٹيم آچکی تھی۔ جسے وہ يہاں آنے سے پہلے فون کرچکا تھا۔ 

"مجھے ايک ايک جگہ کے فنگر پرنٹس چاہئيں" انکے آفيسر کو تنبيہہ کرکے وہ فون ملانے لگا۔

يماما کے نمبر پر فون ملايا تو بيل متواتر جارہی تھی۔ 

يہ کيسے ہو سکتا تھا کہ وہ موبائل لے کر گھر سے نہ نکلتی۔ 

"کہيں کوئ موقع کا فائدہ اٹھا کر اس کا بيگ اور موبائل گاڑی سے چرا کر نہ لے گيا ہو۔" يکدم اسے خيال آيا۔ 

ہمارے ملک کا الميہ بھی تو يہی ہے کہ جہاں کوئ حادثہ ہوا نہيں وہاں اس قسم کے راہگير چور لازمی موجود ہوتے ہيں۔ 

کوئ زخمی يا موت سے گزر کر کسی حال ميں ہے۔ وہ کسی کو نہيں دکھائ دے گا۔ ہاں اسکے پاس کوئ قيمتی چيز ہو اسے دبوچنے ميں پہل کريں گے۔ اسی انسانيت نے ہمارے دل مردہ کررکھے ہيں۔ 

اور يقينا ايسے ہی مردہ دل کا مالک کوئ يماما کا بيگ اور موبائل لے اڑا ہوگا۔ 

"ہيلو فياض۔ ميں ايک نمبر سينڈ کررہا ہوں اسے فورا سے پہلے بلاک کرواؤ۔ اور اس کا اب تک کا کالز کا سب ريکارڈ مجھے جلداز جلد بھيجو" اپنے کسی دوست کو فون کرکے وہ وہاں سے نکل چکا تھا۔ 

ابھی پوليس نے فنگر پرنٹس لے کر يماما کی گاڑی اپنی تحويل ميں رکھنی تھی۔ 

فاران کا رخ اب يماما کے فليٹ کی جانب تھا۔

گاڑی ميں بيٹھ کر وہ اس کا رخ يماما کے فليٹس کی جانب کرچکا تھا۔

_____________________

صبح ناشتہ کرنے کے بعد وہ کمرے ميں جاچکی تھی۔ اتنا اسے اندازہ ہوگيا تھا کہ فی الحال وہ جتنے بھی ہاتھ پاؤں مار لے ابھی وہاں سے نکلنا ٹھيک نہيں۔ 

شہنشاہ ابھی چوکنا تھا۔ يماما کو اسے اب ايسا تاثر دينا تھا کہ وہ ان سے خوفزدہ ہوچکی ہے۔ تاکہ وہ اسکی جانب سے تھوڑے نرم پڑيں۔ 

اور يہيں سے وہ فائدہ اٹھا کر نکل بھاگے گی۔ 

يہی سب سوچتے وہ بيڈ پر نيم دراز تھی اور اسی طرح سو بھی گئ۔ 

اسکی آنکھ کسی کے گنگنانے سے کھلی۔ 

"يہ شام پھر نہيں آئے گی

اس شام کو اس ساتھ کو 

آؤ امر کرليں

ميں تمہارے قريب 

تم ميرے پاس ہو 

اور کچھ ہو نہ ہو

بس يہ احساس ہو" مدہم سی گنگناہٹ کے ساتھ ہی اسے اپنے چہرے پر کسی کی انگليوں کا لمس محسوس ہوا۔ 

وہ کرنٹ کھا کر سيکنڈ سے بھی پہلے سيدھی ہو کر بيٹھی۔ 

بے يقين نظروں سے اپنے بائيں جانب بيڈ پر بيٹھے شہنشاہ کو ديکھا۔ 

جس کی نظروں ميں اس وقت الگ ہی چمک تھی۔ يماما کے يوں تيزی سے اٹھنے پر وہ طيش ميں آنے کی بجاۓ ہولے سے مسکرايا۔ 

"گھٹيا پن پر اتر آۓ" يماما طنز کے تير برساتی بيڈ پر سے اٹھ کر سامنے موجود صوفے پر بيٹھی۔ 

"تم تو اتنی خالص ہو کہ تمہارے ساتھ گھٹيا پن پر چاہ کر بھی نہيں اتر سکتا" ايک سرد آہ بھرتے ہوۓ اس نے سائيڈ ٹيبل پر موجود سگار سلگايا۔ 

"مگر يوں ميری سونے کا فائدہ اٹھا کر ميرے کمرے ميں آکر يہ سب بکواس کرنا۔۔۔۔ گھٹيا پن نہيں تو اور کيا ہے" وہ دانت پيس کر بولی۔ 

"ارے واہ تم نے تو بہت جلد ميری اميدوں پر پورا اترنا شروع کرديا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ميرا کمرہ" واہ۔۔ مزہ آيا سن کر" سر کو ہولے ہولے جنبش ديتا منہ سے دھواں اڑاتا وہ محظوظ کن انداز ميں بولا۔ 

يماما اسے لتاڑ رہی تھی اور وہ اپنے ہی راگ الاپ رہا تھا۔ 

"آئںدہ مجھے ہاتھ مت لگانا۔۔ ورنہ ميں بہت برا حشر کروں گی۔۔ اور اب مجھے بتاؤ کہ اس اغوا کا کيا مقصد ہے۔ تم کيا سوچ رہے ہو۔۔ يا سوچ چکے ہو۔ اور کس خوش فہمی ميں ہو وہ بھی بتا دو" يماما نے اسکی حرکتوں پر چڑتے ہوۓ پوچھا۔ 

"ارے ارے سانس تو لو۔۔ يہاں بھی کٹہرا کھول کر بيٹھ گئ ہو۔۔ کوئ پيار محبت کی بات کرو۔۔" وہ حيرت سے ہنستے اسے اور غصہ دلا گيا۔ 

"تم پتہ نہيں کن خوش گمانيوں ميں ہو۔۔ عجيب کوئ بے ڈھنگے دہشتگرد اور چور اچکے ہو۔۔ تمہيں يہ سمجھ ہی نہيں آرہی کہ ميں تمہاری اتنی انسلٹ کررہی ہوں۔ مجھے کسی طور تم گوارا نہيں ہو۔ مگر تم ہو کہ اثر ہی نہيں کوئ تم پر" وہ اب کی بار حيرت کی زيادتی سے بولی۔ 

شہنشاہ اسکے انداز پر ہلکا سا قہقہہ لگا کر اپنی جگہ سے اٹھ کر يماما کی جانب بيڈ پر اسکے مد مقابل بيٹھا۔ 

"پہلی بات تو يہ کہ اس اغوا کا مقصد تمہيں ہميشہ کے لئے اپنا بنانا ہے۔۔ دوسری بات چور اچکا ہوں يہ ڈاکو ہوں۔۔ جو بھی کہو بس اب سے صرف تمہارا ہوں" ہاتھ دل پر رکھے ہولے سے جھکتا ہوا وہ اسے پاگل کے سوا کچھ نہ لگا۔ 

"اوہ۔۔ يہ شادی والی پليننگ تو تم اپنے دماغ سے بالکل ہی نکال باہر کرو" يماما نے اب کی بار کڑے انداز ميں اسے وارن کيا۔ 

"کيوں؟" شہنشاہ نے پل بھر کی بھی دیر کئے بنا سوال پوچھا۔ 

"کيونکہ ميں پہلے سے ہی شادی شدہ ہوں۔" اس نے اپنی طرف سے بہت بڑا دھماکا کيا۔ مگر دوسری جانب جيسے کوئ فرق نہيں پڑا۔

"اچھا ۔۔۔ وہ جس کو مرے ہوۓ بھی اب کتنے ہی سال ہوگۓ ہيں۔۔ لہذا تصحيح کرلو۔۔ شادی شدہ نہيں بيوہ" يماما کے لئے اسکے لفظوں کے نشتر سہنا آسان نہيں تھے۔ 

چند لمحوں کے لئے وہ اپنے بارے ميں اسکی اتنی معلومات پر گنگ رہ گئ۔ مگر پھر جلد ہی سنبھل گئ۔ 

"بيوہ ہوں يہ سہاگن۔۔ تم سے کوئ مطلب نہيں۔ ميرے لئے جو کچھ تھا وہی ايک شخص تھا۔ نہ اس سے پہلے کسی کی خواہش کی تھی۔ اور نہ اب اسکے بعد کسی کی خواہش ہے۔ 

لہذا تم اپنا وقت برباد مت کرو۔۔ بہت سی مل جائيں گی تمہيں" اس نے جيسے ہر بات ختم کردی۔ 

"مگر مجھے يماما ہی چاہے۔ سچی۔۔ کھری۔۔ باوفا۔۔ تمہيں چند گھنٹوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ فيصلہ کرلو۔ نکاج کرکے رہو گی يا۔۔۔۔" شہنشاہ اب کی بار سب کچھ اس پر واضح کردينا چاہتا تھا۔ اور اس نے کر بھی ديا تھا۔ 

"ميرا فيصلہ چند سيکنڈز۔ چند منٹوں۔ چند گھنٹوں اور چںد سالوں کيا مرتے دم تک يہی ہے۔۔اور اس کے علاوہ ميں نے کوئ آپشن اپنی زندگی ميں رکھا ہی نہيں ہے۔ 

تم نے کچھ اور سوچا بھی تو ميں اپنی زندگی ختم کرنے ميں ايک پل کی بھی دير نہيں کروں گی۔ ياد رکھنا" يماما نے ايک ايک لفظ پر زور ديتے جيسے اس کی ہر خوش فہمی کو غلط فہمی بنا ديا۔ 

"مگر ميں تمہيں يہ چںد گھنٹے دينا چاہتا ہوں۔ اور کياتم دنياسے يوں ہی اپنا مقصد پورا کئے بنا چلی جاؤ گی۔ تو کيا پھر اگلے جہان ميں بھی خود کو معاف کرپاؤ گی"شہنشاہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اب دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ 

مگر اسکے منہ سے نکلنے والے الفاظ يماما کو پھر سے گنگ کر گۓ۔ 

يہ کون تھا۔۔ جو اسکے ماضی سے واقف تھا۔ وہ تو ربيعہ۔۔ فاران اور احمد کے علاوہ اور کوئ نہيں جانتا تھا۔ پھر يہ سب اسے کيسے پتہ چلا ہے۔ 

يماما نے پہلی بار اب سنجيدگی سے شہنشاہ کے بارے ميں سوچا۔ 

"کون ہو تم؟" اسے وہ کوئ بہروپيہ لگا۔ 

شہنشاہ اس کے حيرت ميں لپٹے سوال پر کمرے کا دروازہ کھولتے کھولتے ہولے سے مسکرايا مڑ کر اسکی جانب ديکھا اور پھر سينے پر ہاتھ رکھ کر ہولے سے جھکا۔ 

"تمہارا خادم" سيدھے ہوتے اس کی آنکھوں ميں چھپے مشکوک سے تاثرات نے شہنشاہ کی مسکراہٹ کچھ ہور گہری کی۔

مزيد کچھ بھی کہے بنا خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گيا۔

___________________________

"ہيلو سر جی۔ اب ان ٹرکوں کا کيا کريں گے" وہاج اس وقت اپنے فليٹ پر بيٹھا تھا۔ 

يماما کی موت کی خبر پر اس نے بھی سکھ کا سانس ليا تھا۔ 

اس حادثے کا مطلب يہ تھا کہ اب کچھ عرصہ اس کا کيس التوا ميں جانے کی کافی حد تک اميد تھی۔ 

"ہاں يار اب معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ تو جس طرح ہم نے پلين کيا تھا۔ اسی طرح ان منشيات کے ٹرک جانے دو۔ بارڈر پر ميں نے پوليس کے چند بندے لگا دئيے ہيں۔ وہ بہت آسانی سے ہمارا مال نکلوا ديں گے۔ ساتھ ہی ساتھ جو اسلحے کے ٹرک ہيں انہيں بھی نکلنے دو۔ اور انہی کے ذريعے چند دہشتگرد بھی واپس چلے جائيں گۓ۔ کيونکہ يہاں وزيرستان کے حالات بہت کشيدہ ہوگۓ ہيں۔ ہمارے ان بندوں کا اب يہاں رکنا خطرے سے خالی نہيں۔ اور اگر يہ بندے پکڑے گۓ تو سمجھو ميں تو سيدھا تختہ دار پر لٹکوں گا۔ کيونکہ يہ وہی بندے ہيں جن کی فوٹيج اس لڑکی کے پاس ہيں۔" وہاج موقع کا فائدہ اٹھا کر جلد سے جلد ہر ثبوت ختم کرنا چاہتا تھا۔ 

"ٹھيک ہے سر کوئ مسئلہ ہی نہيں سب انتظام بہت اچھے سے ہوجاۓ گا" اس نے وہاج کو پوری طرح تسلی کروائ۔ 

"بہت احتياط سے انہيں ميری حويلی سے نکالنا۔ کسی کو بھی شک نہ ہو کہ وہ میری حويلی ميں تھے۔" وہاج نے ايک اور ہدايت دی۔ 

"ميرا بيٹا انہيں ميری حويلی سے نکال کر گاؤں کے فارم ہاؤس تک پہنچا دے گا۔ تم نے فارم ہاؤس سے انہيں آگے لے کر جانا ہے" 

"ٹھيک ہے سر آپ بے فکر ہوجائيں" اس نے پھر سے وہاج کی تسلی کروائ۔ 

پوری تسلی کرکے اس نے فون بند کيا۔ 

اور ساتھ ہی کہيں اور فون گھمايا۔ 

"ہيلو۔۔ ہاں بھئ آج رات کا کيا پلين ہے۔" دوسری جانب کی گفتگو سننے کے بعد اس نے ايک ٹھنڈی سانس بھری۔ 

"ارے يار بڑے دنوں بعد تو اس ذہنی پريشانی سے آزادی ملی ہے۔ بس مجھے بتا دو۔ کتنے پيسوں کا جوا رکھا ہے ميں ليتا آؤں گا" چہکتی آواز ميں اس نے پوچھا۔ 

"چلو ٹھيک ہے۔ ميں نکلتا ہوں پھر" فون بند کرکے وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ جوا کھيلنے نکل پڑا۔

"تم نے پوری طرح اس جگہ کا نقشہ سمجھ ليا ہے" شمس اور نائل کے ہمراہ ان کی پوری ٹيم اس وقت انکی مخصوص جگہ پر موجود تھی۔ 

"جی سر۔۔ يہ پورا نقشہ اسی جگہ کا ہے۔ اور يہ جو ميں نے ريڈ لائن لگائ ہے۔ يہ اس جگہ رسائ حاصل کرنے کا سب سے محفوظ راستہ ہے ہمارے لئے۔ اس راستے پر زيادہ تر ڈاکو موجود ہوتے ہيں۔ 

وہاں کا کوئ رہائشی بھی اس جگہ سے رات کے اس پہر نہيں گزرتا۔" ذيشان نے ٹيبل پر پھيلاۓ نقشے پر مارک کرتے ہوۓ کہا۔ 

"اور يہ جو گرين لائن والا راستہ اس پر دکھائ دے رہا ہے۔ يہ ان کے خاص لوگو استعمال کرتے ہيں۔ يہ شارٹ کرٹ راستہ بھی ہے اور دوسرا يہاں پر بھی کسی کی نظر کم ہی پڑتی ہے۔ مگر يہ کافی کچا راستہ ہے۔ جس پر سواۓ جيپ کے اور کوئ دوسری گاڑی نہيں جاتی" اس نے ايک اور راستے کی نشاندہی کی۔ 

"ٹھيک ہوگيا۔ بس پھر اللہ کا نام لے کر نکلو تم لوگ بھی" اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے شمس نے اپنی گيارہ بندوں پر مشتمل ٹيم ديکھی۔ 

"ٹھيک ہے سر" وہ سب بھی اپنے اپنے يونيفارم ميں اٹھ کھڑے ہوۓ۔ سب اس وقت سياہ يونيفارم ميں اسلحے سے ليس تھے۔ 

"يہ دونوں بندے آج پکڑے جانے بہت ضروری ہيں۔ ورنہ ہمارا يہ کيس کمزور پڑ سکتا ہے" شمس نے انہيں پھر سے تنبيہہ کی۔ 

"ان شاءاللہ سر"وہ سب يک زبان ہوۓ۔ جن ميں سب سے بلند آواز نائل کی تھی۔

________________________

فاران کچھ دير پہلے ہی يماما کے فليٹ سے واپس آيا تھا۔ مگر وہاں بھی اسے ايسا کوئ تسلی بخش ثبوت نہيں ملا جس کی بناء پر وہ کسی پر کوئ الزام لگا سکتا۔ 

مگر اسے اتنا يقين ضرور تھا کہ اس کام کے پيچھے وقار يا وہاج ميں سے ہی کوئ تھا۔ 

کچھ دن پہلے جيسے وہ يماما کے آفس آکر اسے دھمکی لگا کر گيا تھا اس سب سے يہ بات واضح ہوتی تھی کہ يقينا اس سب ميں کہيں نہ کہيں وہ ملوث ہے۔ 

"کيا بنا" ربيعہ غم سے نڈھال اس وقت بمشکل خود کو سنبھال کر فاران کے کمرے ميں آئيں۔ 

سارا دن لوگوں کا تانتا بندھا رہا تھا۔ رو رو کر انکی آنکھيں بری طرح سوجھ چکی تھيں۔ 

فاران بيڈ کے ساتھ پشت ٹکاۓ بيٹھا تھا۔ آنکھيں سامنے ديوار پر ٹکی تھيں۔ 

ماں کو کمرے ميں آتے دیکھ کر سيدھا ہو کر بيٹھا۔ 

وہ آہستہ روی سے چلتی ہوئيں اسکے سامنے بيڈ پر بيٹھيں۔ 

"ابھی تو کچھ پتہ نہيں چلا۔ بس اب اس کی گاڑی اور فليٹ پر موجود فنگر پرنٹس کے نشانوں کا کچھ پتہ چلے تو معاملہ آگے بڑھاؤں گا" ان کے ہاتھ پکڑ کر بے بسی سے وہ سر جھکا گيا۔ 

"ميری بچی کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہونے والی تھی۔ اللہ يہ کيا ہوگيا۔۔ميں۔۔ ميں بالکل تہی دست رہ گئ" فاران کے ہاتھ تھامنے کی دير تھی۔ وہ پھر سے رونے لگ گئيں۔ 

اور وہ جس نے سارا وقت ضبط سے سب معاملات سنبھالے تھے۔ ماں کے سامنے سارا ضبط کھو گيا۔ 

"ميں اسے ہميشہ منع کرتا تھا۔ يماما يوں لوگوں کے ساتھ ضد مت لگايا کرو۔ يہ دنيا بھيڑيوں کی ہے۔ مگر۔۔" وہ ماں کی گود ميں سر رکھے شدت گريہ سے رو پڑا۔ 

"مگر وہ نہيں سنتی تھی۔ اس پر تو بس ايک ہی دھن سوار تھی۔ لوگوں کو انصاف دلانے کی۔ اور اب۔۔ اب جب وہ اپنے خاندان کو انصاف دلوانے چلی تھی۔ تو يوں ان درندوں اور بھيڑيوں کی نذر ہوگئ" دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودئيے۔ 

"اس نے ہمارا بھی نہ سوچا۔ کہ ہم اس کے بنا کيسے رہيں گے" آنسو تھے کہ آنکھوں سے ختم نہيں ہورہے تھے۔ 

وہ دل کا سب غبار ماں کے سامنے نکال رہا تھا۔ 

ربيعہ داياں ہاتھ اسکے کندھے پر پھير رہی تھيں اور بائيں ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کررہی تھيں۔ 

"بس بيٹا۔ مجھے تو يہ تکليف کھاۓ جارہی ہے۔ کہ نجانے ميری بچی نجانے کس تکليف سے گزری ہوگی۔۔ يہی سوچ سوچ کر لگتا ہے دل پھٹ جاۓ گا" منہ پر ہاتھ رکھے وہ سسکيوں سے رو رہی تھيں۔ 

"ميں چھوڑوں گا نہيں۔ اسے جس نے ميری يماما کے ساتھ يہ سب کيا ہے۔ ميں مان ہی نہيں سکتا کہ يہ حادثہ تھا۔۔" جب دل کھول کر رو ليا تب آنسو صاف کرکے وہ ماں کی گود سے اٹھا۔ انکے ہاتھ تھامے وہ ايک بار پھر وثوق سے بولا۔ 

"يماما کے قاتلوں کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ۔ اب جس کام کا بيڑہ ہماری يماما نے اٹھايا تھا۔ اسے ميں پايہ تکميل تک پہنچاؤں گا۔ اس کے جن دشمنوں کی سزا باقی رہ گئ ہے وہ ميں دلواؤں گا۔ اب وہاج اور وقار کا کيس ميں لڑوں گا" وہ ايک عزم سے بولا۔ 

ربيعہ نے دکھتی آنکھوں سے بيٹے کو ديکھا۔ جس کے چہرے پر الگ ہی روشنی تھی۔ وہ جانتی تھيں کہ يماما ان کے بيٹے کی اولين خواہش بن چکی تھی۔ مگر وہ يہ بھی جانتی تھيں کہ يماما کی خواہش کوئ اور تھا۔ اور اس کے علاوہ وہ کسی کا تصور نہيں کرسکتی تھی۔ 

اسی لئےفاران کی خواہش جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی يماما سے يہ تذکرہ نہيں کيا تھا۔ انہيں يماما کی خوشی ہميشہ سے زيادہ عزيز تھی۔ 

مگر کيا پتہ تھا کہ وہ اتنی مختصر زندگی لکھوا کر لائ تھی۔ 

"ضرور بيٹا۔ شايد ميری بيٹی کی روح کو تبھی سکون ملے۔ ميری بچی۔۔ ميری يماما" وہ پھر سے رونے لگيں۔ 

فاران نے انہيں کندھے سے لگا ليا۔

_______________________

جب سے وہ يماما کی سچائ اسکے سامنے رکھ کے گيا تھا۔ يماما تب سے وہيں کتنی ہی دير حيران بيٹھی تھی۔ آخر يہ کون تھا۔ 

اب تک ماضی کی فلم چلا کر وہ ہزار بار سوچ چکی تھی کہ اپنی شادی کے بارے ميں اس نے فاران، ربيعہ اور احمد کے علاوہ کبھی کسی کو بتايا ہے کہ نہيں۔ 

مگر بھولے سے بھی اسے کوئ ايسا لمحہ ياد نہيں آيا کہ اس نے کسی اور سے اس سب کا تذکرہ بھی کيا ہو۔ 

وہ بہت محتاط تھی۔ پڑھائ کے دوران بھی وہ بس سب سے سلام دعا کی حد تک بات چيت کرتی تھی۔ دوست کا درجہ سواۓ فاران کے اس نے کسی کو نہيں دے رکھا تھا۔ 

فاران تھا بھی اتنا اچھا دوست کہ اس کے ہوتے يماما کو کبھی ضرورت ہی نہين پڑی تھی کہ وہ کسی اور سے دوستی بھی کرتی۔ 

کافی دير گزر چکی تھی۔ 

وہ کچھ سوچتی ہوئ کمرے سے باہر نکلی۔ پورے کاٹيج مين خاموشی تھی۔ 

وہ آہستہ سے سيڑھياں اتر کر اس کمرے کی جانب بڑھی۔ 

جہاں صبح ناشتے کے بعد اس نے شہنشاہ کو جاتے ديکھا تھا۔ 

مگر اس لمحے وہاں کوئ بھی نہيں تھا۔ پورا کمرہ چھان مارا مگر وہاں کوئ ذی روح نہ تھا۔ کمرہ بھی اپنے مالک کی طرح شان و شوکت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ 

اس کا بيڈ ہی تاج کی شکل کا تھا۔ کمرے ميں جابجا تلواريں ديواروں سے لٹکی تھيں۔ تو کہين بندوقيں تھيں۔ 

دبيز قالين پورے فرش پر بچھا تھا۔ 

وہ کچھ سوچتی ہوئ آہستہ سے ان بندوقوں کی جانب بڑھی۔ 

ہاتھ لگا کر ان ميں سے ايک بندوق اٹھانی چاہی 

"ميم۔ آپ کو اس کی اجازت نہيں" يکدم اس کے پيچھے سے خاموشی ميں ايک نسوانی آواز سنائ دی۔ 

وہ صحيح معنوں ميں اچھل پڑی۔ 

يکدم مڑ کر پيچھے ديکھا۔ تو ايک لڑکی سياہ لباس ميں سليقے سے بالوں کو پيچھے باندھے۔ ہلکے سے ميک اپ ميں سپاٹ چہرہ لئے موجود تھی۔ 

اسے يکدم شہنشاہ کی بات ياد آئ۔ "تم ہر وقت ميرے بندوں کی نگرانی ميں ہو" کتنا صحيح کہا تھا اس نے نجانے يہ لڑکی آئ کہاں سے تھی۔ 

"تم کون ہو؟" يماما نے تيوری چڑھا کر اس سے پوچھا۔ 

"ملازم" اس نے يک لفظی جواب ديا۔ 

"تم آئ کہاں سے ہو؟" يماما نے ايک اور سوال کيا۔ وہ لڑکی خاموش رہی۔ 

"ميں نے کچھ پوچھا ہے تم سے" وہ کڑک دار آواز مين بولی۔ 

"ميں آپ کے کسی سوال کا جواب دينے کی پابند نہيں ميم" نہايت مہذب انداز ميں اس نے صفا چٹ جواب يماما کو دیا۔ 

"واہ۔۔ شہنشاہ کی طرح اس کے ملازم بھی شہنشاہ ہی ہيں" وہ دل ميں سوچ کر رہ گئ۔ 

"آپ پليز اپنے کمرے ميں جائيں۔ یا پھر باہر لاؤنج ميں" وہ روبوٹ کی طرح بول رہی تھی۔ 

"حکم تو ميں کسی کے باپ کا بھی نہين مانتی۔ رہوں گی تو اب اسی کمرے ميں" اس کے حکميہ انداز پر وہ بھی طيش مين آگئ۔ 

"آپ کی مرضی ہے ميم۔۔ سر بہت غصہ کريں گے۔" وہ پھر سے اسے تنبيہہ کرنے لگی۔ 

"تمہارے سر کو مين کسی کھاتے ميں نہيں لاتی۔ جاؤ يہاں سے" يماما نے اسے ٹالنا چاہا۔ 

"سوری ميم۔۔ آپ کا وہ حکم ہمين ماننے کی اجازت نہيں جس ميں آپ کو خطرہ ہو۔ يا پھر آپ سر کے لئے خطرے کا باعث بنيں" يماما اس کی حاضر جوابی پر حيران ہوۓ بغير نہ رہ سکی۔ چن کر ملازم رکھے تھے۔ 

"تمہارے خيال ميں ۔۔ ميں تمہارے باس کو مارنے کے لئے يہاں سے گن يا پھر کوئ تلوار چرا لوں گی؟" يماما نے پھر سے اس سے سوال کيا۔ 

"ملازم اپنی سوچ اور سمجھ بوجھ نہيں رکھتے ميم۔" اس کے جواب پر اب کی بار وہ ہولے سے مسکرائ۔ 

"بھئ ماننا پڑے گا شہنشاہ کی ہر چيز ہی لاجواب ہے۔۔ ويسے تمہيں ڈر نہيں لگتا اپنے سر سے۔۔عجيب بھوتوں والا حليہ ہے" وہ کہاں باز آنے والوں ميں سے تھی۔ اسے باتون ميں الجھا کر پورے کمرے کا جائزہ بھی ليتی جارہی تھی۔ 

"ميم۔۔ يہاں ہر بات ريکارڈ ہو رہی ہے" اس نے يماما کو اطلاع دی۔ 

"ہاہاہا۔۔ اگر ريکارڈ نہ ہورہی ہوتی تو تم يقينا ميری بات سے اتفاق کرتی" وہ قہقہہ لگا کر بولی۔ 

مگر سامنے والی سپاٹ چہرہ لئے ہی کھڑی رہی۔ 

"ميم پليز کسی چيز کو ہاتھ مت لگائيں۔" اب وہ بيڈ کے سائيڈ ٹيبلز کے درازوں کا جائزہ لينے لگی۔ 

اس لڑکی نے پھر سے اسے نہ صرف روکا۔ بلکہ اسکے پاس آکر سختی سے اس کا ہاتھ ہٹا کر دراز بند کيا۔ 

"ديکھو ميں تمہارے ساتھ کوئ بدتميزی نہيں کرون گی۔ پليز مجھے يہاں سے نکلوا دو" وہ اب کی بار پيچھے ہو کر شرافت سے کھڑی اس سے مدد مانگنے لگی۔ 

"اس کا جواب آپ کو سر ہی ديں گے۔ ہميں جس کام کے لئے رکھا ہے ہم وہی کرتے ہين۔ آپ اب باہر چليں" اب وہ يماما کو بازو سے پکڑ کر باہر لے آئ۔ يماما بھی خاموشی سے باہر آگئ۔ 

کيونکہ دراز ميں موجود اپنا موبائل وہ بے حد خاموشی سے اٹھا چکی تھی کہ اس لڑکی کو بھی علم نہ ہوا۔

رات کے پہر اس سنسان سڑک سے دھول اڑاتی گاڑی اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔ 

يکدم گاڑی ہچکولے کھا کر رک گئ۔ انہيں اميد تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی۔

ڈرائيور نے گاڑی فورا روکی۔ 

جھاڑيوں کے چاروں اور سے سياہ لبادے ميں لپٹے بہت سے لوگ ان کی لينڈ کروزر کا گھيراؤ کئے کھڑے تھے۔ 

کالے شيشوں والی اس لينڈ کروزر کے اندر کون تھا۔ وہ ديکھنے سے قاصر تھے۔بندوقوں کی نالوں کا رخ ہر جانب سے گاڑی کی جانب تھا۔ 

پچھلی سيٹ کا شیشہ بے حد آہستگی سے نيچے ہوا۔ 

"کون ہو تم لوگ۔۔ باہر نکلو" سياہ لبادوں ميں موجود ايک شخض شيشے کے قريب آکر رعب دار انداز ميں بولا۔ سب کے چہرے نقاب ميں پوشيدہ تھا۔ 

گاڑی کی کھڑکی کے قريب موجود چہرہ اس شخص کو کچھ جانا پہچانا لگا۔ 

"ابے تيرا باپ ہوں ميں۔۔ يہ بندوقيں نيچے کرو۔۔ اور تيتر بتر ہو جاؤ يہاں سے" گاڑی ميں سے آنے والی رعب دار اور کڑک آواز نے ان سب کو لمحہ بھر کو گنگ کيا۔ 

"ک۔۔کک۔ کون؟" جو شخص باہر نکلنے کا رعب جھاڑ رہا تھا۔ آواز سن کر وہ گھبرايا۔ 

"تمہارا باپ۔۔ شہنشاہ۔۔ حرامو اب تم لوگوں کو تعارف کروانا پڑے گا" وہ دانت پيس کر بولا۔ 

"مم۔۔ معاف کرديں۔ حضور ۔۔ اوو۔۔ سب بندوقيں نيچے کرو" اس نے فورا گھگھياتے ہوۓ اپنے ساتھيوں کو آواز لگائ۔ بدمعاشوں کے سردار سے وہ کيونکر پنگا لے سکتے تھے۔ 

اب تک صرف اس کا نام سن رکھا تھا۔ اور نام ہی کافی تھا۔ 

"معافی سرکار" يکدم وہ ہاتھ جوڑے اس سے معافی مانگنے لگا۔ 

"اپنے دماغ ميں بٹھا لو۔ ايسے خطرناک راستے جن کا لوگ صرف تصور کرتے ہيں۔ شہنشاہ کی اصل گزرگاہ ہی يہی راستے ہوتے ہيں۔ کسی اور مائ کے لعل کی ہمت نہيں ہوتی ايسے راستوں سے گزرنے کی۔ آئندہ احتياط کرنا" اسے تنبيہہ کرتے اس نے گاڑی کا شيشہ دوبارہ چڑھايا۔اور يہ جا وہ جا۔

وہ سب ابھی تک پيچھے کھڑے کانپ رہے تھے۔ سب جانتے تھے اس سے دشمنی مول لينے والا کہاں جاتا ہے کوئ نہيں جانتا۔

____________________

رات ہو چکی تھی مگر شہنشاہ کا کوئ اتا پتہ نہيں تھا۔ يماما نے شکر ہی ادا کيا۔ 

يہاں رہ کر بھی اس نے کون سے جھنڈے گاڑھ دينے تھے سوائے اس کا خون جلانے کے۔ مگر وہ حيرت زدہ تھی کہ آخر وہ اس کے بارے ميں اتنی معلومات کيسے رکھتا تھا۔ 

اس پر دو حرف بھيجتی وہ قميض کی آستين ميں چھپے موبائل کی جانب متوجہ ہوئ۔ 

اس لڑکی کے مطابق اس کی ايک ايک حرکت کو شہنشاہ کيمرے کی آنکھ ميں ريکارڈ کررہا ہے تو کمرے ميں بھی وہ ان کيمروں اور مائيک سے محفوظ نہيں تھی۔ 

آخری ٹھکانہ واش روم تھا۔ 

وہ فورا سے پہلے واش روم کی جانب بڑھی۔ 

اندر آتے ہی اس نے چٹخنی چڑھائ۔ موبائل کو آستين ميں سے نکالا۔ آن کيا ہی تھا کہ نو سگنل نے منہ چڑھايا۔ يماما نے مايوسی سے موبائل کو ديکھا۔ لانے کا کوئ فائدہ نہيں ہوا تھا۔ 

"اگر ميرے سگنل نہيں آرہے۔ تو اس منحوس کا موبائل يہاں کيسے چلتا ہے۔" اس نے صبح کی ہی ناشتے کے دوران شہنشاہ کو موبائل پر ميسج ٹائپ کرتے ديکھا تھا۔ 

"جن تو ہے۔۔ کر ليا ہوگا کوئ جادو ٹونہ" وہ غصے سے سر جھٹک کر رہ گئ۔ دل ہی دل ميں شہنشاہ کو ہزاروں صلواتيں سنائيں۔ 

"اب پھر سے اس کے رحم و کرم پہ۔" اس نے سر اٹھا کر بے بسی سے اردگرد کو ديکھا۔ 

اور مايوس ہوتی باہر آگئ۔

__________________

اس فارم ہاؤس سے کچھ ہی دور جھاڑيوں ميں انہوں نے اپنی گاڑی روکی۔ 

يہاں سے آگے کا راستہ انہيں بے حد خاموشی سے طے کرنا تھا۔ اور گاڑی کی آواز يقينا اندر موجود لوگوں کو چوکنا کر سکتی تھی۔ 

يکے بعد ديگرے گاڑی سے گيارہ بندے نکلے۔ 

"ميں فرنٹ پر رہوں گا" نائل نے اترتے ہی کہا۔ 

"نہيں نائل۔۔ تم تين بندوں کے بعد آؤ گے" ذيشان نے فورا اسکی بات مسترد کی۔ 

"ميں يہاں صرف اپنا فرض ادا کرنے نہيں آيا۔ ان لوگوں کی طرف ميرا بہت حساب نکلتا ہے اور يہ حساب مجھے مجبور کرتا ہے کہ ميں ان پر ہاتھ ڈالنے والا پہلا بندہ ہوں"اس کے لہجے ميں چھپے درد سے وہ سب آشنا تھے۔ 

"مگر ہم چاہتے ہيں تم ان سے بدلہ لينے تک زندہ رہو۔ اور ہم جس فيلڈ سے ہيں وہاں زندگی سے پہلے موت کھڑی ہوتی ہے" سعد نے بھی آگے بڑھ کر ذيشان کی تائيد کرتے نائل کو روکا۔

ان سب کی اپنے ساتھ وفاداری، خلوص اور محبت سے تو وہ کبھی انکار نہيں کرسکتا تھا۔ 

لہذا اب کی بار وہ خاموشی سے ان کی بات مان گيا۔

اب کی بار ذيشان آگے، اس کے پيچھے سعد اور پھر نائل اور اس کے پيچھے باقی کی ٹيم موجود تھی۔ 

وہ سب سياہ نقاب ميں موجود تھے۔ صرف آنکھيں اور ناک نقاب سے باہر تھے۔ باقی کا چہرہ نقاب ميں ڈھکا ہوا تھا۔ 

سب کے کانوں ميں ائير فون موجود تھے۔ 

ہاتھ ميں بندھی گھڑياں معمولی نوعيت کی نہيں تھيں۔ سب کے پاس اس گھڑی ميں نقشہ موجود تھا اور اپنا ٹارگٹ سرخ نقطوں کی صورت انہيں بآسانی نظر آرہا تھا۔ 

ہاتھوں ميں ڈاٹ گنز تھيں۔ 

"خيال رہے کہ کسی بھی صورت ميں ان دونوں بندوں کو ہم نے زندہ پکڑنا ہے۔" نائل نے مائيکرو فون پر ايک بار پھر سے سب کو ہدايت دی۔ 

"کنسيڈر اٹ ڈن" سب نے يک زبان کہا۔ 

ان کے پيروں ميں چمڑے کے ايسے جوتے تھے جو ذرا سی آواز تک پیدا نہيں کرتے تھے۔ 

کچھ دور مسلسل ايک لائن کی صورت ميں جھاڑيون کے درميان سے بھاگتے بھاگتے وہ سب اب فارم ہاؤس کے قريب پہنچ چکے تھے۔ 

فارم ہاؤس کے اردگرد کھڑے مسلح پہرہ داروں کو سب سے پہلے انہوں نے ہٹانا تھا۔ 

شير دل اور فواد دونوں سنائيپرز تھے۔ 

نائل نے انہيں فورا ان مخصوص جگہوں پر کھڑے ہونے کا اشارہ کيا جسے وہ پہلے سے ہی طے کر چکے تھے۔ 

خود وہ بے حد خاموشی سے رينگتے ہوۓ سانپ کی مانند درخت پر چڑھ چکا تھا۔ 

تاکہ پوری طرح ديکھ سکے کہ کون سے پہرہ دار کہاں موجود ہے۔ اپنی بائنوکيولر سے وہ سب جانب بڑے آرام سے ديکھ سکتا تھا۔ 

باری باری اس نے جن پہرہ داروں کی نشاندہی کی۔ 

شير دل اور فواد نے چن چن کر ان کا نشانہ ليا۔ 

اب اندر جانے کے لئے ان کا راستہ صاف تھا۔ 

فارم ہاؤس کی ديواريں کسی قلعے کی ديواروں سے کم نہ تھيں۔ 

اور اس پر ديواروں پر اس وقت کرنٹ چھوڑا ہوا تھا۔ 

نائل نے اس کا بھی انتظام کررکھا تھا۔

اس نے اپنی کمر پہ ايک بيگ پيک باندھ رکھا تھا۔ فورا اس ميں سے سپائيکس والے جوتے نکالے۔ وہ پہن کر دو لوہے کے نوکيلے منہ والے راڈ اپنے دونوں ہاتھوں ميں تھام کر ايک روڈ ديوار پر مارا دوسرا روڈ اس کے اوپر زيادہ فاصلے پر مارا۔ اوپر والے راڈ کو پکڑ کر نيچے والے راڈ پر پاؤں رکھا۔ 

پھر اسی طرح ايک اور راڈ نکال کر ايک ہاتھ سے دوسرے راڈ سے اور اوپر مارا۔ پھر دوسرے راڈ پر پاؤں رکھ کر تيسرے راڈ کو تھاما پھر چوتھا راڈ بيگ سے نکال کر اسے بھی اسی طرح ديوار کے اندر تک دھنسا ديا۔ اور يوں وہ ديوار کے اوپری حصے تک پہنچ گيا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ايک ڈيوائس بڑی احتياط سے ربڑ کے دستانے پہن کر تار سے اس ڈيوائس کو جوڑا۔ چند سيکنڈز ميں ان تاروں ميں دوڑنے والی برقی رو جامد ہو چکی تھی۔ 

"اوپر چڑھو۔" ديوار کے دوسری جانب چھلانگ لگاتے ہوۓ اس نے باقيوں کو بھی آنے کا سگنل ديا۔ 

سبھی اس کی تقليد کرتے ہوۓ ديوار پھلانگ کر فارم ہاؤس ميں داخل ہوچکے تھے۔ 

ذيشان پھر سے آگے تھا۔ 

وہ سب پورے فارم ہاؤس ميں بکھر چکے تھے۔ 

سوئمنگ پول کے پاس ان کا ٹارگٹ موجود تھا۔ 

چند لوگ رہائشی حصے کی جانب بڑھ چکے تھے۔ 

جبکہ نائل، سعد اور ذيشان تينوں تيزی سے سوئمنگ پول والے حصے کی جانب بے آواز قدموں سے بڑھ رہے تھے۔ 

پول کے نزديک آتے ہی وہ تينوں پلر کی اوٹ ميں ہوچکے تھے جہاں سے وہ بڑی آسانی سے ان چاروں کو ديکھ سکتے تھے۔ 

ان ميں سے دو غير ملکی آدمی تھے۔ باقی دو ميں سے ايک وہاج کا بيٹا اور ايک وہاج کا وہی بندہ تھا جس نے آج رات ان دہشت گردوں کو بارڈر پار پہنچانا تھا۔

نائل نے اپنی ڈاٹ گن کو ٹارگٹ پر رکھا۔ 

"ويٹ نائل ميں اس والے پلر کی اوٹ مين ہوتا ہوں پھر تم نشانہ لو۔ ميں وہاں سے دوسرے کا لوں گا۔ تاکہ انہيں بھاگنے کا موقع نہ ملے۔ اور نہ ہی وہ سمجھ سکيں کہ يہ نشانے کہاں کہاں سے لئے جارہے ہيں" ذيشان نے ٹريگر دبانے سے پہلے نائل کو روکا۔ 

"اوکے۔ اور سعد جيسے ہی ذيشان بھی نشانہ لے۔ تم نے فورا سے پہلے بھاگ کر تيسرے پلر کی جانب جانا ہے۔ اور ان کے سامنے سے بھاگتے ہوۓ جانا ہے۔ اتنی ہی دير ميں ميں گن سے فائر کرون گا۔ 

تاکہ وہ اور بوکھلا جائيں۔" نائل کے کہنے پر اب سعد کو اپنی ٹائمنگ اسی حساب سے سيٹ کرنی تھيں۔ 

سب سے پہلے نائل نے ايک غير ملکی کی گردن کا نشانہ ليا۔ 

يکدم وہ نيچے گرا۔ وہاج کا بيٹا اور اس کا وہ ساتھی جس نے غير ملکيوں کو لے کر جانا تھا وہ يکدم بوکھلا کر اس پر جھکے۔ 

اسی اثناء ميں ذيشان نے دوسرے کا نشانہ ليا اور وہ بھی گر پڑا۔ 

"يہ ۔۔۔يہ کيا ہورہا ہے" تيمور وہاج کے چہرے پر خوف کی پرچھائياں لہرانے لگيں۔ وہ دونوں انہيں چھوڑ کر اردگرد ديکھنے لگی۔ 

اتنی دير ميں سعد ايک جانب سے بھاگتا ہوا پول کے لان سے ہو گزر کر تيسرے پول کی اوٹ ميں چھپ گيا۔ 

وہ دونوں اور بھی حواس باختہ ہوگۓ۔ 

"يہ يہ۔۔۔ کون ہے۔۔" ان دونوں کا ہاتھ فورا اپنی اپنی پاکٹس ميں موجود گن کی جانب بڑھا۔ 

"شرفو۔۔ وحيد۔۔۔کہاں مر گۓ ہو سارے" تيمور يکدم چلا کر اپنے ملازموں کو آوازيں دينے لگا۔ 

"سمجھو سب مر ہی گۓ ہيں" يکدم نائل پلر کی اوٹ سے نکل کر گن کا رخ ان دونوں کی جانب کئے باہر نکلا۔ 

اس کے پيچھے پيچھے ذيشان اور سعد بھی اسی انداز ميں گنز ان کی جانب تانے باہر آۓ۔ 

"ک۔۔ ککک۔ کون ہو تم لوگ" وہ دونوں ہکلاۓ۔ گنز نکال چکے تھے۔ 

"تمہارے باپ کے بھی باپ۔۔۔ گنز پھينکو" نائل نے کڑک آواز ميں کہا۔ 

"تت۔۔ تم اندر کيسے آگۓ" وہ پھر سے حيران پريشان پوچھنے لگے۔ 

"آسمان سے ايک پری ہميں يہاں پھينک گئ ہے۔۔" نائل نے پھر سے بيزار لہجے میں جواب ديا۔ 

"نمبر تھری۔۔۔۔ انکی تلاشی لی" نائل نے کارڈورڈ ميں سعد کو اشارہ کيا۔ 

سعد نے آگے بڑھ کر ان دونوں کی گنز قابو ميں کيں اور ساتھ ہی ساتھ تلاشی لينے لگا۔ 

اتنی دیر ميں اندر جتنے ملازم تھے۔ نائل کے باقی بندے ان پر گنز تانے انہيں لئے باہر آچکے تھے۔ 

تيمور کی جيب سے ميری جوائنا کے بہت سے پيکٹس نکلے۔ 

"سر يہ ہے" نائل نے ايک نظر ان پيکٹس کو ديکھا۔ 

اور آگے بڑھ کر ايک زوردار بٹ اسکے سر پر رسيد کيا وہ درد سے بلبلا اٹھا۔ 

"اٹھاؤ ان سب کو۔۔" وہ غصے سے بولا۔ 

"ان دونوں کو کيوں لے کر جانا ہے؟"ذيشان نے آہستہ سے نائل کے کان ميں کہا۔ 

"يہ پلين ميں شامل نہيں تھا" وہ پھر سے اسے باور کروانے لگا۔ 

"مگر اب پلين ميں شامل ہوگيا ہے" نائل نے يقينا کچھ سوچ رکھا تھا۔ 

اب کی بار ذيشان خاموش ہوگيا۔ 

اس کے باقی ملازموں کو باندھ کر ۔

تيمور اور وہاج کے بندوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہ ان غير ملکيوں کے ساتھ ساتھ انہيں بھی اپنے سيل ميں لے آئۓ

_________________________

اگلے دن صبح ہی فاران ليب ميں پہنچ چکا تھا۔ 

"کيا رپورٹس آئ ہيں؟" ليب اسسٹنٹ کے سر پر کھڑا وہ بے چينی سے پوچھ رہا تھا۔ 

"يار کچھ فنگر پرنٹس تو بالکل سيم ہيں۔ الماری پر لگے ہاتھوں کے فنگر پرنٹس۔ دروازے کے لاک پر لگے فنگر پرنٹس۔ اور بھی بہت سی جگہوں کے۔۔۔جبکہ الماری پر ايک اور طرح کے فنگر پرنٹس بھی ملے ہيں۔ جو باقی جگہوں پر لگے فنگر پرنٹس سے مختلف ہيں۔ اور اس دن گاڑی کے دروازے اور اسٹيرنگ پر لگے فنگر پرنٹسس بھی دوسری قسم کے فنگر پرنٹس کی ڈٹو کاپی ہيں۔ جس کا مطلب ہے۔ ايک رات پہلے يماما کے فليٹ پر اس کے علاوہ کوئ اور بھی تھا۔ اور اگلے دن بھی اسکی گاڑی کسی اور نے ڈرائيو کی ہے۔ اور اگلے دن اس گاڑی ميں يماما کے فنگر پرنٹس تھے ہی نہيں" وہاں ايک تفتيشی آفسر بھی موجود تھا۔ اور وہ فنگر پرنٹس کو پہلے ہی ليب آپريٹر سے ڈسکس کرچکا تھا۔ 

يہ سب انکشاف سن کر فاران کی تو ہوائياں اڑ گئيں۔ 

"مگر جو لڑکی۔۔۔مطلب۔۔ اس ڈيڈ باڈی نے يماما کے ہی ائیر رنگز پہن رکھے تھے۔ اور تو اور اس کی گردن پر بھی يماما کے جيسا جھلسنے کا نشان موجود تھا۔ جو کہ بہت سالوں سے اسکی گردن پر موجود تھا۔ اور اس کے بعد ہی ميں نے چہرے کو ديکھے بنا يہ جان ليا تھا کہ يہ يماما ہی ہے۔ اس کا قد کاٹھ۔۔ جسامت ۔۔ سب۔۔۔" فاران سر پر ہاتھ پھيرے حيران پريشان اپنی کيفيت بيان کررہا تھا۔ 

"ہم يہ نہيں کہتے کہ وہ يماما نہيں۔ مگر يہ يقينا اس کيس کو اور مشتبہہ بنا رہا ہے۔ اور يقینا يہ قتل کا کيس ہی ہے" تفتيشی آفيسر نے اس کی بات کی تصديق کی۔ 

"مگر يہ سب کيا معمہ ہے؟" فاران حقيقت ميں الجھ کر رہ گيا تھا۔ 

"تم نے کہا کہ يماما کا سيل اور بيگ اس کے فليٹ اور گاڑی دونوں ميں نہيں۔ تو ہو سکتا ہے يہ اس قاتل کی تحويل ميں ہو۔ تمہارے پاس اس کے موبائل کا آئ ايم ای آئ نمبر موجود ہے؟" آفيسر نے اسے ايک اور رخ دکھايا۔ 

"ہاں۔ ہاں بالکل ہے۔" فاران نے تيزی سے اپنا موبائل نکالا۔ 

اس کی عادت تھی جب بھی نيا موبائل اس کے گھر والے ليتے۔ ان کا آئ ايم ای آئ نمبر کی تصوير وہ لے کر اپنے موبائل ميں محفوظ کرليتا۔ يماما کے موبائل کے آئ ايم ای آئ نمبر کی تصوير بھی اس کے موبائل ميں تھی۔ 

"بس پھر يہ تصوير مجھے سينڈ کرو۔ کيونکہ اس کی مدد سے موبائل آرام سے کمپنی کے ذريعے ٹريس ہوجاۓ گا۔ جيسے ہی وہ آن ہوگا۔ اور ايک اور کام کرو اسے ان بلاک کرواؤ" اس آفيسر نے ايک اور حل فوری بيان کيا۔ 

"ٹھيک ہے ميں ابھی اپنے دوست کو کال کرتا ہوں جس نے بلاک کيا تھا" فاران نے فورا سے پہلے کال ملائ۔

__________________________

اگلے دن صبح اسکی آواز کمرے پر ہونے والی دھڑ دھڑ سے کھلی۔ کيونکہ رات ميں وہ کمرے کی چٹخنی چڑھا چکی تھی۔ لاک ہوتا تو شہنشاہ کب کا کھول چکا ہوتا۔ 

اسی ڈر سے يماما نے رات ميں سونے سے پہلے دروازے پر موجود خٹخنی چڑھا دی۔ 

"کيا مصيبت ہے" وہ نہيں جانتی تھی کہ دوسری طرف شہنشاہ ہے۔

"دروازہ کھولو پھر بتاتا ہوں کون سی مصيبت ہے" دوسری جانب سے آنے والی شوخ آواز پر يماما کے يکدم کان کھڑے ہوۓ۔ 

دوپٹہ درست کرتی کھڑی ہوئ۔ آہستہ سے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ 

"تم خود کسی مصيبت سے کم نہيں۔۔ آگۓ واپس۔۔ " دروازہ کھول کر پيچھے ہٹتے اس نے طنز کيا۔ 

"تم ميرے ہی انتظار ميں تھيں۔۔۔افف دل خوش کر ديا شہنشاہ کا" دروازے کی چوکھٹ سے ٹيک لگاۓ اسکی گہری چمکتی آنکھيں اس لمحے کچھ اور بھی روشن لگ رہی تھيں۔ 

"ہاں۔۔ ميری جوتی اور زبان شدت سے تمہاری منتظر تھے" منہ بگاڑ کر بولتے۔ وہ دروازے سے ہٹ کر اندر کی جانب بڑھی۔ جانتی تھی۔ اب اندر آکر جب تک وہ اس کا دماغ نہيں کھاۓ گا اسے سکون نہيں ملے گا۔ 

"ارے واہ۔۔ ان دونوں کو بھی مجھ سے محبت ہو ہی گئ" وہ کہاں ہارنے والوں ميں سے تھا۔

"ہاں ہوگئ ہے۔ اسی خوشی ميں مجھے واپس چھوڑ آؤ" بيڈ پر بيٹھ کر وہ کوفت زدہ لہجے ميں بولی۔ 

وہ بھی اس کے سامنے موجود صوفے پر براجمان ہوچکا تھا۔ 

"نکلنا تو پڑے گا اب يہاں سے ۔کيونکہ جو کارنامہ تم نے کل کيا ہے اس کے بعد ميں تمہيں يہاں نہيں رکھ سکتا" اب کی بار وہ سنجيدہ لہجے ميں بولا۔ 

"کيا مطلب؟" وہ حیران ہوئ۔ 

"موبائل کہاں ہے تمہارا" شہنشاہ کے لہجے ميں سنجيدگی کے ساتھ ساتھ اب ہلکا سا غصہ بھی تھا۔ 

"کون سا موبائل؟" وہ بھی يماما تھا اتنی جلدی ہتھيار کيسے ڈال ديتی۔ 

"وہی جو کل تم نے ميرے کمرے سے چرايا ہے" شہنشاہ نے اب کی بار پورے و‌‌ثوق سے کہا۔ 

"پتہ نہيں کيا بکواس کررہے ہو۔۔ سٹھيا گۓ ہو" يماما نے تيوری چڑھا کر کہا۔ 

اب اس کے انکار کرنے پر شہنشاہ طيش کے عالم ميں اپنی نشست سے اٹھا۔ اور اس کے بيڈ کے سائيڈ ٹيبل کے دراز کو کھولا۔ 

"يہ موبائل نہيں تو کيا تمہارا کيلکوليٹر ہے" وہ غصے سے دھاڑا۔ 

"ناکارہ موبائل اب ميرے کس کام کا۔۔ نہ سگنل آتے ہيں اور نہ ہی انٹرنيٹ۔۔ ميں کيا لڈياں ڈالوں اسے لے کر" يماما اس کے غصے سے متاثر ہوۓ بنا بڑے آرام سے بولی۔ 

"اس سے اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اور يقينا ہوچکا ہوگا" شہنشاہ نے موبائل کو آف کرتے ہوۓ۔ پاکٹ مين رکھا۔ 

"اٹھو۔ ہميں ابھی اوراسی وقت يہاں سے نکلنا ہے" يماما کو اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ وہ دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔ 

"ميں اب يہاں سے سیدھا اپنے گھر جاؤں گی۔ سمجھے تم" وہ تڑخ کر بولی۔ 

"اپنے گھر بھی لے جاؤں گا۔ اتنی جلدی کيا ہے" پريشانی ميں بھی وہ شوخی سے باز نہيں آيا۔ 

"تمہارے گھر نہيں اپنے گھر" وہ تصحيح کرتے ہوۓ بولی۔ 

"ايک ہی بات ہے" وہ دروازے پر کھڑا پھر سے پہلے والی جون ميں لوٹ آيا تھا۔ 

"شہنشاہ ميں منہ توڑ دوں گی اب تمہارا" وہ انگلی اٹھا کر اپنے مخصوص لہجے ميں بولی۔ 

"زہے نصيب۔۔ پاس آکر ہی توڑو گی نا" ايک آنکھ دبا کر وہ مسکراہٹ دباۓ بولا۔ 

يماما نے دل ميں ہزاروں گالياں ديں۔ 

"تم جيسوں کے لئے ہی کسی نے کہا ہے"در فٹے منہ" يماما چبا چبا کر بولی۔ نائل کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ 

"اچھا چلو۔۔ اب ساری زندگی لڑنا ہی ہے تم نے ابھی نکلو" اب کی بار وہ اسکے قريب آکر بازو سے پکڑنے لگا۔ 

"ہاتھ مت لگانا مجھے" وہ خود کو پيچھے کرتے ہوۓ بولی۔ 

"تو کس زبان مين کہوں کہ چلو يہاں سے" وہ غصے سے بولا۔ 

"نہيں جاؤں گی" پہلی بار اس نے شہنشاہ کو اپنے سامنے بے بس ديکھا تھا۔ 

"يماما فضول کی ضد مت کرو چلو" اس نے ايک بار پھر ہاتھ پکڑنا چاہا۔ اب کی بار يماما نے زور سے ايک مکا اسکے سينے پر مارا۔ شہنشاہ اس کی توقع نہيں کررہا تھا۔ 

اب کی بار جارحانہ انداز ميں اس نے يماما کا بازو تھاما۔

"عزت سے پيش آرہا ہوں تو اسے راس آنے دو۔۔ ورنہ ميں بہت برا ہوں" اسکے چہرے کے نزديک آتے اپنی غضبناک آنکھوں کو اس کی آنکھيں ميں ڈالے ايک ايک لفظ پر زور دے کر بولا۔ 

يماما کا بازو تھامے غصے سے اسے اپنے ساتھ گھسيٹتا نيچے لايا۔ 

اس وقت شايد ان کے علاوہ وہاں اور کوئ نہيں تھا۔ 

اب اس کا رخ داخلی دروازے کی جانب تھا۔ 

وہاں سے باہر آتے ہی يماما نے ايک لمبی لوہے کی موٹی تار ديکھی۔ جس اس گھرسے منسلک تھی۔ اس کا ايک سرا اس کاٹيج کی چھت سے جڑا تھا۔ جبکہ دوسرا حصہ نيچے گہری کھائيوں سے ہوتا ہوا۔ کسی درخت يا پہاڑ سے جڑا تھا۔ 

وہ سرا جو کاٹيج کی چھت سے منسلک تھا۔ اس کے ساتھ بڑی بڑی تاريں اس شکل ميں جڑی تھيں۔ کہ ان کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر جب اس رسی پر لٹکا جاۓ تو وہ آسانی سے اس موٹی تار سے پھسلتی ہوئ بندے کو نيچے پہاڑ کی جانب لے جائيں۔ 

يماما کو اب سمجھ آئ تھی کہ وہاں آنے اور جانے کا طريقہ کيا تھا۔ 

شہنشاہ تيزی سے اپنے گرد پيراشوٹ باندھ رہا تھا۔ شايد حفظ ماتقدم کے طور پر کہ اگر اس رسی سے ہاتھ چھوٹ بھی جاۓ تو پيرا شوٹ کی مدد سے جان بچائ جاسکے۔ 

"ہميں ابھی اور اسی وقت يہاں سے نکلنا ہے۔" شہنشاہ نے گويا اسے اطلاع دی۔ 

"ميں يہاں سے ہر گز ہر گز نہيں جاؤں گی" وہ جانتی تھی کہ يہاں سے جانے کا کيا طريقہ تھا۔ يعنی اب وہ يہاں سے نکلتے ہوۓ مکمل طور پر شہنشاہ کے رحم و کرم پر تھی۔ اور شہنشاہ اسے چھو لے يہ اسی کسی طور گوارا نہيں تھا۔ 

"مجھے تم اس کھائ ميں دھکا دے دو۔ مگر ميں اس انداز ميں تو يہاں سے بالکل نہيں نکلوں گی" شہنشاہ کو ايک مضبوط ہک سے بندھی رسی کو پکڑتے ديکھ کر وہ چلائ۔ 

"مجھے سمجھ نہيں آرہی تمہيں اس قلعہ مين بھی ميرے يہاں سے نکل بھاگنے يا کسے کے مجھ تک پہنچنے کا خطرہ ہے؟" اس کے انداز اب يماما کو کچھ کچھ سمجھ آرہے تھے۔ 

"کيا ميرے موبائل سے کوئ مجھ تک پہنچ سکتا ہے؟" وہ اب اپنے شک کو سوال ميں ڈھال رہی تھی۔ 

"جی ہاں۔کيونکہ دنيا کی نظر ميں تم ايک کار حادثے ميں مر چکی ہو۔ اور ميری بھيجی گئ تمہاری ڈوپليکيٹ کو مين نے ايسے شو کروايا تھا کہ يماما کو اسکے دشمن اب تک مار چکے ہيں۔ اب تمہاری کل والی حماقت کی وجہ سے سب سے پہلے تمہارا عاشق حرکت ميں آکر تمہاری آئ ايم ای آئ نمبر سے اس جگہ کو ٹريس کروا چکا ہے۔ اب اگر مين اس موبائل کو يہاں پھينک کر ضائع کر بھی دون۔ جو کہ ميں کرنے لگا ہوں۔ تب بھی وہ اس جگہ کی نشاندہی کر چکے ہيں۔ اور تمہيں تمہارے دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا جو کھيل ميں نے کھيلا تھا وہ تمہاری ہوشياری اور تمہارے اس فاران کی وجہ سے خاک ميں ملنے والا ہے۔ لہذا مجھے تمہيں يہاں سے ہر صورت نکالنا ہے" شہنشاہ کے انکشاف اسے گنگ کرگۓ۔ 

"ميں۔۔۔ ميں مر گئ ہوں" وہ ابھی تک اسی بات ميں اٹکی ہوئ تھی۔ 

"ہاں۔۔ مگر ميری حور پری بن کر زندہ ہو" شہنشاہ شوخ لہجے ميں بولا۔ 

"مگر ميرے دشمنوں سے تمہارا کيا واسطہ" وہ اچنبھے سے بولی۔ 

"تمہيں کيا اپنی کک بنانے کے لئے اتنے پاپڑ بيل کر لايا ہوں ميری رانی" شہنشاہ کا دل کيا اپنا سر پيٹ لے۔ 

"تم سے واسطہ تو تمہارے دشمنوں سے تم سے زيادہ اب ميرا واسطہ ہے۔ باقی باتيں گاڑی ميں بيٹھ کر ابھی نکلو۔ تم نے مجھے مضبوطی سے پکڑنا ہے باقی نيچے جانے کا کام ميرا" شہنشاہ اب اسکی جانب ايک بيلٹ لئے بڑھا۔ جو اسکی کمر پر باندھنے کے بعد اسے خود سے لگا کر اس نے اس بيلٹ کا ايک حصہ اپنی کمر پر باندھنا تھا تاکہ يماما محفوظ ہوجاۓ اور پھر يوں اسے اپنے ساتھ لگاۓ۔ وہ ہک سے لپٹی رسی کو تھامے پہاڑ سے نيچے اس موٹی تار کی مدد سے اتريں گے۔ 

"تم پاگل تو نہيں ہوگۓ۔ ميں ہر گز يہ سب نہيں کروں گی۔ تم ہو ہی کون ميرے۔۔ " وہ اس کے ارادے جان کر بھنائ۔ طريقہ تو وہ سمجھ ہی گئ تھی۔ 

"يماما ضد مت کرو اس وقت" شہنشاہ اب کی بار بگڑا۔ 

"نہيں۔۔ ہر گز نہيں۔۔ ميں تمہارے ساتھ يوں۔۔۔ کبھی بھی نہيں مر کر بھی نہيں" يماما پيچھے کی جانب ہوتے مسلسل نفی ميں سر ہلانے لگی۔ 

"شہنشاہ کے ساتھ نہيں جاؤ گی۔۔ نائل کے ساتھ تو جاؤ گی" اب کی بار شہنشاہ نے نرم لہجے ميں پوچھا۔

اور يہ پوچھنا ہی يماما کے اعصاب پر دھماکا کر گيا۔ 

"کک۔۔ کيا کہہ رہے ہو تم۔۔ کون ہو تم۔۔۔ تم ۔۔ تم نائل کو کيسے جانتے ہو۔۔" يماما پھٹی پھٹی آنکھوں سے وحشت زدہ سی اسے ديکھ رہی تھی۔ 

شہنشاہ نے گہری سانس خارج کرکے ايک فيصلہ کيا۔ اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے۔ 

يماما خاموشی سے لب سئے اس کی ايک ايک حرکت کو ديکھ رہی تھی۔ 

شہنشاہ نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر انگلی سے کچھ کھرچا۔ اسکی جلد وہاں سے اکھڑ گئ۔ تين انگليوں ميں اپنی جلد کا وہ اکھڑا حصہ پکڑکر اسے اوپر کی جانب کرتے کھينچ کر اتارا وہ کوئ ماسک تھا۔ 

يماما نے يکدممنہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چيخ کا گلا گھونٹا۔

کيونکہ اس ماسک کے نيچے سے ہلکی سی شيو والا کوئ اور ہی چہرہ يماما کے سامنے تھا۔ 

وہ لمبے بال اور گھنی داڑھی مونچھيں اس ماسک کے ساتھ اتر چکی تھيں۔ اور جو چہرہ نظر آيا وہ بے حد جانا پہچانا۔ 

"تمہارا خادم نائل" شہنشاہ نے سينے پر ہاتھ رکھے اسکی پھٹی پھٹی حيرت زدہ نظروں ميں ديکھتے ہولے سے مسکرا کر کہا۔   

فاران شدت سے اس تفتيشی آفيسر کی فون کال کا منتظر تھا۔ 

"کيا بات ہے بيٹا۔ جب سے آئے ہو پريشان لگ رہے ہو۔ کچھ پتہ نہيں چل سکا يماما کے قاتلوں کا" ربيعہ کب سے فاران کو بے چین ديکھ رہی تھيں۔ 

سپارہ پڑھتے بار بار نظر اس کے مضطرب چہرے پر جارہی تھی۔ 

ابھی ايک ہی دن تو ہوا تھا يماما کی وفات کو۔ کچھ دير پہلے ہی اس کے قل ادا کئے گۓ تھے۔ مہمان سب ہی جا چکے تھے۔ احمد بھی کسی سے ملنے گۓ ہوۓ تھے۔ 

ربيعہ اس وقت لاؤنج ميں ہی بيٹھی قرآن کی تلاوت ميں مصروف تھيں۔ کل سے دل کو قرار ہی نہيں مل رہا تھا۔ 

يماما گوکہ ان کے ساتھ نہيں رہتی تھی۔ مگر انہيں اطمينان تھا کہ وہ يہيں پر ہے۔ ان کے ساتھ نہ سہی مگر ان کے آس پاس اسی دنيا مين موجود ہے۔ 

مگر کل اس کی موت کے بعد سے ان کی بے حد بری حالت تھی۔ 

سب نے سمجھايا مگر دل کو قرار کيسے آسکتا تھا۔ 

آخر احمد کے کہنے پر اس وقت قرآن لے کر بيٹھيں تو لگا جيسے کہيں جذبات ميں ٹہراؤ آيا ہے۔ 

فاران صبح کا گھر سے نکلا ختم کی دعا سے کچھ دير پہلے گھر آيا تھا۔ 

اور تب سے غائب دماغ اور بے چين تھا۔ 

آخر اس وقت ربيعہ نے وجہ پوچھ ہی لی۔ 

"نہيں اماں مگر اميد ہے جلد ہی ہم ان تک پہنچ جائيں گے" سامنے صوفے پر بيٹھی ربيعہ کو اس نے چونک کر ديکھا۔ 

موبائل ہاتھ سے رکھ کر انہيں تسلی بخش جواب دیا۔ 

اسی اثناء مين اس کے موبائل کے بجنے کی آواز آئ۔ 

سرعت سے ہاتھ بڑھا کر ٹيبل پر رکھا موبائل پھر سے اٹھا کر وہ صوفے سےاٹھ کھڑا ۔

"ہيلو جی سر" وہ بات کرتا ہوا باہر لان ميں چلا گيا۔

"فاران۔ يماما کا موبائل ٹريس ہوگيا ہے۔ مگر اس کا قاتل شمالی علاقہ جات کے کسی علاقے ميں موجود ہے۔ہميں کم از کم بھی آج رات تک کا وقت لگے گا وہاں تک پہنچنے ميں" اس نے تفصيل سے سچ فاران کو بتايا۔ 

"کوئ مسئلہ نہيں۔ آپ فورا سے پہلے وہاں جائيں۔ کيا ميں ساتھ جاسکتاہوں؟" فاران کا بس نہيں چل رہا تھا کہ اس کے قاتل کو فورا سے پہلے منظر عام پر لاۓ۔ 

"ارے نہيں۔ ہماری ٹيم کے علاوہ اور کسی کو اجازت نہيں اس طرح کے مشن پر نکلنے کی۔ ميں تمہيں وقتا فوقتا آگاہ کرتا رہوں گا" اس نے سہولت سے فاران کو منع کيا۔ 

"ٹھيک ہے۔" فاران نے ايک دو بات کے بعد فون بند کيا۔ اب اسے اطمينان تھا کہ يماما کے قاتل تک وہ جلد ہی پہنچ جاۓ گا۔ 

جب تک پوليس اسے پکڑ نہيں لاتی تب تک اس نے يماما کا ادھورا کام مکمل کرنا تھا۔ 

اسی رات اس نے وقار کی وہ ويڈيو جس ميں اس نے يماما کے آفس آکر اسے دھمکی دی تھی۔ اس کی بناء پر اس کے خلاف کيس تيار کيا۔ جس ميں يماما کے مرنے کو واضح طور پر قتل قرار ديا۔ اس کی گاڑی کے ٹائر پنکچر ہونے کا حوالہ بھی ديا۔  

اب يہ کيس اسے اگلے دن عدالت ميں پيش کرنا تھا۔

________________________

"نائل" وہ محض ہونٹوں کو جنبش ہی دے پائ۔ حواس تو کب کے گم ہو چکے تھے۔ وہ کيسے اپنی آنکھوں اور اپنی سماعتوں پر يقين کرتی۔ 

جس شخص پر وہ اپنے باقی پياروں کے ساتھ بہت سے سال پہلے فاتح پڑھ چکی تھی۔ وہ يکدم يوں سامنے آگيا۔ 

اس کے حواس تو معتل ہونے ہی تھے۔ 

"ہاں تمہارا نائل" نائل نے اس کے حیرت زدہ چہرے کو نظر بھر کر ديکھا۔ 

"ي۔۔يہ۔۔کيسے ہوسکتا ہے۔۔۔نائل۔۔ زندہ" وہ ہکلا کر بولی۔ چہرے سے اب حيرت کی جگہ بے يقينی ٹپک رہی تھی۔ 

"ابھی يہاں سے چلو۔۔ پليز گاڑی ميں بيٹھ کر ميں تمہيں سب کچھ بتاؤں گا"نائل نے التجا کی۔ 

"مگر۔۔۔" يماما اب تک بے يقينی کے زير اثر تھی۔ وہ يقین کرتی بھی تو کيسے۔ 

کن کن مشکلوں سے ساری زندگی گزری تھی۔ وہ بھی اکيلی۔ اگر وہ زندہ تھا تو اب تک اس کے پاس کيوں نہيں آيا تھا۔ اور پھر يوں اچانک آکر ۔۔ شہنشاہ کا روپ دھار کر۔ يہ سب کيا معمہ تھا۔ 

سوالوں کی ايک لمبی قطار اس کے دماغ ميں چلنا شروع ہوگئ تھی۔ 

"مم۔۔۔ميں ۔۔۔ميں کيسے مان لوں کہ آپ ہی نائل ہيں" اسکی نگاہوں ميں شک ہلکورے لينے لگا۔ 

"کيونکہ عزتوں والے ہی عزتوں کی حفاظت کرنا جانتے ہيں۔ اگر ميں بدمعاش اور دہشتگرد ہی ہوتا۔ تو تمہاری عزت کی پرواہ کبھی نہ کرتا۔ اور اپنے دل سے پوچھ کر بتاؤ۔ کيا يہاں آنے کے بعد کسی بھی لمحے تمہيں ميری موجودگی ميں يہ خوف آيا ہے کہ مين تمہارے ساتھ کچھ غلط کروں گا۔۔" نائل کے اتنے واضح جواب کے بعد واقعی شک کی کوئ گنجائش نہيں تھی۔ وہ تبھی تو حيرت زدہ تھی کہ يہ کس قسم کا دہشتگرد ہے جو يماما کو غلطی سے بھی غلط نيت سے نہيں ديکھتا۔

" مگر پھر بھی " وہ پھر سے خوف اور بے يقينی سے اسے ديکھتے بولی۔ اس کی تشويش غلط نہيں تھی۔ اتنی صعبتوں کے بعد وہ يہ کيسے يقين کرلے کہ 'اس کی زندگی' 'اس کا نائل' اسی دنيا ميں کہيں تھا۔ 

نائل چند قدم آگے آيا۔ وہ جان گيا کہ يقين کے کچھ جگنو اس کے ہاتھ ميں اس وقت تھمانے بے حد ضروری ہيں۔ 

ورنہ وہ تو ٹس سے مس ہونے کو تيار نہيں تھی ۔ 

آنسوؤں کا وہ سمندر جو وہ نجانے کتنے سالوں سے اپنے اندر چھپائے بيٹھی تھی۔ اب کسی اپنے کو نظروں کے سامنے ديکھ کر آنکھوں سے بہنے کو تيار تھا۔ 

نائل نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں ميں تھاما۔ محبتوں کے جگنو آنکھوں ميں لئے وہ بھی جيسے اس کے ايک ایک نقش کو حفظ کررہا تھا۔ 

"اللہ نے مجھے تمہارے لئے بچا لیا تھا۔ نجانے کتنے سالوں سے ان لمحوں کا انتظار کررہا تھا۔ کہ تمہيں بتاؤں ۔۔يقین دلاؤں کے ميں تمہارے آس پاس ہی ہوں۔ اللہ نے ہميں جدا نہيں کيا۔ مگر بہت سی رکاوٹيں تھيں۔ جنہوں نے مجھے تم تک آنے نہيں ديا۔ ميں وہ سب تمہيں بتاؤں گا۔ مگر اس وقت يہاں سے چلو۔۔ ميں دوبارہ جدائ تمہارے اور اپنے بيچ کبھی نہيں آنے دوں گا۔ سواۓ موت کے" يماما پلک تک نہيں جھپکا رہی تھی۔ آنسو تھے کے لڑی کی صورت بہے چلے جارہے تھے۔ جنہيں نائل محبت سے اپنی ہتھيلیوں ميں جذب کررہا تھا۔ 

اپنی موجودگی کا يقين اس نے يماما کے ماتھے پر پيار کی مہر کی صورت دلايا ۔ يماما نے آنکھيں بند کرکے جيسے   

اس کے ہونے کی حقيقت کو قبول کيا۔ اسکے کندھے سے سر لگاۓ آنسوؤں کو بہنے ديا۔ اسے ایسا لگا جيسے تپتی دھوپ سے وہ ٹھنڈی چھاؤں ميں آکھڑی ہو۔ 

وہ زندگی جو اسکے لئے محض سانسوں کا چلتا ايک ربط تھا۔۔ اب ان لمحوں ميں اسے ايسا محسوس ہوا کہ جيسے زندگی کے تار دوبارہ وہيں سے جوڑے ہيں جہاں سے وہ يماما کو ختم ہوتی محسوس ہوئ تھی۔ 

نائل نے دھيرے سے اسکے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا حصار باندھ کر زور سے اسے خود ميں بھينچ کر جیسے خود کو يقين دلايا۔ کہ جن لمحوں کو وہ خواب سمجھتا تھا۔ 

آج مجسم اس کے سامنے ہيں۔ اس کی کل کائنات اس وقت اسکے مضبوط بازوؤں ميں خود کو دنيا سے چھپاۓ کھڑی تھی۔ 

آنکھيں موندے وہ ان لمحوں کے زير اثر تھے۔ نائل نے بڑی مشکل سے خود کو يہ باور کروايا کہ اسے ابھی ان لمحوں کو مختصر کرکے يہاں سے نکلنا ہے۔

آنکھيں بمشکل کھول کر اس نے ہاتھ ميں پکڑی بيلٹ کا ايک سرا يماما کے گرد باندھا اور دوسرا سرا اپنی کمر کے گرد مضبوطی سے باندھ کر اسے تحفظ ديا۔ 

"يماما۔۔ ہميں ابھی يہاں سے فوری نکلنا ہے" يماما کے کان کے قريب اس نے سرگوشی کی۔ 

يماما نے بمشکل سر اٹھا کر اپنی آنکھيں صاف کيں۔ 

"چليں؟" نائل نے اس کی آنسوؤں سے بھيگی آنکھوں کو سواليہ نظروں سے ديکھا۔ 

وہ کيسے نہ خود کو اسکے حوالے کرتی وہ شہنشاہ نہيں تھا۔ جو اس کا نامحرم ہو۔۔

وہ تو نائل تھا۔۔ اس کا محرم۔۔ اس کا ناکح۔۔اور وہ اسکی منکوحہ۔ جس کے لئے اس نے اپنی ساری زندگی دان کررکھی تھی۔ نہ اس سے پہلے کوئ اس  کی زندگی ميں تھا اور نہ اسکے بعد کوئ اس کی زندگی ميں آنے والا تھا۔ کيونکہ اسی کو آنا تھا۔ اور وہ تھا يہاں اس لمحے اسکے سب سے قريب۔

اس نے بمشکل اثبات ميں سر ہلايا۔ 

"ڈر تو نہيں لگے گا؟" نائل نے پھر سوال کيا۔ 

"آپ ساتھ ہيں نا تو پھر ڈر کيسا" محبت بھرے لہجے نے نائل کو يک گونہ سکون ديا۔ محبت سے اسے پھر سے مضبوطی سے اپنے ساتھ لگايا۔ 

ايک ہاتھ اسکے گرد باندھے دوسرے ہاتھ سے رسی کو مضبوطی سے تھامے وہ پہاڑ کے سرے سے ہوتا ہوا۔۔ زمين کو چھوڑ چکا تھا۔ 

اس لمحے حقيقت ميں وہ ايک دوسرے کو تھامے ہواؤں ميں اڑ رہے تھے۔ 

خود سے زيادہ اسے بس يماما کی فکر تھی۔ اس کی زندگی کی فکر تھی۔

It's been raining here for days

And I can feel these drops upon my weary face

Is it the sky or is it my eyes that create this?

I miss your kiss, I miss your face, I miss your touch

And it seems like

I'm waiting for the sun to set

And waiting for the sun to rise

And waiting for the sun to set again

And I will give you my shoulder

As we lay and we get older, together

There's nothing better than this feeling

I can feel my wounds are healing with your touch

And all my senses, all my senses

Amplified by our connection, inside and out

And I will shout, oh I will shout, I will shout your name out loud

In the hope that you'll feel me there

I'm waiting for the sun to set

And waiting for the sun to rise

Til you're here by my side

__________________________

وہاج نے صبح ہوتے ہی اپنے پی اے کو فون کيا کيونکہ جس بندے کو اس نے وہ دو دہشتگرد بارڈر پر پہنچانے کے لئے حکم دے رکھا تھا۔ اس کی جانب سے اب تک کوئ اطلاع نہيں آئ تھی۔ 

"ہيلو۔۔ شفقت کا فون نہيں آيا ابھی تک؟" بيڈ کے کراؤن سے ٹيک لگاۓ وہ اضطرابی انداز ميں بالوں ميں تيزی سے انگلياں چلا رہا تھا۔ 

"نہيں سر۔ ابھی تک تو کوئ اطلاع نہيں آئ۔ مگر آپ کے گھر سے کچھ دير پہلے فون آيا تھا۔ تاکيد کی گئ تھی کہ آپ فون کرليں۔" 

"اچھا۔۔ اچھا" وہ منہ بنا کر بولا۔ وہ اپنے مسئلوں ميں الجھا بيٹھا تھا اور گھر والوں کو اپنی مصيبتيں پڑی ہوئيں تھيں۔ 

وہ بڑبڑا کر فون بند کرکے اب گھر کا نمبر ملا رہا تھا۔ 

دوسری جانب اسکی بيوی تھی۔ 

"کيا مصيبت آگئ ہے صبح صبح" وہ تڑخ کر بولا۔ 

"تيمور ابھی تک گھر نہيں آيا" دوسری جانب سے سنی جانے والی بات پر وہ سر پيٹ کر رہ گيا۔ 

"ميں نے ہی اسے فارم ہاؤس بھيجا تھا۔ وہيں ہوگا تمہارا لاڈلا" اس کا لہجہ بيزاری لئے ہوۓ تھے۔ 

"وہ وہاں بھی نہيں ہے ۔ صبح کہی فون کرکے پہلے وہيں پتہ کيا تھا۔ 

وہاں کے ملازم بتا رہے ہيں رات کو کچھ نقاب پوش آۓ تھے۔ اور تمہارے تين بندوں اور تيمور کو لے کر نکل گۓ۔۔ انہيں رسيوں سے باندھ کر بے ہوش کرگۓ تھے۔" اس نے تفصيل سے سب بتايا۔ 

"کيا بکواس کررہی ہو" وہ غصے  سے تلملايا۔ اتنی سيکيورٹی کے باوجود يہ کيسے ہو سکتا تھا۔ وہ حيران تھا۔ 

"مجھے نہيں معلوم۔۔ نجانے تم لوگوں کے کالے دھندوں کا انجام ہميں کب تک بھگتنا پڑے گا" وہ اپنی اولاد کے لئے شديد پريشان تھی۔

"ہاں تم تو اتنے عرصے تک آنکھيں بند کئے ہوۓ تھيں۔ تمہيں تو پتہ ہی نہيں سب کيا ہورہا تھا۔ مہنگی مہنگی چيزيں خريدتے۔ پيسہ اڑاتے تمہيں نہيں پتہ تھا کہ يہ پيسہ کہاں سے آرہا ہے" وہ غرايا۔ 

"مجھے نہيں پتہ مجھے بس اپنا بيٹا چاہئيے" وہ روتے ہوۓ بولی۔ 

"بھاڑ ميں جاؤ سارے۔۔۔ کيسے نکل گۓ ميرے بندے" وہ اٹھ کرسيدھا ہو کر بيٹھا۔۔ 

"تمہيں اپنی اولاد کی پرواہ نہيں ۔۔۔ اپنے بندوں کی پڑی ہے" وہ اپنے شوہر کی بے حسی محسوس کرکے چلائ۔ 

"بکواس بند کرو" وہ دھاڑ کر فون بند کرگيا۔ اب وہ فارم ہاؤس کا نمبر ملا رہا تھا۔ 

اس کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔ يہ کون لوگ تھے جنہوں نے اسکی مخبری کردی۔

_______________________

کچھ دير ميں ہی اسے لئے وہ نيچے کی جانب اترا۔ دوپہر قريب قريب تھی۔ يہ ايک اور پہاڑ تھا۔ مگر وہاں سڑک موجود تھی۔ جو يقينا شہر کی جانب جاتی تھی۔ 

وہاں پہلے سے ہی ايک چھوٹی گاڑی اور ايک جيپ موجود تھی۔ 

اور ساتھ دو لڑکے بھی کھڑے تھے۔ شايد وہی اسے ڈرائيو کرکے لے کر آۓ تھے۔ 

"گاڑی ميں سامان موجود ہے" ان ميں سے ايک نائل سے مخاطب ہوا۔ نائل اپنی بيلٹ کھول کر اب يماما کے گرد لپٹی بيلٹ کو کھول رہا تھا۔ 

اس لمحے وہ کالی ہی شلوار قميض ميں موجود تھا۔ بيلٹ کھولتے ساتھ ہی وہ گاڑی کی جانب بڑھا۔ اس ميں بيٹھ کر نجانے وہ کيا کررہا تھا۔ 

يماما نے اچٹتی سی نگاہ ان لڑکوں پر ڈالی دونوں ہی يماما کی جانب متوجہ نہيں تھے۔نجانے وہ نائل کے کوئ ساتھی تھے يا نائل کے ماتحت کام کرنے والے۔ 

اور نائل کرتا کيا تھا؟ سوال ہی سوال اسکے دماغ ميں مچلتے جارہے تھے۔ 

تھوڑی دير بعد جب نائل گاڑی سے باہر نکلا۔ تو وہ نائل کہيں سے نہيں لگ رہا تھا۔ يہ تو کوئ شمالی علاقہ جات کا باشندہ معلوم ہوتا تھا۔ سرخ و سپيد رنگت۔ کھڑے نقوش۔ سر پر پگڑی باندھے۔۔ بڑی بڑی مڑی ہوئ مونچھوں اور سنہری آنکھوں والا۔ 

يماما چند لمحے تو گنگ رہ گئ۔ اس کے ہاتھ ميں ايک ٹوپی والا برقعہ تھا۔ جو اس نے گاڑی سے نکل کر يماما کی جانب بڑھايا۔ 

"اسے پہنو۔۔" آواز سے ہی وہ بس پہچان سکی کہ يہ نائل ہے۔ 

"يہ۔۔"وہ حيرت سے اسکے چہرے کی جانب اشارہ کرکے بولی۔ 

"يماما۔۔ ميں جانتا ہوں تم وکيل ہو۔۔ مگر پليز موقع کی نزاکت سمجھو اور سوالوں کی بوچھاڑ کم کرو۔۔يقين کرو۔۔ خاموش ہوتی ہو تو بہت ہی پياری لگتی ہو" آنکھوں کی بڑھتی چمک يماما کو خاموش رہنے پر مجبور کرگئ۔ دل ميں ڈھيروں خفگی بھی آگئ اس لمحے۔ 

وہ اتنی پہيلياں کيوں بجھوا رہا تھا؟ کن لوگوں سے اس وقت وہ بھاگر رہا تھا وہ يماما کو کيوں نہيں بتا رہا تھا آخر؟ آنکھوں ميں خفگی لئے وہ برقعہ اوڑھنے لگی۔ 

نائل اچھے سے اس کے چہرے کی خفگی کو بھانپ گيا تھا۔ 

"سر ہم آپکے پيچھے پيچھے رہيں گے" يماما کو برقعہ اوڑھتا ديکھ کر ان ميں سے ايک بولا۔ 

"نہيں اس کی ضرورت نہيں۔ ہم اس وقت کسی مقامی ہوٹل ميں ٹہريں گے۔ وہاں پر سر بندے بھجوا چکے ہيں۔ تم لوگ فورا سے پيشتر شہر کی جانب جاؤ۔ باقی ميں خود ہينڈل کرلوں گا" نائل نے انہيں سرعت سے منع کيا۔ 

"ٹھيک ہے سر۔ پھر کل آپ سے ملاقات ہوگی" وہ نائل سے مصافحہ کرکے چھوٹی گاڑی ميں بيٹھ کر نکل گۓ۔

نائل نے يماما کو گاڑی ميں بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ مگر ٹوپی والا برقعہ پہننے کی وجہ سے اسے سمجھ ہی نہيں آئ کچھ وہ الجھ رہی تھی اس ميں۔ 

"افف اللہ! اس ميں ميں چلوں کيسے؟" وہ جھنجھلا کر بولی۔ 

نائل ہولے سے ہنسا۔

"کس حکيم نے کہا ہے اسے ابھی چہرے پر ڈال لو۔ تمہارا مجھ سے اب اتنا بھی پردہ نہيں ہے" اسکی بات سنتے ہی اس نے آگے سے برقعہ اٹھا کر سر پر رکھا۔ 

"ديتے وقت بتانا چاہئيے تھا نا" يماما نے خفگی کا اظہار کرنا ضروری سمجھا۔ 

"سوری مادام۔۔ اب چليں" نائل نے اسے پھر سے گاڑی کی جانب چلنے کا اشارہ کيا۔ 

وہ فرنٹ سيٹ کا دروازہ کھول کر جلدی سے بيٹھی۔ 

ڈرائيونگ سيٹ نائل سنبھال چکا تھا۔ 

"پليز ۔۔ کچھ تو بتائيں۔ کون لوگ اب ميرے پيچھے لگے ہيں۔ آپ کو ميرا کيسے پتہ لگا۔ اب تک آپ کہاں تھے۔اور اور۔۔ يہ سب روپ آپ نے کيوں دھارا؟" ايک ہی سانس ميں وہ جتنے سوال کرسکتی تھی کر گئ۔ 

گاڑی چلاتے نائل اس کی بے صبری اور بے چينی پر مسکرايا۔ 

"سب کچھ بتاؤں گا ميری جان۔ مگر ابھی کے لئے صرف اتنا جان لو کہ تمہارے موبائل کے آئ ايم ای آئ نمبر کو ٹريس کروا کر تمہارا دوست فاران اور وہ تفتيشی آفيسر جو تمہاری جھوٹی موت والی کہانی ميں انوالو ہيں۔ وہ اس جگہ کی نشاندہی کروا چکے ہيں۔ اور نہ صرف يہ بلکہ وہاں سے نکل پڑے ہيں۔ يہاں پہنچنے کے لئے۔ 

جبکہ ميں ابھی تمہاری موت کو خفيہ رکھنا چاہتا ہوں۔ کيونکہ تمہيں اغوا کرنے سے ايک رات پہلے وقار نے کسی کے ساتھ پلين کرکے تمہيں مروانے کا ارادہ کيا تھا۔ اور ميں يہ سب جان گيا تھا۔ 

اسی لئے تمہاری ہمشکل لڑکی بھيجی۔ گوکہ وہ بھی بچ چکی ہے۔ کيونکہ جس گاڑی نے وقار کے پلين کے مطابق تمہاری گاڑی کو ہٹ کيا تھا۔ اس ميں ميرا ہی بندہ موجود تھا۔" موڑ کاٹتے وہ لمحہ بھر کو چپ ہوا جبکہ وہ حيرت کی تصوير بنی يہ سب انکشاف سن رہی تھی۔ 

"اس بندے نے اس لڑکی کی گاڑی بھی ہٹ کی اور اسے اپنی گاڑی ميں لاکر وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ ہاسپٹل ميں ميرے دوست ڈاکٹر ہيں۔ ان سے کہہ کر ايک ڈيڈ باڈی کو وہی ائير رنگز پہناۓ جو تم نے ايک رات پہلے پہنے تھے۔ اس چہرے کو پٹيوں سے ڈھک کر يہ کہا کہ چہرہ مسخ ہو گيا ہے۔ اور تو اور اسکی گردن پر وہی نشان بنايا جو تمہاری گردن پر جلنے کا ہے۔ اور يہ سب کرکے اس لڑکی کی ڈيڈ باڈی تمہارے نام سے فاران کو دے دی۔" يماما نے سر پکڑ ليا تھا۔ اس قدر پليننگ۔ 

"کيا ہوا؟" نائل اس کی پريشان صورت دیکھ کر معنی خيزی سے مسکرايا۔ 

"اتنا سب۔۔ اور اور مجھے کچھ معلوم ہی نہيں۔۔يہ وقار کمينہ تو" يماما نے دانت پيسے۔ 

"ڈونٹ وری اس کمينے کو تو ايسی جگہ لا کر ماروں گا جہاں اسے پانی بھی نہيں ملے گا۔۔ ابھی تو اس نے اپنے بہت سارے الفاظ کا خميازہ بھگتنا ہے" نائل نے سنجيدگی سے سامنے دیکھتے ہوۓ سخت لہجے ميں کہا۔ 

"اور پھر۔۔"يماما نے سلسلہ وہيں سے جوڑنا چاہا۔ 

"پھر يہ کہ آپ کا دوست بہت پھرتيلا ہے۔ اس نے تمہارے گھر ميں موجود فنگر پرنٹس اور گاڑی ميں موجود فنگر پرنٹس سب کا پتہ لگا ليا۔ اور يوں اس کو اندازہ ہوگيا کہ يہ سب ايک قتل کا کيس تھا۔ اور اب وہ تمہارے قاتلوں کو پکڑنے کی تگ و دو کررہا ہے" نائل نے ٹھنڈی سانس لے کر اسے اب تک کی ساری صورتحال بتائ۔ 

"يہ کيا آپ نے تمہارا دوست تمہارا دوست لگا رکھا ہے" يماما نے ناگواری سے کہا۔ 

"چلو تمہارا عاشق کہہ ليتے ہيں" وہ لب دباتا ہوا اسے چڑانے والے انداز ميں بولا۔ 

"آپ کو شرم آنی چاہئيے۔ کيا فضول بات ہے ۔۔ کس بناء پر کہہ رہے ہيں؟" وہ غصے ميں بپھری ہوئ بولی۔ 

"ارے جاؤ يار۔۔ وہ بيچارا تمہيں پرپوز تک کرنے کی غلطی کر بيٹھا ہے۔۔ اور ميں پھر بھی اسے تمہارا عاشق نہ کہوں۔ بھول گئيں وہ گفتگو جو ايک رات اس نے تمہيں فليٹ تک پہنچاتے وقت کی تھی۔ اور تم نے اسے يہ کہہ کر وارن کيا تھا۔۔ کہ تمہاری زندگی ميں ميرے علاوہ اور کوئ نہيں ہے" نائل کی باتوں پر وہ جتنا حيرت زدہ ہوتی کم تھا۔ 

"آ۔۔۔آپ کو يہ سب کيسے پتہ؟" وہ پوری آنکھيں کھولے اسے ديکھ رہی تھی۔ 

"ميری جان جو بندہ تمہاری گردن کے نشان تک سے واقف ہو۔ وہ اتنی بڑی بات سے انجان کيسے ہوسکتا ہے" اسکے سوال پر نائل اسے محبت پاش نظروں سے ديکھ کر رہ گيا۔ يماما کا ہاتھ بے اختيار اپنے اس نشان پر پڑا جو اسکی گردن پر موجود تھا۔ 

"آپ اتنے سالوں سے تھے کہاں؟" اب يماما اصل سوال پر آئ۔ 

"يہ بہت لمبی داستان ہے ابھی نہيں کچھ دنوں بعد بتاؤں گآ" وہ سرعت سے اسے ٹوک گيا۔ 

"مگر يہ اطمينان رکھو۔ جہاں بھی تھا۔ تم سے غافل ہر گز نہيں تھا" اسٹيرنگ سے ہاتھ ہٹا کر اس نے يماما کا ہاتھ تھاما۔ 

يماما کے چہرے پر اطمينان سا بکھر گيا۔ نائل نے اسی ہاتھ کو اسکے گرد پھيلا کر اسے اپنے حصار ميں چںد لمحوں کے لئے۔ 

يماما نے اطمينان سے لحظہ بھر کو آنکھيں موندی۔ 

اللہ نے اس کے لئے ايسا انعام رکھا تھا وہ سوچ بھی نہيں سکتی تھی۔

ابھی کچھ دور ہی بڑھے تھے کہ يکدم آسمان پر بادل گھر آۓ۔ نائل اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھا۔ بارش اگر شروع ہوجاتی تو اس جگہ گاڑی چلانا مزيد خطرے کا باعث ہو سکتی تھی۔ 

اسی لمحے ايک گاڑی سامنے سے آئ۔ 

"نقاب گراؤ" نائل نے فورا يماما کو حکم ديا۔ 

وہ گاڑی اس تفتيشی آفيسر ہی کی تھی جو يماما کے قاتل کو ڈھونڈنے وہاں آيا تھا۔ نائل نے شکر کيا کہ اس نے فوری بھانپ ليا کہ کوئ گاڑی سامنے سے آرہی ہے۔ ورنہ اس کے لئے اس لمحے مصيبت کھڑی ہوجاتی۔

چند ہی لمحوں ميں وہاں تيز بارش شروع ہوگئ۔ 

وہ اس وقت ايسی جگہ پہ تھے جہاں کچھ کچھ آبادی موجود تھی۔ 

نائل نے اس طوفانی بارش ميں گاڑی چلانی مناسب نہ سمجھی۔ 

"ہميں يہاں رکنا پڑے گا" نائل نے يماما کو مطلع کيا۔ 

"کيا يہاں سڑک پر کھڑے رہيں گے۔" اس اچنبھے سے پوچھا۔ 

"جی جی بالکل تاکہ کوئ جنگل جانور آکر ہمارا قيمہ کرے" نائل نے اسکی معصوميت پر عش عش کيا۔ حالانکہ وہ اتنی بھی بے وقوف تھی نہیں۔ جتنی بے وقوفانہ بات کی تھی۔ 

"يار يہاں کسی گھر سے پتہ کرتا ہوں۔ اگر کچھ دير کے لئے وہ ہميں ٹہرا ليں" نائل نے مقامی گھروں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ 

پھر ايک جگہ گاڑی روک کر اترا۔ ايک گھر کے باہر شايد کوئ اس گھر کا مالک اپنے جانوروں کو اندر لے کر جارہا تھا۔ 

نائل کی گاڑی رکتی دیکھ کر تيزي سے اس کی جانب آيا۔ 

وہاں کی مقامی زبان ميں وہ دونوں گفتگو کرنے لگے۔ يماما کو تو ايک لفظ بھی پلے نہيں پڑ رہا تھا۔ وہ حيران تھی نائل کس قدر شستہ لہجے ميں اس بندے کے ساتھ بول رہا تھا۔ 

"چلو۔۔ چند گھنٹے يہيں پر رکتے ہيں۔ کيونکہ سڑک پر کھڑے رہنے کی بھی صورت ميں اگر کوئ تودہ ہم پہ گر پڑا تو آج جو ايک دوسرے کے زندہ رہنے پر خوش ہورہے ہيں۔ آج ہی دار فانی کو کوچ کرجائيں گے" نائل نے اسے اترنے کا عنديہ ديا۔ 

يماما اسکی باتوں پر پھر سے دل ہی دل ميں خفا ہوتی گاڑی سے اتری۔ 

وہ بندہ جس کا گھر تھا وہ تب تک دو چھترياں لا چکا تھا۔ دونوں انہيں تھماتے وہ تيزی سے اندر کی جانب بڑھا۔ 

نائل گاڑی کو لاک کرکے يماما کا ہاتھ تھامے چھتری تانے تيزی سے اس کی تقليد کرتا اس کے گھر کے اندر کی جانب لپکا۔

وہاج نے فارم ہاؤس فون کرکے جوں ہی سب معلومات ليں۔ فورا سے پيشتر وہ گاؤں کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ حويلی جانے کی بجاۓ وہ سيدھا فارم ہاؤس ہی پہنچا تھا۔ 

"کدھر مرے ہوۓ تھے تم سب کے سب۔۔ يا پھر ستو اور افہيم پی کر سوۓ پڑے تھے" سب ملازموں کو لائن حاضر کرکے اس وقت وہ ان پر دھاڑ رہا تھا۔ 

سب سر نيچے جھکاۓ اپنی بے عزتی کروا رہے تھے۔ 

جتنے گارڈز تھے ان ميں سے ايک بھی نہيں بچا تھا۔ سب کوئ گولياں ايسی جگہوں پر ماری تھيں کہ وہ سيدھا موت کی نيند جا سوئے تھے۔ 

يقينا کسی نے اس کے ملازموں کو جان بوجھ کر اسی لئے چھوڑا تھا کہ وہاج کو سبق مل سکے۔ 

وہ اس وقت  سر پکڑ کر بيٹھا ہوا تھا۔ خفيہ ايجنسی جب کسی کے پيچھے لگ جاۓ پھر تو قبر سے بھی نکال لاتی ہے۔ 

اس نے کچھ سوچتے ہوۓ کسی کو فون ملايا۔ 

"ہيلو۔۔ ہاں شکور ايک کام کرو آج رات جو ٹرک بارڈر پار بھيجنے تھے انہيں روک لو۔ مخبری ہوچکی ہے۔ اور تو اور ميرے بيٹے کو بھی خفيہ ايجنسی والے پکڑ کر لے گۓ ہيں۔" وہ فون پر کسی کو ہدايات دے رہا تھا۔ 

"کيا کہہ رہے ہيں سر جی" دوسری جانب سے خوف اور وحشت سے ملی جلی آواز ابھری۔ 

"صحيح کہہ رہا ہوں" وہ بيزار لہجے ميں بولا۔ 

"تو سر پھر تو ہئيروئن کو گودام ميں بھی رکھنا خطرے سے خالی نہين" اس نے اپنے تئيں مشورہ ديا۔ 

"تو کيا کروں۔۔ ہاں۔۔ اپنے سر پر سجا کے پھروں۔ بلکہ ايک کام کروسب کی سب کھا کر اپنے پيٹ ميں محفوظ کرلو۔۔۔ الو کے۔۔" گاليوں کی بوچھاڑ کرتا وہ شکور کو بھی بے نقط سنا گيا۔ 

"دفع ہوجاؤ تم سب کے سب يہاں سے" شکور کو لعن طعن کرنے کے بعد بھی دل نہ بھرا تو سامنے کھڑے ملازموں پر پھر سے بھڑاس نکالی۔

وہ سب کے سب سر پٹ بھاگے۔ايسے جيسے اسی انتظار ميں تھے۔ 

"ابھی فی الحال گودام ميں ہی رکھو۔۔" شکور کو ہدايت کرکے غصے سے فون بند کيا۔

ايک طرف کيس لٹکا پڑا تھا اور اب يہ دوسرا مسئلہ کھل گيا تھا۔

_____________________

بارش رکنے کا نام نہيں لے رہی تھی۔ 

جس گھر ميں نائل اور يماما رکے تھے وہ وہاں کے مقامی لوگوں کا ہی تھا۔ 

نائل کو مردان خانے ميں لے جايا گيا تھا اور يماما کو زنانے حصے کی جانب۔ 

عورتوں وہاں کا مقامی لباس پہنے۔ دوپٹے کو سختی سے سر پر ڈھکے يماما کے اردگرد بيٹھی اسے گھورنے ميں مصروف تھيں۔اور کچھ اس کی خاطر داری کررہی تھيں۔ 

"تم امرا زبان نہ بولے" ان عورتوں ميں سے ايک نے ٹوٹی پھوٹی اردو ميں يماما سے سوال کيا۔ 

"نہيں اور نہ ہی مجھے سمجھ آتی ہے" يماما نے شکر کا سانس ليا کہ کوئ تو اردو بولنے والی ملی۔ 

"تم۔ کد کا" يماما کو اسکے 'کد' کی سمجھ نہيں آئ۔ 

ہونق شکل بنا کر اسکی جانب ديکھا۔ پھر پہلے سوال سے اس سوال کا رشتہ جوڑتے اسے سمجھ آئ کہ وہ 'کدھر' کو 'کد' بول رہی ہے۔ 

"ميں شہر سے ہوں۔۔۔کراچی سے" بڑی مشکل سے اسکے سوال کا متن سمجھ کر يماما نے مسکراتے ہوۓ جواب ديا۔ 

نائل نجانے کس جانب تھا۔ بہت بڑی سی حويلی نما گھر تھا۔ کمرے ہی کمرے۔ شام آہستہ آہستہ گہری ہو رہی تھی اور اسی طرح رات بھی۔ 

ابھی يماما شدت سے دعا کرہی رہی تھی کہ نائل کا کوئ بلاوا آجاۓ کہ دروازے پر دستک ہوئ۔ 

ان ميں سے ايک دروازے کے پاس گئ۔ 

واپس آکر اس نے اسی لڑکی کے کان مين کچھ کہا جسے تھوڑی سی اردو بولنی آتی تھی۔ 

"ترا۔۔بندہ اے۔۔جا" اس نے دروازے کی جانب اشارہ کرکے نائل کی موجودگی کی خبر دی۔ 

يماما شکر کی سانس خارج کرتے ہوۓ تيزی سے دروازے کی جانب لپکی۔ باقی سب فورا کسی دوسرے کمرے ميں چلی گئيں۔ 

"آجائيں" يماما نے پردہ اٹھا کر نائل کو اندر آنے کا کہا۔ 

"يہ ہم کدھر آگۓ ہيں۔ مجھے ان کی سمجھ ہی نہيں آرہی۔۔ نہ انہيں ميری۔ اوپر سے آپ بھی پتہ نہيں کس کمرے ميں ہيں۔ مجھے وحشت ہورہی ہے۔ بارش کچھ کم ہوئ ہے۔ ہم کہين اور چلتے ہيں" يماما جو کب سے بے صبری سے بيٹھی نائل کے آنے کی منتظر تھی۔ اپنی بے صبری کا اظہار بہت سارے سوالوں سے کر گئ۔ 

"ميری جان ہم يہاں ہنی مون پر نہيں آۓ کہ چوائسز ڈھونڈيں۔ ابھی مجبوری ہے۔ اور ميں نہيں چاہتا ميرے ساتھ تم بھی کسی مشکل ميں پھنسو۔" نائل کی بات پر يماما کا منہ بنا۔ اس سچوئيشن ميں بھی اسے مذاق سوجھ رہے تھے۔ 

"اور جہاں تک بات ہے بارش کی۔ تو يہاں کی بارشيں تو کب رکيں۔ يہ کوئ نہيں جانتا۔ لينڈ سلائيڈنگ کے چانسز بہت ہوتے ہيں۔ اسی لئے يہاں سے نکلنے کا رسک بھی ميں نہيں لے سکتا۔" اس نے سہولت سے اسے انکار کرکے گويا ہری جھنڈی دکھائ۔ 

"تو کيا ضرورت تھی مجھے اغوا کرکے ايسے علاقے ميں لانے کی" اب کی بار يماما نے اپنی ساری کھولن نکالی۔ 

نائل نے بڑی مشکل سے يماما کی بے ساختگی پر اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا۔ 

"بس اس وقت عقل گھاس چرنے گئ ہوئ تھی۔ ويسے بھی عشق جب سر پر چڑھتا ہے تو عقل سالم نگل ليتا ہے" اس کی گہری نظروں کے مفہوم پر يماما کو احساس ہوا وہ کيا بول گئ ہے۔ اور کہاں پر نائل کو چھيڑنے کی غلطی کر بيٹھی ہے۔ ان چند گھنٹوں ميں اسے اتنا تو اندازہ ہوگيا تھا کہ شہنشاہ کے روپ ميں جو جو اظہار اس نے کئے تھے۔ وہ جھوٹ ہر گز نہيں تھے۔ وہ نائل کے روپ ميں بھی بے باک اور کھل کر اظہار کرنے والا تھا۔ 

"آپ کو اندازہ ہے ميں تين دن سے انہی کپڑوں ميں ہوں" اس کی بات کا اثر زائل کرنے کے لئے توجہ کہيں اور مبذول کی۔ 

"جی بالکل ۔۔۔ اور انہی کپڑوں ميں ايسی دل کو بھائ کہ تمہيں کپڑے بدلنے کا موقع دئيے بغير اسی حالت ميں اٹھا ليا۔ اور يقين کرو۔۔ تين دن کے بعد بھی اسی سر جھاڑ منہ پھاڑ حالت ميں سيدھا دل ميں اتر رہی ہو" نائل کہاں باز آنے والوں ميں سے تھا۔۔۔

يماما جتنا مرضی منہ بگاڑ رہی تھی۔ وہ اپنی کہنے سے ہٹنے والوں ميں سے تو تھا ہی نہيں۔ 

اب کی بار يماما نے تيوری چڑھائ۔ 

"فضول باتوں سے پرہيز کريں۔۔ اور مجھے کوئ حل بتائيں" نائل کی شوخ مسکراہٹ مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئيے ہوۓ تھی۔ 

"اچھا ابھی تو کھانا کھا لو۔۔ پھر يہ لوگ ہميں ايک ہی روم ميں شفٹ کرديں گے۔ وہاں ميں اس کا حل بھی بتاؤں گا" نائل نے بات سميٹ کر باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ 

يماما کچھ کہتے کہتے رہ گئ۔ منہ بنا کر واپس اندر کی جانب بڑھی۔

_________________________

فاران کچھ دير پہلے ہی وقار پر کئے جانے والا کيس فائنل کرکے ليٹا تھا۔ 

اسکی آنکھ لگے ابھی آدھا گھنٹا ہی گزرا تھا کہ موبائل بجنے کی آواز آئ۔ 

نيںد گہری تھی اسے يہ سمجھنے ميں کچھ دير لگی کہ اسکے بيڈ کے سائيڈ ٹيبل پر رکھا موبائل زور و شور سے بج رہا ہے۔

آنکھيں ملتے آخر اس نے چھٹی بيل پر فون اٹھا ليا۔ 

"ہيلو" نيند سے آواز بے حد بھاری ہورہی تھی۔ 

"ہيلو فاران۔۔ ميں کاشف بات کررہا ہوں" يہ اسی تفتيشی آفيسر کا دوست تھا جو اس وقت يماما کا موبائل ٹريس کرکے اس علاقے ميں پہنچے تھے۔ 

"جی جی سر۔۔ کيسے ہيں آپ۔۔ کوئ خبر؟" کاشف کا نام سن کر وہ يکدم سيدھا ہوکر بيٹھا۔ 

"شايد قاتل بہت ہوشيار ہے۔ اس نے اپنا اڈہ پہاڑوں مين بنايا ہوا تھا۔ اڈہ کيا ہے بڑا سا ايک کاٹيج ہے۔ مگر وہ وہاں سے بھاگ چکا ہے۔" اسکی بات پر فاران کا جوش يکدم سرد پڑا۔ 

"ليکن ايک اور اہم خبر ہے" اسکی بات پر جہاں وہ مايوس ہوگيا تھا يکدم چونکا۔ 

"جی جی بتائيں پليز" وہ فورا الرٹ ہوا۔ 

"وہاں سے ايک بندہ ہم نے پکڑ ليا ہے اور يہ وہی بندہ ہے جو اس دن يماما کی گاڑی کا نہ صرف تعاقب کررہا تھا بلکہ يہی يماما کو ہاسپٹل لے کر گيا تھا۔ اور تو اور ۔ اس نے يماما کی گاڑی کے پہئيوں کی ہوا بھی نکالی تھی" فاران کے لئے يہ خبر واقعی اہم تھی۔ 

"ہم نے اسے اپنی تحويل ميں لے ليا ہے۔ يہاں کا موسم کچھ خراب ہے۔ بارش ہے بہت تيز۔ جيسے ہی رکتی ہے ہم واپسی کے لئے نکل آئيں گے۔ اميد ہے يہ بندہ ہمارے لئے کارآمد ثابت ہوگا۔ اور کسی نہ کسی طرح يہ ہمين يماما کے قاتل تک پہنچا دے گا" وہ اپنا تجزيہ بتانے لگا۔ 

"جی سر يقينا۔ ميں شدت سے آپکی واپسی کا منتظر ہوں۔ اب تو ہمارا کيس اور بھی مضبوط ہوجاۓ گا" وہ اٹل لہجے ميں بولا۔ 

"بالکل۔۔ چليں پھر کل ملتے ہيں ان شاء اللہ" رسمی سی بات چيت کے بعد فون بند ہو گيا۔ 

فاران نے کچھ سکھ کا سانس ليا۔ وہ جلد از جلد يماما کے قاتل کو تختہ دار پر لٹکانا چاہتا تھا۔ 

جہاں يہ خبر اسکے لئے اطمينان کا باعث بنی وہيں ايک بار پھر يماما کی يادوں نے پوری طرح اسے اپنے گھيرے ميں لے ليا۔ 

اب يقينا باقی کی رات اسی ياد ميں گزرنی تھی۔ ايک سرد آہ بھر کر وہ واپس اپنے تکيے پر سر رکھ کر ليٹ گيا۔ مگر اب نيند کہاں آنی تھی۔ موبائل کھول کر يماما کی تصويروں کی گيلری کھولی۔  

________________________

رات ميں کھانا کھلانے کے بعد وہاں کے گھر والوں نے ان دونوں کے لئے الگ سے ايک کمرے کا انتظام کرديا تھا۔ 

يماما کو وہی اردو بولنے والی لڑکی اس کمرے ميں چھوڑ کر گئ۔ يماما کے پوچھنے پر اس نے بتايا کے اس کا نام رشتينہ ہے۔ 

وہ کامنی سی لڑکی يماما کو بے حد اچھی لگی۔ 

"تم سو۔۔ صب ۔۔مليں گا" وہ يماما سے ہاتھ ملا کر اسکے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دے کر باہر چلی گئ۔ 

ان سب نے يماما کے ساتھ اسی طرح ہاتھ ملايا تھا۔ شايد يہ وہاں کے لوگوں کا مہمانداری کا ايک انداز تھا۔ 

اسکے باہر جاتے ہی يماما نے سکھ کا سانس ليا۔ گھوم کر کمرہ ديکھا۔ کمرے کے وسط ميں دو پلنگ جوڑ کر انہيں ايک بيڈ کی شکل دی گئ تھی۔ 

باقی کے کمرے ميں ايک ٹيبل اور ايک کرسی موجود تھی۔ ٹيبل پر نمک کا بنا ليمپ موجود تھا۔ ساتھ ميں پانی سے بھرا جگ اور گلاس۔ 

پلنگ پر رضائ تھی۔ کمرے کے دائيں جانب بنی ديوار پر کھڑکی موجود تھی جو کہ اس وقت سختی سے بند کی گئ تھی۔ پلنگ کے بالکل سامنے آتش دان بنايا گيا تھا۔ جس ميں لکڑياں جلا کر کمرے کو گرم کيا گيا۔ اس علاقے ميں اس وقت شديد سردی تھی۔ 

يا شايد يماما کو زيادہ محسوس ہو رہی تھی۔ ميدانی علاقے کے لوگوں کو ويسے بھی پہاڑی علاقوں کی ذرا سی سردی بھی بہت محسوس ہوتی ہے۔ 

يماما نے اس وقت بھی وہی تين دن پرانا نيٹ کا کالا سوٹ پہن رکھا تھا۔ 

اور اس سوٹ ميں اب اسے شديد ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ 

جلدی سے بيڈ پر بيٹھ کر لحاف ميں گھس گئ۔ 

کچھ ہی دير بعد دروازے پر ناک ہوا۔ 

يماما چونکی۔ 

اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی نائل دروازے ميں نمودار ہوا۔ ہاتھ ميں وہی بيگ تھاما ہوا تھا جو گاڑی سے اترتے وقت اسکے ہاتھ ميں تھا

"اف شکر آپ آگۓ" يماما نے بے ساختہ کہا۔ 

"لڑکی محبت کا اظہار يوں پرائ جگہوں پر نہيں کرتے" نائل دروازہ بند کرکے شرارتی مسکراہٹ اس پر اچھالتے بيڈ پر آکر اسکے مقابل بيٹھا۔ 

"اب ميرے مسئلے کا حل۔۔۔۔" يماما نے اسکی توجہ پھر سے اپنے سوٹ کی جانب دلائ۔ 

"ديکھو اس بيگ ميں صرف ميرے کپڑے ہيں۔ انہی سے گزارا کرسکتی ہو تو کرلو۔ اب يہ کوئ کہانی تو ہے نہيں کہ ميں ہيرو کی طرح اس پہاڑی علاقے ميں کہيں سے بھی اپنی ہيئروئن کے لئے کپڑے ايجاد کرليتا۔" وہ مزے سے کہہ کر يماما کی چڑچڑی شکل ديکھنے لگا۔ 

"مجھے اغوا کرتے وقت ہی ميری وارڈروب سے چںد کپڑے اٹھوا ليتے" يماما مزے سے اسے مشورہ دينے لگی۔ اس طرح کی سچويشنز ميں بھی يماما جيسی کا ہی دماغ چل سکتا تھا۔ 

"واہ ۔۔۔ اغوا کروا رہا تھا کہ پکنک پے لے کر جارہا تھا" نائل اسے گھور کر بولا۔ جس پر خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ 

مزے سے اسکا بيگ ہاتھ سے لے کر چيک کرنے لگی۔ جس ميں ايک ٹراؤذر اور سويٹ شرٹ بالآخر اسے مل ہی گئ۔ دونوں چيزيں گو کہ تھوڑی لمبی تھيں۔ مگر گزارا تو کرنا تھا۔ 

"اب مجھے يہ پہننی ہيں" ايک نيا مسئلہ۔۔

"يہاں اٹيچ واش روم نہيں ہے؟" يماما نے ادھر ادھر ديکھ کر کہا۔ 

"ہم کسی ہوٹل ميں نہيں ہيں" نائل بيڈ پر آڑھا ترچھا ليٹ گيا۔ جو پگ سی پہن رکھی تھی وہ آتے ہی اس نے اتار کر ٹيبل پر رکھ دی تھی۔ 

"ميں باہر جاتا ہوں ۔۔ تم چينج کرلو" نائل فورا اٹھ کر باہر نکل گيا۔ 

يماما نے شکر کرتے جلدی سے کپڑے چينج کئے۔ 

کچھ دير بعد پھر سے دروازے پر دستک ہوئ۔ 

"آجائيں" يماما ايک بار پھر لحاف کے اندر تھی۔ کپڑے تہہ کرکے بيگ ميں ڈال دئيے۔ 

"اب ريليکس ہو؟" نائل نے اندر آتے اب کی بار چٹخنی چڑھاتے اس سے سوال کيا۔ 

"اففف بہت" يماما نے سکھ کی سانس ليتے ہوۓ کہا۔ 

"ليکن صبح اپنے کپڑے پہن لينا۔ يہ لوگ اتنی ماڈرن اپروچ کے نہيں ہيں۔ کہ تمہارا يہ حليہ آرام سے ہضم کرليں۔"يماما کے دوسری جانب ليٹتے ہوۓ اس نے تنبيہہ کی۔ 

اسے آنکھيں بند کرتے ديکھ کر يماما نے جلدی سے کپڑے بيگ ميں رکھ کر بيگ پلنگ کے پاس رکھا۔ 

"نائل آپ سونے کيوں لگے ہيں" وہ اسے آنکھوں پر بازو رکھتا ديکھ کر جلدی سے اسکی جانب مڑی۔ 

"اسی لئے کے رات سونے کے لئے ہی ہوتی ہے۔۔ جلسے کرنے کے لئے تو نہيں" نائل کے جواب پر وہ برا سا منہ بنا کر رہ گئ۔ وہ نائل جو اس کا آئيڈيل تھا۔ جسے اسے بہت پہلے سے عشق تھا وہ ايسا تو نہيں تھا۔ 

وہ تو ہر لمحہ يماما کا دھيان کرنے والا تھا۔ 

اور يہ نائل۔۔۔ يہ تو اسکی ہر بات کا الٹا جواب ديتا تھا۔ 

"آپ بدل گئے ہيں" وہ رہانسی لہجے ميں بولی۔ 

"کيا ہماری شادی کو دس سال گزر گۓ ہيں؟" نائل نے بازو سے ہاتھ ہٹا کر حيرت سے اسے ديکھتے پوچھا۔ 

"نائل کيا۔۔۔ مسئلہ ہے۔۔ آپ کسی بات کا سيدھی طرح جواب نہيں دے سکتے" اب کی بار وہ شديد چڑچڑے لہجے ميں بولی۔

"يار اس وقت بہت شديد نيند آرہی ہے۔ تمہيں سب کچھ بتاؤں گا۔ مگر ابھی سونے دو۔۔ صبح بہت لمبا سفر کرنا ہے۔ کل کی رات بھی ميں ايک لمحے کے لئے نہيں سويا۔۔" نائل نے نيند سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے ديکھتے ہوۓ منت بھرے لہجے ميں کہا۔ 

"اچھا ٹھيک ہے۔۔ " يماما کو اس پر ترس آ ہی گيا۔ 

"صرف اتنا بتا ديں شہنشاہ زندہ ہے کہ مر گيا" چند سال پہلے اس نے خبر پڑھی تھی کہ شہنشاہ کو مار ديا گيا ہے۔ مگر پھر پتہ چلا خبر جھوٹی تھی۔ اور اب نائل اس روپ ميں تھا۔۔۔ کيا معمہ تھا۔ 

"چند سال پہلے اسکے گروہ کو مار ديا گيا تھا۔ مگر ميں نے اس کا روپ دھار ليا تھا۔ اور کيوں دھارا تھا يہ نہيں بتا سکتا۔ ہاں مگر يہ ياد رکھنا اس روپ ميں اب اچھے کام ہوتے ہيں برے نہيں۔" نائل نے بند آنکھون سے سب بات کلئير کی۔ يماما نے تشکر بھرا سانس فضا کے سپرد کيا۔ 

اسے يہی ڈر تھا کہ کہيں نائل غلط کاموں ميں نہ پڑ گيا ہو۔ 

"لائٹ بند کرکے يہ ليمپ آن کردو" وہاں موجود ديوار سے لٹکتے بلب کی جانب اشارہ کرتے نائل نے کہا۔ 

يماما نے اٹھ کر ليمپ آن کيا۔ لائٹ بند کی۔ 

نائل تب تک نيند ميں جاچکا تھا۔ 

اور يماما اسکے قريب ليٹ کر اب بھی بے يقين نظروں سے اسے ديکھ رہی تھی کہ اس کا کوئ بہت اپنا اسکے قريب اس کی حفاظت کرنے کے لئے موجود ہے۔ وہ اب اس دنيا ميں اکيلی نہيں۔ وہ جو ہر لمحہ اسکی ہر سانس ميں زندہ رہتا تھا وہ حقيقت ميں زندہ اور مجسم اسکے سامنے اسکے پاس چند انچ کے فاصلے پر ليٹا تھا۔ 

يماما نے تکيے پر رکھے اسکے ہاتھ پر جھجھکتے ہوۓ ہاتھ رکھ ديا۔ 

يکدم اسے اپنے ہاتھ پر نائل کی مضبوط گرفت محسوس ہوئ۔ 

"سو جاؤ" اسکے ہاتھ کو دباتے ہوۓ بند آنکھوں سے ہی اس نے مشورہ ديا يا حکم سنايا يماما کو سمجھ نہيں آئ۔ 

"آپ جاگ رہے تھے؟"يماما نے حيرت سے پوچھا۔ 

"ہم سوتے ميں بھی جاگ رہے ہوتے ہيں۔۔ ڈونٹ وری"ذرا سی آنکھيں کھول کر اسکے چہرے پر اپنا ہاتھ پھير کر اسی کی جانب کروٹ لی۔ 

يماما کا ہاتھ اب بھی اسکے ہاتھ ميں تھا۔ 

يماما کشمکش ميں پڑتی آنکھيں بند کرگئ۔

Home in the valley

Home in the city

Home isn't pretty

Ain't no home for me

Home in the darkness

Home on the highway

Home isn't my way

Home I'll never be

Burn out the day

Burn out the night

Burn out the day

Burn out the night

And I'm burnin', I'm burnin', I'm burnin' for you

رات آدھی سے زيادہ گزر چکی تھی کہ اچانک انکے کمرے کی کھڑکی پر ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ 

کھڑاک کی آواز پر نائل کی آنکھ ايسے کھلی جيسی وہ جاگ ہی رہا ہو۔ 

آہستہ سے يماما کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا۔ 

دبے قدموں اٹھ کر وہ يماما والی سائيڈ پر گيا۔ نيچے پڑے اپنے بيگ سے فورا ريوالور نکالی۔ اسی طرح دبے قدموں کھڑکی کے پاس گيا۔ 

دوسری جانب موجود بندے نے کھڑکی کی جانب کسی کی موجودگی محسوس کرلی۔ 

نائل کو ايک مخصوص خوشبو محسوس ہوئ۔ اور دوسری جانب والے بندے کوبھی مخصوص خوشبو محسوس ہوئ۔ 

"باس"دوسری جانب سے آہستہ سے کوئ بولا۔ 

نائل کو تسلی سی ہوئ۔ 

"راشد يہاں کيا کررہے ہو؟" وہ آہستہ آواز ميں غرايا۔ 

"سر جی باس نے مجھے آپکی حفاظت کے لئے واپس بھيجا ہے۔ آپ نے تو منع کرديا اور باس سے ہميں ڈانٹ پڑوا دی۔ خير ۔۔ اب آپ سکون سے سوجائيں۔ ہم چار لوگ اس گھر کے اردگرد ہيں۔" راشد نے اسے تسلی دلوائ۔ نائل نے ايک نظر يماما پہ ڈالی۔ 

"اور ہاں باس نے کہا ہے جس کے گھر آپ رکے ہيں۔ اس بندے کا بھائ وہاج کا بندہ ہے ۔۔ اور اس کے گوداموں سے بھی واقف ہے" راشد کی بات پر وہ ہولے سے مسکرايا۔ 

"تم اپنے باس کو کہنا ميں اس فيلڈ ميں گھاس چرنے نہيں آيا تھا۔ ميں جانتا ہوں۔ اسی لئے يہاں ٹہرنے کو ترجيح دی۔ ورنہ ايسی بارشيں ہمارے لئے کوئ معنی نہيں رکھتيں۔" اس کا معنی خيز لہجہ دوسری جانب کی خاموشی کو طويل کرگيا۔ 

"اور ہاں۔ميں نے اسے جال ميں پھسنا ليا ہے۔ اپنے اڈوں کا وہ بتا چکا ہے۔ بس کل يہاں سے نکلتے ہی وہاں جانے کی تياری کرو" نائل اتنا کہہ کر واپس اپنی جگہ پر آکر ليٹ گيا۔صبح انہيں يہاں سے جلدی نکلنا تھا۔ 

نائل نے فون پر ہونے والی جو گفتگو ٹريس کروائ تھی۔ وہيں سے اسے اس بندے کا پتہ چل گيا تھا۔ 

فورا اس کا ڈيٹا پتہ کروايا۔ تو اس گھر کا علم ہوا۔ 

واپسی پہ تيز بارش کا بہانہ بنا کر وہ جان بوجھ کر اس گھر پر رکا تھا۔ 

تاکہ ہئيروئن کے ان اڈوں سے واقف ہوسکے۔ 

اسکی توقع کے عين مطابق۔ اس نے خود کو شہنشاہ کا بندہ ظاہر کرکے۔ اس سے اڈوں کی ساری معلومات لے کر اسے يہ يقين دہانی کروائ کہ اسکا مال رائيگاں نہيں جاۓ گا۔ بلکہ شہنشاہ اسے خريدنا چاہتا ہے۔ 

نہ صرف يہ بلکہ نائل نے اسے ايڈوانس پيسے بھی دے دئيے۔ 

پيسے کے لالچ ميں وہاج کو بتائے بغير اس بندے نے ڈيل کرلی۔ 

يہ جانے  بغير کے جو پيسے نائل نے اسے دئيے تھے وہ سب کے سب جعلی نوٹ تھے۔ مگر شايد ہی کوئ ماہر بھی ان کے نقلی نوٹ ہونے کی نشاندہی کرسکتا ہو۔ 

____________________

فاران اگلے دن جيسے ہی آفس پہنچا۔ چند پوليس آفسر اس بندے ک ہمراہ پہلے سے وہاں موجود تھے۔ 

مصافحہ کے بعد فاران اس بندے کی جانب متوجہ ہوا۔ جس کے منہ پر کالا کپڑا ڈال کر وہ لوگ وہاں لائے تھے۔ 

"آپ سب بيٹھيے پليز" فاران نے ان سب کو سامنے پڑے صوفوں پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ خود اپنی ٹيبل کے قريب رکھی کرسی کا رخ انکی جانب کرکے بيٹھ گيا۔ 

"کچھ بولا يہ؟" فاران نے ايک آفيسر کی جانب ديکھا۔ جو کہ غالبا کاشف تھا۔ 

"نہ صرف بولا۔ بلکہ اس کا بيان بھی ہم نے ريکارڈ کرليا ہے۔ اس بيان کی کاپی آپ اپنے کيس کے ساتھ لگا کر آج کورٹ ميں پيش کريں" اس نے ہاتھ ميں موجود ايک فائل فاران کی جانب بڑھائ۔ 

"ديٹس فنٹاسٹک" وہ بيان پڑھتے ہوۓ وہ مطمئن سا ہوا۔ 

"يہ تو سيدھا سيدھا ثابت کرتا ہے کہ اس قتل کے پيچھے وقار کا ہی ہاتھ ہے" وہ رپورٹ ٹيبل پر رکھتے ہوۓ وہ دوبارہ آفيسرز کی جانب مڑا۔ 

"بالکل اور اب اس سے پہلے کے وہ خود پر سے کيسيز ختم کروانے کے لئے کوئ اور حربہ اختيار کرے ہميں اس انداز ميں اسے پھنسانا ہوگا" کاشف کی بات پر باقی سب نے بھی ہاں ميں ہاں ملائ۔ 

"ليکن کيا جس بندے نے يماما کی گاڑی کو ٹکر ماری تھی اور جو ہاسپٹل لے کر گيا تھا۔ اسکے بارے ميں اس نے کچھ خاص نہيں بتايا" فاران نے ايک اہم پوائنٹ کی جانب نشاندہی کی۔ 

"سر ابھی تو يہ اہم ہے کہ وقار نے ہی يہ سب کروايا تھا۔ ان شاءاللہ اس بندے کا بھی پتہ چل جاۓ گا" ايک اور تفتيشی آفيسر نے اس کی توجہ پہلے ہی پوائنٹ کی جانب رہنے دی۔ 

ليکن آخر وہ وکيل تھا۔ اور کہتے ہيں نا کہ ڈاکٹر اور وکيل کو جب تک ہر بات سے باخبر نہ کردو۔ دونوں علاج تک نہيں پہنچ پاتے۔ 

فی الحال تو فاران خاموش ہو گيا۔

___________________

اگلے دن صبح ہی وہ دونوں وہاں سے روانہ ہوگۓ۔ 

"اب ہم کہاں جائيں گے؟" يماما نے گاڑی ميں بيٹھتے ہی سوال کيا۔ 

"کہکشاں کے اس پار ۔۔۔ اس دنيا سے کہيں بہت دور۔۔ جہاں تمہارے اور ميرے سوا کوئ نہ ہو" نائل نے مسکراتے ہوۓ اسکے سوال کا بڑی تفصيل سے جواب ديا۔ 

"پليز ميں نے دوبارہ اس کاٹيج ميں نہيں جانا" يماما کی برجستگی پر نائل نے بھرپور قہقہہ مارا۔ 

"تمہيں پتہ ہے ميں نے بہت محبت سے وہ کاٹيج بنايا تھا" نائل نے اپنے لہجے کو حتی المقدور جذباتی بنايا۔ 

"ہاں۔۔ بالکل مجھے اغوا کروا کے وہاں رکھنے کے لئے" يماما نے منہ پھلا کر کہا۔ 

نائل سر کو جھٹک کر مسکرايا۔ 

"يماما تم کتنی ذہين ہوگئ ہو۔۔" اس نے مسکراہٹ دبا کا حيرت کا اظہار کيا يا اس کا مذاق اڑايا۔۔ يماما کو سمجھ نہيں آئ۔ 

"اور آپ ۔۔۔۔ آپ بے حد عجيب ہوگئے ہيں۔ ہر بات کو مذاق ميں اڑانے والے۔۔۔کيا فيصل آباد ميں رہے ہيں۔ وہاں کے لوگوں کی طرح ہر بات پر جگتيں مارنے لگے ہيں" يماما نے تيکھے چتونوں سے اسے ديکھا۔ 

نائل کتنی ہی دير ہنستا رہا۔ 

"يار سئريس ہوکر بات کروں تو تم کہتی ہو کہ کيسی عجيب باتيں کررہے ہيں۔ ايسی گفتگو سے پرہيز کريں۔ جب اس طرح کی باتيں کرتا ہوں تو تم کہتی ہو بدل گۓ ہيں۔ اب ميں جاؤں تو جاؤں کہاں" نائل کی بات پر اب وہ چپ ہی رہی مگر ماتھے پر بل لاتعداد آچکے تھے۔ 

"اچھا سنو ہم اسلام آباد جارہے ہيں۔ وہاں سے ہماری فلائٹ ہے واپسی کی۔ اور پھر ميں تمہيں اپنے گھر لے کر جاؤں گا۔" نائل نے اب کی بار سنجيدگی سے اسے اگلا لائحہ عمل بتايا۔ 

يماما بھی سيدھی ہو کر اسکی جانب متوجہ ہوئ۔ 

"جس طرح تمہيں وہاں سے کسی نے يتيم خانے پہنچايا اور ايک فيملی نے تمہيں ايڈاپٹ کيا۔ ويسے ہی سمجھو مجھے بھی ايک فيملی نے ايڈاپٹ کيا۔ فرق صرف يہ تھا کہ ميں يتيم خانے نہيں گيا۔ 

 بلکہ ايک ورکشاپ پر جاکر ميں نے کام شروع کيا۔ کيونکہ ميںی ميٹرک اور ايف اے کی ڈگری ميرے پاس نہيں تھی۔ لہذا ميں اسے دکھا کر کہيں جاب نہيں کرسکتا تھا۔ چاہے چپڑاسی کی ہی کيوں نہ ہوتی۔ 

مجھے کام کرتے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ايک بے حد شاندار سے صاحب وہاں اپنی گاڑی ٹھيک کروانے آۓ۔ ميرے لب و لہجے کو ديکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس بلايا۔ 

"پڑھتے ہو؟" انکے سوال پر ميں چند لمحے خاموش رہا۔ 

"کبھی پڑھتا تھا۔ اب نہيں" ميں نے سر جھکا کر جواب ديا۔ 

"ميرے ساتھ چلو گے؟" انہوں نے ايک اور سوال کيا۔ 

ان کو لوگ ميجر صاحب کہہ کر بلا رہے تھے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ وہ فوج ميں ہيں۔ 

اتنا تو اندازہ ہوگيا کہ وہ کوئ غلط بندے نہيں ہيں۔ 

"کيوں سر؟" ميں نے بھی آخر سوال کيا۔ ايسے کيسے ان کے ساتھ چل ديتا۔ 

"بس تم سے کچھ کام کروانا ہے" انکی بات پر ميں نے ہامی بھر لی۔ 

اور يماما پتہ ہے انہوں نے کيا کام ليا؟" نائل نے گردن موڑ کر اس سے سوال کيا۔ جو خاموشی سے اسکی ايک ايک بات کو غور سے سن رہی تھی۔ 

يماما نے نائل کی آنکھوں ميں چںد جگنو ديکھے۔ 

"انہوں نے گھر لے جاکر مجھے کہا کہ آج سے تم ميرے اور مہک کے بيٹے کی نوکری کروگے۔ انکی کوئ اولاد نہيں تھی۔ اور پھر ان دونوں نے مجھے اولاد کی طرح سميٹ ليا۔ ميرے ہر دکھ اور درد پر پھاۓ لگاۓ۔ وہ تمہارے بارے ميں بھی جانتے ہيں۔ ماما کو تو تمہارے بارے ميں صرف اتنا پتہ ہے کہ ميری ايک منکوحہ تھی جو شايد زندہ نہيں ہے۔ مگر ڈيڈی جانتے ہيں کہ تم زندہ ہو۔ انفيکٹ تمہارا اغوا بھی ميں نے انہی کے ساتھ مل کرکروايا تھا۔ 

ماما کو اسی لئے نہيں بتايا کہ وہ اينج ای او کی کافی فعال رکن ہيں۔ اگر ذرا سی بھی بھنک وہاج تک پہنچ جاتی کہ جس خاندان کو وہ مروا چکے ہيں اس کا کوئ بندہ ابھی بھی زندہ ہے تو وہ مجھے اور تمہيں مارنے ميں لمحے کی بھی تاخير نہ کرواتے۔

اسی لئے ابھی بھی تم ميری دوست کی حيثيت سے وہاں رہو گی۔ ايک بار يہ سب جيل ميں پہنچ جائيں تب ميں اور ڈيڈی ماما کو تمہارے بارے ميں بتا دين گے۔"نائل نے تفصيل سے اسے بہت سی وہ باتيں بتائيں۔ جنہيں جاننے کے لئے وہ بے چين تھی۔ 

"اور۔۔ اورميرے بارے ميں آپ کيسے جانتے تھے؟" يماما نے سوچا اب جب وہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا رہا ہے تو ايک يہ بھی سہی۔ 

"دھيرج ميری جان جلد ہی بتاؤں گا" نائل کے موبائل پر آنے والی کال نے اسے بات ختم کرنے پر مجبور کيا۔ 

يماما نے چہرہ کھڑکی کی جانب موڑ ليا۔ 

_____________________

فاران پوليس اسٹيشن سے باہر نکل رہا تھا کہ يکدم سامنے سے آتی ايک لڑکی سے اسکی بری طرح ٹکر ہوئ۔ حالانکہ وہ اپنے حساب سے بالکل ٹھيک آرہا تھا۔ 

مگر وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ لڑکی نے ٹکر ماری ہے يا پھر يہ محض اتفاق تھا۔ 

"سوری" غلطی نہ ہونے کے باوجود وہ سامنے والے وجود سے معافی کا طلبگار ہوا۔ 

لينن کے ديدہ زيب سوٹ ميں دوپٹہ ايک جانب ڈالے۔ شولڈر سے ذرا سے نيچے آتے بالوں کی پونی بناۓ۔ اس نے جھٹکے سے گردن موڑ کر لمحہ بھر کو فاران کو ديکھا۔ 

فاران تو اس لمحہ بھر کے تصادم ميں ہی اپنی جگہ ششدر کھڑا رہا۔ 

وہ لڑکی تو ہوبہو يماما تھی۔ 

يکدم وہ اسکے پيچھے لپکا۔

"جی" لڑکی نے پيچھے مڑ کر ديکھا۔ 

مگر آواز مختلف تھی اور چہرہ بھی لمحہ بھر کے لئے ديکھنے پر يماما جيسا لگا تھا۔ مگر بحرحال شکل مختلف ہی تھی۔ 

مگر پہلی نظر پڑنے پر يماما کا ہی گمان ہوتا تھا۔ 

"کچھ نہيں۔۔ سوری اگين" فاران نے شرمندہ وہ کر قدم واپس موڑے۔ 

وہ بھی سر جھٹک کر چل پڑی۔

نوٹس پڑھ کر وقارتو بالکل ہی آپے سے باہر ہوگيا۔ 

وہ جو يہ سمجھ رہا تھا کہ يماما کی موت کے بعد اسکے تمام کيسز خودبخود ختم ہوجائيں گے۔ يا پھر جو بھی وکيل اب اس کا کيس ہينڈل کرے گا۔ 

وہ بآسانی اسے خريد لے گا۔ مگر وہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ اس کا نہ صرف کيس فاران لے لے گا۔ بلکہ وہ فاران کے اوپر يماما کی موت کو فتل قرار دے کر اسے اس ميں ملوث کرے گا۔ 

نوٹس پڑھ کر وہ غصے ميں آپے سے باہر ہوگيا۔ 

فورا سے پہلے سميع کو کال کی۔ 

"ہيلو ۔۔۔ سميع فورا ميرے پاس پہنچو" 

بغير سلام دعا کے وہ تيز لہجے ميں بولا۔ 

"کيا بات ہے يار خيريت ہے " سميع اسکے لہجے پر حيران ہوا۔ 

"خيريت نہيں ہے تو تمہيں بلوايا ہے نا۔۔ " وہ پھر سے درشت لہجے ميں بولا۔ 

 سميع نے بڑی مشکل سے اس کا حاکمانہ لہجہ برداشت کيا۔ 

"اوکے ميں اگلے آدھے گھنٹے ميں تمہارے پاس ہوں گا" اس کے يقين دہانی کراتے ہی وقار نے فون بند کرديا۔ وہ شدت سے سميع کا منتظر تھا۔ 

آدھے گھنٹے بعد سميع اپنے کہے کے مطابق اسکے سامنے موجود تھا۔ 

"اب کہو کيا ہوا ہے۔ پريشان لگ رہے ہو" لاؤنج ميں اسکے سامنے موجود سنگل صوفے پر بيٹھتے ہوۓ وہ بولا۔ 

"يہ پڑھو" اس نے غصے سے وہ نوٹس اس کے سامنے کيا۔ 

سميع نے ايک ايک سطر بڑے غور سے پڑھی۔ 

"ہمم۔۔ يہ تو بڑا مسئلہ بن گيا ہے" 

"تمہارا ہی مشورہ تھا نا کہ اسکے آفس جاکر اسے دھمکاؤں۔۔ يہ دھمکانا ہی مجھ پر الٹا پڑھ گيا ہے" اس نے غصے سے سميع کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ وہ استہزائيہ ہنسا۔ 

"يا تو مجھ پر اعتبار نہ کرتے يا پھر اگر کر ہی ليا تھا تو يوں لمحوں ميں بے اعتبار نہ کرتے" وہ متاسف نظروں سے اسے ديکھنے لگا۔ 

"يار اس نے صرف تم پر الزام لگايا ہے۔ تم ملزم ہو مجرم نہيں۔ "سميع نے پھر سے اسکی تصحيح کی۔ 

"اور دوسری بات يہ تو ميرے بھی وہم و گمان ميں نہيں تھا کہ يہ کيس اب فاران ڈيل کرے گا" سميع نے ايک اور نقطہ اٹھايا۔ وقار تھوڑا شرمندہ ہوا۔ 

"ميں نے يہ نہيں کہا کہ تم نے غلط مشورہ ديا ہے۔ مگر مسئلہ صرف يہ ہے کہ اس کے آفس مجھے نہيں جانا چاہئيۓ تھا" وقار نے دونوں ہاتھوں کی انگلياں مضطرب انداز ميں ايک دوسرے ميں پھنسائ۔ 

"يار اگر چلے ہی گۓ تھے تو مين نے تمہيں صرف اسے پيسے دينے کا کہا تھا۔ يہ نہيں کہا تھا کہ اسے اسکی جان کی دھمکی دے کر آؤ" سميع نے ايک بار پھر خود کو کور کرنا چاہا۔ 

"ہاں يار بس غلطی ہوگئ" وقار کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ 

"خير اب جو ہونا تھا وہ ہوگيا۔ اب پچھلی باتوں کو دہرانے کا کوئ فائدہ نہيں۔ اب يہ سوچو کہ اس سب سے نمٹنا کيسے ہے؟" سميع نے اس کا دھيان اصل مسئلے کی جانب لگايا۔ 

"ايک آئيڈيا ہے۔ ميری ايک دوست ہے۔ اگر اسے اسکے پيچھے لگوا کر اس کيس سے ہٹايا جاۓ تو کيسا رہے گا۔ عورت وہ آلہ کار ہے جو ہر جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ ديتی ہے" سميع نے آنکھ دبا کر شيطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا۔ 

"ارے واہ۔۔ کيوں نہيں۔۔ يہ خيال پہلے کيوں نہيں آيا۔ مگر اس سب کے لئے تو مجھے عدالت پھر سے جانا پڑے گا" وقار نے خوش ہوتے اسکی ہاں مين ہاں ملائ۔ 

مگر پھر نوٹس کی جانب نظر پڑی تو وہ پھر سے پريشانی کا شکار نظر آنے لگا۔ 

"ارے يار ابھی اس معاملے کو لٹکا دو۔ اور تب تک عدالت ميں جانے کا کڑوا گھونٹ پی لو۔ تب تک ميں تمام معاملہ ديکھتا ہوں۔" سميع نے اسے پھر سے تسلی دلائ۔ 

وہ سر ہلا کر خاموش ہوگيا۔ 

کچھ دير بعد وہ چاۓ پی کر اسکے گھر سے چلا گيا۔ 

اسکے نکلتے ہی وقار نے ايک نمبر ملايا۔ 

"ہاں۔۔۔ شرافت ايک کام کرو۔ ابھی جو لڑکا ميرے گھر سے نکلا ہے چند دن تم نے اسکا پيچھا کرنا ہے" فون کے دوسری جانب موجود کسی بندے کو ہدايات دے کر اس نے فون بند کرديا۔ 

نجانے کيوں اسے سميع اب کچھ مشکوک انسان لگا تھا۔ 

________________________

شام تک وہ لوگ نائل کے گھر پہنچ چکے تھے۔ 

مہک کچھ دير پہلے ہی ايک چيريٹی شو سے واپس آئيں تھيں۔ 

لاؤنج ميں بيٹھيں وہ شمس کو اپنے شو کی کاميابی کے بارے ميں تفصيل بتا رہی تھين کہ اسی اثناء مين نائل اور يماما گھر ميں داخل ہوۓ۔ 

"السلام عليکم" اس نے اونچی آواز ميں سلام کيا۔ 

ان دونوں کی پشت دروازے کی جانب تھی۔ 

مہک خوشی سے دمکتا چہرہ لئے فورا مڑيں۔ 

"ميرا بچہ ۔۔ ميرا نائل" بے اختيار وہ اسکی جانب بڑھيں۔ 

اس نے بھی مسکراتے ہوۓ ماں کو اپنی مضبوط بازوؤں ميں ليا۔ 

"

کيسی ہيں ممی؟" محبت سے انہيں اپنے ساتھ لگاۓ وہ شمس اور يماما کو سلام دعا کرتے ديکھ رہا تھا۔ 

شمس نے محبت سے يماما کے سر پر ہاتھ پھيرا۔ 

ان کے بيٹے ۔۔ ان کی جان کے ٹکڑے کی جان اس وقت انکے سامنے کھڑی تھی۔ انہيں تو بن ديکھے ہی وہ عزيز ترين ہوگئ تھی۔ 

اور اب جب اسے سامنے کھڑے ديکھ رہے تھے تو خوشی سنبھالنی مشکل لگ رہی تھی۔ 

"کيسی ہو بيٹا؟" انہوں نے محبت سے اسے ديکھتے ہوۓ پوچھا۔ 

"جی ٹھيک" يماما نے مختصر جواب ديا۔ 

"گڈ" 

مہک اب نائل سے الگ ہو کر سواليہ نظروں سے يماما اور پھر نائل کو ديکھنے لگيں۔ 

"ممی يہ ميری فرينڈ ہے۔۔ لاہور سے يہاں آئ ہے۔ کچھ ڈاکومنٹری اس نے بنانی تھی۔ بس اسی سلسلے ميں" نائل نے گلا کھنکھار کر سوچی سمجھی اسکيم کے تحت سوچی کہانی ماں کو سنائ۔ 

"اچھا ماشاءاللہ۔۔ اس بچی کی شکل وہ وکيل يماما سے کتنی ملتی ہے" نائل نے ماں کی بات پر متوحش نظروں سے شمس کی جانب ديکھا۔ 

شمس نے گلا کھنکارا۔ 

"بالکل ۔۔۔ بالکل ۔۔ بس اتفاقات بھی تو اسی دنيا ميں ہوتے ہيں نا" شمس نے فورا بات سنبھالی۔ 

"بالکل۔۔ اب ميری ايک کوليگ کی بيٹی کی شکل ميری ايک کالج کی دوست سے اس قدر ملتی ہے کہ انسان حيران رہ جاۓ" انہوں نے خود ہی اپنی بات کی تائيد کی۔ 

"بالکل ۔۔ آئيں بيٹا بيٹھيں پليز" شمس نے جلدی سے بات سنبھلنے کا شکر کرتے ہوۓ۔ يماما کو بيٹھنے کا کہا۔ 

"بيٹی کا نام کيا ہے؟" نائل نام بتانا بھول گيا تھا۔ 

"ان کا نام کنزہ ہے" يماما کی بجاۓ نائل نے جواب ديا۔ 

"ماشاءاللہ پيارانام ہے" مہک نے مسکراتے ہوۓ تعريفی کلمات ادا کئے۔ جن کا جواب يماما نےمحض ہلکا سا سر ہلا کر ديا۔ 

"جاؤ بيٹا۔ کنزہ کو گيسٹ روم دکھاؤ۔۔ فريش ہو جاؤ۔ تب تک ميں کچھ کھانے کو لگاتی ہوں ساتھ چاۓ بھی بناتی ہوں" مہک نے ان دونوں کو اوپر کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔ 

"جی ممی۔"

"بيٹا بس يہ اتنا سا سامان ہے تمہارا؟" مہک نے حيرت سے نائل کے ہاتھ مين تھامے بيگ کی جانب اشارہ کيا۔ 

نائل اور يماما کی نظر بھی اس چھوٹے سے ليدر کے بيگ کی جانب گئ۔ جس ميں نائل کا سامان تھا۔ 

"جی جی۔۔ ميں اصل ميں زيادہ کپڑوں کی شوقين نہيں ہوں" يماما نے اب کی بار اعتماد سے کہا۔ 

"ارے ماشاءاللہ پہلی لڑکی ديکھی ہے جسے کپڑوں سے کوئ سروکار نہيں ہے" شمس نے بھی خوش مزاجی سے کہا۔ 

"اچھا چلو جاؤ اب"مہک نے پھر سے انہيں اوپر جانے کا اشارہ کيا۔ 

اوپر والے ہی پوورشن ميں نائل کے کمرے سے اگلا کمرہ چھوڑ کر گيسٹ روم بنايا گيا تھا۔ 

يماما کو وہيں ٹہرنا تھا۔  

يماما نائل کی تقليد ميں اوپر آگئ۔ 

"افف شکر ہے"يماما نے اوپر اکر سکھ کا سانس ليا۔ 

اسکے وہم و گمان ميں بھی نہيں تھا کہ سب کی طرح نائل کی ماں بھی ٹی وی اور نيوز کے ذريعے اس بات سے ضرور آگاہ ہوں گی کہ يماما مر چکی ہے۔ 

نائل اسے ايک کمرے ميں لے آيا۔ 

"ميری ممی بے چاری بڑی سادی ہيں باتوں ميں آجاتی ہيں" نائل نے شرارتی لہجے ميں کہا۔ 

"جی جی بالکل۔۔۔ " يماما نے  اسکی بات پر سر دھنا۔ 

"اچھا يہ بتائيں کہ اب ميں کپڑوں کا کيا کروں۔۔ ميرے پاس تو چينج کرنے کو کوئ جوڑا ہی نہيں" يماما کو اب اپنے ڈريس سے شديد وحشت ہورہی تھی۔ وہ شاور لے کر ان کپڑوں کو دوبارہ سے نہيں پہننا چاہتی تھی۔ 

"ايک منٹ ميں آتا ہوں" نائل اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ کمرے سے نکل گيا۔ 

يماما نے گہری سانس بھری۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی اسے اپنی پڑی تھی۔ 

اسکے جاتے ہی يماما نے کمرے کا جائزہ ليا۔ 

ايک درميانے سائز کا بيڈ۔۔ ٹيبل اور ايک صوفہ وہاں موجود تھا۔ ساتھی ہی اٹيچڈ باتھ بھی موجود تھا۔ 

ابھی وہ پوری طرح کمرے کا جائزہ بھی نہيں لے پائ کہ نائل ہاتھ مين ايک شاپر لئے اندر آيا۔ 

"اس ميں کچھ کپڑے ہيں جو بھی ٹھيک لگے پہن لو" ايک ہاتھ سے ماتھے پہ انگلی پھيرتے دوسرے ہاتھ مين موجود شاپر اسکی جانب بڑھايا۔

يماما نے حيرت سے وہ شاپر پکڑتے اس ميں سے کپڑے نکالے۔ بالکل نئے ٹيگ لگے  چار پانچ سوٹ تھے۔ 

"يہ کس کے ہيں؟" يماما نے اچنبھے سے پوچھا۔ 

"يہ کچھ عرصہ پہلے ہی تمہارے لئے تھے" اب کی بار نائل کی لو ديتی نظريں يماما کے صبيح چہرے پر ٹکيں۔ 

وہ دو قدم چل کر اسکے بے حد قريب کھڑا ہوا۔ 

يماما نے جھجھک کر نظريں جھکائيں۔ 

"آپ تو ہميشہ سے ہی مجھ پر نظر رکھتے تھے۔۔" يماما نے اسے چھيڑنے والے انداز ميں کہتے اسکی نظروں کے اثر کو زائل کرنا چاہا۔ 

"اور يہی محبت بھری نظر تمہارے دل پر بھی ہميشہ سے اثر انداز ہوتی تھی۔ يہاں تک کہ اب بھی" نائل نے اسکے ہاتھ تھام کر آنچ ديتے لہجے مين کہا۔ 

"اور اسی محبت نے مجھے اتنا سير کرديا تھا۔ کہ مجھے کبھی کسی اور کی چاہ ہی نہيں ہوئ" يماما کی آواز ميں نمی گھلی۔ 

نظريں اٹھا کر اسکی جانب ديکھا۔ 

جس آنکھوں ميں محبتوں کا الگ ہی جہان آباد تھا۔ 

يکدم دروازے پر ناک ہوا۔ 

جو کہ پہلے سے ادھ کھلا تھا۔ 

وہ دونوں سرعت سے فاصلے پر ہوۓ۔ 

شمس کو دروازہ کھول کر اندر آتے ديکھ کر نائل نے گہری سانس بھری۔ 

"اف ڈرا ديا تھا آپ نے" شمس کی نظروں ميں چھپی شرارت نائل کی نظروں سے اوجھل نہيں تھی۔ 

"ذرا حوصلہ رکھو برخوردار۔۔ تمہاری ماں ہماری بہو کو ابھی صرف تمہاری دوست ہی سمجھتی ہے" انہوں نے جيسے اسے حدبندی قائم رکھنے کا اشارہ کيا۔ 

"جی جناب معذرت۔۔ وہ کيا ہے نہ کہ اتنے سالوں بعد بيوی کو ديکھ کر ابھی تک يقين نہيں ہوا کہ يہ ميرے سامنے ہی موجود ہے۔ تو بس يہی يقين خود کو دلانے کی کوشش کررہا تھا۔ " نائل کی بے باک گفتگو سے بچنے کے لئے يماما ايکسکيوز کرتی واش روم ميں بند ہوچکی تھی۔ 

"آگيا يقين۔۔ تو اب اپنے کمرے کی طرف تشريف لے جاؤ۔ بچی بے چاری کو شرمندہ کرديا" انہوں نے تنبيہی نظروں سے اسے ديکھا جو اب کان کھجا رہا تھا۔

_________________________

ماضی۔

"خيريت ہے صاحب آج آپ نے مجھے کيسے ياد کيا" وہ ہاتھ باندھے سرتاج کے قدموں ميں بيٹھا تھا۔ اس علاقے کے جاگيرداروں کا بيٹا۔ جو باپ کی جگہ اب اسی کی کرسی سنبھال چکا تھا۔ 

سياست ميں اس کا ايک نام بن چکا تھا۔ 

مگر اپنے علاقے کے لوگوں کو وہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھتا تھا۔ 

اس کی عمر سے دوگنا عمر کا وہ بندہ اس لمحے اسکے قدموں ميں بيٹھا تھا۔ 

"سنا ہے بيٹے کو وکالت کی ڈگری کے لئے شہر بھيجا ہوا ہے" مونچھوں کو تاؤ ديتے وہ حيرت سے گويا اس کا مذاق اڑانے والے لہجے ميں بولا۔ 

"نہ۔۔ نہ۔۔ صاحب وہ تو بس نوکری کے۔۔۔۔"ابھی اس بوڑھے شخض کی بات منہ ميں ہی تھی۔ کہ اپنے جوتے کی نوک سرتاج نے اس بوڑھے کی ٹانگ پر اتنی زور سے ماری کہ وہ بلبلا اٹھا۔ 

"جھوٹ بولتا ہے۔۔۔ بکواس کرتا ہے ميرے ساتھ" وہ غصے سے کف اڑانے لگا۔ 

وہ بے چارا ہاتھ باندھے رونے لگا۔ 

"تيرے خيال ميں۔۔۔۔ ميں يہاں آنکھيں بند کئے بيٹھا ہوں۔ 

پرندہ بھی پر مارے تو مجھے معلوم ہوجاتا ہے۔ تو نے اپنے چھوٹے بيٹے کو سر چڑھا رکھا ہے۔ ميں جانتا تھا وہ شہر پڑھنے گيا ہے۔ سوچا تھا ايف اے ۔۔ بی اے کرکے آۓ گا تو اپنا منشی رکھ لوں گا۔ مگر وہ تو خود کو افسر بنانے کے خواب ديکھ رہا ہے۔۔ ہمارے علاقے ميں سے نکل کر پڑھ لکھ کر ہم سے اونچا ہونا چاہتا ہے" وہ غصے سے غرايا۔ 

سب وڈيرے اپنے علاقے کے کسی گھر کے لڑکوں کو ميٹرک سے آگے پڑھنے نہيں ديتے تھے۔ 

ليکن محمد بخش کا بيٹا اور ہی سوچ رکھے ہوۓ تھا۔ وہ اپنے باپ دادا کو انکی غلامی کرتے اور غیر انسانی سلوک کرتے ديکھتا تھا۔ 

مگر وہ چاہتا تھا کہ اسکی نسل کم از کم اس سب سے نہ گزرے۔ 

چھوٹی عمر ميں شادی کروادی گئ تھی۔ ايک بيٹی يماما اور ايک بيٹا منان تھا۔ 

وہ سب اکٹھے ايک ہی گھر ميں رہتے تھے۔ 

ايک بڑا بھائ ذوالفقار اور يہ خود نواز اور ايک بہن جو شادی شدہ نہيں تھی سب ماں باپ کے ہمراہ اپنے بيوی بچے لئے ايک ہی گھر ميں رہتے تھے۔ شادی اور اولاد کے بعد بھی اس نے اپنے شوق کو ختم نہيں ہونے ديا۔ 

بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اسکے بھائ کا بڑا بيٹا نائل، اس سے چھوٹا شمائل  ۔۔ اسکی اپنی بيٹی يماما اور بيٹا منان سب پڑھ لکھ کر اس فرسودہ نظام کا خاتمہ کريں۔ 

جاب کے ساتھ ساتھ اس نے شہر سے ايل ايل بی کی ڈگری بھی لينے کا ارادہ کيا۔ 

اور يہی بات سرتاج کو ہضم نہيں ہوئ۔ 

وہ جانتا تھا کہ نواز شہر جاکر نوکری کرتا ہے۔ گو کہ وہ يہ بھی نہيں چاہتا تھا۔ پھر بھی اس نے اسے کچھ نہ کہا۔ 

مگر اب ايل ايل بی کی ڈگری لے کر وہ افسروں ميں وکيلوں ميں شمار ہونے لگے گا۔ 

وہ جو کل کو انکے جوتے ٹھيک کرتے تھے اب سر اٹھا کر ان سے مليں گے۔ 

يہ سرتاج نہيں ہونے دے سکتا تھا۔ 

اسی قصے کو ختم کرنے کے لئے اس نے محمد بخش کو اپنی حويلی بلا کر دھمکياں ديں ۔ 

"اس سے کہو جلداز جلد يہ خناس اپنے دماغ سے نکال دے۔ 

نہيں تو مجھے کوئ اور طريقہ استعمال کرنا پڑے گا" غصے سے لال آنکھوں سے اسے ديکھا۔ 

جو ہاتھ باندھے روتا ہوا اس سے معافی مانگ رہا تھا۔ 

"جاؤ۔۔ دفع ہوجاؤ اور اب اپنے بيٹے کا دماغ سيدھا کرکے ہی ميری حويلی ميں قدم رکھنا۔ نہيں تو تيرے خاندان کی اينٹ سے اينٹ بجادوں گا" اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کرتے ہوۓ وہ دھمکی دينے سے باز نہيں آيا۔

"جی جی صاحب" محمد بخش بچارا فورا وہاں سے اٹھ کر بھاگنے والے انداز ميں نکلا۔

"او خان۔۔ ميں تمہيں کہہ چکا ہوں کہ جو تم مانگو گے وہ تمہيں دينے کو تيار ہوں۔ اب تم وعدہ خلافی کر رہے ہو۔ پيسے لے کرواپس کررہے ہو۔ يہ ہم خانوں کی شان کے چلاف ہے" وہاج کا وہ بندہ جس کے گھر نائل جان بوجھ کر رہا تھا اوراسے باتوں ميں لا کر چرس اور ہئيروئن کے اڈوں کا نہ صرف پتہ لگوا چکا تھا بلکہ  اسے کے ساتھ وہاں جاکر وہ لانے کا بھی فيصلہ کرچکا تھا۔ 

اس بندے نے جوں ہی وہاج سے بات کی۔۔ وہاج کو يہ سب باتيں کچھ مشکوک لگيں۔ اس نے اپنے بندے کو نائل کو پيسے واپس کرنے کو کہا۔ 

نائل يماما کو چھوڑ کر اسی رات واپس  پہاڑی علاقے ميں اسی کے گھر موجود تھا۔ 

اور نائل اب اسے قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔دونوں مقامی زبان ميں بات کررہے تھے۔ 

"وہ تمہاری بات ٹھيک ہے مگر يہ ميری نہيں ميرے باس کی ہے۔ اور اس کی اجازت کے بغير ميں کيسے تمہيں دے سکتا ہوں۔" وہ ہچکچا رہا تھا۔ کيونکہ نائل نے اسے منہ مانگی رقم دی تھی۔ 

"تم اپنے باس کی بات مجھ سے کرواؤ مين خود اسے قائل کرتا ہوں" نائل اس پر گھيرا مزيد تنگ کررہا تھا۔ 

"ديکھو نا يہاں پڑے پڑے تم لوگوں کے کس کام کی۔ اور بارڈر کے پار يہ جتنے کی بکنی تھی اتنے ہی پيسے تو ميں بھی تمہيں دے رہا ہوں پھر ميری سمجھ سے باہر ہے کہ تم اور تمہارا باس کيوں ہچکچا رہے ہو" نائل کو اندازہ نہيں تھا کہ اس کا بنا بنايا پلين وہاج يوں خراب کردے گا۔ 

وہ ويسے بھی اپنے بيٹے اور ان سب دہشتگردوں کے اغوا کی وجہ سے بوکھلايا ہوا تھا۔ 

فی الحال وہ کسی پر بھی کيس نہيں کروا سکتا تھا۔ کيونکہ کوئ ايسا تھا ہی نہيں جسے وہ شک کی بنياد پر بھی پکڑتا۔ بس پوليس فورس کو الرٹ کرديا تھا۔ بيٹے کی بازيابی کے لئے مگر يہ کوئ لمبا ہی معاملہ تھا۔ 

ايجنسی تو ويسے بھی بندے کو لے کر کہاں جاتی ہے وہ عام پوليس تو کبھی جان ہی نہيں سکتی تھی۔

اور اب اس سب کے بعد ايسا کون سا ہمدرد تھا جو يوں اچانک اتنی بڑی رقم دے کر اسکی ہئيروئن اور چرس خريدنے کا خواہشمند تھا۔ 

"تم اپنے باس سے بات کرواؤ" نائل بضد ہوا۔

"اچھا تم مجھے وقت دو ميں چند دنوں ميں سوچ کر بتاتا ہوں" اس بندے نے وقت مانگا۔ 

نائل مايوس سا ہوا۔

______________________

شمس اپنے گھر بيٹھے يہ ساری گفتگو نائل کے ہاتھ ميں پہنی گھڑی کی مدد سے سن رہا تھا۔ 

اس گھڑی ميں چھوٹے چھوٹے مائيکرو۔۔ اسپيکرز لگے تھے۔ جو بالکل موبائل کا سا کام کرتے تھے۔ 

شمس کے پاس ايک ڈيوائس موجود تھی جس کی مدد سے انہوں نے اسکی گھڑی کاکے ان مائيکرو اسپيکرز کا کنيکشن اپنی ڈيوائس کے ساتھ کر رکھا تھا۔ 

کچھ سوچ کر انہوں نے فورا نائل کے موبائل پر ميسيج کيا۔ 

"اس بندے کو اٹھوا لو۔۔تم اسکے سامنے اپنی اصل پہچان ميں نہيں ہو۔ لہذا يہ تمہاری شناخت نہيں کرسکتا۔ دوسرا تمہاری گاڑی پر جعلی نمبر پليٹ لگی ہے۔ اگر اسکے گھر والے کيس بھی کرتے ہيں تو اس نمبر کی کوئ گاڑی انہيں آج رات کے بعد اس پورے ملک ميں نظر نہيں آئے گی" شمس کا ميسج پڑھ کر نائل نے پرسوچ انداز ميں سر ہلايا۔ 

"اچھا يار چلو ۔۔ پھر جب تم اپنے باس سے بات کرلو تو مجھے بتا دينا ورنہ ميں کوئ اور گاہک ڈھونڈوں گا" نائل اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولا۔ 

"معذرت دوست" اس بندے نے مايوس سی آواز ميں کہا۔ 

"ارے کوئ بات نہيں يہ سب چلتا ہے" نائل نے مصافحہ کرکے اسے گلے لگايا۔ 

اور گھر سے باہر آگيا۔ 

کچھ دور جاکر اس نے گاڑی ايک پہاڑ کی اوٹ ميں کھڑی کردی۔ اب اسے گہری رات کا انتظار کرنا تھا۔ کہ جس کا فائدہ اٹھا کر وہ اس بندے کو اسکے گھر سے اغوا کرنے ميں کامياب ہو۔

____________________

فاران آفس آکر بھی کتنی ہی دير اس لڑکی کے بارے ميں سوچتا رہا۔ 

کسی شخص کی اس حد تک مشابہت پر وہ جتنا حيران ہوتا کم تھا۔ 

پھر يہ سوچ کر خود کو سرزنش کی کہ اتنا بے اختيار ہونے کی کيا ضرورت تھی۔ 

کيوں اسے يوں پکار بيٹھا۔ 

ابھی وہ اسی ادھيڑ بن ميں تھا کہ وہی لڑکی اسکے آفس کا دروازہ ناک کرکے اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئ۔ 

فاران بے يقين نظروں سے اسے اپنے سامنے ديکھ رہا تھا۔ 

"کيا ميں بيٹھ سکتی ہوں؟" اسے يوں مسلسل خود کو گھورتے پا کر اس لڑکی کو بالآخر کہنا پڑا۔ 

"جی جی پليز۔۔ آئم سوری" فاران نے جلدی سے معذرت کرکے اسے بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ 

"دراصل آپ کی شکل ميری ايک عزيزہ سے ملتی ہے بس اسی وجہ سے ميں تھوڑا کنفيوز ہوا" اس نے سچائ بيان کی۔ 

"جی ميں جانتی ہوں يماما سے ميری بے حد شکل ملتی ہے" اسکی بات پر فاران نے چونک کر اسکی جانب ديکھا۔ 

"آپ يماما کو۔۔۔۔۔ميرا مطلب ہے؟"وہ بوکھلايا۔ 

"انہيں کون نہيں جانتی۔ بلکہ ان کی ڈيتھ کے بعد تو بہت سے لوگ جاننے لگے ہيں" اس نے بھی صاف گوئ سے کہا۔ 

"جی يہ تو ہے"فاران يکدم افسردہ ہوا۔ 

"خير آپ کا نام۔ اور کس سلسلے ميں تشريف آوری ہوئ ہے۔ ميں آپکی کيا مدد کرسکتا ہوں؟" فاران نے فورا خود کو کنٹرول کرکے۔۔۔۔ پروفيشنل انداز اپنايا۔ 

"ميں ايکچولی آپ سے ايک اہم کيس ڈسکس کرنا چاہتی ہوں۔ آپ وقار سرتاج کا کيس ہينڈل کريں گے اب؟" اپنا مدعا بيان کرتے اس نے  سوال کيا۔ 

"جی بالکل" فاران نے تائيد کی۔ 

"ميں اسکے خلاف ايک اور کيس کھولنا چاہتی ہوں۔۔ اور اس سلسلے ميں چںد ايسے لوگوں کو جانتی ہوں ۔ جو وعدہ معاف گواہ بننے کو تيار ہيں" وہ رازداری سے بولی۔ 

"کک۔۔۔ کيا مطلب۔۔" وہ اب کی بار گھبرايا۔ آخر يہ کون تھی؟

"سب بتاؤں گی۔ مگر يہاں نہيں۔۔ آپ مجھ سے کہيں اور مليں۔ پھر ايک ايسے کيس کے سلسلے ميں اسے پھنسانا ہے۔ کہ اس جيسے درندے کبھی باہر نہ نکل سکيں" اسکے لہجے ميں نفرت گھلی تھی۔ 

"ہمم۔۔ آپ کا کوئ کنٹيکٹ نمبر ہے۔ ميں سوچ کر بتاؤں گا" فاران نے محتاط انداز ميں کہا۔ 

"جی جی۔ کاغذ قلم ديں ميں لکھ دوں" اس لڑکی نے فورا حامی بھری۔ 

فاران نے ايک کاغذ اور پين اسکے سامنے رکھے۔ 

اس نے تيزی سے اپنا نمبر لکھا۔ 

"يہ ميرا نمبر ہے۔۔ آپ جب بھی فيصلہ کر ليں ۔ مجھے بتا ديجئيے گا" کاغذ اسکی جانب کھسکاتے وہ اٹھی۔ 

"جی ضرور" فاران نے بھی انکار نہيں کيا۔ 

وہ خداحافظ کہتی نکل گئ۔ 

جبکہ فاران سوچ ميں گم ہوگيا۔

_____________________

رات آہستہ آہستہ بھيگ رہی تھی۔

ايک تو يماما کے لئے کسی اجنبی گھر ميں پہلی رات تھی۔

اور اس پر يہ پريشانی کہ شام کے بعد سے نائل گھر بھی واپس نہيں آيا تھا۔ اور نہ ہی کچھ بتا کر گيا تھا۔

وہ گيسٹ روم ميں موجود بيڈ پر ليٹی الجھن کا شکار تھی۔ 

جو کہانی نائل نے اسکے حوالے سے دنيا کے سامنے بنی تھی۔ اسکی وجہ سے وہ اب يہاں اسی شہر ميں موجود اپنے فليٹ پر بھی نہيں جاسکتی۔ 

نيند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ 

يہ شکر تھا کہ نائل اسے ايک موبائل دے گيا تھا۔ مگر اس پر بھی تاکيد تھی کہ اسکے علاوہ اور کسی سے وہ فون پر بات نہيں کر سکتی تھی۔ 

وہ انہی سوچوں ميں گم تھی جب نائل کا فون آيا۔

دو تين بيلوں کے بعد فون اٹھايا۔ 

"کيا کررہی تھی ميری رانی" وہ بالکل شہنشاہ والے انداز ميں بولا۔ 

يماما کے چہرے پر ناگواری کی جگہ مسکراہٹ بکھری۔ 

"رات کی رانی اور کر ہی کياسکتی ہے سواۓ جاگنے کے" يماما کے برجستہ جواب پر وہ خوشدلی سے ہنسا۔ 

"ويری ويل سيڈ"

"آپ ہيں کہاں پہ؟" آخر اس نے اسکی غيرحاضری کے بارے ميں سوال کيا۔ 

"تم تو افق کے اس پار جانے کو تيار نہيں تھيں۔ تو ميں اکيلا ہی چلا آيا" نائل نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔ 

"رات کے اس پہر۔۔۔۔۔۔کيا ميرے بعد جنگلی جانوروں سے بھی عشق کربيٹھے تھے" يماما نے ہوا ميں تير چلايا۔ کيونکہ اسکے جواب ميں کہيں بھی يہ ذکر واضح نہيں تھا کہ وہ کدھر ہے۔ 

"ہاہاہا۔۔بھئ بہت پہنچی ہوئ ہو۔۔۔گھر آکر ۔۔۔اپنے گھر کے باہر لکھواتا ہوں کہ يہاں بہت پہنچی ہوئ ہستی موجود ہيں۔ آئيں اور اپنے مسائل کا حل نکلوائيں۔۔ بلکہ يہ بھی لکھوا دوں گا۔ کہ يہ بزرگ ايسا عمل کريں گی کہ محبوب چار دن ميں آپکے قدموں ميں ہوگا۔۔۔" نائل اب بھی اسے باتوں ميں گھما پھرا رہا تھا۔ 

"ميرا محبوب تو چار گھنٹے بھی ميرے قدموں ميں نہيں بيٹھ سکا۔ باقيوں کو ميں خاک مشورہ دوں گی" وہ چڑ کر بولی۔ 

نائل نے قہقہہ لگايا۔ 

"بھئ اب ميں وہ محبوب تو ہوں نہيں کہ جس کی محبوبہ ايک جوڑے ميں ہی گزارا کرلے۔۔۔ اب ديکھو نا تم نے کيسے مجھے پانچ دن سے ايک ہی جوڑے ميں رہنے کا طعنہ مارا۔۔ اب تمہارے خرچے پانی کے لئے مجھے نوکری جيسا کڑوا گھونٹ تو پينا ہوگا نا" نائل کی حاضر جوابی کی وہ قائل ہوئ۔ 

"بچپن ميں تو آپ بہت کم گو تھے۔ يہ اتنا بولنا کہاں سے سيکھا؟" يماما جو اب تک اسکے اناز پر بار بار حيرت زدہ ہورہی تھی پوچھے بنا نہ رہ سکی۔ 

"يماما کہيں سنا تھا کہ کبھی کبھی انسان اپنے اندر کی وحشت اور خاموشی کو چھپانے کےلئے بہت زيادہ بولنا شروع کرديتا ہے۔ بابا اور ممی نے مجھے بہت پيار ديا۔ اپنوں کی کمی پوری کرنے کی کوشش کی۔۔ مگر تم سب تو تمہی تھے۔ تم سب کی جگہ کوئ نہيں لے سکتا تھا۔ ميں۔۔بھی ہر لمحہ اکيلا پن محسوس کرتا تھا۔ تم لوگوں کی يادوں نے ايک وحشت طاری کررکھی تھی۔ بس پھر اس سب کو چھپانے کے لئے ميں نے خود اعتمادی۔۔حاضر جوابی اور برجستگی کا خول چڑھا ليا" نائل کی باتيں اسے بھی غم سے دوچار کرگئيں۔ 

اور ساتھ ساتھ يہ تسلی بھی ہوئ کو وہ اکيلی اس دنيا ميں غموں کو سہنے والی نہيں تھی۔ اسکے آس پاس اس کا بہت اپنا بھی ان سب دکھوں کو محسوس کرنے والا تھا۔ 

"تمہارے ايک ايک پل کی ميں خبر رکھتا تھا۔ تمہارے فليٹ ميں۔۔تمہاری گاڑی ميں ۔۔ تمہارے آفس ميں۔۔ حتی کہ تمہارے فون تک ميں ميں نے مائيکرو فونز فٹ کر رکھے تھے۔ تاکہ تمہاری ہر لمحہ حفاظت کرسکوں" نائل کے انکشاف اسے اور بھی حيران کرگۓ۔ 

اسے اب سمجھ آيا کہ اسکے گھر پھول نائل کيسے رکھوا کر گيا۔ 

جب وقار نے اسکے آفس آکر اسے دھمکايا تو شہنشاہ کے روپ ميں اسے فورا مبارک کا میسج نائل نے کيسے کر ليا؟ 

"مگر جس رات فاران نے مجھے بتايا تھا کہ وہ مجھ ميں انٹرسٹڈ ہے وہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔۔ تب توميں اسکی گاڑی ميں تھی؟" يماما اپنی زندگی ميں ہونے والے واقعات کی مختلف کڑياں جوڑ رہی تھی۔ 

مگر فاران کے يماما کے بارے ميں خيالات نائل نے کيسے جانے وہ اب بھی نہ سمجھ سکی۔ 

"تمہارا خيال رکھنا تھا تو تم سے جوڑے ان لوگوں کا بھی تو خيال رکھنا تھا نا" نائل اسکی حالت سے حظ اٹھاتے ہوۓ بولا۔ 

"اسکی گاڑی ميں بھی مائيکرو فونز لگے ہوۓ ہيں" نائل نے ايک اور انکشاف کيا۔ 

"آپکی يہ سب مشکوک حرکتيں ظاہر کررہی ہيں کہ آپ کوئ ايجنسی کے بندے ہيں" وہ بھی يماما تھی۔ نجانے کيسے کيسے لوگوں سے پالا پڑ چکا تھا۔ لوگوں کی باتوں سے ہی ان کے پروفيشن کا اندازہ لگا ليتی تھی۔ 

"بھئ کيا کرتا اب تمہارے لئے جاسوسی تو کرنی ہی تھی۔ اب چاہے اس کے لئے تم مجھے ايک جاسوس ہی سمجھ لو" نائل نے اب بھی پروں پر پانی نہيں پڑنے ديا۔ 

"ميں تو اب اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کررہی ہوں کہ جس کے لئے آپ نے یہ سب کيا" يماما کو اب بے حد خوشی محسوس ہورہی تھی کہ وہ کسی لئے اس قدر خاص تھی۔ 

"تم ميرا حصہ ہو يماما تمہارے لئے تو يہ سب کرنا ہی تھا" نائل کا آنچ ديتا لہجہ يماما کی آنکھيں نم کرگيا۔ 

"افف اب يقينا تم آنکھوں ميں آنسو لئے بيٹھی ہوگی" نائل کی بات پر وہ نم آنکھوں سميت مسکرا اٹھی۔ 

"اب کيا گيسٹ روم ميں بھی کوئ کيمرہ لگا ہے جہاں سے آپ مجھے ديکھ رہے ہيں" وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔ 

نائل نے بے ساختہ قہقہہ لگايا۔ 

"اچھا آئيڈيا ہے۔۔ آتے ہی لگواؤں گا۔۔ ليکن جب تم بات کرتے کرتے يکدم خاموش ہوتی ہو تو مجھے سمجھ آجاتی ہے کہ جناب رونے ميں مصروف ہوں گی" نائل کی بات پر وہ پھر سے مسکرائ۔ 

"يماما تم بہت بہت سٹرونگ ہو۔۔ اور ميں تمہيں ہميشہ ايسے ہی سٹرونگ ديکھنا چاہتا ہوں" 

"بس۔۔ جب سے آپ کے بارے ميں پتہ چلا ہے سب اپنے بہت شدت سے ياد آرہے ہيں" وہ پھر سے بھيگے لہجے ميں بولی۔ 

"اوکے۔۔ ابھی تو چپ کرجاؤ۔۔ جب ميں سامنے ہوں تب سب کو ياد کرکے رونا تاکہ تمہارے آنسو بھی صاف کرسکوں۔۔ اب ديکھو۔۔ ٹيکنالوجی جتنی چاہے ايڈوانس ہوجاۓ۔۔ ميں فون سے ہاتھ بڑھا کر تمہارے آنسو نہ تو صاف کرسکتا ہوں اور نہ ہی تمہيں رونے کے لئے کندھا دے سکتا ہوں۔۔ سو ہولڈ آن ميری جان ۔۔ کل آؤں گا تب يہ شغل کرنا۔ چلو اب سو جاؤ۔۔ ميں کال بند کرتا ہوں" نائل کی باتوں پر يکدم اسکا چہرہ تمتمايا۔

"اوکے اللہ حافظ" اس نے بھی فورا فون بند کيا۔ اس سے پہلے کہ نائل مزيد  شوخ ہوتا۔ 

مگر فون بند کرکے ايک تسلی سی ہوگئ۔ وہ جو کچھ دير پہلے بے حد مضطرب تھی اب لگا جیسے سکون سا رگ وہ پے ميں سرائيت کرگيا ہو۔ 

نائل کو ہی سوچتے سوچتے وہ سوگئ۔

ماضی

نواز اس بار گھر آيا تو باپ کو بے حد پريشان ديکھا۔ بظاہر سب سے باتيں کرتے وہ اپنی ذہنی کشمکش کو خود سے چھپا رہا تھا مگر نواز بے حد زيرک نگاہ رکھتا تھا۔ 

رات ميں کھانا کھا کر وہ باپ کولئے چھت پر ٹہلنے کے ارادے سے آيا۔ 

"کيا بات ہے ابا ۔۔ ميں جب سے شہر سے آيا ہوں آپ بے حد پريشان لگ رہے ہيں۔ کوئ مسئلہ ہے۔ پيسے چاہئيے۔ يا کوئ اور بات؟" چند ايک ادھر ادھر کی باتيں کرنے کے بعد وہ اصل موضوع پر آيا۔ 

"ارے نہيں پت۔ ايسا کچھ نہيں۔ بس ويسے ہی" محمد بخش نے حتی المقدور خود کو چھپانے کی کوشش کی۔ 

"نہيں ابا۔۔ کچھ تو ہے۔ کيا ملکوں کے ساتھ کوئ بات ہوئ ہے؟" اس نے ہوا ميں تير پھينکا۔ 

"بيٹا۔ وہ تيری وکالت کی ڈگری کے بارے ميں جان گۓ ہيں۔ کی مجھے حويلی بلا کر بہت دھمکياں لگا رہے تھے" کل سے اب تک انہيں لگ رہا تھا ان کی جان سولی پر ٹنگی ہے۔ آخر کچھ سوچ کر نواز کو اپنا ہمراز بنايا۔ 

"تو کيا ابا انکے ڈر سے ہم اپنے مستقبل۔ اپنی خواہشوں سب کا گلہ گھونٹ ديں۔" نواز نے افسوس سے سر ہلايا۔ 

"ارے نہيں پت ۔۔ ميں يہ کب کہہ رہا ہوں۔ کوئ صورت ہو سکتی ہے اس مسئلے سے نکلنے کی؟"

"ہاں ۔ اور وہ يہ کہ آپ سب بھی شہر شفٹ ہوجائيں۔ بچوں کو تو ميں کچھ عرصے تک لے جاؤں گا۔ نائل بھی جوان ہورہا ہے۔ ماشاءاللہ سے بارہويں ميں پہنچ گيا ہے۔ اب اسکا مستقبل بننے کا وقت آيا ہے۔ اور يہ لمحے اسکے لئے بہت قميتی ہيں۔ 

ميں چاہتا ہوں کہ باقی بچوں کی تعليم بھی اب شہر ميں ہی پوری ہو۔ تو پھر آپ سب کو يہاں رہ کر کيا کرنا ہے۔ يہاں سے بيچيں سب اور وہيں چليں۔ کم از کم وہاں ايسے خدا تو نہيں ہوتے" نواز نے اپنی پليننگ بتائ۔ 

پچھلے سال ہی انہوں نے نائل اور يماما کا نکاح کيا تھا۔ 

حالانکہ نواز اسکے حق ميں نہيں تھا۔ وہ ان بچپن کی منگنيوں اور نکاح کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر يہاں اسکی چل نہيں سکی۔ 

معاملہ بيٹی کا تھا۔ اور نائل ہر طرح سے ايک اچھا بچہ تھا۔ پڑھائ سے محبت کرنے والا خاموش طبع اور ذمہ دار۔ 

نواز کو ايک بيٹی کے باپ کی حيثيت سے سب خوبياں نائل ميں نظر آئيں۔ لہذا وہ کوئ اعتراض نہيں کرسکا۔ 

نائل جتنا خاموش طبع تھا يماما اتنی ہی باتونی اور لڑنے بھڑنے والی۔ 

سب نے يہی سوچا کہ مختلف عادتيں ہيں دونوں ايک دوسرے کے ساتھ اچھی زندگی گزاريں گے۔ کبھی کبھی ايک جيسی عادتوں والوں ميں زيادہ اختلاف بڑھتے ہيں۔ 

نائل بھی رضامند تھا۔ 

اپنی نٹ کھٹ سی يہ کزن اسے بہت عزيز تھی۔ اور اب تو رشتہ بدلنے کی وجہ سے عزيز تر ہوگئ تھی۔

"نہيں بيٹے ايک دم سے يہ سب کيسے چھوڑ کر نکل جائيں اور تمہارے خيال ميں يہ ملک ہميں اتنی آسانی سے يہاں سے نکلنے ديں گے" محمد بخش نے ہميشہ والا راگ الاپا۔ 

"تو کيا ہم ساری زندگی پڑھ لکھ کر بھی ان کی جوتياں چٹخاتے رہيں گے" وہ ناگواری سے بولا۔ 

"کچھ سوچتے ہيں" محمد بخش نے فی الحال بيٹے کا غصہ ديکھ کر خاموش رہنا مناسب سمجھا۔

__________________________

نائل اگلے دن دوپہر ميں گھر پر موجود تھا۔ 

مہک کسی سيمينار ميں گئ ہوئيں تھيں۔ شمس بھی گھر پر موجود نہين تھے۔ 

نائل کو سکون سے يماما کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل گيا۔ 

جس وقت وہ گھر آيا۔ 

يماما لاؤنج ميں بيٹھی چاۓ پی رہی تھی۔ ٹی وی پر کوئ ٹاک شو لگا ہوا تھا۔ مگر وہ اپنی ہی سوچوں ميں مگن تھی کہ نائل کے آنے کی خبر نہيں ہوسکی۔ 

وہ کپ ہاتھ ميں پکڑے کسی گہری سوچ ميں گم تھی۔ جب اسکے ہاتھ سے کپ پکڑتے ہوۓ نائل نے پينا شروع کرديا۔ 

وہ اس اچانک حملے پر ہڑبڑائ۔ 

"افف آپ۔۔" نائل کو ديکھ کر جان ميں جان آئ۔ 

"اکيلے اکيلے چاۓ سے لطف اندوز ہوا جارہا ہے" وہ مزے سے اسکے کپ سے چاۓ پينے لگا۔ 

"ميں اور بنا ليتی ہوں۔۔ آپ يہ رہنے ديں" وہ جلدی سے اٹھنے لگی کہ نائل جو اس کے ساتھ رکھے صوفے پر بيٹھا تھا۔ 

اس کا ہاتھ پکڑ کر بيٹھنے رہنے کا اشارہ کيا۔ 

"رہنے دو۔ جو مزہ اس چاۓ ميں ہے وہ الگ سے چاۓ پينے ميں کہاں" اسکی بات پر يماما کا دل زور  سے دھڑکا۔ 

"آپ کا کک اندر موجود ہے" يماما نے اسے يوں بے تکلف ہونے پر تنبيہہ کی۔ 

"ميں اب کک سے ڈروں گا؟" نائل نے بدمزہ ہو کر اسے دیکھا۔ جو اس وقت اسی کے دئيے گۓ کپڑوں ميں سے ايک گرين اور پنک کامبينيشن کا جديد تراش خراش کا سوٹ پہنے اپنے کندھوں سے ذرا سا نيچے آتے بالوں کو پونی ميں باندھے ہميشہ کی طرح نائل کو اپنے دل کے قريب محسوس ہوئ۔ 

"کيا پتہ کسی کے عہدے کو چيلنج نہيں کرنا چاہئيے" يماما نے نائل کے دبے ہاتھ ميں موجود اپنے ہاتھ کو ہولے سے چھڑانا چاہا۔ 

مگر نائل کی مضبوط گرفت نے اسے يہ کرنے نہيں ديا۔

I tried,

tried to make it on my own

Did my best to get along,

I tried

It's no use,

every winning streak just ends

Only days become the trend without you

Cause only you can make me.

Only you can make me happy,

I'd lie

if I told you how I felt

Not a word I think would help

My love it burns

You know

I'm supposed to be with you

I'm a madman and a fool

to be so, to be so...

Cause only you can make me.

Only you can make me happy,

I don't even recognize myself

Don't wanna be with anybody else

It's hard to live like this

I couldn't have it any other way

Wouldn't wanna live another day

Without you

Cause only you can make me.

Only you can make me happy

يکدم اسکا ہاتھ تھامے نائل کی گمبھير آواز ميں پڑھی جانے والی نظم يماما کے دل کے تاروں کو چھو گئ۔ 

نظم پڑھتے اسکی نگاہيں مسلسل اسکے چہرے کا احاطہ کئے ہوۓ تھيں۔ جہاں کبھی وہ پلکوں کی جھالر گراتی کبھی اٹھاتی اسے ديکھ رہی تھی۔ 

"يہی سب ميں بھی محسوس کرتی تھی" اسکے چپ ہونے پر يماما کی بھيگی آواز پر نائل کا دل کيا اسے خود ميں چھپا لے۔ 

نائل کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ تھامے اسے بھی کھڑا کرکے سيڑھيوں کی جانب رخ کيا۔ 

" تم نے ميرا۔۔۔۔ بلکہ ہمارا روم ديکھا ہے ابھی تک؟" نائل نے سيڑھيوں کی جانب بڑھتے سوال کيا۔ 

يماما معمول کی طرح اسکے ساتھ کھيچتی چلی جارہی تھی۔ 

"نہيں۔۔" آنسو پيتی وہ اپنے لہجے کو بشاش رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ 

"چلو دکھاؤن" يماما کو لئے اب وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔

سادہ سا کمرہ تھا۔ بيڈ کی بجاۓ ميٹرس کارپٹ پر رکھ کر اسے بيڈ بنايا گيا تھا۔ ميٹرس کے دونوں اطراف ٹيبل رکھے ہوۓ تھے۔ 

اسکے دائيں جانب کتابوں کا بڑا سا لکڑی کا خوبصورت ريک بنا ہوا تھا۔ جس ميں بے شمار کتابيں موجود تھيں۔ 

ميٹرس کے بالکل سامنے صوفہ کم بيڈ پڑا ہوا تھا۔ 

بائيں جانب ٹريڈ مل موجود تھی۔ کمرہ کافی کشادہ تھا۔ 

ايک جانب سے راہداری سی بنائ گئ تھی جس کے آمنے سامنے وارڈروب تھی اور اسکے سرے پر واش روم تھا۔ 

نائل نے يماما کو کاؤچ پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ 

"بيڈ کيوں نہيں رکھا آپ نے؟" يماما کو بس بيڈ کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ باقی سب تو بے حد نفيس تھا۔ 

"بس ويسے ہی۔ مجھے يہ سیٹنگ بڑی ان فارمل سی لگتی ہے۔" وہ يماما کا دھيان بٹانے ميں کامياب ہوگيا تھا۔ 

سائيڈ ٹيبلز پر ايک شيشے کا جار رکھا ہوا تھا جس ميں خشک ميوہ جات تھے۔ 

نائل وہ اٹھا کر يماما کے قريب صوفے پر بيٹھا۔ 

جار کو کھول کر بڑے ادب سے جار اسکی جانب بڑھايا۔ 

يماما چہرے پر مسکراہٹ لئے اسے ديکھ رہی تھی۔ 

"آپ اپنے روم ميں پہلی بار آئ ہيں۔ تھوڑی سی خاطر کرنی تو بنتی ہے نا" شرير سی چمک آنکھون ميں لئے وہ يماما کو ديکھ رہا تھا۔ 

يماما نے ہاتھ بڑھا کر جار ميں سے ميوے لينے چاہے۔ جب نائل نے جان بوجھ کر وہ جار پيچھے کيا۔ 

يماما نے لمحہ بھر کو حيرت سے اسکی يہ حرکت نوٹ کی۔ 

پھر دوبارہ ہاتھ بڑھا کر لينے چاہے۔ 

اس نے دوبارہ وہی حرکت کی۔ 

اب کی بار يماما نے ہاتھ کھينچ ليا۔ 

"ان رومينٹک لڑکی۔ يوں منہ پھلانے کی بجاۓ اچھا ہوتا کہتیيں۔ آپ اپنے ہاتھوں سے کھلائيں" نائل کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائ۔ 

"ميرے ہاتھ سلامت ہين ابھی۔ دينے ہيں تو ديں۔ نہيں تو ميں يہ جار توڑ دوں گی اب" وہ اپنے مخصوص اکھڑ انداز ميں بولی۔

"ميں ديکھنا چاہتا تھا کہ اب بھی بچپن کی طرح مار دھاڑ والی يماما ہو۔ يا کچھ بہتری ہے۔ مگر يہاں مستقبل اب بھی تاريک ہے" وہ مايوسی سے بولا۔ 

اب کی بار شرافت  سے جار اسکے سامنے کيا۔ 

يماما نے کچھ جھجھک کے چند ميوے نکالے 

"تو پھر کسی روشن مستقبل کرنے والی سے شادی کرليتے۔ جو آپکی زندگی ميں ٹيوب لائٹيں جلا ديتی۔مرد کو تو ويسے بھی چار کی چھوٹ ہے" يماما مزے سے اس پر طنز کرنے لگی۔ 

"کاش۔۔۔ مگر وہ کيا ہے کہ مجھے اس اندھير نگری ميں ہی زندگی گزارنی تھی" نائل مسلسل اسے چڑا رہا تھا۔ 

"آپ کو ميرے بارے ميں کيسے پتہ چلا کہ ميں زندہ ہوں؟" يماما نے پھر سے وہی سوال کيا۔ 

نائل بھی اب کی بار سنجيدگی سے اسے بتانے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ۔ 

"کم ان" نائل جو يماما کے قريب بيٹھا تھا اٹھ کر اپنے ميٹرس پر آگيا۔ 

دروازہ کھول کر مہک اندر آئيں۔ 

"السلام عليکم ممی" نائل يکدم ان کی جانب بڑھا۔ 

انہيں ساتھ لگا کر ماتھے پر پيار کيا۔ 

"کب آۓ؟" وہ يماما کے پاس بيٹھتے ہوۓ پوچھنے لگيں۔

"بس کچھ دير پہلے۔ کنزہ کو اپنی بکس دکھانے لايا تھا" نائل نے فورا يماما کی موجودگی کی وضاحت دی۔ 

مہک نے بڑے معنی خيز انداز ميں يماما کو ديکھا۔ 

"بہت اچھی بات ہے۔۔ اپنی لائبريری بھی دکھاؤنا" مہک خو شی سے بوليں۔ 

نائل کا يوں يماما کو اہميت دينا انہيں بہت اچھا لگا۔ انہيں لگا شايد اب ان کا بيٹا اپنی مری ہوئ منکوحہ کی يادوں سے نکل کر زندگی کو کسی اور کے ساتھ گزارنے کی خواہش کرے۔ 

وہ تو کب سے چاہتی تھيں کہ نائل اپنی نئ زندگی جلد شروع کرے مگر وہ تھا کہ اس جانب آتا ہی نہيں تھا۔ 

مہک کو پہلے بھی محسوس ہوا تھا کہ جيسے نائل کی آنکھوں ميں کنزہ (يماما) کے لئے پسنديدگی ہو۔ مگر اس لمحے انہيں لگا ان کا شک يقين ميں بدل گيا ہو۔ 

وہ بے حد مطمئن اور خوش ہوئيں۔

_________________

فاران اگلے دن اس لڑکی کے بتاۓ ہوۓ پتے پر موجود تھا۔ 

اس لڑکی نے اپنا نام سيمی بتايا تھا۔ 

فاران کو اس نے ايک ريسٹورينٹ ميں آنے کا کہا تھا۔ 

فاران مقررہ وقت پر وہاں پہنچ چکا تھا۔ 

کچھ دير بعد سيمی بھی اسے آتی ہوئ دکھائ دی۔ 

ٹيبل کی جانب آئ۔ فاران اپنی کرسی سے کھڑا ہوا۔ 

"کيسی ہيں؟"سلام دعا کے بعد حال چال پوچھا۔ 

"جی ميں ٹھيک" وہ محتاط نظروں سے ادھر ادھر ديکھتی بيٹھ گئ۔ 

فاران اس کا ايک ايک انداز نوٹ کررہا تھا۔ 

"کيا ليں گی" فاران نے حق ميزبانی نبھايا۔ 

"بس کافی" وہ بھی مختصر بولی۔ 

فاران نے ويٹر کو آواز دے کر دو کپ کافی کا کہا۔ 

"جی۔۔ تو بتائيے" فاران نے اب اسے اس راز سے پردہ ہٹانے کا کہا۔ جس راز کو جاننے کےلئے وہ يہاں آيا تھا۔ 

"وہاج اور سرتاج دونوں بھائ اور انکے بيٹے۔ خاص کر وقار کا بہت سے پرائيوٹ کلينکس کے ڈاکٹروں کے ساتھ کانٹيکٹ ہے" فاران غور سے اسے سن رہاتھا۔ 

"اور ان ڈاکٹروں کی مدد سے يہ غريب اور نادار مريضوں کو چھوٹی موٹی بيماری کو بھی لمبا چوڑا کرکے بتاتے ہيں۔ پھر زبرستی انہيں اپنے ہاسپٹلز ميں رکھ کر آپريشنز سجيسٹ کرتے ہيں۔ اور اس آپريشن کے دوران لوگون کی کڈنی نکال ليتے ہيں۔ اور پھر مہنگے داموں انہيں بارڈر پار سے آنے والے عملے اور جاسوسوں کی مدد سے انہيں مختلف ملکوں ميں بيچتے ہيں" سيمی کا انکشاف فاران کو بھونچکا کرگيا۔ 

"ميرے پاس تقريبا نو ايسے مريض ہيں۔ جن کا گردہ يہ منحوس لوگ مہنگے داموں بيچتے ہيں۔ وہ سب گواہی ديں گے۔ اسکے علاوہ کچھ فوٹيجز بھی موجود ہيں" وہ انکشاف در انکشاف کئے جارہی تی۔ 

 "آپ کو کيسے معلوم ہوا يہ سب؟" فاران نے حيرت سے نکل کر سوال کيا۔

"آپ آم کھائيں پيڑ نہ گنيں" وہ بھی مزے سے بولی۔ 

"مگر۔۔"

"اگر ۔۔ مگر کرتے رہے تو کل کو وہ کسی بھی وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل سکتے ہيں۔ جتنا گھيرا تنگ کريں گے۔ ان کے لئے نکلنا اتنا ہی مشکل ہوجاۓ گا" 

"ديکھيں فاران۔۔مجھے اس سب سے کوئ فائدہ نہيں ملے گا۔ سواۓ اس کے کہ ميں ايک غدار کو جيل بھجواؤں گی۔بس مجھے اور کوئ لالچ نہيں" اس سے پہلے کے فاران جواب ميں کچھ کہتا۔ ويٹرکافی رکھ گيا۔ 

کچھ دير دونوں خاموش ہی رہے۔

"ميرے پاس وہ فوٹيجز اس سی ڈی مين ہيں" سيمی نے ايک پيکٹ اسکی جانب بڑھايا۔ 

جسے فاران نے فورا سے پہلے تھام ليا۔ 

"اميد کرتی ہون۔ يہ سب آپکے کيس کو اور بھی مضبوط بناۓ گا" وہ صاف گوئ سے بولی۔ 

"ان شاءاللہ" فاران نے بھی صدق دل سے کہا۔ 

کچھ دير باتيں کرنے کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے رستے نکل پڑے۔ 

سيمی جيسے ہی گاڑی ميں بيٹھی۔ اسکے موبائل کی بيل بجی۔ 

"ہيلو" فون کان سے لگايا۔ 

"کام ہوگيا؟" دوسری جانب سے پوچھا گيا۔ 

"ہاں ہوگيا۔" اس نے تسلی دلائ۔ 

"زيادہ پوچھ گچھ تو نہيں کی؟" پھر سوال۔

"نہيں ميں نے اس انداز ميں بات کو گھمايا کہ وہ زيادہ کچھ کہہ نہين سکا" گاڑی سٹارٹ کرتے اس نے بتايا۔ 

"گڈ۔۔ مجھے تمہاری صلاحيتوں پر پورا يقين ہے اسی لئے تمہيں اس کام کے لئے چنا تھا" دوسری جانب سے ستائشی کلمات سننے کو ملے۔ 

"اوکے رات ميں ملتے ہيں" الوداعی کلمات ادا کرکے فون بند کر ديا گيا۔

وہاج کو کچھ دير پہلے ہی خبر ملی تھی کہ اس کا وہ بندہ جو ہئيروئن اور چرس کے اڈوں سے واقف تھا۔ وہ بھی اغوا ہوچکا ہے۔ 

"مجھے لگ رہا ہے۔ پھندہ ميری گردن کے قريب آنے والا ہے" اس کے مينجر نے جس لمحے اسے اطلاع دی اسے لگا اب وہ مرنے کے قريب ہی ہے۔ 

يوں اچانک بيٹے کا اغوا ہونا اور پھر اسکے ايک ايک کرکے اسکے خاص بندوں کا بھی پراسرار طور پر اغوا ہوجانا۔ 

يہ سب کڑياں اسی بات سے ملتی تھيں کہ وہ سب خفيہ ايجنسيوں کے ہاتھ لگ چکے ہين۔ 

"سر ضروری نہيں کہ خفيہ ايجنسيوں کا کام ہو۔ ہو سکتا ہے آپکے مخالفين ميں سے کسی کی حرکت ہو" اسکے مينجر نے اسے تسلی دلانا چاہی۔ 

"نہيں تم جو بھی کہہ لو۔ يہ يقينا ايجنسيوں کی حرکت ہے۔" اسے يقين ہو چلا تھا۔ 

"تم کسی بھی طرح مجھے اس ملک سے باہر نکلوا سکتے ہو؟" وہ اس لمحے بے بسی کی تصوير بنا ہوا تھا۔ 

"سر آپ جانتے ہيں کہ يہ ناممکنات ميں سے ہے" اس نے صاف جواب ديا۔ 

اب تو اسکے مينجر کو بھی اپنی فکر لاحق ہوگئ تھی۔ 

"تو مر جاؤں کيا؟" وہ چلايا۔ 

"سر ميں نے يہ تو نہيں کہا۔ انتظار کريں۔ کوئ سدباب کرتے ہيں" اس نے جھوٹی تسلی دلانی چاہی۔ 

"بھاڑ ميں جاؤ سارے" وہ غصے سے چلايا۔ 

فون کھڑاک سے بند کيا۔ ابھی فون بند کئے زيادہ دير نہيں گزری تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ 

وہ يہی سمجھا کہ اس کے مينجر کا ہوگا۔ 

جھٹ سے فون اٹھايا۔

"کيسے ہو وہاج" اجنبی آواز اور لب و لہجہ۔ 

"ٹھيک تم کون؟" پہچاننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ 

"تمہاری موت" دوسری جانب سے ملنے والے جواب پر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگۓ۔ 

"کک۔۔۔ کيا مطلب؟" وہ ہکلايا۔ 

"موت کا مطلب موت۔۔ ويسے مجھے شہنشاہ بھی کہتے ہيں" دوسری جانب سے مسکراتی آواز ميں اپنا تعارف کروايا گيا۔ 

"تت۔۔ تم ميرے پيچھے کيوں پڑے ہو۔ ميں نے تمہارا کيا بگاڑا ہے" وہ خوفزدہ آواز ميں بولا۔ شہنشاہ کو کون نہيں جانتا تھا۔ 

بے تاج بادشاہ تھا۔ اور غنڈوں ميں ايسا غنڈہ جو اگر ايک بار کسی کے پيچھے پڑ جاۓ تو اسے موت کی آغوش ميں سلا کر ہی دم ليتا تھا۔ 

"ارے يار گھبراتے کيوں ہو۔ ميرے ابا کہا کرتے تھے موت سے ڈرتے وہ ہيں جو زندگی کو ہی اپنی آخری آرامگاہ مان ليتے ہيں۔ اور يہ وہ لوگ ہوتے ہيں جو زمين پر ابليس کے اصل روپ ميں ہوتے ہيں۔ اور موت سے وہ لوگ نہيں ڈرتے جنہيں اللہ اور اس کی رضا کے علاوہ حقيقت ميں کسی کا ڈر نہيں ہوتا۔ 

اب سوچ لو تم کن ميں ہو؟

اور جہاں تک تمہارے پيچھے پڑنے کا سوال ہے تو ميرے چيونٹے۔۔۔ تو نے بہت لوگوں کی زندگی کو بلاوجہ موت کی نيند سلا دیا۔ صرف اپنے عہدے۔ رتبے اور اپنی جاگير اور جاگيرداری کو بچانے کے لئے۔ اب مکافات عمل تو ہونا ہی ہے نا۔۔ تو بس خاموشی سے انتظار کر اپنی باری کا" وہ اسے چمکارتے ہوۓ بولا۔ وہاج کے ماتھے پر شديد پسينہ آگيا۔ 

"تم۔۔ تم خود ايک گناہگار۔۔ اللہ کی باتيں کرتے اچھے نہيں لگتے" وہاج اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر اس کا مذاق اڑانے والے لہجے ميں بولا۔ 

"اےےےےے۔۔۔ زبان کو لگام دے۔۔ شہنشاہ نے کبھی کسی بے گناہ کو نہيں مارا۔ بلکہ ہر قصوروار کا سر کچلا ہے۔ جتنی بھی فرار کی راہيں اختيار کرنی ہيں کرلے۔ مگر ياد رکھنا۔ شہنشاہ تجھے دنيا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ نکالے گا۔ ابھی بہت سے بے قصوروں کا حساب نکلتا ہے تيری طرف۔۔ بس چند دن آزادی کی سانس لے لے۔۔ پھر تيری گردن سے پکڑوں گا تجھے" غصے سے پھنکارتا شہنشاہ وہاج کو دم سادھنے پر مجبور کرگيا۔

کھٹ سے فون بند ہونے کی آواز آئ۔ 

وہاج کو لگا کوئ بھيانک خواب ختم ہوا ہے۔

_________________

رات ميں کھانے سے فارغ ہوکر نائل اور يماما لان ميں واک کرنے کے لئے بيرونی حصے کی جانب بڑھے۔ 

مہک نے بے حد محبت اور ستائشی نظروں سے ان کی جانب ديکھا۔ 

"آپ کو نہيں لگتا ۔۔ جب سے يہ لڑکی آئ ہے۔ ہمارا نائل کچھ بدلا بدلا سا ہے" مہک اپنے سے چند انچ کے فاصلے پر بيٹھے شمس کی جانب ديکھ کر بوليں۔ جو بظاہر ٹی وی ديکھنے ميں مگن تھے۔ مگر مہک کی آنکھوں کی زبان پڑھ چکے تھے۔ 

"کيا مطلب؟" جان بوجھ کر انجان بنے۔ 

"افوہ۔۔ شمس اب اتنے بھی آپ بچے نہيں کہ ميرا مطلب نہ سمجھيں۔ 

بھئ مجھے لگتا ہے کہ نائل کنزہ کو پسند کرنے لگا ہے" مہک نے اب کھل کر اپنے خيالات کا اظہار کيا۔ 

"ارے نہيں۔ وہ تو بس مہمان ہونے کے ناطے اسے کمپنی دے رہا ہے" شمس نے جان بوجھ کر بات کو کوئ اور رنگ ديا۔ 

"ارے بھئ۔ اگر وہ اسکے آنے سے بدل بھی جاۓ تو کيا برا ہے۔ ميری کب کی خواہش پوری ہوجاۓ گی۔" مہک شمس کی بات پر بدمزہ ہوئيں۔ 

"کون سی خواہش؟" وہ پھر سے انجان بنے۔ يہ ديکھنے کے لئے کہ مہک کا ان دونوں کو يوں ساتھ ساتھ ديکھنا انہيں روايتی ماؤں کی طرح برا نہ لگے۔ 

"بھئ نائل کی شادی کی۔۔۔بس ميں زندگی ميں ہی اسکی سب خوشياں ديکھنا چاہتی ہوں۔ مرتے ہوۓ يہ اطمينان تو ہو نہ کہ ميرے نائل کا مجھ سے بھی زيادہ خيال رکھنے والی کوئ موجود ہے" ان کے لہجے سے نائل کے لئے ممتا اور محبت ہی محبت ٹپک رہی تھی۔ 

"ان شاءاللہ ہم جلد ہی وہ دن ديکھين گے۔ اللہ کی ذات سے مايوس نہيں ہونا چاہئيۓ۔ وہ بہتر سے بہترين کی جانب ہی لے کر جاتا ہے" شمس نے انہيں تسلی دلائ۔ 

"ان شاءاللہ" مہک نے صدق دل سے نائل کی خوشيوں کی دعا کی۔

______________________

"آنٹی کيا سوچ رہی ہون گی ميرے بارے ميں؟" نائل نے جس لمحے اسے کھانے کی ميز سے اٹھ کر باہر واک پر چلنے کی پيشکش کی۔ اور پھر جس طرح مہک نے اسے ديکھا۔ 

يماما کو بہت شرمندگی سی ہوئ۔ 

"کچھ نہيں سوچتيں يار۔۔ بلکہ ممی بہت خوش ہورہی ہوں گی" نائل نے اسے شرمندگی سے نکالا۔ 

"وہ کيوں؟ خوش کس بات پر؟" وہ حيران ہوئ۔ 

"اسی لئے کہ ممی بہت عرصے سے پيچھے لگی تھيں کہ کوئ اچھی لڑکی ديکھ کر شادی کرلو۔ مگر اس دل کا کيا کرتا جہاں ہر لمحہ تم بسی تھيں۔ اور تو اور ميں جانتا بھی تھا کہ تم زندہ ہو۔ مگر تمہارے بہتر مستقبل اور خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک ميں تمہاری ذمہ دار نہيں لے سکتا تھا۔ 

اسی لئے اب جب مجھے محسوس ہوا کہ تم وہ سب بن گئ ہو۔ جس کی کبھی تمہيں خواہش تھی۔ اور ميں تمہاری ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوچکا ہوں تو ميں نے تمہيں اپنے پاس بلا ليا۔" نائل نے اسے مفصل جواب ديا۔ 

"اسی لئے تم پريشان نہ ہوں۔ ممی نے بہت خوش ہو کر اس لمحے تمہيں ديکھا تھا۔ اور ميں جان بوجھ کر يہ سب اسی لئے کررہا ہوں تاکہ ممی کا تمہارے حوالے سے رویہ جان سکوں۔ تاکہ جب انہيں بتاؤں کا جس لڑکی کو آپ يہ سوچ رہی ہيں کہ ميں نے اب پسند کيا ہے۔ وہ اصل ميں برسوں سے ميرے نام ہوچکی ہے" نرم گھاس پر واک کرتے اور پورے چاند کی روشنی ميں اسے يوں ہی محسوس ہورہا تھا جيسے کوئ اس پر مسلسل رحمتوں اور عنايتوں کی برسات کررہا ہو۔ 

"اور اب مجھے يقين ہوگيا ہے کہ ممی تمہيں ميری منکوحہ کی حيثيت سے آرام سے قبول کرليں گی" نائل نے ايک نظر ساتھ ّچلتے وجود پر ڈالی جو نائل کی باتوں پر بلش کررہی تھی۔

"بس يہ سرتاج اور وہاج والا کيس ختم ہوجاۓ پھر ممی کو سب حقیقت بتانی ہے" نائل اب سامنے ديکھتے چل رہا تھا۔ 

"آپ جانتے ہيں نا کہ مجھے ان لوگوں کے خلاف لڑ کر انہيں جيل کی سلاخوں کے پيچھے ديکھنے کی شديد خواہش تھی۔ مگر آپ نے اغوار کروا کر مارنے والا کام کرکے مجھے بالکل ہی مفلوح کرديا ہے" نائل کے وہی موضوع چھيڑنے پر وہ بھی اپنی دل کی بات کہنے سے رہ نہ سکی۔ 

"ميری جان تمہارا جتنا کام تھا اس کہانی ميں تم نے کيا۔ ان کے گرد گھيرا اتنا تنگ ہوچکا ہے کہ وہ بچ کر نکل ہی نہيں سکتے۔ اور دوسری بات۔ انہيں سزا دلوانے سے کہيں زيادہ ميرے لئے يہ ضروری تھاکہ ميں تمہاری حفاظت کرتا۔ تم سے بڑھ کر مجھے کسی سے کوئ بدلہ لينا نہيں تھا۔ 

تمہاری يہ جيت کم نہيں کہ سرتاج کو تم نے اندر کروايا۔ اب رہ گۓ ان کے خاندان کے باقی لوگ۔ تو وہ بھی جلد اندر ہوں گے۔" نائل کے محبت بھرے لہجے نے اس کے شکوے مٹا دئيے۔ 

"يماماتم ميرے لئے سب کچھ ہو۔ يہ سب جو ميں آج ہوں۔ صرف اس وجہ سے اور يہ عزم لے کر کہ مجھے اپنی يماما کو ايک ادھوری اور بزدل زندگی نہيں دينی۔ مجھے نہ صرف اسے مضبوط بنانا ہے بلکہ اس کے لئے ايک مضبوط قلعہ بننا ہے۔ کہ کوئ وہاج اور سرتاج تمہيں ميلی آنکھ سے ديکھ نہ سکيں۔" نائل يکدم رک کر يماما کی جانب مڑا۔ 

جو اسکے چہرے کی جانب ديکھنے کی ہمت نہيں کرسکی۔ 

جانتی تھی۔ محبتوں کا جہان لئے وہ اسے ديکھ رہا ہے۔ ابھی تو نائل کے ہونے کو ہی پوری طرح محسوس نہيں کرپائ تھی۔ 

اس کی محبتوں کی شدتوں کو خود ميں سمونے کی ہمت کہاں سے لاتی۔ 

"ماضی کے وہ اوراق آپ کب پلٹيں گے جن ميں ميرے زندہ ہونے کو آپ جانتے تھے؟" يماما کی بے صبری بے جا نہ تھی۔ 

"وہ داستان يوں کھڑے کھڑۓ سنانے لگا۔ تو آج رات ہم يہيں کھڑے رہيں گے۔ ميری بھولی سی ممی کہيں يہ نہ سمجھيں کہ ميں تمہاری محبت ميں اتنا گوڈے گوڈے ڈوب چکا ہوں کہ اب ساری رات لان ميں کھڑے ہوکر تمہارے لئے چلے کاٹ رہا ہوں" نائل کے يوں پہلو تہی کرنے پر يماما نے ناراض نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"اچھا بابا خفا مت ہو۔ کل ممی کسی سيمينار کے سلسلے ميں شہر سے باہر جا رہی ہيں اور پرسوں واپس آئيں گی۔ 

کل کی ساری رات تمہارے نام" نائل نے اس قدر بے ساختگی سے کہا کہ يماما کے گال لال ہوگۓ۔ 

"کيا فضول بات ہے" يماما نے تيز نظروں سے اسے ديکھا۔ اور پھر سے قدم واک کرنے کے لئے بڑھا دئيے تھے۔ مطلب واضح تھا کہ وہ اس کی بات کا اثر زائل کرنا چاہتی ہے۔

"بھئ ميں نے تو نہايت معقول بات کی ہے اب تم اسے کسی فضول ٹريک کی جانب لے جاؤ تو ميرا کيا قصور۔ ميرا مطلب تھا۔ کہ ساری رات باتيں کريں گے۔ اور ميں تمہيں ماضی کی وہ سب حقيقتيں بتاؤں گا۔ جن سے تم ناواقف ہو۔ 

ميں جانتا ہوں تم اتنی جليبی کی طرح سيدھی نہيں کہ تمہارے ملتے ہی ميں اپنی زندگی کو رومانٹک مووی بنا ڈالوں۔ تم نکاح کے ہونے کے بعد بھی ميری شدتوں کو ايسے ہی اگنور کرتی تھيں۔ 

جيسے کہ اب گھورياں ڈال کر کر رہی ہو" نائل کی باتوں پر وہ مسکراہٹ بڑی مشکل سے چھپا سکی۔ 

"تمہيں عملی رومانس کے ٹريک تک لانے کے لئے بڑۓ پاپڑ بيلنے پڑيں گے" نائل کی بے باکياں شروع ہوچکی تھيں۔ 

"اچھا پھر کل بات کريں گے" يماما نے وہاں سے بھاگنے کے لئے پرتولے۔ 

"سلسلہ يہيں سے شروع کريں گے نا؟" نائل نے بڑی معصوميت سے جاتی ہوئ يماما کو پکار کر کہا۔ 

"بے حد معصومانہ سوال ہے۔ مگر اس کا جواب بے حد جابرانہ ہے۔ اور وہ يہ کہ ۔۔۔"نہيں"۔۔" يماما نے مڑ کر مسکراتے ہوۓ اسے صاف جواب ديتے ہوۓ اسکی کيفيت کا حظ اٹھايا۔ 

"خير اب تو يہيں ہو۔ ديکھتا ہوں کب تک ہاتھ نہيں آتيں" نائل نے بڑے انداز سے گردن ہلائ۔ يماما مسکراہٹ اچھالتی اندر کی جانب بڑھ گئ۔  

وقار نے جس شخص کو سميع کے پيچھے لگا رکھا تھا۔ وہ چند دن سے بڑی خاموشی سے اس کا پيچھا کررہا تھا۔ اس وقت بھی وہ اپنی گاڑی کو اس انداز ميں اسکے گھر کے سامنے روک کر کھڑا تھا کہ آنے جانے والے نوٹ نہ کرسکيں۔ 

ويسے بھی اب اوبر اور کريم کی گاڑيوں کو جگہ جگہ کھڑے ديکھنے کی وجہ سے لوگوں کو اس قدر عادت ہوچکی ہے کہ اسکی گاڑی کو وہاں کھڑے ديکھ کر کسی نے نوٹس نہيں ليا۔ 

سميع جو کچھ دير پہلے ہی اندر گيا تھا۔ اب باہر نکل کر اپنی گاڑی ميں کہيں جانا کا ارادہ رکھے ہوۓ تھا۔ 

اس سے پہلے کے شرافت اپنی گاڑی سٹارٹ کرکے اس کے پيچھے لگاتا۔ اس کی جانب والی کھڑکی بجی۔ 

اس نے کوفت زدہ انداز ميں گردن گھما کر ديکھا تو ايک خوش شکل نوجوان وہاں موجود تھا۔ 

اس نے بيزاری سے شيشہ نيچے کيا۔ 

"کيا ہے؟" 

"ارے بھائ۔۔ اتنے غصے ميں کيوں ہو۔ ميں نے پوچھنا تھا کہ يہ ٹيکسی ہے يا ويسے ہی کھڑے ہو؟" اس اجنبی نوجوان کے سوال پر اس نے تيوری چڑھائ۔ 

"تجھے کيا تکليف ہے ۔۔ ٹيکسی ہو يا کچھ اور؟" وہ سميع کو فالو نہ کرنے کا غصہ اس پر نکال رہا تھا۔ 

"ارے بھائ۔۔ ميں تو اسی لئے پوچھ رہا تھا۔ کہ اگر ٹيکسی ہی ہے۔ تو مہربانی کرکے ذرا مين روڈ تک چھوڑ دو۔ وہ ميرا بائيک کھڑا ہے کچھ خرابی ہے۔ مين روڈ سے کسی ميکنک کو بلاؤں گا تاکہ وہ ٹھيک کردے۔ اور تم جانتے ہو کہ مين روڈ يہاں سے کافی دور ہے۔ کافی دير سے بائيک گھسيٹ کر لا رہا ہوں اب ہمت نہيں۔ وہ سامنے والے گھر کے چوکيدار کو بائيک کی رکھوالی کے لئے کہا ہے۔ تب تک وہ دھيان کرے گا۔ پليز ديکھو کسی ضرورت مند۔۔۔" 

"اچھا۔۔ اچھا۔۔ بکواس کم کرو۔۔ آؤ بيٹھو" اس سے پہلے کے وہ ترلے واسطوں پر آتا شرافت کو مجبورا اسے گاڑی ميں بٹھانا پڑا۔ 

وہ نوجوان شکريہ کہہ کر جلدی سے بيٹھ گيا۔ 

نجانے اب سميع کہاں ہوگا۔ 

شرافت اپنی ہی سوچ پر جھنجھلايا۔ 

"بھائ۔ کہاں رہتے ہو؟" نوجوان نے پھر سے بے تکلف ہونا چاہا۔ 

"اپنے کام سے کام رکھو" شرافت پھر سے تلخی سے بولا۔ 

"ارے يار۔۔ تم کون سا لڑکی ہو جوبتاتے ہوۓ غصے کھا رہے ہو" اس لڑکے نے شرافت کی بات کو مذاق ميں اڑايا۔ 

شرافت نے ايک کڑی نگاہ اس پر ڈالی۔ 

مين روڈ آنے ہی والی تھی جب اس لڑکے نے کوئ شيشی اپنی جيب سے نکال کر اسپرے کيا۔ 

"يہ کيا کررہے ہو؟" شرافت نے مشکوک نظروں سے اسے اس شيشي سے اسپرے کرتے ديکھ کر کہا۔ 

"يار عجيب سی بدبو آرہی تھی تمہاری گاڑی ميں۔ يہ ميرا پرفيوم ہے ۔ سوچا اسپرے کروں" اس نوجوان کی پوری بات بھی وہ سن نہيں سکا تھا کہ آہستہ آہستہ اس کا دماغ بند ہونے لگا۔ 

نائل نے بہت احتياط سے اسٹيرنگ کو تھام کر گاڑی کو ايک جانب لے جاکر روکا۔ 

ايک ہاتھ سے اسٹئيرنگ تھام رکھا تھا اور ايک ہاتھ سے شرافت کو۔ 

گاڑی روکتے ہی اسکی سيٹ پيچھے گرا کر۔ 

اسے پچھلی والی سيٹ کی جانب دھکيلا۔ اور محتاط نظروں سے ادھر ادھر ديکھتے ڈرائيونگ سيٹ سنبھالی۔ 

ڈرائيونگ سيٹ پر بيٹھتے ہی سميع کو کال ملائ۔ 

"ہيلو۔۔ ہاں ميں نے قابو کرليا ہے۔ تم بھی اڈے پر پہنچو اور ميں اسے بھی وہيں پہنچا رہا ہوں۔" نائل نے گاڑی سٹارٹ کرتے۔ سميع کو ہدايات ديں۔ 

"ہاں يار مجھے پورا يقين ہے يہ وقار کا ہی بندہ ہے۔ فکر مت کرو۔ اس کا موبائل اب ميری تحويل ميں ہے۔ جتنی دير اسے سے بات کررہا تھا۔ اس کا لہجہ ريکارڈ کرليا ہے۔ اب اسی لہجے ميں بات کرکے وقار کو پاگل کروں گا" بڑے مزے سے اپنی کاروائ بتا کر ہنسا۔ 

"باس آپ تو پھر آپ ہيں" فون کے دوسری جانب موجود سميع نے اسے سراہا۔ 

"شکريہ شکريہ۔ اچھی طرح اسکی سيوا کرنا" کن اکھيوں سے پيچھے ديکھا۔ جہاں شرافت بے ہوش تھا۔ اور دو گھنٹوں سے پہلے وہ ہوش ميں آنے والا بھی نہيں تھا۔

________________________

اگلے دن شام ميں مہک کی فلائيٹ تھی۔

"تم پريشان مت ہونا۔۔ ان شاءاللہ ميں کل شام ميں آجاؤں گی۔ بہت اہم میٹنگ نہ ہوتی تو تمہارے اکيلے رہنے کی وجہ سے ميں کينسل کرديتی" مہک جانے کے لئے تيار کھڑی تھيں۔ 

يماما سے ملتے ہوۓ محبت سے کہنے لگيں۔ 

"ممی ميں اور بابا کافی شريف مردوں ميں شمار ہوتے ہيں" نائل ماں کی بات سن کر خود کو کوئ شگوفہ چھوڑنے سے روک نہ سکا۔ 

"جی جی بالکل۔۔ تمہيں تو واپس آکر بتاؤں گی" انہوں نے جس معنی خيزی سے پہلے نائل اور پھر يماما کو دیکھا وہ يماما کو کافی کنفيوزڈ کرگيا۔ 

"ہہہمم۔۔ چليں بيگم اب" شمس نے شرارتی مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ گلا کھنکھار کر کہا۔ 

"آپ کو پانی تو نہيں چاہئيے" نائل نے شمس کو گھوری ڈالتے ہوۓ کہا۔ 

"نہيں بيٹا جی۔۔ تمہيں جلد ہی اس کی کافی ضرورت محسوس ہوگی لہذا ابھی خاطر جمع رکھو" شمس بھی ذومعنی انداز اپناتے ہوۓ بولے۔

"يہ آپ دونوں کيا کورڈ ورڈز ميں باتيں کررہے ہيں" مہک نے مشکوک نظروں سے دونوں کو ديکھا۔ 

ان دونوں نے جب مہک سے کوئ بات چھپانی ہوتی يوں ہی ذومعنی جملوں کا تبادلہ کرتے۔ اب تو مہک کو کافی حد تک ان کی حرکتوں کی سمجھ آجاتی تھی۔ 

"ارے کچھ نہيں تم چلو" انہوں نے فورا بات بدلی۔ اور مہک کو لئے گاڑی کی جانب بڑھے۔ 

نائل گھر پر ہی رکا جبکہ شمس مہک کو ائير پورٹ ڈراپ کرنے جارہے تھے۔ 

"آپ دونوں ايک دم مجھے آنٹی کے سامنے شرمندہ کرديتے ہيں" ان کے جاتے ہی يماما نے نائل کو سرزنش کی۔ 

"تم کيوں شرمندہ ہوتی ہو۔۔ محبت اور شادی کون سا جرم ہے" نائل نے اسکی بات کو ہوا ميں اڑايا۔ 

يماما ايک خفگی بھری نظر اس پر ڈالتی اندر کی جانب بڑھ گئ۔ 

رات ميں کھانا کھا کر نائل نے اس سے کافی کی فرمائش کی۔ 

"کافی لے کر ميرے روم ميں آجانا" ڈائيننگ ٹيبل سے اسے اٹھتا ديکھ کر نائل نے کہا۔ 

يماما کو يوں بے دھڑک شمس کے سامنے اس کا يوں کہنا شرمسار کرگيا۔ 

کچا چبانے والی نظر اس پر ڈال کر وہ کچن ميں چلی گئ۔ 

جبکہ شمس شرارتی نظروں سے نائل کی جانب ديکھ رہے تھے۔ 

نائل انکی نظروں سے بخوبی واپس تھا۔ 

کچن ميں جاتی يماما سے نظر موڑ کر اب شمس کی شرارتی مسکراہٹ کو ديکھا۔ 

تو اسکے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھری۔ '

"آپ کيوں مجھے اتنی محبت بھری نظروں سے ديکھ رہے ہيں۔ ميری شکل ہر گز ممی سے نہيں ملتی کہ آپ يوں محبت لٹاتی نظروں سے مجھے ديکھ کر ممی کو ياد کريں" وہ بھی نائل تھا کہاں کسی کے ہاتھ آتا تھا۔ 

"بڑے فاسٹ چل رہے ہو۔ ميری اطلاع کے مطابق۔۔ ہم نے ابھی يماما کی رخصتی نہيں کی۔۔ جو يہ فرمائشی پروگرام چل پڑے ہيں" انہوں نے جيسے اس کی توجہ اصل بات کی جانب دلائ۔ 

"ميں اس سے چند باتيں کرنا چاہتا ہوں۔۔ آپ پتہ نہيں کہاں کی باتيں کررہے ہيں۔۔ اور جس قدر وہ جنگجو ہے۔۔ اگر ميں کوئ رومانٹک بات کرنا بھی چاہوں۔ تو وہ مجھے گھورياں ڈال ڈال کر ايسے رومانٹک باتيں بھلاتی ہے جيسے کوئ سبق ياد کرنے پر بچہ اپنے کھڑوس استاد کو سناتے وقت سب بھول جاۓ۔ بس استاد کی گھورياں ياد رہتی ہيں" وہ بے چارگی سے اپنے حالات شمس سے شئير کررہا تھا۔ 

جس پر وہ کھل کر ہنسے۔ 

"آپ ہنس رہے ہيں۔ يہ نہيں ہوا کہ بيٹے کو کوئ گر سکھائيں کہ کيسے بدکی ہوئ بيوی کو قابو کرنا ہے" وہ شمس کو ہنستے ديکھ کر افسوس سے سر ہلا کر بولا۔ 

"حد ادب ۔۔۔ وہ بہو ہے ميری۔۔ خبردار جو اسے کسی جانور سے ملايا۔۔ لڑکی ہے يا گھوڑی۔۔ ايسی فضول تشبيہات دو گے تو اگلے سو سال تک وہ تمہارے ايسے بھونڈے رومانس سے امپريس نہيں ہوگی۔" اس کے بدکی ہوئ کہنے پر شمس نے اس کی ٹھيک ٹھاک کلاس لی۔ 

"توبہ کريں سو سال۔۔ 

کون جيتا ہے تيرے زلف کے سحر ہونے تک۔۔ 

آپ نے تو اس شعر والی بات کردی۔" نائل بدمزہ ہوا۔ 

"تو انسانوں کی طرح رومانس کرو" شمس نے اسے پتے کی بات بتائ۔ 

"ميں انسانوں کی طرح کروں يا جانوروں کی طرح مسئلہ يہ ہے کہ وہ ہر گز امپريس نہيں ہوتی" نائل نے ايک اور مسئلہ رکھا۔ 

"اب اتنے بڑے گھوڑے ہو کر بھی يہ سب ميں تمہيں بتاؤں تو تف ہے تمہاری جوانی پر" شمس اس کے دکھڑوں سے متاثر نہيں ہورہے تھے۔ 

کھانا ختم کرتے ہی انہوں نے نيپکن سے منہ صاف کيا۔ 

اور اپنے سامنے بيٹھے اپنے خوبرو بيٹے کو ديکھا۔ بليو فل سليوز کی شرٹ اور آرام دہ ٹراؤذر پہنے۔ آنکھوں ميں خوبصورت سی چمک لئے۔ ہلکی سی بڑھی ہوئ شيو کے ساتھ اسکے تيکھے نقوش کسی بھی لڑکی کا دل پگھلادينے کی صلاحيت رکھتے تھے۔ 

"اب مجھے گھوڑا کون کہہ رہا ہے" اس نے خشمگيں نظروں سے شمس کو ديکھا۔ 

"گھوڑی کے ساتھ گھوڑا ہی جچتا ہے۔ کھوتا نہيں" شمس اس کا مزيد دل جلا کر کرسی گھسيٹ کر اٹھ کھڑے ہوۓ۔ 

"گڈ لک" اٹھتے ہوۓ اس کا کندھا تھپکا۔ ان کے لہجے ميں چھپی محبت نے اسے اندر تک سرشار کيا۔ 

اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوۓ بھی وہ مڑ کر اسے تھمبس اپ کا اشارہ کرکے گۓ۔

_____________________

کچھ دير بعد يماما کافی کے دو مگ ٹرے ميں سجاۓ کچن سے باہر آئ۔ 

نائل وہاں موجود نہيں تھا۔ ملازم کھانے کے برتن اٹھا رہا تھا۔ 

يماما خاموشی سے سيڑھيوں کی جانب بڑھی۔ 

سيڑھياں چڑھ کر نائل کے کمرے کی جانب آئ۔ 

ايک ہاتھ ميں ٹرے تھام کر ہولے سے ناک کيا۔ 

کم ان کی آواز پر دروازہ دھکيل کر اندر داخل ہوا۔ 

نائل اپنے فرشی بيڈ پر نيم دراز کوئ کتاب پڑھنے ميں مگن تھا۔ 

"ادھر ہی آجاؤ" يماما کو تذبذب کے عالم ميں کھڑے ديکھ کر کہا۔ 

سيدھا اٹھ کر بيٹھا۔ 

يماما نے جھک کر ٹرے رکھی اور اس کے مقابل بيٹھ گئ۔ 

نائل نے کافی کا کپ پکڑ کر پہلا سپ ليا۔ 

"ہمم۔۔ ڈيليشيس" بے اختيار تعريف کی۔ يماما ہولے سے مسکرائ۔ 

"جس رات ميں شہنشاہ کے روپ ميں تمہارے فليٹ ميں آيا تھا۔ تب بھی تم کافی بنا رہی تھيں۔ بہت دل کيا تھا تمہارے ہاتھ کی بنی کافی پينے کو۔ مگر تمہارے تيور کہتے تھے کہ يہ کافی پلانے کی بجاۓ گرم گرم کافی تم پر انڈيل دے گی" نائل مزے سے اس رات کی حکايت شئير کررہا تھا۔ 

"اس رات وہ لائٹ آپ نے بند کی تھی۔؟" يماما نے بھی سوال کيا۔ 

"ہاں نا۔۔ " نائل نے بھی مزے سے اعتراف کيا۔ 

"اور اس رات ميرا دل کيا تھا دہاڑيں مار مار کر رونے کا۔۔ کہ مجھ پر دل آيا بھی تو ايک غنڈے اور دہشتگرد کا" يماما کی بات پر وہ بے اختيار قہقہہ لگا اٹھا۔ 

"تمہاری يہ صاف گوئ ہی مجھے ہميشہ سے پسند ہے۔ جو بھی ہے دل ميں نہيں رکھنا۔ منہ پر کہہ دينا ہے۔ " نائل نے کھل کر اسکی تعريف کی۔ 

اسکی نرم گرم نگاہوں کو وہ خود پر محسوس کررہی تھی۔ 

نظريں اپنے کپ پر ہی مرکوز رکھيں۔ 

"اب سلسلہ وہيں سے جوڑوں يا پھر۔۔۔۔۔۔" نائل کی شرارت بھری آواز پر يماما نے خفگی بھری نگاہ اس پر ڈالی

"جی نہيں۔۔ شرافت سے مجھے وہ سب بتائيں" يماما نے کڑے تيوروں سے اسکی جانب دیکھا۔ 

جو کپ ٹرے ميں رکھے دونوں ہاتھوں کی مٹھياں آپس ميں الجھاۓ۔ ہونٹوں پر رکھے شوخ نگاہيں اسکے کتراۓ ہوۓ چہرے پر ٹکاۓ اسے ديکھنے ميں محو تھا۔ 

"اگر اب آپ ايسے کريں گے تو ميں چلی جاؤں گی۔" اس نے گويا اسے دھمکی دينی چاہی۔ 

"اوکے ميڈم" نائل نے سرد آہ بھری۔ 

اور ماضی کے اوراق پلٹنے شروع کئے۔

ماضی

ان دنوں نواز نائل کو اپنے ساتھ شہر لے جا چکے تھے۔ ملکوں کی جانب سے مسلسل محمد بخش کو دھمکياں مل رہی تھيں کہ اگر بيٹے کو نہ روکا تو اس کے پورے خاندان کو برباد کر ديں گے۔ 

دو دن سے مسلسل اسے گھر سے فون آرہے تھے۔ نائل کو لئے وہ کچھ دنوں کے لئے گھر آيا۔ 

گھر آيا تو معلوم ہوا ايک قيامت آکر گزری ہے۔ محمد بخش کی بيٹی کو ملکوں نے اٹھوا ليا تھا۔ اور غم يہ تھا کہ کوئ پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ 

گھر پہنچے تو ماتم کی صورتحال تھی۔ 

"تجھے دو دن سے فون کررہے تھے۔ کہ وہ ہمارے گرد گھيرا تنگ کررہا ہے۔ کچھ کر۔۔"نواز سر جھکاۓ باپ کے قريب بيٹھا تھا۔ سب بڑے اور بچے اس وقت غم زدہ سے وہاں بيٹھے تھے۔ 

"يہ کون سی اندھير نگری ہے جہاں يہ سب ہوتا ہے ميں خود ملکوں کی طرف جاؤں گا۔ چليں آپ ميرے ساتھ" باپ کے جھکے کندھے ديکھ کر اس کے دل پر چھرياں چل رہی تھيں۔ 

"ابھی تو ہماری بيٹی کو صرف اغوا کيا ہے۔ اس کا تاوان تيری ڈگری چھوڑنا ہے" محمد بخش اپنے کندھے پر پڑے رومال کو منہ پر رکھ کر پھپھک کر رو پڑا۔ 

"آپ چليں ميرے ساتھ۔۔ بہن کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہيں ہے" وہ باپ کو اٹھاتے ہوۓ حويلی کی جانب چل پڑا۔ 

کچھ دير بعد ہی وہ ملکوں کے سامنے موجود تھا۔ 

باپ فقيروں کی طرح انکے پيروں ميں بيٹا تھا۔ نواز کا دل کٹ گيا۔ وہ کھڑا ہی رہا۔ 

"ميں اپنی ڈگری چھوڑنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ ميری بہن کو چھوڑ دو" نظريں نيچی کئے اس نے بڑی مشکل سے يہ الفاظ ادا کئے۔ 

وہاج سامنے کرسی پر بڑے طمطراق سے بيٹھا مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ 

ٹانگ پر ٹانگ رکھے غصے سے اسکے چہرے کو ديکھ رہا تھا جہاں غلاموں والے کوئ آثار نہيں تھے۔ نہ بے بسی جھلک رہی تھی اور نہ ہی انکے جاہ وجلال سے خوف کھاتی پرچھائياں تھيں۔ 

"پہلے گڑگڑا ہمارے سامنے" وہاج کی آنکھوں سے اس لمحے چنگارياں نکل رہی تھيں۔ 

نواز نے نظر اٹھا کر ايک نظر اسے ديکھا۔ 

بہن ان کی تحويل ميں نہ ہوتی تو منہ توڑ کر رکھ ديتا ايسے فرعون کا۔ 

"ہاتھ جوڑ" اب کی بار سرتاج دھاڑا۔ 

اس نے ايک سپاٹ نظر ان دونوں بھائيوں پر ڈالی۔ 

ميکانکی انداز ميں ہاتھ جوڑے

"ميری بہن کو چھوڑ دو" بے تاثر لہجے ميں اپنا مدعا پھر سے بيان کيا۔ 

اسکے عمل پر دونوں کے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ بکھری۔ 

"جاؤ لے کر آؤ اس کی بہن کو۔۔ اور ياد رکھ يہ صرف ٹريلر تھا۔ ہماری بات سے منحرف ہونے پر۔۔ اگر ہميں معلوم ہوا کہ تو اپنی ضد پر ڈٹا ہے تب تيری بہن کيا۔ خاندان کی عزت کی گارنٹی ہم نہيں ديں گے۔۔ تيرے باپ نے ہمارے يہاں بہت کام کيا ہے صرف اسی کی لاج رکھی 

ورنہ تيری اوقات نہيں تھی کہ ہم تيری بہن کو ويسے ہی واپس کرتے جيسے اٹھوايا تھا" سفاک لہجے ميں کہے جانے والی باتوں نے نواز کے فشار خون کو بڑھا ديا۔ 

دل تو کيا اپنی بہن کے بارے ميں بولے جانے والے ان نازيبا الفاظ پر سامنے موجود شخص کا خون کر دے۔ مگر ابھی جوش سے کام لينےکا وقت نہيں تھا۔

______________________________

زيبا کے خير و عافيت سے واپس آتے ہی سب نے سکھ کا سانس ليا۔ 

سب کا ارادہ يہی تھا کہ جلد از جلد اسکی شادی کروا دی جاۓ۔ 

سب پرسکون تھے سواۓ نواز کے اس کا برسوں کا خواب ادھورا رہ گيا تھا۔ 

وہ بے حد خاموش رہنے لگا۔

کافی دنوں سے وہ شہر بھی نہيں جارہا تھا۔ نائل کو اس نے واپس بھيج ديا تھا۔ مگر خود وہ ابھی گاؤں ميں ہی تھا۔

انہی دنوں ايک بہتر رشتہ ديکھ کر محمد بخش نے زيبا کی شادی جلد ازجلد کرنےکا سوچا۔ 

شام ميں ہی لڑکے والے رشتہ پکا کرکے گۓ تھے۔ پورے گھر ميں خوشی کی لہر دوڑ گئ تھی۔ 

رات ميں نواز زيبا کے پاس آيا۔ اسے مبارکباد دينے اور پوچھنے کے اسے کس کس چيز کی ضرورت ہے تاکہ اسکے جہيز ميں ہر وہ چيز ہو جس کی وہ خواہش رکھے ہوۓ ہے۔ اسکی بہن نے اسکے ناکردہ گناہ کی سزا کاٹی تھی۔ 

وہ اسے اب اور بھی عزيز ہوگئ تھی۔ 

"خوش ہے ميری بہن" زيبا کے سر پر ہاتھ پھيرتے ہوۓ وہ اسکے قريب ہی مسہری پر بيٹھ گيا۔ 

زيبا نے سر جھکا ديا۔ نوازکو محسوس ہوا وہ کچھ غمگين سی ہے۔

"کيا بات ہے۔ تم خوش نہيں اس رشتے پر؟" نواز نے آخر پوچھا۔ 

"نہيں بھا ايسی بات نہيں۔۔ آپ۔۔۔ آپ نے صرف ميری وجہ سے وکالت چھوڑ دی ہے نا۔" وہ بھراۓ لہجے ميں بولی ۔ نواز خاموش ہی رہا۔ 

"بھا ۔۔ آپ۔۔۔ آپ اپنے خواب پورے کريں۔ ميری فکر چھوڑ ديں۔ مجھ جيسی کمزور لڑکيوں کو کسی کی بہن نہيں ہونا چاہئيے۔ بھائيوں کو اپنے خواب تاوان کی صورت بھرنے پڑتے ہين" وہ بلک بلک کر رو پڑی۔ 

نواز نے خود پر ضبط کرتے اسے اپنے ساتھ لگا ليا۔ 

"ارے پاگل ايسے نہيں کہتے۔۔ بس اللہ تمہيں خوش رکھے۔" وہ ضبط کی انتہا پر تھا۔ بڑی مشکل سے آنسوؤں پر بندھ باندھا۔ 

"بھا۔۔ آپ يماما کو ميری جيسی بزدل بيٹی اور بہن مت بننے دينا۔ايسی مضبوط بنانا کہ وہ اپنے دشمنوں کا خود منہ توڑے۔اس کا باپ اور بھائ اس کے عورت ہونے کے سبب خود کو کمزور تصور نہ کريں۔ آپ مجھ سے وعدہ کريں۔ آپ يماما کو بے حد مضبوط عورت بنائيں گے۔" وہ روتے ہوۓ بھائ سے وعدہ لے رہی تھی۔ نواز نے سر اثبات ميں ہلا کر نہ صرف وعدہ ليا بلکہ دل ہی دل ميں چںد فيصلے بھی کئے۔

______________________

اگلے دن ہی وہ شہر ميں موجود تھا۔ 

اين جی او کی بلڈنگ ميں داخل ہونے سے پہلے ايک گہرا سانس لے کر سوچا کہ کيا ميں ٹھيک کررہا ہوں۔ دل نے ہاں ميں ہاں ملائ۔ 

اگلا قدم اين جی او کی بلڈنگ کے اندر رکھا۔

"ميم انيلہ سے مل سکتا ہوں؟" ريسيپشن پر بيٹھی عورت سے وہ مخاطب ہوا۔ 

"جی مگر کس سلسلے ميں؟" اس لڑکی نے اپنے پيشے کا تقاضا نبھايا۔

"ايک کيس کےسلسلے ميں۔ ميرے پاس اپائنٹمنٹ تو نہيں ہے۔ مگر مجھے ضروری ان سے ملنا ہے" وہ ملتجيانہ انداز اپناۓ ہوۓ تھے۔ 

"آپ کچھ دير ادھر ويٹ کريں ميں ميم کو بتاتی ہوں"نواز کو بغور ديکھتے اس نے سامنے موجود صوفوں کی جانب اشارہ کيا۔ اور ساتھ ہی فون کا ريسيور اٹھا ليا۔ 

"آپ کا نام سر؟" دوسری جانب اطلاع پہنچاتے اس نے يکدم نواز کو مخاطب کيا۔ 

"نواز۔۔نواز نام ہے" نواز نے چونکتے ہوۓ کہا۔ 

"ميم نواز نام کا کوئ شخص ہے وہ کسی کيس کے سلسلے ميں آيا ہے" سر ہلاتے وہ دوسری جانب کی بات سننے لگی۔

"سر آپ جاسکتے ہيں۔يہ دائيں ہاتھ پر بنے کاريڈور کے سرے پر ميم کا آفس ہے" اس لڑکی نے پيشہ ورانہ انداز ميں ريسيور رکھتے ہوۓ نواز کو مخاطب کيا۔ 

وہ شکريہ کہہ کر اسکے بتاۓ راستے کی جانب چل پڑا۔ 

چند ہی منٹ کے بعد وہ انيلہ کے سامنے تھا۔ 

"آئيے پليز بيٹھيے"وہ عورت چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاۓ اسے اپنے آفس کے دروازے پر کھڑے ديکھ کر بولی۔

وہ شکريہ کہہ کر کرسی گھسيٹ کر بيٹھ گيا۔ 

"جی نواز ميں آپ کی کيا مدد کرسکتی ہوں؟"اسکے پوچھتے ہی نواز وہاج اور سرتاج کی ہر بات سے اسے آگاہ کرتا گيا۔ 

"ميں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی تو برداشت کرسکتا ہوں۔مگر يہ ناانصافی صرف ميرے ساتھ نہيں ميری آنے والی نسلوں کے ساتھ ہے۔اور جب ميں مروؤں گا تو کيا منہ لے کر مروں گاکہ ميں نے صرف اپنی بقا کی کوششيں کيں۔ميں نے اپنی نسلوں کا کچھ نہيں سوچا۔ 

ميں فی الوقت وکالت چھوڑ چکا ہوں۔ مگر ميں ان درندوں کو يونہی نہيں چھوڑ سکتا۔ جانور سے لوگ پھر بھی محفوظ رہتے ہيں۔کيونکہ وہ اپنی بھوک مٹتے ہی شکار نہيں کھيلتا۔ مگر يہ وہ درندے ہيں جن کی بھوک کبھی ختم نہيں ہونی۔ 

ميں وکالت جاری رکھ کر انہيں بہت سے کيسز ميں ملوث کرسکتا ہوں۔مگر وہ مجھے يہ سب کرنے نہيں ديں گے۔ آج ميری بہن کو اٹھوايا تھا کل کو ميری نسل پر بھی ہاتھ ڈال سکتے ہيں۔

ميں انکے اس انداز ميں ہاتھ توڑنا چاہتا ہوں کہ سانپ بھی مر جاۓ اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے" نواز نے ايک ايک حقيقت سے پردہ اٹھايا۔ 

انيلہ دم سادھے اسکی ہر بات سن رہی تھی۔ 

"ميں آپ کے حوصلے کی داد ديتی ہون۔ اور يقين کريں۔ ہم ايسے لوگ کی جی جان سے مدد کرتے ہيں جو يہاں کے فرسودہ نظام کو مٹانے ميں ہماریمد کرنے کو تيار ہو۔" وہ ستائشی انداز ميں بولی۔ 

"ميں اور ميری اين جی او ہر ممکن کوشش کرنے گی کہ جيسا آپ چاہتے ہيں ويسا ہی ہو" انيلہ نے اسے بے حد تسلی بخش جواب ديا۔ 

نواز ہولے سے مسکرايا۔ 

"بس ہميں چند گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ اور پھر ہم ان پر گھيرا تنگ کريں گے۔ اب ثبوت آپ نے مہيا کرنے ہين" وہ اس سے اگلا لائحہ عمل طے کرنے لگی۔

نواز کافی حد تک مطمئن ہوا۔ 

وہ جان گيا کہ کسی تگڑی سفارش کے بنا وہ وہاج اور سرتاج کو وہ پکڑ نہيں سکتا۔

جس لمحے وہ وہاں سے اٹھا۔

اسے کافی حد تک يقين ہو چکا تھا کہ اسے انصاف ضرور ملے گا۔

__________________________

فون کی گھنٹی پر وہ يکدم چونکا۔ 

چند ہی لمحوں ميں ملازم فون کا سيٹ پکڑے اسکے سامنے حاضر تھا۔

کھانا کھا کر ابھی وہ فارغ ہی ہوا تھا۔ اخبار پکڑے دن بھر کی خبروں پر نظريں دوڑا رہا تھا۔ 

"کس کا فون ہے؟" فون تھامنے سے پہلے اس نے سواليہ نظروں سے پاس کھڑے ملازم سے پوچھا۔ 

"سرکار۔رشيد کا فون ہے" اس نے عجلت ميں فون کا ريسيور تھاما۔ 

"ہيلو۔۔ہاں رشيد" 

"سرکار!يہ بندہ ہارنے والوں ميں سے نہيں۔ ابھی ہيک مشہور اين جی او کے دفتر سے باہر آيا ہے۔ چہرہ روشن ہے۔ لگتا ہے ہمارے خلاف کوئ کاروائ کروانے والا ہے" رشيد وہ بندہ تھا جسے وہاج نے نواز کے پيچھے لگايا تھا۔ 

نجانے کيوں اس کے انداز ديکھ کر وہاج کو شک گزرا تھا کہ نواز سکون سے بيٹھنے والا نہيں۔

اسی لئے اپنا ايک خاص بندہ اس نے نواز کے پيچھے لگا رکھا تھا۔

"ہمم۔ مجھے اميد تھی۔کہ يہ نچلا نہيں بيٹھے گا۔کوئ نہ کوئ گل کھلاۓ گا" مونچھوں کو تاؤ ديتے وہ سامنے يوں ديکھ رہا تھا جيسے نواز موجود ہو۔آنکھوں سے چنگارياں پھوٹ رہی تھيں۔

"جی صاحب مجھے بھی يہی لگتا ہے۔ کيونکہ اب اس کا رخ اپنے ايک ايڈوکيٹ دوست کی جانب ہے" رشيد مسلسل اسکی نگرانی کر رہا تھا۔ 

"واہ بھئ۔۔۔ ابھی يہ جانتا نہيں کہ کن پر ہاتھ ڈالنے لگا ہے۔ اس کا سارا خاندان نيست و نابود نہ کرديا تو ميرا نام بھی وہاج نہيں" وہ مزيد پھنکار کر بولا۔ 

کھٹاک سے فون رکھ ديا۔

_______________________

رات تک نواز گھر واپس آچکا تھا۔ دو دن بعد ہی بہن کومايوں بٹھايا جانا تھا۔واپسی پر آتے ہوۓ وہ نائل کو اپنے ساتھ لے آيا تھا۔ 

نائل کے آتے ہی يماما ادھر ادھر چھپتی پھرتی تھی۔ 

رات تک اس کی ہمت جواب دے گئ۔تو اپنی دوست شمع کے گھر چلی گئ۔ 

تین گھر چھوڑکر شمع کا گھر تھا۔ وہ لوگ بچپن سے ايک دوسرے کو نہ صرف جانتے تھے بلکہ ايک دوسرے کے گھروں ميں بے جد آنا جانا تھا۔

وہ اکثر شمع کے گھر رات رہنے آجاتی تھی۔ 

"آج کيا ہوا تجھے؟" اس کا پھولا چہرہ ديکھ کر وہ کچھ کچھ جان گئ تھی۔

"يہ نائل کو ديکھو پتہ نہيں کيا ہوگيا ہے۔جب آتے ہيں بس مجھے گھورےہی جاتے ہيں۔ شديد الجھن ہوتی ہے مجھے" وہ بارہ سال کی تھی۔جوانی کی دہليز پر قدم رکھ چکی تھی۔ 

اپنے نکاح کے حوالے سے اتنا جانتی تھی کہ کچھ سالوں بعد نائل کی دلہن بن جاۓ گی۔ 

يہ سب باتيں ہی اسے بہت عجيب لگتی تھيں۔اور اس پر نائل کی نظريں۔ جو ہمہ وقت اس کا گھيرا کۓ رکھتيں۔

محبت لفظ سے تو وہ آشنا نہيں تھی۔مگريہ سب اسے الجھن ميں ضرور مبتلا کر ديتا۔ 

وہ نٹ کھٹ سی تھی۔ گوکہ اپنی عمر کے بچوں کی نسبت زيادہ ذہين اور سمجھدار تھی۔ اسی لئے نائل کے بدلتے تيور اسے کشمکش ميں مبتلا کرديتے۔ 

"ارے پاگل نائل بھائ کی دلہن جو بنو گی۔ اسی لئے اب وہ تمہيں نہيں ديکھيں گے تو کيا پرائ لڑکيوں کو ديکھيں گے" شمع اس سے دو سال بڑی تھی۔ اور بڑے ہونے کا رعب بھی جھاڑتی تھی۔ 

اس لمحے بھی جيسے بڑی پتے کی بات کی۔ 

"ہاں تو۔۔ ابھی تھوڑی دلہن بن گئ ہوں۔ جو گھورے جاتے ہيں۔ مجھے تو لگتا ہے وہ اس سب سے خوش نہيں۔ تبھی تو عجيب ہی طرح ديکھتے ہيں۔ حالانکہ وہ مجھے اتنے اچھے لگتے تھے۔ مگر جب سے يہ نکاح ہوا ہے نا۔۔ وہ تو بدل ہی گۓ ہيں۔بس جہاں جاتی ہوں ان کی نظريں پيچھے پيچھے ہوتی ہيں۔" وہ جھنجھلا رہی تھی۔ مگر نہيں جانتی تھی کہ يہ اسکی بے پناہ محبت تھی۔ بڑے ہونے کے ناطے وہ ان سب جذبات سے واقف تھا۔ 

"بس جب تک وہ يہاں ہيں۔ ميں اپنے گھر زيادہ نہيں جاؤں گی" وہ نروٹھے پن سے بولی۔ 

"ارے پاگل ۔۔ پھوپھو کی شادی ميں نہيں جاۓ گی کيا" شمع نے جيسے اسکی عقل پر ماتم کيا۔ 

"جاؤں گی۔مگر ٹائم کے ٹائم يا جب نائل گھر نہيں ہوں گے" وہ اپنا فيصلہ سنا چکی تھی۔شمع سر پکڑ کر رہ گئ۔ 

جانتی تھی جو کہا ہے وہی کرے گی۔

__________________________

نائل چھوٹے دادا(محمد بخش)کے بھائ کے گھر موجود تھا۔ 

يہاں سب سے زيادہ اس کی وليد کے ساتھ دوستی تھی۔بچپن سے بہترين دوست تھا۔ يماما کے بارے ميں سب فيلنگز وہ ہميشہ وليد کے ساتھ شئير کرتا تھا۔ 

آج بھی بيگ اٹھاۓ وليد کے گھر موجود تھا۔ وليد اسے رات کے اس پہر بيگ سميت ديکھ کر حيران رہ گيا۔ 

"کدھر کے ارادے ہيں؟" وليد کے کمرے ميں وہ دونوں وليد کی چارپائ پر آمنے سامنے موجود تھے۔ 

"يار ميں آج تيری طرف رک کر کل واپس چلا جاؤں گا۔اور اب شادی والے دن ہی آؤں گا" نظريں نيچے کئے وہ وليد کو اپنا ارادہ بتانے لگا۔ 

"کيا کيا۔۔ پاگل ہے تو۔۔ يہ کيا بات ہوئ۔۔ کچھ ہوا ہے؟" وليد اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ 

"يار ميں کيا کروں يماما کو ديکھ کر نظريں قابو ميں نہيں رہتيں۔ اور اب وہ ميری نظروں کو خود پر محسوس کرکے غصہ کرتی ہے۔ابھی بھی برکت چاچا کے گھر چلی گئ ہے۔ اسی لئے ميں نے سوچا ہے کہ ٹائم کے ٹائم شادی ميں آؤں گا۔ اور بس۔"وہ بے بسی سے بولا۔ 

"يار وہ ابھی چھوٹی ہے اس رشتے اور تعلق کو نہيں سمجھتی۔ نہ تيری محبت سے صحيح سے واقف ہے۔ تو يوں خود کو اذيت مت دے" وليد نے اسے سمجھايا۔ 

"نہيں يار بس اب ارادہ کرليا ہے کہ جب تک وہ بڑی نہيں ہو جاتی ميں اسکے سامنے نہيں آؤں گا۔" وہ ہٹيلے لہجے ميں بولا۔ 

"تيرا کچھ نہيں ہوسکتا" وليد نے نفی ميں سر ہلايا۔ 

"کہتا ہے تو ابھی چلا جاؤں يہاں سے" وليد کے مسلسل اسے ديکھنے پر وہ سر اٹھا کر غصے سے بولا۔ 

"اب يماما تجھے نظر نہيں آرہا تو اس کا غصہ مجھ پر تو مت نکال" وہ اسے چھيڑنے والے انداز ميں بولا۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی نائل کے چہرے پر مسکراہٹ لہرائ۔

_____________________

"اس لمحے اسکا سارا خاندان وہاں جمع ہے" وہاج اپنے خاص ملازموں کو لئے باڑے کی جانب آيا۔ 

"جی سرکار" وہ کل سات آدمی ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ 

"ہمم۔۔ بس تم ميں سے دو خاموشی اور ہوشياری سے اسکے گھر کے پاس مٹی کے کنستر رکھو۔ اور چاہو تو گھر کے چاروں جانب مٹی کا تيل گرا دو۔ منظور اسکے گھر کے پچھلے حصے ميں جو جگہ خالی ہے وہاں سے اوپر چھت پر چڑ کر وہاں بھی مٹی کا اچھا خاصا تيل گرا دو۔ 

رات کے اندھيرے ميں يہ سب کام بہت ہوشياری سے ہونا چاہئيے۔ اس وقت سب اپنے اپنے گھروں ميں سو رہے ہوں گے۔ تم لوگوں نے نہايت ہوشياری اور تيزی سے يہ سب کرنا ہے۔ 

اور پھر وہ سب لکڑی جو اسکے گھر کے پيچھے شادی کی ديگيں بنانے کے لئے رکھی ہے اسے مٹی کا تيل اور آگ لگا کر صحن ميں پھينک دو۔صبح تک اس کا سارا خاندان بھسم ہو چکا ہو۔ مٹی کا تيل گراتے ہی چاروں جانب آگ کے شعلے پھينکو۔۔ اب باقی کا کام کيسے کرنا ہے تم سب بہتر جانتے ہو۔ اس کے گھر کا ايک فرد بھی زندہ نہ بچے" وہاج کے دل ميں انتقام تھا شديد انتقام۔ 

"سرکار فکر ہی نہ کريں۔ صبح تک ان ميں سے کوئ زندہ نہيں بچے گا۔" ان ميں نے ايک شيطان ۔۔۔شيطانی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ بولا۔ 

"شاباش" وہاج کے ہونٹوں پر بھی شيطانی مسکراہٹ تھی۔ 

اور پھر صبح تک وہ سارا گھر راکھ کا ڈھير بن چکا تھا۔ 

جلنے والوں کی چيخيں گونجيں مگر کوئ انہيں بچانے نہ آسکا۔ 

برکت نے يماما کو چھپا ليا تھا۔ وہ جان گيا تھا ايسی آگے گاؤں ميں تب ہی بھڑکتی ہے جب کوئ ملکوں کی نافرمانی کرتا ہے۔ وہ يہ بھی جان گيا تھا۔ ان ميں سے کوئ نہيں جانتا کہ اس خاندان کا ايک چراغ رات ميں اس کے گھر آيا تھا۔ 

ملک اسی گمان ميں رہے کہ انکے گھر کے تمام لوگ جل کر مر چکے ہيں۔

يماما بھی اس بات سے واقف نہيں تھی کے جس وقت وہ شمع کے گھر گئ۔ کچھ دير بعد نائل بھی وہاں سے چلا گيا تھا۔ 

وہ يہی سمجھی تھی۔کہ باقی سب کی طرح نائل بھی شايد مر چکا ہے۔ 

وہ غم سے نڈھال تھی۔ اور پھر وہيں سے چھپ چھپا کر برکت نے يماما کو شہر ميں ايک يتيم خانے بھيج دیا۔وہ جانتا تھا کہ اگر يماما اسکے پاس رہی تو جلد ہی ملک کو معلوم ہوجاۓ گا۔ 

وہ کتنے دن اسے اپنے گھر ميں چھپا سکتا تھا۔ گاؤں ميں کسی ايک کو بھی بھنک پڑ جاتی تو وہ ملکوں کو بتانے ميں دير نہ کرتے۔ 

اسی لئے مجبورا برکت کو اسے يتيم خانے بھيجنا پڑا۔اور وہاں کے مالکان کو فقط اتنابتايا کہ خاندانی جھگڑے کی بنياد پر وہ يتيم ہوگئ ہے اور اب اس کی بھی جان خطرے ميں ہے۔ لہذا يماما کی شناخت وہ نہ لکھی جاۓ جو کہ اصل ميں ہے۔ لہذا يماما کے باپ کے بارے ميں يتيم خانے والوں نے کوئ ريکارڈ نہيں رکھا تھا۔

___________________________

"ميں جانتا تھا کہ تم برکت چاچا کے گھرگئ تھيں۔ اسی لئے مجھ جيسے ہی اس واقع کے بعد کچھ ہوش آيا تو ميں نے تم تک رسائ حاصل کرنی چاہی۔ 

مگر وليد لوگ بھی نہيں چاہتے تھے کہ ميرے زندہ رہنے کے بارے ميں گاؤں ميں کسی کو کچھ معلوم ہو۔ لہذا ميں نے اپنا حليہ بدل کر تمہارا برکت چاچا کے گھر تک پيچھا کيا۔چند دن ميں مسلسل وہاں آتا رہا۔ شمع کے بھائ کا دوست بن کر۔ 

اور پھر ايک دل کالے برقعہ ميں برکت چاچا تمہيں لے کر شہر کی جانب گۓ۔ ميں نے اس يتيم خانے تک تم دونوں کا پيچھا کيا۔ اور پھر مجھے تسلی ہوگئ کے ميری يماما اب ايک محفوظ جگہ پر ہے۔ 

مگر ميں ان تمام سالوں ميں چھپ کر تمہاری نگرانی کرتا رہا ہوں۔ بہت سے ثبوت جو کہ وہاج اور سرتاج کے لئے تمہيں چاہئيے تھے ۔ وہ ميں نے ہی تمہيں مہيا کئے ہيں۔ کبھی گمنام کالز کرکے اور کبھی تمہارے آفس کی کسی نہ کسی جگہ پر کوئ سی ڈی کوئ ريکارڈ رکھ کر اور کبھی اپنا کوئ بندہ تم تک بھيج کر۔ 

جس طرح تم انہيں تختہ دار پر پہنچانے کے لئے بے تاب ہو۔ اسی طرح ميں بھی بے حد بے چين ہوں۔اور ان شاءاللہ ہم يہ سب جلد ہی ديکھيں گے" يماما کے آنسو صاف کرکے وہ مضبوط لہجے ميں بولا۔ 

"اب بھی راتوں کو اکثر آگ کے شعلے ميرے خواب ميں آتے ہين۔ اپنے پياروں کی چيخيں سنائ ديتی ہيں" سالوں بعد کوئ غمگسار ملا تھا۔ يماما کا رونا اور دل ہلکا کرنا تو بنتا تھا۔ 

"بس ميری جان۔۔ ہمارے سب دشمن اپنے بھيانک انجام کو پہنچيں گے۔ 

ميرے سامنے اگر تم نہ ہوتيں تو ميں کب کا اپنا ذہنی توازن کھو بيٹھتا۔ مجھے تمہارے لئے جينا تھا۔" نائل اسے ساتھ لگاتے تسلی آميز لہجے ميں بولا۔ 

"پليز يوں رو کر خود کو ہلکان مت کرو۔ ميرا تم سے وعدہ ہے انہيں انکے انجام تک پہنچاتے مجھے اپنی جان کی بازی بھی لگانی پڑی تو لگا دوں گا" نائل کی بات پر يماما کو لگا اس کا دل کسی نے مٹھی ميں لے ليا ہو۔ 

"ايسی بات تو مت کريں۔ ايسا لگتا ہے ايک عمر گزر گئ آپکے انتظار ميں۔ اب جب ملے ہيں تو جدائ کی باتيں کررہے ہيں۔ ميں مرجاؤں گی آپکے بغير۔۔ پليز نائل يہ سب مت کہيں" وہ حقيقت ميں کانپ اٹھی تھی۔ 

نائل کا بازو جو اسکے گرد تھا اس پر گرفت مضبوط کئے وہ جيسے نائل کو اب کبھی خود سے جدا نہيں کرنا چاہتی تھی۔ 

اس کے کھو جانے کا ڈر اسے جيسے ہلا کر رکھ گيا۔ 

يماما کے لمس سے ہی نائل کو اسکی  اپنے لئے بے پناہ محبت کا اندازہ ہو رہا تھا۔ 

"کہيں نہيں جاؤں گا۔۔ پليزرونا بند کرو" نائل کو اسکے آنسو بے چين کررہے تھے۔ وہ اب تک يماما کو اتنا مضبوط دیکھ چکا تھا کہ اس کا يوں بکھرنا اسے تڑپا گيا تھا۔ 

اسکے آنسو ايک تواتر سے بہتے نائل کی شرٹ ميں جذب ہورہے تھے۔ 

يماما کو خود ميں بھينچے وہ اسے تحفظ کا احساس بخش رہا تھا۔ نائل نے اپنے لب اسکے گھنے بالوں والے سر پر رکھے۔ 

"پليز يار۔۔ آج کے بعد ميں تمہاری آنکھوں ميں آنسو نہ ديکھوں" نائل اسے تنبيہہ کررہا تھا۔ 

يماما آنسوؤں پر بندھ باندھنے کی کوشش کرتے سر ہلا گئ۔ 

"ديٹس لائک مائ بريو گرل" نائل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھری۔ اسکا سر کندھے سے ہٹاتے۔اسکا چہرہ اپنے سامنے کيا۔ جہاں رونے سے لالی بکھری تھی۔ 

"تم تب چھوٹی تھيں۔ اسی لئے ان سب باتوں کا علم نہيں تھا۔ مگر بڑا ہونے کے ناطے ميں سب باتوں کو جانتا تھا۔" يماما نے نظريں اٹھا کر اسکی جانب ديکھا۔ 

ان کے گھر ميں رواج تھا کے بڑوں کے مسئلے چھوٹوں کو نہيں بتاۓ جاتے تھے۔ 

اسی لئے اپنا گھر جل جانے کے بعد وہ صرف يہ جانتی تھی کہ کسی دشمنی کی آڑ ميں ملکوں نے اسکے گھر والوں کو يہ سزا دی تھی۔ 

مگر يہ سب کيوں کيا تھا اسکی وجہ آج نائل سے معلوم ہوئ تھی۔ 

"اب تمہيں ويسی ہی مضبوط يماما بننا ہے جيسی چاچو تمہيں ديکھنا چاہتے تھے۔" نائل نے اسے ہمت دلائ۔ 

"آپ ميرے ساتھ ہيں نا تو ميں ويسی ہی بن جاؤں گی۔ بس اس سب تکليف کو برداشت کرنے ميں کچھ وقت لگے گا۔ کہ ميرے بابا کے خوابوں کی ايسی بھيانک سزا انہيں ملی۔ جو کہ پورے بھی نہ ہوسکے" پھر سے آنسو اسکی آنکھوں ميں جمع ہونے لگے۔ 

"نہيں يماما انکے خواب پورے ہوۓ۔ تمہاری صورت ميں۔" نائل نے اسکی صبيح پيشانی پر محبت بھرے لب رکھتے ہوۓ اسے تسلی دلائ۔ 

يماما نے بمشکل آنسوؤں کو باہر آنے سے روکا۔ وہ اپنے سامنے بيٹھے شخص کو کوئ تکليف نہيں دينا چاہتی تھی۔ جو دنيا ميں اب اس کا واحد سہارا تھا۔  

"بس مجھ سے وعدہ کرو۔ يہ سب جاننے کے بعد تم ٹوٹ کر نہيں بکھروں گی۔ بلکہ خود کو اور بھی مضبوط بناؤ۔ کہ ہم مل کر ان کا مقابلہ کريں۔ مجھے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے۔ تمہارے حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے ورنہ ميں ہار جاؤں گا" نائل نے اسے بہت کچھ باور کروايا۔ 

"ميں ہر لمحہ آپکا حوصلہ بنوں گی۔" يماما نے گويا اسے يقين دلايا۔ 

"تھينک يو۔ بس ايسی ہی يماما چاہئے۔ دوسروں کو رلانے والی۔ خود رونے والی نہيں" نائل نے اسکی نم آنکھوں ميں جھانکتے محبت بھرے لہجے ميں کہا۔ يماما کی مسکراہٹ نے گويا اسکی ساری پريشانی پل ميں زائل کردی۔

اگلا پورا دن گزر چکا تھا مگر شرافت کا کہيں اتہ پتہ نہيں تھا۔ وقار سارا دن چکراتا پھرا تھا۔ اپنے بندے تک اسکے گھر دوڑا دئيے۔ اسکی گاڑی کا بھی پتہ کيا مگر وہ گاڑی سميت ايسا غائب ہوا تھا کہ وقار کی سوچنے سمجھنے کی صلاحيتوں کو بھی اپنے ساتھ لے اڑا تھا۔ 

اس وقت وہ فون پر اپنے ماتحت پر برس رہا تھا۔ 

"آخر اسے زمين کھا گئ يا آسمان نگل گيا۔ کہاں دفع ہوگيا ہے وہ منحوس۔ اسکی سم بھی نجانے کہاں ہے۔ بند پڑی ہے کل سے۔" وقار اپنا غصہ اس شخص پر نکال رہا تھا۔ 

جس کے فرشتوں کو بھی شرافت کا پتہ نہيں تھا۔ 

"صاحب جی۔ اردگرد لوگوں سے بھی پوچھ ليا ہے۔ کل صبح کے بعد انہوں نے شرافت کو اپنے فليٹ ميں آتے نہيں ديکھا۔ اور نہ جاتے۔ سارا فليٹ چھان مارا ہے ليکن کوئ سرا ہاتھ نہيں آرہا" وہ بے چارا اپنی صفائياں دينے ميں مصروف ہوگيا۔ 

"يہ سب کيا ہو رہا ہے۔ ميرے گرد گھيرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ ميں۔۔ ميں کسی کو نہيں چھوڑوں گا۔ سب مجھے ايک ايک کرکے چھوڑتے جارہے ہو۔ مگر ميں ہار نہيں مانوں گا" وہ غرا کر بولا۔ 

فون بند کرکے غصے ميں ديوار پر دے مارا۔ 

بالوں ميں انگلياں پھنساۓ وہ بيڈ پر بيٹھ گيا۔ 

چل چل کر اب تو دماغ کے ساتھ ساتھ پاؤں بھی شل ہورہے تھے۔ 

کس سے پوچھے۔ کون بتا سکتا ہے۔ 

يہ تو اسے اندازہ ہوگيا تھا۔ کہ جس سميع پر اس نے بھروسہ کيا تھا۔ وہ کوئ عام بندہ نہيں تھا۔ وقار کو اسے پہچاننے ميں غلطی ہوئ تھی۔ 

وہ يقينا کسی ايجنسی کا بندہ ہے۔ اور کہيں اسی نے تو شرافت کو۔۔۔۔۔۔۔

يکدم ايک سرا اسکے ہاتھ آيا۔ 

مگر وہ سميع کو بے نقاب کيسے کرے۔ کوئ ثبوت اسکے ہاتھ ميں نہيں تھا۔ 

سوچ سوچ کر وہ تھک گيا۔ مگر اسے لگا سب بے سود ہورہا ہے۔

___________________________

سيمی کچن ميں چاۓ بنا رہی تھی جس لمحے اس کے موبائل کی بپ بجی۔ 

موبائل اٹھا کر ديکھا تو فاران کا میسج تھا۔وہ حيران ہوئ

انباکس کھولا

"السلام عليکم! کيسی ہيں آپ" سيمی نے چند لمحے موبائل کو گھورا۔ 

پھر کچھ سوچ کر ٹائپ کيا۔ 

"وعليکم سلام ميں ٹھيک ہوں۔ آپ بتائيں" جواب ٹائپ کرکے موبائل ايک جانب رکھا۔ 

چاۓ پک چکی تھی کپ ميں انڈيلی اتنی دیر ميں دوبارہ ميسج کی بپ بجی۔ 

فون اٹھا کر ميسج چيک کرنے ہی لگی تھی کہ فون ہی آگيا۔ 

کپ اٹھا کر موبائل بھی اٹھايا۔ يس کا بٹن دبا کر کان سے لگايا۔ 

"ہيلو"

"يہ تو پوچھ ہی چکا ہوں کہ آپ کيسی ہيں۔ لہذا مطلب کی بات کروں گا؟"وہ کوئ بھی۔ لگی لپٹی رکھے بغير مطلب کی بات پر آيا۔ 

"جی بتائيں"سيمی بھی کوئ تاثر دئيے بنا بولی۔

"ميں شام ميں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کہيں بيٹھ کر بس دوستوں کی طرح بات چيت کرنے کا خواہش مند ہوں" سيمی کو اس سے اتنی جلدی ايسی کوئ بات کرنے کی اميد نہيں تھی۔ 

"ہمم۔۔ چليں ميں آپکو اپنا شيڈول چيک کرکے بتاتی ہوں" دماغ کو تيزی سے دوڑايا۔ نائل سے پوچھے بغير تو وہ کوئ قدم نہيں اٹھا سکتی تھی۔ 

"ٹھيک ہے ميں آپکے جواب کا منتظر رہوں گا" متبسم لہجے ميں جواب آيا۔ 

"شکريہ۔ اللہ حافظ" سيمی نے کال کاٹنے ميں پہل کی۔

فاران کی کال بند کرتے ہی اس نے نائل کا نمبر ملايا۔ 

"نائل ايک ايشو ہو گيا ہے" 

دوسری جانب سکون ہی سکون تھا۔ 

"کيا؟" 

"فاران نے مجھے چاۓ پر انوائٹ کيا ہے۔" سيمی نے تشويش بھرے انداز ميں کہا۔ 

دوسری جانب نائل نے بے ساختہ قہقہہ لگايا۔ 

سيمی کو اس بے وجہ کے قہقہے کی سمجھ نہيں آئ۔ 

"اس ميں ہنسنے کی کيا بات ہے" اسکی آواز ميں ناراضگی کی جھلک تھی۔ 

"يار بندہ بہت فاسٹ جارہا ہے" نائل کے شرارت آميز لہجے پر وہ بھی مسکراۓ بغير نہيں رہ سکی۔ 

"اب سيمی کے ساتھ بندہ بھی تو ايسا فاسٹ ہی جچے گا نا۔ تمہاری طرح کوئ مجنوں تو نہيں جو ليلی کے ہوتے بھی 'وقت آنے کا' راگ الاپتا رہے" سيمی نے بھی اس پر چوٹ کی۔ نائل کھل کر ہنسا۔ 

"اس کيفيت کا بھی اپنا سرور ہے۔ انتظار کے بعد جو محبت ملتی ہے نا۔۔ وہ بہت دير پا رہتی ہے۔ خير بندہ اچھا اور شريف ہے۔ سکون سے جاکر ملو۔ سميع کو تمہارے پيچھے لگا دوں گا۔ اسے ميسج کرتا ہوں۔ اسکے بعد تم اس سے کنٹيکٹ ميں رہو۔ وہ تمہيں فالو کرتا رہے گا۔ ڈونٹ وری سوئيٹ فرينڈ" نائل کے خيال رکھنے کے يہی انداز سيمی کو بے حد پسند تھے۔ ہميشہ کسی بڑے بھائ کی طرح اس کا خيال رکھتا تھا۔ کبھی اسے اکيلا نہيں چھوڑا تھا۔ سيمی بھی اسکی کے ساتھ يتيم خانے ميں پلنے والی لڑکی تھی۔ وہيں ان دونوں کی دوستی ہوئ۔ 

اور پھر يہ دوستوں تاعمر قائم رہنے والی بن گئ۔ سيمی کی سٹڈيز مکمل کرتے ہی نائل نے اسے سيکرٹ سروسز کا ايگزيم پاس کرنے کے لئے بھر پور تياری کروائ۔ 

اور جب وہ کلئير کر گئ تو اسے اپنی ٹيم ميں شامل کر ليا۔ 

سيمی کسی کی وقتی محبت کا نتيجہ تھا۔ 

اس کے ماں باپ کون تھے کہاں تھے کوئ نہيں جانتا تھا۔ 

بس کسی نے سڑک پر نومولود بچی کو ديکھا اور اٹھا کر يتيم خانے پہنچا ديا۔ 

اسی لئے نائل اب اس کا سر پرست بن چکا تھا۔ سيمی کے قريب آنے کی بڑی وجہ يماما سے اسکی مشابہت بھی تھی۔ اور يہی مشابہت ان کے کام آئ۔

اس کی خواہش تھی کہ فاران سيمی کو پسند کرے اور اس سے شادی کرے۔ نائل نے ہر لحاظ سے اسے پرکھا تھا۔ اسی لئے وہ اسے بے حد اچھا لگا تھا۔

____________________________

اگلے دن شام کی بجاۓ دوپہر ميں ہی مہک کی واپسی ہو چکی تھی۔ نائل اپنے کام سے باہر تھا۔ گھر ميں صرف يماما تھا۔ اس نے پرتپاک انداز ميں مہک کو خوش آمديد کيا۔

وہ اس عورت کی ان محبتوں کی مقروض تھی جو نائل سے انہيں تھی۔ تو پھر يماما کو وہ کيونکر نہ عزيز ہوتيں۔مہک ، يماما ميں خوشگوار سی تبديلی ديکھ کر بے حد متاثر ہوئيں۔ 

کچھ دير آرام کرنے کے بعد وہ نائل کے کمرے ميں اسکی چيزيں ٹھيک کرنے کی غرض سے گئيں۔ 

کمرے ميں داخل ہوئيں۔ ہر چيز ترتيب سے رکھی تھی۔ مگر بيڈ کے قريب کوئ جگمگاتی چيز نظر آئ۔ 

آگے بڑھ کر ديکھا تو وہ کوئ انگوٹھی تھی۔ ہاتھ بڑھا کر اٹھايا۔ہتھيلی پر رکھتے ہی وہ چند پل حيرت زدہ سی رہ گئيں۔ يہ وہی انگوٹھی تھی جو اکثر انہوں نے يماما کے ہاتھ ميں ديکھی تھی۔ کچھ سوچ کر انہوں نے ہاتھ ميں دبائ اور کمرے سے باہر آگئيں۔

رات ميں کھانا کھانے کے بعد انہوں نے نائل کو اپنے ساتھ اسٹڈی روم ميں آنے کا کہا۔ 

خود وہ اس سے پہلے اسٹڈی روم ميں پہنچ چکی تھيں۔ 

نائل بھی کچھ دير بعد انکے پيچھے آيا۔ وہاں موجود صوفے پر وہ پرسوچ انداز ميں بيٹھيں تھيں۔ 

"کيا بات ہے ممی خيريت؟"نائل کو انکے سنجيدہ تيور کچھ عجيب سے لگے۔ 

انہوں نے نظر اٹھا کر جانچتی نظروں سے نائل کو ديکھا۔ اپنے قريب صوفے پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ 

وہ انکے قريب بيٹھ گيا۔ 

مہک نے ايک ہاتھ اسکے چوڑے کندھے پر رکھا۔ 

"کنزہ اچھی لڑکی ہے" انکے منہ سے نکلنے والی بات اسے سمجھ نہيں آئ۔ اس نے کچھ الجھ کر انہيں ديکھا۔ ان کا چہرہ کسی بھی تاثر کے بغير تھا۔ 

"آپ مجھ سے پوچھ رہی ہيں۔ يا بتا رہی ہيں" ہولے سے مسکرا کر اس نے مہک کی جانب ديکھا۔ 

"نہ پوچھ رہوں ہوں نا بتا رہی ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ اتنے سالوں بعد کوئ لڑکی ميرے بيٹے کو پسند آئ۔ ليکن مجھے تب اور بھی زيادہ خوشی ہوتی اگر تم اپنی فيلنگز ميرے ساتھ شئير کرتے۔ ميں تو کب سے اس آس ميں بيٹھی ہوں کہ تم کسی لڑکی کو پسند کرو" اپنی بات ختم کرکے انہوں نے ہتھيلی نائل کے آگے کی۔ جس پر يماما کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔ 

"يہ آج تمہارے کمرے ميں سے مجھے ملی ہے۔" نہ ان کا انداز شرمندہ کرنے والا تھا اور نہ طنز والا۔ بس سادہ سا انداز تھا ايسے جيسے کوئ معمول کی بات اسے بتا رہی ہوں۔ 

"کل رات ميں ہم نے اکٹھے چاۓ پی تھی۔ شايد تبھی يہ ميرے روم ميں گر گئ تھی" نائل نے بھی سادہ سے انداز ميں آدھی حقيقت بتا دی۔ مگر يہ نہيں بتايا کہ وہ کيوں وہاں تھی۔ 

"تو کيا ميں اس سے آگے کے انتظام کروں؟" انہوں نے اب کی بار مسکرا کر اسے ديکھا۔ 

"وہ بہت اچھی ہے۔ اور مجھے اچھی بھی لگتی ہے۔ مگر کچھ مسائل ايسے ہيں کہ ميں ابھی اسکے ساتھ کوئ اور رشتہ قائم نہيں کرسکتا۔ آپ کچھ وقت ديں۔ پھر ان شاءاللہ ميں آپکی خواہش پوری کردوں گا" نائل نے ان کا ہاتھ تھام کر انہيں تسلی دلائ۔ 

"بس خيال رکھنا اپنی زندگی ميں ہی يہ خوشی ديکھ لوں" انہوں نے مسکراتی نظروں سے اپنے بيٹے کو ديکھا۔ کيا ہوا جو انہوں نے اسے پيدا نہيں کيا۔ کيا ہوا کہ وہ بہت سالوں بعد انہيں ملا۔ مگر جس قدر انہوں نے اسے محبت دی تھی۔ نائل کو لگتا تھا وہی اسکی اصل ماں ہيں۔ 

"پليز ممی ايسے مت کہيں۔ ميرے بہت سارے بچوں کو ميں اور کنزہ اکيلے نہيں سنبھال سکيں گے۔ آپ نے اور بابا نے ہی انہيں سنبھالنا ہے" نائل نے محبت سے انکے گرد اپنی بازوؤں کا گھيرا باندھ کر انہيں خود سے لگايا۔ 

وہ انہيں اور شمس کو کسی صورت اب کھونا نہيں چاہتا تھا۔ 

مہک نے مسکرا کر آنکھيں موند ليں۔ اور دل ميں ان شاءاللہ کہا۔

سيمی مقررہ وقت پر ہوٹل پہنچ چکی تھی۔ 

فاران پہلے سے ہی وہاں موجود اس کا انتظار کررہا تھا۔ 

دروا‌زے سے کچھ آگے ايک کھڑکی کے پاس دو بندوں کی ٹيبل پر وہ موجود تھا۔ سيمی با اعتمادی سے چلتی ہوئ اس ٹيبل کے قريب گئ۔ 

فاران اسے ديکھ کر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"السلام عليکم" فاران دوستانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ بولا۔ 

"وعليکم سلام ۔۔ اميد ہے ميں نے زيادہ انتظار نہيں کروايا ہوگا" سيمی بھی دوستانہ لہجے ميں بولی۔ 

"بالکل بھی نہيں" دونوں نے اپنی اپنی کرسياں سنبھاليں۔ 

"کچھ حيران سی لگ رہی ہيں؟" وکيل تھا زيرک نگاہ کيسے نہ ہوتا۔ 

سيمی ہولے سے مسکرائ۔ 

"ظاہر ہے۔ ايک ايسا بندہ جو آپ سے پہلے ملتے ہوۓ ہچکچاۓ۔۔ اور ايک ہی ملاقات کے بعد پھر يکدم آپ کو چاۓ کی آفر کردے۔ تو۔۔ ميرا خيال ہے کہ ہر نارمل بندے کا حيران ہونا بنتا ہے" سيمی بھی لفظوں کی کھلاڑی تھی۔ اتنی آسانی سے اس کی گرفت ميں کيسے آتی۔ 

"ويل سيڈ" فاران اس کی حاضر جوابی پر ہولے سے مسکرايا۔ 

"چاۓ کے ساتھ آپ کيا ليں گی؟" اس نے يکدم بات پلٹی۔ 

"ميں کھانے پينے کی زيادہ شوقين نہيں۔ جو مل جاۓ شکر کرکے کھا ليتی ہوں۔ اور ہاں سبھی کچھ کھا ليتی ہوں۔ 

لہذا اگر آپ اپنی پسند کی کوئ چيز منگوانا چاہئيں تو مجھے قطعی کوئ مسئلہ نہيں ہوگا" سيمی کی بات پر وہ ايک بار پھر سے مسکرايا۔ مگر اس بار مسکراہٹ کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی اور کامياب بھی ہوا۔ 

مگر سيمی کی تيز نظروں نے اس متاثر کن مسکراہٹ کو بھانپ ليا۔ 

"لوگوں کو راز فراہم کرنے کے علاوہ آپ اور کيا کرتی ہيں؟" ويٹر کو چاۓ کے ساتھ سينڈوچز اور چاکليٹ موز براؤنز کا آرڈر دے کر کرسی کی پشت سے ٹيک لگاۓ۔ ريليکس انداز ميں بيٹھے اب وہ مکمل طور پر سيمی کو نگاہوں کے فوکس ميں رکھے ہوۓ تھا۔ 

"بس کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہوں۔ کوئ اتنی بڑی ہستی نہيں اور کوئ ايسا خاص پروفيشن نہيں کہ بتاؤں۔۔آپ کی طرح اتنے اچھے پروفيشن سے نہ تو تعلق ہے اور نہ کوئ اتنی اچھی ڈگری کہ اچھی جاب کروں۔ چھوٹی موٹی جاب جہاں ملے کر ليتی ہوں" وہ جس قدر فاران کو گھما سکتی تھی۔ گھما ديا تھا۔ 

"پھر بھی ۔۔۔کوئ تو نام ہوتا ہے جاب کا۔ يا گمنام سپاہی سمجھوں" فاران کی مسکراہٹ اب غير معمولی ہو چکی تھی۔ 

"ارے نہيں ہمارے ايسے نصيب کہاں" سيمی نے پھر سے بات کو ادھر ادھر کيا۔ 

"وہ کيس کہاں تک پہنچا؟" اب اس نے خود سے بات ہٹانا چاہی۔ 

"کيس ابھی چل رہا ہے۔ کيونکہ يہاں کی عوام کا حال آپ کو پتہ ہے۔ پيسے کے پيچھے اپنا ايمان تک بيچ ديتے ہيں۔ يہ تو پھر ايک اہم شخصيت کا کيس ہے۔ مگر آپ نے جو شواہد دئيے۔ ان سے کافی مدد ملی ہے۔ 

وہ سب ميں نے کورٹ ميں جمع کروادئيے ہيں۔ 

اب مجھے چند اہم گواہوں کی ضرورت ہے۔ جو پيسے کے بل پر نہيں بلکہ سچ ميں اس خاندان کے راز فاش کريں" فاران نے ايک ٹھنڈی سانس لی۔ 

ويٹر کے آتے ہی دونوں خاموش ہوگۓ۔ 

چاۓ سرو کرکے اور چيزيں رکھ کر جيسے ہی ويٹر گيا۔ فاران نے ايک ہاتھ سے سيمی کو سب لينے کا اشارہ کيا۔ 

"آپ کو يہ سب شواہد کيسے ملے؟" وہ اب بھی اسی بات پر اٹکا ہوا تھا۔ 

"جب اللہ مدد کر رہا ہو۔ تو يہ نہيں پوچھتے کہ مددگار کو مدد کا خيال کيسے آيا۔ يہ تو اللہ کا حکم تھا۔ جو ميرے ذريعے عمل ميں آيا۔ ميں خود نہيں جانتی يہ سب کون کيسے اور کب دے گيا۔ بس آپ کی صورت ميں ايسے درندوں کو بے نقاب کرنے کا خيال ذہن ميں آيا اور ميں پہنچ گئ۔" سيمی کسی طور اس موضوع پر نہيں آرہی تھی۔ 

جبکہ فاران کا شک اب يقين ميں بدل رہا تھا۔ يقينا وہ سيکرٹ ايجنٹ کی ہی کارکن تھی۔

فاران نے پھر اسے اصرار نہيں کيا۔

دونوں ادھر ادھر کی باتيں کرتے رہے۔ کچھ دير بعد ہی دونوں واپسی کے راستے پر تھے۔ 

سيمی نے نائل کے کہنے پر اس ملاقات کی ايک ايک بات ٹيپ ريکارڈر ميں ريکارڈ کردی تھی۔ جو کہ اسکے چھوٹے سے بيگ ميں موجود تھا۔ 

فاران اس بات سے واقف نہيں تھا کہ جس لمحے وہ اس کی ٹيبل کے قريب آئ اس لمحے بيگ کے اندر ہاتھ ڈال کے اس نے ٹيپ ريکارڈر کا بٹن آن کرديا تھا۔ 

واپس پہنچتے ہی اس نے وہ ٹيپ موبائل پر سويو کرکے نائل کو بھجوا دی۔

______________________

"ہاں۔۔ کہاں تک معاملہ پہنچا۔۔ ٹھيک ہے۔ اسے اٹھوا لو۔۔ ميں مزيد کسی اور بربادی کا انتظار نہيں کرسکتا"وقار کی آواز ميں شديد غصہ بھرا تھا۔ 

"ابے نہيں۔۔۔۔ جيسے ہی گھر سے نکلے اسے اٹھوا لو۔۔ ميں پہلے ہی بہت مصيبتوں ميں گھرا ہوں۔ اب اس سب کا اينڈ ہونا چاہئيے۔۔۔اس کمينے نے مجھے گھن چکر بنا ديا ہے۔۔۔

 ميں اس کو برباد کرکے چھوڑوں گا۔ مجھے معلوم ہی نہيں تھا اصل دشمن تو ميرا ميرے سامنے پھر رہا تھا۔ اور ميں ادھر ادھر جھک مار رہا تھا" موبائل کان سے لگاۓ وہ کمرے ميں ايک جگہ سے دوسری جگہ چکر کاٹ رہا تھا۔

"اوپر سے وہ خبيث جج ۔۔۔کسی طور ميرے کيس کو ڈھيل دينے کو تيار نہيں۔ بکواس بھی کی ہے کہ دبئ ميں ميرے دو کامياب مالز ميں اسکے نام کر دوں گا۔ اسکی سات پشتيں بھی بيٹھ کر کھائيں گی تو کم نہيں پڑے گا۔ مگر بڈھا ہاتھ ہی نہيں آرہا۔ 

نجانے کس نے دھمکياں دے رکھی ہيں۔ ہر بار بوکھلايا ہوا ملتا ہے ايسے جيسے اسے ہر لمحہ کوئ اپنی نظروں ميں رکھے ہوۓ ہے۔ مگر مجال ہے کہ ميری باتوں ميں آجاۓ۔" وہ ہر کسی کو کوسنے دے رہا تھا۔ 

"خود تو ڈيڈی سلاخوں کے پيچھے چلے گۓ۔ مجھے بھی يہاں پھنسا گۓ۔۔۔" وہ باپ کو بھی برا بھلا کہنے سے گھبرايا نہيں۔ 

"ہاں چلو ٹھيک ہے۔ اسے اٹھوا کر فارم ہاؤس پہنچاؤ۔ آگے کا کام ميرا ہے" اپنے بندے کو ہدايات ديتے فون بند کيا۔

_________________________

"ميں آخر کب تک يوں گھر ميں بند رہوں گی" يماما اس وقت اکتائ ہوئ نائل کے پاس اس کی لائبريری ميں موجود تھی۔

"بس کچھ دن اور۔۔ سمجھو۔ اس سارے قصے کا ڈراپ سين ہونے والا ہے۔ ميں نے وقار اور وہاج کے خلاف ڈھير سارے گواہان اکٹھے کرلئے ہيں۔ بس اب اس سب قصے کا انجام ہونے ہی والا ہے۔ پھر تم اور ميں آزاد ہوجائيں گے" يماما کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ لے کر ايک جانب رکھتے وہی ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے رکھی کرسی پر اسے بٹھا کر گويا خوشخبری سنائ۔ 

"آپ کيا جاب کرتے ہيں؟" نائل کی توقع کے برخلاف اسکی باتوں پر خوش ہونے کی بجاۓ۔ يماما اسے کھوجتی نظروں سے ديکھنے لگی۔ 

"بس لوگوں کی حفاظت کرنے کی اور برائ کو جڑ سے ختم کرنے کی کوششوں ميں مصروف رہتا ہوں" نائل نے بات گھمائ۔ 

"آپکے اتنے سارے روپ۔ کبھی کسی کی آواز بدل لينی کبھی کسی کی۔ يہ سب کوئ عام انسان نہيں کرتا۔ يہ سب تو ميں نے ايجنسيوں۔۔۔۔" نائل نے اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ ديا۔ 

يماما کی آنکھيں حيرت کی زيادتی کے باعث کھل گئيں۔ 

"ديواروں کے بھی کان ہوتے ہيں۔۔۔لہذا اس بات اور اس گمان کو يہيں دفن کردو" نائل کے چہرے سے يکدم گہری سنجيدگی جھلکنے لگی۔ 

"ميں آپکی بيوی ہوں نائل" اسکے ہاتھ ہٹاتے ہی يماما نے جيسے اسے باور کروايا۔ 

"ہاں مگر کل مختار نہيں۔۔ لہذا ميں کون ہوں اور کيا کرتا ہوں۔ اس کو جاننے کا حق کسی کو بھی نہيں۔ نہ مجھے بار بار اپنی بات دہرانے کی عادت ہے۔ ميں تمہارے سب حقوق و فرائض پورے کروں گا۔ اور تمہارے لئے يہی کافی ہونا چاہئیے۔ تمہيں نہ کبھی فاقے کرنے پڑيں گے۔ اور نہ کبھی غربت کی شکل دکھاؤں گا۔ 

بس ۔۔۔اور اس بس کے بعد کچھ اور کہنے اور پوچھنے کی گنجائش کبھی نہيں ہونی چاہئيے۔ يہ سب ميں تمہيں پہلی اور آخری بار بتا رہا ہوں۔ اس کے بعد اس سب کو کبھی نہيں دہراؤں گا۔ميں تمہارے سامنے صرف تمہارا نائل ہوں۔ اور اس سے آگے پيچھے کيا ہوں اور کيوں ہوں۔ اس سب کو جاننے کی تمہيں ضرورت نہيں ہے۔ 

بس اتنا جان لو۔ اللہ اور اسکے رسول کی ہدايات کو جانتا ہوں۔ لہذا کسی بھی غلط کام ميں انوالو نہيں ہوں۔ بہت اچھا نہيں۔ بہرحال اچھا انسان اور مسلمان بننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور اس سب ميں کوئ غير قانونی يا انسانيت سوز کام نہيں کرتا۔ 

تم سمجھدار ہو۔ مجھے اميد ہے آئندہ اس سب کو دہرانے کی ضرورت محسوس نہيں ہوگی" يماما کی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالے وہ جو کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا يماما کو وہ بہت اچھی طرح سمجھ آچکا تھا۔ 

اس تمام عرصے ميں يماما نے اسے پہلی بار اس قدر سنجيدہ ديکھا تھا۔ اور يہ سنجيدگی غصے سے بالاتر تھی مگر يماما کی ريڑھ کی ہڈی سنسنا گئ تھی۔ 

نائل کے ہاتھ ميں دبے اسکے ہاتھ پر نائل کی گرفت بے حد مضبوط تھی۔ اور يہ مضبوطی اسے بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ 

"جی" يماما نے نظريں جھکا کر فقط اتنا ہی کہا۔ کيونکہ اسے اتنا ہی کہنا تھا۔ اس سے آگے کی گنجائش نائل نے بالکل نہيں چھوڑی تھی۔ 

"اس سب قصے کے اختتام کےلئے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت پڑے گی۔اور سمجھو تمہاری وہ مدد ہی آخری کيل ثابت ہوگی۔ جس کے بعد وقار، وہاج اور سرتاج کے تابوت دفن ہونے کو تيار ہوجائيں گے" يماما نے اسی خاموشی سے سر ہلايا۔ جو اب قدرے جھکا ہوا تھا۔ 

نائل نے اسکی خاموشی محسوس کرلی تھی۔ 

"يماما اس ميں برامنانے والی کوئ بات نہيں ہونی چاہئيے" نائل نے اسکے ہاتھ کو ہولے سے جھٹکا دے کر گويا اسے چہرہ اوپر کرنے کا اشارہ کيا۔

"نہيں ميں نے برا نہيں منايا۔ بس مين يہ تعين کرنا چاہ رہی ہوں۔ کہ اب مجھے آپ سے بات کرتے وقت کن کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ تاکہ دوبارہ آپ کو وہ سب دہرانے کی ضرورت نہ پڑے" يماما نے سادے سے لہجے ميں کہا۔ 

نائل ہولے سے مسکرايا۔ 

"بس ميری اور اپنی بات کرو گی تو کچھ بھی سوچنے کی ضرورت نہيں ہوگی۔ ديکھو يماما کچھ چيزيں ايسی ہوتی ہيں۔ جنہيں انسان خود سے بھی نہيں دہراتا۔ وہ جيسی ہيں انہيں ويسے قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس سب کو کہنے کا يہ مطلب نہيں کہ يہ ايک مسئلہ ہم ميں فاصلے پيدا کردے۔" نائل کی بات پر اس نے پھر سے ہولے سے سرہلايا۔ 

پھر آہستہ سے اپنا سر اسکے کندھے سے ٹکا ديا۔ 

"نائل مجھے يقين ہے جيسے آپ نے ہر لمحہ ميری حفا‍ظت کی۔ وہ چاہے ميری جان ہو يا ميری عزت۔ مگر دنيا کے سردوگرم سے بچانے کے لئے چھپ کر ہی سہی ۔۔ آپ نے ہر لمحہ مجھے اس سے بچايا۔ تو ميں کيسے يہ سوچ لوں کہ آپ کسی ايسے کام ميں ملوث ہوسکتے ہيں جس کے پتہ چلنے پر ميں شرم سے پانی پانی ہوجاؤں۔ 

مجھے اميد ہے آپ اللہ کی راہ ميں کوئ بہترين کام کررہے ہيں۔ اور اسی کام کے عوض ميری اللہ سے دعا ہے۔ وہ آپ کو ہر لمحہ کامياب اور کامران کرے اور آپ کے دشمنوں کو نيست و نابود کرے" يماما ان سب ڈھکی چھپی باتوں سے بہت کچھ جان گئ تھی۔ 

اور يہ اطمينان اس کے اندر تک سرائيت کرگيا کہ اس کا نائل اس وطن اور اسکے سچے لوگوں کے لئے کام کررہا ہے۔ 

نائل نے آہستہ سے اسکے گرد اپنی بازوؤں کا گھيرا باندھا۔ 

وہ جانتا تھا يماما بہت سی ان کہی باتوں ميں بھی وہ سب سمجھ جاۓ گی جو نائل اسے سمجھانا چاہتا ہے۔ 

نجانے وہ دونوں کب تک يوں ايک دوسرے ميں گم بيٹھے رہتے اگر نائل کا موبائل نہ بج اٹھتا۔ 

يماما سرعت سے پيچھے ہوتے آنکھوں کے گوشوں پر ٹھہرنے والے موتيوں کو پوروں سے چننے لگی۔ 

نائل نے فورا موبائل اٹھايا۔ 

"ہيلو" دوسری جانب سے نجانے کيا کہا گيا کہ نائل تيزی سے کھڑا ہوا۔ 

"کيا۔۔ کيا کہہ رہے ہو۔۔ اچھا تم وہيں رہو ميں آرہا ہوں" نائل نے عجلت ميں موبائل بند کيا۔ 

"کچھ کام ہے تھوڑی دير تک آتا ہوں"يماما کی سواليہ نظروں کی جانب ديکھتے کہا۔ پھر جھک کر اسکی آنکھوں کی نمی محسوس کی۔ 

"اپنا خيال رکھنا" پيچھے ہٹتے اسے محبت بھری ہدايت کرنا نہيں بھولا۔ اسکے قريب سے ہوتا لائبريری سے باہر چلا گيا۔ مگر اپنا احساس يماما کے پاس ہی چھوڑ گيا۔

اسکی بند آنکھيں آہستہ آہستہ کھل رہی تھيں۔ وہ اس قدر مضبوط اعصاب کا مالک تھا کہ وہ دوائ جس کے بے ہوش ہونے پر لوگ کئ گھنٹوں بعد ہوش ميں آتے ہيں۔ اس کے مضبوط اعصاب کی وجہ سے وہ فقط چار گھنٹوں ميں ہی ہوش ميں آچکا تھا۔ 

مندی مندی آنکھوں کو اب پوری طرح کھولے اس نے اردگرد ديکھا۔ 

وہ کرسی پر بيٹھا تھا۔ پاؤں کرسی کی ٹانگوں کے ساتھ اور ہاتھ اسکی پشت پر لے جا کر باندھے گۓ تھے۔ 

چند منٹ وہ ہاتھوں کو دائيں بائيں ہلاتا رہا۔ 

مگر بے سود۔ وہ نہتا ہو کر بھی اتنا نہتا نہيں تھا جتنا اس کو اغوا کرنے والے نے سمجھ رکھا تھا۔ 

اسکی گھڑی پر بآسانی اس جگہ کی ٹريسنگ ہوسکتی تھی جہاں وہ موجود تھا۔ 

اور اس کا باس کوئ عام شخص نہيں۔ نامی گرامی شہنشاہ عرف نائل تھا۔ 

سميع کو اغوا کرنے والے نے اپنی شامت کو آواز دے دی تھی۔ 

اور اسے اغوا کرنے والا کوئ اور نہيں وقار تھا۔ 

ابھی وہ اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑا ہی رہا تھا کہ دروازہ زوردار ٹھوکر سے کھولا گيا۔ 

وقار غضبناک چہرے سميت اندر آچکا تھا۔ 

"مجھے پاگل سمجھا تھا تم نے؟" دروازہ واپس اتنے ہی زور دار طريقے سے بند کرکے وہ غرايا۔ 

سميع خاموش تھا۔ اب اسے خاموش ہی رہنا تھا۔ کيونکہ اس جگہ جہاں وہ بيٹھا تھا نہ وہ کسی کا بھائ تھا۔۔ نہ کسی کا بيٹا اور نہ ہی دوست وہ صرف اپنے ملک کا محافظ تھا۔ 

اور ايسی صورتحال ميں ملک کے محافظ اپنا تن ۔ من ۔دھن سب اس دھرتی پر وار ديتے ہيں۔ مگر اس دھرتی پر آنچ نہيں آنے ديتے۔ 

"تم سمجھتے تھے کہ ميں جان نہيں پاؤں گا کبھی اور تمہارے ہاتھوں کٹھ پتلی بنتا رہوں گا" وہ چيخ رہا تھا۔ چلا رہا تھا۔ 

غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ اور جھوٹوں۔۔سازشوں اور ملک دشمن عناصر کے پاس بے نقاب ہونے کے بعد سواۓ غصہ اور چيخ چلا کر سچ کو دبانے کے سوا کچھ نہيں ہوتا۔ وقار بھی اس لمحے وہی کر رہا تھا۔ 

اور محافظ خاموش تھا۔ 

"اب بھونکو گے يا نہيں۔۔ تم ايجنسی کے پالتو کتے۔۔ مجھے۔۔ وقار ملک کو جيل بھجوانے کی غلط فہمی ميں مبتلا تھے" اب کی بار اسکے بال مٹھی ميں جکڑے وہ جھنجھوڑ رہا تھا۔ 

سميع نے ايک غصيلی نظراس پر ڈالنے کے سوا اب بھی کچھ نہيں کہا تھا۔ 

وقار اسکی خاموش پر اور بھی طيش ميں آگيا۔ گھما کر ايک الٹے ہاتھ کی چپيڑ اتنے زور سے اسکے منہ پر ماری کہ اس کا ہونٹ پھٹ گيا۔ مگر وہ کرسی سميت ٹس سے مس نہ ہوا۔ 

اس سے پہلے کہ وہ مزيد مارتا يکدم کھڑکی پر ٹھک ٹھک کی آواز گونجی۔ 

وقار چوکنا ہوا۔ 

سميع اس آواز پر مسکراۓ بغير نہيں رہ سکا۔ 

ايک بار پھر ٹھک ٹھک کی آواز گونجی۔

"ابے کون ہے؟" وہ غصے ميں پھر سے چلايا۔ کيونکہ کھڑکی مقفل تھی۔ اس کا کوئ بندہ ايسی جرات نہيں کرسکتا تھا۔ 

يکدم خاموشی چھا گئ۔ 

وقار پھر سے سميع کی جانب مڑا۔ شايد ہوا تھی۔ وہ يہی سمجھا۔ 

مگر وہ جانتا نہيں تھا کہ يہ ہوا نہيں طوفان کی آمد تھی۔ 

"کس کے لئے کام کرتا ہے۔ سيدھی طرح بتا دے۔ کل تک اسکی وردی اور رتبے کا نشہ نہ اتارا تو ميرا نام بھی وقار نہيں" وہ پھر سے سميع کے بال مٹھی ميں جکڑے اس کا چہرہ اونچا کئے آنکھيں نکال کے بولا۔ 

يکدم پھر سے کھڑکی بجی۔ 

"ابے ميں کہتا ہوں کون۔۔(گالی) ہے" وہ غصے سے کھڑکی کے قريب گيا پردہ غصے سے ہٹايا تو کھڑکی کھولے کوئ لمبے بالوں والا ہيبت ناک انسان موجود تھا۔ بڑی بڑی داڑھی اور مونچھوں ميں۔۔

وقار يکدم لڑکھڑايا۔ کھڑکی کيسے کھل گئ۔۔ 

"تت۔۔ تم کون ہو۔۔ کيسے کھڑکی کھولی" وہ گھبرايا۔ 

"رشيد۔۔ شوکی۔۔ ذکا۔۔" وہ يکدم اونچی آواز ميں اپنے بندوں کو آوازيں دينے لگا۔ 

"ابے ۔۔تيرا باپ آيا ہے۔۔ اندر تو آنے دے۔ کوئ سلام تو پيش کر ميری خدمت ميں۔" بھاری مگر کسی قدر غنڈوں جيسی بولی بولتا وہ کھڑکی پھلانگ کر اندر آگيا۔ 

وقار نے تيزی سے اپنی پينٹ کی جيب سے ريوالور نکالی۔ 

"ايک قدم بھی آگے بڑھايا تو بھون کے رکھ دوں گا" ريوالور کا رخ اسکی جانب کئے وقار اونچی آواز ميں بولا۔ 

مگر سامنے والے کو تو جيسے کوئ فرق ہی نہ پڑا۔ 

"بيٹا ۔۔ ان کھلونوں سے شہنشاہ کو ڈرانے کی ناکام کوشش نہيں کرتے" وہ اسے پچکار کر بولا۔ 

اب اس کا رخ سميع کی جانب تھا۔ 

"يہ تھپڑ کس نے مارا ہے تمہيں" اب وہ سميع سے مخاطب تھا۔ 

وقار نے اسے خوفزدہ نہ ديکھ کر گولی چلائ۔ 

مگر شہنشاہ نے پھرتی سے جھکائ دے کر نہ صرف اسکی کوشش ناکام کی بلکہ نيچے بيٹھتے ہوۓ ايک ٹانگ گھما کر اسکے پيٹ پر اس زور سے ماری کہ وہ دور جاگرا۔ 

وقار کو اندازہ نہيں تھا کہ وہ اتنا چوکنا انسان ہے۔ 

وقار نے اس کا نام بہت سن رکھا تھا۔ انڈر ورلڈ کی دنيا سے شہنشاہ کا تعلق تھا۔ 

مگر وہ اسکے پيچھے کيوں پڑا تھا اور کيا سميع اس کا بندہ تھا؟

شہنشاہ کی ايک ہی ٹانگ کھانے کے بعد اس کا دماغ صحيح سمت چلنے لگا تھا۔ 

پيٹ پکڑے وہ شہنشاہ کو سميع کے ہاتھ پاؤں کھولتے ديکھ رہا تھا۔ 

پھر جيب سے رومال نکال کر اس نے سميع کے ہونٹ سے رسنے والا خون صاف کيا۔ 

"اس نے ہاتھ اٹھايا تم پہ؟" اب وہ تيکھی نظروں سے وقار کو ديکھ رہا تھا۔ 

"باس جانے ديں" سيمع يقينا اس کے غضب سے واقف تھا لہذا اسے اس موضوع سے ہٹانا چاہا۔ 

"نہيں بيٹا ايسے کيسے جانے دوں" وہ غضب ناک تيور لئے وقار کی جانب آيا۔ 

"بات سنو۔۔ شہنشاہ۔۔ پہلے ميری بات سنو" وہ سرعت سے پيچھے ہوتا ديوار کے ساتھ لگا۔ 

"چل سنا۔۔ کيونکہ اسکے بعد ميں نے تجھے کچھ کہنے کا موقع نہيں دينا" شہنشاہ نے ايسے کہا جيسے پھانسی کے وقت بندے کو آخری خواہش کہنا کا موقع ديا جاتا ہے۔ 

"تت۔۔ تمہارا اور ميرا ۔۔ تو کبھی آپس ميں آمنا سامنا نہيں ہوا۔ پھر تم مجھ سے کس بات کی دشمنی نکال رہے ہو۔ ميرے پيچھے اپنا بندہ کيوں لگا رکھا ہے۔ کيونکہ ميں تو سميع کو ايجنسی کا بندہ سمجھا تھا۔ 

اسی غلط فہمی ميں اٹھايا تھا۔ اگر يہ تمہارا بندہ ہے تو لے جاؤ۔ مگر تم نے اسے ميرے پيچھے کيوں لگايا؟" وہ شديد کنفيوز تھا۔ شہنشاہ کی دشمنی کے اس نے بہت سے واقعات سن رکھے تھے۔ وہ جتنا اچھا ڈان تھا۔ اس سے کہيں برا دشمن تھا۔ اور وہ اس سے دشمنی مول نہيں لينا چاہتا تھا۔ 

"تيرے خيال ميں ۔۔ ميں اتنا ہی اچھا ہوں کہ تو پوچھے گا اور ميں سب الف سے يہ تک تيرے گوش گزار کردوں گا۔ تيرے اور تيرے خاندان کے شہنشاہ پر بہت سے قرض تھے جو اب چکانے کا وقت آگيا ہے۔ ميں تيری سوچ سے بہت اوپر کی چيز ہوں۔ 

لہذا اپنا ننھا سا دماغ ان سوچوں ميں ضائع مت کر"

شہنشاہ استہزائيہ ہنسا۔۔ 

پھر يکدم بپھر کر اسکے قريب آيا۔ گريبان سے پکڑ کر اس سے کہيں زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا جو اس نے سميع کو مارا تھا۔ 

"يہ ميرے عزيز ترين بندے کو ہاتھ لگانے کا نتيجہ" اوندھے منہ گرے وقار کے قريب تھوکتے ہوۓ شہنشاہ غرا کر بولا۔ 

"اور تيرے باقی کے سوالوں کے جواب بہت جلد تيرے منہ پر مارنے عدالت آؤں گا۔ اب اگلی ملاقات وہيں ہوگی" سميع کا ہاتھ تھامے وہ اسی کھڑکی کے راستے اندھيرے ميں کہاں اور کس طرف گيا۔ 

جتنی دير ميں کراہتا ہوا وقار کھڑکی کے پاس آيا وہ دونوں اندھيرے ميں گم ہو چکے تھے۔ 

اسکا نہ صرف پورا گال جل رہا تھا بلکہ آدھا ہونٹ پھٹ چکا تھا۔ 

وہ ہونٹ پکڑے نيچے آيا۔ 

آخر اس کے سب بندے کہاں مرگۓ تھے۔ 

کسی کو ہوش نہيں تھا کہ کيا کچھ ہوگيا ہے۔ 

وہ غصے سے باہر آيا تو ديکھا سب کے سب بے ہوش پڑے ہيں۔ اور ايا ڈاٹ سا ان کی گردنوں ميں لگا ہے۔ 

وقار نے ايک کی گردن سے وہ ڈاٹ نکالا تو اس پر کوئ محلول لگا تھا۔ 

وہ شايد بے ہوش کرنے والی کوئ دوائ تھی۔ 

وہ غصے سے وہ ڈاٹ پھينک کر کھڑا ہوا۔ سامنے پڑی ٹيبل کو زوردار ٹھوکر ماری۔ اس کا سارا پلين تباہ ہوگيا تھا۔ 

دو دن بعد اب اسکی پيشی تھی۔ اور اسی پيشی پر اس کا فيصلہ ہونے والا تھا۔

_________________________

"تم کہاں تھے جب اس نے تمہيں اغوا کيا" نائل اب گاڑی ميں بيٹھا شہنشاہ والے حليے سے چھٹکارا پا چکا تھا۔ 

سميع کے ہونٹوں پر دوائ لگاتے وہ پوچھ رہا تھا۔ 

"ميں فاران کو وہ دونوں فارنرز اور وہاج کے بيٹے کے پاس لے جانے کے لئے نکلا تھا۔ تاکہ پرسوں والی پيشی کے لئے انکی گواہی بھی لی جاسکے مگر نجانے کس وقت اس نے اپنا ايک اور بندہ ميرے پيچھے لگايا۔ 

گاڑی ميں بيٹھ کر کچھ دير ميں ہی مجھے معلوم ہوگيا تھا کہ کوئ ميرے پيچھے لگا ہے۔ ميں نے کافی ڈاج ديا۔ 

مگر ايک جگہ ميری گاڑی مڑی وہاں شايد اس کا بندہ مجھے جان بوجھ کر لے کر گيا۔ کيونکہ سڑک پر کيل بچھاۓ ہوۓ تھے۔ 

بس وہيں ميری گاڑی پنکچر ہوئ۔ اور جب تک ميں گاڑی کو سنبھالتا اس کا بندہ مجھ تک پہنچ گيا۔ 

اور اتنی ہی دير ميں کوئ اسپرے ميری جانب کيا کہ ميں بے ہوش ہوگيا" سميع نے ساری تفصيل بتائ۔ 

"ہمم۔ خير رفيق کو جيسے ہی سگنل ملے اس نے فورا مجھے کال کردی۔اور ميں اسی لمحے نکل آيا" نائل نے بھی اپنے پہنچنے کی تفصيل بتائ۔ 

"ہاں مجھے اطمينان تھا کہ آپ پتہ چلتے ہی نکل آئيں گے۔ اگر آپ تب تک نہ پہنچتے تو ميں گھڑی ميں سے بليڈ نکال کر ہاتھوں کی رسی کاٹ ليتا" يہ طريقہ بھی نائل نے اسے بتايا تھا۔ 

اسکی گھڑی ميں ايک چھوٹی سی پاکٹ ميں نائل نے بليڈ رکھوايا تھا۔ اور اسی طرح کی ہر گھڑی اسکی ٹيم کے سب بندوں کے پاس تھی۔ جسے وہ ہمہ وقت پہنتے تھے۔ 

ان کی جاب کی نوعيت کے حساب سے کوئ پتہ نہيں ہوتا تھا کون کب انہيں اغوا کروا لے تو کم از کم بچنے کے جتنے طريقے ہوسکتے تھے انہوں نے وہ سب اپنے قريب رکھے ہوتے تھے۔ 

"ہاں اس کا تو مجھے بھی اطمينان تھا۔ مگر اس وقت ميں اس کے پاس اپنی کوئ کمزوری نہيں دے سکتا۔" نائل نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

"آئ نو سر" سميع بھی جانتا تھا۔ 

يہ دو دن ان کے لئے بے حد اہم تھے۔

___________________

کھانے کے بعد معمول کے مطابق يماما نائل کی اسٹڈی روم ميں کافی کا مگ لے کر آئ۔ آجکل وہ بہت زيادہ مصروف ہوگيا تھا۔ 

"تھينکس ۔۔بيٹھو تم سے کچھ بات کرنی ہے" نائل اس لمحے بے حد سنجيدہ دکھائ دے رہا تھا۔ 

"کل وقار اور وہاج کے کيس کی سماعت ہے" اسکی بات پر يماما چونکی۔ 

"کل صبح دس بجے ايک کالے شيشوں والی گاڑی تمہيں کورٹ تک پہنچا دے گی۔ 

تم نقاب ميں وہاں جاؤ گی۔ اور ميں ايک سيکورٹی گارڈ کے روپ ميں تمہارے ساتھ ہوں گا۔ ہم کورٹ ميں موجود رہيں گے۔ ميرا ايک بندہ سميع بھی وہاں ہوگا۔ ميں نے مختلف جگہوں سے وقار اور وہاج کے لئے مختلف گواہ ڈھوںڈے ہيں۔ اور ان سب کو اپنی قيد ميں رکھا ہوا ہے۔ 

ان سب گواہوں کے بعد آخری گواہ تم ہوگی۔ فاران اس کيس کو اب ہينڈل کررہا ہے جو تمہارے مرنے کی جھوٹی خبر کے باعث ادھورا رہ گيا تھا" پرت در پرت بہت سی حقيقتيں وہ يماما پر کھول رہا تھا۔ 

وہ حيران بس اسے سن رہی تھی۔ 

"اور پھر تمہارے مرنے والے کيس ميں وقار نے جس بندے کو تمہارے پيچھے لگايا تھا اور جس نے تمہاری گاڑی کو ٹکر ماری تھی۔ وہ بھی پيش ہوگا۔ اور اس کے پيش ہونے کے بعد ميں تمہيں پيش کروں گا۔ 

تم نے ايک ايک حقيقت ہماری فيملی کے بارے ميں بھی وہاں کھولنی ہے۔ وہ سب پيپرز ميں تمہيں دوں گا۔ تم نے وہ کورٹ ميں پيش کرنے ہيں۔ ہاں مگر مجھے وہاں پوائنٹ آؤٹ نہيں کرنا اور نہ ہی يہ بتانا ہے کہ تمہاری فيملی ميں تمہارے علاوہ ميں بھی زندہ ہوں۔ 

مجھے تم گمنام ہی رہنے دو گی۔ صرف اپنا بتاؤ گی کہ تم صرف زندہ ہو۔ 

تم سمجھ رہی ہونا" نائل بہت بڑی ذمہ داری اسکے سر ڈال رہا تھا۔ مگر يہی وقت تھا اسے پورا کرنے کا اور اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کا۔ 

آنکھوں ميں آنسو لئے وہ نائل کو ديکھ رہی تھی۔ 

"يماما۔۔ يہ آنسو کيوں آجاتے ہيں يار۔۔ پليز مجھے اپنی نڈر يماما کو ديکھنا ہے ہر لمحہ۔ مجھے ايسا کيوں لگتا ہے ميری وہ يماما کھوگئ ہے" نائل نے اسکے دونوں 

کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں ميں جکڑا۔ 

"پتہ ہے نائل۔۔۔ منزل جب تک قريب نہ ہو۔۔ تب تک اسے قريب ديکھنے کے لئے انسان تگ و دو کرتا ہے اور اس تگ و دو ميں جذبات کہيں معدوم ہو جاتے ہيں۔ مگر جب منزل سامنے نظر آنے لگے تب سب سے پہلے تشکر کا اظہار کرتے آنسو ہی ساتھ دينے کو آگے بڑھتے ہيں۔ 

بس مجھے لگ رہا ہے ہماری منزل اب قريب ہی ہے" يماما کی بات پر نائل ہولے سے مسکرايا۔ عقيدت سے اسکے ہاتھوں پر اپنے پيار کی مہر ثبت کی۔ 

"ان شاءاللہ۔۔بس تم نے گھبرانا نہيں۔" نائل نے اس کا ہاتھ تھپتھپايا۔

"اچھا يہ تو بتائيں۔۔ ميری ہم شکل کہاں سے ڈھونڈی تھی" يماما نے آنسو پيتے بات بدلی۔ وہ نائل کو اب کبھی خود سے مايوس نہيں کرنا چاہتی تھی وہ جيسا چاہتا تھا وہ ويسی ہی رہنا اور بننا چاہتی تھی۔ لہذا ابھی سے آنسوؤں کو خيرباد کہہ ديا۔ انہيں گالوں پر گرنے نہيں ديا۔ 

"يار ميری ايک دوست ہے۔۔دوست بھی کيا۔۔ بس بہن سمجھ لو۔۔ بہت اچھی وہ بھی اسی يتيم خانے ميں تھی جہاں ميں تھا۔ اسکی شکل تم سے بہت ملتی ہے۔ بس تب سے وہ ميرے ساتھ ہے۔ 

ميری ٹيم ميں ہے۔۔ اور جب تمہيں اغوا کروانا تھا۔ تو تمہارا نعم البدل وہ لگی۔ 

اسے تھوڑا سا ميک اپ کرکے بالکل تمہاری طرح بنا ديا۔ " نائل مزے سے اپنی کارگزاری دکھا رہا تھا۔ 

"مجھے اس سے ملنا ہے" يماما نے اپنی خواہش ظاہر کی۔ 

"جلد ہی ملواؤں گا۔ اور اب کافی گرم کرکے لے آؤ۔ کيونکہ تمہيں ديکھنے کے چکر ميں کافی ياد ہی نہيں رہی" شرارتی نظروں سے اسے ديکھا۔ 

"مجھے ديکھنے کہ اپنی سٹورياں سنانے کے چکرميں" يماما نے آنکھيں دکھاتے کافی کا مگ اٹھايا۔ 

نائل کی شرارت پر مسکراتے ہوۓ باہر گئ۔

اگلے دن صبح نائل اس سے پہلے ہی گھر سے جا چکا تھا۔ اسے نو بجے تک تيار ہونے کا آرڈر دے گيا تھا۔ 

شمس تو جانتے تھے مگر مہک کو بتايا گيا تھا کہ يماما کسی ضروری کام کے سلسلے ميں کچھ دير کے لئے باہر جاۓ گی۔ 

مہک کو کيا اعتراض ہو سکتا تھا۔انہوں نے گھر پر ہی رہنا تھا۔ 

يماما سادہ سا ميرون اور زنک کامبينيشن کا لباس پہنے بڑی سی چادر اپنے گرد لپيٹے تيار تھی۔ 

ناشتے کے نام پر اس نے فقط ايک چاۓ کا کپ ہی پيا تھا۔ 

"بيٹا صحيح سے لو نا۔ پتہ نہيں کب تمہاری واپسی ہو؟" مہک محبت بھرے انداز ميں سلائس اسکی جانب بڑھاتے ہوۓ بوليں۔ 

"نہيں آنٹی ابھی نہيں۔ ان شاءاللہ واپسی پر خوب سير ہو کر کھاؤں گی" يماما کے لہجے کی گہرائ کو مہک نہيں جان سکيں۔ 

"آنٹی۔۔" يماما چاۓ کے کپ سے آخری سپ ليتے مگ رکھتے يکدم مہک کو پکار اٹھی۔ 

"جی بيٹا" ممتا سے چور لہجے نے يماما کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر ديا۔ 

يماما نے يکدم مہک کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔ 

ڈائننگ ٹيبل پر وہ دونوں ساتھ ساتھ بيٹھی تھيں۔ 

مہک يماما کے انداز پر چونک گئيں۔ 

"دعا کيجئے گا ميں جس مقصد کے لئے جارہی ہوں اس ميں کامياب ہوجاؤں" کپکپاتے لبوں سے وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی۔ 

مہک اسکے انداز پر ٹھٹھکيں۔ 

"کيا بات ہے ميرے بچے۔ کوئ پريشانی کی بات ہے" وہ پريشان ہو اٹھيں۔ جب سے نائل نے يماما سے محبت کا اظہار کيا تھا وہ انہيں اور بھی عزيز ہوگئ تھی۔ 

يماما آنسو پيتے لبوں پر مسکراہٹ سجاۓ نفی ميں سر ہلا گئ۔ 

"چھوٹے ہوتے جب بھی کسی خاص مقصد کے لئے گھر سے نکلتی تھی اماں سے کہتی تھی آپ دعا کريں آپ کی دعا سے ميں کامياب ہوجاؤں گی۔ مجھے لگتا ہے ماں کوئ بھی ہو کسی کی بھی ماں کے دل سے نکلی دعا ضرور پوری ہوتی ہے۔ بس اسی لئے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ميرے لئے بھی ويسی ہی دعا کريں جيسی آپ نائل کے لئے کرتی ہيں" يماما انہيں بتا نہيں سکتی تھی کہ وہ اس کے لئے کيا ہيں۔ نائل کے حوالے سے وہ اسے عزيز ترين تھيں۔ 

"ميرا بچہ۔۔ اللہ تمہاری ہر جائز مراد بر لاۓ۔۔آمين" مہک اسکے معصوم سے انداز پر صدقے واری جاتيں محبت سے اسے ساتھ لگا کر خود ميں بھينچتيں صدق دل سے دعا دينے لگيں۔ 

"آمين۔" يماما نے بھی زير لب کہا

_________________

اسی لمحے باہر کسی گاڑی کا ہارن بجا۔ 

"مجھے لگتا ہے تمہيں گاڑی لينے آگئ ہے" مہک سے الگ ہوتے وہ چادر سنبھالتی رہائشی حصے سے نکل کر پورچ سے گزرتی باہر گيٹ پر آئ۔ 

گيٹ سے نکلنے سے پہلے وہ چہرے کو چادر سے نقاب کی صورت ڈھانپنا نہيں بھولی۔ 

ايک مسلح ڈرائيور دروازہ کھولے اس کا منتظر تھا۔ 

يماما گاڑی کے اندر خاموشی سے بيٹھ گئ۔ 

فرنٹ سيٹ پر ايک اور گارڈ بھی موجود تھا۔ ڈرائيور نے سيٹ سنبھالتے ہی گاڑی چلا دی۔ 

يماما نے ہاتھ ميں وہ فائل مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ جو صبح نائل اسکے کمرے ميں رکھ گيا تھا۔ 

اس ميں وہ سب ثبوت موجود تھے جن ميں صاف صاف واضح ہوتا تھا کہ وہاج اور سرتاج نے چںد سال پہلے يماما اور نائل کے گھر کو نذر آتش کر ديا تھا۔ 

نہ صرف ثبوت تھے۔ بلکہ ايک سی ڈی بھی موجود تھی جس ميں اس علاقے کے ان لوگوں کے بيان موجود تھے جو آگ لگانے ميں شامل تھے۔ اور اب وہ پوليس کی حراست ميں تھے۔

چند ہی منٹوں بعد وہ عدالت کے سامنے کھڑی تھی۔جيسے ہی گاڑی سے اتری اگلی سيٹ پر موجود سيکورٹی گارڈ حرکت ميں آيا۔ 

يماما کے نيچے اترتے ہی وہ بھی اسکے ہمقدم ہوا۔ يماما لمحہ بھر کو جھجھکی۔ 

"ميں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں ڈئير۔گھبراؤ مت" سيکورٹی گارڈ کی بات سن کر يماما لمحہ بھر کو حيرت زدہ ہوئ۔ 

وہ کوئ اور نہيں نائل تھا۔ بالکل بدلے ہوۓ روپ ميں۔ گھنی مونچھيں اور خوبصورتی سے ترشی ہوئ داڑھی چہرے پر سجی تھی۔ آنکھوں پر کالے شيشوں والی عينک لگا رکھی تھی۔ چہرے کے خدوخال کو شايد ميک اپ سے بدل ديا گيا تھا۔ سياہ يوسيفارم ميں ہاتھ ميں گن اٹھاۓ سر پر ٹوپی پہنے وہ اس کا محافظ۔۔ اس کا نائل تھا۔ 

يماما کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھيلی۔ 

يکدم اندر باہر اطمينان بھر گيا۔ 

اعتماد سے قدم اٹھاتے چند لمحوں ميں کمرہ عدالت ميں موجود تھی۔ 

فاران اگلی نشستوں پر بيٹھا نظر آگيا۔ 

يماما کے چہرے پر ابھی بھی نقاب تھا اسی لئے کوئ اسے پہچان نہيں سکا۔ 

نائل اسے لئے خاموشی سے پچھلی نشستوں پر بيٹھ گيا۔ 

وہاج اور وقار دونوں اپنے وکيل کے ہمراہ موجود تھے۔ 

نائل اور يماما سے آگے کی دو رو چھوڑ کر تيسری ميں سيمع بھی موجود تھا۔ پوليس کے لبادے ميں نہيں۔ بلکہ گواہوں ميں سے جو يماما کے اغوا کئے جانے والے قصے کو کھولنے والا تھا۔

جج نے ابھی سماعت شروع نہيں کی تھی کہ فاران کو اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ موڑ کر ديکھا تو سيمی موجود تھی۔ 

وہ حيران ہوا۔ اس نے فاران کو اپنے آنے کے بارے ميں باخبر نہيں کيا تھا۔ 

فاران کچھ کہنے لگا کہ اس نے ہونٹوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کيا اور ايک فائل اسکی جانب بڑھائ۔ پھر اسکے کان کے قريب جھکی۔ 

"اس ميں چند اور راز ہيں۔اميد کرتی ہوں کہ جتنا سمجھدار وکيل ميں نے آپ کو جانا ہے۔۔ آپ اس سے بھی زيادہ سمجھداری کا مظاہرہ کرکے اس فائل ميں موجود رازوں کو بہت احسن طريقے سے آخری کيل کے طور پر اس کيس ميں ٹھونکيں گے۔

 اور ہاں اس ميں دو اور گواہان کو پيش کرنے کا عنديہ بھی ہے۔ اميد کرتی ہوں ان دونوں کو پيش کرتے وقت آپ اپنے جذبات کو قابو ميں رکھيں گے۔" فاران کو وہ کيا کچھ کہہ رہی تھی اس کی سمجھ ميں کچھ نہيں آرہا تھا۔ 

ابھی سماعت شروع ہونے ميں چند منٹ رہتے تھے۔ 

سيمی اپنی بات مکمل کرکے وہاں سے جا چکی تھی۔ 

فاران حيرت کے زير اثر فائل کو کھول کر جلدی جلدی پڑھنے لگا۔ 

اور جو راز اس ميں کھلے۔ اسے اپنے جذبات پر قابو رکھنا واقعی ميں مشکل لگا۔ 

يماما جسے وہ سب مردہ سمجھے تھے وہ زندہ تھی۔ اور اسی عدالت ميں اس لمحے موجود تھی۔ کيونکہ آخری گواہ کے طور پر اسے ہی آنا تھا۔ 

فاران نے آنکھيں بند کرکے بمشکل اپنی آنکھوں ميں آنے والے آنسوؤں کو روکا۔ 

گردن موڑ کر پيچھے ديکھا۔ وہاں يماما کی صورت والی کوئ لڑکی موجود نہيں تھی۔ ہاں مگر ايک لڑکی گارڈ کے ساتھ کالی چادر ميں منہ پر نقاب کئے بيٹھی تھی۔ 

اسی لمحے يماما کی نظريں بھی فاران کی سمت اٹھيں۔ 

اور بس فاران سمجھ گيا يماما کہاں ہے۔ 

دونوں چںد لمحے ايک دوسرے کی جانب ديکھتے رہے۔ 

"يہ تمہارا صرف دوست ہی ہے نا؟" نائل نے خشمگيں نظروں سے فاران کو ديکھا۔ 

"نہيں۔۔ صرف دوست نہيں بہترين دوست ہے" يماما اسکی جيلسی پر مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ بولی۔

"اتنی محبت سے تم نے کبھی مجھے تو نہيں ديکھا" ايک اور شکوہ۔ 

فاران اب رخ موڑ چکا تھا اور يماما بھی رخ موڑے ايک مسکراتی نگاہ نائل کے چہرے پر ڈالے ہولے سے ہنسی۔ 

"جن سے محبت ہو انکی جانب تو نگاہ ہی نہيں اٹھتی" يماما کے اعتراف پر نائل نے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کو بمشکل ہونٹوں ميں دبايا۔ 

اسے لگا ہر سو اطيمنان پھيل گيا ہو

فاران کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا۔

چند لمحوں ميں جج نے سماعت شروع کرنے کا حکم ديا۔ اور سب سے پہلے فاران کو بولنے کا موقع ديا۔ 

فاران کوٹ کے بٹن بند کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"شکريہ سر" 

"سر جيسے کہ آپ جانتے ہيں کہ ملک خاندان پہ بہت سے غلط کاموں ميں ملوث ہونے کے باعث چند اہم کيس شروع کئے گۓ ہيں۔

ان کيسز کے بہت سے ثبوت مہيا ہونے پر سرتاج ملک تو آج جيل کے پيچھے ہيں ہی۔مگر ان کے بيٹے اور بھائ بھی کسی صورت ان کيسز سے مبرا نہيں ہيں۔ 

کرپشن کے کيس کے علاوہ حال ہی ميں وہاج ملک پر دہشت گردوں کا ساتھ دينے اور انہيں غير قانونی طريقے سے ملک ميں آنے کی سہولت انہوں نے ہی مہيا کی" فاران کی بات ابھی پوری بھی نہيں ہوپائ تھی کہ سرتاج اور وقار کا وکيل چلا اٹھا۔ 

"جج صاحب يہ ميرے معقل پر الزام ہے۔۔ کرپشن سے نکل کر اب انہوں نے اور بھی الزام ميرے معقل پر تھوپنا شروع کردئيے ہيں" وہ غصے ميں فاران کو جھٹلا رہا تھا۔ 

"اتنے ہی يہ سچے ہيں تو ثبوت پيش کريں" وہ فاران کو چيلنج کرنے والے انداز ميں بولا۔ 

فاران ہولے سے مسکرايا۔

اور ايک جانب کھڑے پوليس افسران کے ساتھ نقاب ميں لپٹے تين ملزموں کا کپڑا ہٹانے کا اشارہ کيا۔ 

انکے چہرے سے کپڑے ہٹتے ہی سرتاج اور وقار کو لگا کہ زمين اور آسمان گھوم چکے ہيں۔ وہ کوئ اور نہيں

وہی دو غيرملکی اور سرتاج کا بيٹا تھا جنہيں نائل نے مشن کے طور پر اسکے فارم ہاؤس سے اٹھوايا تھا۔ 

"ميرا خيال ہے ميرے ساتھی وکيل کے معقل شايد ان ميں سے اب اپنے بيٹے کو بھی پہچاننے سے انکار کرديں گے" فاران نے بھنويں اچکا کر فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ سرتاج کی جانب ديکھا۔ 

جس پر گڑہوں پانی گر چکا تھا۔ 

"جج صاحب اگر آپ اجازت ديں تو ميرے يہ مجرم کٹہرے ميں آکر اپنا اپنا ريکارڈ کروائيں۔ تاکہ يہاں موجود ہر شخص کو يقين ہو جاۓ کہ اس خاندان کا دہشتگردی کے بہت سے واقعات ميں حصہ تھا" فاران کے کہنے پر جج نے ان تينوں کو باری باری کٹہرے ميں بلا کر ان کے بيان ريکارڈ کرواۓ۔ 

تينوں نے آکر اس بات کا باری باری اعتراف کيا کہ سرتاج کے کہنے پر چار سے پانچ اہم مقامات پر انہوں نے اپنے بندے خودکش حملے کے طور پر تيار کروا کر بھجيے تھے۔ 

"اور سر اسکے علاوہ يہ ان تينوں کو خفيہ طريقے سے چرس اور ہئيروئن سے بھرے ٹرکوں ميں چھپا کر بارڈر پار کروانا چاہتا تھا۔ 

اور بہت عرصے سے يہ بہت سے کالج اور يونيورسٹی کے طلبا اور طالبات کو چرس اور ہيروئن بھی فراہم کرتا ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ميرا ايک اور گواہ دے گا" فاران کے کہتے ہی پوليس آفسرز نے ايک اور بندہ کٹہرے ميں لاکھڑا کيا۔

جو کوئ اور نہيں وہی پٹھان تھا جس کے گھر يماما اور نائل ايک رات رہے تھے۔ 

"صاحب يہ پچھلے پانچ سال سے ميرے ساتھ کام کرتا ہے۔ صاحب مجھے معاف کردو۔ ميں پيسوں کی خاطر اسکی باتوں ميں آگيا۔ مگر اب ميں ايسا کبھی نہيں کروں گا۔ ہم غريب لوگ تھے۔ جنہيں اس نے ان کاموں پر مجبور کيا۔اور پھر پيسوں کے لالچ ميں ہم نے اس کا غلط کاموں ميں ساتھ ديا۔" وہ ہاتھ جوڑے سب اعتراف کرتے کرتے معافی مانگ رہا تھا۔

"يہ يہ غلط کہہ رہا ہے۔ سب جھوٹ ہے جج صاحب۔ يہ ان بندوں کو چںد پيسے دے کر گواہ بنا کر لايا ہے" سرتاج اور وقار کا وکيل پھر سے انہيں جھٹلانے لگا۔

"ٹھيک ہے اگر يہ جھوٹ ہے تو يہ فون کالز سن لو" فاران نے کہتے ساتھ ہی ايک ريکارڈنگ اونچی آواز ميں لگا دی۔ 

کمرہ عدالت ميں پہلے ہی خاموشی تھی موبائل کے ساتھ اس نے ايک پورٹيبل اسپيکر لگايا ہوا تھا۔ جس کی بدولت پورے کمرہ ميں آواز گونجنے لگی۔ 

"ہيلو" 

"جی استاد" 

"ايک کام کرو۔ جو چرس اور ہيروئن کا ٹرک تم بارڈر کے اس پار بھيج رہے ہو۔ اس ميں ميرے دو غير ملکی دوست بھی ہيں انہيں بھی کسی طرح بارڈر پار کروا دو۔ 

ميرے بيٹے کے پاس ہيں وہ دونوں۔ وہاں سے ميرا ايک بندہ انہيں تم تک پہنچا دے گا۔ آگے کا کام تمہارا ہے" 

"استاد فکر ہی نہ کريں۔ بڑے آرام سے ميں انہيں بارڈر پار کروا دوں گا" 

"ٹھيک ہے شاباش" پورے کمرے ميں سرتاج اور اس پٹھان کی آواز گونج رہی تھی۔ 

"اگر اب يہ اپنی آواز پہچاننے سے بھی انکار کرديں گے تو سر آپ ہی بتائيں کيا کيا جاۓ" فاران نے سرتاج پر طنز کيا۔ 

"آپ کے پاس اپنی صفائ ميں کہنے کو کجھ ہے" جج کا رخ اب دوسرے وکيل کی جانب تھا۔ 

"يہ سب بے بنياد ہے" سرتاج چلايا۔ 

"ثبوت کو آپ بے بنياد کيسے کہہ سکتے ہيں۔اگر آپ سچے ہيں تو اپنی سچائ کا ثبوت پيش کريں" جج نے سيدھا سا حل نکالا۔ 

مگر وہ جانتے ہی نہيں تھے کہ وہ کس کے شکنجے ميں پھنسے ہيں۔ 

نائل۔۔۔۔۔وہ بلا تھی جس کی سوچ تک اس کا کوئ دشمن کبھی رسائ نہيں پاسکا تھا۔ 

وہ ايسے ايسے کارڈ کھيلتا تھا کہ سب کی سب بازی ہی الٹ جاتی تھی۔ اور جيت اسی کے حصے ميں آتی تھی۔ 

"اور ميرا آخری گواہ۔۔ جسے وقار ملک نے اس تمام قصہ کے شروع ہوتے ہی مروانے کی سازشيں اختيار کيں۔ 

کچھ عرصے پہلے ايک کار حادثے ميں اسے مروا بھی ديا گيا۔ 

مگر افسوس۔ موت اتنی ہی آسان ہوتی تو ہر شخص اپنے دشمن کو اتنی ہی آسانی سے مار ديتا۔ 

مگر موت برحق ہے اور جب تک اللہ نہ چاہے واپسی کا بلاوا آہی نہيں سکتا۔ 

ميری آخری گواہ۔۔۔۔۔"فاران نے چںد پل رک کر وقار کا زرد پڑتا چہرہ ديکھا۔ 

اور پھر پيچھے مڑ کر کالی چادر ميں موجود يماما کو آگے آنا کا اشارہ کيا۔ 

اس کی نظريں بے اختيار نائل کی جانب اٹھيں۔ 

نائل نے سامنے ديکھتے ہولے سے اسکے ہاتھ کو اپنے بائيں ہاتھ سے چھو کر جانے کا عنديہ ديا۔ 

يماما ہولے سے فائل کو سينے سے لگاۓ اٹھی۔ کالی چادر اب چہرے سے ہٹا دی تھی۔ 

اس کے ہر اٹھتے قدم ميں دشمن کو رود دينے والا عزم تھا۔ 

ہولے سے وہ کٹہرے ميں کھڑی ہوئ۔ اپنی پراعتماد فاتح نظريں وقار کے پتھريلے چہرے پر ٹکائيں۔ 

"ميں يمامانائل۔۔وہ وکيل تھی جس نے يہ کيس شروع کيا تھا۔ يہ کيس اسی لئے شروع کيا تھا۔ کہ بہت سال پہلے اس خاندان نے ميرے خاندان پر ظلم اور بربريت کا وہ پہاڑ توڑا تھا کہ ميں نے اپنا ہر رشتہ کھو ديا۔ 

ميرے جان سے پياروں کو زندہ جلا ديا گيا۔ صرف اسی لئے کہ انہوں نے سر اٹھا کر جينے کی خواہش کی تھی۔

جب اللہ نے ہر انسان کو برابر کہہ ديا پھر يہ فرعون کون ہوتے ہيں لوگوں کو خدا بن کر اپنے پيروں تلے روندنے والے۔ انہيں کيڑے مکوڑے سمجھ کر انکی زندگيوں کا فيصلہ کرنے والے۔" 

يماما کی آنکھوں ميں چمک تھی اور لہجہ چير دينے والا۔

"سر آپ مجھے بتائيں۔ آپ تو اس انصاف کے منسب پر فائز ہيں۔ وکيل بنتے ہی ہميں يہ سکھايا جاتا ہے کہ انصاف کرنا ہے۔ حقدار کو اس کا حق دينا ہے۔ 

پھر ان بڑے بڑے وزيروں کے پاس ايسا کون سا اختيار ہے کہ يہ کسی غريب کی اولاد کو اس کا حق نہيں دينے پر تيار۔ اور اگر کوئ انکی مرضی کے خلاف جاۓ تو يہ اسے مسل کر رکھ ديتے ہيں۔ 

ميری کہانی ايک عام سی کہانی ہو شايد مگر ميرے لئے وہ اتنی خاص تھی کہ ميں نے اپنی تمام زندگی اسی پر تياگ دی کہ ان حوس کے مارے پجاريوں کو ايک نہ ايک دن انکے کئے کی سزا دلواؤں گی۔ اور وہ سب لوگ جو اب بھی انکے ظلم کا شکار ہيں انہيں رہائ دلواؤں گی۔۔" يہ کہتے ہی يماما نے الف سے يہ تک اپنے خاندان پر ہونے والے ظلم کی ايک ايک بابت بيان کی۔ 

"يہ تمام ثبوت موجود ہيں۔ وہ لوگ جنہوں نے ميرے گھر کو اس رات نذر آتش کيا تھا وہ پکڑے جا چکے ہيں۔ اور اپنے اپنے تماما بيانات اس ميں ريکارڈ کروا دئيے ہيں۔ 

اس وقار ملک نے مجھے دھمکياں ديں۔ ميرے آفس آکر مجھے ڈرايا۔ اور پھر مجھے مروانے کا منصوبہ بنايا۔ 

مگر ايجنسيوں ميں موجود محافظوں نے مجھے بچا ليا۔ اور کيسے بچايا۔ اس کا بيان سميع ارشد آپ کو بتائيں گے" يماما نے کٹہرے سے باہر آتے کہا۔ 

سميع اپنی سيٹ سے اٹھ کر اب کٹہرے ميں آچکا تھا۔ 

اور پھر وقار کی ايک ايک اصليت کو کھول کر پيش کيا۔ 

بہت ساری فوٹيجز بھی مہيا کيں۔ نہ صرف يہ۔ 

بلکہ جس بندے کو وقار نے اس دن يماما کے پيچھے لگايا تھا اسے بھی گواہ کے طور پر پيش کيا۔ 

تماما بيانات سننے کے بعد جج نے اپنا فيصلہ تيار کيا۔ 

" ان تمام گواہان اور ثبوتوں کے پيش ہونے کے بعد عدالت اس نتيجے پر پہنچی ہے کہ نہ صرف ملک خاندان کے سب اثاثے ضبط کر لئے جائيں گے۔ بلکہ سرتاج کو دہشتگردی کے کيس ميں ملوث ہونے کے سبب پھانسی کی سزا سنائ جاتی ہے ۔ اور وقار کو عمر قيد کی سزا دی جاتی ہے۔" يماما نائل کے ساتھ بيٹھی دم سادھے يہ فيصلہ سن رہی تھی۔ 

جج کی بات مکمل ہوتے ہی وہ چہرہ ہاتھوں ميں چھپاۓ رو پڑی۔ 

نائل نے آنسوؤں کو بڑی مشکل سے پيا۔ آج اس لمحے يقينا انکا خاندان ان دونوں پر رشک کررہا ہوگا۔

نائل نے يکدم سر اٹھا کر اوپر ديکھا۔ 

اس لمحے اللہ کا شکر ادا کرنے سے بڑھ کر اور کچھ نہيں تھا۔ جس نے ہر لمحہ اسے ہمت حوصلہ ديا۔ اسکی مدد کی۔ 

يکدم ايک بھاری ہاتھ اسکے کندھے پر ٹہرا۔ 

نم آنکھوں سے بھی وہ مسکرا ديا۔ ايک بار پھر اللہ کا شکريہ ادا کيا۔ کہ اسکے حقيقی ماں باپ کے کھونے پر بھی اس نے شمس اور مہک جيسے ماں باپ اسے عطا کرکے اسے اکيلا نہيں ہونے ديا۔ 

وہ کندھے پر ٹہرے اس ہاتھ کے لمس سے بہت اچھے سے واقف تھا۔ 

شمس کے سوا کون ہو سکتا تھا۔ 

انکے بيٹے کی زندگی کا سب سے اہم فيصلہ ہورہا تھا وہ کيسے اس لمحے اسے اکيلا چھوڑ ديتے۔ 

نائل نے باياں ہاتھ اپنے دائيں کندھے پر رکھے انکے ہاتھ پر ٹکايا۔ 

انہوں نے وہی ہاتھ تھپتھپا کر گويا اسے مبارک دی۔ 

اور پھر وہاں سے چلے گۓ۔ 

اب گھر جاکر شکرانے کے نفل بھی تو پڑھنے تھے۔ اور مہک کو بھی بتانا تھا کہ انکی بہو کوئ اور نہيں يماما ہی ہے۔ 

"چلو" نائل نے اپنے پاس بيٹھی روتی ہوئ يماما کو مخاطب کيا۔ 

اس سے پہلے کہ وہ چہرے سے ہاتھ اٹھا کر کچھ کہتی۔ 

فاران انکے قريب آچکا تھا۔ 

"يماما" پھڑپھڑاتے لبوں سے وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔ 

يماما اسے ديکھ کر ايک بار پھر آنسو بہاتی۔ کھڑی ہوئ۔ 

اب کی بار وہ اسکے کندھے سے لگ چکی تھی۔ 

نائل جانتا تھا کہ فاران اور اسکی فيملی يماما کے لئے وہی مقام رکھتے ہيں جو شمس اور مہک اسکے لئے رکھتے ہيں۔ 

لہذا چپ چاپ بيٹھا رہا۔ 

فاران کا چہرہ بھی آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔ 

"تمہيں کس قدر مس کيا ہم نے۔ تم اندازہ بھی نہيں کرسکتيں" يماما اسکے کندھے سے ہٹی تو وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا۔ 

"يہ سب ضروری تھا" يماما نے آنسو صاف کرتے فاران کے نم چہرے کی جانب ديکھا۔ 

"ہاں اب مجھے اندازہ ہوگيا ہے۔ يہ سب نہ ہوتا تو يہ اس طرح بے نقاب نہ ہوتے۔ تمہيں بہت بہت مبارک ہو۔ آج تمہارے دشمن اپنے انجام کو پہنچے" 

"صرف ميرے نہيں فاران۔ ميرے ملک کے دشمن۔ مجھے سب سے زيادہ خوشی اسی بات کی ہے۔ کہ مجھ جيسے نجانے کتنے گھر انکے ظلم سے نجات پا چکے ہيں" يماما نے مسکراتے ہوۓ اسکی تصحيح کی۔ 

"بے شک" فاران نے بھی اعتراف کيا۔

"تم کہاں ہو آجکل" فاران کو يکدم خيال آيا۔ 

"فاران۔۔ مجھے نائل مل گۓ ہيں" يماما کے لہجے ميں بے تحاشا خوشی تھی۔ 

اور اسکی يہ خوشی فاران کو ہر گز بری نہيں لگی۔ بلکہ خوشگوار سی حيرت ہوئ۔ 

"واقعی" وہ بھی اسی حيرت بھری خوشی کے باعث بولا۔ 

"ہاں ميں آجکل انہی کے ساتھ ہوں۔ مگر جلد ہی گھر کا چکر لگاؤں گی۔ ماما اور بابا کو ميرا بہت سلام دينا۔ 

ميں کوشش کروں گی کہ آج شام ہی گھر کا چکر لگاؤں" نائل اب کھڑا ہوچکا تھا۔ 

"ميم۔۔ سر کی کال آئ ہے۔ گھر چلئے" اس سے زيادہ وہ يہ جذباتی ملاقات سکون سے سہہ نہيں سکتا تھا۔ 

"جی جی" يماما نے يکدم پيچھے مڑ کر نائل کو ديکھا۔ 

"تم کہاں رہتی ہو۔۔ جگہ کا بتا دو ۔ ميں خود آجاؤں گا تم سے ملنے" فاران نے بے چينی سے کہا۔ 

"ميم سر کی بار بار کال آرہی ہے" نائل نے ايک بار پھر مداخلت کی۔ 

"ہاں ہاں چلو۔۔ ميں گھر جاکر تمہيں کانٹيکٹ کروں گی" يماما نے عجلت ميں کہا۔ اور نائل کے آگے آگے چل پڑی۔ 

اسے خيال ہی نہيں رہا تھا کہ نائل اسکے لئے کتنا پوزيسيو ہے۔ اسے اب ياد آيا۔ فاران سے ملتے وقت وہ اتنی جذباتی ہوگئ تھی کہ اسکے کندھے سے ہی لگ گئ۔ 

جبکہ نائل وہيں موجود تھا۔ 

اب اسے خفت اور شرمندگی نے گھير ليا۔ 

گاڑی ميں بيٹھ کر اس نے کن اکھيوں سے اگلی سيٹ پر بيٹھے نائل کو دیکھا۔ 

ڈرائيور کی موجودگی کے باعث وہ نائل سے مخاطب نہيں ہوسکتی تھی۔

شام ميں نائل فاران، ربيعہ اور احمد کو نائل خود لے کر گھر آيا تھا۔ 

شمس نے بھی مہک کو سب حقيقت بتا دی تھی۔ وہ بے تحاشا خوش تھيں۔ خاص طورپر يہ سوچ کر کہ نائل کو اسکی اصل محبت مل گئ۔ 

اس سے بڑھ کر انکے لئے اور کوئ خوشی کی بات نہيں تھی۔ 

شام ميں سب اکٹھے تھے۔ 

يماما نے تشکر بھری نظروں سے نائل کی جانب ديکھا۔ 

جس کے سبب يہ سب ممکن ہوسکا تھا۔ 

وہ اسکی محبتوں۔۔ حتی کہ اسکی دھڑکنوں تک کا امين تھا۔ 

اگر يماما نے خود کو اسکے لئے سينت سينت کر رکھا تھا۔ تو اس نے بھی کہين کوئ خيانت نہيں کی تھی۔ 

نائل نےانہيں سب بتا ديا تھا سواۓ اس بات کہ۔ کہ نائل نے ہی يماما کو اغوا کيا تھا۔ وہ سب قصہ وہ ان سے چھپا گيا تھا۔ بس اتنا بتايا تھا کہ شمس کی ٹيم نے اسے حفاظت کے طور پر اسکے فليٹ سے اٹھوا ليا تھا۔ 

اور پھر شمس نے ہی نائل کو بتايا تھا کہ اسکی بيوی کو انہوں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ 

پھر يماما کی زندگی بچانے کے عوض اسے منظر عام پر نہيں لايا گيا۔ 

اور يہ کہ نائل کا تعلق بھی پوليس کے محکمے سے ہے۔ مگر عام پوليس نہيں۔ 

"بيٹا مجھے تو ابھی بھی يقين نہيں آرہا ميری بيٹی میرے پاس ميرے سامنے ہے" ربيعہ يماما کو اپنے ساتھ لگاۓ نم لہجے ميں بوليں۔ 

"مجھے بھی يقين نہيں آيا تھا" نائل نے يماما کی جانب ديکھتے زير لب کہا۔ 

"بھائ صاحب آپ سے ايک عرض کرنی ہے" مہک احمد کی جانب دیکھ کر بوليں۔ 

"جی جی بھابھی پليز کہئيے" احمد عاجزی سے بولے۔ 

"ميں اب اپنی بہو کو رخصت کرکے اپنے گھر پورے رسم و رواج کے ساتھ لانا چاہتی ہوں" يماما نے يکدم نائل کی جانب ديکھا۔ 

جس کی چمکتی آنکھيں پہلے سے ہی اسکی جانب رخ کئے ہوۓ تھيں۔ يماما نے اسے خود کو ديکھتا پا کر نظروں کا زاويہ بدل ليا۔ 

"ارے ميرے دل کی بات کہہ دی۔ ميں تو کب سے اسکی شادی کی خواہش رکھے ہوۓ تھی" ربيعہ نے بھی مسکراتے ہوۓ مہک کی حوصلہ افزائ کی۔ 

"تو بس پھر ويک اينڈ آنے ميں دو دن باقی ہيں۔ ايک دن مہندی اور پھر اگلے دن بارات رکھ ليتے ہيں" مہک نے منٹوں ميں سب طے کرليا۔ 

"ارے اتنی جلدی۔۔ ميری بيٹی کو چند دن تو ميرے پاس رہنے ديں" ربيعہ مہک کے يوں ہتھيلی پر سرسوں جمانے پر گھبرا کر بوليں۔ 

"اب ان شاء اللہ ہم دونوں کے ہی پاس رہے گی۔ فکر کيوں کرتی ہيں۔ مگر ميرا خيال ہے اب دير نہيں کرنی چاہئيے۔۔ ہے نا شمس" انہوں نے شمس کی بھی تائيد چاہی۔ 

"مہک صحيح کہہ رہی ہيں۔ ويسے بھی نائل اگلے ہفتے ايک کورس کے سلسلہ ميں ايک سال کے لئے کينيڈا جارہا ہے۔ تو بہتر ہے کہ بيوی کو ساتھ لے کر جاۓ" شمس کی بات پر يماما نےاپنی جھکی ہوئ نظريں اٹھاکر بےيقينی سے نائل کو دیکھا۔ 

اس نے ايسی کوئ بات اسے نہيں بتائ تھی۔ 

نائل کی نظروں نے ايک بار اسکا طواف کيا۔ 

"ارے ضرور کيوں نہيں۔ پھر تو ٹھيک ہی ہے۔ ہميں کوئ اعتراض نہيں" احمد نے بھی فورا ہاں ميں ہاں ملائ۔ 

فاران نے يماما کے خوشی سے جگمگاتے چہرے کی جانب دیکھا۔ 

ہلکی سی کسک دل ميں اٹھی۔ مگر يہ سوچ کر معدوم ہوگئ کہ وہ کسی کی امانت ہے۔ کسی کی منکوحہ ہے۔ لہذا اسکے بارے ميں يہ سوچنا اب اسے زيب نہيں دیتا۔ 

اسکی دائمی خوشی کی دعا دل ميں مانگی۔ 

رات ميں کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ يماما کو لئے اپنے گھر آگۓ۔ 

کہ اب دو دن بعد تو اسے نائل کے پاس ہی آجانا تھا۔

___________________________

رات ميں گھر آکر يماما نے اپنے کمرے ميں جاتے ہی نائل کو کال کی۔ 

چند دن پہلے ہی نائل نے اسے نيا فون لا کر ديا تھا۔ 

تيسری ہی بيل پر فون اٹھا ليا گيا۔ 

"دوری سہی جاۓ نا" دوسری جانب سے گنگناتی ہوئ آواز آئ۔ 

يماما مسکراۓ بغير نہ رہ سکی۔ اسکی فريش سی آواز سن کر اسے کچھ تقويت ملی۔ 

"جی نہيں۔ ميں نے ويسے ہی فون کيا تھا" وہ بھی کہاں مانتی اپنے نام کی وہ ايک ہی تھی۔ 

"اوہ اچھا۔ ويسے آدھے گھنٹے ميں۔۔ ميں ويسے کا ويسا ہی ہوں جيسا تم مجھے چھوڑ کر گئيں تھيں" نائل نے مزے سے کہا۔ 

"مجھے کچھ کلئير کرنا ہے" وہ سنجيدگی سے بولی۔ 

"يار پليز اب ويڈنگ ڈے کے کلر پر بحث مت کرنا۔ بس وہ ہم دونوں کا بلو ہی ہوگا۔" نائل نے کچھ اور سوچتے ہوۓ کہا۔ 

"نہيں اسکی بات نہيں ہے۔ وہ جو صبح کورٹ ميں فاران سے مل کر ميں اموشنل ہوگئ تھی" يماما نے جھجھکتے ہوۓ بات کا آغاز کيا۔ 

"يماما۔ فارگارڈ سيک۔ ميں بہت اچھے سے جانتا ہوں کہ فاران تمہارے لئے کيا حيثيت رکھتا ہے۔ 

ميں تمہارے لئے پوزيسيو ہوں مگر شکی ہر گز نہيں۔ 

مجھے بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہر انسان زندگی ميں بہت سے لوگوں اور رشتوں سے محبت کرتا ہے۔ اور ہر محبت کا مقام الگ ہوتا ہے۔ 

جو جگہ فاران کی تمہارے دل ميں ہے وہ ميں کبھی نہيں لے سکتا۔ اور جو ميری تمہارے دل ميں ہے وہ فاران نہيں لے سکتا۔ 

ميں اتنی چھوٹی سوچ کہ ہرگز نہيں کہ اس سچوئيشن کی حقيقت کو نہ سمجھ سکوں۔ 

مجھے تم پر بھی پورا اعتمادہے اور فاران کو بھی ميں بہت اچھی طرح پرکھ چکا ہوں۔ 

يار تم نے يہ بات کہہ کر مجھے شرمندہ کرديا ہے۔ ميں تمہيں اگر اس کے بارے ميں چھيڑتا ہوں تو اس کا يہ مطلب ہر گز نہيں کہ ميں اسے اپنا رقيب سمجھتا ہوں۔" نائل نے ايک ايک بات اتنے عمدہ انداز ميں کہی کہ يماما کو اس کا ہمسفر ہونے پر بے حد فخر محسوس ہوا۔

"نائل ميں کيا کہوں۔۔ آپ نے تو مجھے اسپيچ ليس کرديا ہے" يماما نے اپنی سوچ کو الفاظ دئيے۔ 

"کچھ مت کہو۔ بس آئ لو يو کہہ دو" نائل پھر سے اپنے شرارتی انداز ميں لوٹ آيا۔ 

"يہ دو دن کيسے گزريں گے" يماما کی خاموشی پر وہ پھر سے بولا۔ اس کے لہجے کا بوجھل پن يماما کے لئے اب سہنا مشکل ہورہا تھا۔ 

"چليں ٹھيک ہے پھر بات ہوگی" يماما نے فورا دوڑ لگانی چاہی۔ 

"بھگوڑی" نائل نے اسکی بات پر بدمزہ ہو کر کہا۔ 

"تم واقعی اتنی ان رومينٹک ہو يا پھر مجھے چکر ديتی ہو" نائل کی بات پر وہ کھلکھلائ۔ 

"فضول باتوں کا کيا جواب دوں" يماما نے گويا اسے چڑايا۔ 

"محبت فضول چيز ہے؟" نائل نے سوال کيا۔ 

"محبت فضول نہيں مگر آپ کا اتنا عجيب و غريب مجت کا راگ الاپنا فضول ہے" يماما نے اسکے سب ارمانوں پر پانی کی بالٹياں بہا ديں۔ 

"بہت محنت کرنا پڑے گی تم پر" نائل نے افسوس سے کہا۔ 

"ميرا مستقبل تمہيں محبت کے سبق پڑھاتے ہی گزر جانا ہے" نائل کی باتوں پر وہ مسکراۓ بغير نہ رہی۔ 

"چليں اچھا ہے مرنے پک پڑھتے رہنا چاہئيۓ" يماما پر تو کوئ اثر نہيں ہورہا تھا۔ 

"جانی ايک بار ہاتھ لگو۔۔چںد دنوں ميں ہی پی ايچ ڈی کروا دوں گا" نائل نے چيلنجنگ انداز ميں کہا۔ 

"ديکھيں گے" يماما نے بھی مزيد چڑاتے ہوۓ فون بند کرديا۔

_____________________

يماما ہاتھوں پر مہندی لگواۓ پيلے اور ہرے جوڑے ميں بيٹھی تھی۔ مہندی کا فنکشن ختم ہوچکا تھا۔ 

گوکہ تمام فنکشن کمبائن تھا۔ مگر يماما نے جان بوجھ کر اتنا لمبا گھونگھٹ نکالا کہ نائل کو اس کا چہرہ دکھائ ہی نہيں ديا۔ 

فنکشن ختم ہونے کے بعد اب مہندی لگاۓ وہ ريليکس انداز ميں بيٹھی تھی۔ ايک ہاتھ کی مہندی سوکھ چکی تھی دوسرے ہاتھ کی سوکھنے کا وہ انتظار کررہی تھی۔ 

فنکشن ميں وہ سميی سے بھی ملی۔ 

وہ وہی ہم شکل تھی جس کا ذکر نائل کرچکا تھا۔ 

مگر فاران نے اسے اپنی دوست کی حيثيت سے متعارف کروايا تھا۔ 

يماما کو خوشگوار حيرت ہوئ تھی فاران کی بات سن کر۔ کيونکہ اس نے کبھی فاران کے لہجے ميں کسی لڑکی کے لئے اتنا انوکھا پن محسوس نہيں کيا تھا۔جتنی دير فاران اس کا تعارف کرواتا رہا 

سيمی بھی بہت لو ديتی نظروں سے فاران کی جانب ديکھ رہی تھی۔ 

يماما نے اپنے شک کو حقيقت ميں ديکھنے کی دل سے دعا کی۔ 

اس لمحے بھی وہ ان دونوں کو سوچ رہی تھی کہ نائل کا فون اسکے موبائل پر آيا۔ 

يماما سب چھوڑ چھاڑ اسکی بے تابيوں پر ہنسی

"ہيلو" يماما نے مسکراہٹ دبا کر اس ہاتھ سے موبائل اٹھايا جس کی مہندی سوکھ چکی تھی۔ 

"تم نے اچھا نہيں کيا ميرے ساتھ" نائل کی تپی ہوئ آواز سنائ دی۔ 

يماما کھلکھلا کر ہنسی۔ 

"کيوں اب ميں نے کيا کيا ہے۔ ايک تو مجھ پر ہر وقت الزام لگاتے رہتے ہيں" يماما نے معصوميت کے سب ريکارڈ توڑ ڈالے۔ 

"اتنا بڑا گھونگھٹ کيوں نکالا۔۔ مجھے باقيوں کا خيال نہ ہوتا تو قينچی سے تمہارا وہ گھونگھٹ کاٹ ديتا" نائل کے غصے پر يماما کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

"ہنس لو تم۔۔ کل تمہاری ہنسی بند نہ کی تو کہنا" نائل کی بات پر اسکے گال دہکے۔ 

"اچھا فون بند کريں مجھے سونا ہے" يماما نے فورا پينترا بدلا۔ 

"ميری نينديں غصے سے اڑی ہوئ ہيں۔ اور تمہيں سونے کی پڑی ہے۔ مجھے تمہيں ديکھنا ہے بس ابھی اور اسی وقت" نائل کی نئ فرمائش پر يماما گھبرا گئ۔ 

"کيا ہے نائل" وہ گھبراہٹ بھرے انداز ميں بولی۔ 

"کيا ہے۔۔ مجھے تمہيں ديکھناہے بس" نائل ضدی لہجے ميں بولا۔  ۔

"کچھ گھنٹے ہی رہ گۓ ہيں۔ پھر ديکھتے رہنا آپ" يماما کی گھبراہٹ بجا تھی۔ اس کا کوئ پتہ نہيں تھا۔ اسے ديکھنے آ پہنچتا۔ 

"اور ويسے بھی اتنی تصويريں تو سب نے لی ہيں۔ آپ کے پاس بھی پہنچ گئ ہوگی۔ اسی پر گزارا کريں" يماما نے جلدی سے اسے رام کرنا چاہا۔

نائل چند پل خاموش رہا پھر گنگنايا

There is another world you are living tonight

Don’t want your picture on my sell phone

I want you here with me

Don’t want your memory in my head now

I want you here with me

اس کی گمبھير آواز پر يماما کے ہاتھوں ميں پسينہ اترا۔ 

"ابھی ويڈيو کال کرلو۔۔ پھر کچھ نہيں کہوں گا" نائل کی بات پر اس کا دل پسيج گيا۔ 

واٹس ايپ پر اسے ويڈيو کال کی۔ 

سفيد کرتے شلوار ميں آستينوں کو کہنيوں تک فولڈ کئے۔ موبائل سامنے رکھے۔ اپنے رف اينڈ ٹف حليے ميں کيمرے ہاتھوں کی انگلياں آپس ميں جوڑے تھوڑی کے پاس رکھے۔ 

وہ ايک ٹک موبائل اسکرين پر ابھرنے والے يماما کے شرماۓ ہوۓ روپ کو ديکھ رہا تھا۔ 

يماما نے بس چند لمحوں کے لئے اسکی جگر جگر کرتی نظروں کی جانب ديکھا۔ پھر ہمت نہ ہوئ تو پلکوں کی باڑھ جھکا گئ۔ 

"آئم سو بليسڈ ٹو ہيو يو ان مائ لائف" نائل کے تشکر بھرے اظہار پر يماما کے چہرے پر شرميلی سی مسکراہٹ کھلی۔ 

"می ٹو" يماما نے بھی اعتراف کيا۔ 

"چند پل اور انتظار کرنا ہے" نائل نے جيسے خود کو تسلی دی۔ 

"اب بند کردوں" يماما نے بمشکل نظر اٹھا کر موبائل اسکرين پر ديکھا۔ 

"بند کردو۔تو اچھا ہے۔۔ اس سے پہلے کہ ميں تمہارے پاس آہی جاؤں" نائل نے اپنے جذبات پر بڑی مشکل سے بندھ باندھا۔ 

"سی يو ٹومورو" نائل کے کہتے ہی يماما نے فورا کال بند کی۔ 

پھر اپنی تيز ہوتی دھڑکنوں پر ہاتھ رکھے بمشکل انہيں اعتدال پر لائ۔

________________________________

تمام رسومات سے فارغ ہوکر مہک کچھ دير پہلے ہی اسے نائل کے کمرے ميں لے کر آئيں تھيں۔ 

اسکے کمرے ميں اب ايک عدد بيڈ کا اضافہ ہوچکا تھا۔ باقی سب ويسے ہی موجود تھا۔ 

کمرے کو پھولوں سے سجايا گيا تھا۔ بيڈ پر جا بجا کلياں پڑی تھيں۔ جن کے درميان يماما بيٹھی ہوئ تھی۔ 

مہک کے باہر جاتے ہی اس نے ايک گہرا سانس کھينچا۔ 

نہ جانے نائل کی بے تابيوں کو وہ کيسے سہے گی۔ 

يہ خيال آتے ہی يماما کی گھبراہٹ سوا ہوئ۔ 

چند منٹ نہيں گزرے تھے کہ نائل دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ 

بلو کلر کے سوٹ ميں ملبوس وہ آج شہزادہ لگ رہا تھا۔ 

يماما نے بھی اسی کے ہم رنگ لہنگا پہن رکھا تھا۔ 

دروازہ بند کرکے وہ آہستہ روی سے چلتا اس کے مقابل بيڈ پر بيٹھا۔ 

"سوہنيو" شہنشاہ کے انداز ميں يماما کو مخاطب کيا۔ 

وہ جو گھبرا رہی تھی اس انداز پر ہولے سے ہنسی۔ 

"تھينکس ٹو شہنشاہ" يماما نے پلکوں کی جھالر اٹھا کر نائل کو ديکھا۔ جس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ رقص کررہی تھی۔ 

"يہی تو ہميں ملانے کا سبب بنا ہے" يماما کی بات پر نائل کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ پھر ہاتھ بڑھا کر يماما کا مہندی سے سجا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا۔ 

"بے شک" اس نے يماما کی تائيد کی۔ 

"ويسے تمہيں شہنشاہ والے روپ ميں کبھی مجھ سے ڈر نہيں لگا۔ کيونکہ غنڈے تو کسی بھی حد تک جاسکتے ہيں۔" نائل کی بات پر اس نے مسکراتے ہوۓ نفی ميں سر ہلايا۔ 

"محبت غنڈوں کو بھی راہ راست پر لے آتی ہے۔ جب محبت سچی ہو تو وہ محبت کو کبھی پامال نہيں ہونے ديتی۔ ہميشہ اس کی عزت کرتی ہے۔ مجھے شہنشاہ کے روپ ميں ويسی ہی سچی محبت دکھائ ديتی تھی۔ اسی لئے ڈر کيوں لگتا؟" يماما کے جواب پر نائل کے چہرے پر متاثر کن مسکراہٹ بکھری۔ 

"واہ واہ۔۔ يعنی ميری يماما محبت کے معاملے ميں اتنی بھی کوری نہيں" نائل بے حد متاثر ہوا۔ 

"اظہار کا ہر ايک کا اپنا انداز ہوتا ہے۔" يماما نے منہ بنا کرکہا۔ 

نائل نے مسکراہٹ لبوں ميں دبائ۔ 

پھر کورٹ کی جيب ميں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا۔ 

بند مٹھی يماما کے آگے کی۔ 

يماما نے ناسمجھی سے اسے ديکھا۔ 

جيسے ہی ہاتھ کھولا اسکے ہاتھ پر ايک چابی رکھی تھی۔ 

وہ پھر الجھی۔ 

"يہ تمہارے فليٹ کی چابی۔ يہ فليٹ ميں نے خريد ليا تھا۔ تمہيں گفٹ کرنے کے لئے۔۔ جن چار ديواری نے ميری يماما کی حفاظت کی وہ مجھے کيسے اور کيوں کر عزيز نہ ہوتيں" يماما نے مسکراتی نظروں سے نائل کے چہرے پر بکھرے اپنی محبت کے رنگ ديکھے۔ 

"تھينک يو" يماما کے پاس الفاظ ہی نہيں تھے۔ 

پھر دوسری طرف کی جيب ميں ہاتھ ڈالا۔ 

باہر آيا تو پھر ويسے ہی مٹھی بند تھی۔ 

يماما کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ 

نائل نے ہتھيلی کھولی تو کسی گاڑی کی چابی تھی۔ 

"تمہاری گاڑی کا ويسا ہی ماڈل نکلوا ليا ہے۔ يہ اسکی چابی " يماما نے يکدم آنسو پيتے اپنی جگہ سے سرکتے نائل کے گرد اپنے بازو حمائل کئے۔ 

"مجھے اللہ نے سب سے قيمتی تحفہ آپ کی صورت ديا ہے نائل مجھے کچھ اور نہيں چاہئے" شدت جذبات سے روتے يماما نے گويا محبت کا اعتراف کيا۔ 

"مجھے بھی۔ ميری جان" نائل نے اسے خود ميں بھينچ ليا۔ محبتوں کی بارش اس پر برسانے کو وہ تيار تھا۔ 

اب کوئ ظالم انکے بيچ نہيں آۓ گا۔ 

يہ اطمينان دونوں کو تھا۔ 

دونوں ايک دوسرے کی دھڑکنيں سن رہے تھے۔ محسوس کررہے تھے۔ محبت کو اب ساری عمر يوں ہی انہيں اکٹھے رکھنا تھا۔

شام ميں نائل فاران، ربيعہ اور احمد کو نائل خود لے کر گھر آيا تھا۔ 

شمس نے بھی مہک کو سب حقيقت بتا دی تھی۔ وہ بے تحاشا خوش تھيں۔ خاص طورپر يہ سوچ کر کہ نائل کو اسکی اصل محبت مل گئ۔ 

اس سے بڑھ کر انکے لئے اور کوئ خوشی کی بات نہيں تھی۔ 

شام ميں سب اکٹھے تھے۔ 

يماما نے تشکر بھری نظروں سے نائل کی جانب ديکھا۔ 

جس کے سبب يہ سب ممکن ہوسکا تھا۔ 

وہ اسکی محبتوں۔۔ حتی کہ اسکی دھڑکنوں تک کا امين تھا۔ 

اگر يماما نے خود کو اسکے لئے سينت سينت کر رکھا تھا۔ تو اس نے بھی کہين کوئ خيانت نہيں کی تھی۔ 

نائل نےانہيں سب بتا ديا تھا سواۓ اس بات کہ۔ کہ نائل نے ہی يماما کو اغوا کيا تھا۔ وہ سب قصہ وہ ان سے چھپا گيا تھا۔ بس اتنا بتايا تھا کہ شمس کی ٹيم نے اسے حفاظت کے طور پر اسکے فليٹ سے اٹھوا ليا تھا۔ 

اور پھر شمس نے ہی نائل کو بتايا تھا کہ اسکی بيوی کو انہوں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ 

پھر يماما کی زندگی بچانے کے عوض اسے منظر عام پر نہيں لايا گيا۔ 

اور يہ کہ نائل کا تعلق بھی پوليس کے محکمے سے ہے۔ مگر عام پوليس نہيں۔ 

"بيٹا مجھے تو ابھی بھی يقين نہيں آرہا ميری بيٹی میرے پاس ميرے سامنے ہے" ربيعہ يماما کو اپنے ساتھ لگاۓ نم لہجے ميں بوليں۔ 

"مجھے بھی يقين نہيں آيا تھا" نائل نے يماما کی جانب ديکھتے زير لب کہا۔ 

"بھائ صاحب آپ سے ايک عرض کرنی ہے" مہک احمد کی جانب دیکھ کر بوليں۔ 

"جی جی بھابھی پليز کہئيے" احمد عاجزی سے بولے۔ 

"ميں اب اپنی بہو کو رخصت کرکے اپنے گھر پورے رسم و رواج کے ساتھ لانا چاہتی ہوں" يماما نے يکدم نائل کی جانب ديکھا۔ 

جس کی چمکتی آنکھيں پہلے سے ہی اسکی جانب رخ کئے ہوۓ تھيں۔ يماما نے اسے خود کو ديکھتا پا کر نظروں کا زاويہ بدل ليا۔ 

"ارے ميرے دل کی بات کہہ دی۔ ميں تو کب سے اسکی شادی کی خواہش رکھے ہوۓ تھی" ربيعہ نے بھی مسکراتے ہوۓ مہک کی حوصلہ افزائ کی۔ 

"تو بس پھر ويک اينڈ آنے ميں دو دن باقی ہيں۔ ايک دن مہندی اور پھر اگلے دن بارات رکھ ليتے ہيں" مہک نے منٹوں ميں سب طے کرليا۔ 

"ارے اتنی جلدی۔۔ ميری بيٹی کو چند دن تو ميرے پاس رہنے ديں" ربيعہ مہک کے يوں ہتھيلی پر سرسوں جمانے پر گھبرا کر بوليں۔ 

"اب ان شاء اللہ ہم دونوں کے ہی پاس رہے گی۔ فکر کيوں کرتی ہيں۔ مگر ميرا خيال ہے اب دير نہيں کرنی چاہئيے۔۔ ہے نا شمس" انہوں نے شمس کی بھی تائيد چاہی۔ 

"مہک صحيح کہہ رہی ہيں۔ ويسے بھی نائل اگلے ہفتے ايک کورس کے سلسلہ ميں ايک سال کے لئے کينيڈا جارہا ہے۔ تو بہتر ہے کہ بيوی کو ساتھ لے کر جاۓ" شمس کی بات پر يماما نےاپنی جھکی ہوئ نظريں اٹھاکر بےيقينی سے نائل کو دیکھا۔ 

اس نے ايسی کوئ بات اسے نہيں بتائ تھی۔ 

نائل کی نظروں نے ايک بار اسکا طواف کيا۔ 

"ارے ضرور کيوں نہيں۔ پھر تو ٹھيک ہی ہے۔ ہميں کوئ اعتراض نہيں" احمد نے بھی فورا ہاں ميں ہاں ملائ۔ 

فاران نے يماما کے خوشی سے جگمگاتے چہرے کی جانب دیکھا۔ 

ہلکی سی کسک دل ميں اٹھی۔ مگر يہ سوچ کر معدوم ہوگئ کہ وہ کسی کی امانت ہے۔ کسی کی منکوحہ ہے۔ لہذا اسکے بارے ميں يہ سوچنا اب اسے زيب نہيں دیتا۔ 

اسکی دائمی خوشی کی دعا دل ميں مانگی۔ 

رات ميں کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ يماما کو لئے اپنے گھر آگۓ۔ 

کہ اب دو دن بعد تو اسے نائل کے پاس ہی آجانا تھا۔

___________________________

رات ميں گھر آکر يماما نے اپنے کمرے ميں جاتے ہی نائل کو کال کی۔ 

چند دن پہلے ہی نائل نے اسے نيا فون لا کر ديا تھا۔ 

تيسری ہی بيل پر فون اٹھا ليا گيا۔ 

"دوری سہی جاۓ نا" دوسری جانب سے گنگناتی ہوئ آواز آئ۔ 

يماما مسکراۓ بغير نہ رہ سکی۔ اسکی فريش سی آواز سن کر اسے کچھ تقويت ملی۔ 

"جی نہيں۔ ميں نے ويسے ہی فون کيا تھا" وہ بھی کہاں مانتی اپنے نام کی وہ ايک ہی تھی۔ 

"اوہ اچھا۔ ويسے آدھے گھنٹے ميں۔۔ ميں ويسے کا ويسا ہی ہوں جيسا تم مجھے چھوڑ کر گئيں تھيں" نائل نے مزے سے کہا۔ 

"مجھے کچھ کلئير کرنا ہے" وہ سنجيدگی سے بولی۔ 

"يار پليز اب ويڈنگ ڈے کے کلر پر بحث مت کرنا۔ بس وہ ہم دونوں کا بلو ہی ہوگا۔" نائل نے کچھ اور سوچتے ہوۓ کہا۔ 

"نہيں اسکی بات نہيں ہے۔ وہ جو صبح کورٹ ميں فاران سے مل کر ميں اموشنل ہوگئ تھی" يماما نے جھجھکتے ہوۓ بات کا آغاز کيا۔ 

"يماما۔ فارگارڈ سيک۔ ميں بہت اچھے سے جانتا ہوں کہ فاران تمہارے لئے کيا حيثيت رکھتا ہے۔ 

ميں تمہارے لئے پوزيسيو ہوں مگر شکی ہر گز نہيں۔ 

مجھے بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہر انسان زندگی ميں بہت سے لوگوں اور رشتوں سے محبت کرتا ہے۔ اور ہر محبت کا مقام الگ ہوتا ہے۔ 

جو جگہ فاران کی تمہارے دل ميں ہے وہ ميں کبھی نہيں لے سکتا۔ اور جو ميری تمہارے دل ميں ہے وہ فاران نہيں لے سکتا۔ 

ميں اتنی چھوٹی سوچ کہ ہرگز نہيں کہ اس سچوئيشن کی حقيقت کو نہ سمجھ سکوں۔ 

مجھے تم پر بھی پورا اعتمادہے اور فاران کو بھی ميں بہت اچھی طرح پرکھ چکا ہوں۔ 

يار تم نے يہ بات کہہ کر مجھے شرمندہ کرديا ہے۔ ميں تمہيں اگر اس کے بارے ميں چھيڑتا ہوں تو اس کا يہ مطلب ہر گز نہيں کہ ميں اسے اپنا رقيب سمجھتا ہوں۔" نائل نے ايک ايک بات اتنے عمدہ انداز ميں کہی کہ يماما کو اس کا ہمسفر ہونے پر بے حد فخر محسوس ہوا۔

"نائل ميں کيا کہوں۔۔ آپ نے تو مجھے اسپيچ ليس کرديا ہے" يماما نے اپنی سوچ کو الفاظ دئيے۔ 

"کچھ مت کہو۔ بس آئ لو يو کہہ دو" نائل پھر سے اپنے شرارتی انداز ميں لوٹ آيا۔ 

"يہ دو دن کيسے گزريں گے" يماما کی خاموشی پر وہ پھر سے بولا۔ اس کے لہجے کا بوجھل پن يماما کے لئے اب سہنا مشکل ہورہا تھا۔ 

"چليں ٹھيک ہے پھر بات ہوگی" يماما نے فورا دوڑ لگانی چاہی۔ 

"بھگوڑی" نائل نے اسکی بات پر بدمزہ ہو کر کہا۔ 

"تم واقعی اتنی ان رومينٹک ہو يا پھر مجھے چکر ديتی ہو" نائل کی بات پر وہ کھلکھلائ۔ 

"فضول باتوں کا کيا جواب دوں" يماما نے گويا اسے چڑايا۔ 

"محبت فضول چيز ہے؟" نائل نے سوال کيا۔ 

"محبت فضول نہيں مگر آپ کا اتنا عجيب و غريب مجت کا راگ الاپنا فضول ہے" يماما نے اسکے سب ارمانوں پر پانی کی بالٹياں بہا ديں۔ 

"بہت محنت کرنا پڑے گی تم پر" نائل نے افسوس سے کہا۔ 

"ميرا مستقبل تمہيں محبت کے سبق پڑھاتے ہی گزر جانا ہے" نائل کی باتوں پر وہ مسکراۓ بغير نہ رہی۔ 

"چليں اچھا ہے مرنے پک پڑھتے رہنا چاہئيۓ" يماما پر تو کوئ اثر نہيں ہورہا تھا۔ 

"جانی ايک بار ہاتھ لگو۔۔چںد دنوں ميں ہی پی ايچ ڈی کروا دوں گا" نائل نے چيلنجنگ انداز ميں کہا۔ 

"ديکھيں گے" يماما نے بھی مزيد چڑاتے ہوۓ فون بند کرديا۔

_____________________

يماما ہاتھوں پر مہندی لگواۓ پيلے اور ہرے جوڑے ميں بيٹھی تھی۔ مہندی کا فنکشن ختم ہوچکا تھا۔ 

گوکہ تمام فنکشن کمبائن تھا۔ مگر يماما نے جان بوجھ کر اتنا لمبا گھونگھٹ نکالا کہ نائل کو اس کا چہرہ دکھائ ہی نہيں ديا۔ 

فنکشن ختم ہونے کے بعد اب مہندی لگاۓ وہ ريليکس انداز ميں بيٹھی تھی۔ ايک ہاتھ کی مہندی سوکھ چکی تھی دوسرے ہاتھ کی سوکھنے کا وہ انتظار کررہی تھی۔ 

فنکشن ميں وہ سميی سے بھی ملی۔ 

وہ وہی ہم شکل تھی جس کا ذکر نائل کرچکا تھا۔ 

مگر فاران نے اسے اپنی دوست کی حيثيت سے متعارف کروايا تھا۔ 

يماما کو خوشگوار حيرت ہوئ تھی فاران کی بات سن کر۔ کيونکہ اس نے کبھی فاران کے لہجے ميں کسی لڑکی کے لئے اتنا انوکھا پن محسوس نہيں کيا تھا۔جتنی دير فاران اس کا تعارف کرواتا رہا 

سيمی بھی بہت لو ديتی نظروں سے فاران کی جانب ديکھ رہی تھی۔ 

يماما نے اپنے شک کو حقيقت ميں ديکھنے کی دل سے دعا کی۔ 

اس لمحے بھی وہ ان دونوں کو سوچ رہی تھی کہ نائل کا فون اسکے موبائل پر آيا۔ 

يماما سب چھوڑ چھاڑ اسکی بے تابيوں پر ہنسی

"ہيلو" يماما نے مسکراہٹ دبا کر اس ہاتھ سے موبائل اٹھايا جس کی مہندی سوکھ چکی تھی۔ 

"تم نے اچھا نہيں کيا ميرے ساتھ" نائل کی تپی ہوئ آواز سنائ دی۔ 

يماما کھلکھلا کر ہنسی۔ 

"کيوں اب ميں نے کيا کيا ہے۔ ايک تو مجھ پر ہر وقت الزام لگاتے رہتے ہيں" يماما نے معصوميت کے سب ريکارڈ توڑ ڈالے۔ 

"اتنا بڑا گھونگھٹ کيوں نکالا۔۔ مجھے باقيوں کا خيال نہ ہوتا تو قينچی سے تمہارا وہ گھونگھٹ کاٹ ديتا" نائل کے غصے پر يماما کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

"ہنس لو تم۔۔ کل تمہاری ہنسی بند نہ کی تو کہنا" نائل کی بات پر اسکے گال دہکے۔ 

"اچھا فون بند کريں مجھے سونا ہے" يماما نے فورا پينترا بدلا۔ 

"ميری نينديں غصے سے اڑی ہوئ ہيں۔ اور تمہيں سونے کی پڑی ہے۔ مجھے تمہيں ديکھنا ہے بس ابھی اور اسی وقت" نائل کی نئ فرمائش پر يماما گھبرا گئ۔ 

"کيا ہے نائل" وہ گھبراہٹ بھرے انداز ميں بولی۔ 

"کيا ہے۔۔ مجھے تمہيں ديکھناہے بس" نائل ضدی لہجے ميں بولا۔  ۔

"کچھ گھنٹے ہی رہ گۓ ہيں۔ پھر ديکھتے رہنا آپ" يماما کی گھبراہٹ بجا تھی۔ اس کا کوئ پتہ نہيں تھا۔ اسے ديکھنے آ پہنچتا۔ 

"اور ويسے بھی اتنی تصويريں تو سب نے لی ہيں۔ آپ کے پاس بھی پہنچ گئ ہوگی۔ اسی پر گزارا کريں" يماما نے جلدی سے اسے رام کرنا چاہا۔

نائل چند پل خاموش رہا پھر گنگنايا

There is another world you are living tonight

Don’t want your picture on my sell phone

I want you here with me

Don’t want your memory in my head now

I want you here with me

اس کی گمبھير آواز پر يماما کے ہاتھوں ميں پسينہ اترا۔ 

"ابھی ويڈيو کال کرلو۔۔ پھر کچھ نہيں کہوں گا" نائل کی بات پر اس کا دل پسيج گيا۔ 

واٹس ايپ پر اسے ويڈيو کال کی۔ 

سفيد کرتے شلوار ميں آستينوں کو کہنيوں تک فولڈ کئے۔ موبائل سامنے رکھے۔ اپنے رف اينڈ ٹف حليے ميں کيمرے ہاتھوں کی انگلياں آپس ميں جوڑے تھوڑی کے پاس رکھے۔ 

وہ ايک ٹک موبائل اسکرين پر ابھرنے والے يماما کے شرماۓ ہوۓ روپ کو ديکھ رہا تھا۔ 

يماما نے بس چند لمحوں کے لئے اسکی جگر جگر کرتی نظروں کی جانب ديکھا۔ پھر ہمت نہ ہوئ تو پلکوں کی باڑھ جھکا گئ۔ 

"آئم سو بليسڈ ٹو ہيو يو ان مائ لائف" نائل کے تشکر بھرے اظہار پر يماما کے چہرے پر شرميلی سی مسکراہٹ کھلی۔ 

"می ٹو" يماما نے بھی اعتراف کيا۔ 

"چند پل اور انتظار کرنا ہے" نائل نے جيسے خود کو تسلی دی۔ 

"اب بند کردوں" يماما نے بمشکل نظر اٹھا کر موبائل اسکرين پر ديکھا۔ 

"بند کردو۔تو اچھا ہے۔۔ اس سے پہلے کہ ميں تمہارے پاس آہی جاؤں" نائل نے اپنے جذبات پر بڑی مشکل سے بندھ باندھا۔ 

"سی يو ٹومورو" نائل کے کہتے ہی يماما نے فورا کال بند کی۔ 

پھر اپنی تيز ہوتی دھڑکنوں پر ہاتھ رکھے بمشکل انہيں اعتدال پر لائ۔

________________________________

تمام رسومات سے فارغ ہوکر مہک کچھ دير پہلے ہی اسے نائل کے کمرے ميں لے کر آئيں تھيں۔ 

اسکے کمرے ميں اب ايک عدد بيڈ کا اضافہ ہوچکا تھا۔ باقی سب ويسے ہی موجود تھا۔ 

کمرے کو پھولوں سے سجايا گيا تھا۔ بيڈ پر جا بجا کلياں پڑی تھيں۔ جن کے درميان يماما بيٹھی ہوئ تھی۔ 

مہک کے باہر جاتے ہی اس نے ايک گہرا سانس کھينچا۔ 

نہ جانے نائل کی بے تابيوں کو وہ کيسے سہے گی۔ 

يہ خيال آتے ہی يماما کی گھبراہٹ سوا ہوئ۔ 

چند منٹ نہيں گزرے تھے کہ نائل دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ 

بلو کلر کے سوٹ ميں ملبوس وہ آج شہزادہ لگ رہا تھا۔ 

يماما نے بھی اسی کے ہم رنگ لہنگا پہن رکھا تھا۔ 

دروازہ بند کرکے وہ آہستہ روی سے چلتا اس کے مقابل بيڈ پر بيٹھا۔ 

"سوہنيو" شہنشاہ کے انداز ميں يماما کو مخاطب کيا۔ 

وہ جو گھبرا رہی تھی اس انداز پر ہولے سے ہنسی۔ 

"تھينکس ٹو شہنشاہ" يماما نے پلکوں کی جھالر اٹھا کر نائل کو ديکھا۔ جس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ رقص کررہی تھی۔ 

"يہی تو ہميں ملانے کا سبب بنا ہے" يماما کی بات پر نائل کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ پھر ہاتھ بڑھا کر يماما کا مہندی سے سجا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا۔ 

"بے شک" اس نے يماما کی تائيد کی۔ 

"ويسے تمہيں شہنشاہ والے روپ ميں کبھی مجھ سے ڈر نہيں لگا۔ کيونکہ غنڈے تو کسی بھی حد تک جاسکتے ہيں۔" نائل کی بات پر اس نے مسکراتے ہوۓ نفی ميں سر ہلايا۔ 

"محبت غنڈوں کو بھی راہ راست پر لے آتی ہے۔ جب محبت سچی ہو تو وہ محبت کو کبھی پامال نہيں ہونے ديتی۔ ہميشہ اس کی عزت کرتی ہے۔ مجھے شہنشاہ کے روپ ميں ويسی ہی سچی محبت دکھائ ديتی تھی۔ اسی لئے ڈر کيوں لگتا؟" يماما کے جواب پر نائل کے چہرے پر متاثر کن مسکراہٹ بکھری۔ 

"واہ واہ۔۔ يعنی ميری يماما محبت کے معاملے ميں اتنی بھی کوری نہيں" نائل بے حد متاثر ہوا۔ 

"اظہار کا ہر ايک کا اپنا انداز ہوتا ہے۔" يماما نے منہ بنا کرکہا۔ 

نائل نے مسکراہٹ لبوں ميں دبائ۔ 

پھر کورٹ کی جيب ميں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا۔ 

بند مٹھی يماما کے آگے کی۔ 

يماما نے ناسمجھی سے اسے ديکھا۔ 

جيسے ہی ہاتھ کھولا اسکے ہاتھ پر ايک چابی رکھی تھی۔ 

وہ پھر الجھی۔ 

"يہ تمہارے فليٹ کی چابی۔ يہ فليٹ ميں نے خريد ليا تھا۔ تمہيں گفٹ کرنے کے لئے۔۔ جن چار ديواری نے ميری يماما کی حفاظت کی وہ مجھے کيسے اور کيوں کر عزيز نہ ہوتيں" يماما نے مسکراتی نظروں سے نائل کے چہرے پر بکھرے اپنی محبت کے رنگ ديکھے۔ 

"تھينک يو" يماما کے پاس الفاظ ہی نہيں تھے۔ 

پھر دوسری طرف کی جيب ميں ہاتھ ڈالا۔ 

باہر آيا تو پھر ويسے ہی مٹھی بند تھی۔ 

يماما کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ 

نائل نے ہتھيلی کھولی تو کسی گاڑی کی چابی تھی۔ 

"تمہاری گاڑی کا ويسا ہی ماڈل نکلوا ليا ہے۔ يہ اسکی چابی " يماما نے يکدم آنسو پيتے اپنی جگہ سے سرکتے نائل کے گرد اپنے بازو حمائل کئے۔ 

"مجھے اللہ نے سب سے قيمتی تحفہ آپ کی صورت ديا ہے نائل مجھے کچھ اور نہيں چاہئے" شدت جذبات سے روتے يماما نے گويا محبت کا اعتراف کيا۔ 

"مجھے بھی۔ ميری جان" نائل نے اسے خود ميں بھينچ ليا۔ محبتوں کی بارش اس پر برسانے کو وہ تيار تھا۔ 

اب کوئ ظالم انکے بيچ نہيں آۓ گا۔ 

يہ اطمينان دونوں کو تھا۔ 

دونوں ايک دوسرے کی دھڑکنيں سن رہے تھے۔ محسوس کررہے تھے۔ محبت کو اب ساری عمر يوں ہی انہيں اکٹھے رکھنا تھا۔

ختم شدہ


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dharkanon Ka Ameen Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dharkanon Ka Ameen  written by Ana Ilyas . Dharkanon Ka Ameen  by Ana Ilyas is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

No comments:

Post a Comment