Pages

Monday 12 August 2024

Shiddat E Mohabbat novel by Nazia Rajpoot Complete Romantic Novel

Shiddat E Mohabbat novel by Nazia Rajpoot Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storie

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Shiddat E Mohabbat By Nazia Rajpoot Complete Romantic Novel 

Novel Name: Shiddat E Mohabbat

Writer Name: Nazia Rajpoot

Category: Complete Novel


 یار کہاں رہ گیا ہے یہ کمینہ 

رات کے دس بجے وہ سڑک کے کنارے اکیلا چل رہا تھا سیل فون اسکے ہاتھ میں تھا اور وہ بار بار کسی کا نمبر ڈائل کررہا تھا 

آج نہیں چھوڑوں گا اس بیغرت کو 

آجانے دو 

وہ بار بار اپ سیٹ سا ہوکے کال ملا رہا تھا کہ اچانک اسکی کمر پہ کوئی اچھل کر بیٹھا 

کتے کمینے 

کب سے تجھے کال ملا رہا تھا تیرا ویٹ کررہا تھا 

اور تو ہے کہ کال تک اٹھانے کی زحمت نہیں کی میر منہ بنا کے دائم کو دیکھتے ہوۓ بولا 

دائم نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اسکو اپنے سینے سے لگا لیا 

میرا جگر اکیلا محسوس کرتا ہے خود کو تو میری کوئی بھابھی لے آ 

دائم قہقہہ لگا کے ہنس دیا اور بولا 

مذاق کم کیا کر میر 

مذاق نہیں سچ بول رہا ہوں 

اچھا اگر سچ ہے تو بتا مجھ جیسے سرپھرے انسان کے ساتھ کون رہنا پسند کرے گی 

دونوں اب بائیک پہ بیٹھ چکے تھے

کوئی تو ہوگی جو تجھ جیسے انسان کے ہوش اڑانے کی طاقت رکھتی ہوگی 

میر نے ہنستے ہوۓ کہا 

دائم مسکرایا اور بولا 

اس صدی میں تو مشکل ہی لگتا ہے 

دونوں کے قہقہہ فضا میں بلند ہوۓ تھے ۔۔

تقربیاٌ آدھے گھنٹے کی ڈرایئو کے بعد وہ اسلام آباد 

"MR _ Snooker Club "

میں پہنچے تھے ۔

وہ دونوں اکثر یہاں آیا کرتے تھے 

لڑکیاں لڑکے سب ہی موجود ہوتے تھے یہاں آج بھی حسبِ معمول وہ لوگ اندر داخل ہوۓ تھے 

واچ مین نے دروازے پہ ہی انکو روک لیا اور اس سے نام پوچھنے لگا 

دائم درانی 

گہری نیلی آنکھیں بھوری آنکھوں میں گاڑھتے ہوۓ ایک پرسرار سی مسکراہٹ لیے دائم نے کہا 

گاڈ سے مزید اسکی آنکھوں میں نا دیکھا گیا کوئی سحر تھا اسکی آنکھوں میں جس وہ اگلے بندے کو جکڑنے کی طاقت رکھتا تھا ۔

اور آپکا نام 

میر ارسلان بٹ 

اوکے 

دراصل گاڈ کو چینج کردیا گیا تھا اس لیے اسے نہیں پتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں مگر اسکے بعد سے اس گاڈ کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ دائم درانی کی طرف نظر اٹھا کربھی دیکھے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ گاڈ دائم کی نظروں سے خوفزدہ ہوگیا تھا

ارسلان نے شاید یہ بات نوٹ نہیں کی تھی مگر وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ اسکا دوست کس قدر شدت پسند ہے ہر وہ کام جسکو وہ کرنے کو ٹھان لے کرکے ہی رہتا ہے پھر چاہے کتنا ہی کیوں نہ بھاری نقصان اٹھانا پڑے اسے پیچھے نہیں ہٹتا ۔

یار نور کدھر لے کے جارہی ہے ؟

وہ بلیک کلر کی مرسڈیز میں بیٹھتے ہوۓ بولی 

شششش! یہ میں جا کر ہی بتاؤں میری جان کے کدھر جارہے ہیں 

وہ مسکراتے ہوۓ گاڑی کے اندر بیٹھی 

نور 

ہاں ؟

یار یہ لو کار کی کیز ( چابیاں ) آج تم ڈرایئو کرو میرا موڈ نہیں ہے 

بیس سالہ مشال شاہ اپنی دوست ماہ نور خان کو گاڑی کی کیز کار کی چابیاں پکڑاتے ہوۓ بولی 

اوکے بےبی ایز یو وش 

نور مسکراتے ہوۓ بولی 

دونوں اندر کی جانب اندر داخل ہوئیں 

اچھا تو میڈم کا ارادہ یہاں آنے کا تھا 

مشال کمر پہ ایک ہاتھ کمر پہ رکھ کے اسٹائل سے بولی 

اس بات سے بے خبر کے وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے

ماہ نور ہنس دی 

بےبی 

تم سونوکر گیم کی ایکسپرٹ ہو نہ بس اس لیے دل کیا کہ آج دونوں کھلیں 

مشال مسکرا دی 

پہلے بتادیا ہوتا مجھے 

مشال بولی 

پہلے بتا دیتی تو میرا بےبی آتا نہیں میرے ساتھ کیوں کے تمہارا موڈ مجھے آج کچھ ٹھیک نہیں لگا سوچا کچھ آؤٹئنگ ہوجاۓ گی 

وہ پیار سے مشال کی طرف دیکھتے ہوۓ بولی 

مشال کی سواۓ نور کے کوئی فرینڈ نہیں تھی وہ اسکی بچپن کی دوست تھی ان دونوں میں بہنوں جیسا پیار تھا نا مشال کا کوئی بہن بھائی تھا نہ ہی ماہ نور کا سو وہ دونوں سگی بہنوں جیسی تھیں ۔

میر نے جب دائم کو مشال کو غور سے دیکھتے ہوۓ پکڑا تو بولا 

کیا بات ہے یہاں اور بھی لڑکیاں اس میں ایسا خاص کیا ہے میر شرارت سے مسکراتے ہوۓ بولا 

دائم نے چونک کے میر کو دیکھا اور بولا 

اسکی

" نوز پن " 

دیکھنے میں اسنے بلیو جینز اور ساتھ ہی اسکے کلر ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اسکے سنہری رنگ کے بال کنڈلے تھے تھی میک اپ وہ کم ہی یوز کرتی تھی آج بھی سفید و گلابی چہرے پہ صرف کاجل کی ایک لکیر تھی اور گلابی ہونٹوں کو لپ گلوس سے رنگا گیا تھا۔

میر مسکرا دیا 

بڈی 

ہمممم

دائم بولا 

ایک بات بولو 

چل آج کسی کے ساتھ سونوکر جیت کے دیکھا 

دائم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

اور پھر بولا 

چیلینج کررہا ہے ؟

ایسا ہی سمجھ لے 

ارسلان بولا 

تجھے پتہ ہے نا دائم دُرانی کو چیلینج کرنا اور ایکسیپٹ کرنا کتنا اچھا لگتا ہے 

میر مسکرایا 

اسی لیے تو بول رہا ہوں میرے جگر 

دائم مسکرایا اور آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ اچانک میر نے روکا اور بولا 

پر تجھے سونوکر کسی لڑکے سے نہیں کسی لڑکی سے کھیلنا ہوگا 

دائم نے گردن موڑ کے میر کو دیکھا جو اسکی جانب دیکھ رہا تھا 

کونسی لڑکی سے ؟

وہی تیری نوز پن والی 

میر نے مشال کی جانب اشارہ کیا جو ماہ نور کے ساتھ مسکرا کے باتیں کرنے میں مصروف تھی 

دائم نے ایک نظر میر کو دیکھا اور پھر اسکی طرف دیکھ کے آنکھ ماری اور آگے بڑھ گیا 

میر ہنس دیا تھا 

ایکسوزمی ؟

دائم نے ماہ نور کو مخاطب کیا 

جی ؟

ایکچولی انکا نام کیا ہے ؟

دائم نے مشال کی جانب اشارہ کیا 

ماہ نور نے ایک نظر مشال کو دیکھا جو اب کسی اور لڑکی سے گفتگو میں مصروف تھی اور پھر بولی 

مشال شاہ 

پر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟

ایکچولی مجھے انکے ساتھ سونوکر کھیلنا ہے ؟

ماہ نور نے ایک نظر دائم کی جانب دیکھا اور پھر قہقہہ لگا کے ہنس دی 

آپ ایک ایکسپرٹ کے ساتھ کھلیں گے 

ماہ نور بات کررہی تھی کہ دائم کے پیچھے میرا آکھڑا ہوا اور بولا 

مس آپکی فرینڈ اگر ایکسپرٹ ہیں تو میرا بھائی بھی چیمین ہے اس گیم کا کیا خیال ہے آپکا ؟

ماہ بور نے آبرو اچکا کے اسے دیکھا 

وہ ابھی باتیں کرہی رہے تھے کہ دائم مشال کے بالکل پاس جاکے کھڑا ہوا 

وہ پلٹی ہی تھی کہ گہری کالی آنکھیں گہری نیلی آنکھوں سے ٹکڑائیں 

ایکسوزمی مسٹر آپ پاگل ہیں یا اپنا دماغ گھر رکھ کے آئیں ہیں آپکو نہیں پتہ کہ کسی کے راستے میں یوں کھڑے نہیں ہوتے 

ناؤ پلیز گیٹ آ سائید

مشال بولی تھی 

شدت پسند ہوں بہت اور پہلے پاگل نہیں تھا اب لگتا ہے ہوگیا ہوں 

دائم نے اپنی سحر انگیز آنکھوں سے مشال کی جانب دیکھا 

ایک سکینڈ لگا تھا مشال کو نظریں گرانے میں اسکی آنکھوں میں اس قدر کشش تھی کہ کسی کو بھی جکڑنے کی طاقت محفوظ رکھتا تھا اپنے پاس 

واٹ ؟

واٹ ربیش ؟

میرا مطلب ہے کہ مجھے تمہارے ساتھ سونوکر کھیلنا ہے ابھی 

ایکسوزمی مجھے نہیں کھیلنا آپکے ساتھ 

اوکے تم چیلنج بھی ایکسیپٹ نہیں کروگی ؟

دائم نے کہا 

کیسا چیلنج ؟

مشال نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

مطلب کہ اگر تم جیتی تو تم جو کہو گی میں وہ کروں گا اور اگر میں جیتا تو 

تو ؟

وہ جیتنے کے بعد بتاؤں گا 

واۓ ؟ 

ڈیٹس ناٹ فیر ؟ 

وہ بولی تھی 

دائم تھوڑا اور قریب ہوا 

اور اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ اسکی جان فنا کرنے گا 

ماۓ لٹل فیری 

اسکا دل تیز رفتار پکڑنے گا جسکو دائم نے باخوبی سن لیا تھا 

وہ تھوڑا دورا ہوا 

آہ مجھے لگتا ہے کہ تم ڈر گئی ہو ؟

مشال شاہ نام ہے میرا ڈرتی میں کسی کے باپ سے بھی نہیں ہوں سمجھے آپ اور جہاں تک آپکے چیلینج کی بات ہے تو اوکے آئیم ایگری ود یو 

آئی ول پلے ود یو مسڑ 

دائم دُرانی 

یا مسٹر دائم دُرانی 

کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی 

دائم ایک پرسرار سی مسکراہٹ کے بولا تھا 

" انڑسٹنگ ویری انڑسٹنگ 

ماۓ لٹل فیری " 

مشال شاہ ایک نڈر اور بہادر لڑکی تھی اس نے کبھی ڈر کے جینا نہیں سکیھا تھا اپنے ہر خواب کو وہ پورا کرنا چاہتی تھی 

وہ انڑ کے ایگزمس دے کے فری تھی اس لیے ہی وہ اور ماہنور ساتھ میں ہوتیں آجکل اکثر 

مشال شاہ اگر سیر تھی تو دائم دُرانی سوا سیر 

اسے اپنی ذات کی نفی اور اپنی انسلٹ کہاں برداشت تھی ۔

اچھا ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے مسٹر میری فرینڈ ضرور کھیلے گی اب تو 

ماہنور ایک ادا سے بولی تھی 

میر ارسلان بٹ کو یہ ماہنور کافی منہ پھٹ اور تیکے مزاج والی لگی تھی 

اس لیے وہ شرارت سے بھرپور لہجے میں بولا 

اوکے ڈن مسں چلی 

بول کے اسکو مزید آگ لگا گیا 

یو آئی ول سی یو 

وہ زچ ہوکے بولی 

آئی ول ویٹ فار ڈیٹ 

ایک بھرپور مسکراہٹ ماہ نور کی جانب اچھالتا 

وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔

مشال کے ساتھ ماہنور تھی اور دائم کے ساتھ میر 

مشال نے اسٹک اٹھائی 

اب آگے صرف مشال اور دائم ہی تھی باقی سب پیچھے تھے 

ماہ نور اور میر نے ان دونوں کو بیسٹ آف لک کہا تھا 

مشال کا پہلا نشانہ اپنی جگہ پہ لگا تھا جسکی وجہ سے اسکے حسین چہرے پہ ایک دلکش مسکراہٹ بکھر گئی تھی 

اب دائم کی باری تھی 

دائم کا نشانہ بھی بالکل ٹھیک جگہ جالگا تھا 

جسکی وجہ سے مشال کے چہرے پہ حیرت کے تاثرات آۓ مطلب کہ کوئی تھا جو مشال شاہ کو ٹکر دینے کی طاقت رکھتا تھا سونوکر گیم میں 

دونوں کے پوائنٹس برابر تھے سب چیخ چیخ کر انکو سپورٹ کررہے تھے 

گیم کافی انڑسٹنگ ہوا چلا تھا کیوں کے مشال کو بھی اور دائم کو بھی جیتنے کے لیے ایک پوائنٹ کی ضرورت تھی اور یہ دائم نے میدان مار لیا تھا 

ہر طرف شور سا برپا ہوگیا تھا 

دائم مسکرا دیا اسکی مسکراہٹ اس قدر خوبصورت تھی اور اوپر سے اسکے چہرے پہ پڑتا ڈمپل مشال سے نظر ہٹانا مشکل ہوگیا تھا 

ماہ نور اسکے پاس پہنچی اور اپنی طرف کھینچا اور بولی 

یار یہ کیا کیا تو نے مشال تو اس معمولی سے لڑکے سے کیسے ہار گئی تو چیمین ہے اس گیم کی 

ناک کٹوادی میری اس بندر کے سامنے

ماہ نور نے صدمے سے کہا 

مشال نے ماہ نور کی طرف دیکھا اور بولی 

چلو ادھر سے پلیز ماہ نور 

آر یو اوکے مشی بےبی ؟

نور نے پوچھا 

آئی ڈونٹ نو پلیز موو 

نور نے ہاں میں سر ہلایا 

اور اسکا ہاتھ پکڑ کے باہر لائی 

یہ لو پانی پیو 

نور نے پانی کی بوتل اسے پکڑائی ایک ہی سانس میں وہ پانی پی گئی

مشی یار کیا ہوا 

تو ٹھیک ہے نا ؟

نور نے فکرمندی سے پوچھا 

ہاں نور میں ٹھیک ہوں سر میں درد ہورہا ہے پلیز گھر چلو 

اوکے 

نور بول کے گاڑی میں بیٹھنے ہی لگی تھی کہ 

اچانک دائم نے نور کو پکارا 

مس ماہ نور 

دائم کو اپنی طرف آتا دیکھ کے مشال کے اوسان خطا ہوگئے 

جی ؟

وہ میر آپکو اندر بلا رہا ہے 

کیوں ؟

نور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

پتہ نہیں 

اوکے میں دیکھ کے آتی ہوں کہ اس سڑیل کو اب کیا موت پڑگئی ہے

نور کے جانے کی دیر تھی کہ مشال وہاں سے بھاگ کے ایک کونے کی طرف گئی جیسے ایک بچہ خوفزدہ ہوجاتا ہے بالکل ویسے ہی اسکو نجانے کیوں خوف سا محسوس ہونا لگا تھا 

دائم سے

وہ ابھی جاہی رہی تھی کہ کسی نے اسکی بازو پکڑ کے اسکو اپنی جانب کھینچا 

مشال کا دل نکل کے حلق میں آگیا تھا 

سانسیں معمول سے زیادہ رفتار پکڑ چکی تھیں اور دل کی ڈھڑکن مشال کے دل کے زور و شور سے ڈھڑکنے کی آواز دائم آسانی سے سن رہا تھا 

کہاں بھاگ رہی تھی ماۓ لٹل فیری ؟

ابھی تو چیلینج بھی پورا کرنا ہے تم نے 

ن ۔۔۔ نن نہیں پلیز مجھے جانے دیں آپ جیتے میں ہاری مجھے جانے دیں 

ہاری ہو تو سزا تو ملے گی نا ؟

کیسی سزا ؟

مشال نے پوچھا 

چیلینج پورا کرنا ہوگا 

بولو کروگی پورا ؟

مشال نے آنکھیں اٹھا کر دائم کی جانب دیکھا جو پرسرار سی مسکراہٹ لیے گہری نیلی آنکھوں سے اسکی کی جانب دیکھ رہا تھا سیکنڈ میں اس نے پلکیں گرائیں تھیں اور جھٹ سے بولی 

جی مجھے وہ سب منظور ہے جو آپ کہیں گے پلیز اب مجھے جانے دیں 

گڈ ماۓ لٹل فیری اسکے رخسار کو نرمی سے چھوا تھا جس پہ وہ سن ہوگئی تھی 

دائم کا دل نجانے کیوں کررہا تھا کہ وہ کہیں بھی نا جاۓ یہ لمحے یہی ٹہھر جائیں مگر فلحال یہ ممکن نہ تھا 

اس نے مزید اسے خود سے قریب کیا 

اور کان میں سرگوشی کی 

آئی ول مس یو ماۓ لٹل فیری 

اور اسکی کان کی لو کو ہلکا سا دانتوں تلے دبایا تھا

مشال اسکے اسطرح قریب آنے پہ جی جان سے لرز گئی تھی وہ اپنا آپ چھڑوا کے بھاگی تھی الٹے قدموں 

دائم سر جھٹک کے ہنس دیا تھا اسکی خوشبو اسے دیوانہ بنا رہی تھی اور وہ بنتا جارہا تھا ۔

وہ کار میں آکے بیٹھی تو سامنے سے اسے ماہ نور آتی دیکھائی دی اور اسکے پیچھے سے ہی میر 

سوری بےبی دیر ہوگئی ایکچولی کسی لوفر کے ساتھ پھنس گئی تھی 

میر نے اسکی بات سن لی تھی تب ہی اسکی بات پہ قہقہہ لگا کر ہنسا 

مشال اب بھی اسکی سحر زدہ آنکھوں کے زد میں تھی اسکے الفاظ تھے یا کوئی جادو 

اتنے میں پیچھے سے دائم بھی آکھڑا ہوا 

دائم کی نظریں مشال پہ ہی تھیں اور مشال سے نظریں نہیں اٹھائی جارہیں تھیں 

کار میں اے سی ہونے کے باوجود اسکی ہتھلیاں پسینے سے نم ہوگئیں تھیں 

ماہ نور کار میں بیٹھنے لگی تھی کہ جبھی میر نے اسکو پکارا 

ایکسوزمی مس چلی 

پھر کب اپنا دیدار کرائیں گی ؟

یو بلڈی 

بھاڑ میں جاؤ تم 

دیکھ لو گی میں تمھیں 

وہ غصے سے بول کر کار میں بیٹھی 

اور کار کو زن سے اڑا لے گئی تھی ۔

دائم مسکرا رہا تھا اور میر کو دیکھ کے بولا 

اچھی لگی ہے تجھے ماہ نور ؟

میر نے اسکی طرف دیکھا اور پھر بولا 

میری چھوڑ تو اپنی بتا تجھے آج سے پہلے نہ میں نے تجھے اتنا مسکراتے نہ شوخ ہوتے دیکھا ہے 

میر شرارت سے مسکرایا 

جس پہ دائم ایک ادا سے ہنس دیا اور بولا 

محبت 

میر مسکرایا اور بولا 

کیا ؟

دائم سڑک کے کنارے چلتا ہوا 

ایک پتھر کو گھور رہا تھا

کسی گہری سوچ میں گم تھا 

پھر وہ زیرِ لب بڑبڑایا 

شدتِ محبت 

اور پھر خود ہی ہنس دیا تھا ۔

ماہ نور مشال کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد واپس چلی گئی تھی 

مشال اندر داخل ہوئی تو سامنے کوئی نا تھا رات کے گیارہ بج رہے تھے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اپنے کمرے میں آئی اور اپنا فون لاپرواہی سے بیڈ پہ اچھالا 

اور نائیٹ ڈریس اٹھا کر اندر واشروم میں گئی 

کچھ پل وہ ایسے ہی شاور کھول کے بھیگتی رہی 

کیا ضرورت تھی اسے اسکا چیلینج ایکسیپٹ کرنے کی اگر اسکا چیلینج وہ پورا نہ کرپائی تو وہ کیا کرے گا اسکے ساتھ سوچ کے ہی وہ اپنی جگہ کانپ کے رہ گئی مشال کو زندگی میں پہلی بار کسی سے وحشت ، ڈر، خوف ،

محسوس ہوا تھا 

آنسو رواں دواں تھے 

آدھے گھنٹے کے بعد وہ باہر آئی 

ایک نظر خود کو مرر میں دیکھا رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں شدت سے لال ہوچکی تھیں گلابی ہونٹ کپکپا رہے تھے 

وہ بیڈ پہ لیٹ گئی 

وہ بار بار اٹھ کر پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتی کہ کہیں وہ یہاں بھی نہ آگیا ہو مگر وہ کہیں نہیں تھا یہ جان کے اسکو سکون ہوا 

تھکی ہوئی تھی اس لیے جلد ہی نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گئی ۔

اسلام و علیکم 

میری پیاری دادی جان 

وعلیکم اسلام 

کیسا ہے میرا چاند میرا بچہ 

ٹھیک ہوں 

یہ بتا اتنی رات کو کہاں سے آرہا ہے 

آئمہ بیگم نے پوچھا

میں میر کے ساتھ سونوکر کھیلنے گیا تھا 

دادی جان 

کتنی بار بولا ہے اتنی رات تک باہر مت رہا کر اور ایک تو ہے کہ سنتا ہی نہیں کسی کی 

اسکو آئمہ بیگم پہ بہت پیار آیا تھا ایک وہی اسکی اپنی تھیں اسکے مما پاپا نہیں تھے اس نے انکے ہاتھ چوم لیے اور بولا

سوری دادی جان 

اچھا چل کھانا کھاۓ گا 

نہیں دادی بھوک نہیں ہے میں شاور لےکے سوؤں گا 

ٹھیک ہے بیٹا 

وہ مسکراتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا

صبح کا سورج طلوع ہوا 

اسکی آنکھ کھلی تھی 

ایک مکمل نیند لے کے وہ اٹھی تھی 

سورج کی روشنی میں اسکا گلابی خوبصورت چہرہ دمک رہا تھا اور اوپر سے اسکی نوزپن نے بھی اسکو قدرے پرکشش بنا رکھا تھا 

وہ بیڈ سے اتر کر اپنے پنک کلر کے فیری شو پاؤں میں اڑستے ہوۓ واشروم میں داخل ہوئی 

شاور لے کے وہ نکلی 

سکاۓ بلیو کلر کی لانگ فراک اور نیچے وائٹ کلر کی پینٹ پہن کر وہ باہر نکلی 

اسے خوبصورت بننے کے لیے محنت نہ کرنا پڑتی تھی وہ ایک چھوئی سی فیری کے جیسی ہی تھی کانوں میں وائٹ کلر کے ڈائمنڈ کے چھوٹے سے ٹاپس جو وہ ہمشیہ سے پہنتی آئی تھی 

آنکھوں میں کاجل کی ایک لکیر اور ہونٹوں پہ پنک کلر کا گلوس لگا کے بالوں کو کھلا چھوڑ کے وہ نیچے کی جانب چل دی تھی ۔

اسلام و علیکم 

چاچو 

وعلیکم اسلام 

اٹھ گیا میرا بیٹا 

جی چاچو 

اٹھ گئی 

عفان شاہ نے پوچھا 

مشال کے موم ڈیڈ کی ڈیٹھ اسکے بچپن میں ہی ہوچکی تھی اب صرف عفان شاہ ہی اسکے اپنے تھے 

وہ ناشتے کے ٹیبل پہ بیٹھی 

مشی بیٹا 

یہ تمہاری آنکھیں کیوں اتنی لال ہورہی ہیں ؟

عفان شاہ نے فکرمندی سے پوچھا ہی تھا کہ 

مشال کو کافی زور سے کھانسی آئی 

مشال بیٹا آر یو آل رائٹ ؟

عفان شاہ نے فکرمندی سے بولا 

وہ ایکچولی چاچو کل رات میں اور نور کلب میں چلے گئے تھے تو واپسی لیٹ ہوئی تھی شاید اسی لیے طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے 

مشی بیٹا کتنی بار سمجھایا ہے آپکو کہ اپنا خیال رکھا کرو مگر آپ اتنی ضدی ہو کہ سنتی ہی نہیں 

نہیں میرے پیارے چاچو 

اسکو ان پہ بےحد پیار آیا 

وہ انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بولی 

آپکی بات سر آنکھوں پہ لیکن وہ نور ہے نا اسکی وجہ سے جانا پڑا وہ ضد کررہی تھی 

وہ مسکرا دئیے اور اٹھ کر اسکے سر پہ بوسہ دیا 

مشی بیٹا تم یہ ہنی ( شہد) 

اور یہ ڈراۓ کیک لےلو 

اس سے تمھیں آرام ملے گا

مشال مسکرادی اور کیک کا ایک پیس لے لیا

میم ؟

میڈ بولی

ہمممم

مشال بولی 

آپکے لیے بٹر 

نو تھینکس 

آپ ایسا کریں کہ آیک اچھی سی اسڑونگ سی بلیک کافی لے آئیں میرے لیے 

شیور میم 

میڈ بول کے چلی گئی ۔

ناشتے کے بعد مشال اوپر آگئی تھی جیسے ہی روم میں آئی ساتھ ہی اسکا سیل رنگ ہوا 

اسلام و علیکم

مشی کیسی ہو ؟

زوار ملک اعوان بولا تھا 

وعلیکم اسلام 

الحمد اللہ تم سناؤ

زوار کیسے ہو ؟

آپکے بنا کیسا ہوسکتا ہو ؟

کیوں 

ایک مسکان مشال کے چہرے پہ آئی تھی 

کیوں کا مطلب تمھیں اچھے طریقے سے پتا ہے اب میں بات کروں گا جلد ہی شادی کی عفان انکل سے 

مشال کے چہرے پہ ایک مسکان ٹھہر گئی تھی 

ہممممم 

پر مجھے تو ابھی نہیں کرنی شادی تم سے فلحال 

کیوں نہیں کرنی مارنے کا ارادہ ہے کیا مجھے ؟

مشال ہلکا سا ہنس دی 

یہ اتنا شاعرانہ اور عاشیقانہ مزاج کب سے ہوگیا آپکا ؟

زوار قہقہہ لگا کے ہنسا 

تمھیں دیکھنے کے بعد سے

مشال کے چہرے پہ حیا کے کئی رنگ نظر آنے لگے تھے ۔

وہ مشال کی زوار سے کئی گئی تمام باتیں سن چکا تھا آنکھیں شدت سے لال ہورہی تھیں جیسے لہو ٹپک رہا تھا آنکھوں سے 

" یو ہیو ٹو پے فار دِس " 

زوار ملک اعوان 

انتہائی جنونیت سے بولا تھا ہونٹوں پہ خطرناک مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔

دراصل زوار ملک اعوان عفان شاہ کے دوست کا بیٹا تھا زوار لوگوں کا انکے گھر میں آجانا تھا زوار کو مشال اچھی لگنے لگی تھی اسی سلسلے میں زوار کے پاپا اور عفان شاہ نے بات کی سب نے رضامندی ظاہر کی تو دونوں کی بات پکی ہوگئی تھی۔

واٹ آر یو سیریس 

دائم ؟

میر حیران ہوتا ہوا بولا 

یس آئیم بلڈی سیریس رائٹ ناؤ 

دائم نے کہا 

مطلب کے دائم دُرانی جیسے شخص کو محبت ہوگئی ہے 

میر ہنستا ہوا بولا 

دائم نے آبرو اچکا کے میر کی جانب دیکھا جو کولڈ ڈرنک کے چھوٹے چھوٹے سپ لے رہا تھا 

کیوں نہیں ہوسکتی کیا؟

کہتے ہوۓ اسنے سگریٹ نکالا پاکٹ سے اور جلا کے ہونٹوں میں دبایا 

مطلب کے دائم دُرانی جیسے شخص کو جو اتنا اکٹر والا اور پراسرار بندہ ہے جو صرف دیکھ لے تو اگلا بندے کی روح پرواز کرنے والی ہوجاتی ہے اسے محبت ہوگئی

دیوانہ بنا دیا ہے اس نے مجھے 

دائم مسکراتی گہری نیلی آنکھوں سے بولا 

اوۓ ہوۓ

میر شوخ انداز میں بولا 

جب کے دائم کے جواب نہ دینے پہ میر تنگ ہوا اور 

غصے میں آکے بولا 

کتنا پیئے گا صبح سے دو پیکٹ ختم کرچکا ہے تو 

کب تک پیئے گا اسطرح 

میر دائم کا خیال سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر رکھتا تھا وہ فکرمندی سے بولا 

جب تک وہ نہیں مل جاتی 

مل گئی تو چھوڑ دے گا 

اس نے بولا تو 

ضرور چھوڑ دوں گا 

عجیب سا دیوانہ پن اور جنونیت تھی اسکے لہجے میں مشال کو لے کر جسکو میر نے محسوس کیا تھا اور مسکرا دیا تھا

پھر میر بولا

اور بات سن میری مشال شاہ کوئی معمولی لڑکی نہیں ہے جانتا ہے اسکا باپ کون ہے ؟

ہے نہیں تھا 

میر حیران رہ گیا

تجھے کیسے پتہ 

مجھے میری لٹل فیری کے بارے میں سب پتہ ہے میر 

وہ مسکرا کے بولا 

اچھا جیسے کے کیا کیا پتہ ہے 

مشال کے ماں باپ نہیں ہیں بچپن میں ہی چل بسے تھے اکلوتی بیٹی ہے اپنے ماں باپ کی اور اسکی پرورش اسکے چاچو نے کی ہے ابھی تک 

یار یہ اتنا کچھ کیسا جانتا ہے تو 

میر حیران ہوا 

دائم تھوڑا سا میر کے قریب ہوا دونوں ہاتھ اس نے جھک کے ٹیبل پہ رکھے اور بولا 

مجھے اسکے بارے ہر ایک چھوٹی اور بڑی بات پتہ ہے میرے بھائی 

دائم کی گہری نیلی آنکھوں میں کچھ تھا جس سے میر نے باقاعدہ ایک جھرجھری لی اور بولا 

یار کیسا بندہ ہے مجھے ہی ڈرا دیتا ہے پتہ نہیں میری بھابھی بیچاری کیسے برداشت کرے گی تجھے 

دائم قہقہہ لگا کے ہنس دیا اور یکدم سنجیدہ ہوکے بولا 

برداشت تو اسکو کرنا ہی پڑے گا اب تمام عمر اپنے اس دیوانے کو ورنہ 

ورنہ کیا 

میر جھٹ سے بولا 

میں وہ کروں گا کہ سب کی روح کانپ اٹھے گی 

اور میر تو دائم کو اچھے طریقے سے جانتا تھا کہ دائم کس قدر شدت پسند ہے ہر چیز کو لے مگر چیز اور محبت میں فرق ہوتا ہے تو اگر دائم چیزوں کو لے کے اتنا شدت پسند تھا تو مشال تو اسکی محبت ہے اسکے لیے وہ کیا کیا نہیں کرے گا 

میر نے دائم کی جانب دیکھتے ہوۓ سوچا تھا ۔

اور پھر کچھ دیر بعد بولا 

دائم ایک بات اور ہے 

میر نے کہا 

کیا بات

وہ بولا 

تجھ میں اور مشال میں زمین آسمان کا فرق ہے 

کیسا فرق 

دائم نے ناسمجھی سے میر کی جانب دیکھا 

مطلب ہم لوگ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ کبھی اٹھ کے پانی تک اس نے خود اپنے ہاتھ سے نہیں پیا بہت امیر لوگ ہیں وہ میرے بھائی 

میر یار اگر محبت چھوٹے بڑے اور امیر غریب کا فرق سوچ کے ہو تو وہ محبت ہی کیا بلکہ میری طرف سے ایسی محبت پہ لعنت 

میر مسکرایا اور بولا

اگر مشال یہی بات کرے تو ؟

وہ نہیں کرے گی 

تو اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتا ہے یہ بات 

اسکے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے پھر سناؤں گا کسی دن فرصت سے 

میر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا 

دائم کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی جبکہ ہونٹوں پہ ایک گہری پراسرار مسکراہٹ بکھر چکی تھی ۔

یار مشی تیرا کیا پلین ہے آگے کا ؟

ماہ نور مشال کے بیڈ پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھتے ہوۓ بولی

کیا مطلب کیا پلین ہے ؟

مطلب کے رِزلٹ کے بعد کیا کرے گی 

ماہ نور نے پوچھا 

کیا مطلب کیا کروں گی پڑھوں گی آگے کنٹینو کروں گی اسٹڈی کو 

ہمممم اچھا 

اور تیرا کیا پلین ہے 

میرا بھی وہی ہے جو تیرا ہے تجھے پتہ ہے تجھ سے الگ نہیں رہ سکتی میں 

مشال ماہ نور کے پیار بھرے انداز پہ مسکرادی اور آگے بڑھ کے اسے گلے لگا لیا 

اس ایک ویک میں مشال وہ واقعہ بالکل بھول چکی تھی وہ اس بات سے بالکل ناواقف تھی کہ کوئی اس پہ نظر رکھے ہوۓ ہے نظر رکھنے والا شخص اس قدر ماہر تھا کہ بھنک تک نہ پڑنے دی تھی مشال کو اس بات کی ۔

رات کو مشال ڈنر کرنے کے بعد اوپر آئی پہلے تو وہ بکس ڑیڈ کرتی رہی پھر جب تھک گئی تو واشروم نائیت ڈریس اٹھا کے چل دی واپس آکے ایک نظر فون کو چیک کیا پھر سونے کے لیے لیٹ گئی 

اسکو سوۓ ہوۓ مشکل سے ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ اسکے سنہری بالوں میں کوئی آرام آرام سے انگلیاں پھیر رہا ہے 

اسکی پیشانی پہ پسینے کے دو ننھے قطرے نمودار ہوۓ 

پر ہمت نہ ہوئی کہ آنکھیں کھول کے دیکھے ایسا اسکے ساتھ پچھلے ایک ہفتے سے ہورہا تھا 

وہ جو کوئی بھی اسکی خوشبو مشال کے دل ڈھڑکنے کا سبب بنی تھی کچھ دیر وہ اسکے سنہری بالوں میں انگلیاں چلاتا رہا جب اسکی آنکھ لگی تو وہ اس پہ جھکا اور اسکے کان میں سرگوشی کی 

" کیوں تڑپاتی ہو مجھے اتنا ہممم کیوں میری محبت کی شدت کا احساس نہیں ہے تمھیں ماۓ لٹل فیری اب مزید تمہارے بنا رہنا مشکل ہے تیار رہنا کیوں کے کچھ ہی دنوں میں تم مکمل میری ہوجاؤ گی ہمیشہ میری قید میں رہوگی کبھی آزاد نہیں ہونے دوں گا نہ خود سے دور تم ہونا بھی چاہوگی نہ جان نکال دوں گا تمہاری 

انتہائی جنونیت سے کہتا اسکی کان کی لو کو چوم گیا تھا ۔

مشال نے ہڑبرا کے آنکھیں کھولیں مگر سامنے کوئی بھی نہ تھا 

کھڑکی سے نظر آتا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا 

مشال کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں کیوں ہورہا تھا ایسا اسکے ساتھ وہ اس سب کی کہاں عادی تھی 

وہ اپنی مرضی کرنے والی مشال شاہ تھی لیکن جو اس دن اسکے ساتھ ہوا اس نے کبھی سوچا نہ تھا مگر وہ شخص جب اسکے قریب آتا تھا تو ڈر کے ساتھ وہ اسکے 

سامنے بےبس کیوں ہوجاتی وہ نڈر تھی مگر اس سے کیوں ڈرتی تھی اسکی آنکھوں میں کیسا سحر تھا جو بندے کو اپنی جانب کھینچے کی طاقت رکھتا تھا۔

رات کے آٹھ بج چکے تھے جب زوار کی کال آئی تھی مشال کو 

مشی ؟

جی 

آج نو بجے تیار رہنا ایک دوست کے ہاں پارٹی ہے وہاں جانا ہے 

میرا جانا ضروری ہے کیا 

مشال کوفت سے بولی 

بالکل ضروری کے تم نہیں ہوگی تو میرا دل کیسے لگا گا وہاں ماۓ بیوٹی 

مشال مسکرادی اور بولی 

اوکے فائن 

آئی ول بی ڑیڈی ٹونائیٹ 

مشال مسکرا کے بولی 

تھینک یو سو مچ ماۓ بیوٹی 

بول کے زوار نے فون بند کردیا تھا ۔

ابھی مشال فون رکھنے لگی تھی کہ ماہ نور کی کال آنے لگی اسکے سیل پہ 

اسلام و علیکم 

کیسی ہو مشی ؟

وعلیکم اسلام 

الحمد اللہ 

تم بتاؤ جانی کیسی ہو 

اللہ کا شکر ہے 

اچھا سنو مشال کہی باہر کھانا کھانے چلیں آج 

سوری نور آج نہیں 

کیوں آج کیوں نہیں ؟

وہ اس لیے کیوں کے آج زوار آرہا ہے پارٹی میں جانا ہے 

اوہو تو یوں بولو نہ کہ بہنوئی آرہے ہیں میرے 

ماہ نور شررارت سے بولی 

جس پہ مشال ہنس دی

اچھا اب ڈرامے بند کرو مجھے تیار بھی ہونا ہے 

کہہ کر کال بند کی اور کبڈ کی جانب چل دی 

پانچ منٹ کے بعد وہ بلیک کلر کا خوبصورت لمبا گاؤن پہن کر باہر نکلی 

کنڈلے بالوں کو یونہی کھلا چھوڑا 

میک اپ میں اس نے ڑیڈ کلر کی لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل ڈالا مسکارے کے ساتھ آئی لائنر لگایا اور کانوں میں بلیک کلر کے ٹاپس ڈالے تھے ساتھ میں ہی بلیک کلر کی پینسلز ہیل پہن لیں تھیں وہ واقعی ہی میں آسمان سے اتری ہوئی پری لگ رہی تھی 

وہ تیار ہوچکی تو اپنا پرس اور فون اٹھایا کہ نیچے ہارن کی آواز آئی تھی 

زوار آگیا تھا وہ نیچے چل دی 

عفان شاہ کو اس نے شام میں ہی بتا دیا تھا کہ وہ زوار کے ساتھ آج رات کو پارٹی میں جاۓ گی نیچے آئی تو وہ اپنے روم میں آرام کرنے جاچکے تھے اس لیے اس نے انھیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور باہر کی جانب چل دی 

باہر آئی تو زوار چند لمحے یوں ہی اسے دیکھتا رہا 

مشال اسکی نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی 

یور آر لوکینگ بیوٹی فل ماۓ بیوٹی 

مشال مسکرادی 

تھنیکس 

بول کے گاڑی میں بیٹھی 

چالیس منٹ کی ڈرایئو کے بعد وہ پارٹی میں پہنچ چکے تھے 

وہ دونوں سب سے ملے زوار نے مشال کا بھی انڑؤ کرایا تھا سبکو مشال بہت اچھی لگی تھی 

ابھی سب باتیں کرنے میں ہی مصروف تھے کہ اچانک وہاں موجود ڈی ۔جے نے ایک رومینٹک سا سونگ پلے کیا تھا 

وہاں موجود سب ہی کپلز کپل ڈانس کرنے لگے تھے 

مشال مسکرا کے ان سبکو دیکھنے میں مصروف تھی کہ اچانک زوار نے اپنا ہاتھ مشال کی جانب بڑھایا اور کہنے لگا 

" Would you like to dance with Me My Beauty " 

کیا تم میرے ساتھ ڈانس کرنا پسند کروگی ماۓ بیوٹی 

مشال نے مسکرا کے اسکا ہاتھ تھام لیا تھا ۔

سب کی آنکھوں پہ ماسک لگے ہوۓ تھے 

مشی ؟

زوار نے پکارا 

جی 

تم یہاں ویٹ کرو میں ابھی آتا ہوں وہ سامنے میرے دوست ہیں ان سے مل کے 

اوکے 

مشال مسکرا کے بولی 

وہ وہاں سے چلا گیا 

سب ڈانس کرنے میں مصروف تھے 

کہ اچانک مشال کی کمر میں کسی نے ہاتھ ڈال کے خود سے قریب کیا اس بندے کے بھی آنکھوں پہ ماسک تھا مگر ۔۔۔

مشال ہزاروں میں بھی وہ آنکھیں پہچان سکتی تھی 

وہ گہری نیلی آنکھیں وہ پراسرار سی مسکراہٹ وہ خوبصورت سا ڈمپل 

مشال کے دل نے رفتار پکڑی 

دائم نے اسکے کان میں سرگوشی کی

ماۓ لٹل فیری آئی وانٹ ٹو ڈانس ود یو رائٹ ناؤ 

سو بی ہیو لائک آ نارمل ۔۔

مشال کی ہمت نہ ہوئی مزاحمت کرنے یا کچھ بولنے کی 

سونگ پلے ہوچکا تھا ۔۔۔

My heart is being rebellious today

It just wants to achieve / attain you 

Join me anyway

Leave yourself in me Someplace Come 

And join yourself to me ...

This wall like glass 

Come embrace me to break it ..

This incomplete that exists 

Remove it by your presence 

Those which i can't forget my entire life 

Give me those Moments ...

My heart is being rebellious today

it just wants to achieve / attain you 

Join me anyway 

My heart is being rebellious today...

آج ضد کررہا ہے دل 

کرنا ہے بس تجھے حاصل 

آج ضد کررہا ہے دل

ہو بھی جا مجھ میں تو شامل 

آج ضد کررہا ہے دل

کہیں خود کو تو مجھ میں چھوڑ جا 

چھوڑ جا میرے ساتھ مجھکو تو جوڑ جا جوڑ جا

یہ جو کانچ کے جیسی اک دیوار ہے 

میری بانہوں میں اسے توڑ جا 

مشال کا دل اسکے کانوں میں ڈھڑک رہا تھا 

دائم کی قربت اس لمحہ لمحہ تڑپا رہی تھی اور وہ تڑپ رہی تھی 

جبکہ دائم کو مشال کے قریب آکے جتنا سکون ملتا تھا وہ بیان نہیں کرسکتا تھا لفظوں میں 

ابھی بھی اس نے مشال کے کنڈلی زلفوں میں اپنا چہرا چھپایا ہوا تھا ۔

یہ جو اک ادھورا پن ہے 

اک دوسرے سے بھر دے 

لٹل فیری 

دائم نے مخاطب کیا 

جج ۔۔۔ جی 

مشال بولی 

یو آر لوکینگ بیوٹی فل ایز ول ایز ہوٹ ٹو 

دائم کے الفاظوں پہ مشال سرخ ہوئی تھی 

دائم نے دلچسپی سے دیکھا تھا اسے 

اور پھر اسکے کان میں سرگوشی کی 

یہ گانا میرے دل کے جزبات کی عکاسی کررہا ہے 

لٹل فیری 

کہہ کے اسنے مشال کی زلفوں کو چوما 

مشال اپنی جگہ کانپ کے رہ گئی تھی

جسے عمر بھر نہ بھولیں وہ لمحے مل جائیں 

مان لے مجھے تیرے قابل 

آج ضد کررہا ہے دل 

کرنا ہے بس تجھے حاصل 

آج ضد کررہا ہے دل 

ہو بھی جا مجھ میں تو شامل 

آج ضد کررہا ہے دل

دائم یہ گانا مشال کے کان میں گنگنا رہا تھا ہولے ہولے سے 

جب مشال کی برداشت کی حد ختم ہوئی تو وہ دائم کو دھکا دیتی باہر کی جانب بھاگی تھی ۔

دائم خوبصورتی سے ہنس دیا اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا ۔

باہر مشال نے آکے گہری سانس لی تھی 

دل کی ڈھڑکن اتنی تیز تھی کہ جیسے نکل کے ابھی باہر آجاۓ گا 

دو آنسو اسکی پلکوں سے گرے تھے ۔

اتنے میں زوار مشال کو 

ڈھونڈھتا ہوا باہر آیا 

مشی ؟

کیا ہوا تم ٹھیک ہو ؟

ایسے اچانک سے کیوں آگئی 

اس نے فکرمندی سے پوچھا 

زوار میری طبیعت خراب ہورہی ہے پلیز گھر چلیں 

اوکے اوکے ماۓ بیوٹی 

ریلکیس 

دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے 

زوار نے جھک کے مشال کا سیٹ بیلٹ بند کیا تھا 

اور گاڑی سٹارٹ کی تھی 

پیچھے سے دائم نے اپنی مٹھیاں بینچ لیں تھیں 

" لگتا ہے تجھے اپنی زندگی پیاری نہیں ہے زوار ملک اعوان 

ملنا پڑے گا تم سے جلد ہی " 

کہتے ہوۓ ایک عجیب سی مسکان اسکے لبوں پہ آئی تھی ۔

زوار نے مشال کو گھر ڈراپ کیا تھا وہ اندر جارہی تھی کہ زوار نے مشال کا ہاتھ تھاما اور بولا 

" ماۓ بیوٹی تمھیں کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میڈیسن لےکے آرام سے سوجانا اوکے  " زوار نے مشال کا چہرہ تھپتھپایا 

ہممم اوکے تم اپ سیٹ نہ ہو آئی ول بی فائن 

مشال نے کہا 

اور  اندر کی جانب چل دی 

زوار بھی مسکرایا اور وہاں سے نکل گیا 

ابھی زوار جاہی رہا تھا کہ اچانک اسکی کار خراب ہوگئی وہ باہر نکلا تاکہ چیک کرسکے کہ کیا مسلہ ہوا ہے سڑک کافی سنسان تھی کوئی بھی ذی و روح کا نشان نہیں تھا اصل میں کار کا ٹائر پنچر ہوگیا تھا اور ٹھیک بھی صرف میکینک ہی کرسکتا تھا اسکے موبائل کی بیڑی بھی ختم ہوچکی تھی سو اس نے پیدل  چلنے کا سوچا ابھی وہ تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ اسے راستے میں ایک شخص کھڑا نظر آیا 

وہ شخص اسے کافی پراسرار لگا کیوں کے اس نے فل بلیک کلر کے کپڑوں کے ساتھ ایک بلیک کلر کا ہوڈ پہن ہوا تھا چہرے پہ بھی بلیک کلر کا ماسک تھا واحد اس شخص کی آنکھیں نظر آرہی تھیں وہی گہری نیلی آنکھیں جس سے سبکو ایک خوف سا محسوس ہوتا تھا 

زوار کو بھی ہوا تھا بلکہ وہ اسے کافی عجیب بھی لگا کہ اتنی رات گئے وہ یہاں کیا کررہا ہے خیر زوار کو مدد لینی تھی سو اس نے بولنا شروع کیا  اسلام و علیکم بھائی ایکچولی میری کار خراب ہوگئی ہے اور میرے موبائل کی بیڑی بھی ڈیڈ ہے مجھےایک امپورٹنٹ کال کرنی تھا آپکا موبائل مل سکتا ہے ہیلو آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے اسکے یہ بولنے کی دیر تھی کہ ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے گال پہ رسید ہوا تھا وہ بامشکل اٹھ رہا تھا ساتھ میں بے حد حیران بھی کہ اچانک  دو مکے اسکے ناک پہ پڑے ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا تھا م ممم مجھے کیوں مار رہے ہو تم میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا  

تم نے کیا کیا ہے یہ پوچھو کیا نہیں کیا تم نے میری محبت کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی ہے میری مشال کو  

مشال کون ہو تم کیا تعلق ہے تمہارا اس سے میری ہونے والی منگیتر ۔۔۔

یہ بولنے ہی لگا تھا کہ اس نے اسکی گردن دبوچ لی تھی خبردار جو اپنی گندی زبان سے میری مشال کا نام لیا تو 

وہ تمہاری نہیں  ہے تم جو کوئی بھی ہو تم نہیں جانتے تم نے کس پہ ہاتھ اٹھایا ہے زوار ملک اعوان نام ہے میرا میں تمہاری ہو حالت کرواؤں گا کہ تم ساری زندگی یاد رکھو گے 

تو نے جو کرنا ہے تو کرلے مگر یہ یاد رکھنا کہ مشال صرف اور صرف میری ہے یعنی دائم دُرانی کی۔ اس سے اب صرف مجھے موت ہی الگ کرسکتی ہے اور جہاں تک رہی مجھے مارنے کی بات تو پہلے خود کو تو بچا لے مجھ سے یہ کہہ کر اسنے زوار کے سر پہ اتنے زور سے وار کیا کہ اسکو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا دائم نے زوار کا گریبان پکڑا اور اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا 

آج ہوسپٹل جانے کی مہلت دے رہا ہوں آئندہ کے بعد وہ بھی نہیں ملے گی 

کہہ کر جھٹکے سے اس  چھوڑا اور وہاں سے نکل گیا 

زوار سڑک کے درمیان ہوش و حواس سے بیگانہ پڑا تھا 

کچھ دیر کے بعد زوار کے ارگرد بہت سے لوگ جمع تھے جس میں سے کچھ نیوز اینکر اور صحافی بھی موجود تھے خیر کسی طرح زوار کو ہوسپٹل پہنچایا گیا تھا 

" آپ کو آگاہ کرتے ہیں آج کی اہم ترین خبر سے شہر کے نامور بزنس مین زوار ملک اعوان پہ کل رات جان لیوا حملہ ہوا ہے فلحال انکی جان خطرے میں ہے عوام سے دعاؤں کی اپیل ہے " 

مشال کے کانوں میں جب یہ خبر پڑی تو وہ بھاگتے ہو ۓ ہاسپٹل پہنچی تھی 

آنسو جاری تھے وہ بار بار زوار کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی 

زوار کا آپریشن جاری تھا کیوں کے سر پہ چوٹ کافی گہری تھی جس سے یا تو کومہ میں جانے کا یا میموری لوس کا خدشہ تھا 

کچھ دیر میں ڈاکٹر باہر آیا تھا 

کیا ہوا ڈاکٹر زوار کیسا ہے اب ٹھیک ہے؟ 

مشال نے فکرمندی سے پوچھا 

جی آپریشن کامیاب رہا  پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے کچھ دیر میں روم میں شفٹ کردیا جاۓ گا 

او تھینک گاڈ ناؤ ہی از فائن 

مشال نے کہا تھا ۔

دائم نے جب نیوز سنی تو ہنس دیا تھا 

تم نے میری روح کو مجھ سے جدا کرنے کی کوشش کی تھی زوار ملک اعوان تو ایک غیرت مند مرد یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ کوئی اسکی بہت ہی جلد ہونے والی بیوی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے 

کہتے ہوۓ دائم کے چہرے پہ ایک انتہائی خوبصورت مگر انتہائی خطرناک مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔ 

زوار کو ہوش آچکا تھا ۔

اب کیسے فیل کررہے ہو ؟

مشال نے پوچھا 

زوار مسکرایا اور بولا 

تمھیں دیکھنے کے بعد بالکل ٹھیک ہوں

مشال نے بےساختہ پلکیں گرائیں تھیں 

تمھیں کس نے مارا ؟

مشال نے پوچھا

چند لمحے وہ مشال کے خوبصورت چہرے کی جانب دیکھتا رہا پھر گویا ہوا 

پتہ نہیں ہوگا کوئی بزنس میں دشمن یا ڈیڈ سے کسی کا پنگا ہوگا بہرحال تم فکر مت کرو میں اب ٹھیک ہوں 

زوار مسکرا کے بولا 

تو مشال بھی مسکرادی تھی 

ماہ نور کو کچھ دنوں سے وٹس ایپ پہ کسی unknown 

انجان نمبر سے میسیجز آرہے تھے 

ابھی بھی وہ مشال کا کال کرکے زوار کی خیریت دریافت کرنے لگی تھی کہ اچانک میسیج آیا 

میرے سینے سے لگ کے سن وہ ڈھڑکن 

جو ہر پل تیرے ملنے کا ورد کرتی ہے ۔۔۔

مشال نے جب یہ میسیج دیکھا تو شرم سے سرخ ہوگئی اور سوچنے لگی کہ اتنا بےباک انداز کیسے ہوسکتا ہے 

مجھے نہیں پہچانا جانِ جاناں 

پھر میسیج آیا 

بکواس بند کرو گھٹیا انسان کون ہو تم اور میرا نمبر کہاں سے ملا تمھیں 

انسان ہوں اور آپکا نمبر آپکی فیس بک آئی ڈی سے ملا ہے جناب 

ریپلائی آیا 

ہو کون تم 

اور کیا چاہتے ہو ؟

ماہ نور بولی 

آپکی توجہ 

جانِ جاناں 

گھٹیا انسان اگر ایک اور بار بھی کوئی واہیات بات کی نا تو سر توڑ دوں گی تمہارا 

وہ ہنس دیا تھا 

اسکی ہنسی کو ماہ نور کیسے بھول سکتی تھی زہر لگتی تھی اسے یہ ہنسی 

میر ارسلان بٹ 

تم ہو نہ یہ ؟

ماہ نور نے پوچھا 

بالکل جانِ جاناں 

آپکا غلام آپکا بندہ آپکی خدمت میں حاضر ہے 

دیکھو میر میں تمھیں عزت سے سمجھا رہی ہوں مجھ سے دور رہو ورنہ انجام بہت برا ہوگا 

اچھا کیا کروگی تم 

میں ڈیڈ کو بتادوں گی وہ تمھیں چھوڑیں گے نہیں 

ہا ہا ہا میر قہقہہ لگا کے ہنسا 

مطلب مجھے میرے ہونے والے سسر جی سے پٹواؤ گی 

کوئی بات نہیں تمہاری خاطر یہ بھی برداشت کرلوں گا 

جانِ میر 

یو بلڈی i will kill you 

ماہ نور نے کہا 

میر ہنسے جارہا تھا کہ یکدم وہ سنجیدہ ہوا 

ماہ نور 

گھمبیر آواز کے ساتھ بولا 

ماہ نور چپ ہوگئی تھی 

کل تم مجھ سے ملنے آؤگی 

پاگل سمجھا ہے کیا مجھے جو تم سے ملنے آؤگی میں 

سوچ لینا نہ آئی تو میں کیا کروں گا 

کیا کروگے 

تمھیں تمہارے گھر سے اٹھا کے لےجاؤں گا اور یہ مزاق نہیں ہے ماہ نور

ماہ نور کی آنکھیں پھیل گئیں تھیں 

سوچ لو ویسے بھی تمہارے گھر کا راستہ بھی پتہ ہے مجھے ۔۔

ماہ نور نے بنا جواب دیئے فون بند کردیا تھا ۔

اگر سچ میں اس لوفر کو پتہ ہوا تو یہ کیا کرے گا سوچ کے ماہ نور ڈر سی گئی تھی ۔

میر یار 

ہممم تو جس آفس میں جاب کرتا ہے وہاں مجھے بھی کرنی ہے 

میر کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا 

کیا تو اور جاب ؟ 

ہاں کیوں نہیں 

تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ؟

ہاں یار مجھے کیا ہونا ہے 

جاب کیوں کرنی ہے تجھے 

مشال کے لیے

کیوں 

جب شادی کروں گا اس سے تو اسکے خرچے گھر کے خرچے دادی کی میڈیسن وغیرہ وغیرہ کیسے ہوگا یہ سب

اچھا اب تک یہ آئیڈیا کیوں نہیں آیا تجھے 

اور اتنا یقین کیسے ہے تجھے کہ مشال سے ہی تیری شادی ہوگی 

تو مجھے اچھے طریقے سے جانتا ہے جو کام میں کرنے کا سوچ لو تو اسکو کرکے ہی دم لیتا ہوں اور رہی بات آئیڈیا

یار اب آگیا نہ تو بتا تو بات کرے گا کے نہیں 

اوکے بڈی میں کروں گا بات امید ہے کہ کام ہوجاۓ گا 

ویسے بھی ماشا اللہ تو بہت Talented ہے 

میر مسکرا کے بولا تھا جس پہ دائم بھی مسکرا دیا تھا 

رات کو مشال سونے کے لیے اپنے کمرے میں آئی تھی کپڑے چینج کرنے کے بعد وہ سونے ہی لگی تھی کہ اسکے کمرے کی لائیٹ اچانک آف ہوئی تھی وہ ابھی موبائل کی ٹارچ آن کرنے ہی لگی تھی کہ  کسی نے پکڑ کے دیوار کے ساتھ لگایا اور بولا

لٹل فیری 

مشال اپنی جگہ کانپ کے رہ گئی 

ک ک ک کک کون 

نہیں پہچانا مجھے 

دائم 

افففف 

کتنی پیاری ہو تم اور تمہارے منہ سے میرا نام کتنا خوبصورت لگتا ہے ماۓ لٹل فیری 

اس نے اپنا انگوٹھا مشال کی سرخ و سفید گردن پہ پھیرا 

مشال کے جسم میں کرنٹ سا دوڑا تھا 

آآ آآ آپ پلیز میرے پاس مت آیا کریں 

مشال نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا 

اسکے کہنے کی دیر تھی کہ دائم نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اپنے ساتھ لگایا تھا 

مشال کی حالت غیر ہوئی تھی 

آج بول دیا ہے جانِ جاں آئندہ کے بعد ایسا کچھ بولا نہ تو تم مجھے اچھے سے سمجھ چکی ہو اتنا تو اندازہ ہوگا ہی تمھیں 

مشال لرز کے رہ گئی تھی 

اسکی گرم سانسیں وہ باآسانی اپنے چہرے پہ محسوس کرسکتا تھا 

مشال کو چند لمحے یونہی دیکھنے کے بعد وہ بولا 

ماۓ لٹل فیری میرا جب دل چاہے گا تمہارے قریب آؤں گا جس طریقے سے چاہے اسی طریقے سے آؤں گا تم مجھے خود سے نہ الگ کرسکتی ہو نہ مجھ سے دُور جاسکتی ہو اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا نہ تو قسم اس پاک ذات کی تمہاری سوچ سے بھی بڑھ کے برا کروں گا ایک بات یاد رکھنا دائم دُرانی سے تم کہیں نہیں چھپ سکتی میں تمھیں کہیں سے بھی ڈھونڈ لاؤں گا کیوں کے تم پہ صرف اور صرف میرا حق ہے 

تمہاری ہر ایک سانس صرف مجھ سے جڑی ہے تم مجھ سے شروع ہو کے مجھ پہ ختم ہوتی ہو 

دائم کی شدت اسکی دیوانگی اسکی جنونیت دیکھ کے مشال حیران رہ گئی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے لیے کوئی اتنا شدت پسند بھی ہوسکتا ہے اس نے ایسا کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔

مشال نے جب مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو دائم نے اس پہ گرفت مزید مضبوط کی تھی مشال نے ڈر کے آنکھیں بند کرلی دائم اسکی اس حرکت پہ مسکرا رہا ہے وہ جھکا اور باری باری اس نے اپنا لمس اسکی آنکھوں پہ چھوڑا 

مشال کی جان فنا ہوگئی تھی 

پھر دائم نے اسکی نوز پن پہ اپنے لب رکھے تھے 

مشال نے دائم کی شرٹ کو مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا 

دائم کی نظر اسکے گلابی ہونٹوں پہ تھی مگر پھر کچھ لحاظ کرتے ہوۓ اس نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور اگلے ہی لمحے اس خود میں بھینچ لیا پھر آہستہ سے چھوڑ کے ویسے ہی چلا گیا جیسے آیا تھا ۔

مشال کا تنفس بری طرح بگڑ چکا تھا وہ ایک ہی سانس میں پانی پی گئی تھی ۔

لیکن اسکو یہ سب فیل تب کیوں نہیں ہوتا تھا جب زوار اسکے پاس آتا تھا بےشک انکی شادی نہیں ہوئی مگر کئی دفعہ زوار نے بھی مشال کا ہاتھ پکڑا تھا تو اسے یہ سب کیوں محسوس نہیں ہوتا تھا جب دائم اسکے قریب آتا اسکی ڈھرکنے کیوں تیز ہوجاتی تھیں کیوں اسکا دل چیخ چیخ کے کہتا کہ ہاں یہی ہے آخر ماجرا کیا تھا ۔

دائم کی شدتوں نے اسکے دیوانے پن نے اسکی جنونیت نے مشال کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیا تھا ۔

صبح ماہ نور کو کالج جانا تھا دراصل اسکی کچھ فرینڈز نے ایک چھوٹا سا گیٹ ٹو گیڈر رکھا تھا مشال نہیں جانا چاہتی تھی وہ رات والے قصے کو بھولا نہیں پا رہی تھی مگر ماہ نور اور اسکی باقی فرینڈز کی ضد پہ اسکو جانا پڑا تھا ۔

ماہ نور اور مشال نے سیم ڈریسئنگ کی تھی دونوں نے 

برؤن کلر کے فراک پہن رکھے تھے ۔

مشال اپنی کار میں الگ سے آئی تھی جبکہ ماہ نور بھی الگ سے ہی آئی تھی 

ماہ نور کی کار راستے میں خراب ہوگئی تھی تو وہ ورکشاپ چلی گئی اتفاق سے میر بھی وہی سے گزر رہا تھا ماہ نور نے تو اسے نہیں دیکھا مگر اس نے ماہ نور کو دیکھ لیا مگر سامنے نہیں آیا تقربیاً پندرہ منٹ کے بعد ماہ نور کی کار ٹھیک ہوچکی تھی وہ بیٹھی اور کار کو زن سے اڑا لے گئی میر نے بائیک پہ ماہ نور کا پیچھا کیا تھا ۔

یار کہاں رہ گئی تھی تم ماہ نور کب سے ویٹ کررہی تھیں ہم تمہارا مشال اور باقی لڑکیاں بولیں 

سوری گائز ایکچولی کار خراب ہوگئی تھی سو اس لیے 

اوکے نو پرابلم اب جلدی چلو 

سب ایک ساتھ بولیں 

اوکے چلو ماہ نور مسکرا دی تھی ۔

او ہو یار کینڈلز ( موم بتاں)  تو اوپر ہی رہ گئی 

اچھا تم لوگ ویٹ کرو میں لے کے آتی ہوں کہہ کے اپنا فراک سنبھالتی ماہ نور اوپر کی جانب بڑھ گئی 

کالج میں فرسٹ فلور پہ کوئی نہیں تھا سب کلاس رومز خالی تھے کیوں کے سب کلاسز کے ایگزمس آل ریڈی ہوچکے تھے تو بس جو تھوڑے سٹوڈنٹس تھے وہ نیچے والے ہی پورشن میں تھے وہ ابھی کلاس میں داخل ہوئی ہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے روم کا لاک لگا دیا تھا اس نے گبھرا کے دیکھا تو میر کھڑا مسکرا رہا تھا 

تم گھٹیا انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی ایسا کرنے کی اور تم میرا پیچھا کررہے تھے ہے نا فالو کررہے تھے نا مجھے 

ہممم جانِ جاناں ٹھیک کہا ویسے بھی میں نے لاسٹ نائیٹ کیا بولا تھا کہ مجھ سے ملنے نہ آئی تو میں آجاؤں گا ۔

کہہ کر وہ آگے بڑھنے لگا 

ددددد ۔۔۔۔ دیکھو مجھ سے دور رہو تم پاس مت آنا میرے 

وہ پیچھے پیچھے ہوتی دیوار سے جاکے لگی 

اففف اللہ اسکو بھی ابھی ہی درمیان میں آنا تھا ماہ نور نے صدمے میں کہا 

میر نے دونوں ہاتھ ماہ نور کے ارگرد رکھ کے اسکی فرار ہونے کی راہیں مسدود کرتے ہوۓ اسکی خوبصورت بڑی 

برؤن آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔

ماہ نور کے دل نے رفتار پکڑی تھی 

بہت حسین لگ رہی ہو میری حسینہ 

میر نے خمار آلود لہجے میں کہا تھا 

ماہ نور اسکو خود پہ جھکتے دیکھ کے فورٌا اسکے حصار سے نکلی تھی کہ میر نے ماہ نور کا ڈوپٹہ اپنی گرفت میں لے لیا تھا 

ناچار اسکو پیچھے ہونا ہی پڑا 

ماہ نور کی کمر میر کے سینے سے لگی تھی

ماہ نور کا تنفس بری طرح بگڑا تھا 

میر نے اسکے لمبے کھلے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ سرگوشی کرنے لگا کہ اچانک اسکی نظر اسکی خوبصورت سفید گردن پہ پڑی تھی تو وہ بولنے لگا ۔

" میسر ہو اگر تیری گردن 

میں تجھ میں خون کا قطرہ نہ چھوڑوں  " 

میر کےاتنے بےباک انداز پہ وہ حیران ہی رہ گئی تھی 

کمینے انسان چھوڑو مجھے یہ واہیات باتیں جا کے اپنی بیوی سے کرو 

ماہ نور پھٹ پڑی تھی 

لو بھئ اپنی بیوی سے ہی تو کررہا ہوں 

او پلیز یہ باتیں کہیں اور جاکے کرو

وہ ایک دم سے سیدھی ہوئی تھی 

اور تم کیا سمجھتے ہو ہاں میں کوئی طوائف ہوں جو جب چاہو گے میرے قریب آؤ گے اچھی طرح جانتی ہوں میں تم جیسے مڈل کلاس لوگوں کو پیسہ دیکھا نہیں اور شروع ہوگئے 

میر اسکی باتیں خود پہ ضبط کیے سرخ چہرہ لیے سن رہا تھا 

ویسے بھی میں تم جیسے دو ٹکے کے لڑکوں کو اچھی طرح جانتی ہوں اپنی راتیں رنگین کرنے کے لیے ہر جگہ منہ مارتے ہو 

بس 

میر ڈھارا تھا 

ایک لفظ اور نہیں ماہ نور خان

میری محبت کو بہت گالیاں دے لیں تم نے 

ماہ نور ایک دم سہمی تھی 

اور کیا کہا تھا تم نے راتیں رنگین کرتا ہوں میں اپنی تو میری جان ابھی تک میں اپنی حد میں ہی ہوں پر اب نہیں رہوں گا 

یہ کہہ کر میر ماہ نور پہ جھکنے ہی والا تھا کہ ایک زناٹے دار تھپڑ پڑا تھا ماہ نور سے 

وہ سرخ چہرہ لیے اسکی جانب لہو ٹپکاتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا 

ایک دم وہ آگے بڑھا اور ماہ نور کی بازو کو پکڑ کے دبوچا 

" یہ جو تھپڑ تم نے مارا ہے نا ماہ نور خان مجھے اسکا پچھتاوا اب تمھیں عمر بھر رہے گا اب تمھیں میں بتاؤں گا کہ یہ مڈل کلاس 

میر ارسلان بٹ کیا کیا کرسکتا ہے  " 

سو بی ڑیڈی فار دا نیکسٹ موو  ...

So Be Ready For The Next Move ...

کہہ کر اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا 

ماہ نور کی آنکھیں میر کی دہشت سے پھیل گئیں تھیں ۔

ماہ نور اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کے ساتھ نیچے آئی تھی 

یار ماہ نور کہاں رہ گئی تھی 

مشال کوفت سے بولی

وووووووو وووو

کیا وووہ 

وووووہ 

نور جانی آر یو اوکے 

مشال نے اب فکرمندی سے پوچھا 

یس آئیم اوکے وہ بھاگتی بھاگتی نیچے آئی نہ اس لیے سانس پھول گئی میری 

ماہ نور نے بامشکل مسکراتے ہوۓ کہا 

اور ہاں یہ لو کینڈلز 

مشال باقی لڑکیوں کی جانب متوجہ ہوگئی 

ماہ نور کو سچ میں میر سے خوف آنے لگا تھا 

میر واپس گھر آیا تھا اسکا غصہ کسی طرح بھی کنڑول نہیں ہورہا تھا 

اس نے غصہ میں پرفیومز کی بوتلز اور مرر کو توڑ پھر بھی غصہ تھا کہ کم ہونا کا نام ہی نہیں لے رہا تھا 

" یہ تم نے اچھا نہیں کیا ماہ نور میری پاک محبت کو اپنے پاؤں تلے روند کے مجھ پہ اتنا گھٹیا الزام لگایا 

جتنی شدت سے محبت کی تھی نہ میں نے اس سے کئی زیادہ شدت سے نفرت کروں گا انشا اللہ 

جتنی اذیت میں نے سہی ہے نہ اس سے دوگنی اذیت دوں گا تمھیں 

جس شدت سے میں نے تم سے محبت کی ہے اس سے کئی زیادہ شدت سے نفرت کروں گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے 

میر گرنے کے سے انداز میں بیڈ پہ لیٹا ایک آنسو اسکی آنکھ سے نکل کے اسکے بالوں میں جزب ہوگیا تھا ۔

ماہ نور اپنے روم میں آئی تھی لنچ کرکے کے اچانک روحان اسکے کالج فرینڈ کم بھائی زیادہ اسکی کال آئی تھی 

اسلام و علیکم 

نور کیسی ہو ؟

الحمد اللہ 

آپ بتاؤ 

میں بھی ٹھیک ہوں 

الحمد الله 

کہاں ہوتی ہو آجکل نظر ہی نہیں آتی 

بس باہر نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا 

اچھا مشی کیسی ہے

ہاں ٹھیک ہے وہ بھی 

اچھا نور ایک کام تھا تم سے 

ایکچولی کل روحا روحان کی منگتیر کی بڑتھڈے ہے میں اسکے لیے کوئی گفٹ لینا چاہتا ہوں لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ کونسا لوں تم ہیلپ کروگی میری 

ہاں کیوں نہیں آفڑ آل میری بھابھی کی بڑتھڈے ہے 

ماہ نور مسکرا کے بولی 

اچھا اوکے

اب بھابھی آگے ہوگئی بھائی کو کوئی لفٹ ہی نہیں کرواتا

روحان نے پیار بھرہ شکوہ کیا 

ماہنور ہنس دی اور بولی 

مذاق کررہی تھی بھائی 

روحان مسکرایا اور بولا 

آج شام پانچ بجے تیار رہنا 

اوکے ڈن 

ماہ نور نے مسکرا کے کال ڈسکنٹ کی تھی 

دائم بہت خوش تھا 

دادی جان آپ سے ایک بات کرنی ہے 

ہاں ہاں میرا چاند بولو 

دراصل آپکے لیے بہو ڈھونڈ لی ہے میں نے 

اچھا نام بتا اسکا 

مشال شاہ 

ماشأاﷲ 

نام تو بہت خوبصورت ہے 

آئمہ بیگم مسکرا کے بولیں 

اچھا دادی 

ایک بات اور ہے 

کیا بات 

وہ دارصل مشال لوگ امیر ہیں بہت 

پر بیٹا تو تو جانتا ہے نہ کہ ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے 

مگر دادی پلیز میری خاطر پلیز

پہلے کبھی تیری کسی بات سے انکار کیا ہے کیا 

تھینک یو سو مچ دادی آئی لو یو

دائم نے آئمہ بیگم کے ہاتھ چوم لیے 

جبکہ وہ مسکرا دی تھیں 

ماہ نور مال میں روحان کے ساتھ ہنس ہنس کے باتیں رہی تھی اس بات سے بے خبر کے وہ کسی کی نظروں کے حصار میں ہے 

میر کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا

تھینک یو سو مچ نور 

روحان نے نور کے ہاتھ پکڑ لیے 

میر کا دل کیا جاکے اسکے دانت توڑ دے مگر فلحال یہ ممکن نہ تھا 

غصہ تو تب حد سے زیادہ بڑھا جب نور نے بھی اپنا ہاتھ روحان کے ہاتھ پہ رکھا تھا 

دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے اور گاڑی میر کی نظروں سے کچھ ہی پل میں اوجھل ہوگئی تھی ۔

دراصل نور کے موبائل کا Gps آن تھا اسی لیے میر کو اسکی لوکیشن کا پتہ چلا تھا اور وہ مال پہنچا تھا ۔

رات کو نور سونے کے لیے لیٹی تھی اسکو ابھی سوۓ ہوۓ آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ کوئی چپ چاپ کھڑکی سے اسکے کمرے میں داخل ہوا 

چاند کی روشنی میں اسکی سرخ و سفید رنگت مزید نکھر گئی تھی بلاشبہ وہ کوئی حور ہی تھی اور اسکے ہونٹ کے نیچے والا تل واللہ

جان لیوا ثابت ہوا تھا میر کے لیے بے ساختہ اس نے آگے بڑھ کے اسکے تل کو چھوا تھا وہ نیند میں کسمسائی تھی کہ اچانک میر کے چہرے کے تاثرات سخت ہوۓ اس نے ایک جھٹکے سے بازو سے پکڑ کے نور کو اپنے سامنے کھڑا کیا 

وہ ہربڑا کے اٹھ بیٹھی مگر سامنے اندھیرا تھا اور ایسے میں اسکے کمرے میں یہ کون شخص گھس آیا تھا 

کککککک کون ہو تم 

نور نے پوچھا 

مگر جواب نہ ملا 

جواب نہ ملنے پہ وہ سائیڈ لیمپ آن کرنے لگی تھی کہ اچانک میر نے اسے بازو سے پکڑ کے دیوار کے ساتھ لگا دیا 

اور خود لیمپ آن کیا 

تت تت تم تم یہاں کیا کررہے ہو ؟

مال میں اس لڑکے کے ساتھ کیوں ہنس ہنس کے باتیں کررہی تھی 

کیا لگتا ہے وہ تمہارا ؟

کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے 

میر نے سخت لہجے میں پوچھا 

وہ میرا جو کوئی بھی لگتا ہو تمھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے 

ماہ نور بے خوف ہوکے بولی اب کی بار 

میر نے دونوں بازو نور کے ارگرد رکھے اور تھوڑا جھک کے بولا 

مجھے فرق پڑتا ہے بہت فرق پڑتا ہے اور آئندہ کے بعد مجھے تم اسکے ساتھ نظر مت آؤ 

نامحرم ہے وہ تمہارے لیے

گوٹ ماۓ پوائنٹ 

Got My Point!

کہہ کر جانے ہی لگا تھا کہ ماہ نور بولی 

تو تم کونسے میرے محرم ہو 

میر نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا اور پھر اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اسے خود سے قریب کیا 

وہ اس اچانک سی افتاد کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے سیدھی اسکے سینے سے آلگی 

چلو تمہاری یہ خواہش بھی جلد ہی پوری کرتے ہیں مگر ایک بات یاد رکھنا کہ مجھے میری چیز خواہ پھر وہ کوئی چیز ہو یا کوئی جیتا جاگتا انسان شراکت پسند نہیں 

یہ کہتے ہوۓ اس نے اسکے ہونٹوں پہ لگے لپ گلوس کو بےدردی سے رگڑا تھا 

اور الٹے قدموں واپس پلٹ گیا تھا 

ماہ نور کی آنکھوں سے بے شمار اشکوں کی برسات ہونے لگی تھی 

یا اللہ کس مشکل میں ڈال دیا ہے مجھے 

خود سے کہتے ہوۓ روتے ہوۓ وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی تھی ۔

اگلی صبح جب دائم کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ کافی لیٹ اٹھا تھا 

کیمرے میں چیک کیا تو مشال کہیں دیکھائی نہ دی تھی وہ سوچ میں پڑگیا کہ کہاں جاسکتی ہے اس ٹائم دن کے بارہ بج رہے تھے آج کا دن دائم کے لیے بہت امپورٹنٹ تھا کیوں آج اس نے اور اسکی دادی نے مشال کے لیے اسکا پرپوزل لیکے جانا تھا سو وہ شاور لینے چلا گیا تھا ۔

دراصل ماہ نور اور مشال کی ایک فرینڈ کی بہن کا آج ریسپشن تھا تو وہ دونوں وہ اٹینڈ کرنے گئیں تھیں ۔

دائم اور اسکی دادی دونوں شاہ مینشن پہنچ چکے تھے گاڈ نے انھیں باہر ہی روک لیا اور اندر پوچھنے گیا 

صاحب 

وہ کچھ لوگ آۓ ہیں باہر 

مشال بی بی کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتے ہیں 

اچھا تم انکو ڈرائینگ روم میں بیٹھاؤ 

آتا ہوں میں 

عفان شاہ نے کہا 

جی بہتر صاحب 

دونوں اندر ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے 

اسلام و علیکم 

انکل 

دائم نے کہا 

وعلیکم اسلام 

اسلام و علیکم 

بھائی صاحب 

وعلیکم اسلام 

جی آپ لوگوں کو کوئی بات کرنی تھی مشال کے بارے میں 

جی بھائی صاحب یہ دائم ہے میرا پوتا یہ آپکی بھتیجی مشال کو پسند کرتا ہے اس سے شادی کا خواہشمند ہے 

کیا 

ہوش میں تو ہیں آپ یہ کیا بکواس کررہی ہیں 

آپ اپنے پوتے کو دیکھیں اور پھر میری بھتجی کو دیکھیں 

ہماری حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے 

اور تم دو ٹکے کے لڑکے اپنی اوقات بھول گئے تھے کیا جو عفان شاہ کی پوتی سے شادی کے خواہشمند تھے 

دائم خود پہ ضبط کیے سب سن رہا تھا 

جب کی آئمہ بیگم کو اپنی اس قدر بےعزتی دیکھ کے انکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے 

کتنے ارمان تھے انکے اپنے پوتے کی شادی کولے کر 

مشال کہاں ہے مجھے بات کرنی ہے اس سے 

وہ تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی اور اس نے مجھے پہلے ہی سب کچھ بتا دیا کہ تم کیسے اسکے پیچھے پڑے تھے مگر اس نے یہ ہی کہا ہے کہ وہ زوار سے پیار کرتی ہے اور اس سے ہی شادی کرے گی 

اور تم بڑھیا اپنے اس دوٹکے کے پوتے کو لےکے نکل جاؤ یہاں سے ورنہ دھکے مار کے نکلواؤں گا تم دونوں کو 

یہ کہہ کے اس نے آئمہ بیگم کو پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا وہ پچھے کی جانب جاگری تھیں 

دادی 

دائم چلایا تھا 

خون کی ایک لکیر انکے سر سے نکل رہی تھی 

دائم نے لہو ٹپکاتی آنکھوں سے عفان شاہ کو دیکھا ایک لمحے کے لیے وہ بھی اس سے خوفزدہ ہوگئے تھے 

اس نے اپنی دادی کو اٹھایا اور باہر نکل گیا 

ہاسپٹل میں چل چل کے اسکے پاؤں شل ہوگئے تھے عفان شاہ سے اسے نفرت محسوس ہورہی تھی 

اتنے میں ایک نرس باہر آئی اور بولی 

مسٹر دائم آپکی پیشنٹ کی حالت خطرے میں ہے وہ آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں 

دائم اندر کی جانب بھاگا تھا 

دادی پلیز آنکھیں بند مت کرنا آپکا دائم آپکے پاس میں آپکے بنا نہیں رہ سکتا پلیز دادی 

دائم میرے بچے میرا آخری وقت آگیا ہے مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھے معاف کردینا یہ لڑائی تمہاری ہے اسے تمھیں اکیلے ہی لڑنا ہے وعدہ کرو کہ تم کبھی ہمت نہیں ہارو گے کبھی کمزور نہیں پڑو گے وعدہ کرو 

آئمہ بیگم کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں 

میں وعدہ کرتا ہوں دادی پر پلیز مجھے چھوڑ کے مت جائیں آپ کے علاوہ میرا کوئی بھی نہیں ہے اس دنیا میں پلیز دادی 

دائم کہہ ہی رہا تھا کہ 

آئمہ بیگم کی روح پرواز کرچکی تھی 

دادی ؟

دادی ؟

دادی ؟

کچھ بول کیوں نہیں رہی آپ جواب دیں نا 

دادی 

پلیز ایسا مت کریں 

ڈاکٹر ڈاکٹر 

دائم چیخا تھا 

دیکھیے نا ڈاکٹر دادی 

میری باتوں کا جواب کیوں نہیں دے رہیں 

سوری مسڑ دائم بٹ شی از نو مور 

Sorry Mr Daim But She Is No More 

دائم کرسی پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا 

اور آئمہ بیگم کو گلے سے لگا کے چیخا تھا 

دادی 

پورا ہاسپٹل دائم دُرانی کی چیخوں سے لرز اٹھا تھا 

مشال شاہ 

دائم چییخا تھا 

یہ اچھا نہیں کیا تم نے میرے اندر کی شیطان کو جگا کے بہت بڑی غلطی کردی تم لوگوں نے 

نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا 

آنکھوں سے آنسو مسلسل جاری تھے 

وہ روتے ہوۓ ایک معصوم بچہ لگ رہا تھا جو کہیں کھو جاتا ہے اور اسے واپس لوٹنے کا راستہ معلوم نہیں ہوتا اسکی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا خوف شدید خوف محسوس ہورہا تھا اس ٹائم اس سے 

" آج سے الٹی گنتی گننا شروع کردے عفان شاہ تجھے برباد نہ کردیا تو میرا نام دائم دُرانی نہیں تیری بھتجی کو تیری آنکھوں کے سامنے سے اٹھا کے لےجاؤں گا اور تو کچھ نہیں کرے پاۓ گا 

آج سے دائم دُرانی کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف تجھے برباد کرنا ہے 

ایک عزم سے کہتا ہوا دائم تدفين کا انتظام کرنے لگا ۔

جب میر کو پتہ چلا تو وہ بھاگتا ہوا دائم کے پاس پہنچا اسے بہت دلاسہ دیا جب دائم کی حالت سنبھلی تو اس نے خود اسے جانے کو کہا کیوں کے وہ کسی پہ بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا 

آئمہ بیگم کو گزرے ہوۓ ایک ہفتہ گزر چکا تھا دائم خود کو کافی حد تک نارمل کرچکا تھا 

مشال حیران بھی تھی اور خوش بھی کہ اس ایک ہفتے میں دائم نے اسے بالکل تنگ نہیں کیا تھا مگر اسے کیا پتہ تھا کہ یہ طوفان سے پہلے آنے والی خاموشی ہے ۔

عفان شاہ مشال کے کمرے میں داخل ہوۓ تھے 

ارے چاچو آپ کھڑے کیوں ہیں آئیں نا 

مشال مسکرا کے بولی

مشی بیٹا 

ایکچولی مجھے آپ اے کچھ بات کرنی تھی 

جی جی چاچو کہیں 

بیٹا وہ آپکی زمین ہے نا جو ہم سیل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے دراصل ایک پارٹی وہ زمین خریدنا چاہتی ہے 

ہممم

مشال سوچ میں پڑگئی تھی

کیا کام کرتے ہیں وہ ؟

مشال نے سوال کیا 

پراپرٹی ڈیلز ہیں 

اچھا 

اور قمیت کتنی دینی انھوں نے ؟

پندرہ کڑور 

ہمممم ٹھیک 

کیا خیال ہے پھر آپکا 

بیٹا میں کیا کہہ سکتا ہوں آپکی چیز ہے آپ خود فیصلہ کرو 

اوکے ڈن انکو کال کرکے یس بول دیں 

چلتے ہیں پھر کل 

اوکے بیٹا 

عفان شاہ کے چہرے پہ ایک شاطرانہ مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا جبکہ دائم انکی کل کی پلان کو دیکھتے ہوۓ اپنا پلان تیار کرنے لگا تھا اب بس اسے صبح کا انتظار تھا ...

صبح مشال اور عفان شاہ آفس گئے تھے واپسی پہ شام ہونے لگی تھی آسمان پہ کالے بادل چھانے لگے تھے

ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوچکی تھیں ڈیل ڈن ہوچکی تھی پورے پندرہ کڑور ہتھیا کے عفان شاہ کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ تھی مشال عفان شاہ کے آنے کا ویٹ کررہی تھی کار سے باہر نکل کے کیوں کے وہ اندر اپنے کسی سیکڑری کو ضروری ہدایات دے رہے تھے ۔مشال پلٹنے ہی لگی تھی کہ فورٌا سے کسی نے اسے کے چہرے پہ کلورفام لگا رومال اس کے چہرے پہ رکھا سیکنڈ میں وہ اسکی بانہوں میں جھول گئی تھی ۔مقابل کے چہرے پہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھیاسکی آنکھ کھلی تو سر بھاری بھاری سا ہورہا تھا چاروں طرف اندھیرا تھا کککککک کوئی ہے ؟مجھے کیوں لاۓ ہو یہاں 

میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے پلیز مجھے جانے دو وہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھی مگر شاید کوئی اسکی پکار سننے والا نہیں تھا جب وہ دروازہ بجا بجا کے تھک گئی تب وہ واپس مڑی اور وہی ایک کونے میں نیچے گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھ گئی وہ بے آواز روۓ جارہی تھی بارش باہر شروع ہوچکی تھی وہ ابھی بھی رونے میں مصروف تھی کے چند لمحوں بعد دروازہ کھلا تھا کوئی اندر آیا تھا لللل لکککک کون ؟مشال ڈر کے بولی وہ سخص قریب آتا جارہا تھا اور مشال کا دل رفتار پکڑتا جارہا تھا بالکل اسکے سامنے کھڑا تھا بلیک ہوڈ پہنے فل بلیک کلر کے ڈریس میں وہ کوئی سیاہ دنیا کا انسان لگ رہا تھا اس وقت مجھے نہیں پہچانا 

" ماۓ لٹل فیری " یہ الفاظ سن کے مشال جی جان سے لرز اٹھی تھی کیسی ہو  ؟کتنے دونوں بعد مل رہا ہوں نہ تم سے ایکچولی کہیں بزی تھا وہ دونوں ہاتھ دیوار پہ رکھتے ہوۓ بولا تھا مشال اب مکمل اسکے حصار میں تھی اچھا چلو مجھے تمھیں کچھ یاد کروانا تھا 

مشال نے بھیگی پلکوں سے اسکی جانب دیکھا تھا 

تمھیں یاد ہے کہ میں نے تمھیں چیلینج کا بولا تھا 

مشال کا دل تو ایک پل کو تو زور سے ڈھڑکا مگر اس نے ہاں میں سرہلایا ہمممم گڈ ۔۔۔تو چیلینج یہ ہے کہ تمھیں ابھی کچھ ہی ٹائم میں مجھ سے نکاح کرنا ہوگا ۔دائم نے پرسکون لہجے میں کہا جب کے مشال کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کک کیا نہیں کبھی نہیں میں ایسا بالکل نہیں کروں گی مشال روتے ہوۓ بولی نا نا نا ماۓ لٹل فیری میں  نے کہا تھا نہ کہ اگر چیلینج پورا نا کیا تو سزا ملے گی پتہ ہے سزا کیا ہوگی ؟سزا یہ ہوگی کہ تم سے تمہارے عزیز رشتے کو جدا کردوں گا تم اپنوں کی نا کبھی آواز سن پاؤ گی نہ انھیں دیکھ پاؤ گی مشال اب شدت سے رودی اور بولی پل پپ پلیز نہیں ایسا مت کرنا آپ تو سمپل تم ہاں کردوگی تو میں کچھ بھی نہیں کروں گا لٹل فیری مشال نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا اور پھر اسے دور ہونے ہی لگی تھی کیوں کے وہ بےدھیانی میں اسکے اتنے قریب تھی کہ باآسانی اسکے دل کی ڈھڑکن سن سکتی تھی ۔وہ دود جانے ہی لگی تھی کہ ایک جھٹکے سے دائم اسکو اپنے قریب کرتا ہوا گویا ہوا یہ کام کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ماۓ لٹل فیری سو نیکسٹ ٹائم بی کیئر فل So Next Time Be Careful ...ابھی کچھ ہی دیر میں تمھیں تیار کرنے کے لیے ایک بیوٹیشن آۓ گی چپ چاپ تیار ہوجانا سمجھ گئی ورنہ ورنہ کیا ؟۔مشال اب کی بار سب ڈر بھلا بے خوف ہوکے بولی دائم اپنی جیب سے گن نکال کے اسکے پیٹ پہ رکھتا ہوا بولا ورنہ یہ

مشال کی تو ڈر کے مارے جان ہی نکل گئی تھی سوچ نہیں سکتی تھی کہ وہ اس حد تک خطرناک ہوسکتا ہے 

اب بولو ہوجاؤ گی نا ڑیڈی آرام سے دائم نے اسکی خوبصورت چہرے کی جانب دیکھا مشال نے ہاں میں سرہلایا دائم تھوڑا قریب ہوا اور اسکی جان فنا کرتے ہوۓ سرگوشی کرنے لگا ۔آئی کانٹ ویٹ ٹو سی یو ایز ماۓ برائیڈ I Can't Wait to See you As My Bride ...مشال کی ڈھڑکنوں نے ادھم مچا دیا تھا

کہہ کر اس نے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا اور آہستہ سے باہر کی جانب بڑھ گیا مشال نے روتے ہوۓ بےدردی سے اپنا ماتھا رگڑا جدھر اسے دائم کا لمس محسوس ہوا تھا ۔پلیز مما پاپا مجھے اپنے پاس بلالیں مجھے زندہ نہیں رہنا کہتے ہوۓ وہ شدت سے رودی تھیجتنا تمھیں کہا ہے اتنا کرنا اسکو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے ورنہ یاد رکھنا کہ دائم دُرانی کسی پہ رحم نہیں کرتا یہ ہدایات وہ بیوٹیشن کو دے رہا تھا اور بیوٹیشن کی زبان بند ہوچکی تھی وہ خاموشی سے ساری باتیں سن رہی تھی اور سر ہلا رہی تھی ہاں میں بیوٹیشن روم میں آئی تو وہ آل ڑیڈی روم میں موجود تھی اسلام و علیکم میم وعلیکم اسلام آپکو ڑیڈی کرنا تھا مجھے نہیں ہونا میم پلیز اگر آپ نے بات نہ مانی سر آپکو تو کچھ نہیں کہیں گے مگر مجھے کہیں کا نہیں چھوڑیں گے وہ التجائیہ نظروں سے مشال کی جانب دیکھنے لگی اوکے مشال نے اس کی خاطر کڑوا گھونٹ پی لیا کیوں کے وہ بیچاری بےگناہ تھی آدھے گھنٹے میں وہ تیار ہوچکی تھی ڑیڈ بلد کلر اور گولڈن کلر کا خوبصورت لہنگا اسکے اوپر ڑیڈ ہی کلر کا ڈوپٹہ جس کو کئی پنوں سے سیٹ کیا گیا تھا جوڑے میں سے نکلتی ہوئی دو لٹیں ساتھ میں ڑیڈ بلد کر کی لپ اسٹک آنکھوں میں کاجل ستوں ناک میں نوز پن مسکارا آئی لائنر لگا تھا جب کے کانوں میں اور گلے میں گولڈن اور ڑیڈ کلر کا خوبصورت سا ہلکا سا سیٹ پہنا تھا ہاتھوں میں کانچ کی ریڈ کلر کی چوڑیاں بلاشبہ وہ حسن کا پیکر تھی بیوٹیشن نے جب اسے دیکھا تو بے ساختہ ماشأاﷲ کہا ماشأاﷲ میم اتنی خوبصورت لگ رہی ہیں کہ مجھ سے نظریں نہیں ہٹائی جارہی تو سر کا کیا حال ہوگا بیوٹیشن نے دل

میں سوچا مگر ساتھ ہی خود کو جھرک دیا ۔میں بھی پاگل ہوگئی ہوں کیسی باتیں کررہی ہوں ۔کچھ ہی پل میں وہ مشال شاہ سے مشال دائم دُرانی بن چکی تھی 

بیوٹیشن اسے دائم کے روم میں بیٹھا کے گئی تھی ۔

یہ ایک نارمل روم تھا نہ بہت خوبصورت نہ بہت برا 

وائٹ اور بلیک کلر کی دیواروں سے پینٹ کیا گیا تھا ۔

سامنے ہی ایک ڈبل بیڈ تھا اسکے دونوں طرف سائیڈ ٹیبل تھے معلوم ہوتا تھا آج ہی خریدے گئے ہیں سامنے ہی ایک درمیانہ سائز کا ڈریسنگ ٹیبل بھی تھا ۔لگتا ہے مونسٹر کو وائٹ اور بلیک کلر بہت پسند ہے ۔مشال خود سے مخاطب تھی وہ بیڈ پہ سمٹ کے بیٹھی تھی کہ اچانک دروازہ اوپن ہونے کی آواز آئی وہ اسکی جانب بڑھ رہا تھا یہی سوچ کے اسکی حالت غیر ہورہی تھی ۔وہ گھٹنوں میں سر دئیے رونے میں مصروف تھی جب اسکو اپنے بہت قریب سے اپنا نام پکارنے کی آواز سنائی دی ماۓ لٹل فیری مشال نے نظریں اٹھا کے دیکھا تو دائم حیران رہ گیا کوئی اتنا بھی حسین بھی ہوسکتا ہے آج اندازہ ہوا تھا اسے اوپر سے رونے پہ اسکی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں ستوں ناک بھی سرخ ہوچکی تھی رونے کی وجہ سے وہ اسے بہت معصوم لگی تھی اس نے جھٹکے سے کھینچ کے اپنے اوپر گرایا تھا مشال کی تو جان ہی نکلنے والی ہوگئی تھی وہ تڑپ رہی تھی اسکی بانہوں میں جب کے وہ سکون میں تھا اسکی پانہوں میں مممم ۔۔۔ مجھے جانے دیں پلیز مشال نے جھکی پلکوں سے بھرپور مزاحمت کرتے ہوۓ کہا دائم نے گرفت اور مضبوط کرکے اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپایا ششش!  خاموش بالکل خاموش مجھے تمھیں محسوس کرنے دو دائم نے خمار آلود لہجے میں کہادائم کی حرکتيں مشال کی جان لینے پہ تلی ہوئی تھیں نن نن نہیں پلیز جانے دیں مجھے گھر جانا ہے چاچو کے پاس زوار کے پاس پل میں دائم کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے اور اس نے جھٹکے سے مشال کو بیڈ پہ گرا کے خود اس پہ جھکا تھا اوراسکی دونوں بازو کو گرفت میں لیتے ہوۓ کہا تھا کیا کہا تم نے تمھیں اس زوار کے پاس جانا ہے اس دو ٹکے کےلڑکے کے پاس جو ٹھیک سے تمہاری حفاظت بھی نہیں کرسکتا ایک بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو تم لٹل فیری تم صرف اور صرف میری ہو تم پہ صرف اور صرف میرا حق ہے تمہارے معاملے میں میں بہت شدت پسند ہوں مجھے ایک انسان سے جانور بننے میں دیر نہیں لگتی تو بہتر ہے آئندہ کے بعد اسکا نام تمہاری زبان پہ نا آۓ مشال حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی کیا تھا یہ کس قسم کی محبت کرتا تھا اس سے یہ بات تو مشال کو بھی سمجھ نہیں آتی تھی تمھیں نقصان پہنچانے تمہارے قریب آنے تمھیں چھونے تمھیں محسوس کرنے کا حق صرف اور صرف میرا ہے وہ اتنی زور سے ڈھارا کے مشال کو اپنے کان کے پردے پٹھتے ہوۓ محسوس ہوۓ چند لمحے وہ اسکی جانب دیکھتا رہا پھر نظر اسکی ہونٹوں پہ گئی جہاں ڑیڈ بلد کلر کی لپ اسٹک لگی تھی اس ٹائم دائم پہ جنون سوار تھا وہ نازک جان لڑکی کہاں اسکی شدتوں کو برداشت کرسکتی تھی 

وہ اسکے ہونٹوں پہ جھکا تھا  وہ مکمل طور پہ اسکے رحم و کرم پہ تھی وہ بیچاری اسکی گرفت میں پھڑپھڑا بھی نہ سکی آنسو نکل نکل کے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے وہ اس سے الگ ہوا اسکی پیاس ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن مشال کی اکھڑئی ہوئی سانسوں کو مدِنظر رکھتے اسے فلحال رکنا پڑا تھا یہ پیاس تو ساری زندگی نہیں ختم ہونی تھی شایدمشال کا چہرہ خون کی طرح سرخ ہوچکا تھا جسے دائم نے دلچسپی سے دیکھا سوجاؤ وہ اسے جھٹکے سے قریب کرتا ہوا اسکے ماتھے پہ لمس چھوڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور پھر کچھ یاد آنے پہ پلٹ کے اسکی جانب آیا 

یہاں سے بھاگنے کی کوشش مت کرنا میری جان کیوں کے تم دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤ مجھ سے کہیں دور نہیں جاسکتی ایک بھرپور مسکراہٹ اچھالتا ہوا وہ بولا مشال کو یہ مسکراہٹ زہر لگی تھی وہ تو واشروم میں چلا گیا لیکن مشال نے پیچھے سے وہاں موجود ہر چیز تہس نہس کردی تھی اور روتے ہوۓ بیڈ پہ لیٹ چکی تھی بنا کپڑے چینج کیے ۔آخر کہاں گئی وہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا وہ سونے کی چڑیا تھی وہ میرے لیے عفان شاہ ڈھارے وہاں موجود سب ہی نوکر اور انکے خاص سیکڑری کانپ اٹھے تھے سر مشال میم مل جائیں گی آپ کیوں اتنی فکر رہے ہیں 

کیوں کے ابھی بھی کچھ پراپرٹیز اسکے نام ہیں سر آپ ٹنشین نہ لیں مل جائیں گی میں نے پولیس میں ایف ۔ آئی ۔آر کٹوائی ہے مل جائیں گی ویسا بھی کہاں جانا ہے انھوں نے آپ سے بچ کے سیکڑری جمال نے چہرے پہ ایک مکرو مسکراہٹ لیے ہوۓ کہا جس پہ عفان شاہ مسکرا اٹھے اور بولے ہاں مجھ سے بچ کے کہی نہیں جاسکتی وہ مشی بیٹا کہاں ہو تم آئی آئیم مسئنگ یو 

I'M Missing You کہہ کر عفان شاہ کے ساتھ ساتھ جمال کا قہقہہ بھی بلند ہوا تھا وہ شاور لےکے نکلا تو دیکھا وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ سورہی تھی ابھی بھی جیولری پہن رکھی تھی وہ آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ سے تمام زیورات کو اسکے جسم سے الگ کرکے اسکا سر آرام سے تکیے پہ رکھ کے اس کے اوپر کمفڑ ڈال دیا اور خود بھی اسکے ساتھ آکر لیٹ گیا تھا اور اسکی کمر کو اپنی جانب کھینچ کے آنکھیں موند گیا تھا .ماہ نور کو جب سے پتہ چلا تھا کہ مشال کڈنیپ ہوچکی ہے تب سے اس نے رو رو کے اپنا برا حال کرلیا تھا اسکی ماما عائشہ خان اور اسکے پاپا واجد خان نے اسکو بہت سمجھایا تھا دلاسہ دیا تھا کہ مشال مل جاۓ گی پولیس اپنا کام کررہی ہے مگر اسے مشال کے بنا سکون نہیں آرہا تھا ۔وہ گاڑی لے کے نکلی تھی اور اپنی اور مشال کی پسندیدہ جگہ بیٹھی مشال کو مس کررہی تھی اور اشک بھی بہا رہی تھی یار مشی کہاں ہو واپس آجاؤ تمہارے بنا دل نہیں لگ رہا میرا کافی دیر وہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ واپسی کے لیےنکلی تھی 

ابھی تھوڑی ہی دور وہ گئی تھی کہ اچانک اسکی کار ایک بائیک سے ٹکرائی ماہ نور کا موڈ پہلے ہی خراب تھا اور اب اففف کون ہے جسکو مرنے کی اتنی جلدی ہے حد ہوتی ہے یار کہہ کے باہر نکلی ہی تھی کہ قدم وہی رک گئے تم پھر سے ؟ماہ نور میر کو دیکھ کے چیلائی میرا پیچھا کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے تمہارا ماہ نور کوفت سے بولی ایسا ہی سمجھ لو 

میر نے ڈھیٹ بنتے ہوۓ جواب دیا وہ بات الگ تھی کہ وہ اپنے کسی کام سے باہر آیا تھا اور اب  واپس گھر جارہا تھا کہ اچانک ہی اسکی بائیک اسکی کار سے ٹکرائی تھی ۔دیکھو تم مجھ سے دور رہو سمجھ آئی ورنہ میں شور مچا دوں گی میر کے قدم آہستہ آہستہ ماہ نور کی جانب اٹھ رہے تھے اور ماہ نور کے قدم پیچھے کی جانب تو مچا دو میں نے کب روکا ہے 

میر اب اسکی حالت سے لطف اٹھانے لگا تھا ۔ابھی وہ دونوں باتیں کرہی رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہوچکی تھی دونوں بھیگ گئے دونوں روڈ پہ تھے فلحال کوئی لفٹ بھی نہیں مل رہی تھی اچانک میر نے ماہ نور کا ہاتھ پکڑ کے جانے لگا کہ وہ ہاتھ چھڑوانے لگی تھی چھوڑو گھٹیا انسان ذلیل انسان واہیات انسان مجھے جانے دو گندے آدمی یہ سب لقب وہ میر کو نواز رہی تھی کہ اچانک اس نے مڑ کے سرخ انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا تو ماہ نور خاموش ہوگئی اور اسکے ساتھ چل دی وہ اسے ایک جھونپڑی میں لے آیا میر یہ راستہ باخوبی جانتا تھا اس لیے وہ دونوں کافی بھیگ چکے تھے جب تک بارش نہیں رکتی یہی رکنا پڑے گا واٹ میں اور تمہارے ساتھ 

نو وے No Way!اچھا وہ کیوں مجھ میں کیا برائی ہے باقی سب مردوں سے تو بری فری ہو اور مجھ سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کیوں کے تم اسی قابل ہو ماہ نور نے میر کی بات کا جواب دیا جس پہ میر ضبط کیے رہا انکو یہاں کافی ٹائم ہوچکا تھا مگر  بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لےرہی تھی میر کی اچانک نظر ماہ نور پہ پڑی جو کے اب اپنے بالوں کو خشک کرنے میں مصروف تھی پرپل کلر کی فراک کے ساتھ وائٹ کلر کی کیپری اور وائٹ کلر کا ڈوپٹہ اوڑھ رکھا تھا وہ اسکو اتنی معصوم لگی تھی کہ اپنے جذبات پہ قابو رکھنا میر کے لیے مشکل ہوگیا تھا تب ہی وہ آگے بڑھا اور ایک ہی جھٹکے میں اسے کمر سے پکڑ کر کھینچا ماہ نور تو حیران سی اسے دیکھ رہی تھی جب کے میر اسے دیوانہ وار دیکھے جارہا تھا ماہ نور کی دل کی ڈھڑکن تیز ہوئی تھی میر اس پل بالکل بھول چکا تھا کہ وہ ماہ نور سے اب نفرت کرتا ہے ۔چچچ چھوڑو کیا کررہے ہو ؟ششش!  میر نے انگلی اسکے ہونٹوں پہ رکھ کے اسے خاموش کرایا اور اسکی شےرگ پہ اپنے ہونٹ رکھے تھے ماہ نور کانپ اٹھی تھی جب کے میر مدہوش سا تھا اسکی قربت میں ابھی وہ اسکو پیچھے ہی کرتی کہ اسکی نظر اسکے سرخ ہونٹوں پہ پڑی جو کپکپا رہے تھے وہ جھکنے ہی والا تھا کہ ماہ نور نے اپنے دونوں ہاتھ میر کے ہونٹوں پہ رکھ دئیے میر اسکی اس حرکت پہ مسکرا اٹھا تھا اور آہستہ سے اسے چھوڑ کے پیچھے ہوگیا جب کے ماہ نور کی سانسںوں کو نارمل ہونے میں کافی وقت لگا تھا جس وقت بارش رکی تھی اس ٹائم رات ہوچکی تھی مجبوراً دونوں کو رات یہی گزارنی پڑی تھی ماہ نور سو گئی تھی اسکے کچھ فاصلے پہ میر لیٹا تھا ماہ نور کو سردی لگ رہی تھی وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی اس لیے میر نے اپنی جیکٹ اتار کے ماہ نور پہ ڈال دی تھی اور آرام سے اس کے ماتھے پہ لمس چھوڑتا ہوا پیچھے ہٹ کے لیٹ گیا تھا ۔پتہ نہیں وہ تو اس سے نفرت کرتا تھا اب اتنا خیال کیوں کیا آج بھی اسکے دل میں اسکے لیے کوئی محبت تھی کوئی نرم گوشہ جنم لےرہا تھا اس سوال کا جواب تو اس کے اپنے پاس بھی نہیں تھا.صبح جب ماہ نور کی آنکھ کھلی تو اپنے پہ میر کی جیکٹ دیکھ کے حیران ہوئی تھی اس نے میر کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں ڈورائیں مگر وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا 

کیا ہوا مجھے ڈھونڈ رہی تھی ؟میر پیچھے سے آکے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا ماہ نور کا دل عجیب سے انداز میں ڈھرکنے لگا تھا نن نن نہیں تو وہ میں تو موسم انجواۓ کررہی تھی بس ماہ نور نے بہانہ گھڑا 

جس پہ میر کو ہنسی تو آئی لیکن کنڑول کرگیا اچھا یہ کو پانی پیاس لگی ہوگی تمھیں پانی پی لو وہ اسے پانی کو چھوٹی بوتل پکڑاتے ہوۓ بولا ماہ نور کو حیرانی ہوئی کہ میر اسکا خیال کیوں رکھ رہا ہے پھر سر جھٹک کے پانی پینے لگی مجھے گھر جانا ہے ویسے بھی بارش رک گئی ہے ماہ نور نے کہا آر یو شیور Are You Sure تم اکیلی چلی جاؤ گی یس آئیم yes i'm 

چلی جاؤ گی ماہ نور نے کہا اوکے ۔میر مسکرا کے بولا 

ماہ نور جانے لگی کہ ایک مرتبہ پھر میر اسکو اپنی جانب کھینچا شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ جاۓ 

ماہ نور گھبرا گئی تھی میر جھکا اور اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا ماہ نور پتھر کی ہوگئی تھی چند لمحے وہ یونہی اسے دیکھتا رہا کہ ماہ نور کو بامشکل بولنا پڑا مم مم میں جاؤں میر کو ماہ نور کی حالت پہ لطف آرہا تھا اوکے جاؤ کہنے کی دیر تھی کہ ماہ نور ایک سو بیس کی سپیڈ سے بھاگی تھی جبکہ میر سر جھٹک کے مسکرا دیا تھا ۔ماہ نور واپس آئی تو صبح کے نو بجے تھے جب عائشہ بیگم نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ رات بارش بہت تھی اس لیے اپنی ایک فرینڈ کے ساتھ رک گئی تھی عائشہ بیگم نے اسے شاور لےکے ناشتہ کے ٹیبل پہ آنے کا کہا تھا ۔صبح مشال کی آنکھ کھلی تو خود کو دائم کی بانہوں میں پایا یہ دیکھ کے اسکے چہرے پہ سختی در آئی تب ہی وہ جھٹکے سے دور ہوئی تھی جس پہ دائم کی آنکھ کھل گئی تھی 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی گھٹیا انسان میرے پاس آنے کی مشال پوری قوت سے چیخی مشال اب سب ڈر بھلاۓ اس سے مخاطب تھی دائم اٹھا اور اسکے سامنے جا کھڑا ہوا اور بولا شوہر ہوں تمہارا مجھے کسی کی اجازت کی قطعی ضرورت نہیں  ہونہہ کونسا زبردستی کا رشتہ ؟میں اس رشتے کو نہیں مانتی سمجھے تم 

ناؤ گیٹ لاسٹ فرام ہئیر Now Get Lost From Here ... کہہ کے جانے ہی لگی تھی مشال کہ دائم نے پکڑ کے دیوار کے ساتھ لگایا اور گہری نیلی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھنے لگا مشال نے نظریں اٹھا کے اسکی جانب دیکھا کہ منٹوں میں پلکیں گرائیں کیوں وہ چاہ کے بھی اسکی نیلی آنکھوں میں نہیں دیکھ پاتی تھی 

دونوں ہاتھ دیوار کے ارگرد رکھ کے وہ گویا آئندہ کے بعد مجھ سے تمیز سے پیش آنا دوسری بات مجھے تم نہیں آپ کہا کرو گوٹ اٹ Got it ...نہیں کروں گی کیا کروگے ہاں مارو گے مجھے اوکے مارو دائم نے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑا تھا لیکن اسکی گرفت ڈھیلی تھی ورنہ تمھیں اپنا بنانے میں مجھے زیادہ ٹائم نہیں لگے گا کہہ کر اس نے اسکی گردن پہ اپنے گرم ہونٹ رکھے تھے مشال کی ڑیڈھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دور گئی تھی ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور واشروم میں چلا گیا تھا فریش ہوکے نکلا تب تک وہ وہی اسی پوزیشن میں کھڑئی تھی لٹل فیری اسکے قریب آتے ہوۓ بولا جاکے شاور لو کبڈ میں تمہاری ضرورت کا سارا سامان موجود ہے تب تک میں ناشتہ بناتا ہوں 

ایک مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا وہ روم سے باہر نکل گیا تھا ۔مشال کبڈ کی جانب آئی تو واقعی ہی اسکی ضرورت کا سارا سامان وہاں موجود تھا 

اس مونسٹر کو کیسے سب پتہ وہ خود سے بڑبڑائی پھر وہ ایک آف وائٹ کلر کا فراک نکال کے چلی گئی 

پندرہ منٹ کے بعد وہ شاور لےکے نکلی تھی دائم اسے ناشتے کے لیے بلانے آیا تھا مگر وہ ٹھٹک کے رکا وہ سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی اوپر سے اسکے گیلے بال ناک میں نوزپن دائم کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا اسکو اپنی طرف آتا دیکھ کے وہ پیچھے ہونے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی تھی مگر اس سے پہلے ہی وہ اسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا وہ جانتی تھی کہ اسکے کیا ارادے ہیں اس لیے اس کے دونوں ہونٹوں پہ اپنے ہاتھ رکھے تھے دائم اسکی اس حرکت پہ مسکرا اٹھا تھا جس سے اسکا ڈمپل واضح ہوگیا تھا 

اففف اللہ اس کا ڈمپل کسی دن جان لےگا میری مشال نے دل ہی دل میں کہا مگر اگلے ہی لمحے بھاڑ میں جاۓ میری بلا سے مجھے اٹھا کے زبردستی نکاح کیا ہے میں اسکے لیے کبھی معاف نہیں کروں گی وہ خود سے کہتے ہوۓ عہد کرنے لگی تھی کہ دائم نے اسکے سامنے چٹکی بجائی کہاں کھو گئی ماۓ لٹل فیری آں ہاں کچھ نہیں مشال نے کہا اوکے چلو ناشتہ کرلو یہ کہہ کر اسکا ہاتھ پکڑ کے وہ اسے اپنے ساتھ باہر لےجانے لگا تھا ۔

نہیں انکل ایسا نہیں ہوسکتا مجھے مشال ابھی اپنی آنکھوں کے سامنے چاہیے بالکل سلامت 

زوار کو جب سے پتہ چلا تھا کہ مشال کـڈنیپ ہوچکی ہے اسکا غصہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا 

مجھے اپنے طریقے سے ہی اب مشال کا پتہ لگوانا ہوگا 

زوار کہہ کے جانے ہی لگا تھا کہ عفان شاہ کی آواز سن کے رک گیا 

زوار بیٹا پولیس اپنا کام کررہی ہے نا تھوڑا صبر کرو مشال مل جاۓ گی 

مگر انکل 

زوار بیٹا میں نے کہا نا آپ سے 

اوکے انکل 

زوار کو ناچار عفان شاہ کی بات ماننا پڑی تھی 

ماہ نور  بار بار اپنے ماتھے کو چھورہی تھی جہاں اسے ابھی تک میر کا لمس محسوس ہورہا تھا 

اسے عجیب سی بےچینی کا احساس ہورہا تھا 

میر اب اسے کوئی کال یا ٹیکسٹ کرکے تنگ نہیں کرتا تھا اسکو اس بات کی تسلی تھی لیکن وہ بار بار جاملتے تھے آخر کیا لکھا تھا ان دونوں کی قسمت میں 

اسکا علم تو صرف اس پاک ذات کو ہی تھا ۔

دائم مشال کو اپنے ساتھ باہر ٹیبل پہ لےکے آیا اور بیٹھایا 

کھاؤ 

دائم نے کہا 

مجھے بھوک نہیں ہے 

مشال نے جواب دیا 

کیوں نہیں ہے ؟

دائم اسکے لیے بڑید پہ بٹر لگاتا ہوا بولا

میری مرضی نہیں  ہے تو نہیں  ہے 

مشال سخت لہجے میں بولی

دائم نے اسے آبرو اچکا کے اسے دیکھا اور پھر تھوڑا آگے جھکا جب کے مشال وہاں سے اٹھنے کی تیاریوں میں تھی جبھی دائم نے اسکی کرسی کو اپنی طرف پکڑ کے کھینچا اور دونوں ہاتھ اسکے ارگرد رکھتے ہوۓ گویا ہوا

ہمممم مطلب کے مجھے خود اپنے طریقے سے کھلانا پڑے گا 

دائم نے معنی خیزی سے مشال کے ہونٹوں کو فوکس میں لیتے ہوۓ کہا 

آں ہاں نہیں نہیں مجھے تو بہت بھوک لگی ہے میں کھاتی ہوں 

مشال جھٹ سے بولی 

مشال نے بڑید کا پیس اٹھایا اور کھانے لگی 

دائم نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کنڑول کی 

وہ تب تک اسکے سامنے بیٹھا رہا جب تک اس نے پورا ناشتہ ختم نہیں کیا 

فینش مشال بامشکل مسکرا کے بولی 

گڈ گرل 

دائم نے ک

مسکرا کے کہا 

اور آگے بڑھ کے ہونٹ اسکے ماتھے پہ رکھے 

اور پھر گویا ہوا 

مجھ کچھ کام ہے 

تھوڑی دیر تک واپس آجاؤں گا 

بھاگنے کی کوشش مت کرنا لٹل فیری 

وہ کہتا ہوا تھوڑا قریب ہوا 

جب کے مشال دور ہوئی 

مسکرا دیا اور موبائل اور بائیک کی چابیاں اٹھا کے چلا گیا ۔

نہیں مجھے یہاں سے خود ہی نکلنا ہوگا مجھے خود ہی کچھ کرنے ہوگا 

بہت ہوگیا دائم دُرانی اب میں تمہارے چنگل سے آزاد ہوجاؤں گی 

لیکن کیسے ؟

وہ باہر آئی تو مین گیٹ باہر سے لاکڈ تھا 

مطلب دائم نے باہر سے گیٹ کو لاک کیا تھا 

کیا کروں ؟

کیسے نکلوں یہاں سے 

وہ سوچتے ہوۓ اندر کی جانب آئی تھی 

پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد وہ بولی 

"  ناٹ بیڈ " 

Not Bad!!!

مطلب کے مونسٹر کافی صفائی پسند ہے 

وہ بڑبڑائی تھی ۔

دائم یار جو بھی ہے تو نے زبردستی نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا 

میر بولا 

سیدھی طرح پرپوزل مانگا تھا نا اس عفان شاہ سے مگر اس نے کیا کیا مجھ سے میری دادی کو ہی چھین لیا اسکا خمیارہ تو اسے بھگتنا پڑے گا 

میر ؟

دائم بولا۔

ہاں میرا ساتھ دے گا نا ؟

یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے 

دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا 

کہ میر گویا ہوا 

ہممم

یار تو مشال بھابھی کو لےکے کچھ ٹائم کے لیے آوٹ آف سٹی 

Out Of City 

چلا جا کیوں کے تیرے پیچھے پورے شہر کی پولیس پڑی یے عفان شاہ کے بندے تجھے ڈھونڈ نکالیں گے 

بات تو ٹھیک ہے لیکن جاؤں کہاں ؟

کراچی چلاجا وہاں میرا دوست رہتا ہے اسکے اپنے فلیٹس ہیں کچھ دن وہاں سٹے کرلے ؟

میر نے بولا اور ہاں میرے ہوتے ہوۓ تجھے کسی بھی بات کی ٹنشین لینے کی ضرورت نہیں تیرا بھائی زندہ ہے اور تیرے پیچھے کھڑا ہے 

میر نے دائم کو دیکھتے ہوۓ کہا 

جب کے دائم نے ایک بار پھر اسے گلے سے لگا لیا تھا ۔

دائم کو رات کو آنے میں کافی ٹائم لگ گیا تھا ۔

اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ مشال وہاں سے بھاگ نکلی تھی 

دراصل مشال اور ماہ نور نے میڑک کے بعد کچھ کلاسز لی تھیں جس میں اگر کوئی ایسی سیچویشن کری ایٹ ہوجاتی ہے تو وہ کم از کم خود کا دفاع کرسکتی ہیں 

مشال نے گھر کا جائزہ لیا اسکو ایسا کچھ نہیں ملا جس سے وہ یہاں سے آزاد ہوسکے مگر اچانک ہی اسکو ایک دیوار نظر آئی دیوار  نہ ہی اتنی اونچی تھی نہ ہی چھوٹی مطلب وہ آسانی سے اسے پھلانگ سکتی تھی 

اور اس نے ہمت کرکے کرلیا تھا ۔

دائم کھانا باہر سے ہی لےآیا تھا ۔

لٹل فیری 

کہاں ہو یار ؟

دیکھو میں کھانا لے آیا ہوں یار آجاؤ مجھے بہت بھوک لگی ہے 

وہ کیچن میں سامان رکھ کے باہر آیا 

بیڈ روم میں دیکھا وہاں بھی نہیں تھی واشروم میں دیکھا تو وہاں بھی نہیں تھی 

دائم کے چہرے کے تاثرات سخت ہوۓ 

مشال 

وہ پوری قوت سے ڈھارا تھا 

اور ٹیبل پہ پڑے گلاس کو اٹھا کے پوری قوت سے زمین پہ دے مارا 

گلاس کرچی کرچی ہوچکا تھا 

نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا 

لال انگارہ ہوتی آنکھوں کے ساتھ وہ چیلایا 

تم مجھ چھوڑ کے کہیں نہیں جاسکتی مشال دائم دُرانی 

میں تمھیں دنیا کے آخری کونے میں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا 

کہہ کے پاس ہی پڑی چیر Chair 

کو ٹھوکر مار کے باہر نکل گیا تھا ۔

رات کے بارہ بجے وہ سنسان سڑک پہ اکیلی بھاگ رہی تھی 

 اُکھڑئی ہوئی سانسیں ننگے پاؤں اور خلق بالکل خشک تھا اسے بس کسی طرح اس کے چنگل سے نکلنا تھا اس شخص کے چینلج کو اکسیپٹ کرنا اسے بہت مہنگا پڑا تھا 

سڑکے کے بیچوں بیچ بھاگتے ہوۓ وہ بار بار پیچھے مڑکر دیکھ رہی تھی کہ کہیں وہ درندہ نما انسان پھر اسکا پیچھا نہ کررہا ہو وہ ابھی پیچھے دیکھتے ہوۓ بھاگ ہی رہی تھی کہ اسکے پاؤں میں کوئی نوکیلی چیز چبھ گئی وہ درد سے کراہ اٹھی وہی بیٹھ کر وہ اپنے پاؤں کا معائنہ کرنے لگی دیکھا تو ایک کانٹہ اسکے پاؤں میں چبھ گیا تھا جسکو وہ نکالنے ہی لگی تھی کہ اچانک اسکو محسوس ہوا کہ اسکے سر پہ کوئی کھڑا ہے اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑا تھا جس سے وہ مسلسل بھاگنے کی کوشش کررہی تھی خوف کے مارے اسکے منہ سے چیخ نکل گئی اسکی آنکھوں میں ایسا خوف تھا کہ جیسے وہ اسے فنا کرنے کے ارادے سے آیا ہو اسکی دل کی ڈھڑکن اتنی تیز تھی کہ مانو ابھی نکل کے باہر آجاۓ گا مگر اس شخص کے چہرے پہ بلا کا اطمينان اور پرسکون مسکراہٹ تھی 

وہ گھٹنوں کے بل نیچے جھکا 

سمجھایا تھا نہ تمھیں کہ بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے 

لٹل فیری 

پھر بھی خیر چلو کوئی بات نہیں ادھر لاؤ تمہارے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا ہے میں نکال دوں 

وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ اسنے اپنا پاؤں پیچھے کی جانب کرنے کی صرف کوشش ہی کی تھی کیونکہ اسنے اسکی بازو پہ اپنی گرفت اتنی شدید کردی تھی کہ ناچار اسے اپنا پاؤں اسکے سامنے کرنا ہی پڑا تھا 

اسکے پاؤں اتنے خوبصورت تھے کہ اسکے منہ سے بےساختہ پھسلا 

بیوٹی فل ماۓ لٹل فیری 

یہ کہہ کراسنے پاؤں سے کانٹا نکال کر دور پھینک دیا اسکے منہ سے ہلکی سی سسکاری نکلی تھی مگر ساتھ ہی اسنے پاؤں پہ اس جگہ اپنے دہکتے ہوۓ لب رکھے تھے جدھر اسکو زخم تھا 

اسکا لمس محسوس ہونے پہ اسکی جان ہی نکل گئی تھی ابھی وہ کھڑئی ہی ہوئی تھی کہ اسے چکر آیا اور اسکی بانہوں میں ایک سکینڈ میں جھول گئی 

سامنے والے کے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا 

" ویلکم ٹو ڈا ہیل ماۓ لٹل فیری " 

Welcome to the Hell My Little Fairy

اس نے کہا اور اسے بانہوں میں اٹھاۓ آگے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔

وہ اسے اٹھاۓ بیڈ روم میں داخل ہوا تھا ۔

اسے بیڈ پہ لیٹاۓ وہ اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگا 

کچھ ہی دیر میں اسکو ہوش آگیا تھا 

وہ اٹھ کے بیٹھی تو اسکو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا 

لیکن اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کے اسکے اوسان خطا ہوگئے تھے 

وہ اٹھ کھڑئی ہوئی جانے ہی لگی تھی کہ ایک زوردار چکر آیا تھا اسے اس سے پہلے وہ گرتی 

وہ کسی کی مضبوط بانہوں میں تھی 

اس نے نظریں اٹھا کے دیکھا تو دائم نے اسے کمر سے پکڑ رکھا تھا 

اس نے اپنا آپ چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کی تھی 

 " کیوں بار بار میرا صبر آزماتی ہو ؟ 

ماۓ لٹل فیری " 

وہ اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپاۓ خمار آلود لہجے میں بولا 

اسکی سانسوں کی تپش مشال کو جھلسا رہی تھی 

مشال کی آنکھوں سے چند موتی گرے تھے 

جنکو دائم نے اپنے ہونٹوں سے چن لیا تھا 

پلیز مجھے جانے دو دائم پلیز 

مشال نے کہا 

چلو آؤ کھانا کھاتے ہیں 

وہ اسکی بات کو اگنور کرتا ہوا بولا 

نہیں مجھے نہیں کھانا 

مشال درشت بھرے لہجے میں بولی 

دائم نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا اور پھر اسے گود میں اٹھا کے باہر کی جانب چل دیا 

ککک کیا کررہے ہو ؟ 

دائم مجھے نیچے اتارو 

کیا نہیں آپ کہو

دائم نے گھور کے اسے دیکھا تو فوراً بولی 

دائم کیا کررہے ہیں مجھے نیچے اتاریں 

ششش!  دیکھ نہیں رہی اپنی وائف کا خیال رکھ رہا ہوں 

اس نے اسے چیر پہ بیٹھایا 

پھر کھانا گرم کرکے لایا 

اٹھو 

دائم نے کہا 

مشال فوراً اٹھی تھی 

دائم اسی چیر پہ بیٹھا اور اپنی گود کی طرف اشارہ کیا 

مشال سرخ ہوگئی تھی 

نن نہیں میں دوسری چیر پہ بیٹھ جاؤں گی 

تم سے کسی نے کہا 

چپ چاپ بیٹھو 

دائم نے اب کی بار سخت لہجے میں کہا 

وہ فوراً اسکی گود میں بیٹھی تھی 

ایک نوالہ وہ اسے کھلاتا اور ایک خود کھاتا 

کھانے سے فارغ ہوکے اس نے اسے میڈیسن دی اور خود ایک کال کرنے باہر چلا گیا 

وہ واپس آیا تو وہ اپنی سوچوں میں گم تھی 

لٹل فیری 

وہ خیالوں کی دنیا سے واپس لوٹی 

مجھے تمھیں کچھ بتانا تھا 

کیا ؟

مشال نے پوچھا 

کل صبح کی فلائٹ سے ہم کراچی جارہے ہیں 

واٹ ؟

نو وے آئی کانٹ گو ود یو 

I Can't Go With You 

کیوں ؟

بس نہیں جانا 

کہا ہی تھا کہ اسنے اسکو بازو سے پکڑ کے اپنی جانب کھینچا اور بولا 

تم سے کسی نے پوچھا نہیں ہے بتا رہا ہوں میں کل صبح تیار رہنا 

اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور وہاں سے نکل گیا 

مشال کی آنکھوں سے اشکوں کی برسات ہونے لگی تھی ۔

آج صبح سے خان ولا میں تیاریاں جاری تھیں کیوں کے آج ماہ نور کی پھوپھو کا بیٹا موسی آرہا تھا ۔

موسی کے پاپا نہیں تھے وہ اپنی ماما کے ساتھ اٹلی میں سیٹلد Settled تھا ۔

اس دن کے بعد کبھی ماہ نور اور میر کا سامنا نہیں ہوا تھا 

میر کی حالت عجب تھی وہ ماہ نور سے نفرت کیوں نہیں کرپا رہا تھا جب کے اس نے اسکی محبت پہ تہمت لگائی تھی وہ جتنا اس سے دور جانے کی کوشش کرتا تھا اتنا ہی اسکے قریب کھینچا چلا آتا تھا ماہ نور کے معاملے میں وہ خود کو بہت بےبس تصور کرنے لگا تھا ۔

رات کے تقریباً ڈھائی بجے کوئی ماہ نور کے کمرے میں داخل ہوا تھا 

وہ چپ چاپ یکا ٹک اسے دیکھے گیا سوتے ہوۓ تو کوئی معصوم سی حور لگتی ہے جبکہ اصل میں تو پوری توپ ہے 

میر سوچ کے ہنس دیا

بےساختہ اسکی نظر اسکے ہونٹ کے نیچے والے تل پہ گئی 

اسکی ارمان مچل تھے لیکن وہ اسکے ساتھ ایسا ویسا کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب تک کوئی مضبوط رشتہ نہ بن جاتا 

وہ اس پہ جھکے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو ازبر کررہا تھا کہ نور کی آنکھ کھلی اور خود پہ ایک ہیولا ٹائپ شخص کو دیکھ کے وہ چیخنے ہی لگی تھی کہ اچانک اس نے اسکے چہرے پہ اپنا ہاتھ رکھا 

ششش!  میں ہوں 

مس چلی 

فلحال میر شرارت کے موڈ میں تھا 

یہ آواز ماہ نور لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی 

تت تت تم یہاں کیا کررہے ہو ؟

تمہارا دیدار کرنے 

اور ہاں تمہارے انفارمیشن کے لیے بتا دوں کہ میں زور رات کو کچھ ٹائم کے لیے تمہارا دیدار کرنے کے لیے آتا ہوں وہ بات الگ ہے کہ تمھیں دیکھ کے میرے ارمان مچل جاتے ہیں اور میں کچھ کرتا نہیں ہوں 

میر ایک آنکھ دبا کے بولا 

واہیات انسان 

ماہ نور ایک ہی لمحے میں اس پہ بپھرئی ہوئی شیرنی کی طرح جھپٹی تھی مگر اگلے ہی لمحے ماہ نور کی دونوں بازو کو اپنے بازوؤں کی گرفت میں لےکے میر اسکے فرار ہونے کی راہیں مسدود کرچکا تھا 

ہٹو میرے اوپر سے سانڈ کہیں کے 

ماہ نور نے زچ ہوتے ہوۓ کہا

ہاہاہا!  کیوں بھئی بھینس کو کیا تکلیف ہورہی ہے 

واٹ 

تم نے مجھے بھینس کہا 

ہاؤ ڈیڑ یو 

How Dare You! !!

بہت ہمت ہے مجھ میں نور 

اچھا کیا کرلوگے تم ہاں ؟

وہ بول رہی تھی کہ میر نے اسکے ہونٹ کے نیچے تل پہ اپنے لب رکھے تھے 

ماہ نور سٹپٹا کے رہ گئی تھی 

دیکھ لی ہمت 

میر نے ماہ نور کے چہرے پہ حیا کے کئی رنگ دیکھتے ہوۓ شرارت سے کہا 

آئی ول کلِ یو 

I Will Kill you 

مسڑ میر ارسلان بٹ 

اوکے ہونے والی مسز میر ارسلان بٹ 

تم 

ویسے بھی تمہاری ہی خواہش تھی نہ نامحرم سے محرم بننے کی 

تو وہ جلد ہی پوری ہوگی انشا اللہ 

ویسے اتنا ویٹ تو کرہی سکتی ہونا تب تک

میر نے مسکراتے ہوۓ کہا تو ماہ نور نے اسے آنکھیں دکھائیں تھیں 

میر مسکرا کے آگے جھکا اور ماہ نور کی ناک پہ اپنے ہونٹ رکھے تھے 

اس سے پہلے کہ وہ اور بہکتا اٹھا اور ایک مسکراہٹ ڈال کے کھڑئی سے کود گیا تھا جب کے ماہ نور اسکی باتوں میں الجھ کے رہ گئی تھی… 

صبح کے چھ بجے دائم کی آنکھ کھلی تھی 

وہ اٹھا تو دیکھا کہ مشال ابھی بھی بے خبر سورہی تھی سوتے ٹائم وہ بہت معصوم لگی اسے بالکل پریوں جیسی لگی تھی پہلے تو اسکا دل کیا کہ کوئی شدت بھری گستاخی کرے لیکن اسکی معصوميت کو دیکھتے ہوئے خود پہ کنڑول کرتے ہوۓ وہ اسے جگانے لگا تھا 

لٹل فیری ؟

اٹھ جاؤ نہ 

وہ اسے جگاتے ہوۓ بولا 

مشال نے آنکھیں کھول کے اسکی طرف معصوميت سے دیکھا اور بولی 

پلیز دائم مجھے سونے دیں نا نیند آئی ہے مجھے 

دائم اسکی باتوں پہ مسکرا دیا

وہ کہہ کر دوبارہ لیٹنے لگی تھی کہ دائم نے بازو سے پکڑا اور تھوڑا سخت لہجے میں بولا 

اٹھو گی یا نہیں ؟

مشال نے گھبرا کے دائم کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں غصہ لیے اسکی جانب دیکھا رہا تھا 

اسکے کہنے کی دیر تھہ کہ مشال نے فوراً کپڑے اٹھاۓ اور واشروم میں بھاگی پیچھے سے دائم ہنس دیا تھا ۔

وہ جب شاور لےکے نکلی تب تک دائم بھی تیار تھا ۔

نیوی بلیو کلر کے لانگ فراک کے ساتھ ہی بلیو جینز میں وہ اسے بہت نکھری نکھری اور پرکشش لگی خوبصورت تو وہ تھی ہی لیکن آج بہت پرکشش بھی لگ رہی تھی 

وہ شیشے کے سامنے آکھڑئی ہوئی تھی دائم کی نظریں اسی پہ تھیں وہ اسکی نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی 

آگے بڑھ کے اسنے کاجل اٹھایا اور آنکھوں میں ڈالا ساتھ ہی پنک لپ گلوس اٹھایا اور لگانے ہی لگی تھی کہ دائم نے اسکے ہاتھ سے لےلیا 

اور اسکو کمر سے جکڑا تھا 

یی یی یہ آپ کیا کررہے ہیں مشال نے گھبراتے ہوۓ کہا 

ابھی پتہ چل جاۓ گا تم بس اسی طرح کھڑئی رہو ہلنا مت 

مشال سانسں روکے کھڑئی رہی 

افففف لٹل فیری کتنی معصوم ہو تم تم سے کس نے کہا کہ سانس روکو اپنی جسٹ موو مت کرنا سانسں لےسکتی ہو ۔

مشال نے ایک نظر اسکے خوبصورت چہرے کی جانب دیکھا تھا 

اس نے کے ہونٹوں پہ گلوس لگایا اور پھر اسے کمرے سے ہی جکڑے اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کرنے لگا 

" دل تو بہت کررہا ہے کہ اس گلوس کو اپنے ہونٹوں سے ہی رومیو کردوں مگر میری لٹل فیری کہاں میری شدتوں کو برداشت کرپاۓ گی  "

مشال کی ڈھرکنوں نے شور مچادیا تھا جسکو دائم نے باخوبی سن لیا تھا اور ساتھ ہی اسکی کان کی لو کو چوم لیا 

مشال ضبط کیے آنکھیں بند کیے کھڑئی رہی تھی 

You Are Looking Gorgeous My Little Fairy,

کہہ کے وہ باہر کی جانب بڑھ گیا تھا جب کے مشال کو ٹائم لگا تھا اپنی ڈھرکنوں کو معمول پہ لانے کو ۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے دو دن ہوگئے ہیں انکل اور ابھی تک مشال کا پتہ نہیں ہے کہ کہاں ہے پتہ نہیں کس حال میں ہوگی 

زوار نے فکرمندی سے کہا 

سوچنے والی بات ہے کہ پورا شہر چھان لیا چپا چپا چھان مارا شہر کا لیکن کہیں نہیں ملی 

زوار کو ایک پل کے لیے دائم کا خیال آیا لیکن اسنے جھٹک دیا کیوں کے اسکو دائم کا اسے چیلنج کرنا صرف ایک معمولی دھمکی لگی تھی ۔

وہ دونوں کراچی کے احاطے میں داخل ہوچکے تھے 

دائم مشال کو فلیٹ میں لیے داخل ہوا تھا 

دائم فریش ہونے چلا گیا اور مشال بھی اپنا سامان سیٹ کرنے لگی جب اپنا سامان سیٹ کرچکی تو دائم باہر آیا اور دروازے سے ٹیک لگاۓ اسے دیکھنے لگا اسکو معلوم تھا کہ مشال نے یہ کام کبھی نہیں کیے لیکن فلحال مجبوری تھی اس لیے اسکو کرنا پڑا اسکا بس چلتا تو وہ اسکو زمین پہ بھی نہ چلنے دے لیکن مجبوری تھی اس لیے 

لٹل فیری 

وہ اسکی پکار پہ چونکی میں کھانا لینے جارہا ہوں 

تم بھی فریش ہوجاؤں اوکے 

وہ ایک مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا باہر نکل گیا 

مشال نے جب دائم کا سامان دیکھا تو ایک پل کو سوچنے لگی 

نہیں میں کیوں اس کھڑوس مونسٹر کے کپڑے سیٹ کروں خود ہی کرے گا نہ بڑا آیا 

مگر اگلے ہی لمحے نجانے کیا سوچا تھا کہ خود بخود اسکا سارا سامان کبڈ میں واڈروب میں سیٹ کیا اور خود شاور لینے چلی گئی 

وہ نہا کر نکلی تو پنک کلر کے لائیٹ سے شلوار قمیض پہن لیے تھے تب تک دائم کھانا لے بھی آیا تھا اور ٹیبل پہ لگا بھی چکا تھا 

لٹل فیری آجاؤ کھانا کھا لو

مشال باہر آئی اور چپ چاپ ٹیبل پہ بیٹھ گئی 

مشال سیدھا دائم کے دل میں اتر رہی تھی 

چپ چاپ کھانے لگی وہ کھاہی رہی تھی کہ اچانک دائم نے اسکا ہاتھ پکڑا اور بولا 

کھلاؤ 

مشال نے حیرت سے اسے دیکھا اود بولی 

مم مم میں ؟

ظاہر ہے تمہارے اور میرے علاوہ تمھیں کوئی نظر آرہا ہے کیا تمھیں 

نن نہیں 

تو کھلاؤ 

مم مم میں کیسے ؟

ایسے 

دائم نے بریانی کی ایک چمچ بھر کے مشال کے منہ میں ڈال دی 

اور مشال کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا 

کھلاؤ ؟

دائم اب ذرا سا سخت ہوا 

مشال نے بریانی کا چمچ اسکے منہ میں ڈالا 

دائم نے آرام سے کھالیا 

بس اب مجھے تھوڑی سی روٹی کھلادو 

دائم جان بوجھ کے مشال کو تنگ کررہا تھا ۔

مگر وہ مرتی کیا نہ کرتی کھلانا پڑا اسے

ایک نوالہ اسکے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ اس نے اسکی کلائی پکڑلی 

ککک کیا کررہے ہیں ؟

چھوڑیں 

مشال دائم کی پرتپش نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی 

کچھ نہیں میں کیا کہا تمھیں تم کھلاؤ نا 

جب وہ اسے کھلا چکی تو اسکی لودیتی نظروں سے بچنے کےلیے اس نے برتن اٹھاۓ اور انھیں دھونا شروع کردیا 

یہ کام اس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں کیے تھے مگر اس  نے ایک دو دفعہ اپنی ملازمہ کو کام کرتے دیکھا تھا تو اسکو کوئی پرابلم نہیں ہوئی تھی ۔

کام نبٹا کے وہ جب کمرے میں آئی تھی تو شاید دائم واشروم میں تھا 

اس نے شکر کیا تھا 

وہ سونے کی تیاریاں کرنے لگی تھی اس سے پہلے کے دائم آجاتا وہاں 

مگر جیسے ہی وہ سونے کے لیٹی تھی 

کسی نے کھینچ کے اسکے اوپر سے کمفڑ نکالا تھا 

دائم اسکی جانب دیکھتا ہوا مسکرا رہا تھا 

اتنی جلدی نیند آگئی میری لٹل فیری کو 

ججج جج جی نیند آئی ہے مجھے 

ہمممم

تو میرے پاس نیند بھگانے کا بھی طریقہ ہے وہ کہہ کے جھکنے ہی والا تھا کہ مشال پھرتی سے بیڈ کی ایک سائیڈ سے ہوتے ہوۓ باہر کی جانب بھاگنے ہی والی تھی کیوں کے شاید وہ بھول گئی تھی کہ دائم دُرانی کوئی معمولی چیز نہیں ہے 

ایک جھٹکے سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اسے خود سے قریب ترین کیا 

مشال اپنا آپ چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کی تھی 

مشال !! 

دائم نے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی 

آج پہلی دفعہ اس نے اسکے سامنے اسکو اسکے نام سے پکارا تھا 

مشال کا دل کیا کہ تمام عمر وہ اسے یونہی پکارتا رہے 

مگر یک دم وہ ہوش میں آئی تھی 

چھوڑیں مجھے سونا ہے 

مجھے ننید نہیں آئی 

تو میں کیا کروں ؟

مشال نے اب ایک آبرو اچکا کے دائم کو دیکھا تھا 

کہ اچانک دائم نے اسکو اس قدر خود کے قریب کیا کہ مشال کی نظریں جھک گئیں تھیں 

دائم نے اسکی تھوڑی کو تھوڑا اوپر کیا اور اسکے ہونٹوں کے کنارے پہ اپنے لب رکھے 

مشال نے سختی سے دائم کی شرٹ جکڑ لی تھی 

مشال کی تیز ہوتی سانسیں اسکا لال ہوتا چہرہ دائم کے جزبات کو اور ہوا دے رہا تھا بھڑکا رہا تھا 

دائم کی حرکتيں مشال کی جان نکالنے کے درپے تھیں 

دائم نے اپنے ہونٹوں سے مشال کے گلابی گال کو چھوا 

پھر وہ اسکی نوزپن سے چھیڑ چھاڑ کرنا لگا 

نوزپن پہ لب رکھنے کے بعد تو مشال نے خود کو باقاعدہ دائم سے چھڑوانے کی کوششش کی 

ششش ماۓ لٹل فیری تمھیں پتہ تو ہے کہ مجھ سے دور جانا تمہارے بس کی بات نہیں تو پھر کیوں یہ سب کرتی ہو ہممم ؟

وہ خمار آلود لہجے میں بولا

وہ اسکی گردن پہ انگلی پھیرنے لگا تھا 

اچانک ہی وہ اسکے ہونٹوں پہ جھکا 

مشال تڑپ اٹھی تھی اور اسکی شرٹ کو مضبوطی سے جکڑ لیا تھا 

دائم اسکی قربت میں یہ بھی بھول جاتا تھا کہ اسکو سانسں بھی لینا ہوگا 

اسکے لمس میں اتنی شدت تھی کہ مشال کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی وہ دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ رکھے اسے دور کرنے لگی اور بالا آخر اس نے اس پہ رحم کھا کے اسکو آزاد کیا تھا اپنی گرفت سے 

مشال لال ہوتے چہرے کے ساتھ لمبے لمبے سانسں لینے لگی تھی 

دائم نے اسے اٹھایا اور بیڈ پہ لیٹا کے خود بھی ساتھ لیٹا اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا تھا 

سوجاؤ لٹل فیری تمھیں تو نیند آئی تھی نہ 

دائم نے کہا 

ویسے مجھے اب بہت اچھی اور پرسکون نیند آۓ گی

دائم نے شررارت سے کہا 

مشال کا چہرہ لال ٹماٹر جیسا ہوگیا تھا 

دائم مسکرادیا تھا اور اسے خود میں بھینچ لیا تھا 

" کیا ہے یہ کیسا شخص ہے یہ شاید میں کبھی اسکی محبت اور شدتوں کو نہیں سمجھ پاؤں گی پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ایسا ہے یہ شخص  " 

مشال نے دائم کے خوبصورت چہرے کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا تھا ۔

آج ماہ نور کا کزن موسی خان آنے والا تھا ۔

ماہ نور نے آج سلور کلر کا فراک پہن رکھا تھا جس میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی 

کار پورچ میں لینڈ کروزر داخل ہوئی مطلب کے موسی آچکا تھا 

وہ گاڑی سے اترا بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ میں وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا 

اسلام و علیکم 

ممامی جان 

اسلام و علیکم ماموں جان

کیسے ہیں آپ ؟

وعلیکم اسلام بیٹا دونوں نے ساتھ ہی جواب دیا 

کیسے ہو ؟ 

الحمد اللہ 

وہ لوگ ساتھ ہی اندر آۓ تھے 

ساتھ صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ بولے 

آپ سب کیسے ہیں ?

الحمد اللہ 

میری بہن کیسی ہے ؟

واجد خان سے کہا 

اور میری نند ؟

عائشہ خان نے مسکراتے ہوۓ کہا 

الحمد اللہ بالکل ٹھیک ہیں 

ماہ نور بیٹا جلدی باہر آؤ دیکھو باہر کون آیا ہے ؟

ماہ نور باہر آئی 

اسلام و علیکم 

وعلیکم اسلام کیسے ہیں آپ ؟

الحمد اللہ 

تم کیسی ہو ؟

الحمد اللہ 

وہ دونوں باتیں کرہی رہے تھے کہ 

عائشہ بیگم بولیں 

بیٹا تم پہلے فریش ہوجاؤ کھانا کھا لو 

اوکے ممامی 

موسی انکی جانب مسکرا کے دیکھتا ہوا اٹھ گیا تھا .

کھانے کے بعد موسی سونے چلا گیا تھا کیوں کے وہ کافی تھکا ہوا تھا اس لیے جلد ہی نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا ۔

شام کو وہ جب سوکے اٹھا تو شاور لینے چلا گیا شاور لےکے نکلا تو سامنے لان میں ہی اسے ماہ نور ٹہلتی ہوئی دیکھائی دی اسکے ہونٹوں پہ ایک مسکان آئی تھی 

وہ بھی لان میں آگیا تھا 

ہاۓ بیوٹی فل 

موسی نے کہا 

ہاۓ 

ماہ نور نے مسکرا کے جواب دیا 

تمھیں پتا ہے نور تمھیں لاسٹ ٹائم میں بے تب دیکھا تھا جب تم تیرہ سال کی تھی اور اب ماشا اللہ سے اکیس 21 کی ہو 

ہممم 

ماہ نور نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا 

پیاری تو تم تب بھی تھی لیکن اب تو کسی کے دل پہ بجلیاں بھی گرا سکتی ہو 

موسی نے پرتپش نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا 

جب کے ماہ نور اسکی نظروں سے کنفیوز ہونے لگی تھی 

ماہ نور وہاں سے جانے ہی لگی تھی کہ اسکے پاؤں میں اسکے اپنے فراک کا ڈوپٹہ آیا اور وہ گرنے ہی لگی تھی کہ موسی نے اسکو کمر سے تھام لیا تھا 

دور دو گہری ڈارک براؤن آنکھوں نے یہ منظر دیکھا تو پل میں آنکھیں لال انگارہ ہوئیں تھیں 

ماہ نور فورٌا سے سیدھی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔

پیچھے سے موسی بھی ایک مسکان اپنے ہونٹوں پہ سجاۓ اندر کی جانب چل دیا تھا ۔

ماہ نور کو اپنے کمرے میں آۓ ہوۓ مشکل سے پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک اسکا سیل رنگ ہوا 

میر کالنگ لکھا آرہا تھا ۔

اس نے گھبرا کے کال کاٹ دی تھی 

سیل دوبارہ رنگ ہوا ناچاہتے ہوۓ بھی اسے کال اٹھانا پڑی تھی 

پانچ منٹ کے اندر مجھے کیفے میں ملو مجھے نہ آئی تو تم مجھے اچھے سے جانتی ہو 

ماہ نور کے تو اوسان ہی خطا ہوگئے تھے اس ٹائم کیوں بلا رہا تھا اسے وہ مگر وہ نا بھی نہیں کرسکتی تھی 

اس نے اپنا موبائل اور بیگ اٹھایا اور نیچے کی جانب بھاگی تھی 

مما ؟

ہاں بیٹا 

وہ دراصل میں نے آپکو بتایا تھا نہ کہ میری دوست 

شانزے کی شادی ہے کچھ دن میں 

ہاں بیٹا کیوں ؟

اسکی کال آئی ہے اس نے مجھے شاپنگ پہ بلایا ہے 

میں چلی جاؤ ؟

جلدی واپس آجاؤں گی ؟

اوکے بیٹا مگر دھیان سے جانا اور اندھیرا ہونے سے پہلے واپس آجانا 

اوکے ماما اللہ حافظ 

کہہ کے وہ گاڑی کی چابیاں اٹھا کے باہر نکلی تھی 

پندرہ منٹ میں وہ کیفے پہنچ چکی تھی 

اس نے میر کی تلاش میں ادھر ادھر نگائیں ڈورائیں مگر نظر نہیں آیا لیکن اچانک سے کسی نے اسکو بازو سے پکڑ کے ایک سائیڈ پہ لےجا کے دیوار سے  پن اپ کرکے وہ کہنے لگا 

خاموشی سے گاڑی میں بیٹھو آواز نہیں آنی چاہیے تمہاری 

کککک کیوں کککک کدھر لےکے جارہے ہو مجھے ؟

ششش جو کہا ہے نہ بس وہ کرو ورنہ یقین مانو بہت پچھتاو گی 

میر نے شعلہ برساتی آنکھوں سے دیکھا تھا 

ماہ نور گاڑی میں بیٹھی تھی میر ڈرایئور کرنے لگا تھا 

میر میر ؟

اس نے اسکی شرٹ کو پکڑ کے پوچھا 

کککک کدھر لےکے جارہے ہو مجھے اس ٹائم مجھے گھر جانا ہے پلیز 

گھر ہی جارہے ہیں پر تمہارے نہیں میرے 

کککک کیوں 

اسکا جواب بہت جلد مل جاۓ گا اب خاموش رہنا ورنہ پھر مجھے گلہ مت کرنا 

لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے اس نے کہا تھا 

ماہ نور کی آنکھوں سے بےشمار اشکوں کی برسات ہونے لگی تھی ۔

چھوڑو میرا ہاتھ کہاں لےکے جارہے ہو ؟

ماہ نور روتے ہوۓ میر سے پوچھ رہی تھی جس نے مضبوطی سے اسکا ہاتھ تھام رکھا تھا 

میر اسکا ہاتھ پکڑ اسے روم میں لایا اور پھر اسکا ہاتھ ایک جھٹکے سے چھوڑ کے اسے بیڈ پہ دھکا دیا اور خود روم لاک کیا 

یی یی یہ روم کیوں لاک کیا ہے تم نے ؟

ماہ نور نے ڈرتے ہوۓ پوچھا 

میر پلٹ کے اسکی جانب آیا 

اور اسکے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا 

ماہ نور کے منہ سے چیخ نکلی 

کیوں درد ہورہا ہے ؟

ہاں درد ہورہا ہے تمھیں 

میر ڈھارا 

جب کے ماہ نور اپنی جگہ کانپ کے رہ گئی 

ایسا ہی درد مجھے ہوتا ہے جب تم کسی اور مرد کے ساتھ ہنس ہنس کے باتیں کرتی ہو انکے قریب جاتی ہو

میر آنکھوں میں انتہائی جنونیت اور شدت لیے بول رہا تھا 

ماہ نور کو میر کی آنکھوں سے اب خوف محسوس ہونے لگا تھا 

آہ چھوڑو میر مجھے درد ہورہا ہے 

ماہ نور روتے ہوۓ بولی 

کتنی محبت کی تھی نا میں نے تم سے ماہ نور مگر سچ یہ ہے کہ تم اس محبت کے لائق ہی نہیں ہو 

میر ارسلان بٹ ماہ نور خان سے نفرت کرتا ہے انتہا کی جسکی کوئی حد نہیں ہے 

ماہ نور بے یقینی سے میر کی جانب دیکھ رہی تھی 

اچانک میر اسکے قریب ہوا اور اسکے ہونٹوں پہ جھکنے لگا ہی تھا کہ ماہ نور نے اپنا منہ دوسری سائیڈ پھیر لیا 

کیوں ہاں کیوں ماہ نور آخر کیوں دوسرے مردوں کے پاس جاتے وقت تم کیوں نہیں کتراتی ہو اور میری قربت سے کیوں خوف محسوس ہوتا ہے تمھیں 

تمھیں پتہ ہے یہاں یہاں درد ہوتا ہے مجھے 

میر نے ماہ نور کی شہادت والی انگلی کو اپنے دل پہ رکھتے ہوۓ کہا 

جبکے ماہ نور روۓ جارہی تھی 

اچانک ہی میر نے ماہ نور کو کمر سے جکڑا اور بولا 

میری جان تم میری محبت کی شدتوں کو برداشت نہیں کرسکتی تو میری نفرت کو کیسے سہوگی ؟

ماہ نور میں جواب دینے کی ہمت نہیں تھی 

وہ ستمگر اسکی روح کو اپنے لفظوں سے تار تار کررہا تھا اور وہ بس خاموشی سے اسے سنے جارہی تھی ۔

ماہ نور خان یہ راستہ تم نے خود چنا ہے اب اسے برداشت تو کرنا ہی ہوگا تمھیں 

اب سے میں تمھیں صرف اور صرف پل پل مرتے ہوۓ تڑپتے ہوۓ سسکتے ہوۓ دیکھنا چاہتا ہوں 

یقین مانو میرے کلیجے کو ٹھنڈ محسوس ہوگی جب تم سسکوگی تڑپوگی جیتے جی مرو گی 

میر نے کہتے ہوۓ ایک قہقہہ لگایا ۔

تیار رہنا کیوں کے اب سے تھوڑی دیر کے بعد تمہاری دلی خواہش پوری کرنے جارہا ہوں تم پہ سانسیں تنگ کرنے جارہا ہوں۔

کچھ ہی دیر میں مولوی آۓ گا چپ چاپ اپنے آپکو میرے حوالے کردینا ورنہ تمھیں زندہ زمین میں گاڑھتے ہوۓ وہ بھی اپنے ہاتھوں سے میر ارسلان بٹ کو ٹائم نہیں لگے لگا ۔

اور ماہ نور کو لگا تھا کہ ساتوں آسمان اسکے سر پہ آگرے ہوں 

کس چیز کی اتنی بڑی سزا ملی تھی اسے آخر کیوں 

میر نے بغور اسکے چہرے کو دیکھا جو رونے کی وجہ سے شدید لال ہوچکا تھا 

آگے بڑھ کے اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے اسکے آنسو چن لیے تھے 

اور یہ کہنے نہیں بھولا تھا 

میری جان یہ آنسو بچاکے رکھنا کیوں کے یہ آگے کافی کام آنے والے ہیں 

ماہ نور میں اب مزید کھڑا رہنے کی سکت نہیں تھی اس لیے زمین پہ بیٹھتی چلی گئی تھی ۔۔۔

مولوی آچکا تھا میر نے سائن کردئیے تھے اب وہ ماہ نور کو سائن کرنے کا کہہ رہا تھا جو بےبس سی سامنے بیٹھی اپنی قسمت پہ رورہی تھی وہ اپنے پاپا اور ماما کو کیا جواب دے گی کہ ایسی بھی کیا مجبوری تھی وہ اپنے باپ کی عزت کا جنازہ نکالنے جارہی تھی لیکن بےبس تھی کچھ نہیں کرسکتی تھی 

ماہ نور خان! ! آپکا نکاح میر ارسلان بٹ کے ساتھ باعوض حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپکو قبول ہے ؟؟نکاح خواں کے الفاظ نے ماہ نور کو سوچوں سے آزاد کردیا تھا 

وہ بےبسی سے میر کی جانب دیکھنےلگی اور اس ستمگر نے شدت سے اسکی بازو پہ دباؤ ڈالا تھا جسکی وجہ سے اسکو ناچارا بولنا پڑا 

قق قبول ہے 

کانپتے ہوۓ الفاظوں سے اس نے تین بار کہہ کے خود کو ہمشیہ کےلیے میر کے حوالے کردیا تھا ۔

رات کو مشال شاور لےکے نکلی تھی 

گیلے بالوں سے وہ ٹاول سے بال رگڑ رہی تھی کہ پیچھے سے دائم نے حصار میں لیا 

ککک کیا کررہے ہیں آپ ؟

دیکھ نہیں رہی اپنی بیوی سے محبت کررہا ہوں 

کہہ کے اس نے اسکی گردن سے بال ہٹا کے وہاں اپنے سلگتے ہوۓ لب رکھے اور وہ اپنی جگہ کانپ کےرہ گئی تھی 

میں باہر کا کھانا کھا کھا کے تھک گیا ہوں یار تمھیں جو کچھ بنانا آتا ہے پلیز بنادو مجھے فلحال کچھ کام ہے میں ایک گھنٹے تک آجاؤں گا پھر مل کے ڈنر کریں گے اوکے لٹل فیری 

کہہ کے اسنے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھیاپا 

دائم کی بڑھتی ہوئی جسارتوں سے بچنے کےلیے یہی ٹھیک لگا اس لیے اس نے ہاں میں فورٌا ہی سر ہلادیا تھا 

دائم نے مسکرا کے اپنے ہونٹوں کا لمس اسکے ماتھے پہ چھوڑا اور موبائل اور چابیاں اٹھا کے باہر نکل گیا تھا 

اوہوو اس مونسٹر سے بچنے کے لیے ہاں تو بول دیا مگر اب کھانا کیسے بناؤں مجھے تو کچھ بھی نہیں بنانا آتا 

مشال فکرمندی سے سوچنے لگی لیکن وہ اللہ کا نام لےکے کیچن کی جانب چل دی تھی اس نے فریج کھولا تو اسکو ہر چیز موجود ملی جیسے کے دودھ فروٹس بٹر ایگز چکن سبزیاں وغیرہ اسنے چکن قورمہ بنانے کا سوچا ساتھ ہی میٹھے میں رس ملائی لہزا اس نے دودھ اور چکن نکال کے باہر رکھا تھا اب اسنے اوپر کے کیبنٹس کھولے اور وہاں سے رس ملائی کا پیکٹ نکالا اور اس پہ لکھی ہوئی ریسپی دیکھ کے بنانے لگی رس ملائی بنا کے اس نے فریج میں ٹھنڈی ہونے کے لیے رکھی اور قورمہ بنانے لگی بناتے ٹائم اسکی سوچوں کا مرکز دائم ہی تھا وہ کبھی پل میں انتہائی محبت کرنے والا انسان تو کبھی مونسٹر بن جاتا تھا وہ جب بھی اسکے قریب آتا تھا وہ خود کو کیوں اتنا بےبس تصور کرتی تھی اسکی قید سے اسکو رہائی ناممکن لگنے لگی تھی ۔

نن نہیں مشال تم کتنی پاگل ہو تم اس انسان سے کیسے محبت کرسکتی ہو جس نے تمھیں اپنوں سے دور کردیا چاچو پتہ نہیں میرے لیے کتنے اپ سیٹ ہوں گے اور پتہ نہیں زوار کیسا ہوگا نہیں میں تمام عمر اس مونسٹر کی قید میں نہیں رہ سکتی مجھے کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈنا ہوگا جس سے میں خود کو آزاد کروا سکوں تو جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ویسے ہی مجھے دائم کے قریب آکے اسے مات دینی ہوگی اسکی کمزوری کوئی  ایسا ثبوت جو مجھے یہاں سے نکلنے میں مدد کرے ڈھونڈنا ہوگا مگر اس سب کے لیے مجھے اس مونسٹر کے بہت قریب ہی رہنا ہوگا تب ہی اسکی قید سے رہائی حاصل کرسکوگی اور میں بہت جلد ہی اسکی قید سے رہائی حاصل کرلوگی

مشال خود سے کہتے ہوۓ عہد کرنے لگی تھی ۔نکاح مبارک ہو مسز میر ارسلان بٹ 

وہ بیڈ پہ اسکے قریب ہی بیٹھتے ہوۓ بولا تھا 

کہ ماہ نور پھرتی سے اٹھ کھڑئی ہوئی تھی 

تت تت تم دیکھو پپپ پلیز مجھے اب جانے دو میر تمہارے کہنے پہ تمسے نکاح بھی کرلیا ہے اب تو جانے دو 

ماہ نور کے قدم پیچھے جب کے میر کے قدم آگے کی جانب اٹھ رہے تھے 

تت دیکھو میرے پاس مت آنا ورنہ میں شور مچادوں گی 

ہاہاہا! اچھا مچاؤ نہ شور 

میں بھی تو دیکھوں کہ میری شیرنی میں کس قدر دم ہے 

اس سے پہلے کہ ماہ نور دیوار کے ساتھ ٹکراتی میر اسکو اپنی طرف کھینچ چکا تھا وہ اب مکمل اسکے حصار میں تھی 

میر نے غور سے اسکی جانب دیکھا رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں لال انگارہ ہوئی تھیں سرخ کپکپاتے ہوۓ ہونٹ جو میر کو کوئی گستاخی کرنے پہ اکسا رہے تھے 

میر نے دیوانہ وار اسکے ہونٹوں کی جانب دیکھا لیکن ماہ نور نے اسکا ارادہ سمجھتے ہوۓ ہونٹوں ایک دوسرے میں پیوست کرلیے 

جوکہ میر کو ایک آنکھ نہ بھایا

اسنے آگے بڑھ کے اسکے ہونٹوں کو آزاد کیا اور خود جھک کے ان پہ ظلم کرنے لگا تھا شدت سے

جب وہ پیچھے ہٹا تو خون کی ایک بوند ماہ نور کے ہونٹوں پہ موجود تھی 

ماہ نور کا چہرہ شرم کے مارے لال ہوچکا تھا 

ماہ نور مسلسل روتے ہوۓ میر سے خود کو چھڑوانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی 

میر نے ماہ نور کی کمر پہ گرفت اور سخت کی اور اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ اسکی جان فنا کرنے لگا 

تمھیں پتہ ہے نور تم بہت خوبصورت ہو کسی کو بھی دیوانہ بناسکتی ہو لیکن پتا نہیں کیوں میرا دل تمھیں تڑپانے کو چاہتا ہے 

کہہ کے ایک جھٹکے سے اسکو اسنے چھوڑا اور وہاں سے نکل گیا تھا۔ 

دائم جب واپس آیا تب تک مشال کھانا لگا چکی تھی 

وہ فریش ہوکے آکے بیٹھ گیا

ہممم تو آج میری لٹل فیری نے کیا بنایا ہے میرے لیے 

مشال مسکرائی 

جب دائم نے ایک نوالہ لیا 

مشال کی نظریں دائم کے چہرے کا طواف ہی کرنے میں مصروف تھیں 

کککک کیا ہوا ؟

اچھا نہیں بنا کیا 

دائم نے ایک نظر دیکھا 

پھر کہنے لگا 

واؤ لٹل فیری اتنا اچھا کھانا بنانا کہاں سے سیکھا تم نے ماۓ گوڈ یار ویری ٹیسٹی 

بس ہلکا سا نمک تیز ہے باقی پرفیکٹ ہے ماشا اللہ 

مشال نے شکر کیا اور حیران بھی ہوئی کہ پہلی ہی دفعہ میں کافی اچھا کھانا بنا لیا اسے امید نہیں تھی ایسا نہیں تھا کہ اسے کھانا نہیں بنانا آتا تھا لیکن اسے زیادہ تر اٹالین چائینز اور بیکئنگ Baking ہی آتی تھی 

دائم کو بس کچھ بہت پسند آیا تھا کھانے کے بعد اسے میر کی کال آئی تھی وہ اسے بات کرنے اوپر چھت پہ چلا گیا تھا ۔

ہاں میرے جگر کیسا ہے ؟

الحمد اللہ 

تو سنا کیسا ہے 

ہاں بس ٹھیک ہی ہوں 

مشال بھابھی کیسی ہیں 

الحمد اللہ ٹھیک ہے وہ بھی 

دائم تجھے کچھ بتانا تھا 

ہاں بول نہ 

میں نے نکاح کرلیا ہے 

کیا ؟

مگر کس سے 

مشال بھابھی کی جگری دوست ماہ نور سے 

او گاڈ 

یار تو پاگل ہے ؟

کیوں کیا اتنا سب اچانک

یار تو یہ مت پوچھ کیوں کیا بس تو جانتا ہے تیرے علاوہ میرا کوئی نہیں ہے اس لیےبتایا 

اچھا ٹھیک ہے مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ زبردستی ہی کیا ہوگا 

ظاہر ہے تیرا ہی دوست ہوں تو تیرے ساتھ رہ رہ کے تیرے جیسا ہی ہوگیا ہوں نا 

ہاہاہا 

کچھ ہی دیر میں دونوں کے قہقہے فضا میں بلند ہوۓ تھے 

دائم ایک اور بھی بڑی خبر ہے 

ہاں بول 

میر اسے بتانے لگا 

مجھے پہلے ہی شک تھا کہ عفان شاہ کوئی شریف انسان نہیں ہے نا ہی کوئی اتنا نیک ہے 

لیکن مشال کبھی بھی یقین نہیں کرے گی ان باتوں پہ 

ہممم

میر نے کہا 

چل اس مسلے کا بھی حل ڈھونڈتے ہیں مجھے اسلام آباد واپس آنے دے مگر تجھے اب اپنا کام پتہ ہے میرے جگر کہ ہمیں اب آگے کیا کرنا ہے اور یاد رکھنا میری لسٹ میں غلطی کی گنجائش نہیں اور ہاں اپنا خیال رکھنا اور میری بھابھی کا بھی 

دائم کی فکرمندی پہ میر مسکرادیا اور بولا 

اوکے بوس 

دائم مسکرایا اور کال ڈسکنٹ کرکے نیچے چل دیا 

مشال ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ہی کھڑے اپنی بالوں کو برش کررہی تھی ساتھ ہی میں یہاں سے نکلنے کا بھی سوچ رہی تھی 

اسکو پتا نہیں چلا کب دائم آیا اور اسکو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا 

مشال 

خمار آلود لہجے میں کہا 

جج جج جی

مجھ سے پیار کب کروگی 

یہ سوال سن کے تو جیسے مشال کا پارہ ہائی ہی ہوگیا تھا اسکو شدید نفرت محسوس ہوئی تھی دائم سے وہ اس شخص سے کیسے پیار کرسکتی تھی جس نے اسکا

 سب کچھ اس سے چھین لیا ہو 

مشال اب مشال شاہ والی زون میں واپس آچکی تھی 

ایک جھٹکے سے اس نے دائم کو خود سے دور کیا اور درشتی سے کہنے لگی 

خبردار آئندہ کے بعد میرے قریب آنے کی بھی کوشش کی ہو تم نے گھٹیا انسان پیار کیا کہا تم نے کہ میں تم سے پیار کروں ارے تم تو میری نفرت کے بھی لائق نہیں ہو اور محبت کی بات کرتے ہو 

مشال ابھی بول ہی رہی تھی کہ دائم نے اسکو کمر سے اتنی سختی سے جکڑا کے اسکو لگا کہ اسکی تمام پسلیاں ٹوٹ گئیں ہیں نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا 

چھچچ چھوڑو مجھے 

میں تمھیں گھٹیا لگتا ہوں ہاں ایسا کیا دیکھا تمنے مجھ میں جو مجھے گھٹیا کہا 

دائم اتنی زور سے ڈھارا کے مشال جی جان سے کانپ گئی 

آخر چاہتی کیا ہو تم ؟

مجھے یہ بتاؤ 

تمھاری قید سے رہائی بس اور کچھ نہیں 

مشال نے ایک نفرت بھری نگاہ اس پہ ڈالتے ہوۓ کہا 

وہ تو ممکن نہیں ہے میری جان 

تم جتنے پاگل پن اور جنون سے مجھ سے دور جانا چاہو گی میں اتنی ہی شدت سے تمھیں اپنے پاس واپس کھینچ لاؤں گا 

تمھیں پتہ ہے لٹل فیری 

کسی چیز میں شدت ہونا پھر بھی ایک پل کے لیے قابل برداشت ہے لیکن جنون اور پاگل پن صرف ایک آگ ہے جس میں یا تو انسان خود جل جاۓگا یا باقی سب کو جلا کر راکھ کردے گا 

اور تمھیں پتہ ہے ماۓ لٹل فیری مجھے تم سے محبت نہیں شدتِ محبت ہے ایسی محبت جس میں انسان جل کر خاکستر ہوجاۓ 

وہ کہتے ہوۓ اپنی ہلکی بڑھی ہوئی شیو اسکی گردن پہ رگڑنے لگا

مشال اب باقاعدہ خوف زدہ ہونے لگی تھی اسکی نفس بری طرح بگڑا تھا 

چھ چھ چھوڑیں مجھے پلیز 

مجھ مجھ مجھے جانا 

یہ الفاظ مشال کے منہ میں ہی کہیں رہ گئے تھے کیوں کے دائم اسکی سانسیں اپنی سانسوں میں منتقل کرنے لگا تھا 

کافی لمحے فسوں خیز تھے 

جب وہ پیچھے ہٹا تو مشال کے ہونٹ پہ ہلکا سا کٹ تھا جہاں سے خون کی ایک بوند نکلی تھی مشال کی آنکھوں میں سے چند موتی گرے تھے اور وہ بھاگتی ہوئی واشروم میں بند ہوگئی تھی 

دائم پیچھے سے اپنا سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا جب کے ایک ہاتھ ابھی بھی اسکا اپنے ہونٹوں پہ ہی تھا ایک خوبصورت مسکراہٹ نے اسکے چہرے کا احاطہ کرلیا تھا ۔

ماہ نور بیٹا خیریت ہے نا اتنی دیر کہاں کہاں لگادی تھی ؟

سامنے سے آتی ماہ نور کو دیکھ کے عائشہ خان پوچھنے لگیں تھیں 

ارے کچھ نہیں ماما شانزے کی وجہ سے لیٹ ہوگئی تھی اسے کوئی ڈریس پسند ہی نہیں آرہا تھا اس لیے 

ماہ نور بامشکل خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوۓ بولی 

اوکے بیٹا تم جاؤ جاکے فریش ہوجاؤ 

اوکے مما 

ماہ نور نے بامشکل مسکرا کے کہا اور اوپر چلی گئی 

اوپر جانے کے بعد وہ اپنے روم میں جاکے پھوٹ پھوٹ کے روئی 

کیوں اللہ پاک آخر کیوں ایسی کیا خطا ہوگئی تھی مجھ سے جو مجھے اتنی بڑی سزا ملی 

پلیز اللہ پاک میری مدد کریں مجھے راستہ دکھائیں ! 

کافی دیر وہ وہی بیٹھی روتی رہی پھر اٹھی اور جاکے شاور لیا اور باہر نکلی 

بالوں کو ٹاول سے رگڑتے ہوۓ ایک ہی شخص اسکی سوچوں کا مرکز تھا 

میر ارسلان بٹ 

کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا آخر کس بات کا بدلہ لیا تم نے مجھ سے میر ارسلان بہت شوق تھا نہ تمھیں مجھے سے نفرت کرنے کا اپنی شدت دکھانے کا صرف ایک تھپڑ کے پیچھے تم نے میری پوری زندگی برباد کردی لیکن میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں ہاں میر ارسلان بٹ ماہ نور خان ان ڈرپوک لڑکیوں میں سے نہیں ہے جو چپ چاپ خود پہ ظلم سہتی رہتی ہیں میں مقابلہ کروں گی تم سے تم مات دوں گی تمہاری یہ اکٹر توڑ دوں گی تمہارے وجود کو ریزہ ریزہ کرکے سکون ملے گا تم سے اپنے پورے دل سے دل کی گہرائیوں سے صرف نفرت ہی کروں گی تم کبھی بھی زندگی کے کسی موڑ پہ بھی میرا انتخاب نہیں ہوگے 

تیار رہنا کیوں کے محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اور مجھے تم سے جنگ کرنی ہے بدلے اور انتقام کی ایک ایسی آگ جو تمہارے وجود کو جلا کے خاکستر کردےگی اور تمہارے پاس راکھ کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا اب سے کھیل برابر کا ہوگا اور صرف فاتح ہی بچے گا ۔

ماہ نور ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں یہ سب کہہ رہی تھی 

لال انگارہ ہوتی آنکھوں کے ساتھ ہی اسکے چہرے پہ ایک شاطرانہ مسکراہٹ نے ڈیرہ جمالیا تھا ۔

صبح مشال کی آنکھ جلدی کھل گئی تھی خود کو ہمشیہ کی طرح دائم کی بانہوں میں پایا وہ اٹھی اور واشروم فریش ہونے چل دی فریش ہوکے واپس آئی تو دائم ابھی تک ویسے ہی سورہا تھا 

ایک نظر اسنے دائم کی جانب دیکھا 

بڑی بڑی آنکھیں اس پہ مغرور سا ناک عنابی ہونٹ گہرے کالے رنگ کے بال سرخ و سفید رنگت بلاشبہ وہ مکمل خوبصورت مرد تھا ۔

سو ہینڈسم بٹ ٹو ڈینجڑس 

So Handsome but too Dangerous!  

یہ الفاظ مشال کے منہ سے خود بخود نکلے تھے 

پھر سر جھٹک کے وہ اسکے اور اپنے لیے ناشتہ بنانے چل دی تھی ۔

ماہ نور کی صبح آنکھی تو اسکے فون پہ میر کی بےشمار کالز آئی ہوئیں تھیں 

اسکے ماتھے پہ بل پڑے 

یار یہ اچھی مصیبت گلے پڑگئی ہے 

وہ کوفت سے خود ہی بڑبڑائی 

اٹھی فریش ہوکے آئی تو پھر سے میر کالنگ اسکرین پہ چمک رہا تھا 

اب کی بار کال ریسو کرلی تھی 

خدا کا خوف کرو تم میر ارسلان بٹ کیوں میری زندگی حرام کرکے رکھی ہے تم نے نہ خود سکون سے بیٹھتے ہو نہ مجھے بیٹھنے دیتے ہو 

ہاہاہا بس ایک ہی دن میں تمہاری بس ہوگئی وائفی 

Don't you Dare to call Me your wifey 

i'm not yours 

آج کہہ دیا مگر آئندہ کے بعد زبان پہ یہ الفاظ لانا بھی مت سمجھی ماۓ ڈیئر وائفی 

میر کے لہجے کی شدت کو محسوس کرکے ایک پل کے لیے اسکا دل بھی ڈھڑک اٹھا لیکن وہ اپنا مقصد نہیں بھول سکتی تھی 

ناشتہ کیا میری جان نے 

میر نے لاڈ سے پوچھا 

چونکہ میر کا موڈ بھی اچھا تھا تو ماہ نور بھی کچھ پل کے لیے اس سے نارمل بات کرنے لگی سب ناراضگیاں نفرتیں بھولا کے 

نہیں کیا 

کیوں 

میر فکرمند سا ہوا 

میر کے فکرمند ہونے پہ ماہ نور کے چہرے پہ خود بخود ایک مسکان آئی جو کچھ ہی پلوں میں غائب ہوگئی تھی 

ابھی ہی اٹھی ہوں ابھی جاؤں گی نیچے 

ہممم اچھا سنو وہ تمہارے گھر میں کون سا لڑکا آیا ہوا ہے ؟

تمھیں کیسے پتہ ؟

تم جانتی ہو اچھے طریقے سے پھر بھی پوچھتی ہو؟

پھوپھو کا بیٹا ہے 

موسی نام ہے 

اسکا نام جو بھی ہو آئندہ کے بعد تم مجھے اسکے آس پاس بھی نہیں دکھنی چاہیے ہو سمجھی 

کیوں بھئی میں تو جاؤں گی اسکے پاس 

اگر گئی نا تو قسم اس پاک ذات کی اسے زندہ زمین میں گاڑ دوں گا 

ماہ نور کو میر کی شدت دیکھ کے کافی حیرت ہوئی 

کوئی اتنا دیوانہ بھی ہوسکتا ہے کسی کا 

کہاں سوچا تھا ماہ نور نے 

اوکے اوکے ریلکس 

نہیں جاتی میں اوکے 

ہممم ڈیٹس لائک  ماۓ بےبی 

Hmmm That's Like  My Baby 

اوکے مجھے ناشتہ کرنا ہے اب جانا ہے 

اوکے بےبی ٹیک کئیر 

ہممم اوکے باۓ 

اس نے کال ڈسکنٹ کی تھی بہت ساری سوچیں ایک ساتھ اسکے دماغ میں گردش کرنے لگی تھیں ایک دفعہ ماہ نور کا دل کیا کہ وہ میر کی محبت پہ اسکی شدت پہ ایمان لے آۓ لیکن وہ تو نفرت کرتا تھا اسے تو محبت کیسے ہوجاتی کیا واقعی ہی اتنا آسان ہے محبت سے نفرت ہونا فلحال آگ دونوں  طرف برابر کی لگی تھی شدت سے محبت اور اب شدت سے نفرت آخر ان لوگوں کی محبت کا کیا انجام ہونا تھا کیا دوبارہ سے ان کے دلوں میں محبت کی وہ آگ جل سکتی تھی جو جلا کے خاکستر کردے 

کیا لکھا تھا ان چاروں کی تقدیروں میں بہت سے سوالات کے جوابات دینے باقی تھے بہت سے رازوں سے پردے اٹھنے باقی تھے ۔

______________________________

او ہو تو میری لٹل فیری میری لیے ناشتہ بنارہی ہے انڑسٹنگ 

دائم نے مشال کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا جس پہ وہ گھبرا گئی 

ددا ۔۔ دائم کیا کررہے ہیں باہر جاکے بیٹھیں میں ناشتہ لاتی ہوں 

دائم نے مشال کی گردن میں منہ دیا اور اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا 

مشال کی تو گویا جان ہی نکل گئی تھی 

پھر اچانک وہ پیچھے ہوا اور باہر نکل گیا 

مشال ناشتہ لےکے ٹیبل پہ پہنچی تو وہ چپ چاپ ناشتہ کرنے لگا ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے روم میں چلا گیا مشال بھی کچھ ضروری کام نپٹا کے کمرے میں آئی دیکھا تو دائم اپنے لیپ ٹاپ پہ کسی کام میں مصروف تھا ۔

اس نے بولنا شروع کیا 

دائم 

جی دائم کی جان 

وہ مصروف سے ہی انداز میں بولا 

ووو وہ میں نے کچھ بات کرنی تھی آپ سے 

ہاں بولو 

وہ مجھے ایکچولی شوپنگ کرنی تھی 

دائم نے اسکی جانب دیکھا جو پرامید نگاہوں سے اسکی جانب دیکھ رہی تھی 

اوکے چلی جانا 

لیکن شوپنگ کرکے سیدھا گھر ہی آنا سمجھ گئی 

دائم نے وارننگ کے سے انداز میں کہا 

او اوکے دائم تھینک یو سو مچ یو آر سو نائس پرسن 

Oo Ok Daim Thank you so Much You are So Nice Person 

مشال انجانے میں خوش ہوتے ہوۓ دائم کے اتنے قریب آچکی تھی کہ دائم کا دل ڈھڑکا گئی تھی 

وہ یکدم پیچھے ہونے لگی کہ اچانک ہی دائم نے ایک دم اسکی کلائی سے پکڑ کے اسکو اپنی جانب کھینچا 

مشال بوکھلا کے رہ گئی تھی 

ہمممم بری بات شوہر کے قریب آکے اسکے ارمان بیدار کرکے اب خود کھسک رہی ہو

دائم شرارت سے بولا 

نن نہیں تو میں نے ایسا کب کیا 

ابھی کیا نا جاناں 

ویسے تمھیں پتہ ہے تمہاری یہ نوز پن تمہاری یہ آنکھیں تمہارے یہ گال اور سب سے بڑھ کے تمہارے یہ ہونٹ 

وہ اسکے ہونٹوں پہ انگلی پھیرتا ہوا گویا ہوا 

کافی ہیں میرے جزبات کو بھڑکانے کے لیے میرے ارمان مچل جاتے ہیں 

مشال بلش کرگئی تھی 

چہرہ کانوں کی لو تک سرخ ہوگیا تھا ۔

مجھے اچھا لگتا ہے جب تم بلش کرتی ہو 

Your Cheeks Glow a Beautiful Shade Of Red that i will never get tired of seeing ...

مشال اسکی بات پہ ہلکا سا مسکرا دی تھی اسکے مسکرانے پہ دائم بھی مسکرادیا تھا ۔

ماہ نور باہر جارہی تھی کیوں کے اسکی ایک کالج فرینڈ نے اسے بلایا تھا کچھ کام سے بلیو شرٹ کے ساتھ وائٹ پینٹ پہنے وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی وہ جانے کے لیے نکل ہی رہی تھی کہ موسی نے اسے آواز دی 

نور 

جی 

کہاں جارہی ہو ؟

وہ مجھے اپنی فرینڈ سے ملنا تھا 

اوو اچھا چلو آؤ میں چھوڑ دیتا ہوں 

نن نہیں میں چلی جاؤں گی 

کیوں کے اسے میر کا اچھی طرح پتہ تھا 

اب تم خوامخواه کی ضد کررہی ہو 

بیٹھو 

اندر 

ماہ نور کو ناچار بیٹھنا ہی پڑا تھا 

گاڑی چلاتے وقت وہ مسلسل اسکی نظریں خود پہ محسوس کررہی تھی 

ہاں آگیا بس یہی روک دیں 

موسی جیسے ہوش میں آیا تھا ماہ نور کی بات سن کے 

وہ اتری اور تھینکس بول کے آگے کی جانب بڑھ گئی تھی 

موسی کافی دیر وہی کھڑا کچھ سوچتا رہا پھر گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھ گیا ۔

ماہ نور کو واپس آتے رات ہوگئی تھی ڈنر تو وہ باہر سے ہی کرکے آئی تھی سو سبکو گڈ نائٹ بول کے سیدھا اپنے روم میں گئی تھی ۔

شاور لےکے وہ نکلی تو اچانک ہی روم کی لائٹ آف ہوگئی تھی 

او ہو یار اب اس لائٹ کو کیا ہوا ابھی وہ چل کے تھوڑی آگے آئی تھی کہ اسے کھڑکی کے سامنے ایک سایہ کھڑا نظر آیا 

بب بب بھوت 

اسکے منہ سے چیخ نکلنے والی تھی کہ آگے بڑھ کے میر نے اسکے منہ ہاتھ رکھا اور بولا 

مس چلی میں ہوں یار 

اسکی آواز سن کے وہ تھوڑا پرسکون ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے 

تت تم یہاں کیا کررہے ہو اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا جواب دونگی میں 

ہاہا بھئ کیا جواب دوگی بول دینا میرا شوہر ہے بس اچانک ہی میر نے ہاتھ بڑھا کے لائٹ کا سوئچ آن کیا تو پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا تھا 

ماہ نور نے فورٌا آگے بڑھ کے پہلے اپنا روم لاک کیا تاکہ کوئی آنا جاۓ پھر میر کی طرف آئی 

میر اسکو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا 

یہاں آنے کی وجہ ؟

ماہ نور کمر پہ ہاتھ رکھ کے سٹائل سے بولی 

میر نے گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیا وہ دھیلی سی شرٹ اور ہلکے سے ٹراوزر میں ملبوس تھی گیلے بال چہرے کو بوسہ دے رہے تھے 

میر دیوار سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا 

تمھیں دیکھنے کا دل کررہا تھا اس لیے چلا آیا 

ماہ نور کی ڈھرکنیں بےترتیب ہوئیں تھیں 

ویسے تم جتنا چھہچھورا انسان میں نے آج تک اپنی پوری لائف میں نہیں دیکھا 

ماہ نور بولی 

ارے تم نے ابھی تک دیکھا ہی کہاں ہے جانِ من ہمیں چھہچھورا ہوتے ہوۓ کہتے ساتھ ہی اس نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اپنی طرف کھینچااور وہ سیدھی اسکے سینے سے آلگی 

لکککک کیا کررہے ہو میر 

تمھیں چہچھورا پن دیکھا رہا ہوں جانِ میر 

ماہ نور اسکے انداز پہ بوکھلا کے رہ گئی تھی 

نظر ہمشیہ کی طرح دیوانہ وار اسکے چہرے کا طواف کرنے میں مصروف تھی 

کچھ بالوں کی لٹیں ماہ نور کے چہرے پہ آرہی تھیں 

میر نے انھیں پیچھے کیا اور کہنے لگا 

تم جانتی ہو ماہ نور تم مجھے ہر طریقے سے زچ کرتی ہو ہر وہ کام کرتی ہو جو مجھے پسند نہیں 

کہتے ہوۓ اسکی گرفت ماہ نور کی کمر پہ سخت ہونے لگی تھی 

میر مم مجھے درد ہورہا ہے 

جانتا ہوں 

میر مسکرا کے بولا 

ایسا ہی درد مجھے ہوتا ہے جب تم میری بات نہیں مانتی مجھ سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہو حالانکہ تم جانتی ہو کہ میر ارسلان بٹ سے تم کبھی بھی نہیں چاہ کر بھی نہیں جیت سکتی تم میری محبت میں مجھ سے ہار جاؤگی ماہ نور تم تڑپ کے سسک کے میرے پاس خود آؤگی 

ماہ نور میر کی باتوں پہ حیران ہورہی تھی

تم جانتی ہو مجھے دوسروں کو تڑپانے میں بہت مزہ آتا ہے یوں کہہ لو میرا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔

ماہ نور کو میر اب کوئی جنونی ٹائپ لگا تھا 

ویسے ایک بات بتاؤ ؟

کیا کبھی تم نے کسی انسان کے جسم کے اعضاء کاٹے ہیں ؟

ماہ نور اب خوفزدہ ہونے لگی تھی اور خود کو چھڑوانے کی ایک ناکام سی کوشش کرنے لگی تھی 

ریلکس بےبی مذاق کررہا تھا 

اب یہ سچ میں مذاق تھا یا جھوٹ یہ یا تو اللہ جانتا تھا یا پھر میر خود 

اسنے آہستہ سے ماہ نور کے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا اور پھر ماہ نور کی جانب دیکھ کر آنکھ مار کے کھڑکی سے نیچے کود گیا تھا ۔

پاگل 

ماہ نور اپنی بےترتیب ہوتی سانسوں کے ساتھ کہنے لگی تھی ۔

سر ووووو

کیا وووو 

سیدھی طرح بات کہو جو کہنی ہے 

عفان شاہ اپنے سیکڑری جمال کو ہکلاتے ہوتے دیکھ کے بولے 

سر وہ جدھر اپنے اڈے پہ ڈرگز رکھوائی تھیں آگے سیل کرنے کے لیے وہاں چھاپہ پڑا ہے 

ساری ڈرگز جلا دی اور ہمارے بندوں کو جان سے مارا دیا گیا ہے 

او ماۓ گاڈ 

مگر یہ سب کیا کس نے کون تھا اس سب کے پیچھے 

سر نہیں پتہ 

پوچھنے پہ پتہ چلا ہے کہ کوئی فل بلیک کلر کے ڈریس میں تھا چہرہ ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا بہت بےرحمی سے ہمارے بندوں کو قتل کیاگیا ہے 

عفان شاہ سر پکڑ کے بیٹھ گئے 

تم ایک کام کرو فورٌا انسپکٹر عمیر کو کال ملاؤ 

اوکے سر 

آخر کون ہوسکتا ہے جو مجھے یعنی عفان شاہ کو برباد کرنے پہ تلا ہے بہت جلد پتہ لگاوا کے اسکو ٹھکانے لگانا پڑے گا ۔

صبح دائم کو کچھ ضروری کام تھا جس کی وجہ سے وہ جلدی ہی چلا گیا تھا 

اس لیے مشال بھی شوپنگ پہ نکل پڑی تھی 

مشال ابھی کاسمیٹکس اور کچھ فروٹس لے کے فری ہوئی تھی اور واپس جانے کے لیے قدم بڑھاۓ ہی تھے کہ اچانک کچھ ہی دور اسے ایک ہوٹل میں زوار بیٹھا دکھائی دیا 

زوار 

او ماۓ گاڈ 

وہ ایک قدم آگے کی جانب بڑھانے لگی کہ اچانک ہی دائم کا خیال آیا جس نے اس اسکو اس یقین کے ساتھ باہر آنے کی اجازت دی تھی کہ وہ شوپنگ کرکے سیدھا واپس گھر آۓ گی

ایک پل کو اسے دائم کا خیال آیا مگر اگلے ہی لمحے وہ زوار کی جانب قدم بڑھانے لگی

آخر وہ کیونکر اس انسان کے بارے میں سوچتی جس نے اسکی زندگی برباد کردی اس سے اسکا سب کچھ چھین لیا اس پہ زندگی تنگ کردی اس پہ بلاوجہ کی روک ٹوک لگائی جب چاہا قریب آیا جب چاہا جھٹک دیا کیوں آخر کیوں وہ اس خود غرض انسان کے بارے میں سوچتی 

محبت قید کرنے کا تو نام نہیں ہے 

زوار 

مشال نے پکارا 

زوار کو یہ آواز سنے عرصہ بیت چکا تھا 

ماۓ بیوٹی 

اس سے منہ بے ساختہ نکلا 

وہ پیچھے مڑا تو مشال اس کے سامنے کھڑئی تھی 

مشال 

زوار اسکی جانب دیوانہ وار لپکا 

کیسی ہو ؟

کہاں تھی تم ماۓ بیوٹی کس نے تمھیں کڈنیپ کرلیا تھا کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تمھیں 

میں اور عفان انکل کتنے پریشان تھے تمھیں لے کے کہ جانے کس حال میں ہوگی 

اسلام آباد کا چپا چپا چھان مارا ہم نے لیکن تم کہیں نہیں ملی 

اور تم یہاں کراچی میں کیسے ؟۔

زوار

میری شادی ہوچکی ہے 

واٹ 

کس سے 

دائم دُرانی سے 

دائم کا نام سن کے زوار کے چہرے کا رنگ فق سے اڑا تھا 

تم نے شادی کی ہی کیوں ؟

میری مجبوری تھی زوار 

میں اسکی قید سے رہا ہونا چاہتی ہوں لیکن وہ واپس سے مجھے اپنے پاس قید کرلیتا ہے 

میں کھلی فضا میں سانسں لینا چاہتی ہوں لیکن چار دیواری میں قید ہوکے رہ گئی ہوں 

پلیز زوار ہیلپ می 

آئی ول ہیلپ یو ماۓ بیوٹی ڈونٹ بی اپ سیٹ آئی لو یو سو مچ آئی کانت لِو ود آؤٹ یو 

I Will help you My Beauty don't be upset 

I love you so much i can't live without you 

زوار نے آگے بڑھ کے مشال کے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا 

اور پھر کچھ یاد آنے پہ وہ اپنی پوکٹ سے ایک پیپر نوٹ اور ایک پین نکال کے اس پہ کچھ لکھا اور مشال کو پکڑایا 

ماۓ بیوٹی 

یہ میر نمبر ہے اس کو اپنے پاس رکھو اسی نمبر پہ مجھ سے تم کانٹیکٹ کرنا اوکے اور بالکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں آگیا ہوں نہ سب ٹھیک کردوں گا تمھیں اپنی دنیا میں واپس لے جاؤں گا جہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی دوسرا تیسرا اور وہ کمینہ دائم دُرانی نہیں ہوگا 

زوار نے نفرت سے کہا 

مگر یہ بات مشال کو اچھی نہ لگی کیوں اسکا جواب تو اسکے خود کے پاس بھی موجود نہیں تھا 

اوکے اللہ خافظ 

کہہ کے مشال جانے لگی تھی کہ زوار نے اسکی کلائی پکڑ لی 

نجانے کیوں مشال کو یہ سب اچھا نہ لگا 

اس نے اپنی کلائی اسے سے آزاد کرائی اور آگے کی جانب بڑھ گئی 

زوار کی نظروں نے مشال کا تادیر پیچھا کیا تھا۔

جب مشال واپس آئی تب تک دائم گھر نہیں آیا تھا اس نے شاور لیا اور دائم کے لیے کھانا بنایا 

کھانا بنا کے فری ہوئی تھی کہ بیل ڈور بجی کھولا تو دائم سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا 

اسلام و علیکم 

مشال نے کہا 

وعلیکم اسلام

دائم اندر آیا اور ڈور بند کرتے ہوۓ 

مشال کی کمر کو پکڑ کے دروازے کے ساتھ لگا گیا 

دد دائم ککک کیا کررہے ہیں

ہمممم سکون لے رہا ہوں 

جائیں جا کے چینج کریں میں کھانا لگاتی ہوں 

ہممم مجھے بھوک تو لگی ہے لیکن کھانے کی نہیں 

دائم معنی خیزی سے گویا ہوا 

دائم۔پلیز جائیں نا 

اوکے اوکے لٹل فیری ریلکس 

وہ پیچھے ہٹا 

اففف میری چھوٹی سی پری خالی میرے چھونے پہ اتنی گھبرا جاتی ہے پتہ نہیں میری شدتیں کیسے برادشت کرے گی 

سوچتے ہوۓ وہ شاور لینے کے لیے چلا گیا 

واپس آیا تو مشال کھانا ٹیبل پہ لگا چکی تھی 

وہ کھانا کھا کے چپ چاپ روم میں چلا گیا 

او ہو اب میں موبائل کی کیسے بات کروں دائم سے 

وہ سوچتے ہوۓ روم میں آئی تو دائم آنکھیں موندے دونوں ہاتھ آنکھوں پہ رکھے لیٹا تھا 

دائم 

ہممم 

مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی 

تو کرو نا 

 کہتے ہوۓ اس نے اسکا ہاتھ کھینچ کے اسے اپنے اوپر گرایا 

مشال کی سانسں اٹکی 

وہ مجھے موبائل چاہیے تھا 

دائم نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہنے لگا 

اوکے مل جاۓ گا 

مشال خوش ہوئی تھی 

جب کے دائم نے مشال کی گردن میں اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا 

تھینک یو دائم یو آر سو سویٹ 

Thank you Daim You Are So Sweet 

اچھا جی میں کتنا سویٹ ابھی پتہ چل جاۓ گا اس نے ایک اور جھٹکے سے مشال کو بیڈ پہ گراتے ہوۓ اس پہ جھکا 

ددد دائم 

مشال گھبرا کے بولی 

ہاہاہا بس میں اتنا ہی سویٹ ہوں دائم نے شررارت سے کہا 

اور پھر نظر اسکے حسین چہرے کا طواف کرنے لگی کہ اچانک ہی نظر اسکے ہونٹوں پہ ٹھہر گئی 

مشال نے سختی سے انکھیں میچ لیں 

دائم مسکرا دیا اور آہستہ سے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا اور کہنے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا 

رات کو تیار رہنا ڈنر پہ چلیں گے ۔

کہہ کے وہ اٹھ کے باہر نکل گیا جہاں وہ اپنی سانسوں کو نارمل کرنے لگی تھی ۔

رات کو مشال ڈنر کے لیے تیار ہونے لگی 

اس نے ایک بلیک کلر کا فراک نکالا جو کے سادہ سا تھا 

وہ پہنا وہ جانتی تھی کہ بلیک کلر دائم کا فیورٹ ہے اس لیے وہ پہننے لگی 

وہ مرر کے سامنے آکے بیٹھی 

آنکھوں میں ہمشیہ کی طرح کاجل کی ایک لکیر اور مسکارا اور آئی لائنر لگایا اور ہونٹوں پہ پنک کلر کی لپ اسٹک پھیر لی کانوں میں بلیک کلر کے چھوٹے چھوٹے بندے اور ساتھ ہی بلیک ہیلز وہ تیار تھی بالوں کو ہمشیہ کی طرح کھلا چھوڑ رکھا تھا 

جب دائم نے دیکھا تو وہ نظر ہٹانا بھول گیا تھا 

وہ چلتا ہوا قریب آیا جب کے مشال پیچھے ہونے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی 

اس نے کھینچ کے اسے اپنے قریب کیا اور کہنے لگا 

یو آر لوکئنگ بیوٹی فل ماۓ لٹل فیری 

You Are Looking beautiful My little Fairy ...

وہ اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا 

میرا تو دل ہی نہیں چاہ رہا کہیں جانے کو 

مشال دائم کی بات کا مطلب سمجھ کے اسکو آنکھیں دکھانے لگی

دائم مشال کے آنکھیں دکھانے پہ ہنسنے لگا تو اسکا ڈمپل نمایاں ہوگیا 

مشال نے بےساختہ اسکے ڈمپل پہ اپنا نازک چھوٹا سا ہاتھ رکھا تھا اور اسکے منہ سے بےساختہ نکلا تھا 

سو بیوٹی فل 

So Beautiful 

دائم اسکی بات پہ مسکرا دیا 

اور آگے بڑھ کے اسکی ہتھلی کو چوم لیا 

مشال اسکے انداز پہ گھبرا گئی 

اور کہنے لگی 

چچ چلیں دیر ہورہی ہے

دائم بھی جیسے اسکے سحر سے آزاد ہوا تھا 

اور اسکا ہاتھ پکڑ کے باہر لے جانے لگا 

جب کے مشال خود کو اپنی ہی حرکت پہ کوسنے لگی تھی ...

دائم اور مشال ڈنر کرچکے تھے دائم بل پے کرنے چلا گیا تھا کہ اچانک مشال کو تھوڑا دور زوار بیٹھا دکھائی دیا تھا وہ مشال کی جانب متوجہ نہیں تھا وہ اپنے موبائل میں مصروف تھا 

مشال کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے 

دائم بل پے کرکے آیا ہی تھا کہ اچانک مشال کہنے لگی 

دائم پتہ نہیں میری طبیعت خراب ہورہی ہے پلیز گھر چلیں 

مشال کو گھبرایا ہوا دیکھ کے دائم بھی اپ سیٹ ہوگیا تھا 

اوکے لٹل فیری تم پریشان نا ہو ابھی چلتے ہیں دائم نے اسے کمر سے تھاما اور اسے لےکے باہر نکل گیا تھا ۔

گھر پہنچ کے اس نے مشال کو میڈیسن دی اور اسکو سلا دیا 

مشال کو سر میں سچ میں درد ہونے لگا تھا اس لیے اس نے ٹیبلیٹ لےلی دائم کو لگا کہ مشال سوگئی ہے اس لیے وہ کمرے سے باہر نکل گیا 

دائم کے جانے کے بعد مشال نے آنکھیں کھولیں اور اپنی بے ترتیب ہوتی سانسوں کو نارمل کرنے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج وہ بال بال بچ گئی تھی کیوں کے  اگر دائم زوار کو دیکھ لیتا تو یقیناً کوئی نہ کوئی تماشا ضرور بنتا ۔

ماہ نور اب بس دن رات ایک ہی بات سوچتی رہتی کہ میر سے کیسے بدلہ لینا ہے اور اسکو کوئی ترکیب نہیں سوجھی رہی کہ اچانک ہی واجد خان بولے 

بیٹا کل رات کو ہم نے گھر میں ایک پارٹی رکھی ہے کیوں کے الحمد اللہ ہمارے بزنس کی ایک اور برانچ کراچی میں اوپن ہوئی ہے اس لیے 

او ماشا اللہ پاپا ڈیٹس گریٹ 

Oh Masha Allah papa that's geat 

تھینک یو بیٹا 

واجد خان مسکرا کے بولے 

ماہ نور بھی مسکرا دی اب بس اسے کل کا انتظار تھا پلان تو وہ بنا چکی تھی اس پہ بس اب عمل کرنا باقی تھا ۔

وہ نک سک سی تیار ہوئی بلیک کلر کی ساڑھی پہنے ساتھ ہی میک اپ میں مسکارا اور آئی لائنر لگاۓ ہونٹوں پہ ریڈ کلر کی لپ اسٹک لگاۓ بالوں کو کھلا چھوڑے اور پاؤں میں بلیک کلر کی ہی ہیلز پہنے کانوں میں ڈائمنڈ کے آویزے پہنے چلتی ہوئی نیچے آئی تمام نظروں اسکی جانب اٹھیں وہ کوئی آسمان سے اتری ہوئی کوئی اسپرا ہی لگ رہی تھی لیکن اس بے کافی نازیبا لباس پہن رکھا تھا

موسی کی تو نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی ماہ نور پر سے لیکن ماہ نور کے چہرے پہ ایک فاتحانہ مسکراہٹ در آئی تھی کیوں کے وہ جسکو تنگ کرنا چاہتی تھی وہ ناصرف تنگ ہوا بلکہ اسکی آنکھیں بھی لال انگارہ ہوئی ہوئیں تھیں 

وہ خود پہ میر کی لودیتی اور پرتپش نگاہیں واضح طور محسوس کرسکتی تھی 

اچانک ہی ڈی ۔جے نے ایک سونگ پلے کیا اور موسی نے ماہ نور کی جانب ہاتھ بڑھایا 

جسکو اس نے فوراً تھام لیا کیوں کے وہ میر سے کسی بھی طرح بدلہ لینا چاہتی تھی 

موسی نے ایک ہاتھ ماہ نور کی کمر پہ رکھا تھا اور ڈانس کرنے لگا تھا 

میر ضبط کی انتہا پہ تھا اچانک ہی اسکی برداشت کا پیمانہ لبریز ہوا تھا 

اچانک ہی ہال میں تمام لائٹس آف ہوئیں تھیں موسی نے ادھر ادھر دیکھا ہی تھا کہ ماہ نور کو کوئی اسکی بازو سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اوپر لےکر گیا تھا 

اندھیرا تھا اس وجہ سے موسی کو لگا کہ ماہ نور خود ہی کہیں آگے پیچھے ہوئی ہے 

اوپر ماہ نور کے کمرے میں لے جاکر میر نے ماہ نور کو دھکا دیا تھا اور لاک لگا کے اسکی جانب آیا اور اسکے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا تھا 

آہ چھوڑو مجھے درد ہورہا ہے مجھے 

ہونا چاہیے تمھیں درد تم اسی لائق ہو اتنا شوق ہے تمھیں غیر مردوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کے ڈانس کرنے کا ہاں انکے قریب جانے کا

ماہ نور میر کے خطرناک انداز پہ کانپ اٹھی 

تو ٹھیک ہے تمہارا یہ شوق میں خود پورا کردیتا ہوں کہہ کے اس نے ماہ نور کو بیڈ پہ دھکا دیا اور اس پہ جھکا 

اب ماہ نور رودی تھی 

پل پل پپ ۔۔ پلیز میر تمھیں خدا کا واسطہ ہے میرے ساتھ ایسا مت کرو 

میر جو ماہ نور پہ جھکا ہوا تھا ایک نظر اٹھا کے ماہ نور کی آنکھوں میں دیکھا 

اور پھر کھڑا ہوا اور اسے بھی کھینچ کے اپنے ساتھ کھڑا کیا 

اپنے محرم سے رشتہ بناتے وقت تمھیں رونا آجاتا ہے اور غیر مردوں کی موجودگی میں انکے آس پاس رہ کے انکی بانہوں میں بانہیں ڈال کے تمھارے چہرے سے مسکراہٹ ہی نہیں ہٹتی کیوں ؟

ماہ نور ایک نے دفعہ میر کی جانب بھیگی پلکوں سے دیکھا لیکن اسکی لال انگارہ ہوتی آنکھیں دیکھ کے وہ نظریں جھکا گئی 

میر نے اسے کھینچ کے بالکل اپنے قریب کرلیا 

وہ خود پہ میر کی جھلسا دینے والی نظروں اور گرم سانسیں باآسانی محسوس کرسکتی تھی 

وہ اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کرتے ہوۓ کہنے لگا 

شکر کرو کہ تم سے نفرت ہے محبت نہیں اگر محبت ہوتی نا تو پاگل کردیتا تمھیں 

انتہائی جنونیت سے کہتا وہ ماہ نور کے دل کو ڈھڑکا گیا تھا 

ایک بات میری کان کھول کے سن لو اگر آج کے بعد تم مجھے کسی بھی غیر مرد کے ساتھ نظر آئی نا خدا کی قسم اسکے ساتھ ساتھ تمہارے بھی ٹکڑے کردوں گا اور یہ صرف دھمکی نہیں ہے یاد رکھنا 

کہہ کے اس نے اسکو ایک جھٹکے سے چھوڑا اور وہاں سے نکل گیا 

ماہ نور نے روتے ہوۓ کمرے میں موجود ہر چیز تہس نہس کردی تھی 

نن نہیں میں تمھیں نہیں چھوڑوں گی میر ارسلان بٹ میں تم سے اتنی آسانی سے ہار نہیں مانوں گی میں لڑوں گی میں خود کو تمہارے چنگل سے آزاد کروا کے رہوں گی اب میں تمھیں تمہارے طریقے سے ہی مات دوں گی 

کہتے ہوۓ وہ آگے بڑھی تاکہ اپنا میک اپ ٹھیک کرکے نیچے جاسکے ۔

انسپکٹر عمیر مجھے نہیں پتہ پتا لگاؤ کہ یہ کس زلیل کا کام ہے جس نے میری محنت برباد کردی کل مجھے یہ ڈرگز آگے اسمگل کرنی تھیں اور اب میں اسے بندے کو کیا جواب دوں گا جس سے میری ڈیل ہوئی تھی ۔

عفان شاہ کوفت سے بولے 

ظاہر ہے انسپکٹر عمیر بکا ہوا تھا اس لیے بولا 

شاہ صاحب آپ فکر مت کریں میں جلد سے جلد پتا لگاواتا ہوں کہ کس نے ہمارا کام روکنے کی کوشش کی ہے 

صرف پتہ نہیں لگانا اسکو ختم بھی کرنا ہے 

سمجھ گئے 

عفان شاہ بولے 

جی شاہ صاحب سمجھ گیا 

اور ہاں کام ہونے کے بعد جتنا چاہے معاوضہ وصول کرلینا 

ٹھیک ہے 

انسپکٹر عمیر نے کہا اور اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھاتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا ۔

صبح دائم تھوڑی دیر کے لیے باہر گیا اور پھر واپس آگیا دیکھا تو مشال کھڑکی کے سامنے کھڑئی تھی 

دائم نے اسکو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا اور اسکے کندھے پہ اپنی تھوڑی رکھے کہنے لگا 

کیسی ہو ماۓ لٹل فیری 

الحمد اللہ 

ہممم 

آپ کیسے ہیں 

مشال نے پوچھا تو دائم اسکے پوچھنے پہ مسکرا دیا 

میں بھی ٹھیک ہوں 

میں آپکے کیے کھانا لگاتی ہوں 

مشال کہہ کے جانے لگی کہ دائم نے کھینچ کے اپنے قریب کیا اور اسکی کمر پہ ہاتھ رکھا 

دددا ۔۔۔ دائم کککک کیا کررہے ہیں 

مشال ہکلاتے ہوۓ بولی 

دائم مشال کی گردن میں منہ چھپا کے اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا 

اور مشال کی جان فنا ہونے لگی 

تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے لٹل فیری 

وہ اسکی گردن میں ہی منہ چھپاۓ بولا 

کیسا سرپرائز 

مشال نے ناسمجھی سے دائم کی جانب دیکھا 

کلوز یور آئز 

Close Your Eyes 

مشال نے اسکی جانب دیکھا اور آنکھیں کھولیں 

ناؤ اوپن یور آئز 

Now Open your eyes 

مشال نے آنکھیں کھولیں تو دائم کے ہاتھ میں ایک خوبصورت نیو موبائل تھا 

یہ لو تمہارا موبائل 

اچھا لگا ؟

جی تھینک یو فار دِس 

Thank you For this 

نو نیڈ ماۓ لٹل فیری 

No Need My Little Fairy

اوکے اب اس میں میں نے سم ڈال دی ہے اس میں صرف میرا نمبر سیو ہے کسی اور سے نہ ہی تم کوئی رابطہ کروگی نہ ہی  بات کروگی آئی سمجھ ؟

دائم اپنی گہری نیلی آنکھیں اسکی بلیک آنکھوں میں گاڑھتا ہوا وارننگ دیتے لہجے میں بولا 

مشال اسکی گہری نیلی آنکھوں کی تاب نہ لاسکی اس لیے نظریں جھکا گئی تھی 

بولو ؟

جج جی اوکے 

ہممم ڈیٹس لائک ماۓ گڈ بےبی

hmm that's like a good baby 

دائم اسکا گال تھپتھپاتا ہوا باہر نکل گیا جب کے مشال اب صحیح معنوں میں پریشان ہونے لگی تھی کہ وہ زوار سے کیسے بات کرے 

مشال 

دائم کی آواز پہ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور باہر کی جانب بڑھ گئی ۔

لٹل فیری یار جلدی کرو بھوک لگی ہے مجھے 

جج جی کھانا نکال دیتی ہوں 

وہ اسکے پلیٹ میں کھانا نکال کے لائی تھی 

تم نہیں کھاؤ گی ؟

دائم نے سوال کیا 

نن نہیں بھوک نہیں ہے مجھے 

وہ جانے لگی تھی کہ دائم نے کلائی سے پکڑ کے اپنی گود میں بیٹھا لیا 

ددددا ۔۔۔ دائم کیا کررہے ہیں کھانا کھا لیں نا آپ 

میری روح بھوکی رہے گی تو میں کیسے کھا سکتا ہوں

دائم کے اتنے شدت بھرے اور محبت پاش انداز میں مشال تڑپ اٹھی تھی وہ اسکو دھوکا دینے جارہی تھی جو انسان اسکو دیکھ کے سانسں لیتا تھا اسکو دھوکا دے رہی تھی جسکا ہر دن اور رات اس سے شروع ہوکے اس پہ ختم ہوتے تھے 

ناچاہتے ہوۓ اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی 

دائم ایک نوالہ اسکے منہ میں ڈالتا اور ایک خود کھاتا 

کھانا ختم ہونے کے بعد وہ اسکو ایسے ہی اٹھاۓ اپنے کمرے میں لے آیا 

اور اسکو بیڈ پہ لیٹا کے اس پہ خود جھکا 

ددددااا ۔۔۔۔ دائم کیا کررہے ہیں ؟

ششش!  دائم خمار آلود لہجے میں بولا 

تو مشال کے اوسان خطا ہونے لگے

تم جانتی ہو لٹل فیری تم میرے لیے بہت اہم ہو تم میرا جنون ہو میری شدت ہو میرا سکون ہو میری امید ہو تم تم دنیا کی وہ واحد لڑکی ہو جسکو دل کے مجھ سا پتھر انسان پگھلا پتہ نہیں تم میں ایسی کیا کشش ہے ایسا کیا جادو ہے کہ میں کھینچا چلا آتا ہوں تمہاری جانب تمہاری ہر ایک سانس پہ صرف اور صرف دائم دُرانی کا حق ہے تم خود بھی مجھ سے دور نہیں جاسکتی بس ایک بات بتادوں تمھیں کبھی میرا مان ، بھروسہ مت توڑنا جو مجھے تم پہ ہے ورنہ میرا وہ بھیانک روپ دیکھو گی کہ تمہاری روح کانپ اٹھے گی ایک پل کو دائم کی شدت کو محسوس کرکے مشال بھی حیران رہ گئی

مشال کو یہ جملے حقیقت لگے تھے دل چاہ ایک پل میں ہی اسکی شدتِ محبت پہ ایمان لے آۓ لیکن وہ یہ نہیں بھول سکتی تھی کہ کس بے دردی سے اس نے اسے اسکے اپنوں سے دور کیا تھا ۔

اسکو اپنے ماتھے پہ دائم کا پرحدت اور شدت سے بھرپور لمس محسوس ہوا تھا

مگر اگلے ہی لمحے اسکی صحیح معنوں میں جان فنا ہوئی جب اسے اپنی شہ رگ پہ دائم کا شدت لٹاتا لمس محسوس ہوا 

دددا ۔۔۔ دائم ککک کیا کررہے ہیں 

اپنی جان کو پیار کررہا ہوں 

کہہ کے ایک بار بھر پھر وہ مدہوش ہوا تھا 

مشال کا چہرہ لال ہوچکا تھا دائم کی شدتیں سہتے ہوۓ 

لیکن جب برداشت ختم ہوئی تو مشال کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے 

دائم نے بالاآخر ایک بار پھر اس پہ ترس کھا کے اسکو چھوڑا دیا ورنہ اسکی پیاس اتنی آسانی سے بجھنے والی نہیں تھی ۔

دائم الگ ہوا اور اسکو خود میں بھینچ کے بولا 

سس سوری لٹل فری پتہ نہیں یار مجھے تمھیں دیکھ کے کیا ہوجاتا ہے 

مشال حیران ہوئی تھی کہ دائم  جیسے بندے  نے اسے سوری کہا ہے جسے سب سوری کہتے ہیں  

اور پھر مسکرا دی اور آنکھیں بند کرلیں 

ہی یی ۔۔ ہیلو 

مشال نے لاکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا 

ماۓ بیوٹی 

کیسی ہو ؟

زوار نے کہا 

ٹھیک 

تم بتاؤ 

میں ٹھیک نہیں ہوں تمہارے بنا یار 

پلیز واپس آجاؤ نہیں رہ سکتا تمہارے بنا 

مشال کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں 

مم میں ککک کیسے 

سنو مشال جیسے میں تمھیں بتاتا ہوں ویسا ہی کرتی جانا 

تم مجھے بس ایک بات کا جواب دو 

تم دائم دُرانی کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتی ہو نا ؟

ہاں میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں زوار مجھے یہاں گھٹن ہوتی ہے میں پل پل سسکتی ہوں تڑپتی ہوں لیکن کوئی میری آہ سننے والا نہیں ہوتا 

میں یہاں سے بہت دور جانا چاہتی ہوں 

مشال 

زوار گھمبیر آواز میں بولا 

تم بالکل بھی فکر نہ کرو بس تم وہی کرتی جاؤ جیسا میں کہتا ہوں اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہمشیہ ساتھ ہوں تمہارے 

اوکے مائی بیوٹی 

اوکے 

اللہ حافظ 

اللہ حافظ 

کہہ کے فون رکھا ہی تھا کہ ڈور بیل بجی مطلب دائم آگیا تھا 

مشال نے جلدی سے کال لسٹ میں سے زوار کا نمبر ڈیلیٹ کیا اور کانٹیکٹ لسٹ میں سے بھی کہ دائم کو کسی قسم کا شک نہ ہو 

اور فوراً گیٹ کی جانب بڑھ گئی ۔

دائم اسکو مسکراتا دیکھ کے خود بھی مسکرا دیا اور آنکھیں موند لیں 

وہ سب دن کا کھانا فری ہوۓ تھے جب کے موسی اور واجد خان اور عائشہ خان لاؤنج میں بیٹھے تھے 

ماہ نور سورہی تھی کیوں کے اسے بخار تھا ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا تو اسنے منع کردیا اس لیے عائشہ خان نے اسے زبردستی ٹیبلیٹ دے کے سلایا تھا ۔

ماموں مامی مجھے کچھ بات کرنی تھی آپ سے 

ہاں ہاں بیٹا بولو ؟

وہ دراصل میں ماہ نور سے شادی کرنا چاہتا ہوں 

اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو ؟

بیٹا ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے تم ہمارے اپنے بیٹے ہو 

لیکن میں ایک دفعہ اپنی بیٹی سے پوچھنا چاہوں گا اسکے کیا راۓ ہے اس بارے میں اسکی مرضی کے بنا میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا 

جی ماموں کوئی مسلہ نہیں ہے بےشک آپ پوچھ لیں 

موسی مسکرا دیا تو واجد اور عائشہ خان کے چہرے پہ بھی ایک مسکان ابھری تھی ۔

شام کو دائم گھر نہیں تھا 

مشال شاور لےکے نکلی دیکھا تو اسکی سیل ٹون بجی تھی 

اسلام و علیکم 

وعلیکم اسلام 

کیسی ہو ماۓ بیوٹی

زوار نے کہا 

ہاں الحمد اللہ 

تم بتاؤ 

ٹھیک ہوں 

اچھا میں نے تم سے کچھ بات کرنی تھی

ہاں بولو 

میں آج رات کی فلائیٹ سے اسلام آباد واپس جارہا ہوں 

ہممم تو 

تو میں چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ چلو 

کککک کیسے مم میں کیسے تم پاگل ہوگئے ہوکیا ؟

مشال یار تم اس سے بہتر کوئی موقع نہیں ملے گا خود کو آزاد کروانے کا اس جانور سے 

لیکن یہ ناممکن سی بات ہے زوار 

کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا مائے بیوٹی 

اچھا اب پلان سنو تم نے کرنا کیا ہے 

مشال کو زوار نے سارا پلان سمجھا دیا تھا لیکن مشال کا دل نجانے کیوں بیٹھ رہا تھا اسے عجیب سا محسوس ہورہا تھا وہ دائم کو چھوڑ کے کیوں نہیں جانا چاہتی تھی کیا اسے اسکی عادت ہوگئی تھی ؟

اگر ہوگئی تھی تو عادت تو ویسے بھی بہت بری چیز ہے 

بہت سی سوچوں اسکے دماغ میں گردش کرنے لگیں تھیں 

رات کو دائم لیٹ ہی آیا تھا 

مشال اسکی کافی رکھ کے جانے لگی تو دائم نے جھٹکے سے اسے کھینچ کے اپنی گود میں بیٹھایا 

لٹل فیری پتہ نہیں میں پہلے کچھ بھی کھونے سے ڈرتا نہیں تھا پہلے مگر اب ڈر لگنے لگا ہے کسی کو کھونے سے بہت ڈر لگتا ہے نہیں پتہ کیوں لیکن وہ ایک انسان میری رگوں میں خون کی مانند ڈورتا ہے 

پوچھو گی نہیں کون ہے وہ ؟

کون ہے ؟

مشال نے آہستگی سے پوچھا 

تم ہو وہ انسان جسکو دائم دُرانی جیسا انسان کھونے سے ڈرتا ہے تم میرا کل سرمایہ ہو لٹل فیری 

مشال کا دل ساکت ہوا تھا کچھ پل کے لیے 

وہ اس سے شدتِ محبت کرتا ہے اتنی شدت سے محبت اور وہ کیا کرنے جارہی ہے دھوکا دے رہی وہ اسے 

مشال کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی 

لٹل فیری ایک بات بتادوں تمھیں 

تم مجھے چھوڑ کے گئی نا میں دنیا میں موجود ہر ایک چیز کو جلا کے راکھ کردوں گا تم مجھ سے جتنا دور جاؤں گی مجھے اپنے اتنا ہی قریب پاؤں گی 

کہہ کے وہ اسکی نوز پن سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا 

ددداا ۔۔۔ دائم کیا کررہے ہیں کافی پی لیں ٹھنڈی ہوجاۓ گی 

مجھے پینا ضرور ہے لیکن کافی کو نہیں کہہ کے وہ مشال پہ جھکنے ہی والا تھا کہ مشال اٹھ کھڑئی ہوئی پھرتی سے

دائم مشال کی تیزی دیکھ کے مسکرا دیا 

مشال نے ایک نظر اسکی جانب اور کہنے لگی 

ککک کافی پی لیجیئے گا ٹھنڈی ہورہی ہے 

کہہ کے مشال واک آؤٹ کرگئی تھی وہاں سے 

مشال کا دل زور و شور سے ڈھڑک رہا تھا 

کیا وہ جو کرنے جارہی تھی وہ ٹھیک تھا ؟

کیا اسے دائم کو چھوڑ کے جانا چاہیے تھا 

جب وہ روم میں واپس آئی تو دائم گہری نیند سوچکا تھا 

دراصل مشال نے دائم کی کافی میں نیند کی ٹیبلیٹس ملادی تھیں مطلب اب وہ آسانی سے یہاں سے جاسکتی تھی 

وہ دائم کے قریب آکے اسکے پاس بیٹھ کے بےآواز رونے لگی 

ایک نظر اسنے اسکی جانب دیکھا وہ دل ڈھڑکانے تک کا حسن اپنے پاس رکھتا تھا 

لیکن وہ نیند میں بھی الجھا ہوا لگ رہا تھا جیسے کسی کے کھو جانے چھوڑ جانے کا خوف ہو 

مجھے نہیں پتہ میں کیوں رورہی ہوں میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں میرا جانا بہت ضروری ہے حالانکہ یہ رشتہ صرف ایک زبردستی کا رشتہ ہے لیکن پھر کیوں میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے مجھ نہیں پتہ مجھے یہ بھی پتہ ہے جب تمھیں پتہ چلے گا کہ میں تمھیں چھوڑ کے چلی گئی ہوں تو تم ہر ایک چیز کو آگ لگا دوگے تہس نہس کردوگے لیکن میں تم سے اتنا دور چلی جاؤں گی کہ تم کبھی مجھ تک نہیں پہنچ پاؤگے دائم کیوں میں تم سے کبھی محبت نہیں کرسکتی میں تمہارے دئیے ہوۓ زخموں کو نہیں بھلاسکتی ۔

کہتے ہوۓ ایک دم مشال اٹھی تھی

اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور خود کو اچھی طرح چادر سے ڈھانپ کے وہ نکل گئی ۔

زوار نے اسے پک کرلیا 

زوار بہت خوش تھا لیکن مشال کا دل بار بار ڈائم کو دیکھنے پہ تڑپ رہا تھا 

کیا تھا وہ آخر انسان کبھی اتنا میٹھا لہجہ شہد جیسا اور کبھی اتنا کڑوا 

وہ چاہ کے بھی اپنے دل کی کیفیت کو نہیں سمجھ پارہی تھی 

مشال کی آنکھیں کافی لال ہوچکی تھیں وجہ دائم کی جدائی کا اثر تھا لیکن اسے فلحال یہ سب نہیں دیکھائی دے رہا تھا وہ اپنے چاچو کو زوار کو اپنی بیسٹ فرینڈ ماہ نور کو نہیں چھوڑ سکتی تھی لہذا اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب مزید اس گھٹن زدہ گھر میں اس دوزخ میں واپس نہیں جاۓ گی 

فلائیٹ کا ٹائم ہوچکا تھا ۔

مشال بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھی جیسے کسی کے آنے کا انتظار ہو لیکن کبھی کبھار ہم خود ہی غلط راستے پہ چل کے غلط چیزوں کا انتخاب کرکے چاہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوجاۓ ایسا کیوں ؟ شاید ہم حقیقت کو تسلیم نہیں کرپارہے ہوتے ۔

مشال کو واشروم جانا تھا اس لیے وہ چلی گئی تھی تھی ۔

اچانک زوار کی نظر مشال کے موبائل پہ پڑی اس نے دیکھا تو کوئی پاسورڈ نہیں لگا ہوا تھا اس نے دائم کی چیٹ نکالی اور ایک میسیج کرکے فون کو اپنی جگہ رکھ دیا اور ساتھ ہی سینٹ لسٹ Sent List میں سے بھی ڈیلیٹ کردیا تھا ۔

مشال آچکی تھی اور وہ دونوں جہاز میں بھی بیٹھ چکے تھے 

جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا جبکہ بلیک گہری آنکھوں میں اداسی نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا آنسو نکل نکل کے اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے ..

کبھی اس نگر تجھے ڈھونڈنا ، کبھی اس نگر تجھے ڈھونڈنا

کبھی رات بھر تجھے سوچنا ، کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈنا 

مجھے جابجا تیری جستجو تجھے ڈھونڈتی ہوں میں کوبکو

کہاں کھل سکا تیرے روبرو میرا اس قدر تجھے ڈھونڈنا

تیری یاد آئی تو رولیا جو تو مل گیا تجھے کھودیا 

میرے سلسلے بھی عجیب ہیں تجھے چھوڑ کے تجھے ڈھونڈنا ۔۔۔۔

وہ دونوں اسلام آباد کی سرزمین پہ قدم رکھ چکے تھے ۔

اسکی آنکھ تقریباً پور تین گھنٹے کے بعد کھلی تھی 

اس نے مندی مندی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا 

سائیڈ پہ ہاتھ بھی رکھا جو جگہ مشال کی تھی

لٹل فیری 

کہاں ہو یار ؟

وہ اسے پکار رہا تھا 

لیکن وہ وہاں ہوتی تو جواب دیتی نہ

لیکن مشال وہاں نہیں تھی 

بلکہ مشال تو کہیں بھی نہیں تھی 

اس نے پورا گھر چھان مارا لیکن وہ کہیں نہیں ملی 

دائم کو اب تشویش نے آگھیرا 

اتنے میں اس نے اپنا فون اٹھایا کہ ایک میسیج مشال کی طرف سے بھیجا گیا تھا پڑھ کے اسکی رگیں تن گئیں نیلی خون میں خون اتر آیا لال انگارہ ہوتی آنکھیں لہو ٹپکاتی آنکھوں سے اس نے میر کو کال کی 

ہاں سن میری بات 

جتنی جلدی ہوسکے میری اسلام آباد کی فلائیٹ کروا

مجھے آج ہی واپس آنا ہے سمجھ گیا ؟

وہ اسلام آباد میں ہی ہے 

پلیز تو ابھی کچھ مت پوچھ جتنا کہا ہے اتنا کردے بھائی

ایک گھنٹے کے بعد مجھے کال کرکے کنفرم کردینا 

کہہ کے اس نے فون کاٹ دیا 

اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ وہاں پہ پہنچ کے اپنی جان کی جان اپنے ہاتھوں سے ہی لے ڈالے 

ایک نظر اس نے خود کو شیشے میں دیکھا 

اور پوری قوت سے اپنا ہاتھ شیشے پہ دے مارا 

خون ابل کے نکلا تھا اسکی وائٹ شرٹ پوری خون سے بھرگئی تھی 

مگر اسے کہاں پرواہ تھی 

پھر یکایک اس نے اپنی شرٹ کا گلا چاک کیا اور شیشے کا ایک ٹکڑا اٹھایا 

اور اپنے دل کے مقام پہ 

" مشال " 

لکھا 

لکھتے وقت ایک عجیب سی جنونیت اور دیوانگی اس پہ طاری تھی 

تمھیں خدا نے بنایا ہی صرف میرے لیے تھا مشال اور تم نے کیا کیا میری امانت میں خیانت کی تم نے اسکی سزا تو تمھیں بھگتنی ہی پڑے گی تم نے ابھی تک صرف اور صرف دائم دُرانی کی محبت دیکھی ہے اب سے تم میری دیوانگی جنونیت بھی سہوگی تمھیں تم سے چھین لوں گا میں تمھیں اتنا بےبس کردوں گا کہ تم خود چل کے میرے پاس آؤگی 

یہ دائم دُرانی کا وعدہ ہے تم سے 

ایک عزم سے کہتا ہوا

وہ شاور لینے چلا گیا تھا ۔

زوار مشال کو لےکے سیدھا شاہ منشین گیا تھا 

چچچ چاچو

مشال نے کانپتی آواز میں پکارا تو عفان شاہ نے نظر اٹھا کے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اسکو اپنے سینے سے لگا لیا 

مشال بیٹا آپ کہاں چلی گئی تھی کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا آپکو اور آپ زوار کو کیسے ملیں آپ ٹھیک ہیں نا ؟

عفان شاہ نے اچھا بننے کی بھرپور کوشش کی جس میں وہ کافی حد کامیاب بھی ہوۓ 

جی چاچو میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟

تمھیں سلامت دیکھ کے ٹھیک ہوں بیٹا

عفان شاہ نے تمام میڈس کو حکم دیا کہ آج سب کھانا مشال کی پسند کا بنے گا 

جس پہ مشال نم آنکھوں کے ساتھ مسکرادی

بیٹا آپ نے بتایا نہیں کس کی اتنی جرات ہوئی تھی کہ عفان شاہ کی پوتی کو کڈنیپ کرے

مشال نے ایک نظر زوار کی جانب دیکھا 

پھر تمام بات عفان شاہ کے گوش گزاری 

عفان شاہ پہلے تو حیران رہ گئے 

انکو دائم کی نیلی آنکھوں ذہن میں آئیں جس سے باقاعدہ انھوں نے ایک جھرجھری لی مگر اگلے ہی لمحے انھوں نے خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوۓ کہا 

مشی بیٹا آپ اپ سیٹ نہ ہوں میں ہوں نہ سب سنبھال لوں گا اور اس کمینے کو سخت سے سخت سزا ملی گی 

مشال کو نجانے کیوں یہ سب سن کے اچھا نہ لگا 

لیکن وہ فریش ہونے کا کہہ کے اپنے روم میں چلی گئی 

زوار تم میری بات دھیان سے سنو 

جی انکل 

میں چاہتا ہوں ایک ہفتے کے اندر اندر تمہارا اور مشال کا نکاح ہوجاۓ 

کیا لیکن انکل مشال آل ڑیڈی دائم کے نکاح میں ہے 

تم ایک کام کرو دائم کا کیسے بھی کرکے پتہ کرواؤ 

میں طلاق کے پیپرز تیار کرواتا ہوں 

لیکن انکل وہ دائم دُرانی ہے اتنی آسانی میں سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہے وہ 

او ہو تم اسکی فکر نہ کرو اسکے تو اچھے اچھے بھی مانیں گے 

ٹھیک ہے انکل جیسے آپکی مرضی 

اچھا ٹھیک ہے میں چلتا ہوں کافی لیٹ ہوگیا ہے 

ارے نہیں بیٹا کھانا کھا کے جانا 

نہیں انکل پھر کبھی 

لیکن بیٹا مشال ؟

انکل مشال کو کچھ ٹائم اکیلا رہنے دیں وہ ابھی ابھی ایک بہت بڑے ٹراما سے گزری ہے 

ہممم اوکے 

اللہ حافظ 

کہہ کے وہ نکل گیا تھا۔

ماہ نور اپنے روم میں تھی جب واجد خان اسکے روم میں آۓ 

ماہ نور بیٹا 

انھوں نے پکارا 

ماہ نور جو لیپ ٹاپ پہ اپنے کسی کام میں مصروف تھی چونک کے دیکھا

ارے پاپا آپ آئیں نا پاپا ضرور آئیں 

بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی 

جی جی پاپا ضرور کریں 

وہ دراصل بیٹا موسی بیٹا تم سے شادی کا خواہشمند ہے 

ککک کیا ؟

ماہ نور ہکلائی تھی 

لیکن یہ سب سن کے تو مانو کسی کے تن بدن میں آگ ہی لگ گئی تھی 

ہاں بیٹا میں تمہاری راۓ معلوم کرنے آیا تھا کہ تم کیا چاہتی ہو ؟

ممم میں ؟

ہاں بیٹا اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں بس آرام سے سوچ لو دو تین دن کے بعد مجھے بتادینا اوکے 

واجد خان نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ ماہ نور کے سر پہ رکھا 

اوکے بیٹا تم ریسٹ کرو 

اوکے پاپا 

ماہ نور بامشکل مسکرا کے بولی تھی 

واجد خان کے بعد ماہ نور روم کو لاک کر آئی تھی 

وہ یہی سوچ رہی تھی کہ وہ کیا کرےاور کیا نہ کرے عجیب سی کشمش میں مبتلا تھی وہ 

وہ ابھی مرر میں کھڑئی اپنے ہاتھوں پہ لوشن لگارہی تھی کہ اپنی کمر پہ کسی کے ہاتھوں کا دباؤ محسوس ہوا 

میر نے جھٹکے سے اسکا رخ اپنی طرف موڑا 

اور اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپایا اور اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا 

ماہ نور کی تو جان فنا ہونے لگی تھی 

ممم میر کیا کررہے ہو ؟

چھھ چھوڑو مجھے 

شش!  میر نے اسکے ہونٹوں پہ اپنی انگلی رکھی 

کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ اس نے اسکو دیوار کے ساتھ پن کرتے ہوۓ کہا 

چپ چاپ اس رشتے کے لیے انکار کردینا 

سمجھی ؟

ماہ نور کے ماتھے پہ یک دم بل پڑے تھے 

کیوں کیوں منع کروں میں نہیں کروگی منع جو کرنا ہے کرلو 

کہنے کی دیر تھی کہ میر نے اسکا بازو مڑوڑا 

اتنی کوئی تم دودھ پیتی بچی نہیں ہو اچھے سے جانتی ہو کہ نکاح پہ نکاح جائز ہی نہیں ہے 

ماہ نور نے سختی سے دانت بھینچ لیے 

اور اگر پھر بھی نہ کرو منع تو کیا کروگے ؟

ہاں بولو جواب دو نا چپ کیوں ہو 

ماہ نور گویا پھٹ پڑی تھی 

تو اپنے اس ڈئیر کزن کی موت کی ذمہ دار صرف تم ہوگی 

ریمبر ڈیٹ 

Remember that ...

کہہ کے اس نے کچھ پل سرخ آنکھیں لیے اسکی جانب دیکھا اور پھر پلٹ گیا 

پیچھے ماہ نور روتے ہوۓ اسے مختلف القابات سے نوازتی رہی تھی ۔

ماہ نور نے رات سے بھی کچھ نہیں کھایا تھا لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے عفان شاہ نے زبردستی مشال کو تھوڑا سا کھانا کھلایا تھا اور اب وہ اپنی کھڑکی میں کھڑئی تھی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا اور مشال کے دل کو بھی دائم کی جدائی نے گہرے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا جیسے جیسے بارش کی بوندیں برس رہی تھیں ویسے ویسے مشال کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے جو کسی کی گہری جدائی کا پتہ دے رہے تھے ۔

یاد آجاتی ہے 

مجھے وہ ہنسی تیری 

مسکرا جاتی ہیں 

خود یہ پلکیں میری 

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے بھلا دیتی میں تجھکو 

مگر بوندیں میری ہر کوشش برباد کرتی ہیں 

تمھیں بارش بڑا یاد کرتی ہے 

آج بھی مجھ سے تیری بات کرتی ہے

تمھیں بارش بڑا یاد کرتی ہے 

وہ پہلی نظر وہ چہرا تمہارا 

جب آنکھوں سے تم کو تھا دل میں اتارا 

میں بھولی نہیں ہوں پانہوں کو تیری 

وہ جس میں تھا میں نے زمانہ گزرا 

بچھڑنے سے پہلے تیرا 

وہ مجھ سے لپٹ جانا 

وہ بےبس نگاہیں میری 

اب تک فریاد کرتی ہیں 

تمھیں بارش بڑا یاد کرتی ہے 

آج بھی مجھ سے تیری بات کرتی ہے 

تمھیں بارش بڑا یاد کرتی ہے ۔۔۔

دائم ویسے تو بہت مضبوط مرد تھا لیکن مشال کے چھوڑ کے جانے نے اسے اندر سے توڑ کے رکھ دیا تھا 

کچھ آنسو بےآواز اسکی آنکھوں سے نکلے تھے لیکن درد کے ساتھ ساتھ اب اسکی شدتِ محبت نے جنونیت اور دیوانگی بھی اختیار کرلی تھی 

وہ اسلام آباد کی سرحدوں میں داخل ہوچکا تھا 

میں آرہا ہوں لٹل فیری تمھیں تم سے چھین لینے کے لیے تمھیں بےبس کردینے کے لیے تم سے ہر ایک چیز کا حساب لوں گا جتنا تم نے مجھے تڑپایا ہے اتنا ہی اب تم تڑپوگی 

اسکی باتیں جنونیت کی آخری حدوں کو بھی عبور کرچکی تھیں 

ایک گہری نیلی مسکراہٹ اسکے چہرے پہ پھیل چکی تھی ...

وہ کلب میں بیٹھے سگریٹ پہ سگریٹ پی رہا تھا لیکن حیرت کی بات تھی کہ آج اسکو سکون کیوں نہیں مل رہا تھا رہ رہ کے اسے مشال کی یاد تڑپا رہی تھی کسی طرح بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا ۔

مشال کی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی کہ اچانک اسکو اپنے چہرے پہ کسی کی پرتپیش نگاہیں محسوس ہوئیں

اس بے فورٌا سے آنکھیں کھولیں تو اسکے حلق سے نکلنے والی چیخ کو مقابل نے اپنا ہاتھ رکھ کے روکا

تت تت تت تم ؟

مشال ہکلاتے ہوۓ بولی 

لٹل فیری 

دائم نے گہری نیلی آنکھوں سے مسکراہٹ ہوۓ کہا 

مشال نے بنا وقت ضائع کیے روم سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن بےسود دائم نے اسکو کمر سے پکڑ کے اپنی جانب کھینچا 

نن نہیں پی پل پلیز اس بار نہیں مجھے جانے دو 

مشال نے روتے ہوۓ کہا 

لیکن جانے کیوں دائم کو دیکھ کے اسے سکون سا ملا 

جب کے دائم اسکی جانب کب سے دیکھ کے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا رہا تھا ۔

تمھیں کہا تھا نہ کہ تمہارے تمام راستے مجھ سے شروع ہوکے مجھ پہ ہی ختم ہوتے ہیں تو پھر کیوں دور جانے کی کوشش کرتی ہو مجھ سے ؟

ہممم 

دائم کہتے ہوۓ اسکی نوز پن سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا 

مشال کی ڈھرکنوں کا شور دائم باآسانی سن سکتا تھا 

لٹل فیری تمھیں پتہ ہے نہ کہ دائم دُرانی کا سزا دینے کا طریقہ ہمشیہ الگ ہوتا ہے

مشال اسکی گرفت میں اب تھرتھر کاپننے لگی تھی 

نن نہیں پی پلیز نہیں 

مشال نے خود کو چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کی تھی 

اگلے ہی لمحے مشال کو سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے بنا وہ اسکی سانسوں کو قید کرگیا تھا ۔

مشال نے دونوں ہاتھوں سے اسکی شرٹ کو مھٹی میں  جکڑا تھا کافی دیر تک وہ خود کو سیراب کرتا رہا تھا کیا نہیں تھا اسکے لمس میں محبوب سے دور جانے کی شدت ، جنون  ، محبت  ، عشق  ، 

وہ پیچھے ہٹا تو مشال گہرے گہرے سانسں لینے لگی تھی

دائم نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا جو اب اپنی سانسوں کو ہموار کررہی تھی 

وہ ہنس دیا تھا اور اچانک ہی مشال کو دیوار کے ساتھ پن کیا اور ایک ہاتھ اسکی کمر پہ رکھ کے چاقو اسکی شہ رگ پہ پھیرنے لگا 

مشال کی سانس اٹکی تھی

لللل لککک کیا رہے ہیں یہ آپ  ؟۔

پہلی اور آخری بار سمجھا رہا ہوں کہ آئندہ کے بعد مجھ سے دور جانے کا سوچنا بھی مت ورنہ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی جان کی جان لوں گا اینڈ ٹرسٹ می مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا 

سمجھی ؟

اب کی بار ساری محبت اڑن چھو ہوئی تھی اور گہری نیلی آنکھیں لالل انگارہ ہوئیں تھیں 

مشال نے سر کو ہاں میں ہلایا 

منہ سے بولو ماۓ لٹل فیری 

جج جی سمجھ گئی 

گڈ گرل اب چپ چاپ سوجانا بہت جلد میں تمھیں ان سب سے بہت دور لے جاؤں گا جہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی نہ ہوگا 

دائم نے مسکراتے ہوۓ کہا 

اور جانے ہی لگا تھا کہ ایک خیال کے تحت واپس آیا 

اور ہاں بھول کے بھی کسی کو یہ مت بتانا کہ میں آیا تھا اوکے لٹل فیری 

ورنہ تم تو جانتی ہونا کہ مجھے چیھرنا پھاڑنا کتنا پسند ہے 

دائم نے ایک گہری اور پراسرار مسکراہٹ لیے کہا

تو مشال اب کی بار تھر تھر کانپنے لگی 

وہ اسکا گال تھپتھپاتا کھڑکی سے باہر کود گیا تھا 

مشال نیچے ہی زمین پہ بیٹھ کے شدت سے رودی تھی 

ایسے خوف نے اسکے دل میں جگہ بنالی تھی کہ شاید دائم کو بھی اسکا کچھ اندازہ نہیں ہوا تھا 

کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی مشال شاہ ہے جس نے کبھی اپنی پوری زندگی میں ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا ۔

دو دن گزر چکے تھے ماہ نور کو پتہ تھا اسے کیا کرنا ہے لہذا وہ واجد خان کے روم میں آئی تھی 

پاپا میں اندر آجاؤں 

ہاں ہاں بیٹا ضرور آؤ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے کیا ؟۔

ماہ نور اندر آئی تھی 

عائشہ خان کو اپنی کسی دوست کی طرف جانا تھا لہذا وہ گھر نہیں تھیں اور موسی بھی اپنے کسی اپمورٹنٹ کام سے باہر تھا 

پاپا وہ ایکچولی کچھ بات کرنی مجھے آپ سے ؟

ہاں بیٹا بولو 

وہ پاپا مجھے موسی سے شادی نہیں کرنی 

ماہ نور نے تحمل سے کہا 

لیکن بیٹا کیوں نہیں کرنی اچھا

بھلا لڑکا ہے پڑھا لکھا ہےاپنا بزنس ہے اور سب سے بڑھ کے تمہاری پھوپھو کا بیٹا ہے 

جی پاپا یہ سب ٹھیک ہے لیکن فلحال مجھے شادی نہیں کرنی پلیز 

ٹھیک ہے بیٹا شادی نہ کرو جسٹ انگیجمنٹ کرلو 

نو پاپا پلیز آپ سمجھیں نا میری بات کو پلیز پلیز

ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی 

تھینک یو سو مچ پاپا یو آر گریٹ 

Thank You so Much Papa You are Great ...

واجد خان مسکرا دئیے تھے 

ماہ نور نے باہر آکے ایک لمبا سانس لیا شکر ہے منع کردیا ورنہ وہ میر جانور کہیں کا میری ہڈیاں پسلیاں ہی توڑ دیتا 

ماہ نور خود سے بڑبڑائی تھی ۔

موسی کو جب واجد خان نے منع کیا تو کافی دکھ ہوا تھا اسے آج اسکی فلائیٹ تھی اور اسے واپس جانا تھا 

وہ اپنا سامان پیک کررہا تھا کہ اچانک اسکا ڈور نوک ہوا 

یس کم ان 

ارے ماہ نور تم ؟

میں اندر آجاؤں؟

ہاں ضرور آؤ نہ 

وہ ایکچولی مجھے سوری کہنا تھا 

ماہ نور اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑورتے ہوۓ بولی 

وہ کیوں ؟

میں نے آپکا پرپوزل رجیکٹ کردیا تھا نہ اس لیے 

اٹس اوکے 

بٹ آئی سوئیر آپ اتنے کیوٹ اور پیارے ہیں آپکو تو کوئی بھی مل جاۓ گی 

موسی ایک زخمی مسکراہٹ لیے مسکرایا 

ہاں لیکن تم جیسی نہیں ہوگی نا 

ماہ نور نے بےساختہ پلکیں گرائیں تھیں 

اور وہ جو کوئی بھی ہوگا جو تمہارا ہسبنڈ ہوگا جس سے تم پیار کروگی بلیومی وہ بہت لکی ہوگا

موسی نے آنسو پیتے ہوۓ کہا 

ماہ نور مسکرا دی تھی 

اوکے میں چلتی ہوں کافی ٹائم لےلیا آپکا

نو اٹس اوکے 

موسی بےدلی سے مسکرایا تھا 

ماہ نور کے روم سے جانے کے بعد موسی کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے تھے 

بہت دل کرتا ہنسنے کو 

مگر رولا دیتی ہے کمی تمہاری 

موسی نے صبر کرلیا تھا شاید اسی میں کوئی بہتری تھی اللہ کی جانب سے .

اسلام و علیکم 

وعلیکم اسلام 

کیسی ہو ؟

الحمد اللہ 

تم سناؤ زوار کیسے ہو 

ٹھیک ہو 

اچھا چلو جلدی سے ریڈی ہوجاؤ ابھی ایک پارٹی میں جانا ہے 

نن نہیں پلیز میرا بالکل بھی موڈ نہیں ہے 

مشال کہہ کے جانے لگی تھی کہ اسکی کلائی زوار کی گرفت میں آگئی 

میری بات بھی نہیں مانو گی اب ماۓ بیوٹی 

وہ بے خودی میں کہتا ہوا مشال کے چہرے پہ اپنی انگلیاں پھیرنے لگا 

نجانے کیوں مشال کو زوار کا چھونا اچھا نہ لگا اس لیے اوکے کہہ کے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی تھی ۔

آج مشال نے فل بلاوز والی ساڑھی پہنی تھی جسکا کلر سلور تھا بالوں کو یونہی کھلا چھوڑے آنکھوں میں کاجل کی ایک لکیر اور مسکارا لگاۓ ہونٹوں پہ پنک کلر لی لپ اسٹک لگاۓ کانوں میں سلور کلر کے ہی چھوٹے چھوٹے ٹاپس پہنے اور پاؤں میں بلیک کلر کی ہیلز پہنے 

وہ تیار تھی ۔

وہ باہر آئی تو زوار اسکا ویٹ کررہا تھا اسے دیکھ کے وہ ٹھٹک کے رکا 

You Are Looking Extra Beautiful My Beauty ...

وہ کہتے ہوۓ کچھ قریب ہوا کہ اچانک ہی مشال نے کہا 

چلیں آل ریڈی لیٹ ہوگیا ہے ہمیں 

ہاں بالکل چلو زوار مسکراتا ہوا کار سٹارٹ کرنے لگا تھا

پارٹی میں جاکے کافی حد تک انجواۓ کیا تھا ان دونوں نے زوار نے اپنے فرینڈز سے مشال کو ملوایا تھا کچھ بزنس کے تھے اور کچھ کلاس فیلوز تھے 

جب ڈانس شیشن چلا تو زوار مشال کی جانب قدم بڑھانے لگا تھا کہ اچانک دو آدمی بلیک ڈریس میں آۓ انکے چہرے ماسک سے ڈھکے ہوۓ تھے زوار کو بےہوش کرنے کے بعد گاڑی میں ڈالا اور گاڑی سٹارٹ کردی تھی 

مشال نے زوار کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہیں ڈورائیں لیکن وہ اسے کہیں نظر نہ آیا مشال کو اب باقاعدہ پریشانی ہونے لگی تھی کہ آخر بنا بتاۓ کہاں گیا زوار 

وہ ابھی کھڑئی ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ اچانک اسے اپنے قریب سے ایک جان مانی سی خوشبو آئی اس نے مڑ کے دیکھا تو دائم تھری پیس سوٹ اسکے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا 

مشال خوف سے کاپننے لگی تھی اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی دائم نے پھرتی سے اسے کمر سے تھام لیا تھا 

اتنا ہی شوق ہے میری بانہوں میں آنے کا تو یہ بہانے کیوں کرتی ہو ہممم ?

وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ اسکی جان فنا کرنے لگا تھا ۔

نن نہیں اییی ایسی کوئی بات نہیں ہے چھوڑیں مجھے پلیز

چھوڑنا ہی ہوتا تو پکڑتا ہی کیوں ماۓ لٹل فیری 

وہ مزید تھوڑا قریب ہوا اور اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا تھا 

Your scent drives Me Crazy 

By Meeting You I Felt like

i was searching for you 

There is Some sort of Morning in you that ...

I stay awake for this sake

Come and adorn my dreams 

Darling , Come now 

My God,  My Heart is Crying 

Darling,  Come now

in My heartbeats Darling 

In my breaths Darling 

you are my heart desire 

Every Moment has your Memory 

Give Me your scarf 

I'm burning in the heat every moment

There is some sort of cloud within you, 

For which i'm thirsty for 

Come and Quench My thirst

My god,  My heart is crying 

Come here darling 

your all desire i want 

And that's left is for you to become mine

Every second i feel your presence in my heart ...

I'll be ease / rest once i gain you 

You are a part of me yet parted.

Even after meeting why are you upset 

Come into My Arms ....

My God,  My heart is crying 

darling .Come Now,

وہ دیوانہ وار اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھوتے ہوۓ کہنے لگا 

مشال کی تو جان ہوا ہونے لگی تھی 

تجھے مل کے لگا ہے یہ تجھے ڈھونڈ رہا تھا میں 

تجھے مل کے لگا ہے یہ تجھے ڈھونڈ رہا تھا میں 

تجھ میں کچھ ایسی صبح سا 

جسکی خاطر میں تھا جگا سا

آتو میرے خواب سجا رے

ماہی آجا رے ماہی آجا رے 

دل روۓ یا الہی تو آجا میرے ماہی 

دل روۓ یا الہی تو آجا میرے ماہی 

دائم نے ایک ہاتھ مشال کی کمر میں ڈالا اور اسکو گول گول گھومنے لگا تھا 

مشال دائم کو روک نہیں پائی تھی پتہ نہیں یہ شخص کیوں اسکے حواسوں پہ اتنا چھا رہا تھا کیوں وہ اسکے سامنے اتنا بےبس ہوجاتی تھی 

تو ہی ہے میرے دل کی تمنا 

تیری ہی یادیں ہر لمحہ 

دے مجھے دے اپنا آنچل 

دھوپ میں جلتا میں ہر پل 

دائم مشال کی جانب دیوانہ وار نظروں سے جان لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا جب کے مشال کا گلابی چہرہ اب دائم کی بے باکیوں کی وجہ سے سرخ ہوا تھا ۔

تجھ میں کچھ ایسی گھٹا سا 

جسکے لیے ہوں میں پیاسا سا 

آتو میری پیاس بجھا جا رے 

دل روۓ یا الہی تو آجا میرے ماہی 

ماہی ماہی ماہی سانسوں میں بھی ماہی ڈھرکنوں میں ماہی 

۔۔۔۔

ہاں تجھے ہے تیرا ارمان 

ہے تجھے ہے میرا بننا

ہر گھڑی تیری دل میں آہٹ

تو ملے مل جاۓ راحت

جڑ کے بھی تو مجھ سے جدا سا 

مل کے بھی تو کیوں ہے خفا سا 

آجا میری باہوں میں آجا رے 

دل روۓ یا الہی 

تو آجا میرے ماہی 

دل روۓ یا الہی تو آجا میرے ماہی 

دائم نے ایک نظر مشال کی جانب دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ یہ بول میرے دل کی عکاسی کررہے ہیں 

مشال نے اخیتار نظریں چرانے لگی تھی

سونگ ختم ہوا تو جیسے دائم ہوش کی دنیا میں لوٹا اور مشال کا ہاتھ پکڑ کے باہر کی جانب بڑھا تھا 

لککک کہاں لےکے جارہے ہیں مجھے ؟

لٹل فیری یار تم مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہو گھر لےکے جارہا ہوں وہ بھی تمہارے گھر فکر مت کرو 

دائم مسکراتے ہوۓ بولا 

کچھ دیر بعد مشال شاہ منیشن پہنچ گئی تھی 

اس دوران وہ زوار کو بالکل فراموش کربیٹھی تھی

وہ گاڑی سے اترنے ہی لگی تھی کہ دائم نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی جانب کھینچا 

مشال گھبرا گئی تھی اس اچانک سی افتاد پہ 

لٹل فیری اپنے میکے جارہی ہو یہ تو توفیق نہیں ہوئی تمھیں کہ شوہر سے مل کے جاؤں 

مشال کا چہرہ سرخ ہوگیا جس پہ دائم ہنس دیا تھا 

تیار رہنا میں بہت جلد واپس آؤں گا تمھیں واپس ہمشیہ ہمشیہ ساتھ لے جانے کے لیے 

نجانے مشال میں اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی 

ہاہاہا اس دفعہ صرف تمہاری سوچ ہے دائم دُرانی کے تم مشال شاہ کو پنجرے میں قید کرکے رکھوگے اور میں قید ہوبھی جاؤں گی میں تم سے تمہارے ہر ایک چیز سے اتنی دور چلی جاؤں گی کہ تم چاہ کے بھی مجھے نہیں ڈھونڈ سکوگے اور اب میں تمھیں چیلینج کررہی ہوں 

مشال کی بات سن کے نیلی آنکھیں لال انگارہ ہوئیں تھیں جنکو دیکھ کے مشال کا دل پھر دہل اٹھا تھا وہ گاڑی سے اتر کے جارہی تھی کہ دائم کے سرعت سے آگے بڑھ کے مشال کو دیوار کے ساتھ پن کیا اور کہنے لگا 

یو نو نا لٹل فیری کہ تمہارے دائم کو چیلینج کرنا اور اکسیپٹ کرنا کتنا اچھا لگتا ہے اوکے ڈن میں اکسیپٹ کرتا ہوں تمہارا چیلینج لیکن ایک بات یاد رکھنا وہ سختی سے دیوار پہ اپنے دونوں ہاتھ مشال کے ارگرد رکھ کے گویا ہوا 

دائم دُرانی نے کبھی ہارنا سکیھا ہی نہیں ہے 

اور تمھیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم کہیں چلی جاؤگی اور میں تمھیں ڈھونڈ نہیں سکوں گا

یقین مانو میری جان تمہارا یہ شدت پسند عاشق تمھیں قبر سے بھی نکال لاۓ گا 

مشال کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں تھیں 

دائم کو مشال کی یہ حالت کافی مزا دے رہی تھی 

اس لیے اسکو مزید تنگ کیے بنا وہ آہستہ آہستہ اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا جب کے مشال دیوار کے ساتھ ہی نیچے بیٹھ

 کے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی تھی ۔

زوار کو کڈنیپ ہوئے دو دن گزر چکے تھے مشال بھی زوار کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئی تھی لیکن اسکا کچھ اتا پتہ نہیں چلا تھا 

دائم مشال سے ملنے کے لیے بےتاب تھا اسکا ایک لمحہ بھی مشال کے بنا، نہیں گزرتا تھا اور یہاں تو ایک ہفتہ ہونے کو تھا ۔

مشال رات کو کھڑکی میں کھڑئی تھی جب دائم اندر آیا تھا آیا وہ چونکی تھی 

تم تت مطلب آپ یہاں؟ 

کیوں نہیں آسکتا کیا؟ 

دائم نے آبرو اچکاتے سوال کیا 

نن نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا 

پتہ نہیں مشال اچھے اچھوں کی زبان بند کروانے والی لڑکی کی اپنی زبان دائم دُرانی کے سامنے بند ہوجاتی تھی 

تو پھر کیا مطلب تھا ہممم 

دائم گھمبیر آواز میں کہتا آگے بڑھا جب کے مشال پیچھے ہونے لگی تھی 

پنک کلر کی شرٹ اور ٹراوز اور کھلے بالوں میں نوز پن پہنے وہ سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی جبکے دائم خود پہ کیسے کنڑول کیے ہوئے تھا یہ وہی جانتا تھا 

ایک ہی دفعہ میں اسکے کمر سے کھنیچ چکاتھا وہ سیدھا اسکے کشادہ سینے سے جاٹکرائی تھی 

خود کو چھڑوانے کی ناکام سی سعی کرنے لگی تھی 

تمہیں کیا لگتا ہے دائم دُرانی جب دل چاہے قریب آتے ہو جب دل چاہتا ہے دور چلے جاتے ہو سمجھ کے کیا رکھا ہے مجھے کوئی گڑیا ہوں میں کوئی بےجان چیز ہوں جسے تکلیف نہیں ہوتی جانتے ہو تکلیف ہوتی ہے یہاں ہوتی ہے وہ اسکے دل کے مقام پہ اپنی انگلی رکھتے ہوئے بولی تھی یو نو واٹ اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی میں خلع لےلوں گی تم سے

دائم جو آج اچھے موڈ میں تھا مشال کی باتیں نے اسے ایک مرتبہ پھر انسان سے حیوان بننے پہ مجبور کیا تھا 

بغیر وقت ضائع کیے وہ اسکی سانسوں کو اپنی پاگل دسترس میں لیا تھا شدت جنون  کیا نہیں  تھا اسکے لمس میں جبکے مشال اسکی شدتوں کو سہتے سہتے نڈھال ہوچکی تھی 

وہ نرمی سے پیچھے ہٹا تھا اور کمر پہ گرفت اتنی جارحانہ تھی کہ مشال کو اپنی پسلیاں ٹوتیں ہوئیں

 محسوس ہوئیں تھیں 

سوچنا بھی مت اسے بارے میں اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑے وہ گویا ہوا 

تم دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤں مائے لٹل فیری تمہیں مجھے سے کوئی جدا نہیں کرسکتا نہ ہی کسی کی اتنی ہمت ہے کیوں کہ تم اس دنیا میں آئی ہی میرے لیے ہو تمھارے دائم دُرانی کے لیے بنایا گیا ہے 

تم بار بار یہ بات کیوں بھول جاتی ہو تم سانس بھی لیتی ہو نہ اسکا بھی علم ہوتا ہے مجھے تمہارے تمام راستے مجھ سے شروع ہوکے مجھے پہ ختم ہوتے ہیں میں ہی تمہاری منزل ہوں جسکو تم نے پانا ہے میں ہی وہ ایک واحد مرد ہوں جسکے لیے تمہیں بنایا گیا ہے 

مشال اب ہولے ہولے اسکی گرفت میں کانپ رہی تھی یہ تو دائم نے اسکو تھام رکھا تھا ورنہ تو وہ کب کی زمین بوس ہوجاتی 

مشال نے دائم کا گریبان پکڑا اور اپنا چہرہ اسکے چہرے لے قریب کرتے ہوئے بولی 

تمہاری یہ شدت میری جان لے لے گی کسی دن مرجاؤں گی میں 

دائم کی تو گویا جان ہی نکل گئی تھی مشال کی بات سن کے 

خبردار جو آئندہ ایسی بکواس کی تو یا خود کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا تو 

مشال مجھے  تم سے شدتِ محبت ہے ایسی محبت جسکی حد میں آج تک خود نہیں جان سکا تمھیں ہرحال میں اپنے اس دیوانے کی شدت پاگل پن جنون اور ضد برداشت کرنا ہوگا 

اسکا چہرے کو تو اپنے چہرے کے قریب کرتے انتہائی جنونیت لیے لہجے میں بولا 

تو مشال ایک لمحے کو دائم کی شدت محسوس کرکے کانپ اٹھی تھی وہ نازک جان کیسے اپنے اس پاگل عاشق کی عاشقی کو شدت کو برداشت کرتی وہ جب بھی اسکے قریب آتا اسکی جان ہوا ہونے لگتی تھی 

 تم نے مجھے چلینج کیا تھا تم نے کہ تم میرے پاس نہیں آؤگی 

تو میری جان  تم خود چل کے میرے پاس آؤگی اور جلد ہی آؤگی تب تک کے لیے اپنا خیال رکھنا اسکے ناک سے اپنا ناک رب کرتا ہوا وہ شدت سے بھرپور لہجے میں کہتا ہوا کھڑکی سے نیچے کود گیا تھا 

میں کبھی بھی نہیں جاؤگی واپس تمہارے پاس چاہے جو ہوجائے 

مشال نے نفرت سے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا ۔

دائم اندر داخل ہوا تو زوار نیچے ہی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا 

لے کھانا کھالے 

دائم مسکراتا ہوا بولا 

مجھے نہیں کھانا 

زوار نفرت سے بولا 

دائم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کہنے لگا 

تجھے پتہ ہے ابھی ابھی اپنی جان سے مل کے آرہا ہوں 

ممم مشال کیسی ہے مائے بیوٹی 

بکواس بند بیوی ہے وہ میری اپنی گندی زبان سے نام مت لے اسکا 

ورنہ اگلی بار زبان کاٹ دوں گا 

دائم نیچے ہی پنجوں کے بل زوار کے قریب بیٹھا تھا 

زوار ایک طنزیہ ہنسی ہنسا 

ویسے دائم تجھے ہیرو بننے کا کتنا شوق ہے نا لیکن تجھے پتہ ہے کیا جسکے لیے تو یہ سب کررہا ہے نا نفرت کرتی ہے وہ تجھ سے 

اور مجھ سے محبت کرتی ہے وہ جب بھی میں قریب ہوتا ہوں اسکے وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے 

اور تو ایک وحشی درندہ ہے جسے اپنے سوا کسی کے احساسات کا خیال نہیں 

دائم نے ایک مکا اسکے منہ میں جڑا مگر پھر بھی وہ ولن کی طرح ڈھیٹ بنے ہنستا گیا تھا 

مشال کبھی بھی مجھ سے نفرت نہیں کرسکتی میرا دل گواہی دیتا ہے اس بات کی زوار ملک اعوان تو چاہے جتنا مرضی مجھے بدگمان کرلے میرے سینے میں موجود دل صرف مشال کے لیے ڈھرکتا ہے میری رگوں میں خون کی مانند دوڑتی ہے وہ جیسے انسان کو زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہے نا ویسے ہی مجھے زندہ رہنے کے لیے مشال ضروری ہے 

لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے دائم نے کہا 

تیار رہنا کل تیری آنکھوں لے سامنے سے مشال کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا خود چلے گی وہ میرے ساتھ بہت ہمت ہے نا تجھ میں تو ٹھیک ہے کل روک کے دکھانا مجھے 

اسکے منہ کو دوبچتا ہوا وہ غرایا 

جس پہ زوار کو تکلیف ہوئی تھی 

ایک جھٹکے سے چھوڑتا اسے وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔

مشال سونے لگی تھی کہ اچانک ہی اسکی میسیج ٹون بجی

لٹل فیری کل میرے بتائے ہوئے اڈریس پہ پہنچ جانا جو تمھیں سینڈ کیا ہے میں نے اگر زوار کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتی ہو تو 

مشال کو ایک پل لگا تھا ساری بات سمجھنے میں اور اب حقیقت میں اسے پتہ چلا تھا کہ دائم دُرانی کتنا شدت پسند اور خطرناک شخص ہے 

لیکن اس نے ہار نہیں مانی تھی اوکے کا ریپلائی کرتے ہوئے وہ کل کے لیے خود کو تیار کرنے لگی تھی جب کے دائم نے اوکے کا میسیج دیکھا تو ہونٹوں پہ ایک پراسرار سی مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا 

مشال نے ماہ نور کو بھی منع کردیا کہ وہ کل نہ آئے کیوں اسے کل کسی ضروری کام سے جانا تھا تو ماہ نور نے ضد کی اگر وہ نہ آئی تو مشال کو آنے پڑے گا اسکے گھر جسکو مشال نے اکسیپٹ کرلیا تھا ۔

ماہ نور اپنے لیے کچھ شاپنگ کرنے نکلی تھی کہ اچانک ہی آدھے راستے میں اسے محسوس ہوا کہ کوئی کار اسکا پیچھا کررہی ہے ماہ نور نے گاڑی ایک سائید پہ روکی اور خود نیچے اتری جیسے ہی وہ نیچے اتری دو آدمیوں نے اسکو کلوروفام لگا رومال اسکے منہ پہ رکھا اور ایک منٹ میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی تھی ۔

میر کو اچانک صبح سے عجیب سی بے چینی ہورہی تھی اسکا دل ماہ نور کو ملنے کا چاہ رہا تھا لہذا وہ ماہ نور کے گھر گیا لیکن وہ روم میں موجود نہیں تھی 

کہاں جاسکتی ہے آخر 

میر پریشان سا ہوگیا تھا 

رات کو ایک دفعہ پھر میر ماہ نور کے روم میں کھڑکی سے آیا لیکن وہ پھر موجود نہیں تھی 

اب سچ مچ میر کو پریشانی ہونے لگی تھی کہ آخر کہاں گئی ماہ نور 

عائشہ بیگم کا الگ رو رو کے برا حال تھا واجد خان نے پولیس کو انفارم کردیا تھا 

میر جانتا تھا کہ ماہ نور کے فون کی لوکیشن ہمیشہ آن ہی رہتی ہے اس لیے اس نے جب ماہ نور کو ٹریس کیا تو وہ حیران ہوا تھا 

کیوں کے اسے ایک انجان لوکیشن شو ہورہی تھی اسے کچھ غلط کا احساس ہوا ایک منٹ کی دیر لگائے بنا وہ باہر کی جانب بھاگا تھا ۔

ماہ نور کی جب آنکھی تو خود کو رسیوں سے بندھے ایک بند کمرے میں پایا

اسے اپنا سر بھاری بھاری سا محسوس ہوا تھا 

لللکککک کوئی ہے کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟ 

ماہ نور کی آواز مسلسل کانپ رہی تھی کہ اچانک ہی کوئی ہیولا اسکی اپنی جانب آتا ہوا محسوس ہوا 

مائی رائل پرنسس 

اس ہیولے نے ایک ادا سے کہا 

جس پہ ماہ نور اندر تک کانپ اٹھی تھی ۔

کک کک کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟ 

عاشق ہوں تمہارا دیوانہ ہوں تمہارا اور تمھیں حاصل کرنا چاہتا ہوں بس اور کچھ نہیں 

خباثت سے ہنستے ہوئے وہ بولا 

ماہ نور کو لگا جیسے ساتوں آسمان اسکے سر پہ آن گرے ہوں 

مم مم مجھے جانتے نہیں ہو کہ کون ہوں میں ماہ نور خان نام ہے میرا میرے ڈیڈ کو پتہ چلا نا وہ تمہارا قتل کردیں گے 

ماہ نور خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے بولی 

او رئیلی مائے رائل پرنسس 

O Really My Royal Princess

اسکے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بولا 

تمہارے باپ سے بھی کہا تھا میں نے کہ عزت سے تمھیں میرے حوالے کردے مگر تم جیسوں کو کہاں عزت راس آتی ہے 

اوئے بڈھے خبردار جو میرے ڈیڈ کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا ہو تیری زبان گدی سے کھینچ لوں گی میں ایک دفعہ کھول مجھے تو پھر پتہ چلے گا ماہ نور خان نام ہے میرا میں کسی سے نہیں ڈرتی 

ہاہا اچھا آئی لائک یور اٹیٹیوڈ مائے رائل پرنسس 

تمہاری یہ بہادری کسی کو بھی متاثر کرسکتی ہے وہ اسکے مزید قریب ہوا تو اسے اس سے گھن آنے لگی 

تمہاری خوبصورتی نے دیوانہ بنادیا ہے تڑپ رہا ہے تمھیں حاصل کرنے کے لیے 

ہونہہ : ،، یقینا بہت پچھتائے گا تو 

خاموش ورنہ ابھی کے ابھی وہ حالت کروں گا کہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑوں گا تجھے 

عرفان ملک ڈھارا تھا 

ماہ نور کی پلکوں پہ کچھ آنسو، آٹھہرے تھے شدت سے اس نے اللہ سے دعا مانگی تھی 

عورت چاہے کتنی ہی بہادر کیوں نہ ہو عزت سب سے بڑی چیز ہوتی ہے اور ایک عورت کے لیے اسکی عزت ہی اسکا سب کچھ ہوتی ہے ۔

اس نے ماہ نور کو رسیوں سے آزاد کیا تھا اور ماہ نور نے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن عرفان ملک نے ایک ہی جھٹکے میں اسے دبوچا تھا 

آج کون بچائے گا تجھے مجھ سے ہاں ماہ نور خان 

کہتے ہوئے وہ اس پہ جکھنے ہی والا تھا کہ کسی نے اسکو پکڑ کے اسکا زور سے دیوار میں دے مارا تھا 

عرفان ملک کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا 

مم مم میرا مسیحا آگیا آگیا وہ ہاں میر آگیا 

یہ لفظ خود بخود ماہ نور کے منہ سے نکلے تھے 

میر نے ایک نظر ماہ نور کو لال انگارہ ہوتی اور شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا جس سے وہ خود میں سمٹ کے رہ گئی تھی 

اب میر عرفان ملک کا سر زمین پہ مار رہا تھا کہ اچانک ہی عرفان ملک نے اپنے پاکٹ سے گن نکالی اور میر کے بازو پہ  ماری تھی 

تکلیف کی شدت سے وہ کراہ اٹھا تھا 

ماہ نور کی چیخ بلند ہوئی تھی اور بھاگتی ہوئی وہاں سے میر کے پاس جاپہنچی تھی جبکے عرفان ملک موقع دیکھ کے فرار ہوگیا تھا ۔

مم میر آپپ آپ ٹھیک تو ہیں نا آپکو چوٹ آئی ہے میری ووجج وجہ سے سوری 

ماہ نور روتے ہوئے کہنے لگی تھی 

کہ اچانک ہی میر نے ماہ نور کو کمر سے جکڑ کر دیوار کے ساتھ پن کیا 

اور شعلہ برساتی آنکھوں سے اسے گھورا 

سمجھایا تھا نہ میں نے اگر اکیلے گھر سے باہر جاتی ہو تو ڈرائیور ساتھ رکھا کرو ہاں مگر تم ایک بات کی کہی ہوئی میری بات سمجھ نہیں آتی؟ 

اس نے دیوار کے ارگرد اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا 

میر آپکو چوٹ لگی ہے چلیں ہاسپٹل چلیں 

پہلے میری بات کا جواب دو 

اب کے ماہ نور کے بازو بھی میر کی گرفت میں آچکے تھے 

سس سوری آئندہ سے خیال رکھوں گی ماہ نور سسک پڑی تھی 

میر نے ایک جھٹکے میں اسے چھوڑا اور کہنے لگا 

آج معاف کررہا ہوں آئندہ ایسی حرکت کی نا تو جان لےلوں گا تمہاری 

سرخ آنکھوں سے بولتا اسے وہ خاموش کروا گیا تھا 

ممم ممم میر پلیز چلیں ہاسپٹل 

اتنی گہری چوٹ نہیں ہے 

چلو تمہیں گھر چھوڑ دوں 

نن نہیں پلیز آپ ہاسپٹل چلیں پہلے 

کہا نا ویسے بھی یہ معمولی سی چوٹ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی 

کہتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھا تھا اور ماہ نور بھی اسکے ساتھ آبیٹھی تھی 

اسکے ساتھ ہی وہ اندر آیا تھا 

مما 

ماہ نور میری بچی 

عائشہ خان نے کہا 

تو ماہ نور ان سے جا لپٹی تھی 

ماہ نور میرا بچہ 

واجد خان نے بھی اسے اپنے سینے سے لگایا تھا 

ٹھیک تو ہو نا  تم کس نے کیا یہ سب 

میر کھڑا مسکرا رہا تھا ماہ نور کے لیے عائشہ خان اور واجد خان کی محبت دیکھ کے 

بیٹا آپ نے میری بچی کو آزاد کرایا 

جی انکل 

میر نے کہا 

تو انھوں نے آگے بڑھ کے اسے گلے سے لگا لیا 

تھینک یو بیٹا آپ نے میری بچی کی جان نہیں بچائی بلکہ میری عزت بچائی ہے 

واجد خان نے محبت بھرے لہجے میں کہا 

عزت تو میں نے  بھی اپنی بچائی ہے 

میر نے دل میں کہا 

اٹس اوکے انکل یہ تو میرا فرض تھا 

ماہ نور میر کو ہی دیکھ رہی تھی 

کیا تھا وہ شخص مسیحا یا پھر ستمگر ؟

اوکے انکل میں چلتا ہوں آپ لوگ کنٹینو کریں پھر 

بیٹا اب آپ آہی گئے ہو تو بیٹھو نا کھانا کھا کے جانا 

عائشہ خان نے کہا 

نہیں آنٹی ابھی میں جلدی میں ہوں پھر کبھی سہی 

بیٹا آپ کی بازو پہ چوٹ لگی ہے آپ بیٹھیں میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں 

نو انکل تھینک یو سو مچ میں خود چلا جاؤں گا 

مجھے کام ہے کچھ ضروری 

اوکے بیٹا ٹیک کئیر 

الله حافظ 

الله حافظ 

کہتے ہوئے ایک نظر ماہ نور کو دیکھا جو اسکو ہی دیکھ رہی تھی پھر وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا 

ویسے اتنا بھی برا نہیں ہے یہ بندر جتنا میں نے سوچا ہے ۔

ماہ نور خود سے کہتے ہوئے اپنے روم کی جانب بڑھ گئی تھی ...

زوار کو کڈنیپ ہوئے دو دن گزر چکے تھے مشال بھی زوار کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئی تھی لیکن اسکا کچھ اتا پتہ نہیں چلا تھا 

دائم مشال سے ملنے کے لیے بےتاب تھا اسکا ایک لمحہ بھی مشال کے بنا، نہیں گزرتا تھا اور یہاں تو ایک ہفتہ ہونے کو تھا ۔

مشال رات کو کھڑکی میں کھڑئی تھی جب دائم اندر آیا تھا آیا وہ چونکی تھی 

تم تت مطلب آپ یہاں؟ 

کیوں نہیں آسکتا کیا؟ 

دائم نے آبرو اچکاتے سوال کیا 

نن نہیں میرا مطلب وہ نہیں تھا 

پتہ نہیں مشال اچھے اچھوں کی زبان بند کروانے والی لڑکی کی اپنی زبان دائم دُرانی کے سامنے بند ہوجاتی تھی 

تو پھر کیا مطلب تھا ہممم 

دائم گھمبیر آواز میں کہتا آگے بڑھا جب کے مشال پیچھے ہونے لگی تھی 

پنک کلر کی شرٹ اور ٹراوز اور کھلے بالوں میں نوز پن پہنے وہ سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی جبکے دائم خود پہ کیسے کنڑول کیے ہوئے تھا یہ وہی جانتا تھا 

ایک ہی دفعہ میں اسکے کمر سے کھنیچ چکاتھا وہ سیدھا اسکے کشادہ سینے سے جاٹکرائی تھی 

خود کو چھڑوانے کی ناکام سی سعی کرنے لگی تھی 

تمہیں کیا لگتا ہے دائم دُرانی جب دل چاہے قریب آتے ہو جب دل چاہتا ہے دور چلے جاتے ہو سمجھ کے کیا رکھا ہے مجھے کوئی گڑیا ہوں میں کوئی بےجان چیز ہوں جسے تکلیف نہیں ہوتی جانتے ہو تکلیف ہوتی ہے یہاں ہوتی ہے وہ اسکے دل کے مقام پہ اپنی انگلی رکھتے ہوئے بولی تھی یو نو واٹ اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی میں خلع لےلوں گی تم سے

دائم جو آج اچھے موڈ میں تھا مشال کی باتیں نے اسے ایک مرتبہ پھر انسان سے حیوان بننے پہ مجبور کیا تھا 

بغیر وقت ضائع کیے وہ اسکی سانسوں کو اپنی پاگل دسترس میں لیا تھا شدت جنون  کیا نہیں  تھا اسکے لمس میں جبکے مشال اسکی شدتوں کو سہتے سہتے نڈھال ہوچکی تھی 

وہ نرمی سے پیچھے ہٹا تھا اور کمر پہ گرفت اتنی جارحانہ تھی کہ مشال کو اپنی پسلیاں ٹوتیں ہوئیں

 محسوس ہوئیں تھیں 

سوچنا بھی مت اسے بارے میں اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑے وہ گویا ہوا 

تم دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤں مائے لٹل فیری تمہیں مجھے سے کوئی جدا نہیں کرسکتا نہ ہی کسی کی اتنی ہمت ہے کیوں کہ تم اس دنیا میں آئی ہی میرے لیے ہو تمھارے دائم دُرانی کے لیے بنایا گیا ہے 

تم بار بار یہ بات کیوں بھول جاتی ہو تم سانس بھی لیتی ہو نہ اسکا بھی علم ہوتا ہے مجھے تمہارے تمام راستے مجھ سے شروع ہوکے مجھے پہ ختم ہوتے ہیں میں ہی تمہاری منزل ہوں جسکو تم نے پانا ہے میں ہی وہ ایک واحد مرد ہوں جسکے لیے تمہیں بنایا گیا ہے 

مشال اب ہولے ہولے اسکی گرفت میں کانپ رہی تھی یہ تو دائم نے اسکو تھام رکھا تھا ورنہ تو وہ کب کی زمین بوس ہوجاتی 

مشال نے دائم کا گریبان پکڑا اور اپنا چہرہ اسکے چہرے لے قریب کرتے ہوئے بولی 

تمہاری یہ شدت میری جان لے لے گی کسی دن مرجاؤں گی میں 

دائم کی تو گویا جان ہی نکل گئی تھی مشال کی بات سن کے 

خبردار جو آئندہ ایسی بکواس کی تو یا خود کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا تو 

مشال مجھے  تم سے شدتِ محبت ہے ایسی محبت جسکی حد میں آج تک خود نہیں جان سکا تمھیں ہرحال میں اپنے اس دیوانے کی شدت پاگل پن جنون اور ضد برداشت کرنا ہوگا 

اسکا چہرے کو تو اپنے چہرے کے قریب کرتے انتہائی جنونیت لیے لہجے میں بولا 

تو مشال ایک لمحے کو دائم کی شدت محسوس کرکے کانپ اٹھی تھی وہ نازک جان کیسے اپنے اس پاگل عاشق کی عاشقی کو شدت کو برداشت کرتی وہ جب بھی اسکے قریب آتا اسکی جان ہوا ہونے لگتی تھی 

 تم نے مجھے چلینج کیا تھا تم نے کہ تم میرے پاس نہیں آؤگی 

تو میری جان  تم خود چل کے میرے پاس آؤگی اور جلد ہی آؤگی تب تک کے لیے اپنا خیال رکھنا اسکے ناک سے اپنا ناک رب کرتا ہوا وہ شدت سے بھرپور لہجے میں کہتا ہوا کھڑکی سے نیچے کود گیا تھا 

میں کبھی بھی نہیں جاؤگی واپس تمہارے پاس چاہے جو ہوجائے 

مشال نے نفرت سے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا ۔

دائم اندر داخل ہوا تو زوار نیچے ہی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا 

لے کھانا کھالے 

دائم مسکراتا ہوا بولا 

مجھے نہیں کھانا 

زوار نفرت سے بولا 

دائم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کہنے لگا 

تجھے پتہ ہے ابھی ابھی اپنی جان سے مل کے آرہا ہوں 

ممم مشال کیسی ہے مائے بیوٹی 

بکواس بند بیوی ہے وہ میری اپنی گندی زبان سے نام مت لے اسکا 

ورنہ اگلی بار زبان کاٹ دوں گا 

دائم نیچے ہی پنجوں کے بل زوار کے قریب بیٹھا تھا 

زوار ایک طنزیہ ہنسی ہنسا 

ویسے دائم تجھے ہیرو بننے کا کتنا شوق ہے نا لیکن تجھے پتہ ہے کیا جسکے لیے تو یہ سب کررہا ہے نا نفرت کرتی ہے وہ تجھ سے 

اور مجھ سے محبت کرتی ہے وہ جب بھی میں قریب ہوتا ہوں اسکے وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے 

اور تو ایک وحشی درندہ ہے جسے اپنے سوا کسی کے احساسات کا خیال نہیں 

دائم نے ایک مکا اسکے منہ میں جڑا مگر پھر بھی وہ ولن کی طرح ڈھیٹ بنے ہنستا گیا تھا 

مشال کبھی بھی مجھ سے نفرت نہیں کرسکتی میرا دل گواہی دیتا ہے اس بات کی زوار ملک اعوان تو چاہے جتنا مرضی مجھے بدگمان کرلے میرے سینے میں موجود دل صرف مشال کے لیے ڈھرکتا ہے میری رگوں میں خون کی مانند دوڑتی ہے وہ جیسے انسان کو زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہے نا ویسے ہی مجھے زندہ رہنے کے لیے مشال ضروری ہے 

لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے دائم نے کہا 

تیار رہنا کل تیری آنکھوں لے سامنے سے مشال کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا خود چلے گی وہ میرے ساتھ بہت ہمت ہے نا تجھ میں تو ٹھیک ہے کل روک کے دکھانا مجھے 

اسکے منہ کو دوبچتا ہوا وہ غرایا 

جس پہ زوار کو تکلیف ہوئی تھی 

ایک جھٹکے سے چھوڑتا اسے وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔

مشال سونے لگی تھی کہ اچانک ہی اسکی میسیج ٹون بجی

لٹل فیری کل میرے بتائے ہوئے اڈریس پہ پہنچ جانا جو تمھیں سینڈ کیا ہے میں نے اگر زوار کو زندہ سلامت دیکھنا چاہتی ہو تو 

مشال کو ایک پل لگا تھا ساری بات سمجھنے میں اور اب حقیقت میں اسے پتہ چلا تھا کہ دائم دُرانی کتنا شدت پسند اور خطرناک شخص ہے 

لیکن اس نے ہار نہیں مانی تھی اوکے کا ریپلائی کرتے ہوئے وہ کل کے لیے خود کو تیار کرنے لگی تھی جب کے دائم نے اوکے کا میسیج دیکھا تو ہونٹوں پہ ایک پراسرار سی مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا 

مشال نے ماہ نور کو بھی منع کردیا کہ وہ کل نہ آئے کیوں اسے کل کسی ضروری کام سے جانا تھا تو ماہ نور نے ضد کی اگر وہ نہ آئی تو مشال کو آنے پڑے گا اسکے گھر جسکو مشال نے اکسیپٹ کرلیا تھا ۔

ماہ نور اپنے لیے کچھ شاپنگ کرنے نکلی تھی کہ اچانک ہی آدھے راستے میں اسے محسوس ہوا کہ کوئی کار اسکا پیچھا کررہی ہے ماہ نور نے گاڑی ایک سائید پہ روکی اور خود نیچے اتری جیسے ہی وہ نیچے اتری دو آدمیوں نے اسکو کلوروفام لگا رومال اسکے منہ پہ رکھا اور ایک منٹ میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی تھی ۔

میر کو اچانک صبح سے عجیب سی بے چینی ہورہی تھی اسکا دل ماہ نور کو ملنے کا چاہ رہا تھا لہذا وہ ماہ نور کے گھر گیا لیکن وہ روم میں موجود نہیں تھی 

کہاں جاسکتی ہے آخر 

میر پریشان سا ہوگیا تھا 

رات کو ایک دفعہ پھر میر ماہ نور کے روم میں کھڑکی سے آیا لیکن وہ پھر موجود نہیں تھی 

اب سچ مچ میر کو پریشانی ہونے لگی تھی کہ آخر کہاں گئی ماہ نور 

عائشہ بیگم کا الگ رو رو کے برا حال تھا واجد خان نے پولیس کو انفارم کردیا تھا 

میر جانتا تھا کہ ماہ نور کے فون کی لوکیشن ہمیشہ آن ہی رہتی ہے اس لیے اس نے جب ماہ نور کو ٹریس کیا تو وہ حیران ہوا تھا 

کیوں کے اسے ایک انجان لوکیشن شو ہورہی تھی اسے کچھ غلط کا احساس ہوا ایک منٹ کی دیر لگائے بنا وہ باہر کی جانب بھاگا تھا ۔

ماہ نور کی جب آنکھی تو خود کو رسیوں سے بندھے ایک بند کمرے میں پایا

اسے اپنا سر بھاری بھاری سا محسوس ہوا تھا 

لللکککک کوئی ہے کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟ 

ماہ نور کی آواز مسلسل کانپ رہی تھی کہ اچانک ہی کوئی ہیولا اسکی اپنی جانب آتا ہوا محسوس ہوا 

مائی رائل پرنسس 

اس ہیولے نے ایک ادا سے کہا 

جس پہ ماہ نور اندر تک کانپ اٹھی تھی ۔

کک کک کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟ 

عاشق ہوں تمہارا دیوانہ ہوں تمہارا اور تمھیں حاصل کرنا چاہتا ہوں بس اور کچھ نہیں 

خباثت سے ہنستے ہوئے وہ بولا 

ماہ نور کو لگا جیسے ساتوں آسمان اسکے سر پہ آن گرے ہوں 

مم مم مجھے جانتے نہیں ہو کہ کون ہوں میں ماہ نور خان نام ہے میرا میرے ڈیڈ کو پتہ چلا نا وہ تمہارا قتل کردیں گے 

ماہ نور خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے بولی 

او رئیلی مائے رائل پرنسس 

O Really My Royal Princess

اسکے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بولا 

تمہارے باپ سے بھی کہا تھا میں نے کہ عزت سے تمھیں میرے حوالے کردے مگر تم جیسوں کو کہاں عزت راس آتی ہے 

اوئے بڈھے خبردار جو میرے ڈیڈ کے بارے میں ایک لفظ بھی بولا ہو تیری زبان گدی سے کھینچ لوں گی میں ایک دفعہ کھول مجھے تو پھر پتہ چلے گا ماہ نور خان نام ہے میرا میں کسی سے نہیں ڈرتی 

ہاہا اچھا آئی لائک یور اٹیٹیوڈ مائے رائل پرنسس 

تمہاری یہ بہادری کسی کو بھی متاثر کرسکتی ہے وہ اسکے مزید قریب ہوا تو اسے اس سے گھن آنے لگی 

تمہاری خوبصورتی نے دیوانہ بنادیا ہے تڑپ رہا ہے تمھیں حاصل کرنے کے لیے 

ہونہہ : ،، یقینا بہت پچھتائے گا تو 

خاموش ورنہ ابھی کے ابھی وہ حالت کروں گا کہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑوں گا تجھے 

عرفان ملک ڈھارا تھا 

ماہ نور کی پلکوں پہ کچھ آنسو، آٹھہرے تھے شدت سے اس نے اللہ سے دعا مانگی تھی 

عورت چاہے کتنی ہی بہادر کیوں نہ ہو عزت سب سے بڑی چیز ہوتی ہے اور ایک عورت کے لیے اسکی عزت ہی اسکا سب کچھ ہوتی ہے ۔

اس نے ماہ نور کو رسیوں سے آزاد کیا تھا اور ماہ نور نے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن عرفان ملک نے ایک ہی جھٹکے میں اسے دبوچا تھا 

آج کون بچائے گا تجھے مجھ سے ہاں ماہ نور خان 

کہتے ہوئے وہ اس پہ جکھنے ہی والا تھا کہ کسی نے اسکو پکڑ کے اسکا زور سے دیوار میں دے مارا تھا 

عرفان ملک کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا 

مم مم میرا مسیحا آگیا آگیا وہ ہاں میر آگیا 

یہ لفظ خود بخود ماہ نور کے منہ سے نکلے تھے 

میر نے ایک نظر ماہ نور کو لال انگارہ ہوتی اور شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا جس سے وہ خود میں سمٹ کے رہ گئی تھی 

اب میر عرفان ملک کا سر زمین پہ مار رہا تھا کہ اچانک ہی عرفان ملک نے اپنے پاکٹ سے گن نکالی اور میر کے بازو پہ  ماری تھی 

تکلیف کی شدت سے وہ کراہ اٹھا تھا 

ماہ نور کی چیخ بلند ہوئی تھی اور بھاگتی ہوئی وہاں سے میر کے پاس جاپہنچی تھی جبکے عرفان ملک موقع دیکھ کے فرار ہوگیا تھا ۔

مم میر آپپ آپ ٹھیک تو ہیں نا آپکو چوٹ آئی ہے میری ووجج وجہ سے سوری 

ماہ نور روتے ہوئے کہنے لگی تھی 

کہ اچانک ہی میر نے ماہ نور کو کمر سے جکڑ کر دیوار کے ساتھ پن کیا 

اور شعلہ برساتی آنکھوں سے اسے گھورا 

سمجھایا تھا نہ میں نے اگر اکیلے گھر سے باہر جاتی ہو تو ڈرائیور ساتھ رکھا کرو ہاں مگر تم ایک بات کی کہی ہوئی میری بات سمجھ نہیں آتی؟ 

اس نے دیوار کے ارگرد اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا 

میر آپکو چوٹ لگی ہے چلیں ہاسپٹل چلیں 

پہلے میری بات کا جواب دو 

اب کے ماہ نور کے بازو بھی میر کی گرفت میں آچکے تھے 

سس سوری آئندہ سے خیال رکھوں گی ماہ نور سسک پڑی تھی 

میر نے ایک جھٹکے میں اسے چھوڑا اور کہنے لگا 

آج معاف کررہا ہوں آئندہ ایسی حرکت کی نا تو جان لےلوں گا تمہاری 

سرخ آنکھوں سے بولتا اسے وہ خاموش کروا گیا تھا 

ممم ممم میر پلیز چلیں ہاسپٹل 

اتنی گہری چوٹ نہیں ہے 

چلو تمہیں گھر چھوڑ دوں 

نن نہیں پلیز آپ ہاسپٹل چلیں پہلے 

کہا نا ویسے بھی یہ معمولی سی چوٹ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی 

کہتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھا تھا اور ماہ نور بھی اسکے ساتھ آبیٹھی تھی 

اسکے ساتھ ہی وہ اندر آیا تھا 

مما 

ماہ نور میری بچی 

عائشہ خان نے کہا 

تو ماہ نور ان سے جا لپٹی تھی 

ماہ نور میرا بچہ 

واجد خان نے بھی اسے اپنے سینے سے لگایا تھا 

ٹھیک تو ہو نا  تم کس نے کیا یہ سب 

میر کھڑا مسکرا رہا تھا ماہ نور کے لیے عائشہ خان اور واجد خان کی محبت دیکھ کے 

بیٹا آپ نے میری بچی کو آزاد کرایا 

جی انکل 

میر نے کہا 

تو انھوں نے آگے بڑھ کے اسے گلے سے لگا لیا 

تھینک یو بیٹا آپ نے میری بچی کی جان نہیں بچائی بلکہ میری عزت بچائی ہے 

واجد خان نے محبت بھرے لہجے میں کہا 

عزت تو میں نے  بھی اپنی بچائی ہے 

میر نے دل میں کہا 

اٹس اوکے انکل یہ تو میرا فرض تھا 

ماہ نور میر کو ہی دیکھ رہی تھی 

کیا تھا وہ شخص مسیحا یا پھر ستمگر ؟

اوکے انکل میں چلتا ہوں آپ لوگ کنٹینو کریں پھر 

بیٹا اب آپ آہی گئے ہو تو بیٹھو نا کھانا کھا کے جانا 

عائشہ خان نے کہا 

نہیں آنٹی ابھی میں جلدی میں ہوں پھر کبھی سہی 

بیٹا آپ کی بازو پہ چوٹ لگی ہے آپ بیٹھیں میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں 

نو انکل تھینک یو سو مچ میں خود چلا جاؤں گا 

مجھے کام ہے کچھ ضروری 

اوکے بیٹا ٹیک کئیر 

الله حافظ 

الله حافظ 

کہتے ہوئے ایک نظر ماہ نور کو دیکھا جو اسکو ہی دیکھ رہی تھی پھر وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا 

ویسے اتنا بھی برا نہیں ہے یہ بندر جتنا میں نے سوچا ہے ۔

ماہ نور خود سے کہتے ہوئے اپنے روم کی جانب بڑھ گئی تھی ...

صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا مشال کو تو ٹینشن سے ہی پوری رات نیند نہیں آئی تھی 

بارہ بجے کے درمیان اسے دائم کا میسیج آیا تھا مشال کے دل کی ڈھڑکن کافی تیز ہوئی تھی لیکن اس نے عفان شاہ کو صرف اتنا ہی بتایا تھا کہ اسے پتہ چل چکا ہے کہ زوار کو کس، نے کڈنیپ کیا ہے لہذا وہ اسکے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے تھے ۔

مشال دائم کے بتائے ہوئے ایڈریس پہ پہنچی چکی تھی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کے اسے لگا جیسے ساتوں آسمان اسکے سر پہ آن گرے ہوں 

نن نن نہیں دائم پلیز ایسا مت کرو چھوڑ دو اسے 

مشال نے ہکلاتے ہوئے کہا 

اگر اسے زندہ دیکھنا چاہتی ہو نا مائے لٹل فیری تو چپ چاپ میرے پاس آجاؤ میرے ساتھ چلو 

دائم جس، نے زوار کے سر پہ گن تان رکھی تھی بولا، 

نہیں مشال بیٹا یہ غلطی مت کرو یہ شخص تمہیں ورغرا رہا ہے ہم زوار کو پولیس کی مدد سے بچا لیں گے 

عفان شاہ کے بولنے کی دیر تھی کہ ایک فائر ہوا تھا 

مشال کی چیخ بلند ہوئی تھی لیکن صد شکر وہ فائر دائم نے محض ہوا میں کیا تھا یعنی گن کا رخ آسمان کی جانب تھا

تو اپنا منہ بند رکھ ایسا نہ ہو اگلی بار میری گن کا نشانہ تو ہو 

دائم لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے عفان شاہ کی جانب دیکھا 

پی پی پلیز چھوڑ دو دائم زوار کو 

نن نو مائے بیوٹی 

تم نہیں آنا یہ وحشی درندہ ہے نہیں چھوڑے گا تمھیں یہ پلیز مشال تم اسکی شرط اکسیپٹ مت کرنا 

دائم نے ایک ہاتھ سے زوار کو قابو کر رکھا تھا کہ اچانک اسکے گلے پہ گرفت تنگ کی جس سے زوار کا سانس اکھڑنے لگا تھا 

رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا 

دائم نے طنزیہ کہا 

لٹل فیری تمہارے پاس دس منٹ ہیں 

اور دس منٹ کا مطلب دس منٹ 

دائم نے مشال کی جانب پراسرار نگاہوں سے دیکھا 

اینڈ یور ٹائم سٹارٹ ناؤ 

And your Time Start Now. 

ایک 

دو 

تین 

نو نو دائم پلیز نو 

چار 

پانچ 

دائم رحم کھاؤ پلیز چھوڑ دو اسے 

تمھیں جو چاہیے تم لے لو 

مشال نے روتے ہوئے کہا 

مجھے سکون چاہیے مطلب کہ تم مائے لٹل فیری 

نو پی پی پلیز 

چھ 

سات

چاچو پلیز دائم کو روکیں نا دیکھیں وہ کیا کرنے جارہا ہے 

عفان شاہ تو خود دائم سے اتنے خوفزدہ تھے کیا کہتے اب وہ ویسے بھی دائم کی دھمکی کو وہ کیسے نظر انداز کرسکتے تھے جانتے تھے کہ دائم دُرانی کی دھمکی محض دھمکی نہیں ہوتی ۔

آٹھ 

نو 

اس سے پہلے کہ دائم فائر کرتا مشال بھاگ کے دائم کے قریب آئی تھی 

اوکے چلوں گی میں آپکے ساتھ پلیز گن نیچے رکھ دیں اور زوار کو جانے دیں 

مشال نے ہلکا ہلکا کانپتے ہوئے کہا 

تو دائم کے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا 

اچھا جی لو چھوڑ دیا 

دائم نے شوخ لہجے میں کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے زوار کو چھوڑا 

مائے بیوٹی 

زوار نے بے یقینی سے مشال کی جانب دیکھا 

آئیم سوری زوار 

چلے جاؤ پلیز 

کہا تھا نا تیری آنکھوں کے سامنے سے اپنی جان کو لے جاؤں گا اور تو کچھ نہیں کرپائے گا 

دائم نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا 

جبکے زوار کی رگیں تن ایک ہی جھٹکے میں دائم کا گریبان دبوچا 

میں نہیں چھوڑوں گا تجھے دائم دُرانی اس حرکت کی بہت بڑی قمیت چکانی پڑے گی تجھے 

نہ ہی تیری اتنی ہمت ہے نا ہی تیری اتنی اوقات ہے کہ تو دائم دُرانی سے پنگا لے 

کہا تھا نا اب کی بار یہ حرکت کی تو ہاتھ توڑ دوں گا 

کہہ کے ایک گولی زوار کے ہاتھ پہ ماری تھی 

مشال پھٹی نگاہوں سے دائم کو دیکھتی رہی 

جبکے زوار کے ہاتھ سے خون ابل ابل کے بہہ رہا تھا 

ایک ہی جھٹکے میں مشال کا ہاتھ پکڑے وہ ان دونوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا ۔

ہیلو 

ہاں اب میری بات دھیان سے سنو 

جی سر آپ حکم کریں 

ہممم 

ایک شخص ہے عمر تقریباً 36 سال کے درمیان ہوگی 

عرفان ملک نام ہے اسکا، 

پتہ چلاؤ، کہ یہ شخص کون ہے اور واجد خان سے کیا چاہتا ہے 

اور ہاں ایک اور بات کہ اس، نے ماہ نور خان کو کیوں کڈنیپ کیا تھا 

کل تک کا ٹائم ہے میرے پاس، تمام ڈیٹیلز مجھے کل اپنے ٹیبل پہ چاہیں 

گوٹ اٹ 

اوکے سر 

گڈ ناؤ فوکس اون یور ورک 

Good Now Focus on your work 

کہہ کے کال کاٹ دی تھی میر نے ۔

نور بیٹا 

ارے پاپا آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں 

اندر، آئیں نا 

ماہ نور اب اٹھ کے بیٹھ چکی تھی

کیسا ہے میرا بچہ 

جی پاپا الحمد الله ٹھیک ہوں اب آپ بتائیں کیسے ہیں؟ 

ہاں 

بیٹا بس ٹھیک ہی ہوں

اچھا نور بیٹا یہ بتاؤ 

کہ تمھیں کڈنیپ کس نے کیا تھا اسکا نام یاد ہے تمہیں کون تھا وہ؟ 

ہاں پاپا اس نے ایک مرتبہ اپنا نام بولا تھا عرفان ملک نام تھا اسکا 

سن کے واجد خان کو اب حقیقی معنوں میں پریشان ہوئے تھے 

پاپا وہ آپ کے متعلق بہت بکواس کررہا تھا لیکن میں نے بھی اسے برابر کا جواب دیا تھا یہ کون ہے اور کیوں میرے پیچھے پڑا ہے؟ 

بیٹا عرفان ملک ایک عیاش پرست گنڈہ ہی سمجھ لو اسے بزنس مین بھی دھوکے سے بنا ہے اور ہم میں کچھ پرابلمز ہیں جسکی وجہ سے اس نے یہ گھٹیا، حرکت کی لیکن تم پریشان نہ ہو میں دیکھ لوں گا اور انشاءاللہ وہ جلد ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا 

جی پاپا انشاءاللہ 

ماہ نور ہلکا سا مسکرائی تھی 

اوکے بیٹا  تم ریسٹ کرو میں چلتا ہوں اب 

اوکے پاپا 

اب واجد خان سچ مچ میں پریشان ہونے لگے تھے ماہ نور کے لیے اب  انھیں جلد از جلد کوئی فیصلہ کرنا تھا کیوں کے وہ ماہ نور کسی بھی قمیت پہ کھونا نہیں چاہتے تھے ۔

ماہ نور کی سوچوں کا مرکز اکثر میر ہی ہوتا تھا جانے کیوں اسکا دل اب اسکا نام سن کے ایک عجیب سے ہی انداز میں ڈھڑکتا تھا اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا اسے کہ میر غلط نہیں  ہے لیکن وہ اپنے جذبات کو فلحال کوئی نام نہیں دے پارہی تھی

وہ کھڑکی کے سامنے آکھڑئی ہوئی تھی کہ اسے میر اپنی طرف آتا ہوا دیکھائی دیا تھا 

یی یی یہ یہاں اس وقت کیا کررہا ہے وہ جلدی سے کھڑکی بند کرنے لگی تھی کہ میر نے اپنا ایک ہاتھ کھڑکی میں رکھ لیا تھا 

اور اب مزے سے ماہ نور کی غیر ہوتی حالت دیکھنے لگا تھا 

ماہ نور نے ایک دفعہ پھر کھڑکی بند کرنے کی کوشش کی لیکن میر اب کی بار کود کے اندر آگیا روم تو آل ریڈی لاکڈ تھا ماہ نور کا اب کھڑکی کو بھی میر لاک کرنے لگا تو ماہ نور کی جان ہوا ہونے لگی تھی 

ککک کیا کر رہے ہیں آپ 

ویسے یہ حیرت انگیز تبدیلی کیسے آئی میرا مطلب کے تم آپ پر کیسے آئی 

کیوں عزت ہضم نہیں ہورہی کیا؟ 

اور ساتھ ہی میر کا قہقہ بلند ہوا تھا 

جس پہ ماہ نور نے اسکے منہ پہ اپنا ہاتھ رکھا تھا تاکہ آواز باہر ناجائے 

اور میر نے ماہ نور کے وہی ہاتھ کی ہتھیلی چوم لی تھی جس سے ماہ نور بدک کے پیچھے ہوئی تھی 

اس سے پہلے کہ ماہ نور مزید دور، ہوتی میر نے اسے اپنی جانب کھینچا تھا 

چھھ چھھ چھوڑیں مجھے پلیز 

ماہ نور ہکلائی تھی 

کچھ آنسو اسکی پلکوں پہ آٹھہرے تھے 

ششش!  جانِ میر سوری کل میں نے اپنی جان پہ بہت غصہ کیا تھا نا آئی پرامس  آئندہ کوشش کروں گا کہ نہیں کروں لیکن تم جانتی ہو نا کہ میری محبت معمولی نہیں ہے شدت اور جنون سے بھرپور ہے بس مجھے اس لیے برداشت ہی نہیں کہ کوئی تمہاری طرف آنکھ بھی اٹھا کے دیکھے اس سے پہلے میں وہ آنکھیں ہی نکالوں گا اینڈ آئی پرامس وہ جو کوئی بھی تھا جس نے تمہیں چھوا تھا اس کی موت اتنی بدتر ہوگی کہ دنیا کے لیے عبرت کا باعث بن جائے گی 

میر ماہ نور کے چہرے کو اپنے ہاتھوں ے پیالے میں بھرتا ہوا بولا 

تو ماہ نور میر کے لہجے کی شدت اور جنونیت کو محسوس کرتے ہوئے کانپ اٹھی تھی 

مم میر آپپ آپ جائیں پلیز، کوئی آجائے گا 

او ہوں کون میرے ساس سسر تو اتنے اچھے ہیں مجھ سے پہلی ملاقات میں ہی میرے گرویدہ ہوگئے لیکن ایک بیٹی ہے جسکو کسی چیز کا اثر ہی نہیں ہوتا 

میر منہ بسورتے بولا تو ماہ نور ہنس دی اور میر تو گویا فدا ہی ہوگیا تھا اسکی ہنسی پہ آج پہلی مرتبہ وہ اسکے سامنے ہنسی تھی 

میر نے اس پہ اپنی گرفت مزید مضبوط کی تو ماہ نور کی نظریں بے اختیار جھکی تھیں 

ماہ نور کیا خیال ہے انکل کو بول کے کل ہی رخصتی نہ کروالوں 

میر کے کہنے کی دیر تھی کہ ماہ نور کا چہرہ گلنار ہوگیا تھا اور ایک ہی جھٹکے میں میر سے الگ ہوئی تھی 

میر اسکی پھرتی پہ مسکرایا تھا 

جائیں پلیز، 

ایک شرط پہ 

پہلے بولو کہ مجھے معاف کردیا ہے تم نے کل کے لیے 

اٹس اوکے مجھے برا نہیں لگا تھا 

میرا مسکرایا تھا جانے ہی لگا تھا کہ ماہ نور کی آواز نے قدم روک لیے 

وہ چلتی ہوئی اسکے قریب آئی تھی 

آپکی چوٹ کیسی ہے زیادہ پین تو نہیں ہے 

ماہ نور کی فکر پہ میر مسکرایا اور کہنے لگا 

تم نے پوچھ لیا نا اب ٹھیک ہے 

اسکا گال تھپتھپا ہوا کھڑکی سے کود گیا تھا 

ماہ نور نے ایک نظر اٹھا کے میر کو دیکھا جو اسکو محبت پاش نظروں سے نیچے کھڑے دیکھ رہا تھا 

ماہ نور میر کو دیکھ کے مسکرائی جب کے میر نے اپنا ایک ہاتھ دل پہ رکھا تھا اور  ماہ نور آنکھ مارتا ہوا اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا ...

وہ مشال کا ہاتھ پکڑتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا تھا 

مشال مسلسل اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی لیکن دائم کی گرفت مضبوط تھی اندر روم میں لا کے اس نے اسے چھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔

مشال کی آنکھیں پل میں لال ہوئیں تھیں کچھ رونے کی وجہ سے اور کچھ غصے کی شدت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔

ایک ہی جھٹکے میں مشال نے دائم کا گریبان پکڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

"""کیا سمجھتے ہو تم اپنے آپ کو دائم دُرانی، کہ تم کوئی بہت پہنچ ہو ہوئی چیز ہو۔۔۔۔۔۔ہر دفعہ ڈرا دھمکا کے اپنی بات منوا لوگے ہو کیا تم اوقات کیا تمہاری؟ """"""

"""""محبت کہتے ہوئے تم اسے خون خرابے کو ہاں؟ """"

""""جواب دو اب کیوں چپ ہوگئے ہو""""

""""یو نو واٹ تم ایک انتہائی خود غرض اور گرے ہوئے انسان ہو جسکو صرف اپنی پرواہ ہے دوسروں کے جذبات اور احساسات کا رتی بھر بھی احساس نہیں ہے تمھیں """"""

"""ایک بات یاد، رکھنا مسٹر دائم دُرانی 

مشال شاہ نا ہی کسی کی باپ کی نوکر ہے نا ہی کسی کی غلام ہے اور نا ہی کسی سے ڈرتی ہے 

گوٹ اٹ مائے پوائنٹ """""

"""""Got my point"""""

""""""تم نے جو کرنا ہے تم کرلو اب میں بھی تم سے خلع لوں گی اور تمہارے سامنے ہی زوار کے ساتھ شادی کروں گی """""۔۔۔۔۔۔۔۔

نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔

""""انٹرسٹنگ مسز دائم دُرانی""""کہہ کے مشال کو بازو سے پکڑ کے دیوار کے ساتھ پنا کیا تھا اور مشال کے گلے پہ دباؤ ڈالا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"""اتنا غرور کس بات کا ہے تمھیں ہاں میری جان؟ """"

"""اگر تمہیں معلوم ہوتا نہ کہ دائم دُرانی کی کیا اوقات ہے تو تم ایسا کبھی نہ بولتی"""" 

""""اب تک میں وہ دائم تھا جسکو صرف شدتِ محبت تھی، تم سے بٹ آئی واز رونگ""""

""""but I was wrong """"

""""اب انشاءاللہ اتنی نفرت کروں گا، نہ تم سے کہ اتنی محبت بھی نہ کی ہوگی میں نے تم سے""""" 

اسکی کان کی لو کو اپنے دانتوں تلے دباتا ہوا بولا

تو مشال کی سسکاری نکلی۔۔۔۔۔۔

""""یہ ہی چاہتی تھی نا تو لو"""""

""""مار دیا تم نے اس دائم دُرانی کو جس نے تم سے شدتِ محبت کی تھی اور جگا دیا اسی درندے شیطان کو جو وہ زندگی میں دوبارہ کبھی نہیں بننا چاہتا تھا"""""" 

""""""یقین کرو میری جان میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو عورتوں پہ ہاتھ اٹھاتے ہیں""""

"""""لیکن تمہاری ضد بلاوجہ کی انا نے مجھے یہ قدم بھی اٹھانے پہ مجبور کیا ہے تو مس مشال شاہ اب انجام بھگتنے کے لیے تیار رہنا """""""

نیلی آنکھیں کالی آنکھوں میں گاڑھتا ہوا درشتی سے کہتا ہوا وہ الٹے قدموں پلٹ گیا تھا ۔۔۔۔۔

یا خدا مدد فرما میری سچائی اور حق کا راستہ دکھا مجھے 

کہتے ہوئے مشال وہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بے آواز آنسو بہانے لگی تھی ۔

ماہ نور آجکل اپنے اندر ایک عجیب سی خوشی محسوس کررہی تھی شاید یہ میر کی محبت کا اثر تھا 

جو اسے دن بہ دن ایک الگ ہی احساس سے روشناس کروا رہا تھا ۔۔۔۔ 

دائم نے ساری رات جاگ کے سگریٹ پیا تھا کتنی تڑپ تھی اسے مشال کی اسکو حاصل کرنے لیکن اس نے کیا کیا تھا اسکی محبت کو اپنے پاؤں تلے روند دیا تھا مشال کہتی تھی کہ دائم کو کسی کے جذبات کی قدر نہیں لیکن حقیقت میں تو مشال کو دائم کی شدتِ محبت کی قدر نہیں تھی ہمیشہ وہ اسکی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ کے بھی نظر انداز کردیتی تھی ۔

سگریٹ پی پی کے اسنے روم کا برا حال کررکھا تھا نیلی آنکھیں شدت سے لال تھیں کچھ ضبظ کی وجہ سے اور کچھ ماضی کی تلخ یادوں کی وجہ سے ۔

مشال کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا جیسے کوئی جسم سے روح کھینچ کے نکال لیتا ہے ٹھیک ویسے ہی دائم کے الفاظ نے اسکی روح تک کو ہلا ڈالا تھا ۔

" اب انشاء الله اتنی نفرت کروں گا نہ تم سے کہ اتنی محبت بھی نہ کی ہوگی تم سے " 

الفاظ تھے یہ؟. 

مشال کو تو لگا تھا جیسے کسی نے اسکے کانوں میں صور پھونک دیا ہو 

کالی آنکھیں شدت سے لال تھیں 

کیوں یا الله آخر کیوں جب مجھے اس سے محبت نہیں ہے تو پھر کیوں اسکی باتیں اسکی حرکتیں میری جان نکال لیتی ہیں وہ اب نفرت کرتا ہے مجھے سے تو کیوں مجھ سے برداشت نہیں ہورہا 

مشال اپنے بالوں کو اپنی مٹھی میں قید کیے پاگلوں کے جیسے خود سے سوال کرنے لگی تھی ۔

چند لمحوں بعد مشال نے سرخ آنکھیں اٹھائیں تھیں تو جیسے سامنے اور اپنے بہت قریب بیٹھے شخص کو دیکھ کے رگوں میں سکون ڈورتا محسوس ہوا تھا 

تجھے روز دیکھوں قریب سے 

میرے شوق بھی عجیب سے 

میرے مرض کی دوا تم ہو 

مجھے کیا غرض طبیب سے ۔۔۔

وہ جھکی اور اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنی انگلیوں سے چھونے لگی تھی 

ددداا ۔۔۔ دائم پی پی پلیز چلے جاؤ نا کیوں آتے ہو میرے سامنے بار بار نہیں کرسکتی میں تم سے محبت 

کیوں بےبس کردیتے ہو مجھے ہاں کیوں 

دائم مسکراتی نظروں سے اسکی جانب دیکھ رہا تھا 

تمھیں پتہ ہے مجھے لگتا ہے اگر تم کچھ دیر اور میرے سامنے یوں ہی بیٹھے رہوگے نا تو سچ میں محبت ہوجائے گی مجھے تم سے 

مشال نے ٹرانس کی کیفیت میں کہا تھا 

لیکن یہ کیا؟ 

جیسے ہی اس نے دوبارہ چھونا چاہا تھا دائم کو تو اسکا عکس ہوا میں تحلیل ہوگیا تھا 

جس پہ مشال شدت سے رودی تھی ۔۔۔

ماہ نور کو کسی پہر اپنے چہرے پہ ایک جانے مانے سے لمس کا، احساس ہوا 

لیکن وہ جان بوجھ کے آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی تھی 

آنکھیں کھولو جانم 

میں ہوں 

میر کی خمار آلود آواز سن کے ماہ نور نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تھیں 

میر شدت لٹاتی آنکھوں سے اسکی ہی جانب دیکھ رہا تھا 

ماہ نور سے مزید اسکی آنکھوں میں نہ دیکھا گیا اور وہ نظریں جھکا گئی تھی 

میر اسکی گردن پہ جھکا تھا 

تو ماہ نور کی تو جیسے جان ہی فنا ہونے لگی تھی 

مم مم میر پی پی پلیز، ہٹیں 

ماہ نور کے احتجاج نے تو جیسے میر کو طیش ہی دلا دیا تھا 

وہ جھٹکے سے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسکی سانسوں کو اپنے اندر، اتارنے لگا ماہ نور نے احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن میر نے ماہ نور کے دونوں بازو پکڑ کے بیڈ کراؤن سے لگا دیئے تھے ۔

چند لمحوں بعد وہ پیچھے ہٹا تو ماہ نور کا چہرہ کانوں کی لو تک سرخ  پڑچکا تھا اور نظریں تو اٹھائی ہی نہیں جارہی تھیں ۔

میر نے مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھا 

اور اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کرنے لگا تھا

آئندہ سے میرے کام میں رکاوٹ مت بننا اوکے جانِ میر 

اور جس کام کی میں بات کررہا ہوں وہ تم اچھے سے سمجھتی بھی ہو جانتی بھی ہو اور اگر پھر بھی روکا مجھے تو ایک ٹریلر ہی دیکھایا ہے اپنی جان کو میں نے ابھی ایک آنکھ ونک کرتا ہوں وہ ماہ نور کے گلنار چہرے کو دیکھنے لگا 

ماہ نور جو میر کی پہلی حرکت پہ لال ٹماٹر ہورہی تھی اسکی انتہائی بےباک گفتگو پہ اسکے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی تھی اور میر کو مسکرانے پہ مجبور کرگئی تھی میر اسکو مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اٹھا اور اسکے ماتھے پہ ایک پرحدت لمس چھوڑتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا جبکے ماہ نور کو اپنی ڈھرکنوں کو سنبھالنے میں وقت لگا تھا ۔۔۔۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تھا حالت اسکی یہ تھی 

لال انگارہ ہوتی آنکھیں بڑھی شیو آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے جیسے برسوں سے سویا ہی نا ہو 

بکھرے سیاہ بال 

اجڑئی ہوئی حالت 

ایک نظر اس نے بیڈ سوئی مشال پہ ڈالی تھی 

مٹے مٹے آنسو زرد رنگت بکھرے الجھے ہوئے بال حالت اسکی بھی اسکے جیسی ہی تھی 

لیکن فرق صرف اتنا ہی تھا کہ ایک کو محبت تھی اور ایک کو اس محبت کی قدر نہیں تھی 

وہ وہی اسکے قریب بیٹھ گیا تھا 

معلوم ہوتا تھا روتے ہوئے وہ سوگئی ہے 

بے ساختہ اس نے اپنی انگلیاں اسکے گال پہ پھیریں جہاں آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے 

صاف کیے وہ جانتا تھا کہ وہ روئی ہے 

نہیں کرپا رہا ہوں نفرت میں تم سے کیوں ؟ جانتی ہو کیوں کیوں کے میں نے اتنی شدت سے محبت کی ہے کہ تم سے چاہ کے بھی نفرت نہیں کرسکتا تم سے لیکن تم ہو کہ ہر بار دھتکارتی ہو مجھے اور ایک میں ہوں تمہارا دیوانہ جو پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کے تمہارے پاس چلا آتا ہوں آخر کیوں مشال؟  کیوں کے میں شدتِ محبت کرتا ہوں تم سے میں ہر حد پار کروں گا تمھیں اپنا بنانے کے لیے تمہیں تم سے چھین لوں گا 

مشال جاگ رہی تھی لیکن سوتی بنی رہی تھی شاید اتنی ہمت ہی نا تھی کہ دائم کا سامنا کرسکے اور اوپر سے اسکی باتیں اسکا دہکتا ہوا لمس اسکو لرزنے پہ مجبور کرگیا تھا ۔..

I love you like crazy i'm mad like a psycho I'm mad at you My love is full of intensity I will not let you be separated from me I will make you helpless

I will take you away from me 

" میں محبت کرتا ہوں تم سے پاگلوں کی طرح محسوس ایک سائیکو ہوں تمہاری محبت میں جنون ہے مجھے تمہارا میری محبت شدت سے بھرپور ہے تمہیں خود سے جدا نہیں ہونے دوں گا میں میں تمہیں بےبس کردوں گا تمھیں تم سے چھین لوں گا میں " 

دائم نے پاگلوں کی طرح مشال کو بازوؤں سے پکڑ کے جھنجھوڑا تھا جس پہ مشال نے تڑپ کے آنکھیں کھولیں تھیں 

دددااا دائم کیا کررہے ہیں ؟

تم صرف میری ہو مشال تمہیں مجھ سے کوئی دور نہیں لے جا سکتا ہے تم خود بھی چاہو نا نہیں جاسکتی مجھ سے دور اور اگر  تم نے ایسا سوچا بھی نا تو زندہ زمین میں گاڑ دوں گا 

وہ مشال کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا 

جس پہ مشال کانپ کے رہ گئی 

اور وہاں سے اٹھ کے بھاگ کے واشروم میں قید ہوگئی تھی ۔

جب اس نے بہت سا رولیا تو وہ باہر نکلی دائم سوچکا تھا 

وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اسکے قریب آئی تھی 

ایک نظر اس نے اسے دیکھا بے ساختہ وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی تھی 

لیکن اچانک ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی اسے یہاں نہیں رہنا تھا اسے یہاں سے جتنا جلدی ہوسکے نکلنا تھا بہت سی سوچیں دماغ میں گردش کررہی تھیں جبکے دل تو جو چاہتا تھا وہ فلحال کے لیے ناممکن تھا ۔

واجد خان آفس سے نکلے تھے کہ انکی کار خراب ہوگئی تھی 

ڈرائیور بھی ساتھ نا تھا ناہی کوئی لفٹ مل رہی تھی نا ہی نیٹ ورک / سگنل آرہے تھے کہ کال کرکے ڈرائیور سے دوسری کار منگوا لیں 

وہ ابھی کھڑے ہی تھے کہ میر اپنی کار میں آتا ہوا دکھائی دیا تھا میر نے واجد خان کو دیکھ لیا اور فوراَ سے کار انکے سامنے روک کے خود باہر نکلا

اسلام و علیکم انکل آپ یہاں کیسے 

وعليكم اسلام بیٹا کیسے ہو آپ 

جی انکل الحمد اللہ آپ بتائیں 

الله کا شکر 

انکل کوئی پرابلم ہے کیا؟ 

بیٹا وہ دراصل میری گاڑی خراب ہوگئی ہے اور نا ہی ڈرائیور ساتھ ہے نا ہی نیٹ ورک آرہا ہے یہاں 

انکل تو میں کس لیے ہوں 

آپ چلیں میرے ساتھ بیٹھیں میں آپکو گھر چھوڑ دیتا ہوں 

لیکن بیٹا آپ کیسے آپکو تکلیف ہوگی

انکل بیٹا بھی بولتے ہیں اور تکلیف کس چیز کی؟ 

واجد خان نے مشکور نگاہوں سے میر کو دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گئے تھے ۔۔۔

بیٹا آپ سے ایک بات پوچھوں 

جی جی انکل حکم کریں 

آپکے ماما پاپا 

نہیں ہیں 

اور آئیم سو سوری بیٹا 

نو اٹس اوکے انکل 

انکل آپکو کبھی بھی کسی قسم کی بھی ضرورت ہو نا تو یہ آپکا بیٹا حاضر ہے 

جیتے رہو میرے بچے 

واجد خان نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔

واجد خان کو گھر ڈراپ کرکے میر جاہی رہا تھا، لیکن واجد خان نے زبردستی میر کو کھانے پہ روک لیا

ماہ نور کے تو تب سے ہوش اڑے ہوئے تھے اور میر کو ماہ نور کی یہ حالت کافی مزہ دے رہی تھی 

کھانا کھانے کے بعد، واجد خان نے ماہ نور کو، کہا، تھا، کہ میر کو گھر دکھائے سو، وہ اسے گھر دیکھانے کے لیے 

فرسٹ پورشن پہ لے گئی تھی 

جیسے ہی ماہ نور، نے روم میں قدم رکھا میر نے جھٹ سے روم کو اندر سے لاک کرلیا 

مم میر کیا، کیکک کیا کررہے ہیں؟ 

میر کے قدم ماہ نور کی جانب جب کے ماہ نور کے قدم پیچھے کی جانب اٹھ رہے تھے 

نن نن نو پی پی پلیز میر، ماہ نور ہکلاتے ہوئے بولی 

کیا نو 

میر نے دیوار کی دونوں ہاتھ دیوار پہ رکھے تھے 

جبکے ماہ نور دیوار سے چپکی ہوئی تھی 

مم میرا مطلب 

کیا مطلب تھا تمہارا 

میر ماہ نور کی حالت سے لطف اٹھاتے ہوئے گویا ہوا 

وووو وہ وہ میرا مطلب تھا کہ آپنے منہ زور جذبات کو کنڑول میں رکھیں 

میر ہنس دیا تھا 

کتنا پیارا لگتا تھا وہ ہنستے ہوئے 

آج پتہ چلا تھا ماہ نور کو 

ایسے کیا دیکھ رہی ہو،؟ 

میر، شوخ لہجے میں گویا، ہوا، 

نن نن نہیں تو ایسا تو کچھ نہیں اور میں کیوں آپکو دیکھنے لگی ہاں؟ 

آپ کیا میرے ہیرو کی طرح ہیں 

کہنے کی دیر تھی کہ میر نے ماہ نور کو کمر سے جکڑا تھا 

آہہہ اسکی سسکاری نکلی تھی 

آج تو کہہ دیا تم نے اور ہاں کا کھول کے سنو لو مشز میر ارسلان بٹ تمہارا ہیرو میں تھا ہوں اور ہمیشہ رہوں گا آئندہ کے بعد تمہارے منہ سے کسی غیر مرد کا نام نا سنو تم صرف میری ہو تمہارے وجود، پہ تمہاری روح پہ تمہاری سانسوں پہ صرف اور صرف 

میر ارسلان بٹ کا حق ہے سمجھ گئی 

ماہ نور نے فوراً سے اثبات میں سر ہلایا 

ہممم گڈ گرل 

آہستہ سے چھوڑ کے وہ باہر نکل گیا تھا لیکن ماہ نور کو اب اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اتنا تو وہ جان چکی تھی کہ میر اس سے شدتِ محبت کرتا ہے اور اسکے لیے کتنا پوسیو ہے اپنی اس حرکت پہ وہ اب خود کو ہی کوسنے لگی تھی ۔

ہاں دائم بول جگر 

ہممم سن آج رات کا، پلان ڈن ہے نا پھر؟ 

ہاں  ڈن ہے رات کو دو بجے میرے بتائے ہوئے ایڈریس پہ آجانا باقی پلان پہ عمل وہی سے سٹارٹ ہوگا اوکے 

الله حافظ ۔۔۔

میر نے فون بند، کرتے ہوئے کہا تھا۔

کیسا ہے جگر ؟

دائم میر کے گلے لگتا ہوا بولا 

الحمد الله تو بتا کیسا ہے 

اللہ کا شکر 

ہممم 

بھابھی ٹھیک ہے ؟

میر نے پوچھا 

ہمممم

دائم نے سرسری سا جواب دیا 

اچھا سن پلان تیار ہے 

ہاں سب ریڈی ہے 

چل ٹھیک ہے 

دائم جانے لگا تو میر بھی ساتھ چل دیا 

نہیں میر تو نہیں جائے گا 

لیکن دائم تو جانتا ہے کہ وہاں کتنا خطرہ ہے 

جانتا ہوں اس لیے تو تجھے نہیں لے کے جارہا ہوں 

میر یہ لڑائی میری ہے مجھے اکیلے ہی اسے لڑنا ہے 

اور تو اچھی طرح سے مجھے جانتا ہے 

دائم دُرانی ڈرنے والوں میں سے نہیں ڈرانے والوں میں سے ہے 

ہمممم میں جانتا ہوں میر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا 

دائم اندر جانے لگا تو میر نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگا لیا 

اپنا خیال رکھنا جگر 

ہممم 

دائم مسکرایا 

اور سن جب کام ہوجائے سگنل دے دینا مجھے 

ڈن دائم کہتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،

وہ اڈے پہ پہنچ چکا تھا 

وہاں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا 

سامنے دو ہٹے کٹے آدمی کھڑے تھے بلیک ہوڈی اور بلیک ہی ڈریس میں وہ آگے بڑھا چہرہ ماسک سے کور کر رکھا تھا ۔۔۔

کون؟ 

وہاں موجود ایک آدمی بولا 

پورے چہرے پہ صرف وہی نیلی آنکھیں نظر آرہی تھیں جو کسی کو بھی خوف میں مبتلا کرنے کا ہنر رکھتی تھے تھیں 

مم مم میں پوچھتا ہوں کون ہے وہاں؟ 

تیری موت..... 

کہہ کے وہ آگے بڑھا اور اسکی گردن توڑ دی 

ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ وہ آگے بڑھا 

اور کچھ ہی آگے بڑھا تھا تو وہاں موجود دو اور آدمی تیزی سے اسکی جانب لپکے تھے لیکن ان دونوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کے دائم پھر آگے بڑھا 

ہاتھ میں پکڑی پیڑول کی بوتل وہاں موجود سب ہی ڈرگز پہ چھرکی 

وہ دونوں آدمی خوف کے مارے کچھ بول بھی نا سک رہے تھے 

اور پھر اپنی پاکٹ سے ماچس کی تیلی نکالی اور ان تمام ڈرگز کو آگ لگا دی تھی ۔

جانے لگا جب ہی وہاں موجود ایک شخص نے کہا

ہمارے مالک کو پتہ چلا نا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے وہ نہیں چھوڑیں گے تمھیں 

دائم کے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ ابھرئی 

وہ اس بندے کے قریب ہی نیچے زمین پہ بیٹھا اور کہنے لگا 

کہہ دینا اپنے مالک کو کہ پوائزن آیا تھا ۔

کہہ کے وہ نکلتا چلا گیا 

اور وہ لوگ اسے جاتا دیکھتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔،،،

" کام ہوگیا " 

دائم نے ایک میسیج میر کو کیا تھا 

میر نے ریڈ کیا اور مسکرادیا تھا ۔

واجد خان لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب انکا سیل رنگ ہوا ۔

انھوں نے نمبر دیکھے بنا کال ریسیو کرلی تھی 

اسلام و علیکم 

واجد خان 

ایک بھاری مردانہ آواز انکے کانوں سے ٹکرائی تھی 

تم 

واجد خان غصے سے بولے 

ہاں میں 

اس لیے کال کی ہے تمھیں کہ تم چپ چاپ اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کردو تمہارے لیے اچھا ہوگا 

ورنہ 

ورنہ کیا میں ہرگز تم جیسے نیچ گھٹیا اور گندے شخص سے اپنی پھول جیسی بیٹی کا نکاح نہیں کروں گا 

ہاہا واقعی میں؟ 

چلو ٹھیک ہے پھر اگلی دفعہ تمہیں تمہاری بیٹی کے ساتھ اپنی تصویر بھیجوں گا جب وہ میرے بستر پر 

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ عرفان ملک ہمت کیسے ہوئی تمہاری میری بیٹی کے بارے میں اتنی گھٹیا بات کرنے کی ۔۔

مجھ میں کتنی ہمت ہے یہ تمھیں اور تمہاری بیٹی کو اب جلد ہی پتہ چل جائے گا ۔

کہہ کے عرفان ملک نے کال کاٹ دی تھی ۔

واجد خان اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئے انھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں کیسے ماہ نور کو اس درندے کے ہاتھوں سے بچائیں ۔۔۔۔۔،،،،،،،

رات کو دائم باہر سے ہی کھانا کھا کے آیا تھا ۔

مشال نے کھانا نہیں کھایا تھا 

اور یہ بات دائم جانتا تھا لہذا وہ چپ چاپ کیچن میں گیا 

پاستا نکالا اور فریج سے چکن نکالا کے بنانے لگا

مشال روم میں تھی جانتی تھی دائم آگیا، ہے لیکن پھر بھی وہ باہر نہیں نکلی 

آدھے گھنٹے میں وہ چکن پاستا تیار کرکے روم میں لایا 

ٹرے اس نے سائیڈ پہ رکھی 

مشال بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹی تھی 

جس پہ دائم کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی 

لٹل فیری 

اٹھو کھانا کھا لو 

مشال کچھ نا بولی 

لٹل فیری اٹھو بھی 

مشال پھر بھی ڈھیٹ بنی رہی 

اوکے طلب مجھے اپنے طریقے سے اٹھانا پڑے گا 

کہنے کی دیر تھی کہ مشال یکدم سیدھی ہوئی 

سرخ ہوتی آنکھیں 

اور گلابی ہونٹ جو دائم کا امتحان لے رہے تھے 

کھانا کھاؤ 

نن نن نہیں بھوک نہیں ہے مجھے 

ہممم اوکے ابھی لگ جاتی ہے بھوک 

کہہ کے وہ اسکے پاس بیٹھا 

اور ایک چمچ بنا کے اسکی منہ میں ڈالی 

جسکو کھانے سے مشال نے انکار کردیا 

کہا نا بھوک نہیں ہے ۔۔۔

مشال ہنوز اپنی ضد میں بولی 

مشال تم جانتی ہو نا اگر میں نے اپنے طریقے سے کھلایا تو اچھا نہیں ہوگا بلکہ بھوک بھی زیادہ لگ گی 

دائم نے معنی خیز لہجے میں کہا تو مشال نے فورا اپنا منہ کھولا تھا ۔

جب اسے وہ سارا کھلا چکا تو اندر کیچن میں برتن رکھنے چلا گیا تھا ۔۔۔

یہ مونسٹر اتنا مہربان کیوں ہورہا ہے مجھ پہ وہ تو مجھ سے نفرت کا دعویدار تھا نا اب پھر؟ 

ہوسکتا ہے وہ اسکا کوئی اور پلان ہو نہیں مشال بیوقوف لڑکی تم چوکنا رہنا چاہیے ہر ٹائم ۔۔۔

وہ سوچ رہی تھی جب دائم روم میں کافی کے دو مگ اٹھائے اندر داخل ہوا ۔۔۔

یہ لو تمہاری کافی 

دائم نے مشال کو کافی پکڑائی 

مشال کھڑکی کے پاس جا کھڑئی ہوئی اور گھونٹ گھونٹ پینے لگی 

دائم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اپنے کسی کام کے سلسلے میں لیپ ٹاپ پہ مصروف ہوگیا 

مشال کافی ختم کرکے مگ دھو کے روم میں آئی تو 

دائم بیڈ پہ سیدھا لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔

مشال نے اپنا تکیہ اٹھایا اور صوفے پہ جانے کے لیے بڑھ گئی

کہاں جارہی ہو؟ 

سونے 

کیوں یہاں کیا مسلہ ہے 

مسٹر دائم جن سے نفرت کی جائے نا نا ہی انکا خیال رکھا جاتا ہے اور نا ہی آپ پابند ہوتے ہیں انکے سوالات کے جوابات دینے کے سو پلیز ۔۔۔۔،،،، 

لیکن تم میری پابند ہو بیوی ہو تم میری 

دائم بولا 

نہیں میں آپکی کچھ نہیں لگتی کوئی رشتہ نہیں ہے ہمارے درمیان 

جو ہے وہ صرف زبردستی کا ہے 

جو کے جلد ہی ختم ہوجائے گا 

آخری جملہ مشال نے آہستہ سے کہا مبادا دائم سن نا لے اگر سن لیا تو اسکی خیر نہیں  ۔۔۔

دائم نے غصے سے مٹھیاں بھینچی لیکن خود پہ کنڑول کرتا ہوا وہ گویا ہوا ۔۔۔

چپ چاپ اپنی جگہ پہ واپس آکے لیٹو مشال 

نہیں مجھے نہیں آنا مجھے ادھر ہی ٹھیک ہوں 

اوکے ایز یو وش مائے لٹل فیری 

Ok As you wish My little Fairly... 

کہہ کے وہ اٹھا اور مشال کو اپنی بانہوں میں آٹھایا 

کک کیا کیا کررہے ہیں دائم یہ آپ نیچے اتاریں مجھے 

کہا تھا نا شرافت سے آکے لیٹ جاؤ لیکن ہر وقت جھانسی کی رانی بنی رہتی ہو تو اب بھگتو 

کہہ کے اس نے مشال کو اپنے پاس ہی بیڈ پہ لٹایا اور خود بھی ساتھ آکے لیٹ گیا 

مشال نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اسکو اپنی جانب کھینچ کے اسکے فرار ہونے کی تمام راہیں مسدود کرکے خود  آنکھیں موندگیا اور مشال کو بےسکون کرگیا تھا ۔

مونسٹر کہیں کا یا اللہ اگر میں اس کے نیچے آگئی تو میں تو نہیں بچو گی جس طرح یہ سوتا ہے 

مشال نے دائم کو آرے ترچھے طریقے سے سوتے ہوئے دیکھ کے کہا تھا ۔۔۔۔۔

یا اللہ مجھ پہ رحم کرنا اس مونسٹر سے مجھ جیسی لٹل فیری کی حفاظت کرنا ۔۔۔

مشال کو لگا کہ دائم سوگیا، ہے لیکن اسکو مشال کی باتوں پہ شدید ہنسی آئی لیکن کنڑول کرگیا تھا ۔۔۔

جب اسے محسوس ہوا مشال سوگئی ہے تو وہ بھی آرام سے نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،    ۔۔۔۔

عفان شاہ کو جب خبر ہوئی کہ اسکی تمام ڈرگز کو جلا دیا گیا ہے تو وہ آگ بگولہ ہوگیا تھا 

وہ اڈے پہ پہنچے تو وہاں انکے دو بندے تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور ایک زندہ تھا لیکن حالت ایسی تھی کہ زیادہ وقت زندہ نا رہ سکتا تھا ۔۔۔

اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں 

بتاؤ کس نے کیا یہ سب 

عفان شاہ اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولے 

پپپپ ۔۔۔ تکلیف سے وہ کراہ رہا تھا ۔

ہاں ہاں بولو 

کون تھا کیا نام تھا اسکا 

پپ پوائزن ۔۔۔

بس یہ لفظ اسکی زبان سے ادا ہوئے اور ادھر اسکی روح پرواز کرگئی تھی ۔

پوائزن؟؟  

یہ کون ہے اب؟ 

عفان شاہ الجھ کے رہ گئے تھے 

وہ اپنی کار میں بیٹھنے لگے کہ جب ہی انکا سیل رنگ ہوا ۔۔۔

ہیلو کون ہے بھائی کیا مسلہ ہے اب تم کو آگے ہی میں اپنے کسی مسلے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں 

ہاہاہا ایک بھاری خوبصورت گھمبیر آواز انکے کانوں میں پڑی ۔۔۔

کککک کون ؟

دائم کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ ابھرئی 

پوائزن۔۔۔

ککک کون پوائزن میں کسی پوائزن کو نہیں جانتا اور تم نے میری ڈرگز کو کیوں جلایا 

تمہاری قسمت اچھی ہے کہ تم ہر بار عفان شاہ سے بچ جاتے ہو لیکن اب نہیں بچو گے ۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ اتنی آسانی سے پکڑ لو گے مجھے تم عفان شاہ تمہاری سات نسلیں بھی مجھ تک نہیں پہنچ سکتی ۔۔۔

اور تمھیں میں نے پہلے ہی وارن کیا تھا کہ اپنے تمام کالے دھندے بند کردو لیکن نہیں سو اب انجام بھگت لو۔۔۔۔ 

"جس طرح تم نے مجھے تڑپایا تھا مجھے میرے اپنوں سے دور کیا ٹھیک اسی طرح اب تم پل  پل تڑپو گے موت مانگو گے لیکن وہ بھی اتنی آسانی سے نہیں ملے گی  تمہیں میں دنیا کے لیے تمہیں عبرت کا نشانہ بنا دوں گا ۔۔۔۔

اپنے اگلے نقصان کے لیے تیار رہنا ڈئیر دشمن ۔۔۔۔

کہہ کے دائم نے کال کاٹ دی تھی ۔

عفان شاہ کو پسینے آنے لگے تھے یعنی وہ شخص، کوئی معمولی نہیں تھا اسے عفان شاہ کے تمام راز پتہ تھے ۔۔۔

عفان شاہ نے ڈرائیور کو گاڑی پولیس اسٹیشن موڑنے کا کہا تھا ۔۔۔۔،،،،،،

مشال چپ چاپ سلیپرز پاؤں مار اڑستے ہوئے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے مین گیٹ کی جانب بڑھی تھی 

گاڈ بھی فل وقت موجود نہ تھا تو یہ اچھا موقع تھا فرار ہونے کا ۔۔۔،،،،،

ابھی وہ ایک قدم باہر ہی رکھتی کہ دائم کی آواز نے اسکے قدم روکے لیے 

لٹل فیری ۔۔۔

انتہائی غصیلی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی 

پلٹ کے دیکھنے کی ہمت نا تھی مشال میں ۔۔۔۔

اگر تم اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہلی نا آئی سوئیر میں خود کو بھی شوٹ کرلوں گا اور تمھیں بھی 

وہ اسکے سامنے آتا ٹریگر پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا 

 نیلی لال انگارہ ہوتی آنکھیں اسکی کالی آنکھوں میں گاڑھتا ہوا بولا 

مشال کے پسینے چھوٹ گئے تھے

وووہ نن نہیں مم میں بھبھ بھاگنے کی کوشش نہیں کررہی تھی 

مشال ہکلاتے ہوئے بولی

خاموش 

وہ ڈھارا 

آواز نا آئے تمہاری 

اسکا ہاتھ پکڑتا وہ اس اندر لے جانے کی کوشش کرنے لگا تھا 

ددددا ۔۔۔ دائم بب بات تو سنیں میری 

چپ بالکل چپ بہت شوق ہے نا تمھیں مجھ سے دور جانے کا میں نے پہلے بھی وران کیا تھا لیکن نہیں تمہیں میری کہی ہوئی بات کا اثر ہو تب نا 

اب بھگتو اس دائم دُرانی کو جو وہ دوبارہ کبھی نہیں بننا چاہتا تھا 

مشال کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی تھی 

دائم نے اسکا ہاتھ ایک کمرے میں لاکے چھوڑا 

وہ کمرا سٹور روم تھا جہاں زمانے کی گرد تھی ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا دیکھنے میں کافی خطرناک اور خوفناک معلوم ہوتا تھا ۔

دددااا دائم یہ ککک کیا ہے؟ 

تمہاری سزا 

مشال کا روم روم کانپ اٹھا تھا 

کیوں کے وہ پہلے کبھی ایسے اندھیرے میں اکیلی نہیں رہی تھی 

نن نن نہیں آپپ آپ مذاق کررہے ہیں نا؟ 

آپپ آپ تو محبت کرتے ہیں مجھ سے ایسا نہیں کرسکتے 

پی پی پلیز 

تم نے یہ سب کرنے پہ مجھے مجبور کیا ہے لٹل فیری 

دائم نے پراسرار انداز کہا جبکے مشال کی ریڈ کی ہڈھی میں سنسناہٹ دور گئی تھی 

مشال کو آج وہ وہی دائم لگا تھا جو جس نے اسے چیلنج کیا تھا مشال کو وحشت محسوس ہونے لگی تھی 

ابھی مشال کچھ بولتی ہی کہ اچانک اسے اپنےپاؤں میں ایک چوہا نظر آیا 

مشال کی چیخ بلند ہوئی تھی 

وہ دائم سے لیپٹ گئی تھی 

دائم نے ایک ہی جھٹکے میں اسے خود سے دور کیا تھا 

میرے ساتھ رہنے میں مسلہ تھا نا تمھیں تو رہو اب ان. چوہوں کے ساتھ 

کہہ کے دائم جانے لگا تھا کہ مشال نے اسکی بازو پکڑ لی 

نن نہیں دائم آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں میرے ساتھ 

آپ اتنے ظالم کیسے ہوسکتے ہیں 

مشال نے اسکی جانب التجا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا 

میں ہوں کہا تھا نا مت الجھو مجھ سے 

کہہ کے وہ دروازے کو باہر سے لاک کرکے آگے بڑھ گیا تھا 

جبکے مشال ایک کونے میں بیٹھ کے بے آواز آنسو بہانے لگی تھی 

جب اسے اپنے پاؤں پہ کسی چیز کے رینگنے کا احساس ہوا 

دیکھا تو ایک چھوٹے سے سانپ کا بچہ اسکے پاؤں پہ رینگ رہا تھا 

اور بس مشال کی برداشت اتنی ہی تھی 

ایک چیخ کے بعد اسے اپنا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا اور آہستہ آہستہ وہ ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہوتی چلی گئی تھی ۔

دائم کو گئے ہوئے دس منٹ ہی گزرے تھے کہ مشال کی اچانک کی چیخ سن کے وہ تڑپ اٹھا تھا اور بھاگتا، ہوا 

سٹوروم میں پہنچا تھا ۔۔

دیکھا تو اسکے اوسان خطا ہوگئے تھے مشال بے ہوش تھی اسکے ارگرد سانپ کا بچہ منڈلا رہا تھا 

لیکن صد شکر سانپ نے ابھی کاٹا نا تھا وہ ڈر اور خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی 

دائم نے اسے فوراَ گود میں اٹھایا اور بیڈ روم میں لے کے آیا تھا ۔۔

ڈاکٹر نے مشال کو سٹریس نا لینے کی سختی سے تلقین کی تھی اور نیند کا انجکشن بھی دیا جسکے زیرِ اثر وہ سورہی تھی ۔

دیکھیئے مسٹر دُرانی آپکی مسسز کافی ویک ہیں اور  ان پہ ذہنی دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ انکا نروس بریک ڈاؤن بھی ہوسکتا تھا لیکن اب وہ ٹھیک ہیں انکو بہت احتیاط کی ضرورت ہے انکا بہت خیال رکھیں اگر دوبارہ انکے ساتھ ایسا ہوا تو انکی جان کو بھی خطرہ

 ہوسکتا ہے سو بی کئیر فل فار دا نیکسٹ ٹائم ۔۔۔۔۔۔،،،،،

اوکے ڈاکٹر انشاء الله پورا خیال رکھوں گا ۔

اوکے الله حافظ 

ڈاکٹر کہہ کے چلا گیا تھا ۔۔۔

دائم واپس آیا تو مشال ہنوز سورہی تھی

دائم وہی اسکے پاس ہی بیٹھ گیا 

سوری مائے لٹل فیری آئی نو میں بہت برا ہوں تمہیں ہرٹ کیا پر کیا کروں تمہاری دوری برداشت نہیں مجھے نہیں رہ سکتا تم بن میں کاش کے تم یہ بات سمجھ لو 

وہ اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑتا ہوا پیچھے ہوا ۔۔۔

وہ بیٹھ کے اسکو شدت لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک مشال نے آنکھیں کھولیں 

اور دائم کو اپنے قریب بیٹھا دیکھ کے اس سے لیپٹ گئی تھی ۔۔۔

" آئیم سو سوری دائم ممم میں اب آپکو بالکل بھی تنگ نہیں کروں آئی پرامس 

مشال روتے ہوئے بولی 

مم مم میں آپکو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی آئی پرامس 

دائم کے لبوں پہ اتنی سنجیدہ صورتحال میں بھی مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔

آپ مم مم مجھ سے ایک پرامس کریں کہ آپ مجھے دوبارہ سٹوروم میں لاک نہیں کریں گے 

مشال روتے ہوئی بولی 

وہاں وہ بہت موٹے اور بڑے بڑے چوہے ہیں وہ مجھے کاٹ لیں گے نا پلیز نا 

دائم کو دھیروں شرمندگی نے آن گھیرا تھا 

اسے اپنے غصہ کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا 

اس معصوم کو کتنی تکلیف دی تھی اس نے 

اسے خود پہ بہت غصہ آرہا تھا ۔

اوکے اوکے مائے لٹل فیری اب نہیں رونا ۔۔۔

دائم نے کہا 

لیکن مشال چپ نا ہوئی تو اسے مجبوراً تھوڑے سخت لہجے میں بولنا پڑا 

کہا نا لٹل فیری کے چپ ہوجاؤ ورنہ پھر لاک کرآؤں گا 

کہا ہی تھا کہ مشال نے دائم پہ اپنی گرفت مزید مضبوط کی تھی جسکی وجہ سے دائم نے بھی اسکے گرد اپنے بانہوں کا حصار قائم کیا تھا ۔۔۔۔،،،،

کچھ دیر بعد مشال کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ فوراَ اس سے الگ ہوئی تھی 

بھوک لگی ہے لٹل فیری کو؟ 

دائم نے پوچھا 

جس پہ مشال نے نا میں سرہلایا 

ایسے کیسے نہیں لگی بھوک تم نے بریک فاسٹ کیا

تم یہ ہی ویٹ کرو میں ابھی آیا ۔۔۔۔،،،

کچھ دیر کے بعد دائم ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے پکڑے اندر آیا 

فروٹس ، بلیک کافی،  چائے ، ایگز،  بریڈ سب کچھ موجود تھا ۔۔۔

مم میں اتنا سب کیسے کھاؤگی دائم 

مشال نے معصومیت سے پوچھا 

تو دائم اسکی بات پہ مسکرا دیا جسکی وجہ سے اسکا ڈمپل واضح ہوگیا اور مشال سے ایک مرتبہ پھر اپنی نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا تھا ۔

دائم نے مشال کو فروٹس کھلائے اور کافی پلائی اسکے بعد اسکو میڈیسن دے کے سلادیا 

میڈیسن کے زیر اثر مشال پھر سو گئی تھی 

اور دائم باہر لاؤنج میں بیٹھ کے لیپ ٹاپ پہ اپنا کچھ ضروری کام نبٹانے لگا تھا ...

وہ کمرے میں واپس آیا تو مشال سورہی تھی لائٹ آف کرتا وہ بھی آکے سائیڈ میں لیٹ گیا اور نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا 

صبح جب مشال کی آنکھ کھلی تو دائم کو سوتا پایا رات کیسے اس نے اسکا خیال رکھا یہ سوچ کے وہ مسکرا اٹھی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ کب اسکی محبت نے اسکے دل پہ دستک دی اور کب اس نے اسکی محبت کو اندر آنے کی اجازت دی تھی لیکن مشال کی ضد اسکی انا اسکو اس چیز کا اعتراف کرنے سے روک رہی تھی جب بھی اسے یاد آتا کہ کیسے اس نے اس سے کڈنیپ کرکے اس سے شادی کی وہ لمحے اذیت ناک ہوتے اور محبت کہیں دل کے کسی کونے میں دب کے رہ جاتی اور نفرت سر اٹھا لیتی تھی ۔

وہ اٹھی اٹھ کے شاور لیا اور اسکے ناشتہ بنانے لگی وہ ناشتہ بنا رہی تھی کہ دائم اسکے پیچھے آکھڑا ہوا 

اور اسکے کندھے پہ اپنی تھوڑی رکھی جس سے مشال کی سانس رک گئی تھی 

سانس لو لٹل فیری ورنہ میں خود تمہاری سانس روک دوں گا 

پھر کیا مشال نے فوراَ سانس لی تھی 

ویسے تمہیں کس نے کہا کہ تم ناشتہ بناؤ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں  ہے تمھیں آرام کرنا چاہیے تھا نا 

اٹس اوکے ممم میں ٹھیک ہوں 

اچھا ٹھیک ہو تو ہکلا کیوں رہی ہو 

دائم نے شرارت بھرے لہجے میں کہا 

اور اسکے کان کی لو اپنے دانتوں سے ہلکا سا کاٹا 

سسس!!!  اسکی سسکاری نکلی 

تمہیں تو پسینہ بھی آرہا ہے لٹل فیری 

دداا دائم پی پی پلیز 

اوکے اوکے تم ناشتہ بناؤ میں جاتا ہوں 

کہہ کے وہ باہر نکل گیا 

جب کے مشال دل کی ڈھرکنوں کو شمار کرتے ہوئے اسکے لیے ناشتہ بنانے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔؛؛؛؛؛

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

پاپا آپ نے بلایا 

ماہ نور ڈرائنگ روم میں سست روئی سے چلتی ہوئی آئی تھی 

لیکن اپنے سامنے ہی بیٹھے میر کو دیکھ کے اچھلی تھی 

آپپ آپ یہاں؟ 

ہاں بیٹا میں نے میر بیٹے کو بلایا ہے کچھ بات کرنی ہے مجھے تم دونوں سے 

ماہ نور واجد صاحب کے پاس ہی جاکے بیٹھی گئی یا یوں کہہ سکتے یہ کہ انکے پیچھے چھپ ہی گئی تھی 

میر ماہ نور کی غیر ہوتی دیکھ کے میر کو مزا آنے لگا تھا 

دراصل ماہ نور بیٹا میں نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ کے بعد  تم جہاں بھی جاؤگی میر تمہارے ساتھ جائے گا کیوں کے میرے کچھ دشمن ہیں جو تمہاری جان کے پیچھے پڑے ہیں اور میں تمہیں کسی قمیت پہ کھونا نہیں چاہتا ۔

پاپا میں ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہوگا اور مجھے کسی باڈی گارڈ کی قطعی ضرورت نہیں ہے

ماہ نور نے آنکھیں گھومائیں تھیں 

اور اٹھ کے وہاں سے اپنے روم میں چلی گئی تھی 

یا اللہ اس لڑکی کا کیا کروں میں کیوں نہیں سمجھ رہی کے اسکی جان کو خطرہ ہے اسکی حفاظت کے ہی لیے تو یہ سب کررہا ہوں میں 

انکل آپ اپ سیٹ نہ ہوں میں ماہ نور سے بات کرتا ہوں 

وہ انکے کندھے پہ ہاتھ رکھتا انکو تسلی دیتا ہوا بولا تھا ۔

ماہ نور جیسے ہی اپنے روم میں انڑ ہوئی تھی اور دروازہ بند کرنے لگی تھی کہ میر بیچ راہ میں حائل ہوگیا 

یہ کیا بد تمیزی ہے راستہ چھوڑو 

ماہ نور نے ایک بار پھر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی لیکن میر اب ایک ہی ہاتھ سے دروازے کو پیچھے دھکیل کے اندر آچکا تھا اور ماہ نور کو دیوار کے ساتھ ہی پن کیا تھا 

ماہ نور کی ڈھرکنیں منتشر ہوئیں تھیں 

للل ککک کیا رہے ہیں میر، آپپ آپ

تم نے نیچے انکل کو منع کیوں کیا، 

میر اب کی بار دیوار، کے ایک طرف ہاتھ رکھ کے گویا ہوا 

ماہ نور دوسری سائیڈ سے جانے لگی جبھی اس نے دوسری سائیڈ پہ بھی اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اسکی فرار ہونے کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں 

ممم مم مجھے نہیں چاہیے آپکی ہیلپ 

میں اپنی حفاظت خود کرسکتی ہوں 

ہممم لیکن تم جانتی ہو نا شوہر ہوں میں تمہارا تمہاری حفاظت کی ذمہ داری میری ہے

میر نے آنکھوں میں محبت سموئے کہا 

جس پہ ماہ نور فورا سے پلکیں گرا گئی تھی 

ویسے بھی میں انکل کا بھروسہ نہیں توڑنا چاہتا جو انکو مجھ پہ ہے 

اس لیے تم خود جاکے انکو ہاں بولو گی 

ماہ نور تو گویا بگڑ ہی گئی تھی 

میں نہیں جاؤں گی نا ہاں بولو گی جو مرضی کرنا ہے کرلو 

میر مزید قریب ہوا اتنا قریب کہ ماہ نور کو اسکی سانسوں کی تپش جھلسانے لگی تھی 

میں چاہوں تو بہت کچھ کرسکتا ہوں لیکن وہ کیا ہے نا تمہاری یہ ننھی نازک جان میں میری شدتیں برداشت کرنے کی سکت موجود نہیں ہے 

میر معنی خیزی سے گویا ہوا تھا 

اور ماہ نور کی ڈھرکنوں نے اودھم مچا دیا تھا 

ٹھ ٹھ ٹھیک ہے میں پاپا کو بول دوں گی

ڈیٹس لائک آ گڈ گرل 

That's Like A Good Girl... 

وہ اسکا گال تھپتھپاتا ہوا باہر نکل گیا تھا 

جب کے ماہ نور کافی اپنے بے قابو ہوتے دل پہ ہاتھ رکھے اسے قابو کرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔؛؛؛؛؛؛؛

💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕

تمھیں کیا لگتا ہے انسپکٹر عمیر کے پوائزن کون ہے ؟

عفان شاہ بولے 

دیکھیئے شاہ صاحب جہاں تک میرا خیال ہے جیسا کے آپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس رات آپ پہ قاتلانہ حملہ ہوا تھا وہ شخص اور پوائزن ایک ہی کیوں کے اس نے بھی آپکو دھمکی دی تھی کہ غیر قانونی کام کرنا بند کردیں آپ ۔۔۔

ہممم ٹھیک کہا تم نے لیکن یہ پوائزن جو کوئی بھی انتہائی خطرناک شخص ہے 

ہمیں چوکنا رہنا پڑے گا اب 

ٹھیک کہا آپ نے شاہ صاحب

ہمممم 

اچھا سنو تمہارے پاس ان لڑکیوں کے والدین میں سے کوئی ایف ۔ آئی ۔آر تو کٹوانے نہیں آیا 

آئے بہت زیادہ لیکن میں نے باہر سے ہی واپس بھیج دیا 

ہاہاہا کافی سمجھدار ہوگئے ہوں 

عفان شاہ نے کہا 

بس دیکھ لیں آپکی صحبت کا اثر ہے

ویسے شاہ صاحب مجھے کچھ کہنا تھا 

ہاں کہو 

اگر کچھ گرماگرم نوٹوں کی تھیلی مل جاتی تو آپکا کام مزید آسان ہوجاتا 

انسپکٹر عمیر خباثت سے بولا 

ویسے کتے کو جتنا بھی کھلا لو ہمیشہ بھوکا ہی رہتا ہے ہےنا 

عفان شاہ نے طنزیہ کہا 

ہاہاہا یہ کتا بھی تو آپکا ہی ہے نا شاہ صاحب 

آپکا وفادار کتا جو آپکے تمام راز جانتا ہے لیکن اگر آپ نے اس کتے سے ہوشیاری کرنے کی کوشش بھی کی نا تو وہ کہاوت تو سنی ہی ہوگی نا آپ نے 

" ہم تو ڈوبیں ڈوبیں گے صنم ساتھ تمھیں بھی لے ڈوبیں گے " 

کہہ کے عفان شاہ کو آنکھ مارتا ہوا باہر نکل گیا تھا 

پیچھے سے عفان شاہ نے غصے سے ٹیبل پہ پڑا گلدان اٹھایا اور زمین پہ دے مارا 

جمال جمال 

جی جی سر 

میری بات غور سے سنو اس انسپکٹر عمیر سے اپنا کام نکلواؤ اور فارغ کرو اسے بعد میں مجھے نظر نا آئے یہ 

جی سر ٹھیک ہے آپ بے فکر ہوجائیں 

وہ انکو تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا تھا ۔۔۔۔۔،،،،،

🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫🤫

مشال زوار کی ضد بن چکی تھی جسے وہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد جانے کو تیار تھا ۔۔۔

مشال روم میں بیٹھی کوئی ناول ریڈ کررہی تھی کہ اچانک ہی اسکا سیل بجا 

ہیلو اسلام و علیکم 

وعلیکم اسلام 

مائے بیوٹی کیسی ہو 

زززز ۔۔۔ زوار تت تم ممم میں ٹھیک تم کیسے ہو اور تمہارا ہاتھ کیسا ہے جہاں چوٹ لگی ہے 

ہاں ٹھیک ہوں 

مشال پلیز یار واپس آجاؤ میں نہیں رہ سکتا تم بن میں پل پل مررہا ہوں پلیز 

زوار کے لہجے میں اداسی تھی 

نن نہیں زوار میں نہیں  آسکتی کیوں کے دائم تمہیں جان سے مار دے گا وہ پاگل سا جنونی سا انسان ہے 

ممم میں آنا چاہتی ہوں تمہارے پاس تم سے ملنے لیکن 

یہ ممکن نہیں ہے 

کیوں ممکن نہیں ہے سب کچھ ممکن ہے اگر تم چاہو تو 

نو پلیز زوار آئی ہیو ٹو گو پلیز ڈونٹ ویٹ فار می جسٹ موو آن ۔۔۔

No please zawar I have to go please don't wait for Me Just Move on... 

کہہ کے اس نے کال کاٹ دی تھی 

لیکن اس بات کو جانے بنا کہ دائم اسکی تمام باتیں سن چکا ہے ۔

نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا مطلب کے اسے آج بھی زوار کی پرواہ تھی آخر کیوں وہ سب کچھ دیکھ کے بھی جان کے بھی انجان بن رہی تھی دائم اب ایک فیصلے پہ پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔،،،،،

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زوار نے بھی ڈھان لیا تھا اسے کیا کرنا ہے کس طرح مشال کو حاصل کرنا ہے لیکن اس سب میں وہ مشال کو اسکی خوشی کو اور فراموش کربیٹھا تھا ۔۔۔

" تمھیں میرا ہونا ہی ہوگا مشال شاہ چاہے پھر اس میں تمہاری مرضی شامل ہو یا نہ ہو " 

کہتے ہوئے وہ نیم پاگل لگا تھا

ماہ نور رات کو سوئی ہوئی تھی کہ اچانک ہی اسکے سیل پہ کسی کی کال آنے لگی 

اس نے مندی مندی آنکھیں کھول کے دیکھا کون ہے یار اس وقت کیا ہے

جان 

ماہ نور کی آنکھیں پٹ سے کھلی تھیں 

للل کککک کون کون ہے؟ 

نہیں پہچانا مجھے 

نن نن نہیں 

خوف اور پسینے سے اسکی حالت بری تھی 

تمہارا عاشق جو تمہاری قربت کے لیے تڑپ رہا ہے

جسٹ شٹ اپ ہمت کیسے ہوئی تمہاری مجھ سے اسطرح بات کرنے کی 

میری ہمت تو مت ہی پوچھو جان 

اگر تم اپنی آئی پہ آگیا نا تو تمھیں تمہارے باپ کے گھر سے اٹھا کے لے جاؤں گا 

بکواس بند کرو بہت پچھتاؤ گے تم عرفان ملک 

کہہ کے اس نے فون بند کردیا 

اور آنسو لڑھک کے اسکی گال پہ بہہ گئے تھے 

آج اسے شدت سے میر کی کمی محسوس ہوئی تھی 

اس نے ارادہ کرلیا تھا صبح واجد خان کو سب بتادے گی 

اب وہ اس قصے کو ختم کرنا چاہتی تھی جو کے فلحال اتنی جلدی ممکن نا تھا ۔۔۔۔،،،،،

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

رات کو دائم روم میں آیا تو مشال یونہی بیٹھی تھی 

دائم کو مشال پہ بہت غصہ تھا لیکن وہ اس پہ فلحال ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا 

دائم بیڈ پہ آکے چپ چاپ لیٹ گیا تھا 

مشال کو حیرت ہوئی کہ آج اس نے اس سے کوئی بات نے کی 

مشال دائم کی عادی ہوچکی تھی اب اسکا دل کررہا تھا کہ وہ اس سے کوئی بات کرے لیکن دائم چپ چاپ دوسری طرف منہ کرکے لیٹا ہوا تھا 

کھڑوس کہیں کا، 

مشال بڑبڑائی

لیکن وہ دائم دُرانی تھا سن چکا تھا اسکی بات پھر بھی خاموش رہا تھا ۔۔۔۔۔۔،،،،

صبح وہ اٹھا تو وہ اسکے پاس موجود نہیں تھی ناشتہ بنارہی تھی 

وہ شاور لے کے آیا تو وہ ناشتہ لگا چکی تھی ٹیبل پہ 

دائم نے چپ چاپ کھایا اور بنا بات کیے باہر نکل گیا 

مشال کو حیرت ہورہی تھی کہ وہ اس سے بات کیوں نہیں کررہا رونا بھی آرہا تھا ۔۔۔۔،،،

😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿😿

ماہ نور نے ساری بات واجد خان کو بتائی تھی اور انھوں نے میر کو جسکو سن کے میر کی رگیں تن گئیں تھیں خون چھلکاتی نظروں سے واجد خان کی جانب دیکھا اور کہنے لگا 

واجد خان میر کی جنونیت دیکھ کے خود بھی ایک پل کو حیران رہ گئے تھے 

انکل آپ پریشان نہ ہوں بس مجھ پہ بھروسہ رکھیں بس اب دیکھتے جائیں کہ میں اس عرفان ملک کے ساتھ کرتا کیا ہوں 

ہمم بیٹا جیتے رہو 

کہہ کے وہ وہاں سے اپنے روم میں چلے گئے تھے 

میر ماہ نور کے روم میں داخل ہوا تو وہ اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی 

ایک جست میں وہ اگے بڑھا اور اسکو بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا 

" تمہیں دیکھنے تمہیں چھونے تمہیں محسوس کرنے کا حق صرف اور صرف میر ارسلان بٹ کو حاصل ہے اس کی ہمت کیسے ہوئی اتنی گھٹیا بات کرنے کی " 

میر غصے میں یہ تک بھول گیا کہ عرفان ملک کا غصہ وہ ماہ نور پہ نکال بیٹھا ہے 

شدت گریہ سے سرخ آنکھیں ماہ نور کی جان نکال رہیں تھیں 

ممم مم میر چھوڑیں مجھے درد ہورہا ہے پلیز 

میر یکدم ہوش میں آیا اور ماہ نور کی بازو کو چھوڑا 

آئی آئیم سوری جانِ میر پتہ نہیں اس سالے عرفان ملک کا غصہ تم پہ اتر گیا 

اٹس اوکے 

ماہ نور بولی 

میر نے دیکھا تو ماہ نور کی کلائی سرخ ہوگئی تھی 

اس نے اسکا ہاتھ پکڑا 

ٹیوب کہاں ہے؟ 

کونسی ٹیوب 

جو زخم پہ لگاتے ہیں وہ والی

اووو وہ فرسٹ ڈرا میں ہے 

میر فوراَ جاکے وہاں سے ٹیوب نکال لایا 

اور آہستہ آہستہ لگانے لگا 

ماہ نور تو اس ستمگر کو کبھی سمجھ ہی نے پائی تھی زخم بھی خود دیتا تھا اور مرہم بھی خود ہی رکھتا تھا لیکن اب اسی شخص کے لیے اسکا دل ڈھرکتا تھا اس نے کبھی سوچا نا تھا کہ جس انسان سے وہ شدت سے نفرت کرتی ہے اسی سے شدتِ محبت کر بیٹھے گی 

یہ احساس اسکے لیے بہت نیا نیا تھا اس اب میر کا تنگ کرنا اچھا لگنے لگا تھا ۔

اس نے اسکی کلائی پہ ٹیوب لگا کے وہاں اپنا شدت بھرا لمس چھوڑا 

تو ماہ نور خود میں سمٹ گئی تھی 

ہیے سوری جانِ میر کوشش کروں گا اب سے میری وجہ سے تمھیں کوئی تکلیف نا ہو اور ویسے بھی مجھ سے لڑتی رہا کرو میری لڑاکا میں اسی ماہ نور پہ تو مر مٹا ہوں جس نے مجھ سے پہلے دن ہی لڑائی کی تھی وہی سٹائل وہی روب وہی بڑی خوبصورت براؤن آنکھیں جن کا میر ارسلان بٹ دیوانہ ہے وہی لمبی گھنی زلفیں جو میری جائے پناہ ہیں 

ماہ نور ہلکا سا مسکرا دی تھی 

میر کی جان میں جان آئی تھی کیوں وہ اسے اداس نہیں دیکھ سکتا تھا اسی لیے اسکو آنکھ مارتا ہوا شرمانے پہ مجبور کرگیا تھا ۔

اور خود باہر جاکے اپنے ایک بندے کو کال کی کچھ ضروری ہدایت دی اور اب اسکا نشانہ عرفان ملک تھا ...

مشال اپنے روم میں آئی تو بیڈ پہ ایک بوکس رکھا تھا 

اور اسکے اوپر لگے نوٹ پیڈ کے اوپر لکھا تھا 

" اوپن اٹ " 

Open it... 

مشال نے ڈھرکتے دل سے وہ کھولا تو اس باکس میں ایک لال رنگ کی ساڑھی موجود تھی 

مشال ابھی دیکھ رہی تھی کہ اچانک اسکی سیل ٹون بجی 

" چپ چاپ اس ساڑھی کو پہن کر تیار ہوجانا اور کوئی سوال نہیں  کرنا " 

لہجہ صاف دھمکی دینے والا تھا

دائم کا ٹیسکٹ دیکھ کے مشال گھبرا گئی تھی اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے ایسا کیوں کہا لیکن پھر اسکی بات کو وہ ٹال نہیں سکتی تھی جانتی تھی اگر نا پہنی تو کیا کرے گا وہ لہذا اس نے ساڑھی پہن لی 

ساتھ ہی اسکی میچنگ کی ہیلز اور جیولری بھی لائیٹ سا میک اپ کیے وہ آج کسی کے بھی ہوش ٹھکانے لگانے کا ارادہ رکھتی تھی ۔

دائم کمرے میں آیا تو اسے ٹھٹک کے رکا تھا اتنا حسن اور معصومیت اس نے اپنی زندگی مجھے پہلی بار دیکھا تھا لیکن خود کو کمپوز کرتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا 

چلو ہمیں ایک فرینڈ کی انگیجمنٹ پارٹی میں جانا ہے 

تو مشال نے محض سر کو ہاں میں ہلایا اور چلنے ہی لگی تھی کہ اچانک ہی اسکا پاؤں موڑا اس سے پہلے وہ گرتی دائم نے اس تھام لیا تھا 

تمھیں جب پتا ہے کہ تم ہائی ہیلز پہ نہیں چل سکتی تو یہ پہننی کیوں 

مشال کو غصہ آگیا تھا ایک تو اسکے کہنے پہ اتنی تیار ہوئی تھی بجائے تعریف کرنے کے اوپر سے ڈانٹ رہا تھا 

مم میں ٹھیک ہوں ویسے بھی مجھے ہائی ہیلز پسند سو میں یہی پہنوں گی 

یہ کہہ کے وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ اب کی بار ساڑھی کا پلو اسکے پاؤں میں آیا ایک دفعہ پھر سے وہ گرتی اس سے پہلے ہی دائم نے دوبارہ اسے تھام لیا تھا 

یار کیوں اپنی ننھی سی جان پہ ظلم کررہی ہو پلیز اتار دو انکو 

نن نہیں میں ٹھیک ہوں چل لوں گی ایسے ہی 

ایک لمحے کے لیے مشال نے دائم کی جانب دیکھا اور اسکی لودیتی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے سر کو پھر سے جھکا گئی تھی 

دائم مزید جھکا اور اسکی نوزپن پہ اپنے لب رکھے تھے کہ وہ کرنٹ کھا کے پیچھے ہوئی 

دائم اسکی حرکت پہ مسکرائے بنا نہیں رہ سکا تھا 

ویسے اگر تم نے انہی ہائی ہیلز پہ چلنا ہے تو میرے قریب ہی رہنا ہوگا تاکہ تم جب بھی گرو میں تمھیں تھام لوں 

دائم نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو مشال شرمندہ ہوگئی 

اس سے پہلے وہ باہر جاتی دائم اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے اپنے ساتھ ہی لے جانے لگا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

پارٹی میں پہنچنے کے بعد وہاں سب ستائشی نظروں سے اس جوڑے کو دیکھ رہے تھے جبکے کچھ لڑکیاں تو باقاعدہ جل اٹھیں تھیں مشال کو دائم کے ساتھ دیکھ کے وہ دل دھڑکانے تک کا حسن اپنے پاس ًمحفوظ رکھتا تھا جبھی ہی تو آج لڑکیاں اپنی قسمت کو کوس رہی تھیں ۔۔

اسلام و علیکم آپی

دائم نے وہاں موجود اپنے دوست ارحم کی بڑی بہن کو سلام کیا تھا 

وعلیکم اسلام 

دائم ارے آؤ آؤ میں اور ارحم کب سے تمہارا ہی ویٹ کررہے تھے اور ۔۔۔ وہ کچھ کہنے ہی لگیں تھیں کہ اچانک نظر مشال کی جانب اٹھی تو انکے منہ سے بے ساختہ ماشاءاللہ نکلا ۔

دائم یہ چھوٹی سی پری مشال ہے نا؟  تمہاری وائف؟ 

دائم ایک نظر مشال کو دیکھ کے مسکرایا جو اپنی نظریں جھکا گئی تھی 

Yup She Is My  Little Fairy Love of My Life Rest of My Soul the coolness of my eyes my intensity my madness My stubbornness peace of my soul one and only My Wife Mishal Daim Durani 

ہاں یہ میری لٹل فیری ہے میری زندگی کا پیار میری روح کا آرام میری آنکھوں کی ٹھنڈک میری شدت میرا جنون میرا پاگل پن میری ضد میری روح کا چین صرف اور صرف میری بیوی مشال دائم دُرانی ۔۔۔۔

آج مشال کو دائم کا یہ سب کہنا برا نہیں لگا تھا آج اسکے چہرے پہ ایک ہلکی سی مسکان تھی نجان کیوں یہ سب الفاظ سن کے اسکو اپنی روح میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا تھا 

ماشاءاللہ ماشاءاللہ یہ بہت خوبصورت ہے کتنی پیاری ہے یہ انھوں نے کہا 

مشال انکی بات پہ کھل کے مسکرادی تھی 

اچھا چلو آؤ  تم لوگ ارحم سے مل لو وہ کب سے ویٹ کررہا ہے تمہارا کہہ رہا تھا دائم نا آیا تو انگیجمنٹ کنسیل کردوں گا۔۔

دائم انکی بات پہ مسکرادیا تھا اور مشال کو ساتھ لیے آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

عرفان ملک اس ٹائم اپنے گھر میں اپنے بیڈ روم میں موجود تھا اور ڈرنک (شراب ) پی رہا تھا اور آنکھیں موندے صوفے پہ لیٹنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا 

میر کھڑکی سے ہی آیا تھا پائیپ پہ چڑھ کے 

اور سیدھا اس پہ جھکا تھا 

لللل لکککک ککک ککک کون کون ہو تتت تم؟؟ 

میر نے چاقو عرفان ملک کی شہ رگ پہ رکھا تھا 

میر نے اپنے چہرے کو بلیک ماسک سے کور کر رکھا تھا صرف اسکی آنکھیں دیکھائی دے رہی تھیں جو سرخ انگارہ  ہورہی تھیں 

تیرے لیے یہ جانا ضروری نہیں ہے کے میں کون ہو اور کون نہیں سنکی بڈھے اب میری بات کان کھول کے سن لے اگر تو نے ماہ نور کی طرف اب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا نا یا اسے کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو قسم اس ذات پاک کی وہ دن تیرا زخمی پہ آخری دن ہوگا " 

اور یہ آخری وارننگ ہے

نن نن نہیں پی پی پلیز چھوڑ دو آئندہ کے بعد ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا معاف کردو پلیز 

عرفان ملک گڑگڑانے لگا تھا 

جبھی میر اسکو اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہوا کھڑکی سے کود گیا تھا 

عرفان ملک نے اٹھ کے کھڑکی سے اسے دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ چیتے کی سی سپیڈ سے وہاں سے غائب ہوگیا تھا 

عرفان ملک اپنا رکا ہوا سانس بحال کرنے لگا تھا لیکن ابھی آخری داؤ کھیلنا باقی تھا ۔۔۔

🔪🔪🔪🔪🔥🔥🤫🤫🤫🤫🤫

پارٹی ختم ہوچکی تھی دائم کو اچانک سے ایک ضروری کام پڑگیا تھا جو کے اسکی جاب سے ہی منسلک تھا لہذا وہ مشال کو گھر ڈراپ کرنے کے لیے نکلا تھا ۔۔۔

دائم؟ 

جی دائم کی لٹل فیری 

وووہ کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟ 

ہاں ہاں پوچھو ضرور پوچھو 

آپکے پاس گاڑی کیسے آگئی آئی مین پہلے تو بائیک تھی نا آپکے پاس 

دائم نے ایک نظر مشال کو دیکھا جو الجھی ہوئی نظروں سے ہی اسے دیکھ رہی تھی پھر گویا ہوا 

تمھارے کیا لگتا ہے کہ تمہارا شوہر بہت غریب ہے کیا؟. دائم نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا 

نن نن نہیں تو ایسا تو کچھ نہیں ہے ویسے ہی پوچھ لیا میں نے تو 

مشال اب گھبرا گئی تھی 

ارے میری جان کھبرا کیوں رہی ہو؟ 

تمھیں جلدی پتہ چل جائے گا کہ میں کیا کام کرتا ہوں

ہممم تو اس وقت ریلکس رہو چل کرو اور اپنے ننھے سے دماغ پہ زور نا ڈالو

ننھے سے کہنے پہ 

مشال نے اسے گھور کر دیکھا تھا تو  بے ساختہ دائم کا قہقہہ بلند ہوا تھا ساتھ ہی مشال کی ہلکی سی مسکراہٹ بھی شامل تھی 

لیکن یہ مسکراہٹ یہ ہنسی کچھ ہی پل کی تھی وہ دونوں آنے والے طوفان سے انجانے تھے آنے.....

😥😥😥😥😥😓

میر نے واجد خان کو سب بتایا کہ کیسے اس نے عرفان ملک کو ہینڈل کیا ہے امید ہے اب وہ کوئی بھی ایسی گھناؤنی حرکت نہیں کرے گا لیکن خطرہ فلحال پوری طرح سے ٹلا نہیں ہے سو میر کو اب بھی ماہ نور کا خیال رکھنا ہوگا ایسا کہنا واجد خان کا تھا ۔۔۔۔

میر ماہ نور سے ملنے اوپر اسکے روم میں آیا تو ماہ نور شاور لے رہی تھی لہذا وہ وہی بیٹھ کے اسکے باہر آنے کا ویٹ کرنے لگا تھا 

وہ شاور لے باہر آئی تھی اپنے ہی دھیان میں مگن تھی میر کو نہیں دیکھا تھا لیکن میر نے جب دیکھا تو پلکیں چھپکانا ہی بھول گیا وہ حسن کی دیوی تھی اوپر سے اسکے گیلے بال اور نو خیز حسن وہ بے خود سا اور بے چین سا اسکے قریب چلا آیا 

جبکے ماہ نور اپنے پیچھے کھڑے میر کو دیکھ کے چونکی تھی 

آپپ آپ یہاں؟ 

ہاں میں کیوں نہیں آسکتا کیا؟ 

نن نہیں تو میں نے ایسا کب کہا 

وہ سکائے بلیو کلر کی لمبی شرٹ پہنے اور ساتھ وائٹ لیگی پہنے سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی 

بیٹھو یہاں 

میر نے ماہ نور کو بیڈ پہ بیٹھنے کا کہا تھا 

ماہ نور مجھے کچھ بتانا تھا تمہیں 

جج جی بولیں 

ماہ نور نے کہا 

اب تمھیں عرفان ملک پریشان نہیں کرے گا لیکن اگر پھر بھی کوئی گھٹیا حرکت کرنے کی کوشش کی اس نے تو مجھے بس ایک کال کردینا 

اوکے 

وہ محبت بھری نگاہ سے اسے دیکھتے ہوئے بولا 

جس پہ ماہ نور پلکیں گرا گئی تھی اور ہاں میں سر ہلا دیا تھا۔

گڈ گرل 

میر نے مسکرا کے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا تو وہ لرز کے رہ گئی تھی 

میر اٹھ کے جانے لگا تھا کہ ماہ نور نے اسے روک لیا

میر کیا ایک بات پوچھو آپ سے؟ 

ہاں جانِ میر ایک نہیں دو پوچھو؟ 

میری بیسٹ فرینڈ مشال کا پتہ ہے کہاں ہے وہ؟ 

ایک بار پھر سے غائب ہوگئی ہے یا یوں کہہ لیں کے کڈنیپ ہوگئی ہے 

ماہ نور مشال جہاں کہیں بھی ہوگی  سیف ہی ہوگی اسکی ٹنیشن تم نا لو اوکے

ہممم اوکے 

مشال مسکرا کے بولی 

جبکے میر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا تھا 

میر نے باہر آکے ایک گہری لمبی سانس لی کیوں کے وہ جانتا تھا کہ جب ماہ نور کو پتہ چلے گا کہ اسے پتہ تھا کہ مشال کہاں ہے تو وہ اس سے بہت ناراض ہوگی لیکن میر کی مجبوری تھی وہ فلحال دائم اور مشال کے بارے میں اسے کچھ نہیں بتا سکتا تھا کیوں کے سب سے پہلے عفان شاہ کا گھناؤنا چہرہ مشال کے سامنے آنا بہت ضروری تھا مشال کی سیفٹی ضروری تھی اور نجانے اس سب میں کتنا ٹائم لگنا باقی تھا ۔۔۔

😒😒😊😁😁😁😁😁😁💕💕💕

دائم گھر واپس جانے کے لیے کار میں بیٹھا ہی تھا کہ اسکی میسیج ٹون بجی تھی اوپن کیا تو زوار کی جانب سے کچھ پکس بھیجی گئیں تھیں 

دیکھ کے دائم آگ بگولا ہوگیا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ زوار کی جان لے لے لیکن غصہ تو آج اسے مشال پہ بھی حد درجہ آرہا تھا 

دراصل وہ پکس کچھ نازیبا تھیں جس میں مشال اور زوار ایک ساتھ تھے ۔۔۔

لیکن یہاں دائم ایک بات بھول گیا تھا کہ آجکل تو Editing کے ذریعے اور مختلف اپسسس کے ذریعے کچھ بھی ممکن ہے سو وہ اس بات کو یکسر نظر انداز کر بیٹھا تھا جبکہ زوار ملک اعوان پہلا پتا پھینک چکا تھا ۔۔۔۔

"اب آئے گا کہانی میں ٹوئیسٹ اب تم غصے میں آکے مشال کو طلاق دے دو گے اور مشال ہمشیہ ہمشیہ کے لیے میری یعنی زوار ملک اعوان کی ہوجائے گی میں نے کہا تھا تم سے دائم دُرانی کے مجھ سے پنگا مت لو لیکن نہیں تمھیں تو کچھ ماہان کرنا تھا نا کچھ سب سے بڑا جس سے تم مشال کا دل جیت سکو اسکو پاسکو اسے حاصل کرسکو لیکن وہ میرے جیتے جی تو ممکن نہیں ہے اب مجھ سے الجھنے کا انجام دیکھ لو "

سفاکی سے کہتا ہوا وہ قہقہہ لگا گیا تھا ۔۔۔

😡😡😡😡🤔🤔🤔🤫😿😿

دائم اندھا دھند گھر آیا تھا اور آتے ساتھ ہی مشال کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہیں ڈورائیں تھیں لیکن وہ اسکو نظر نہ آئی تھی 

تھوڑی دیر کے بعد وہ واشروم سے باہر نکلی تھی 

چہرہ دھلا ہوا تھا اور جیولری بھی اتاردی تھی صرف ساڑھی ہی پہن رکھی تھی ۔

دائم آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسکے قریب آگیا تھا 

اور فون اسکے سامنے کیا تھا 

کیا ہے یہ؟ 

ہممم؟ 

ککک کککک کیا مطلب ددددا دائم 

مطلب یہ پکس ؟

کب کی ہیں اور کیوں اسطرح کی بیہودہ تصاویر بنوائی تم نے اس کمینے زوار کے ساتھ 

نن نن نہیں ددد دائم آپکو غلطی فہمی 

چپ بالکل چپ 

دائم ڈھارا تھا 

مشال اسکی آواز پہ سہم کے رہ گئی تھی 

بہت شوق ہے نا تمھیں دوسرے مردوں کے سامنے اپنے جسم کی رعنائیاں ظاہر کروانے کا تو ٹھیک ہے آؤ آج اپنے محرم کے سامنے بھی یہ سب کرو 

دددا دائم للل ککک کیا کہہ رہے ہیں آپ 

وہی جو تم نے سنا جاناں 

مشال اندر تک لرز کے رہ گئی تھی آنکھوں سے آنسو ہنوز جاری تھے ۔۔۔۔

ایک ہی جھٹکے میں وہ اسے بازو سے دبوچتا مرر کے سامنے لایا 

اور اسکی آنکھوں میں دیکھا 

جو رونے کی وجہ سے شدت گریہ سے سرخ ہوچکی تھیں 

اس نے سامنے ہی رکھے ڈریسنگ ٹیبل پر سے ریڈ کلر کی لپ اسٹک اٹھائی تھی 

مشال کا روم روم کانپ رہا تھا کہ اب وہ اسکے ساتھ کیا کرنے والا ہے 

لپ اسٹک اٹھا کے اس نے بہت ہی نرمی سے مشال کے ہونٹوں پہ لگائی 

مشال حیرت زدہ اسکو دیکھے گئی 

لیکن اچانک ہی وہ گویا ہوا 

بہت شوق ہے نا تمھیں اس زوار کو لبھانے کا اسکے ساتھ گھومنے پھرنے کا ہممم؟ 

اور میرے یعنی کے اپنے محرم کے قریب آنے سے تمہاری سانسیں رکنے لگتی ہیں؟ 

ہاں نا 

جواب دو مجھے 

وہ ڈھاڑا تھا 

مشال اپنی جگہ کانپ ہی گئی تھی 

وہ مزید قریب ہوا 

جانتی ہو تم کسی کو بھی بہکا سکتی ہو اتنا حسن ہے تم میں دیکھو نا مجھے جیسے بندے کو تم نے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے جو دن رات کتوں کی طرح تمہارے آگے پیچھے گھومتا ہے لیکن تمہیں تو پرواہ ہی نہیں ہے 

مشال اب باقاعدہ رو رہی تھی 

نن نہیں ایسی بات نن نہیں ہہہ ہے داااا دائم 

خاموش 

بہت سہہ لیا ہے میں نے مشال شاہ 

کہہ کے اس نے اسکے ہونٹوں کی جانب دیکھا جو ریڈ کلر کی لپ اسٹک سے رنگے تھے 

بے ساختہ وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا 

تم کیا لگتا ہے تم حسن کی دیوی ہو ہمیشہ مجھ پہ تمہارا جادو چلے گا ہاں؟ 

ارے تم جیسی لڑکیاں آگے پیچھے پھرتی ہیں میری لیکن مجھ بیوقوف انسان کو دیکھو میں تمہارے پیچھے پاگل ہوں لیکن اب نہیں بس بہت ہوگیا 

کہا تھا نا مت مجبور کرو مجھ انسان سے حیوان بننے پہ 

دائم کی باتیں سن کے مشال کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے 

وہ آگے بڑھا اور بے دردی سے اسکی لپ اسٹک کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے مسل ڈالا 

اور اس بیڈ پہ دھکا دیا 

اور خود اس پہ جھکا تھا 

نن ننن نن نہیں دددد اااا دداا دائم 

پی پی پی پلیز نہیں آپکو الله اور اسکے رسول کا واسطہ ہے ایسا نا کریں 

کیوں نا کروں ایسا اپنے جائز حقوق ہی تو لے لے رہا ہوں 

کچھ غلط تو نہیں کررہا ہوں 

کتنا وقت دیا تمہیں میں نے مگر اب نہیں اب تمھیں پتہ چلے گا کہ دائم دُرانی کو ٹھکرانے کا انجام کیا ہوتا ہے 

یہ کہہ کے وہ ابھی جھکنے ہی والا تھا کہ مشال اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولی 

الله سے ڈرو دائم دُرانی ایک تصویر کیا دیکھ لی تم نے اس حد تک گر جاؤگے تم سوچا نہیں تھا میں نے کیا سمجھتے ہو تم اپنے آپ کو خدا ہو تم؟ 

جب دل چاہتا ہے اعتراف کرتے ہو اپنی محبت کا اور جب دل چاہا دھتکار دیتے ہو 

آخر ہو کیا تم ہاں؟ 

سمجھ کے کیا رکھا ہے تم نے مجھے کہ محض میں ایک عورت ہوں اور تم مرد ہو تو جو چاہو گے کرو گے ہاں؟ 

ٹھیک ہے بہت خواہش ہے نا تمھیں مجھے حاصل کرنے کرلو لیکن ایک بات یاد رکھنا تم 

میرے جسم کو تو حاصل کرلو گے لیکن میری روح تک رسائی کبھی نہیں ملے گی تمھیں کبھی نہیں  

اچانک ہی دائم کی گرفت کمزور ہوئی تھی وہ اٹھ کے کمرے سے جا رہا تھا لیکن مشال کی آواز نے قدم روکے لیے تھے اسکے 

جانتے ہو محبت کرنے لگی تھی تم سے میں ہاہا مشال استزائیہ ہنسی تھی 

دائم کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی 

لیکن اس محبت کو جنم لینے سے پہلے ہی تم نے اس سے مار دیا دائم دُرانی 

تم نے آج ثابت کردیا کہ تم مشال شاہ کی محبت تو کیا اسکی نفرت کے بھی لائق نہیں ہو 

آج سے ابھی سے میرا اور تمہارا ایک ہی رشتہ ہے اور وہ ہے شدید نفرت کا 

دائم کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا لیکن ۔۔۔۔

میرے دامن پہ لگائے گئے الزام کو اس فیصلے کو میں نے الله کے سپرد کیا ہے اور یاد رکھنا اسکا انصاف بہت سخت ہے میرے پاک دامن ہونے کا ثبوت تمہیں میرا الله دے گا دائم دُرانی اور یاد رکھنا اس وقت تک تم بہت پچھتاؤ گے لیکن دیر ہوچکی ہوگی ۔۔

دائم میں مزید سننے کی سکت نہ تھی اس لیے وہاں سے فوراَ واک آؤٹ کرگیا تھا 

جبکے مشال وہی نیچے بیٹھ کے بے آواز آنسو بہانے لگی تھی ۔۔۔۔

دائم روم میں آیا تو لائیٹ آف تھی یقیناً مشال روئی تھی اس ستمگر نے جن الفاظوں سے اسکی روح کو چھلنی کیا تھا اس نے اسکی روح تک کو جھنجھوڑ ڈالا تھا ۔۔۔

مشال 

دائم نے اسکے قریب جاکے اسے پکارا 

تو مشال ہربڑا کے اٹھ بیٹھی تھی 

تت تت دیکھیں آپ دور رہیں مجھ سے

مشال اٹھ کھڑئی ہوئی تھی اور اب روم سے باہر نکل گئی تھی 

مشال میری بات تو سنو یار میں کچھ کہنا چاہتا ہوں تم سے 

دائم نے آگے بڑھ کے مشال کو تھامنا چاہا تھا کہ مشال نے یکدم اپنے قدم پیچھے کی جانب کیے تھے 

نن نن نہیں مم مجھے کچھ نہیں سننا پی پی پلیز جائیں آپ 

مشال تمھیں ایک بار کی بات کی ہوئی سمجھ نہیں آتی یہاں آؤ میرے پاس 

اس بار دائم انتہائی غصے سے سرد لجہ لیے بولا تھا 

اسکی اونچی اور بھاری آواز پہ مشال اندر تک کانپ گئی تھی ۔۔۔ ڈر،  خوف اسکے اندر سرائیت کرچکا تھا

مم مم میں نہیں آؤں گی آپکے پاس مم میں بہت دور چلی جاؤں گی آپ سے پھر کبھی نہیں آؤں گی واپس مشال کی باتوں پہ دائم کا دل مچل اٹھا تھا اس سے جدائی یعنی اسکی موت تھی ۔۔۔

 مشال دھیان سے پیچھے سٹیرز ہیں ( سیڑھیاں ) ہیں 

کہہ ہی رہا تھا کہ مشال کا پاؤں پھسلا تھا اسے پہلے کے دائم اسے تھامتا 

وہ سر کے بل گری تھی 

ایک چیخ اور پھر سب کچھ ختم 

سفید فرش پہ خون چاروں طرف پھیل چکا تھا 

" مم مم میں نہیں آؤں گی آپکے پاس مم میں بہت دور چلی جاؤں گی آپ سے پھر کبھی نے آؤں گی واپس " 

مشال کے الفاظ اسکے ذہن پہ ہتھوڑے کی مانند برس رہے تھے اسے سے جدائی کا تصور ہی جان لیوا تھا 

کک کک کچھ نہیں ہوگا تمھیں لٹل فیری میں کہیں نہیں جانے دوں گا

دائم بھاگتا ہوا اسکے قریب پہنچا تھا 

اسکو اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ فوراََ باہر کی جانب بھاگا تھا ۔۔۔

😥😥😥😥😥😥😥😥

وہ اندھا ھندد ڈرائیو کررہا تھا الله الله کرکے وہ ہاسپٹل پہنچے اسکو اسطرح سے ہی اپنی بانہوں میں اٹھائے 

وہ اندر کی جانب بھاگا تھا 

ڈاکٹر ڈاکٹر 

وہ حلق کے بل چیلایا 

مشال کے چھوڑ جانے کا، خوف اسکی رگ رگ میں سرائیت کرچکا تھا 

ڈاکٹر 

قریب ہی موجود دو نرس اسکے قریب فوراً آئیں تھیں 

اور مشال کو فوراً سے اسٹریچر پہ لٹایا، تھا 

اتنی ہی دیر میں ڈاکٹر بھی آچکا تھا 

سر آپ پیشنٹ کے کیا لگتے ہیں؟ 

وائف ہے یہ میری 

اور میری بات کان کھول کے سن لیں ڈاکٹر 

وہ ڈاکٹر کے قریب آیا تھا 

ڈاکٹر بھی اسکی نیلی لال انگارہ ہوتی آنکھیں دیکھ کے نظریں جھکا گیا تھا 

میری وائف کو کچھ نہیں ہونا چاہیے جتنا پیسہ چاہیے میں دینے کو تیار ہوں لیکن اگر اسے کچھ ہوا تو یقین کریں یہاں لاشوں کے ڈھیر میں خود اپنے ہاتھوں سے بچھا دوں گا 

سب کی زبان پہ تو گویا فقل ہی لگ چکا تھا 

اتنی دیوانگی جنونیت اور شدت دیکھ کے 

وہاں موجود سبھی لوگوں کو مشال کی قسمت پہ رشک آیا تھا 

مسٹر دائم آپکا حوصلہ رکھیں سب ٹھیک ہوگا انشاءاللہ 

ڈاکٹر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولا 

اور اسکے سامنے ہی مشال کو چیک کرنے لگا 

پیشنٹ کی نبض بہت سلو ( دھیمی ) چل رہی ہے ہم کسی بھی طرح کا رسک افورڈ نہیں کرسکتے سو مسٹر دائم ہمیں فوراً سے پہلے آپریشن کرنا ہوگا 

ڈاکٹر نے نظروں سے ہی ایک نرس کو اشارہ کیا اور وہ فوراَ سے پہلے وہ کچھ پیپرز لے آئی تھی 

مسٹر دائم یہ پیپرز آپکو سائن کرنے ہیں کیوں کے کسی بھی قسم کی نقصان کی صورت ميں ہاسپٹل ذمہ دار نا ہوگا

اور دائم تو گویا بگڑ ہی گیا تھا 

ایک ہی جھٹکے میں ڈاکٹر کا گریبان پکڑا 

" تو تو کس کام کا ڈاکٹر ہے ایک پیشنٹ ہینڈل نہیں ہوسکتا تجھ سے کان کھول کے سن لے اگر اسے کچھ بھی ہوا نا تو تو اپنی ٹانگوں پہ چلنے کے قابل نہیں رہے گا " 

اور ڈاکٹر تو فوراً سے فائل وہی پھینک کے اندر کی جانب بھاگا تھا ۔۔۔

میر بھی آچکا تھا 

اور اب دائم کو تسلیاں دینے میں مصروف تھا 

دائم یار حوصلہ رکھ بھابھی ٹھیک ہوجائے گی بس الله سے دعا کر تو 

میر نے کہا 

میر میں نہیں رہ سکتا اسکے بنا نجانے کیوں یہ چھوٹی سی بات نے سمجھ آتی اسے 

مجھ میں اب مزید کسی اور کو کھونے کی سکت نہیں ہے 

"تجھے پتہ ہے نا کتنا تڑپتا ہوں میں اسکے لیے میں میں نہیں رہا جب سے اسے دیکھا ہے اس نے میرا غرور میری اکڑ پاش پاش کر کے رکھ دی اس نے مم میں بہت پیار کرتا ہوں اس سے اسکے بنا جینا گویا میرے لیے موت ہے 

دائم نم آنکھوں سے بولا 

دائم بس اب تو ایسا کرے گا تو بھابھی کو کون سنبھالے گا میں جانتا ہوں تو کتنا پیار کرتا ہے لیکن مشال کی ابھی اتنی عمر نہیں ہے وہ ناسمجھ ہے ابھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا 

وہ اسکے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولا 

مجھے یہ بتا کہ یہ سب ہوا کیسے؟ 

اور دائم نے ساری بات اسکے گوش گزاری تھی 

یار تو پاگل ہے دائم یہاں تیری غلطی ہے تجھے مشال بھابھی پہ بھروسہ کرنا چاہیے تھا تو جانتا ہے زوار دشمن ہے تیرا وہ تجھے اور مشال کو کیوں خوش دیکھنا چاہے گا اور تو چھوٹا بچہ ہے کیا جو تصویر دیکھ کے اسے اتنی بڑی بات کہہ دی تو نہیں جانتا کیا کہ آجکل مختلف قسم کی اپسس سے اور editing سے کچھ بھی ممکن ہے 

میر نے دائم کو اچھی خاصی سنا ڈالیں تھیں 

یار مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اس لیے ہی میں اسکے پاس اس سے معافی مانگنے گیا تھا مگر ایک تو وہ اتنا ڈرتی ہے مجھ سے کے 

ہاں تو تو ہے ہی ایسی چیز تجھ سے مجھے بھی ڈر لگتا ہے اور وہ تو پھر تیری لٹل فیری ہے نازک سی 

دائم افسردہ سا مسکرایا تھا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آپریشن کو 2 گھنٹے ہونے کو آئے تھے لیکن ابھی تک آپریشن جاری تھا چل چل کے دائم کے پاؤں شل ہوگئے تھے ۔۔۔

اتنی ہی دیر میں ڈاکٹر باہر آیا تھا 

ڈاکٹر کیسی ہے میری لٹل فیری اب؟ 

دائم ڈاکٹر کو باہر آتا دیکھ کے فوراً سے انکے قریب آیا تھا 

مسٹر دائم ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے 

آپریشن تو کردیا ہے بٹ انکو ہوش نہیں آیا جو کے خطرے کی علامت ہے اس لیے انکو آنڈر آبزویشن  رکھا جائے گا مزید اگلے 48 گھنٹوں میں اگر انھیں ہوش نہ آیا تو انکی میموری بھی لوس ہوسکتی ہے اور انکی جان بھی جاسکتی ہے آپ لوگ صبر کریں اور دعا کریں 

کہہ کے ڈاکٹر چلا گیا تھا 

دائم لڑکھڑا گیا تھا لیکن فوراَ سے میر نے اسے تھاما اور چیر پہ بیٹھایا تھا 

اور خود نیچے ہی اسکے پاس بیٹھا تھا 

دائم تو بالکل ٹینشن نہ لے الله سب بہتر کرے گا بھابھی ٹھیک ہوجائیں گی 

نن نہیں میر اگر مشال کو کچھ ہوا نا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا اس سے بول اتنی بڑی سزا مت دے مجھے 

دائم کی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا 

کتنا مضبوط مرد تھا نا وہ 

لیکن اس چھوٹی سی لڑکی میں اسکی جان بستی تھی جو اسے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی 

کتنا بےبس محسوس کررہا تھا وہ خود کو اس وقت 

دائم تجھے اگر تیری مشال کوئی لوٹا سکتا ہے نا تو وہ صرف اور صرف وہ پاک ذات ہے تو اس مانگ کے تو دیکھ وہ تجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا کیوں کے وک ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اپنے بندے کو 

دائم نے ایک نظر میر کی جانب دیکھا جو بہت امید سے دائم کی جانب دیکھ رہا تھا اور ہاں میں سرہلایا 

تھا جس پہ میر ہلکا سا مسکرا دیا تھا ۔

وہ روم میں آیا مشال کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا وہ۔۔۔

ایک ہی دن میں وہ اسے صدیوں کی بیمار لگی تھی 

" پلیز لٹل فیری آنکھیں کھولو اپنی دیکھو میں آیا ہوں تمہارا دائم تم سے ملنے آیا ہے میں بہت غلط تھا جانتا ہوں لیکن پلیز مجھ سے دور مت جاؤ تمہارے بنا رہنا میں نے سیکھا ہی نہیں ہے پلیز مشال "

آخر میں وہ رو دیا تھا 

مرد ہمیشہ اس ہی عورت کے لیے روتا ہے جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے 

اور دائم رویا تھا اپنی مشال کے لیے 

اب انکی قسمت محسوس ملنا لکھا تھا یا بچھڑنا 

یہ تو خدا ہی بہتر جانتا تھا ۔۔۔

💔💔💔💔💔💔💔

پوری رات وہ مشال کے قریب ہی رہا تھا 

فجر کے وقت اسکی آنکھ کھلی تو مشال کو اسی حالت ميں پایا 

اتنے میں میر اندر داخل ہوا تھا 

اور دائم کو دیکھ کے اسکا دل ڈوب کے بھرا تھا 

بڑھی ہوئی شیو سرخ انگارہ آنکھیں جو ایک پل کے لیے نا سوئیں تھیں آنکھوں کے گرد گہرے حلقے برسوں کا تھکا ہوا لگا تھا وہ اسے اس پل 

میر مجھے نماز پڑھنی ہے؟ 

ہاں تو بے فکر ہوکے جا میں بھابھی کے پاس ہی ہوں 

آرام سے پڑھ کے آجا 

تو وہ سر کو اثبات میں ہلاتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا 

ہاسپٹل کے پاس ہی ایک مسجد تھی 

سو وہی آگیا تھا اور اب وضو کرنے لگا تھا 

وہ نماز سے فارغ ہوا تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے 

اور آنسو اسکی آنکھ سے بے اختیار ہی بہہ نکلے تھے 

اسکو اس شرمندگی نے آن گھیرا تھا ۔۔۔

اسکے پاس ہی بیٹھے ایک بزرگ اس سے مخاطب ہوئے 

کیا ہوا کیوں رو رہا ہے بیٹا؟ 

دائم نے ایک نظر انکی جانب دیکھا تو حیران رہ گیا انکے چہرے پہ اتنا نور تھا کہ دائم کا دل چاہا کہ بس اس خوبصورت چہرے کی جانب دیکھتا رہے 

بب بابا میں بہت گناہگار ہوں مجھے آج اپنی زندگی کی زندگی مانگنے آیا ہوں لیکن شرمندہ ہوں کہ پہلے کبھی اپنے رب کو یاد نہ کیا اور وہ اب مشکل وقت میں ۔۔۔

وہ خاموش ہوا جبھی وہ بزرگ مخاطب ہوئے تھے 

ہم انسان کتنے خود غرض ہیں نہ جب خوشی ہوتی ہے تو اپنے رب کو بھول جاتے ہیں اور غم میں ہمیں الله یاد آجاتا ہے ۔۔۔

لیکن وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے اپنے بندے سے اسکی توبہ کا انتظار کرتا ہے ...

الله تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ؛؛  

میری طرف آکر تو دیکھ.            متوجہ نہ ہوں تو کہنا میری راہ میں چل کے تو دیکھ.      راہیں نہ کھول دوں تو کہنا 

مجھ سے سوال کرکے تو دیکھ   بخشش کی حد نہ کردوں تو کہنا 

میرے لیے بےقدر ہوکے تو دیکھ  قدر کی حد نہ کردوں تو کہنا 

میرے لیے لٹ کے تو دیکھ  رحمت کے خزانے نا لٹا دوں تو کہنا 

میرے لیے بک کے تو دیکھ.  انمول نہ کردوں تو کہنا 

مجھے رب مان کے تو دیکھ سب سے بےنیاز نہ کردوں تو کہنا 

میرے خوف سے آنسو بہا کے تو دیکھ 

مغفرت کے دریا نہ بہا دوں تو کہنا

وفا کی لاج بہا کے تو دیکھ.  عطا کی حد نہ کردوں تو کہنا 

میرے نام کی تعظیم کرکے تو دیکھ.   حاکمِ تکریم نہ کردوں تو کہنا 

اپنی ہستی کو فنا کرکے تو دیکھ.  جامِ بقا سے سرفراز نہ کردوں تو کہنا

مجھے حی القیوم مان کے تو دیکھ ۔ ابدی حیات کا امین نا بنادوں تو کہنا 

میرا ہوکے تو دیکھ.           ہر کسی کو تیرا نا بنادوں تو کہنا ۔۔۔۔۔۔

یہ الفاظ سن کے دائم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے 

نا بیٹا روتے نہیں ہیں میرا بچہ تو اس پاک ذات سے مانگ کے تو دیکھ تجھے وہاں سے عطا کرے گا جہاں سے تو نے سوچا بھی نا ہوگا مگر شرط یہ ہے کہ ہمشیہ تجھے اسے یاد رکھنا ہوگا ۔۔۔

دائم نے کانپتے ہاتھ اٹھائے اور روتے ہوئے کہنے لگا 

میرے مالک مجھے معاف فرما جانِ انجانے میں میری تمام غلطیوں کی معافی عطا فرما میری مدد فرما میرے مالک مجھ میری مشال لوٹا دے میں جانتا ہوں کے میں بہت گناہگار ہوں لیکن تو غفور و رحیم ہے تیری ذات پاک ہے تو معاف کرنے والا ہے مجھے میری سانسیں میری زندگی واپس لوٹا دے میرے رب آمین ثم آمین! 

دعا مانگ کے اسے کافی حد تک سکون ہوا تھا اور اپنے پہلو میں بیٹھے ان بزرگ کو ڈھونڈنا چاہا مگر وہ نا ملے 

تو دائم سمجھ گیا کہ وہ الله کا کوئی خاص نیک بندہ ہے جو خاص اسکی ہدایت کے لیے اسکی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا تھا ۔۔۔

یہ سوچ کے کہ وہ نم آنکھوں سے مسکرایا اور آگے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہاسپٹل وہ جیسے ہی انٹر ہوا میر بھاگتا ہوا دائم کے پاس آیا تھا ۔۔۔

دائم بھابھی.

کک کیا بھابھی 

دائم کو اب تشویش ہوئی 

وہ بھابھی 

میر کیوں میری جان لینے پہ تلا ہے یار مشال ٹھیک تو ہے نا؟ 

مشال بھابھی کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں

کیا نن نہیں ایسا نہیں  ۔۔۔۔

کہہ کے وہ اوپر والے فلور کی جانب بھاگا تھا 

وہ باہر سے ہی مشال کو دیکھ رہا تھا جہاں اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں 

شدت سے اس نے اسے اپنی دعا میں مانگا تھا 

جبکے ایک آنسو اسکی پلکوں کی باڑ توڑ چکا تھا 

ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ ڈاکٹر باہر آیا، تھا 

ڈاکٹر کیسی ہے وہ اب؟ 

مسٹر دائم ہم تو ہمت ہی ہار چکے تھے لیکن یہ تو معجزہ ہی ہوگیا بلکہ یوں کہیں کہ اپکی محبت اپکی سچی دعاؤں نے انکو موت کے منہ سے نکال لیا ہے 

ناؤ شی از آؤٹ آف ڈینجر 

Now She is out of danger

کچھ ہی دیر میں انکو روم میں شفٹ کردیا جائے گا 

الحمد اللہ اس نے دل ہی دل میں الله  کا شکر ادا کیا تھا 

ڈاکٹر اسکا کندھا تھپتھپایا تھا ...

واجد خان آفس سے واپس آئے تو سیدھا اپنے روم کی جانب بڑھے تھے 

عائشہ خان کیچن مجھے تھیں اس لیے وہ انھیں نا دیکھ سکیں تھیں 

ابھی وہ روم میں داخل ہی ہوئے تھے کہ اچانک سے انکا سیل رنگ ہوا 

ایک ان نون unknown نمبر سے کال آرہی تھی لہذا انھوں نے پک کرلی 

ہیلو 

ہیلو ہیلو ۔۔۔ میرے ہونے والے سسر جی 

عرفان ملک ڈھٹائی سے بولا 

کیوں فون کیا ہے مجھے تم نے گھٹیا انسان؟ 

اووو میرے پیارے سسر جی غصہ کیوں کررہے ہیں 

اپنے ہونے والے داماد سے ایسے کوئی بات کرتا ہے کیا بھلا؟ 

بکواس بند کرو اور جلدی بولو کیا کام ہے کیوں فون کیا ہے مجھے؟ 

ہممم تو سسر جی اب ڈائریکٹ مدعے کی بات پہ آتے ہیں 

تمہارے پاس محض 5 پانچ گھنٹے ہیں اگر اپنی لاڈلی بیٹی کو بچا سکتے ہو تو بچا لو 

اب سے ٹھیک پانچ گھنٹے بعد تمہاری بیٹی میری بیوی بن چکی ہوگی اور ہاں خبردار کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو سمجھ گئے ورنہ نتائج کے ذمہ دار تم خود ہوگے 

کہہ کے کال کاٹ دی تھی اس نے 

اور واجد خان اب حقیقی معنوں میں پریشان ہونے لگے کے کیا کیا جائے وہ کیسے اپنی لاڈلی بیٹی کو عرفان ملک کا شکار ہونے سے بچائیں اور اسی ٹائم انھوں نے ایک فیصلہ لیا اور اس پہ عمل درآمد کرتے ہوئے میر کو کال کی تھی 

اور اس جتنی جلدی ہوسکے اپنے گھر آنے کی اور ساتھ ہی میں مولوی کو لانے کا کہا تھا 

واجد خان اٹھے اور ماہ نور کے روم کی طرف چل پڑے اور ڈور ناک کیا 

ارے پاپا آپ باہر کیوں کھڑے ہیں اندر آئیں نا 

واجد خان مسکرا کے اندر داخل ہوئے 

بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے 

جی پاپا بولیں 

پہلے وعدہ کرو کہ انکار نہیں کروگی 

کیوں پاپا ایسی بھی کیا بات ہے 

بیٹا آپ جانتی ہو نا کہ میں کبھی بھی آپکے بارے میں غلط فیصلہ نہیں لے سکتا 

جی پاپا مجھے آپ پہ پورا بھروسہ ہے 

ماہ نور مسکرائی 

بیٹا آپکا آدھے گھنٹے کے اندر میر بیٹے سے نکاح ہے 

ماہ نور نے جھکا ہوا سر ایک دم اوپر اٹھایا تھا ۔۔

بٹ پاپا اتنی جلدی کیسے سب؟ 

بیٹا کوئی جلدی نہیں ہے فلحال صرف نکاح ہورہا ہے 

اور میں جانتا ہوں کہ میری بیٹی مجھے مایوس نہیں کرے گی 

ماہ نور نے ایک نظر واجد خان کو دیکھا 

بچپن سے لے کے اب تک انھوں نے ماہ نور ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کی تھی تو کیا وہ انکے اتنا بھی نا کرسکتی تھی اور ویسے بھی اسکا نکاح تو اسی شخص سے ہونے جارہا تھا جو اسکے دل میں پورے شان و شوکت کے ساتھ براجمان ہوچکا تھا تو اب انکار کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔

جی پاپا ٹھیک ہے آپکی خوشی میں ہی میری خوشی ہے 

ماہ نور مسکرا کے بولی تھی 

اور واجد خان نے اپنا ہاتھ اسکے سر پہ رکھ کے اسکو ڈھیروں دعائیں دی تھیں ۔۔۔

🥰🥰🥰🥰

واجد خان ماہ نور سے بات کرنے کے بعد اپنے روم میں گئے تو سامنے ہی انکو عائشہ خان نظر آئیں جو کچھ ڈھونڈ رہیں تھیں 

عائشہ بات سنو 

جی واجد 

وہ انکے پاس آئیں 

انھوں نے عائشہ کو ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس بیٹھا لیا 

عائشہ تم جانتی ہو نا کہ میں ماہ نور سے بہت پیار کرتا ہوں 

ہاں واجد مجھے پتہ ہے کہ آپ بہت پیار کرتے ہیں لیکن کیا ہوا آپ پریشان لگ رہے ہیں مجھے؟ 

وہ فکرمندی سے انکے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں 

ایک بات بتاؤ عائشہ تمہیں مجھ پہ بھروسا ہے نا؟ 

ہاں مجھے خود سے زیادہ آپ پہ بھروسہ ہے لیکن کیا بات ہے واجد آپ آج ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں؟ 

میں نے ماہ نور کے لیے ایک فیصلہ لیا ہے

کیسا فیصلہ؟ 

عائشہ خان نے کہا 

پہلے تم بتاؤ میرا ساتھ دوگی نا؟ 

ہاں کیوں نہیں ضرور دوگی 

تمھیں میر کیسا لگتا ہے ماہ نور کے لیے 

واجد خان نے پوچھا 

ماشاءاللہ اچھا پڑھا لکھا لڑکا ہے تہذیبی و تمدن والا ہنس مکھ ہے ۔۔

عائشہ خان نے کہا 

مجھے میر ماہ نور کے لیے بہترین ہمسفر لگا کیوں کے میں نے میر کی آنکھوں میں ماہ نور کے لیے محبت دیکھی ہے وہ اسکا بہت خیال رکھتا ہے 

ہمممم 

اور بھی ایک وجہ ہے 

وہ کیا؟ 

عائشہ خان نے کہا 

تو واجد خان نے انکو عرفان ملک کی کہی ہوئی ساری بات کہہ سنائی 

لیکن واجد آدھے گھنٹے میں یہ بہت جلدی ہے؟ 

عائشہ بیگم فکرمندی سے بولیں 

عائشہ ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے میر مولوی صاحب کو لے کے آتا ہوگا 

چلو اٹھو اور جا کے ماہ نور کو تیار کرو 

ہممم ٹھیک ہے 

عائشہ خان نے انکی جانب ایک مرتبہ دیکھا اور کہنے لگیں 

مجھے آپکے ہر فیصلے مجھے آپکے ساتھ ہوں 

واجد ۔۔۔

واجد خان نے ایک بھرپور مسکراہٹ اچھالی عائشہ خان کی جانب اور وہ بھی مسکراتی ہوئیں اوپر ماہ نور روم کی جانب بڑھ گئیں تھیں ۔۔۔

❤️❤️❤️

وہ روم میں آئیں تو وہ بیڈ پہ بیٹھی کسی گہری سوچ میں مبتلا تھی 

نور بیٹا 

وہ پیار سے مخاطب ہوئیں 

جی ماما، 

ادھر آؤ میری جان 

وہ انکے قریب گئی تو انھوں نے اسے اپنے سینے سے لگا، لیا اور خوب پیار کیا، 

انکی آنکھیں نم ہوئیں تھیں 

بیٹیاں کب اتنی بڑی ہوجاتیں ہیں پتہ ہی نہیں چلتا ماہ نور بھی کب اتنی بڑی ہوگئی پتہ ہی نا چلا پلک جھپکتے اسکے نکاح کا بھی دن آگیا تھا ۔۔۔

بیٹا تیار نہیں ہونا 

عائشہ خان نے کہا 

بٹ ماما آپ خوش ہیں نا پاپا کے اس فیصلے سے؟ 

ماہ نور نے کہا 

ہاں بیٹا میں اپنی بیٹی کے لیے بہت خوش ہوں 

چلو اب دیر مت کرو جلدی سے تیار ہو جاؤ میر آتا ہی ہوگا مولوی صاحب کو لے کے 

جی ماما ماہ نور کے ہونٹوں پہ بے ساختہ ایک شرمیلی مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔

اس نے وڈرواب کھولی تھی اسکے پاس بےشمار نئے کپڑے موجود تھے برینڈز کے 

لیکن اسکی نظر ایک خوبصورت سے سادہ سے سفید رنگ کے فراک پہ ٹہر گئی تھی اور وہی اسنے نکالا تھا ساتھ ہی میں ریڈ کلر کا ڈوپٹہ لیا تھا تقریباً پانچ منٹ کے بعد وہ باہر آئی تھی 

آنکھوں میں کاجل ہونٹوں پہ لال رنگ کی لپ اسٹک ساتھ ہی مسکارا اور آئی لائنر ہاتھ میں ریڈ کلر کی چوڑیاں گجرے اور ریڈ نیل پالش وہ مکمل تیار تھی ۔۔۔

ایک نظر خود کو شیشے میں دیکھا تو ایک شرمیلی مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کرلیا تھا 

واہ نور واہ قسم سے پٹاخا لگ رہی ہے آج تو اپنے شوہر کے عرف بندر کے دل پہ وبجلیاں گرائے گی 

کہتے ساتھ ہی وہ کھلکھلا کے ہنسی تھی ۔۔۔

ویسے میں کوئی پہلی ہی دلہن ہوں گی جو اتنی بےشرمی سے دانت نکال رہی ہے باقی لڑکیاں تو اتنی شرماتی ہیں اور ایک میں ہوں ڈھیٹ کہیں کی ۔۔۔

اسے اس پل مشال کی کمی بہت محسوس ہوئی تھی اسکی بیسٹ فرینڈ نجانے کہاں تھی ۔۔۔

اس نے دل ہی دل میں مشال کی سلامتی کے لیے دعا کی تھی ۔۔

وہ ابھی سوچوں میں ہی گم تھی کہ عائشہ بیگم اندر آئیں تھیں 

ماشاءاللہ ماشاءاللہ میری بیٹی تو چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے الله نظرِ بد سے بچائے آمین 

مشال انکی بات پہ مسکرا دی تھی 

چلو بیٹا وہ لوگ آگئے ہیں ۔۔۔

ماہ نور ڈھرکتے دل کے ساتھ عائشہ بیگم کے ساتھ نیچے آئی تھی ۔۔۔۔

💞💞💞💞

مشال کو دوم میں شفٹ کیا جاچکا تھا 

دائم اندر داخل ہوا تھا 

وہ آنکھیں مندے لیٹی تھی 

مشال؟ 

اسکے پکارنے پہ اس نے اپنی کالی گہری آنکھیں کھولیں 

اور گہری نیلی آنکھوں میں گاڑھیں تھیں 

کیا نہیں تھا ان کالی گہری آنکھوں میں

شکوہ،  شکایت،  ناراضگی،  خوف، ڈر اور اعتبار نہ کرنے کی شکایت 

دائم کا دل کٹ کے رہ گیا تھا 

وہ اس نازک سی معصوم سی لڑکی کو تکلیف ہرگز نہیں دینا چاہتا تھا 

مشال شکر الحمد اللہ کہ تم ٹھیک ہو 

کاش مرجاتی 

دائم کا دل تڑپ اٹھا تھا مشال کی بات پہ

مشال نے چھت کو گھورتے ہوئے کہا 

مشال پلیز یار ایسا تو مت کہو 

ٹھیک ہے نہیں کہوں گی لیکن مجھ سے مہربانی فرما کے کوئی بات نہ کریں اور اکیلا چھوڑ دیں مجھے 

مشال سردمہری سے گویا ہوئی 

دائم اٹھا اور آہستہ سے باہر نکل گیا مگر جاتے وقت یہ کہنا نہیں بھولا کہ 

" اگر کسی چیز کی ضرورت ہے میں باہر ہی ہوں "

مشال کی آنکھوں سے کئی قیمتی آنسو ٹوٹ کے گرے 

جس درد سے وہ گزر رہی تھی یہ وہ جانتی تھی یا اسکا الله 

کتنا چاہنے لگی تھی وہ اسے اور اس نے بدلے میں کیا دیا اسے؟ 

بھروسہ نہیں کیا اس پہ اتنی بے اعتباری دکھائی اور اسکی ذات پہ کیچڑ اچھالا ...

کیا اسے محبت کہتے ہیں؟ 

کیا محبت ایسی ہوتی ہے؟ 

آدھے گھنٹے بعد دائم پھر سے واپس آیا تھا تو دیکھا کہ مشال پانی کا گلاس اٹھانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی جو اس سے قدرے دوری پہ تھا اور ساتھ ہی اسکے ہاتھ پہ ڈریپ لگی تھی اور مشال میڈم اسکی پرواہ کیے بنا خود کو تکلیف دیئے جارہیں تھیں ۔۔

دائم نے اسکو دیکھ کے اپنا ماتھے پہ ایک ہاتھ مارا 

اففف یہ لڑکی بالکل پاگل ہے دائم اور عنقریب تمھیں بھی اپنے ساتھ کردے گی 

وہ ایک ہی جست میں اسکے قریب پہنچا اور پانی کا گلاس اٹھایا اور اسکا، منہ پکڑ کے اسکے لبوں سے لگایا 

مشال کو مجبوراً پینا پڑا تھا۔۔۔

تم پاگل ہو لٹل فیری مجھے بلالیا ہوتا یا نرس کو خود کو کیوں تکلیف دے رہی تھی کتنا درد ہوا ہوگا ہاتھ میں اب ؟

وہ فکرمندی سے گویا ہوا 

مشال نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا جو اسکی جانب شدت لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا

اور جو درد دل میں ہے اسکا کیا کروں؟ 

مشال نے اسے لاجواب کردیا تھا 

اور وہ لاجواب ہوبھی گیا تھا جبھی نظریں چرا گیا تھا 

تم آرام کرو میں چلتا ہوں اور پلیز اب خود سے کچھ مت کرنا میں باہر ہی ہوں 

کہہ کے وہ چلا گیا تھا 

مشال کچھ ٹائم اسکی پشت کو اور پھر بند دروازے کو دیکھتی رہی اور پھر دوائیوں کے اثر کی وجہ سے نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی ۔۔۔

💔💔💔💔

میر آچکا تھا مولوی صاحب بھی آچکے تھے کچھ ہی دیر میں نکاح ہوچکا تھا 

واجد خان کی خوشی کی انتہا نہ تھی میر بھی دل میں بہت خوش تھا کیوں ایک دفعہ پہلے نکاح صرف اس، نے اپنی ضد اور جنون میں آکے کیا تھا لیکن اس بار سب کی مرضی شامل تھی ۔۔۔

عائشہ بیگم بھی بہت خوش تھیں انھوں نے میر کو، ماہ نور کو ڈھیر سارا، پیار کیا اور دعائیں دی تھیں 

اور رخصتی ٹھیک ایک مہینے کے بعد طے پائی تھی ....

مشال کو ایک ہفتہ ہونے کو تھا ہاسپٹل میں دائم ابھی مشال کو میڈیسن دے کے ڈاکٹر کے روم میں آیا تھا 

اسلام و علیکم 

وعليكم اسلام

آیئے مسٹر درانی میں آپکا کو ابھی بلانے ہی والا تھا 

جی ڈاکٹر ؟؟

آپ اپنی مسز کو گھر لے جاسکتے ہیں 

ناؤ شی از فائن بٹ یو ہیو ٹو ٹیک کئیر ہر ۔۔۔

Now She is Fine but you have to take care her... 

یا ڈاکٹر آئی ول بی ٹیک کئیر آلاٹ 

Ya!  Doctor I will be take care her a lot... 

اور ڈاکٹر سوری اس دن میں نے آپ سے بہت بدتمیزی سے بات کی میں  شرمندہ ہوں 

کوئی بات نہیں مسٹر دُرانی میں سمجھ سکتا ہوں آپ جس سے پیار کرتے ہیں اسکو کھونے سے ڈرتے ہیں مجھے برا نہیں لگا امید ہے آپ اب انکا خیال رکھیں گے 

ڈاکٹر نے دائم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔۔

جی ڈاکٹر ضرور ۔۔۔

مسکراتا ہوا وہ وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تھا ۔۔۔۔۔

🙂🙂🙂🙂🙂

دائم مشال کو ڈسچارج کروا کے گھر لے آیا تھا

مشال اب قدرے بہتر تھی لیکن اسکا دائم کے ساتھ سرد لہجہ ہنوز برقرار تھا ۔۔۔

مشال کو ہمیشہ سے ایک راز جاننا تھا 

دائم کے گھر میں ایک ایسا روم تھا جو ہمیشہ لاکڈ رہتا تھا  مشال نے اس سے پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹال دیتا تھا 

صبح کے گیارہ بجے تھے اور دائم گھر نہیں تھا 

لہذا اس نے ارادہ کیا کیا کہ آج وہ اس راز کا پتہ لگا لےگی 

حتہ کے دائم نے اسکو اسکی روم کی صفائی کرنے سے بھی منع کیا تھا 

اسکو پتہ تھا کہ روم لاکڈ ہے اس لیے ہی اسنے کافی کوشش کے بعد چابیاں ڈھونڈ لیں تھیں 

اور لاک کھول کے اندر داخل ہوئی تھی 

یہ روم دیکھنے میں کسی کا بیڈ روم معلوم ہوتا تھا 

لگتا تھا زمانوں کی گرد یہی موجود ہے 

سامنے ہی دیوار پہ ایک فوٹو لگی تھی جس میں ایک عورت اور مرد کی تصویر موجود تھی 

کون ہوسکتے ہیں یہ لوگ؟ 

اور دائم کا ان سے کیا تعلق ہے؟ 

ایک نظر اسنے غور سے اس عورت کے چہرے کی جانب دیکھا تو اسے دائم کے نقش بالکل اس عورت کے نقش جیسے ہی لگے 

کہیں یہ دائم کی ماما تو نہیں؟؟ 

او مائے گاڈ لیکن دائم نے کبھی ذکر کیوں نہیں کیا اپنے پیرٹنس کا؟؟ 

وہ تھوڑا آگے بڑھی ہی تھی کہ اچانک ہی سے پیچھے سے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی تھی 

خوف سے اسکی ٹانگیں تھرتھر کانپنے لگی تھی اتنی ہمت نہ تھی کہ پیچھے مڑ کے دیکھے کے کون ہے؟ 

کون ہوسکتا تھا 

وہ شخص قریب آتا جارہا تھا 

ایک ہی جھٹکے میں اسنے اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا للک لکک داددد دائم آپ ۔۔۔

ہمم میں 

لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے کہا 

کہا تھا نا کہ اس روم میں مت آنا ایک بات کی کی ہوئی بات سمجھ نہیں آتی کیا تمہیں؟ 

وہ ڈھارا تھا 

اور آواز اتنی بلند تھی کہ مشال کے ساتھ ساتھ گھر کی دیواریں بھی کانپ اٹھی تھیں 

وووو وہہ وہ ممم مم میں 

کیا میں ہاں؟ 

مشال کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے 

بس ایک آنسو بھی نہ نکلے اب سمجھ آئی ورنہ 

اس نے چاقو نکالا اور مشال کی شہ رگ پہ آہستہ آہستہ پھیرنے لگا 

خوف سے مشال بول ہی نہیں پا رہی تھی 

سس سوری وہ میں

کیا تم ہاں کیا تم؟ 

جواب دو 

مشال اسکی گرفت سے خود کو چھڑوانے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن جیسے ہی وہ بھاگنے لگی 

ایک ہی جھکٹے میں اسکو پکڑ کے دیوار کے ساتھ پن کیا 

اور خود اسکے قریب ہوا 

یہاں سے بھاگنے کی کیا سزا ملنی چاہیے تمھیں؟. 

ہمممم 

نیلی انکھوں میں عجیب سی پراسراریت موجود تھی 

مشال کانپ گئی 

نن نن نہیں دائم وہ پی پی پلیز نو

دائم آگے بڑھا اور اسکی کلائی کو پکڑ کے سامنے کیا 

اور چاقو سے ہلکا سا کٹ اسکی بازو پہ لگایا 

سسس 

مشال کی ہلکی سی سسکاری نکلی

خون کے چند قطرے اسکی دودھیا سفید رنگ کی کلائی سے ٹپکے تھے

مم مم میں نہیں رہوں گی تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی یہاں سے 

مائے لٹل فیری 

جانتی ہو تمہاری یہ معصومیت نے گھائل کردیا ہے مجھے 

یک دم نیلی آنکھیں لال انگارہ ہوئیں تھیں 

مجھے چھوڑ کر جاؤں گی تم ہاں مجھے؟ 

جس سرد لہجے میں وہ بولا 

مشال کی تو حالت غیر ہوگئی تھی 

جانتی ہو پوائزن کون ہے؟ 

دائم نے پوچھا 

مشال نے نا میں سر ہلایا 

میں  ہوں پوائزن 

جانتی ہو کون ہو میں وہ پراسرار مسکراہٹ لیے بولا 

پوائزن یعنی دائم دُرانی وہی درندہ ہوں میں جس نے بارہ سال کی عمر میں پہلا قتل کیا تھا 

مشال کی آنکھیں پٹھی کی پٹھی رہ گئیں تھیں 

مشال کی حیرانگی پہ دائم مسکرا دیا تھا

اور جانتی ہو کیا کس کا تھا قتل ؟

اپنے ہی باپ کا یعنی سہیل دُرانی کا 

ایک سرد قہقہہ گونجا تھا اسکا 

اور بس مشال کی برداشت اتنی ہی تھی اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی دائم نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا 

اور اسکی ناک سے ناک مس کرتے ہوئے ایک سرگوشی کی 

" مائے انوسینٹ لٹل فیری " 

تم اپنے پوائزن کو چھوڑ کے کہیں نہیں جاسکتی 

انتہائی شدت اور جنونیت سے کہتا وہ اسے اٹھائے آگے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

😅😅😅😅😅

ماہ نور اپنے روم میں تھی جب میر اندر آیا اسکا رخ کھڑکی کی جانب تھا 

اچانک ہی سے آسمان کو گہرے کالے بادلوں نے ڈھک لیا تھا ۔۔۔

وہ اسکے پیچھے آن کھڑا ہوا تھا 

نکاح مبارک ہو جانِ میر 

بولتے ہوئے اسکے لب ماہ نور کے کان سے مس ہوئے تھے 

ماہ نور کے دل کی ڈھرکن اتنی تیز ہوگئی مانو نکل کے باہر آجائے گی 

وہ پلٹی تھی 

آنکھوں میں بے شمار محبت سموئے وہ اسکی جانب دیوانہ وار شدت لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا 

اسکے یوں دیکھنے پہ اسنے پلکوں گرائیں تھیں 

اسکی پلکوں کی لرزش اسکو مزید دیوانہ اور بہکنے پہ مجبور کررہی تھی 

بے اختیار اس نے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا 

اور اسکو کمر سے پکڑ کے کھینچا سیدھی اسکے سینے سے آلگی ۔۔۔

حیا سے بوجھل پلکیں اوپر سے اسکا نوخیز حسن اور اپنی ملکیت کا احساس اسے بہت کچھ کرنے پہ اکسا رہا تھا لیکن فل وقت اپنے جزبات پہ قابو پاتے ہوئے اسنے کہنا شروع کیا 

ماشاءاللہ بہت خوبصورت لگ رہی ہو 

اسکی کان کی لو کو اپنے ہاتھ سے ہلکے سے مسلتے ہوئے کہا 

جس پر مشال کا دل تیزی سے ڈھرکنے لگا 

میں کوئی وعدہ نہیں کروں گا ماہ نور یہ سچ ہے کہ مجھے تم سے شدتِ محبت ہے دیوانگی کی حد تک اور یہ محبت ہمیشہ قائم رہے گی ہمیشہ ہر مشکل وقت میں مجھے تم اپنے ساتھ پاؤگی ۔۔۔۔

ماہ نور کے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا 

ایک وعدہ کرنا ہوگا آپکو لیکن.. 

کیسا وعدہ؟؟ 

میر نے پوچھا ۔۔

کبھی میرا مان میرا بھروسہ نہیں توڑیں گے آپ ۔۔۔

وعدہ کرتا ہوں 

میر نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسے خود میں بھینچ لیا تھا۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دائم اسے بیڈروم میں لے آیا تھا اسکے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو کچھ ہی دیر میں ہوش آگیا 

اپنے سامنے بیٹھے دائم کو دیکھ کے اسکی روح فنا ہوئی آنکھوں سے آنسو جاری تھے

دائم کے خوف سے وہ تھر تھر کانپ رہی تھی 

اور خود میں سمٹ کے بیٹھی تھی 

دائم کو اسکی یہ حالت دیکھ کے خود پہ شدید طیش آیا

اور اپنے پاس ہی فروٹ کی باسکٹ میں پڑی چھری اٹھا کے اپنی بازو، پہ جگہ جگہ کٹ لگانے لگا 

مشال کی چیخ نکلی 

اور اسکے ہاتھ سے چھری لےکے پھینک دی 

ککک کیا پاگل پن ہے یہ دائم 

کیا کررہے ہیں آپ خود کو نقصان کیوں پپ پہنچا رہے؟ 

ہکلاتے ہوئے اسنے کہا 

آئیم سوری لٹل فیری میں مانتا ہوں بہت برا ہوں میں 

تمھیں تکلیف پہنچائی نا اس لیے خود کو تکلیف سے رہا ہوں 

اس وقت دائم دُرانی کی دیوانگی اسکی جنونیت عروج پہ تھی 

وہ ایک شخص جسے ساری دنیا سوری کہتی تھی 

آج ایک چھوٹی سی لڑکی کے سامنے ہار گیا تھا

وجہ کیا تھی؟ 

شدتِ محبت 

ہاں وہ اپنی مشال کے لیے اپنی لٹل فیری کے لیے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا 

اس حد تک وہ اسکی روح میں سما چکی تھی 

وہ رو رہا تھا 

جب مشال نے اسکی آنکھوں سے نکلتے آنسو کو دیکھا تو حیران ہوئی تھی 

لٹل فیری کیا میں تمہاری گود میں سر رکھ سکتا ہوں 

ایک نظر اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

جس پہ مشال کا سر خود بخود ہاں مجھے ہلا تھا 

اسکی گود میں سر رکھ کے وہ پھوٹ پھوٹ کے بچوں کی طرح رویا تھا 

مشال بھی پریشان ہوگئی کہ وہ اتنا مضبوط مرد کیوں رو رہا ہے؟؟ 

دددد ۔۔ دائم کک کیوں رو رہے ہیں 

مجھ سے جو غلطی ہوئی ہے اسکی معافی مانگتی ہوں میں لیکن پلیز رونا بند کریں 

اسکی معصومیت پہ اسے بے اختیار پیار آیا تھا 

مشال تم یہ ہی سوچ رہی ہوگی نہ کہ تم اب تک ایک قاتل کے ساتھ رہ رہی تھی ہے نا؟ 

مشال نے ہاں میں سر ہلایا 

جانتی ہو میں ایسا کیوں ہوں؟ 

نفی میں سرہلایا 

جس پہ دائم کے چہرے پہ ایک تلخی بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی ۔۔۔۔

"میرا باپ سہیل دُرانی ایک شرابی تھا جوا کھیلنا ہر غلط کام میں ملوث تھا سب سے بڑھ کے عورتوں پہ، ہاتھ اٹھانا، اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا، میری ماما سعدیہ دُرانی بہت نیک اور، محبت کرے والی بیوی اور ماں تھیں میرا باپ ہمیشہ میری ماما، کو مارتا تھا اور دادی کو بھی عورت کی عزت کرنا اسے کبھی آیا، ہی نہیں 

جو بھی کماتا سارا شراب اور جوے پہ خرچ کردیتا 

میری ماما مجھے اور میری دادی کا، پیٹ ایک سکول میں بطور ٹیچر کی نوکری کرکے پالتی تھیں 

وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں میں بھی بہت محبت کرتا، تھا، میں ہمیشہ یہی چاہتا تھا، کہ میرے والدین میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے لیکن یہ خواہش حسرت ہی،  رہی میرے باپ نے مجھے ایک دفعہ پیار، بھری نظروں سے بھی نا دیکھا کہتے، ہیں کہ باپ کو بیٹے کی بہت، خواہش ہوتی ہے، تو میرا باپ کیسا تھا؟؟ 

ایک دفعہ میں سکول سے گھر، واپس، آیا تو مجھے اپنی ماما اور اپنے باپ کے کمرے سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں سنائی دیں 

میں نے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ لاک تھا اتنی ہی دیر میں میری ماما کی ایک زور دار چیخ بلند ہوئی میں بہت گھبرا گیا اور دروازہ کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ ظالم سفاک شخص باہر نکلا 

میں ڈورتا ہوا اندر پہنچا تھا اور اپنی ماں کو خون میں لٹ پت پاپا 

میں چیختا رہا چیلاتا رہا کوئی نہ آیا میری مدد کو 

بس میری ماما مجھے چھوڑ کے ہمشیہ کے لیے چلی گئیں تھیں ۔۔۔

مجھے باہر سے دادی کی چیخ سنائی دی میں بھاگتا ہوا وہاں پہنچا 

لیکن اس سے پہلے کہ وہ درندہ دادی کو بھی جان سے مارتا 

میں درندہ بن گیا 

اپنے ہاتھوں سے اپنے باپ کے سینے میں چھ کی چھ گولیاں اتار دی ۔۔۔

بس پھر وہاں سے میرے اندر ایک پوائزن نے جنم لیا جو برے لوگوں کے لیے سفاک اور درندہ اور اچھے لوگوں کے دائم دُرانی ہے ۔۔۔

مجھے گرفتار اس لیے نہیں کیا گیا کیوں کے میں بچہ تھا ۔۔۔

ماما کے بعد دادی نے مجھے سنبھالا 

تھا ۔۔۔۔

اور تب سے وہ شرارتی دائم کہیں گم گیا پوائزن زندہ رہ گیا ۔۔۔

میں اپنے پاپا کو نہیں مارنا چاہتا تھا لیکن میرا باپ جینے کے لائق نہیں تھا اس لیے مجھے برائی کو ختم کرنا تھا اور میں نے کیا 

میں آج بھی تڑپتا ہوں 

اس واقعے کو یاد کرکے 

بس اس لیے تمہیں وہاں جانے سے روکا 

اور غصہ کیا تم پہ 

مشال کی آنکھوں سے آنسو ہنوز جاری تھے 

کیا تھا یہ شخص آخر کتنا درد چھپا تھا اسکے اندر 

ایک لاوا جو پھٹنے کے لیے تیار ہوتا ہے 

اتنی چھوٹی سی عمر میں  کیا کیا نہیں سہا تھا اس نے 

زمانے کی ٹھوکریں اپنوں کا ساتھ چھوڑنا 

سسکنا گرگڑانا تڑپنا ۔۔۔۔

جب مشال کچھ نا بولی 

تو وہ خود ہی گویا ہوا 

مشال ۔۔۔ 

سوری میں نے تمہیں کتنا پریشان کیا نہ 

تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم ریسٹ کرو 

اب مشال کیا کہتی کہ وہ اسکے سارے درد دکھ سمیٹ لینا چاہتی ہے وہ غلط تھی بہت ایک ہیرے جیسے انسان کو وہ ٹھکراتی رہی اور بار بار ٹھکراتی رہی 

لیکن اب وہ ازالہ کرنا چاہتی تھی وہ اس احساس دلانا چاہتی تھی محسوس کروانا چاہتی تھی کہ وہ اکیلا نہیں ہے وہ اسکے ساتھ ہے 

دائم نے اسکی کلائی پہ بینڈیج کی اور آہستہ سے اسکے ماتھے پہ اپنا شدت بھرا لمس چھوڑ کر باہر نکل گیا 

اور مشال اسکی خوشبو اپنے اندر محسوس کرتی نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گئی تھی ۔۔۔

میر کو گئے ہوئے چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اچانک ہی باہر سے فائرنگ کی آواز آئی ماہ نور جو ابھی ابھی نکاح کے بعد فریش ہوکے آئی تھی اور اب لان میں بیٹھی کافی پینے میں مگن تھی یکدم گھبرا گئی تھی

فوراً اٹھی اور اندر کی جانب بھاگی تھی

ماما پاپا 

ماہ نور بیٹا یہ باہر سے کیسی آواز آرہی ہے؟ 

ماما پاپا ففف ۔۔ فائرنگ ہورہی ہے 

کک کون کرسکتا ہے یہ سب؟ 

ماہ نور قدرے گھبرائے لہجے اور ہکلاتے ہوئے بولی 

میں جانتا ہوں کون ہے یہ؟ 

کون ہے پاپا 

بیٹا یہ وہی گھٹیا انسان عرفان ملک ہے ۔۔۔

پاپا آپ پپ پلیز باہر مت جائیے گا ویٹ میں میر کو کال کرتی ہوں 

پک اپ دا کال پلیز میر پک اپ 

Pick up the call please Meer pick up! 

دوسری یا تیسری بیل پہ کال اٹھا لی گئی تھی 

مم مم م میر 

کیا ہوا ہے ماہ نور تم ٹھیک تو ہونا ؟

نن نن نہیں پی پی پلیز آجائیں آپ کسی طرح 

بٹ ہوا کیا ہے میری جان کچھ بتاؤ تو 

وو وہ عرفان ملک آگیا ہے وہ گھر سے باہر مسلسل فائرنگ کروا رہا ہے 

کہیں وہ پاپا کو یا ماما کو کسی قسم کا نقصان نا پہنچا دے 

اوکے تم ٹینشن نہ لو میں بس آرہا ہوں ۔۔۔

وہ نیچے آئی تھی کہ سامنے سے دو آدمی آتے ہوئے دیکھائی دئیے تھے 

اس سے پہلے کہ وہ اپنے عائشہ خان اور واجد خان تک پہنچتی عرفان ملک نے آکے اسے بازو سے پکڑ لیا 

اسکی انگلیاں اسکے بازو کے گوشت میں پیوست ہونے لگیں ماہ نور درد سے کراہ اٹھی تھی 

واجد خان اور عائشہ خان کے سر پہ بھی عرفان ملک کے بندوں نے بندوقیں تان لی تھیں 

ننن نن نہیں پی پی پلیز نہیں میرے ماما پاپا کو چھوڑ دو الله کا واسطہ ہے تمھیں 

ماہ نور روتے ہوئے بولی 

ہاہاہا اچھا ٹھیک ہے چھوڑ دوں گا تمھارے ماں باپ کو

لیکن اسکے لیے میری ایک شرط ہے 

کک کیسی شرط ؟

ماہ نور نے آنسو سے تر ہوتے ہوئے اسکی جانب دیکھا 

عرفان ملک نے ماہ نور کو خود سے تھوڑا اور قریب کیا، 

جس پہ ماہ نور نے سختی سے آنکھیں میچ لیں 

چھوڑ دو میری بیٹی کو خدارا کیا بگاڑا ہے اسنے تمھارا 

عائشہ خان روتے ہوئے بولیں 

گھٹیا انسان چھوڑو میری بیٹی کو 

واجد خان بولے 

آہا خاموش سسر جی کتنا، بولتے ہیں نا آپ اب اگر مجھے ڈسٹرب کیا تو ساری گولیاں آپکی نذر کردوں گا ۔۔۔

عرفان ملک نے کمینگی سے کہا

ہاں تو ہم کہاں تھے جانِ من 

میں کہہ رہا تھا کہ اگر اپنے ماں باپ کو زندہ دیکھنا چاہتی ہو نا تو اس شیر کی بھوک مٹاؤگی تم ابھی اسی وقت سب کے سامنے ۔۔۔

بکواس بند کرو عرفان ملک 

میں تمھیں زندہ گاڑدونگا 

واجد خان بولے 

ابے چپ بڈھے سالے 

تیری اوقات نہیں ہے کہ تو مجھ سے اسطرح سے بات کرے سمجھا 

اس سے پہلے کے عرفان ملک ماہ نور سے کوئی بدتمیزی کرتا ایک زوردار مکا اسکی کمر پہ رسید ہوا تھا 

کون ہے بے سالے کس کی اتنی اوقات کہ مجھے سے پنگا لے 

میری اتنی اوقات ہے کہ تجھ جیسے کتے سے پنگا لوں 

تتت تت تم 

کک کون ہو تم؟ 

عرفان ملک اب خوف سے بولا 

بھول گیا کیا میری اور اپنی ملاقات 

اس رات جب کیا کہا تھا میں نے تجھے کہ ماہ نور سے دور رہے 

لیکن نہیں 

"لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کہتے ہوئے میر نے عرفان ملک کے منہ کا نقشہ بگاڑ دیا تھا 

ماہ نور نے شکر کا کلمہ ادا کیا تھا کہ میر آگیا وہاں ٹائم سے پہلے ہی ورنہ پتہ نہیں کیا ہوجاتا 

ابھی ماہ نور آگے بڑھنے لگی تھی تاکہ واجد خان اور عائشہ خان کو آزاد کرواسکے کہ اس باہر سے پولیس اندر آتی ہوئی دیکھائی دی تھی

پولیس نے فوراً ہی عرفان ملک کے بندوں کو اپنی حراست میں لے لیا جبکے عرفان ملک کی دھلائی ابھی میر کررہا تھا

واجد خان اور عائشہ خان کے آزاد ہوتے ہی ماہ نور ان دونوں کے سینے سے جالگی تھی ۔۔۔

بول کمینے تو میری ماہ نور کو ہاتھ لگائے گا 

ہاں بول 

زمین پہ پڑے عرفان ملک کو میر نے گریبان سے پکڑ کے اپنے سامنے کھڑا کیا 

تت تیری کیا لگتی ہے جو اس لڑکی کے پیچھے مجھے پیٹ رہا ہے تو تیری اوقات کیا کے بتا؟ 

عرفان ملک نے غراتے ہوئے زخمی شیر کی مانند کہا 

وہ لڑکی میری بیوی ہے اور رہی میری اوقات کی بات تو ٹھہر جا تجھے ابھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون ہوں میں اور میری اوقات کیا ہے ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

یہ کہہ کے ایک پولیس والا آگے بڑھا اور ایک زوردار تھپڑ عرفان ملک کے منہ پہ دے مارا 

کمبخت تجھے پتہ ہے تو کس سے بات کررہا ہے 

ایس ۔ آئی ۔ایس سے تعلق ہے انکا 

ISI = Inter Service Intelligence 

سے تعلق ہے انکا مطلب آسان لفظوں میں 

سیکریٹ ایجنٹ 

Screte Agent!!! 

ماہ نور اور اسکے والدین بھی کافی، شاکد، تھے، اسے چیز کو جان کے اور ایک فخر سا بھی محسوس، ہورہا تھا 

اور ہمارے پاس تیرے کالے دھندوں کا ثبوت موجود ہے اب چل جیل کی ہوا کھانے کے لیے، 

اس کانسٹیبل نے اسے گریبان سے پکڑا اور پولیس گھسیٹی ہوئی عرفان ملک کو ساتھ لے گئی تھی۔۔۔

عرفان ملک کو اپنے کیے کی سزا مل چکی تھی 

واجد خان آگے بڑھے اور میر کو گلے سے لگا لیا 

آئیم سو پراؤد آف یو مائے سن 

I'm so proud of you My son 

سچ میں میری بیٹی بہت خوش قسمت ہے کہ اسے تم جیسا چاہنے والا شوہر ملا 

عائشہ خان نے بھی واجد خان کی بات کی تائید کی 

جبکے ماہ نور بھی ان سبکی باتوں پہ مسکرا دی تھی

ماہ نور بیٹا میں لنچ کا دیکھنے جارہی ہوں کہ ابھی تک بنا کہ نہیں تم میر بیٹے کے پاس ہی رہو ایسا نا ہو کہ اسے کچھ چاہیے ہو 

آنٹی وہ دراصل مجھے ۔۔۔

بیٹا میں تمھاری ماں جیسی ہوں تم مجھے ماما بلاؤ گے تو مجھے بہت اچھا لگے گا جیسے ماہ نور بلاتی ہے ۔۔۔

اوکے ماما مجھے فریش ہونا ہے؟ 

ہاں بیٹا تم اوپر ماہ نور کے روم میں چلے جاؤ وہ لے جائے گی تمھیں 

ماہ نور بیٹا جاؤ 

میر نے ماہ نور کو آنکھ ماری تو وہ سٹپٹا کے رہ گئی تھی 

اور اسکے پیچھے چل دی تھی۔۔

😉😉😉😉

مشال سو کے اٹھی تو شام کے چھے بج چکے تھے 

وہ اٹھی فریش ہوئی تھی 

وائٹ کلر کی قمیض اور گھیرے دار شلوار میں وہ بنا کسی میک اپ کے بھی وہ بہت خوبصورت تھی اسے میک اپ کی ضرورت ہی نا تھی ستوں ناک گلابی ہونٹ پھولے ہوئے گال کنڈلی گھنی زلفیں اور اسکی نوز پن یہ سبھی چیزیں اسکے حسن کا سامان تھیں

کھانا اسنے دائم کا فیورٹ ہی بنایا تھا 

بیف بریانی اور اچار گوشت ساتھ میں دائم کا فیورٹ کیک بیک کیا تھا ۔۔۔

دائم گھر واپس آیا تو کھانے کی لذیذ خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی تھی 

مشال نے چپ چاپ کھانا ٹیبل پہ لگا دیا تھا 

واہ بھئی خوشبو تو بہت اچھی آرہی ہے لگتا ہے میری لٹل فیری آج کافی اچھے موڈ میں ہے سب کچھ آج میری پسند کا؟؟ 

مشال پھیکا سا مسکرائی تھی 

دائم نے مشال کے چہرے پہ بےچینی نوٹ کی تھی 

جبھی اسنے اسے کرسی سے پکڑ کے اپنے قریب کرلیا تھا 

ہیے لٹل فیری سوری میری جان میں جانتا ہوں کہ میں نے آج بہت روڈ بی ہیو کیا تمھارے ساتھ اور اسکے لیے سوری بھی کی ہے اب تو اپنا موڈ ٹھیک کرلو ورنہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا 

مشال مسکرادی تھی 

میں ٹھیک ہوں

دائم مسکرایا اور کھانے لگا تھا کہ مشال نے چاولوں سے بھری ہوئی چمچ اسکے منہ کے سامنے کی تھی 

دائم کافی حیران ہوا تھا 

ارے آج یہ حیرت انگیز تبدیلی کیسے آئی 

مجھ ناچیز کو ملکہِ عالیہ کھانا کھلا رہیں ہیں وہ بھی اپنے ہاتھوں سے 

مشال نے ایک نظر دائم کی جانب دیکھا 

وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہننے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ترشیداہ داڑھی 

عنابی ہونٹ نیلی خوبصورت آنکھیں مغرور کھڑئی ناک سائیڈ پہ پڑتا ڈمپل

سرخ و سفید رنگت بلاشبہ وہ حسین ترین مرد تھا کوئی بھی لڑکی دیوانی ہوسکتی تھی اسے دیکھ کے بلکہ ہزاروں تو تھیں بھی لیکن وہ تو صرف ایک ہی کا دیوانہ تھا ۔۔۔

اپنی لٹل فیری کا ۔۔۔

وہ کھانا کھا چکے تھے دائم اٹھ کے جانے لگا تھا کہ اچانک ہی مشال نے اسکی بازو پکڑ لی 

کیا ہوا لٹل فیری آج اتنا پیار کیوں آرہا ہے اپنے شوہر پہ ہمم؟. 

دائم آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں نا؟ 

مشال دائم کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئی بولی 

یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے کیا؟ 

تو میری ایک بات مانے گے؟. 

بتاؤ 

مجھے کچھ دن اپنے گھر جانا ہے شاہ منیشن ۔۔۔

واٹ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا لٹل فیری 

ایسا نہیں ہوسکتا 

کک کیوں نہیں 

کیوں کے تمہاری جان کو خطرہ ہے 

کیسا خطرہ اور کس سے خطرہ ہے؟ 

تمھارے اپنے چاچو سے 

واٹ آریو سیریس دائم 

آپکی ہمت کیسے ہوئی میرے چاچو کو کچھ کہنے کی اور وہ اپنی ہی بھتیجی کے ساتھ ایسا کیوں کریں گے 

دائم ایک ہی جسٹ میں آگے بڑھا اور اسے بازوؤں سے دبوچا 

تمھیں ایک بات کی کہی ہوئی بات سمجھ نہیں آتی ؟

مشال کو اسکے ہاتھ اپنے بازوں میں پیوست ہوتے محسوس ہوئے تھے 

ہاں نہیں آتی مجھے سمجھ 

میں کیسے مان لوں کہ میرے چاچو ایسے ہیں 

کیا کیا ہے انھوں نے ہاں؟. 

قتل کیا ہے انھوں نے میری دادی کا 

دائم کے کہنے کی دیر تھی کہ ایک زوردار تھپڑ پڑا تھا اسے مشال سے ۔۔۔

بس دائم دُرانی اور کتنے الزام لگاؤ گے ہاں؟ 

بہت کہہ لیا تم نے اور بہت سن لیا میں نے 

اب بس مجھے تم خود مجھے شاہ منشین چھوڑ کے آؤگے 

دائم چپ چاپ شعلہ برساتی آنکھوں سے اسے دیکھے گیا ۔۔۔

مشال کی آنکھوں پہ عفان شاہ کے جھوٹے پیار کی پٹی بندھی تھی اس لیے اسکے لیے فل وقت یقین کرنا مشکل کام تھا ۔۔۔

یکدم دائم کے قدم آگے کی جانب اور مشال کے پیچھے کی جانب بڑھنے لگے تھے 

مشال پیچھے دیوار سے جالگی تھی 

اور دائم نے آگے بڑھ کے دونوں ہاتھ دیوار پہ رکھے اسکی فرار ہونے کی راہیں مسدود کی تھیں 

مشال کو دائم کی لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے باقاعدہ خوف آنے لگا تھا 

اسے تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا اپنی شامت اسنے خود ہی بلوائی تھی 

" دو دن صرف اور صرف دو دن تمام ثبوتوں کے ساتھ 

عفان شاہ کا اصلی چہرہ تمھارے سامنے نہ لایا تو میرا نام بھی دائم دُرانی نہیں اور ان دو دونوں کے بعد تم خود چل کے میرے پاس آؤگی وعدہ ہے میرا تم سے اور یقین مانو کہ جس طرح تم نے مجھے تڑپایا ہے اس سے کئی زیادہ میں تمھیں تڑپاؤں گا تم پہ زندگی تنگ کردوں گا کبھی چاہ کے بھی میری قید سے رہا نہیں ہوسکوگی تم "

مشال کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا تھا ۔۔۔

" انکو سنبھال کے رکھو میری جان یہ آنے والے وقت میں بہت کام آئیں گے تمہارے " 

طنزیہ کہتا وہ اسکے دل پہ وار کرگیا تھا 

ایک جھٹکے میں اسکی کلائی کو جکڑتا ہوا وہ باہر نکلا 

اور شاہ منشین کی جانب گاڑی کا رخ کرلیا 

آدھے ایک گھنٹہ کا سفر اسنے رش ڈرائیونگ کرکے آدھے گھنٹے میں طے کیا تھا 

اور شاہ منشین کے سامنے گاڑی روکی تھی 

مشال نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا جو بے تاثر نگاہوں سے سامنے کی جانب دیکھ رہا تھا 

ایک آنسو نا چاہتے بھی اسکی پلکوں کی بار توڑ کے نکل آیا وہ باہر نکلنے ہی لگی تھی کہ اسنے اسکو گلے سے پکڑ لیا اور زہر خندلہجے میں بولا

"اب تک تم نے صرف دائم دُرانی کی محبت دیکھی ہے 

مشال شاہ اب تم پوائزن کی نفرت سہوگی "

اور سوچو تم سے میری محبت کی شدت نہیں برداشت ہوتی تھی تو اب میری نفرت کی شدت کیسے برداشت کروگی " 

بی ریڈی فار دا ایوری تھنگ 

Be Ready For The Every thing... 

کہتے ہوئے اس نے اسکو چھوڑا تھا 

اور وہ فوراَ سے باہر نکلی تھی 

اسکی احتیاط پہ وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا تھا 

اور جلد ہی اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا ۔۔۔

جبکے ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ وہ اندر کی جانب داخل ہوئی تھی ۔۔۔

دائم بالکونی میں کھڑا سگریٹ پھونک رہا تھا ضبط سے اسکی آنکھیں لال تھیں نجانے کیوں کوئی بھی خوشی اسے چاہ کے بھی آج تک نصیب نا ہوئی تھی مشال اسکی من چاہی بیوی تھی لیکن اسکی بے اعتنائی اسکا سرد رویہ اسکا دائم سے دور بھاگنا دائم کو پل پل تڑپا رہا تھا ہر روز اسکی رات انگاروں پہ بسر ہوتی تھی وہ جان کے بھی انجان کیوں تھی کیا اسکی محبت میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟ 

کیا اسکی ہاتھوں کی لکیروں میں خوشیاں لکھی ہی نہیں تھیں ۔۔۔

وہ سوچ سے واپس لوٹا جب اسکا سیل رنگ ہوا ۔۔۔

اسلام و علیکم 

وعلیکم اسلام 

دائم ایک مسلہ ہوگیا ہے یار ہمیں ابھی نکلنا ہے 

میر نے کہا 

کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا؟ 

نہیں وہ لڑکیاں جنکو عفان شاہ نے کڈنیپ کرلیا تھا اور انکا سودا کردیا تھا آج وہ انکو امریکا کے مشہور ڈون 

Ronaldo's 

کو اسمگل کرنے جارہا ہے ہمیں انکو بچانا ہوگا اور ایک اور بات ۔۔

کیا؟؟ 

مجھے ہمارے کچھ ذرائع اور ٹیم ممبرز سے پتہ چلا ہے کہ عفان شاہ ایک بہت بڑا غدار ہے 

دائم ہمیں تیری بہت ضرورت ہے ہم تیرے بنا کچھ نہیں ہیں 

تو نے ہی کہا تھا نہ کہ یہ لڑائی تیری ہے تو اب میدان میں اترنے کا ٹائم آگیا ہے 

تیرے وطن کو تیری ضرورت ہے میرے بھائی 

آجا اسی پوائزن کو جگا دے اور ان درندوں کو مٹا دے 

میر نے جوش و جذبے کے عالم میں کہا 

تو فکر مت کر میرے خون کا آخری قطرہ بھی میرے وطن پہ قربان ہے میں آرہا ہوں تو وہی رک اور ٹیم ممبرز کو بھی چوکنا کردے کسی بھی قسم کی بھول چوک قابلِ برداشت نہ ہوگی اس بار 

" اس بار کھیل برابر کا ہوگا اور صرف فاتح ہی بچے گا " 

دائم نے پرعزم ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

مشال اندر آئی تو سامنے ہی اسے عفان شاہ نظر آئے تھے 

مشال بیٹا تم یہاں اس وقت؟ 

سب ٹھیک ہے نا ؟

مشال نے ایک نظر انکی جانب دیکھا اور پھر کہنے لگی 

ہاں چاچو سب ٹھیک ہے اصل میں آج میرا آپ سے ملنے کو بہت دل چاہ رہا تھا تو میں نے دائم کو کہا تو وہ مجھے آپکے پاس خود ڈراپ کرگئے 

مشال نے یہ سب عفان شاہ کی تسلی کے لیے کہا تھا کہ وہ اسکو لے کے پریشان نہ ہوں 

اچھا بیٹا کیا سچ میں دائم تمھیں خود چھوڑنے آیا تھا ؟

ہاں چاچو سچ میں اور وہ میرا خیال بھی بہت رکھتے ہیں 

اچھا بیٹا الله تمھیں بہت خوشیاں دے آمین! 

عفان شاہ نے بھرپور محبت کا ڈھونگ کرتے ہوئے کہا تھا 

اچھا مشال بیٹا تم جاکے ریسٹ کرو میں ذرا آفس کا تھوڑا کام یے وہ کرلوں پھر ساتھ میں کافی پیئں گے 

اوکے چاچو ۔۔۔

ایک پھیکی سی مسکراہٹ انکی جانب اچھالتی وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی 

پیچھے عفان شاہ کے چہرے پہ ایک خطرناک مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا ۔۔🥺🥺🥺🥺🥺

دائم میر کے بتائے ہوئے پتہ پہ پہنچ چکا تھا 

سامنے ہی اسکو میر کے ساتھ اپنے باقی ٹیم ممبرز نظر آئے تھے سو وہ انکی جانب بڑھا تھا 

دائم ۔۔۔

میر نے اگے بڑھ کے اسے گلے سے لگایا تھا 

بس میں آگیا ہوں اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میرے دوستوں 

دائم نے اپنے ٹیم ممبرز کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا 

تو وہ سب اسکی بات پہ بیک وقت مسکرا اٹھے 

دائم میں اور تو اندر چلیں گے 

ہممم ٹھیک ہے کچھ اندازہ یا پتہ ہے کے اندر کتنے لوگ ہیں؟ 

لگ بھگ بیس یا اس سے بھی زائد ۔۔۔

ٹھیک ہے تم سب لوگ یہاں آگے پیچھے ہوکے نظر رکھوگے جبکے میں اور میر اندر جائیں گے ۔۔۔

اوکے باس!!! 

ہممم گڈ سو ناؤ ٹیک یور پوزیشن گائز 

Hmmm Good So Now Take your Positions

میر لیٹس موؤ آن اینڈ جسٹس ڈو دِس 

Meer Let's Move On And Just Do this... 

وہ دونوں بلیک کلر کے فل ڈریس میں بلیک ہی ہوڈی پہنے ساتھ ہی بلیک کلر کا ماسک پہنے اندر داخل ہوئے تھے 

سامنے ایک بہت بڑا گیٹ تھا اسی جانب سے لڑکیوں کی چیخنے چلانے کی مختلف قسم کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔۔

دائم نے ایک اشارہ میر کی جانب کیا اور خود آگے بڑھا 

سامنے ہی اسے دو پہرے دار نظر آئے تھے 

" او تو یہ ہیں عفان شاہ کے کتے "

دائم بڑبڑایا تھا 

اور آگے بڑھ کے ان دونوں میں سے ایک کی جانب بڑھا تھا ۔۔

کون یے وہاں؟ 

وہاں موجود شخص کو ایک ہیولا نظر آیا تھا 

مم میں پوچھ رہا ہوں ککک کون ہے وہاں؟ 

وہ ہیولا جیسے جیسے قریب آتا جارہا تھا اس شخص کے قدم ویسے ویسے پیچھے کی جانب اٹھ رہے تھے 

اچانک ہی ایک ہی جست میں وہ اسکی جانب پہنچا تھا 

 لللک ککک کون ہو تم؟ 

اس شخص نے پوچھا تھا

گہری نیلی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک امڈ آئی تھی

اور چہرے پہ ایک پراسرار مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا 

اسنے اپنا ماسک اتارا تھا 

اس شخص کے چہرے پہ حیرانگی در آئی تھی 

پوائزن ہوں 

دائم نے بغور اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا 

ککک کون پوائزن مم میں نہیں جانتا، کسی پوائزن کو 

اچھا ہممم ایک کام کر کان کو پاس لا میرے 

پھر بتاتا ہوں کون ہوں 

پکا نا بتا کے چلے جاؤ گے آرام سے یہاں سے؟ 

اوکے ڈن اب کان لا پاس 

وہ شخص ڈرتے ڈرتے اپنا کان اسکے قریب لےگیا 

جیسے ہی وہ اسکے قریب پہنچا دائم نے اسکی گردن دبوچ لی تھی 

ککک چھوڑو مجھ مججج مجھے ججج جانے دو 

وہ شخص اٹک اٹک کے بولا 

جاننا چاہتا تھا نہ کہ کون ہوں میں تو سن 

ایجنٹ نمبر 115 

اس شخص کی آنکھیں پوری کی پوری کھل چکی تھیں 

مطلب کے تیری موت ہوں میں 

کہہ کے اسنے اسکے دل کے مقام پہ خنجر سے وار کیا تھا ۔۔

آگے بڑھ کے اسنے وہ گیٹ کھولا تو وہ لڑکیاں بھاگتی ہوئیں وہاں سے نکلیں تھیں 

سب لڑکیاں دائم اور میر کو مشکور نظروں سے دیکھ رہی تھیں کیوں کے انھوں نے ان سب لڑکیوں کی نا صرف جان بلکہ عزت بھی بچائی تھی 

تھینک یو تھینک یو سو مچ سر 

ایک لڑکی دائم کے قریب آکے بولی تھی 

دائم نے اپنا ہاتھ اسکے سر پہ پھیرا تھا 

کوئی بات نہیں تم میری چھوٹی بہنوں جیسی ہو سب کی سب ہم لوگوں کام ہی یہ ہی ہے کہ اپنے وطن کی اور اپنے وطن سے جڑے لوگوں کی حفاظت کیسے کرنی ہے ۔۔۔

مسکرا کے کہتا وہ آگے بڑھنے لگا تھا کہ ایک لڑکی پیچھے سے کہنے لگی 

" سر آپ نے ہماری عزت بچائی ہے اور ہمیں اس جہنم سے نکالا ہے میری دعا ہے کہ آپکی محبت آپکو جلد از جلد مل جائے "

شاید اب بہت دیر ہوگئی ہے بہنا ۔۔۔

ایک تلخی بھرئی مسکراہٹ آچکی تھی 

وہ کہہ کے وہاں سے نکلتا چلا گیا 

میر بھی اسکے چہرے کی اداسی نوٹ کرچکا تھا 

اس لیے چپ چاپ اسکے پیچھے چل دیا تھا 

باقی بندوں کو ٹیم ممبرز کے حوالے کیا تھا ۔۔۔

باہر نکل کے اسنے میر کو اپنے پاس بلایا تھا 

پولیس کو کتنی دیر ہے کب تک یہاں آئے گی ؟

بس پہنچنے والی ہوگی ۔۔۔

ساتھ ہی پولیس کی گاڑی  کا ہارن سنائی دیا تھا 

اسلام و علیکم 

سر انسپکٹر ہارث ڑپوٹنگ

کہہ کے اسنے دائم کو سلوٹ کیا تھا 

وعلیکم اسلام 

سر ہمیں ہمارے کانسٹیبل اور کچھ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ یہاں لڑکیاں اسمگل کرنا جارہا تھا عفان شاہ؟ 

ٹھیک سنا لڑکیاں آزاد ہوچکی ہیں آپ ان لڑکیوں کو انکے گھر ٹھیک سلامت انکے گھر پہنچائیں گے 

یس سر 

اور صرف اتنا ہی نہیں عفان شاہ ایک غدار بھی ہے 

واٹ؟ 

بٹ سر یہ کیسے؟ 

کیوں نہیں ہوسکتا اکثر ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن ہوتے ہیں بس ہم دیکھ نہیں پاتے

کہتے ہوئے دائم کا چہرہ سرد ہوا تھا 

اوکے انسپکٹر ہارث آپ کے دو بندے مجھے عفان شاہ کے گھر کے باہر چائیں ؟؟

ڈن سر ہوجائے گا 

اور ان کتوں کو اب سلاخوں کے پیچھے ڈالنا آپکا کام ہے 

سر آپ بالکل فکر نا کریں ایسا ہی ہوگا 

ہممم گڈ 

اور ایک اور آخری بات اور ۔۔۔

جی سر؟؟ 

میں کون ہوں میری پہچان کیا ہے کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔۔۔۔

Is That clear?  

یس سر 

Yes sir!  

ہممم اوکے گڈ لک ۔۔۔

Hmm ok Good luck! 

کہہ کے وہاں سے نکل گیا تھا ۔۔۔

جبکے انسپکٹر ہارث نے ایک نظر دائم کی پشت کو فخریہ انداز سے دیکھا تھا ۔۔۔

دائم اوئے دائم رک نا سن تو سہی 

کہاں جارہا ہے؟ 

میر نے کہا تھا 

پتہ نہیں  

کیا مطلب پتہ نہیں؟ 

میر میں کچھ ٹائم اکیلا رہنا چاہتا ہوں 

دائم نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا تھا 

اسکی لال انگارہ ہوتی آنکھیں کو دیکھ کے میر کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔۔۔

ہممم اوکے خیال رکھنا اپنا 

میر اسکے گلے لگتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

اوکے تو بھی خیال رکھنا ۔۔۔

الله حافظ ۔۔۔

کہہ کے وہ گاڑی کو زن سے بھاگتا ہوا اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا ۔۔۔

" میری دعا ہے مشال بھابھی کہ آپکی آنکھوں پہ لگی بےجا یقین کی پٹی اتر جائے میرا بھائی آپ سے کس قدر شدتِ محبت کرتا کے کاش آپ جان لیں "

اور انشاء الله دائم تو دیکھنا مشال بھابھی کو تیری شدتِ محبت کی قدر ہوگی تیری کہانی پوری ہوگی میرے بھائی تجھے بھی تیرے نصیب کی تمام خوشیاں ملیں گی میری دعا ہمیشہ تیرے ساتھ ہے " 

میر دل میں دائم سے مخاطب تھا ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کے تین بجے بھی وہ سڑکوں پہ آوارہ گردی کرتا رہا گاڑی دوڑتا رہا اسکی حالت دیکھ کے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی مسافر راستہ بھٹک جائے اسکی کوئی منزل نہ تھی وہ جہاں سے چلا تھا آج بھی وہی کھڑا تھا 

کچھ ضبط کی وجہ سے اور کچھ غصے کی وجہ سے اسکی آنکھیں لال انگارہ ہورہیں تھیں 

کیا تھا نا وہ؟  اور کیا سے کیا ہوگیا تھا 

محبت انسان کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیتی ہے انسان وہ ہرکام کر گزرتا ہے جو اسنے پہلے کبھی نا کیا ہو ۔۔۔۔

دائم نے بھی تو وہ سب کیا تھا نا مشال کے لیے 

پھر کیوں آج تک اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ خالی ہاتھ کھڑا تھا ۔۔۔

ہاتھ بڑھا کے اسنے میوزک پلیئر آن کیا تھا ۔۔۔

تو ہی ہے عاشقی تو ہی آوارگی

تو ہی ہے زندگی تو ہی جدا 

تو ابتدا میری تو انتہا میری 

تو ہی میرا جہاں تو ہی جدا 

کرب سے اسنے آنکھیں موند لیں تھیں 

یہ گانا اسکے جذبات کی عکاسی کررہا تھا فل وقت اور اسکو سننے میں بھی اچھا لگ رہا تھا سو اسنے بند کرنے کی زحمت نا کی تھی ۔۔۔

تو میرے روبرو ہر شے میں تو ہی تو 

تو پہلی آرزو تو ہی جدا 

ایک آنسو اسکی آنکھ سے بہہ نکلا تھا .

ہر عرصہ ذکر تیرا چھیڑے

ہر لمحہ دل چھلنی کرجائے

سجدے میں مانگتا نہیں پر

ضد آج ہے خدا مل جائے

تجھ میں لکھا ہوں میں 

تجھ سے جڑا ہوں میں 

تو میرا روگ ہے تو ہی دوا

آدھی ہے راہ گزر آدھا ہے آسمان

آدھی ہیں منزلیں آدھا جہاں

تیرا ہوں جان لے روح مجھ سے باندھ لے

بانہوں میں تھام لے کردے زندہ

ہر شے میں تو چپے چپے میں تو

خواہش میں تو قصے قصے میں تو

ہر ضد میں تو فکرو ذکروں میں تو

تو ہی ہے عاشقی تو ہی آوارگی 

تو ہی میرا جہاں تو ہی جدا

تو ابتدا میری تو انتہا میری 

تو ہی میرا جہاں تو ہی جدا ۔۔۔۔۔۔

💔💔💔💔💔💔

سر ۔۔۔

ہممم بولو جمال 

عفان شاہ نے کہا 

انسپکٹر عمیر آیا تھا اور اسنے ایک میسیج چھوڑا ہے آپکے لیے 

کیسا میسیج؟ 

وہ میں آپکو بعد میں بتاتا ہوں پہلے آپ میری بات سنیں 

ہممم بولو 

دیکھیں شاہ سر آج سے بیس سال پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں

مشال جو وہاں سے گزر رہی تھی سیکرٹری جمال کی بات پہ اسکے قدم خود بخود رکے تھے 

تمھارے کہنے کا مطلب کیا ہے جمال صاف صاف کہو 

دیکھیے شاہ صاحب آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں کس بارے میں بات کررہا ہوں 

میں آپکے بھائی شاہنواز شاہ اور آپکی بھابھی سویرا شاہ کی بات کررہا ہوں 

مشال کو اچانک ہی اپنے والدین کا نام جمال کے منہ سے سن کے تشویش نے آن گھیرا تھا مطلب کچھ تو تھا جو اسکی نظروں سے اوجھل تھا اور وہ کیا تھا؟ 

کیا دائم سچا تھا؟ 

آپ جانتے ہیں سر کہ ہم نے ان دونوں کو انکے درمیان غلطی فہمی پیدا کرکے مارا تھا ۔۔۔

مشال کو اپنے کان سائیں سائیں کرتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔

یہ سن کے اسکے سر پہ گویا ساتوں آسمان آن گرے تھے 

دو آنسو ٹوٹ کے اسکے چہرے کو بھگو چکے تھے

مشال میم کو اس بارے میں پتہ نہیں ہے اگر اسکے ہاتھ کوئی ذرا سا بھی ثبوت لگ گیا نا وہ ہمیں نہیں  چھوڑے گی ۔۔

جمال نے گھبراتے ہوئے کہا تھا 

اور تمھیں کس نے کہا ہے کہ اسے کوئی ثبوت ملے گا؟ 

عفان شاہ نے کہا

کیا مطلب ہے آپکا اس سے؟ 

ویسے تم بھی پورے گدھے ہو جمال جب اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا تھا میں نے اپنے بھائی اور بھابھی کو خود اپنے ہاتھوں سے مارا تھا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں نے وہ ثبوت نہ مٹائے ہوں جس میں اس چیز کا پتہ چل سکتا تھا کہ ان دونوں میاں بیوی کا قتل میں نے کیا ہے؟؟ 

کیا میں تمھیں اتنا بیوقوف نظر آتا ہوں کہ اپنے پاؤں پہ خود ہی کلہاڑی ماروں گا 

ہممم؟ 

عفان شاہ خباثت سے ہنسے تھے 

ہاہاہا واہ سر واہ آپ تو بڑے ہی شاطر دماغ نکلے ۔۔۔

ہاہا ہونا پڑتا ہے جمال یہ سب کرنا پڑتا ہے 

اور تمھیں تو پتہ ہے نا کہ جب عفان شاہ کو کسی چیز کی طلب ہو یا پسند آجائے اور وہ اسے آرام سے نہ ملے تو وہ اسے چھین لیتا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح میں نے سویرا کو اپنے بھائی شاہنواز سے چھینا تھا کیوں کے سویرا صرف میری تھی لیکن اسے تو پتہ نہیں میرے بھائی شاہنواز میں کیا نظر آیا کہ اس سے محبت کر بیٹھی بس پھر یہ جلن کبھی ختم نہ ہوئی مجھے صبر کرنا نہیں آیا اور میں نے ان دونوں کی جان لے لی اور شاہ شاہنواز بھائی کے بعد اس پوری بزنس اپمیائر کا مالک میں ہوں اور اب وقت آگیا ہے کہ مشال سے بھی اسکی باقی بچی ہوئی پراپرٹی ہتھیانے کا 

عفان شاہ نے کمینگی سے کہا 

ہممم ٹھیک ہے سر لیکن آدھا حصہ میرا بھی ہوگا 

ہممم ٹھیک ہے لے لینا تم بھی کیا یاد کروگے کہ کس سخی سے پالا پڑا تھا تمہارا ۔۔۔۔

اوکے میں پھر آج ہی پیپرز تیار کرواتا ہوں 

ہممم 

مشال جانے ہی لگی تھی کہ عفان شاہ کی آواز نے اسکے قدم روک لیے تھے 

دائم دُرانی جو اس سونے کی چڑیا مشال کا نام نہاد شوہر ہے اسکا قصہ بھی ختم کرو آج اور انسپکٹر عمیر نے جو بھی کہا ہے وہ مجھے روم میں آکے بتاؤ یہاں باہر بات کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے 

وہ کہتے ہوئے اپنے روم کی جانب بڑھے جبکے جمال بھی انلے پیچھے چل دیا تھا ۔۔

آج مشال کو حقیقت میں دائم کی کہی ہوئی ایک ایک بات سچ لگی تھی 

وہ اب مزید نہیں رونا چاہتی تھی اس نے اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو سزا دینی تھی اور اسے اس سب کے لیے ثبوت چاہیے تھا لہذا اس نے عفان شاہ کے روم کی طرف رخ کیا تھا اسے ہر حال میں اب دائم کی حفاظت کرنی تھی چاہے اب وہ اس سے نفرت کرے یا پھر محبت ۔۔۔

یہ لڑائی مشال کی تھی جسے اسے ہر حال میں جتنا تھا 

اور اپنی منزل تک پہنچنا تھا ۔۔۔

آنے والے وقت میں کس کی جیت ہونی تھی اور کس کی ہار یہ فیصلہ وقت نے کرنا تھا ۔۔۔

💥💥💥💥💥💥💥

مشال کو جب ان لڑکیوں کی اسمگلنگ اور عفان شاہ کے باقی کالے دھندوں کے بارے میں پتہ چلا تھا تب سے وہ ٹوٹ گئی تھی اسکے آنسو خشک ہوچکے تھے کتنا یقین کیا تھا اسنے عفان شاہ پہ انکو وہ اپنے پاپا کی جگہ مانتی تھی انکو وہ اپنے پاپا جیسا پیار کرتی تھی اور وہ کیا تھی انکی نظر میں محض ایک سونے کی چڑیا ۔۔۔؟؟

یکدم ہی اسے دائم کا خیال آیا بے ساختہ اسنے اسکو پکارا تھا کاش وہ یہاں اسکے پاس ہوتا تو وہ اسے بتاتی کہ ہاں وہ سچا تھا ہارا دیا تھا اسکی انا کو اسنے جیت گئی تھی اسکی شدتِ محبت ۔۔۔

لیکن یہ سب اتنا آسان نہ تھا محبت کو جب بار بار ٹھکرایا جائے نا تو محبت بے مول ہوجاتی ہے ۔۔۔

اور محبتوں کے کفارے تو ادا کرنے ہی پڑتے ہیں کبھی رسوا ہوکر کبھی خود کو اذیت میں رکھ کر ....۔۔

عفان شاہ نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا پھر زوار کو کال ملائی تھی 

اسلام و علیکم زوار بیٹا کیسے ہو ؟

وعلیکم اسلام 

ٹھیک ہوں 

اسنے سرسری سا جواب دیا 

اچھا سنو تمھارے لیے ایک گڈ نیوز ہے ۔۔

کیسی نیوز؟ 

زوار نے پوچھا 

مشال شاہ مینشن آئی ہوئی ہے تم اسے اپنے ساتھ جہاں مرضی لے جانا چاہو لے جا سکتے ہو ۔۔۔

واٹ آریو سیریس 

What Are you Serious ?

یس آئیم 

Yes I'm 

اوکے ٹھیک ہے میں کل آؤں گا ۔۔۔

لیکن تم ایک ہی شرط پہ اسے اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو ۔۔۔

کیسی شرط؟ 

تمہیں میرے کام کے بارے میں جو بھی پتہ کے اسکی انفارمیشن تم کسی کو نہیں دوگے نا ہی پولیس کے پاس جاکے میرے خلاف کچھ کہوگے؟ 

سمجھ گئے ؟

ٹھیک ہے۔۔

اور ہاں سنو 

تم سچ میں مشال سے شادی کرنا چاہتے ہو نا؟ 

ہاں ۔۔۔

زوار نے کہا 

ٹھیک ہے تو اسکی رقم بھی تمھیں مجھے ادا کرنا ہوگی 

اور رقم کب کہاں کتنی اور کس جگہ لے کے آنی ہے یہ تمھیں پتہ چل جائے گا ۔۔۔

ویسے افسوس ہے مجھے عفان انکل مشال آپ پہ کتنا یقین کرتی ہے اور آپ کی اسکے بارے میں کتنی گھٹیا سوچ ہے اپنی ہی بھتیجی کا سودا کرنے چلے ہیں آپ؟؟ 

اس بارے میں تم کون ہوتے ہو مجھے کچھ کہنے والے 

تمھیں جتنا کہا کے اتنا کرو سمجھ گئے ورنہ مشال کو بھول جاؤ ۔۔۔

کہہ کے انھوں نے کال کاٹ دی تھی ۔۔۔

عفان شاہ سو رہے تھے کہ اچانک ہی انکی سیل ٹون بجی ۔۔۔

او ہو صبح صبح کس کو موت پڑ گئی ہے مجھے تو کوئی سکون سے سونے بھی نہیں دیتا ۔۔۔

اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے انھوں نے فون پک کیا ۔۔۔

ہاں بولو کیا کام تھا صبح صبح؟؟ 

سر وہ کل رات سب لڑکیوں بھاگ نکلی ہیں ۔۔۔

اور ہمیں آج  ان لڑکیاں Ronaldo' کو اسمگل کرنا تھا اسکے حوالے کرنا تھا۔۔

جمال فکر مندی سے گویا ہوا 

واٹ؟؟  

واٹ دا ہیل از گوئنگ آن؟ 

What the hell is going on?? 

کس نے کیا یہ سب؟ 

سر یہ تو پتہ نہیں چل سکا لیکن وہ لوگ قریباً پندرہ بندے تھے ہر کسی نے فل بلیک کلر کے ڈریس کے ساتھ بلیک ماسک سے اپنا چہرہ کور کیا ہوا تھا ۔۔۔

اور ہمارے بندے ان کو دیکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے 

انکے فوراً بعد ہی پولیس آگئی تھی اور ہمارے بیشتر بندوں کو اپنی حراست لےلیا ہے ۔۔۔

او مائے گاڈ جمال اٹس ٹو مچ

Oh My God Jamal it's too Much.... 

تمھیں پتہ ہے نا Ronaldo  کو پتہ چلا تو وہ مجھے نہیں چھوڑے گا؟ 

سر Ronaldo' کا مینیجر کل رات سے مجھے کالز کررہا ہے بٹ میں کس منہ سے کال پک کروں؟؟ 

او ہو تم لوگوں کو میں نے صرف ٹھوسنے کے لیے رکھا ہوا ہے کیا؟ 

حرام خوروں 

اب تک تک مجھے کال مت کرنا جب تک کوئی اچھی خبر نہ ملے سمجھے ورنہ میری گن کا نشانہ تم ہوگے۔۔۔

کہہ کے عفان شاہ نے کال کاٹ دی تھی ۔۔

کون ہے یہ جو میرے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑا ہے ۔۔۔

کچھ سوچتے ہوئے انھوں نے انسپکٹر عمیر کو کال ملائی تھی 

اسلام و علیکم 

کیسے ہو انسپکٹر عمیر؟ 

وعلیکم اسلام 

جی میں ٹھیک ہوں آپ بتائیں اس ناچیز کو کیسے یاد کیا آپ نے؟؟ 

انسپکٹر عمیر مجھے تمہاری مدد چاہیے ۔۔۔

او آج تو کرشمہ ہی ہوگیا کہ آپ خود مجھے سے مدد مانگ رہے ہیں؟ 

دیکھو انسپکٹر عمیر جانتا ہوں میں اس دن غصے میں تھا بس اس لیے میں نے کچھ زیادہ ہی بول دیا تھا ۔۔۔

اٹس اوکے لیکن آپ کو پتہ ہے کے میری ڈیمانڈ کے بارے میں  ؟؟

عفان شاہ نے غصہ ضبط کرتے ہوئے لب بھینچے تھے 

ہممم جانتا ہوں فکر مت کرو تمھارا حصہ تمھیں مل جائے گا ۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے تو بتائیں کیسی مدد چاہیے آپکو مجھ سے ؟؟

دارصل جو ہم لڑکیاں اسمگل کرنے والے تھے کل رات انکو کسی نے ازاد کرادیا ہے اتنا ہی نہیں پولیس میرے بندوں کو بھی گرفتار کرچکی ہے اور تمھیں کچھ پتہ ہی نہیں؟

سوری میں پچھلے ایک ہفتے سے اسلام آباد نہیں تھا کل ہی آیا ہوں رات میں اور فون آف تھا میرا ۔۔۔

ہممم ۔۔

تو اب تمھیں تو پتہ ہے نا Ronaldo' نہیں چھوڑے گا مجھے اگر اسکو بھنک بھی پڑگئی کہ لڑکیاں بھاگ گئی ہیں؟؟ 

ویسے بھی ہم نے ایڈونس میں اس سے رقم لی تھی۔۔

ہممم ٹھیک ہے آپ فکر مت  کریں لڑکیوں کا انتظام ہوجائے گا کل تک آپ چار پانچ دن کے بعد Ronaldo' سے ملنے کا پروگرام بنا لیجئیے اور Ronaldo' کو بھی بتا دیجیے گا کہ ہمیں اپنا وعدہ یاد ہے ۔۔۔

ہمم ٹھیک ہے انسپکٹر عمیر ایک بات اور

بولیں؟؟ 

کل رات جس نے بھی یہ کیا ہے اسکا پتہ نکلوانا تمہارا کام ہے وہ جو کوئی بھی ہے اسکا نام پتہ کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے اس سے جڑے تمام رشتے ہر ایک چھوٹی بات کا پتہ چلاؤ اور کل ہی کام ہوجانا چاہیے؟؟ 

ٹھیک ہے ۔۔۔

کہہ کے رابطہ منقطع کردیا تھا عفان شاہ نے 

🤪🤪🤪🤪🤪🤪

لگتا ہے تم سے دو دو ہاتھ کرنے ہی پڑیں گے تم جو کوئی بھی ہو عفان شاہ کو اتنی آسانی سے برباد نہیں کرسکتے اب تمھارے ساتھ جو کچھ بھی ہوگا اس سب کے ذمہ دار تم خود ہوگے ۔۔۔

مشال نے کئی دفعہ دائم کو کال کرنا کا سوچا تھا لیکن شرمندگی کے باعث ارادہ ترک کردیا کس منہ سے وہ اسکا سامنا کیا جواب دیتی اسے دھڑلے سے اسنے دائم کو دھتکارتے ہوئے عفان شاہ کی سائیڈ لی تھی انکے حق میں کھڑئی ہوئی تھی لیکن انھوں نے اسکو ہی آج تک دھوکے میں رکھا تھا ۔۔۔

وہ ٹوٹ کے بکھر چکی تھی اسے کوئی سمیٹنے والا نہ تھا جو تھا اسے وہ خود سے خود ہی دور کرچکی تھی 

اسے اپنے ماما پاپا کی بہت یاد آرہی تھی اسکی اجڑئی ہوئی حالت اس بات کی گواہ تھی کہ مشال شاہ ٹوٹ چکی ہے اسے اسکے اپنوں نے ہی توڑا ہے شدت گریہ سے سرخ ہوتی آنکھیں کیا نہیں تھا ان کالی خوبصورت آنکھوں میں درد ، کرب،  شدت،  نفرت،  شکوہ،  کل سے اسنے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اسکو دائم کی یاد شدت سے آرہی تھی آنکھیں اسکا دیدار کرنے کے لیے بےتاب تھیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟ ۔۔۔

روتے روتے ہوئے اسکی آنکھ لگ چکی تھی ۔۔۔

😐😐😐😐😐😣

بیس سال پہلے :

ماضی :

عفان شاہ اور شاہنواز شاہ دونوں بھائی تھے انکے والد کا انتقال تب ہی ہوگیا تھا جب وہ دونوں محض پندرہ سال کے تھے دولت کی کمی نا تھی ان لوگوں کو اپنی محنت کے بل بوتے پہ شاہنواز شاہ نے مارکیٹ میں اپنا نام اور اونچا کرلیا تھا اس دوران انکی والدہ بھی خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں عفان شاہ کو شاہنواز شاہ نے اپنے بچوں کی طرح پالا تھا لیکن عفان شاہ ہمیشہ ہی شاہنواز شاہ سے جیلس ہوتے آئے تھے ایک تو انکی کامیابی کی وجہ سے دوسرا سویرا شاہ کی وجہ سے 

کیوں کے وہ بھی سویرا شاہ کو پسند کرتے تھے اور سویرا شاہنواز شاہ سے محبت کرتی تھیں ۔۔۔

سویرا شاہ ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں انکے ہاں بھی دولت کی ریل پیل تھی سویراہ شاہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں 

وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکا ہی میں سیٹلڈ settled تھیں اور اپنی سٹڈی کمپلیت کرکے پاکستان گھومنے آئی تھیں کہ  ایک دن وہ اپنی فرینڈ کی برتھ ڈے پارٹی میں آئیں تھیں تو اچانک ہی انکی ملاقات شاہنواز شاہ سے ہوئی تھی 

دراصل شاہنواز شاہ کی دوست بھی وہی لڑکی تھیں جو کے سویرا شاہ کی دوست تھیں 

شاہنواز شاہ کو تو لو اٹ فرسٹ سائیٹ ہی ہوگیا تھا 

لیکن سویرا شاہ نے ہاں کرنے میں تھوڑی دیر لگائی تھی کیوں کے انکو لو اٹ فرسٹ سائیٹ پہ یقین نا تھا لیکن پھر انکو بھی یقین ہوگیا تھا کیوں کے شاہنواز شاہ کی نیت میں کھوٹ نا تھا سچی محبت کی تھی

سو وہ انکی محبت پہ دل سے ایمان لے آئیں تھیں 

شاہنواز شاہ کا بزنس انٹرنیشنل لیول پہ پہنچ چکا تھا ساتھ ہی انہوں نے سویرا شاہ اور اپنی شادی کا پلان بھی بنالیا تھا شادی سے چند دن قبل وہ لوگ شادی کی شوپنگ کرکے گھر واپس آئے تو شاہنواز شاہ سویرا شاہ کو بھی اپنے ساتھ اپنے عالیشان محل میں لے آئے تھے

اتفاق سے آج عفان شاہ بھی گھر پر ہی تھے اور سویرا شاہ کو دیکھتے ہی وہ اپنا دل ہار بیٹھے تھے اس سے پہلے کہ وہ انھیں اپنے جذبات جو وہ انکے لیے رکھتے تھے بتاتے شاہنواز شاہ نے انھیں اپنے اور سویرا شاہ کی شادی کے بارے میں بتایا جسے سن کے انھیں انتہائی قسم کا طیش تو آیا لیکن وہ کنڑول کرگئے اور انکو مبارکباد دیتے ہوئے گھر سے نکل گئے تھے ۔۔

دن بہ دن یہ حسد اور جلن بڑھتا ہی چلا گیا تھا سویرا شاہ اور شاہنواز شاہ کی شادی کو بھی ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا تھا لیکن انکی محبت دن بہ دن اور بڑھتی ہی چلی گئی جسے دیکھ دیکھ کے عفان شاہ من ہی من میں کڑھتے تھے ۔۔۔

شاہنواز شاہ اور سویرا شاہ کی شادی کے ایک سال بعد ہی مشال نے جنم لیا وہ بہت، خوبصورت تھی بالکل اپنی ماما کی طرح 

شاہنواز شاہ اور سویرا شاہ بھی مشال کے آنے سے بہت خوش تھے ۔۔

لیکن یہ خوشی کچھ ہی وقت کی تھیں ۔۔۔

تین سال گزر چکے تھے اس عرصے میں مشال تین سال کی ہوچکی تھی 

ایک دفعہ شاہنواز شاہ کو اچانک ہی  آفس کی اہم میٹنگ کے لیے نکلنا پڑا تھا ۔ ۔

شام کا وقت تھا آسمان پہ سرمئی رنگ کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔۔۔

" کہاں جارہے ہیں شاہ " ؟

سویرا شاہ شاہنواز شاہ کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئی بولیں ۔۔۔

ایک بازو انھوں نے سویرا شاہ کے گرد حمائل کیا تھا 

جانِ شاہ مینیجر کی کال آئی تھی کوئی اہم میٹنگ اس لیے جارہا ہوں ۔۔۔

امم ٹھیک ہے جائیں آپ لیکن جلدی واپس آنے کی کوشش کرئیے گا 

ہممم اوکے وہ انکی پیشانی پہ اپنے محبت کی مہر ثبت کرتے ہوئے جانے ہی لگے تھے کہ ایک مرتبہ پھر سویرا شاہ انکے گلے سے لگ گئیں تھیں 

ارے کیا ہوا جانِ شاہ؟.

شاہ ممم مجھے پتہ نہیں کیوں ڈر سا لگ رہا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے بہت برا، ۔۔۔

ارے جانِ شاہ کچھ نہیں ہوگا تم پریشان نہ ہو ۔۔۔

کہہ کے وہ چل گئے 

چند ہی منٹوں کے بعد شاہنواز شاہ کی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی شاہ منینشن سے نکلی تھی 

سویرا شاہ  عجیب سی بےچینی اور پریشانی کا شکار تھیں ۔۔

دو گھنٹے ہونے کو تھے لیکن شاہنواز شاہ ابھی تک نہیں  آئے تھے سویرا شاہ پریشان ہونے لگیں تھیں 

وہ ابھی باہر جانے ہی لگیں تھیں کے انھیں باہر سے عفان شاہ اندر آتے ہوئے دکھائی دئیے ۔۔۔

ارے عفان بھائی آپ 

ہاں بھابھی 

میں ۔۔۔

کیوں کیا ہوا؟ 

عفان شاہ کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں کافی کے دو مگ رکھے تھے 

عفان بھائی آپکو شاہنواز کا پتہ ہے وہ میٹنگ کےلیے گئے تھے لیکن ابھی تک نہیں آئے واپس 

بھابھی وہ دراصل ابھی بھائی کا فون آیا تھا ایکچولی انکے سیل کی بیٹری ڈاؤن تھی اس لیے اپنے مینیجر کا سیل لےکے انھوں نے مجھے کال کرکے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور واپس آرہے ہیں ۔۔

لیکن انھوں نے مجھے کیوں نہیں کال کی؟ 

بھابھی آپ تو جانتی ہیں نا کہ شاہنواز بھائی آپکے معاملے میں کس قدر پوسیسو ہیں وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپکا نمبر کسی انجان آدمی کے پاس جائے بے شک انکا مینیجر ہی کیوں نہ ہو اس لیے ۔۔۔

عفان شاہ نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا تھا 

ہممم اچھا ٹھیک ہے بھائی 

بھابھی آپ کافی پئیں میں آتا ہوں پانچ منٹ میں 

وہ دونوں مگ وہی چھوڑ کے باہر چلے گئے 

دس منٹ کے بعد واپس آئے تو سویرا شاہ کافی پی رہی تھیں ۔۔۔

بھائی یہ کافی کس لیے سویرا شاہ نے پوچھا 

بھابھی وہ دراصل میں اپنے لیے بنا رہا تھا تو سوچا آپکے لیے بھی بنادوں بس اسی لیے 

عفان شاہ نے کہا 

تھینک یو بھائی 

سویرا شاہ مسکرائیں تھیں اور شاید آخری بار ہی مسکرائیں تھیں ۔۔۔

کافی ختم کرکے انکو پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک زودار چکر آیا اس سے پہلے کے وہ گرتیں عفان شاہ نے انھیں اپنی بانہوں میں اٹھا لیا تھا 

اور بیڈ پہ جاکے لٹایا 

اور انکے قریب ہی بیٹھ کے انکے ایک ایک نقش کو غور غور سے دیکھنے لگے 

دراصل عفان شاہ نے سویرا شاہ کی کافی میں نشے کی دوا ملا دی تھی ۔۔

جانتی ہو تم سویرا تم بہت خوبصورت ہو کاش تم نے میرے بھائی کی جگہ مجھے اپنایا ہوتا تو آج یہ سب نا ہوتا جو ہوا ہے اور ہونے والا ہے ۔۔

ایک دفعہ انکو دیکھنے کے بعد وہ اپنی شرٹ اتارتے ہیں 

اور سویرا شاہ کا ڈوپٹہ اتار کے سائیڈ پہ اتار کے رکھتے ہیں ۔۔۔

اور ڈریسنگ ٹیبل سے ریڈ کلر کی لپ اسٹک اٹھا کے اپنی گردن پہ اور اپنے چہرے پہ نشان بنائے 

وہ نجانے زبردستی کیوں نہیں کرپائے تھے سویرا شاہ سے ؟؟

لیکن وہ جو کرنے جارہے تھے وہ بھی گناہ سے کم نا تھا کسی کی زندگی برباد کرکے وہ خود کیسے سکون سے رہے سکتے تھے؟ 

اپنا کام ختم کرنے کے بعد وہ وہی لیٹ کے سونے کا ناٹک کرنے لگے کیوں شاہنواز کی کتنی ہی کالز آچکی تھیں سویرا شاہ کے سیل پہ مطلب کے وہ کسی بھی ٹائم آتے ہی ہوں گے ۔۔۔

سویرا کدھر ہو یار کب سے کال کررہا تھا تمھیں 

وہ کہتے ہوئے اوپر آئے ساتھ ہی اپنے روم کا دروازہ کھولا 

تو وہ لڑکھڑا کے رہ گئے 

عفان شاہ اور سویرا شاہ ایک ساتھ وہ بھی ایک انتہائی شرمناک حالت میں ۔۔۔

کیا ہورہا ہے یہاں؟؟ 

شاہنواز شاہ اتنا اونچا بولے کہ شاہ منشین کی دیواریں دہل اٹھیں تھیں 

عفان شاہ نے اپنی آنکھیں بامشکل کھولیں 

) ناٹک کرتے ہوئے کھولیں )

بب ب بھائی آپ 

وہ ایک ہی جست میں عفان شاہ کے قریب پہنچے اور ایک ہی جھٹکے میں انکو گریبان سے دبوچا 

کیا کررہے تھے تم دونوں ساتھ میں؟  اور کیا کیا کے تم نے سویرا کے ساتھ ؟؟

بھائی مجھے نہیں پتہ وووہ میں کافی کے مگ چھوڑ کے باہر آیا تو بھابھی کافی پی رہیں تھیں میں نے بھی کافی پی لیکن اچانک ہی مجھے چکر آنے لگے اور یج یہ سس سس سب ؟؟

شٹ اپ یو جسٹ شٹ اپ 

دفع ہوجاؤ میرے سامنے سے تم بیغرت انسان 

بھائی میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا وہ تو سویرا بھابھی نے آپ کے جانے کے بعد مجھ سے کہا کہ وہ مجھ سے پیار کرنے لگیں ہیں آپ سے جلد ہی طلاق لے کے مجھ سے شادی کریں گی اور اور مجھے لگتا ہے کافی میں نشے دوا بھی انہوں نے ہی ملائی ہے بھائی 

آئی سوئیر بھائی کچھ نہیں کیا میں نے ۔۔۔

شاہنواز شاہ اب سویرا شاہ کی جانب بڑھے جہاں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ پڑی تھیں آگے بڑھ کے انھوں نے پانی کا پڑا ہوا جگ اٹھایا جو سائیڈ ٹیبل پہ پڑا تھا 

اور پورا کا پورا سویرا شاہ کے اوپر انڈیل دیا تھا 

بامشکل انھوں نے اپنی آنکھیں کھولیں 

سب کچھ دھندلا دھندلا دیکھائی دے رہا تھا 

ایک ہی جھٹکے میں وہ سویرا شاہ کا بازو دبوچتے واشروم میں لائے اور شاور کھول کے سویرا شاہ کو نیچے کھڑا کیا سویرا شاہ پوری طرح بھیگ چکی تھیں اب جاکے انکے حواس بیدار ہوئے تھے 

اور خود کو ایسی حالت میں دیکھ کر وہ ساکت رہ گئیں تھیں 

ششش شاہ بب بات سنیں 

شٹ اپ جسٹ شٹ اپ 

اپنی گندی زبان سے میرا نام بھی مت لینا سمجھ آئی 

شاہنواز شاہ دھاڑے تھے جس پہ سویرا شاہ کانپ کے رہ گئیں تھیں 

مم مم  میں نے کچھ نہیں کیا 

عفان بھائی آپ شاہنواز کو کچھ بتاتے کیوں نہیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا! 

کتنا بھروسہ کیا تھا تم پہ میں نے محبت کی تھی تم سے کتنی شدت سے لیکن تم نے کیا کیا دھوکا دیا 

ارے جب مجھ سے محبت ہی نہیں تھی تو محبت کا ناٹک کیوں کیا 

کیوں مجھے برباد کیا تم نے ۔۔۔

ہاں آخر کیوں 

سویرا شاہ کو وہ بازوؤں سے پکڑ کے جھنجھوڑتے ہوئے بولے آنکھیں ضبط سے لال انگارہ ہوچکی تھیں 

مم مجھ آپکی قسم ہے شاہ میں نے کچھ ایسا نہیں کیا دھوکا نہیں دیا آپکو! 

بھابھی خدا کا خوف کریں کیوں جھوٹ بول رہی ہیں آپ نے ہی مجھے سے کہا تھا نا کہ مجھ سے محبت کرنے لگیں ہیں آپ اور بھائی سے طلاق لینا چاہتی ہیں؟ 

نن نن نہیں عفان بھائی آاللل آپ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں خدا کا واسطہ ہے مجھ پہ رحم کھائیں میں نے آپکا کیا بگاڑا ہے کک کچھ نہیں کیا میں نے میرا کردار پاک صاف ہے پلیز شاہ آپ تو یقین کریں میرا میں بہت پیار کرتی ہوں آپ سے ایسا سوچ بھی نہیں سکتی! 

وہ انکے قریب آکے انکا ہاتھ پکڑ کے بولتی ہیں تو اچانک ہی شاہنواز انکا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں ۔۔۔

دور ہٹو ! مجھ سے تم گھٹیا عورت میرے قریب مت آنا دفع ہوجاؤ میری آنکھوں کے سامنے ۔۔۔

بہت شوق ہے نہ تمھیں مجھ سے طلاق لینے کا ابھی پورا کرتا ہوں شوق تمہارا ۔۔۔

نن نن نن نو نہیں شاہنواز پلیز نہیں 

سویرا شاہ بلکتی روتی ہوئیں تڑپتی ہوئیں انکو منع کرتی ہیں لیکن ان کی قسمت میں جدائی لکھی جاچکی تھی ۔۔۔

میں شاہنواز شاہ اپنے پورے ہوش و حواس میں سویرا شاہ کو

طلاق دیتا ہوں! 

طلاق دیتا ہوں! 

طلاق دیتا ہوں! 

کہہ کے وہ وہاں سے نکل گئے تھے ۔۔۔

سویرا شاہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئیں تھیں 

عفان شاہ سویرا شاہ کے قریب آئے تھے اور وہی نیچے بیٹھ کے انکا چہرہ اپنی ایک انگلی سے اوپر کیا تھا

سویرا بھابھی اوپس سویرا کاش تم نے مجھے چنا ہوتا میرے بھائی کو چھوڑ کے تو آج تمہاری یہ حالت نہ ہوتی لیکن تمھیں پتہ نہیں کیا نظر آیا ان میں جو مجھے ٹھکرا کے انکا انتخاب کیا تم نے اب بھگتو ڈارلنگ۔۔۔۔

وہ ہنستے ہوئے خباثت سے بولے تھے 

سویرا شاہ نے کی آنکھیں شدت گریہ سے سرخ ہوچکی تھیں جو کے اس بات کا پتہ دے رہی تھیں کہ وہ برباد ہوچکی ہیں انکی دنیا لٹ چکی ہے ۔۔۔

آپ نے تو کہا تھا کہ مجھ پہ ہمیشہ بھروسہ کریں گے مجھے کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے تو کیوں نہیں کیا یقین کیوں چھوڑ دیا کیوں توڑ دئیے وہ وعدے وہ قسمیں جو کھائی تھیں ۔۔۔

آنسو انکے چہرے کو بھگو رہے تھے 

اچانک ہی سویرا شاہ اٹھیں اور نیچے کی جانب بھاگیں تھیں تاکہ شاہنواز شاہ کو روک سکے لیکن انھوں نے جب دوسری سیڑھی پہ قدم رکھا اور انکو ایک چکر آیا تھا بیلنس برقرار نا رکھ سکیں تھیں خون میں لت پت بھی وہ شاہنواز شاہ کو پکار رہی تھیں شاید وہ ظالم آجائے لیکن نہیں آیا اور انکی امید کی طرح انکی زندگی کی ڈور بھی ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔

عفان شاہ نے جب سویرا شاہ کو خون میں لت پت دیکھا تو فوراً انکے پاس پہنچے تھے 

ساتھ ہی انکا سیکرٹری جمال بھی تھا ۔۔۔

سر سویرا میم اب ہم میں نہیں ہیں ۔۔۔

جمال نے کہا 

ہمممم ٹھیک ہے اسکی تدفین کا انتظام کرو اور ہاں سنو میڈیا والوں کا گھر میں گھسنے نہ دینا باقی میڈیا سے بعد میں خود بات کرلوں گا ۔۔۔

عفان شاہ بولے تھے۔۔۔

💔💔💔💔💔

شاہنواز شاہ اندھا دھند گاڑی سڑکوں پہ دوڑا رہے تھے ۔۔

وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ سویرا، شاہ ایسا کرسکتی ہیں لیکن آنکھوں سے دیکھا ہوا بھی جھٹلایا نا جاسکتا تھا مگر بعض اوقات ہم لوگ حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں انجان ہوتے، ہیں ہمیں کہانی کا ایک پہلو دیکھائی دے رہا ہوتا ہے جبکے کہانی کے ہمشیہ کئی موڑ اور رخ ہوتے، ہیں ۔۔۔

انکی قسمت میں مل کے بچھڑنا لکھا تھا سو وہ بچھڑ گئے تھے ۔۔۔ وقت، تھم گیا تھا سانسیں رک گئیں تھیں 

عفان شاہ کے الفاط انکے ذہن پہ ہتھوڑے کی مانند برس رہے تھے ۔۔۔

سویرا بھابھی نے کہا تھا کہ وہ مجھ سے پیار کرنے لگیں ہیں آپ سے طلاق لے لیں گی 

کیوں کیا آخر تم نے ایسا سویرا ایک دفعہ بھی میرے بارے میں میری محبت کے بارے میں ہماری بیٹی مشال کے بارے میں نہیں سوچا تم نے 

کرب سے آنکھیں موند لی تھیں انھوں نے ۔۔۔

میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تم نے سویرا تمہیں کہیں چین نہیں ملے گا تڑپوگی تم میرے لیے جیسے میں تمہارے لیے تڑپ رہا ہوں لیکن میں نہیں آؤں گا کبھی نہیں شکل دیکھنے کو ترسو گی اور سکون نہیں ملے گا تمھیں انشاء الله تمہاری شکل سے بھی نفرت ہے مجھے آئی جسٹ ہیٹ یو 

I just hate you!  

وہ نفرت سے پھنکارے تھے 

اور زور سے اپنا ہاتھ سٹیرنگ پہ مارا تھا اس چیز سے بے خبر کے سامنے ایک درخت ہے ۔۔۔

اور بس یہ انکو اپنا ذہن اندھیروں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔۔۔

آخری وقت میں بھی انکو اپنے سامنے اس دشمنِ جان کا خوبصورت چہرہ لہراتا ہوا دیکھائی دیا تھا۔۔۔

دو پیار کرنے والوں کو انکے دشمن جدا کرنے میں کامیاب رہے تھے    ۔۔۔

آج شاہنواز شاہ اور سویرا شاہ کی کہانی ختم ہوچکی تھی۔۔۔

عفان شاہ نے صرف قتل ہی نہیں کیا تھا بلکہ مشال کو یتیم بھی کردیا تھا۔۔۔

صاحب وہ چھوٹی بی بی بہت رو رہی ہیں لگتا ہے انھیں بھوک لگی ہے ۔۔۔

تو جاکے اسکو دودھ بناکے دو میرا منہ کیا، دیکھ رہی ہو؟؟ 

جی صاحب 

ملازمہ کہتی جانے لگی کہ پھر سے عفان شاہ نے کہا مشال کا بہت خیال رکھو کسی، قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے اسے، سمجھ، آئی؟ 

جج جی، صاحب 

ملازمہ کہتی ہوئی وہاں سے پھرتی، سے نکلی تھی۔۔۔

بٹ سر آپ اپنے بھائی کی بیٹی کا اتنا خیال کیوں رکھ رہے ہیں؟؟ 

وہ سونے کی چڑیا ہے اس لیے ۔۔۔

مطلب؟؟ 

مطلب کچھ نہیں تم اپنے کام پہ دھیان دوسمجھ آئی جتنا کہاجائے اتنا ہی کیا، کرو ۔۔

جی سر، اوکے جمال کہتا وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تھا۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤

حال ۔۔۔

عفان شاہ اپنے آفس سے نکل رہے تھے کہ انکی سیل ٹون بجی تھی ۔۔۔

ہاں انسپکٹر عمیر بولو؟؟ 

کام ہوگیا ہے لڑکیوں کا بندوبست ہوگیا ہے اور مجھے کچھ پتہ بھی چلا ہے اس بلیک ہوڈی والے کے بارے میں جس نے ان لڑکیوں کو آزاد کروایا تھا ۔۔۔

کون ہے وہ؟؟ 

میر ارسلان بٹ نام ہے اسکا ISI سے تعلق ہے اسکا ۔۔۔

اور صرف یہ ہی نہیں شہر کے مشہور بزنس مین واجد خان کا ہونے والا داماد ہے!!! ماہ نور خان کے ساتھ جو مشال کی بیسٹ فرینڈ ہے

ہممم اچھا کچھ اور؟؟ 

ہاں مجھے لگتا ہے کہ میر کا اس دائم دُرانی سے کوئی تعلق ہے یہ نہیں پتہ کے کیا تعلق ہے ۔۔۔

پھر تو اور مزا آنے والا ہے کیوں کے دونوں ہی میرے دشمن ہیں 

اب بتائیں کہ میر ارسلان بٹ کا کیا کرنا ہے؟؟ 

اسکی شادی بھی جلد ہی ہونے والی ہے ۔۔

انسپکٹر عمیر میں ان دونوں کو برباد کردوں گا لیکن شروعات میر ارسلان بٹ سے ہوگی میں انکی صرف پروفیشنل ہی نہیں انکی ذاتی زندگی بھی برباد کردوں گا !!!

ماہ نور خان خود اس شادی سے انکار کرے گی اب اور اس سب کے لیے مجھے ایک لڑکی کی ضرورت ہے!!! 

سمجھ گئے؟؟ 

جی ہاں سمجھ گیا ٹھیک ہے کل تک کوشش کروں گا کہ کوئی مل جائے 

جتنا پیسہ کہے دے دینا مجھے بس ان دونوں کو برباد کرنا ہے جنہوں نے مجھے برباد کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔

ٹھیک ہے شاہ صاحب 

ہممم مجھے وقفے وقفے سے کال کرکے اپ ڈیٹ کرتے رہنا ۔۔۔

اوکے!!! 

کال ڈسکنٹ کردی گئی تھی ۔۔۔

"مجھ سے الجھنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے میر ارسلان بٹ اور میری عادت ہے کہ میں اپنے دشمن کا نام و نشان مٹا کے ہی دم لیتا ہوں تیار ہوجاؤ کیوں کے اب جو تمہاری زندگی میں طوفان آنے والا ہے وہ تمھیں تم سے جڑی ہر ایک چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دے گا "

ماہ نور آجکل فری تھی ابھی تک اس نے ایڈمیشن نہ لیا تھا کیوں کے جب تک مشال نہ ساتھ ہوتی اسے بالکل بھی مزا نہ آتا وہ مشال کو بہت مس کرتی تھی کتنی ہی مرتبہ وہ روچکی تھی اس کے لیے ابھی بھی وہ نماز پڑھ کے فارغ ہوئی تو سب سے پہلے اسکی سلامتی کےلیے دعا مانگی تھی اور اس سے ملنے کی بھی شاید قبولیت کا وقت تھا اور دعا قبول ہوچکی تھی ۔۔۔

وہ جیسے ہی نماز سے فارغ ہوئی اسکا سیل رنگ ہوا تھا 

نمبر دیکھے بنا اسنے کال اٹھالی تھی 

اسلام و علیکم 

وعلیکم اسلام 

نور 

مم مشال تم کیسی ہو میری جان ٹھیک تو ہونا؟ 

ہاں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟ 

ٹھیک ہوں 

تم کہاں چلی جاتی ہو مشال بار بار؟ 

کچھ اتا پتا نہیں تھا تمہارا؟؟ 

میں تمھیں سب بتاؤں گی ماہ نور ۔۔۔

مجھے پی پلیز تمہاری ضرورت ہے ۔۔۔

بہت اکیلی ہوں میں 

مشال پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی 

مشال بےبی سب ٹھیک ہے نا؟؟ 

کک کچھ بھی ٹھیک نہیں  ہے سب برباد ہوگیا ہے!!! 

تم میرا ویٹ کروں میں سب آرہی ہوں تمہارے پاس

کہاں تم اس وقت؟ 

شاہ مینشن میں ۔۔۔

 اوکے ڈونٹ وری میں ساتھ ہوں اپنی مشی کے 

کہہ کے وہ کال کٹ کرکے نیچے کی جانب بھاگی تھی 

ماہ نور بیٹا کہاں جارہی ہو؟ 

مما مشال کی کال آئی تھی وہ شاہ مینشن میں ہے اسی سے ملنے جارہی ہوں ۔۔۔

یا اللہ خیر بیٹا ٹھیک ہے نا وہ؟ 

ہاں ٹھیک ہے ماما میں مل کے آتی ہوں اوکے! 

اوکے بیٹا دھیان سے اللہ حافظ 

الله حافظ ۔۔۔

آدھے گھنٹے میں وہ شاہ مینشن پہنچ چکی تھی 

مشال مشال کہاں ہو تم یار وہ نیچے سے ہی بولی تھی پھر اور بھاگتی ہوئی آئی تھی اور مشال کے روم کا دروازہ کھولا تو وہ سامنے ہی بیڈ پہ بیٹھے گھٹنوں میں منہ دئیے رورہی تھی 

مشال میری جان وہ بھاگ کے مشال کے گلے لگی تھی تم ٹھیک ہو نا مشی؟ 

مشال نے اسکی جانب دیکھا اور پھر شدت سے رو دی تھی ۔۔۔

ماہ نور اسکے اسطرح کے انداز پہ گھبرا ہی گئی تھی اچھا اچھا تم پہلے پانی پیو پھر بات کرتے ہیں اوکے ماہ نور نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑا پانی کا گلاس مشال کو تھمایا جسکو وہ ایک ہی سانس میں پی گئی تھی۔۔

اوکے ناؤ ریلکس!. 

Ok Now Relax!

اب بتاؤ کیوں رورہی ہو؟؟ 

پھر مشال نے اسکو ساری بات بتادی تھی دائم کا اس سے شادی کرنا عفان شاہ کا سچ ہر بات اسنے اس سے شیئر کی کیوں کے وہ اسکی بیسٹ فرینڈ تھی 

او مائے گاڈ اتنا بڑا دھوکہ وہ بھی عفان انکل سوچا نہیں تھا میں نے 

اسکا مطلب ہے کہ میر کو پتہ تھا کہ تم کہاں ہو پھر بھی جھوٹ بولا اس نے مجھ سے ماہ نور اب کافی غصے میں تھی ۔۔۔

کیا مطلب میر تمھیں کیوں بتائے گا تمھیں ٹھیک ہے وہ دائم کا دوست ہے لیکن تمہارا اس سے کیا رشتہ ہے؟ 

مشال نے ماہ نور کی جانب ناسمجھی سے دیکھا تھا ماہ نور نے ایک نظر مشال کو دیکھا پھر بولی 

وہ بندر اب تمہارا جیجو ہے مطلب بہنوئی ہے تمہارا... 

واٹ؟ 

مشال کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں تھیں 

ہممم ماہ نور مسکراتے ہوئی بولی 

اچھا لیکن یہ سب کیسے؟ 

پھر ماہ نور نے ساری بات اسکے گوش گزاری تھی

ویسے کتنی چھپی رستم ہے تو 

ہاہا میں ارے نہیں جانِ من وہ تو تمہارے جیجو ہی لٹو تھی مجھ پہ ورنہ میں تو اس بندر کو گھاس ہی نہیں ڈالتی تھی 

ہاہاہا 

مشال کا قہقہ گونجا تھا 

اپنے غم بھلا کے وہ ماہ نور کے ساتھ اچھا فیل کررہی تھی ۔۔۔

لیکن اگلے ہی پل میں اسکا چہرہ مرجھا گیا تھا 

ماہ نور دائم مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا! 

مشال افسردہ ہوتی بولی 

ارے یار وہ معاف کرے گا تو اپ سیٹ مت ہو 

ویسے بھی میری جان وہ محبت کرتا ہے تم سے کوئی مذاق نہیں ہے وہ بس تھوڑا غصہ ہے جب غصہ ٹھنڈا ہوگا تب خود ہی بات کرے گا ہممم 

ماہ نور اسکو پیار سے سمجھاتی ہوئی بولی 

ویسے تمہیں پتہ ہے مشال تم خوش قسمت ہو جو تمھیں اتنی محبت کرنے والا شوہر ملا 

ٹھیک کہہ رہی ہو اور میں نے کیا کیا اس کی قدر ہی نہیں  کی ہمشیہ اسے دھتکارا برابھلا کہا اسکی دل آزاری کی کتنا تڑپا ہوگا وہ میرے لیے جیسے آج میں تڑپ رہی ہوں اسکے لیے کاش کہ مجھے اس ٹائم ہی پتہ چلا جاتا تو یہ سب نہ ہوتا آج میرا دائم میرے ساتھ ہوتا!!! 

انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا سب کچھ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گا تم دیکھنا!! 

ہممم مشال مسکرائی تھی 

ویسے نور تیری شادی کب ہے دیٹ فکس ہوگئی؟ 

نہیں دیٹ تو فکس نہیں ہوئی نیکسٹ منتھ کے سٹارٹ میں ہی ڈیٹ فکس کرنے کا بول رہے تھے پاپا

ماہ نور بتاتی ہوئی بلش کرگئی تھی 

او ہو تو اب میری بیسٹ فرینڈ بلش بھی کرنے لگی ہے مشال ہنستے ہوئے بولی تو وہ شرماتے ہوئے چہرہ جھکا گئی تھی ۔۔

بھئی میں تو اپنے سارے شوق پورے کروں گی آخر کو میری اکلوتی بیسٹ فرینڈ کی شادی ہے ۔۔۔

مشال مزے سے بولی 

ہاں ہاں بےشک کرنا تمہیں تو کرنے بھی چاہیے !!!

ویسے بھی تمہاری بھی رخصتی تو کرنی ہے مجھے پھر میں بھی تمام شوق پورے کروں گی 

ماہ نور نے مشال کو دیکھ کے آنکھ ماری تو اسکا چہرہ لال ٹماٹر ہوگیا اور وہ اسے گھور کے رہ گئی جس پہ ماہ نور ایک ادا سے ہنس دی تھی ۔۔۔

اچھا مشال سنو تمھیں اب عفان انکل سے بچ کے رہنا ہوگا کیوں کے تمہاری جان کو بھی خطرہ ہے وہ تمہیں اپنے مفاد کےلیے استعمال کرتے آرہے ہیں اینڈ آئیم شیور وہ آگے بھی کریں گے ۔۔۔

سمجھ رہی ہونا میری بات؟. 

ہاں ماہ نور فکر نہیں کرو اب جبکے مجھے سب پتہ ہے میں خیال رکھوں گی اور جلد ہی وہ درندہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا بخشوں گی نہیں میں اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو ۔۔۔

مشال کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ عفان شاہ کا انجام یقیناً بہت برا ہونے والا تھا ۔۔۔

اچھا نیچے چل بھوک لگی ہے مجھے کچھ بناتے ہیں مل کے ۔۔۔

اوکے لیکن میں اکیلی ہی بناؤں گی 

ارے واہ تجھے کب سے کوکنگ آئی؟؟ 

جب سے دائم کے لیے کھانا بنانا شروع کیا ۔۔۔۔

واہ جی واہ مطلب کے مشال شاہ اوپس سوری مشال دائم دُرانی دائم دُرانی کے عشق میں بالکل دیوانی ہوچکی ہیں ۔۔۔

ماہ نور نے اسے آنکھ ماری تھی اور مشال اسکو گھور کے رہ گئی تھی ۔۔۔

میڈم تجھے فری میں کھڑا ہونے کو نہیں کہا جا اور جاکے فریج سے چکن نکال کے لا۔۔۔

مشال ہنستے ہوئے بولی جس پہ ماہ نور بھی مسکراتی ہوئی فریج کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔

😍😍😍😍😍😍

ماہ نور کے جانے کے بعد مشال ایک بار پھر سے افسردہ ہوگئی تھی ماہ نور اسکو اسکے گھر بھی چلنے کا کہا تھا لیکن اسنے منع کردیا کیوں کے وہ نہیں چاہتی تھی کہ عفان شاہ کو شک ہوجائے کہ مشال کو سچائی کا علم ہوچکا ہے ۔۔۔۔

دائم کی یاد بہت زیادہ آرہی تھی اسے اس لیے اسنے اسے کال کرنے کا سوچا ۔۔۔

تیسری بیل پہ کال ریسیو کرلی گئی تھی ۔۔۔

اسلام و علیکم!!! 

دائم نے کہا 

چونکہ دائم نے بنا دیکھے ہی کال اٹھائی تھی اس لیے اسے پتہ نہیں تھا کہ مشال کی کال ہے ۔۔

وعلیکم اسلام 

مشال کی کال سن کے وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا ۔۔۔

اسکی آواز  سننے کے بعد ترسے ہوئے کانوں کو سکون آیا تھا ۔۔۔

دل چاہا تھا کہ اڑ کے پہنچ جائے اسکے پاس اور اسکے لیے اس تک پہنچنا کوئی بہت بڑی بات نہ  تھی لیکن اس مرتبہ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کیا کرسکتی ہے اسکے لیے چاہتا تھا کہ وہی درد وہی تڑپ اسے بھی محسوس ہو آخر کو وہ بھی انسان تھا دل اسکے سینے میں بھی تھا ۔۔۔

بولو کیوں فون کیا ہے؟؟ 

ووم م وہہ وہ میں نے سس س سوری کہنا تھا ۔۔۔

ہکلاتے ہوئے بولی 

کیوں؟؟ 

اس دن آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی مجھے اس لیے اور آپ ٹھیک کہتے تھے عفان شاہ انسان نہیں درندہ ہے آئیم سو سوری دائم پلیز فار گیو می 

I'm so sorry Daim Please Forgive Me... 

بس ۔۔ اتنی ہی برداشت تھی آپکی مشال شاہ؟؟ 

مشال نظریں جھکا گئی تھی جیسے وہ اسکے سامنے ہی ہو کہیں ۔۔۔

مم میں شرمندہ ہوں دائم پلیز مجھے معاف ۔۔۔

خبردار اب کچھ کہا تو ۔۔۔

سمجھ آئی کہہ لیا جو کہنا ہے تو فون بند کرو ورنہ میں خود کاٹ دوں گا ۔۔۔

دائم بات تو سنیں پلیز میری ۔۔۔

کچھ نہیں سننا کچھ سننے کہنے قابل ہی نہیں چھوڑا مجھے تم نے 

مشال کی آنکھوں سے کئی قیمتی موتی ٹوٹ کے گرے تھے ۔۔۔

پلیز مشال مجھ سے دور رہو تم میری نفرت کو برداشت نہیں کرسکوگی اور میں نہیں چاہتا کہ اپنے محبوب کو اپنے ہاتھوں سے اذیت دوں ۔۔۔

کہہ کے کال کاٹ دی تھی ۔۔۔

مشال نے یقینی سے موبائل کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔

💔💔💔💔💔

اسلام و علیکم 

زوار عفان شاہ کو سلام دیتا ہوا اندر آیا تھا 

وعلیکم اسلام 

کیسے ہو ۔۔۔

ٹھیک ہوں ۔۔۔

مشال کہاں ہے؟ 

اپنے روم میں ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔

جانے لگا تھا کہ عفان شاہ نے راستہ روک لیا تھا ۔۔

کہاں چلے پہلے مجھے میری رقم چاہیے پھر تم لڑکی لےجانا ۔۔۔۔

خدا کا خوف کریں انکل اتنا گرسکتے ہیں آپ سوچا نہیں تھا میں نے 

تم سے جو کہا ہے وہ کرو مشال چاہیے تو مجھے پیسے دو اور لےجاؤ اسے ۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔

زوار نے اپنی پوکٹ سے چیک بک نکالی اور پچاس کروڑ کے چیک پہ سائن کرکے انھیں چیک تھاما دیا تھا ۔۔۔

یہ لیں ۔۔۔

تھینک یو بیٹا جی اب تم اپنا کام کرلو ۔۔۔

عفان شاہ خباثت سے بولے 

جبکے زوار نفی میں سرہلاتا اوپر مشال کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

ڈور نوک ہوا ۔۔۔

یس کم ان

مشال بولی تھی 

اسلام و علیکم مشال 

وعلیکم اسلام 

تم یہاں اس وقت؟ 

کیوں نہیں  آسکتا کیا؟ 

نن نہیں ایسا تو نہیں مطلب نہیں تھا میرا 

مشال کہنے لگی 

مشال تمہاری آئز ( آنکھیں ) اتنی ریڈ کیوں ہوئی ہیں؟.

وہ ایکچولی میں آج کھانا بنارہی تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے تو ریڈ چلی ( سرخ مرچیں ) آنکھوں میں چلی گئی تھیں اس لیے ۔۔۔

اسنے صفائی سے جھوٹ بولا تھا ۔۔۔

دائم کی بے اعتنائی اور سرد لہجہ برداشت کرنے کی سکت نہ تھی اس میں اس لیے اسنے اپنی آنکھوں کو سزا دی تھی ۔۔۔

او ہو تو ڈراپس ڈالنے تھے نا؟؟ 

ہاں میں نے ڈالے تھے ابھی دس منٹ ہی گزرے ہیں.. 

اچھا ۔۔۔۔

زوار نے ہنکارا بھرا تھا

تم بتاؤ خیریت سے آنا ہوا؟؟ 

آں ہاں وہ دراصل تمھیں لینے آیا تھا میں تمھیں۔۔۔

ممم مجھے کیوں؟؟ 

یار تم ڈر کیوں رہی ہو کھا نہیں جاؤں گا تمھیں 

وہ دراصل مجھے عفان انکل نے بتایا کہ تم آجکل شاہ منشین آئی ہو سو میں تمھیں لینے آگیا میں تمھیں اپنا فارم ہاؤس دیکھانا ہے اس لیے ۔۔۔

نن نہیں زوار آئیم سو سوری میرا بالکل بھی موڈ نہیں ہے کہی جانے کا ۔۔۔

مطلب تم اپنے فرینڈ کی بات نہیں مانوگی ۔۔۔

زوار بولا 

نن نہیں ایسی بات نہیں ہے میری کیا وقعت ہے تمہاری نظر میں ہوتا کون ہوں میں تمھیں کچھ کہنے والا ۔۔

آئیم سوری ٹھیک ہے چلتا ہوں میں ۔۔۔

وہ جانے لگا جبھی مشال نے پکارا ۔۔۔

اوکے ٹھیک ہے ویٹ کروں نیچے آرہی ہوں میں 

او تھینک یو سو مچ مشال میں ویٹ کررہا ہوں آجاؤ 

زوار بولتا ہوا باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

مشال کو عجیب سی بےچینی ہورہی تھی جیسے کچھ برا ہونے والا کے وہ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن مشال زوار کو دل سے اپنا دوست مانتی تھی اس لیے اسکی ناراضگی کی پرواہ کرتے ہوئے ہاں کرچکی تھی اس بات سے بےخبر کہ یہ قدم اسکی زندگی میں کیا طوفان لانے والا ہے ۔۔۔

زوار کہاں لے کے جارہے ہو مجھے یہ تو سڑک تو سنسان ہے کسی ذی و روح کا نشان نہیں ہے نا؟ 

مشال گھبراتے ہوئے لیکن خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولتی ہے ورنہ دل تو وہی چھوٹا سا نازک سا ہوتا ہے جو بات بات پہ سہم کر رہ جاتا ہے ۔۔۔

یہ شارٹ کٹ ہے مائے بیوٹی ۔۔۔

کونسا شارٹ کٹ مجھے اسلام آباد کے سارے راستے پتہ ہیں اور تم یہ اس راستے پہ لے جارہے ہو جو کافی سنسنان ہے یہاں سے کوئی کم ہی گاڑی گزرتی ہے 

مشال اب تھوڑا سخت لہجہ لیے بولی 

اووو ۔۔۔ واہ مائے بیوٹی تمھیں تو ہر چیز کا علم ہے ۔۔۔

انٹرسٹنگ 

زوار طنزیہ مسکراتا ہوا بولا 

زوار مجھے ابھی اسی وقت گھر جانا ہے گاڑی روکو !!!

مشال ڈو ٹوک لہجے میں بے خوفی سے بولی 

مشال چپ چاپ بیٹھی رہو میرا دماغ مت خراب کرو 

سمجھی!  

زوار اب کی بار تھوڑے غصے سے بولا 

زوار تم ہوتے کون ہو مجھے اسطرح زبردستی ساتھ لے کے جانے والے میں نے کہا گاڑی روکو 

مشال اب اونچا اور سرد لہجہ لیے بولی 

منگیتر ہوں میں تمہارا 

سمجھی 

واٹ آریو ان یور سنسیز؟ 

Are you in your senses? 

کیا تم اپنے حواس میں  ہو؟ 

میں بیوی ہوں کسی کی سمجھ آرہی ہے تمھیں یہ بات؟؟ 

نہیں مجھے نہیں آرہی سمجھ کیوں کے میں سمجھنا، نہیں چاہتا محبت کرتا ہوں میں تم سے نہیں رہ سکتا تمہارے بنا پلیز مشال مجھ پہ رحم کھاؤ مجھ سے شادی کرلو، آئی پرامس بہت خوش رکھوں گا، تمھیں 

زوار اسکو بولتا ہوا کوئی پاگل لگا تھا ۔۔۔

تم سچ میں پاگل ہوچکے ہو زوار گاڑی روکو مجھے اترنا ہے نیچے ۔۔۔

نہیں مائے بیوٹی اب تم مجھے زبردستی کرنے پہ مجبور کررہی ہو تمہارے طلاق کے پیپرز ریڈی تم نے بس سائن کرنے ہیں پیپرز پہ! 

گاڑی روکو! 

نہیں نہیں روکوں گا! 

زوار بھی ڈٹا رہا! 

گاڑی روکو ورنہ میں چلتی گاڑی سے کود جاؤں گی ۔۔۔

اب کی بار مشال نے دھمکی دی تو اسے ناچار گاڑی روکنی پڑی تھی 

جیسے ہی گاڑی مشال فوراَ سے باہر نکلی تھی ۔۔۔

زوار چلتا ہوا اسکے پیچھے آیا تھا اور جیسے ہی اسنے اسکا بازو پکڑ کے اپنے سامنے کیا ۔۔۔

چٹاخ 

ایک زوردار تھپڑ مشال نے زوار کے گال پہ دے مارا ۔۔۔

یہ ہی ایک لمحہ تھا جب زوار نے مشال کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جنھوڑا ۔۔۔

" میں نے تم سے اتنی محبت کی اور تم نے مجھے بدلے میں کیا دیا ہاں؟  تذلیل؟؟  نفرت؟  دھوکا؟  بٹ دونٹ وری مائے بیوٹی اب سے تم زوار ملک اعوان کی محبت نہیں ضد بن چکی ہو تمھیں تو میں حاصل کرکے رہوں گا چاہے پھر مجھے اسکے لیے کچھ بھی کرنا پڑے اور تمہارے اس سو کالڈ شوہر کی تو خیر نہیں اب "

کہتے ہوئے اسکو بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے وہ گاڑی کی طرف لے جانے لگا تھا ۔۔۔

اس نے اسکا بازو اسکے فارم ہاؤس کے روم میں لاکے چھوڑا تھا۔۔۔

تم۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے زبردستی کرنے کی یاد رکھو زوار ملک اعوان میں مشال دائم دُرانی ہوں ڈرنا میں نے سیکھا نہیں ہے نا ہی تم اپنا ڈھونس مجھ پہ جماسکتے ہو ۔۔۔

گوٹ اٹ 

Got it! 

وہ اپنی انگلی اٹھا کے اسے وارن کرتی ہوئی بولی 

ہمم ڈیٹس رئیلی گریٹ سو انڑسٹنگ مائے بیوٹی

Hmm that's Really Great so interesting My beauty! 

او اگلی بار مجھے اس نام سے پکارنے کی ہمت نہیں کرنا ۔۔۔

Don't you Dare to call me with this name next time!!! 

مشال تڑخ کے بولی 

خاموش بالکل خاموش 

زوار ڈھارا اور مشال کے منہ کو سختی سے جکڑا تھا ۔۔۔

آہہہ ۔۔۔

میرا منہ چھوڑو گھٹیا انسان 

مشال کی آنکھوں میں درد کی وجہ سے نمی در آئی تھی ۔۔۔

کیا کہا تم نے ہاں کیا کہا ؟ گھٹیا ہوں میں؟؟ 

زوار خطرناک تیور لیے بولا

اور مشال کے منہ پہ اپنی گرفت مزید سخت کی 

کیا گھٹیا حرکت کرتے ہوئے دیکھا ہے تم نے مجھے؟

ہاں بولو؟؟ 

مشال کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے 

پی پی پلیز جانے دو زوار مم مجھے تت تت تم الله کا واسطہ ہے کیا بگاڑا ہے تمہارا میں نے؟؟ 

اچانک ہی زوار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا 

کہ اسنے مشال کے منہ کو کتنے زور سے دبوچا تھا. ۔

سس سوری مشال دیکھو تم جانتی ہو نا کہ دیوانہ ہوں میں تمہارا تم کس قدر اہمیت کی حامل ہو میرے لیے کتنا چاہتا ہوں میں تمہیں پیار کرتا ہوں تم سے تو پلیز میری بات مان لو پلیز مجھے اپنا بنالو مجھ سے شادی کرلو پلیز! 

زوار پاگلوں کے جیسے کہہ رہا تھا 

مشال نے ایک ہی جھٹکے میں زوار کے ہاتھ جھٹکے جو اسنے اسکے شانے پہ رکھے ہوئے تھے ۔۔۔

جسٹ شٹ اپ اوکے شٹ یور ماؤتھ 

Just shut up shut your Mouth! 

سمجھ نہیں آتا تمھیں ہاں ایک دفعہ میں کہ نہیں کرتی تم سے پیار میں ۔۔۔

تو کس سے کرتی ہو ہاں آج بتا ہی دو ۔۔۔

زوار ڈھارا تھا ۔۔

سننا چاہتے ہو نا تو سنو 

دائم سے کرتی ہوں میں محبت پاگلوں کی طرح چاہتی ہوں میں اسے دیوانی ہوچکی ہوں میں اسکی میری رگوں میں خون کی مانند ڈورنے لگا ہے وہ سمجھ آرہی ہے تمھیں زوار ملک اعوان ۔۔۔

I love him like a crazy I'm addicted to him He is running like blood in my veins

Do you understand Zawar Malik Awan!!! 

زوار تو مشال پہ بھڑک اٹھا تھا جب اسنے اپنے جذبات دائم کے لیے بیان کیے ۔۔۔

کیا کہا  تم نے ہاں؟ 

تت تم اس دو کوڑی کے آدمی کو مجھ پہ فوقیت دے رہی ہو ہاں؟؟ 

زوار چیلایا تھا ۔۔۔

وہ قدم با قدم چلتی ہوئی زوار کے قریب آئی تھی 

" ہاں دے رہی ہوں فوقیت سمجھے اور کیا تم اس قابل ہو کہ مشال شاہ تم سے محبت کرے؟؟  ہممم نہیں  نا ۔۔۔

تمسخرانہ کہا تھا 

پہلے جاؤ اس جیسے اور اسکے قابل بن کے آؤ پھر یہ محبت کے قصیدے میرے سامنے پڑھنا ۔۔۔

اور ہاں خبردار جو آئندہ اسکو دو کوڑی کا آدمی کہا پہلے اپنی اوقات دیکھ  لو وہ کوئی دو کوڑی کا آدمی نہیں مشال شاہ کا شوہر ہے ۔۔۔

انڈرسٹینڈ یو بیٹر انڈرسٹینڈ

Understand...  You better Understand!!! 

اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہتی ہوئی باہر کی جانب قدم بڑھاتی ہے کہ زوار اسکا بازو اپنی آہنی گرفت میں لے لیتا ہے جس پہ مشال کراہ کے رہ جاتی ہے ۔۔۔

اوپر روم میں لے جاکے اسکا بازو چھوڑتا وہ گویا ہوا ۔۔

اوقات کی بات کی تھی نا تم نے؟ 

آہہہہ بازو چھوڑو میرا ۔۔۔

تو اب دیکھنا کیا کرتا ہوں میں اوقات دیکھنا میری اب 

اس کو بیڈ پہ دھکا دے کے وہ اسپر جھکا 

کک کیا کررہے ہو تم؟؟ 

آہہہ مائے بیوٹی اتنی ہی جلدی گھبرا گئی ابھی تو بہت کچھ سہنا باقی ہے ۔۔۔

وہ ڈرا سے رسی لے کے آتا ہے ۔۔۔

نن نہیں زوار تت تم ایسا نہیں کرسکتے ۔۔۔

کیوں نہیں میری جان 

میری اوقات کی بات کی تھی نا اب دیکھتی جاؤ 

اسی رسی سے اسنے مشال کے پاؤں بیڈ کراؤن سے باندھے تھے ۔۔۔

چھوڑو مجھے تم گھٹیا انسان ذلیل آدمی 

نا نا نا مائے بیوٹی ابھی تو میں نے اپنی اوقات دیکھانی شروع کی ہے ۔۔۔۔

ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑی فائل اٹھا کے وہ اسکے قریب آیا تھا ۔۔

اور بیڈ پہ پھینکی تھی 

یہ تمہاری ڈیوارس پیپرز ہیں ۔۔۔

ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس 

میں واپس آؤں تو اس پہ سائن چاہیے مجھے تمہارے

گوٹ اٹ ۔۔۔

Got it 

ورنہ میری جان جانتی ہو نا ابھی میں نے پوری طرح سے اپنی اوقات نہیں دیکھائی ۔۔۔

وہ معنی خیزی سے گویا ہوا 

جس پہ مشال کانپ اٹھی تھی ۔۔۔

اسکو چھوڑتا ہوا وہ آگے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

دائم کو نجانے کیوں بےچینی سی ہونے لگی تھی اسکا دل کسی انہونی کا پتہ دے رہا تھا ۔۔۔

مشال کی یاد تو ہر سانس کے ساتھ اسے آتی تھی لیکن اب کسی  دوری برادشت کرنا مشکل ہورہا تھا اسکی قربت پانے کے لیے اسکا دل مچل رہا تھا نجانے اسے محسوس کیے ہوئے بھی کتنے دن ہوگئے تھے ۔۔۔

وہ ٹیرس پہ کھڑا سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جارہا تھا 

آنکھیں شدت سے لال تھیں آنکھوں کے نیچے حلقے پڑے ہوئے تھے مطلب کتنی ہی راتیں وہ سویا نا تھا وجہ صرف اسکی لٹل فیری تھی جس نے صرف اسے تڑپایا تھا اسے تڑپانے کا کوئی بھی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی ۔۔۔

" ایک بار مکمل میری دسترس میں آجاؤ لٹل فیری چن چن کے بدلے لوں گا جس طرح تم مجھے تڑپا رہی ہو نا بےبس کردوں گا تمھیں تمہاری ہر ایک سانس پہ دائم دُرانی کا حق ہے اسکا پتہ تمہیں بہت جلد چلے گا "۔۔۔

ایک گھنٹہ ہونے کو تھا لیکن زوار ابھی تک نہیں آیا تھا ۔۔۔

مشال نے اپنے پاؤں رسی کی گرفت سے آزاد تو کروالیے تھے لیکن فائدہ نا تھا کیوں کے مین گیٹ کو لاک لگا ہوا تھا اور دیواریں بھی کافی اونچی تھیں جنکو وہ پھلانگ نہ سکتی تھی۔۔۔

شدت سے وہ دائم کو یاد کررہی تھی اسے خود ہی اس بات کا علم نہ ہوا تھا کہ کب کیسے وہ اسکا سب کچھ بن چکا تھا اب اسکے بنا اب ایک لمحہ بھی گزارنا اسے مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔

اتنی پریشانی میں بھی اسکے چہرے پہ ایک مسکراہٹ آئی تھی وجہ صرف وہی ایک تھا جو اسکی رگوں میں خون بن کے دوڑنے لگا تھا ۔۔۔

اچانک ہی اسکے مائنڈ میں ایک بات آئی کہ وہ کس طرح یہاں سے فرار ہوسکتی ہے 

فارم ہاؤس کو مکمل دیکھنے کے بعد اسے لینڈ لائن فون نظر آیا تھا ۔۔۔

چونکہ زوار اس بات کو بالکل فراموش کربیٹھا تھا کہ وہ لینڈ لائن کے ذریعے بھی کسی سے بھی کانٹیکٹ کرسکتی ہے ۔۔۔

وہ پھرتی سے اٹھی اور نیچے کی جانب آئی اور اس پہ دائم کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔

صد شکر اسے دائم کا نمبر یاد کیا تھا کیوں کے اسے تو اپنا نمبر بھی یاد نا تھا لیکن دائم کا نمبر اسے یاد ہوگیا تھا ۔۔۔

وہ بار بار مڑ کے پیچھے دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی کہ کہیں زوار نا آجائے ۔۔۔

تین چار بیل جانے کے بعد کال اٹھا لی گئی تھی ۔۔۔

اسلام و علیکم 

جی کون؟ 

دائم نے کہا ۔۔۔

اسکی آواز سن کے اسکی دھڑکن ساکت ہوئی تھی 

دد۔ دائم 

مشال؟ 

دائم چونکا تھا ۔۔۔

مم دائم مم مججج مجھے بچالیں ؟

مم مجھے کڈنیپ کرلیا ہے زوار نے 

مشال نے سسکتے روتے ہوئے دائم کو بتایا 

نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا لال انگارہ ہوتی آنکھوں کے ساتھ اسنے کہا ۔۔۔

کہاں ہو تم؟؟ 

ووو ہہ مم میں ۔۔۔

اس سے پہلے کے مشال کچھ بولتی زوار نے اس سے فون جھپٹ لیا اور ایک زوردار طمانچہ اسکے منہ پہ دے مارا تھا ۔۔۔

مشال اوندھے منہ گری تھی 

اسکا ہونٹ پھٹ چکا تھا جہاں سے اب خون رس رہا تھا ۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے خلاف جانے کی 

وہ غرایا تھا اور اسے بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تھا

چچ چھوڑو  مجھے گھٹیا انسان آج تم نے مجھ پہ ہاتھ اٹھا کے بتادیا کہ تم عورت ذات کی کتنی عزت کرتے ہو 

کتنا اچھا انسان اور باوقار شخص سمجھتی تھی میں لیکن تم نے کیا کیا؟  زوار ملک اعوان تم نے آج خود کو میری نظروں میں گرا دیا ہے میں تمہیں اپنا بہت اچھا دوست مانتی تھی لیکن نہیں جانتی تھی کہ تم مجھے دوست دوست بول کے میری ہی پیٹھ میں چھرا گھونپوں گے ۔۔۔ چچ افسوس ہورہا ہے مجھے خود پہ کہ تم جیسے انسان کو اپنا دوست مانا بھروسہ کیا تم پہ ۔۔۔

کہتے ہوئے مشال کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں 

زوار نے یکدم ہی اسکی کلائی پکڑی اور اسے لے جانے لگا تھا ۔۔۔

چھوڑو مجھے زوار ۔۔۔

مشال مسلسل مزاحمت کررہی تھی خود کو چھڑوانے کی لیکن بےسود 

گاڑی میں لاکے اسنے مشال کے لیے فرنٹ سیٹ کا ڈور اوپن کیا اور اسے بیٹھا کے خود بھی بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کردی تھی ۔۔۔

دائم غصے میں پاگل ہورہا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے کیسے وہ اسکی بیوی کو اپنے ساتھ زبردستی لے گیا تھا اور اوپر سے مشال کا فون بھی مسلسل پار آف آرہا تھا ۔۔۔

اسنے دل میں شدت سے مشال کی سلامتی کی دعا مانگی تھی۔۔۔

اسی وقت ہی دائم کو ایک انجان نمبر سے کال آئی تھی 

اسنے فوراَ پک کی ۔۔۔

ہیلو؟ 

کون بول رہا ہے ؟

میں ہوں زوار 

سالے تو ( گالی ) تیری ہمت کیسے ہوئی میری مشال کو کڈنیپ کرنے کی بتا کہاں ہے تو نہیں تو اگر میں نے خود تجھے ڈھونڈا نا تو زندہ زمین میں گاڑ دوں گا ۔۔۔

ایک بات بتا مجھے ۔۔۔

زوار دائم سے مخاطب ہوا ۔۔۔

بول ۔۔۔

تو کس حد تک محبت کرتا ہے مشال سے ؟؟

( زوار نے پاس بیٹھی مشال کی جانب دیکھ کے پوچھا جو رونے میں مصروف تھی اسنے کوشش کی دائم سے بات کرنے کی لیکن زوار نے اسکی کوشش کو ناکام بنادیا تھا)

شدتِ محبت کرتا ہوں میں اس سے سمجھ آئی ایسی محبت جسکی کوئی حد نہیں ہے میری روح میں بستی ہے وہ میرے وجود کا حصہ ہے وہ میرے اندر میں نہیں وہ رہتی ہے مختصر یہ کے مشال شاہ دائم دُرانی کا جنون ہے "

دائم شدت اور جنون سے بھرپور لہجے میں بولا ۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے آج میں تیری محبت کا امتحان لینا چاہتا ہوں اگر تو جیت گیا تو مشال تیری ۔۔۔

وہ میری ہی ہے زوار ملک اعوان ۔۔۔

تجھے ایک جگہ کا ایڈریس سینڈ کررہا ہوں فوراَ وہاں پہنچ ۔۔۔

اگر تو نے اپنی جان کی پرواہ نا کرتا ہوا مشال کو بچانے آگیا تو میرا وعدہ ہے تجھ سے کہ مشال کو تیرے حوالے کردوں گا ۔۔۔

کرنا کیا ہے مجھے؟؟ 

کرنا یہ ہے آتے ہوئے تجھے راستے میں بہت سے غنڈے ملے گے جو تجھے مشال تک پہنچنے سے روکیں گے لیکن جیسا کہ تجھے اس تک پہنچنا ہے تو تجھے ہر مشکل کو سر کرنا ہے مشال کے لیے ۔۔۔

اب یہ تجھ پہ ہے کہ تو مشال کو کھو دے گا یا پالے گا اور اسبکو کرنے کے لیے تیرے پاس آدھے گھنٹے کا ٹائم ہے

Your Times Start Now!!! 

یور ٹائم سٹارٹ ناؤ۔۔۔

اور رابطہ منقطع کردیا تھا ۔۔۔

مشال نے شدت سے دعا مانگی تھی کہ دائم صحیح سلامت اس تک پہنچ جائے ۔۔۔

دائم نے فورا ہی گاڑی کو سٹارٹ کیا اور زوار کے بتائے ہوئے پتہ پہ گاڑی کا رخ کرلیا تھا ۔۔۔

آج ٹھیک شام چار بجے ان لڑکیوں کا سودا ہونا تھا جنکو عفان شاہ اسمگل کرنا جارہا تھے Ronaldo's  کو 

اسی لیے وہ ٹائم سے پہلے ہی تیار ہوچکے تھے کہ جمال سیکرٹری اندر آیا 

سر ۔۔۔

ہممم؟؟ 

وہ آپ سے ملنے کوئی لڑکی آئی ہے ۔۔۔

کون ہے وہ؟؟ 

عفان شاہ نے آبرو اچکا کے پوچھا 

جی سر انھوں نے بتایا ہے کہ وہ انسپکٹر عمیر کے کہنے پہ آئی ہیں ۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے اسے تم ڈرائنگ روم میں بیٹھاؤ آتا ہوں جی سر بہتر !!!

کچھ دیر بعد  عفان شاہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے جہاں وہ لڑکی سامنے ہی صوفہ پہ براجمان تھی 

دیکھنے میں اسنے وائٹ شرٹ جو کے سلیولیس پہ ٹائیٹ جینز کی ہی بلیو کلر کی پینٹ پہننی ہوئی تھی اس بےہودہ لباس میں اسکے جسم کی تمام تر رعنائیاں ظاہر ہورہی تھیں ڈراک میک اپ میں ملبوس اور ساتھ ہی بلیک ہائی ہیلز پہننے وہ پاؤں جھلاتی موبائل پہ مصروف دکھائی تھی ۔۔

ہیلو ۔۔۔

عفان شاہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا جسکو اسنے تھام لیا تھا ۔۔۔

ہیلو سر کیسے ہیں آپ؟؟ 

وہ خوشدلی سے بولی 

فائن ہاؤ آباؤٹ یو؟ 

Fine how about you?? 

آئیم آلسو گڈ 

I'm Also Good... 

جی تو انسپکٹر عمیر نے مجھے میر ارسلان بٹ کے کیس کے سلسلے میں بلایا تھا ۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے 

عفان شاہ بولے 

کیا لیں گی آپ؟ 

کافی،  کولڈڈرنک،  چائے؟؟ 

کافی 

وہ مسکراتے ہوئے بولی 

عفان شاہ نے ملازم کو بلا کے دو کپ کافی لانے کا کہا تھا ۔۔۔

جی تو محترمہ آپکا نام؟؟ 

نتاشا انصاری ۔۔۔

نائس نیم 

Nice Name...

تھینک یو 

نتاشا مسکرا کے بولی اتنی دیر میں کافی بھی آچکی تھی ۔۔

اچھا تو نتاشا تم جانتی ہو نا کہ تمھیں کیا کام کرنا ہے؟؟ 

یس آنو  ہاؤ ٹو ورک 

Yes I know  How To Work 

وہ شاطرانہ مسکراہٹ چہرے پہ مسکرائے بولی 

ہممم اوکے تو آج سے ہی اپنی دیوٹی سنبھال لو پیسوں کی فکر مت کرنا وہ تمہارے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہوجائیں گے ۔۔۔

اوکے تھینک یو اب میں چلتی ہوں تاکہ پلان بنا سکوں کے اس  طوطے  ( میر ارسلان بٹ ) کیسے قابو کرکے برباد کرنا ہے،،، 

کہتے ساتھ ہی بیک وقت دونوں کے قہقہے بلند ہوئے تھے۔۔۔

دائم اب اس منزل کی جانب رواں دواں تھا جہاں پہ اسکی منزل اسکا انتظار کررہی تھی 

وہ جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتا تھا ۔۔۔

ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ کوئی جیپ اسکی گاڑی کا پیچھا کررہی ہے 

خطرہ کا احساس ہوتے ہی اسنے خود کو ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا اور گاڑی ایک سائیڈ پہ روک کے خود اترا ۔۔۔

جیسے ہی اسنے قدم نیچے رکھا سامنے سے دس بندے جنہوں نے ہاتھ میں مختلف قسم کے اوزار اور لاٹھیاں اٹھا رکھی تھیں ۔۔۔

دائم کے پاس کوئی اوزار تو نا تھا لیکن اسکے اپنے ہی ہاتھ پاؤں تھے انکی درگت بنانے کے لیے ۔۔۔

وہ آگے بڑھا اور ان سبکو اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔

اور وہ بھاگتے ہوئے اسکی جانب بڑھنے لگے ۔۔۔

اب سین ( منظر ) کچھ یوں تھا کہ دائم درمیان میں تھا اور اسکے آگے پیچھے وہ ہٹے کٹے موٹے تازے مرد تھے جو دیکھنے میں ہی کافی طاقتور لگ رہے تھے 

۔۔۔

وہاں موجود ایک شخص نے وہ اوزار نیچے رکھے تھے 

اور نیچے جھک کے ہی پلاس اٹھانے لگا تھا کہ دائم نے اسکا وہی ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔

لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ ہاتھ چھڑوا نا پایا تھا 

دوسرے ہی ہاتھ سے دائم نے وہ پلاس اٹھایا اور اسی سے اسکا ناخن اکھاڑ ڈالا تھا اور اس شخص کی چیخیں وہاں موجود تمام بندوں نے سنی تھیں ۔۔۔

ناخن اکھاڑنے کے بعد اسنے پاس اس پر مکوں گھونسوں اور چانٹوں کی بھرمار کردی تھی ۔۔

وہ شخص نیم بہوش ہوا تو اسکے ساتھیوں کا خون کھول اٹھا تھا اپنے ساتھی کو یوں دیکھ کے اسکے ساتھ ہی وہ تمام دائم پر ایک ساتھ حملہ آور ہوئے تھے اور دائم نے بھی انکی وہی حالت کی جو اس ایک پہلے شخص کی ہوئی تھی لیکن اسنے ہر ایک کو الگ طریقے سے دھویا تھا ۔۔۔

سڑک کے بیچوں بیچ وہ تمام بہوش پڑے تھے جبکہ دائم ایک پراسرار مسکراہٹ لیے آگے بڑھا تھا 

ٹائم دیکھا تو پندرہ منٹ باقی تھے لہذا اسنے گاڑی کی فل سپیڈ کی تھی لڑتے وقت اسکو خود کافی چوٹیں آئی تھیں لیکن اسے کہاں پرواہ تھی اسے تو جلد از جلد اپنی لٹل فیری کے پاس پہنچنا تھا جو کے اسکا کل سرمایہ تھی اسکی دھڑکن اسکی سانس اسکی زندگی اسکی روشنی اسکا وجود اسکی شدتِ محبت ۔۔۔۔

اسکے بارے میں سوچتے ہوئے ایک خوبصورت مسکراہٹ نے اسکے خوبصورت چہرے کا احاطہ کیا تھا جو کے اب خون آلود ہوچکا تھا لیکن مقابل کو پرواہ کہاں تھی ۔۔۔۔

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے سامنے سے ایک اور گاڑی آتی دیکھائی تھی جوکے تیزی سے اسکی جانب بڑھ رہی تھی ...

اس سے پہلے کہ وہ گاڑی اسکی گاڑی سے ٹکراتی اسنے گاڑی کا رخ دوسری طرف کرلیا جس سے گاڑی درخت سے جاٹکرائی اچانک ہی اسے درد کا احساس ہوا ہاتھ بڑھا کے اسنے اپنے ماتھے کو ہاتھ لگایا جہاں سے اب خون زورو قطار بہہ رہا تھا  کچھ ہی پل میں وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگیا تھا ۔۔۔

ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک ہی اسنے مندی مندی آنکھیں کھولی  تھیں  بہت ہی مشکل سے وہ اٹھا اور پاس پڑی پانی کی بوتل سے اپنا چہرہ دھویا تاکہ گاڑی چلاتے وقت اسے نظر آسکے کیوں کے خون سے اسکا چہرہ بھرچکا تھا ۔۔۔

اسے کسی طرح بھی مشال تک پہنچنا تھا کسی بھی طرح ۔۔۔۔

وہ شخص اسکے سامنے کھڑا تھا جو اسکی رگوں میں خون بن کے دوڑنے لگا تھا ۔۔۔

مشال تڑپ ہی گئی تھی اسکو دیکھ کے کیوں کے اسکو کافی چوٹ لگی تھی 

منہ خون سے بھرگیا تھا ۔۔

مشال کا دل دائم کے پاس جانے کو مچل رہا تھا لیکن زوار نے اسکا بازو سختی سے جکڑ رکھا تھا 

دائم شدت لٹاتی نظروں سے اپنی لٹل فیری کو دیکھ رہا تھا جیسے برسوں کی پیاس مٹا رہا ہو 

یہ چہرہ اسے دنیا کا سب سے خوبصورت چہرہ لگتا تھا 

مشال نے التجائی نگاہوں سے زوار کو دیکھا ۔۔۔

اسکا یوں دیکھنا اسکو اسکو بہت کچھ باور کروا گیا تھا ۔۔۔

ایک آنسو زوار کی آنکھ سے نکلا تھا جسے وہ چھپا گیا تھا ۔۔۔

اور ایک ہی جھٹکے میں مشال کی کلائی چھوڑی تھی 

مشال نے حیران کن نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا 

جسے دیکھنے کے بعد زوار کے چہرے پہ ایک زخمی مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔۔۔

جانتے ہو محبت کیا ہے؟ 

"محبت وہ ہے جو بنا دیکھے کی جائے محبت میں حاصل لا حاصل کا خیال نہیں کرتے محبت تو صرف ٹوٹ کر چاہنے کا نام ہے محبت میں انجام کی فکر نہیں کرتے محبت تو ہر انجام میں سر جھکا دینے کا نام ہے محبت میں گلہ نہیں کرتے محبت ادھوری ہوکر بھی مکمل ہونے کا نام ہے "

اور ویسے بھی محبوب کے عشق سے بھی عشق کیا جاتا ہے نا؟؟  تو بس وہی زوار نے کیا اسنے اپنی محبت کو قربان ضرور کیا تھا لیکن اپنی محبت کی خوشی کی خاطر کیوں کے وہ جان چکا تھا کہ زبردستی دلوں کے سودے نہیں کیے جاتے ۔۔۔

مشال نے مشکور نگاہوں سے زوار کی جانب دیکھا تھا اور بھاگ کے اس شخص کی بانہوں میں سمائی تھی جو اسکی رگ رگ میں سما چکا تھا ۔۔۔

ٹھیک ہیں نا آپ دد، دائم یی یہ چوٹ کیسے لگی آپکو؟؟ 

او مائے گاڈ کتنا خون بہہ گیا ہے ۔۔۔

مشال فکرمندی سے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتی بولی تو اسکی فکرمندی پہ دائم مسکرادیا تھا ۔۔۔

میرا مرہم تو تم ہو نا مائے لٹل فیری ۔۔۔

وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا تھا 

جسکی وجہ سے مشال کے دل کی ڈھرکنیں منتشر ہوئیں تھیں ۔۔۔

دور سے زوار ان دونوں کو یوں دیکھ کے مسکرایا تھا بےشک آج اسکے دل نے ان دونوں کو ہمیشہ خوش رہنے کی دعا نکلی دی تھی ۔۔۔

چند آنسو بھی پلکوں کی بار توڑ کر نکل آئے تھے اپنی محبت کو جو قربان کیا تھا لیکن اسنے مشال کی خوشی کی خاطر ہی یہ سب کیا تھا جان چکا تھا کہ وہ اسکے نصیب میں نہیں ہے اسکا نصیب تو صرف اسی ایک سے جڑا ہے جو اسکا ستمگر بھی ہے اور مسیحا بھی جو صرف اسکی خاطر اب تک ہر مشکل کو سر کرتا آیا تھا ۔۔۔

آج وہ ایک ہارا ہوا جواری لگ رہا تھا محبت میں ہارا ہوا جواری آج وہ امیر ہوکے بھی بہت غریب ہوچکا تھا اور دائم غریب ہوکے بھی اسکی نظروں میں بہت امیر ہوچکا تھا ۔۔۔

وہ ان دونوں سے معافی مانگنا چاہتا تھا اس سے پہلے کہ وہ ان دونوں کی جانب پیش رفت کرتا دو گولیاں اسکا سینہ چیرتی ہوئیں گئیں تھیں ۔۔۔

اور وہ لڑکھڑا کے زمین بوس ہوا تھا ۔۔۔

جبکے مشال اور دائم ہکا بکا اسکے زمین بوس ہوتے وجود کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔

💔💔💔

ماہ نور نے شادی کی شاپنگ کرلی تھی کیوں کے شادی میں ایک ہی ہفتہ باقی رہ گیا تھا ۔۔۔

آجکل ماہ نور میر سے خفا تھی کیوں کے میر اسے بہت ہی کم وقت دیتا تھا ۔۔۔

اسکا کام ہی ایسا تھا اس لیے اسکی ایک ہفتے سے ماہ نور کی کوئی بات نہ ہوئی تھی ۔۔۔

وہ مسیج اور کال بھی کرچکا تھا مگر ماہ نور خفا تھی کہ اسے وہ بھول گیا ہے یعنی اسے ٹائم ہی نہیں دیتا ۔۔۔

رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا اور ماہ نور شاپنگ کرنے کے بعد بہت تھک گئی تھی لہذا جلد ہی سوگئی تھی ۔۔۔

ابھی اسے سوئے آدھا ہی گھنٹہ گزرا تھا کہ اسے اپنے چہرے پہ کسی کی پرتپش نگاہیں محسوس ہوئیں ۔۔۔

جانتی تھی کہ کون ہے لیکن وہ پھر بھی ڈھیٹ بنی لیٹی رہی ۔۔۔

اب کی بار میر سے برداشت نا ہوا تو وہ اسکے سر پہ جاپہنچا ۔۔۔

" اٹھو یار نور "

ہیےےے جانِ میر اٹھو نا یار 

وہ تب بھی نا اٹھی 

ناراض جو تھی ۔۔۔

ماہ نور پنکر کلر کا نائیٹ سوٹ پہنے کھلے لمبے بالوں کے ساتھ میک اپ سے پاک صاف چہرہ لیے میر کے دل کی دنیا اتھل پتھل کرگئی تھی ۔۔۔

اسنے اپنے دل کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنایا تھا ۔۔۔

اور وہ اسکے لمس پہ مچل کے رہ گئی تھی ۔۔۔

جنون، شدت،  غصہ، محبت ۔۔۔ کیا نہیں تھا اسکے لمس میں ۔۔۔

مزاحمت کرنے کی بھی کوشش کی لیکن اسکی کلائیوں کو جکڑے وہ اسکی تمام تر راہیں مسدود کرگیا تھا ۔۔۔

لمحوں کا کھیل تھا ۔۔۔

ماہ نور کا چہرہ اسکی شدت سے کی گئی جسارت پہ سرخ ہوگیا تھا ۔۔۔

اب ہوش آیا؟؟ 

وہ شرارت سے بولا 

جس پہ ماہ نور نے اسے ایک گھوری سے نوازا جبکے میر اسے شدت لٹاتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

مزید اس سے اسکی آنکھوں میں نا دیکھا گیا اس لیے نظریں جھکا گئی ۔۔۔ 

میر اسکی حرکت پہ مسکرا اٹھا ۔۔۔

ناراض ہو؟؟ 

میر نے پوچھا 

ماہ نور نے ہاں میں سر ہلایا 

اچھا نا یار سوری قسم سے لاسٹ ویک بہت بزی تھا میں ۔۔۔

مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔

ماہ نور میر کو پیچھے کی جانب دھکیلتے ہوئی بولی 

جبکے وہ اٹھا کے کھڑا ہوگیا اور اسے بھی بازو سے کھینچ کے اپنے سامنے لا کھڑا کیا ۔۔۔

ماہ نور کوفت کا شکار ہوئی کیوں اسنے اسکی نیند خراب کردی تھی وہ جانے لگی جبھی اسنے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کے اپنی جانب کھینچا ۔۔۔

وہ سیدھی اسکے سینے سے آلگی تھی ۔۔

جان.. 

کیا؟؟ 

کیوں ناراض ہو؟؟ 

کیوں کے میرے پاس اب آپکے لیے ٹائم نہیں ہے آپکا دل بھر گیا ہے مجھ سے اب اس لیے ۔۔۔

اسکے کہنے کی دیر تھی کہ میر کی گرفت اسکی کمر پہ مزید سخت ہوئی جس پہ وہ کراہ اٹھی تھی ۔۔۔

آج بول دیا ہے آئندہ کے بعد بولا نا تو یہ زبان کاٹ دوں گا تمہاری ۔۔۔

ماہ نور کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی ۔۔۔

ہیے جان سنو دیکھو میری طرف تمھیں پتہ ہے نا کہ تم سے کتنا پیار کرتا ہوں میں تو یہ فضول قسم کے خیالات کو اپنے ذہن میں کیوں لاتی ہو میر ارسلان بٹ کا دل کبھی بھی ماہ نور میر ارسلان بٹ سے نہیں بھر سکتا یار میں شدتِ محبت کرتا ہوں تم سے باخدا کیا تمہیں یقین نہیں  ؟؟

اییی ایسی بات نہیں ہے میر میں بس اس لیے ناراض تھی کیوں کے آپ مجھ سے ملنے نہیں آئے ۔۔۔

وہ اسکی طرف دیکھتی ہوئی بولی ۔۔۔

اچھا نا بابا سوری بولا ہے نا تمھیں پتہ ہے نا میرا کام کیا ہے سو اس ویک میں ایک ساتھ ہی پانچ کسیز آگئے جس میں سے ابھی کئی پنڈینگ pending بھی ہیں ۔۔

وہی بزی تھا ۔۔۔

اور میں نے کالز اور میسجز بھی تو اتنے کیے تھے مگر مجال ہے کہ آپ نے میسج کا ریپلائی کیا ہو یا کال پک کی ہو ۔۔۔۔

ہاں تو میں تو ناراض تھی نا ۔۔۔

میر ماہ نور کی معصومیت پہ عش عش کر اٹھا تھا ۔۔۔

ماہ نور کا موڈ تو ابھی ٹھیک نہیں ہوا تھا وہ ہنسی نہیں تھی جبکے میر کا دل اسکی ہنسی دیکھنے کو چاہ رہا تھا ۔۔۔

اچھا چلو جو سزا دینی ہے دے لو بولو کیا کروں؟؟ 

ماہ نور نے میر کی جانب شرارت سے دیکھا ۔۔۔

آپ مرغا بنیں گے ۔۔۔

کیا؟؟ 

میر ماہ نور کی سزا پہ حیران رہ گیا تھا ۔۔۔

جی ہاں آپکو کرنا ہوگا ورنہ میں آپ سے بات نہیں کروں گی بالکل بھی ۔۔۔

ماہ نور اتراتے ہوئی بولی ۔۔۔

اوکے ۔۔۔

میرا اپنا سا منہ لے کے رہ گیا تھا ۔۔۔

اور مرغا بنا ۔۔۔

ماہ نور کھلکھلا کے ہنسی تھی اب کی بار ۔۔۔

اور میر کو اسکی ہنسی سن کے اپنی رگوں میں سکون اترتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔

" وہ شخص جو آج تک کسی کے سامنے نا جھکا تھا آج وہ ایک چھوٹی سی لڑکی جو اسکا کل جہاں تھی کے سامنے جھک گیا تھا "

اچھا یار اب بس کردو پلیز مجھ سے مزید پاؤں پہ نہیں بیٹھنے ہورہا ۔۔۔

میر نے اپنا سا منہ لے کے کہا 

تو ماہ نور ہنسی اور سزا کو ختم کیا ۔۔۔

میر آپ بہت مزاحیہ لگ رہے تھے جب آپ مرغا بنے ہوئے تھے ۔۔۔ ہاہاہا

Meer  you looked so funny when you were a rooster hahaha

اچھا جی رکو ذرا ابھی بتاتا ہوں!!! 

نو نو میر 

ارے ابھی کہاں جان ابھی تو آپکو سزا بھی دینی ہے 

اب سین کچھ یوں تھا کے ماہ نور آگے آگے اور میر اسکے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔۔۔

وہ دروازے کی جانب بڑھی ہی تھی کہ میر نے اسے جالیا ۔۔۔

ہاہا کہاں بھاگ رہی تھی جان وہ بھی مجھ سے بھاگ کر ۔۔۔

ککک کہیں نہیں کہیں بھی تو نہیں ۔۔۔

ماہ نور میر کی قربت پہ پسینے میں نہا گئی ۔۔۔

او ہو اتنا ہی قریب آنے پہ آپکی جان نکل رہی ہے تو سوچو جان جب میری دسترس میں آؤگی تب کیا حال ہوگا آپکا؟؟ 

میر ماہ نور پلکوں کو چھوتے ہوے بےباکی سے گویا ہوا ۔۔۔

جب کے میر کی بات پہ ماہ نور کا چہرہ گلنار ہوگیا ۔۔۔

بہت ہی فضول انسان ہیں میر آپ ۔۔۔

میر ماہ نور کے یوں چڑ جانے پہ ہنس دیا تھا ۔۔۔

آج سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ اب ناراض تو نہیں ہو نا؟؟ 

نہیں  ۔۔۔

ماہ نور مسکراتے ہوئی بولی ۔۔۔

ایک بات ہمشیہ یاد رکھنا جانِ میر کہ میں چاہے مرنے والا بھی ہو نا تو تم سے غافل نہیں  ہوسکتا نا ہی تمھیں محبت کرنا چھوڑ سکتا ہوں تم میری روح میں سماچکی ہو دل کی ڈھرکن بن چکی ہو اور جانتی ہو نا کہ اگر ڈھرکن رک جائے تو دل ڈھڑکنا چھوڑ دیتا ہے میں کبھی بھی تم سے جدا نہیں ہوسکتا ہمیں ایک دوسرے سے کوئی جدا نہیں کرسکتا سوائے اس پاک ذات کے ہممم ۔۔۔

میر نے اپنائیت اور پیارے بھرے لہجے میں  کہا 

تو ماہ نور بھی مسکراتی اسکی بات پہ سر کو ہاں میں ہلاتی اسکے سینے سے لگی تھی ۔۔۔

لیکن ابھی بھی محبت کو کئی امتحان دینے تھے اسکے بعد ہی اسکو اپنی منزل ملنی تھی ۔۔۔

❤️❤️❤️

مشال اور دائم دوڑتے ہوئے زوار کی جانب بڑھے تھے ۔۔۔

زوار کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ۔۔۔

زوار کا سر دائم کی گود میں تھا ۔۔۔

مشال کا چہرہ آنسو سے متواتر تھا ۔۔۔

ززز۔ زز زوار اپنی آنکھیں بند مت کرنا پلیز کک کچھ نہیں ہوگا تت تمہیں... 

مشال نے ہکلاتے ہوئے کہا کیوں کے زوار کا خون کافی زیادہ بہہ چکا تھا ۔۔۔

دد۔۔ دائم پی پی پلیز ہاسپٹل چلیں ۔۔۔

زوار دیکھ آنکھیں مت بند کرنا بات سن ۔۔۔

دائم بول رہا تھا ۔۔۔

( دراصل چند گھنٹے پہلے جب زوار نے دائم کو کال کی تھی تب ہی ایک میسیج عفان شاہ کو کیا تھا جس میں اسنے کہا تھا کہ عفان شاہ شرافت سے اپنے گناہ قبول کرلے اور یہاں آکر مشال کو تما سچائی بتادے اور اس سے معافی مانگ لے اب وہ مشال پہ تھا کہ وہ اسے معاف کرتی ہے کہ نہیں اور اگر اسنے ایسا نا کیا تو وہ خود تمام سچائی مشال کو بتا دے گا ) 

یہ سب دیکھنے کے بعد عفان شاہ نے زورا پہ جان لیوا حملہ کیا تھا کیوں کے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مشال کو انکی سچائی پتہ چلے مگر وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ مشال آل ریڈی انکی سچائی جان چکی ہے ۔۔۔

مم مشال دد دائم ۔۔۔

زوار نے اکھڑتی سانسوں کے ساتھ کہا ۔۔

ہاں ہاں بولو سن رہے ہیں 

مم مجھے معاف کردو تم دونوں میں تم دونوں ۔۔۔۔ کے ببب بی بیچ آیا تھا ۔۔۔

مم مم میں ششش شرمندہ ہوں بب بہت  ۔۔۔۔

مشکل سے بولا جارہا تھا ۔۔۔

زوار دیکھو تت تمہیں کچھ نہیں ہوگا مم میں تت تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے دونگی ۔۔

دائم کال دا آمبولینس ۔۔۔

Daim call the Ambulance!!! 

نن نن نہیں مم مم مشال مم میرے پاس ققق وقت بہت کک کم ہہ ہے ۔۔۔

دائم مم میں جج جانتا ہہ ہوں ککک کہ تت تم سے ززز۔۔زیادہ  مم مم مم مشال سے شش شدتِ مم محبت کک کوئی نن نہیں کرسس کرسکتا ۔۔۔ 

ایک پل مشال نے دائم کی آنکھوں میں دیکھا جو زوار کی بات سن رہا تھا ۔۔۔

یی یہ ببب بات سس سچ ہے کک کہ مم میں نے بب بھی ممم مشال سے سس سچی مم محبت کی ہے لیکن مم مم مشال نن نے صرف تت تم سے پیار کک کیا ہہ ہے ۔۔۔

اا اسس اس بب بات کک کا گگ گواہ مم میں خخ خود ہوں ۔۔۔

اایی ایک وعدہ کرو مم مجھے سے ددا دائم پی پی پلیز 

۔۔۔

ہاں ہاں بولو زوار سن رہا ہوں میں ۔۔۔

مشال زوار کو کھونا نہیں چاہتی تھی جو کچھ بھی تھا وہ اسکا بہت اچھا دوست تھا اور بعض اوقات دوستوں میں بھی کئی ایسی باتیں ہوجاتی ہیں لیکن کہہ دینے سے دوستی ختم نہیں ہوجایا کرتی ۔۔۔

ممم مشال کا خخ خیال رر رکھنا تمام عع عمر اسکا سس ساتھ نبھانا ۔۔۔ اسس اسکی کردار کک کی گگ گواہی مم میں خخ خود دیتا ہوں ۔۔۔

اا سس اسے ہمشیہ یو یی یونہی پپ پیار کرنا ۔۔۔

بب بولو کک کروگے نا؟؟ 

ہاں ہاں کروں گا ۔۔۔

دائم کی بات سن کے گویا زوار کی تڑپتی روح کو چین آیا تھا ۔۔۔

ہہ ہوسکے تت تو تم دونوں مم مجھے معاف کردینا!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زوار؟؟؟ 

زوار؟؟ 

مشال نے زوار کو جھنجھوڑا تھا ۔۔۔

جبکے دائم نے مشال کی جانب دیکھ کے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔۔

مشال شدت سے روتے ہوئے دائم کے سینے سے لگی تھی ۔۔۔

عفان شاہ جبھی وہاں انکے سامنے آکھڑے ہوئے تھے ۔۔۔

چچچچ افسوس ہورہا ہوگا نا زوار کی موت کا؟؟ 

مشال نے نفرت بھری نگاہوں سے عفان شاہ کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

دائم نے مزید مشال کو خود میں بھینچ لیا تھا ۔۔۔

اب سمجھ آیا کہ عفان شاہ سے دشمنی مول لینے والوں کا یہ ہی انجام ہوتا ہے جیسے کے تمہارے ماں باپ تمہاری دادی جان اور اب تمہارے دوست کا ہوا ہے ۔۔۔

عفان شاہ نفرت سے پھنکارے تھے ۔۔

جبکے مشال نے عفان شاہ کے چہرے پہ تھوکا تھا ۔۔۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی اتنی گھٹیا حرکت کرنے کی جان لے لوں گا تمہاری 

عفان شاہ کہتے ہوئے مشال کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھے تھے اس سے پہلے کہ وہ اسے مارتے دائم نے انکا ہاتھ پکڑ کے مڑورا جس پہ وہ کراہ اٹھے تھے 

" چھوڑ مجھے سالے دو کوڑی کے آدمی تیرے تو میں ٹکرے ٹکرے کروں گا عفان شاہ سے پنگا لے کے تو نے اپنی موت کو خود دعوت دی ہے تجھے بھی ٹھیک ویسی ہی موت دونگا جیسے تیری اس بڑھیا دادی کو موت دی تھی ۔۔۔"

وہ مسلسل اپنا آپ چھڑوانے کی جہدود میں تھے 

مشال نے موقع پاتے ہی پولیس اسٹیشن کال کی اور فوراً وہاں پہنچنے کا کہا ۔۔۔

" تو جانتا ہے عفان شاہ مجھے تجھ پہ ترس آرہا ہے کیسا انسان ہے تو ہاں؟؟ 

کتنے لوگوں کی جان لے گا اپنے گھٹیا مقصد کے لیے .؟؟.

کیا تیرے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہے؟؟ 

ایک دفعہ بھی تجھے اس یتیم بچی کا خیال نہیں آیا 

ارے بیوقوف انسان وہ تیرا اپنا ہی خون ہے تجھے اسنے اپنا باپ مانا تھا اور تو نے اسکے ساتھ کیا کیا  ؟؟

دھوکا دیا اسے ۔۔

مان توڑا اسکا اعتبار جو اسے تجھ پہ تھا 

تجھے یہ سب کرتے ہوئے خدا کا خوف نہیں آیا کیا؟؟ 

ہاں کیا ایک انسان پیسے کی لالچ میں اتنا اندھا ہوکے اتنا گر سکتا ہے کہ وہ اچھے برے جائز نا جائز کی تمیز بھول جائے " ۔؟؟

دائم نے کہا 

اتنے میں پولیس آچکی تھی 

اور ان لوگوں کی جانب بڑھنے لگی 

دائم نے عفان شاہ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔۔۔

پو۔۔ پپ پولیس ۔۔۔

ایک لمحے میں عفان شاہ کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا لیکن اگلے ہی لمحے ایک کمینگی مسکراہٹ نے انکے لبوں کا احاطہ کرلیا تھا ۔۔۔

انسپکٹر صاحب دیکھیں یہ دونوں میاں بیوی مجھے جان سے مارنا چاہتے ہیں ۔۔۔

کہا ہی تھا کہ ایک زوردار مکہ پڑا تھا دائم سے جس پہ عفان شاہ کراہ کے رہ گئے تھے ۔۔۔

انن انسپکٹر صاحب دیکھیں یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں ۔۔۔

عفان شاہ نے تیزی سے کہہ کے وہاں سے فرار ہونا چاہا لیکن بےسود 

دو زوردار ٹانگیں پڑی تھیں دائم سے 

جس پہ وہ زمین پہ جاگرے تھے ۔۔۔

ایک پولیس کانسٹیبل نے انکو پکڑ کے کھڑا کیا تھا ۔۔۔

" ابے کتے سالے تیری اتنی ہمت کہ تو عفان شاہ پہ ہاتھ اٹھائے "

کہہ کے وہ دائم کی جانب بڑھے تھے کہ ایک وہاں موجود ایک پوری انسپکٹر نے ایک زوردار تھپڑ عفان شاہ کے منہ پہ جڑا تھا ۔۔۔

تو جانتا ہے سالے کہ تو کس سے بات کررہا ہے؟؟؟ 

وہاں موجود ایک کانسٹیبل بولا 

دائم دُرانی کوئی معمولی انسان نہیں ہے ۔۔۔ ISI سے تعلق ہے انکا ۔۔۔

بیک وقت ہی سب نے دائم کو سلیوٹ کیا تھا ۔۔۔

عفان شاہ تو دنگ رہ گئے تھے. ۔۔

جسے وہ ہمیشہ سے دو کوڑی کا انسان کہتے آئے تھے جبکے حقیقت  میں وہ خود ایک دو ٹکے کے انسان تھے وہ انکے ملک کا محافظ نکلا اور وہ خود کیا تھے 

ایک غددار؟ 

ایک سودباز؟؟ 

اپنے ہی وطن کی بہن بیٹیوں کی عزتیں نیلام کراتے تھے ۔۔۔

وہ اپنی جگہ سوچ کے رہ گئے تھے۔۔۔

ماما چلیں  ہمیں لیٹ ہورہا ہے ۔۔

چونکہ کے میر اور ماہ نور کی شادی میں ایک ہفتہ ہی باقی تھا تقریباً آل موسٹ تیاری ہو ہی چکی تھی لیکن ماہ نور کی کچھ چیزیں رہتی تھیں جوکے خریدنی باقی تھیں۔۔

بس بیٹا آپ چلو میں آگئی ۔۔۔

عائشہ بیگم بھی گاڑی میں جاکے بیٹھی تھیں 

اور ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کردی تھی ۔۔۔

آدھے گھنٹے کے بعد وہ اسلام آباد کے مہنگے ترین مال Centarous Mall میں پہنچ چکی تھیں ۔۔۔ 

نتاشا جو کے کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھی کھانا کھارہی تھی ۔۔۔

اچانک ہی اسکی سیل ٹون بجی ۔۔۔

ہیلو میم ۔۔۔

ہاں بولو 

جی میم وہ اپنی ماں کے ساتھ اسلام آباد centarous Mall آئی ہوئی ہے ۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے تمھیں پتہ ہے نا کہ کیا کرنا ہے؟؟ 

جی میم 

ہممم کام ہوجائے تو مجھے ایک " ڈن " کا ٹیکسٹ کردینا ۔۔۔

اوکے میم ۔۔۔

اور نتاشا انصاری نے کال کاٹ دی تھی 

اور اپنے بنائے ہوئے پلان پہ عمل کرنے کا سوچنے لگی تھی ۔۔۔

ماہ نور کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی کے نظروں کے حصار میں ہے ۔۔۔

ماہ نور بیٹا ۔۔۔

یہ ساڑھی دیکھو تم پہ بہت سوٹ کرے گی ۔۔۔

وہ اسے سلور کلر کی ساڑھی دیکھاتی ہوئیں بولیں 

تم ایسا کرو کہ یہ ٹرائے روم میں ٹرائی کرلو جاکے

اوکے ماما 

ماہ نور مسکراتی ہوئی چلی گئی تھی ۔۔۔

اور اپنا موبائل وہی چھوڑ گئی تھی ۔۔۔

موقع پاتے ہی وہاں موجود سیل مین جو کے نتاشا کے لیے کام کرتا تھا بھیس بدل کے مال میں موجود تھا فون اٹھا کے باہر کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

ماہ نور اور عائشہ بیگم جب شاپنگ سے فارغ ہوئیں تو ماہ نور نے اپنی جینز کی پاکٹ میں چیک کیا تو اسکا فون اسکے پاس نہیں  تھا ۔۔۔

او نو 

ماما میرا موبائل کہیں گر گیا ہے ۔۔

ماہ نور پریشان ہوتے ہوئے بولی ۔

عائشہ بیگم بھی فکرمند ہوئیں 

ماما اب کیا?? 

بیٹا اب کیا کرسکتے ہیں نیو لے لینا ویسے بھی الله کا دیا سب کچھ ہے تمہارے پاپا کے پاس ۔۔۔

ماما وہ سب ٹھیک ہے لیکن اس میں میری کئی اپمورٹینٹ فائلز اور پرسنل انفو تھی ۔۔۔

انشاء الله بیٹا مل جائے گا 

کچھ سوچتے ہیں گھر جاکے ۔۔۔

عائشہ بیگم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا 

تو وہ بھی سر کو ہاں میں ہلاتی ہوئی آگے انکے ساتھ چل دی تھی اس بات سے بے خبر کے اب ایک بار پھر سے اسکی محبت کا امتحان وقت آن پہنچا تھا ۔۔۔

نتاشا کے پاس ماہ نور کا موبائل پہنچ چکا تھا ۔۔۔

میر اپنے لیے کیچن میں کافی بنا رہا تھا ۔۔ اچانک ہی اسے ماہ نور کے فون سے ٹیکسٹ آیا تھا ۔۔۔

" میر پلیز آپ " ہوٹل ریڈ لائن " 

 " Hotel Red Line "

میں پہنچے مجھے آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔

جبکے میر تھوڑا حیران ہوا کہ اب جبکے شادی میں بھی کچھ ہی دن باقی تھے اور ماہ نور گھر بھی بلا سکتی تھی اسے اگر کوئی کام تھا تو وہ یوں اکیلے کیوں بلا رہی تھی ۔۔؟؟

لیکن اپنی سوچ کو جھٹکتا ہوا چل دیا کیوں کے وہ ماہ نور کی ناراضگی افوڈر نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے میں وہ اسلام آباد ہوٹل ریڈ لائن پہنچ چکا تھا ۔۔۔

وہ ریسپشن سے روم کا پوچھ چکا تھا ریسپشنسٹ کے بتانے پہ وہ اوپر چلا گیا تھا کیوں کے ریسپشنسٹ نے کہا تھا کہ ماہ نور اوپر روم میں اسکا ویٹ کررہی ہے ۔۔۔

وہ اندر داخل ہوا تو وہاں کوئی موجود نا تھا ۔۔۔

اچانک ہی اسے ایک میسیج موصول ہوا جو کے ماہ نور کی جانب سے تھا پڑھ کے اسکے ہونٹوں پہ ایک مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔۔۔

ماہ نور کے کہنے کے مطابق وہ ٹیبل پہ سامنے اسکا جوس رکھا ہے وہ اسے پی لے تب تک ماہ نور  بارات کا ڈریس پہن کے آتی ہے یعنی کے وہ اسے لہنگا پہن کے دیکھنا چاہتی تھی کہ یہ لہنگا اس پہ کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔

میر نے جوس پی لیا تھا ۔۔۔

اچانک ہی میر کو چکر آنے لگے تھے وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا ۔۔

دراصل میر کو نشہ آور گولیوں ملا جوس پلایا گیا تھا ۔۔۔

جو کے نتاشا نے کیا تھا یہ اسکی پلاننگ کا پارٹ تھا کہ کیسے ماہ نور اور میر کو ایک دوسرے سے دور کرنا ہے ۔۔۔

اچانک ہی ایک ریڈ لہنگا پہننے وہ باہر آئی تھی لیکن میر کو دیکھ کے ٹھٹھکی کیوں کے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ وہ اتنا خوبصورت مرد دیکھ رہی تھی وہ اپنا مقصد بھول چکی تھی یاد تھا تو بس اسکی قربت جسکو پانے کے لیے وہ مچلی جارہی تھی ۔۔۔

مم م ماہ نور تت تم آگئی؟؟ 

میر کو دھندلا دیکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

ہاں میر میری جان دیکھو میں آگئی بالکل تمہارے پاس تمہاری بانہوں میں ۔۔۔

وہ اس کو بیڈ پہ دھکا دیتی اسپر جھکی تھی 

مم ماہ نور کک کیا ر رر رہی ہو یی یہ؟؟ 

اپنی جان کو پیار کررہی ہوں 

وہ اسکے چہرے پہ اپنی انگلی پھیرتی بولی 

مم ماہ نور تت تمھیں پتہ ہے نا کہ میں تت تم سے بہت زیادہ پپ پیار کرتا ہوں؟؟ 

بامشکل بولا جارہا تھا کیوں کے نشہ ابھی تک طاری تھا ۔۔۔

میر کا ماہ نور کے لیے اظہارِ محبت نتاشا کو اندر تک سلگا گیا تھا ماہ نور سے جلن محسوس ہوئی تھی اسے ۔۔۔

ہاں جان جانتی ہوں ۔۔۔

کہتے اسنے اسکی شرٹ کے دو اوپری بٹن کھولے تھے 

کہ اچانک ہی انسپکٹر عمیر کا میسیج آیا ۔۔۔

" کام ہوگیا " ؟؟؟

اچانک ہی اسے اپنا بھولا ہوا مقصد یاد آیا تو اسکے چہرے پہ ایک کمینگی مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا 

پھر اسنے اپنے ہونٹوں پہ لگی لپ اسٹک سے جا بجا میر کے گلے پہ نشان چھوڑے 

اور پھر اسی کے ساتھ اسکے انتہائی قریب لیٹ کے اپنی اور اسکی کچھ نازیبا پکس بنائی تھیں ۔۔۔

اور ماہ نور کے موبائل سے وہ سارے میسیجز ڈیلیٹ کردئیے تھے جو اسنے ماہ نور بن کے میر کو کیے تھے ۔۔۔

اور انسپکٹر عمیر کو " یس " لکھ کر میسیج سینڈ کردیا تھا ۔۔۔۔

" ہونا تو تمہیں میرا ہی پڑے گا میر ارسلان بٹ نتاشا انصاری کو جو پسند آجائے اسکو پانے کے لیے وہ ہر حد عبور کرجاتی ہے اور تم پہ تو نتاشا انصاری کا دل پہلی نظر میں ہی آگیا تھا " 

ایک طنزیہ مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتی اپنا ڈریس چینج کرکے اسکے پاس آکے اسکے گال پہ اپنا لمس چھوڑتی وہ باہر کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔

ایک نیا طوفان میر اور ماہ نور کا منتظر تھا ۔۔۔

مس مشال دائم دُرانی آپ ہمیں بت ائیں کہ آپکے چاچو نے کیا کیا ہے؟؟ 

مشال نے ایک نفرت بھرئی نگاہ ان پہ ڈالی پھر گویا ہوئی ۔۔۔

فرسٹ آف آل انسپکٹر صاحب یہ شخص چاچو کہلانے کے لائق ہے ہی نہیں جس نے اپنے ہی ملک کی بہن بیٹیوں کی قیمت لگائی ہو ۔۔۔

دائم اور عفان شاہ نے بیک وقت مشال کو دیکھا تھا 

کہ وہ یہ سب کیسے جانتی ہے؟؟؟ 

اور دوسری بات یہ کہ انھوں نے دو نہیں چار قتل کیے ہیں ۔۔۔

اب حیران ہونے کی باری دائم کی تھی ۔۔۔

اس میں صرف عفان شاہ ہی نہیں انکے پرسنل سیکرٹری جمال اور آپکے شعبے کے ہنور ہار انسپکٹر عمیر بھی شامل ہیں جو ظاہری سی بات ہے بکے ہوئے ہیں ۔۔۔

انھوں نے ایک میرے دوست زوار ملک اعوان کو اور ایک میرے شوہر کی دادی کو ہی نہیں بلکہ اپنے سگے بھائی اور انکی بیوی کو مارا ہے ۔۔۔

آخر میں مشال کی آواز رندھ گئی تھی ۔۔۔

آپکو ثبوت چاہیے نا؟؟ 

میں آپکو شاہ منیشن جاکے وہ تمام ثبوت دکھانے کے لیے بھی تیار ہوں لیکن فل وقت آپ انسپکٹر عمیر اور سیکرٹری جمال سے سب پوچھ سکتے ہیں وہ یہاں کچھ ہی دیر میں پہنچتے ہوں گے ۔۔۔

جمال اور انسپکٹر عمیر کو پولیس کو دیکھ کے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے تھے لیکن وہ خود پہ قابو پاتے ہوئے آگے بڑھے تھے ۔۔۔

اس سے پہلے کہ پولیس انسپکٹر انکے پاس جاتا مشال آگے بڑھی اور ایک زوردار تھپڑ کھینچ کے جمال کے منہ پہ دے مارا تھا ۔۔۔

جس پہ انسپکٹر عمیر کانپ اٹھا تھا ۔۔۔

دائم تو فرصت سے اپنی لٹل فیری کی دلیری دے کے خوش تھا کہ وہ کمزور نہیں ہے اپنا حق لینا وہ خوب جانتی ہے ۔۔۔

بول کمینے تو نے مارا ہے میرے ماما پاپا کو اس گھٹیا عفان شاہ کے ساتھ مل کے؟؟ 

بول کمینے تجھ جیسا گرا ہوں انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا جو پیسے کی خاطر اتنا گر گیا کہ دو بے قصور لوگوں کی جانیں لے ڈالیں تم لوگوں نے ۔۔۔

اعتراف کر اپنے منہ سے  بول... 

مشال نے اسکا گریبان جنھوڑتے ہوئے کہا 

مم ممی میم پہ پہ پپ پلیز میں بتاتا ہوں ۔۔۔

پھر جمال نے الف سے لے کے ے تک کی ساری بات کہہ ڈالی ۔۔۔

ایک پولیس کانسٹیبل نے جمال کو اپنی حراست میں لے لیا جبکہ عفان شاہ کو بھی انسپکٹر نے پکڑ رکھا تھا ۔۔۔

انسپکٹر عمیر میں صرف آپکو یہ ہی کہنا چاہوں گی کہ آپ جیسے غداروں کی وجہ سے پولیس جیسا محافظ شعبہ بدنام ہے آپ کو صرف اپنے آرام و سکون کی فکر ہے نا کہ اپنے وطن سے محبت چچچ ۔۔۔ افسوس ہورہا ہے مجھے آپ سب پہ یہ میرے الله کا انصاف ہے آج میرے ماما پاپا کی روح کو سکون ملا ہوگا ۔۔۔

کہتے ہوئے مشال کی آنکھیں نم ہوئی تھیں 

انسپکٹر عمیر کو بھی پولیس اپنی حراست میں لے چکی تھی ۔۔۔

مشال عفان شاہ کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔

آج بتا ہی دیں کیا ملا آپ کو یہ سب کرکے؟؟؟ 

کیوں یتیم کردیا مجھے؟؟ 

کیا قصور تھا آپکے بھائی کا؟؟؟ 

کیا قصور تھا میری ماں کا؟؟ 

یہ ہی کہ انھوں نے آپکے بھائی سے سچی محبت کی تھی؟؟  

ہمممم ۔۔۔۔

مشال اب انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بولی 

اور آپ نے کیا کہا تھا کہ آپ سویرا شاہ سے محبت کرتے ہیں؟؟  

مشال طنزیہ ہنسی تھی ۔۔۔

تو کیا جن سے محبت کی جائے انکے کردار پہ یوں الزام لگایا جاتا ہے انکی عزت کو یوں پامال کیا جاتا ہے انکے کردار پہ یوں کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ وہ اپنی ہی نظروں میں گر جائیں ہاں؟؟ 

تف ہے آپ پہ عفان شاہ 

مجھے گھن آرہی ہے آپ سے 

مشال سسکی تھی 

دائم آگے بڑھ کے اسے شانوں سے تھاما تھا ۔۔۔

آپکے سگے بھائی نے کیا بگاڑا تھا آپ کا ہاں؟؟ 

جسکی تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا آپ نے؟؟ 

مشال غرائی تھی 

چھوٹا بھائی نہیں باپ بن کے پالا تھا پاپا نے آپکو 

اور آپ نے انکی ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ ڈالا؟؟؟ 

آخر کیوں عفان شاہ 

آپ لالچ اور ہوس میں اتنے اندھے کیسے ہوگئے کہ جائز نا جائز اچھے برے کی تمیز بھول گئے اپنے سگے بھائی کو بدگمان کرکے مار ڈالا ۔۔۔

اب کی بار مشال چیلائی تھی 

مشی بیٹا میری بات تو سنو 

عفان شاہ نے کہنا چاہا لیکن مشال گویا پڑی تھی 

دائم نے اسے روکا نہیں تھا کیوں کے وہ چاہتا تھا کہ بیس سال سے اسکے اندر جو بھی غبار ہے وہ اسے نکال پھینکے تب ہی اسے ذہنی سکون ملے گا ۔۔۔

 اور میرے دائم کی دادی نے کیا بگاڑا تھا آپکا؟؟ 

محض ایک رشتے کے پیچھے اپنی یہ دو کوڑی کی عزت کے پیچھے آپ نے انکو بھی ماردیا ؟؟؟

یہ بھی لحاظ نہیں کیا کہ وہ آپ سے عمر میں بڑی ہیں آپکی ماں کی جگہ ہیں؟؟ 

کیوں عفان شاہ کس بات کا غرور ہے آپکو؟؟ 

اپنا یہ غلیظ چہرہ آئینے میں جاکے دیکھیں اور خود سے اپنے ضمیر سے یہ سوال کریں کے کیا واقعی ہی آپ نے ٹھیک کیا؟؟؟  

جواب مل جائے گا آپکو ۔۔۔

آج عفان شاہ کا سر شرمندگی کے باعث جھک چکا تھا انکی عزت دو کوڑی کی رہ گئی تھی ۔۔۔

آج واقعی ہی میں انصاف ہوا تھا اور یقینًا الله کا انصاف بےشک بہت سخت ہے ۔۔

انسپکٹر صاحب 

دائم نے کہا 

جی سر حکم کریں 

ان تینوں غداروں کو لے جائیں اور کڑی سے کڑی سزا دیں ۔۔۔

اگر یہ کیس عدالت میں گیا تو ہم یہ کیس لڑیں گے ۔۔۔

 جی سر آپ بالکل فکر نا کریں ایسا ہی ہوگا 

اور ایک اور انسپکٹر عمیر کو معطل کروانا آپکا کام ہے 

کیوں کے اس طرح کے غداروں کے لیے کوئی معافی نہیں ہے ۔۔۔

اور اس میں آپکو جو بھی ہیلپ چاہیے ہو تو میں تیار ہوں ۔۔۔

وہ انسپکٹر عمیر کی جانب طنزیہ دیکھتا ہوا بولا 

جبکہ اس سے شرمندگی کے باعث نظریں نہیں اٹھائی جارہی تھیں ۔۔۔

دائم نے ایک نظر اپنی کلائی پہ باندھی گھڑی کی جانب دیکھا پھر گویا ہوا ۔۔

چار بجنے میں آدھا گھنٹہ باقی ہے Ronaldo's اور اسکے ساتھی کبھی بھی یہاں اسمگلنگ کے لیے پہنچتے ہوں گے ۔۔۔

آئی ہوپ آپ سب ہینڈل کرلیں ۔۔۔

یس شیور سر ۔۔۔

I hope you all handle it۔۔۔

Yes sure sir!!! 

اوکے گڈ لک فار یور ورک 

Ok Good luck for your work ...

دائم نے کہا تھا ۔۔۔

اور مشال کی جانب دیکھا تھا جو فخریہ نگاہوں اور تشکر بھری نگاہوں سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔۔

گھر چلیں مائے لٹل فیری؟؟ 

دائم نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے 

جسکو مشال نے فوراَ تھام لیا تھا ۔۔۔

اب وہ کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی سوائے اپنے دائم کے جس نے پوری شان و شوکت سے اسکے دل میں اپنا ڈیرہ جمالیا تھا ۔۔۔

وہ مسکراتی ہوئی اسکے ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی تھی 

اور دائم بھی اسے دیکھ کے دلکشی سے مسکراتا ہوا گاڑی کو زن سے بھگا لے گیا تھا ۔۔۔

ماہ نور کو گھر آئے ہوئے آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا وہ پریشانی کے عالم میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی ۔۔۔

وہ ابھی واجد خان کو لینڈ لائن سے کال کرنے ہی لگی تھی کہ گارڈ مین اندر آیا ۔۔۔

ماہ نور بی بی ۔۔۔

جی؟؟ 

بی بی جی یہ آپکا موبائل کوئی بندہ واپس کرکے گیا تھا کہہ رہا تھا اسے کسی مال میں پڑا ہوا ملا تھا ۔۔۔

اچھا ۔۔۔

ماہ نور نے ناسمجھی سے گارڈ کی جانب دیکھا اور وہ بوکس پکڑ لیا جس میں موبائل تھا ۔۔۔

ٹھیک ہے آپ جائیں ۔۔۔

ماہ نور کہہ کے موبائل اٹھا کے اوپر اپنے روم میں آئی تھی ۔۔۔

جب اسنے بوکس اوپن کیا جو کے پیکڈ تھا اسکے موبائل کے ساتھ ساتھ ایک پیپر نوٹ بھی نکلا ۔۔۔

ماہ نور تشویش میں مبتلا تھی کہ اس میں کیا لکھا ہے اور یہ کس نے بھیجا ہے؟؟؟ 

اس نے ہمت کرکے کھولنا شروع کیا تھا ۔۔۔

" ماہ نور خان اپنے موبائل کو اوپن کرو کیوں کے جب تم اپنی ذات کی اپنے احساسات کی اپنے جذبات کی دھجیاں اڑتی دیکھو گی نا یقین نہیں آئے گا تمہیں کہ یہ وہی انسان ہے جس پہ تم نے سب سے زیادہ بھروسہ کیا تھا جس سے تم نے محبت کی تھی ناؤ اوپن یور موبائل کے سی وٹ از ایکچولی گوؤئنگ ۔۔۔

Now open your Mobile and see what is Actually Going!!! 

ماہ نور نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے موبائل اوپن کیا تھا ۔۔۔

جیسے ہی اسنے موبائل کا کوڈ آن لاک کیا تھا ویسے ہی اسے ایک نوٹیفکیشن موصول ہوئی تھی ۔۔۔

جس کو دیکھ کے ماہ نور لڑکھڑائی تھی ۔۔۔

سن ہوتے حواسوں سے اس نے وہ فوٹوز دیکھیں تھیں ۔۔۔

کئی آنسو اسکی پلکوں کی بار توڑ کر بہہ نکلے تھے ۔۔۔

وہ رونا چاہتی تھی چیخ چیخ کر بتانا چاہتی تھی کہ وہ کس تکلیف سے گزر رہی ہے لیکن اسکے پاس کوئی بھی نا تھا جس سے وہ اپنا دکھ بانٹ سکتی تھی وہ ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔

" ٹوٹ کر چاہنا اور پھر ٹوٹ جانا 

بات چھوٹی ہے لیکن جان نکل جاتی ہے " 

میر نے اسکے بھروسہ کو چکنا چور کرکے رکھ دیا تھا وہ مان جو اسے اس پہ تھا کتنا پیار کرتی تھی وہ اس سے اور اسنے ایک پل نہیں لگایا تھا اسے پرایا کرنے میں ۔۔۔

لال انگارہ ہوتی آنکھیں اٹھائیں تھیں اور بےدردی سے اپنے آنسو رگڑے تھے ۔۔۔

ایک فیصلہ پہ وہ پہنچ چکی تھی ۔۔۔

میر کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ہوٹل کے اسی روم میں موجود پایا۔۔۔

ماہ نور کو کہیں نا پاکے وہ پریشان ہوا اور فوراً اٹھ کے باہر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔

ایکسوزمی؟؟ 

یس سر؟؟ 

ریسپشنسٹ نے کہا 

اوپر روم میں سے کوئی لڑکی باہر گئی ہیں؟؟ 

ہاں سر ابھی ایک میڈم گئیں ہیں آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے ۔۔۔

او اچھا ٹھیک ہے انکا نام ماہ نور خان ہی تھا نا؟؟ 

میر نے ایک دفعہ کنفرم کرنا چاہا کیوں اب تو اسے بھی کسی حد تک گڑبڑ لگ رہی تھی ۔۔۔

نو سر ناتشا انصاری کا نام نوٹ کیا گیا ہے اور وہ اپنی پیمنٹ پے کرکے جاچکی ہیں ۔۔۔

واٹ؟؟؟  

ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟ 

میں کسی اور کے ساتھ کیسے؟؟. 

نہیں ایسا کیسے ۔۔۔

فوراً سے پہلے وہ وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تھا ۔۔۔

کمرے میں اندھیرا ہونے کے ساتھ ساتھ دھواں ہی دھواں ہوا پھیلا ہوا تھا اور وہ سگریٹ کے گہرے کش لگاتا اپنی ماضی کی تلخ یادوں کو مٹانے میں مصروف تھا ۔۔۔

کہ یکدم ہی مشال اندر آئی تھی،،، 

اندر آتے ہی اسے سگریٹ کے دھوایں کی وجہ سے کھانسی آئی تھی ۔۔۔

وہ ایک ہی جست میں آگے بڑھی اور سگریٹ دائم کے ہاتھ سے لے کے کچھ ہی فاصلے پہ رکھی ڈسٹ بن میں پھینک دیا تھا ۔۔۔

جبکہ دائم نے اسے خون آشام نظروں سے گھورا 

اسکے یوں گھورنے پہ وہ اندر تک کانپ اٹھی تھی 

اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے فرار ہوتی 

دائم نے اسے اپنی طرف کھینچا کہ وہ یکدم اسکی گود میں آگری ۔۔۔

دد ۔۔ دائم کک کیا کررہے ہیں آپ؟؟ 

مشال نے ڈرتے ڈرتے اسکی جانب دیکھا 

لیکن فوراً ہی نظریں جھکا گئی کیوں کے وہ اسکی پرتپش سانسیں لودیتی نگاہیں اور بولتی نظروں سے گھبرا گئی تھی ۔۔۔

دائم نے دونوں ہاتھ اسکی کمر پہ رکھے کے اسے مزید قریب کیا اتنا کہ اسکی پرتپش سانسیں اسکی گردن کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔

دد۔۔۔ دا دائم 

ہمممم دائم کی جان 

اسکی کی خمار آلود اور جذبات سے بوجھل آواز پہ مشال پسینے میں نہا گئی تھی ۔۔۔

دد ۔۔ دا دائم آپ سگریٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟؟ 

مشال نے اب اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا 

تم نے کہہ دیا نا اب نہیں پیوں گا ۔۔۔ مائے لٹل فیری 

دائم نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا جہاں جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیا تھا مشال کو ۔۔۔

لٹل فیری ۔۔۔

جج جی ۔۔۔

تمہیں پتہ ہے نا کہ مجھے سگریٹ کی کتنی طلب ہوتی ہے اب تم نے کہا ہے کہ اسے نہیں پینا ۔۔۔

ہاں ۔۔۔

مشال نے کہا 

ٹھیک ہے لیکن جب جب مجھے سگریٹ کی طلب ہوا کرے گی نا تب تب تک مجھے تمہارے یہ ۔۔۔

وہ اسکی پنکھڑی جیسے گلابی ہونٹوں پہ اپنا انگوٹھا پھیرتا ہوا بولا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کوئی گستاخی کرتا مشال نے اسکے اسکے ہونٹوں پہ اپنے نازک خوبصورت ہاتھ رکھ دئیے تھے ۔۔۔

لرزتی پلکیں دہکتے لال گال اور لرزتے گلابی لب جھکی ہوئی نظریں ۔۔۔

دائم تو گویا اسکی ان اداوں کا دیوانہ ہی ہوگیا تھا ۔۔۔

دائم نے آہستگی سے اسکے ہاتھ اپنے ہونٹوں سے ہٹائے 

مائے لٹل فیری ۔۔۔

جی ۔۔۔

یہ پھر کب دیکھنے کو ملا گا؟؟ 

کیا ؟؟

مشال نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔

یہ ہی حسین نظارا ۔۔۔

دائم نے خمار آلود لہجے میں بہکتے ہوئے کہا 

جبکہ کے مشال شرم کے مارے اپنا چہرہ دائم کی گردن میں چھپا گئی ۔۔۔

جبکہ کے دائم دلکشی سے مسکرا کے اسکے گرد اپنا حصار تنگ کرگیا تھا ۔۔۔

ماہ نور نے میر کے گھر جانے کا خود فیصلہ کیا تھا اسی لیے شام ہوتے ہی وہ اسکے گھر جا پہنچی تھی ۔۔۔

میر بہت ڈسٹرب تھا لہذا اسنے اس بارے میں کسی سے کوئی بات نا کی تھی وہ بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتا تھا کہ آخر یہ نتاشا انصاری کون ہے ۔۔۔ اور اس سے کیا چاہتی ہے ۔۔۔

جب ماہ نور میر کے گھر پہنچی تو اسے چاروں طرف اندھیرا ہی دیکھنے کو ملا ۔۔۔

وہ سیدھی میر کے کمرے میں پہنچی وہاں بھی وہ نہیں تھا باقی بھی ہر جگہ دیکھ لیا ۔۔۔

لیکن شاید اسنے نوٹ نہیں کیا کہ میر کے بیڈروم کے ساتھ ہی ایک بہت روم ہے جو ہمیشہ لاکڈ رہتا تھا ۔۔۔

آج وہ لاکڈ نہیں تھا ۔۔۔

دراصل یہ کمرا میر کے ماما پاپا کا تھا وہ جب بھی اداس ہوتا تھا وہاں چلا جاتا تھا یا پھر پریشان ہوتا تھا تب چلا جاتا تھا ۔۔۔

ماہ نور کمرے میں آئی تو وہاں بھی اندھیرا ہی ہو رکھا تھا ۔۔۔

لیکن سامنے ہی میر صوفے پہ براجمان ٹانگ پہ ٹانگ رکھے سگریٹ کے گہرے کش لے رہا تھا ۔۔۔

اسے ماہ نور کے آنے کا علم نہیں ہوسکا تھا ۔۔۔

اس لیے ماہ نور کہنے لگی ۔۔۔

میر؟؟ 

میر نے چونک کے ماہ نور کی جانب دیکھا

نور تم یہاں؟؟ 

کیوں مجھے دیکھ کے شاک لگا؟؟ 

یا تم میری جگہ کسی اور کو expect کررہے تھے؟؟ 

میر نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا 

کیا مطلب ہے تمہارے کہنے کا؟؟ 

آج دن کو تم کہاں تھے میر ارسلان بٹ؟؟ 

ماہ نور نے پوچھا. 

کیا مطلب کہاں تھا میں ایک ضروری کام سے باہر گیا تھا ۔۔۔

اور وہ ضروری کام  کیا تھا کونسا تھا بتانا پسند کرو گے؟؟ 

ماہ نور نے لہو رنگ آنکھوں سے میر کی جانب آہستہ آواز میں لیکن انتہائی غصے میں کہا ۔۔۔

نور یار کیا ہوگیا ہے؟؟  تم کب سے ٹیپیکل typical بیویوں کی طرف سوال جواب کرنے لگی ہو؟؟ 

میر نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔

جب سے تم باقی مردوں کی طرف باہر منہ مار کے آنے لگے ہو ۔۔۔

ماہ نور اب کی بار پھٹ پڑی تھی ۔۔۔

واٹ ؟ واٹ دا ہیل؟؟  

کیا کہا تم نے؟ 

میر ایک قدم اسکی جانب بڑھنے لگا تو ماہ نور ست وہی اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔۔۔

قریب مت آنا میرے یو انڈرسٹینڈ ۔۔۔

کیا ہے میں نے جو تم اس قدر بھڑک رہی ہو؟؟ 

میر اب کی بار دھاڑا تھا ۔۔۔

دراصل میر ماہ نور کو اس لیے ہوٹل والی بات نہیں بتانا چاہتا تھا کیوں کے وہ خود اس کیس کو مسلے کو سولو کرنا چاہتا تھا اپنے طریقے سے وہ جانتا تھا ماہ نور جذبات میں آکے اسکی بات کو نہیں سمجھے گی ۔۔۔

ثبوت چاہیے تمھیں؟؟ 

لو دیکھو اپنے کارنامے ۔۔۔

ماہ نور نے وہی ساری فوٹوز دیکھائی تھیں جو نتاشا نے ماہ نور کو سینڈ کی تھیں ۔۔۔

نور میری بات سنو 

جیسا تم سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے 

ان فیکٹ میں خود بہت اس مسلے کو لے کے پریشان ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات ختم کرتا ۔۔۔

چٹاخ ۔۔۔

ایک زوردار طمانچہ ماہ نور نے میر کے منہ پہ دے مارا تھا ۔۔۔

گھٹیا انسان ایک تو گناہ کرتے ہو پھر اس پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہو ۔۔۔

ماہ نور خود نہیں جانتی تھی کب اسکی آنکھوں سے آنسونکل کے چہرے پہ بہنے لگے۔۔۔

ایک جست میں میر آگے بڑھا اور ماہ نور کے بالوں کو اپنی سخت گرفت میں لیا ۔۔۔

کیا سمجھتی ہو تم اپنے آپ کو ہاں؟ 

پالگل ہوں میں  ؟؟

اندھا ہوں؟؟ 

میں نے کوئی گناہ نہیں کیا میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بیوی ہونے کے بجائے بھی باہر منہ ماریں ۔۔۔

گوٹ مائے پوائنٹ ۔۔۔

جھوٹ ۔۔۔

پھر وہ فوٹوز ۔۔۔

جھوٹی ہیں وہ فوٹوز ۔۔۔

تم خود سوچو تمہاری علاوہ میں نے کسی سے شدتِ محبت نہیں کی کسی کو نہیں چاہا کسی کو اپنے رب سے نہیں مانگا ۔۔۔

پلیز ٹرسٹ می نور آئی اونلی لو یو 

I only love you! 

ہاہاہا!!!  

ماہ نور نے اپنے بالوں کو اسکی آہنی گرفت سے آزاد کروا کے خشک سا قہقہہ لگایا۔۔۔

آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں ۔۔۔

یہ سب اور کتنی لڑکیوں کو کہا ہے تم نے ہاں؟؟ 

ارے جب تم نے مجھے دھوکا دینا ہی تھا تو زبردستی نکاح ہی کیوں کیا ۔۔۔ پھر اس پہ ستم یہ کہ تم نے مجھے مجبور کردیا کہ مجھے تم سے محبت ہوگئی۔۔

ماہ نور چیلائی 

نور میری جان ایسی کوئی بات نہیں میں صرف تمہارا ہوں میرا دل صرف تمہارے لیے ڈھڑکتا ہے شدتِ محبت ہے تم سے 

میر نے اب قدرے نرم لہجے میں کہا ۔۔۔

برباد کردیا تمہاری اس شدتِ محبت نے مجھے ۔۔۔

ماہ نور دھاڑی تھی ۔۔۔

ششش!!! 

آواز نیچی میرے سامنے اونچی آواز میں بات مت کرنا ۔۔۔

وہ اسکی بازو کو سختی سے دبوچے گویا ہوا ۔۔۔

مجھے تم سے شادی نہیں کرنی 

ماہ نور کھاٹ کھانے والے لہجے میں گویا ہوئی ۔۔۔

شادی تو ہوچکی ہے جان نکاح ہوچکا ہے ہمارا شاید تم بھول رہی ہو ۔۔۔

نکاح تو ہوچکا ہے رخصتی نہیں ہوگی اور میں ساری بات پاپا کو بتادوں گی ۔۔۔

ماہ نور نے اطمینان سے کہا 

جبکہ میر اسکی بات پہ سلگ کے رہ گیا تھا ۔۔۔

اسکے ہاتھ کو پکڑ کے اپنی جانب کھینچا تو وہ سیدھی اسکے سینے سے آلگی تھی ۔۔۔

چھوڑو مجھے گھٹیا انسان 

جان چھوڑنا ہی ہوتا تو پکڑتا ہی کیوں 

میر بے باکی سے گویا ہوا 

جب کے ماہ نور اسکی بات پہ سرخ ہوگئی تھی 

خبردار جو تم نے کسی کو بھی یہ بات بتائی یا پھر رخصتی سے انکار کیا ۔۔۔

ورنہ کیا؟  کیا کروگے؟ 

جو کام رخصتی کو سرا انجام دینا ہے نا وہ آج ہی کرلوں گا ۔۔۔

میر قدرے بےباکی سے بولا 

جس پر ماہ نور کا چہرہ گلنار ہوگیا اور ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔۔۔

وہ اسکی گرفت میں تھر تھر کانپنے لگی تھی ۔۔۔

گھٹیا بے شرم انسان ۔ لوفر 

ماہ نور نے  مختلف القابات سے نوازا تھا میر کو 

جبکے میر اسکی باتوں پہ ہنس دیا تھا ۔۔۔

میں قطعی نہیں بالکل نہیں شادی کروگی تم سے جو کرنا ہے کرلو 

ماہ نور نے ایک بار پھر خود کو مضبوط ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

جبکے اب کی بار میر کا غصہ عود کے آیا 

اور ماہ نور کو دیوار سے پن کرتے ہوئے کرخت لہجے میں گویا ہوا

میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ میں اپنی آئی پہ آگیا نا یقین جانو رخصتی سے پہلے ہی تمھیں اٹھا کے لے جاؤں گا اور تمھیں پتہ ہے نا جانِ میر کہ میر ارسلان بٹ صرف دھمکی نہیں دیتا اس پہ عمل بھی کرتا ہے ۔۔۔

ماہ نور کی آنکھوں میں بےبسی سے آنسو آگئے تھے ۔۔۔

الله کرے مرجاؤ تم ۔۔۔

ماہ نور روتے ہوئے بولی 

ہاہا ۔ فکر مت کرو جان مر بھی گیا تو تمہیں ساتھ ہی لےکے مروں گا ۔۔۔

میر اسکو چھوڑتے ہوئے گویا ہوا تھا ۔۔۔

جبکہ ماہ نور تن فن کرتی وہاں سے واک آؤٹ کرگئی تھی ۔۔۔

ماہ نور کے جانے کے بعد میر یہ سوچنے پہ مجبور ہوا کہ آخر یہ ہوٹل والی لڑکی کون تھی اسکے پاس ماہ نور کا موبائل کیسے آیا اور پھر وہ فوٹوز ماہ نور تک کیسے پہنچی ۔۔۔

اسکا یہی سوچ سوچ کے دماغ پھٹ رہا تھا کہ اچانک ہی اسکے فون پہ ایک ان نون unknown نمبر سے کال آنے لگی ۔۔۔

میر پہلے تو حیران ہوا لیکن پھر اسنے کال پک کرلی ۔۔۔

ہیلو. ۔۔

کیسے ہو میر؟؟ 

نتاشا نے کہا 

میری چھوڑو تم اپنی بتاؤ تم کون ہو اور میرا نمبر تمہارے پاس کیسے آیا؟؟ 

ارے جان ابھی آج دن کو ہی تو ہوٹل میں ملے تھے ہممم۔

جب تم مجھ میں گم اور میں تم میں گم تھے ۔۔۔

نتاشا نے بےباکی سے کہا تو میر نے خود پہ بامشکل ضبط کیا اور اپنے اندر ابلتے لاوے کو باہر آنے سے روکا ۔۔۔

پھر اچانک ہی میر کو ایک ترکیب سوجھی جس پہ اسنے فوراً عمل کیا تھا ۔۔۔

او مائے گوڈ نتاشا جان تم یار کیا جادو کردیا ہے تم نے مجھ پہ جب سے ہوٹل سے واپس آیا ہوں تب سے تمہارا حسین چہرہ نظروں سے ہٹ ہی نہیں رہا ۔۔۔

کیا؟؟  سچ ؟ میر لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے تم تو ماہ نور سے پیار کرتے ہو نا 

نتاشا نے حیرت سے اور خوشی سے ملے جلے الفاظ میں  کہا تھا 

نہیں نتاشا ماہ نور مجھ پہ شک کرتی ہے اسے لگتا ہے میں اور بھی لڑکیوں سے افئیر ہے ۔۔۔

لیکن کل تمھیں ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ محبت کیا ہوتی ہے جسے لو ایٹ فرسٹ سائیٹ کہتے ہیں ۔۔۔

میر یہ سب کہہ تو نتاشا سے رہا تھا لیکن اسکے خیالوں میں اسکی نظروں میں وہی پاکیزہ سراپا خوبصورت چہرہ تھا اور وہ چہرہ کسی اور کا نہیں اسکی اپنی ماہ نور کا ہی تھا اسکے لیے وہ تڑپ ہی تو رہا تھا اور وہ اسے بدگمان ہو بیٹھی تھی ۔۔۔

سچ میر?? 

نتاشا نے کمینگی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے کہا ۔۔

مچ نتاشا ڈارلنگ 

اچھا سنو اب تم ابھی ٹھیک ایک گھنٹے بعد تم مجھے ہوٹل میں ملو تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے اور ساتھ میں ماہ نور کے بارے میں ایک ضروری بات بھی بتانی ہے ۔۔۔

آؤگی نا؟؟ 

ہاں میری جان ایسا ہوسکتا ہے میرا میر مجھے بلائے اور اسکی نتاشا نہ آئے ۔۔۔

یہ بات سچ تھی کہ وہ سچ مچ میر سے محبت کر بیٹھی تھی کہ اسکو اچھے برے کسی چیز کا ہوش نہیں رہا تھا ۔۔۔

ماہ نور نام کا کانٹا وہ اپنی اور میر کی زندگی سے نکال پھینکنا چاہتی تھی ۔۔۔

اوکے پھر ویٹ کررہا ہوں 

میر نے مسکراہٹ دباتے کہا ۔۔۔

اوکے بےبی میں ابھی آئی ۔۔۔

کہہ نے نتاشا نے فون کاٹ دیا تھا 

😮😮😮😮😮

وہ جانتی تھی کہ ماہ نور میر سے بدگمان ہوچکی ہے میر کو اب بس اسے پوری طرح قابو کرنا تھا جو کے ناممکن تھا ویسے بھی عفان شاہ سے تو وہ اپنے کالے دھندوں کا معاوضہ وصول کرہی چکی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس بار اسنے جس کو پھنسانے کی کوشش کی ہے وہ تو پھنسنے سے رہا الٹا اسکو اسکی پی چال میں پھنسا چکا ہے وہ بھول گئی تھی کہ میر ارسلان بٹ ایک سیکڑیٹ ایجنٹ ہے جسکا کام ہی برے لوگوں کو چکما دے کے انکے منہ سے خود انکے کیے گئے گناہوں کا اعتراف کروانا ہے ۔۔۔

مشال اب شیشے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی کیوں کے دائم اور مشال کو میر اور ماہ نور سے ملنے جانا تھا ساتھ ہی کل ان دونوں کی شادی کی رسمیں شروع ہوجانی تھیں ۔۔۔

مشال بہت خوش تھی آخرکار بہت زیادہ مشکلوں کے بعد اسکی زندگی سہل ہوہی گئی تھی اسے وہ انسان مل چکا تھا جو اسے بنا لالچ کے شدتِ محبت کرتا تھا ۔۔۔

مشال نے پرپل کلر ( جامنی ) رنگ کا فراک زیب تن کیا تھا جو دیکھنے میں بظاہر سادہ سا تھا لیکن وہ اس سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی ۔۔۔

وہ تقریباً تیار ہوہی چکی تھی میک اپ میں اسنے بس کاجل لگایا تھا ساتھ ہی مسکارا اور ہونٹوں پہ لپ گلوس لگایا تھا ۔۔۔

اتنی سی تیار میں وہ واقعی ہی میں دائم کی لٹل فیری ہی لگ رہی تھی ۔۔۔

ابھی وہ پلٹی ہی تھی کہ اپنے سامنے  دائم کو کھڑے پایا جو وائٹ شلوار قمیض میں بہت ہینڈسم اور دلکش لگ رہا تھا ۔۔۔

دائم کی لودیتی نظروں سے خائف ہوتی وہ آگے بڑھ کے بیڈ سے اپنا ڈوپٹہ اٹھانے لگی کیوں وہ اسکے سامنے بنا ڈوپٹے کے کھڑی اسکا ضبط آزما رہی تھی۔۔۔

اور اسکی نوز پن جو کے ہمیشہ سے ہی دائم بہت خوبصورت لگتی تھی اسکے کنڈلے بالے اس کی گہری کالی آنکھیں اور اسکے گلابی لب ۔۔۔

والله ایک قیامت خیز لمحہ تھا ۔۔۔

جیسے ہی اسنے آگے بڑھ کے ڈوپٹہ اٹھانے کی کوشش کی دائم نے اسکا ڈوپٹہ پکڑ لیا ۔۔۔

دائم یہ کیا ہے؟؟. 

مجھے میرا ڈوپٹہ واپس کریں ۔۔۔

مشال منہ پھلا کے بولی 

دائم نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا 

اور پھر شرارت سے گویا ہوا ۔۔۔

یہاں میرے پاس آکے لے لو مائے لٹل فیری ۔۔۔

نن نن نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں آپ مجھے میرا ڈوپٹہ واپس کریں پلیز ۔۔۔

ٹھیک ہے مت آؤ میں نے ڈوپٹہ بھی پھر واپس نہیں کرنا ۔۔۔

دائم نے آبرو اچکاتے ہوئے کہا تھا 

اچھا آرہی ہوں ۔۔۔

مشال نے کہا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی 

وہ اس سے چند قدم فاصلے پہ جا کھڑئی ہوئی 

دیں اب ۔۔۔

نہیں اتنا دور نہیں تھوڑا اور پاس آؤ 

مشال نے اسے گھورا 

جس پہ دائم مسکرایا 

مشال مزید قریب ہوئی 

لیکن ابھی بھی ایک انچ کا فاصلہ برقرار تھا 

تھوڑا اور پاس 

دائم نے شرارت سے کہا 

مشال جیسے ہی اسکے قریب گئی 

دائم نے اسکو کمر سے پکڑ کے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔

وہ اس اچانک سی افتاد پہ گھبرا گئی ۔۔۔

مشال کی پلکیں لرزنے لگی جبکے دل کی ڈھڑکن حد سے زیادہ تیز ہوگئی ۔۔۔

اور دائم کو مشال کی یہ حالت مزا دے رہی تھی ۔۔۔

کیا ہوا مائے لٹل فیری ؟؟

دائم آپ بہت گندے ہیں 

چھوڑیں مجھے آپ 

مشال نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ کہا 

ارے ارے ابھی تو کوئی گندی حرکت کی ہی نہیں اور تمہارا چہرہ پہلے ہی سرخ ہوگیا ۔۔۔

دائم نے مسکراتے ہوئے کہا 

جبکے مشال نے اسکے سینے پہ ایک مکا جڑا تھا

دائم چلیں پلیز لیٹ ہورہا ہے ہمیں 

ایک شرط ہے پہلے مجھے یہاں ایک کس چاہیے ۔۔۔

وہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا 

شرم کریں دائم آپ تو ہیں ہی بےشرم میں نہیں ہوں ہمیں دیر ہورہی ہے ۔۔

ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں چھوڑوں گا 

مشال نے التجائی نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا 

اور پھر اسکے چہرے کو اپنے نازک ہاتھوں میں لیا جو اس وقت کانپ رہے تھے دائم کی حد درجہ قربت پہ 

دائم اسکے کانپتے ہاتھوں کو دیکھ کے مسکرایا تھا ۔۔۔

اور بس یہی ایک لمحہ تھا جب دائم کا ڈمپل واضح ہوا اور وہ اسکے ڈمپل پہ اپنے کپکپاتے لب رکھ گئی تھی ۔۔۔

جیسے ہی اسکی گرفت ڈھیلی ہوئی موقع ملتے ہی مشال اسکی گرفت سے نکلی اور باہر بھاگ گئی تھی کیوں کے اب اسکی ہمت نہیں تھی کہ دائم کا سامنا کرسکے ۔۔۔

جبکے دائم اسکے نازک سے لمس کو اپنے گال پہ محسوس کرتا دلکشی سے مسکراتا اسکے پیچھے ہی باہر کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔..

❤️❤️❤️❤️

نتاشا جب ہوٹل میں داخل ہوئی اس نے سامنے ہی کھڑے اپنا انتظار کرتے میر کو پایا ۔۔۔

جان ۔۔۔

نتاشا تم آگئی؟؟ 

میر نے دیوانوں کی طرح ایکٹنگ کرتے ہوئے خمار آلود لہجے میں نتاشا کو دیکھا جس نے جسم پہ ناہونےکے برابر کپڑے زیب تن کر رکھے تھے ۔۔۔

اسی ایک پل میں میر کے سامنے ماہ نور کا پاکیزہ سراپا گھوم گیا تھا ۔۔۔

اس بے ساختہ اپنی محبت پہ رشک آیا تھا جب کے ایک نفرت بھری نظر اس نے نتاشا کے وجود پہ ڈالی جو اب روم کو لاک لگا رہی تھی ۔۔۔

آہستہ آہستہ چلتی وہ اسکے قریب آئی تھی اور یکدم ہی اسکو اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔

جانتے ہو میر مجھے آج تک نہیں لگتا تھا کہ مجھے محبت ہوجائے گی تم سے پہلے اتنا مکمل اور خوبصورت مرد میں نہیں دیکھا تھا جانتے ہو تمہیں دیکھنے کے بعد میں اپنا مقصد تک بھول گئی تھی ۔۔۔

کیا مطلب؟؟ 

میر نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا 

لل ک کک کچھ نہیں  ۔۔۔

نتاشا کو اپنی بےخودی پہ جی بھر کے تاؤ آیا تھا ۔۔۔

اچھا یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ تم اس ماہ نور سے شادی کے لیے کب منع کروگے؟؟ 

پاس ہی پڑے کمیرے میں سب ریکارڈ ہورہا تھا جس سے نتاشا بالکل غافل تھی ۔۔۔

نتاشا ڈارلنگ وہ سب بھی ہوگا فرسٹ آف آل تم یہ جوس پیو میرا فیورٹ ہے ۔۔۔

میر نے اسکی جانب دیکھا اور اسکو گلاس تھمادیا تھا ۔۔۔

نتاشا گھونٹ گھونٹ وہ اپنے اندر اتار رہی تھی کہ اچانک ہی اسے ایک چکر آیا اور وہ لڑکھڑائی اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی میر نے سرعت سے آگے بڑھ کے اسے تھام لیا اور وہی موجود صوفے پہ بیٹھایا ۔۔۔

ہیے؟؟  نتاشا لسن ٹو می کئیر فلی ناؤ 

Heyyy!!!  Natashah listen to Me carefully Now!!! 

پیار کرتی ہو نا مجھے سے؟؟ 

میر نے اسکی خمار زدہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا 

جس پہ وہ ہولے سے سرہلایا گئی تھی 

اچھا تو جو میں پوچھوں گا اسکا جواب دونگی نا مائے ڈارلنگ؟؟ 

میر نے محبت بھرے لہجے میں کہا 

جبکے نتاشا اسکے اس قدر پیارے لہجے میں بات کرنے پہ قربان ہوئی تھی ۔۔۔

ہہ ہاں ۔۔۔

بب بولو گی ۔۔۔

پپ پتہ نن ن ن  نہیں مم میرا سس سر کیوں چکرا کر رہا ہے؟؟ 

نتاشا نے بامشکل اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

اوکے اب بتاؤ مجھے کہ تم کس کے لیے کام کرتی ہو؟؟ 

وہ اس قدر نشے میں بہک چکی تھی کہ بھول گئی تھی کہ وہ کیا بولنے جارہی ہے ۔۔۔

عفان شاہ کے کہنے پہ وہ تمہیں اور دائم دُرانی کو مارنا چاہتا تھا مشال کو بھی وہ مارنا چاہتا تھا اسکی ساری پراپرٹی وہ ہتھیانا چاہتا تھا مم مجھے  عفان شاہ نے تمہیں اور ماہ نور کو الگ کرنے کے لیے ایک کروڑ ایڈوانس رقم دی تھی ۔۔۔ مم مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ مجھے تم سے محبت ہوجائے گی میر ۔۔ آا آئی ریئلی لو یو ۔۔

پلیز میری می 

I Really love you 

Please Marry Me 

اتنا کہہ کے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی جبکے میر نے  اپنے اندر ابلتے ہوئے لاوے کو باہر آنے سے روکا!!!  

تمہیں تو میں چھوڑوں گا نہیں نتاشا ایک دفعہ ہوش میں آجاؤ تمہارے ہوش تو میں ٹھکانے لگاؤں گا کہ  آئندہ کسی کی زندگی برباد کرنے سے پہلے ہزار بار سوچوگی تم نتاشا انصاری ۔۔۔

ایک تنفر بھری نگاہ اس کے نیم عریاں وجود پہ ڈالتا اپنا کمیرہ اٹھاتا وہ باہر نکل گیا تھا ...

میر کے جانے  کے بعد نتاشا کو ہوش آیا تو اسنے میر کے تعاقب میں ادھر ادھر نگاہیں دورائیں لیکن وہ وہاں ہوتا تو جواب دیتا نا وہ اٹھی اس وقت بھی اسکا سر چکرا رہا تھا لہذا اسنے واشروم میں جاکے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے تاکہ وہ مکمل ہوش میں آسکے ۔۔۔

جب وہ واشروم سے باہر نکلی تو وہ اب پہلے سے قدرے بہتر دیکھائی دے رہی تھی ۔۔۔

اسنے ایک دفعہ بیٹھ کے سب کچھ یاد کیا اور ساتھ ہی ایک آگ اسکے اندر جل اٹھی تھی وہ جان گئی تھی کہ میر نے اسے چکما دیا ہے اور سارا سچ اگلوا کے اب اسکی باری ہے جیل میں جانے کی 

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میر ارسلان بٹ تمھیں میں تمہارے میشن میں قطعی کامیاب نہیں ہونے دونگی 

وہ اب اضطراب سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی 

نن نہیں اتنی آسانی سے تم نے مجھے دھوکا دے دیا 

میری اس محبت کا کیا جو مجھے پہلی نظر میں ہی تم سے ہوگئی تھی ۔۔۔

تم حاصل کرنا اب میرا جنون بن چکا ہے اور نتاشا انصاری اپنی ضد کی بہت پکی ہے ۔۔۔

ماہ نور خان کبھی نہیں کسی صورت میں میر ارسلان بٹ تمہارا نہیں ہوسکتا 

وہ میرا ہے اور میرا ہی رہے گا ۔۔۔

چاہے پھر اسے پانے کے لیے مجھے تمھیں ختم ہی کیوں نا کرنا پڑے!!!... 

اور میر کی کمزوری تم ہو یہ میں جانتی ہوں اس لیے تمہیں مہرہ بنا کے اب میں آگے کی چال چلوں گی ۔۔۔ 

نتاشا انصاری کے چہرے پہ اس وقت جنون دیکھنے لائق تھا ایک خطرناک مسکراہٹ نے اسکے چہرے کا احاطہ کرلیا تھا ۔۔۔

🤫🤫🤫

ماہ نور اس وقت اضطرابی کیفیت میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی 

لیکن سکون نہیں آرہا تھا بارہا اسنے خود کو نارمل کرکے فل وقت اپنے دماغ کو ہر قسم کی سوچوں سے آزاد کرنے کی کوشش کی لیکن میر ارسلان بٹ اس انسان کو نا تو وہ اپنے دماغ سے نکال پارہی تھی ناہی اپنے دل سے ۔۔۔

ابھی وہ سوچوں میں ہی گم تھی کہ اس لگا کہ اسکے کمرے کے باہر کوئی ہے اسنے کھڑکی سے دیکھا تو وہاں کوئی نظر نہ آیا پھر اپنا وہم سمجھ کے وہ آگے بڑھنے لگی کہ تب ہی باہر سے پھر ویسی ہی آواز آنے لگی تھی 

وہ ایک بار پھر آگے بڑھی تاکہ دیکھ سکے کہ کون ہے ۔۔۔

اس وقت واجد خان گھر پہ موجود نہ تھے جبکہ عائشہ خان اپنے روم میں تھیں ۔۔۔

ماہ نور اپنے روم میں سے نکل کے پچھلے لان میں گئی تاکہ دیکھ سکے کہ وہاں کون ہے کیوں کے اپنے روم کی کھڑکی کے بعد اسے دوسری مرتبہ آواز پچھلے لان کی طرف سے آئی تھی ۔۔۔

وہ ابھی آگے بڑھی ہی تھی کہ اچانک سے ایک شخص جس نے اپنا چہرہ ماسک کور کررکھا تھا ساتھ ہی گلوز بھی ہاتھوں میں پہننے ہوئے تھے آگے بڑھا اور ایک ہی جھٹکے میں ماہ نور کے ناک پہ رومال رکھ کے اسے بےہوش کیا اور خود اسے کندھے پہ ڈال کے آگے بڑھ گیا تھا ۔۔۔

😥😥😥😥😥

میر ہوٹل سے سیدھا خان ولا ہی آیا تھا کیوں کے اب وہ ماہ نور سے مل کے اسے تمام تر سچائی بتانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔

جیسے ہی وہ ولا پہنچا سامنے ہی گارڈ خون میں لت پت پڑا تھا ۔۔۔

کیا ہوا آپکو اور یہ کس نے کیا  ؟؟

میر اسکے قریب جاکے پوچھنے لگا 

صاحب وہ ماہ نور بی بی کو اٹھا کے لے گیا ۔۔۔

میر کی آنکھیں لال انگارہ ہوئیں تھیں 

ک کک کون لے گیا ؟؟

وہ کوئی بندہ تھا اسنے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا میں نے روکنے کی کوشش کی لیکن اسنے مجھے گولی ماردی ۔۔۔

شیٹ ۔۔۔۔

ڈیم اٹ /

Shit... 

Dam it!!! 

میر نے فوراً ایمبولینس کو آنے کا کہا تاکہ گاڈ کی جان بروقت بچائی جاسکے اور خود اندر کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

ماما؟؟  ماما؟؟ 

وہ عائشہ بیگم کو آوازیں دیتا ہوا اندر آیا 

جبکے عائشہ بیگم اسکے پاس آئی تھیں 

میر بیٹا وہ ماہ نور کو کوئی کڈنیپ کرکے لےگیا کے اور گاڈ کو بھی کسی نے زخمی کیا ہے ۔۔۔

ماہ نور کے پاپا گھر نہیں ہیں 

پتہ نہیں میری بچی کس حال میں ہوگی ۔۔۔

عائشہ خان کہتے ہوئے رو پڑیں تھیں 

ماما فکر مت کریں میں وعدہ کرتا ہوں ماہ نور کو صیحح سلامت واپس لاؤں گا ۔۔۔

ٹھیک ہے 

وہ انکو تسلی دیتا ہوا بولا 

تو انھوں نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا ۔۔۔

❤️❤️❤️

میر جانتا تھا کہ ماہ نور کو کس نے کڈنیپ کیا ہے اور اسکے پیچھے اس سب کا ہاتھ ہے ۔۔۔

ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسکے فون کی سکرین پہ 

نتاشا کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔۔

اسنے فوراً کال ریسو کی تھی 

میر میر میر 

مائے بےبی 

مائے ہینڈسم بوائے 

کیسے ہو میری جان 

نتاشا نے بےباکی سے کہا 

بکواس بند کرو اور بتاؤ 

کہ تم نے میری ماہ نور کو کیوں کڈنیپ کیا ہے کیا بگاڑا ہے اسنے تمہارا?? 

اففف اتنا غصہ میری جان صحت کے لیے مفید نہیں ہے

جو کہا ہے وہ بتاؤ اس سے پہلے کہ تمھیں خود میں آکے اپنے ہاتھوں سے جان سے مارو ۔۔۔

سچ میں ولله کیا حسین منظر ہوگا کہ میرا محبوب خود مجھے میرے ہاتھوں سے آکے مارے گا تم مارنے والے بنو تو سہی میں خوشی خوشی قربان ہونے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔

او جسٹ شٹ اپ اوکے گھٹیا عورت تم جیسی عورتوں کو میر ارسلان بٹ اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے کبھی خود کا موازنہ کرنا میری ماہ نور کے ساتھ اور پھر سوچنا کہ مجھے کیوں اس سے شدتِ محبت ہے ۔۔۔

میر نے کہا 

ماہ نور ماہ نور ماہ نور ہر بات میں اس دو ٹکے کی لڑکی کو لے آتے ہو کیا میں خوبصورت نہیں ہوں کیا میں اس جیسی نہیں بن سکتی ۔۔۔

بالکل بن سکتی ہو ۔۔۔

لیکن وہ کیا ہے نا نتاشا ڈارلنگ 

انسان کی فطرت نہیں بدل سکتی ۔

کیوں کے سانپ کو چاہے جتنا بھی دودھ پلا لو 

آخر وہ ڈستا ضرور ہے ۔۔۔۔

او رئیلی میر اوکے توٹھیک ہے تمہارے پاس آدھا گھنٹہ ہے جو ایڈریس میں بھیج رہی ہوں نا اس پہ پہنچ کے اپنی اس دو کوڑی کی بیوی کو بچالو 

کیوں کے اگر تم میرے نا ہوئے تو میں تمھیں کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔

نتاشا نے کہہ کے کال کٹ کردی تھی ۔۔۔

ہیلو نتاشا ؟؟

نتاشا؟؟ 

نہیں میں ماہ نور کو کچھ نہیں ہونے دونگا ۔۔۔

😰😰😰😰😰

میر نے فوراً ایک میسیج تمام پولیس فورس کو کیا اور انکو نارمل حولیے میں اسکے پیچھے آنے کو کہا کیوں کے پہلے وہ خود نتاشا سے نیپٹنا چاہتا تھا ۔۔۔

ماہ نور کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک بند کمرے میں قید پایا 

ماہ نور نے با مشکل اپنی آنکھیں کھولیں کیوں کے اسکا سر ابھی تک چکرا رہا تھا 

ابھی وہ سیدھی ہو کے بیٹھی ہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور اسکو اپنی جانب ایک لڑکی آتی ہوئی دیکھائی تھی ۔۔۔

وہ بالکل اسکے قریب آکے گھٹنا ٹیک کے بیٹھی تھی 

دیکھنے میں اسنے بلیک کلر کی شرٹ پہ بلیک کلر کی ہی جینز اور ساتھ میں بلیک ہی کلر کی جیکٹ پہننی ہوئی تھی ۔۔۔

اور بالوں کی پونی ٹیل بنا رکھی تھی ۔۔۔

میک اپ میں اسنے صرف میرون کلر کی ڈراک لپ اسٹک لگا رکھی تھی ۔۔۔

ماہ نور پہچان گئی تھی کہ یہ وہی فوٹوز والی لڑکی ہے جو میر کے ساتھ ہوٹل میں تھی 

کک کون ہو تم?? 

اور مجھے کیوں لائی ہو یہاں؟؟ 

  ماہ نور نے پوچھا 

اوو کیسی ہو  لٹل ڈول 

نتاشا اسکے چہرے پہ گن کی نال کو پھیرتے ہوئے بولی 

دیکھو تت تم کون ہو کیوں کڈنیپ کیا ہے مجھے کیا چاہتی ہو مجھے سے ؟؟

ہاں میں نے تمہیں کڈنیپ کیا ہے ۔۔۔

بتادوں کہ کیا چاہتی ہوں تم سے ؟؟

نتاشا نے اسکی جانب دیکھ کے کہا 

ہاں ۔۔۔

اس کے کہنے کی دیر تھی کہ یکدم ہی نتاشا نے اسکے بال اپنی مٹھی میں جکڑے ۔۔۔

اسکی گرفت کافی سخت تھی کہ ماہ نور کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔۔۔

چچ چھوڑو مجھے کیا بگاڑا ہے تمہارا میں نے؟؟ 

تم نے مجھ سے میرے میر کو چھینا ہے اور تم کہتی ہو کہ تم نے میرا کیا ہے بگاڑا ہے ۔۔۔

نتاشا اب کی بار چیلائی تھی 

نن نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میر میرا شوہر ہے میں نے نہیں تم نے اسے مجھ سے چھینا چاہتی ہو

اچھا  ؟؟

سچ میں ۔۔۔

نتاشا نے ایک زوردار تھپڑ ماہ نور کے منہ پہ دے مارا 

جسکی وجہ سے اسکا ہونٹ پھٹ چکا تھا اور اب وہاں سے خون رسنا شروع ہوگیا ہے ۔۔۔

ماہ نور ہمت کرتی درد سے کراہتی اٹھنے کی کوشش کررہی تھی کہ اچانک ہی اسکے بال پھر سے نتاشا کی گرفت میں آچکے تھے ۔۔۔

کیا؟؟  آخر ہے تم میں ایسا جو مجھ میں نہیں ہے؟؟ 

ہممم

نتاشا ماہ نور کو غور سے سر تا پاؤں دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

چچ چھوڑو مجھے درد ہورہا ہے ۔۔۔

اوکے ایک ڈیل کرتے ہیں 

ہممم!!!! 

اگر تمہیں وہ منظور ہوئی تو میں تمھیں چھوڑ دونگی 

کیا کہتی ہو ہاں؟؟ 

ماہ نور نے اسکی جانب دیکھا جو آنکھوں میں سفاکیت لیے اسکی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔۔

بولو ۔۔۔

ماہ نور نے مختصر کہا۔۔۔

تم میر کو بولو گی کہ وہ تمہیں طلاق دے دے ابھی اسی وقت ۔۔۔

سمپل پھر تم آزاد ہو ۔۔۔

نتاشا نے مسکراتے ہوئے کہا

جبکے ماہ نور نے اسکی جانب بے یقینی سے دیکھا ۔۔۔

تم ایک لڑکی ہوکے ایسا کیسے کہہ سکتی ہو ؟؟؟

نتاشا نے اسکی جانب دیکھا اور پھر اسکا منہ زور سے دوبچا ۔۔۔

ویسے ہی جیسے تم مجھ سے میر کو چھیننے کی کوشش کررہی ہو ۔۔۔

ہروقت ماہ نور ماہ نور ماہ نور یہ ماہ نور ماہ ونور ایسی ماہ نور ویسی ماہ نور پاکیزہ جبکے نتاشا بے غیرت گھٹیا عورت ۔۔۔

کیا ہے تم میں ایسا جو مجھ میں نہیں ہے میں وہ سب کرنے کو تیار ہوں جو میر کہے گا پھر بھی اسے محبت تم سے ہے جانتی ہو وہ ہوٹل میں جو بھی تم نے دیکھا نا وہ جھوٹ تھا میر کو نشہ دے کے میں نے وہ پکچرز کلک کی تھیں 

کیوں کے میں تم اور میر کو الگ کرنا چاہتی تھی میں چاہتی تھی کہ تم ہماری زندگی سے ہمشیہ ہمیشہ کے لیے نکل جاؤ ۔۔

لیکن نہیں بہت ہی  ڈھیٹ لڑکی ہو ۔۔۔

نتاشا نے ایک جھٹکے سے اسے آزاد کیا 

جبکے وہ درد سے کراہ اٹھی تھی ۔۔۔

جانتی ہو میر تمہیں نہیں چھوڑے گا ۔۔۔

ماہ نور نے آنکھوں میں نفرت لیے کہا ۔۔۔

کون کمبخت چاہتا ہے کہ میر مجھے چھوڑے ۔۔۔

میں تو ہمشیہ اسکے قریب رہنا چاہتی ہوں اسکی بانہوں میں ۔۔۔

جہاں صرف میں اور وہ ہو ماہ نور نام کا کانٹا ہماری زندگی سے دور جاچکا ہو ۔۔۔

اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب میری جان تم اس جہاں فانی سے کوچ کرجاؤگی ۔۔۔

نتاشا نے ماہ نور دیکھتے ہوئے کہا 

اور یکدم ہی گن کی نال اسکے ماتھے کے بیچوں و بیچوں رکھی تھی ۔۔

کلمہ پڑھ لو لٹل ڈول ۔۔۔

نتاشا نے سفاکیت سے کہا 

ابھی اسنے ٹریگر پہ ہاتھ رکھا ہی تھا 

کہ یکدم ہی کوئی دروازہ ڈھار سے کھول کے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔

❤️❤️❤️

مم می میر ۔۔۔

ماہ نور نے منہ سے ٹوٹے پھوٹے لفظ ادا ہوئے تھے ۔۔۔

ماہ نور ۔۔

میر بے چین سا آگے بڑھا 

اور ماہ نور کو اپنی پانہوں میں لے لیا اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔۔

ماہ نور زورو قطار رونے لگی تھی ۔۔۔

ہیے شش شش میری جان میں آگیا ہوں نا اب سب ٹھیک ہے کوئی تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا بےبی ۔۔۔

میر نے ماہ نور کے بالوں پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔

جبکہ نتاشا تو یہ منظر دیکھ کے جل بھن اٹھی تھی ۔۔۔

میر ارسلان بٹ تم نے اچھا نہیں کیا نتاشا انصاری کو دھوکا دے کے ۔۔۔

تم کیا سمجھتے ہو اتنی آسانی سے چھوڑ دوں گی تمھیں ۔۔۔

ہاہا ہا نہیں قطعی نہیں 

وہ قدم باقدم اسکے قریب چلتی ہوئی آئی ۔۔۔

اب بھی وقت ہے میر اسے چھوڑ کے میرے ساتھ چلو 

میں وعدہ کرتی ہوں تمام برے کام چھوڑ دوں گی جیسا تم چاہتے ہو ویسی بن جاؤں گی ۔۔۔

نتاشا نے امید سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ۔۔۔

جبکے ماہ نور میر کا جواب سننے کی منتظر تھی ۔۔۔

میر نے نفرت سے اسکے دونوں ہاتھ سے اپنے ہاتھ آزاد کروائے تھے ۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی تمہاری میری ماہ نور کو تکلیف دینے کی ۔۔۔

میر آگے بڑھا اور ایک زوردار طمانچہ نتاشا کے منہ پہ دے مارا ۔۔۔

جبکے نتاشا کا تو خون کھول اٹھا تھا ۔۔۔

وہ پھر سے آگے بڑھی تاکہ ماہ نور کو پھر سے نقصان پہنچا سکے لیکن میر اس مرتبہ اسے اسکے بالوں سے جکڑا اور ماہ نور انگلی سے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔

ماہ نور ڈرتے ڈرتے اسکے پاس پہنچی تھی ۔۔۔

مارو اسے ۔۔۔

میر نے ماہ نور سے کہا 

لیکن میر میں کیسے ؟؟

کیا مطلب کیسے جیسے اسنے تم پہ ہاتھ اٹھایا تھا بالکل ویسے ہی ۔۔۔

ن نن ن نہیں مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔

کیوں نہیں ہوگا 

اگر تم نے اسے نہیں مارا 

تو مجھے تمہاری قسم یہاں اسی وقت اسکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردوں گا ۔۔۔

جبکے ماہ نور میر کے لہجے کے جنون اسکی شدت اسکی دیوانگی کو محسوس کرتے ہوئے کانپ اٹھی تھی ۔۔۔

وہ آگے بڑھی اور ایک زوردار طمانچہ اسکے منہ پہ دے مارا ۔۔۔

اور مارو تب تک مارتی رہو جب تک یہ اپنی موت کی بھیک نہ مانگے ۔۔۔

میر نے درشتی سے کہا 

جبکے ماہ نور رونے لگی 

پلیز نہیں میر مرجائے گی وہ ۔۔۔

نتاشا درد سے مچل رہی تھی ۔۔۔

جب میر کو لگا کہ وہ بے بالکل نڈھال ہوگئی ہے تب وہ اسے چھوڑ کے آگے ماہ نور کی جانب بڑھا اور اسے ایک مرتبہ پھر سے گلے لگا لیا تھا ۔۔۔

یکا یک اچانک ہی نتاشا کی ہنسنے کی آواز ان دونوں کو سنائی دی تھی ۔۔۔

میں جانتی ہوں تمہاری کمزوری یہ ماہ نور ہے 

اگر تم میرے نا ہوئے تو میں بھی تمھیں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔

یہ کہتے ہوئے اسنے گن کا رخ ماہ نور کی جانب کیا تھا 

گولی چلنے کی آواز آئی تھی لیکن میر پھرتی سے ماہ نور کے آگے آگیا تھا ۔۔

جبکے ماہ نور کی ایک چیخ بلند ہوئی تھی ۔۔۔

لیکن یہ کیا ماہ نور بھی بالکل ٹھیک تھی اور میر بھی ۔۔۔

دراصل گولی میر کے بازو کو چھو کے گزری تھی جسکی وجہ سے وہ بچ گیا تھا ۔۔۔

مم مم میر آپل آپپپ آپ ٹھی ٹھیک تت تو ہیں نا?? 

ماہ نور نے ہچکیوں سے روتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

ہیے لسن ماہ نور بےبی میں ٹھیک ہوں 

کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔

ماہ نور روئے جارہی تھی اور پاگلوں کی طرح وہ میر کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھی ۔۔۔

پولیس وہاں آچکی تھی جبکے نتاشا کو حراست میں لے لیا گیا تھا ۔۔۔۔

نتاشا نے جاتے ہوئے ان دونوں کو دیکھا اور پھر طنزیہ ہنسی تھی ۔۔۔

" میں واپس آؤں گی میر ارسلان بٹ تم دونوں کی زندگی میں تم لوگوں کی خوشیاں چھین لوں گی تم لوگوں پہ زندگی تنگ کردوں گی بہت پچھتاؤ گے تم میر ارسلان بٹ نتاشا انصاری اتنی جلدی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہے انتظار کرنا میرا میں واپس آؤں گی پھر سے دو زندگیوں کو برباد کرنے کے لیے " 

نتاشا آنکھوں میں جنونیت لیے بول رہی تھی ۔۔۔

جبکے پولیس اسے گھسیٹ کے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔۔۔

مم میر اگر آپکو کچھ ہوجاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرپاتی 

ماہ نور نے روتے ہوئے کہا تھا ۔۔

جبکے میر کو یاد آیا وہ تو اس سے ناراض تھا ۔۔۔

یکدم ہی اسنے ماہ نور کو کمر سے جکڑا 

اسکی گرفت اتنی سخت تھی کہ ماہ نور کو لگا کہ اسکی ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ جائیں گی ۔۔۔

مم میر پلیز چھوڑیں درد ہورہا ہے مجھے ۔۔۔

آہہہ!!!  درد ہورہا ہے ۔۔۔

میر نے مزید کمر پہ دباؤ بڑھایا تھا 

پی پی پلیز میر آئیم سو سوری آئی نو آپ مجھ سے ناراض ہیں کیوں کے میں نے آپکا یقین نہیں کیا تھا 

بٹ آپکو بھی تو پتہ ہونا چاہیے کہ جیسے آپ مجھے کسی دوسرے کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتے ویسے میں بھی نہیں کرسکتی برداشت آپکو کسی کے ساتھ۔۔۔

ماہ نور میر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

جبکے میر ہلکا سا مسکرایا۔۔۔

آپ نے مجھے معاف کردیا نا؟؟ 

ماہ نور نے میر کی طرف امید بھرئی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا 

جبکے  میر نے ایک نظر اسکے خوبصورت چہرے کی جانب دیکھا جو اب رونے کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا ۔۔۔۔

پھر اسکے قریب ہوکے اسکی کان کی لو کو اپنے دانتوں سے ہلکا سا دبایا 

جس پہ ماہ نور سسکی تھی ۔۔۔

جبکے میر اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کرنے لگا جسکو سننے کے بعد ماہ نور کا اپنے قدموں پہ کھڑا رہنا محال ہو گیا تھا ۔۔۔

" میری ہر ایک تڑپ کا میری شدت کا میری دیوانگی کا میری جنونیت کا حساب دینا ہوگا تمہیں بےبی اور وہ بھی دو دن کے بعد ۔۔۔" 

میر ذومعنی لہجے میں کہتا اسے حقیقت سے باور کروا گیا تھا ۔۔۔ 

اور اگر تمہیں  پتہ چل جائے نا کہ اس وقت میرا کیا کرنے کو دل کر رہا ہے تو یقیناً بےبی آپ غش کھا کر گر جائیں گی ۔۔۔

میر کے اتنے بےباک انداز پہ ماہ نور کے گال دہک اٹھے تھے ۔۔۔

جبکے وہ اپنا خفت سے سرخ پڑتا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی تھی ۔۔۔

جس پہ میر کا فلک شگاف قہقہ گونجا تھا ۔۔۔

اور اسنے بھی ماہ نور کے گرد اپنا حصار مضبوط بنا لیا تھا ۔۔۔

❤️❤️❤️

میر اور ماہ نور جیسے ہی گھر داخل ہوئے تو سامنے ہی مشال دائم اور ماہ نور کے پیرنٹس کو بیٹھے پایا جس پہ وہ دونوں مسکرا کے آگے بڑھے تھے ۔۔۔

میر نے راستے میں ہی کال پہ سبکو بتا دیا تھا کہ وہ دونوں ٹھیک ہیں ۔۔۔

عائشہ بیگم نے آگے بڑھ کے پھرتی سے ماہ نور کو گلے لگا لیا تھا ۔۔۔

میری بچی ٹھیک تو ہو نا تم ۔۔۔

ماما میں ٹھیک ہوں آپ فکر مت کریں ۔۔۔

ماہ نور انکو روتا دیکھ کے بولی ۔۔۔

مشال نے بھی ماہ نور کو گلے سے لگا لیا تھا ۔۔۔

جس پہ ماہ نور کھل کے مسکرائی تھی ۔۔۔

ٹھیک ہو نا میری جان ۔۔۔

مشال نے اپنائیت بھرے لہجے میں پوچھا 

جبکے ماہ نور کے آگے بڑھ کے اسکے گال کو چوم لیا ۔۔۔

ہاں ٹھیک ہوں میری جان 

وہ ایک مرتبہ پھر سے اسکے گلے سے لگی تھی۔۔۔

جبکے انکی اتنی گہری دوستی کو دیکھ کے وہاں موجود سبکی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔۔۔

وہ سب ہی بیٹھے باتوں میں مشغول تھے کہ اچانک ہی ماہ نور کہنے لگی ۔۔۔

ماما پاپا میں آپ سب لوگوں سے کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔۔۔

دراصل میں چاہتی ہوں میرے ساتھ ساتھ مشال کی بھی رخصتی ہوجائے جیسے ہماری شادی کی رسمیں ہوں ٹھیک ویسے ہی مشال کی بھی ہوں ۔۔۔

بیٹا بہت اچھی بات کی ہے تم نے ہمیں کوئی اعتراض  نہیں ہے لیکن بیٹا اپنی مشال سے اور اپنے دائم بھائی سے تو پوچھو کہ وہ لوگ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔

ارے انکل نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔۔

دائم نے کہا تو سب ہی ہنس پڑے جبکے مشال کا چہرہ لال قندھاری ہوگیا تھا ۔۔۔

تو پھر ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔

کل مہندی انشا الله 

پرسوں شادی 

اور ترسوں ولیمہ 

رکھ لیتے ہیں ۔۔۔

کیوں بھئی دولہے صاحب کیا خیال ہے آپ سبکا  ؟؟؟

ارے انکل یہ تو وہی حساب ہوگیا تھا ۔۔۔

چٹ منگنی پٹ بیا!!! 

میر نے کہا

تو بیک وقت سب کے قہقہے بلند ہوئے تھے ۔۔۔

دائم نے جب مشال کو ہنستے ہوئے دیکھا تو نظریں پلٹنا بھول گئیں تھیں اسے آج پتہ چلا تھا کہ کوئی ہنستے ہوئے اتنا پیارا بھی لگ سکتا ہے ۔۔۔

مشال دائم کی نظروں کی تپش خود پہ محسوس کرتے ہوئے نظریں جھکا گئی تھی ۔۔

جبکے دائم بھی اسکے یوں شرمانے پہ فدا ہوتے ہوئے دلکشی سے مسکرادیا تھا ۔۔۔

مشال اور ماہ نور بیٹھی ہوئیں باتیں کررہی تھیں یا یوں کہہ لیں کے اپنے لیے ڈریس کا سوچ رہی تھیں کہ کونسے فنکشن پہ کس کلر کا اور کس ٹائپ کا سوٹ پہنے گی ۔۔۔

اچھا انکل آنٹی اب چلتے ہیں ہم ۔۔۔

ہاں بیٹا ٹھیک ہے آرام سے جاؤ ۔۔

واجد خان اور عائشہ بیگم بیک وقت مسکرا کے بولے ۔۔۔

چلو مشال ۔۔۔

دائم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا جبھی ماہ نور بول پڑی 

کہاں بھائی مشال کہاں جائے وہ آج میرے ساتھ رکے گی اب آپ اسے رخصتی کے بعد ہی اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں ۔۔۔

اور ہاں اگر آپ کو اکیلے ڈر لگے گا تو میر بھی تو آپ کے ساتھ ہونگے نا ۔۔۔

ماہ نور  نے بھرپور شرارت کے ساتھ کہا ۔۔۔

جبکے دائم اور میر ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب دیکھنے گے کہ یکایک واجد خان کا اچانک ہی ایک قہقہہ گونجا تھا ۔۔۔

مشال اور ماہ نور نے بامشکل اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا ۔۔۔

ہاں بیٹا یہ رسم ہوتی ہے کہ شادی رخصتی کے پہلے دولہا دولہن ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ۔۔۔

عائشہ بیگم مسکراتی ہوئی بولیں 

جبکے دائم اور میر دونوں بچارے اپناسا منہ لے کے رہ گئے تھے ۔۔۔

میر اور دائم ایک ساتھ باہر نکلے تھے ۔۔۔

داٹم گاڑی میں بیٹھنے لگا تو میر بھی ساتھ ہی آبیٹھا تھا ۔۔۔

یار دائم مجھے بھی تیرے ساتھ ہی لے چل میں اکیلا کیا کروں گا ۔۔۔

میر نے اپنا سا منہ بنا کے کہا جبکے دائم نے ایک بے چارگی نگاہ اس پہ ڈالی پھر گویا ہوا ۔۔۔

یار تو تو ویسے بھی ماہ نور کے ساتھ ایک ہی گھر میں نہیں رہتا تھا اور میں تو ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں اپنی لٹل فیری کے ساتھ رہتا ہوں کیسے گزاروں گا اسکے بنا میں یہ ایک دن ۔۔۔

دائم نے اداسی بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔

یار ان رسموں کی تو ایسی کی تیسی ہمیں ہماری بیویوں سے دور کردیا ہے ۔۔۔

میر نے دہائی دی تھی ۔۔۔

جبکے دائم اسکی اس حرکت پہ مسکرا اٹھا تھا ۔۔۔

اچھا سن میر چل ابھی جو کام باقی بچے ہیں وہ چل کے نپٹا لیتے ہیں ۔۔

کیا خیال ہے؟؟ 

ہاں ٹھیک ہے ویسے بھی پھر ٹائم ہی نہیں ہوگا ۔۔۔

ہممم اوکے دائم نے کہہ کے گاڑی کی سپیڈ فل کردی تھی ۔۔۔❤️❤️t

مشال اور ماہ نور دائم اور میر کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد شاپنگ کے لیے نکل گئیں تھیں اور اب واپس بھی آگئیں تھیں ۔۔۔

دائم اور میر تھانے کے اندر داخل ہوئے تھے ۔۔۔

سامنے کھڑے سبھی کانسٹیبلز نے ان دونوں کو سلوٹ مارا تھا ۔۔۔

وہ دونوں جیل کا لاک کھول کے اندر داخل ہوئے تھے 

سامنے ہی ایک شخص کو دیکھا جو ادھر سے ادھر اور ادھر اسے ادھر چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔

کیسے ہیں ہونے والے سسر جی؟؟ 

دائم نے ایک ادا سے عفان شاہ کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

جبکے عفان شاہ کے قدم وہی رک گئے تھے ۔۔۔

دا۔۔ دد دائم دُرانی ۔۔

اور دائم کے ساتھ میر بھی آکھڑا ہوا تھا ۔۔

مم میر ارسلان بٹ

ان دونوں کو دیکھتے ہوئے عفان شاہ نے کہا تھا ہاں البتہ انکے لہجے میں خوف واضع طور پہ محسوس کیا جاسکتا تھا ۔۔۔

کیسے ہو ہونے والے سسر جی؟. 

دائم نے طنز بھرے لہجے میں استفسار کیا 

جبکے عفان شاہ خاموش رہے ۔۔۔

اور سناؤ سسر جی جیل کی ہوا راس آئی 

اور یہ بھی بتا دو کہ جیل کی دال روٹی کیسی ہے؟؟ 

دائم نے مسکراتے ہوئے کہا 

تو میر بھی مسکرا پڑا 

اچھا تم سوچ رہے ہو گے کہ ہم دونوں یہاں کیسے 

تو ایکچولی میں تمہیں میری اور میرے جگر کی شادی کا انوئیٹیشن invitation دینے آیا ہوا ۔۔۔

کل مہندی ہے 

پرسوں شادی 

اور ترسوں ولیمہ 

آؤ گے نا تم؟؟ 

دائم نے ایک جھٹکے میں عفان شاہ کا جبرہ دبوچا تھا ۔۔۔

جبکے میر کہنے لگا ۔۔۔

تمھیں کیا لگتا تھا عفان شاہ کہ تم اپنی ان گھٹیا چلوں  کے ساتھ دائم کو مشال سے اور مجھے ماہ نور سے دور کردوگے ۔۔۔

ہممم؟؟؟ 

نہیں قطعی نہیں 

بھول ہے یہ تمہاری ۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ دائم دُرانی اور میر ارسلان بٹ کی دوستی اتنی کچی ہے کہ تم ہم دونوں کے بیچ اتنی آسانی سے ڈرار ڈال دو گے ۔۔۔

اب عفان شاہ تکلیف سے مچل رہے تھے جبکے دائم کی گرفت ابھی تک مضبوط تھی۔۔۔

اور جب تجھ سے کچھ نا بن سکا تو نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا پھر بھی کچھ حاصل نہ ہوا تو تو نے اتنی گھٹیا حرکت کہ تو نے اس دو ٹکے کی لڑکی نتاشا انصاری جسکا پسندیدہ مشغلہ ہی ہر دوسرے مرد کی توجہ حاصل کرنا اسکی قربت حاصل کرنا اسکا شوق ہے اسے مہرہ بنا کے مجھے اور ماہ نور کو دور کرنا چاہا ۔۔۔۔

ارے کیا خدا کا خوف نہیں آیا تجھے ایسا کرتے ہوئے ۔۔۔

میر نے تیش بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔

اس جیسے انسان کو کہاں سے خدا کا خوف آئے گا جس نے خود اپنی بھتیجی کا سودا کیا تھا ۔۔۔

دائم نے ایک زوردار مکا عفان شاہ کے منہ پہ جڑ دیا تھا ۔۔۔

جبکے عفان شاہ تکلیف سے کراہ اٹھے تھے ۔۔۔

دل تو کرتا ہے کہ تجھے جان سے مار دوں لیکن تجھے مار کے میں اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنا چاہتا ہوں 

تیری یہ ہی سزا ہے تو ہمشیہ اس قید خانے میں سڑے لیکن تجھے معافی کبھی نہ ملے ۔۔۔

دائم نے سفاکیت سے کہا تھا ۔۔۔

جاتے ٹائم دائم اور میر نے ایک طنزیہ مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی لیکن عفان شاہ کی اگلی بات نے انکے قدم روک لیے تھے ۔۔۔

تم دونوں کو کیا لگتا ہے کہ میں ہمشیہ اس جیل میں سڑوں گا بھول ہے تم دونوں کی الٹی گنتی گننا شروع کردو کیوں کے بہت ہی جلد تم لوگوں کی زندگی میں میں پھر سے ایک نئے سرے سے لوٹوں گا ایک بار پھر سے دو محبت کرنے والوں کو میں جدا کروں گا ایک بار پھر سے تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ۔۔۔

کہتے ہوئے عفان شاہ کا ایک قہقہہ بلند ہوا تھا ۔۔۔

اور تجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تو اس بار بھی اپنے کالے دھندوں اور کالے کارنامے سرانجام دینے میں کامیاب ہوگا ۔۔۔

بھول ہے تیری کیوں اب کی بار تیرے سامنے دائم دُرانی نہیں پوائزن کھڑا ہے جو کسی پہ رحم نہیں کرتا ۔۔۔

دائم نے اپنی نیلی گہری آنکھیں عفان شاہ کی آنکھوں میں گاڑھیں جبکے اسکے چہرے پہ ایک پراسرار مسکراہٹ نے عفان شاہ کو مکمل جھرجھری لینے پہ مجبور کردیا تھا.۔۔۔۔۔

وقت بتائے گا دائم دُرانی کہ اس بار کس کی جیت ہوگی اور کس کی ہار ۔۔۔

بالکل ٹھیک کہا تو نے لیکن اس بار وقت تیرا نہیں ہمارا ہوگا ۔۔

ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ میر نے کہا ۔۔

جبکے وہ دونوں وہاں سے واک آؤٹ کرگئے تھے ۔۔۔

 "بہت جلد لوٹوں گا میں پھر سے ایک نئی کہانی کے ساتھ ایک بار پھر سے عزتوں کو پامال کیا جائے گا ایک بار پھر سے دو محبت کرنے والوں کو میں جدا کروں گا ایک بار پھر سے تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور اب کی بار ایک ایسا طوفان آئے گا جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا " ۔۔

عفان شاہ نے جنونیت سے بھرپور لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

💕💕💕💕💕

رات کو مشال اور ماہ نور ایک ساتھ ایک ہی روم میں تھیں کیونکے صبح ان دونوں کی مہندی تھی لہذا وہ دونوں اب جب ایک ساتھ تھیں ایک ہی ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھیں ۔۔۔

ماہ نور کو عائشہ بیگم نے کسی کام سے بلوایا تھا لہذا وہ مشال کو دس منٹ کا کہہ کے نیچے آئی تھی ۔۔۔

مشال ابھی اپنا نائیٹ سوٹ پہن کے باہر نکلی اور بالوں کو جوڑے کی شکل میں مقید کرنے کے بعد لیٹنے ہی لگی تھی کہ اسکے فون پہ میسیج نوٹیفکیشن آیا تھا ۔۔۔۔

" لٹل فیری مجھے نیند نہیں آرہی " 

دائم کا میسیج دیکھ کے خود بخود اسکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔۔۔

کیا ہے؟؟ 

مشال نے اسے تنگ کرنے کے سے انداز میں لکھا تھا 

یار مجھے تمہارے بنا نیند نہیں آرہی میں بیڈ پہ اکیلا ہوں اور مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے ۔۔۔

دائم نے منصوعی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا 

جبکے دی گریٹ دائم دُرانی جو سبکو ڈراتے ہوئے ہیں خود کیسے ڈرنے لگے ۔۔۔ 😂😂😂

جبکے مشال کا زوردار قہقہہ گونجا تھا ۔۔۔

تو اب ؟؟

مشال نے ہنوز وہی لہجے میں کہا

تو اب یہ کہ تم میرے پاس آجاؤ نا مائے لٹل فیری 

دائم کا لہجہ اتنا پیار بھرا تھا کہ بےساختہ مشال کو اس پہ پیار آیا تھا ۔۔

میں کیسے آؤں؟؟ 

ہممم تم کیسے آؤ گی تو ایسا کرتے ہیں میں آجاتا ہوں ابھی پانچ منٹ میں تمہارے پاس

ارے نہیں نہیں ضرورت نہیں ہے آپکو تھوڑا صبر رکھیں بس کل کی ہی بات ہے ۔۔۔

مشال نے مسکراتے ہوئے کہا 

جبکے دائم بھی اسکی. بات پہ مسکرا دیا تھا ۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے لیکن ایک کس دے دو اچھی سی میٹھی سی جس سے کل تک تمہارے جنونی اور شدت پسند شوہر کا گزارا ہوجائے ۔۔۔۔

نہیں بالکل نہیں کسی صورت نہیں چپ کرکے سوجائیں ۔۔

ہممم مطلب کے تم نہیں دوگی مائے لٹل فیری ۔۔۔

جی ۔۔۔

مشال نے مختصر ٹائپ کرکے کہا

اوکے تو میں خود لے لوں گا وہ بھی کل اور تم جانتی ہو نا مائے لٹل فیری کہ میری کس کیسی ہوتی ہے۔۔۔

اور مشال کو اپنے ہونٹ پہ لگا وہ کٹ یاد آیا تھا جس پہ وہ شرمانے کے ساتھ ساتھ گھبرا بھی گئی تھی کیونکہ دائم صرف جنونی اور شدت پسند ہی نہیں تھا جب جب اسے مشال کی قربت نصیب ہوتی تھی اسکا لہجہ دیوانگی شدت اختیار کرجاتا تھا جیسے مشال جنگلی کا نام دیتی تھی ۔۔۔۔

آہاں نہیں میں دیتی ہوں نا ۔۔۔

کہہ کے مشال نے بہت سے کس ایموجی دائم کو سینڈ کیے تھے اور شرما کے اپنے چہرے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ لیے تھے ۔۔۔

جبکے دائم نے مسکرا کے اسے رییلائی میں یہ ایموجی سینڈ کیا تھا 💋💋 🙉🙈🙊

جس پہ مشال نے گھبرا کے فون ہی سوئچ آف کردیا تھا ۔۔۔۔

😂😂😂😂

ماہ نور ابھی اوپر اپنے روم میں جاہی رہی تھی کہ اچانک ہی اسکے فون پہ ایک نوٹیفکیشن آیا تھا۔۔۔

جس میں لکھا لو یو جان اور بہت سارے ایموجی میر صاحب کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔۔۔

ماہ نور کے چہرے پہ ایک شرمیلی مسکراہٹ نے احاطہ کرلیا تھا ۔۔۔۔

لیکن اسنے کوئی ریپلائی نہیں دیا تھا ۔۔۔

دو منٹ کے بعد پھر سے میسیج آیا تھا ۔۔۔

جب ماہ نور اندر داخل ہوئی تو مشال سونے کے لیے لیٹ چکی تھی لہذا اسنے آگے بڑھ کے لائیٹ آف کی اور فون بھی سائلنٹ پہ کیا تھا کہ مشال کی نیند میں کوئی روکاٹ نہ آئے ۔۔۔

مشال سوگئی تھی کیوں کے ماہ نور کافی لیٹ اوپر آئی تھی ۔۔۔

اسنے میسیج اوپن کیا تھا ۔۔۔

ریپلائی کیوں نہیں کررہی ہو؟؟ 

میری مرضی ۔۔۔۔

مشال نے میر کو تنگ کرنے کے لیے لکھا تھا ۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے صرف کل کا دن ہے جتنا مرضی تنگ کرنا ہے کرلو

ویسے بھی پرسوں میرا دن ہوگا میں تنگ کروں گا اور تم برداشت کروگی مجھے اپنی ننھی سی جان پہ ۔۔۔

میر نے بےباکی سے ٹائپ کیا تھا 

جبکے ماہ نور کی تو آنکھیں کھول گئی تھیں اسکا میسیج دیکھ کے۔۔۔۔

ایک بات سچ سچ بتانا یہ جب جب تم مجھ سے بات کرتے ہو یا میرے قریب آتے ہو یہ عمران ہاشمی والی روح تم میں کہاں سے آجاتی ہے ۔۔۔۔

ماہ نور نے کہا تھا 

جانِ میر یہ میرے بےساختہ اور قدرتی جذبات ہیں جو صرف تمھیں دیکھ کے امڈ آتے ہیں 

میر نے معصومیت سے کہا تھا ۔۔۔

جبکے ماہ نور ہلکا سا مسکرائی تھی ۔۔۔

اوکے گڈ نائٹ  مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔

ماہ نور نے کہا 

لیکن اب مجھے نہیں آرہی نیند تمہارے بنا

ہم۔۔ تو کیا کروں میں اب؟. 

ماہ نور نے کہا

پیار کرو مجھے ۔۔۔

میر کے یوں کہنے پہ ماہ نور کا چہرہ لال ہوگیا تھا ۔۔

چہچھوڑے انسان 

ماہ نور نے کہا 

ہممم صرف تمہارا چہھچھوڑا 

میر نے کہا تھا ۔۔۔

ہاں صرف میرا چھچھوڑا ۔۔۔

ماہ نور کے یوں کہنے پہ میر بھی مسکرایا تھا ۔۔۔

میر نے لاتعداد کس ایموجی ماہ نور کو سینڈ کیے تھے ۔۔۔۔

جبکے ماہ نور نے شرمیلی مسکراہٹ لیے ایک دل والا ایموجی میر کو سینڈ کیا تھا ۔۔۔

ظالم بیوی ۔۔۔

میر نے دہائی دی تھی ۔۔۔

جس پہ ماہ نور نے میسیج دیکھ کے موبائل آف کردیا تھا ساتھ ہی اسکے لبوں پہ ایک شریر مسکراہٹ بھی بکھر گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️

آج ان دونوں کی مہندی تھی صبح سے ہی شور و غل ہلا گلا جاری تھا ۔۔۔

با لا آخر مہندی کا وقت بھی قریب آہی گیا تھا ۔۔۔

سب لڑکیاں رنگے برنگے لباسوں میں ملبوس ادھر ادھر آجارہی تھیں ۔۔۔

سجاوٹ کا کام زبردست تھا ۔۔۔

ایک بہت ہی شاندار ہوٹل جو کے اسلام آباد میں واقع تھا جسکا نام تھا ۔۔۔

Fortress Event complex 

اس ہال میں مہندی کا انتظام کیا گیا تھا ۔۔۔۔

ہال میں دو جھولے رکھے گئے تھے 

جنکو پیلے اور سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔

جبکے گلاب کی پتیاں ہر طرف بکھرئی ہوئیں تھیں 

سامنے ہی مین انٹرنس پہ دو بورڈز لگے ہوئے تھے جن پہ بڑے لفظوں سے لکھا ہوا تھا ۔۔۔

DAIM WEDS MISHAL.... 

اور دوسرے بوڈر پہ لکھا تھا ۔۔۔۔

MAHANOOR WEDS MEER ....

سب بہت خوش دیکھائی دے رہے تھے ۔۔۔

دائم اور میر نے ہرے اور پیلے رنگ کے کرتوں کے ساتھ سفید رنگ کی شلواریں زیب تن رکھ رکھی تھیں جس میں وہ وہ دونوں بھرپور مردانہ وجاہت کا شاہکار لگ رہے تھے ۔۔۔

بہت سی لڑکیاں آج جیلس ہورہی تھیں کہ آخر وہ کون خوش نصیب لڑکیاں ہیں جنکے نصیب  میں اتنے حسین اور مکمل مرد لکھ دئیے گئے ہیں ۔۔۔

دائم اور میر کب سے مشال اور ماہ نور کا ویٹ کررہے تھے جبکے وہ دونوں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں ۔۔۔

اچانک ہی وہاں موجود ڈی - جے نے ایک سونگ پلے کیا تھا ۔۔۔۔

کب سے آئے ہیں تیرے دولہے راجا 

اب دیر نہ کر جلدی آجا ۔۔۔

تیرے گھر آیا میں آیا تجھکو لینے 

دل کے بدلے میں دل کا نظرانہ لینے 

میری ہر ڈھڑکن کیا بولے ہے سن سن سن 

ساجن جی گھر آئے ساجن جی گھر آئے 

دلہن کیوں شرمائے ساجن جی گھر آئے ۔۔۔

ابھی سونگ چل ہی رہا تھا کہ سامنے سے مشال اور ماہ نور آتی ہوئی دیکھائی دیں تھیں ۔۔۔

یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان سے پریاں اتر آئی ہوں ۔۔۔

دونوں نے پیلے اور ہرے رنگ کی قمیضوں کے ساتھ چوڑی دار پاجامے زیب تن کر رکھے تھے ایک ہی جیسا میک اپ جس میں صرف آنکھوں میں کاجل مسکارا آئی لائنر اور ہونٹوں پہ پنک کلر کی لپ اسٹک لگا رکھی تھی ۔۔۔

پھولوں سے بنی گلاب اور موتیے کی جیولری جبکے مہندی سے بھرے دونوں کے ہاتھ انتہائی خوبصورت لگ رہے تھے بالوں کی خوبصورت سی چٹیا بنا کے ان میں بھی موتیے کے پھول لگے ہوئے تھے. ۔۔

اور کلائیوں میں دونوں نے بھر بھر کے ہرے اور پیلے رنگ کی چوڑیاں اور گجرے پہن رکھے تھے ۔۔۔۔

دائم اور میر سے نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا تھا ۔۔۔

وہ دونوں ان دونوں کے برابر میں آبیٹھی تھیں ۔۔۔

میر کی بولتی نظروں سے ماہ نور بہت خائف ہورہی تھی۔۔۔

اور دائم صاحب کی آنکھیں ہی مشال کہ چہرے پہ فکس ہوگئیں تھیں ۔۔۔

یکایک ہی وہاں مہندی کے حوالے سے تمام لڑکیوں کی فرمائش پہ ڈی - جے نے ایک اور سونگ پلے کیا تھا ۔۔۔

مہندی لگا کے رکھنا ڈولی سجا کے رکھنا 

لینے تجھے آئے گوری آئیں گے تیرے سجنا 

مہندی لگا کے رکھنا ڈولی سجا کے رکھنا 

لینے تجھے آئیں گوری آئیں گے تیرے سجنا 

اب کی بار دائم اٹھا اور ڈانس کرنا شروع کیا 

جبکے باقی سب حیران تھے اسے دیکھ کے دائم دُرانی وہ بھی اتنی خوشی سے ناچ رہا ہے۔۔۔۔

جب آپکو آپکا من چاہا ہمسفر ملے جائے نا تو یوں ہی خوشی ہوتی ہے اطمینان ہوتا ہے سکون ہوتا ہے آخر کار کتنی مشکلات سے گزرنے کے بعد ان یہ خوشی اور سکون بھرے نصیب ہوئے تھے آخر کیونکر نا وہ خوش ہوتے ۔۔۔

میر بھی اسکے ساتھ آشامل ہوا تھا ۔۔۔

اب دونوں گانے پہ ڈانس کررہے تھے جبکے مشال اور ماہ نور بھی ان کے سنگ سنگ تھیں ۔۔۔۔

سہرا سجا کے رکھنا 

چہرہ چھپا کے رکھنا 

یہ دل کی بات اپنے دل میں دبا کے رکھنا 

مہندی لگا کے رکھنا ڈولی سجا کے رکھنا 

اڑ اڑ کے تیری زلفیں کرتی کیا ہیں کیا اشارے 

دل تھام کے کھڑے ہیں عاشق سبھی کنوارے 

دائم اور میر نے بیک وقت یہ لائنز مشال اور ماہ نور کو دیکھ کے دہرائیں 

چھپ جائیں ساری کڑیاں گھر میں شرم کے مارے 

گاؤں میں آگئے ہیں عاشق شہر کے سارے ۔۔۔

مشال اور ماہ نور نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔۔۔

جبکے دائم اور میر انکی اس بات پہ قہقہہ لگا کے ہنسے تھے ۔۔۔

ان چاروں کو یونہی ہنستا مسکراتا دیکھ کے عائشہ بیگم اور واجد خان نے مسکراتے ہوئے انکو یونہی صدا خوش رہنے کی دعا دی تھی ۔۔۔۔

مہندی کی رسومات شروع ہوچکی تھیں ۔۔۔

سب باری باری آکے مہندی لگاتے جارہے تھے ان چاروں کو۔۔۔۔

ماہ نور جو سٹیج پہ لڑکے اور لڑکیوں کو ناچتا دیکھ کے تالیاں بجا رہی تھی اور مسکرا تھی کہ اچانک ہی اسکا ہاتھ میر کی گرفت میں آگیا تھا ۔۔۔

" کیا کررہے ہیں میر چھوڑیں کوئی دیکھ لے گا

اوہو یار ایک تو تم اتنا ڈرتی ہو کسی غیر کا ہاتھ تھوڑی نا پکڑا ہے اپنی حق حلال کی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہے ۔۔۔۔

میر نے شرارت سے کہا 

جس پہ ماہ نور نے اسے ایک گھوری سے نوازا ۔۔۔

جبکے میر اسکی گھوری کا کوئی اثر نا لیتا ہوا جھکا اور اسکے گال کو شدت سے چوما لیا تھا ۔۔۔

جبکے ماہ نور تو اسکی افتاد پہ گھبرا گئی تھی 

میر ہٹیں پیچھے کوئی دیکھ لیتا تو 

ماہ نور نے اسے گھورتے ہوئے کہا 

اور ایک زبردست تھپڑ اسکے بازو پہ دے مارا 

جبکے میر کے منہ سے ہلکی سی کراہ نکلی 

او کیا ہوا 

درد ہورہا ہے کیا زیادہ سوری 

ماہ نور نے نم لہجہ لیے کہا

جبکے میر کی رگوں میں سکون کی ایک لہر ڈور گئی 

کہ کوئی ہے جو اسکی اتنی فکر کرتا ہے ۔۔۔

ویسے جان تم کیا چیز ہو پہلے مارتی ہو پھر پیار بھی کرتی ہو ۔۔۔

میر نے ماہ نور کی جانب دیکھتے ہوئے آنکھ مارتے ہوئے کہا جبکے ماہ نور نے ایک گھوری سے پھر سے اسے نوازا تھا ۔۔۔

جس پہ وہ کھل کے مسکرایا تھا ۔۔۔۔❤️❤️❤️❤️❤️

مشال آپی ...

کوئی بچہ مشال کے پاس آیا تو ا س نے گردن موڑ کے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

جی؟؟ 

مشال آپی وہ اوپر کمرے میں آپکو کوئی بلا رہا ہے ۔۔۔

اچھا لیکن مجھے کون بلا رہا ہے ۔۔۔

پتہ نہیں آپی بس انھوں نے کہا کہ آپکو بلا دوں ۔۔۔

اوکے بیٹا ٹھیک ہے آپ جاؤ میں دیکھتی ہوں ۔۔۔

مشال آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر گئی مگر وہاں تو کوئی نا تھا ۔۔۔

کون ہے؟؟ 

ایکسیوزمی؟؟ 

کوئی ہے مجھے کس نے بلایا تھا؟؟ 

لیکن کوئی جواب نہیں آیا ۔۔۔

لگتا ہے بچے نے شرارت کی ہوگی ۔۔۔

وہ خود سے کہہ کے نیچے کی جانب جانے لگی جبھی کسی نے اسے بازو سے پکڑ کے اندر کھینچ لیا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ چیخ مارتی دائم نے اپنا اسکے منہ پہ رکھ کے اسکی چیخ کا گلا گھونٹا ۔۔۔

مشال کی آنکھوں میں حیرانی در آئی تھی ۔۔۔

دائم نے اشارے سے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔

اور اپنا ہاتھ اسکے منہ سے ہٹایا تھا ۔۔۔

دائم آپ یہاں اس وقت کیا کررہے ہیں فوراً نیچے جائیں 

کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا ۔۔۔

ارے میری بلا سے سب بھاڑ میں جائیں مجھے کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں تو اپنی لٹل فیری کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا بس کیوں کے دور سے دیکھ کے مجھے سکون نہیں مل رہا تھا ۔۔۔

دائم نے ایک نظر اسکے خوبصورت سراپے کی جانب دیکھا ۔۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو لٹل فیری 

دائم جذبات سے چور لہجے میں گویا ہوا 

جبکے مشال سے نظریں اٹھا کے دیکھنا مشکل ہوگیا تھا ۔۔

تم جانتی ہو مائے لٹل فیری جب میری وجہ سے تمہارے چہرے پہ لالی آتی ہے نا تب تب میرا دل چاہتا ہے میں یوں ہی تمھیں دیکھتا رہوں اور تمام عمر یوں ہی کٹ جائے ۔۔۔

تم نے دائم دُرانی کو اپنا اسیر بنا لیا ہے مشال دائم دُرانی ۔۔۔

دائم نے بہکتے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔۔

دائم تھوڑا مزید قریب ہوا جبکے مشال تھوڑا دور ہوئی 

اتنا کے وہ پیچھے دروازے سے جالگی ۔۔۔

اور بس دائم صاحب کو موقع ملنے کی دیر تھی اسنے فوراً اپنے دونوں ہاتھ دروازے پہ رکھ کے اسکے فرار ہونے کی راہیں مسدود کی تھیں ۔۔۔

دائم کی حد درجہ قربت پہ مشال کا سانس سینے میں اٹکا تھا ۔۔۔

یکا یک دائم کی نظر مشال کے مہندی سے بھرے ہاتھوں پہ پڑی تھی ۔۔۔

لٹل فیری تم نے میرا نام لکھوایا ہے نا؟؟ 

دائم نے اسکے مہندی بھرے ہاتھ پکڑ کے پوچھا ۔۔۔

جج جی ۔۔۔

مشال نے دائم کی قربت کے زیرِ اثر ہکلاتے ہوئے جواب دیا تھا ۔۔۔

اچھا تو میں اس میں اپنا نام ڈھونڈو؟؟ 

دائم نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔

نن نہیں ابھی نہیں دائم پلیز آپ جائیں ابھی مجھے نیچے جانا ہے مجھے سب ڈھونڈ رہے ہوں گے ۔۔

مشال کے کہنے کی دیر تھی کہ دائم نے مشال کی کمر پہ ہاتھ رکھ کے اسے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔

مشال اسکی اس حرکت پہ بوکھلا گئی تھی جبکے دائم اسکی حالت سے لطف اٹھا رہا تھا ۔۔۔

اچھا ایک شرط ہے پھر جاؤں گا ۔۔۔

کک ک کیسی شرط؟؟ 

یار ہکلانا تو بند کرو کھا نہیں جاؤں گا تمھیں انسان ہی ہوں غور سے دیکھو ۔۔۔

جبکے دائم کے یوں بولنے پہ مشال کو ہنسی تو بہت آئی لیکن کنڑول کرگئی کیوں کے جانتی تھی کہ سامنے کھڑا بندہ منٹوں میں اسکی ننھی سی جان مشکل میں ڈال دیتا ہے ۔۔۔

کل رخصتی ہے تو رخصتی کے بعد تمھیں میرے لیے اپنی خوبصورت آواز میں گانا گانا ہوگا ۔۔۔

منظور ہے؟؟ 

کیا ؟؟

آپ کو کس نے کہا کہ میں گاتی ہوں اور میری آواز خوبصورت ہے؟؟ 

مشال حیران ہوئی تھی ۔۔

میری بہن نے بتایا مجھے ۔۔۔

دائم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔

کونسی بہن نے؟؟ 

مشال نے آبرو اچکاتے ہوئے پوچھا ۔۔

ماہ نور نے... 

جبکے مشال نے دل ہی دل میں ماہ نور کو کافی القابات سے نوازنے لگی تھی ۔۔۔

کمینی عورت الله پوچھے تجھے مجھے پھنسا کے خود کتنے آرام سے بیٹھی ہے نیچے ۔۔۔

مشال کی آواز واقعی ہی میں بہت خوبصورت تھی وہ اکثر گاتی تھی لیکن اس بات کا علم صرف ماہ نور کو تھا ۔۔۔

کہاں کھوگئی لٹل فیری؟؟ 

دائم نے مشال کو دیکھ کے پوچھا ۔۔۔

اوکے ٹھیک ہے جیسا آپ نے کہا ہے ویسا ہی کروں گی۔۔۔

مشال نے جان چھڑوانے کے لیے کہہ تو دیا تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ دائم بھی اس سے وہ کروا کے رہے گا جو اس نے کہا تھا ۔۔۔

اب پلیز چھوڑ دیں ۔۔۔

مشال نے التجائی نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

تم مجھے بہت تڑپاتی ہو لٹل فیری پر کوئی بات نہیں آج کی رات باقی ہے صرف کل کی رات میری ہوگی اور کل میں چن چن کے بدلے لوں گا ۔۔۔ کل تمھیں حقیقت میں بتاؤں گا کہ دائم دُرانی واقعی ہی میں کس حد تک تم سے شدتِ محبت کرتا ہے ۔۔۔

وہ خمار آلود لہجے میں کہتے ہوئے اسکی ناک کو چوم گیا تھا ۔۔۔

جبکے مشال کے چہرے پہ گلال ٹوٹ کے بکھرا تھا ۔۔۔

اس سے پہلے وہ کوئی اور حرکت کرتا مشال نے اپنا مہندی بھرا ہاتھ اسکے ہونٹوں پہ رکھ کے اسے ایک گھوری سے نواز ۔۔۔

اور خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔

جبکے دائم نے اپنی ہتھیلی کی جانب دیکھا جس پہ پنک کلر کی لپ اسٹک کا نشان واضح ہورہا تھا کیوں کے جب اسنے مشال کے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا تب مشال کی لپ اسٹک دائم کی ہتھیلی پہ لگ گئی تھی ۔۔۔

دائم نے ایک نظر اس نشان کو دیکھا اور پھر مشال کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے دیوانگی سے اسے چوم لیا تھا ۔۔۔

ان دونوں کی نوک جھوک تو تمام عمر یونہی چلنی رہنی تھی آخر کو ان چاروں کی منزل جو ایک تھی اور وہ منزل تھی ۔۔۔۔۔

شدتِ محبت ...

رات گئے تک مہندی کا فنکشن چلتا رہا اور پھر رات کے بارہ بجے سب اپنے گھر میں لوٹ گئے تھے ان چاروں کو بے تحاشا دعائیں دیتے ہوئے ہمشیہ خوش رہنے کی ۔۔۔

۔۔۔۔۔ ،،،، ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔،،۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔،،،،،۔۔۔

وہ چاروں ہی آج کی رات اپنے آنے والی خوشحال زندگی کے متعلق مختلف قسم کے خواب بننے میں مصروف تھے ۔۔۔

آخرکار بہت ساری مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے بعد انھیں یہ خوشیاں نصیب ہوئی تھیں ۔۔۔

ان چاروں نے صبر کا دامن تھام کے رکھا تھا اگر کسی ایک کی ہمت ٹوٹنے لگتی تو اسکا ہمسفر آگے بڑھ کے اسے تھام لیتا اسے حوصلہ دیتا اپنی محبت کا یقین دلاتا اسکو سنبھال لیتا تھا ۔۔۔۔

" جو یقین کی راہ پہ چل پڑے انھیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بہک گئے " 

دائم اور میر آج کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔

دونوں آسمان پہ چمکتے ہوئے ستاروں اور چاند کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔

کہ یکایک میر نے کہا ۔۔۔

دائم یار کتنی  مشکلوں کے بعد ہمیں یہ سکون کے لمحے نصیب ہوئے ہیں نا ۔۔۔

کتنی ہی آزمائشوں کے بعد یہ خوبصورت چاندنی رات آئی ہے جسکی صبح انشاءاللہ سنہری ہوگی ۔۔۔

میر تو جانتا ہے ۔۔۔

" آزمائش کے بعد تم جب الله کے قریب ہوجاتے ہو تب وہ تمھیں ایسی ان دیکھی طاقت دے دیتا ہے کہ تم ان تمام حالات سے نڈر ہوکے لڑ جاتے ہو جو تمہاری نظر میں نا ممکن ہوتے ہیں ۔۔۔۔

جانتے ہو وہ تمھیں اتنی ہمت کیوں دیتا ہے ۔۔۔؟؟

کیوں کے جب اس پر یقین رکھتے ہو تب وہ تمہیں یقین کے معجزے دکھاتا ہے جب تم اسے اپنے لیے کافی کرلیتے ہو تب وہ تمہارے لیے کافی ہوجاتا ہے "

دائم نے کہا تھا جب کے میر اسکے گلے بے ساختہ لگا تھا 

مجھے تجھ پہ فخر ہے دائم تو میرا دوست نہیں میرا بھائی ہے 

میر نے نم لہجے میں کہا تھا ۔۔۔

اور مجھے ہماری دوستی پہ فخر ہے میرے بھائی ۔۔۔

دائم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

ویسے بھی میر میرا ماننا ہے کہ ۔۔۔

" آپ تب تک نہیں ہار سکتے جب تک آپ خود نہ ہار مان لیں " ۔۔۔

ہاں تو نے ٹھیک کہا ۔۔۔

میر نے دائم کا ساتھ دیا تھا ۔۔۔

سچا اور مخلص دوست آپ کو بہت مشکل سے ملتے ہیں جب مل جائیں تو اسکے ساتھ مل کے آپ بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا کر جاتے ہیں ۔۔۔

صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا ۔۔۔

آخرکار ایک اندھیری رات کے بعد ایک سنہری صبح آہی گئی تھی جو ان چاروں کی منتظر تھی۔۔۔۔

آج ماہ نور اور مشال کی رخصتی تھی 

صبح سے ہل چل شورو غل جاری تھا عائشہ بیگم تو صبح سے گھن چکر بنی ہوئیں تھیں ۔۔۔

بارات کے آنے کا وقت ہوگیا تھا 

سارے ہی بہت خوش دیکھائی دے رہے تھے۔۔۔

میر اور دائم بلیک اور ریڈ کلر کی شیروانی زیب تن کر رکھی تھی جس میں وہ کسی ریاست کے شہزادے ہی لگ رہے تھے ۔۔۔۔

جبکے ماہ نور اور مشال نے ریڈ بلڈ کلر اور گولڈن کلر کا لہنگے زیب تن کر رکھے تھے ۔۔۔

یوں لگتا تھا جیسے جیسے آسمان سے حوریں اتر آئی ہوں ۔۔۔۔۔

ان دونوں کو میر اور دائم کے ساتھ بیٹھا گیا تھا ۔۔۔

جہاں بہت ہی آرام دہ سلور اور وائٹ کلر کے صوفے پہ وہ چاروں براجمان ہوئے تھے ویہی ہر جانب رنگ برنگی لائٹس گلاب کے پھول انکی پتیاں موتیا کے پھولوں کی مالائیں لگی ہوئی تھیں ۔۔۔

انکی شادی ایک یاد گار شادی تھی ۔۔۔

دائم اور میر سے اب نظریں ہٹانا مشکل ہورہا تھا کوئی اتنا پیارا کیسے ہوسکتا ہے یہ انھوں نے پہلی بار جاننا تھا۔۔

ماہ نور اور مشال اب ان دونوں کی نظروں سے خائف ہورہی تھیں ۔۔۔

میر کی وارفتگی ماہ نور کو موم کی طرح پگھلا رہی تھی جبکے  دائم کی پرتپش نگاہیں خود پہ محسوس کرتے مشال خود میں سمٹتی جارہی تھی ۔۔۔

اعلیٰ پیمانے پہ شادی کا انتظام کیا گیا تھا نامور برنس مین اور سیاست دان مدعو تھے ۔۔۔

ہر کوئی رشک بھری نگاہوں سے ان چاروں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

کھانے میں بھی اعلیٰ قسم کی ڈشزز موجود تھی جبکے ماہ نور اور مشال نے تو گھبراہٹ کے مارے کھانا ہی نہیں کھایا تھا ۔۔۔

آخر کار رخصتی کا شور اٹھا تھا ۔۔۔

اور وہ دونوں اپنے پیا گھر سدھار گئی تھیں ۔۔۔۔

سب کی شفقت اور دعاؤں کے ساتھ اور قرآن کے سائے تلے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہ نور کو میر کے کمرے میں بیٹھا دیا گیا تھا ۔۔۔

میر کا بیڈ روم نہایت ہی کشادہ تھا اسکی دیواروں پہ ہلکا نیلا اور سفید  پینٹ ہوا تھا ساتھ ہی واڈروب اور اٹیچ واشروم ۔۔۔۔

وہ گھر بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ ماہ نور نے سوچا تھا ۔۔۔۔

ماہ نور کی گھبراہٹ کے مارے انتہائی بری حالت ہورہی تھی دل بری طرح ڈھڑک رہا تھا مانو جیسے ابھی نکل کے باہر آجائے گا ۔۔۔

دو گھنٹے ہونے کو تھے نجانے میر کہاں تھا اب تک ۔۔۔

ماہ نور بیچاری کی کمر اکٹر گئی تھی اب بیٹھ بیٹھ کے ایک ہی پوزیشن میں ۔۔۔۔

لہذا اسنے لیٹنے کا سوچا لیکن جیسے ہی لیٹنے لگی اسکو باہر کسی کی قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی ۔۔۔۔

دل اب ڈھڑک ڈھڑک کے پاگل ہوا جارہا تھا ۔۔۔

میر آہستہ سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا تھا 

اور پھر دروازہ کا لاک لگایا تھا ۔۔۔

جس پر ماہ نور کا دل کانوں میں ڈھڑک رہا تھا ۔۔۔

وہ آگے بڑھا چلتا ہوا صوفے کے قریب گیا تھا اور اپنی شیروانی اتار کے سائیڈ پہ رکھی تھی ۔۔۔

پھر چلتا ہوا اسکے قریب آیا تھا ۔۔۔

اٹھو ۔۔۔

میر نے کہا 

جبکے ماہ نور نے اسے ناسمجھی سے دیکھا تھا 

کیا؟؟ 

سنائی نہیں دیتا؟؟ 

میں نے کہا اٹھو 

میر کی تھوڑی سی سخت آواز میں وہ بیڈ کے اوپر سے اچھل کے اٹھی ۔۔۔

پاس آؤ میرے ۔۔۔

ماہ نور قدم با قدم چلتی ہوئی اسکے پاس گئی تھی لیکن کچھ فاصلے پہ رک گئی 

میں نے کہا اور پاس آؤ ۔۔

میر کی گھمبیر آواز سن کے اسکے پورے جسم میں سنسنی ڈور گئی تھی ۔۔۔

وہ اسکے بالکل قریب جارکی تھی ۔۔۔

اور میر نے اسکی کمر میں ڈال کے اپنی جانب کھینچا تھا وہ کٹی ہوئی ڈالی کی طرح اسکے سینے سے جالگی تھی ۔۔۔

ہممم میر کو ماہ نور کی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کے ہنسی تو بہت آئی لیکن کنڑول کرگیا تھا ۔۔۔

راضی کرو مجھے ۔۔۔

کیا؟؟

لیکن میں نے کیا کیا ہے ۔۔۔

میں تم سے ابھی تک پوری طرح راضی نہیں ہوا

راضی کرو مجھے 

جبکے ماہ نور نے ایک بیچارگی نگاہ اس پہ ڈالی تھی ۔۔۔

میر کا بس نہیں چل رہا تھا اپنا سارا کا سارا جنون اس پہ ابھی ہی لٹا دے کیوں وہ اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ میر کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی ۔۔۔۔

آنکھوں میں کاجل پلکوں  پہ مسکارا ساتھ ہی آئی لائنر ہونٹوں پہ ریڈ کلر کی لپ اسٹک پاؤں میں پائل کانوں میں جھمکے گلے میں خوبصورت ہار ناک میں  چھوٹی سی بالی جبکے خوبصورت کالے بال جوڑے میں مقید تھے ۔۔۔

اسکی چوڑیوں کی کھنکتی آواز مہندی کی خوشبو اور پائل کی چھن چھن میر کو مدہوش کررہے تھے ۔۔۔۔

لیکن فلحال اسکا موڈ اسے تنگ کرنے کا تھا ۔۔۔

تم مجھے پرپوز کروگی ابھی وہ بھی فنی وے میں ۔۔۔

جبکے ماہ نور کی آنکھیں کھل گئیں تھیں 

کہ اسکا شوہر بجائے اسکی تعریف کرنے کے اس سے ہی اظہار کروا رہا تھا ۔۔۔

جلدی کرو دو منٹ ہیں ۔۔

میر نے کہا تھا ۔۔

اوکے ۔۔۔ ویٹ سوچنے دیں مجھے ۔۔۔

کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ گویا ہوئی ۔۔۔

"کیا آپ میرے بچوں کے پاپا بننا پسند کریں گے " ؟؟؟

ماہ نور نے معصومیت سے کہا 

جبکے میر کا فلک شگاف قہقہہ گونجا تھا  ۔۔۔۔

اور ماہ نور سے اب نظریں نہیں اٹھائی جارہی تھیں ۔۔۔

تب ہی میر نے کہا 

" او مائے گاڈ یو آر سو فنی نور یار " 

Oh My god you Are so Funny Noor yar! ...

ہاہاہا ویری فنی آپ نے ہی کہا تھا کہ مجھے فنی وے میں پرپوز کرو میں تو وہی کررہی تھی۔۔۔

ماہ نور نے اتراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

جبکے میر مسکرایا تھا ۔۔۔

ماہ نور اسکو خود کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے کھڑکی کے پاس جاکھڑئی ہوئی تھی ۔۔۔

میر اسکے پیچھے ہی گیا تھا اور اسکو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا تھا ۔۔۔

جانِ میر ایک بات کہوں ۔۔۔۔

میر کے خمار زدہ آواز پہ وہ خود میں سمٹی تھی ۔۔۔

وہ آسمان پہ چاند دیکھ رہی ہو تم اس چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہو میری جان میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوسکتا کیوں کے ڈھڑکن کا دل سے ناطہ ہے میں دل ہوں اور تم میری ڈھڑکن ۔۔۔

میر کے اس قدر خوبصورت اظہار پہ ماہ نور کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔۔۔

جبکے میر نے اسکو اپنی جانب موڑتے ہوئے اسکے آنسو اپنے لبوں سے چن لیے تھے ۔۔۔

" ان حسین آنکھوں پہ ظلم مت کیا کرو جانِ میر ۔۔۔

میر نے آگے بڑھ کے اسکی کان کی لو کو چومتے ہوئے کہا ۔۔۔

جبکے ماہ نور اسکی محبت بھری سرگوشیوں سے اسکے دیوانے پن سے خود میں سمٹی تھی۔۔۔۔

اچھا چلو جب تم نے اظہار بھی کرہی دیا ہے کہ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ماہ نور بولی۔۔۔

کہ مجھے آپ سے شدتِ محبت ہے وہ محبت جسکی کوئی حد نہیں ۔۔۔ آپ مجھے زندہ رہنے کے لیے سانسوں سے بھی زیادہ ضروری ہوگئے ہیں ۔۔۔۔

ماہ نور کے اس قدر پیار بھرے اظہار پہ میر کا دل جھوم اٹھا تھا ۔۔۔۔

آج  ماہ نور کی نفرت کی اسکی انا کی شکست ہوئی تھی محبت کے آگے ۔۔۔

میر نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ ماہ نور نے اسکے ہونٹوں پہ اپنے مہندی بھرے ہاتھ رکھ دئیے تھے اور کہنے لگی تھی ۔۔۔۔

خود پہ پہلے نا اتنا یقین مجھکو ہو پایا

مشکل سی گھڑیاں آسان ہوئیں اب جو تو آیا ۔۔۔

جبکے میر یکاٹک ماہ نور کو دیوانہ وار دیکھے گیا تھا ۔۔۔

اک بات کہوں تجھ سے 

تو پاس ہے جو میرے 

سینے سے تیرے سر کو لگا کے

سنتی میں رہوں نام اپنا 

سینے سے تیرے سر کو لگا کے 

سنتی میں رہوں نام اپنا 

ماہ نور نے میر کے سینے پہ سر رکھتے ہوئے گنگنایا تھا ۔۔۔

او لکھ دی تیرے نا جنڈری جانیے

بس رہنا تیرے نال وے سوہنیے 

رہنا تو پل پل دل کے پاس 

جڑی رہے تجھ سے ہر ایک سانس 

سینے سے تیرے سر کو لگا کے 

سنتا میں رہوں نام اپنا 

سینے سے تیرے سر کو لگا کے

سنتا میں رہوں نام اپنا

رہنا تو پل پل دل کے پاس جڑی رہے تجھ سے ہر ایک سانس ۔۔۔

اب کی بار میر نے کہا ۔۔۔

نال تیرے اک گھر میں سوچاں 

باری کھلا تے چن دکھ جاوے 

آنکھاں چ بیتر راتاں ساریاں

جے من لاگے تے آکھ نا لاگے

میر نے مسکرا کے ماہ نور کی جانب 

پیار ہی آورا تے پیار ہی کھوراں

وچ کوئی آؤے تے پیار ہی آنا

دنیا دے وچ اسی دنیا تو دور

ہن نال تیرے میرا ہر سپنا 

سینے سے تیرے سر کو لگا کے 

سنتا میں رہوں نام اپنا 

میر نے کہا تھا ۔۔۔

تیری انگلیوں سے آسمان پہ کھینچوں اک لمبی لکیر

آدھا تیرا آدھا میرا 

اس چاہ میں ہم دو امیر ۔۔۔

ماہ نور نے محبت سے دیکھتے ہوئے میر کو کہا تھا ۔۔۔

جبکے میر نے وارفتگی سے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے بےساختہ کہا تھا ۔۔۔

کوئی نظر نہ آئے مینو تو دنیا تو وکھڑی ہوگئی

اٹھاں تینو وکھداں جاواں تو ہی میری نوکری ہوگئی 

کوئی نظر نہ آئے مینو تو دنیا تو وکھڑی ہوگئی

اٹھاں تینو وکھداں جاواں تو ہی میری نوکری ہوگئی

دوریاں اک پل بھی نہ گوارا ہوں 

چل گھومیں دنیا پھر سنگ آوارہ ہوں ۔۔۔

ماہ نور نے میر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا تھا ۔۔۔

سینے سے تیرے سر کو لگا کے سنتا میں رہوں نام اپنا

رہنا تو پل پل دل کے پاس جڑی رہے تجھ سے ہر ایک سانس ۔۔۔

کہتے ہوئے میر نے ماہ نور کو خود میں بھینچ لیا تھا ۔۔۔

ماہ نور کو جب احساس ہوا کہ وہ میر کے کتنے قریب کھڑی ہے تو خود کو کوستے ہوئے اس سے دور جا کھڑئی ہوئی ۔۔۔

اسکا دل کانوں میں ڈھڑک رہا تھا ۔۔۔

اس سے پہلے وہ اس سے مزید دور ہوتی میر نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا تھا ۔۔۔۔

ماہ نور کو حیا سے بوجھل پلکیں اٹھانے میں دقت پیش آرہی تھی ۔۔۔

میر نے اتنا خوبصورت نظارا پہلے کبھی نہ دیکھا تھا ۔۔۔

اسنے آگے بڑھ کے اسکے گال پہ اپنے دانت زور سے گاڑھے تھے ۔۔۔۔

اپنی جنونیت کی چھاپ چھوڑتے ہوئے وہ سرگوشی کرنے لگا ۔۔۔

" کہا تھا نا میری ہر ایک تڑپ کا میری شدت کا میری دیوانگی میری جنونیت کا حساب دینا ہوگا ۔۔۔

کہہ کے اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا ۔۔۔

وہ دیوانہ وار اپنی سانسیں اس میں انڈیل رہا تھا 

اسکی گرفت اتنی سخت تھی کہ ماہ نور کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

کیا نہیں تھا اسکے لمس میں جنونیت ۔ دیوانگی ۔شدت ۔۔۔

کافی دیر بعد اپنی مان مانی کرنے کے بعد جب وہ پیچھے ہٹا تو ماہ نور کا چہرہ لہو کے رنگ جیسا ہوگیا تھا ۔۔۔

اسکو یونہی ہی اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ بیڈ کی جانب بڑھا تھا اور آرام سے اسے بیڈ پہ بٹھایا تھا پھر خود بھی اسکے پاس آبیٹھا تھا ۔۔۔

اور ڈرا سے ایک مخملی  ڈبیا سے خوبصورت سونے کی چین نکالی 

جس پہ ڈبل ایم Double M لکھا ہوا تھا ۔۔۔

تمہاری منہ دکھائی ۔۔۔

میر نے ماہ نور کی جانب دیکھتے ہوئے کہا 

واؤ میر اٹس سو بیوٹیفل۔۔

تم سے کم ۔۔۔

میر نے مسکرا کے کہا 

پہنادوں؟؟. 

میر نے پوچھا تھا 

جبکے ماہ نور اپنا ڈوپٹہ اتارنا چاہا جو کے پنوں سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔

میر نے وہی روک دیا اور خود آکے اسکا ڈوپٹہ اتارا تھا 

ڈوپٹہ اتارنے کے بعد میر نے انتہائی آرام سے اسکے گلے کو بھاری ہار سے آزاد کیا تھا ۔۔۔

ماہ نور میر کے لمس پہ خود میں سمٹتی جارہی تھی ۔۔۔

ہار اتارنے کے بعد اسنے وہ چین اسے پہنائی اور اسی چین پہ اپنے دہکتے لب رکھ دئیے تھے ۔۔۔

ماہ نور کا سانس سینے میں اٹکا تھا ۔۔۔۔

میر نے آہستہ سے ماہ نور کے بالوں کو بھی پنوں سے آزاد کیا تھا ۔۔۔

اور اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے گردن پہ اپنا لمس چھوڑا تھا ۔۔۔

جبکے ماہ نور جی جان سے کانپ اٹھی تھی 

پپ پ پپ پلیز میر ن نن ن نو

نہیں میری جان آج کے دن آج نہ ہی کوئی تمہاری مزاحمت کام آئے گی نا ہی میں پیچھے ہٹوں گا کتنا تڑپا ہوں میں تمہارے لیے کتنا انتظار کیا ہے میں نے اس دن کا اب اور نہیں  ۔۔۔

کہہ کے میر ماہ نور پہ جھک گیا تھا ۔۔۔

اسکو شرٹ لیس دیکھ کے ماہ نور کا دل خلق کو آیا تھا ۔۔۔

میر نے باری باری اپنے لب اسکی آنکھوں پہ رکھے پھر گال پہ رکھے اسکی نام میں جو بالی تھی اسکو پہ لب رکھتے ہوئے آہستہ سے اتار تھا ۔۔۔

پھر اسکی چوڑیوں کو جنکی کھنکتی آواز میر کو پسند تھی اور پھر پائل سے اسکے پاؤں آزاد کرواتے اسکے پاؤں پہ لب رکھ گیا تھا ۔۔۔

جبکے ماہ نور نے تڑپ کے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

اب میر کے ہاتھ اسکے لہنگے کی ڈوریوں سے الجھ رہے تھے جبکے ماہ نور کو لگا کہ اب وہ سانس نہیں لے سکے گی ۔۔

میر نے اس پہ حاوی ہوتے ہوئے اسکی شہہ رگ پہ اپنے لب رکھے تھے ۔۔۔

جس پہ ماہ نور کانپ اٹھی تھی 

اسے پہلے کہ ماہ نور کچھ کہتی اسکی آواز کہی دب کے رہ گئی تھی ۔۔۔

اسکی سانسوں پہ میر ارسلان بٹ پوری طرح قابض ہوچکا تھا ۔۔۔

آہستہ آہستہ رات سرکتی جارہی تھی لیکن میر کا جنون مزید شدت اختیار کرتا جارہا تھا ۔۔۔

میر نے ماہ نور کو کسی کانچ کی گڑیا کی طرح خود میں سمیٹ لیا تھا سمو لیا تھا ۔۔۔

جب اسکی کوئی مزاحمت کارآمد ثابت نہ ہوئی تو تھک ہار کے وہ اپنا آپ میر کو سونپ گئی تھی ۔۔۔

اسکی خود سپردگی دیکھ کے میر بھی سرشار ہوا تھا ۔۔۔

کھڑکی سے نظر آتا چاند بھی انکے حیسن ملن پہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔

مشال کب سے ایک ہی پوزیش میں بیٹھی بیٹھی تھک گئی تھی ۔۔۔

لہذا وہ اٹھی اور شیشے کے سامنے آکھڑئی ہوئی تاکہ خود کو اس بھاری جیولری سے آزاد کرواسکے ۔۔۔

نجانے دائم کہاں رہ گیا تھا ۔۔۔

اسنے سوچا ۔۔۔

ابھی وہ اتارنے ہی لگی کہ اسکو اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

اس سے پہلے وہ پلٹتی دائم نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا ۔۔۔

جس پہ وہ بوکھلا گئی تھی ۔۔۔

ددد۔۔۔ ددا دائم آپ؟؟ 

کب آئے 

ہممم تو تم چینج کرنے لگی تھی ابھی تک میں نے تمھیں جی بھر کے دیکھا ہی نہیں اور تم پھر میرے ارمانوں کا قتل کرنے والی تھی ۔۔۔

کہتے ہوئے دائم نے اسکی کمر پہ اپنی گرفت سخت کی تھی ۔۔۔

جس پہ مشال کے منہ سے کراہ نکلی تھی ۔۔۔۔

نن نہیں وہ میں تھک گئی ہوں اس لیے آرام کرتے ہیں ۔۔۔

دائم نے اس کے بہانے پہ مسکرایا تھا ۔۔

جبکے جھٹکے سے اسکا رخ اپنی جانب موڑا تھا ۔۔۔

وہ مبہوت ہی رہ گیا تھا اسے دیکھ کے

کوئی اتنا حسین کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔۔

اسکے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ بنی سنوری حسین لگتی ہے یا پھر سادگی میں ۔۔۔

بڑی  بڑی کالی گہری آنکھوں میں کاجل پلکوں پہ مسکارے کے ساتھ آئی لائنر ہونٹوں پہ ڈارک ریڈ کلر کی لپ اسٹک کانوں میں بھاری جھمکے 

خوبصورت ددھیا گردن میں بھاری ہار ۔۔۔

ناک میں خوبصورت نتھلی اور ماتھے پہ ماتھا پٹی ہاتھوں  میں  چوڑیاں پاؤں میں پائل 

وہ مکمل اسکی دلہن لگ رہی تھی ۔۔۔

وہ بےخود ہوا تھا 

اس سے پہلے کہ وہ کوئی پیش رفت کرتا وہ فوراً سے اسکے حصار سے نکلی 

اور کھڑکی کے پاس جا کھڑئی ہوئی 

اسکا دل ڈھڑک ڈھڑک کے پاگل ہوا جارہا تھا ۔۔

ہتھلیاں پسینے سے بھیگ گئیں تھیں ۔۔۔

یکایک دائم اسکی جانب بڑھا تھا ۔۔۔

اور اسکا رخ اپنی جانب موڑا تھا ۔۔۔

لٹل فیری تم نے کہا تھا میرے لیے گانا گاؤ گی؟؟. 

کب گاؤ گی ۔۔۔

مشال نے نظریں اٹھا کے دائم کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں معصومیت لیے اسی کی جانب ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔

وہ اس سے اتنی محبت کرنے لگی تھی کہ وہ اس سے اسکی جان بھی مانگ لیتا نا تو وہ وہ بھی خوشی خوشی دے دیتی ۔۔۔

اور وہ تو پھر اسکا محرم تھا اسکا اپنا اب اسکی سانسیں اسکے ہونے سے چلنے لگی تھیں ۔۔۔

مشال نے بے ساختہ دائم کو دیکھ کے گانا شروع کیا تھا ۔۔۔

تو جو ملا سب مل گیا 

دل کی نمازیں جاکے پہنچی فلک سے آگے تو جاکے پایا تجھکو میرے راہنما ۔۔۔

جبکے دائم دیوانہ وار اسکے چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا ۔۔۔

مجھکو میرا رب مل گیا ۔۔۔

بانہوں سے آگے تیری دنیا نہیں ہے میری 

رکھ لے یہی تو مجھکو میرے راہنما 

دائم کو شاید ہی کسی کی آواز اتنی خوبصورت لگی ہو ۔۔۔

جو نہ بھائے تیری نظر کو 

دیکھوں گی نا میں پھر وہ نظارا

تو جو ملے تو چھوڑ دوں خود کو 

تجھ میں کہیں ہے 

میرا کنارہ ۔۔۔

بس تو ہی تو مجھے یاد ہے ۔۔۔

دل کی نمازیں جاکے پہنچی فلک سے آگے 

تو جاکے پایا تجھکو میرے راہنما 

بانہوں سے آگے تیری دنیا نہیں ہے میری 

رکھ کے یہی تو مجھکو میرے راہنما 

مشال نے پیار بھری نظروں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا جبکے دائم اسکی اس ادا پہ مسکرا دیا تھا ۔۔۔

گزری ہوں جب سے 

میں تیرے در سے 

ہنسنے لگی ہوں کھل کے میں راہبر 

مشال نے دائم کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

جبکے مشال تو دائم کو آج حیران پہ حیران کررہی تھی ۔۔۔

درد سے تیرے رشتہ جڑا تو 

اب مسکراتے ہیں میرے منظر 

ہاں ۔۔۔

رب کی مجھے سوغات ہے ۔۔۔

دل کی نمازیں جاکے پہنچی فلک سے آگے 

تو جا کے پایا تجھکو میرے راہنما 

بانہوں سے آگے تیری دنیا نہیں ہے میری 

رکھ لے یہی تو مجھکو میرے راہنما ۔۔۔۔۔

کہتے ہوئے مشال کی آنکھوں سے چند آنسو بہہ نکلے تھے ۔۔۔

جبکے دائم تڑپ ہی تو گیا تھا اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے ۔۔۔

اسنے اپنے لبوں سے اسکے آنسو چن لیے تھے ۔۔۔

دائم آئی لو یو آئی لو یو سو مچ آئی کانٹ لو ود آؤٹ یو ۔۔۔۔

Daim I love you 

I love you so Much 

I Can't live without you... 

دائم کو اسکے اظہار پہ اپنی رگوں میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔

وہ آگے بڑھا اور اسکی پیشانی پہ اپنے ہونٹ رکھے تھے ۔۔۔

مجھے بھی شدتِ محبت ہے تم سے مائے لٹل فیری ۔۔۔

صرف آپ کو ہی نہیں مجھے بھی آپ سے شدتِ محبت ہے ۔۔۔

آپ ہیں تو آپ کی لٹل فیری ہے آپ کے ہونے سے میری سانسیں چلتی ہیں مجھے کبھی بھی چھوڑ کے مت جائیے گا ورنہ میں مر ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ مشال کچھ کہتی دائم نے اسکے الفاظ اس سے چھین لیے تھے ۔۔۔

دائم دُرانی کی دیوانگی عروج پر تھی ۔۔۔

وہ مدہوش ہوتا جارہا تھا 

جبکے مشال کی آنکھیں اسکی پر شدت گرفت پہ نم ہوئیں تھیں ۔۔۔

جب اسے لگا کہ وہ سانس نہیں لے پارہی جب جاکے اسنے اسکی گرفت سے آزاد کیا تھا ۔۔۔

مشال کا چہرہ لہو رنگ ہوگیا تھا وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی تھی 

جبھی دائم نے ایک مرتبہ پھر سے اسکو اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔

وہ کٹی ہوئی ڈالی کی طرح اسکے سینے سے آلگی تھی ۔۔۔

دائم اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کرنے لگا تھا ۔۔۔

کہا تھا نا مائے لٹل فیری تمھیں بتاؤں گا کہ دائم دُرانی کس قدر شدتِ محبت کرتا ہے تم سے لیکن جانِ من یہ میری شدت کا ایک پرسنٹ بھی نہیں ہے ۔۔۔

دائم کی بےباک گفتگو سن کے مشال سے نظریں اٹھانا دوبھر ہوگیا تھا ۔۔۔۔

یکایک دائم کی نظر مشال کی نتھلی پہ پڑی تھی ۔۔۔

" جانتی ہو مشال مجھے آج تمہاری یہ نتھلی اپنی رقیب معلوم ہورہی ہے " ۔۔

پوچھو کیوں؟؟ 

کک کیوں ۔۔۔

مشال نے گھبراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

کیوں کے یہ میرے کام میں خلل پیدا کرے گی نا ۔۔۔

دائم کے یوں کہنے پہ تو مشال کی دل نکل کے حلق کو آگیا تھا ۔۔۔

دائم باخوبی مشال کی دھڑکنوں کو سن رہا تھا ۔۔۔

اسکی شدتیں مشال کو خود میں سمٹنے پر مجبور کررہی تھیں ۔۔۔

دائم آپ بہت ۔۔۔

اس سے پہلے مشال کچھ کہتی دائم نے اسے اپنی بازوؤں میں بھر لیا تھا ۔۔۔

دد ۔۔ دائم کیا کررہے ہیں نیچے اتاریں مجھے ۔۔۔

اوہو یار لٹل فیری تمہاری منہ دکھائی تو دینے دو مجھے ۔۔۔۔

دائم نے آہستہ سے مشال کو بیڈ پہ بیٹھایا تھا ۔۔۔

پھر ڈرا سے ایک مخملی ڈبیا میں سے ایک خوبصورت ہیرے کی نوز پن نکالی تھی ۔۔۔

اور مشال کو دی تھی ۔۔۔

واؤ دائم یہ کتنی خوبصورت ہے نا ۔۔

نہیں میری لٹل فیری کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔

دائم آگے بڑھا اور مشال کی نتھلی اسکے ناک سے اتاری 

اسکا لمس محسوس کرتی مشال خود میں سمٹنے لگی تھی ۔۔

اور آگے بڑھ کے اپنی دی ہوئی نوز پن اسکی ناک میں پہنائی تھی ۔۔۔

اور جھک کے اسکے ناک پہ اپنے لب رکھے تھے ۔۔۔

مشال اسکا لمس محسوس کرتی خود میں سمٹنے لگی تھی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ مشال اس سے دور ہوتی اسنے مشال کی کمر پہ ہاتھ رکھ کے اسکو اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔

اور اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے کہنے خمار آلود آواز میں کہنے لگا ۔۔۔

" لٹل فیری تمہاری آواز بھی تمہاری طرح بہت خوبصورت ہے " 

کہہ کے اسکی گردن پہ اپنے ہونٹ رکھے تھے ۔۔۔

جبکے مشال جی جان سے کانپی تھی ۔۔۔

مشال کی چوڑیوں کی کھنک اسکی پائل کی چھن چھن دائم کو مزید مدہوش کررہی تھی ۔۔۔۔

دائم نے ایک نظر اسکی جانب دیکھا پھر آگے بڑھ کے اسکا ڈوپٹہ اتارا تھا ۔۔۔

مشال کا نفس بری طرح بگڑا تھا ۔۔۔

اسنے جھٹکے سے اسکے کنڈلے بالے جنکا وہ اسیر تھا شروع سے کھولے تھے ۔۔۔

پھر ماتھا پٹی کو اتارتے ہوئے اسنے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا تھا ۔۔۔

پھر آہستہ سے اسکی آنکھوں پہ اپنا لمس چھوڑا تھا 

پھر گالوں پہ ۔۔۔

مشال کی تو جان ہوا ہورہی تھی دائم کی بڑھتی جسارتوں سے ۔۔۔

جھمکے اتارنے کے بعد اسکی کان کی لو کو چومنے کے ساتھ ساتھ سختی سے کاٹا تھا ۔۔۔۔

جس پہ مشال کی سسکاری نکلی تھی ۔۔۔

اسکے نازک گلے سے بھاری ہار کو آزاد کرتے ہوئے اسکی شہ رگ کو چوما تھا ۔۔۔

پھر ہاتھوں سے چوڑیاں اتارتے ہوئے اسکی مخملی کلائیوں پہ اپنا لمس چھوڑا تھا ۔۔۔

پھر اسکے پاؤں سے پائل آزاد کرتے ہوئے اسکے پاؤں کو چوم لیا تھا ۔۔۔

جس پہ مشال تڑپ اٹھی تھی ۔۔۔

ددد ۔ددا دائم پہ پی پی پلیز ۔۔

مشال نے التجائیہ کہا تھا ۔۔۔

جبکے دائم نے ایک نظر اٹھا کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔

اور پھر جھٹکے سے اسے اپنی گود میں بٹھایا تھا ۔۔۔

ہممم بولو کیا کہنا چاہتی ہو میری جان ۔۔۔

ووو وہ دائم آپ پلیز ایسا مت کیا کریں ۔۔۔

کیسا نا کیا کروں؟؟ 

دائم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

جبکے مشال نے رونی والی صورت بنائی تھی جس پہ مشال کا قہقہ بلند ہوا تھا ۔۔۔

دائم ۔۔۔

جی دائم کی جان ۔۔۔

مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں ۔۔۔

میری جان اس وقت باتیں کرنی ہیں تمھیں بلکہ اس رات کو بات ہی کون کرتا ہے اس رات کو صرف محسوس کیا جاتا ہے ۔۔۔

دائم کے اس قدر بےباک انداز پہ مشال کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا ۔۔۔

دائم پلیز تنگ مت کیا کریں مجھے آپ ۔۔۔

مشال نے خفگی سے کہا تھا 

ہممم بولو کیا باتیں کرنی ہے میری لٹل فیری کو مجھ سے ۔۔۔

آپ پلیز سب کو نا مارا کریں نا مجھے پتہ ہے آپ سیکرٹ ایجنٹ ہیں لیکن آپ کا ہاتھ بہت بھاری ہے ۔۔۔

مشال نے معصومیت سے آنکھیں پٹپتاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

جس پہ دائم ہنس دیا تھا ۔۔۔

ارے میری لٹل فیری جو لوگ برے ہوتے ہیں نا میں صرف انکو مارتا ہوں اور کسی کو نہیں ۔۔

دائم نے کہا تو مسکرائی تھی ۔۔۔

بعد میں مشال اپنی معصومیت سے دائم کو بہت ہنساتی رہی وہ انسان جسکے چہرے سے مسکراہٹ بالکل غائب ہوگئی تھی وہ مسکرا رہا تھا وجہ اسکی لٹل فیری تھی وہ لڑکی نہیں اسکے جینے کی وجہ تھی ۔۔۔

اور وہ اسکی سنگت میں ہنستا ہی چلا گیا تھا ۔۔۔

لٹل فیری تم جانتی ہو تم میرے جینے کی وجہ ہو مجھے چھوڑ کے کبھی مت جانا ورنہ تمہارا یہ دیوانہ مرجائے گا ۔۔۔۔

مشال اسکی بات پہ تڑپ ہی اٹھی تھی اور نفی میں سرہلاتی اسکے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ گئی تھی ۔۔۔

جبکے دائم نے اسکی ہتھیلی کو چوم لیا تھا ۔۔۔

اور اسے اٹھائے اپنے بیڈ کی جانب بڑھ گیا تھا ۔۔۔

دد ۔۔ دائم ششش!!!  بہت تڑپا ہوں تمہارے لیے تمہاری قربت کے لیے یہ لمحے جانے مت دو محسوس کرنے دو خود کو مجھے میری وحشتوں کو قرار دو سکون دو مجھے ۔۔۔

دائم کو شرٹ لیس دیکھ مشال نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں دبوچا تھا ۔۔۔

کہتے ہوئے دائم نے اسکی سانسوں کو اپنی دسترس میں لیا ۔۔۔

اسکی لہجے میں شدت تڑپ جنونیت محسوس کرتے ہوئے مشال جی جان سے لرزی تھی ۔۔۔

مشال نے ہلکی سی مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی جس پہ دائم نے اپنی گرفت اتنی ہی مضبوط کی تھی جس سے مشال کو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔۔۔۔

پوری رات وہ ننھی جان اسکی شدتوں کو برداشت کرتی رہی اسکا ہر انداز جنونیت اور دیوانگی اختیار کیے ہوئے تھا مشال کو دائم نے خود میں کسی متاع جان کی طرح سمیٹ لیا تھا ۔۔۔ اسکی پانہوں میں اب وہ خود کو خوش قسمت تصور کرنے لگی تھی ۔۔۔

پوری رات وہ اسکو اپنی شدتِ محبت کی بارش میں بھیگوتا رہا اور وہ اسکے سنگ سنگ بھگتی ہی چلی گئی تھی ۔۔۔

چاند ستارے بھی انکے اس قدر حسین ملن پہ مسکرا دئیے تھے ۔۔۔

صبح میر ماہ نور کو جگا رہا تھا نماز کے ساتھ وہ اسکے ساتھ مل کے شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا کیوں کے ماہ نور کی شکل میں اسے صرف محبت ہی نہیں اسکی پوری دنیا مل گئی تھی اور اب وہ اپنے رب کو اس کا شکر ادا کرنا چاہتا تھا جو اسے اسنے عطا کیا تھا ۔۔۔۔

" اٹھو نا نور "

مم میر نا کریں پوری رات آپنے سونے نہیں دیا اور اب بھی ۔۔۔

ماہ نور نیند میں بولی 

میر کے ہونٹوں پہ ایک شریر مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔۔۔

اچھا مطلب تم ایسے نہیں اٹھوگی میں اپنے طریقے سے اٹھاؤں آپکو اب ۔۔۔

میر نے کہا جبکے ماہ نور  پہ اسکی بات کا خاصہ اثر نا ہوا تھا ۔۔۔

ایک منٹ لگا میر کو اپنا جنون اس پر لٹانے میں اور وہ گڑبڑا کر اٹھی گئی تھی لیکن اسکی گرفت مضبوط تھی ۔۔۔

چند لمحوں بعد وہ الگ ہوا تو وہ کمبل میں اپنا منہ چھپا گئی تھی اپنا حلیہ دیکھ کے جس پہ میر ہنس دیا تھا ۔۔۔۔

اٹھو اب میں باہر جارہا ہوں شاور لو اور پھر نوافل ادا کریں گے شکرانے کے ۔۔۔

ماہ نور نے سر کو اثبات میں ہلایا ۔۔۔

اور میر کے جانے کے بعد شاور لینے چل دی تھی ۔۔۔

دونوں نے ایک ساتھ نماز پڑھی تھی ۔۔۔

کتنا خوبصورت وقت تھا نا کتنے خوبصورت لمحے تھے ۔۔۔

جب وہ ساتھ تھے ایک پاک اور جائز رشتہ کا احساس ہی الگ ہوتا ہے ۔۔۔

مشال کی آنکھ خود بخود کھل چکی تھی حالانکہ دائم نے اسے پوری رات سونے نہیں دیا تھا لیکن اسکا پوری رات جگا کے خود اب سکون سے سورہا تھا ۔۔۔

بے ساختہ مشال کی نظر اسکے چہرے پہ پڑی ۔۔۔

وہ کوئی شہزادہ ہی تھا ۔۔۔

نیلی گہری آنکھیں جو اس وقت بند تھیں کالے رنگ کے بالے خوبصورت عنابی لب ہلکی ہلکی بیڑڈ میں لمبی گھنی پلکیں مغرور کھڑئی ناک ۔۔۔

وہ بے شک مکمل اور حسین مرد تھا ۔۔۔

مشال کے دل میں ایک خواہش جاگی تھی اور دل کی آواز پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے اس نے دائم کے ماتھے پہ اپنا نازک لمس چھوڑا تھا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ پیچھے ہوتی دائم جو کے جاگ رہا تھا اور اسکی ایک ایک حرکت ملاحظہ فرما رہا تھا اسکی کلائی پکڑ کے اپنی جانب کھینچا وہ سیدھی اسکے سینے پہ آگری تھی ۔۔۔

پی پپ پلیز دائم کیا کررہے ہیں چھوڑیں ۔۔۔

گزری رات کے وہ قربت کے لمحے یاد آنے پہ مشال کا چہرہ گلنار ہوگیا تھا جسکو دائم نے دلچسپی سے دیکھا تھا ۔۔۔

دد ۔۔ دائم آپپ آپ سے ایک بات کرنی ہے ۔۔۔

ہممم جان بولو 

دائم خمار آلود آواز میں گویا ہوا ۔۔۔

کیا میں آپکی امامت میں نماز پڑھ سکتی ہوں ۔۔۔

جبکے دائم نے بےیقنی سے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔

میں اس پاک ذات کا شکر ادا کرنا چاہتی ہوں جس نے مجھے انسان کی شکل میں فرشتہ عطا کیا ۔۔۔

مشال نے آنکھوں محبت سموئے کہا 

جبکے دائم تو گویا اسکے اظہار پہ سرشار ہی ہوگیا تھا ۔۔۔

اور آگے بڑھ کے اسے خود میں بھینچ لیا تھا ۔۔۔

پھر مشال نے دائم کی امامت میں نماز ادا کی تھی ۔۔۔

آج وہ مکمل تھے انکی شدّت محبت مکمل تھی ۔۔۔

آج حقیقت میں انکا الله ان چاروں سے خوش ہوا تھا 

کیوں کے بے شک قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔۔

" بے شک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے " ....

آج ان چاروں کا ولیمہ تھا ۔۔۔

دائم اور میر نے بلیک اور وائٹ کلر کے تھڑی پیس سوٹ پہنے تھے جبکے مشال اور ماہ نور نے وائٹ کلر کی میکسیاں زیب تن کر رکھی تھیں ۔۔۔۔

آج وہ چاروں ایک دوسرے کے ساتھ نظر لگ جانے کی حد تک پیارے لگ رہے تھے ۔۔۔

دائم کی ایک رات کی ہی محبت پہ مشال ٹوٹ کے روپ آیا تھا جبکے ماہ نور بھی بہت کھلی کھلی انتہائی خوش لگ رہی تھی میر کی محبت نے اسکا رواں رواں مہکا دیا تھا ۔۔۔

کتنے مکمل لگتے تھے وہ چاروں ساتھ میں 

جیسے ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے ہوں ۔۔۔

ڈانس سیشن چلا تھا اور دائم اور میر نے ان دونوں کی جانب بڑھائے تھے اور ان دونوں نے بھی فوراً اپنے حنائی ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ میں تھمائے تھے ۔۔۔

دھوپ سے نکل کے چھاؤں سے پھسل کے 

ہم ملے جہاں پر لمحہ تھم گیا 

آسمان پگھل کے شیشے میں ڈھل کے 

جم گیا تو تیرا چہرہ بن گیا 

دنیا بھلا کے تم سے ملا ہوں 

نکلی ہے دل سے یہ دعا 

رنگ دے تو موہے گیروہ 

رانجھے کی دل سے ہے دعا

رنگ دے تو موہے گیروہ ۔۔۔۔

وہ چاروں ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے گم تھے ۔۔۔

وقت تھم سا گیا تھا ۔۔۔

ہر طرف مہکتی کھلیاں کھل رہی تھیں 

پرندے چہک رہے تھے ۔۔۔۔

ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔۔۔

تم سے شروع تم پہ فنا 

ہے سفیانہ یہ داستان 

میں کارواں منزل ہو تم 

جاتا جہاں کو ہر راستہ 

تم سے جڑا جو دل زرا کے سنبھل کے 

درد کا وہ سارا بہانہ چھن گیا 

دنیا بھلا کے تم سے ملا ہوں 

نکلی ہے دل سے یہ دعا 

رنگ دے تو موہے گیروہ 

رانجھے کی دل سے ہے دعا 

رنگ دے تو موہے گیروہ ۔۔۔

میر نے محبت سے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

ویران تھا دل کا جہاں 

جس دن سے تو نازل ہوا 

اک جسم سے اک جان کا 

درجہ مجھے حاصل ہوا ۔۔۔

دائم نے مشال کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

پھیکے ہیں سارے ناطے جہاں کے 

تیرے ساتھ رشتہ گہرا بن گیا ۔۔۔

وہ دونوں اپنے اپنے ہمسفر کی بانہوں میں بانہیں ڈال کے بولیں تھیں ۔۔۔

دنیا بھلا کے تم سے ملا ہوں نکلی ہے دل سے یہ دعا 

رنگ دے تو موہے گیروہ ۔۔۔

رانجھے کی دل سے ہے دعا 

رنگ دے تو موہے گیروہ۔۔۔

نکلی ہے دل سے یہ دعا ۔۔۔

رنگ دے تو موہے گیروہ ۔۔۔۔۔

وہ چاروں خوشی خوشی اس نئے سفر میں ایک دوسرے کے سنگ سنگ تھے۔۔۔

رات کو میر جب روم میں داخل ہوا 

تو ماہ نور کپڑے چینچ کرکے نائیٹ سوٹ پہن کے سونے جارہی تھی ۔۔۔

یار نور بہت ظالم بیوی ہو تم ۔۔۔

وہ کیوں؟؟ 

ماہ نور نے میر سے پوچھا 

یار مجھے خود کو دیکھنے تو دیتی میرے لیے تیار ہوئی تھی نا تو چینج کیوں کیا؟؟؟ 

شام سے دیکھ ہی تو رہے ہو ۔۔۔

ماہ نور ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ ہوشیاری سے فرار ہوتی میر نے اسے جالیا تھا ۔۔۔

نا بیگم صاحبہ نا مجھ سے بچنا وہ بھی ایجنٹ میر ارسلان بٹ سے ناممکن ہے ۔۔

اور تمہارا تو بچنا سخت نامکن ہے جانِ میر ۔۔۔

ماہ نور اسکی معنی خیز سرگوشی پہ کانپ اٹھی تھی ۔۔۔

مم می میر پہ پی پلیز مم مجھے نیند آئی ہے اور ویسے بھی آپنے اپنی من مانی بہت کرلی ہے اب ۔۔۔

ہاہاہا ۔۔۔ جان اب صرف  میری ہی من مانی چلے گی صرف اس معاملے میں ۔۔۔

باقی میں سارا کا سارا تمہارا ہوں جب چاہے جو چاہے حکم چلا سکتی ہو ۔۔۔۔

میر کی بےباک بات پہ ماہ نور کا چہرہ گلنار ہوگیا تھا ۔۔۔۔

جبکے وہ مسکراتا ہوا اسے پہ اپنی چاہت نچھاور کرنا لگا تھا ۔۔۔

 رات کو مشال بڑی مشکل سے دائم کی لودیتی نظروں سے بچ کے روم میں آکے جلدی سے اس ہیوی ڈریس سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی کیوں کے وہ بہت تھک گئی تھی ۔۔۔

جیولری اتارنے کے بعد وہ پلٹی تھی لیکن کسی پتھر نما چٹان سے اسکا سر جاٹکرایا تھا ۔۔۔

کہاں مائے لٹل فیری کل بھی اور آج بھی تم مجھ سے بھاگنے کا موقع تلاش کررہی تھی ۔۔۔

اسکی سزا ملے گی تمھیں اب ۔۔۔

کہتے دائم نے مشال کی کمر میں ہاتھ ڈال کے قریب کیا تھا ۔۔۔

وہ سیدھا اسکے سینے سے جالگی تھی ۔۔۔

اسکی پرتپش نگاہیں خود پہ محسوس کرتی مشال خود میں سمٹی تھی۔۔۔

وہ مُسلسل خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی ۔۔۔۔

جب جانتی ہو مجھ سے بھاگ نہیں سکتی تو ایسا کیوں کرتی ہو مائے لٹل فیری 

دائم نے خمار زدہ آواز میں کہا 

جبکے مشال تھک ہار کے اسکے سینے پہ ہی اپنا سر ٹکا گئی تھی۔۔۔

دائم اسکی حرکت پہ مسکرا اٹھا تھا ۔۔۔

اب بتاؤ کیا سزا دوں ۔۔۔

وہ اسے نرمی سے اٹھاتے ہوئے بیڈ پہ لایا 

اور اسے بیڈ پہ لٹا کے خود اسپر جھکا تھا 

جبکے مشال کا دل اسکے کانوں میں ڈھڑک رہا تھا ۔۔۔

دد۔۔دا دائم مم مجھے نیند آئی ہے ۔۔۔

لٹل فیری کوئی سولِڈ ریزن دیتی تو رہائی ملتی ۔۔۔

اب تو تمام عمر میری قید میں رہنا ہے تم نے ۔۔۔

کہتے ہوئے دائم اسکو اپنی شدتِ محبت سے باور کرواتا گیا تھا ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میر میر ۔۔۔ ماہ نور خوشی سے اچھلتی ہوئی میر کے پاس آئی ۔۔۔۔

ہمممم کیا ہوا جانِ میر ۔۔۔

میر جو کے فون میں مصروف تھا فون کو سائیڈ پہ کرتا ہوا ماہ نور کو کھینچ کے اپنے قریب بیٹھا چکا تھا ۔۔۔۔

مم میر وہ نا ۔۔۔

ماہ نور شرماتی ہوئی کہنے لگی ۔۔۔

ہاں کیا وہ ۔۔۔۔

وہ نا ۔۔۔

وہ تم ماں اور میں پاپا بننے والے ہیں ۔۔۔۔

واٹ؟؟  ( کیا) ؟؟

میر کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں 

جبکے ماہ نور خود کو کوستی ہوئی کہنے لگی 

وہ اتنا خوش تھی اس خبر کے بعد کہ اسکے منہ سے الٹا جملہ نکل گیا تھا ۔۔۔

میرا مطلب آپ پاپا اور میں ماما بننے والے ہیں ۔۔۔

ماہ نور نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

او مائے گاڈ ماہ نور بےبی آئی جسٹ لو یو لو یو سو مچ 

۔۔۔۔

وہ دیوانہ وار اسکے چہرے پہ اپنا لمس چھوڑنے لگا تھا ۔۔

تم سوچ نہیں سکتی میں کتنا خوش ہوں ۔۔۔

میر نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔۔

ماہ نور بھی مسکراتی ہوئی کہنے لگی 

جبکے وہ الله کا شکر ادا کرتے ہوا ماہ نور کو خود میں بھینچ گیا تھا ۔۔۔۔

مشال کو جب سے پتہ چلا تھا کہ وہ پریگنٹ ہے تب سے وہ خوشی سے پھولے نہیں سما پا رہی تھی لیکن دائم کو بتاتے ہوئے سوچ کے ہی شرم سے برا حال ہوا جارہا تھا ۔۔۔

شام کو مشال جب روم میں آئی تو دائم لیپ ٹاپ پہ اپنا کچھ کام کررہا تھا ۔۔۔

مشال اور ماہ نور نے اب اپنی پڑھائی سٹارٹ کردی تھی اور اب بس انکے فائنل پیپز کا رزلٹ آنا باقی تھا ۔۔۔۔

ان چار سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا ۔۔۔۔

لیکن ایک چیز جو نہیں بدلی تھی وہ تھی ان چاروں کی شدتِ محبت ۔۔۔

ددد۔۔ دا دائم 

مشال دائم سے ڈرتی تو نا تھی لیکن اس طرح کی بات کرنے پہ اسکا دل سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا اور پھر فطری شرم و حیا ۔۔۔۔

ہمم مائے لٹل فیری ۔۔۔

وہ لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھتا ہوا بولا تھا ۔۔۔۔

مشال اور دائم اب اپنے نیو گھر میں شفٹ ہوگئے تھے جو دائم نے بہت چاہ سے بنوایا تھا مشال کے لیے ۔۔۔۔۔

دائم اسے اپنے سوا کھانا بنانے کے اور اپنا کام کرنے کے علاوہ کچھ نا کرنے دیتا تھا ۔۔۔

میڈز اب ہر وقت اسکے ساتھ ہوتے تھے ۔۔۔

ایسا ہی بالکل ماہ نور کے ساتھ بھی تھا وہ بھی صرف میر کے ہی کام کرتی تھی ۔۔ باقی سارے کاموں کے لیے 

میر نے ملازم رکھے ہوئے تھے ۔۔

وہہ ۔۔ وہ کچھ بب بتانا تھا آپکو ۔۔۔

ہمم لٹل فیری بولو ۔۔۔

دائم اپنا چہرہ مشال کی گردن میں چھپاتا ہوا بولا ۔۔۔

آپپ آپ پاپا بننے والے ہیں 

واٹ آر یو سیریس مشال 

مائے گاڈ

تھینک یو تھینک یو سو سو مچ ۔۔.

تم سوچ نہیں سکتی مشال تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے ...

دائم نے مشال کے ہاتھ چوم لیے تھے ۔۔۔

اور اسے خوشی کے مار گود میں اٹھا لیا تھا ۔۔۔

تھینک یو سو مچ مائے لٹل فیری آئی لو یو ۔۔۔

آئی لو یو ٹو ۔۔۔

مشال بھی مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔

وہ چاروں اب مکمل ہونے جارہے تھے ۔۔۔

کیوں کے ان لوگوں کے ہاں اب ننھے مہمانوں کی پیدائش جو ہونے والی تھی ۔۔۔

" زندگی میں دکھ جس شدت کا بھی ہو ، اللہ نے آپکو آپکے حصے کا سکھ بھی ضرور دینا ہے ، آپکا حساب کتاب شاید غلط ہوجائے لیکن اسکے پاس سارا حساب کتاب بالکل اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔۔۔

وہ اگر دکھ سے گزار رہا ہے تو سکھ بھی اسی در سے ہی ملے گا زرد پتے جہاں سے اترتے ہیں سبز پتے بھی وہی سے نکلیں گے آپکو بس اس رب پاک کی ذات پہ بھروسہ کرنا ہے بے شک ہر کے ساتھ آسانی ہے " ۔۔۔

چھ سال بعد ۔۔۔۔ 

ماما ۔۔۔

ماما ۔۔۔

لٹل فیری ۔۔۔

کیا ہے بھئی ۔۔۔

میری ناک مجھے دم کرکے رکھا ہوا ہے آپ تینوں باپ بیٹوں نے ۔۔۔

مشال جو ان تینوں کے لیے ملک شیک بنا رہی تھی ۔۔۔

 ٹرئے میں گلاس رکھتے ہوئے  اوپر لے کے آتے ہوئے بولی ۔۔۔

مشال اور دائم کے گھر دو جڑواں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی ۔۔۔

بڑے بیٹے کا نام درید دُرانی تھا ۔۔۔

جو کے دائم کی طرح ہی خوبصورت تھا گہری سبز آنکھوں کا ملک پراسرار مسکراہٹ اور چہرے پہ سنجیدگی شدت اور جنون تو اس میں کوٹ کوٹ کے بھرا تھا جو چیز درید دُرانی کی ملکیت ہو اور اسے کوئی چھونے کی کوشش کرے بس پھر تو وہ گیا کام سے ۔۔۔

جبکے چھوٹا بیٹا رائم دُرانی جو مشال کی ہی طرح ضدی اور جنونی تھا ۔۔۔۔

البتہ اسکی آنکھیں گرے کلر کی تھیں ۔۔۔

جو چیز رائم دُرانی کو پسند آجائے اور اسے نا ملے تو وہ چھن لیتا تھا ۔۔۔

لیکن مسکراہٹ پہ تو باپ پہ ہی گئے تھے ۔۔۔

ماما ماما جلدی کریں 

چاچو چاچی اور دانین اور ازمیر آنے والے ہوں گے ۔۔۔

رائم کا نام لینے کی دیر تھی دانین کی کے درید کے کان کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔

ہاں بھئی جلدی سے فنش کرو یہ شیک پھر نیچے چلتے ہیں ۔۔۔

وہ دونوں شیک پینے لگے تھے ۔۔۔

میر اور ماہ نور کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے ۔۔۔

بڑا بیٹا ازمیر ارسلان بٹ ۔۔۔

جبکے چھوٹی بیٹی 

دانین میر ارسلان بٹ۔۔۔

وہ چاروں اپنی زندگیوں میں انتہائی خوش تھے وہ چاروں الله کا شکر ادا کرتے نا تھکتے تھے ۔۔۔۔

درید اور رائم اب دونوں نیچے کی جانب بھاگ گئے تھے ۔۔۔

جبکے مشال جو آئینے کے سامنے کھڑئی لپ اسٹک لگا رہی تھی ۔۔۔

اچانک ہی خود کو کسی کے حصار میں پایا ۔۔۔

اس نے سامنے دیکھا تو دائم نے اسے جکڑ رکھا تھا۔۔۔

مائے لٹل فیری اب تم بات کہاں آتی ہو ہر وقت میرے چھوٹے نمونوں سے لگی رہتی ہو میرے لیے ٹائم ہی نہیں ملتا اب ۔۔۔

دائم نے گلا کیا تھا ۔۔۔

دائم کیا ہوگیا ہے آپ جانتے ہیں نا کہ آپکی لٹل فیری آپ سے کتنا پیار کرتی ہے چاہے جو بھی میں کتنی ہی مصروف کیوں نا ہوں آپ سے کبھی غافل نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔

مشال کے کہنے پہ دائم نے اسکے ماتھے پہ اپنا لمس چھوڑا تھا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اسکے ہونٹوں پہ جھکتا 

نیچے سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔۔۔۔

ماما پاپا آجائیں چاچو چاچی آگئے ہیں ۔۔۔

یہ آواز رائم کی تھی ۔۔۔

ہائے کسی سے کیا گلا کریں میری اولاد ہی میرے رومنیس کی دشمن ہے ۔۔۔

ہاہاہا مشال کا قہقہہ بلند ہوا تھا ۔۔۔

جس پہ دائم بھی مسکرا دیا تھا ۔۔۔

دونوں ساتھ میں ہی نیچے گئے تھے ۔۔۔

اسلام و علیکم!!! 

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔

کیسی ہو نور 

میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسی ہو مشی ۔۔۔

مشال اور ماہ نور دائم اور میر ایک دوسرے سے ملنے لگے تھے۔۔۔۔

یار نور بتا اب میں انکا کیا کرو تینوں مجھے بہت تنگ کرتے ہیں ۔۔۔

مشال ماہ نور کو بتانے لگی تو سبھی ہنس پڑے جبکے ماہ نور بولی ۔۔

بہن اب کیا بولوں تجھے میری تو اپنی قسمت پھوٹ

 گئی تھی

 تینوں یعنی ( میر،  ازمیر،  دانین )

نے جینا حرام کردیا ہے میرا 

مجال ہے کہ مجھے سکھ کا سانس لینے دیں ۔۔۔

سب جانتے تھے کہ ماہ نور مذاق کررہی ہے

اب اس بات پہ بیک وقت سب کے قہقہے بلند ہوئے تھے ۔۔۔۔

ازمیر اور رائم اندر کھیل رہے تھے جبکے درید دانین کو ڈھونڈھتا ہوا باہر لان میں چلا آیا تھا ۔۔۔

کہاں ہو دانین؟؟ 

دانین ۔۔۔

تمھیں پتہ ہے نا تم مجھ سے چھپ نہیں سکتی باہر آؤ

 فوراً ورنہ اب کی بار باہر نہ آئی نا تو تم جانتی ہو

 مجھے اپنے طریقے سے باہر نکال کے لاؤں گا 

اور تمھارے پتہ ہے درید دُرانی کو بار بار اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں ہے ۔۔۔

یہ کہتے ٹائم اسکے ہونٹوں کو ایک پراسرار مسکراہٹ نے چھوا تھا ۔۔۔

اور اسکی یہ دھمکی کارآمد ثابت ہوئی تھی ۔۔۔

دانین فوراً باہر آئی تھی۔۔۔

جبکے درید کی سبز آنکھوں میں ایک الگ قسم کی

 چمک در آئی تھی ۔۔۔۔

شش شوری دید ۔۔۔

دانین نے اپنے ننھے ہاتھ سے اپنے کان پکڑ کے معصومانہ سوری بولا تھا ۔۔۔

اٹس اوکے مگر مجھ سے کبھی دور مت جانا نین!!! 

نہیں جاؤ گی نا؟؟ 

درید نے بہت امید سے پوچھا تھا ۔۔۔

ن ن نئ ۔۔۔ ( نہیں ) 

دانین نے توتلی زبان میں جواب دیا تھا ۔۔

جس پر درید نے جھک کے شدت سے دانین کا گال چوم لیا تھا ۔۔۔

اور اسکے کان میں ایک سرگوشی کی تھی جو اسکے سر سے گزر گئی تھی ۔۔۔

کہتے ٹائم اسکے لہجے میں ایک عجیب سی جنونیت، دیوانگی،  وحشت، شدت تھی ۔۔۔۔

"مائے لٹل فیری".....

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Shiddat E Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Shiddat E Mohabbat written by Nazia Rajpoot.Shiddat E Mohabbat by Nazia Rajpoot is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment