Pages

Saturday 27 July 2024

Tu Muqaddar Mera By Suneha Rauf New Complete Romantic Novel

Tu Muqaddar Mera By Suneha Rauf  New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tu Muqaddar Mera By Suneha Rauf Complete Romantic Novel 


Novel Name: Tu Muqaddar Mera 

Writer Name: Suneha Rauf

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

اس کی گود میں سر دیتے مہد خان نے سسکی بھری۔

اس نے تو سُنا تھا کہ مرد نہیں روتے لیکن سامنے موجود مرد تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔

سردار کا بیٹا آج اس ادنیٰ سی عام لڑکی جو اس کی شریک حیات تھی اس کے سامنے رو پڑا تھا۔

اس نے جانا کہ دولت معنی نہیں رکھتی دولت سے بھی ہم خوشیاں خرید نہیں سکتے۔

مہد…. اس نے اس کے بالوں میں جھجھکتے انگلیاں چلائیں۔

مہد خان نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے اپنی آنکھوں پر رکھا۔

تو وہ پتھر کی ہو گئی... 

ہاں یہ مہد خان تھا جس کی ایک دھاڑ پورے علاقے کو خاموش کر دیتی تھی، جس کے  ایک اٹھتے قدم سے لوگوں کے سر عزت سے جھکتے تھے، جس کے آگے علاقے کے سردار ہشتم خان بھی خاموش ہو جاتے تھے جس کے آگے اس کا بڑا بھائی چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتا تھا۔

مجھے اس کی ضرورت بننا تھا اس نے مجھے ضد بنا لیا۔

میں مل گیا اسے اور اس نے توڑ دیا مجھے وہ اپنی شریک حیات کے سامنے کُھل گیا تھا۔

مہد خان خاموش ہوا تو وہ منتظر ہی رہی کہ شاید وہ کچھ آگے بولے لیکن خاموشی چھائی رہی۔

اسے لگا وہ سو گیا ہے۔

اس نے جھجھکتے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے۔

تو مہد نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا۔

وہ سہم کر پیچھے ہٹتی اس سے پہلے ہی مہد اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے اوپر جھکا چکا تھا۔

اس کے سلکی بال ان دونوں کو ڈھکے ہوئے تھے۔

مہد خان نے اس کی اٹھتی گرتی نظروں کا یہ منظر دیکھا تو مبہوت رہ گیا۔

کیا کوئی عورت اتنی دلکش بھی لگ سکتی ہے؟

یہی وہ لمحہ تھا جہاں وہ سب بھولتا اسے خود پر مزید جھکاتا سب بھول گیا۔

…………….. 

جوتے اتارو میرے اس کے بعد کھانا گرم کر کے لاؤ ہزار بار کی بکواس لگتا ہے سمجھ میں نہیں آتی تمہیں۔

ج.. جی.. میں…

اُف…. جلدی کرو…

وہ قریب آئی اور جھک کر اس کے جوتے اتارے۔

 جو وہ خود اتار سکتا تھا لیکن اس کے لیے بیوی اس کی زرخیز غلام جیسی تھی۔

مسئلہ جوتے اتارنے میں نہیں تھا تکلیف دہ وہ ہتک آمیز لہجہ تھا۔

جوتے اتار کر سائڈ پر رکھے تو وہ اٹھ کر فریش ہونے واش روم چلا گیا۔

اس نے جلدی سے تولیہ اور کپڑے نکالے کہ ایک منٹ کی تاخیر اسے سزا دلوا سکتی تھی۔

کپڑے نکالنے کے بعد اس کا رُخ باورچی خانے کی طرف تھا۔

دوپٹہ کاندھوں پر جھول رہا تھا کیونکہ رات کے اس پہر حویلی کے حال میں کوئی نہ تھا۔

نہیں تو ایسے ننگے سر پھرنے کی کہاں اجازت تھی انہیں۔

سب اپنے اپنے کمروں میں دُبکے سو رہے تھے۔

کیونکہ گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔

اس نے کھانا گرم کر کے نئی چپاتی ڈالی کیونکہ اس گھر کے مرد پہلے سے بنا کر رکھی گئی چپاتی کھانا جرم سمجھتے تھے۔

رات کے ایک بجے وہ اپنے شوہر کے لیے کھانا گرم کر رہی تھی۔

………….. 

کہ تب ہی مین ڈور کھل کر بند ہونے کی آواز آئی۔

اس نے جھٹ سے سر پر دوپٹہ اوڑھا۔

اس گھر کے مرد ہی اس وقت آ سکتے تھے۔

آہ! حویلی اور اس کی روایتیں…. 

مہد خان پوری ٹھاٹ سے اندر داخل ہوا تھا اور پھر کچن میں کسی وجود کو کھڑا دیکھ ٹھٹکا۔

وہ جانتا تھا کون ہے لیکن کیا فرق پڑتا تھا اس کی زات پر۔

کافی کی شدید طلب تھی لیکن وہ اس گھر کی عورتوں سے کم ہی مخاطب ہوتا تھا۔

سوائے اپنی ماں کے…. 

چھوٹا تھا اور سرپنج کا بیٹا تھا انا تو کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

کمرے میں جاتے ہی ایک نظر کمرے پر ڈالی جو اس کی اماں حضور نے صاف کروا دیا تھا۔

کیونکہ صبح ہی وہ کافی وقت پر نا ملنے پر کمرے میں موجود الماری کا دیوار گیر آئینہ توڑ چکا تھا۔

اس نے آتے ہی نمبر ڈائل کیا جو فوراً اٹھا لیا گیا۔

آ کر کافی بناؤ کمرے میں دے جانا اور فون کٹاک سے بند کر دیا۔

اسے پتا تھا اگلے دس منٹ میں سیفی اس کے کمرے میں کافی لیے حاضر ہوتا۔

سیفی بیس سالہ نوجوان تھا جو گارڈ کا بیٹا تھا اسے خاص طور پر ہشتم خان نے اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے رکھا ہوا تھا۔

اس کی روٹین کون نہیں جانتا تھا۔

خیر نہا کر باہر نکلتے ہی کافی اور سیفی دونوں موجود تھے۔

سو تو نہیں گئے تھے؟ 

جی وہ…. 

او…. 

کل سے روٹین چینج کر لو…. سیفی کو اس نے مشورے سے نوازا تو وہ جی کہتا پلٹ گیا۔

مہد خان کہاں کسی کے لیے بدل سکتا تھا۔

وہ سمجھتا تھا کہ وہ اکیلا خود کے لیے کافی ہے اپنی زندگی وہ اپنے طریقے سے جی رہا تھا ہر فکر سے آزاد۔

یہ دنیا پیسے سے چلتی ہے اور دولت اس خاندان کے پاس بے بہا تھی آخر اس پورے علاقے کے سردار تھے وہ۔

اسے لگتا تھا اسے کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں لیکن زندگی اسے بہت جلد غلط ثابت کرنے والی تھی۔

…………… 

وہ کھانا گرم کر کے لائی تو وہ نہا کر نکل چکا تھا۔

اس نے خاموشی سے کھانا نکال کر دیا اسے اور خود فریش ہونے کے لیے جانے لگی۔

رُکو! 

میں نے بولا ہے جانے کو؟ 

تہزیب نہیں سکھائی تمہیں کسی نے کہ شوہر کے پاس بیٹھ کر پوچھو کہ اور کچھ چاہیے؟ 

آہ….. تہزیب کی بات سامنے بیٹھے شخص سے سُننا اسے گالی سا لگا۔

خیر آج وہ پہلی بار بھولی تھی اس سے یہ جملہ سُننا "اور کچھ چاہیے"؟ 

اور آج ہی وہ طعنہ دے چکا تھا۔

وہ میں بھول گئی آج…. اس نے لب کچلتے کہا۔

تو مطلب روز تم پوچھتی ہو؟ 

جی…. بس آج بھول گئی۔

شاہ نواز خان سامنے موجود تمام پلیٹس اور گلاس کو ہاتھ مار کر گرا چکا تھا۔

کمرے میں چھناکے کی آواز گونجی تھی اور پھر سکوت چھا گیا۔

اس نے آنکھیں میچی۔

وہ کھڑا ہوتا لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس آیا۔

تم مجھے غلط ثابت کرنا چاہتی ہو؟ پیچھے سے بال مٹھی میں بھرتے کہا۔

وہ… نہ.. نہیں… 

تم جیسی عورتیں ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں کو خوش نہیں رکھ پاتی۔

آنکھوں سے کچھ موتی ٹوٹ کر گرے تھے۔

ماں ہوتی تو تمیز سکھاتی نا… اور بتاتی کہ شوہر کے سامنے کیسے پیش آنا ہے…. اس کی کلائی موڑ کر پیچھے کمر کے ساتھ لگائی۔

معا… معاف…. 

ششش…… 

اور پھر اس کے ہر عمل سے اسے لگا کہ وہ مر جائے گی۔

یہ جان لو کہ زندگی سب کی حسین نہیں ہوتی…. 

……………. 

ایک چھوٹا سا شہر پہاڑوں کے پیچ و بیچ جہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے ہی آتے تھے بہت کم آبادی تھی یہاں۔

اس چھوٹے سے گاؤں جیسے شہر کے سردار تھے ہشتم خان  کیونکہ یہاں کی ساری زمینیں ان کے باپ دادا کی تھیں۔

اور اب انہوں نے یہ زمینیں لوگوں کو آباد کرنے کو دی تھیں۔

ان کے دو ہی بیٹے تھے بڑا شاہ نواز خان اور چھوٹا مہد خان…. 

ایک ہی بھائی تھے دراب خان یہیں ان کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے وہ سب ہی سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے کیونکہ یہ خصلت انہوں نے اپنے باپ دادا سے چرائی تھی۔

لیکن ہشتم خان چونکہ سب سے بڑے تھے اور سردار تھے تو دھاک انہیں کی تھی۔

یہاں ہر گاؤں جیسے رواج نہیں تھے یہاں ہر سہولت موجود تھی لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکتی تھی نوکری کر سکتی تھیں۔

لیکن شادی کے بعد چلنا انہیں اپنے خاوند کے حساب سے ہی تھا چاہے کوئی بات ہوتی کوئی میاں بیوی کے معاملے میں نہیں بولتا تھا۔

عورت کو دوپٹہ اوڑھنا تھا ہر حال میں پردہ کرنا نا کرنا ان پر اور ان سے منسلک مرد پر تھا۔

نیز کے کہنے کو ہر طرح کی آزادی تھی لیکن کچھ تھا جو عورتوں کو کھٹکتا تھا اور وہ تھا مردوں کے معاملے میں نہ بولنا، مردوں کی ڈومینینٹ نیچر.... 

وہاں کا ہر مرد سمجھتا تھا وہ بہترین ہے..... 

انہیں مردوں کے معاملے میں یا ان کے آگے بولنے کی ہرگز اجازت نہ تھی۔

یہ حویلی نہ زیادہ بڑی تھی نا زیادہ چھوٹی اور نہ افسانوی کہانیوں کی طرح حد سے زیادہ خوبصورت۔

وہ شہر ہی اتنا خوبصورت تھا کہ وہاں کا ہر چھوٹا گھر بھی خوبصورتی کی مثال آپ تھا۔

سرخ اینٹوں سے بنی وہ حویلی دو پارشنز میں تھی ایک میں سردار ہشتم خان اپنی بیوی بڑے بیٹے بہو اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے۔

اور ایک میں دراب خان اپنی بیوی نازیہ خان اور ایک بیٹا فاضل خان اور ایک بیٹی عالیہ خان کے ساتھ قیام پزیر تھے۔

ایک بیٹھک تھی جہاں ہر فیصلہ لیا جاتا تھا ویسے تو سردار ہشتم خان نے لوگوں کو آزادی دے رکھی تھی۔

لیکن پھر بھی لوگ ان سے ان کی رائے ضرور مانگا کرتے تھے اور بیٹھک کسی سنگین مسئلہ پر ہی لگا کرتی تھی۔

سردار کے دونوں بیٹے باہر سے تعلیم حاصل کر چکے تھے اور گھر کی بیٹی بہو نے شہر کے کالج سے ہی گریجویشن کیا تھا۔

سردار ہشتم کی بہن فضیلہ خان بھی ساتھ موجود حویلی میں قیام پزیر تھی جن کی شادی سردار ہشتم کے دوست جبار خان سے ہی ہوئی تھی۔

ان کی ایک بیٹی این خان سردار ہشتم کے بڑے بیٹے کی بیوی تھی اور چھوٹی مہرین خان شہر میں مقیم سکول میں نوکری کرتی تھی۔

زندگی دکھنے میں پُرسکون تھی۔

……………

حویلی میں آج سب جمع تھے کیونکہ سردار ہشتم کا چھوٹا بیٹا واپس آ رہا تھا ولایت سے تعلیم حاصل کر کے..... 

اگر سردار ہشتم اور ان کی زوجہ سے پوچھا جاتا کہ انہیں اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز کون ہے تو.... 

وہ بے دھڑک مہد خان کا نام لیتے۔

مہد شاہ نواز سے سات سال چھوٹا تھا اور انہوں نے بہت منتوں مُرادوں سے اسے پایا تھا۔

کیونکہ زینب خان کی طبیعت کافی خراب رہتی تھی اور ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ وہ اب کبھی ماں نہیں بن پائیں گی۔

لیکن انہوں نے امید نہیں چھوڑی تھی اور سات سال بعد ان کی گود میں مہد خان آیا تھا۔

ان دونوں کو کوئی بولتا کہ اپنا آپ لٹا دو تو وہ اس سے بھی دریغ نہ کرتے مہد خان میں ان کی سانسیں اٹکی تھی۔

شاہنواز سے بھی محبت تھی لیکن وہ کافی اکھڑ طبیعت کا مالک تھا کسی کی نا سننے والا۔

کبھی زینب خان حیران ہوتی کہ کیا واقعی وہ ان کا خون ہے اس کی یہ تربیت تو نہیں کی تھی انہوں نے۔

وہ وہی کرتا تھا جو چاہتا تھا وہ بہت سے ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھا کہ سردار ہشتم سے اکثر اس کی جھڑپ ہو جاتی لیکن وہ سب ان سُنا کر دیتا۔

یہی وجہ تھی کہ وہ مہد سے حد درجہ قریب ہوتے گئے تھے اگر وہ کہتے رات ہے تو مہد بھی ان کی بولی بولتا تھا۔

لیکن اپنی ہر بات وہ سردار سے منوا لیتا تھا۔

ایسی کوئی چیز اس کی زندگی میں نہیں رہی جس پر اس نے ہاتھ رکھا ہو اور اس کے باپ نے اسے دلوائی نہ ہو۔

……………................................

وہ الماری صاف کر رہی تھی کہ دروازہ کھٹاک سے کُھل کر بند ہوا۔

وہیں وہ نشے میں جھولتا آگے بڑھ رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتا این نے اسے آگے بڑھ کر پکڑا۔

 چھوڑو…..

وہ اسے دھکا دیتا خود سے دور کرتا بولا۔

میری تو سالا زندگی حرام ہو گئی ہے جب بھی تمہاری شکل دیکھتا ہوں افسوس ہوتا ہے خود کی قسمت پر…

وہ لڑکھرایا…

این نے آگے بڑھ کر اسے پھر سے تھامنا چاہا۔

کہا نا دور… اب کہ وہ اس کی خوفزدہ آنکھوں میں اپنی سُرخ آنکھیں گاڑھتا بولا تو وہ وہیں رُک گئی۔

ابا نے میرے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے تم جیسی کو میری جھولی میں ڈال کر…. 

شاہ نواز خان جسے دیکھ کر لڑکیاں اب بھی آہیں بھرتی ہیں وہ تم جیسی کے حصے میں آ گیا خوش قسمتی ہے تمہاری۔

این نے آنکھیں میچی۔

خوش قسمتی……؟ کیا واقعی…؟ خوش لفظ اس کی زندگی میں کہیں تھا بھی… 

این جس کا مطلب ہے بہار لیکن تم نے تو میری زندگی کو آ کر عزاب کر دیا وہ چیختا ساتھ پڑا واس پھینک گیا۔

این نے ڈر کر ہاتھوں کی مٹھی بنائی۔

لیکن نہیں کہنےکو تو تم بھی حسین ہو وہ پل میں اپنا لہجہ بدلتا بولا۔

این نے سہمی نظروں سے اسے دیکھا جو اس کی طرف ہی آ رہا تھا۔

این نے دل میں شدت سے دعا کی کہ کاش یہ منظر بدل جائے اور وہ کہیں غائب ہو جائے۔

وہ اس کے نزدیک آتا اس کے بالوں کی لٹ کو انگلی میں گھمانے لگا۔

بیوی کو حسین ہی ہونا چاہیے…. وہ نشے میں ناجانے کیا بول رہا تھا۔

تم خوبصورت ہو این ڈارلنگ بے حد خوبصورت یہی وجہ ہے میں نے تمہیں اب تک ساتھ رکھا ہے ہاہاہاہا…..

وہ اس کو ساتھ لگاتے بولا۔

اتنی تزلیل پر این کی آنکھوں سے آنسو گرا۔

اس نے شدت سے دعا کہ کہ کاش اسے یہ حُسن نہ ملا ہوتا۔

وہ اسے اپنے ساتھ لاتا بیڈ پر بٹھانے لگا۔

لیکن توازن برقرار نہ رکھ پایا۔

تو چلو آج این ڈارلنگ کے حسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں وہ اس پر جھکا تو وہ سسکنے لگی۔

نہی… نہیں… 

دور… رہو… 

بیشک وہ محرم تھا اس کا شوہر لیکن تھا تو نشے میں…. 

اس کا ضمیر گوارا نہیں کرتا تھا ایک نشے میں ڈوبے شخص کو اپنی قُربت سے پگھلانے کا۔

این نے اس سے اپنے ہاتھ چھڑائے جس پر اس کی سخت گرفت تھی۔

مجھے منع کرو گی تم…. تمہاری یہ ہمت اور ایک اور تھپڑ اس کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ چکا تھا۔

شادی کے بعد ناجانے یہ کتنوا تھپڑ تھا جو اس نے کھایا تھا لیکن مزاحمت اب بھی جاری تھی۔

کچھ باتیں عورت کی انا کو ٹھیس پہنچاتی ہیں۔

ان میں سے ایک بات این کے لیے یہ بھی تھی کہ وہ اپنے شوہر کو اپنی قربت اس کے نشے میں ہونے پر نہیں بخشنا چاہتی تھی۔

این کی مزاحمت بڑھتی جا رہی تھی۔

شاہ نواز بگڑے تیور لیے اس کی گردن پر جھکا تھا۔

اس کی کلائیاں سرخ تھی اور دائیں گال پر اس کی انگلیوں کے نشان ثبت تھے۔

یہ کون سا پہلی بار ہے جو تمہارے ڈرامے نہیں ختم ہو رہے لیکن اس کی مزاحمت کم نہ ہوتے دیکھ شاہ نواز نے اسے بیڈ سے نیچے دھکا دیا تھا۔

کہ وہ نیچے گری سر زور سے زمین پر لگا تھا لیکن وہاں پرواہ کسے تھی وہ فوراً اٹھ کر واش روم میں بند ہو گئی۔

کچھ مرد محافظ کے نام پر دھبا ہوتے ہیں۔

وہ رات بھی کئی راتوں کی طرح واش روم میں سسکتے گزری تھی این کی۔

یا رب کیا میری زندگی میں سکون نہیں لکھا تو نے؟

مہد خان کے آنے پر ہر طرف ایک شور برپا تھا حویلی میں ایک شاندار جشن کل رات منایا گیا تھا۔

پورے شہر میں کھانا بانٹا گیا تھا سردار ہشتم کے تو پاؤں ہی زمین پر نا ٹک رہے تھے۔

اب بھی کھانے کی میز پر وہ بار بار اس سے کچھ نا کچھ کھانے کو پیش کر رہے تھے۔

شاہ نواز نے اپنے باپ اور بھائی کے اس پیار کو بیزاری سے دیکھا۔

عورتیں سر جھکائے کھانا کھا رہیں تھی۔

میز بیشک ایک تھا لیکن عورتیں ایک طرف اور مرد ایک طرف بیٹھتے تھے۔

بابا میں کھا رہا ہوں آپ بھی کھائیں دیکھیں کتنے کمزور ہو گئےہیں مہد خان کی گھمبیر آواز اس حال میں گونجی۔

سردار کا قہقہہ گونجا اور پھر وہ پوری دل جمعی سے ناشتہ کرنے لگے۔

مجھے ایک گھوڑا لینا ہے بابا سائیں۔

پورا اصطبل تمہارا ہے میرے شیر جون سا چاہے لے لو۔

نہیں! ان میں سے نہیں…. 

تو پھر…. 

میں ایک پسند کر چکا ہوں اور مجھے وہی لینا ہے۔

اس کی یہی ضد تو سردار ہشتم خان کو پسند تھی۔

کتنے کا ہے؟ 

ڈھائی لاکھ…. 

ڈھائی لاکھ تو میں اپنے بیٹے پر سے وار دوں….. انہوں نے فخر سے کہا۔

کاش اس دولت سے آپ کبھی خوشیاں بھی خرید پائیں این نے ناشتہ کرتے سوچا۔

میں آج ہی خرید رہا ہو مہد نے اپنا فیصلہ سنایا۔

شیر ہے تو میرا….. انہوں نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔

…………… 

گھوڑا وہ خرید چکا تھا اور اب وہ جھیل کنارے رُکا تھا اس کا دوست اس کے گھوڑے پر بیٹھے کا شوٹ کر رہا تھا۔

مقابل کی ہنستی آواز پر وہ ٹہرا۔

نہیں….. جو عیزہ شاہ کا نہیں وہ کسی کا نہیں….

اور پہلی بار مہد خان نے کسی لڑکی کو خود مڑ کر دیکھا تھا۔

نہیں تو لڑکیاں اس کی گرویدہ رہیں تھی لیکن آج وہ مُڑ کر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔

جو سفید پینٹ اور اوپر مہرون جیکٹ پہنے سر پر ٹوپی اوڑھے ہوئے تھی متناسب سراپا ہوش ربا حسن سلکی بال اور تراشے ہونٹ جو اس وقت سرخ لپسٹک سے پوشیدہ تھے۔

پہلی بار کسی کے حُسن نے مہد خان کو تسخیر کیا تھا۔

جو چیز عیزہ شاہ کو پسند آجائے وہ کسی اور کی ہو جائے ممکن ہی نہیں…. 

میں اپنی اترن کسی کو نا دوں پھر پسندیدہ شے کیا ہے… 

جو چیز میری ضد بن جائے اسے حاصل کرنا مجھ پر فرض ہو جاتا ہے وہ بال جھٹک کر ادا سے بولی۔

مہد خان وہی کھڑا اس کے نادر خیالات سُن رہا تھا۔

پہلی بار اس کے ہونٹ مسکرائے تھے کسی صنفِ نازک کی بات پر….

مہد چلو شام ہو گئی ہے…. اس کے دوست نے اسے متوجہ کرنا ضروری سمجھا۔

تبھی عیزہ شاہ نے اسے گھوڑے سے اُترتے دیکھا تھا اس کی تمام دوستوں نے سرد آہیں بھری۔

اُف ڈوڈ ہی از ٹو ہینڈسم…. ایک نے دوسری کو کہنی مارتے کہا۔

ہاٹ ہے باس….. 

عیزہ نے دلچسپی سے اسے دیکھا جو آنکھوں پر شیڈز چڑھائے ان کی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔

اس کی دوستوں نے مارے خوشی کے اپنے بال وال ٹھیک کیے…. 

عیزہ شاہ بھی ناچتے ہوئے اس کی منتظر ہوئی۔

لیکن مخالف ان کی طرف ایک نظر بھی نہ دیکھتے ہوئے سائیڈ سے گزر گیا۔

یہی ایٹیٹیوڈ عیزہ شاہ کو اس کا گرویدہ بنا گیا تھا۔

نہیں تو لڑکے اس کے آگے پیچھے خود پھرتے تھے اور وہ کسی کو منہ لگانا پسند نہیں کرتی تھی۔

اس نے دور تک مہد خان کو نظروں کے حصار میں رکھا تھا۔

…………… 

این بڑے حال میں داخل ہوئی جہاں سب عورتیں بیٹھیں تھی۔

دوپٹہ اس نے سر سے اتار دیا تھا گرمی کی وجہ سے۔

اس کی ماں نے اِس کے ماتھے پر لگی چوٹ دیکھ کر نظروں کا زاویہ بدل لیا۔

آج اس کی ماں اور بہن بھی وہی موجود تھی۔

مہر بھی جاب کرتی تھی لیکن آج ان کا رات کا کھانا وہیں حویلی میں تھا۔

آپی یہ کیا ہوا ہے آپ کے ماتھے پر؟ 

چوٹ لگی ہے مہر این نے سنجیدگی سے کہا۔

چوٹ لگی یا ملی ہے؟ مہر نے استفسار کیا۔

مہر….. اُس کی ماں نے ٹوکا۔

آپ مجھے کیوں چُپ کروا رہی ہیں ماما….. اپنی بیٹی سے اس کی تکلیف پوچھنے کی بجائے آپ آرام سے بیٹھی ہیں اور مجھے بھی خاموش کروا رہی ہیں۔

کیا تمہارے اس واویلے کا کوئی فائدہ ہے؟ 

سب آواز اٹھائیں تو اس شیطان صفت انسان میں اتنی ہمت نہ آئے کہ وہ آپی پر ہاتھ اٹھا سکے بار بار۔

وہاں تمام عورتوں کے سر جُھک گئے وہ ٹھیک کہہ رہی تھی بالکل….. لیکن….. 

مہر چپ ہو جاؤ… این نے تھک کر کہا۔

آپی آپ تو کم از کم اپنے لیے آواز اٹھائیں مہر اس کے پاس آتی جھنجھلاتے ہوئے بولی۔

اس سے کیا ہو گا؟ 

اس سے آنے والی لڑکیاں بچ جائیں گی اس ظلم سے… 

نہیں ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا مہر…. ہو سکتا ہے گھر کے باقی مرد الگ زہنیت کے مالک ہوں۔

آپی الگ ہوتے ہیں لیکن تربیت اور خون تو ایک ہے نا…. خون تو سردار ہشتم خان کا ہے نا…. جن کا روب و دبدبہ ہے سب پر… 

تو کیوں نا ان کے بیٹے بھی رکھیں سب پر.. 

مہر جاؤ…. کچن میں دیکھ کر آؤ کھانا تیار ہے تو خانساماں کو بولو میز لگائے سب آتے ہی ہوں گے زینب خان نے اسے کہا تو وہ غصے سے باہر نکل گئی۔

اس کے جاتے سب عورتوں نے گہری سانس بھری۔

…………….. 

وہ جو غصے سے باورچی خانے کی طرف بڑھ رہی تھی سامنے سے آتے فاضل خان کو نا دیکھ پائی۔

اور نتیجہ زور دار تصادم کی صورت ہوا تھا کیونکہ مخالف بھی فون میں سر دیے ہوا تھا۔

اسے دیکھتے مہر کے منہ کے زاویے مزید بگڑ گئے جو فاضل خان نے نوٹ کیے تھے۔

اور پیشانی پر سلوٹوں کا اضافہ ہوا تھا۔

دیکھ کر نہیں چل سکتے؟ 

یہ کس طرح بات کر رہی ہو تم مجھ سے؟ فاضل خان نے آنکھوں سے چشمہ ہٹایا۔

کیوں تم سے بات کرنے کے لیے اب مجھے آداب کی کلاسیز لینی پڑے گی۔

یہ تم تم کیا لگا رکھی ہے شوہر ہوں تمہارا زبان کو لگام دو تھوڑا۔

رخصتی ابھی ہوئی نہیں ہے فاضل خان…. 

ہو جائے گی….. لیکن بیوی تو میری ہی ہو نا تو زرا دھیان سے فاضل خان نے اس کی بے خوف آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا۔

بدقسمتی سے….. مہر نے آہستہ سے کہا اور سائیڈ سے نکلنے لگی لیکن مقابل سُن چکا تھا۔

اس کا ہاتھ تھام کر گھسیٹتا ہوا اسے اپنے کمرے میں لایا۔

چھوڑو….. 

چھوڑو….. تم ایسا نہیں کر سکتے …. ہاتھ چھوڑو میرا… 

فاضل خان نے دروازہ بند کر کے اسے دروازے کے ساتھ لگایا… 

اب بولو کیا بول رہی تھی…. بدقسمتی سے تم میرے نکاح میں ہو…. 

بدقسمتی تو میری ہے جسے اتنی بدزبان عورت ملی ہے۔

یہ سن کر مہر کو تو پتنگے ہی لگ گئے…. 

کوئی زبردستی نہیں ہے…. چھوڑ بھی سکتے ہو۔

آہ……!

فاضل خان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کا رُخ دروازے کی طرف کیا۔

مہر کی کمر اب اس کے سینے کے ساتھ جڑی تھی۔

"فاضل خان اپنے سگریٹ کی راکھ تک کسی کو نا دیے…. تم تو پھر بیوی ہو" وہ اس کے کان میں پھنکارا۔

چھوڑو….. وہ اس کی گرفت میں مچل رہی تھی لیکن فاضل خان کو تو جیسے فرق ہی نہیں پڑا تھا۔

اس کی مزاحمت بڑھنے لگی تھی۔

فاضل خان نے کندھے سے اس کی شرٹ سرکائی تو وہ ساکت رہ گئی۔

ڈونٹ….. مہر غرائی۔

اس کی قربت سے اس کا واسطہ پہلی بار پڑا تھا اور یہ قربت اس کی سانس روک رہی تھی۔

اور کون روکے گا مجھے……؟ 

فاضل خان نے کہتے اس کے کندھے پر دانت گاڑے۔

آہ…… 

تم جنگلی ہو…. 

میرے جنگلی پن کا مظاہرہ آپ نے دیکھا ہی کہاں ہے مہر بی بی جس دن دیکھو گی وہ دن اور رات دونوں تمہیں زندگی بھر یاد رہیں گے۔

اب اس کے اسی جگہ پر اپنے لب رکھے تو مہر نے آنکھیں بند کی دو آنسو آنکھوں سے گرے تھے۔

فاضل خان نے جھٹکے سے اس کا چہرہ خود کے سامنے کیا۔

پہلے تو بہت زبان چل رہی تھی مہر بےبی…. اب کیا ہوا؟

آئی ہیٹ یو….. اس نے درشتی سے کہا۔

تو فاضل خان مسکرایا…. پراسرار مسکراہٹ….

اس کے آنسو اپنے ہونٹوں سے چنتے وہ پیچھے ہٹا۔

مہر نے سانس روک رکھی تھی۔

فاضل خان نے مٹھیاں بھینچی کیا اس کی قربت اتنی نالاں تھی اس لڑکی کے لیے کہ وہ سانس روک بیٹھی تھی۔

یہی قربت بری لگ رہی ہے نا تمہیں…. بہت جلد اسی سے تمہاری جان لوں گا….

کرتا ہوں آج ہی بات پھپھو سے اور بابا سے رخصتی کی۔

مجھے یہی دھونس مردوں کی پسند نہیں… مہر نے حقارت سے کہا۔

اور مجھے یہ زبان درازی…. اس نے دوبدو کہا۔

چھوڑو…. مجھے جانا ہے اب کی بار مہر نے اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔

چلی جاؤ واپس…. یہی آنا ہے تمہیں…. 

اور اس کے شکنجے سے آزاد ہوتے ہی وہ بھاگ گئی تھی۔

……………… 

تم نے سب کو میری شکایت لگائی ہے؟ وہ جو رات کو ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی چونکی۔

نہ… نہیں…. 

میں ایسا کیوں کر… کروں گی۔

اچھا لیکن تمہاری وہ بہن آج بہت بول رہی تھی….. مردوں کے بارے میں…. وہ اٹھتا اس کے قریب آیا۔

وہ مہر بس… ایسے ہی…. بچی ہے تو…. 

بچی ہے تو کچھ بھی بکواس کرتی پھرے گی۔

وہ جو اوپر اپنے کمرے میں والٹ لینے جا رہا تھا کمرے سے آتی آوازوں پر رکا اور مہرین خان کی ساری باتیں وہ سن چکا تھا۔

می… میں معافی مانگتی ہوں آپ سے….این نے ڈرتے کہا۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم ہمارے کمرے کی باتوں کا باہر اشتہار لگاتی پھرو شاہ نواز نے اس کے بال مٹھی میں جکڑے۔

نہیں… میں نے کچھ نہیں بتایا…. 

تو ان کو خواب آگیا؟ 

وہ چوٹ… این نے ڈرتے ماتھے کی چوٹ پر ہاتھ رکھا…. 

شاہ نواز نے حقارت سے اسے دیکھا…..

تم مجھے کتنی ناپسند ہو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے تمہیں این خان….

تم زبردستی مسلط کی گئی ہو مجھ پر…. تمہیں دیکھتے ہی مجھے احساس ہوتا ہے زندگی جہنم ہے۔

اس نے اسے دھکا دیتے کہا۔

این نے اتنی تزلیل پر آنکھیں میچی۔

میں معافی…… 

تمہاری معافی سے کیا میری زندگی بہتر ہو سکتی ہے…..؟ 

تمہیں دیکھ کر احساس جاگتا ہے کہ بابا نے مجھ پر مہد کو فوقیت دی تمہیں مجھ پر تھوپ دیا۔

اور اسے باہر جا کر عیاشی کرنے دی…. میرا دم گھٹتا ہے تمہارے ساتھ…. تمہاری شکل دیکھ کر….. اس نے ایک ٹھوکر اسے رسید کی تو وہ کراہی۔

اور پھر وہ ایسی ہی دو تین ٹھوکریں اسے مارتا باہر نکل گیا۔

این کتنی ہی دیر وہیں پڑی رہی اس مار کی عادت تھی اسے۔

ایسے کئی الفاظ روز اس کی زات کو چھلنی کرتے تھے وہ ہر روز یہی سوچتی تھی کیا اس کی زندگی یہی ہے؟ 

وہ ناچاہتے ہوئے بھی رب سے شکوہ کر جاتی تھی۔

شاہنواز اس کا شوہر تھا لیکن این کو اس سے محبت نہیں ہوئی تھی کبھی اور ہوتی بھی کیسے......؟

اس نے ہونے ہی نہیں دی تھی۔

اسے یاد تھا وہ اکیس کی ہو گئی تو بابا اس کا رشتہ دیکھنے لگے تھے۔

لیکن سردار ہشتم کو یہ گوارا نہ تھا کہ گھر کی لڑکی کہیں باہر جاتی انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اکٹھا کیا اور معاملہ سمجھایا۔

دونوں ہی راضی نہ تھے۔

لیکن سردار ہشتم ان پر واضح کر گئے تھے کہ گھر کی عورتین باہر نہیں جائیں گی۔

مہد خان نے تو صاف انکار کیا تھا کہ چند دنوں بعد اس کی فلائیٹ تھی اسے پڑھنے کے لیے جانا تھا اور شاہ نواز ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔

مہد خان جا چکا تھا اور اب صرف شاہنواز اور فاضل خان بچے تھے۔

ان دونوں کا نکاح این اور مہر سے پڑھا دیا گیا تھا۔

شاہ نواز نے کافی ہنگامہ کیا تھا لیکن سامنے سردار ہشتم تھے جنہوں نے اس کی ایک نہیں سنی تھی۔

شاہ نواز کو گھر کی عورتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا اسے شادی کرنی ہی نہیں تھی۔

اسے لگتا تھا اسے کسی عورت کی ضرورت نہیں…

اس کی نظر میں عورت کی زات حقیر تھی اور یہ بات اس نے این پر ثابت کر دی تھی۔

شراب اور شباب اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور گھر میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔

وہ اپنا وقت انہیں چیزوں میں گزارا کرتا تھا۔

این کو دیکھ کر اسے ہمیشہ نفرت ہوتی کیونکہ سردار ہشتم نے مہد کو فوقیت دی تھی اس پر اور اسے باہر بھیج دیا تھا پڑھنے کے لیے اور اسے باندھ دیا تھا۔

یہ جانے بغیر کہ اس رشتے کا انجام کیا نکلے گا۔

……………….. 

مہد اور اس کے دوست شہر کے بڑے ریسٹورنٹ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔

چونکہ کل واپس بھی جانا تھا مہد کو سو رات کا ڈنر اس کی طرف سے تھا۔

اچھے ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا اور اب وہ سب واپسی کے لیے اٹھ گئے تھے۔

اسے ابھی سردار ہشتم کا فون آیا تھا جو اسے کافی مِس کر رہے تھے۔

سو وہ ابھی واپس جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

اس لیے اس کے سارے دوست اپنی گاڑیوں میں جا چکے تھے وہ اپنی گاڑی میں روانہ ہوا۔

راستے میں کوئی گاڑی رکی تھی اور کوئی لڑکی اس پر جھکی تھی رات کے اس پہر جو کوئی بھی تھا اسے ایسے یہاں نہیں رکنا چاہیے تھا۔

وہ مدد کی غرض سے اترا کیونکہ اندھیرا تھا ہر طرف اور صنفِ نازک کے لیے یہ وقت مناسب نہیں تھا سڑکوں پر رکنے کا۔

ایکسکیوزمی۔

وہ جو بونٹ پر جھکی انجن سے نکلتے دھوئیں کو دیکھ رہی تھی مردانہ آواز پر چونکی۔

سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکی۔

وہیں مہد خان کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق جاگی۔

اینی پرابلم مِس؟ 

جی! چلتے چلتے رک گئی ہے اور یہاں سگنل بھی نہیں ہے جو میں کسی کو انفارم کر سکوں۔

آپ ایسا کریں گاڑی لاک کر دیں اور آجائیں میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں۔

مہد اسے اچھے سے پہچان گیا تھا جو ریڈ ٹاپ میں آج بھی حسین لگ رہی تھی۔

اسے لگا تھا جو اس کی بات پر جھجکے گی لیکن اس نے فوراً اس کی بات پر عمل کیا تھا۔

اور اب وہ گاڑی میں موجود تھے۔

کہاں اترنا ہے آپ کو مہد کی بھاری آواز گونجی۔

گاڑی میں اس کے کلون کی خوشبو پھیلی تھی۔

عیزہ شاہ  اس کی پرسنیلٹی سے مرغوب نظر آئی۔

آپ کا نام؟ 

مہد خان… مہد کی ساری توجہ ڈرائیونگ پر تھی۔

مائی سیلف عیزہ شاہ… اس نے خود کا تعارف خود ہی کروایا تو وہ محظ سر ہلا گیا۔

کیا کرتے ہیں آپ؟ 

پڑھائی مکمل ہو چکی ہے اب اپنا بزنس شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

ہمممم….

آپ کے فادر کیا کرتے ہیں؟ وہ تو جیسے انٹرویو لینے آئی تھی اس کا۔

اپنے گاؤں کے سردار ہیں….. 

او….. امپریسو…. 

ہم…. 

مہد نے زیادہ بات نہیں کی تھی وہ ایسا ہی تھا زیادہ کسی کو منہ نہ لگانے والا۔

عیزہ شاہ نے اوپر سے لے کر نیچے تک اس کا معائنہ کیا تھا بیشک وہ مردانہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

اور عیزہ شاہ کو اس کے بیک گراؤنڈ نے کافی امپریس کیا تھا۔

گاڑی میں اب خاموشی تھی۔

تو اس نے میوزک پلییر اون کیا جس میں کوئی غزل چل رہی تھی۔

اس نے چینج کیا لیکن تمام غزلیں ہی تھی اس نے منہ بنایا۔

کیا آپ صرف غزلیں ہی سنتے ہیں؟ 

جی….. 

کیوں؟ 

کیونکہ مجھے پسند ہیں…. 

اوکے…. 

اس کا کونفیڈنس مہد خان کو اچھا لگا تھا عورتیں ایسی ہی اچھی لگتی ہیں نڈر اس نے دل میں سوچا۔

اس کے گھر کے آگے اتارا تو اس نے اندر آنے کی پیشکش کی۔

جی نہیں شکریہ….. مہد خان نے کہا۔

آپ مسکراتے نہیں ہیں عیزہ شاہ نے اترنے سے پہلے پوچھا۔

مہد خان کے عنابی لبون پر ہلکی سے مسکراہٹ آ کر دم توڑ گئی۔

تھینک یو…. 

مائی پلییر…. مہد کہتا گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔

عیزہ شاہ کی نظروں نے دور تک اس کی گاڑی کو حصار میں رکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارش ہوتے دیکھ بھی آج این کا دل نہیں مچلا تھا… 

کبھی وہ اس بارش کی دیوانی ہوا کرتی تھی پہرو اس میں بھیگا کرتی تھی۔

ایک آنسو اس کی آنکھ سے گِرا۔

میں اتنی بے مول کیوں ہوں؟ میں نے ہمیشہ سے خود کے لیے ایک ایسا شخص سوچا تھا جو کم از کم عزت تو دیتا لیکن…… 

میں راضی ہوں تیری رضا میں میرے مالک…. 

لیکن کبھی مجھے لگتا ہے وہ شخص مجھے مار کر ہی سانس لے گا۔

میں نے کبھی خیانت نہیں کی اس رشتے میں…. نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے اور یہی طاقت مجھے اس کی طرف مائل کر گئی لیکن اس نے مجھے ہر لمحہ میری اوقات بتائی ہے…… میں نے سوچا تھا میں اسے بدل دوں گی…. 

لیکن اس نے مجھے بدل دیا… 

میں جو تھی وہ اب نہیں رہی…. 

اور جو ہوں ایسی کبھی تھی ہی نہیں…. 

میں نے خود کو اس کے رنگ میں ڈھال لیا اس کے قریب آتے مجھ پر وحشت طاری ہو جاتی ہے….. 

شادی سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ مرد کتنا حسین ہے اپنی قربت سے عورت کو رنگین کر دیتا ہے۔

لیکن افسوس میں غلط تھی اس شخص نے اپنی قربت سے مجھے مزید بے رنگ کر دیا۔

اس کے ہر عمل میں سختی ہوتی ہے ایک مجبوری….

اس کا لمس مجھے سکون نہیں ہر روز ایک نئی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔

میرا دل چاہتا ہے کہ کاش میں اُڑ سکتی تو اس گھٹن زدہ ماحول سے بھاگ جاتی۔

دور… 

بہت دور…. 

لیکن طلاق رب کو ناپسند ہے… اور عورت کو اس معاشرے میں طلاق شدہ کا ٹھپا لگ جانے کے بعد اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

کیوں؟ 

کیا عورت انسان نہیں….. 

کیا اسے درد نہیں ہوتا۔

رب العزت کو ناپسند ہے طلاق…. میں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کر سکتی اس لیے میں نے ہر دم یہ رشتہ نبھایا ہے۔

اور نبھاؤ گی۔

ہر دن ایک نئی ازیت کے لیے میں خود کو تیار کر لیتی ہوں اور سوچ کے عین مطابق وہ ہر روز مجھے پہلے سے بُرے طریقے سے توڑ دیتا ہے۔

کہنے کو وہ میرا شوہر ہے میرا لباس…. لیکن… 

میرے دل میں اس کے لیے کوئی جزبات نہیں بچے…. 

……………..

عیزہ شاہ کو کسی پل سکون نہیں آرہا تھا اسے وہ شخص بھا گیا تھا۔

اس کا دل خواہشمند ہوا تھا…. ہوتا بھی کیوں نا اتنا شاندار مرد وہ اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔

لیکن وہ اس تک کیسے رسائی حاصل کرے؟ 

ہاں! 

اس نے فیسبک انسٹا ہر سوشل میڈیا ایپ پر مہد خان کو تلاشا تھا۔

اور پھر انسٹاگرام پر بیشک ہزاروں کی تعداد میں مہد خان کے نام کے اکاؤنٹس تھے لیکن اس کا اکاؤنٹ پبلک تھا۔

اور اس کی تصویریں دیکھ کر وہ فوراً پہچان گئی تھی۔

اَف ہی از سو ہینڈسم….. 

عیزہ یہی چاہئیے….. 

کیا ہو رہا ہے شہزادی؟ فرحت شاہ نے اس کو دیکھتے کہا۔

کچھ نہیں ڈیڈ…. 

بس کچھ گھومنے کا من ہو رہا ہے تو جگہیں دیکھ رہی تھی۔

او…..اچھا اور کہاں گھومنے کا ارادہ ہے؟ 

ہنزہ…. 

گریٹ….. 

جو چاہیے ہو مجھے بتا دینا پیسے میں اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دوں گا وہ مسکرائے۔

اوکے ڈیڈ! 

فرحت شاہ بزنس مین تھے اہلیہ ان کی وفات پا چکی تھی اب گھر میں ان کی بیٹی اور وہی ہوتے تھے اور نوکروں کی ایک پوری فوج۔

وہ بھی گھر کم ہی پائے جاتے تھے ان کی سرگرمیاں مختلف تھی کبھی وہ کہیں کسی شہر میں ہوتے کبھی کہیں۔

بزنس کو بلندی پر لے کر جانا ان کے لیے نشے جیسا تھا جس کے لیے وہ ہر روز کہیں نا کہیں گئے ہوتے۔

عیزہ کو انہوں نے نوکروں کے حوالے کر رکھا تھا۔

جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی اسے بھی ان چیزوں سے فرق نہ پڑا…. 

اس کے لیے بھی پیسہ زندگی تھا…. جو اس کے پاس بہت تھا زندگی ایسی ہی عیاشی میں گزر رہی تھی۔

وہ ہر چاہی چیز خرید لیا کرتی تھی…بیشک اس کے لیے اسے دگنی قیمت کیوں نہ دینی پڑے۔

چونکہ مہد کا شہر ہنزہ کے قریب تھا وہ اس نے اس کی تصویروں کے اوپر لوکیشن میں پڑھا تھا۔

اب وہ سیر و تفریح  کا بہانہ بنا کر اس کے شہر جانا چاہتی تھی۔

اس نے اپنی دو دوستوں کو بھی پلین میں شامل کیا اور نکل پڑی۔

…………….. 

مہر کو اس دن سے فاضل خان پر تاؤ آرہا تھا لیکن وہ اسے ڈرا بھی چکا تھا۔

تو کیا اگر سچ میں انہوں نے رُخصتی کی بات کر لی تو؟ 

ام….. ہم…. 

کیا مصیبت ہے…. میں ان سے بات کر کے انہیں منع کر دوں گی۔

ہاں یہ صحیح ہے… میں انہیں منع کر دیتی۔

اس نے اپنے کونٹیکٹ لسٹ میں سے فاضل خان کا نمبر نکالا ۔

ملاؤ یا نہیں…..اُف……..

مہر….. 

تو کیوں اتنا ڈر رہی ہے؟ 

وہ کونسا کوئی جانور ہے جو تجھے کھا جائے گا۔

جانور تو وہ ہے…. اسے اس دن کی اس کی حرکت یاد آئی۔

لیکن ابھی مجھے اس شادی کے چکر میں نہیں پڑنا… 

اور فاضل خان کے ساتھ تو بالکل نہیں….. 

اس نے کال ملائی اور ساتھ اپنا ناخن دانتوں سے کترنے لگی۔

فاضل خان جو مدہوش تھا کسی کی باہوں میں…. 

فون کی چنگارتی آواز اسے ہوش میں لائی۔

چونکہ فون لیلیٰ والی سائڈ کے ڈرا پر پڑا تھا تو اس نے فون اٹھا کر فوراً سے اسپیکر اون کیا۔

فاضل خان نے نام بھی نہیں دیکھا تھا۔

ہاں بولو….. 

وہ… ہمیں کچھ بات کرنی ہے…. مخالف کی آواز سنتا وہ جو کسملندی سے پڑا تھا فوراً اٹھ کر بیٹھا۔

مہر….. 

جی مہر….. 

بولو….. فاضل نے لہجے کو نارمل رکھنے کی حتیٰ امکان کوشش کی۔

ضروری بات ہے…. 

آ کر کریں گے ہم مہر….. 

نہیں…. 

آپ کو آنے کی ضرورت بالکل نہیں ہے….. 

وہی رہیں اور ہماری بات سنیں…. فاضل خان نے جھک کر لیلیٰ کو دیکھا جو اس کی گردن کے گرد باہیں پھیلائے اس کی گردن پر جھکی تھی۔

ہم نے بولا نہ آ کر بات کریں گے…. اس نے سخت لہجے میں کہا۔

آپ نہ ہی آئیں تو زیادہ بہتر ہے… ہم نے صرف یہی کہنا تھا کہ ہم اتنی جلدی رخصتی نہیں چاہتے…. سو آپ ابھی کسی سے بات نہیں کرنا….. نہیں تو….. 

او مائی گوڈ فاضی تم شادی کر رہے ہو…..؟ 

لیلیٰ کی زوردار آواز سے جہاں فاضل خان نے اسے غصے سے دور جھٹکا وہیں مخالف کو جھٹکا لگا تھا۔

آہ….. جنگلی انسان… 

خود ہی قریب کرتے ہو خود ہی…..

شٹ اپ….. 

اور تم سنو…. 

لیکن دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گئی تھی۔

فاضل خان نے مُر کر خونخوار نظروں سے لیلیٰ کو دیکھا تو وہ سہمی۔

اوقات میں رہو….. 

وہ اپنا والٹ اٹھاتا وہاں سے نکل آیا تھا گھر کے لیے سارے راستے اس نے سگریٹ پھونکی تھی۔

………………

این نے دعا مانگ کر جائےنماز اٹھائی تو وہ اندر داخل ہوا۔

کھانا لاؤ؟ 

نہیں…… وہ کچھ مضطرب دکھائی دیا تھا۔

این اس کے لیے پانی لینے گئی واپس لائی تو وہ صوفے پر بیٹھا تھا۔

پانی…. 

میں نے بولا لانے کو؟ اس نے سرخ آنکھیں اٹھا کر دیکھی تو وہ سہمی۔

میری الماری کھولو وہ جو پلٹ گئی تھی اس کے قدم تھمے۔

اس کی طرف کی الماری کھولی…. 

یہ چابی لو اندر سے ایک بوٹل نکالو۔

این کو لگا اس نے غلط سنا ہے کیونکہ وہ جیسا بھی تھا کبھی اس کے سامنے نہیں پیتا تھا۔

اور اس حویلی میں شراب ممنوع تھی۔

اس نے چابی لی اور دراز کھولا۔

وہیں کھڑے فوت ہو گئی ہو کیا لے آؤ بوتل۔

لیکن این نے ہاتھ نہ لگایا۔

این……. وہ چیخا۔

این نے بے بسی سے آنکھیں میچی یہ تو طے تھا کہ وہ اس حرام شے کو ہاتھ نہیں لگائے گی۔

وہ اٹھ کر اس کے پاس آیا اور جاڑہانا تیور لیے اسے دھکا دیا۔

ایک بار کی بکواس سمجھ نہیں آتی؟ 

میں… آپ کو یہ یہاں نہیں پینے دوں گی…..

کیوں تمہارے باپ کا راج ہے یہاں…. یہ میرا کمرہ ہے تم دفع ہو سکتی ہو…. 

آپ اسے کہیں اور جا کر پئیے وہ جو ڈھکن کھول کر منہ لگانے لگا تھا رکا۔

میرا دماغ خراب نہ کرو…

نکلو باہر…… 

یہاں نماز پڑھتے ہیں ہم…. شاہ…. آپ کہی… کہیں اور جا کر پی لیں…. این نے ہمت کرتے اس کے ہاتھ سے چھینی۔

نا چاہتے ہوئے  بھی اس کو ہاتھ لگانا پڑا تھا۔

اتنی تم رہتی نہیں مولانی……. 

ادھر پکڑاؤ….. میرا دماغ پہلے بہت گھوما ہے…… 

میں ہشتم ماموں کو بتاؤگی…..

اور اگلے ہی لمحے شاہ نواز نے وہ بوتل سامنے لگے الماری کے شیشے پر مار کر چکنا چور کر دی تھی۔

این نے ڈر کر کانوں پر ہاتھ رکھا اور منہ سے ایک چیخ برآمد ہوئی۔

وہ حرام مشروب پورے کمرے میں پھیل رہا تھا….. 

تو تُو بتائے گی میرے باپ کو…. تیری اتنی ہمت….. 

چٹاخ…. 

اور پھر شاہ نواز نے اپنی پینٹ سے بیلٹ نکال کر ہر حد پار کر دی تھی۔

وہ کب کا جا چکا تھا اور این کا وجود وہیں پڑا تھا وہ کراہ رہی تھی……. 

دیکھو…… یہ ہے زبردستی شادی کا انجام….. 

آہ……. آج وہ ہر حد پار کر گیا تھا۔

آج اس کی نظر میں اس گھر کے مرد کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی اور اس گھر کی عورتوں کی بزدلی سے….. 

سب نے مل کر اسے موت کے گھاٹ اتارا تھا اس پاگل شخص کے حوالے کر کے….. 

کون نہیں جانتا تھا شاہ نواز کی خصلت…. لیکن نہیں گھر کی بیٹی باہر کیسے جائے گی….. 

اسے آج اس حویلی کے ہر ایک شخص سے نفرت ہوئی تھی۔

اس کا وجود اکڑ گیا تھا اور آنسو سوکھ گئے تھے۔

وہ کراہتے اٹھی اور بستر پر اوندھے منہ گر گئی۔

شاہ نواز نفرت ہے مجھے تم سے…. تمہارے وجود سے….. کاش تم اتنی ہی تکلیف اٹھاؤ…

مجھے نفرت ہے سب سے…. شدید نفرت… 

……………….. 

وہ گاڑی بھگاتا گھر لایا تھا کیوں یہ وہ خود نہیں جانتا تھا۔

وہ اپنے گھر آنے کی بجائے سیدھا پھپھو کے گھر آیا تھا….

گاڑی اس نے باہر ہی کھڑی کی تھی گارڈ اسے دیکھ کر دروازہ کھول چکا تھا۔

گھر میں سناٹا تھا رات کے دو بجے سب سو چکے تھے اس یہاں آنے میں دو گھنٹے لگے تھے۔

اس نے مہر کے کمرے کے دروازے کا نوب گھمایا جو کھلتا چلا گیا۔

پاگل لڑکی! 

وہ اپنے بستر پر محوِ خواب تھی اس کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی۔

کمرے میں منجھلا سا اندھیرا تھا وہ اس کے قریب آیا اور اس کے چہرے کو قریب سے دیکھا۔

وہ من موہنا چہرہ….. وہ حسین تھی….. اس کا حسن معصوم تھا۔

یہ سچ تھا اس کے سامنے فاضل خان دنیا بھلا دیتا تھا وہ اب بھی بھول گیا کہ کچھ لمحے پہلے وہ کسی غیر عورت کی قربت میں تھا۔

اس نے اس کے چہرے پر لکیر کھینچی

مجھے تم سے شادی نہیں کرنی…..

مجھے ابھی رخصتی نہیں چاہیے….

یک دم اس کے زہن میں مہر کے وقتاً فوقتاً بولے جانے والے جملے ابھرے۔

اس نے اس کا بازو پکڑ کر جھٹکے سے اسے بٹھایا۔

وہ جو نیند میں تھی اس کے اوپر ڈول گئی اس کا سر اب فاضل خان کے سینے پر تھا۔

اس کی بالوں کی خوشبو یا اس کے بدن کی..... کون سی زیادہ مسحور کن تھی وہ فیصلہ نہ کر پایا۔

اس سحر سے نکلتے اس نے اس کا چہرہ تھام کر سامنے کیا جہاں آنسوؤں کے مٹے نشان تھے۔

فاضل خان کا دل لرزا…… اور ماتھے پر سلوٹیں پری۔

اور ایک زور دار جھٹکے سے اسے جھنجھوڑا تو وہ ہوش میں آئی۔

تم……. ہوش میں آتے ہی وہ چلائی۔

ہاں میں…… 

لیکن جواب میں مہر نے حقارت زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔

او…. مجھے لگا اب دو تین دن نہیں آؤ گے….باہر کی عورتوں کی قربت سنا ہے بہت نشیلی ہوتی ہے۔

مہر…… اس نے سختی سے اس کا بازو تھاما۔

مجھے اپنے ان ہاتھوں سے مت چھوؤ فاضل خان جس سے تم نے کسی باہر کی عورت کو چھوا ہو….. 

حرام کے بعد حلال کی یاد کیسے آ گئی …. 

مہر…. 

کیا مہر…. ہاں… ؟

میں نے فون بھی اسی لیے کیا تھا اور اب بھی کہہ رہی ہوں مجھے یہ رخصتی نہیں کرنی… 

اور.... 

مجھے لگتا ہے تمہیں بھی نہیں کرنی چاہیے…. کیونکہ تم تو من باہر کی عورتوں سے بھر…. 

اس سے پہلے ہی فاضل خان اس کے بال پچھے سے مٹھی میں بھینچ کر قریب کر چکا تھا۔

آ گئے اپنی گھٹیا حرکتوں پر….؟ 

مہر زبان سنبھال کر بات کرو! 

کیوں آپ سرکار کی شان میں کیا گستاخی کر دی میں نے…؟ 

رخصتی تو ہو گی کل کی ہوتی آج ہی ہو گی اور تم دیکھتی رہ جاؤ گی…. وہ پھنکارا۔

اگر ایسا ہوا تو میں خود کے ساتھ کچھ کر لوں گی فاضل خان…. 

خبردار! میں جان لے لوں گا تمہاری….. 

مہر سے کچھ بعید نہیں تھا وہ سب کر گزرتی…. 

یہی مردانگی ہے تمہاری فاضل خان…. تم مرد ایک عورت کو اپنی قربت سے جیت بھی سکتے ہو اور ہرا بھی…. 

اور تم مسلسل مجھے ہرانے کی کوششوں میں ہو…. میں جانتی ہوں اس طاقت کے آگے کچھ نہیں کر پاؤ گی…. لیکن ایک بات یاد رکھنا مجھے تم سے محبت کبھی نہیں ہو گی…! 

یہ سنتے فاضل خان نے جبڑے بھینچے۔

تمہیں مجھ سے ہی محبت کرنی ہے اور مجھ سے ہی عشق یاد رکھو…. 

وہ جھکا اس کے لبوں کو گرفت میں لے گیا۔

مہر نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی…… 

وہ پیچھے ہٹا تو اس نے منہ موڑا۔

فاضل خان نے جھٹکے سے اس کا رخ دوبارہ خود کی طرف کرتے اب کی بار آرام سے اس کے لب پر انگی پھیری۔

کاش….! 

تمہیں مجھ سے محبت ہوتی فیضی…. 

وہ ہار گئی تھی جیسے آج…. 

وہ جی جان سے تڑپا اسے حصار میں لے کر لیٹا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔

مجھے تم سے محبت ہے مہر….یقین کرو…. 

محبت امانت ہوتی ہے جس میں تم روز خیانت کر رہے ہو فیضی….. 

مجھے ایسا مرد کبھی نہیں چاہیے تھا جو میرے حصے کا سب کچھ باہر کی عورتوں میں بانٹ دے…. 

میں….. 

نہیں فیضی….. 

یہ محبت نام کی محبت ہے بس… 

مجھے تم سے نہیں… تمہاری ہر چیز سے محبت ہے مہر…. تمہاری آنکھیں… تمہارے آنسو…. تمہاری مسکراہٹ…. تمہارا لباس…. تمہارا تِل…. تمہاری خوشبو…

لیکن تم مجھے بے بس کر دیتی ہو…. یہ خیال ہی سوہانِ روح ہے میرے لیے کہ تم مجھ سے آزادی چاہتی ہو…. 

وہ حرام مشروب میں نے زندگی میں ایک ہی بار پیا تب جب تم نے پہلی بار اس رشتے پر لعنت بھیجی….. 

اس عورت کی قربت زہر ہے…. لیکن اس زہر کا جام میں تب تب پیتا ہوں جب جب تم مجھے خود سے دور کرتی ہو…. مجھے احساس دلاتی ہو کہ میں تمہارے قابل نہیں…. مجھے احساس دلاتی ہو تمہیں میرے چھونے سے کراہیت آتی یے….. 

میں….. دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا کسی اور عورت کو بھی میری قُربت سے کراہیت آتی ہے..... 

تم کرو گے مجھ سے عشق…..؟ مہر نے سر اٹھاتے اس کو دیکھتے کہا۔

ہاں….. اس نے آنکھیں بند کی۔.. 

وعدہ کرو دوبارہ کبھی اس حرام مشروب کو خود میں نہیں اتارو گے…. 

وعدہ… 

وعدہ کرو خود کو بدلنے کی کوشش کرو گے….

وعدہ…. 

وعدہ کرو دوبارہ کسی. عورت کا سہارا نہیں لو گے.... کسی کو میرے حقوق نہیں دو گے..... اس امانت میں خیانت نہیں کرو گے..! 

وعدہ رہا...... وعدہ رہا.... 

وعدہ کرو سگریٹ نہیں پیو گے…. 

میں وعدہ نہیں کرتا یہ….. تم مجھ سے سب کچھ نہیں چھین سکتی….. 

آہ….. 

اوکے وعدہ کرو کسی اور عورت کی قربت کبھی نہیں تلاشو گے…. 

وعدہ کرو کہ جب جب مجھے تمہاری ضرورت ہو گی تم میرا ہاتھ نہیں جھٹکو گی….. 

فاضل خان یہاں تمہاری بات ہو رہی ہے…. وہ تپی…

وعدہ کرو مہر کہ تمہاری اور بڑھتا میرا ہاتھ تم نہیں جھٹکو گی میں وعدہ کرتا ہوں پور پور تمہارے عشق میں بدل جاؤں گا….. 

اس نے اس کی گردن میں اپنی جائے پنا ڈھونڈتے کہا۔

مہر نے خاموش رہنا ضروری سمجھا…. 

کیا یہ کرنا ضروری تھا…. 

ہاں شاید وہ اس شخص کو سدھارنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی…. 

کیا ایسے اسے اس سے محبت ہو جاتی….. 

پتا نہیں…… دل سے آواز آئی اور خاموشی چھا گئی….. 

گہرا سکوت…. 

……………… 

عیزہ اپنی دو دوستوں کے ہمراہ پہنچ گئی تھی وہ شہر حسین تھا اس شخص کی طرح۔

وہ ہوٹل بُک کروا سکتی تھی لیکن…..

اس نے انسٹا گرام اوپن کرتے اس شخص کی پروفائل پر جا کر کال ملائی….

نمبر تو تھا نہیں…..

شاید مخالف کا نیٹ کنیکٹ نہیں تھا اس لیے فون اٹھایا نہیں گیا۔

اسے شدید غصہ آنے لگا۔

چلو عیزہ پاگل ہو سڑک پر کھڑے ہیں ہم…. جب ہمیں ہاٹلز کے راستے پتہ ہیں تو کیوں نہیں جا رہے ہم…

اف….. چپ کرو تم دونوں… ہمیں نہیں پتا راستے ہمیں یہ پریٹینڈ کرنا ہے۔

جیسا موسم ہے لگتا ہے بارش ہو جائے گی چلو عیزہ…..

اوکے لاسٹ ٹرائی کر لینے دو…. اور اس بار مخالف نے کال اٹھا لی تھی۔

مہد خان اسپیکنگ…

عیزہ شاہ ہیر….

جی….وہ جو اپنی ماں سے بالوں میں تیل لگوا رہا تھا چونکا۔

اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اسے ڈھونڈ کر فون کرے گی اسے…. وہ اس کی پروفائل پر لگی تصویر سے پہچان گیا تھا اسے۔

اوکے ماما…..

آئی ہیو ٹو گو سم وئر…. اس نے اپنی ماں کو کہا تو انہوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے اسے اجازت دی۔

مہد ہم آپ کے شہر میں کھڑے ہیں…. لیکن یہاں کے راستے ہمیں معلوم نہیں…. و…

او….. کہاں پر ہیں آپ اس وقت…؟

اوکے میں اپنے ایک خاص بندے کو بھیج رہا ہوں وہ آپ کو  ہوٹل تک پہنچا دے گا۔

عیزہ نے غصے سے فون کو گھورا۔

مہد….. ہم ایسے کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے…. اوکے اگر آپ نہیں آ سکتے تو ہم خود کچھ کر لیتے ہیں…..

اوکے ول بی دیر ان ففٹین منٹس…..

اور پھر وہ شاور لیتا، چینج کرتا اپنی گاڑی بھگاتا وہاں پہنچا تھا۔

گاڑی میں بیٹھے ہی وہ اسے دیکھ چکا تھا وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح پرکشش دکھ رہی تھی۔

ہوا کی وجہ سے بال اڑ رہے تھے وہ ہمیشہ سے مہد خان کو اٹریکٹ کرتی تھی لیکن اس نے یہ ظاہر نہ ہونے دیا تھا۔

وہ اترتا ان کے پاس آیا باقی کی دو دوستوں نے اسے دیکھتے ایک دوسرے کو کہنی ماری۔

وہ انہیں نزدیک کے بہترین ہاٹل میں چھوڑ چکا تھا۔

کافی….؟

اور پھر تمام انا ایک طرف رکھتے پہلا قدم مہد خان نے بڑھایا تھا۔

شیور…! عیزہ تو پھولے نہیں سما رہی تھی۔

پھر ہاٹل کے لان میں انہوں نے آمنے سامنے بیٹھ کر کافی پی۔

آپ کی انسٹا پروفائل بہت مشکل سے ڈھونڈی میں نے نمبر تو تھا نہیں….

آپ سیو کر لیں میرا نمبر…..

دونوں میں نمبرز کا تبادلہ ہوا۔

کیا آپ اسپیشل یہاں گھومنے کی غرض سے آئی ہیں…؟

جی!

اس دن آپ نے بتایا کہ آپ کے ڈیڈ یہاں کے سردار ہیں اور مجھے بھی کہیں گھومنے کا من تھا تو سوچا کیوں نا آپ کے شہر میں گھوما جائے۔

گریٹ…… مہد نے کافی کا آخری سپ بھرا۔

وہ پوری کی پوری دلکش تھی اس کے بولنے کا انداز…. مسکرانے کا…. بیٹھنے کا….

لیکن ہمیں ایک گاییڈ کی ضرورت رہے گی جو ہمیں گھوما دے…..

آپ آئی ہیں تو شہر اپنا آپ کو دکھانا اصولاً میرا فرض بنتا ہے….ا

آج آپ ریسٹ کریں کل سے آپ کو اپنا شہر دکھادوں گا۔

اوکے…… میں بہت خوش ہوں…

وہ پرجوش ہوتی اپنی جگہ سے اچھلنے لگی۔

مہد خان کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ بکھری تھی۔

………………

اور پھر اس کے بعد مہد نے اسے اپنا شہر دکھایا تھا ان کی نزدیکیاں بڑھتی ہی چلی گئی  تھی۔

وہ باتیں کرتی تھی اور مہد سنتا تھا…..

وہ پہروں اس کی طرف دیکھتا رہتا اسے وہ پسند تھی…..

عیزہ…..اس کی گھمبیر آواز نے اسے چونکایا۔

جی….!

آگے لائف میں کیا پلینز ہیں آپکے…. ؟

ام…. ایسا تو کچھ خاص نہیں…. پڑھائی میں مکمل کر چکی ہوں…. بس نئی جگہیں ایکسپلور کرنا چاہتی ہوں….

اور….

بس….

ہم….ا

اور آپ بتائیں کیا ارادے رکھتے ہیں؟

بس بزنس اس کے بعد شادی…. اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔

اور کب کریں گے شادی عیزہ نے بیچارگی سے کہا۔

جب صحیح وقت ہو…..

مہد کو سمجھ نہ آیا وہ کیا کہے۔

اوکے….!

بات ختم ہو گئی تھی دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گُم تھے۔

دل دونوں کے دھڑک اٹھے تھے۔

مہد خان نے پہلی بار خود کو بے بس محسوس کیا تھا وہ لڑکی نا چاہتے ہوئے بھی اس پر حاوی ہو رہی تھی۔

آپ کے خیال میں ایک آئیڈیل لڑکی کیسی ہونی چاہیے؟ 

باکل آپ جیسی…..

وہ انجانے میں کیا بول گیا تھا اسے خود بھی نہیں معلوم تھا۔

جی……؟ عیزہ شاہ ہمیشہ کی طرح جیت گئی تھی۔

اس نے اس شخص کو تسخیر کر لیا تھا۔

دل خوشی سے شاد تھا آنکھوں میں الگ ہی چمک در آئی تھی۔

مہد خان جو پہلے پچھتایا تھا اپنی غلطی پر لیکن اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔

عیزہ نے اس کے کندھے پر سر رکھتے اس کا ہاتھ تھاما۔

لمحے میں منظر بدلا تھا اور مہد خان کو یہ منظر دل و جان سے زیادہ بھایا تھا۔

تو کب کر رہے ہیں اپنی اس آئیڈیل سے شادی…؟ 

آپ تیار ہیں…؟ مطلب……

افکورس…..مہد خان آپ کو کون منع کرے گا…. آئی مین جسٹ لک ایٹ یو مین…. 

I mean just look at you man,you are tall, handsome and the most important thing is you are rich…… 

ہاں…..! اس کا امیر ہونا ہی تو عیزہ شاہ کو بھایا تھا۔

اس کے لیے دنیا کی ساری خوشیاں دولت سے تھیں …. شاید وہ ایک طرح سے ٹھیک تھی آج کے دور میں لوگوں نے اپنا معیار دولت بنا لیا ہے…… لوگ کہتے تھے کہ دولت سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتی میں متفق نہیں…… ہمیں جو چیز چاہیے ہوتی ہے وہ ہم خرید لیتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں….. ہاں!! لیکن دولت سے چیزیں خریدیں جا سکتی ہیں انسان نہیں….. دولت سے سب نہیں خریدا جا سکتا…. جیسے مان،محبت، رشتے، احساس، جزبات اور تم…… ہاں تم جسے دل نے چاہا ہے بےشمار بےحساب… ❤️ 

………………… 

مہد خان آج سردار ہشتم کے کمرے میں موجود تھا اپنی ماں اور باپ کے سامنے پہلی بار وہ گردن جھکائے بیٹھا تھا۔

شیر کیا ہوا ہے آج…..؟ سردار ہشتم نے اس کی جھکی گردن کو دیکھ کر کہا۔

مجھے کچھ بتانا ہے آپ کو….. اس نے گلہ گھنکھاڑتے کہا۔

ہاں بولو….. تمہیں کب سے ضرورت پر گئی میری جان اجازت لینے کی زینب بیگم نے کہا۔

تو وہ اٹھ کر ان کے سامنے نیچے زمین پر بیٹھ گیا گھٹنوں کے بل وہ دونوں چونکے تھے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا تھا اس نے۔

مجھے شادی کرنی ہے…… اس نے اپنی ماں کا ہاتھ تھامتے کہا۔

واہ…… یہ تو اچھی بات ہے میرے شیر……. سردار ہشتم نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔

خانم آپ بلائیں سریہ خاتون کو گھر بات بڑھاتے ہیں آگے ساتھ کے شہر کے سردار جو سردار ہشتم کے دوست تھے انہوں نے ان کی بیٹی کو مہد کے لیے پسند کر رکھا تھا۔

بابا! میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں…. اس کے کہنے پر وہاں خاموشی چھا گئی۔

زینب بیگم نے سردار ہشتم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے آنکھیں بند کی جیسے اس کی بات سننے کی درخواست کی ہو۔

کون ہے؟ انہوں نے بھاری دل سے پوچھا۔

یہاں کی نہیں ہے……… شہر سے ہے…… 

ہم اجازت نہیں دیں گے آپ کو…… تم بہتر طریقے سے جانتے ہو مہد خان کہ یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے ہم باہر کی برادری میں نہیں بیاہتے یہی وجہ ہے کہ این خان کو شاہنواز اور مہر خان کو فاضل خان کے ساتھ نکاح میں دیا گیا۔

لیکن بابا….! آپ ایک بار ان لوگوں سے مل کر تو دیکھیں میری خوشی کے لیے….. اس نے سردار ہشتم کا ہاتھ تھاما تو انہوں نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

تمہاری ہر جائز ناجائز ہم مانتے آئے ہیں مہد خان…. اس لیے کہ تم میں ہماری جان بستی ہے تمہارے ایک بار منع کرنے پر ہم نے تمہیں باہر بھیج دیا کہ تم ابھی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔

بابا…..! میں مانتا ہوں سب…. 

لیکن محبت پر تو کسی کا زور نہیں ہے وہ آج ان کے گھٹنوں میں بیٹھا فریاد کر رہا تھا اپنی محبت کی بھیک مانگ رہا تھا۔

او….. 

تو محبت کر لی صاحبزادے نے اور ہمیں بھنک تک نہ لگی…….. سردار ہشتم کی تیز آواز ان کے سخت غصے میں ہونے کا پتا دے رہی تھی۔

وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو مہد خان بھی کھڑا ہوا…..

پلیز بابا…. ہمیشہ میری بات مانی ہے تو یہ کیوں نہیں…. آپ ایک بار مل تو لیں ان سے….

ٹھیک ہے فیصلہ کرو ہم یا وہ کل کی آئی لڑکی؟ سردار ہشتم نے اس کی طرف دیکھتے اپنا آخری فیصلہ سُنایا۔

اس نے بے یقینی سے باپ کو دیکھا…. 

یہ موازنہ ہی فضول تھا وہ جانتا تھا کہ سردار ہشتم جانتے ہیں کہ وہ ہر حال میں انہیں ہی چُنے گا……

اس نے اپنے باپ کا ہاتھ تھاما اور آنکھوں پر لگا کر بوسہ دیا…… ہر بار میں آپ ہی کو چنوں گا…… لیکن اب آپ مجھے کبھی نہیں بولیں گے کہ شادی کر لو…. کسی سے بھی نہیں کروں گا….. اور یہی میرا آخری فیصلہ ہے۔

وہ مُڑ کر دروازے کو آہستگی سے بند کرتا باہر نکل گیا۔

زینب خان نے نم آنکھوں سے بند دروازے کو دیکھا اور پھر سردار ہشتم کو دیکھا جن کی آنکھیں ہلکی سی نم تھیں۔

……………… 

فاضل خان صبح اٹھا تو وہ ویسے ہی اس کے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی۔

اس نے سنجیدگی سے اسے تکا…. 

کیا رات ہونے والے وعدے وہ نبھا پائے گا…؟ 

ہاں! 

اس کی محبت کے لیے وہ کچھ بھی کرے گا…. ہاں شراب اس نے ایک ہی بار پی تھی لیکن سگریٹ کا وہ دیوانہ تھا اور شباب….. لیلی اسی کی دوست تھی جسے صرف دولت سے مطلب تھا وہ خود اس کے قریب آئی تھی۔

اور پھر جب جب فاضل خان پریشان ہوتا لیلیٰ کو زریعہ بناتا اپنی تھکن اتارنے کا..

 لیکن  وہ کبھی بھی خود کو پرسکون محسوس نہیں کر سکا تھا اس کی قربت میں بھی اور اس کی قربت کے بعد بھی۔

اس نے جھک کر اس کے ماتھے پر مہر ثبت کی تو اس کی نظر اس کے کندھے پر گئی۔

جہاں سے قمیض ڈھلکی تھی اور اس دن کا نشان واضح تھا۔

وہ اپنی انگلی سے اس نشان کو سہلانے لگا تو وہ بھی جاگ گئی۔

اب دونوں ایک دوسرے کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔

فاضل خان نے جھک کر اس کے نچلے لب کو اپنی گرفت میں لیا تو وہ کسمسائی۔

اس کی سانسیں خود میں انڈیلتے وہ بھول گیا کہ رات کو کیا کیا وعدے انہوں نے کیے تھے۔

مہر کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہوتے دیکھ اس کا ہاتھ اس کی کمر پر حرکت کرنے لگا۔

وہ جھٹکے سے اسے مزید اپنی طرف کھینچتا بالکل ساتھ لگا گیا تھا۔

کمرے کا نیم اندھیرا…. اس کے بدن سے اٹھتی خوشبو اس کو مسمرائیز کر رہی تھی۔

اس کی گردن پر اپنا ناک سہلاتے وہ بالکل مدہوش ہو رہا تھا۔

مہر نے ہوش میں آتے مزاحمت کی لیکن فاضل خان کو وہ نازک جان کہاں روک سکتی تھی۔

فاضل خان…. تم حد سے بڑھ رہے ہو رات کا خمار کہیں جا سویا تھا جو سب تھا وہ چھناکے سے ٹوٹا تھا۔

فاضل خان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔

میری حد کیا ہے….. یہ مجھ سے بہتر تم جانتی ہو مہرین خان…. 

میں اس حد سے تجاوز بھی کر جاؤں….. تو اس دنیا میں کوئی شخص اور قانون نہیں جو مجھے غلط بات کر سکے۔

یہی مردانگی ہے آپ مردوں کی….. 

مجھے اسی ڈومیننٹ نیچر سے مردوں کی نفرت ہے۔

یہ ڈومیننٹ نیچر ہی ہے جو عورتوں کو تحفظ فراہم کیے ہوئے ہے وہ دونوں ہی غلط تھے لیکن اپنی اپنی بات پر ڈٹے تھے۔

تمہیں نوز پن پہننی چاہیے اچھی لگے گی تم پر…. وہ ان سہانے لمحوں کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے بات بدل گیا۔

اور مجھے زہر لگتی ہے وہ…. 

زہر تو تمہیں میں بھی لگتا ہوں لیکن پینا تو ہے نا وہ اسے اپنے شکنجے میں لیتا ایک بار پھر بےبس کر گیا تھا۔

نہیں میں اس سے پہلے بھاگ جاؤں گی….. 

خاموشی کا دورانیہ بڑھا تھا۔

وہ دن تمہارا میری زندگی میں آخری ہو گا مہر خان….. آزادی تمہیں پھر بھی نہیں ملے گی میرے نام سے لیکن تب تم ایک الگ افضل خان کو پاؤ گی…..

یہ وعدہ ہے میرا….. اور فاضل خان اپنا وعدہ نہیں بھولا کرتا۔

وہ اسے خود سے دور دھکا دیتا باہر نکل گیا۔

مہر کئی لمحیں وہی پڑی رہی تھی لیکن پھر زہن جھٹک کر اٹھ گئی۔

اس دن کے بعد اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا باہر جانا بھی ترک کر دیا تھا گھر میں کسی سے مخاطب نہیں ہوا تھا وہ نہ ہی سردار ہشتم کے کمرے میں گیا تھا۔

زینب بیگم نے کمرے کا دروازہ کھولا جہاں اندھیرا تھا لائیٹ اون کرتے اس کے پاس بیٹھ کر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

اتنا ناراض ہے میرا بیٹا کہ ماں کو دیکھے گا بھی نہیں….. 

مہد خان نے جھٹ سے سر ان کی گود میں رکھا باہر کھڑے ہشتم خان مسکرائے تھے۔

وہ کتنا بھی ناراض کیوں نہ ہوتا اس کے لیے سب سے اوپر اس کے والدین تھے یہ اس نے ثابت کر دیا تھا، وہ ان کی عزت سب سے اوپر رکھتا تھا۔

ایسا کیا ہے اس لڑکی میں…؟ جو ہمارا شیر اتنا پاگل ہو گیا ہے کہ کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔

بس میرے دل کو بھا گئی ہے وہ….. اس میں میری غلطی نہیں تھی….. بچپن سے بابا نے مجھے وہ چیز دلوائی ہے جو مجھے پسند آئی ہے تو اب کیوں…. 

کیونکہ وہ چیز نہیں ایک جیتی جاگتی انسان ہے…. اور آپ جانتے ہیں کہ وہ ہماری برادری کی نہیں….. 

ماما…… ان برادریوں میں کچھ نہیں رکھا…. وہ جھنجھلایا۔

ٹھیک ہے ہم مان لیتے ہیں لیکن آپ کے بابا کو یہ بات کوئی نہیں سمجھا سکتا آپ بھی نہیں….. 

پر کیوں ماما؟ 

جنریشن گیپ ہے……. آپ دونوں بہت سی باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑیں ہو گے کیونکہ ان کی سوچ الگ ہے آپ کی الگ….. وہ دنیا کو الگ نظر سے دیکھتے ہیں….. 

ہمم…… اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا….. 

پر ایک آخری بار بات مان جائیں بابا……. میں اس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گا…… 

اور۔۔۔۔۔

 ایسی بے مطلب کی زندگی جینے کا کوئی مقصد نہیں ہے نا….. کسی نا کسی روز اس تنہائی سے دم توڑ جاؤں گا….. 

باہر کھڑے ہشتم خان لرز گئے تھے…… وہ منتوں سے مانگی اولاد آج خود مرنے کی بات کرنے لگی تھی…… 

وہ اندر داخل ہوئے اور اس کے پاس جا کر بیٹھے اس نے فوراً اٹھ کر اپنے باپ کو گلے لگایا تھا۔

ناراض ہے ہمارا شیر…؟ 

………………. 

اس دن کے بعد ان دونوں کا ہی ایک دوسرے سے سامنا نہیں ہوا تھا۔

اور شاید یہی مہر چاہتی تھی اسے فاضل خان شروع دن سے نہیں پسند تھا۔

اس کی عادات اس کا رہن سہن تو دور کی بات تھی۔

اور پھر انہیں ایک رشتے میں زبردستی باندھ دیا گیا یہ کہہ کر کہ خاندان کی لڑکیاں باہر نہیں بیاہی جاتی۔

اسے ہمیشہ لگتا تھا کہ وہ فاضل خان سے بہتر کوئی ڈیزرو کرتی ہے۔

اس نے وہ شخص کبھی نہیں چاہا تھا جو شراب اور شباب دونوں میں دلچسپی رکھتا ہو یہ جانتے ہوئے کہ دونوں ہی حرام ہیں…

اس نے خود کو ہمیشہ کسی کی امانت سمجھا تھا لیکن وہ شخص جو خود بھی اس کی امانت تھا دوسروں کو اپنا آپ سونپ کر خیانت کر چکا تھا۔

اسے اس گھر کے مرد پسند ہی نہیں تھے شروع سے…. اس کی اپنے باپ سے بھی کچھ اچھی بونڈنگ نہیں تھی نا انہوں نے بنائی تھی کبھی۔

اسے اس گھر کے تمام مرد "میں" میں رہنے والے لگتے تھے اور یہ سچ تھا وہ سب اپنے آپ کو بہترین سمجھتے تھے۔

کوئی اس گھر کی عورتوں سے پوچھتا کہ کتنے بہترین ہیں وہ….. 

شاید خود کے لیے انہیں ان کے چنے لفظ گالی لگتے۔

اسے فاضل خان بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا…. نکاح کے مضبوط رشتے کے بعد بھی اس کے دل میں کوئی جزبہ نہیں پیدا ہوا تھا۔

ہاں لیکن اس رات اس کی قربت میں دل پہلی بار دھڑکا تھا۔

اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کا رشتہ فاضل خان سے کتنا گہرا ہے….. 

پہلی بار دل نے ایک بیٹ مِس کی تھی لیکن وہ دوبارہ اپنے خول میں جلد ہی بند ہو گئی تھی۔

وہ ہر روز اپنی بڑی بہن کے چہرے یا جسم پر ایک نیا زخم دیکھتی تھی۔

ہر زخم اسے مرد سے مزید متفکر کر دیتا تھا۔

اج بھی اس کی بہن بری حالت میں پڑی تھی شاید آج اس سے منسلک مرد حیوان بن گیا تھا۔

اس کا پورا جسم بے جان تھا وہ مرد کے اس روپ کو دیکھ کر ڈر گئی تھی۔

……………. 

نہیں…… آپ سے بھلا ناراض ہو سکتا ہوں؟ 

کل بلالیں انہیں….. اگر میرے بیٹے کی یہی خواہش ہے تو یہی سہی…… ایسے سو اصول ہم توڑ دیں گے جو میرے بیٹے کی زندگی پر بھاری ہوں گے۔

آر یو سیریس….؟ سچ میں بابا…..؟ 

بالکل! بچپن سے ہم نے تمہاری اور شاہ نواز کی ہر خواہش پوری کی ہے تو آج کیوں نہیں….. 

کیا بات ہے……. بابا آج میری بھی ایک بات مان جائیں شاہ نواز اندر داخل ہوتا ہوا بولا۔

آؤ! میری جان….! 

بولو کیا چاہیے ہے انہوں نے اپنے خوبرو جوان بیٹے کو دیکھا سب تو انہیں سے تھا پھر کیسے یہ نام نہاد اصول اور رسومات…. 

میں اپنا حصہ لینا چاہتا ہوں اس کی بات سے خوشگوار ماحول یک دم بدلا تھا زینب خان نے گہری سانس بھری۔

کیا چاہیے ہمیں بتاؤ….. ہم دلوا دیں گے….

 لیکن ابھی تم اتنے زمہ دار نہیں ہوئے کہ ہم سب تمہارے حوالے کر دیں سردار ہشتم کھڑے ہوئے۔

کیوں! میری بار کیا ہوا؟ سردار صاحب….. ابھی اپنے چھوٹے سپتر کے لیے تو اصول توڑ دیے آپ نے…. 

 اتنی تفریق کیوں…. بلکہ ہاں آپ نے بچپن سے مجھ پر مہد کو فوقیت دی ہے۔

تمیز سے بات کریں لالا……. مہد خان نے ٹوکا۔

ہم نے کبھی تم میں اور مہد خان میں تفریق نہیں کی…… سب تمہیں بھی دلوایا ہے اگر مہد کی باتیں مانی ہیں تو تمہارے سب گناہوں پر پردہ بھی ڈالا ہے جو تم اب تک کرتے آئے ہو…… 

دیکھا…….. اس کی خواہشات اور میرے گناہ……وہ چیخا….. انہوں نے تاسف سے اسے دیکھا…. وہ بچپن سے ایسا تھا…. اگریسو…. اپنی کرنے والا۔

لیکن انہیں آج اس کی بات ناگوار گزری تھی ان کا دل دُکھا تھا…… 

ٹھیک ہے کل تمہیں تمہارا سارا حصہ مِل جائے  گا….

 تم دونوں کے حصے کی جائیداد میں نے الگ تو کر ہی رکھی ہے لیکن چاہتا تھا کہ کب تم زمہ دار ہو تمہیں سونپو۔

تاکہ میری محنت کی کمائی کو تم اچھے سے ترقی کی منازل پر لے جاؤ لیکن خیر…… کل شام تک مل جائے گا سب تمہیں…… 

لیکن ایک بات میری یاد رکھنا شاہنواز اب ہر نفع نقصان کے زمہ دار تم ہو گے…… انہوں نے تنبیہ کرنا ضروری سمجھا۔

اوکے کول…… وہ کہتا باہر نکل گیا۔

بابا! مجھے کچھ نہیں چاہیے….. نہ ابھی نہ کبھی…. یہ سب آپ کا کمایا ہے….. بلکہ کل سے سب میں جوائن کر رہا ہوں سب خود سنبھالوں گا…. میرا سب کمایا بھی آپ کا ہے بابا….. آپ رکھیں….. 

انہوں نے نم آنکھوں سے اسے گلے لگایا ناجانے ان کی دونوں اولادوں میں اتنا فرق کیوں تھا۔

………………. 

ارے آپ لوگ کیسی عورتیں ہیں آواز کیوں نہیں اٹھاتی آپ کی ہی بہو بیٹی ہے جو آج اس ابتر حالت میں پڑی ہے۔

وہ تمام عورتوں کو دیکھ کر چیخی تھی۔

مہر زبان سنبھال کر….

کیا زبان سنبھال کر ممانی…… 

اس گھٹیا شخص نے میری بہن پر زندگی تنگ کر دی ہے اور آپ بھی مجھے ہی زبان سنبھالنے کا کہہ رہی ہیں۔

میں مانتی ہوں میری ہی تربیت میں شاید کوئی کمی رہ گئی…… وہ منمنائی این کی اس حالت پر وہ بھی اشکبار تھی۔

آپ صرف یہ کہہ کر دامن نہیں چھڑوا سکتی ممانی….. 

مہر بس کرو….. اب کہ اس کی ماں بولی۔

یہ سب سب…. آپ کی وجہ سے ہے ماما…. 

آپ کبھی اپنی بیٹیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھا پائی وہ چیخی۔

تب ہی گھر کے مرد آہستہ آہستہ اندر آنے لگے جو باہر کسی کام سے گئے تھے۔

کیا مسئلہ ہے؟ سردار ہشتم نے کہا۔

ماموں…. مسئلہ یہ آپ کا بڑا سپتر یہ جس نے اپنی بیوی کو مزاخ بنایا ہوا ہے وہ آنسوؤں سمیت چیخی۔

آواز آہستہ…. ہمارے گھر میں عورتوں کی آواز ہم اونچی پسند نہیں کریں گے۔

آواز اونچی پسند نہیں کریں گے…. لیکن اتنا تشدد آپ پسند کریں گے اس نے سامنے لیٹی این کی طرف اشارہ کیا جو زخموں سے چُوڑ تھی۔

مہر تایا جان کوئی راستہ نکال لیتے ہیں تم اندر جاؤ اب کہ فاضل خان بولا۔

نہیں آج نہیں…. آج حساب ہو گا…. 

اس شخص کو… اس نے شاہ نواز کی طرف اشارہ کیا جو اس ڈرامے سے بیزار کھڑا تھا اس کو حساب دینا ہو گا۔

سردار ہشتم نے  شاہ نواز کی طرف دیکھا جو بیزار کھڑا تھا۔

کیا کہنا چاہو گے برخوردار؟

یہ میرا اور بیوی کا معاملہ ہے…… اس نے ایک ہی جملے میں بات ختم کر دی تھی۔

دیکھا! یہی ہے مردانگی…. کہ یہ تو ہمارا معاملہ ہے کوئی بولے نا….. کیوں نا بولے عورت بھی اگر ایک عورت کے لیے نہیں بول سکتی تو لعنت ہے پھر……. 

تمام عورتوں کے سر جھک گئے۔

مہر ہم مسئلہ حل کر لیں گے سب بڑے…. سردار ہشتم نے اب کہ آہستہ آواز میں کہا۔

شاہنواز اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔

نہیں! تایا جان جب بڑے غلط جا رہے ہوں تو چھوٹوں کو ان کو راستہ دکھا دینا چاہیے۔

سردار ہشتم نے سرخ آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا تو وہ نظریں جھکا گئی۔

…………….. 

کیا کہیں گے اب آپ؟ شاہنواز صاحب….. 

تم اپنی بکواس بند کرو مہرین خان یہ میرا اور تمہاری بہن کا مسئلہ ہے ہم خود ہی حل کر لیں گے۔

زبان سنبھال کر شاہ….. اب کہ فاضل خان بھی بولا تھا۔

بابا جان! 

جی!

میں کچھ کہنا چاہتا ہوں مہد خان جو تب سے سب سن رہا تھا اپنے باپ کو دیکھتا بولا۔

بولو میرے شیر…. 

بھائی غلطی آپ کی ہے آپ کو این سے معافی مانگ لینی چاہیے مہد خان نے کہا تو سب نے دم سادھ لیا۔

شاہ نواز خان نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک جلتی نگاہ اپنے باپ پر ڈالی۔

فاضل خان نے بھی ہاں میں سر ہلا کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

عورتیں حیران تھی کیونکہ پہلی بار کسی مرد کو معافی مانگنے کی تجویز دی گئی تھی۔

جی بالکل! پہلی بار اس گھر میں سہی فیصلہ لیا گیا ہے اب کہ مہر بولی۔

مہر خاموش ہو جاؤ اب تمہاری آواز نہ آئے فاضل خان کی گھمبیر آواز گونجی۔

آپ سب مجھے چپ کروانے کی بجائے اپنی حرکتوں پر دھیان دیں اب کہ مہر درشتی سے بولی تھی۔

فاضل خان طیش کے عالم میں اس کی طرف بڑھا وہ جتنا اس سے آرام سے بات کر رہا تھا ۔

وہ اتنی ہی سر پر چڑھ رہی تھی۔

اس کا ہاتھ تھاما تھا فاضل خان نے کہ اتنے لوگوں میں اسے خود کی تزلیل برداشت نہیں ہوئی تھی۔

مہر نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نکلوایا۔

یاد رکھیں میں این خان نہیں ہوں جو دب جائے گی۔

معافی مانگو شاہ نواز کیونکہ عورت کے اوپر ہاتھ اٹھانا ہمیں بھی منظور نہیں سردار ہشتم نے انہیں اگنور کرتے شاہ نواز سے کہا۔

شاہ نواز نے جھٹکے سے سر اٹھایا

یہ ممکن نہیں…..! 

آپ ہمارا حکم ٹال نہیں سکتے سردار ہشتم نے کہا۔

شاہ نواز نے ایک سلگتی نگاہ سامنے موجود اس لاگر وجود پر ڈالی۔

میں آگے سے ہاتھ نہیں اٹھاؤ گا…. 

لیکن.. 

میں یہ بھی برداشت نہیں کروں گا کہ میرے کمرے کی باتیں کوئی ایسے بھری محفل میں اچھالے…. 

فاضل خان لگامیں ڈالو…. اس پر…… وہ آخر میں مہر کو دیکھتا فاضل خان کو تنبیہ کرتا بولا۔

مجھے بہتر پتا ہے شاہنواز اپنے کام سے کام رکھو فاضل خان نے بات ختم کرتے کہا اور مہر کو وہاں سے لے گیا۔

آہستہ آہستہ مجمع ہٹ گیا تھا۔

…………….. 

 ہر بار ایک شرمندگی این خان کی آنکھوں میں ہوتی تھی۔

کہ سب اس کے زخموں کو دیکھ رہے ہیں لیکن اب کی بار نہیں تھی…. اب کی بار اس نے ایک ایک زخم سب کو چیخ کر بتایا تھا۔

کیا میں انسان نہیں ہوں؟ کیا میرا حق نہیں ایک آزاد زندگی جینے کا جیسے یہاں کے مرد جی رہے ہیں آج اس کے دل میں صرف ایک یہ سوال آیا تھا۔

مہر کے ہنگامہ کرنے پر سب آگئے تھے وہ شخص بھی جو اس حالت کا زمہ دار تھا…. 

این نے اسے دیکھتے نفرت سے رخ موڑ لیا….. 

سب کے کہنے پر اس نے معافی مانگ لی تھی…. لیکن این خوفزدہ تھی اب اس سے لیکن چہرہ کو نارمل رکھا تھا۔

کوئی اسے نہیں سمجھا تھا….. ہر بار ایک عورت کو سمجھوتا کرنے کے لیے کیوں کہا جاتا ہے….. 

کیا وہ ایک مرد جو اس پر ظلم کرتا ہے اس کے ساتھ زبردستی رہنے کے لیے بنائی گئی ہے……؟ اسے یہ سوال اندر ہی اندر مار دیتے تھے۔

دو دن اس نے اپنے گھر گزارے تھے سب نے اس سے ہمدردی جتائی  تھی لیکن اسے اس ہمدردی کی ضرورت نہیں تھی۔

اسے چند لفظوں کی ضرورت تھی جو اس کے حق میں بولے جاتے مہر چھوٹی تھی سب سے….. کتنا بھی چلا لیتی…. جب تک گھر کے بڑے نا بولتے کیا فرق پڑنا تھا۔

اس کے ماں باپ اس کے لیے اشک بار تھے لیکن انہوں نے اس سے نہیں پوچھا تھا کہ وہ واپس جانا بھی چاہتی ہے اب کہ نہیں….. 

والدین کو ہمیشہ ڈر رہتا ہے کہ ان کی بیٹی گھر نہ بیٹھ  جائے….. ڈر بجا ہے لیکن کیا اس کے لیے آپ بیٹی کے مرنے کا انتظار کریں گے….. 

جب اسے کوئی نہیں سمجھا تھا تو وہ چپ ہو گئی تھی ایک دم چپ….. 

کل اسے واپس حویلی چھوڑ گئے  تھے سب نارمل ہو گیا تھا ان سب کے مطابق لیکن اس کے لیے نہیں۔

زخم مندمل ہو گئے تھے لیکن نشان اب بھی باقی تھے جو کب جانے تھے پتا نہیں..

اسے ایک طرح سے سکون تھا کہ آج کل شاہنواز شہر گیا ہوا تھا اس لیے وہ سکون کا سانس لے رہی تھی۔

اس کے دل میں اس شخص کا خوف پنجے گاڑھ بیٹھا تھا اپنے بڑی طرح ہر آہٹ اور دستک پر اسے لگتا وہ واپس آگیا ہے….. 

اس کے واپس آتے اس کی جان ایک بار پھر سولی پر چڑھی تھی لیکن اس نے خود کو وقت کے دھاڑے پر چھوڑ دیا تھا۔

شاہ نواز نے اس میں تبدیلی محسوس کی تھی لیکن فرق کہاں پڑتا تھا وہ تو مگن تھا اپنی زندگی میں۔

وہ شہر اپنی زندگی جینے ہی تو جاتا تھا جہاں کسی کا ڈر خوف نہ تھا کوئی پوچھنے والا نہ تھا وہ وہی کرتا جو چاہتا تھا۔

ساری ساری رات شباب اور شراب کے نشے میں گم رہتا تھا ایک عیاشی اور سکون بھری زندگی یہی تھی اس کے نزدیک۔

وہیں کی ایک رکاسہ سے دل لگا بیٹھا تھا وہ اس کے دن رات وہیں گزر رہے تھے اب….. معاملہ محبت  کا نہیں تھا….

بس اس کی قربت کا نشہ شاہ نواز کو سب بھلا دیتا تھا…. یہی وجہ تھی کہ وہ زیادہ اسی کے پاس پایا جاتا تھا۔

سردار ہشتم کے بار بار بلانے پر وہ واپس آیا تھا کمرے میں داخل ہوتے اسی شکل کو دیکھتے اس کا من خراب ہوا۔

اٹھو….. کھانا لاؤ…. ہر وقت بستر توڑنے کی عادت لگا لی میرے پیچھے سے لگتا وہ جو سو رہی تھی جھٹکے سے اس کے اٹھانے پر اٹھی۔

اب منہ اٹھا کر دیکھتی رہو گی….. کھانا لاؤ…

 اب کی بار اس کی اونچی آواز سے این ہوش میں آئی اور فوراً کھانا لینے چلی گئی ۔

کھانا کھا کر اس کے برتن اٹھائے وہ اتنی خالی زہنی سے بیٹھی تھی کہ یہ بھول گئی کہ وہ کھانے کے بعد چائے لیتا تھا۔

میرے جانے کے بعد سب بھول گئی ہو…… معلوم نہیں ہے چائے پیتا ہوں میں….

 اس نے قدم اس کی طرف بڑھاتے اسے صوفے سے جاڑہانہ تیور لیے کھڑے کیا۔

وہ ڈر گئی تھی کہ اگلے ہی لمحے اسے مار پڑے گی اس غلطی پر لیکن جان خلاصی ہوتے ہی کچن میں بھاگ گئی۔

وہ رات بھی کئی راتوں کی طرح گزر گئی تھی۔

ایک چینج اس نے شاہ نواز میں نوٹ کیا تھا اب اسے اس کی قربت نہیں چاہیے تھی اور ہر ہفتے اس کی ایک رات ضرور شہر میں گزرتی تھی۔

اب بھی وہ وہیں سے واپس آیا تھا اور جھومتے صوفے پر گر پڑا…..

این جو اس کو کھانے کا پوچھنے لگی تھی اس کی سفید کرتے پر لپسٹک کے جابجا نشان دیکھتے چونکی اور پھر طنزیہ مسکرائی۔

تو یہ وجہ تھی اس سے دوری کی……

 اس نے ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی اور بنا اس سے کھانے کا پوچھے سو گئی۔

یہی غلطی اسے بھاری پڑی تھی جب صبح کے چار بجے اس پر شاہ نواز نے ٹھندا پانی پھینکا تھا۔

رات کیا گھوڑے  گدھے بیچ کر سو گئی تھی…؟ شرم حیا ہے کہ بیچ کھائی ہے…. وہ اس کے سر پر کھڑا پوچھ رہا تھا۔

این نے آنکھیں مسلتے اسے دیکھا….. اور پھر یاد آیا کہ رات کو اس نے اسے کھانا نہیں دیا تھا۔

شاہ نواز نے جھٹکے سے اس کے ساتھ لیٹتے اسے اپنے اوپر گھسیٹا۔

اوقات بھول گئی ہو لگتا ہے این خان اپنی… آج اچھے سے یاد کرواتا ہوں…… این نے روتے نہ میں سر ہلایا تھا لیکن اس کی طاقت کے آگے بہت بے بس تھی۔

اس کی ہر قربت کے بعد اسے خود سے وحشت  ہوتی تھی اس کے ہر لمس میں ایک نفرت ہوتی تھی این کے لیے…. 

………………… 

سردار ہشتم کو وہ لوگ زیادہ پسند تو نہ آئے تھے لیکن بیٹے کی خاطر چپ تھے مہد خان کے تو پاؤں زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے۔

وہ ابھی کچھ وقت مانگ رہے تھے لیکن سردار ہشتم ابھی شادی کرنا چاہتے تھے شاہنواز اپنا سارا حصہ لے چکا تھا وہ چاہتے تھے کہ مہد خان بھی نئی زندگی شروع کرے۔

کافی شش و پنج کے بعد وہ مان گئے تھے اگلے مہینے شادی کی تاریخ رکھی گئی تھی۔

عیزہ شاہ بھی واپس جا چکی تھی وہ اپنی جیت کی سرشاری میں خوش تھی آخر اس بار بھی اس نے وہ پا لیا تھا جو چاہا تھا۔

کیا تمہیں سچ میں پسند ہے وہ شخص عیزہ؟ اس کے باپ نے ٹوسٹ کھاتے کہا۔

نو ڈیڈ… نوٹ رئیلی…. محبت وحبت سب بکواس ہے…. دنیا پیسے سے چلتی ہے جو اس کے پاس مجھ سے زیادہ ہے…… میں ایک آزاد اور خوش زندگی اس کے ساتھ گزار سکتی ہوں…. 

اس کے یہ خیالات اگر خان حویلی میں کوئی سن لیتا تو شاید وہ اس گھر کا حصہ کبھی نہ بنتی۔

شادی کی تیاریاں مکمل ہوتے ہی فنکشنز کا آغاز ہو گیا تھا سارے فنکشن وہیں حویلی میں ہونے تھے۔

حویلی کی تمام عورتیں عیزہ شاہ سے ملنے کو بےقرار تھیں آخر انہیں اس گھر کے سب سے خوبرو مرد نے چُنا تھا۔

مہد خان نے سب اپنی مرضی کا کروایا تھا روم کا پورا ڈیکور بدل دیا گیا تھا ساری سجاوٹ اس نے خود کروائی تھی۔

سردار ہشتم بس اسے خوش دیکھ کر خوش تھے کل اس کی برات تھی پورے شہر کو مدعو کیا گیا تھا سارے انتظامات مکمل تھے۔

اب تو خوش ہو نا میرے شیر سردار ہشتم نے اس کے کندھے پر بازو ٹکراتے اسے حصار میں لیتے کہا۔

وہ جو کل کی تیاریوں پر نظر ڈال رہا تھا مسکرایا….. بہت بابا جان…. آئی لو یو سو مچ…. سب آپ کی وجہ سے ہے…. میں بہت خوش ہوں…. شاید خوش بھی چھوٹا لفظ ہے…… یہ میری زندگی کا بہترین دور ہے….. 

خوشی اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی گھر کی عورتیں  مزید متجسس ہو گئیں تھیں...... 

انہوں نے مہد خان کو اتنا مسکراتے اور خوش پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

اگلے روز پورا شہر مدعو تھا لوگ صرف مہد خان کی دلہن کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔

وہ سامنے سے اپنے باپ کے ساتھ چلتی آرہی تھی اس کے آتے ہی وہاں چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھی۔

وہ حسین لگ رہی تھی بہت…… لیکن نہیں چرچے اس کے حسن کے نہیں اس کے پہناوے کے تھے ڈیپ ریڈ ٹیل لہنگا جس کی ٹیل پیچھے تک پھیلی تھی سب ٹھیک تھا لیکن کچھ تھا جو اسے وہاں کے ماحول کے لیے غیر مناسب بنا رہا تھا۔

وہ تھا اس کا اوف شولڈر چولی…… وہاں کی عورتوں نے اسے خاص پسند نہ کیا تھا لیکن مردوں کو وہ عورت ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔

سردار ہشتم کی آنکھیں سرخ تھی آج تک انہوں نے کسی کو موقع نہیں دیا تھا کہ کوئی ان کے خاندان پر کوئی جملہ کسے.... 

لیکن آج اس ایک لڑکی نے بھرے بازار میں انہیں رسوا کروایا تھا۔

مہد خان کو بھی اس کی حرکت شدید ناگوار گزری تھی گھر کی تمام عورتوں کو وہ خاص پسند نہ آئی تھی کیونکہ اس نے کسی سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کی تھی۔

مہر نے اس کا ایٹی ٹیوڈ دیکھتے اسے بلانا ضروری نہیں سمجھا تھا اور این اپنی حالت کے پیشِ نظر آ نہیں پائی تھی۔

مہد خان نے تقریب جلدی ختم کروا دی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے بابا کا نام خراب ہوا ہے…….. 

سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے تھے شادی والا گھر ہونے کے باوجود حویلی میں اتنی رونق نہ تھی۔

 عورتوں نے ہی چند ایک رسومات ادا کی تھیں جس میں عیزہ نے دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔

اس لیے جلد سب سمیٹتے اسے مہد خان کے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا۔

……………. 

تمہیں یہ نہیں پہننا چاہیے تھا عیزہ….. مہد خان نے سنجیدگی سے کہا تو اس نے ایک ادا سے اسے دیکھا اور قریب آئی۔

لیکن ایسا کیا غلط ہے اس میں اس نے مہد کی شیروانی کے بٹنوں پر ہاتھ پھیرتے کہا۔

ہمارے ہاں عورتوں کو آزادی ہے لیکن اس طرح کی نہیں اور نا میں اسے آزادی سمجھتا ہوں… ہمارے ہاں ایسا لباس غیر مناسب سمجھا جاتا ہے….. 

او…… اوکے دین…. کیا کیا جا سکتا ہے میں تھوڑا نا کسی کے لیے بدل سکتی…… 

تمہیں بدلنا ہو گا عیزہ میرے لیے….. اب تم میرے نام سے پہچانی جاؤ گی اور مہد خان یہ گوارا نہیں کرے گا کہ لوگ اس پر یا اس سے منسلک کسی بھی شخص پر کوئی طنز کسے….. 

اف….. ٹھیک ہے…. بس بھی کرو اب…. اتنا اچھا موڈ تھا میرا…. سپوئیل مت کرو….. اور میرا ویڈنگ گفٹ دو….. 

مہد خان نے گہری سانس بھرتے اسے دیکھا جو حسین لگ رہی تھی اور پھر مسکرایا اس امید سے کہ وہ بدل جائے گی۔

اس کے ہاتھ میں ڈائیمنڈ رنگ پہناتے اس کا ہاتھ چوما تو وہ سرشاری سے مسکرا دی…… 

ایک ہی گفٹ لائے ہو؟ اس نے مہد خان کے قریب آتے کہا تو مہد نے جھٹکے سے اسے حصار میں لیا۔

ہاں آج کے لیے ایک ہی …… 

پر مجھے اور چاہیے تھے….. اتنی ساری چیزیں اس نے مہد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا تو وہ مسمرائیز ہوا کوئی اتنا حسین کیسے ہو سکتا ہے….. 

یہ محبت ہی تھی جو مہد خان کو اس کی کوئی بھی بات بری نہیں لگی تھی نا اس کا اپنے تحفے کا اتنا کھلم کھلا مانگنا…….

 اور نا روایتی دلہنوں کی طرح شرمانا لجھانا… بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوف سے قریب آنا۔

بعد میں دلوا دوں گا جو چاہیے ہو…. پہلے سنو کہ کتنی محبت ہے مجھے تم سے…. مہد خان نے اس حصار میں لیتے کہا اور پھر اپنی محبت میں اسے پور پور بھگو دیا۔

کھڑکی سے جھانکتا چاند بھی آج پوری طرح نہیں نکلا تھا شاید اسے بھی اندازہ تھا کہ مہد خان کی زندگی کا اجالا بہت جلد کھونے والا ہے۔

……………… 

این نے واپس وہی روٹین اپنا لی تھی اسے لگتا تھا وہ ایک روبوٹ ہے جو اپنی زندگی شاہ نواز خان کے مطابق جی رہی ہے اور یہی حقیقت تھی۔

آج اسے صبح سے خود کی طبیعت خراب محسوس ہو رہی تھی اب بھی اس کے کپڑے اسے دیتی وہ واش روم بھاگی تھی۔

شاہ نواز نے منہ بسورتے اس کی یہ حرکت دیکھی اور باہر نکل گیا۔

وہ بھی منہ صاف کرتی باہر نکلی اس امید سے کہ شاید وہ اس سے حال احوال ہی پوچھ لے لیکن…… 

وہ بھی ناشتے کی ٹیبل پر آئی آملیٹ کو دیکھ کر اس کا جی متلایا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنا چمچ پلیٹ میں صرف گھما رہی تھی۔

این بیٹا کھاؤ….. کیا کر رہی ہو….. ابھی نازیہ خان نے اپنی بات مکمل نہ کی تھی کہ وہ بھاگ کر کچن میں لگے سنک پر جھکی۔

سب عورتیں اس کے پیچھے آئی تھی مردوں نے بھی تشویش سے کھانے سے ہاتھ روک دیا تھا۔

اس کی طبیعت نہ سنبھلتے دیکھ ڈاکٹر کو بلایا گیا تھا اور ڈاکٹر کی دی خبر نے پوری حویلی کے ماحول کو بدل دیا تھا۔

خبر ہی کچھ ایسی تھی وہ اس حویلی کو اس کا پہلا وارث دے رہی تھی سردار ہشتم اور دراب خان نے پورے شہر میں مٹھائیاں بانٹی تھیں۔

لیکن جس شخص کو خوش ہونا تھا وہ ویسے ہی بیٹھا تھا نارمل جیسے کسی اور کے متعلق بات ہو رہی ہو اس کا سارا دھیان تو شہر میں اٹکا تھا۔

وہ ضروری کام کا کہتا شام کو ہی شہر روانہ ہو گیا تھا سب نے کچھ خاص توجہ نہیں دی تھی لیکن این خان کا دل ایک بار پھر بڑا ہوا تھا۔

اسے لگا تھا شاید یہ خبر اس کے دل میں کچھ گنجائش پیدا کرے….. لیکن وہ اپنی زندگی کی رنگینیوں میں گم تھا۔

سب اس کا بہت دھیان رکھتے تھے…. وہ خود بھی اب خوش رہنے کی کوشش کرنے لگی تھی ماں بننے کا احساس ہر احساس پر بھاری تھا۔

شاہنواز اندر داخل ہوا تو وہ اس کے کپڑے نکالنے کے لیے آئی۔

این بات سنو….. اس کا نرم لہجہ این خان میں ایک نئی امید بھر گیا تھا جیسے سب بدل جائے گا۔

عورت کتنی بیوقوف ہے نا مرد کے ایک بار ہنس کر بات کر لینے سے ہر غم ہر ظلم بھلائےاس کی طرف بھاگے چلی جاتی ہے۔

جی….!

 اس نے جی کہا تو شاہ نواز نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کا کہا وہ بھی جھجھکتی بیٹھ گئی۔

مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے….. تم سے

…………….. 

اس کی بات سنتے این خان کو لگا ساتوں آسمان اس کے سر پر گریں ہیں….. وہ یہ بات تو کم از کم اس سے ایکسپیکٹ نہیں کر سکتی تھی۔

آپ کا دماغ خراب ہے….. آپ باپ ہیں اس بچے کے ….این نے کھڑے ہوتے کہا۔

ہاں.! لیکن میں کہہ رہا ہوں نہ مجھے یہ نہیں چاہیے….. شاہ نواز اب کہ چیخ کر بولا۔

لیکن کیوں؟

 این نے ایک آخری بار کوشش کی تھی تاکہ وہ اس کے دماغ میں چلتی گندگی کو سُن سکے۔

کیونکہ مجھے تم سے اپنی اولاد نہیں چاہیے….. میں جلد دوسری شادی کر لوں گا اور اسی سے اپنی دوسری اولاد…. 

ابھی وہ اپنی بات پوری کرتا کہ وہ بیہوش ہو کر گر چکی تھی۔

شاہ نواز نے بیزارگی سے اسے دیکھا…. اس کے اندر کی انسانیت مر چکی تھی…. باہر نکل کر اس نے یہاں وہاں دیکھا۔

مہر کو دیکھتے اس نے اسے آواز دے کر این کو دیکھنے کا کہا اور پھر باہر نکل گیا حویلی سے۔

ڈاکٹر نے اسے خود کا دھیان رکھنے کا کہا تھا ابھی شروع کے دن تھے اور وہ کافی کمزور تھی سو احتیاط ضروری تھی۔

وہ اندر ہی اندر ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھی اسے خطرہ تھا… کہ شاہ نواز اس کے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔

کیا بکواس کر رہی تھی نیچے؟ اسے کمرے میں لا کر جھٹکے سے چھوڑا تھا اسے نے۔

کیا کیا ہم نے؟ 

اپنی بہن کے حق میں آواز اٹھائی ہے ہم نے….. مہر نے عام سے انداز میں کہا۔

تمہاری بہن کے منہ میں زبان نہیں ہے؟ 

تھی لیکن آپ کے بھائی کی مار پیٹ نے وہ بھی چھین لی۔

آپ کو پتا ہے اس دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہے؟ 

خود کی عزت کو بھرے بازار میں نیلام ہوتے دیکھنا….. خود کے مرد کو انسان سے حیوان بنتا دیکھنا….. لوگوں کا کہنا آسان ہے کہ ان کا آپس کا معاملہ ہے لیکن کیا انسانیت باقی نہیں بچی….. 

میں ہمیشہ سے خاموش رہی ہوں لیکن آج اپنی بہن کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں گئی اسے اتنے بُڑے طریقے سے مارا گیا ہے۔

آپ مرد صرف ایک عورت پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پتا ہے آپ کامیاب بھی ہو جائیں گے  کیونکہ آپ کے زور بازو میں طاقت ہے۔

اور ہم معمولی سے وجود…… جنہیں روند دیا جاتا ہے۔

کیا ایک بھی پل خیال نہیں اٹھا ہو گا ان کے سینے میں کہ اگر کل کو ان کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا سلوک  ہوا تو وہ کیا محسوس کریں گے۔

مہر…… 

ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی۔

آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ آپ عورت کے ساتھ کچھ بھی سلوک کریں گے لیکن  وہ آپ سے محبت کرتی رہے گی..... 

یہ ممکن نہیں ہے اگر آپ نے ان کی عزت نہ کی تو محبت بھی ایک گالی ہے ہمارے لیے۔

فاضل خان نے دھیرے سے اسے حصار میں لیا۔

وہ جو کہہ رہی تھی باکل بجا تھا۔

لیکن تمہیں سب کے سامنے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی فاضل خان  نے اسے اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہا۔

لیکن….! 

کبھی تو اپنی غلطی مانا کرو مہرین خان….. 

ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہر بار تم حق پر ہو….. ہر بات کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے تم آہستہ آواز  اور آرام سے اپنی بات کہہ سکتی تھی۔

کیا ویسے میری سنی جاتی اسنے گہری  سانس بھرتے کہا۔

آغاز تو کرتی…… آواز اونچی کر لینے سے بات کا مفہوم نہیں بدل جاتا۔

وہ سب بڑے ہیں تم سے….. 

میں امید کرتا ہوں کہ آئیندہ تم تمام لوگوں کے سامنے تہزیب سے پیش آؤ گی….. 

فاضل خان نے اس کے بالوں پر لب رکھے اور نکلتا چلا گیا وہ اسے سوچنے کا موقع دینا چاہتا تھا۔

………………….. 

وہ واپس شہر چلا گیا تھا اب کی بار واپسی پر اس نے کافی ہنگامہ کیا تھا وہ این کو چھوڑنا چاہتا تھا۔

وجہ پوچھنے پر اس نے سب کو بتا دیا تھا کہ وہ کسی دوسری عورت سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔

 سب سن کر خاموش ہو گئے تھے۔

لیکن ابھی یہ ممکن نہیں….. تمہارا بچہ ابھی اس دنیا میں نہیں آیا…. زینب خان غصے سے بولی یہ اولاد انہیں روزانہ زلیل کرواتی تھی۔

مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے میں اسے بتا چکا ہوں….. تو جلدی فارغ ہو یہ اس مسئلے  سے….. 

تم اپنی اولاد کو مسئلہ کہہ رہے ہو بغیرت انسان….. سردار ہشتم نے آگے بھرتے اس کے چہرے پر ایک تھپڑ لگایا تھا۔

ہاں نہیں…. چاہیے یہ اولاد مجھے…. 

اس عورت سے نفرت ہے مجھے….. نفرت…. میں مار دوں گا اسے جان سے…… 

اس نے این کی طرف بھرتے اسے زور سے دھکا دیا تھا یہ سب منٹوں میں ہوا تھا کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔

اس کا دھکا اتنا شدید تھا کہ این پیچھے جا گری تھی سر ساتھ پڑے میز سے ٹکرایا تھا جہاں سے خون اب بھل بھل نکل رہا تھا۔

مہد خان نے بھائی کو دھکا دیتے باز رکھا تھا ان سب سے….. عیزہ ایک طرف کھڑی سب تماشا دیکھ رہی تھی۔

سب اسے کچھ کہتے کہ ایک خان کی چیخ پوری حویلی میں گونجی تھی سب کو ایک ہی خطرہ تھا کہ کہیں اس کے بچے کو….. 

لیکن ہونی کو کون روک سکتا تھا…… 

دیکھیں میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ ان کے کیس میں بہت کومپلیکیشنز ہیں… یہ کافی کمزور ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہیں…. 

لیکن آپ نے احتیاط نہیں کی…. سو یہ تو اب ٹھیک ہیں… لیکن سوری ٹو سے…. ہم بچے کو نہیں بچا سکے۔

یہ الفاظ اس نے اپنے کانوں سے سنے تھے اور پھوٹ پھوٹ کر ایسا روئی تھی کہ کوئی اسے سنبھال نہیں پایا تھا۔

میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی…… کبھی نہیں…. 

نفرت ہے مجھے اس دو ٹکے کے آدمی سے جو اپنی ہی اولاد کا قاتل نکلا…. وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔

اس نے خلا لینے کا فیصلہ سب کے گوش گزار دیا تھا۔

………………… 

اگلے ہفتے وہ دوبئی کے لیے نکل گئے تھے وہ بھی عیزہ کی فرمائش پر….. سردار ہشتم چاہتے تھے کہ ابھی وہ گھر پر ٹھہریں کیونکہ مہمانوں کا آنا جانا کافی تھا۔

لیکن عیزہ نے بمشکل ایک ہفتے انتظار کیا تھا اور ضد لگائی تھی کہ جانا ہے بس…. 

وہ کہیں باہر گھومنا چاہتی ہے….. مہد خان کو اس کی بات مانننا پڑی تھی۔

ایک مہینہ گزارا تھا انہوں نے وہاں وہ ایک مہینہ مہد خان اور عیزہ شاہ کی زندگی کا بہترین ایک مہینہ تھا۔

عیزہ شاہ نے وہ سب منوایا تھا مہد خان سے جو وہ چاہتی تھی ایسا نہیں تھا کہ مہد کو وہ سب پسند تھا پر محبت اچھے اچھوں کو بدل دیتی ہے وہ تو ایک عام سا انسان تھا۔

نہیں جانتا تھا کہ ہر عروج کے بعد زوال ہے…… 

واپس آتے عیزہ بنا کسی سے ملے سو گئی تھی وہ سب سے پہلے اپنے ماں باپ سے ملنے گیا تھا اور گھنٹہ ان سے بیٹھ کر باتیں کی تھیں۔

گھر کے سبھی لوگوں کا حال احوال جانا تھا اور یہ بھی کہ  شاہ نواز اپنے ہی بچے کی جان لے کر اب بھی غائب تھا اسے افسوس ہوا تھا…… 

اسے ہمدردی تھی دلی این خان کے ساتھ…. جس کے ساتھ یہ سب ہوا تھا…… 

بابا تو اب کیا کرنا ہے…؟ اس نے پُر سوچ انداز میں پوچھا۔

کچھ نہیں…..!

 این اب مزید شاہنواز کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی وہ علیحدگی چاہتی ہے انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔

تو ٹھیک ہے دلوائیں خلا…… کس بات کی دیری ہے کیا ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ لالا اسے جان سے مار دیں…. 

لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے….. ہم این بیٹی کے بارے میں سوچ رہے ہیں….. ان کی آگے ساری زندگی پڑی ہے اکیلے کیسے…؟ 

بس کریں بابا…… آپ خلا دلوائیں آگے جو ہو گا دیکھا جائے  گا اس نے حتمی لہجے میں کہا تو انہوں نے بھی کچھ سوچتے ہاں میں سر ہلایا۔

برخودار! اب اپنی بیوی کو کہیں کہ یہاں کہ طور طریقے سیکھے……

 اس کا یہ حلیہ یہاں قابلِ قبول نہیں…. ان کا اشارہ اس کے پینٹ شرٹ کی طرف تھا جو اکثر اس نے پہنا ہوتا تھا۔

جی بابا…. میں سمجھاؤں گا…. ناجانے کیوں لیکن اسے شرمندگی نے آن گھیرا…. 

وہ جانتا تھا بابا اس سے ایسی بات نہ کرتے لیکن شاید اسے گھر کی عورتیں کہہ چکی تھی وہ نہیں مانی تھیں تو سردار ہشتم کو کہنا پڑا تھا۔

وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا جہاں وہ ایسے ہی حلیے میں بیٹھی تھی….. 

عیزہ…… کچھ باتیں آج کرنی ہیں تم سے ضروری یہاں آؤ…. صوفے پر اسے اشارہ کیا تو وہ منہ بسورتی میگزین  رکھتی وہاں آئی۔

ہم بولو….. واٹس ایپ کے اسٹیٹس چیک کرتے بولی….. 

تم اب یہ پینٹ شرٹ نہیں پہنو گی…… کرتا شلوار پہنو اچھا لگے گا تم پر اور ایک قسم کا چینج بھی ہو جائے گا۔

اس کی بات سنتے عیزہ شاہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا….. آر یو کڈینگ…… مہد…. میں کیوں اپنا پہنوا کسی کے لیے بدلوں گی…..؟ 

کسی کے لیے نہیں میرے لیے….. اس نے اب کہ سخت لہجہ اپنایا۔

کسی کے لیے نہیں مطلب کسی کے لیے بھی نہیں…… تم بھی نہیں سوری ٹو سے…… اس نے واپس فون پر نظریں گھماتے کہا تو اسے اپنی تزلیل محسوس ہوئی۔

اس کا فون جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے لیتا سامنے بیڈ پر پھینکا۔

کمرے میں پہن سکتی ہو باہر نہیں…. یہ مناسب نہیں میں پہلے ہی سمجھا چکا ہوں اور ہاں….. یہاں ہزار ملازم بھی ہیں…

 اچھا نہیں لگتا اور ملازم سارے کام کرتے ہیں لیکن کچن عورتیں چلاتی ہیں کوشش کرو کل سے تم بھی سب کا ہاتھ بٹاؤ۔

……………… 

اس دن کے بعد معملات میں ٹھہراؤ آ گیا تھا ہر سو خاموشی تھی یعنی راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔

فاضل خان سے اس کی ملاقات دوبارہ نہیں ہوئی تھی دن بے ضرر سے گزر رہے تھے۔

فاضل خان شہر جا چکا تھا کیوں کوئی نہیں جانتا تھا سوائے چند ایک کے۔

مہر نے اسے تلاشہ تھا پوری حویلی میں لیکن وہ تھا نہیں تو ملتا کیسے۔

اس نے بھی کوشش ترک کر دی تھی لیکن اس کی قُربت کے لمحات زہن سے چپک گئے تھے جیسے۔

فاضل خان شہر آ تو گیا تھا لیکن اسے کرنا کیا تھا وہ ابھی نہیں جانتا تھا۔

مہر سے کیے وعدے اس کے دل پر لکھے تھے وہ اس سے محبت کرتا تھا اس کی ہر خامی اسے قبول تھی۔

لیکن وہ جانتا تھا مہر اسے کبھی بھی وہ عزت نہیں دیتی یا دے گی جس کا وہ حقدار ہے تب تک جب تک وہ اس کے مطابق نہ ہو جائے۔

وہ جو سوچا کرتا تھا کہ فاضل خان کو کوئی نہیں بدل سکتا تو محبت نے بدل دیا تھا اسے۔

اس نے خود کو مہر کے رنگ میں رنگنے کی اجازت دے دی تھی۔

وہ ایم بی اے کر چکا تھا حویلی کا ہر مرد باہر کے ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکا تھا۔

اسے یہاں اپنے بل بوتے پر رہنا تھا وہ جانتا تھا ان کے پاس اتنا بزنس اور زمینیں ہیں کہ وہ اور اس کے آنے والی نسلیں بیٹھ کر کھا سکتی تھی۔

لیکن اسے اب خود کچھ کرنا تھا اگر بدلنا ہی تھا تو پہلے پہل اسے خود کا بوجھ اٹھانا تھا تاکہ کل…. کو وہ مہر کی خواہشات کو پورا کر سکے۔

دو دن اس نے محظ یہ سوچنے میں گزارے تھے کہ وہ زندگی کا پہلا قدم کہاں سے رکھے۔

ہاں! پروفیسرز……… 

ایک استاد بننا بہترین انتخاب تھا…… ایک قابلِ عزت شعبہ۔

اسے کل ہی انٹرویوز دینے تھے یہ کام بھی اس کے لیے مشکل نہ تھا کیونکہ ان کی اتنی اپروچ تو تھی کہ وہ اپنے نام سے ہی کام کروا لیتا۔

لیکن اب کی بار فاضل خان کو سب اپنے دم سے کرنا تھا۔

وہ مہر کو آنے سے پہلے مل چکا تھا جب وہ سو رہی تھی۔

ضروری نہیں ہے کہ ہر بار محبت میں عورت بدلے….. کچھ مرد بھی یہ کرتے ہیں….. 

…………….. 

مہر نے اس کو پوری حویلی میں تلاشا تھا لیکن وہ شاید چلا گیا تھا اس نے کسی سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا تھا ایک طرح کا سکون ہی تھا۔

وہ صبح کے وقت قریبی سکول میں پڑھا رہی تھی۔

دن وہی گزر جاتا تھا  گھر میں این کے قریب یا رات کو مختلف  افسانے پڑھتے۔

ابھی بھی وہ سکول سے پڑھا کر آئی تھی جب شاہ نواز اندر داخل ہوا۔

پانی پلاؤ! کسی نوکر کو نہ دیکھتے اس نے مہر کو کہا۔

مہر نے خاموشی سے اسے پانی ڈال دیا تھا لیکن اس کا انداز اسے شدید زہر لگا تھا۔

یو…….. 

ٹھنڈا پانی بولا ہے…….. وہ چلا کر بولا گلاس وہ دور پھینک چکا تھا۔

اپنی حد میں رہیں مسٹر شاہ نواز میں نوکر نہیں ہوں تمہاری……. 

تم نوکر ہی ہو….. اس گھر کی عورتیں مردوں کے حکم کی پابند ہیں آسان الفاظ میں کہیں تو نوکر ہی ہوتا ہے۔

ایسا تم گری ہوئی سوچ کے انسان کو لگتا ہے مت بھولو تمہیں جنم دینے والی بھی ایک عورت ہے وہ چیخ رہا تھا لیکن مہر کا انداز آہستہ تھا، 

ٹھنڈا پانی لے کر آؤ فوراً سے پہلے اس نے انگلی اس کی طرف گھماتے حقارت سے کہا۔

اوو پلیز…..! میں این نہیں ہوں تمیز سے بات کرو نہیں تو تم جیسوں سے ہمیں نپٹنا آتا ہے۔

اوقات میں رہو جاہل لڑکی!!! 

وہ طیش کے عالم میں آگے بڑھا۔

اس وقت جاہل تو آپ لگ رہے ہیں…. وہ بھی پڑھے لکھے جاہل….. اور ہاں دور رہ کر بات کریں…. 

نہیں تو کیا کرو گی…. یو………. 

یہ گالی اپنے منہ میں رکھیں تو زیادہ بہتر رہے گا ہم گالی برداشت نہیں کرتے…… 

اچھا……! تو تم مجھے سکھاؤ گی….. کر کیا لو گی….. ایک دن میں تمہارا منہ بند کروا کر رکھ دیں گی۔

یہی ہو تم مسٹر شاہ نواز اور…… ایک بات یاد رکھنا تمہاری ان گیدر بھکیوں سے ہم نہیں ڈرتے….. اور آئندہ زبان سنبھال کر…. 

اچھا.. ؟واقعی! 

گالی دی تو….. کیا واپس دو گی؟ 

اتنی ہمت نہیں دی ہم نے تم عورتوں کو…. 

نہیں تمہارے معیار تک نہیں گرو گی…. بس ایک تھپڑ تمہاری اس مردانگی پر ماروں گی…… 

مہرین خان……. وہ دھاڑا تھا اور ساتھ پڑا ٹیلی فون اسٹینڈ زمین بوس کیا تھا۔

کیا ہو رہا ہے یہاں؟ مہد خان نے اندر داخل ہوتے کہا۔

چونکہ گھر کے تمام لوگ کسی شادی میں مدعو تھے تو کوئی گھر پر نہ تھے نوکر سارے اپنے کوارٹرز میں تھے۔

وہ جو ابھی باہر سے آیا تھا آخر کی چند باتیں ان کی سن چکا تھا۔

یہ گھر کی عورتوں کو لگام ڈلواؤ مہد خان اپنے چہیتے باپ سے کہہ کر یہ اپنی اوقات بھول گئیں ہے۔

اس خاندان کا خون ہونے کی وجہ سے اوقات ایک ہی ہے سب کی لالا……. اور دوسرا دوبارہ کسی عورت کو گالی مت دینا……. 

چھوٹے ہو چھوٹے رہو ہمارا دماغ نہ گرم کرو…. 

دماغ آپ کا ٹھکانے پر رہتا کب ہے…… خیر مہرین خان آپ اپنے کمرے میں جائیں….. 

اور بات اپنے زہن میں بٹھالیں کہ ہر بار بحث ضروری نہیں ہوتی….. کبھی عقل سے بھی کام لیا جا سکتا ہے…… وہ دونوں کو کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

مہر نے بھی اپنے کمرے کا رُخ کیا۔

اس گھر میں ایک ہی مرد تھا جو دوسروں کو چپ کروانے کا ہنر رکھتا تھا اور وہ تھا مہد خان….. 

وہ حق کی بات کرتا تھا….. ہاں وہ بہتر تھا ان سب سے…. اسے کبھی کسی سے لڑتے یا زبان درازی کرتے نہیں پایا گیا تھا…. بلکہ وہ گاہے بگاہے عورتوں کی حمایت کرتا تھا۔

ہاں! کچھ بات تو تھی مہد خان میں….. مہر جان نے آج اسے کُھل کر سوچا تھا۔

وہ ٹھیک کہہ رہا تھا ہر بار ضروری نہیں ہے کہ مرد سے بحث کی جائے کبھی کبھی خاموشی بہتر ہے۔

کیونکہ آج وہ اکیلی تھی گھر میں…. اور مرد کب ایک بھیڑیے کا روپ اختیار کر لے اپنے غصے میں کوئی نہیں جانتا۔

دل میں آج کچھ عزت بنی تھی مہد خان کی…. 

کیونکہ سامنے والے کے معیار تک گرو گے تو کیا فرق اس میں اور تم میں…..

سب مرد ایک جیسے نہیں ہیں….. 

آج کی رات مہر خان اس اختتام پر پہنچی تھی۔

…………………. 

حویلی میں سناٹا چھا گیا تھا جو ہوا تھا وہ کسی نے نہیں سوچا تھا جہاں چند لمحے پہلے اس کے ماں بننے کی خبر سن کر شادیانے بجے تھے اب وہاں سوگ کا سا عالم تھا۔

وہ اپنے گھر جا چکی تھی اور اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کےبس خلا چاہیے۔

وہ عورت ہو کر سہہ رہی تھی لیکن ایک ماں اپنے بچے کے قاتل کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی۔

سب نے خاموشی سادھ لی تھی جیسے این کے فیصلے پر راضی ہوں اب کچھ نہیں بچا تھا۔

شاہ نواز اپنا حصہ لے کر جا چکا تھا اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا اس نے دوسری شادی کر لی تھی اسی رات۔

جس رات اس کا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی لوٹ گیا تھا۔

لیکن این خان کی بدعاؤں کا اثر تھا کہ وہ عورت اسے لوٹ کر جا چکی تھی اس کا سب لوٹ چکی تھی وہ خالی ہاتھ وہاں رہ گیا تھا۔

لیکن اب اس کی حالت سے کسی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔

این خان نے خلا کا کیس دائر کر دیا تھا اور خلا ہو گئی تھی کہ اس کے علاوہ شاہ نواز کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا تھا۔

ایک ٹھہراؤ آ گیا تھا سب کی زندگی میں……

 این نے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا سب سے….. 

وہ جو اس کے ساتھ ہوا اسے بھولنا چاہ رہی تھی لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔

اس کا نام ہمیشہ کے لیے شاہ نواز سے علیحدہ ہو گیا تھا اس نے سکون کا سانس خارج کیا تھا…. زندگی بہت مشکل رہی تھی اس کی۔

اس نے یہ امید چھوڑ دی تھی کہ اس کے لیے کبھی خوشیاں آئیں گی یا لکھی گئیں ہیں….. 

لیکن 

نہیں جانتی تھی رب کے کاموں کو…… مایوسی ایک کفر ہے۔

اور رب اپنے بندے پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور نہ آزماتا ہے انہیں ….. شاید اس کی زندگی میں تکلیفوں اور آزمائش کا اتنا ہی دورانیہ تھا وقت بدلنے والا تھا کیسے اور کب یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

مہد خان کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو….. میں اور کچن…. ؟رئیلی… ؟

میں نے کبھی پانی اٹھ کر نہیں پیا یہ نوکرانیوں والے کام نہیں ہوتے مجھ سے….. 

شادی کے بعد بہت کچھ کرنا پڑتا ہے زیادہ کچھ نہیں صرف ہیلپ کروانی ہے…. اور نہیں کچھ آتا تو ماما سکھا دیں گی….. 

اب کے اس نے بات ختم کرتے گھڑی اتارتے کہا…… تو وہ بھی اپنا فون واپس اٹھاتی بیٹھ گئی جیسے فرق ہی نہ پڑا ہو۔

اور واقعے اسے فرق نہیں پڑا تھا اگلی کئی صبح وہ اٹھ کر آ کر بیٹھ جاتی اور ناشتہ کر کے واپس کمرے میں بند ہو جاتی۔

ابھی  وہ پینٹ کے اوپر شارٹ کرتا پہنے جمائی لیتے باہر آئی اور ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئی۔

سب کو خاص طور پر مہد خان کو اس کا یہ انداز زہر لگا تھا لیکن نظر انداز کر گیا۔

عیزہ جاؤ…. اچھے سے فریش ہو کر آؤ…. اس نے اسے وہاں سے اٹھانا چاہا کیونکہ وہ اس کے بابا کی جگہ تھی جہاں صرف وہی بیٹھتے تھے۔

اوہو….. مہد نظر نہیں آرہا فریش ہو کر آئی ہوں…. اس کے جواب سے سب عورتوں نے ایک ساتھ اسے دیکھا۔

اچھا اٹھیں یہاں سے یہ تایا جان کی جگہ ہے چونکہ مہر بھی وہیں تھی آج کل تو اسے دیکھتی بولی۔

یار نام تھوڑی نہ لکھا ہے…. جو آئے وہ خالی کرسی پر بیٹھ جائے…… 

انف….! عیزہ بکواس نہیں…. 

بابا کی جگہ ہے یہ یہاں کوئی نہیں بیٹھتا اٹھو یہاں سے اب کہ مہد خان نے اپنی ہتھیلی زور سے ٹیبل پر ماری اور طیش میں کھڑا ہوا۔

عیزہ نے ایک نظر سب کو دیکھا سب اسے ہی حقارت سے دیکھ رہے تھے اور ایک نظر مہد کو…. 

نہیں مہد خان کو غصہ نہیں دلوانا تھا اسے…… مہد خان کے دم پر یہ سب عیاشی تھی….. 

وہ فوراً اٹھی اور جا کر دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔

سردار ہشتم بھی آئے اور ناشتہ شروع کیا گیا سب خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے وہ بیزاری سے سب کو پراٹھے کھاتا دیکھ رہی تھی۔

کیا اوٹس نہیں ملتے یہاں…. اس کی بات پر ایک بار پھر نظریں اس کی طرف اٹھی تھی۔

مل جائیں گے بیٹا آج منگوا دیں گے ہم شہر کی مارکیٹ سے….. ابھی کے لیے یہ بریڈ کھا لیں زینب بیگم نے کہا تو اس نے منہ بسور کر بریڈ کی ٹرے ان کے ہاتھ سے لی۔

اف کہاں ان پینڈو میں پھنس گئی ہوں…… 

مجھے لگتا ہے مہد کو کسی طرح کنوینس کرنا پڑے گا کہ الگ گھر لے ان کے ساتھ رہنا تو ممکن نہیں….. اف اس نے دل میں سوچا۔

این کو آتا دیکھ اس سمیت سب کی نظریں اس کی طرف گئیں تھی۔

آئیں این بیٹا یہاں بیٹھ جائیں….. جگہ نہیں ہے سردار ہشتم جو ناشتہ کر چکے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور این کو اپنی جگہ بیٹھنے کا کہا۔

اس نے حیرت سے سب کو دیکھا….. کچھ لمحے پہلے اس کے بیٹھنے پر کیسے بوال ہوا تھا…… اور اب اس لڑکی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا تھا اس سے ہضم نہ ہوا۔

سردار ہشتم جا چکے تھے سب عورتیں این کی طرف متوجہ تھیں اسے کھانا کھلانے میں…. اس نے سب کو ایک نظر دیکھا اور بولی۔

یہ وہی ہے نا جس کے شوہر نے اس کا بچہ مار دیا تھا اور اب اسے طلاق دے دی ہے اس کے کہتے ہی اس حال میں موت جیسا سکتہ چھا گیا۔

زبان سنبھال کر لڑکی…… اب کی بار نازیہ بیگم بولیں تھیں ۔

لو میں نے تو بس پوچھا ہے…. ویسے یہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتی….. اب تو اس کا یہاں رہنا مناسب نہیں…. یہاں سب دوسرے مرد ہیں مطلب….. 

شٹ اپ عیزہ…….

 اٹھو اور دفعہ ہو جاؤ کمرے میں مہد خان کی برداشت کی انتہا ہوتے ہی وہ چیخا تھا۔

این نے نم آنکھیں جھکائی۔…….. ان کے گھر کنسٹرکشن کا کام ہو رہا تھا اور شاہنواز آج کل ہسپتال میں تھا اس لیے وہ وہاں رہ رہی تھی۔

این یہاں رہتی ہیں یا نہیں آئندہ میں تمہارے منہ سے ایسی کوئی بات نہ سنو عیزہ….. اب کی بار زینب خان کا لہجہ سخت تھا۔

ارے یار…… میں نے کون سا اس کو گولی مار دی ہے اتنا ہی تو کہا ہے اور اس کے شوہر نے بچہ مار دیا تو مار دیا…. 

اب کیا….. ویسے بھی یہاں سارے مردوں نے ہی عورتوں کو گھن چکر بنا رکھا ہے اب آپ کو ہی دیکھ لو وہ بدتمیزی سے زینب خان کو دیکھ کر بولی۔

چٹاخ!!!!!

 مہد خان کا ہاتھ اٹھا تھا عیزہ نے صدمے سے اسے دیکھا آیا یہ وہی شخص تھا جو اس سے روز محبت کے دعوے کیا کرتا ہے….. 

ہاؤ ڈیر یو….. اس نے آگے بڑھتے مہد خان کو دھکا دیا تو سب ششدر رہ گئے اب کہ شور سن کر سردار ہشتم بھی نکل آئے یہ منظر انہوں نے بھی دیکھا تھا۔

یہ کیا بدتمیزی ہے لڑکی؟ 

…………….. 

بدتمیزی تو آپ لوگ کر رہے ہیں میں کب سے خاموش تھی میرے شوہر کے کان بھرتے شرم نہیں آتی۔

یہ پہنو وہ نہ پہنو…..

 تم لوگوں کا نہیں پہن رہی میرے باپ کے دلوائے کپڑے ہیں….. 

کھانا بناؤ…. ہاتھ بٹاؤ…. مائی فٹ…. 

یہ سب چونچلے نا مجھ سے نہیں ہوتے…… اس نے بیزاری سے کہا….. 

مہد خان ایک طرف ساکت کھڑا تھا کہنے کو کہاں کچھ باقی تھا…… یہ روپ کہاں تھا اتنے مہینوں سے اس کا…. 

تو شادی کیوں کی تم نے ہمارے بیٹے سے؟ 

اب کی بار دراب خان نے حصہ لیا جو تب سے سب تماشا دیکھ رہے تھے۔

یہ شخص میری محبت میں پاگل تھا…… مجھے تو لگا تھا جیسے محبت کے دم بھرتا ہے سر آنکھوں پر بٹھائے گا…. اتنی جائیداد ہے سب میرے نام کر دے گا…. 

لیکن یہاں تو سب الٹا ہو گیا….. یہ کرو وہ نہ کرو… ایسے بیٹھو… ایسے سانس لو….. عجیب زبردستی ہے اس نے سب کو دیکھتے حقارت سے کہا۔

سردار ہشتم نے ایک بار اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں تھیں……

 اور

 گردن ہلکی سی جھکی تھی چہرہ اہانت کے احساس سے سرخ تھا۔

جائیداد چاہیے…..؟

 سردار ہشتم کی آواز پر وہاں موت جیسی خاموشی چھا گئی؟ سب اس کے جواب کے منتظر تھے۔

مہد خان نے ایک قدم آگے بڑھایا بات اتنی نہیں بڑھی تھی وہ محبت سے سب سنبھال لیتا۔

ایک آخری کوشش… 

وہ جانتا تھا وہ نہ کہے گی کیونکہ اس کا باپ بھی اچھا خاصہ امیر تھا تو اسے اس کی دولت سے کیا چاہیے تھا۔

ہاں!!!! 

اس کے اٹھتے قدم وہیں تھمے اسے لگا جیسے بھری محفل میں کسی نے اسے کوڑے مارے ہوں۔

فاضل خان عیزہ کی طرف طیش میں بڑھتا کہ مہد خان نے سے اسے روکا۔

کیا چاہیے؟ ڈوبتے دل کے ساتھ لرزتے لبوں سے اس کے یہ لفظ بمشکل ادا ہوئے تھے۔

تمہارے نام کی ساری جائیداد….. اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

مزاق کر رہی ہو نا عیزہ…… یار تم سے تو محبت کی تھی میں نے اور تم نے……. اس نے جھکے کندھوں سے کہا۔

لڑکی اپنی حد میں رہو بہتر یہی ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ اس سے پہلے ہم پولیس کو بلائیں دراب خان بھی اب آپے سے باہر ہوتے دکھائی دیے تھے۔

کیوں بس یہی تھی محبت….. مسٹر مہد خان……؟ 

بابا……! 

اس نے مُڑ کر ایک نظر اپنے باپ کو دیکھتے ہاں میں سر ہلایا تھا وہ ایک نظر اس کے باپ کا کلیجہ چیر گئی تھی۔

ٹھیک ہے…. ایسی ہزار زمینیں میرے بیٹے کے صدقے وار دوں میں …… 

مل جائے گا سب لیکن اس کے بعد خود کو گُم کر لینا ہمیشہ کے لیے نہیں تو ہم خود کو قابو میں نہیں رکھ پائیں گے…… 

ایک منٹ….. صرف ایک بار بتاؤ آخر کیوں کیا….. مجھ سے محبت نہیں ہوئی تمہیں… ؟مہد خان نے ٹھہرے لہجے میں پوچھا۔

این خان نے حیرت سے اس مرد کو دیکھا جو آج ایک لڑکی کے لیے رو رہا تھا۔

اور…… 

ایک اس سے منسلک مرد تھا جو اسے جوتی کی نوک پر رکھتا تھا۔

نہیں! تمہاری خوبصورتی نے متاثر کیا تھا مجھے……

 تم ضد بن گئے تھے میری…… میری کوئی بھی دوست چاہ کر بھی تم تک رسائی حاصل نہیں کر پائی تھی…. 

لیکن 

میں نے کر دکھایا تمہیں تسخیر کر لیا دیکھو….. اس نے مسکراتے اسے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا….. 

دولت میرے باپ کے پاس بھی ہے لیکن ایک چھوٹا سا بزنس ہے جس میں اس وقت صرف خسارہ ہو رہا ہے….. 

تم سے آدھی دولت بھی نہیں ہے میرے پاس….. بس ایک عیش بھری زندگی چاہی  ہے ہمیشہ سے میں نے….. تمہارے ساتھ بھی گزر جاتی…. 

لیکن تم سو کولڈ مرد بدل جاتے ہو یار……. کام کرو یہ کرو وہ کرو…… یہ پہنو…. یہاں جاؤ…. لائک سیریسلی….. اور اس حویلی کی پاگل عورتیں اسے تحفظ کہتی ہیں…. 

زبان سنبھال کر نہیں تو دھکے مار کر نکلواؤں گا یہاں سے یاد رکھنا اب کہ فاضل خان بولا۔

میں….. مہد خان… اپنے پورے ہو… 

اپنے پورے ہوش… 

و… حو…. حواس… میں تمہیں… 

طلاق…. دیتا ہوں…. 

ہر بار یہ عمل دہراتے اس کا دل کانپا تھا اس لڑکی سے اس نے خود سے زیادہ محبت کی تھی۔

جو اسے بھری محفل میں زلیل و رسوا کروا گئی تھی وہ شخص جس کے لیے عزت اور مان سب تھا….

 آج وہ لڑکی اسے خالی دامن کرتی چلی گئی تھی۔

عیزہ شاہ نے تمسخر سے اسے دیکھا اور باہر نکل گئی۔ 

وہ سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے میں آیا اور زور دار جھٹکے سے دروازہ بند کیا۔

آہ…… اس نے اپنے سر کے بالوں کو مٹھی میں دبوچا…. 

میں….. میں ہی کیوں؟؟ 

فاضل خان اور باقی لوگ مسلسل دروازہ بجاتے رہے لیکن ناکام رہے تھے اس نے نا دروازہ کھولنا تھا نا کھولا…. 

رات کے آخری پہر سردار ہشتم تھکے قدموں سے اس کے دروازے کو دوسری چابی سے کھولتے اندر داخل ہوئے اور اسے دیکھا جو صوفے کے ساتھ نیچے گرا پڑا تھا۔

وہ بھاگ کر اس کے پاس آئے دروازہ بند کر کے اس کے پاس نیچے بیٹھتے اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔

شیر….. اتنی جلدی ہار مان گیا….؟ 

میں….. شیر نہیں رہا….. اب…. مر گیا ہوں دیکھ رہے ہیں آپ….. دیکھ رہے ہیں…… وہ چھوڑ گئی مجھے….. اس نے سردار ہشتم کو دیکھتے کہا۔

لعنت ہے میری محبت پر کہ میں اسے بدل نہیں سکا، اس کے دل میں خود کے لیے محبت پیدا نہیں کر سکا….. 

وہ مرد روتا اب خاموش ہو گیا تھا سردار ہشتم نے اسے دیکھتے ایک آخری فیصلہ لیا تھا….. 

کیا وہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔

آج کے بعد اس لڑکی کا نام ہم تمہارے منہ سے نہیں سنے مہد خان….. انہوں نے سخت لہجے میں کہا۔

میں جانا چاہتا ہوں یہاں سے….. وحشت ہوتی ہے مجھے یہاں….اس نے اردگرد دیکھتے کہا۔

کہاں جاؤ گے…؟ حقیقت کہیں بھی نہیں بدلے گی…. اس کا سامنا کرو….. اور آگے بڑھو… زندگی پڑی ہے ابھی… 

نہیں بڑھنا مجھے اب آگے کبھی بھی….. یہی ہے مہد خان ایک ٹوٹا اور بکھرا ہوا شخص….. 

یہ مہد خان میرا شیر نہیں ہے…… سو گیا ہے وہ کہیں…… ایک دن وہی مہد خان ہمارے سامنے ہو گا یہ وعدہ ہے میرا آپ سے…. انہوں نے اس کے سر پر بوسہ دیتے کہا۔

………………

اگلے چند روز شہر کی بہترین یونیورسٹیز میں فاضل خان نے انٹرویو دیا تھا۔

زیرو ایکسپیرینس کی وجہ سے اسے جلد جاب ملنا مشکل تھا… آج اسے معلوم ہوا تھا کہ تھکن کسے کہتے ہیں۔

بچپن سے سب چیزیں بنی بنائی مل جاتی تھی دولت کی کبھی کمی نہیں رہی تھی۔

آج وہ بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں گُم ہو گیا تھا کیونکہ آج اس نے محنت کی تھی۔

کچھ دنوں میں.... 

شہر میں چونکہ اس کے کئی دوست تھے لیکن وہ اتنا کلوز کسی سے نہیں رہا تھا۔

ایک دوست کے توسط سے وہ ایک یونیورسٹی میں جاب حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔

کل اس کا پہلا دن تھا اتنے دنوں کی تھکن کے بعد آج وہ کچھ پُرسکون تھا۔

صوفے پر وہ آڑھا ترچھا لیٹا خیالوں کی دنیا میں تھا۔

مہر یہ صرف تمہارے لیے…… کیا تھا لیکن اندازہ نہیں تھا کہ کسی روز ٹھوکریں کھاتے روزی کے لیے اتنا لڑنا پڑے گا۔

آج احساس ہوتا ہے کہ وہ لوگ کیسے کماتے ہیں جو ہمارے گھر میں کام کرتے ہیں ہمارے…. آگے پیچھے گھومتے ہیں…..

اسے آج ہر پروفیشن خاص لگا تھا….. اس نے جانا تھا کہ جو سکون خود کمانے میں ہے شاید وہ کسی میں نا ہو۔

وہ پُرجوش تھا زندگی کے اس نئے سفر کے لیے پہلے پہل اسے لگا تھا وہ یہ صرف  مہر کے لیے کر رہا ہے…..

لیکن اسے اب اندازہ ہوا تھا کہ نہیں…..

یہ تو وہ اصل میں خود کے لیے کر رہا تھا….. وہ خود کو احساس دلا رہا تھا کہ وہ اپنے بل بوتے پر کچھ کر سکتا ہے۔

میں بدل جاؤں گا مہر……. اس نے سگریٹ سلگاتے سوچا۔

اس دن سے اس نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا….. وہ ویسے بھی نہیں پیتا تھا اس نے زندگی میں ایک بار اس حرام مشروب کو ہاتھ لگایا تھ تب بھی ایک ہی گھونٹ گلے میں اتارا تھا۔

لیکن سگریٹ اس نے کم نہیں کی تھی یہ اس کے بس میں نہیں تھا۔

رنگ ٹون کی آواز نے اسے دنیا میں لا پٹکا تھا۔

سکرین پر بلنک ہوتا نام لیلیٰ کا تھا اس نے گہری سانس بھری جب سب ختم کرنے کی ٹھان لی تھی تو یہ بھی کیوں نہیں……

اس نے کال رسیو کی…..

ارے….! خان صاحب آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئے…..

میرے زرائع کے مطابق آپ اس وقت شہر میں ہیں لیکن حیرانگی کی بات ہے ہمیں ملاقات کا شرف نہیں بخشا…..

لیلیٰ! دیکھو….. آج کے بعد میں یہاں نہیں  آؤں گا اس نے گلہ کھنکارتے کہا۔

تو ہم آ جائیں گے….. مقابل کی شوخ آواز گونجی۔

نہ تم آؤ گی نا میں اور نہ اب کوئی رابطہ ہو گا ہمارے درمیان…..

………………. 

کیوں جی؟

کوئی نئی مل گئی ہے کیا؟

ایسی بات نہیں ہے لیلیٰ ….. لیکن میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہوں فاضل خان کو سمجھ نہ آیا کہ اسے اپنا موقف  کیسے سمجھائے۔

مطلب چھوری کا معاملہ ہے….؟

ہممم….. اس نے آنکھیں بند کی تو اس کا حسین چہرہ نظر آیا۔

تو اس کے  لیے ہمیں کیوں چھوڑ رہے ہو…؟ 

وہ وہاں ہے پر یہاں…… 

کچھ وعدے ساتھ باندھ لائے ہیں….. 

تو مطلب محبت کا معاملہ ہے؟ 

پتا نہیں لیلیٰ! لیکن وہ مجھے بھی عام مردوں جیسا سمجھتی تھی….. ہمارے ہر سوال کا ایک ایک جواب ہمیشہ تیار رہتا ہے اس کے پاس….. اس کی نظر میں ہمیں خود کے لیے عزت نظر نہیں آتی….. اسے محبت نہیں ہے مجھ سے ….. 

تکلیف دہ پتا ہے کیا ہے خود سے منسلک شخص کی آنکھوں میں خود کے لیے اجنبیت دیکھنا، ناپسندیدگی کا احساس جان لیوا ہے تب جب آپ مخالف پر جان وارتے ہوں، محبت عجیب احساس ہے نا بادشاہ کو بھی فقیر بنا دیتا ہے۔

بالکل نہیں اس نے خود کو باور کروایا۔

لیکن جب سے وہ میرے نام لکھی گئی مجھے احساس ہوا کہ کوئی ہے اس دنیا میں جو میرا ہے صرف میرا…… 

لیکن وہ تو ہم سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تھی….. اور اب نبھانا نہیں چاہتی وہ خاموش ہوا….. 

تو….. زبردستی منواؤ اسے اس اپنا آپ یہ تو بہت ہی آسان کام ہے…. لیلیٰ نے سوچتے جواب دیا۔

میں اس کی مردوں سے نفرت پر ایک اور جواز نہیں بننا چاہتا اس کے اندیشے سچ نہیں کرنا چاہتا کہ ہر مرد ایک جیسا ہے……. 

تو بدل جاؤ گے؟ 

کوشش کروں گا…. کس حد تک کامیاب ہوتا ہوں نہیں جانتا….. وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

ہم دعا کرتے ہیں فاضل خان کہ تمہیں تمہاری محبت مل جائے……. لیلیٰ نے کہا تو وہ مسکرایا۔

ہمیں معاف کرنا لیکن ہمارا رابطہ اور ایک ناجائز تعلق یہیں تک کا تھا اس نے بھاری ہوتی آواز سے کہا۔

خوش رہو ہمیشہ لیلیٰ نے کہتے لائن کاٹ دی۔

فاضل خان کئی لمحے یہ سوچتا رہا کہ کیا وہ اس گناہ کی معافی رب سے کبھی مانگ پائے گا….

وقت بدل گیا تھا…… سب بدل گیا تھا…..

 اس حویلی میں اب سب پہلے جیسا نہیں رہا تھا ایک سوگوار ماحول ہمیشہ چھایا رہتا تھا وہاں۔

باقیوں کی زندگی بیشک نارمل سہی لیکن دو لوگ تھے جہوں نے کنارا کر لیا تھا سب سے…. 

این خان اور مہد خان نے…… 

وہ دو لہریں اپنے ساحل سے علیحدہ ہو کر اپنا وجود کھو چکی تھی۔

لیکن نہیں جانتے تھے کہ وہ مل کر ایک الگ جہاں بسانے والے ہیں۔

آج سردار ہشتم کے کمرے میں ایک آخری فیصلہ لیا گیا تھا ان دو لوگوں کے متعلق جو سب کے لیے حیرت انگیز سہی لیکن قابلِ قبول تھا۔

شاید یہی وقت کا تقاضا تھا اور یہی قسمتوں میں درج تھا۔

توڑا مجھے کچھ یوں اس نے

کہ جُڑ کر بھی میں بکھر گیا

رلایا مجھے کچھ یوں اس نے

کہ ہنسی میں میں پھر سے رو دیا

تڑپایا مجھے کچھ یوں اس نے

کہ تنہائی میں بھی میں الجھ پڑا

ستایا مجھے کچھ یوں اس نے

کہ اپنوں کو ہی میں نے رُلا دیا 

ٹھکرایا مجھے کچھ یوں اس نے

کہ مجھے اپنے ہونے پر ہی گمان ہوا 

چھوڑا مجھے کچھ یوں اس نے

کہ میں نے خود کا ساتھ ہی چھوڑ دیا

ازقلم سُنیہا رؤف۔

این خان سنتے ہی ہتے سے اکھڑ گئی تھی ایک بار پھر وہ کسی کے ہاتھ اپنی زندگی کی ڈور نہیں دے سکتی تھی وہ بھی وہ شخص جو خود ٹوٹا تھا۔

دوسری طرف وہ خاموش بیٹھا تھا….. بالکل خاموش جیسے لفظ اب اس کی زبان سے نکلے تو وہ بےمعنی ہوں گے۔

کیونکہ سردار ہشتم اسے اپنی قسم دے چکے تھے اس بات کو مہینے گزر چکے تھے لیکن وہ دو جانیں آج بھی وہی کھڑی تھی۔

ان کو ساتھ جوڑنے کا فیصلہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر لیا تھا وہ ایک ساتھ شاید اپنے غم مٹا دیتے۔

بابا  مجھ سے نہیں ہو پائے گا…. 

یہ ناانصافی ہے ہم دونوں کے لیے اس نے ایک آخری کوشش کی تھی۔

ایک بار تم نے ہمیں منایا تھا برخوردار اب کی بار ہماری مانو باپ ہوں تمہارا ایک دن تم مجھے مسکرا کر شکریہ ادا کرو گے….. یاد رکھنا…. 

اور پھر اس نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا لیکن دوسری طرف وہ تھی کہ پھر سے بکھر گئی تھی۔

ایک آخری بار میری بیٹی…… سردار ہشتم نے اسے دیکھتے کہا تو وہ رو دی۔

میں اتنی مضبوط نہیں ہوں…… تایا جان…… میں ہار جاؤں گی…. 

اس بار کوئی نہیں ہارے گا نا وہ نا آپ….. یقین رکھیں انہوں نے مان سے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ بھاری دل کے ساتھ سر ہاں میں ہلا گئی کیونکہ اس کے باپ اور اس کی ماں یہی چاہتے تھے۔

ان دو لوگوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا تھا ایک ڈر اور خوف کے ساتھ……. 

جمعے کے روز سادگی سے انہیں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا گیا تھا سب سادگی سے ہوا تھا وہ اس وقت این خان سے این مہد خان بن گئ تھی۔

نیا کمرا نئی جگہ……. سب نیا تھا…. وہ اس کے کمرے میں بیٹھی اس کے انتظار میں تھی جو کہیں دور کھڑا آسمان کو تک رہا تھا۔

……………… 

کتنے ہی لمحے اس نے اس کا انتظار کیا تھا لیکن اس نے نہ آنا تھا نہ وہ آیا تھا۔

این خان نے تھک کر آنکھیں موند لیں آگے کیا ہونے والا تھا وہ نہیں جانتی تھی لیکن دل خوفزدہ تھا۔

اس کے دل میں مردوں کا ایک خوف بیٹھ گیا تھا جو کب ختم ہوتا کوئی نہیں جانتا تھا۔

وہ وہیں آسمان کو خالی نظروں سے تکتا رہا……

 کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا تھا…. ایسی زندگی تو نہیں چاہی تھی اس نے….. 

ایک وجود اس کا انتظار کر رہا تھا وہ جانتا تھا لیکن ہمت نہیں تھی…. صنفِ نازک نے اسے بڑے طریقے سے توڑا تھا…. 

اب ہمت نہیں تھی اس میں کہ وہ واپس اپنے خالص جزبات یا اپنا وقت کسی پر لٹاتا….. اس نے گہری سانس بھری۔

کمرے میں آ کر نظر سیدھی بیڈ پر گئی تھی جہاں کل تک کوئی اور تھا اور آج…….. اس نے اپنے بالوں کو بکھیرا دیا۔

کیا ہو رہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا….

 اس لمحے اسے لگا کہ اس نے زندگی کا غلط فیصلہ کیا ہے این خان سے شادی کا۔

لیکن نہیں غلط فیصلہ تو اس سے پہلے کا تھا جب کوئی محض اس کے چند روپوں پر مر مٹا تھا….. آج اسے اپنی دولت سے نفرت ہوئی تھی۔

ہاں دولت سب دے سکتی ہے……. لیکن جو چھین سکتی ہے نا اس کا لوگوں کو  اندازہ بھی نہیں ہے۔

وہ چینج کر کے واپس آیا اور اس کے برابر میں لیٹ گیا جہاں وہ ویسی ہی تیار سو گئی تھی۔

ایک نظر اس کے سوگوار حسن کو دیکھتے اس نے ٹھنڈی آہ بھری تھی….اس نے صرف دھوکا کھایا تھا لیکن سامنے موجود عورت کو پل پل زلیل کیا گیا تھا۔

ہاں این خان کی کوئی غلطی نہیں تھی….. اسے یہ رشتہ نبھانا تھا…… بتانا تھا سب کو… نہیں خود کو…. 

ہاں خود کو بتانا تھا کہ وہ رشتوں کا پاس رکھتا ہے….. رشتے نبھانا آتا ہے مہد خان کو۔

اس نے قریب ہوتے اس کے جھمکے اتارتے اس کا بھاری دوپٹہ اتارتے سائڈ پر رکھ کر لائیٹ اوف کر دی۔

شاید آنسو وہ اس کمرے کی روشنی کو بھی نہیں دکھانا چاہتا تھا۔

کتنے ہی لمحے وہ لیٹا رہا تھا…. نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی….. ان گنت سوچیں لیے وہ تھک گیا تھا۔

آخر نیند اس پر مہربان ہو گئی تھی…… اگلی صبح کا سورج کچھ بدلنے والا تھا….. 

شاید کچھ کچھ یا سب کچھ… 

این کی آنکھ صبح کھلی تو وہ اس کے برابر میں لیٹا تھا….. ایک سیکنڈ کے لیے اس کے دل کی دھڑکن رکی تھی۔

دوسرے لمحے اس کی نظر سائیڈ ڈرا پر پڑے جھمکوں پر پڑی….. اس نے جھٹکے سے واپس مہد خان کو دیکھا تھا۔

دل عجب انداز میں دھڑکا تھا…… اس نے اٹھ کر اس شخص کو دیکھا…… کیا وہ بھی وہی سب کرے گا جو اس کے بڑے بھائی نے کیا تھا۔

یہ سوچتے اس نے اپنی جگہ سیکنڈ میں چھوڑی تھی اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے اس کی آنکھیں نم ہوئی۔

زندگی مشکل تھی پہلے…… اب کیسی ہونی تھی اس کا دارومدار مہد خان پر تھا ایک عورت کی زندگی کیسی ہو گی یہ اس سے منسلک مرد پر منحصر ہوتا ہے۔

……………… 

یونیورسٹی میں پڑھاتے آج اسے ایک مہینہ ہو گیا تھا آج اسے اس کی پہلی تنخواہ ملی تھی۔

وہ تب سے ٹرانس کی سی کیفیت میں وہ چالیس ہزار اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھا تھا۔

وہ شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی اسے اس کی ڈگری کی بنا پر جلد ہی رکھ لیا گیا تھا۔

لیکن ایکسپیرنس نا ہونے کی صورت اس کی تنخواہ ابھی شروع کے چند ماہ میں کم رہنی تھی اس کا کام دیکھتے وقت کے ساتھ بڑھ جانے کا کہا گیا تھا۔

فاضل خان کے لیے وہ چالیس ہزار روپے ایک چھوٹی رقم تھی کیونکہ اس رقم سے کئی زیادہ اس کے بینک اکاؤنٹس میں پیسے پڑے تھے۔

لیکن وہ پیسے اس کے خود کے کمائے ہوئے نہیں تھے اس کی آنکھیں زندگی میں پہلی بار نم ہوئیں۔

اس کی مہینہ بھر کی دن رات کی محنت تھی یہ رقم….. جو تھوڑی سہی لیکن اس کے لیے اہمیت کی حامل تھی۔

اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کس سے اپنی خوشی کا اظہار کرے۔

مہر سے اب وہ تب تک بات نہیں کرنا چاہتا تھا جب تک اس کے کیے تمام وعدے پورے نہ کر لیتا۔

اس نے اپنے باپ کا نمبر ملایا اور انہیں یہ خبر سنائی۔

تمہارا دماغ خراب ہے فاضل …. یہ زمینیں یہ جائیداد سب تمہاری ہے یار….. اور تم وہاں جا کر وہ معمولی سی ٹکے کی جاب کر رہے ہو ۔

پاپا…… یہ میری منتخب کردہ ہے…. 

لیکن کیوں؟ آخر ضرورت کیا ہے؟ وہ نہایت غصے میں تھے۔

میں اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتا ہوں….. 

چھوڑو سب ابھی کہ ابھی واپس آؤ…… ہم تمہیں دھکے کھاتے نہیں دیکھ سکتے…. وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا لاڈلا۔

ایک بیٹی بھی تھی وہ بھی انہیں اس کے جیسے ہی پیاری تھی کیونکہ ان کی نیچر سردار ہشتم سے الگ تھی تھوڑی لیکن اتنی نہیں کہ اب وہ اسے کسی لڑکی کے لیے زلیل ہونے دیتے۔

بالکل نہیں….. بابا مجھے کچھ بن لینے دیں اب تب ہی واپس آؤ گا۔

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے فیضی….!

واپس آؤ تمہاری شادی کریں ہم تاکہ تمہارا دماغ ٹھکانے پر آئے اب کے اسپیکر میں اس کی ماں کی آواز گونجی۔

اسی کے لیے تو یہ سب کر رہا ہوں ماما…… اس نے ہولے سے کہا۔

واٹ ربش…… مہرین خان کو یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہو گی….. 

تم واپس آؤ….. اس لڑکی کا دماغ تو مجھے ویسے بھی ٹھکانے پر نہیں لگتا۔

بابا!میں مہر کے بارے میں کوئی بات نہیں سنو گا….. اور اگر آپ کو بیٹا عزیر ہے تو دوبارہ اسے کچھ مت کہیے گا۔

اوکے…..! لیکن تم خدارا واپس آجاؤ۔

بابا…. پلیز یار مجھے خود کچھ کرنے دیں یار….. 

ٹھیک ہے میری جان کرو لیکن تمہاری صحت پر کوئی فرق پڑا تو ہم خود شہر آجائیں گے یہ آواز اس کی ماں کی تھی۔

ہاہا….. آجائیں ہم مزے کریں گے خوب…. 

اور پھر کچھ باتوں کے بعد فون بند کر دیا گیا تھا۔

وہ منا چکا تھا اپنے والدین کو کیسے نا مناتا لاڈلا تھا ان کا اس کے ماں باپ نے کبھی اس کی بات ٹالی ہی کہاں تھی۔

نازیہ خان مسکرائی تھی حویلی کے مردوں کا یہ روپ انہوں نے کہاں دیکھا تھا۔

مطلب پہلی دڑاڑ پر چکی تھی انہوں نے سکون سے آنکھیں موندی۔

وہاں وہ بھی پرسکون ہوتا سو چکا تھا یہ جانے بغیر کہ کل کا سورج مہر خان کو اس سے مزید بدگمان کر دے گا۔

……………..

وہ جو لان میں بیٹھی میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی اس کا دھیان مین گیٹ کھلنے پر ان کی طرف ہوا۔

دراب خان اور نازیہ بیگم آئے تھے۔

وہ فوراً اٹھ کر ان کے قریب آئی اور سر جھکا کر سلام کیا۔

نازیہ خان نے خوش اصلوبی سے اور دراب خان نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔

بیٹا چائے بنوا دیں نادیہ بیگم نے اسے کہا تو وہ اوکے کہتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔

کچھ ہی دیر بعد سردار ہشتم اور زینب خان کی بھی آمد ہوئی تھی۔

کہیں یہ لوگ شادی کی بات تو نہیں کرنے آئے؟

 اس نے فکر سے سوچا کیونکہ کافی دیر بعد آج ان کے گھر سب اکٹھے ہوئے تھے۔

وہ خانساماں کے ساتھ خود بھی تیاریوں میں جت گئی لیکن دل کو ایک دھڑکا سا لگا تھا۔

آج بہت دنوں بعد آئے ہیں آپ دونوں فضیلہ بیگم نے اپنے دونوں بھائیوں کو دیکھ کر کہا۔

بس وقت ہی کہاں ملتا ہے دراب خان نے کہا اور پھر ایسے ہی ہلکی پھلکی باتیں ہونے لگی۔

مرد حضرات اپنی باتوں میں مگن تھے اور عورتیں اپنی۔

فاضل کہاں ہوتا ہے آج کل دراب؟ سردار ہشتم کی آواز گونجی تو سب متوجہ ہوئے۔

وہ شہر ہوتا ہے آج کل دراب خان نے گہری سانس بھری۔

خیریت اتنی دیر تو وہ گھر سے دور نہیں رہتا اب کی بار تو مہینے سے اوپر ہو گیا ہے…… 

جی بس وہ وہاں اپنا کام کر رہا ہے دراب خان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

زینب خان اور فضیلہ بیگم چونکی….. 

یہ تو بہت اچھا ہے کون سا بزنس شروع کیا…. لیکن اسے ضرورت کیا تھی دراب…..

پروفیسر لگا ہے کسی یونیورسٹی میں….. 

لیکن کیوں کیا ضرورت ہے اتنی خواری کی جب تمہارا سب اس کا ہے اسے واپس بلاؤ…

 دراب اگر اتنا ہی شوق ہے تو یہاں آ کر اپنی زمینیں سنبھالے…. سردار ہشتم نے حتمی انداز میں کہا۔

بھائی صاحب میں نے بھی  اسے سمجھایا ہے لیکن اس پر اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کا بھوت سوار ہے۔

واپس بلاؤ اس کی شادی کرو سارے بھوت اتر جائیں گے… 

مہرین کے لیے ہی تو کما رہا ہے اب کی بار دراب خان نے عام سے انداز میں حقیقت بتائی۔

فضیلہ خان نے مسکراتے اور حیرت سے نازیہ خان کو دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر تصدیق کی۔

………………. 

اس نے اپنے گلابی جوڑے کو دیکھا جو نہ زیادہ کام والا تھا نا زیادہ لائیٹ….. میک اپ پہلے بھی نہ ہونے کے برابر تھا اب مٹ چکا تھا۔

اس نے کپڑے لیے اور چینج کر کے باہر آئی اور صوفے پر ٹک کر اس کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی…… 

کیونکہ شاہ نواز اسے خود سے پہلے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا….. 

وہ اٹھا تو وہ فریش ہو کر سامنے صوفے پر بیٹھی تھی وہ بھی فریش ہونے چلا گیا۔

دس منٹ کی واپسی کے بعد بھی وہ وہی بیٹھی تھی مہد خان کو یہ سب عجیب لگا۔

جانا نہیں ہے نیچے….؟ یہ پہلا جملہ زندگی کا اس نے این خان کے روبرو ہو کر کہا تھا۔

نہیں…. مط…. مطلب… آپ تیار نہیں تھے…..

سیرسیلی…. آپ کو میری اجازت درکار نہیں ہے این خان…. آپ جا سکتی ہیں…. یہ کمرہ اب ہم دونوں کا ہے جتنا میرا اتنا آپ کا…..

این نے حیرت سے اسے دیکھا…… کیا جو ابھی اس نے سنا تھا ٹھیک تھا…. 

مہد خان نے ہلکی مسکراہٹ سے سر ہاں میں ہلاتے دروازے کی طرف اشارہ کیا تو وہ باہر نکل گئی۔

اس کے جاتے ہی وہ مسکراہٹ دم توڑ گئی تھی…. رشتہ بن گیا تھا…. بنھانا اس نے تھا…. 

ہاں کل کی رات…. اس کے دل میں دو چیزیں تھی کیا واقعی وہ یہ رشتہ نبھانا چاہتا ہے…… یا نبھا پائے گا… 

مسلسل خاموشی کے بعد جب اس نے مزید دل کو ٹٹولا تھا تو جواب آیا تھا

 ہاں…. 

جس سے وہ خود بھی حیران تھا۔

ہاں اس مقدس رشتہ کا کوئی قصور نہ تھا اور نہ ان دونوں کا…. ان دونوں کا حق تھا خوشیوں پر…. 

مشکل تھا سب لیکن ناممکن نہیں….. محبت نہ سہی لیکن ایک نارمل زندگی تو گزار سکتے تھے وہ…. 

اس نے سب کے ساتھ ناشتہ کیا….. اور سردار ہشتم کے کمرے کی طرف بڑھا۔

میرے شیر ایک بات مانو گے….. انہوں نے اسے بازو کے حلقے میں لیتے کہا۔

ساری باتیں تو مانتا ہوں…. ابھی بھی پوچھ رہے ہیں اس نے منہ بسورا…. 

ہاہاہاہاہا……!بس ایسے ہی مانتے رہو….. تاکہ کل کو تمہارے بچوں کو بتا سکوں کہ تمہارے باپ پر میرا کافی رعب تھا…. 

وہ بھی مسکرایا….. اب کی مسکراہٹ نقلی نہ تھی۔

آپ اور این ہمارے مری والے گھر میں شفٹ ہو جائیں…. انہوں نے آہستگی سے کہا…. 

مہد خان نے حیرت سے انہیں دیکھا…… لیکن کیوں بابا؟ 

کیونکہ ہم چاہتے ہیں وہاں آپ لوگ اکیلے رہیں وقت گزاریں اور ایک دوسرے کو اچھے سے سمجھیں….. 

وہ سب ہم یہاں بھی کر سکتے ہیں مہد کو ان کی یہ بات سمجھ میں نہ آئی تھی۔

دیکھو برخوردار…… یہاں شاہنواز ہے…… اچانک سے سب بدلا ہے این بیٹی کے لیے مشکل ہے سب…. اور اس کمرے سے ہم جانتے ہیں آپ کے کافی جزبات جڑے ہیں…. 

اس وقت مناسب یہی ہے کہ آپ سب سے دور جا کر ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں….. اور ہمیں یقین ہے اس بار بھی آپ ہماری بات نہیں ٹالیں گے۔

یہ چیٹینگ ہے بابا…… نہیں ٹالیں گے کیا مطلب….. میں اپنا موقف تو بیان کر سکتا ہوں نا….. 

نہیں…… وہ مسکرائے….. 

میں بدلہ لوں گا ان سب ناانصافیوں کا آپ سے….. اس نے تھک کر ان کی بات مان لی تھی ان کا شادی والا فیصلہ مانا تھا تو چلو یہ بھی سہی۔

وہ رات ہی کو روانہ ہو گئے تھے این نہیں جانا چاہتی تھی لیکن یہی وقت کا تقاضا تھا۔…. 

وہ سب پلیٹس میں رکھتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔

اندر کا ماحول عجیب سا تھا خاموشی تھی صرف عورتیں ہی ہلکی پھلکی گفتگو میں ملوث تھی۔

مہرین خان کیا تم نے فاضل خان کو نوکری کرنے کا کہا ہے سردار ہشتم نے کہا تو وہ چونکی۔

کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ سیدھا مہر سے ہی پوچھ لیں گے۔

جی….م….

تمہاری وجہ سے وہ وہاں دھوپ مٹی کھاتا پھر رہا ہے…… اتنی زمینیں ہیں تو باہر کمانے کی کیا تک بنتی ہے….؟ 

کیسی خرافات تم نے اس کے دماغ میں ڈالی ہیں ان کی آواز اونچی ہوئی تو وہ سہم گئی۔

میں نے… نہی… نہیں کہا۔

تو کس نے کہا ہے اسے کہ وہ وہاں پروفیسر لگے یہ زمینیں چھوڑ کر….؟ 

مجھے نہیں معل…….معلوم…. 

رہنے دیں بھائی صاحب جب بچی کہہ رہی ہے تو ہو سکتا اسے نہ معلوم ہو…. دراب خان نے کہا۔

کیسے نا معلوم ہو…. خیر تم فون کرو اسے اور واپس آنے کا کہو…. دراب خان نے اسے کہا۔

تو وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی بنا غلطی کے اسے اتنا سنا دیا گیا تھا۔

جب کہ حقیقت اسے ٹھیک سے معلوم نہیں تھی لیکن اتنا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ فاضل خان وہاں پروفیسر کی جاب کر رہا ہے۔

لیکن کیوں؟ 

کس کے کہنے پر اس نے تو نہیں کہا….. تو پھر اس نے اس کا نام کیوں لیا وہ شدید بدگمان ہوئی تھی۔

آج ہی اسے فون کرو اور واپس آنے کا کہو اب کہ وہ آرام سے بولے تو وہ سر ہلاتی باہر نکل گئی۔

لیکن فاضل خان کے لیے اس کے دل میں مزید بدگمانی پیدا ہوئی تھی۔

…………………. 

وہ کمرے کا دروازہ بند کرتی بستر پر اوندھے منہ گری تھی  آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہے تھے۔

اس نے فون اٹھایا  اور اس کا نمبر ملایا۔

پہلی اور دوسری بیل پر فون نہیں اٹھایا گیا تھا۔

کیا مصیبت ہے….؟ یہ نواب زادے پروفیسر لگے ہیں یا وہاں کے ایچ او ڈی جو فون نہیں اٹھا رہے۔

وہ جو لیکچر دے رہا تھا مسلسل فون کی وائبریشن نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول  کروائی۔

جانم کا نام سکرین پر بلنک ہوا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھائی۔

کسی نے یہ مسکراہٹ بہت غور سے دیکھی تھی۔

وہ کلاس کو دس منٹ پہلے فری کرتا باہر نکل گیا۔

ایک شخص تھا کلاس میں جسے اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔

اس نے اپنے کیبن میں جا کر کال بیک کی تھی اور سر کرسی کی بیک سے لگایا تھا۔

زہے نصیب! آج کیسے یاد کر لیا ہمیں……. کال پک ہوتے ہی اس نے کہا۔

تم وہاں کیا کرتے پھر رہے ہو فاضل جان میرا مطلب ہے خان…؟

اف…. اتنی انسیت وہ بھی ہم سے کہ خان سے سیدھا ہم جان ہو گئے…..

اف مدعے پر آؤ…. تمہاری وجہ سے آج مجھے کیا کیا سننا پڑا ہے اندازہ ہے تمہیں…. اب کہ اس کی آواز میں نمی گھلی تھی۔

مہر…. کیا ہوا کسی نے کچھ کہا ہے؟

ہاں بہت کچھ کہ تمہیں اس جاب کو کرنے کا میں نےکہا ہے جب کہ مابدولت کو اندازہ بھی نہیں تھا…..

ماموں جان نے آج سب کے سامنے مجھے ڈانٹا ہے….. اس کی رندھی آواز سے وہ بیچین ہوا۔

بابا نے؟

نہیں….. ہشتم ماموں نے……

اوکے….! ان کی باتوں کا بُرا مت مانوں انہیں نہیں پسند آیا ہو گا میرا ایسے جاب کرنا۔

تم واپس آجاؤ…..

یہ ممکن نہیں……

کیوں نہیں….. نہیں تو سب مجھے ایسے ہی سنائیں گے کہ میری وجہ سے تم یہ سب زمینیں اور سو کولڈ جائیداد چھوڑ کر وہاں دھکے کھا رہے ہو……

اوکے کام ڈاؤن!….. آتا ہوں کل ویک اینڈ ہے سب سے مل کر سب کلیئر کر دوں گا…. ڈونٹ یو وری…..

ہاں…..! مہربانی…..

اوکے آنسو صاف کرو…. اور دوبارہ نہیں رو گی تم….. یہ پہلا جملہ تھا جو فاضل خان نے استحقاق سے بولا تھا۔

اور مہر نے اس کی بات پر عمل کیا بھی تھا۔

چلو! کل ملتے ہیں….. اور ہاں کل تک ناک بنوالو….. مجھے تمہیں نوز پن میں دیکھنا ہے…

وہ جو فون کاٹنے لگا تھا کچھ یاد آنے پر بولا۔

نیور…… مجھے نہیں پسند میں بتا چکی ہوں….

پر مجھے پسند ہے…… اور تم کرواؤ گی ڈیٹس فائینل….

تم پاگل ہو گئے ہو فاضل خان…. اور مہر بی بی نے کٹاک سے فون کاٹ دیا تھا۔

فاضل خان دستک دے کر اندر آنے والی شخصیت کو دیکھ سیدھا ہوا۔

……………….

کھانا کھائیں گے؟ چونکہ سفر زیادہ لمبا نہ تھا اور سارے انتظامات سردار ہشتم کروا چکے تھے سو وہ دو گھنٹوں کی ڈرائیو سے وہاں پہنچ چکے تھے۔

اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے….. 

اس وقت….. کچھ بھی کھانے کو باہر سے نہیں ملے گا….. مہد نے کہا۔

تو گھر پر کچھ…… این نے انگلیاں مروڑتے کہا۔

گھر کا سامان ہم کل خرید لیں گے…… بھوک تو اسے بھی لگی تھی اور وہاں سے نکلتے ان کے دماغ میں یہ نہیں رہا تھا کہ کھانے کو کچھ ساتھ لے لیتے۔

اب صبح ہی کھانا نصیب ہو گا….. آجائیں سوتے ہیں…. مہد نے ایک نظر اسے دیکھ کر فون سردار ہشتم کو کرتے اپنی خیریت سے پہنچنے کی خبر دی اور کمرے میں چلا گیا۔

وہ کچن میں آئی اور یہاں وہاں دیکھنے لگی صاف صفائی نہ تھی لیکن اتنا گندہ بھی نہ تھا کچن کیونکہ….. 

کچھ ملازم مہینے بعد آ کر اس گھر کی صفائی کر جاتے تھے….. گھر نہ زیادہ بڑا تھا نا چھوٹا….. یہاں وہ صرف برفباری دیکھنے کو آتے تھے بس… 

اس نے کیبنٹ کھولے جہاں کچھ کچھ مصالحے تھے گھی وغیرہ موجود تھا چونکہ صفائی والے پچھلے ہی ہفتے سب کر کے گئے تھے۔

اس نے آخر والا کیبنٹ کھولا تو نوڈلڑ کے دو پیکٹ ملے تھے اسے زوروں سے بھوک لگی تھی۔

نکلتے وقت وہ دونوں اتنا سوچوں میں گم تھے کہ کھانا نہیں کھایا تھا۔

اس نے فوراً دو تین برتن دھوتے میگی بنائی اور ٹرے میں رکھی فلٹر اور فریج وغیرہ سب اوف تھا وہ وہیں نل میں سے پانی لیتی کمرے میں چلی گئی۔

وہ جو بستر میں لیٹ چکا تھا آہٹ پر چونکا اور اسے دیکھا جو ہاتھ میں ٹرے اٹھائے صوفے پر رکھ چکی تھی۔

وہ حیرت سے اٹھ کر بیٹھا اور میگی کے باؤلز کو دیکھا…. یہ کہاں سے آیا؟ 

پڑے تھے کچن میں… اس نے آہستگی سے کہا۔

آجائیں…… این خان نے ایک نظر اسے دیکھ کر نظریں واپس جھکا لیں۔

وہ آ کر بیٹھا…. اور ایک باؤل اٹھایا اس کا انتظار کیا لیکن وہ نہیں بیٹھی تھی….. 

بیٹھ جائیں….. اس کا کھڑے رہنا اسے سمجھ نہیں آیا تھا…. 

آپ کھا لیں پہلے….. اب کی بار اس نے جھجھکتے کہا…. کیونکہ اس نے آج تک شاہنواز کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا تھا۔

ٹھنڈی ہو جائیں گی بعد میں بیٹھیں اور کھائیں…. اس نے کہا تو اس نے تھوک نگلا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے ڈر رہی ہے۔

این…. بیٹھیں… پہلی بار اس کے منہ سے اپنا نام سنتے اس کا دل دھڑکا تھا کچھ الگ مہد خان نے بھی محسوس کیا تھا۔

وہ تھوڑا سا فاصلہ بناتی بیٹھ گئی اور کھانے لگی کھانے کے دوران ان کی کوئی بات نہیں تھی اس کے بعد وہ سو گئے تھے تھکاوٹ کی وجہ سے۔

اگلی صبح وہ جلدی جاگ گئی تھی گھر کو پورا صاف کر دیا تھا اس نے اور اس وقت اسے شدید بھوک لگ رہی تھی۔

وہ جو تھک کر واپس اوپر جا کر نہانے کا سوچتے دروازہ کھولا تھا تبھی اندر کی طرف سے بھی کھولا گیا تھا جس کا نتیجہ زبردست تصادم کی صورت ہوا تھا۔

اس نے این کو تھامتے دیوار کے ساتھ لگایا نہیں تو وہ دونوں گر جاتے….. لمحوں کا کھیل تھا۔

بیک وقت دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا پہلی بار مہد خان کو لگا کہ اس نے اس سے زیادہ خوبصورت آنکھیں کبھی نہیں دیکھی۔

لائیٹ براؤن آنکھیں، پسینے سے بال گردن پر ماتھے پر چپکے تھے جو کافی لمبے اور گھنے تھے دوپٹہ ندارد تھا سادہ شلوار قمیض پہنے…. ہاتھوں میں موجود تھوڑی سی چوڑیاں، ناک میں چمکتا لونگ شفاف چہرہ، کٹاؤدار ہونٹ اور تیکھی ناک…. ہاں وہ حسین تھی….. 

کیا وہ عیزہ شاہ سے زیادہ حسین تھی….؟ پل میں اس نے اس کا موازنہ کیا تھا…. جواب آیا تھا نہیں…. 

ہاں وہ اس سے زیادہ خوبصورت نہیں تھی لیکن سادگی میں اپنی مثال آپ تھی…. پہلی بار اسے کسی کی سادگی نے اٹریکٹ کیا تھا۔

آنکھیں خوبصورت ہیں آپ کی این…. اس نے دھیمے سے کہا تو وہ ہوش میں آئی۔

پہلی بار اس کا لمس….. اور زندگی میں پہلی بار اس کی تعریف کسی مرد نے کی تھی….. 

وہ خوبرو دلکش مرد اب اس کا تھا مکمل طور پر….. وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے…. بال کافی اچھے اور سلکی تھے اس کے…. جو ماتھے پر بکھرے تھے ہلکی بئیرڈ اور سب سے متاثر کن اس کے چہرے پر چھائی لالی تھی اس کے گال ہلکے گلابی تھی جو اسے مزید پرکشش بنا رہے تھے۔

ہاں ایسے تو لڑکیوں کے ہوتے ہیں اس نے دل میں سوچا…. لیکن لڑکیاں اتنی حسین نہیں لگ سکتی….. 

اس کی تعریف پر اس نے اسے دیکھا…… یہ فسوں بہت خوبصورت تھا….. 

مہد خان نے اپنا ہاتھ اس کی کمر کی طرف کیا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی لیکن جلد وہ پیچھے دیوار پر لگا کیل کھینچ کر نکال چکا تھا۔

آپ نے کیا سوچا تھا….؟ ناجانے کیوں لیکن وہ یہ سوال پوچھ گیا تھا۔

این نے تھوک نگلا شرمندگی سے….. کچھ… کچھ بھی تو نہیں…. 

وہ پیچھے ہوا تو وہ نہانے چلی گئی وہ بھی باہر آگیا۔

گھر کا سارا سامان لا کر اس نے کچن میں رکھا لیکن این خان اسے کہیں نہیں دکھیں تھی۔

……………. 

جی سادیہ…. بولیں…

سر مجھے یہ ٹاپک سمجھ نہیں آیا …. جس دن آپ نے کروایا تھا میں لیو پر تھی اور…. کسی فیلو سے سمجھ نہیں آیا۔

سامنے موجود لڑکی شورٹ بلیک رنگ کے کرتے اور نیچے پینٹ میں ملبوث تھی دوپٹہ ندارد تھا بالوں کو پونی میں باندھا گیا تھا گندمی رنگت کی وہ سانولی سی لڑکی پیاری تو تھی۔

سادیہ اس کے دوست کی بہن تھی جس کی مدد سے اسے اس یونیورسٹی کا پتا چلا تھا اس لیے وہ سادیہ کے ساتھ اچھے سے پیش آرہا تھا۔

اوکے آئیں میں سمجھا دوں…..

اور پھر اس نے اگلے پندرہ منٹ میں اسے وہ ٹاپک سمجھا دیا تھا…..

اس نے سمجھا تھا یا نہیں وہ نہیں جانتا تھا…. کیونکہ اس کی خود پر گاہے بگاہے نگاہ وہ نوٹ نہیں کر پایا تھا۔

تھینک یو سر…..

نو نیڈ اس نے نظر کا چشمہ جو حال ہی میں اسے لگا تھا جو اسے مزید پرکشش بناتا تھا لگاتے کہا۔

سر کبھی گھر آئیں نا… اس نے انگلیاں مرورتے کہا۔

جی….؟

بھائی کہہ رہے تھے…. اس نے سٹپٹاتے کہا۔

اوکے……

جلد ہی کسی دن فلحال آپ جا سکتی ہیں کیونکہ میں بھی نکل رہا ہوں اس نے چیزیں سمیٹتے کہا۔

سادیہ نے ایک آخری بھرپور نگاہ اس پر ڈالی اور باہر نکل گئی۔

وہ ایسی لڑکی نہیں تھی…. وہ بہت سلجھی ہوئی تھی یہی وجہ تھی کہ اس کی دوستی یہاں کسی بھی لڑکے سے نہیں تھی……

پڑھائی میں وہ تھوڑی کمزور تھی…. لیکن بھائی کے یہ دوست اسے پسند آئے تھے۔

سلجھے ہوئے….. دبنگ قسم کا ڈیشنگ انسان اسے پہلی ہی نظر میں بھایا تھا۔

وہ بھی آخری لیکچر بنک کرتی گھر کے لیے نکل گئی چونکہ وہ تو جا رہا تھا اس کا یہاں رہنے کا کیا فائدہ۔

چونکہ وہ جلدی نکل آئی تھی سو……بس نہیں آئی تھی اسی لیے اسے رکشہ رکوانا پڑ رہا تھا۔

وہ جو گاڑی نکال چکا تھا اسے آٹو کو ہاتھ ہلاتا دیکھ گاڑی اس کے پاس لایا۔

بیٹھ جائیں چھوڑ دیتا ہوں اسے اس کا ایسے سڑک پر کھڑے رہنا پسند نہیں آیا تھا اور امان کافی اچھا دوست تھا اس کا……

وہ گاڑی میں بھی گاہے بگاہے چھپ کر اسے ایک نظر دیکھ لیتی دل الگ ہی راستے نکل پڑا تھا۔

اسے ڈراپ کرنے کے بعد اس نے گھر آ کر کافی پینے کے بعد پیکنگ کی تھی اب اسے دو دن وہاں گزار کر ان

سب کے سوالوں کے جواب بھی دینے تھے۔

 اور 

جانم کو ملاقات کا شرف بھی بخشنا تھا مہر کو سوچتے اس کا دل اپنی جگہ پر نہیں رہتا تھا اب…..

وہ بدل رہا تھا اس نے ہر فضول ایکٹیوٹی ترک کر دی تھی۔

ہاں وہ شخص بدل رہا تھا محبت میں….. 

یہ جانے بغیر کہ…… 

 یہی محبت اسے توڑنے والی ہے شیشے کی طرح ٹکرے ٹکرے…….

………………..

اگلی صبح وہ واپس اپنے گھر تھا ماما بابا کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد وہ نیچے تمام خواتین سے مل چکا تھا۔

سب کو اس بار وہ بدلا بدلا لگا تھا سلجھا ہوا….

وہ سب خواتین کے لیے اپنی پہلی تنخواہ سے کچھ نہ کچھ لایا تھا۔

اب وہ سردار ہشتم کے کمرے میں آیا جہاں مہد خان پہلے سے موجود تھا وہ دونوں گفتگو میں مصروف تھے۔

میں نے ڈسٹرب تو  نہیں کیا…؟

نہیں…. آؤ برخوردار….. بیٹھو….

کر آئے نوکری بھر گیا من…. ؟انہیں لگا تھا وہ چھوڑ آیا ہے….

نوکری تو کر رہا ہوں اور من کبھی نہیں بھرے گا….. تایا جان…. اس نے مسکراتے کہا تو مہد خان بھی مسکرایا۔

اس کے رنگ ڈھنگ تو مہد کو بھی بدلے لگے تھے اور شاید وہ وجہ بھی سمجھ گیا تھا۔

کیا ضرورت ہے تمہیں….. یہ سب کرنے کی خان…. اپنا سب ہے تمہارے پاس….

تایا جان…. ضرورت نہیں شوق ہے لگن ہے….. مجھے کرنا ہے….

اور یہ زمینیں یہ سب جو تمہارا ہے…..

میری زمہ داری ہے میں جانتا ہوں اور فاضل خان کبھی اپنی زمہ داری  سے نہیں بھاگتا۔

یہ اصل ہے میرا واپس یہیں آنا ہے مجھے بس تب تک مجھے خود کو جاننا ہے کہ میں کتنے پانی میں ہوں…..

ہممم…. سردار ہشتم نے سر ہلایا اس کی باتوں نے کسی حد تک انہیں متاثر کیا تھا۔

اچھی سوچ ہے فیضی…. مہد خان نے تعریف کی…. کیونکہ وہ ہم عمر تھے اور دوست بھی…..

چلو برخوردار…… جو چاہے کرو…. لیکن واپس یہی سب کرنا ہے تمہیں انہوں نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے کہا۔

جو حکم وہ جھکا تو وہ تینوں مسکرائے…… 

وہ وہاں سے نکل آیا تھا شام کا وقت تھا اور اب وقت تھا جانم سے ملاقات کا۔

مہر کو صبح سے خبر تھی کہ وہ آ گیا یے اور لاشعوری طور پر وہ اس سے چُھپ رہی تھی…. 

اسے پتا تھا وہ ضرور آئے گا….. اس لیے آج وہ این سے ملنے بھی نہیں گئی تھی جسے رات میں چلے جانا تھا۔

اس وقت بھی اس پر سستی چڑھی تھی اس لیے وہ کمبل میں پڑی تھی دسمبر کا آغاز  تھا خنکی بڑھ گئی تھی۔

وہ عنودگی میں تھی جب اسے محسوس ہوا کہ دروازہ کھل کر بند ہوا ہے۔

وہ جھٹکے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا جہاں وہ نہا کر اب بال ڈرائے کر رہی تھی چونکہ پیچھے کہ سارے بال آگے تھے۔

تو پیچھے سے قمیض گیلی ہونے کی وجہ سے چپکی تھی….. اس نے خفت کے مارے دوپٹہ ڈھونڈا تو بیڈ پر تھا۔

مہد نے بمشکل اس پر سے نظریں ہٹائی اور پاس آ کے اس کا دوپٹہ اسے اوڑھا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔

جیب سے والٹ وغیرہ نکال کر باہر رکھا اس سے پہلے کہ وہ جوتے اتارتا وہ اس کے جوتے تھام چکی تھی۔

مہد خان کو ایک جھٹکا لگا تھا وہ اس کا جوتا اتارتی مہد نے پھرتی سے اس کا ہاتھ تھاما۔

کیا کر رہی ہیں….؟ 

این ڈر کر کھڑی ہوئی تھی اس کا ڈر اس کے چہرے سے واضح تھا…..اسے لگا کچھ غلط کر دیا اس نے جبکہ باہر سے آنے کے بعد شاہنواز کے جوتے اکثر جب وہ کمرے میں ہوتی تو وہی اتارتی تھی۔

وہ… می….

کیا میں؟ بتانا پسند کریں گی ابھی یہ کیا حرکت تھی؟ اس کا لہجہ سخت تھا۔

جوتے اتار رہی تھی…..

لیکن کیوں؟ میں نے کہا؟ یا میرے ہاتھ نہیں ہیں اس نے تیز آواز میں کہا کیونکہ اسے یہ حرکت ہلا گئی تھی۔

اس نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا وہ سمجھ نہیں پائی تھی وہ غلط کہاں تھی۔

این….. مہد نے اس کا ہاتھ تھامتے ساتھ بٹھایا….. مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں….. غلام نہیں…. ہم دونوں کو اس رشتے میں ایک جیسے حقوق ملے ہیں…. اگر آج آپ میرے جوتے اتارتی ہیں تو کل میں بھی آپ کے اتاروں گا اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں….

این نے چونک کر اسے دیکھا….

آپ کی حیرت بجا ہے…. لیکن میری غیرت یہ سب کروانا گوارا نہیں کرتی…. ہم میاں بیوی ہیں…. 

آپ کو مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے…. کھل کر سب باتیں بولیں…. آپ کا حق ہے یہ۔

زندگی پہلے کیسی تھی یہ ہم دونوں کو ڈسکس نہیں کرنا از دیٹ کلئیر ٹو یو…..؟

اس نے سر ہلایا…… دو بھائی …. ایک خون… لیکن اتنے مختلف….

چلیں کھانا کھلا دیں اب بھوک لگی ہے….. اس نے اس کے بالوں کو سہلاتے دھیرے سے چھوڑا…. وہ پل پل آج اسے حیرت میں ڈال رہا تھا۔

ہاں! سب مختلف تھا….. وہ سب مردوں جیسا نہیں تھا یا شاید یہ کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے……

وہ شخص عورت کی عزت کرنا عورت کو بنانا جانتا تھا آج اسے عیزہ شاہ کی بدقسمتی پر ہنسی آئی جو اتنے انمول شخص کو چھوڑ گئی تھی۔

وہ مسکرائی تھی دل سے…. ناجانے کتنے سالوں بعد…….

مسکراہٹ اچھی ہے آپ کی ہنسا کریں کرایہ نہیں آئے گا….. مہد خان نے اسے دیکھتے کہا۔

این خان نے دل میں تہیہ کیا کہ وہ اس شخص سے اس کے سارے غم چھین لے گی….. ہاں وہ سب بدل دے گی….

پہلی بار دل نے ایک بیٹ مِس کی تھی….. شاید اس رشتے میں محبت پہلے این خان کا مقدر ٹھہرنی تھی۔

……………….

وہ پھپھو سے ملنے کے بعد اس کا پوچھتے اوپر آیا تھا اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے سوتے پایا تھا۔

اس نے لاک لگانے کے بعد اس کے بیڈ کے پاس جوتے اتارے اور اس کے کمبل میں گھسا۔

اف….! جانم….. سو رہی ہو اس وقت یہ کونسا وقت ہے سونے کا….

فاضل خان نے اس کا رخ اپنی طرف کیا تو وہ کسمائی اس کا چہرہ دیکھتے ہی دل پر ٹھنڈی پھوار پڑی تھی۔

اس کے بال اس کے چہرے سے ہٹاتے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھتے اسے حصار میں لیا۔

وہ جو کچی نیند میں تھی جاگ گئی۔

اب وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے وہ بند کھلی آنکھوں سے اسے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

فاضل خان نے جھک کر اس کی آنکھوں کو چوما…..

مطلب شوہر آیا ہے اور کوئی پرواہ ہی نہیں…..

آپ……وہ مکمل ہوش میں آتے بولی۔

جی میں……!

اس نے سب سے پہلے خود کو اس کے حصار سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔

یہ کوشش بیکار ہے تو چھوڑو اور مجھ پر دھیان دو….

کیوں آئے ہو…..؟

اپنی جانم سے ملنے…. اس نے مہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا۔

چھوڑو….. فیضی….

یہ فیضی کیا ہوتا ہے….. خان بولا کرو… اور تم نہ سنو میں تمہارے منہ سے اب…. اب کی بار اس کا لہجہ سنجیدہ تھا کہ دو لمحوں کے لیے مہر بھی خاموش ہو گئی۔

مہر نے دھیان سے اسے دیکھا سفید رنگ ہلکی بئیرڈ…. چشمہ لگائے وہ پرکشش مرد تھا۔

یہ چشمہ کب لگا… تمہیں…. ؟

پھر تمہیں…. ؟

اوفو….چھوڑو میں جارہی ہوں…. اور ماما کیا سوچ رہی ہوں گی….

کچھ نہیں سوچتی انہیں پتا ہے ایک شوہر کافی دیر بعد اپنی بیوی سے ملنے آیا ہے…..

لیکن اچھا نہیں لگتا…..اب کی بار اس نے فیضی کہنے سے گریز کیا تھا۔

نہیں پھپھو حویلی چلی گئی ہیں… اور پھوپھا گھر پر نہیں بس ہم ہیں اب گھر پر تو ختم کرو یہ بحث…. اس نے کہتے مہر کے بالوں میں منہ دیا۔

اف تھک گیا ہوں اس ایک مہینے میں…. اس نے کہا تو مہر کو سب یاد آیا۔

تمہاری وجہ سے……

سب کو سمجھا چکا ہوں میں…… اس نے بات ختم کی…

لیکن تم جاب کر ہی کیوں رہے ہو؟

تمہارے لیے…..

میرے لیے کیوں…؟

بس چھوڑو یہ باتیں مجھ پر دھیان دو…. اس نے ہلکی آواز میں کہا۔

……………..

دن ایسے ہی گزر رہے تھے یہاں پر ایک ہاسپٹل تعمیر کروایا جا رہا تھا سردار ہشتم بنوا رہے تھے جس کا سارا زمہ اب مہد خان نے اٹھا لیا تھا۔

کہ وہاں سے آنا کسی کے لیے بھی روز روز مناسب نہ تھا…..

 ہاں اسے خود کے لیے کچھ کرنا تھا کیونکہ اپنی جائیداد تو وہ سب عیزہ شاہ کو خیرات کر چکا تھا۔

سردار ہشتم  اس کے نام کا یہ ہسپتال بنوا رہے تھے وہ جانتے تھے کہ اسے لگتا ہے اس کے پاس کچھ نہیں بچا….

لیکن وہ اتنے بیوقوف نہ تھے وہ کہ کل کی آئی اس عورت پر اپنے بیٹے کی ساری دولت وار دیتے... 

ایک تہائی حصہ اس کے نام کر کے اس سے جان خلاصی کروائی گئی تھی۔

سردار ہشتم کے بندے عیزہ شاہ پر یہ واضح کر چکے تھے کہ اس کا اب مہد خان یا اس حویلی سے کوئی تعلق نہیں….

وہ تھکا گھر لوٹا تو وہ جھٹ اس کے لیے پانی لاتی اس کے سامنے کھڑی تھی فریش ایک دم….. مہد نے اسے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا…..

شادی کے بعد سے اب تک اس نے اسے پھیکے رنگوں میں ہی دیکھا تھا لیکن آج اس نے ریڈ کرتا اور کیپری پہن رکھی تھی بال ہلکے نم تھے گالوں پر ہلکا بلش آن اور ہلکی لپسٹک….

مہد خان مسکرایا تھا دل سے….. ہاں یہ سب اس کے لیے تھا….. اس نے پانی پیتے بھی اسے نظروں کے حصار میں رکھا تھا۔

جس سے وہ بری طرح کنفیوز ہوئی تھی۔

اچھی لگ رہی ہیں…. لیکن…. لپسٹک ڈارک ہونی چاہیے تھی اس نے اس کا گال تھپتھپایا اور فریش ہونے چلا گیا۔

وہ اکثر ایسے ہی اس کی تعریف کر دیا کرتا تھا اب یہ سب این کے لیے نیا تھا اور دلفریب بھی۔

واپس آتے انہوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا……

این….. وہ جو برتن اٹھا رہی تھی پلٹی….

چائے….. لے کر اوپر آجائیں….. چھت پر ہوں میں اسے کہتا وہ چھت پر چلا گیا۔

وہ چائے بنا کر لائی تو وہ جھولے پر بیٹھا تھا اسے بھی ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

این نے جگہ دیکھی جو نہ ہونے کے برابر تھی….. اس نے واپس مہد کو دیکھا تو وہ سمجھ گیا۔

دھیرے سے اس کا ہاتھ تھامتے اسے گود میں بٹھا کر اسے اس کا کپ پکڑایا۔

این کے گال یک دم گلابی ہوئے تھے مہد خان نے یہ منظر دیکھ کر دم سادھا کوئی عورت اتنی حسین کیسے لگ سکتی ہے…….

اپنی چائے وہ پی چکا تھا لیکن این کی ابھی بھی پڑی تھی کیونکہ وہ بری طرح کنفیوز تھی…..

مہد نے اس کے ہوا سے اڑتے بال کان کے پیچھے کیے اور اس کی بیک اپنے ساتھ لگاتے اسے حصار میں لیا۔

اپنا چہرہ اس کے بالوں میں چھپایا…… این کا وجود برف ہوا تھا کوئی حرکت نہیں کی تھی اس نے جیسے سب رک گیا تھا۔

پہلا قدم مہد خان نے آج اٹھایا تھا اس رشتے کو آگے بڑھانے کے لیے…..

 اسے این خان سے محبت نہ سہی لیکن اس کی عادت ہو گئی تھی اور عادت محبت سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے۔

اس کے دل میں محبت کی کلیاں بھی کھلنا شروع ہو چکی تھیں سب بدل گیا تھا….. زندگی پہلے مشکل تھی تو اب حسین…..

این……. اس نے گھمبیر آواز میں اس کا نام لیا۔

ہم……

وعدہ کریں دوبارہ کچھ بھی ماضی کا یاد نہیں کریں گی….. اس کا ہاتھ تھامتے کہا….

وعدہ….. اس نے سوچ کر آہستگی سے کہا…. ماضی کو سوچنا اس نے تب سے ترک کر دیا تھا جب سے مہد خان نے پہلی بار اسے سراہا تھا۔

اور آپ؟ اس نے جھجھکتے کہا۔

میں…… میں تب تک سوچتا رہوں گا جب تک آپ میری طرف قدم نہیں بڑھاتیں….. اس نے اپنی ناک اس کی گردن پر رکھتے کہا۔

این کا دل مزید تیزی سی دھڑکنے لگا تھا…. اس نے آسمان کو دیکھ کر رب کا شکر ادا کیا۔

ٹھنڈ بھر گئی ہے…… مہد….. ہمیں روم میں چلنا چاہیے…. اس نے آہستگی سے کہا….

وہ جو اس میں کھویا تھا اس کے نام ینے پر چونکا…..حسین لگا تھا اس کے منہ سے اپنا نام…. لیکن اعتراف نہ کیا اور اٹھ کر اندر آگئے وہ.. 

……………. 

دو دن بعد... 

وہ دونوں آج بھی کروٹ لے کر لیٹے تھے این نے مڑ کر اسے دیکھا جو چھت کو گھور رہا تھا۔

ہاں اب کی بار ایک قدم اس نے بڑھانا تھا…..

وہ آگے آئی اور اپنا ایک بازو اس پر رکھتے اس کے دوسرے بازو پر سر رکھا۔

مہد خان نے آہستگی سے اپنا حصار اس پر تنگ کیا اور کمفرٹر میں اسے چھپایا جھک کر اس کے ناک پر اپنا ناک رگڑا۔

آپ بہت حسین ہیں این….. دل سے… شکل سے…. آپ مجھے ہر حالت میں حسین لگتی ہیں وہ دل سے آج اعتراف کر رہا تھا۔

اور مجھے حسین بنانے والے آپ ہیں مہد اس نے اس کی بئیرڈ پر ہاتھ رکھتے کہا۔

مہد نے اس کا ہاتھ تھام کر چوما تو اس نے اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپایا……

آپ بلیک ساڑھی کب پہنیں گی؟ اس کے غیر متوقع سوال پر اس نے جھٹ سے اسے دیکھا….

کیوں؟

کیونکہ مجھے پسند ہیں… میں آپ کو بلیک ساڑھی میں دیکھنا چاہتا ہوں….

جب آپ دلوا دیں گے ہم پہن لیں گے اس نے سادگی سے جواب دیتے اسے احساس دلایا کہ اسے چیزیں دلانی چاہئیے اب….

مہد مسکرایا ہممم……شرمندہ کرنے کا اچھا طریقہ ہے….

کل ساتھ چلیں سب خرید لیں گے ہم….خاموشی کا دورانیہ بڑھا تھا ہوا میں ان دونوں کی خوشبو تھی۔

این نے اپنا چہرہ اس کے سینے پر رکھتے اسے دیکھا…..آپ کے گال لڑکیوں جیسے ہیں اس کے بھرے گالوں کو ہاتھ کے پیالے میں لیتی وہ بولی۔

خدا کا خوف کریں این….. مجھے لڑکیوں سے مت ملائیں….. وہ چڑا…..

ہاہاہا….. اس میں برا ماننے والی کیا بات…. جب ہیں لڑکیوں جیسے تو حقیقت سے منہ کیوں موڑنا….

این…. اس نے تنبیہ کی لیکن وہ باز نہیں آئی تھی اور پھر اس کے بعد مہد خان نے اچھے سے اس کی بولتی بند کروائی تھی۔

اس نے لبوں پر اپنے تشنہ لب رکھتے اس نے خود کو سیراب کیا تھا….. وہ دونوں ایک دوسرے میں بری طرح کھو چکے تھے سب تھم گیا تھا جیسے۔

وہ پیچھے ہوا تو وہ گہرے سانس بھرنے لگی….. مہد خان اس کے چہرے پر چھائی لالی کو دیکھتے واپس اس پر جھکتا کہ اس نے اپنا چہرہ موڑ لیا۔

مہد نے جھٹکے سے اس کی تھوڈی سے اس کا چہرہ گھوما کر اپنی طرف کرتے سنجیدگی سے اسے دیکھا تو وہ سہم گئی۔

مجھ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے…. لیکن آج کے بعد آپ مجھ سے یوں رخ نہیں موڑیں گی…. 

نہیں تو نتائج کے لیے آپ کو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت ہے….. سنجیدگی سے کہتے اس کی کان کی لو کو دانتوں تلے لیا۔

این نے سسکی بھری۔

مہد نے اسے ہٹاتے رخ موڑ لیا تھا یہ شاید پہلی ناراضگی تھی ان میں…… این خان کی جان پر بن آئی تھی۔

………………..

اچھا مجھے لائیٹ تو اون کرنے دو دیکھو اندھیرا ہو گیا ہے…. مہر نے ایک اور بہانہ تراشا۔

مہر….. اب کے اس کی آواز میں تنبیہ تھی وہ بھی تھم گئی۔

وہ جانتی تھی اب وہ اس کی بھی نہیں سنے گا۔

فاضل خان نے اس کی کالر بون پر ہونٹ رکھے…..

تو ناک نہیں بنواؤ گی تم…. ؟

نہیں…..

میرے لیے بھی نہیں….. فاضل خان نے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرتے اس کے چہرے پر پھونک مارتے کہا۔

وہ جیسے اس کے سحر میں گرفتار ہو رہی تھی آہستہ آہستہ……

مہرین خان نے اسی وقت یہ بات مانی تھی…… کہ فاضل خان اسے اپنے سحر میں بُری طرح گرفتار کر کے دنیا بھلا سکتا ہے…..

اور وہ یہ کام بخوبی  کر رہا تھا۔

درد ہوتی ہے کافی! اس نے جواز پیش کیا۔

نہیں ہو گی……

اگر ہوئی تو…..؟

تو جو تم کہو گی میں کرنے کے لیے تیار رہوں گا…..!

پکا…. نا…..

پکا….. اس نے کہتے واپس اس کے چہرے پر پھونک ماری تھی…..

مہر نے اب کی بار آہستگی سے اوکے کہتے آنکھیں موند لی تھی۔

فاضل خان نے ماتھا اس کے ماتھے کے ساتھ ٹکراتے گہری سانس بھری جیسے ایک مہینے کی تھکاوٹ کو باہر نکالا ہو۔

 محبت ہے تم سے…..

کیوں ہے، کب ہوئی، کیسے ہے، اور کتنی ہے میں نہیں جانتا….. فاضل خان نے اعتراف کر ہی لیا تھا آخر…..

مہر نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اس کی آنکھوں میں اس کا عکس واضح تھا۔

اس کا دل فاضل خان کی محبت پر اعتراف لے آیا تھا اس نے فاضل خان کے گرد اپنے بازو باندھے۔

محبت کا اظہار وہ شے اور وہ جزبہ ہے کہ جو پتھر کو بھی موم کر دیتا ہے تو وہ تو پھر ایک عام سی انسان تھی جو ضدی تھی بس….. دل کی اتنی ہی نرم تھی۔

فاضل خان نے سکون سے آنکھیں بند کی کئی لمحے وہ ایک دوسرے کے حصار میں بری طرح گرفتار رہے تھے۔

تو کب کروا رہی ہو….

کروا لیں گے کبھی…..

کبھی نہیں…. کل ہی میرے ساتھ جا کر…. کچھ شاپنگ بھی کروانی ہے تمہیں…… یہ پھیکے رنگ نہیں پسند مجھے….

فاضل خان نے اس کا آسمانی رنگ کا جوڑا دیکھ کر کہا۔

اور مجھے نیا فون چاہیے…. مہر نے پہلی بار اس سے فرمائش کی تھی۔

اوکے…… 

اور پھر خاموشی چھا گئی۔

مہر….. 

ہم…. 

تمہیں ہم سے محبت نہیں ہے…. ؟اس نے وہ سوال پوچھ لیا جو اس کو ستا رہا تھا۔

ابھی نہیں….. شاید…. 

اور کب ہو گی…..؟

پتا نہیں…. اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔

لگتا ہے ہو گی بھی نہیں فاضل خان کہتا اٹھ کر بیٹھ گیا۔

تو وہ بھی اٹھی اس وقت کچھ تھا جو اسے سخت زہر لگا تھا۔

اوکے ریسٹ کرو….. چلتا ہوں میں… 

لمحوں کا تسلسل پل میں توٹا تھا 

کچھ تھا جو مجھ میں چھناکے سے توٹا تھا

از قلم خود۔

سیلری دیں اپنی….. وہ شاید اسے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔

فاضل خان نے مُڑتے اپنا والٹ اس کے ہاتھ میں دیا…… 

مہر نے کھولے بغیر اسے سائیڈ پر رکھ دیا۔

بیوی ہوں آپ کی…. آپ کو چاہیے بنا کہے مجھے پیسے دیں اپنے یہ حق ہے میرا اس نے واپس لیٹتے سکون سے کہا۔

مل جائے گی اب سے…… 

مووی دیکھیں…..؟ ایک اور آفر مہر کی طرف سے ہوئی تھی۔

نہیں…..

پلیز خان…. اتنا تو کر سکتے ہیں آپ….. 

فاضل خان نے مڑ کر اسے دیکھا تھا وہ اس کی باتیں مان رہی تھی کیا تھا جو محبت ابھی نہیں تھی اسے اس سے…. 

وہ بھی وہ کروا دیتا……  

وہ مطمئن ہوتا سامنے پڑا لیپ ٹاپ لے کر لحاف میں بیٹھ گیا۔

وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔

مووی میری پسند کی ہو گی…… 

کیوں جی میں لگاؤ گی۔

نہیں ہر بات تمہاری نہیں مانی جائے گی مہر….. اور اس کے نا نا کرنے کے باوجود وہ ہارر مووی لگا چکا تھا۔

اور پھر دو لمحے بعد وہ ڈر کر اپنا منہ اس کی جیکٹ میں دے دیتی کیونکہ وہ کافی ڈرتی تھی ہارر مووی سے….. 

مخالف نے شاید اسی بات کا فائدہ اٹھایا تھا۔

اف بس بند کرو اسے فیضی اب کی بار ہاررد سین آنے پر وہ چیخی تھی اور لیپ ٹاپ کی سکرین بند کی تھی۔

تھوڑی دیر بعد….. 

مہر تمہارے پیچھے…… کیا ہے…… وہ چیخا…

اس سے زیادہ وہ چیخ کر اس کے سینے میں منہ دیتی رونے لگی تھی۔

ہاہاہاہاہا……. فاضل خان کے قہقہے پورے کمرے میں گونج رہے تھے جو اسے روتے دیکھ تھمے تھے۔

اوکے سوری……. ششش….. مہر دیکھو کچھ بھی نہیں ہے….. 

آئی ہیٹ یو…. وہ اس کے سینے پر مکے برساتی بولی۔

فاضل خان مسلسل مسکرا رہا تھا یک دم زندگی حسین لگنے لگی تھی اسے…..

 زندگی ہر اس انسان کے لیے حسین ہے جس کا من چاہا شخص اس کے ساتھ ہو…… 

فاضل خان نے اس کے آنسو صاف کرتے اس کے بالوں پر بوسہ دیا۔

………………. 

وہ رات این نے کیسے گزاری تھی وہ جانتی تھی پہلی بار اس نے اس پر حق جمایا تھا اور اس نے کیا کیا تھا۔

اور کیوں؟

 یہ وہ خود بھی سمجھ نہیں پائی تھی آج کا دن اس کا فضول انہیں سوچوں میں گُم گزرا تھا۔

وہ واپس آتے ہی اپنا سامان سمیٹنے لگا تھا واپس جانے کے لیے این کا دل رکا تھا کیا وہ اسے چھوڑ کر جا رہا تھا۔

سارے شاپنگ بیگز جو وہ ساتھ لایا تھا سامنے صوفے پر رکھے اس کو ساتھ لے جا کر شاپنگ کروانا چاہتا تھا لیکن اسے رات کو احساس ہوا تھا کہ...

شاید وہ اس رشتے کو ابھی پوری طرح قبول نہیں کر پائی.... یہی بات چبھ رہی تھی اسے....

پیکنگ کریں اپنی ہم واپس جا رہے ہیں... 

اس نے این کی شکل دیکھتے ترس کھا کر اسے بتا دیا۔

این نے فوراً اپنی پیکنگ کی کہ کہیں وہ ناراضگی میں واقع اسے چھوڑ نہ جائے۔

شام پانچ بجے نکلے تھے وہ اور رات کا کھانا وہاں سب کے ساتھ کھایا تھا انہوں نے۔

ایک خاموشی تھی جو سب نے محسوس کی تھی ان کے درمیان.... لیکن انہیں وقت دینا ضروری تھا۔

سردار ہشتم مہد خان سے کافی دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے پھر وہ سونے کے لیے لیٹ گئے اور اسے بھی سونے کے لیے بھیجا۔

وہ کمرے میں آیا تو وہ سو چکی تھی..... اس نے گہری سانس بھری.....

 سب اتنا آسان نہیں تھا جتنا اسے لگنے لگا تھا... کچھ تھا جو چبھ رہا تھا ابھی بھی۔

این کے صبح اٹھنے سے پہلے ہی وہ جا چکا تھا نیچے اسے غصہ تو آیا لیکن پھر فریش ہو کر فوراً نیچے پہنچی..... وہ ٹیبل پر  ناشتہ آگے رکھے بیٹھا تھا۔

کافی پیتے اس نے ملازمہ کو آواز لگائی۔

یہ کیسی کافی ہے...؟

صاحب ہم کو تو ایسی ہی آتا ہے بنانا یہ کافی شافی.... ملازمہ نے نخرے سے کہا تو اس نے سیڑھیوں سے اترتی این کو دیکھتے رخ موڑا۔

این سیدھا کچن میں گئی اس کی کافی اور ٹوسٹ دوبارہ بنائے کیونکہ پہلے ٹھنڈے ہو چکے تھے۔

لا کر اس کے سامنے رکھے اور پہلی پلیٹ اور مگ اس کے سامنے سے اٹھایا..... وہاں بیٹھے تمام لوگوں کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔

مجھے پراٹھا کھانا ہے آج اس نے ٹوسٹ کی پلیٹ کو ہٹاتے کہا.....

 این نے دانت پیسے اور دوبارہ کچن میں چلی گئی۔

زینب خان اور سردار ہشتم آج ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے وہ بالکل بدل گئے تھے۔

این بٹیا.... برا نہ منانا... لیکن آپ کے سرتاج صاب کے بہت نخرے ہیں..... اسی ملازمہ نے تبصرہ کیا تو وہ مسکرائی۔

آپ کل سے ان کا ناشتہ مت بنائیے گا ہم خود بنا لیں گے....

نہیں... نہیں... ہمارا یہ مطلب نہ تھا....

نہیں... انہیں عادت ہو گئی ہے میرے ہاتھ کے کھانے کی آپ کا کھانا انہیں پسند نہیں آئے گا...

 اسی لیے کہہ رہی  ہوں وہ شائستگی سے بولی تو ملازمہ مسکرائی۔

این نے لا کر اس کے آگے پراٹھا رکھا اور واپس مڑنے لگی اب اٹھ ہی گئی تھی تو خود کے لیے بھی بنا لیتی۔

بیٹھ جائیں.... ہم آدھا ہی کھائیں گے.... اس نے کہا تو ایک بار پھر سب کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

این واپس جگہ پر بیٹھ گئی.... وہ شخص اسے پاگل بنا رہا تھا.... یا خود تھا...

اس کے بیٹھتے ہی مہد خان نے آدھا پراٹھا اس کی پلیٹ میں رکھا اور ٹوسٹ اٹھایا.....

این جانتی تھی کھانا اسے توسٹ ہی تھا یہ صرف اسے تنگ کرنے کا ایک بہانہ تھا.... 

اس نے خاموشی سے کھانا شروع کیا پانی پی کر رکھا تھا کہ گلاس اچک کر باقی کا پانی وہ پی چکا تھا۔

سردار ہشتم نے مہد کو دیکھا جس نے آج تک کسی کے جوٹھے گلاس میں پانی نہیں پیا تھا... 

اور آج کیسے وہ دھڑلے سے اس کے گلاس کا پانی پی گیا تھا۔

انہوں نے معنی خیزی سے سب کو دیکھا تو سب مسکرائے..... سب کی نظریں ان پر تھی جن کی نظریں ایک دوسرے کا طواف کر رہی تھی۔

وہ اٹھ کر گیا تو وہ بھی اٹھ کر آگئی اور آ کر جان بوجھ کر میگزین لے کر بیٹھ گئی جانتی تھی اب وہ اس سے مخاطب ضرور ہو گا۔

کپڑے نکال دیں اگر وقت مل جائے تو.... مہد جانتا تھا وہ جان بوجھ کر کر رہی ہے۔

اس نے خاموشی سے کپڑے نکالے تو وہ چینج کرتا زمینوں کی طرف چلا گیا۔

...................

اگلے روز وہ اسے سب دلوا چکا تھا پہلے خود کی پسند کی شاپنگ، پھر نیا فون کچھ میک اپ اور اور کے بعد اس کی نوز پئرسنگ کروائی تھی اس نے۔

کپڑے سارے خود کے پسند کے تھے کچھ تو ایسے تھے کہ وہ دیکھ کر ہی منع کر دیتی... 

لیکن اسے جو پسند آرہا تھا وہ اسے پوچھے بغیر پیک کرواتا جا رہا تھا۔

اب وہ گاڑی میں بیٹھے تھے جہاں وہ رو رہی تھی۔

مہر بس کرو….. اتنا تو بچے نہیں روتے کان بنواتے وقت….

آپ کروائیں نا تو پتا چلے کتنی درد ہوتی ہے… وہ شو شو کرتی بولی۔

خدا کا خوف کرو….. میں کیوں کرواؤں گا…..

اچھا چھوڑو دکھاؤ تو کتنی اچھی لگ رہی ہے۔

آپ نے کہا تھا درد ہو گی تو آپ ہماری بات مانیں گے….. اس نے اس کی بات اسے یاد کرواتے کہا۔

جی حکم کریں وہ بیچاری شکل بنا کر بولا۔

ابھی نہیں سوچ کر بتائیں گے….. لیکن آپ پوری کریں گے….

اوکے! اس کے بعد وہ اسے چھوڑ کر جا چکا تھا چونکہ اگلی صبح اسے واپس شہر کے لیے نکلنا تھا سو پیکنگ بھی کرنی تھی۔

پیکنگ کے بعد وہ سب سے ملا تھا آج رات کا کھانا حویلی میں رکھا گیا تھا تو سب وہیں موجود تھے۔

مہر نے اس کا دلایا کالا شفون کا لباس پہنا تھا جس میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔

اس کی نظریں اسی کا طواف کر رہیں تھی۔

تیری ہی ہے حوصلہ رکھ…….. مہد خان جس کی خود کی نظریں کسی پر تھی فاضل خان کو ٹہوکا مار کر بولا۔

بیٹا میری والی تو فلحال پہنچ سے دور ہے اسی لیے دور سے دیکھ کر ہی کام چلا رہا۔

تیری والی تجھے مل گئی ہے تجھے پھر بھی شرم نہیں آرہی اس نے مہد خان سے حساب برابر کیا تو وہ دونوں مسکرائے۔

وہ سب سے رات کو مل چکا تھا صبح پانچ بجے اسے نکلنا تھا۔

ابھی بھی وہ مہر میڈیم کا ویٹ کر رہا تھا جو اس کا میسج سین کر کے بھی دروازہ نہیں کھول رہی تھی۔

وہ پھوپھو کے گھر آیا تھا مین گیٹ چوکیدار اسے دیکھتے کھول چکا تھا۔

لیکن مہر نے اپنے کمرے کے دروازے کو لاک لگایا تھا اور وہ تھی کہ جان کر نہیں کھول رہی تھی۔

مہر اب دروازہ نہیں کھولا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا اس نے اس کے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر اسے واٹس ایپ پر میسیج کیا۔

وہ ہے  بھی نہیں کوئی…. خیر کیا کر لیں گے آپ…؟

پھوپھو سے جا کر تمہارے روم کے دروازے کی چابی لاؤں گا تاکہ انہیں بھی پتا چلے... 

کہ صبح کے چار بجے میں کیسے ان کی بیٹی کے پیچھے زلیل ہو رہا۔

اور تیر نشانے پر لگا تھا مہر نے فوراً دروازہ کھولا تھا۔

فاضل خان نے اندر داخل ہوتے ہی اسے پکڑ کر دروازے کے ساتھ لگایا اور دروازہ لاک کیا۔

اب بتاؤ! کیا مسئلہ ہے؟

 اس نے غصے سے اسے دیکھ کر کہا۔

آپ کو شرم نہیں آتی کسی لڑکی کے کمرے میں صبح چار بجے آتے ہوئے…؟

کسی لڑکی نہیں اپنی بیوی کے…..

………………… 

اور ہاں تیار رہو اگلے مہینے آؤ گا تو بابا سے شادی کی بات کروں گا…. وہ تو اس بار ہی کرنا چاہ رہے تھے…..

نہیں…..! ابھی نہیں… مہر کی مسکراہٹ کو یک دم بریک لگا تھا۔

کیوں نہیں..؟

ابھی میں ان سب کے لیے تیار نہیں ہوں…..

مہر بہت وقت دیا ہے میں نے تمہیں……. اور ایک مہینہ ہے اچھے سے زہن بنا لو۔

آپ کو سمجھ کیوں نہیں آرہی خان…. مجھے ابھی شادی نہیں کرنی…..

فاضل خان کی آنکھیں یک دم سرخ ہوئی اس کا بازو پیچھے اس کی کمر کے ساتھ لگایا۔

تیار کرو خود کو…… میرے لیے…. اور میری قربت کے لیے….. کیونکہ تمہارا انکار مجھے تپتی آگ میں جلا رہا ہے رہا ہے فاضل خان نے اس کے چہرے پر جھکتے کہا۔

تو اس نے آنکھیں نیچی کی…..

اور دونوں ہاتھوں پر مہندی لگوا کر آج مجھے پکچر بھیج دینا فاضل خان کے نئے حکم پر وہ تلملا گئی۔

مجھے نہیں پسند مہندی…..

پسند تو تمہیں میں بھی نہیں ہوں بے بی لیکن کیا کریں رہنا تو میرے ساتھ ہی ہے…..

آپ اس طرح مجھ پر حکم نہیں چلا سکتے…..

اچھا اور کون روکے کا مجھے….. اس نے اس کے بازو پر زور بڑھاتے کہا۔

اف…… ہاتھ چھوڑیں میرا درد ہو رہی ہے…..

مجھے بھی ہوتی ہے جب تم بات بات پر مجھے اور میری محبت کو دھتکارتی ہو……

دھتکارا نہیں ہے لیکن ابھی مجھے وقت چاہیے…..

 اس نے اپنا ہاتھ آزاد کرتے کہا جہاں اس کی انگلیوں کے سرخ نشان پر چکے تھے۔

فاضل خان نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ میں پکڑتے اس کے لب کو اپنے ہونتوں کی گرفت میں قید کیا۔

مہرین خان کو لگا وہ سانس نہیں لے پارہی اس کی مسلسل مزاحمت بھی فاضل خان پر اثر نہیں کی تھی۔

وہ اپنی مرضی سے پیچھے پٹا تھا مہر نے گہرے سانس بھرتے سر اس کے کندھے پر ٹکایا تھا۔

میں واپس آؤ تو کوئی فضول بکواس نہ سنو تمہارے منہ سے…….. وہ اس کے کان میں گرایا۔

لیکن اسے ہوش کہاں تھیں……. اس نے چہرہ اٹھاتے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔

میں نہیں کروں گی شادی……. کر لیں جو کرنا ہے….. وہ نم آنکھیں اور لب وا کیے چیخی۔

تم مجھے سختی کرنے پر مجبور کر رہی ہو اب مہرین خان…..

فاضل خان سمجھ نہیں پارہا تھا اس کے انکار کی. وجہ….. اس کی آنکھوں میں اس نے خوف کا عکس دیکھ لیا تھا لیکن اب…..

مہر ڈرتی تھی بہت شادی جیسے رشتے سے این کا وہ حال دیکھ چکی تھی اسے مرد زات سے بہت ڈر لگتا تھا.... 

فاضل خان اس پر کتنا مہربان سہی لیکن تھا تو اسی حویلی کا خون ہی……. 

یوں نہیں دیکھو…. اس سے زیادہ سزا کی حق دار ہو تم…. فاضل خان نے اپنا انگوٹھا اس کے لبوں پر پھیرا۔

پھر اس کے بالوں میں انگلیاں پھسلتا اس کی گردن پر جھکا تھا اب کی بار مہر نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔

مہر نے نم ہوتی ہتھیلیوں کو بھینچا۔

وہ اپنی مرضی سے پیچھے ہٹا تھا اسے دیکھا جہاں وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی۔

خیال رکھنا…….. اس ایک مہینے میں اپنا…. 

اس کے بعد میں ہوں خود رکھ لوں گا…. اور ہاں مہندی نہ لگوائی تو ایک مہینے بعد تمہاری سزا ڈبل ہو جائے گی وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے باہر نکل گیا۔

مہر بھی بے جان قدموں سے بستر تک آئی اور پھر لیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

………………….

اس کے جانے کے بعد این نے ساری پیکنگ کھولی تھی ساتھ وہ شاپنگ بیگز چیک کیے جس میں اس کے لیے بےشمار چیزیں تھی۔

شوخ رنگ کے کئی سوٹ.... جو اپنی مثال آپ تھے.... دو گھڑیاں... چوڑیوں کے چھ سیٹ.... کچھ میک اپ اور ایک بیگ علیحدہ رکھا تھا۔

اسے کھولا تھا اس میں شفون کی ساڑھی تھی.... اس نے جلدی سے اسے کھول کر دیکھا..... اس نے سب دلا دیا تھا سے.... مہرون لپسٹک وہ سب اپنی پسند کا لایا تھا۔

این کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل گئی..... اب تو اسے منانا بنتا تھا۔

اس کے واپس آنے تک وہ کمرے کی حالت میں کچھ تبدیلیاں لا چکی تھی.....

 الماری میں سے ساری پرانی چیزیں نکالی جن میں کچھ عیزہ شاہ کی تھی ان سب کو پھینک دیا تھا۔

ایک طرف اپنے کپڑے سیٹ کیے اور ایک طرف اس کے..... سارا میک اپ سیٹ کیا.... آج یہ کمرہ عیزہ شاہ کی ہر چیز سے آزاد ہو گیا تھا کیونکہ اب صحیح معنوں میں یہ کمرہ این مہد خان کا تھا۔

نئی بیڈ شیٹ بچھاتے..... نئے پھول واس میں سیٹ کرتے اس نے آخری تنقیدی نظر کمرے پر ڈالی.... جس کی حالت وہ سدھار چکی تھی۔

پھر فریش ہونے چلی گئی کیونکہ اس کی واپسی کا وقت ہو گیا تھا..... 

اسی کے دلائے نارنجی شارٹ شرٹ اور کیپری میں وہ باہر آئی۔

اس کے لمبے بال جلد سوکھتے نہ تھے.....

 وہ ڈرائے کرنے کا سوچ رہی تھی اس سے پہلے چھوٹے ائیرنگز پہنے مسکارا اور بلش آن لگاتے اس نے خود کو دیکھا۔

وہ پہلی بار ایسے تیار ہوئی تھی ہلکے رنگ کی لپسٹک شرارت سے کچھ سوچتے اس نے لگا لی کیونکہ نئی لپسٹکس جو وہ لایا تھا سب ڈارک شیڈز کی تھی۔

بال سکھا کر اب وہ پیچھے کے ٹسلز باندھنے کی تگ و دو میں تھی... 

جو اس سے باندھے نہیں جا رہے تھے اف یہ لگانے کی کیا ضرورت تھی اس کے ساتھ تو سویا بھی نہیں جائے گا....

ابھی وہ مزید کوئی گوہر افشانی کرتی وہ دروازہ کھولتا اپنے دھیان اندر آیا۔

اس پر نظر پڑتے ہی اس نے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا..... مبہوت ہی تو رہ گیا تھا وہ اسے ایسے دیکھ کر.... نکاح کے بعد اسے اب تھوڑا سا تیار دیکھا تھا اس نے نہیں تو وہ سادہ ہی رہتی تھی۔

قدم بڑھاتے اس کے پاس آیا دونوں کی دھڑکنوں نے انتشار برپا کیا تھا اس نے آ کر خاموشی سے پیچھے کے ٹسلز باندھے۔

اس کی انگلیاں این کی گردن سے مِس ہوئی تو اس نے آنکھیں بند کر لی وہ پیچھے ہٹتا واش روم چلا گیا تو وہ بھی ہوش میں آئی۔

اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ مہد خان کو منانا اتنا آسان نہ تھا....

 وہ کافی بنانے چلی گئی کیونکہ آج وہ لیٹ آیا تھا جس دن وہ لیٹ آتا تھا کھانا کھا کر آتا تھا۔

کافی بنا کر لائی تو وہ باہر ٹیرس پر کھڑا تھا رات کے نو بج رہے تھے سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔

اس نے لاتے کافی اس کے آگے کی تو اس نے خاموشی سے تھام لی....

اپنی نہیں لائیں؟

نہیں.... آپ سے لیں گے..... تھوڑی سی اس نے شکر کیا کہ بولا تو تھا۔

مہد نے اسے دیکھا جیسے ہی نظر اس کی لپسٹک پر گئی اس نے رخ موڑ لیا این جان گئی تھی کہ اسے پسند نہیں آیا تھا یہ شیڈ۔

اچھا نہیں ہے؟

کیا؟

یہ لپسٹک کا شیڈ..... اس نے جان کر پوچھا تھا۔

پتا نہیں..... روکھا سا جواب سنتے این نے منہ بسوڑا اور اس کا رخ جھٹکے سے خود کی طرف موڑتے اس کے قریب ہوئی۔

اب دیکھ کر بتائیں دھیان سے..... مہد اس کے کونفیڈنس پر حیران تھا لیکن اندر سے خوش بھی کیونکہ ایسا ہی وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا موڈ ایک دم خوشگوار ہوا تھا۔

میں بتاؤں تو آپ کو میرا طریقہ پسند نہیں آئے گا اب کی بار اسے حصار میں لیتے کہا اس نے۔

تو سیدھے طریقے سے آپ ہاں یا ناں میں جواب دے دیں این نے اپنی طرف سے مشورہ دیا تھا اسے۔

اور جو میں نے اتنی ساری دلوائی ہیں وہ کیوں نہیں لگائی اس کے بال کی لٹ پیچھے کرتے استسفار کیا۔

ابھی عادت نہیں ہے..... دھیرے دھیرے ڈال لیں گے..... اس نے اس کے ہاتھ سے مگ لیتے سپ لیا۔

مہد نے جھکتے اس کے ماتھے پر پیار کیا..... 

اس ایک بوسے میں کیا کچھ نہ تھا مان بھروسہ محبت چاہت..... سب۔

اس کی سوچ کے عین مطابق اس نے مہندی نہیں لگوائی تھی بلکہ اپنا فون ہی اوف کر دیا تھا۔

فاضل خان اسے ہزار ہاں کالز کر چکا تھا لیکن اب نمبر ہی اوف تھا۔

اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا وہ تھا کہ اس کے لیے پور پور بدل گیا تھا اور وہ اب بھی اس سے شادی کرنے سے انکاری تھی۔

اس واقعہ کو ہفتہ گزر چکا تھا اس نے فاضل خان سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔

وہ کیا چاہتی تھی خود نہیں جان پارہی تھی۔

شادی ایک نا ایک دن کرنی تھی اسے اور کرنی فاضل خان سے ہی تھی کیونکہ اس کا خود کا گزارا نہیں تھا اس شخص کے بغیر لیکن ابھی نہیں……. 

ابھی وہ تیار نہیں تھی…… 

اور فاضل خان کا اس دن کا روپ یاد کرتے وہ جی جان سے کانپ جاتی تھی۔

اب بھی وہ سکول جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی آئینے کے سامنے کھڑی اپنا سوگوار حسن دیکھ رہی تھی۔

اسی کے دلائے ڈارک پنک کلر کے لباس میں کھلی کھلی لگ رہی تھی۔

بال سکھاتے اس نے گھڑی پر وقت دیکھا جو زیادہ ہوچکا تھا وہ تیزی سے نیچے بھاگی۔

ناشتے کی میز پر اس کے ماما بابا مسکرا کر کسی سے بات کر رہے تھے فون پر…. 

نزدیک جا کر اسے احساس ہوا کہ آواز اس دشمن جان کی تھی جسے وہ نظرانداز کرتی خود بھی تڑپ رہی تھی۔

پاپا جا چکے تھے اٹھ کر ماما اب بھی اس سے ناجانے کیا راز ونیاز کر رہی تھی......... وہ بس لاتعلقی سے بیٹھی تھی وہاں اپنی پلیٹ میں چمچ گھماتی۔

وہ بھول گئی تھی کہ سکول سے لیٹ ہورہی ہے۔

یہ تو بیٹا زرا اپنی بیوی سے بات کرو میں آتی ہوں انہوں نے فون اسے پکڑایا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔

کیونکہ چائے ابدل گئی تھی۔

فاضل خان نے مسکراتے ہونٹ اسے دیکھتے سکڑے تھے جو کہ مہر خان نے شدت سے نوٹ کیا تھا۔

ابھی وہ کچھ بولتی کہ فون کٹاک سے کاٹ دیا گیا تھا یک دم اس کی آنکھوں میں آنسو اترے تھے۔

اس نے ہونٹ بری طرح کچلے ماما کو وہیں سے خدا حافظ بول کر نکل گئی۔

راستے میں اسے ایک جگہ رنکا پڑا….کیونکہ سکول گھر سے کچھ دیر کی مسافت پر تھا تو وہ خود آتی تھی۔

سامنے کا منظر ہی اتنا حیران کن تھا کہ وہیں تھم گئی۔

اس کا غصہ سوے نیزے پر پہنچ چکا تھا کیونکہ سامنے ہی شاہ نواز اس کے سکول کی ساتھی ٹیچر کو کھڑا ہراساں کر رہا تھا۔

اس سے ناجانے کیا کہہ رہا تھا کہ وہ رو رہی تھی اس کا رخ دوسری طرف تھا کہ وہ مہر کو نہ دیکھ سکا۔

مہر اس کےقریب آتی گئی اور اس کے منہ سے وہ الفاظ سنے تو اس پر سکتہ طاری ہوا۔

اتنی بیہودہ گفتگو……. شاہ نواز کا ہاتھ اس لڑکی پر پہنچتا کہ مہر نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا اور….. 

چٹاخ!!!!

اس لڑکی نے بھی منہ پر ہاتھ رکھا۔

تو سالی………. 

یہ شہر تمہارا ہے….. یہاں کی لڑکیاں نہیں….. اوقات میں رہو شاہنواز خان….. 

اچھا ہوا میری بہن کی جان چھوٹی تم سے……. اتنا گھٹیا کوئی کیسے ہو سکتا ہے…… 

اور تم اب اس کا رخ لڑکی کی طرف تھا…. 

یہی تھپڑ تمہیں اسے مارنا چاہیے تھا تاکہ اگلی بار یہ اس بیہودہ حرکت کی جرآت   نہ پاتا خود میں…… 

لڑکی نے رو کر چہرہ جھکایا تھا۔

تو…. چل تجھے میں گھر چل کے بتاتا….. شاہ نواز نے اس کا بازو پکڑا اور اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا۔

وہ اپنی تمام تر مزاحمت کے بعد بھی اس سے جیت نہیں سکی تھی۔

اس نے حویلی میں داخل ہوتے ہی ایک نیا ہنگامہ شروع کر دیا تھا۔

سب اکٹھے ہو چکے تھے۔

کیا مسئلہ ہے شاہنواز…… سردار ہشتم نے پوچھا تو خاموشی چھا گئی۔

پوچھیں اس سے کیا کرتی پھر رہی ہے…..؟ اس نے مہر کو دھکا دیا تو وہ لڑکھڑاتے گرتے بچی۔

کیا ہوا ہے مہر بچے ان کا انداز گھر کی عورتوں سے اچھا ہو گیا تھا کچھ….. 

تایا جان….. وہ…. 

یہ کیا بتائے گی میں بتاتا ہوں…. یہ عورت باہر اپنے کسی عاشق سے مل رہی تھی وہ تو میں نے دیکھ ….. 

بس…… اس سے آگے ایک لفظ نہیں سنیں گے ہم اپنی بہن کے خلاف تمہاری گھٹیا زبان سے اب کی بار این آگے آتی بولی۔

آج حویلی کا منظر ہی الگ تھا عورتیں خود کے لیے بولنا سیکھ گئیں تھی۔

اور پھر شاہنواز نے کافی گند بکا تھا۔

خاموش…….. سردار ہشتم کی گرجدار آواز سے وہاں سناٹا چھا گیا۔

……………. 

مہر بیٹا اب سے آپ نوکری نہیں کریں گی مہر سمیت تمام عورتوں نے جھٹکے سے سردار ہشتم کو دیکھا۔

اس مہینے فاضل خان رخصتی چاہتا تھا لیکن وہ نہیں آ پایا کچھ معاملات کی..... 

وجہ سے لیکن اگلے ماہ آپ کو رخصت کیا جائے گا سو اس کی تیاریاں کریں۔

سب عورتوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن مہر نے نفرت سے شاہ نواز کو دیکھا۔

سردار ہشتم اس کے سر پر ہاتھ رکھا…… آپ اچھی سی خریداری کریں اپنی شادی کی جو چاہیے مجھے بتائیں….. 

فاضل خان بھی آتا ہو گا اور تم….. 

شاہ نواز خان کمرے میں آؤ میرے فوراً…… وہ جا چکے تھے پیچھے شاہ نواز بھی گیا۔

عورتیں سب پرجوش ہو گئی تھی سردار ہشتم اور حویلی کے باقی مرد بدل رہے تھے۔

یہ سب مہد خان اور فاضل خان کی بدولت تھا۔

اُس نے وہاں موجود کرسی کو ہاتھ مار کر گرایا…… وہ گھٹیا شخص ہمارے کردار پر بات کر گیا اور یہاں سب کو تیاریوں کی پڑی ہے۔

مہرین خان ہوش میں آؤ اس کی ماں نے اس کا بازو جھنجھوڑا۔

نہیں ماما……. کیوں کیوں نہیں پلٹ کر ایک تھپڑ رسید کیا گیا اسے…… وہ ہوتا کون ہے میرے بارے میں اتنی نیچ بات بولنے والے۔

ماموں دیکھ لیں گے تمہارے تم چلو اب گھر……. 

نہیں…..! وہ باہر کھڑا کسی عورت کو تنگ کر رہا تھا ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا تھا میں نے روکا تو مجھ پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔

تمام خواتین میں خاموشی چھا گئی۔

مہر گھر جاؤ…… اب کی بار این نے اسے سمجھانا چاہا۔

ہماری کوئی عزت نہیں…… کیا یہاں ساری عزت ان مردوں کی ہے.... 

آج اسے ایک تھپڑ لگا کر بتایا جاتا کہ عورت کی کردار کشی کیسے کی جاتی ہے….. لیکن نہیں مرد ہے نا…. 

کہاں کچھ کہا جائے گا….. 

میں بتا رہی ہوں یہ شخص جب تک سب کی عزت مٹی میں نہیں ملا دے چین سے نہیں بیٹھے گا….. وہ چیخی۔

مہر……! 

فاضل خان جو ابھی آیا تھا اس کو ساری بات باہر ہی معلوم ہو گئی تھی وہ اندر آیا جہاں وہ آتش فشاں بنی کھڑی تھی۔

خان…… دیکھیں…. اس نے کیا کہا ہے 

خان…. اس نے….. وہ اس کے پاس آتی اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔

ششششش……. مہر گھر جائیں آپ….. 

مہر نے یک دم اس کا ہاتھ چھوڑا آنکھوں میں بے یقینی در آئی تھی۔

واہ…… مطلب بیوی کے اوپر بھائی کو ترجیح دی جا رہی ہے وہ غصے میں کیا بول رہی شاید اس کا اندازہ اسے خود بھی نہیں تھا۔

انف……. سن لیا ہے ہم نے سب…… پھپھو اسے لے کر جائیں اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

ہاں! یہاں سب کچھ عورتیں کرتی ہیں آپ مرد تو فرشتہ صفت ہیں….. آپ بھی ان سب جیسے ہیں 

مہر……. تمیز سے بات کرو اب کہ فاضل خان نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا….. سب کے سامنے اسے اس کا خود سے یوں بات کرنا شدید زہر لگا تھا۔

اس لیے ہم کہتے ہیں ہمیں شادی نہیں کرنی آپ سے…… آپ تو ابھی سے ہمیں نہیں سمجھے….. آپ کو چاہیے تھا جا کر اسے گریبان سے پکڑتے اس نے آپ کی بیوی کی کردار کشی کی ہے……. 

کل کو آپ بھی……… 

چٹاخ!!! 

سب نے منہ پر ہاتھ رکھا تھا اور مہر زمین بوس ہوئی تھی۔

………………. 

مہد؟ 

ہم..... 

کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے؟ اس نے وہ سوال پوچھا جو کافی دیر سے اس کے دل میں تھا۔

پتا نہیں....

 اس نے آہستگی سے این کو چھوڑا..... اس سوال کا جواب اس کا دل بار بار دے رہا تھا لیکن اظہار سے وہ ڈر گیا تھا۔

لیکن آپ کی آنکھوں میں مجھے اپنا عکس دکھ رہا ہے..... 

چلو سوتے ہیں..... اس نے کچھ سمجھ نہ آتے کہا۔

مہد......! 

جیسے ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا ویسے ہر عورت ایک جیسی نہیں ہوتی.....میں نے آپ سے سیکھا ہے کہ محبت کیسے کرتے ہیں.... 

جو گزر گیا وہ کل تھا.... ہم ہمارا آج جی رہے ہیں اور مستقبل ہمیں خود اچھا بنانا ہے..... 

کچھ کو محبتیں راس نہیں آتی.... لیکن وہ ضرور پچھتاوے کے آنسو روتے ہیں جب ان کے ہاتھ سے سب چھوٹ جاتا ہے... 

اس کا اشارہ سمجھتے مہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ اس کا ہاتھ تھامتی اندر آگئی کہ باہر سردی کا زور بڑھ گیا تھا بلائینڈز گراتے وہ دونوں بیٹھ گئے تھے۔

وہ آج پہلی اور آخری بار اس سے سب کلئیر کرنا چاہتی تھی..... شاہنواز کا حال وہ دیکھ چکی تھی وہ رب کی شکرگزار تھی کہ رب نے اسے بہترین سے نوازا تھا......

اب اس کی باری تھی مہد خان کے دل کے ہر غم کو چن کر ختم کرنے کی وہ جانتی تھی وہ کہتا نہیں ہے لیکن اس کے دل میں ایک پھانس باقی تھی جو آج نکل جانی تھی۔

مہد نے اپنا سر اس کی گود میں رکھا تو وہ اس کے بالوں میں ہاتھ چلانے لگی۔

کیا آپ کو مجھ سے محبت ہے..؟ 

آپ کو میری آنکھوں میں دیکھنا چاہیے این نے کہا تو دونوں کی آنکھیں ٹکرائی جہاں ایک دوسرے کا عکس واضع تھا۔

خاموشی کا دورانیہ بڑھا تھا وہ جو مدت سے اپنے اندر بہت کچھ بھرے بیٹھا تھا آج بول پڑا تھا۔

این.......... 

اس کی گود میں سر دیتے مہد خان نے سسکی بھری۔

اس نے تو سُنا تھا کہ مرد نہیں روتے لیکن سامنے موجود مرد تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔

سردار کا بیٹا آج اس ادنی سی عام لڑکی جو اس کی شریک حیات تھی اس کے سامنے رو پڑا تھا۔

اس نے جانا کہ دولت معنی نہیں رکھتی دولت سے بھی ہم خوشیاں خرید نہیں سکتے۔

مہد.... اس نے اس کے بالوں میں جھجھکتے انگلیاں چلائیں۔

مہد خان نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے اپنی آنکھوں پر رکھا۔

تو وہ پتھر کی ہو گئی ہاں یہ مہد خان تھا جس کی ایک دھاڑ پورے علاقے کو خاموش کر دیتی تھی، جس کے ایک اٹھتے قدم سے لوگوں کے سر عزت سے جھکتے تھے، جس کے آگے علاقے کے سردار ہشتم خان بھی خاموش ہو جاتے تھے جس کے آگے اس کا بڑا بھائی چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتا تھا۔

مجھے اس کی ضرورت بننا تھا اس نے مجھے ضد بنا لیا۔

میں مل گیا اسے اور اس نے توڑ دیا مجھے وہ اپنی شریک حیات کے سامنے کھل گیا تھا۔

مہد خان خاموش ہوا تو وہ منتظر ہی رہی کہ شاید وہ کچھ آگے بولے لیکن خاموشی تھی۔

اسے لگا وہ سو گیا ہے۔

اس نے جھجھکتے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے۔

تو مہد نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا۔

وہ پیچھے ہٹتی اس سے پہلے ہی مہد اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے اوپر جھکا چکا تھا۔

اس کے سلکی بال ان دونوں کو ڈھکے ہوئے تھے۔

مہد خان نے اس کی اٹھتی گرتی نظروں کا یہ منظر دیکھا تو مبہوت سا ہو گیا۔

کیا کوئی عورت اتنی دلکش بھی لگ سکتی ہے؟

................. 

آپ کے آنے کے بعد میں نے جانا کہ جو تھا وہ محبت نہیں تھی ایک سراب تھا جس کے پیچھے میں پاگلوں کی طرح بھاگتا رہا اور خالی ہاتھ لوٹا دیا گیا۔

آپ کی خوشبو میرے آس پاس مجھے احساس دلاتی ہے کہ میں کیسا بھی ہوں آپ کو قبول ہوں....آپ نے سب جانتے ہوئے بھی مجھے اپنایا۔

ششش..... 

میں نے نہیں.... آپ نے مجھے اپنایا.... مہد خان... ہر مرد کا آپ کے جیسا اونچا ظرف نہیں ہوتا..... اور... 

آپ ہی مقدر تھے میرا.... 

چمکتا مقدر.... 

اس نے اس کی آنکھیں صاف کرتے اپنے لب رکھے۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں وہ سب بھول گیا تھا کئی لمحے اس نے اسے دیکھا تھا.....

 ہاں وہ مکمل تھا این خان کے ساتھ وہ مکمل تھے ساتھ..... 

اسے ساتھ لٹاتے اسے اپنے حصار میں لیا جابجا اس کے چہرے پر اپنی محبت ثبت کی تھی پھر اس کے لبوں کو گرفت میں لے گیا۔

اب کی بار اس کی پکڑ میں شدت تھی این خان جانتی تھی یہ شدت اسے اب ہمیشہ برداشت کرنی ہے جو اسے دل و جان سے قبول تھی۔

اس رات ان اشکوں میں ان دونوں نے اپنا ماضی بہا ڈالا تھا ایک حسین صبح اور زندگی ان کے انتظار میں تھی۔

.................

بس کر دو یہ مرد اور عورت کرنا مہر…..اور تمہارا لینا دینا ایک ہی مرد سے ہونا چاہیے اور وہ ہے تمہارا شوہر… 

کیا کچھ نہیں کیا میں نے تمہارے لیے….. 

دیکھو سر سے پاؤں تک تو بدل گیا ہوں…. تم مجھے سنا رہی ہو کہ میں باقیوں جیسا ہوں….

مردوں سے یوں نہیں لڑا جاتا….. مہرین خان….. زبان سے کام نہیں چلتا……. 

اور تایا جان اسے اندر باز پرس کرنے کے لیے ہی لے کر گئے ہیں….. وہ دماغی طور پر پاگل ہو چکا ہے….. 

ایک پاگل سے کیا توقع کرتی ہو تم……. 

اگر اس لڑکی کی جگہ وہ تمہیں ہراساں کرتا تو کیا کر لیتی تم…….؟ 

بتاؤ… ؟

کر سکتی تھی اس کا مقابلہ…..؟

 کر بھی لیتی شاید لیکن ایک بات دماغ میں ڈال لو جہاں بات عزت پر آجائے وہاں خاموشی سے راستہ بدل لو۔

وقت آنے پر اسے مات دو۔

تم سب مردوں کو ایک ترازو میں نہیں تول سکتی….. نکل آؤ ان سب سے….. مہر  میں نے بدل لیا خود کو تم لوگوں کی خاطر……. 

وہ تھک کر وہاں بیٹھ گیا اور اسے دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

پھپھو اسے گھر لے کر جائیں اور ہاں….. 

رخصتی جمعے کو ہو گی یہ سب کان کھول کر سن لیں میں اس کی کوئی بھی بکواس اب برداشت نہیں کروں گا۔

وہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

مہر نے دور تک اسے جاتے دیکھا تھا۔

پھر اپنی ماں کے سہارے وہ اپنے گھر آگئی۔

سب نے اس کا بہت دھیان رکھا تھا کیونکہ اسے بہت تیز بخار ہو گیا تھا۔

یہاں تک کہ گھر کے سب مردوں نے بھی اسے پیار کیا تھا۔

بیٹا مہر….. کسی کے کہنے سے کسی کا کردار گندا نہیں ہو جاتا…… 

اور آپ بہتر طریقے سے اس کی دماغی حالت کو جانتی ہیں وہ کچھ بھی کہہ دیتا ہے۔

اس دن ہم اسے اس لیے لے گئے کہ وہ کچھ ایسا نہ بول دے جس کہ بعد ہم سب کو منہ چھپانے کے لیے جگہ نہ ملے۔

تایا جان…. م… میں ڈر گئی تھی….. اس نے روتے ان کا ہاتھ تھامتے کہا۔

چلیں آرام کریں اب….. 

آئم سوری وہ روتے ان سب سے معافی مانگنے لگی….. ہم نے ہمیشہ سب کو ایک ترازو میں تولہ ہے شاید یہی غلطی ہم سے ہوئی لیکن شاہ نواز نے اتنا کچھ کیا کہ…… 

خان بھی مجھ سے ناراض ہوں گے….. وہ شو شو کرتی بولی۔

ہاہا….! اس کا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اسے اب آپ نے سنبھالنا ہے….. 

ویسے بہو پرسوں فنکشن ہے گھر میں منہ میٹھا کرواؤ…. اور تھوڑا شادی والا ماحول بناؤ۔

بیشک فاضل خان گھر میں ہی ایک عام سا فنکشن کرنا چاہتا ہے۔

لیکن.... 

آپ سب اپنے چاؤ پورے کرو….. اب کے دراب خان بولے تو سب مسکرائے۔

پھر سب اسے آرام کرنے کا بولتے کمرے سے نکل گئے۔

ہاں وہ غلط تھی بہت سی جگہوں پر اسے لگتا تھا کہ حویلی میں مردوں کو زیادہ آزادی ہے لیکن وہ غلط تھی مرد تو آزاد پرندہ ہے لیکن عورتیں انمول ہیں….. انہیں چار دیواری میں باندھ کر نہیں رکھا جاتا بلکہ اس لیے سہج کر رکھا جاتا کہ کہیں کسی کی بُری نظر نہ پڑے اُن پر…. 

اس نے سب کو شاہ نواز کی طرح سمجھ لیا تھا…. سب کو ایک نظر سے دیکھا تھا….

ہاں فاضل خان کو کچھ گناہ کرتے پایا تھا اس نے….. لیکن وہ بدل گیا تھا اور یہ اس کا اور رب کا معاملہ تھا….. اور این بھی خوش تھی اپنی زندگی میں…… سب کچھ تو اس کا پھیلایا ہوا تھا۔

اس نے کھڑکی سے نیچے دیکھا جہاں لان میں وہ بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا۔

اس پر نظر پڑتے ہی وہ اٹھ کر چلا گیا مہر کی آنکھیں یک دم بھر آئیں اسے منانا اسے سب سے مشکل لگا تھا۔

آج اس کی برتھ ڈے تھی اور مہد خان نے سارے ارینجمنٹس کیے تھے پوری حویلی کو اس نے دلہن کی طرح سجایا تھا۔

سب خوش تھے اسے خوش دیکھ کر سردار ہشتم تو پھولے نا سماتے تھے اسے اتنا مطمئین اور خوش دیکھ کر اپنی زندگی میں.....

گھر بھر میں وہ لیلیٰ مجنوں کی جوڑی کے نام سے مشہور تھے کہ مہد خان اسے ایک رات بھی اس کے مائکے نہیں گزارنے دیتا تھا وہ بدل گیا تھا پور پور....

وہ آج اس کی دلوائی بلیک ساڑھی میں موجود تھی سب کے درمیان.....

 لیکن لپسٹک کا شیڈ آج بھی ہلکا تھا جس کے لیے مہد خان ناراض بھی ہو چکا تھا۔

لیکن وہ کیا کرتی اسے ہلکی ہی پسند تھی ڈارک میں اسے لگتا تھا وہ اوور لگ رہی ہے اور سب اسے ہی دیکھیں گے.....کیک کاٹتے سب اسے اس کے تخائف دے چکے تھے۔

آج اس کا سامنا شاہنواز سے بھی ہوا تھا لیکن ہر بار کی طرح اس نے اگنور کر دیا تھا۔

جن لوگوں سے تعلق ٹوٹ جائے نا انہیں نظرانداز کردو ایسے کہ انہیں خود کی موجودگی پر شک ہو.... 

لیکن اگر تمہارے بس میں ہے تو اسے معاف کر دو.... کیونکہ رب بھی تو تمہیں تمہارے ہزار گناہوں کے بعد معاف کر کے شفاف کر دیتا ہے۔

اور اگر معاف کرنے کی ہمت اور حوصلہ خود میں نہ پاتے ہو تو معاملہ رب العزت پر چھوڑ دو..... 

وہ واپس کمرے میں آئی تو اپنے بستر میں لیٹ چکا تھا.... اسے شدید غصہ آیا تھا جس نے اسے کوئی تحفہ نہیں دیا تھا۔

اس پر سے بلینکٹ کھینچے اس نے اسے گھورا.....

کیا مسئلہ ہے؟ مہد نے سنجیدگی سے کہا....

میرا گفٹ دیں جلدی سے.... 

این نے اپنی مہندی سے بھری ہتھیلی اس کے آگے کی جو اسی کے کہنے پر لگائی تھی۔

یہ سب کچھ جو سیلیبریشن تھی یہ سب گفٹ ہی تھا میری طرف سے اس نے کہتے بلینکٹ واپس اوپر لے کر اس سے پیٹھ موڑ لی۔

این نے نم آنکھیں لیے اسے دیکھا اور ڈریسنگ سے اٹھاتی کچھ واش روم میں چلی گئی۔

وہ تھک چکی تھی چینج بھی نہیں کیا تھا لیکن صاحب زادے کو خوش کرنا بھی ضروری تھا سو مہرون لپسٹک جو وہ اس کے ساتھ لایا تھا لگائی۔

حیرت انگیز طور پر اسے پسند آئی تھی بیشک کافی ڈارک تھی لیکن...... اس کے سفید رنگ پر کِھل رہی تھی۔

 واپس جا کر آہستہ سے بیڈ پر چڑھی اور ایک بار اس پر سے بلینکٹ کھینچا۔

این...... اب کی بار مہد خان کا لہجہ سخت تھا اسے ایک لمحے کے لیے دیکھتا وہ تھما تھا لیکن پھر نظرانداز کرتے آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔

این کی آنکھیں لبا لب پانی سے بھری تھی اس سے پہلے کہ وہ واپس جاتی وہ اسے خود پر گرا چکا تھا۔

اب کیوں لگائی ہے؟ 

اس کی آنکھ سے نکلتا آنسو اپنی پوروں پر چُنا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز سے کچھ نکالتے اس کے ہاتھ میں پہنایا۔

این نے دیکھا وہ نفیس اور نازک سا گولڈ کا برسیلٹ تھا.... اس نے خوشی سے اس کی طرف دیکھا....

تھینک یو سو مچ..... اینڈ آئی لو یو.... گفٹ دیکھ کر وہ کچھ زیادہ ہی جزباتی ہو گئی تھی کہ ناجانے کیا بول گئی ۔

اس کی خوشی  دیدنی تھی پہلی بار اسے تحفہ ملا تھا خوش ہونا بنتا تھا۔

محبت کا اظہار میرے قریب ہو کر کریں گی تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا مہد خان نے رخ موڑا اب کی بار وہ نیچے اور وہ اوپر تھا۔

مہد میں تھک گئی ہوں ہمیں سونا چاہیے اس نے بہانہ تراشا۔

کیوں باقی کے گفٹس نہیں چاہیے؟

..............

حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا بیشک سادی سی رسم ہونی تھی لیکن دراب خان کے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی۔

خوشیوں بھرے اس ماحول میں این کی طرف سے ملی خوشخبری نے سب کو مزید خوش کر دیا تھا۔

مہر کو پور پور فاضل خان کے لیے سجایا گیا تھا وہ بلڈ ریڈ کلر کے لہنگے میں سوگوار حسن لیے قیامت ڈھا رہی تھی۔

کچھ رسموں کے بعد اسے فاضل خان کے کمرے میں بھیج دیا گیا تھا۔

وہ اس کے کمرے میں چاروں طرف دیکھنے لگی پورے کمرے میں اس کی خوشبو پھیلی تھی۔

وہ شدید تھک گئی تھی اس کا بخار کم ہونے کی بجائے صبح سے مزید بڑھ گیا تھا پھر وہ تیار ہو کر بیٹھی ہوئی تھی اور مختلف رسومات نے اس کی کمر توڑ دی تھی۔

ابھی وہ عنودگی میں جاتی کہ وہ اندر داخل ہوا اور دروازہ لاک کیا۔

مہر ٹھیک ہو کر بیٹھی دل کی رفتار حد ردجہ تیز تھی کہ ابھی باہر آجائے گا۔

لیکن وہ یہ سب نظرانداز کرتا چلا گیا تھا چینج کر کے وہ چھوٹے بلب اون کرتا باقی بتیاں گل کر کے بالکونی میں چلا گیا۔

مہرکا دل کیا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے…….لیکن غلطی اس کی تھی سدھارنی  بھی اسے نے تھی۔

فاضل خان نے خود کو پور پور بدل لیا تھا اس کی خاطر لیکن اب کی بار اسے قدم بڑھانا تھا۔

وہ اپنا بھاری دوپٹہ وہیں چھوڑتی اس کے پیچھے آئی اور پیچھے سے اس کے گرد حصار کھینچا۔

فاضل خان نے مٹھیاں بھینچی اور ہاتھ میں پکڑا سگریٹ بجھا دیا۔

نیچے اس کی ایک نظر دیکھ کر وہ سب بھول گیا تھا لیکن... 

نہیں... اس کی عزت نفس کو اس نے ٹھیس پہنچائی تھی۔

فاضل خان نے اس کا حصار توڑا اور خود اندر آ کر بستر پر لیٹ گیا۔

مہر وہیں خالی ہاتھ کھڑے رہی تھی اس کا وجود زلزلوں کی ضد میں آیا تھا وہ وہیں کھڑے رہی۔

وہ جو اس کے اندر آنے کے انتظار میں تھا اس کا انتظار انتظار ہی رہا۔

جنوری کے دن تھے باہر ٹھٹرا دینے والی سردی تھی اور بنا کچھ لپیٹے وہیں کھڑی تھی۔

وہ گلاس وال سے اسے دیکھ سکتا تھا اسے شدید غصہ آیا تھا اس لڑکی پر وہ پہلے ہی بخار میں پھنک رہی تھی اور اب یہ…….

وہ ضبط کرتا اٹھا اس کے پاس جا کر رکا اسے کندھے پر اٹھا کر اندر لا کر بستر پر ڈالا ساری لائٹس اوف کرتے بلائیز گرائے اور ہیٹر اون کیا۔

اٹھو یہ دوا لو….

 اس کی طرف آتے دوا اور پانی اسے دیا چونکہ کھانا اسے نیچے این تھوڑا بہت کھلا چکی تھی۔

مہر نے خاموشی سے کھائی اور لیٹ گئی اس کے ہاتھ پاؤں سرد پڑ رہے تھے۔

فاضل خان اپنی جگہ پر آیا اور اسے دیکھا جس کی آنکھیں بند تھی۔

مہر نے اس کے ہاتھ اپنے پاؤں پر محسوس کیے وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔

جہاں وہ اس کے پاؤں کے بعد اب ہاتھ مسل کر گرمائش پہنچا رہا تھا کیونکہ باہر وہ زمین پر ننگے پاوں کھڑی تھی۔

مہر کی بوجھل آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اس نے اپنا سر اس کے کندھے پر ٹکایا۔

اب کی بار فاضل خان نے کچھ نہیں کہا تھا۔

آئم سوری…… اس نے آہستہ آواز میں کہا۔

سچ میں معافی چاہتی ہو؟ فاضل خان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے کہا۔

ہاں! اس نے زور سے سر ہاں میں ہلایا وہ اتنی جلدی مان گیا تھا……..

تو تمہیں ابھی اسی وقت میرے ساتھ شہر جانا ہو گا…. اس کی اگلی بات سے وہ سُن ہوئی وہ کیسے سب سے دور جاتی….

می… میں کیسے… سب… ماما…. با… بابا…این…کیسے… ؟

ٹھیک ہے رہو یہیں سب کے پاس…. کیونکہ میں تو جا رہا ہوں… اس نے اٹھ کر اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور نیچے چلا گیا۔

وہ بے بس ہو گئی تھی لیکن یہ آخری موقع تھا اسے منانے کا شاید اس کے بعد وہ مزید ناراض ہو جاتا…. وہ پل میں فیصلہ کرتی اٹھی۔

دوپٹہ وہیں چھوڑتی الماری میں سے شال نکالتی دروازہ بند کر کے نیچے آئی اور اس کے برابر بیٹھی جہاں وہ گاڑی سٹارٹ کیے کھڑا تھا۔

………………. 

اور بھی ہیں.... ایکسائٹمنٹ سے اس نے پوچھا.... جلدی دیں کہاں ہیں.....

 اس کی خوشی سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ این خان کو گفٹس لینا کتنا بھایا ہے.....

کل دکھاؤں گا باقی فلحال مجھ پر دھیان دیں اس نے اس کے ہونٹوں کو انگوٹھے سے آہستہ سے مسلا۔

مہددددد...... خراب ہی کرنی تھی تو لگوائی کیوں تھی اس نے روہانسی ہوتے کہا۔

مہد خان جھک کر اس کے لفظ لے چکا تھا پیچھے ہٹا تو وہ گہرے سانس لے رہی تھی۔

میں نے لگوائی ہے اور ہر بار میں ایسے ہی خراب کروں گا..... اس نے حق سے کہتے اپنا چہرہ اس کے بالوں میں چھپایا.....

این کی بولتی بند ہو گئی تھی کیونکہ اب وہ اس کی انگلیاں اپنی کمر پر محسوس کر سکتی تھی.....مہد کے ہونٹ اب اس کی گردن پر تھے۔

مہد.... نی... نیند.... آئی... ہے.....اس نے آخری کوشش کی تھی جو بیکار گئی تھی۔

میں نے آپ کو اتنے تحفے دیے ہیں آپ مجھے کب دیں گی اس نے اسے مزید قریب کرتے کہا۔

کیا چاہیے آپ کو؟

آپ.......

میں تو آپ کی ہوں.....

جانتا ہوں.... آپ میری ہیں.... پوری کی پوری..... مجھے محبت کتنی ہے آپ سے میں کبھی نہیں بتاؤں گا کیونکہ میں نہیں مانتا محبت وہ جزبہ ہے جو لفظوں میں بیان ہو جائے..... آپ کو میرا ہر عمل احساس دلوائے گا کہ کتنی محبت ہے مجھے آپ سے...  محبت سے زیادہ آپ عادت ہیں میری.... وہ عادت جو مرنے کے بعد چھوٹے گی..... وہ اپنے لفظوں سے اسے معتبر کر رہا تھا..... یہ سب حسین تھا۔

گفٹ بتائیں پھر کب دے رہی ہیں وہ واپس اسی ٹاپک پر آیا تھا۔

میں تو ابھی تیار ہوں پر بتائیں تو سہی کیا چاہیے....این نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے کہا۔

نہیں وہ آپ مجھے ابھی نہیں دے سکتی......

لیکن ایسا کیا ہے؟

اولاد..... آپ کی طرف سے میری اولاد میرا سب سے بڑا تحفہ ہو گی اس نے کہتے اپنا سر این کے ساتھ جوڑا جس کا چہرہ لہو چھلکنے لگا تھا۔

مکمل تھا سب.....

ان کی زندگی میں عیزہ شاہ اور شاہنواز خان بھی کبھی تھے لگتا ہی نہیں تھا... کیونکہ وہ اتنا آگے بڑھ گئے تھے ایک دوسرے کی سنگت میں کہ سب بھول گئے تھے۔

شاہنواز خان کی طبیعت اب ویسی رعب دار نہ رہی تھی اس کے دماغ پر کافی گہرا اثر پڑا تھا..... اس عورت کے چھوڑنے کے حادثے سے اور دوسرا این خان کو خوش دیکھ کر اسے شدید جلن محسوس ہوتی تھی جس کا کوئی علاج نہ تھا۔

عیزہ شاہ آج بھی وہیں تھی... کچھ لوگ کبھی نہیں بدلتے.... ان کے ساتھ مکافاتِ عمل دنیا میں نہیں ہوتا..... شاید آخرت میں انہیں اکٹھی اور کڑی سزا ملنا مقرر کیا جاتا ہے.... ماڈلنگ کی دنیا میں کل تک اس کا بول بالا تھا.... ہر نئی شخصیت کے ساتھ پائی جاتی تھی وہ تب تک جب تک وہ اسے فائدہ دیتا اور پھر وہ انسان بدل دیتی.... لیکن پر عروج کو زوال ہے اس کا آسمان سے گرنے کا وقت تب آیا جب اس کی کچھ نازیبا ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں.... لیکن اس نے بھی اس جیسی عورت پر اثر نہ دکھایا تھا... وہ ابھی بھی گم تھی اپنی دنیا کی رنگینیوں میں... کیونکہ جب تک دولت تھی تب تک عیزہ شاہ تھی۔

.................

سفر لمبا تھا تو وہ سو گئی تھی فاضل خان نے اس کی سیٹ سیدھی کرتے اس پر چادر درست کرتے ہیٹر تیز کیا۔

اس کا شہر جانے کا فیصلہ لمحے میں کیا تھا... 

وہ فون کر کے مہد کو انفارم کر چکا تھا اب مہد خود سب کو سنبھال لیتا۔

وہ اس وقت سب سے دور رہنا چاہتا تھا اس لڑکی کے ساتھ جو اب دل میں بستی تھی۔

اس کے بغیر جینے کا تصور سوہانِ روح تھا فاضل خان کے لیے۔

پانج گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اس کے فلیٹ پہنچ چکے تھے۔

وہ اس کا اپنا زاتی مکان تھا.... وہ بھی نیند پوری کر کے اب جاگ گئی تھی۔

گھر نہ زیادہ بڑا تھا نا چھوٹا اچھے سے ویل فرنیشڈ رہنے والے کے زوق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

وہ نہا کر نکلا تو وہ وہیں لیٹی تھی تھکاوٹ اب کم تھی لیکن کمزوری اب بھی تھی۔

وہ لیٹ گیا تھا اپنی جگہ پر تو مہر نے اس کے سینے پر ہتھیلی رکھتے اسے دیکھا۔

مہرین خان مجھے سونا ہے….. اٹھو اپنی جگہ پر جاؤ….. 

لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی….. 

سمجھ نہیں آرہی بات…؟

 اب کہ اس کے لہجے میں سختی تھی۔

وہ سہمی تھی لیکن پھر سنبھل کر بولی فنکشن سے پہلے آپ اچھی خاصی نیند پوری کر چکے ہیں ہم جانتے ہیں۔

فاضل خان خاموش ہوا۔

خاموشی کا دورانیہ بڑھا تو کمرے میں اس کی سسکیوں کی آواز گونجی۔

فاضل خان نے خاموش سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اس کے لیے یہی بہت تھا کہ وہ سب سے دور اس کے ساتھ آئی تھی۔

وہ سب باتیں بھول چکا تھا…… ناراض نہیں تھا اس سے لیکن اسے اس کی غلطی کا احساس کروانا ضروری تھا۔

آئم سوری خان…… اس دن ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا بول رہیں ہیں…. وہ اس نے بات ہی ایسی کی تھی کہ ہم اپنا غصہ قابو نہ کر پائے۔

پاگل کے ساتھ خود کو پاگل کیا جا سکتا ہے یہ بتاؤ…… 

تم بہتر طریقے سے جانتی تھی کہ وہ کن حالات سے گزر رہا اس کے باوجود میں مانتا ہوں کہ وہ غلط تھا جس کے وجہ سے وہ دو پنچ بُے طریقے سے مجھ سے کھا چکا تھا….. میرے ہوتے ہوئے کسی کی ہمت نہیں کہ میری بیوی کے کردار کے بارے میں کچھ کہے۔

لیکن ہر بار ضروری نہیں ہے لفطوں سے دوسرے کو ہرایا جائے…… 

اور یہی کہوں گا کہ سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتے….. لیکن احتیاط اچھی تھی۔

مجھے فخر ہے کہ میری بیوی نے کسی عورت کے لیے اسٹینڈ لیا لیکن سب کو ایک ترازو میں تولو گی تو سب متفکر ہو جائیں گے تم سے۔

تمہارے اپنے تمہارے سگے ہیں…… اور کچھ مرد محافظ بھی ہوتے ہیں وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا اسے سمجھا رہا تھا۔

آپ نے مجھے مارا تھا اس نے اپنا مہندی سے بھرا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا۔

فاضل خان نے غور سے اسے دیکھا بھاری لہنگا….. ناپسند ہوتے بھی اس کے مہندی سے بھرے ہاتھ….. اس کے ناک میں چمکتا پن…..میک اپ وہ نکال چکی تھی لیکن مٹا مٹا میک اپ اسے مزید حسین بنا رہا تھا۔

وہ اس لیے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں جسے کسی دوسرے کے سامنے بے لباس نہیں کیا جاتا…… اور اس تھپڑ کے لیے میں پشیماں ہوں دل سے…. 

آئی ایم سوری ایسی حرکت اب کبھی نہیں ہو گی….. وہ اس کے گال پر اسی جگہ ہونٹ رکھ کر بولا۔

آئم سوری خان…. وہ ایک بار پھر اس کے گلے لگی….. 

گلے شکوے….. بدگمانی کے بادل چھٹ چکے تھے وہ پرسکون تھے ایک دوسرے کی سنگت میں۔

……………….. 

ریسٹ کرو….. میں دوسرے کمرے میں سو جاتا ہوں تاکہ تم سکون سے سو سکو…… 

چونکہ یہ بیڈ سنگل تھا صرف اس کے لیے تو چھوٹا تھا ان کے لیے لیکن آج کے دن وہ اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لیے اسے چھیڑنے کو بولا۔

نہیں ہم مینج کر لیں گے…….. مہر نے جلدی سے اس کے گرد حصار بنایا آیا وہ ابھی اٹھ کر نہ چلا جائے

وہ نئی جگہ پر ایڈجیسٹ  نہیں ہو پاتی تھی کافی ڈرپوک تھی وہ اس معاملے میں اور فاضل خان ہمیشہ اس بات کا فائدہ اُٹھاتا تھا جیسے ابھی اٹھایا تھا۔

کمرے میں ساتھ پڑے لیمپ کی ہلکی روشنی تھی بس….. 

آج کیوں مہندی لگوائی ہے اس دن تو میری بات مانی نہیں تھی فاضل خان نے اس کا ہاتھ تھامتے مہندی کی خوشبو کو اندر اتارا۔

کیونکہ میں ہماری شادی پر ایک ہی بار لگا کر آپ کو سرپرائیز دینا چاہتی تھی وہ بھی مطمئن تھی اب۔

اچھا تو تب کیوں نہیں بتایا غصے میں میرا کلو خون کم ہو گیا تھا۔

تو سرپرائیز بتا دیتی تو خراب ہو جاتا نا… اور…. 

اس کی زبان رکی کیونکہ وہ اس کے ہاتھوں کو اب چوم رہا تھا۔

کمرے میں معنی خیزی خاموشی بڑھتی جا رہی تھی۔

خان….. 

اس نے جھٹکے سے رخ موڑا اب وہ اوپر تھا اور وہ نیچے۔

ہٹیں خان….. کتنے بھاری ہیں آپ…..

لیکن وہ اب اس کی سُن کہاں رہا تھا اس کا ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کرتے اس کے حواس گم ہوئے۔

"فاضل خان اس کے لہنگے کی چولی کے پیچھے کی ساری ڈوریاں کھول چکا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ آگے سے ڈھیلا ہو گیا تھا۔

اس نے تھوک نگلنے بازو پھیلائے۔

فاضل خان نے اس کے بازو پکڑتے تکیے پر رکھے اور اپنا چہرہ اس کی گردن میں چھپایا۔

خان… سنیں…… 

اور وہ اس کی آواز اپنے ہونٹوں سے بند کروا چکا تھا کتنے ہی لمحے ان کی سانسیں ایک دوسرے میں الجھی رہی تھی۔

وہ پیچھے ہٹا تو وہ گہرے سانس لینے لگی اور آنکھیں بند کی کیونکہ خان کو روکنا اب اس کے بس میں نہیں تھا۔

فاضل خان نے اپنے ہونٹ اس کے کان کے پاس کیے۔

محبت ہے تم سے…..بے حد، بے حساب... کتنی ہے وہ ہمیں بھی نہیں پتا.... لیکن جان جاؤ گی آہستہ آہستہ کہ یہ وجود تمہارے بغیر بیکار ہے اب….. ہم کچھ نہیں ہیں تمہارے بغیر مہرین فاضل خان…. 

مہر نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

ہم نے آپ سے سیکھا ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں…… شاید آپ سے بھی زیادہ ہمیں محبت ہے آپ سے…. 

اس کا اعتراف محبت فاضل خان کو نئی زندگی بخش گیا تھا۔

اس نے اپنے ہونٹوں سے اس کا کان کی لو کو دبایا۔

اور پھر آہستہ آہستہ اس پر قابض ہونے لگا۔

ان کی سانسیں بڑے طریقے سے ایک دوسرے میں الجھی تھی۔

آئی لو یو دے موسٹ مہر اس نے کہتے اپنے تشنہ لب اس کے ہونٹ گال آنکھوں پر رکھتا گیا۔

مہرین خان نے محبت میں جانا تھا کہ ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا۔

فاضل خان نے اپنی محبت کو پانے کے لیے اپنے آپ کو بدل ڈالا تھا۔

مہد خان نے خود کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے این خان کا ہاتھ تھاما تھا اس کی سنگت میں اس نے جانا تھا کہ وہ کتنا ایک سراب کے پیچھے بھاگا تھا۔

این خان بکھرے وجود کے ساتھ مہد خان کی زندگی میں آئی تھی جسے اس کی محبت نے نکھار دیا تھا۔

اورر.... ملتا وہی ہے جو بہترین ہوتا ہے پھر بیشک لاکھ کسی کے پیچھے بھاگا جائے وہی سب مقدر تھے ایک دوسرے کا جو مل گئے تھے...... 

.................. 

زندگی حسین ہے اگر زندگی بنانے والے دونوں لوگ برابر کی محنت کریں صرف عورت کا کام نہیں ہے رشتہ بنھانا یا گھر بنانا…… مرد عورت کو بناتا ہے اپنی محبت سے تب ایک گھر بنتا ہے۔

اس کہانی کے ہر کردار میں میں نے ایک کوشش کی ہے کہ میں اعتدال پیدا کر سکوں..... پیار، محبت، عشق،جنون، ضد، چاہت سب لکھوں.... آپ کا کچھ وقت اچھا گزر جائے میرے لفظوں سے یہ میری محنت کی وصولی ہے۔

این خان ہمارے معاشرے کی ان تمام عورتوں جیسی ایک عام ڈرپوک عورت تھی جسے اسی سے منسلک مرد نے کھلونا سمجھ لیا تھا....کچھ رشتوں میں کبھی بھی سدھار نہیں آتا...... اس لیے ان سے جدا ہو جانا ہی بہتر ہے... دوسرے شخص نے بتایا کہ ایک عورت کتنی قیمتی ہے۔

مہد خان نے محبت کی اس عورت سے جس نے اسے دھتکار دیا صرف چند روپیوں کے لیے.... اس لیے محبت بیکار تھی دولت کے بغیر... شاید سہی تھی کچھ عورتوں کو دولت نے اندھا کر رکھا ہے.... بس جہاں دولت انہیں لے چلے.... مہد خان نے ٹوٹے دل کے ساتھ ایک بکھری عورت کو سنبھالا جس نے اسے معتبر کیا اسے بتایا کہ سراب اور محبت میں کیا فرق ہے..... 

عیزہ شاہ جس کے لیے آج بھی دولت سب کچھ ہے لیکن سکون اس کے نصیب میں نہیں تھا اب۔

فاضل خان جس نے محبت میں خود کو بدل لیا تھا اس ڈر سے کہ کہیں اس سے منسلک عورت اسے چھوڑ نہ جایے.... ہر کوئی اتنی خالص محبت نہیں کر سکتا کہانی میں شاید آپ کو کافی باتیں افسانوی لگیں لیکن حقیقت میں میں نے مرد دیکھے ہیں جو محبت میں کیا سے کیا بن جاتے ہیں..... آج کل کی جھوٹی محبت نہیں ہے یہ... یہ محرم رشتوں کی خالص محبت تھی۔

مہرین خان جسے مردوں سے نفرت تھی.... کیونکہ اس نے اپنے اردگرد ہر مرد کو ہی اپنی طاقت کا زور چلاتے دیکھا تھا.... لیکن ایک مرد نے اس کے لیے خود کو بدل کر بتایا کہ مرد ایک جیسے نہیں ہوتے..... کچھ مرد محافظ بھی ہوتے ہیں....

ختم شدہ 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Tu Muqaddar Mera Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tu Muqaddar Mera written by  Suneha Rauf. Tu Muqaddar Mera  by Suneha Rauf is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment