Yeh Kahan Aa Gaye Hum Novel By Hamna Tanveer New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 14 July 2024

Yeh Kahan Aa Gaye Hum Novel By Hamna Tanveer New Complete Romantic Novel

Yeh Kahan Aa Gaye Hum  Novel By Hamna Tanveer New Complete Romantic Novel 

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Yeh Kahan Aa Gaye Hum By Hamna Tanveer Complete Romantic Novelet 

Novel Name: Yehb Kahan Aa Gaye Hum

Writer Name: Hamna Tanveer 

Category: Complete Novel

 

"اچھا اچھا.... " وہ منہ بناتی تیزی سے اوپر چلی گئی۔

"آپی آپ بھی فریش ہو جائیں تب تک میں آپ کے لئے سڑانگ سی چاےُ بناتا ہوں۔" حماد نے مسکراتے ہوےُ پیش کش کی۔

"اوکے تھینک یو.... " وہ مسکراتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

••••••••••••••••••••••

"جی سر؟" وہ دروازہ بند کرتی اندر آئی۔

"عثمان رضی کی کمپنی کی ساری معلومات چائیے مجھے.... کیسے حالات چل رہے ہیں؟ کتنے لاس میں ہیں کتنے پرافٹ میں؟ ایچ اینڈ ایوری تھنگ۔" وہ چئیر گھما کر بیٹھا تھا۔

"ٹھیک ہے سر میں کل تک آپ کو رپورٹ کر دوں گی۔" اس نے سر کو خم دیا۔

"اور دھیان سے کچھ مس نہ ہو.... " وہ فون پر انگلی چلاتا اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔

"اوکے سر.... " وہ کہہ کر وہیں سے پلٹ گئی۔

"آخر کون سی چیز تمہیں واپس یہاں کھینچ کر لائی ہے؟" وہ متجسس سا کہتا فون کی اسکرین کو بند کرنے لگا۔

اس فون کی اسکرین بند کریں تو سائز آدھا ہو جاتا اور اسکرین اندر چلی جاتی۔ اس چار انچ کے آدھے حصے پر اوپر والے کونے میں ٹائم لکھا نظر آ رہا تھا, ساتھ ہی ایک مسڈ کال کا پیغام تھا۔


"علینا مجھے گزشتہ سال والی فائل لا کر دو۔ عثمان رضی کو جو پراجیکٹ دیا تھا۔" اس نے ریسیور کان سے لگایا۔

"ہاں وہی فائل لے کر آؤ.... " اس نے کہتے ہوےُ ریسیور واپس رکھ دیا۔

"نجانے ایسا کیا ہے تمہارے چہرے میں... ایسی کون سی مقناطیسی کشش ہے جو مجھے تمہاری جانب کھینچتی ہے اور اتنی شدت سے کہ میں بے بس سا ہو جاتا ہے۔" وہ اپنی الجھن ظاہر کرتا سامنے دروازے کو دیکھنے لگا۔

"مگر اس بار.... " وہ کمینگی سے مسکرایا۔

"اس بار شہریار صدیقی اس کشش کو مایوس نہیں کرے گا۔ مرحا عثمان اس بار اس تجسس کو اختتام پذیر کرنا لازم ہے۔" وہ اس سے ہمکلام تھا جس کی موجودگی کا اس کے آفس میں نام و نشاں تک نہ تھا۔ اس نے مسکراتے ہوےُ لیپ ٹاپ کی اسکرین کھول لی۔

••••••••••••••••••••••

"ابراہیم اب سو جاؤ نہ.... میں نے گھر جانا ہے۔" وہ اس کے سرہانے بیٹھی التجا کر رہی تھی۔

"مجھے پہلے آئسکریم کھانی ہے.... بابا کو بول کر آئیں۔" وہ چھ سال کا بچہ اپنے باپ کی مانند رعب جھاڑ رہا تھا۔

"تمہارے بابا نے اس وقت میری آئسکریم بنا دینی ہے۔ اس لئے اگر چاہتے ہو کل صبح میں انسان بن کر تمہارے سامنے آؤں تو سو جاؤ۔" اس نے گھور کر دیکھنا چاہا مبادہ کوئی نفع ہوتا ہے یا نہیں۔

احمر کا سوچ کر ہی وہ بدمزہ ہو گئی۔

"عشال کٹی.... " وہ جو اس کی ہزار کوششوں کے بعد لیٹا تھا بیڈ پر کہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

"ٹائم بھی تو دیکھو ابراہیم.... میری امی نے مجھے گھر میں گھسنے نہیں دینا۔" وہ وال کلاک کو دیکھتی منہ بسورنے لگی جہاں رات کے نو بج رہے تھے۔

"پھر یہیں سو جانا ہمارے گھر میں۔" وہ چہک کر کہتا چھلانگ لگا کر بیڈ سے اترا اور آن کی آن میں کمرے سے باہر نکل گیا۔ عشال کا منہ کھل گیا۔


"دو گھنٹے لگا کر اسے کمرے میں لائی تھی اور وہ پھر بھاگ گیا.... " وہ کوفت سے کہتی کمرے سے باہر نکلی۔

ابراہیم زینے چڑھ رہا تھا جس کا مطلب تھا اس کا رخ احمر کے کمرے کی جانب ہے۔

"ابراہیم نہیں... " وہ ہونق زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔ اس کے پکارنے پر وہ پلٹا مگر اگلے لمحے تقریباً بھاگتا ہوا اوپر چلا گیا۔

"آج میری خیر نہیں.... احمر سر نے جوتے مارنے ہیں مجھے۔ اتنی لیٹ ابراہیم کمرے سے نکل گیا۔" وہ بڑبڑاتی ہوئی تیز تیز زینے چڑھنے لگی۔

"بابا مجھے آئسکریم کھانی ہے.... عشال نہیں لا کے دے رہی۔" وہ کمرے کا دروازہ کھولتا خفا خفا سا بولا تو احمر نے اس کی آواز پر کتاب سے نگاہیں ہٹا کر اسے دیکھا۔

اس کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی, احمر کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

وہ ہانپتی ہوئی دروازے میں نمودار ہوئی۔ تنفس پھولا ہوا تھا۔

"سلیپر کہاں ہیں ابراہیم کے؟" وہ چبا چبا کر کہتا عشال کے سامنے آ گیا۔


"چپل.... وہ بھاگ کر آ گیا یہاں میں کیسے پہناتی؟" ایک اور ٹینشن اس کے سر پر آ گری۔ وہ مظلومیت سے احمر کو دیکھتی پھر ابراہیم کے ننگے پاؤں دیکھنے لگی۔

"دور بین فٹ ہے اس بندے کی آنکھوں میں.... مجھے تو نیچے سے نظر نہیں آیا اسے ایک لمحے میں معلوم ہو گیا.... " وہ دل ہی دل میں کلس اٹھی۔

"سلیپر.... " اس نے دانت پیستے ہوےُ تصحیح کی۔

"ہاں جی سلیپر.... میں تو روک رہی تھی ابراہیم کو مگر بھاگ کر آ گیا یہاں.... " وہ سنبھل کر بولی۔

"بابا مجھے آئسکریم کھانی ہے.... " اس نے احمر کی آستین کھینچی۔

"سویا کیوں نہیں ابھی تک ابراہیم؟ آٹھ بجے کا ٹائم دیا تھا میں نے بھول گئی ہو تم؟" وہ آگے کو ہوتا ابراہیم کے باعث آواز کو حتی الوسع آہستہ رکھتا ہوا بولا۔ البتہ نگاہیں سب واضح کر رہی تھیں۔

"پوچھ لیں اس سے.... کتنی منتیں کی ہیں کہ سو جاؤ۔ اب میں نیند گھول کر تو نہیں پلا سکتی اسے۔ یا پھونک ماروں گی تو سو جاےُ گا فوراً سے۔" وہ اس کے یوں ڈانٹے پر برا مان گئی۔


"تمہاری ڈیوٹی اسے وقت پر سلانا ہے.... کیسے؟ یہ میرا مسئلہ نہیں۔ ابراہیم جاؤ اپنے کمرے میں صبح آپ کو آئسکریم مل جاےُ گی۔" وہ سرد لہجے میں اسے باور کراتا ابراہیم کی جانب گھوما۔

"میں کوئی جادو کی چھڑی ہوں جو عین آٹھ بجتے ہی اسے سلا دوں گی؟" اس نے سر جھکا کر منہ میں بڑبڑایا مگر اس کی سماعت تک اس کی یہ مدھم سی آواز بھی رسائی حاصل کر گئی۔

"پیسے کس چیز کے لیتی ہو؟ ٹائم پاس کرنے کے؟ نہیں ہوتا تو بتاؤ آج ہی فارغ کر دیتا ہوں تمہیں۔" وہ تلملاتا ہوا اس کی جانب گھوما۔

"میں نے کب کہا ایسا؟" وہ ہونق زدہ سی اسے دیکھنے لگی جو پل بھر میں اسے فائر کرنے پر تل گیا تھا۔

"بلکل میں جادو کی چھڑی ہوں دیکھنا کیسے سلاتی اس کو۔" وہ ابراہیم کی بازو پکڑتی دانت نکالنے لگی۔

"جاؤ اب.... " اس کے جھڑکنے پر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔


"مل گئی اب آئیسکریم تمہیں؟ منع کر رہی تھی نہ میں.... بس میری شامت بنوانی ہوتی تم نے.... " وہ خائف سی ابراہیم کو سنانے لگی۔

"بابا غصے میں تھے.... " وہ منہ بناتا اپنی بازو آزاد کرواتا سیدھا کمرے میں چلا گیا۔

"میں سو رہا ہوں جاؤ آپ گھر...." وہ کمرے کے دروازے کو پکڑے کھڑا تھا۔ عشال سمجھ چکی تھی یہ اس کی ناراضگی ظاہر کرنے کا طریقہ تھا۔

"صبح منا لوں گی تمہیں... " وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی پلٹ گئی۔ وہ خفا خفا سا دروازہ بند کرنے لگا۔

•••••••••••••••••••••

ابھی دس بجنے میں پندہ منٹ تھے کہ وہ آفس میں داخل ہوئی۔ علینا(شہریار کی سیکٹری) نے اسے ویٹنگ روم میں بٹھا دیا۔ دس منٹ بعد صبا اور سہیل بھی وہاں آ گئے۔

"رات جو فائل بھیجی تھی میں نے اسے چیک کیا تھا؟" وہ سہیل کی جانب متوجہ تھی۔ چہرے پر سنجیدگی احاطہ کئے ہوےُ تھے۔ اس لمحے کوئی بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کے اندر کون سا طوفان برپا ہے۔

"جی میں چیک کر لی تھی اور جو چیزیں متغیر کرنے کو آپ نے بولا تھا وہ بھی کر دیں تھیں۔ لیپ ٹاپ لایا ہوں میں۔" اس نے ہاتھ میں پکڑے بیگ کی جانب اشارہ کیا۔

"گڈ.... ایک بار کولیشن ڈیسائیڈ ہو جاےُ تو پھر اس پر کام شروع کریں گے۔" وہ سپاٹ انداز میں کہتی دروازے کو دیکھنے لگی جس کے پار ہیولہ سا دکھائی دے رہا تھا۔

اس کی باڈی لینگویج کو دیکھ کر وہ بتا سکتی تھی کہ یہ شخص شہریار ہی ہے۔


"میرے آفس میں بھیجو مرحا کو.... " وہ علینا سے کہتا وہیں سے پلٹ گیا۔

اگلے لمحے دروازہ کھلا اور علینا کا چہرہ دکھائی دیا۔

"آپ کو سر بلا رہے ہیں.... " وہ انگشت شہادت سے مرحا کی جانب اشارہ کر رہی تھی۔

"شروع ہو گیا ڈرامہ اس کا.... " وہ مدھم آواز میں بڑبڑاتی کھڑی ہو گئی۔

دروازہ ناک کر کے وہ اس کے جواب کی منتظر تھی۔ جونہی اس کی جانب سے جواب آیا وہ اندر آ گئی۔

"جی؟" وہ بازو لٹکاےُ بائیں ہاتھ پر دائیاں ہاتھ رکھے سعادت مندی سے کھڑی تھی۔

"مجھے میل کرنی تھی آپ نے.... ابھی تک نہیں ملی۔ اور اوپننگ کے لئے کیا پلان سوچا ہے آپ نے؟" وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھتا اسے نظر انداز کر رہا تھا۔


"میل میں آپ کو ابھی جا کے کر دوں گی۔ اور اوپننگ کے لئے ہم سوچ رہے تھے کسی آرٹسٹ کو بلا لیں۔ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کا بہترین طریقہ ہے۔ آج کل بہت پسند بھی کر رہے ہیں لوگ اس طرز کے شو کو۔" وہ نگاہیں ہنوز اس کے پتھریلے چہرے پر ٹکاےُ ہوےُ تھی۔ اگر اس نے بیٹھنے کو نہیں کہا تھا تو وہ بھی نہیں بیٹھی تھی۔

"ہممم ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں اس خیال کو۔ ویسے ہماری ذہنی ہم آہنگی تو نہیں ہو سکتی مگر پھر بھی.... " وہ نگاہیں گھماتا اسے دیکھنے لگا۔

"اگر آپ کو یہ آئیڈیا پسند نہیں آےُ گا تو ہماری ٹیم کسی نئے آئیڈیا کو تخلیق کر لے گی۔" وہ بنا کسی گھبراہٹ کے پرسکون سی بولنے لگی۔


"ٹھیک ہے جا سکتی ہیں آپ.... مجھے میلز بھیج دیں میں چیک کر کے بلا لوں گا آپ کو۔ اور لوکیشن بھی بتا دے گی میری سیکٹری آپ کو۔" وہ ہاتھ سے دروازے کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔

اس کی جانب سے کی جانے والی تذلیل پر اس کا دل جلا ضرور تھا مگر کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی گئی۔

"ٹھیک ہے.... " وہ سر کو معدوم سا خم دے کر پلٹ گئی۔

"مجھے ڈیٹیلز آج ملنے والی تھی شاید.... " وہ فون کان سے لگاتا چبا چبا کر بولا۔

"سر میں بس کچھ ہی دیر میں بھیجتی ہوں آپ کو.... " اس کے غصے پر وہ اچھل پڑی۔

"علینا مجھے دوبارہ کہنا نہ پڑے....جلد از جلد میرا کام کرو۔" وہ سخت لہجے میں تنبیہ کرتا فون بند کر گیا۔

"زیادہ دن دور نہیں اب.... " وہ اپنی ریوالونگ چئیر گھماتا طمانیت سے بولا۔

••••••••••••••••••••••

"کل تنگ کر رہے تھے عشال کو آپ؟" فردوس خفا خفا سی اسے دیکھ رہی تھیں۔

"مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور عشال کے پاس کہانیاں بھی ختم ہو گئیں تھیں۔" ابراہیم نے بھی جواباً خفگی سے جواب دیا۔

"جھوٹ مت بولو ابراہیم.... دادو رات اس نے ضد لگا لی کہ آئسکریم کھا کر سونا ہے۔ اور اسی چکر میں اس نے میری خوب درگت بنوائی سر سے.... " عشال جو ان کی ٹانگیں دبا دہی تھیں اسکے الزام لگانے پر تڑپ اٹھی۔

"ابراہیم کتنی غلط بات ہے؟ آپ کو پتہ ہے نہ عشال نے گھر جانا ہوتا۔ ٹائم سے کیوں نہیں سوتے؟" وہ اسے اپنے ساتھ لگاتی نرمی سے پوچھنے لگیں۔

"تو عشال ہمارے گھر سو جاےُ.... " اس نے معصومیت سے فردوس کو دیکھا۔

"پاگل میں کیسے یہاں سو جاؤں؟" عشال نے ہنستے ہوےُ اسے دیکھا۔


"دادو آپ کو پتہ ہے عشال میری بیسٹ فرینڈ بن گئی ہے اب۔ اس لئے میرا دل نہیں کرتا وہ اپنے گھر جاےُ۔"

"اس لئے رات سو نہیں رہے تھے؟" وہ آنکھیں سکیڑ کر ابراہیم کو دیکھنے لگی۔

"میں نے سوچا تھا آپ ہمارے گھر ہی سو جاؤ گی اگر لیٹ ہو گیا تو مگر.... " اس نے شانے اچکاتے ہوےُ بات ادھوری چھوڑ دی۔ چہرے پر مایوسی کے ساےُ تھے۔

"بیٹا وہ یہاں رہ نہیں سکتی.... اس نے اپنی ماما کے پاس بھی جانا ہوتا۔" وہ شفقت بھرے انداز میں اس کے بال سنوارنے لگیں۔

"بابا آئسکریم نہیں لاےُ؟" وہ ہونق زدہ سا باری باری دونوں کو دیکھنے لگا۔

"لے کر آ رہے ہیں مجھے فون آیا ہے۔ جاؤ کپڑے چینج کرو تب تک آ جائیں گے۔" فردوس کہتی ہوئی عشال کو اشارہ کرنے لگیں۔

"ہاں... اگر سر نے تمہیں یونیفارم میں دیکھ لیا تو میری خیر نہیں... " اسے سکول سے آےُ آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اس لیے وہ متفکر سی سی بولی۔

"پھر مجھے کہانی سناؤں گی آج؟" وہ اس کی انگلی پکڑے چلنے لگا۔

"آج کون سی کہانی سننی ہے؟ کل والی تو تمہیں بلکل پسند نہیں آئی تھی۔" وہ منہ بناتی اس کے کمرے کا دروازہ کھولنے لگی۔

"بادلوں میں کون سا شہزادہ رہتا ہے؟" وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھتا رک کر اسے گھورنے لگا۔

"وہ بہت پرانی کہانی ہے نہ.... تب بادلوں میں رہتے تھے شہزادے۔" وہ خود سے بناےُ مفروضے پر قائم رہی۔ اب بچے کے سامنے خود کو غلط ثابت نہیں کروا سکتی تھی۔

"اچھا تو پھر اب کیوں نہیں رہتے؟" وہ ابھی تک اسی پوزیشن میں کھڑا تھا۔

"اب...."

"اب وہ گھر بن گئے نہ زمین پر بہت زیادہ اس لئے پھر بعد میں سب نیچے آ گئے تھے۔" اس نے ابراہیم کو اطمینان میں لینے کی کوشش کی جو اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔

"آپ کہتی ہو تو مان لیتا ہوں... " وہ احسان کرنے والے انداز میں کہتا نیچے بیٹھ گیا۔

"آج کوئی اچھی سی کہانی سناؤں گی پکا... " وہ کہتی ہوئی بیٹھ کر اس کے شوز کے تسمے کھولنے لگی۔

"صحیح صحیح سنانا....ورنہ میرے دوست مجھے سٹوپڈ کہتے ہیں۔" وہ منہ بناتا اسے دیکھنے لگا جو اب دوسرے جوتے کے تسمے کھول رہی تھی۔

"اچھا صحیح صحیح سناؤں گی... "

آج کل کے بچے بڑے سیانے ہیں۔ وہ دل ہی دل میں کہتی مسکرانے لگی۔

•••••••••••••••••••••

"بیٹھیں.... " وہ بیٹھنے کا اشارہ کرتا خود آگے بڑھ گیا۔

مرحا دوسری نشست پر, جبکہ عثمان پہلی نشست پر براجمان ہو گئے۔ وہ چلتا ہوا سربراہی کرسی پر جا بیٹھا۔

چند لمحے خاموش انہیں دیکھتا رہا۔

"کس لئے بلایا ہے آج اس نے بابا کو؟" وہ اسے دیکھتی متجسس سی سوچنے لگی۔

"جی عثمان صاحب کیا قیمت لگاؤں میں آپ کی بیٹی کی؟" وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا جتنے اطمینان سے بولا مرحا کا اطمینان رخصت ہو گیا۔ چہرے پر پہلے حیرت اور پھر غیض عود آیا۔

"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟" وہ اس کی جرأت پر حیران تھے جو باپ کے سامنے اس کی بیٹی کی قیمت لگانے کی بات کر رہا تھا۔


"مجھے بتائیں جو قیمت چائیے آپ کو.... کیا ہے نہ آپ کی بیٹی پسند آ گئی ہے مجھے۔" وہ کمینگی سے کہتا پین اٹھا کر چیک بک کھولنے لگا۔

"آ ہی گئے تم اپنی گھٹی.... " عثمان نے اس کی بازو پکڑی تو وہ وہیں خاموش ہو گئی۔

"اپنی بات مکمل کر سکتی ہو تم.... " وہ اس کے غصے سے محظوظ ہو رہا تھا۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر اسے گھورنے لگی۔

"میرا خیال ہے ہم بزنس کے متعلق بات.... " وہ ضبط کرتے بولنے لگے۔

"بزنس تو تبھی ہوگا جب آپ کی بیٹی میری دسترس میں آےُ گی۔" وہ ان کی بات کاٹتا مسکرایا۔ مرحا کو اس کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔

"تمہارے منہ لگنا ہی نہیں ہے.... نہیں دیتے پراجیکٹ تو بھاڑ میں جاؤ۔ نہیں کرنا تمہارے ساتھ کام ہمیں.... " اسے تمام حدیں عبور کرتے دیکھ اس کا بس نہیں چل رہا تھا جا کر دو چار تھپڑ لگا دیتی۔ مگر اتنی اس کی اوقات نہیں تھی اس لئے بیگ اٹھاتی پلٹ گئی۔


"میں یہاں اپنی بیٹی کا سودا کرنے نہیں آیا شہریار صاحب.... مگر بہت افسوس ہوا آپ کی بات سن کر۔" وہ تاسف سے کہتے کھڑے ہو گئے۔

اسے اپنی چال الٹی پڑتی محسوس ہونے لگی۔

"اچھا رکیں.... " انہیں دروازے کی سمت بڑھنے دیکھ کر تیزی سے بولا۔

"ہمیں اس کی کوئی فضول بات نہیں سننی بابا۔" وہ تلملاتی ہوئی انہیں گھورنے لگی۔

"دس ماہ کے لیے مرحا شہریار بن کر رہنا ہوگا تمہیں میرے گھر میں میرے ساتھ۔ اور اس پراجیکٹ سے آپ کی کمپنی اس بحران سے نکل آےُ گی جو آپ فیس کر رہے ہیں۔" اس نے آفر متغیر کرتے ہوےُ ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔


"ورنہ کمی نہیں مارکیٹ میں کمپنیوں کی جو میرے ساتھ کام کرنے کی خواہشمند ہیں۔" وہ مغرور سا کہتے چئیر گھمانے لگا۔

"بابا آپ کیوں کھڑے ہیں ابھی تک؟" وہ جو دروازہ کھول کر باہر جا کھڑی ہوئی تھی انہیں ساکت دیکھ ششدر سی رہ گئی۔

"ہمیں یہ پراجیکٹ لازمی چائیے مرحا۔" وہ ہارے ہوےُ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔

"آپ بیچنا چاہتے ہیں مجھے؟ سئیرئسلی؟" وہ منہ کھولے بس انہیں دیکھے گئی۔


"خرید نہیں رہا.... بیوی بنا رہا ہوں۔ اور کیا چائیے تمہیں.... " اس کی مدھم آواز بھی شہریار کی سماعت تک رسائی حاصل کر گئی تھی۔ وہ چئیر روک کر چہرے پر ناگواری لئے اسے دیکھ رہا تھا۔

"آؤ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔" وہ اس کے شانے پر تھپکی دیتے آگے بڑھنے لگے تو وہ مارے غصے کے پیشانی مسلنے لگی۔

"شادی کروں گا مرحا سے۔ دس ماہ کے لیے اس کے بعد آزاد ہوگی یہ۔ میرا نہیں خیال اس آفر میں کوئی قباحت ہے۔" وہ عثمان کو بیٹھتے دیکھ مرحا کو دیکھنے لگا جو ابھی تک ساکت کھڑی تھی۔

عثمان خاموش رہے, کسی سوچ میں ڈوبے معلوم ہوتے تھے۔

"میرا خیال ہے اس میں کوئی برائی نہیں۔" چند لمحوں کی خاموشی کو عثمان کی آواز نے توڑا۔

جہاں شہریار کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ گئی وہیں مرحا کے چہرے پر مایوسی پھیل گئی۔ اسے عثمان کے فیصلے نے رنج سے دوچار کیا تھا۔ زیادہ حیران نہیں تھی وہ مگر دکھی ضرور تھی۔

وہ اسے جلانے کے عوض اس کی جانب دیکھتا دونوں آبرو اچکانے لگا, مبادہ پوچھ رہا ہوں کہ چاروں شانے چت کر گیا یا نہیں؟

وہ ہاری ہوئی دروازہ بند کرتی واپس آ کر بیٹھ گئی۔

"بتاؤ تمہیں کوئی اعتراض ہے.... ویسے اعتراض کا حق حاصل تو نہیں تمہیں۔" وہ اس کا خون جلانے کا کام بخوبی سر انجام دے رہا تھا۔


"شادی کے سارے انتظامات میری جانب سے ہوں گے.... آپ کو بس اپنی اس مغرور بیٹی کو میرے ذمے کرنا ہے۔"

اس کے مغرور کہنے پر مرحا نے جلتی نگاہوں کو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"مرحا تم....."

"آپ جو فیصلہ لے چکے ہیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں اس سے.... " اس نے بھی مجبوری کے ہاتھوں اپنا سودا بنا چوں چرا کئے کر دیا۔ چہرے پر سختی عود آئی تھی۔

"ٹھیک ہے پھر آگے جیسے آپ کہیں..... " عثمان نگاہیں موڑتے شہریار کو دیکھنے لگے۔

"میں آپ کو بتا دوں گا تاریخ اور وقت۔ زیادہ وقت نہیں دوں گا ویسے میں۔" اس کی خوشی اور جیت کی مسرت چہرے سے عیاں تھی۔ وہ اسے ایسے نہیں ملی تھی تو اس نے حربہ متغیر کر لیا تھا۔

فون کو رنگ کرتے دیکھ عثمان ایکسکیوز کرتے باہر نکل گئے۔

"تم تو کام کرنے کی خواہاں نہیں تھی... سوچو میرے ساتھ میرے کمرے میں۔ آہم آئم.... " اس نے جان بوجھ کر گلا کھنکھارتے ہوےُ بات ادھوری چھوڑ دی۔


"آپ کی شکل دیکھنے کی خواہاں تو میں ابھی بھی نہیں...." وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی سرد مہری سے گویا ہوئی۔

"مگر پھر بھی دیکھو گی.... مجھے گھٹیا اور نیچ بول کر گئی تھی نہ تم؟ اب اسی انسان کے ساتھ رہو گی تم۔" وہ آنکھوں میں نفرت لئے اسے دیکھ رہا تھا۔ انداز جتانے والا تھا۔ وہ ایک ہی سینے میں دو دو جذبے لئے گھوم رہا تھا, کبھی نفرت جاگ جاتی تو کبھی پسندیدگی کا عنصر, جو جذبہ غالب آ جاتا رویہ اسی کے مطابق ڈھل جاتا۔

"دیکھ لیں گے وہ بھی.... میرا خیال ہے آپ کے پاس کام کی کوئی بات نہیں اس لئے مجھے چلنا چائیے اب۔" وہ تحمل کا مظاہرہ کرتی کھڑی ہو گئی۔ کہاں کہاں سے زخم اس نے کھاےُ تھا, سامنے بیٹھا بے حس انسان سمجھنے سے قاصر تھا۔


"اتنی جلدی کیا ہے؟" وہ اسے پلٹتے دیکھ اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔

مرحا نے ناگواری سے اسے دیکھا اور پیچھے ہو کر فاصلہ بڑھا دیا۔

"ابھی تو کوئی بات ہی نہیں کی تم سے میں نے.... " وہ دلچسپ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سانس خارج کرتی بائیں جانب دیکھنے لگی۔ سیاہ رنگ کے حجاب نے اس کی گندمی رنگ کو مزید پرکشش بنا دیا تھا۔

یہ اس کی خوبصورتی تھی یا اس کے حجاب کی؟ شہریار ہر بار فیصلہ کرنے میں ناکام ہو جاتا۔

"اپنی اوچھی حرکتیں شروع مت کریں یہاں... میرا خیال ہے کیمرہ بھی نصب ہے اس روم میں۔" اس نے چبا چبا کر کہتے ہوےُ آنکھوں سے بائیں جانب اشارہ کیا۔

میٹنگ روم میں کیمرہ نصب تھا, شہریار کو پلٹ کر دیکھنے کی نوبت نہیں آئی کہ اسے یاد آ چکا تھا۔


"مجھے کام ہے اس لئے بہتر ہوگا میرے وقت کا ضیاع مت کریں۔" وہ سخت لہجے میں کہتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی۔ کمرے کی بڑھتی گھٹن میں اس کے لئے سانس لینا محال ہو گیا تھا۔

وہ باہر نکل کر لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ عثمان ابھی تک فون کان سے لگاےُ کونے میں کھڑے تھے۔ ایک تنقیدی نگاہ ان پر ڈالتی وہ دروازے کی سمت قدم اٹھانے لگی۔ آج ان کے فیصلے نے ثابت کر دیا تھا کہ بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں اور اس نے سر خم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ بیٹیاں ان کے حکم پر آنکھوں دیکھی مکھی بھی نگل جاتی ہیں۔


وہ لاؤنج کے دروازے میں بیٹھا تھا۔ آنکھیں منتظر سی گیٹ پر مرکوز تھیں۔

"دس بج رہے ہیں.... کہاں رہ گئیں آپ؟" وہ گھڑی دیکھتا متفکر سا بولا۔

پانچ منٹ بعد گیٹ کھلا اور وہ سر جھکاےُ نمودار ہوئی, اس بات سے انجان کہ وہ سیڑھیوں میں بیٹھا ہے۔ جب وہ اس کے پاس پہنچی تو نگاہیں اس کے جوتے سے جا ٹکرائیں۔ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"یہاں کیا کر رہے ہو؟"

وہ اسے جواب دینے کی بجاےُ بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں عجیب سی ویرانی تھی۔ آنکھیں بوجھل سی معلوم ہو رہی تھیں۔


"اتنی دیر سے کیوں آئی ہیں آپ؟ تایا ابو تو کب سے آےُ ہوےُ۔" وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"کام تھا مجھے.... " وہ فون نکال کر مصروف سے انداز میں کہتی اندر چل دی۔

"میں نے کھانا نہیں کھایا.... " اسے اپنے کمرے کا رخ کرتے دیکھ حماد نے ہانک لگائی۔ اس کی توقع کے عین مطابق مرحا کے قدموں میں لغزش آئی۔

"وجہ؟" اس نے پلٹ کر اسے دیکھا۔

"تایا ابو آپ کی شادی کی بات کر رہے تھے۔" وہ سپاٹ انداز میں بولنے لگا۔


"تم سے؟" وہ قدرے حیرت میں ڈوب گئی۔

"نہیں... چچی سے۔ نیچے بیٹھے تھے اس لئے میں نے سن لیا۔"

"حماد میں تھک گئی ہوں۔"

"کھانا کھا لیں نہ آپ پہلے پھر سو جانا.... " حقیقتاً وہ اس کے لئے متفکر تھا۔

"بھوک نہیں ہے مجھے.... " اس نے کہہ کر پلٹنا چاہا مگر قدم بڑھا نہ سکی۔

"مطلب میں بھی بھوکا سو جاؤں؟" اس نے جذبات کا سہارا لیتے ہوےُ آخری حربہ استعمال کیا۔

"کیا بنایا ہے؟" وہ بیگ صوفے پر اچھالتی اس کی جانب بڑھنے لگی۔

"مکس سبزی.... آپ کو پسند ہے نہ بہت۔" وہ اس کے آمادہ ہونے پر خوش ہو گیا تھا۔

"تم سالن لے کر آؤ میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔" وہ خالی ٹیبل دیکھتی وہیں سے پلٹ گئی۔

وہ واپس آئی تو حماد ٹیبل سیٹ کئے بیٹھا تھا۔


"آج گئے تھے انٹرویو دینے؟" وہ اس کے بائیں جانب والی کرسی کھینچتی ہوئی بیٹھ گئی۔

"جی دو جگہ دے کر آیا ہوں... امید تو ہے کال آ جاےُ گی بس آپ دعا کرنا۔" وہ یاس سے کہتا روٹی نکالنے لگا۔

"ان شاءﷲ...." وہ سر ہلاتی پلیٹ آگے کرنی لگی۔

کچھ دیر کے لیے دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہو گئی۔


"آپی اتنی عجلت میں آپ کی شادی کہاں سے آ گئی؟" وہ پوچھے بنا رہ نہ سکا۔

"کتنی عجلت میں؟" چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔

"پرسوں.... مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا اتنی اچانک؟" وہ الجھا الجھا سا اسے دیکھنے لگا۔

"اچھا تو تاریخ اور وقت طے ہو چکا ہے۔" وہ گلاس میں پانی ڈالتی تلخی سے مسکرائی۔

"آپ کی مرضی سے نہیں ہو رہی یہ شادی؟" وہ جیسے اس کے تیور دیکھ کر بھانپ گیا۔

"اگر میں تم سے بات کر رہی ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں جو منہ میں آتا ہے بولتے جاؤ۔" وہ سخت لہجے میں کہتی لمحے میں اسے بیگانہ کر گئی۔

وہ خفیف سا ہو کر گلاس میں پانی ڈالنے لگا۔


قدموں کی آہٹ پر دونوں نے بیک وقت آواز کے تعاقب میں دیکھا۔

عشال رونی صورت بناےُ چلی آ رہی تھی۔

"تمہیں کیا ہوا؟" وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

"یہ پیسے والے لوگوں کا دماغ کتنا خراب ہوتا ہے نہ.... " وہ جل بھن کر کہتی مرحا کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

"بلکل ایسا ہی ہوتا ہے.... " اس کی آنکھوں کے سامنے شہریار کا چہرہ گھوم گیا۔

"خود کو پتہ نہیں کون سی مخلوق سمجھتے ہیں.... " وہ مٹھیاں بند کرتی ضبط کرنے لگی۔

"کچھ ہوا ہے؟ آج غصے میں لگ رہی ہے بھیگی بلی..... " حماد نے اسے چھیڑا۔

"سر کا بس چلے تو مجھے انگریز بنا دیں... یہ لفظ ایسے بولا کرو وہ لفظ ایسے بولا کرو۔" وہ منہ بناتی اس کی نقل اتارنے لگی۔


حماد کے ساتھ ساتھ مرحا بھی مسکرانے لگی۔

"لگتا ہے آج بھی ستھری کروا کے آئی ہو.... " وہ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتا لطف اندوز ہو رہا تھا۔

"اور نہیں تو... سڑیل انسان کہیں کا۔" وہ ہنکار بھرتی گلاس میں پانی ڈالنے لگی۔

"دفع کرو تم ان مغرور لوگوں کو... چلو کھانا کھاؤ۔" اس نے حماد کو آنکھوں سے اشارہ کیا تو وہ روٹی نکالنے لگا۔

"سکون نے تو خلع لے رکھی ہے مجھ سے۔" وہ گلاس لبوں سے ہٹاتی شکایتی انداز میں بولی۔

"تو تم طلاق دے کر کام ختم کرو... " وہ خود کو ہنسنے سے باز رکھتا اسی کے انداز میں بولا۔

"اپنی شکل گم کر لو تم حماد ورنہ اس چمچ سے تمہارے منہ کا نقشتہ بدل دوں گی.... " وہ چمچ اٹھا کر اس کے سامنے کرتی خطرناک تیور لیے بولی۔ مگر مقابل پر اس کی وارننگ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

"حماد... " مرحا نے اسے گھورا تو اس کے دانت فوراً سے پیشتر اندر چلے گئے۔

"چلو تم بیٹھو کھانا کھاؤ۔" وہ عشال کی بازو تھپتھپاتی ہوئی مسکرائی وہ تو منہ بسورتی بیٹھ گئی۔

•••••••••••••••••••••

"دادو آپ اسے نکال کیوں نہیں دیتی؟ ایک سے بڑھ کر ایک کئیر ٹیکر رکھ سکتا ہوں میں آپ کے لئے....." وہ سینے پر بازو باندھتا انہیں دیکھنے لگا۔ چہرہ سنجیدہ تھا۔

"یہ بات تم گزشتہ چار مہینوں سے کہہ رہے ہو.... " انہوں نے اس کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

"میں نہیں چاہتا وہ جاہل ابراہیم کے ساتھ رہے... نہ بولنے کی تمیز ہے نہ کام کرنے کی۔" وہ خائف سا معلوم ہو رہا تھا۔

"اور تمہاری وہ جو فر فر انگلش بولنے والی لڑکیاں ہیں نہ انہوں نے میرا خیال ویسے نہیں رکھنا جیسے عشال رکھ رہی ہے۔" وہ تنک کر کہتی سر جھٹک کر تسبیح سائیڈ پر رکھنے لگیں۔


"پتہ نہیں کون سا جادو کر دیا ہے اس گوار نے آپ پر.... " احمر جھرجھری لیتا قدم اٹھانے لگا۔

"تم اپنے آفس پر دھیان دو بس.... گھر کا میں دیکھتی آ رہی ہوں اب تک آگے بھی میں ہی دیکھوں گی۔" انہوں نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ سنایا۔

"اسے کچھ تمیز بھی تو سکھائیں پھر آپ.... کم از کم جب ابراہیم سے بات کرنی ہو۔" وہ اس کی فکر کا سبب سمجھ رہی تھیں۔

"جاہل نہیں ہے وہ بس سادہ طرز کی ہے.... " وہ آہستہ سے مسکرائیں۔ مقصد اس کی طرف داری تھا۔

"صرف میڑک کیا ہے اس نے.... وہ بھی پتہ نہیں پاس کیا یا نہیں... " اس نے ہنکار بھری۔

"تو کیا ہو گیا؟ یہ ڈگریاں بس کاغذ کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ تم بلاوجہ ہی اس بچی سے بغض پال رہے ہو جبکہ ابراہیم اتنا خوش ہے اس کے ساتھ۔" انہوں نے مسکراتے ہوےُ اس کی معلومات میں اضافہ کیا جو اس کے لئے تشویش کا سبب بن گیا۔

"ابراہیم سے زیادہ اٹیچمنٹ اچھی نہیں اس کی.... " وہ سپاٹ انداز میں کہتا دروازے کھولنے لگا۔

"مطلب؟" انہوں نے الجھ کر دروازے کی سمت دیکھا مگر وہ جا چکا تھا۔

"یہ لڑکا بھی نہ.... ہمیشہ عشال کے کام میں کیڑے ہی نکالے گا۔" وہ تاسف سے کہتی نفی میں سر ہلانے لگیں۔

•••••••••••••••••••••

"میری.... " وہ متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھ رہا تھا۔

"جی سر.... " اگلے لمحے وہ اس کے سامنے موجود تھی۔

"مرحا کو روم میں چھوڑ کر آئی تھی؟" وہ صوفے سے اپنا فون اٹھا رہا تھا۔

"جی سر... "

"ٹھیک ہے.... یہ سب صاف کرو تم اب۔" وہ میز کی جانب اشارہ کرتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔

کمرے کا دروازہ کھول کر اس نے بائیں جانب بیڈ کو دیکھا, اسے خالی پا کر اس کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں۔ اس کا یہ کمرہ ضرورت سے زیادہ بڑا تھا اور کوئی خاص سجاوٹ یا تزین و آرائش نہیں کی گئی تھی آج کی رات کے لیے۔

وہ دروازہ بند کرتا دائیں جانب دیکھنے لگا۔

آگے سٹڈی کا دروازہ کھلا تھا جس کا مطلب تھا وہ وہاں تھی۔

"تم سٹڈی میں کیا کر رہی ہو؟" وہ الجھ کر کہتا قدم اٹھانے لگا۔ چہرے پر تجسس بھی تھا۔

وہ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا تو اسے کرسی پر بیٹھے پایا۔ پاؤں میز پر رکھے وہ گود میں لیپ ٹاپ رکھے ہوےُ تھی, ہاتھ تیزی سے کی پیڈ پر چل رہے تھے۔ وہ شہریار کی ہی کوئی ٹی شرٹ اور ٹراؤذر زیب تن کئے ہوےُ تھی۔


اس لمحے اس کا چہرہ اور بال حجاب سے بے نیاز تھے, وہ پہلی بار اسے یوں بنا حجاب کے دیکھ رہا تھا۔ بھورے بالوں کا جوڑا بناےُ وہ آنکھیں سکیڑے اپنی ساری توجہ اسکرین پر مرکوز کئے ہوےُ تھی۔

وہ اچنبھے سے اسے دیکھتا آگے بڑھا جس نے اس کی آمد کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔

"یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کرتا دونوں آبرو اچکانے لگا۔

"کام.... " اس نے سر اٹھا کر اطمینان سے جواب دیا۔

"شادی کی رات کون بیوقوف کام کرتا ہے؟"


"آپ جیسے احمق اس بات کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے خود کو مت الجھائیں۔" اس نے جلانے والی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔

"اٹھو یہاں سے... اور یہ کام۔ بھاڑ میں جاےُ۔" اس نے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہتے لیپ ٹاپ اٹھا کر میز پر پٹخ دیا۔

"مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟ شادی کی بات ہوئی تھی نہ؟ کر لی شادی اب جان چھوڑو میری۔" وہ احتجاجاً کھڑی ہو گئی۔ چہرے پر نا پسندیدگی تھی۔ اسے شہریار کی مداخلت گراں گزر رہی تھی۔

"شادی ہوئی ہے اس لئے لے جا رہا ہوں... ویسے تم نے اپنے بال کیوں باندھے ہیں؟ پہلے تو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا.... اب آج تو.... " اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بالوں سے کیچر نکال دیا تو وہ آزاد ہو گئے۔ وہ متعجب سی اسے دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر اشتیاق تھا۔


"دیکھنے کو اس میں کیا ہے؟ اپنے سر کے بال دیکھ لو ایسے ہی ہیں۔" اس نے چڑ کر کہتے ہوےُ اس کے ہاتھ سے کیچر جھپٹا۔

"اب تم خاموشی سے میرے ساتھ چلو گی یا تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی بانہوں میں اٹھا کر لے کر جاؤں تمہیں؟" اس نے اس کی جانب دو قدم اٹھا کر فاصلے ختم کر دئیے۔

وہ جھرجھری لیتی پیچھے ہوئی۔

"اپنی گھٹیا حرکتیں اپنے تک محدود رکھو۔ ورنہ بہت برا ہوگا۔" وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگی۔

"مجھے دھمکی دے رہی ہو؟" وہ محظوظ ہوتا ہنسنے لگا۔

"ہاں کیونکہ اب میں ڈرتی نہیں ہوں تم سے.... " اس نے گھورتے ہوےُ جواب دیا۔

"اس لئے کہ مسز شہریار بن گئی ہو؟" وہ اس کے چہرے پر انگلی پھیرتا لب کاٹنے لگا۔


"ڈونٹ ٹچ می.... " وہ اس کے لمس پر زچ ہوتی اس کا ہاتھ جھٹکنے لگی۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کس لئے تمہیں یہاں لایا ہوں میں؟" وہ اس کی بازو پکڑتا تلملا اٹھا۔ اس کا موڈ یکسر متغیر ہو چکا تھا۔ پہلے کی نرمی کی جگہ اب غیض نے لے لی۔

"جس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لاےُ ہو پورا میں بھی نہیں ہونے دوں گی۔" وہ اس کی فولادی گرفت پر ساکت تھی۔

"چیلنج کر رہی ہو؟" اسے اس کا کانفیڈینس متاثر کر رہا تھا۔

"جو مرضی سمجھو.... " وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی لاپرواہ سی بولی۔

"چلو دیکھ لیتے ہیں کتنے دن تم مجھ سے کتراتی ہو... ایک بات میں بھی کہوں گا مگر۔" وہ آگے کو ہوتا رازداری سے بولنے لگا۔


"تم خود آؤ گی میرے پاس.... اپنے آپ کو میرے سپرد کرو گی۔" وہ پیچھے ہوتا مسکرانے لگا۔

"خوش فہمی ہے تمہاری.... " وہ ہنکار بھر کر بال باندھنے لگی۔

"میری ٹی شرٹ کس خوشی میں پہنی ہے تم نے؟" اس نے شرٹ کو کھینچا تو مرحا کا سر اس کے سینے سے آ لگا۔

"الماری میں اور کچھ نظر نہیں آیا مجھے.... " وہ ناگواری سے اسے دیکھتی پیچھے ہوئی۔

"آؤ تمہیں کپڑے دوں تمہارے.... " وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ مقصد اسے یہاں سے لے جانا تھا۔ اپنے عقب میں قدموں کی آہٹ سنتے ہی اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ گئی۔

"اگر میں چینج بھی کرا دوں؟ کیا خیال ہے؟" وہ کمرے کے وسط میں آتا یکدم پلٹ گیا۔

وہ بروقت ٹھہر گئی ورنہ پھر سے ٹکرا جاتی۔ وہ اس کی غیر متوقع حرکت پر کلس کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اس کا سوال وہ فراموش کر گئی تھی۔

"مطلب تم آمادہ ہو اس بات پر.... " وہ اس کی خاموشی کو مثبت انداز میں لے رہا تھا۔


"کس بات پر؟" وہ کرنٹ کھا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"تمہیں چینج کروانے کی بات پر.... ویسے آج تک میں نے یہ کام کیا تو نہیں مگر تمہارے لئے کر دوں گا۔ کیا یاد کرو گی...." وہ احسان کرنے والے انداز میں کہتا بائیں آنکھ کا کونا دبانے لگا۔

"میرے ہاتھ سلامت ہیں ابھی... مجھے بس یہ بتا دو کپڑے کہاں رکھے ہیں۔" وہ سلگتی نگاہوں سے دیکھتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔ جواباً اسے شہریار کا قہقہ سنائی دیا۔

"اب چوبیس گھنٹے اس اوچھے انسان کی شکل دیکھنی پڑے گی.... " وہ اسے الماری کھولتے دیکھ کوفت زدہ سی بولی۔

"اگر مجھ سے کچھ کہنا ہو تو ذرا اونچا بولا کرو یہ منہ میں بولنا زہر لگتا ہے مجھے۔"

اس نے آخری پٹ کھولا اور پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔

"اوہ.... " وہ الماری میں زنانہ کپڑے دیکھتی سر ہلانے لگی۔ اس نے پہلے تین پٹ کھول کر دیکھے تھے مگر وہاں صرف شہریار کے کپڑے موجود تھے۔ آگے بھی اسی کے ہوں گے, یہ قیاس آرائی کرتے ہوےُ اس نے اسی کی شرٹ اور ٹراؤذر نکال لیا۔

"ویسے یہی پہن کر بھی سو سکتی ہو تم.... " اسے وہ اپنے کپڑوں میں اچھی لگ رہی تھی۔

مرحا نے ایک نظر قد آور آئینے میں نظر آتے اپنے عکس پر ڈالی۔ بھورے رنگ کی سادہ ٹی شرٹ کے ساتھ گہرے بھورے رنگ کا ٹراؤزر پہنے, بھورے بالوں کو کیچر میں قید کئے وہ معمول سے کافی منفرد نظر آ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے ایسے ہی.... " وہ سستی کی ماری اسی پر اکتفا کر گئی۔

"ویسے مجھے سب شیری کہتے ہیں۔ تم بھی اب سے شیری ہی کہو گی۔" اس نے الماری بند کرتے ہوےُ اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔


"اور اگر میں نہ کہوں؟" وہ بے دھیانی میں بول گئی۔

"پھر میرے پاس اور بہت سے طریقے ہیں اپنی بات منوانے کے۔" کہتے ہوےُ اس نے پھر سے اسے شرٹ سے پکڑ کر قریب کیا۔

"اچھا ٹھیک ہے.... " وہ ہاتھ اٹھا کر اسے باز رکھتی پیچھے ہونے لگی۔

"ویسے کیسا لگ رہا ہے مسز شہریار بن کر؟ جس شخص کی تم شکل دیکھنے کی متحمل نہیں تھی اسی کی بیوی بن گئی؟"

"ایسا لگ رہا ہے کسی کی نے بدعا دی تھی جو آج پوری ہو گئی۔" وہ سپاٹ انداز میں کہتی اسے سلگا گئی۔

"سوچ سمجھ کر بولا کرو تمہاری طرف پہلے ہی بہت حساب ہیں میرے۔" اس نے تلملا کر کہتے ہوےُ اس کی بازو دبوچ لی۔ گردن کی رگیں غصے سے تن گئیں۔


"آرام سے پورے کریں گے.... مجھے بھی حساب لینا ہے اس شادی کا۔ تم جیسے گھٹیا انسان کو بطور شوہر میرے سامنے پیش کر دیا۔ کوئی تو مداوا کرے اس کا۔" وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی بے پرواہ سی ہوئی۔

"اوہ.... تو مقابلہ کرو گی مجھ سے؟" وہ تمسخرانہ انداز میں ہنسا۔

"بلکل... تم افسوس کرو گے مجھے یہاں لانے پر۔ بس دیکھتے جاؤ... " وہ چیلنج کرنے والے انداز میں کہتی سٹڈی کی جانب بڑھ گئی۔ یکدم اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"کیا چل رہا ہے اس کے دماغ میں؟" وہ اسے جاتے دیکھ الجھ گیا۔

"دیکھتے ہیں کیا کرتی ہو تم.... " وہ متجسس سا ہو کر الماری کھولنے لگا۔

••••••••••••••••••••••

"ابراہیم اب تم باہر آ رہے ہو یا نہیں؟" وہ آنکھوں پر پٹی باندھے سبز نرم گھاس پر ننگے پاؤں کھڑی تھی۔ دونوں ہاتھ کھول رکھے تھے تاکہ اسے ڈھونڈنے میں آسانی ہو سکے مگر وہ آدھے گھنٹے بعد بھی ناکام ہی رہی تو مفاہمت پر اتر آئی۔

"نہیں پہلے مجھے ڈھونڈ کر دکھاؤ.... " اس نے عقب سے ہانک لگائی اور چلتا ہوا اس سے دور جا کھڑا ہوا۔ عشال تیزی سے مڑی مگر ہاتھ کچھ نہ آیا تو چہرے پر مایوسی در آئی۔

"دیکھنا رات میں تمہیں میں کہانی نہیں سناؤں گی اچھی والی.... " اس نے اچھی والی پر زور دیا تو وہ اس کا مطلب سمجھ گیا۔

"وہ جادو والی سناؤں گی؟" اس کا منہ بن گیا۔

"ہاں اور گندے سے شہزادے والی.... جو تمہیں بلکل.... "

وہ بولتی بولتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی جب ہاتھ کسی ذی روح سے ٹکراےُ۔


"پکڑ لیا.... لیکن.... " اس کی گرفت کسی کے بازو پر تھی۔

"ابراہیم کے بازو اتنے بڑے کب سے ہو گئے؟" وہ ہونق زدہ سی کہتی فوراً پٹی آنکھوں سے اتارنے لگی۔

آنکھوں کے سامنے سے سیاہی ہٹی تو اس کی توقع کے مطابق احمر کا چہرہ دکھائی دیا۔

"آپ؟" وہ اس کا بازو چھوڑتی کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئی۔

"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟" اس نے پلٹ کر ابراہیم کو گھورا۔

"تم کیا ہوتا ہے؟ کتنی بار کہا ہے آپ کہہ کر بلایا کرو ابراہیم کو.... " اس نے برہمی سے کہتے ہوےُ اسے بازو سے پکڑ کر سامنے کیا تو عشال کی یادداشت کام کرنے لگی۔

"پرائم منسٹر ہے نہ آپ کہو..... " وہ منہ بناتی نیچے دیکھتی منہ میں بڑبڑائی۔

"ہاں پرائم منسٹر ہے وہ.... " اس نے آنکھیں سکیڑیں۔

"نہیں نہیں بس زبان پھسل گئی میری ایسے ہی... میں تو کہہ رہی تھی آپ ہی کہتی ہوں... بس کھیل کھیل میں منہ سے نکل گیا۔ وہ اس کے منہ پر مکر کر دانت نکالنے لگی۔


"کچھ زیادہ ہی زبان نہیں پھسل رہی تمہاری؟ ہزار بار کہا ہے مگر تمہارے اس ناقص دماغ میں کچھ رہے پھر نہ.... " وہ تاسف سے کہ کر اس کی بازو جھٹک کر ابراہیم کو دیکھنے لگا۔

"آج شہد کھایا تھا اس لیے پھسل رہی ویسے آپ نے گنتی کی تھی؟ واقعی ہزار بار ہو گیا؟" وہ روانی میں بولتی چونک اٹھی۔

"تم پاگل ہو یا ایکٹنگ کرتی ہو؟" اس نے آگے جھکتے ہوےُ عشال کو گھورا مبادہ نظروں سے ہی جلا کر رکھ دے اسے۔

"نہیں ایکٹنگ تو نہیں آتی... ورنہ یہاں کیا کر رہی ہوتی کسی ٹی وی کے پردے پر نظر آ رہی ہوتی آپ کو۔" وہ اس کی ہر بات کو ہی سنجیدہ لے رہی تھی۔ اس نے دکھ بھرے انداز میں دہائی دی۔


"تم کہیں ابراہیم کو بھی اپنے جیسا احمق نہ بنا دو.... " وہ سر تھام کر تشوش زدہ سا اسے دیکھنے لگا۔

"میں بیوقوف تو نہیں ہوں.... " وہ برا مان گئی۔

"عقل سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے تمہارا.... پتہ نہیں سارا دن کیا اول فول سکھاتی رہتی ہوگی اسے۔" وہ خائف سا ہو کر پلٹ گیا۔

"پتہ نہیں کیا کھاتے ہیں یہ امیر لوگ جو ہر وقت منہ میں مرچیں چباےُ رکھتے ہیں.... " وہ اس کی پشت کو دیکھتی منہ میں بڑبڑائی۔

"عشال تھک گیا ہوں میں.... کچھ کھانے کو بناؤ۔" وہ اس کے پاس آتا اس کا دوپٹہ پکڑنے لگا۔


"تمہارا باپ تو پہلے مجھے کھا جاےُ.... " وہ دل ہی دل میں کلس کر کہتی اس کی بازو پکڑ کر قدم اٹھانے لگی۔

"کیا کھاؤ گے ت.... آپ؟" وہ خود کو یاد دہانی کراتی دانت پیسنے لگی۔

"وہ جو چکن بائیٹس بنائی تھی نہ....وہی بنا کر دو۔" وہ فرمائش کرتا لاؤنج کا دروازہ عبور کرنے لگا۔

"اچھا.... " وہ سر ہلاتی دوپٹہ سر پر اوڑھنے لگی جو ڈھلک کر شانے پر آ رہا تھا۔

•••••••••••••••••••••

آنکھ کھلنے پر وہ سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھانے لگا۔

"گیارہ... " وہ بڑبڑاتا ہوا کروٹ بدلنے لگا۔

مرحا پر سکون سی ابھی تک اپنی نیند میں تھی۔

"خوبصورت تو بہت ہو تم.... مگر تمہاری زبان۔" اس نے اس کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوےُ سرگوشی کی۔

"زبان تو زہر اگلتی ہے.... اتنا کڑوا بولتی ہو.... " سوچ کر ہی اس کا حلق کڑوا ہو گیا۔ چہرے پر ناگواری در آئی۔

ہاتھ رخسار سے ہوتا ہوا اس کے لبوں کے پاس آ رکا۔

"ایسے نہیں.... تمہارے سامنے کروں گا جو کرنا ہوگا۔" وہ دل کی فرمائش کو پس پشت ڈالتا سیدھا ہو گیا۔

"دس ماہ ہیں ہمارے پاس.... بہت وقت ہے۔" وہ مسکراتا ہوا کمبل پرے کرنے لگا۔

اس کا رخ واش روم کی جانب تھا۔ اپنی عادت کے مطابق وہ وینٹی کا پانی چلا کر برش اٹھانے لگا۔ پیسٹ لگا کر جونہی اس نے برش منہ میں ڈالا چہرے کے تاثرات تغیر ہونے لگے۔

وہ تھوک کر کلی کرنے لگا۔


"واٹ دا ہیل؟" وہ ناگواری سے پیسٹ کو دیکھنے لگا۔

"یہ کیا.... تھا.... عجیب سی سمیل اور ٹیسٹ... " وہ جھرجھری لیتا ٹوتھ پیسٹ اٹھا کر اس کا جائزہ لینے لگا۔

مرحا دروازے سے کان لگاےُ اسے سننے کی سعی کر رہی تھی۔

اس نے اسے ناک کے قریب کیا تو چہرے پر الجھن پھیل گئی مگر اگلے ہی لمحے جیسے وہ بھانپ گیا۔

"مرحا.... " وہ چلاتا ہوا دروازے کی سمت بڑھا۔

وہ لب دباتی عجلت میں بیڈ کی جانب بڑھی مگر راستے میں پڑے میز سے ٹکرا گئی۔

"آہ.... " وہ گھٹنا پکڑے زمین پر ہی بیٹھ گئی جب وہ باہر نکلا۔

چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔


"یہ فضول حرکت تم نے کی ہے نہ؟ میں بھی سوچوں ایسا کون سا کام ہے جو تم نے رات گئے تک کرنا ہے؟" وہ اس کی تکلیف کو نظر انداز کرتا سلگتی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔

"نظر نہیں آ رہا میرے چوٹ لگی ہے.... " وہ گھٹنا مسل رہی تھی۔ اس نے اسی چوٹ سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہی۔

"اس حرکت کی کیا صفائی پیش کرنا چاہو گی تم؟" وہ نیچے جھک کر اسے بازو سے پکڑتا درشتی سے بولا۔

"مجھے کیا معلوم.... " اس نے لاعلمی ظاہر کرتے شانے اچکاےُ۔

"اور تمہارے باپ کو معلوم ہے؟" وہ مزید تپ گیا۔

"فون کر کے دیکھ لو شاید معلوم ہو... " اب وہ اس کی کیفیت سے محظوظ ہو رہی تھی۔

"تم نہ... " وہ گھورتا ہوا خاموش ہو گیا۔

"میں کیا؟" وہ مسکراتی ہوئی سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

"جاہل انسان ہو تم۔" وہ خائف سا ٹوتھ پیسٹ زمین پر پٹختا ہوا بولا۔


"تمہارے ناقص علم میں اضافہ کرتی چلوں اس فہرست میں پہلا نمبر تمہارا ہے۔ " وہ کراہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔

"اپنا منہ بند کر لو تم مرحا.... " وہ زچ ہو گیا۔

"ابھی سے بس ہو گئی؟ واہ.... دس مہینے ہیں شیری صاحب۔" وہ اسے جلاتی اس کے مقابل آ گئی۔

"اگر تمہیں لگتا ہے ایسی حرکتوں کی بنا پر میں تمہیں آزاد کر دوں گا تو غلط فہمی ہے تمہاری... اب جوابی کاروائی کے لئے تیار رہنا تم بھی۔" وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا مسکرایا۔

مرحا کا منہ بن گیا۔

وہ اس جنگ کا آغاز کر چکی تھی جس میں اب وہ بھی شرکت کرنے والا تھا۔

"ویٹ فار مائی ٹرن۔" وہ تنبیہ کرتی نگاہوں سے دیکھتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

"یہ کیا کرے گا اب؟" وہ منہ پر انگلی رکھے سوچنے لگی۔

"میں محتاط رہوں گی.... " وہ اس نتیجہ پر پہنچ کر الماری کھولنے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"چچی جان یہ میری نئی شرٹ کو کیا کر دیا آپ نے؟" وہ ہکا بکا سا اوپر آیا۔

نصرت اور زمر اس متناسب سے لاؤنج میں پڑے صوفے پر براجمان تھیں۔

"کیا ہوا ہے؟" ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

"یہ دیکھیں.... " اس نے شرٹ کو آستین سے پکڑ کر ان کے سامنے کیا۔

"ہاااا.... " انہوں نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا۔

"یہ زمر کے کام ہیں.... اس کو میں نے کہا تھا وہ آخری ڈھیر دھونے کو۔" انہوں نے ساتھ بیٹھی, فون پر انگلی چلاتی زمر کی کمر میں تھپڑ مارا۔

"امی کیا ہے.... " وہ کراہ کر انہیں دیکھنے لگی۔


"اس کی شرٹ کا کیا حال کر دیا ہے تم نے؟ تمہیں کہا تھا رنگ دار کپڑے الگ ڈالنا.... سارا رنگ اس کی شرٹ کو لگ گیا ہے تمہاری قمیض کا۔" اب کہ برہمی سے کہتے ہوےُ انہوں نے اس کے سر پر چت لگائی۔

"مجھے کیا پتہ تھا... اور آپ نے تو نہیں کہا تھا کہ اس نواب کی شرٹ الگ سے مشین میں ڈالوں۔" وہ جل بھن کر حماد کو دیکھنے لگی۔

" پیسے دو مجھے میری نئی شرٹ خراب کر دی تم نے.... " وہ چبا چبا کر کہتا اس کے سر پر آ کھڑا ہوا۔

"لو بھلا پیسے کس چیز کے؟ جان نکلی ہوئی ہے شرٹ کی اور نئی کہہ رہا.... جاؤ بھئی جاؤ۔" اس نے ہنستے ہوےُ ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا۔

نصرت نے دونوں کو شروع ہوتے دیکھ کانوں میں ہینڈ فری لگے لی, واقف تھی کہ اب وہ دونوں جلدی خاموش نہیں ہونے والے۔


"پندرہ سو کی شرٹ لے کر آیا تھا میں برینڈ سے.... پیسے تو تم بھرو گی۔" اس نے بازو سے پکڑ کر اسے کھڑا کر دیا۔

"سیل سے لے کر آےُ تھے۔ اتنے تم برینڈ سے شاپنگ کرنے والے رہتے نہیں۔" وہ اس کے غصے سے مرعوب نہیں ہوئی۔ انداز لاپرواہ سا تھا۔

"چلو پیسے دو مجھے.... نئی شرٹ لے کر آؤں گا میں۔" وہ اسے ڈھیٹ بنتے دیکھ پھر سے اس کی بازو پکڑ کر کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔

"پاگل تو نہیں ہو گئے تم.... ایسے ہی پہن لو کچھ نہیں ہوتا۔ نہیں تمہاری شان میں فرق پڑنے لگا۔" وہ اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد نہیں کروا پا رہی تھی اس لئے چلانے لگی۔

"میری شان میں فرق پڑے نہ پڑے میرے والٹ میں فرق ضرور پڑا ہے۔ نکالو اپنے پرس سے پورے پندرہ سو روپے۔" وہ کمرے کے وسط میں اسے لا کر ہاتھ چھوڑنے لگا۔


"مر جاؤں گی لیکن ایک دھیلا نہیں دوں گی تمہیں... جاؤ جو کرنا ہے کر لو۔" وہ سینے پر بازو باندھتی ڈھٹائی سے چیلنج کرنے لگا۔

وہ تلملاتا ہوا دانت پیسنے لگا۔

"ایسے ہی پہن لو چپ کر کے.... اگلی بار خود مشین لگا لینا بس بات ختم۔" اسے خاموش پا کر اس نے معاملہ رفع دفع کرنا چاہا۔

"عشال آےُ گی نہ اسے کہوں گا تمہارے پرس سے پیسے نکال کر دے۔ لاک ہے ورنہ میں نے خود ہی نکال لینے تھے۔" وہ انگلی اٹھا کر کہتا دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

"عشال تو جیسے ماں لگتی ہے نہ میری جو پیسے نکال کر دے دے گی.... " وہ اسے جاتے دیکھ جل کر بولی۔

•••••••••••••••••••••••

دوپہر کے چار بج رہے تھے جب شہریار کمرے میں داخل ہوا۔

سفید شرٹ کے ساتھ بلیو پینٹ پہنے, آستین فولڈ کئے, بالوں کو جیل لگا کر نفاست سے سیٹ کئے وہ سیدھا دل میں اتر رہا تھا۔

"گھر میں بھی کیسے اٹین شین ہو کر رہتا ہے۔" وہ جل گئی تھی اس کی تیاری سے۔ مگر آواز اتنی مدھم تھی کہ وہ سن نہیں سکا۔

"کیا مسئلہ ہے اس ڈریس میں؟" وہ دروازہ بند کرتا بلند آواز میں گویا ہوا۔

"ڈارک مہرون کلر.... اتنا تیز کلر مطلب کیا کلر بلائنڈ ہو تم؟ جو لائٹ کلر نظر نہیں آنا تھا؟" وہ فون سے نگاہیں ہٹاتی ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔


"تو جو بھی ہے پہنو اسے اب... ولیمہ آج ہی ہے دو دن بعد نہیں۔ پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکی ہو تم۔ اٹھو اور چینج کرو۔" وہ برہمی سے کہتا انگلی اٹھا کر اشارہ کرنے لگا۔

"مجھے نہیں پہننا یہ... زبردستی ہے کیا؟" وہ اٹھ کر اس کے مقابل آ گئی۔

"ہاں زبردستی ہے.... اور اگر تم نے مزید مجھ سے بحث کی تو میں سمجھا دوں گا کیسی زبردستی ہے۔" اس نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے قریب کرتے ہوےُ دھمکایا۔ آنکھیں غصے کی زیادتی سے سرخ ہو چکی تھیں۔

"میری بازو چھوڑو.... " وہ پیچھے ہونا چاہتی تھی مگر اس کی فولادی گرفت اس بات پر آمادہ نہیں تھی۔

"ایک لمحہ لگے گا مجھے تمہیں زیر کرنے میں مت بھولو اس بات کو.... نرمی سے پیش آ رہا ہوں تو راس نہیں آ رہا؟" وہ ہونٹ اس کے کان کے قریب لاتا سرگوشیاں کرنے لگا۔ اس کا اتنا قریب آنا مرحا کو بوکھلا گیا۔


"اچھا... " وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے پیچھے کرنی لگی۔

"ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں... اتنی جلدی ڈر گئی؟" وہ اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھ رہا تھا۔ اس کی قربت اسے پزل کر رہی تھی۔

"ڈرتی نہیں ہوں تم سے.... " وہ خود کو کمپوز کرتی پھر سے اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کرنے لگی۔

"ٹائم کی قلت ہے ورنہ ابھی معلوم کر لیتا۔" وہ اسے سر تا پیر دیکھتا شریر لہجے میں بولا۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے.... " بالآخر وہ اپنی بازو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ شاید اسی نے گرفت ڈھیلی کر دی تھی۔ وہ بال کان کے پیچھے کرتی جا کر ڈریس کو دیکھنے لگی۔

اس کے لمبے بال پوری کمر کو اپنے احاطے میں لئے ہوےُ تھی۔

"تمہارے بال بہت لمبے ہیں... بیوٹیشن کاٹ کر چھوٹے کر دے گی کوئی چوں چراں مت کرنا۔" وہ اس کی آنکھوں میں مخالفت دیکھتا ساتھ ہی وارن کر گیا۔


"میں نہیں... "

"میں ایک ہی بار میں تمہیں سیٹ نہ کر دوں؟" اس نے سوال کرتے ہوےُ پیش قدمی کی تو وہ اچھل پڑی۔

"نہیں... " وہ اسے گھور رہی تھی۔

"مجھے امید ہے دوبارہ نہیں آنا پڑے گا تمہاری کسی ضد کو سننے.... " وہ الٹے قدم اٹھا رہا تھا۔ اس کی گندمی رنگت پر بھورے بال اسے مزید حسین بنا رہے تھے۔ یہ راز اس پر عین اسی لمحے آشکار ہوا تھا۔

وہ بنا کسی کوشش کے خاموشی سے اس کے دل میں اترتی جا رہی تھی, ثبوت شہریار کی نگاہیں تھی جو اس پر سے ہٹنے پر آمادہ نہیں تھیں۔ وہ دروازے کے پاس پہنچ چکا تھا۔

وہ اسے یوں ٹکٹکی باندھے دیکھ الجھتی ہوئی رخ موڑ گئی۔

وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

•••••••••••••••••••••••

"ابراہیم دادو آپ کو کہانی سناتی ہیں نہ... مجھے جانے دو آج جلدی۔" وہ التجائیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے دوپٹے کا پلو پکڑے خفا خفا سا بیٹھا تھا۔ سبب اس کا جلدی گھر جانا تھا۔

اس نے فردوس کی جانب دیکھا مدد کی خاطر۔

"ابراہیم میرے شیر عشال کو جانے دو نہ اس کی آپی کی شادی ہے.... " وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیتی شفقت بھرے انداز میں بولی۔

"نو.... مجھے کہانیاں سننی ہیں پانچ, سات۔" اس کے چہرے پر پھیلی افسردگی صرف فردوس کو محسوس ہو رہی تھی جبکہ عشال اس کو محض اس کی ضد گردان رہی تھی۔

"کل میں لے کر آؤں گی نئی بکس.... پھر اس میں سے اچھی اچھی کہانیاں سناؤں گی۔ جتنی آپ کہو گے۔" وہ اس کے سامنے بیٹھتی اپنی سی کوشش کرنے لگی۔

"دادو عشال کو نہیں بھیجنا..... " وہ مظلوم سی شکل بناےُ انہیں دیکھنے لگا۔ آنکھیں التجا کر رہی تھیں۔


"میں نے تھوڑی دیر بعد بھی تو گھر جانا ہے نہ.... اب گڈ بواےُ بن کر میرا دوپٹہ چھوڑ دو۔" وہ اس کے سر پر بوسہ دیتی قائل کرنے لگی۔

"مجھے ساتھ لے کر جاؤ پھر.... میں نے بھی شادی میں جانا ہے۔ پاپا جیسا پینٹ کوٹ پہن کر۔" وہ مسرور سا کہتا کھڑا ہو گیا البتہ دوپٹہ ابھی تک اس کی چھوٹی سی مٹھی میں تھا۔

یہ اب ایک نئی فکر آ گئی تھی۔ عشال متفکر سی فردوس کو دیکھنے لگی۔

"میں احمر کو بلاتی ہوں.... " وہ اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھتی کھڑی ہو گئیں۔

اگلے پانچ منٹ میں وہ احمر کے ہمراہ وہاں کھڑی تھیں۔ عشال ان کی جانب پشت کیے ابراہیم کے بال سنوارنے میں محو تھی۔


"جاؤ تم گھر.... میں اپنے بیٹے کو پارک لے کر جاتا ہوں۔" وہ جو سنجیدہ تھا ابراہیم کو دیکھتا مسکرانے لگا۔

"نہیں پاپا.... شادی میں جانا ہے مجھے۔" وہ جو بیٹھا تھا پھر سے احتجاجاً کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک اچٹتی نگاہ عشال پر ڈالی جو سر جھکاےُ کھڑی تھی۔

"اچھا شادی پر بھی چلے جائیں گے لیکن پہلے پارک میں؟ ڈن؟" وہ نگاہیں ابراہیم پر مرکوز کرتا اس کے ہاتھ سے دوپٹہ نکالنے لگا۔

"اوکے ڈن.... " وہ اس بات سے انجان کہ احمر اسے بہلا رہا تھا دونوں بازو اس کے گلے میں ڈالتا اس کے سینے سے لگ گئی۔ اس نے آنکھوں سے ہی عشال کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔

"عشال کہاں؟" وہ اسے دروازے سے باہر نکلتے دیکھ ٹھٹھک گیا۔

"آپ کے شوز لینے گئی ہے.... " وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتا اسے گود میں اٹھاےُ الماری کی جانب بڑھنے لگا۔

"کون سی شرٹ پہنے گا میرا ہیرو؟" وہ اب الماری کھول کر اس کا دھیان ہٹانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ مگر فردوس کو اب فکر ستانے لگی تھی۔ جسے فل وقت وہ ظاہر نہیں کر رہی تھیں۔

•••••••••••••••••••••••••

"بیٹا مجھے امید ہے تم میرے اس فیصلے کی وجوہات سمجھتی ہو۔" وہ اسٹیج پر اس کے ہمراہ بیٹھتے بولنے لگے البتہ چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہیں تھے۔

"جی مجھے معلوم ہے.... گھر کا خرچ کہاں سے چلتا اگر یہ پراجیکٹ بھی ہاتھ سے چلا جاتا۔" وہ تلخ ہوتی سامنے دیکھنے لگی جہاں شہریار کھڑا کسی سے بات کر رہا تھا۔

"شہریار کے گھر میں کم از کم تم تو سکون سے رہو گی... کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی تمہیں۔" وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے مسکراےُ۔

"جی بلکل...." وہ جبراً مسکرائی۔

"جب انہیں خود احساس نہیں تو میں کیوں اپنے الفاظ کا ضیاع کروں؟" وہ انہیں جاتے دیکھ آہستہ سے بولی۔ اس نے نگاہوں کا زاویہ موڑ لیا اور نگاہیں اس ٹیبل پر ٹکا لیں جہاں اس کے گھر کے باقی افراد براجمان تھے۔

حماد نے اسے اپنی جانب متوجہ پایا تو مسکرانے لگا۔ مرحا بھی مبہم سا مسکرائی۔ اس گھر میں ایک وہی سب سے زیادہ اس کا خیال کرتا تھا۔


وہ اپنی میکسی سنبھالتی کمرے میں آ گئی۔ اس کے عقب میں شہریار بھی داخل ہوا۔

"لوشن دینا مجھے... " اسے ڈریسنگ کے سامنے دیکھ وہ کچھ فاصلے پر رک گیا۔

اس نے لوشن اٹھایا اور کھول کر اپنی ہتھیلی پر ڈالنے لگی۔

شہریار کے لب مسکرانے لگے۔ وہ اسے متعدد بار لوشن لگاتے دیکھ چکا تھا۔

مرحا کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ تعجب سمٹ آیا۔

وہ اس کے ہاتھ پر چپک گیا تھا۔

"یہ تو... " وہ سفید مادہ اسے ہلکا ہلکا سا گرم محسوس ہوا تو گردن میکانکی انداز میں اس حریف کی جانب گھوم گئی۔

"کیا ہوا؟" وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"ایلفی ڈالی ہے تم نے اس میں؟" وہ لوشن نیچے پھینکتی چبا چبا کر بولی۔

"مجھے کیا معلوم؟" اس نے اسی کے انداز میں شانے اچکاےُ تو وہ دانت پیسنے لگی۔ اب جب اس کی جگہ پر آ کھڑی ہوئی تھی تو معلوم ہوا تھا کس قدر غصہ آتا ہے۔

وہ ہنکار بھر کر اپنی ہتھیلی کو دیکھنے لگی جس پر ایلفی جم گئی تھی۔


"جلدی اترے گی بھی نہیں اب.... " وہ انگلی سے اسے کھرچ کر دیکھنے لگی۔

"پھر کیا ہوا؟" وہ کب چلتا ہوا اس کے پاس آ گیا اس نے دھیان ہی نہ دیا۔ معلوم تب ہوا جب اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں۔

"اس جنگ کا آغاز ویسے بھی تم نے کیا ہے.... اپنی باری آئی تو دکھ ہونے لگا؟" وہ کہتا ہوا مزید قریب ہو گیا۔

"تم پیچھے ہو کر بات نہیں کر سکتے.... " وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتی اسے پیچھے کرنے لگی۔

"نہیں.... وہ کیا ہے نہ.... " وہ اس کے ہاتھ ہٹاتا پھر سے اس کے قریب ہو گیا۔


"مسٹر شہریار دور ہو کر بات کریں.... " وہ تنک کر بولی۔ آنکھوں میں غیض امڈ آیا تھا۔

"اس کمرے میں تمہارا باس نہیں ہوں میں... " وہ اس کے غصے کو کسی خاطر میں لاےُ بغیر پھر سے آگے ہو گیا۔

"کیا ہے آپ کو؟" وہ اس کے اتنے قریب ہونے پر زچ ہو گئی۔

"وہ کیا ہے نہ میرے ووکل کارڈز میں کمزوری ہوئی ہے اس لئے آواز بہت آہستہ نکل رہی ہے۔ مجھے اتنا قریب ہو کر ہی بولنا ہوگا۔" وہ معصومیت سے کہتا اسے جلانے لگا۔

"پاگل نہیں ہوں میں.... " وہ تپ کر اس کی جانب گھومی مگر چہرہ موڑتے ہی اس کا رخسار شہریار کے ناک کو چھو گیا۔

"آج اتنی خوبصورت کیوں لگ رہی ہو؟" اس نے بغور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوےُ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کے فرار کو ناکام بناتے ہوےُ آہستہ سے استفسار کیا۔

"کیونکہ تمہاری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں... " اس نے کہتے ہوےُ اس کے پاؤں پر اپنی پینسل ہیل زور سے رکھ دی۔

"آؤچ....." وہ کراہ کر پیچھے ہوا۔

"جنگلی بلی ہو تم.... " وہ اسے دیکھنے لگا جو اب ڈریسنگ کے سامنے جا کر بڑے اطمینان سے جیولری اتار رہی تھی۔

"اور تم لوفر کہیں کے.... " وہ اسے گھوری سے نواز کر پھر سے آئینے کو دیکھنے لگی۔

جواب میں اسے قہقہ سنائی دیا۔


"میری چھوٹ پر ہی تمہاری زبان قینچی کی طرح چل رہی ہے۔" وہ رسان سے کہتا کوٹ کے بٹن کھولنے لگا۔

وہ اسے جواب دینے کی بجاےُ مسرور سی چوڑیاں اتارنے لگی اور وہ انہماک سے اسے دیکھنے لگا جیسے دنیا میں اس سے زیادہ اہم اور کوئی کام ہے ہی نہیں۔

وہ چینج کرنے کی غرض سے پلٹی ہی تھی کہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔

" میں چینج کروں گا پہلء.... " اس نے خود ہی اس حصار کو توڑ دیا۔

"اچھا.... " وہ اس کی نگاہوں سے بچنے کے عوض پلٹ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔

•••••••••••••••••••••

"پتہ نہیں ابراہیم کتنا خفا ہوا ہوگا.... کھڑوس باپ اس کا بھی تو دھوکے سے لے کر چلا گیا اسے.... "

وہ دوپٹہ اتارتی آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔ آنکھوں میں فکر کے ساےُ تھے۔

"صبح دیکھنا اب مجھے منانا پڑے گا ابراہیم کو۔ شادی کا کہہ کر پارک میں لے گئے اسے۔" نجانے کیوں اسے احمر پر غصہ آ رہا تھا۔

"یہ ابراہیم کو تم وہیں چھوڑ کر آیا کرو گھر آ کر بھی یہی رونا رہتا تمہارا۔" زمر نے برہمی سے اسے دیکھا۔

"تمہیں کیا مسئلہ ہو رہا ہے؟ اتنا پیارا ہے وہ... " اس نے کشن اٹھا کر اسے مارا تو زمر نے مہارت سے کیچ کر لیا۔

"تنخواہ نہیں ملی تمہیں؟ مجھے دو ہزار امی سے چھپا کر دے دینا.... " وہ آگے آتی مظلومیت سے اسے دیکھنے لگی۔

"تمہیں پتہ ہے نہ سارے پیسے امی کے ہاتھ پر رکھتی میں.... جا کر لے لینا خود ان سے۔" وہ ناک چڑھاتی واش روم کی جانب بڑھ گئی۔

"امی کی چمچی.... " وہ منہ بسورتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔

•••••••••••••••••••••

وہ واش روم سے نکلی تو اسے بیڈ پر بیٹھے پایا۔ بالوں پر تولیہ لپیٹے وہ ہاتھ مسلتی آگے بڑھنے لگی۔

شہریار کی نگاہیں ہنوز اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر جمی تھیں۔

"مجھے آج آفس جانا ہے.... " وہ کاؤچ پر بیٹھ چکی تھی۔ ہاتھ میں پکڑا لوشن کھولنے لگی۔

"جب میں جاؤں گا تب میرے ساتھ چلی جانا.... " وہ آنکھیں سکیڑے کسی چیز پر غور کر رہا تھا۔

"مسٹر شیری مجھے اپنے آفس جانا ہے تمہارے نہیں۔" اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوےُ تصحیح کر دی۔

"اپنے آفس کیوں؟ اب میری بیوی ہو میرے آفس میں کام کرو۔ مجھے فائدہ پہنچاؤ۔" اس نے نگاہیں اٹھا کر مصنوعی خفگی سے اسے دیکھا اور پھر سے انہیں اسکرین پر لے گیا۔


"اور وہ پراجیکٹ میرا باپ پورا کرے گا؟" وہ ہاتھوں پر لوشن لگاتی رسان سے بول گئی۔ غلطی کا احساس ہونے پر زبان دانتوں تلے دبا گئی۔

"بلکل تمہارا باپ پورا کرے گا.... " وہ محظوظ ہوا۔ لب دھیرے سے مسکراےُ۔

"شیری میں سیرئس ہوں.... مجھے آفس جانا ہے۔ کتنا کام پڑا ہے جو مجھے کرنا ہے۔" وہ لوشن وہیں کاؤچ پر رکھتی متفکر سی کھڑی ہو گئی۔ اس کے لبوں سے آزاد ہوا شیری اس لمحے اسے کتنا حسین لگا تھا؟ لفظ نہیں تھے بتانے کے لئے۔

"شیری ہی کہا کرو مجھے.... اچھا لگتا ہے۔ اور رہی بات آفس کی تو سوئیٹ ہارٹ ڈرائیور تمہیں ڈراپ کر دے گا۔ مگر مجھ سے پہلے نہیں جاؤ گی تم۔" خود کو پٹری سے اترتے دیکھ وہ آخر میں ذرا سختی سے بولنے لگا۔

"مجھے پندرہ منٹ تک نکلنا ہے.... " وہ اس کی بات کو خاطر میں لاےُ بغیر وال کلاک کو دیکھنے لگی۔


"تم میری بات کی تردید نہیں کر سکتی.... شوہر ہوں میں تمہارا۔" وہ لیپ ٹاپ پرے رکھتا چلتا ہوا اس کے عین عقب میں آ رکا۔

"اچھا شوہر ہو تم میرے؟ ماتھے پر کیوں نہیں لکھوا لیتے اپنے.... " اس نے یوں انجان بن کر کہا گویا اسے واقعی معلوم نہ ہو۔ تولیہ سر سے اتار کر وہ ڈریسنگ کے سامنے آ گئی۔

" کیا مطلب ہے تمہارا؟ اتنا پیسہ حرام کیا میں نے ولیمے پر اور تم کہہ رہی ہو...." وہ اسے اپنی جانب موڑتا تلملاتا بات ادھوری چھوڑ گیا۔

"کیسے انسان ہو تم شادی پر پیسہ خرچ کرنے کو حرام کرنا کہہ رہے اور یہ بتاؤ پہلے مجھے, میں نے اصرار کیا تھا اتنا پیسہ حرام کرنے کو؟" وہ حرام پر زور دیتی دونوں آبرو اچکانے لگی۔

"تم نے اصرار نہیں کیا تھا مگر یہ پوچھنا زیب نہیں دیتا تمہیں۔"


"اچھا پھر مجھے یاد دلاتے رہنا... کیونکہ مجھے تو تمہیں دیکھ کر وہ بد لحاظ اور گھٹیا باس ہی یاد آتا ہے۔" وہ لاپرواہی سے کہتی جھک کر ڈریسنگ کی دراز کھولنے لگی۔ اسے تپانے کا اچھا موقع مل گیا تھا مرحا کو۔

"گھٹیا بن کر نہ دکھا دوں تمہیں میں؟" اس نے اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کیا تو اس کے بال چہرے پر آ گئے۔ اس کے قریب ہوتے ہی دھڑکنیں بےترتیبی کی لے پر دھڑکنے لگیں۔

"نہیں مجھے اعتبار ہے تمہارے گھٹیا ہونے پر اس لئے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابھی آفس جانا ہے جا کر فریش ہو جاؤ۔" وہ اس کے بدلتے تیور دیکھ گھبرائی تھی مگر ظاہر کرنے کی بجاےُ طمانیت سے اس کی بازو تھپتھپانے لگی۔


"تمہاری یہ جو زبان ہے نہ.... " وہ انگلی اٹھا کر چبا چبا کر بولنے لگا۔ چہرے پر ناگواری تھی۔

"اچھا کسی دن قینچی پکڑ کر کاٹ دینا ابھی جاؤ.... " وہ اب باقاعدہ اسے دھکیل رہی تھی۔

"اچھا جا رہا ہوں.... " وہ اس کی بات پر مسکراتا چلا گیا۔

"بچ گئی...." وہ شکر کا سانس لیتی ہوئی بولی۔

"بال برش کر لوں تب تک... " وہ برش اٹھا کر لمحہ بھر کو ساکت ہو گئی۔

اس کے بال اب آدھی کمر تک آتے تھے۔

"فضول انسان کہیں کا.... " اسے افسوس تھا اپنے بالوں کے ضیاع پر۔

"مرحا..... " اسے واش روم کے دروازے کے پار سے چلانے کی آواز سنائی دی۔

چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ گئی۔


"اب آیا نہ مزا۔" وہ کیچر اٹھا کر آدھے بال باندھے لگی۔

"تم پاگل ہو کیا؟" وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جو باتھ روب پہنے ہوےُ تھا۔

"نہیں میرے پاگل ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔" وہ اطمینان سے کہتی لپ اسٹک اٹھانے لگی۔

"تم نے شیمو کی بوتل میں ہنی ڈال دیا؟ آر یو.... "

"یس ہنی۔" وہ اس کی بات کاٹتی کھل کر مسکرائی۔

وہ اسے گھورتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کی کلائی پکڑی اور چلنے لگا

"کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟" وہ اس حملے پر بوکھلا گئی۔

وہ بنا کچھ سنے خاموشی سے اسے اپنے ساتھ واش روم میں لے آیا۔


"یہ میرے بال دیکھ رہی ہو؟" اس نے شہد سے چپکے بالوں کو پکڑتے ہوےُ ناگواری سے اسے دیکھا۔ دونوں دیوار پر لگے آئینے میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

"تو کیا ہوا؟ مجھے دیکھیں میں نے آپ کی حرکت کو خندہ پیشانی سے قبول کیا تھا۔" اس نے تاسف سے کہتے ہوےُ اسے تھوڑی شرم دلانا چاہی۔

"شیمو لاؤ اور واش کرو میرے بال۔" وہ سرد نگاہیں اس پر گاڑھے ہوےُ تھا, کلائی پر گرفت کچھ زیادہ ہی مضبوط ہو گئی۔

"مجھے آفس جانا ہے....اور میں کیوں کروں؟" وہ اپنی کلائی آزاد کروانے کی جستجو میں اس کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی جو ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔

"انہیں صاف کرو گی تو جانے دوں گا۔ ورنہ تم اس کمرے سے بھی نکل نہیں سکو گی۔" وہ قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا اس کی کلائی چھوڑ گیا۔


وہ جھک کر نیچے بیٹھی اور وینٹی کے نیچے بنے کیبن کھولنے لگی۔

وہ سینے پر بازو باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔

"یہ شیمپو ہے؟" وہ اس کے ہاتھ میں لوشن کی بوتل دیکھ کر متعجب سا رہ گیا۔

"میں نے شیمو اس میں ڈال دیا تھا... " چہرہ کسی بھی شرارت سے عاری تھا۔ وہ سپاٹ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی جو مشکوک ہو رہا تھا۔

"اب اگر کچھ الٹا کیا تو.... " وہ انگلی اٹھا کر وارن کرتا قصداً بات ادھوری چھوڑ گیا۔

"نہیں مجھے آفس جانا ہے.... اب میں کیسے واش کروں تمہارے بال؟" وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی جو قدامت میں اس سے کافی اونچا تھا۔


"یہاں.... " اس نے وینٹی کی جانب اشارہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔

اس نے جھک کر سر نیچے کر لیا۔

"یہ باتھ ٹب سے شاور لے لو.... " اس نے ہینڈ شاور کی جانب اشارہ کیا جو باتھ ٹب کے ساتھ منسوب تھا مگر خاصا لمبا تھا۔

اس نے شاور پکڑا اور اس کے بال بھگونے لگی۔ شہریار کے لب مسکرانے لگے۔

وہ شیمو ڈال کر اس کے بال مسلنے لگی۔

شاور سے شیمو صاف کیا اور نیچے جھک کر بال چیک کرنے لگی۔

"ایک بار شیمپو کرنے سے تو نہیں نکلے گا یہ.... " وہ منہ میں بڑبڑائی اور پھر سے ہاتھ پر شیمو ڈالنے لگی۔

وہ خاموش اس کی بڑبڑاہٹ سن رہا تھا۔


چار بار شیمو کرنے پر اسے کچھ تسلی ہوئی تو دیوار سے تولیہ اتارنے لگی۔

"ان کو ڈرائی کر کے چیک کرنا ہوگا.... " وہ اس کے سر پر تولیہ رکھ رہی تھی جب وہ اچانک سیدھا ہو گیا۔ اس کا سر مرحا کی تھوڑی سے جا ٹکرایا۔

"سی..... " اس اچانک افتاد پر وہ تھوڑی رگڑنے لگی۔

"سوری.... زیادہ زور سے تو نہیں لگا؟" وہ آگے ہوتا اس کی تھوڑی کو پکڑتا دیکھنے لگا۔

"نہ....نہیں میں ٹھیک ہوں۔" اس کا لمس اسے عجیب کیفیت سے دوچار کر دیتا۔

شہریار جواب دینے کی بجاےُ اس کے قریب ہوا, اتنا قریب کہ اس کی ناک مرحا کے رخسار سے ٹکرانے لگی۔ وہ دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنا رخسار اس کے رخسار سے رگڑا تو وہ سانس لینا بھول گئی۔

مرحا کے بائیں رخسار پر جھاگ لگی تھی جسے اس نے مہارت سے صاف کر دیا۔ وہ اپنا کام ختم کر کے پیچھے ہوا تو اسے الجھن میں پایا۔


"چلو اب ڈرائی کرو میرے بال.... " وہ بڑے استحقاق سے اس کی بازو پکڑتا واش روم سے باہر نکل آیا۔

جانتی تھی یہاں بحث بے سود ہے اس لئے خاموشی سے آمادہ ہو گئی۔

"اگر میرے بال ٹھیک نہ ہوےُ تو.... "

"تو کیا کرو گے؟" اس نے سوئچ لگاتے ہوےُ اسے گھورا۔

"یہ تو بعد میں بتاؤں گا۔" نجانے اسے اب مرحا پر غصہ نہیں آ رہا تھا۔

وہ ہئیر ڈرائیر پکڑے اس کے بال خشک کرنے لگی جو اب کافی حد تک بہتر معلوم ہو رہے تھے‍۔


"دیکھیں اب.... " اتنی عزت سے مخاطب کرنے پر جب اسے احساس ہوا کہ وہ اس عزت کا حقدار نہیں تو زبان دانتوں تلے دبا گئی۔

وہ کھڑا ہوتا آئینے میں انہیں دیکھنے لگا۔

"کچھ بہتر ہی ہیں.... شام کو سلون جانا ہی پڑے گا مجھے۔" وہ خائف سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔

"آفس چلیں اب؟" وہ اسے نظر انداز کرتی صوفے سے اپنا بیگ اٹھانے لگی۔

"میں ناشتہ کر لوں پھر چلتے ہیں... " وہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔


مرحا کا ہاتھ میکانکی انداز میں بائیں رخسار پر ٹھہر گیا۔ اس کے لمس کی حدت مانو اسے ابھی تک محسوس ہو رہی تھی۔

"یہ کیسا احساس ہے؟" وہ کھوےُ کھوےُ انداز میں بولی۔

"میں کیوں خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں تمہارے سامنے؟" وہ ان کمزور لمحوں کی گرفت کی بات کر رہی تھی۔

"پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے مجھے.... " وہ جھرجھری لیتی اپنا فون اٹھانے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"مجھے ڈیڈی کے روم سے وہ ٹائی لا کر دو عشال... ورنہ میں تمہاری سوری ایکسیپٹ نہیں کروں گا۔" چونکہ وہ رات والے دھوکے پر خفا تھا اس لئے اسے مجبور کرنے لگا۔ سینے پر بازو باندھتے ہوےُ اس نے نروٹھے پن سے رخ پھیر لیا۔

"ابراہیم اس وقت ڈیڈی سو رہے ہوں گے.... میں ناک کروں گی تو غصہ کریں گے۔" عشال کی تو مانو جان جا رہی تھی۔

"ان کا روم لاک نہیں ہوتا آپ کو معلوم ہے نہ؟ مجھے وہ بلیک والی ٹائی لگانی ہے میں نہیں ہاں.... " وہ ناراض ناراض سا جوتے سمیت بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔

وہ چند ثانیے اسے ساکت دیکھتی رہی۔

"ایسے نہیں مانو گے؟" اس نے دائیں آبرو اچکائی۔

جواباً اس نے نفی میں سر ہلایا۔

"اچھا لے کر آتی ہوں.... سکول سے لیٹ ہو گیا تو بھی مجھ پر ہی غصہ ہوں گے۔" وہ منہ میں بڑبڑاتی پلٹ گئی۔


وہ اس کے کمرے کے سامنے آ کر رک گئی۔ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی آہستہ سے دستک دینے لگی جسے کوئی سوتا ہوا انسان تو ہرگز سننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔

کچھ دیر انتظار کرنے پر اس نے ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔

"ایک بار پہلے بھی تو آئی تھی میں پرفیوم لینے.... " وہ گزشتہ واقعہ یاد کرتی خود ہی اپنی ہمت بندھانے لگی۔ اس نے اپنے عقب میں دروازہ بند کر دیا۔ ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی جو ہوش سے بیگانہ تھا۔

"کتنے سکون سے سوتے ہیں یہ امیر لوگ... " کمرہ اے سی کی ڈھنڈک سے چل ہوا پڑا تھا۔ وہ حسرت زدہ سی اسے دیکھتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔


دوسری الماری میں اسے وہ سیاہ رنگ کی ٹائی مل گئی جس کی فرمائش ابراہیم کر رہا تھا۔

اس نے الماری بند کرتے احتیاطاً پلٹ کر دیکھا مگر وہ اسی انداز میں تھا۔ سیاہ بال پیشانی پر بکھرے تھے۔ گندمی رنگت پر بڑھی ہوئی شیو اس کی شخصیت کو مزید پرکشش بناتی تھی۔ وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی دروازے کے پاس آ گئی۔ جونہی اس نے ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا چہرے کے تاثرات تغیر ہو گئے۔

"یہ کیا؟" اس کے چہرے پر کا رنگ فق ہو گیا۔

دروازہ کھل نہیں رہا تھا۔ وہ بار بار ناب کو گھما رہی تھی مگر کوئی استفادہ نہیں ہو رہا تھا۔

"یہ پھنس کیوں گیا ہے.... " وہ ناب کھینچ کر دروازہ کھولنے کی سعی کرنے لگی اسی اثنا میں احمر کی نیند میں خلل پیدا ہوا کہ اس لمحے وہ فراموش کر بیٹھی تھی اس کی نیند کتنی کچی ہے؟

وہ آنکھیں کھولتا آواز کے تعاقب میں دیکھنے لگا۔


"تم؟" حواس بحال ہوےُ تو اسے عشال کی موجودگی کا احساس ہوا۔

وہ کمبل پرے کرتا بیڈ سے اتر گیا۔

اس کی مدھم سی سرگوشی پر عشال نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔

"ہاےُ ﷲ اب میں کیا کروں؟ یہ تو مجھے گولی ہی مار دیں گے.... " وہ دروازے کو دیکھتی لب کاٹنے لگی۔

"کیا کر رہی ہو تم یہاں؟ اور دروازے کے ساتھ کیا شور برپا کیا ہوا ہے تم نے صبح صبح؟" وہ بولتا ہوا اس کے مقابل آ گیا۔ پیشانی پر بل ڈال رکھے تھے۔ ناچار اسے پلٹ کر احمر کی جانب دیکھنا پڑا۔ جبراً مسکراتے ہوےُ اس نے ناب سے ہاتھ ہٹا لیا۔

"وہ میں ابراہیم کے لیے یہ ٹائی لینے آئی تھی.... " اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹائی اوپر کر کے اسے دکھائی۔


"میری اجازت کے بغیر میرے کمرے میں کیسے داخل ہوئی تم؟" وہ خطرناک تیور لیے آگے بڑھا۔

"پاؤں کے ساتھ اور ابراہیم کی ضد کے باعث, وہ سکول جانے پر آمادہ ہی نہیں ہو رہا تھا اور پھر تاخیر بھی ہو رہی تھی۔" وہ اس کے غصے سے مرعوب ہوےُ بنا اپنی ہی رو میں بولتی جا رہی تھی۔

"آئیندہ اگر میری اجازت کے بغیر تم نے یہاں قدم رکھا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ سرد بے تاثر نگاہوں کے حصار میں اسے لئے بازو سے پکڑتا تنبیہ کرنے لگا۔

"آپ سے برا کوئی ہوگا بھی نہیں۔" وہ ترکی بہ ترکی بولی مگر احساس ہونے پر زور سے آنکھیں میچ لیں۔

اسے عشال کی بات پر غصہ تو ضرور آیا مگر اس کا متوحش چہرہ دیکھ لب بے ساختہ مسکرانے لگے۔


"وہ یہ دروازہ نہیں کھل رہا.... شاید جام ہو گیا ہے۔" اس کی جانب سے کوئی حملہ نہ ہوا تو اس نے دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوےُ اپنی مشکل بیان کی۔

وہ اس کی بازو چھوڑتا آگے بڑھا۔

وہ لب کاٹتی پیچھے ہو گئی۔

اس نے ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے کھولنا چاہا مگر ناکام رہا۔

"کیا کیا ہے تم نے اسے؟" وہ تیکھے تیور لیے پلٹا۔

"میں نے کیا کرنا؟" وہ بوکھلا گئی۔ حیرت کے مارے منہ کھل گیا۔


"پھر کھل کیوں نہیں رہا؟ لگتا لاک خراب ہو گیا ہے..... "اس نے ناب کو گھمانا چاہا جس نے گھومنے سے انکار کر دیا۔

"نیند کا ستیاناس کر دیا ہے..... " وہ خائف سا کہتا بیڈ کی جانب بڑھنے لگا۔

"اب کیسے نکلیں گے اس کمرے سے ہم؟ قید تو نہیں ہو گئے؟" اس نے کھڑے کھڑے دماغ لڑانے کی سعی کی۔

"اپنی فضول باتیں بند رکھو.... " وہ اسے ڈپٹ کر فون پر انگلی چلانے لگا۔

عشال کا منہ بن گیا۔

"کوئی نہ کوئی مصیبت ہی کھڑی کرتی ہے یہ احمق.... "وہ کوفت سے کہتا فون کان سے لگانے لگا۔

•••••••••••••••••••••

"یہ ڈنر کس خوشی میں؟" وہ اس کے ہمراہ قدم اٹھا رہی تھی۔

"لازمی ہے ڈنر کسی خوشی میں پلان کیا جاےُ؟" اس نے ماتھے پر بل ڈال کر مرحا کو دیکھا۔

"ظاہر ہے.... اب ایسے ہی منہ اٹھا کر کون آتا ہے؟" وہ اپنی بے ربط بات پر زور سے آنکھیں بند کر کے کھولنے لگی۔

"میں ایسے ہی منہ اٹھا کر آ جاتا ہوں ڈنر کرنے.... " اس نے قریب ہوتے اس کے کان میں سرگوشی کی جو حجاب کے باعث مخفی تھا۔

"اچھا.... "

وہ بیٹھتا ہوا بغور اسے دیکھنے لگا جو لان کا ایمبرائیڈری والا سوٹ زیب تن کئے ہوےُ تھی, سکن کلر کے حجاب میں چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ہونٹ لائٹ پنک کلر کی لپ اسٹک سے پوشیدہ کر رکھے تھے جو اس کے گندمی رنگ پر بے حد جچتا تھا۔

نجانے مجھے تم حجاب میں اتنی خوبصورت کیوں لگتی ہو... وہ ہاتھ کا مکا بناےُ ہونٹوں کے آگے رکھے اسے دیکھتا سوچ رہا تھا۔

"مجھے کھانے کا ارادہ ہے تمہارا؟" وہ اس کے یوں ٹکٹکی باندھے دیکھنے پر جخل ہوئی۔

"بلکل نہیں.... خالی ہڈیوں سے میرا پیٹ نہیں بھرے گا۔" وہ مسکراتا ہوا ویٹر کو اشارہ کرنے لگا جبکہ وہ بلا مقصد اردگرد نگاہ دوڑا رہی تھی۔

"ہر وقت اتنی روڈ کیوں رہتی ہو تم؟" وہ آڈر دے کر پھر سے اس کی جانب متوجہ ہوا۔

"قصور تمہاری شکل میں ہے.... جسے دیکھ کر بندہ ایسا ہو جاتا۔" وہ سپاٹ انداز میں کہتی اس کا موڈ خراب کر گئی۔

"میں تمہارے ساتھ اچھے سے پیش آ رہا ہوں اس لئے تم.... "


"میں نے تو نہیں کہا اچھے سے پیش آؤ میرے ساتھ۔ جیسا دل کرتا ہے ویسے پیش آؤ میرے ساتھ کوئی خوف نہیں مجھے۔" وہ صوفے سے ٹیک لگاتی چیلنج کرنے والے انداز میں طمانیت سے بولی۔

"یہ خوف والی بات ہم اپنے روم میں جا کر مکمل کریں؟ وہاں جا کر میں پوچھوں گا تم سے کہ ڈرتی ہو یا نہیں؟" وہ آگے ہوا اور سرگوشیوں میں بولنے لگا۔ جونہی اس نے اپنی بات ختم کر کے بائیں آنکھ کا کونا دبایا تو مرحا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

"نکل آیا نہ چھچھورا پن تمہارے اندر سے.... " وہ آنکھوں میں نا پسندیدگی کا عنصر لئے ہوےُ تھی۔

"جس کے سامنے اتنی خوبصورت بیوی بیٹھی ہو اس کی نیت بے ایمان نہ ہو تو اور کیا ہو؟" اس نے آواز مزید مدھم کرتے ہوےُ دونوں آبرو اچکاےُ۔

"بات کرنا ہی فضول ہے یہاں تو... " وہ اس کا مفہوم سمجھتی کوفت سے جھرجھری لینے لگی۔


وہ محظوظ ہوتا پیچھے ہو گیا۔ چہرے پر دلفریب سی مسکراہٹ تھی۔

میز ان کی آرڈر کردہ ڈشز سے بھر چکا تھا۔ وہ پلیٹ سائیڈ پر کرنے لگی تو کانٹا نیچے فرش پر جا گرا۔ خاموشی میں خلل پیدا ہوا تو وہ نادم سی ہو کر اسے اٹھانے لگی۔

وہ اسے نظر انداز کرتا اپنی پلیٹ میں رکھے پیزے کے سلائس سے انصاف کر رہا تھا۔

"ریسٹورنٹ میں کسی چمچ یا کانٹے کا گرنا شدید شرمندگی کا مقام ہوتا ہے۔ تمہارا دھیان کہاں تھا مرحا؟" وہ دل ہی دل میں کوفت زدہ سی خود کو کوسنے لگی۔


کچھ دیر گزرنے پر شہریار کی نگاہیں حیرت سے پھیل گئیں۔

وہ چھری سے پیزا کاٹ کر کانٹا منہ تک لے جا رہی تھی جب وہ ٹکڑا اس کی گود میں آ گرا۔ جہاں شہریار شاک تھا وہیں اس کا اپنا منہ کھل گیا۔

حد ہوتی ہے ویسے... کیا سوچے گا وہ میں کبھی ریسٹورنٹ میں نہیں آئی.... کیا ہو گیا ہے مجھے۔

وہ پھر سے خود کو سخت سست سنانے لگی۔

وہ مارے ندامت کے سر ہی نہ اٹھا سکی۔


"آر یو اوکے؟" وہ نچلآ لب دانتوں تلے دباتا اپنی مسکراہٹ چھپا رہا تھا۔

وہ ٹیشو اٹھا کر وہ ٹکڑا اپنی گود سے اٹھانے لگی جس نے اس کی قمیض پر داغ چھوڑ دیا تھا۔

"یس.... " وہ ٹکڑا خالی پلیٹ میں رکھتی دانت پیس کر بولی۔ اس لمحے اسے خود پر غصہ آ رہا تھا۔

"اوکے.... " وہ مسکراتا ہوا سر جھکا کر کھانے لگا ارادہ شاید اسے مزید شرمندگی سے بچانا تھا۔

دوبارہ کبھی شہریار کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ نہیں جاؤں گی۔ وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کر رہی تھی۔ ان بلنڈرز کے باعث اس نے پیٹ بھر کر کھایا بھی نہیں تھا۔


"چلو.... میرا ایک دوست آ رہا ہے گھر۔ اس سے مل کر پھر اوپر جانا۔" وہ فون کو دیکھتا ہوا چل رہا تھا۔

"اچھا... "

اب کچھ الٹا مت کرنا مرحا.... وہ خود کو ڈپٹ کر دانت پیسنے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"ااچھی.... " اس نے چھینک لیتے ہوےُ منہ پر ہاتھ رکھا لیا۔

"تم نے چھینک کیوں لی؟" وہ متحیر سا اسے دیکھنے لگا۔

"کیا مطلب چھینک کیوں لی؟ باقی تمام انسانوں کی طرح مجھے بھی خود بہ خود چھینک آئی ہے, دعوت دے کے تھوڑی بلایا میں؟" وہ سادگی سے اسے دیکھنے لگی۔

"تمہیں کرونا ہے؟ اوہ مائی گاڈ دادو اتنی لاپرواہ کیوں ہیں.... چلو جاؤ تم یہاں سے اور پندرہ دن سے پہلے واپس مت آنا۔"

"مجھے کرونا نہیں ہے... آپ کو کس... "

"بوسٹر ڈوز لگوائی تم نے؟ نہیں نہ؟" وہ سوال پوچھتا خود ہی جواب اخذ کرنے لگا۔

"سر اب تو کرونا ختم بھی ہو گیا ہے اب کہاں سے مجھے ہونے لگا.... " وہ ہکا بکا سی اسے دیکھنے لگی۔


"میں آج ہی تمہیں نکلواتا ہوں.... نظر مت آنا مجھے کل سے تم۔ ماسک لے کر آؤ میرا۔" وہ اپنے عقب میں ملازم کو اشارہ کرنے لگا۔

"آپ خواہ مخواہ ہی.... " وہ ملازم کو بھاگتے دیکھ منہ بنانے لگی۔

"خواہ مخواہ؟ میں اپنے گھر والوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تمہارے باعث۔ اس لئے اپنا منہ بند رکھو تم اب۔" اسے یہ موقع ملا تھا اسے اس گھر سے نکالنے کا اس لئے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا۔

"میں نے پہلے دو ڈوز لگوائی تھی... اور چھینک تو اس لئے آئی میری نانی نے مجھے یاد کیا ہے۔" وہ اس نانی کا ذکر کر رہی تھی جنہیں مٹی تلے سوےُ عرصہ بیت گیا تھا۔


"نانی ہے تمہاری؟" وہ آنکھیں سکیڑے اسے گھورنے لگا۔

"ہاں جی بلکل ہیں... " اس نے مسکراتے ہوےُ اپنے جھوٹ کو سہارا دیا۔

وہ ملازم سے ماسک لے کر لگانے لگا۔

"توبہ یہ امیر لوگ کتنے خوف کے مارے ہوتے ہیں... " اس نے پیچھے ہوتے منہ میں بڑبڑایا۔

"چلو تمہارا کرونا ٹیسٹ کروانا ہے۔ ایسے تو اس گھر میں تمہیں نہیں آنے دوں گا میں۔" وہ ملازم سے چابی لے رہا تھا اور اس کا منہ مارے حیرت کی شدت سے کھل گیا۔

"مجھے کرونا ہے ہی نہیں..... باقی علامات بھی تو دیکھیں نہ... " وہ اچھل پڑی تھی۔


"منہ بند.... چلو میرے ساتھ۔" وہ آگے بڑھتا اسے آنے کا اشارہ کرنے لگا۔

"نہیں میں تو نہیں جاؤں گی.... وہ مجھے انجیکشن لگا کر مار دیں گے آپ کا تو کچھ نہیں جاےُ گا میری امی پر قیامت ٹوٹ جاےُ گی,, جوان بچی کی موت کی خبر سن کر۔" وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں نہ ہوئی۔

""عشال کہاں رہ گئی تم دہی لانے کو کہا تھا.... " فردوس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی لاؤنج میں نمودار ہوئیں۔

"تمہیں مار کر انہیں کچھ نہیں ملے گا اس لئے بنا کسی بحث کے.... " وہ انگلی اٹھا کر اسے گھورتا دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ گیا۔

فردوس کو اس لمحے دونوں ہی نظر انداز کر گئے۔

عشال روہانسی ہو گئی۔


"میں نہیں جاؤں گی مجھے ڈر لگتا ہے.... آ.... دادو آپ سمجھائیں سر کو بلاوجہ میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی اور مجھے مارنے پر تلے ہیں۔" بولتے بولتے اس کی نگاہ فردوس سے ٹکرائی تو مدد کی خاطر ان کی جانب بڑھ گئی۔

"دور رہو دادو سے.... " اس نے پلٹ کر برہمی سے کہا۔

"دادو آپ کیوں اسے اپنے ساتھ لگا رہی ہیں؟ کرونا ہے اسے۔" وہ انہیں دیکھتا ہکا بکا رہ گیا۔

"کوئی کرونا نہیں ہے عشال کو.... تم وہم ذرا کم کیا کرو۔" انہوں نے ٹھہرے ہوےُ لہجے میں باور کرایا۔


"آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہیں؟" اسے اپنا پلان ناکام ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔

"اس نے ویکسین لگوائی تھی۔ اور پورا دن تو یہاں ہوتی ہے باہر جاتی نہیں.... کہاں سے ہوگا کرونا۔" وہ خفا خفا سی کہتی صوفے پر بیٹھنے لگیں تو عشال کی جان میں جان آ گئی۔

"یہ تو میری نوکری کے پیچھے ہاتھ منہ سب دھو کر پڑے ہیں.... کون سا کروڑوں روپے دیتے ہیں جو یوں جان نکل رہی... " وہ اسے گھورتی منہ میں بڑبڑاتی بعد میں مسکرانے لگی۔

"دادو میں دہی لے کر آتی ہوں۔" وہ احمر کو چڑاتی دوپٹہ سر پر اوڑھنے لگی۔

اس نے گھورنے پر اکتفا کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

"اس لڑکے کا بس چلے تو ابھی ہاتھ سے پکڑ کر باہر نکال دے عشال کو.... " وہ تاسف سے کہتی نفی میں سر ہلانے لگیں۔

••••••••••••••••••••••

وہ دونوں اپنی ہی رو میں چلتے آ رہے تھے۔ شہریار کی آنکھیں سامنے موجود لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" وہ چہرے پر نا گواری لئے آگے بڑھا۔

"سنا ہے شادی کر لی ہے مسٹر شہریار نے.... " وہ اسے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔ چہرے پر بھرپور اطمینان تھا۔

"ہاں تو؟" اس نے دائیں آبرو اچکائی۔ چہرے پر سختی در آئی۔

"بلایا بھی نہیں مجھے.... اتنی جلدی بھول گئے؟ کبھی میری بانہوں میں سکون ملا کرتا تھا تمہیں.... " وہ اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتی خفا خفا سی بولی۔

مرحا وہیں رک کر اس ڈرامے کو دیکھنے لگی۔

"تمہیں کس لئے بلاتا میں؟ اور میرا خیال ہے تمہیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا۔ بھول گئی کیا کہا تھا میں نے آخری بار؟" وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر برہم ہوا۔


"اپنی نئی بیوی کے خدشے سے؟ اتنا ڈرتے ہو؟ مجھ سے تو کبھی خوفزدہ نہیں ہوےُ تھے تم؟ ویسے ہے کون یہ؟" وہ اچنبھے سے کہتی بائیں جانب جھک کر مرحا کو دیکھنے لگی۔

وہ تذبذب کے عالم میں شہریار کی پشت کو دیکھ رہی تھی۔ مبادہ اسے کمرے میں چلے جانا چائیے تھا یا یہیں رک کر یہ تماشہ دیکھتی۔

"کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد تم میرے گھر میں داخل نہیں ہو سکتی۔ شاید بھول گئی ہو... " اسے فزا کی آمد شدید گراں گزر رہی تھی۔ بس نہیں چل رہا تھا اٹھا کر باہر پھینک دیتا اسے۔

"میں فزا ہوں... تمہارے موجودہ ہزبینڈ کی ایکس وائف۔" وہ اس کی باتوں کو نظر انداز کرتی چلتی ہوئی مرحا کے سامنے آ گئی۔ اس کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر مرحا نے مصافحہ کر کیا مگر کچھ بول نہ سکی۔


"فزا لیو... " وہ ضبط کے باوجود چلانے لگا۔

"اتنا غصہ شہر.... "

"گارڈر کو بلاؤ میری.... " اس نے عقب میں کھڑی ملازمہ کو مخاطب کیا۔

"اوکے اوکے فائن.... میں خود جا سکتی ہوں۔" وہ ہاتھ اٹھا کر اسے پیش قدم سے روکنے لگی۔

"آئیندہ اگر اس کی شکل مجھے اس گھر میں نظر آئی تو تمہاری خیر نہیں۔" وہ پلٹ کر میری پر برسنے لگا۔

"اوکے سر.... " اس نے سر کو جبنش دی۔


مزید وہ وہاں رکا نہیں اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا زینے چڑھنے لگا۔ فزا بھی دروازے کی سمت چل دی۔ مرحا خاموش شہریار کو جاتا دیکھ رہی تھی۔

"میم آپ کو کچھ چائیے؟" وہ فرنگی سی لڑکی اچھی خاصی اردو بول رہیتھی۔

"نہیں.... مگر شہریار اتنا غصہ کیوں ہو رہے تھے اپنی ایکس وائف پر؟" وہ الجھی الجھی سی اس کی جانب بڑھنے لگی۔

"آپ سر کو کچھ بتائیں گیں تو نہیں؟" وہ گھبرا کر اسے دیکھنے لگی۔

"نہیں میں کچھ نہیں بتاؤں گی.... ٹرسٹ می۔" اس نے اس کی بازو پکڑی۔


"یہ دوسری بیوی تھی سر کی.... " اس نے آواز اتنی مدھم کر لی کہ بمشکل مرحا کی سماعت تک رسائی حاصل کر سکی۔

"آپ سے شادی کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی ہے نہ سر نے؟" وہ محتاط انداز میں پوچھتی عقب میں دیکھنے لگی مبادہ وہ پیچھے نہ کھڑا ہو۔ تسلی ہونے پر وہ پھر سے مرحا کو دیکھنے لگی۔

"ہاں....." وہ جواب دیتی عجیب سے احساس ندامت میں گھر گئی۔

"اس کے ساتھ بھی ایسے ہی شادی کی تھی سر نے۔ لیکن اس دوران ہی اس کا افئیر سر کے دوست کے ساتھ چل رہا تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا تو گھر سے نکال دیا حالانکہ تب ابھی ان کے کنٹریکٹ کی میعاد پوری نہیں ہوئی تھی۔" وہ خاموش ہوئی تو وہ سر ہلانے لگی۔


"اسی لئے اتنا غصہ ہو رہے تھے؟" وہ جیسے اب سمجھ گئی۔

"ہاں جی.... ایک بار پہلے بھی آئی تھیں تب تو سر نے تھپڑ مار دیا تھا۔ واپس ہی نہیں جا رہی تھیں۔" اس نے آگے ہو کر سرگوشی کی۔

"اوہ... اچھا.... " وہ ہونق زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔

"اف شہریار کیا ہو تم.... " وہ دل ہی دل میں سوچتی جھرجھری لینے لگی۔

"مار پیٹ بھی کرتا ہے شیری؟" بےساختہ اس کی زبان پھسل گئی۔


"نہیں نہیں.... ویسے تو بہت اچھے تھے مگر یہ افئیر والی بات ناقابل برداشت تھی اور کچھ اور بھی وجوہات ہوں شاید۔ مجھے تو صرف کمرے کے باہر والے معاملات کا علم ہے۔" اس نے لاعلمی ظاہر کرتے شانے اچکاےُ۔

"اچھا... " وہ پر سوچ انداز میں کہتی قدم اٹھانے لگی۔

"اچھا ہوا مجھے یہ سب معلوم ہو گیا.... اس کا مطلب ہے تمہاری عادت ہے یہ کنٹریکٹ پر شادی کرنا۔ ہونہہ..... " وہ ناگواری سے ہنکار بھرتی زینے چڑھنے لگی۔

•••••••••••••••••••••••

"یہ بل تمہارے باپ نے بھرنا ہے الگ کمرے میں پنکھا چلا کر بیٹھی ہو.... " نصرت کمرے میں آتی زمر پر برسنے لگیں جو فون میں محو تھی۔

"باپ نے تو نہیں تایا ابو نے بھرنا ہے.... " اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

"چلو اٹھ کر نیچے.... پتہ بجلی کو کتنی آگ لگی ہوئی ہے۔" انہوں نے برہم ہوتے ہوےُ بٹن بند کر دیا۔

"مجھے تو آگ نظر نہیں آ رہی.... پنکھا چلائیں آپ۔" وہ منہ بناتی کھڑی ہو گئی۔

"نیچے چلو تم... کام کوئی ہوتا نہیں ہے۔ عشال اور مرحا کو دیکھ لو کیسے سارا دن کھپ کر آتی ہیں۔" وہ سخت لہجے میں کہتی پلٹ گئیں جس کا مطلب تھا زمر کو نیچے ہی جانا پڑے گا۔ وہ پیر پٹختی ان کے عقب میں چل دی۔


"یہ آلو کاٹ کر دو مجھے.... ٹکیاں بنانے لگی ہوں میں۔" وہ اسے صوفے پر بیٹھتے دیکھ اس کی گود میں ٹوکری رکھ کر پلٹ گئیں۔ اس کا منہ کھل گیا۔

"جلدی کرو.... بھائی صاحب آنے والے ہوں گے۔" وہ جواباً گھورتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔

"حماد میرے پیارے بھائی یہ آلو تو کاٹ دو.... " شاید وہ دنیا کی سب سے سست ترین لڑکی تھی۔

"آلو جیسی شکل ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ویسی ہی فرمائش لے کر آ جاؤ.... " اس نے ناپسندیدگی سے اسے دیکھا۔

"کاٹ دو گے تو کیا مر جاؤ گے؟" وہ ہنکار بھر کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔


"تم پر کون سی موت واقع ہو جاےُ گی؟ اپنا کام مجھ پر کیوں ڈال رہی؟" اس نے آنکھیں سکیڑ کر اسے گھورا۔

"تم فارغ ہی ہو....کام دھندا تو ہے نہیں کوئی تمہارا... " اس کا اشارہ حماد کے فون کی جانب تھا۔

"ہاں تو تم کون سے بزنس چلا رہی ہو اس ماں پر؟" کچن کے دروازے میں کھڑی نصرت کی آواز پر دونوں نے بیک وقت آواز کے تعاقب میں دیکھا۔

جہاں حماد کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی وہیں زمر رونے والی شکل بناتی چھری اٹھانے لگی۔


"ایوارڈ ملنا چائیے تمہیں کام چوری کا ویسے.... " وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا طمانیت سے بولا۔

"خود یہاں بیٹھے مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہو جاؤ جا کر نوکری کرو کہیں۔ آےُ بڑے مجھے کہنے والے۔" وہ نخوت سے سر جھٹک کر دوسرا آلو اٹھانے لگی۔

"ڈھونڈ ہی رہا ہوں جس دن مل گئی اس دن تمہاری یہ آلو جیسی شکل نہیں دیکھنی پڑے گی مجھے یہاں بیٹھ کر۔" وہ تپ کر کہتا کھڑا ہو گیا۔

"اپنے تربوز جیسے منہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟" وہ ترکی بی ترکی بولی۔

"تم سے بات کرنا ہی فضول ہے...." وہ بدمزہ ہو کر وہاں سے غائب ہو گیا۔

"تم سے بات کرنے کا تو جیسے بہت فائدہ ملتا ہے نہ.... " وہ منہ بنا کر کہتی تیز تیز ہاتھ چلانے لگی۔

••••••••••••••••••••

"مرحا تم سے کام ہے مجھے ایک.... " وہ اسے آئینے کے سامنے دیکھتا اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا۔ رات کے واقعے کے بعد سے وہ اب اسے مخاطب کر رہا تھا۔

"کیا کام؟" اس کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں۔

"ایک بزنس مین ہے.... اس کی جیب سے اس کے کمرے کی چابی نکالنی ہے تمہیں۔" وہ اسے بازو سے پکڑ کر صوفے پر بٹھانے لگا اور خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"وہ کیوں؟" جہاں اس کا تجسس بڑھا وہیں اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔


"کام ہے ایک.... اب بتاؤ میرا یہ کام کرو گی؟" اس نے دونوں آبرو اچکاےُ۔

"مجھے کیا ملے گا بدلے میں؟ میرا کیا فائدہ ہوگا؟" وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔

جواباً وہ مسکرانے لگا۔

"کتنی چالاک اور موقع پرست بیوی ہو نہ تم؟ شوہر کی مدد کرنے کا معاوضہ مانگ رہی ہو؟" اس نے آنکھیں سکیڑ کر گھورتے ہوےُ شرم دلانا چاہی۔

"تمہاری بیوی ہوں نہ اس لئے ایسی ہوں.... تم سے بڑھ کر موقع پرست کوئی ہو سکتا ہے بھلا؟" اس نے بھرپور اطمینان سے سوال داغ کر نفی میں گردن کو حرکت دے کر اسے خود ہی جواب دے کر آسانی کر دی۔

جواباً اسے شہریار کا قہقہ سنائی دیا۔

"اچھا ٹھیک ہے.... تمہیں میں.... " وہ سوچتا ہوا سامنے پردوں کو دیکھنے لگا۔

"بیس لاکھ.... ہاں بیس لاکھ دوں گا اگر تم کامیاب ہو گئی تو؟" اس نے اسے دیکھتے ہوےُ دائیں آبرو اچکائی جیسے اس کی آمادگی پوچھ رہا ہو۔

"بیس لاکھ اگر مجھے دے رہے ہو تو تمہیں کتنا نفع ہوگا؟" وہ حساب لگانے بیٹھ گئی۔

"تم میرے فائدے کو چھوڑو.... سمجھو آدھا حصہ تمہیں دے رہا ہوں کیونکہ تمہارے بغیر یہ ممکن نہیں۔"

"مجھے خطرے کی بُو کیوں آ رہی ہے؟" وہ مشکوک سی اسے دیکھ رہی تھی۔


"ڈونٹ وری..... تمہاری حفاظت پہلے ہے۔ آخر کو دس مہینے ساتھ رہنا ہے ہمیں۔" اس نے مسرت سے کہتے ہوےُ اس کی ناک سے اپنی ناک رگڑی تو وہ بلش کرنے لگی۔ اس نے سرعت سے رخ پھیر لیا۔

وہ اس کے جخل ہونے پر ایسے ہی مسکراتا جیسے اب مسکرا رہا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی اس کا ساتھ دے رہی تھیں۔ اس کے پرفیوم کی تیز خوشبو مرحا کے نتھنوں سے دھیرے دھیرے اندر اتر رہی تھی۔

"میں تیار ہو رہی تھی آفس کے لئے.... " وہ جھنجھلا کر کہتی کھڑی ہو گئی۔

"ڈرائیور ڈراپ کر دے گا تمہیں.... " وہ فون نکال کر ٹائپنگ کرتا ہوا بولا۔ اپنے اس پرانے حریف کو مات دینے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے پر وہ مطمئن سا ہو گیا۔

••••••••••••••••••••••

وہ دروازہ عبور کرتا اندر آیا تو چہرے پر خوشی کی رمق تھی۔

"تایا ابو مجھے جاب مل گئی.... " وہ ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ اٹھاےُ ہوےُ تھا۔

"کتنی تنخواہ ہے؟" انہوں نے دائیں آبرو اچکائی۔ چہرہ بے تاثر تھا۔

"ابھی پندرہ ہزار ہے لیکن جیسے جیسے تجربہ ہوتا جاےُ گا بڑھتی جاےُ گی۔" وہ پر امید سا بتانے لگا۔

"ہونہہ..... پندرہ ہزار پر مٹھائیاں بانٹتے پھر رہے ہو۔" انہوں نے ہنکار بھرتے ہوےُ رخ پھیر لیا۔ جتنے اشتیاق سے وہ انہیں بتانے آیا تھا اتنی ہی بے رخی سے اس کی خوشی کا گلا گھونٹا گیا۔


"یہی اگر میرے ساتھ بزنس میں آ جاتے تو آج مل کر لاکھوں کماتے.... مگر تمہیں تو کوئی اور ہی شوق چڑھتے تھے۔" عثمان طنز کرتے کھڑے ہو گئے۔

اس کی ساری خوشی مانند پڑ چکی تھی۔

"اگر مرحا آپی یہاں ہوتیں تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔" وہ کرب سے نیچے دیکھ رہا تھا۔

لوگ بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ خوشیوں کو لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بنا کر اس میں سے دکھ کیسے نکالنے ہیں۔

"انہیں ضرور خوشی ہوگی سن کر.... " وہ خود کو کمپوز کرتا جیب سے فون نکالنے لگا۔

پہلی بیل پر ہی فون ریسیو کر لیا گیا۔


"کیسے ہو؟" دوسری جانب سے خوشگوار لہجے میں پوچھا گیا۔ اس کی آواز نے ہی کافی حد تک حماد کا موڈ بہتر کر دیا تھا۔

"بلکل ٹھیک.... آپ بتائیں کیسی ہیں؟ بھول تو نہیں گئی مجھے؟"

"ﷲ کا شکر بلکل ٹھیک.... اور تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں میں؟ احمقوں والی بات مت کرو۔" وہ اسکرین کو دیکھتی آنکھیں سکیڑنے لگی۔

"اچھا مجھے جاب مل گئی ہے.... " اس نے اپنی مسکراہٹ اس خدشے کے تحت دبا لی کہ کہیں یہ بھی چھن نہ جاےُ۔

"واہ... بہت بہت مبارک ہو.... میں کہتی تھی نہ کہ تمہیں بہت جلد جاب مل جاےُ گی۔" مرحا کی خوشی سے لبریز آواز سن کر وہ مطمئن سا صوفے پر جا بیٹھا۔

"آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ مگر آپی تنخواہ ابھی پندرہ ہزار ہے لیکن انہوں نے کہا ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھا دیں گے جوں جوں تجربہ ہوتا جاےُ گا۔" وہ امید کے کچھ لفظوں کی یاس میں تھا تبھی اسے تفصیل بتانے لگا۔


"پھر کیا ہوا؟ مجھے جب پہلی جاب ملی تھی تب میری تنخواہ آٹھ ہزار تھی۔ شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تم بس دل لگا کر کام کرنا اور اس کے بعد اپنی ویلیو دیکھنا مارکیٹ میں۔" اس کی توقع کے عین مطابق وہ اس کی ہمت بندھانے لگی۔

"آپ دیکھنا میں بہت دل لگا کر کام کروں گا.... آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔" ایک وہی تھی جسے حماد سے امیدیں وابستہ تھیں۔

"مجھے یقین ہے میرا چھوٹا سا بھائی بہت ترقی کرے گا۔" وہ ماؤس چھوڑتی سیٹ سے ٹیک لگانے لگی۔

"بزی تو نہیں تھی؟ مخل تو نہیں ہوا آپ کے کام میں؟" یکدم اسے خیال آیا یہ اس کے آفس کا ٹائم ہے۔

"نہیں نہیں.... تم کرو بات۔" البتہ وہ مصروف تھی مگر اس پر ظاہر نہیں کیا۔

وہ آہستہ آواز میں گھر میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کے متعلق اسے آگاہ کرنے لگا۔

••••••••••••••••••••••

"میرے ساتھ اتنے نائس کیوں بن رہے ہو؟" یہ بات اسے نجانے کب سے کھٹک رہی تھی۔

"تو کیا چاہتی ہو تم؟ میدان جنگ بنا کر رکھوں اس گھر کو؟" اسے اب مرحا کی باتوں پر غصہ نہیں آتا تھا اور سبب جاننے سے وہ خود بھی قاصر تھا۔

"نہیں لیکن پہلے تو بہت تیور دکھاتے تھے.... میری خوبصورتی سے اتنے گھائل ہو گئے ہو؟" وہ چمچ اٹھاتی اسے زچ کرنے لگی۔

"ایسی بھی کوئی خوبصورتی نہیں اب..." اس نے ٹالنا چاہا۔

میری نے ٹرائفر لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ مرحا کے لب دم بخود مسکرانے لگے۔

"وہ کام نکلوانا ہے اس لئے اچھے بن رہے ہو؟" وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتی اسے دیکھنے لگی جو اب ٹرائفر ڈال رہا تھا۔ وہ دونوں ڈنر کے لئے ڈائینگ ٹیبل پر براجمان تھے۔


"ہاں کہہ سکتی ہو.... " اس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے شانے اچکاےُ۔

"ہاؤ مین....." وہ آنکھیں چھوٹی کرتی اسے دیکھنے لگی۔

جونہی اس نے پہلا چمچ منہ میں ڈالا مرحا کھڑی ہو گئی۔

"واٹ دا..... " اس نے ہاتھ میں پکڑا باؤل میز پر رکھا اور پانچ چھ ٹیشو اٹھا کر ان پر تھوک دیا۔

"میری تمہاری عقل مر گئی ہے کیا؟" وہ گلاس میں پانی ڈالتا چلایا۔

"ٹرائفر میری نے نہیں.... میں نے بنایا تھا۔ اچھا نہیں لگا؟" وہ منہ کھولے آسودہ سی اسے دیکھنے لگی۔

"مرحا کی بچی..... " وہ گلاس ختم کر کے میز پر رکھتا خطرناک تیور لئے کھڑا ہونے لگا۔ مگر وہ تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔


"گڈ باےُ.... " وہ ہاتھ ہلاتی اوپر چلی گئی۔

"بیوقوف کہیں کی.... پتہ نہیں کون سی مرچیں ڈالی ہیں رنگ تو سفید ہے۔" وہ آگے ہوتا ٹرائفر کو دیکھنے لگا۔ چہرے پر الجھن تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ مرحا نے سفید مرچوں کا استعمال کر کے اپنی کاروائی کو مخفی رکھا تھا۔

"ڈیل تو تم کر چکی ہو.... اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔" وہ اس کا بدلہ لینے کا ارادہ کرتا اسے چیلنج کرنے لگا جو وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ فون رنگ ہونے لگا تو وہ ہاتھ صاف کرتا اسے اٹھانے لگا۔


رات گئے وہ کمرے میں آیا۔

کمرہ روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ اسے اس کے جاگنے کا گمان ہوا۔

پیشانی پر بل ڈالے وہ سٹڈی کی جانب بڑھ گیا مگر وہاں وہ موجود نہیں تھی۔

وہ متحیر سا واپس پلٹا اور نگاہ بیڈ پر سوتے اس کے بے خبر وجود سے جا ٹکرائی۔

"اوہ تو میڈم لائٹ آف کیے بغیر ہی سو گئی.... " وہ آواز آہستہ کرتا اس کے پاس آ گیا۔ چند لمحے ساکت اس کا چہرہ دیکھتا رہا جو حجاب سے بے نیاز تھا۔ بھورے بال منتشر ہو کر اس کے چہرے پر آ رہے تھے۔ وہ آج پھر اسی کی ٹی شرٹ پہنے ہوےُ تھی۔

"تمہیں کیا سوجھی ہے مجھے یوں ہراساں کرنے کی؟" وہ گھٹنے زمین پر رکھتا ہاتھ بڑھا کر اس کے رخسار سے بال ہٹانے لگا۔


"میری ٹی شرٹس تم پر بہت سوٹ کرتی ہیں.... مجھ سے زیادہ " اس کی آنکھوں میں ستائش نمایاں تھی۔

"مت پہنا کرو انہیں.... نجانے کیوں تم پر پیار آتا ہے۔" وہ خود کو بے قابو ہوتا محسوس کر رہا تھا۔

"تم نیند میں ہو... " اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود کو دلاسہ دیا اور ساتھ ہی اس کے چہرے پر جھک گیا۔

اس کے عنابی لبوں نے مرحا کی پیشانی کو چھوا تو وہ کسمسائی۔ وہ پیچھے ہوتا مسکرانے لگا۔

"دل کر رہا ہے تمہاری نیند خراب کرنے کا.... " وہ نا محسوس انداز میں مسکرا رہا تھا۔

اس کی نگاہ مرحا کے ہاتھ سے ٹکرائی تو بے ساختہ اسے تھام لیا۔ اس کے ہاتھوں کی نزاکت اس کے سخت ہاتھ محسوس کر رہے تھے۔


"شیری... " وہ شاید نیند میں تھی۔

"ہاں بولو.... " وہ ششدر سا اسے دیکھتا رہ گیا۔

"مرحا.... " اس نے اسے سننے کی چاہ میں پھر سے پکارا۔

مگر اب کی بار جواب ندارد۔

وہ اس کے ہاتھ پر بوسہ دیتا کھڑا ہو گیا۔

"اس سے پہلے تم جاگ کر مجھ پر آوارگی کے مقدمات درج کرو میں اپنی جگہ پر ہی چلا جاؤں۔" وہ اس کی پیشانی پر ابھرتی لکریں دیکھتا اس کا ہاتھ چھوڑنے لگا۔ چند لمحے اس کا چہرہ نظروں میں اتارنے کے بعد وہ چینج کرنے کی غرض سے الماری کی جانب بڑھ گیا۔

••••••••••••••••••••••

"ابراہیم رونا تو بند کرو.... " فردوس ہارے ہوےُ انداز میں بولی۔

عشال تشویش زدہ سی انہیں دیکھ رہی تھی جس کے دوپٹے کا پلو ابراہیم کے ہاتھ میں تھا۔

"عشال نہیں جاےُ گی.... ہمارے گھر رک جاؤ نہ۔" وہ گول گول بڑی آنکھوں میں اشک لئے اس کی جانب گھوما۔

"آپ نے کہا دیر سے چلی جانا.... دیکھو اب دس بج گئے ہیں۔ ابھی آپ سو جاؤ گے صبح جب اٹھو گے تو میں آ جاؤں گی۔" وہ محبت بھرے انداز میں اس کے رخسار پر گرے آنسو صاف کرنے لگی۔

"نہیں.... ہمارے ساتھ ہی رہو گی آپ۔ میں ڈیڈی سے کہتا ہوں ان کی بات مانتی ہو آپ۔" وہ اس کی بازو پکڑتا بیڈ سے اترنے لگا۔

"دادو دیکھیں اسے.... " اس کے چہرے پر خوف کے ساےُ لہرا رہے تھے۔


"چلو عشال.... " وہ کہہ کر آگے بڑھا تو ناچار اسے بھی چلنا پڑا۔ فردوس اسے جانے کا اشارہ کرتی خود بھی کھڑی ہونے لگی۔

"ابراہیم اچھے بچے ضد نہیں کرتے.... آپ تو گڈ بواےُ ہو نہ؟" وہ اس کے ہمراہ زینے چڑھ رہی تھی۔

"نہیں میں بیڈ بواےُ ہوں.... میرے سارے فرینڈز کی ماما ان کے ساتھ رہتی ہیں اس لئے آپ بھی ہمارے ساتھ رہو۔" اس کی بات مکمل سن کر عشال کے طوطے اڑ گئے۔

احمر کے کمرے تک جاتے ہوےُ وہ مکمل طور پر حیرت میں ڈوب چکی تھی۔ وہ تو لفظ "ماما" پر ہی اٹک گئی تھی۔

وہ ناک کر کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔

احمر میز پر پاؤں رکھے ہاتھ میں سیگرٹ پکڑے ہوےُ تھا۔


"ارے آپ.... " وہ اسے اس وقت دیکھتا بوکھلا گیا۔ اصل وجہ ہاتھ میں پکڑی سیگرٹ تھی جسے اس نے ایک لمحے کا ضیاع کئے بغیر ایش ٹرے میں مسل دیا۔

"آج کیا مسئلہ ہے اب؟ اور تم گئی کیوں نہیں؟" اس نے سرد نگاہیں عشال کے چہرے پر ٹکائیں۔

"ڈیڈی عشال ہمارے ساتھ رہے گی.... صبح میرے ساتھ سکول بھی جاےُ گی میٹنگ کے لئے۔ سب اپنی ماما کو لے کر آتے ہیں میں بھی عشال کو لے کر جانا ہے۔" وہ اس کی بازو چھوڑتا اس کے پاس آیا تو احمر نے اسے گود میں اٹھا لیا۔

"بیٹا عشال آپ کی ماما نہیں ہے.... ڈیڈی جائیں گے آپ کے ساتھ صبح۔" وہ دوسرے ہاتھ سے اس کے بال سنوارتا مسکرایا۔


"نہیں مجھے عشال کو لے جانا ہے.... میرے فرینڈ کہتے ہیں میں عشال کو لے کر آؤں۔" وہ نروٹھے پن سے کہتا نفی میں سر ہلانے لگا۔

وہ خاموش ہو کر نگاہوں کا زاویہ موڑ کر عشال کو دیکھنے لگا جس کا سر جھکا ہوا تھا۔

"ڈیڈی جائیں گے آپ کے ساتھ.... اور واپسی پر آپ کو پلے لینڈ بھی لے کر جائیں گے۔" اس نے بہلاتے ہوےُ قدم اٹھانا شروع کئے۔

"نہیں مجھے عشال کو بھی لے کر جانا ہے.... سب کے ڈیڈی اور ماما دونوں آتی ہیں۔" وہ پلٹ کر عشال کو دیکھنے لگا مبادہ وہ چلی ہی نہ جاےُ۔

"میری جان عشال آپ کی ماما نہیں ہے.... وہ کئیر ٹیکر ہے آپ کی اور دادو کی۔" اس کی ضد نے احمر کو بھی فکر میں مبتلا کر دیا۔


"میری ماما کیوں نہیں ہیں پھر؟ کہاں گئی ہیں وہ؟ مجھے چائیے میری ماما...." وہ برہمی سے کہتا اس کی گود سے اتر گیا۔

"آپ کو پتہ ہے نعمان کی ماما روز اسے چھوڑنے آتی ہیں.... اس کے سر پر کس کر کے پھر اسے کلاس میں چھوڑ کر جاتی ہیں۔" ابراہیم کی پلکوں پر ٹھہرے موتی احمر سے شکوے کر رہے تھے۔

عشال رحم بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ماں کی محبت کا پیاسا تھا۔ اتنے وقت سے ترس ہی رہا تھا تبھی ان چار ماہ میں عشال کی محبت نے اسے اپنا گرویدہ بنا لیا۔

وہ لاجواب ہو چکا تھا۔ خاموش نگاہوں سے ابراہیم کو دیکھ رہا تھا جیسے مناسب جواب کی تلاش میں ہو۔


"عشال کو بولیں ہمارے ساتھ رہے.... آپ کے ساتھ مجھے چھوڑنے آیا کرے۔ لینے بھی آیا کرے۔" وہ بلکل اسی کے انداز میں اب دو ٹوک انداز میں کہتا حکم چلانے لگا۔

"وہ کیسے رہ سکتی ہے یہاں؟ یہ اس کا گھر نہیں ہے بیٹا...." وہ بے بس سا اس کے سامنے بیٹھ گیا, گھٹنے زمین پر تھے۔

"عشال کی ماما کو بولیں اسے ہمیں دے دیں.... مجھے عشال چائیے بس۔" وہ قطعیت سے کہتا سینے پر بازو باندھتا بائیں جانب رخ موڑ کر کھڑکی کو دیکھنے لگا۔

"کہاں تک پہنچی اس کی ضد؟" دروازے سے فردوس کا چہرہ دکھائی دیا۔


"تم رک سکتی ہو آج یہاں؟ صبح پی ٹی ایم کے لئے ہمارے ساتھ چلی جانا۔" وہ ہارے ہوےُ انداز میں سیدھا ہوتا اسے دیکھنے لگا۔ آنکھیں رنج کے ساتھ ساتھ شکست کا عنصر لئے ہوےُ تھیں۔

"لیکن میں کیسے؟" وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔

"میرا وہاں کیا کام؟ آپ کسی طرح سمجھا دیں ابراہیم کو۔ اور میں آج رات اگر رک بھی جاؤں تو وہ کل پھر ضد کرے گا۔ پھر کیا کریں گے؟" وہ سنجیدہ سی کہتی احمر سے نگاہیں ہٹا کر فردوس کو دیکھنے لگی۔

"دیکھ لیں گے پھر.... آج کا بتاؤ؟" وہ اس کی محبت میں مجبور ہو گیا تھا۔

"پتہ نہیں..... امی کو فون کر کے پوچھنا پڑے گا۔" اس نے لا علمی ظاہر کرتے شانے اچکاےُ۔


"ٹھیک ہے کرو فون اور پوچھو۔ ریکسویسٹ کر لینا ان سے آج کے لئے۔" وہ کہتا ہوا ابراہیم کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو احمر چودھری کو گوارا نہیں تھے۔

وہ جو سب سن رہا تھا اب دھیرے سے مسکرانے لگا۔

"عشال پوچھ رہی ہے اپنی ماما سے... " اس نے اسے اپنی جانب موڑا۔

"آج میں بہت ساری کہانیاں سنوں گا.... اور صبح ہم پلے لینڈ بھی جائیں گے ایک ساتھ۔" اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔

اس نے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوےُ صوفے پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟" وہ کافی دیر سے فردوس کی نگاہیں خود پر محسوس کر رہا تھا۔

"نیچے آنا فارغ ہو کر.... بات کرنی ہے تم سے۔" ان کے چہرے پر پھیلی حد درجہ سنجیدگی احمر کو خوش آئند معلوم نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے سر ہلانے پر اکتفا کیا تو وہ پلٹ گئیں۔

•••••••••••••••••••••••

وہ نک سک سی تیار کھڑی تھی۔ جامنی رنگ کی سلک کی ساڑھی زیب تن کئے, بالوں کو حجاب میں چھپاےُ ہوےُ تھی۔ چہرے پر مہارت سے کیا گیا میک قیامت ڈھا رہا تھا۔ اس نے سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹوں کو دائیں بائیں جبنش دی اور شہریار کی تلاش میں اردگرد دیکھنے لگی۔

"سوری.... وہ راستے میں ایک دوست مل گیا تھا۔" وہ تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آ رکا۔ پھولا ہوا تنفس اس بات کی دلیل پیش کر رہا تھا کہ اسے وقت گزرنے کا احساس تھا۔

"میں دس منٹ سے یہاں کھڑی ہوں... اور یہ عجیب و غریب قسم کے لوگ مجھے ایسے گھور رہے ہیں۔"

"یہاں یہ بے غیرت قسم کے بزنس مین ایسے ہی گھورتے ہیں سب کو... " وہ کوٹ کا بٹن بند کرتا لاپرواہی سے بولا۔

"اپنے بارے میں کیا خیال ہے مسٹر شیری؟ ایک وقت میں آپ بھی مجھے ایسے ہی گھورتے تھے؟" وہ جتانے والے انداز میں کہتی دونوں آبرو اچکانے لگی۔

"اب تم اپنے شوہر کو....."

"آپ سمجھ گئے ہیں تو مجھے کیا حاجت کہنے کی۔" وہ شانے اچکاتی سامنے پارٹی میں موجود لوگوں کو دیکھنے لگی۔

"ذہین بیوی بھی خطرے سے کم نہیں ہوتی.... خیر چلو۔" اس نے مرحا کی کمر کے گرد ہاتھ رکھا تو وہ ششدر سی اس کی جانب گھومی۔ آنکھیں جیسے سوال کر رہی ہوں اس کی اس حرکت پر۔

"بیوی ہو میری... اپنے ساتھ رکھوں گا تو لوگ بھی حد میں رہیں گے یہاں۔" وہ اس کا مفہوم سمجھ کر مسکراتا ہوا قدم اٹھانے لگا تو ناچار اسے بھی چلنا پڑا۔

"وہ کہاں ہے جس کی جیب سے چابی نکالنی ہے؟" وہ کافی دیر بعد گویا ہوئی۔ اس وقت میں وہ اسے چند لوگوں سے ملوا چکا تھا۔


"بلاول رندھاوا.... ابھی آیا نہیں پارٹی میں وہ شاید۔" اس کی بھی نگاہیں اپنے حریف کی تلاش میں تھیں۔

"اچھا....." وہ بیزار سی شکل بناےُ ان لوگوں کو دیکھنے لگی۔

تقریباً سبھی مرد وہاں تھری پیس سوٹ پہنے ہوےُ تھے, کچھ خاصی عمر کے تھے تو کچھ شہریار کی مانند جوان۔ وہاں موجود خواتین رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس تھیں, کچھ ویسٹرن ڈریسنگ میں تھی تو کچھ مرحا کی مانند ساڑھی میں۔

نجانے کیوں وہ جھرجھری سی لے کر اپنے فون کو دیکھنے لگی۔

"مرحا تم یہیں رہو میں آتا ہوں.... " سامنے سے اس کا کوئی دوست اشارہ کر رہا تھا۔

"اگر بلاول اندر آیا تو میں تمہیں اشارہ کر دوں گا۔ اس کی جیب سے کیی نکالنا... تم پر منحصر ہے۔" وہ رک کر اسے ہدایات دینے لگا۔


"ٹھیک ہے میں نکال لوں گی.... تمہاری جیب کاٹنے کی پریکٹس تو کی ہے نہ میں نے؟" وہ جیسے جاننا چاہ رہی تھی کہ وہ تیار ہے یا نہیں؟

"ہاں پریکٹس اچھی تھی... اب ٹیسٹ اچھا ہو جاےُ تو پھر ہی۔" وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا پلٹ گیا۔

وہ اسے پل پل حیران کرتا حیرت کی گہرائیوں میں چھوڑتا جا رہا تھا۔

وہ اپنے اسی رخسار پر ہاتھ رکھتی جہاں چند لمحے قبل شیری نے اپنا ہاتھ رکھا تھا, دیوار کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

"کیا ہو جاتا ہے مجھے؟ تمہارے قریب آنے پر...." وہ اپنی کیفیات سے انجان پے در پے سوال کرنے لگی۔


کچھ دیر بعد ایک شخص نمودار ہوا۔ جس کے بائیں جانب شاید باڈی گارڈ تھا۔ شیری نے اسے اشارہ کر دیا۔ وہ سر ہلاتی اس شخص کو دیکھنے لگی, جس کی عمر شہریار سے کافی زیادہ معلوم ہو رہی تھی۔ بالوں اور داڑھی کو رنگنے کے باعث وہ اپنی حقیقی عمر سہولت سے چھپا رہا تھا۔ وہ اس ہال کے وسط میں آ کر کھڑا ہو گیا۔

مرحا فون کلچ میں فون رکھتی قدم اٹھانے لگی۔

بلاول رندھاوا کسی سے مصافحہ کرتا گفتگو کر رہا تھا۔

وہ چلتی ہوئی اس کے بائیں جانب آ گئی۔ جونہی وہ اس کے ساتھ ہوئی وہ دانستہ طور پر بلاول سے ٹکرا گئی۔ ٹکرانے کے باعث اس کا توازن بگڑا اور مرحا نے اس کی جیب سے چابی والا کارڈ نکال لیا۔ مگر جیسے ہی وہ جھکا تھا سامنے کھڑے ویٹر سے جا لگا جس کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے زمین پر گر گئی۔


"سٹوپڈ.... " وہ سیدھا ہوا مرحا کی جانب گھوما اور اسے وقت کی مہلت دئیے بغیر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔

اس کے حملے پر مرحا کا منہ کھل گیا۔ آنکھوں کی پتلیاں پھیل کر باہر نکل آئیں۔

"شٹ.... " شہریار جو انہیں دیکھ رہا تھا بڑبڑاتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا۔

"واٹ نان سینس.... نظر نہیں آتا تمہیں؟" وہ اس حجابی لڑکی کو پہلی بار ایسی کسی پارٹی میں دیکھ رہا تھا۔

شہریار اس کے دائیں جانب آ کھڑا ہوا, مرحا کے ہاتھ میں پکڑا کارڈ لے کر نیچے زمین پر پھینک دیا۔ وہ اس صورتحال کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے کسی ناسمجھ انسان کی مانند وہاں کھڑی تھی البتہ اب چہرے پر غصے کے ساےُ لہرا رہے تھے۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری وائف پر ہاتھ اٹھانے کی؟" وہ غرایا اور ساتھ ہی اس کے منہ پر مکا دے مارا۔

"تمہاری وائف؟" وہ اس کے حملے کے باعث پیچھے ہو گیا۔ اس کا باڈی گارڈ فوراً آگے بڑھا مگر بلاول کے اشارہ پر رک گیا۔


"مرحا شہریار ہے یہ... جسے تم نے ابھی۔" وہ دانت پیستا آگے بڑھ کر اس کے گریبان کو پکڑنے لگا۔

"آئم سو سوری.... مجھے نہیں معلوم تھا۔" وہ شہریار کے ہاتھ کو پکڑتا تیزی سے بولا جو ہوا میں تھا۔

"تمہارے سوری سے میری جو انسلٹ ہوئی ہے وہ واپس آ جاےُ گی؟" جواب مرحا کی جانب سے آیا تھا جو آنکھوں میں غیض لئے اسے دیکھ رہی تھی۔ ضبط کے باوجود مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔

"دیکھیں اگر مجھے معلوم ہوتا آپ میرے دوست شہریار کی وائف ہیں تو میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا ایسا کچھ کرنے کا.... " وہ شہریار کا شانہ تھپتھپاتا اسے دیکھنے لگا۔


"میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ آپ بتائیں کیسے ازالہ کیا جاےُ؟ بتاؤ شہریار تم؟" وہ سچ مچ شرمندہ تھا اپنے کئے پر۔

"جو کرنا تھا وہ تو کر گئے تم.... " وہ ہنکار بھر کر اس کا گریبان چھوڑتا دوسری سمت دیکھنے لگا۔

"میں پھر معافی مانگتا ہوں آپ سے مسز شہریار۔ میں نے دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا یقین مانیں میرا۔" اس نے سر کو خم دیتے ہوےُ سینے پر ہاتھ رکھا۔

مرحا نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔ اب وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں تو نہیں تھی اس لئے پیچ و تاب کھا کر پلٹ گئی۔

"شیری.... " اس نے بولنا چاہا مگر وہ مرحا کے پیچھے چل دیا۔


"سر آپ کے ناک سے خون بہہ رہا ہے۔" انہیں جاتے دیکھ اس کے باڈی گارڈ نے اس کی توجہ بہتے خون کی جانب دلائی۔

"ہاں کمرے میں جا کر چینج کرتا ہوں...." اس کا کوٹ بھی سافٹ ڈرنک سے خراب ہو چکا تھا۔ اپنے کوٹ کو دیکھنے کی غرض سے اس نے نگاہیں جھکائیں تو نظر چمچماتے فرش پر گرے اپنے کارڈ سے جا ٹکرائیں۔

"یہ کیسے گر گیا؟" وہ متحیر سا کہتا فوراً سے پیشتر اسے اٹھانے لگا۔

"نکل گیا ہوگا.... " اس نے خالی جیب پر ہاتھ مارتے ہوےُ گارڈ کو اشارہ کیا اور چلنے لگا۔


"آئم سوری مرحا... مجھے ایسے کسی حالات کا اندازہ ہی نہیں تھا۔" وہ اسے ڈھونڈتا ہوا اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا جو ہوٹل کی عمارت سے باہر نکل آئی تھی۔ سینے پر بازو باندھے وہ خفا تھی۔

"مرحا.... " وہ پکارتا ہوا اس کے سامنے آیا۔

"تمہیں معلوم نہیں تھا ایسا کچھ ہو سکتا ہے؟" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی چبا چبا کر بولی۔ وہ اس کی سرخ انگارہ بنی نگاہوں کو سمجھ رہا تھا۔


"قسم لے لو اگر مجھے ابہام ہوتا.... ہاں مجھے اتنا تو معلوم ہے وہ کسی کو کچھ سمجھتا نہیں ہے مگر جن سے اس کی دوستی ہے ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کرتا۔" وہ اس کا مخملی ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا بولا۔ چہرہ مارے ندامت کے دم بخود جھک گیا۔

"میں واپس نہیں جاؤں گی اندر.... مجھے گھر چھوڑ آؤ۔" وہ اس پر کیا غصہ کرتی جسے خود بھی گمان نہیں تھا۔

"آئم سوری.... ایسا کچھ.... "

"شیری پلیز مجھے گھر جانا ہے۔" وہ حد درجہ سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی۔

اس کے یوں پکارنے پر وہ چند لمحے بنا پلک جھپکے اسے دیکھتا رہا۔

"مزید یہاں رک نہیں سکتی میں۔" اسے واپس جانے میں اپنی ہتک محسوس ہو رہی تھی۔


"ٹھیک ہے... ہم واپس چلتے ہیں۔ میں گاڑی لے کر آتا ہوں پارکنگ سے۔" وہ اس کا ہاتھ چھوڑتا جیب سے چابی نکالتا اس کی مخالف سمت میں بڑھ گیا۔

وہ لب سختی سے بھینچ کر سامنے وسیع گیٹ کو دیکھ رہی تھی۔

"کیسے سب کے سامنے میری تذلیل کر دی اس نے؟" وہ تلملا کر کہتی دانت پیسنے لگی۔

"ایسے تو معاف نہیں کروں گی تمہیں میں.... اس تھپڑ کا بدلہ چکانا پڑے گا تمہیں۔ پھر چاہے مجھے کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔" وہ انا پرست سی لڑکی اپنے وقار پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔

گاڑی کا ہارن سنائی دیا تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شیری مسکرا رہا تھا۔

وہ سپاٹ انداز میں چلتی ہوئی گھوم کر گاڑی کے دوسری جانب آئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔


"میں کوئی اور طریقہ نکال لوں گا..... دوسری پارٹی میں تمہیں نہیں لے جاؤں گا ساتھ۔" وہ ایک نظر اس پر ڈالتا سامنے دیکھنے لگا۔

"میں جاؤں گی.... مگر تمہیں مجھے تفصیل میں بتانا ہوگا اس شخص کا کتنا اور کیسے نقصان ہوگا؟" وہ بت بنی سامنے دیکھ رہی تھی۔

وہ متعجب سا اسے دیکھنے لگا جو اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔

"مگر.... "

"میں جاؤں گی شیری.... ضرور جاؤں گی۔" وہ اس کی جانب دیکھتی سخت لہجے میں بولی۔

"اچھا گھر جا کر ڈسکس کریں گے.... " وہ الجھن کا شکار ہو گیا اس لئے جھرجھری لیتا سٹیرنگ پر ہاتھ رکھنے لگا۔ وہ سانس خارج کرتی ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"نہیں تم نے اب واپس گھر نہیں آنا کل صبح کی گئی ہوئی ہو.... " اسپیکر پر نصرت کی گرجدار آواز گونج رہی تھی۔

"امی رات آپ کو دادو نے فون کیا تو تھا.... اور اب آؤں گی نہ بس ابراہیم سو جاےُ پھر نکلتی ہوں۔" وہ لب کاٹتی آس پاس دیکھنے لگی۔

"ہاں اب ان کے منہ کو میں نے کچھ نہیں کہا مگر یوں کسی کے گھر میں رہنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ کل کو تمہاری شادی بھی کرنی ہے لوگ ہزار باتیں بنائیں گے۔" ان کے چہرے پر فکروں کا جال بنا تھا۔

"جی مجھے معلوم ہے وہ بس رات ابراہیم ضد کر رہا تھا تو مجھے رکنا پڑا۔ میں بس اسے سلا کر آتی ہوں تھوڑی دیر میں.... " عقب سے قدموں کی آہٹ سنتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔


ملازم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔

"ابراہیم بیٹا کا دودھ ریڈی ہے.... " وہ اسے متوجہ دیکھ کر بولا۔

"اچھا مجھے دے دیں میں لے جاتی ہوں۔" وہ اسے چلنے کا اشارہ کرتی خود بھی قدم اٹھانے لگی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

معمول کے خلاف ابراہیم آج احمر کی گود میں سر رکھے ہوےُ تھا۔

"عشال ہمیں وہ ایپل والی کہانی سناؤ.... جس میں پرنسس ایپل کھا کر فیری لینڈ میں چلی جاتی ہے۔" جونہی اس کی نگاہ اس سے ٹکرائی وہ رخ موڑتا ہوا بولنے لگا۔

"ڈیڈی نے آپ کو سنائی ہے نہ کہانی؟ اب یہ دودھ پیو اور سو جاؤ جلدی سے۔" وہ بولتی ہوئی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔

احمر کی سنجیدہ نگاہیں اسے اپنے حصار میں لئے ہوےُ تھیں۔


"اچھا پھر ہمارے گھر رک جاؤ گی نہ؟" وہ اٹھ کر دودھ کا گلاس پکڑ رہا تھا۔ سوالیہ نگاہیں عشال پر تھیں جس کے چہرے پر حیرت سمٹ آئی تھی۔

"نہیں میں نے گھر جانا ہے.... میری ماما بلا رہی ہیں مجھے۔" اس نے کہتے ہوےُ ایک نگاہ احمر پر ڈالی اور پھر سے ابراہیم کو دیکھنے لگی۔

"نہیں جانا..... ڈیڈی ہم عشال کو اپنے گھر ہی رکھ لیں نہ؟" وہ اس کا دوپٹہ پکڑتا ایک سپ لے کر احمر کو دیکھنے لگا۔

"بیٹا عشال نے اپنے گھر جانا ہے.... وہ یہاں نہیں رک سکتی۔" اس کی آنکھوں میں ابھرتی نا پسندیدگی عشال کو بھی محسوس ہو رہی تھی۔

"کیوں کیوں کیوں؟" اس نے کہتے ہوےُ گلاس عشال کے ہاتھ میں دے دیا۔

"اس کو ختم کرو.... " وہ خفا خفا سی بولی۔

"میں نہیں کروں گا..... " وہ ناراضگی سے کہتا بیڈ کے دوسرے کنارے پر جا بیٹھا۔ ان دونوں کی جانب ابراہیم کی پشت تھی۔


"چلو تم.... " احمر اسے اشارہ کرتا کھڑ ہو گیا۔

"کون سا جادو کیا ہے تم نے میرے بیٹے پر بتاؤ ذرا؟ یہ تم جیسے مڈل کلاس لوگ پیر مرید قسم کے لوگوں کے پاس کثرت سے جاتے ہیں نہ.... " وہ کمرے سے باہر نکلتا ہی اس کی بازو دبوچ کر مدھم آواز میں برہم ہونے لگا۔

"میں نے کیوں کچھ کرنا؟ اور کوئی نہیں جاتے ہم پیر بابوں کے پاس.... " اس نے ناگواری سے اسے دیکھا جو اسے ہرٹ کر رہا تھا۔

"تو پھر کیوں وہ بضد ہے تمہیں یہاں روکنے پر؟" اس نے گھورتے ہوےُ چبا چبا کر لفظ ادا کئے۔

"یہ آپ اس سے پوچھیں.... میرا جو کام ہے میں تو بس وہی کرتی ہوں اب اسے ماں کی کمی تو فیل ہوگی یہ تو ظاہری سی بات ہے۔" اس نے اس کا فولادی ہاتھ ہٹاتے دلیل پیش کی۔

لمحہ بھر کو وہ لاجواب ہو گیا۔


"آپ دوسری شادی کر لیں۔ پھر وہ مجھے روکنے کی ضد نہیں کرے گا۔"

"تم ہوتی کون ہو مجھے مشورے دینے والی؟" نجانے کیوں اسے عشال کی بات نہایت گراں گزری۔

"میں نے تو کوئی مشورہ نہیں دیا.... " وہ اس کے بدلتے تیور دیکھ پیچھے ہوئی۔

"تم.... "

"باجی چھوڑ آؤں آپ کو؟" عقب سے ڈرائیور کی آواز آئی تو وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔

"ہاں جی.... " اسے تو ویسے بھی فرار ہونے کے لیے کوئی موقع چائیے تھا اسے دیکھتی فوراً پلٹ گئی۔

"بعد میں پوچھ لوں گا تمہیں....." وہ اسے جاتے دیکھ ہنکار بھر کر واپس کمرے میں چلا گیا۔

•••••••••••••••••••••••

"چینج نہیں کیا تم نے؟" وہ کمرے میں آیا تو اسے کاؤچ پر گرے پایا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔

"تھک گئی ہوں.... صبح آفس میں اتنا کام تھا اور اب یہ نکاح کا فنکشن۔" وہ آنکھیں بند کئے بول رہی تھی۔

"تم نے کھانا کھایا تھا؟ میں نے تو نہیں دیکھا۔" وہ کہتا ہوا اس کے ساتھ آ بیٹھا۔ اس کی موجودگی کے احساس کے باعث وہ سیدھی ہو گئی۔ اس نے صرف حجاب اتارا تھا, میک اپ اور کپڑے ابھی تک ویسے ہی تھے۔


"بس ایسے ہی دل نہیں کیا... تم مجھ پر نظر رکھے ہوےُ تھے؟" وہ آنکھیں سکیڑے اس کی جانب گھومی۔ فاصلہ کم ہوتے دیکھ اس نے پیچھے ہونا چاہا مگر شیری کے ہاتھ نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

وہ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کیے اسے خود سے قریب کر رہا تھا۔

"یہ کیا ہے؟ کل تو پارٹی میں تھے اس لئے میں نے کچھ نہیں..... "

وہ بول رہی تھی کہ اس نے شہادت کی انگلی اس کے لبوں پر رکھ کر اسے مزید بولنے سے روک دیا۔ مرحا کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی۔

"تو کیا گھر پر ممانعت ہے؟" وہ اس کی بھوری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

"ہاں بلکل.... اپنی چھچھوری حرکتوں پر واپس آ رہے ہو تم۔" وہ اس کی بازو ہٹاتی تیزی سے کھڑی ہو گئی۔

"ڈرتی کیوں ہو مجھ سے؟" وہ اس کی آنکھوں میں خوف دیکھ چکا تھا۔


"ڈرنا کیوں ہے میں نے.... " وہ نگاہیں چراتی الماری کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بھی دبے پیر اس کی جانب بڑھنے لگا۔

"یہ گھبراہٹ.... جو میرے قریب آنے پر تمہارے چہرے کا خاصہ بن جاتی ہے۔ یہ کیا ہے پھر؟"

اس نے آواز آہستہ کرتے ہوےُ تھوڑی مرحا کے شانے پر رکھ لی۔ ایک لحظے کے لئے اس کے دل نے بیٹ مس کی۔ وہ بلکل صحیح کہہ رہا تھا۔ اور وہ حیران تھی اس کے چہرہ پڑھنے کی مہارت پر۔

"سانپ کیوں سونگھ گیا ہے تمہیں؟" وہ اسے ساکت دیکھ رہا تھا۔

"اپنی یہ آوارہ لڑکوں والی حرکتیں میری پہنچ سے دور رکھا کرو.... " وہ خود کو کمپوز کرتی پلٹ کر اسے گھورنے لگی۔

"اور اگر نہ کروں پھر؟" وہ آج اسے ستانے کے موڈ میں تھا۔

"بھاڑ میں جاؤ پھر.... " وہ جھنجھلا کر کہتی ہاتھ میں جو بھی ہینگر آیا لے کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔

وہ اس کے کترانے پر مسرور سا ہو گیا۔

"آخر کب تک بھاگو گی مجھ سے؟ یا کب تک دور کرو گی مجھے خود سے؟" وہ خود کلامی کرتا سٹڈی کی جانب بڑھنے لگا۔

"نجانے دن بہ دن مجھے تم اچھی کیوں لگتی جا رہی ہو؟ ایسی بھی کوئی خوبصورتی نہیں تمہارے پاس۔" وہ الجھا الجھا سا کہتا لیپ ٹاپ کھولنے لگا۔


آدھے گھنٹے بعد وہ سٹڈی میں نمودار ہوئی۔ آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔

وہ گرے کلر کی ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک ٹراؤزد پہنے ہوےُ تھی اور ستم یہ تھا کہ یہ کپڑے بھی شہریار کے تھے۔ بالوں کا جوڑا بناےُ وہ سنجیدہ سی کھڑی تھی مگر پھر بھی اسے حسین لگ رہی تھی, یا شاید اس کے کپڑوں کا چارم تھا۔ وہ فیصلہ نہ کر پایا۔

"تمہیں جو کپڑے دئیے ہیں وہ کم ہیں؟" وہ لب دباےُ مسکراہٹ دبا رہا تھا۔

"میری مرضی.... مجھے یہ بتاؤ اس بلاول کا کیا سین ہے؟ کیوں اس کا لیپ ٹاپ چائیے تمہیں؟" وہ چلتی ہوئی اس کی میز کے پاس آ رکی۔

"آہم.....آہم.... " وہ گلا صاف کرتا مسکرانے لگا۔

"میں کچھ پوچھ رہی ہوں شیری... " وہ روانی میں بول گئی تو دانت پیسنے لگی۔


"ایسا ہے کہ پچھلے دو سال سے ٹینڈر وہ لے رہا ہے۔ جتنی قیمت میں لگاتا ہوں وہ اس سے صرف ایک ڈیجیٹ زیادہ لگا کر مستقل دو سالوں سے ٹینڈر مجھ سے چھین رہا ہے۔ اور اس بار میں اس کے والا کام کرنا چاہتا ہوں۔ صرف ایک ڈیجیٹ کے فرق سے,, ٹینڈر لینا چاہتا ہوں۔" وہ ریوالونگ چئیر پیچھے کرتا اسے دیکھنے لگا جو میز سے ٹیک لگاےُ کھڑی تھی۔

"اوہ اچھا.... بس یہی سبب ہے؟" وہ سر ہلانے لگی۔

"ہاں... بس یہی.... اس کے لیپ ٹاپ میں ہر چیز کی ڈیٹیل ہوتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے مل جاےُ تو کام ہو جاےُ گا۔"

"اور دوسری پارٹی کب ہے؟" وہ پرسوچ انداز میں بولی۔

"میں نہیں لے جانا چاہتا تمہیں وہاں.... " وہ سپاٹ انداز میں سر کو نفی میں حرکت دینے لگا۔

"ہماری ڈیل ہوئی تھی۔ اس لئے میں جاؤں گی۔" وہ اس پر جھکتی گھورنے لگی۔


"نقصان تو اسے ہوگا.... میں کوئی اور طریقہ نکال لوں گا۔ تم رہنے دو۔" اس نے بہلانے والے انداز میں کہتے ہوےُ اس کا دائیاں رخسار تھپتھپایا۔

"شیری مجھے جانا ہے.... بلکہ کچھ ایسا ہو کہ میں اس سے بدلہ لے سکوں۔" وہ اس سے نگاہیں ہٹاتی زمین کو دیکھنے لگی۔

"بدلہ کیسے؟ وہ خطرناک آدمی ہے۔" اس نے اسے شرٹ سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔

"یہ ٹھرک کے کیڑے بار بار نکل آتے ہیں..." وہ اس کا ہاتھ اپنی شرٹ کے گریبان سے ہٹاتی پیچھے ہونے لگی۔

"اگر میں اسے تھپڑ مار سکوں بلکہ ویسے ہی جیسے اس نے بھری پارٹی میں مجھے مارا؟۔" وہ پر سوچ انداز میں کہتی اسے دیکھنے لگی جیسے اس کی راےُ مانگ رہی ہو۔


"ہاں بدلہ پورا ہو جاےُ گا تمہارا مگر تم ان فضول کاموں سے دور رہو۔ وہ متعدد بار معافی مانگ چکا ہے۔ دانستہ طور پر نہیں کیا اس نے ایسا.... " اس کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ پریشانی کا عنصر بھی تھا۔

"لیکن میں پارٹی میں جاؤں گی.... " وہ ہٹ دھرمی سے کہتی قدم اٹھانے لگی۔ وہ بس اسے دیکھ کر رہ گیا جو خود مصیبت کو آواز دینے کے در پے تھی۔

"مرحا میری بات سنو یہ سب.... " وہ بولتا ہوا کھڑا ہوا مگر وہ سٹڈی کا دروازہ بند کر کے باہر نکل گئی۔

"یہ لڑکی پاگل ہو گئی ہے.... اگر بلاول دشمنی نبھانے پر آیا تو نسلیں یاد کریں گی اس کی۔" وہ تشویش سے کہتا ہونٹوں کو دائیں بائیں جبنش دیتا لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھنے لگا۔

•••••••••••••••••••••

"خیریت دادو آپ نے اس وقت مجھے بلایا؟" وہ دروازہ بند کرتا متعجب سا انہیں دیکھنے لگا۔

"کہہ سکتے ہو خیریت ہے اور نہیں بھی.... " الجھن لفظوں کے ساتھ ساتھ چہرے سے بھی عیاں تھی۔

"اچھا بتائیں کیا بات ہے؟" وہ ان کے سامنے آ بیٹھا تھا جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاےُ ہوےُ تھیں۔

"ابراہیم سو گیا؟"

"بہت مشکل سے.... روےُ جا رہا تھا کہ عشال کیوں چلی گئی۔" اس نے آہ بھرتے ہوےُ سر کو نفی میں حرکت دی۔

"تم عشال سے شادی کر لو... تمہیں بیوی کی ضرورت ہو نہ ہو مگر ابراہیم کو ماں کی ضرورت ہے ابھی چھ سال کا ہے وہ۔ کیوں اس پر ظلم کر رہے ہو؟" وہ دکھ اور بے بسی کے تاثرات لئے اسے دیکھ رہی تھیں۔

اس نے فردوس کو یوں دیکھ جیسے ان کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔


"میں؟ اور اس جاہل گوار سے شادی کروں گا؟ آپ سیرئس.... مطلب آپ کے دماغ میں ایسی بات آ بھی کیسے سکتی ہے؟" وہ شاک کے عالم میں تھا جس کے سبب بولا نہیں جا رہا تھا اس سے۔

"تم نے کچھ زیادہ ہی اس کی پڑھائی کو سر پر سوار کر لیا ہے۔ بات یہ ہے ابراہیم اب اس کے ساتھ اٹیچ ہو چکا ہے۔ اور ماں کی کمی پہلے سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔ تو تم اس کی خاطر کر لو یہ شادی۔" انہوں نے مزید دباؤ ڈالنے کی غرض سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

اس نے ایک اچٹتی نگاہ ان کے ہاتھ پر ڈالی۔

"ایسا ہرگز ممکن نہیں.... میں اس لڑکی کو اس گھر میں پتہ نہیں کیسے برداشت کرتا ہوں اور آپ کہہ رہی ہیں اسے اپنی بیوی.... " وہ نفی میں سر ہلاتا کھڑا ہو گیا۔

"تو تمہیں کیا لگتا ہے کب تک ابراہیم کو بہلا لو گے ایسے؟ کتنے دن تک اسے روتا دیکھو گے؟ تمہارا دل بے چین نہیں ہوتا اسے تڑپتے دیکھ؟" وہ اس کی بے حسی پر جہاں حیران تھیں وہیں افسردہ بھی۔


"عشال کل سے نہیں آےُ گی یہاں... میں کسی اور کئیر ٹیکر کا.... "

"جو پہلے تم نے رکھی تھی ابراہیم نے اسے نکالا تھا اگر یاد ہو تو۔" وہ جو جانے کے لیے پلٹ رہا تھا ان کی مداخلت پر ٹھہر گیا۔

"اور اگر تم یہ سوچو کہ میں اپنے سٹینڈرڈ کی کسی لڑکی سے شادی کر لوں تو وہ تمہاری بیوی بنے گی ابراہیم کی ماں نہیں۔" وہ چلتی ہوئیں اس کے مقابل آ گئیں۔ شاید آج وہ اسے گنجائش دینے پر آمادہ نہیں تھیں۔

"نہیں آپ غلط گمان کر رہی ہیں۔ کسی اچھی فیملی کی لڑکی بھی ابراہیم کا خیال رکھ سکتی ہے۔" اسے یہ حل کچھ بہتر معلوم ہو رہا تھا۔


"اس کو اپنے سرخی پاؤڈر اور پارٹیز سے فرصت ملے گی تو ابراہیم کو وقت دے گی۔ اپنی خالہ کی بیٹی کو ہی دیکھ لو تم۔ کیسے دونوں بچوں کو ملازمہ کے سر پر چھوڑا ہے اور وہ ماں کی توجہ کو ترستے ہیں۔" وہ اس کا ہر راستہ بند کرتی جا رہی تھیں۔

"دادو آپ جو کہہ رہی ہیں.... ممکن نہیں۔" وہ نگاہیں ملانے سے گریز پا تھا۔

"بلکل ممکن ہے.... اور جیسے آج کل ابراہیم عشال کو روکنے کی ضد کر رہا ہے اس کا حل شادی ہی ہے۔ میری مانو تو مزید ظلم مت کرو اپنے معصوم بیٹے پر۔ اس کا بھی حق ہے ماں کی محبت پر۔" وہ رنجیدہ سی اسے دیکھ رہی تھیں جو نگاہیں جھکاےُ فرش کو دیکھ رہا تھا۔


"اس کا بچپن تم خراب کر رہے ہو اس بات کو مت بھولنا,, کل کو جب وہ اس خلش, اس کمی کو دل میں بساۓ بڑا ہوگا تو تم سے ہی سوال کرے گا اور تمہیں ہی ذمہ دار ٹھہراےُ گا, اگر تم نے عشال سے شادی کے بارے میں نہیں سوچا تو... مرضی ہے تمہاری۔" انہوں نے برہمی سے کہتے ہوےُ قدم اٹھانے شروع کر دئیے۔ جیسے یہ ان کی ناراضگی کا برملا اظہار تھا۔

"جا سکتے ہو اب تم.... میں آرام کرنا چاہتی ہوں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔" وہ بیڈ پر بیٹھتی سرد لہجے میں گویا ہوئیں تو وہ اپنے ٹرانس سے نکلتا دروازے کی سمت بڑھ گیا۔

••••••••••••••••••••••

"مرحا.... " وہ الماری سے کوٹ نکالتا بلند آواز میں بولا۔

"مرحا یار اٹھ جاؤ اب.... مجھے جانا ہے پھر۔" وہ اس کے ساکت وجود کو دیکھتا کوفت سے بولا۔ مگر اب بھی اس نے کوئی حرکت نہیں کی۔

وہ چلتا ہوا بیڈ کے پاس آ رکا۔ ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو نو بجا رہی تھی۔

"مرحا...." اس نے کہتے ہوےُ اس کا رخسار تھپتھپایا۔

اس نے تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھولیں۔

پیشانی پر بل ڈالے وہ اسے دیکھنے لگی جیسے وجہ دریافت کرنا چاہ رہی ہو اپنی نیند میں خلل پیدا کرنے کی۔

"مجھے کام سے جانا ہے کراچی.... " وہ جگہ دیکھتا بیڈ کے کنارے پر ٹک گیا۔

"تو میں کیا کروں؟ جہاز میں نے اڑانا ہے؟" وہ بگڑ کر بولی۔

اس کے لب دھیرے سے مسکراےُ۔


"تم گھر چلی جانا دو تین دن کے لئے.... مجھے کام کے سلسلے میں جانا ہے تو کچھ دن لگ جائیں گے۔"

"اچھا.... یہاں کیا مسئلہ ہے؟" اس نے جمائی روکتے ہوےُ الٹا ہاتھ منہ پر رکھا۔

"یہاں اکیلے رہنے سے بہتر ہے تم اپنے گھر چلی جاؤ... میری غیر موجودگی میں کوئی دوست بھی آ سکتا ہے گھر۔" وہ واقف تھا ہر چیز سے اس لئے محتاط ہو رہا تھا۔

"اور وہ بلاول کی پارٹی؟" وہ دونوں ہاتھوں سے بال سمیٹتی اٹھ بیٹھی۔ نیند تو اب خراب ہو چکی تھی اس لئے اس نے بات کرنا ہی مناسب جانا۔

"دفع کرو اس بلاول کو تم.... " اس کا انداز پھر سے ٹالنے والا تھا۔


"شیری میں بلکل سیرئس ہوں.... مجھے اپنا حصہ بھی چائیے اور بدلہ بھی۔" وہ اس کی بازو پکڑتی ایک ایک لفظ پر زور دیتی ہوئی بولی۔

"تمہیں لالچی کہوں یا؟" وہ ہونٹوں پر انگلی رکھتا سوچنے لگا۔

"جو مرضی کہو.... لیکن مجھے لے کر جاؤ گے تم اس پارٹی میں۔" وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔

اس کا یوں حکم چلانا اسے اچھا لگ رہا تھا۔

"پارٹی ابھی نہیں ہے... میں واپس آؤں گا پھر دیکھیں گے یہ موضوع بھی۔" اس نے مسکراتے ہوےُ اس کا رخسار تھپتھپایا۔

"اچھا.... میں ناشتہ کر کے چلی جاؤں گی ڈرائیور کے ساتھ۔ ویسے بھی مجھے آفس جانا ہے پہلے۔ تم ابھی جا رہے ہو؟" اس کی نگاہ سامنے وال کلاک سے ٹکرائی تو آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی۔


"ہاں فلائیٹ ہے میری دس بجے.... تمہیں کوئی کام ہو تو مجھے کال کر لینا۔" وہ سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھاتا کھڑا ہو گیا۔

"اچھا ٹھیک ہے... " اس نے سر اثبات میں ہلایا اور ایک نظر اس پر ڈالی جو تھری پیس پہنے تیار کھڑا تھا۔ آنکھوں پر نظر والی گلاسز اسے مزید حسین بنا دیتی تھی۔ مرحا پر یہ ادراک ابھی اسی لمحے ہوا تھا۔

"اور ڈرائیور کو بلا لینا تم کہیں بھی جانا ہو...." وہ بیگ میں لیپ ٹاپ رکھ رہا تھا۔

"اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے تمہیں میری؟" اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔

"لگتا ہے تمہیں ہضم نہیں ہو رہی.... " وہ ہنستا ہوا سیدھا ہو گیا۔

اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔

"خدا حافظ.... " وہ ایک نرم سی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتا آگے بڑھ گیا۔

"خدا حافظ.... " اس نے آہستہ سے کہا اور شہریار نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

•••••••••••••••••••••

"میں نہیں کھاؤں گا.... عشال کو بلاؤ۔" وہ نروٹھے پن سے کہتا منہ موڑنے لگا۔

"بیٹا عشال آج نہیں آئی... چھٹی کی ہے اس نے۔" فردوس اس کے نخرے دیکھتی آگے بڑھیں۔

"کیوں نہیں آئی وہ؟ اس نے تو مجھے پک کرنے آنا تھا نہ؟ رات بھی وہ چلی گئی تھی۔" وہ آنکھوں میں اشک لئے انہیں دیکھنے لگا۔

"اس کی طبیعت نہیں ٹھیک.... " جھوٹ بولنے پر ان کے چہرے پر ناگواری در آئی۔

"ہم ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اسے.... آپ بلائیں اسے۔" وہ کہتا ہوا صوفے سے اتر گیا۔

"اچھا آپ کھانا تو کھاؤ پہلے.... " انہوں نے قائل کرنا چاہا۔

"نہیں میں عشال کے ہاتھ سے ہی کھاؤں گا۔" وہ بضد رہا۔

فردوس ہارے ہوےُ انداز میں ملازمہ کو دیکھنے لگی جو گزشتہ آدھ گھنٹے سے اس کی منت سماجت کر رہی تھی۔

"احمر کو فون کرو.... خود ہی آ کر سمجھاےُ اپنے لاڈلے کو۔" وہ خفا خفا سی کہتی ابراہیم کو دیکھنے لگیں جو لاپرواہ سا بنا ہوا تھا۔


"اوکے میڈم.... " وہ سر کو خم دیتی چل دی۔

بیس منٹ بعد لاؤنج کے دروازے سے احمر آتا دکھائی دیا۔

"جی کیا کام ہے جو مجھے اتنی ایمرجنسی میں بلایا آپ نے؟" وہ رک کر باری باری دونوں کو دیکھنے لگا۔

"کھانا کھلاؤ خود ہی اپنے لاڈلے کو۔ ہماری تو نہیں سن رہا...." ان کا انداز ناراضگی کا عنصر لئے ہوےُ تھا جیسے کہنا چاہ رہی ہوں کہ میری بات نہیں سنی نہ؟ بھگتو اب۔

"اور کیوں تنگ کر رہے ہو آپ دادو کو؟" وہ چلتا ہوا اس کے پاس بیٹھ گیا۔ لہجہ زمانے بھر کی نرمی سموئے ہوئے تھا۔

"روز عشال کھانا کھلاتی ہے مجھے.... اسی کے ہاتھ سے کھاؤں گا۔" اس نے منہ بناتے ہوےُ جواب دیا تو احمر کی گردن میکانکی انداز میں فردوس کی جانب گھوم گئی۔


"وہ اب نہیں آےُ گی یہاں... میں آپ کے لئے نئی کئیر ٹیکر رکھوں گا۔" اس نے محبت سے اس کے بال سنوارے۔

"نہیں... مجھے عشال ہی چائیے۔ اس کو لے کر آئیں آپ۔" وہ صوفے سے اتر کر اسے بازو سے کھینچنے لگا۔

"ابراہیم آپ کو میری بات سمجھ نہیں آ رہی؟ وہ نہیں آےُ گی اب یہاں۔" اب کہ اس نے لہجے کو ذرا سخت بنایا تو اس کی موٹی موٹی آنکھیں اشکوں سے بھر گئیں۔ اور یہاں وہ اپنے باپ کو شکست دے جاتا۔

"میں آپ سے بات نہیں کروں گا.... دادو سے بھی نہیں۔ کسی سے بھی نہیں.... بیڈ بوائے ہیں آپ۔" وہ خفگی سے کہتا بھاگنے لگا۔

"ابراہیم.... " اس نے پلٹ کر اسے آواز دی مگر وہ تیزی سے راہدادی میں غائب ہو گیا۔

"گھر پر رہو اور سنبھالو اپنے بیٹے کو...." فردوس لا تعلقی سے کہتی کھڑی ہو گئیں۔


"آپ تو ایسے کہہ رہی تھی جیسے آپ کا کچھ نہیں لگتا وہ.... " ان کا یہ بیگانہ انداز احمر کو ہرٹ کر رہا تھا۔

"میرے بیٹے کا بیٹا ہے وہ.... خون ہے میرا اس لئے تمہیں نادر مشورہ دیا تھا مگر تمہیں تو شوق ہے اپنی مرضی کرنے کا تو کرو پھر.... " اپنی ناراضگی کا سبب انہوں نے بنا پوچھے ہی بیان کر دیا۔

"اچھا.... " وہ سر ہلا کر سامنے دیکھنے لگا تو وہ بھی وہاں سے اوجھل ہو گئیں۔

"میرے گھر والے اب مجھ سے ہی خفا ہیں... پتہ نہیں کون سی جادو کی چھڑی ہے تمہارے پاس۔" وہ کلس کر کہتا دانت پیسنے لگا۔

"کچھ کرنا ہوگا اس کا.... " وہ سوچتا ہوا کھڑا ہو گیا اور جیب سے فون نکالنے لگا۔

••••••••••••••••••••••

"میڈم آپ واپس آ گئیں؟" میری اسے نمودار ہوتے دیکھ قدرے حیرت سے گویا ہوئی۔

"نہیں میں اپنی کچھ چیزیں لینے آئی ہوں.... شیری نے تمہیں بھی کچھ کہا ہے میرے یہاں رہنے سے؟" وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگی۔

"نہیں انہوں نے بس تاکید کی تھی کہ آپ کو یہاں رکنے نہ دیا جاےُ۔" وہ سر نفی میں ہلاتی میز صاف کرنے لگی۔

"عجیب ہے یہ انسان بھی.... " وہ جھرجھری لیتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔

"میں جب تک اپنا سامان اٹھا لوں میرے لئے ایک کپ چاےُ تو بھیج دینا میری.... " اس نے زینے چڑھتے ہوےُ التجائیہ انداز میں کہا۔

"ٹھیک ہے میڈم.... " وہ اپنا کام وہیں چھوڑ کر کھڑی ہو گئی۔


"فلیش یہاں رکھی تھی.... " وہ ایک کے بعد دوسرا دراز کھول رہی تھی۔

"آہ... مل گئی.... " اس کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا جونہی آنکھیں اپنی مطلوبہ شے سے دو چار ہوئیں۔

وہ لان کی پرنٹ فراک پہنے ہوےُ تھی, جو گھٹنوں تک آ رہی تھی, ساتھ میں کیپری پہن رکھی تھی, چہرہ بھورے رنگ کے حجاب کی اوڑھ میں تھا, چہرے پر وہی معمولی سا میک اپ تھا جو وہ روز آفس جانے کے لیے کرتی تھی۔

"میڈم آپ کی چاےُ.... " میری سٹڈی میں داخل ہوتی ہوئی بولی۔

"تھینک یو... بہت طلب ہو رہی تھی۔" تھکاوٹ دور کرنے کا اس نے یہی حل ڈھونڈ رکھا تھا۔

"اور وہ بلاول سر آےُ ہیں نیچے.... " وہ ٹرے رکھ کر پیچھے ہوئی۔

"وہ کیوں؟" مرحا کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں۔


"پتہ نہیں...." اس نے لاعلمی سے شانے اچکاےُ۔

"تم نے بتایا نہیں شہریار گھر پر نہیں ہے؟" وہ کپ ہاتھ میں پکڑے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"میں نے بتایا.... "

"تو پھر؟" اس نے تیزی سے سوال داغا۔

"تو کہنے لگے آپ سے ملنا ہے۔" اس کی بات مکمل ہوتے ہی وہ الجھن کا شکار ہو گئی۔

"مجھ سے کیوں ملنا ہے اسے؟" وہ متجسس سی کہتی ہاتھ میں پکڑے کپ کو دیکھنے لگی جس کا ایک سپ بھی نہیں لیا تھا اس نے۔

"کہاں بٹھایا ہے اسے؟" اس نے کپ واپس ٹرے پر رکھ دیا۔

"لاؤنج میں ہی.... "

"دیکھ لیتے ہیں کیا کام ہے مجھ سے.... "

وہ سر ہلاتی قدم اٹھانے لگی۔

•••••••••••••••••••••

"نصرت ہم یہاں تم سے بہت ضروری کام سے آےُ ہیں.... " فردوس کے یوں تمہید باندھنے پر وہ مزید الجھ گئی جو پہلے ہی ان کی غیر متوقع آمد پر حیران تھیں۔ اس پر احمر کی موجودگی جو انہیں تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔

"جی جی آپا بولیں.... "

فردوس ان کی دور پار کی کزن تھیں۔

"عشال کا رشتہ لے کر آئیں ہیں ہم.... اسے اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں بہو بنا کر اگر تم ہمیں انکار نہ کرو تو؟" وہ اپنی بات مکمل کر کے سوالیہ نظروں سے نصرت اور عثمان کو دیکھنے لگی۔

"عشال کا رشتہ؟ احمر کے ساتھ؟" وہ شاک سی انہیں دیکھنے لگی۔

فردوس نے جواباً سر کو خم دیا۔


جہاں نصرت متحیر تھیں وہیں عثمان بھی۔

اتنے اچھے گھرانے سے رشتہ آنا ان کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔

"لیکن یوں اچانک.... " نصرت کو یقین نہیں آ رہا تھا اپنی سماعت اور بینائی پر۔

"بس تم اپنا جواب دو ہمیں اور بتاؤ کب ہم اسے لے جائیں آ کر؟" وہ نصرت کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی اپنائیت سے بولیں۔

"میں کیا کہوں آپا؟" وہ الجھ کر عثمان کو دیکھنے لگیں۔

"بھابھی آپ کے فیصلے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا.... بیٹی آپ کی ہے پہلا حق آپ کا ہے۔" وہ ان کی نگاہوں کا مفہوم سمجھ رہے تھے۔


"میں آپ کو فون کر دوں؟" اتنا اچانک یہ سب ہونا انہیں بوکھلا گیا۔

"ہاں ہاں کر دینا فون... لیکن زیادہ وقت مت لینا۔ دراصل ابراہیم کی عشال کے ساتھ وابستگی ہمیں یہاں کھینچ لائی ہے۔" وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔ احمر جو ساکت بیٹھا تھا تب سے, انہیں دیکھتا کھڑا ہو گیا۔

"چلیں ٹھیک ہے میں آپ کو بتاتی ہوں پھر.... " وہ بھی مسکراتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔

وہ مصافحہ کرتے وہاں سے نکل گئے۔

"اتنے تیز تمہارے کان ہوتے تو کیا ہی بات ہوتی.... " عقب سے زمر نے اس کی پشت پر تھپڑ مارا۔

"کیا ہے؟" عشال نے جواباً اسے گھورا۔


"کس لئے آےُ تھے تمہارے سر اور میڈم؟ کیا سنا ہے؟" وہ اکھڑ لہجے میں کہتی دائیں آبرو اچکانے لگی۔

"پتہ نہیں شاید رشتے کی بات کر رہے تھے۔" وہ بے یقین سی کہتی چلنے لگی۔ زمر نے سیڑھیوں سے نیچے جھانکا۔

"چلے گئے ہیں وہ لوگ....چلو نیچے چلتے ہیں۔" وہ اسے کہتی تیزی سے چلی گئی۔

"سر کے ساتھ میری شادی کیسے؟ وہ اتنے امیر اور اتنے دماغ والے ہیں پھر کیوں آےُ میرے رشتے کے لئے؟" وہ الجھی الجھی سی کہتی صوفے پر بیٹھ گئی۔

"پتہ نہیں کیا بات ہوئی.... ابراہیم کو فون کرتی ہوں شاید کچھ معلوم ہو جاےُ۔" وہ منہ میں بڑبڑاتی فون اٹھانے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"جی؟" وہ چلتی ہوئی صوفے کے پاس آ رکی۔ بلاول رندھاوا بائیں جانب دو سیٹر صوفے پر براجمان تھا۔ مرحا کے ہاتھ صوفے کی پشت پر تھے۔

"کیسی ہیں آپ؟" وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"میں ٹھیک ہوں.... " اس نے سر کو جبنش دی۔

"لگتا ہے آپ نے مجھے معاف نہیں کیا...." وہ اپنی گندی نگاہوں سے جیسے سر تا پیر اس کا جائزہ لے رہا تھا اسے اس کی آمد کا مقصد دم بخود معلوم ہو گیا۔

"ایسی بات نہیں ہے.... " اس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا اور وہ چلتی ہوئی صوفے پر آ بیٹھی۔ اسے بیٹھتے دیکھ بلاول بھی بیٹھ گیا۔


"میں گزر رہا تھا یہاں سے سوچا شیری سے ملتا چلوں مگر وہ شاید آؤٹ آف سٹیشن ہے.... "

"جی کام سے گئے ہیں وہ.... آپ کو کوئی کام تھا ویسے؟" وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتی پر اعتماد سی بولی۔

"نہیں کام تو کوئی نہیں.... ویسے میں حیران ہوں شیری نے ایسا نایاب ہیرا کہاں سے ڈھونڈ لیا؟" اس کی نگاہیں ایک لحظے کے لئے بھی مرحا کے سراپے سے ہٹی نہیں تھیں۔

وہ زچ ہوتی جبراً مسکرانے لگی۔

اسی لمحے میری ٹرے اٹھاےُ نمودار ہوئی۔

مرحا نے اسے اشارہ کیا تو وہ وسط میں پڑے میز پر لوازمات سجانے لگی۔

"اس سب کی زحمت کیوں کی آپ نے.... میں تو بس آپ سے مل کر جانے والا تھا۔"


"میں تو کوئی زحمت نہیں کی... میری لے کر آئی ہے۔ خیر آپ چاےُ لیں۔" وہ میری سے کپ لیتی بلاول کو اشارہ کرنے لگی۔

"جی جی.... " وہ سر ہلاتا آگے ہو کر کپ اٹھانے لگا۔

"کبھی آئیں آپ ہمارے غریب کھانے میں... بلکہ کل ہی آ جائیں شیری بھی نہیں ہے آپ تنہا ہوں گی اس بڑے سے گھر میں۔" اس نے ذو معنی انداز میں کہتے ہوےُ گردن اٹھا کر اس وسیع لاؤنج میں لٹکتے فانوس کو دیکھا۔

"شیری کے ساتھ آؤں گی ضرور آپ کے غریب خانے میں.... " وہ بظاہر مسکرا رہی تھی مگر اندر ہی اندر کلس رہی تھی۔ اس شخص کا منہ نوچنے کا دل چاہ رہا تھا مگر اسے تحمل سے کام لینا تھا اس لئے کڑوے گھونٹ سمجھ کر پینے لگی۔


"اگر آپ کو کوئی کام نہیں تو مجھے جانا تھا کہیں؟" وہ اسے کپ واپس رکھتے دیکھ گویا ہوئی۔ ایک ایک منٹ زہر کی مانند اس نے پیا تھا۔

"جی جی جائیں آپ۔ بلکہ میں چھوڑ دیتا ہوں کہاں جانا ہے آپ نے؟" وہ فون اٹھاتا اس کی جانب دیکھنے لگا۔

"نہیں میرے بابا آ رہے ہیں تو مجھے ان کے ساتھ جانا ہے کچھ کام ہے۔" اس نے سہولت سے انکار کر دیا تو وہ سر ہلاتا کھڑا ہو گیا۔

"چلیں ملتے ہیں پھر.... " وہ اس کے سامنے آتا ہاتھ بڑھانے لگا مصافحہ کی غرض سے۔

"گڈ باےُ.... " اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا اور مسکراتے ہوےُ اسے دیکھنے لگی۔

وہ ایک نظر اپنے بڑھتے ہوےُ ہاتھ پر ڈالتا پلٹ گیا۔


"کیسا گھٹیا انسان ہے یہ.... " وہ اس کی باتوں کے مفہوم سمجھتی کراہیت سے بولی۔

"معلوم ہوگا اسے شیری گھر پر نہیں اس لئے منہ اٹھا کر آ گیا.... " وہ ہنکار بھر کر کہتی کھڑی ہو گئی۔

"میری میں جا رہی ہوں ڈرائیور کے ساتھ.... تم یہ سب سمیٹ لو۔" وہ کچن کے دروازے میں آ کر ہانک لگاتی پلٹ گئی۔

"شاید اسی لئے شیری نے مجھے گھر جانے کا بولا تھا... " وہ بڑبڑاتی ہوئی عقب میں پڑے چھوٹے میز سے اپنا بیگ اٹھانے لگی جو اس نے نیچے آتے ہوےُ وہاں رکھ دیا تھا۔

•••••••••••••••••••••••

"بس پھر میں صبح آپا کو فون کر کے ہاں کہہ دوں گی.... " ایک طویل گفتگو کے بعد وہ خوشی سے چہکی۔

"ہاں کہہ دینا.... یہ بیٹیوں کے فرض جتنی جلدی ادا ہو جائیں اچھا ہے۔" عثمان تائیدی انداز میں سر ہلانے لگے۔

"جاؤ چولہا بند کر کے آؤ.... " یاد آنے پر وہ زمر کو دیکھنے لگیں جو سنگل صوفے پر بیٹھی تھی۔

"مجھے دیکھ کر تو کام ہی یاد آتے ہیں آپ کو.... " وہ ناک منہ چڑھاتی اٹھ کر چلی گئی۔

"چچی جان یہ آپ کی دوائی جو منگوائی تھی آپ نے.... " حماد ان کی بات ختم ہونے کا منتظر تھا۔

اپنی بات مکمل کر کے اس نے شاپر نصرت کی جانب بڑھا دیا۔


"اچھا کیا بھولے نہیں.... الرجی ختم ہی نہیں ہوتی.... " وہ شاپر کے اندر جھانکتی پہلے شکر سے اور پھر کوفت سے گویا ہوئیں۔

زمر واپس آئی تو حماد اس کی جگہ پر براجمان تھا۔

"اٹھو میری جگہ سے.... " وہ اس کے سر پر آن کھڑا ہوئی تھی۔

"وہاں بیٹھ جاؤ....." اس نے دوسرے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔

"نہیں یہاں پنکھے کی ہوا صحیح آتی ہے میں یہیں بیٹھوں گی.... "

"میں تو نہیں اٹھ رہا.... " وہ لاپرواہی سے کہتا جیب سے فون نکالنے لگا۔


"امی اس کو دیکھیں میری جگہ پر بیٹھ گیا ہے.... " جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو مدد کی خاطر نصرت کو دیکھنے لگی۔

"میری جگہ کیا ہوتا ہے؟ نام لکھا ہے تمہارا؟ جہاں مرضی بیٹھ جاؤ....سارے صوفے ہی ہیں۔" وہ الٹا اس پر برسنے لگیں۔

"ہاں لکھا ہوا ہے میرا نام... مجھے نہیں پتہ میں اپنی جگہ پر ہی بیٹھوں گی۔" وہ کہتی ہوئی حماد کی بازو پکڑنے لگی۔

"کیوں تم نواب ہو جو پنکھے کے نیچے بیٹھوں گی؟ یا بل تم نے دینا ہے؟" وہ اس کی زبردستی کا ارادہ بھانپ کر فوراً سے بیشتر اس کا ہاتھ ہٹانے لگا۔ پیشانی پر بل ڈال رکھے تھے۔

"میں پہلے بیٹھی تھا حماد.... " وہ اردگرد سے بیگانہ قدرے بلند آواز میں بولی۔

"ان کا تو روز کا کام ہے.... " عثمان خائف سے ہو کر اٹھ کر چلے گئے۔


"تو اب میں بیٹھا ہوں.... کس نے کہا تھا اٹھ کر جاؤ؟ ساتھ لے جاتی صوفہ اپنے اگر اتنی فکر تھی تو.... " وہ بھی ڈھٹائی میں اپنی مثال آپ تھا۔

"میں نے چپیڑ مار دینی ہے اب تمہارے زیادہ زبان نہ چلاؤ...." جب اس سے کوئی بات نہ بن پائی تو اس نہج پر اتر آئی۔

"تو مجھ سے بھی کھاؤ گی.... چپ کر کے وہاں بیٹھ جاؤ میرا سر نہ کھاؤ۔ آفس سے آیا ہوں ابھی تھکا ہوا وہ بھی....." اس نے آنکھیں اٹھا کر گھورتے ہوےُ جتایا تو وہ لب کاٹنے لگی۔

"امی کیا ہے اسے اٹھائیں یہاں سے.... " وہ رونے والی شکل بناےُ انہیں دیکھنے لگی جو فون کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔ شاید کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھیں کیونکہ آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔


"زمر دفع ہو جاؤ یہاں سے.... ڈرامہ نہ دیکھنے دینا مجھے۔ اپنے ہی رولے ڈال کر بیٹھ جانا ہوتا ہے تم نے۔" وہ اس کی بات کو یکسر نظر انداز کرتی کھڑی ہو گئیں۔

"میں کیا کہہ رہی ہوں آپ کو؟" وہ منہ کھولے انہیں دیکھے گئی۔

"دماغ نہ کھاؤ میرا.... جو کرنا ہے خود ہی کرو.... " وہ خفگی سے کہتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئیں۔

حماد کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ گئی جو زمر کو اندر تک جلا رہی تھی۔

"کہنا مجھے کوئی کام تم کبھی.... " وہ بھنا کر کہتی تیزی سے زینے چڑھنے لگی۔

"اپنا کام دوسروں سے کرواتی ہو اور میرا کام کرو گی.... " وہ ہنکار بھر کر اسکرین پر انگلی چلانے لگا۔


چند لمحے ہی گھڑی نے پیچھے چھوڑے تھے کہ ہیل کی ٹک ٹک سنائی دینے لگی۔ اس نے سرعت سے سر اٹھا کر دیکھا, مرحا کو دیکھتے ہی لب مسکرانے لگے۔

"آپی آپ اس وقت؟ فون ہی کر دیتی آنے سے پہلے...." وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا۔

وہ بنا کچھ کہے مسکراتی ہوئی آگے بڑھی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھنے لگی جو اب کھڑا ہو چکا تھا۔

"کیسے ہو؟ جاب کا سناؤ کیسی جا رہی ہے؟" وہ کہتی ہوئی سامنے بڑے صوفے پر جا بیٹھی۔

"ﷲ کا شکر ہے جاب بہت اچھی جا رہی ہے۔ میں تایا ابو کو بتا کر آتا ہوں.... " وہ فون پر میز رکھتا ہوا بولا۔

"آرام کر رہے ہوں گے بابا رہنے دو.... میں ویسے بھی رہنے کے لیے آئی ہوں مل لوں گی ان سے پھر۔" اس نے اسے جاتے دیکھ ٹوک دیا تو وہ بیچ راستے سے پلٹ آیا۔


"اچھا کتنے دن رہیں گیں؟ ویسے بہت اچھے ٹائم پر آئی ہیں.... عشال کی بات پکی ہو گئی اس کے سر کے ساتھ۔" وہ اشتیاق سے کہتا اس سے کچھ فاصلے پر آ بیٹھا۔

"بالوں والا سر نہیں باس والا سر... " وہ دانستہ طور پر شریر لہجے میں گویا ہوا تو وہ جواباً ہنسنے لگی۔

"اچھا؟ یہ کب ہوا؟ مجھے کسی نے مطلع بھی نہیں کیا.... " وہ قدرے حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"میں آپ کو ساری بات تفصیل سے بتاتا ہوں.... "

"اچھا.... " وہ کہتی ہوئی ہیل اتارنے لگی۔ واقف تھی اس کی عادت سے جو چھوٹی سے چھوٹی بات بھی مس نہیں کرتا تھا, گفتگو لمبی ہونے والی تھی اس لئے وہ جوتے اتار کر پاؤں اوپر کرنے لگی۔

••••••••••••••••••••••••

"مجھے تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا سر مجھ سے شادی کر رہے ہیں.... " وہ آئینے میں خود کو دلہن کے روپ میں دیکھ کر بھی بے یقینی کے اندھے کنویں سے باہر نہیں نکلی تھی۔

"ہاں تھوڑا شاک مجھے بھی لگا تھا لیکن تم تو کچھ زیادہ ہی پاگل ہو.... وہ بندہ بارات لے کر آیا بیٹھا ہے اور تمہیں پتہ نہیں کیسے یقین آےُ گا۔" زمر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا جو گزشتہ دو دن سے ایک ہی بات دہرا رہی تھی۔

"تیار ہو گئی ہماری عشال؟" مرحا اندر آتی محبت بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔

"جی ہاں مگر ابھی تک یہی سمجھ رہی ہے کسی چپڑاسی سے اس کی شادی ہو رہی ہے... " زمر جل بھن کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔


"ایسا کیوں؟" وہ نا سمجھی کے عالم میں ہنستی ہوئی آگے بڑھی۔

"نہیں یہ پاگل ہے.... دراصل مجھے یقین نہیں آ رہا سر واقعی مجھ سے شادی کر رہے ہیں۔ آپ کو نہیں پتہ کتنا چڑتے ہیں مجھ سے۔ اور کتنا رعب جماتے ہیں اپنے پیسے کا۔" وہ یاد کرتی ہی جھرجھری لینے لگی۔

"ہاں میں واقف تو نہیں ہوں کسی بات سے مگر اب جب وہ انسان اپنی رضامندی سے تمہیں لے جا رہا ہے تو اچھے کی امید رکھو۔ ابھی ابراہیم سبب ہے تم سے شادی کا بعد میں اسے خود ہی تم سے محبت ہو جاےُ گی جتنی معصوم تم ہو.... " وہ اس کے رخسار پر ہاتھ رکھتی نرمی سے بولنے لگی۔


"میرے نصیب میں تو یہ شادی وقتی ہے لیکن ﷲ تمہارے نصیب اچھے کرے۔" وہ اسے دیکھتی دل ہی دل میں گویا ہوئی۔

"ایک منٹ شیری کا فون ہے.... " اس کے ہاتھ میں پکڑا فون وائبریٹ ہوا تو وہ کہتی ہوئی پلٹ گئی۔

"مس کر رہی ہو مجھے؟" دوسری جانب سے بھاری گھمبیر لہجہ سنائی دیا۔

لمحہ بھر کو وہ خاموش ہو گئی۔

کیسے اس نے اس کے دل کی بات جان لی تھی وہ حیران تھی؟

"میں نے تم سے کچھ کہا تھا.... " مرحا کی آواز خفگی کا عنصر لئے ہوےُ تھی۔

"یار میں نے کہا تھا کوشش کروں گا اگر کام ختم ہو گیا تو.... نہیں ہوا ختم مجھے ایک دن اور رکنا ہے یہاں۔" وہ بیزاری سے کہتا بیڈ پر لیٹ گیا۔


"بلکل بھی مس نہیں کر رہی میں تمہیں.... بلکہ ایسا لگ رہا ہے زندگی میں سکوں آ گیا ہے۔" وہ اس کے انکار سے جل کر گویا ہوئی۔

دوسری جانب سے اسے قہقہ سنائی دیا تو فون کان سے ہٹاتی اسے گھورنے لگی۔

"لیکن میں کیوں مس کر رہا ہوں اپنی جنگلی بلی کو.... ویڈیو کال ہی کر لو دیکھوں تو کیسی لگ رہی ہو۔" چہرے پر پھیلی افسردگی کو تجسس نے اپنی اوٹ میں لے لیا۔

"جی نہیں... کس لئے فون کیا ہے یہ بتاؤ۔ کام ہیں مجھے بہت فارغ نہیں ہوں۔" وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔ اصل سبب اس کی ناراضگی تھی اس کے یہاں نہ ہونے کی۔

"لگتا ہے زیادہ ناراض ہو گئی ہو.... آ کر منانا پڑے گا؟"

اس کے سوال پر وہ سوچ میں پڑ گئی۔

کیا وہ اس سے لاڈ اٹھوا رہی تھی؟


اس سوچ پر آ کر نجانے کتنے لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے۔ وہ اردگرد سے بیگانہ اسی ایک نقطے کو سوچے جا رہی تھی۔

"مرحا.... " جب شیری کو کوئی جواب نہ ملا تو پھر سے اسے پکارنے لگا۔

"جی؟" اس کی زبان پھسل گئی۔

"ہاں بولو.... " مگر اگلے ہی لمحے اس نے تصحیح کر دی۔

"اچھا چلو میں رات میں فون کروں گا ابھی تمہیں کام ہوں گے۔" اس نے باےُ کہتے ہوےُ فون بند کر دیا۔

"کیا ہو جاتا ہے مجھے؟" وہ جھرجھری لیتی اردگرد نگاہ دوڑانے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"دادو عشال کتنی کیوٹ لگ رہی ہے نہ؟" وہ اس کا ہاتھ پکڑے لاؤنج میں داخل ہوا تھا جب اس نے یہ تبصرہ کیا۔

فردوس اس کے انداز پر مسکرانے لگیں۔

"عشال ہے ہی پیاری.... " انہوں نے دل کھول کر تعریف کی۔

"لیکن آج تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔ بلکل پرنسس جیسی۔" ابراہیم سر اٹھا کر اسے دیکھ رہا تھا جو جواباً مسکرا رہی تھی۔

احمر عقب میں فون کان سے لگاےُ کھڑا تھا۔

"ابراہیم چلو آج میں آپ کے کپڑے نکال دیتی ہوں۔ عشال ڈیڈی کے روم میں جاےُ گی۔" فردوس جو عشال کے بائیں جانب تھی چلتی ہوئی سامنے آ گئی۔


"اب ہمارے ساتھ ہی رہے گی نہ عشال؟" اس نے عشال کا ہاتھ چھوڑنے سے قبل تصدیق کرنا چاہی۔

"ہاں جی ہمارے ساتھ رہے گی اب۔"

تسلی ہونے پر اس نے عشال کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

"عشال بیٹا تم احمر کے کمرے میں چلی جاؤ مجھے پھر سے سیڑھیاں چڑھنی پڑیں گیں۔" وہ گھٹنوں کے درد کے باعث معذرت خواہانہ انداز میں بولیں۔

"جی دادو مجھے معلوم ہے.... " وہ اس حد تک کنفیوز تھی کہ چاہ کر بھی مسکرا نہ سکی۔

وہ فون بند کرتا اس کی جانب آیا تو پیشانی پر شکنیں ابھرنے لگیں۔

"باقی سب؟" اس نے سامنے آتے دائیں آبرو اچکائی۔

"دادو ابراہیم کو لے گئیں.... " وہ سر جھکا کر مدھم آواز میں بولی۔

"تو تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟"

"میں کہاں جاؤں؟" اس نے متعجب سے انداز میں کہتے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"مجھے کیا معلوم.... ابراہیم کے پاس جاؤ۔" وہ اکھڑ کر بولا۔

"لیکن دادو نے کہا کہ آپ کے روم میں جاؤں میں.... " وہ نچلا لب کاٹتی پھر سے اسے دیکھنے لگی۔

"میرے روم میں کیوں؟" وہ بھنا گیا۔


"تو جس سے شادی ہوئی اسی کے روم میں جاؤں گی... آپ کو نہیں پتہ؟" وہ روانی میں بول گئی مگر اگلے ہی لمحے احساس ہونے پر آنکھیں بند کرتی زبان دانتوں تلے دبا گئی۔

"یہ شادی صرف ابراہیم کی وجہ سے کی ہے میں نے بھولو مت.... اور کوئی نہیں لے جا رہا میں تمہیں اپنے روم میں۔" وہ ناگواری سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"تو کہاں جاؤں میں؟" اس کے اس سرد رویے پر وہ خفیف سی ہو گئی۔

"جہاں مرضی جاؤ... میری بلا سے... " وہ لاپرواہ بنا۔

"تم دونوں ابھی تک یہیں کھڑے ہو؟" وہ جو کسی کام سے باہر آئیں تھیں انہیں لاؤنج میں کھڑے دیکھ قدرے حیرت سے گویا ہوئیں۔

"دادو آپ اس کو میرے روم میں.... "

"ہاں تو اور کہاں جاےُ گی؟ بھلے شادی ابراہیم کی وجہ سے کی تم نے مگر بیوی ہے تمہاری۔ اور تمہارے کمرے میں رہے گی۔" وہ اس کی بات کاٹتی بے لچک لہجے میں بولیں تو احمر چند لمحے ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔


"کوئی بحث نہیں کروں گی میں احمر اس موضوع پر...."ہاتھ اٹھا کر دو ٹوک انداز میں کہتے ہوےُ انہوں نے گویا بات ہی ختم کر دی۔

اس نے نگاہوں کا رخ موڑ کر عشال کو گھورا۔ اس کی نظروں کے تپش تھی کہ عشال نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"آپ تو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے دہشت گرد ہوں میں آپ کے کمرے میں بلاسٹ کر دوں گی.... " آخر کو اس کے بھی کچھ خواب تھے شادی کو لے کر۔ سارے نہ سہی کچھ تو پورے ہوتے۔

"چلو اب.... " وہ اکتاہٹ بھرے انداز میں کہتا پلٹ گیا۔


"اب اس جیسی گوار کو مجھے اپنے کمرے میں برداشت کرنا پڑے گا.... " وہ کوفت سے کہتا یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔ عشال واش روم میں چینج کر رہی تھی۔

"دادو کو پتہ نہیں کیا نظر آتا ہے اس میں... بھئی گیسٹ روم میں رہ لیتی نہیں اپنے کمرے میں لے کر جاؤ۔" جیسے جیسے وہ سوچتا جا رہا تھا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

"صوفے پر سوؤں گی تم.... " جونہی وہ باہر نکلی وہ بے رحمی سے گویا ہوا۔

"تمہارے گھر تو بیڈ بھی نہیں ہوگا.... زمین پر سوتی ہوگی نہ؟ چلو یہاں صوفہ مل رہا ہے تمہیں۔" انداز احسان کرنے والا تھا۔

"ہمارے گھر بیڈ ہے۔ آپ نے کچھ زیادہ ہی گیا گزرا تصور کر لیا ہے میرے گھر کو۔" وہ اس کی بات کا برا مان گئی۔


"ہاں تبھی تو میڑک سے آگے پڑھا نہیں سکے تمہیں۔" وہ تنک کر بولا۔

"آپ جیسے لوگ نہیں سمجھ سکتے.... " وہ تاسف سے کہتی صوفے پر بیٹھ گئی۔

"کوئی مجھ سے پوچھے گا تو کیا کہوں گا یہ احمر چودھری کی بیوی ہے؟" وہ اسے دیکھتا دل ہی دل میں سوچنے لگا۔

"یار ابراہیم یہ کدھر پھنسا دیا ہے مجھے تم نے.... " وہ آہ بھرتا الماری کھولنے لگا۔ جبکہ وہ سر جھکاےُ اس کی جلی کٹی باتوں پر آنسو پینے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"اچھا سب ریڈی ہے نہ؟" وہ ایک نظر سلیب پر پڑی ڈشز پر ڈالتی میری سے مخاطب تھی۔

"جی میڈم.... یہ رشین سیلڈ رہتا تھا بس۔ وہ بھی ریڈی ہے۔" اس نے باؤل اس کے سامنے رکھا جسے پلاسٹک کور سے ڈھانپ رکھا تھا۔

"اوکے گڈ.... میں کمرے میں جا رہی ہوں نماز پڑھنے۔ شیری آےُ تو مجھے بتا دینا۔" وہ مسکرا کر بولی۔

"جی ٹھیک ہے.... " اس نے سر ہلایا تو مرحا پلٹ گئی۔


اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو دوپٹے میں لپٹا وجود نظروں سے ٹکرایا۔ وہ کھڑی کے پاس جاےُ نماز پر کھڑی تھی۔

شہریار بنا چاپ پیدا کئے چلنے لگا اور آ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اسے یوں نماز پڑھتے دیکھ وہ عجیب سے احساس میں گھر گیا جسے فلحال نام دینے سے وہ خود بھی قاصر تھا۔

دس منٹ بعد اس نے جاےُ نماز تہ لگایا تو نگاہ اس سے جا ٹکرائی۔

"تم کب آےُ؟" وہ متحیر سی اسے دیکھنے لگی جس نے نگاہیں جھکا رکھی تھیں۔


"بس ابھی پانچ منٹ ہوےُ ہوں گے.... " وہ کھڑا ہوتا اسے دیکھنے لگا۔ چہرے کے گرد سیاہ دوپٹہ تھا, اس کی گندمی رنگت میں ایک چمک سی تھی, ایسی کشش جو مقابل کو بڑی قوت سے اپنی جانب کھینچتی۔ آج وہ اسے پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی جبکہ اس لمحے اس کا چہرہ کسی بھی نوعیت کے میک اپ سے بے نیاز تھا۔

"میں نے میری سے کہا تھا مجھے بتا دینا... " وہ جاےُ نماز صوفے پر رکھتی منہ میں بڑبڑائی۔

"تم ساری نمازیں پڑھتی ہو؟" وہ اس کی کلائی پکڑتا بے اختیار پوچھ بیٹھا۔

"ہاں کیوں؟" وہ حیران ہوتی مسکرائی۔


"پہلے تو میں نے دیکھا نہیں تمہیں.... " وہ انکاری ہو رہا تھا اس کی بات سے۔

"میں اکثر تمہاری غیر موجودگی میں پڑھتی ہوں.... اور اگر تم روم میں ہوتے تو میں سٹڈی میں چلی جاتی تھی۔" وہ عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے اس کی بات کا مفہوم سمجھنے کی سعی کر رہی ہو۔

"اچھا.... شادی ہو گئی تمہاری کزن کی۔" وہ اس کی کلائی چھوڑتا کوٹ کے بٹن کھولنے لگا۔ جیسے اپنا دھیان منتشر کرنا چاہ رہا ہو۔ جبکہ چہرے پر الجھن نمایاں تھی۔

"تو تمہیں کیا لگ رہا تھا تمہاری شرکت نہیں ہوگی تو شادی بھی نہیں ہوگی؟" اسے بھی اپنی ناراضگی یاد آ گئی تو فوراً منہ بن گیا۔


"نہیں نہیں... ایسے گمان نہیں رکھتا میں۔" اس نے نفی میں سر پلاتے قہقہ لگایا۔

"میں کچھ لایا تھا تمہارے لئے.... " وہ پینٹ کی جیب پر ہاتھ مارتا آہستہ سے بولا۔

"کیا؟" اسے تجسس ہونے لگا۔

"شاید کوئی چیز تھی...." وہ اس کا تجسس بڑھانے لگا۔ جب پینٹ کی جیب میں باکس محسوس نہ ہوا تو کوٹ کی جیب چیک کرنے لگا۔

"کون سی چیز؟" اس کی نگاہیں شیری کے ہاتھ پر تھیں۔

"پسند آئی تھی ایک چیز مجھے تو سوچا.... " اس نے کہتے ہوےُ باکس نکال لیا۔

"اچھا دکھاؤ پھر؟" وہ بے صبری سے اس باکس کو دیکھ رہی تھی۔ نجانے دل اتنا متجسس کیوں ہو رہا تھا؟


اس نے باکس کھول کر اندر سے وہ چھوٹا سا لاکٹ نکال لیا۔

سونے کی اس چین کے وسط میں زمرد کا پتھر مبسوط تھا۔ وہ تیز سبز رنگ کا پتھر بلاشبہ اتنا حسین تھا کہ اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں یا شاید پہلی بار اپنے لیے یوں تحفہ دیکھنے کا نتیجہ تھا۔

"مجھے یہ پتھر بہت پسند ہے.... " اس نے کہتے ہوےُ آگے ہو کر اس لاکٹ کو مرحا کی گردن کی زینت بنا دیا۔

"بہت خوبصورت ہے.... " وہ پتھر کو ہاتھ میں پکڑتی ہوئی بولی۔

"تمہاری طرح... " اس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ وہ جو انہماک سے لاکٹ کو دیکھ رہی تھی سن نہیں سکی۔


"اچھا تم چینج کر لو پھر کھانا کھاتے ہیں... " وہ لاکٹ چھوڑتی مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی۔

"کھانا نہیں کھایا تم نے؟" عموماً وہ جلدی کھانا کھا لیتی تھی۔

"نہیں میں نے سوچا آج اکٹھے کھائیں گے.... " وہ بھی شاید اس کے ساتھ کھانا مس کر رہی تھی اس لئے اس کی منتظر تھی۔

"اچھا... " اس کے چہرے پر دلفریب سی مسکراہٹ رینگ گئی۔

"جاؤ اب مجھے بھوک لگی ہے.... " وہ اس کی پشت پر دونوں ہاتھ رکھے آگے دھکیلنے لگی, مقصد اس کی نگاہوں سے بچپنا تھا۔

"اچھا جا رہا ہوں.... " وہ ہنستا ہوا الماری سے لٹکتا ہینگر اتار کر ساتھ لے گیا۔

وہ مسکراتی ہوئی الماری بند کرنے لگی۔

"اس کا مطلب واقعی تم مجھے مس کر رہے تھے۔ کہ میری غیر موجودگی میں بھی تم نے مجھے یاد رکھا۔" اس کی بات کا اشارہ ہاتھ میں پکڑے لاکٹ کی جانب تھا۔

آنکھوں سے ابھرتا پسندیدگی کا عنصر اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ اسے یہ تحفہ بے حد پسند آیا ہے۔

•••••••••••••••••••••••

"جوس پینا ہے پہلے میں نے.... " وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔

"اچھا میں لے آتی ہوں۔" عشال کہتی ہوئی چلنے لگی۔

"اب تو میرا شیر خوش ہے نہ؟" فردوس نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوےُ استفسار کیا۔

"بہت بہت بہت... میں عشال کو ماما کہا کروں؟ جیسے میرے دوست کہتے اپنی ماما کو؟" وہ معصومیت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

"ہاں تو آپ کی ماما ہی ہے عشال.... ماما ہی کہا کرو اسے۔" وہ کہتی ہوئی اس کے بال سنوارنے لگی۔

"آج شام میں جانا ہے آپ نے چیک اپ کے لئے؟" احمر فون پر انگلی چلاتا اندر آیا۔

"ہاں.... آج ہی.... جانا ہے.... " وہ ذہن پر زور ڈال رہی تھیں۔

"چلیں پھر میں لے جاؤں گا.... آج جلدی آ جاؤں گا آفس سے۔" وہ نگاہیں اسکرین پر جماےُ چلتا ہوا صوفے کے کنارے پر بیٹھ گیا یوں کہ ابراہیم اس کے آگے تھا۔


عشال ہاتھ میں ٹرے لئے نمودار ہوئی۔

وہ احمر سے چند قدموں کے فاصلے پر تھی جب آگے بڑھتے ہوےُ اس کا پاؤں قالین سے الجھ گیا اور ہاتھ میں پکڑی ٹرے الٹ گئی۔

قسمت اس کی کہ جوس گرا بھی احمر پر۔

"اند.... اندھی ہو تم؟ یہ آنکھیں کس لئے ہیں؟" اس کے کرتے کی بازو اور شلوار پر جوس اپنا داغ چھوڑ گیا۔ وہ برہمی سے کہتا کھڑا ہو گیا۔

آنکھیں غیض کو اپنے اندر سموےُ ہوےُ تھیں۔ وہ جو گرنے کے باعث نیچے جھکی تھی مگر زمین بوس نہیں ہوئی تھی سیدھی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔

چہرہ ہونق زدہ سا تھا۔


"اچھا کوئی بات نہیں احمر.... پاؤں پھسل گیا اس کا.... " فردوس نے معاملہ رفع دفع کرنا چاہا۔

"کیسے کوئی بات نہیں؟ میرا سوٹ خراب کر دیا اس نے.... جانتی ہو کتنے کا ہے یہ سوٹ؟" وہ چبا چبا کر کہتا اس کی جانب بڑھا۔

"نہیں... مجھے پتہ تو نہیں ہے۔ لیکن میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔" وہ اس کے تیور دیکھ پیچھے ہونے لگی۔

"مانا کہ اس گھر میں بیوقوفوں کی کمی تھی مگر آپ کو بھی شدید شوق تھا اس کمی کو پورا کرنے کا۔" وہ پلٹ کر فردوس کو دیکھنے لگا۔

"احمر.... " انہوں نے جواباً خفگی سے اسے دیکھا۔

"میرے سامنے آئی نہ تم تو پھر دیکھنا...." وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا۔


"ڈیڈی مت ڈانٹیں میری ماما کو.... " ابراہیم اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔

اس نے تعجب سے پہلے نگاہ جھکا کر ابراہیم کو دیکھا اور پھر عشال کو جو لب کاٹتی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔

"میں ڈانٹ تو نہیں رہا.... " اس نے مسکرانا چاہا مگر مسکرا نہ سکا۔

"اب آپ جھوٹ بھی بول رہے ہیں.... " وہ غصہ ہونے لگا۔

وہ تو لفظ ماما پر ہی اٹک گیا تھا اس لئے بنا سوچے سمجھے بولی جا رہا تھا۔

"یہ کام کر رہی ہو تم؟" وہ آواز مدھم کرتا عشال کی جانب گھوما۔

"میں نے کچھ بھی نہیں کیا سر.... " وہ ہق دق سی رہ گئی اس کے الزام پر۔


"دور ہو جاؤ میری نظروں سے تم.... " وہ غصے پر قابو پاتا آواز کو حتی الوسع مدھم رکھنے لگا۔

"ڈیڈی....." وہ اس کی مدھم سی آواز سن رہا تھا مگر سمجھنے سے قاصر تھا۔

"کچھ نہیں کہہ رہا میں آپ کی ماما کو.... " وہ جبراً مسکرا کر کہتا خود ہی وہاں سے چل دیا۔

"ڈیڈی غصہ کرتے ہیں نہ آپ پر؟" وہ آگے ہوتا اس کا ہاتھ پکڑنے لگا۔

"نہیں.. وہ بس مجھ سے غلطی ہو جاتی ہے نہ۔" وہ گھٹنے زمین پر رکھتی اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ نیچے جوس گرا تھا اس بات کو وہ یکسر نظر انداز کر گئی۔


"اچھا جاؤ تم اب چینج کرواؤ ابراہیم کو پھر کھانا کھاتے ہیں۔" فردوس نے اسے ٹوک دیا تو وہ اپنے گھٹنے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔

"مجھے خود بھی چینج کرنا پڑے گا.... " وہ ابراہیم کا ہاتھ پکڑتی چلتی ہوئی بڑبڑائی۔

"واقعی پاگل ہوں میں۔" اس کا اشارہ اپنے ٹراؤزر پر لگے داغ کی جانب تھا۔

••••••••••••••••••••••

"بلاول رندھاوا میرے گھر آیا تھا... تم ملی بھی تھی اس سے اور مجھے بتایا تک نہیں۔" وہ اس کے آفس میں آتا ہوا دھاڑا۔

مرحا نے ایک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی۔

"یہ میرا آفس ہے شہریار صدیقی.... " اس کا اشارہ دروازے کی سمت تھا جسے بند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی اسے۔

"واٹ ایور.... " وہ ہنکار بھر کر اس کی جانب بڑھنے لگا۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے.... "

وہ اسے بنا کوئی جواب دئیے دروازے کی سمت بڑھتے دیکھ مزید تلملا اٹھا۔

"جی ہاں آیا تھا وہ تمہارے گھر.... یاد نہیں رہا مجھے بتانے کا۔" وہ دروازہ بند کرتی لاپرواہی سے شانے اچکانے لگی۔

"یہ کوئی معمولی سی بات تو نہیں جو تم فراموش کر گئی۔ کس لئے آیا تھا؟" وہ آج کسی اور ہی انداز میں اس سے مخاطب تھا۔ پہلے والی نرمی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔


"دعوت دینے آیا تھا کہ اس کے ساتھ اس کے گھر چلوں... " وہ سینے پر دونوں بازو باندھتی طمانیت سے بولی۔

"اور تم نے قبول کر لی؟" وہ بولتا ہوا عین اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔

بمشکل چند انچ کا فاصلہ دونوں کے بیچ حائل تھا۔

"ہاں میں نے بہت خوشی سے قبول کر لی اور چلی بھی گئی اس کے گھر.... کیا مطلب شیری تمہارا دماغ خراب ہے؟" وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی مبادہ اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔

"کیا مطلب؟" وہ جو سنجیدگی سے اسے سن رہا تھا ٹھٹھک گیا۔

"میرے منہ پر پاگل لکھا ہے جو اس جیسے گھٹیا انسان کی دعوت قبول کر لیتی؟ اور اگر میں قبول کر بھی لیتی تو تم پوچھ ہی کیوں رہے ہو؟"


"کیونکہ بیوی ہو تم میری.... اور اس جیسے بےغیرت انسان کا سایہ بھی تم تک پہنچنے نہیں دینا چاہتا میں۔" وہ استحقاق سے کہتا اس کی بازو پکڑتا ہوا بولا۔ انداز جتانے والا تھا۔

"تو تمہیں اتنا معلوم ہوگا کہ میری فطرت کیسی ہے.... یہ کٹھرے میں کھڑا کرنے کا کیا مطلب؟" اسے جیسے اس کی بے اعتباری پسند نہیں آئی تھی اور وہ برملا اظہار بھی کر گئی۔

"کیونکہ تم نے مجھے بتانا گوارا نہیں کیا.... میری بات اپنے دماغ میں بٹھا لو اس انسان سے دور رہو گی تم۔ جانتی نہیں ہو تم اسے۔" وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا۔ آنکھوں میں غیض کے ساتھ ساتھ عجیب ہی نوعیت کا خوف تھا جسے مرحا سمجھنے سے قاصر تھی۔


"پارٹی میں تو جاؤں گی میں.... کل ہے نہ؟" وہ اس کے غصے کو خاطر میں لاےُ بغیر چیلنج کرنے والے انداز میں بولی۔

"نہیں جا رہی تم.... اور حد پار مت کرو اپنی۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔" بازو پر گرفت غصے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔

"جاؤں گی میں شہریار صدیقی.... اور مجھ پر حکم نہیں چلا سکتے تم۔" وہ احتجاجاً اس کا ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی۔

"وجہ؟" اس نے تحمل سے اسے دیکھا۔

"میرا بدلہ.... ایسے تو نہیں جانے دوں گی میں اسے۔ اپنی ہتک بھولی نہیں ہوں میں۔" وہ بے پرواہ سی کہتی چلنے لگی۔


"تمہیں اندازہ نہیں ہے کس قدر خطرناک انسان ہے وہ.... "

"پھر مجھے اس کھیل کا حصہ کیوں بنایا تم نے؟" وہ تیزی سے اس کی بات کاٹتی پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔

"ہو گئی غلطی مجھ سے.... معلوم نہیں تھا یہ سب ہو جاےُ گا۔" وہ کوفت زدہ سا مٹھیاں بند کرنے لگا۔

اب وہ واقعی پچھتا رہا تھا اپنے اس احمقانہ فیصلے پر۔

"تو تمہیں اتنی فکر کیوں ہے میری؟ جب میں خود خطرہ مول لینا چاہ رہی ہوں تو جانے دو.... " وہ تمسخرانہ انداز میں کہتی ہنسنے لگی۔


"کیونکہ تم واقف نہیں ہو اس انسان کی فطرت سے.... کچھ نہیں معلوم تمہیں۔" وہ ضبط کے باوجود چلانے لگا۔ جیسے اس کے ہاتھ سے سب ریت کی مانند پھسلتا جا رہا ہو اور وہ روکنے سے قاصر ہو۔

"اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے مسٹر شہریار۔ میں تو جاؤں گی پارٹی میں۔ ہماری جو ڈیل ہوئی ہے اسے پوری کریں گے اور مجھے جو کرنا ہے میں کروں گی۔" وہ چہرے پر جہاں بھر کا اطمینان لئے اپنی کرسی پر جا بیٹھی۔

"میں تمہیں بچانا چاہ رہا ہوں.... " اس نے ہارے ہوےُ انداز میں اسے دیکھا۔

"مت بچاؤ.... ویسے بھی کچھ عرصہ کے لئے ہی ساتھ ہیں ہم۔" اس کا انداز جتانے والا تھا جو شہریار کو شدید ناگوار گزرا۔

"مرحا... "


"شیری میں اپنا فیصلہ بتا چکی ہوں تمہیں۔ اب بحث سے کچھ نہیں ہوگا۔ تم نہیں لے کر جاؤ گے مجھے تو میں خود چلی جاؤں گی۔ وینیو معلوم ہے مجھے۔" وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھتی سرد مہری سے گویا ہوئی۔ وہ چند لمحے ساکت اس کا چہرہ دیکھتا رہا جو اسکرین کے باعث آدھا نظر آ رہا تھا۔

"مجھے تمہیں انوالو ہی نہیں کرنا چائیے تھا.... " وہ تاسف سے منہ میں بڑبڑاتا پلٹ گیا۔

نجانے کون سا خوف تھا اسے؟ جو وہ بتا بھی نہیں رہا تھا اور گھبرا بھی رہا تھا اس سے۔

••••••••••••••••••••••

وہ کمرے میں آ کر کوٹ اتارنے لگا۔ کوٹ صوفے پر اچھال کر وہ کف کھول رہا تھا جب نگاہ بیڈ پر پڑے صفحے سے جا ٹکرائی۔ اسے ابراہیم کا گمان ہوا تو آگے ہوتا اٹھانے لگا۔

"سوری... " اس نے صفحے پر لکھا بڑا بڑا سوری زیر لب دہرایا تو پیشانی پر تین لکریں ابھرنے لگیں۔

"ابراہیم نے سوری کیوں کہنا؟ یہ عشال کہاں ہے؟" وہ اسے وہیں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔

ابراہیم کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر کی نیم تاریکی نے اس کی نیند کا پتہ دیا۔


"ابراہیم تو سو رہا ہے.... وہ کہاں ہے؟ دادو تو میرے ساتھ تھیں۔" وہ بڑبڑاتا ہوا چلنے لگا۔

"یہ سوری.... عشال کا کام ہوگا۔" وہ قیاس آرائی کرتا کچن میں آ گیا۔

"عشال کہاں ہے؟" اس نے ملازم کو دیکھتے ہوےُ سوال داغا۔

"سر وہ شاید ٹیرس کی جانب گئی تھیں.... " اس کے لہجے کی بے یقینی پر وہ سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا۔

"اب یہیں سونا پڑے گا مجھے.... کمرے میں اگر سر نے دیکھ لیا تو جوتے ماریں گے مجھے۔" وہ ریلنگ پر جھکی باہر دیکھ رہی تھی۔


"پتہ نہیں اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں میں تو کچھ کہتی بھی نہیں ہوں انہیں۔" وہ جو سنجیدہ تھی اب منہ بسورنے لگی۔

"ایسے دیکھتے ہیں جیسے بھینس کھولی ہو میں نے ان کی.... " وہ اس کی غصے سے بھری آنکھیں یاد کرتی معصومیت سے گویا ہوئی اس بات سے انجان کے وہ پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔

اس کی بات سن کر وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔

"کس سے باتیں کر رہی ہو اس وقت؟" اس نے آواز کو ذرا رعب دار رکھا۔

"ہیں؟ نہیں کسی سے بھی نہیں۔" وہ اس کی آواز سنتی اچھل پڑی۔


"کسی سے تو کر رہی تھی.... " اس نے قریب ہوتے آنکھیں سکیڑیں۔

"یہ جو میرے ساتھ فرشتے اور شیطان ہے نہ.... " اس نے باری باری دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھا۔

"ان سے باتیں کرتی ہوں میں۔" وہ اس کا بہتر موڈ دیکھتی دانت نکالنے لگی۔

"وہ سوری؟ تم نے رکھا تھا؟" اس نے دونوں بھنویں اچکائیں۔

جواباً عشال نے سر اثبات میں ہلا دیا۔

"یہاں کیا کر رہی ہو؟" اس نے سائیڈ سے ہو کر باہر دیکھا۔

"سونے آئی تھی.... آپ نے منع کیا تھا نہ کمرے میں پاؤں رکھنے سے۔"


"یہاں سونا ہے تم نے؟" وہ متعجب سا پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔

"گیسٹ روم میں جاؤں؟" اس نے نچلا لب کاٹا۔

"نہیں.... کمرے میں آ سکتی ہو تم لیکن اگر دوبارہ تم نے ایسی کوئی حماقت کی تو.... " وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کرتا دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ گیا۔

وہ جو دم سادھے اسے سن رہی تھی دھمکی آمیز الفاظ نہ سننے پر سانس خارج کرنے لگی۔

"پتہ نہیں ایسی معصوم سی شکل کیسے بنا لیتی ہے یہ لڑکی.... " وہ اس بات پر خائف سا ہو کر چل دیا۔ اس باعث وہ اس پر مزید غصہ نہیں کر سکا تھا۔

عشال کا منہ کھل گیا۔

"معصوم شکل ہے میری تو یہ بھی اب میرا قصور ہے؟" وہ ہکا بکا سی کہتی قدم اٹھانے لگی۔

"سر کو معلوم نہیں کہ میری شکل ہی نہیں میں خود ہی معصوم ہوں.... "

••••••••••••••••••••••

"بلکل ضرور چلیں گے.... " وہ ویٹر سے گلاس پکڑتا ہوا بولا۔ چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ مرحا کو دیکھ کر ختم ہو گئی۔ جو بلاول رندھاوا پر نگاہیں ٹکاےُ ہوےُ تھی۔

آج اس نے پاؤں کو چھوتی پستہ رنگ کی سلک کی میکسی زیب تن کر رکھی تھی, چہرے کے گہرے گلابی رنگ کا حجاب تھا جو اسے باقی سب سے منفرد بنا رہا تھا۔

"نجانے کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں.... " اس نے دل ہی دل میں کوفت سے سوچتے ہوےُ نگاہوں کا رخ موڑ لیا۔

"ہاں میری بات ہوئی تھی عادل صاحب سے.... " وہ اپنے مقابل کھڑے شخص کی بات سنتا جواباً سر ہلانے لگا۔


"ہم دونوں سے ملنا چاہ رہے ہیں وہ.... شاید پارٹی میں آئیں۔" اس کا جواب سن کر شیری نے پھر سے مرحا کی جانب دیکھا جس نے بڑی سہولت سے چابی نکال لی تھی۔ مگر اسے اب خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی احاطہ کئے ہوےُ تھی۔

"ایکسکیوز می.... " مرحا کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ وہ بھی آگے بڑھنے لگا۔

"ہو گیا تمہارا کام.... " اس نے محتاط انداز میں چابی اس کی جیب میں رکھتے ہوےُ آہستہ سے کہا۔


"اب بلاول سے دور رہنا.... " اس نے بازو سے پکڑ کر سرد لہجے میں حکم صادر کیا۔

"مجھے کیا شوق ہے اس کے آگے پیچھے گھومنے کا؟ عجیب ہو تم بھی شیری.... " وہ ناپسندیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی اِنسیکورٹی مرحا کی سمجھ سے بالا تر تھی۔

"تم.... "

"اب وقت کا ضیاع مت کرو۔ اس سے قبل اسے احساس ہو جا کر اپنا کام کرو۔" وہ اس کی بات کاٹتی بلاول کی جانب اشارہ کرنے لگی۔

وہ بھی وقت کی نزاکت کو سمجھتا تھا اس لئے بنا کچھ کہے خاموشی سے پلٹ گیا۔

وہ بے مقصد فون پر انگلی چلا رہی تھی۔ باقی سب کی نسبت وہ ذرا ایک سائیڈ پر کھڑی تھی, سبب ان لوگوں سے ناواقفیت اور اس کی غیر دلچسپی تھی۔


"ارے آپ اکیلی کیوں کھڑی ہیں یہاں؟" بلاول رندھاوا کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تو اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"ایسے ہی... " وہ کہہ کر مبہم سا مسکرائی۔

"چلیں میں آپ کو کمپنی دے دیتا ہوں.... ویسے شیری کو ابھی تک بیوی کو وقت دینا نہیں آیا۔" اس نے استہزائیہ ہنستے ہوےُ مرحا کی جانب ایک قدم بڑھایا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔

"ایسی کوئی بات نہیں...." وہ نادانستہ طور پر اس کا دفاع کر گئی۔

"اگر ایسی بات نہیں تو پھر کون ایسی حسین بیوی کو اکیلا چھوڑ کر جاتا ہے؟" اس نے وارفتگی سے کہتے ہوےُ مرحا کی بائیں کلائی کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کی آنکھیں اس کی جرأت پر پھیل گئیں۔

"لیکن میں اچھے سے جانتا ہوں کیسے وقت دیا جاتا ہے.... " اس کی ذومعنی گفتگو وہ بخوبی سمجھ رہی تھی۔


"کیا بدتمیزی ہے یہ؟" اس نے جھٹکے سے اپنی کلائی اس کے ہاتھ سے آزاد کروائی اور پیچھے ہو گئی۔

"ارے آپ تو برا مان گئیں.... " وہ ہنستا ہوا آگے بڑھا۔

"اسی ہوٹل میں میرا روم ہے کہتی ہو تو وہاں چل کر بات کرتے ہیں یہاں سب کے بیچ شاید کمفرٹیبل.... " وہ جو مزید جسارت کرتا آگے بڑھ رہا تھا مرحا کے تھپڑ پر وہیں منجمد ہو گیا۔ لفظ بھی دم توڑ گئے۔

آس پاس کھڑے چند لوگوں کی نگاہوں نے اس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کیا۔

"اپنی حد میں رہیں آپ۔" وہ پیچھے ہوتی چبا چبا کر بولی۔ ضبط جواب دے چکا تھا۔ چہرے پر ناگواری تھی۔

بلاول نے ہونٹوں کو دائیں بائیں جبنش دی اور اردگرد نگاہ دوڑائی۔


"چند ایک نے ہی دیکھا ہے.... چلیں کوئی مسئلہ نہیں۔" وہ نگاہوں کا زاویہ موڑتا, مرحا کو دیکھتا مسکرانے لگا۔

"پتہ نہیں شیری کو کتنا ٹائم لگے گا.... " وہ دل ہی دل میں سوچتی وہاں سے ہٹ گئی۔

"بڑے خوبصورت پیس ڈھونڈ کر لاتا ہے شیری.... " وہ اس کے تھپڑ کو بھلاےُ اسے حسرت سے دیکھنے لگا۔


"اتنی دیر کہاں لگا دی؟" وہ اسے دیکھتے ہی بولنے لگی۔

"ٹائم لگ جاتا ہے.... " وہ اردگرد کا جائزہ لیتا مسکرانے لگا۔

"مجھے گھر جانا ہے۔" وہ خفا خفا سی بولی۔

"کیوں؟ تمہیں تو بہت اشتیاق تھا اس پارٹی کو اٹینڈ کرنے کا پھر جلدی کیوں جانا ہے اب؟" وہ طنزیہ انداز میں کہتا بائیں آبرو اچکانے لگا۔

"بس میرا دل کر رہا ہے اب گھر جانے کو.... " وہ بلاول کی گندی گناہوں کا سوچ کر ہی جھرجھری لینے لگی۔

"اچھا چلتے ہیں صبر کرو اب۔ یہ چابی واپس اس کی جیب میں رکھو۔ میں بھی چلتا ہوں ساتھ.... " وہ دائیں بائیں دیکھتا اس کے ہاتھ میں چابی دینے لگا۔

"پھر سے اس کی گندی شکل دیکھنی پڑے گی۔" وہ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہ سکی اس لئے رونے والی شکل بناتی اس کے ہمراہ چل دی۔

•••••••••••••••••••••••

"آج آپ سکول نہیں گئے؟" وہ زینے اترتا متحیر سا ابراہیم کو دیکھنے لگا۔

"ڈیڈی آج میرا آف ہے۔ اور جلدی سے یہاں آئیں۔" وہ جو عشال کے ہمراہ پزل کے ساتھ کھیل رہا تھا اسے دیکھتا پر جوش انداز میں بولا۔

"جی بولو؟" وہ اس کے بائیں جانب بیٹھ گیا جب کہ دائیں جانب عشال بیٹھی تھی۔

"آج مجھے پارک میں جانا ہے آپ دونوں کے ساتھ.... اور مجھے پکچر چائیے آپ کی اور عشال ماما کی۔" وہ اب مکمل طور پر احمر کی جانب متوجہ تھا۔

احمر نے عشال کو یوں گھورا جیسے یہ نادر خیالات اس کے ہوں۔


"میں نے اپنے فرینڈز کو دکھانی ہے آپ دونوں کی پکچر.... اچھی سی۔"

"اچھا دکھا دینا... دادو کہاں ہیں؟" وہ ابراہیم سے نگاہیں ہٹاتا عشال کو دیکھنے لگا۔

"وہ دوائی لے کر سوئی ہیں ابھی۔ سر میں درد تھا ان کے۔"

"اچھا... میں شام میں جلدی آ جاؤں گا۔" وہ ابراہیم کے سر پر بوسہ دیتا کھڑا ہو گیا۔

"یہ والا کہاں آےُ گا؟" وہ ہاتھ میں پزل کا ٹکڑا اٹھاےُ عشال کو دیکھنے لگا تو وہ بھی سر جھکاتی نیچے دیکھنے لگی۔

"یہی دیتی ہوگی ابراہیم کو ایسے الٹے سیدھے آئیڈیا.... " وہ نخوت سے سر جھٹکتا ڈائینگ ٹیبل کی جانب بڑھ گیا۔

••••••••••••••••••••••

"رات کیا ہوا تھا پارٹی میں؟" اس نے آنکھیں کھولیں تو شہریار نے سوال داغا۔

"خیر ہے تمہیں؟" وہ یوں بے تکے وقت پر پوچھنے جانے والے سوال پر تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔

"رات میں جب آیا کمرے میں تم سو چکی تھی اس لئے پوچھ نہیں سکا۔ اب بتاؤ مجھے کیا ہوا تھا؟" اس نے دونوں بھنویں اچکائیں تو وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتی اٹھنے لگی۔

"وہ گھٹیا دوست تمہارا.... " بات کا آغاز ہی ناگواری سے ہوا۔

وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکی تھی اور شیری کے چہرے پر غصے کی لہر دوڑ گئی۔

"تمہیں شوق تھا اس کی پارٹی میں شرکت کرنے کا.... " وہ گردن اس کی جانب موڑے تنک کر بولا۔

"جیسے تم ہو ویسے ہی گھٹیا تمہارے دوست ہیں.... " وہ جی بھر کر بد مزہ ہوئی۔


"اب مجھے بتاؤ کہا کیا اس نے؟" وہ اس کی تمہید سے زچ ہو رہا تھا۔

"کہہ رہا تھا میرے روم میں چل کر بات کرتے ہیں... مجھے جیسے اس کی ذومعنی گفتگو سمجھ نہیں آتی۔" وہ ہنکار بھر کر سامنے الماری کو دیکھنے لگی۔

"اچھا پھر؟" اس کے لئے جیسے یہ سب نیا نہیں تھا۔

"پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا... اس کے بعد بھی باز نہیں آیا وہ۔ تو میں نے تھپڑ مار دیا۔" بولتے بولتے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

"اس لئے گئی تھی تم؟ ایسے بدلہ لینا تھا؟" وہ سمجھتا ہوا آگے کو ہوتا اسے دیکھنے لگا۔

"نہیں میرا ارادہ نہیں تھا ایسا.... یہ سب تو بہت اچانک ہوا ورنہ میں کیوں تمہاری غیر موجودگی میں ایسی کوئی صورتحال کریٹ کرتی؟" اس نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔

آنکھوں میں سوال تھے۔


"میری بات سن لو تم.... اور آخری بار بتا رہا ہوں۔ وہ شخص تمہاری سوچ سے زیادہ گھٹیا ہے اس لئے اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔ جب تک تم میرے ساتھ میرے گھر میں ہو تمہیں میری بات سننی بھی پڑے گی اور ماننی بھی پڑے گی۔" وہ اسے دونوں بازوؤں سے پکڑتا بے لچک مگر نرم لہجے میں سمجھانے لگا۔

"تمہیں اس سے دور رکھنا ہی سب سے بہترین کام ہے۔ اس لئے آئیندہ کے بعد تم ایسی کوئی ضد نہیں کرو گی۔ جہاں لے جانا تمہیں ناگزیر ہوگا میں خود لے جاؤں گا۔" وہ اس کی بھوری آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

"اور اگر میں تمہاری بات نہ مانوں؟" وہ بے مقصد پوچھ بیٹھی۔

"پھر تمہیں تمہاری ڈیل کی رقم نہیں ملے گی.... " وہ محظوظ ہوتا مسکرانے لگا۔


"ہاؤ مین..... " اس نے شیری کی بازو پر مکا جھڑ دیا۔

"اچھا ویسے آج کیا مصروفیت ہے میری بیوی کی؟ میرا دل کر رہا ہے کہیں آؤٹنگ کا۔" وہ خواہ مخواہ ہی اس کے بال سنوارنے لگا۔

"تمہاری بیوی بہت مصروف ہے آج.... مجھے لوکیشن پر جانا ہے کچھ چینجینگ کروانی ہے اور اس کے بعد اس آرٹسٹ کے مینیجر سے ملنا ہے۔" وہ اپنا شیڈول یاد کرتی بولنے لگی۔ بریک تب لگی جب اس نے اپنی انگلی اس کے حرکت کرتے ہونٹوں پر رکھ دی۔

وہ اسے ایسے دیکھنے لگی جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو کیا مطلب اس حرکت کا؟

"آج آف ہے تمہارا.... اور میرے ساتھ چلو گی تم۔ میں نے کراچی میں بھی بہت مس کیا ہے تمہیں۔" وہ نروٹھے پن سے کہتا اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔


وہ اسے پل پل حیران کرنے کا قصد کئے ہوےُ تھا۔ وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی جو بڑے مزے سے بول رہا تھا۔

"وہ جو اتنے دن ضائع ہوےُ ہیں ان کا حساب اب تم سے لوں گا.... ویسے میں سوچ رہا ہوں اگلی بار تمہیں ساتھ لے جاؤں۔ ہم ہنی مون پر بھی تو نہیں گئے۔"

"مسٹر شیری.... " اس نے دانت پیستے ہوےُ اسے گھورا۔

"مسز شیری میرے بالوں میں ہاتھ پھیریں تاکہ یہ درد سر دور ہو میرا۔" وہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے بالوں پر رکھتا فرمائشی انداز میں بولا۔

"خیر ہے تمہیں آج؟" اس کے ہاتھ ساکت تھے۔

"کیا؟ اپنی بیوی سے تھوڑی سی خدمت نہیں کروا سکتا؟ اب ایسے تو مت دیکھو۔" وہ اس کے یوں اچنبھے سے دیکھنے پر برا مان گیا۔


"تم تو ایسے دیکھ رہی ہو جیسے میں نے کسی راہ چلتی لڑکی کی گود میں سر رکھ لیا ہو۔ مکمل بیوی ہو تم میری, حق ہے میرا بھئی.... " وہ خفگی سے بولا تو وہ بے اختیار مسکرانے لگی۔

"اچھا مکمل... کسی کی آدھی بھی ہوتی ہے؟" وہ اب اس کے بال بگاڑنے لگی تھی۔

"ہاں ہوتی ہوں گی.... اچھا یہ بتاؤ کوئی ایسی جگہ جو تمہیں بہت پسند ہو؟" اس کے چہرے پر پھیلا سکوت مرحا سے بھی مخفی نہیں تھا۔

"اممم... " وہ بائیں جانب دیوار کو دیکھتی سوچنے لگی۔

"سوچ لو تم... پھر ہم وہیں چلیں گے۔" اس نے کہتے ہوےُ آنکھیں بند کر لیں۔ یہ لمحے کس قدر سکوں بخش تھے یہ تو شہریار ہی جانتا تھا۔

••••••••••••••••••••••

"دادو نے اتنا تیار کروا دیا ہے.... پاگل ہی لگ رہی ہوں۔" وہ آئینے میں اپنا سراپا دیکھتی جھنھلا کر بولی۔

شادی کے علاوہ پہلی بار اس نے یوں میک اپ کیا تھا شاید یہی سبب تھا اس کے رد عمل کا۔

"تم میری الماری کیوں استعمال کرتی ہو؟" احمر واش روم سے باہر نکلتا ہوا بولا۔ چہرے پر خفگی کا عنصر تھا۔

"تو میں کیا اپنے کپڑے آسمان پر رکھوں؟ وہ ابراہیم کی کہانیوں والا جادو تو ہے نہیں میرے پاس ورنہ کسی جادوئی جگہ پر رکھ دیتی۔ یہاں کہیں کمرے میں رکھے تو آپ نے کہنا کیسے حشر نشر کیا ہوا کمرے کا.... " وہ پلٹ کر معصومیت سے نان سٹاپ بولنے لگی۔

لمحہ بھر کو وہ ٹھٹھک گیا۔

یہ وہی جھلی سی لڑکی ہے؟

ریڈ کلر کی میکسی پہنے, ہونٹوں کو ریڈ لپ اسٹک سے پوشیدہ کئے, سیاہ بالوں کو جوڑے کی شکل میں قید کر رکھا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے پہچانا نہیں تھا کہ یہ عشال ہے۔

"ابراہیم کو تیار کر دیا تم نے؟ اور دادو؟" وہ نگاہیں اس کے سراپے سے ہٹاتا کف بند کرنے لگا۔

"جی وہ دونوں تیار ہیں... بس آپ کا انتظار ہو رہا تھا۔" وہ کہتی ہوئی پلٹ گئی مگر اس اثنا میں اس کا ہاتھ کنارے پر پڑے احمر کے پرفیوم سے جا ٹکرایا جو ایک لمحے کا ضیاع کئے بغیر زمین بوس ہو گیا۔

دونوں نے بیک وقت گرنے کی آواز کے تعاقب میں دیکھا اور منہ کھل گئے۔

"تم کیا ہو عشال؟ آنکھیں کس لئے ہیں آج مجھے بتا ہی دو۔" وہ ہکا بکا سا رہ گیا تھا۔

"نہیں... وہ میں... پتہ نہیں کیسے میرا ہاتھ لگ گیا۔" وہ کبھی زمین پر کرچی کرچی ہوےُ پرفیوم کی بوتل کو دیکھتی تو کبھی احمر کو۔

اس افتاد پر وہ خفیف سی ہو گئی۔


"عقل سے پیدل ہو تم؟ قیمت جانتی ہو اس پرفیوم کی؟" اس نے نیچے جھک کر ایک ٹکڑا ہاتھ میں پکڑا اور اسے گھورا۔ اسے بے عزت کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

"جی بس تھوڑی سی کمی ہے عقل کی.... مگر یقین کریں میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑا.... پتہ نہیں کیسے میرا ہاتھ لگ گیا۔ اب اگر کوئی گولیاں ہوتی عقل کی کمی کو پوری کرنے کی تو میں لے لیتی.... لیکن ایسا بھی ممکن نہیں۔" وہ جو ہاتھ مسلتی نان سٹاپ بول رہی تھی احمر کے گھورنے پر اسے بریک لگی۔۔

"اچھا منہ بند رکھو اپنا.... کتنا بولتی ہو تم! پتہ نہیں دادو کیسے برداشت کرتی ہیں تمہیں۔" اس نے ٹکڑے کو چھوڑا تو وہ زمین پر جا گرا۔

"اگر تم اسی اسپیڈ سے میری چیزیں تباہ کرتی رہی تو جلد ہی مجھے تمہارا کوئی بندوبست کرنا پڑے گا۔" وہ اس کے مقابل آتا ہوا بولا۔


"اب.... اب کچھ غلط نہیں ہوگا۔" اس نے تھوک گلے سے اتارا۔

"ایک تو انکل طارق کو بھی آج ہی دعوت رکھنی تھی۔" وہ کوفت سے کہتا پلٹ گیا۔

"کیا کھاتی ہو تم عشال.... ہر غلط کام تمہارے گنہگار ہاتھوں سے ہی ہونا ہوتا ہے۔" وہ اسے دور ہوتے دیکھ خود کو سخت سست سنانے لگی۔


"دادو مجھے تو پارک میں جانا تھا.... " وہ زینے اتر رہی تھی جب ابراہیم کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

"کل سنڈے ہے نہ پارک کل چلے جانا۔ آج آپ کے انکل نے انوائیٹ کیا ہے اپنے گھر۔ بلال اور عروشہ بھی ہوں گے وہاں.... یاد نہیں آپ کو وہ دونوں؟" وہ میز پر رکھی اشیاء دیکھ رہی تھی۔

"اوہ اچھا.... ان کے گھر.... " وہ یاد کرتا سر ہلانے لگا۔

"ماما بھی آ گئیں... " وہ اسے دیکھتا کھڑا ہو گیا۔

"ڈیڈی کہاں ہیں؟" وہ انتظار کرتے کرتے شاید تھک گیا تھا۔

"ڈیڈی بھی آ رہے ہیں.... اور پارک میں ہم کل جائیں گے۔ ٹھیک ہے؟" وہ اس کے بال سنوار رہی تھی جو پہلے سے ہی ٹھیک تھے۔


"پرامس؟" اس نے ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔

"پرامس.... " اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تو وہ بھی مسکرانے لگا۔

"یہ گفٹس گاڑی میں رکھو احمر آتا ہوگا...." فردوس ملازمہ سے کہتی پیچھے ہونے لگی۔

•••••••••••••••••••••••

"تھکے نہیں ہو تم؟" وہ چہرہ دائیں جانب موڑتی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شہریار کو دیکھنے لگی جس کا چہرہ ابھی تک ہشاش بشاش تھا۔

گاڑی سے باہر دیکھیں تو رات پوری آب و تاب کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی۔ ہر شے پر سیاہی اپنا راج جماےُ ہوےُ تھے۔ اس لمبی سڑک پر گزشتہ آدھے گھنٹے سے ان کی گاڑی تیز رفتار سے چل رہی تھی مگر ابھی تک اس کا دوسرا کنارہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

"میرا خیال ہے تم تھک گئی ہو.... " اس نے سپیڈ کم کرتے ہوےُ اسے دیکھا۔

جامنی رنگ کے حجاب میں اس کا گندمی رنگ مزید پرکشش ہو جاتا۔ پنک لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹ اس پر خوب جچتے تھے۔ آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے کے باعث بھاری ہو رہی تھی مگر اس کی خوبصورتی مانند پھر بھی نہیں پڑی تھی۔


"مجھے بھوک لگی ہے.... تھوڑی سی۔"

اس کی آنکھوں کو حیرت سے پھیلتے دیکھ اس نے سرعت سے اپنی بات میں اضافہ کیا۔

"اچھا.... ایسا کرو پیچھے وہ جو شاپر ہے نہ؟" اس نے ایک نظر مرحا کو دیکھ کر سامنے سڑک کو دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ گردن گھما کر عقب میں دیکھنے لگی۔

"اس میں کلب سینڈوچ ہے وہ نکال لو۔" وہ جیسے پہلے سے ہی تیار تھا اس صورتحال کے لیے۔

"یہ کب لئے تم نے؟" وہ شاپر گود میں رکھے اس میں ہاتھ مار رہی تھی۔

"جب میں نکل رہا تھا تو میں نے یہ پیک کروا لیے تھے۔" وہ دھیرے سے مسکرایا۔

"تمہیں معلوم تھا مجھے بھوک لگ جاےُ گی؟" وہ سینڈوچ نکالتی پھر سے اسے دیکھنے لگی۔


"ہاں... زیادہ کھایا ہی نہیں تھا تم نے۔ اس لئے میں نے بیک اپ پلان یہ رکھ لیا۔" وہ اس بات سے مسرور تھا کہ وہ اس کے یوں فکر کرنے سے متاثر ہوئی تھی۔ جبکہ دوسری جانب وہ اس کے ان بدلتے انداز پر متحیر سی تھی۔

"کلب سینڈوچ.... میرا فیورٹ۔ تمہیں معلوم تھا؟" وہ ایک بائٹ لیتے ہوےُ اس کی جانب رخ کر کے بیٹھ گئی۔

"شاید.... " اس نے لاپرواہی سے شانے اچکاےُ۔

"تمہیں بھوک لگی ہے؟" کھاتے ہوےُ یکدم اسے خیال آیا تو پوچھ بیٹھی۔

"اگر میڈم کھلا دیں تو ضرور.... " اس نے کہتے ہوےُ سپیڈ بڑھا دی۔ آدھ کھلی کھڑکی سے ڈھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ درختوں کی بھینی بھینی سی خوشبو بھی اندر آ رہی تھی۔

مرحا نے ہاتھ میں پکڑا سینڈوچ اس کے سامنے کر دیا۔

"تھینک یو.... " وہ بائٹ لیتا ہوا بولا۔


"ہم لانگ ڈرائیو پر جا رہے ہیں؟" اس نے باہر دیکھتے ہوےُ استفسار کیا کیونکہ اب یہ راستہ ایک نا ختم ہونے والا راستہ معلوم ہو رہا تھا۔

"مسز ہم گزشتہ چالیس منٹ سے لانگ ڈرائیو پر ہی ہیں۔ تمہیں اب احساس ہو رہا ہے۔" اس نے گئیر سے ہاتھ اٹھا کر اس کے سر پر چت لگائی تو وہ مصنوعی خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔

"اچھا.... " وہ کسی گہری سوچ کے بھنور میں جا ڈوبی تھی۔

خاموش نگاہیں شیری کو اپنے حصار میں لئے ہوےُ تھیں اور چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔

"نظر لگانی ہے کیا؟" اس کی نگاہوں کا تپش تھی جس نے اسے نگاہیں موڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور کر دیا۔

مرحا نے جواب دینے کی بجاےُ آدھا کھایا سینڈوچ اس کے سامنے کر دیا۔

نجانے اس کی آنکھوں میں کیسا خوف تھا جسے دیکھ کر شہریار بھی چونک گیا۔


"کیا ہوا؟" اس نے بریک لگاتے ہوےُ اس کی تھوڑی کو پکڑا۔

"کچھ بھی نہیں.... " وہ اپنے تاثرات نارمل کرتی مسکرانے لگی۔

"تھک جاؤ گے تم.... اتنی ڈرائیو کر کے۔" وہ سیدھی ہوتی سامنے دیکھنے لگی۔

"میں ابھی تین چار گھنٹے مزید ڈرائیو کر سکتا ہوں۔ شاید تمہارے ساتھ ہونے کے باعث تھکاوٹ میرے قریب نہیں آ رہی۔" اس نے توجہ نہیں دی اپنے الفاظ پر مگر مرحا کو وہ بے حد خوفزدہ کر گئے۔

•••••••••••••••••••••••

"رو کیوں رہی ہو تم؟" وہ اسے سسکیاں لیتے دیکھ اٹھ بیٹھا۔

نائٹ بلب کی روشنی کچھ زیادہ ہی مدھم تھی جس کے باعث اس نے بٹن پر ہاتھ مار کر کمرہ روشن کر دیا۔ وہ جو فون ہاتھ میں پکڑے اپنی ہی رو میں اشک بہا رہی تھی اس کے متوجہ ہونے پر بوکھلا گئی۔

"آ... آپ تو سو رہے تھے۔"

"تم کیوں رو رہی ہو اس وقت؟" اس نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔

"وہ... ناول کا ہیرو مر گیا ہے۔" اس نے آہستہ سے اپنا دکھ بتایا تو احمر کا ہاتھ بے اختیار سر پر گیا۔

"تو تم کیوں رو رہی ہو؟ اصل انسان تھوڑی تھا؟" وہ متعجب سا اسے دیکھ رہا تھا۔


"اصل سے بڑھ کر تھا.... اتنا اچھا تھا اب علیشے کیسے رہے گی اس بغیر۔ مجھے تو اس کا سوچ سوچ کر ہی فکر ہو رہی ہے۔"

احمر نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔

"اس کا تو اور کوئی بھی نہیں تھا اس دنیا میں۔" وہ ہاتھ کی پشت سے رخسار رگڑتی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔

"حد ہوتی ہے ویسے پاگل پن کی بھی... میں سمجھ رہا پتہ نہیں کوئی سیرئس مسئلہ ہے شاید۔" وہ تاسف سے کہتا نفی میں سر ہلانے لگا۔


"آپ کو کچھ نہیں پتہ اس لئے ایسے کہہ رہے ہیں۔" عشال کو اس کی بات اچھی نہیں لگی۔ چہرے پر پھیلی نا پسندیدگی اس بات کا ثبوت تھی۔

"ہاں تم ہی سب جانتی ہو اور تم ہی جانو اپنے مسئلے.... مگر آواز نہیں آےُ اب تمہاری۔" وہ انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا۔

"عجیب ہی کوئی پاگل باندھ دی ہے میرے ساتھ.... ساری نیند خراب کر دی۔" وہ لائٹ بند کرتا بڑبڑاتا ہوا لیٹ گیا۔

"یہ بے حس لوگ تمہارا درد نہیں سمجھ سکتے علیشے.... یا ﷲ پلیز اسے ہمت دینا۔" وہ ایک افسوس بھری نگاہ احمر کی پشت پر ڈالتی فون پر انگلی چلانے لگی۔

•••••••••••••••••••••••

نجانے رات کا کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ گلا خشک ہو رہا تھا۔

اس نے سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی ڈالنے لگی۔

گلاس پکڑ کر اس نے بائیں جانب سوتے شہریار پر نگاہ ڈالی تو وہ پلٹنے سے انکاری ہو گئی۔ کھڑکی سے آتی چاند کی سفید روشنی سیدھی اس کے چہرے کو منور کر رہی تھی۔

اس کی صاف رنگت پر ہلکی ہلکی سی شیو, سرخ عنابی لب اور سیاہ ریشمی بال, بہترین امتزاج تھا اس کی شخصیت کے نکھار کا۔


"تم کیا کر رہے ہو شیری؟ یہ سب... محبت جتانا, میری پرواہ کرنا۔ جانتے ہوےُ کہ ہمارا رشتہ تو مکڑی کے گھر کی مانند کمزور ہے۔ عارضی ہے یہ رشتہ پھر.... " اس کا بائیاں ہاتھ بے اختیار اس کی پیشانی تک جا پہنچا۔

اس کی پیشانی پر منتشر ریشمی بالوں کو پیچھے کرتی وہ پھر سے بولنے لگی۔

"تم جیسے انسان کو مجھ سے محبت نہیں ہو سکتی۔ یہ تو میں جانتی ہوں۔ پھر مجھے کیوں الجھا رہے ہو تم؟ یہ سب کر کے مجھے کیوں اپنی جانب کھینچ رہے ہو تم؟" ہاتھ حرکت کرتا اس کی داڑھی پر آ ٹھہرا۔ وہ نا محسوس انداز میں اس کی جانب کھینچی چلی جا رہی تھی۔

یقیناً اگر وہ جاگ رہا ہوتا تو اسے یقین نہیں آتا اپنی بینائی پر, کہ وہ جو اس سے کتراتی تھی آج خود اپنا لمس اس پر چھوڑ رہی تھی۔


"تم صرف مجھے بیوقوف بنا رہے ہو.... وقت گزاری ہی ہے نہ یہ۔ اپنا وقت اچھے سے اینجواےُ کرنا چاہتے ہو تم۔" اس نے جھرجھری لیتے ہوےُ ہاتھ یوں کھینچا مانو کرنٹ لگا ہو۔

"مجھے کچھ بھی سئیرئس نہیں لینا.... وقتی جذبہ ہے یہ اور کچھ نہیں۔ ان چیزوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دینا مجھے۔ بس جلدی سے یہ میعاد پوری ہو اور میں واپس اپنے گھر جاؤں۔" وہ اس کی جانب دیکھنے سے گریز برت رہی تھی گویا اسے دیکھا تو ساری باتیں ہوا ہو جائیں گیں۔ سارے خدشات درست ثابت ہو جائیں گے, سارے ارادے مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے۔


"سونا چائیے مجھے.... صبح جلدی آفس۔ صبح تو چھٹی ہے۔ پھر سے شیری کے ساتھ رہنا پڑے گا مجھے پورا دن۔" وہ سوچ کر ہی کڑہنے لگی۔

"مجھے کچھ سوچنا ہوگا.... عشال سے ملنے چلی جاؤں گی یا پھر بابا کی طرف.... " وہ سوچتی ہوئی ایک نظر بے خبر سوتے شیری پر ڈالتی لیٹ گئی۔

••••••••••••••••••••••

"حماد میرے پیار بھائی.... " اس کے یوں احترام سے بلانے پر حماد نے چونک کر اسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔

"ایک کام تو کر دو.... " وہ آنکھوں میں التجا لئے ہوےُ تھی۔

"کون سا کام؟" اس کے یوں تمہید باندھنے پر اسے بھی تجسس ہوا۔

"پانی تو پلا دو فریج سے.... قسم سے بہت پیاس لگی ہے۔" اس نے ممکنہ حد تک چہرے کو مظلوم بنانے کی سعی کی۔

"دو مہینے پہلے, چار تاریخ کو شام کے چھ بج کر بیس منٹ پر میں نے تم سے پانی مانگا تھا اور تم نے مجھے انکار کر دیا تھا یہ کہہ کر کے جب تم مانگو تو میں بھی انکار کر دوں۔" وہ ہاتھ میں پکڑا فون نیچے کرتا نہایت سنجیدگی سے بولنے لگا۔

آنکھوں کے ساتھ ساتھ زمر کا منہ بھی کھل گیا۔


"تم نے تب سے یاد رکھا ہوا تھا؟ اس ساری تفصیل کو؟" وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔

"جی ہاں اس لئے اب خود دفع ہو کر پئیو... میں نے بھی تب خود جا کر پیا تھا پانی۔" وہ طمانیت سے کہتا پھر سے فون کی اسکرین کو دیکھنے لگا۔

"دیکھو حماد اگر میں نے تمہارے ساتھ ایسا کیا تو لازم تھوڑی ہے تم بھی ویسا ہی کرو.... تم اچھے ہونے کا ثبوت دے دو میں تو ہوں ہی بدتمیز صدا کی۔" اس لمحے کمرے سے باہر نکل کر جانا زمر کے لئے دنیا کا مشکل ترین کام تھا اسی لئے بڑی سہولت سے خود کو روند رہی تھی۔

"میں بھی برا ہوں.... " اس نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرایا۔

"بدلہ لینے کے بجاےُ انسان کو معاف کر دینا چائیے اگلی بار میں بھی ایسا ہی کروں گی۔" اس نے پھر سے اپنی سی کوشش کی۔


"مجھے بدلہ ہی لینا ہے.... اور اپنے بھاشن اپنے پاس رکھو ضرورت نہیں مجھے۔ سست کہیں کی۔" وہ ذرا سخت لہجے میں بولا۔

"عزت دے رہی ہوں نہ تو تمہیں ہضم نہیں ہو رہا.... کہنا ذرا تم مجھے کبھی پانی پلانے کا۔ زہر لا کر دوں گی دیکھنا۔" وہ بھنا کر کہتی کھڑی ہو گئی۔

"چوسنی جیسی شکل ہے اور ایٹیٹیوڈ دیکھو اس کا... "

اپنا سارا غصہ اس پر منتقل کر کے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔

"تم تو جیسے ایما واٹسن ہو نہ.... " اس نے اسے نکلتے دیکھ ہانک لگائی۔


"کسی کو سونے مت دینا تم دونوں.... ہر وقت سر کھاتے رہا کرو۔" نصرت جو نیچے قالین پر لیٹی سونے کی کوشش کر رہی تھی دونوں کی آوازیں سنتی, آنکھوں سے بازو ہٹاتی اٹھ بیٹھی۔

"وہ نکمی.... اس نے شروع کیا تھا میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔" وہ صاف مکر گیا۔

"ہاں تم نے تو کچھ نہیں کہا میرے کان بج رہے تھے نہ.... مجال ہے جو سکون کی دو گھڑی میسر آےُ ان دونوں کے ہوتے...." وہ نفی میں سر ہلاتی ساتھ پڑے ہینڈ فری اٹھانے لگیں۔

"ڈرامہ دیکھنے لگی ہیں؟" اس کی نگاہیں نصرت پر ہی تھیں۔

"تم دونوں کی تو تو میں میں سے بچنے کے عوض لگانے لگی ہوں ان ٹوٹیوں کو.... " وہ برہمی سے بھری نگاہ اس پر ڈال کر ہینڈ فری لگاتی لیٹ گئیں۔


"یہ زمر کا دماغ ہے ہی خراب.... " وہ نفی میں سر ہلاتا پھر سے فون میں محو ہو گیا۔

"تم اگر مر بھی رہے ہو گے نہ تو پھر بھی تمہیں پانی نہیں لا کے دوں گی میں یاد رکھنا.... " وہ دروازہ بند کر کے بلند آواز میں بولی اس بات سے بے خبر کہ نصرت پہلے ہی اس کو اچھی خاصی سنا چکی ہے۔

"ہاں نہ پلانا جاؤ اب سر نہ کھاؤ میرا...." وہ ہاتھ سے جانے کا اشارہ کرتا خود بھی ہینڈ فری اٹھانے لگا تاکہ مزید اس کی باتوں سے محفوظ رہے۔

وہ اسے گھورتی ہوئی دوسرے سنگل صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔

••••••••••••••••••••••

وہ کمرے میں داخل ہوا تو مرحا کو پھر سے نماز پڑھتے پایا۔

وہ صوفے پر بیٹھتا انہماک سے اسے دیکھنے لگا۔ اس کی تمام تر توجہ کا مرکز وہی تھی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب اس کے دل میں خواہش جاگی کہ وہ بھی نماز پڑھے۔

"کتنی پرسکون سی لگ رہی ہو تم.... " اسے حسد سا ہونے لگا۔

"کبھی میں بھی پڑھ کر دیکھوں کیسا لگتا ہے.... "

اس کی یہ سوچ ہونٹوں کے ذریعے باہر نہیں آئی تھی اس لئے مرحا کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔

وہ خاموشی سے تب تک بیٹھا رہا جب تک اس نے دعا مانگ کر جاےُ نماز تہ نہیں لگا دیا۔

"کوئی کام تھا؟" وہ اسے یوں اپنا منتظر دیکھ یہی سوچ سکی۔


"تم کبھی کبھی اچھی لگتی ہو.... " وہ ہلکے بھورے رنگ کے دوپٹے میں لپٹے اس کے چہرے کو دیکھتا کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بولا۔

"اچھا تو پھر؟"

وہ الجھ کر کہتی جاےُ نماز الماری میں رکھنے لگی۔

"آج کہاں جانا ہے؟" اس نے اپنے دماغ میں گھومتی سوچوں کو پس پشت ڈال دیا۔

"کیوں آج کیا ہے؟" وہ جانتے بوجھتے انجان بنی۔

"ویک اینڈ ہے.... اب پورا دن گھر میں بیٹھ کر تو گزار نہیں سکتے۔" وہ کہتا ہوا احتجاجاً کھڑا ہو گیا۔

"میں نہیں جا رہی کہیں بھی.... اپنے دوستوں کے ساتھ چلے جاؤ۔" مرحا کے چہرے پر خوف کی لکریں تھیں جس کے باعث وہ ابھی تک الماری میں منہ دئیے کھڑی تھی۔

"کیوں تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ میرا تمہارے ساتھ جانے کا دل ہے۔" وہ چلتا ہوا اس کے عقب میں آ رکا تو اس نے الماری بند کر دی۔

"اور میرا دل نہیں... " اس نے سرد مہری سے کہتے ہوےُ رخ موڑ کر اسے دیکھا۔


"ٹھیک ہے نہ ہو.... مگر میرے ساتھ تو جانا پڑے گا تمہیں مرحا شہریار۔" وہ اس کی قمیض پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا حتمی انداز میں بولا۔ اس کے یوں اچانک کھینچنے پر اس کا سر شیری کے چہرے سے جا ٹکرایا۔

"کیا کرتے ہو شیری.... " وہ پیچھے ہوتی بال ٹھیک کرنے لگی۔

"اب یہ بتاؤ کہاں جانا ہے؟ انکار والا آپشن نہیں تمہارے پاس۔" وہ الماری سے ٹیک لگاتا اس کی کلائی پکڑنے لگا۔

"میں عشال سے ملنے جا رہی ہوں... تم بھی آ جاؤ ساتھ میرے۔" اسے معلوم تھا وہ وہاں جانے پر آمادہ نہیں ہوگا۔

"کوئی اور جگہ بتاؤ.... " اس نے ناگواری سے سر کو نفی میں حرکت دی۔

"بابا کے گھر.... "

"تم رہنے دو... بس چینج کر لو میں خود ہی کسی اچھی سی جگہ لے جاتا ہوں۔" اس کی جانب سے مایوس ہو کر وہ پیچھے ہو گیا۔


"مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ.... " اس نے ناک چڑھائی۔

"اور مجھے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے اس پر کوئی بحث نہیں ہوگی مرحا اب۔ ورنہ میرے پاس اور بھی طریقے ہیں تمہیں ساتھ لے جانے کے۔" اس نے کہہ کر آنکھیں گھمائیں اور پلٹ گیا۔

"پتہ ہے کون سے طریقے ہیں.... " وہ جل کر کہتی الماری کھولنے لگی۔

"گڈ گرل.... " اسے کپڑے نکالتے دیکھ اس نے لقمہ دیا۔

وہ بنا کوئی جواب دئیے واش روم میں چلی گئی۔

•••••••••••••••••••••

"ابراہیم بس چپ کر جاؤ نہ... ابھی ڈرائیور آ رہا ہے ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔" وہ ٹیشو سے اس کے آنسو صاف کرتی ہوئی مِنت کرنے والے انداز میں بولی۔

"عشال ویسے تمہیں دھیان کرنا چائیے تھا۔ دیکھو گہری چوٹ معلوم ہو رہی ہے۔" اس کے گھٹنے سے نکلتے خون کو دیکھ فردوس تشویش سے بولنے لگیں۔

"دادو وہ بس بھاگتے ہوےُ گر گیا ابراہیم.... سر کو معلوم ہوا تو پھر؟" وہ ہونق زدہ سی انہیں دیکھنے لگی۔

"مخفی تو نہیں رکھ سکتے اس سے.... اور ابراہیم تو اس کے بغیر ڈاکٹر کے پاس نہیں جاےُ گا۔" وہ قطعیت سے بولیں تو عشال کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

"بہت درد ہو رہا ہے ماما.... " اس نے سسکتے ہوےُ عشال کی بازو ہلائی۔


"آپ میرے ساتھ چلو گے ڈاکٹر کے پاس؟" وہ گھبرا کر اسے دیکھ رہی تھی مبادہ اس کی بات سے انحراف ہی نہ کر دے۔

"ڈیڈی بھی اور آپ بھی.... "

عشال بائیں سمت بیٹھی فردوس کو دیکھنے لگی جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو۔

"میں فون کرتی ہوں احمر کو.... " وہ اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھتی میز پر سے فون اٹھانے لگیں۔

"ماما میں انجیکشن نہیں لگوانا.... بہت درد ہوتا ہے۔"

وہ اس کے پکارنے پر پھر سے اس کے آنسو صاف کرنے لگی۔

"اچھا ہم ڈاکٹر سے کہیں گے آپ کو انجیکشن نہ لگاےُ.... آپ رونا تو بند کرو ورنہ ڈاکٹر ہماری بات نہیں مانے گا۔" وہ ایک ہاتھ میں کاٹن لئے اسے زخم پر رکھے ہوےُ تھی۔ اس کے سر پر بوسہ دیتی اسے اپنے ساتھ لگانے لگی۔

بیس منٹ بعد قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔


"دادو روز روز کیوں مجھے جلدی بلا لیتی ہیں آپ؟ میں کام نہ کیا کروں؟" وہ صورتحال سے انجان بگڑ کر بولا۔

"بیٹا ابراہیم کے چوٹ لگ گئی ہے۔ اس لئے تمہیں بلایا ہے...." فردوس نے ابراہیم کی جانب اشارہ کیا۔

"کہاں؟ کیسے؟ زیادہ تو نہیں لگی؟" وہ کسی مچھلی کی مانند تڑپ کر کہتا اس کی جانب بڑھا اور عشال کو پرے کرتا اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

اس نے کاٹن ہٹا کر زخم دیکھا تو آنکھیں تحیر سے پھیل گئی اور چہرے کو پریشانی نے اپنے احاطے میں آ لیا۔

"یہ کیسے.... اتنا گہرا زخم.... " وہ متفکر سا پہلے عشال کو پھر فردوس کو دیکھنے لگا۔


"ڈیڈی مجھے درد ہو رہا ہے.... " بولتے بولتے پھر سے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

"تم ابھی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤ.... تفصیل بعد میں پوچھ لینا۔" وہ اس کے غصے کے سبب اسے موضوع سے ہٹانے لگیں۔

عشال پیچھے ہوتی کھڑی ہو گئی۔ سر مجرمانہ انداز میں جھکا ہوا تھا۔

"چلو میں اپنے بیٹے کو ابھی لے کر جاتا ہوں۔" وہ اسے گود میں اٹھاتا محبت سے لبریز لہجے میں بولا۔

"ماما بھی... " اس نے عشال کو دیکھتے ہوےُ ہاتھ بڑھایا۔

"آ جاؤ تم بھی.... " وہ اسی انداز میں چلتا ہوا بولا کہ عشال کی جانب اس کی پشت تھی۔

"جاؤ ایسے ہی چادر رہنے دو اب.... اور راستے میں کچھ مت بتانا اسے ورنہ وہیں برس پڑے گا تم پر۔" فردوس دھیمی آواز میں اسے ہدایات دینے لگیں۔

وہ سر ہلاتی دوپٹہ سر پر اوڑھتی دروازے کی سمت بڑھنے لگی۔

••••••••••••••••••••••

"بس اب آپ آرام سے سو جاؤ اب درد نہیں ہوگا۔" وہ اسے بیڈ پر لٹاتا کمبل اس پر اوڑھنے لگا۔

"اے سی چلا دو....زیادہ تیز مت رکھنا۔ " وہ عقب میں کھڑی عشال کو کہتا ابراہیم کو دیکھنے لگا۔

"ڈیڈی صبح سکول؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"ابھی آپ نے زیادہ چلنا نہیں ہے ایک دو آدھا دن .... ورنہ درد ہوگا۔" چونکہ زخم گھٹنے اور ٹانگ پر تھا اس لئے اس کا بھرنا لازم تھا۔

"زیادہ تیز مت رکھنا.... " وہ اسے ہدایت دیتا پھر سے ابراہیم کی جانب متوجہ ہو گیا۔

"اوکے ڈیڈی.... " اس نے مسکراتے ہوےُ آنکھیں بند کر لیں۔

"ٹھیک ہے؟" وہ ریموٹ میز پر رکھتی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہاں ٹھیک ہے.... اور مجھے بتاؤ کیسے چوٹ لگی ابراہیم کو؟" وہ تفتیشی انداز میں اسے دیکھتا کمرے سے باہر نکلنے کا اشارہ کرنے لگا۔


وہ ایک نظر ابراہیم پر ڈالتی باہر نکل گئی۔

"وہ ہم.... بیٹ بال کھیل رہے تھے۔" وہ تذبذب کا شکار تھی۔

"تو تم کہاں تھی؟ کس لئے رکھا ہے تمہیں یہاں؟ اس لئے شادی کی تھی تم سے تاکہ یہ حال کرو میرے بیٹے کا؟" وہ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل درشتی سے کہتا اس کی بازو پکڑنے لگا۔

اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار ابھرے مگر اس نے اف تک نہ کی۔

"وہ بھاگ رہا تھا بال پکڑنے کے لیے تو...." اس کی فولادی گرفت پر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ لفظ حلق میں ہی کہیں پھنس گئے۔

"تو تم سے کس نے کہا تھا بیٹ بال کھیلنے کو؟ تمہیں نہیں معلوم چوٹ لگ جاتی ہے بچوں کو؟ اتنی سی بھی عقل نہیں ہے کیا تم میں؟"

"تم کیا کر رہی تھی جب وہ گرا؟ کہاں تھی تم؟" وہ اسے بولنے کا موقع دئیے بغیر دھاڑا۔


"وہ میں.... کھڑی تھی۔" وہ لب کاٹتی نگاہیں جھکاےُ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔

"تم نے ابراہیم کو بال لینے بھیجا؟ اِدھر میری طرف دیکھو...." اس کا یوں نگاہیں چرانا اسے مزید طیش دلا رہا تھا۔

"جی.... " وہ بمشکل اتنا ہی بول پائی۔

"میرے سامنے مت آنا تم.... بلکہ اپنے گھر چلی جاؤ تمہاری جیسی لاپرواہ کی ضرورت نہیں ہمیں۔" وہ اسے دھکا دیتا ہوا حلق کے بل چلایا۔

وہ لڑکھڑائی مگر دیوار کا سہارا لے لیا۔

"اول روز سے ہی مجھے یہ لڑکی پسند نہیں تھی مگر نجانے ابراہیم کو کیا نظر آتا ہے اس جاہل میں...." وہ کلس کر کہتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔


"میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا.... اور ابراہیم ہی ضد کر رہا تھا کہ بیٹ بال کھیلنا ہے۔" وہ آنکھیں رگڑتی منہ میں بڑبڑائی۔

سامنے سے فردوس ملازمہ کے ہمراہ آتی دکھائی دیں تو وہ سرعت سے اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی جو لڑھک کر نیچے زمین تک جا رہا تھا۔

"ابھی آےُ ہو تم لوگ؟ زیادہ گہری چوٹ تو نہیں تھی؟ کیا کہا ڈاکٹر نے؟" وہ اس کے سامنے آتی پے در پے سوال کرنے لگیں۔

"نہیں فکر کی کوئی بات نہیں.... پٹی کر دی ہے اور دوائی بھی دے دی ہے۔ سو گیا ہے ابراہیم۔" اس نے مسکرانا چاہا مگر مسکرا نہیں سکی۔

"چلو شکر ہے.... تمہیں.... احمر نے کچھ کہا تمہیں؟" وہ اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتی جیسے بھانپ گئیں۔


"کہہ رہے تھے اپنے گھر چلی جاؤں.... دادو میں نے تو مشورہ نہیں دیا تھا ابراہیم کو۔ آپکے سامنے وہی ضد کر رہا تھا نہ؟" وہ ان کے ہاتھ پکڑتی مظلومیت سے بولنے لگی۔

"ہاں ہاں.... میرے سامنے ہی تو کہہ رہا تھا۔ تم پریشان مت ہو۔ صبح میں بات کروں گی اس سے۔ ویسے بھی ابراہیم کو صبح تم نظر نہیں آئی تو خفا ہوگا۔ تم آج میرے کمرے میں سو جاؤ۔" وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی حوصلہ دینے لگیں۔

"صبح بات کر لوں گی میں احمر سے.... جذباتی بہت ہے اپنے بیٹے کے معاملے میں,, صبح تک غصہ ڈھنڈا ہو جاےُ گا اس کا.... " وہ اسے ساتھ لئے چلنے لگیں تو وہ بھی خاموشی سے چل دی۔

•••••••••••••••••••••••

"اچھا ٹھیک ہے ویسے یہ بھی.... " وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھتی ہوئی پر سوچ انداز میں بولی۔

"اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو میں... "

"نہیں نہیں اچھا ہے یہ۔" وہ اس کی بات کاٹتی تیزی سے بولی۔

اس سے قبل کہ وہ مزید بولتی دروازہ کھلا اور شہریار کا چہرہ دکھائی دیا۔

اس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ نے مرحا کو بھی تجسس میں مبتلا کر دیا۔

"اممم.... سہیل میں تمہیں بعد میں بلاتی ہوں۔" وہ واقف تھی اس کی عادت سے اس لئے خود ہی اسے بھیجنے لگی۔

"اوکے میم.... " وہ سر کو خم دیتا اپنا لیپ ٹاپ اٹھانے لگا۔

دروازے کی سمت بڑھتے ہوےُ اس نے سر کو خم دے کر شہریار کو سلام کیا اور دروازہ بند کرتا چلا گیا۔


"گیس واٹ؟" وہ پر جوش انداز میں کہتا اس کے مقابل آ رکا۔

"واٹ؟" اس نے دونوں آبرو اچکاےُ۔

وہ اس کے سامنے ٹیبل سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا تھا جبکہ مرحا اپنی کرسی پر براجمان تھی۔

"وہ ٹینڈر مجھے مل گیا... میں بتا نہیں سکتا بلاول رندھاوا کا چہرہ جب اسے اسی کے انداز میں شکست ملی۔" نجانے اس کی خوشی میں ایسا کیا تھا کہ وہ بھی خوش ہو گئی۔

"گریٹ.... پھر تو بہت مزا آیا ہوگا تمہیں.... ایک ٹینڈر ملنے کی خوشی, دوسرا اس گھٹیا انسان کی شکست۔" اسے سوچتے ہی چہرے پر ناگواری در آتی۔


"بلکل.... اور یہ سب تمہاری وجہ سے ممکن ہوا۔ تھینک یو سو مچ۔ مجھے لگتا ہے تمہارا ہماری پارٹنر بننا لکی ثابت ہوا ہے میرے لئے۔" اس نے کہتے ہوےُ مرحا کی ناک دبائی تو وہ اس غیر متوقع شرارت پر بے اختیار مسکرانے لگی۔

"اچھا اسی لئے سیدھا میرے آفس آ گئے... " وہ ابھی تک مسکرا رہی تھی۔

"مجھے اپنی مسز کے ساتھ اچھے سے ڈنر پر جانا ہے.... یار میرا تو دل ہے ہنی مون پر چلیں۔ کتنا وقت لو گی اس پراجیکٹ کو پورا کرنے میں؟" پہلے چہرے پر حسرت تھی پھر اکتاہٹ نے جگہ لے لی۔

"مجھے تو ابھی ایک مہینہ لگ جاےُ شاید... " اس نے جان بوجھ کر میعاد بڑھا دی جبکہ کام پندرہ دن کا تھا۔


"پھر تم چھٹی لے لو.... چار دن لیٹ ہو جاےُ گا مجھے کوئی پرابلم نہیں۔ بس مجھے گھومنے جانا ہے تمہارے ساتھ۔ سڈنی یا پھر کینیڈا؟" وہ کھڑے کھڑے باقائدہ پلان کرنے لگا۔

"شیری آرام سے.... کس بات کی جلدی ہے؟" وہ اس کی سرعت پر بوکھلا کر کھڑی ہو گئی۔

"دو مہینے شاید ہونے والے ہیں ہماری شادی کو.... اور کتنا آرام سے؟" اس نے آنکھیں سکیڑ کر گھورا۔

"مجھے میرا پراجیکٹ پورا کر لینے دو اس کے بعد.... " اس کا انداز ٹالنے والا تھا۔

"یار.... میرا ابھی جانے کا دل ہے۔ جب تمہارا پراجیکٹ پورا ہوگا تو ہم پاکستان میں ناردن ایریا چلے جائیں گے دوبارہ۔" اس نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوےُ اپنے گھیرے میں لیا۔

وہ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جیسے کہنا چاہ رہی ہو کیا ارادے ہیں؟


"بلکہ ابھی تو ہم جا ہی نہیں سکتے.... " یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا تو چہرہ کھل اٹھا۔

"کیوں؟" اس کی پیشانی پر تین لکریں ابھریں۔

"رمضان ہے.... اس لئے ابھی نہیں جا سکتے ہم۔ ہاں عید پر چلیں گے۔" اس نے مسکراتے ہوےُ اس کا رخسار تھپتھپایا۔

"آہ.... ایک مہینہ اور؟" اس نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھتے ہوےُ سانس خارج کیا۔

وہ منہمک سی اسے دیکھ رہی تھی۔ لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ تھی۔

"پکا عید پر؟" اس نے سر جھکاتے ہوےُ مرحا کی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔

"پکا.... " نجانے کیوں اس کے لئے انکار کٹھن سے کٹھن ہوتا جا رہا تھا۔

"تھینک یو... اگین۔" اس نے کہتے ہوےُ لب اس کی پیشانی پر رکھ دئیے۔


اس کی کالر پر رکھے مرحا کے ہاتھ کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ اس طلسم کا اثر اس قدر مضبوط تھا کہ وہ اسے خود سے دور نہیں کر سکی آج۔

"یہ میرا آفس ہے.... " وہ پیچھے ہوا تو وہ اسے گھورنے لگی۔

"ہاں تو؟ اگر یہاں اعتراض ہے تو میرے آفس آ جاؤ.... " اس نے بائیں آنکھ کا کونا دبایا۔

"اچھا بس.... اندر سے اس ٹھرکی شیری کو باہر مت نکالو۔" وہ اس کے سینے پر مکا مارتی مصنوعی خفگی سے بولی اور اس کا ہاتھ ہٹاتی پلٹ گئی۔


"اب کہاں؟" وہ اسے واپس اپنی کرسی پر بیٹھتے دیکھ تعجب سے بولا۔

"اب کیا میں کام نہ کروں؟" وہ دونوں بھنویں اچکانے لگی۔

"پچھلے دو دن سے کام ہی کر رہی ہو.... چلو میرے ساتھ ڈنر پر۔ ہاں مجھے معلوم ہے ڈنر کا ٹائم نہیں ابھی لیکن میں کسی دور دراز کے ریسٹورنٹ لے کر جاؤں گا تمہیں تاکہ ٹائم پورا ہو جاےُ۔" وہ اسے بولنے کا موقع دئیے بغیر تیزی سے کہتا لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کرنے لگا۔ اس نے جو بولنے کے لیے لب وا کیے تھے, اس کی جسارت پر کھلے کے کھلے رہ گئے۔

"چلو اب فون وغیرہ اٹھا لو میں گاڑی میں بیٹھا ہوں.... " وہ اس کا لیپ ٹاپ اٹھا کر چل دیا تو مرحا بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔

"تم کچھ زیادہ ہی اپنی مرضی نہیں چلانے لگ گئے؟" وہ جا چکا تھا۔ یہ سوال اس نے شاید خود سے کیا تھا۔

"چپ چاپ تمہاری بات جو مان لیتی ہوں.... اس لئے ناز اٹھوانے لگ گئے ہو۔" وہ خفا خفا سی کہتی بیگ میں فون رکھنے لگی۔

•••••••••••••••••••••••

"ساری قمیض خراب ہو گئی.... " وہ اپنے دامن پر لگے داغ کو دیکھتی الماری کھولنے لگی۔

"سر کے آنے کا ٹائم بھی ہونے والا ہے... جلدی سے چینج کر کے جاؤں۔ دیکھ لیا تو غصہ کریں گے۔" وہ کہتی ہوئی سرعت سے ہاتھ چلانے لگی۔

وہ کپڑے تبدیل کر کے واش روم سے نکلی تو احمر کو اپنے سامنے پایا۔

آنکھوں پر نظر کی گلاسز لگاےُ, وہ سر صوفے پر پشت پر رکھے ہوےُ تھے, ساتھ ہی اس کا نیلا کوٹ پڑا تھا جس کا مطلب تھا اس کی آمد ابھی کچھ سکینڈز پہلے ہوئی ہے۔

قدموں کی آہٹ پر اس نے آواز کے تعاقب میں دیکھا۔

عشال لب کاٹتی آگے بڑھ رہی تھی, اسے دیکھنے سے گریز برتتی وہ الماری کھولنے لگی۔

"میں نے تمہیں کہا تھا میرے سامنے مت آنا... " اس کا غصہ گویا جوں کا توں برقرار تھا۔ وہ ایک ہی جست میں اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا تھا۔

"اب اگر میرے پاس آلہ دین کا چراغ ہوتا تو میں کہیں غائب ہو جاتی۔ یا کسی ایسے درخت کے پاس جا کر بیٹھ جاتی جو مجھے کسی اور دنیا میں لے جاتا.... اب ایک دم سے کیسے جاؤں یہاں.... "

اس کے گھورنے پر عشال کو بریک لگی۔

"میرے سامنے اگر دوبارہ یہ فضول باتیں کیں تو.... "

"سوری سر.... ابراہیم نے دوائی گرا دی تھی میرے کپڑوں پر ورنہ میں اس ٹائم کمرے میں نہیں آتی..." وہ اس کے غصے سے گھبرا کر تیزی سے اس کی بات کاٹ گئی۔

وہ چند لمحے خاموش اسے دیکھتا رہا۔


"تمہیں تو میں نے کہا تھا اپنے گھر جاؤ.... اثر نہیں ہوتا کسی بات کا تم پر؟" وہ تیکھے تیور لئے بولا۔ دو دن بعد آج اس کا عشال سے سامنا ہو رہا تھا اس لئے اسے موقع ملا گیا تھا اسے ڈانٹنے کا۔

"میں کیسے چلی جاتی؟ آپ خود سوچیں ابراہیم کو چوٹ لگی ہے۔ میرے علاوہ وہ کسی سے کھانا نہیں کھاتا.... پھر دادو نے بھی تو آپ سے۔"

"اچھا تو تم نے شکایت لگائی تھی میری ان سے؟" وہ جو ہاتھ اٹھا کر بول رہی تھی وہ تیزی سے اس کی بات کاٹتا وہی ہاتھ پکڑنے لگا۔

"نہیں نہیں.... میں نے شکایت لگا کر بھلا اپنی موت کو خود دعوت دینی ہے؟ انہوں نے خود ہی آپ کو کہا جو بھی کہا۔" اس کا سر نفی میں حرکت کر رہا تھا۔

وہ اس کی بات پر بے اختیار مسکرانے لگا مگر اگلے ہی لمحے اس پر قابو پاتا کڑے تیور لئے اسے دیکھنے لگا۔


"اب کیوں مجھے ایسے دیکھ رہے ہیں؟" اسے اپنا آپ مجرم معلوم ہو رہا تھا۔

"سوچ رہا ہوں کیا سزا تجویز کروں؟" البتہ اس کا غصہ اب ہوا ہو چکا تھا مگر وہ اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔

"اب کیوں سزا؟ ڈھیروں باتیں بھی سنا لیں.... دو دن سے چھپتی پھر رہی ہوں آپ سے۔ ابھی بھی سزا باقی ہے؟" وہ متحیر سی کہتی منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

"کتنے سال کی ہو تم؟" اسے دیکھ کر احمر کو کسی کم عمر لڑکی کا گمان ہوتا تھا۔

"میں؟" اس نے متعجب سے انداز میں پوچھا۔

"نہیں تمہارے فرشتے.... " اس نے کہتے ہوےُ اس کے سر پر چت لگائی۔

"میرے فرشتے.... " وہ سنجیدہ سی سوچ میں پڑ گئی۔


"میرے ساتھ ہی اس دنیا میں آےُ ہوں گے نہ؟ جتنی میری عمر ہوگی اتنی ہی ان کی بھی ہوگی نہ؟"

وہ ششدر سا اسے دیکھتا رہ گیا جو اس کی اس بات کو سنجیدہ لے چکی تھی۔

"عشال تم اتنی پاگل ہو؟" وہ جیسے بے یقینی کے عالم میں تھا۔

"کیوں بھلا؟" وہ خفیف سی ہو کر نگاہیں چرانے لگی۔

"تمہاری عمر پوچھ رہا ہوں میں ڈفر.... " وہ تاسف سے کہتا آگے بڑھ گیا۔

"اچھا میں.... میں تو چھبیس سال کی ہوں۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ آپ کو کیا لگا میرا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوگا؟" یکدم اس کے دماغ میں جھماکا ہوا تو پلٹ کر اسے دیکھنے لگی جو الماری سے کپڑے نکال رہا تھا۔


"تمہاری حرکتوں سے تو یہی گمان ہوتا.... "

"ہاےُ... نہیں نہیں.... کب کا بنا ہوا شناختی کارڈ میرا۔ ورنہ شادی کیسے...."

"اچھا اب تم اپنا ریڈیو اسٹیشن لے کر جاؤ یہاں سے۔ میرا خیال ہے ابراہیم کو سلانا ہوگا تم نے؟" اس نے وال کلاک کو دیکھتے ہوےُ قیاس آرائی کی۔

"اوہ.... ہاں جی.... تھینک یو مجھے یاد دلانے کے لئے۔" وہ سر پر ہاتھ مارتی تیزی سے دروازے کی سمت بھاگ گئی۔

"ایسا عجوبہ دنیا میں صرف ایک ہی ہوگا... " وہ اس کی باتوں پر مسکراتا نفی میں سر ہلانے لگا۔

•••••••••••••••••••••••

وہ مسکین سی صورت بناےُ مرحا کو دیکھ رہا تھا جو بڑے آرام دہ انداز میں بیڈ پر بیٹھی تھی۔ گود میں لیپ ٹاپ پڑا تھا, جس کے کی بورڈ پر اس کی انگلیاں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔

"اس کو روزہ کیوں نہیں لگ رہا؟ میری تو ابھی سے بس ہو گئی ہے.... " اس نے خالی پیٹ پر ہاتھ رکھتے دل ہی دل میں دہائی دی۔

"شیری ویسے ہم آفس جا کر بھی کام کر سکتے تھے... " وہ اس کی صورتحال سے انجان محو سی بولی۔

"ہرگز نہیں.... تم بھی گھر بیٹھ کر ہی کام کرو گی اور میں بھی۔" وہ جو بھوک کی شدت سے بچنے کے عوض آرام کی آس میں تھا, اپنا منصوبہ خراب ہوتے دیکھ جھٹ سے بول اٹھا۔

اس نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔


"صبح سے تو فارغ بیٹھے ہو تم.... کام تو کر نہیں رہے۔" اس نے گہری نگاہیں اس پر مرکوز کئے اس کا جائزہ لیا۔

"آج کوئی خاص کام نہیں تھا اس لئے...." وہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

"یہ کہیں پانی پینے تو نہیں گیا؟" یکدم مرحا کے دماغ میں جھماکا ہوا تو لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتی تیزی سے باہر نکل گئی۔

"میری بھی نہیں ہے کچن میں... اچھا موقع ہے دو چار گھونٹ پی لیتا ہوں۔" وہ آس پاس دیکھتا فریج کھولنے لگا۔

وہ کسی آندھی طوفان کی مانند اس پر نازل ہوئی۔


"تم... " اس نے ابھی فریج سے پانی کی بوتل نکالی ہی تھی کہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔

"کیا کر رہے ہو یہاں؟" وہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ فریج کے دروازے کے سبب وہ اس کے ہاتھ میں پکڑی بوتل دیکھ نہ سکی۔

"ویسے ہی دیکھنے آیا تھا افطاری کے لئے کیا بنے گا.... آج پہلا روزہ ہے نہ؟" اس نے بوتل اندر رکھتے ہوےُ مسکرانے کی سعی کی۔

"افطاری کا میری سے پوچھو.... فریج میں دیکھنے سے تھوڑی معلوم ہوگا تمہیں۔" وہ مطمئن نہیں ہوئی تو اس کی جانب بڑھنے لگی۔


"میری نظر نہیں آ رہی.... کہاں ہے وہ؟" وہ فریج بند کرتا پورے کچن میں نگاہ دوڑانے لگا۔

"پتہ نہیں مجھے.... لیکن چلو کمرے میں نجانے کیوں مجھے تم پر شک ہو رہا ہے۔" وہ اسے بازو سے پکڑ کر چلنے لگی تو ناچار اسے بھی چلنا پڑا۔

"شک کس چیز کا؟" وہ رک گیا۔

"یہی کہ تم نیچے کچھ کھانے پینے کے لئے آےُ تھے۔ شکل دیکھو ایسا لگ رہا مہینے سے کچھ نہیں کھایا.... " اس نے ایک ہی لحظے میں اس کا جائزہ لے لیا تھا۔


"اب ایسی بھی بات نہیں.... روزہ رکھا ہے تو افطاری سے پہلے کیوں کھانے لگا میں۔" وہ ہنس کر کہتا اس کے ہمراہ چلنے لگا جبکہ اندر ہی اندر کلس رہا تھا۔ مرحا کو اس نے نہیں بتایا تھا کہ وہ ایک عرصے کے بعد روزہ رکھ رہا ہے کہ اسے تو یہی گمان ہو رہا تھا کہ پہلے بھی رکھتا ہوگا۔

"اچھا... پھر ٹھیک ہے۔" وہ مطمئن سی ہو کر زینے چڑھنے لگی۔

"کب اذان ہوگی مغرب کی؟" اس نے ہاتھ پر بندھی گھڑی کو دیکھا جو چار بجانے کا سوچ رہی تھی۔

"سو جاؤ تم اگر کوئی کام نہیں کرنا.... ٹائم جلدی گزر جاےُ گا۔" وہ اپنی جگہ پر واپس بیٹھتی اسے مشورہ دینے لگی۔

"مجھے پھر افطاری کے وقت اٹھا دینا... یہ نہ ہو میں سوتا رہ جاؤں اور تم اکیلی سب کھا جاؤ۔" وہ خفگی سے کہتی بیڈ کے دوسرے کنارے پر لیٹ گیا۔

"کیوں نہیں اٹھاؤں گی میں؟" وہ اس کی حالت سے محظوظ ہوتی مسکرانے لگی۔ وہ آہ بھرتا منہ پر کشن رکھنے لگا۔

••••••••••••••••••••••••

"یہ کیا بنایا ہے تم نے؟" اس نے رول اٹھا کر عشال کے سامنے کیا جو تھوڑا زیادہ فرائی ہو گیا تھا البتہ جلا نہیں تھا۔

"یہ تھوڑا.... آپ یہ دوسرا لے لیں۔" اس نے پلیٹ سے دوسرا رول اٹھا کر اس کی پلیٹ میں رکھنا چاہا مگر اس کا غصہ دیکھ ہاتھ ہوا میں معلق ہو گیا۔

ابراہیم اور فردوس یک ٹک دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

"یہ کھیر کیوں بنائی ہے؟" اس کی نگاہ اب دوسرے باؤل سے جا ٹکرائی۔

"افطاری میں ایسی چیزوں کا بھلا کیا کام.... پتہ نہیں آپ نے اس لڑکی کو اتنی آزادی کیوں دے دی ہے۔" وہ جھنھلا کر کہتا کھڑا ہوا۔

"احمر اس نے.... " فردوس نے اسے بتانا چاہا مگر وہ تیزی سے واک آؤٹ کر گیا۔


عشال سپاٹ انداز میں انہیں دیکھ رہی تھی۔

"ڈیڈی نے کیوں ڈانٹا آپ کو؟" اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ابراہیم نے اس کا دوپٹہ پکڑ کر اپنی جانب متوجہ کیا۔

"نہیں ڈانٹ کر تو نہیں گئے.... " وہ جبراً مسکرائی۔

"آپ جھوٹ بول رہی ہیں.... میں نے دیکھا کیسے غصہ ہو رہے تھے۔ کھیر تو آپ نے میرے لئے بنائی ہے نہ؟" اسے احمر کا انداز ایک نظر نہیں بھایا تھا۔

"کوئی بات نہیں.... آپ شربت ختم کرو پھر آپ کے ٹیوٹر آ جائیں گے۔" وہ متفکر سی کہتی گلاس آگے کرنے لگی۔

"میں ڈیڈی کے پاس جاؤں گا.... " وہ خفگی سے کہتا گلاس پکڑنے لگا۔

"تمہیں معلوم ہی ہے مزاج کا تھوڑا تیز ہے احمر.... " فردوس بھی نادم سی تھیں۔


"کوئی بات نہیں دادو.... مجھے تو عادت ہے۔ سر اول روز سے ایسے ہی تو ہیں۔" اس نے ہنس کر ٹالنا چاہا مگر اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی تھی اسے بھی تکلیف ہوتی تھی احمر کے رویے سے۔

"عشال ابراہیم کے سر آ گئے ہیں.... " ملازمہ عقب سے نمودار ہوئی۔

"اچھا.... چلو ڈرائینگ روم میں۔ آپ کا بیگ وہیں رکھا ہے میں نے۔" وہ نیپکن سے اس کا منہ صاف کرتی ہوئی بولی۔

"اوکے ماما... " وہ مسکراتا ہوا ملازمہ کے ہمراہ چل دیا۔

"دادو سر کی بیوی کی موت کیسے ہوئی تھی؟" وہ ہاتھ میں پکڑے گلاس کو گھور رہی تھی جو لیموں پانی سے بھرا ہوا تھا۔


"وہ بیچاری.... الیکٹرک شاک لگا تھا اسے۔ بڑی کم عمر لکھوا کر آئی تھی وہ.... " وہ سوچتے ہی زنجیدہ ہو گئیں۔

"اوہ.... " اس کے چہرے پر تاسف پھیل گیا۔

"احمر کو بہت پسند تھی وہ.... دونوں ساتھ پڑھتے تھے۔ مگر خدا نے جلد ہی اسے اپنے پاس بلا لیا۔ اس کے جانے کے بعد سے اتنا غصیلہ اور چڑچڑا ہو گیا ہے۔" انہوں نے رازداری سے یوں بتایا گویا کوئی ان کی باتیں سن رہا ہو۔

"وہ تو پھر بلکل آپ کے سٹینڈرڈ سے میچ کرتی ہوگی نہ؟" وہ حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔


"ہاں کافی اچھی فیملی سے تھی۔ مگر ابراہیم کو لینے کوئی بھی نہیں آیا۔ البتہ ہم بھی اسے وہاں بھیجنے کے متحمل نہیں تھے مگر نانا نانی نے تو ایک بار بھی نہیں کہا۔ احمر نے رابطہ ہی ختم کر دیا ان سے۔ بے مروت قسم کے لوگ تھے۔" ان کے چہرے پر پھیلی نا پسندیدگی ان کی کیفیات کی عکاسی کر رہی تھی۔

"امیر لوگوں میں کون ایسے ذمہ داری اٹھاتا ہے بچوں کی؟ انہوں نے تو ملازمہ کے سر پھینک دینا تھا اور خود سیر سپاٹے کرنے تھے۔" وہ ہنکار بھر کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں۔

"تو ابراہیم نے کبھی ضد نہیں کی وہاں جانے کی؟" اس کا تجسس بڑھتا گیا۔


"اس کو یاد ہی نہیں وہ رشتے.... دو سال کا تھا مشکل سے جب اس کی ماں چل بسی۔ شروع شروع میں کہتا تھا نانو گھر جانا مگر اس کے بعد بھول بھلا گیا۔" وہ ٹیشو سے ہاتھ صاف کرتی کھڑی ہو گئیں۔

"نماز کو دیر ہو جاےُ گی.... یہ باتیں تو بعد میں بھی ہو جائیں گیں۔" وہ اسے ساکت دیکھ مسکرانے لگیں۔

"ذہن سے ہی نکل گیا... " وہ سر پر ہاتھ مارتی کھڑی ہو گئی۔

••••••••••••••••••••••

وہ لیپ ٹاپ گود میں رکھے ہوےُ تھا جب مرحا کمرے میں داخل ہوئی۔ دوپٹہ چہرے کے گرد لپیٹے۔ وہ نگاہیں اسکرین سے ہٹاتا اسے دیکھنے لگا جو اب الماری سے جاےُ نماز نکال رہی تھی۔

"مرحا.... " اس نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتے ہوےُ آہستہ سے پکارا۔

"ہممم؟" اس نے جاےُ نماز بچھا کر اس کی جانب دیکھا۔

"عشاء کی نماز کی کتنی رکعت ہوتی ہیں؟" بولتے بولتے اس کی نگاہیں جھک گئیں۔

"تمہیں نہیں معلوم؟" وہ قدرے حیرت سے گویا ہوئی۔

"نہیں... میں بھول گیا ہوں۔ شاید طریقہ بھی۔" وہ ذہن پر زور ڈالتا بیڈ سے اترنے لگا۔


"اس لئے تم نے صبح سے کوئی نماز نہیں پڑھی؟ مجھے لگا شاید مسجد میں جا کر.... " وہ اسے اپنی جانب بڑھتے دیکھ دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ گئی۔

"مجھے بھول گیا ہے.... بتا دو گی؟" اس کے چہرے پر سادگی احاطہ کئے ہوےُ تھی۔

"ہاں میں بتا دیتی ہوں.... " وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی خود صوفے پر بیٹھ گئی۔

پندرہ منٹ بعد وہ اسے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔


"پڑھ لو گے اب؟" وہ اس کی آمادگی کی منتظر تھی۔

"ہاں سمجھ گیا ہوں.... تھینک یو۔" وہ مشکور سا کہتا بازو فولڈ کرنے لگا۔

وہ چند لمحے عجیب نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ شہریار بالوں میں ہاتھ پھیرتا کھڑا ہوا تو اس نے نگاہوں کا رخ موڑ لیا۔

•••••••••••••••••••••••

"ٹھیک ہے پھر میں بھی آپ سے بات نہیں کروں گا.... " وہ منہ پھلا کر سینے پر بازو باندھتا کھڑا ہو گیا۔

"ابراہیم کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ اس کے لئے کیوں ضد کر رہے ہو مجھ سے؟" وہ آنکھوں سے گلاسز اتارتا متحیر سا اسے دیکھتا رہ گیا۔

"کیونکہ آپ نے بہت ڈانٹا ہے ماما کو.... چلیں اب ورنہ میں بلکل بات نہیں کروں گا۔ صبح سکول بھی نہیں جاؤں گا۔" اس نے نروٹھے پن سے کہتے ہوےُ دھمکی میں وزن کی خاطر اس میں مزید اضافہ کر دیا۔

"میں نے ڈانٹا تو نہیں ہے عشال کو.... " وہ اپنے غصے کو چھپانے کی ممکن سعی کر رہا تھا۔

"میرے سامنے ڈانٹا آپ نے.... " احمر کے یوں مکر جانے پر اس کا منہ کھل گیا۔


"چلیں شاباش آپ کمرے میں جا کر سوئیں۔" اس نے اس کی پشت تھپتھپائی۔

"پہلے آپ میرے ساتھ چلیں.... ورنہ میں سوؤں گا بھی نہیں۔" اس کے کترانے کے ساتھ ساتھ اس کی ضد بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

"اچھا یار.... چلو۔" وہ ہاتھ میں پکڑی کتاب سائیڈ پر رکھتا شکست خور سا کھڑا ہو گیا۔

ابراہیم کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس کی انگلی پکڑ کر اس نے تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔


"دادو صبح کے لئے یہ والا سوٹ استری کر دوں؟ آپ نے وہ نیلے گھر والے آنٹی کی طرف جانا ہے نہ؟" وہ الماری کھولے کھڑی تھی۔ ہاتھ میں ہینگر تھا, جس سوٹ کے متعلق وہ فردوس کی راےُ مانگ رہی تھی۔

"ہاں صحیح ہے یہ..... کر دینا۔" انہوں نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوےُ آمادگی ظاہر کر دی۔


"کریں سوری.... " ابراہیم کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا تو عشال اور فردوس کی نگاہیں بیک وقت اس سمت اٹھ گئیں۔

وہ سرد بے تاثر چہرہ لئے عشال کو دیکھ رہا تھا۔

"کیا ہوا؟" احمر کو اپنی جانب متوجہ پا کر وہ تشویش سے بولی۔

"سوری.... " اس نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوےُ کہا۔

فردوس حیرت کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھیں جبکہ ابراہیم مسکرا رہا تھا۔

"ہیں؟" عشال کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔

اس لمحے اسے شدت سے اپنی سماعت پر شبہ ہوا۔


"ڈیڈی نے ڈانٹا تھا نہ آپ کو؟ اس لئے سوری کرنے آئیں ہیں۔" وہ اس کی جانب آتا بتانے لگا۔

"اوہ... " وہ سر ہلاتی نگاہیں ابراہیم سے ہٹاتی احمر پر مرکوز کرنے لگی جو ساکت کھڑا تھا۔

"آپ دوبارہ نہیں ڈانٹیں گے نہ؟ پہلے بھی رو رہی تھیں ماما.... " وہ عشال کا ہاتھ پکڑتا اس کے ساتھ کھڑا ہوتا اسے کو دیکھنے لگا۔


"جی نہیں ڈانٹتا آپ کی ماما کو دوبارہ۔" وہ چبا چبا کر کہتا عشال کو گھور رہا تھا۔

"دادو آج میں نے آپ کے پاس سونا ہے.... مجھے وہ آلہ دین والی کہانی سنائیں۔" وہ ایک ہی جست میں بیڈ پر چڑھ بیٹھا تھا۔

"اچھا چلو پھر تم دونوں جاؤ آج میرا شہزادہ میرے ساتھ سوےُ گا۔" وہ اسے خود میں بھینچ کر باری باری دونوں کو دیکھنے لگیں۔

وہ سوٹ صوفے پر رکھتی چل دی۔

"ابراہیم کو تم میرے خلاف کر رہی ہو؟ یہ پٹیاں تم ہی اسے پڑھاتی ہو نہ؟کون سا جادو کیا ہے اس پر ذرا مجھے بھی بتاؤ؟" وہ کمرے میں آتا ہی اس پر برس پڑا۔

"مہ.... میں نے کیا کیا؟" وہ اس کے الزامات کی بوچھاڑ پر بوکھلا گیا۔

"اتنی معصوم مت بنو.... " اسے مزید غصہ آنے لگا۔

"میں نے کچھ نہیں کہا ابراہیم کو.... مجھے تو پتہ بھی نہیں... "

"ہاں پاگل لکھا ہے نہ میرے منہ پر جو تمہاری ان باتوں پر اعتبار کر لوں گا۔ کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں مجھے بتاؤ؟ میرے بیٹے کو مجھ سے دور کرنے کی غرض سے تم آئی ہو یہاں؟" وہ ایک قدم بڑھاتا اس کی بازو پکڑنے لگا۔

"نہیں نہیں... میں کیوں کروں گی ایسا؟" وہ شش و پنج میں مبتلا اسے دیکھنے لگی کہ کیسے اپنی بات سمجھاتی۔


"تو پھر کیسے وہ دو چار مہینوں میں تمہارے گن گاتا پھر رہا ہے؟ اتنا گرویدہ کیسا بنا لیا تم نے؟ کہ وہ آ کر مجھے کہ رہا ہے کہ تم جیسی لڑکی سے معافی مانگوں؟" وہ آنکھوں میں حقارت لئے درشتی سے بولا۔

آواز پہلے سے بھی بلند ہو گئی۔

"آپ غلط سمجھ رہے ہیں.... میں نے کچھ بھی نہیں کیا خود ہی اس کا لگاؤ ہو گیا میرے ساتھ۔"

"خود ہی.... " اس نے ہنکار بھر کر اس کی بازو چھوڑ دی۔

چہرے پر ہاتھ پھیرتا استہزائیہ ہنسنے لگا۔


"تم بیوقوف ضرور ہو مگر میں نہیں.... لیکن میری ایک بات دماغ میں بٹھا لو کہ اگر تم نے اسے میرے مقابل لا کھڑا کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ انگلی اٹھا کر بولا۔ چہرے مارے غصے کے سرخ ہو رہا تھا۔

"آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں.... " وہ اپنی بازو کے اس حصے پر ہاتھ رکھتی منہ میں بڑبڑائی جہاں کچھ دیر قبل اس کا ہاتھ تھا۔

"کیا کہا؟" وہ جیسے سن نہیں سکا۔ مگر چھٹی حس کہہ رہی تھی کچھ ایسا ویسا ہی بولا ہوگا۔

"آپ نجانے کیوں مجھ سے اتنے بدگمان ہیں۔ مگر میں نے کبھی ابراہیم سے آپ کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی کبھی کروں گی۔" وہ دکھ سے کہتی سر جھکاےُ آگے بڑھ گئی۔

ایک لمحے کے لیے اسے تاسف نے آن گھیرا۔


"یہ لڑکی ہمیشہ مجھے یہ احساس کیوں کرواتی ہے کہ میں نے غلط کیا اس کے ساتھ؟" اس کے چہرے کے تاثرات نے احمر کو الجھا دیا۔ آواز اتنی آہستہ تھی کہ آگے بڑھتی عشال کی سماعت تک رسائی حاصل نہیں کر سکی۔

"عجیب ہی لڑکی ہے یہ.... " وہ کوفت سے کہتا بیڈ سے اپنی کتاب اٹھانے لگا۔

•••••••••••••••••••••••

"یہ کیا ہو رہا ہے شیری؟" وہ دبے پیر چلتی ہوئی کچن کے دروازے میں آئی۔

وہ جو ہاتھ میں بریڈ کا سلائس پکڑے ہوےُ تھا چونک کر اسے دیکھنے لگا۔

"کچھ بھی نہیں... " اس نے ہاتھ پیچھے کر لئے۔

"اس لئے مجھے کہہ رہے تھے آفس چلی جاؤ آج؟" وہ آنکھیں سکیڑتی مشکوک نگاہوں سے دیکھتی آگے بڑھنے لگی۔

"نہیں نہیں.... وہ کل تم بول جو رہی تھی اس لئے میں نے کہا.... تم تو گاڑی میں بیٹھ گئی تھی واپس کیا لینے آئی؟" وہ یاد کرتا جواباً اسے گھورنے لگا۔


"میرا فون رہ گیا تھا روم میں... وہ لینے گئی تھی تم نظر نہیں آےُ وہاں تو میں یہاں آ گئی۔" وہ چاروں اطراف میں نگاہ گھماتی ہوئی بولی۔

"میں تو ایسے ہی آیا تھا.... " وہ کہہ کر ہنسنے لگا۔

"تمہیں اب دیر نہیں ہو رہی؟" اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ شیری نے خفگی سے دیکھا۔

"ہاں ہو رہی...."

"سر باہر بلاول صاحب آئیں ہیں۔" میری کی آواز پر اس کی بات مکمل نہ ہو سکی۔

"بلاول رندھاوا؟" مرحا نے پلٹ کر میری کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"جی میم.... "

"اچھا۔ میں دیکھتا ہوں۔" وہ بریڈ کا سلائس سلیب پر رکھتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

"یہ ہمیشہ بنا بتاےُ کیوں آ جاتا ہے؟" وہ متجسس سی کہتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی۔


"بیٹھیں.... " شہریار مصافحہ کرتا بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا۔

"شیری میں جا رہی ہوں... " وہ لاؤنج میں قدم رکھ کر کہتی رکی نہیں اور دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔

بلاول کو اس نے یکسر نظر انداز کر دیا۔

"ارے آپ کہاں جا رہی ہیں؟ گھر میں مہمان آیا ہے۔" اس نے پلٹ کر ہانک لگائی تو مرحا کے قدموں میں لغزش آئی۔

اس نے پلٹ کر شہریار کو دیکھا جیسا پوچھنا چاہ رہی ہو کیا کرے؟

شہریار نے آنکھوں سے اندر آنے کا اشارہ کیا تو وہ پلٹ آئی۔

"لگتا کوئی ناراضگی ہے.... " وہ گہری نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔

شہریار کی نگاہیں اس کی بے باک نگاہوں سے بے خبر نہیں تھیں۔

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔" وہ آ کر شہریار کے پہلو میں بیٹھ گئی تو اس کے دل کو بھی کچھ ڈھارس ملی۔

"آنے سے پہلے مطلع کر دیتے۔ یا افطاری کے وقت آ جاتے۔" وہ بازو صوفے پر پھیلاتا مطمئن سا بولا, یوں کہ اس کی بازو مرحا کے عقب میں تھی جیسے جتانا چاہ رہا ہو سامنے بیٹھنے شخص کو۔


"افطاری کا اہتمام کیوں کرنا؟ ہم ابھی باہر چلتے ہیں تینوں.... " اس کی نگاہیں سر تا پیر مرحا کا جائزہ لے رہی تھیں جبکہ مخاطب وہ شہریار سے تھا۔

"ہم دونوں کا روزہ ہے شاید آپ کا نہیں۔ اور میں آفس جا رہی تھی۔" اس سے قبل کہ وہ بولتا مرحا نے کھردرے لہجے میں جواب آیا۔

نجانے کیوں اسے فخر محسوس ہو رہا تھا اسے اپنی بیوی بنانے پر۔

"تم رک جاؤ افطاری کر کے چلے جانا۔ تب تک میری مسز بھی واپس آ جاےُ گی۔" اس نے جلانے والی مسکراہٹ لئے مرحا کے گرد بازو حمائل کر لی۔

"نہیں میں اتنی دیر کیا کروں گا.... یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا ملتا چلوں تم دونوں سے۔" اس کے چہرے پر پھیلی ناگواری دونوں کو محظوظ کر رہی تھی۔

"اب ایسے بنا کچھ کھاےُ تو نہیں جانے دوں گا میں۔ مرحا میری سے کہو سافٹ ڈرنک کے ساتھ کچھ بنا لاےُ۔" اس نے کہتے ہوےُ رخ موڑ کر مرحا کے کان میں سرگوشی کی۔

"اچھا۔ اسے کہہ کر میں جاؤں؟ مجھے کام ہے۔" وہ اسے دیکھتی کھڑی ہو گئی۔


"ہاں تم جاؤ... " اس نے مسکرا کر کہتے ہوےُ نگاہیں بلاول پر ٹکا لیں۔

"اور بتاؤ بھابھی کیسی ہیں؟ کبھی ان کو بھی لے آیا کرو۔" وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا بولنے لگا۔

"ہاں لے آؤں گا کبھی.... " وہ ہنکار بھر کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"میں تم دونوں سے ملنے آیا تھا اور تم نے اسے بھیج دیا؟" مرحا کو جاتے دیکھ وہ شکایتی انداز میں بولا۔

"کام کے آگے تو وہ مجھے بھی نہیں دیکھتی۔ اور تم اس سے کیا باتیں کرو گے؟ وہ غیر لوگوں کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہوتی۔"

"ہاں دیکھا ہے میں نے.... " اس کی دلچسپی کا سامان جانے پر وہ ناخوش سا دکھائی دینے لگا۔


"عزیز صاحب سے ملے تھے پھر تم؟" اسے خاموش ہوتے دیکھ شیری نے سہولت سے موضوع کا محور تغیر کر دیا۔

"ہاں گیا تھا.... بتا رہے تھے تمہارے ساتھ کام کرنے کا۔" وہ فون نکالتا بے دلی سے بولنے لگا۔

•••••••••••••••••••••••

"میں اس پاگل کو ساتھ لے کر جاؤں؟ کیا ہو گیا ہے آپ کو دادو؟" وہ سر پر ہاتھ مارتا متعجب سا انہیں دیکھ رہا تھا۔

"دیکھو احمر رمضان ہے اس لئے میں تو نہیں جا سکتی۔ اور منڈے سے ابراہیم کے پیپر شروع ہو جائیں گے۔ اس لئے تم دونوں کو ہی جانا پڑے گا اب۔" وہ حتمی انداز میں بولیں۔

"میں نہیں لے جا رہا اسے.... آپ معذرت کر لیں ماموں سے۔" اس نے گویا بات ہی ختم کر دی۔

"لو بھلا اچھا لگتا ہے میں معذرت کر لوں؟ اور کیا جواز پیش کروں تمہارے نہ جانے کا؟" انہوں نے الٹا سوال داغا۔

"کچھ بھی کہہ دیں مگر مجھے نہیں پتہ میں اس بیوقوف کو ساتھ نہیں لے جا رہا۔" اس نے تڑخ کر کہتے ٹہلنا شروع کر دیا۔


"اصغر نے خاص ہدایت کی ہے کہ عشال کو بھی بھیجیں۔ کوئی ملا نہیں ہے اس سے۔ ولیمہ بھی اتنی سادگی سے تم نے کیا چلو اسی بہانے سب سے تعارف ہو جاےُ گا اس کا۔" انہوں نے اب نرمی سے قائل کرنا چاہا۔

"ضرورت ہی کیا ہے اس کے تعارف کی؟ صرف ابراہیم کی وجہ سے... "

"ابراہیم وجہ ہو یا کچھ بھی۔ بیوی تو ہے نہ اب وہ تمہاری؟ تو اسے اس کا مقام بھی دو۔ کب تک کتراتے رہو گے اس سے؟ وہ اگر کچھ کہتی نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے تکلیف نہیں ہوتی یا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔"

وہ فردوسفردوسکی بات سنتا ہنکار بھر کر کھڑکی کے سامنے آ رکا۔


"بیوی ہے تمہاری....بھلے تمہیں ناپسند ہو۔ مگر کم از کم دنیا کے سامنے تو اسے تسلیم کرو۔ اور اگر انکار کرنا ہے تو خود اپنے ماموں کو فون کر کے کہہ دو۔ میری جانب سے کوئی ایسی توقع مت رکھنا تم۔" انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا اور بے رخی سے چہرہ پھیر لیا۔

وہ ہارے ہوےُ انداز میں انہیں دیکھنے لگا جیسے تمام دلائل دم توڑ چکے ہوں۔

"عجیب ہی کوئی مصیبت ہے.... " وہ کوفت سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

•••••••••••••••••••••••

"جب سے شادی ہوئی ہے آج شکل دکھا رہی ہو... بھول گئی ہو ہمیں اس بڑے سے گھر میں جا کر؟" نصرت خفا خفا سی بوتل کھول رہی تھیں۔

"آپ سب کو کیسے بھول سکتی ہوں میں؟ بس آپ کو معلوم ہی ہے ابراہیم میرے بغیر نہیں رہتا اس لئے سارا دن مصروفیت میں نکل جاتا۔ اب بھی اس لئے ملنے آ گئی کہ شادی پر جانا ہے۔ دو چار دن لگ ہی جائیں گے۔" وہ انہیں اپنے ساتھ لگاتی محبت بھرے انداز میں بولی۔

"شادی کس کی؟ بھلا رمضان میں بھی کوئی شادی کرتا ہے؟" نصرت اس سے الگ ہوتی گلاس میں بوتل ڈالنے لگی۔


"سر کے ماموں کی بیٹی کی, وہ دراصل لڑکا آسٹریلیا رہتا ہے صرف بیس دن کی چھٹی پرپرآیا ہے اس لیے کرنا پڑ رہی۔ ورنہ دادو بتا رہی تھیں عید کے بعد کا ارادہ تھا ان کا.... اور کراچی جانا ہے۔ دو دن تو سفر میں گزر جانے۔" وہ متفکر سی کہتی اردگرد نگاہ دوڑانے لگی۔

"کوئی نظر کیوں نہیں آ رہا؟"

"وہ زمر حماد کے ساتھ گئی ہے سامان لینے اور تمہارے تایا ابو افطاری کر کے پھر سے آفس چلے گئے۔" وہ گلاس اس کے آگے کرتی بتانے لگیں۔

"کب تک آئیں گے وہ دونوں؟ میں سوچ رہی تھی سب سے ملوں گی۔ اتنا یاد کر رہی تھیں میں آپ لوگوں کو؟" وہ افسردگی سے کہتی گلاس اٹھانے لگی۔

"اگر راستے میں ان کی لڑائی نہیں ہوئی تو جلدی آ جائیں گے ورنہ تو.... " وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ گئیں۔


"امی ان دونوں کی شادی کرا دیں.... دیکھنا کتنا مزا آتا۔" وہ ایسے ہی بے دھیانی میں بول گئی۔

"یہاں جنگیں شروع ہو جانی ہیں جو ان دونوں کا حال ہے۔ اچھا تم بوتل پئیو میں فون کرتی ہوں اسے کہ جلدی آ جاےُ۔ پتہ پیٹرول بھی کتنا مہنگا ہے تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ایسے واپس آ جاؤ۔" وہ مسکین سی صورت بناےُ سامنے شیلف سے اپنا فون اٹھانے لگیں۔

"ہاں مجھے معلوم ہے سب.... آپ اسے کہہ دیں کہ جلدی جلدی لے جو سامان لینا ہے پھر ڈرائیور آ جاےُ گا۔" وہ گلاس لبوں سے ہٹاتی ہوئی بولی۔

"ہاں ایسے ہی کہتی ہوں.... " وہ فون کان سے لگاتی سر اثبات میں ہلانے لگیں۔

••••••••••••••••••••••

"یہ مجھے اغوا کر کے کہاں لے جایا جا رہا ہے؟" وہ اس کی جانب منہ کر کے بیٹھتی اشتیاق سے پوچھنے لگی۔

"کتنے دن ہو گئے ہم کہیں باہر نہیں گئے۔" اس کی نگاہیں سامنے سڑک پر تھیں۔

"مشکل سے ایک ہفتہ ہوا ہوگا.... کتنے دن۔" مرحا نے منہ بناتے ہوےُ اس کی بازو پر مکا مارا۔

"مجھے تو ایسا ہی لگ رہا.... اور خود روز آفس چلی جاتی ہو, صبح بھی اور افطاری کر کے بھی۔" وہ نا خوش دکھائی دے رہا تھا۔

"کام کون کرے گا؟" وہ اس کے معصومانہ شکایتی انداز پر بے اختیار مسکرانے لگی۔

"تمہارا ابا.... " وہ اسے تنگ کرنے کو بولا۔


"تمیز سے مسٹر شہریار۔" اس نے گھورا جبکہ اس بات سے واقف تھی کہ وہ اسے دیکھ نہیں رہا۔

یکدم اس نے بریک لگا دی۔

اس کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتا بال بال بچا۔

"پاگل ہو تم؟" وہ بال پیچھے کرتی اس کی جانب گھومی۔ پیشانی پر تین لکریں نمایاں تھیں۔

"مرحا...." وہ بولتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"کیا ہے؟" اسے شیری کے اس انداز سے کسی گڑبڑ کا اندیشہ ہوا۔


"آئم ان لو ود یو.... " اس نے مدھم سی آواز میں سرگوشی کی۔ ہوا کی آواز میں اس کی اس مبہم سی آواز نے ارتعاش پیدا کیا۔

وہ پوری آنکھیں کھولے, ان میں بےیقینی کے ساےُ لیے اسے دیکھنے لگی۔

"مجھے نہیں معلوم.... کب کیسے یہ ہوا.... لیکن میں چاہتا ہوں اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ تمہاری سنگت میں گزاروں۔ تمہارے نام کرنا چاہتا ہوں ان سانسوں کو۔" اس نے کہتے ہوےُ اس کے بائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔

اس کے چھونے پر وہ اس ٹرانس سے جیسے باہر نکلی۔

"مذاق مت کرو میرے ساتھ.... " مرحا نے اپنا ہاتھ نکالا چاہا مگر اس نے اجازت نہیں دی۔


"میں کیوں کروں گا ایسا مذاق؟ مجھے ضرورت ہی کیا ہے مرحا ایسے مذاق کی بتاؤ؟" وہ رنج سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی بات نے شہریار کو ہرٹ کیا تھا۔

"تم جیسے انسان کو کسی کو محبت نہیں ہو سکتی, جس کا ہر مہینے کسی نہ کسی پر دل آیا ہو۔ مجھے نہیں معلوم تم کیوں یہ اول فول بولے رہے ہو مگر...."

شہریار کی انگلی اس کے ہونٹوں پر آئی تو اس کی بات بیچ میں رہ گئی۔

"میں مانتا ہوں ایسا ہی انسان ہوں میں جیسا نقشہ تم کھینچ رہی ہو۔ مگر میں خود بھی ناواقف ہوں اس بات سے۔ اگر مجھے کچھ معلوم ہے تو بس اتنا کہ مجھے تم ہر لمحہ اپنے ساتھ چائیے ہو۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا حکم صادر کرنے لگا۔


"اچھا.... گھر چلیں اب ہم؟ میں بہت تھک گئی ہوں۔" اسے اب بھی اعتبار نہیں تھا شیری کی باتوں پر اس لئے بحث سے گریز کیا۔

"یار میں تم سے.... "

"شیری پلیز میں تھک گئی ہوں۔" اس کی گرفت ڈھیلی ہوتے دیکھ اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکال لیا۔

وہ سر ہلاتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا جبکہ وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنے لگی تھی شاید مقصد اسے نظر انداز کرنا تھا۔

•••••••••••••••••••••••

"اس ہوٹل میں رہیں گے ہم؟" وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔ دسویں فلور پر ہونے کے باعث اونچائی کافی تھی, اور نیچے نظر آتے پول نے اس منظر کو مزید دلکش بنا دیا تھا۔

"ہاں ظاہر ہے روم لے کر یہاں آےُ ہیں تو اور کہاں رہیں گے؟ اتنی سی بھی عقل کام نہیں کرتی یا تمہیں کوئی مسئلہ ہے؟" وہ بیگ ٹٹول رہا تھا۔ لہجہ اکتاہٹ بھرا تھا۔

"نہیں مجھے کیوں مسئلہ ہونا؟ دراصل ہمارے ہاں کسی کی شادی میں جاتے ہیں نہ تو ان کے گھر میں رہتے ہیں اس لئے پوچھ رہی تھی۔" وہ آسمان پر پھیلے نیلے سفید رنگ کو دیکھ رہی تھی۔

"یہ شادی تمہارے اس گھر کی شادیوں کی طرح نہیں... ہمارے یہاں کی ہے ہمارے طریقے سے ہے۔" نہایت بے رخی سے جواب آیا۔


"اچھا جی مجھے بھی پتہ تھا ویسے...." وہ اس کے انداز پر چڑ کر بولی۔ اسے ہتک سی محسوس ہونے لگی تھی۔

"لگتا تو نہیں تمہیں دیکھ کر۔" اس نے سر اٹھا کر آنکھیں سکیڑیں۔

"ہاں آپ کو خود سے ہی سارے الہام ہو جاتے ہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ بندے کے دماغ میں کون سی کھچڑی پک رہی ہے... کچھ زیادہ ہی سمجھ ہے نہ آپ کے پاس۔" وہ بھنا گئی۔


"کچھ زیادہ ہی زبان نہیں چل رہی تمہاری آج؟" وہ ہاتھ میں پکڑی شرٹ وہیں بیگ پر چھوڑتا آگے بڑھا۔

"آپ بھی تو ہر وقت رعب جھاڑتے رہتے ہیں۔ میری کم عقلی کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں یا میری غربت کے۔" وہ ہرٹ ہوئی تھی اور اس کے لفظوں کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی اس بات کی گواہی دے رہی تھیں۔

وہ چند لمحوں کے لئے ساکت ہو گیا۔ زبان کنگ ہو گئی۔

"مانا آپ کی طرح بہت پیسہ نہیں ہے ہمارے پاس مگر پیسوں پر غرور کیسا؟ یہ تو ﷲ کی مرضی ہے وہ جسے چاہے عطا کرے۔" اسے خاموش دیکھ کر وہ پھر سے گویا ہوئی۔

وہ اسے ندامت کے گڑھے میں دھکیل رہی تھی۔

"شکر کیا کریں اس رب کا... " وہ ایک تاسف بھری نگاہ اس پر ڈالتی پلٹ گئی۔

وہ ابھی تک شاک تھا اس کی باتوں پر۔

جب کوئی بات نہ بن پائی تو وہ بنا لب کھولے کمرے سے باہر نکل گیا۔

••••••••••••••••••••••

"ڈرائیور بتا رہا تھا کہ اس نے بلاول کو تمہارے آفس سے نکلتے دیکھا...."

وہ اسے آتے دیکھ صوفے سے کھڑا ہو گیا۔

"کب؟" وہ رک کر اسے دیکھنے لگی۔

"ابھی کچھ دیر قبل۔ نہیں آیا تھا وہ؟" وہ چلتا ہوا اس کے مقابل آ گیا جو صوفے سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔

"ہاں آیا تھا.... ڈرائیور مجھے ابھی لے کر آیا ہے تو اس نے تمہیں...." وہ پر سوچ انداز میں کہتی بات ادھوری چھوڑ گئی۔

"فون پر بتایا اس نے؟"

اس نے اپنا ادھورا جملہ مکمل کرتے ہوےُ اس کی جانب دیکھا۔

"کس لئے آیا تھا وہ؟ تم نے اسے اندر داخل ہونے ہی کیوں دیا؟" اس کے چہرے پر ناگواری احاطہ کئے ہوےُ تھے۔ آنکھوں سے غصے کی چنگاریاں نکلتی بھی دکھائی دے رہی تھیں۔


"میں آفس کے گیٹ پر نہیں بیٹھی ہوتی مسٹر شہریار۔ اور جب وہ اندر آیا تبھی مجھے معلوم ہوا۔"

"کس لئے آیا تھا وہ؟" اس نے خود ہی اس بات کو پس پشت ڈال کر دوسری جانب آ گیا۔

"کوئی جواز بھی نہیں تھا.... بلاوجہ منہ اٹھا کر آ گیا جیسی اس کی عادت ہے۔" مرحا کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے بھی بلاول کی آمد گراں گزری ہے۔

"آئیندہ اسے اندر بھی مت آنے دینا... گارڈ کو مطلع کر دو۔" وہ تحکمانہ انداز میں کہتا پلٹ گیا۔

"اچھا.... تم آفس گئے تھے؟" اس نے بیگ وہیں صوفے پر رکھ دیا۔ تنے ہوےُ اعصاب اب ڈھیلے پڑ چکے تھے۔

"گیا تھا لیکن دوپہر میں ہی آ گیا..... کب تک کام ختم ہوگا تمہارا؟" وہ جا کر بڑے صوفے پر براجمان ہو گیا۔


"میں کوشش کر رہی ہوں آٹھ دس دن تک ختم کر دوں۔ میری پانی... " وہ بولتی ہوئی صوفے پر بیٹھے ہی لگی تھی کہ شیری کی آواز پر ساکت ہو گئی۔

"روزہ نہیں تمہارا... " جھٹ سے جواب آیا۔

"اوہ ہاں... " اس نے سر پر ہاتھ مارا۔

"میں تھوڑی دیر آرام کروں گی۔ افطاری میں ابھی ٹائم ہے۔" وہ بیگ اٹھا کر سیڑھیوں کی سمت بڑھ گئی۔

"یہ اب کیوں مرحا کے گرد چکر لگا رہا ہے؟ اتنا تو یقین ہے باقی دونوں دھوکے باز بیویوں کی مانند تم اس کے جال میں نہیں پھنس سکتی۔ پھر کیوں پیچھے نہیں ہٹ رہا وہ؟" وہ ہونٹوں پر انگلی رکھے پرسوچ انداز میں بولا۔

"نجانے کیا چل رہا ہے اس کے دماغ میں۔" جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو فون اٹھاتا اپنا دھیان بٹانے لگا۔

•••••••••••••••••••••••

"کتنی دیر لگے گی تمہیں مزید؟" دروازہ دھاڑ کی آواز کے ساتھ کھلا تھا۔

احمر چہرے پر اکتاہٹ لئے ہوےُ تھا۔

"وہ میرا ائیر رنگ کہیں گر گیا ہے.... " وہ گھٹنے زمین پر رکھے ہوےُ تھی۔ اس کی آواز پر سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔

چند لمحے وہ ساکت رہ گیا۔ میک اپ آرٹسٹ نے اسے بلکل متغیر کر دیا تھا۔

سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹ, اس کی صاف رنگت پر قہر ڈھا رہے تھے۔ سیاہ بال کھول کر شانوں پر پھیلا رکھے تھے, سیاہ رنگ کے اس کامدار لباس میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔

"رہنے دو اسے کوئی اور پہن لو... " اس نے جھرجھری لیتے ہوےُ نگاہیں اس کے سراپے پر سے ہٹائیں۔


"کوئی اور کیسے پہن لوں؟" وہ الجھ کر کہتی کھڑی ہو گئی۔

"بس پہن لو اور چلو.... پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے ہمیں۔" اس نے خفگی سے عشال کو دیکھا۔

"اچھا پھر ایک کام کر دیں گے؟" وہ آنکھوں میں التجا لئے, لبوں پر مسکراہٹ سجاتی اس کی جانب بڑھی۔

"کیا؟" اس کے انداز پر احمر نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔

"یہ نیکلس کھول دیں تاکہ میں کوئی دوسرا پہن سکوں.... " اس نے ہاتھ پیچھے لے کر جا اس کے ہک کی جانب اشارہ کیا۔

"اب یہی کام رہ گیا ہے مجھے؟" اس نے احتجاجاً آواز بلند کی۔

"دادو ہیں نہیں یہاں.... اور وہ میک اپ آرٹسٹ بھی چلی گئی ہے۔ میں کیسے کھولوں سر؟" وہ چہرے پر معصومیت لئے اسے دیکھنے لگی۔


"اچھا... " اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا تو وہ اس کی جانب پشت کر کے کھڑی ہو گئی۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی گردن سے بال ہٹاےُ۔ وہ دونوں ہاتھ اس کی گردن پر رکھے نیکلس کے لاک کو کھولنے لگا۔

"جلدی کرو اب.... " جونہی لاک کھلا وہ سرعت سے پیچھے ہو گیا۔

"اچھا... " وہ سر ہلاتی دراز کھولنے لگی۔

وہ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کو بلا مقصد اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

وہ ائیر رنگ پہن کر اب اس دوسرے نیکلس کو دیکھنے لگی۔

"کیسے پہنوں اب میں؟" اس نے گردن کے ساتھ نیکلس کو لگاتے ہوےُ ہاتھ پیچھے لے کر جا کر اس کا لاک بند کرنے کی سعی کی مگر ناکام رہی۔

"سر.... " وہ اسی طرح ساکت کھڑی اسے پکارنے لگی۔

"اب کیا ہے؟" وہ بیزار سا اس سمت دیکھنے لگا۔


"یہ بند تو کر دیں... " وہ آئینے میں اس کے عکس کو دیکھ رہی تھی۔

"عجیب مصبیت گلے ڈال دی ہے میرے...." وہ منہ میں بڑبڑاتا آگے بڑھا۔

"میں نے تو نہیں کہا تھا مجھے ساتھ لانے کو... " اس نے دکھ سے کہتے ہوےُ سر جھکا لیا۔

"مگر آ تو گئی ہو نہ پھر بھی.... " وہ برہمی سے کہتا اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا مگر جونہی نگاہ اس کے چہرے پر پھیلی افسردگی پر پڑی غصہ کہیں ہوا میں ہی معلق ہو گیا۔

"آپ منع کر دیتے دادو کو... ویسے بھی تو سارے فیصلے آپ ہی لیتے ہیں اس گھر کے۔" وہ نگاہیں اٹھا کر شکایتی انداز میں اسے دیکھنے لگی۔ آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئی تھیں۔

"منع کیا تھا.... مگر.... " اس نے ہنکار بھر کر اس کے ہاتھ سے نیکلس پکڑ لیا۔

"پتہ نہیں کیا بنے گا میرا.... " عشال نے آئینے میں خود کو اور اس سرد مہر انسان کو دیکھتے دل ہی دل میں آہ بھری۔

•••••••••••••••••••••••

"اوکے بابا میں چلتی ہوں... " وہ بیگ شانے پر ڈال رہی تھی۔

"ٹھیک ہے بیٹا جاؤ میں یہ پیچ مکمل کر لوں گا۔" وہ مرحا کی کرسی پر براجمان تھے۔

"شیری بار بار پوچھ رہا ہے مجھ سے.... آپ تھوڑا جلدی کام کروائیں۔" وہ متفکر سی کہتی میز سے اپنا فون اٹھانے لگی۔

"ہاں میں کوشش کرتا ہوں... " انہوں نے مسکراتے ہوےُ سر اثبات میں ہلایا تو وہ دروازے کی سمت بڑھ گئی۔

ڈرائیور کے ساتھ کھڑے شخص کو دیکھ اس کی پیشانی پر تین لکریں نمودار ہوئیں۔

"یہ یہاں پھر سے؟" وہ متعجب سی منہ میں بڑبڑاتی قدم اٹھانے لگی۔

"چلیں... " اس نے ڈرائیور کی توجہ کی خاطر ذرا بلند آواز میں کہا کیونکہ ان دونوں افراد کی اس کی جانب پشت تھی۔


"جی میڈم.... لیکن سر بلاول... " اس نے پلٹ کر اسے دیکھتے ہوےُ بات ادھوری چھوڑ دی۔

"کیا؟" اس نے سپاٹ انداز میں دائیں آبرو اچکائی۔

"کیسی ہو مرحا؟ اس دن دعوت کا کوئی جواب نہیں دیا تو میں نے سوچا میں خود ہی حاضر ہو جاؤں۔" اس کے بے تکلفانہ انداز پر وہ زچ ہو گئی۔

لب سختی سے بھینچ رکھے تھے۔

"سر بلاول کہہ رہے ہیں کہ آپ کو فارم ہاؤس چھوڑنا ہے۔ سر شہریار بھی وہیں ہیں۔" اسے بت بنے دیکھ ڈرائیور نے مداخلت کی۔

"مجھے تو شیری نے ایسا کچھ نہیں کہا.... " وہ اچنبھے سے کہتی فون پر انگلی چلانے لگی۔


"شیری نے تمہیں کیا کہہ کر بھیجا ہے؟" بلاول ڈرائیور کے شانے پر ہاتھ رکھتا آہستہ سے بولا۔

"سر نے آپ کو فارم ہاؤس آنے کا بولا ہے.... " اس نے تائید کی مگر اس کے باوجود مرحا نے فون کان سے لگا لیا۔ بیل جا رہی تھی مگر وہ ریسیو نہیں کر رہا تھا۔

"اتنی بے اعتباری کیوں مسز شہریار؟ دیکھیں میں تو آپ کا تھپڑ بھی فراموش کر چکا ہوں۔"

"بھولیں مت آپ نے میرے ساتھ کیا کیا تھا پہلی پارٹی میں.... " وہ کاٹ دار لہجے میں کہتی فون کان سے ہٹانے لگی۔


"میڈم سر نے مجھے کہہ کر بھیجا ہے... " وہ جو نمبر ملا رہی تھی ڈرائیور کے کہنے پر آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جیسے سوال کر رہی ہو۔

"تو آپ شیری کے ساتھ کیوں نہیں گئے؟ اور آپ کی گاڑی کہاں ہے؟" اس نے اپنی گاڑی کی جانب دیکھا اور پھر بلاول کو۔

"دو لوگوں کے لئے دو گاڑیاں لے جانے کا کیا مقصد؟ میں نے ڈرائیور کو واپس بھیج دیا۔" اس نے ہنستے ہوےُ جواب دیا۔ مرحا کو اس کی ہنسی بھی اسی کی مانند زہر لگ رہی تھی۔

"ویسے اب چلنا چائیے دیر ہو جاےُ گی۔ کیونکہ راستے میں بھی ٹائم لگے گا۔" اس نے ایک بار ڈرائیور کو اور ایک بار مرحا کو دیکھا۔

"اچھا... " مرحا نے ڈرائیور کو دیکھتے ہوےُ جواب دیا تو وہ دونوں پلٹ گئے۔


"شیری فون کیوں نہیں اٹھا رہا.... " وہ گاڑی میں بیٹھتی کوفت سے بولی۔

"جس انسان کی شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا اس کی دعوت کو کیوں قبول کر لیا اس نے.... " وہ فون کی اسکرین کو گھور رہی تھی۔ بلاول کے فرنٹ سیٹ پر ہونے کے باعث وہ یہ کہہ نہ سکی بس اندر ہی اندر کلس کر رہ گئی۔

گاڑی شہر کی مصروف شاہراہ پر دوڑ رہی تھی اس نے پھر سے فون کان سے لگایا مگر جواب ندارد۔

"نجانے کہاں پھینکا ہوتا ہے تم نے اپنا فون... " اس نے جھنجھلا کر کہتے ہوےُ فون سیٹ پر اچھال دیا۔

•••••••••••••••••••••••

وہ دروازہ بند کر کے گھڑی اتارنے لگا۔

سائیڈ ٹیبل پر گھڑی رکھتے ہوےُ اس کی نگاہ عشال سے جا ٹکرائی جو سو رہی تھی۔

"یہ ابھی تک سو رہی ہے.... " اس نے قدرے حیرت سے کہتے ہوےُ وال کلاک کی جانب دیکھا جہاں شام کے چار بج رہے تھے۔

"چھ بجے ہم نے نکلنا ہے اور اس کو کوئی ہوش ہی نہیں.... " وہ خائف سا ہو کر چلتا ہوا بیڈ کی دوسری سمت آ گیا۔

"عشال.... " اس نے بلند آواز میں اسے پکارا مگر اس کے وجود میں کوئی حرکت نہیں آئی۔

"عشال اٹھو.... ٹائم تو دیکھو۔ پتہ نہیں یہ لڑکی اتنی لاپرواہ کیوں ہے؟" وہ تپ کر کہتا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

چند لمحے یونی سرک گئے۔ اس نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"عشال.... " اس نے اس کی بازو ہلائی مگر جونہی تپش کا احساس ہوا باقی لفظ حلق میں ہی دم توڑ گئے۔


"اسے تو بخار ہے... " اس کا ہاتھ تیزی سے اس کی پیشانی تک گیا۔

"عشال اٹھو.... " وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ کر اس کا چہرہ تھپتھپانے لگا۔

اس کی پلکوں میں جنبش آئی۔ اس نے تھوڑی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر سے آنکھیں موند لیں۔

"تمہیں بخار ہے.... چلو کسی ڈاکٹر کو چیک کروا لیں۔" اس کے چہرے سے فکر نمایاں تھی۔

"مجھے نہیں جانا.... " اس نے نروٹھے پن سے کہتے ہوےُ آنکھوں پر بازو رکھ لی۔

"شام میں نکلنا ہے ہم نے.... ایسے کیسے اتنا سفر کرو گی؟ اٹھو اب۔" اب کہ اس نے رعب دار آواز میں کہا تو وہ ہاتھ ہٹاتی اسے دیکھنے لگی۔

"میں چلی جاؤں گی ایسے ہی.... " وہ کہتی ہوئی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگانے لگی۔

"ایسے نہیں.... بخار تیز لگ رہا ہے۔ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں اٹھو۔" اس کے اس متفکر انداز پر وہ تمسخرانہ انداز میں مسکرائی۔


"میں نہیں جانا... انجیکشن لگا دینا ڈاکٹر نے۔" اس نے منہ بنایا۔

"چھوٹی بچی ہو تم؟" اس نے آنکھیں سکیڑیں۔

"بیشک نہیں ہوں.... لیکن مجھے ڈر لگتا ہے انجیکشن سے۔"

"ضد مت کرو اور چلو میرے ساتھ۔" وہ دو ٹوک انداز میں کہتا کھڑا ہو گیا۔

"کیوں لے کر جا رہے ہیں مجھے ڈاکٹر کے پاس؟ آپ کے پیسے ضائع ہو جائیں گے۔" وہ طنزیہ انداز میں کہتی مبہم سا مسکرائی۔

"فضول گوئی میں بھی مہارت رکھتی ہو تم تو... " اس نے کہہ کر ہنکار بھری۔ عشال کی بات اسے پسند نہیں آئی تھی۔

"رہنے دیں مجھے یہیں.... بخار زیادہ ہوگا تو خود ہی مر ور جاؤں گی۔"


"پاگل ہو تم؟" وہ اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔

"میں نہیں جانا ڈاکٹر کے پاس۔" اس نے منمناتے ہوےُ سر جھکا لیا۔

"آئم سوری.... کل رات مجھے ایسے ڈانٹنا نہیں... "

"آپ نے کون سا پہلی بار مجھے سنایا ہے ایسے۔" وہ زخمی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

وہ سانس خارج کرتا اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"میری نیت تمہیں ہرٹ کرنے کی نہیں تھی۔" ندامت کے باعث اس کا سر جھکا ہوا تھا۔

"جان بوجھ کے نہیں گرائی تھی آپ کی گھڑی میں نے.... ڈریسنگ پر رکھنے لگی تھی تو ہاتھ سے پھسل... "

احمر نے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس کی بات ادھوری رہ گئی۔

آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اس نے تعجب سے احمر کو دیکھا۔


"میں شاید زیادہ غصہ ہو گیا تم پر...." وہ انگوٹھے سے اس کا ہاتھ سہلا رہا تھا۔

"بہت زیادہ.... اتنی باتیں سنائیں آپ نے مجھے۔" وہ سوں سوں کر رہی تھی۔

اس کے اشک احمر کو مزید ندامت کے کنویں میں نیچے دھکیل رہے تھے۔

"آئم سوری.... "

"اتنی بری لگتی ہوں میں آپ کو؟ جبکہ میں... "

"نہیں... ایسا نہیں ہے۔" اس کے اس معصومانہ سوال پر اس کا ہاتھ بے ساختہ اٹھا اور اس کے رخسار سے آنسو صاف کرنے لگا۔

وہ ششدر سی رہ گئی۔

"سوری کر تو رہا ہوں میں... " وہ خفیف سا ہو گیا۔

"اچھا... " اس نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔


"چلو اب ڈاکٹر کے پاس چلیں... چھ بجے نکلنا ہے پھر۔" وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا کھڑا ہو گیا۔

"پھر آپ اسے کہیں گے کہ انجیکشن نہ لگاےُ؟" اسے پلٹتے دیکھ عشال نے دونوں ہاتھ سے اس کی دائیں بازو پکڑ لی۔

اس نے ایک نظر اس کے ہاتھوں کو اور پھر ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا۔

لب دھیرے سے مسکرانے لگے۔ اس لمحے اسے دیکھ کر واقعی کسی چھوٹی بچی کا گمان ہو رہا تھا اس کو۔

"اچھا کہہ دوں گا.... "

"پکا؟ بس دوائی دے دے۔ وہ بھی پتہ نہیں کیسے کھانی ہے۔" اس نے گندا سا منہ بنایا۔ اس کی بازو پر گرفت ابھی تک مضبوط تھی۔

"ہاں پکا... اب چلیں ورنہ دیر ہو جاےُ گی اور اگر میں بولا تو پھر رونے بیٹھ جاؤ گی۔" وہ مصنوعی خفگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"اچھا بس ایک منٹ.... " وہ اس کی بازو چھوڑتی سلیپر پہننے لگی۔

•••••••••••••••••••••••

"کہاں ہے شیری؟" وہ اندرونی دروازہ عبور کرتے ہی بول اٹھی۔

"شاید اندر کمرے میں ہو.... " بلاول طمانیت سے کہتا آگے بڑھا۔

"اچھا میں یہیں انتظار کر رہی ہوں آپ اسے بلا لیں... " وہ اس لیونگ روم کو دیکھتی آگے نہیں بڑھی۔

"اچھا.... " وہ اتنا سا کہہ کر بائیں جانب راہداری میں مڑ گیا۔

"چارجر بھی نہیں ہے.... " وہ ہاتھ میں پکڑے اپنے ڈیڈ فون کو دیکھتی کوفت سے بولی۔

"کہاں ہے شیری؟" اسے تنہا واپس آتے دیکھ مرحا کو خدشہ لاحق ہوا۔ اس کی چھٹی حس بیدار ہوئی۔


"اندر بیٹھا ہے وہ... تمہیں اندر بلا رہا ہے۔" وہ چہرے پر بلا کی سنجیدگی لئے ہوےُ تھا۔

"نہیں... ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔" اسے خطرے کی بو آ رہی تھی جس کے سبب اس نے الٹے قدم اٹھانے شروع کر دئیے۔

"کہاں جا رہی ہو؟" وہ اسے دروازے کی سمت بڑھتے دیکھ اس کے پیچھے بھاگا۔

"مجھے یہاں نہیں آنا چائیے تھا..." وہ متوحش سی کہتی اندرونی دروازے سے باہر نکل آئی مگر گیٹ خاصا دور تھا کہ وسط میں وسیع پیمانے پر پھیلا باغ تھا۔

"ڈرائیور جا چکا ہے اس لئے اگر تم گیٹ تک پہنچ بھی جاتی ہو تو یہاں سے بھاگ نہیں سکو گی۔" وہ سرعت سے آگے بڑھتا اس کی بازو دبوچ کر بولا۔

"چھوڑو مجھے.... " وہ اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی۔


"اتنی آسانی سے نہیں مس مرحا.... " اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ دیکھ مرحا کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ یہاں آ کر اس نے کتنی بڑی کوتاہی کر دی تھی اس بات کا احساس اسے اس لمحے شدت سے ہو رہا تھا۔ سر دم بخود نفی میں حرکت کرنے لگا۔

وہ کسی شے کی مانند اسے گھسیٹتے ہوےُ واپس اندر لے جانے لگا جبکہ وہ مسلسل مزاحمت کر رہی تھی۔

"میں کہہ رہی ہوں چھوڑو مجھے جاہل انسان.... " جونہی وہ دروازے سے اندر داخل ہوےُ اس نے چلاتے ہوےُ اپنی بازو اس کی فولادی گرفت سے آزاد کروا لی۔

"بکواس بند رکھو اپنی... " اس نے ایک زور دار تھپڑ اس کے رخسار کی زینت بنا دیا۔ وہ جو جھٹکے سے بازو آزاد کروانے پر ابھی سنبھلی نہیں تھی کہ اس غیر متوقع حملے سے زمین بوس ہو گئی۔

"شیری کی دونوں بیویاں بڑی سہولت سے میرے پاس آ گئی تھیں مگر تم تو..." اس نے گھٹنا زمین پر رکھتے ہوےُ جھک کر اس کا حجاب پکڑ کر سر اوپر اٹھایا۔

وہ آنکھوں میں نفرت اور کراہیت لیے ہوےُ تھی۔

"ایک گھنٹہ میں دے رہا ہوں تمہیں.... مان جاؤ گی تو بہتر ہے ورنہ مجھے زبردستی کرنے میں کوئی اعتراض نہیں۔" اس نے کہتے ساتھ ہی اسے بازو سے پکڑا اور گھسیٹنا شروع کر دیا جیسے وہ کوئی بے جان شے ہو, جس کی کوئی وقعت, کوئی اہمیت نہیں۔


"بلاول رندھاوا چھوڑو مجھے.... " وہ اسے اندر لے جا رہا تھا کمرے میں جبکہ وہ مزاحمت کرتی اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی مگر اپنی اس کاوش میں بری طرح ناکام ہو رہی تھی کہ وہ اسے کمرے میں لا چکا تھا۔

"ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس.... آرام سے سوچ لو, کیونکہ تمہارے شوہر کو یہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگ جائیں گے اگر ڈرائیور اسے اب بتا بھی دے تو۔" وہ اپنی گھٹیا مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتا دروازہ لاک کر کے باہر نکل گیا۔


اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ چہرے کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا۔

"میرا فون.... " پہلا خیال جو اس کے دماغ میں آیا وہ یہی تھا۔ اس نے متلاشی نگاہوں سے اپنے اردگرد دیکھا۔

"تو وہ باہر ہی کہیں گر گیا ہوگا.... " اس نے کہتے ہوےُ سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔

"یاﷲ میں کیا کروں اب؟ شیری تم کہاں ہو؟" اس نے بلکتے ہوےُ چہرہ گھٹنوں پر گرا لیا۔

••••••••••••••••••••••••

جونہی گاڑی پورچ میں آ رکی ابراہیم لان سے بھاگتا ہوا ان کی گاڑی کے پاس آ رکا۔

آپ انتظار کر رہے تھے؟" احمر دروازہ کھول کر باہر نکلتا قدرے حیرت میں مبتلا ہو گیا۔

"دادو نے مجھے بتا دیا تھا آپ واپس آ رہے ہیں.... " احمر نے اسے گود میں اٹھایا تو وہ بتانے لگا۔

"آپ بھی یہاں بیٹھی ہیں.... " وہ لان میں بیٹھی فردوس کو دیکھ رہا تھا۔ لہجے میں پنہاں فکر ان سے مخفی نہیں تھی۔

"میں نے تو کہا تھا اندر چلیں مگر ابراہیم نہیں مانا... " وہ بھی کھڑی ہوتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگیں۔

عشال گاڑی سے نکل کر سامنے آ گئی۔


"ماما... " ابراہیم اسے دیکھتا ہوا چہکا اور دونوں ہاتھ کھول لئے۔ وہ ہچکچاتی ہوئی آگے بڑھی کیونکہ احمر نے اسے اٹھا رکھا تھا۔

"کیسے ہو آپ؟" وہ اس کے رخسار پر بوسہ دیتی آہستہ سے بولی۔

"میں نے بہت مس کیا آپ دونوں کو... " اس نے دونوں بازو مرحا کی گردن پر ڈال دئیے تو عشال نے اسے اٹھا لیا۔

"ہم نے بھی بہت مس کیا آپ کو.... دادو کو تنگ تو نہیں کیا آپ نے؟" وہ اسے لئے اپنی ہی رو میں بولتی اندر کی جانب بڑھنے لگیں۔

"خواہ مخواہ گرمی میں بیٹھے آپ لوگ.... " وہ فردوس کا ہاتھ پکڑتا چلنے لگا۔ چہرے پر خفگی تھی۔


"نوکروں کے سر پر چھوڑنے پر میرا دل آمادہ نہیں ہوتا ابراہیم کو۔ وہ بھی مس کر رہا تھا تم دونوں کو اس لئے ضد کر کے بیٹھ گیا۔" وہ ہنستی ہوئی لاؤنج میں آ گئیں۔

"وہ تو ٹھیک ہے... طبیعت کا بتائیں۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟" وہ دیکھ عشال کو رہا تھا جبکہ مخاطب فردوس سے تھا۔

"اچھا کتنی کہانیاں سنو گے؟" وہ منہ پر ہاتھ رکھے پر سوچ انداز میں بولی۔

"بہت ساری.... اور آج آپ نے میرے ساتھ سونا ہے۔" وہ اس کی گود میں بیٹھا تھا۔

وہ دونوں اردگرد سے بے خبر اپنی ہی گفتگو میں محو تھے۔

"ایسی محبت تمہاری ان سٹینڈرڈ والی لڑکیوں نے نہیں کرنی تھی ابراہیم سے۔ ایسے تو نہیں وہ بھاگ بھاگ کر عشال کے پاس جاتا۔" وہ دونوں وہیں دروازے کے پاس ہی رک گئے تھے۔


"صحیح کہہ رہی ہیں آپ.... " اس نے تائیدی انداز میں سر کو جنبش دی۔

"ٹھیک ہے ڈن ہو گیا.... تین کہانیاں۔ اچھا یہ بتاؤ مجھے دودھ پیا آپ نے؟" وہ اسے صوفے پر بٹھاتی کھڑی ہو گئی۔

"کہہ رہا تھا تمہارے ہاتھ سے پینا ہے... " فردوس مسکراتی ہوئی آگے بڑھیں۔

"اچھا چلو میں بنا کر لاتی ہوں.... " وہ ایک نظر فردوس پر ڈالتی پلٹ گئی۔

"میرے لئے چاےُ بھی بنا دو۔" احمر بلند آواز میں کہتا بڑھ صوفے پر جا بیٹھا۔

وہ بنا کوئی جواب دئیے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

"میرا گفٹ کہاں ہے؟ جب ماما سے بات ہوئی تھی وہ بتا رہی تھیں کہ آپ نے گفٹ لیا ہے میرے لئے۔" وہ صوفے سے اتر کر اس کے پاس آ گیا۔


"آپ کا گفٹ؟" وہ کہہ کر سوچنے لگا۔

"کہاں ہے؟ مجھے دکھائیں؟" وہ بے صبری سے کام لے رہا تھا۔

"بیگ میں ہے شاید... صبح عشال آپ کو نکال دے گی۔" اس نے مسکراتے ہوےُ اس کا رخسار تھپتھپایا۔

"نہیں مجھے ابھی دیکھنا ہے... چلیں میرے ساتھ نکال کر دیں۔" وہ اس کی بازو پکڑ کر کھینچنے لگا۔

"جاؤ بھئی اس کو ایسے نیند نہیں آےُ گی... " احمر کو اپنے جانب دیکھتے ہوئے فردوس نے ہنستے ہوےُ اسے جانے کا اشارہ کیا۔

"اچھا یار.... " وہ ہنستا ہوا اس کے ہمراہ باہر نکل گیا۔

•••••••••••••••••••••••

"اوےُ روندو میری شرٹ پریس کر دو۔" وہ اس کے منہ پر شرٹ پھینکتا ہوا بولا۔

"ملازمہ نہیں ہوں تمہاری میں... " وہ شرٹ منہ سے ہٹاتی مشتعل سی بولی۔

"عنقریب بننے والی ہو.... بدقسمتی سے۔" اس نے اس کے بائیں جانب پڑے سنگل پر بیٹھتے ہوےُ قدرے دکھ سے کہا۔

"کیا مطلب تمہاری اس فضول سی بات کا؟" وہ فون نیچے کرتی بائیں جانب چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ رکھی تھیں۔

"تایا ابو صبح مجھے کہہ رہے تھے کہ تمہارا رشتہ اس زمر چڑیل سے کر دیں۔ گھر کی ہڈ حرام گھر میں ہی رہ جاےُ۔ باہر جاےُ گی تو بدنامی ہوگی.... " اس نے جو دکھی بننے کی اداکاری کی, زمر بھی قائل ہو گئی۔


"بکواس نہیں کرو.... " اس نے کشن اس کی بازو پر مارا۔

"آج تک مجھے دیکھا ایسی ابنارمل بات کرتے ہوےُ؟" اس نے آنکھیں گھمائیں۔

"تو تم نے کیا کہا؟ منع نہیں کیا انہیں؟ امی نے تو مجھے کچھ نہیں کہا.... " وہ پے در پے سوال کرتی بوکھلا کر کھڑی ہو گئی۔

"تمہاری اہمیت کم ہے نہ اس لئے تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھا ہوگا انہوں نے.... " اس نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے خود کو ہنسنے سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ جلتی پر تیل کا کام کیا۔

"کہیں منہ نہ ٹوٹ جاےُ تمہارا شادی سے پہلے.... " وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"مطلب تم تیار ہو؟" حیرت کی شدت سے اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔


"ہاں بلکل.... لیکن میری پوری بات سن لو پہلے۔" وہ طمانیت سے کہتی بیٹھ گئی۔ دماغ میں چلنے والی خرافات وہ اب بیان کرنے والی تھی۔

"کھانا امی ہی بنایا کریں گیں جیسے اب بناتی ہیں۔ کپڑے تم دھویا کرو گے سنڈے آف ہوتا تمہارا۔ استری چلو میں کر دوں گی باقی جس دن امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوگی اس دن کھانا تم بناؤ گے۔ اور ہاں صفائی کے لئے مجھے کام والی رکھ دینا.... بس... " یاد آنے پر وہ آگے ہوتی نزاکت سے بولی۔

"تم ہو نہیں کام والی.... رکھتا ہوں تمہارے لیے میں کام والی۔" وہ اس کے ارادے سن کر بھنا گیا۔


"ایسا بھی کچھ نہیں کہہ دیا میں نے...." وہ اس کے انداز پر خفیف سی ہو گئی۔

"ایک بات اپنے اس ناقص دماغ میں بٹھا لو.... شادی اگر ہوئی ہماری تو سارے کام تمہیں کرنے پڑیں گے بشمول کھانا بھی۔ اکیلی کرو گی تم سب کچھ۔" وہ آگے ہوتا انگلی اٹھا کر حتمی انداز میں بولا تو زمر کا منہ کھل گیا۔

"بیوی چائیے یا کام والی؟ کیسے بے شرموں کی طرح بول رہے ہو.... " وہ جل کر گویا ہوئی۔

"بیوی سے زیادہ ہمیں کام والی کی ضرورت ہے۔ اس لئے تم سے بہتر آپشن اور کوئی نہیں۔ ذرا تمہاری سستی اور آرام ختم ہو۔" وہ گھور کر کہتا کھڑا ہو گیا۔


"حماد کتنے بدتمیز اور بے مروت اور.... " وہ بول رہی تھی کہ وہ سنی ان سنی کرتا زینے اترنے لگا۔

"اور پتہ نہیں کیا کیا ہو تم.... " اس نے تپ کر کہتے ہوےُ کشن سامنے دیوار پر دے مارا۔

"میں بھی کوئی کام نہیں کروں گا تم دیکھنا.... یہی تو ایک فائدہ ہوگا تم سے شادی کا۔ سکون سے رہوں گی جیسے اب رہ رہی ہوں۔" اس نے تخیل میں سوچتے ہوےُ سکھ کا سانس لیا۔

"ڈرتی تھوڑی ہوں تم سے میں.... دیکھ لوں گی تمہیں بھی... ہونہہ... " وہ ہنکار بھر کر اپنا فون اٹھانے لگی۔

••••••••••••••••••••••••

"باہر دھیان رکھنا تھا کوئی آےُ نہیں اندر.... تم گیٹ کھول کر آ گئے ہو۔" وہ چوکیدار کو دیکھتا آگ بگولہ ہو گیا۔

"سر آپ ہی نے تو کہا تھا یہ رسیاں اوپر سٹور روم سے لے کر آؤں.... " وہ خفیف سا ہو کر ہاتھ میں پکڑی رسیوں کی جانب اشارہ کرنے لگا۔

"رکھوں انہیں یہاں اور...." وہ جو انگلی اٹھا کر بول رہا تھا چہرہ بائیں جانب مڑنے پر آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔

"تم؟" وہ ششدر سا کھڑا ہو گیا۔

"تمہارا گمان تھا کہ میری بیوی کو اغوا کر لو گے اور مجھے بھنک تک نہیں لگے گی؟" شہریار دونوں پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے بولتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔

"یہ یہاں کیسے آیا؟" اس نے چوکیدار کا گریبان پکڑتے ہوےُ اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔


"کیوں اس بیچارے کو ذلیل کر رہے ہو؟ میں پندرہ منٹ سے باہر ہوں.... گیٹ کھلنے کا منتظر تھا۔ بلکہ میرا ارادہ تھا دیوار پھلانگ کر چلا جاؤں۔" وہ چوکیدار کے گریبان سے اس کے ہاتھ ہٹاتا اسے آزاد کرنے لگا۔

بلاول نے ناگواری سے شہریار کو دیکھا۔

"اور یہ میری بیوی کو یہاں لانے کے لئے.... " اس نے کہتے ہوےُ ایک مکا اس کے منہ پر دے مارا۔

"اگر یہی کام پہلے کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی...." وہ ابھی سیدھا ہوا ہی تھا کہ شہریار نے دوسرا مکا دے مارا۔

چوکیدار نے عقب سے شہریار کے دونوں بازو پکڑ لیے۔

"تم شاید بھول رہے ہو.... یہ میری جگہ ہے۔" وہ ہونٹ سے بہتا خون صاف کر کے چوکیدار کی بندوق پکڑنے لگا۔

"واہ.... " جواباً شہریار کا قہقہ سنائی دیا۔

بلاول نے بندوق اس کے منہ پر دے ماری۔


"تم واقعی یہ کرنے کا سوچ رہے ہو؟ اس کے بعد پولیس سے تمہیں کون بچاےُ گا؟" وہ اس کے احمقانہ انداز پر چاہ کر بھی خود کو ہنسنے سے باز نہ رکھ سکا۔

"صبح اپنی بیوی کو لے جانا.... ابھی لے لئے مجھے سونپ دو۔" وہ کمینگی سے مسکرایا۔

"میرا نہیں خیال صبح تک تم زندہ بچو گے پھر۔" شہریار کے چہرے پر جہاں بھر کی سختی عود آئی۔ تن بدن میں آگ لگ گئی۔

"تم نے اس کے ساتھ مل کر میرے لیپ ٹاپ تک رسائی حاصل کی... وہ ٹینڈر مجھ سے چھینا... اس کا بدلہ بھی تو چکانا پڑے گا نہ اسے؟" وہ سوچ سوچ کر بولتا چلنے لگا۔

"جیسے تم نے گزشتہ دو بار ٹینڈر مجھ سے چھینا.... اپنی باری آئی تو تکلیف ہوئی؟" وہ طنزیہ مسکرایا۔


"تکلیف تو نہیں ہوئی.... مگر کیا کروں تم بیویاں ہی ایسی چنتے ہو کہ انسان ان سے دور رہ ہی نہیں پاتا۔" اس نے آہ بھرتے ہوےُ سینے پر ہاتھ رکھا۔

"بکواس بند رکھو اپنی.... " وہ تلملا اٹھا۔

"اور یہ بیوی تو شاید باقی دونوں سے زیادہ خوبصورت ہے یا پتہ نہیں اس کا چارم ہی کچھ الگ ہے۔" وہ دانستہ طور پر شہریار کا خون جلا رہا تھا۔

"اپنا منہ بند رکھو بلاول.... " وہ چلاتا ہوا اپنے ہاتھ چھڑواتا چوکیدار کے منہ پر کہنی مار کر سرعت سے بلاول کی جانب لپکا۔

"آخر کیا دشمنی ہے تمہاری مجھ سے؟ آج مجھے بھی معلوم ہو ہی جاےُ۔" وہ اس کا منہ دبوچ کر غرایا۔ آنکھیں جل رہی تھیں جو مقابل کو جلانے کے در پے تھیں۔


"کوئی خاص نہیں.... بس تمہاری کامیابی ہضم نہیں ہوتی۔ مجھ سے کم عمر میں اتنے کامیاب ہو گئے۔" وہ کہہ کر نفی میں سر ہلانے لگا۔

"لعنت ہے تمہاری سوچ پر.... تمہیں دوست سمجھا تھا مگر ہر بار تم نے اپنی شیطانی فطرت دکھا کر اپنی اوقات بتا دی۔" وہ اس سے بندوق کھینچتا اسے دھکا دے گیا۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ پایا اور زمین پر جا گرا۔

"پولیس آنے والی ہوگی.... جہاں بھاگنا ہے بھاگ جاؤ۔ کیونکہ بچنے والے تو نہیں تم۔" وہ اسے اٹھتے دیکھ حقارت سے بولا۔

"کیا بکواس ہے یہ؟" وہ بوکھلا گیا۔

"اس بار جیل ہو ہی جاےُ تمہیں بلاول رندھاوا۔ تمہاری شہرت پر بھی کچھ اثر پڑے۔"

"دیکھ لوں گا کون ہاتھ ڈالتا ہے مجھ پر.... " وہ چوکیدار کو اشارہ کر رہا تھا۔


"بھولو مت میں بھی تمہاری مانند مضبوط ہوں۔" وہ جتانے والے انداز میں بولا کہ اس بات کو شاید وہ فراموش کر بیٹھا تھا۔

"دیکھتے ہیں.... " وہ چیلنج کرنے والے انداز میں کہتا چوکیدار کو لئے باہر نکل گیا۔

"مرحا.... " وہ راہدادی میں چلتا بلند آواز میں بولا۔

تیسری بار پکارنے پر اسے دروازے کے پار شہریار کی آواز سنائی دی۔

"شیری... " وہ چونک کر دروازے کو دیکھنے لگی۔


"مرحا کہاں ہو تم؟" اس نے دوسرے کمرے کا دروازہ کھولا اور اسے نا پا کر بند کر دیا۔

"شیری میں یہاں ہوں.... " وہ دروازہ کھٹکھٹاتی حلق کے بل چلائی۔

آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا۔

پہلے کمرے کے دروازے پر دستک ہو رہی تھی۔ وہ تیزی سے واپس آیا۔

"یہ تو لاک ہے.... " وہ ناب پر ہاتھ رکھے اسے گھما رہا تھا۔

"مرحا میں کھولتا ہوں دروازہ... " وہ کہتا ہوا واپس لاؤنج میں آ گیا۔ متلاشی نگاہیں اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی۔

سائیڈ پر پڑے گول چھوٹے میز پر اسے چابیاں دکھائی دیں۔

"اسی میں ہوگی.... " وہ خود کلامی کرتا پلٹ گیا۔

دس منٹ کی مشقت کے بعد دروازہ کھل گیا۔


"شیری...." جونہی نگاہوں میں شناسائی کی رمق ابھری وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی اس کے سینے سے لگ گئی۔

"آر یو اوکے؟ کچھ کہا تو نہیں اس نے؟" وہ اس کی پشت سہلا رہا تھا۔

"مجھے نہیں پتہ.... اگر تم....نہیں آتے تو.... " وہ اس سے الگ ہوتی اٹک اٹک کر بولنے لگی۔ آنسوؤں کا پھندا گلے میں پھنس گیا تو لفظ بھی وہیں ختم ہو گئے۔

"اوکے اوکے.... کوئی بات نہیں۔ میں آ گیا ہوں۔" وہ اس کے چہرے کے گرد ہاتھوں کا پیالہ بناےُ ہوےُ تھا۔

"اتنا گھٹیا اور بے غیرت انسان ہے وہ شیری.... " وہ آنکھوں میں شکوے لئے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

"حد سے زیادہ.... گندی عادت ہے اسے ہر جگہ منہ مارنے کی۔" بولتے بولتے چہرے پر غصے کے ساتھ ساتھ سختی در آئی۔

"یہ کیا ہوا ہے؟" اس نے اس کے دائیں رخسار پر سرخ دھبے کو انگلی سے چھوا۔


"گن سے شاید.... " اس نے سوچتے ہوےُ مرحا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے نیچے کر دیا۔

"مارا ہے اس نے تمہیں؟" وہ غم و غصے کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔

"کہاں گیا وہ؟ اور تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟" یکدم اس کا دھیان بلاول کی جانب گیا تو دائیں بائیں دیکھنے لگی۔

دفع ہو گیا ہے یہاں سے.... آؤ بیٹھو یہاں۔" وہ اسے ساتھ لئے چلنے لگا تو وہ بھی خاموشی سے لیونگ روم میں آ گئی۔

"پانی پئیو.... " وہ میز سے جگ اٹھا کر گلاس میں پانی انڈیلنے لگا۔ گلاس مرحا کے سامنے کیا تو اس نے بنا کسی حیل و حجت کے تھام لیا۔

اس کی آنکھوں میں دکھ اور رحم تھا مرحا کے لئے۔

"مجھے تمہیں اس سب کا حصہ بنانا ہی نہیں چائیے تھا.... " وہ سر جھکاےُ تاسف سے بولا۔ چہرے پر پچھتاوے احاطہ کیے ہوےُ تھے۔

"اس وجہ سے وہ مجھے یہاں لایا؟" وہ شاک سی اسے دیکھنے لگی۔

"شاید.... " وہ نگاہیں چراتا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"وہ تمہاری دونوں بیویوں کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا... " اس کے چہرے پر الجھن تھی۔

"ہاں اسے کوئی گندی عادت ہے میری چیزوں پر قبضہ جمانے کی۔ میری دونوں بیویاں میرے ساتھ رہتے ہوےُ اس کے ساتھ افئیر چلا رہی تھیں۔ اس لئے میں نے مبینہ مدعت سے قبل ہی انہیں فارغ کر دیا۔ تم ان دونوں سے مختلف تھی,, اس کی باتوں میں نہیں آئی مگر اسے پھر بھی.... " اس نے مٹھیاں سختی سے بند کر لیں۔

وہ بے دردی سے نچلا لب کاٹتا سامنے دیوار کو دیکھنے لگا۔


"ہاں اسی لئے وہ مجھے یہاں لے آیا۔ بہت ہی گرا ہوا انسان ہے وہ.... "

"شیری تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں؟ اور ڈرائیور.... ڈرائیور نے کیوں جھوٹ بولا؟" وہ اس کی بازو پر اپنا ہاتھ رکھتی متجسس سی گویا ہوئی۔

"ڈرائیور کو دھمکایا تھا اس نے.... اور مجھے ڈرائیور نے پہلے ہی میسج کر کے آگاہ کیا اس لئے میں وقت پر پہنچ گیا۔" اس نے سرد آہ بھری اور اس کو دیکھا۔

"آئم سوری.... میری وجہ سے تمہیں.... "

"تمہارا کوئی قصور نہیں اس سب میں۔" اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوےُ اس کی بات کاٹ دی۔

"ٹرسٹ می مرحا دوبارہ کبھی ایسا کچھ نہیں ہوگا میں اپنی جان سے زیادہ تمہاری حفاظت کروں گا..... میں بس اپنی ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ تمہیں کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا میں۔" وہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا آہستگی سے بولا۔

آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔


"مجھے نہیں معلوم میں کیسے تمہیں یقین دلاؤں.... مگر وقت تمہیں اس بات کا احساس دلا دے گا مجھے اس بات پر پورا یقین ہے۔" وہ جتنے وثوق سے بول رہا تھا مرحا کا دل اس پر اعتبار کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

"گھر چلیں؟ میں نے تو روزہ بھی وقت پر نہیں کھولا.... اور ٹائم بھی شاید اوپر ہو گیا ہو۔" اس کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔

"ہاں چلتے ہیں۔" وہ مبہم سا مسکرایا اور اس کا ہاتھ پکڑتا کھڑا ہو گیا۔

•••••••••••••••••••••••

"آپ کے کپڑے نکال دئیے ہیں میں نے.... " وہ الماری بند کرتی ہوئی بولی۔

"اچھا.... آج شام میں ریڈی ہو جانا۔ ایک دوست کی طرف دعوت ہے۔" احمر فون پر انگلی چلاتا اس کی جانب بڑھنے لگا۔

"اچھا.... کس نوعیت کی دعوت ہے؟ میں اسی کے مطابق ڈریس سلیکٹ کروں پھر؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"اس کی فیملی ہوگی اور ہم دونوں.... زیادہ فینسی مت پہننا۔ نارمل سا ہو اور.... " وہ فون جیب میں رکھتا اسے دیکھنے لگا۔

"اور؟" عشال اسی کی جانب متوجہ تھی۔

"اور وہاں جا کر تمہارا ریڈیو اسٹیشن آن نہیں ہونا چائیے...." بولتے بولتے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔


"اب کہاں میں زیادہ بولتی ہوں احمر؟" اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

"ہاں کبھی کبھی نہیں بولتی.... لیکن بس جتنا کوئی پوچھے اتنا ہی جواب دینا۔" اس نے اس کے چہرے سے بال ہٹا کر کان کے پیچھے کیے۔

"میں جتنی مرضی کوشش کر لوں آپ نے خوش ہونا ہی نہیں مجھ سے.... " وہ نروٹھے پن سے کہتی بائیں جانب دیکھنے لگی۔

"نہیں نہیں.... میں بلکل خوش ہوں اپنی اس چھوٹی سی معصوم سی بیوی سے... " اس نے کہتے ہوےُ اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔

"لگا لیں اب مکھن... " وہ جھنپ کر نگاہیں جھکا گئی۔


"مکھن تھوڑی ہے.... محبت ہے میری۔ اب جلدی سے میرا ناشتہ لے آؤ آج میں یہیں تمہارے ساتھ روم میں کروں گا ناشتہ ابراہیم تع ویسے بھی سکول ہے۔"

"چھوڑیں گے تو جاؤں گی نہ.... " وہ اس کی گرفت میں کسمسائی۔

"اچھا جاؤ تب تک میں فریش ہو جاؤں۔" اس نے ہاتھ ہٹاتے ہوےُ اسے آزاد کر دیا۔ وہ بال کان کے پیچھے کرتی تیزی سے باہر نکل گئی۔ وہ مسکراتے ہوےُ اپنے کپڑے اٹھانے لگا۔

••••••••••••••••••••••

"شیری اٹھ جاؤ.... کب سے آواز دے رہی ہوں تمہیں۔" وہ خفگی سے کہتی اس پر جھکی اور اس کے بال جو کہ پہلے ہی منتشر تھے, انہیں مزید بکھیرنے لگی۔

"دل نہیں کر رہا آج.... " نیند میں ڈوبی بھاری مگر مدھم سی سرگوشی سنائی دی۔

"آفس تو جانا پڑے گا تمہیں۔ ورنہ میری بھی چھٹی کروا دو گے تم۔" اب کہ اس نے لہجے کو ذرا سخت بنایا۔

"نہیں تم چلی جاؤ.... میں آج آرام کروں گا۔" اس نے کہتے ہوےُ آنکھوں پر بازو رکھ لی۔

"ہاں اور میں جیسے تمہیں جانتی نہیں... اب نخرے ختم کرو اور اٹھو۔ ویسے بھی اتنا بولنے کے بعد نیند تو نہیں آےُ گی تمہیں۔" وہ کہتی ہوئی اس کے سینے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی جو اسی جانب کروٹ لیے لیٹا تھا۔


"سو سکتا ہوں میں اگر تم میری نیند میں خلل پیدا نہ کرو تو.... " اس نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے گھورا۔

"میرا اکیلے ناشتہ کرنے کو اور پھر اکیلے آفس جانے کو دل نہیں کرے گا پھر.... " اس نے پلٹ کر اسے دیکھتے ہوےُ مظلوم سی شکل بنائی۔

"نہیں سونے دو گی مجھے؟" اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔

"نہیں.... بلکل بھی نہیں۔" وہ قطعیت سے بولی۔

"ایک دن چھٹی کر لو گی تو کوئی عذاب نہیں آ جاےُ گا.... اس لئے خاموشی سے میرے ساتھ سو جاؤ۔" اس نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے لٹا دیا۔

"مجھے نیند نہیں آ رہی.... " وہ اس کے چہرے پر انگلی سے لکریں کھینچنے لگی۔


"میں سلا دوں گا.... " اس نے آہستہ سے کہتے ہوےُ اسے خود میں بھینچ لیا۔

"مجھے ٹیلر کے پاس جانا ہے اپنا سوٹ اٹھانے اور پھر وہاں سے گھر جانا ہے۔ آج شاید عشال بھی آےُ۔" وہ فاصلہ بڑھانے کو چہرہ تھوڑا پیچھے کرتی سوچ سوچ کر بولنے لگی۔

"یہ سارے کام شام میں ہو جائیں گے مسز۔" اس نے کہتے ہوےُ منہ اس کے سینے میں چھپا لیا تو مرحا کے لبوں پر دلفریب سی مسکراہٹ رینگ گئی۔


"مطلب کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں....." اس نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوےُ دہائی دی۔

"جی بلکل.... "

اس کا جواب سن کر وہ پھر سے مسکرانے لگی کیونکہ وہ یہی توقع کر رہی تھی اس سے۔

"اچھا سو جاؤ پھر.... " اس نے کہتے ہوےُ اس کے بالوں پر بوسہ دیا۔

چند لمحے وہ اس کی جانب سے کسی جواب کی منتظر رہی۔ مگر جب کوئی جواب نہیں آیا تو مسکراتی ہوئی آنکھیں بند کرتی اس کے سر پر اپنا سر رکھنے لگی۔

•••••••••••••••••••••••

"مجھے یہ ویڈیو گیم بلکل نہیں پسند۔" اس نے اسکرین کو گھورتے ہوےُ منہ بنایا۔

"ماما مجھے پسند ہے نہ.... پلیز ایک راؤنڈ۔" ابراہیم نے اس کا ہاتھ ہلاتے ہوےُ التجا کی۔

"اوکے صرف ایک راؤنڈ.... " وہ اس لڑائی والی گیم سے اکتا چکی تھی مگر اس کی خواہش کو رد نہیں کر سکتی تھی اس لیے آمادہ ہو گئی۔

"ابھی تک گیم ختم نہیں ہوئی آپ دونوں کی؟" وہ عقب سے نمودار ہوا اور صوفے کی پشت پر ہاتھ رکھتا ان کے عقب میں کھڑا ہو گیا۔

عشال نے پلٹ کر اسے دیکھنا چاہا تو بمشکل چہرہ اس کے چہرے سے ٹکراتا ہوا بچا جو اسی کی جانب جھکا ہوا تھا۔


"ابراہیم کہے گا تو پھر ہی.... " اس نے شانے اچکاےُ اور پھر سے رخ موڑ لیا۔

"آج میری بھی چھٹی ہے بیٹا جی۔ مجھے میری بیوی دے دیں۔" اس نے گزارش کی جسے ابراہیم کسی خاطر میں نہیں لایا۔

"کہیں مصروف کرو اسے.... مجھے باہر لے جانا ہے تمہیں۔" نظر انداز ہونے پر اس نے عشال کے کان میں سرگوشی کی تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

"آپ کی زیادہ سنتے ہیں یہ یا میری؟" اس کا اشارہ ابراہیم کی جانب تھا۔

"ماما بواےُ بن چکا ہے اب تو یہ مکمل طور پر۔ میری سفارش کرو۔" وہ مظلومیت سے کہتا آگے آیا اور اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔


"گیم ختم کرنے کے بعد میں نے نگٹس بنانے ہیں ابراہیم کے لئے اور.... "

"بس بس.... شوہر کا بھی خیال کر لیا کرو کچھ۔ صبح سے کمرے کی دیواروں کو گھور رہا ہوں میں۔" اس نے گھورتے ہوےُ مدھم آواز میں برہم ہوتے ہوےُ اسے احساس دلانا چاہا۔

"ابراہیم کا بھی تو آف ہے نہ آج۔" وہ اسکرین کو دیکھتی آہستہ سے بولی۔

"بابا جانی کیا کہہ رہے ہیں؟" وہ ہاتھ میں پکڑے ریموٹ پر تیزی سے انگوٹھے چلا رہا تھا۔

"وہ پوچھ رہے ہیں دادو کے ساتھ پارک میں کون جاےُ گا؟" اس نے لمحے میں حل نکال لیا تھا۔

"میں.... پارک نہیں وہ والے ذو.... مجھے شیر دیکھنا ہے۔" وہ ریموٹ میز پر رکھتا صوفے سے اتر گیا۔

عشال نے احمر کو دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو مجھے کہ مانتے ہیں یا نہیں؟


"ٹھیک ہے پھر آپ دادو کے ساتھ ذو چلے جاؤ اور.... "

"اور ہم آئسکریم بھی کھائیں گے۔ ماما آپ بھی آئیں ساتھ۔" اس نے عشال کا ہاتھ پکڑا تو احمر کا منہ کھل گیا۔

یہاں تو کایہ ہی پلٹ گئی۔

"میں نے تو ماما کے گھر جانا ہے بابا کے ساتھ۔ آپ کو بتایا تھا نہ صبح فون آیا تھا۔" وہ اس مشکل کے لئے بھی پہلے سے تیار تھی۔

"جی جی... آپ کی ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔" وہ یاد کرتا سر ہلانے لگا۔

"جاؤ دادو کو بلا کر لاؤ....ڈرائیور باہر منتظر ہے۔" احمر نے راہدادی سے گزرتی ملازمہ کو مخاطب کیا۔

"اوکے سر... " وہ وہیں سے واپس پلٹ گئی۔


"تھوڑا سائیڈ پر ہو جائیں۔" اسے اپنے ساتھ چپکے دیکھ عشال نے دہائی دی۔

"اب سائیڈ پر ہو جاؤں؟ اور رات جو تم میری جگہ پر آئی ہوتی ہو اس کا کیا؟" وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔

وہ مارے خفت کے چہرہ جھکا گئی۔

"اب ایسی بھی بات نہیں.... " وہ نگاہیں چرا رہی تھی۔

"کہاں ہے میرا شیر.... " فردوس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی نمودار ہوئیں۔

"دادو.... چلیں ذو؟ اور عبید کے گھر بھی۔ اس کے بابا نے نئی گاڑی لے کر دی ہے اسے میں نے دیکھنی ہے... "

اس کے منصوبے سن کر احمر نے سکھ کا سانس لیا۔


"ہاں ہاں کیوں نہیں.... جہاں میرا بیٹا کہے گا ہم چلیں گے۔ تم دونوں گئے نہیں ابھی تک؟ میں تو سوچ رہی تھی.... "

"یہ ہمارا شرارتی جو ہے نہ.... عشال کو جانے نہیں دے رہا تھا۔" احمر نے محبت بھرے انداز میں کہتے ہوےُ اس کے بال سنوارے۔

"دادو چلیں نہ اب.... " وہ بور ہو رہا تھا ان کے سوال جواب سے۔

"ہاں ہاں چلو... باقی باتیں بعد میں کر لیں گے۔" وہ مسکراتی ہوئی ہاتھ آگے کرنے لگیں۔

"گڈ باےُ ماما... گڈ باےُ ڈیڈی...."

وہ باری باری دونوں کے رخسار پر بوسے دیتا چہکا۔


"گڈ باےُ.... " عشال جواباً مسکرائی تو وہ فردوس کا ہاتھ پکڑتا چل دیا۔

"بچوں کے ساتھ تو بہانے ڈھونڈنے پڑتے ہیں.... " اس نے انہیں جاتے دیکھ آہ بھری اور عشال کے شانے پر سر رکھ لیا۔

"آپ کو بہانے بنانے ہی نہیں آتے.... دیکھیں کیسے فوراً سے چلا گیا۔" وہ اپنی سمجھداری پر اِترائی۔

"بیوی کس کی ہو پھر.... "

"اچھا اس کا کریڈٹ بھی خود لیں گے؟ واہ.... " وہ منہ بناتی کھڑی ہو گئی۔

"اچھا مجھے بتاؤ تم نے گھر بھی جانا ہے؟" وہ سرعت سے کھڑا ہو گیا۔

"ہاں جی... "


"کتنی دیر کے لیے؟ ہم واپسی پر آدھا گھنٹہ تمہارے گھر بیٹھ جائیں گے۔ بہت ہے؟" اس نے پر سوچ انداز میں کہتے ہوےُ دونوں آبرو اچکاےُ۔

"جی بہت ہے.... "

"چلو پھر اب.... اس سے پہلے ابراہیم واپس آےُ۔" وہ اس کی بازو پکڑے بنا مہلت دئیے چلنے لگا۔

"میں فون تو اٹھا لوں احمر.... " وہ اس کی برق رفتاری پر ہنسنے لگی۔

"بس رہنے دو.... یہ ٹائم صرف میرا ہے۔ اتنی مشکل سے تو ملا ہے۔" وہ شکایتی انداز میں کہتا گاڑی کا دروازہ کھولنے لگا۔ وہ چند لمحے ساکت اسے دیکھنے لگی۔

کیا یہ وہی احمر ہے جسے اس کی موجودگی شدید گراں گزرتی تھی اور اب یہ کہاں آ گئے ہم؟

یہی ایک سوال ذہن میں تھا جسے وہ زبان پر نہیں لائی۔

"بیٹھو نہ.... " اسے بت بنے دیکھ اس نے اس کی بازو تھپتھپائی۔

"جی... " وہ اپنے خیال کو جھٹکتی اندر بیٹھ گئی۔

•••••••••••••••••••••••

"کھانا گرم کر دو مجھے.... " وہ تھکے تھکے انداز میں کہتا صوفے پر گر گیا۔

"تمہارے ہوتے ہوےُ میں کھانا گرم کروں؟" زمر نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس نے کوئی معیوب بات کہہ دی ہو۔

"نہیں اور تمہارا باپ.... " وہ اس کی اداکاری پر تلملایا مگر بات ادھوری چھوڑ گیا۔

"باپ تو بیچارا مٹی تلے ہے میرا۔ حماد ویسے ایسا کرنا چاےُ بھی بنا لینا دونوں ساتھ پئیں گے۔" وہ طمانیت سے کہتی پھر سے فون کی اسکرین کو دیکھنے لگی۔

"یہ سب نہیں چلے گا زمر میڈم.... ابھی تو شادی نہیں ہوئی ہماری۔" وہ اس کے ہاتھ سے فون لیتا تپ کر بولا۔

"تو اور کیا چلے گا؟ اگر تم چاہو تو کپڑے بھی خود پریس کر سکتے ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔" اس نے فون واپس لیتے ہوےُ دانت نکالے۔


"کتنی نکمی ہو تم.... " وہ جی بھر کر بد مزا ہوا۔

"تمہارے ساتھ تو لگتا ہے بھوکا سویا کروں گا میں۔" وہ اپنا مستقبل سوچتا تشویش زدہ سا بولا۔

"اب ایسی بھی بات نہیں ہے.... کھانے سے منع تھوڑی کروں گی میں۔ اتنا ظالم سمجھتے ہو مجھے تم؟" وہ اس کی سنگدلی پر ششدر رہ گئی۔

"مجھے لگتا ہے تایا ابو سے بات کرنی ہوگی.... تم جیسی جہاں بھر کی نکمی لڑکی کے ساتھ میرا تو گزارا نہیں ہونے والا۔" وہ نفی میں سر ہلاتا پلٹ گیا۔

"تم تو غصہ ہی کر گئے.... اب بندہ مذاق بھی نہیں کر سکتا۔" وہ تیزی سے اٹھی اور اس کی بازو پکڑ کر دانت نکالنے لگی۔

"نارمل بیوی چائیے مجھے.... " اس نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔


"کس اینگل سے ابنارمل ہوں؟ تم تو مذاق بھی سئیرئس لے لیتے ہو۔" وہ پھر سے دانت نکالنے لگی۔

"جاؤ کھانا لے کر آؤ بھوک لگی ہے مجھے۔ سارا دن کام کرتا ہوں تمہارا طرح گھر بیٹھ کر فون استعمال نہیں کرتا۔" وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا خفگی سے بولا۔

"جا تو رہی ہوں.... لیکن مشین تم ہی لگاؤ گے ابھی بتا رہی ہوں۔ میں بس استری کروں گی۔"

"اور یہ کھانا بھی تو گرم کر رہی ہوں نہ.... " اسے گھورتے دیکھ وہ سرعت سے بولی اور کچن کی جانب بڑھ گئی۔

"ﷲ ہی خیر کرے.... یہ لڑکی تو مجھے صحیح مصیبت میں ڈالنے والی ہے...." وہ اس کی باتوں پر جھرجھری لیتا صوفے پر بیٹھنے لگا۔

••••••••••••••••••••••••

"یس کم آن.... " دروازے پر ہونے والے دستک کے جواب میں مرحا بلند آواز میں بولی۔

وہ نگاہیں اور توجہ اسکرین پر مرکوز کئے ہوےُ تھی۔

دروازہ کھلا اور شہریار کا چہرہ دکھائی دیا۔

وہ چلتا ہوا اس کے بائیں جانب آ رکا تو مرحا ٹھٹھک گئی, جس کا گمان آفس کے کسی ایمپلوئی کی جانب تھی۔

گردن تیزی سے حرکت میں آئی اور چہرہ موڑ کر بائیں جانب دیکھنے لگی۔

آنکھوں میں شناسائی کی رمق ابھری تو لب مسکرانے لگے۔

"تم کب سے دروازہ ناک کرنے لگے ہو؟" وہ ریوالونگ چئیر پیچھے کرتی بغور اسے دیکھنے لگی جو فائل میز پر رکھ رہا تھا۔


"اب تمہیں مینرز کا نہیں معلوم تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں بھی لاعلم ہوں... " وہ چئیر کے دونوں بازو پر ہاتھ رکھتا اس پر جھکا۔

"استغفرﷲ..... اپنی مسز کے سامنے جھوٹ بولتے ہوےُ شرم نہیں آتی آپ کو؟" اس نے ٹائی ٹھیک کرتے ہوےُ اسے گھورا۔

"بلکل بھی نہیں.... " وہ ہنوز نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکاےُ ہوےُ تھا۔

"خیریت یہاں آےُ..... لنچ بریک تو نہیں ہوئی ابھی۔" اس نے نگاہیں اوپر اٹھائیں۔

اس ہلکے بھورے رنگ کے حجاب میں وہ سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔ وہ آنکھوں میں ستائش لئے پیچھے ہوا اور فائل کھولنے لگا۔


"یہ رہا وہ کنٹریکٹ جو نکاح کے بعد ہم دونوں نے سائن کیا تھا۔ یہی ایک دیوار ہے نہ ہم دونوں کے وسط میں؟" اس نے فائل سے وہ صفحہ نکالتے ہوےُ ہوا میں لہرایا۔

وہ نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔

"ختم.... " اس نے وہ صفحہ پھاڑ کر ٹکڑے ہوا میں اچھال دئیے۔

"نکاح نامے میں تو ایسا کچھ نہیں تھا نہ؟"

"کہ ہم دس مہینے ساتھ رہیں گیں؟" مرحا نے سوالیہ آبرو اچکائی۔

شیری نے سر کو اثبات میں حرکت دی۔


"نہیں.... نکاح تو ویسے ہی ہوا تھا جیسے نارمل لوگوں کا ہوتا۔" وہ دماغ پر زور ڈالتی نفی میں سر ہلانے لگی۔

"تو بس یہ کانٹریکٹ ختم.... اب تم ہمیشہ کے لئے میری ہو۔ خبردار اگر مجھ سے دور جانے کا خیال بھی تمہارے دماغ میں آیا تو.... " وہ آنکھیں سکیڑتا انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا۔

وہ اس کے انداز پر بے اختیار مسکرانے لگی۔

"اچھا جی سمجھ گئی.... اور خبردار اگر تم نے دوبارہ اس طریقے سے کسی کو اپنے ساتھ رکھنے کا سوچا تو.... " وہ کھڑی ہوئی اور اس کی کالر ٹھیک کرنے لگی۔

اگر وہ حق جتا رہا تھا تو اسے بھی پورا پورا حق تھا۔

"بندہ آپ کا ہے میڈم.... " اس نے دونوں بازو اس کے شانوں پر رکھ دیں۔


"اس بلاول کا کیا بنا پھر؟" یکدم اس کے دماغ میں سوال اٹھا۔

"تمہیں بتایا تو تھا دوبئی بھاگ گیا ہے۔ دو تین سال سے پہلے واپس نہیں آنے والا وہ۔" بولتے بولتے چہرے پر ناگواری در آئی۔

"اچھا.... " وہ پھر سے اس کی ٹائی میں الجھی ہوئی تھی۔

"دفع کرو تم اسے.... اور مجھے یہ بتاؤ ہم ہنی مون پر کب جا رہے ہیں؟" اس نے ہاتھ مرحا کی کمر پر رکھتے ہوےُ اسے خود سے قریب کیا۔ مرحا کی ناک اس کی تھوڑی سے مس ہو رہی تھی۔

"جب تم ٹکٹس کروا لو گے... مجھے بھلا کیا اعتراض ہونا۔" اس نے تھوڑا سا پیچھے ہوتے ہوےُ شانے اچکاےُ۔


"ٹھیک ہے پھر کرواتے ہیں ٹکٹس... مجھے اپنی فیورٹ جگہ بتا دو ابھی۔" وہ مدھم آواز میں کہتا اس پر جھکا۔

"مسٹر شیری میرا خیال ہے ہم آفس میں کھڑے ہیں... " وہ اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر فاصلہ قائم کرتی اسے گھورنے لگی۔

"فکر مت کرو تمہارے شوہر کا آفس ہے۔" وہ لاپرواہ بنا۔

"کیمرے بھی نصب ہیں... بھاگو اب اور مجھے کام کرنے دو۔ رومانس کے لئے نہیں ہے یہ جگہ۔" اس نے مصنوعی خفگی سے کہتے ہوےُ اس کے سینے پر مکا مارا۔

"مطلب شادی کے بعد بھی میں آفس میں رومانس نہیں کر سکتا؟ پہلے بھی تمہیں مسئلہ تھا اور اب بھی.... "

اس نے دکھ بھرے انداز میں دہائی دی۔


"چپ کر کے جاؤ اب۔" وہ گھورتی ہوئی اس کی بازو کا حلقہ ہٹانے لگی۔

"شوہر محبت کرنے لگ جاےُ تو بیویاں ایسے ہی حکم چلانے لگ جاتی ہیں۔" اس نے تاسف سے کہتے ہوےُ ہاتھ ہٹا لئے۔

"آپ کی دکھ بھری داستان میں گھر میں سننا پسند کروں گی۔ اور سارے گلے بھی دور کر دوں گی۔" اس نے کہتے ہوےُ اس کے رخسار پر اپنے مرمریں لب رکھے تو وہ مسکرانے لگا۔

"ہاں اب سوچا جا سکتا ہے اس بارے میں... "

"کام کرنے دو اب مجھے.... جاؤ۔" وہ اسے دھکیل کر اپنی چئیر پر آ بیٹھی۔


"مرحا.... " وہ دروازہ کھول کر خود وسط میں کھڑا تھا۔

اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ آنکھیں سوال کر رہی تھیں۔

"لو یو... "

"لو یو ٹو... " وہ مسکرائی تو وہ بھی مسکراتا ہوا چلا گیا۔

"ہم دونوں میں سے کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ یوں محبت میں مبتلا ہو جائیں گے.... لیکن دیکھو! یہ کہاں آ گئے ہم۔" وہ خود پر اور شیری پر مسکراتی نفی میں سر ہلانے لگی۔

ختم شد


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Yeh Kahan Aa Gaye Hum Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Yeh Kahan Aa Gaye Hum    written by Hamna Tanveer  . Yeh Kahan Aa Gaye Hum by Hamna Tanveer  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages