Pages

Friday 26 July 2024

Ishq Jana By Shanzy Shah New Complete Romantic Novel

Ishq Jana By Shanzy Shah New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishq Jana By Shanzy Shah Complete Romantic Novel 


Novel Name: Ishq Jana

Writer Name: Shanzy Shah

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

 وہ خوبصورت تیار شدہ لڑکی آہستہ آہستہ اپنے پیر میں موجود پازیب کی چھن چھن کرتی ہوئی وہاں آگئی وہاں پر موجود ہر مرد اسے غلیظ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور ناجانے کتنے نوٹ اس پر اچھالے جا رہے تھے 

وہ کبھی کسی مرد کی طرف جاتی تو کبھی دوسرے مرد کی طرف 

جبکہ دور کھڑی وہ لڑکی یہ سب دیکھ رہی تھی اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک ایسی جگہ آے گی 

وہ اس طرح کا کوئی کام نہیں کرتی تھی لیکن پھر بھی وہ تھی تو اسی جگہ پر 

جسے کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا تھا دو آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے گرے وہ اس جگہ سے نکل کر کہیں اور نہیں جاسکتی تھی یہ بات وہ جانتی تھی اور اسے کوئی امید بھی نہیں تھی کہ وہ کبھی یہاں سے بکل سکتی ہے اسکے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن وہ جاتی بھی تو کہاں جاتی 

◽◽◽◽◽

"شہیر میرا بچہ کہاں ہو "اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے لاڈلے کو پکارا جو روز کی طرح آج اس کے انتظار میں باہر نہیں بیٹھا تھا لیکن اس کی آواز سن کر وہ کمرے سے بھاگتے ہوے باہر نکلا 

"بابا آپ آگئے" شہیر بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا اور اسکے پاس آتے ہی اس نے اسے اپنی گود میں اٹھالیا 

"آج بابا کا انتظار نہیں کیا "اسنے شہیر کا نرم گال چومتے ہوے کہا 

"اسلیے کیونکہ آج ہم آے ہوے تھے "اپنے پیچھے آواز سن کر اسنے حیرت سے مڑ کر اپنے بھائی کو دیکھا 

"صائم تم کب آے" اسنے شہیر کو اپنی گود سے اتارا اور صائم کو اپنے ساتھ لگا لیا 

"جب دائم سلطان ہمارے نہ آنے پر صبح ہم سے سخت ناراض ہوگئے" 

"تو مسٹر صائم سلطان کیا مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا ایک ہفتے کا کہہ کر گئے تھے اور دو ہفتے بعد بھی نہیں آے" 

"اچھا نہ بھائی سوری" صائم نے اپنے ہاتھ کانوں پر رکھ کر معصومیت سے کہا دائم نے مسکرا کر اسکے کندھے پر زوردار مُکا مارا صائم نے کہراہ کر اسے دیکھا 

"اف دائم ہاتھ تھوڑا ہلکا رکھ" اسکے کہنے پر دائم نے مسکراتے ہوے شہیر کو اپنی گود میں اٹھایا 

"چل آج اتفاق سے ساری تمہاری فیورٹ ڈش بنوائی ہیں بوا سے" دائم کہتے ہوے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا 

◽◽◽◽◽

اس نے حجاب میں لپٹا اپنا معصوم چہرہ دیکھا وہ لڑکوں سے دور رہتی تھی کیونکہ یا تو ہر کوئی اس خوبصورت دیکھتا تھا یا دولت 

لیکن زندگی میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی لڑکے کو نہ تو اسکی خوبصورتی نظر آرہی تھی اور نہ ہی دولت وہ پہلا مرد تھا جسے چاہت حُسین نے اپنی چاہت بنایا تھا 

وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا بندہ تھا اور لڑکیوں سے ہمیشہ وہ نظریں جھکا کر ہی بات کرتا تھا چاہت ہمیشہ خود ہی اس سے ہر بات میں پہلے کرتی تھی لیکن وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا 

چاہت کو آفس سے کبھی بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن مسٹر حسین اسے اپنے آفس کا سارا کام بتانا چاہتے تھے تاکہ انکے جانے کے بعد انکی اکلوتی اولاد چاہت کو کوئی مصیبت پیش نہ آے 

وہ پہلے دن زبردستی یہاں آئی تھی جہاں چاہت کی ملاقات اس دشمن جان سے ہوئی اور پھر اس ہر ادا ہر بات دل میں اترتے گئی اب کوئی نہ ہونے کے باوجود بھی وہ روز آفس آتی تھی صرف اسے دیکھنے جو اس سے بےنیاز اپنے کام میں مصروف رہتا اور پھر چلا جاتا لیکن آج وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا تھا اور یہی چاہت کی بےچینی کی وجہ تھی 

"بات سنو ارم "چاہت نے فائل لے جاتی ارم سے کہا 

"یس میم" 

"وہ مسٹر یشب کہاں ہیں" 

"میم وہ تو آج نہیں آے مجھے بھی کامران نے بتایا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے "

"کیا ہوا ہے انہیں" چاہت نے بےچینی سے پوچھا 

"یہ تو نہیں پتا" ارم نے اپنے کندھے اچکاتے ہوے کہا اور چاہت کے کہنے پر وہاں سے چلی گئی 

چاہت بےچینی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگی اور پھر کچھ سوچ کر اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر آفس سے نکل گئی 

◽◽◽◽◽

دروازے کھولنے پر جو چہرہ اسے نظر آیا تھا وہ چاہت حُسین کا تھا وہ حیرت سے اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ رہا تھا 

"میم آپ یہاں خیریت" یشب نے آدب سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے" 

"میم میں بلکل ٹھیک ہوں" 

"کہاں سے ٹھیک ہو چہرہ دیکھا ہے کتنا سرخ ہورہا ہے" چاہت نے کہتے ہوے اپنا ہاتھ اسکی پیشانی پر رکھنا چاہا اور اسکے ایسا کرتے ہی یشب اپنا چہرہ تھوڑا پیچھے کرچکا تھا 

"میم میں ٹھیک ہوں"

"یشب تمہیں اتنا تیز بخار لگ رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو تم ٹھیک ہو رکو میں ڈاکٹر کو فون کرتی ہوں" چاہت نے کہتے ہوے اپنے کلچ سے اپنا فون نکالا اور اسکے ایسا کرتے ہی یشب اپنے گھر سے نکل کر باہر کی طرف جانے لگا اسکے ایسا کرتے ہی چاہتے اسکے پیچھے بھاگی 

"کہاں جارہے ہو یشب" 

"آپ میرے گھر پر آئیں ہیں میں آپ کو نکال نہیں سکتا لیکن آپ کی موجودگی میں ،میں وہاں رک بھی نہیں سکتا" یشب نے نظریں جھکاتے ہوے کہا وہ ہمیشہ نظریں جھکا کر بات کرتا تھا خاص کر چاہت کے ساتھ 

"ٹھیک ہے تم جاؤ گھر کے اندر میں واپس جارہی ہوں"

"پلیز میم مجھے اچھا نہیں لگے گا "

"میں خود اپنی مرضی سے جارہی ہوں یشب تم مجھے نہیں نکال رہے ٹھیک ہے" چاہت نے اپنے قدم اپنی گاڑی کی طرف بڑهالیے اور گاڑی میں بیٹھ کر اسے یشب کے گھر سے تھوڑی دور لے جا کر کھڑی کردی تاکہ یشب کو یہی لگے وہ چلی گئی ہے گاڑی روک کر وہ ڈاکٹر کو فون کرنے لگی اور جب تک ڈاکٹر یشب کو چیک کرکے نہیں چلا گیا چاہت خود بھی وہیں موجود رہی 

◽◽◽◽◽

"کہاں جارہی کو تم" خدیجہ بیگم نے اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوے کہا 

"وہ آج ایڈمیشن فارم جمع کروانا ہے اسلیے کالج جارہی ہوں "جنت نے مصروف سے انداز میں کہا 

"کیا کرنا ہے اتنا پڑھ لکھ کر لڑکیوں کے لیے گیارہ چودہ جماعتیں بھی کافی ہوتی ہیں" خدیجہ بیگم نے منہ بنا کر اسے دیکھا 

"امی آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں میں پی-ایچ-ڈی کرنے جارہی ہوں"

"اچھا چھوڑوان باتوں کو جلدی آجاؤ گی نہ--------" 

"کیوں کوئی کام تھا "

"ہاں آج تمہاری پھپھو آرہی ہیں" 

"کس لیے" جنت نے حیرت سے پوچھا 

"وہ اب چاہتی ہیں تمہاری اور حماد کی منگنی کی رسم ادا کردی جاے بس اسی سلسلے میں" 

"امی میں نے کتنی بار کہا ہے مجھے نہیں کرنی اس حماد سے شادی" 

"کیوں آخر کیا برائی ہے حماد میں پڑھا لکھا ہے اچھا کماتے ہے اور یہ بات تو بچپن سے طے ہے اب تو اس رشتے کو ہم بس کوئی نام دینا چاہتے ہیں"

"بھلے اچھا کماتا ہو لیکن پھر بھی میرے خوابوں جیسا تو بلکل بھی نہیں ہے اور پتا نہیں کونسی لوکل ڈبہ گاڑی لے کر گھومتا ہے "

"بیٹا حقیقت کا خوابوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور اس طرح کسی کا مذاق نہیں اڑاتے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے" خدیجہ بیگم کے سمجھانے پر جنت منہ بناتی ہوئی گھر سے نکل گئی جانتی تھی بحث فضول ہے لیکن اسے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اسے پتا تھا ایک دن اسکا امیر شہزادہ اسے لینے ضرور آے گا 

◽◽◽◽◽

"ہیلو موم اینڈ ڈیڈ "اسنے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوے کہا 

"کیا بات ہے دیکھو فاریہ آج ہمارے ساتھ کون ناشتہ کررہا ہے یہ انکی صبح آج اتنی جلدی کیسے ہوگئی" ثاقب نے اپنے ساتھ بیٹھی اپنی بیگم فاریہ کو دیکھتے ہوے بیٹے سے کہا 

"کیونکہ مجھے آپ سے کام تھا میرے اٹھنے تک آپ آفس چلے جاتے اور وہاں جاکر تو آپ مشکل سے میرا فون اٹھاتے ہیں" وہاج نے جوس کا سپ لیتے ہوے کہا 

"تو تم جب بھی مجھے فون کرتے ہو کوئی فالتو کام ہی ہوتا ہے خیر بتاؤ کیا بات کرنی ہے یقینا کوئی نئی فرمائش ہوگی" ثاقب نے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوے بیٹے کو دیکھا 

"مجھے نیو کار چاہیے" 

"مصطفی نے نیو کار لی اسلیے" ثاقب کے کہنے پر وہاج نے اپنا ناشتہ کرتا ہاتھ روک کر غصے سے اپنے باپ کو دیکھا

"میں نے کتنی بار کہا ہے مجھے اس شخص سے مت ملا کیجیے" 

"کیوں نہیں ملاؤں تم کیا جانتے نہیں ہو اسے سارے کام کتنے اچھے سے سمبھال لیتا ہے اور اگر تمہیں مصطفی اتنا ہی نہ پسند ہے تو وہ چیزیں کیوں کرتے ہو جو مصطفی کرتا ہے مصطفی نے نیو کار لی تمہیں بھی چاہیے مصطفی نے نیا گھر لیا تمہیں بھی چاہیے اور" ثاقب اور نہ جانے کیا کیا کہنے والے تھے لیک اس سے پہلے ہی وہاج زور سے پلیٹ میں کانتا پٹھخ کر غصے سے وہاں سے جا چکا تھا 

"کتنی بار کہا ہے اس کے سامنے مصطفی کا نام مت لیا کریں" فاریہ نے تھوڑا سختی سے کہا 

"کیوں نہ لوں میں اس کا نام مصطفی میری جان ہے اور وہاج سے زیادہ عزیز ہے مجھے میں تم سے کہہ رہا ہوں فاریہ اسکی حرکتیں اب میری برادشت سے باہر ہوتی جارہیں ہیں سمجھاؤ اسے" ثاقب غصے میں کہتے ہوے اٹھ کر وہاں سے جاچکے تھے

"کل تم کہاں گئی تھیں چاپت" حسین صاحب کے پوچھنے پر چاہت نے اپنا کھاتا ہوا ہاتھ روک کر حیرت انہیں دیکھا 

"کیا مطلب بابا" 

"اس میں اتنا حیران ہونے کی کی بات ہے چندہ مجھے آفس سے پتا چلا تھا کہ تم کہیں گئی تھیں تو بس ایسے ہی پوچھ لیا تم جہاں بھی جاتی ہو بتا کر جاتی ہو لیکن کل تم نے بتایا نہیں" حسین صاحب کے کہنے پر چاہت بنا کچھ کہے دوبارہ اپنا کھانا شروع کرچکی تھی حسین صاحب نے گہرا سانس لے کر اسکی طرف دیکھا 

"چاہت میرا بچہ تم بھی جانتی ہو کہ اس بار تمہارے دل نے جو چیز مانگی ہے وہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے" حسین صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی 

"بابا میں جانتی ہوں یشب کوئی چیز نہیں ہے اور میں محبت کرتی ہوں یشب سے"

"لیکن بیٹا یشب ایسا کچھ نہیں سوچتا" 

"جانتی ہوں لیکن آپ دیکھ لیجیے گا بابا ایک نہ ایک دن تو یشب کو میری محبت پر یقین ضرور آے گا" مسکراتے ہوے کہہ کر وہ اپنا کھانا دوبارہ شروع کرچکی تھی جبکہ حسین صاحب کتنی دیر تک اسکی معصوم چہرہ دیکھتے رہے آج تک انہوں نے اپنی بیٹی کی ہر خواہش پوری کری تھی جو چیز اسنے چاہی حسین صاحب اسکے قدموں میں بکھیر چکے تھے مگر اس بار بات یشب کی تھی اور یشب کوئی چیز نہیں تھا

◽◽◽◽◽

بلیک لینڈکروزر شیرازی بلڈرز میں داخل ہوئی ڈرائیور نے گاڑی سے اتر کر تیزی سے پچھلی طرف کا دروازہ کھولا جس میں سے وہ شخص نکل کر اپنے مظبوط قدم اٹھاتا اندر کی طرف جانے لگا  

اسکے آفس روم میں داخل ہوتے ہی معیز اسے سارے دن کی ڈیٹیل بتانے لگا 

"اور سر وہ کالج کے فکنشن میں آپ کو انوائٹ کیا ہے" معیز کی ساری بات سن کر اسنے فقط اپنے سر کو جنبش دی تھوڑا گھبراتے ہوے معیز نے اگلی بات دہرائی

"سر وہ ،وہ وہاج سر آے تھے" اسکی بات سن کر مصطفی نے غصیلی نظروں سے اسے دیکھا 

"میں نے کتنی دفعہ کہا ہے کہ اس شخص کا سایہ بھی یہاں نہیں پڑنا چاہیے سمجھ نہیں آتی ہے تم لوگوں کو میری بات" اسکے دھاڑنے پر معیز بھی ایک لمحے کو سہم چکا تھا 

"سر وہ آے تھے اور میں نے انہیں فورا واپس بھیج دیا تھا اور کہا بھی تھا کہ وہ آئندہ یہاں نہ آئیں" اسکی بات سن کر مصطفی نے گہرا سانس لے کر اسے دیکھا 

"معیز آخری بار کہہ رہا ہوں اگر آج کے بعد وہاج ثاقب یہاں نظر آیا تو تم اس جگہ نظر نہیں آؤ گے اب تم جاسکتے ہو" اسکی بات سن کر معیز اپنا سر ہلا کر تیزی سے وہاں سے نکل گیا

◽◽◽◽◽

سامنے رکھی ٹیبل سے اسنے لیپ ٹاپ اٹھا کر صوفے پر رکھ دیا اور خود اس ٹیبل پر بیٹھ گیا 

"شہیر بابا کام کررہے ہیں" دائم نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھانا چاہا جب شہیر نے اپنے چھوٹے ہاتھوں میں اسکے ہاتھ پکڑ لیے 

"بابا آپ ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں ہم اتنے دنوں سے باہر بھی نہیں گئے اور چاہت پھوپھو سے بھی ملنے نہیں گئے" شہیر کے منہ بنا کر کہنے پر دائم نے مسکراتے ہوے اسے اپنے ساتھ بٹھالیا 

"تو میرا بچہ صائم چاچو سے کہتے وہ آپ کو گھومانے لےجاتے"

"لیکن مجھے آپکے ساتھ جانا ہے پلیز بابا" 

"اچھا ٹھیک ہے اگر ابھی آپ نے مجھے میرا کام کرنے دیا تو کل کا سارا دن آپکا" اسکے کہنے پر شہیر اسکے گلے لگ کر خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا اب بس اسے جلدی سے سونا تھا تاکہ وہ سوجاے اور کل کا دن جلدی سے آجاے اور وہ سارا دن اپنے بابا کے ساتھ گزار سکے 

◽◽◽◽◽

چاہت کب سے اپنے سامنے چلتا منظر غصے سے دیکھ رہی تھی جہاں یشب ہمیشہ کی طرح نظریں جھکاے اپنے ہاتھ میں موجود فائل سے اس لڑکی کو کچھ سمجھا رہا تھا جبکہ وہ لڑکی فائل سے زیادہ یشب کی طرف متوجہ تھی اسکے دیکھنے کا انداز چاہت کا چہرہ غصے سے سرخ کرچکا تھا 

اسلیے بنا وقت ضایع کیے اس لڑکی کو اپنے کمرے میں بلالیا 

"یس میم آپ نے بلایا" سجل نے اسکے سامنے کھڑے ہوکر کہا 

"ہاں تمہیں کل سے یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے میں مینیجر کو بتا چکی ہوں تم اس کے پاس چلی جاؤ وہ سب کچھ کر لے گا تمہاری سیلری وغیرہ وغیرہ" سجل منہ کھولے اس کی بات سن رہی تھی

"کیا مطلب میم" 

"مطلب کہ تمہاری جوب گئی تمہیں نکال دیا جاتا ہے "چاہت نے اطمینان سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"لیکن میری غلطی کیا ہے"

(یشب آفندی پر غلط نگاہ ڈالی ہے یہ تمہاری غلطی ہے)یہ بات وہ دل میں ہی کہہ سکی تھی 

"ویسے تو میں تمہیں جواب دینے کی پابند نہیں ہوں لیکن پھر بھی بتادیتی ہوں میرے دو بار وارن کرنے پر بھی تم اپنا کام ٹهیک سے نہیں کررہی تھیں" 

"لیکن"

"پلیز میرا ٹائم ویسٹ مت کیجیے" چاہت نے کہتے ہوے لیپ ٹاپ پر  اپنا کام دوبارہ شروع کردیا سجل اسے غصے سے گھورتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

◽◽◽◽◽

آج کافی دنوں بعد وہ شہیر کو اپنے ساتھ گھومانے لایا تھا کام زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک سے اسے ٹائم بھی نہیں دے پارہا تھا اسلئے آج اپنا ہر کام چھوڑ کر وہ اسے اپنے ساتھ گھومانے لایا تھا اور شہیر ڈھیر ساری شوپنگ بھی کرچکا تھا شوپ سے باہر نکلتے ہی اسکا فون بجنا شروع ہوچکا تھا اسنے اپنی پوکیٹ سے موبائل نکال کر دیکھا کال ضروری تھی اسلیے اسے اٹھانی پڑی جبکہ شہیر بار بار اسکا ہاتھ ہلا کر سامنے بنے آئسکریم پارلر میں جانے کا کہہ رہا تھا 

"ایک منٹ شہیر" اسے سختی سے گھور کر دائم دوبارہ اپنی بات میں مصروف ہوچکا تھا جب شہیر نے اپنے ہاتھ پر اسکی گرفت ہلکی محسوس کری اور خود روڈ کراس کرکے اس آئسکریم پارلر کی طرف بھاگنے لگا جب سامنے سے آتی گاڑی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اسکے قدم خوف سے وہیں جم چکے تھے 

اچانک کسی نے اسے کھینچ کر فورا اپنے قریب کرلیا 

"آپ ٹھیک ہو کچھ ہوا تو نہیں'' نرم لہجے میں کہتے ہوے اسنے اپنے ٹیشو سے شہیر کے چہرے پر موجود پسینے کے قطرے صاف کیے اور اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اسکے لبوں سے لگادی 

یہ منظر دیکھتا دائم بھی پریشانی سے بھاگتا ہوا اسکے قریب آکر اسے اپنے سینے سے لگا لیا 

"کیا ہوا کہیں لگی تو نہیں" دائم پریشانی سے اسکے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنے لگا جب پیچھے سے آتی غصیلی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا 

"کتنے لاپرواہ انسان ہیں آپ اگر ابھی اس بچے کو کچھ ہوجاتا کہیں لگ جاتی تو" وہ پتہ نہیں اس سے اور کیا کیا کہہ رہی تھی لیکن دائم تو بس اسے دیکھنے میں مصروف تھا حجاب میں لپٹا وہ معصوم چہرہ چھوٹی سی ناک اس وقت غصے سے لال ہورہی تھی سفید رنگت سرخ لب اور نرم لبوں کے نیچے قاتلانہ تل 

"آپ سن رہے ہیں میری بات" اس بار آواز تھوڑی اور تیز کری جس سے دائم سلطان ہوش کی دنیا میں لوٹا 

"آنٹی بابا کی غلطی نہیں ہے میں ہی بھاگا تھا" شہیر نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوے کہا اسنے نیچے بیٹھ کر مسکراتے ہوے ہلکے سے شہیر کے گال پر پیار کیا اور اپنے بیگ سے چاکلیٹ نکال کر اسکی طرح بڑھادی دائم مسکراتے ہوے اسکی ہر حرکت دیکھ رہا تھا دل بس یہی چاہ رہا تھا کہ یہ چہرہ کبھی اسکی نظروں سے اوجھل نہ ہو لیکن اسکی یہ دلی خواہش دل میں ہی رہ گئی کیونکہ اب وہ حسینہ وہاں سے جاچکی تھی

◽◽◽◽◽ 

"کہاں ہے وہ اتنی دیر کردی" اس نے عظیم نے غصے میں ارسلان کو دیکھتے ہوے کہا جو ان کے پوچھنے پر اپنے کندھے اچکا چکا تھا عظیم غصے سے ادھر ادھر ٹہلنے لگا جب پیچھے جوتوں کی آواز پر انہوں نے مڑ کر دیکھا 

جہاں وائٹ ہائی نیک کے ساتھ بلیو جینز پہن کر وہ شان سے چلتا ہوا آرہا تھا 

"کہاں تھے تم" عظیم غصے سے اسکی طرف بڑھے 

"ریلیکس عظیم صاحب اس عمر میں اتنا غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا" جواب شان بےنیاری سے دیا جس پر عظیم اور بھڑک اٹھے 

"میری عمر صرف چالیس ہے اور اتنی دیر سے آے ہو تم لوگ کب سے تمہارا انتظار کررہے ہیں" 

"کیا فرق پڑتا ہے دیر ہو یا جلدی لوگ ویسے بھی "یارم شیرازی" کو سنے بنا کہیں نہیں جانے والے" اپنی بات مکمل کرکے وہ سٹیج کی طرف چلا گیا جہاں اسے دیکھ کر لوگوں کا شور مزید بڑھ چکا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی آواز کے سحر میں سب کو گرفتار کرچکا تھا 

◽◽◽◽◽

دائم کب سے لیٹا اس حسینہ کے بارے میں سوچ رہا تھا جو کہ اسکے خیالوں پر چھائی ہوئی تھی 

سب سے بڑھ کر نرم لبوں کے نیچے وہ قاتلانہ تل جو اسے بار بار یاد آرہا تھا اور بےچین کررہا تھا 

لیکن پھر خود ہی اسے اپنی سوچ پر حیرت ہوئی

"استغفراللہ میں اس لڑکی کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں" اپنے خیالات جھٹک کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا لیکن اس وقت تو اس سے کام بھی نہیں ہورہا تھا ہر سوچ بس اس لڑکی کی طرف جارہی تھی جس کا اسے نام تک نہیں پتہ تھا

◽◽◽◽◽

وہ ببل چباتی ہوئی اپنا موبائل چلا رہی تھی جب اسکے کانوں میں کسی کے سلام کرنے کی آواز پڑی اور جنت نے غلطی سے بھی نظر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ آنے والا حماد ہی ہوگا لیکن وہ کیوں آیا تھا یہ بات اسے نہیں پتہ تھی ویسے بھی وہ صرف ضرورت کے تہت یا خدیجہ بیگم کے زیادہ اسرار پر ہی انکے گھر آتا تھا 

"وعلیکم اسلام میرا بچہ آیا ہے" خدیجہ بیگم نے اپنی جگہ سے اٹھ کر خوشی سے اسکے قریب جا کر اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر خود سے لگا لیا 

"جی وہ امی نے یہ بھجوایا تھا" حماد نے اپنے ہاتھ موجود شابر خدیجہ بیگم کی طرف بڑھایا 

"اچھا ہوا جو آگئے میں نے تمہاری پسندیدہ سبزی بنائی ہے کھا کر جانا" 

"نہیں ممانی جان بہت شکریہ ابھی ہاسپٹل جانا ہے پھر کبھی سہی" 

"اچھا رکو میں پیک کرکے دے دیتی ہوں" خدیجہ بیگم جلدی سے کچن میں چلی گئی جنت نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا گندمی رنگت والا وہ پرکشش مرد اسکی ماں کو بہت پسند تھا لیکن اسے وہ بلکل نہیں پسند تھا اسے ناپسند کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ بچپن سے ہی اس شخص کا نام اس کے ساتھ جوڑا جاتا تھا 

اسکی ماں نے اسے ہمیشہ کومپرومائس کرنا ہی سکھایا تھا اور بھلے شادی سے پہلے کی اس کی زندگی جیسے بھی گزر گئی لیکن شادی کے بعد کی زندگی وہ بہت پرسکون چاہتی تھی اور اسے پتہ تھا کہ حماد جیسے بندے کے ساتھ رہ کر اسے ہمیشہ صرف سمجھوتا ہی کرنا ہوگا جو کہ اسے بلکل منظور نہ تھا اسے زندگی میں ایسا شخص چاہیے تھا جو اس کی ہر خواہش کو پورا کرسکے اور وہ حماد تو بلکل نہیں ہوسکتا تھا   

"اوے بات سنو یہ جو روز نیا شوشا اٹھتا ہے نہ میں اس سے تنگ آچکی ہوں" جنت نے منہ بنا کر اسے دیکھتے ہوے کہا جس پر حماد نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا 

"یہی جنت اور حماد کی شادی، میں تو تنگ آگئی ہوں ان سب باتوں سے" 

"تو منع کردو "حماد نے اسے مخلصانہ مشورہ دیا سچ تو یہی تھا کہ اسنے بھی کبھی جنت کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا لیکن یہ اس کی امی کی خواہش تھی کہ اکلوتے بھائی کی بیٹی لونگی اور اسنے اپنی ماں کی کبھی کوئی بات نہیں ٹالی تھی 

"کرچکی ہوں لیکن میری کوئی سنتا کب ہے ایک بار تم ٹراے کردو پلیز "جنت نے منت بھرے لہجے میں اسے دیکھتے ہوے کہا

"میں بڑوں کے فیصلوں پر ہی راضی رہتا ہوں ان کا جو میرے لیے فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہے" اس کی بات کے جواب میں اس سے پہلے جنت کچھ کہتی حماد کچن میں چلا گیا اور جنت دل میں اسے کتنے ہی ناموں سے نواز چکی تھی 

◽◽◽◽◽

اپنے فون پر دائم کی کال دیکھ کر وہ دوسری طرف آچکا تھا جہاں سٹوڈنٹ کا رش کافی کم تھا وہ اس وقت کالج فنکشن میں گیسٹ کے طور پر آیا ہوا تھا

وہ باتوں میں مصروف تھا جب ایک سفید آنچل اڑتا ہوا اسکے مظبوط شانے سے لے کر اسکے چہرے پر آچکا تھا 

مصطفی نے اس سفید ڈوپٹے کو اپنے چہرے سے ہٹایا جب نظر سامنے کھڑے وجود پر پڑی اور جیسے پلٹنا بھول گئی جہاں سامنے ہی وہ سنہری سہمی آنکھوں والی گڑیا کھڑی تھی بالوں کو چٹیا میں قید کیا ہوا تھا جبکہ چند آوارہ لٹے بار بار اسکے چہرے کو چھو رہی تھیں سفید فراک کے ساتھ اسنے اپنے دونوں کندھوں پر شال ڈالی ہوئی تھی اور سنہری نظریں مصطفی کی طرف اٹھی ہوئی تھیں یقینا یہ سفید ڈوپٹہ اسی کا تھا جسے ایک انجان سے لینے کی اس میں ہمت نہیں ہورہی تھی کچھ دیر اپنی جگہ پر کھڑے رہ کر وہ الٹے قدم اٹھاتی ہوئی اسکی نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی اور اسکے جانے کے بعد مصطفی کتنی دیر تک اپنے ہاتھ میں موجود اسکا سفید ڈوپٹہ دیکھتا رہا جب پیچھے کسی نے اسکے مظبوط شانے پر ہاتھ رکھا اپنی سوچوں سے نکل کر مصطفی نے مڑ کر دیکھا جہاں انگلش کے ٹیچر کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے 

"مسٹر شیرازی آپ کو پرنسپل سر ڈھونڈ رپے ہیں" سر کی بات سن کر اسنے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی اور انکے ساتھ دوسری طرف چلا گیا 

سر پر سلیقے سے ڈوپٹہ جماے وہ چاے کی ٹرے اٹھا کر لاؤنج میں چلی گئی جہاں روزانہ مولوی الیاس صبح کی نماز کے بعد اسکے ہاتھ کی چاے پیتے تھے

اسنے سلام کرکے ٹرے انکے سامنے رکھ دی جس کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوے اسکے سلام کا جواب دیا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیر دیا 

"نماز پڑھ لی بچے" الیاس صاحب نے چاے کے کپ کو اٹھاتے ہوے اس سے پوچھا جس کے جواب میں اسنے مسکراتے ہوے اپنا سر ہلا دیا مولوی الیاس کے دو بچے تھے اور وہ دونوں ہی نماز کے پابند تھے اور یہ عادت بھی انہیں الیاس صاحب نے ہی ڈالی تھی ان کے گھر کا ہر فرد فجر کے وقت اٹھ جاتا تھا 

کنیز بیگم اور احمر کمرے میں داخل ہوے دعا انکی چاے کے کپ ٹیبل پر رکھ کر ٹرے اٹھاے کچن کی جانب چلی گئی 

"جی کہیے کیا بات کرنی تھی آپ نے ابو جان" احمر نے الیاس صاحب کو دیکھتے ہوے کہا 

"میرے ایک دوست ہیں تو وہ دعا کے لیے اپنے بیٹا کا رشتہ لانا چاہ رہے تھے" 

"لیکن الیاس صاحب دعا تو ابھی چھوٹی ہے" کنیز بیگم نے تھوڑا جھجھکتے ہوے کہا 

"کہاں چھوٹی ہے ماشاءاللہ کچھ وقت میں اٹھارہ کی ہوجاے گی اور لڑکیوں کی اتنی عمر میں شادی کردینی چاہیے" الیاس صاحب نے وضاحت سے انہیں دیکھتے ہوے کہا 

"لیکن ابو جان ایک بار دعا سے تو پوچھ لیجیے" احمر نے باپ کی طرف دیکھتے ہوے کہا 

"ہمیں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں پتہ ہے کہ جو ہمارا فیصلہ ہوگا ہماری بیٹی اسی میں راضی ہوگی" 

"لیکن ابو جان ابھی اسکی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی ہے-----" احمر نے ایک بار پھر کوشش کی 

"چند ماہ بعد اسکی بارویں مکمل ہونے والی ہے اور اتنا کافی ہے ویسے بھی لڑکیوں کو اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرنا سیکھنی ہے تو گھرداری سیکھیں اور ویسے بھی ہم نے کونسا ہاں کردی ہے پہلے ہم اچھے سے چھان بین کرینگے اور پھر ہی کوئی فیصلہ کرینگے دعا جان ہے ہماری ایسے ہی تھوڑی نہ کسی کے بھی ساتھ اسے رخصت دینگے" 

"ابو جان اگر دعا پڑھنا چاہے گی تو میں کسی کی نہیں سنوں گا میں اسے ضرور پڑھاونگا اور جہاں تک اسکی رشتے کی بات ہے تو میں اس میں بھی یہی کہونگا کہ پہلے دعا سے اس بارے میں بات کی جاے کہ وہ اس سب کے لیے تیار ہے یا نہیں" احمر نے الیاس صاحب کو دیکھتے ہوے کہا جو اب اپنی جگہ سے اٹھ رہے تھے 

"دیکھ لینا احمر میری بیٹی میری بات کبھی نہیں ٹالے گی" الیاس صاحب اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلے گئے

 جبکہ کچن میں کھڑی دعا انکی بات سن کر مسکرادی اسے بھائی کا اسکے لیے آواز اٹھانا اسے اچھا لگا تھا

باپ کے لہجے میں اپنی لیے موجود فخر دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی تھی 

اسے شادی جیسی زمیداری ابھی نہیں اٹھانی تھی لیکن یہ اسکے باپ کی خواہش تھی جسے وہ کبھی بھی ٹال نہیں سکتی تھی 

◽◽◽◽◽

اسکے ہاتھ میں اس وقت وہی سفید ڈوپٹہ موجود تھا جو اسے کالج میں اس لڑکی کا ملا تھا دماغ میں وہی سنہری آنکھیں گھوم رہی تھیں 

اپنی سوچو میں گم اسے گھر پہنچنے کا بھی پتہ نہیں چلا گیا

 گاڑی شیرازی مینشن میں داخل ہوئی جب ڈرائیور کے بلانے پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا اور مظبوط قدم اٹھاتا اندر کی جانب بڑھ گیا لیکن اندر داخل ہوتے ہی اسکے قدم رک چکے تھے

 کیونکہ اندر ثاقب بےچینی سے بیٹھے ہوے تھے سامنے موجود ٹیبل پر چند گفٹ بیگ اور پھولوں کا گلدستہ رکھا ہوا تھا مصطفی کو دیکھ کر وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوے 

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں" اسکے اکھڑے ہوے لہجے کو دیکھ کر ثاقب بات شروع کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈنے لگے 

"وہ ، وہ یارم کی سالگرہ ہے نہ تو اس سے ملنے آیا تھا "ثاقب سے نے اپنی بات کہی 

"پہلی بات یارم کی سالگرہ آج نہیں دو دن بعد ہے اور دوسری بات وہ یہاں نہیں ہے" انداز میں ابھی بھی بےرخی تھی

"تو کیا میں تم سے نہیں مل سکتا" ثاقب نے بےبسی سے اسے دیکھتے ہوے کہا وہ تھک چکے تھے ہر بار اپنے ہی بیٹے سے بہانے بنا بنا کر ملنے پر 

"نہیں" ایک لفظی جواب ملا 

"مصطفی تم مانو یا نہ مانو میں باپ ہوں تمہارا لوگوں کو خوشی ہوتی ہے جب انکی اولاد کامیاب ہوتی ہے مگر مجھے تمہاری ہر کامیابی پر دکھ ہوتا کیونکہ تمہاری ہر کامیابی پر مصطفی ثاقب خواجہ کے بجاے مصطفی شیرازی لکھا نظر آتا ہے" بولتے بولتے انکی آواز رندھ چکی تھی مصطفی نے بنا انکی بات کا جواب دیے خانسامہ کو آواز دی جو اسکی اسکی سنتے ہی بھاگتا ہوا وہاں حاظر ہوا 

"جی صاحب" خان سامہ نے ادب سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"ہمارے مہمان کے لیے اچھا سا کھانا بناؤ کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہیے" مصطفی کی بات سن کر خان سامہ اپنا سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا جب مصطفی نے دل جلاتی مسکراہٹ سے ثاقب کو دیکھا 

"اپنے یہ تحفے واپس لے جایے گا اور کھانا کھا کر جایے گا میرے نانا کہتے تھے کہ مہمان کی ہمیشہ اچھی مہمان نوازی کرنی چاہیے" اپنی بات کہہ کر اسنے ملازم کو آواز دی

"جب ثاقب خواجہ یہاں سے چلے جائیں تو مجھے بتا دینا" اپنی بات مکمل کرکے وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہاں سے چلا گیا جبکہ ثاقب کتنی دیر تک بےبسی سے اسکی پشت کو دیکھتے رہے 

◽◽◽◽◽

"صائم شہیر کہاں ہے" پورے گھر میں دیکھنے کے بعد بھی جب شہیر اسے نہ ملا تو اسنے پریشانی سے سکون سے بیٹھے صائم سے پوچھا 

"ہاں اسے چاہت کی یاد آرہی تھی تو میں اسے حسین انکل کے گھر چھوڑ کر آگیا" 

"تو تم مجھے بتابھی تو سکتے تھے" 

"مسٹر دائم سلطان بتایا تھا لیکن آپ تو آج کل پتہ نہیں کس لڑکی کے خیالوں میں کھوے ہوے ہیں" صائم نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوے کہا جو اسکی بات سن کر ہڑبڑا کر وہاں سے جانے لگا جیسے اسے ڈر ہو کہ اسکی چوری نہ پکڑی جاے لیکن سامنے بھی صائم سلطان تھا وہ فورا سے اسکے راستے میں آگیا

"کیا چل رہا ہے بھیا جی سچ سچ بتاؤ ارے اگر پیار ہوگیا تو اس میں چھپانے والی کونسی بات ہے اچھا ہے کرو شادی تیس کے ہوچکے ہو" اسکی بات سن کر دائم نے گھور کر اسے دیکھا 

"ایسے مت دیکھو بتاؤ کون ہے" 

"میں نہیں جانتا صائم بس جب سے اسے دیکھا ہے دل ہر چیز سے اچاٹ ہوچکا ہے بس دل چاہتا ہے کہ وہ میرے سامنے ہو اور میں اسے دیکھتا رہوں"

اپنے دل کی بات کہتے ہوے وہ دوبارہ اسکے خیالوں میں کھو چکا تھا بار بار لبوں کے نیچے کا وہ تل اسے یاد آرہا تھا

"اوے ہوے یار کیا بات ہے نام کیا ہے" 

"پتہ نہیں" 

"والد کا نام "

"پتہ نہیں" 

"رہتی کہاں ہے" اب کی بار صائم نے تنگ آکر کہا لیکن جواب پھر وہی ملا 

"پتہ نہیں" 

"کچھ پتہ بھی کہاں سے ڈھونڈو گے اسے اگر شادی شدہ ہوئی تو کیا کرو گے" 

"پتہ نہیں" جواب اب بھی وہی تھا لیکن اس بار لہجے میں بےچینی تھی یہ تو اسنے سوچا ہی نہیں تھا 

"فکر مت کر میرے بھائی میرے مشورے پر چلو بس، اگر شادی ہونے والی ہو تو اس دن اسے اسکے گهر سے اٹھا لینگے اور اگر منگنی شدہ ہوئی تو منگنی تو ٹوٹ بھی جاتی ہے اور اگر شادی شدہ ہوئی تو دن میں پتہ نہیں کتنے لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں" صائم اپنے نادر خیالات اسے بتارہا تھا

"استغفراللہ ، اپنے نادر خیال اپنے پاس ہی رکھو" 

"اچھا تو پھر کیسے ڈھونڈو گے اسے" صائم نے اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

"اگر وہ میرے نصیب میں ہوئی تو وہ جہاں بھی ہوگی میرا اللہ مجھے اس سے ملا دے گا "نرم لہجے میں کہتے ہوے وہ وہاں سے چلا گیا

◽◽◽◽◽ 

"میم یہ فائل" مسکان نے اپنے ہاتھ میں موجود فائل کو چاہت کی طرف بڑھاتے ہوے کہا 

"ہاں اس پر آصف انکل کے سائن چاہیے تھے ڈرائیور سے کہو کہ گاڑی نکالے میں خود ان کے آفس جارہی ہوں اسی بہانے ان سے ملاقات بھی ہوجاے گی اور تم انکے آفس فون کرکے میرے آنے کا بتادو" اپنا ضروری سامان اٹھا کر مسکان کو ضروری ہدایت دیتی ہوئی وہ آفس روم سے نکل گئی

◽◽◽◽◽

اسے یہی لگا تھا کہ اس لڑکی کے بارے میں وہ جو کچھ بھی سوچ رہا ہے وہ صرف وقتی اٹریکشن ہے لیکن جب کافی دنوں بعد بھی دل کی حالت نہیں بدلی تو اسے مجبورا کالج آنا پڑا اور اس وقت بھی وہ پرنسپل سر کے سامنے کھڑا انکا دماغ کھا رہا تھا

"مسٹر شیرازی مجھے کیا پتہ کہ اس کالج میں کس لڑکی کی آنکھیں سنہری ہیں" پرنسپل سر نے تنگ آکر کہا 

"آپ کو اپنے کالج کی لڑکیوں کا بھی نہیں پتہ" مصطفی نے تھوڑا سختی سے کہا 

"مسٹر شیرازی اس کالج میں نہ جانے کتنی لڑکیاں ہیں مجھے کیا پتہ کس لڑکی کی آنکھیں سنہری ہیں اور آپ نے ہی کہا تھا کہ آپ نے اس لڑکی کو فنکشن والے دن دیکھا تھا تو ضروری تو نہیں کہ وہ لڑکی اس کالج میں پڑتی ہو ہو سکتا ہے وہ لڑکی کسی سٹوڈنٹ سے ریلیٹیڈ ہو" 

"اچھا تو آپ ایسا کیجیے------" مصطفی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی پرنسپل سر اسے ہاتھ اٹھا کر مزید کہنے سے روک چکے تھے

"مسٹر شیرازی اگر اس لڑکی کا تعلق اس کالج سے ہے بھی تو بھی میں آپ کو اس کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤنگا چاہے میرے رابطے آپ کے ساتھ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اس کے علاوہ کوئی مدد کرسکوں تو آپ بتادیجیے" پرنسپل سر نے نرم لہجے میں اسے سمجھاتے ہوے کہا جو اب سرخ چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہا تھا اور پھر بنا کچھ کہے آفس روم سے باہر چلا گیا 

لیکن باہر نظر پڑتے ہی وہ اپنی جگہ رک چکا تھا کیونکہ سامنے وہی سنہری آنکھوں والی گڑیا تھی جو خود ہی کسی بات پر ہنستے ہوے دوسری طرف جارہی تھی 

مصطفی بنا کچھ سوچے فورا اس طرف گیا جہاں وہ گئی تھی وہ کالج کا بیک سائیڈ تھا جہاں اس وقت کوئی سٹوڈنٹ موجود نہیں تھا 

وہ حیرت سے اپنے سامنے موجود لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اپنی آنکھوں سے سنہرے لینسیز اتار رہی تھی مصطفی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا

جن سنہری آنکھوں کا وہ دیوانہ ہوچکا تھا وہ تو حقیقت ہی نہیں تھی 

اپنی سوچو میں گم جنت کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا 

"مسٹر مصطفی شیرازی آپ یہاں آپ کو پتہ ہے کہ آپ سے ملنے کی مجھے کتنی خواہش تھی فنکشن والے دن بھی ملنا چاہتی تھی لیکن آپ کے گارڈز نے ملنے نہیں دیا" جنت ایک ہی سانس میں اس سے باتیں کرے جارہی تھی جبکہ اسے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا ایسا کوئی احساس اسے نہیں ہورہا تھا جو اس لڑکی کو پہلی بار دیکھ کر ہوا تھا مصطفی بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا اور جنت اسے پکارتی رہ گئی ابھی تو اسے اپنے ہاتھ پر اسکا سائن لے کر پوری کلاس کو دکھانا تھا کہ "مصطفی شیرازی"سے اسکی ملاقات ہوئی تھی

◽◽◽◽◽

وہ اس وقت شہیر کے لیے کچھ ضروری چیزیں لینے آیا تھا جتنا ہوسکتا تھا وہ اپنے آپ کو کام میں مصروف کررہا تھا لیکن وہ لڑکی تو جیسے اسکےدل و دماغ پر ایسا قبضہ ڈال چکی تھی جس میں وہ شاید ہمیشہ رہنے والا تھا اس لڑکی کو بھلانے کے لیے ہی تو وہ اپنے آپ کو مصروف کررہا تھا لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ جس سے دور بھاگ رہا ہے وہی پاس آکر دل کی دھڑکن روک دے گی شوپ سے باہر نکلتے ہی اسکی نظر سامنے کھڑی اس حسینہ پر پڑی جس کے خیالوں سے وہ پیچھا چھڑانے کی کوشش کررہا تھا 

اسکے ساتھ ایک عورت کھڑی تھی جو مسکراتے ہوے رکشے والے سے بات کررہی تھی اور اس عورت اور رکشے والے کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس عورت کی رکشے والے سے اچھی جان پہچان ہے جبکہ وہ حسینہ بےزاریت سے کھڑی انکے بات ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی 

اس کے رکشے میں بیٹھتے ہی وہ فورا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر انکا پیچھا کرنے لگا 

لیکن جس راستے پر وہ رکشہ جارہا تھا اسکا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا تو کیا جو لڑکی اسکے دل میں بس چکی تھی اسکا تعلق ایک ایسی جگہ سے تھا ایک خیال اسکے زہہن میں گردش ہوا لیکن پھر اپنے خیال کو جھٹک کر وہ اس راستے پر جانے لگا جس راستے پر وہ لڑکی جارہی تھی دل سے یہی دعا نکلی کہ وہ جیسا سمجھ رہا ہے ویسا نہ ہو 

لیکن ضروری تھوڑی کہ ہر دعا قبول ہو وہ لڑکی اس جگہ بنے ایک بڑے سے مکان میں چلی گئی 

اور دائم سلطان کو اپنا دل ٹکڑوں میں بٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا وہ بچہ نہیں تھا جسے یہ بھی نہ پتہ ہو کہ یہ جگہ کیسی ہے اور اس میں رہنے والے لوگ کیسے ہیں

"کیا ہے کیوں اتنی دیر سے گھور رہی ہو "ساریہ نے اسے دیکھتے ہوے کہا جو اتنی دیر سے غصے سے اسے گھور رہی تھی

"تو کیا مجھے غصہ نہیں کرنا چاہیے تمہاری وجہ سے مس نے ہمیں کلاس سے باہر نکال دیا" دعا نے غصے سے اسے دیکھ کر اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا کلام روم میں ساریہ نے الٹی سیدھی حرکتیں کریں جس میں اسکے ساتھ ساتھ دعا کا نام بھی آچکا تھا اور ٹیچر غصے سے انہیں کلاس سے باہر نکال چکی تھی اور جب سے دعا غصے سے اپنی اکلوتی دوست کو گھور رہی تھی 

"ارے یار تمہیں نہیں پتہ کیا ، آج میرا برتھ ڈے ہے اور میں تمہیں اپنے ساتھ باہر لے کر جانا چاہتی ہوں اسلیے یہ سب کیا"

"اور تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ چلی جاؤنگی" 

"ہاں بلکل "ساریہ نے یقین سے اسے دیکھتے ہوے کہا

"جی نہیں اگر تمہیں مجھے لے کر جانا ہے تو ابو سے اجازت مانگنی ہوگی" 

"اور تمہیں لگتا ہے کہ میرے اجازت مانگنے پر وہ کہینگے کے جاؤ بیٹا لے جاؤ دعا کو" 

"میں تو ایسے نہیں جاؤنگی اگر ابو جان کو پتہ چل گیا تو" دعا نے ڈرتے ہوے کہا

"ارے یار کچھ نہیں ہوگا کلاس ختم ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی ہے میرے پاس پیسے ہیں ہم گارڈ کو دے دینگے اور وہ دروازہ کھول دے گا اور ہم یہ کلاس ختم ہونے تک واپس آجائینگے" 

"نہیں ، میں نہیں جاؤنگی میں تو مس سے سوری کررہی ہوں اور مجھے پتہ ہے تھوڑی بار سوری بولنے پر ہی مس کلاس میں بلالینگی" دعا کہتی ہوئی اپنی کلاس میں جانے لگی جب ساریہ نے اسکی نازک کلائی پکڑ لی 

"دیکھو دعا تمہیں ہماری دوستی کی قسم آج تو تمہیں چلنا ہی پڑے گا ہر بار ٹال دیتی ہو اور فکر مت کرو تمہارے ابو جان کو پتہ نہیں چلے گا" 

اسکے بہت بار کہنے پر دعا ڈرتے ڈرتے ہاں کہہ چکی تھی

"لیکن جلدی آجائینگے" 

"ہاں بابا اب پہلے چل تو لیں" ساریہ خوشی سے اسے لے کر وہاں سے چلی گئی

◽◽◽◽◽

اسنے حیرت سے ہر طرف دیکھا تقریبا ساری بلڈنگ خالی تھی صرف چند افراد ہی تھے گارڈ اور ریسیپشن پر بیٹھی ایک لڑکی جو ہنس ہنس کر کسی سے فون پر بات کررہی تھی اور چند ایک ورکرز جو کہ جارہے تھے 

وہ اپنے قدم اٹھاتی اوپر کی جانب چلی گئی لیکن اوپر کوئی بھی موجود نہیں تھا اور وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اگر یہاں کوئی موجود نہیں تھا تو ریسیپشن پر بیٹھی اس لڑکی نے اسے بتایا کیوں نہیں  

وہ واپس جانے کے لیے مڑی جب پیچھے سے آتی آواز پر اسنے چونک کر دیکھا جہاں فرید کھڑا مسکراتے ہوے اسے ہی دیکھ رہا تھا

"ملے بغیر جارہی تھیں چاہت ڈارلنگ مجھے تو جیسے ہی فون آیا تمہارے آنے کی خوشی میں سب کو چھٹی دے دی میں نے، مانا کہ تم ڈیڈی سے ملنے آئی تھیں لیکن وہ تو نہیں ہیں تم مجھ سے مل لو" اسکی باتیں سن کر چاہت کو خوف محسوس ہورہا تھا مسٹر آصف اور حیسن صاحب بہت اچھے دوست تھے 

مسٹر آصف کے لیے چاہت بلکل انکی بیٹی کی طرح تھی لیکن انکے بیٹے فرید نے اسے کبھی بہن کی طرح نہیں مانا تھا وہ ہمیشہ اسے عجیب نظروں سے دیکھتا تھا اور وہ اس بارے میں حسین صاحب کو بتایا چاہتی تھی لیکن پھر ہمیشہ یہ سوچ کر رک جاتی کہ کہیں اس بات کی وجہ سے حسین صاحب اور مسٹر آصف کی دوستی خراب نہ ہوجاے لیکن آج اسے اپنی یہ سب سے بڑی غلطی لگ رہی تھی دماغ خطرے کا سائرن دے رہا تھا وہ بنا دیر کیے مڑ کر جانے لگی جب پیچھے کھڑے شخص سے ٹکر ہوئی لیکن گرنے سے پہلے ہی وہ شخص اسکے بازو تھام کر اس سمبھال چکا تھا 

چاہت نے خوف سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا 

"یہ میرا دوست ہے فلک تم سے ملنے کی بہت خواہش تھی اسے سوچا آج پوری کرودوں" فرید نے چاہت کے سامنے کھڑے شخص کو دیکھتے ہوے کہا جس کی نظریں تو بس اسکے معصوم چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں 

چاہت نے زور سے اسے دھکا دیا اور فورا وہاں سے بھاگ گئی باہر کے راستے پر وہ ویسے بھی نہیں جاسکتی تھی کیونکہ فلک اسی طرف کھڑا تھا اس وقت چھپنے کی اسے بس ایک ہی جگہ نظر آئی اور وہ ایک ٹیبل کے نیچے چھپ گئی چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا اور دل میں بس وہ اللہ کو یاد کررہی تھی 

اسنے اپنا فون نکال کر حسین صاحب کو کال ملائی دو بار ملانے پر بھی جب انہوں نے فون نہیں اٹھایا تو چاہت نے یشب کا نمبر ملالیا جو ایک دوسری ہی بیل پر اٹھا لیا تھا یشب نے فون اٹھاتے ہی اسے سلام کیا جب کانوں میں اسکی ہلکی گھبرائی ہوئی آواز پڑی 

"یشب پلیز مجھے بچالو" 

"میم کیا ہوا ہے، کہاں ہیں آپ" اسکی گھبرائی ہوئی آواز سن کر یشب بھی پریشان ہوچکا تها 

"م-یں آ-آصف انکل کے آفس میں ہوں ت-تم پلیز جلدی آجاؤ" 

"آپ فون آن ہی رکھیے گا میں آرہا ہوں" یشب پریشانی سے آفس سے باہر نکلتے ہوے کہہ رہا تھا جب چاہت کی چیخ اسکے کانوں میں پڑی اور فون بند ہوگیا اسکی چیخ سن کر دل اور بےچین ہوچکا تھا وہ بنا دیر کیے گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی کی سپیڈ تیز کردی 

یہ گاڑی اسے آفس کی طرف سے ملی تھی

پندرہ منٹ کا راستہ اسنے پانچ منٹ میں طے کیا تھا 

◽◽◽◽◽

"آپ فون آن ہی رکھیے گا میں آرہا ہوں" یشب کی بات سن کر اسکے دل کو تسلی ملی اب بس وہ خدا سے یہی دعا کررہی تھی کہ یشب جلد سے جلد یہاں پہنچ جاے جب فلک نے اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے ٹیبل کے نیچے سے نکال لیا چاہت نے گھبرا کر اسے زور سے دھکا دیا جس کی وجہ سے اسکا سر پیچھے لگی سینری پر لگ چکا تھا پیشانی سے چوٹ لگنے سے ہلکا سا خون نکل چکا تھا اور اب فلک اسے خوفناک نظروں سے گھور رہا تھا اسکے برابر میں ہی فرید کھڑا تھا 

ڈر کی وجہ سے وہ پیچھے دیوار سے لگ چکی تھی 

"یہ تو بہت بہادر ہے فرید دیکھ میرا خون نکال دیا" فلک نے اپنے برابر کھڑے فرید کو دیکھتے ہوے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کیا اور اپنا بھاری ہاتھ چاہتا کی طرح بڑھانے لگا چاہت نے ڈر کی وجہ سے زور سے اپنی آنکھیں میچ لیں لیکن کچھ نہ محسوس ہونے پر اپنی آنکھیں کھول لیں جہاں فلک کا بڑھتا ہاتھ یشب بیچ میں ہی روک چکا تھا اور اب انتہائی غصے سے اسے گھور رہا تھا 

اسے دیکھتے ہی چاہت نے خدا کا شکر ادا کیا 

"کون ہے بھئی تو اور یہاں کیا کررہا ہے" فرید نے غصے سے آگے بڑھ کر کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی یشب اسے اپنے قبضے میں لے چکا تھا اسے زمین پر پھینکتے ہوے یشب اسے اپنی پیروں سے مارنے لگا 

فلک نے آگے بڑھ کر اسے بچانا چاہا جب یشب نے اسے بھی مارنا شروع کردیا مار مار کر یشب انہیں کافی حد تک زخمی کرچکا تھا انکا حالت کافی بری تھی لیکن یشب کے سر پر جیسے خون سوار تھا اس وقت کوئی وہاں تھا بھی نہیں جو انہیں بچا پاتا یشب نے مڑ کر چاہت کو دیکھا جو خوفزدہ سی کھڑی تھی اسکے مڑ کر دیکھنے پر چاہت فورا بھاگ کر اسکے قریب آکر اسکے سینے سے لگ گئی وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا یشب کا ارادہ اسے خود سے دور کرنے کا تھا لیکن اسکے کانپتے وجود کو دیکھ کر اس تسلی دینے لگا 

اسنے چاہت کے گرد اپنا حصار نہیں باندھا تھا بھلا وہ کیسے اس لڑکی کو چھو سکتا تھا وہ اسکے لیے غیر تھی 

"میم آپ ٹھیک ہیں چلیے" یشب نے اپنے سینے سے لگی چاہت سے کہا لیکن اسکے کچھ نہ کہنے پر اسکے کندھے کو اپنی انگلیوں سے چھو کر اسے پیچھے ہٹایا 

لیکن اس سے پہلے اسکا وجود زمین بوس ہوتا یشب فورا سے اسے تھام چکا تھا اسے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ چاہت بےہوش ہوچکی تھی یشب اسے زمین پر لٹا کر اس کے ہاتھ سہلانے لگا لیکن کوئی فرق نہ پڑے پر اسے چاہت کا وجود اپنے بازووں میں اٹھانا پڑا اور اسکا وجود گاڑی میں لٹا کر گاڑی تیزی سے ہاسپٹل کی طرف بڑھادی 

◽◽◽◽◽

"مجھے کچھ نہیں کھانا" اسنے ساریہ کو ٹوکتے ہوے کہا جو ایک اسٹال پر کھڑی ہوکر اسکے اور اپنے لیے دو سینڈوچ کا کہہ رہی تھی 

"ارے کیوں نہیں کھانا میں کھلا رہی ہوں نہ اپنی برتھ ڈے کی خوشی میں اور صرف تمہاری وجہ سے انڈے والا سینڈوچ لیا ہے  ورنہ بغیر انڈے والا تیس کا ہے "ساریہ نے اسکے گال کو کھینچتے ہوے کہا 

انہیں ابھی کالج سے باہر آے ہوے دس منٹ ہی ہوے تھے اور اس میں بھی دعا ڈر کی وجہ سے اسے واپس چلنے کا کہہ کر اسکا دماغ کھا چکی تھی اسلیے ساریہ نے اسکے لیے وہ سینڈوچ لے لیا تاکہ اسکا دیھان اپنے ابو سے تھوڑا دور ہوجاے 

لیکن یونیفارم کی پوکیٹ میں ہاتھ ڈال کر اسے گہرا صدمہ لگا اسکے پیسے ختم ہوچکے تھے اور اب اسے یاد آرہا تھا کہ آج تو وہ پیسے بھی کم لائی تھی اور جو لائی تھی وہ بھی دعا کے ساتھ چلنے کی خوشی میں سارے پیسے گارڈ کو دے چکی تھی 

اسنے ایک نظر دعا کو دیکھا جو چھوٹے چھوٹے نوالے لے کر اپنا سینڈوچ کھا رہی تھی اس وقت تو اسے یہی بہتر لگا کہ وہ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر چلی جاے اور جب دعا سینڈوچ کے پیسے دے دے تو وہ واپس آجاے گی کیونکہ اگر ابھی اس نے دعا سے پیسے مانگنے کا کہا تو غصہ تو ہوگی ساتھ ناراض بھی ہوجاے گی جو کہ وہ بلکل افورڈ نہیں کرسکتی تھی 

"دعا تم یہیں رکو میں اس والی دکان سے کولڈ رنک لا رہی ہوں" 

"تم مجھے چھوڑ کر جارہی ہو" دعا نے گھبرا کر اسے دیکھا 

"ارے نہیں بس بوتل لینے جارہی ہوں"

"ہاں تو میں بھی ساتھ چلتی ہوں" 

"ارے رکو مجھے سینڈ وچ کے ساتھ پینی ہے بس دو منٹ میں آرہی ہوں پھر یہیں بیٹھ کر کھائینگے" ساریہ جلدی سے کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی کہیں دعا کچھ اور نہ کہہ دے جبکہ دعا کی نطریں بس ساریہ پر تھیں جیسے اسے ڈر ہو کہ اگر وہ نظریں ہٹاے گی تو ساریہ غائب ہوجاے گی 

"بیٹا پیسے" سامنے کھڑے آدمی نے دعا کو دیکھتے ہوے کہا جو سینڈوچ بنا رہا تھا دعا نے ایک نظر اسے دیکھ کر واپس نظریں ساریہ کی طرف گھمادی لیکن اب وہاں ساریہ نہیں تھی وہ پریشان سے نظریں دوڑاتی ساریہ کو ڈھونڈنے لگی  

جبکہ پیڑ کے پیچھے چھپی ساریہ انتظار کررہی تھی کہ دعا اس سینڈوچ والے کو پیسے دے دے تاکہ وہ واپس وہاں جاسکے 

"بیٹا پیسے" آدمی نے پھر اسے پکارا 

"انکل میری دوست پتہ نہیں کہاں چلی گئی پیسے تو اسے دینے تھے "دعا نے معصومیت سے کہا جبکہ گھبراہٹ چہرے پر واضح تھی اسے پیسوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنے ابو جان یا احمر سے کہہ کر منگوا لیتی اور اس لیے کالج بھی وہ صرف پچاس روپے رکھ کر لاتی تھی اور اس وقت بھی اسکے پاس صرف پچاس روپے ہی تھے 

"مجھے نہیں پتہ کہاں گئی تمہاری دوست میرے اسسی روپے دو مجھے" آدمی نے اب کی بار تھوڑا سختی سے کہا 

"میرے پاس تو پچاس روپے ہی ہیں آپ وہ پچاس روپے لے لیجیے اور یہ سینڈ وچ بھی لے لیجیے میں نے تو آدھا ہی کھایا ہے "دعا نے اپنی آدھا بچا ہوا سینڈوچ اسکی طرف بڑھاتے ہوے کہا اسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ابھی رودے گی 

"دیکھو لڑکی میرے پورے پیسے دے دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا" آدمی نے غصے سے اسے گھورتے ہوے کہا 

ایک آنسو دعا کی آنکھ سے بہہ نکلا ہر کوئی اس سے پیار سے بات کرتا تھا غصہ کیسے برداشت کرتی 

اپنا آدھا بچا ہوا سینڈوچ اسٹال پر رکھ کر وہ وہاں سے بهاگ گئی اسنے مڑ کر دیکھا وہ آدمی اسکے پیچھے آرہا تھا دعا وہاں کھڑی گاڑی کے پیچھے چھپ گئی 

اسے رونا آرہا تھا اسے ساریہ کی بات ہی نہیں ماننی چاہیے تھی

"کون ہو تم" ایک شخص اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا دعا گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی سینڈوچ والا بھاگ کر اسکے قریب آگیا اسے قریب آتا دیکھ دعا اس شخص کے پیچھے چھپ گئی

"لڑکی پیسے دو" 

"کیا ہورہا ہے یہ" یارم نے سختی سے اس آدمی کو دیکھتے ہوے کہا 

"اس لڑکی نے اور اسکی دوست نے سینڈوچ کھا لیا اور پیسے نہیں دیے" 

"کتنے پیسے ہیں" یارم نے اپنی ناک تک آتا ماسک اتار کر اسے دیکھا اسکا چہرہ دیکھتے ہی سینڈوچ والے کے چہرے پر حیرت و خوشی کے تاثرات نمودار ہوے  

"سر آپ" 

"پیسے کتنے ہوے" اس کی بات کاٹ کر یارم نے سختی سے کہا 

اسسی روپے لہجے میں ابھی بھی خوشی تھی یارم نے اپنے والٹ سے پان سو کا نوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھادیا 

"سر وہ ایک "سینڈوچ والے نے خوشی سے اسے دیکھتے ہوے کہا ارادہ اس کے ساتھ ایک سیلفی لینے کا تھا لیکن یارم شیرازی کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اسکی غصیلی نظریں اور تاثرات دیکھ کر سینڈوچ والا اپنا ارادہ بدل کر وہاں سے چلا گیا 

یارم اپنے پیچھے کھڑی لڑکی کی طرف مڑا 

"آپ فکر مت کیجیے میں آپ کو پیسے دے دونگی آپ کل کالج میں آکر مجھ سے لے لیجیے گا" دعا نے اپنا آنسو سے تر چہرہ صاف کرتے ہوے کہا 

"جب پیسے نہیں تھے تو پھر کچھ کھانے کی کیا ضرورت تھی"

"میری غلطی نہیں ہے پہلے تو میری دوست زبردستی مجھے کالج سے نکال کر یہاں لائی اور پھر جب پیسے دینے کی باری آئی تو وہ بھاگ گئی" اس وقت دعا اسے کوئی بچی ہی لگ رہی تھی 

"تو اب تو قصہ ختم ہوا نہ تو جاؤ کالج" یارم نے اسکے رونے پر اپنے لہجے کو نرم کیا 

"مجھے راستہ نہیں پتہ" اسنے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑتے ہوے کہا 

"کونسے کالج میں پڑتی ہو آؤ میں چھوڑ دوں" یارم نے دوبارہ اس ماسک سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوے کہا دعا نے عجیبب نظروں سے اسے دیکھا 

"ایسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے خیریت سے کالج چھوڑ دونگا اب چلو" یارم کہتے ہوے اپنی گاڑی کی جانب بڑھنے لگا جب دعا کی آواز اسکے کانوں میں پڑی 

"میں اس میں نہیں جاؤنگی ویسے بھی کالج یہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر ہی ہے" دعا نے اس گاڑی کو دیکھتے ہوے وہ وہ گاڑی تھی جس کے پیچھے وہ چھپی تھی اپنے کندھے اچکا کر یارم اس کالج کی طرف اسے لےجانے لگا جس کا نام دعا نے بتایا تھا

◽◽◽◽◽

یشب کا فون سنتے ہی وہ پریشانی سے ہوسپٹل پہنچے 

"کیا ہوا ہے چاہت کو" حسین صاحب نے گھبراتے ہوے اسے دیکھ کر کہا 

"وہ ڈر کی وجہ سے بےہوش ہوگئی تھیں" یشب انہیں ساری بات بتاچکا تھا جسے سن کر انکا غصے سے برا حال تھا 

"میں اس خبیث انسان کو چھوڑونگا نہیں "حسین صاحب نے غصے میں کہتے ہوے اپنا فون نکالا 

"سر پلیز اس وقت میم کو آپ کی ضرورت ہے آپ ان کے پاس جائیں" یشب نے نرمی سے انہیں سمجھایا 

"تمہارا بہت شکریہ یشب اگر تم نہیں ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا" 

"شکریہ تو اس پاک زات کا کیجیے جس نے بچایا ہے میں تو صرف وسیلہ تھا "یشب نے ایک نظر بیڈ پر سوئی ہوئی چاہت کو دیکھا جو انجیکشن کے زیر اثر سورہی تھی اور وہاں سے چلا گیا حسین صاحب مشکور نظروں سے اسکی پشت کو دیکھتے رہے 

◽◽◽◽◽

اسے کالج کے باہر دیکھتے ہی ساریہ بھاگ کر اسکے پاس آئی 

جس جگہ پر وہ دعا کو لے کر گئی تھی وہ پوری جگہ وہ دیکھ چکی تھی لیکن دعا اسے کہیں نہیں ملی تھی وہ بس خود کو ملامت کررہی تھی اسے دعا کو نہیں لانا چاہیے تھا اور اگر لے آئی تھی تو اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا ساری جگہ پر دیکھ کر بھی جب دعا اسے نہیں ملی تو اسنے یہی سوچا کہ وہ کالج جاکر پرنسپل کو سب بتادے گی پھر جو ہوگا دیکھا جاے گا اسے تو بس دعا کی فکر کھاے جارہی تھی کالج واپس آنے تک وہ اسکی سلامتی کی دعا کرتی رہی جب دعا اسے کالج سے چند قدم کے فاصلے پر نظر آئی 

"کہاں تھی تم" ساریہ نے اسکے قریب آکر اسے خود سے لگا لیا دعا بنا اسکی بات کا جواب دیے کالج کے اندر چلی گئی 

"بہت ہی لاپرواہ لڑکی ہو تم جب اسے ساتھ لے کر گئی تھیں تو زمیداری پوری طرح نبھانی چاہیے تھی" یارم نے سختی سے اسے گھورتے ہوے کہا ساریہ کی بےچینی دیکھ کر وہ یہ اندازہ تو لگاچکا تھا کہ شاید یہی وہ لڑکی ہے جو اُس لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر گئی تھی 

"آپ کون ہیں" ساریہ نے اپنی بھنویں اچکا کر کہا 

"وہی جو تمہاری کھوئی ہوئی دوست کو یہاں تک لایا "یارم نے اپنا ماسک اتارتے ہوے کہا جسے پہنا اسے بلکل پسند نہیں تھا لیکن جب کبھی اکیلے نکلنے یا گھومنے کا موڈ ہوتا تو وہ ماسک لگا کر ہی جاتا تھا 

"یارم سر آپ ہیں میں نے آپ کو پہچانا کیسے نہیں آپ کو پتہ ہے میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں میں نے آپ کے سارے گانے سنے ہیں آپ سے ملنے کی بہت خواہش تھی پر پتہ نہیں تھا کہ کبھی پوری بھی ہوجاے گی پلیز آوٹوگراف دے دیجیے میرے پاس فون نہیں ہے ورنہ آپ کے ساتھ ایک سیلفی لے لیتی" ساریہ ایک ہی سانس میں کہتی جارہی تھی اسکے لہجے سے ہی لگ رہا تھا کہ یارم کو دیکھ کر اسے کتنی خوشی ہوئی ہے 

"دے دونگا لیکن پہلے میری ایک بات کا جواب دو کہ جس طرح تم مجھے دیکھ کر ری-ایکٹ کررہی ہو تمہاری دوست نے کیوں نہیں کیا" یارم نے اپنے زہہن میں چلتے سوال کو ظاہر کیا اسے حیرت ہوئی کہ جس "یارم شیرازی" کو دنیا جانتی ہے بھلا وہ لڑکی اسے کیوں نہیں پہچان سکی 

"کیونکہ وہ آپ کو نہیں جانتی وہ گانے نہیں سنتی اسکے گھر میں ٹی-وی نہیں ہے اور اسکے پاس موبائل بھی نہیں ہے وہ صرف گیم کھیلتی ہے وہ بھی اپنے بھائی کے فون پر" ساریہ اسے تفصیل سے ساری بات بتاچکی تھی جسے سن کر یارم کو کافی حیرت ہوئی

"آج کے زمانے میں بھی کوئی ایسا ہوتا ہے"

"اسکے ابو مولوی ہیں انہیں یہ سب چیزیں نہیں پسند" اسکی بات سن کر یارم اپنے سر کو جنبش دے کر جانے لگا جب ساریہ نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی اسکے سامنے کردی اور اپنے یونیفارم کی پوکٹ سے بلیک پین نکال کر اسے دے دیا 

"میری بات دیھان سے سنو لڑکی تم کسی سے اس بات کا زکر نہیں کروگی کے تم مجھ سے ملی تھیں خاص کر اپنی دوست سے تو بلکل بھی نہیں" یارم نے اسکے ہاتھ پر اپنا سائن کرتے ہوے کہا 

"لیکن،" 

"اور اگر مجھے پتہ چلا کہ تم نے اس بات کا زکر کسی سے بھی کیا ہے تو تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا" ساریہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی یارم اسے وارن کرکے جاچکا تھا 

◽◽◽◽◽

"کیا بات ہے دائم تم پریشان لگ رہے ہو" صائم نے سوچو میں گم دائم کو دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں کوئی بات نہیں ہے"

"اگر تم نہیں بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں" اسکی بات سن کر دائم گہرا سانس لے کر رہ گیا وہ کہاں صائم سے کوئی بات چهپا پاتا تھا

"مجھے وہ ملی" 

"سچ میں" صائم حیرت و خوشی کے تاثرات لیے اسکے قریب آیا 

"پھر اب ہوگیا نہ مسلہ حل تم نے کہا تھا کہ اگر وہ دوبارہ ملی تو یعنی تمہارے نصیب میں ہے" 

"صائم وہ مجھے ریڈ لائٹ ایریا پر ملی" اسکی بات سن کر چند پل خاموش رہنے کے بعد صائم نے گہرا سانس لے کر اسکی طرف دیکھا 

"تو، تم تو اس سے محبت کرتے ہو اور جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسکی محبت کہاں ہو کس حال میں ہو اور اگر تم اسے اس بات پر قبول نہیں کروگے کہ وہ اس لڑکی کا تعلق ایسی جگہ سے ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہ محبت ہے ہو سکتا ہے وہ صرف وقتی اٹریکشن" 

"صائم"اس کی بات مکمل سے پہلے ہی دائم اسکی بات کاٹ چکا تھا

"مجھے اس سے محبت ہے وہ لڑکی میرے دل و دماغ پر قبضہ کرچکی ہے" 

"تو پھر تمہیں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ لڑکی کس جگہ سے ہے کس خاندان سے ہے اور ویسے بھی دائم ضروری تو نہیں ہمیشہ جیسا دکھے ویسا ہی ہو اور کیا پتہ اسے اس جگہ سے نکالنے کے لیے خدا نے تمہیں وسیلہ بنایا ہو جو بھی فیصلہ کرو سوچ سمجھ کر کرنا میں ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں" اسکے کندھے کو تھپتپھا کر صائم اسے گہری سوچو میں چھوڑ کر جا چکا تھا 

سیدھا ہاتھ سر کے نیچے رکھے وہ اس وقت سوچو میں گم تھا اور اس وقت اسکی سوچو پر صرف دعا سوار تھی پہلی بار یارم شیرازی کو کوئی لڑکی خاص لگی تھی

آج تک وہ جس سے بھی ملا تھا تو ہر کوئی اسکی دولت شہرت صورت نام یا رتبے پر مرتا تھا لیکن پہلی بار وہ کسی ایسے انسان سے ملا تھا جو اسے جانتا تک نہیں تھا 

کمرے میں بجتی فون کی آواز نے اسے اپنی سوچو سے باہر نکالا اسنے اپنا موبائل فون اٹھا کر دیکھا جہاں نام دیکھتے ہی اسکے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا 

"ہیلع برادر" یارم نے کال پک کرتے ہی خوش اخلاقی سے کہا 

"واپس آنے کا ارادہ کب تک ہے" دوسری طرف سنجیدہ سی آواز میں کہا گیا 

"کیوں میری یاد آرہی تھی" 

"سچ کہونگا ،واقعی میں یاد آرہی تھی ویسے بھی تمہارے سوا کون ہے میرا" مصطفی نے اداسی سے کہا 

"ایسے تو مت کہو دائم ہے صائم ہے اور سب سے بڑھ کر میرا شیر شہیر ہے" 

"ہاں لیکن یہ بتاؤ تم کب تک آؤ گے پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے اندر کتنی اداسی ہے  "مصطفی نے اداس لہجے میں اپنی بات کہی

"جتنے اداس تم مجھے لگ رہے ہو نہ اس کے لیے میرا تو یہی مشورہ ہے کہ میری بھابھی ڈھونڈ لو" اسکی بات پر چھن سے مصطفی کے زہہن میں وہ سہمی ہوئی سنہری آنکھیں آئیں  

جبکہ اسکی خاموشی دوسری طرف موجود یارم کے لیے کافی حیران کن تھی کیونکہ جب بھی وہ اس طرح کی بات کرتا تھا مصطفی ہمیشہ بات بدل دیتا تھا لیکن آج وہ خاموش تھا

"کہیں واقعی میں تو نہیں ڈھونڈ لی" یارم نے شرارت بھری آواز میں کہا 

"تم بس گھر آؤ" 

"میں اسی شہر میں ہوں فارم ہاؤس پر تھا کل تک گھر آجاؤنگا اور پھر ہم اپنی بھابھی لینے چلینگے"مصطفی نے بنا اسکی بات کا جواب دیے بات بدل دی تھوڑی دیر بات کرکے اسنے فون بند کردیا اور یارم پھر سے دعا کے خیالوں میں کھو گیا ساریہ اپنے پاس موجود اس سے ملنے کی خوشی میں دعا کی آدھی انفارمیشن تو اسے دے چکی تھی

"ایک بار تو تم سے ملنا پڑے گا مس دعا" یارم اپنے خیالوں میں اس سے مخاطب ہوا اور اسے سوچ کر اپنی سریلی آواز میں گانا گانے لگا 

"تو دعا ہے دعا" 

"خواہشوں کی دعا" 

◽◽◽◽◽

"دعا بیٹا آج کالج مت جانا" کنیز بیگم نے ناشتہ کرتی دعا سے کہا دعا انکی بات پر حیرت سے انہیں دیکھنے لگی 

"کیوں امی جان" 

"وہ تمہارے ابو جان کے دوست ہیں تو انکی فیملی آج تمہیں دیکھنے آرہی ہے، بیٹا میں جانتی ہوں کہ تم اس سب کے لیے تیار نہیں ہو" کنیز بیگم نے اسکے گال پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوے کہا

"نہیں امی جان یہ سب تو ابو جان کی مرضی ہے اور میں اس میں راضی ہوں آپ لوگ میرے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کرینگے" دعا نے مسکراتے ہوے اپنا نرم گلابی ہاتھ انکے ہاتھ پر رکھتے ہوے کہا کنیز بیگم نے مسکراتے ہوے اپنی بیٹی کے ماتھے پر اپنا ممتا بھرا لمس چهوڑ دیا 

◽◽◽◽◽

اسکی ساری سوچیں اس وقت یشب کی طرف تھیں اسکا ہر انداز اسے یاد آرہا تھا 

اسے ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ اسکی محبت یک طرفہ ہے لیکن اس دن یشب کا انداز اس پر یہ بات واضح کرچکا تھا کہ اسکی محبت یک طرفہ نہیں ہے سوچو سے گم اسے شہیر کی آواز نے نکالا جو بھاگتے ہو اسکے پاس آرہا تھا

"چاہت پھوپھو" چاہت نے مسکراتے ہوے اسے خود سے لگا لیا اسے پتہ تھا کہ اسکی طبیعت خرابی کا سن کر سب سے پہلے اسکا شہیر ہی آے گا 

"کیسی طبیعت ہے اب تمہاری" دائم نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"بہتر ہوں اور میرا ہیرو آگیا تو اب تو بلکل ٹھیک ہوجاؤنگی" چاہت نے شہیر کی ناک کو کھینچتے ہوے کہا 

"حسین چاچو کہاں ہیں" 

"بھائی وہ آفس گئے ہیں" 

"چاہت پھوپھو آپ جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ میرا برتھ ڈے آنے والا ہے اور آپ کو اس سے پہلے ٹھیک ہونا ہے "شہیر نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"واؤ تو ہیرو اب کتنے سال کا ہونے والا ہے" 

"سات سال کا" 

"اوکے تو آپ کو برتھ ڈے گفٹ کیا چاہیے" 

"کچھ بھی نہیں بابا جو اس بار مجھے دے رہے ہیں میرے لیے وہی سب سے بڑا گفٹ ہے" شہیر کی بات پر چاہت نے ایک نظر دائم کو دیکھا جو مسکراتے ہوے شہیر کو دیکھ رہا تھا 

"کیا دے رہے ہیں بابا" چاہت نے شہیر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا 

"وہ اس بار میری ماما مجھے لاکر دینگے" 

"کیا سچ میں بھائی" چاہت نے اچھنبے سے دائم کو دیکھتے ہوے کہا جس پر اسنے مسکراتے ہوے اپنے سر کو ہلکے سے جنبش دی چاہت خوشی سے چھکتی ہوئی اسکے سینے سے لگ گئی

"سچ میں بھائی کون ہے میری بھابھی"

"یہ تو سرپرائز ہے" 

"میں ابھی بابا کو فون کرکے بتاتی ہوں دیکھیے گا وہ کتنے خوش ہونگے" چاہت خوشی خوشی اپنا موبائل اٹھانے لگی جب دائم نے اسکا ہاتھ تھام لیا 

"ابھی نہیں چاہت ابھی یہ بات تم کسی سے مت کہنا پہلے میں اس سے ملنا چاہتا ہوں پھر چاچو کو اس بارے میں بتاؤنگا" اسکی بات پر چاہت نے اپنا سر ہلادیا وہ تو اسی میں خوش تھی کہ اسکے بھائی کو کوئی لڑکی تو پسند آئی 

◽◽◽◽◽

بےچینی ہونے کے باعث وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر گارڈن میں چلا گیا 

ہاتھ میں وہی سفید ڈوپٹہ تھا جو اسے کالج میں اس لڑکی کا ملا تھا جسے اسنے سمبھال کر اپنے پاس رکھا ہوا تھا 

بار بار جنت کا چہرہ اسکے سامنے گھوم رہا تھا تو کبھی اس سنہری آنکھوں والی لڑکی کا وہ ایک ہی لڑکی تھی لیکن اسے یہ سب اب بھی جھوٹ لگ رہا تھا کہ جن آنکھوں کا وہ دیوانہ ہوا تھا وہ تو آنکھیں حقیقت میں تھی ہی نہیں 

ساری سوچو کو جھٹک کر اسنے اپنی کار کیز اٹھائیں اور مینشن سے باہر نکل گیا وہ اس وقت صرف اکیلا رہنا چاہتا تھا 

تھوڑی دور آکر اسنے گاڑی روک دی اور اتر کر پیدل چلنے لگا جگہ اس وقت سنسان تھی اور وہ اس وقت ایسی ہی جگہ پر رہنا چاہتا تھا 

چلتے چلتے اسکا دیھان اپنے پیچھے سے آتی چلنے کی آوازوں پر گیا اسنے مڑ کر دیکھا جب اس نازک وجود کا مصطفی سے زوردار ٹکراؤ ہوا لیکن اس سے پہلے وہ گرتی مصطفی نے اپنا مظبوط حصار اس کے گرد کھینچ کر اسے زمین بوس ہونے سے بچالیا 

نازک وجود نے گھنی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا اور مصطفی کے لیے وقت تھم گیا 

سنہری آنکھیں

اسنے مصطفی سے تھوڑا فاصلہ طے کیا اسے دیکھ کر یہ اندازہ ہورہا تھا کہ وہ جلدی میں ہے وہ اسکا شکریہ ادا کرتی تیزی سے وہاں سے بھاگ گئی اور مصطفی حیرت کی تصویر بنا اسے جاتا ہوا دیکھتے رہا 

اسے خود اپنی کیفیت کا اندازہ نہیں تھا اسکی وہی کیفیت ہورہی تھی جو اس لڑکی کو پہلی بار دیکھ کر ہوئی تھی

وہ واپس اپنی کار کی جانب جانے لگا جب وہ دوبارہ بھاگتی ہوئی اسی جگہ پر آئی اور زمین سے کوئی چیز اٹھائی شاید ٹکرانے سے اسکی کوئی چیز گر چکی تھی 

وہ زمین پر پڑی چیز اٹھا کر وہاں سے جانے لگی جب نظر مصطفی پر پڑی جنت نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا ارادہ اس سے بات کرنے کا تھا لیکن پیچھے سے اپنے نام کی پکار پر وہ اپنا ارادہ ترک کرکے واپسی کے لیے مڑ گی مصطفی نے زور سے اپنی آنکھیں میچ کر اس راستے کو دیکھا جہاں سے جنت گئی تھی 

◽◽◽◽◽

"کم ان" حسین صاحب نے فائل سے نظریں اٹھا کر اندر آنے والے کو دیکھا جہاں انکے اجازت دینے پر یشب کمرے میں داخل ہوا

"جی سر آپ نے بلایا-----؟" 

"بیٹھو" حسین صاحب نے سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوے اسے بیٹھنے کا کہا 

"میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا اس دن جو کچھ تم نے کیا اگر تم نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا" 

"ایسا مت کہیے سر آپ مجھے شرمندہ کررہے ہیں اگر میں نہیں ہوتا تو کوئی اور ہوتا" یشب نے شرمندہ ہوتے ہوے کہا 

"میں صاف بات کہونگا تم جانتے ہو چاہت تم سے کتنی محبت کرتی ہے حسین صاحب کے کہنے پر یشب نے ایک نظر انہیں دیکھ کر دوبارہ اپنی نظروں کا رخ پھیر لیا 

تمہیں پتہ ہے یشب میں نے آج تک اپنی بیٹی کی کوئی بات نہیں ٹالی اس نے جس چیز کی خواہش کی میں نے ہر چیز اسکے قدموں میں رکھ دی" 

"سوری سر آپ کی بات کاٹ رہا ہوں لیکن میں کوئی چیز نہیں ہوں اور ویسے بھی مجھ جیسا شخص آپکی بیٹی کے لائق نہیں ہے" یشب نے انکی بات درمیان میں کاٹتے ہوے کہا 

"تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم میری بیٹی کے قابل نہیں ہو صرف اسلیے کیونکہ تم اس سے کم حیثیت ہو تو یہ کوئی وجہ نہیں ویسے بھی میری چاہت کے نزدیک دولت سے زیادہ رشتے اہم ہیں چھوڑو ان باتوں کو تم بھی جانتے ہو تم ہمیشہ میرے لیے اہم رہے ہو اور اب تو تم مجھ پر احسان بھی کرچکے ہو کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے یاد ضرور کرنا" حسین صاحب شفقت بھرے لہجے میں کہا یشب اپنے سر کو ہلکے سے جنبش دے کر ان سے اجازت لے کر اٹھ کر وہاں سے چلا گیا 

◽️◽️◽️◽️◽️

 آفس روم سے باہر نکلتے ہی اسکے موبائل پر چاہت کی کال آنے لگی یشب نے کال اٹھا کر اسے سلام کیا جس کا بہت ہی پیار سے اسنے دیا 

"کیسے ہو" 

"بلکل ٹھیک" 

"میرا حال نہیں پوچھو گے" اسکے کچھ نہ کہنے پر چاہت نے کہا 

"کیسی ہیں آپ" 

"بلکل ٹھیک وہ بھی صرف تمہاری وجہ سے تمہارا بہت شکریہ یشب" 

"ایسے مت کہیں میم میں نے کوئی احسان نہیں کیا" 

"لیکن اس دن ایک بات کا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ میری محبت یکطرفہ نہیں ہے" اسکی بات سن کر یشب کو شدید حیرت ہوئی تو کیا جو جذبات اسنے ہمیشہ چھپاے تھے وہ چاہت حسین جان چکی تھی یشب نے بنا اسے کچھ کہے فون کاٹ دیا اور چاہت کے دل میں اس بات سے سکون اتر گیا کہ یشب آفندی نے اسکی بات سے انکار نہیں کیا 

◽️◽️◽️◽️◽️

"یس میم آپ نے بلایا" دعا نے سامنے بیٹھی پرنسپل کو دیکھتے ہوے احترام سے کہا جس پر پرنسپل نے اپنا سر اثبات میں ہلادیا 

"مسٹر شیرازی آپ سے ملنا چاہتے تھے" پرنسپل کے اشارہ کرنے پر اسنے مڑ کر دیکھا جسے دیکھتے ہی اسکے چہرے پر پریشانی کے تاثرات آچکے تھے جبکہ یارم شیرازی صوفے پر اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھے کسی شہزادے کی طرح بیٹھا ہوا اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا

اور دعا کو اس بات کا ڈر لگا ہوا تھا کہ سامنے بیٹھا شخص کسی کو یہ نہ بتادے کہ وہ کالج سے باہر گئی تھی 

ساریہ کے منانے پر وہ مان چکی تھی لیکن آیندہ کے لیے وہ توبہ کرچکی تھی کہ ساریہ چاہے کچھ بھی کہہ لے وہ اب ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاے گی 

"میں ابھی آتی ہوں تب تک آپ بات کیجیے" پرنسپل کہتے ہوے اپنی جگہ سے اٹھ گئی اور باہر کی طرف جانے لگی اور دعا جو پہلے ہی اس کو دیکھ کر ڈری ہوئی تھی پرنسپل کے جانے پر اور گھبرا گئی وہ خود بھی آفس سے باہر جانے لگی جب پرنسپل میم نے غصے سے اسے ٹوک دیا دعا کی وجہ سے انہوں نے اپنے آفس کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا لیکن بات تو وہ اسکی اور یارم کی ہر حال میں کروانا چاہتی تھیں آخر دعا کی وجہ سے یارم انہیں اچھی خاصی رقم جو دے چکا تھا

◽◽◽◽◽

اسنے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسی جگہ پر قدم رکھے گا لیکن ضروری تو نہیں جیسا ہم سوچیں ہمیشہ ویسا ہی ہو 

اسکے اندر اُس جگہ داخل ہوتے ہی درمیانی عمر کی عورت پان کھاتی ہوئی اسکے قریب آئی 

"کہیے جناب کیا خدمت کرسکتے ہیں آپ کی" زاہدہ باجی نے خوش دلی سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"مجھے آپ کے یہاں کی ایک لڑکی سے ملاقات کرنی ہے" دائم کے کہنے پر زاہدہ باجی اپنے یہاں موجود لڑکیاں بلا کر اسکے سامنے کھڑی کردی لیکن ان میں سے کوئی بھی وہ نہیں تھی جو اسکے دل میں بس چکی تھی

"ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے" 

"تو جناب آپ غلط جگہ آچکے ہیں اگر آپ چاہیں ان میں سے کسی کو پسند کرسکتے ہیں" زاہدہ باجی نے سامنے کھڑی تیار شدہ لڑکیوں کو دیکھتے ہوے کہا

جہاں یہ سن کر اسکے دل میں سکون آیا کہ اسکی محبت یہاں نہیں ہے لیکن یہ بات اسے پریشان کررہی تھی کہ وہ اس دن یہاں کیوں آئی اور اگر وہ یہاں نہیں ہے تو کہاں ہے 

دائم بنا کوئی جواب دیے واپسی کے لیے مڑ گیا جب نظر آدھ کھلے دروازے پر پڑی جہاں ایک نازک وجود اندر سورہا تھا

دائم تو اسے ہزاروں کی بھیڑ میں بھی پہچان لے یہاں تو صرف چند قدم کا فاصلہ تھا 

◽◽◽◽◽

"آپ کہاں جارہے ہیں بابا" چاہت نے حسین صاحب کو دیکھتے ہوے کہا جو ایک چھوٹے سے بیگ میں اپنی ضروری چیزیں رکھ رہے تھے

"بیٹا مری میں جو ہوٹل بن رہا تھا نہ تو اس میں کچھ مسلہ ہورہا ہے مجھے مینیجر کا فون آیا تھا وہاں میری ضرورت ہے مجھے جانا ہوگا لیکن فکر مت کرو کل تک آجاؤنگا" حسین صاحب نے اسے تفصیل سے اسے ساری بات بتائی 

"آج مت جائیں بابا دل گھبرا رہا ہے"چاہت نے انکے قریب آکر کہا 

"میرا بچہ میں کام ہوتے ہی واپس آجاؤنگا اور میں پہلی دفعہ تھوڑی جارہا ہوں تم بس اپنا خیال رکھنا اور پریشان مت ہو "حسین صاحب نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اسے لے کر باہر کی طرف چلے گئے

دعا نے گھبراتے ہوے یارم کو دیکھا جو مسکراتے ہوے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس سے چند انچ کے فاصلے پر کھڑا ہوگیا 

"تم میرے ساتھ ایک گھنٹے کے لیے باہر چلو گی "انداز حکمیہ تھا دعا نے حیرت سے اپنی آنکھیں بڑی کرکے اس دیکھا 

"کیا کہا آپ نے" 

"ویسے تو میں اپنی بات نہیں دوہراتا لیکن تمہارے لیے یہ بھی سہی تم میرے ساتھ ایک گھنٹے کے لیے باہر چلو گی اور انکار لفظ تمہارے منہ سے نکلنا نہیں چاہیے" اسے کچھ کہتے دیکھ کر اس سے پہلے ہی یارم نے کہا انداز میں وارننگ تھی 

"دیکھیے میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جو ایک غیر لڑکے کے ساتھ اور وہ بھی اکیلے باہر چلی جاے"

"میں کسی غلط ارادے سے نہیں لے کر جارہا"

"آپ کسی اور کو لے جائیں" دعا نے اسے مشورہ دیا 

"(لے جاتا اگر کسی اور میں بھی وہ خاص بات ہوتی جو تم میں ہے)" یہ بات اسنے دل میں کہی 

"دیکھو لڑکی اگر تم میرے ساتھ نہیں گئیں تو میں تمہارے گھر والوں کو بتا دونگا کہ اس دن تم کالج سے باہر گھومنے گئی تھیں" اسکی بات کی وجہ سے دعا کے چہرے پر ڈر کے آثار اسے صاف دکھ رہے تھے یہ بات تو وہ جانتا تھا کہ اس دن کالج سے وہ چھپ کر نکلی تھی اور ساریہ اسے یہ بات بتا چکی تھی کہ اسکے ابو بہت سخت ہیں اور وہ دعا کو چھپ کر زبردستی باہر لائی تھی 

"آپ کو جو بھی کہنا ہے یہاں کہہ لیجیے "دعا نے گھبراتے ہوے کہا اسکا ڈر یارم بھی سمجھ رہا تھا بھلا وہ ایک غیر لڑکے کے ساتھ باہر کیوں جاے گی 

"میں وعدہ کرتا ہوں ایک گهنٹے میں تمہیں سہی سلامت واپس چھوڑ دونگا"

"لیکن آپ کو بات کیا کرنی ہے" دعا کے گھبرا کہنے پر اسنے مسکرا کر اسے دیکھا اب وہ کیا بتاتا کہ پہلی بار تو اسے ایسی خاص لڑکی ملی تھی جس نے اسے بےچین کیا ہوا تھا

"مجھے بس تمہارے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہے سمجھو میں کوئی غیر نہیں تمہارا دوست ہوں" 

"ابو جان کو پتہ چلا تو بہت ڈانٹ پڑے گی" 

"میں یقین دلاتا ہوں کہ انہیں پتہ نہیں چلے گا" 

"اور آپ نے وعدہ کیا ایک گھنٹے میں مجھے سہی سلامت واپس یہاں چھوڑینگے اور ہم وعدہ نہیں توڑتے ورنہ گناہ ملتا ہے" دعا نے معصومیت سے کہتے ہوے اسے اسکی کہی بات یاد دلائی جسے سن کر اسکے لبوں پر ہلکا سا تبسم بکھرا 

اتنے نخرے آج تک اسنے کسی کے نہیں اٹهاے تھے یا شاید اٹھاے ہی نہیں تھے لیکن آج تک ایسی لڑکی بھی تو نہیں ملی تھی 

"ہاں جب میں وعدہ کرتا ہوں تو اسے پورا بھی کرتا ہوں" یارم نے مسکراتے ہوے اسے دیکھ کر کہا

◽◽◽◽◽

دائم اپنے قدم بےساختہ اس کمرے کی طرف بڑھانے لگا جب زاہدہ باجی نے اسکے سامنے آکر اسے کمرے میں جانے سے روک چکی تھیں 

"یہ آپ کہاں جارہے ہیں"

"آپ جانتی ہیں میں کہاں جارہا ہوں" دائم نے اپنی نظریں کمرے کی طرف کرتے ہوے کہا

"دیکهیے جناب آپ کو اگر کوئی لڑکی چاہیے تو آپ ان میں سے کسی کو پسند کرلیجیے" زاہدہ باجی نے وہاں موجود کھڑی لڑکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا 

"لیکن میں تو اُس کمرے میں جو لڑکی موجود ہے اسکے لیے آیا تھا" 

"دیکھیے جناب وہ یہاں رہتی ضرور ہے لیکن وہ اس طرح کا کوئی کام نہیں کرتی" زاہدہ باجی کی بات سن کر اسے حیرت کے ساتھ ساتھ ڈھیروں سکون اپنے اندر اترتا ہوا محسوس ہوا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اسکی محبت کہاں سے ہے اور اسکے ساتھ کیا ہوچکا ہے اسے تو بس یہی چاہیے تھا کہ وہ اسکے ساتھ پاکیزہ بندھن میں بندھ جاے اور پھر ہمیشہ اسکی وفادار رہے لیکن یہ بات جان کر اسے بہت خوشی ہوئی تھی کہ ایسی جگہ پر رہنے کے بعد بھی وہ اس طرح کا کوئی کام نہیں کرتی تھی

"لیکن میں پھر بھی اس سے ملنا چاہتا ہوں اسکے لیے میں آپ کو منہ مانگی قیمت دے سکتا ہوں"

"آپ جو بھی کہنا چاہتے ہیں مجھ سے کہیے آپ اس سے نہیں مل سکتے"

"میرا ارادہ غلط نہیں میں اس لڑکی سے محبت کرتا ہوں نام تک نہیں جانتا پر پھر بھی اپنے دل میں اسے اونچا مقام دے چکا ہوں اور آج یہاں بھی میں اسی نیت سے آیا ہوں میں اسے آج ہی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں ایک پاک بندھن میں باندھ کر نکاح کرکے"وہ حیرت سے دائم کی باتیں سن رہی تھیں 

"ایسی جگہ پر رہنے کے بعد بھی" زاہدہ باجی نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"میں اسکے ساتھ مل کر اپنا مسقبل سنوارنا چاہتا ہوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اسکا ماضی کیا تھا"اسکا لہجہ آنکھیں ایک ایک چیز اسکی بات کی سچائی کا پتہ دے رہی تھیں

◽◽◽◽◽

"اپنا سیٹ بیلٹ باندھ لو" یارم نے اپنا سیٹ بیلٹ لگاتے ہوے اسے دیکھ کر کہا 

"نہیں میں ٹھیک ہوں" دعا نے نظریں جھکا کر کہا ایک تو وہ اپنے گھر والوں سے چھپ کر ایک غیر لڑکے کے ساتھ اسکی گاڑی میں تھی اور وہ پتہ نہیں اسے کہاں لے کر جارہا تھا 

"دعا اپنا سیٹ بیلٹ باندھ لو" یارم نے پیار اور نرمی سے اسکا نام پکارا اس لڑکی کے معاملے میں وہ بہت نرم ہوتا جارہا تھا 

"مجھے نہیں باندھنا" اسے یہ کہنا بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اسے سیٹ بیلٹ لگانا نہیں آتا وہ تو ہمیشہ بائک پر ہی سفر کرتی تھی

لیکن اسکی پریشانی یارم سمجھ چکا تھا اسلیے تھوڑا آگے بڑھا ارادہ اسکا سیٹ بیلٹ باندھنے کا تھا لیکن اسکی حرکت پر دعا کار کے دروازے سے چپک چکی تھی

"میں خود کرسکتی ہوں بس مجھے بتادیجیے باندھتے کیسے ہیں "دعا نے جلدی جلدی بات کہتے ہوے اسے اپنے قریب آنے سے روکا اور اسکے بتانے پر اسی طرح سیٹ بیلٹ باندھ لیا اسکی حرکتیں یارم کو مزہ دے رہی تھیں 

آج تک ہر لڑکی اسکے ساتھ کے لیے مرتی تھی وہ پہلی تھی جو باقیوں کی طرح نہیں تھی وہ مختلف تھی 

◽◽◽◽◽

"مہر بیٹا اٹھو" زاہدہ باجی نے ہلکے سے اسکا کندھا ہلاتے ہوے کہا مہر نے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا اور بیڈ پر بکھرے اپنے ریشمی بال سمیٹتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی

"کیا ہوا زاہدہ باجی سب ٹھیک ہے"مہر کے جواب پر بنا کچھ کہے وہ اسکی الماری کی طرف چلی گئیں اور طے شدہ کپڑوں میں سے ایک لال رنگ کا سوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھادیا

"یہ موقعے کی مناسبت سے تو نہیں ہے لیکن اسکے علاوہ اور کوئی اچھا سوٹ بھی تو نہیں ہے تم یہ پہن کر جلدی سے تیار ہوجاؤ" زاہدہ نے باجی نے وہ سوٹ اسکی طرف بڑھاتے ہوے کہا جو پریشانی سے انہیں دیکھ رہی تھی 

"لیکن میں یہ کس لیے پہنوں"

"آج تمہارا نکاح ہے" 

"نکاح "مہر نے انکے الفاظ کی تصدیق چاہی کیسے اسنے کچھ غلط سن لیا ہو 

"ہاں نکاح" 

"کس سے ، اور بھلا کوئی مجھ جیسی لڑکی سے نکاح کیوں کرے گا" 

"محبت ،محبت سب کروادیتی ہے مہر" زاہدہ باجی کی بات پر اسنے طنزیہ مسکراہٹ سے انہیں دیکھا 

"محبت وحبت کچھ نہیں ہوتی زاہدہ باجی یقینا اسنے آپ سے میری فرمائش کی ہوگی جس کے لیے آپ نے منع کردیا اور وہ شخص نکاح کا ڈرامہ کررہا ہوگا" 

"نہیں مہر ایسی بات نہیں ہے میں نے دیکھی ہے اسکی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت میں نے دیکھا ہے اسکے لفظوں میں کتنی سچائی ہے کیا پتہ خدا نے اس شخص کو وسیلہ بنایا ہو تمہیں اس جگہ سے نکالنے کے لیے ایسا موقع پھر نہیں ملے گا مہر میں نے تمہیں اپنی بیٹی کہا ہے اور ایک ماں ہونے کے ناطے میں یہی کہونگی کہ چلی جاؤ یہاں سے یہاں رہو گی تو کوئی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا لیکن وہ شخص تمہیں ایک پاک بندھن میں باندھ رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں تحفظ اور عزت کی زندگی دے گا، جاؤ میرا بچہ تیار ہوجاؤ" انہوں نے اسکی پیشانی پر اپنے براؤن لپسٹک سے سجے لب رکھ دیے اور اٹھ کر باہر چلی گئی

مہر نے اپنی بھیگی آنکھوں کو صاف کیا اور وہ سوٹ اٹھا کر واشروم میں چلی گئی اسے نہیں پتہ تھا کہ آگے کی زندگی کیا ہوگی وہ شخص کیسا ہوگا لیکن یہ بات اسے مطمئن کررہی تھی کہ وہ شخص جیسا بھی ہوگا اسکا محرم ہوگا 

اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنا سب کچھ ایک ایسے شخص کے نام کرچکی جس کا اسنے چہرہ تک نہیں دیکھا تھا

◽◽◽◽◽ 

"تو اب تو ہم دوست ہیں نہ" اپنے وعدے کے مطابق وہ پورے ایک گھنٹے بعد اپنی گاڑی کالج سے تھوڑی فاصلے پر کھڑی کرچکا تھا یارم نے اس ایک گھنٹے میں اس لڑکی کے چہرے پر صرف ڈر کے تاثرات ہی دیکھے تھے جو کے اسے بلکل اچھے نہیں لگ رہے تھے لیکن وہ اسکی کیفیت بھی سمجھ رہا تھا پورے سفر میں ساری بات اسنے ہی کی تھی اور وہ خود اپنی باتوں پر حیران تھا مصطفی کے بعد پہلا کوئی ایسا شخص تھا جس سے اسنے اتنی بات کی تھی لیکن اسکی ہر بات کے جواب میں انے زیادہ تر ہوں ہاں ہی کہا گاڑی کالج کے قریب رکتی دیکھ کر دعا کے چہرے پر موجود ڈر کے تاثرات ختم ہوچکے تھے

گاڑی رکتے ہی دعا اترنے لگی جب یارم نے کار لاک کردی 

"کچھ پوچھ رہا ہوں میں" 

"آپ اچھے ہیں لیکن ابو جان کہتے ہیں لڑکے اور لڑکی میں کوئی دوستی نہیں ہوتی"دعا نے نظریں جھکا کر کہا

"تم اپنے ابو جان کی ہر بات مانتی ہو" یارم کے کہنے پر اسنے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی 

"کیوں "یارم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوے کہا

"کیونکہ وہ ہمارے بڑے ہیں اور ہمارے لیے ہمیشہ اچھا ہی سوچتے ہیں"

"لیکن دوستی تو تمہیں مجھ سے کرنی پڑے گی ورنہ میں تمہارے ابو جان کو بتادونگا کہ تم کالج سے باہر گئی تھیں اور وہ موٹا سینڈوچ والا تمہارے پیچھے لگ گیا تھا"

"کوئی زبردستی ے کیا نہیں کرنی مجھے دوستی آپ سے"دعا نے جھنجهلاتے ہوے رندھی ہوئی آواز میں کہا 

"ہاں، ورنہ میں تمہارے پیارے ابو جان کو بتادونگا اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ وہ مولوی ہیں اور انہیں لڑکیوں کا اس طرح باہر جانا پسند نہیں ہے" یارم کی بات پر دعا نے حیرت سے اسے دیکھا اسے بھلا کیسے پتہ کہ اسکے ابو جان ایسے ہیں 

"ایسے مت دیکھو مجھے سب پتہ ہے اور میرے پاس تو انکا فون نمبر بھی ہے ملاؤں" یارم نے اپنا مہنگا ترین فون اسکے سامنے کرتے ہوے کہا جہاں سکرین پر نمبر جگمگا رہا تھا جو اسکے گھر کا تھا اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ بچوں کی طرح اپنا سر نفی میں ہلانے لگی 

"نہیں ، میں کرلونگی دوستی" اسکی بات سن کر یارم کے لبوں پر تبسم بکھرا 

"ویری گڈ اب جلدی سے اپنے یہ آنسو صاف کرو" یارم کی بات پر اسنے جلدی سے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرلیے اور ایسا کرتے ہوے وہ یارم کو کتنی پیاری لگ رہی تھی یہ کوئی یارم شیرازی سے پوچھتا 

"لیکن میں اب آپ کے ساتھ باہر نہیں جاؤنگی اور آپ کسی کو مت بتایے گا کہ میں نے آپ سے دوستی کی ہے" دعا نے معصومیت سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"ٹھیک ہے ہم صرف تمہارے پرنسپل کے آفس میں ملینگے اور میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤنگا"کسی کو بتانے کا ارادہ تو اسکا ویسے بھی نہیں تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو بھی دعا کے بارے میں کچھ پتہ چلے ورنہ ایک نیا اسکینڈل بن جاتا اور اسکی وجہ سے اس معصوم لڑکی پر باتیں کی جاتیں

"اب لاک کھول دیں" 

"میرا نام نہیں پوچھو گی یا پھر مجھے دوست کہہ کر ہی بلاؤ گی" 

"کیا نام ہے آپ کا" 

"یارم ، یارم شیرازی" 

"آپ کو کیسے پتہ میرے ابو جان مولوی ہیں اور انہیں لڑکیوں کا باہر جانا پسند نہیں ہے" اپنے من میں چلتا سوال اسنے یارم سے کہہ دیا 

"یہ بات جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں ہے ، ہاں لیکن ایک بات میں جاننا چاہتا ہوں کیا تم واقعی میں گانے نہیں سنتی ہو" 

"ایسی بات نہیں ہے میں گانے سنتی ہوں ساریہ میری دوست ہے نہ وہ اپنا موبائل لاتی ہے کالج تو جب وہ مجھے سناتی ہے لیکن میں صرف وہی گانے سنتی ہوں جس میں دعا آتا ہے"

"اچھا" اسکی بات سن کر یارم کے لبوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی

"تو پھر میں بھی تمہارے لیے ایک گانا گاؤنگا جس میں تمہارا پیارا نام آتا ہوگا"

اسکا دل چاہتا رہا تھا کہ سامنے بیٹھی اس لڑکی کو خود میں قید کرلے اسے کہیں جانے نہ دے لیکن ابھی ایسا ممکن نہیں تھا دعا کے جانے کے بعد وہ خود بھی گہرا سانس لے کر وہاں سے چلا گیا آج کا دن اسکے لیے بہت اچھا تھا

◽◽◽◽◽

"آپ نے مجھے بلایا کہیے میں آپ کے کس کام آسکتی ہوں" جنت نے خوشی سے چہکتے ہو اسے دیکھ کر جو سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسنے پرنسپل سے درخواست کی تھی اچھے تعلقات کی وجہ سے پرنسپل نے اسے جنت سے ملنے کی اجازت دے دی تھی اور اب وہ اسکے سامنے بیٹھی ہوئی تھی اس رات کے بعد زہہن میں بس اسی لڑکی کا چہرہ گردش ہورہا تھا اسکی سنہری آنکھیں جس نے اسے بےچین کیا ہوا تھا اپنے جذبات وہ خود بھی نہیں سمجھ پارہا تھا اس سب کا اسے ایک ہی حل ملا کہ اس لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا جاے ویسے بھی کبھی نہ کبھی تو اسے یہ فیصلہ کرنا ہی تھا 

"دیکھو لڑکی'' 

"جنت" جنت نے اسکی بات کاٹتے ہوے اپنا نام بتایا 

"جنت مجھے باتوں کو گھما پھرا کر کرنا نہیں آتا صاف لفظوں میں کہونگا تم مجھے اچھی لگی ہو اور میں تمہارے گھر رشتہ لے کر آنا چاہتا ہوں نام مصطفی شیرازی ہے فیملی میں صرف بھائی ہے اور میں شیرازی بلڈرز کا مالک ہوں اس سب کے علاوہ میں نے سوچا پہلے تم سے اس بارے میں بات کرلوں تمہارا کیا جواب ہے یہ میرا کارڈ ہے تمہارا جو بھی جواب ہو تم کل تک مجھے بتادینا تمہارے جواب کا میں منتظر رہونگا" مصطفی نے اپنے والٹ سے کارڈ نکال کر اسکی طرف بڑھادیا اور بنا اسکے تاثرات دیکھے وہاں سے چلا گیا

◽◽◽◽◽

اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا کب سے وہ دیکھ رہی تھی کہ یشب اسے نظر انداز کررہا ہے بات تو وہ پہلے بھی صرف کا کی ہی کرتا تھا مگر جب سے اسنے فون پر وہ بات کہی تھی یشب اس سے کترا رہا تھا

"تم مجھے نظر انداز کررہے ہو" اسکے آفس روم میں داخل ہوتے ہی چاہت نے اس دیکھتے ہوے کہا جو اسکے تیسری بار بلانے پر آیا تھا 

"میں بھلا ایسا کیوں کرونگا" نظریں ہمیشہ کی طرح جھکی ہوئی تھیں

"کیونکہ تم ڈرپوک ہو تم ڈرتے ہو دور بھاگتے ہو اپنے جذبات سے اس بات سے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے" 

"میم پلیز مجھ سے اس طرح کی بات مت کیا کیجیے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے" چاہت اپنی چئیر سے اٹھ کر اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوکر اسے دیکھنے لگی 

"مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے اور تم دیکھ لینا یشب آج نہیں تو کل تم میرے ضرور ہوگے میں نے اللہ سے تمہیں مانگا ہے اپنی ہر دعا میں تمہیں مانگا ہے "اسکی باتیں یشب کو پریشان کررہی تھیں وہ بنا کچھ کہے باہر کی طرف چلا گیا اور چاہت اداس نظروں سے اسکی پشت کو دیکھتی رہی 

آفس روم سے باہر نکل کر اسنے گہرا سانس لیا زہہن میں چاہت کی باتیں گونج رہی تھیں کاش وہ اسے اسکی محبت کے بدلے محبت دے پاتا لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا وہ خود کو چاہت حسین کے لائق نہیں سمجھتا تھا اسے چاہت سے دور رہنا تھا جس کا ایک ہی حل تھا وہ یہ جوب چھوڑ دے گا ہاں وئ یہ جوب چھوڑ دے گا 

موبائل فون بجنے کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا اسنے فون کرنے والے کا نمبر دیکھا حسین صاحب کے مینیجر کی کال تھی اسنے فون اٹھا کر انہیں سلام کیا دوسری طرف مینیجر کی پریشان آواز اسے سنائی دی جسے سن کر وہ چاہت کے آفس روم کی طرف بھاگا اسے واپس یہاں دیکھ کر چاہت کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ آئی لیکن اسکی بات سن کر ساتوں آسمان ایک ساتھ اسکے سر پر گرے

"حسین سر ہاسپٹل میں ہیں"

◽◽◽◽◽

"دیکھیے میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دونگا ان کی حالت بہت خراب ہے آپ لوگ دعا کیجیے"ڈاکٹر ان سے کہہ کر آئی-سی-یو میں جا چکا تھا جبکہ چاہت روتے روتے وہیں زمین پر بیٹھ گئی اسکی حالت دیکھ کر یشب کا دل دکھ رہا تھا وہ چاہت کے وجود کو خود میں قید کرلینا چاہتا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا وہ اسکے لیے غیر تھی نامحرم تھی یشب نے اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھ دیا 

"سب ٹھیک ہوجاے گا آپ دعا کیجیے "یشب نے نرم لہجے میں تسلی بھرے انداز میں اسے دیکھتے ہوے کہا لیکن وہ صرف زاروقطار رونے میں مصروف تھی 

یشب نے اسے زمین سے اٹھا کر پاس رکھی کرسی پر بٹھا دیا 

جب ڈاکٹر نے اسے اندر بلایا حسین صاحب اس سے ملنا چاہتے تھے انکی حالت بہت خراب تھی 

"فکر مت کیجیے سر آپ بہت جلدی ٹھیک ہوجائینگے" یشب نے انکے قریب جھک کر کہا 

"ن-نہی-نہیں می-ں ج-ان-تا ہو-ہوں کہ م-میں ن-ہی-نہیں بچو-نگا لیک-ن مج-ھے ا-اپن-اپ-نی چ-اہت کی ف-کر ہے م-ی-ں میں اس-ے ب-بهیڑیو-ں سے بھر--ری اس دنی-دنیا می-میں تنہا نہی-ں چهو-ڑ س-سکتا می---ری بی-بیٹی کو اپ-اپنا ل-لو" حسین صاحب نے ٹوٹے ہوے لفظوں میں مشکل سے اپنی بات مکمل کری 

"ایسا مت کہیے سر آپ ناامید کیوں ہورے ہیں دیکھیے گا آپ کو کچھ نہیں ہوگا" یشب نے نرمی سے انہیں دیکھتے ہوے کہا جس پر انہوں نے اپنا سر نفی میں ہلادیا تکلیف کے باعث ان سے بولنا دشوار ہورہا تھا 

"مر-مرتے ہو-ے آ-آدم-ی کی ف-فری-یاد سن ل-لو خدا تم-تمہیں ا-اس-کا اجر د-د-دے گا" اور یہ بات سن کر یشب آفندی کا وجود سن ہوچکا تھا

اور پھر چاہت حسین کی ہر دعا میں مانگی گئی خواہش پوری ہوچکی تھی وہ چاہت حسین سے چاہت یشب بن چکی تھی جس کی اس وقت اس بلکل بھی پرواہ نہیں تھی

 اسے اس وقت اپنی مانگی گئی ہر دعا یاد آرہی تھی جس میں اسنے یشب آفندی کو مانگا تھا لیکن اگر اسے پتہ ہوتا کہ اسکی دعا اس طرح قبول ہوگی تو وہ کبھی بھی یہ دعا نہیں مانگتی یشب اسکے لیے اہم تھا لیکن اپنے باپ سے زیادہ اہم اسے اس دنیا میں کچھ بھی نہیں تھا 

اگر اس وقت کوئی اسے یہ کہتا کہ اپنے باپ کی زندگی کے بدلے وہ یشب آفندی کا ہر پل اپنی سوچ سے اپنی زندگی سے مٹادے تو اس وقت وہ یہ بھی کرنے کو تیار تھی اسے صرف اپنا باپ چاہیے تھا یشب کو پانے کے لیے اسنے دعائیں کی تھیں جو قبول ہوچکی تھیں جس کی اسے اب کوئی خوشی نہیں تھی اور اب وہ اپنے باپ کے لیے دعا کررہی تھی انکی زندگی کے لیے دعا کررہی تھی اس امید سے کہ جس طرح یشب کو پانے کی دعا قبول ہوگئی اسی طرح دعا مانگنے سے حسین صاحب بھی ٹھیک ہوجائینگے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا اپنی چاہت کو محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر حسین صاحب ہمیشہ کے لیے پرسکون نیند سوچکے تھے 

◽◽◽◽◽

شور شرابے سے دور اسنے موبائل پر آتی کال اٹھالی اور بدلے میں جو سننے کو ملا وہ اسنے کبھی نہیں سوچا تھا

"چاہت کو سمبھالو میں آرہا ہوں" اسنے کہتے ہوے کال بند کردی اور واپس وہاں آکر زاہدہ باجی کو مخاطب کیا 

"میری امانت آپ کے پاس ہے اسکا خیال رکھیے گا میں جلد ہی اسے لینے آونگا "دائم کی بات سن کر زاہدہ باجی نے ہلکے سے اپنا سر ہلا کر اسے مطمئن کی کہ اسکی امانت یہاں محفوظ ہے لیکن اب اسے اطمینان جب ہی ہونا تھا جب اسکی محبت اسکے پاس اسکے قریب ہوگی 

◽◽◽◽◽

"کہاں جانے کی تیاری ہے" مصطفی نے اسکے کمرے میں داخل ہوکر اسے دیکھتے ہوے کہا جو اس وقت بلیک ہائی نیک میں بلیو جینز کے ساتھ لونگ بوٹ میں بےحد خوبرو لگ رہا تھا سلکی بال اس وقت جیل سے سیٹ کیے ہوے تھے 

"دلوں پر راج کرنے" یارم نے ایک آنکھ ونک کرکے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور اپنا گٹار اٹھا کر وہاں سے چلا گیا 

◽◽◽◽◽

"کیا کروں ہاں کہہ دوں لیکن کچھ گڑبڑ ہوگئی تو" وہ اس وقت اپنی سوچوں میں گم خود سے الجھ رہی تھی 

"ہاں ہی کہہ دیتی ہوں ہر طرف سے میرا ہی تو فائدہ ہے ویسے بھی امی ابو بھی تو مجھے اس حماد کے ساتھ چپکانے میں لگے ہوے ہیں جو مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتا ہے" حتمی فیصلہ کرکے جنت نے اپنا موبائل اٹھا کر مصطفی کا دیا ہوا کارڈ نکالا اور کارڈ پر موجود نمبر ملا لیا 

◽◽◽◽◽

"یارم یارم یارم" ہر طرف ایک ہی آواز گونج رہی تھی اور پھر ہمیشہ کی طرح وہ سب کو اپنی آواز کے سحر میں لے چکا تھا جبکہ وہ خود کسی اور کہ سحر میں مبتلا تھا 

پورے ہال میں اندھیرا تھا صرف سفید روشنی اس پر ہی پڑ رہی تھی اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی اپسرا پر 

"میں سایہ بن کے ساتھ تیرے رہنا چوبی گھنٹے"

"میں رہنا چوبی گھنٹے"

دعا آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اسکے قریب آرہی تھی اسنے اس وقت پیروں کو چھوٹا سفید زیب تن کیا ہوا تھا اور ہلکے کرل کھلے بال آدھے آگے کی طرح اور آگے پیچھے کی طرف گرے ہوے تھے اس وقت وہ یارم شیرازی کو دنیا کی سب سے حسین لڑکی لگ رہی تھی یارم کے لب ہل رہے تھے اور نظریں دعا پر تھیں

"میں آنکھوں سے چرا لوں جاناں تیرے جو بھی غم تھے"

"ہاے تیرے جو بھی غم تھے"

یارم نے اپنا مظبوط ہاتھ اسکے سامنے کیا جس پر دعا نے مسکراتے ہوے اپنا نازک ہاتھ رکھ دیا یارم نے اپنا ہاتھ اسکی نازک کمر پر رکھ کر اسے اپنے قریب کرلیا اور ہلکے ہلکے موو کرنے لگے 

"میری بانہوں میں آکے تو جانا نہیں"

"ایسی رب سے میں مانگوں دعا"

"تیرے دل سے نہ کبھی کھیلونگا"  

"سارے راز اپنے میں تجھ کو دے دونگا"

"میری جان تو نے مجھ کو پاگل ہے کیا" 

"میرا لگدا نہ جیا تیرے بغیر"

یارم نے اسے کمر سے تھام کر زمین سے اوپر اٹھالیا اور اسے گول گول گھمانے لگا  

"تو مان میری جان"

"میں تجھے جانے نہ دونگا میں تجھ تو اپنی بانہوں میں چھپاکے رکھونگا"

یارم نے اسے نیچے اتار کر اسکی جھکی نظروں کو دیکھا اور اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے 

"تو مان میری جان"

"میں تجھے جانے نہ دونگا میں تجھ تو اپنی بانہوں میں چھپاکے رکھونگا"

گانا ختم ہوتے ہی یارم نے اپنی بند آنکھیں کھولیں ہر طرف شور شرابے اور سیٹیوں کی آواز گونج رہی تھی اور آج پہلی بار اسے ان آوازوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا 

کیونکہ اسے تو اب صرف دعا الیاس کی آواز سننی تھی

"آجائیں" دروازہ نوک ہونے کی آواز پر اپنے آنسو صاف کرکے اسنے آنے والے کو اجازت دی 

"کیسی ہو گڑیا" دائم نے اسکے قریب بیٹھتے ہوے کہا آج حسین صاحب کو گئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا اور اس ایک ہفتے میں دائم اور صائم نے اسکا بہت خیال رکھا تھا

"ٹھیک ہوں"

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی چاچو نے انتقال سے پہلے یشب اور تمہارا نکاح کروایا تھا" اسکی بات پر چاہت نے دکھ سے اپنی آنکھیں بند کرلیں 

"جی" 

"تو آج تمہارا بھائی تمہیں رخصت کرنا چاہتا ہے" اسکی بات پر چاہت نے حیرت سے اسے دیکھا 

"میں کہیں نہیں جاؤنگی" 

"بچوں جیسی ضد مت کرو چاہت" 

"میں نے کہا نہ بھائی میں کہی نہیں جاؤنگی سب میری غلطی ہے آپ کو پتہ ہے میں نے یشب سے بہت محبت کی ہے اسے اپنی ہر دعا میں مانگا لیکن وہ دعا اس طرح قبول ہوگی مجھے نہیں پتہ تھا اگر میں یشب کو نہیں مانگتی تو آج بابا زندہ ہوتے" روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ چکی تھیں 

"چاہت زندگی اور موت تو اللہ کے اختیار میں ہے اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے حسین چاچو کی موت ایسے ہی لکھی تھی کسی کو الزام دینے سے کچھ نہیں ہوگا چاچو کے آخری فیصلے کا احترام نہیں کروگی" چاہت نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا 

"سب میری غلطی ہے" 

"نہیں چاہت تمہیں پتہ ہے حسین چاچو اچھی جگہ پر ہیں لیکن تمہیں اس حال میں دیکھ کر انہیں تکلیف ہورہی ہوگی اور یقینا تم انکی تکلیف کی وجہ نہیں بننا چاہو گی ہے نہ" دائم کی بات پر اسنے ہلکے سے اپنا سر اثبات میں ہلادیا جس پر دائم نے مسکراتے ہوے اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا 

اور روتی ہوئی چاہت کو اپنے سینے سے لگاے بھائی بن کر اسے یشب کے ساتھ رخصت کردیا 

◽◽◽◽◽

"آجایے" یشب نے اپنے پیچھے کھڑی چاہت سے کہا جو دروازے پر ہی کھڑی تھی

 گہرا سانس لے کر چاہت نے اپنے قدم اندر کی طرف بڑھادیے

وہ تو ہمیشہ سے ہی اس گھر میں آنا چاہتی تھی اور یہ سب سوچتے ہوے ہمیشہ اسکے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی تھی لیکن آج دل میں ایسا کوئی جذبہ نہیں تھا 

دائم کی بات اسے ٹھیک لگ رہی تھی اسے اس رشتے کو نبھانہ تھا ابھی وہ اس سب کے لیے تیار نہیں تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ وقت کے ساتھ وہ سمبھل جاے گی 

"میں جانتا ہوں کہ یہ گھر آپ کے مطابق نہیں ہے لیکن"

"مجھے آرام کرنا ہے "اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی چاہت کاٹ چکی تھی وہ جانتی تھی کہ اس وقت بھی یشب اسے ایک امیر باپ کی بیٹی اور خود کو ایک ورکر سمجھ رہا تھا جو وہ ہمیشہ سے سمجھتا آیا تھا 

"ٹھیک ہے آیے میں آپ کو روم دکھا دیتا ہوں" چاہت نے اسے پورے گھر پر ایک نگاہ دوڑائی اور یشب کے پیچھے چلنے لگی گھر چھوٹا تھا جس میں تین کمرے اور لاؤنج اوپن کچن تھا لیکن اسے متاثر گھر کی صفائی نے کیا تھا ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہاں کوئی اکیلا مرد رہتا ہے اسے گھر کو دیکھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا کہ یشب کتنا صفائی پسند ہے 

"یہ آپ کا روم ہے اور آپ آرام کرلیجیے پھر میں آپ کو شوپنگ پر لے جاؤنگا" چاہت نے غور سے پورا کمرہ دیکھا کمرہ اتنا بڑا نہیں تھا لیکن کافی صاف ستھرا تھا ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی 

◽◽◽◽◽

چاہت کی وجہ سے اسے اس وقت نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ نہ تو وہ اپنے گھر سے کچھ کھا کر آئی تھی اور نہ یہاں آکر اسنے کچھ کھایا تھا یشب کے لاکھ کہنے پر بھی اسنے یہ کہہ دیا کہ اسکا دل نہیں چاہ رہا اگر بھوک لگی تو وہ خود کھالیگی اور یہی وجہ یشب کو پریشان کررہی تھی 

دائم نے ملازمہ سے کہہ کر چاہت کا سارا سامان پیک کروایا تھا جو کہ یشب وہیں چھوڑ کر آچکا تھا اسکا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی ہر چیز کا انتظام خود ہی کرے گا اسلیے شام میں وہ اسکے کپڑے اور ضروری چیزیں لے آیا تھا کیونکہ چاہت اسکے ساتھ جانے سے منع کرچکی تھی 

اور اب اسے اس بات کی فکر ہورہی تھی کہ وہ بھوکی سو رہی ہے 

"زبردستی ہی سہی تھوڑا بہت تو مجھے انہیں کھلا دینا چاہیے تھا"وہ خود سے بڑبڑا رہا تھا اور پھر کچھ سوچتے ہوے وہ اپنے کمرے سے نکل گیا ارادہ یہ تھا کہ اگر چاہت جاگ رہی ہوئی تو اسے کچھ کھلا دے گا چاہت کو اسنے دوسرا کمرہ دیا تھا تاکہ وہ آرام سے سوجاے 

دروازہ نوک کرنے سے پہلے ہی اسکا دیھان کمرے سے آتی رونے کی آوازوں پر گیا یقینا وہ اندر رو رہی تھی اور اب یشب کو اس بات کا بھی دکھ تھا کہ اسے چاہت کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا وہ تو پہلے ہی اپنے باپ کی وجہ سے اتنی اداس تھی اسے اس وقت کسی کی ضرورت تھی 

آہستہ سے دروازہ کھول کر یشب کمرے کے اندر داخل ہوگیا جہاں وہ اپنا سر گھنٹوں میں دیے رونے میں مصروف تھی

"میم" یشب نے ہلکے سے گلا کھنکھارتے ہوے اسے پکار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا اسکی آواز سن کر چاہت نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور جلدی سے اپنے آنسو صاف کرلیے 

"سر کی یاد آرہی ہے" اسکے پوچھنے پر چاہت نے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی 

"آپ رویے مت، بلکہ میں آپ کے لیے کھانا لاتا ہوں آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا----" یشب کہتا ہوا کمرے سے جانے لگا جب چاہت کی آواز اسکے کانوں میں پڑی 

"مجھے کچھ نہیں کھانا بس پلیز تم میرے پاس رک جاؤ آج کے لیے پلیز "چاہت نے رندھی ہوئی آواز میں معصومیت سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"آپ سوجائیں میں یہیں ہوں" یشب نے بیڈ کے کونے پر بیٹھ کر کہا اس روم میں بیٹھنے کے لحاظ سے صرف وہ بیڈ ہی تھا تو اسے اس بیڈ پر ہی بیٹھنا پڑا 

تھوڑی دیر میں چاہت سوچکی تھی پہلے تو اسنے یہی سوچا کہ اپنے روم میں چلا جاے لیکن پھر اس خیال سے وہیں بیڈ پر لیٹ گیا کہ وہ دوبارہ نہ اٹھ جاے یا اسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو چاہت پر کمبل اچھے سے ڈال کر وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر لیٹ گیا 

ابھی اسکی آنکھ لگے کچھ وقت ہی ہوا تھا جب کسی کے رونے کی آواز سے اسکی آنکھ کھل گئی 

آنکھ کھلتے ہی اسنے سب سے پہلی نگاہ اپنے برابر لیٹے وجود پر ڈالی جو نیند میں رو رہی تھی 

"ب-بابا"

"میم" یشب نے ہلکے سے اسکا کندھا ہلا کر اسے پکارا لیکن وہ ویسے ہی نیند میں رو رہی تھی یشب نے گہرا سانس لے کر اسے اپنے قریب کرلیا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ کر ہلکے ہلکے اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا 

"بس سب ٹھیک ہے" یشب نے نرم لہجے میں کہا نظریں اسکے معصوم چہرے پر تھیں اسکا ایسا کرنے پر تھوڑی ہی دیر میں چاہت پھر پرسکون نیند سوچکی تھی

◽◽◽◽◽

"کہو کیا جواب ہے تمہارا"مصطفی نے اپنے سامنے بیٹھی جنت کو دیکھتے ہوے کہا جس نے فون کرکے اسے ملنے کے لیے کہا تھا 

"مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ سے شادی کے لیے تیار ہوں"

"تو میں کب تمہارے گھر آسکتا ہوں"

"آپ میرے گھر نہیں آسکتے" جنت کی بات پر مصطفی نے حیرت سے اسے دیکھا 

"اور وہ کیوں"

"اگلے مہینے میری منگنی ہے اگر آپ میرے گھر آئینگے تو آپ کو صرف انکار ملے گا"

"تمہاری منگنی ہے تو پھر تم مجھ سے شادی کیسے کرسکتی ہو" 

"کیونکہ صرف منگنی ہے شادی نہیں وہ بھی زبردستی ہورہی ہے امی ابو کو منع کیا تھا لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی" جنت نے دکھی لہجے میں کہا

"تو تم کیا چاہتی ہو" 

"میں جانتی ہوں اگر آپ میرا رشتہ لائینگے بھی تو بھی آپ کو جواب صرف انکار میں ہی ملے گا تو میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے میرے گھر سے لے جائیں اور پھر ہم شادی کرلیں" اسکی باتیں مصطفی کو حیران کررہی تھیں 

"تم اپنے گھر والوں کو چھوڑ دوگی"

"جب انہیں میری پرواہ نہیں تو میں کیوں کروں اور آپ کو کوئی مسلہ ہے تو بتادیجیے ورنہ باے" جنت لاپرواہی سے کہتے ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی جب مصطفی نے اسکی کلائی اپنے مضبوط ہاتھ میں پکڑ لی بھلا وہ کیسے اس لڑکی کو جانے دے سکتا تھا جس نے اسکا سکون لے لیا تھا 

"بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے اور تم کیا چاہتی ہو" مصطفی نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

◽◽◽◽◽

ثاقب کب سے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے اپنے سامنے ٹی وی پر چلتا منظر دیکھ رہے تھے جس میں کسی شو میں یارم کو گیسٹ کے طور پر بلایا تھا اور وہ مسکراتے ہوے ہوسٹ کی بات کا جواب دے رہا تھا 

انکے دونوں بیٹے بہت کامیاب تھے انہیں اپنی اولاد پر فخر تھا 

انکی ہر کامیابی پر ثاقب انہیں اپنے سینے سے لگانا چاہتے تھے لیکن انکی اولاد تو انکی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہتی تھی یارم تو پھر بھی انہیں غصے میں کچھ کہہ دیتا تھا جس پر انہی بہت خوشی ہوتی کہ انکی اولاد نے ان سے کچھ تو کہا لیکن مصطفی تو انکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور یہ سب انہیں بہت تکلیف دیتا تھا

◽◽◽◽◽

چاہت نے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا پورے کمرے میں وہ اکیلی تھی اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ واشروم میں چلی گئی اور فریش ہوکر روم سے باہر مکل گئی کل سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اب بھوک لگ رہی تھی 

اسلیے وہ کچن میں چلی گئی جہاں یشب پہلے سے ہی موجود تھا 

"اٹھ گئیں آپ ناشتہ کرلیجیے آپ نے کل سے کچھ نہیں کھایا" یشب نے ہاف فرائی ایگ کو پلیٹ میں رکھتے ہوے کہا 

"تم کوکنگ بھی کرتے ہو" چاہت نے حیرت اسے دیکھتے ہوے کہا جو کسی ماہر شیف کر طرف اپنے ہاتھ چلا رہا تھا 

"جی اور مجھے بہت اچھی کوکنگ آتی ہے آپ کو کچھ بھی کھانا ہو آپ مجھے سے کہہ سکتی ہیں" یشب نے ناشتہ اسکے سامنے رکھتے ہوے کہا

"اور تمہارا گھر بھی بہت صاف ہے اسکی صفائی کون کرتا ہے" 

"وہ بھی میں خود کرتا ہوں"

"مجھے تو لگا تھا کہ ملازمہ کرتی ہوگی کیونکہ مجھے نہیں لگتا تھا کوئی لڑکا اتنے اچھے سے بھی گھر سمبھال سکتا ہے" 

"فکر مت کیجیے میں جلد ہی ملازمہ کا انتظام کروادونگا" وہ جانتا تھا کہ چاہت نے اپنے گھر میں اس طرح کے کوئی کام نہیں کیے 

"اسکی ضرورت نہیں ہے یہ میرا گھر ہے اور میں اسے سمبھال سکتی ہوں" چاہت نے ہلکی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوے کہا اور اپنا ناشتہ کرنے لگی

◽◽◽◽◽

پیچھے سے آتی آواز پر اسنے مڑ کر پیچھے دیکھا جو مسکراتے ہوے اسے ہی دیکھ رہا تھا 

"آپ یہاں کیسے آے اور آپ یہاں کیا کررہے ہیں" دعا نے آہستہ آواز میں اسے دیکھ کر کہا وہ کلاس کے دوسرے دروازے سے اندر آیا تھا اور کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا

وہ اس وقت کلاس میں اکیلی تھی پیپر دے کر سب لڑکیاں کلاس سے جاچکی تھیں 

آج اسکا آخری پیپر تھا اتنے وقت میں یارم اس سے کئیں بار مل چکا تھا وہ بھی پرنسپل کے آفس میں جس کا کسی کو علم نہیں تھا وہ پرنسپل کو دعا سے ملنے کی اچھی خاصی رقم دیتا تھا 

دعا کو اس سے چھپ کرملنا اچھا نہیں لگتا تھا اسے ڈر لگتا تھا کہ اسکے گھر والوں کو علم نہ ہوجاے کہ وہ ایک غیر لڑکے سے ملتی ہے لیکن اس سب میں اسکی یارم سے اچھی دوستی ہوچکی تھی

اسے پتہ تھا یارم ایک اچھا انسان ہے وہ ہمیشہ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا 

"تم سے ملنے آیا تھا اور دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا" یارم نے بڑا سا چاکلیٹ باکس اسکی طرح بڑھایا جسے دعا نے تھام لیا پتہ تھا جب تک وہ نہیں لے گی سامنے کھڑا بندہ یہاں سے جاے گا نہیں ویسے بھی یہ یارم کی طرف سے دیا گیا پہلا گفٹ نہیں تھا 

وہ پہلے بھی اسے کئیں گفٹ دے چکا تھا جسے نہ لینے پر وہ تھمکی بھی دے چکا تھا اور ہر بار کی طرح دعا نے اسکی دھمکی سے ڈر کر معصوم بچوں کی طرح اسکا گفٹ لے لیا اور اسکی معصومیت پر ہی تو یارم شیرازی فدا تھا

"لے لیا آپ اب جائیں اگر کسی نے دیکھ لیا تو" 

"دیکھ لیا تو کیا ہوا لڑکی اتنی کیا جلدی ہے دوست کو ایسے بھگاتے ہیں اتنے اتنے ٹائم میں تم ملتی ہو اور اب تو شاید تم سے جب ہی ملاقات ہوگی جب تم یونیورسٹی جاؤگی کیونکہ گھر تو تم مجھے کبھی بلاؤگی نہیں"

"میں آگے نہیں پڑھونگی"اسکے کہنے پر یارم نے حیرت سے اسے دیکھا 

"کیوں " 

"ابو جان کو لڑکیوں کا زیادہ پڑھنا پسند نہیں"

"اور کیا تم آگے پڑھنا چاہتی ہو کیا تمہیں پڑھنے کا شوق ہے" یارم نے اسے دیکھتے ہوے پوچھا 

"ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ ابو جان کے فیصلے کے خلاف جاؤں"  

"ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں اور اب تم سے ملاقات کا ایسا زریعہ بنانا پڑے گا جس میں مجھ سے ملتے وقت تمہیں کس کا ڈر نہ ہو"

"اور وہ زریعہ کونسا ہے" دعا نے دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"وہ میں تمہیں بعد میں بتاؤنگا ابھی چلتا ہوں" اسے باے کا اشارہ کرکے یارم وہاں سے چلا گیا لیکن دعا کو آگے پڑھانے کا ارادہ وہ کرچکا تھا 

دعا نے پیچھے سے اسے آواز دی لیکن تب تک وہ جاچکا تھا اسنے اپنی پیشانی پر اپنا ہاتھ مارا 

"سب سے اہم بات تو میں نے انہیں بتائی ہی نہیں" خود سے بڑبڑا کر وہ اپنی کلاس سے باہر چلی گئی اسکی زندگی میں صرف ایک ہی دوست تھی ساریہ لیکن اب یارم بھی اسکا دوسرا اور خاص دوست بن چکا تھا جسے وہ یہ تک بتانا بھول گئی کہ چند ہفتوں میں اسکی شادی ہے 

◽◽◽◽◽

جنت نے پیار بھری نظروں سے اپنے سوتے ہوے ماں باپ کو دیکھا اور آہستہ سے قدم اٹھاتی انکے کمرے سے نکل گئی  

اب اسکا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا اسنے کمرے میں آکر اپنا بیگ اٹھایا جس میں اسکا سارا ضروری سامان تھا اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے نکل گئی جہاں سامنے ہی اسے مصطفی کی کار نظر آرہی تھی وہ تیزی سے اس کار کی طرف بھاگی اس کار میں بیٹھ گئی 

"چلیں" جنت نے اطمینان سے گاڑی کا دروازہ بند کرکے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا جبکہ مصطفی کتنی دیر تک اسکے چہرے کو دیکھتا رہا 

"آخری بار سوچ لو" مصطفی نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"میں سوچ چکی ہوں لیکن اگر آپ کا ارادہ مجھے بیچ راہ پر چھوڑنے کا ہے تو ابھی بتا دیجیے "مصطفی نے بنا اسکی بات کا جواب دیے گہرا سانس لے کر گاڑی اسٹارٹ کردی 

کیا وہ جو کررہا تھا وہ سہی تھا ایک یہی سوال اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا لیکن اسکے ساتھ بیٹھی لڑکی پرسکون تھی تو وہ کس بات کی ٹینشن لیتا اسکے ساتھ بیٹھی لڑکی اپنے ماں باپ کو چھوڑ آئی تھی ایک غیر مرد کے لیے جسے وہ جانتی بھی نہیں تھی 

اسے خود نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے اپنے دل کی کیفیت سے وہ خود بھی انجان تھا

◽◽◽◽◽

آج وہ آفس سے جلدی واپس آگیا تھا کیونکہ چاہت گھر پر اکیلی تھی اور پتہ نہیں اسنے کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں 

ڈوبلیکیٹ کی سے گھر کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوگیا 

اس کی نظریں چاہت کو ڈھونڈ رہی تھیں اور وہ اسے کچن میں نظر آچکی تھی جو اس وقت اسکے لاے گئے لال رنگ کی شارٹ فراک کے ساتھ کیپری میں ملبوس تھی بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنایا ہوا تھا اور چند آوارہ لٹے اسکے چہرے پر جھول رہی تھیں جنہیں وہ بار بار اپنی کونی سے پیچھے کررہی تھی اور یشب کو اس وقت وہ بہت پیاری لگ رہی تھی جو پھرتی سے اپنے ہاتھ چلا رہی تھی چاہت کی آواز پر یشب ہوش کی دنیا میں لوٹا 

"تم کب آے'' 

"بس ابھی آیا تھا اور آپ یہ کیا کررہی ہیں آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے" اشارہ کھانے کی طرف تھا جو تقریبا بن چکا تھا اور کچن میں خوشبو پھیلا کر یشب کی بھوک بڑھا رہا تھا 

"تم کھا کر تو دیکھو میں بہت اچھا کھانا بناتی ہوں بابا کو میرا کام کرنا پسند نہیں تھا پھر بھی وہ اپنی فیورٹ ڈش مجھ سے ہی بنواتے تھے" اپنے باپ کے زکر پر اسکا کھلتا چہرہ اداس ہوچکا تھا 

"آپ کھانا لگائیں میں فریش ہوکر آتا ہوں" اسکا زہہن دوسری طرف کرکے وہ خود اپنے کمرے کی طرف جانے لگا لیکن اسے تاکید کرنا نہیں بھولا "اور پلیز آئندہ آپ کام کرکے خود کو مت تھکایے گا" 

سادگی سے اسکے نکاح کی رسم ادا ہورہی تھی اور یہ بھی جنت کی ہی خواہش تھی کہ صرف نکاح ہو مصطفی اسے شیرازی مینشن لے کر آیا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں نکاح شروع ہوچکا تھا جس میں اسکے اپنے خاص لوگ تھے 

مولوی صاحب کے پوچھنے پر کتنی دیر تک جنت کا سراپا اسکے زہہن میں گھومتا رہا وہ یہ نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا اسکا دل چاہ رہا تھا وہ اس نکاح کو چھوڑ کر چلا جاے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا جنت اسکی وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی تو وہ کیسے اسے بیج راہ میں چھوڑ دیتا گہرا سانس لے کر اسنے اپنی رضامندی دے دی 

"تو کس لیے اتنا خوش ہورہا ہے" صائم نے اسے دیکھتے ہوے کہا یہاں موجود ہر کوئی مصطفی کے نکاح سے خوش تھا لیکن یارم تو چہرے سے ہی بےانتہا خوش لگ رہا تھا

"کیونکہ اب میرا نمبر آے گا" 

"اچھا مجھے لگا بھائی کی شادی کی اتنی خوشی ہورہی ہے اور ویسے بھی تو کہہ تو ایسے رہا ہے اگر مصطفی بھائی شادی نہیں کرتے تو ، تو انکے انتظار میں بیٹھا رہتا" 

"ہاں میں بھائی کہ انتظار میں تو نہیں بیٹھتا لیکن اچھا بھی نہیں لگتا کہ بڑا بھائی کنوارہ بیٹھا ہے اور چھوٹے نے شادی کرلی" یارم کے کہنے پر صائم نے زور زور سے اپنا سر ہلایا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ اسکی بات بلکل سہی ہے 

◽◽◽◽◽

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر سوچوں میں گم ثاقب پر پڑی فاریہ نے کوفت سے اسے دیکھا تنگ آچکی تھی وہ ثاقب کے ہر وقت کے سوگ سے 

"کیا ہوا پھر بچوں کی یاد کا دورہ پڑ رہا ہے"فاریہ کے کہنے پر ثاقب خیالوں کی دنیا سے باہر نکلے

"کیا کام ہے" ثاقب نے سخت آواز میں کہا جبکہ نظریں زمین پر جمی ہوئی تھیں 

"کھانے کا کہنے آئی تھی آکر کھالیجیے"

"یہ وقت کھانا نہیں بلکہ مٹھائی کھانے کا ہے" کمرے کے آدھ کھلے دروازے کو پورا کھول کر وہاج مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا اسکی آواز پر ثاقب اور فاریہ نے اسکی طرف دیکھا 

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ڈیڈ کیا آپ کو نہیں پتہ آپ کے بیٹے نے شادی کرلی ہے آپ کو انوائٹ نہیں کیا"

"یارم نے شادی کرلی" ثاقب نے اسے دیکھتے ہوے کہا جیسے اسکی کہی ہوئی بات کی تصدیق چاہی کیونکہ مصطفی تو شادی کے نام سے بھی دور بھاگتا تھا 

"یارم نے نہیں مصطفی نے شادی کرلی"

"تم سے کس نے کہا" 

"اہم بات جو تھی وہ میں بتا چکا ہوں باقی آپ کو کسی چیز سے فرق نہیں پڑنا چاہیے مبارک باد دے دیجیے گا اپنے لاڈلے کو" مسکرا کر کہتے ہوے وہاج وہاں سے چلا گیا جبکہ ثاقب وہیں کرسی پر بیٹھ گئے انکے بیٹے نے زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کرلیا اور انہیں علم بھی نہیں ہوا 

"اب پھر سے دکھ کی دنیا میں مت چلے جایے گا آکر کھانا کھا لیجیے" فاریہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ ثاقب وہیں اپنے خیالوں میں کھوے رہے 

◽◽◽◽◽

"کہاں جانے کی تیاری ہورہی ہے" زمل نے اپنے سامنے کھڑے پینٹ کوٹ میں ملبوس ثاقب کو دیکھتے ہوے کہا جو روز کی بانسبت آج زمل کو کچھ زیادہ ہی اچھا لگ رہا تھا

"کہاں جاینگے بیگم آفس ہی جانا ہے" ثاقب نے اسے پیچھے سے اپنی حصار میں لیتے ہوے کہا 

"روز تو اتنی تیاری کرکے آفس نہیں جاتے"

"میری جان آج میری بہت خاص میٹنگ ہے" ثاقب کے کہنے پر بھی اسکے چہرے کے تاثرات ویسے ہی رہے 

"ادھر دیکھو میری طرف"ثاقب نے اسکے چہرے کا رخ تھوڑی سے پکڑ کر اپنی طرف کیا

"بتاؤ کیا ہوا ہے "اسکی نم آنکھیں ثاقب کو پریشان کررہی تھیں 

"بابا کل آپ سے ملنے آپ کے آفس گئے تھے تو وہ بتارہے تھے کہ آپ نے"

"انہوں نے یہی کہا ہوگا کہ میں نے ایک لڑکی کو جوب دی ہے" ثاقب کے پوچھنے پر زمل نے آہستہ سے اپنے سر کو جنبش دی 

"جو کام ساس نندو کے ہوتے ہیں نہ وہ تمہارے بابا کرتے ہیں" ثاقب کے کہنے پر زمل نے گھور کر اسے دیکھا 

"خبردار جو بابا کے بارے میں کچھ کہا" 

"ٹھیک ہے نہیں کہتا میں کچھ بھی لیکن میں نے کسی لڑکی کو جوب نہیں دی ہاں وہ جوب کے لیے ضرور آئی تھی لیکن میں نے اسے جوب نہیں دی اب ریلیکس ہوجاؤ" اسکے گال کو تھپتھپاکر ثاقب نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا 

زمل الفاظ شیرازی کی اکلوتی اولاد تھی جو اپنے بچپن میں ہی اپنی ماں کی محبت سے محروم ہوچکی تھی لیکن الفاظ صاحب نے اسے ماں باپ دونوں کا پیار دیا اسے لاڈو میں پالا

زمل کمزور دل کی حساس لڑکی تھی جو چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی بےحد پریشانی ہوجاتی تھی اور اپنی چیزوں اور اپنے سے جڑے لوگوں کے معاملے میں بھی وہ ایسی تھی  

زمل ثاقب کی پہلی نظر کی محبت تھی جسے اسنے پارٹی میں دیکھا تھا اور پھر بنا دیر کیے اپنا رشتہ اسکے گھر بھجوادیا 

الفاظ صاحب نے ثاقب کی ہر طرح سے معلومات کروائی وہ اپنی لاڈو میں پلی بیٹی کسی ایسے شخص کو نہیں دے سکتے تھے جو کسی بھی لحاظ سے خراب ہو 

ہر طرف سے تسلی ہونے کے بعد انہوں نے زمل سے اسکی مرضی پوچھی جس نے اپنا ہر فیصلہ اپنے بابا پر چھوڑ دیا 

اور پھر اسی طرف زمل ثاقب کی زندگی میں آگئی 

ثاقب ہر طرح سے اسکا خیال رکھتا تھا الفاظ صاحب روز زمل کو فون کرتے تھے اور فون پر اسکی خوشی سے بھرپور آواز سن کر مطمئن ہوجاتے 

لیکن زمل کو ثاقب کے آفس میں کام کرتی لڑکیاں بلکل پسند نہیں تھیں جو زمل کے مطابق آفس میں آدھا کلو کا میک اپ کرکے آتی تھیں اور یہ بات وہ ثاقب سے بھی کہہ چکی تھی کہ وہ ان سب کو آفس سے نکال سے لیکن اسکی بات ثاقب نے ہنس کر ٹال دیا جس پر زمل سب کچھ الفاظ صاحب کو بتا چکی تھی 

اور الفاظ صاحب نے بنا کچھ سوچے ثاقب کو فون کرکے یہ بات کہہ دی کہ انکی بیٹی کو کوئی بھی مسلہ ہوا تو وہ اسے اپنے گھر لے آئینگے ثاقب کو زمل سے یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ وہ یہ بات اپنے بابا کو بتایے گی لیکن اس سب سے اسے زمل غصہ بہت آیا تھا جو اتنی سی بات کو اتنا زیادہ بڑھارہی تھی نہ تو زمل کی بات سن کر ثاقب پر کوئی اثر ہوا تھا اور نہ ہی الفاظ صاحب کی بات سن کر اس پر کوئی اثر ہوا تھا 

جس کی وجہ سے زمل نے اس سے بات کرنا چھوڑ دیا تھا تو ثاقب نے بھی اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا وہ اسکی بلاوجہ کی باتیں نہیں مان سکتا تھا 

جب چند دنوں تک ثاقب نے اس سے بات نہیں کری تو وہ خود بھی بےچین ہوچکی تھی

اسنے بھلا کہاں ثاقب کی بےرخی دیکھی تھی اسنے گو ہمیشہ ثاقب کا پیار دیکھا تھا 

اسے اپنی باتیں تھوڑی عجیب لگ رہی تھیں ضروری تو نہیں اگر وہ اپنے باپ پر اپنی ہر طرح کی مرضی تھوپے گی تو باپ کی طرح شوہر بھی اسکی ہر بات مان لے گا 

وہ حساس طبیعت کی مالک تھی لیکن وہ اب اپنے آپ کو بدلنا چاہتی تھی اپنے شوہر کے لیے 

کھانا پیک کرکے وہ بنا ثاقب کو اطلاع دیے اسکے آفس پہنچ گئی ارادہ اسے سرپرائز دینے کا تھا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ خود اسے ہی سرپرائز مل جاے گا 

◽◽◽◽◽

ثاقب نے اپنے سامنے کھڑی زمل کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی اسے دیکھ کر ثاقب نے اپنا سر نفی میں ہلایا جیسے بتانا چاہ رہا ہو کہ جیسا وہ سمجھ رہی ہے ویسا کچھ نہیں ہے وہ تو بس اپنی گھڑی میں پھنسا اس لڑکی کا ڈوپٹہ نکال رہا تھا لیکن اس وقت وہ قندیل اسکے جتنے قریب کھڑی تھی کوئی بھی غلط ہی سمجھتا 

"زمل میری بات سنو" زمل کے بھاگنے پر ثاقب فورا اسکے پیچھے بھاگا  

اور اس سب سے قندیل بھی پریشان ہوچکی تھی وہ تو بس جلدی سے اپنا ڈوپٹہ گھڑی سے نکالنا چاہتی تھی جو کہ ثاقب سے ہو نہیں رہا تھا اسلیے وہ خود نکالنے کے لیے تھوڑی قریب آگئی لیکن اب اسے یہ اپنی غلطی لگ رہی تھی اسے پتہ تھا یقینا زمل کچھ غلط سوچ رہی ہوگی 

◽◽◽◽◽

اپنی گاڑی لے کر وہ سیدھا شیرازی مینشن پہنچا اسے پتہ تھا زمل یہیں آئی ہوگی وہ جتنی پریشانی میں پہنچا تھا اس سے کہیں زیادہ پریشانی یہاں آکر اسے ہوچکی تھی جب ملازم نے بتایا کہ زمل کی طبیعت خراب ہونے پر الفاظ صاحب اسے ہوسپیٹل لے کر گئے ہیں ملازم سے ہوسپیٹل کا نام پوچھ کر وہ خود بھی وہیں آگیا 

جہاں آکر اسنے زمل سے معذرت اور اسے وضاحت دی الفاظ صاحب دوبارہ اپنی بیٹی کو اسکے ساتھ نہیں بھیجنا چاہتے تھے لیکن زمل کے ضد کرنے پر وہ مان گئے 

ثاقب نے سب سے پہلے اپنے آفس میں موجود فی میل اسٹاف کو آفس سے نکال دیا جو ہوچکا تھا وہ اسے دوبارہ نہیں کرنا چاہتا تھا 

◽◽◽◽◽

"ڈیڈ میں اسکول کے لیے لیٹ ہورہا ہوں" تیرہ سالہ مصطفی جھنجھلا کر کچن میں داخل ہوا جو کب سے باہر اپنے باپ کا انتظار کررہا تھا

"ارے برادر رہنے دو نہ کتنا اچھا  سین چل رہا ہے" گیارہ سالہ یارم نے شرارت سے اپنے ماں باپ کو دیکھتے ہوے کہا جس پر زمل فورا اس سے دور ہوئی 

"اپنے بابا کو بتادینا اور انہیں چھوڑو تم خود یہ بات جان لو کہ ثاقب صرف زمل کا ہے" اسکا گال تھپتپھاکر ثاقب مسکراتا ہوا ان دونوں کو لے باہر چلا گیا 

◽◽◽◽◽

بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر ویٹنگ ایریا میں بیٹھے شخص پر پڑی ثاقب حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات لیے ثاقب نے اپنے قدم اس شخص کی طرف بڑھادیے 

"کریم تم یہاں کیا کررہے ہو" ثاقب کی آواز سن کر کریم نے حیرت سے اس دیکھا 

"میں یہاں جوب انٹرویو کے لیے آیا تھا کیا یہ تمہاری کمپنی ہے" 

"ہاں آؤ میرے ساتھ" ثاقب نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اسے اپنے آفس روم میں لے گیا 

دو کپ چاے کا آرڈر دے کر ثاقب اس کی طرف متوجہ ہوا جو اسکے آفس کی ہر چیز کا جائزہ لے رہا تھا

"گھر میں سب کیسے ہیں" 

"سب ٹھیک ہیں ثاقب تم بتاؤ تمہاری زندگی کیسی جارہی ہے" 

"بہت اچھی میری بیوی اور بچوں کی وجہ سے میری زندگی پرسکون اور مکمل ہے" ثاقب اور کریم یونیورسٹی کے دوست تھے جہاں ثاقب ایک ہونہار اسٹوڈنٹ تھا وہیں کریم اپنی بدمعاشی کی وجہ سے یونیورسٹی میں پہچانا جاتا تھا ثاقب ہر بار اسے سمجھانے کی کوشش کرتا لیکن کریم کی حرکتیں دن بہ دن بڑھتی جارہی تھیں ایک دن کریم کے بیگ سے تلاشی لینے پر ڈرگ برآمد ہوئی جس کی وجہ سے اسے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور اسے جلد ہی یہ بات بھی پتہ چل چکی تھی کہ ڈرگس والی بات سب کو ثاقب نے بتائی تھی جس کی وجہ سے وہ ثاقب سے اپنی دوستی ختم کرچکا تھا

ثاقب اس سے بہت بار معافی مانگ چکا تھا اسکا ارادہ کریم کو یونیورسٹی سے نکلوانے کا ہرگز نہیں تھا وہ تو بس ایک کوشش کررہا تھا کہ کریم سدھر جاے یہ سب تو اسنے کبھی نہیں چاہا تھا 

"میں اس سب کے لیے آج بھی شرمندہ ہوں" ثاقب نے نظریں جھکا کر کہا 

"بھول جاؤ" 

''کیسے بھول جاؤں تمہارا فیوچر خراب ہوگیا اس سب کی وجہ سے میں نے تو صرف تمہارا بھلا چاہا تھا یہ سب ہوگا یہ تو میں نے سوچ بھی نہیں تھا"

"ثاقب میں نے کہا نہ بھول جاؤ" کریم کی سخت آواز پر ثاقب بھی خاموش ہوچکا تھا

◽◽◽◽◽

ثاقب کریم کو اپنی کمپنی میں جوب دے چکا تھا دونوں کی روز ملاقات ہوجاتی اور کافی باتیں جس میں زیادہ تر باتیں ثاقب کرتا اور اسکی ہر بات میں اسکی فیملی شامل ہوتی ثاقب اسے اپنی ہر بات بتاچکا تھا کس طرح اسنے زمل سے شادی کی اسکے سسر کو اپنی بیٹی سے کتنی محبت ہے 

اور دوسری طرف کریم اس سے اپنی فیملی کی باتیں کم ہی کرتا تھا 

اسنے صرف یہی بتایا تھا کہ اسکا ایک بیٹا اور بیٹی ہیں 

◽◽◽◽◽

"کیا ہوا پریشان لگ رہے ہو" کریم نے پریشانی سے کام کرتے ثاقب کو دیکھتے ہوے کہا 

"ہاں وہ مصطفی کی طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں ہے بس اسی کو سوچ کر پریشان ہوں" 

"کیا ہر وقت بس کام کرتے رہتے ہو کبھی ان چیزوں سے نکل کر بھی کچھ سوچ لیا کرو چھوڑو اسے آج میں تمہیں تھوڑی دیر کے لیے ان سب چیزوں سے دور لے کر چلتا ہوں "اسکے منع کرنے پر بھی زبردستی کریم اسے اپنے ساتھ باہر لے کر چلا گیا 

جہاں اسنے ایک کلب کے آگے گاڑی روکی 

"یہاں کیوں لاے ہو تمہیں پتہ ہے مجھے ایسی جگہ نہیں پسند" ثاقب نے اپنی ناپسندیدگی ظاہر کری 

"تھوڑی دیر کے لیے چلتے ہیں اگر تمہیں اچھا نہیں لگا تو پرامس ہم واپس چلے جاینگے" کریم کے کہنے پر ناچاہتے ہوے بھی وہ اسکے ساتھ اندر چلا گیا 

جہاں ہر طرف شور اور ایک دوسرے میں کھوے ہوے کچھ ڈانس کرتے ہوے لڑکا لڑکی موجود تھے ثاقب کو اس ماحول سے کوفت محسوس ہورہی تھی

"یہ لو پی لو پھر ہم چلتے ہیں" کریم نے کولڈ رنک کا گلاس اسکی طرف بڑھاتے ہوے کہا جس میں اسنے گولیاں ملائی تھیں 

جلدی سے اس گلاس کو ختم کرکے ثاقب اپنی جگہ سے اٹھ گیا 

"چلیں" 

"یار میں تو تمہیں انجوائے کروانے کے لیے لایا تھا"

"تم جانتے ہو کریم مجھے یہ سب نہیں پسند تمہیں بیٹھنا ہے تو بیٹھ جاؤ میں گاڑی میں تمہارا انتظار کررہا ہوں" اسے کہتے ہوے ثاقب باہر کی طرح جانے لگا جب اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا

"کیا ہوا ٹھیک ہو "کریم کے پوچھنے پر اسنے زور سے اپنی آنکھوں کو میچ کر اپنا سر اثبات میں ہلادیا 

"فاریہ" کریم نے مسکراتے ہوے دور کھڑی فاریہ کو اپنے قریب بلایا 

فاریہ کے والدین کم عمری میں ہی اسے چھوڑ کر جاچکے تھے بھائی اپنی زندگی میں مگن تھا اور وہ اپنی 

"ہمارے ثاقب صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے"

"میں ہوں نہ انکی طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے" فاریہ نے مسکراتے ہوے ثاقب کا مردانہ ہاتھ تھام لیا 

ثاقب اپنے چکراتے سر کے ساتھ اسی طرف چلتا رہا جہاں فاریہ اسے لے کر جارہی تھی اسکے ساتھ کیا ہورہا تھا اسے خود بھی علم نہیں تھا 

فاریہ نے اسکے کالر کو کھینچ کر اسے اپنے قریب کرلیا 

◽◽◽◽◽

اسنے زور سے اپنی آنکھیں میچ کر کھولیں جب نظر اپنے شرٹ لیس وجود پر سوئی فاریہ پر پڑی فاریہ کو خود پر سے دھکا دے کر ثاقب فورا اپنی جگہ سے اٹھا 

اسکے دھکا دینے پر فاریہ نے اپنی نیند میں ڈوبی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا 

ثاقب نے اپنے دماغ پر زور دے کر رات کا ہر منظر یاد کرنے کی کوشش کری لیکن اسے کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا اسنے فورا اپنی شرٹ اٹھائی اور اس جگہ سے نکل گیا 

◽◽◽◽◽

چند دنوں سے وہ کافی پریشان تھا گھر میں زمل اور بچو کو بھی وہ ٹھیک سے ٹائم نہیں دے پارہا تھا رہ رہ کر اسے صبح کا وہی منظر یاد آرہا تھا

اسکے ساتھ کیا ہوا تھا اسے خود بھی علم نہیں تھا یہ بات تو صرف کریم ہی بتا سکتا تھا جو کہ اس دن سے غائب تھا اور نہ ہی اسکا فون نمبر لگ رہا تھا

وہ پہلے سے ہی پریشان تھا لیکن اسکی پریشانی اس وقت زیادہ ہوئی جب فاریہ اسکے آفس میں داخل ہوئی 

جس کا کہنا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے یہ خبر ثاقب پر بم بلاسٹ کی طرح گری تھی جو جو ثبوت یہ بات ثابت کرسکتے تھے فاریہ وہ ہر ثبوت لائی تھی

اسکی دی ہوئی رپورٹس ثاقب نے اپنے خاص ڈاکٹر سے چیک کروائی تھیں جس کا یہی کہنا تھا کہ یہ رپورٹس اصلی ہے اور جب سے ہی وہ جلے پیر کی بلی بنا چکر لگا رہا تھا جب کسی کے ہسنے کی آواز اسکے کانوں میں پڑی 

اسنے آواز کی طرف دیکھا جہاں کریم ہنستے ہوے اسے ہی دیکھ رہا تھا ثاقب نے غصے سے اسکا کالر پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا 

"بتا مجھے کیا، کیا تھا تو نے میرے ساتھ"

"میں نے تو صرف تیری کولڈ رنک میں گولیاں ملائی تھیں اب اسے پینے کے بعد تو نے کیا کیا ہے یہ تو تجھے پتہ ہوگا"کریم نے خباثت سے ہنستے ہوے کہا

"کیا بگاڑا تھا میں نے تیرا "ثاقب نے غصے سے دھارڑتے ہوے کہا 

"تو نے میرے زندگی برباد کردی تیری وجہ سے مجھے یونیورسٹی سے نکالا گیا میرا فیوچر برباد ہوگیا، لیکن اب تیری باری ہے "اپنا کالر چھڑا کر کریم وہاں سے چلا گیا اور ثاقب کتنی دیر تک اپنا سر ہاتھوں میں گراے بیٹھا رہا 

اسے پتہ تھا فاریہ اس سے نکاح کرنا چاہتی ہے وہ ہمیشہ اسی موقع کی تلاش میں تھی کہ ایک امیر مرد اسے مل جاے جس کے پاس دولت شہرت سب ہو اور کریم اسے یہ موقع دے چکا تھا

اگر اسنے فاریہ سے نکاح نہیں کیا تو وہ یہ بات میڈیا تک پھیلا دے گی جس کی وجہ سے اسکا سب کچھ برباد ہوجاے گا 

◽◽◽◽◽

زمل حیرت و صدمے سے ثاقب کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ رہی تھی 

"یہ ک-کون ہے ثاقب" 

"یہ میری بیوی ہے" ثاقب نے نظریں جھکاے کہا جب اسے الفاظ شیرازی کی تیز غصے سے بھری آواز سنائی دی جو ابھی ابھی انکے گھر میں داخل ہوے تھے لیکن ثاقب کی بات وہ بھی سن چکے تھے

"کیا بکواس کررہے ہو گھٹیا انسان"

"یہ سب سچ ہے یہ میری بیوی ہے" شور سن کر یارم اور مصطفی بھی اپنے کمرے سے باہر آچکے تھے جہاں انکے نانا غصہ کررہے تھے وہیں باپ نظریں جھکاے کھڑا تھا 

گرنے کی آواز پر سب زمل کی طرف بھاگے 

"خبردار جو میری بیٹی کو ہاتھ بھی لگایا" الفاظ شیرازی نے اسکے زمل کی طرف بڑھتے ہوے ہاتھوں کو جھٹکا اور خود اہنی بیٹی کو اٹھا کر فورا ہاسپٹل لے کر چلے گئے 

ثاقب بےچینی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ہاسپٹل گیا جہاں اسکے پہچنے سے پہلے ہی اسکی زمل اسے چھوڑ کر جاچکی تھی 

بنا اسکے کوئی گلہ کیے 

بنا اسکی وضاحت سنے وہ جاچکی تھی 

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسکا دل بند ہوچکا تھا 

اور ثاقب وہیں بیٹھ چکا تھا اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا اسے افسوس ہورہا تھا کہ اسنے یہ بات پہلے کیوں نہیں سوچی 

سب جانتے تھے کہ وہ ایک کمزور دل کی مالک ہے وہ تو چھوٹی سے چھوٹی بات پر اتنا پریشانی ہوجاتی تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنی بڑی بات سہہ جاتی 

ثاقب خود کو اسکی موت کا زمیدار سمجھتا تھا اسے لگتا تھا کہ اگر وہ زمل کو یہ سب نہیں بتاتا تو آج وہ زندہ ہوتی اسکے پاس اسکے ساتھ ہوتی 

الفاظ صاحب یارم اور مصطفی کو اپنے گھر لے کر آچکے تھے اور ثاقب خاموشی سے اپنی اولاد کو خود سے دور جاتا دیکھتا رہا 

اسے پہلے یہی لگا تھا کہ بیٹی کی موت کی وجہ سے الفاظ صاحب ان دونوں کو اپنے ساتھ  لے کر گئے ہیں لیکن وہ تو ہمیشہ کے لیے انکی اولاد کو اپنے ساتھ لے کر چلے گئے تھے 

یارم اور مصطفی سے ملنے پر انکی آنکھوں میں موجود نفرت انہی اندر تک گھائل کررہی تھی ان دونوں کو بھی یہی لگ رہا تھا کہ ثاقب ہی انکی ماں کا قاتل ہے 

نہ تو کبھی انہوں نے وضاحت مانگی نہ تو کبھی ثاقب نے انہیں وضاحت دی کیونکہ وہ بھی خود کو ہی زمل کی موت کا ذمےدار سمجھتے تھے 

پرانی باتوں سے نکل کر ثاقب نے گہرا سانس لے کر اپنی بھیگی آنکھوں کو موند لیا 

جنت حیرت سے اس بڑے سے کمرے کو دیکھ رہی تھی جو ان کے گھر کے لحاظ سے تین کمروں کے برابر تھا، کمرے میں موجود مہنگا فرنیچر اور سجاوٹ اس کمرے کو مزید خوبصورت بنارہی تھی 

"تم فریش ہوجاؤ پھر آرام کرلینا یا چاہو تو کھانا کھالینا مجھے ضروری کام سے جانا ہے" عجیب سی بےچینی تھی جو اسکے پورے وجود پر طاری ہوئی وی تھی وہ بس جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہتا تھا 

اسے خود اپنی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی جس لڑکی سے دوری پر وہ بےچین تھا آج وہ قریب تھی لیکن پھر بھی وہ بہت دور لگ رہی تھی 

◽◽◽◽◽

اسے دیکھتے ہی زاہدہ باجی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی

"میں اپنی امانت لینے آیا ہوں"

"جانتی ہوں آؤ میرے ساتھ" زاہدہ باجی نے خوش دلی سے کہتے ہوے اسے اپنے ساتھ آنے کو کہا اور اسے لے کر مہر کے کمرے میں چلی گئیں

"میں نے اسے نیند کی دوائی دی تھی اسلیے یہ گہری نیند سورہی ہے، یہ بہت کم ہی پرسکون نیند سوتی ہے" زاہدہ باجی نے مہر کے سوے ہوے وجود کو دیکھتے ہوے کہا جس پر دائم نے اپنا سر اثبات میں ہلاکر اس کا وجود اپنی بانہوں میں اٹھالیا 

"اسکا خیال رکھنا"

"آپ بےفکر رہیے"

◽◽◽◽◽

آنکھ کھلنے پر اسنے حیرت سے ارد گرد دیکھا وہ اس وقت کہاں تھی

جہاں تک اسے یاد تھا وہ تو اپنے کمرے میں سوئی تھی تو پھر وہ یہاں کیسے آگئی 

وہ پریشانی سے بیڈ سے اتر کر دروازے کی طرف بڑھی لیکن دروازہ بجانے سے پہلے ہی اسکی نظر کمرے میں لگی بڑی سی تصویر کی پر پڑی 

جس میں ایک خوبرو مرد نے مسکراتے ہوے اپنی گود میں بچے کو اٹھایا ہوا تھا اور وہ بچہ بھی مسکراتے ہوے اس مرد کو دیکھ رہا تھا 

اور مہر یہ یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ تصویر میں موجود شخص اور بچے کو اسنے کہاں دیکھا تھا 

اور دماغ پر زور دینے سے اسے یہ بھی یاد آچکا تھا کہ اس بچے کو اسنے بچایا تھا جب وہ گاڑی سے ٹکرانے والا تھا اور سٹرک پر ہی اسنے اس شخص پر کتنا غصہ کیا تھا 

"تو کیا یہ آدمی مجھے بدلہ لینے کے لیے اٹھا کر لایا ہے ، ہاں اور کیا ہوگا میں نے بھی تو سڑک پر ہی کھڑے کھڑے اسے کیا کیا بول دیا تھا لیکن اب کیا ہوگا نہیں مجھے ڈرنا نہیں ہے میں مقابلہ کرونگی" وہ خود ہی بڑبڑا کر اپنے آپ کو تسلی دے رہی تھی جب اسے کمرے کے قریب آتی قدموں کی آواز سنائی دی وہ وہاں موجود گلدان اٹھا کر دروازے کے پیچھے کھڑی ہوگئی 

جب دائم اندر داخل ہوا لیکن اس سے پہلے مہر اسے گلدان مارتی دائم اسکے دونوں ہاتھ تھام چکا تھا

"کیا کررہی ہو لڑکی بیوہ ہونے کا شوق چڑا ہے" دائم نے اسکے ہاتھ سے وہ گلدان لے کر ٹیبل پر رکھ دیا جب اسکی بات سن کر مہر نے حیرت سے اسے دیکھا 

"کیا کہا" 

"میں نے کہا میری نئی نئی شادی پر میری بیوی نے پہلا تحفہ مجھے یہ دیا ہے" اشارہ گلدان کی طرف تھا

"تو آپ دائم ہیں" آواز میں ابھی تک حیرت و صدمہ تھا 

"ہاں میں ہی دائم سلطان ہوں" نظریں بھٹک بھٹک کر اسکے گلابی لبوں کے نیچے موجود تل پر جارہی تھیں 

"کیوں شادی کی آپ نے مجھ سے"

"کیونکہ تم پہلی وہ لڑکی ہو جس نے دائم سلطان کے دل پر دستک دی جس سے دائم سلطان کو محبت ہوئی" 

"محبت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی اور ایک ایسی لڑکی سے تو ہرگز نہیں جو آپ کو کوٹھے پر ملی ہو میں جانتی ہوں آپ نے مجھ سے شادی صرف اپنے مطلب کے لیے کی ہے جیسے ہی پورا ہوگا مجھے چھوڑ دینگے آپ صرف مجھے استعمال "دائم نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کرلیا اسکے ایسا کرتے ہی مہر کی بات ادھوری رہ چکی تھی وہ اپنے آپ کو اسکی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی جو کہ اس کے بس سے باہر تھا

"چھوڑیں مجھے" دائم کی اتنی سخت گرفت پر تکلیف کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے 

"کچھ بھی کہہ لو لیکن اپنی محبت کی توہین میں برداشت نہیں کرونگا اگر مجھے تم سے کوئی مطلب ہی پورا کرنا ہوتا تو میرے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے تمہارے وجود کی طلب نہیں تھی جب مجھے اپنی محبت کا احساس ہوا تب میں جانتا بھی نہیں تھا تم کہاں سے ہو اور جب پتہ چلا تو بھی تمہارے لیے میری محبت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی تم مجھے ہر حال میں قبول ہو میں جانتا ہوں تم پاک ہو لیکن ایسا نہیں بھی ہوتا تو بھی میں تمہارے سر پر اپنے نام کی چادر ضرور اُڑاتا" اسکے آنسو دیکھ کر دائم نے اپنی گرفت سے اسے آزاد کردیا اور وہاں سے چلا گیا اسے اس بات کا دکھ تھا کہ اسکی وجہ سے مہر کی آنکھوں میں آنسو آے 

◽◽◽◽◽

موبائل بجنے کی آواز کمرے میں گونجی اسنے ٹی-وی سے نظریں ہٹا کر موبائل کی طرف دیکھا جہاں انجان نمبر سے کال آرہی تھی ٹی-وی کی آواز ہلکی کرکے اسنے کال پک کرلی کرلی

"ہیلو کون" 

"یارم شیرازی" دوسری طرف نام سن کر اسنے موبائل کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا اسے پتہ تھا ضرور کوئی اسکے ساتھ مذاق کررہا تھا

"مذاق بہت ہوگیا اب بتاؤ تم کون ہو"

"ساریہ میں ہوں یارم"

"یارم سر آپ سچ میں ، آپ نے مجھے کال کری کیسے کیا کوئی کام تھا آپ کے پاس میرا نمبر کیسے گیا ، چلا ہی گیا ہوگا آپ کے لیے کونسا مشکل کام ہے" اسکی آواز سن کر یارم یہی اندازہ لگا سکا کہ یا تو یارم کے فون کرنے پر اسے بہت زیادہ صدمہ ہوا ہے یا بہت زیادہ خوشی ہوئی ہے 

"میری بات سنو "یارم نے سخت لہجے میں کہا کیونکہ اسکی لگاتار چلتی زبان بند ہی نہیں ہورہی تھی 

"مجھے تم سے ایک کام ہے" 

"مجھ سے ،کہیے" 

"مجھے دعا کا ایڈریس چاہیے"

"لیکن کیوں" 

"جو کہا ہے وہ کرو" 

"تو میں پہلے اس سے پوچھ لوں" اسکی بات سن کر یارم کا دل کیا کہ اپنا سر پیٹ لے اسے خود پر غصہ آرہا تھا جو وہ یہ سوچ رہا تھا کہ ساریہ اسے آسانی سے ایڈریس دے دے گی اس سے بہتر تو وہ خود ہی نکلوالیتا

"ہیلو آواز آرہی ہے آپکو" اسکی خاموشی پر ساریہ نے آہستہ آواز میں کہا لیکن اسکے کچھ نہ کہنے پر اسے یہ خدشہ لاہق ہوگیا کہ کہیں یارم اسے سے ناراض تو نہیں ہوگیا اسلیے جلدی جلدی بولنے لگی کہیں یار

اور دوسری طرف یارم جو فون رکھنےے والا تھا اسکی آواز سن کر رک گیا 

"رکیے میں دیتی ہوں ایڈریس" ایڈریس لینے کے بعد اسکے لبوں پر جاندار مسکراہٹ آئی جو اسے مزید دلکش بنارہی تھی

"تھینکس"

"بات سنیں ویسے مجھے نہیں پتہ آپ اسکے گھر کیوں جارہے ہیں لیکن ابھی اسکے گھر مت جایے گا"

"لیکن کیوں" اسنے حیرت سے کہا

"اسکے گھر میں مہمان ہونگے"

"اور وہ کیوں ہونگے"

"اسکی شادی جو ہورہی ہے مجھے بھی جانا تھا لیکن میری طبیعت "وہ پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہی تھی لیکن یارم کا زہہن تو لفظ شادی پر اٹکا ہوا تھا اسنے فون کاٹ دیا 

اسکی آنکھیں غصے سے لال سرخ ہورہی تھیں زہہن میں بس یہی بات گھوم رہی تھی

"دعا کی شادی"

◽◽◽◽◽

اسے کمرے میں بیٹھے ناجانے کتنا وقت بیت چکا تھا لیکن اسکے بعد سے دائم کمرے میں نہیں آیا 

پتہ نہیں اسے مہر کے آنسو برے لگے تھے یا مہر کی بات-----

اسنے آہستہ سے اپنے قدم کمرے سے باہر نکالے اسے کہاں جانا تھا اسے نہیں پتہ تھا لیکن اتنی دیر سے کمرے میں اکیلے بیٹھے بیٹھے وہ اکتا چکی تھی سیڑھیاں اتر کر وہ نیچی آئی جب نظر کمرے کے آدھ کھلے دروازے پر پڑی لائٹ کھلی ہوئی تھی یقینا اندر کوئی تھا یہی سوچ کر مہر اُس کمرے کی طرف بڑی اور اندر کا خوبصورت منظر دیکھ کر وہ وہیں دروازے پر رک چکی تھی 

جہاں دائم بلیک کمیز شلوار میں نماز پڑھ رہا تھا 

وہ اپنی نماز میں کھویا ہوا تھا اور مہر اُس میں اس وقت وہ کتنا پیارا لگ رہا تھا یہ کوئی مہر سے پوچھتا اسے دائم سلطان سے نگاہ ہٹانا دنیا کا مشکل کام لگ رہا تھا 

اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا اسکے اٹھتے ہی مہر بھی جلدی سے وہاں سے جانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی دائم اسے دیکھ چکا تھا 

"مہر ادھر آؤ" دائم کے پکارنے پر مہر سر جھکاتی اسکے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی 

"واپس کیوں جارہی تھیں کچھ کہنا تھا" اس کا ہاتھ تھام کر دائم نے اسے اپنے قریب کرلیا 

"وہ ، وہ مجھے سوری کرنا تھا 

کس لیے" 

"میں نے بہت غلط بات کری" 

"جو کہا اسے بھول جاؤ اور مجھے بتاؤ تم اس جگہ کیسے پہنچی" دائم کی بات پر اسنے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا 

◽◽◽◽◽

اسنے اپنی آنکھیں کھول کر حیرت سے ارد گرد کا جائزہ لیا باہر سے تیز آوازے آرہی تھیں اسے تو بس اتنا یاد تھا کہ کسی نے اسکی ناک پر کچھ رکھا تھا جس سے وہ بیہوش ہوگئی اور اب آنکھ کھلنے پر وہ یہاں تھی 

وہ بھاگتے ہوے اس کمرے سے باہر نکلی اسکے باہر نکلتے ہی ہر کوئی اسے ہی دیکھ رہا تھا اسے اس وقت یہ بھی ہوش نہیں تھا کہ اسکے پاس اسکا ڈوپٹہ نہیں ہے

وہاں موجود ہر مرد کی نظریں اب اسی پر تھیں اتنی سمجھ تو اس میں تھی کہ یہاں موجود مردوں کی نظروں کا مفہوم سمجھ پاتی 

سب کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں جسے دیکھ کر وہ جلدی سے اُسی کمرے میں جانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی کوئی اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچ چکا تھا 

''ارے زاہدہ باجی اسے کہاں چھپا رکھا تھا" نوید نے ہنس کر اسے دیکھتے ہوے زاہدہ باجی سے کہا 

مہر اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنی لگی اسے اس ماحول میں گھٹن محسوس ہورہی تھی زاہدہ باجی نے آگے بڑھ کر نوید کی گرفت سے اسکا ہاتھ آزاد کروایا 

"یہ یہاں نئی آئی ہے اسلیے اسے رہنے دیجیے "زاہدہ باجی کہتے ہوے اسے دوبارہ اسی کمرے میں لے آئیں جہاں سے وہ نکلی تھی 

"میں یہاں کیسے آئی" 

"حسان تمہیں چھوڑ کر گیا تھا کیا تم جانتی ہو اسے" زاہدہ باجی کی بات سن کر اسنے زور سے اپنی بھیگی آنکھیں بند کرلیں اسے پتہ تھا حسان کس کے کہنے پر اسے یہاں چھوڑ کر گیا ہے اسے پتہ تھا وہ شخص گھٹیا ہے لیکن اتنا گھٹیا نکلے گا اسنے سوچا بھی نہیں تھا 

"میں یہاں نہیں رہ سکتی آپ پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں" مہر نے التجائی انداز میں انہیں دیکھتے ہوے کہا 

"ٹھیک ہے میں خود تمہارے ساتھ چلونگی لیکن ابھی تو رات ہوچکی ہے میں تمہیں صبح لے کر چلونگی"

"نہیں مجھے ابھی جانا ہے آپ پلیز مجھے لے جائیں" ویسے تو وہ جانتی تھی کہ جو تائی امی بلاوجہ اسکے پیچھے پڑی رہتی تھیں اب تو شاید اسے گھر میں بھی نہ گھسنے دیں لیکن اسے پتہ تھا تایا ابو اسکی بات ضرور سنینگے

◽◽◽◽◽

دروازہ تحریم نے کھولا تھا جو اسے دیکھتے ہی اس سے چپک گئی

"مہر آپی آپ کہاں تھیں "تحریم نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوے کہا اور اسے لے کر اندر آگئی جب تائی امی کی تیز آواز اس جگہ پر گونجی

"کیا کرنے آئی ہو تم یہاں نکل جاؤ میرے گھر سے"

"تائی امی آپ میری بات سنیں"

"کچھ نہیں سننا مجھے یار نے چھوڑ دیا تو پھر ہمارا منہ کالا کرنے آگئی نکل" 

"کہیں نہیں جاؤنگی میں ، کچھ نہیں کیا میں نے سارا قصور آپکے بیٹے کا ہے"

"خبردار جو اپنا کیا دھرا تم نے میرے بیٹے پر ڈالا ارے وہ تو تم سے شادی پر بھی راضی تھا کہ بن ماں باپ کی بچی ہے اپنوں میں ہی رہے گی لیکن تم نے دکھادی نہ اپنی اوقات نکلو یہاں سے "تائی امی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گھر سے نکالنے لگیں

"امی بات تو سن لیں" تحریم نے آگے بڑھ کر انہیں روکنا چاہا 

"خبردار جو تم نے اسکی حمایت کری جاؤ کمرے میں" 

"تائی امی پلیز بس مجھے تایا ابو سے بات کرنے دیجیے پھر میں چلی جاؤنگی" 

"بہت بیوقوف بنالیا تم نے انہیں اب ہماری جان چھوڑ دو" اسے گھر سے نکال کر تائی امی دروازہ اسکے منہ پر مار چکی تھیں اور وہ رو رو کر دروازہ بجاتے ہوے وہیں بیٹھ چکی تھی 

"تم میرے ساتھ چلو بیٹا" 

"میں ایسی کسی جگہ نہیں جاؤنگی"

"تم میرے ساتھ چلو وہاں جو بھی کام ہوتا ہے وہ لڑکی کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے اور میں تمہیں یقین دلاتی ہوں وہاں رہ کر بھی تم عزت سے رہو گی" اسکا روتا وجود اٹھا کر زاہدہ باجی اسے اپنے ساتھ لے گئیں اسنے مڑ کر گھر کے دروازے کی طرح دیکھا شاید تائی امی دروازہ کھول دیں لیکن ایسا نہیں ہوا 

اسنے فون پر تایا ابو سے بات کرنے کی کوشش کی تھی اور تائی امی کی طرح اسکے پیار کرنے والے تایا نے بھی اسے دھتکار دیا

◽◽◽◽◽

نہ جانے کتنی دیر سے وہ اسکا روتا وجود اپنے سینے سے لگاے کھڑا تھا

مہر اپنے آنسو بہا رہی تھی وہ سارے آنسو جو اسنے اتنے وقت سے کسی کے سامنے نہیں بہاے آج وہ اپنے ہر دکھ کا اظہار دائم کے سامنے کررہی تھی اور وہ اسکا ہر کام بہنے دے رہا تھا روتے روتے جب وہ تھک گئی تو خود ہی اس سے دور ہوگئی دائم نے اسکے آنسو صاف کرکے اسے وہاں موجود صوفے پر بیٹھادیا اور پانی کا گلاس اسے دیا جسے چند گھونٹ لینے کے بعد وہ رکھ چکی تھی 

"میں تمہاری زندگی سے ان برے لمحوں کو نہیں مٹا سکتا مہر لیکن یہی کہونگا کہ ماضی کو بھول جاؤ جو ہوچکا اسے بھول جاؤ بس اپنے بارے میں سوچو میرے بارے میں سوچو ہمارے بارے میں سوچو میری پوری کوشش ہوگی تمہیں وہ دے سکوں جس کی تم حقدار ہو"

"آپ سے ایک بات پوچھوں" مہر نے جھجکتے ہوے اپنے سامنے بیٹھے شخص سے کہا جو اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

"میری جان تمہیں مجھ سے کچھ بھی پوچھنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہے" 

"آپکی بیوی کہاں ہے" اسکی بات سن کر دائم کے لبوں پر تبسم بکھرا

"میں نے کب کہا میری شادی ہوئی ہے -----"اسکی بات پر مہر نے حیرت سے اسے دیکھا 

"تو وہ لڑکا"

"اسکا نام شہیر ہے ، وہ میرے دوست جنید کا بیٹا ہے وہ اور مریم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن گھر والوں کے راضی نہ ہونے پر انہوں نے اپنا گھر چھوڑ کر شادی کرلی لیکن یہ ساتھ بھی صرف چار سال کا تھا کار ایکسیڈنٹ میں انکی موت ہوگئی اور وہ اپنے تین سال کے شہیر کو چھوڑ کر چلے گئے جسے نہ تو مریم کی فیملی نہ اپنایا اور نہ جنید کی فیملی نے کیونکہ انکے لیے انکی اولاد اسی وقت مرچکی تھی جب وہ انکا گھر چھوڑ کر آئی تھی پھر میں نے شہیر کو اپنے پاس رکھ لیا اسے اپنی اولاد بنالیا اور وہ میرے لیے بہت عزیز ہے ،میری جان ہے وہ اور میں تم سے بھی یہی امید کرونگا مہر کہ تم اسے ایک ماں کا پیار دو"

"میں اپنی پوری کوشش کرونگی" 

"اور تمہاری اس کوشش میں ، میں تمہارا ساتھ دونگا" اسکی کمر کے گرد اپنے ہاتھ رکھ کر دائم نے اسے اپنے قریب کرلیا اور اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا دی 

پورا گھر لائیٹوں اور پھولوں سے سجا ہوا تھا ہر طرف ہل چل اور شور تھا ساری لڑکیاں دعا کے کمرے میں اسکو گھیر کر بیٹھی ہوئی تھیں 

ویسے تو الیاس صاحب کو مایوں کی یہ رسم فضول ہی لگی لیکن سب کے اصرار پر انہوں نے گھر میں خاص مہمانوں کو بلا کر چھوٹی سی مایوں کی تقریب رکھ لی تھی 

"کتنی پیاری لگ رہی ہو دعا زین بھائی کو تمہاری تصویر بھیجوں" دعا کی کزن ارم نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں تمہیں پتہ ہے نہ-----"

"ہاں ہاں تمہاری ابو جان کو پسند نہیں"اسکی بات کاٹ کر ارم نے منہ بنا کر کہا اور پھر کنیز بیگم کے بلانے پر سب باہر چلی گئیں جب دعا کو اپنی پیچھے کچھ ہلچل محسوس ہوئی اسنے ڈر کر پیچھے دیکھا 

جہاں یارم کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا پیلے کلر کے ہلکے کامدار گرارے میں پھولوں کے زیور پہنے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی بالوں کی اسٹائلش چٹیا بنائی ہوئی تھی یارم نے پہلی بار اسے اس طرح تیار ہوے دیکھا تھا لیکن دعا کی تیاری اس وقت اسے بہت بری لگ رہی تھی کیونکہ اس وقت وہ کسی اور کے نام پر سجی ہوئی تھی

"یہ سب کیا ہے دعا" 

"سوری وہ آپ کو بتانا بھول گئی اپنی شادی کے بارے میں اور سوری اسلیے بھی کہ آپ کو بلا نہیں سکی دراصل آپ کو پتہ ہے نہ ابو جان کا اگر انہیں پتہ چل جاتا کہ میں نے ایک لڑکے سے دوستی کری ہے"

"شٹ اپ ایک لفظ مت کہنا" دعا کی چلتی زبان جب رکی جب دور کھڑا یارم غصے سے اسکے قریب آیا اسکی سرخ ہوتی آنکھوں سے دعا سہم چکی تھی 

"کیوں ہو تم اتنی بیوقوف تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں شادی کی مبارک باد دینے آیا ہوں" یارم نے اسکے دونوں بازو اپنی گرفت میں لے کر اسکے مزید خود کے قریب کرلیا 

"کیا کررہے ہیں یارم چھوڑیں مجھے" دعا ڈرتے ہوے اپنے آپ کو اسکی گرفت سے آزاد چاہا لیکن یارم گرفت میں مزید سختی لا چکا تھا 

"کتنا پیارا لگتا ہے نہ تمہارے ان لبوں سے میرا نام" 

"چھوڑیں مجھے" اب وہ باقاعدہ رونا شروع ہوچکی تھی 

"کیوں چھوڑوں کیا تم نہیں جانتی ہو دعا یارم شیرازی تم سے عشق کرتا ہے" اسکی باتوں سے گھبرا کر دعا نے چیخنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی یارم اپنی جیکیٹ کی پوکیٹ سے رومال نکال کر اسے بیہوش کرچکا تھا 

اسکی گرفت میں جھٹپٹانے کے بعد دعا کا وجود بیہوش ہوکر اسکی بانہوں میں جھول چکا تھا 

"سوری جان میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا" اسکا وجود اپنے کندھے پر ڈال کر وہ جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے واپس چلا گیا 

◽◽◽◽◽

"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے تم ایک لڑکی کو اس کے مایوں کے دن اٹھا لاے ہو" مصطفی نے غصے سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"پہلے بتادیتے برات والے دن اٹھا لاتا" یارم نے اطمینان سے جواب دیا 

"یہ مذاق کا وقت نہیں ہے یارم"

"ڈئیر برادر تمہارے کے لیے تو کوئی بھی وقت مذاق کا نہیں ہوتا اور اس میں غلط کیا ہے تم نے بھی تو یہی کیا تھا"

"میری بات الگ تھی یارم جنت اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئی تھی میں نے کوئی زبردستی نہیں کی تھی"

"مصطفی ٹھیک کہہ رہا ہے یارم تم غلط کررہے ہو اس لڑکی کو واپس چھوڑ آؤ" دائم نے سنجیدہ لہجے میں کہا 

"نہیں دائم بھائی میں اب اسے خود سے دور نہیں کرونگا ایک بار نکاح ہوجاے تو میں اسے خود اس کے گھر لے کر جاؤنگا لیکن اس سے پہلے میں ابھی اور اسی وقت دعا سے نکاح کرونگا"

"ٹھیک ہے ،لیکن کیا وہ لڑکی اس سب کے لیے راضی ہے"گہرا سانس لے کر مصطفی نے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"ہوجاے گی اسے راضی کرنا مشکل نہیں ہے"یارم نے مسکراتے ہوے دائم اور اسے دیکھا 

◽◽◽◽◽ 

دروازہ کھلنے کی آواز پر بھی اسکا سر ہنوز جھکا رہا اپنے آپ میں سمٹ کر وہ مسلسل رو رہی تھی 

"دعا" یارم نرمی سے کہتا ہوا اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا لیکن اسکا سر ویسے ہی جھکا رہا

"مولوی صاحب آرہے ہیں ڈوپٹہ سر پر لو" اس بار تھوڑا سخت لہجے میں کہا 

"میں نے آپ کو اپنا دوست کہا تھا اور آپ نے کیا کیا میرے ساتھ" سر اٹھا کر اسنے غصے سے یارم کو دیکھتے ہوے کہا 

"میں نے تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا اور تم سے کس نے کہا دوست ایک دوسرے سے شادی نہیں کرسکتے میرے جان میں نکاح کے بعد بھی تمہارا بیسٹ فرینڈ ہی رہونگا" 

"بند کریں اپنی بکواس کوئی نکاح نہیں کرونگی میں آپ سے مجھے میرے گھر جانا ہے"

"ابھی بکواس کی کب ہے میں نے" اپنے اور دعا کے بیچ موجود وہ چند انچ کا فاصلہ ختم کرکے اسکے قریب آگیا جس سے گھبرا کر دعا دیوار سے لگ چکی تھی

"دور رہیں مجھ سے، پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں سب پریشان ہورہے ہونگے" 

"میں تمہیں بتاتا ہوں وہاں کیا ہورہا ہوگا ، تمہارے گھر میں موجود سب مہمان یہ بات سوچ رہے ہونگے کہ دلہن کہاں گئی تمہارا بھائی ہر جگہ تمہیں ڈھونڈ رہا ہوگا اور تمہاری امی جان رو رو کر نڈھال ہورہی ہونگی اور تمہارے پیارے ابو جان صدمے سے ایک کرسی پر بیٹھے ہونگے اور ہوسکتا ہے زیادہ صدمہ لگنے سے بچارے" 

"بند کرو اپنی بکواس" دعا نے چیختے ہوے اسکی بات کاٹ دی 

"یہ بکواس نہیں حقیقت ہے اگر تم اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہو تو سیدھے طریقے سے نکاح کرلو اور اگر تم نے نکاح نہیں کیا تو ساری زندگی یہیں رکھونگا اب بولو کروگی مجھ سے نکاح" 

"پھر آپ مجھے گھر چھوڑ آئینگے نہ" دعا نے معصومیت سے اپنے آنسو صاف کیے دماغ میں وہ سوچ چکی تھی کہ جب یارم اسے گھر چھوڑے گا تو وہ سب کو اسکی اصلیت بتادے گی کہ کیسے یارم اسے اسکے گھر سے اٹھا کرلے گیا پھر اسکے گھر والے سب ٹھیک کردینگے 

"ہاں بلکل" اسکی بات پر یارم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا 

دعا نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے سر کو ہلکے سے جنبش دی وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت بےبس محسوس کررہی تھی 

اور پھر تیزی سے بہتے آنسو کے ساتھ نکاح نامے پر دستخط کرچکی تھی اسکے کئیں آنسو نکاح نامے پر بھی گرچکے تھے جو کہ یارم بھی دیکھ چکا تھا جسے دیکھ کر اسے تکلیف ہوئی لیکن وہ"عہد"کرچکا تھا دعا کی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کا"عہد" 

اسے پتہ تھا اسکا طریقہ غلط تھا لیکن نیت صاف تھی 

اور پھر یارم شیرازی کے اندر سکون کے لہر دوڑی کیونکہ "دعا الیاس" "دعا یارم" بن چکی تھی

◽◽◽◽◽

"میں جانتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا وہ غلط تھا لیکن میں یہ بات بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یارم تمہارا بہت خیال رکھے گا اور کوئی بھی پرابلم ہو تم مجھ سے کچھ بھی کہہ سکتی ہو مجھے ہمیشہ اپنا بڑا بھائی سمجھنا"مسکراتے ہوے اسنے دعا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

دائم نے بھی آگے بڑھ کر بڑے بھائی کی طرح اسکے سر پر ہاتھ رکھا 

"یارم دعا کو اسکے گھر لے کر جاؤ وہاں سب پریشان ہورہے ہونگے" دائم کے کہنے پر وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھ گئی اسکی بےچینی سے ہی لگ رہا تھا کہ اسے گھر جانے کی کتنی جلدی ہے

◽◽◽◽◽

"آج کچھ خاص بنایا ہے کافی اچھی خوشبو آرہی ہے" کچن میں داخل ہوکر اسنے کھانا لگاتی چاہت سے کہا 

وہ اب بھی وہ الگ کمرے میں ہی تھا لیکن اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا وہ پہلے کی طرح ہی اس سے بات کرتا تھا نظریں جھکا کر عزت سے اور چاہت کو یہی لگتا تھا شاید وہ اب تک اسے اپنا باس اور خود کو ایک ملازم سمجھ رہا تھا 

"ہاں وہ میں نے حلوہ بنایا تھا مجھے بہت پسند ہے تم کھا کر بتانا کیسا بنا ہے "چاہت نے باؤل اسکے سامنے رکھتے ہوے کہا جسے دیکھ کر پرانہ منظر اسکے زہہن میں لہرایا 

"امی جلدی کھانا لگائیں بہت بھوک لگ رہی ہے" اسکے بےچینی سے کہنے پر رخسانہ بیگم نے مسکراتے ہوے حلوے سے بھری پیالی اسکے سامنے رکھ دی 

"پہلے یہ کھاؤ اور بتاؤ کیسا بنا ہے"

"بہت مزے کا ہے لیکن یہ آپ نے تو نہیں بنایا"

"تمہیں کیسے پتہ" 

"آپ کے ہاتھ کا زائقہ مجھے اچھے سے پتہ ہے" 

"ہاں تمہاری لاڈلی بہنا نے بنایا ہے کب سے انتظار کررہی تھی بھائی آئینگے تو انہیں کھلاؤنگی لیکن تم اتنی دیر سے آے ہو وہ سو ہی گئی" 

"کوئی بات نہیں اسنے پہلی بار میرے لیے کچھ بنایا ہے تو انعام تو اسے ملے گا" یشب نے مسکراتے ہوے رخسانہ بیگم سے کہا جس پر انہوں نے گھور کر اسے دیکھا 

"اب بہن کی ہی تعریف کروگے جو میں بنایا ہے اسے بھی تو کھاؤ" 

"ہاں کھاؤنگا لیکن بیسٹ پھر بھی گڑیا کا ہی لگے گا" یشب نے چھیڑتے ہوے کہا جس پر انہوں نے ہلکے سے اسکے سر پر تھپڑ مار دیا یشب نے مسکراکر اپنی ماں کی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے  

"کہاں کھو گئے" چاہت کی آواز پر وہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلا اور اسکی بات پر اپنا سر نفی میں ہلادیا 

"بہت اچھا بنا ہے" اشارہ حلوے کی طرف تھا 

"وہ مجھے کچھ پوچھنا تھا"

"جی کہیے" 

"وہ شہیر کی برتھ ہے چند دنوں بعد تو اسکی برتھ ڈے پر دائم بھائی نے انوائٹ کیا ہے"

'تو اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے چاہت آپ کو جہاں جانا ہو آپ جاسکتی ہیں بس مجھے بتادیجیے گا کہ آپ کہاں جارہی ہیں تاکہ میں فکرمند نہ ہوں" یشب نے اسکی پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوے کہا یہ اسکی عادت تھی وہ جب تک کھانا شروع نہیں کرتا تھا جب تک چاہت نہیں کرتی تھی

"ہم دونوں کو بلایا ہے تم بھی چلو گے نہ" 

"آپ چلی جائیے گا میں کام سے فارغ ہوکر آجاؤنگا"یشب کے کہنے پر چاہت کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی جسے دیکھ کر یشب کے دل میں سکون کی لہر دوڑی چاہت کی اس مسکراہٹ کے لیے تو وہ کچھ بھی کرسکتا تھا 

◽◽◽◽◽

گھر میں بس اب وہی تین افراد موجود تھے لوگوں کا کام تھا تماشہ دیکھنا اور باتیں کرنا اور اپنا یہ فرض سرانجام دے کر وہ سب جاچکے تھے

کچھ دیر پہلے جس گھر میں شادی کے ہنگامے ہورہے تھے اب وہاں موت جیسا سناٹا تھا 

اسے گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر کنیز بیگم نے فورا اسکے پاس جاکر اسے خود سے لگالیا

کہاں تھیں تم انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاے ہوے کہا جب انکی نظر پیچھے کھڑے یارم پر پڑی 

"دعا کہاں تھیں تم" احمر نے آگے بڑھ کر اس سے کچھ پوچھنا چاہا لیکن وہ تو بس اپنی ماں کے سینے سے لگے رو رہی تھی

"اسے میں لے کر گیا تھا زبردستی" اسے روتے دیکھ کر یارم نے جواب دیا

"تم یہاں کیا کررہے ہو اور تم اسے کیوں لے کر گئے تھے"

"میں آپ کو وضاحت دے سکتا ہوں اس سب میں دعا کی کوئی غلطی نہیں ہے" 

"ہمیں کوئی وضاحت نہیں چاہیے" سب نے مڑ کر کرسی پر بیٹھے نڈھال سے الیاس صاحب کو دیکھا انہیں دیکھ کر دعا بھاگ کر انکے پاس گئی اور انکے سینے سے لگ کر رونے لگی 

"ابو جان" اسنے روتے ہوے انہیں پکارا جس پر الیاس صاحب نے اسے خود سے دور کردیا دعا نے حیرت سے انہیں دیکھا

"اس لڑکے سے کہو اسے واپس لے جاے اب ہمارا اس لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں" وہ کہہ کر اندر جانے لگے جب دعا نے انکا بازو تھام لیا 

"ابو جان ایسا مت کہیں میں دعا ہوں آپ کی دعا دیکھیں میری طرف" دعا کے رونے میں شدت آچکی تھی اور اسکے آنسو یارم کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہورہے تھے 

"ابو جان اسکی بات تو سنیں" احمر نے آگے بڑھ کر اسکے لیے کچھ کہنا چاہا لیکن الیاس صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روک دیا 

"اسے گھر سے نکالو احمر نہیں تو میرا مرا منہ دیکھو گے" احمر کو سخت نظروں سے دیکھتے ہوے وہ اپنے کمرے میں بند ہوگئے احمر نے دعا کے روتے وجود کو اپنے ساتھ لگالیا

"تم ابھی جاؤ دعا ابو جان ابھی غصے میں ہیں اس لیے ایسا کہہ رہے ہیں لیکن جب غصہ اتر جاے گا تو انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجاے گا" 

"لیکن بھائی میں نے کچھ نہیں کیا یارم آب بتائیں نہ کہ آپ مجھے زبردستی لے کر گئے تھے" احمر سے دور ہوکر وہ یارم کے پاس جاکر کہنے لگی 

"میں اسے لے کر گیا میں نے نکاح کیا ہے دعا سے لیکن میرا ارادہ غلط نہیں تھا میں اسکے گھر رشتہ لے کر آنا چاہتا تھا لیکن مجھے پتہ چلا دعا کی شادی ہورہی ہے تو میں اسے اپنے ساتھ لے گیا اور زبردستی اس سے نکاح کرلیا لیکن اس سب میں دعا کی کوئی غلطی نہیں ہے" یارم نے احمر کو دیکھتے ہوے کہا 

"مجھے پتہ ہے میری دعا کبھی کچھ غلط نہیں کرسکتی اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہاری نیت غلط نہیں تھی ورنہ تم دعا سے نکاح ہی کیوں کرتے بس یہی کہونگا میری دعا کا خیال رکھنا" احمر نے دعا نے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر یارم کو دیکھا 

"اب یہ میری دعا ہے" احمر سے کہہ کر اسنے کنیز بیگم کی طرف دیکھا جس پر انہوں نے بھی دونوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دی

"یارم آپ ابو جان کو بھی بتائیں کہ میں نے کچھ نہیں کیا"

"ضرور بتاتا لیکن بتاؤنگا نہیں بنا تمہاری کوئی بات سنے وہ تمہیں مجرم قرار دے چکے ہیں تو کس بات کی صفائی دوں یہ تمہارے ابو جان ہیں جن کا زکر ہر وقت تمہارے لبوں پر رہتا تھا جنہیں اپنی بیٹی پر ہی یقین نہیں ہے جہاں اعتبار ہوتا ہے نہ دعا وہاں صفائی دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی جیسے تمہاری ماں اور تمہارے بھائی کو تم پر ہے لیکن تمہارے ابو جان تم پر بھروسہ نہیں کرتے" 

"میں انہیں یقین دلاؤنگی کہ میں غلط نہیں ہوں" 

"تم صرف میرے ساتھ چلو گی" اسکا ہاتھ زبردستی تھام کر یارم اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا 

"میں کہیں نہیں جاؤنگی ابو جان پلیز میرا یقین کریں "دعا نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے مڑ کر اس بند دروازے کو دیکھتے ہوے کہا جس کمرے میں الیاس صاحب گئے تھے 

اسے زبردستی گاڑی میں بٹھا کر یارم نے گاڑی اس جگہ سے نکال لی شور کی آواز سن کر کچھ لوگ اپنے گھر سے باہر آچکے تھے اور کچھ کھڑکی میں سے جھانک رہے تھے تو کچھ ان کی ویڈیو اور تصویر بنانے میں مصروف تھے

کافی دیر گاڑی میں اسکی سسکیوں کی آواز رہی لیکن اب گاڑی میں خاموش چھا چکی تھی یارم نے چہرہ موڑ کر اسکی طرف دیکھا 

"دعا" گاڑی ایک سائیڈ پر روک کر یارم نے اسے پکارا لیکن کوئی جواب نہیں ملا 

"دعا"یارم نے اسکا گال تھپتپھاتے ہوے کہا لیکن اسکے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی 

ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل نکال کر اسنے دعا کے چہرے پر چھینٹے ماریں لیکن کوئی فرق نہ ہونے پر اسنے گاڑی تیزی سے ہوسپیٹل کی جانب دوڑادی 

◽◽◽◽◽

ڈاکٹر نے اسے زہہنی دباؤ کا شکار بتایا اور خاص تاکید کی کہ اسے پرسکون رکھا جاے اور ہر طرح کی ٹینشن سے دور رکھا جاے 

◽◽◽◽◽

آنکھ کھلنے پر اسنے اپنے آپ کو اجنبی کمرے میں پایا لیکن اسے یہ جاننے میں بھی دیر نہیں لگی کہ یہ کمرہ کس کا ہے کیونکہ اس جہازی سائز بیڈ کے سامنے موجود وال پر اسکی بڑی سی پینٹ کی ہوئی تصویر لگی ہوئی تھی

گہرا سانس لے کر وہ اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر بیٹھی رہی اسے اپنے باپ کے الفاظ یاد آرہے تھے جن کو ہمیشہ اپنی بیٹی پر مان تھا لیکن آج ان کا سر جھکا ہوا تھا جس کی وجہ وہ تھی 

کسی کے کمرے میں داخل ہونے کی آواز آئی لیکن اسکا سر ہنوز جھکا رہا 

ملازم ٹرالی دھکیل کر کمرے میں لایا اور کمرے سے چلا گیا 

"کیسی طبیعت ہے تمہاری" اسکے پاس کھڑے ہوکر یارم نے کہا لیکن جواب میں اسے صرف خاموشی ملی 

"دعا چلو کھانا کھالو" یارم نے قدرے نرمی سے کہا لیکن جواب میں پھر وہی خاموشی ملی 

یارم نے آہستہ سے اپنا مظبوط ہاتھ اسکے کندھے پر رکھا اور اسکے ایسا کرتے ہی اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا کر دعا غصے سے اسے دیکھنے لگی 

"مجھے ہاتھ مت لگانا یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے تمہاری وجہ سے میری زندگی برباد ہوگئی میرا باپ جسے مجھ پر فخر تھا آج سر جھکا کر بیٹھا ہے صرف تمہاری وجہ سے میں تو تمہیں ایک اچھا انسان سمجھتی تھی لیکن تم نے کیا کیا میرے ساتھ" وہ چیخ رہی تھی اور یارم اسے سن رہا تھا وہ چاہتا تھا دعا اپنے اندر موجود سارا غصہ باہر نکالے 

"میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جسے استعمال کیا اور جب دل بھر گیا تو پھینک دیا دیکھنا یارم شیرازی میں وہ کبھی نہیں ہونے دونگی جو تم چاہتے ہو" 

"اور میں کیا چاہتا" سختی سے گراتے ہوے وہ اسکی طرف بڑھنے لگا 

"تم صرف اپنا مطلب پورا کرنا چاہتے ہو" 

"کیا تمہیں میں ایسا لگتا ہوں میں نے کن کن لڑکیوں کو استمعال کیا ہے" لہجے میں اب بھی سختی واضح تھی 

"دوسروں کا نہیں پتہ لیکن میرے لیے تمہارا یہی ارادہ ہے اگر تمہارا نیت صاف ہوتی تو مجھے اس طرح سے بدنام نہیں کرتے مجھے میری شادی والے دن گھر سے نہ اٹھاتے جب میں کسی اور کے نام پر سجی تھی"

"اپنی بکواس بند کرو "اسکی پشت دیوار سے لگا کر یارم نے چیختے ہوے کہا جسے سن کر دعا نے گھراتے ہوے اپنا آپ اسکی گرفت سے چھڑانا چاہا

"ایسا لگتا ہوں میں تمہیں اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو پھر ایسا ہی سہی"اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر دعا کو خوف آرہا تھا 

وہ اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا جسے دیکھ کر دعا کو مزید خوف آنے لگا 

دعا نے اسکی گرفت سے نکلنا چاہا لیکن یارم اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر اسکے لبوں پر جھک گیا اسکے شدت بھرے انداز پر دعا کو اپنا سانس رکتا محسوس ہورہا تھا اسنے اپنا آپ اسکی قید سے چھڑانا چاہا جو کہ اسکے لیے تقریبا ناممکن تھا وہ پوری طرح سے یارم کی گرفت میں قید تھی

اسکی رکتی سانسوں کا خیال کرکے یارم نے اسے اپنی گرفت سے آزاد کردیا اور اسکے ایسا کرتے ہی دعا اس سے دور ہوکر گہرے گہرے سانس لینے لگی اسکا چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہورہا تھا اسے رونا آرہا تھا اور وہ رونا شروع بھی کرچکی تھی

اسے روتے دیکھ کر یارم آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا اور اسکے قریب آنے پر دعا کے رونے میں بھی شدت آچکی تھی اسے پہلی بار یارم سے ڈر لگ رہا تھا 

"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ سب تو میں کرتا رہونگا ہاں لیکن تمہاری مرضی کے بنا حد پار نہیں کرونگا اب کھانا کھاؤ یا پھر میں اپنے طریقے سے کھلاؤں" اسکے دھمکی دیتے انداز پر دعا جلدی سے بیڈ پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگی اسکے کھانے کے انداز پر یارم کو ہنسی آرہی تھی لیکن وہ اس وقت ہنس کر اسے مزید خود سے خفا نہیں کرسکتا تھا

◽◽◽◽◽

"تم کہاں گئی تھیں جنت" گھر میں داخل ہوتے ہی پہلی آواز جو اسکے کانوں میں پڑی وہ مصطفی کی تھی

"میں امی ابو کے گھر گئی تھی" جنت کے بتانے پر مصطفی نے گہرا سانس لے کر اسکی طرف دیکھا 

"تم ملی ان سے" مصطفی کے کہنے پر جنت اپنا سر نفی میں ہلانے لگی 

"میں تو صرف انہیں دیکھنے گئی تھی" 

"پتہ نہیں مجھے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا میں تمہیں وہاں کے کر چلونگا تم ان سے ملنا ان سے بات کرنا" 

"آپ کا شکریہ مصطفی لیکن ابھی یہ وقت مناسب نہیں ہے" جنت کے روکنے پر مصطفی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا 

"میرا مطلب ہے کہ کچھ وقت بعد ہم ان سے جاکر ملینگے لیکن ابھی نہیں" 

"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی لیکن میں چاہتا ہوں تم دعا سے مل لو اس سے بات کرو وہ کافی گھبرائی ہوئی ہے" دعا کون تھی یہ بات تو وہ سب کی منہ زبانی جان چکی تھی مصطفی کے کہنے پر وہ اپنے سر کو جنبش دے کر وہاں سے چلی گئی مصطفی نے مڑ کر اسکی پشت کو دیکھا 

◽◽◽◽◽

اب تک اسے یہاں پر اگر کچھ اچھا لگا تھا تو وہ تھی جنت وہ ہنس مکھ سی لڑکی اسے بہت پسند آئی تھی وہ اسے یہ بات بھی بتا چکی تھی کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر آئی ہے اپنی مرضی سے جسے سن کر دعا کو بہت حیرت ہوئی

"تو آپ کو گھر والوں کی یاد نہیں آتی"

"آتی ہے لیکن محبت بھی کیا چیز ہے دعا انسان سے کیا کیا کروادیتی ہے ، تمہیں ایک بات بتاؤں" اپنی پوزیشن چینج کرکے وہ مزید دعا کے قریب ہوکر بیٹھ گئی 

"بچپن سے میری امی نے اپنے بچوں کو صرف صبر کرنا سیکھایا ہے وہ کہتی تھیں حالات جیسے بھی ہوں ہمیشہ اللہ کا شکر کرو اور میں ہمیشہ یہی کرتی تھی لیکن صرف شادی سے پہلے میں یہی کہتی تھی کہ شادی سے پہلے میری زندگی جیسی بھی ہو شادی کے بعد پرفیکٹ ہونی چاہیے مجھے ہمیشہ ایسے لڑکے سے شادی کرنی تھی جو امیر ہو بڑی بڑی گاڑیاں بنگلہ وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہو لیکن گھر والے میری شادی میرے کزن حماد سے کروانا چاہتے اور حماد ایسا لڑکا نہیں تھا جو میری یہ سب خواہشیں پوری کردیتا اسلیے میں ہمیشہ اس سے چڑتی تھی اسے برا بھلا کہتی تھی مجھے بہت سارا پیسہ چاہیے تھا لیکن اب نہیں چاہیے جب سے مجھے اپنی محبت کا احساس ہوا ہے تب سے میری نظر میں پیسے کی کوئی اہمیت نہیں رہی مجھے تو بس اب اپنی محبت چاہیے اور یہ قدم میں نے اپنی محبت کے لیے اٹھایا ہے" 

"آپ مصطفی بھائی سے اتنی محبت کرتی ہیں کہ انکے لیے اپنا گھر تک چھوڑ دیا" دعا کے کہنے پر اسنے بنا اسکی بات کا جواب دیے اپنی کلائی اسکے سامنے کری اسکی حرکت پر دعا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

جب جنت نے اپنی آستین اوپر کی طرف کری اسکی کلائی پر "ایم" لکھا ہوا تھا دعا کو مصطفی کی قسمت پر رشک آرہا تھا جسے اتنا چاہنے والا ہمسفر ملا تھا

◽◽◽◽◽

ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی اسکے ہاتھ میں شوپنگ بیگ موجود تھے جنہیں صوفے پر رکھ کر وہ کمرے سے نکل گئی اسکے نکلتے ہی یارم کمرے میں داخل ہوا اور مسکرا کر صوفے پر پڑا بیگ اٹھا کر اسکے قریب جاکر رکھ دیا 

"جلدی سے تیار ہوجاؤ دائم بھائی سے تو تم ملی ہو نکاح والے دن آج انکے بیٹے کی برتھ ڈے ہے تو انہوں نے انوائٹ کیا ہے "دعا بنا اسکی بات کا جواب دیے اپنے چہرے کا رخ پھیر گئی 

"ویسے تم سوچ رہی ہوگی دائم بھائی ہمارے کیا لگتے ہیں تو وہ ہمارے فیملی میمبر کی طرح ہیں وہ بھائی کے بہت اچھے دوست ہیں" اپنے باتوں میں اسکی دلچسپی نہ دیکھ کر اسنے بات بدل دی جسے سن کر دعا فورا اسکی طرف متوجہ ہوچکی تھی

"تمہیں پتہ ہے جب میں تمہیں تمہارے گھر لے کر گیا تھا تو میں نے اپنا پرسنل نمبر تمہارے بھائی کو دیا تھا اور آج اسنے مجھے فون کرکے ایک خاص بات بتائی" 

"کیا کہا انہوں نے" دعا نے بےچینی سے کہا 

"اس نے کہا وہ میرا بہت بڑا فین ہے اور اسنے میرے سارے گانے سنے ہیں میرے کمرے سے تمہیں یہ اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ میں ایک سنگر ہوں" اسکے کمرے کو دیکھ کر تو کوئی بھی یہ اندازہ لگالے کہ وہ سنگر ہے اور دعا بھی یہ بات جان چکی تھی 

اسکا کمرہ ایک پورشن سے کم نہیں تھا ضرورت کی ساری چیزیں اس کمرے میں موجود تھی

"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کیا ہیں اور کیا نہیں" 

"جانتا ہوں اور اسی لیے تو تم خاص ہو کیونکہ تمہیں اس سب سے فرق نہیں پڑتا خیر باتیں تو ہوتی رہینگی تم جلدی سے تیار ہوجاؤ"

"میں نے کہا نہ مجھے کہیں نہیں جانا"

"دعا پیار سے مان جاؤ ورنہ میں جو کرونگا وہ تمہیں اچھا نہیں لگے گا" اس بار لہجہ تھوڑا سخت تھا 

"آپ کو جو کرنا کرلیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا" غصے سے کہتے ہوے وہ اپنے چہرے کا رخ پھیر گئی 

بنا اسے کچھ کہے یارم نے اس بیگ میں موجود ڈریس کو باہر نکالا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا 

دعا جو اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی سیدھا اسکے مظبوط سینے سے ٹکرا گئی 

یارم بنا کچھ کہے اسکی بیک پر موجود ڈوری کھولنے لگا 

"کیا کررہے ہیں چھوڑیں مجھے" دعا نے گھبرا کر اسے دیکھا 

"ظاہر ہے اگر تم تیار نہیں ہوگی تو مجھے خود ہی سب کرنا پڑے گا"

"یارم پلیز چھوڑیں"

"تمہیں پتہ ہے دعا جب تمہارے لبوں سے اپنا نام سنتا ہوں نہ تو مجھے اپنے اندر سکون اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے" یارم نے اسکے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی اور اسکے کان کی لو پر اپنے لب رکھ دیے 

"چھوڑیں مجھے میں خود تیار ہوجاؤنگی پلیز چھوڑیں" دعا کے التجائی انداز میں کہنے پر یارم نے اسے چھوڑ دیا

"اس طرف جاؤ" یارم کے اشارے سے بتانے پر وہ فورا اس طرف بھاگ گئی

◽◽◽◽◽

"دعا تم تیار ہوگئی ہو" اسے جنت کی آواز سنائی دی جو شاید کمرے باہر کھڑی ہوئی تھی 

"جی" 

"اچھا تو جلدی آجاؤ"

"جنت آپی روکیں میری زپ لگا دیں" بال آگے کی طرف ڈال کر وہ زپ لگانے میں ہلکان ہورہی تھی لیکن زپ تھی کہ لگ ہی نہیں رہی تھی 

جنت تو اسکی بات سنے بنا ہی جا چکی تھی لیکن کمرے میں داخل ہوتا یارم اسکی یہ بات سن چکا تھا 

اسکی طرف پشت کیے دعا اپنی زپ لگانے کی کوشش کررہی تھی 

اسکے قریب جاکر یارم اسکی زپ لگانے لگا جب نظر اسکی کمر پر پڑی نظریں دوسری طرف کرکے اسنے زپ لگادی لیک اب نظریں اسکی دودھیا گردن پر اٹکی ہوئی تھیں اب کی بار اسنے جھک کر نرمی سے اسکی گردن پر اپنے لب رکھ دیے اور اسکے ایسا کرتے ہی دعا نے گھبراتے ہوے مڑ کر اسے دیکھا 

اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا لیکن یارم کو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسکا چہرہ غصے کی وجہ سے سرخ ہورہا ہے یا شرم کی وجہ سے 

بنا اسے کچھ کہے دعا تیزی سے باہر چلی گئی یارم بھی ٹھنڈی سانس بھر کر روم سے باہر نکل گیا

◽◽◽◽◽

دعا کو ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر آئی ہے ہر کوئی اس سے اتنی اچھی طرح پیش آرہا تھا 

شہیر مہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ہر کسی کو اپنی ماما سے ملوا رہا تھا چند ہی دنوں میں وہ مہر کے بےحد قریب آچکا تھا اور دائم اپنی معصوم شکل بنا کر یہ کہہ رہا تھا کہ اسکی ماما کہ آنے کے بعد وہ بابا کو بھول گیا لیکن اندر سے ان دونوں کو اس طرح سے دیکھ کر وہ بےحد خوش تھا 

دائم نے دور کھڑی چاہت کو اپنے پاس بلایا جو شاید کسی سے فون پر بات کررہی تھی

"چاہت یشب کہاں ہے" 

"بھائی میری بات ہوئی ہے ابھی بس پہنچنے والے ہیں" اسکی بات سن کر دائم نے اپنا سر ہاں میں ہلایا 

اب اسکی نظریں مہر کو ڈھونڈ رہی تھیں جو پتہ نہیں کہاں تھی لیکن اس سے پہلے وہ اسے ڈھونڈتا شہیر بھاگتا ہو اسکے قریب آیا 

"بابا پتہ نہیں ماما کو کیا ہوگیا ہے آپ کمرے میں چلو"شہیر نے گھبراتے ہوے کہا 

اسکے کہنے پر سب ہی پریشانی میں دائم کے کمرے کی طرف گئے جہاں وہ زمین پر بیہوش پڑی تھی 

"مہر"دائم نے اسکا چہرہ تھپتھپاتے ہوے کہا 

"مصطفی ڈاکٹر کو فون کرو" اسکا وجود اپنی بانہوں میں اٹھاتے ہوے اسنے مصطفی سے کہا 

◽◽◽◽◽

گہرا سانس لے کر گھر کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی 

مہر کی طبیعت کی وجہ سے اسے آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی ڈاکٹر کے مطابق وہ صدمہ لگنے کی وجہ سے بیہوش ہوئی تھی لیکن ہوش میں آنے پر اسنے یہی کہا کہ پارٹی کی وجہ سے اسنے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اس وجہ سے چکر آگئے

نہ تو یشب پارٹی میں آیا اور نہ ہی کوئی فون یا میسیج کیا اور نہ ہی اسکے فون یا میسیج کا جواب دیا اسے پریشانی ہورہی تھی 

بار بار کرنے پر بھی جب یشب نے فون نہیں اٹھایا تو تھک کر فون ٹیبل پر رکھ کر وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی 

ابھی اسے بیٹھے ہوے چند سیکینڈ ہی ہوے تھے جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی اسنے بےچینی سے اپنا سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا 

"کہاں تھے تم کب سے فون کررہی ہوں کوئی احساس ہے فون نہ سہی ایک میسیج ہی کردیتے" اسے دیکھ کر چاہت نے غصے سے کہا 

"سوری وہ ضروری کام آگیا تھا فون سائیلینٹ پر تھا" اسکی دھیمی آواز سن کر چاہت کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا 

"کیا ہوا ہے طبیعت ٹھیک ہے" اسکا سرخ چہرہ دیکھتے ہوے چاہت نے آگے بڑھ کر اسکی پیشانی پر ہاتھ رکھا

"میں ٹھیک ہوں"

"کہاں سے ٹھیک ہو تمہیں اتنا تیز بخار ہورہا ہے تم کمرے میں جاؤ میں تمہارے لیے کچھ بنا کر لاتی ہوں یقینا کچھ کھایا بھی نہیں ہوگا" چاہت کا اسکی فکر کرنا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا لیکن وہ اپنی وجہ سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا

"آپ کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں بس سونے جارہا ہوں صبح تک ٹھیک بھی ہوجاؤنگا آپ بھی سوجایے" اسے تسلی دے کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا 

اسکی بات ان سنی کرکے چاہت کچن میں جاکر اسکے لیے کچھ ہلکا پھلکا بناکر اسکے کمرے کی طرف چلی گئی 

"یشب کچھ کھالو پھر تم میڈیسن لے لینا"ٹرے ٹیبل پر رکھ کر اسنے یشب سے کہا لیکن آگے سے خاموشی چھائی رہی اسنے آگے بڑھ کر اسکے چہرے پر ہاتھ رکھا بخار بڑھ گیا تھا اسے مزید پریشانی نے آگھیرا اپنا موبائل اٹھا کر اسنے فورا ڈاکٹر کو کال ملائی جو کہ تھوڑی دیر تک آچکا تھا 

◽◽◽◽◽

بخار پہلے سے کافی کم ہوچکا تھا جو شاید اسکے اتنی دیر سے پٹیاں اتارنے کی وجہ سے ہوا تھا 

کچن میں جاکر دودھ اور بسکٹ ٹرے میں رکھ کر وہ کمرے میں لے آئی 

"یشب دیکھو جلدی سے کچھ کھالو پھر تمہیں میڈیسن بھی لینی ہے" اسنے یشب کا کندھا ہلاتے ہوے کہا جب اسکا ہاتھ تھام کر یشب نے اسے اپنے اوپر گرالیا اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں

چاہت کے چہرے پر آتے بالوں کو اسنے نے کان کے پیچھے کردیا یشب نے کروٹ بدلی جس کی وجہ سے چاہت مکمل طور پر اسکے نیچے دب گئی تھی

"یشب یہ تم کیا کررہے ہو اٹھو" اسکی اتنی قربت پر چاہت سے بولنا دشورا ہوچکا تھا نظریں جھکی ہوئی تھیں یشب نے بنا کچھ کہے اپنے گرم لب اسکی ٹھنڈی پیشانی پر رکھ دیے 

"میں اب تھک چکا ہوں چاہت بہت تھک چکا ہوں" کمزور آواز میں کہتے ہوے اسنے اپنا سر چاہت کے سینے پر رکھ دیا اسکی آواز میں تھکن تھی جو چاہت نے بھی محسوس کری 

"مجھے سکون چاہیے اب اور تم سے جھوٹ نہیں بول سکتا آج کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے آئی لو یو "چاہت آج وہ اقرار کررہا تھا آج وہ وہی کہہ رہا تھا جو چاہت سننا چاہتی تھی 

"کہو کہ تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو "خمار آلود آواز میں کہتے ہوے وہ اسکی گردن پر جھک کر اپنے لبوں کا لمس چھوڑنے لگا 

"م-میں تو ہم-ہمیشہ سے کہتی آئی ہوں کہ مجھے ت-تم سے محبت ہے آئی لو یو ٹو یشب "اسکے لبوں سے اقرار سنتے ہی یشب نے اسکی سانسوں کو قید کرلیا 

"کبھی مجھ سے دور مت جانا چاہت میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر"یشب نے اسکے لبوں کو آزاد کرکے کہا اسکی آواز نم تھی جو کہ چاہت بھی جان چکی تھی وہ جاننا چاہتی تھی کہ اسکی آواز نم کیوں ہے اس سے پوچهنا چاہتی تھی لیکن اس وقت اسے نگاہ اٹھانا دنیا کا مشکل کام لگ رہا تھا 

"بولو کبھی مجھ سے دور نہیں جاؤگی نہ"اسکا چہرہ تھوڑی سے اوپر اٹھا کر یشب نے دوبارہ کہا جس پر چاہت نے نظریں اٹھاے بغیر اپنا سر نفی میں ہلادیا 

اسکے اس طرح کرنے پر یشب نے مسکراتے ہوے اسکی جھکی پلکوں پر اپنے لب رکھ دیے اور اپنی شرٹ اتار کر دوبارہ اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لے لیا 

یشب کے ہر انداز میں اسکے لیے پیار ہی پیار تھا گزرتی رات کا ہر پل اسے یہ احساس دلاتا رہا کہ وہ یشب کے لیے کتنی خاص ہے 

نیند سے جاگتے ہی اسے رات کا ہر منظر یاد آیا اس وقت بھی وہ یشب کے سینے پر لیٹی ہوئی تھی 

اپنا سر اٹھا کر اسنے یشب کو دیکھا جو ابھی تک سو رہا تھا اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ واشروم میں بند ہوگئی 

فریش ہوکر اسنے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا گال ہلکے ہلکے سرخ ہورہے تھے لیکن جب نظر اپنی گردن پر موجود نشان پر گئی تو مزید دہک گئے اسنے اچھے سے اپنی گردن پر ڈوپٹہ ڈال کر اس نشان کو چھپایا اور کمرے سے نکل گئی اس وقت وہ یشب کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی 

دروازہ بند ہونے کی آواز پر یشب کی آنکھ کھل چکی تھی اسنے اپنے ارد گرد دیکھا کمرے میں اسکے علاوہ کوئی نہیں تھا سب سے پہلا خیال اسے چاہت کا آیا وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا 

"یہ میں نے کیا کردیا وہ کیا سوچ رہی ہونگی میرے بارے میں" رات کا ہر گزرا پل یاد کرکے وہ خود کو کوسنے لگا اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے اپنی شرٹ پہنی اور تیزی سے کمرے سے نکل گیا 

◽◽◽◽◽

کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا جہاں مہر ہنس ہنس کر شہیر سے باتیں کررہی تھی 

"شہیر جاؤ آپ کو صائم چاچو بلا رہے ہیں" دائم کے کہنے پر وہ مہر کے گال پر پیار کرکے کمرے سے چلا گیا 

"مجھے بتاؤ کیا بات ہے" دائم نے اسکے سامنے بیٹھ کر کہا جس پر مہر نے حیرت سے اسے دیکھا 

"مطلب" 

"مطلب یہ کہ مجھے بتاؤ اس دن ایسا کیا ہوا تھا کہ تم بیہوش ہوگئی تھیں پلیز مہر جو بھی بات ہے بتاؤ مجھے میں ہوں نہ تمہارے ساتھ" دائم نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوے کہا مہر نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا

"میں نے اسے دیکھا تھا"

"کسے" 

"جس کی وجہ سے میں اس کوٹھے پر گئی تھی میں نے شہیر کے لیے گفٹ منگوایا تھا میں وہی لینے گئی تھی اور پھر میں نے اسے دیکھا وہ گھر کے اندر آرہا تھا"

"وہ گھر کے اندر آرہا تھا مہر وہ شخص گھر کے اندر کیسے آسکتا ہے" 

"میں نے خود دیکھا تھا دائم وہ آرہا تھا اور اسنے مجھے دیکھا اور وہ اپنی جگہ رک گیا اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا"اسکے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے دائم کے زہہن میں کچھ کلک ہوا اسنے اپنا فون اٹھا کر ایک تصویر مہر کے سامنے کری دل یہی دعا کررہا تھا وہ مہر سے جو پوچھنے جارہا ہے اس بات پر مہر کا جواب "نہیں" ہو

"کیا یہ تمہارا کزن یشب ہے" دائم کے پوچھنے پر مہر نے حیرت سے ایک پل اس تصویر کو دیکھا اور اپنا سر اثبات میں ہلادیا 

◽️◽️◽️◽️◽️

اسکے کچن میں داخل ہوتے ہی چاہت شرما کر اپنا رخ موڑ گئی اور یشب کو لگ رہا تھا وہ اس سے خفا ہوچکی ہے 

"دیکھیے میں رات کے لیے آپ سے معذرت چاہتا ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز مجھے معاف کردیں میں آیندہ ایسا نہیں کرونگا" اسکی بات سن کر چاہت نے حیرانی سے مڑ کر اسے دیکھا رات بیتے لمحوں کو وہ غلطی کا نام دے رہا تھا 

"کیا کہا تم نے" 

"میں آپ سے معافی چاہتا ہوں" 

"کس بات کی میرے شوہر ہو اور میرے قریب آے اس بات کی معافی" 

"ہاں اسی بات کی مجھے آپ کے قریب نہیں آنا چاہیے تھا" 

"لیکن کیوں تم نے خود کہا تھا رات کو کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو" 

"ایسا کچھ نہیں ہے"

"کیوں نہیں ہے ، میں جانتی ہوں تم مجھ سے پیار کرتے ہو تو پھر مجھ سے دور کیوں رہتے ہو ایسی کیا بات ہے جو تمہیں میرے قریب نہیں آنے دیتی"

"کیونکہ نہیں سمجھتا میں خود کو آپ کے لائق"جتنی تیز آواز میں چاہت نے کہا تھا اس سے کہیں زیادہ تیز اب یشب کی آواز تھی 

"نہیں سمجھتا میں خود کو آپ کے لائق" اسکی آواز میں بےبسی تھی بہتے آنسوں کے ساتھ وہ وہیں بیٹھتا چلا گیا 

"پلیز یشب بتاؤ مجھے ایسی کیا بات ہے جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے اتنا دور کیا ہوا ہے" اسکے قریب بیٹھ کر چاہت نے نم آواز میں کہا یشب نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا 

◽️◽️◽️◽️◽️

"حسان"یشب کے چلانے پر حسان کمرے میں داخل ہوا حسان نے ایک نظر اٹھا کر اپنی شرٹ پہنتے یشب کو دیکھا اور دوسری نظر بیڈ پر پڑے مردہ وجود کو 

"مرگئی یہ جبکہ تم جانتے تھے کہ اس لڑکی کی قیمت کتنی تھی" حسان نے اسے دیکھتے ہوے تھوڑا سختی سے کہا 

"یشب آفندی کو کوئی چیز اچھی لگے اور اسے ایسے ہی چھوڑ دے ایسا ہو ہی نہیں سکتا اسکی لاش کو ٹھکانے لگادو" اپنی کار کیز اور جیکٹ اٹھا کر اسنے ایک نظر بیڈ پر پڑے وجود پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا 

یشب آفندی لڑکیوں کی اسمگلنگ کا کام کرتا تھا جس میں اسکے کچھ دوست بھی شامل تھے گھر والوں کی  نظر میں وہ دوسرے شہر میں ایک نوکری کررہا تھا لیکن وہ اسی شہر میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر دوسرے نام سے یہ کام کررہا تھا 

◽️◽️◽️◽️◽️

"کیا حال ہے مہر" اسکے اچانک کچن میں آنے پر ایک پل کو مہر گھبرائی لیکن اسے دیکھتے ہی ریلیکس ہوکر دوبارہ اپنا کام کرنے لگی 

"ٹھیک تم بتاؤ کب آے" 

"ابھی ابھی لیکن تم اتنی رات کو کچن میں کیا کررہی ہو" 

"تائی امی کا حکم تھا کہ جب تک انکا بیٹا کھانا نہ کھالے میں اسکے انتظار میں بیٹھی رہوں" مہر نے منہ بناکر کہا 

"ہاں تو اچھا ہے نہ ابھی سے تمہاری پریکٹس کروارہی ہیں امی" 

"کوئی پریکٹس نہیں کروارہی ہیں وہ بس یہ چاہ رہی کہ  میں اس سب سے تنگ آکر تایا ابو کو تم سے شادی کے لیے منع کردوں کیونکہ تایا ابو انکی اس معاملے میں سنتے نہیں ہیں جبکہ کوئی تائی امی کو یہ بتاے کہ میں کونسا انکے بیٹے کے پیچھے مری جارہی ہوں یہ تو تایا ابو کا فیصلہ تھا"

"برا تو لگے گا نہ خاندان کی ساری لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر اور اتنی اچھی اچھی لڑکیوں کو چھوڑ کر انہیں تم جیسی چڑیل بہو لانی پڑ رہی ہے" یشب کے کہنے پر مہر نے غصے سے اسے دیکھا 

"اچھا تو جاکر انہی لڑکیوں سے شادی کرو نہ منع کردو تایا ابو کو کہ تم مجھ جیسی چڑیل سے شادی نہیں کرنا چاہتے ہو"

"ہاں ضرور کرتا لیکن مجھے پتہ ہے بابا کو اپنی یہ چہیتی بھتیجی بہت عزیز ہے وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کو تھوڑی نہ بہو بنائینگے" اسکا غصہ یشب کو مزہ دے رہا تھا انکی اس بحث کو پیچھے سے آتی آواز نے روکا

"بھیو آپ کب آے میری چاکلیٹ لاے ہیں" تحریم نے اسکے قریب آکر پیار سے کہا جس پر یشب کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی 

"نہیں میں نہیں لایا "یشب کے کہنے پر تحریم نے منہ بنا کر اور مہر نے گھور کر اسے دیکھا کیونکہ وہ اسکی جیکٹ سے  تھوڑی باہر نکلتی چاکلیٹ دیکھ چکی تھی

مہر نے اسکی جیکٹ کی پوکیٹ میں سے وہ چاکلیٹ نکال کر تحریم کی طرف بڑھا دی جسے اسنے خوشی خوشی تھام لی 

"تھینک یو آپی" 

"ارے لایا تو میں تھا"

"مجھے تو آپی نے دی ہے" اسکے کہنے پر یشب مسکراتا ہوا اپنا سر نفی میں ہلاکر اسکے مسکراتے چہرے کو دیکھتا رہا اسکی بہن خوش تھی اسکے لیے یہی کافی تھا 

◽️◽️◽️◽️◽️

"ابھی تک کھانا نہیں بنا"بیس منٹ میں یہ رخسانہ بیگم کی تیسری آواز تھی خود چاہے وہ کام کتنی دیر سے کریں لیکن مہر سے کام وہ منٹوں میں کروانا چاہتی تھیں انہیں اسکے ہر کام میں نقص نکالنے کی عادت تھی چاہے وہ کام کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو 

مہر کے والدین کے گرزنے کے بعد اشفاق صاحب نے اسے لاڈوں میں پالا تھا انکے کیے تحریم اور مہر ایک جیسی تھیں 

لیکن رخسانہ بیگم کو ہمیشہ اس سے ایک چڑ تھی لیکن وہ چڑ تھوڑی کم ہوگئی جب تھوڑی بڑی ہونے پر مہر انکا ہاتھ بٹانے لگی 

انکا رویہ تھوڑے وقت کے لیے نرم ہوا تھا لیکن صرف تھوڑے وقت کے لیے جب انہوں نے یشب کے لیے لڑکیاں دیکھنا شروع کری تو اشفاق صاحب نے صاف کہہ دیا کہ مہر ہی انکی بہو بنے گی

اعتراض صرف رخسانہ بیگم کو تھا جس کا انہوں نے کھلے لفظوں میں کئیں بار اظہار بھی کیا لیکن اشفاق صاحب کے غصے کی وجہ سے اب وہ اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کرتی تھیں لیکن انکا سارا غصہ مہر پر اترتا تھا 

"جی بس پانچ منٹ تائی امی"

"اتنی سستی سے کام کرتی ہے یہ لڑکی" اور اس سب کے ساتھ تائی امی کا لیکچر شروع ہوچکا تھا جسے سننے کے علاوہ وہ اور کر بھی کی سکتی تھی 

تایا ابو کے آگے وہ اسے کچھ نہیں کہتی تھیں لیکن تایا ابو کے پیچھے سے وہ ساری بھڑاس نکالتی تھیں اس سب میں اسے یشب کی یہ عادت بری لگتی تھی کہ اپنی ماں کے غلط ہونے پر بھی وہ انہی کا ساتھ دیتا تھا

◽️◽️◽️◽️◽️

اسنے حیرت سے اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑے یشب کو دیکھا وہ تو شہر سے باہر گیا ہوا تھا تو اس وقت یہاں کیا کررہا تھا 

اپنا فون نکال کر اسنے یشب کو کال ملائی جو اسنے اٹھائی نہیں، وہ نظریں ادھر ادھر دوڑاتے ہوے کہیں جارہا تھا اپنے قدم اٹھاتی ہوئی خاموشی سے مہر بھی اسکے پیچھے جانے لگی 

یشب وہاں موجود دروازے سے اندر چلا گیا جبکہ مہر باہر کھڑی اسی سوچ میں تھی کہ اسے اندر جانا چاہیے یا نہیں لیکن تجسس کے مارے وہ اندر چلی گئی

وہ حیرت و بےیقینی سے اپنے سامنے موجود منظر کو دیکھ رہی تھی جہاں ایک لڑکا لڑکی کو زبردستی کمرے میں لے کر جارہا تھا تو ایک کونے میں چند لڑکیاں ڈر کی وجہ سے اپنے آپ میں سمٹی بیٹھی تھیں 

یشب کو دیکھ کر اسے گھبراہٹ ہورہی تھی جو روتی ہوئی لڑکی کے لبوں پر جھکا ہوا تھا

"کون ہو تم" رضا نے اسے دیکھتے ہوے کہا جس پر اسنے گھبرا کر رضا کی طرف دیکھا اور رضا کی آواز سن کر وہاں موجود ہر فرد اسکی طرف متوجہ ہوچکا تھا

"تم یہاں کررہی ہو مہر" یشب نے سختی سے اسکے قریب آکر کہا 

"یہ سب کیا ہے تم کیا کررہے ہو یہ کام کرتے ہو ، تم تمہیں شرم نہیں آتی" 

"نہیں ، نہیں آتی مجھے شرم" یشب نے ڈھٹائی سے کہا

"کھولو ان سب کو" مہر نے کونے میں بندھی لڑکیوں کو دیکھتے ہوے کہا 

"رضا سنائی نہیں دیا میری منگیتر کہہ رہی ہے کھولو انہیں" یشب کے کہنے پر رضا کنفیوژ ہوکر واقعی میں انہیں کھولنے لگا اسکی حرکت پر یشب نے اپنا ماتھا پیٹا 

"گدھے کیا کررہا ہے" یشب کے چیخنے پر رضا گھبرا کر پیچھے ہوا

"میں سب کو بتادونگی تم یہاں کیا کام کررہے تھے"

"اور تمہیں لگتا ہے اب میں تمہیں یہاں سے جانے دونگا" یشب کہتے ہوے اسکے قریب آنے لگا اسے اس وقت یہاں سے بھاگ جانا ہی بہتر لگا لیکن اس سے پہلے وہ اپنی سوچ پر عمل کرتی حسان نے اسکے منہ پر رومال رکھ کر اسکی سوچ کو ناکام بنادیا 

"اب اسکا کیا کرنا ہے اسے بھی انہی سب کے ساتھ بھیج دیں" حسان نے وہاں بندھی لڑکیوں کو دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں یار میرے چاچا کی بیٹی ہے اتنا برا تھوڑی نہ کرونگا اسے لے جاؤ اور کسی سنسان جگہ پر چھوڑ دینا" اطمینان سے کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا 

حسان بھی اپنے کندھے اچکا کر اسے اپنی گاڑی میں ڈال چکا تھا 

"لیکن اس کا کیا کرنا ہے حسان" رضا نے گاڑی کی سیٹ پر پڑے اسکے بیہوش وجود کو دیکھتے ہوے کہا 

"ہے تو اتنی خوبصورت کسی کے کام ہی آجاے گی اسے زاہدہ باجی کے پاس چھوڑ دیتے ہیں" 

◽️◽️◽️◽️◽️

اسنے اپنی آنکھیں کھول کر حیرت سے ارد گرد کا جائزہ لیا باہر سے تیز آوازے آرہی تھیں اسے تو بس اتنا یاد تھا کہ کسی نے اسکی ناک پر کچھ رکھا تھا جس سے وہ بیہوش ہوگئی اور اب آنکھ کھلنے پر وہ یہاں تھی 

وہ بھاگتے ہوے اس کمرے سے باہر نکلی اسکے باہر نکلتے ہی ہر کوئی اسے ہی دیکھ رہا تھا اسے اس وقت یہ بھی ہوش نہیں تھا کہ اسکے پاس اسکا ڈوپٹہ نہیں ہے

وہاں موجود ہر مرد کی نظریں اب اسی پر تھیں اتنی سمجھ تو اس میں تھی کہ یہاں موجود مردوں کی نظروں کا مفہوم سمجھ پاتی 

سب کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھیں جسے دیکھ کر وہ جلدی سے اُسی کمرے میں جانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی کوئی اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچ چکا تھا 

''ارے زاہدہ باجی اسے کہاں چھپا رکھا تھا" نوید نے ہنس کر اسے دیکھتے ہوے زاہدہ باجی سے کہا 

مہر اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنی لگی اسے اس ماحول میں گھٹن محسوس ہورہی تھی زاہدہ باجی نے آگے بڑھ کر نوید کی گرفت سے اسکا ہاتھ آزاد کروایا 

"یہ یہاں نئی آئی ہے اسلیے اسے رہنے دیجیے "زاہدہ باجی کہتے ہوے اسے دوبارہ اسی کمرے میں لے آئیں جہاں سے وہ نکلی تھی 

"میں یہاں کیسے آئی" 

"حسان تمہیں چھوڑ کر گیا تھا کیا تم جانتی ہو اسے" زاہدہ باجی کی بات سن کر اسنے زور سے اپنی بھیگی آنکھیں بند کرلیں اسے پتہ تھا حسان کس کے کہنے پر اسے یہاں چھوڑ کر گیا ہے اسے پتہ تھا وہ شخص گھٹیا ہے لیکن اتنا گھٹیا نکلے گا اسنے سوچا بھی نہیں تھا 

"میں یہاں نہیں رہ سکتی آپ پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں" مہر نے التجائی انداز میں انہیں دیکھتے ہوے کہا 

"ٹھیک ہے میں خود تمہارے ساتھ چلونگی لیکن ابھی تو رات ہوچکی ہے میں تمہیں صبح لے کر چلونگی"

"نہیں مجھے ابھی جانا ہے آپ پلیز مجھے لے جائیں" ویسے تو وہ جانتی تھی کہ جو تائی امی بلاوجہ اسکے پیچھے پڑی رہتی تھیں اب تو شاید اسے گھر میں بھی نہ گھسنے دیں لیکن اسے پتہ تھا تایا ابو اسکی بات ضرور سنینگے

◽️◽️◽️◽️◽️

"دیکھ لیجیے اپنی چہیتی کا کیا دھرا"یشب نے خط انکے سامنے رکھتے ہوے کہا رضا کسی کی بھی ہینڈ رائٹنگ لکھ سکتا تھا اور یہ خط بھی اسنے اسی سے لکھوایا تھا جس میں مہر نے صاف لفظوں میں یہ بات لکھی تھی کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور وہ یہ سب چھوڑ کر جارہی ہے 

"دیکھ لیا میں تو پہلے ہی کہتی تھی اس لڑکی کو اتنی آزادی مت دیں اب یہ سب اسی کا نتیجہ ہے" خط پڑھتے ہی رخسانہ بیگم نے اپنے شوہر کو دیکھتے ہوے کہا 

"نہیں مہر ایسا نہیں کرسکتی" اشفاق صاحب بار بار ان لفظوں کو بےیقینی سے پڑرہے تھے 

"ایسا ہی ہے میں اسکے کمرے میں گیا تھا وہاں اسکا کچھ سامان موجود نہیں ہے" یشب نے اپنے باپ کو دیکھتے ہوے کہا جبکہ مہر کا سارا سامان وہ خود اسکے کمرے سے نکال چکا تھا 

اسکی بات سن کر اشفاق صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر مہر کے کمرے میں گئے جہاں واقع میں اسکا کچھ سامان نہیں تھا الماری میں کوئی سوٹ نہیں تھا وہ بار بار اسکا فون ملارہے تھے جو کہ بند پڑا تھا 

◽️◽️◽️◽️◽️

دروازہ تحریم نے کھولا تھا جو اسے دیکھتے ہی اس سے چپک گئی

"مہر آپی آپ کہاں تھیں "تحریم نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوے کہا اور اسے لے کر اندر آگئی جب تائی امی کی تیز آواز اس جگہ پر گونجی

"کیا کرنے آئی ہو تم یہاں نکل جاؤ میرے گھر سے"

"تائی امی آپ میری بات سنیں"

"کچھ نہیں سننا مجھے یار نے چھوڑ دیا تو پھر ہمارا منہ کالا کرنے آگئی نکل" 

"کہیں نہیں جاؤنگی میں ، کچھ نہیں کیا میں نے سارا قصور آپکے بیٹے کا ہے"

"خبردار جو اپنا کیا دھرا تم نے میرے بیٹے پر ڈالا ارے وہ تو تم سے شادی پر بھی راضی تھا کہ بن ماں باپ کی بچی ہے اپنوں میں ہی رہے گی لیکن تم نے دکھادی نہ اپنی اوقات نکلو یہاں سے "تائی امی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گھر سے نکالنے لگیں

"امی بات تو سن لیں" تحریم نے آگے بڑھ کر انہیں روکنا چاہا 

"خبردار جو تم نے اسکی حمایت کری جاؤ کمرے میں" 

"تائی امی پلیز بس مجھے تایا ابو سے بات کرنے دیجیے پھر میں چلی جاؤنگی" 

"بہت بیوقوف بنالیا تم نے انہیں اب ہماری جان چھوڑ دو" اسے گھر سے نکال کر تائی امی دروازہ اسکے منہ پر مار چکی تھیں اور وہ رو رو کر دروازہ بجاتے ہوے وہیں بیٹھ چکی تھی 

"تم میرے ساتھ چلو بیٹا" 

"میں ایسی کسی جگہ نہیں جاؤنگی"

"تم میرے ساتھ چلو وہاں جو بھی کام ہوتا ہے وہ لڑکی کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے اور میں تمہیں یقین دلاتی ہوں وہاں رہ کر بھی تم عزت سے رہو گی" اسکا روتا وجود اٹھا کر زاہدہ باجی اسے اپنے ساتھ لے گئیں اسنے مڑ کر گھر کے دروازے کی طرح دیکھا شاید تائی امی دروازہ کھول دیں لیکن ایسا نہیں ہوا 

اسنے فون پر تایا ابو سے بات کرنے کی کوشش کی تھی اور تائی امی کی طرح اسکے پیار کرنے والے تایا نے بھی اسے دھتکار دیا

اس جگہ وہ اپنی زندگی کیسے گزار رہی تھی یہ تو صرف وہ خود یا اسکا خدا جانتا تھا 

◽◽◽◽◽

وہ تین دن کے لیے شہر سے باہر گیا تھا فون اسکا چوری ہوچکا تھا اسلیے وہ کسی سے رابطہ نہیں کرسکا شہر آتے ہی وہ اپنی کام والی جگہ پر چلا گیا 

جہاں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے  

"کیا بات ہے آج تو بڑا خوش لگ رہا ہے"یشب نے حسان کے ساتھ بیٹھے آصف کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا 

"اندر کمرے میں ہے میری خوشی کی وجہ جا تو بھی خوش ہوجا" آصف نے مسکراتے ہوے اندر کمرے کی طرف اشارہ کیا 

یشب اس کمرے کے اندر چلا گیا جہاں وہ لڑکی الٹی لیٹی ہوئی تھی اسکے وجود پر کمبل ڈلا ہوا تھا جبکہ آدھی برہنہ کمر نظر آرہی تھی 

اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھول کر یشب نے مسکراتے ہوے اسکا رخ موڑا لیکن رخ موڑتے ہی اسکی مسکراہٹ سمٹ گئی اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا 

"ب--بھا-ئی" رکتی سانسوں کے ساتھ تحریم نے بمشکل لفظ ادا کیے 

تحریم کے وجود کو ڈھانپ کر اسنے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگ گیا سب نے حیرانی سے یشب کی اس حرکت کو دیکھا 

◽️◽️◽️◽️◽️

"زنا ایک قرض ہوتا ہے جو بہن بیٹی یا بیوی کو اتارنا پڑتا ہے" کچھ دن پہلے کہے اس لڑکی کے الفاظ یشب کے زہہن میں گونجے لیکن اس وقت یشب نے اسکی کوئی بات نہیں مانی اور صرف اپنی من مرضی کری لیکن آج وہی الفاظ بار بار اسکے زہہن میں گھوم رہے تھے

رخسانہ بیگم اور اشفاق صاحب اسکی فون سنتے ہی ہاسپٹل آے جہاں یشب نے انہیں اپنا ہر گناہ بتادیا جس کے بدلے اشفاق صاحب اسے اپنی زندگی سے نکال چکے تھے پہلی بار اسکے باپ نے اسے تھپڑ مارا جسکا اسے کوئی دکھ نہیں تھا 

وہ رو رہا تھا اپنے اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا اپنی بہن کی زندگی مانگ رہا تھا 

"میری بہن کیسی ہے" حماد کے روم سے نکلتے ہی یشب نے بےچینی سے پوچھا حماد نے ایک نظر نظریں جھکاے اشفاق صاحب کو دیکھا اور ایک نظر یشب کو 

"آئی ایم سوری" اسکے تین لفظ یشب کی زندگی ختم کرچکے تھے 

وہ آخری بار اپنی بہن کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکا اسکے باپ نے اسے گھر سے اور اپنی زندگی سے نکال دیا

اپنے ماں باپ کے ہوتے ہوے بھی وہ تنہا رہتا تھا لیکن ہر چند دن بعد ان سے ملنے ضرور جاتا تھا رخسانہ بیگم ماں تھیں اسکی طرح قدم بڑھانا چاہتی تھیں ایک اولاد کو وہ کھو چکی تھیں دوسرے سے دوری اب انہیں برداشت نہیں تھی لیکن شوہر کی وجہ سے وہ خاموش رہتی تھیں جس کے لیے انکی اولاد مرچکی تھی 

اس سب میں اسنے مہر کو ڈھونڈنے کی کوشش ہمیشہ کی لیکن پتہ نہیں وہ کہاں تھی جو اسے کبھی ملی ہی نہیں

اسکی زندگی میں اب صرف تنہائی تھی ویران دل تھا اور اس ویران دل میں چاہت حسین آگئی جسے وہ چاہ کر بھی نہیں اپنا سکتا تھا وہ خود کو چاہت کے لائق نہیں سمجھتا تھا اسکی نظر میں چاہت بہت پاک تھی جبکہ اپنی نظر میں وہ خود بہت گنہگار تھا

چاہت کا ساتھ اسنے کبھی نہیں مانگا تھا وہ تو بس اسے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا تھا لیکن پھر بھی خدا نے اسکے نصیب میں چاہت لکھ دی 

مہر کے ملنے کی امید چھوڑ چکا تھا لیکن وہ اسے ملی دائم کے گھر پر جسے دیکھ کر وہ اپنی جگہ رک چکا تھا وہ اسے سے پوچهنا چاہتا تھا 

کہ وہ کیسی ہے کہاں تھی لیکن اس وقت وہ خود میں اتنی ہمت پیدا نہیں کرپارہا تھا 

اس لیے اپنے قدم واپسی کی جانب موڑ لیے 

سارا دن وہ سڑکوں پر خوار پھرتا رہا اسے بےسکونی ہورہی تھی تھکن ہورہی تھی بار بار مہر کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا پتہ نہیں وہ وہاں کیا کررہی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا کہ اسکے سامنے جاے اور رو رو کر معافی مانگے اسے بے آسرا کرنے کے لیے اس پر الزام لگانے کے لیے لیکن اس وقت اس میں اتنی ہمت بھی پیدا نہیں تھی کہ اسکے سامنے جاکر اس سے معافی مانگ سکے 

◽️◽️◽️◽️◽️

اسکے ہاتھ تھامے وہ رو رہا تھا اور چاہت بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی

لڑکیوں کی عزت کرنے والا ہمیشہ نظریں نیچی کرکے رہنے والا اس طرح ہوگا یہ تو اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا 

اسنے اسکے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ نکالنے چاہے لیکن یشب نے اسکے ہاتھوں کو اور مظبوطی سے تھام لیا 

"میں نے اس لیے ہمیشہ یہ سب آپ سے چھپایا کیونکہ مجھے پتہ تھا سچ پتہ چلنے پر آپ مجھ سے نفرت کرینگی اسلیے محبت کرنے کے باوجود میں نے کبھی اقرار نہیں کیا کیونکہ میں اپنے آپ کو آپ کے لائق نہیں سمجھتا تھا پلیز مجھے برا کہیں ناراض ہوں گلہ کریں بس چھوڑ کر مت جائیں" وہ اسکے ہاتھ تھامے بچوں کی طرح بھیگی آواز میں کہہ رہا تھا اور چاہت کو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہے 

بیل کی آواز پر اسنے اپنے ہاتھ زبردستی اسکی گرفت سے آزاد کرواے اور دروازہ کھولنے چلی گئی

فون کال پر موجود اسنے حیرت سے آنے والے نمبر کو دیکھا اور کچھ سوچ کر کال اٹھالی 

"اسلام و علیکم" فون اٹھاتے ہی اسنے سلام کیا جس کا جواب دے کر فون کال پر موجود شخص نے پریشانی سے کہا 

"مہر تم جلدی سے آجاؤ" زاہدہ باجی نے پریشانی سے کہا 

"لیکن کیا ہوا ہے زاہدہ باجی" 

"تم بس جلدی سے آجاؤ مجھے تمہاری ضرورت ہے"

فون بند ہوچکا تھا اور اسے واپس اس جگہ جانا پڑ رہا تھا مجبوری میں، پتہ نہیں اس عورت کو کیا پریشانی تھی وہ جانا نہیں چاہتی تھی لیکن یہ اس کی مجبوری تھی کیونکہ وہی تو عورت تھی جس نے اسکا تب بھی ساتھ دیا جب اسکے اپنوں نے اسے چھوڑ دیا 

◽◽◽◽◽

اسکے دروازہ کھولتے ہی دائم آندھی طوفان کی طرح اندر داخل ہوا 

"یشب کہاں ہے"سخت لہجے میں کہا گیا 

"کیا ہوا ہے بھائی" چاہت نے پریشانی سے کہا جبکہ دائم بنا اسکی بات کا جواب دیے اندر کی بڑھ گیا جہاں کچن میں موجود زمین پر بیٹھا یشب اسے نظر آچکا تھا 

بنا کچھ سوچے سمجھے وہ یشب کو مارنے لگا اور وہ بھی خاموشی سے اسکی مار کھا رہا تھا 

"گهٹیا انسان میں تو تجھے ایک اچھا انسان سمجھتا تھا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ میری بیوی کے ساتھ ہوے ہر ظلم کا زمیدار تو ہوگا"چاہت نے آگے بڑھ کر دائم کو روکنا چاہا 

"بھائی پلیز چھوڑیں اسے" اسکا بازو پکڑ کر چاہت نے اسے یشب سے دور کرنے کو کوشش کی 

"نہیں مجھے م-ارو مجھے ج-جان سے ماردو مجھے س-سکون چاہیے مجھ-ے سکون دے دو" دائم نے نظر اٹھا کر چاہت کو دیکھا اور ایک غصیلی نظر یشب پر ڈال کر زوردار غصہ اسکے منہ پر مارا اور چاہت کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے لے جانے لگا

"میری بہن اب ایک پل بھی اس گھر میں نہیں رہے گی" 

"نہی-نہیں پلیز چاہ-ت کو کہیں مت لے ک-کے جاؤ"تکلیف کی وجہ سے اس سے اٹھا نہیں جارہا تھا، بھیگی آنکھوں میں التجا تھی لیکن دائم بنا اسکی طرف دیکھے چاہت کا ہاتھ تھامے اسے وہاں سے لے گیا آنسو چاہت کی آنکھوں میں بھی تھے لیکن اس وقت اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے گھر سے نکلنے سے پہلے آخری لفظ جو اسنے یشب کے سنے تھے وہ اس کا اپنا نام تھا 

"چاہت"

◽◽◽◽◽

اسے دیکھتے ہی زاہدہ باجی اسے کمرے میں لے گئیں اور اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے 

"مہر صرف تم ہی میری مدد کرسکتی ہو" 

"میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں"

"آج گیلانی صاحب آرہے ہیں وہ  ہمیں تارا کی وجہ سے پہلے ہی بہت پیسے دے چکے تھے کیونکہ ایک تارا ہی تھی جو انہیں بھای تھی لیکن آج صبح اسکی گاڑی سے ٹکر ہوگئی اور اب تارا کے علاوہ یہاں موجود لڑکیوں میں سے ایک تم ہی ہو جو انہیں خوش کرسکتی ہو" 

"میں بھلا ایسا کیوں کرونگی آپ بھی جانتی ہیں میرا اب اس جگہ سے کوئی تعلق نہیں ہے"

"پہلے تو تھا" 

"لیکن میں پہلے بھی ایسا کچھ نہیں کرتی تھی" 

"لیکن اب تمہیں کرنا پڑے گا مہر کیونکہ تمہارے علاوہ اور کوئی ایسی لڑکی نہیں جو انکے معیار پر پوری اترے میں نے تمہارا اتنا خیال رکھا تمہیں ایک ماں کی طرح پیار تم یہ صلہ دے رہی ہو مجھے اس سب کا" انکی باتوں پر مہر سوچتی رہ گئی 

کہنے سے کوئی ماں تو نہیں بن جاتی بھلے اس عورت نے اسکا خیال رکھا لیکن اگر ایک ماں ہوتی تو کبھی اپنی بیٹی کو یہ سب کرنے کو نہیں کہتی 

◽◽◽◽◽

"چاہت کمرے میں جاؤ" وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن اسکے لہجے کی سختی محسوس کرکے خاموشی سے کمرے میں چلی گئی جس کے بعد وہ خود بھی اپنے کمرے میں چلا گیا جہاں شہیر اپنی ڈرائنگ میں کلر کر رہا تھا 

"کیا کررہا ہے میرا بچہ" اسکے پاس آکر دائم نے پیار بھرے لہجے میں کہا

"بابا آپ کب آے" اسے دیکھتے ہی شہیر نے خوشی سے کہا 

"بس ابھی آیا تھا اچھا ماما کہاں ہیں"

"وہ باہر گئیں ہیں" 

"کہاں" دائم نے حیرت سے پوچھا مہر پتہ نہیں کہاں چلی گئی وہ بھی اسے بنا بتاے 

"پتہ نہیں"

اپنا فون نکال کر وہ مہر کو کال ملانے لگا لیکن اس کا فون بھی وہیں تھا دائم نے اسکا فون اٹھالیا اس خیال کہ تحت کہ شاید کسی کا میسیج یا فون آیا ہو اور فون کس کا آیا تھا یہ اسے پتہ چل گیا اور مہر اس وقت کہاں ہوگی یہ جاننے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگی 

◽◽◽◽◽

وہاں جو موجود منظر کو دیکھتے ہی اسنے غصے سے اپنی مٹھیاں پھینچ لیں 

وہاں موجود مرد جس نظر سے اسکی بیوی کو دیکھ رہے تھے اسکا دل چاہ رہا تھا سب کی آنکھیں نکال دے تیزی سے آگے بڑھ کر ناچتی ہوئی مہر کا ہاتھ تھام کر وہ وہاں سے جانے لگا 

"اوے کہاں لے کر جارہا ہے" وہاں بیٹھے آدمی نے اسے دیکھتے ہوے کہا اور وہ تو جیسے اسی کے انتظار میں تھا

مہر کا ہاتھ چھوڑ کر وہ وہاں موجود ہر اس شخص کو مارنے لگا جو اسکی بیوی کو دیکھ رہے تھے مہر جو اسے یہاں دیکھ کر گھبرا چکی تھی اسکے اس طرح سے کرنے پر مزید گھبرا گئی وہ بری طرح ان سب کو پیٹ رہا تھا سر پر جیسے کوئی جنون سوار تھا 

"کیا کررہے ہو" زاہدہ باجی کی سخت آواز پر اسنے غصے سے انہیں گھور کر دیکھا 

"اگر آج کہ بعد میری بیوی کو فون کیا تو تمہاری یہ جگہ بند کروادونگا تم نے اسے اپنے پاس رکھا تھا اسکا خیال رکھا اسے محفوظ رکھا میں لحاظ صرف اسی وجہ سے کررہا ہوں لیکن آیندہ اگر ایسا کچھ ہوا تو تمہاری یہ گھٹیا جگہ بند کروادونگا" اپنے اشتعال کو ضبط کرکے اسنے یہ بات کہی اور گھبرائی ہوئی مہر کا ہاتھ تھام کر اسے وہاں سے لے گیا 

◽◽◽◽◽

کتنی ہی کالز یشب کی آچکی تھیں اور وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اٹھاے یا نہیں بلآخر گہرا سانس لے کر اسنے فون اٹھالیا لیکن کہا کچھ نہیں 

"ہیلو چاہت" یشب کی نڈھال سی آواز اسکے کانوں میں پڑی لیکن لبوں پر اب بھی خاموشی تھی 

"پ-پلیز پلیز مجھ سے بات کرو مجھے تنہا مت کرو چاہت برا کہو لیکن کچھ تو کہو محبت ہونے کے باوجود ہمیشہ اسی لیے تم سے دور رہا کیونکہ میں خود کو تمہارے لائق نہیں سمجھتا تھا سوچتا تھا کہ تمہیں سب بتادوں لیکن جن آنکھوں میں ہمیشہ اپنے لیے محبت دیکھی تھی ان میں نفرت دیکھنے کی طاقت نہیں تھی مجھ میں نہیں جانتا کب لیکن کیسے لیکن تم سے بہتر محبت کرنے لگا ہوں چاہت تمہارے پاس پورا حق ہے اپنے لیے فیصلہ کرنے کا اور تم جو فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہوگا" اسکی ٹوٹا لہجہ چاہت کو تکلیف دے رہا تھا 

"تمہیں پتہ ہے چاہت دائم نے کہا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں میں مر تو سکتا ہوں لیکن تمہیں نہیں چھوڑ سکتا بس یہی کہنا تھا کہ اپنا خیال رکھنا تمہیں الوداع کہنا تھا آج میں اپنے پورے حوش و حواس میں اقرار کرتا ہوں کہ چاہت یشب آفندی مجھے تم سے بے انتہا محبت ہے بے انتہا" یشب نے فون بند کردیا لیکن وہ کتنی دیر تک فون اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی اسے عجیب سی بےچینی محسوس ہورہی تھی اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی یشب آفندی کیسا بھی تھا اسے قبول تھا

◽◽◽◽◽

گاڑی فل سپیڈ میں چل رہی تھی وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن اسکا غصہ دیکھ کر اس میں بات کرنے کی ہمت کی پیدا نہیں ہورہی تھی گہرا سانس لے کر اسنے دائم کو پکارا 

"دائم" 

"شٹ اپ" اسکے اتنی زور سے چلانے پر مہر سہم کر سیٹ سے چپک چکی تھی 

"ایک لفظ مت کہنا"گھر کے سامنے گاڑی روک کر وہ اندر جانے لگا جب گارڈ بھاگتا ہوا اسکے قریب آیا 

"صاحب وہ چاہت میڈم چلی گئیں"

"کہاں چلی گئی" 

"انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو بتادوں وہ اپنے گھر جارہی ہیں" گارڈ کی بات سن کر اسنے گہری سانس لے کر اپنی غصے کو کم کرنا چاہا اور دوبارہ آکر گاڑی میں بیٹھ گیا 

"کہاں جارہے ہیں آپ"مہر جو گاڑی سے اترنے والی تھی اسے دوبارہ گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر پوچھنے لگی 

"گاڑی سے اترو" 

"نہیں پہلے بتائیں کہاں جارہے ہیں ورنہ آپ جہاں جارہے ہیں میں ساتھ جلونگی" اسکے ضدی انداز پر دائم نے غصے میں گاڑی فل سپیڈ میں دوڑا دی 

◽◽◽◽◽

اسکے پاس ڈوپلیکیٹ کی تھی جس سے گھر کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوگئی گھر میں اندھیرے کا راج تھا 

چاہت نے ساری لائٹس آن کردیں اسے بس یشب کو دیکھنا تھا وہ تیزی سے اپنے قدم اٹھاتی ہوئی یشب کے کمرے میں گئی اور اسی تیزی میں وہ ڈور لاک کرنا بھول چکی تھی 

یشب کا کمرہ خالی تھا اب اسکا رخ اس کمرے کی طرف تھا جس میں وہ رہتی تھی اسنے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا جہاں ایک دل دہلادینے والا منظر اس کا منتظر تھا 

بیڈ پر بچھی سفید چادر اسکے ہاتھ سے نکلتے خون سے سرخ ہوچکی تھی جبکہ اسکے دوسرے ہاتھ میں فریم موجود تھا جس میں چاہت کی تصویر تھی چاہت آنکھیں پھاڑے اس منظر کو دیکھ رہی تھی 

گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا وہ تیزی سے اندر داخل ہوا مہر بھی بھاگتی ہوئی اسکے پیچھے گئی 

ایک ہی کمرہ کھلا ہوا تھا دائم اس کمرے میں داخل ہوا لیکن اندر کا منظر دیکھ کر وہ بھی اپنی جگہ رک چکا تھا اور اسکے پیچھے موجود مہر بھی 

"بھائی پلیز اسے ہاسپٹل لے کر چلیں"چاہت کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی اپنے آنسو صاف کرکے اسنے دائم سے کہا جبکہ مہر تو بس یہ سوچ رہی تھی کہ اس شخص کا چاہت اور دائم سے کیا تعلق ہے زہہن میں چلتے سوال وہ پوچھنا چاہتی تھی لیکن یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں تھا 

نظریں اس وقت ٹی وی پر گانا گاتے یارم پر جمی ہوئی تھیں 

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اسکی آواز واقعی میں بہت اچھی تھی دعا کو اسکی آواز میں ایک جادو سا محسوس ہوتا تھا لیکن یہ کام وہ صرف اسکی غیر موجودگی میں کرتی تھی اسکے آنے سے پہلے ہی وہ ٹی وی بند کردیتی تاکہ اسے پتہ نہ چلے 

اور اسکی اس حرکت پر یارم مسکراکر رہ جاتا کیونکہ کیمرے سے وہ اس کی ہر حرکت دیکھتا تھا 

ٹھیک تو ان دونوں میں اب بھی کچھ نہیں ہوا تھا لیکن اب دعا روتی نہیں تھی بلکہ اس سے لڑتی تھی اسے ڈانٹتی تھی اور یارم کے لیے تو یہی کافی تھا کہ وہ اس سے بات کررہی تھی وہ اسکی ہر چیز کا خیال رکھتا تھا ان گزرے اتنے دنوں میں دعا کو خود بھی یارم کی عادت ہوچکی تھی

اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی دعا اپنے چہرے کا رخ پھیر کر بیٹھ گئی

"دعا جلدی چلو" اسکا ہاتھ تھام کر بنا اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے وہ اس لے کر باہر  کی جانب چلا گیا 

◽◽◽◽◽

"بھابھی اسے معاف کردیں وہ پہلے ہی تکلیف میں ہے اگر آپ اسے معاف کردوگی تو اسے سکون مل جاے گا" آنسو بہاتی چاہت اسکے سامنے بیٹھی اپنے شوہر کے لیے معافی مانگ رہی تھی 

وہ اب خطرے سے باہر تھا لیکن ہوش اسے ابھی تک نہیں آیا تھا

آنسو تو خود اسکے بھی بہہ رہے تھے جب بھی کوئی مرد اسکے ساتھ بدتمیزی کرتا یا اسے غلط نگاہ سے دیکھتا تو اسکے دل سے یشب کے لیے بددعا نکلتی ہمیشہ وہ یہی کہتی تھی کہ کاش یشب آفندی برباد ہوجاے لیکن یہ سب ہوگا یہ تو اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا

"آپ چاہیں تو اسے کوئی سزا دے دیں لیکن اسے معاف کردیں"

"میں سزا دینے والی کون ہوتی ہوں اور میں اسے سزا دے بھی کیا سکتی ہوں اسکے کیے کی سزا تو اسے مل چکی ہے" گہرا سانس لے کر مہر نے اپنے آنسو صاف کیے 

◽◽◽◽◽

اسنے گاڑی روک دی روڈ اس وقت سنسان تھا اور ہر طرف اندھیرا ہی تھا اگر کہیں روشنی تھی تو وہ سامنے بنی اس عمارت میں دعا نے حیرت سے اسے دیکھا

"کیوں لاے ہیں مجھے یہاں" 

"باہر تو نکلو" سیٹ بیلٹ کھول کر وہ کار سے اتر گیا اسکے اترنے پر دعا بھی اتر گئی 

"یہ تمہارے لیے چھوٹا سا گفٹ ہے" یارم نے سامنے بنے ہاسپٹل کی جانب اشارہ کیا 

"میرے لیے" تعجب سے اسنے یارم کی طرف دیکھا یہ سچ تھا کہ ہاسپٹل بنوانا اسکی ہمیشہ سے خواہش تھی جس کا زکر اسنے ایک بار یارم سے بھی کیا تھا یہ بات اسے بتا کر وہ خود بھول چکی تھی لیکن یارم نے یاد رکھا 

وہ اسکی مذاق میں کہی بات بھی پوری کردیتا تھا اسے یاد نہیں تھا کہ آج تک کسی نے اسکی بات کو اتنی اہمیت دی ہو 

"کیا ہوا اچھا نہیں لگا ویسے ارادہ تو میرا تمہیں ایک گھر دینے کا تھا لیکن پھر سوچا کیوں نہ تمہاری خواہش پوری کردی جاے لیکن شاید تمہیں اچھا نہیں لگا"

"ایسی بات نہیں ہے میں بس حیران تھی لیکن یقین کریں یہ میری اب تک کی زندگی کا بہترین تحفہ ہے" گالوں پر گرا آنسو صاف کرکے اسنے مسکرا کر یارم کو دیکھا 

◽◽◽◽◽

ہوش آتے ہی اسکی پہلی نظر اپنے برابر موجود چاہت پر پڑی جو اسکے بیڈ کے قریب چئیر لگاے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بیڈ پر سر رکھے سو رہی تھی 

اسے یہ سب خواب لگ رہا تھا اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اسنے چاہت کو چھو کر یقین کرنا چاہا کہ وہ حقیقت ہے یا نہیں لیکن اسکے چھونے سے پہلے چاہت کی آواز اسکے کانوں میں پڑی اسکا ہاتھ اپنی جگہ رک گیا 

"تم تو بہت بزدل نکلے یشب آفندی تمہیں چاہیے تھا آکر مجھے اور میرے بھائی کو مناتے مہر بھابھی سے معافی مانگتے نہ کہ اس طرح ایک آسان راہ تلاش کرتے" سر ہنوز ویسے ہی تھا آنکھیں بند کیے وہ بول رہی تھی 

"میں جانتا تھا میں معافی کہ لائق نہیں ہوں میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ مہر کے سامنے جاؤں پتہ نہیں اتنے وقت سے وہ کہاں تھی کس حال میں تھی اور سب سے بڑا ڈر مجھے تمہیں کھونے کا تھا میں تمہیں کھو نہیں سکتا چاہت بہت پیار کرتا ہوں تم سے تمہاری دوری مجھ سے برداشت نہیں ہوگی" وہ درد بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا آنکھ سے آنسو نکل کر اسکے گھنے بالوں میں جذب ہورہے تھے

"اور تم سے کس نے کہا میں تم سے دور جارہی ہوں میری محبت ایسی نہیں تھی یشب کہ تمہارا ماضی سن کر وہ ختم ہوجاتی میں بس یہ سب جاننے کے بعد تھوڑا وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی" 

"تو رہ لی نہ اتنے وقت اکیلی اب تو ہم ساتھ ہی رہینگے نہ" وہ کسی بچے کی طرح کہہ رہا تھا  جبکہ جس پر چاہت نے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی اسکا ہاتھ تھام کر یشب نے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے جب کمرے کا دروازہ کھول کر مہر اندر داخل ہوئی 

یشب نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا 

"میں تایا ابو اور تائی امی سے ملنا چاہتی ہوں"

"کیا تم نے مجھے معاف کیا"

"میں نے اللہ کی رضا کے لیے تمہیں معاف کیا" مہر کے الفاظ سن کر اسے ڈھیروں سکون اپنے اندر اترتا ہوا محسوس ہوا

◽◽◽◽◽ 

دائم نے اب تک اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ نہ جانے اس سے بات کرنے اسے منانے کے کتنے جتن کرچکی تھی جو کہ سب بیکار تھے آج وہ اسے منانے کا پکا ارادہ کرچکی تھی

 اسلیے اسکے کمرے میں آنے سے پہلے ٹی وی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئی اور ٹی وی آن کرکے مووی دیکھنے لگی دائم کی عادت تھی وہ میچ بہت شوق سے دیکھتا وہ بھی روز اسی ٹائم اسلیے آج اسکے آنے سے پہلے وہ خود اسکی سیٹ سمبھال چکی تھی شاید کنڑول لینے کے لیے دائم اس سے بات کرلے 

لیکن یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی جب دائم کمرے میں داخل ہوا اور بنا اسکی طرف دیکھے اپنا نائٹ سوٹ لے کر واشروم میں چلا گیا 

"میری طرف دیکھا بھی نہیں" مہر نے دکھ سے سوچا اور واشروم کے دروازے کو گھور کر دوبارہ مووی دیکھنے میں مگر ہوگئی 

جب دائم واشروم سے نکل کر اپنی جگہ پر جاکر سونے کے لیے لیٹ گیا مہر نے ٹیڑھی نظروں سے اسے دیکھا اور آواز تیز کردی 

کچھ دیر تک وہ بنا کچھ کہے لیٹا رہا لیکن جب مہر نے آواز کم نہیں کی تو غصے سے اٹھ کر اسے گھورنے لگا

"آواز کم کرو" اسکے غصے میں کہی آواز مہر نے جیسے سنی ہی نہیں غصے سے اٹھ کر اسنے ٹی وی بند کردیا لیکن اسکے لیٹتے ہی مہر نے ٹی وی دوبارہ آن کر دیا جہاں اب گانا چل رہا تھا

"سانسوں کو سانسوں میں ڈھلنے دو زرا"

غصے سے اٹھ کر وہ پھر سے ٹی وی بند کرنے لگا جب مہر کی شرارت بھری آواز اسکے کانوں میں پڑی 

"مجھے پتہ ہے آپ اس ٹائم پر میچ دیکھتے ہیں لیکن افسوس دائم سلطان ایک لڑکی سے ریموٹ کنٹرول نہیں لے سکتا" مہر نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

دائم اسکی طرف بڑھنے لگا جب وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں سے بھاگ گئی دائم بھی اسکے پیچھے بھاگ گیا  

 "سانسوں کو سانسوں میں ڈھلنے دو زرا"

"دھیمی سی دھڑکن کو بڑھنے دو زرا"

اسکا پیر مڑا جس کی وجہ سے وہ پیچھے گرنے لگی گرنے کے ڈر سے اسنے دائم کی شرٹ تھام لی اور مہر کے ساتھ دائم کا وجود بھی بیڈ پر گر گیا اسکے دونوں طرف ہاتھ رکھے دائم اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا نظریں گلابی لبوں کے نیچے موجود تل پر جمی ہوئی تھی

"لمحوں کی گزارش ہے یہ پاس آجاے"

"ہم ، ہم تم" 

"تم ہم تم"

اس سے پہلے دائم اسکے تل پر اپنے لب رکھتا کل کا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا جسے سوچ کر وہ اس پر سے اٹھ گیا 

لیکن اس سے پہلے وہ باہر جاتا اپنے ہاتھ اسکے گرد باندھ کر مہر اسکی پشت پر اپنا سر رکھ چکی تھی

"سوری دائم کیا آپ مجھے معاف نہیں کرسکتے" اسکی رندھی ہوئی آواز سن کر دائم نے مڑ کر اسے دیکھا 

"تمہیں اندازہ نہیں ہے میری کیفیت کا، دل تو چاہ رہا ہے واپس جاکر ان سب کی آنکھیں نکال دوں کیوں گئی تھیں تم وہاں" اسکے بازوؤں کو اپنی سخت گرفت میں لے کر دائم نے اس اپنے قریب کرلیا 

"یہ میری مجبوری تھی مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مجھے وہاں کس لیے بلایا جارہا ہے زاہدہ باجی نے بھلے میرا خیال رکھا لیکن وہ میری اپنی تو نہیں ہیں نہ انکا کہنا تھا کہ انہوں نے میرے لیے اتنا سب کچھ کیا ہے تو کیا میں انکی پہلی بار کہی ایک بات نہیں مان سکتی تھی میری بھلائی اسی میں تھی کہ میں انکی بات خاموشی سے مان لیتی ورنہ وہ مجھے وہاں سے جانے نہیں دیتی میں ڈر گئی تھی میرا فون بھی میرے پاس نہیں تھا" اسکے گالوں پر بہتے موتیوں کو دائم نے اپنے لبوں سے چن لیا 

"بھول جاؤ آج سے پہلے تم اس جگہ پر گئی تھیں بس یاد رکھو تو دائم سلطان کو" دائم نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ کر کہا جب بارش کی زوردار آواز ان دونوں کے کانوں میں پڑی  

"بارش"بارش کو دیکھ کر مہر خوش ہوتی ہوئی وہاں سے بھاگ کر لان میں چلی گئی دائم بھی مسکراتے ہوے اسکے پیچھے چلا گیا 

"سلوٹیں کہیں کروٹیں کہیں" 

"پھیل جاے کاجل بھی تیرا"

باہر بارش میں وہ بچوں کی طرح خوش ہورہی تھی اور دائم تو بس اسے دیکھنے میں مصروف تھا 

گانا اس ماحول کو مزید رومانی بنارہا تھا

سامنے کھڑا اسکا محبوب اسکے جذبات جگا رہا تھا 

"نظروں میں ہو گزرتا ہوا"

"خوابوں کا کوئی قافلہ" 

اسکے قریب جاکر دائم نے اسکا رخ اپنی طرف کیا اور بنا اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے اسکے لبوں پر جھک گیا 

"جسم کو روحوں کو جلنے دو زرا" 

"شرم و حیا کو مچلنے دو زرا" 

اس سے دور ہوکر دائم نے اسکا شرم سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھا 

"لمحوں کی گزارش ہے یہ پاس آجاے" 

"ہم ، ہم تم'' 

"تم ہم تم" 

ہر چیز سے بےخبر وہ دونوں بارش میں بھیگ رہے تھے 

فاصلہ مٹا کر دائم اسکی بھیگی گردن پر جھک گیا مہر نے اسکے کندھے سے شرٹ کو مظبوطی سے تھام لیا 

"د-دائم"

"بولو جان دائم" اسکی گردن سے چہرہ ہٹا کر دائم نے مسکرا کر اسکے چہرے کو دیکھا جہاں اس وقت اسکی نظریں جھکی ہوئی تھیں 

"اندر چلیں" اسکا ارادہ دائم کی حرکتوں سے بچنے کا تھا لیکن شاید دائم کا ارادہ کچھ اور تھا 

"میں بھی یہی کہنے والا تھا اچھا ہوا تم نے خود ہی کہہ دیا" مسکراتے ہوے اسنے پل بھر میں اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھا لیا 

"نہ-نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا" اسکے ارادے دیکھ کر مہر نے گھبراتے ہوے کہا 

"پر میرا یہی مطلب تھا"ٹانگ سے دروازہ بند کرکے اسنے مہر کے وجود کو بیڈ پر لیٹادیا 

"چھو لو بدن مگر اس طرح 

جیسے سریلا ساز ہو" 

اسکی کان کی لو پر اپنے لب رکھ کر اسنے اپنا چہرہ اسکے نم بالوں میں چھپالیا 

"ہم ہیں رے چھپے تیری زلف میں" 

"کھولو کہ رات آزاد ہو" 

دائم نے اسکا بھیگا ڈوپٹہ اس سے الگ کردیا

"آنچل کو سینے سے ڈھلنے دو زرا"

"شبنم کی بوندیں پھسلنے دو زرا"

دائم نے اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے مہر نے آہستہ سے اپنی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا اسکے ایسا کرتے ہی دائم اسکے لبوں پر جھک گیا

"لمحوں کی گزارش ہے یہ پاس آجاے" 

"ہم ، ہم تم" 

"تم ہم تم" 

رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی باہر بارش ہورہی تھی اور اندر دائم مہر کو اپنے پیار کی بارش میں بھگو رہا تھا 

"تم پہلے سے جانتی تھی نہ کہ یارم کون ہے" اسنے فون پر موجود دوسری طرف ساریہ سے کہا یہ فون یارم نے ہی اسے دیا تھا جسے نخرے کرنے کے بعد وہ لے چکی تھی

"ہاں"اسنے ایک لفظی جواب دیا

"تو مجھے بتایا کیوں نہیں"

"کیونکہ مجھے یارم سر نے منع کیا تھا میں تمہاری دوست ہوں دعا کبھی تمہارا برا نہیں چاہونگی اگر مجھے یارم سر کی نیت ٹھیک نہیں لگتی تو میں خود انہیں تم سے دور رہنے کا کہتی اور تمہیں بتاتی بھی کہ وہ ایک سنگر ہیں لیکن میں نے تو ہمیشہ تمہارے لیے انکی نظروں میں عزت دیکھی تھی بتاؤ مجھے کیا ہوا تم خوش نہیں ہو" 

"ایسی بات نہیں ہے ساریہ یارم جیسا محبت کرنے والا ہمسفر تو ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ھے ہاں شروع میں مجھے ان سے نفرت محسوس ہوتی تھی انہوں نے میرے ساتھ جو کیا اس سب کی وجہ سے بہت غصہ آتا تھا لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے کبھی مجھے کچھ نہیں کہا میرے غصے میں کہے الفاظ سن کر بھی کبھی غصہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پیار بھرے لہجے میں بات کی" 

"تو یہ تو اچھی بات ہے نہ"

"ہاں لیکن مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا جب بھی اس رشتے کو اپنانے کی کوشش کرتی ہوں تو ابو جان کے کہے الفاظ یاد آجاتے ہیں میں اپنوں کو ناراض کرکے اس رشتے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی" 

"دعا تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے چھوڑ دو ان سب پرانی باتوں کا پیچھا خدا نے تمہیں بن مانگے سب دے دیا"اسکے رونے پر ساریہ نے اسے سختی سے ٹوکا جب کہ باہر کھڑا یارم جو اندر آنے کا ارادہ رکھتا تھا اسکی باتیں سن کر وہیں سے پلٹ گیا اسنے دعا کو رشتہ سمجھنے کے لیے وقت ضرور دیا تھا لیکن کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ اس رشتے کو اپنا کیوں نہیں پارہی تھی

"دنیا میں لاکھوں لڑکیاں ہیں دعا جو یارم سر پر مرتی ہیں میں بھی انہی میں سے ہوں لیکن انہوں نے اس لاکھوں کی بھیڑ میں تمہیں چنا ہے"

"تم ٹھیک کہہ رہی ہو ساریہ مجھ میں تو کوئی ایسی خاص بات بھی نہیں ہے میں تو ان کو  جانتی بھی نہیں تھی پھر بھی اتنی لڑکیوں کو چھوڑ کر انہوں نے مجھے اپنایا میں اب ساری پرانی باتیں بھول کر اپنی نئی زندگی کی شروعات کرونگی یارم کی قدر کرونگی" 

◽◽◽◽◽

ٹرے رکھ کر اسنے سوچو میں گم یشب جو دیکھا جو اپنی سوچو میں اتنا گم تھا کہ اسکے کے آنے کی خبر بھی نہیں ہوئی 

"یشب کھانا کھالو پھر تمہیں میڈیسن بھی لینی ہے" چاہت کی آواز سن کر وہ سوچو کی دنیا سے باہر نکلا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب بٹھا لیا 

"تم میرے ساتھ ہی رہو گی نہ چاہت" 

"ہاں میں تمہارے ساتھ ہی رہونگی" مسکراتے ہوے چاہت نے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ لیا 

"تم مجھ سے پیار کرتی ہو نہ" 

"ہاں بہت"

"مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سب جاننے کے بعد بھی تم مجھ سے پیار کیسے کرسکتی ہو"اسکی بات سن کر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد چاہت نے کہا 

"ایک بات پوچھوں یشب" چاہت نے اسکی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوے کہا 

"ہاں میری جان پوچھو" 

"تمہیں لگتا ہے کہ تم بہت گنہگار ہو تو کیا کبھی تم نے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی ہے" 

"نہیں چاہت کتنی بار معافی مانگنے کا سوچا لیکن کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی میں جانتا ہوں کہ اللہ پاک کبھی مجھے معاف نہیں کرینگے میں نے تو اتنے گناہ کیے بھلا مجھے معافی کیسے مل سکتی ہے" اسنے نم لہجے میں کہا

"تم ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہو یشب خدا تو رحیم و کریم ہے پتہ ہے کائنات میں کوئی اتنی شدت سے کسی کا انتظار نہیں کرتا جتنا اللہ اپنے بندوں کی توبہ کا کرتا ہے جب ہماری ماں ہمیں ہماری کی ہوئی غلطیوں پر معاف کردیتی ہے تو خدا تو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ بھلا ہمیں معاف کیوں نہیں کرے گا" چاہت نے اسکے بہتے آنسو صاف کرتے ہوے نرمی سے کہا 

"چلو اور میرے ساتھ نماز پڑھو" چاہت کی بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر وضو کرنے کے لیے واشروم میں چلا گیا 

اسے خود یاد نہیں تھا کہ اسنے کتنے عرصے بعد نماز پڑھی ہے نماز کا پابند تو وہ پہلے بھی نہیں تھا لیکن تحریم والے حادثے کے بعد سے وہ نماز پڑھنا بلکل ہی چھوڑ چکا تھا 

اور آج اتنے عرصے بعد نماز پڑھ کر اسے اپنا وجود بےحد پرسکون لگ رہا تھا شاید وہ پہلی بار دل سے نماز پڑھ رہا تھا 

اپنی نماز مکمل کرکے چاہت نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا جہاں اسکے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوے تھے وہیں آنسو لڑیوں کی صورت میں گالوں پر بہہ رہے تھے اسے اسکے رب کے ساتھ تنہا چھوڑ کر چاہت باہر چکی گئی جبکہ یشب کے رونے میں اضافہ ہوچکا تھا وہ سسک سسک کر رو رہا تھا اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا

◽◽◽◽◽

"کیا بات ہے مصطفی میں تو سمجھ رہا تھا کہ جب تمہاری شادی ہوجاے گی تو تم اپنی زندگی میں خوش رہنے لگ جاؤ گے لیکن تمہاری زندگی تو اب تک بےرونق ہے" وہ دونوں اس وقت مصطفی کی اسٹڈی میں بیٹھے ہوے تھے دائم کا ارادہ تو اسکے ساتھ باہر جانے کا تھا لیکن اسکی پریشان صورت دیکھ کر وہ اپنا ارادہ ترک کرچکا تھا 

"پتہ نہیں دائم میں خود اپنی کیفیت نہیں جانتا تمہیں پتہ ہے میں نے جنت کو پہلی بار اسکے کالج میں دیکھا اور پھر میری سب سے پہلی نظر اسکی سنہری آنکھوں پر پڑی اور میں ان آنکھوں کا دیوانہ ہوگیا لیکن بعد میں پتہ چلا جن آنکھوں کا میں دیوانہ ہوا تھا وہ تو حقیقت ہی نہیں تھی لیکن پھر بھی اسکا نقش میرے زہہن سے مٹا نہیں مجھے لگا صرف وقتی اٹریکشن ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہوجاے گا لیکن ایسا نہیں ہوا میں چاہتا تھا جنت ہمیشہ میری آنکھوں کہ سامنے رہے اپنے ان جذبات کو میں خود بھی کوئی نام نہیں دے پارہا تھا اس سے دور رہ کر مجھے بےچینی ہوتی تھی اور اسی لیے میں نے اپنا پروپوزل اسکے سامنے رکھا جس کا جواب اسنے جلد ہی دے دیا اسکی انگیجمنٹ ہوچکی تھی اسکے کزن کے ساتھ جسے وہ پسند نہیں کرتی تھی اسے پتہ تھا کہ اسکے والدین کبھی بھی میرا رشتہ قبول نہیں کرینگے اسلیے اسکی مرضی کے ساتھ میں اسے یہاں لے آیا"

"تو پھر اب کیا ہوا تمہارے وہ جذبات ختم ہوگئے" "نکاح والے دن میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اس نکاح سے انکار کردوں اس جگہ سے کہیں بھاگ جاؤں لیکن میں ایسا نہیں کرسکا کیونکہ جنت میری وجہ سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی سوچا کہ نکاح کے بعد سب ٹھیک ہوجاے گا لیکن اب بھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے پاس ہوکر بھی جنت مجھ سے کتنی دور ہے اگر میں اپنے جذباتوں کو محبت کا نام بھی دوں تو ایسا لگتا ہے میری محبت مجھ سے بہت دور ہے" دائم اسکی باتیں نہیں سمجھ پارہا تھا لیکن باہر دروازے پر کھڑی جنت اسکی ہر بات سمجھ چکی تھی مصطفی سے شادی کا فیصلہ اسے زندگی کا غلط فیصلہ لگ رہا تھا الٹے قدم اٹھا کر وہ وہیں سے پلٹ گئی 

"کیا تمہارے اور جنت کے درمیان" 

"نہیں میں کبھی اسکے قریب نہیں گیا" اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے مصطفی نے کاٹ دی 

"مصطفی میں نہیں جانتا تم کیسا محسوس کررہے ہو یا تمہارے اندر کیا چل رہا ہے لیکن تم اپنے ساتھ بھی غلط کر رہے ہو اور اس لڑکی کے ساتھ بھی جنت اب تمہاری بیوی ہے وہ لڑکی تمہاری وجہ سے یہاں اس گھر میں موجود ہے اور تم ہی اس سے دستبردار ہوے بیٹھے ہو آگے بڑھو اپنی زندگی جیو" کتنی دیر تک دائم اسے سمجھاتا رہا اور اسکی باتیں وہ بھی سمجھ چکا تھا دائم غلط نہیں کہہ رہا تھا اور یہ بات وہ خود بھی جانتا تھا 

◽◽◽◽◽

"ابو جان وہ آپ سے ملنے آیا ہے" احمر کے کہنے پر انہوں نے اپنی تسبیح روک کر اسے دیکھا 

"کون آیا ہے" 

"یارم" احمر کے کہنے پر انکے چہرے کے تاثرات سخت ہوچکے تھے 

"کیوں آیا ہے وہ یہاں بھیج دو اسے" چہرے کا رخ پھیر کر وہ اپنی تسبیح دوبارہ پڑھنا شروع کرچکے تھے جب یارم کی آواز انکے کانوں میں پڑی 

"جب تک آپ میری بات نہیں سنیںگے میں کہیں نہیں جاؤنگا" 

"ہمیں تمہاری کوئی بات نہیں سننی جتنی بدنامی تمہاری وجہ سے ہماری ہوچکی ہے اتنی کافی ہے مزید برداشت نہیں کرسکتے ہم" 

"آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے میری وجہ سے ہوا ہے تو پھر دعا کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں وہ تو ہر معاملے میں بےقصور ہے"

"وہ قصوروار ہے" 

"معاف کیجیے گا شاید بدتمیزی کررہا ہوں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے آپ کی باتیں سن کر بنا اپنی بیٹی کی کوئی بات سنے آپ نے اسے مجرم قرار دے دیا ایک بار اس سے وضاحت تک نہیں مانگی آپ کو یہ ڈر تھا کہ لوگوں کی نظروں میں آپ کا نام خراب ہوگیا کیونکہ آپ کی بیٹی جو بھاگ گئی تھی لیکن کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اسکے ساتھ ہوا کیا تھا میں نے ہمیشہ اسکی زبان پر ایک ہی لفظ سنا میرے ابو جان اور ابو جان نے کیا ، کیا بیٹی کو دیکھنا تک گوارا نہیں کیا اسکے آنسو بھی آپ کا دل نہیں پگھلا پاے بیٹے کو آپ نے ہر طرح کی آزادی دی اور بیٹی کو گھر کی چار دیواروں میں قید رکھا پھر بھی اسنے کبھی کوئی شکایت نہیں کی لیکن آپ کو کبھی خود سے اسکی کسی خواہش کا احساس نہیں ہوا" اسکی باتیں سن کر الیاس صاحب کا وجود پھترا چکا تھا یہ تو حقیقت تھی کہ ڈر کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کری تھی اور شاید آگے بھی کرتے اگر یارم انہیں حقیقت کا آئینہ نہیں دکھاتا 

"کبھی اس سے نہیں پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی لیکن اسنے اپنی یہ خواہش رد کردی کیونکہ اسکے ابو جان کو لڑکیوں کا زیادہ پڑھنا پسند نہیں تھا اسے شادی اتنی جلدی نہیں کرنی تھی لیکن پھر بھی وہ مان گئی کیونکہ یہ آپ کی خواہش تھی میں اسکے لیے رشتہ لانا چاہتا تھا لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ اسکی شادی ہورہی ہے تو اسکے مایوں والے دن میں اسے اٹھا کر لے گیا تھا اور پھر اس سے زبردستی نکاح کیا جانتا ہوں میرا طریقہ غلط تھا لیکن میری نیت بلکل صاف تھی میں جانتا تھا لوگ بہت سی باتیں کہینگے لیکن کوئی کرے نہ کرے اسکے گھر والے اسکا اعتبار ضرور کرینگے لیکن میں غلط تھا میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ آپ کی بیٹی غلط نہیں ہے لیکن جب بنا کوئی بات سنے وہ آپ کی نظر میں قصوروار ثابت ہوچکی تھی تو میں نے ایسی جگہ وضاحت دینا بیکار سمجھا میں اسے لے کر چلا گیا آپ سب سے دور کبھی یہاں نہ آنے کے لیے اور میں آتا بھی نہیں لیکن مجھے یہاں صرف میری بیوی کے آنسو کھینچ لاے ہیں جو آپ سب کو یاد کرکے روتی ہے جو آپ سب کی وجہ سے روتی ہے اور میں اسکے یہ آنسو نہیں دیکھ سکتا" وہ نڈھال سے الیاس صاحب کے سامنے جا کر بیٹھ گیا 

"میں یہاں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ آپ کی بیٹی غلط نہیں ہے لیکن اگر پھر بھی آپ کو وہ غلط لگتی ہے تو میں دوبارہ یہاں کبھی نہیں آؤنگا اور دعا کو آپ سب سے بہت دور لے جاؤنگا"

"مجھے میری بیٹی سے ملنا ہے" رندھی ہوئی کپکپاتی آواز میں انہوں نے نظریں جھکاے کہا

◽◽◽◽◽

کتنی دیر سے وہ مسلسل رو رہی تھیں اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہی تھی جبکہ اشفاق صاحب اپنا سر جھکاے بیٹھے تھے 

"پلیز تائی امی مت رویے میں نے آپ کو معاف کیا" اسنے رخسانہ بیگم کے جڑے ہوے ہاتھوں کو تھام کر کہا 

"تایا ابو کیا آپ مجھ سے ملینگے بھی نہیں" مہر کے کہنے پر اشفاق صاحب نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا 

"ایک بات کہوں تایا ابو مانینگے" 

"ہاں بیٹا کہو" انکے سینے سے سر اٹھا کر مہر نے انکی طرف دیکھا

"یشب کو واپس گھر بلا لیجیے" مہر کے کہنے پر اشفاق صاحب بنا کوئی جواب دیے اپنے چہرے کا رخ پھیر گئے مطلب صاف تھا انہیں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی جبکہ رخسانہ بیگم کی نظریں تو اپنے شوہر پر تھیں انہیں یقین تھا کہ وہ مہر کی بات مان لینگے وہ ماں تھی اپنی اولاد سے دوری انہیں اندر سے کھا رہی تھی 

"پلیز تایا ابو پرانی سب باتوں کو بھول جائیں کیا آپ نہیں جانتے اتنے وقت سے وہ کس طرح تڑپ رہا ہے آپ لوگوں سے معافی مانگ رہا ہے اب اسے اپنے پاس بلا لیجیے آپ تحریم کو کھو چکے ہیں یشب کو خود سے دور مت کیجیے" اسکے منت بھرے انداز پر اشفاق صاحب نے گہرا سانس کے کر اسکی طرف دیکھا 

"مجھے کچھ دن کا وقت چاہیے جب میں دل سے اسے معاف کرنے پر راضی ہوجاؤنگا تو اسے اپنے پاس بلالونگا"

◽◽◽◽◽ 

پورے گھر میں اسکی غیر موجودگی دیکھ کر اب اسکا رخ کچن کی طرف تھا جہاں اسے وہ بریانی کے ساتھ انصاف کرتی ملی اسے دیکھ کر لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی

"دعا چهوڑو اسے بعد میں کھانا ابھی چلو میرے ساتھ" بریانی کی پلیٹ اسکے ہاتھ سے لے کر اسنے ٹیبل پر رکھ دی 

"لیکن کہاں" 

"سرپرائز ہے جان"اسکا ہاتھ تھامے وہ اسے لے کر باہر کی طرف چلا گیا 

◽◽◽◽◽

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے مصطفی کو دیکھ کر شدید حیرت ہوئی اسے تو یہی لگا تھا کہ وہ اس وقت آفس جا چکا ہوگا 

"ادھر آؤ جنت" اپنی گھڑی اتار کر اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھی جنت اپنے قدم آہستہ آہستہ اٹھا کر اسکی طرف بڑھنے لگی جب سے اسنے مصطفی اور دائم کی باتیں سنی تھی جب سے وہ بس اس سے دور رہنا چاہتی تھی 

جنت اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہوگئی چند پل اسے دیکھ کر مصطفی نے گہرا سانس لیا اور اسکے اور اپنے بیچ موجود چند پل کا فاصلہ مٹا دیا اسکے اتنا قریب کھڑے ہونے پر جنت کا سانس رک سا گیا 

آگے بڑھ کر مصطفی نے نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے دل بےحد بےچین ہونے لگا 

اپنے اور اسکے درمیان فاصلہ بنا کر جنت تیزی سے کمرے سے نکل گئی اسکی حرکت پر مصطفی کو حیرت ہوئی لیکن پھر اسے فطری شرم و حیا سمجھ کر وہ خود بھی ڈریسنگ روم میں چلا گیا 

شام کا وقت تھا گلی اس وقت سنسان تھی گاڑی رکتے ہی اسنے حیرت سے یارم کی طرف دیکھا 

"ہم یہاں کیوں آے ہیں"  

"کیونکہ یہاں موجود لوگ کب سے تمہارے منتظر ہیں"اپنا سیٹ بیلٹ کھول کر اسنے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور اسے لے کر گھر کے اندر داخل ہوگیا 

جہاں الیاس صاحب اپنی بانہیں پھیلاے اسکے انتظار میں کھڑے تھے حیرت سے اسنے مڑ کر یارم کو دیکھا جو اپنی جینز کی پوکیٹ میں ہاتھ ڈالے مسکراتے ہوے اسکے ایکسپریشن دیکھ رہا تھا بھاگ کر وہ الیاس صاحب کے سینے سے لگ گئی 

کتنی دیر تک وہ الیاس صاحب کے سینے سے لگی روتی رہی تھی اور باقی کی رونے کی کسر اسنے احمر اور کنیز بیگم کے ساتھ لگ کر پوری کردی تھی اتنے وقت بعد وہ اپنوں سے ملی تھی کتنی باتیں تھیں جو وہ کررہی تھی یارم نے اسے آج سے پہلے اتنی باتیں کبھی کرتے نہیں دیکھا تھا 

کافی وقت وہاں گزار کر وہ اب اسے چلنے کا اشارہ کررہا تھا جو بنا اسکی کوئی بات سنے کنیز بیگم کے ساتھ اپنی ہی باتوں میں مگن تھی  

''دعا چلیں'' یارم نے گلہ کھنکھارتے ہوے اسے دیکھ کر کہا دعا اجازت طلب نظروں سے الیاس صاحب کی طرف دیکھا 

"دعا نہیں جاے گی یارم" الیاس صاحب کی بات پر اسنے حیرت سے انہیں دیکھا 

"کیا مطلب" 

"میرا مطلب ہے کہ دعا اب تمہارے ساتھ جب ہی جاے گی جب تم اسے رخصت کرکے لے کر جاؤ گے میں چاہتا ہوں سب اسی طرح ہو جس طرح ایک شادی ہوتی ہے تمہارے والدین آکر دعا کا رشتہ مانگیں اور پھر ہم شادی کی مکمل تیاری کرینگے"

"لیکن انکل ہماری شادی تو ہوچکی ہے" 

"ہاں بیٹا لیکن میں تم دونوں کی شادی اسی طرح کرنا چاہتا ہوں جس طرح شادیاں ہوتی ہیں سارے رسم و رواج کے ساتھ"

گہرا سانس کے کر اسنے بےچارگی سے دعا کی طرف دیکھا جو نظریں جھکاے بیٹھی تھی وہ تو اسکے بنا چند گھنٹے نہیں گزار سکتا تھا اور اب شادی تک وہ اسی گھر میں رہتی

"جیسے آپ کی مرضی" زبردستی مسکراتے ہوے الیاس صاحب کو دیکھتے ہوے کہا دعا نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکی شکل دیکھ کر اپنی ہنسی روکتی ہوئی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی 

◽◽◽◽◽

بلڈنگ کے باہر کھڑا وہ کتنی کتنی دیر سے بس یہی سوچ رہا تھا کہ اسے اندر جانا چاہیے یا نہیں 

بلآخر ایک فیصلہ کرکے وہ گاڑی سے اتر کر بلڈنگ میں چلا گیا جہاں ہر کوئی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا ان سب کے لیے اسکی یہاں موجودگی کافی حیرت زدہ تھی کوئی اسکی ویڈیو اور تصویر بنا رہا تھا کوئی قریب آکر سیلفی یا آٹوگراف لینا چاہ رہا تھا چند گارڈ جو اس وقت اسکے ساتھ تھے پاس کھڑے لوگوں کو اس سے دور کررہے تھے 

سب کو نظر انداز کرکے وہ ثاقب کے آفس روم میں چلا گیا جو خود اسکی یہاں موجودگی پر حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے 

"ت-تم یہاں کیسے" خوشی سے ڈوبی نم آواز میں انہوں نے یارم کو دیکھتے ہوے کہا

"اگر صدمہ ختم ہوگیا ہو تو بیٹھ جایے ثاقب صاحب کچھ بات کرنی ہے کام ہے آپ سے"

"ہاں کہو کیا کرسکتا ہوں میں تمہارے لیے جو کرسکوں گا وہ کرونگا"

"اتنا کوئی مشکل کام نہیں ہے میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ کو جاکر اسکا رشتہ مانگنا ہے"

"ٹھیک ہے تم جو کہو گے میں کرونگا"نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے انہوں نے یارم کو دیکھا انکے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ انکا بیٹا اس وقت انکے پاس ہے بھلے وجہ کوئی بھی ہو 

◽◽◽◽◽

"آپ اندر جائیں میں نے دعا کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ آپ آنے والے ہیں" کار اسکے گھر کے سامنے روک کر اسنے ثاقب کو دیکھتے ہوے کہا 

"تو بیٹا تم اندر نہیں آؤگے کیا"

"نہیں دعا کے والد مولوی ہیں اور انکے نزدیک ہماری شادی اب ہوگی تو اسلیے میں ابھی اندر نہیں جاسکتا"اسکی بات سن کر ثاقب نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور کار سے اتر کر ڈور بیل بجانے لگے 

جہاں احمر نے دروازہ کھولا تھا انکے تعارف کرانے پر احمر خوش دلی سے ان سے ملا اور انہیں لے کر ڈرائنگ روم کی طرف چلا گیا 

ثاقب حیرت سے ہر طرف دیکھ رہے تھے جیسا انہوں نے سوچا تھا یہاں ویسا کچھ بھی نہیں تھا اس چھوٹے سے گھر کو دیکھ کر ثاقب کو بہت حیرت ہوئی تھی

انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر احمر الیاس صاحب کو بلانے چلا گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد کوئی وجود کمرے میں داخل ہوا 

اسے دیکھ کر ثاقب حیرت سے اپنی جگہ سے اٹھ گئے حیرت میں تو سامنے کھڑا وجود بھی تھا

"ث-ثاقب تم یہاں ، تو کیا یارم تمہارا بیٹا ہے "الیاس کریم نے کپکپاتے لہجے میں کہا

"ہاں کریم یارم میرا بیٹا ہے"انکے کہتے ہی الیاس صاحب نے انکے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ دیح

"مجھے معاف کردو" 

"کس لیے" 

"میری ہر غلطی کے لیے ، ثاقب میں تم سے بدلہ لینا چاہتا تھا تمہاری وجہ سے مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا تھا میرا کرئیر برباد ہوچکا تھا میرے باپ نے سب کے سامنے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا میں بس چاہتا تھا کہ تم بھی اسی طرح برباد ہو جس طرح میں ہوا لیکن زمل مر جاے گی یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میں جانتا ہوں زمل میری وجہ سے مری ہے اور مجھے آج تک اس بات کا پچھتاوا ہے تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں اسلیے میں سب کچھ چھوڑ کر نئی جگہ پر چلا گیا اس وقت میری دعا بہت بیمار رہنے لگی تھی مجھے لگا کہ میری غلطیوں کی سزا میری بیٹی کو نہ ملے اسلیے میں نے اسے سب سے چھپا دیا اسے ہمیشہ دنیا والو سے الگ رکھا میں نے ہمیشہ اسے گھر میں ہی رکھا تھا مجھے معاف کردو ثاقب"

 "ایسی باتیں مت کرو کریم مجھے تو تمہارا شکر گزار ہونا چاہیے تمہاری بیٹی کی وجہ سے میرا یارم آج خود مجھ سے بات کررہا ہے"

"کیا مطلب" الیاس صاحب نے حیرت و ناسمجھی سے انہیں دیکھا 

"مصطفی اور یارم کو لگتا ہے کہ زمل میری وجہ سے مری ہے اسلیے وہ مجھے چھوڑ کر اپنے نانا کے پاس چلے گئے تھے انکے لیے انکی ماں کے ساتھ ساتھ باپ بھی مرگیا تھا لیکن آج تمہاری بیٹی کی وجہ سے یارم نے مجھ سے بات کی"

"لیکن یہ تو غلط ہے زمل تمہاری وجہ سے نہیں مری" 

"نہیں میں خود کو اسکی موت کا قصوروار سمجھتا ہوں میں جانتا تھا کہ وہ کتنے کمزور دل کی مالک ہے پھر بھی میں نے اسکا خیال نہیں کیا اور اسے اتنا برا صدمہ دے دیا مجھے اس وقت بس اپنے کرئیر کی فکر تھی مجھے یارم اور مصطفی کی بےرخی بہت تکلیف دیتی ہے لیکن میں خود کو اسی لائق سمجھتا ہوں" 

"لیکن ثاقب تم انہیں بتاؤ اس سب میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے ساری غلطی میری ہے میں خود یارم کو سب کچھ بتاؤنگا"

"تم کچھ نہیں کروگے کریم"

"لیکن" انکے کچھ کہنے سے پہلے ثاقب نے انکی بات کاٹ دی

"مجھے میری بہو سے ملواؤ کریم" گہرا سانس لے کر انہوں نے دعا کو کمرے میں بلوایا 

جسے دیکھ کر ثاقب کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی انہیں تو لگا تھا کہ یارم نے کسی ماڈرن سی لڑکی کو پسند کیا ہوگا 

لیکن سامنے بیٹھی لڑکی تو معصوم اور شرمیلی تھی انہیں اپنے بیٹے کی پسند بہت اچھی لگی تھی

 ◽◽◽◽◽

اسے اپنے پاس بلا کر الیاس صاحب ہر حقیقت بتا چکے تھے کہ انہوں نے ثاقب کے ساتھ کیا کیا تھا

جسے سن کر وہ شرمندہ ہورہا تھا اتنے سال تک وہ دونوں اپنے باپ سے دور رہے کبھی اسکی بات ہی نہیں سنی کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اگر ثاقب نے شادی کی تھی تو وجہ کیا تھی ہمیشہ انہیں اپنی ماں کی موت کا الزام دیتے رہے جبکہ وہ تو خود مجبور تھے

انکے گھر سے نکلتے ہی وہ ثاقب کے پاس گیا تھا جہاں جاکر وہ اتنے سالوں بعد اپنے باپ کے گلے لگا تھا 

"آپ نے کبھی حقیقت بتائی کیوں نہیں"

"کیونکہ سب میری ہی غلطی تھی میں خود کو زمل کی موت کا زمیدار سمجھتا تھا تم لوگوں کا رویہ مجھے تکلیف دیتا تھا لیکن میں خود کو اسی لائق سمجھتا تھا" 

آج کا دن انکے لیے بہت خاص تھا انکا یارم انہیں دوبارہ مل چکا تھا اب انہیں اپنے مصطفی کا انتظار تھا 

 ◽◽◽◽◽

مصطفی کو بھی وہ ہر بات بتا چکا تھا جس کے جواب میں اسے صرف خاموش ملی اسنے کچھ نہیں کہا تھا بس یارم بات سنتے ہی وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا 

اسے ہر بات بتانے کے بعد الیاس صاحب نے معافی مانگتے ہوے یہی کہا تھا کہ جس طرح انہوں نے اسکا گھر توڑا تھا اس طرح وہ انکی بیٹی کے ساتھ کچھ نہ کرے وہ انکی بیٹی کو انکے کیے کی سزا نہ دے 

جس کے جواب میں اسنے یہی کہا تھا کہ وہ انہیں معاف کرچکا ہے اور دعا کے ساتھ کچھ برا کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا دعا اسکی جان تھی 

الیاس صاحب اپنی اولاد کو اپنے ماضی کی ہر بات بتادینا چاہتے تھے لیکن وہ انہیں منع کرچکا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ احمر اور دعا کو اپنے باپ پر جو مان جو فخر ہے وہ ٹوٹ جاے 

◽◽◽◽◽

کتنی دیر سے وہ کروٹ پر کروٹ بدلے جارہی تھی لیکن نیند تھی جو آنے کا نام نہیں لے رہی تھی 

جب سے وہ یہاں آئی تھی تب سے کوئی ایک پل ایسا نہیں گزرا تھا جب اسے یارم کی یاد نہیں آئی ہو لیکن آج تو اسکا خیال اسے سونے بھی نہیں دے رہا تھا 

پانی پینے کے خیال سے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر جانے لگی جب پیچھے کچھ ہل چل محسوس ہوئی 

اسنے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں دیکھ کر ڈر کی وجہ سے اسکی چیخ نکلی لیکن سامنے والے نے اپنا مظبوط ہاتھ اسکے منہ پر رکھ کر اسکی چیخ کا گلہ گھونٹ دیا 

"کیا ہوگیا بیوی میں ہوں یارم بھول بھی گئیں" اسکے لبوں سے ہاتھ ہٹا کر یارم نے اسے گھورتے ہوے کہا 

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں اور آپ کھڑکی سے کیوں آے ہیں" 

"بات ایسی ہے جاناں کہ میرے سسر جی نے میرے لیے یہاں نو اینٹری کا بورڈ لگایا ہوا ہے انکے لحاظ سے ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی اسلیے میں کھڑکی سے آیا ہوں اور جہاں تک بات ہے کہ میں یہاں کیا کررہا ہوں تو مجھے تمہارے بنا نیند نہیں آرہی تھی اسلیے میں یہاں آگیا"

"اچھا آج میرے بنا نیند نہیں آرہی پچھلے چند دن سے آرام سے سورہے تھے"اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسنے لڑاکا عورتوں کی طرح کہا 

"بیوی بہت گہری نیند سوتی ہو تم میں پچھلے چند دن سے تمہارے کمرے میں آکر تمہیں اپنے حصار میں لے کر اپنی نیند پوری کرکے جارہا تھا"اسکے انکشاف پر دعا منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی وہ اتنے دنوں سے اسکے کمرے میں آرہا تھا اور اسے پتہ تک نہیں چلا 

"ویسے تم آج سوئی نہیں میری یاد آرہی تھی"یارم کے شرارت سے کہنے پر وہ اپنی نظریں جھکا گئی 

"ایسا کچھ نہیں ہے"اسنے نظریں جھکا کر کہا جبکہ دل جانتا تھا کہ ایسا ہی ہے 

"اچھا مجھے نیند آرہی ہے آؤ سوجاتے ہیں"یارم کے کہنے پر دعا نے اپنے بیڈ کی طرف دیکھا اسکا بیڈ یارم کے بیڈ جتنا بڑا نہیں تھا بلکہ وہ تو اتنا بھی بڑا نہیں تھا کہ اس پر دو بندے کھل کر آرام سے سوجائیں 

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو بیوی ہم دونوں اتنے دنوں سے اسی بیڈ پر سورہے تھے" 

"آپ جھوٹ کہہ رہے رہیں یہ بیڈ تو اتنا بڑا ہے ہی نہیں کہ اس پر دو بندے سو سکیں تو آپ بھلا میرے کمرے میں اتبے دنوں سے کیسے سورہے تھے" 

"ویسے ہی جیسے آج سوئینگے" مسکرا کر کہتے ہوے اسنے دعا کا وجود اپنی بانہوں میں اٹھا لیا دعا نے گھبرا کر اسے دیکھا 

"یارم نیچے اتاریں مجھے" 

وہ بنا اسکی سنے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لٹا چکا تھا اسنے دعا کو مظبوطی سے اپنے حصار میں قید کیا ہوا تھا 

"دعا میری ایک خواہش ہے پوری کروگی" 

"کہیے"

"میری خواہش ہے کہ میری بیوی میرے لیے کوئی رومینٹک سا گانا گاے"

"یارم آپ کی خواہش بھی آپ ہی کی طرح ہیں" 

"میری طرح ہیں تو میں کس طرح کا ہوں بیوی کیا یہ تعریف ہے"اسکا چہرہ اوپر کرکے یارم نے سوال کیا

"مجھے نہیں پتہ" اپنا چہرہ چھڑا کر اسنے یارم کے سینے میں منہ چھپا لیا 

◽◽◽◽◽

گھر میں یارم اور دعا کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں شادی میں پندرہ دن باقی تھے اور کتنی ہی تیاریاں اب ببھی باقی تھیں 

جہاں مصطفی دائم اور صائم کے ساتھ شادی کی تیاریاں کروارہا تھا وہیں وہ اپنے کام کو بھی مکمل دے رہا تھا 

اس وقت بھی وہ نہایت مصروف انداز میں فائلوں کو دیکھ رہا تھا جب اسکا فون بجنے لگا بنا نام دیکھے اسنے فون کال پک کرلی جبکہ سر ہنوز فائل پر جھکا ہوا تھا 

"کیا ہال ہے بڑے بھیا" دوسری طرف وہاج تھا جس کی آواز سنتے ہی وہ پہچان چکا تھا 

"کیوں فون کیا ہے" 

"یاد آرہی تھی تمہاری ، مجھے نہیں تمہاری جان تمہاری محبت کو جو وہ اس وقت میرے پاس ہے اور میں جانتا ہوں کہ تمہیں میری بات پر یقین نہیں آرہا ہوگا اسلیے تصویر بھی بھیج رہا ہوں اور ایڈریس بھی آکر بچا کو اپنی محبت کو"پرسکون انداز میں کہتے ہوے اسنے فون کاٹ دیا 

ویسے تو اسے وہاج کی بات پر یقین نہیں تھا لیکن زہہن میں یہی خیال بار بار آرہا تھا اگر اسکا کہا سچ ہوا تو 

اسنے جنت کو فون ملایا لیکن اسکا فون بند جارہا تھا 

اب کی بار اسنے فون گھر کے نمبر پر ملایا اور ملازم نے فون اٹھا کر اسے یہی کہا کہ جنت گھر پر نہیں ہے 

اسے اب پریشانی ہورہی تھی اور اسکی پریشانی مزید بڑھ گئی جب اسنے وہاج کی بھیجی ہوئی تصویر دیکھی وہ جنت ہی تھی جس کے ہاتھ پاؤں کرسکی سے بندھے ہوے تھے اور وجود بے ہوش تھا اسنے وہاج کے نمبر پر کال ملائی جو کہ اسنے نہیں اٹھائی بنا وقت صایع کیے اسنے اپنے کار کیز اٹھائیں اور گاڑی اس طرف بڑھادی جس جگہ کا وہاج نے ایڈریس سینڈ کیا تھا

◽️◽️◽️◽️◽️

"وہاج"چیخرے ہوے وہ اس جگہ داخل ہوا وہ ایک کھنڈر نما جگہ تھی 

"اوہ بڑی جلدی آگئے" اپنے پیچھے اسے وہاج کی آواز سنائی دی اسنے مڑ کر خونخوار نظروں سے اسے دیکھا 

"میری بیوی کہاں ہے" 

"کیا کہا تم نے" اسکے تھوڑا نزدیک آکر وہاج نے کہا جیسے اسنے کچھ غلط سن لیا 

"میں نے پوچھا کہاں ہے وہ"لہجہ بےانتہا سخت تھا

"نہیں بتایا تو کیا کروگے تمہیں اس طرح دیکھ کر بہت مزہ آرہا ہے"

"میں نے آج تک تمہاری ہر حرکت برداشت کی ہے لیکن اب نہیں" کہتے ہوے اسنے اپنی جیب سے ریوالور نکالا جسے دیکھ کر وہاج گھبرا چکا تھا کیونکہ اسکی گن تو اسکے پاس تھی ہی نہیں وہ تو اسی جگہ رہ گئی تھی جہاں اسنے جنت کو رکھا تھا

"بتا مجھے کہاں ہے جنت ورنہ میں گولی چلادونگا"ریوالور اسکے اوپر تان کر مصطفی نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"جیسے تیری مرضی"اطمینان سے کہتے ہوے اسنے گولی چلادی 

گولی کی آواز اس جگہ پر گونجی جو وہاج کے آگے کھڑی جنت پر لگی تھی مصطفی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا اسکا ارادہ تو وہاج کو مارنے کا تھا یہ گولی وہاج کے لیے تھی جو جنت اپنے سینے پر کھا چکی تھی اسکی سبز رنگ کی کمیز خون میں ہوچکی تھی اس سے پہلے اسکا وجود زمین بوس ہوتا وہاج اسے پکڑ چکا تھا

مصطفی بھاگتا ہوا اسکے قریب گیا اور اسکا خون میں بھرا اپنے ہاتھ لے لیا پل بھر میں اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھیں 

"جنت تمہیں کچھ نہیں ہوگا میں تمہیں ابھی ہاسپٹل لے کر چلتا ہوں"تیزی سے کہتے ہوے وہ اسکا وجود اٹھانے لگا لیکن اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوے وہ اسے ایسا کرنے سے منع کرچکی تھی اپنا خون میں رنگا ہوا ہاتھ اسنے مصطفی کے چہرے پر رکھا مصطفی نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا

"م-مجھے مع-معاف" جنت  الفاظ جو وہ مصطفی سے کہنا چاہتی تھی وہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسکا وجود ساکت ہوچکا تھا

"ہیے جنت" مصطفی نے اسکا گال تھپتھپاتے ہوے کہا جنت کا ہاتھ جو مصطفی کے چہرے کو چھو رہا تھا وہ زمین گر چکا تھا مصطفی اور وہاج بےیقینی سے اسکے وجود کو دیکھ رہے تھے 

مصطفی کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوچکے تھے اسنے سختی سے جنت کو خود میں بھینچ لیا جنت کو گولی لگی تھی اور وجہ وہ خود تھا اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخے اور وہ چیخ بھی رہا تھا اسکی چیخ اس کھنڈر میں گونج رہی تھی 

"کیا کردیا تم نے میری بیٹی کے ساتھ" ایک اور شخص کی آواز اس جگہ گونجی جو آفاق صاحب کی تھی 

وہ بھاگ کر جنت کے پاس پہنچے مصطفی نے جو گولی چلائی وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے تھے انکی آنکھوں میں موجود اپنے لیے نفرت اسے صاف دکھ رہی تھی

◽◽◽◽◽

کمرے کا دروازہ کھول کر دائم اندر داخل ہوا اور نظر سیدھی بیڈ پر گم سم بیٹھے مصطفی پر پڑی 

تین دن پہلے جنت انہیں چھوڑ کر جاچکی تھی اور اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر تین دن پہلے آفاق صاحب بھی صدمے کے وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے 

جنت کی موت پر وہ رویا تھا کتنے سالوں بعد وہ اپنے باپ کے گلے لگ کر رویا تھا

مصطفی خدیجہ بیگم سے ملنے گیا تھا اور ان سے بنا کچھ چھپاے وہ سب کچھ بتاچکا تھا کہ جنت اسکی وجہ سے اس دنیا سے گئی ہے اور وہ آفاق صاحب کی موت کی وجہ بھی وہ خود کو ہی سمجھ رہا تھا 

اسکی ہر بات سن کر نفرت سے وہ چہرہ پھیر چکی تھی انکی بیٹی اور شوہر اس شخص کی وجہ سے مرگیا انکا سائبان سامنے بیٹھے اس شخص کی وجہ سے چھن چکا تھا اور وہ شخص کتنی آرام سے انکے گھر میں بیٹھا ہوا تھا اسکی بات سن کر خدیجہ بیگم اسے اپنے گھر سے نکال چکی تھی 

جتنی نفرت وہ اس وقت مصطفی کے لیے سے محسوس کررہی تھی شاید زندگی میں کبھی کسی کے لیے نہیں کی تھی تھکے قدموں کے ساتھ وہ وہاں سے جاچکا تھا 

"مصطفی" اسکی آواز سن کر مصطفی اپنے خیالوں سے باہر نکلا

"کہو"

"میں کہنے آیا تھا کہ یارم کی شادی کی تاریخ بڑھا دیتے ہیں"

"نہیں شادی اپنی تاریخ پر ہوگی یہ جنت کی آخری خواہش تھی" اسکے افسردگی سے کہنے پر دائم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

"کیا مطلب" 

"میں خود بھی نہیں جانتا یہ سب اس خط میں لکھا ہے" مصطفی نے اپنے ہاتھ میں موجود اس سفید کاغد کو دیکھتے ہوے کہا دائم نے اسکے ہاتھ میں موجود ان کاغذ کو دیکھا جس میں سے ایک کھلا ہوا تھا جبکہ دوسرا کاغذ طے شدہ تھا 

"کیا لکھا ہے اس میں" 

"اس میں لکھا ہے کہ اگر وہ مر بھی گئی تو بھی شادی اسی تاریخ پر ہو یہ اسکی آخری خواہش ہے وہ جانتی تھی کہ یارم کتنا خوش ہے اسلیے وہ نہیں چاہتی تھی کہ شادی کی تاریخ بدلی جاے اسنے مجھ سے معافی مانگی لیکن کس بات کی یہ میں خود نہیں جانتا اس وقت میرے زہہن میں بہت سارے سوال ہیں دائم"

"جنت وہاں کیوں گئی؟" 

"اور اسے کیسے پتہ تھا کہ وہ مرنے والی ہے؟"

"وہ مجھ سے کس بات کی معافی مانگ رہی ہے؟" 

"اور اسکے والد اس جگہ پر کیا کررہے تھے؟"

"اور دوسرے خط میں کیا لکھا ہے" 

"پتہ نہیں دوسرے خط کو پڑھنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے" 

"مصطفی تمہارے ان سب سوالوں کا جواب تو تمہیں ایک ہی شخص دے سکتا تھا"دائم کے کہنے پر مصطفی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا 

"کون؟"

"وہاج اسنے جنت کو وہاں بلایا تھا پتہ نہیں اسنے جنت سے کیا کہا تھا کہ وہ اس سے ملنے چلی گئی صرف ایک وہاج ہی تھا جو ان سب باتوں کے جواب دے سکتا تھا لیکن ابھی کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے"

"کیوں" 

"اسنے آج صبح ہی بلڈنگ سے کود کر سوسائیڈ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس وقت اُسکی حالت بہت خراب ہے" 

"لیکن اسنے ایسا کیوں کیا" مصطفی کے حیرت سے کہنے پر دائم نے اپنے شانے اچکا دیے 

"یہ بات تو وہ خود ہی بتاسکتا ہے" 

◽◽◽◽◽

آج دعا اور یارم کی برات کی تقریب تھی جو کہ سادگی سے ہوگئی یارم تو اس وقت اس تقریب کے بھی خلاف تھا لیکن مصطفی کی ضد پر اسے یہ سب کرنا پڑا 

پہلے سب کچھ جتنا دھوم دھام سے سوچا جارہا تھا اب سب کچھ اتنی ہی سادگی سے ہورہا تھا 

رخصتی ہوتے ہی مصطفی جاچکا تھا کہاں گیا کسی کو پتہ نہیں تھا سب کو یہی لگا کہ وہ گھر گیا ہوگا 

لیکن گھر پہنچتے ہی انہیں وہاں مصطفی کی جگہ ایک خط ملا یارم نے کانپتے ہاتھوں سے اسے اٹھایا جبکہ باقی سب حیرت سے اس خط کو دیکھ رہے تھے

"میں یہ شہر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جارہا ہوں یہاں میرے لیے کچھ نہیں ہے پہلے میری ماں مجھ سے دور ہوگئی اور پھر اتنے سالوں تک میں خود اپنے باپ سے دور رہا اسے قصور وار سمجھ کر اور اب جب زندگی میں آگے بڑھنا چاہا تو جنت دور ہوگئی خود میری وجہ سے مجھے ڈھونڈنے کو کوشش مت کرنا اور اب میری ساری زمیداریاں تم پر اور دائم پر ہیں سب کا خیال رکھنا خاص کر اپنا اور دعا کا تمہارا بھائی مصطفی" اسکے ہاتھوں سے وہ خط چھوٹ کر زمین پر گرچکا تھا جسے اٹھا کر دائم پڑھنے لگا 

اپنا فون نکال کر وہ مصطفی کو کال ملانے لگا لیکن اپنا فون بھی وہ وہیں چھوڑ کر گیا ے تھا

بنا کچھ سوچے وہ گھر سے نکل گیا 

"یارم کہاں جارہے ہو "دائم بھاگتا ہوا اسکے پیچھے آیا 

"بھائی کو ڈھونڈنے" جواب دے کر وہ اپنی گاڑی وہاں سے نکال چکا تھا 

ائیر پورٹ اسٹیشن ہر جگہ وہ مصطفی کو دیکھ چکا تھا لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملا تھا 

تھک ہار کر وہ صبح کے وقت اپنے گھر لوٹا تھا 

مصطفی کا خیال اسے بےحد پریشان کررہا تھا لیکن اسکی یہ پریشانی چند دنوں میں کم ہوگئی

جب مصطفی کہ دوست نے اسے بتایا تھا کہ مصطفی بلکل ٹھیک ہے وہ دو دن تک اسلام آباد میں اپنے دوست کے پاس رہ رہا تھا اور پھر وہ چلا گیا کہاں گیا یہ اسنے اپنے دوست کو بھی نہیں بتایا تھا بس اتنا ہی کہا تھا کہ اسکے گھر پر سب پریشان ہورہے ہونگے اور وہ ان تک یہ پیغام پہنچا دے کہ وہ خیریت سے ہے اور یہ سن کر کہ وہ خیریت سے ہے یارم کو  بھی اطمینان ہوچکا تھا

◽️◽️◽️◽️◽️ 

وہ اس وقت آفس جانے کے لیے تیار ہورہا تھا جب تیار ہوتے ہوے نظر دعا پر پڑی جو اسکے کپڑے طے کررہی تھی 

گھر میں ہر کام کے لیے ملازم تھے لیکن یارم کا کام اور کھانا وہ خود بناتی تھی انکی شادی کو ایک ہفتہ ہوچکا تھا لیکن اس ایک ہفتے میں مصطفی کی وجہ سے وہ اتنا پریشان رہا تھا کہ اس پر دیھان بھی نہیں دے سکا 

چند منٹ کی دلہن کو چھوڑ کر وہ اپنے بھائی کو ڈھونڈنے چلا گیا دعا کا اسے خیال بھی نہیں آیا کہ اس پر کیا گزری ہوگی

"دعا ادھر آؤ" ہاتھ کے شارے سے اسنے دعا کو اپنے قریب بلایا

"جی" 

"میری ٹائی باندھو" اسکے کہنے پر دعا اسکے قریب آکر مسکراکر اسکی ٹائی باندھنے لگی اسکی کمر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر یارم اسکے بالوں کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا 

"میرا بچہ ناراض ہے" یارم کے پیار بھرے لہجے میں کہنے پر دعا نے اپنا سر نفی میں ہلادیا 

"لیکن ناراض ہونا چاہیے شکایت کرنی چاہیے کتنی لاپرواہی دکھائی میں نے تمہاری طرف سے"

"مجھے کوئی شکایت نہیں ہے یارم آپ خود اتنے پریشان تھے اور میرا فرض بنتا ہے کہ آپ کی پریشانی بانٹوں نہ کہ اور پریشانی میں ڈالوں" مسکرا کر کہتے ہوے اسنے یارم کے گلے میں اپنے بازو ڈال دیے اسکی اس حرکت پر یارم کے لبوں پر تبسم بکهرا ہلکے سے دعا کے لبوں کو چھو کر اسنے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے اور اپنا سامان اٹھا کر روم سے نکل گیا 

ہمیشہ خوش مزاج چہرہ اس وقت تھکن زدہ ہورہا تھا جو کہ دعا کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا اسنے مڑ کر یارم کی پشت کو دیکھا 

◽◽◽◽◽

اپنے روم میں داخل ہوتے ہی اسنے بیگ صوفے پر پھیکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرکے نڈھال سا بیڈ پر لیٹ گیا 

"آپ کب آے دائم" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی دائم اٹھ کر بیٹھ گیا 

"ابھی آیا تھا ، شہیر کہاں ہے نظر نہیں آرہا" 

"وہ صائم بھائی کے ساتھ پارک گیا ہے میں آپ کے لیے چاے لاتی ہوں" کہتی ہوئی وہ دوبارہ کمرے سے جانے لگی جب دائم نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی گود میں بٹھالیا 

"اس وقت مجھے صرف میری بیوی چاہیے" کہتے ہوے وہ اسکی گردن پر جھک گیا 

"دائم مت تنگ گریں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے" مہر نے بےچارگی سے کہا 

"میری جان یہ بہانہ پرانہ ہوچکا ہے اب نیا ڈھونڈ لو" اسکے بال کان کے پیچھے کرکے دائم اسکے لبوں پر جھکنے لگا لیکن اس سے پہلے ہی وہ اپنے منہ ہاتھ رکھتی ہوئی اسکی گود سے اٹھ کر واشروم میں بھاگ گئی دائم بھی پریشانی سے اسکے پیچھے گیا 

وہ واش بیسن پر جھکی الٹیاں کررہی تھی دائم پریشانی سے اسکی کمر سہلانے لگا 

"کب سے تمہاری طبیعت خراب ہے مہر بتاؤ مجھے" دائم نے اسے دیکھتے ہوے فکرمندی سے کہا جو اب اپنا منہ دھو رہی تھی

"میں ٹھیک ہوں دائم"

"کوئی ٹھیک نہیں ہو کمرے میں چلو میں ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں" اور پھر اسکے منع کرنے کے باوجود بھی وہ ڈاکٹر کو فون کرچکا تھا جو تھوڑی دیر میں وہاں موجود تھی 

اسکا چیک اپ کرنے کے لیے ڈاکٹر نے دائم کو کمرے سے باہر بھیج دیا 

جب صائم پریشانی سے اسکے پاس آیا یقینا وہ شہیر کے ساتھ ابھی آیا تھا 

"بھائی کیا ہوا بھابھی کو" صائم نے پریشانی سے اسے دیکھتے ہوے کہا 

"ڈاکٹر چیک اپ کررہی ہیں" 

پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر مسکراتی ہوئی باہر نکلی

"کیا ہوا ہے اسے ڈاکٹر" 

"مبارک ہو مسٹر دائم شی از پریگنینٹ لیکن آپ کو انکا بہت خیال رکھنا ہے وہ کافی ویک ہیں" اسے تو اب تک ڈاکٹر کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا اسے مبارک باد دے کر صائم ڈاکٹر کو چھوڑنے کے لیے باہر تک چلا گیا

جبکہ دائم بےچینی سے اپنے روم میں داخل ہوا ڈاکٹر کی بات سنتے ہی اسکی کیفیت عجیب سے ہوگئی تھی خوشی اسکے پورے وجود میں سرایت کررہی تھی اندر داخل ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پر بیٹھی نظریں جھکائی شرمائی سی مہر پر گئی 

"مہر ڈاکٹر نے کیا کہا"اسکے قریب بیٹھ کر دائم نے شرارت سے کہا 

"کیا آپ کو نہیں پتہ" مہر نے حیرت سے اسے دیکھ کر کہا اسے تو یہی لگا تھا کہ اسے پتہ چل چکا ہوگا لیکن اسکے جواب پر دائم نے معصومیت سے اپنا سر نفی میں ہلادیا 

"وہ ، انہوں نے کہا کہ آپ بابا بننے والے ہیں"جلدی سے اپنی بات کہہ کر اسنے دائم نے سینے میں اپنا چہرہ چھپالیا اسکے اس طرح سے کرنے پر دائم کا زندگی سے پھرپور قہقہہ اس کمرے میں گونجا

"تھینک یو سو مچ میری جان میں بتا نہیں سکتا میں کتنا خوش ہوں" مسکرا کر کہتے ہوے اسنے مہر کے گرد اپنی گرفت مظبوط کرلی جب شہیر بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا کوئی بھی اسکا چہرہ دیکھ کر یہ اندازہ باآسانی لگا سکتا تھا کہ وہ اس وقت پریشان ہے 

"بابا ماما کو کیا ہوا"

"مجھے کچھ نہیں ہوا میرا بچہ" اپنے لیے اسکی فکر دیکھ کر مہر کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا اسکا ہاتھ پکڑ کر مہر نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا

"لیکن صائم چاچو تو کہہ رہے تھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسلیے ڈاکٹر آنٹی کو بلایا ہے" اسکی پریشانی ابھی تک کم نہیں ہوئی تھی دائم نے اسکے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا 

"شہیر وہ تو ہمیں بتانے آئی تھیں کہ کچھ ٹائم میں آپ کا بہن یا بھائی آجاے گا" دائم کے کہنے پر اسکے چہرے پر موجود پریشانی کی جگہ خوشی نے لے لی تھی وہ حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کبھی دائم تو کبھی مہر کو دیکھ رہا تھا 

"سچی"اسکے خوشی سے چیخ کر کہنے پر دونوں نے ایک ساتھ مسکراتے ہوے اپنا سر اثبات میں ہلایا خوشی سے وہ اپنی ماں کے گلے لگ گیا 

"وہ کب آئینگے" 

"انشاءاللہ بہت جلد" دائم نے ان دونوں کو اپنے حصار میں لے لیا 

◽◽◽◽◽

تھکا ہارا وہ رات دیر سے گھر لوٹا لیکن یہ بات دیکھ کر اسے کافی حیرت ہوئی کہ روز کی طرح آج دعا لاؤنج میں بیٹھ کر اسکا انتظار نہیں کررہی تھی بلکہ ملازمہ سے پوچھنے پر اسے پتہ چلا کہ وہ کمرے میں تھی 

وہ خود بھی اپنے کمرے میں چلا گیا اس وقت اسے صرف دعا کا چہرہ دیکھنا تھا اسکا چہرہ دیکھتے ہی اسکی ساری تھکن اتر جانی تھی لیکن کمرے کا ماحول اسے اس دیکھ کر اسے لگ رہا تھا وہ کسی اور کے کمرے میں آگیا 

پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا کمرے میں روشنی صرف کینڈلز سے ہورہی تھی جو پورے کمرے میں جگہ جگہ رکھی ہوئی تھیں کلون کی خوشبو کمرے کے ماحول کو دلفریب بنارہی تھی 

"دعا" یارم نے بےچینی سے کہا کمرے میں کینڈلز کی ہلکی ہلکی روشنی جگہ جگہ پھیلی ہوئی تھی  

"سنو نہ" 

"کہے کیا سنو نہ" 

"دل میرا سنو نہ" 

"سنو زرا"

گانے کی خوبصورت نرم میٹھی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں دعا ایک اور کینڈل جلا رہی تھی جبکہ لپسٹک سے سجے سرخ لب ہل رہے تھے وہ اس وقت نیٹ کی بلیک خوبصورت ساڑی میں ملبوس تھی جس میں اسکا نازک سراپا بےحد حسین لگ رہا تھا جبکہ چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ اسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا اس وقت یارم کو وہ مومی گڑیا لگ رہی تھی 

اپنی گھنی پلکیں اٹھا کر دعا نے اسے دیکھا اور آہستہ آہستہ چلتی اسکے قریب آنے لگی یارم بنا پلک چھپکاے اسے دیکھنے میں مصروف تھا 

"تیری بانہوں میں مجھے رہنا ہے رات بھر" 

"تیری بانہوں میں ہوگی صبح" 

اسکے گال کو چھوتی ہوئی وہ وہاں سے مسکراتے ہوے جانے لگی جب یارم نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا دعا کی پشت اسکے سینے سے لگ گئی 

"بے انتہا ، بے انتہا" 

"یوں پیار کر"

"بے انتہا" 

اسکی گردن پر اپنے لب رکھ کر یارم گنگنانے لگا اور اسکا رخ اپنی جانب کرلیا 

"دیکھا کروں ، ساری عمر"

"تیرے نشاں بے انتہا"

"آپ کی آواز بہتر پیاری ہے یارم" اسکی بات پر یارم کے عنابی لب مسکراہٹ میں ڈھلے

"پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا لیکن آج تمہاری آواز سن کر مجھے اپنی آواز کی کوئی اہمیت ہی نہیں لگ رہی ہے" میوزک آن کرکے یارم نے اسکے دونوں بازو اپنی گردن میں ڈال لیے اور اسکے ساتھ ہلکے ہلکے موو کرنے لگا گانا وہی تھا فرق اتنا تھا پہلے یارم گا رہا تھا اب عاطف

"کوئی کسر نہ رہے" 

"میری خبر نہ رہے"

"چھو لے مجھے اس قدر بے انتہا"

اسکے بالوں میں ہاتھ ڈال کر یارم اسکے سرخ لبوں پر جھک گیا 

"جب سانسوں میں تیری سانسیں گھلیں تو پھر سلگنے لگے" 

"احساس میرے مجھ سے کہنے لگے" 

اسکی ساڑی کا پلو ہٹا کر یارم نے اسکی بیوٹی بون پر اپنے لب رکھ دیے اسکی اتنی قربت پر دعا کا روم روم کانپ رہا تھا 

دعا نے گھبرا کر اسکے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے دور کرنا چاہا لیکن اسکے دونوں ہاتھ اسکی کمر تک لے جاکر یارم پھر اسکے لبوں پر جھک گیا 

"ہاں بانہوں میں تیری آکے جہاں دو یوں سمٹنے لگے"

"سیلاب جیسے کوئی بہنے لگے" 

اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر یارم نے اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھا لیا 

"ی-یار-م"

"آئی لو میری جان ، میرا عشق ، بہت پیار کرتا ہوں تم سے عشق جاناں" گھمبیر لہجے میں کہتے ہوے اسنے دعا کی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے 

"کھویا ہوں میں آغوش میں"

"تو بھی کہاں اب ہوش میں"

"مخملی رات کی ہو نہ صبح"

وہ اسکے چہرے پر جا بجا اپنے لبوں کا لمس چھوڑ رہا تھا چہرے سے گردن تک کا فاصلہ اسنے منٹوں میں طے کیا

"بے انتہا بے انتہا"

"یوں پیار کر بے انتہا"

رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی نئی خوبصورت لانے کے لیے 

◽◽◽◽◽

چھ ماہ بعد 

"دائم میں نے کہا نہ مجھے نہیں کھانا" اپنے سامنے رکھی فروٹ کی پلیٹ کو کھسکا کر اسنے منہ بناتے ہوے کہا جس پر دائم نے گھور کر اسے دیکھا 

"دیکھو مہر اب تم مجھے غصہ دل رہی ہو چپ چاپ کھا لو" وہ جو اتنی دیر سے اسے نرمی سے کھلانے کی کوشش کررہا تھا اب کی بار سخت لہجے میں بولا 

"میں شہیر کے ہاتھ سے کھاؤنگی" اسکے سخت لہجے کو دیکھ کر اسنے بہانہ بنایا کیونکہ وہ جانتی تھی شہیر اس وقت باہر گیا ہوا ہے 

دائم کو اس طرح اسکا خیال رکھنا پڑتا تھا جیسے وہ کوئی بچی ہو وہ اپنے معاملے میں جتنی لاپرواہ تھی دائم اسکے لیے اتنا ہی فکرمند ویسے تو وہ اسکی ہر بات مان جاتی تھی لیکن کھانے کے معاملے میں وہ بہت نخرے کرتی تھی دائم اسکی ہر بات ہر ضد خوشی خوشی مان لیتا تھا لیکن اسکے کھانے میں ہمیشہ اسے سختی کرنی پڑتی تھی

اس وقت دائم نے دل سے دعا کری کہ شہیر جلدی سے گھر آجاے پتہ نہیں یہ اسکی قبولیت کا وقت تھا یا دعا بہت شدت سے مانگ تھی جو ایک منٹ کے اندر ہی شہیر اپنے ہاتھ میں بیگ لٹکاے بھاگتا ہوا انکے کمرے میں آگیا

"ماما بابا دیکھو میں کیا لایا" خوشی خوشی اسنے دو شرٹس نکال کر انکے سامنے رکھیں جو ایک جیسی تھیں ایک اسکی اپنے سائز کی اور دوسری چھوٹے بچے کی یقینا وہ یہ شرٹ اپنے بھائی کے لیے ہی لایا تھا وہ صائم کے ساتھ شوپنگ پر گیا تھا تو یقینا صائم نے ہی اسے یہ شرٹ دلوائی ہوگی 

واؤ بہت پیاری ہے" مہر نے اس چھوٹی سی شرٹ کو" اپنے ہاتھ میں لیتے ہوے کہا 

 "ماما یہ میں بھائی کے لیے لایا ہوں صائم چاچو نے دلوائی ہے ہم دونوں ہمیشہ ایک جیسے کپڑے پہنیں گے" 

"لیکن اگر بہن ہوئی تو"وہ جو خوشی خوشی اسے بتا رہا تھا دائم کے کہنے پر سوچ میں پڑ گیا لیکن تھوڑی دیر بعد اسکے چھوٹے دماغ میں ایک اور ترکیب آچکی تھی

"تو کوئی بات نہیں بابا میری سسٹر بھی میرے جیسا ہی پہن لیگی اور اگر اسنے نہیں پہنا تو میں اسکے جیسا پہن لونگا"اپنے بہن یا بھائی کے آنے کی خوشی تو سب سے زیادہ اسے ہی ہورہی تھی روز رات کو اب وہ سٹوری سننے کی جگہ یہ بات کہتا تھا کہ "اس کا بہن یا بھائی کب تک آے گا"جس پر دائم بس ایک ہی جواب دیتا "انشاءاللہ بہت جلد" اور اسکے جواب سے مطمئن ہوکر وہ سوجاتا 

"شہیر بھائی آے گا تو اس کا سب سے زیادہ خیال ماما کو رکھنا پڑے گا لیکن اگر وہ اپنا خیال نہیں رکھینگی تو بھائی کا کیسے رکھینگی اسلیے آکر ماما کی تھوڑی صحت بناؤ اور انہیں فروٹ کھلاؤ"خود اٹھ کر وہ اطمینان سے صوفے پر جاکر بیٹھ گیا اور شہیر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں فورک اور پلیٹ پکڑے اسے کھلانے لگا دائم کو گھور کر وہ اسکے ہاتھوں سے فروٹ کھانے لگی جبکہ دائم مسکراتے ہوے اس مکمل منظر کو دیکھ رہا تھا 

◽◽◽◽◽

"دعا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہو" اسے عام سے حلیے میں دیکھ کر یارم نے کہا 

یارم کے دوست کی ویڈنگ اینیورسری پارٹی تھی جس میں اسنے ان دونوں کو انوائٹ کیا تھا وہ اسے پہلے ہی بتاچکا تھا کہ کتنے بجے جانا ہے لیکن وہ عام سے حلیے میں بیٹھی ہوئی تھی

"یارم میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے" اسکے کہنے پر یارم فکرمندی سے اسکے قریب آیا 

"کیا ہوا ہے تمہاری طبیعت کو" یارم نے اسکے ماتھے کو چھوتے ہوے کہا ٹمپریچر بلکل نارمل تھا

"کچھ نہیں ہوا لیکن بس مجھے نہیں جانا" منہ بنا کر اسنے اپنے چہرے سے اسکا ہاتھ ہٹایا 

"جیسا تم کہو میری جان تم نہیں جانا چاہتی ہو تو کوئی زبردستی نہیں لیکن پھر تمہیں میری بانہوں میں رہنا ہوگا"اپنے قرے. کھینچ کر وہ اسکے لبوں پر جھک گیا انداز ہر بار کی طرح شدت سے بھرپور تھا 

"نہیں میں چل رہی ہوں" دعا نے گہرے گہرے سانس لیتے ہوے کہا

"جلدی تیار ہو جاؤ پہلے ہی دیر ہورہی ہے"اسے تاکید کرکے وہ کمرے سے چلا گیا 

◽◽◽◽◽

 کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نگاہ تیار کھڑی دعا پر پڑی جو اس وقت ریڈ کلر کی فراک میں ملبوس تھی بالوں کا اسنے جوڑا بنایا ہوا تھا جبکہ آگ موجود دو لٹیں نکال کر رول کی ہوئی تھیں میک اپ اسنے ہلکا پھلکا ہی کیا تھا لیکن اس سب میں بھی وہ غضب ڈھارہی تھی

"کیا بات ہے جاناں اتنا پیارا کس خوشی میں لگا جارہا ہے" دعا کو اپنی جانب کھینچ کر اسنے دلکش لہجے میں کہا اس وقت اسنے خود بھی بلیک کوٹ پہنا ہوا تھا جو اسکی پرسنیلٹی پر خوب جج رہا تھا 

"اب دیر نہیں ہورہی" یارم اسنے اپنی گردن پر جھکے یارم کو دور کرنے کی کوشش کی

"ہاں تمہاری تعریف گھر آکر میں فرصت سے کرونگا"مسکراتے ہوے وہ اسکا ہاتھ تھا کر اسے باہر کی طرف لے کر چلا گیا 

◽◽◽◽◽

"تم یہاں کیا کررہے ہو یشب" اسے کچن میں کام کرتا دیکھ کر چاہت بھی وہیں آچکی تھی 

"اپنی چاہت کے لیے کافی بنارہا ہوں"

"اگر تمہیں کوفی پینی تھی تو مجھے بتادیتے خود کیوں بنانے لگ گئے ماما پاپا نے دیکھ لیا تو کتنا برا لگے گا کہ تم کچن میں کام کررہے ہو" مہر کی بتاتوں کے چند دن بعد اشفاق صاحب اسے اپنے گھر بلا چکے تھے رخسانہ بیگم جو اس سے دوری پر ٹوٹ چکی تھیں اسکے واپس گھر آنے پر انہوں نے خوشی سے اپنی بہو اور بیٹے کا استقبال کیا جبکہ اسکے برعکس اشفاق صاحب نے صرف اپنی بہو کو قبول کیا تھا چاہت انکے لیے تحریم کی طرح تھی جبکہ یشب کے ساتھ انکا رویہ ویسے ہی روکھا تھا لیکن اب انکے رویے میں بہتری آچکی تھی جسکی وجہ چاہت تھی

"کوئی کچھ نہیں کہے گا بلکہ انہیں تو خوشی ہوگی کہ انکا بیٹا انکی بیٹی پلس بہو کی خدمت کررہا ہے" اسکے شرارت سے کہنے پر چاہت نے مسکرا کر اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا 

"تھینک یو چاہت" 

"لوگ اپنی گرل فرینڈ ، بیوی کو آئی لو یو بولتے ہیں لیکن میرے شوہر جی ہمیشہ مجھے تھینک یو کہتے ہیں"

"ہاں میں تمہیں ہمیشہ آئی لو یو سے زیادہ تھینک یو کہونگا آج اگر میں اپنے گھر میں ہوں تو صرف تمہاری وجہ سے مہر سے میری ملاقات ہوئی تمہاری وجہ سے اور بابا کے رویے میں جو چینج آیا ہے وہ بھی تمہارے وجہ سے میں بہت خوش قسمت ہوں جسے تم جیسی لڑکی ملی میں تو بہت گنہگار تھا پھر بھی خدا نے مجھے تمہیں دے دیا میں تو تمہارے لائق بھی نہیں تھا"

"ضروری تھوڑی ہے یشب ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے لائق نہ ہوں"

"نہیں چاہت تم بہت خاص بہت پاک ہو تم جیسی لڑکی ہر لڑکے کی آئیڈیل ہوتی ہے تم میرے لیے خدا کا تحفہ ہو" اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر یشب نے دھیمے لہجے میں کہا

"اچھا ، تو پھر اس تحفے کی قدر کرو"

"اچھا کیسے قدر کروں"

"میرا خیال رکھو اور مجھے ڈھیر سارا پیار کرو" اپنے دونوں ہاتھ کھول کر اسنے ڈھیر کو لمبا کھینچتے ہوے کہا

"خیال تو میں تمہارا رکھتا ہوں ہاں لیکن اگر میرے پیار میں تمہیں کمی لگتی ہے تو یہ شکایت میں دور کرسکتا ہوں" اسکی بات کا مطلب سمجھ کر چاہت نے فورا اپنا سر نفی میں ہلایا 

"نہیں میری یہ مط" اسکے آگے کے لفظوں کو یشب نے اپنے لبوں میں قید کرلیا 

◽◽◽◽◽

پارٹی کافی اچھے سے گزری اس وقت وہ دونوں واپس گھر کی طرف جارہے تھے لیکن حیرت یارم کو اس بات پر ہوئی کہ دعا کے ہوتے ہوے بھی گاڑی میں اب تک سناٹا تھا 

اسنے ایک نظر اسے دیکھا وہ اپنا سر سیٹ سے ٹکاے آنکھیں موندے لیٹی تھی 

"دعا" یارم نے نرمی سے پکارا لیکن کوئی جواب نہ ملنے پر اسنے دعا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلایا اور تب اسے اندازہ ہوا کہ وہ بےہوش تھی گاڑی سائیڈ پر روک کر اسنے پریشانی سے دعا کو دیکھا جو ہوش میں ہی نہیں آرہی تھی پانی کی بوتل نکال کر وہ پانی اسکے چہرے پر چھڑکنے لگا اور اسکے ایسا کرتے ہی دعا ہوش میں آچکی تھی

"تم ٹھیک ہو" اسکی پریشانی ہنوز ویسی ہی تھی 

"نہیں تم ٹھیک نہیں ہو میں تمہیں ہاسپٹل لے کر چلتا ہوں" اپنے سوال کا خود ہی جواب دے کر وہ بنا اسکی کچھ سنے گاڑی ہاسپٹل کی جانب بڑھا چکا تھا 

چونکہ ہاسپٹل یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا اسلیے وہ چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہاسپٹل پہنچ چکے تھے 

لیکن گاڑی سے اترتے ہی اسے زوردار چکر آیا اس سے پہلے وہ زمین پر گرتی یارم اسے تھام چکا تھا اور پھر اسنے بنا وہاں موجود لوگوں کی پرواہ کیے اسے اپنی بانہوں میں اٹھالیا جبکہ سب کے سامنے اس طرح اٹھانے پر دعا نے شرم سے اسکے سینے میں اپنا چہرہ چھپالیا 

"یارم پلیز مجھے نیچے اتاریں لوگ دیکھ رہے ہیں" 

"چپ ہوجاؤ دیکھتے ہیں تو دیکھتے رہیں ان لوگوں کے پاس اور کام ہی کیا ہے" یہ ہاسپٹل اسکا اپنا تھا جو اسنے اپنی بیوی کی خواہش پر بنوایا تھا 

اسکا چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر مسکرا کر یارم کو دیکھنے لگی جبکہ اسکی مسکراہٹ یارم کو زہر لگ رہی تھی یہاں اسکی بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور ڈاکٹر مسکرا رہی تھی 

"میری وائف کو کیا ہوا ہے"

"گھبرانے کی بات نہیں ہے مسٹر یارم بلکہ یہ تو خوشی کی بات ہے شی از پریگنینٹ"ڈاکٹر کے الفاظ پر اسنے حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا 

"کیا کہا یعنی ، مطلب میں ب-ابا"اسکے خوشی سے ٹوٹے پھوٹے لہجے کو دیکھ کر ڈاکٹر نے بھی مسکراتے ہوے اپنا سر اثبات میں ہلادیا 

وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بنا ڈاکٹر کی پرواہ کیے بغیر دعا کو اپنے سینے سے لگالیا ان دونوں کو ایک ساتھ چھوڑ کر ڈاکٹر مسکراتی ہوئی باہر چلی گئی 

"سنا تم نے دعا ڈاکٹر نے کیا کہا میں بابا اور تم ماما"اسکی آنکھیں نم ہورہی تھیں لفظ ٹھیک سے ادا نہیں کیے جارہے تھے خوشی سے کہتے ہوے اسنے دوبارہ اسے اپنے سینے سے لگالیا 

خوشی سے آنسو دعا کی آنکھ سے بہہ نکلے اسنے نظریں اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا اور دل میں خدا کا بےانتہا شکر ادا کیا

ں بیٹھا ہوا تھا 

وہ اس وقت تنہا تھا اور اسے یہ تہنائی بری نہیں لگ رہی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اب اسکی ساری زندگی اسی طرح تنہا گزرنی ہے وہ اس وقت اپنی ماضی کے پنوں میں کھویا ہوا تھا ہر طرف اداسی تھی ویرانی تھی بلکل اسی طرح جیسے اسکے اندر تھی 

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishq Jana Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Jana written by Shanzy Shah. Ishq  Jana by Shanzy Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment