Pages

Monday 12 August 2024

Wahshat E Ishq By Saniya Shah New Complete Romantic Novel

Wahshat E Ishq By Saniya Shah New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wahshat E Ishq By Saniya Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name: Wahshat E Ishq

Writer Name: Saniya Shah

Category: Complete Novel

شاہ  جسے ہی کمرے میں داخل ہوا گلاب کے پھولوں کی مہک نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔۔

شرماتی گھبراتی  یشال نے  جیسے ہی اس کی موجودگی کو محسوس کیا مزید اپنے آپ میں سمٹ گئی ۔۔۔۔۔۔

شا ہ دل میں محبت بھرے جذبات لیے اس کی طرف بڑھا۔۔

جیسے ہی شاہ نےاس کا گھونگھٹ اٹھایا اسے ایسا لگا کہ اس کی دھڑکنیں تھم جائیگی ۔۔۔۔۔۔۔۔

بے خود سا ہو  کر شاہ اس پر جھکا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا مگر اس کی پکڑ میں اچانک مضبوطی آگئی ۔۔۔۔۔۔

یشال کی آنکھوں ںسے تکلیف کے مارے آنسو بہنے لگے ۔۔۔

شاہ مجھے تکلیف ہو رہی ہے ۔۔۔

یشال نے سسکتے ہوئے تکلیف سے کہا

تکلیف۔۔۔؟ ہاہاہا شاہ نے اسئرائیہ انداز میں قہقہہ لگایا

یشال  اپنے آپ کو اس کی مضبوط گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

چھوڑیں مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ  یشال نے روتے ہوئے کہا۔۔۔

کیا نہیں رہنا کیا کہا تم نے شاہ کا ہاتھ اٹھا اور یشال کے خوبصورت چہرے پر نشان چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

آج تو کہہ دیا آج کے بعد ایسا خواب میں بھی مت سوچنا ۔۔۔۔۔

مسزشاہ تمہارے جسم پرروح پر سانسوں پر صرف اور صرف شاہ کا حق ہے سمجھی تم شاہ نے اسے غصے سے دھکا دیا اور یشال کی طرف دیکھے بنا کمرے سے باہر نکل گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو یہ تھی اس کی وہ زندگی جس کے بارے میں اسکی دادو اسے بتایا کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

تو کیا شاہ تھا وہ شہزادہ جس کی رہ دیکھتے دیکھتے اس کی جان سے پیاری دادو اسے دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں یشال نے ایسی اذیت بھری زندگی کی تمنا تو نہیں کی تھی یشال ایک بار پھر سے بری طرح رونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔

جب انسان کی تکلیف حد سے بھر جائے اسے لگے سب راستے اس کے لئے بند ہوگئے ہیں تو ایسے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ جوشہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے جسے ہر چیز کی خبر ہے اگر جھولی پھیلانی ہے تو اس کے سوہنے رب کے آگے جھکو اس یقین کے ساتھ کے وہ کبھی مایوس نہیں کرے گا دادو کی کہی ہوئی باتیں یشال کے ذہن میں گونجنے لگی ۔۔۔۔۔

یشال نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے  اور واش روم میں اپنا بھاری عروسی جوڑا اتار کر سادہ سا کالے رنگ کا لباس پہنا اور نماز کی نیت باندھی بے شک اللہ اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری صبح شاہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔

اس کو دیکھ کر ندامت سے گردن جھکا گیا۔۔۔۔۔۔۔

یشال جائےنماز پر گٹڑی  بنی پڑی تھی رات روتے روتے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی روئے ہوئے چہرے پر شاہ کی انگلیوں کے نشانات واضح تھے شاہ اس  کے برابر زمین پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔

اور یشال کے معصوم چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔

کسی کے دیکھنے کے احساس سے یشال نے اپنی آنکھیں کھول دی۔۔۔

لیکن سامنے شاہ کو دیکھ کر گھبرا کر پیچھے ہٹتی ۔۔۔۔

شاہ اس کا ڈر  پوری طرح محسوس کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

شاہ نے آگے بڑھ کر یشال کو اپنے سینے سے لگایا یشال اس  کے سینے سے لگی بری طرح رونے دی

شاہ آپ ۔۔۔

ششش جان شاہ بھول جاؤ سب اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔

شاہ نے  اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا نجانے کب شاہ کی آنکھ سے آنسو نکلا اور یشال کے بالوں میں گم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

یشال کو لگا کہ اب اس کے سب غم دور ہوگئے ہیں۔۔۔۔

اس نے رات کے  واقعے کو بھلا کر ایک نئی زندگی  شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اطمنان سے آنکھیں بند کر لیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گڑیا گڑیابیٹا کہاں ہو آپ۔۔۔

میں یہاں ہوں کیا ہوا دادو ۔۔؟گڑیا نے دادو کے پاس بیٹھے ہوئے کہا۔۔۔

بیٹا آج آپ کے پاپا آپ کے لئے نئی مما لا رہے ہیں ۔۔۔

جو میری بیٹی کو بہت پیار کرے گی۔۔۔ اس کا بہت خیال رکھیں گی ۔۔۔

روز نئے نئے کھانے بنا کر دے گی۔۔۔

میری گڑیا کو سکول کیلئے تیار کرے گی۔۔

سچی دادو ۔۔۔۔۔۔؟بابا میری ماما لے کے آرہے ہیں۔۔۔

بلکل رانو کی ماں جیسی۔۔۔؟گڑیا نے معصومیت سے پوچھا

ہاں میری جان بالکل۔۔ رانوکی ماما  سے بھی زیادہ پیاری میری گڑیا  کی ماں ۔۔۔۔

میں ابھی رانو کو بتا کر آتی ہوں وہ معصوم آنے والے وقت سے انجان اپنی خوشیوں میں اپنی سہیلی رانو کو بھی شامل کرنے کے لئے بھاگی۔

اس کی معصومیت پر اس کی دادو بے اختیار مسکرا ئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہوں میں اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا نہ خوف زدہ کرنا چاہتا تھا بابا آپ جانتے ہو نا آپ کا بیٹا ایسا نہیں ہے پر نہ جانے کیوں جب وہ میرے سامنے آتی ہے مجھے سب یاد آجاتا ہے میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا بابا اس نے سیسکتے ہوئے اپنا سر میز پر کھلی ڈائری پر رکھ دیا بابا کی موت کے بعد یہ ڈائری ہی اس کا سہارا تھی جس میں وہ اپنے دل کی ہر بات لکھتا تھا

_______________________

خوبصورت سرخ رنگ کی انارکلی فراک جو اس کے گھٹنوں سے کچھ نیچے آ رہی تھی لائٹ سے میک اپ میں بالوں کو کھلا چھوڑے وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی__

شاہ نہ جانے کب سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اسے اپنی نظروں کی قید میں لیے ہوئے تھا جیسے ہی یشال کی نظر شاہ پر پڑی اس نے شرما کر اپنی پلکیں جھکا دیں __

اور اپنے خوبصورت ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹنے لگی شاہ بے خودی کے عالم میں اس کی طرف بڑھا اور اس کے کانپتے وجود پر ایک نظر ڈالی اور دھیرے سے اس کے لبوں کو اسکےدانتوں کی قید سے آزاد کیا اتنا ظلم میری جان__

یشال اس کے چھونے سے خود میں سمٹ کر رہ گئی شاہ نے  اس کے دہکتے ہوئے گالوں پر اپنے لب رکھ دیے __

یشال کو لگا کہ شاید وہ اگلی سانس بھی نہیں لے پائے گی شاہ نے جب اس کی غیر ہوتی حالت محسوس کی اس کے ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ بکھر گئ__

یشال یک ٹک اس کے گال پر پرنے والے ڈمپل کو دیکھتی رہی اسے اپنا دل شاہ کے ڈمپل میں ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا شاہ آپ کی مسکراہٹ بہت خوبصورت ہے بے اختیار یشال نےشاہ کی مسکراہٹ کی تعریف کردی اچانک شاہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی __

آو نیچے چلیں ناشتہ تیار ہے شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا یشال اپنے ہاتھ پر شاہ کی سخت پکڑ محسوس کر کے کانپ کر رہ گئی __

اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ آنے والی زندگی آسان نہیں لیکن اسے اپنے اللہ پر پورا یقین تھا کے اس کی یہ پریشانیاں جلد ختم ہوجائیں گی ایک خوشحال زندگی اس کی منتظر ہوگی

___________________________

جیسے ہی مسز زمان صدیقی زمان ولا میں داخل ہوئیں ایک معصوم سی چھے سات سال کی لڑکی جس نے گلابی کلر کی فراک پہن رکھی تھی بھاگ کر زمان صدیقی کی ٹانگوں سے لپٹ گئی __

پاپا آپ آگے آپ میرے لیے ماما لے کر آئے ہیں نہ اس بچی نے اپنی خوبصورت آنکھیں معصومیت سے مسز زمان صدیقی پرٹکاتے ہوئے کہا __

جی میری جان یہ آپ کی ماما ہیں مسٹر زمان میں لاریب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا__

اور

لاریب یہ ہے میری پیاری سی گڑیا __

ماما میں آپ کو اپنا روم دکھاتی ہوں گڑیا نے لاریب کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا نہیں بیٹا ابھی میں بہت تھکی ہوئی ہوں بعد میں آپ کا روم دیکھ لوں گی لاریب ناگواری سے اپنا ہاتھ گڑیا کے ہاتھوں سے نکالا__

اور زمان کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے روم کے بارے میں پوچھنے لگی__

گڑیا خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی_

زمان صاحب نے جب گڑیا کی خاموشی محسوس کی تو لاریب کو ٹو کے بنا نہ رہ سکے لاریب تمہیں گڑیا سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی__

او صدیقی میں بعد میں اسے منا لو گی ابھی میں سچ میں بہت تھکی ہوئی ہوں تو کیا ہم اپنے کمرے میں چل سکتے ہیں__

دادو یہ منظر دیکھ کر آنکھوں میں آنسو لیے گڑیا کے کمرے کی طرف چل دی جانتی تھی کہ وہ معصوم کس قدر خوش تھی

گڑیا بیٹا میری جان کیا ہوا دادو نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا دادو ماما بالکل اچھی نہیں ہے وہ گندی  ہیں __

نہیں میری جان ایسے نہیں کہتے __

آپ کو پتہ ہے نہ کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنے والے سے اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں

سوری دادو

میں اب ایسا کبھی نہیں بولوں گی گڑیا نے معصومیت سے اپنے کان پکڑتے ہوئے کہا

اس کی معصومیت پردادومسکرا دی اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا__

___________________________

وہ مسلسل کافی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے وہ جہاں بھی جاتی وہ اس کے پیچھے آتا شاپنگ مالز کینٹین کالج ریسٹورنٹ غرض ہر وہ جگہ جہاں وہ ہوتی خود پر اس کی نظروں کو محسوس کرتی کچھ دن تو اگنور کرتی رہی کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی غلط فہمی ہو__

لیکن آج جب وہ  اپنی دوست کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی کافی پی رہی تھی اسے وہاں موجود دیکھ کر اس کا پارہ ایک دم چڑھ گیا__

وہ ناصرف موجود تھا بلکہ مسلسل اسے گھور رہا تھا

وہ تیر کی طرح سیدھی اس کے میز پر جا پہنچی__

بھائی صاحب آپ کی پرابلم کیا ہے

آپ کسی مجنوں فرہاد پنو رومیو کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں

جہاں بھی میں جاتی ہوں آپ کسی چمگاڈر کی طرح میرے آس پاس منڈلا رہے ہوتے ہیں__

وہ بنا آگے پیچھے کی پرواہ کیے اس کو سنا رہی تھی اس کی دوست اس کو روکنے کی کوشش کرتے کرتے ہلکان ہو چکی تھی اور وہی رکھی کرسی پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی__

نہیں میم ایسا تو کچھ نہیں آپ کوغلط فہمی ہوئی ہے

ہاہاہا غلط فہمی تو کیا بیوٹی پارلر میں میک اپ کروانے کے لیے آئے تھے اس نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا__

وہاں موجود سبھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی جہاں باقی لوگ اس تماشے کو ہنستے ہوئے دیکھ رہے تھے

وہی دو آنکھیں دلچسپی سے اس کے گلابی چہرے کو دیکھنے میں مصروف تھی بڑی بڑی آنکھیں چھوٹی سی ناک گلاب کی پنکھڑیوں سے بھی نازک ہونٹ جن پہ طنزیہ مسکراہٹ بکھری تھی کمر سے نیچے آتے بال جن کو باندھنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی دونوں ہاتھ کمر پر رکھے نظر اپنے سامنے بیٹھے شخص پر جمائے وہ اس کے بولنے کی منتظر تھی__

وہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی اچھا کرو بات وہ بالکل اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ  گی

نہیں_میرا _وہ

ہاں بولو میں سن رہی ہوں

وہ کچھ نہیں

اس لڑکے نے جلدی سے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا

رکو__

آج کے بعد میرا یا کسی بھی لڑکی کا پیچھا کیا تو یاد رکھنا آج تو پانی پھینکا ہے اگلی بار تیزاب پھینک کر جلا دوں گی__

سمجھ گئے اس نے پانی سے بھرا کلاس اس پر پھینکتے ہوئے کہا

اور ہوا کے جھونکے کی طرح ریسٹورنٹ سے نکل گئی

سعد کا کب سے کھلا وہ منہ دیکھ کر ذین نے اس کے سر پر ایک تھپڑ لگایا منہ بند کر میرے بھائی وہ جا چکی ہے

یار لڑکی ہے یا طوفان سعد نے حیرانگی سے کہا

چلیں میٹنگ کے لئے دیر ہو رہی ہے شاکر صاحب انتظار کر رہے ہوں گے

زین نے اپنی کرسی خالی کرتے ہوئے کہا

اوکے بوس__

سعد نے برگر کا آخری پیس منہ میں رکھتے ہوئے کہا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا

_______________________________

شاہ کا پورا وجود پسینے سے بھیگا ہوا تھا اس کا حلق پیاس سے خشک ہو رہا تھا کیا ہوا شاہ آپ ٹھیک تو ہیں یشال نے پریشانی سے اس کی کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

پ _ا _نی

شاہ نے اپنےخشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے بمشکل پانی مانگا

یشال جلدی سے پانی کا گلاس اسے پکڑایا

جو شاہ ایک ہی سانس میں خالی کر گیا __

آپ ٹھیک تو ہیں شاہ ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں تم آرام کرو

شاہ نے لائٹ آف کرتے ہوئے کہا

شاہ کیا آپ نے کوئی برا خواب دیکھا ہے کچھ نہیں ہوا میں نے کہا نہ خود بھی سوجاو اور مجھے بھی سونے دو

پر شاہ

کہا نہ سو جاؤ   شاہ نے دہاڑتے ہوئے کہا __

میں نے تو بس طبیعت کا ہی پوچھا تھا اس میں اتنا غصہ کرنے والی کیا بات تھی

_____________________

مرتضیٰ صاحب اس بچے کو پا کر بہت خوش تھے انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا جہاں کی دولت انہیں مل گئی ہو__

دوسری طرف ان کی بیوی کے چہرے پر بےزاریت سے بھرپور تاثرات تھے جنہیں دیکھ کر مرتضی صاحب دکھی ہو گئے __

شبنم دیکھو خدا نے ہمیں کتنا پیارا تحفه دیا ہے خدا نے ہمیں اپنی نعمت سے نوازا ہے __

کیوں ناشکری کر رہی ہو کیا ہوا ہے تمہیں__

دیکھو مرتضیٰ

میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ میں ا بھی اس بچے کو نہیں چاہتی

میں اپنی زندگی بھر پور طریقے سے انجوائے کرنا چاہتی ہوں

شبنم بیگم نے ناگواری سے کہا __

مرتضیٰ صاحب نے بمشکل خود کو کوئی سخت لفظ کہنے سے روکا اور اپنے معصوم بچے کو سینے سے لگائے کمرے سے باہر نکل گئے

________________________________________

شاہ کی گاڑی جیسے ہی شاہ والا میں داخل ہوئی__

اپنے سامنے یشال کو دیکھ کر اسے اپنے دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوتی محسوس ہوئی__

وہ کبھی ایک گلاب کو ہاتھ لگاتی کبھی دوسرے کو ہاتھ لگاتی بالکل کسی چھوٹی بچی کی طرح لگ رہی تھی __

مگر دوسرے ہی پل جیسے ہی شاہ کی نظر سامنے گھر والوں کے ٹیرس پر پڑی

اسے ایسا لگا جیسے کسی نے اسے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا ہو ___

سامنے ایک لڑکا ہوس بھری نظروں سے یشال کی وجود کو گھور رہا تھا

شا ه نے یشا ل کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے اندر لے گیا __

آج کے بعد میں تمہیں گارڈن میں نہ دیکھوں شاہ بولا نہیں بلکہ دھاڑ ا تھا

جی

یشال کے منہ سے بامشکل یہ الفاظ نکلے

_________________________________________________

ماہی آوے گا

اوووووووو

ماہی آوے گا

میں پھلاں نال دھرتی سجاوں گی __

گڑیا آم کے درخت پر چڑی ہوئی تھی اور کڑیاں توڑ کر نیچے پھینک رہی تھی

جینے رانو بامشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے کیچ کرنے کی کوشش کر رہی تھی__

گڑیا بس کر جاؤ تمہاری سریلے گانے سے تو مردے بھی اپنی قبروں سے باہر آجائیں گے ___

رانو اچھا ہے نہ میری خوبصورت اور سریلی آواز مردوں میں بھی زندگی پیدا کر دیتی ہے ___

گڑیا نے بے پروائی سے جواب دیا

اور واپس اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف ہوگئی ___

ماہی آوے گا

ماہی آوے گا

محترمہ کیا زمان صاحب کا گھر یہی ہے__

ایک انجان آواز سنتے ہی گڑیا کا توازن بگڑا اور وہ سیدھا آنے والے کے اوپر جاگری

یا خدا

کیا مصیبت ہے آنے والے نے خود پر سے ہٹاتے ہوئے کہا __

ایم سوری

اچانک میراپاؤں پھسلا اور میں نیچے گر گئی

گڑ یا نے معذرت انداز میں جواب دیا

کیا زمان صاحب کا گھر یہی ہے __

آنے والے نے واپس اپنا سوال دہرایا

جی ہاں

لیکن وہ تو ابھی گھر نہیں ہے آپ .

اوکےاس نے میں اپنا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا میں بعد میں آ جاؤں گا__

یہ کہتے ہیں وہ مغرورانه چال چلتا گیٹ سے باہر نکل گیا

کیا عجیب انسان ہے پوری بات بھی نہیں سنی __

گڑیا نے اونچی آواز میں اظہار خیال کیا

چھوڑو نہ ہمیں کیا

چل ہم کچی کیڑیوں کی چٹنی بناتے ہیں

رانوں نے چٹخارا لیتے ہوئے کہا

ہاں چلو گڑیا تیزی سے اندر کی جانب بڑھی

_______________________________________________

وہ دونوں بھاگتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی

دادو دادو__

آپ باہر جائیں آج کا کھانا میں اور رانو بنائیں گے __

توبہ ہے لڑکیوں آرام سے او

ابھی گر جاتی تو دونوں کو چوٹ لگ جاتی

اوہو دادو

کچھ نہیں ہوتا __

آپ باہر جاؤ آج کا کھانا ہم بنائیں گے

گڑیا نے دادو کو شانوں سے پکڑتے ہوئے ان کا رخ باہر کی جانب کیا

اتنی بڑی ہو گئی ہیں دونوں مگر حرکتیں بچوں جیسی ہیں __

دادوکہتے ہوئے باہر نکل گئیں اور وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس دی

______________________________________________

یشال جب کمرے میں داخل ہوئی شاہ کسی کے ساتھ کال پر مصروف تھا __

مجھے وہ گھر چاہیے تم سمجھ رہے ہو نا میری بات کو مجھے ہر حال میں وہ گھر چاہیے __

شاہ نےجیسے هی یشال کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا اپنی بات ختم کرکے کال کٹ کر دی __

آپ فریش ہو جائیں میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں یشال نے اتنے آرام سے کہا

كے شاه با مشکل اس کی آواز سن پایا

اور بنا کوئی جواب دیئے واش روم میں گھس گیا

شاہ سے بات کرتے ہوئے اکثر یشال کی آواز اس کے گلے سے نکلنے سے انکار کر دیتی تھی

____________________________________________

گڑیا یہاں آؤ بیٹا میں آپ کے بال بنا دوں

دادو نے اس کو پکارا جو اپنے بال پھیلائے بیٹھی تھی ____

نہیں دادو

آج میں اپنے بال ماما سے بنواوں گی

گڑیا یہ کہتے ہوئے لاریب کے کمرے کی جانب چل دی __

جہاں وہ نیٹ کی سفید ساری پہنے باہر جانے کے لیے تیار تھی

ماما پلیز میرے بال بنا دیں

نہیں گڑیا میں آگے ھی کافی لیٹ ہو چکی ہوں آپ زرمینه سے کہیں

وہ آپ کے بنا دیں گی

لاریب نےرکھائی سے جواب دیا

اور اپنے موبائل پر آنے والی کال کی طرف متوجہ ہوگئی

صوفی ڈیئر میں بس نکل رہی ہو ں ___

20منٹ تک پہنچ جاؤں گی

لاریب نے جلدی سے اپنا کلچ اٹھایا اور بنا گڑیا کی طرف دیکھے باہر نکل گئی

گڑیا خاموشی سے انھیں جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ___

شاید اس کا دماغ یہ سمجھ چکا تھا کہ یہ اس کی ماما نہیں ہیں __

شاہ جب واش روم سے باہر نکلا یشال اس کے کپڑے استری کرنے میں مصروف تھی شاہ کے سامنے وہ منظر کسی فلم کی طرح چلنے لگا __

شاہ یشال کے قریب آیا اور اسکے کپڑے استری کرتا ہاتھ پکڑ لیا اس سے پہلے کے یشال کچھ سمجھتی

شاه نے گرم استری اپنے ہاتھ میں پکڑے یشال کے ہاتھ پر رکھ دیں حیرانگی اور خوف کے مارے یشال چیخ بھی نہ پائی__

شاہ نےاس کےبال مٹھی میں پکڑ کر اسے خود سے قریب کیا اتنے قریب کے وہ اس کی گرم سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی___

تکلیف کے مارے یشال کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

آج کے بعد اگر میں نے تمہیں گھر سے باہر دیکھا تو تمہاری جان لے لوں گا

بہت شوق ہے نہ تمہیں اپنی نمائش کا

شاه کے سامنے بار بار اس لڑکے کی ہوس ذدہ نظریں گھوم رہی تھی___

شاہ نے دھکا دے کر اسے بیڈ پر گرایا اور زور دار آواز میں دروازہ بند کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا __

یشال وہیں بیٹھی اپنی بے بسی پر سسک سسک كر رو دی

_______________

وہ جب سے گھر واپس آیا تھا سوچوں میں الجھا ہوا تھا وہ پری چہرہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا __

کون تھی وہ كیا وه زمان صاحب کی بیٹی تھی یا ان کی بیٹی کی سہیلی __

کتنی معصومیت تھی اس کی آنکھوں میں کسی بھی دھوکے فریب سے پاک __

یا بس ایک نقاب تھا اس کے چہرے پہ میری نظر کا دھوکا وہ بھی فریبی ہے ہر عورت بس فریب بھی تو دیتی ہے مرد کے جذبات سے احساسات سے کھیلتی ہے___

اور جب اس کا دل بھر جاتا ہے تو سب چھوڑ کے کسی اور راستے کا انتحاب کر لیتی ہے__

نہیں وہ ایسی تو نہیں لگ رہی تھی بہت معصوم زندگی کو جینے والی لڑکی لگ رہی تھی__

دل میں دماغ کی بات کو رد کیا

اف

یہ میں کیا سوچ رہا ہوں زین نے اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا

کیا ہوا بابا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے

دینو چاچا ادب سے اس کے پاس کھڑے ہوتے پوچھنے لگے

ہاں چاچا میں بھی ٹھیک ہوں بس سر میں ہلکا سا درد ہے آپ پلیز ایک کپ چائے بنوا دیں میں سٹڈی روم میں ہوں

__________________________________

وقت گزرتا رہا اور مرتضی صاحب کا بیٹا زین 15 سال کا ہوگیا __

آج اس کی پندرہویں سالگرہ تھی جس کا انتظام مرتضیٰ صاحب نے بہت بڑے پیمانے پر کیا تھا

لیکن ہمیشہ کی طرح اس کی ماں غائب تھی__

زین بیٹا چلو آؤ کیك کاٹو مرتضی صاحب نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا نہیں بابا مما کا انتظار کر رہا ہوں مما آئیں گی تو ہی کیك کاٹوں گا

بیٹا آپ کی مما ضرور کسی ضروری کام میں پھنس گئی ہوگی

اور آپ کے دوست آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے

نہیں بابا میں نے کہا نہ

ہم ان کا انتظار کریں گے___

مرتضیٰ صاحب نے بے بسی سے اپنے بیٹے کو دیکھا

وہ چاہ کر بھی اس پر سختی نہیں کر سکتے تھے

________

ذین 15 سال کا ہو چکا تھا اپنی ماں کا اسے اگنور کرنا وہ بری طرح محسوس کرتا تھا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس کی ماں نے اس کے لئے کچھ بنایا ہو یا پیار سے کھلایا ہو

وہ جب گھر آتا اس کی ماں اس کے ساتھ ٹائم گزارنے کے بجائے اپنی پارٹیز میں مصروف ہوتی

دینو

مرتضی صاحب نے اپنےخاص ملازم کو آواز دی

جی صاحب

سب مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرو کسی چیز کی کمی نہیں رہنی چاہیے مرتضیٰ صاحب نے دینو کو کہا

اور مہمانوں سے معذرت کرنے هال کی جانب چل دیئے

مرتضی کیا بات ہے اتنے پریشان کیوں ہو زمان نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا زمان اور مرتضی نہ صرف بزنس پارٹنر بلکہ بہت اچھے دوست بھی تھے

زمان

تم جانتے ہو یار شبنم کا رویہ زین کے ساتھ کیسا ہے

اسی لیے میں نے اسے ہمیشہ گھر کے ماحول سے دور رکھا

خود سے دو رکھا مگر اب وہ بچہ نہیں ہے جو ان باتوں کو سمجھ نہ پائے وہ شبنم کا رویہ محسوس کرتا ہے آج بھی وہ ضد لگا کے بیٹھا ہے کے اس کی ماما آئینگی تو وہ برتھ ڈے سیلیبریٹ کرے گا

تو یار بھابھی کہاں ہے

تم جانتے تو ہو اسکے ہائی کلاس کی شوق

ہو گی کسی پارٹی میں

یار تو بھابھی کو منع کیوں نہیں کرتا انہیں احساس دلانے کی کوشش کرکے ان کا ایک بیٹا ہے

جسے ان کی ضرورت ہے

یار میں نے بہت بار کوشش کی

لیکن اس کا ایک ہی جواب ہے

میں اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتی میں اپنی زندگی کو انجوائے کرنا چاہتی ہوں

اچھا تو ٹینشن نہ لیں انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا زمان نے مرتضیٰ کو تسلی دینے والے انداز میں کہا

_______________________________

یہ میں نے کیا کر دیا شاہ مسلسل رابش ڈرائیونگ کرتے ہوئے سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا ___

اس کی نگاہوں میں بار بار یشال کا بے یقین چہرہ گھوم رہا تھا

مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا میں اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہوں __

میں تو اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا میں چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہے

لیکن شادی کے بعد مسلسل میں سے تکلیف دے رہا ہوں

مجھے اس سے معافی مانگنی چاہیے

یہ سوچتے ہوئے شاه نے گاڑی کا رخ گھر کی جانب موڑ دیا

گھر آتے ہی شاہ بنا ادھر ادھر دیکھے سیدھا اپنے کمرے کی طرف گیا

یشال

اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہیں یشال کو پکارا

مگر اسے کوئی جواب نہ ملا

یشال اس بار اس نے اونچی آواز میں پکارا

مگر وہ کہیں نہیں تھی

شاه نے واش روم ٹیرس ہر جگہ دیکھا مگر یشال کہیں بھی نظر نہیں آئی

تو کیا وہ بھی مجھے چھوڑ کے چلی گئی

یہ سوچ زین میں آتے ہیں شاه كو لگا جیسے اس کے جسم سے کسی نے روح کھینچ لی ہو

شاه بے اختیار اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی

میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت محسوس کی ہے

وہ اپنے بالوں کو مٹھی میں بھیجتے ہوئے بڑبرایا

میں اسے نہیں كھو سکتا

مجھے ایسے ڈھونڈنا ہوگا شاہ نے جلدی سےاپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے

______

شاہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا وہ اسے کچن کی طرف جاتی نظر آئی__

یشال کو دیکھا شاہ کو ایسا لگا کہ جیسے اسے اس کی زندگی واپس مل گئی ہو__

وہ بے اختیار اس کی جانب بڑھا اور اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا __

یشال پلیز مجھے معاف کر دو میں تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا __

شاہ نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا

یشال بس حاموشی سے شاہ کو دیکھتی رہی

شاه نے اس کا جلا ہوا ہاتھ دیکھاجہاں پہلے ہی مرہم لگا ہوا تھا

یہ کس نے لگایا شاه نے اس کے ہاتھ پر لگے مرہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ___

ماسی نے لگایا تھا یشال نے دھیمی آواز میں جواب دیا__

جسے سے سن کر شاه كے ماتھے پر لاتعداد شكنیں نمودار ہوئی

شاه نے چولها جلایا یہ آپ کیا کر رہے ہیں ___

تمہیں چھونے کا محسوس کرنے کادرد دینے کا تکلیف دینے کا مرہم لگانے کاحق صرف میرا ہے__

اس بات کو اپنے چھوٹے سے ذہن میں بٹھا لو مسز شاه

تم پر حق صرف اور صرف شاہ رکھتا ھے __

شاہ نے اس کا جلا ہوا ہاتھ مزید جلاتے ہوئے کہا

اس کی چیخیں پورے والا میں گونج رہی تھی

۔مگر وہاں کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں تھا جو اسے شاہ کے ظلم و ستم سے بچا پاتا

______________________

ذمان صاحب جب گھر میں داخل ہوئے تو گڑیا كے رونے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھی

وه جلدی سے اندر کی طرف بھاگے

کیا هوا ا ماں جی گڑیا کیوں رو رہی ہے

بابا

گڑیا کو اپنی دوست رانو کی سالگرہ میں جانا تھا مگر دادو جانے نہیں دے رہی__

ایسا کیوں اماں جی جانے دیں بچی کا دل بہل جائے گا ____

زمان بیٹا گاڑی بی بی لے کر گئی ہیں

بابا میں نے ماما کو بتایا تھا کہ آج میری دوست کی سالگرہ ہے اور وہ بھی میرے ساتھ چلیں گئی لیکن وہ پھر بھی اپنے کسی دوست کے ساتھ چلی گئی اور ساتھ میں گاڑی بھی لے گئی ماما بالکل بھی اچھی نہیں ہے__

رانو کی ماما اس کیلئے لیے کھانا بناتی ہیں اسے گھمانے لے کے جاتی ہیں اسے شاپنگ لے کے جاتی ہیں لیکن میری ماں میرے ساتھ بالکل بھی ٹائم نہیں گزارتی __

میرے بال بھی نہیں بناتی گڑیا نے روتے ہوئے کہا

گڑیا ایسا نہیں کہتے بیٹا دادو نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

کوئی بات نہیں بیٹا میں اپنی گڑیا کو اس کی فرینڈ کی سال گرہ میں لے کے جاؤں گا اور ہم گڑیا کی دوست کے لیے ایک بہت اچھا سا گفٹ بھی خریدیں گے

سچی بابا گڑیا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا

ہاں میری جان بالکل سچ

زمان صاحب نے اج لاریب سے بات کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے گڑیا کو اپنی گود میں اٹھا لیا

________

زین کافی دیر تک شبنم بیگم کا انتظار کرتا رہا

تھك ہار کر جب وه سونے کے لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا

تو اس نے شبنم بیگم کو کسی اور کی باہوں میں باہیں ڈالے گھر میں داخل ہوتے دیکھا

وہ دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کوئی اور بھی نہیں دیکھ رہا ہے

سامنے کا منظر دیکھ کر زین کے دل سے بے اختیار دعا نکلی كے زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے

زین بھاگتا ہوا وہاں سے نکلا اور اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا

اور اس کے ساتھ ٹیک لگائے زمین پر بیٹھا چلا گیا

اسےکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا

ابھی اس نے جو دیکھا وہ سچ تھا یا ایک بھیانک خواب لیکن اس کا دل دعا کر رہا تھا کہ یہ صرف ایک خواب ہو

_______

اگلی صبح زین جب ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو اس کا سر بری طرح دکھ رہا تھا اور اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی

کیا بات ہے زین آپ کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا

مرتضی صاحب نے فکر مندی سے پوچھا

جی پاپا میں بالکل ٹھیک ہوں بس رات لیٹ نائٹ سٹڈی کرتا رہا اس لیے شاید نیند پوری نہیں ہوئی

زین نے بھاری آواز میں جواب دیا

زین بیٹا آپ جانتے ہو نہ کہ بابا صرف آپ کے ڈیڈ نہیں بلکہ بہت اچھے دوست بھی ہیں اگر آپ کو کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے شیئر کر سکتے ہیں

سچ میں کوئی بات نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں

مرتضی صاحب کو ذین کچھ الجھا الجھا لگا

لیکن انہوں نے اسے زیادہ چھیڑنا مناسب نہ سمجھا

نیند لونگا تو بالکل ٹھیک ہو جاؤں گا

اوکے بیٹا آپ ناشتہ کر کے آرام کرو انشاءاللہ شام کو ملاقات ہوگی انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

اوکے بابا اللہ حافظ اپنا خیال رکھیے گا

مجھے ماما سے بات کرنی هو گی

کہ وہ شخص کون ہے جس کے ساتھ ماں آئی تھی

ہو سکتا ہے وہ صرف دوست ہوں میں غلط سوچ رہا ہوں لیکن کیا کوئی دوست اتنا قریب

میں کیا سوچ رہا ہوں تو ماما ہیں میری زین کا دماغ بالکل سُن ہو چکا تھا

اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس کا دل کیا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے

________________________________________

لاریب جب کمرے میں داخل ہوئی تو زمان کو جاگتے ہوئے پایا

کیا بات ہے زمان آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے آپ ابھی تک سوئے نہیں

لاریب مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے

ہاں کہو

لاریب نے الماری سے اپنا نائٹ ڈریس نکالتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا

آپ ابھی تک کہاں تھی رات کے بارہ بج رہے ہیں

میرے ایک دوست کی پارٹی تھی آج بهت انجوائے کیا آج ہم نے

یہ کہتے ہوئے واش روم میں چلی گئی جبکہ زمان انتظار کرنے لگے

لاریب جب واش روم سے باہر نکلی تو زمان صاحب بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے

لاریب کو ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھتے دیکھ کر زمان نے اسے آواز دی بیٹھو یہاں انہوں نے اپنے قریب اس کے لئے جگہ بنائی لاریب تم جانتی ہو نا کی گڑیا میری ایک ہی بیٹی ہے اور اسے تمہارے پیار اور توجہ کی ضرورت ہے مجھے امید تھی کہ تم اس کا خیال رکھو گی زمان نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا

جانتی ___

لاریب پلیز پہلے میری بات سن ل

انہوں نے بھیچ میں سے اس کی بات کاٹ دی

گڑیا صرف دو ماہ کی تھی جب عائشہ میں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں

اگر ماں جی نہ ہوتی تو شاید میں گڑیا کو کبھی بھی سنبھال نہ پات

بیشک وہ میری ماں نہیں ہے وہ ہماری پرانی ملازمہ ہے

لیکن میں نے ہمیشہ انہیں ایک ماں جیسی عزت دی ہے اور انہوں نے مجھے ہمیشہ ایک بیٹے کا مان دیا ہے گڑ یا کا خیال رکھنا تمہارا فرض ہے

لیکن اماں جی اس کی پیچھے سارا دن ہلکان ہوتی رہتی

تم اپنے دوستوں کے ساتھ مصروف ہوتی ہو

یہ نہیں کہتا کے تم اپنے دوستوں سے ملنا چھوڑ دو

لیکن گڑیا کے ساتھ ٹائم گزرو اسے ٹائم دو انہوں نے انہیں پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا

زمان پلیز

ابھی مجھے نیند آرہی ہے میں بہت تھکی ہوئی ہوں اس بارے میں ہم صبح بات کریں گے لاریب میں اپنے ہاتھ ان کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے کہا اور لائٹ آف کر کے سونے کے لئے لیٹ گئی

تو کیا میرا فیصلہ غلط تھا

گڑیا کو کبھی اس کی ماں نہیں ملے گی یہ سوچ ان کو دکھی کر گئی

_________

زین صبح سے ہی شبنم بیگم کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا

دن کے سوا دو بجے شام بیگم نك سك تیار ہو کے نیچے آئیں

اور سکینہ کو آواز دینے لگیں سکینہ میری کافی لے آؤ

گڈ مارننگ مام

ذہن ان کے قریب سوفے پر بیٹھے ہوئےکہا

گڈ مارننگ

ماما کل میری برتھ ڈے تھی میں نے آپ کا کافی انتظار کیا آپ کہاں تھی

ہیپی برتھ ڈے جانو

انہوں نے اس کا گال چوم كر اسے وش كیا

ماما آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اس بار آپ میرا برتھ ڈے میرے ساتھ سلیبریٹ کریں گی

میں بزی تھی بیٹا

کہاں بزی تھیں آپ اپنے اس دوست کے ساتھ جو کو آدھی رات کو گھر چھوڑنے کے لیے آیا تھا

زین نے ان کا ہاتھ غصے سے جھٹكتے کرتے ہوئے کہا

زین کونسا طریقہ ہے اپنی ماں سے بات کرنے کا

شبنم بیگم نے سے غصے سے ڈانٹا

نہیں ہیں آپ میری ماما

زین غصے سے چلایا

شبنم بیگم کا ہاتھ اٹھا اور اس کے منہ پر نشان چھوڑ گیا

میں آخری بار سمجھ آرہی ہوں کہ میری پرسنل لائف میں انٹر مت کرو

تم اور ایک وہ تمہارا باپ سمجھتے کیا ہو تم لوگوں کے لئے میں اپنی زندگی انجوائے کرنا چھوڑ دو

اور قید ہو جاؤ گھر میں شبنم بیگم نے چلاتے ہوئے کہا

میں تمہیں پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی

تمہارے باپ کو شوق تھا بچے کا

اسے ہی اولاد چاہیے تھی

اب کیا ہوا سنبھال نہیں سکتا اپنے بچے کو

میری نظروں سے دور ہو جاؤ اس سے پہلے کہ میں تمہاری جان لے لو

زین

اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نا هل پایا

اس کی ماں اسے پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی یہ سوچ جان لیوا تھی

یہ سوچ اس کے دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ گئی

ایک آخری سوال پوچھنا ہے آپ سے

پوچھو

شبنم بیگم ایک ادا سے اپنے بال پیچھے کرتے ہوئے بیزاریت سے جواب دیا

کل جو شخص آپ کے ساتھ تھا وہ کون تھا کیا وہ کوئی آپ کا دوست

بوائے فرینڈ

شبنم بیگم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا زین کو لگا جیسے کسی نے پگلا ہوا سریا اس کے کانوں میں ڈال دیا ہو

میں نے پہلے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ میرے پرسنل میٹرز میں انٹر فیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے

شبنم نے اسی وارن کرتے ہوئے کہا اور اور باہر نکل گئی

______________________________________

شاہ سوئی ہوئی یشال پر ایک نظر ڈال کر بیڈ پر اس کے ساتھ بیٹھ گیا

اور نرمی سے اس کا جلا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا

اوراس پر مرہم لگانے لگا

سوتے ہوئے بھی وہ بے چین تھی جیسے وہ بہت تکلیف میں ہو

مجھے معاف کردو جان شاہ میں تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتا

لیکن تمہیں کوئی اور دیکھے چھوئے محسوس کرے

یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا

دل کرتا ہے میں ساری دنیا کو آگ لگا دوں تمہیں ساری دنیا سے چھپا لوں

جان تم میرے لیے کیا ہو یہ تم خود بھی نہیں جانتی

تم شاہ کی چلتی ہوئی سانسوں کا وجہ ہو

اگر شاه دل هے تو اسكی دھڑکن تم ھو

تم نہ ہو تو شاید شاہ سانس بھی نہ لے پائے

وہ اسی کے جلے ہوئے ہاتھ پر لب رکھے کسی دیوانے کی طرح بول رہا تھا

اور یشال کے آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہو رہے تھے تھوڑی دیر پہلے ہی تکلیف کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی تھی

_____________________________________

وه تین دن سے بخار میں جل رہا تھا اور مسلسل کچھ بڑبڑا رہا تھا

مرتضی صاحب کو جب اس کی بڑبڑا ت کا مطلب سمجھ آیا

وہ سیدھا شبنم کے پاس پہنچے

کیا بكواس كی ہے تم نے زین سے حالت دیکھی ہے اس کی

مرتضی صاحب نے بمشکل اپنا غصہ قابو کرتے ہوئے کہا

وهی کہا ہے جو سچ ہے میں تم سے طلاق لینا چاہتی ہوں

اور پھر برائٹ کے ساتھ اپنی ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہوں

بے حیا عورت تمہارے 15 سال کا ایک بیٹا ہے

یہ بكواس کرنے سے پہلے اسکا ہی سوچ لیتی

مرتضی كی آواز نہ جانے کب اونچی ہوگی

کون سا بیٹا کہاں کا بیٹا

وہ میرا نہیں تمہارا بیٹا ہے

شبنم نے اپنے موبائل پر انگلیاں چلاتے ہوئے تنك کر کہا

شبنم کیا نہیں دیا میں نے تمہیں دولت عزت پیار شہرت جو تم نے چاہا تمہارے مانگنے سے پہلے تمہارے قدموں میں ڈھیر کردیا

پھر بھی تم

دیکھو مرتضیٰ میں یہ سب نہیں جانتی میں بس اتنا جانتی ہوں کہ میں برائٹ سے بہت پیار کرتی ہوں

اور اب اس کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک نیا سفر شروع کرنا چاہتی ہوں

پلیز مجھے طلاق دے دو

میں تمہارے جیسے انسان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تم نے بیشک مجھے پیسہ دولت ہر چیز دی ہے

تمہاری سوچ گاؤں کے پینڈو جیسی ہے

کہ عورت بچہ پیدا کرنے کے لیے ہے

بچے پیدا کرو اسے پڑاؤ بڑھاؤ شادیاں کرو بوڑھے ہو اور مر جاؤں

میں ایسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی

مرتضی

صاحب کا ہاتھ اٹھا شبنم بیگم تھوڑی دیر سكت سی دیکھتی رهی

تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا گھٹیا انسان

میں تم جیسے آدمی کے ساتھ سیکنڈ کے لیے بھی نہیں رکھ سکتی

پلیز میری بات سنو مرتضی ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا

شبنم بے بس ہو کر وہیں بیٹد کے کنارے پر ٹک گئی

مرتضی پلیز مجھے طلاق دے دو مجھے یہاں سے جانا ہے شمیم بیگم نے روتے ہوئے مرتضیٰ سے کہا

شبنم میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں

میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں

ہاں تو اسی پیار کا واسطہ پلیز مجھے یہاں سے جانے دو مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو

میں تمہارے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ سکتی میری خوشی برائٹ ہے

مرد بزدل یا بیوقوف نہیں ہوتا بس وہ اپنی محبت سے ہار جاتا ہے

اس عورت کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دیکھنے کے لیے جان بوجھ کر بے وقوف بن جاتا ہے جسے وہ بے حد چاہتا ہے

بڑے سے بڑا زخم جسم پر لگ جائے تو وہ نہیں روتا

مگر جس عورت کو وہ چاہتا ہے اگر اس کی آنکھ میں ایک آنسو آجائے تو مرد بری طرح ٹوٹ جاتا ہے

عورت کی ایک مسکراہٹ کے لیے وہ اپنی زندگی کی ساری کمائی اس پر لٹا دیتا ہے

اس کی آنکھ میں آئے آنسو روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے

وہ سب کچھ کرسکتا ہے جو عورت چاہتی ہے

مرتضی صاحب بھی شبنم کے آنسو سے ہار گئے

اور شبنم بیگم کو ہمیشہ کے لئے اپنی اور زین کی زندگی سے رخصت کرنے کا فیصلہ کرلیا

ٹھیک ہے جیسا تم چاہتی ہو وہی ہوگا مرتضیٰ صاحب شبنم کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئے

____________________________________________

یشال شادی کی پہلی رات سے اپنی غلطی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی

آخر اس نے ایسی کیا غلطی کردی ہے جس کی وجہ سے شاہ اس سے بدگمان ہے لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا

وه شاه کو سمجھنے کی کوشش میں بری طرح ناکام ہو رہی تھی

اس نے سوچا کہ وہ اس سے بات كرے گی کی آخر مسئلہ کیا ہے

لیکن اس میں اتنی ہمت نہیں تھی

شاه كا نرم کبھی گرم مزاج دیکھ کر وہ ہمیشہ اس سے بات کرنے کا بس سوچ کے ہی رہ جاتی

وہ سمجھ نہیں پاتی تھی ایک طرف وہ اسے تکلیف دیتا تھا

تو دوسری طرف اس تکلیف کی اذیت خود بھی محسوس کرتا تھا

وہ جتنا اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی شاہ اتنا ہی اس پر غصہ کرتا

رخصتی کے وقت اس کے بابا نے کہا تھا

کہ بیٹا شاہ بہت ٹوٹا ہوا انسان ہے

تمہیں اپنے پیار محبت سے اسے زندگی کی طرف واپس لانا ہے تم سے بہت پیار کرتا ہے

وه تمہیں بہت خوش رکھے گا

مگر شاہ اسے اپنی زندگی میں داخل ہونے ہی نہیں دے رہا تھا

وہ دونوں ایک ساتھ ایک کمرے میں ایک گھر میں تو رہتے تھے

مگر ایسا کوئی رشتہ بھی نہیں بن سکا تھا جس کی وجہ سے یشال اس سے بات کر پاتی یا اس کے بارے میں جان پاتی یہ سب سوچتے سوچتے نہ جانے کب یشال کی آنکھ لگ گئی

______________________________

صبح جب یشال کی آنکھ کھلی تو شاہ سامنے رکھے صوفے پر سو رہا تھا

اس کی آنکھیں بند تھی اور بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جبکہ نیند میں بھی اس کے ہونٹ سختی سے بھیچے ہوئے تھے

ایک بازو اس کے سینے پر جبکہ دوسرا صوفے سے نیچے لٹک رہا تھا

یہ بندہ سوتے ہوئے بھی کتنا پیارا لگتا ہے

شاه کے اتنے برے سلوک کے باوجود یشال

شاہ کے لئے اپنی محبت کو ختم نہیں کر پائی تھیں

وہ جتنا اپنے دل سے محبت نکالنے کی کوشش کرتی

وہ بے رحم اتنا ہی اس کے دل میں جگہ بناتا جا رہا تھا

یشال كا دل چاہا کہ وہ اس کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو سمٹے

مگر اپنے دل کی خواہش کو دل میں دباتے ہوئے

بنا کوئی آہٹ پیدا کیے واش روم کی جانب بڑھی

زین نے غصے میں پاس پڑا گلدان دیوار پر دے مارا کیا ہوا بیٹا دینو بابا پریشان سے کمرے میں داخل ہوئے

کچھ نہیں بابا آپ پلیز اسے صاف کروا دیں زین نے دیوار کے ساتھ ٹوٹے گلدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

اور کمرے سے باہر نکل گیا

کیا

بتاؤ بابا کو کہ میں ایک لڑکی سے ہار رہا ہوں

مجھے خود پر قابو پانے میں اتنی مشکل کیوں ہو رہی ہے

میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو وہی پری چہرہ اپنے تمام جلووں سمت مجھے تنگ کرنے آ جاتی ہے

زین اپنی حالت خود ہی سمجھ نہیں پا رہا تھا

28 سالہ زندگی میں زین نے خود کو اتنا بے بس کبھی محسوس نہیں کیا تھا

وہ اپنے ہی دھیان میں گاڑی ڈرائیو کرتے نہ جانے کب زمان صدیقی کے گھر کے سامنے کھڑا ہوگیا

جب اسے محسوس ہوا اس نے گاڑی جلدی سے واپس موڑی اور آفس کی طرف چل دیا

___________________________________

طلاق ہونے کے بعد شبنم نے زیادہ انتظار نہ کیا اور ہمیشہ کے لئے کینیڈا چلی گی

انہوں نے ایک بات زین سے ملنے کی خواہش ظاہر نہ کی

نا هی زین اس عورت سے ملنا چاہتا تھا

شبنم بیگم کے جانے کے بعد کے بعد مرتضیٰ صاحب کافی کمزور ہوگئے تھے

زمان صاحب انکو سمجھانے کی بہت کوشش کرتے کہ ان کی کوئی غلطی نہیں تھی

لیکن وہ یہ بول كے ہمیشہ انہیں خاموش کروا دیتے

اگر میں اسے خوش رکھتا تو وه کبھی یہ خوشیاں باہر تلاش کرنے کی کوشش نہ کرتی

ہمیشہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کی پیار محبت عزت جو اسے مانگا سے دیا

مجھے تو یہی لگا کہ وہ خوش ہے لیکن شاید اس سے کچھ اور بھی چاہیے تھا جو میں اسے کبھی نہ دے پایا

مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں آنے والی وہ پہلی عورت تھی جسے مرتضیٰ صاحب نے بے حد چاہا تھا

اور شبنم کی بے وفائی مرتضیٰ برداشت نہیں کر پا رہے تھے

وه اندر هی اندر گھٹ رہے تھے

مرتضیٰ صاحب

نے خود کو کام میں بری طرح مصروف کر لیا تھا

لیکن انہوں نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ ذین کو سنبھال سکیں

اس کے ساتھ وقت گزارتے لیکن انہوں نے محسوس کیا تھا

كے وه دن بدن چپ ہوتا جا رہا ہے

________________________________________

یشال فریش ہو کر واشروم سے نکلی بے دھیانی اس کا پاؤں پھسلا اس سے پہلے کہ وہ نیچے گرتی اور اسے چوٹ لگتی کسی کے مضبوط بازوؤں نے اسے تھام لیا

یشال بری طرح اس کے باہوں میں کانپ رہی تھی

معصوم چہرہ ستون ناک جس پر ایک ہیرے کی لونگ چمک رہی تھی گیلے بالوں کی لٹیں جو اس کے چہرے پر چپکی ہوئی تھی کم کپکپاتے ہونٹ

شاه بے خود سا اسے دیکھے گیا

ریلیكس

تم بالکل ٹھیک ہو شاه نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا

میں تمہیں کبھی بھی گر نے نہیں دوں گا

یشال كی سانسیں اب بھی اتھتل پھتل تھی

کچھ دیر شاه اسے ایسے ہی سینے سے لگا کر کھڑا

رہا شاہ نے جب اسے اپنے آپ سے الگ کیا اس کی آنکھیں بند تھی

وه بے اختیار آگے بڑھا اور اسکے کپکپاتے ہونٹوں پر اپنے لب رکھ دیے

یشال كانپ کر رہے گی

شاه

نے جب اس کی غیر ہوتی حالت محسوس کی

تو مسکرا دیااور اسے وہیں چھوڑ کر خود واش روم میں چلا گیا

اس انسان کی دوری اگر مجھے تڑپاتی ہے تو اس کی قربت بھی میری جان لے لے گی یشال وہیں کھڑی سوچ کر رہے گی

-----------------------------------------

شاہ جب فریش ہو کر واپس آیا یشال ابھی تک وہی اپنی دل کی دھڑکنوں کو سنبھالنے کی کوشش كرتی کھڑی تھی

پہلے تو شاه پریشان ہوگیا لیکن جب اسے بات سمجھ ای تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی

شاه اس کے قریب گیا اور اسے کمر سے پکڑ کر اپنی باہوں میں بھر لیا کیا بات ہے جان شاہ ابھی تک ایسے کیوں کھڑی ہو ناشتہ نہیں کرنا

كچھ ن ن نہیں

یشال شاه كی اس درجے قربت پر سٹپٹا کر رہ گئی

اور خود کو شاہ کی باہوں سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی

نہ جان اب یہ فرار ناممکن ہے یہ

کہتے ہوئے شاه نے اس كی صراحی دار گردان کو اپنے ہونٹوں سے چھوا یشال پوری جان سے كانپ کر رہے گی

شاه نے اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے زوردار قہقہ لگايا

_____________________________________________

سعد مسلسل ذین کی غائب دماغی نوٹ کر رہا تھا

میٹنگ میں وہ زیادہ تر چپ هی رہا

سعد نے هی سب کچھ سنبھالا

میٹنگ ختم ہوتے هی سعد نے ذین كو مخاطب كیا

کیا بات ہے جگر صبح سے دیکھ رہا ہوں تو کچھ پریشان اور الجھا الجھا سا ہے

کچھ نہیں یار بس سر میں درد ہے

کچھ تو ہے مگر اب دوستوں سے بھی پردہ داری صحیح ہے

نہیں سعدی تو ایک ہی دوست ہے میرا تجھ سے کیا چھپا ہے

بس سر میں درد ہے

کس کے سر میں درد ہے برخودار

زمان صاحب نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا

انکل آپ اپ نے كیوں تکلیف کی مجھے بلا لیا ہوتا زین نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا

واہ

اب بیٹوں کے کیبن میں آتے ہوئے مجھے تکلیف ہوگی

ارے نہیں انکل ہمارا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا سعدی نے جلدی سے وضا خت دیتے ہوئے کہا

جانتا ہوں بیٹا

تم دونوں کو ڈینر کے لےاپنے ساتھ گھر لے جانے کے لیے آیا ہوں تم دونوں جلدی سے کام سمیٹو اور چلو میرے ساتھ

زمان صاحب نے جلدی سے کہا

سوری انكل آنے ویٹ کر رہی ہے میں تو نہیں چل سکوں گا

سعد نے جلدی سے کہا

چلو ٹھیک ہے لیکن تمہارا کوئی بہانہ نہیں سنوں گا

انہوں نے زین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

اوکے انكل جیسے آپ کا حکم زین نے ذرا سا جھکتے ہوئے کہا

__________________________________

زمان صاحب زین کو لئے ہال میں داخل ہوئے تو گڑیا بےچینی سے ان کا انتظار کر رہی تھی

گڑیا اپنا ریزلٹ لیے بھاگتے ہوئے زمان صاحب کے گلے سے لگ گئی

بابا دیکھیں میں اس بار بھی فرسٹ آئی ہو

ابھی گڑیا کی باتوں منہ میں ہی تهی کہ اس نے اپنے سامنے کھڑے ہٹے کٹے شخص کو دیکھا

ارے یہ تو اس دن والا کھڑوس ہے

گڑیا نے زین کو سر سے پاؤں تک گھورتے ہوئے سوچا

ارے واہ بیٹا مبارک ہو مجھے یہی امید تھی اپنی گڑیا سے

کہ میری گڑیا اس بار بھی مجھے مایوس نہیں کرے گی

زمان صاحب نے پیار سے گلے سے لگاتے ہوئے کہا

ارے ینگ مین تم کیوں رک گئے

گڑیا بیٹا جلدی سے اماں کو بولے کے کھانے کا انتظام کریں

اج ذین ہمارے ساتھ کھانا کھائے گا

زمان صاحب نے ذہن کی طرف مڑتے ہوئے کہا

جو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے فرصت سے باپ بیٹی کا پیار دیکھ رہا تھا

______________________________

📷

کیا بات ہے زین بیٹا آج کل آپ کافی چپ چپ رہنے لگے ہو بابا نے پوچھا ۔

کچھ نہیں بابا بس یہ سوچ رہا تھا کہ ماما نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ کیوں وہ مجھے اور آپ کو چھوڑ کر چلی گئی نفرت کرتا ہوں میں ان سے شدید نفرت زین کے لہجے میں اس کی ماں کے لئے نفرت وہ تو صاف محسوس کرسکتے تھے ۔

ایسا نہیں کہتے بیٹا جو بھی تھی جیسی بھی تھی وہ آپ کی ماں تھی آپ کو ان کی عزت کرنی چاہئے

عزت ۔؟

یہ آپ کہ رہے ہیں بابا ۔۔۔۔۔؟۔

آپ کو لگتا ہے کہ وہ عورت عزت کے قابل ہے

وہ عورت جو آپ کی عزت ڈوبو کر چلی گئی ۔کالج کا ہر لڑکا سوال کرتا ہے مجھ سے کہ تمہاری ماں کیوں چلی گئی کیا کہوں میں ان سب کو بولیں ۔۔۔۔۔کیا جواب دوں میں ان سب کے سوالوں کا ۔۔۔۔؟

اس عورت سے نفرت کرتا ہوں میں بلکہ عورت ذات سے نفرت ہے مجھے ۔۔۔

عورت ذات اس قابل ہی نہیں کہ اسے عزت دی جا سکے ۔عورت ذات کو عزت راس ہی نہیں آتی اسے اپنی مٹھی میں بند رکھنا چاہیے ۔

آپ اسے جتنی عزت اور محبت دو گے اتنی ہی سر پے چڑے گی

بیٹا کون سکھا رہا ہے آپ کو ایسی بے ہودا باتیں ۔کس نے کہا ہے آپ سے یہ سب کچھ بتائیں مجھے ۔بابا کو یقین تھا کہ اتنی گھٹیا سوچ ان کی بیٹے کی نہیں ہوسکتی ۔

جو بھی ہے بابا بالکل ٹھیک کہتا ہے ۔زین نے ناگواری سے کہا

اور بنا صدیقی صاحب کی حالت دیکھے وہ گھر سے باہر نکل گیا

📷

ابھی شبنم بیگم کو کینیڈا گئے ہوئے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ مرتضیٰ صاحب کو خبر ملی کہ وہاں انہوں نےشادی کرلی ہے ۔

یہ خبرمرتضی صاحب کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے اور سینے پہ ہاتھ رکھ کے وہی ڈھے گئے

زین ابھی کالج سے واپس آیا تھا اس نے جب مرتضی صاحب کی حالت دیکھی تو بوکھلا گیا

اگر مرتضی صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید زین کی ایسی حالت نہ ہوتی ۔لیکن اس کے پاس اس وقت یہی ایک اکلوتا رشتہ تھا ۔جسے وہ کسی حال میں کھونا نہیں چاہتا تھا وہ

ڈرائیور کو آوازیں دینے لگا

ڈرائیور چاچا دینو چاچا پلیز جلدی آئیں

گاڑی نکالے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے

دینو چاچا پلیز اب زمان انکل کو کال کر دیں اور جلدی سے ہسپتال پہنچنے کا کہہ دیں ۔

زین کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا مرتضی صاحب کی حالت بگڑتی جا رہی تھی

اس سے پہلے زین میں کبھی ایسی سچوئیشن ہینڈل نہیں کی تھی

📷

زمان صاحب جب ہسپتال کے کوریڈور میں داخل ہوئے تو ذہن زمین پر بیٹھا کسی چھے سال کے بچے کی طرح رو رہا تھا ۔

کیا ہوا بیٹا۔۔۔؟ کہاں ہے مرتضیٰ ۔۔۔؟ زمان صاحب نے پوچھا

انکل میرے بابا۔۔۔۔ زین نے ICUکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

سششس۔۔۔کچھ نہیں ہوگا مرتضیٰ کو تم رونا بند کرو کچھ نہیں ہوگا ۔۔

انکل بابا کو کچھ ہوگیا تو میں مر جاؤں گا پلیز کچھ کریں بابا کو بچالیں ۔

بابا کے علاوہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔

پلیز انکل کچھ کریں زین زمان صاحب کے سینے سے لگا کسی معصوم بچے کی طرح بلک بلک کر رو دیا ۔

زین اللہ پر یقین رکھو تم رونا بند کرو اللہ سے اپنے بابا کی زندگی کی دعا مانگو زمان صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔

اور اسے سہارا دے کر پاس رکھے بینچ پر بیٹھیااور خود بھی ساتھ بیٹھ گئے ۔

یہ وقت زمان صاحب کے لیے بھی بہت پریشان کن تھا ۔

کیونکہ مرتضی صاحب ان کے اکلوتے دوست تھے ۔

ذین کی طرح وہ بھی انہیں کھونا نہیں چاہتے تھے

📷

ڈینر ہلکی پھلکی گفتگو کے ساتھ خوشگوار ماحول میں کیا گیا بلاشبہ کھانا بہت لذیذ تھا اور ذین نے ایسا کھانا کہیں سالوں کے بعد کھایا تھا اسی لیے وہ بنا تعریف کیے نہ رہ سکا اور بےاختیار اماں بی کو پکار بیٹھا اماں بھی کھانا بہت ہی لذیذ تھا میں نے طلب سے کہیں زیادہ کھایا آپ کا بہت بہت شکریہ

ارے بیٹا

میرا کہا شکریہ اب ان بوڑھی ہڈیوں میں اتنی جان کہاں کے سارا دن کچن میں گزار سکے ایک زمانہ تھا جب ہم اس سے کہیں زیادہ لذیذ کھانا بنایا کرتے تھے

اماں بی اپنے گزرے ہوئے زمانے میں کھوئی ہوئی تھی

تو کس نے بنایا یہ کھانا

آج کا سارا کھانا توگڑیا نے بنایا ہے اماں بی نے گڑیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

جو پوری دلجمعی سے کھانا کھانے میں مصروف تھی جسے اس کے علاوہ اس کو کوئی اور کام ہی نہ ہو

ارے واہ سے باتیں بنانے کے ساتھ ساتھ کھانا بھی بنانا آتا ہے ذین دل ہی دل میں حیران ہو ا خود پر جمی دین کی نگاہ محسوس کرکے گڑیا چائےکا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی

دین کی نگاہوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا

📷

نہ دعا کام آئے نہ دوا اور مرتضیٰ صاحب ذین کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے منوں مٹی تلے جا سوے

ہر غم ہر دکھ ہر درد ہر اذیت ہر وفائی سے ہمیشہ کے لئے دور چلے گئے گئے

کہتے ہیں مرد بہت مضبوط ہوتا ہے برے سے برا صدمہ برےسے برا حادثہ آسانی سے برداشت کر لیتا ہے مگر دراصل مرد بھی ہوتا تو ایک انسان ہی ہے جو ہر تکلیف اذیت ہر درد ہر دکھ کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جیسے کہ ایک عورت

مگر ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ ہم عورت کو کمزور سمجھتے ہیں لیکن مرد کو بہت مضبوط

ہم بچپن سے ہی بیٹوں کی ذہنوں میں یہ باتیں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں

کہ بیٹا لڑکے بہادر ہوتے ہیں

ارے تم تو لڑکے ہو تم روتے ہوئے اچھے لگو گے

اور مرد اپنے ہر احساس کو ہر اذیت کو ہر دکھ کو اپنے ہی اندر رکھنا شروع کر دیتا ہے

اسے ہمیشہ یہ در رہتا ہے اگر مجھے کسی نے آنسو بہاتے ہوئے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا کہ میں کتنا کمزور مرد ہوں

آج مرتضی صاحب کو گزرے ہوئے تیسرا دن تھا

زین کو نہیں اپنی خبر تھی اور نہ ہی تغریت کے لئے آنے والے مہمانوں کی

سارا انتظام زمان صاحب اور دینو چاچا ہیں سنبھال رہے تھے

زمان صاحب مہمانوں کو رخصت کر اندر آئے تو ذہن زمین پر بیٹھا خلاؤں میں نہ جانے کیا تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا

تین دن پہلے کے پہنے ہوئے کپڑے بکھرے بال خاموش لب ویران آنکھیں

وہ انہیں کسی ایسے مسافر کی طرح لگا جو اپنا سب کچھ لٹا کر بیٹھا ہوں

زمان صاحب نے گہری سانس بھری اور اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور اپنے عزیزو جان دوست کے اکلوتے بیٹے کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتے تھے

📷

اس کھڑوس کی اتنی ہمت کہ مجھے گڑیا کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا گڑیا کچن میں برتن تیچتے ہوئے بڑبرا رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ برتنوں کی جگہ ذین ہوتا اور وہ زین کو ٹیچ رہی ہوتی

غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور چائے اوبل اوبل کر بلکل کالی ہو چکی تھی

اب آئے گا مزہ اب دیکھتی ہوں کہ کیسے گھورتا ہے مجھے تھوڑی سی چک لیتی ہوئے کیسی بنی ہے میری شاہکار چائے

گڑیا نے چائے کی ہلکی سی چسکی لی یک تھو اتنی خراب بیکار چائے لیکن زین صاحب کو مزا تو چکھنا پڑے گا

گڑیا نے چائے ٹرے میں سجائی اور کچن سے باہر نکل گئی

زمان صاحب رات کو چائے نہیں پیتے تھے کیونکہ پھر انہیں نیند نہیں آتی تھی

گڑیا نے ذین کے سامنے چائے کا کپ رکھا جو زمان صاحب کے ساتھ بیٹھا کسی میٹنگ کے بارے میں گفتگو کر نے میں مصروف تھا

اور سامنے رکھے سنگل صوفے پر برجمان ہوگی

ہنسی روکنے کی ناکام کوشش میں اس کا چہرہ بری طرح سرخ ہو رہا تھا

زین دلچسپی سے دیکھ رہا تھا

جیسے ہی زین نے چائے کی چسکی لیا سے لگا کے

اس نے کروا کریلا کھا لیا ہو

نا تو وہ چائے کو حلق سے نیچے اتار پا رہا تھا اور نہ ہی اسے سمجھا آ رہی تھی

کہ وہ کیا کرے

اس چائے کو پینا زین کو دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا

مگر اس نے جیسے تیسے کر کے آدھی چائے پی اور باقی سامنے رکھے ہوئے ٹیبل پر رکھ دی

بیٹا آپ رک کیوں گئے پیونا زمان صاحب نے زیین کو کپ رکھتے ہوئے دیکھ کر کہا ہماری گڑیا بہت اچھی چائے بناتی ہے

زین گڑیا کی شرارت سمجھ چکا تھا اس نے کھا جانے والی نظروں سے گڑیا کو دیکھا جو ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے ذہین سامنے موجود ہی نہ ہو

ارے نہیں انکل میں نے کھانا بہت زیادہ کھا لیا ہے اب بالکل بھی گنجائش نہیں ہو

زین نے ادب سے زمان صاحب کو جواب دیا اب کیا بتاتا کہ ایسی شاندار چاے اس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں پی اور نہ ہی آگے پینے کا ارادہ رکھتا ہے

انکل آپ مجھے اجازت دے رات کافی ہوچکی ہے آپ بھی آرام کریں زندگی زمان صاحب سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے بیٹا اپنا خیال رکھنا کل انشاءاللہ نےافس میں ملاقات ہوگی

زمان صاحب جب ذہن کو باہر رخصت کرکے آئے تو گڑیا کا ہنس ہنس کر برا حال تھا

کیا بات ہے بیٹا آپ اتنا کیوں ہنس رہے ہو زمان صاحب نے گڑیا سے سوال کیا

کچھ نہیں بابا اماں نے آج دن کو ایک لطیفہ سنایا تھا بس وہ یاد آگیا

زین کے ذہن میں ابھی تک منتظر خان کی باتیں گردش کر رہی تھی منتظر خان ایک بگڑا ہوا رئس زارہ تھا جو عورت کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتا تھا وہ مرتضی صاحب کا مخالف تھا مرتضی صاحب بزنس کی بہت اچھی سمجھ رکھتے تھے اور ہر بڑا پروجیکٹ ان کے حصے میں آتا جس کی وجہ سے منتظر خان اندر ہی اندر جل جاتا اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ M۔Zکے شیئرز خرید سکے لیکن مرتضی صاحب اور زمان صاحب اس کی ہر آفر کو ہمیشہ ہی رد کر دیتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی سوچ اور شہرت دونوں ہی ان کے مزاج سے نہیں مل سکتی منتظر خان اپنی ضد کا پکا اور انتہائی بد دماغ انسان تھا کہیں باراس کی عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کی داستانیں میڈیا کے سامنے آچکی تھی زین ابھی تک اس کی باتوں کے زہر اثر تھا زین کو لگ رہا تھا کہ منتظر خان بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے عورت پاؤں کی جوتی ہے اور اسے جتنا پیارجتنی عزت دی جائے وہ اتنا ہی سر چڑ کے ناچتی ہے اگر مرتضیٰ شبنم بیگم کو اتنی عزت اور پیار نہ دیتے تو کبھی باہر منہ مارنے کی غلطی نہ کرتی مرتضیٰ کیسا مرد تھا جو اپنی عورت پر قابو نہیں کر سکا زین جتنا سوچ رہا تھا اتنا ہی الجھ رہا تھا ایک طرف اس کا باپ تھا جو عورت کو سر کا تاج سمجھتا تھا جس کی سوچ یہ تھی کہ جو عزت اور محبت مرد کا حق ہے

اتنا ہی حق عورت کا ہے کہ مرد بھی اس سے مخلص رہے اور اسے ایک عزت اور پیار بھری زندگی دے لیکن بابا نے شبنم کو کیا نہیں دیا سب کچھ تو دیا عزت پیار مان وفا پر پھر بھی اس عورت نے کیا کیا؟ منتظر خان ٹھیک کہتا ہے زین اپنی سوچوں میں اتنامخو تھا کہ سے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب زمان صاحب اس کے پاس آ کر بیٹھے ۔

📷

زین ۔۔۔زمان صاحب کی پکار نے زین کو اپنی طرف متوجہ کیا

زین نے خالی خالی نظروں سے زمان صاحب کی طرف دیکھا

اٹھو بیٹا کچھ کھا لو تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا

انکل میرا دل بالکل دل نہیں کر رہا پلیز

بیٹا ۔زمان صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی

انکل بابا آپ کی ساری باتیں مانتے تھے تو پلیز بابا کو کہں نہ کہ وہ واپس آجائے آپ جانتے ہیں میں بابا سے بہت پیار کرتا ہوں میں نہیں رہ سکتا بابا کے بغیر وہ مجھے اکیلا چھوڑ کے چلے گئے انکل میرا کوئی نہیں ہے یہ سب یہ سب اس عورت کی وجہ سے ہوا ہے زہین نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر رکھی تھی۔

نفرت کرتا ہوں میں اس عورت سے اس سے کیا نفرت مجھے تو عورت ذات سے نفرت ہے بابا بھی منتظر خان انکل کی طرح اپنی بیوی کو دبا کر رکھتے اسے اپنی مرضی پر چلاتے اسے خود سے زیادہ پیار نہ کرتے تو آج حالات الگ ہوتے آج بابا زندہ ہوتے

زمان صاحب نے ذین کو اپنے سینے سے لگایا وہ چاہتے تھے کہ وہ ایک بار جی بھر کر اپنی بھڑاس نکال لے تاکہ اس کا دل ہلکا ہوجائے

بیٹا ایسا نہیں کہتے ۔میں ہوں نہ آپ کے ساتھ میں نے صرف اپنا دوست نہیں بلکہ آج اپنا بھائی کھویا ہے لیکن زندگی اسی کا نام ہے آپ کو آگے بڑھنا ہوگا کیا چاہتے ہیں کہ آپ کے بابا کی روح بےچین رہے

آپ کو ان کا خواب پورا کرنا ہوگا ایک مضبوط اور ثابت قدم انسان بن کر ۔

آپ کے بابا آپ کو ایک کامیاب انسان کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے ۔

کیا آپ اپنے بابا کے خوابوں کو پورا نہیں کریں گے کیا آپ اپنے بابا کے خوابوں کو ادھورا چھوڑ دیں گے ۔زمان صاحب محبت سے اسے سمجھا کر اپنے ساتھ باہر لے آئیں

📷

شاہ جب ہال میں داخل ہوا تو اندر کا منظر دیکھ کر منہ کھلا کا کھلا رہ گیا حال میں ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی کوئی آندھی آکے گزری ہو

سب کوشنز زمین پر پڑے تھے جگہ جگہ رنگ برنگے غبارے بکھرے تھے برتنوں میں نہ جانے کون کون سے کھانے تھے جو اپنی بے قدری پر رو رہے تھے

یشال اورآمنہ (سکینہ کی بیٹی )یہاں سے وہاں بھاگ رہی تھی اور سکینہ انہیں روکنے کی کوشش میں بحال ہورہی تھی

بی بی جی صاحب انے والے ہوں گے یہ سب صاف کرنا ہے آپ بس کر جائیں

ار ےسکینہ بی بی کچھ نہیں ہوتا آج آمنہ کی برتھ ڈے ہے اور ہم یہ دن بھرپور طرح سے انجوائے کر رہے ہیں

اور ویسے بھی آج آپ کے صاحب کی میٹنگ ہے تو وہ جلدی نہیں آنے والے

رات سے پہلے وہ واپس نہیں آئیں گے تو آپ بے فکر ہو جائے ۔

اور آپ کو میری ساری باتیں ماننی چاہیے کیونکہ شاہ کے بعد اس گھر کی مالکن میں ہوں یشال نے گردن آکڑآکر کہا ۔یشال کے اس انداز پر شاہ کا قہقے بیساختہ تھا

یشال نے جب شاہ کو دیکھا تو اس کے ہاتھ میں پکڑا کشین زمین پر گر گیا جبکہ آمنہ یشال کے پیچھے چھپ گئی اور سکینہ منہ کھولیں شاہ کو حیرت سے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو

شاہ نے انہیں اس طرح سے حیران اور پریشان کھڑے دیکھ کر اپنے چہرے پر مصنوعی غصہ سجایا

آدھے گھنٹے میں یہ سب کچھ صاف ستھرا ہونا چاہیے شاہ نے سرد مہری سے سکینہ کو دیکھتے ہوئے کہا

جی صاحب

ابھی صاف ہوجائے گا یہ

جبکہ یشال شاہ کو سکینہ سے باتیں کرتے مصروف دیکھ کر وہاں سے کھسک چکی تھی ۔برتھ ڈے پارٹی اپنی جگہ لیکن یشال کو فی الحال اپنی زندگی پیاری تھی

۔📷

مرتضی صاحب کے چالیسویں کے بعد زین زیادہ عرصہ پاکستان میں نہ روکا کیوں کہ گھر میں ہر جگہ اس کی بابا کی یادوں کے ساتھ شبنم بیگم کی تلخ یادیں بھی تھی ۔

جو زین کے لیے کسی اذیت سے کم نہ تھی زمان صاحب نے ہر مقام پر ایک اچھا دوست ہونے کا ثبوت دیا انہوں نے اپنے دوست کے بیٹے کو بیٹے سے بھرکر پیار اور توجہ دی

اور انکی توجہ محبت کی وجہ سے ہی زین نہ صرف اپنی منزل حاصل کر پایا بلکہ Z.M کمپنی کو کامیابی کی اونچی منزل تک لے گیا آج ان کی کمپنی کا نام ملک کی مایاناز کمپنیوں میں شامل ہو رہا تھا

اور زین بھی جب سے لندن سے واپس آیا تھا اس نے زمان صاحب کو بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دیں ہر چیز وہ انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتا اگر ذہن اپنے بابا کے بعد کسی کی عزت اور کسی سے محبت کرتا تھا تو وہ صرف زمان صاحب تھے وہ صحیح معنوں میں اس کے محسن تھے جنہوں نے اپنے دوست سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی

زین نے بھی بیٹا ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا وہ جب سے لندن سے واپس آیا تھا ہر قدم پر زمان صاحب کے ساتھ اور آفس اس نے سنبھال لیا تھا

زمان صاحب اب زیادہ سے زیادہ وقت گڑیا کے ساتھ گزارتے گڑیا بھی اپنے بابا کے کمپنی خوب انجوائے کرتی کبھی کبھی ان کے ساتھ زین اور سعد بھی شامل ہوتے سعد کے ساتھ گڑیا خوب ہلا گلا کرتی مگر زین سے تھوڑی کھینچی رہتی شایدزین کی سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے مگر زندگی اب پرسکون گزر رہی تھی ۔

📷

شاہ یشال کو ڈھونڈتا ہوا روم میں آیا جہاں وہ دنیا جہاں سے بے خبر کتاب پڑھنے میں مصروف تھی اور اس کے ہونٹوں پر ایک پیاری سی مسکان تھی جیسے دیکھ کر شاہ خود بھی مسکرا اٹھا ۔

کافی دیر شاہ ایسے ہی کھڑے دیکھتا رہا مگر جب مقابل کا اگنور کرنا برداشت نہ ہوا تو درو؛زہ کھٹکا کر اپنے ہونے کا احساس دلایا یشال چونک کر سیدھی ہوئی اور اپنا دوپٹہ سیٹ کر کے یہاں وہاں دیکھنے لگی ۔

اس کی بوکھلاہٹ پر شاہ کی مسکان مزید گہری ہوئی

شاہ آہستہ سے قدم اٹھاتا اس کے ساتھ صوفے پہ آکے بیٹھا

کیا ہورہا ہے شاہ نے اس کے بالوں کی لیٹ اپنی انگلی پر لپیٹتے ہوئے کہا ۔

وہ میں ناول پر رہی ہوں

اچھا۔۔۔ کونسا۔شاہ نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا

اک لفظ عشق۔

ارے وا کبھی میرے عشق کا احساس تو نہیں ہوا آپ کو۔

شاہ نے اس کے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا ۔

جبکہ ہاتھ اب بھی اس کی آوارہ لٹ کو سلجھانے میں لگا تھا ۔

آپ مجھ سے عشق تھوڑی کرتے ہیں بےاختیاری یشال کے ہونٹوں سے پھسلا جس پر شاہ نے بے اختیار قہقہ لگایا

اچھا آپ کو کیسے پتہ کہ میں آپ سے عشق نہیں کرتا اسے مزید خود سے قریب کرتے ہوئے بولا ۔

یشال بری پھنس چکی تھی بات اس کے منہ سے نکل چکی تھی

جب شاہ نے اسے اچانک کھینچ کر اپنی باہوں میں لے لیا اور اسے اپنی محبت کا احساس دلانے لگا ۔

حملہ اتنا اچانک تھا کہ یشال سنبھل نہ پائی اور اس کے سینے سے ٹکڑائی ۔

شاہ اسکے ہوںٹوں پر گردن پر ہر جگہ اپنے عشق کی مہر ثبت کرتا اسے اپنے پیار کی بارش میں بگھونے لگا ۔

شاہ کے عشق کی شدت برداشت کرنا یشال جیسی نازک سی لڑکی کے بس کی بات نہ تھی اس نے تھڑ تھڑ کانپتے ہوئے شاہ کے سینے پہ اپنا نازک سا ہاتھ رکھے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی ۔

اس کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر شاہ کو اس پر ترس آگیا اور اسے احتیاط سے خود سے الگ کیا ۔

اس کی حالت دیکھ کر شاہ کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگی شاہ نے اس کے کان کے قریب آکر سرگوشی کی ابھی تو میں نے اپنے عشق کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھائی ہے اور تمہارا یہ حال ہے

سوچو اگر داستان عشق سنانے بیٹھا تو تمہارا کیا ہوگا اس کے گال کو اپنے ہونٹوں سے چھوتا ہواوہ وہاں سے اٹھ گیا جبکہ یشال و ہی بیٹھی اپنی بے اختیار دھڑکنوں کا شمار کرتی رہ گی

سعد کافی دنوں سے دین کی بے چینی نوٹ کر رہا تھا زین کا گڑیا کو دیکھ کر کھو جانا گڑیا کا زین سے گھبرا نہ کچھ بھی سعد کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھا

ایک طرف اس کا جان سے پیارا دوست جبکہ دوسری طرف وہ لڑکی تھی جسے اس نے بہن کہا ہی نہیں مانا بھی تھا

سعد نے زین سے سیدھا بات کرنے کی ٹھانی اور زین کے کیبن کی طرف چل دیا زین کسی فائل کو کھولے بیٹھا تھا مگر صاف لگ رہا تھا کہ وہ کسی اور سوچ میں ڈوبا ہوا ہے

سعد نے اس کے ٹیبل پر ہلکے سے ہاتھ مارا تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا کیا بات ہے یار میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں تو کافی پریشان اور کھویا کھویا سا ہے سعد نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا

ارے کچھ نہیں یار بس ایسے ہی

زین تو مجھ سے جھوٹ مت بول بچپن سے جانتا ہوں تجھے کچھ تو ہے جو پریشان کر رہا ہے آخر بات کیا ہے

کہیں کسی لڑکی کا چکر تو نہیں سعداپنے پوئنٹ کی طرف آیاجس کے بارے میں بات کرنے کے لئے وہ زین کے پاس آیا تھا

ارے نہیں تو کیا الٹا سیدھا سوچ رہا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے زین نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا

اچھا میں غلط سوچ رہا ہوں گڑیا کو دیکھ کر تیرا کھوجانا گڑیا کا تم سے گھبرا نہ اس کا تجھے دیکھ کر بھاگ جانا کیا ہے یہ سب

کیا میں غلط سوچ رہا ہوں پہلے مجھے لگا کہ یہ سب میری غلط فہمی ہے مگر آج تیرا نظریں چرا نہ یہ ثابت کر گیا

کہ میں بالکل صحیح سوچ رہا تھا صاف لگ رہا ہے کہ کوئی تو بات ہے

سعدی میں تجھے کیا بتاؤں یار جب کہ میں خود ہی کچھ نہیں سمجھ پا رہا

زین نے بیچارگی سے جواب دیا

اسے دیکھتا ہوں تو ایک سکون سا اتر جاتا ہے دل میں دل کرتا ہے بس اسے دیکھتا ہی رہوں دل کرتا ہے اسے سب سے چھپا کراپنے پاس رکھ لو اسے بس میں دیکھو میں سنو ں میں محسوس کروں مگر

تجھے اس سے محبت ہوگئی ہے سعد میں ذہن کی بات کاٹتے ہوئے کہا

ہاں کرتا ہوں محبت اس سے محبت نہیں عشق کرتا ہوں میں اس سے مگر

کیا مگر سعد نے ایک بار پھر سے زین کی بات کاٹی

تو جانتا تو ہے سب

ہاں جانتا ہوں سبب

دنیا کی ہر عورت بے وفا نہیں ہوتی یہ بات تو سمجھ لے

غلط بالکل غلط دنیا کی ہر عورت بے وفا ہے نفرت کرتا ہوں میں عورت ذات سے دوغلی بےوفا فریبی جھوٹی اور دھوکہ باز ہوتی ہے عورت

زین نے غصے سے ٹیبل پر پڑا گلاس دیوار پر دے مارا مگر سعدی پرسکون انداز میں بیٹھا رہا

اچھا پھر تو اماں بی بھی دوغلی اور دھوکہ باز ہیں

ان کا پیار بھی جھوٹا ہے سعد بکواس بند کر نکل جا یہاں سے

اس سے پہلے کہ میں تیرا منہ توڑ دوں

بولنے سے پہلے اتنا تو سوچ لے تو کس کے بارے میں بات کر رہا ہے

جس عورت کے بارے میں تو بات کر رہا ہے وہ ماں ہے تیری زین غصے میں دھاڑا

میں تجھے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ہر عورت شبنم بیگم نہیں ہوتی بلکہ کچھ ماہ نور بی بھی ہوتی ہیں جو

بیوگی کی چادر اوڑھ کر لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے چھ سالہ بیٹے کو پالنے میں اپنی ساری زندگی گزار دیتی ہیں

سعد نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو چھپاتے ہوئے کہا

باقی مرضی تیری ہے یار جو تجھے سہی لگتا ہے وہ تو کر

سعد زین کو سوچوں میں ڈوبا چھوڑ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا

📷📷

دو دن سے زین نوٹ کر رہا تھا کہ سعد اس کو اگنور کر رہا ہے

نہ تو اس سے بات کر رہا تھا اور نہ ہی اسے بات کرنے کا موقع دے رہا تھا

زین نےدو تین بار بات کرنے کی کوشش کی مگر سعد نے اسے اگنور کر دیا

آج زین کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ سیدھا اس کے گھر جا پہنچا

دروازہ سعد نےہی کھولا اور اسے دیکھ کر دروازہ کھلا چھوڑ کر وہ انہیں قدموں پر واپس پلٹ گیا

زین میں اس کا اترا ہوا منہ دیکھا تو بے اختیار مسکرا دیا

وہ ایسا ہی تھا چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہوجانا اور فورا مان جانا

وہ اندر داخل ہوا تو اماں بھی صوفے پر بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مصروف تھی

اسے دیکھ کر ناراضگی سے منہ موڑ گئی اماں بی سعدی تو ناراض ہے ہیں آپ بھی اپنے بیٹے سے ناراض ہیں زین نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا

اب بچاری بھوڑی ماں کیا کریں ہمارے بیٹوں کے پاس ہمارے لئے وقت ہی نہیں ہے اماں نے ناراضگی سے جواب دیا

ایسا کچھ نہیں ہے ماں ذہن نے ان کے شانے پر بازو پھیلاتے ہوئے کہا

ارے چھوڑیے میاں بیوقوف کسی اور کو جا کےبنائیں

ایک ہم ہیں جو آپ کو اپنا بیٹا مانتی ہیں آپ ہمیں اپنی ماں تھوڑا سمجھتے ہیں ہم روز انتظار کرتے ہیں کہ ہمارا بیٹا آج ائے گا ہمارا بیٹا آج ائے گا لیکن ہمارے بیٹے کو تو ہمارے لئے ایک پل کی بھی فرصت نہیں ہے اماں بی کی ناراضگی ابھی تک برقرار تھی

آپ جانتی ہیں نہ کہ آپ کے علاوہ میرا ہے ہی کون آپ اور سعدی تو میرے سب کچھ ہیں

وہ صوفے سے اٹھ کر ان کے قدموں میں بیٹھ گیا

وہ اپنی ناراضگی زیادہ دیر برقرار نہ رکھ پائیں اورآگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا

دور کھڑا سعد بھی ان کا پیار دیکھ کر مسکرا دیا

تم دونوں بیٹھو میں نے تمہارے پسند کی بریانی بنائی ہے جلدی سے گرم کر لے کے آتی ہوں سعد نے مجھے بتایا کہ آج تم آنے والے ہو زین اور سعد نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ان کے قہقے سے پورا گھر گونج اٹھا

کھانا کھانے کے بعد سعد اور ذین دونوں لان میں چہل قدمی کر رہے تھے جب کے اماں بی نماز ادا کرنے کے لئے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی

تجھے کیسے پتہ کہ آج میں آؤں گا زین نےسعد سے پوچھا

بس جگر دوستوں کی حد کہاں تک ہے سعد اچھے سے جانتا ہے مطلب

تو مجھے اتنے دن سے جان بوجھ کر اگنور کر رہا تھا

تیری ناراضگی سب ایک ڈرامہ تھا زین نے حیرانگی اور غصے کے ملے جلے تاثرات لے کر سعد سے پوچھا

سعد جانتا تھا کہ اب اس کی خیر نہیں اس لیے اس نے بنا جواب دیے اندر جانے والے راستے کی طرف دوڑ لگا دی

کے اب اماں بی اسے ذہن کے اتب سے بچا سکتی تھی

📷📷

کھانا کھانے کے بعد سعد اور ذین دونوں لان میں چہل قدمی کر رہے تھے جب کے اماں بی نماز ادا کرنے کے لئے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی

تجھے کیسے پتہ کہ آج میں آؤں گا زین نےسعد سے پوچھا

بس جگر دوستوں کی حد کہاں تک ہے سعد اچھے سے جانتا ہے

مطلب

تو مجھے اتنے دن سے جان بوجھ کر اگنور کر رہا تھا

تیری ناراضگی سب ایک ڈرامہ تھا

زین نے حیرانگی اور غصے کے ملے جلے تاثرات لے کر سعد سے پوچھا

سعد جانتا تھا کہ اب اس کی خیر نہیں

اس لیے اس نے بنا جواب دیے اندر جانے والے راستے کی طرف دوڑ لگا دی

کے اب اماں بی اسے ذہن کے اتب سے بچا سکتی تھی

📷📷

زین جب اماں بی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ جائے نماز رکھ رہی تھی

اماں بی سعد کہاں ہے زین نے بیڈ پر بیٹھے ہوئے پوچھا

تمہارے ساتھ ہی باہر گیا تھا یہی ہوگا

اماں بی نے مسکرا کر اسے جواب دیا

اور اس کے خوبصورت چہرے پر ایک نظر ڈالی

بلاشبہ وہ ایک خوبصورت اور بھرپور مرد تھا

ماشااللہ

اماں بی نے زیر لب بہت سی دعائیں پڑھ کراس پر پھونكی

زین مسکرا دیا

اماں بی شروع سے سعد سے زیادہ اس کا خیال رکھتی تھی

مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے

زین نے بلا جھجك اماں بی کو مخاطب کیا

ہاں بیٹا بولو

اماں بھی پوری طرح ذہن کی جانب متوجہ ہوئی

اماں بی میں شادی کرنا چاہتا ہوں

ذین کی بات سن کر جہاں اماں بی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا

وہی سعدی بی ہوش ہوتے ہوتے بچا جو کب سے باہر کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا

کیا کہا تم نے اماں کو لگا کے انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہے

میں شادی کرنا چاہتا ہوں زین نے اپنی بات دہرائی

اماں بھی نے بے اختیار آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی

کہا ان کا یہ بیٹا جو عورت ذات سے دور بھاگتا تھا

شادی کا نام سن کر غصے سے آگ بگولا ہو جاتا تھا وہ آج خود شادی کا کہہ رہا تھا

اماں بھی بے حد خوش تھی ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں قارون کا خزانہ مل گیا ہے

کہاں ہیں وہ کون ہے وہ کس کی بیٹی ہے کہاں رہتی ہے کیا کرتی ہے جلدی سے مجھے بتاؤ ہم ابھی ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے

جس پر دین بے اختیار مسکرا دیا

میں ابھی اس کو اپنے بیٹے کے لئے مانگ لوں گی اماں بھی کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی

وہ تو اسی وقت اپنی چادر لئے اٹھ کھڑی ہوئی

تبھی سعد اندر داخل ہوا اور اماں بی کو شانوں سے پکڑ کر واپس بیڈ پر بٹھایا اماں بھی کافی رات ہوچکی ہے ہم صبح چلیں گے

اماں بی کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے صبح نہ جانے کب آئے گی اور کب اپنے بیٹے کی پسند کو دیکھنے کے لئے جائیں گے

سعد بھی اس کے فیصلے سے بے حد خوش تھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں نہ جانے اسے کیا اشارہ کر رہا تھا جینے سمجھ کر زین بے اختیار مسکرا دیا

📷📷

اماں بھی سامان سے لدی پدی اگلے ہی دن زمان صاحب کے گھر جا پہنچی زمان صاحب گھر میں ہی موجود تھے

دادو نے انہیں احترام سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور زمان صاحب کو بلانے کے لئے چلی گئیں

زمان صاحب کہ اتے ہی اماں بی نے کوئ بھی فضول بات کئے بغیر اپنے آنے کا مقصد آسان لفظوں میں بیان کیا

دیکھے زمان بھائی

اگر بات سعد کی ہوتی تو میں آپ کو سوچنے کے لیے وقت ضرور دیتی مگر بات یہاں پہ زین کی ہے جو آپ کا اپنا بچہ ہے آپ کی آنکھوں کے سامنے پلا بڑا ہے اس کے کردار کی گواہی آپ خود دے سکتے ہیں

اس لئے میں انکا ر بالکل نہیں سنوں گی

ہاں

اگر آپ گڑیا کی مرضی جاننا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ میں بھی زبردستی کا قائل نہیں ہوں

آپ ہماری بیٹیا سے اس کی مرضی پوچھ کر ہمیں آرام سے جواب دے سکتے ہیں

مگر کیا میں ایک بار اپنی بیٹی سے مل سکتی ہوں

کیوں نہیں مہ نور بہن گڑیا آپ کی بھی بیٹی ہےجب چاہے اس سے مل سکتی ہیں

میں گڑیا کو بلا کر لاتی ہوں دادو نےاٹھتے ہوئے کہا

📷📷

دادو کمرے میں داخل ہوئی تو گڑیا بیڈ پر لیٹی اپنی سوچوں میں گم تھی

گڑیا بیٹا اٹھو آپ سے کچھ مہمان لیے آئے ہیں دادو نے اس کے بالوں کی لٹ کو سوراتے کرتے ہوئے کہا

کون ہے دادو

آپ کے بابا کے پرانی جاننے والی ہے

دادو نے اس کے سر پر دوپٹہ جمایا

اور اسی لیےڈرائنگ روم کی جانب چل دی

📷📷

گڑیا کمرے میں داخل ہوئی اور ادب سے اماں بی اور سعد کو سلام کیا سعد کو دیکھ کر وہ حقیقی معنوں میں حیران ہوئی تھی

دادو نے تو بابا کے کسی ملنے والی سے ملنے کے لیے بلایا تھا مگر یہ تو سعد بھائی ہیں اور یہ سعد بھائی کے ساتھ کون ہے گڑیا اپنی ہی سوچوں میں گم تھی

اماں بھی آگے بڑی اور محبت سے گڑیا کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا گڑیا کے اندر پرسکون اترگیا اس ایک لمس کے لیے وہ کتنا ترسی تھی یہ کوئی اس سے پوچھتا

برسوں بعد اس نے ممتا کا احساس محسوس کیا تھا

بے شک ماں ایک عظیم تحفہ ہے جو میری قسمت میں نہیں

گڑیا نے افسردگی سے سوچا

اور وہی ان کے ساتھ سوفے پر ٹک گئی

اماں بھی کافی دیر اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی تھی اس کی کالج دوستوں کے بارے میں باتیں کرتی رہی

او جانے سے پہلے گڑیا سے وعدہ لے گی کہ وہ ان کے گھر ضرور آئے گی اور ڈھیر ساری باتیں کرے گی ان کے بلانے میں اتنا خلوص تھا کہ گڑیاچاہا کر بھی انکار نہ کر پائی

دادو نے کھانے پر روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ یہ کہہ کر چلی گئی کہ وہ جلد ہی واپس اپنے سوال کا جواب ہاں میں لینے آئینگی

تب ضرور کھانا کھائیں گے

گڑیا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے

📷

اماں بھی اور سعد كے جانے کے بعد زمان صاحب نے دادو سے بات کی دادو کو بھی سنجیدہ مزاج ذہن بے حد پسند تھا

زمان صاحب کی خواہشیں یہی تھی انہیں آج بھی وہ دن یاد تھا جب گڑیا پیدا ہوئی تھی

مرتضی بےحد خوش تھا وہ گڑیا کو باہوں میں لیے کبھی اس کے ماتھے پر پیار کرتا تھا کبھی اس کے گال پر

گڑیا تھی بھی بے حد خوبصورت اپنی گول مٹول آنکھوں سے مرتضیٰ کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیتی

اس کی اس ادا پر تو مرتضی قربان ہوجاتا

گڑیا کو گود میں لیے مرتضی نے زمان سے وعدہ لیا کہ گڑیا صرف اور صرف ان کے گھر کی بہو بنے گئی مرتضی کی اس بات پر زمان بے ساختہ مسکرا دیا

وہ وقت یاد کرکے زمان صاحب کی آنکھیں بھیگ گئی

کیا ہوا بابا اب رو رہے ہیں گڑیا متفکر سی ان کے پاس آئی

کچھ نہیں بابا کی جان آؤ بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے

زمان صاحب نے گڑیا کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا

جی بابا بولیں

بیٹا آپ کے لئے ایک رشتہ آیا ہے

بابا پلز میں نے آپ نے کہا تھا کہ مجھے شادی نہیں کرنی

گڑیا نے انکار کرتے ہوئے کہا

بیٹا ایسا نہیں کہتے ایک نا ایک دن تو آپ کو اپنے گھر کا ہونا ہی ہے کیا آپ کسی اور کو پسند کرتی ہیں زمان صاحب نے پیار سے پوچھا

ایسا کچھ نہیں ہے بابا گڑیا نے جواب دیا

بیٹا آپ کے لیے ذہن کا رشتہ آیا ہے

کیا بابا زین کا رشتہ

گڑیا اتنی حیران تھی کہ اپنا منہ بند کرنا ہی بھول گئی

ہاں پیٹا اور مجھے تمہاری دادو کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے

کیا آپ اس سے خوش ہیں گڑیا نے جھکی پلکوں کے ساتھ پوچھا

ہاں بیٹا میں خوش ہوں بے حد خوش

ٹھیک ہے بابا مجھے کوئی اعتراض نہیں گڑیا یہ کہہ کرکمرے سے چلی گئی

زمان صاحب مسکرا دیے یه کیسے ہو سکتا تھا کہ اپنی بیٹی کے چہرے کے بدلتے رنگ بھی پہچان نہیں پاتے وه

مسرور سے وہاں سے اٹھ کر اپنے بیڈ روم کی طرف چل دیے وہ جان چکے تھے کہ ان کی بیٹی بھی اس رشتے سے بے حد خوش ہے

📷

وہ خوش تھی بے حدخوش جس انسان کی اس نے تمنا کی تھی جسے دیکھ کر نہ جانے چپکے چپکے سے کتنی دعائیں مانگی تھی کہ وہ شخص ساری دنیا میں بس اسی کا ہو جسے اس نے اپنے رب سے مانگا تھا وہ اس کا بننے جارہا تھا اس کا محرم وہ خوش کیوں نہ ہوتی جس کا ساتھ پانا اس کی سب سے بڑی خواہش تھی وہ آج اسی کا ہونے جا رہا تھا نیند تو اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی کیا وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہوگا یہ سوچ کر ایک بے ساختہ مسکراہٹ میں اس کے ہونٹوں کو چھوا

محبت کیا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے اس نے شرما کر اپنا چہرہ تکیہ میں چھپا لیا

تھینک یو اللہ میاں زین کو میری زندگی میں لانے کے لیے یہی

سب سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی

📷

اماں بی کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی ان کے ایک بیٹے نے تو گھر بسانے کے بارے میں سوچا تھا وہ بے تحاشہ خوش تھی وہ روز

سعد کو ساتھ لیے مارکیٹ چلی جاتی

زین اور گڑیا کے لئے ڈھیر ساری شاپنگ کرتی سعد نے بہت بار انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی یہ ابھی رشتے کے لئے ہاں نہیں ہوئی لیکن وہ بی اماں تھی مجال ہے جو سعد کی کسی بات کا سیدھے سے جواب دے دے

ارے میاں بڑے ہم ہیں یا تم ہو ہمیں اچھے سے پتہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں سمجھانے کی کوشش مت کرو

یہ کہہ کروہ ہمیشہ سعد کو ٹال دیتی

دونوں نے اماں بی کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا

📷

آخرکار ایک ہفتے کے بعد دادو کا فون آ ہی گیا

یہ ایک ہفتہ نہ صرف اماں بی بلکہ ذہن نے بھی بہت بے چینی سے گزارا تھا

حال چال کے بعد دادو نے گڑیا کی رضامندی کے بارے میں بتایا

اماں بھی خوشی سے اٹھی وہ جلد از جلد گڑیا کو اپنی بہو کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی دونوں طرف

سے منگنی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوگی

اماں بی کے تو مانو پاؤں ہی زمین پر نہ ٹك رہے تھے وہ کبھی سعد کا بازار لیے جا رہی تھی کبھی ذہن کو اور کبھی رانو اور گڑیا کو

وہ ہر چیز خوبصورت سے خوبصورت لے رہی تھی سچ میں اماں بی نے زین کو بیٹا کہا ہی نہیں بلکہ دل سے مانا بھی تھا

کہیں بار زین اور سعد نے انہیں روکنے کی اپنی سی کوشش کی کے کہیں ان کی طبیعت ہی خراب نہ ہو جائے مگر اماں بھی اپنے نام کی ایک تھی وہ ان دونوں کی تمام باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی

وہ دونوں بیچارگی سے اماں بی کو دیکھتے رہ جاتے

📷

آج یشال کا birthday تھا بابا کا فون صبح ہی صبح آ گیا تھا

سکینہ(نوکرانی) نے بی یشال کو ایک خوبصورت سندھی کڑھائی والی شال گفٹ کی تھی

سکینہ گفٹ دیتے وقت کافی ہچکچاہٹ کا شکار تھی

مگر یشال نے گفٹ کی اتنی تعریف کی کہ وہ کھل اٹھی

سچی بی بی جی آپ کو یہ شال اتنی پسند آئی

ہاں سکینہ مجھے یہ بہت اچھا لگا

آپ کا بہت بہت شکریہ

آمنہ سکینہ کی بیٹی نے بھی یشال کو ہینڈ میڈ برتھ ڈے کارڈ دیا جو بے حد خوبصورت تھا

یشال نے دونوں چیزیں کو قیمتی تحفوں کی طرح سنبھال کر رکھ لیں

بی بی جی بی کتنی اچھی اور معصوم ہیں بلا ہم غریبوں کے تحفے بھی کوئی یوں سنبھال کر رکھتا ہے

سکینہ اپنی آنکھوں میں آئے آنسو چادر سے صاف کرتی ہوئی کچن میں چلی گئی

یشال لا شعوری طور پر شاہ کے وش کرنے کے انتظار میں تھی مگر شام کے پانچ بج گئے اور شاہ کا فون تک نہ آیا

صبح وہ اس کے جاگنے سےپہلے ہی آفس جا چکا تھا

اب یشال مکمل طور پر مایوس ہو چکی تھی

آپ کو تو میرا برتھ ڈے بھی یاد نہیں کیا اس کے لبوں نے شکوه كیا

تبھی بیڈ پر پڑا اس کا فون بج اٹھا نمبر دیکھ کر بے اختیار اس کا دل دھڑک اٹھا اخر اس کے شاہ کو یاد آ ہی گیا تھا

ہیلو یشال

پلیز تم جلدی سے تیار ہو جو میرے ایک دوست نے آج ہمیں ڈنر پر بلایا ہے

یشال بے حد خوش تھی کے شاه كو

اس کا برتھ ڈے یاد آگیالیکن دل مسوس كر ره گی

شاه كو میرا برتھ ڈے تک یاد نہیں بہت سے آنسو اس کی پلکوں کی قید سے آزاد ہو کر گرنے لگے

📷

یشال اداس سی شام کو پہنے جانے والا ڈریس دیکھ رہی تھی کی سکینہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی بی بی جی یہ شاہ صاحب نے ڈرائیور چاچا کے ہاتھ بھیجا ہے

کیا ہے یہ سکینہ

پتہ نہیں جی آپ خود ھی دیکھ لیں

یشال نے وہ پارسل سکینہ کے ہاتھ سے لیا اور اس کے اوپر ایک خوبصورت سا کارڈ بھی تھا یشال نے وہ کارڈ کھول کر دیکھا تو اس میں شاہ کی خوبصورت رائٹنگ میں درج الفاظ دیکھ کر کو دھیرے سے سر جھکاگی

اگر آج اس لباس کو پہن کر آپ اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کریں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی شاہ

یشال نے وہ پارسل کھول کے دیکھا تو شاہ كی پسند کی داد دیے بنا نہ رہ سکیں

ریڈ کلر کی بے حد خوبصورت ڈریس

جس پر خوبصورت ڈائمنڈ ورك کیا گیا تھا كسی كی پہلی پسند ہو سکتی تھی یشال کو بھی وہ لباس بے حد پسند آیا تھا

شاه جب کمرے میں داخل ہوا تو وہ اسی کی لائی ہوئی ڈریس میں ہلکا ہلکا میک اپ كیے نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی

شاه نے بنا اس کی طرف دیکھے وڑدرواب سے ایک بلیک سوٹ نکالا اور باتھ روم میں گھس گیا

یشال کو لگا تھا کہ شاہ گھر آکر اسے وش کرے گا مگر اس کے سارے خواب ٹوٹ گئے

📷

یشال کے گاڑی میں بیٹھتے ہیں شاہ نے گاڑی آگے بڑھا دی

یشال بار بار کچھ کہنے کی چاہت میں شاہ کی طرف دیکھتی جو آگے دیکھ كر ڈرائیو کرنے میں مصروف تھا

اور پھر لب بیچ کر رہ جاتی

یشال تمہیں کچھ کہنا ہے شاہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا نہیں نہیں تو

یشال گھبرا کر چپ ہو گئی

بولونا جانم کیا بات ہے

شاه کیا آپ کو آج کے دن کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں ہے

جانم اس کے بارے میں ہم گھر جا کر بات کرتے ہیں

شاه نے ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا

اور خود گاڑی سے باہر نکل گیا

شاہ نے اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی سے باہر آنے کا اشارہ کیا

وه خاموشی سے گاڑی سے اتر گئی

📷

آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب اسے ذہن کے نام کی انگوٹھی پہنائی جانے والی تھی

سکن کلر کے شرارے میں وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی رانو صبح سے کہیں بار اس کی تعریف کر چکی تھی اور وہ شرمائی شرمائی سی مسکرادیتی

دادو کہیں بار اس کی نظر اتار چکی تھی انہیں یہ ڈر کھائے جا رہا تھا کہیں ان کی لاڈلی کو کسی کی نظر نہ لگ جائے

رسم سادگی سے ادا کی جانی تھی بس کچھ دوست تھے جنہوں نے ان کی خوشی میں شرکت کی تھی

اسٹیج کو پھولوں کی مدد سے خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا

گڑیا جب ہال میں داخل ہوئی تو ہر نگاہ نے اس بے مثال خوبصورتی کو سراہا تھا

اماں بی اور دادو نے اس کی کہیں بلائیں لے ڈالی تھی

بے شک وہ بے تحاشا خوبصورت لگ رہی تھی

ایک پل کے لئے تو ذہن بھی مخو ہوکر اس کو دیکھتا رہ گیا

زین ہوش کی دنیا میں تب واپس آیا جب سعد میں اس کے پیٹ میں کنی ماری

جگر ہوش میں آج کیا کر رہا ہے تو خیال کر کے کہاں کھڑا ہے اس وقت تو

اماں ابی اور دادی یہی پر موجود ہے کچھ تو لحاظ کر

زین شرمندہ سا سر پر ہاتھ مار کر رہ گیا

دوسری طرف گڑیا نے زین کو اس طرح خود کو دیکھتے پاکر رانو کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا

میں نے کہا تھا نا

زین بھائی تمہیں دیکھ کر تم پر سے نگاہیں ہٹانا ہی بھول گئے ہیں

رانو نے گڑیا کے کانوں میں سرگوشی کی

تبھی سعد کی نظر گڑیا کے ساتھ آتی ایک لڑکی پر پڑی

وہ بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھی

مگر اس میں کچھ تو ایسا تھا کہ سعد ایک پل کے لیے

ساری دنیا کو بھول گیا

وہ گڑیا کے کانوں میں کچھ بولتی خود ہی مسکرا دی

گڑیا کو ذہن کے پہلو میں بٹھایا گیا

گڑیا كا دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے باہر آجائے گا

زین نے دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے نام کی انگوٹھی اس کی انگلی میں ڈال کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا

تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو اتنی کہ دل کرتا ہے کہ کاش منگنی کی جگہ آج نکاح کرلو

اور تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤ

اپنا بنا کر زین بھرے سے گڑیا کے کانوں میں سرگوشی کی

📷

وہ دونوں ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اندر کا ماحول دیکھ کر یشال حیران رہ گئی

گلاب کے سرخ پھولوں سے حال کو بے حد خوبصورتی سے سجایا گیا زمین پر ہر جگہ سرخ غبارے بکھرے تھے

۔

اور حال کے بیچوں بیچ ایک گول ٹیبل پر ایک خوبصورت سا کیک رکھا گیا تھا جس پر ایک کینڈل جل رہی تھی ۔

رک کیوں گئی جانم آونا ۔

۔شاہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ٹیبل کے طرف لے جانے لگا

جبکہ یشال سے کے جانم کہنے اور ہاتھ پکڑنے پر خود میں ہی سمٹ کر رہ گئی یشال کے گالوں پر سرخی دوڑ گئی

شاہ نے یشال کو کرسی پر بٹھایا اور پھر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا یشال اس وقت ریڈ کلر کے انارکلی فراک نے خود بھی ایک گلاب کا پھول رہے لگ رہی تھی اسے اپنی طرف دیکھتا دیکھ کر یشال مزید کنفیوز ہو گئیں ۔

اور اس کا چہرہ بےحد سرخ ہو گیا وہ ہر تھوڑی دیر بعد پلکیں اٹھا کر شاہ کو دیکھتی اور پھر اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر نظریں جھکا لیتی

۔شاہ آپ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔۔؟

یشال نے دھیرے سے کہا

کچھ نہیں جانو تم بے حد حسین لگ رہی ہو

اتنا کہ میری نظر تم پر سے ہٹ ہی نہیں رہی

یشال کی بات پر شاہ نے مسکرا کر کہا

آوکیک کاٹو شاہ چھڑی اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا

یشال کیک دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دی

جس پر بہت خوبصورتی سے ہیپی برتھ ڈے کے الفاظ لکھے گئے تھے

یشال نے کاٹا اور ایک پیس اس کی طرف برایا جو دلچسپی سے اسی کو دیکھ رہا تھا

شاہ نے یشال کا کیک والا ہاتھ پکڑا اور کیک کا وہ پیس اپنے منہ میں ڈال کر یشال کی انگلی کو اپنے لبوں سے چھوا

یشال پوری جان سے کانپ کر رہ گئی

شاہ

جی جانم بولو

شاہ پلیز چھوڑیں

شاہ یشال کے قریب آیا اور اس کے کانوں میں بولا

ہیپی برتھ ڈے جان شاہ

اور اس کے کانوں کی لوح کو اپنے لبوں سے چھوا

شاہ پلیز یشال اس کی بھرتی گستاخیوں پر مزید سرخ ہوگئی

شاہ نے یشال کی گردن سے بال ہٹائے اور اس کی گردن پر اپنے لب رکھے

بولو نہ جان شاہ ۔شاہ نے اسے بولنے پر اکسایا

جبکہ یشال نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں بس یشال کے لیے پیار ہی پیار تھا اور دھیرے سے اپنی پلکیں جھکا گئی

اس کی اداپر بے ساختہ مسکرا دیا اور یشال کو خود سے مزید قریب تر کر لیا

جان شاہ آج میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں اجازت ہے شاہ نےاس کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت طلب لہجے میں کہا

ایشال نے بے ساختہ اپنی گردن ہاں میں ہلائی

📷

اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو

مَیں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو

نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے

اِس قدر ٹوٹ کے چاہو، مجھے پاگل کردو

تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو

اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کر دو

شاہ بے شک بہت خوبصورت آواز کا مالک تھا ۔۔۔۔

اس کے سائے میں مرے خواب دھک اُٹھیں گے

میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو

دُھوپ ہی دُھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر

اِس قدر برسو میری رُوح میں جَل تھَل کر دو

جیسے صحرائوں میں ہر شام ہوا چلتی ہے

اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے تھَل کر دو

شاہ یشال کے بے حد قریب تھا اتنا کہ اس کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی ۔

تم چھپا لو مرا دِل اوٹ میں اپنے دِل کی

اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو

مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چُرائو مُجھ سے

اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حَل کر دو

یشال شاہ کی خوبصورت آواز کے سحر میں کہیں گھوسی گئی ۔

اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے

ایک احسان کرو اس کو مُسلسل کر دو

مجھ پہ چھا جائو کسی آگ کی صورت جاناں

.....اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو

شاہ نے یشال کو اپنے مزید قریب کیا اس کی خوبصورت آنکھوں پر اپنے لب رکھ دئے ۔

یشال شاہ کے سینے سے لگی ابھی تک اس کی آواز کے سحر میں گرفتار تھی

شاہ نے دھیرے سے اسے خود سے الگ کیا اور اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھ دئے

یشال آنکھوں میں نمی لیے بس اسے دیکھ رہی تھی اتنا پیار اتنی محبت یشال ابھی تک شاہ کے لفظوں کے سحر میں ڈوبی اس کے سینے سے لگی تھی

جانم تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے کل ہم کاغان ناران ایریا جارہے ہیں ہنی مون کے لیے شاہ نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا

اسکی بات کا مطلب سمجھ کر یشال کے کانوں کی لو تک سرخ ہوگئی شاہ کی نظریں یشال کے چہرے سے ہٹنا بھول گئی

یہ برتھ ڈے یشال کی زندگی کا حسین ترین برتھ ڈے تھا مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی

شاه نے واپسی پر یشال کو اس کی من پسند آئسکریم بھی لے کر دی تھی

جس پر اس کا بچوں جیسا خوش ہونا شاہ کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا

شاہ مجھے آپ والی بھی ٹیسٹ کرنی ہے یشال نے اپنی آئسکریم ختم کرنے کے بعد شاه کے ہاتھ میں موجود کون کو للچاتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا

اس کی بات شاہ کا قہقہ بے ساختہ تھا

نہیں تم اپنی ختم کر چکی ہوں یہ میری ہے شاہ نے تنگ کرنے والے انداز میں کہا

شاه میں کون سا ساری کھا جاؤں گی بس ٹیسٹ کرکے واپس کر دوں گی نا

یشال نے معصومیت سے جواب دیا

شاہ نے انکار میں گردن ہلاتے ہوئے آئسکریم کا ایک بائٹ لیا

یشال نے جب دیکھا کہ شاہ کسی بھی طرح آئسکریم دینے پر آمادہ نہیں تو بے اختیار اس کی آنکھوں میں چمک آئی

شاه ...شاه

اس نے بے اختیار شاہ کا کاندھا ہلاتے ہوئے اسے اپنی جانب متوجہ کیا

بولو جانم کیا ہوا

شاه وہ دیکھیں گھوڑا ہوا میں اڑ رہا ہے

شاه نے بے یقینی سے یشال کو دیکھا کہ کہیں اس کی پیاری بیوی کا دماغ تو نہیں چل گیا

مگر یشال پوری توجہ سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی

شانے بھی بے اختیار اپنی گردن موڑ کر بار دیکھا

بس ایک لمحہ لگا تھا یشال کو شاہ کے ہاتھ میں موجود کون کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئے

کہاں ہے گھوڑا شاہ نے یشال کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا جو مزے سے اسی کی آئس کریم کھانے میں مصروف تھی

کونسا گھوڑا کہاں کا گھوڑا کہاں ہے گھوڑا

یشال نے معصومیت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوال کیا

شاه بے یقینی سے کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا تو کبھی اپنے سامنے موجود اپنی بیوی کو جو اسی کی آئس کریم کھانے میں مگن تھی

تم نے مجھے بیوقوف بنایا مجھ سے جھوٹ بولا شاه نے مصنوعی غصہ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا

میں نے کیا جھوٹ بولا میں نے تو بس چھوٹو سا مذاق کیا آپ تو سیریس ہی ہو گے میری کیا غلطی

یشال مصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جواب دیا

لیکن میں نے تو آئسکریم کھائی ہی نہیں شاه نے افسرداگی چہرے پر سجاتے ہوئے جواب دیا

آپ اپنے لئے اور لے آئیں اس بار میں نہیں لوں گی آپ سے یشال نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا

نہیں اب تمہیں اس بات کی سزا ملے گی

سزا کیسی سزا

یشال کے سامنے کیچن والا سارا منظر گھوم گیا وہ بے اختیار ونڈو کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی

ابھی بتاتا ہوں جانم

شاه نے یشال كے ہونٹوں پرجھکتے ہوئے کہا

آپ کیا کر رہے ہیں یشال نے شاه كو خود جھکتے دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کوئی آجائے گا پلیز

شاه بھی جگہ اور وقت كو دیکھتے ہوئے با مشکل اپنے بے قابو ہوتے جذبات پر قابو پایا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ابھی تو میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں مگر تم اس کی سزا ضرور ملے گی شاه نے خمار آلودہ لہجے میں جواب دیا اور گاڑی آگے بڑھا دی

📷

سعد نے دین کا ریکارڈ لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی بار بار وہ اس کو گڑیا کو دیکھ کر کھو جانے پر اس کی ٹانگ کھینچ رہا تھا

کوئی تو کہہ رہا تھا کہ مجھے اس سے محبت نہیں ہاں یہ محبت نہیں عشق ہے عشق زین کو عشق کی بیماری لگ گئی ہے

اب تو اپنی ہونے والی دلہن کے لیے شاپنگ بھی اپنی مرضی اور پسند سے کی جا رہی ہے واه کیا بات ہیے

سعد اسے مسلسل تنگ كر رہا تھا

سعد كی ہر بات کا جواب میں ذہن مسکرا دیتا

واہ آج تو میرے یار کے چہرے سے مسکراہٹ ہی جدا نہیں ہورہی ہاے ماں صدقے ہاے ماں واری سعد نے اماں بی نقل کرتے ہوئے اس کی بلائیں لے ڈالی کافی دیر زین اس کی بے تکی باتیں برداشت کرتا رہا مگر جب برداشت جواب دے گی تو آخر بول ہی اٹھا

سعد یار کل ایک بہت عجیب بات ہوئی زین نے لہجے کو سنجیدہ بناتے ہوئے کہا زین کو سنجیدہ دیکھ کر سعد سیدھا ہو کر بیٹھ گیا کیا ہوا جگر سعدی نے پریشانی سے پوچھا

یار کل پوری تقریب میں کوئی میری سالی کو اپنی نظروں کے قید میں لیے ہوئے تھا

ایک پل بھی ایسا نہیں گزرا تھا جب اس نے رانو پر سے اپنی نظریں ہٹائی ہوں

میں ایسا کچھ نہیں کر رہا تھا سمجھا تو سعدی بے اختیار بولا

پر میں نے تیرا نام لیا ہی نہیں دین نے معصومیت کے سارے رکارڈ توڑتے ہوئے معصومیت سے جواب دیتے ہوئے کہا

پھر دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس دیے

بتانا جگر کیا کیا معاملہ ہے زین نے سعد كے شانے پر بازو پھیلاتے ہوئے پوچھا ارے کچھ نہیں سعد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جواب دیا

ارے واہ ہمارا یار شرما رہا ہے آج کا دن تو ہسٹری میں سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے کہ سعدعلی شرما رہا ہے زین نےسعد کو مزید تنگ کرتے ہوئے کہا

بتانا یار کیا معاملہ ہے

یار پتہ نہیں میں اتنی لڑکیوں سے ملا ہوں جو بات اس میں ہے کسی میں نہیں جو معصومیت اس کے چہرے پر ہے وہ بس

میں ساری رات سو تک نہیں پایا سعد نے بیچارگی سے جواب دیا

زین سعد کے اس طرح کہنے پر بے اختیار ہنسا اور ہنستا چلا گیا

اماں بی کو کہنا پڑے گا کہ ان کا دوسرا بیٹا بھی دلہا بننے کی خواہش میں ہے

زین میں سعد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کی بات پر سعد بے اختیار مسکرا دیا

نہیں یار ابھی نہیں ابھی تو مجھے تیری شادی کی تیاری کرنی ہے پھر اماں دادو زمان انکل اور میں عمرہ کرنے جائیں گے واپس آکر شادی کا سوچوں گا سعد نے اس بار اسے تفصیل سے جواب دیا جس پر زین بھی مسکرا دیا

📷

گاڑی جب پورچ میں آکر رکی شاه نے یشال کی طرف دیکھا جو کسی ماہر اداکارہ کی طرح سونے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے میں مصروف تھی

شاہ گاڑی سے اترا تو یشال نے سکون کا سانس لیا اور دل ہی دل میں بر بڑائی بلا تلی

واه سیرت تمہارا آئیڈیا کام کر گیا

ابھی ٹھیک سے خوش بھی نہ ہو پائی تھی کہ اس کا سائیڈ کا دروازہ کھلا اور شاه نے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا یشال ارے ارے ہی کرتی رہ گئی شاه اسے لیے اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا ساتھ ہی اس کے کانوں میں سرگوشی كی جان نہ توتم سیرت ہو اور نہ ہی میں سا لار

اس لئے اچھا ہے سیرت کا ایک لفظ عشق چھوڑ کر میرے عشق پر توجہ دو

مگر آپ تو مجھ سے عشق کرتے ہی نہیں ہے ایک بار پھر یشال کی زبان غلط جگہ پر پھسلی تھی جیسے ہی یشال کو احساس ہوا کہ اس نے کیا کہا ہے اس نے اپنی زبان دانتوں میں دبا لی مگر اب کیا ہو سکتا تھا بات اس کی زبان سے نکل چکی تھی

جان شاه عشق کا بھی بتا دیں گے شاہ نے اسے مزید خود سے قریب کرتے ہوئے کہا

شاہ آپ نے یہ ایک لفظ عشق کہاں سے پڑھا کب پڑھا بتائیں نہ مجھے

یشال اد كو ادھر ادھر کی باتوں میں لگانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی مگر شاہ مسکراتا ہوا اسے اٹھائے آگے بڑھتا رہا

📷

کمرے میں داخل ہوتے ہیں گلابوں کی خوشبو نے ان کا استقبال کیا

پورے کمرے کو پہلی رات کی دلہن کے کمرے کی طرح سجایا گیا تھا

یشال نے حیرانگی سے پورے کمرے پر ایک نظر ڈالی اور شا ه کی طرف دیکھا جو توجہ سے اسی کو دیکھنے میں مصروف تھا

شاه یه

یشال کے سارے الفاظ کیں گم ہوگئے شاه

اس کے قریب آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا

جانتا ہوں جان جو کچھ بھی ہمارے بیچ میں ہوا وہ بہت غلط تھا میں کسی بات كی صفائی نہیں دوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی میں نے کیا غلط تھا

میں معافی کا بھی حقدار نہیں ہوں

میں پھر بھی تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں یشال نے بے اختیار شاہ کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا

جان آج مجھے مت روکو کہنے دو مجھے

لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد تمہاری زندگی میں صرف خوشیاں ہوگی صرف خوشیاں

کسی غم کو میں تمہارے نزدیک تک نہیں آنے دوں گا

جب تک اس جسم میں سانس باقی ہے کوئی دکھ کوئی غم میری یشال کو چھو تک نہیں پائے گا

بہت سے آنسو یشال پلکوں کی قید سے آزاد ہو کر اس کے گال بھگونے لگے

شاه نے یشال کو خود سے مزید قریب کر لیا اور اس کے رخساروں پر بہتے آنسو کو اپنے لبوں سے چننے لگا

یشال كی سانس اس کے سینے میں ہی کہیں قید ہو کر رہ گئی

شاه

یشال نے اپنے ایھتل پھتل ہوتی سانسوں کے درمیان اس کو پکارا

بولو جانم شاہ نے اس کے دوسرے رخسار لبوں سے سے چھوتے ہوئے جواب دیا

شاه مجھے بہت نیند آ رہی ہے یشال نے شاه باہو ں کا گھیرا توڑا اور تیر کی طرح سیدھی بیڈ پر جا کر لیٹ گئی اور سر تک چادر تان لی

شاہ اپنی بیوی کی اس ادا پر مسکرایا اور بیڈ پر اس کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا

یشال تمہیں پتا ہے سالار نے جو

خواب دیکھا تھا

شاه جانتا تھا كے یشال اك لفظ عشق کی کتنی بڑی دیوانی ہے اس خواب كا كیا ہوا تھا

شاه نے یشال كی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا

یشال نے چادر سے تھوڑا سا منھ باہر نکال کر دیکھا

شاه دونوں ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھے سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کرنے میں مصروف تھا وه

تھوڑی دیر تو اس کو دیکھتی رہی مگر جب اس سے برداشت نہ ہوا تو چادر پھینک کر اٹھ کر بیٹھ گئی

شاہ آپ کو پتا ہے سالار نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک لڑکی خوبصورت آواز کی مالک ہے اور صرف اسی کے لئے گانا گا رہی ہے مگر وہ اس لڑکی کا چہرہ دیکھ نہیں پایا تھا

پھر یشال اور بھی نہ جانے کیا کیا کہنے والی تھی کہ شاہ نے اس کے ہونٹوں پر اپنے لب رکھ دیے

اس کی چلتی زبان کو بریک لگا دیا

اسے اپنے عشق كی بارش میں بھیگو نے لگا یشال نے خود كو شاه کے حوالے کردیا اور اس کے عشق کی شدت کو محسوس کرنے لگی

📷

آخر وہ دن آ ہی گیا

جب اسے زین کے نام کی مہندی لگائی جانے والی تھی فنکشن کمبائن رکھا گیا تھا ہر طرف گہما گہمی تھی خوشیاں مسکراٹیں آج زمان والا میں ایک الگ ہی سماں تھا کیوں نہ ہوتا آج انکی اکلوتی بیٹی کی مہندی تھی

دادو اور زمان صاحب چاہتے تھے کہ گڑیا پہلے اپنی پڑھائی پوری کرلے عمر بھی ابھی بہت کم تھی مگر اماں بھی کے بے حد اصرار پر اور اس بات کے یقین دلانے پر کہ شادی کے بعد بھی گڑیا اپنی تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکتی ہے

زمان صاحب اور دادو چپ ہوگئے

فنکشن چونکہ کمپائن تھا تو سبھی وہاں پر موجود تھے زین بلیک قمیض شلوار میں کسی ریاست کے شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا

جبکہ گڑیا کا معصوم حسن بھی اپنی مثال آپ رکھتا تھا پیلے رنگ کی خوبصورت انارکلی فراک میں بالوں کی ڈلی سی چھٹیاں کیے کانوں میں پھولوں سے بنے زیورات پہنے جو اس کے گالوں کو بار بار چوم ریے تھے کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی

دونوں کی جوڑی کو چاند سورج کی جوڑی کہا جاتا تو غلط نہ تھا نانو اور اماں بی دونوں کی بلائیں لیتے نہ تھک رہی تھی

سعد کی بھی آج چھاپ کی الگ تھی وائٹ سوٹ میں گلے میں پیلے رنگ کا دوپٹہ ڈالے وہ یہاں سے وہاں بنگھڑلے ڈالتا نظر آرہا تھا ۔

وہ اپنے دوست کی زندگی میں آنے والے اس خوبصورت موڑ پر بہت خوش تھا اور دوسری طرف رانوبھی گڑیا کی بیسٹ فرینڈ اور بہن ہونے کا پورا پورا ثبوت دیتی ہوئی سب سے آگے تھی کبھی وہ مہمانوں کے آگے پیچھے گھوم رہی تھی تو کبھی مہندیوں کی تھالی تیار کر رہی تھی

اس سب میں اسنے کہیں بار خود کو کسی کی نظروں کے حصار میں پایا لیکن جب بھی وہ اپنے اردگرد دیکھتی تو اسے کوئی نظر نہ آتا

اس لیے وہ اپنی غلط فہمی سمجھ کر پھر کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو

----------------------------------

اگلی صبح جب شاہ کی آنکھ کھلی

تو کمرے میں اکیلا تھا اس نے واشروم چکن سب جگہ چیک کرلیا لیکن یشال کہیں ہی بھی نہ تھی

پھر کچھ سوچتے ہوئے لان کی طرف آیا جہاں وہ دنیا جہاں سے بے خبر ایک سرخ گلاب کے پودے پر جھکی پھول کی خوشبو کو اپنے اندر اتار رہی تھی

اور کچھ سوچ کر مسکرا بھی رہی تھی کبھی شرما کر اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ دیتی ۔

وہ اتنے سارے گلابوں کے درمیان خود بھی ایک کھلتا ہوا گلاب لگ رہی تھی شاہ کی آمد سے بے خبر ہو اپنی ہی سوچوں میں گم مسکرا رہی تھی پھر کچھ سوچ کر شرما دی

اس کے لمبے بال گھنے بال کمر پر بکھرے ہوئے اس کی پوری کمر چھپا گئے آوارہ بالوں کی لٹیں بار بار اس کے چہرے پر آ رہی تھی ۔

انہیں نے وہ بار بار اپنے کانوں کے پیچھے کرتی لیکن وہ پھر سے چہرے پر بکھر جاتی ۔وہ خوبصورت صبح کا کوئی حصہ معلوم ہورہی تھی

رات کے منظر کے بارے میں سوچ کر شاہ بےساختہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔ اس کی کمر پکڑ کا خود سے قریب کر لیا اور اسکے گال پر اپنے لب رکھ دیے

یشال اس اچانک حملے کے لیے بالکل تیار نہ تھی اس لیے بری طرح سے گھبرا گئی

اور گلاب کے خوبصورت پودے کے ساتھ لگے کہیں کانٹے اس کی ہتھیلی میں چھپ گئے ۔

یشال کے لبوں سے بے ساختہ سسکی نکلی جس پر شاہ اس کی طرف متوجہ ہوا

اس کے ہاتھ سے بہتا خون دیکھ کر شاہ پریشان سا ہو گیا

اور اسے لئے تیزی سے اندر کی جانب بڑھا

آئی ایم سوری جان ایم ریلی سوری میں ایسا نہیں چاہتا تھا ا اس کے ہاتھ پر مرہم لگاتے ہوئے بار بار اس سے معافی مانگ رہا تھا

جس پر یشال بے اختیار مسکرا دی

کوئی بات نہیں شاہ معمولی سی چوٹ ہے یہ تو خود ہی ٹھیک ہو جاتی لیکن اب آپ نے اس پر مرہم بھی لگا دیا ہے

آپ فریش ہو جائیں میں آپ کے لئے ناشتہ بناتی ہوں یشال نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے ہوئے کہا

نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں کچھ بھی کرنے کی آرام کرو دیکھ نہیں رہی تمہیں کتنی زیادہ چوٹ لگی ہےے

وہ اس کا ہاتھ دوبارہ تھامتے ہوئے بولا

اور اس کے ہاتھ پر اپنے لب رکھ دئے جس پر یشال کے گالوں پر سرخی سے دوڑگئی

تم بیٹھو میں فریش ہو کر آتا ہوں آج میں تمہیں اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر دوں گا اور تم جج کروگی کہ کیسا بنا ہے

مگر شاہ۔ ۔۔۔۔۔۔ یشال نے کچھ کہنے کے لیے ابھی آپ نے لب کھولے ہی تھے جب شاہ نے اس کے لبوں پر اپنی انگلی رکھ دی

بہتری اسی میں ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں اسے چپ کرکے مان جاؤ ورنہ تم جانتی ہو کہ مجھے چپ کرانے کے اور بھی طریقے آتے ہیں شاہ نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا ۔

شاہ کی بات کا مطلب سمجھ کر یشال پے اختیار اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا گئی

جس پر شاہ قہقہ لگاکر ہس دیا اور اٹھ کر واشروم میں چلا گیا

------------------------------------

وہ گلاب کی پتیوں سے سجا مہندی کا تھال ہاتھ میں لیے جلدی جلدی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ کسی سے بری طرح ٹکرا گئی

اس سے پہلے کہ وہ

سیڑھیوں سے نیچے گر جاتی کسی کے مضبوط بازو نے اسے تھام لیا

پھولوں کی پتیاں اور مہندی سیڑھیوں پر یہاں سے وہاں بکھر گئی

کچھ دیر کیلئے رانو سمجھ ہی نہ پای کہ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا ہے

جبكے سامنے والا مسلسل اسے اپنی باہوں میں لئے اسے گھورنے میں مصروف تھا

رانو نےجلدی سے خود کو اس کی بہو کے کے حصار سے نکالا

آنکھیں ہیں یا بٹن مانا کے خدا نے خوبصورت آنکھیں دی ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ ماتھے پر سجا کر گھومتے رہیں گے اللہ میاں نے یہ آنکھیں استعمال بھی کرنے کے لئے دی ہیں

نہ کہ نمائش کرنے کے لیے

وہ مسلسل سعد کو سنا رہی تھی

جبکہ سعد مسلسل اس کو بس دیکھے ہی جا رہا تھا

آج رانو نے سبز رنگ کا شرارہ پہن رکھا تھا جس کے ساتھ گولڈن رنگ کا دوپٹہ اس نے خوبصورتی کے ساتھ سیٹ کر رکھا تھا کانوں میں بڑے بڑے جھمکے جو بات کرنے پر بار بار اس کے گال چوم رہے تھے بے حد خوبصورت لگ رہی تھی

سعد کو اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی

عجیب واحیات انسان ہیں آپ شرم نام کی کوئی چیز نہیں ہے مسلسل گھورے جا رہے ہیں

کیا آج سے پہلے زندگی میں کبھی اپنے کوئی لڑکی نہیں دیکھی

حد ہے اگر زین بھائی کے دوست نہ ہوتے تو آپ کا دماغ ٹھکانے لگا دیتی

اب منہ کیا دیکھ رہے ہیں رستہ چھوڑیں میرا

جبکہ سعد ابھی تک اسے دیکھنے میں مصروف تھا

میں نے کہا رستہ چھوڑیں میرا اس بار اس نے اونچی آواز میں کہا

جس پر سعد بے اختیار ہوش کی دنیا میں واپس آیا

اور ایک سائیڈ پر ہو گیا جبکہ رانوں مہندی ہاتھ اٹھائیں وہاں سے نکلتی چلی گئی سعد ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں وہیں کھڑا تھا یہ مجھے کیا ہوگیا تھا وہ لڑکی مجھے اتنا سنا کر چلی گئی اور میں اس کے سامنے کل بھی نہیں بول پایا

اگلی بار جب یہ لڑکی مجھے ملے گی تو سارا حساب برابر کروں گا

ابھی بھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اماں بی اسے پکارتی ہوئی اس کے قریب آئیں

میاں کہاں گم ہیں آپ اگر آپ کو یاد نہیں ہے تو میں آپ کو یاد دلادو کہ آج آپ کے دوست کی مہندی ہے جس کے لیے آپ یہاں تشریف لائے ہیں نہ کہ یہاں مٹرگشت کرنے کے لئے

اماں بی میں تو آپ کے لئے اندر آیا تھا آپ ہی ہر بار مجھے لیٹ کروا دیتی ہیں سعد جلدی جلدی بولتا انہیں اپنے ساتھ لے باہر کی جانب چلا اب ہم ہر جگہ لیٹ کروا دیتے ہیں یہ بھی سہی کہی آپ نے

آپ جو تیار ہونے میں چھ گھنٹے لگا کر لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں تب آپ کو دیر نہیں ہوتی

اماں بی اور بھی نہ جانے کیا کچھ کہتی جب رانو ان کی طرف آئیں

اماں بی چلے نا گڑیا کو مہندی لگانی ہے اور ان کا ہاتھ پکڑے انہیں وہاں سے لے کر چلی گئی

جبکہ سعد کو مکمل طور پرا گنور کیا گیا تھا

جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو

جبكے سعد رانو كے اس طرح خود کو اگنور کرنے پر مسکرا دیا فنکشن رات دیر تک چلا اب لوگ بری طرح تھک چکے تھے مگر زین اور گڑیا کی آنکھوں سے نیند بہت دور تھی وہ دونوں ہی بے حد خوش تھے زین کو تم مانو اس کی منزل مل چکی تھی.....

شاه اور یشال کاغان ناران کے لیے نکل چکے تھے یشال کافی زیادہ ایکسائٹڈ تھی باربار گاڑی سے باہر ادھر دیکھ رہی تھی کبھی کوئی اونچا پہاڑ دیکھ لیتی تو شاه کا بازو بری طرح ہلادیتی شاه وه دیکھیں کتنا اونچا پہاڑ ہے کہیں کوئی پھولوں پھلوں سے لدادرخت دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سماتی وہ بے حد خوش تھی اور شاہ اس کی خوشی دیکھ کر خوش تھا شاہ اور کتنا ٹائم باقی ہے یشال تین بار یہ بات پوچھ چکی تھی

جانو ابھی بہت ٹائم ہے شاه نے پیار سے جواب دیا

جب یشال ادھر ادھر دیکھ دیکھ کر تھک گئی تو سو گئی گی شاه کافی دیر اسے سوتا ہوا دیکھتا رہا

اس نے دو تین بار یشال کوآوازدی مگر یشال تو لگ رہا تھا کہ نہ جانے کتنے سالوں بعد سوئی ہے جواٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی

جب شاه بار بار جگا کر تھک گیا تو یشال کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور خود ڈرائیونگ کرنے میں مصروف ہوگیا

📷📷📷

سعد ابھی تک رانو کے سراپے میں کھویا ہوا تھا اس کے شانوں تك آتے بال بڑی بڑی آنکھیں جن میں جہاں کی معصومیت سمائی ہوئی تھی اس کا لگاتار بولنا سعد کو بری طرح سنانا ہر کام میں آگے رہنا بزرگوں کا احترام کرنا اماں بی کا خیال رکھنا ایسی ہی تو وہ بیوی چاہتا تھا اپنے لئے جس میں یہ تمام خوبیاں موجود ہوں

رانو سعد كے حواس پر بری طرح سوار تھی

سعدا سے اور اس کی باتوں کو سوچتا خود ہی مسکراتا جا رہا تھا

جانے کتنی دیر سے سوچتے اب نیند کی وادیوں میں گم ہوگیا

📷📷📷

اگلی صبح اماں بھی نے سعد کو سات بجے ہی اٹھانا شروع کر دیااٹھ جاؤ میاں آج شاید نہیں یقینا تمہارے اکلوتے دوست کی برات جانی ہے کچھ شرم کرو گے بچہ اکیلا ہی لگا ہوا ہے اور تم یہاں گدھے گھوڑے سب کچھ بیچ کر سو رہے ہو

اٹھتا ہوں اماں بھی بس پانچ منٹ اور سونے دیں یہ کہتے ہوئے چادر واپس اپنے منہ پر كر لی

میاں آپ سوتے رہیں ہم اکیلے ہیں زین کی برات لے جائیں گے کوئی ضرورت نہیں ہے ہم ماں بیٹے کو آپ کی

یہ کہتے ہوئے اماں بھی غصے میں باہر چلی گئی

کچھ دیر تو

سعد ویسے ہی پڑا رہا پھر جلدی سے اٹھ کر واش روم کی طرف بھاگا اماں كا کیا بھروسہ اس کے بنا ہی اس کے اکلوتے دوست کی برات لے کر چلی جاتی

سعد جلدی جلدی تیار ہو کر نیچے آیا

جہاں اماں بی زین کی سہرا بندی کی رسم زور و شور کے ساتھ کر رہی تھی

ذین ہائف وائٹ شیروانی میں کلین شیو بہت ہینڈسم لگ رہا تھا جبکہ اماں بی سفید شرارہ پہنے نفاست سے کیا ہوا دوپٹے کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی

واه شہزادےآج تو چھا ہی گیا سعد نے زین کے شانوں پر ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا

واه میاں ہوگی آپ کی صبح

ابھی بھی ٹائم ہے جا کے سو جائیں ابھی ٹائم ہی کیا ہوا ہے ہمیں آج تھوڑی بارات لے کے جانی ہے ہمیں تو قیامت کے دوسرے دن بارات لے کر جانی ہے تاکہ زندہ لوگ بھی خوش رہیں اور مردہ بھی

سعد کی آتے ہی اماں بی نے اسے آڑے ہاتھوں لیا

اماں بی اٹھ گیا ہوں اور دیکھیے بالکل ریڈی ہوں

سعد نے اماں بی کو گلے لگاتے ہوئے کہابلیک شلوار سوٹ میں ہلکی بڑی ہوئی شیو کے ساتھ سعد بے شک کمال لگ رہا تھا

📷📷📷

شاه اسے رکھنے کی پوری کوشش کر رہا تھا مگر نہ تو وہ شاہ کی بات سن رہی تھی اور نہ ہی رک رہی تھی بس مسلسل چلے جا رہی تھی

شاه ا سے روکتے ہوئے کہیں باہر گرا کہیں جگہ اسے چوٹیں آئیں شاہ کے جسم سے جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا مگر

یشال بس چلے جا رہی تھی نہ تو شاہ کی آواز کا اس پر کوئی اثر ہو رہا تھا

اور نہ ہی شاہ كا درد اسے روک پا رہا تھا

یشال کے پیچھے بھاگتے بھاگتے شاہ کا پاؤں ایک پتھر سے ٹکرایا اور شاه ‏‏منه کے بل گر گیا

یشال........

شاه کی پکار میں نا جانے کیسا درد تھا كے

یشال نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا جہاں شاہ خون میں لت پٹ پڑا اس کی طرف دیکھ رہا تھا

یشال بھاگتی ہوئی اس کی طرف آئی اور شاہ کا سر اپنی گود میں رکھ لیا

یشا......شال........یشال

یشال میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ شاہ تکلیف کے مارے اٹک اٹک کر بول رہا تھا

یشال کو لگا جیسے اس كا دل کسی نے مٹھی میں پکڑ کر بھیچ دیا ہو

شاہ آپ کو کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نہ آپ کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گی

آپ سے بہت پیار کرتی ہوں شاه اس کی بات سن کر اتنے درد میں بھی مسکرا دیا

شاه کی آنکھیں بند ہو رہی تھی مگر وہ زبردستی آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کر رہا تھا وه یشال کو جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا شاہد آخری بار........

یشال نے شاه كو روتے ہوئے کہی بار پکارا مگر شاہ نے اس کی کسی پکار کا جواب نہ دیا وہ انسان جو اس کی آنکھوں میں ایک آنسو برداشت نہیں کرسکتا تھا آج بالکل چپ تھا شاید یشال نے شاه كو ہمیشہ کے لئے کھو دیا تھا ..... اس

سوچ کے آتے ہیں یشال بری طرح رو دی

وہ بار بار شاہ کو پکار رہی تھی مگر شاہ بالکل خاموش تھا ....

یشال بری طرح ڈر کر نیند سے جاگی تھوڑی دیر کے لئے تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے وہ ابھی تک شاہ کے دور جانے کے خوف میں جکڑی ہوئی تھی اس کی آنکھوں سے مسلسل سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔

اچانک یشال ہوش کی دنیا میں آئی تو بری طرح سے شاہ کو پکارنے لگی باہر شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور شاہ کا آس پاس کہیں کوئی اتا پتہ نہ تھا وہ گاڑی میں بالکل اکیلی تھی اور گاڑی لاکڈ تھی وہ روتے ہوئے دروازے کو بجانے لگی مگر شاہ کہیں بھی نہ تھا ۔

وہ اکیلی ویران سڑک پر گاڑی میں بند تھی شاہ کے ساتھ نہ ہونے کا خوف ہو اکیلے ہونے کا خوف اتنی بے بسی یشال نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہ کی تھی اپنی بے بسی پر یہ یشال بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی

شاہ جب واپس آیا تو یشال بری طرح سے رونے میں مصروف تھی شاہ یشال کو اس طرح سے روتے دیکھا جلدی سے اس کے پاس آیا پہلے تو گاڑی انلاکڈ ہونے سے یشال بری طرح سے گھبرا گئی مگر جب اپنے سامنے شاہ کو دیکھا تو اس کے سینے سے جا لگی ۔۔۔۔

کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟ کیوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے آپ۔۔۔۔؟ یشال شاہ کے سینے سے لگی روتے ہوئے شاہ سے سوال کر رہی تھی

جانم گاڑی گرم ہو گئی تھی تم سو رہی تھی میں نے سوچا ۔

میں سو رہی تھی مر تو نہیں گئی تھی نہ یشال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے غصے سے جواب دیا

بکواس بند کرو اپنی یشال شاہ نے یشال کا بازو پکڑ کر اسے خود سے الگ کیا شاہ کا ہاتھ اٹھتے اٹھتے رہ گیا وہی جانتا تھا کہ یشال کی اس سے بے ہودا بات کو اس نے کیسے برداشت کیا تھا

میں بکواس کر رہی ہوں۔۔۔۔؟ آپ۔۔۔ آپ مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے اور میں بکواس کر رہی ہوں آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے چھوڑ کر جانے کی کیا میں آپ کو اتنی بری لگتی ہو وہ لگاتار روتے ہوئے شاہ کےسینے پر اپنے نازک ہاتھوں سے مکے مارنے لگی

بات سنو میری یشال شاہ نے یشال کے دونوں بازو تھام کر غصے سے پکارتے ہوئے کہا

ایک بات یاد رکھنا جانِ شاہ یشال کو شاہ سے الگ کوئی نہیں کر سکتا سوائے موت کے اگر یشال خود بھی چاہے گی تو شاہ یشال کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا

شاہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا

اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا یشال بی پرسکون سی ہو کر سینے میں منہ چھپا گئی

📷

زین کے چہرے سے مسکراہٹ جدا ہی نہیں ہورہی تھی آخرکاراس وہ اپنی پہلی محبت بنا کسی مشکل کے حاصل کرنے جارہا تھا

اس سے بر کر بلا کوئی خوش نصیبی ہوسکتی ہے

سعد بھی اپنے دوست کے ساتھ بے حد خوش تھا

آخرکار اس کے دوست کی زندگی میں بھی خوشیاں آنے والی تھی

وہ دل سے اپنے دوست کی خوشی کی سلامت رہنے کی دعائیں کرتا

ہنستا گاتا بھنگڑے ڈالتا اپنے دوست کی بارات میں آگے آگے تھا ۔

دوسری طرف زمان صاحب نے پورے گھر کو پھولوں اور برقی قمقموں سے سجا رکھا تھا

دلہن بنی گڑیا بے حد خوبصورت لگ رہی تھی

ریڈ بلیڈ لینگے میں برائیڈل میک اپ کیے خود کو سجائے زین کا انتظار کر رہی تھی ۔

زمان صاحب اور دادو کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھی ان کی نازوں پلی بیٹی آج اپنے گھر کی ہونے جا رہی تھی رانو بار بار گڑیا کو چھیڑ رہی تھی

جس سے گڑیا کے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ آ جاتی ہے

باہر بارات آنے کا شور اٹھا تو رانو بھاگتی ہوئی گڑیا کے پاس گڑیا زین بھائی کیا کمال لگ رہے ہیں ہاے اتنے ہینڈسم ہیں ذہن بھائی ماشاءاللہ

چاند سورج کی جوڑی ہے تم دونوں کی

اللہ ہر بری بلا سے محفوظ رکھیں رانو سچے دل سے دعا کرتی اپنی پیاری سہیلی کے لیے بے حد خوش تھی

📷

کافی دیر تک شاہ یشال کو سینے سے لگائے بیٹھا رہا

باہر مکمل طور پر اندھیرا چھا چکا تھا

یشال جان میں گاڑی کو دیکھ لوں

رات بہت ہو رہی ہے یہاں زیادہ دیر روکنا ٹھیک نہیں شاہ نے دھیرے سے یشال کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا

اور گاڑی سے باہر نکل گیا شاہ کے گاڑی سے نکلتے ہی یشال بھی گاڑی سے اتری اور شاہ سے کچھ فاصلے پر جا کر کھڑی ہو گئی ۔

جہاں وہ تو شاہ کو دیکھ سکتی تھی لیکن شاہ اسے نہیں دیکھ سکتا تھا

شاہ شرٹ کے بازو کنیوں تک مڑے گاڑی کے ساتھ مصروف تھا ۔

رات کی ویرانی میں چاند کی مدھم روشنی شاہ کےچہرے کے تمام نقوش واضح کر رہی تھی ماتھے پر بال ڈالے وہ مکمل طور پر گاڑی کے ساتھ مصروف تھا ۔

کافی دیر یشال شاہ کو دیکھتی رہی

کیا بات ہے جانِ شاہ آپ ایسی کیوں دیکھ رہی ہیں مجھے شاہ نے یشال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

یشال خود کو محاطب کیے جانے پر ایک دفعہ چونکی

آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں ہوں اور آپ کو دیکھ رہی ہوں یشال نے حیرانگی سے پوچھا

تم جتنا بھی مجھ سے چھپ جاؤ شاہ تمہیں تمہاری خوشبو سے پہچان لیتا ہے

شاہ کے سینے میں تم دل میں دھڑکن بن کر دھڑکتی ہو

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنی دھڑکن کی موجودگی کو محسوس نہ کر سکوں ۔

شاہ گاڑی کا بونٹ بند کرتے ہوئے اس کے قریب آیا

اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے فرینٹ سیٹ پر بٹھایا اور خود بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی

شاہ کے گاڑی میں بیٹھتے ہی یشال نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا وہ ابھی تک اسی خواب کے زہر اثر تھی

کیا بات ہے جان آج تو آپ کی ہر بات ہی الگ ہے آج اتنا پیار کیوں آرہا ہے اپنے معصوم شوہر پرشاہ نے یشال کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی جس پر وہ مسکرا دی

شاہ کا فی دیر سے ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کررہا تھا جو کہ بہت مشکل تھا اور مسلسل ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہنے سے شاہ بری طرح سے تھک چکا تھا مگر اس نے یشال کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ آج پہلی بار یشال خود سے اس کے قریب آئی تھی یشال کے لئے تو وہ اپنی جان بھی دے سکتا تھا تو یہ چھوٹی سی تکلیف کیا چیز تھی

📷

__

·

بارات کا استقبال زور شور سے کیا گیا

گلاب کے پھولوں کی پتیاں دلہے پر اور دلہے کے دوست و اخباب پر برسائی گئیں

دودھ پلائی کی رسم رانو نے کی جس پر سعد نے اس کی خوب ٹانگ کھینچی

رانو مسلسل سعد کو اگنور کر رہی تھی مگر سعد بھی اپنے نام کا ایک تھا رانوکو تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا

رانو مسلسل اسے نظراندازکرنے کی کوشش کر رہی تھی

جلد ہی گڑیا کو لاکر زین کے پہلو میں بٹھایا گیا

گڑیا دلہن بنی بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کا معصوم حسن زین کے دل کو دھڑکا رہا تھا اور وہ اپنی نگاہ گڑیا سے ہٹا نہیں پا رہا تھا

آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو زین نے گڑیا کے کان میں مدم سی سرگوشی کی جس پر کنفیوز سی گڑیا اور خود میں سمٹ کر رہ گئی

گڑیا کے اس طرح سے سمٹنے نے پرزین مسکرا دیا

ابھی تو تم مجھ سے دور ہو رہی ہو مگر کچھ

ہی دیر میں اپنے تمام جملہ حقوق میرے نام کرنے والی ہو

پھر مجھ سے راہ فرار کیسے پاؤ گی

آ نا تو تمہیں میری پناہوں میں ہی ہے زین نے جھک کر اس کے کانوں میں سرگوشی کی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا

راہ فرار پانا بھی کون چاہتا ہے۔۔۔ گڑیا یہ بات صرف اپنے دل میں سوچ سکتی تھی یہ کہنے کی ہمت وہ مر کر بھی نہیں کر پاتی یہ سوچ کر وہ جھکی ہوئی گردن مزید جھکا گئی

___________________

شاہ کافی دیر سے محسوس کر رہا تھا کہ یشال رو رہی ہے تو اسے اپنی مضبوط باہوں کے حصار میں قید کر لیا

کیا بات ہے جانِ شاہ تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔؟

دیکھو میں بس پندرہ منٹ کے لیے گیا تھا تم سو رہی تھی اس لیے میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا رونا بند کرو

شاہ نے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا

اور اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی مگر یشال کے رونے میں مزید تیزی آگئی

یشال کیا بات ہے کیوں اس طرح کیوں رو رہی ہو دیکھو میں ٹھیک ہوں تمہارے پاس ہوں تو پھر ایسے کیوں رو رہی ہو بتاؤ مجھے

سوجی ہوئی آنکھیں سرخ ناک بکھرے بال وہ کسی بھی طرح سے صبح والی یشال نہیں لگ رہی تھی

شاہ کو کچھ غیر معمولی پن کا احساس ہوا

ادھر دیکھو میری طرف اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو

شاہ۔ ۔ یشال نے کپکپاتی آواز میں شاہ کو پکارا

جو اسے ہی دیکھ رہا تھا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آپ مجھے پھر سے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے نہ یشال نے بچیوں سی معصومیت سے سوال کیا

جان میں تمہیں چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا مگر پہلے رونا بند کرو اور بتاؤ مجھے آخر ہوا کیا ہے

شاہ اگر میں خود بھی آپ سے دور ہونا چاہوں تب بھی مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے نا یشال ابھی تک اسی خواب کے زیر اثر بول رہی تھی

ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے نہ وعدہ کریں یشال نے شاہ کے سامنے نازک ہاتھ پھیلاتے ہوئےاس سے وعدہ مانگا ۔

ہاں جان ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے شاہ نے اس کے نازک ہاتھ کو تھاما اوراسے اپنے ہونٹوں سے لگایا

ویسے جانم ایک بات ہے تم مجھے ہر حال میں پیاری لگتی ہو لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم اس چڑیل جیسے خلیے میں بھی مجھے اتنی پیاری لگوگی

کیا میں چڑیل لگ رہی ہوں آپ کو وہ جلدی سے اس سے الگ ہوئی

ہاں دیکھو ذرا اپنا حال بکھرے بال یہ بکھرا ہوا کاجل پورے منہ پر پھیلا ہوا ہے بس دو لمبے لمبے دانت نہیں ہیں ورنہ پوری چڑیل لگتی

شاہ نے اسے چڑاتے ہوئے کہا

کیا کہا آپ نے میں چڑیل ہوں تو

آپ جن ہیں بلکہ نہیں دیو ہیں کبھی خود کو دیکھا ہے شیشے میں بس دوسینگوں کی ہی کمی ہے

وہ آ جاتے تو پورے جن لگتے

یشال نے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر پورا نقشہ پیش کیا جس پر شاہ قہقہ لگا کر ہنس دیا

شاہ کا مقصد کامیاب ہوچکا تھا اب یشال کافی نارمل تھی اور پھر سے باہر کے نظارے دیکھنے میں مصروف ہو چکی تھی اور ظاہر یہ کیا جا رہا تھا کہ وہ شاہ سے ناراض ہے

______________________

وہ لوگ رات 12 بجے کاٹچ میں پہنچے جہاں خان بابا ان کا انتظار کر رہے تھے ارے خان بابا میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ آپ آرام کیجئے گا چابیاں میرے پاس ہے آپ اتنی رات کو اتنی ٹھنڈ میں کیوں جاگ رہے ہیں شاه نے خان بابا کو گلے لگاتے ہوئے کہا

ارے بابا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا انتظار کرنا کتنا اچھا لگتا ہے آج آپ اتنے سال بعد یہاں آیا ہے ہم آپ کو بتا نہیں سکتا کہ ہم کتنا خوش ہے آپ کے ساتھ چھوٹی بی بی بھی آیا ہے ہمیں چھوٹی بی بی سے ملنے کا اتنا شوق تھا کہ کیا بتائیں

تو بابا آپ ہم سے ملنے کیوں نہیں آئے پھر یشال نے خان بابا کے سامنے اپنا سر جھکاتے ہوئے شكوه كیا

اتنی عزت پر حان بابا کی آنکھیں جیمیلا سی گی کوئی بات نہیں چھوٹی بی بی اب آپ آگیا ہے نہ ہم آپ کو پورا کوٹھ گھمائیں گے خان بابا نے یشال کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے جواب دیا

اب کیا ساری رات یہیں کھڑے ہو کر باتیں کرنی ہے یا ہمیں اندر بھی لے کر چلیں گے شاه نے خان بابا کی شانوں پر اپنے مضبوط بازو پھیلاتے ہوئے کہا اندر کی جانب بڑھ گیا

______________

شاہ جب کمرے میں داخل ہوا تو یشال پوری طرح كمبل میں چھپی ہوئی تھی یہ کیا بیوی ابھی اتنی بھی سردی نہیں ہے

شاه آپ کو کیا پتا کتنی سردی نے بلا جن کو بھی کبھی سردی لگی ہے لیکن میں معمولی نازك معصوم سی انسان مجھے تو بہت سردی لگ رہی ہے

یشال نےسرتك کمبل تانتے ہوئے ہوئے جواب دیا

شاہ ابھی تک آپ و ہی پر کھڑے ہیں آ جائے ورنہ آپ کی کلفی بن جائے گی اور مجھے انسانوں کی كلفی پسند نہیں ہے

یشال كمبل کے اندر سے ہی بول رہی تھی

شاہ اس کے پاس آیا اور اس پر سے كمبل کھینچ لیا ہم یہاں سونے نہیں آئے

ہاں شاہ میں جانتی ہوں جانتی ہوں کہ ہم یہاں پر گھومنے آئے ہیں لیکن وه تو صبح جائیں گے اور مجھے ابھی نیند آرہی ہے آپ بھی سو جائیں اور مجھے بھی سونے دیں

یشال نے شاہ سے كمبل لیااور واپس بیڈ پر لیٹ گئی

یشال شاہ نے بے بسی سے پکارا

شاه پلیز .......

شاه چپ چاپ اس کے برابر لیٹ گیا

تھوڑی دیر بعد یشال نے خود کو کسی کے بازو کے حصار میں محسوس كیا

جان ہم یہاں سونے نہیں بلکہ اپنا ہنی مون منانے آئے ہیں شاه نے یشال کے کانوں میں سرگوشی کی اس سے پہلے یشال کچھ اور کہتی شاه نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور خود کو سیراب کرنے لگا

__

رات کا ناجانے کون سا پہر تھا جب یشال کی آنکھ کھلی وه اس کے ساتھ بیڈ پر موجود نہیں تھا ایک لمحے کے لئے تو وہ خوف کا شکار ہوئی مگر دوسرے ہی لمحے اسے ٹیبل لیمپ کی ہلکی روشنی میں وہ بیٹھا نظر آیا جو سر جھکائے کچھ لکھنے میں مصروف تھا

وہ تجسس کا شکار ہوئی کیوں کہ یہاں آنے سے پہلے وہ اپنا تمام کام اپنے پارٹنر کو سونپ آیا تھا جو قابل اعتماد اور اس کا بہت قریبی دوست تھا

تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر یشال خاموشی سے بستر سے اٹھی اور دبے پاؤں قدم اٹھاتی اس کے قریب آ گئی

وہ عورت پھر سے میری زندگی تباہ کرنے کے لئے آگئی ہے بابا

شا ه تیزی سے لکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک سے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اس نے جلدی سے ڈائری بند کی اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا

کیا ہوا جان تم اچانک کیوں جاگ گئی

ایسے ہی پیاس لگی تھی تو آنکھ کھل گئی ہے یشال نے کھوجتی نظروں سے شاہ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا

آپ کیا لکھ رہے تھے یشال نے شاه کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا کچھ نہیں کچھ افس ورک تھا شاہ نے اسے باہوں کہ حصار میں لیتے ہوئے کہا

شاہ آپ مجھ سے کچھ چھپا تو نہیں رہے یشال نے اس کے سینے پر سر رکھے ہوئے سوال کیا

نہیں جان تم سے کچھ کیوں چھپاؤں گا رات کافی ہوچکی ہے آرام کرو شاہ اس کو ساتھ لیے بیڈ کی جانب آیا

مجھے نیند نہیں آرہی یشال نے بچوں کی معصومیت سے کہا

اچھا او باتیں کرتے ہیں شاه نے یشال کے بالوں میں منہ چھپاتے ہوئے کہا

یشال کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں بات تو چھوڑو اب تو وہ سانس بھی بہت مدھم لے رہی تھی

شاه

اس نے شاه كے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور رکھنے کی کوشش کی

بولو جان شاه

شاه نے اس کے بالوں میں منہ چھپائے جواب دیا

ہم باتیں کرنے والے تھے نہ یشال منہ بسورتے ہوئے کہا

جان تو کرو نہ باتیں میں سن رہا ہونا

ایسے میں کیسے بات کروں یشال نے بے چارگی سے کہا

شاہ اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرکے اس سے الگ ہو کر بیٹھ گیا

جانم ایک بات تو بتاو میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں

اور ہمیشہ اظہار بھی کرتا ہوں

یہ تو میں جانتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں مگر تم نے کبھی اظہار نہیں کیا آج تو اپنے منہ سے کہہ دو کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو

شاه نےخاموش بیٹھی یشال کو اپنی بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے سوال کیا

آپ سے یہ کس نے کہا کہ میں یشال شاہ آپ سے محبت کرتی ہوں یشال نے خوبصورت مسکان کے ساتھ سر جھکاتے ہوئے جواب دیا

اچھا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی شاہ نے اس کے گلابی گال کو چھوتے ہوئے پھر سے اپنا سوال دہرایا

نہیں یشال نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے جواب دیا جبکہ شاہ اسے خود سے بے حد قریب کرچکاتھا

نہیں شاہ نے اس کا چہرہ اوپر اٹھا کر پھر سے اپنا سوال دہرایا یشال نے بنا کوئی جواب دیئے چہرہ اس کے سینے میں چھپا لیا

جانم دیکھ لینا

ایک دن تو مجھ سے اظہار محبت ضرور کرو گی

شاه نے اس کے کان میں سرگوشی کی اور اسے خود میں سمو لیا

__

اگلی صبح جب یشال کی آنکھ کھلی تو شاہ کمرے میں موجود نہیں تھا رات کو تو شا ه کی قربت میں سب کچھ بھول گئی تھی مگر اب رات کا سارا منظر کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا شاہ کا اسے دیکھ کر ڈائری چھپانا پھر سے وہ عورت زندگی تباہ

یشال كو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے کون ہے وہ عورت جس کا ذکر شاہ نے اپنی ڈائری میں اپنے بابا کو مخاطب کرتے ہوئے کیا تھا

اس کے علاوہ کچھ پڑھ بھی نہیں پائی تھی کہ اسے سمجھ آتا

اپنے تجسس سے مجبور ہوکر یشال جلدی سے اٹھی اور شاہ كی ٹیبل پر جاکر وہ ڈائری تلاش کرنے لگی مگر یشال کو ڈائری کہیں بھی نہ ملی وہ پریشان سی واپس بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی

شاہ ہاتھوں میں ناشتہ لے کر کمرے میں داخل ہوا

ارے واه بیوی

تم تو بڑی جلدی اٹھ گئی مجھے لگا تھا کہ تم ابھی سو رہی ہوگی شاہ نے پیار سے اس کے بال سوارتے ہوئے کہا

ہاں بس آنکھ کھل گئی میں ابھی فریش ہو کر آتی ہوں وہ جلدی سے واش روم میں گھس گئی جبکہ شاہ اس کے بدلے ہوئے رویہ پر غور کر رہا تھا

كیا یشال لے کچھ پڑھ لیا ہے شاه نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے سوچا

لیکن میں نے تو ڈائری کل رات کو ہی چھپا دی

وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ یشال گیلے بالوں میں پنک کلر کی خوبصورت انارکلی فراک پہنے باہر نکلی اس کا معصوم حسن بنا کسی میک اپ كے هی غضب ڈھا رہا تھا شاہ کو خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی شاہ کے برابر بیڈ پر بیٹھ گئی

وہ بے خودی کے عالم میں اسے دیکھنے میں مصروف تھا

شاه کے اس طرح دیکھنے پر یشال کی پلکیں جھك گئی اور اس کے رخسار سرخ ہوگئے

شاه ...

یشال نے دھیرے سے اسے پکارا

مگر شاہ نے کوئی جواب نہ دیا

شاه...

یشال میں اس بار قدرے اونچی آواز میں شاہ کو پکارا

جس پر شاہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا

اهاں

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں یشال نے شاه کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا

بیوی کے تم دن با دن خوبصورت ہوتی جا رہی ہو

شاه نے اس کے بھیگے بالوں کی لٹیں کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے اس کے گال پر اپنے لب رکھ دئے

شاه پلیز

یشال نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا

ابھی وہ واپس اس پر جھکا تھا کہ یشال بول اٹھی

شاه مجھے بھوک لگی ہے

شاه اس کے گریز پر مسکرا دیا اور ناشتے کی ٹیبل اس کے سامنے کی

دیکھو جان آج میں نے اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے ناشتہ بنایا ہے

دونوں نے خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا اور گھومنے کے لیے نکل گئے

____

کاغان کے مختلف علاقوں میں گھومتے گھومتے دن کے دو بج چکے تھے اب یشال كو بھوک ستا رہی تھی شاہ بات سنیں نہ وه جو اس کی تصویریں كلک کرنے میں مصروف تھا یشال نے اسے پکارا کیا بات ہے جانم اچھا سا پوز دونہ شاہ نے موبائل کا کیمرہ اس کے چہرے پر زوم کرتے ہوئے جواب دیا شاہ چھوڑیں نہ یہ پکچر مجھے بھوک لگی ہے

شاه یشال سے کہیں بار پوچھ چکا تھا کہ لنچ کر لیتے ہیں مگر یشال انکار کر دیتی

وہ اس کی ایکسائٹمنٹ پر مسکرا دیتا

تھوڑا سا آگے چلو وہاں بہت اچھا ریسٹورنٹ ہے وہاں سے ہم لوگ لنچ بھی کرلیں گے اور تم تھوڑی دیر آرام بھی کر لینا

نہیں نہ مجھ سے اب نہیں چلا جاتا مجھے بہت بھوک لگی ہے یشال و ہی رکھے ایک پتھر پر بیٹھ چکی تھی

جانم تھوڑا سا اور آگے بس پانچ منٹ شاه اسے سمجھاتے ہوئے کہا میں

کچھ نہیں جانتی شاہ آپ مجھ سے اور نہیں چلا جاتا

یشال نے بیچارگی سے شاه کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

اب تو میرے پاؤں بھی دکھ رہے ہیں

شاہ اس کی آنکھوں میں موجود شرارت محسوس نہیں کر پایا وہ تو اس کے پاؤں کا درد سن کر ہی پریشان ہو چکا تھا

کیا بہت درد ہو رہا ہے شاه اس کے پاس زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا

ہاں بہت

یشال نے تکلیف کے تاثرات چہرے پر لاتے ہوئے جواب دیا

شاه ابھی اس کے پاؤں کو ہاتھ لگانے ہی والا تھا کہ

یشال نے ہاتھ میں موجود برف کے گولے کو شاہ کے سر پر دے مارا

ایک پل کے لئے تو شاہ کی آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے

جبکہ یشال وہاں سے ہستی ہوئی بھاگ کھڑی ہوئی تھی

اب سین کچھ ایسا تھا کہ آگے آگے ہنستی ہوئی یشال بھاگ رہی تھی اور شاه ا سے پکڑنے کی کوشش میں اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا

یشال دھیان سے گر مت جانا شاه اسے اس طرح بھاگتے دیکھ کر ٹو کے بنا نہ رہ سکا

کچھ نہیں ہوتا شاہ آپ بھی نا ایسے ہی ڈرتے رہتے ---

ابھی یشال کی بات منہ میں ہی تھی کہ وہ اپنی تمام شرارتوں سمت زمین بوس ہو چکی تھی

یشال کو اس طرح گرتے دیکھ کر شاہ بےاختیار ہنس دیا

جبکہ وہ شاہ کو اس طرح ہنستے دیکھ کر منہ بسورتی ہوئی اٹھی اور منہ موڑ کر کھڑی ہوگئی

شاه نے جب اپنی پیاری سی بیوی کی ناراضگی محسوس کی تو ہنستا ہوا اس کی جانب بڑھا اور اسے اپنی مضبوط بازو میں اٹھا لیا

شاہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ دیکھ رہے ہیں یشال نے سٹپٹاتے ہوئے کہا

تو دیکھنے دو نہ جان

کونسا کسی اور کی بیوی کو اٹھا رہا ہوں اپنی خود کی بیوی کو ہی تو اٹھا رہا ہوں کسی کا کیا جاتا ہے

شاہ اسے اٹھاے ہوئے آگے بڑھا

شاہ میں خود چل سکتی ہوں وہ دھیمی آواز میں منمنائی

جانتا ہوں جانم کے تم چل سکتی ہوں مگر وہ کیا ہے نہ تمہارے پاؤں میں بہت درد ہو رہا ہے اور میں تمہیں درد میں کیسے دیکھ سکتا ہوں شاه شرارت بھرے لہجے میں جواب دیا

جس پر یشال ہستی ہوئی اس کے سینے میں منہ چھپا گئی

شاه كا فون کافی دیر سے بج رہا تھا جسے وه مسلسل اگنور کر رہا تھا

شاہ آپ کا فون بج رہا ہے یشال نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے فون کی طرف متوجہ کیا...

شاه كو کل رات سے ہی ہلکا ہلکا بخار تھا جس کی وجہ سے یشال نے آج کہیں بھی باہر جانے سے صاف انکار کردیا تھا شاه نے اسے بہت بار کہا کہ وہ ٹھیک ہے ہلکا سا بخار ہی ہے مگر یشال کہیں بھی جانے کے لیے تیار نہ ہوئی نہ صرف اس نے باہر جانے سے انکار کر دیا بلکہ وہ تو شاہ کو بیڈ سے ہلنے تک كی اجازت نہیں دے رہی تھی بار بار آ کر اس کا بخار چیک کر رہی تھیں وه بہت پریشان تھی صبح سے دو بار ڈاکٹر کو بلواکر چیک اپ بھی کروا چکی تھی اس کا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا

اسے رہ رہ کر اپنا وہ خواب یاد آرہا تھا

شاہ بجتے فون کی طرف متوجہ ہوا

میں نے کہا نہ میں نہیں آسکتا اور اگر میں آ بی پاتا تو اس عورت کے لئے میں کبھی بھی وہاں نہ تھا میں

نے ایک بار بول دیا نہ کہ اس عورت کے ساتھ میرا کوئی رشتہ نہ کبھی تھا اور نہ کبھی ہوگا یہ

بات تو وہ جتنی جلدی سمجھ لے ان کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا

اللہ اور رسول کے واسطے نہ دو وہ عورت کسی کی نہیں ہو سکتی

اس کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی کی ہر خوشی كھو دی ہے

اب میں اپنی زندگی پر اس منہوس عورت کا سایہ بھی نہیں پڑھنے دینا چاہتا

آخری بار ملنا ہاہاہا

شاه نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا

اس عورت سے زندگی میں کبھی بھی ملنا نہیں چاہوں گا اگر وہ مجھے کہیں رستے میں بھی نظر آگئی تو تو میں اپنا منہ موڑ لونگا

شاہ غصے میں چلا رہا تھا جب یشال اندر داخل ہوئی جسے اس نے اپنے لئے کافی بنانے کے لیے بھیجا تھا

میں نہیں آ سکتا تو نہیں آسکتا بس بات ختم

شاه نے یشال کو دیکھ کر کال کاٹ دی

....

کیا بات ہے شاہ آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں

کچھ بھی نہیں جان میں ان لوگوں کو منع کر رہا ہوں کہ میں نہیں آسکتا آخر میں اپنی پیاری بیوی کی بات کیسے ٹال سکتا ہوں مگر پھر بھی مجھے بار بار فون کرکے تنگ کر رہے ہیں تو غصہ ہی آئے گا شاه نے یشال کو اپنی باہوں میں لیتے ہوئے جواب دیا

شاہ آپ چھوڑیے مجھے میں آپ کو یہ کہنے کے لئے آئی تھی اس وقت آپ کافی نہیں پی رہے بلکہ کھانے کا وقت ہو رہا ہے تو ہم ساتھ کھانا کھائیں گے

یشال نے شاہ كے باہوں کے حصار سے نکلتے ہوئے اسے گھورا

اور آپ کو تو ہر وقت بس رومینس ہی سوچتا رہتا ہے

نہیں جانم اب بالکل بھی دل نہیں کر رہا ابھی کچھ بھی کھانے کا ابھی تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں پلیز تھوڑی دیر کے لئے کوئی بھی مجھے ڈسٹرب نہ كرے شاه نے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے جواب دیا

ٹھیک ہے شاہ آپ آرام کریں میں ذرا نیچے کے پورشن کی صفائی کر لوں خان بابا بیچارے اکیلے کیا کیا کریں یشال بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی جاتے ہوئے وہ لائٹ آف کرنا اور دروازہ بند کرنا نہیں بھولی تھی

شاه اس کی اس حرکت پر بے اختیار مسکرا دیا

...........................

یشال دو گھنٹوں کے بعد جب کمرے میں داخل ہوئی تو شاه کہیں جانے کے لیے تیار کھڑا تھا

شاه آپ کہاں جا رہے ہیں آپ کی طبیعت...

یشال ا بھی کچھ کہنے والی ہی تھی کہ شاه نے اس کی بات کاٹ دی

جان میں بالکل ٹھیک ہوں ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے بس دو تین گھنٹوں میں واپس آ جاؤں گا تم بالکل بھی پریشان نہ ہونا اور کھانا کھا لینا میں جلدی واپس آنے کی پوری کوشش کروں گا

اگر پھر بھی مجھے دیر ہوگئی تو خان بابا تمہارے پاس ہی ہیں

شاه نے پیار سے اس کا گال سہلاتے ہوئے کہا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دئیے

یشال نے اس کی جاتے ہی ایک نظر پورے کمرے پر دہرائی جو پوری طرح بکھرا ہوا تھا

یہ شاه بھی نہ بچے ہیں سارا کمرہ بکھیر کر رکھ دیا وہ چیزیں سمیٹتے ہوئے بڑبڑائی

ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے

مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنا ہم

وہ شاہ کی تصویر دیکھتے ہوئے گنگنا رہی تھی ایک بہت پیاری سی مسکان اس کے ہونٹوں پر تھی

شاہ آپ کہتے ہیں نہ کہ میں ایک دن آپ سے محبت کا اظہار ضرور کروں گی تو میں بس

یہی کہنا چاہتی ہوں

تمہیں دیکھ كے ہی اب یہ سانسیں چلیں گی

تمہارے بنا اب نہ یہ آنکھیں کھلیں گی

میری بے قراری کیوں تم نہیں مانتے

ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے

مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنا ہم

بہت خوبصورت انداز میں وه شاہ سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی کہ اچانک اسكا ہاتھ بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر پڑی ایک پھولوں کی ٹوکری سے ٹکرایا جو ہاتھ لگتے هی زمین پر گر گئ یشال جلدی سے بیڈ سے اتری اور وہ ٹوکری اٹھانے لگی پھول اٹھاتے ہی وہ حیران رہ گئی

اس کے اندر وہی ڈائری نظر آرہی تھی جس پر اس رات شاہ کچھ لکھنے میں مصروف تھا

یشال نے جلدی سے وہ ڈائری اٹھائی اور بیٹھ کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر ہی بیٹھ گئی

....................................

وہ آنکھوں میں نمی لیے گڑیا کا تمام ساماں دادو کے ساتھ مل کر رکھوانے میں مصروف تھی

اس کی جان سے پیاری سہیلی آج ہمیشہ کے لئے یہاں سے جانے والی تھی

اب وه پہلے کی طرح بے فکری سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل سکتی تھی

پہلے کی طرح شرارتیں نہیں کرسکتی تھی

ایک دوسرے کے ساتھ گھوم پھر نہیں سکتی تھی جہاں وہ

گڑیا سے الگ ہونے پر اداس تھی وہی وہ اپنی دوست کے لیے بے حد خوش بھی تھی کہ اسے اس کی محبت مل گئی

وہ ہاتھوں میں سامان اٹھائے تیزی سے باہر کی جانب جا رہی تھی کہ کسی سے بری طرح سے ٹکرا گئی

آنکھوں میں آنسو لیے وہ اس پر چڑ دوڑی آپ کو ذرا بھی شرم نہیں آتی حد ہوتی ہے بے شرمی کی کب سے دیکھ رہی ہوں کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں آپ میرے پیچھے آ جاتے ہیں

اب آپ کو اگر میں نے اپنے آس پاس کی دیکھا تو مجھ سے بڑا کوئی نہیں ہوگا

وہ اسے وران کرتے ہوئے تیزی سے وہاں سے چلی گئی

جبکہ سعد اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہو چکا تھا

اسی لیے وہ اس کے پیچھے باہر کی جانب آیا اسی پل وه واپس اندر داخل ہوتے ہوئے پھر سے اس سے ٹکرائی

آپ پھر سے...

دیکھیں مسٹر میں بس اسی لیے لحاظ کر رہی ہو کیوں کہ آپ زین بھائی کے دوست ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں كے آپ کچھ بھی کرتے پھریں گے

میں نے منع کیا تھا کہ اب آپ مجھے یہاں نظر نہ آئیں

وہ مسلسل اسے سنانے میں مصروف تھی جبکہ وه اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو کو دیکھ رہا تھا بےاختیار سعدی کا دل چاہا کہ وہ اس کے آنسو کو اپنے ہاتھوں سے چن لے

اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سعد نے اس کے گال پر بہتے آنسوؤں کو اپنے پوروں پر چن لیا

رانعم کو ایک کرنٹ سا لگا بے اختیار اس کا ہاتھ اٹھا اور سعد کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی آپ جیسا بے غیرت انسان نے آج تک نہیں دیکھا نكل جائیں یہاں سے

سعد اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے حیران سا اسے دیکھ رہا تھا جو اب روتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی تھی کچھ دیر سعد وہیں کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا پھر غصے میں وہاں سے نکلتا چلا گیا

..........................

سعد ابھی تک اپنی بے اختیاری پر شرمندہ اور حیران تھا کہ اچانک کیا ہوگیا وہ خود کو قابو نہیں کر پایا کیوں اس کے بہتے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے

کیا ہے یہ سب کیوں میں اسے کوئی جواب نہیں دے پاتا اس نے میری اتنی بےعزتی کی اس نے مجھے کیا کیا نہیں بولا لیکن میں اسے چپ تک نہ کروا سکا

کیوں جب میرے سامنے آتی ہے تو میں دنیا کو بھول جاتا ہوں مجھے بس وہ نظر آتی ہے اور کچھ بھی نہیں اس کی ہنسی اس کے آنسو سب مجھے اتنا اثر کیوں کرتے ہیں

ٹھیک ہے میں اسے پسند کرتا ہوں مجھے اچھی لگتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے کچھ بھی کہے اور میں اس کا کوئی جواب بھی نہ دے پاؤں

اور وہ اور وہ میرے بارے میں یہ سوچتی ہے کہ میں گھٹیا اور بےغیرت انسان ہوں

کہ جہاں وہ جاتی ہے میں اس کے پیچھے پیچھے آتا ہوں اور میں میں اتنا بے اختیار كب سے ہو گیا کہ خود پہ قابو بھی نہ پا سکا

ابھی وہ خود سے اور نه جانے کتنا الجھتا

کہ اماں بی نے اسے زین کے نکاح کے لیے اسے اندر بلا لیا

رانو نے ایک نظر اندر داخل ہوتے سعد کی طرف دیکھا اب اگر اس انسان نے میرا پیچھا کیا یا مجھے اپنے آس پاس بھی نظر آیا تو میں اس كی اچھی طرح پٹائی کروں گی

سمجھتا کیا ہے خود کو کہ جو اس کا دل کرے وه کرسکتا ہے یہ جانتا نہیں ہے مجھے اب ہاتھ تو لگا کے دکھائے

ہاتھ توڑ کے نہ رکھ دوں تو میرا نام بھی رانعم نہیں

ویسے تو اب سمجھ چکا ہوگا کہ میں کوئی عام سی لڑکی نہیں ہوں جو اسے ڈر جاؤں گی

ایک تھپڑ ہی کافی ہے اس کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے

.............................

گڑیا کوزین کے پہلومیں بٹھادیا گیا تھا مولوی صاحب تشریف لا چکے تھے زمان صاحب دادو اماں بی سعد اور رانو بہت خوش تھے جلد ہی

مولوی صاحب نے رسم نکاح شروع كی

پہلے وہ زین سے مخاطب ہوئے

شازین شاہ ولد مرتضی شاه آپ کا نکاح یشال زمان ولد زمان صدیقی کے ساتھ حق مہر دس لاکھ سکہ راج الوقت قرار پایا ہے

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے

جی مجھے قبول ہے

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے

قبول ہے

مولوی صاحب نے آخری بار اپنا سوال دہرایا کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے

قبول ہے

ہر طرف مبارکباد کا شور اٹھا سعد نے زین کو گلے لگا کر اسے مبارکباد دی

مولوی صاحب گڑیا کی طرف آئے آپ کا نکاح شاه ذین ولد مرتضی شاه كے ساتھ قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے

قبول ہے گڑیا نے دھڑکتے دل کے ساتھ مد ھم آواز میں جواب دیا

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے

قبول ہے

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے

قبول ہے

رانو نے بے اختیار گڑیا کو اپنے گلے سے لگایا اور دھیرے سے اس کے کان میں سرگوشی کی محبت کی پہلی جیت مبارک ہو میری جان

رانو كےگلے لگی گڑیا مسکرا دی اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جس انسان کو اس نے دل هی دل میں چاہا تھا وہ اتنی جلدی اس کا محرم بنا دیا جائے گا

......................

جلد ہی رخصتی کا شور اٹھا مگر اس کی جان سے پیاری دادو کہاں تھی وه کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی سب نے ہر جگہ دادو کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کہیں بھی نہیں تھی

اچانک سب نے رانو کی چیخ سنی

زین بھائی ذمان انكل دادو یہاں پر ہیں

رانو دادو كا سر اپنی گود میں رکھے سب کو آواز دے رہی تھی

جن کا ایک ہاتھ اپنے سینے پر جبکہ چہرے پر درد کیا اثرات تھے

ذین نے جلدی سے

دادو کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور گاڑی کی طرف دوڑا

سعد اس کے ساتھ ساتھ تھا جبکہ رانو گڑیا کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی

جو کہ اپنے سنجے سورے روپ سے بے نیاز بس دادو کو پکارے جارہی تھی

رانو میری دادو کو کچھ بھی نہیں ہوگا نہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی نہ گڑیا نے رانو کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا

رانو خود بھی بے اختیار رو دی

اس کا بھی دادو کے سوا کون تھا

وه دادو کے دور پار کے کسی رشتہ دار کی بیٹی تھیں جن کی وفات کے بعد وه اسےاوراسکی ماں اپنے ساتھ لے آئی تھی

وہ دونوں ہی اپنی دادو کی لمبی زندگی کے لیے دعاگو تھی

مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے

ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دادو نے دم توڑ دیا

اور رانو کی ماں کی زندگی نے بھی زیادہ عرصے تک وفا نہ کی

اور وہ اس ظالم دنیا میں رانو کو دادو کے سپرد کرکے منوں مٹی تلے جا سوئی

رانو اور گڑیا جب جب اپنی ماں کے لیے روئی تھی دادو نے ان کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا تھا

اور آج وھی دادو ان کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تھی

ان دونوں کے آنسو نہ تھم رہے تھے

اس برے وقت میں شاه زین اور سعد نے ان کا پورا پورا ساتھ دیا تھا

........

آگے کی کچھ صفات بلکل خالی تھے یشال کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے

وہ شاه كا درد پوری طرح محسوس کر رہی تھی ایک تیرہ سال کے بچے پر اس وقت کیا بیتی ہو گی جب اس کی ماں اس کے سامنے کسی اور کے ساتھ چلی گئ

جب اس کی ماں کی وجہ سے اس کا باپ اسے بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا

جب لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کی اس معصوم ذہن پہ کیا بیتی ہو گی

یشال کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اس نے جب صفات پلٹ کر آگے دیکھا تو ایک جگہ پر اسے وہ تحریر نظر آئی

بابا وه عورت ایک بار پھر سے میری زندگی تباہ کرنے کے لئے آگئی ہے اس پر میں اسے اپنی زندگی تباہ کرنے کی اجازت نہیں دوں گا

یشال شبنم بیگم کے بارے میں سب جاننے کے باوجود بھی اس سے نفرت نہ کر پائی تھی وہ نفرت کیسے کر پاتی وہ شاہ کی ماں تھی

اس کے شاه نے اس عورت کے باطن سے جنم لیا تھا

آج کے بعد شاہ کو کوئی غم نہیں ملے گا

وہ یہ بات جانتی تھی کہ شاہ اس سے محبت کرتا ہے لیکن اس حد تک محبت کرتا ہے یہ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا

یہ ڈائری شاہ کی محبت کی گواہ تھی

كے کیسے اس كا شاه اسے درد دے کر پل پل تڑپا تھا

کیسے اس کی اذیت شاه نے برداشت کی تھی

شاه ایک بار مجھ سے بات تو کرتے آپ کو کیا لگا تھا کہ آپ کی یشال آپ کو چھوڑ کر چلی جائے گی

کیا آپ کو اپنی یشال کی وفا بھی یقین بھی نہ تھا

ایک بار مجھ پر یقین تو کرکے دیکھتے

ہر عورت شبنم بیگم نہیں ہوتی شاہ

آپ کتنا عرصہ اس درد میں رہے کہ میں بھی شبنم بیگم کی طرح آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤنگی

میں تو آپ کی محبت کی قیدی تھی شاه اگر آپ مجھے خود بھی آزاد کرتے تو مجھے وہ آزادی منظور نہ ہوتی

لیکن اپ میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گی

میں آپ کو یقین کرنا سکھاؤنگی اپنی وفا پہ خود پہ

کچھ بھی ہوجائے آب شاه کوئی یشال سے کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا

وہ اسی کی دائری کو گلے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی

اسے یاد تھا کہ دادو کی وفات کے تین ماہ کے بعد شاہ نے کتنی سادگی سے رخصتی کروائی تھی

اس کے باوجود بھی رنعم نے اسے اچھا خاصا تیار کر دیا تھا

اور پھر پہلی رات شاہ کا ہاتھ اٹھانا بعد میں اس سے معافی مانگنا

یشال کو ایک ایک بات اب سمجھ آرہی تھی

----------------------------------

رانو میں نے کہا تھا نہ کہ شاه برا انسان نہیں ہے کچھ تو ہے ان کی زندگی میں جو میں نہیں جانتی

دیکھو آج سب پتا چل گیا میں تو ابھی تک شبنم بیگم پہ حیران ہوں کہ وہ کیسی ماں تھی ماں

تو اپنے بچے کے لئے ہر خوشی بھول جاتی ہے

اپنے بچے کی ایک مسکراہٹ کے لئے ماں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتی ہے

اور ایک وہ ماں تھی جنہوں نے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اپنے بیٹے کی زندگی کے بارے میں ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا

وہ کیسے مرتضی انکل کی محبت کے ساتھ وفا نہیں کر پائی

کیا کوئی عورت اتنی خودغرض بھی ہو سکتی ہے

شاه نے اس عورت کی وجہ سے کتنا کچھ جھیلا ہے

ہاں گڑیا میں خود بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ کوئی عورت کیسے اتنی بیوفا ہو سکتی ہے

لیکن اب تمہیں زین بھائی کو سنبھالنا ہے

اپنی وفا بھی یقین دلانا ہے

انہیں عورت کے ایک الگ روپ سے ملوانا ہے

..................

شاہ غصے سے بھرا گھر میں داخل ہوا

اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں یشال دنیا جہاں سے بے خبر اسی کی ڈائری کو سینے سے لگائے سو رہی تھی

اس کے چہرے پر آنسوؤں کے نشانات تھے جیسے وہ بہت دیر تک روتی رہی ہو

شاہ غصے سے برا اس کی سر پر جا پہنچا

اس کے ہاتھ سے ڈائری چھین لی جس کی وجہ سے یشال کی آنکھ کھل گئی

شاه آپ کب آئے

یشال نے مد ھم آواز میں اس سے پوچھا

تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری ڈائری کو ہاتھ لگانے کی

میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ میری

پر سنل چیزوں کو ہاتھ مت لگایا کرو

شاه میں تو بس

کیا میں تو بس کیا جانا چاہتی تمہیں میرے بارے میں

کیوں تم مجھے چین سے جینے نہیں دیتی

شاه کمرے میں موجود ہر چیز توڑتا ہوا چلا رہا تھا

شاه میری بات تو سنیں

یشال نے ا سے کچھ بتانا چاہا نكل

جاؤ میرے کمرے سے مس یشال زمان صدیقی

میرے کمرے سے کیا میری زندگی سے اس گھر سے نکل جاؤ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا

اس سے پہلے کہ میں تمہارے اور میرے درمیان موجود ہر رشتے کو ختم کر دوں میری نظروں سے دور ہو جاؤ

چھوڑ دو مجھے اکیلا

یشال جو اسے کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی

بے یقینی سے دیکھنے لگی

کیا اس کا اور شاه کا رشتہ اتنا ہی کمزور تھا کہ اتنی چھوٹی سی بات کو لے کے ختم ہوسکتا تھا

اس سے پہلے کی شاه ا سے کچھ اور کہتا ہے وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

________________

___

وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے نکلی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے کہاں جائے

کیا شاه كا اس کا رشتہ اتنا ہی کمزور تھا کہ ایک ڈائری کے پڑھ لینے سے ختم ہوجائے کیا میں شاه كی زندگی میں اتنی بھی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ وہ اپنا درد بیان کرتے كیا شاه کو مجھ پہ اتنا بھی بھروسہ نہیں تھا..

کیسے آج شاه نے مجھے یشال زمان صدیقی کہہ کر بلایا اور کمرے سے نکال دیا

ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں تو ان سے اتنی محبت کرتی ہوں کتنا چاہتی ہوں

میں نے سوچا تھا کہ شاه كا سارا درد میں اپنے محبت کی مرہم سے ختم کرنے کی کوشش کروں گی شاه کو وہ ساری خوشیاں دو گی جن پر شاہ کا حق ہے مسکرانا سکھاؤنگی زندگی جینا سکھاؤنگی شاہ کو عورت کی وفا پہ یقین کرنا سکھاؤنگی اپنی وفا

سے امی کی بے وفائی کا غم ختم کر دوں گی

پھر سب کچھ صحیح ہوجائے گا مگر میں کتنی غلط تھی شاه نے تو مجھ سے محبت کی ہی نہیں تھی

...کیا ایک عورت کی بے وفائی کا غم اتنا گہرا ہو سکتا ہے کہ کسی دوسری عورت کی وفا محبت اسے کبھی بھر ہی نہ پائے

کیوں اللہ میاں کیوں میں نے ایسا کیا کیا ہے کیا گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے آپ مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں

پیدا ہوتے ہیں مجھ سے میری ماں کو چھین لیا

دادو جو مجھ سے اتنی محبت کرتی تھی انہیں چھین لیا

اور اب جس انسان کو میں نے خود سے زیادہ چاہا ہے جس کی ایک مسکراہٹ کے لئے میں کتنا ترسی تھی کتنی دعائیں کی ہیں کہ یہ شخص خوش رہے

کیا مانگا تھا میں نے آپ سے بس یہی نہ کہ پوری دنیا میں بس ایک یہی شخص میرا ہو

اللہ میاں آپ نے اسے میرا بنا بھی دیا

پچھلے کچھ دنوں میں شاہ نے مجھے اتنی محبت دی كے میں خود اپنے آپ کو بھولنے لگی تھی

خوش تھی میں میری زندگی میں وہ شہزادہ آگیا جو مجھے سارے غموں سے بہت دور لے جائے گا جو صرف میرا ہو گا مگر اللہ میاں اسے تو مجھ سے محبت ہی نہیں ہے

ان كےلئے یہ رشتہ کوئی معنی نہیں رکھتا وہ کبھی بھی رشتہ ختم کرسکتا ہے

کبھی بھی مجھے اکیلا چھوڑ کے جا سکتا ہے آج اس نے میرے نام کے ساتھ اپنا نام لگانا تک گوارا نہیں کیا

یا خدا آپ مجھے موت کیوں نہیں دے دیتے میں نے اکثر سنا تھا کہ محبت درد دیتی ہے تکلیف دکھ کے سوا کچھ نہیں دیتی

جب شاه نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا مجھے تکلیف دی تب بھی وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ تم پر میرا حق ہے تم صرف میری ہو

اور میں ان کے اس یقین پر اس میری کہ احساس سے جی اٹھی تھی مگر شاہ نے کبھی مجھ سے محبت کی ہی نہیں

وہ کب سے ٹیرس پر کھڑی تھی کسی بھی گرم کپڑے کے بغیر سردی سے بے پروا ہو بس اپنی سوچوں میں گم تھی

آنسومسلسل اس کے رخساروں پر لکیریں بنا رہے تھے

شاہ اگر آپ کو بے رخی ہی دکھانی تھی تو کیوں آئے میرے اتنے قریب کیوں بنایا مجھے اپنا

کیوں بنایا مجھے اپنی محبت کاعادی

یشال روتی ہوئی وہیں زمین پر بیٹھی چلی گئی

شاه بہت محبت کرتی ہوں آپ سے کیسے بتاؤں آپ کو

آپ نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ ہر رشتہ ختم کر دوں گا

وہ روتی روتی وہی هوش و حواس سے بیگانا ہوگی

کیوں باباکیوں

وہ کیوں واپس آگئ ہیں شاہ کمرے میں موجود ہر چیز کو توڑ چکا تھا

وہ کہتی ہیں میں ایک بار ان سے مل لو

ایک بار معاف کر دوں تاکہ وہ سکون سے مر سکیں مگر پاپا جس عورت کی وجہ سے میں ساری زندگی بے سکون رہا اسے کیسے معاف کردوں

بابا آپ جانتے ہیں نہ میں اتنا بہادر نہیں ہوں میں نہیں بھول سکتا وہ تکلیف نہیں بھول سکتا لوگوں کی نظریں جن کا سامنا میں نے کیا ہے

بابا ماں تو فخر ہوتی ہے غرور ہوتی ہے نہ اولاد کا مگر میری ماں میرے لیے سر جھکانے کا سبب بنی کیسے بھول جاؤ ں وه سب

شاہ دن كے ۱۱ بجے کا نکلا رات کے دو بجے گھر واپس آیا تھا اس کی ماں جس نےکبھی سر جھکا کر چلنا نہیں سیکھا تھا

ایک گورنمنٹ ہوسپیٹل کے بیڈ پر پڑی تھی

جو ایک زمانے میں اس کے بابا کی دل کی دھڑکن تھی

آج وہ عورت کنسر کی آخری سٹیج پر تھی

اور زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی

وه ہر روز نرس کی نہ جانے کتنی منتیں کرکے شاہ کو کو ایک بار کال کرواتی تھی

شاه نے انہیں پاکستان کے بیسٹ کینسر ہاسپیٹل میں ایڈمٹ کروایا تھا اچھے سے اچھے علاج کا انتظام کیا مگر وہ اس عورت کو معاف کرنے کے لئے تیار نہ تھا جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں سوائے ویرانی کے اور کچھ نہیں تھا

شاه نے شبنم بیگم کے علاج کی ساری ذمہ داری شاہ نے لے لی تھی

مگر وہ ایک بار بھی اس عورت سے ملنے کے لیے نہیں گیا تھا جو اسے اپنا بیٹا کہتی تھی

________

سارے دن کی تھکان اور ٹینشن کے بعد جب وہ گھر واپس آیا تو یشال اس کی ڈائری کو سینے سے لگائے سو رہی تھی

شاہ نے غصے میں نہ جانے اسے کیا کیا بول دیا تھا

اب شاه كو خود پہ غصہ آ رہا تھا کہ اس نے یشال کو ایسا کیوں بولا

ان سب نے اس کی کیا غلطی تھی اسے تو شاید کچھ پتا بھی نہیں تھا

یشال کا خیال آتے ہی جلدی سے اٹھا

اس نے تقریبا ہر جگہ یشال کو تلاش کرلیا تھا مگر وه کہیں بھی نہیں تھی

شاہ جلدی سے مین گیٹ کی طرف کیا کہیں یہ پاگل لڑکی گھر سے باہر کیوں نہیں چلی گئی

خان بابا آپ نے چھوٹی بی بی کو گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھا ہے

نہیں چھوٹے صاحب ہم تو یہاں دو گھنٹے سے بیٹھا ہے چھوٹی بی بی تو باہر آیا ہی نہیں

شاه نے بے اختیار سکون کا سانس لیا کہ گھر کے اندر ہی موجود ہے

مگر وہ ہے کہاں

شاه نے ایک بار پھر سے پورا گھر چیک کرنا شروع کردیا

پھر کسی خیال کے تحت جلدی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا ٹیرس پر چلا گیا

جہاں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ زمین پر پڑی تھی

ایک پل کے لیے شاہ کو ایسا لگا جیسے مانو اس کی جان ہی نکل گی

شاه بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا

یشال .

یشال پلیز آنکھیں کھولو تمہیں کچھ بھی نہیں ہوگا

تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی میری بات کا جواب دو

وہ پاگلوں کی طرح اسے پکار رہا تھا

جس کا پورا بدن بالکل برف کی طرح ٹھنڈا ہو چکا تھا

اس کے ہاتھ پاؤں بے حد سرد تھے

شاه نے جلدی سےیشال کو باہوں میں اٹھایا اور بھاگتا ہوا نیچے کمرے کی طرف چلا گیا

وہ اسے لیے سیدھا گیسٹ روم میں آیا تھا کیونکہ اپنے روم کی حالت وہ تباہ کر چکا تھا

یشال پوری طرح بھیگ چکی تھی اور ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی

شاه نے جلدی سے اس کے کپڑے چینج کروائے اور اس پر کمبل کر ڈالا

تب تک ڈاکٹر صاحب بھی آچکے تھے

ڈاکٹر نےا سے انجکشن لگایا تاکہ وہ پرسکون رہے

ڈاکٹر انکل یشال ٹھیک تو ہو جائے گی نا

یہ ہوش میں کیوں نہیں آ رہی

تمہاری بیوی بالکل ٹھیک ہے ینگ مین بس ہلکا سا بخار ہے ایک دو دن میں اتر جائے گا

لیکن احتیاط ضروری ہے

میں نے اسے نیند کا انجکشن دیا ہے یہ کسی بھی وقت ہوش میں آ سکتی ہے صبح تک

اب تم بھی کپڑے تبدیل کر لو کہیں تمہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے

ڈاکٹر نے اس کی بھیگے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

اور باہر کی جانب بڑھ گئے

شاه یشال کے پاس ہی کرسی پر ٹک گیا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا

تمہیں کچھ نہیں ہوگا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا تم مجھ سے کبھی الگ نہیں ہو سکتی

مجھے معاف کر دو جان میں نے ہمیشہ تمہیں تکلیف دی ہے

میں جب بھی تمہیں خوشی دینا چاہتا ہوں

ہمیشہ دکھ دے دیتا ہوں

وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے مدھم آواز میں بول رہا تھا

رات کی نہ جانے کون سے پہر شاه كی آنکھ یشال کی آواز سے کھلی جو کچھ کہہ رہی تھی

میں تو انہیں اپنی وفا کا یقین دلانا چاہتی تھی میں ان کو خوشیاں دینا چاہتی تھی

اللہ میاں آپ کو تو پتہ ہے نا کہ میں ان سے کتنی محبت کرتی ہو وہ کیوں نہیں سمجھتے

میں کیسے یقین دلاؤں ان کو

کتنی آسانی سے آج انہوں نے مجھے مس یشال زمان صدیقی کہہ کر بلایا

مطلب کبھی بھی مجھے چھوڑ

ایسا کیسے ہوسکتا ہے وہ نیم بے ہوشی میں بھی رو رہی تھی

شاه نے بے اختیارا سے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا

ایسا کچھ نہیں ہوگا جان

کبھی نہیں ہوگا بس کہیں نہیں جا رہا میں چھوڑ کر نہ تمہیں خود سے الگ ہونے دوں گا

شاه اسے باہوں میں لیے مدہم آواز میں بڑبڑایا

یشال بھی اس کی باہوں میں آکر پرسکون ہوگی

_______________________

صبح جب یشال کی آنکھ کھلی تو وه کمرے میں بالکل اکیلی تھی باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی جس کا مطلب ہے کہ شاه واش روم میں ہے

یشال کی پہلی نظر اپنے کپڑوں پر اور دوسری واش روم سے باہر نکلتے شاه پر پڑی

رات کو شاه نے اس کا لباس تبدیل کیا تھا اس خیال کے آتے ہی اس کے گال سرخ ہوگئے

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں یشال نےمارے شرمندگی کے سوال بھی الٹا ہی کیا تھا جس پر شاہ ہنس دیا

یشال کو اپنے سوال کی سمجھ دیر سے آئی وہ جلدی سے اٹھی اور کمرے سے باہر جانے ہی والی تھی کے شاه نے اس کا راستہ روک لیا

شاه پلیز مجھے جانے دیں یشال کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے

جان شاه

اپنے آنسو صاف کرو جانتی ہوں نہ تمہارے آنسو مجھے کتنی تکلیف دیتے ہیں

تکلیف شاہ آپ تکلیف کی بات کرتے ہیں کیا کیا تھا میں نے کیا میرا کوئی حق نہیں تھا آپ پر

کیا میرا حق نہیں تھا کہ میں آپ کی زندگی کے بارے میں جانتی

کیا میرا حق نہیں تھا آپ کی تکلیف جانے كا

کیا مجھے نظر نہیں آتا کہ آپ رات کو بےچین رہتے ہیں

کہ آپ نے اتنا عرصہ ہم دونوں کے بیچ فاصلہ بنا کر رکھا کیا اتنا بھی حق نہیں رکھتی تھی

ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ آپ میرے ہیں تو آپ کی ہر چیز میری ہے

اور دوسری طرف آپ ایک ڈائری پڑھنے پر ہمارے رشتے کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں

کیا لگا تھا شاہ آپکو کے ڈائری کے پڑھنے سے کیا ہوگا

شاہ آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ ہمیشہ وفا کو عورت کے نام سے نتھی کیوں کیا جاتا ہے

اگر ایک عورت نے بے وفائی کی تو دنیا کی ہر عورت بے وفا ہے

شاہ کے چہرے کے تاثرات ایک پل کے لیے بدلے تھے مگر جلد ہی اس نے اپنے آپ پر کنٹرول کر لیا

اور یشال کو اپنی باہوں میں بھر لیا

میں سمجھتی رہی کہ شاه كے میں نے کوئی بہت بڑی غلطی کرتی ہے جس کی وجہ سے آپ مجھ سے دور ہو

مگر میں کتنا غلط تھی نا

آپ تو کسی اور کی بیوفائی کی سزائیں مجھے دے رہے تھے

یشال مجھے معاف......

مگر شاہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے ایک مرد تین شادیاں کرتا ہے اس کے باوجود بھی وہ اپنے کسی آفس وركر کے ساتھ فلرٹ کرنے سے باز نہیں آتا

مگر وہ بے وفا نہیں ہوتا اسے کوئی غلط مرد کا طعنہ نہیں دیتا ایسا کیوں ہے شاہ

وه شاه کی بات سنے بنا بے خودی کے عالم میں بولے جا رہی تھی

میں تو بس محبت چاہتی تھی آپ کی

اور پچھلے کچھ دنوں میں آپ نے مجھے اتنی محبت دی کہ مجھے تو آپ کی زندگی کے بارے میں جاننے کی خواہش نہیں رہی تھی

آپ ویسے کیوں تھے کیوں مسکرانا چھوڑ دیا بابا کہتے تھے کہ بچپن میں بہت شرارتی اور خوش مزاج انسان تھے تو وہ وجہ ڈھونڈ رہی تھی

کہ جس کی وجہ سے ایک انسان اکیلا اداس تنہائی پسند ہو گیا

مگر شاہ کیا آپ کا اور میرا رشتہ اتنا کمزور تھا کہ آپ نے ختم کرنے کی بات کی

مجھے اس بات کا دکھ نہیں کہ آپ نے مجھے کمرے سے جانے کے لیے کہا

مگر شاہ خود سے الگ کرنے کی بات.......

وہ اسی کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی

____

شاه نے کافی دیر بعد اسے خود سے الگ کیا وہ اسے بولنے دینا چاہتا تھا تاکہ اس کے دل کی بھڑاس نکل جائے

اس نے یشال کو بیڈ پر بٹھایا اور خود اس کے پاس نیچے زمین پر بیٹھ گیا

اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے لبوں سے لگایا تم جانتی ہو نا شاہ تمہارے بنا کچھ بھی نہیں میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں تم اس دل کی دھڑکن ہو

شاه نےاس کا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھتے ہوئے

بولنا شروع کیا

ہاں جانتا ہوں رات کو غصے میں بہت الٹا سیدھا بول دیا مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں تمہیں اپنی زندگی سے نکال دوں گا ایسا کبھی نہیں ہو سکتا

تم ہو تو شاہ ہے تم نہیں تو کچھ بھی نہیں

تمھیں مجھ سے اور مجھے تم سے بس ایک ہی چیز الگ کر سکتی اور وہ ہے میری موت

شاه كی اس بات پر یشال کے روكے ہوئے آنسو پھر سے بہنے لگے

اب بس ایک آنسو بھی نہیں

جانتی ہوں نا تمہاری یہ آنسو برداشت نہیں کر سکتا بہت درد ہوتا ہے یہاں جب تم روتی ہو شاہ نے اپنے سینے پر دھرے اس کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

____

کل بہت پریشان تھا میں شبنم بیگم ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں

امی اسپتال میں ایڈمٹ ہیں یشال نے بے یقینی سے شاه كی طرف کی طرف دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں سوال کیا

ہاں

کیسی ہیں وہ کیا ہوا نہیں آپ ملے ان سے یشال نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے

انہیں کینسر ہے میں نے ان كو ہاسپیٹل میں ایڈمٹ کروا دیا ہے میں ان سے ملنے نہیں گیا جا ہی نہیں پایا

میں شاید کبھی معاف نہ کر پاؤں

شاه نے اس کی گود میں سر رکھتے ہوئے مدھم آواز میں جواب دیا

شاہ آپ کو ملنے جانا چاہیے تھا بلکہ ہمیں ملنے جانا چاہیے

یشال میں اس وقت اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا پلیز میں نہیں جانا چاہتا ان سے ملنے

مگر شاه وه ماں ہیں آپ کی آپ کو جانا چاہیے

ماں کونسی ماں کی بات کرتی ہو تم

تم جانتی ہو ہر برتھ ڈے پر میں انتظار کرتے کرتے سو جاتا تھا مگر وہ کبھی نہیں آتی تھی

وہ مصروف ہوتی تھی کہاں اپنے پارٹیز میں میرے ہر سپیشل دن پر بس بابا ہی میرے ساتھ ہوتے تھے

ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے مگر ایسے لگتا تھا جیسے ہم الگ الگ ملکوں میں رہتے ہیں

تین تین چار چار دن میں اپنی ماں کی شکل تک دیکھ نہیں پاتا تھا

کیوں کیوں كے مصروف ہوتی تھی

14 سال کا تھا میں جب وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی کیونکہ انہیں آزادی چاہیے تھی وہ اپنی زندگی جینا چاہتی تھی کسی اور کے ساتھ

انہوں نے بابا کی محبت کا تو چھوڑو میرا خیال بھی نہیں کیا

لوگوں کے طعنے باتیں میں نے کیسے برداشت کیا بس میں ہی جانتا ہوں

بابا بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے

اگر زمان انکل کا ساتھ نہ ہوتا تو میں شاید کسی

گلی میں پڑا ہوتا وہ اذیت سے ہنس دیا

یشال میں بے اختیار شاہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا

شاہ آپ کو پتا ہے غلطیاں سب سے ہوتی ہیں کوئی بھی فرشتہ نہیں ہوتا ہم سب انسان ہیں آپ میں سب

ہم سب سے بھی کہیں نہ کہیں غلطی ہو جاتی ہے امی سے بھی غلطی ہوگئی شاید یہی لکھا تھا ہماری قسمت میں

مگر امی اس غلطی کے لئے شرمندہ ہیں امی اپنی غلطی کے لیے معافی مانگنا چاہتی ہیں

غلطی کرنے والے کو تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے شاہ ہم تو پھر انسان ہیں

کیا آپ امی کو ایک موقع بھی نہیں دے سکتے

پلیز آپ سب بھول کر امی کو ایک موقع دے سب ٹھیک ہو جائے گا

کیا آپ کے اندر کا بیٹا یہ گوارا کرے گا کہ آپ کی ماں ایسے ترپ تڑپ کر آپ کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے

شاه نے ایک شکایتی نظر اس پر ڈالی

جانتی ہوں کہ میں سخت الفاظ کا استعمال کر رہی ہو

مگر آپ کو یہ سمجھنا ہوگا شاہ کہ وہ ماں ہیں آپ کی

اللہ نہ کرے اگر آج امی کو کچھ ہوجاتا ہے تو آپ ساری زندگی اس گلٹ میں رہیں گے کہ کاش ایک بار میں اپنی ماں سے مل لیتا

بس جو بھی ہوا بھول جائیں امی کو ہماری ضرورت ہے

اور میں کچھ نہیں جانتی ہم ابھی امی سے ملنے جا رہے ہیں بس

________

ہسپتال کے کمرے کے باہر آتے ہیں شاہ کی ہمت جواب دے گی

اتنے سالوں بعد وہ ا س عورت سے کیسے ملے گا جو اس کی ماں تھی

وہ واپس پلٹنے والا تھا کہ یشال نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے لئے اندر کی جانب بڑھ گئی

السلام علیکم امی !

شبنم ذرا سی چونکی بہت سالوں بعد کسی نے انہیں امی کہہ کر پکارا تھا مگر اندر آنے والی بالکل انجان تھی وہ اسے نہیں پہچانتی تھی

مگر جیسے ہی ان کی نظر اس لڑکی کے ساتھ کھڑے وجود پر پڑی

انہیں ایسا لگا جیسے زندگی رک سی گئی ہو

کتنی دعائیں مانگی تھیں انہوں نے اس ایک لمحے کیلئے کتنا کچھ سوچا تھا

کہ وہ سامنے آئے گا تو اسے معافی مانگی اسے سینے سے لگا لیں گے

مگر کیا یہ سب اتنا ہی آسان تھا كیا یہ سب ممکن تھا کیا وہ انہیں کبھی معاف کر پائے کا مگر انہیں معافی مانگنی تھی ایک بار اسے بیٹا کہہ کر پکارنا تھا

ایک بار اسے سینے سے لگانا تھا

شاہد شاہد کہ اللہ نے ان کے گناہ معاف کر دیئے ہوں شاید ان کی سزا ختم ہوگئی ہو

وہ یہی سوچتے ہوئے زاروقطار رو دی

شاہو

بیٹا ایک بار مجھے معاف کر دو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں شبنم بیگم نے ان کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیئے

یشال جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور انکو سہارا دے کر بٹھایا اور ان کے بہتے آنسو ةو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی

جبکہ شاہ ابھی تک بت بنا انہیں دیکھ رہا تھا

جھریوں زدہ چہرہ ہڈیوں کا ڈانچہ جسم ویران آنکھیں سوکھے ہونٹ جنہیں وہ بار بار زبان سے تر کرنے کی کوشش کر رہی تھی

یہ عورت اس کی ماں تو نہیں تھی اس کی ماں تو بہت خوبصورت ہر وقت سج دھج كر رہنے والی عورت تھی

شاہو

شبنم بیگم نے دونوں بازو اس کے لئے پھیلاتے ہوئے اسے پکارا

پلیز بیٹا مجھے معاف کردو وہ مسلسل روتے ہوئے اس سے معافی مانگ رہی تھی

شاہ خاموشی سے ان کے کھلے بازو میں سما گیا اور ان کے کمزور وجود کو اپنے حصار میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا

وه وهی چھوٹا سا بچہ بن گیا تھا جو ہر سپیشل دن پر اپنی ماں کا انتظار کرتا تھا

آپ نے کیوں کیا ایسا امی

کیوں آپ مجھے اور بابا کو چھوڑ کر چلی گئی ایک بار بھی آپ نے میرے بارے میں نہیں سوچا ایک بار بھی آپ کو میرا خیال نہیں آیا

کیوں امی کیوں آپ نے ایسا کیوں کیا

شاہ ان کے سینے سے لگا کسی معصوم بچے کی طرح ان سے شکوہ کر رہا تھا

اب میں آپ کو کہیں جانے نہیں دوں گا آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی ہیں نا امی آپ رہیں گئی نہ میرے ساتھ

آپ کو پتہ ہے میں آپ کو بہت یاد کرتا تھا ساری دنیا سے کہتا تھا کہ میں آپ سے نفرت کرتا ہوں مجھے آپ کی یاد نہیں آتی مگر سچ میں مجھے آپ کی بہت یاد آتی تھی رات کو میں آپ کو یاد کرتے کرتے سو جاتا تھا

امی آپ کیوں نہیں آئی میرے پاس

اب کیوں چلی گئی مجھے چھوڑ كر

مجھے معاف کر دو بیٹا میں بہت غلط تھی

میں نے جس سے انسان کے لیے تمہیں چھوڑا مرتضی کو چھوڑا وہ تو بس دولت کا بھوكا تھا جلد ہی جب دولت ختم ہوگئی تو اسکے پیار کا نشہ بھی اتر گیا

اور وہ اپنی اصلیت پر آگیا جلد ہی وہ مجھ سے اتنا تنگ آگیا کہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا

کس منہ سے آتی میں تم لوگوں کے پاس

کیا جواب دیتی میں مرتضی کو کہ میں نے جس انسان کے لئے تم جیسے مخلص انسان کو دھوکہ دیا

وہ بس دولت کا بھوکا تھا

جب دولت ختم ہوگئی تو مجھے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ کر چلا گیا

شبنم بیگم بہت مشکل سے اٹک اٹك كر جواب دے رہی تھی

میں تم سے اور مرتضیٰ دونوں سے بہت شرمندہ تھی

بس مجھے ایک بار معاف کر دو تاکہ میں سکون سے مر سکوں

امی پلیز آپ ایسا نہ بولے یشال نے بے اختیار شبنم بیگم کو ٹھوکا تھا

امی آپ کو پتا ہے میری شادی ہوگئی ہے یہ آپ کی بہو

ہے نہ پیاری شاہ نے یشال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

ماشاءاللہ بہت پیاری ہے اللہ خوش و آباد رکھے

شبنم بیگم نے یشال کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے دعا دی

تم میرے بیٹے کا بہت خیال رکھنا اسے ہمیشہ خوش رکھنا اس کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا دونوں ہمیشہ ایک ساتھ خوش رہو آباد رہو

اچانک بات کرتے کرتے شبنم بیگم کی سانسیں اکھڑنے لگی

تمہیں پتا ہے شاہو

مرتضی جب بھی ملنے آتے تھے نا وہ ہمیشہ منہ دوسری طرف کر لیتے تھے جیسے بہت ناراض ہوں

ہونا بھی چاہیے آخر میں نے انکے پیارے بیٹے کو تکلیف دی تھی مگر آج دیکھو وہ دونوں بازو پھیلائے کھڑے ہیں مسکرا رہے ہیں بہت خوش ہیں وہ آج

امی پلیز آپ بات نہ کریں آپ کی طبیعت خراب ہو رہی ہے

شاه نے بے اختیار انہیں خاموش رہنے کے لیے کہا

وہ دیکھو نہ میرا انتظار کر رہے ہیں دیکھو مجھے اپنے پاس بلا رہے ہیں مجھے ان کے پاس جانا ہے مجھے ان کے پاس جانا ہے وہ بے خودی کے عالم میں یہی الفاظ دوہرا رہی تھی

_____

شبنم بیگم کو گزرے تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا سب کچھ اپنے معمول پر آ چکا تھا شاه نے آفس جانا شروع کر دیا تھا یشال کی وہی روٹین . یاتو کچن میں شاه کے لئے کچھ نہ کچھ بنا رہی ہوتی کبھی گھر کی سیٹنگ چینج کر رہی ہوتی تو کبھی رانو سے لمبی لمبی کالیں چل رہی ہوتی

شاہ اور یشال اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بے حد خوش اور مکمل تھے

آج بھی یشال کچن میں شاه کے لیے کوئی اٹالین

ڈش تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ دینو بابا نے اسے سعد بھائی اورشاه كے آنے کی اطلاع دی

سعدی کے آنے کا سن کر وہ بے اختیار خوش ہوگی

اسلام علیکم سعد بھائی کیسے ہیں آپ اور آج کے دن بعد آپ کو اپنی بہن کی یاد کیسے آگئی

یشال نے شکوہ کرتے ہوئے کہا

ارے جاؤ یار کونسی بہن کون سا بھائی کونسا یار کسی کو میرا خیال ہی نہیں ہے ایک یہ ذین خود تو شادی کر کے بیٹھ گیا میرا کسی کو خیال نہیں آتا

سعد نے ذین کی طرح اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

ایک مجھے تم سے ہی امید کہ چلو میری بہن ہے میرے بارے میں ضرور سوچے گی مگر نہیں جی ہماری بہن کو کب ہماری پرواہ ہے

بس ہم تو دنیا داری کے لیے بھائی ہیں کسی نے ہمیں بھائی سمجھا ہی کب ہے

اور ایک وہ ہماری اماں جان جن کو لگتا ہے کہ ابھی تو میں خود بچہ ہوں بلا بیوی کو کیسے سنبھالوں گا

شاه کی بار تو نہیں لگا تھا بچہ ماشاللہ ایک سال ہونے کو آیا ہے شادی کو اور ایک میں ہی بچہ لگتا ہوں سب کو

مطلب یہ تو حد ہو گئی ناانصافی کی جس عمر میں ذین دادا بنے گا اس عمر میں اچھا لگوں گاباپ بنتے

شاہ جو کافی دیر سے اس کی بك بك سن رہا تھا اس بات پر ہنس دیا جب کہ یشال بری طرح شرما دی

سعد بھائی آپ بھی

بتائیں تو آخر ہوا کیا ہے یشال نے معصومیت سے سوال کیا

ہوا کیا ہے تمہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا ہے سعدی کا دل کیا کہ اپنا سر دیوار پر دے مارے

میری پیاری بہن کسی کی یاد میں بے قرار ہوگیا ہوں میں بھوک نہیں لگتی پیاس نہیں لگتی سارا سارا دن اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہوں کسی کام پر توجہ نہیں دے پاتا

اب اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں

اور کچھ جاننا چاہتی ہو تو بتاؤ

سعدی نے کسی فلمی غمگین ہیروئن کی طرح ایکٹنگ کرتے ہوئے جواب دیا

شاہ تو ہنس ہنس کر برا حال ہو چکا تھا جبکہ یشال ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ چکر کیا ہے

کون ہے وہ لڑکی جسے آپ پسند کرتے ہیں آخر یشال کے دماغ میں بات آہی گی

کون ہو سکتی ہے وہی لڑاکا بلی جس نے آپ کی شادی میں میرے بھائی کو کنگال کر دیا تھا

سعدی نے شرماتے ہوئے جواب دیا

کیا مطلب آپ رانو کو پسند کرتے ہیں آپ رانو سے پیار کرتے ہیں

رانو بھی آپ کو پسند کرتی ہے اتنی بری بات ہے میری بیسٹ فرینڈ نے مجھے بتایا تک نہیں کب سے چل رہا ہے یہ سارا چکر

اس کی تو میں بعد میں خبر لونگی

یشال نے سعدی کو گھورتے ہوئے سوال پر سوال کیا

ارے بہنا ذرا سانس تو لو وہ تو میری جان کی پکی والی دشمن ہے پوری لڑاکا بلی ہے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے

مجھے روڈ سائیڈ ریمیو عاشق آوارہ بے غیرت انسان اور نہ جانے کیا کیا سمجھتی ہے

بلکہ دو بار تو اپنے معصوم گال پر اس کے ہتھوڑے جیسے ہاتھوں سے تھپڑ بھی کھا چکا ہوں

سعدی نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے جواب دیا اس بار یشال بھی کھلکھلا کر ہنس دی

تم تو میری پیاری بہن ہوں ذرا معاملہ کی کلیئر کروا دو نا

میرے ہونے والے بچے بھی تمہیں دعا دیں گے

اسے سمجھاؤں کہ میں کوئی ایسا ویسا انسان نہیں ہوں بہت شریف اور سیدھا سادہ سا بندہ ہوں

سعدی نے منت کرنے والے انداز میں یشال کو کہا

ہاں تو یہ بات ہے سعدی بھائی اب آپ بالکل بھی فکر نہ کریں کیونکہ آپ کی وکیل یشال شاه ہیے اور میں کبھی بھی نہیں ہار تی انشاءاللہ ہم یہ کیس بھی جیت جائیں گے

یشال بےحد خوش تھی کہ اس کی پیاری دوست کے نصیب میں ایک اتنا اچھا انسان لکھا ہے

یہ ہوئی نہ میری بہن والی بات

چلو اب اسی بات پر جلدی سے مجھے کچھ کھلا دو بہت بھوک لگی ہے تین چار دن سے کچھ کھایا بھی نہیں سعد نے دہائی دینے والے انداز میں کہا

جبکہ شاه بس اسے دیکھ کر رہ گیا کیونکہ ابھی آفیس میں وہ دو برگر تین سموسے اور دو کوک کے کین ہضم کر كے آ رہا تھا

دوسری طرف یشال جلدی سے کھانا لگانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی

__________

رات کو یشال کافی دیر تک اماں بی سے فون پر بات کرنے کے بعد کمرے میں آئی تھی

شاہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے اسی کا انتظار کر رہا تھا

ارے جان آج اتنی لیٹ کیا باتیں ہورہی تھیں اماں سے

شاہ آپ کو پتا ہے میں بے حد خوش ہو ں رانو اور سعد بھائی ایک ساتھ کتنے اچھے لگیں گے نہ

وہ اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی

ہاں وہ تو ہے لیکن تم کہاں تھی آج تمہارا بھائی کیا آیا تم تو اپنے معصوم شوهر کو بھول ہی گئی

شاه نے اسے اپنی باہوں کے حصار میں لیتے ہوئے شکوہ کیا

ارے نہیں ایسا کچھ نہیں ہے میں تو آپ کو بتا رہی تھی کہ اماں بی سے میں نے بات کر لی ہے وہ تو خود چاہتی ہیں رانو ان کے گھر کی بہو بنے

میں اور اماں بی كل با قائدہ پاپا کے ہاں رشتہ لے کے جا رہے ہیں

کتنا مزا آئے گا نہ شادی میں

یشال کب سے اپنی ہی بولے جا رہی تھی جبکہ شاہ اس کی زلفوں میں کھویا ہوا تھا

شاہ آپ میری بات سن رہے ہیں

شاہ کو خود سے الگ کرتے ہوئے یشال نے مصنوعی غصے سے اسے گھورا

میں تو ہر وقت بس تمہیں سنتا ہوں تمہیں دیکھتا ہوں

شاه نے معصومیت سے جواب دیا

وہ ابھی اور نہ جانے کیا کہنے والی تھی کہ شاہ نے ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا

اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے

________

یشال اور اماں بھی جس وقت زمان والا میں پہنچے رانو گھر پر موجود نہیں تھی

وہ لائبریری گئی ہوئی تھی

اماں بی نےبنا آگے پیچھے کی بات کیے زمان سے

سعدی کے لیے رانو کا ہاتھ مانگ لیا

بہن مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے جیسے میرے لئے ذین ہیں ویسے ہی سعدی بھی ہے گھر کا دیکھا بھالا بچہ ہے مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے

لیکن میں پھر بھی ایک بار انو سے بات کرنا چاہتا ہوں

اس کی فکر آپ مت کریں پاپا اس سے بات کر لوں گی یشال جلدی سے بولی

پھر مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے جیسے آپ لوگوں کی مرضی

زمان صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

پا پا ہم سب ایسا کرتے ہیں کہ آج رات آپ ڈنر ہمارے ساتھ کریں اور میں رانو سے بات بھی کر لوں گی

یشال نے جلدی سے سارا پروگرام سیٹ کر لیا

جس پر اماں بی اور زمان صاحب دونوں ہنس دیے

شاه آج آفس سے جلدی اٹھ آْ یا تھا کیوں كے یشال گھر میں اکیلی تھی سکینہ اور اس کی بیٹی اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے کے لیے گئی ہوئی تھی اور یشال نے سب کوڈنر پر بلایا تھا

اوپر سے اس کی طبیعت صبح سے ہی کچھ ناساز تھی

شاہ جب گھر پہنچا تو یشال کچن میں مصروف تھی

کیا ہو رہا ہے جان شاہ

کچھ نہیں شاہ بس ڈنر کی تیاری کر رہی ہوں یشال نے مصروف سے انداز میں جواب دیا

میں نے کہا بھی تھا کے باہر سے کھانا منگوا لیتے ہیں کیوں تم اتنی محنت کر رہی ہو

شاه نے پیار سے اس كے چہرے سے بالوں کی لٹیں ہٹاتے ہوئے کہا

نہیں نا مجھے یہ سب کرنا اچھا لگتا ہے اور آپ کو ہوا کیا ہے کام ہی کتنا ہے کبھی آپ نوکر رکھنے کی بات کرتے ہیں کبھی آپ کھانا باہر سے منگوانے کی بات کرتے ہیں

یشال نے ناراضگی سے شاه كو گھورتے ہوئے سوال کیا

کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ تم کام کرو میں چاہتا ہوں تم بس خوش رہو

تو مجھے یہ سب کرکے خوشی ہی تو ملتی ہے یشال نےشرارت سےآْٹے والے ہاتھ شاہ کی ناک پر لگاتے ہوئے جواب دیا

اچھا لاؤ میں تمہاری مدد کر دیتا ہوں

آپ میری مدد کریں گے یشال نے مذاق اڑانے والے انداز میں شاه کو چھیڑا

ہاں تمہیں کیا لگتا ہے مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تم پیچھے ہٹو دیکھو میں ا بھی کیسے آٹا گوندھتا ہوں

شاہ نے یشال کو وہاں سے ہٹاتے ہوئے اپنی شرٹ کے بازو فولڈ کئیے اور آٹا گوندھنے لگا

جبکہ یشال کا ہنس ہنس کے برا حال تھا

شاه نے آٹے میں پانی بہت زیادہ ڈال دیا تھا

شاہ ایک نظر ہستی ہوئی اپنی بیوی پر ڈال رہا تھا جبکہ دوسری نظر اپنے ہاتھ میں موجود تھالی پر جسے میں آتا کم اور پانی زیادہ تھا

آپ ہٹے یہاں سے مجھے یقین آ گیا کہ آپ دنیا کے سب سے اچھے کوک ہے

یشال نے ہنستے ہوئے شاہ کو وہاں سے ہٹایا اور خود آٹا گوندھنے لگی

جب اچانک شاہ نے اسے اپنے حصار میں لیا اور کمر سے پکڑ کر اسے خود سے بے حد قریب کر لیا

شا ه پلیز چھوڑیں مجھے

میں کام کر رہی ہوں یشال نے اسے خود سے الگ کرنے کی ناکام کوشش کی

کرو ناکام میں نے کب منع کیا ہے شاه نے ایک بار پھر یشال کو خود سے قریب تر کر لیا

تھبی باہر سے رانعم یشال کو ڈھونڈتے ہوئے کچن میں داخل ہوئی

گڑیا مجھے بتا تو دیتی میں جلدی آ جاتی تمہاری مدد

اندر کا منظر دیکھ کر اس کی باقی بات منہ میں ہی رہ گئی اس نے اپنے ہاتھ جلدی سے اپنے آنکھوں پر رکھنے کے بجائے کانوں پر رکھ لئے

میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا بلکہ میں تو یہاں ابھی آئی بھی نہیں ہو رانو نے معصومیت سے کہا

شاہ جلدی سے یشال سے الگ ہوا میں تو بس آٹا.... کچھ نہیں آتا تمہاری دوست کو سب کام بالکل بھول چکی ہے میں بس اس کی مدد کر رہا تھا وه اور بھی کچھ کہتا کہ رانعم کو ہنستے دیکھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا

یشال کا چہرہ لال ٹماٹر کے جیسا ہو گیا تھا رانو اور یشال نے ایک دوسرے کو دیکھا دونوں کھلکھلا کر ہنس دی

______

ڈنر خوشگوار ماحول میں کیا گیا ڈنر کے بعد اماں نے رانو کو اپنے پاس بلایا اور اپنی خاندانی انگوٹھی جو انہیں انکی مرحومہ ساس نے پہنائی تھی وہ اس کی انگلی میں ڈال دی رانو ہکا بکا سی دیکھتی رہ گئی اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا

وہ سب کو یک تک دیکھ رہی تھی جو بے حد خوش تھے رانو نےکچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ اماں بی بول اٹھی

جب تک تم نہیں چاہتی رخصتی نہیں ہوگی تم آرام سے اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہو

رانعم بنا کچھ کہے خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی

جسے اماں بی نے شرم کا نام دیا

سعد کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں تک رہے تھے اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ رانو اتنی آسانی سے مان سکتی ہے وہ بے حد خوش تھا جبکہ

دوسری طرف رانو کمرے میں مسلسل یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی

اسے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اچانک ہوا کیسے

وہ نظرباز فلرٹی انسان مجھ سے شادی کیسے کر سکتا ہے

رانو مرگی

رانو نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا سر پیٹ ڈالا تھا

رانو کا دل کر رہا تھا کہ اپنا سر دیوار پر دے مارے مگر اس سے تو درد مجھے ہی ہوگا نا

ہاںےیہ ضرور مجھ سے بدلہ لینے کے لیے شادی کرنا چاہتا ہے میں نے اسے تھپڑ مارا تھا نہ اب میں کیا کروں کس سے بات کروں كون مجھے اس ظالم انسان سے بچائے گا

مجھے گڑیا سے بات کرنی ہوگی وہی میری مدد کر سکتی ہے مجھے نہیں کرنی اس انسان سے شادی

وہ جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی

_____

شاہ میری بات سنیں یشال نے شاہ کو پکارا

ہاں بولو جان

وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے اس سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی

بالکل بھی نہیں

تم جانتی ہو نہ مجھے تمہارے بنا رہنا پسند نہیں

مجھے تو تمہارے بنا نیند بھی نہیں آتی

شاه نے اسے اس کے ارادے سے باز رکھنے والے انداز میں کہا

ایک ہی تورات کی بات ہے مجھے رانو سے بہت سی باتیں کرنی ہیں

ہاں تو میں صبح میں خود لے جاؤں گا نا

شاه نے یشال کو اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے کہا

شاہ پلیز بس

آج کی رات

یشال نے معصومیت بھرے انداز میں شاہ کو منانے کی کوشش کی

جان یہ میرے لئے ایک رات نہیں ایک سال جیسا ہوگا میں تم سے ایک پل بھی دور نہیں رہ سکتا اور تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہوں

میں آپ سے دور تھوڑی جاننا چاہتی ہوں یشال جلدی سے بول اُٹھی تو پاس آنا چاہتی ہوں شاه نے اس کو مزید خود سے قریب کرتے ہوئے اس کے کانوں میں سرگوشی کی

شاه میں رانو سے سعد بھائی کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں وہ شام سے ہی کافی چپ چپ سی ہے

ہاں تو اسے یہاں روک لو نا

شاه شادی کے بعد ایک بار بھی بابا کے ہاں نہیں گئی بس آج کی رات کی تو بات ہے میں صبح ہوتے ہی واپس آ جاؤں گی

اوکے ٹھیک ہے مگر بس آج کی رات شاه ہار ماننے والے انداز میں کہا

تھینک یو شاہ آپ بہت اچھے ہیں

یشال نے جلدی سے اس کے گال پر کس کی اور وہاں سے باہر نکل گئی

جبکہ شاہ اس کی اس حرکت پر بس گہری سانس بھر کر رہ گیا

گھر آتے ہی رانو بنا کوئی بات کیے اپنے اور گڑیا کے مشترک کمرے میں چلی گئی

وہ اچھی خاصی ڈسٹرب لگ رہی تھی

یشال جب کمرے میں داخل ہوئی تو رانو یہاں سے وہاں چکر کاٹنے میں مصروف تھی

رانو سعدی بھائی تم سے بات کرنا چاہتے ہیں گڑیا نے موبائل اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا

جسے اس نے مکمل نظرانداز کر دیا

گڑیا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے

ہاں کر لینا بات میں ساری رات یہاں ہوں پہلے تم سعد بھائی سے بات کر لو

یار نہیں کرنی مجھے بات

رانو نے موبائل بیڈ پر پھینکتے ہوئے غصے سے کہا

جبکہ دوسری طرف کال پر موجود سعد بھی اچھا خاصا پریشان ہو چکا تھا کہ وہ اس سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتی

کیا بات ہے رانو تم ایسے کیوں بات کر رہی ہو

گڑیا یہاں بیٹھ تو میری بات سن دانو نے گڑیا کو بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا

مجھے سعد سے شادی نہیں کرنی

کیوں تم کسی اور کو پسند کرتی ہو اب گڑیا بھی صحیح معنوں میں پریشان ہو چکی تھی

دوسری طرف سعد کو ایسا لگا کہ اس کی سانسیں تھم گی ہیں

ارے نہیں یار اگر ایسا کچھ ہوتا تو کیا میں تم سے کچھ چھپاتی

.سعد نے بھی شکر کی سانس لی تھی وہ کسی اور کو پسند نہیں کرتی

تو پھر کیا بات ہے گڑیا نے ناراضگی بھرے انداز میں کہا

یار تم نہیں سمجھو گی وہ صرف مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے اس لئے تو مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے

رانو نے بیچارگی سے کہا

بدلا کیسا بدلہ کس بات کا بدلہ

یشال نے حیرانگی سے سوال کیا

ارے یار تمہاری شادی پہ وہ مجھے عجیب عجیب نظروں سے گھور رہا تھا

چھیچھورا انسان

یار ایسے تو نہ بولو سعد بھائی کو اتنے اچھے اور سیدھے سادے سے انسان ہیں

سعد كو اپنی بہن پر بے حد پیار آیا اور اس نے اس کی غائبانہ کہیں بلائیں لے ڈالی

جبکہ دوسری طرف رانو كا بس نہیں چل رہا تھا کہ گڑیا کو اٹھا کر اس کے بھائی کے گھر چھوڑ آئے

ہاں بالکل سیدھا اور شریف انسان ہیں بلکل جلیبی کی طرح

رانو نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا جبکہ دوسری طرف سعد نے اپنی ہنسی بامشکل کنٹرول کی

رانو وہ بہت اچھے انسان ہیں میری بات تو سنو

مجھے کچھ نہیں سننا دانو نے سر سے پیر تک چادر تانی جس کا مطلب تھا کہ اب وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتی

یشال نے بھی اپنا موبائل اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گی اس نے اپنے بھائی کو آج کی رپورٹ بھی تو دینی تھی

ہیلو سعدی بھائی آپ نے سنا آپ کی ہونے والی زوجہ آپ کے بارے میں کیسے خیالات رکھتی ہیں

یشال نے ہنستے ہوئے سعدی سے پوچھا

ہاں بہن سن لیا تم بس ایک کام کرو کسی طرح میری ایک ملاقات کروادو میری ہونے والی زوجہ سے باقی میں سب کچھ خود ہی سنبھال لوں گا

نہ بابا نہ مجھ سے نہ ہو پائے گا اگر اس کو پتہ چل گیا تو وہ تو میری جان ہی لے لے گی

یشال نے ڈرے ہوئے لہجے میں جواب دیا

کسی بہن ہو تم اپنے بھائی کے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتی میرے ہونے والے بچے بھی تمہیں دعا دیں گے

بس کسی طرح ان کی اماں کو ایک بار مجھ سے ملنے کے لیے راضی کرلو

سعدی نےدہائی دینے والے انداز میں کہا

اچھا ٹھیک ہے میں کچھ سوچتی ہوں

اب آپ اپنا خیال رکھیں میں اندر جاتی ہوں کہیں اس کو شک ہو گیا تو آج کی رات میری زندگی کی آخری رات ہوگی

یشال نے ہنستے ہوئے فون آف کیا اور اندر کی جانب چل دی

_________

ابھی وہ روم کے دروازے پر پہنچی ہی تھی کہ ایک بار پھر اس کا موبائل بج اٹھا

موبائل کی سکرین پر موجود نمبر کو دیکھ کر اس کے ہونٹ بے اختیار مسکرا اٹھے

ہیلو کیسے ہیں آپ

یشال نے کال اٹھاتے ہی مسکراتے ہوئے پوچھا

کیسا ہو سکتا ہوں شاه نے اداس سسی آواز بناتے ہوئے جواب دیا

جس کی بیوی اتنی ظالم ہو وہ بھلا کیسا ہو سکتا ہے

کیوں آپ کی بیوی نے آپ پر کیا ظلم کر دیا ہے

یشال نے معصومیت سے پوچھا

تمہیں نہیں پتا

شاه نے ناراضگی سے جواب دیا

مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی

اور ایک بار مجھے ساتھ چلنے کے لئے بھی نہیں کہا

ہاں میں کہتی بھی تو آپ نے کونسا آ جانا تھا

بہت سمجھنے لگی ہوں مجھے شاه نے محبت بھرے لہجے میں کہا

ہاں میں جانتی ہوں آپ کو کسی اور کے گھر میں رات رکھنا پسند نہیں ہے

اچھا یہ سب چھوڑیں آپ بتائیں آپ کیا کر رہے ہیں

کچھ نہیں بس تمہیں یاد کر رہا ہوں

ابھی سے یاد ابھی تو مجھے آئے ہوئے دو گھنٹے بھی نہیں ہوئے

یشال نے حیرانگی سے کہا

تم کیا جانو تمہارے بنا گزرنے والا ایک ایک پل مجھ

پے کتنا بھاری ہے

شاه کہ لہجے میں موجود اپنے لئے پیار پریشال کی آنکھیں بھیگ گئیں

اتنی محبت کرتے ہیں آپ مجھ سے یشال میں کھوئے ہوئے انداز میں پوچھا

بہت زیادہ خود سے بھی زیادہ سب سے زیادہ

شاه كے اس انداز پر یشال بے اختیار مسکرا دی

آسمان پر موجود چاند بھی ان دونوں کی محبت نے مسکرا دیا

_________

یشال کب سے جلدی جلدی کا شور مچا رہی تھی کہ اسے آج شاپنگ پر جانا ہے اور رانو کو ہر حال میں اس کے ساتھ چلنا ہے

ارے بابا آ رہی ہو تھوڑا انتظار تو کرو رانو نے جلدی سے اپنا پرس اٹھایا اور اس کے ساتھ ہولی

اپنے لئے دو تین ڈریس لینے کے بعد یشال رانو كو ایك ریسٹورنٹ میں بٹھایا

تم یہاں رکھو میں بس دو منٹ میں آتی ہوں مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی ڈریس کا بیگ وہیں چھوڑ کر آگئی ہو یشال نے پریشانی سے کہا

میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں

نہیں تم بیٹھو کچھ آرڈر کرو میں بس ابھی آتی ہوں

یشال یہ کہتے ہوئے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئی

_______

رانو کو وہاں بیٹھے ہوئے پندرہ منٹ سے زیادہ ہو چکے تھے مگر یشال کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں تھا

اب رانو پریشان ہو چکی تھی کہ نہ جانے اس کی پیاری سہیلی کہاں چلی گئی ہے وہ کسی مصیبت میں نہ ہو

ابھی رانو اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ سامنے سے اسے سعد آتا ہوا نظر آیا

یہ یہاں کیا کر رہا ہے رانو نے برا سا منہ بناتے ہوئے سوچا

اور وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی تب تک سعد بھی اس کے قریب پہنچ چکا تھا

السلام علیکم رانعم

کیسی ہیں آپ

سعد میں اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا

وعلیکم السلام

الحمدللہ میں بالکل ٹھیک آپ کیسے ہیں

رانو نے بمشکل اپنے چہرے کے زاویے سیدھے کرتے ہوئے پوچھا

میں بالکل ٹھیک بہت خوش

بیٹھیں نا جا کہاں رہی ہیں وہ جو جانے کے لئے آگے بڑھ رہی تھی سعد نے اسے روک لیا

نہیں تھینک یو کافی دیر ہوچکی ہوگی گڑیا بھی انتظار کر رہی ہوں گی اس نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا یہ تو پیچھے پڑ گیا ہے اب کیسے اس سے پیچھا چھڑواں رانو دل میں سوچ کر رہ گئی

یشال تو کب کی شاه کے ساتھ گھر چلی گئی ہے سعدی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

جس پر صحیح معنوں میں رانو کے دماغ نے کام کرنا بند کر دیا تھا

یشال مجھے اکیلا چھوڑ کر خود زین بھائی کے ساتھ چلی گئی

رانو مدہم آواز میں بربڑائی

سعدی با مشکل سن پایا

اکیلا کہاں وہ آپ کو میرے پاس چھوڑ کر گئی ہے

اصل میں مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی آپ نے بات کرنے سے صاف انکار کردیا اس لئے مجھے یہ راستہ اپنانا پڑا

سعد ابھی اور بھی کچھ کہنے والا تھا کہ رانو نے اس کی بات درمیان میں کاٹ دی

دیکھیں مسٹر مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی نہ ہی مجھے آپ کی کوئی بات سنی ہے اور نہ ہی مجھے یہاں آپ کے ساتھ بیٹھنے کا ہی شوق ہے

آپ تو شروع سے ہی چھچھورے ہیں مگر گڑیا سے مجھے یہ امید نہیں تھی

وہ غصے میں بنا اس کی طرف دیکھے بولے جا رہی تھی جبکہ سعد کیلئے اپنی ہنسی قابو کرنا مشکل ہو رہا تھا

وہ نروس نروس سی کچھ بوکھلائی ہوئی اسے اپنے دل کے بے حد قریب لگ رہی تھی

رانعم پلیز بیٹھیں مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اس کے بعد میں خود آپ کو گھر چھوڑ آؤنگا

سعد نرم لہجے رانو سے کہا

رانعم حاموشی سے کرسی پر ٹک گئی جو بھی کہنا ہے جلدی سے کہے

رانعم آج سے پہلے کبھی اس طرح کسی سے نہیں ملی تھی لاکھ خود اعتماد اور بولڈ سہی مگر اس وقت وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی

آپ پلیز ریلیکس ہوجائیں سعد نے پانی کا کلاس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا

جسے وہ ایک ہی سانس میں چڑھا گی اس وقت اس کا دل دوگنی رفتار سے دھڑک رہا تھا وہ خود بھی اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھی

وہ ایسے کرسی پر بیٹھی تھی جیسے ابھی اٹھ کر بھاگ جائے گی

سعد اس کی حالت پر مسکرا دیا

مجھے لمبے لمبے ڈائیلاگ بولنا نہیں آتے نا میں کوئی سرك چھاپ عاشق ہو جو کہ آپ مجھے سمجھتی ہیں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پہلی نظر میں ہی میں آپ کو پسند کر بیٹھا

اور شادی میں جو بھی حرکت مجھ سے ہوئی میرا کوئی غلط ارادہ نہیں تھا مگر آپ مجھے غلط سمجھ بیٹھی تھی

ان سب کے لئے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں

میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اور آپ کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں

میں کوئی بہت بڑے بڑے وعدے نہیں کرسکتا کہ آپ کے لئے یہ کر لوں گا وہ کر لوں گا

مگر میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کی ہر خواہش آپ کے کہنے سے پہلے پوری کر سکوں

امید کرتا ہوں کے آپ کے دل سے تمام شکوے ختم ہو چکے ہوں گے

اور ہاں ایک بات تو بھول ہی گیا میں آپ سے کوئی بدلہ نہیں لینا چاہتا اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے

رانو جو اس کی باتیں سن رہی تھی چونك كراسے دیکھنے لگی

جی کل رات جب آپ یشال سے باتیں کر رہی تھی تو میں اس وقت کال پر موجود تھا اسی وجہ سے میں نے آپ کو یہاں ملنے کے لیے بلوایا ہے سعدی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا

مگر اس کے باوجود بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتی آپ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو آپ مجھے بتا دیں میں اسی وقت شادی سے انکار کرنے کے لئے تیار ہوں آپ پر کوئی الزام نہیں آئے گا

وہ اس کے جواب کا منتظر تھا جبکہ رانو بالکل خاموش تھی

کیا میں آپ کی خاموشی کو انکار سمجھو

سعد نے اداسی سے پوچھا

نہیں آپ اماں کو بھیج دیں میں شادی کے لئے تیار ہوں

رانو نے نظریں جھکائے ہوئے جواب دیا

اور باہر کی جانب چل دی

سعد بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا

_________

رانو سارے رستے بلکل حاموش رہی تھی یہ بندہ اتنا بھی برا نہیں جتنا میں نے سوچا تھا مجھے پسند بھی کرتا ہے اور بدلہ بھی نہیں لینا چاہتا

رانو نے ایک نظر اس پر ڈالی جو مکمل طور پر ڈرائیونگ کرنے پر مصروف تھا

سعد رانو كا اس طرح دیکھنا محسوس کر کے مسکرا دیا

رانو جب گھر میں داخل ہوئی تو گڑیا پہلے ہی ڈرائنگ روم میں اس کا انتظار کر رہی تھی

تمہارا تو کوئی سامان رہ گیا تھا نا تم تو وه لینے گئی تھی نہ

پھر کیا وہاں سے کسی نے اغوا کرلیا تھا جو واپس نہیں آئی

زمان انکل نے کتنے پیسے دیے ان لوگوں کو تمہیں چھوڑنے کے لئے

وہ غصے سے تنفن کرتی اس کے سر پر کھڑی بول رہی تھی

اب میری کیا غلطی جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی تو تیڑھی کرنی پڑتی ہے نہ

میں نے تو اتنی کوشش کی تھی مجبوراً مجھے انگلی تیڑ ھی کرنی پڑی

یشال نے دنیا جہاں کی معصومیت چہرے پر سجاتے ہوئے کہا

گڑیا قسم سے اگر مجھے ہماری بچپن کی دوستی کا خیال نہ ہوتا نا تو میں آج تمہیں.....

وہ غصے سے کہتی اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئی

وہ سب چھوڑو بتاؤ نہ سعدی بھائی نے کیا بات کی

کچھ نہیں کیا بات کرنی ہے اس چیچھورے انسان وہ کچھ کہتی کہتی رک گئی

میرا مطلب ہے تمہارے سعدی بھائی نے

اہم اہم

چھچھورے انسان سے تمہارے سعدی بھائی

مطلب کے معاملہ سیٹ ہوگیا گڑیا نے ایک آنکھ دباتے ہوئے اسے چھیڑا

میری پیاری بہنیا بنے گی دلہنیا

اف گڑیا چپ کر جاو رانو کا چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہو چکا تھا جب اس سے کوئی اور بات نہ بنی تو کشن اٹھا کر اپنے چہرے پر رکھ لیا

______

بھائی صاحب میں نے تو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر ان صاحب کا کہنا ہے کہ رانعم شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہے

آپ ایک بار بات تو کریں وہ اچھی خاصی غصے میں لگ رہی تھی

ارے بہن جی نیک کام میں دیر کیسی جب بچے راضی ہیں تو ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے اس رشتے سے

جب سعد کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ رانو شادی کے بعد بھی اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہے تو بھلا ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے آپ کی ہی بیٹی ہے آپ جب چاہیں اپنی امانت لے کر جا سکتے ہیں میری بھی زندگی کا کیا بھروسہ آج ہوں کل کس نے دیکھا ہے اچھا ہے میں اپنی دونوں بچیوں کا گھر بستے دیکھ کر مروں گا

زمان انکل پلیز ایسا مت کہیں رانو جو کب سے سر جھکا کر ان کی باتیں سن رہی تھی آنکھوں میں نمی لیے بول اُٹھی

ہاں بھائی صاحب ایسا مت بولیں اللہ آپ کا سایہ ان بچوں پر ہمیشہ سلامت رکھے اماں بی نے رانو کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

تو پھر کب لے کے آئیں ہم بارات

جیسا آپ لوگوں کو مناسب لگے زمان صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

میں چائے لے کر آتی ہوں رانو اٹھ کر چلی گئی اماں بی مسکرا دی کیونکہ چائے وہ کب کی پی چکی تھی

_____

سعد اور رانو کا نکاح ان دونوں کی مرضی کے مطابق  نہایت سادگی سے کیا گیا تھا چند قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو ھی انوائٹ کیا گیا سعد بلیک ڈنر سوٹ میں بہت  ہینڈسم لگ رہا تھا دوسری طرف رانو پیچ کلر کے شرارہ سوٹ  میں لائٹ میک اپ کیے بہت خوبصورت لگ رہی تھی

نکاح کی رسم کے بعد دونوں کو ایک ساتھ بٹھایا گیا

اماں بی دونوں کو دعائیں دیتے نہیں تھک رہی تھی

بہت خوبصورت لگ رہی ہو شکریہ میری زندگی میں شامل ہونے کے لئے

سعد نے مدہم آواز میں رانو کے کانوں میں سرگوشی کی جس پر رانو دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا جھکا ہوا سر مزید جھکا گئی

یشال بھی چہکتی ہوئی یہاں سے وہاں گھوم رہی تھی

مگر شاہ وہاں موجود نہیں تھا

یہ شاہ کہاں چلے گئے اچانک ابھی تو یہیں تھے

یشال شاه كو ڈھونڈتے ہوئے اندر آئی تو کسی نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا

یشال اس اچانک حملے کیلئے تیار نہ تھی اس لیے کھینچنے والے کے سینے سے جا لگی

شاه آپ

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں سب آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں

اور یہ کیا طریقہ تھا آپ نے تو میری جان ہی نکال دی

تمہاری جان میں کیسے نکال سکتا ہوں شاہ نے اس کے بالوں کے لٹیوں کو اس کی چہرے سے ہٹاتے ہوئے کہا

مگر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں یشال نے حیرانگی سے پوچھا

بیوی میں دیکھ رہا ہوں کہ تم پچھلے کچھ دنوں سے اپنے بھائی اور سہیلی کی وجہ سے اپنے شوہر کو بالکل بھول چکی ہو

شاه نے اسے خود سے قریب کرتے ہوئے اس کے کانوں میں سرگوشی کی

شاہ ایسا تو کچھ بھی نہیں

یشال نے جھکی پلکوں کے ساتھ جواب دیا

اسی کے من پسند سرخ کلر کے سوٹ جس پر خوبصورت کڑھائی کی گئی تھی بڑے سے دوپٹے کے ساتھ بالوں کو کھلا چھوڑ کے كانوں میں بڑے بڑے جمکے  وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی

شاه چھوڑیں نہ کوئی آجائے گا شاہ کو مسلسل اپنے آپ کو دیکھتے پاکر وہ  ادھر ادھر دیکھتی

شاہ کو بہت پیاری لگی

کون آئے گا

شاه نے مزید اسے خود سے قریب کیا

تم جانتی ہو جان جب سے تم زندگی میں آئی ہونا سب کچھ بہت اچھا بہت پیارا سا لگتا ہے تمہاری یہ باتیں معصومیت ہر گزرتے دن کے ساتھ تم میری زندگی بنتی جا رہی ہوں اگر تم مجھ سے دور ہو گی نہ تو یہ شاه مر جاے

یشال نے بے اختیار اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں شاه

یشال آنکھوں میں آنسو لیے ناراضگی سے پوچھ رہی تھی

آج کے بعد آپ نے ایسا بولا نا تو میں آپ سے ناراض ہو جاؤ گی اور آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی

اچھا بابا سوری آج کے بعد ایسا کبھی نہیں بولوں گا

شاه نے اس کی آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا

یشال بےاختیار کھلکھلا کر ہنس دی

اچھا سنو نا تم نے مجھے بولا نہیں ابھی تک

شاه نے شرارت سے کہا

کیا نہیں بولا یشال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا

یہی کہ تم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو

شاه آپ بھی نا آپ کو سب پتا تو ہے یشال نظریں جھکائے کہا

ہاں مگر مجھے تمہارے منہ سے سننا ہے

شاه چھوڑیں کوئی آجائے گا

یشال نے گھبرائے ہوئے لہجے میں  کہا

آج جب تک تم بولو گی نہیں میں تمہیں جانے نہیں دوں گا شاه نےا سے مزید خود سے قریب کیا

شاه میں میں

کیا میں بولونا شاہ نے اسے بولنے پر اکسایا

شاه ای

اماں بی آپ یہاں

شاہ جلدی سے اسے الگ ہوا

جواب ہنس رہی تھی

اتنی آسانی سے تو میں آپ سے نہیں کہوں گی

یشال اسے چیڑاتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی جبکہ شاه اس کی معصوم شرارت پر مسکرا کر رہ گیا

_______

صبح سعد اور رانو کی رسمیں حنا  تھی

یشال نے صاف کہہ دیا تھا کہ نکاح پر اپنی مرضی کرلی مگر وہ مہندی پر خوب انجوائے کرے گی

جس پر دونوں نے حاموشی اختیار کرلی تھی فنكشن جوں كے کمبائن تھا

اس لیے تقریب کا سارا انتظام زمان ولا میں کیا گیا تھا

ساره لان برقی قمقموں سے بہت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا

دلہا اور دلہن کو بٹھانے کے لیے جھولے کو خوبصورتی کے ساتھ گلاب کے تازہ وائٹ اور یلو پھولوں کی مدد سے سجایا گیا

جو بے حد خوبصورت لگ رہا تھا

یشال نے بہت محنت اور محبت کے ساتھ اپنی دوست اور بھائی کے لیے سجایا تھا

شاہ قدم پر اس کے ساتھ تھا

_____

رانو سبز اور پیلے لباس میں پھولوں کے زیورات پہنے شرمائی گھبرائی سی بہت پیاری لگ رہی تھی

سعد وائٹ شلوار سوٹ میں یلو کلر کا دوپٹہ گلے میں ڈالے بھنگڑے ڈالنے میں مصروف تھا

ذین تھوڑی دیر بعد اس کو پکڑ کر جھولے پر بٹھاتا  مگر جیسے ہی ذین کسی کام سے ادھر ادھر ہوتاسعد پھر سے بھنگڑے ڈالنے والوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالنے لگتا

رانعم حیرت سے کبھی بھنگڑا ڈالتے اپنے مجازی خدا كو دیکھتی تو کبھی آئے ہوئے مہمانوں کو جو ہنس رہے تھے مگر سعد کو کہا کسی کی پرواہ تھی

وہ شخص خوش خوش سا بھنگڑے ڈالنے میں مصروف تھا

جبکہ یشال سرے سے غائب تھی

شاہ کافی دیر سے یشال کو یہاں وہاں تلاش کر رہا تھا

جب وہاں وه کہیں نہ نظر آئی تو وہ اسے ڈھونڈتا ہوا اندر آیا

جہاں وہ کچھ ڈھونڈنے میں مصروف نظر آئی

کیا ہوا جان کیا ڈھونڈا جا رہا ہے

شاه دیکھیں نہ مجھے میرے جھمکا نہیں مل رہا

ابھی تو پہنا ہوا تھا لیکن نہ جانے  کہاں گر گیا

وہ پریشان سی اسے بتا رہی تھی

کوئی بات نہیں تم کچھ اور پہن لو

نہیں نا میرے پاس  میچنگ بس وہی تھے

تبھی سکینه کی بیٹی آمنہ

بھاگتی ہوئی آئی یشال  آپی آپ كو اماں بی بلا رہی ہیں مہندی کی رسم شروع کرنی ہے

اس نے اماں بی کا پیغام دیا اور وهاں سے بھاگ گئی

یشال نے باہر جانے کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ شاہ نے اسے پکارا

جلدی بولیں شاہ اماں بی بلا رہی ہیں

یشال نے واپس اس کی طرف پلٹتے ہوئے پوچھا

شاه نے  اس کے بالوں کو ایک سائیڈ سے ایسے آگے کیا کہ اس كا كان  مکمل طور پر چھپ گیا

اور اسے لیے باہر کی جانب بڑھ گیا

یشال ہلکے سے مسکرا دی

وہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتا تھا

______

مہندی میں یشال اور سعدی نے بہت ہلا گلا کیا کبھی شاہ ان کا ساتھ دینے لگتا اور کبھی تھک کر بیٹھ جاتا جبکہ انہیں دیکھ کر رانو بھی مسکرارہی تھی

اس سادہ دل انسان کے ساتھ زندگی بہت پرسکون گزرنے والی تھی اس کا دل اس بات کی گواہی دے رہا تھا

وہ بھی پر سکون سے ان دنوں کو دیكھ كر انجوائے كر رہی تھی

آج کا دن بےحد تھکا دینے والا تھا سارے مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہو چکے تھے جبکہ شاه اور یشال

زمان والا میں ہی تھے

یشال رانو کو سعد کے نام سے کافی بار چھیڑ چکی تھی

اور ہنستی کھلکھلاتی اپنی دوست کی آنے والی زندگی کے لیے دعائیں کر رہی تھی

تبھی اس کے موبائل کی رنگ ٹیون بجی

سکرین پر نمبر دیکھ کر وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی

میں نیچے ہی آ رہی ہو آپ بھی نہ حد کرتے ہیں موبائل کان سے لگائے وہ مسکراتی ہوئی بولی اور کال بند کر دی

یشال جلدی جلدی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا

اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی

مگر اس كا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا

آخری بات جو اس نے محسوس کی کوئی اس پر جھکا اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے اسے مسلسل پکار رہا تھا

---------

شاه نے فون بند کرکے جیب میں رکھا اور سیڑھیوں كی طرف دیکھنے لگا جہاں یشال مسکراتے ہوئے سیڑھیاں اتر رہی تھی

ابھی وه آدھی ہی سیڑھیاں اتر پائی تھی کہ شاہ نے اسے لڑکھڑاتے ہوئے محسوس کیا اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا

شاہ ایک ساتھ دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اس تک پہنچا اس سے پہلے کےوه زمین بوس ہوتی شاہ اسے تھم چکا تھا

یشال اس کی باہوں میں ہوش حواس سے بیگانہ پڑی تھی

یشال

یشال آنکھیں کھولو کیا ہوا تمہیں

وہ پریشانی سے پکار رہا تھا

مگر وہ اس کی کسی پکار کا جواب نہیں دے رہی تھی

وہ جلدی سے اسے اٹھائے باہر کی جانب بڑھا رانو بھی شور سن کرباہر آئی تب تک شاه یشال کو گاڑی میں ڈالے وہاں سے نکلتا چلا گیا

یشال آنکھیں کھولو کیا ہوا ہے تم شاه مسلسل رابش ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے پکار رہا تھا

شاه كا فون مسلسل بج رہا تھا مگر اسے ہوش ہی کہاں تھا اس کی ساری توجہ تو اس کی بے ہوش پڑی یشال پر تھی

شاه آندھی طوفان کی طرح گاڑی بھگاتے ہوئے ہسپتال پہنچا تھا

سنو ڈاکٹر اسے کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے اگر اسے کچھ ہوا نہ تو میں اس پورے اسپتال کو آگ لگا دوں گا سمجھ رہی ہو نہ تم وه ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے بولا اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے

اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے پلیز ڈاکٹر ا سے کچھ نہیں ہونا چاہیے

آپ پلیز وہاں بیٹھیں ہمیں مریض کو دیکھنے دیں

ڈاکٹر اسے تسلی دیتے ہوئے خود یشال کی طرف متوجہ ہوگئی جو ابھی تک بے ہوش تھی

شاه نے مسلسل بجتے فون بنا دیکھے کان سے لگایا

ذین کہاں ہو تم گھر میں سب کتنے پریشان ہیں

رانعم نے تمہیں یشال کو لے کے جاتے ہوئے دیکھا تھا

وه ٹھیک تو ہے سعدی نے ایک ہی سانس میں کہیں سوال کر ڈالے

سعد پتہ نہیں اسے کیا ہوگیا ہے وہ بے ہوش ہو گئی تھی وہ میری کسی بات کا جواب نہیں دے رہی

شاه كسی ہارے ہوئے انسان کی طرح مدھم آواز میں بڑبر آیا

سعدی اس کی آواز سن کر مزید پریشان ہوگیا

تو کہاں ہے میں ابھی پہنچ رہا ہوں

شاه نے اسے ہسپتال کا پتہ بتایا اور سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا

اللہ آپ نے مجھ سے ہر وہ انسان چھین لیا جس سے مجھے محبت تھی

مگر یشال نہیں

اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں بھی زندہ نہیں رہ پاؤں گا

اسے ٹھیک کردیں

وہ اپنے اللہ سے مدہم آواز میں ہمکلام تھا

تب ہی ڈاكٹر باهر آتی ہوئی نظر آئی

آپ کی بیوی بالکل ٹھیک ہے بس ان کا بی پی لو ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئی مگر اس حالت میں آپ کو ان کا اور بھی خیال رکھنا چاہیے ڈاکٹر مسکراتی ہوئی بولی

وہ ٹھیک تو ہے نا اسے کچھ ہوا تو نہیں شاه نے فکرمندی سے ڈاكٹر کو دیکھتے ہوئے سوال کیا

وہ بالکل ٹھیک ہے ایسی حالت میں اکثر چکر وغیرہ آتے ہیں آپ ان کا کھانے پینے کا دھیان رکھیں

اس حالت میں مطلب

شاه نے ناسمجھی سے ڈاکٹر کو دیکھا

لگتا ہے آپ کو پتا نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ مسز شاه بھی جانتی ہیں

مجھے کیا نہیں پتہ اور یشال کیا نہیں جانتی

شاه نے ایک بار پھر سوال کیا

یہی کہ آپ پاپا بننے والے ہیں

پاپا......

شاه كا منہ حیرت سے کھل گیا میں پاپا بننے والا ہوں شاه نے پھر سے ڈاکٹر سے پوچھا

سعد ابھی پریشان حال وہاں پہنچا تھا

کیا ہوا زین یشال ٹھیک تو ہے نا

تم نے کسی کو بتایا کیوں نہیں اور کہاں ہیں وہ

سعد پریشانی سے اس کی طرف دیکھتا اس سے پوچھ رہا تھا جبکہ شاه اب مسکرا رہا تھا

یہاں میری جان نکل رہی ہے اور تو مسکرا رہا ہے سعد كا دل كیا کے وه شاه كے منہ پر مکا جڑ دے

شاه نے اسے اپنے بازو میں اٹھا کر گول گول گھمانا شروع کردیا

میں پاپا بننے والا ہو تو چاچا بننے والا ہے شاه نے اسے زور سے گلے لگاتے ہوئے کہا

میں چاچا بننے والا ہوں

سعدی نے اس سے الگ ہوتے ہوئے اس سے سوال کیا

شاه نے ہاں میں سر ہلایا

سعدی نے اسے ایک بار پھر سے گلے لگا لیا

_______

وه یشال کے پاس آیا تو وہ شرمائی ہوئی پہلے سے زیادہ پیاری لگی تھی

تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا شاہ نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے کہا

جس پر وہ دھیرے سے مسکرا دی

آپ کے ہسبنڈ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں آپ بہت لکی ہیں

جس وقت یہ آپ کو یہاں پر لے کے آئے تھے بے حد پریشان تھے اور ڈاکٹر کو دھمکی بھی دے دی اگر اسے کچھ ہوگیا تو پورے ہسپتال کو آگ لگا دوں گا

نرس نے شاه کی نقل کرتے ہوئے یشال سے کہا

یشال نے ایک نظر شاہ کی طرف دیکھا اور اپنی پلکیں جھکا دی

تھوڑی ہی دیر میں اماں بی زمان صاحب رانعم سعد سب اس کے ارد گرد جمع تھے

سب بے حد خوش تھے اماں بی کتنی بار اس کی نظر اتار چکی تھی

سب باتیں کرنے میں مصروف تھے جبکہ رانعم ایک سائیڈ پر خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی

سعد اس کے نزدیک آیا کیا ہوا تم یہاں خاموشی سے کیوں بیٹھی ہو

ایک بہت پریشانی والی بات ہے

کیا ہوا سعد نے حیرانگی سے پوچھا

باقی سب بھی سے دیکھنے لگے تھے

یار میرا بےبی مجھے کیا کہہ کر بلائے گی

خالا چاچی یا پھپھو

وہ کنفیوزڈ سی سب کو دیکھ رہی تھی

سب ہی اس کے معصوم سوال پر مسکرا دیے تھے

چھوڑو میرا بےبی تو مجھے آنی کہہ کر بلائے گا ٹھیک ہے نہ ذین بھائی

رانو نے سب كو اگنور كرتے ہوئے ذین سے پوچھا

جیسا بےبی کی خالا پلس پھوپھو پلس چاچی بولی گی ویسا ہی ہوگا

شاه نے رانو کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

ایک آسودہ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی

_________

شاه یشال كو باہوں میں بھرے مسلسل مسکرا رہا تھا جس وقت سے وہ ہسپتال سے واپس آئے تھے ایک پل کے لئے بھی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوئی تھی

آپ خوش ہیں شاہ یشال نےاس کے سینے سے سراٹھا کر مدھم آواز میں پوچھا

بہت خوش

اب کوئی تو ہوگا جو مجھ سے محبت کرے گا

ورنہ یہاں تو مجھ سے کوئی پیار ہی نہیں کرتا

کیا مطلب ہے آپ کا کہ میں آپ سے پیار نہیں کرتی

وه جلدی سے بول اٹھی

کرتی ہو

شاه نے اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے سوال كیا

شاه میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں

تو کہو نہ جان روکا کس نے ہے

____

کیسے کہوں اپنا بنا لو مجھے

باہوں میں اپنی سما لو مجھے

بن تمہارے اک پل بھی کٹتا نہیں

تم آ کر مجھ سے چرا لو مجھے

زندگی تو وہ ہے سنگ تمہارے جو گزرے

دنیا کے غموں سے اب چھپا لو مجھے

میری سب سے پہلی خواہش ہو پوری

تم اگر پاس اپنے بلا لو مجھے

یہ کیسا نشہ ہے جو بہکا رہا ہے

تمہاری ہوں تو پھر تم هی سنبھالو مجھے

نہ جانے پھر کیسے گزرے گی زندگی

اگر اپنے دل سے کبھی تم نکالو مجھے

اتنے خوبصورت اظہار محبت پر شاه سرشار سا اسے مزید خود میں سمیٹنے لگا

چمكتے چاند نے بھی ان کی خوشیوں كے قائم رہنے کی دعا کی تھی

______________

دو سال بعد

.......

سعد وہ والی بھی

ہاں وہ والی رانعم نیچے کھڑی اشارہ کر رہی تھی

سعدی بچاری سی شکل بنائے کبھی درخت كے ایک تنے پر جا رہا تھا تو کبھی دوسرے

رانعم آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے باقی پھر کبھی اتار لیں گے سعد نے چوتھی بار کہا تھا

بس وہ والی لاسٹ اس کے بعد بے شک آپ نیچے آجانا

رانعم نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا تے ہوئے کہا

اس معصومیت پر تو سعدی جان دینے کے لئے تیار تھا پھر یہ تو بس ایک كیری تھی

سعدی چھلانگ لگا کر درخت سے نیچے اترا اب خوش وہ اس کے ہاتھوں كیری تھماتے ہوئے بولا

جن میں پہلے ہی کافی ساری کیریاں موجود تھی

بہت خوش

اب چلو اندر ڈاکٹر نے زیادہ چلنے پھرنے سے منع کیا تھا نہ

سعد نے اس کے شانے پر بازو پھیلاتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا

رانعم کا لاسٹ منتھ چل رہا تھا مگر اس کی فرمائشیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی کبھی کیریاں کبھی آئسکریم تو کبھی کیا کبھی کیا

سعد اس کے بچپنے کو جہاں پوری طرح انجوائے کر رہا تھا وہاں اکثر گھبرا بھی جاتا

اتنے کم وقت میں وہ اس کے دل کے اور بھی قریب آگئ تھی

وہ اپنی زندگیاں اماں بی کی دعاؤں کے حصار میں ہنسی خوشی گزار رہے تھے

_________

شاه اب اٹھ بھی جائیں کتنی دیر سے آپ دونوں کو جگا رہی ہو آپ دونوں اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے

یشال اپنے سوئے ہوئے مجازی خدا اور اپنی ننھی دنیا کو جگانے کی پوری کوشش کر رہی تھی

مگر سب بے سود وہ دونوں ایک دوسرے کی کاپی تھے

اچانک یشال کی نظر شاه پر پڑی

جس کے گال پر ڈمپل نمایاں ہوکر غائب ہوچکا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ جاگ رہا ہے

وہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھی

اور اپنے گلے بال اس کے چہرے پر جھٹک دئے

شاه نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے خود پر گرا لیا

آپ جاگ رہے تھے تو آپ نے جواب کیوں نہیں دیا

یشال نے جھکی نظروں كے ساتھ اس سے پوچھا

وه شاه کی سنگت میں پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو چکی تھی

اب اتنے خوبصورت انداز میں جگاۓ جانے کی امید ہو تو کون کافر اس کو مس کرے گا

شاه نے مسکراتے ہوئے اس کے گال پر اپنے لب رکھ دیے

شاه چھوڑیں مجھے آپ بھی نا حد کرتے ہیں

یشال نے شرماتے ہوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی وہ آج بھی پہلے دن کی طرح اس سے شرماتی تھی

ابھی شاه مزید کوئی شرارت کرتا کہ ان کی معصوم اینجل نے رونا شروع کر دیا

ذشل نے ایک سال پہلے ان کی دنیا میں آکر ان کی دنیا مکمل کی تھی

وہ اس معصوم پری کو پا کر بے حد خوش تھے اس کی معصوم شرارتوں نے ان کی زندگی کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا

یشال اور شاه نے ایک دوسرے کو دیکھا

یشال کھلکھلاکر ہنس دی

جبكے شاه نے بے اختیار اپنی اینجل کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا

______

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wahshat E Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wahshat E Ishq written by Saniya Shah. Wahshat E Ishq by Saniya Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment