Pages

Saturday 27 July 2024

Mere Humsafar Mere Meharban By Ayesha Noor New Complete Romantic Novel

Mere Humsafar Mere Meharban By Ayesha Noor New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mere Humsafar Mere Meharban By Ayesha Noor Complete Novel 


Novel Name: Mere Humsafar Mere Meharban  

Writer Name: Ayesha Noor

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

صبح ٩ بجے کا وقت تھا وہ دونوں اس وقت ایک قبر کے

 پاس کھڑے تھے وہ چودہ سالہ بچی گھٹنوں کے بل قبر کے پاس بیٹھی آنسوں بہا رہی تھی اور اسکے پاس کھڑا   تٸیس سالہ نوجان لڑکاوہ دونوں اپنی ماں جیسی ہستی کی قبر پر اپنا دکھ بیاں کر رہے تھے وہ ماں خود اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی مگر انہیں ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی

وہ جاتے جاتے ان دونوں کو ایک مضبوط بندھن میں باندھ 

 گٸ

جب اس بچی کے رونے میں کمی نا آٸ تو لڑکے نے

 آگے بڑھ کر اس نرم ونازک گڑیاکو سہارا دے کر اٹھایا اور اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھامے قبروں کے پاس سے گزر کر  سڑک کی طرف بڑھا 

 ایک ہاتھ کے اشارے سے آٹو روکی جبکہ دوسرے ہاتھ سے ابھی بی اسکی نازک سی کلاٸ تھامی تھی پاس آکر ایک آٹو رکی اور وہ دونوں اس میں سوار ہوگۓ

آٹو گھر کے آگے رکی تو وہ نیچے اترا اور ساتھ ہی نیلم اتر گٸی آنکھوں سے آنسوں ابھی بھی جاری تھے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر اسنے بیل بجاٸ دروازہ کھلا اور دونوں گھر میں داخل ہوۓ

  نیلی بلقیس بیگم کے گلے لگ کر پھر رو دی بلقیس بیگم ن  پیار سے نیلم کو خود سے الگ کیا اور سمجھانے لگی چپ کر جاو نیلی بیٹا شاباش تم نے اب نہیں رونا ورنا پھر میں ناراض ہو کر چلی جاٶں گی اور روتی رہنا 

 نیلم نے جلدی سے آنسو صاف کیے نہیں نہیں میں چپ ہوں خالہ نہیں رورہی اب پلیز مت جاٸیں

  اچھا پھر تم جاٶ منہ ہاتھ دھو پھر ناشتہ کرتے ہیں وہ سر ہلاتی کمرے کی جانب بڑھ  

گٸ  

ان سب سے بے نیاز ولی صوفے پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا سر اوپر کیے مسلسل چھت کی جانب گھور رہا تھا بلقیس پھپو نے اس کےکندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور پکارا ولی اب تمہیں بھی سمجھانا پڑے گا ہوش کی دنیا میں واپس آٶ

 پھپو میں ٹھیک ہوں " ولید سیدھا ہو کر بیٹھا 

  اچھا پھر ناشتہ کرو گے " بلقیس پھپو نے پوچھا 

  نہیں بس چاۓ لو گا ناشتہ کا بلکل بی دل نہیں چاہ رہا" اس نے بیزار یت سے جواب دیا ۔ٹھیک ہےکہتے ہی بلقیس کچن کی جانب سر نفی میں ہلاتی بڑھ گٸ۔

 آج اسے پھر سے اپنا ماضی یاد آیا جب اسکے والدین اسے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گۓ تھے کتنا رویا تھا وہ ۔۔۔

  چھے سالہ ولی بہت خوش سا ہنستہ مسکراتا اپنے پورے  خاندان کا لاڈلہ سب ہی اس سے بہت پیار کرتے تھے اس کی خوشیوں کوتو جیسے نظر ہی لگ گٸ اب اس خوش کی جگہ اداسی نے لیلی تھی۔

سہیل احمد اور انکی اہلیہ بشری بی بی ان کو تین بچے

 بڑی بیٹی بلقیس اور پھر وحید احمد  سے پانچھ سال چھوٹا ولید احمد ۔وہ اپنے اولاد کے ساتھ اپنے چھوٹے سے آشیانے میں خوش تھے۔

انہوں بڑی بیٹی اور بیٹا کی ایک ساتھ شادی  کی  تھی بلقیس کی شادی انہوں اپنے دوست کےبیٹے اسلم سے کی انکی تین بیٹیا تھیں ملیحہ مدیحہ اور فرح ۔جبکہ وحید کی نگہت بیگم سے ہوٸ اور وہ ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے 

۔ان کی شادی کے کچھ عرصے بعد بشری بیگم بیمار رہنے کے باعث اس دنیاسے کوچ کرگٸ۔

 بلقیس کی شادی دوسرے شہر میں ھوٸ اسلیے انکا

 میکے کم آنا جانا تھا اسلم کے ساتھ وہ خوش تھی۔

 سہیل صاحب کو اپنی اولاد کی بےاولاادی کا بہت دکھ تھا دس سال ھو گۓ تھے وحید کی شادی کو وہ اپنی بیوی کو بہت چاہتے تھے اسلیۓ وہ اسے اللّٰه کی مرضی سمجھ کر نگہت کے ساتھ بہت خوش تھے۔ نگہت بہت اچھے اخلاق کی خاتون تھی انہیں اپنی خالی گود کابہت دکھ تھا ۔

 ایک دن ولید اپنی یونیورسٹی فیلو انیلہ سے کورڈ میرج کرلی جس پر سہیل صاحب بہت برہم تھے ولید انیلہ کو بہت پسندکرتا تھا مگر انیلہ گھر والے اسکی شادی زبردستی کہیں کروا رہے تھے انیلہ بلکل بھی راضی نہ تھی اسلیۓ اسنے ولید سے فورن شادی کا مطالبہ کیا۔ ولید فورن مان گیا اور اسنے بغیر سہیل صاب کو بتاۓ انیلہ سے کورڈ میرج کرلی اور پھر اسے گھر لے آیا سہیل صاحب نے ان دونوں کو گھر سے نکال دیا نگہت اور وحید نے انہیں بہت سمجھایا کہ وہ ان دونوں کو معاف کردے مگر سہیل صاحب نہ ماے انہیں اپنی اولاد کی اس حرکت پر بہت دکھ ہوا۔ 

کچھ عرصے بعد ولید نے سہیل صاحب کو دادا بننے کی

 خوشخبری سناٸ اس خبر کو سننے کیلۓ تو انکے ان ترس گۓ تھے انہوں نہ صرف انہیں معاف کیا بلکہ گھر میں بھی جگہ دی انیلہ کا بہت خیال رکھا جانے لگا اور انکے ہاں بیٹے کی پیداٸش ہوٸ سہیل صاحب نے اسکا نام  ولی اللہ ولید احمد رکھا۔

نگہت نے ولی کے بہت لاڈ اٹھاۓ وحید نے بھی اسے بہت پیار کیا دونوں کی جان بستی تھی ولی میں ولید اور انیلہ بھی اسے آنکھ کاتارا بنا کے رکھتے سہیل صاحب کو تو ولی کے علاوہ کچھ سوجتاہی نہ تھا ولی سب سے بہت اٹیچ ہوگیا ۔

انیلہ کو اگر کہیں جانا ہوتا تو وہ ولی کو بے فکر ہو کے ان کے پاس چھوڑ کے جاتی اسی لاڈ پیار میں پل کے ولید چھے سال کا ہوگیا وہ بہت ہنس مکھ اور ہر ایک کےدل بھا جانے والے بچہ تھا پڑھاٸ میں بھی دل لگا تھا اسکا آجاسکا ون کلاس کا فاٸنل رزلٹ اناٶس ہوا سب سے خوب مبارکباد وصول کی اور تحفے بھی۔

ولی ۔ بلقیس پھپو کی آواز پہ ولی کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور سر اٹھا کران کی جانب دیکھا بلقیس ہاتھ میں چاۓلیۓ کھڑی تھیں ہاتھ بڑھا کر  چاۓ کا کپ تھاما ۔

پھپو نے اسکی لال ہوتی آنکھیں دیکھی پھر اسکے سر پر

 پیار سے ہاتھ پھیرا وہ آنکھیں موند گیا ان کے اس لمس پر اسکے پاس ابھی بی ایک رشتہ باقی ہے پھر آنکھیں کھولی اور بلقیس پھپو کی جانب دیکھا اور کہا پھپو میں ٹھیک ہوں میری فکر مت کریں آپ نیلی کے پاس جاٸیں اسے فلحال آپ کی ضرورت ہے۔

بلقیس نیلم کے کمرے میں داخل ان کی توقع عین مطابق نور بیڈ پرتکیہ میں منہ دے کر رورہی تھی۔

نیلی ۔ ۔ بلقیس کی پکار پر نیلی نے سراٹھایا اور جلدی سے اپنے آنسوں صاف کیے اور پھپو کی جانب دیکھا جو اسے غصے سے گھور رہی تھی وہ جلدی سے بولی نہیں پھپو میں نہیں رو رہی میں چپ ہوں اس کی اس معصومیت پے پھپو اسے گلے لگا گٸ اس گلے لگتے ہی اس کے آنسو پھر بہنے کیلیۓ تیار تھے مگر پھپو کی دی گٸ دھمکی( کے وہ اسے اکیلا چھوڑ کے چلی جایٸں گی) کے ڈر سے  آنسوں روکے ۔

نگہت کے اس دنیا سےچلے جانے کے بعد نور اور ولی بہت زیادہ غمزدہ ہو گۓ تھے وہی نگہت کی آخری خواہش کے مطابق نیلم اور ولی کا نکاح پڑھیایا گیا نگہت اپنی زندگی میں چاہتی تھی کے انکا نکا ح ہو مگر ولی نہیں مانا تھا۔

مگر اب بلقیس کے زور دینے پر وہ مانا کہ اب اس کے علاوہ اس دنیا میں کوٸ نہیں ہے نیلم کو وہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی ۔اسے ولی کے ساتھ رہنا تھا اور اسلیۓ نکاح ضروری ورنا لوگ باتیں بناٸیں گے ۔

بلقیس ان دونوں کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ نگہت کے غم سے نکل کر زندگی کی طرف لو ٹیں کسی حد تک بلقیس کا میاب بھی ہوگٸ تھی ولی اب سنبھل چکا تھا مگر نیلم کچھ حد تک سنبھلی تھی نیلم کا دھیان گھر کے کام کی طرف لگاتی تاکہ وہ نگہت کو یاد نہ کرسکے اور ایسے ہی ہوا بھی تھا ۔

بلقیس کو واپس گھر بھی جانا تھا اس کے گھر والے اسے بلا رہے تھے گھر اسلیۓ وہ نیلم اور ولی کے درمیان دوری کو دور کرے کیونکہ اب ایک دوسرے پر ڈیپینڈ کرتے ہیں۔

 ۔نیلم چھوٹی سی تھی مگر گھر کے کاموں میں سمجھدار تھی چھوٹی سی تھی مگر نگہت کے ساتھ ہر کام میں ہاتھ بٹاتی جب نگہت بیمار ہوٸ تو وہ کافی حد تک نگہت کے ساتھ کام کرواتی کچن کے بھی وہ کافی کام کر لیتی برتن دھونا چاۓ بنانا کھانا سرو کرنا نگہت اسے ولی کے بھی کام کروایا کرتی تھی جو ولی کو پسند نہیں تھا اور وہ اسے ڈانٹ دیتا تھا ۔

بلقیس بھی اب اسے ولی کے کام کرواتی اور اسے سمجھاتی کہ انکا اب کیا رشتہ ہے نیلم کو ولی کے روم میں بھیجتی اس سے کھانے کا پوچھنے کیلیۓ تو کبھی اسے چاۓ دے کر بھیجتی وہ اپنے کام پھپو سے کہتا مگر وہ کام نیلم سے کرواتی ولی بس چپ ہی رہتا اسے کچھ نہ کہتا اس بات سے اب بلقیس بھی کافی مطمٸن ہو گٸ تھی دونوں سے اب وہ بے فکر ہوکر گھر جاسکے گی۔اور پھر بلقیس نے دونوں کو اب اپنے گھرجانےکا فیصلہ سنایا۔

(ماضی) 

آج ولی بہت خوش تھا اسے بہت سارے تحفے ملے تھے فرسٹ آنے کی خوشی میں آج اس کی پاپا کو اس کے دوست کی شادی پر جانا تھا اسکی ماما کے ساتھ وہ رات کو اس سے مل کر اور گھر والوں سے بھی ملے تھے وحید نے شرارت سے کہا شادی پر جا رہے ہو سب سے ایسے مل رہے جیسے جنگ پر جانا ہے اس کی بات سب ہنس پڑے وہ خدا حافظ کہتے گھر سے نکل پڑے ۔

ولید نے ہاتھ کے اشارے سے ٹیکسی روکی اور اس میں سوار ہوگۓ ۔

واپسی بھی انکی اسی ٹیکسی میں ہوٸ جس میں وہ آۓ تھے رات کافی ہوچکی ٹیکسی سنسان سڑک پر جا رہی تھی انیلہ نے ولید کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اسے ڈر لگ رہا تھا ولید نے اپنا دوسرا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور دلاسہ دیا انیلہ ڈرو مت میں ہوں نہ ابھی ٹیکسی نے موڑ لیا تھا کہ سامنے سے آتا ٹرک ٹیکسی سےجا ٹکرایا ٹیکسی قلابازیاں کھا تی ھوٸ دور جا گری حادسہ اتنا برا تھا کہ ٹیکسی سوارتینوں لوگ موقع پر ہی دم توڑ گۓ۔

سہیل صاحب بیچینی سے اپنے بیٹے اور بہو کا انتظار کر رہے تھے گھڑی رات کا ایک بجانےکو آٸ مگر وہ ابھی تک نہ  لوٹے ۔

جیسے جیسے ٹاٸم گزر رہا تھا انہیں ڈر لگنے لگا کہیں کچھ غلط نہ ہو گیا  ہو نگہت اور وحید پریشان تھے ولی نگہت کےبستر پر سو رہا ۔

کال جارہی تھی مگر کوٸ اٹھا نہیں رہا تھا یہ بات اور بیچین کر رہی تھی ۔انھوں نے یہ رات بہت مشکل سے کاٹی مگر صبح کا دن انکےلیۓ اچھی خبر نہ لایا ۔وحید نے پھر کال کی اس بار کال اٹھا لی گٸ مگر آگے کسی انجان آدمی کی آواز آٸ اسے سمجھ نہ آٸ  تھی کہ آگے سے آواز آٸ " آپ کون " اسنے اپنا تعارف کروایا اور ولید کے بارے میں پوچھا تو اس شخص نے آگے سے جو بات بتاٸ موباٸیل اسکے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔

اور سہیل صاحب کی طرف دیکھا جواسے سوالیہ نظروں سے گھور رہے تھے ۔

وہ۔۔ وہ ۔۔لفظ اسکے منہ سے ادا نہی ہورہے تھے  کہ ۔

سہیل صاحب غصے سے بھڑ کے "کیا وہ وہ بتاٶ کیا بات ھے کون تھا کیا کہا تمہے اسنے"۔ 

"ابا جی وہ ۔۔ ولید ۔۔انیلا کا ۔۔ ایکسیڈنٹ ۔۔۔ہو۔۔ہوگیا۔۔۔اور وہ اس دنیا میں نہی رہے"

 آخری بات پر وحید اپنا ضبط کھو گیا اور رودیا سہیل صاحب صوفے پر گرنے کے اندا ز سے ڈھے گۓ کمرے کے دروازے پر کھڑے ولی نے وحید کی بات سن لی تھی اور وہی کھڑا ساکت ہو گیا اس سے ہمت ہی نہ ھوٸ  کہ آگے بڑھ کر پوچھ سکے۔ نگہت کی نظر ولی پر پڑی ولی انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا نگہت نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگایا وہ انکے ساتھ لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔

وہ بہت رویا تھا اس دن جب اسکے ماں باپ کےایک ساتھ جنازے اٹھے وہ تو کسی سے بھی سنبھل نہیں رہا تھا بڑ ی مشکل سے نگہت نے اسے سنھالا ۔ بلقیس نے بھی اسے بہت سہارا دیا۔وہ اسکی پھپو تھی ایک طرف بھاٸ کاغم دوسری طرف انکا بھتیجا انکا دل کٹ کر رہ گیا۔

سہیل صاحب بھی بیٹے غم سے نڈھال ہو گۓ اور بیمار رہنے لگے ولی سنبھل تو گیا مگر اب سنجیدا رہنے لگا اپنا زیادہ دھیان بس اسٹڈی کی طرف رکھتا اب گھل مل کے رہنے والی عادت ختم ہو گٸ تھی بس اداس رہتا نگہت اوروحید نے اسے بہت توجہ اور پیار سے رہتے اسکے ساتھ اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ۔ بلقیس بھی آجاتی تھی وہ اسے بہت پیارا تھا آخر اسکی بھاٸ کی نشانی ہے۔مگر وہ پھر بھی پہلے جیسا نہیں رہا وہ سنجیدہ مزاج اور اپنے کام سے کام رکھنے والا بن گیا ۔

سہیل صاحب بہت بیمار رہنے لگےبلقیس  وحید نے انکو بہت حوصلہ دیا ان کی بہت خدمت کی مگر وہ بیٹے کا غم برداشت نہ کر سکے اور ایک سال بعد وہ بھی اپنے بیٹے پاس اس دنیا رخصت ہو گۓ۔ ولی کے لیے یہ ایک اور بڑا غم تھا اسے اپنے دادا سے بہت پیار تھا اسکے دادا نے اسے بہت دیا تھا ۔

اب وہ تینوں ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔  وحید نے بھاٸ کا غم برداشت کرلیا مگر باپ  کے غم نے انہیں نڈھال کردیا۔ 

 اب  وحید کمزور ہونے لگے تھے  بلقیس اور نگہت نے اسے بہت حوصلہ اور ہمت دی۔ ان کے ہر دکھ میں انکے ساتھ شریک رہی ۔

وحید کو ہمت کرنی تھی ابھی دو رشتے ہیں اسکے پاس ابھی انکے لیۓ انھوں حوصلہ کیا اور کام کرنا شروع کیا انکی سرکاری کلرک کی نوکری تھی انکا ایک چھوٹا سا آشیانہ تھا جس میں وہ نگہت اور اپنے بھاٸ اور باپ کے ساتھ خوشی سے رہ رہے تھے مگر اس گھر کی خوشیوں کو تو جیسے کسی کی نظر لگ گٸ نگہت بھی گھر بھی سنبھالتی اور ساتھ ساتھ لوگوں کے کپڑے بھی سلاٸ کرتی اب ان دونوں کی کل زنگی ولی ہی تھا جس کہ اچھے مستقبل کےلۓ وہ محنت کر رھے تھے ۔

(حال) 

وہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تینوں میں خاموشی تھی اس خاموشی کوبلقیس نے توڑا "نیلم .. ولی"۔۔ انہوں نے دونوں کا نام پکارا۔

دونوں نے ایک ساتھ پھپو کی جانب دیکھا جی پھپو بولیں ولی بولا۔

ولی اب مجھے اپنے گھر بھی واپس جانا ہے وہاں میرے بچیاں بھی میرا انتظار کر رہے ہیں مہینہ ہو چلا ہے یہاں آۓ ہوے اسلم بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ اس لیۓ میں اب دو دن ہوں یہاں آج جمعہ ہے اتوار کو میری واپسی ہے۔

وہ بیچارگی سے بول رہی تھی کہیں وہ روک نہ لیں

ولی نے انکے ھاتھ پر اپنا ھاتھ رکھا اور نرمی سے گویاہوا

" پھپو جیسے آپ کی مرضی آپ کا بہت بہت شکریہ پھپو آپ نے ہمارا بہت ساتھ دیا " آخری بات اسنے نیلم کو دیکھتے ہوے کی جو اپنی موٹی نیلی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں بھر لاٸ تھی ۔

بلقیس نے بھی نیلم کی طرف دیکھا اور کہا "بیٹا اگر ایسے رو گی تومیں نہی جاسکوں گی ۔

 نیلم نے اپنا نازک سا ہاتھ بڑھا کر بلقیس کا ہاتھ تھاما اور کہخالہ آپ جاٸیں میں نہیں روکو گی آپ کو میں نہیں روٶں گی ہچکیوں سے بولتے ہوۓ اسنے اپنی بات مکمل کی بلقیس کے گلے لگ گٸ ۔ولی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اسے نیلم کے رونے سخت چڑ تھی جب سے وہ  اس گھر میں آٸ تھی تب سے۔.

***

رات کو روز ولی چاۓ پیتا تھا جب سٹڈی کرہا ہوتا تھا آج وہ اسٹڈی کر رہا بلقیس پھپو کے جانے کا سن کر وہ بھی پریشان ہوگیا ۔

 جب دروازا نوک ہوا اور نیلم چاۓ لے کر اندر آ ٸ وہ بیڈ پر کتابیں پھیلاۓ بیٹھا تھا ۔نیلم کے ہاتھ میں چاۓ کا مگ دیکھا اسےاس وقت شدید طلب تھی چاۓ کی۔ 

نیلم سے چاۓ لے کر اس نے ساٸیڈ ٹیبل پر رکھی نیلم واپس جانے کے لیۓ مُڑی دو قدم اٹھاۓ تھے کہ جب ولی نے اسے آواز دے کرروکا اور وہ مڑی ولی کی طرف دیکھنے لگی ولی نے کبھی اسے خود سے نہیں بلایا تھا اس لۓ وہ  ولی کو سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی 

روکو 

ادھر آٶ میرے پاسولی نےاسے جاتے دیکھ کچھ سوچ کہ اسے بلایا ۔

وہ چھوٹے قدم اٹھاتی اس تک پہنچی جی نیلم پاس آکر رُک کربولی اس نے بیڈ سے کتابیں ساٸیڈ پر کی اسے بیٹھنے کی جگہ دی ۔ 

بیٹھو ولی نے جیسے اسے حکم دیا ۔

وہ بیٹھ گٸ ولی نے ساٸیڈ ٹیبل سے چاۓ کا کپ اٹھایا اور پوچھا تمہارا کوٸ پڑھنے کا ارادہ ہے یا نہیں ۔۔

جی جی ہے نیلم نے رک رک کر الفاظ ادا کیے ۔۔

تو پھر اسکول کیوں نہیں جانا اسٹارٹ کیا ابھی تک اور کتنے دن تک سوگ منانا ہے وہ چاۓ کے سیپ لیتا اس چھوٹی سی گڑیا کو ہی دیکھ رہا تھا وہ پنک فروک پہنے چھوٹا سا ڈوپٹہ سر پر سکارف کے سٹاٸل سے باندھا ہوا تھا سرجھکاۓ بیٹھی تھی ۔۔

وہ نہ بولی تو ولی پھر بولا میں کچھ پوچھ رہا ہوں لہجہ تھوڑا سخت ہوا ۔۔

وہ۔۔ میرا۔۔ دل نہیں ۔۔کرر ہا ۔۔ اسکول جانے کو  رک رک کر الفاظ ادا کیے پھر چپ ہوگٸ۔ 

اور دل کب کرے گا آپ کا  وہ چاۓ کا گھونٹ بھر کر پھر بولا ۔ 

جب دل کرے گا تب نیلم نے فٹ سے اسکی طرف دیکھتے ہوۓ کہا اور کھڑی ہوگٸ۔۔

 وہ تو اسے دیکھتے ہی رہ گیا اور پھر بولا کل اسکول جانا اسٹارٹ کرو انڈرسٹینڈ کوٸ بے تکا بہانا نہیں چلے گا ۔

 میں کل نہیں جاٶں گی اسکول منڈے سے جاٶں گی اب ۔

کہتے ہی تیزی سے روم سے نکل کر اپنے روم آٸ جہاں بیڈ پر بلقیس بیگم لیٹی ھوٸ تھیں  ۔

ولی اسے دیکھتا ہی رہ گیا یہ ہے  کیا چھوٹی بلا ہہم پھر سے اپنی پڑھاٸ میں بزی ہوگیا۔۔۔

(ماضی) 

ولی ٩ سال کا تھا وحید اور نگہت دونوں اسکا بہت خیال رکھتے اسے کسی چیز کی کمی نہ ہونے دیتے تاکہ اسے ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہو۔ مگر ماں باپ کمی شاید کوٸ پوری نہیں کر سکتا ولی مزاج کوٸ بدلاٶ نہیں آیا 

پھر نگہت کو اسکی بہن کا فون آیا وہ بہت پریشان ہوگٸ ایک ہی تو بہن تھی اسکی۔

نگہت اور نزہت دو بہنیں تھی نگہت چھہ سال کی اور نزہت ایک سال کی تب اسکے ماں باپ علیحدگی ہوگیٸ تھی دونوں کی کبھی بنی ہی نہیں تھی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ الگ ہوگۓ۔ ان دونوں کو اسکی نانی نے پالا تھا نگہت کی شادی اسکی نانی نے اپنی مرضی سے کی تھی جبکہ نزہت نے اپنی پسند سے شادی کی تھی مگر اسکا انتخاب غلط نکلا اسکا شوہر اکرم ایک آوارہ قسم کا بندہ تھا جو نشہ کرتا تھا نشہ میں وہ نزہت کو کافی مار پیٹ کرتا تھا نزہت کے پاس کوٸ دوسراراستہ نہیں تھا نانی بھی انکی شادی کے بعد اس دنیا سے چلی گٸ تھی اس کے ماں باپ ان دونوں کو دوبارا پلٹ کر نہیں دیکھا ان وہ دونوں دوسری شادی کے بعد اپنی زندگی میں مصروف ہوگۓ تھے ۔

 ماں کبھی کبھی آجاتی تھی ان سے ملنے مگر ان دونوں کے دل میں اپنی ماں کے لۓ محبت ہی نہیں رہی تھی اس لیۓ انکا ملنا نا ملنا ایک برابر تھا ۔ 

نزہت کا دو بار مس کیرج ہوا تھا پھر کافی عرصے بعد دعاٶں اور منتوں سے پھر اسکی جھولی بھری وہ اب بہت احتیاط سے اسنے یہ دن گزارے اکرم کو بیٹا چاہیے تھا اسلیۓ اسنے نزہت کو کچھ نہیں کہا کہ وہ آرام سے اپنے دن پورے کیے  نزہت کو ڈر تھا کہیں بیٹی نہ ہوجاۓ جب اسکے آخری دن چل رہے تھے تب اسنے نگہت کو برسوں بعد فون کیا ورنہ اکرم سے شادی کے بعد نزہت نے اسے کبھی رابطہ ہی نہ کیا تھا۔

آج جب نگہت کے پاس نزہت کی کال آٸ اسنے فون اٹھایا آگے سے نزہت کی رونے کی آوازاسے پہنچاننے میں ایک منٹ ہی لگا

 نزہت یہ تم ہو۔ 

جی آپا۔۔میں ۔۔میں نزہت آپا۔۔ میرے پاس آجاے نہ۔۔۔ مجھ مجھے آپ ۔۔کی شد شدید ضرورت ہے آپا  بڑی مشکل سے روتے ہوۓ اسنے ساری بات اسے سمجھاٸ اوراپنا پتہ بتایا ۔

نزہت بھی پریشان ہوٸ بہت بہن کاسن کر وحید جب گھر آیا تو نگہت کوروتا دیکھ وہ بے چین ہوا نگہت نے اسے نزہت کے بارے میں بتایا وحید نے فورن اسے جانےکاکہا وحید اسے بس میں بٹھا آیا  تھا ولی کی وجہ سے وہ رک گیا ورنہ وہ بھی ساتھ چلتا۔

برسوں بعد نگہت نے اپنے شہر میں قدم رکھا تھا

آج اتوار تھا بلقیس کی اپنے گھر واپسی تھی دو دن بلقیس نے دونوں کو بہت سمجھایا نیلم کو انہوں نے بہت ہدایات کی تھیں انکا بھی دل نہیں چاھ رھا تھا کہ وہ نیلم کو چھوڑ کر جاۓ مگر مجبوری تھی گھر والوں نے گھروں کو بھی لوٹنا تھا۔ 

ناشتہ کے بعد وہ نیلم سے مل کر ولی کے ساتھ چلی گٸ ولی نے انکا سامان اٹھایا اور ٹیکسی میں رکھا ان کو بس اڈے پر چھوڑنے ساتھ جانا تھا۔

انکے جانے کے بعد بلقیس  کے سامنے وہ نہیں روٸی مگر ان کے جاتے ہی پھر سے رودی اسے خالی خالی گھر سے وحشت ہونے لگی۔

سارا دن گزر گیا ولی گھر نہ آیا پھپو کو بس میں بٹھا کرادھر ادھر پھرتا رہا گھرجانے کواس کا دل نہیں تھا ۔

نیلم رو کر تھک گٸ پھر اٹھی کچن کی طرف بڑھی اسے اب بھوک لگی تھی کھانے کو کچھ نہیں تھا ولی ابھی تک نہیں آیا دوپہر کے تین بج گئے تھے اس نے چاۓ بناٸی فریج سے بریڈ نکالے چا ۓ کے ساتھ کھاۓ پھر حال میں آگٸی ہر طرف خاموشی کا راج تھا وہ پہلے بھی گھر میں اکیلی رہی ہے جب نگہت کسی کام سے باہر جاتی تھی سارا دن وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی پر آج اسے اکیلا پن اچھا نہیں لگ رہا تھا ڈر لگ رہا تھا اسے اس گھر سے گھر نہ چھوٹا اور نہ زیادہ بڑا چار کمروں کا گھر تھا دو کمرے ایک ساتھ تھے پھر درمیان میں ٹی وی لاٶنچ نما سا حال  جہاں دو بڑے صوفے رکھے ہوے تھے سامنےدو کمرے اسکے ساتھ کچن اوراسکے  ساتھ کے صحن کی طرف کھلتا جالی دار دروازہ.. کھلا صحن تھا اس میں اوپر جاتی سیڑیاں اور پھر کھلی چھت نگہت نے گھر بہت دل سے سجایا ہوا تھا گھر چھوٹا مگر خوبصورتی سے بنایا گیا تھا۔ نیلم گھر کی ہر چیز کو بغور دیکھ رہی تھی نگہت نے گھر بہت اچھا سجایا تھا ۔

نیلم اورنگہت کا کمرا کچن کے ساتھ والا کمرا تھا مگر اب اسے اس کمرے میں نیند نہیں آتی تھی اسلیے اب سامنے والے دو کمرے جن میں پہلا کمرا ولی کا تھا اور دوسرے کمرے میں بلقیس کے کہنے پہ  وہ شفٹ ہو گٸ اتنے دنوں سے وہ بلقیس کے ساتھ  اسی کمرے میں سورہی تھی آج اکیلی ہے یہی سوچتے اسے نیند آگٸ 

 (ماضی) 

برسوں بعد نگہت نے اپنے شہر میں قدم رکھا تھا بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوٸی اسکی ساتھ ہی آنکھیں نم ہوگٸ شادی کے بعد وہ نانی سے کبھی کبھی ملنے آجاتی تھی مگر وہ جب نہیں رہی پھر وہ کبھی پلٹ کربھی نہیں دیکھا نزہت پسند کی شادی کے بعد وہ تو غاٸب ہی ہوگٸ اسنے کبھی کسی سے رابطہ ہی نہیں رکھا تھا ۔پھر وہ بتاۓ ہوۓ پتہ کے مطابق وہ اسکے گھر پہنچی گھر بہت  چھوٹا اور خستہ حال تھا محلہ بھی چھوٹا سا تنگ بارک گلیاں اسے افسوس ہوا یہ سوچ کر کہ نزہت ایسے گھر میں کیسے رہ رہی تھی اکرم نے تو اسےبڑے سبز باغ دکھاۓ تھےاور اسے کیا ملا خیر گھر پر تالہ لگا تھا محلے والوں سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ نزہت کی حالت بہت خراب ہے وہ ہسپتال میں ہے وہ فورن ہسپتال میں پہنچی اندر داخل ہوی تو اسے سامنے ہی اکرم نظر وہ ایک نظر میں اس آدمی کو پہنچان گٸ تھی اسے اکرم بلکل بھی نہی پسند تھا اسنے بہن کو بھی بہت سمجھایا وہ سہی انسان نہیں ہے سواۓ اچھی شکل کے اسکے پاس کچھ نہیں مگر نزہت تو اسکے پیار میں پاگل ہوٸ  تھی اسے لگتا تھا نگہت اس سے جلتی ہے ۔

کہاں ہے میری بہن کیا ہوا اسے وہ اکرم کے پاس آکر روتے ہے چیخ کر بولی اسپتال چھوٹا تھا نگہت کی آواز پورے اسپتال میں گونجی سب نے رک کر اسے دیکھا جو بہتے آنسٶوں کے ساتھ اکرم کے سامنے بڑے روب سے کھڑی تھی ۔

اس سے پہلے اکرم کچھ بولتا آپریشن تھیٹر سے ایک ڈاکٹر باہر آٸی اور بولی مبارک ہو بیٹی ہوٸی ہے ۔

بیٹی نگہت نے ہولے سے کہا اب اسے نزہت کا کال پہ رونا اور اسے اپنے پاس بلانا سب سمجھ میں آیا ۔

ہہمم بیٹی اکرم نے غصے سے کہا اور باہر کیجانب نکل گیا۔

 ڈاکٹر میری بہن کیسی ہے مجھے ملنا ہے اس سے نگہت نے بہتے آنسو ں اپنی چادر سے صاف کرتے ہوۓ ڈاکٹر سے پوچھا۔

 پیشنٹ کو کچھ دیر میں ہوش آجاۓ گا انھوں نے بہت اسٹریس لیا ہوا تھا بہت مشکل سے انکا بی پی کنٹرول ہواہے ڈاکٹر بات مکمل کرتے ہی آگے بڑھ گٸی پھر ایک نرس پنک کپڑے میں لپٹی چھوٹی سی گڑیا اسکے ہاتھ ہیں تھما کہ نکل گٸی وہ اس چھوٹی سی لال گلابی گڑیا کو ہی دیکھتی رہ گٸ ماشاءاللہ انکے منہ سے نکلا اوراسے چومنے لگی وہ اس گڑیا کو لیے ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی اسکی ماں کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی تھی نہ اسکے باپ کا کچھ پتا تھا کہ کہاں چلا گیا یہ بات تو وہ جانگٸ تھی کہ اسے بیٹی ہونے کی خوشی نہی ہوٸ اسلیے وہ واپس نہی آیا۔

ایک نرس دوڑتی ہوٸی اسکے پاس اور کہنے لگی آپ کی پیشنٹ کوہوش آگیا ہے وہ کسی نگہت کانام لے رہی پہں 

۔جی میں ہوں نگہت پھر وہ نرس کے پیچھے بچی کو اٹھاۓ چلدی۔

" آپا۔۔ نزہت روتے ہوۓ نگہت کو آواز دی نگہت ایک پل کے لٸے دروازے پر رکی وہ نزہت کودیکھتی ہی رہ گٸی یہ وہ نزہت نہیں لگی جو اسے چھوڑ کر گٸی تھی اجڑی سی حالت گوری رنگت اب سانولے پن میں ڈھل چکی تھی بھری بھری جسامت اب کمزور ہڈیاں بن گٸ تھی اسے سوچ میں پڑا دیکھ نزہت نے اسے آواز دی تووہ ہوش کی دنیا آٸی جلدی سے اسکے پاس  آٸی اور جھک اسکی پیشانی پر بوسا دیا اور جو چھوٹی سی گڑیا اپنی سینے سے لگاٸی تھی اسے خود سے الگ کر کے ہاتھوں میں تھامے اسکے سامنے کی " یہ دیکھو تمھاری گڑیا ماشااللہ بہت پیاری ہے ۔

آپا میری بچی ۔۔۔ میری بچی کا خیال رکھنا آپا ۔۔ وہ ہچکیوں سے روتے ہوۓ کہنے لگی پھر لمبی سانسیں لینے لگی 

نزہت نزہت کیا ہوا ہے تمہیں ڈاکٹر ڈاکٹر نگہت کی آواز پر نرس اندر آئی 

جی کیا ہوا نزہت کی بگڑتی حالت دیکھ فورن  نرس ڈاکٹر کی جانب بھاگی۔ 

نزہت نزہت میری جان کچھ نہی ھوگا تمہیں میں ہوں" وہ پیار سے اس کا سر سہلا رہی تھی اور دل اندر سے ڈر بھی رہا تھا ۔ 

آپا ۔۔ می میری بچی ۔۔کک کا ۔۔ خیال رک رکھنا آپا یہ بھی ۔۔ بیچاری ہم جیسی۔۔ زندگی گزارے گی آپا نہ باپ نہ ماں نہ بھاٸی آپا اسکو۔۔ محفوظ ہاتهوں میں دینا می۔۔۔۔۔ 

ڈاکٹر جلدی سے  آٸی  پیچھے ہٹیں پلز نزہت کو چیک لگی نگہت بچی کو سینے سے لگائے نزہت کو پکارتے ہوے رونے لگی

نزہت تمہیں کچھ نہیں ھوگا کچھ نہیں ہوگا تمہاری بچی کو سب خوشیاں ملیں گی بس تم ٹھیک ہو جاؤ۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور  تھا۔ 

سوری ہم آپ کے پیشنٹ کونہیں بچاسکے اور نزہت کے منہ پر سفید چادر ڈال دی ۔ تبھی اکرم بھی آیا تب تک دیر ہو چکی تھی نگہت بچی کو سینے سے لگاۓ روتی رہی۔ 

نگہت دو دن رہی نزہت کی تدفین کی گٸی اسے محلہ کی عورتوں سے پتہ چلا کہ کہ نزہت کے حالات کیسے تھے اسنے اپنے شوہر کے ہر ظلم سہے  دو بار اسکی کوکھ اجڑی ۔نگہت کو دکھ ہوا نزہت نے اس سے ایک بار بی رابطہ نہ کیا کاش کہ وہ ایک بار بتادیتی وہ اسے اس دوزخ سے نکال لیتی پر اب کیا فاٸدہ اب اسے اس گڑیا کی فکر تھی جس کے دنیا میں آتے ہی اس کی ماں اس دنيا  سےچلی گٸ آخری وقت میں کیۓ گۓ نزہت کے وعدوں کی فکر تھی ۔

نگہت نے وحید کو کال کر کہ اسے اپنے  آنے  کی خبر دی وہ اسے لینے بس اڈے پہنچ گیا۔

بس آٸ اور نگہت ایک چھوٹی بچی لۓ نیچے اتری وحید نے اس کے ہاتوں سے اس گڑیا کو تھاما اور اسے پیار کیا۔

نیلی آنکھیں لال گلابی چھوٹی سی گڑیا اسے بہت پسند آٸی

ماشااللہ نگہت یہ بہت پیاری ہے۔ اب یہ ہماری بیٹی ہے نگہت وحید کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھی جہاں اسکے سگھے باپ نے اسے ٹھکرایا وہاں وحید نے اسے اپنایا۔

وہ اندونوں کو لیۓ گھر پہچا بلقیس بھی آٸی ہوٸ تھی گھر۔ بگہت بلقیس کو دیکھ کر خوش ہوٸی آپا کب آٸی ۔ 

"بس کل ہی آٸی تھی تو تمہاری بہن کا وحید سے سنا مجھے بہت دکھ ہوا" بچی کو اسکے ہا تھوں سے لیتے ہوۓ بلقیس نے جواب دیا۔

"بسس آپا جو اللہ کو منظور نگہت آبدیدہ ہو گہٸ اوراس گڑیا کو دیکھنے لگی ۔ 

وہ سب لاٶنج میں صوفوں پربیٹھے تھے جب ولی دوڑا آیا پکارا بڑی ماما نگہت نے ولی کو گلے سے لگا لیا اسکے لگے لگتے ہی نگہت کو جیسے اپنے سکون سا اترتا ہوا محسوس ہوا پھر خود سے الگ کر کے اسکے ماتھے پر بوسا دیا۔

ماما یہ کون ہے ولی نے اس بچی کی طرف انگلی کر کے کہا۔

بیٹا یہ میری بہن کی بیٹی ہے مگر اب یہ ہماری بیٹی ہے اور اب یہ ہمارے ساتھ رہے گی۔

ہہم نیلی آنکھیں کتنی پیاری ہے " اسکا چھوٹا سا ہاتھ اپنی انگلی سے چھوتے ہوے کہا اسکا نام کیا ہے 

نام ۔۔۔

نام پر سب سوچ میں پڑ گۓ پھر وحید بولا "نیلم کیسا رہے " گا ۔ 

سب نے اسکے نام کو پسند کیا۔ نیلم ۔۔۔۔

آٹھ بجے نیلم کی آنکھ کھلی رات ہو رہی تھی اب اسے ڈر لگنے لگا تھا وہ لاٶنج میں آکر صوفے پر بیٹھ گٸی آنسوں سے چہرہ بھیگنے لگا بھوک بھی لگی تھی اور ولی ابی تک نہ آیا اور ایک گھنٹہ اور گزر گیا ۔

دروازا کھلنے کی آواز آٸی نیلم مزید خوفزدہ ہوگٸی ڈر کے مارے اسکی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی ایک سایہ اسکی طرف بڑھ رہا تھا مگر جب وہ روشنی میں اسکے قریب آیا تو حواس بہال ہوے اسنے اپنی نیلی آنکھیں بند کر کہ ایک گہری سانس لی ۔

تم اس وقت یہاں کیاکر رہی ہو سوٸی نہیں ابی تک" ولی نے اسکے پاس آکر اسکی نیلی آنکھوں میں جھنانکہ رونےٕ کی وجہ سے سرخ ہوٸی تھی اور چہرہ آنسوٶوں سے تر تھا ۔

تم کیا سارا دن روتی رہی ہو آج اب پھپو کو اپنے گھر بی جانا تھا تماہارا ماتم ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہاکہتے ہی وہ آگے بڑھ گیا اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھاۓ ہی تھے کے اسکی آواز پر رک گۓ۔

مجھے ۔۔بھوک لگ لگی ہےاسکی رندھی سی آواز پہ رکا اور مڑ کر اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔۔ اور مجھ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا اسلیے روٸی ماتم نہیں کر رہی تھی ۔۔۔آخری لفظ غصے سے کہے

اسے شدید افسوس ہوا اپنی لاپرواہی پے وہ صبح سے بھوکی تھی اچھا میں کھانا لاتا ہوں۔

وہ باہر سے کھانا لے آیا شاپر نیلم کو پکڑاۓ تم کھانا لگاٶ میں آتا ہوں چینج کر کے نیلم نے کھانا ٹیبل پہ لگا دیا کچھ ہی دیر میں ولی بھی فریش فریش سا باہر ٹیبل پہ آیا اسکے سامنے چیٸر پہ بیٹھ گیا ۔

نیلم بھوکی تھی صبح سے وہ کھانے سے خوب انصاف کر رہی تھی ولی کو افسوس ہو رہا تھا وہ صبح سے اسکی وجہ سے بھوکی تھی۔

سنو میں روم  میں جا رہا ہوں اچھی سی چاۓ بنا کر میرے روم میں آٶ ۔

اسنے سر ہاں میں ہلایا اور اٹھ کر کھانا سمیٹنے لگی چاۓ چولہے پہ چڑہاٸ ۔

 چاۓ لیکر وہ  روم میں داخل ہوٸ وہ بیڈ کے کراٶن کے ساتھ سر  ٹکاۓ لیٹا ہوا تھا ایک بازو آنکھوں پر رکھا ہوا ۔

آپکی چاۓ اسکی آواز پر ھاتھ ہٹا کر اسے دیکھا 

ہاتھ بڑھا کر اسے  چاۓ لی نظریں ہنوز اسکے چہرے پر ٹکی ہوٸی تھی ۔

جیسے ہی ولی نے چاۓ پکڑی وہ فورن مڑی رکو 

وہ آواز سن کر رکی پر مڑی نہیں 

میں نے تمہیں جانے کا کہا وہ مڑی اور نہ میں سر ہلایا 

تم گونگی ہو ۔۔۔

نہیں جھٹ سے بولی۔

 ادھر آٶ

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس تک آٸی 

ایم سوری مجھے تمھارا خیال کرنا چاہٸیے تھا آٸندا کوشش کرونگا گا کہ ایسا نہ ہو۔

جی اسنے جی میں جواب دیا اور کھڑی رہی 

اب کھڑی کیوں ہو جاٶ 

روکو۔ وہ مڑی پھر ولی نے آواز دی 

جی 

کل منڈے ہے یاد ہے نہ

جی یاد ہے اسکول جانا ہے میں نے تیاری کرلی ھے وہ جلدی سے بولی

گڈ جاٶ" اور اب تیزی سے کمرے سے نکلی کہیں پھر ہی نہ روک لے 

اسکے اس انداز پہ ولی مسکراتا ہوا سر ہلا گیا۔

وہ تیزی سے اسکے روم سے نکلتے ہی اپنے روم میں آٸی جو ولی کے کمرے کے برابر ہی تھا۔

دھڑام سے بیڈ پر گری اور ولی کے بارے میں سوچنے لگی جو پہلے کتنا کٹھور تھا بات بات پہ ڈانٹتا اور اب اتنی نرمی سے بات کرتا ہے سوچتے سوچتے اسکی آنکھ لگ گٸ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولی جب بھی اس چھوٹی سی نیلی آنکھوں والی گڑیا کو اٹھاتا تو وہ گلہ پھاڑ کر رونے لگ جاتی ۔

نیلی بہت روتی تھی اور اسکے رونے سے اسے شدید کوفت ہوتی تھی کٸی کٸی گھنٹے وہ روتی رہتی ۔

اسکا دل چاہتا اسکا  گلہ دبا دے

وہ دو سال کی تھی پورا گھر سر پر اٹھا لیتی تھی رو رو کر۔

وحید اور نگہت اسکے خوب نخرے اٹھاتے یہ بات ولی کواچھی نہیں لگی تھی انکے پیار میں وہ حصے دار بن گٸی تھی

اسکا دل چاہتا کہ وہ اسے اٹھا کر کہیں دورپھینک آۓ وقت گزرتا رہا نیلی چار سال کی ہوٸی

ولی اب ٩ کلاس میں تھا اب بھی ویسا ہی سنجیدہ سا خود سر نیلی کو تو کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا نگہت بہت سمجھاتی اسے کہ تمہاری بہنوں جیسی  مگر وہ نہ مانتا اسے بہن۔

نیلی کی بس ایک ہی دوست بنی تھی وہ تھی کرن اسکے پاس برابر والے گھر میں رہتی تھی اسکی ماں ہاجرہ بیگم اور نگہت کی بھی خوب بنتی تھی آپس میں ۔

کرن دو سال بڑی تھی نیلی سے اور شرارتوں میں بھی دو ہاتھ نہیں چار ہاتھ آگے تھی ۔

وہ اسے لیکر ولی کے روم میں آجاتی اور اسکی ساری چیزیں الٹ پلٹ کر رکھ دیتی۔

جیسے ولی کمرے آتا تو وہ نو دو گیارہ ہو جاتی اور پیچھے نیلم اپنے قدم ہی نہ بڑہا پاتی اور وہی سن ہو جاتی ۔

ولی اسے ڈانٹ کر باھر بھگا دیتا اور روتی ہوٸی نکلتی اسکے روم سے ۔

ایک دن کرن نیلی کے ساتھ لکا چھپی کھیل رہی  تھی پہلے کرن چھپی تو نیلی نے اسے ڈھونڈ لیا پھر نیلی چھپی کرن نے ڈھونڈ لیا ایسے باری باری ایک چھپتی ایک ڈھونڈتی اب باری نیلی کے چھپنے کی تھی۔

وہ ولی کے روم میں آگٸی چھپنے یہی اسنے غلطی کی ولی اپنے نوٹس بنا رہا تھا بیڈ پہ بیٹھے دو گھنٹے کی محنت سے اسنے اپنے نوٹس تیار کیۓ اور نوٹس بیڈ کی ساٸیڈ ٹیبل پر رکھ کر واش روم چلا گیا نوٹس کے ساتھ ہی پانی کا گلاس بھرا پڑا تھا۔

نیلی بیڈ کے نیچے گسنے لگی تو اسکا ہاتھ گلاس کے ساتھ ٹکرایا وہ فورن سے بیڈ کے نیچے گھس گٸی عین اسی وقت ولی واشروم سے باہر نکلا جیسے ہی وہ بیڈ کے پاس گیا اسے اپنے بھیگے ہوۓ نوٹس نظر آٸے یہ دیکھ کر اسکا دماغ گھوم گیا اس کی ساری محنت پر پانی پھر گیا ۔

اسنے اپنا ہاتھ سر پہ مارا ایک دم اسکی نگاہ بیڈ کے نیچے چھوٹے چھوٹے پیروں پر گٸی غصے سے اسنے ایک ہاتھ سے دونوں پیر پکڑے اور باہر کی طرف کھینچا۔

اور نیلی بیڈ سے باہر گسیٹتی چلی آٸی نیلی آنکھیں خوف سے پھیل گٸی ۔

ولی نے جھک کر اسے کاندھوں سے دبوچا ہوا تھا 

"یہ کیاکیا تم نے میرے سارے نوٹس خراب کردیۓ ساری محنت برباد کردی تمہیں تو میں چھوڑوںگا نہیں" اور کہتے ساتھ ہی اسکا ہاتھ اٹھا تھا کہ گہت کی آواز آٸی اور ہاتھ وہی رک گیا۔

ولی کے چلانے کی آواز سے وہ ولی کے کمرے کی طرف بھاگی جبکہ کرن تو وہاں سے غاٸب ہی ہوگٸی۔

یہ کیا کر رہے تھے ولی تم ہوش میں تو ہو کیوں اس بیچاری بچی کے پیچھے ہی پڑ گٸے ہو" پاس آکر نیلم کوجھٹ سے اٹھا کر اپنے ساتھ لگایا جو رو رہی تھی ۔

اور ولی کے سامنے آ کھڑی ہوٸ اور سر اٹھا کے ولی کودیکھتے ہوٸے بولی ولی کا قد نگہت سے اونچا تھا  اب

تو اس بیچاری نے بھی تودیکھے کیا کیا ہے میرے نوٹس کے ساتھ "۔ اپنی بھاری اور مردانہ آواز میں ولی نے نوٹس سامنے کرتے جواب دیا۔

وہ بچی ہے اسے نہیں پتاچلا ہوگا اور تم اس پر ہاتھ اٹھا رہے تھے ولی

اور آپ لوگ کیا کر رہے ہیں اسکی وجہ سے مجھ سے دور ہورہے ہیں نیلی کی طرف انگلی اٹھا کے کہا۔

نگہت بول ہی نہیں پاٸی نہ میں سر ہلا یا۔

آپ اسکی وجہ سے مجھے اگنور کرتے ہیں مجھے ڈانٹتے ہیں میں ہی غلط ہوں ہر وقت 

نہیں نہیں ولی بٹا ایسا نہیں ہے تم ہمیں زیادہ عزیز ہو ہاتھ بڑھا کر ولی کے چہرے کو چھونا چاہا مگر ولی عین اسی وقت پیچھے  ہٹا اور گردن نفی میں ہلاتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا ۔

نگہت کا ہاتھ ابھی بھی ویسے ہی ہوا میں تھا اور سکتے کھڑی تھی دوسری طرف کاندھے کے ساتھ لگی نیلی رو رہی تھی ۔ انھیں تو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ہوا کیا ہے ولی نٕے کتنا کچھ بول دیا بغیر سوچے۔

دوپہر سے ولی گھر سے باہر نکلا تھا شام سے رات ہو گٸ  اب تک گھر نہ لوٹا نگہت کو فکر ہونے لگی ناجانے کہاں چلاگیا ولی۔

دروازہ کھلنے کی آواز آٸی وہ بھاگ کر دروازے کی طرف لپکی مگر دروازے پر ولی کے بجاۓ وحید صاحب داخل ہوۓ

آپ ہیں وہ مایوسی اندر کی جانب مڑی۔

کیوں کسی اور کو ہونا چاہاسکے پیچھے اندر کی طرف بڑھتے وحید نے پوچھا۔

ہاں ولی کو۔

 دوپہر سے لڑ کر نکلا ہے اب تک نہیں آیا مجھے فکر ہو رہی ہے اسکی " وحید پلیز اسے ڈھونڈے مجھے میرا ولی چاہیۓ نگہت نے روتے ہوۓ ولی سے کہا۔

وحید نے نگہت کو دونوں بازوٶں سے سہارا دے کر نگہت کو صوفے پر بٹھایا اور اس سے وجہ پوچھی ولی کے لڑنے کی۔

نگہت نے دوپہر میں ہوٸی ساری بات وحید کو بتاٸی ۔

وحید کو تو غصہ ہی آگیا ولی کی اس حرکت پر۔

کیا چاہتا ہے آخر یہ لڑکا کیا کچھ نہں کیا ہم نے اسکے لٸے

وحید میرے بچے کو دیکھیں کہاں گیا ہے اسے ڈھونڈ کر لاٸیں پلیز" نگہت نے رندھی ہوٸی آوازمیں وحید کی منتیں کی۔

بس رہنے دو کہیں نہیں جانا اسے ڈھونڈنے خود ہی آجاۓ گا واپس دو ٹوک انداز میں بات کرتے کمرے میں چلے گۓ ۔

نگہت کو تو سکون ہی نہیں آرہا تھا ولی تو اسے اپنی جان سے بھی عزیز تھا 

نیلی سو رہی تھی اور وہ خود باہر صحن میں ٹہل رہی تھی اداس سی آنسوں خشک ہو چکے تھے وحید بھی غصہ ہورہے تھے ولی پہ۔

10 بج رہے تھے جب ولی گھر آیا نگہت تو ولی کی ہی راہ تک رہی تھی جیسے ہی ولی اسے دروازے سے اندر آتا نظر آیا نگہت آنکھوں میں آنسوں لیۓ پر شکوہ نگاہوں سے اسے تک رہی تھی 

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس تک آیا اپنی ماں جیسی ہستی کی آنکھوں میں اپنی وجہ سے آنسوں دیکھ کر مزید شرمندا سا ہو گیا

سوری ماما مجھے آپ سےایسے بات نہیں کرنی چاہیۓ تھی " نگہت اسکے سینے سے لگی آنسوں بہانے لگی اسنے بھی ماں کے گرد بازو حاٸل کۓ  چند آنسوں آنکھ سے بھی بہہ نکلے بہت مضبوط بن رہا تھا وہ مگر آج ماں کے آگے کمزور پڑ گیا اس سب کی زمہ دار اسے نیلی ہی لگی

پیچھے کھڑے وحید صاحب ان دونوں ماں بیٹے ایموشنل سین دیکھ رہے تھے 

اگر تم لوگوں کا ڈرامہ ختم ہوگیا ہو تو آج کھانا مل جاۓ گا یا بھوکے سونا پڑیگا 

نگہت فورن انسوں صاف کرتی ولی کو فریش ہو کر کھانے کے لیۓ آتے کا کہہ کر کہتی کچن کی جانب چلی گٸ 

اور ولی اور وحید ابھی بھی اسی پوزیشن میں کھڑے ہوۓ تھے ولی نے نظریں جھکارکھی تھی جبکہ وحید اسے غصے سے گھور رہے 

اب کھڑے کیوں ہو کیا کہہ کر گٸی ہے تمہاری ماں جاٶ او جلدی سے کھانے کی ٹیبل پر ملو وحید سخت لہجے میں بولتے اندر چلے گۓ 

اسے سخت شرمندگی ہورہی تھی آج اپنے رویۓ پہ یہ سب اس نیلی کی وجہ سے ہوا ہے نہ وہ میرے نوٹس خراب کرتی نہ مجھے غصہ آتا

کچھ دیر بعد وہ تینوں کھانے کی میز پر بیٹھے ہوۓ تھے مگر خاموشی برکرار تھی وحید نے کھانا ختم کیا اور ولی کی طرف مخاطب ہوا

دیکھو ولی تم اب بڑے ہو گۓ ہو سمجھدار بھی ہواگر تم میرے بھاٸ کے بیٹے ہو تو نیلی بھی نگہت کی بہن کی بیٹی ہے جو باپ کے ہوتے ہوٸے بھی لاوارث ہے تم دونوں ہماری زمہ داری ہو ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے صرف تمہارا ہے نیلی کل کو بڑی ہو گی اسکی شادی ہو جاۓ گی اگلے گھر چلی جاۓ گی مگر ہمارے پاس صرف تم ہو اور تم ہی رہو گے ۔

ابا اپنی زندگی میں ہی یہ گھر تمہارے نام کر گۓ تھے اور جو  دو دکانیں ہیں وہ بھی تمارے نام ہے جاٶ نگہت ولی کو پرپرٹی کاغذات لادو اسکے حوالے کردو سب ہم اسے کچھ نہیں چھین رہے جسکا اسے ڈر ہے سخت رویہ رکھتے وہ چپ ہوۓ 

نہی ماما  مجھے کچھ نہیں چاہیۓ پلز مجھے بس آپ دونوں چاہیۓ بس نیلی سے مجھے کوٸی پروبلم نہیں بس اب میں اسے کچھ نہیں کہوں گا بس غصہ آجاتا ہے اب آپ دونوں کو مجھ سے کوٸ شکایت نہیں ہوگی پلیز مجھے معاف کردیں وہ شرمندہ سا ہوا تھا دونوں کے سامنے 

نگہت نے اٹھ کے اسے گلے سے لگا لیا کوٸ بات نہیں تمہیں احساس  ہوا یہی کافی اور اسکا ماتھا چوما

نیلی کوتو وہ ہرگز نہیں معاف کرنے والا یہی سوچ اسکی آج کا سارا ملبہ وہ نیلی کے سر ڈال چکا تھا

نیلم اسکول ینیفارم میں مکمل تیار اسکے سرہانے کھڑی تھی اور وہ دنیا جہاں سے بیگانہ اندھے منہ بیڈ پر آڑا ترچھا پڑا ہوا تھا بلیک بنیان کے ساتھ بلیک ٹراٶزر پہنے ہوۓ تھا 

نیلی کب سے کھڑی سوچ رہی تھی کیسے اٹھاۓ اسے ایک ہلکی سی آواٗ دی ولی بھا۔۔۔( اب ولی بھاٸ مت کہنا شوہر ہے وہ اب تمہارا گناہ ہوتا ہے نکاح ہوگیا ہے تم دونوں کا بلقیس نے اسے نکاح کے بعد اسے سمجھایا تھا جب اسنے ولی کو دو تین بار ولی بھاٸ کہا تھا) یہ سوچ آتے ہی اسکی زبان بھا پہ رک گٸی تھی 

ولی اٹھ نہیں رہا تھا اور وہ اٹھا تے ہلکان ہو رہی تھی ہلکی دو تین آوازیں دی ولی کو لیکن بے سود بھر تھوڑی تیز آوازیں لیکن کوٸ فاٸدہ نہی

پھر تھوڑی ہمت کرکے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا ہلایا ولی ۔۔۔۔۔ مگر کوٸی فرق نہیں

اف۔۔۔ پھر انے اسکا کندھا ہی پکڑ جھنجھوڑ دیا اور تیز آواز میں پٕکارا ولیییی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بڑبڑا تا بیڈ سے اترا کیا ہوا کیا ہوگیا ہے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا وہ اسکول ینیفارم میں مکمل تیار کھڑی تھی

10 گھنٹے ہو گۓ اٹھا تے ہوۓ مجھے اسکول سے دیر ہورہی ہے اٹھ ہی نہیں رہےرات کوہل چلاتے رہے تھے کیا۔

اسکی گھورتی نظروں سے خاٸف ہونے کے بجاۓ اسنے نڈر ہو کر اسے جواب دیا ناک غصے سے لال ہو رہی تھی 

اس پر سے نظریں ہٹا کر گھڑی کو دیکھا جہاں پونے آٹھ ہو رہے تھے 

او شٹ تم مجھے جلدی نہیں اٹھا سکتی تھی آج تمہاری وجہ سے دیر ہوری ہے " جلدی الماری سے اپنی بلیک شرٹ اسکے منہ پر دے ماری جلدی پریس کرو اسے میں پانچھ منٹ میں آیا ادھم مچاتا وہ واشروم میں گھس گیا 

نیلی غصے سے اسکی شرٹ پکڑ کر استری کرنے چلدی اور جلدی سے اسکی شرٹ پریس کری اور اسکے باہر آنے سے پہلے ہی شرٹ روم میں رکھ کرباہر نکل گٸی 

 وہ شاور لیکر باہر نکلا تو بیڈ پر شرٹ پریس پڑی تھی جلدی سے شرٹ پہن کر تیار ہوتا وہ کمرے سے باہر آیا باہر نیلی اسی کے انتظار میں کھڑی تھی

ناشتہ کرلیں " نیلی نے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جہاں وہ ناشتہ لگا چکی تھی 

دیر ہو رہی تھی اسنے ہاتھ میں بندھی گھڑی میں ٹاٸم دیکھا جہاں سوٸی آٹھ بجانے والی تھی مطلب وہ آفس سے لیٹ ہوجاۓ گا لیٹ تو نیلی بھی ہوگٸی تھی

نہیں دیر ہو رہی ہے چلو" جلدی ایک ہاتھ میں باٸیک کی چابیاں اور دوسرے ہاتھ میں آفس بیگ لیۓ باہر نکل گیا 

پیچھے سے نیلی نے ناشتے کے برتن جلدی سے اٹھاکرسنک میں پھینک کر ان سے آکر نبٹنے کا ارادہ کرتے باہر دوڑی 

نیلی باہر نکلی ولی نے گیٹ اچھے سے لوک کیا اور باٸیک پر بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کی نیلی ابھی گیٹ پر کھڑی تھی اسے باٸیک پر بیٹھنے سےڈر لگ رہا تھا۔

جلدی آٶ یار دیر ہوگٸ ہے پہلے " اسکی نظر سامنے والے گھر پر گٸی جہاں کرن کی ماں ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی کچھ چلتے پھرتے محلےکے بزرگ بھی انہیں ایک ساتھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے ولی کوانکی نظریں عجیب سی لگی

اتنے میں نیلی بھی اسکے پیچھے باٸیک پر آ کربیٹھ گٸی تھی

اب ولی کو انکا انہیں دیکھ کر مسکرانا  سمجھ میں آیا جسے نیلی نے محسوس ہی نہیں کیا

نیلی باٸیک پہ بیٹھی ڈر رہی تھی کہ کہیں گراہی نہ دے اور درود پاک کا ورد بھی کر رہی تھی ولی اسکا

ڈرنا محسوس کرچکا تھا نیلی نے اسے کندھے سے زور سے پکڑا ہوا تھا

اور پانچھ منٹ میں وہ اسکول کے سامنے تھے 

نیلی نے شکر کا سانس لیا وہ سہی سلامت اسکول پہنچ گٸی ہے 

چلو تمہاری پرنسپل سے بھی بات کرلوں پورا مہینہ سوگ منایا ہے اسکے لیۓ

ڈر تو ایسے رہی تھی جیسے میں تمہیں گرا دو گا بی کونفیڈینٹ یار پتا نہی کیسے گزارا کروں گا اس نالاٸیک کے ساتھ.. سن گلاسس اتارتا جیب کے ساتھ لٹکاتا وہ اسکول کےاندر کی جانب بڑھ گیا نیلی بھی اسکے پیچھے کندھے پہ بیگ لٹکاۓ اندر بڑھ گٸی  وہ بسس نالاٸک کہنے پہ کڑھ کہ رہ گٸی پوری بات وہ سمجھ نہ سکی

پرنسپل آفس کی طرف وہ دونوں بڑھ رہے تھے  ایک ٹیچر نے انھیں بتایا کہ آج پرنسپل چھٹی پر ہے وہ اسکی کلاس ٹیچر سے مل لیں ۔

اب وہ دونوں اسٹاف روم میں تھے اسکول لگ گیا تھا کلاس اسٹارٹ ہو گٸ تھی اسلیۓ ٹیچر کچھ دیر بعد آٸی

مس حبہ اسٹاف روم میں انٹر ہوٸیں تو سب سے پہلے سلام کیا

" اسلام علیکم" ۔۔۔ نظریں تو بس مقابل کھڑی شخص پر ہی ٹھر گٸی بلیک شرٹ پہ براٶن ڈریس پینٹ پہنے لمبا قد چوڑی جسامت صاف شفاف رنگت وہ اگلے بندے کو حیرت میں ڈال گیاوہ جواب دینے کے لیۓ کھڑا ہوا مگر دوسرے کوحیرت میں دیکھتا ہوا بولا 

وعلیکم سلام دونوں بیٹھ چکے تھے 

مس حبہ کے منہ سے ولی کا نام نکلا " کیسے ہیں ولی آپخوشی اورحیرت کے ملے جلے  تاثرات میں وہ ولی سے مخاطب ہوٸی

 ہہم فاٸن  اسنے دو لفظی جواب دیا۔ نیلی تو حیران ہوٸی مس حبہ کو دیکھ کر کہ وہ ولی سے ایسے بات کررہی تھی جیسےوہ ولی  کوپہلے سے جانتی ہو مگراسکے مقابلہ میں ولی کے ایکسپریشن نارمل تھے 

مجھے پرنسپل سے کام تھا آٸی تھنک آج ٹاٸم ویسٹ ہوگیا "گھڑی دیکھتا ہوا بولا 

آپ مجھ سے بات کرسکتے ہیںوہ دھیمے لہجے میں ہلکا سا مسکرا کر بولی 

ہہم وہ میں نیلم کی بارے میں بات کرنے آیا تھا ایکچولی ہماری ماما کی دیتھ ہوگٸی تھی اسلیۓ نیلم پچھلے ایک منتھ سے ایبسنٹ تھی

 وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا

جی آٸ نو نیلم کی مدر کا پتہ چلا تھا بہت افسوس ہوا تھا سن کر 

آپ نیلم کے بھاٸی ہیں  وہ دونوں کی طرف خود کا اندازہ لگاتے ہوۓ بولی 

نہیں ۔۔۔ وہ تیوری چڑھا کر بولا ہمارے پیرنٹس نہیں ہے مگر وہ ہماری ماں ہی تھی میری تاٸی اور نیلم کی خالہ میں کل آٶں گا پرنسپل سے ہی بات کروں گا 

سن گلاسس آنکھوں پہ لگاتا کھڑا ہوا 

مارے تجسسس کے مس حبہ نے ایک اور سوال پوچھا کھڑے ہوتے ہوۓ 

تو نیلم کیا آپ کے ساتھ رہتی ہے اسکا کوٸ نہیں ہے اور ریلیٹوز میں 

میں آپ کو نظر نہیں آرہا  دھیما سا مسکراتا طنز کر گیا

نہیں وہ میںمس حبہ ہڑ بڑ ا گٸی اتنا پرسنل سوال کرنے پہ اور نیلم سے بولی

نیلم آپ کلاس میں جاۓ شاباش میں وہیں آکر آپ سے بات کرتی ہوں 

پورا منتھ غیر حاضر رہی ہے نیلم تو پڑھای کا کافی لاس ہوا ہے سلیبس کمپلیٹ ہوچکا ہے نائن کلاس کے ایک ویک کے بعد پیپراسٹارٹ ہیں .. ڈونٹ وری میں ہیلپ کردوں گی اسکی مس حبہ نیلم کے پاس اسکے کاندھے سے کاندھا ملا کرکھڑی ہوٸی ولی کو دیکھتے بولی  

دونوں کی ہاٸیٹ سیم تھی حبہ بال کھلے چھوڑے ایک ساٸیڈ سے آگے کیۓ ٹیچر گاٶن پہنے ڈوپٹہ بس کاندھے پر جھول رہا تھا چھوٹی آنکھیں میکپ کیۓ جبکہ ساتھ کھڑی نیلم سادگی میں پرکششش لگی سفید اسکارف میں لپٹا چہرہ بے حد معصوم لگا

وہ ایک ہی پل میں دونوں کا موازنہ کرگیا دوسرے ہی پل سر جھٹکتا باہر نکل گیا مگر پھر کچھ یاد آنے پر واپس آیا 

نیلم ۔۔ نیلم اور حبہ دونوں نے اسکی طرف دیکھا جو دونوں اب آمنے سامنے کھڑی تھی حبہ نیلم سے کچھ جاننے کا ارادہ رکھتی تھی مگر ولی عین بیچ میں آگیا اور دروازے میں کھڑا نیلم کو پکارا وہ کچھ پوچھ ہی نہ پاٸ تھی ابھی

ادھر آٶ زرا  ہاتھ سے اسےساتھ آنے کا اشارہ کرتا باہر کی جانب بڑھا اور نیلم بھی جی کرتی بیگ وہی چٸیر پہ رکھتی باہر آٸی 

حبہ کو ان دونوں کاایک ساتھ دیکھنا ناگوار گزرا تھا کلاس بھی لینی تھی اس لیۓ اب وہ بھی اپنی کلاس میں جاچکی تھی

اب وہ دونوں اسکول کے گارڈن میں کھڑ ے تھے جہاں کوٸی نہیں تھا 

جی بولیں آپ مجھے اسکول سے باہر کیوں لے آۓ

دیکھو اپنی پڑھاٸی پہ دھیان دینا اور اس حبہ سے دور رہنا ا سکے کسی بھی الٹے سیدھےسوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ایک بات اور ہمارے نکاح والی بات کسی سے مت کرنا ابھی جسٹ اپنی اسٹڈی پر فوکس کرو بسس جاو اب

اوکے  سر ہلاتی نیلی اسکول میں چلی گٸی اور ولی گھڑی میں وقت دیکھتا جنھجلا اٹھا اف ٩ بج گۓ پورا ایک گھنٹا لیٹ ہوگیا ہوں آفس سے اب جانے کا کوٸی فاٸدہ نہیں یونیورسٹی ہی چلا جاتا ہوں اس نیلی کی وجہ سے دیرہوگٸ مصیبت 

(ماضی) 

اس دن کے بعد سے ولی کا نیلی سے کم سامنا ہی ہوتا تھا نگہت اب نیلی کو ولی سے دور ہی رکھتی تھی کرن بھی اب تب ہی آتی نیلی سے کھیلنے جب ولی گھر نہ ہوتا۔

وقت گزرتا رہا نیلی اب ٩ سال کی تھی اسکے مزاج میں بھی سنجیدگی تھی اسے نگہت نے بتایا تھا کہ وہ اسکی سگی اولاد نہیں ہے بلکہ اسکی بہن کی بیٹی ہے اسے یہ بات کسی اور سے پتا چلے اس سے پہلے خو د ہی نگہت نے  یہی سوچ کراسےساری بتا دی تھی 

اور نیلی نے بھی اسے کھلے دل سے ماں قبول کیا انہیں بتایا کہ پالنے والا پیدا کرنے والے سے زیادہ بڑا ہے اسے اپنی ماں کا افسوس ہے مگر نگہت اسے ماں سے بھی زیادہ عزیز ہے اور وحید صاحب باپ سے بڑھ کر جوباپ کے ہوتے ہوۓ بھی لاوارث ہوگٸی تھی

ایک دن وہ صحن میں لگے درخت  کے نیچے شاخ سے باندھے گۓ رسیوں والی پینگ نما جھولے میں بیٹھی کتاب ہاتھ میں لیۓ آہستہ جھولا جھولتی پڑھ رہی تھی 

تب ھی دروازے سے ولی انٹر ہوا اور پھر اسکے ساتھ ہی ہستا ہوا ارمان نے دروازے سے اینٹری دی دونوں بہت اچھے دوست تھے کالج سے انکی دوستی ہوٸی تھی ارمان کی طبیعت ہی ایسی تھی ہرایک سےگھل مل جانے کی وہ ولی کا اچھا دوست بننے میں کامیاب ہوا وہ درمیانا قد گندمی رنگت نیچرل اٹریکشن تھی اس میں  اور اسکا ہنس مکھ مزاج ہر کوٸی اسکا اسیر ہوجاتا 

نگہت کچن میں تھی شام کا کھانا تیار کررہی تھی ان دونوں سے بے خبر نیلی اپنی کتاب میں گم تھی اب وہ دونوں ساتھ چل رہے تھے اسکے پاس سے گزرتے ہوۓ ارمان کی نظر نیلی پہ پڑی اسکے قدم وہی جم گۓ جبکہ وہ پیلے کلر کی پرینٹیڈ چھوٹے پھولوں والی فراق پہنے جو اسکی دودھیا رنگت پہ بہت جچ رہی تھی سنہری لمبے بالوں کی دو چٹیا بناۓ آگے کو کیۓ کتاب پڑھنے میں مصروف تھی

 ارمان کو تو جیسے کسی پری کا گمان ہوا نیلی نے صرف آنکھیں اٹھا کر دیکھا جبکہ سر جھکا ہواہی تھا 

ارمان اسکی اوشین بلو آٸیز دیکھ کر ٹھٹکا واٶ ہاۓ سنو واٸٹ اسے خود کوتکتا پا کر ارمان نے ہاتھ لہرا کر اسے ہاۓ کہا 

وہ کنفیوزڈ ہوگٸ ا رمان کودیکھ کر پھر اسکا ہاۓ کہنا سمجھ نہیں آیا کیا کہے اسے

تم اندر جاٶ ولی سخت مگر دھیمی آواز میں اسے اندر جانے کا کہا اور وہ ایک منٹ کی بھی دیرکیے بغیر جھٹ سے اندر بھاگ گٸی

ارمان ولی  کا نیلی کے ساتھ اس رویہ سے حیران ہوا 

یہ پری کون تھی اور اتنا روڈ بہیویر کیوں تھا اسکے ساتھ تیرا ہاں

شٹ اپ اندر آنا ہے تو آ ورنا وہ درازہ ہے" ولی اسے دروازہ دکھاتا گھر کے اندر داخل ہوا ارمان بھی ڈھیٹو کی طرح اتنی انسلٹ ہونے کے باوجود بھی اسکے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوا

کچن میں سے نگہت نکلی اور ولی کو اسکے دوست کے ساتھ دیکھتے اسکے پاس آٸی ارمان نے جھک کرنگہت سے پیار لیا نگہت نے خوش ہو کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا

کچن کے دروازے سے پھر ارمان کو وہی پری نظر آٸی 

آنٹی آپ کے گھر کیاکوٸی پری رہتی ہے ارمان نے کچن کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا 

کیا مطلب میں سمجھی نہیں نگہت نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا پھر اسکی نظروں کے زاویہ سے کچن کی طرف دیکھا پھر اسے بات سمجھ آٸی 

ولی تو ارمان کا نیلی کی طرف انٹریسٹ لینے پہ کڑ ھ کے رہ گیا 

نیلی باہر آٶ" ادھر نیلی نگہت کی آواز پہ دھیرے دھیرے چلتے نگہت کے پاس آکر کھڑی ہوٸ اور نگہت کا بازو پکڑ لیا دونوں ہاتھوں سے 

ولی تو نیلی کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا اسے سب نے اگنور کیا سواۓ نیلی کے 

اوہ نیلی ناٸس نیم ارمان اسے دیکھتے ہوۓ کہا 

ولی نے نظروں سے ہی اسے وہاں سے جانے کااشاراہ کیاجووہ سمجھ چکی تھی اور وہ وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آگٸی

یہ کہا گٸی مجھے دیکھتے ہی بھاگ جاتی ہے ارمان نے کہا

تیری شکل ہی ایسی ہے دیکھ کر ہی وہ ڈر جاتی ہوگی اسلیۓ بھاگ جاتی ہے" ولی نے کاٹ دار لہجے میں کہا

اب ایسی بھی کوٸی بات نہیں وہ مجھ سے نہیں تجھ سے ڈرتی ہے ارمان نے بھی اسکا جملہ اسے لٹایا 

ولی جاٶ فریش ہو کر آٶ میں چاۓ بنواتی ہوں دونوں کیلۓ انکو سیریس ہوتا دیکھ نگہت جھٹ سے لی سے بولی

ولی ارمان کوگھورتا کمرے میں چلا گیا ارمان تو حیران ہوا تھا اسکے ایسے رویہ پہ

آنٹی کیانیلی اور ولی کی لڑاٸی ہوٸی جواسے اتنا کھچا کھچا ساہے

 نہی بیٹے بنی ہی کب اسکی جولڑاٸ ہ

وہ افسوس سے سر ہلاگٸں 

تو پھر کیا وہ اسکی بہن نہیں ہےارمان کوتجسس ہوا 

نہیں 

ہمم لگتی بھی نہیں پھر وہ آپ کی بیٹی ہے ارمان ایک اور سوا ل کیا

نہیں وہ میری بہن کی بیٹی ہے وہ تو نیلی کے پیدا ہوتے ہی چل بسی باپ نے بھی اپنانے سے انکارکردیا

پھر میں اسے یہاں لے آٸی اپنے ساتھ مگر ولی کو پتا نہیں کیوں اسے اللہ واسے کا بیر ہے بچی سے ہم نے دونوں کوبرابر رکھا مگر ولی کو پتا نہیں کیوں ایسے لگتا ہے کہ جیسے اسکی اہمیت کم ہوگٸ ہے "

بس بچی ڈراتا رہتا ہے" نگہت نے مختصر ساری کہانی بتااتی افسردہ ہو ٸی تھی آنکھیں نم ہو گٸی 

ارمان نے نگہت کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور کہا آنٹی آپ کوپریشا ن نہ میں ہوں سب ٹھیک کردوں گا میں نیلی کا بھاٸی ہوں اور آج سے وہ میری بہن ہے اب آپ پریشان نہ ہوں یہ ولی کی ساری جیلسی ہے نیلی سے بسس"

جاۓ اچھی سی چاۓ بناے مزے والی" مسکرا کر کہا جواباً نگہت بھی مسکراتی اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی کچن میں چلی گٸی

پھر ان دونوں چاۓ پی اور ساتھ گپ شپ بھی پھر ارمان نے دوبارہ نیلی کا نہیں پوچھا اور کافی دیر بعد باتیں کرنے کے بعد ارمان گھر چلا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ارمان کا گھر آنا جانا لگا رہا چار پانچ دن بعد ارمان ولی کے گھر آتا وہ نیلم کیلۓ چاکلیٹس بھی لاتا پہلے نیلم جھجکتی تھی ارمان سے پھر آہستہ آہستہ اس کی دوستی ہوگٸی ارمان سے اب وہ کھل اٹھتی تھی ارمان کو دیکھ کر

نیلی شام کو جھولا جھول رہی تھی صحن میں جب ارمان دروازے سے اندر داخل ہوا نیلی ایک دم جھولے سے چھلانگ مار کر اتری ارمان کے سامنے جا کھڑی وہ پنک کلر کی پرینٹیڈ فراک پہنے ہمیشہ کی طرح لمبے سنہری بالوں کی دو چوٹی کیۓ ہوے تھی ارمان بھی اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا دو چاکلیٹس اسکے آگے لہرا دی 

عین اسی وقت اسکے پیچھے سے دروازے سے ولی انٹر ہوا نیلی نے اسے دیکھا تو فوراً ارمان سے چاکلیٹس چھینتی وہاں سے اندر کی جانب بھاگی ارمان جو ابھی نیلی سے کچھ کہنے والا تھا نیلی کی اس حرکت پہ ولی کو گھور کے دیکھا اور کھڑا ہوا

کیوں بچی کوڈراتے رہتے ہو جن کی اولاد اتنی کیوٹ سی پری ہے اور توکالا دیو بنا رہتا ہے 

شٹ اپ  اور اندر چل میں نے کچھ نہیں کہا اسے" ولی ایسے ہی اسکی باتوں پر اسکی کافی عزت افزاٸی کردیتا تھا مگر وہ اس پر کوٸی اثر نہیں تھا

چھہ مہینے ہو گۓ تھے ارمان تو جیسے اس گھر کا فرد بن چکا تھا اسکا آنا جانا لگا رہتا تھا ارمان کو تو جیسے ایک فیملی مل گٸی تھی 

ارمان اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی  اسکی کی ماں کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو چکا تھا وہ اور اسکا باپ ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے وہ دوسرے شہر پڑھاٸ کی وجہ سے آیا تھا یہاں آکر اسنے کالج میں ایڈمیشن لیا تھا تب ہی اسکی دوستی ولی کے ساتھ ہوٸ تھی اب انکی دوستی کو بھی دو سال ہونے کو تھے تبھی وہ اب اچھے دوست بن چکے تھے اب وہ دونوں بی ایس کر ہے تھے اور انکا لاسٹ اٸیر چل رہا تھا 

وہ دونوں ایک ہی اکیڈمی میں بھی پڑ رہے تھے کالج کے بعد شام کو وہ اکیڈمی بھی پڑتے تاکہ انکے پیپرز کی تیاری اور اچھی ہو جاۓ چھہ مہینے پہلے انہوں نے اس اکیڈمی ایڈمیشن لیا تھا اور ولی تو سخت بیزار ہوتا تھا اکیڈمی سے کیونکہ ایک آفت پڑ گٸی تھی اسکے پیچھے مگر پڑھنا بھی تھا خواب جو اتنے بڑے دیکھے تھے اسنے ایک بہت بڑے بزنس مین بننے کے

اور وہ آفت اس اکیڈمی میں اسکے پیچھے پڑی ایک لڑکی جو تھی حبہ وہ اسکے آگے پیچھے گھومتی بہانے بہانے سے اسکے پاس آکر بیٹھ جاتی ادھر ادھر کی ہانکتی رہتی پوری کوشش تھی کہ ولی سے دوستی ہو جاۓ مگر ولی اسے گھاس نہ ڈالتا وہ اسکی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا ٹاٸٹ جینس شارٹ قمیض گھٹنوں سے اوپر.. بالوں کی اونچی ٹیل پونی گلے میں دوپٹا فیشن کی شوقین پڑھاٸی میں بس ٹھیک ولی کو ایک آنکھ نہ بھاتی

اور اسکی حالت ارمان خوب انجاۓ کرتا اور اس سے بات ضرور کہتا تجھے نہیں چاہۓ تو میری سیٹنگ کروا دے بچی پیاری ہے وہ پورے دانتوں کی نماٸش کرتا ہوا بولا

ولی تو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتا پیاری ہے تو خود کر سیٹنگ میرا دماغ خراب کر رکھا ہے 

نیلم کو سکول چھوڑنے کے بعد وہ یونی آگیا اسکا ایم بی اے کا لاسٹ سیمسٹر تھا اور پیپر بھی قریب تھے اسلیۓ  وہ یہاں آگیا تھا ایک بجے وہ فری ہوا تو نیلی کا خیال آیا کہ اسے اسکول بھی لینے جانا  ہے پہلے اسنے مارکیٹ کا رخ کیا تاکہ گھر کیلۓ کھانے پینے کاسامان اور راشن لیلے 

اور اب وہ نیلی کے اسکول کے باہر باٸیک پر دونوں ہاتھ باندھے کھڑا تھا ہر آنے جانے والے کی نظر کھینچ رہا تھا اسکول سے بچے باہر نکل رہے تھے تبھی کچھ دیر بعد نیلی بھی باہر آٸی اسنے بھی ولی کودیکھا اور اسکے پاس آگٸی اب وہ اسے بیٹھنے کا کہتے باٸیک اسٹارٹ کرنے لگا نیلی باٸیک پر بیٹھنے سے پھر گھبرانے لگی اب اسے پھر بیٹھنا ہے صبح بھی ولی نے اسے اچھی خاصی سنا دی تھی اور نکمی ہونے کا ٹاٸٹل بھی دے دیا تھا

بیٹھ جاٶ محترمہ تمارے لیۓ مرسڈیز تو لانے سے رہا فلحال اسپر ہی گزارا کرو 

وہ منہ بناتی بیٹھ گٸ تھی مگر اب ولی کو نہیں پکڑا بلکہ کچھ فاصلہ بناتی بیٹھی تھی 

ولی اسکی اس حرکت پہ  ہلکہ سا مسکرایا اور  کک مار کرباٸیک اسٹارٹ کی جیسے ہی باٸیک اسٹارٹ ہوٸی نیلی فورن سے ولی کےساتھ لگ گٸ اور زور سے اسکا بازو پکڑ لیا ایک بھرپور مسکراہٹ نے ولی کے چہرے کا احاطہ کیا تھا اور اسنے باٸیک گھر کے رستے پہ ڈال دی

حبہ اسکول سے باہر نکل رہی تھی تبھی اسکی نظر ان دونوں پہ گٸ اوراسکی آنکھوں نے یہ سارہ منظر دیکھا اور آخر میں ولی کی بھرپور مسکراہٹ اسکو بے چین کر گٸی دور تک اس کی نظروں نے انکا پیچھا کیا

ولی نے گھر کے آگے جیسے ہی باٸیک روکی نیلی فٹ سے باٸیک سے اتر کر روازے  کے پاس دیوار سے ٹیگ لگا کرکھڑی ہوگٸی ولی نے بھی اتر کر دروازے کا تالا کھولنے لگا نظریں نیلی پہ ہی تھی جس کا گرمی اوردھوپ کی وجہ سے چہرہ سرخی ماٸل ہو رہا تھا وہ منہ سوجاۓ سر جھکاۓ کھڑی تھی 

گیٹ کھلنے کی آوا ز پہ اسنے سر اٹھا کہ نیلی آنکھوں سے ولی کو دیکھا جوبڑی سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور دساتھ دروازے کوھکا دے کر کھولا 

نیلم فورن ہی گھر میں داخل ہوٸی صحن سے ہوتی وہ گھر کے اندر آگٸی جبکہ ولی باٸیک سے سامان اتارنے لگا جو مارکیٹ سے لایا تھا

سارا سامان جو اسنے خریدا تھا لاکر کچن میں رکھا نیلم بھی یونیفارم چینج کر کے کچن کی طرف آٸی تھی ولی کچن میں ہی تھا 

نیلم کو کچن میں دیکھا جو پنک کلر کا سوٹ پہنے دھلا ہوا شفاف چہرہ لیۓ اسکے سامنے کھڑی تھی 

وہ اس سے نظریں چراتا ہوا بولا "سارا سامان کچن میں لے آیا ہوں اور دیکھ لو سب اور ہاں ساتھ ابھی کھانے کیلۓ بھی لے آیا ہوں کھانا لگاٶ میں فریش ہو کر آتا ہوں

نیلم نے سارا سامان سودا دیکھا ہر ایک چیز وہ لایا تھا دال چاول مصالحہ اور ساتھ پھل اور سبزیاں بھی تھی سارا سامان اسنے ٹھکانے لگایا اور کھانا بھی ٹیبل پہ لگادیا 

ولی بھی فریش سا آیا ٹیبل پر کھانا لگا ہوا تھا نیلی پہلے سے ہی بغیر اسکا انتظار کیۓ کھانے کے ساتھ پورا انصاف کررہی تھی

ولی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور اپنےکھانے میں مصروف ہو گیا 

شام کو نیلم لاٶنج میں اپنی کتابیں لے کر بیٹھی ہوٸ تھی سارے سبجیکٹس دیکھ رہی تھی کس کی تیاری اچھی ہے اورکس کی تیاری کرنی ہے ناٸین کلاس کے پیپر تھے وہ کنفیوزڈ ہو رہی تھی

تب ہی ولی برابر میں آکر بیٹھا "سدا کی نکمی ہو تیاری کیا خاک ہوگی تمہاری کتابیں دیکھنے سے نہیں پڑھنے سے تیاری ہوتی ہے

نکمی تونہیں ہوں میں اب کلاس کی اچھی اسٹوڈنس میں سے ہوں" نیلی کو تو صدمہ لگا اسکی باتوں سے

اب وہ اسکے بکس دیکھنے لگا اور اسٹڈی کے متعلق سوال پوچھنے لگا کٸی سوال کے جواب تو وہ سہی دیتی تو کچھ میں اٹک جاتی

۔۔۔

اگلی صبح وہ دونوں ٹاٸم سے گھر سے نکلے پونے آٹھ وہ پرنسپل آفس میں تھے اور ولی اور پرنسپل میم آمنے سامنے بیٹھے تھے نیلی اور مس حبہ آفس کے باہر کھڑی تھی

مجھے بہت دکھ ہوا نگہت بہن کا سن کر بہت اچھی تھیں اللہ انہیں جنت نصیب کرے آمین پرنسپل " میم نے بہت دکھ سےکہا تھا

ولی نے بھی ساتھ میں آمین کہا

نگہت اسکول آتی رہتی تھی نیلی کی وجہ اسلیۓ انکی کافی اچھی بات چیت تھی 

نیلم سے بے فکر ہوجاٸیں وہ اچھی اسٹوڈنٹ ہے ریکور کرلے گی نیکسٹ ویک سے ناٸین کلاس کے پیپر اسٹارٹ ہورہے ہیں اسلٸے کافی توجہ دینی ہوگی" پرنسپل میم نے کافی صوبر انداز میں بات کی

ولی نے بھی ہاں میں سر ہلایا اور کچھ باتیں کرنے کے بعد وہ آفس سے باہر نکلا تو سامنے ہی حبہ ہاتھ باندھے نیلم کے ساتھ کھڑی تھی

ولی آہستہ چلتا ہوا ان کے پاس آیا اپنے سن گلاسس کے شیشوں کو شرٹ سے رگڑتے ہوۓ نیلم سے بولا  اچھا میم سے میری بات ہو گٸی ہے میں چلتا ہوں

سن گلاسس کو آنکھوں پہ ٹکاٹا وہ باہر نکل گیا حبہ کو وہ سرے سے ہی اگنور کرگیا جیسے وہ وہاں ہو ہی نہ 

حبہ کوسخت ناگوار لگی تھی یہ بات مگر وہ سوچ چکی تھی اب وہ ولی سے بات کر کے رہی گی 

کہ اب بھی وہ اسےاتنا ہی چاہتی ہے جتنا تین سال پہلے  اسکی محبت اب بھی ویسے ہی اسکے دل میں اسے امید تھی کہ ولی اسے پھر سے کہیں نہ کہیں پہ ضرور ملے گا 

نیلم اسکا زریعہ بنے گی ولی  کے دل تک پہنچنے کا اسلیۓ اب وہ نیلم کیلۓ  بےحد درجہ سوفٹ ہو گٸی تھی

ولی آہستہ چلتا ہوا ان کے پاس آیا اپنے سن گلاسس کے شیشوں کو شرٹ سے رگڑتے ہوۓ نیلم سے بولا سے  اچھا میم سے میری بات ہو گٸی ہے میں چلتا ہوں

سن گلاسس کو آنکھوں پہ ٹکاٹا تو وہ باہر نکل گیا حبہ کو وہ سرے سے ہی اگنور کرگیا جیسے وہ وہاں ہو ہی نہ 

حبہ کوسخت ناگوار لگی تھی یہ بات مگر وہ سوچ چکی تھی اب وہ ولی سے بات کر کے رہی گی 

کہ اب بھی وہ اسےاتنا ہی چاہتی ہے جتنا تین سال پہلے  اسکی محبت اب بھی ویسے ہی اسکے دل میں اسے امید تھی کہ ولی اسے پھر سے کہیں نہ کہیں پہ ضرور ملے گا 

نیلم اسکا زریعہ بنے گی ولی  کے دل تک پہنچنے کا اسلیۓ اب وہ نیلم کیلۓ  بےحد درجہ سوفٹ ہو گٸی تھی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن سے پیپر شروع تھے شام کےسات بج رہے تھے وہ کل کے پیپر کی تیاری کرنے میں لگی تھی

اس پورے ہفتے میں اسنے خوب محنت کی تھی ولی اسے صبح اسکول چھوڑ جاتا تھا اور واپس وہ خود ہی آجاتی تھی شام کو ولی سات بجے آتا تھا کھانا وہ باہر سے ہی لے آتا تھا پھر وہ اسے کافی دیر تک پڑھاتا بھی تھا پھر دس بجے تک وہ  اپنے کمرے میں سونے چلا جاتا اور نیلی اپنے کمرے میں چلی جاتی 

کل اسکا پہلا پیپر تھا اسکی مکمل تیاری تھی رات کے آٹھ بج رہے تھے ولی ابھی تک نہیں آیا تھا بک رکھ کر وہ اٹھ گٸی سارے گھر کی لاٸٹس آن کری اسے ڈر لگنے لگا تھا اور بھوک بھی

اب تو ساڑھے آٹھ ہورہے تھے وہ تو صوفے پہ پاٶں اوپر کر کے گھٹنوں کو پکڑ کہ بیٹھ گٸی اور ساتھ ساتھ آیت الکرسی بھی پڑھنے لگی اسے خوف آنے لگا خالی گھر سے 

پھر کچھ دیر بعد اسے دروازہ کھلنے کی آہٹ کی آواز آٸی وہ زور سے آنکھیں میچ گٸی اور پھر آہستہ آہستہ قدموں کی آواز اپنے قریب آتی سناٸی دی بلکل نزدیک آکر وہ آواز بند ہوگٸی 

ولی اسکے قریب کھڑا ہو کر اسکی عجیب حر کتیں دیکھنے لگا وہ ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی منہ ہی منہ میں کچھ پڑ ھ رہی تھی پھر ولی کو شرارت سوجھی اور جان بوجھ کر اسکے قریب صوفے پہ دھڑام سے گر گیا نیلی کی ایک زور دار چیخ نکلی جو ولی کے کان کے پردے پھاڑ گٸی اسنے کان میں انگلی ڈال کر اپنے کان کے پردے بچاۓ پھر نیلم نے آنکھیں کھول کر اپنے پاس دیکھا تو ولی بیٹھاتھا کانوں میں انگلیاں دیۓ 

نیلم جھٹ سے اسکا بازو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسکے ساتھ چمٹ گٸی 

"آپ نے اتنی دیرکردی بہت ڈر لگ رہا تھا مم مجھے " روتے ہوۓ وہ اسکا کاندھا بھگو رہی تھی 

ولی کو احساس ہوا وہ واقعی بہت لیٹ ہو گیا ہے سر گھما کر نیلی کو دیکھا پھر اگلے ہی پل ایک ہاتھ سے اسکے ہاتھوں سے اپنا بازو چھڑاتا وہ کھڑا ہو گیا اسکا رونا اسے اچھا نہیں لگا

سر اٹھا کر نیلم نے نیلی آنکھوں سے دیکھا جو رونے سے سرخ ہورہی تھی پھر اس سے نظریں ہٹاتا بولا 

یار ٹریفک میں پھنس گیا تھا اسلیۓ دیر ہوگٸی اور ڈر تمہیں کس سے لگ رہا تھا بہادر بنو اب مجھے اتنی دیر بھی ہوسکتی ہے کام کی وجہ سےکچھ تھا اسکی آنکھوں میں جوہمیشہ اسے اٹریکٹ کرتی تھی جس سے بچنے کیلیۓ وہ اسے ڈانٹ دیتا تھا اپنا لہجہ سخت کرجاتا تھا پر آج وہ یہ نہ کرسکا کیونکہ اب وہ اسے نہیں توڑ سکتا تھا اب اسے کوٸی سنبھالنے والا نہیں تھا اسکی ہمدردی تھی نیلی کے ساتھ جو اب شاید رنگ بدل رہی تھی 

وہ اس پر سے نظریں ہٹاتا اپنے کمرے کی طرف چل دیا وہ نیلی آنکھوں سے اب اسے گھور رہی تھی اسے ولی کی شرارت کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیۓ اب اسے غصہ آرہا تھا رونے کے ساتھ ساتھ پر سامنے ٹیبل پر کھانا دیکھ اسکی بھوک چمکی تھی فٹ سے کھانا اٹھا کر کچن میں بھاگی 

۔۔۔۔۔۔۔

کھانا لگانے کے بعد  ہمشہ کی طرح بغیر ولی کے انتظار کٸے وہ کھانے میں مگن ہو گٸی 

ولی فریش ہو کر باہر آیا تو نیلی دونوں ہاتھوں سے کھانے کے ساتھ انصاف کررہی تھی وہ بھی کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا 

نیلی کھا چکی تو اٹھ کر جانے لگی 

کدھر جارہی ہو بیٹھو ابھی ۔۔ اسکی آواز پہ رکی تھی پھر بنا کچھ بولے بیٹھ گٸی

ولی جب کھاچکا تو پھر اسکی طرف دیکھ کر بولا تیاری ہو گٸی کل کے پیپر کی 

ہہم جی ہوگٸی ہے" وہ ہلکا سابولی تھی بس پھر چپ ہوگٸی

ایسا کرو چاۓ بنا کر بکس سمیت میرے روم میں آٶ حکم سنایا تھا 

نیلم کو ابھی بی غصہ تھا اس پہ نہیں بس میں چاۓ لاٶں گی بکس نہی مجھے سب یا د ہے

جتنا کہا ہے نہ اتنا کرو اور بک کیوں نہیں لاٶ گی وہ کھڑا ہوتا لہجہ سخت ہوا تھا زرا

کیوں کہ آپ نے مجھے آج بہت برا ڈرایا ہے اگر مجھے کچھ ہوجاتا تو" نہایت معصومیت سے کہا تھا اسنے 

ولی مسکراہٹ دباتا ہوابولا " کچھ نہی ہونےوالا تمہیں اتنی آسانی سے نہیں جان چھوڑنے والی تم میری میں بہت تھکا ہوا ہوں تنگ مت کرو جلدی سے آٶ بکس لیکر روم میںکہتا کمرے میں چلا گیا 

نیلم غصے سے برتن اٹھانے لگی اور کیچن میں برتن پھینکنے کے اندازمیں رکھے

۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر کچھ دیر بعد نیلم ایک ہاتھ میں بکس اور دوسرے ہاتھ میں چاۓ اٹھاۓ روم میں آٸی منہ ابھی بھی پھولا ہواتھا 

ولی بیڈ پر لیپ ٹاپ لیکر بیٹھا ہوا تھا نیلم نے چاۓ بیڈ کے ساٸیڈ ٹیبل پررکھی بنا اسے دیکھے صوفے پہ بکس لیکر بیٹھ گٸی انداز ابھی بی غصہ والا تھا بڑی سنجیدگی سے بک کے پیج الٹ پلٹ رہی تھی 

ولی نے ساٸیڈ سے چاۓ اٹھاٸ اور پینے لگا نظریں اسکی حرکتوں پہ تھی جو پڑھ کم اور صفحوں پہ غصہ زیادہ اتار رہی تھی ولی چاۓ ختم کرکے بنا اسے کچھ کہے لیپ ٹاپ میں بزی ہوگیا

کافی دیر گزرگٸی تھی وہ اب سارا ریواٸز کر چکی تھی اب دل چاہ رہا تھا یہاں سے اٹھ کے چلی جاۓ اور ولی کو دیکھ کر کڑھ بھی رہی تھی جو بڑے آرام سے اسے مکمل نظرانداز کیۓ بیڈ پہ دراز تھا اور ٹانگیں سیدھی کۓ اس پہ لیپ ٹاپ رکھے تیزی سے انگلیاں چل رہی تھی 

میں جاٶ اب میں نے سب یاد کرلیا ہے اب تو دو بار ریواٸز بھی کر چکی ہوں آنکھیں نیند سے بوجھل لگ رہی تھی  

ولی نے نظر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا لیپ ٹاپ ساٸیڈ پر رکھا ادھر آٶ 

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ کی پاٸنتنی تک آکر رکی تھی

ادھرآٶولی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اور  پاس آنے کو کہا وہ آہستہ سے دونوں ہاتھوں سے بک پکڑے عین اسکے سامنے آ کھڑی ہو ٸی بک دو مجھ انگلش کی بک اسکے آگے کیں 

بیڈ پہ بیٹھے ولی نے اسکے ہاتھ سے بک لیں اور وہ کھڑی رہی کچھ دیر پوری بک کا جاٸزہ لیا پھر کچھ ٹوپکس لکھ کر اسکے سامنے کیۓ 

اسکے آنسر لکھو پھر چھٹی وہ سخت بدمزہ ہوٸی تھی پہلے بلاوجہ اتنی دیر بٹھاۓ رکھا اور اب یہ سب پہلے ہی گیارہ بج چکے تھے

منہ بسورتے اسنے نوٹ بک پکڑی اور صوفے پہ بیٹھنے کیلیۓ مڑی 

کدھر جا رہی ہو

وہاں ۔۔ صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ جواب دیا 

ہمم یہی پر بیٹھو میرے سامنے وہاں بیٹھ کر چیٹنگ کی تو اسنے اپنہ شبہ ظاہر کیا  

کیا۔۔۔۔ اسکی بات پر نیلم کا حیرت سے منہ کھل گیا 

ولی نے اپنی ٹانگیں سمیٹی اور گود میں لیپ ٹاپ رکھ لیا 

بیٹھو اب آنکھ سے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے کہا 

غصے ناک مزید لال ہوٸ تھی اسکی پوری بیڈ پر چڑھ کر درمیان میں بلکل اسکے سامنے بیٹھی تاکہ وہ دوبارہ ٹانگیں نہ پھلا سکے جوٹانگیں سیدھی کرنے والا تھا اسے دیکھ پھر اکٹھی کرلی دل ہی دل میں اپنی ہوشیاری کوداد بھی دی 

بڑی مشکل سے وہ لکھ رہی تھی نیند سے آنکھیں بند بھی ہورہی تھی جان بھی چھڑانی تھی مگر آدھا ہی لکھ پاٸی تھی کہ نیندکی دیوی اس پہ مکمل مہربان ہو گٸ تھی اور وہ بیڈ پہ ہی سر رکھ کر نیند کی واد میں اتر چکی تھی 

اکیڈمی میں وہ حبہ سے تنگ تھا تو گھر میں نیلی سے تھا اور اسکی دوست کرن سے اور ارمان کی ان دونوں میں بڑھتی ہوٸی دلچسپی سے بھی

ولی کو سخت ناگوار گزرتی تھی ارمان اور نیلی کے درمیان بات چیت جبکہ وہ اسے اپنی بہن مانتا تھا 

اور نگہت بھی واقف تھی ارمان سے ولی کے جیسا ہی سمجھتی تھی 

 ارمان کا کبھی کبھی اس پٹاخہ کے ساتھ بھی ٹکراٶ ہو جاتا اور وہ بی جان بوجھ کر اس سے ٹکراتا تھا

ایک دن کرن کانچ کا کسٹرڈ سیٹ اٹھاۓ بڑی دھیان کے ساتھ گھر میں داخل ہوٸی کہ وہ بخیر و عافیت وہ سیٹ نگہت تک پہنچادے 

وہ پورا دھیان اسی سیٹ کی طرف کیۓ چل رہی تھی جب سامنے سے کسی سے ٹکرا گٸ ارمان جو فون سنتا ہوا باہر گھر سے باہر جارہا تھا مگر سامنے سے آتے وجود پر نظر پڑی تو نگاہیں اسی پر جم سی گٸی جوبرتن سنبھالتے ہلکان ہور ہی تھی کہ جب سامنے کھڑے ارمان سے ٹکراٸی ارمان بھی تب ہی ہوش میں آیا جب وہ اسے ٹکراٸی 

اس سے پہلے کہ کانچ کا سیٹ زمین بوس ہوتا ارمان نے فٹ سے برتن تھام کر اسے ٹوٹنے سے بچایا تھا 

اندھے ہو کیا نظر نہیں آتا کیا ابھی اگر یہ سیٹ شہید ہوجاتا نا تو اماں نے میرا جنازہ نکال دینا تھا".. اپنی رکی ہوٸی سانس بہال کرتی وہ لڑنے کے انداز میں ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر اور دوسرا ہاتھ اٹھاکر اسے انگلی دکھاتی ہوٸی بولی تھی

ارمان ہاتھوں میں کسٹرڈ سیٹ پکڑے اس پٹاخہ کودیکھ رہا تھا جو خود اس سے ٹکراٸی تھی اور سارا ملبہ اس پہ ڈال رہی تھی 

اور پھر اسکے ہاتھوں سے سیٹ پکڑ کر گھر کے اندر چل دی زبان ابھی بی چل رہی تھی 

پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں ایسے نمونے ابھی سارا ستیا ناس ہوجانا تھا سیٹ کاشکر ہے بچ گیا ورنہ آج مینے نہیں بچنا تھا وہ بڑ بڑاتی ہوٸی جارہی تھی 

وہ اسے ہی حیران ہوتا دیکھ رہا تھا ریڈ شارٹ قمیض اور ساتھ جینس کی ٹاٸٹس پہنے دبلی پتلی کاندھے تک آتے سلکی بال گندمی رنگت کی لڑکی اسے پہلے تو کبھی نہیں دیکھا یہاں وہ یہی سوچ رہا تھا کافی وقت سے وہ یہاں آ رہا ہے نیلی کی فرنڈ ہوگی مگر نیلی سے تو یہ بڑی لگتی ہے وہ یہی سوچتا باہر نکل گیا کافی دیر سے وہ آیا ہو تھا 

۔۔۔۔۔۔

پھر کچھ دن بعد وہ ولی کے گھر آیا تھا ولی گھر نہیں تھا اور وہ ولی کا ویٹ اسکے روم میں بیٹھ کر کررہا تھا نگہت اسکے پاس کچھ دیر بیٹھی رہی مگر پھر وہ کچن میں چاۓ کا کہ کر چلی گٸی 

اور کچھ دیر روم میں رہا مگر پھر بور ہوتا باہر صحن میں آگیا نیلی سے باتیں کرنے وہ اس وقت صحن میں ہوتی تھی جھولا جھولتی تھی شام کا وقت تھا نیلم کھڑی تھی اور کرن جھولا جھول رہی تھی وہ دونوں کسی بات پہ ہنس رہی تھی 

کالے بالوں کی پونی ٹیل بناۓ پیلی گھٹنوں تک آتی اور واٸٹ پاجامہ پہنے وہ نیلی کے ساتھ ہنس ہنس کے بات کر رہی تھی اور وہ اسے ہی دیکھنے میں مگن تھا کہ اچانک ولی کی انٹری ہوٸی تھی ولی کودیکھ اسکا جھولا رکا تھا اور ساتھ ہنسی بھی کوبھی بریک لگی تھی تو وہ ہوش میں آیا اور سامنے دیکھا جہاں کڑے تیور لیۓ وہ انہیں گھور رہا تھا اوراسی گھوری سے ارمان کوبھی نوازا تھا کیونکہ وہ اسے انہیں تکتا دیکھ چکا تھا اور یہ بات ولی کو بلکل اچھی نہیں لگی تھی

اور پھر وہ دونوں گھر کے اندرچلے گۓ اور پھر سے وہ دونوں اپنے اسی مشغلہ میں لگ گٸی تھی 

اب وہ دونوں کمرے آمنے سامنے تھے بیٹھے تھے کرسی پہ 

تو کیوں آج زکوٹا جن بنا ہوا کھانا ہے کیا ولی اسکی گھوری سے تنگ آکر بولا تھا 

کیوں میری گھوری بری لگ رہی ہے اور جوتوباہر کر رہا وہ کیا تھا ہاں ولی نے بھی ٹکا کرجواب دیا 

یار بچیاں ہیں ہنستی کھیلتی ہوٸی اچھی لگ رہی تھی تونہ آتا تو میں بھی انہیں جواٸن کرنے والا تھا اسنے بھی حساب برابر کیا 

وہ بچیاں ہیں تو تو بچہ نہیں سنجیدگی سے وہ بولا تھا

دل تو بچہ ہے جی 

تھوڑا کچا ہے جی

چاۓ کا سیپ لیتے ہوۓ وہ گنگنایا تھا 

یار کیا ہوگیا کیوں تفتیشی افسر بنا ہوا ہے غلطی ہو گٸی معاف کردے لے یہ جوڑے میرے ہاتھ

کہاں تھا تو کب سے ہاں گھر سے کہہ کر نکلاتھا کہ میں آرہا ہوں" ارمان نے موضوع بدلہ تھا ولی کا دھیان ہٹانے کیلۓ

ارمان نے نیلی سے کرن کا سارا باٸیو ڈیٹا لیا تھا اسکا نام ارمان کو بہت پسند آیا تھا 

کک۔کرن شارخ خان کے اسٹاٸل میں اسنے اسکا نام دہرایا تھا نیلی اسکے اس انداز میں نام لینے پہ ہنسی تھی

وہ اسکا اسی انداز میں نام لیتا تھا 

کرن سے اسکی ہلکی پھلکی نوک جھوک اسی انداز میں نوک جھوک ہوتی رہتی تھی وہ جب بھی اسکے سامنےآتی تووہ 

کک۔کرن کہ کر پکارتا تھا اور نیلی بھی اسکا ساتھ دیتی تھی اور وہ دنوں کو آڑے ہاتھوں لیتی تھی

ولی کو انکی یہ باتیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ارمان کو خوب کلاس بھی لیتاتھا کہ وہ ان سے دوررہا کرے 

۔۔۔۔

ایک دن ولی گھر کے داخلی دروازے سے گھر داخل ہوا تھا سامنے والا منظر اسکے لٸے ناقابلِ برداشت تھا یا اسکے کند زہن کا فطور

ارمان گھر آیا جب کرن اور نیلی ایک ساتھ بیٹھی جھولا جھول رہی تھی اور کرن کی ہمیشہ طرح زبان چل رہی تھی اور نیلی اسکی باتوں پہ ہنس رہی تھی 

ارمان ولی کو بغیر بتاۓ اسکے گھر آیا تھا اکثر وہ اسے آنے سے پہلے اطلاع کرتا تھا مگر آج وہ بن بتا ۓ ہی آگیا تھا

گھر آیا تو اسے نیلم کے ساتھ کرن بھی مل گٸی تھی اسکے گھر اسے کیا چاہۓ تھا وہ انکے پاس آکر رکا 

کک۔کرن ہہاۓے " ہاتھ ہلا کر اسنے کرن کومخاطب نیلی اسکی اس اوور ایکٹنگ پر کھی کھی کر کے ہنسی جبکہ کرن کا پارہ ہی ہاٸی ہوگیا 

کرن نیلی کی کمر پہ اک مکا جڑ دیا اور غصہ ناک پھلاۓ جھولے سے اتر کر ارمان کے سامنے کھڑی ہوٸی کیا ہے 

تمہیں اپنے گھر میں سکون نہیں جب دیکھو منہ اٹھا کے آجاتے دوسروں کاسکون برباد کرنے

ارمان اسکا جاٸزہ لیتے ہوۓ جو براٶن گھٹنوں تک آتی قمیض اور ٹراٶزر کھلے کندھے تک آتے بال بار بار اسے کانوں کے پیچھے کرتی جو ہوا سے اڑ کر اسکے چہرے پہ بکھر رہے تھے چہرہ غصے لال ہو رہا تھا وہ چھوٹی سی لڑکی اسکے دل کے تار چھیڑ رہی تھی اسکے پاس سے گزرتے نیلی کے ساتھ جھولے پہ بیٹھ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ جھولا جھولنے لگتا ہے

کرن اسکے پاس آنے سے دوقدم پیچھے ہوتی اور ساٸیڈ پہ کھڑی ہو جاتی 

اف کسی سکون برباد ہو جاتا ہے 

وہ پہلے کرن کو دیکھتا ہے غور سے اور پھر جب وہ اسکی بات پہ اسے گھورتی ہے تووہ فورن اپنا رخ نیلی کی جانب کرلیتا ہے 

 اور کسی کو سکون آجاتا ہے  اپنا جھکاٶ نیلی کی طرف منہ کرکے آخری بات کہتا ہے دیکھ وہ نیلی کو رہا تھا مگر بات وہ کرن سے کر رہا تھا جو وہ خوب سمجھ رہی تھی وہ اسے ہی کہہ رہا ہے اس سے پہلے ہی وہ کچھ کہتی ولی انکے سر پہ آ کھڑا ہوتا 

وہ جھکتا ہے تو نیلی اور اسکے درمیان فاصلہ بلکل ختم ہو جاتا ہے نیلی کا ایک ہاتھ جھولے کی رسی پہ تھا اور دوسرا ہاتھ ارماں کی کمر پہ تھا خود کو گرنے سے بچانے کے لیۓ 

پہ کیا ہو رہا ہے یہاں قہر برساتی آنکھوں سے تیز آواز میں انکے سر پہ کھڑا بول رہا تھا اسکی آواز پہ ارمان فوراً سے کھڑا ہوتا ہے

ولی تم وہ میں" ولی کو دیکھتے ارمان گڑبڑا سا جاتا وہ بہت غصہ میں لگ رہا تھا

ہاں میں کیا ہوا ہاں تم کس سکون میں آتے ہو یہاں "  وہ نیلم کو گھور کے دیکھتا ہے اور پھر ارمان کو

نیلی سہم کر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی 

ولی کیا ہوگیا ہے تم غلط سجھ رہے ہو یار ارمان سنبھل کر بولتا ہے وہ سمجھ گیا تھا ولی کو کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور اسکے قریب آکر اسے سمجھانا چاہ رہا تھا مگر 

ولی نے ارمان کا بازو پکڑا اوراسے بولنے ک موقعہ دیۓ بغیر اسے گھر کے دروازے سے باہر کھڑا کردیا 

مجھے افسوس ہورہا میں نے تمہیں دوست سمجھا تھا" کہتے اسکے منہ پر دروازہ بند کردیا 

ایک آنسوں اسکی گال پہ پھسلا تھا اسکے کہے گۓ آخری جملہ نے اسے توڑ دیا تھا

دروازہ دھاڑ سے بند کرتے اب اسکا رخ نیلی کی طرف تھا وہ تیزی قدم اٹھاتا اس تک پہنچا تھا وہ اسکی لہورنگ آنکھیں دیکھتے اپنی جگہ منجمد ہوگٸ تھی کرن بھی اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی 

چٹاخ ۔۔۔۔۔۔ فضا میں تھپڑ کی آواز گونجی 

نگہت ولی کہ سامنے کھڑی ہوٸی تھی اور ایک تھپڑ اسکی گال پہ مارا تھا 

وہ بے یقینی گال پہ ہاتھ رکھے نگہت کودیکھ رہا تھا نگہت کی بھی آنکھیں نم ہوٸی تھی 

کرن کو ارمان کیلۓ بہت دکھ ہورہا تھا اسلۓ وہ یہاں مزید کھڑی نہ رہ سکی اسلۓ وہ وہاں باہر نکل آٸی دروازہ کھول کر وہ باہر نکلی تو باہر کوٸی بھی نہیں تھا دور تک نظریں دوڑایں مگروہ کہیں نہ دکھا اتنی تزلیل ہونے کے بعد وہ کیسے وہاں رہ سکتا تھا وہ اپنے گھر کی طرف چل دی۔

یہ پہلی دفعہ ہوا تھا انیس سال میں نگہت نے پہلی بار ولی پہ ہاتھ اٹھایا تھا اسکی نادانی پہ 

ولی کیا کمی رہ گٸی تھی میری تربیت میں جوتم نے آج یہ دن دکھایا مجھے تم نے نیلم پہ نہیں ارمان پہ نہیں میری ممتہ پہ شک کیا ہے ولی وہ اپنی طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے روتے ہوۓ کہہ رہی تھی نگہت کچن میں کھانا بنا رہی تھی جب انہوں نے کچن کی کھڑکی سے یہ سارا منظر دیکھا تھا جب وہ دروازہ بند کرکے نیلی کی جانب مڑا تھا تو بھاگتی ہوٸی کچن سے نکلی تھی اور ولی نیلم تک پہچنتا وہ اسکے سامنے جا کھڑی ہوٸی

ولی گال پہ ہاتھ رکھے انہیں بے یقینی سے دیکھ رہا تھا آج پہلی بار نگہت نے اس پہ ہاتھ اٹھایا 

نیلم کوولی سے خوف آرہا تھا جب وہ گال پہ ہاتھ رکھے اسے کھاجانے والی نظروں سے گھور رہا تھا وہ بھاگتے ہوۓ اندر بھاگی

آپ ۔۔آپ مجھے غلط کہہ رہی ہیں آپ نے انکی حرکتیں نہیں دیکھی اپنی اس لاڈلی کو

بسسس۔۔۔ اور کچھ نہیں بسس وہ مزید کچھ بولتا نگہت اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا 

 وہ دس سال کی ہے ولی انہوں افسوس سے ولی کو کہا 

اسے کیا سمجھ ہے ابھی ان باتوں کی ارمان کو وہ بھاٸی مانتی ہے ارمان بھی اسے بہن ہی سمجھتا وہ یہاں کرن کے لالچ سے آتا تھا ولی کیوںکہ وہ کرن کو پسند کرتا تھا

کرن ابھی چھوٹی ہے بس تیرہ سال کی اسلۓ وہ کھل کر اس سے بات نہیں کرسکتا تھا وہ سمجھانے والے انداز سے اس سے بات کر رہی تھی

ارمان نے خود مجھے اپنی پسندیدگی کے بارے میں بتایا تھا میں نے اس سے صحیح وقت کا انتظار کرنے کا کہا تھا وہ بس اتنا ہی بول سکی " تھی اور آنسوں صاف کرتی وہاں سے چلی گٸی

ولی کچھ بھی نہ بول سکا تھا وہ شاک تھا نگہت کے انکشاف پہ وہ کیا کچھ کر گیا ارمان کے ساتھ کیوں کیا اسنے ایسا وہ کتنا غلط تھا وہ گھٹنوں کے بل فرش پہ بیٹھ  گیا ڈھیروں شرمندگی نے اسے آن گھیرا تھا وہ کتنے ہی پل خاموش زمین پہ بیٹھا اپنے ہاتھوں کو دیکھتا رہا تھا 

ولی ارمان کے گھر بھی گیا تھا اس سے بات کرنے مگر شاید دیر ہو چکی تھی اب وہ جوکرچکا تھا اسکے ساتھ اپنی دوستی کوداٶ پہ لگاگیا 

ارمان کو اسنے جگہ جگہ تلاش کیا مگر وہ اسے کہیں نہ ملا نہ کالج اکیڈمی کہیں بھی نہں ایک ہفتہ ہوگیا تھا اسے خوار ہوتے ہوۓ

اب وہ  یونیورسٹی ایم بی اے کیلۓ داخلہ لے چکا تھا اسے اکیلےاچھا نہیں لگرہا تھا ارمان کی خواہش تھی وہ دونوں اکٹھے ایم بی اے کرنا چاہتے تھے 

دن گزرتے  رہٕے مگر ارمان پھر نہیں ملا ولی کو اب ولی نے بھی اپنی پڑھاٸ میں مصروف ہو گیا تھا اب اسے اپنا کیرٸیر بنانا تھا جس کیلۓ وہ بہت محنت کر رہا تھا اسے ایک بہت بڑابزنز مین بننا تھا 

وحید صاحب بھی ریٹاٸر ہو کر گھر بیٹھ چکے تھے گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ ولی کی پڑھاٸی کا بھی خرچہ اٹھانا تھا ایسے میں وہ گھر نہیں بیٹھ سکتے تھےمگر انکی صحت اب انہیں مزید کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی وہ دل کے مریض بن چکے تھے اور نہ ہی نگہت اور ولی نے انہیں کام کرنے دیا ولی نے ان سے کہا کہ وہ مینج کرلے گا پہلے ہی انکے اس پہ بہت زیادہ احسانات ہے

گھر کے خرچ وحید صاحب کی پینشن اور دو دکانوں کے کراۓ سے ہی چل رہا تھا مگر ولی کی پڑھاٸی کیلۓ کم تھا

ولی پڑھاٸی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹاٸم جاب بھی کر رہا تھا کہیں ہوم ٹیشن تو کہی کسی شاپ پے سیل بواۓ بن کے کام کر رہا تھا 

وحید صاحب کی طبیعت کافی بگڑتی جا رہی تھی انکا بھی علاج کا الگ خرچہ تھا 

اور ایک دن انہیں دل کا دورا پڑا اور وہی انکیلۓ جان لیوا ثابت ہوا اور وہ اس دنیا سے کوچ کرگۓ

نگہت نے اپنا آخری سہارا کھو دیا وہ اسکیلۓ دنیا کا آخری سہارا تھے اور ولی کو تو جیسے لگا کہ وہ اب صحیح معنوں میں یتیم ہوا ہے اب وہ بے سہارا ہوا اور نیلم جس نے اسے ہی اپنا باپ سمجھا تھا آج لگا کہ اسکا باپ نہیں رہا 

بلقیس وحید صاحب کی بہن انکے لیۓ توباپ کہ بعد تو وحید صاحب ہی باپ کی جگہ تھے انہوں اب ا پنا ایک ایک کرکے پورا خاندان کھودیا مگر نگہت کا غم اس سے زیادہ بڑا ہے اسنے اپنے سر کا ساٸیں ہی کھودیا ہے یہ عورت کے لٸیے بہت بڑا دکھ ہوتا 

وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے ایک سال ہوگیا تھا وحید صاحب کو اس دنیا سے گۓ اسلۓ انکو بھی صبر آ ہی گیا تھا نگہت کیلۓ اب وہ دونوں بچے ہی انکیلۓ سب کچھ تھے ولی آفس میں جاب کے ساتھ ساتھ اپنی سٹڈی بھی جاری رکھے ہوۓ تھا 

نیلم بھی اپنی پڑھاٸی کے ساتھ ساتھ نگہت بیگم کی طرح گھر کے کاموں کی شوقین تھی مگر نگہت اسے کام نہیں کرنے دیتی وہ اپنی پڑھاٸ پر ہی توجہ دے مگر چاۓ بنانا تو اسنے سیکھ ہی لی تھی وہ چودہ سال کی تھی مگر نگہت کا کام میں پورا ہاتھ بٹاتی تھی گھر نگہت کی صحبت اور تربیت کا اثر تھا بلقیس بھی تعریف کیۓ بنا نہیں رہ سکتی تھی اب انکا آنا جانا کافی تھا نگہت کے ہاں اور زیادہ وقت گزار کے جاتی تھی اب بھی وہ آٸی ہوٸی تھی رہنے 

دینی تعلیم نگہت نے اسے خود دی تھی اسلیۓ وہ نگہت کی طرح نماز کی بھی پابند تھی نگہت کو اب اسکی بہت فکر رہتی  تھی اب وہ اپنی زندگی میں ہی اسکا محفوظ ہاتھوں میں دینا چاہتی تھی

بلقیس تم آجاتی ہو تو من بہل جاتا ہے میرا وہ تھکے سے انداز میں کہ رہی تھی

وہ دونوں اس وقت باہر صحن میں تخت پہ بیٹھی ہوٸی تھی درخت کی چھاٶ ں میں شام کاوقت تھا اور باہر چلتی شام کی ہوا کافی بھلی لگ رہی تھی گرمی کے موسم میں 

تب ہی ولی گھر داخل ہوا تھا تھکا سا اور آتے ہی انکے قریب  کرسی پہ بیٹھ گیا تھا بیٹھ گیاتھا وہ رف سے حلیہ میں بھی جازب نظر لگ رہا تھا اوف واٸٹ شرٹ پہنے ساتھ بلیک پینٹ پہنے ماتھے پہ بکھرے بال صاف رنگت چھ فٹ سے نکلتا قد چوڑی جسامت بلقیس نے تو اسکی بلاٸیں اور نگہت بھی اسنے مسکراکر دونوں کودیکھا تب نگہت ہی نیلم کو آواز دی (جو کچن میں ان دونوں کیلۓ چاۓ بنا رہی تھی )کہ وہ پانی کا گلاس اور ایک کپ زیادہ چاۓ بنانے کا کہا ماشاللہ نگہت میرا بیٹا بہت پیارا ہوگیا ہے اب نگہت نے بھی اسکی تاٸید کی ماشااللہ تھوڑی دیر بعد وہ بڑی سی ٹرے ہاتھوں میں پکڑی باہر آٸی تھی پنک لان کا سوٹ پہنے اور پنک ہی ساتھ کا دپٹہ اوڑھے اسکارف اسٹاٸل میں باندھے کوٸی گڑیا لگ رہی تھی چاۓ ان دونوں کے سامنے رکھ کے پانی کا گلاس اٹھا کے ولی کی طرف بڑھایا ولی ایک نگاہ اس پہ ڈالی اور گلاس تھام لیا تھا اور وہ پھر نگہت کی طرف پلٹی تھی

 میں جاٶں ماما اب 

ہاں جاٶ بیٹا نگہت نے مسکرا کر اجازت دی تھی 

کہاں جانا ہے تم نے سنجیدگی سے نظریں اس پہ تھی 

وہ کرسی پربیٹھے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے کہنی کرسی کے بازو پہ ٹکا کر بیٹھا منہ اسی کی طرف اٹھا کر سوال کر رہا تھا

وہ کرن ۔۔کرن کے گھر دھیمی سی آواز میں اسنے جواب دیا تھا جو جانے کیلۓ اسکے پاس سے گزرنے لگی تھی اسکی آواز پہ وہی رکی تھی اسکی کرسی کےپاس

وہ بیچارگی سی نگہت کی طرف دیکھ رہی تھی اب

جاٶ بیٹا تم شاباش جلدی آنابلقیس نے اسے پیا ر سے کہا اور وہ تیزی سے وہاں سے نکلی تھی 

اور ولی غصہ سے کھڑا ہوا گویا اسکی کوٸی اہمیت ہی نہیں 

اب تمہیں کیا ہوگیا ہے کیوں بچی کے پیچھے پڑے رہتے ہو بلقیس نے ٹوکا

اووو بچیاسنے ہونٹ اوو شیپ میں گول کیۓ

وہ آپ کو بچی لگتی ہے  اب اسکے بڑھتے قد کی طرف اشارہ تھا

چاۓ کا کپ اٹھا کروہ اندرکی طرف چل دیا تھا 

دیکھا آپا آپ نے ہر وقت بچی کو ڈرا کے رکھتا ہے میں تنگ آگٸی ہوں کبھی تو سدھرے گا یہ بھی کہ نہیں اور نیلم کی فکر اب مجھے کھاۓ جا رہی ہے 

کیوں فکر کرتی ہو تم نگہت نیلم کی ابھی وہ بچی ہے وقت آنےپہ اسکو بہترین سہارا مل جاۓ گا اور اللہ تمہیں لمبی زندگی دے ابھی تو ولی کی بھی خوشیاں دیکھنی ہیں تم نے" اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ تسلی دی تھی بلقیس نے

آآہ پتا نہیں آپا قسمت کو کیا منظور پتا نہیں ان دونوں کی خوشیاں دیکھنا مجھے نصیب ہوںگی کہ نہیں انہوں تھکے سے انداز آہ بھر کر کہا تھا

نگہت کی آخری بات پہ بلقیس سوچ میں پڑگٸی تھی

کچھ دن بعد نیلم کے سر پہ ٹیوشن کابھوت سوار ہوگیا تھا وہ کرن کے بھاٸی کے پاس کرن نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ ہمارے گھر آکر پڑھ لیا کرے اسکے بھاٸی کے پاس وہ اوراسکا چھوٹابھاٸی اپنے بڑے بھاٸی کے پاسہی پڑتے ہیں وہ بہت اچھا پڑھاتے ہیں کرن کے دو بھاٸی سب سے بڑا عبد الرافع تھا پھر کرن پھر اس سے چھوٹا عمر تھا جو نیلم کا ہم عمر بھی تھا رافع تھا جوانجینٸرنگ کررہا تھا

ماما پلیز مان جاۓ نا ناٸین کلاس اسٹارٹ ہوٸی ہے کتنے ٹف سبجیکٹس ہیں اچھی تیاری ہوجاۓ گی پلیز اچھے مارکس آجاٸیں گے پلیز وہ بیڈ پہ بیٹھے نگہت کی ٹانگیں دبا رہٕی تھی مسکین سی شکل بناٸیں انھیں دیکھ رہی تھی تین دن سے اسکی منتیں کر رہی تھی 

بیٹا ولی نہیں مانے گا اسکا پتا تو ہے تمہیں  انہوں پیار سے اسے ٹالنا چاہا تھا ولی کا سوچتے وہ نہی مان رہی تھی

کیا ماما آپ ولی بھاٸی کی وجہ سے میرے ساتھ ایسا کر رہی ہیں" وہ ناراض ہوٸی تھی

ٹھیک ہی تو کہہ رہی نگہت بیٹا تم سے وہ ناراض ہوگا تمہیں پڑھنا ہے تو ولی سے پڑھ لو" بلقیس جو نگہت کے پاس ہی  بیٹھی تھی انکی باتوں میں حصہ ڈالا تھا

نہیں بلکل بی نہیں مجھے اس ہٹلر سے نہی پڑھنا ایںوی ڈانتے رہتے ہیں "

ایسا نہیں کہتے بڑا ہے وہ تم سے ایک بار بات تو کرنے دو ولی سے اگر وہ تمہیں پڑھانے کیلۓ نہیں مانا تو تمہیں میری طرف سے اجازت ہوگی پھر'' نگہت  نے اسے تسلی دی تھی تو کھل اٹھی تھی

سچ ماما آپ پھر مجھے جانے دیں گی نہ اگر ولی بھاٸی نہ مانے تو وہ جانتی تھی کہ ولی اسے پڑھانے کیلۓ نہی مانے گا اس لیۓ خوش ہوگٸی تھی

رات کے کھانے بعد ولی لاٶنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا ایک صوفے پہ ولی اور نگہت بٹھے تھے دوسر ے صوفہ پہ نیلم اور بلقیس تھے ولی کا سارا دھیان ٹی وی پہ تھا 

ولی ۔۔ نگہت نے اسے پکارہ تھا وہ بلکل انکے ساتھ جڑ کے ہاتھ میں ریموٹ پکڑے دونوں ٹانگیں میز پہ رکھے سارا دھیان ٹی وی پہ تھا انکی آواز پہ ان کی دیکھا تھا جیسے پوچھ رہا ہو کیا بات ہے

ولی ۔۔ جی ماما بولیں ۔۔۔

بیٹا وہ تم سے بات کرنی تھی" نگہت کی آواز پہ ولی کےساتھ ساتھ بلقیس اور نیلم بھی متوجہ ہوٸی انکی طرف

جی ماما بولیں میں سن رہا ہوں" اسکا دھیان ابھی بی ٹی وی پہ تھا اب چینل سیرچ کر رہا تھا

بیٹا کیا تم شام کو آکر نیلی کو پڑھا دیا کرو گے اب وہ بڑی کلاس میں آگٸی ہے تو اسکی پڑھاٸی مشکل ہوگٸی ہے تو۔۔

ماما میرے پاس ٹاٸم نہیں جو میں آکر اس پر دماغ کھپاٶں اب ہمم ۔۔۔ وہ نگہت کی بات بیچ میں ہی کاٹتا اپنی سنا کر اٹھ کے چلا گیا اپنے کمرے میں

نیلم کی توخوشی کا ٹھکانا نہ رہا اسکی توقع کے عین مطابق ولی نے انکار کردیا تھأ

ماما دیکھا نا ولی بھاٸی نے منع کردیا میں نےآپ سے کہاتھا کہ وہ مجھے تو نہیں پڑھاٸیں گے اب آپ کے مطابق کہ ولی بھاٸی مجھے پڑھانے سے انکار کردیں گے تو مجھے آپ کی طرف سے پوری اجازت ہوگی کرن کے بھاٸی سے ٹیوشن پڑھنے کی اب میں رافع بھا۔۔۔۔"

نیلم جونگہت کے پاس صوفے کے قریب کھڑی اس سے خوش ہوتے اسے ٹیوشن کا بتا رہی تھی جیسے ہی وہ بات کرتے جیسے ہی وہ پلٹی تھی ولی سے ٹکراتے ٹکراتٕے بچی تھی وہ اسکے عین پیچھے کھڑے اسکے قریب کھڑے اسکی ساری باتیں سن رہا تھا اسے توخوشی میں ہوش ہی نہ رہا تھا کہ ولی اسی وقت واپس آگیا تھا اپنا موباٸل لینے جووہ غصے میں بھول گیا تھا

اسے دیکھ نیلم کی سیٹی گم ہوٸی تھی اسکی مسکراتے ہونٹ سمٹے تھے  کیا ہوا رک کیوں گی ہو بولو کیا باتیں چل رہی تھی کوٸی بتاٸے گا مجھے ولٕی نے ایک نظر بلقیس کودیکھا پھر نگہت کو نیلی اسکے سامنے سر جھکاۓ کھڑی تھی خوشی میں کچھ زیادہ ہی شوخی ہوگٸی تھی دل میں بس سوچا تھا

تم نے پوری بات سنی ہی کب تھی اب کیا پوچھ رہے ہو" بلقیس نے جواب دیا تھا اب 

بیٹا نیلی رافع سے ٹیوشن پڑھنا چاہتی ہے وہ گھر پڑھاتا ہے کرن کا بھاٸی ہے میں اس سے کہا تھا پہلے تمہیں پوچھ لوں پھر اگر تم نہ مانے تو اسے کرن کے گھر پڑھنے کی اجازت ہوگی نگہت اپنی بات کر کے خاموش ہوٸی تھی

ولی اب کڑے تیوروں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ اسکے چند قدم کے فاصلے پر سر جھکاۓ کھڑی تھی 

اور وہ چند قدم کا فاصلہ بھی تہ کر کے اس کے سامنے سینے پہ دونوں ہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا

کیا کہا تھا تم نے ۔۔۔ بولو زرا میں بھی تو سنو آخر محترمہ چاہتی کیا ہیں

 وہ ہاتھوں کی مڑورہی تھی مگر بولی کچھ نہی

کل سے تیار رہنا شام کو آفس سے آتے ہی تمہیں پڑھایا کروں گا تمہارا شوق بھی پورا کردوں ٹیوشن پڑھنے کا

اور ہاں۔۔۔ جاتے جاتے وہ مڑا تھا ۔۔اگر رافع کے پاس دوبارہ پڑھنے کی ضد کی تو ٹانگیں توڑ کے گھربٹھادوں گا پھر پڑھنے سے بھی جاٶ گی 

ولی چپ کر جاٶ"۔۔ نگہت نے اسے ٹوکا تھا جاٶ یہاں سے ۔۔ میں سمجھا دوں گی بچی ہے نگہت سخت ہوٸی تھی 

ہمم بچی ہلکا سر نفی میں ہلاتا وہ وہاں سے چلا گیا تھا

نیلم۔۔ نگہت نے نیلم کے قریب آٸی تھی کہ وہ وہاں سے روتی ہوٸی بھاگ گٸی 

افف میں کیا کروں ان دونوں کا نگہت سرپہ ہاتھ مارتی صوفے پہ بیٹھ گٸی بلقیس بیگم جو یہ ساری کارواٸی خاموشی سے دیکھ رہی تھی اٹھ کرنگہت کے پاس آٸی تھی 

نگہت تم فکر مت کرو سدھر جاٸیں گے دونوں ۔۔نگہت کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بلقیس نے تسلی دی تھی

مگر کیسے کیسے فکر نہ کروں میں مجھ اب ہمت نہیں ہے

ایک کام کر سکتے ہیں ہم جس سے یہ دونوں سدھرے گے بھی اورایک دوسرے کے قریب بھی آٸیں گے بلقیس کے دماغ میں اتنے دنوں سے کھچڑی پک رہی تھی جو اب وہ زبان پہ لاٸی تھی

کیا کہ رہی ہو بلقیس نہ سجھی کہ انداز میں نگہت نے پوچھا 

اگر تم میری بات پہ عمل کرلو تو تمہاری تمااام فکریں ختم ہو سکتی ہیں تمام کوکھینچ بولا تھا 

صاف صاف کہو بلقیس نگہت نے سنجیدگی سے کہا

دیکھوں نگہت تم ۔۔تم ولی اور نیلم کو نکاح کے بندھن میں باندھ دوبڑی رازداری سے بلقیس نے نگہت کو بات کہی تھی

کیا ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی تم بلقیس۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے" نگہت حیران ہوتی نظروں سے بلقیس کودیکھ رہی تھی 

کیا کہہ دیا میں نے تمیں ایسا خود سوچو نیلم کو مضبوط سہارا بھی مل جاۓ گا اور تم بھی مطمٸن ہوجاٶ گی دونوں کی طرف سے 

مگر وہ دونوں نہیں مانیں گے اس کیلۓ۔۔۔ تم نے خود انکے تماشے دیکھے ہیں اور ولی وہ بلکل بھی راضی نہیں  ہوگا کبھی بھی نہی نگہت نے اسے دو ٹوک جواب دیا تھا

اگر تم راضی ہوگی تو وہ بھی مان جاۓ گا جیسے آج پڑھاٸی کی لۓ مان گیا ہے نکاح کیلٸے بھی مانے گا اگر تم منانا چاہوتو

مگر ۔۔ نگہت کچھ کہنا چاہاتو بلقیس نے ٹوک دیا ۔۔اگر مگر چھوڑو میری بات پہ دھیان دو تمہارے فاٸدے کی ہی بات کی ہے آگے تمہاری مرضی نیلم کیلٸے تمہیں ولی سے بہتر نہی کوٸی ملے گا سوچنا ضرور اپنی بات کہہ 

 کر وہ رکی نہی تھی اور سونے کے لٸے چل دی اور نگہت بیٹھی سوچتی رہ گٸی یہ کیسے ممکن کر پاۓ گی

(حال)

رات کے بارہ بج رہے تھے ولی کو بھی نیند آگھیرا اب لیپ ٹاپ  بند کرکے ساٸیڈ پہ رکھ کے سیدھا ہواتو سامنے بیڈ پہ نیلی اڑھی ترچھی سو رہی تھی ایک ہاتھ میں پین پکڑے سامنے رجسٹر کھلا ہوا ولی نے اس کے ہاتھ سے پین نکالا اور رجسٹر سمیت ساری بکس اٹھا کہ ساٸیڈ پہ رکھی اب اس کی طرف متوجو ہوا

حال)

رات کے بارہ بج رہے تھے ولی کو بھی نیند آگھیرا اب لیپ ٹاپ  بند کرکے ساٸیڈ پہ رکھ کے سیدھا ہواتو سامنے بیڈ پہ نیلی اڑھی ترچھی سو رہی تھی ایک ہاتھ میں پین پکڑے سامنے رجسٹر کھلا ہوا ولی نے اس کے ہاتھ سے پین نکالا اور رجسٹر سمیت ساری بکس اٹھا کہ ساٸیڈ پہ رکھی اب اس کی طرف متوجو ہوا

اب وہ اس کے بلکل قریب بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا جو سوتے ہوۓ اسے بے حد معصوم لگی تھی چہرے پہ بکھرے سنہری بال وہ چہرہ اور اسکے چہرہ کے قریب تر کردگیا تھا.. دھیرے سے اسکے چہرہ پہ بکھرے سے سنہری بالوں کے سائیڈ پہ کیا تھا پھر سر جھٹکتا اسے اٹھانے کیلۓ ایک دو آوازیں دی مگر وہ الگ ہی دنیا میں پہنچی ہوٸی تھی ٹس سے مس نہ ہوٸی

ولی نے پھر اسے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے زور سے ہلایا نیلییی اٹھو۔۔۔۔

نیلم جھٹ سے اٹھ بیٹھی اسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا پہلے کہ کیا ہوا پھرولی جو بلکل اسکے سامنے اور بے حد قریب بیٹھا اسے گھور رہا تھا 

وہ وہ سوری مجھے نیند آ گٸی تھی میری بکس اسے یاد آیا کہ وہ لکھ رہی تھی اور اسنے ولی کو ابھی تک ٹیسٹ نہیں لکھ کر دیا اس لٸے وہ غصہ کر رہا ہے

چہرے پہ بکھری آوارہ لٹیں نیند سے سرخ ہوتی نیلی آنکھیں دوپٹے سے بے نیاز نازک ساوجود لیۓ اسے سامنے سراپا امتحان بنی بیٹھی ادھر ادھر کتابیں دیکھتی 

افف یار سوجاٶ نیند آ رہی ہے مجھے ایک گھنٹے سے تم سو رہی ہواب بکس یاد آگٸی ہے  اس سے نظریں پھیریں کوفت سے کہتا اورسیدھا ہو کے لیٹ گیا آنکھیں بند کر لی

ہمم ایک گھنٹے سے سورہی تھی اسکی نقل اتارتی وہ بیڈ سے اتری تھی ہلکی آواز میں کہا تھا پھر بھی ولی کے کانوں سے مخفی نی رہ سکی اسکی آواز۔

 اور وہ اپنی بکس اٹھا کے دروازے کے پاس  پہنچی تھی کہ ولی کی آواز پہ رکی تھی 

رکو لاٸٹس اوف کر کے جاٶ اسکو غصہ آرہا تھا ولی پہ سوٸچ بورڈ کے پاس جا کہ لاٸٹس اوف کی تھی نکلتے وقت ولی کے کمرے کا دھاڑ سے دروازہ بند کیا تھا غصہ کا صاف اظہار تھا

ولی جو آنکھیں بندھ کیۓ نیند میں تھا دوازہ زور سے بند کرنے پہ اسے غصہ آیا تھا دل کیا ابھی جا کہ اسکی عقل ٹھکانے لگادے مگر رات کافی ہو گٸی تھی اس لۓ کل صبح اسکی کلاس لینے کا سوچتا وہ پھر سے آنکھیں  موند گیاتھا 

اور وہ اپنے کمرےمیں جا کے بکس بیڈ پہ پھینکیں اور ساتھ خود بھی بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹ گٸی کمرے کا بلب روشن تھا اسے اندھیرے سے خوف آتا تھا اسے ولی پہ بہت غصہ آرہا تھا جس نے اسے اینوی اتنی بٹھاۓ رکھا تھا پھر اسکی نیند خراب کی اور پھر آنکھیں بند کرگٸی اور نیند پھر سے مہربان ہوگٸی تھی 

۔۔۔۔۔۔

صبح چھہ بجے تھے ولی کا موبائل پہ لگا آلارم کب سے بج رہا تھا نیلم کے کمرے تک اسکی آلارم کی آواز آ رہی تھی تو وہ گھڑی پہ وقت دیکھتی اٹھ بیٹھی تھی آج اسکا پہلا پپر تھا 

ولی بار بار موباٸل پہ ہاتھ مار کر اسکا گلا دبا دیتا مگر آلارم  پھر تھوڑی دیر بعد بج اٹھتا تھا کہ آج وہ اسے اٹھا کے رہے گا آخر کار اسے اٹھنا ہی پڑا تھا 

نیلم بلکل تیار بیٹھی اسکا انتظار کر رہی تھی وہ اب تک روم سے باہر نہیں نکلا تھا وہ اسکے روم  میں جانا نہیں چاہتی بار بار ٹاٸم دیکھ رہی تھی اگر اب باہر نہ آیا تو میں خود اسکول چلی جاٶں گی ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ولی بلکل تیار کمرے سےباہر آیا تھا 

چلو جلدی کرو باہر آٶ وہ اسے کہتا باہر نکلنے لگا 

آپ نے ناشتہ نہیں کیا ۔۔۔

ٹاٸم نہی ہے لیٹ ہوجاٶں گا کہتا باہر نکل گیا وہ بھی بیگ اٹھا کے اسکے پیچھے چلدی 

وہ دروازہ سے باہر نکلی اور دروازے کو بند کرنے کیلٸے دروازے کو ہاتھ مارا تھا دروازہ لوہے کا تھا تو دروازہ بند ہونے کی آواز تیز تھی ولی جو دروازے کو لاک کرنے کیلۓ پاس کھڑا تھا اسے اسی وقت اسکی رات والی بات یاد آٸی تھی وہ اس وقت گلی میں کھڑے تھے اس لۓ وہ چپ کر گیا تھا

دروازہ کو لاک لگا کے وہ باٸیک پہ اسے گھورتا ہوا یٹھا تھا پتہ نہیں اب کیوں غصہ کر رہے ہیںنیلم دل میں سوچتی اسکے پیچھے باٸیک پہ بیٹھ گٸی تھی 

اسکے اسکول کے پاس پہنچ کر اسے اتارا تھا وہ باٸیک اسٹارٹ کر کے جانے لگا تھا کہ نیلم کو خود کو دیکھتا پا کر رکا تھا جو باٸیک سے اتر کر اسکول کےاندر جانے کے بجاۓ اس کے سامنے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی

ایک بک جو ہاتھ میں تھی اسے سینے پہ رکھے دونوں ہاتھ اسکے گرد لپیٹے ہوۓ تھے

کیا ہوا اندر نہی جا رہی تم یہاں کیوں کھڑی ہو 

آج میرا پہلا پیپر ہےمعصومیت سے وہ کہتے اسے دیکھ رہی تھی

بیسٹ آف لک اسکی بات سمجھتے ولی نے اسے تھنمبز اپ کیا تھا تو وہ ہلکا سا مسکراٸی تھی ساتھ آنکھیں بھی نم ہوٸی تھی 

ولی کو اس وقت وہ بہت کیوٹ سی لگی تھی وہ بھی ہلکا مسکرایا تھا اور اسکی گال تھپ تھپاٸی تھی  بی بریو گرل ڈونٹ کراۓ  اور زن سے باٸیک بھگا لے گیا تھا وہ رکنا نہیں چاہتا تھا

چہرے پہ مسکراہٹ آ ٸی تھی ساتھ اداسی کچھ دور ہوٸی تھی آج وہ ولی  کی وجہ سے مسکراٸی تھی جو ہمیشہ سے اسے رولاتا ہی آیا تھا ہلکی مسکان لۓ وہ مس حبہ کے پاس سے گزری تھی

حبہ کو اسکی مسکان چبھی تھی حبہ روز ولی کو دیکھنے کیلۓ جلدی اسکول آجاتی تھی وہ اسکول کے سیکنڈ فلور کی بالکونی پہ کھڑی ہوتی جب ولی نیلم کو اسکول چھوڑنے آتا تھا 

آج وہ ان دونوں کو اوپر سے دیکھ رہی تھی ولی کو اسکے ساتھ مسکراکر بات کرنا پھر اسکی گال چھونا ناگوار گزرا تھا پیپرز کے ختم ہونے کے بعد اسکا ارادہ تھا ولی سے بات کرنے اور ولی اس سے آسانی سے نہیں ملے گا نیلم اسکا زریعہ تھی نیلم کا استعمال کرنا تھا اسے سوچ سمجھ کے ..ولی تھا کہ اسے دیکھتا تک نا تھا اکیڈمی میں بھی اس سے دور ہی بھاگتا تھا  

۔۔۔۔۔۔

آج نیلم کا آخری پیپر تھا اور وہ پیپر دے کر گھر لوٹ رہی تھی اسکول سے گھر وہ پیدل چل کر آرہی تھی راستہ میں ہمیشہ کی طرح آوارہ لڑکے کھڑے سیٹیاں بجا رہے تھے وہ ہر اسکول اور کالج آنے جانے والی لڑکیوں کے ساتھ ہی ایسی ہی بد تمیزیاں کرتے تھے اور وہ بھی سب کیطرح انہیں نظر انداز کرتی آگے بڑھ گٸی اسے پیچھے سے بھی انکے آوارہ جملے سناٸ دیتے تھے

گھر آکر اسنے صوفےپہ بیگ پھینکا تھا اسکی جان چھوٹ گٸی تھی پڑھ پڑھ کے وہ تنگ آگٸی تھی آج کرن سے بھی ملنے کا ارادہ تھا کافی ٹاٸم ہوگیا تھا وہ ملی نہیں تھی اسکے بھی فرسٹ اٸیر کر پیپر ہو رہے تھے اس لٸے دونوں کا دھیان بس پڑھاٸی پہ تھا 

شام کے پانچھ بج رہے تھے اس نے سوچا ابھی چلی جاتی ہوں اور ایک گھنٹے میں واپس آٶں گی ولی کےگھر آنے کا ٹاٸم سات بجے تھا ولی کو اسکا کرن کےگھر جانا اچھا نہیں لگتا تھا اسلٸےوہ تب اسکے گھر جاتی جب وہ گھرنا ہوتا تھا 

وہ خوش خوش سی کھڑی تھی کرن کے گھر کاگیٹ بجا رہی تھی کرن نے ہی دروازہ کھولا تھا وہ سامنے نیلی کو کھڑا دیکھ کر حیران ہوٸی تھی

واٶ نیلی واٹ آ سرپراز نیلییی تم ہو یار آٶ جلدی سے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لاٸی تھی گھر کے اندر 

میں کہیں خواب تو نہی دیکھ رہی ایسا لگ رہا تھا جیسے زمانے بیت گٸے ہیں تمہیں دیکھے ہوۓوہ دونوں گھر کے صحن کے بیچ میں ہاتھ پکڑے کھڑی تھی

اب اسے بٹھا بھی لو اگر آہی گٸی ہے تو کرن کی ماں بولی تھی نیلی نے ان سے جھک کر پیار لیا تھا انھوں نے بھی اسے ڈھیروں دعاٸیں دی تھی

آجاٶ کمرے میں جاکر باتیں کرتے ہیں وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر میں لاٸی تھی 

ان دونوں کی بچپن کی دوستی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہو گٸی تھی

اور سناٶ کیسی ہو تم اور میری یاد کیسے آگٸی تمہیں پیپرز کیسے ہوۓ تمہارے  ایک ہی سانس میں اس نے سارے سوال پوچھ ڈالے تھے

میں بہت اچھی ہوں پپرز بھی اچھے ہوۓ اور تمہیں کونسا میری یاد آگیٸ جو مجھ سے گلے کرنے لگ گٸی ہو نیلم بھی شکوہ کرتی بولی

وہ بس یار میرے بھی فرسٹ اٸیر کے پیپر تھے اس لٸے بزی تھی میں بھی سوچ رہی تھی تم سے ملنے کا

ہمم بس سوچتی رہنا تم نیلم نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا

اچھا بس اب تم آگٸ ہو نہ چھوڑو سب ایک بات بتاٶ مجھے کرن اسکے مزید کھسک کے پاس آگٸی وہ دونوں آمنے سامنے بیڈ پہ بیٹھی ہوٸی تھی

ہممم کونسی بات پوچھو نیلم کرن کو دیکھ کے بولی 

وہ تم ۔۔ تم اب ۔۔ تم پپرز سے فری ہوگٸی ہو تو گھر میں فارغ رہ کر کیا کرو گی کرن پوچھنا کچھ اور چاہ رہی تھی مگر ہمت نہی ہوٸی پوچھنے کی توبات بدل گٸی تھی

میییں۔۔۔ ہمممم ہاں میں اب سوچ رہی ہوں ۔۔وہ سوچنے کے انداز میں ایک انگلی گال سے چھو کر میں کو لمبا کھینچ کر بول رہی تھی "مییں اب کوکنگ سیکھوں گی کچھ کچھ تو آتا ہے مگر اتنا تجربہ نہیں ہے پیپرز کی وجہ سے کچن میں نہیں گھسی تھی اب کوشش کروں گی اب مجھ سے باہرکا کھانا نہیں کھایا جاتا

اچھا تو کیسے سیکھو گی تم کھانا بنانا زرا یہ بتایوکرن نے اسکا مزاق اڑاتے کہا تھا

کہا تو ہے کچھ کچھ آتا ہے کوشش کروں گی تو آجاۓ گا ماما کودیکھتی تھی کھانا بناتے اور انکی ہیلپ بھی کرتی تھی" ماما کو یاد کرتے آنکھیں نم ہوٸی تھی 

نگہت آنٹی بہت اچھی تھی دیکھنا تم بہت اچھا کھانا بنانا سیکھ جاٶ گی بلکل انکی" طرح کاکرن نے نیلی کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز لہجے میں کہا 

اچھا ولی بھاٸی کا بیہیو کیسا ہے تمہارے ساتھ وہ اب بھی ویسے غصہ کرتے ہیں تمہارے ساتھ" آخر بات بدلے کیلۓ کرن پوچھ لیا نیلم سے جو وہ پوچھنا چاہتی تھی

نہیں کرن اب وہ غصہ نہیں کرتے مجھ سے انکا بہیو بہت چینج ہوگیا ہے میرے ساتھ پہلے وہ ایوی خامخوا غصہ کرتے رہتے تھے مگر اب وہ ایسے نہی کرتے" وہ مسکراتے ہوۓ کرن سے کہہ رہی تھی وہ  ولی کی تعریف کر رہی تھی کرن حیران ہوتی اسے دیکھ رہی تھی 

میرے سارے پیپرز کی تیاری مجھے انھوں نے ہی کرواٸی تھی میرے سارے پیپرز بہت اچھے ہوۓ ہیں" کرن بت بنی اسے دیکھ رہی تھی

ماشاللہ یہ تو بہت اچھی بات ہے" ہاجرہ بیگم کرن کی کمرے داخل ہوٸ تھی چاۓ اور کچھ کھانے کے لوازمات لیکر نیلم کی باتیں سن کر انہوں نے کہا تھا

اور پاس آکر ہاتھ میں پکڑی ٹرے بیڈ پہ رکھی تھی اور نیلم کے سر پیار سے ہاتھ پھیرا تھا

جیتی رہو بیٹاخوش رہو ولی  بہت سمجھدار لڑکا ہے نگہت نے تم دونوں کیلٸے ہترین فیصلہ کیا تھا اور وہ سہی ثابت ہوا ہے اللہ تم دونوں کو خوش رکھے میری کسی مدد کی ضرورت ہو ضرور بتانا " وہ بہت پیار اور اپنایت سے کہہ رہی تھی

جی آنٹی ضرور" نیلم نے انکا ہاتھ پکڑ کہا تھا 

اور وہ پھر چلی گٸی تھی دونوں پھر چاۓ پیتی باتوں میں لگ گٸی تھی 

اف میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی تم کبھی ولی بھاٸی کی بھی تعریف کرو گی وہ بھی  ایسے میرے سارے پیپرز کی تیاری مجھے انھوں نے ہی کرواٸی تھی میرے سارے پیپرز بہت اچھے ہوۓ ہیں" وہ اسکی نکل اتارتے ہوۓ بولی تھی نیلم کی ہنسی چھوٹ گٸی تھی اسکی نکل اتارنے پہ

 کافی وقت گزرنے کے بعد اسے خیال آیا کہ ولی کے آنے سے پہلے وہ گھر چلی جاۓ ابھی اسکے آنےمیں آدھا گھنٹہ باقی ہے 

اچھا کرن میں چلتی ہوں اب بہت مزہ آیا آج تم بھی آنا اوکے" وہ دونوں کھڑی ہوٸی اور چلتے ہوۓ باہر آٸی تھی 

نیلم ۔۔ ہاجرہ نے نیلم کو آواز دی تھی وہ انکی طرف پلٹی تھی انہوں نے نیلم کے پاس آکر اسکے ہاتھ میں ٹرے تھمایا ٸی تھی

یہ کیا ہے آنٹی اسنے ٹرے پکرتے ہو ۓ پوچھا تھا جو رومال سے ڈھکی ہوٸی تھی 

یہ کھانا ہے بھنڈی گوشت بنایا تھا تمہیں پسند ہے اس لیۓ تمہارے لیۓ "

آنٹی اسکی کیاضرورت تھی رہنے دیتی آپ"

رکھو چپ کر کے گھر جاٶ " اسکی بات بیچ میں کاٹتے کرن بولی تھی اور اسے لیکر دروازے تک آٸی تھی باۓ باۓ کرن اسے ہاتھ ہلاتے ہوۓ بولی تھی

وہ اب اپنے گھر کی طرف مڑی تھی مگر جب دروازے کے لوک پہ نگاہ گٸ تو وہ ایک پل کیلٸے ٹھٹکی تھی لاک کھلا ہوا تھا

وہ ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوٸی تھی صحن میں ولی کی باٸیک کھڑی دیکھی تھی تھوڑا خوف کم ہوا تھا مگر ڈر ابھی بھی لگ رہا تھا

گھر کے اندر آٸی تو اسے ولی نظر نہیں آیا تھا ولی کے کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا تھا وہ کچن میں گٸی تھی ہاتھ میں جو ٹرے پکڑی تھی اسے کچن کی سلیپ پہ رکھی اور باہر آٸی اور اپنے کمرے میں گھس گٸی تھی اور ولی کے ری ایکشن کے بارے میں سوچنے لگی تھی کہ وہ اب اس پہ غصہ کرے گا

تھوڑی دیر گزری تھی کہ اسے ولی کی آواز آٸی 

نیلم ۔۔۔۔۔ وہ اسے پکار رہا تھا نیلم دوسری بار پھر اسے آواز دی تھی اسکی آواز نارمل لگ رہی تھی 

وہ ڈرتی کمرے سے باہر آٸی تھی اور اسکے پاس آکے رکی تھی وہ سامنے صوفے پہ  بیٹھا تھا ماتھا مسل رہا تھا  

کہاں تھی تم " سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا آنکھیں سرخ ہو رہی تھی اسکی 

اسے مزید ڈر لگا اسکی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر 

میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے" وہ کچھ نہ بولی تو وہ پھر سے بولا تھا

وہ وہ ۔۔۔میں کرن ۔۔۔ کے گھر ۔۔ گٸی تھی گھبراہٹ کے مارے اس سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا

ہممم ۔۔۔ ولی کو غصہ آرہا تھا نیلی پہ اسکے منع کرنے کے باوجود بھی کرن کے گھر جایا کرتی تھی اور آج وہ پھر گٸی تھی اس سے چھپ کر اگر وہ طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے گھر نہ آتا تو اسے پتہ ہی نہ چلتا

کون کون تھا کرن کے گھر جب تم گٸی تھی اور کب گٸی تھی" وہ سنجیدگی سے اس سے سوال کر رہا تھا اپنا غصہ کنٹرول کر رہا تھا 

کرن اور بس اسکی ماما وہ سر جھکاۓ دھیمی آواز میں بولی تھی بلیک کلر کا پلین سوٹ پہنے اور بلیک دوپٹہ سکارف کے سٹاٸل میں باندھا ہوا تھا جس میں اسکی گوری رنگت اور خوبصورت لگ رہی تھی

آٸندہ تم اسکے گھر نہیں جاٶ گی وہ کھڑا ہو کر اسکے قریب رک کر اسے دیکھتا ہوا بولا تھا

نیلم نے اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا نیلی آنکھوں پانی بھرا ہوا تھا جو برسنے کو بیتاب تھی ولی کو اپنا آپ ان آنکھوں میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا جلد ہی وہ رخ موڑ گیا تھا اس سے 

مم میں" وہ سسکتی ہو ٸی بولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر بولا نہی جا رہا تھا

مم میری ایک ہی تو فرینڈ ہے کیا میں اب اس سے بھی نا ملوں اب" وہ بچوں کی طرح اس سے شکوہ کر رہی تھی آنکھوں برسات جاری تھی 

وہ اسکی طرف مڑا تھا پھر اسکے قریب آیا نرم لہجہ اپناتے وہ بولا تھا میں نے ملنے سے منع نہیں کیا اسکے گھر جانے سے منع کیا ہے وہ یہاں آجایا کرے مجھے تمہاری فرینڈ سے نہیں اعتراض مجھے ڈر ہے میں گھر نہی ہوتا اور تم میری غیر موجودگی میں گھر سے نکلو اور خدا نہ کرے کچھ غلط ہوجاۓ اب تم میری زمہ داری ہو ماما تھی تو اور بات تھی" وہ چلا گیا تھا اپنی بات مکمل کر کے 

نیلم سوچتی رہ گٸی اسکی باتوں کو وہ پھر اسے ٹھیک لگا تھا شاید وہ ٹھیک کہ رہا تھا اب ماما نہی ہے پہلے کی بات اور تھی 

وہ اپنے کمرے میں آیا تھا آج وہ اس پہ پہلے کی طرح غصہ نہیں کر سکا تھا اسے ڈرا ہوا دیکھ کہ وہ نرم پڑ گیا تھا اسے نرمی سے سمجھا کر آیا تھا وہ ہمدردی کر رہا تھا .. اسکا سر بہت درد کر رہا تھا آج طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی وہ کام نہیں کر پا رہا تھا اس لٸے وہ چھٹی لیکر گھر آیا جب گھر میں آیا تو خالی گھر اسکا منہ چڑھا رہا تھا پہلے تو اسے گھر نا پاکر ڈر گیا تھا مگر پھر اسے خیال آیا کہ وہ کرن کے گھر گٸی ہوگی اسے بہت غصہ آیا تھا وہ اسکی غیر موجودگی میں گٸی تھی اس سے چھپ کر نیلم معصوم ہے اور کرن بہت تیز تھی اس لٸے ولی کو انکی دوستی ایک آنکھ نا بھاتی تھی مگر اب حالات شاید بدل گۓ ہیں وہ اسکی دوستی نہیں توڑ سکتا تھا کرن کے ساتھ اس لۓ اسے گھر آنے کی اجازت دے دی تھی اسکا سر مسلسل درد کر رہا تھا وہ انگوٹھا اور انگلی سے اپنی کنپٹیاں دبا رہا تھا 

اتنے میں دروازہ کھلا تھا اور نیلی ہاتھ میں چاۓ کا کپ لٸے اس کے سامنے حاضر ہوٸی تھی

ولی کا سر بہت دکھ رہا تھا اس سمے اسے شدید طلب تھی چاۓکی 

اسنے ٹرے سے چاۓ کا کپ اٹھایا تھا ہلکا سا مسکرایا اور پھر بولا "بڑی سمجھدار ہو گٸی ہو" اور کپ سے سیپ لیا 

اکثر وہ کام سے شام کو جلدی آجایا کرتا تھا تو چاۓ لازمی پیتا تھا اور تب وہ نگہت اور اسکے لۓ شام کی چاۓ بنایا کرتی تھی یہی سوچ کروہ چاۓ لاٸی تھی نیلم اسکا کوٸی جواب دیۓ بغیر کمرے سے باہر آگٸی تھی سوچتے سوچتےکہ جو اسکی تعریف کر رہا تھا کتنا کچھ بدل گیا تھا اب وہ اسکا ایک نیا روپ دیکھ رہی تھی جو بہت بھلا لگ رہا تھا 

کچن میں گٸی تو کھانا ٹھنڈا ہو رہا تھا اسے دوبارہ گرم کیا اور ولی کے لٸے کھانا ٹرے میں رکھ کر اسکے کمرے میں اسے دینے گٸی اسکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اور وہ کمرے سے باہر بھی نہیں آیا تھا کھانا کھانے کیلۓ 

کمرے کا دروازہ کھلا تھا وہ بغیر ناک کۓ کمرے میں آگٸی تھی ولی بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا ایک بازو آنکھوں پہ رکھا ہوا تھا 

کھانا کھا لیں وہ اسکے پاس آکر رکی تھی اور ہلکی سی آواز دی تھی

اسنے بازو آنکھوں سے ہٹا کر اسے دیکھا تھا پھر اٹھ کر بیٹھ گیا 

اور نیلم نے کھانے کی ٹرے اسکے آگے رکھی تھی وہ ایک نظر کھانے پہ ڈالی جو گھر کابنا ہوا لگ رہا تھا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا 

وہ یہ کھانا کرن کی ماما نے دیا تھا وہ جب میں انکے گھر گٸی تھی میں نہی انہوں نے خود دیا" تھا گھبرا گٸی تھی 

ولی نے تھوڑا سا کھانا کھایا تھا پھر ٹرے ہاتھ سے پرے کردی تھی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک سے کھا نہی پایا تھا 

ایسا کرو ایک کپ چاۓ کے ساتھ مجھے ایک سر درد کی ٹیبلیٹ لادو وہ کہتا پھر لیٹ گیا تھا 

نیلم کھانے کی ٹرے اٹھا کر کیچن میں آگٸی تھی اسکے لیۓ چاۓ بناٸی پھر کچن میں فرسٹ ایڈ باکس سے سر درد کی ٹیبلٹ نکالی اور چاۓ کے ساتھ پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ ٹرے رکھ کر اسکے کمرے میں آٸی تھی جوویسے ہی بازو آنکھوں میں رکھے لیٹا ہواتھا 

 وہ چاۓ ۔۔۔ اسے ہلکی سے آواز دی تھی ولی اٹھ کے بیٹھا تھا نیلم نے ٹرے ساٸیڈ ٹیبل پہ رکھی اور پانی کا گلاس اور ٹیبلٹ اسے پکڑاٸی تھی ولی نے ٹیبلٹ کھاٸی دوگھونٹ پانی کے بھرے اور گلاس اسے پکڑا دیا تھا پھر نیلم نے اسے چاۓ دی ولی کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی وہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی اسے ٹھیک نہیں لگ رہا تھا اسے پوچھنا چاہ رہی تھی مگر پوچھ نا پاٸی ہمت نہیں ہو رہی تھی 

نیلم اپنے کمرے میں آگٸی تھی بیڈ پہ لیٹ گٸی تھی وہ بھی تھکی ہوٸی تھی پیپرز کی وجہ سے وہ ٹھیک سے سوٸی نہیں تھی پھر ا ب جا کر وہ بستر پے لیٹی تھی ولی کی وجہ سے بے چین بھی ہو رہی تھی مگر اسنے ٹیبلٹ کھاٸی تھی سو جاۓ گا ٹھیک ہوجاۓ گا یہ سوچتے آنکھیں بند کرلی تھی اور سو گٸی 

رات کو پیاس کے احساس سے آنکھ کھلی تھی اٹھ کر بیٹھی تو پانی کمرے میں وہ رکھنا بھول گٸی تھی اٹھ کر کمرے سے باہر آٸی تو ساتھ ہی ولی کا کمرہ تھا اسکے کمرے کی لاٸٹ جل رہی تھی اور دروازہ بھی کھلا تھا کچھ سوچتے وہ کمرے میں داخل ہوٸی تھی ولی بیڈ پہ لیٹا ہواتھا نیند میں بڑ بڑ ا رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کہ رہا تھا نیلم نے اسکے ماتھے ہاتھ رکھا تو وہ تیز بخار سے تپ رہا تھا وہ بہت پریشا ن ہوٸی کیا کرے اس وقت ڈاکٹر کہاں سے ملے گا 

وہ رونے لگ گٸی تھی کہ کیا کرے ولی اٹھے ڈاکٹر کے پاس چلتے ولی" وہ اسکا بازو زور سے ہلا رہی تھی اسکے پاس کھڑی تھی وہ تیز بخار میں تپ رہا تھا نیم بےہوشی کی حالت میں تھا ہلکی سی آنکھ کھولتا بند کرلیتا 

نیلم کچھ یاد آنے پہ کچن میں گٸی ایک باٶل میں ٹھنڈا پانی اور کپڑا لے کے آٸی ولی کے پاس کھڑی ہوگٸی تھی 

کانپتے ہاتھوں سے وہ کپڑا گیلا کر کے وہ اسکے ماتھے پے رکھ رہی تھی اور ساتھ روبھی رہی تھی ایک ہی تو رشتہ بچاتھا اسکے پاس اب وہ اسے کھونا نہی چاہتی تھی

کافی دیر بعد جا کر اسکا بخار کم ہوا تھا اور اب وہ جو بخار میں کراہ رہا تھا خاموش ہوگیا تھا نیلم کو اب سکون ملا تھا وہ اسکے پاس بیڈ کراٶن کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھی ہوٸی تھی اور ایسے ہی بیٹھے بیٹھے اسے نیند آگٸی تھی 

صبح ہونے پہ ولی کی آنکھ کھلی تھی اپنے پاس سوۓ ہوۓ وجود کو دیکھا تھا تو رات کا سارا منظر زہن میں آیا تھا وہ نیم بے ہوش تھا مگر اسے یاد تھا کیسے نیلم نے ساری رات جاگ کر اسکی خدمت کی تھی وہ اسے دیکھے جا رہا تھا وہ اسکے بلکل قریب بیٹھی ہوٸی سو رہی تھی سوتے ہوۓ وہ اسکو بہت معصوم سی پری لگ رہی تھی صاف شفاف گوری رنگت چہرے پہ آوارہ سنہری لٹیں جھول رہی تھی وہ بہت ہمت کر کے اٹھا تھا جسم ابھی بھی دکھ رہا تھا

نیلم کی آنکھ کھلی تو ولی اٹھ کے بیٹھ رہا تھا اب وہ اسکے قریب بیٹھ چکا تھا نیلم نے چونک کے اسکی طرف دیکھا

آپ ٹھیک ہیں اسکے چوڑے ماتھے پہ ہاتھ رکھا پھر اسکی گال پہ ہاتھ رکھ کر اسکا بخار چیک کر رہی تھی" ولی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا  

ہاں ٹھیک ہوں میں تم جو ہومیرے پاس میرے ساتھ  ولی بہت نرمی سے اسکی نیلی آنکھوں جھانکتے کہا تھا 

وہ وہ آپ کو بہت تیز بخار تھا رات کو وہ اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر سر پر دوپتہ لیتے ہوۓ بولی اور بیڈ سے نیچے اتر گٸی تھی ولی کا اس ہاتھ پکڑنا عجیب لگا تھا

آپ آج آفس سے چھٹی کر لیں پھر ڈاکٹر کے پاس چلے جاٸیں میں ناشتہ بنادیتی ہوں آپ کیلۓ وہ مودبانہ انداز میں اسے مشورہ دے رہی تھی 

ولی ہلکا سا مسکرایا تھا جی میری جان جو حکم مگر ابھی تم آرام کرو ساری رات بے آرم ہوٸی ہو میری وجہ ابھی آٹھ بجے ہیں دس بجے تک میں ناشتہ کر کے ڈاکٹر کے پاس جاٶں گا " 

آرام کرنے  کا سنتے اسنے اپنے کمرے کا رخ  آتے ہی وہ پھر سے بیڈ پہ گری تھی آنکھیں بند کرلی تھی اسے ابھی بھی بہت نیند آرہی تھی..

مگر ولی کے کہے گئے آخری الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے اسکی دل کی دھڑکنوں میں شور برپا ہوا تھا جسے وہ سمجھ نہیں سکی.. اور پھر نیند کی وادیوں میں اتر گئی..

ماضی

نگہت بہت پریشان ہوٸی تھی بلقیس آخر وہ یہ سب کیسے ممکن کرپاۓ گی بلقیس کی بات اسے کافی حد تک درست بھی لگی تھی 

ولی نیلم کو روز شام کو پڑھاتا تھا ایک ہفتہ ہوگیا تھا نیلم اسکے آنے سے آدھا گھنٹا پہلے ہی پڑھنےبیٹھ جاتی ولی آفس سے 6 بجے آتا اور پھر نیلم اس کیلۓ چاۓ بھی بناتی تھی جیسے ہی وہ آفس سے آتا فریش ہونے کیلٸے کمرے میں چلا جاتا نگہت اس سے چاۓ بنانے کا کہہ دیتی جب تک فریش ہوکر باہر آتا وہ چاۓ اس کے سامنے لاکر رکھ دیتی تھی

آج بھی اسے پڑھا رہا تھا دونوں ٹی وی لاٶنج میں صوفے پہ بیٹھے ہوۓ ولی اسے میتھس کے پروبلمز سمجھا رہا تھا پھر اسے کچھ سوال لکھ کر حل کرنے کیلۓ جو اس کے پلے ہی نہیں پڑھ رہےتھے اسنے اپنی طرف سے اسے سولو کر کے دیٸے تھے ولی نے رجسٹر دیکھا توبہت ساری غلطیاں تھیں دونوں صوفہ پہ ایک دوسرے بہت قریب بیٹھے ہوۓ تھے ولی نے رجسٹر اپنی تھاٸ پہ رکھا ہوا تھا اور پین سے لکھ کر اسے میتھس سمجھا رہا نیلم بھی سمجھنے کے لیۓ اسکے ساتھ جڑ کے نظریں رجسٹر پہ گاڑے بہت دھیان سے سمجھ رہی تھی اگر اسے سمجھ نہ آیا تو ولی سے پھر ڈانٹ پڑے گی 

ولی سمجھاتے سمجھاتے اس پہ نظر پڑی تو پھر اپنی پوزیشن کااحساس ہوا تھا نیلم ویسے ہی رجسٹر پہ جھکی سوال سمجھ رہی تھی اور پھر رجسٹر ہاتھ میں اٹھا کر اس سے ایک اور پواٸنٹ پوچھنے لگی جواسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ اسکے ساتھ جڑی بیٹھی تھی ولی اسکے چہرے کو بہت غور سے تک رہا تھا نیلی ہیزل آٸیز گھنی پلکیں جسے وہ بار بار جھپکاتی چھوٹی سی ناک گلابی باریک ہونٹ ساف گوری رنگت نیلی ایک نظر اسے دیکھتی تو اایک نظر رجسٹر کو دیکھتی اس سے پوچھ رہی تھی ..موباٸل رنگ سے اسکاسکتہ ٹوٹا تھا 

" یہ کیا بتا دیں" نیلم بول رہی تھی 

"اچھا بس باقی کل" وہ موباٸل اٹھاتا وہاں سے نکلا تھا  

نیلم نے بھی کتابیں سمیٹی اور کمرے کی راہ لی تھی 

ان دونوں کو نگہت بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھی وہ کچن میں شام کاکھانا بنا رہیں تھی ان دونوں پہ بھی نظریں جماٸیں رکھی تھیں یہ انکا روزکا کام تھا وہ کچن سے انہیں صاف دکھاٸی دیتے تھے آج کا یہ سین تو بلقیس نے بھی دیکھا تھا ولی کا یوں نیلم کوالگ انداز سے دیکھنا 

وہ بھی کچن میں تھی نگہت کے ساتھ بلقیس نگہت کے قریب آکر کھڑی ہوٸی تھی وہ جو کسی گہری سوچ میں گم کھڑی تھی اتنا کیوں سوچ رہی ہو نگہت آج تو تم نے ولی کے بدلتے انداز کو خود دیکھا ہے اور میں کب سے دیکھ رہی ہوں اسکے یہ انداز نیلم پہ بے جا پابندیاں لگانا اسے گھر سے نہ نکلنے دینا کرن کے گھر نا جانے دینا اسکے بھاٸی سے پڑھنے کی اجازت نہ دینا وہ خود اپنے حالات سے ناواقف ہے اگر تم چاہو تو ۔۔۔ سب کچھ ممکن ہے ان دونوں کی جوڑی سورج چاند کی جوڑی ہے تمہاری بہن سے کیا وعدہ نبھانے کا وقت ہے" بلقیس انکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ  کہ بولی تھی ۔۔۔

مگر بلقیس ولی نہیں مانے گا وہ بہت چھوٹی بھی تو ہے "

نگہت پریشان سی ہوٸی تھی بلقیس کی باتوں پہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماما ۔۔۔ ماما وہ میں کرن کے گھرجاٶں وہ کافی دن سے نہیں آٸی ہے میں بس تھوری دیر میں آجاٶ ں گی آج پڑھنا بھی نہیں ہے ولی بھاٸی نے کل پڑھاٸیں گے وہ نان سٹاپ بولتی نگہت کے سر پہ کھڑی ہوٸی تھی جو شام کی سبزی صحن میں بیٹھ کر بنا رہی تھی بلقیس بھی اس کے ساتھ بیٹھی ہوٸی تھی ۔۔۔

اچھا اچھا جاٶ میرا بچہ جلدی آنا "۔۔ نگہت کی اجازت ملنے کی دیر تھی وہ تیار کھڑی تھی جانے کیلۓ اور بھگنے کے انداز میں دروازے تک پہنچی سامنے ہی ولی دروازے سے اندر آیا اس سے پہلے کے ولی اسسے کو ٸی تفتیش کرتا وہ اسکی ساٸیڈ سے گزرتی باہر نکل گٸی تھی ولی کو اسکے اس انداز پہ غصہ آیا تھا وہ اندر آیا تھا سامنے نگہت اور بلقیس کو دیکھ ان کے پاس ہی کرسی پہ بیٹھ گیا تھا ۔۔۔

 یہ کہاں گٸی ہے ماما..ماتھے پہ تیوری چڑھاتے غصہ سے بولا 

بیٹا کرن کے گھر گئی ہے.. نگہت بولی 

آۓ روز کرن کے گھر گھسی رہتی ہے.. بہت سر چڑھا لیا ہے آپ نے اسے

ہاں تو تمہیں کیا کیوں بچی کے پیچھے پڑے رہتے اب کرن کے ہی گھر جاتی ہے بس.. بلقیس اسے ڈپٹتے بولیمجِھے کیا پڑی ہے جو اسکے پیچھا پڑا ہوں عزت ہے میرے گھر کی اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو کیا عزت رہ جائے گی ہماری محلہ می.. وہ کہتا اٹھ گیا

اسکے جانے کے بعد نگہت بولی 

بلقیس تم ہی ولی سے بات کرو نیلی کے بارے میں مجھ سے تو نہیں ہوتی.. وہ پریشانی سے بولی 

اچھا کوئی صحیح وقت آنے دو. کر لیں گے بات اب اتنی جلدی بھی کیا ہے".. بلقیس بولی 

وقت گزرتا جا رہا تھا اور نگہت بیمار رہنے لگی تھی

رات کو ولی سو رہا تھا جب زور زور سے دروازہ بجا اسکے کمرے کا

تو وہ انگڑائی لیتا بستر سے اٹھا تھا دروازہ کھولا تو سامنے نیلم گھبرائی سی کھڑی تھی

تم.. اس وقت

وہ ولی بھائی ماما کو دیکھیں انکی طبیعت خراب ہوگئی ہے پلیز ڈاکٹر کو لے آئیں.. وہ پریشان سی بولی

تو ولی جلدی سے انکے کمرے میں گیا

ماما.. کیا ہوا آپ کو. جلدی سے انکا ہاتھ تھاما

پتا نہیں.. سر ..گھوم.. رہا ہے وہ بڑی مشکل سے بولی تھی.. اور کھانسنے لگی

تو ولی بھاگتا موٹر سائیکل لئے نکلا تھا

کچھ ہی دیر میں وہ ڈاکٹر کو لے آیا تھا.. ڈاکٹر نے انکا ٹریٹمنٹ دیا جس سے وہ پرسکون ہوئی اور نیند کا انجیکشن بھی لگایا تاکہ وہ سو سکیں

نیلم انکے سرہانے بیٹھی تھی

ڈاکٹر ولی کے ساتھ کمرے سے باہرآیا  بی پی بہت زیادہ ہائی ہوگیا تھا اور شوگر بھی  کل آپ انہیں میرے کلینک لے آۓ گا کچھ ضروری ٹیسٹ بھی کرنے ہیں

ڈاکٹر کوئی ٹینشن والی بات تو نہیں  ولی نے کسی خدشہ کے تحت پوچھا

یہ تو میں نہیں بتا سکتا اس وقت بہرحال ابھی تو سب ٹھیک ہی لگ رہا ہے.. کوئی ٹینشن یا اسٹریس میں لگ رہی ہیں.. اقی کل ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی بتا سکتا ہوں..ڈاکٹر اپنی بات مکمل کرتا چلا گیا 

ڈاکٹر کو رخصت کرکے ولی کمرے میں آیا . تو نیلی نگہت سو رہی تھی اسکے ساتھ انکا ہاتھ تھامے نیلم بیڈ کیساتھ ٹیگ لگائے سو رہی تھی

ولی صوفہ پہ ہی بیٹھ گیا.. وہ نگہت کو دیکھ رہا تھا نگاہیں بھٹکتی نیلم پہ گئی.. وہ سوتے ہوئے بے حد معصوم لگی تھی.. سرخ و سفید رنگت گھنی پلکوں کے جھالر گراۓ.. پھر سے اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ 

مگر پھر سے نگاہ اس کے معصوم چہرے پہ جا ٹھہریں.  

وہ اٹھ ہی گیا وہاں سے اور اپنے کمرے میں آگیا 

اگلے دن ولی نے نگہت بیگم کے سارے ٹیسٹ کرواۓ

اب وہ ڈاکٹر کے پاس بیٹھا رپورٹس کے متعلق سوال کررہا تھا

پیشنٹ کو ہارٹ کا پرابلم ہے وہ اسٹریس میں ہیں جیسا کے میں نے رات بھی بتایا تھا.. اور بی پی بھی ٹینشن لینے سے ہائی ہوا ہے.. اور شوگر بھی ہائی ہے.. تو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کھانے پینے میں بھی اور دوائیں بھی پابندی سے لینی ہے.. ڈاکٹر آرام سے ساری بات ولی کو سمجھائیں

نگہت کو لئے وہ گھر آیا

"ماما کس چیز کی پریشانی ہے آپکو کیوں کرر ہی ہیں آپ ایسا.. " میں ہوں نا آپکے ساتھ.. پھر کیا وجہ ہے پریشانی کی بتا کیوں نہیں دیتی.. " ولی سامنے بیٹھا سوال کررہا تھا اور وہ بس خاموش رہی 

اور وہ غصہ سے اٹھ کر باہر چلا گیا 

کچھ دن گزرنے کے بعد بلقیس آئی

نگہت کیا ہوگیا ہے تمہیں ولی نے بتایا تمہاری طبیعت خراب ہوگئی ہے

بلقیس تم بات کرو نا ولی سے نیلی کے بارے میں.. وہ اسے اپنا لے.. " مجھے فکر ہے دونوں کی.. اپنی بہن سے کئے گئے وعدہ کی.. وہ کہتے ہی آبدیدہ ہوگئی 

نگہت تم حوصلہ رکھو میں کرتی ہوں بات اس طرح اپنی طبیعت خراب مت کرو.. " وہ انکا ہاتھ تھامتی انہیں حوصلہ دینے لگی

کچھ دن ویسے ہی سر جوڑے بیٹھی رہیں کے کیسے بات کرے ولی سے اسکا انداز کیا ہوگا

اور ولی کتنے دنوں سے ان دونوں کو نوٹ کر رہا تھا 

شام کو وہ انکے پاس آکر بیٹھ گیا.. وہ دونوں اس وقت صحن میں درخت کے نیچے تختہ پہ بیٹھی آپس میں وہ کچھ باتیں کررہی تھی ولی کے آتے ہی خاموش ہوگئی

ولی تم سے بات کرنی ہے.. بلقیس بولی

جی جی بولیںوہ سامنے کرسی پہ بیٹھا تھا ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے 

تمہاری ماں پریشان ہیں تمہیں اور نیلی کو لیکر.. " 

ہاں تو بتائیں نا کیوں پریشان ہے کتنی بار پوچھ چکا ہوں کہ کیا پریشانی ہے.. بتاتی ہی نہیں" ولی سیدھا ہوکر بیٹھا 

میں نیلم کے مستقبل کو لیکر پریشان ہوں چاہتی ہوں اپنی زندگی میں ہی اسے محفوظ ہاتھوں میں سونپ کر جاؤں.."

نگہت بھی بول پڑی.. 

"ابھی وہ چھوٹی ہے اتنی جلدی اسکی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور میں ہوں نا پھر کیسی فکر" وہ اپنی بات کہتا خاموش ہوا بلقیس اور نگہت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

تو کیا تم نیلم سے نکاح کرو گے " بلقیس فٹ بولی

کیا میں نے ایسے کب کہا.. میرے کہنے کا مطلب تھا میں نیلم کی اچھی جگہ شادی کرواؤں گا.. " بلقیس کی بات پہ حیران ہوا تھا اور جلدی سے اپنی بات کلئیر کی.. 

ہاں تو تم نکاح کرو گے اس میں کیا حرج ہے بھلا.. بلقیس بولی.. 

نو.. کبھی نہیں.. میں نے کبھی اس کے بارے میں ایسا نہیں سوچا اور آپ لوگ بھی اپنی دماغ سے یہ بات نکال دیں.. غصہ سے کہتا گھر کے اندر کی جانب بڑھا.. 

دیکھا بلقیس مجھے پتا تھا اسکا وہ نہیں مانے گا.. " نگہت بلقیس کو دیکھتی بولی.. 

تم زرا پیار سے سمجھاؤ گی تو مان جاۓ گا.. " وہ اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھتی دلاسہ دیتی بولی.. 

ولی جب لاؤنج میں آیا تو نیلم ضافہ پہ کتابیں پھیلاۓ بیٹھی اسکا ہی انتظار کررہی تھی.. 

وہ اسے غصہ سے دیکھتا کمرے میں چلا گیا.. 

ماما ولی بھائی نے آج پڑھایا ہی نہیں.. وہ کافی دیر انتظار کرتی رہی پھر نگہت کے پاس آتی معصومیت سے بولی.. 

بیٹا آج تم خود پڑھ لو اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے.. " بلقیس نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا 

اور سر ہلاتی چلی گئی.. نگہت پریشان سی بیٹھی تھی.. 

نگہت تم فکر نا کرو اب ٹھیک ہوجائے گا.اب جیسا میں سمجھاتی ہوں ویسا کرو. بلقیس اسے دلاسہ دیتی بولی.. 

🥀🥀🥀

نیلم کی آنکھ کھلی گھڑی پہ ٹائم دیکھا گیارہ ہوگئے ہیں ایک دم سے ولی کا خیال آیا اسے تو بخار تھا.. جلدی سے اٹھی واشروم میں گھسی تھی کچھ دیر بعد منہ دھو کر کمرے سے باہر نکلی.. اور ولی کے کمرے میں آئی.. 

ولی سو رہا تھا.. وہ کچھ دیر کھڑی اسے دیکھتی رہی کیا کرے اٹھاۓ کہ نہیں.. پھر ہاتھ بڑھا کر اسکے ماتھے پہ رکھ دیاجو ابھی بھی تپا ہوا تھا .. ولی نے آنکھیں کھولے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا تو فوراً اس نے ہاتھ کھینچ لیا.. 

وہ.. مم.. میں آپکا بخار چیک کررہی تھی.. لڑکھڑاتی آواز میں بولی.. 

میں ٹھیک ہوں.. وہ اسکی طرف کروٹ لیتا اسے بغور دیکھتا بولا.. دھلا سا شفاف چہرہ کالے دوپٹہ میں دمکتی گوری رنگت.. چہرے پہ بلا کی معصومیت نیلی آنکھوں کو بار بار جھپکاتی کوئی گڑیا ہی لگی تھی اسے.. ایک پل کیلئے تو اسکا جی چاہا کہ اسکے پھولے ہوئے گلابی گالوں کو چھو کر دیکھے..  پھر اپنی سوچوں پہ لعنت بھیجی تھی.. 

" تم جاؤ باہر چاۓ بناؤ میں آتا ہوں.. " اور وہ سر ہلاتی باہر چلی گئی.. 

اپنے دل کی منتشر ہوتی دھڑکنوں پہ ہاتھ رکھا تھا.. " نہیں میں اسکے بارے میں ایسا نہیں سوچ سکتا.. یہ ہمدردی ہے میری اسکے لئے.. یہ رشتہ کاغذی ہے. میں اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بناؤں گا.. " نکاح کے وقت خود سے کئے گئے عہد کو یاد کرنے لگا.. وہ جو بےوجہ نفرت پہلے تھی اسکے دل میں نیلم کیلئے وہ تو کہیں باقی ہی نہیں رہی تھی.. ایک اٹریکشن تھی اس میں جو اسے اپنی طرف متوجہ کرتی تھی.. جو ہمیشہ اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا مگر قسمت کے ہاتھوں اسکی ڈور اسی کے ہاتھوں میں آگئی.. ہمت کر کے بیڈ سے اٹھا تھا.. 

فریش ہوکر باہر آیا تو.. وہ ٹیبل پہ ناشتہ لگا کر اسی کا انتظار کررہی تھی.. 

بریڈ اور ساتھ آملیٹ اور چاۓ رکھی تھی اسے بس یہی بنانے آتا تھا ناشتہ میں.. 

ولی نے بس چاۓ ہی لی اسکا جی نہیں چاہ رہا تھا کچھ کھانے کو.. 

آپ ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے.. نیلم اسے بس چاۓ پیتا دیکھ بولی.. 

ہہم ٹھیک ہوں میڈیسن لے لی ہے میں نے.. اور تم میری دادی اماں مت بنو.. وہ ہلکا سا اسے ڈپٹتے  بولا..  تو وہ چپ ہوگئی.. 

اسکول جانا شروع نہیں کیا تم نے ابھی تک کب کے پیرز ہوگئے ہیں سدا کیا نکمی ہی رہی  .. وہ بات بدلتا ہوا بولا.. 

ابھی تو ختم ہوۓ ہیں پیپرز اور میرے پاس نیو بکس نہیں ہیں میٹرک کی.. اور نکمی نہیں ہوں.. پھر سے نکمی ہونے کا طعنہ برداشت نا ہوا.. غصہ سے ناک سرخ ہوئی تھی.. 

اسکا ہر روپ ولی کیلئے امتحان بن رہا تھا.. تو وہ نظروں کا زاویہ بدل گیا.. 

تو وہ غصہ سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی.. 

اسکے جاتے ہی ولی نے اپنا ماتھا مسلا تھا جہاں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگی تھی.. بخار سے جیسے بدن ٹوٹ رہا تھا نیلم کی بات پہ عمل کرنا پڑے گا ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے اٹھا تھا.. 

ہہم نکمی.. " کب ہوں میں اسکول سے چھٹیاں کیا کرتی نکمی ہوگئی.. " اور خود کیا ہیں " سڑیل کہیں کا.. " دل ہی دل میں اسے سناتے خود کو پرسکون کرنے لگی تھی..

نیلم.. " 

ولی کی آواز کانوں میں پڑی تھی جس نے پکارا تھا اسے.. 

نیلم " 

اب پھر اسکی آواز آئی.. 

تو کمرے سے باہر نکلی.. وہ باہر نہیں نظر آیا تو اسکے کمرے میں گئی.. 

وہ الماری میں منہ دیے کھڑا تھا.. 

جی" اسکے کمرے آتی بولی.. 

غصہ ابھی بھی چہرے پہ واضح تھا.. 

شرٹ پریس کردو میری ہمت نہیں ہو رہی تھی میری ورنہ خود پریس کرلیتا تمہیں تکلیف نا دیتا.. آف وائٹ شرٹ اسکی طرف بڑھاتے بولا.. جو اس نے بنا کچھ بولے تھام لی کمرے سے باہر نکل گئی.. 

اور کچھ ہی دیر میں وہ پریس کی شرٹ لئے واپس آئی تھی.. 

" واہ بڑی فاسٹ ہو.. میں تو نکمی ہی سمجھ رہا تھا.. " شرٹ اسکے ہاتھ سے پکڑتے بولا.. اسنے غصہ سے گھورا تو   اپنی ہنسی دباتا واشروم میں بند ہوا تھا اور وہ پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی.. 

اب میں کوئی کام نہیں کرنے والی اسکا ایک تو شرٹ استری کرکے دی اور پھر نکمی بول دیا.. وہ صوفہ پہ بیٹھتی خود سے بڑبڑاتے بولی.. 

کچھ دیر بعد ولی بھی تیار ہو کر باہر آیا آنکھیں ابھی بھی بخار کی وجہ سے سرخی مائل ہو رہی تھیں.. 

اچھا میں ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں گیٹ اچھے سے لاک کر لینا اندر سے.. وہ کمرے سے باہر آیا اور اسے صوفہ پہ بیٹھا دیکھ بولا.. وہ اپنی بائیک باہر نکال رہا تھا.. نیلی بھی اسکے پیچھے گئی.. وہ دروازہ تک آئی ولی نے بائیک گلی میں نکال لی تھی.. سامنے والا گھر کرن کا تھا.. رافع اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا ہاتھ باندھے جب نظر دروازے پہ کھڑی نیلم پہ گئی جس کا سارا دھیان ولی پہ تھا جو اس سے کچھ کہہ رہا تھا.. کافی دنوں بعد وہ اسے نظر آئی تھی.. 

نیلم نے ولی کی بات سنتے ہی دروازہ اندر سے بند کرلیا اب بائیک تک آیا جب اسکی نظر رافع پہ پڑی جو پوری توجہ سے دروازہ کو ہی دیکھ رہا تھا جہاں سے کچھ دیر پہلے نیلم کھڑی تھی.. ولی نے غصہ سے بائک کو ریس دی.. رافع گھر کے اندر چلا گیا.. اور ولی نے بائک آگے بڑھا لی.. رافع کی نیلم میں بڑھتی دلچسپی وہ بہت پہلے سے جان چکا تھا اسلیے اسے نیلم کا انکے گھر جانا پسند نہیں تھا.. 

رافع ایک سلجھا ہوا لڑکا تھا.. مگر نیلم اسے پسند تھی وہ اسے نیلی آنکھوں والی گڑیا لگتی تھی.. 

رافع جان چکا تھا کو ولی کو اچھا نہیں اس طرح اسکے گھر کی طرف دیکھنا.. اس لیے وہ جلدی سے اپنے گھر چلا گیا.. 

(ماضی) 

بلقیس تو چلی گئی اپنے گھر واپس اب نگہت پریشان سی

 تھی ولی سے دوبارہ کیسے بات کرے.. جیسا بلقیس نے اسے سمجھایا تھا نگہت بھی ٹھیک اب ویسے ہی کرنے لگی تھی.. 

نیلی بیٹا یہ ولی کو چاۓ تو دے آؤ.. وہ چاۓ کا کپ اسے تھماتے بولی.. 

ماما میں نہیں جاتی انکے کمرے میں آپکو پتا تو ہے.. پتا نہیں کیوں آج کل کچھ زیادہ ہی غصہ آنے لگ گیا ہے خاص طور پہ مجھ پہ.. وہ منہ بناتی بولی.. 

نیلی میرے گھٹنے میں درد ہے مجھ سے چلا نہیں جاتا.. "  نگہت نے کہا تو چار ناچار کپ لئے اسکے کمرے میں چلی گئی.. وہ ابھی ہی آفس سے آیا تھا نگہت کو چاۓ کا بولتے کمرے میں آگیا.. 

نیلم دروازہ پہ دستک دیتی کمرے میں آئی.. ولی بیڈ پہ آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا.. دستک کی آواز پہ آنکھیں کھولتے نیلم کو دیکھا.. 

تم کیوں آئی ہو چاۓ لیکر ماما کو کہا میں نے.. گلابی دوپٹہ کو حجاب کے انداز میں باندھے ہوئے وہ بہت کیوٹ لگی مگر ولی کی گھوریوں سے بار بار موٹی موٹی نیلی آنکھوں جھکانے لگی جس میں اور بھی پرکشش لگی.. 

ولی تو ایک پل کیلئے ساکت ہوا مگر اگلے لمحے اسکے ہاتھ سے چاۓ چھیننے کے انداز میں لی اور تیز آواز میں بولا.. "دفع ہوجاؤ" 

اسکی موٹی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرا گئی تھی.. اور وہ وہاں سے بھاگنے کے انداز سے نکلی.. 

اسکو روتا ہوا دیکھ نگہت سمجھ گئی تھی.. ڈانٹ پلائی ہے اس نے.. 

اگلے دن  نیلی

" جی" ماما.. بیٹا یہ ولی کے کمرے یہ شرٹس تو رکھ آؤ ولی کی پریس کی ہوئی شرٹس نیلم کی جانب بڑھائی.. 

ماما ولی بھائی کے کمرے میں نہیں جاؤں گی".. وہ صاف جواب دیتے بولی.. 

ولی نہیں ہے کمرے میں تم رکھ آؤ .. جاؤ بچے " 

اچھا نا دے پھر " وہ منہ بسورتی شرٹس لئے اسکے کمرے میں چلی گئی.. 

اور اسی وقت ولی بھی گھر داخل ہوا تھا اور سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا تھا.. 

اب تو نیلی کو اسکے کمرے میں بھیج چکی تھی.. وہ سوچتی رہ گئی.. 

تم کیا کررہی ہو یہاں.. " اپنی الماری میں گھسا دیکھ وہ چلا کے بولا.. 

نیلم کو لگا آج نہیں خیر اسکی.. 

" وہ یہ.. ماما نے کہا.. کہا تھا.. کہ.  میں یہ شرٹس.. " مارے گھبراہٹ کے اسکے منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو رہے تھے.. 

ولی تیزی سے اس تک پہنچا اور اسکے ہاتھ سے اپنی شرٹس جھپٹی تھی.. 

دفع ہو جاؤ اور دوبارہ قدم بھی  مت رکھنا میرے کمرے میں.. " 

وہ سخت لہجہ اختیار کر گیا تھا.. 

وہ روتی ہوئی نکلی تھی اسکے کمرے سے.. 

اور اپنے کمرے میں بند ہوگئی.. 

نگہت نے اسے روتے ہوئے کمرے سے نکلتے دیکھا تو افسردہ ہوگئی اور اپنے فیصلہ پہ نظر ثانی کرنے لگی.. 

اگلے دن ولی شام کو گھر آیا نگہت صحن میں درخت کے نیچے بیٹھی تھی.. 

وہ سلام کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا.. 

کچھ دیر بعد فریش ہو کر انکے پاس بیٹھا.. 

نیلم کہاں ہے" وہ اسے آس پاس نظر نہیں آئی تو پوچھ بیٹھا.. 

کیوں تمہیں کیا لگے کہاں ہے بچی کی جان کو آۓ ہوۓ ہو.. ہر وقت اسے ڈانٹ کر کمرے سے نکال دیتے ہو.." وہ خفا سے لہجہ میں بولی. 

تو نابھیجا کریں اپنی چہیتی کو میرے کمرے میں جان بوجھ کر رہی ہے نا ایسا.. "

ہاں تو تم نے کونسا مان لی بات.. خوبصورت ہے معصوم ہے.. میری ہاتھوں میں پلی ہے.. اگر میری خوشی کیلئے راضی ہوجاتے تو کیا چلا جاتا.. نگہت نے بھی آڑے ہاتھوں لیا.. 

ماما پلیز میں اس ٹاپک پہ بات نہیں کرنا چاہتا پلیز چائے بنوائیں میرے لئے.. " وہ بات بدلتا بولا.. 

نیلی گھر پر نہیں ہے.. "

گھر پر نہیں ہے تو کہاں گئی کرن کے گھر گئی ہے نا.. کتنی بار منع کیا ہے میں نے آپکو مت جانے دیا کریں اسکے گھر.. پھر بھی سنتی کہاں ہے میری آپ اور وہ..

ولی کو غصہ آنے لگا تھا.. 

آجائے گی کافی دیر کی گئی ہے آنے والی ہوگی.. وہ اسے تپا ہوا دیکھ بولی اور وہ وہاں سے چلا گیا.. 

کافی دیر ہوگئی نیلم ابھی تک نہیں آئی.. 

شام کے ساۓ مغرب میں ڈھلنے لگے تھے.. وہ دروازے کو تکی جا رہی تھی.. ولی باہر آیا تھا.. 

آئی نہیں آپکی چہیتی ابھی تک.. " وہ انہیں دروازے کو تکتا پاکر پوچھا.. 

بس آتی ہی ہوگی.. وہ گھبرائی سی بولی.. 

ولی بنا کچھ کہے گیٹ سے باہر نکل گیا.. اور سامنے والے گھر کے سامنے جا رکا جو کرن کا تھا.. دروازہ بجایا. 

رافع باہر آیا تھا.. ولی غصہ کو کنٹرول کرتا بولا.. 

نیلم کو بلاؤ اسے کہو گھر آۓ.. 

ولی.. تم اندر تو پہلے کوئی چاۓ پانی.. نیلم اندر ہی ہے کرن کیساتھ.. رافع کافی خوش اخلاقی سے بولا تھا.. 

تو ولی خاموشی سے گھر کے اندر داخل ہوا.. اسکی نظریں نیلم کو ڈھونڈ رہی تھی.. انکا صحن کافی بڑا تھا.. 

وہاں رکھی دو کرسیوں میں سے ایک پہ ولی بیٹھ گیا.. 

بے ایمانی.. بے ایمانی کی ہے کرن نے.. یہ نیلم کی اونچی آواز تھی جو ولی کے کانوں میں پڑی.. 

کوئی نہیں جھوٹ مت بولو.. کرن بولی.. 

ولی نے آواز کے تعاقب میں سر گھما کر پیچھے کی طرف دیکھا تھا.. سامنے کمرے میں کرن اسکا چھوٹا بھائی عمر اور نیلم بیٹھے لڈو گیم کھیل رہے تھے.. کرن چیٹنگ کررہی تھی تو نیلم زور سے بولی.. عمر نیلم کا ہم عمر ہی تھا.. جو نیلم کے بلکل سامنے بیٹھا.. 

نیلم کی بچی تم نے میری گوٹی کیوں اٹھائی.. عمر غصہ سے بولا.. 

نیلم کا دوپٹہ اسکے سر سے سرک کر گلے آچکا میں تھا اسے کھیل میں دھیان ہی نہیں رہا تھا کہ ولی اسے دیکھ رہا تھا.. 

چاۓ" رافع چاۓ کے دو کپ لئے سامنے کھڑا تھا.. 

ولی غصہ سے بھرا بیٹھا تھا.. خود پہ کنٹرول کرتا کھڑا ہوا تھا.. 

سوری مجھے جلدی ہے.. ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں نیلم کو لینے آیا تھا.. " 

اور نیلم کے سر پہ جا پہنچا جو عمر کے ساتھ ابھی لڑائی کررہی تھی.. 

"نیلم گھر چلو " وہ دانت پیستے بولا تھا 

نیلم تیزی سے اپنا دوپٹہ درست کرتی کھڑی ہوئی تھی.. اسکا تو رنگ سفید پڑ چکا تھا ولی کو سامنے دیکھتے تیزی سے نکلتی چلی گئی وہاں سے ولی بھی اسکے پیچھے نکلا تھا.. 

یہ ہٹلر کہاں سے آگیا.. کرن ولی کو دیکھتے منہ بسورتی بولی.. 

نیلم تیزی سے گھر میں داخل ہوتی نگہت کے پیچھے چھپی تھی اسکے پیچھے ہی ولی اندر آیا تھا.. 

آج کے بعد تم کرن کے گھر گئی تو ٹانگیں توڑ دوں گا میں تمہاری.. " وہ نگہت کے سامنے کھڑا پیچھے چھپی نیلم پہ دھاڑا تھا.. 

ولی کیا ہوگیا ہے.. " نگہت بولی

"کیا ہوگیا ہے.. وہاں تو یہ اپنے جلوے بکھیر رہی تھی گھر میں تو آواز نہیں نکلتی اور وہاں ہلا گلا چل رہا تھا.. 

ہماری عزت کو خاک میں ملانے جاتی ہے یہ وہاں.. کتنا منع کرتا ہوں مت جانے دیں اسکے گھر.. 

آج کے بعد تمہارے سر سے کپڑا اترا تو یہ سر بھی نہیں رہے گا.. وہ غصہ سے کہتا یہ جا وہ جا.. 

نیلم بھی وہاں نہیں رکی تھی.. اور کمرے میں بند ہوئی تھی.. 

نگہت تو صوفہ پہ ڈھہ سی گئی تھی.. 

وہ جانتی تھی ولی کو غلط گمانی ہوئی ہے مگر آج وہ انکا بھی لحاظ کئے بغیر بولا.. 

نیلم بھی کمرے سے باہر نا نکلی اور ولی بھی گھر نا آیا.. کافی دیر بعد ولی گھر آیا.. نگہت کو صوفہ پہ لیٹا ہوا دیکھ بھاگ کر انکے پاس آیا.. 

ماما.. ماما.. وہ انکا ہاتھ پکڑے ہوئے انہیں ہلاتے ہوۓ بولا.. 

مگر وہ بے ہوش تھی.. کتنی ہی آوازیں دیں مگر وہ نا ہلی.. اتنے میں نیلم بھی باہر آگئی وہ بھی انکی طرف لپکی تھی.. 

ایمبولینس کے ذریعے نگہت کو ہسپتال لایا گیا تھا.. 

وہ اس وقت آئی سی یو میں تھی وہ دونوں باہر کھڑے تھے.. 

نیلم بس رورو کر دعائیں ہی کیے جا رہی تھی اپنی ماں جیسی ہستی کے لئے.. 

ولی بھی پریشان سا کھڑا تھا.. وہ پچھتا رہا تھا اپنی باتوں پہ کہ وہ کیا کہہ گیا ان سے..

کافی دیر گزر جانے کے بعد ڈاکٹر باہر آۓ تھے.. 

ڈاکٹر.. ولی ڈاکٹر کی طرف لپکا تھا.. 

دیکھئے ابھی ہم کچھ کہہ نہیں سکتے انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے.. ہم کوشش کررہے ہیں آگے آپ اللہ سے دعا کریں کے انہیں ہوش آجائے.. 

ولی کے پیروں تلے جیسے زمین کھسک گئی تھی.. انہیں کچھ ہوگیا تو وہ کیسے برداشت کر پائے گا ان سے دوری.. یہ سوچ آتے ہی اسکا دل گھبرانے لگا.. 

نیلم بھی ڈاکٹر کی باتوں کو سمجھتی بینچ پہ بیٹھی ہوئی سر جھکائے رودی وہ کیسے رہے گی ان کے بغیر.. اللہ تعالیٰ میری ماما کو کچھ نا ہو.. وہ روتے ہوئے بولی ولی نے اسکی طرف دیکھا.. 

صبح تک وہ جاگتے رہے انکا ہوش میں آنا بہت ضروری تھا.. 

بلقیس کو بھی اطلاع مل گئی تھی نگہت کی طبیعت خرابی کا..

وہ بھاگتی ہوئی اپنے شوہر کے ساتھ ہسپتال پہنچی تھی.. 

ولی بیٹا.. " کیا ہوا نگہت کو.. نیلم اٹھ کر انکے لگ گئ.. 

آپ کے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے.. آپ میں سے ولی کون ہے وہ ولی سے ملنا چاہتی ہیں.. 

ولی بھاگتا ہوا اندر گیا تھا.. نگہت مشینوں میں جکڑی لیٹی تھی.. 

ماما" آپ ٹھیک ہیں.. پلیز آپ ٹھیک ہوجائیں..جیسا کہیں گی ویسا کروں گا پلیز.. 

نیلم.. نیلم سے نکاح.. کرو.. گے.. وہ بڑی مشکل سے لمبے لمبے  سانس لیتی بولی

وہ پہلے سوچ میں پڑ گیا.. پھر بولا.. 

ماما آپ جیسا کہیں گی میں ویسا ہی کروں گا پلیز ٹھیک ہوجائیں.. 

تو وہ آنکھیں بند کرگئی.. 

ماما.. 

ماما.. 

نرس ڈاکٹر کے پاس بھاگی.. 

ماما.. ولی نگہت کا چہرہ تھپ تھپا رہا تھی.. 

ڈاکٹر نے فوراً سے چیک کرنا شروع کردیا.. 

ایم سوری.. شی از نو مور.. ولی کے سر پہ تو جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.. اور وہ چلا اٹھا تھا.. 

باہر بھی ڈاکٹر نے یہی خبر سنائی تھی.. سب کمرے میں بھاگے آۓ تھے.. ولی سسک رہا تھا.. 

ماما.. 

نیلی آکر انکے گلے لگی  تھی..

ماما.. ماما.. بچوں کی طرح وہ اسکے ساتھ لگی رونے لگی.. 

بلقیس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کسے سنبھالے ولی کو یا نیلم کو.. 

ولی جنازے کا وقت ہوگیا ہے..

ولی دروازے کے ساتھ ٹیگ لگائے کھڑا تھا.. جب اسلم صاحب بلقیس پھپھو کے شوہر اسکے پاس آیا.. 

ایک نظر نگہت کے بے جان وجود پہ ڈالی.. ہمت ہی نہیں ہورہی تھی آہستہ سے چل کر انکے پاس آیا.. نیلم انکی چارپائی کا کونا پکڑے بس روۓ جا رہی تھی.. اسے ہمدردی ہوئی تھی نیلم سے

سب مرد بھی جنازہ اٹھانے پاس آۓ.. 

نہی. میری ماما کو کہیں نہیں لیکر جانا.. نیلم انہیں جنازہ اٹھاتے دیکھ رونے لگی.. 

ولی نے نیلم کو بازو سے تھام کر اٹھایا تھا جو نگہت کو چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھی ایسے میں ولی کی آنکھ سے بھی آنسو جاری ہوۓ تھے.. اور اسے بلقیس کے حوالے کیا.. 

اور ولی نے جنازے کو کاندھا دیتے اٹھایا تھا.. 

نیلم چلانے لگی تھی.. اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکی ماں اسکی آنکھوں سے دور چلی گئی.. 

ولی تو ٹوٹ کر رہ گیا تھا.. خود کو بہت ہی اکیلا محسوس کرنے لگا تھا آج پانچ دن ہوگئے تھے نیلم کو گئے ہوۓ.. 

بلقیس اور اسکے شوہر ولی کمرے میں داخل ہوۓ.. 

ولی نگہت کے آخری الفاظ یاد ہیں نا تمہیں.. بلقیس نے اسے یاد دہانی کرائی.. 

ہاں یاد ہے.."

وہ کھویا سا بولا.. 

تو پھر وقت آگیا ہے کہ تم انکی آخری خواہش کا احترام کرتے ہوئے نیلم کا تمہارے ساتھ نکاح پڑھا دیا جاۓ.. 

بلقیس بولی.. 

مگر میں نکاح نہیں کروں گا.. آپ اسے لے جائیں.. ولی نے سپاٹ لہجہ میں کہا.. 

ولی میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی.. نگہت کو تم نے کہا تھا آخری وقت میں کہ تم کرو گے نکاح تو اب کیوں انکار کر رہے ہو.. " 

ہاں کہا تھا مگر میں نے کہا تھا وہ ٹھیک ہوجائیں گی تو مگر وہ تو چھوڑ کر چلی گئی.. ولی کی آواز نم ہوئی تھی.. 

ولی تمہیں نیلم سے نکاح کرنا ہوگا اور نکاح آج ہوگا.. نیلم تمہارے ساتھ رہے گی.. لڑکی زات ہے اسے میں اپنے گھر نہیں رکھ سکتا.. اب کے بلقیس کا شوہر بولا.. 

ولی مان جاؤ.. وہ منتیں کرتی بولی.. 

پھپھو پلیز مجھ مجبور مت کریں پلیز.. ولی چلا گیا وہاں سے.. 

ولی.. پیچھے سے آواز دیتی رہ گئی… 

ولی کمرے سے باہر نکلا تو سامنے نیلم آگئی.. 

وہ اسکے پاس سے گزرنے لگا تو نیلم نے اسکا بازو تھام لیا.. 

ولی بھائی ماما کو لے آئیں نا گھر میرا جی نہیں لگ رہا ان کے بغیر.. وہ بھرائی آواز میں معصومیت سے بولی تھی 

ولی نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکا تھا.. جو نمکین پانیوں سے بھرا گئی تھی.. 

وہ خاموشی سے اپنا دامن چھڑاتا وہاں سے چلا گیا.. 

اسلم آپ زرا صبر رکھیں مان جاۓ گا اتنی جلدی مت کریں

ابھی صدمہ میں ہے.. 

نہیں بلقیس یہ وقت فیصلہ کا ہے.. آر یا پار ولی نہیں مان رہا تو اور سہی نکاح آج ہی ہوگا.. اسلم دو ٹوک فیصلہ سناتے چلے گئے.. اور بلقیس سر تھام کے رہ گئی 

شام کو ولی گھر داخل ہوا تو ٹھٹھک کر رہ گیا.. 

سامنے صوفہ پہ رشید اور اسکی والدہ اور ساتھ مولوی اور کچھ لوگ بیٹھے تھے.. 

یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں.. " وہ جیسے دھاڑا تھا.. 

اسلم اسکے پاس آۓ.. 

نکاح نیلم کا تم نہیں تو اور سہی.. " وہ بولتے ولی کو حیران کرگئے.. 

ولی نے رشید کی جانب دیکھا.. جو ایک اسلم صاحب کی عمر کا تھا سر سے آدھے بال غائب تھے وہ انہی کے محلہ دار تھا.. پچھلے سال ہی اسکی بیوی کا انتقال ہوا تھا نیلم جتنی تو اسکی بیٹیاں تھیں.. 

اٹھو یہاں سے سب لوگ کوئی نکاح نہیں ہوگا.. " وہ تیز آواز میں غصہ سے بولا تھا.. 

بلقیس کمرے کے دروازے پہ کھڑی تھی.. خوشی کی لہر دوڑی تھی انہیں یقین تھا ولی یہ نکاح نہیں ہونے دے گا.. 

ہمیں اسلم صاحب نے بلایا تھا .. کل ہی رشتہ کی بات کی تھی ان سے ہم نے اور آج انہوں نے رضامندی ظاہر کی تو ہی نکاح کرکے لڑکی لے جانے آئیں ہیں.. رشید غصہ سے بولا تھا.. 

تم پہلے اپنی آئنہ میں شکل دیکھو اپنی نیلم کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہو نکلو یہاں سے اٹھی اپنا سارا ٹولہ لے کر.. "

تو پھر بچی کیا تمہارے ساتھ رہے گی وہ بھی بغیر نکاح کے یا پہلے سے ہی.. "

چپ بلکل چپ.. جائیں آپ لوگ.. وہ دھاڑا تھا جب رشید کی ماں نے کہا 

اور وہ لوگ چلے گئے.. 

" کیا چاہتے ہو تم میاں نیلم سے نکاح کرنا ہے یا پھر اپنے بھتیجے کو بلاؤں بھلے ہی شادی شدہ ہے مگر دو بیویاں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے.. " 

ولی بے بس ہوا تھا..میں کروں گا نکاح "   

مولوی صاحب نکاح شروع کریں.. مولوی صاحب ابھی بھی بیٹھے ہوئے ولی کو بلیک میل کرنے کیلئے انہوں نے یہ ڈرامہ کیا تھا.. 

بلقیس اسکے اقرار پہ فٹا فٹ نیلم کے پاس آئی.. 

نیلم جلدی سے سہی ہوکر بیٹھو.. یہ دوپٹہ لو سر پہ.. 

بلقیس لال کامدار دوپٹہ اسکے سر پہ اڑھایا.. 

یہ کیوں پھپھو یہ دوپٹہ تو دلہن لیتی ہے.. 

ہاں تو تم دلہن ہی ہو ولی کی دلہن..انہوں پیار سے انکی تھوڑی پہ ہاتھ رکھتے کہا.. 

نیلم کی حیرت سے آنکھیں پھیلیں.. 

اور ابھی مولوی صاحب آئیں گے وہ جو تم سے پوچھے اسکا جواب ہاں میں دینا ہے.. ٹھیک ہے.. تمہارا نکاح ہو رہا ہے ولی کے ساتھ.. " نیلم نے بس ہاں میں ہی سر ہلایا.. 

پھر مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہوا.. دونوں نکاح نامہ پر دستخط کیے تھے.. 

ولی اپنے کمرے میں آگیا اٹھ کر..

یہ نکاح بس کاغذی ہوگا اس نکاح کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی میری سامنے.. نیلم ماما کی ذمہ داری ہے اب سے میری ذمہ داری ہوگی وہ ہی فرض ادا کروں اسکے لئے جو ماما کررہی تھی.. اسے پڑھا لکھا کر اسکی اچھی جگہ شادی کرواؤں گا.. اسکا اور میرا ساتھ عارضی ہوگا محض.. وہ خود سے عہد کررہا تھا مگر یہ سوچے بغیر کہ اسکا مستقبل تو کچھ اور ہی ہوگا.. 

ماضی کی کہانی ختم ہوئی اب ہمارا حال سے کہانی شروع..

🥀🥀🥀

نیلم کی میٹرک کی تعلیم شروع ہوچکی تھی.. 

وہ اسکول سے گھر آ رہی تھی.. آج پھر وہی آوارہ اوباش اسے دیکھ حملہ کسنے لگے اور وہ ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرتی گھر کی جانب بڑھ گئی.. 

گھر کا دروازہ کھلا تھا.. مطلب ولی گھر ہے.. اسنے دروازہ بجایا مگر جب دروازہ کھلا تو سامنے دیکھتی حیران ہوئی.. 

پھپھو.. وہ زور سے انکے گلے لگ گئی.. 

وہ گھر میں داخل ہوئی اسکے گلے لگے.. 

آپ کب آئیں.. " اور پلیز اب جلدی مت جانا.. اور کس کے ساتھ آئیں.. 

ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے تھے اس نے.. 

ارے بھئی سانس تو لے لو پہلے پھر سب بتاتی ہوں.. 

اکیلے آئی ہوں اور ولی لے آیا تھا بس اسٹینڈ سے مجھے.. 

اور آج بہت خاص دن ہے اس لئے آئی ہوں اور فکر نا کرو تم دونوں کیلئے ہی آئی تاکہ اب تم دونوں کے معاملات بھی دیکھوں ..

کیسے معاملات " وہ ناسمجھی سے بولی.. 

تم یونیفارم چینج کرو میں نے بریانی بنائی ہے تمہارے لئے.. " وہ بات بدلتے بولی 

واؤ.. بریانی بہت بھوک لگی ہے.. وہ جلدی سے کمرے میں بند ہوئی تھی چینج کرنے کیلئے.. 

جب وہ باہر آئ تو حیران ہوئی سامنے ٹیبل پہ کیک اور کچھ گفٹ رکھے ہوئے تھے ..ولی اور پھپھو کھڑے تھے.. 

پھپھو .. یہ میرے لیے.. اوہ مجھے تو یاد ہی نہیں تھا.. تھینک یو پھپھو.. 

"میں نے کہا تھا آج خاص دن ہے.. تمہاری سالگرہ پر لازمی آتی ہوں.. آج پندرہ سال کی ہوگئی ہو تم.. پتا ہی نہیں چلا اتنی سی تھی جب نگہت تمہیں یہاں لائی تھی تم ولی کی قسمت تھی جو یہاں تک آگئی.." 

میری قسمت یہ نکمی میرے گلے پڑ گئی.. ولی منہ میں بڑبڑایا جو دونوں نے سن لیا.. 

ولی سدھر جاؤ.. پھپھو اسے ڈپتٹے بولی.. 

آج سے پہلے ولی نے کبھی اسکی سالگرہ میں شامل نہیں ہوا تھا.. 

نیلم کے ماتھے پہ بل پڑے تھے نکمی سن کر.. پھر پھپھو کے کہنے پہ کیک کاٹا اور ایک پیس پھپھو کی طرف بڑھایا.. 

پہلا حق ولی کا ہے.. پھپھو انکے درمیان سے ہٹی اور نیلم کو ولی کے سامنے کیا.. 

ولی اور نیلم آمنے سامنے تھے نیلم نے ولی کی جانب کیک بڑھایا تھا.. ولی نے کیک کی بائٹ لی اور وہاں سے چلا گیا.. نیلم کی دھڑکن بھی بے ترتیب ہوئی تھی وہ سر جھکا گئی پھر پھپھو کی طرف متوجہ ہوئی.. 

شام کا کھانا انہوں نے ایک ساتھ کھایا تھا.. 

ماشاللہ نیلم تو بہت ہی سمجھدار ہے ..بہت اچھے سے گھر سنبھال لیا ہے پڑھائی کے ساتھ ساتھ.. پھپھو بولی تھی.. اپنی تعریف پہ نیلم مسکرا اٹھی.. 

میرے کمرے میں تو دھول مٹی جمی ہوئی اس نکمی سے اتنا ہی نہیں ہوتا کے وہاں بھی دھیان دے دے.. 

دیکھیں نا پھپھو.. بار بار نکمی کہتے ہے مجھے." وہ چڑ کر بولی تھی.. 

اچھا نا میں آگئی ہوں اچھے سے کمرہ صاف کرواؤں گی" ..پھپھو نے ولی کو ٹوکا.. 

اب بیٹھی رہو گی یا چاۓ بھی بناؤ گی نکمی کہیں کی" ولی نے پھر اسے چھیڑا تھا.. 

اور وہ پیڑ پٹختی کچن میں گھسی تھی.. اور پیچھے سے ہنسنے لگا.. 

پھپھو اسے دیکھ مسکرائی تھی.. 

ولی کیوں بچی کو تنگ کر رہے ہو.. " 

🥀🥀🥀

بلقیس نماز پڑھ کر اب بستر پہ بیٹھی تسبیح کررہی تھی جب نیلم انکے لئے دودھ گرم کر کے لائی.. اور دودھ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا اور خود انکے دوسری طرف آکر بیٹھ گئی.. 

پھپھو آج آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں.. ورنہ تو اکیلے ہی ہوتی تھی اس وقت اور دو جاتی تھی.. اب آپ رہیں گی نا.. وہ خوش ہوتی بولی تھیں.. 

اور ولی.. وہ کیا کرتا ہے اس وقت.. اور تم یہاں سوتی ہو ہو تم نے کمرہ نہیں بدلا.. پھپھو سنجیدگی سے بولی تھی انکی باتوں کا مطلب نیلم سمجھ نہیں پائی.. 

وہ تو اپنے کمرے میں ہوتے ہیں پتا نئی کیا کرتے ہیں میں تو آجاتی ہوں اپنے کمرے میں اور میں کمرہ کیوں بدلوں گی .... نیلم معصومیت سے بولی 

کچھ نہیں ..کل سے تمہارا کمرہ اور ہے اور یہ بات تمہیں میں کل سمجھاؤں گی پہلے اس ولی کے کان کھینچوں گی.." جی پھپھو ضرور کھینچنا نکمی بولتے رہتے ہیں مجھے.. 

اور کافی دیر وہ باتیں کرتی رہی اور نگہت کی باتیں یاد کرتی رہیں..

اگلے دن نیلم سکول جانے کیلئے تیار کھڑی تھی.. ولی تیار سا کمرے سے باہر آیا.. آف وائٹ شرٹ پہنے ساتھ میں بلیک پینٹ پہنے کلین شیو تیکھے نین نقوش گھنے سیاہ بالوں کو سلیقہ سیٹ کئے ہوئے چھ فٹ سے نکلتا قد.. وہ کافی جاذب نظر آ رہا تھا.. نیلم کو بھی اسکی پرسنیلٹی اچھی لگی آج اسکا دل الگ ہی رو میں دھڑکا تھا..

ماشاللہ میرا بیٹا تو بہت ہی پیارا لگ رہا ہے.. پھپھو نے بلائیں لی تھی.. 

اچھا اچھا اب مسکے نا لگائیں.. چلو نیلم دیر ہو رہی ہے..

ولی.. تم میری بات سن کر جانا کام پہ.. " پھپھو نے اسے جاتے روکا.. 

پھپھو پلیز دیر ہوجائے گی.. " وہ سن گلاسس آنکھوں پہ ٹکا تا بولا.. اور باہر نکل گیا نیلم تو پہلے ہی باہر نکل چکی تھی.. 

نیلم ابھی باہر نکلی ہی تھی کہ رافع سے سامنا ہو وہ بھی آفس جانے کیلئے تیار باہر کھڑا تھا.. بائیک پہ بیٹھنے لگا جب نیلم گھر سے باہر نکلی.. 

کیسی ہو نیلم " نگہت کے جانے بعد اب اسکا سامنا ہوا تھا..

میں ٹھیک ہوں.. " وہ مسکرا کر بولی تھی.. رافع کی نیچر بہت سوفٹ تھی وہ ہمیشہ سے نرمی سے بات کرتا تھا اس سے.. 

اتنے میں ولی نے بھی گیٹ سے باہر بائیک نکالی تھی.. 

دوسری طرف رافع کو نیلم کی طرف متوجہ پایا تو.. سیخ پا ہوا تھا.. ایک غصیلی نگاہ اس پہ ڈالی تھی.. 

غصہ سے کک ماری تھی.. 

نیلم جلدی سے اسکے پیچھے بیٹھ گئی.. ولی نے تیز بائیک بھگائی.. 

آہستہ چلائیں میں گر جاؤں گی.. نیلم نے اسکا بازو زور سے پکڑ لیا تھا اور اسکے ساتھ جڑ گئی تھی.. 

کیا کہہ رہا تھا وہ غصہ سے کہا تھا.. 

کون؟ رافع بھائی.. " کچھ نہیں بس حال ہی پوچھا تھا.. 

آئندہ میں تمہیں اس سے بات کرتا ہوا نا دیکھوں.. " اور اسکول آگیا تھا.. تو جلدی سے اتر گئی.. 

میں نے نہیں کی تھی ان سے بات.. " نیلم نے بس اتنا ہی بولا تھا کہ اس نے بائیک دوڑا دی غصہ ابھی بھی بہت آریا تھا اسے.. اب گھر جانے کا ارادہ ہی بنایا پھپھو کی بات سن لے.. 

حبہ ولی کو روکنے کی کوشش میں تیزی سے باہر نکلتی آئی مگر وہ چلا گیا تھا.. 

ولی چلا گیا.. وہ نیلم کو دیکھتی بولی.. 

جی "کہتے ہی وہ اندر جانے کیلئے اسکا بھی موڈ ولی کی وجہ سے خراب ہوا.. 

اچھا پھر بریک میں مجھ سے آکر ملنا کام ہے.. حبہ بولی تھی بیل ہوگئی تھی وہ ابھی بات نہیں کرسکتی تھی.. کلاس لینے چلی گئی.. 

کھڑوس کے پیچھے پڑی ہے.. اتنی تیز بائیک چلائی" ابھی دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا.. پھپھو کو بتاؤں گی ویسے بھی آج کان کھینچنے ہیں اسکے پھپھو نے.. وہ خود سے بڑبڑاتے کلاس لینے چلی گئی.. 

🥀🥀🥀

آگئے تم اچھا ہے بات کرنی تھی تم سے ضروری.. " ولی کو واپس آتا دیکھ بلقیس بولی.. 

ہاں آنا پڑا.. موڈ خراب ہوگیا تھا صبح ہی.. 

اچھا پھر ناشتہ بناتی ہوں ساتھ میں کریں گے اور بات بھی ہوجاۓ گی.. 

دونوں نے ساتھ ناشتہ کیا بڑے دن بعد کوئی ڈھنگ کا ناشتہ کیا ہے ورنہ تو بس..چاۓ بریڈ پہ گزارا تھا.. یا پھر باہر سے.. ولی چاۓ کا سیپ لیتا ہوا بولا.. 

اب میں آگئی ہوں سکھاؤں دوں گی نیلی کو ناشتہ بنانا بھی ویسے بھی پہلے اتنی ذمہ داری نہیں تھی.. 

ہاں اب تم کب تک ایسے رہو گے نیلی کے ساتھ.. وہ اب مدعا پہ آئی.. 

کیا مطلب ہے آپکا اب تو میں نے اسے کچھ نہیں کہا.. "

ولی تمہیں نیلم کو اب بیوی کا حق دے دینا چاہیے.. " اپنے رشتہ کا آغاز کرو اسکے ساتھ اب.. "تین مہینہ ہوگئے ہیں تمہارے نکاح کو.. 

نیلم میری بیوی ہے.. پھپھو اور کیا چاہتی ہیں آپ.. "

تم بچے نہیں ہو جو تمہیں میری بات نہیں سمجھ آئی.. "

پھپھو ابھی نیلم بہت چھوٹی ہے ..نا وہ کہیں جا رہی ہے نا میں.. ابھی اسکا بچپنا برقرار رہنے دیں ابھی وہ اس رشتہ کو نہیں سمجھتی.." اور مجھے ابھی اپنا فیوچر بنانا ہے.. 

نیلم میری ہی ہے.. فکر نا کریں جب میں سمجھو گا کہ وہ اس رشتہ کا نبھانے کی اہل ہوگئی ہے تو اپنا لوں گا اسے.. " وہ اپنی بات کہہ کر چپ ہوا تھا.. 

اچھی سوچ ہے تمہاری کم از کم اسے خود سے دور تو مت رکھو.." پھپھو پھر بھی اپنی بات پہ قائم تھی.. 

کہاں دور ہے پھپھو میرے ساتھ ہی تو ہے.. "

اب اسے تمہارے کمرے میں رہنا چاہیے تمہارے ساتھ.. " پھپھو اپنی بات پہ آئی.. 

کیا.. " میرا مطلب کیوں.. " اسے جھٹکا لگا پھپھو کی بات پہ.. 

کیا.. کیوں.. کچھ نہیں.. بس اب بات ختم ..میں نے جو کہا اسی پہ تم دونوں نے عمل کرنا ہے.. 

ولی تو اٹھ گیا وہاں سے اب کوئی اور حکم نامہ نا جاری کردیں گی.. 

🥀🥀🥀

نیلم حبہ کے بلانے پہ بریک ٹائم پہ اسٹاف روم میں آئی تھی.. 

بیٹھو نیلم.. " تو وہ بیٹھ گئی.. 

جی.. 

تمہارے گھر آس وقت کون ہے.. "

میں پھپھو اور ولی.. نیلم نے معصومیت سے کہا.. 

ولی سے مجھے ضروری بات کرنی تھی.. مگر وہ تو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا.. کیا کرتا ہے وہ آجکل.. "

وہ آفس جاتے ہیں اور سٹڈی کرتے ہیں.. " نیلم کو وہ عجیب لگی تھی ولی کے بارے میں معلومات لتی ہوئی.. 

اچھا ٹھیک ہے جاؤ.. " اور ٹیچرز کو اندر آتا دیکھ وہ بولی اور وہ وہاں سے چلی گئی.. 

🥀🥀🥀🥀

ولی جاؤ نیلم کو لے آؤ سکول سے.. " چھٹی کا ٹائم دیکھ وہ بولی.. 

 وہ لیپ پہ بیٹھا اسٹڈی کررہا تھا جب بلقیس کے کہنے پہ وہ سر کھجاتا اٹھ گیا.. کیا مصیبت ہے.. 

نیلم سکول سے گھر آرہی تھی جب وہ آوارہ لڑکے پھر سے نیلم کو دیکھ اوچھی حرکتوں پر اتر آئے.. 

وہ دیکھ آ گئی.. " ہاں چل ..آج نہیں ہاتھ سے جانی چاہیے.. 

وہ سیٹی بجاتے اسکے پاس آنے لگے.. 

نیلم گھبرا کر تیز چلنے لگی تھی.. اور اسکے پیچھے آنے لگے اور دو تیزی سے اسکے سامنے آۓ..

آج تو منہ میٹھا کر کے ہی چھوڑیں گے.. ان میں سے ایک نے آواز لگائی.. نیلم کی تو جان حلق میں آئی تھی وہ ان لڑکوں میں گھر چکی تھی.. 

چل سائیڈ پر.. " وہ ٹس سے مس نا ہوئی.. 

نہیں چلتی تو اٹھا لے.. " 

ابھی ایک لڑکے نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس پہلے وہ اسے چھوتا کوئی اسکا بازو سختی سے تھام چکا تھا.. 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے چھونے کی".. اتنی زور سے اسکا بازو پکڑا تھا کہ اسے اپنی ہڈی چٹختی ہوئی محسوس ہوئی.. 

اے کون ہے تو چل نکل.. "دوسرا لڑکا بولا.. تو ولی نے اسکے منہ پہ مکا جڑ دیا.. اسکے دو دانت ٹوٹ کر باہر آۓ اور منہ سے خون کا فوارہ ابل پڑا.. 

باقی کے دو کی بھی ٹانگیں کانپیں مگر ہمت کرکے لڑنے آگے آۓ.. 

نیلم جلدی سے سائیڈ پہ ہوگئی.. 

اور ولی نے ان چاروں کی منٹ میں ہی درگت بنا دی تھی.. وہ بس دکھنے میں ہی بدمعاش تھے.. 

ولی نے کانپتی ہوئی نیلم کا ہاتھ پکڑا اور بائیک پہ بیٹھ کر کک ماری تھی.. 

بیٹھو اب.. وہ دھاڑا تھا.. 

تو وہ ڈرتی بیٹھ گئی.. 

گھر آتے ہی وہ اسکا ہاتھ پکڑے اندر لایا وہ ابھی بھی تھر تھر کانپ رہی تھی.. 

کب سے چل رہا یہ سلسلہ.. اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں.. "  وہ غصہ سے بول رہا تھا.. 

ولی کیا ہوا.. پھپھو باہر آئی.. 

آج اگر میں گھر نا ہوتا تو پتا نہیں کیا ہوجاتا میری عزت مٹی میں مل جاتی.. " وہ کرسی کو ٹھوکر مارتا باہر نکل گیا.. 

بلقیس نے نیلم کو بٹھایا اور پانی پلایا اور نیلم نے روتے ہوئے ساری داستان سنا دی.. 

رات کو ولی اپنے کمرے میں تھا..

اسے ابھی بھی وہی منظر یاد آریا تھا.. جب وہ غنڈے نیلم کو گھیرے کھڑے تھے.. اگر وہ وقت نا پہنچتا تو کیا ہوجاتا.. کھانے کے وقت بھی نیلم اسے نظر نہیں آئی تھی.. 

دروازہ ناک ہوا اور پھپھو چاۓ لئے آئی کمرے میں.. 

تو وہ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا..

نیلم کیسی ہے.. کپ لیتے وہ نیلم کا پوچھا..

بس ڈر گئی ہے.. ابھی سوئی ہے.. اور تم زرا نرمی سے بات کرلیتے اس سے ..بچی ہے ڈر گئی ہے.. 

ہاں بچی ہے صبح تو آپ اور ہی حق کی باتیں کررہی تھی اور اب بچی بن گئی میں بھی تو یہی کہہ رہا تھا.. 

بس مل گیا بہانہ تمہیں.. " وہ کہتی چلی گئ.. 

پیچھے ولی گہری سوچ میں ڈوب گیا.. " وہ دور رہنا چاہتا تھا اس سے ایک انا تھی آڑے آ رہی تھی.. یہ نکاح اسکی مرضی کے خلاف تھا مگر ایسے میں وہ خود اس سے دور رہنا چاہتا تھا مگر جو پھپھو کرنا چاہ رہی ہیں وہ نیلم سے دور نہیں رہ پاۓ گا

.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن نیلم کو بہت تیز بخار ہوگیا تھا.. رات بھی وہ ڈرتی رہی تھی.. 

ولی ڈاکٹر کو گھر ہی لے آیا تھا.. ڈاکٹر نے اسے انجیکشن دیا تھا.. 

فکر کی بات نہیں.. بخار ہے شام تک اتر جاۓ گا یہ میڈیسن لکھ کر دے رہا ہوں ٹائم پہ دینا ہے.. "

ولی ڈاکٹر کو چھوڑ کر واپس آیا.. بلقیس کچن میں کھانا بنا رہی تھی ..

ولی اپنے کمرے میں جانے لگا تو ساتھ ہی نیلم کے کمرے میں چلا گیا جہاں وہ سو رہی تھی.. ولی آہستہ سے چلتے اسکے کے بیڈ قریب آیا وہ اسے بغور دیکھ رہا تھا.. 

گھنی پلکوں کے جھالر گراۓ سرخ و سفید رنگت تیکھی باریک ناک پتلے گلابی ہونٹ چہرہ پہ بلا کی معصومیت تھی.. سنہری بال چہرے پہ بکھرے تھے.. 

بے اختیار وہ ایک ہاتھ تکیہ پہ اسکے قریب رکھے ہاتھ پہ دباؤ ڈالے اس پہ جھکا تھا چہرہ اسکے چہرہ سے قریب تر تھا.. دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرہ پہ بکھرےبال سائیڈ پہ کئے تھے..کئی پل ایسے ہی سرکے تھے وہ اسکا چہرہ کا بغور جائزہ لے رہا تھا پہلی بار تھا کہ وہ اسکے بے حد قریب تھا.. وہ اس پہ جھکا مزید فاصلہ مٹاتا کہ ایک دم سے دروازہ کھلا تھا.. اور وہ گڑبڑا گیا اور جلدی سے سیدھا ہوا.. 

ولی.. " 

وہ میں.. نیلم کو دیکھنے آیا تھا بخار کم ہے اب.. " وہ پھپھو کے سامنے گڑبڑا اور جلدی سے صفائی دیتا کمرے سے نکلا.. 

پیچھے پھپھو کے چہرہ پہ مسکراہٹ آئی تھی.. اور خود کو کوس بھی رہی تھی غلط وقت پہ آگئی.. بس نیلم ٹھیک ہوجائے.. کچھ دن میں تمہارے کمرے میں ہی ہوگی.. وہ ٹھان چکی تھی کہ اب ان میں دوریاں ختم کر کے رہی گی.. 

🥀🥀🥀🥀

دو دن ہوگئے تھے.. نیلم سکول بھی نہیں گئی تھی .. 

نیلم 

شام کو ولی خوش خوش سا گھر آیا تھا..

پھپھو میری نئی جاب لگی ہے.. بہت ہی اچھی اور بڑی کمپنی میں.. ولی مٹھائی بھی لایا تھا کہتے ہی مٹھائی کا لڈو پھپھو کے منہ ڈالا تھا.. وہ بے حد ہی خوش تھا..نیلم بھی پاس ہی کھڑی تھی مگر وہ اسے اگنور کرگیا.. 

نیلم یہ مٹھائی کچن میں رکھ آؤ اور ولی کیلئے چاۓ بناؤ.. جی کہتی وہ کچن میں چلی گئی.. 

جب چاۓ لائی تو ولی باہر ہی پھپھو کے پاس بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا.. 

چاۓ.. ٹرے اسکی طرف بڑھائی جس میں مٹھائی بھی رکھی تھی.. 

ولی کو وہ آج باہر نظر آئی تھی.. 

ولی اسے غور سے دیکھا تھا.. پنک دوپٹہ میں لپٹا خوبصورت چہرہ مرجھا یا  لگ رہا تھا اسکا..اور پھر کپ اٹھا لیا.. نیلم ٹرے وہی رکھے کچن میں چلی گئی.. 

ولی اب تو تمہاری نوکری لگ ہے اب گھر بھی دیکھو..اشارہ نیلم کی طرف تھا.. 

ولی بس خاموش ہی رہا.. 

نیلم جی ماما ..یہ کیا تم ہر وقت دوپٹہ کو سر پہ باندھے رکھتی ہو.. نیلم دوپٹہ کو حجاب کے طرح باندھا ہوا تھا جب ولی اسے دیکھ رہا تھا.. 

"ماما کہا کرتی تھی جب ولی بھا.. ولی"" گھر ہوں تو میں سر ڈھک کر رکھا کروں اور انہوں بھی بہت ڈانٹا تھا..

"اب ولی تمہارا شوہر ہے اب مت لیا کرو اسکے سامنے  حجاب ایسے اچھی لگو گی تم اسے " 

"وہ غصہ کریں گے جب ماما تھی تب بھی بہت ڈانٹا تھا " کہتی وہ چلی گئی بلقیس بیگم سر تھام گئی سمجھائے اسے اس رشتہ کی نزاکت کو.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن بھی وہ اسکول نہیں گئی تھی.. اسے ڈر لگتا تھا سکول کے نام سے اب.. اور پورا ہفتہ آس نے گھر میں ہی گزار دیا..

ولی آفس میں لیپ ٹاپ پہ کام کررہا تھا جب اسکا فون بجا.. ییس.. 

آپ ولی بات کررہے ہیں.. "

جی میں ولی ہی ہوں.. "

میں نیلم کے سکول کی پرنسپل بات کررہی ہوں.. کیا نیلم ٹھیک ہے ایک ہفتہ سے وہ اسکول نہیں آ رہی.. "

نیلم کی طبیعت خراب تھی کچھ دنوں سے اب ٹھیک ہے وہ کل سے اسکول آۓ گی.. ایک دو باتیں کرتے کال کٹ کردی.. 

ہیلو.. کسے پڑھاتے ہو.. کون اسکول آۓ گی.. " عروج اسکے کیبن میں فائل لائی تھی اسکی آخری بات سنتے بولی.. 

کوئی نہیں کزن ہے میری اسکے اسکول کی پرنسپل کا فون تھا.. 

اچھا جی تمہاری کزن بھی ہے.." عروج اسے چھیڑتے بولی.. 

کچھ ہی دن ہوۓ ولی کو آفس جوائن کئے.. عروج کی نیچر گھل مل جانے والی تھی.. ولی جو لڑکیوں سے لیا دیا ہی بولتا تھا مگر عروج سے دوستانہ انداز ہی میں بات کرتا تھا.. 

پنک کلر کا سوٹ پہنے گلے میں دوپٹہ ڈالے سیاہ بالوں کو کھلا چھوڑتے گندمی رنگت میں ہلکا سا میک اپ کئے ہوئے وہ اچھی لگ رہی تھی.. 

ہاں ہے ایک.. اب تمہیں کیا فیملی کا بایئو ڈیٹا نکال دوں.. ولی لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھتا بولا.. 

ہاں فیملی سے یاد آیا تم نے تو اپنے فیملی بارے بتایا ہی نہیں.. عروج اسکے سامنے کرسی پہ بیٹھتی بولی.. 

میری فیملی.. ایک دم سے نیلم کا چہرہ اسکے سامنے آیا.. بس میں ایک ہی ہوں.. ایک ماما تھی تین مہینہ ہوگئے انکی دیتھ کو.. 

اوہ.. مطلب اکیلے ہی ہو کوئی آگے پیچھے نہیں تمہارے.. چھڑے چھانٹ ہو.. عروج اسکا مذاق اڑاتے بولی.. 

کیا کام تھا تمہیں میری نئی جاب ہے کیوں نکلوانا چاہتی ہو.. ولی اسکا مذاق اڑانا اچھا نہیں لگا.. 

یہ فائل دیکھ لو پھر باس کے سگنیچر لینے ہیں.. اور اٹھ گئی عروج کو دل میں خوشی ہوئی تھی ولی کا سن کر وہ کسی ریلیشن میں نہیں ہے..

شام کو ولی آفس سے گھر آیا.. 

اسلام علیکم پھپھو.. ولی نے جھک کر پھپھو سے پیار لیا.. 

وعلیکم السلام جیتے رہو.. پھپھو صوفہ پہ بیٹھے تسبیح کررہی تھی جب ولی انکے پاس آ کر بیٹھا ... 

نیلی پانی لاؤ ولی آیا ہے.. پھپھو نے بیٹھے ہی آواز لگائی.. 

اسی وقت نیلم پانی کا گلاس ٹرے میں رکھے حاضر ہوئی تھی.. 

آج نیلم نے لال رنگ کا سوٹ پہنا تھا.. خلاف عادت آج اسکا دوپٹہ سر کے بجائے گلے میں تھا.. سنہری بال کو آگے سے کیچر میں قید کیا تھا باقی کمر پہ آبشار کی طرح پھیلے تھے.. 

ولی نے نظریں اٹھا کر دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا اسکی دودھیا رنگت پہ لال رنگ سج رہا تھا.. 

اسکی نظریں خود پہ محسوس کرتی وہ نظریں جھکا گئی تھی.. 

اپنی نظروں کو کنٹرول کرتے اسنے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک دو گھونٹ بھرتے وہ کمرے میں چلا گیا وہ جو ابھی اسکی کلاس لینے کا ارادہ رکھتا تھا اسکول نا جانے کیلئے مگر اسکے دلکش سراپے سے نظر چرا گیا  ..

یہ پھپھو کے کارنامے ہے.. جو اسے میرے سامنے اس طرح پیش کررہی ہیں تاکہ میں اپنے ارادہ بدل لوں..وہ کمرے میں آتے نیلم کے بارے میں سوچنے لگا.. وہ جو نیلم کو خود پہ زبردستی مسلط کیا گیا بوجھ ہی سمجھ رہا تھا مگر اسکا دل اسے دیکھتے اور ہی انداز میں دھڑکا تھا.. 

نیلم کو ولی کے سامنے بہت شرمندگی ہو رہی تھی.. اس طرح جانے سے.. مگر پھپھو کے کہنے پہ وہ اس طرح اسکے سامنے گئی کچن میں آتے ہی دوپٹہ کو حجاب کے انداز میں باندھ لیا.. لال رنگ تو اس نے آج تک نہیں پہنا تھا.. اور آج پھپھو نے کے کہنے پہ مجبوراً پہننا پڑا.. 

نیلم".. 

جی پھپھو.. "

بیٹا.. " ولی تمہارا شوہر ہے.. تمہیں پتہ ہے نا.. " آج پھپھو نیلم کو میاں بیوی کے رشتہ کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کرتے بولی.. 

اس نے بس ہاں کے انداز میں سر ہلایا.. 

اب تمہیں ساری زندگی اسکے ساتھ رہنا ہے سکی بیوی بن کر " دیکھو اس رشتہ کی خوبصورتی کل تک ولی تمہیں کتنا ڈانٹتا تھا.. اور اب تمہیں خود ہی پڑھاتا ہے خود ہی تم سے اپنے کام کہتا ہے.. کیونکہ تم اب اسکی ذمہ داری ہو.. اور وہ اپنی ذمہ داری اچھے سے نبھا رہا ہے.. اور تم بھی اپنی ذمہ داری نبھاؤ اب.. اب جیسا میں کہوں تم نے ویسا ہی کرنا ہوگا.. 

تو پھر اسکے سامنے اچھے سے کپڑے پہنا کرو.. اور یہ بال ڈھکنے کی تو ضرورت ہی نہیں.. پھر الماری سے ڈھونڈ کر اچھا سا لال رنگ کا سوٹ نکالا نیلم کیلئے.. اور پھر نیلم نے وہ پہن کر انکے سامنے کھڑی تھی.. بلقیس نے اسکے گھنے سلکی بالوں کی چوٹی کھول دی کنگھے سے اسکے بال سیدھے کئے.. آگے سے کچھ بالوں کو پیچھے کر کے کیچر لگایا اور باقی کھلے ہی رہنے دیے اور دوپٹہ اسکے گلے میں ڈال دیا.. اسکی کمسن حسن پہ ہلکا سا سنگھار بھی خوب اٹھ رہا تھا

ولی اٹھ کر چلا گیا تھا اور بلقیس مسکرا رہی تھی..اور اپنے آپ کو داد بھی دے رہی تھی.

وہ تینوں بیٹھے اب کھانا کھا رہے تھے.. نیلم نے اب دوپٹہ کو اچھے سے اوڑھ رکھا تھا.. ولی نے ایک نگاہ بھی نیلم کو نہیں دیکھا بس کھانے میں مصروف رہا بلقیس کا تو سارا دھیان ولی پہ تھا. 

جب وہ کھا چکا تو ولی اٹھ کھڑا 

نیلم .."ولی نے اسے پکار تو اس نے نیلی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا. 

"کھانا کھانے کے بعد چاۓ لیکر روم میں آنا کام ہے تم سے".. وہ سیریس موڈ میں کہتا کمرے میں چلا گیا 

نیلم پھر سے کھانے میں جت گئی. 

بلقیس تو مسکرا اٹھی.. ولی نے خود ہی اسے کمرے میں بلا لیا ہے.. مطلب اب نیلم کامیاب ہوگئ ولی کی توجہ کھینچنے میں

نیلم بیٹا جلدی ہی سب سمیٹ کر ولی کے کمرے میں چلی جانا

ٹھیک ہے.. " ہلکی سی آواز میں کہتی وہ برتن اٹھانے لگی

اب پھر سے پھپھو بات یاد آئی تو دوپٹہ سر سے اتار کر گلے میں ڈال لیا.. 

 چاۓ کا کپ تھامے وہ دستک دیتی ولی کے کمرے میں. داخل ہوئی.. 

ولی بیڈ پہ ہاتھ میں کتاب پکڑے بیٹھا تھا دستک کی آواز پہ دروازے کی جانب دیکھا.. 

نیلم ہاتھ میں ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوئی.. وہ آہستگی سے چلتی اس تک آ رہی تھی.. لال رنگ کا سوٹ پہنے جس میں دمکتی دودھیا رنگت.. سنہری بالوں کو کھلا چھوڑے جو کمر تک آ رہے تھے.. چہرے پہ معصومیت سجاۓ نیلی آنکھوں کو جھپکتی وہ کوئی گڑیا ہی لگی تھی.. 

چاۓ.. " اسکے بولنے پہ ہی اسکا سکتہ ٹوٹا تھا.. 

چاۓ اٹھا کر سیپ لی.. 

وہ ویسے اسکے سامنے کھڑی رہی.. 

اب کیوں کھڑی ہو.. 

آپ نے کہا تھا کام ہے تو بتائیں کیا کام".. انتہائی معصومانہ انداز تھا.. 

ولی نے ایک بھرپور نظر اسکے دلکش سراپا پہ ڈالی تھی.. 

وہ معصومیت سے اپنی نیلی آنکھوں کو بار بار جھپک رہی تھی.. 

"تم اسکول کیوں نہیں جا رہی پورا ہفتہ چھٹیاں کی ہیں.. پڑھنا نہیں ہے " اپنے جذبات پہ بندھ باندھتا وہ تھوڑا سخت لہجہ اختیار کرگیا.. 

پپ.. پڑھنا ہے.. " وہ بس اتنا ہی بول پائی.. 

ارادہ تو نہیں لگ رہا پڑھنے کا بس یہ فیشن کرنا آگیا ہے کس نے سکھایا یہ سب.. " وہ اسے دیکھتا بولا.. 

پھ.. پھپھو نے.. "معصومیت سے کہا.. 

کیا سکھایا... " چاۓ کا سیپ لیتا بولا وہ ویسے ہی اسکے سامنے کھڑی تھی.. 

آپ میرے شوہر ہیں.. " 

اور؟ ولی نے مزید استفسار کیا.. 

میں نے ہمیشہ.. آپ کے ساتھ.. رہنا ہے.. بیوی بن کر.. ٹرے کو ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے اس نے رک رک کر الفاظ ادا کیے.. 

ولی کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آئی چاۓ کا کپ میز پہ رکھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا.. 

تو کیا تم رہو گی میرے ساتھ میری بیوی بن کر" لہجہ میں پیار سموۓ ولی نے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکا تھا.. تو وہ نظریں جھکا گئی..

تو ولی نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا.. 

ان فضول باتوں کو چھوڑ کر بس اپنی پڑھائی پہ دھیان دو کل ریڈی رہنا صبح سکول جانے کیلئے کوئی بہانہ نہیں.. ایک دم سے تیور بدلہ اور وارن کرنے والے انداز میں بولا. 

میں نہیں جاؤں گی سکول.. " نیلم نے بھی چڑ کر کہا..

کیوں"؟ 

وہ لڑکے تنگ کرتے ہیں.. " وہ روہانسی ہوئی.. 

اچھا جب تنگ کرتے تھے تب تو نہیں بتایا.. " نہی کرتے اب تنگ ایسا سبق سکھایا ہے کہ دوبارہ ایسا کرتے وقت مجھے یاد کریں گے.. " 

وہ اسے دیکھ رہی تھی..

" جاؤ سو جاؤ صبح پھر جانا ہے اسکول اور میں تمہیں خود لینے آؤ گا ٹینشن نہیں لو"..

وہ جانے کیلئے مڑی تھی.. 

بات سنو" ولی نے اسے پکارہ تو پھر اسے دیکھا.. 

ادھر آؤ" ہاتھ کے اشارے سے پھر پاس بلایا.. 

وہ آہستہ سے چلتے اسکے قریب آئی.. 

پھپھو کی باتوں پہ دھیان دینے کے بجائے اپنی اسٹڈی پہ فوکس کرو ابھی تمہارے لئے سب سے زیادہ اہم اسٹڈی ہے تمہاری.. "

نیلم محض ہاں کے انداز میں سر ہلایا.. اور چلی گئی.. 

پھپھو کو میری بات پتہ نہیں کیوں سمجھ نہیں آتی..

نیلم کا یہ روپ اس نے پہلی بار دیکھا تھا جو اسے بہکانے کا پہ در تھا.. 

🥀🥀🥀

نیلم کمرے آتے ہی لیٹ گئی.. بلقیس جو سونے لگی تھی اسے اپنے ساتھ لیٹتا دیکھ حیران ہوئی.. 

تمہیں ولی نے کمرے میں بلایا تھا گئی نہیں.. "

"ہاں گئی تھی.. " انہوں نے کہا ہے سوجاؤ.."

بلایا کیوں تھا.. ؟

وہ کہہ رہے صبح اسکول جانا ہے.. پرنسپل میم نے  شکایت کی ہے.. "کہتے ہی آنکھیں بند کرلیں.. 

وہ خامخواہ غلط فہمی میں مبتلا ہوگئی تھی.. غصہ تو آیا ولی پہ.. آخر چاہتا کیا ہے.. 

🥀🥀🥀 

اگلے دن ولی نے نیلم کو اسکول چھوڑا اور آفس کے لئے نکل گیا.. 

بات سنو.. " نیلم اپنی کلاس میں جا رہی تھی جب پیچھے سے حبہ نے آواز دی.. 

جی " وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی 

"کہاں تھی اتنے دن اسکول کیوں نہیں آئی"

مجھے بخار تھا کئے نہیں آئی" نیلم بولی

"تم سے کام ہے کلاس کے بعد اسٹاف روم میں آنا.. " 

نیلم بریک ٹائم حبہ کے پاس گئی.. 

مس حبہ " آپ نے بلایا تھا.. 

حبہ نے پرس سے لیٹر نکال اسے تھمایا.. 

اسے بیگ میں رکھ لو اور گھر جا کر ولی کو دے دینا.. دھیان سے کسی کو پتا نا چلے.. 

"اگر یہ کام کرو گی میرا تو انگلش کے ٹیسٹ میں اچھے نمبر دوں گی.. "

ٹھیک ہے.. " نیلم نے لیٹر کو اپنے بیگ میں رکھ لیا.. 

چھٹی ٹائم ولی ہی اسے لینے آیا تھا.. حبہ نے آنکھ سے نیلم کو اشارہ کیا تھا.. کہ وہ اسکا کام کردے.. ولی نے ہمیشہ کی طرح اسے اگنور کردیا.. ولی اسے گھر چھوڑتا واپس آفس چلا گیا.. 

🥀🥀🥀

رات کو کھانا کھانے کے بعد ولی کمرہ میں چلا گیا.. 

اب نیلم نے سوچا کہ اسے لیٹر دے دے.. کل انگلش کا ٹیسٹ ہے بنا پڑھے ہی نمبر اچھے آجاۓ گے.. یہی سوچتے اس نے بک اٹھائی جس میں لیٹر رکھا تھا اور ولی کے کمرے میں جانے کیلئے اٹھی تھی.. 

تم کہاں.. اسے کمرے سے نکلتا دیکھ پھپھو بولی.. 

ولی.. ولی کے کمرے میں.. کام تھا.. کتاب ہاتھ میں پکڑے بولی.. اور اپنے کمرے نکلتی ولی کے کمرے میں آئی.. خود کی شامت کو دعوت دینے.. 

ولی لیپ ٹاپ پہ کچھ کام کررہا تھا جب نیلم اسکے کمرے میں آئی.. 

اسکے ہاتھ میں کتاب تھی.. 

چہرہ پہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی.. 

آپ کو کچھ دینا تھا.. "

کیا" لیپ ٹاپ سے دھیان ہٹا کر اسکی طرف دیکھا.. 

کتاب کھول کر ایک کاغذ اسکی جانب بڑھایا اپنی مسکراہٹ کو دباتے اسنے.. 

یہ مس حبہ نے آپ کے لئے دیا تھا.. "

ولی نے کاغذ پکڑ اسے کھولا تھا.. اور لیٹر پڑھنا شروع کیا.. 

"ولی چار سال بعد تم مجھے نظر آۓ ہو.. بہت کچھ بدل گیا ان سالوں میں اگر نہیں بدلا تو وہ تم ہو.. اور نہیں بدلی وہ میری محبت ہے.. اکیڈمی میں بھی تم مجھے اس طرح ہی نظر انداز کرتے تھے جیسا کہ اب کرتے ہو.. روز تمہیں دیکھنے کے لیے صبح جلدی اسکول آتی ہوں.. بہت کوشش کی کے تمہیں روک لوں مگر تم نہیں ہاتھ آتے.. 

میں تم سے ملنا چاہتی ہوں.. تمہیں اپنا حال دل سنانا چاہتی ہوں..میرے خط کا جواب ضرور دینا ..فقط تمہاری حبہ.. 

ولی پڑھتے ہی غصہ سے سارا کاغذ کو ہاتھوں میں نوچ کر اسکا گولا بنا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا.. 

نیلم تو اسکے غصہ سے خائف ہوتی اپنی جگہ پہ منجمد کھڑی تھی.. اسکے ایک دم سے بدلہ تیور دیکھ خوف سے اسکی نیلی آنکھیں پھیلی تھی.. وہ بیڈ پہ بیٹھے کڑے تیور لئے اسے گھور رہا تھا.. 

"نیلم کیا ہے یہ سب " تم میں عقل نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں.. " وہ سخت لہجہ اختیار کرچکا تھا.. 

تم نے اس سے یہ لیٹر لیا ہی کیوں.. " آج کے بعد ایسی کوئی بھی بیوقوفی کی نا تو اچھا نہیں ہوگا.. میں نرمی سے پیش آ رہا ہوں اسکا یہ مطلب نہیں ہے جو دل میں آیا وہ کرو گی.. " وہ غصہ سے بول رہا تھا.. اسکی آنکھیں چھلکنے کو بیتاب تھی.. 

میں کون ہوں.. " ولی نے دانت پیستے پوچھا اس سے.. 

و.. ولی.. " وہ اتنا ہی بول پائی تھی آنکھؤں سے موتی کی طرح آنسوں ٹپ ٹپ گرنے لگے.. 

رونا بند کرو پہلے اور پھپھو نے کل کیا بتایا تھا میں کون ہوں کیا لگتا ہوں تمہارا.. " وہ سخت لہجہ میں بولا

 وہ اپنے ننھے دماغ پہ زور دیتی بولی.. 

"شش.. شوہر ہیں.. " 

شوہر کا مطلب میں تمہیں ابھی سمجھانا نہیں چاہتا تھا مگر مجھے لگ رہا ہے کہ سمجھانے کی ضرورت پیش آرہی ہے.. وہ بیڈ سے اترتے اسکے مقابل کھڑا ہوا تھا دونوں ہی آمنے سامنے تھے.. نیلم سر جھکائے رودی.. مگر ولی نے تھوڑی سے تھام اسکا چہرہ اونچا کیا.. نیلی آنکھوں سے برسات جاری تھی گوری رنگت رونے سے سرخ پڑ چکی تھی.. 

ولی نے چہرہ اسکے چہرے سے مزید قریب تر کرلیا تھا.. 

نیلم کی اسکی قربت خان حلق میں آئی تھی.. جب وہ مزید چہرہ کو پاس لےجاتے اسکے ہونٹوں پہ جھکا تھا.. اسکی حرکت پہ نیلم کا دل میں تلاطم برپا ہوا تھا.. ننھا سا دل پھڑ پھڑانے لگا تھا.. اپنے پیروں پہ کھڑے رہنا محال ہوگیا تھا.. ولی اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے تھام چکا تھا .. نرمی سے اسکے لبوں کو آزاد کیا تھا.. وہ مکمل اسکے حصار میں تھی.. اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے سیدھی ہوئی تھی نظریں مارے شرم کے جھکی ہوئی تھی.. 

وہ اسکے سراپہ کو سر تاپیر غور سے دیکھتا اسے آزاد کرگیا.. گلابی پرنٹڈ سوٹ پہنے دوپٹہ مزاحمت کے دوران گلے سے ہاتھوں آچکا تھا جسے درست کرتی وہ سارا آگے کو پھیلا گئی.. 

بس سمجھانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ابھی سوجاؤ..  گھمبیر لہجہ میں کہا.. تو وہ باہر جانے کے مڑی.. 

کہاں " اسے باہر جاتا دیکھ روک گیا.. 

اپنے کمرے میں.. " جھکی نظروں سے کہا ہمت نہیں تھی اس سے نظریں ملانے کی.. 

یہاں سو جاؤ.. " اپنے بیڈ کی طرف اشارہ کیا تھا.. 

نہیں.. " اسے دیکھتی نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی.. 

تمہیں سمجھ نہیں آئی میری بات شاید.. " اسے دیکھتا سخت لہجہ میں بولا.. 

مگر وہ ٹس سے مس نا ہوئی اور اپنی جگہ پہ جمی سر جھکائے کھڑی رہی.. 

نیلم.. بیڈ پہ جاؤ.. ورنہ یہی سین دوبارہ دہراؤں گا.. اسکی دھمکی کام کر گئی اور جلدی سے بیڈ پہ چڑھتی کمبل تان کے دوسری طرف منہ کئے لیٹ گئی.. 

دل کے تار تو ولی کے بھی چھڑ گئے تھے جو وہ نہیں کرنا چاہتا تھا وہ کر گزرا تھا.. خود پہ اختیار ہی کھو بیٹھا تھا.. اب عقل آ رہی کیا کر بیٹھا.. 

ایک نگاہ بیڈ پہ لیٹے وجود پہ ڈالی.. کہاں سے پلے پڑ گئی میرے" کوفت سے سوچا تھا.. 

دوسری سائیڈ آکر لیٹ گیا تھا  ..نیلم کو وہ اپنے عقب میں لیٹتا محسوس ہوا تھا.. دل تھا زور و سے دھڑک رہا تھا.. زور سے آنکھیں میچ لی تھی.. مگر اسے نیند ہی نہیں رہی تھی.. بہت ہی عجیب سا لگ رہا تھا ولی کے ساتھ اسکے بیڈ پہ یوں لیٹنا.. مگر پھپھو کی سمجھائی باتیں یاد آنے لگی.. "ولی تمہارا شوہر ہے اسکی ہر بات ماننا تم پہ لازم ہے "

پھر آنکھیں بند کئے سونے کی کوشش کرنے لگی..

مقابل کو بھی کہاں نیند آنی تھی اپنی آغوش میں لیٹے وجود کے بارے میں بس سوچے جارہا تھا.. کتنی کوششوں کے باوجود بھی اسے خود سے دور نہیں رکھ سکا تھا.. آنکھیں بند کئے سونے کی کوشش کرنے لگا.. 

🥀🥀🥀

بلقیس کی آدھی رات کو آنکھ کھلی تھی نیلم کمرے میں نہیں تھی.. وہ جب تک جاگتی رہی تھی نیلم آئی نہیں تھی.. 

ولی کے کمرے میں جانے کا بول کر گئی تھی اور واپس ہی نہیں آئی.. 

پھر اٹھ گئی وضو کرکے نفل پڑھنے لگی تھی.. 

صبح نو بجے کے قریب ولی کی آنکھ کھلی تھی اپنے عقب میں سوۓ ہوۓ وجود پہ نگاہ ڈالی تھی.. 

سوتے ہوۓ اسکی طرف کروٹ لی ہوئی تھی اسکے بے حد قریب آئی ہوئی تھی.. 

ولی نے اسکی طرف کروٹ لی تھی اب دونوں کے چہرے آمنے سامنے تھے.. 

اسکے چہرہ پہ بکھری سنہری زلفوں کو آہستہ سے سمیٹا تھا.. 

چہرہ پہ چھائی بلا کی معصومیت گھنی پلکوں کے جھالر گراۓ.. 

وہ سیدھی اسکے دل میں اتر رہی تھی.. 

اپنی تمام سوچوں پہ لعنت بھیجی تھی اور بیڈ سے آٹھ گیا تھا.. 

اب احساس ہو رہا تھا وہ رات غلط کرچکا ہے.. وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا.. 

کچھ دیر بعد وہ فریش ہوکر کمرے سے باہر آیا تھا.. 

پھپھو سامنے ہی کچن میں بیٹھی تھی.. 

انکے پاس چلا گیا.. 

اسلام علیکم پھپھو "

وعلیکم السلام "

اٹھ گئے ولی بیٹا "

جی پھپھو چاۓ تو بنا دیں " وہ کرسی کھینچ کر بیٹھا 

کچھ ہی دیر میں پھپھو چاۓ بنا کر اسکے سامنے رکھی.. 

اس نے چائے کا کپ اٹھایا تھا.. 

نیلم سو رہی ہے کیا.. " پھپھو کے سوال پہ منہ کو کپ لگاتے ہاتھ رکھ.. 

جی" یک لفظی جواب دیتا اس نے چائے کا سیپ لیا.. 

مجھے خوشی ہوئی تم نے میری بات کا مان رکھ کر اسے اپنا لیا.. 

ابھی بچی ہے مگر سمجھدار بھی ہے آہستہ آہستہ وہ سب سنبھال لے گی.. "

سمجھدار تو وہ کہیں سے بھی نہیں ہے.. ورنہ اسے اپنے اور میرے رشتہ کی اہمیت کا ضرور پتا ہوتا.. " وہ پھپھو کو دیکھتا بولا.. 

کیا مطلب ہے تمہارا " وہ ناسمجھی سے بولی 

میری اکیڈمی میں ایک لڑکی تھی حبہ وہ اب نیلم کے سکول ٹیچر ہے.. اکیڈمی میں بھی میرے پیچھے پڑی تھی.. پھر اکیڈمی چھوڑ دی.. اب اسنے مجھے پھر دیکھ لیا ہے.. زہر لگتی ہے وہ مجھے .. کل نیلم کے ہاتھوں مجھے اس نے خط بھیجا تھا.. اس میڈم کے ہاتھوں.. اب آپ خود سوچیں اگر اسے اتنی عقل ہوتی تو کیا وہ لیٹر اس سے لیکر مجھے دیتی.. وہ  خالی کپ ٹیبل پہ رکھتے پھپھو کی سوالیہ نظروں سے متوجہ ہوا.. 

تو تم اسے احساس دلاؤ اپنے رشتہ کا.. " پھپھو بولی.. 

رات کو سمجھا دیا اچھے سے عقل ٹھکانے لگ گئی ہو گی یا شاید پہلے سے بھی گئی.. 

ولی.. کیا کیا تم نے اسکے ساتھ.. کہیں کچھ غلط تو نہیں کر دیا ابھی وہ.. پھپھو کو نیلم کیلئے پریشانی لاحق ہوئی.. 

پھپھو.. کچھ نہیں کیا آپ کی چہیتی کیساتھ بلکہ ٹھیک ہے.. ولی انکی بات کاٹتا بولا..

اتنا گیا گزرا نہیں ہوں میں.. حد ہے ویسے جلاد ہی سمجھا ہوا مجھے.. وہ ناراضی سے بولا.. 

اور کمرے میں چلا گیا.. 

کمرے میں تو وہ پورے استحقاق کیساتھ اسکے بیڈ پہ براجمان تھی.. 

لو جی یہ محترمہ ابھی تک سو رہی ہے.. اتنا کون سوتا ہے.. "

شاور لینے واشروم میں بند ہوا.. 

کچھ دیر بعد نیلم کی آنکھ کھلی تھی.. تو وہ ا ٹھ بیٹھی سمجھنے کی کوشش کرنے لگی وہ کہاں ہے.. کمرے میں نگاہ دوڑائی تو اسے رات کا منظر یاد آیا تھا.. اور وہ اس وقت ولی کے کمرے میں ہے.. آج اتوار تھا ولی گھر ہوتا ہے.. وہ ابھی بھی گھر.. ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ولی ٹاول سے بال رگڑتا واش روم سے باہر آیا تھا.. وہ اس وقت شرٹ لیس تھا.. 

ولی نے ایک سرسری سی نگاہ اس پہ ڈالی تھی.. تو وہ اسے دیکھتی نظریں جھکا گئی.. 

نیند سے بھری خمار آلود آنکھیں..  سنہری بال جو چوٹی سے بھی نکل رہے تھے.. دوپٹہ سے بے نیاز.. انتہائی معصومانہ انداز نازک سا سراپہ لئے.. اسکے بیڈ پہ براجمان تھی.. 

اب ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تھا شیشہ کی اوٹ سے دیکھ رہا تھا.. 

گڈ مارننگ میڈم صبح ہوگئی ہے.. " آنکھیں نیند میں بھرائی ہوئی تھی.. 

نیلم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے بیڈ سے اٹھے کہ نہیں.. وہ سر جھکائے اس کے حکم کی منتظر تھی.. 

"مم.. میں جاؤ اب اپنے کمرے میں " معصومیت بھرے انداز پوچھا.. 

ولی کو ایک پل کیلئے اسکے اس انداز پہ ٹوٹ کر پیار آیا تھا.. 

"آہستگی سے چلتا اسکے پاس آیا بیڈ کے قریب.. "  

وہ اسے دیکھتے پھر سے نظریں جھکا گئی.. " اسکا ننھا سا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا.. 

"ایم سوری آگے سے دھیان رکھو گی مس حبہ آپکے بارے میں بہت پوچھتی رہتی ہیں.. انہوں نے کہا تھا وہ مجھے ٹیسٹ میں اچھے نمبرز دیں گی.. اسلئے میں نے انکی بات مان لی.. " اب میں ایسا نہیں کرو گی.. " ڈرتے ڈرتے اس نے جلدی سے طوطے کی طرح بولنا شروع کیا.. اسے لگ رہا تھا ولی اس پہ رات کی طرح غصہ کرے گا.. 

جاؤ یار.. جلدی " ولی کو تو اسکی بکواس پہ بے حد غصہ آیا تھا.. مطلب کے وہ ابھی بھی یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ اسکےکمرے میں وہ سزا میں ہے.. 

تو وہ ایک سیکنڈ کی دیر کیا بنا.. رفوچکر ہوئی وہاں سے.. 

اسکی اتنی سی عقل میں یہ بات ابھی بھی داخل نہیں ہوئی کہ میں اسکا.. " نفی میں سر ہلاتا وہ کپڑے نکالنے لگا

🥀🥀🥀

آزادی ملتے ہی وہ اپنے کمرے میں آئی.. اسے اب بے حد غصہ آریا تھا.. اپنے آپ پہ کہ وہ کیوں گئ تھی ولی کے کمرے میں.. 

پھر سارا دن وہ ولی کے سامنے نہیں آئی.. کمرے سے وہ بلاضرورت باہر نہیں نکلی تھی.. 

اب رات ہونے کو آئی تھی کھانے کے ٹائم بھی باہر نہیں نکلی تھی.. 

نیلی کھانا تو کھالو.. بلقیس اسکی صبح سے حرکتیں دیکھ رہی تھی.. 

اور تم باہر کیوں نہیں آئی" آج.. 

باہر ولی ہوں گے.. " اس لئے 

کیوں ولی نے کیا کہا تمہیں جو تم اسکے سامنے نہیں جا رہی.. " بلقیس نے پوچھا.. 

کیونکہ وہ.. " وہ.. نیلم کو سمجھ ہی نہیں رہا تھا کہ کیا بتائے.  

نیلم.. تمہیں اسکے ساتھ رہنا ہے وہ تمہارا شوہر ہے اسکا تم پہ تمہارے وجود پہ پورا حق ہے.. " بلقیس اسے اپنے تئیں سمجھاتے ہوئے بولی.. 

مجھے نہیں رہنا انکے ساتھ.. ایسے شوہر ہوتے ہیں .. " وہ ضدی لہجہ میں بولی.. 

سچ کہہ رہا تھا ولی.. ہوش کے ناخن لو زرا تم بھی 

نیلم ولی تمہارا شوہر ہے !تمہارا ہے وہ اس پہ صرف تمہارا حق ہونا چاہیے.. یہ رشتہ بہت نازک ہوتا ہے کہیں وہ تمہاری کم عقلی کی وجہ سے تمہارے ہاتھ سے نا نکل جائے.. " تمہیں کیا ضرورت ہے تم اپنی مس کا خط ولی تک پہنچاؤں.. 

پھپھو غلطی ہوگئی مجھ سے اب ولی کی طرح آپ بھی مجھے ڈانٹ رہی ہیں.. ''

میں سمجھا رہی ہوں تمہیں..محبت کا جذبہ پیدا کرو ولی کیلئے اپنے دل میں .. " پھپھو نے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی.. 

محبت ولی سے.. نہیں.. " جھرجھری سی لی اس نے دل میں کہتے.. 

🥀🥀🥀.. 

اگلی صبح ولی اس سے پہلے باہر کھڑا تھا تیار اور بائیک باہر نکال لی اتنے میں وہ باہر آئی اسکول یونی فارم پہنے تیار.. 

ایک عجب کشش تھی اس میں جو ولی کو متوجہ کرتی تھی اپنی جانب.. اسکے پیچھے آن بیٹھی اور اس نے بائیک اسکول کے رشتہ پہ ڈالی.. نیلم نے ولی کے بجائے پیچھے لگے اسٹینڈ مضبوطی سے تھاما تھا.. ولی نے اسکی یہ حرکت نوٹ کی تھی اسکول کا راستہ خاموشی سے تھما تھا.. اسکول آتے ہی وہ چپ چاپ بنا اسے دیکھے اسکول کے اندر چلی گئی.. 

اتنی اکڑ" وہ بس سوچتا رہ گیا اور اب آفس کی طرف چل پڑا.. 

حبہ نے ولی کو اسکول کے اوپر والے فلور سے دیکھا تھا وہ بڑی بے چین تھی ولی کے جوابی خط پڑھنے کیلئے.. 

🥀🥀🥀

بریک ٹائم حبہ نیلم سے ملی.. 

بات سنو میری جو کام کیا تھا وہ کیا.. جواب دیا ولی نے" وہ ایکسائیٹڈ تھی.. 

" انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا " اور پلیز آپ اب ایسا مت کرنا " نیلم  کو غصہ آیا تھا حبہ پہ مگر قدرے تحمل سے بات کی.. 

حبہ کو غصہ آیا تھا.. اور وہ چلی گئی.. 

کلاس میں وہ اسکے ساتھ سختی سے پیش آئی تھی اور ٹیسٹ کے بعد نمبر بہت کم دیے تھے جبکہ اسکا ٹیسٹ بہت اچھا تھا.. 

نیلم کو تو رونا آنے لگا تھا.. 

چھٹی ٹائم وہ باہر آئی دور دور تک اسے ولی نظر نہیں آیا تھا.. 

پھر کچھ دیر بعد کھڑے رہنے کے بعد اس نے پیدل چلنا شروع کردیا.. سارے رستہ ڈرتی ڈرتی وہ چل رہی تھی اور گھر آتے شکر کا سانس لیا تھا.. 

🥀🥀🥀

ولی نے ہاتھ پہ بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا جو تین بجا رہی تھی.. 

وہ نیلم کو اسکول لینے نہیں جا سکا تھا..اپنے کیبن میں کرسی پہ بیٹھا اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا .. اسکا معصوم چہرہ اسکے آنکھوں کے پردے کے سامنے لہرایا تو ایک دلفریب نے مسکراہٹ چہرہ چھوا تھا.. 

اہہم.. عروج اسکے کیبن میں آتی ہنکاری تھی.. تو وہ ہوش میں آیا

کس کے خیالوں میں گم سم مسکرا رہے ہو.. 

نہیں تو میں اپنا کام کررہا ہوں.. " وہ سٹپٹایا تھا.. 

اچھا تو پھر لنچ کریں.. آج میٹنگ بہت لمبی ہوگئ تھی تو بھوک بہت لگ رہی ہے.. پلیز کینٹین چل کر کچھ کھاتے ہیں نا.. "

نہیں مجھے بھوک نہیں '' وہ فائل کھول کر بولا.. 

"تو عروج نے اسکے سامنے آتے فائل بند کر دی.. " تم چل رہے ہو کہ نہیں ..اسنے تھوڑا غصہ دکھتے کہا.. 

" حد تم لڑکیوں کی بھی.. " وہ کہتا اٹھ گیا تھا.. 

کون لڑکیاں " اور کتنی لڑکیوں کو جانتے ہو.." وہ اسے آنکھیں دکھاتے بولی.. 

"فلحال تو تم ہی ہو " وہ کہتا آگے بڑھ گیا.. 

اسکی مذاق میں کہی بات وہ دل پہ لے گئ تھی.. "فلحال تو کیا بس میں ہی " وہ اسکے پیچھے چلتی منہ میں بڑبڑائی جو وہ سن نا سکا.. 

🥀🥀🥀

ولی گھر آیا تو نو بج چکے تھے رات کے.. 

بلقیس نے ہی اسکے لئے کھانا لگایا تھا.. نیلم سو گئ ہے کیا.. " کھانا کھاتے اس نے پوچھا 

نہیں کمرے میں ہے" پھپھو بولی

میں آج لینے نہیں آ سکا " کام بہت تھا آج آفس میں.. 

کوئی بات نہیں " آگئی تھی .. پھپھو نے.مسکرا کر جواب دیا.. 

اچھا نیلم کو تو کمرے میں بھیج دینا کام ہے اس سے اور ہاں اسے کہیں کے ساتھ چاۓ بھی بنا کر لاۓ.. 

اچھا ٹھیک ہے کہہ دیتی ہوں.. پھپھو مسکرا کر بولیں تھی.. تو وہ چلا گیا.. 

نیلم"

جی پھپھو " نیلم اپنی کتابیں پھیلائی بیٹھی تھی بیڈ پہ جب پھپھو نے اسے آواز دی

بیٹا تمہں ولی بلا رہا ہے.. " کام ہے تم سے اور ہاں چاۓ

..جاتے ہوئے اسکے لئے چاۓ بھی لے جانا آج لی آیا ہے.. 

 پھپھومیں نہیں جا رہی ہوں ..مجھے پڑھنا ہے. آپ بنا کر دے دیتی چائے

..

نیلی میں نے تم سے جو کہا ہے نہ وہی کرو چلو شاباش

تو وہ  منہ بنا کر اٹھ گئی.. کیا مصیبت ہے..

اس دن کے بعد سے وہ اب ولی کے کمرے میں آئی تھی..  اس دن اس کی گئی حرکت پھر ذہن میں امڈ آئیں

آہستگی سے چلتی اس تک گئی.. جو بیڈ پہ کتاب لئے بیٹھآ تھا.. 

چاۓ.. 

ولی نے کتاب سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھا.. اسکے دیکھتے نیلم نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا.. ہاتھوں میں لغزش میں قابو پاتے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی.. ولی کی نظریں اسکے معصوم چہرے کا طواف کررہی تھی.. 

کچھ دیر دیکھنے کے بعد اس نے چائے کا کپ تھاما تھا.. 

اسکول سے آتے ہوئے کسی نے تنگ تو نہیں کیا.. وہ لڑکے تو نہیں نظر آۓ.. وہ اسے دیکھتا بولا.. 

نن.. نہیں تو.. کوئی نہیں تھا.. آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی.. 

ہہم اب میرا آنا مشکل ہوگا کام کی وجہ سے آفس سے نکلنا مشکل ہے.. اب تم بہادر بنو اور خود ہی گھر آجائا کرو.. 

ہہم.. نیلم نے سر ہلایا اور مڑ گئی.. 

رکو.. " ولی نے آواز دی 

تو وہ مڑی اسکی طرف..

میں نے تمہیں جانے کا کہا.. " میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی.. 

جی.. " وہ رک گئی.. 

حبہ نے کچھ کہا تو نہیں تم سے.. "

جی کہا.. پوچھ رہی تھی جواب نہیں دیا آپ نے.. اور میں نے منع کردیا انکو.. 

اور پھر کلاس میں بہت غصہ کیا اور ٹیسٹ میں بھی بلاوجہ نمبر کاٹ دیے.. وہ معصومانہ انداز میں بولی.. 

یار چھہ مہینے جھیل لو اس بلا کو پھر تمہارا میٹرک ہوجائے گا اسکول ختم.. ولی نے کہتے چاۓ کی سیپ لی.. 

اب میں جاؤں.. اجازت لی کہ بات ختم ہوگئی.. 

کہاں ؟ آئبرو  اچکا کر پوچھا جان بوجھ کر

سونے ..اپنے کمرے میں.. نیلی آنکھوں کو جھپکاتے بولی.. 

تو یہاں سو جاؤ بیڈ پہ " ولی نے شرارتی انداز میں اپنی بیڈ کی دوسری سائیڈ ہاتھ رکھتے کہا.. 

نیلم تو بنا رکے وہاں سے نکلی تھی.. 

پیچھے سے ولی کا زوردار قہقہہ گونجا تھا جو اسکے کانوں میں پڑا.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن پھپھو نے نیلم کے سر پہ بم پھوڑا تھا اپنے واپس جانے کا ارادہ بتا کر.. 

پھپھو پلیز نا جائیں..آپ نے کہا تھا آپ جلدی نہیں جائے گی..  وہ روتی ہوئی بولی.. 

بیٹا.. مجبوری ہے ..فون آیا تھا.. مجھے جانا پڑے گا.. میں جلدی ہی آؤں.. وہ اسے سینے سے لگاتی بہلاتے بولی… 

تو ٹھیک ہے پھر میں آپکے ساتھ جاؤں گی.. وہ ضدی لہجہ میں بولی.. 

تمہاری پڑھائی کا حرج ہوگا.. میں جلد ہی آؤں گی.. وہ اسے اپنے ساتھ لگاتی بولی.. انہیں لگا کے اب انکا چلے جانا بہتر ہے.. انہیں اب تنہا چھوڑ دینا چاہیے ..

🥀🥀🥀

آج پھپھو چلی گئی اور وہ پھرسے خود کو اکیلے اور تنہا محسوس کرنے لگی تھی.. 

خالی گھر سے وحشت ہونے لگی تھی.. اسے ڈر لگنےلگا 

ولی رات نو بجے گھر آیا.. نیلم کو صوفہ پہ سویا ہوا پایا.. 

وہ ولی کا انتظار کرتے کرتے صوفہ پہ ہی سوگئی تھی.. 

اسے ڈر لگ رہا تھا 

وہ کمرے میں بھی نہیں گئی..اور وہیں بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ.. 

نیلم.. ولی نے اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے ہلایا تھا. وہ بدک کر اٹھی تھی.. سامنے ولی کو دیکھا تو ایک دم سے اسکے گلے لگ گئی.. 

کیا ہوا نیلم " ولی نے اسکے گرد بازو پھیلائے تھے.. 

کک.. کچھ نہیں" نیلم ولی کے حصار میں آتے ہی پرسکون ہوئی مگر اپنی پوزیشن کا احساس ہوتے فوراً سے پیچھے ہوئی.. 

ڈر.. ڈر لگ رہا تھا.. " وہ اٹکتے بولی

ڈر.. یہ تمہارے ساتھ کون کھڑا ہے.. ولی نے جان بوجھ کر اسے ڈرایا تو وہ پھر سے ڈر کر ولی کے سینے سے لگ گئی اور مضبوطی سے اسے پیچھے سے پکڑ لیا.. ولی کے چہرے پہ  مسکراہٹ رینگی تھی.. اور دونوں بازو اسکے گرد پھیلاۓ..

کک.. کون ہے.. مم میرے ساتھ.. وہ خوفزدہ سی بولی.. 

میں ہوں تمہارے.. " ولی اسے اپنے حصار میں لئے بولا.. 

تو نیلم نے اسکے سینے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا.. 

تو وہ جلدی سے اسکا حصار توڑتی پیچھے ہوئی.. تو وہ ہنس رہا تھا.. تو اسے سمجھ آیا وہ اسے جان بوجھ کر ڈرا رہا ہے.. 

آپ نے جھوٹ بولا.. مجھ ڈرا رہے ہو.. وہ غصہ سے ناک پھلاتی بولی بولی.. 

کھانا لگاؤ بھوک لگی ہے وہ اسکی گال کھینچتا کمرے میں چلا گیا..

نیلم کو بہت ڈر لگ رہا تھا.. آج وہ اکیلی تھی کمرے میں.. پھپھو کے ساتھ سونے کی عادت سی ہوگئی تھی.. ولی نے بھی اتنا برا ڈرا دیا تھا اسے کھانا کھانے کے بعد وہ کمرے میں آگئی.. 

اب آنکھیں بند کئے سونے کی کوشش کرنے لگی.. مگر ڈر ختم ہی نہیں ہو رہا تھا.. بالآخر نیند اس پہ حاوی ہونے لگی تھی.. 

🥀🥀🥀

واؤ کتنا رومینٹک موسم ہے.. 

آفس کے بڑے سے شیشہ کے پار باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا.. 

عروج ولی کے پاس بیٹھتی پرجوش ہوتی بولی.. 

ولی فائل کو چھوڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوا اور پھر باہر کا منظر دیکھا جہاں گہرے کالے بادل چھائے تھے جو برسنے کو بیتاب تھے ..

تو پھر کیا کریں".. وہ اسے دیکھتا بولا.. جسکی آنکھوں میں الگ ہی جذبات امڈ رہے تھے جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا.. 

تو پھر انجوائے کرتے ہیں.. "

"ایک کپ گرم چائے اور ہمسفر کا ساتھ ہونا چاہیے بس.. اس سہانے موسم کو انجوائے کرنے کیلئے.."

وہ اسے دیکھتی مسکرا کر بولی.. 

ہمم.. وہ اسے دیکھ رہا تھا مگر اسکی سوچوں کا محور تو کوئی اور تھا.. اسکے آنکھوں کے پردے پہ نیلی آنکھوں والا چہرا لہرایا تو وہ مبہم سا مسکرایا.. 

عروج تو اسکی دلکش مسکراہٹ میں کھو سی گئی.. 

آج وہ اسکے سامنے اپنے حال دل کھول کر رکھ دینا چاہتی تھی.. مگر اسکے بھی وہی جذبات ہوں میرے لئے.. اس لیے جھجھک رہی تھی کہ شاید وہی اپنی پسندیدگی کا اظہار کردے.. 

چلو نا باہر چلتے ہیں.. کہیں بیٹھ کر کچھ کھاتے ہیں.  وہ جو اپنی فائل پہ دوبارہ متوجہ ہوگیا تھا اسکے سامنے آتی اسکی فائل بند کرتی بولی.. 

عروج مجھے کام کرنے دو.. پلیز.. 

نو.. چلو.. اٹھو.. اتنا کام کس کے لئے کرنا ہے تم نے.. بیوی تو ہے نہیں تمہاری".. وہ اسے زبردستی کرسی سے اٹھاتے بولی.. 

بیوی کیلئے ہی تو محنت کر رہا ہوں".. شرارتی انداز میں بولا اور اسکے پیچھے چل پڑا.. 

اچھا بیوی تو مل جائے پہلے".. وہ آگے چل رہی پیچھے مڑ کر اسے کہتی ہنس کر آگے بڑھ گئی.. 

بیوی تو کب کی مل گئی مگر ابھی تک بیوی بنی نہیں".. وہ منہ میں بڑبڑاتے اسکے پیچھے چل دیا ..

وہ کمپنی سے باہر پارکنگ ایریا تک آئے ہی تھے بادل گرج چمک کے ساتھ گرجا تھا زور سے.. عروج نے ڈر کر ولی کا بازو ہاتھوں سے تھام لیا اور ساتھ لگ منہ اسکے کاندھے میں چھپا لیا.. 

ولی کو ایک دم سے نیلم کا خیال آیا وہ بھی اکیلی ہے اور ڈر رہی ہوگی اس طوفانی بارش سے جو اب برسنا شروع ہوگئی تھی.. ولی نے آہستگی سے عروج کاندھے سے تھام الگ کیا.. 

عروج ہمیں گھر چلنا چاہیے.. موسم خراب ہو رہا ہے.. بارش شروع ہوچکی ہے.. اگر ہم یہاں کھڑے رہے تو سڑکیں تالاب بن جائیں گی اور ہم گھر نہیں پہنچ پائیں گے".. بارش اب ہلکی ہوچکی تھی.. بادل مزید گہرے ہوتے جارہے تھے.. 

عروج نے ہاں میں سر ہلایا.. 

ولی بائیک پہ بیٹھ گیا بیٹھو تمہیں گھر چھوڑ دوں.. "

🥀🥀🥀

کچھ ہی دیر میں وہ عروج کے گھر پہنچ گئے تھے.. اور دونوں ہی پوری طرح بھیگ چکے تھے.. 

آؤ تم بھی اندر " عروج گھر کے دروازے کے باہر کھڑے تھی 

نہیں مجھے گھر جانا ہے بارش بہت ہورہی ہے.. " ورنہ پہنچ نہیں پاؤں گا.. " ابھی وہ کہہ رہا تھا.. کہ دروازہ کھلا اور ایک ضعیف العمر شخص باہر آیا.. 

شکر ہے تم آگئی تمہاری فکر ہو رہی تھی اتنی برسات میں کیسے پہنچوں گی.. " اس نے عروج کو دیکھتے کہا.. 

بابا مجھے ولی لیکر آیا ہے.. " عروج نے ولی کی طرف اشارہ کرتے کہا.. 

ولی بھی انہیں دیکھتا بائیک سے اتر انکے پاس آیا.. 

"اسلام علیکم "

وعلیکم السلام.. " وہ تو بس انہیں دیکھتے ہی رہ گئے.. جانی پہچانی شخصیت لگا تھا.. 

"بہت شکریہ بیٹا تمہارا آؤ اندر آؤ.. "

نہیں شکریہ دیر ہورہی گھر نہیں پہنچ پاؤں گا.. " وہ مسکراتا بولا.. 

تو کیا کرنا ہے گھر جا کر آجاؤ. صبح چلے جانا.. عروج نے گھر کے اندر داخل ہوتے اس کہا.. جو ابھی بھی باہر کھڑا تھا.. اسے گھر پہنچنا تھا جلدی اور عروج کی وجہ سے دیر ہورہی تھی.. 

"سوری " گھر جانا ضروری ہے.. " وہ کہتا اپنی بائیک پہ بیٹھ چکا تھا.. 

عباس صاحب تو ابھی اسے بس دیکھی جا رہے تھے وہ پہچاننے کی کوشش کررہے تھے ولی کو.. 

بابا چلیں اندر وہ جاچکا تھا.. 

مجھے یہ لڑکا جانا پہچانا لگا ہے.. کیا یہ ولید کا بیٹا ولی اللہ تو نہیں.. " وہ عروج کو دیکھتے بولے.. 

اسکے والد کا مجھے نہیں پتا انکی تو دیتھ ہوگئی ہے.. جب یہ چھوٹا سا تھا.. 

ہاں مجھے معلوم ہے.. اسکے ماں باپ کا حادثہ میں انتقال ہوگیا تھا.. ہوبہو اپنے باپ کی کاپی ہے.. "

ہاں ایکسیڈنٹ ہوا تھا.. مگر آپ کیسے جانتے ہو سب.. 

🥀🥀🥀🥀

نیلم اور کرن کب سے گپے ہانک رہی تھی... کرن کافی دیر پہلے کی آئی تھی.. موسم بہت اچھا ہو رہا تھا.. کرن کے آنے سے نیلم بہت خوش ہوگئی تھی  .وہ گرم گرم پکوڑے بھی بنا کر لائی تھی ساتھ.. پھر نیلم نے چائے بنائی اور صحن میں بیٹھ موسم کا بھی لطف لینے لگیں.. 

رافع بھائی کی شادی پہ آنا ضرور اور اپنے کھڑوس شوہر کو بھی لانا ساتھ.. اور ہاں بہت اچھے اچھے سے جوڑے بھی بنانا شادی پہ پہننے کے لئے.. خیر سے اب شادی شدہ ہو.. آخری بات پہ وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی.. اور زور سے ہنس دی..

شادی شدہ.. " نیلم معصومیت والے انداز میں بولی.. 

اور نہیں تو کیا پاگل اب ولی بھائی سے سادگی سے نکاح ہوا ہے مگر رہتی تو انکے ساتھ ہی ہو نا تو شادی شدہ ہوئی.." وہ اپنے تئیں اسکی عقل میں بات ڈالتے بولی جسے وہ پھر سمجھنے سے رہی.. 

رافع بھائی کی شادی ہوگی انکی بیوی بیاہ کر گھر آجائے گی تو وہ بھی شادی شدہ کہلائیں گے.." 

اچھا یہ بتاؤ ولی بھائی ڈانٹتے ہی رہتے ہیں یا پیار بھی کرتے ہیں وہ اسے چھیڑتے بولی.. 

ڈانٹتے تو نہیں ہے.. " وہ دھیمی آواز میں بولی.. 

اچھا.. پھر پیار کرتے ہیں.. پھر سے چھیڑتے کہا.. 

یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو تم.. نیلم نے غصہ سے ناک پھیلاتے کہا.. 

ہاہا. ہا ہا.. کرن نے زور دار قہقہہ لگایا.. 

تو نیلم اسکے دھموکا جڑ دیا تھا.. 

ابھی وہ آپس میں الجھ رہی تھیں جب دروازہ بجا ..بارش آب و تاب کے ساتھ برس رہی تھی.. 

پھر بائیک کا ہارن بجا تو نیلم سمجھ گئی ولی آیا ہے.. 

وہ بارش سے بچتے بچاتے دروازے تگ گئی اور دروازہ کھول دیا.. 

ولی گھر میں بائیک سمیت داخل ہوا تھا اور مکمل طور پہ بھیگ چکا تھا.. 

کرن کی نظریں ان دونوں پہ تھیں.. مگر ولی نے اسے دیکھا نہیں

ولی نے بائیک سائیڈ پہ شیڈ کے نیچے کھڑی کی.. نیلم بھی اسکے پیچھے تھی.. 

یار کپڑے تو نکال دو میرے چینج کرلوں ..بارش بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی.. تمہیں ڈر تو نہیں لگا " نیلم کی گال پہ ہاتھ رکھتے نرم لہجہ میں پوچھا"..

"تو نیلم نے جلدی سے نا کے انداز میں سر ہلایا اور ولی کے پیچھے کھڑی کرن کو دیکھا جو انہیں دیکھتی دونوں ہاتھ باندھی مسکرا رہی تھی وہ مڑا ہی تھا کے سامنے کرن کھڑی تھی.. 

" سوری ٹو ڈسٹرکٹ یو "کیری اون.. اپنا رومانس جاری رکھیں میں چلتی ہوں.. " کرن اپنی ہنسی کنٹرول کرتی بولی اور انکے پاس سے گزرنے لگی.. 

رومانس کی ڈیفنیشن اسکے عقل کے خانے میں بھی ڈال دینی تھی.. " وہ کہتا اندر چلا گیا.. 

نیلم.. ولی بھائی شکوہ کررہے ہیں ٹائم دیا کرو..جاؤ چینج کروادو ..وہ کہتی چلی گئی.. 

🥀🥀🥀

نیلم کمرے میں آئی تو وہ گیلی شرٹ اتار چکا تھا.. 

تو اسے دیکھتی نظریں جھکا دی.. 

بیگم صاحبہ کپڑے نکال دو ٹراؤزر شرٹ نکالنا اور اپنے جیسی پیاری سی چائے بھی بنا لاؤ.. میں شاور لیکر آیا.." کہتے وہ واش روم میں بند ہوا.. 

نیلم نے الماری سے اسکے لئے بلو رنگ کی شرٹ اور براؤن ٹراؤزر نکال کر بیڈپہ رکھا اور کچن میں چلی گئی.. 

جب واپس چائے لائی تو ولی شیشہ کے سامنے بال بنا رہا تھا.. نکھرا نکھرا کافی پرکشش سا لگ رہا تھا.. اسکی نکالی ہوئی بلو شرٹ پہنے ہوئے تھا.. 

چائے.." نیلم اسے دیکھتے.. پیلے رنگ کا سادہ سا سوٹ پہنے ہم رنگ کا دوپٹہ گلے ڈالا ہوا تھا جو اس پہ بہت ہی اٹھ رہا تھا

رکھ دو.. " بال بناتے اسے شیشہ میں دیکھتے کہا.. 

ٹیبل پہ چائے رکھتی وہ جانے کیلئے مڑی تھی جب ولی نے اسے روکا.. 

میں نے تمہیں جانے کا کہا.. " اب اسکی طرف متوجہ ہوا تھا.. 

تو نیلم نے ناں میں سر ہلایا تھا.. 

ادھر آؤ.. ہاتھ سے اپنی طرف اشارہ کرتے بلایا.. 

وہ چند فاصلہ پہ اسکے سامنے کھڑی تھی.. آہستہ سےچلتی اسکے قریب آئی.. 

ولی نے اسکا ہاتھ پکڑتے کھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیا.. وہ تو اس اچانک افتاد پہ بوکھلا گئی تھی.. ولی نے اسے اپنے ساتھ لگاتے اسکے گرد بازو حائل کرتے اسکے اپنے اندر بھینچ لیا تھا.. 

نیلم کا ننھا سا دل زور و دھڑکنے لگا تھا ..باہر بادل بھی جم کے برس رہا تھا.. 

ولی اسے سینے لگا ئے آنکھیں میچیں کھڑا تھا وہ اسے.. وہ اسے خود میں بھینچ لینا چاہتا تھا اسکے وجود سے اٹھتی بھینی سی خوشبو کو اپنے اندر اتارا رہا تھا.. اب باری اسکی سانسیں پینے کی تھی..مگر وہ تو کانپ کر رہ گئی تھی.. گرفت ڈھیلی پڑی کہ وہ مچل کر پیچھے ہوئی مگر اسنے کمر کے گرد حصار مضبوط کردیا گیا جسے وہ توڑ نا سکی.. 

لرزتی گھنی پلکوں کی جھالر گراۓ اسکے دل میں اتر رہی تھی.. وہ اسکا حصار توڑنے کی تک و دو میں تھی جو ناممکن تھا.. ولی دیوانہ وار اسے تکے جا رہا تھا.. وہ جو اسکے سینے پہ ہاتھ رکھے اسے دور کی کوششوں میں تھی ولی نے پھر سے اپنا حصار مضبوط کرتے اسے اپنے ساتھ لگا..  

چھو.. چھوڑیں مجھے.. بمشکل وہ کہہ پائی تھی.. 

مگر ولی نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر چہرہ اسکے چہرے سے قریب تر کرتے اسکے لرزتے ہونٹوں کو قید کر لیا تھا..

نیلم اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا.. کافی دیر بعد نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزاد کیا.. 

نیلم کی تو سانسیں اکھڑنے لگی تھی.. اسکے کاندھے پہ سر گرائے وہ اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی.. 

ولی نے اسے کمر تھاما ہوا تھا.. اب کے نگاہ اسکے صاف شفاف صراحی دار گردن پہ جا ٹھہری تھی.. اپنے شہادت کی انگلی اسکی گردن پہ پھیری تھی جس سے اسکی جان حلق میں آئی تھی.. اس سے پہلے وہ اس سے الگ ہوتی.. 

اسکی گردن پہ جھکا تھا.. 

اور شدت بھرا لمس چھوڑ کر اسے آزاد کردیا تھا.. نیلم کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے تھے وہ ابھی اسکے حصار میں تھیں.. گردن میں شدید جلن کا احساس ہو رہا تھا.. 

نیلم.. پیار سے اسکا نام پکارا تھا.. نیلی آنکھوں سے اسے دیکھا جو رونے سے لال ہو رہی تھی.. 

تم میری بیوی ہو یہ میرا حق ہے.. " تم پہ تمہارے وجود پہ صرف میرا حق ہے.. " مگر ابھی تم چھوٹی ہو اس لئے.. " تم سے دوری بنائے رکھتا ہوں.. مگر زیادہ دور بھی نہیں رہ سکتا اب اس لئے اب یہ چھوٹی موٹی گستاخیاں تو چلتی رہیں گی.. " وہ اسکی گال پہ ہاتھ رکھتے اسکے چہرے کو دیکھتے سرگوشی کرتا بولا.. 

نیلم کی آنکھیں جھک گئی تھی وہ اسکی گال پہ کس کرتا آہستگی سے اس دور ہوتا چائے کا کپ اٹھا کر پینے لگا تھا نظریں ہنوز اسی پہ تھی جو سر جھکائے کھڑی تھی ..آزادی پاتے ہی باہر کو دوڑ لگا دی تھی اپنے کمرے میں آئی تھی اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں پہ ہاتھ رکھا تھا.. دل تھا کہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا اسکی کی گئی گستاخیاں اسے شرمانے پہ مجبور کرگئی تھی 

سمجھ نہیں آ رہا تھا.. کہ کیا کرے خوش ہوئے یا کہ نہیں ..ولی کو لیکر اسکے اس طرح کے کوئی جذبات ہی نہیں تھے

اسکی کی گئی سرگوشیاں اسکی سماعتوں میں گونج رہے تھے

"تم پہ تمہارے وجود پہ میرا حق ہے" شرمیلی سی مسکان اسکے چہرے کو چھوئی تھی


بادل زور شور سے برس رہے تھے.. نیلم کمرے بیٹھی مارے خوف کے اسکی جان نکل رہی تھی اور ولی کے پاس جانے کی بھی ہمت نہیں تھی.. بادل زور سے گرجتا تو سہم کر رہ جاتی.. 

ولی اپنے بیڈ پہ لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا جب بادل زور دار گرجا تھا.. نیلم کا خیال آیا جب سے وہ کمرے سے گئی دوبارہ آئی ہی نہیں.. 

وہ جانتا تھا وہ بہت ڈرتی ہے بادل گرجنے کی آواز سے.. 

نیلم بیڈ یہ لیٹی سونے کی کوشش کررہی تھی.. آنکھیں زور سے میچی تھی کہ نیند آجائے.. وجود میں ہلکی ہلکی سی کپکپاہٹ تھی.. منہ تک کمبل اوڑھے دوسری سائیڈ کروٹ لئے لیٹی تھی.. اسے احساس ہوا کہ اسکے ساتھ کوئی ہے بیڈ پہ.. اب اسے اپنی کمر پہ انگلیا چلتی ہوئی محسوس ہوئی کسی کی.. مزید وہ خوف سے کانپنے لگی..

جب کسی نے اسے کھینچ کر خود میں بھینچ لیا اس نے زور دار چیخ ماری تھی.. 

ولی کو لگا جیسے اسکے کان کے پردے پھٹ گئے.. اپنی کان میں انگلیاں ڈال کر انہیں بچایا تھا..  نیلم نے سر اٹھا کر دیکھا تو ولی تھا.. اسکی جان میں جان آئی تھی.. اسکے سینے پہ سر رکھ گئی تھی ایک گہری سانس لی تھی پھر اگلے ہی پل اٹھ بیٹھی ..کڑے تیور لئے اسے گھور رہی تھی.. 

ایسے ڈراتا ہے کوئی کسی کو.. اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو.. کیوں آئے آپ سو جاتے سکون نئی ہے کیا.. "

وہ بپھر گئی تھی اپنی سریلی آواز سے وہ اسے ڈانٹ رہی تھی.. ولی کو تو بہت ہی کیوٹ لگی تھی وہ چھوٹی آفت.. 

بازو سے کھینچ اسے اپنے اوپر گرایا تھا.. 

تمہیں سلانے آیا تھا میری جان.. سکون تو تم نے میرا برباد کردیا ہے.. کچھ نہیں ہوتا تمہیں میرے ہوتے.. 

وہ اسے اپنے ساتھ لگائے اسکے جواب دے رہا تھا.. 

میں سورہی تھی مجھے نیند آرہی آپ جائیں.. اسکی گرفت میں مچلتی بولی.. 

ششش.. سو جاؤ.. " میری نیت مت بدلو.. ورنہ ساری حدیں پار ہوجائیں گی.. " اسکے لبوں پہ انگلی رکھتا معنی خیزی سے بولا.. 

مم.. مجھے س.. سونا ہے.. وہ بمشکل بولی تھی.. 

سوجاؤ.. " وہ کہتا آنکھیں بند کرگیا.. 

برسات بھی تیزی سے جاری تھی.. ایک دم پھر سے بادل گرجا نیلم نے اسکے سینے پہ سر ٹکاتے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا.. 

ولی گہرا مسکرایا تھا.. 

نیلم کو اب ڈر نہیں لگ رہا تھا.. بلکہ اسے اب سکون سا آنے لگا تھا اور نیند بھی آنکھوں میں آنے لگی تھی آنکھیں بند کرتے ہی نیند حاوی ہونے لگی تھی.. 

صبح نیلم کی آنکھ کھلی تو وہ مکمل طور پہ ولی کے حصار میں تھی.. وہ اسکے کاندھے پہ سر رکھے ہوئے چند انچ کا فاصلہ تھا اسکے اور ولی کے چہرے کے درمیان کا..

وہ بہت غور سے اسے دیکھے جارہی تھی.. آج پہلی بار اس نے ولی کو اتنے قریب سے دیکھا تھا.. ماتھے پہ بکھرے بال.. صاف رنگت تیکھے نین نقش.. 

اسکا دل زور سے دھڑکا تھا ولی کی اتنی قربت پہ.. وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی.. وہ ولی جو اس سے کبھی پسند ہی نہیں کرتا تھا.. کتنا ڈا ٹتا تھا اسے.. چڑ تھی ولی سے جب وہ اسے بے وجہ ڈانٹ دیتا تھا.. آج وہ اسکے اتنے قریب ہے.. 

وہ اسکا حصار توڑ رہی تھی.. جو ناممکن تھا.. وہ جاگ چکا تھا.. اور اسکا حصار مزید تنگ کرگیا.. 

وہ اب پریشان سی ہو رہی تھی کیسے نکلے اب اس مشکل سے.. 

چھ.. چھوڑیں.. 

مدھم سی آواز میں بولی.. 

تو ولی نے نیند سے بھری آنکھیں کھولی.. 

نیلم اپنی نظریں جھکا گئی.. وہ پوری اسکی گرفت میں تھی.. 

" کیا ہوا.. " ولی چند انچ کا فاصلہ بھی ختم کرتے چہرہ اسکے چہرے کے مزید قریب تر کردیا.. اسکے ماتھے کیساتھ ماتھا جوڑ لیا.. 

وہ خاموش رہی.. 

چھوڑیں مجھے.. اسکول جانا ہے ..دیر ہوجائے گی.. 

بمشکل اپنا جملہ پورا کیا..

اچھا میری جان.. کہتے اسکی گال پہ بوسہ دیتے اٹھا.. اور اپنے کمرے میں چلا گیا.. 

نیلم تو بس حیران ہی تھی اسکی حرکتوں پہ.. اب خود بھی اٹھ گئی.. 

🥀🥀🥀

اسکول یونیفارم پہنے وہ تیار تھی.. ولی بھی نک سک سا تیار کمرے سے باہر نکلا.. 

بارش سے صحن کا سارا فرش گیلا تھا.. جب گیٹ سے باہر نکلے تو گلیاں بھی تالاب کا منظر پیش کررہی تھی..

میں زرا بائیک آگے لے جاتا ہوں پھر تم آجانا.. " ولی نے بچتے بچاتے بائیک پانی سے نکال کر آگے لے گیا.. اور نیلم کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آجائے.. 

وہ تو کھڑے پانی کو دیکھ کر ڈر رہی تھی.. کیسے جائے.. کہیں کیچڑ میں نا گر جائے.. ولی کو دیکھتے سر ہلاتے نا کا اشارہ کیا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا..

گلی میں سب لوگ ہی بچتے بچاتے آ جا رہے تھے.. 

کرن بھی اپنے بھائی رافع کیساتھ باہر نکلی تھی.. 

ولی بائیک سے اتر کر چلتا  اسکے قریب آیا.. 

اسکے آگے ہاتھ پھیلایا.. 

نیلم نے اسے دیکھتے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ رکھا جسے اس نے مضبوطی سے تھام لیا.. 

اب اس پتھر پہ پاؤں رکھنا.. اسکی تائید میں نیلم نے پاؤں رکھا.. اب آگے زیادہ پانی پھلانگنا تھا..  ولی نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا.. چلو بڑھاؤ پیر.. " 

وہ ڈر رہی تھی..

پھر ولی نے آگے بڑھتے اسے آگے آنے کا کہا.. ڈرتے اسنے آگے پاؤں رکھا مگر وہ گڑبڑا گئی اس سے پہلے کے کیچڑ میں گرتی ولی نے اسے کمر سے تھام لیا.. نیلم نے زور سے آنکھیں میچ لیں تھی.. مگر ولی کی گرفت آتے ہی اسکی رکی سانسیں بحال ہوئی.. 

ولی ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے دوسرا ہاتھ سے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے آگے بڑھ رہا تھا... بائیک کے پاس آتے اسے چھوڑ دیا.. کیونکہ وہ سب کی نظروں میں تھے.. سب نے رک کے یہ نظارہ دیکھا.. نیلم کو کہاں پرواہ تھی سب کی اسے تو بس گر جانے کا خوف کھائے جا رہا تھا.. 

چلیں بھائی سین ختم ہوگیا.. '' رافع جو بہت غور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا.. کرن کی آواز پہ سکتا ٹوٹا.. 

چل رہا ہوں.. " کہتے اپنی بائیک پہ بیٹھ گیا.. 

ویسے اس سین کا ہیرو آپ ہوتے اگر ماما مان

جاتی.. " کرن اسکے پیچھے بیٹھے بولی.. 

امی کو تو بس اپنی بھانجی پیاری تھی.. " آجائے گی آفت تو لگ جائے گا پتہ انہیں.. " شکوہ کرتے بولا.. 

"بھائی ایسا تو مت کہیں ہونے والی بھابھی کو" کرن نے اسے ٹوکا.. 

🥀🥀🥀🥀

ولی نے اسے اسکول کے گیٹ کے باہر اتارا.. آنکھوں پہ سن گلاسس لگائے کوئی فلمی ہیرو ہی لگ رہا تھا.. 

اس سے پہلے کے وہ بائیک آگے بڑھاتا حبہ فٹ اسکے سامنے آئی.. 

مجھے آپ سے بات کرنی ہے ولی.. " تم اندر جاؤ.. حبہ نے نیلم کو اندر جانے کا کہا.. 

وہ ولی کو دیکھتی اسکول کے اندر چلی گئی.. 

"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ.. "وکی سنجیدہ لہجہ میں بولا.. 

"میرا مسئلہ تم ہو"بات کرنی ہے تم سے کیوں مجھ سے بھاگ رہے ہو.. "وہ شکوہ کناں بولی

مجھے نہیں کرنی تم سے کوئی بات کیوں نہیں سمجھ آتی تمہیں.. "

اور تمہیں شرم آنی چاہئے بچی کو بے وجہ تنگ کیا ہوا ہے.. "ولی نے اسے شرم دلانی چاہی.. 

" ہاں تو مان لو میری بات نہیں کرتی تنگ.. " وہ بھی آگے سے اترا کر بولی.. 

ولی نے زن سے بائیک بھاگا لے گیا.. 

اور اب شامت پھر نیلم کی آنی تھی.. اور آج تو نیلم کو جان بوجھ کر ٹیسٹ میں فیل کردیا.. اسے تو رونا ہی آگیا تھا حبہ کے رویہ پہ.. 

🥀🥀🥀

ہاۓ ولی.. عروج آتے بولی

ولی اپنے کیبن میں بیٹھا تیزی سے لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلا رہا تھا.. 

ہاں بولو" بنا اسکی طرف دیکھے وہ اپنے کام میں مصروف سا بولا.. 

اب میری بات تو سن لو پہلے" اسے غصہ آیا اپنی طرف متوجہ نا پاکر.. 

عروج پلیز تنگ مت کرو کام کرنے دو.. " وہ اسکی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتا بولا.. 

تنگ نہیں کر رہی یار.. " بات کرنی ہے تم میرے لئے بھی ٹائم نکال لو.. "

ابھی تو میرے لئے کوئی ٹائم نہیں تمہاری باتیں سنتا رہوں تو میری نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے.. فلحال تو بہت ضروری فائل پہ کام کررہا ہوں پلیز ڈسٹرب مت کرو پھر سہی.. " کہتے ہی پھر سے لیپ ٹاپ پہ جھک گیا.. اور منہ بنا کر چلی گئی.. 

تمہیں کیا ہوا کیوں اتنا سڑا ہوا منہ بنایا ہوا تم نے.. " عروج اپنے کیبن میں بیٹھی تو پاس بیٹھی اسکی کولیگ اور دوست اقرا بولی.. 

"ولی بات نہیں سن رہا میری.. " وہ منہ بگاڑتی بولی.. 

تم بھی بہانے بہانے سے اسکے کیبن میں گھسی رہتی ہو کام بھی کرنے دیا کرو اسے..

اقرا کیا وہ مجھے پسند بھی کرتا ہے کہ نہیں" وہ کسی خدشہ کے تحت بولی.. 

ہاں یار.. پورے آفس میں واحد تم ہو جس سے وہ کام کے علاوہ بات کرلیتا ہے.  ورنہ مجھ جیسی کو وہ گھاس بھی نا ڈالے کھڑوس کہیں کا"

اب ایسا تو مت کہو.. " اچھا ہے نا میرا علاوہ وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتا.. " وہ اترا خوش ہو کر بولی.. 

تو دونوں ہنس دی اور کام پہ لگ گئی.. 

🥀🥀🥀

مجھے نیو ڈریسز لینی ہے رافع بھائی کی شادی کے لیے.. 

کل کرن آئی تھی اس نے انوائٹ کیا ہے اپنے بھائی کی شادی میں"

نیلم کھانا کھانے کے بعد اسکے لئے چائے لائی.. وہ صوفہ پہ بیٹھا ٹیوی دیکھ رہا تھا.. 

کب ہے شادی " وہ اسکے ہاتھ سے چائے لیتا ہوا بولا.. 

" آج سے پانچ دن بعد.. " میرے پاس شادی کے حساب سے  کپڑے نہیں ہے.. کرن بھی کہہ رہی تھی مجھے کے نیو ڈریس لوں شادی کیلئے اب میں شادی شدہ ہوں.. "

انتہائی معصومانہ انداز میں کرن کی کہی گئی بات دہرا گئی.. 

اچھا ادھر بیٹھو میرے پاس" اسکی بات پہ ولی کو ہنسی آئی جسے وہ دبا گیا.... وہ بیٹھ گئی اسکے ساتھ.. 

تمہاری شادی کب ہوئی.. اسے دیکھتا بولا.. وہ اسکے برابر میں بیٹھی ہوئی تھی اس سوال پہ وہ کنفیوز ہوگئی کچھ نا بولی.. 

شادی شدہ کا مطلب بھی پتا ہے تمہیں.. " 

اسنے ہاں کے انداز میں سر ہلایا چہرے پہ بلا کی معصومیت تھی.. 

کیا"؟

میں.. میرا نکاح ہوا آپکے ساتھ.. تو میں شادی شدہ ہوئی.. 

جیسے رافع بھائی کی شادی کے بعد انکی وائف آجائے گی وہ شادی شدہ ہوں گے.. کرن کی سمجھائی کو ویسے ہی دہرا گیا.. 

ولی نے اپنا سر پکڑ لیا.. " یہ سب بھی کرن نے کہا.. "

اسنے ہاں کے انداز میں سر ہلایا.. 

جی تو چاہ رہا ہے تمہیں ابھی شادی شدہ کا مطلب سمجھا دوں.. " 

کمرے میں آؤ پھر بتاتا ہوں".. وہ خالی کب ٹیبل پہ رکھتا کمرے میں چلا گیا.. 

وہ اپنی باتوں پہ غور کرنے لگی کہیں غلط تو نہیں بول گئی.. مگر جیسا کرن نے کہا تھا وہی بتایا ہے.." اپنے آپ سے بڑبڑاتے کچن میں برتن رکھے چلی گئی.. 

تھوڑی دیر بعد وہ ولی کے کمرے میں گئی.. 

ولی بیڈ پہ تکیہ کے ساتھ ٹیگ لگائے لیٹنے کے انداز میں بیٹھا موبائل یوز کررہا تھا.. 

لائٹ اوف کر کے دروازہ بند کرکے ادھر آؤ بیڈ پہ.. " حکم دیتے کہا.. موبائل اوف کرکے سائیڈ پہ رکھ دیا.. وہ جو کمرے کے بیچ میں کھڑی تھی.. اسکی آرڈر پہ اپنی جگہ جمی کھڑی رہ گئی.. اسکی کل والی حرکتیں یاد آئی.. 

کیا ہوا" 

نہیں مجھے اپنے کمرے میں سونا ہے.. " ضدی لہجہ میں بولی.. 

نیلم میں نے جو کہا ہے کرو.. " 

وہ پھر بھی نہیں ہلی.. 

نیلم " تم آ رہی ہو یا میں آؤ.. " دھمکی والے لہجہ میں کہا.. 

تو نیلم مرے مرے قدموں سے دروازے کے پاس گئی دروازہ بند کیا.. 

لائٹ بھی.. " پیچھے سے ولی نے آواز لگائی.. 

سوئچ بورڈ کے پاس جاتے لائٹ اوف کر دی.. 

ادھر آؤ.. ایک اور آرڈر.. 

آہستہ سے چلتی اسکے قریب گئی.. 

ولی نے اسکا ہاتھ کھینچنے اسے خود پہ گرا لیا.. 

اسے بیڈ پہ لیٹا تے خود اسکے اوپر آیا.. 

کیا ہوا.. میں نے کل بھی سمجھایا تھا یہ میرا حق ہے شوہر ہوں تمہارا.. یا آج پھر سمجھاؤں.. " اسکی ہیزل بلو آئز میں دیکھتا سرگوشی نما بولا.. تو اسنے نا کے انداز میں سر ہلایا.. 

تو سائیڈ پہ ہوتا اسکے برابر میں لیٹ گیا اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا

..

پرسو سنڈے ہے ..چھٹی ہوگی آفس سے پھر چلیں گے شاپنگ پہ.. جو چاہے مرضی لے لینا.. 

وہ اسکے کاندھے پہ سر رکھے ہو ئے تھی.. ہاں میں سر ہلایا تھا.. ولی کی قربت میں کافی نروس ہو رہی تھی عجیب سا لگ رہا تھا.. 

سو جاؤ.. " کچھ نہیں کررہا".. اسکی گھبراہٹ کا اندازہ لگاتے.. آرام سے بولا.. 

اب سے یہ تمہارا کمرا ہے اور یہیں سونا ہے تمہیں.. " پچھلی گزری باتوں کو بھول جاؤ ماما بھی یہی چاہتی تھی مجھے افسوس ہے میں انکی خواہش انکی زندگی میں پوری نا کرسکا.. " اسے شرمندگی ہو رہی تھی اپنے کئے پہ.. 

نیلم نے بس ہاں میں سر ہلایا ماما کے نام پہ اسکا  دل بھر آیا.. ولی کے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھتے وہ آنکھیں بند کر گئی.. ولی نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اسے ہونٹوں کے ساتھ لگایا تھا.. نیلم کے جسم میں سرسراہٹ سی دوڑی تھی اسکے لمس سے پھر وہ بھی آنکھیں موند گیا.. 

🥀🥀🥀

ولی.. "

وہ دونوں آفس کی کینٹین میں بیٹھے لنچ کررہےتھے جب عروج بولی.. 

ہاں بولو.. "

کل کوئی پلین بناتے ہیں گھومنے پھرنے کا سنڈے ہے.. "کافی ٹائم ہوگیا ہے.. کل چلتے ہیں.. " عروج ایکسائیٹڈ سی بولی.. 

ریلی سوری یار کل مجھے ضروری کام ہے تو پلیز سوری.. " وہ سہولت سے انکار کرگیا.. 

اٹس اوکے.. " اسکا موڈ بنا تھا.. مصنوعی سا مسکرائی اور اٹھ گئی..

ولی بھی اپنا کھانا فنش کرتا ہوا اٹھا تھا.. 

تمہارا پھر موڈ بن گیا.. اقرا اسکے پاس بیٹھتی بولی.. 

ولی سے کہا کل چلتے ہیں گھومنے انجوائے کرنے.. اس نے انکار کردیا.. " وہ منہ لٹکاتے بولی.. 

تو کیا ہوا میں ہوں نا مجھے بھی کل جانا تھا کچھ چیزیں لینی تھی.. تم بھی چلو.. کسی مال میں جائیں گے.. تم چھوڑو اسے ہے ہی کھڑوس کہیں کا.. " اقرا اسے بہلاتے بولی.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن ولی اور نیلم شاپنگ مال میں تھے ولی وعدے کے مطابق اسے مال میں لیکر آیا تھا.. نیلم کی تو خوشی کی انتہا ہی نہیں تھی.. مال وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی ہر چیز کو وہ دیکھتی بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی.. 

بڑی سی کالی چادر اوڑھے.. اس میں دمکتی اسکی گوری رنگت.. سفید پیروں میں مقید.. کالی فلیٹ جوتی .. 

نیلم کو ڈر بھی لگ رہا تھا. رش سے اس لئے ولی نے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا تھا..  

نا ہی نیلم کو سمجھ آ رہی تھی کہ اس نے لینا کیا ہے اور نا ہی ولی کو سمجھ آ رہی تھی.. 

تم پہلے یہ بتاؤ تسلی سے کہ تم نے لینا کیا ہے.. ولی اسکا ہاتھ چھوڑے اسکے سامنے کھڑا ہوا.. اور اس سے پوچھنے لگا وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے.. ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے.. 

ولی.. عروج وہ دیکھو.. ولی.. " اقرا اور عروج بھی اسی شاپنگ مال میں تھے.. جب اوپر والے فلور سے اقرا نے ولی کو دیکھا.. عروج بھی نیچے کو متوجہ ہوئی.. 

" مجھے کپڑے ہلکے کام والے بھی ہوں شادی کے حساب سے اور میچنگ جیولری سینڈل".. اپنی تمام چیزیں ہاتھ پہ گنوائی.. 

اوکے چلو" ولی نے پھر اسکا ہاتھ تھاما اور آگے بڑھ گیا.. ولی کےساتھ چلتی قدم سے قدم ملاتی اسکے کاندھے سے سر نکل رہا تھا.. 

عروج اور اقرا کی نظریں تو ولی کے ساتھ کھڑی نیلم پہ تھی.. کالی چادر کے ہالے سے جتنا وہ نظر آئی حسن کا پیکر ہی لگی تھی.. 

یہ لڑکی کون ہے.. " اسکا ہاتھ پکڑے چلتے ولی کو دیکھ اقرا بولی.. 

عروج کے پیروں تلے جیسے زمین ہی کھسک گئی تھی.. وہ اپنی جگہ پہ مجسمہ بنی کھڑی بس ولی کو کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہوئے دیکھے جا رہی تھی.. وہ منظر سے غائب ہوچکا تھا.. مگر اسکی آنکھیں وہیں دیکھتے چھلک پڑی تھیں.. 

عروج.. اقرا نے اسے ہلایا تو روتی ہوئی تیزی سے بھاگتے مال سے نکل گئی.. 

اقرا نے اسے پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئی مگر وہ نا رکی.. 

ولی کپڑوں کی شاپ پہ اسے لایا.. جہاں اسے ولی نے اپنی مرضی کے کپڑے دلائے.. شادی والے بھی اور عام پہنے والے بھی.. 

پھر سب کے ساتھ کی میچنگ جیولری اور سینڈل.. 

شاپنگ کے بعد وہ سمندر کنارے آئے جہاں سورج غروب ہو رہا تھا.. 

نیلم کی تو خوشی کی انتہا نہیں تھی کتنا دلکش منظر تھا.. سمندر کنارے چلتی ٹھنڈی ہوائیں بہت ہی محسور کن تھی.. 

دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ننگے پیر ریت پہ چل رہے تھے ..نیلم کی چادر اسکے گلے میں تھی.. سنہری بال پونی سے نکلتے ہوا میں لہرا رہے تھے.. وہ بھی ولی رنگ میں ڈھلتی جا رہی تھی.. 

پھر ولی نے نیلم کو بہت ہی اچھا ڈنر کروایا.. 

انکی ایک خوبصورت دن کا اختتام ہوا تھا.. 

عروج اداس سی بیٹھی تھی.. وہ کل والے واقعہ کو ہی سوچی جا رہی تھی.. اسے یقین نہیں آ رہا تھا کے ولی کی لائف میں کوئی ہے.. 

اقرا اسے اداس دیکھتی بولی.. 

"عروج یار کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں ایسے بیہیو کر رہی ہو.. " تین مہینہ ہوئے ہیں سارے ولی کو جانتے.. اور ایسا کررہی ہو جیسے صدیاں ساتھ گزاری ہو.. "

تو اسکی باتیں سنتی اٹھ گئی ..

"کہاں جا رہی ہو اب.. " اقرا بولی.. 

ولی کے کیبن میں.. 

کیوں " چھوڑو اسے.. کوئی ضرورت نہیں.. "اقرا نے اسے سختی سے ٹوکا وہ کہاں سننے والی تھی.. 

ولی فائل کھولے بیٹھا تھا.. اسے دیکھتے اسکی جانب متوجہ ہوا.. 

"کل میں مال میں گئی تھی.. اور تمہارا ضروری کام بھی دیکھ لیا جو تم کررہے تھے.. " وہ اپنے آپ کو قدرے نارمل رکھتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں بولی.. 

تم میری جاسوسی کررہی تھی.. "

نہیں اتفاق سے دیکھ لیا تمہیں.. تمہاری گرل فرینڈ کیساتھ.. "

انف " عروج.. سوچ کر بولو جو بھی بولنا ہے.. وہ گرل فرینڈ نہیں تھی.. میری کزن ہے.. " اور میں تمہیں. کیوں صفائی پیش کروں.. "

وہ غصہ دلا گئی تھی اسے مگر وہ ابھی اپنی شادی ایکسپوز نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے آدھی بات چھپا گیا.. 

"آئی ایم سوری. " ولی وہ میں ویسے ہی کیونکہ تم نے کہا تھا کہ تمہارا کوئی نہیں ہے تم .. "عروج کو سمجھ نا آیا کیا کہے اسے اتنا غصہ میں دیکھ

"ہاں مگر ماں باپ نا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ باقی کے رشتہ دار بھی مر گئے.. "ٹکا سا جواب دیا تھا.. 

جاؤ مجھے کام کرنے دو.. " سرد سے لہجہ میں کہتا اپنی فائل پہ جھکا

 تو واپس اپنی جگہ پہ آئی.. 

"ہوگئی تسلی.. " اقرا نے اسکا منہ لٹکا ہوا دیکھ کر کہا.. 

"اتنا ڈانٹا ولی نے مجھے.. " وہ رونی صورت بناتی بولی.. 

کیوں"

"کیونکہ وہ لڑکی اسکی کزن تھی.. " 

اوہ تو مین کے مس انڈرسٹینڈنگ ہوگئی تم بھی تو بھاگ گئی اور بنا سچ جانے کل سے ماتم منا رہی ہو.. اب وہ غصہ نا کرے تو کیا کرے" اقرا نے اسے لتاڑا.. 

میں اسے اپنے دل کی بات بتا دینا چاہتی ہوں مجھ سے نہیں برداشت ہوتا وہ میرا علاوہ کسی اور کے قریب جائے.. " عروج سوچ میں کھوئی سی بولی.. 

صبر کر جاؤ تھوڑا.. اتنی جلدی نہیں دکھاتے پہلے اسکے جذبات ظاہر ہونے دو پہلے کہ وہ کیا چاہتا ہے پھر کوئی چول مارنا" اقرا نے اسکے سر پہ چت ماری تھی.. 

باتیں کرنے کے بجائے اپنے کام پہ دھیان دیں پاس سے گزرتے باس نے انہیں ٹوکا تو اپنے لیپ ٹاپ پہ لگ گئی.. 

🥀🥀🥀

عروج کے جانے کے بعد ولی فائل بند کرکے ماتھا مسلنے لگا.. 

عروج کی باتوں پہ ابھی بھی غصہ آرہا تھا.. 

وہ نیلم کو ابھی شو اوف نہیں کروانا چاہتا.. وہ ابھی چھوٹی ہے جن حالات میں اس سے نکاح ہوا پہلے تو اس کے لئے ایکسیپٹ کرنا آسان نہیں تھا مگر اب وہ اسے جاننے لگا ہے تو وہ اسے بہت ہی معصوم اور اسکے دل میں اترنے لگی ہے.. وہ اسی کے ساتھ ہی اب جینا چاہتا ہے.. 

مگر ابھی اسے اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہے پھر ہی نیلم کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے گا.. 

🥀🥀🥀🥀

کیا ہوا تمہارا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے.. "

ولی لیپ ٹاپ پہ کام کررہا تھا.. نیلم اسکے پاس ہی بیڈ پہ بیٹھی تھی.. ہاتھ میں بک پکڑے ٹیسٹ یاد کررہی تھی مگر پریشانی میں یاد نہیں ہو رہا تھا.. 

ولی کب سے اسے نوٹ کررہا تھا.. پریشانی صاف عیاں تھی کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا تھا.. 

کچھ سوچنے کے بعد وہ بول پڑی.. 

"مس حبہ بہت تنگ کرتی ہیں پوری کلاس میں انسلٹ کی آج اور مارکس بھی بہت کم دیے ٹیسٹ میں..مہینہ ہونے والا ہے وہ ایسے ہی بیہیو کرتی ہیں.. " آپ کی وجہ سے کرتی ہیں.. " اب اور اگنور نہیں کرسکتی میں.. "آپ کریں نا بات ان سے.. "

کہتے ہی وہ رو پڑی.. 

ولی نے لیپ ٹاپ بند کیا.. اور اسکی ہاتھوں سے بک نکال کر سائیڈ پہ رکھی.. اور اسکا تھام کر اپنے ساتھ لگایا.. 

کل تمہاری اس مس کا بھی علاج کرتے ہیں پھر دوبارہ تنگ نہیں کرے گی.. وہ اسکے بال سہلاتا کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن.. 

مس حبہ آپکو پرنسپل میم بلا رہی ہیں.. 

حبہ کلاس میں جا رہی تھی جب پیچھے سے اسے میڈ نے آواز لگائی.. 

تو وہ اپنے دھیان میں پرنسپل آفس کی طرف بڑھی.. جب دروازہ ناک کرتے اندر بڑھی تو.. آفس میں پرنسپل کے سامنے ولی کو بیٹھا پایا اور ولی کی کرسی کیساتھ اسکول یونیفارم پہنے کاندھے پہ بیگ ڈالے نیلم کھڑی تھی.. ولی کرسی پہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا.. 

حبہ کے انٹر ہوتے ہی سب کی نظریں حبہ پہ جمی تھی.. حبہ کو انٹر ہوتے ہی کسی انہونی کا احساس ہوا تھا.. وہ انکے سامنے جا کھڑی ہوئی.. 

"میم آپ نے بلایا تھا.. " ایک نظر ولی اور اسکے ساتھ کھڑی نیلم پہ نظر ڈالی اور پھر پرنسپل کی متوجہ ہوئی.. 

مس حبہ مجھے آپ سے ایسی کوئی توقع نہیں تھی کہ آپ اتنا گر سکتی ہیں.. " پرنسپل اپنے انداز میں سخت لہجہ میں بولی.. 

"میم میں نے کیا کیا ہے.. " حبہ کے تو اوسان خطا ہوئے تھے.. 

" آپ نیلم کو تنگ کررہی ہیں "پچھلے ایک مہینہ سے...وجہ بتائیں گی آپ" 

"نہیں میم ایسی تو کوئی بات نہیں ہے" یہ جھوٹ.. "

"انف مس حبہ " یہ ٹیسٹ میرے سامنے پڑے ہیں نیلم  کے" پرنسپل نے تیز آواز میں اسے ڈپٹا..

تو حبہ خاموش رہی.. 

آپ نیلم کا سہارا لیکر ولی اللہ سے ملنا چاہتی تھی.. " آپ کی اس حرکت سے کیا اثر لے گی نیلم.. " 

اور آپکو ایک اور بات سے آگاہ کردوں.. "کیا آپ جانتی ہیں ولی اللہ اور نیلم کا رشتہ کیا ہے.. "

پرنسپل نے اسے اور کشمکش میں ڈالا.. 

حبہ خاموش رہی دم سادھے کھڑی تھی.. 

دونوں نکاح کے بندھن بندھے ہوئے ہیں.. بیوی ہے نیلم ولی اللہ کی.. 

یہ بات مجھے ولی. نے پہلے دن ہی بتا دی تھی وہ ابھی اپنے نکاح کو سیکرٹ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ نیلم ابھی چھوٹی ہے اور وہ اسٹڈی کر لے.. "

پرنسپل بولتی جا رہی تھی اور حبہ سن سی کھڑی تھی انکا بولا ہوا ایک ایک لفظ اس کے سر پہ جیسے ہتھوڑے برسا رہا ہے.. 

حبہ نے نیلم کو دیکھا تھا.. 

نیلم نے ولی کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ لیا تھا جو ولی کی چیئر کے ساتھ کھڑی تھی.. ولی نے بھی اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ لیا

میں نے تمہیں پہلے بھی منع کیا تھا.. مت تنگ کرو مگر تم باز نہیں آئی.. میری بیوی کو تنگ کرنے سے.. ولی کہتا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا.. 

اوکے میم میں چلتا ہوں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں.. "

"میں بھی جاؤں " نیلم نے دھیمی آواز میں پوچھا تھا.. 

پرنسپل نے سر ہلایا تو وہ بھی ولی کے پیچھے نکل گئی.. 

لو ہوگیا تمہارا مسئلہ حل.. " اسکے بدلے میں تم سے کچھ چاہیے مجھے.. " پرنسپل آفس سے نکلتے ولی نے مسکراتے نیلم سے کہا تھا اور آخری بات اسکے کان پہ پاس جھک کر کہی.. 

نیلم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا.. کیا"

زیادہ نہیں بس ایک " کس " آہستگی سے اسکے پاس آتے مسکراتے کہا.. 

نیلم کی آنکھیں پھیلی تھی اسکی فرمائش پہ.. شرم سے چہرہ سرخی مائل ہوا تھا.. 

یہاں نہیں گھر.. " شرارتی انداز میں کہتا اسکول سے باہر نکلا تھا اور نیلم بھی اپنی کلاس کی طرف بڑھی.. 

مس حبہ.. " ایم سوری اب آپ مزید یہاں کنٹینیو نہیں رکھ سکتی.. " آپکو لیٹر مل جائے گا.. پرنسپل نے اسے اسکول سے ہی فارغ کردیا.. 

وہ بنا کچھ بولے آفس سے نکل گئی.. 

باہر آئی تو ولی نیلم کے قریب اسکے کان کے پاس جھک کچھ کہہ رہا تھا چہرے پہ مسکان تھی نیلم کا شرمیلا چہرہ.. انکے رشتہ مضبوط ہونے کی داستان سنا رہا تھا.. 

اور وہ دونوں منظر نامے سے غائب ہوگئے.. 

وہ اب اسکول مزید نہیں پڑھا سکتی تھی اس انکشاف کے بعد.. اب وہ انکا سامنہ نہیں کرنا چاہتی تھی.. 

ولی کو تو بھول چکی تھی مگر اسکے دوبارہ سامنے آتے ہی اسے دوبارہ مائل ہونے لگی تھی ولی طرف.. 

اور اسکول سے باہر نکلتی چلی گئی.. 

🥀🥀🥀

ولی آفس آیا تو بہت فریش سا لگ رہا تھا.. 

عروج منہ لٹکائے بیٹھی تھی.. 

یار بس کردو.. کل سے منا رہی ہو اسے جسے تمہاری پرواہ تک نہیں تم ہی اسکے پیچھے پڑی رہتی ہو.. اقرا نے تنگ آتے کہا اس سے.. 

وہ اسکی سنی ان سنی کرتی اٹھ گئی..

" اب کیا لینے جا رہی ہو اسکے پاس.. " 

بات کرنے اور کیا " 

ہائے.. "

ولی فائل پہ جھکا تھا.. اسے دیکھ کر پھر فائل پہ جھک گیا.. 

ہیلو مسٹر تم سے بات کررہی ہوں.. " وہ نا ٹوکا تو پھر بولی.. 

میں ویلا نہیں ہوں.. کہ تم سے باتیں کرتا رہوں جاؤ مجھے کام کرنے دو.." ٹکا کر جواب دیتا اسے تپا گیا.. 

اور وہ پیر پٹختی نکل گئ اسکے کیبن سے.... 

ہوگئی عزت "اب کام پہ لگ جاؤ" اسکے سوجھے ہوئے منہ کو دیکھتی اقرا بولی.. 

سارا دن ولی نے اسے اگنور کیا جیسے وہ ہو ہی نا وہاں.. اور عروج کو مزید سلگا گیا تھا.. جی تو چاہ رہا تھا اسکا منہ توڑ دے.. اس سے رخ بھی نہیں موڑا جاتا تھا..

چھٹی کے وقت وہ دونوں بس اسٹاپ پہ کھڑی تھی ر

عروج کا موڈ بہت خراب تھا.. 

کیوں تھکا رہی ہو خود کو ایسے شخص کے پیچھے.. وہ کسی ریاست کاشہزادہ نہیں ہے.. " اقرا نے پھر اسے سمجھانا چاہا.. 

میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں مانگا.. میں منا لوں گی اسے.. " وہ تڑخ کر بولی.. 

ہاں میں بھی دیکھتی ہوں کیسے کرتی ہو.. ابھی بھی وقت ہے عروج سنبھل جاؤ.. ورنہ منہ کے بل گرو گی.. اقرا نے پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی.. 

چپ کرو تم منہ اچھا نا ہو نا بات اچھی کرنی چاہیے.. " اقرا کی باتیں اسے بری لگ رہی تھیں.. اسکے ٹکا کر جواب دیا.. 

تم سے تو اچھا ہی ہے میرا منہ اپنی شکل دیکھ لو شیشہ میں.. وہ بھی کہاں چپ رہنے والی.  اتنے میں انکی بس آگئی.. 

🥀🥀🥀

ولی کے آنے کا وقت ہو رہا تھا.. وہ صوفہ پہ بیٹھی اس وقت ولی کو ہی سوچے جا رہی تھی اگر دوبارہ اس نے وہی فرمائش کردی تو.. جو اس نے اسکول میں کہا تھا.. 

زیادہ نہیں بس ایک " کس" اسکی کہی گئی بات پھر اسکی سماعت سے ٹکرائی.. تو شر ما گئی.. 

نہیں نہیں " خود سے بڑبڑانے لگی..اتنے میں ولی کی بائیک کا ہارن ہوا تھا.. 

فوراً کھڑی ہوئی.. دل زور و سے دھڑکا تھا.. 

جلدی سے جاتے باہر کا دروازہ کھولا تھا.. 

سامنے ولی کو دیکھتے دل بے ساختہ دھڑکا تھا.. 

ولی نے اندر آتے بائیک سائیڈ پہ لگائی.. 

کھانا لگاؤ جلدی بھوک لگی ہے.. " کہتے وہ کمرے میں چلا گیا.. 

وہ بھی کچن میں چلی گئی.. 

تھوڑی دیر میں وہ فریش سا باہر آیا.. تب تک وہ کھانا لگا چکی تھی.. 

ایک نظر اسکے نازک سے سراپہ پہ ڈالی تھی.. پنک کلر کا سوٹ پہنے سنہری بالوں کو کیچر میں مقید کئے.. دو آوارہ لٹے چہرے کو چھو رہی تھی.. خود پہ اسکی نظریں محسوس کرتی وہ شرم سے سر جھکا گئی.. 

کھانا اچھا بنانے لگ گئی ہو مجھے تو لگا تھا کہ گھر کا کھانا اب نصیب نہیں ہوگا نکمی جو گلے پڑ گئ ہے..  وہ اسے دیکھتا شرارتی لہجہ میں کہا ..

اس نے بھنڈی گوشت بنایا تھا جو اسکا فیورٹ تھا.. پھپھو  سے وہ تھوڑے دنوں میں پکانا سیکھ گئی تھی.. 

مگر اپنی اس تعریف پہ اسے غصہ آیا تھا.. اور ولی کو گھور کے دیکھا.. 

اس سے کام نہیں چلے گا مجھے میٹھا بھی چاہئے. '" 

میٹھا تو میں نے بنایا نہیں.. وہ انتہائ معصوم انداز میں بولی.. .

میں اور میٹھے کی بات کررہا ہوں کمرے آؤ پھر بتاتا ہوں.. وہ ذو معنی کہتا چلا گیا جو وہ سمجھ گئی تھی.. 

سب سے مشکل کام تھا اسکے کمرے میں جانا.. 

کافی ٹائم گزر گیا وہ کمرے نہیں گئی اب اسے نیند آنے لگی تھی..

آہستہ سے وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی.. کمرے کی لائٹس اوف تھیں اور ولی بیڈ پہ آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹا تھا.. اس نے صد شکر کیا تھا.. وہ سو گیا ہے.. 

آہستگی سے جا کر وہ بیڈ دوسری سائیڈ کروٹ لئے لیٹی تھی کہ اسے اپنی کمر پہ اسکی انگلیاں چلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی.. 

نیلم نے زور سے آنکھیں میچیں تھی اب نہیں خیر اسکی جس سے بچ رہی تھی اب ناممکن ہے.. 

ولی نے اسکے کمر میں ہاتھ ڈالتے کھینچ اسے اپنے ساتھ لگایا تھا اسکی پشت ولی کے سینے سے جا لگی تھی.. 

اسکی صراحی دار گردن سے  اسکے سنہری بال ہٹاتے دھکتے لب رکھے تھے.. وہ اپنے آپ میں سمٹی تھی

اب اسکا رخ اپنی طرف کیا تھا وہ ہنوز آنکھیں زور سے میچی ہوئی تھی.. 

لرزتی گھنی پلکیں.. کپ کپاتے گلابی ہونٹ اسے گستاخی کرنے پہ اکسا رہے تھے.. 

وہ اسکے لبوں پہ جھکتا جام انکا جام پینے لگا تھا اسکے انداز میں شدت دی.. نیلم کی تو روح فنا ہوئی تھی.. کہاں برداشت ہورہا تھا اسکا لمس کمر پہ  گردش کرتا اسکا ہاتھ.. 

کافی دیر بعد وہ اس سے الگ ہوا تھا.. 

اسکی نیلی آنکھیں بھیگنے لگی تھی.. ہونٹ کنارے ایک ننھی سے خون کی بوند نمودار ہوئی تھی.. 

انگوٹھے سے اسکے ہونٹ نرمی سے رب کیا تھا.. 

کاندھے پہ اسکا سر ٹکاتا بولا.. 

سوجاؤ. میٹھا تو تم نے دیا نہیں.. "اپنے ارمانوں کا گلا گھونٹ کر سونا پڑے گا.. کہتا آنکھیں بند کرگیا.. 

اپنی جان بخشی پر نیلم کی بھی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی تھی.. اسکے اوپر ہاتھ رکھتی آنکھیں موند گئی.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن نیلم کو سکول چھوڑتا ہوا آفس آیا تھا.. عروج پہلے سے اسکے کیبن میں موجود تھی.. 

"تمہیں سکون نہیں ہے کیا.. یا مجھے نوکری سے نکلوانا ہے کیا.. "

نہیں میں نے ایسا تو نہیں کہا تم سے بس تم مجھ سے ایسا بیہیو مت کرو مجھے اچھا نہیں لگتا.. مجھے گلٹ فیل ہوتا ہے میں نے تمہارے بارے میں کیا سوچا.. وہ بیچارگی سے بولی.. 

اچھا ٹھیک ہے آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.. ولی نے بھی بڑا دل کرتے اسے معاف کیا.. اور وہ خوشی سے چلتی نکلی تھی.. 

معافی نامہ ملتے ہی عروج خوش ہوئی تھی پھر لنچ ساتھ کرنے کا مطالبہ کردیا جو ولی نے مان لیا.. 

وہ دونوں اس وقت آفس کی کینٹین میں بیٹھے تھے.. 

ولی اسکے سامنے بیٹھا تھا.. ولی عروج کے تاثرات جانچ رہا تھا.. آج وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا جو اسکے بات کرنے سے کھل اٹھی تھی.. 

"بڑی خوش خوش لگ رہی ہو.. "

ہاں کیوں نہیں تم جو مان گئے ہو" وہ خوش ہوتی بولی.. 

اگر آج کے بعد تم نے میری ذات پہ کوئی سوال اٹھایا تو پھر اچھا نہیں ہوگا.. وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا.. 

نہیں کرتی ایسا بس.. " وہ ہنستی بولی.. 

اور ہاں ہمارے درمیان جو تعلق ہے وہ دوست کی حد تک ہی رہے تو بہتر ہے.. وہ سنجیدگی سے بولا.. 

کیوں.. میرا مطلب ٹھیک ہے.. " پہلے اسکی بات پہ چونکی پھر ہامی بھرلی.. 

اتنا ہی کہہ کر وہ اٹھ گیا وہاں سے.. 

بس تم مان گئے ہو اتنا ہی کافی آگے میں تمہیں یہ حد پار کرنے میں. مجبور کردوں گی.. وہ سوچتی مسکرائی تھی.. 

🥀🥀🥀

ولی گھر آیا تو نیلم پیلے رنگ کا سوٹ پہنے سنہری بالوں کو کھلا چھوڑے.. میک کے نام پہ بس نیلی آنکھوں میں کاجل اور پنک لپ اسٹک لگائی تھی جو مال میں ولی نے لیکر دی تھی..

وہ کان میں جھمکیاں پہنے آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی.. 

کہیں جانا ہے اتنا تیار کھڑی ہو.. پہلی بار وہ اسے اتنا تیار دیکھ رہا تھا.. 

آپ بھول گئے آج مہندی ہے رافع بھائی کی اور آپ اتنا لیٹ آئے ہو رسم شروع ہوگئی ہوگی.. وہ اسے یاد دہانی کراتی بولی.. 

مجھے تو نہیں پتا تھا اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوجاؤں ساتھ چلیں گے "  اس نے ہاں میں سر ہلایا.. 

کچھ دیر بعد ولی وائٹ کرتا پاجامہ پہنے باہر آیا تھا.. 

وائٹ کلر میں وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا.. 

چلیں.. اسکے سامنے آتے اپنا ہاتھ پھیلایا تھا جسے نیلم نے بخوشی تھاما.. 

دونوں ایک ساتھ باہر نکلے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے.. 

مہندی کا فنکشن گھر میں ہی رکھا گیا.. 

دونوں ایک ساتھ اندر آئے تھے.. 

رافع کی رسم چل رہی سب زبردستی اسکے سر بہت زیادہ  تیل مل رہے تھے.. کافی ہلا گلا چل رہا تھا.. مگر نیلم اور ولی کی دبنگ انٹری نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی دونوں ہاتھ پکڑے سامنے چلتے رہے.. 

اس وقت وہاں تمام اہل محلہ موجود تھے جو انکے جانتے تھے.. 

ماشاللہ کرن نے دور کھڑی ہی انکی بلائیں لی.. 

رافع کی نظریں نیلم پہ رک سی گئی تھی کتنی مکمل نظر آرہی تھی وہ ولی کیساتھ اور خوش بھی.. رافع کے پاس جا کھڑے ہوئے تھے..

رافع اٹھ کر ولی سے ملا تھا.. نیلم بھی کرن سے گلے لگی اور اسکی ماں سے ملیں جنہوں نے اسے دعائیں دی.. 

ولی اور نیلم دونوں نے رسم کی تھی ایک ساتھ.. 

کافی دیر تک رسمیں چلتی رہی.. ولی لڑکوں کی سائیڈ آگیا تھا.. محلہ کا یہ کوئی شادی کا پہلا ایونٹ تھا جو وہ اٹینڈ کررہا تھا.. 

کرن نے نیلم کے مہندی بھی لگائی جس سے نیلم بہت خوش ہوئی تھی.. 

رافع اپنی جگہ سے اٹھ چکا تھا رسم سے جاں چھوٹ گئی تھی اس سے اسی پھولوں سے سجے صوفہ پہ نیلم اپنی حنائی ہاتھوں کو اونچا کئے بیٹھی تھی .. بس محلہ کی کچھ عورتیں تھیں انکے گھر میں رات کافی ہوگئی تھی ولی نیلم کو لینے آیا تھا.. 

اسے پھولوں سے سجے صوفہ پہ بیٹھا دیکھ اسکے قریب چلا آیا ٹیبل پہ اسے پھولوں کے گجرے پڑے نظر آئے جو اس نے اٹھا لیے.. صوفہ پہ اسکے قریب جا پہنچا.. سنہری زلفیں چہرے کو چوم رہی تھی جسے وہ کاندھے کی مدد سے پیچھے کرنے کے جتن کرتی.. 

ولی تو اسکے سراپے میں جیسے کھو سا گیا.. ہاتھ بڑھا کر اسکی زلفیں سنواری جس سے وہ شرمسار ہوئی کیونکہ سب کی نظریں ان پہ مرکوز ہوگئی.. 

اس مہندی سے سجا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا مہندی سوکھ چکی تھی.. گجروں کو اسکے ہاتھ کی زینت بنایا تھا.. 

نیلم نے پلکیں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں جھانکا جہاں محبت جہان آباد تھا.. 

بہت  حسرتیں  تھیں جو  پوری نا  ہوئی.. 

بہت خواہشیں  تھیں جو  پوری نا  ہوئی.. 

تیرے ہاتھوں میں جو ہم نے گجرے سجائے.. 

یوں لگا ہمیں جیسے زندگی  تمام  ہوئی.. 

تو سامنے بیٹھا رہے ہم تجھے تکتے رہیں.. 

یوں ہی بیتے زمانے رات سے صبح  ہوئی.. 

تیرے حنائی ہاتھوں کو لیکر ہاتھ میں ہم

جو رہ گئی تھی حسرتیں وہ تمام پوری ہوئی.. 

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وہ اپنی لکھی غزل کہہ گیا.. تو شرم سے نظریں جھکا گئی.. 

اہہم لو برڈز.. کیوں نا آج آپ لوگوں کی بھی رسم کردی جائے.. پیلے اور اورنج کلر کا لہنگا پہنے کرن انکے سامنے کھڑی بولی.. 

نیکی اور پوچھ پوچھ.. ولی مسکراتا بولا ایک نظر کرن کو دیکھا اور پھر نیلم پہ نظریں جمائیں جبکہ ہاتھ ابھی بھی اسکی آہنی گرفت میں تھا جسے اسنے چھڑوایا نہیں تھا.. 

آئیں بھئی آپ لوگ سب انکی بھی حسرت پوری کریں.. سب لوگ وہاں چلے آئے. 

کرن نے نیلم کے سر پہ پیلا دوپٹہ اڑھایا تھا.. ولی کے ہاتھ پہ نیلم کا ہاتھ رکھا.. اور اس پہ پتا رکھا.. اور مہندی لگا دی.. 

اور باری باری سب عورتوں نے رسم ادا کی ولی کی مسکراتی نظریں نیلم کے شرمائے چہرے پہ تھی.. اتنے میں رافع بھی آگیا اور پھر اس نے اس رسم میں حصہ لیا تھا.. 

آدھی رات بیت چکی تھی جب وہ گھر آئے.. 

نیلم کا تو نیند سے برا حال تھا .. 

آج کا دن میری زندگی کا سب سے اچھا دن تھا".. وہ اسکے چہرے پہ ہاتھ رکھتے بولا.. وہ مسکرائی کیونکہ اسکا بھی آج کا دن اسکی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا.. 

میں ابھی آیا سونا نہیں".. کہتے وہ واشروم میں بند ہوا.. 

نیلم اپنا دوپٹہ اتار کر بیڈ کی دوسری سائیڈ رکھا اور تکیہ سیٹ کر کے لیٹ گئی بہت تھکن کا احساس ہو رہا تھی.. ولی کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی جو بہت مشکل لگ رہا تھا.. نیند بہت آرہی تھی بڑی مشکل سے آنکھیں کھولے ہوئے تھی.. 

کچھ دیر بعد ولی چینج کرکے باہر آیا تو وہ سو چکی تھی.. 

پاگل کہا بھی تھا میرا انتظار کرے.. اسکے قریب لیٹتا ہوا بولا.. 

تکیہ پہ سنہری بال بکھرے ہوئے تھے.. صاف شفاف چہرہ گھنی پلکوں کو گرائے اس کے دل میں اتر رہی تھی..

اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنے ساتھ لگایا تھا.. ماتھے پہ محبت کی مہر ثبت کی.. اور پھر خود بھی آنکھیں موند گیا تھکا کے باعث نیند اس پہ بھی حاوی ہوگئی.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن بارات تھی.. 

تو صبح ولی آفس چلا گیا..نیلم نہیں گئی.. اسے بھی بارات کیساتھ جانا تھا.. وہ کرن کے گھر چلی گئی.. 

کرن نے اسے بہت ہی اچھا تیار کیا تھا.. 

آج سے پہلے وہ کبھی اتنا تیار نہیں ہوئی تھی.. 

اور پھر گھر آگئی.. ولی کا انتظار کرنے لگی اسے ولی کیساتھ جانا تھا.. 

شام سات بجے نکلنا تھا بارات لیکر تاکہ وقت پہ پہنچ سکے.. 

دیر ہورہی تھی ولی ابھی تک نہیں آیا.. 

اب سب جانا شروع بھی ہوگئے.. 

اور بارات نکل گئی نیلم کو تو رونا آنے لگا تھا.. اسکی ساری تیاری رائیگاں چلی گئی.. 

ولی ایک گھنٹہ لیٹ پہنچا تھا.. 

اپنے کمرے میں آیا تو نیلم کی بیک نظر آئی مہرون لمبی فراک پہنے سنہری بال آب شار کی طرح کمر پہ بکھرے تھے.. 

پیچھے اسے بانہوں میں بھرا تھا.. اس نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ ناراض تھی.. 

ولی نے اسکا رخ اپنی طرف موڑا تو وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا.. 

ہلکا سا میک اپ کئے..مانگ میں ٹیکا لگائے گلے میں نازک سا ہار پہنے نیلی آنکھوں پہ کاجل کے ساتھ لائنر مسکارہ لگائے.. جس سے اسکی گھنی پلکیں مزید گھنی لگ رہی تھی.. ہونٹوں پہ سجائی مہرون لپ اسٹک ناک پہ غصہ چڑھائے وہ قیامت ہی ڈھا رہی تھی.. وہ ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا.. 

"اتنی دیر کردی بارات چلی گئی.. " وہ معصومیت سے رونی صورت بناتی بولی جس میں اور کیوٹ لگی اسے.. 

تو پھر بارات کے ساتھ جا کر کیا کرنا تھا.. وہ اسکے چہرے پہ نظریں جماتا بولا.. 

مجھ دلہن دیکھنی تھی.. " وہ بچوں کی طرح بولی تھی.. ولی کو ٹوٹ کر پیار آیا تھا اس پہ.. 

دلہن تمہیں میں ابھی دکھا دیتا ہوں.. اسکے سر پہ اسکا ہلکے کام والا مہروں دوپٹہ رکھا اسے آئینہ کے سامنے کھڑا کیا.. خود اسکے پیچھے ہوا تھا.. 

یہ دیکھو دلہن.. " دنیا کی سب سے خوبصورت دلہن اگر تم چلی جاتی شادی میں تو دلہن کو چھوڑ کر سب نے تمہیں دیکھنا تھا.. اور میں نہیں چاہتا کہ میری دلہن میرے علاوہ کوئی اور دیکھے.. " اسکے میں گھمبیر لہجہ سرگوشی کرتا بولا..

نیلم اپنے آپ کو یوں دیکھا تو ایسا ہی لگا واقعی وہ دلہن ہے اسکے پیچھے کھڑا مسکراتا ہوا ولی.. وہ دونوں ایک فریم میں مکمل نظر آرہے تھے..دونوں کے چہرے مسکراہٹیں بکھری تھیں..

چلو باہر چلتے ہیں اپنی شادی مناتے ہیں.. 

اسنے خوش ہوتے ہاں میں سر ہلایا تھا.. 

میں کیسے بیٹھ گی آپکی بائیک پہ گر گئی تو.. " اپنی لمبی فراک دیکھتی وہ بول پڑی.. 

میں ہوں نا مجھے زور سے پکڑ لینا.. " وہ بائیک اسٹارٹ کرتا ہوا بولا تھا.. 

وہ اپنی فراک کو سنبھال کر اسے پیچھے بیٹھ گئی.. ولی نے اس دونوں ہاتھ اپنے پیچھے سے نکالتے اپنے پیٹ پہ باندھے" ایسے پکڑو.. "

ولی سڑکوں پہ بائیک دوڑا رہا.. نیلم کے سنہری کھلے بال ہوا میں لہرا رہے تھے.. ولی کو زور سے پکڑا ہوا تھا.. 

کچھ ہی دیر میں وہ سمندر کنارے پہنچے تھے.. فزا میں گونجتی سمندر کی لہروں کا شور.. دلکش نظارا تھا سمندر سے نظر آتے پورے چاند کا نظارہ.. 

دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہے تھے.. 

کافی دیر یونہی گزری تھی .. آؤ کھانا کھائیں.." 

سمندر کنارے بنے ریسٹورنٹ میں چلے گئے.. ولی اسکا ہاتھ تھامے ایک میز کی طرف آیا تھا.. 

اسکا من پسند کھانا آرڈر کیا تھا.. 

اب شادی پہ مزا آیا یا میرے ساتھ.. "کھانا کھانے کے بعد ولی نے اس سے پوچھا.. 

آپ کے ساتھ اس نے مسکراتے کہا.. 

ہہم گڈ.. چلو اب باقی شادی گھر چل کر منائیں گے.. " وہ اپنی بائیک پہ بیھتا ذو معنی بولا.. 

اب کیا باقی ہے شادی میں.. " وہ ناسمجھی سے معصومیت سے بولی.. 

ابھی تو بہت کچھ باقی ہے.. شادی تو بس دو لوگوں کی ہوتی ہے جو صرف وہی مناتے ہیں.. وہ ہنستا ہوا بولا.. 

تو پھر بارات لیکر اتنے سارے لوگ کیوں گئے ہیں " وہ اپنی عقل استعمال کرتے بولی.. 

ہاہا.. ولی کی ہنسی چھوٹی تھی تم بیٹھو باقی گھر جا کر بتاتا ہوں.. 

نیلم نے اسے گھور کے دیکھا ہو جیسے کوئی جوک سنایا ہو.. 

🥀🥀🥀

کچھ ہی دیر میں وہ گھر پہنچے تھے.. 

نیلم کو وہ کپڑے بہت بھاری لگ رہے تھے کمرے میں آتے اس نے چینج کرنے کا سوچا ابھی واشروم کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اسکی کلائی ولی کے ہاتھ میں آگئی.. 

کدھر "

"چینج کرنے "

کیوں میں نے کہا تمہیں چینج کرنے کو" کھینچ کر اسے اپنے ساتھ لگا چکا تھا 

مم.. مگر یہ بہت بھاری.. ابھی بول ہی رہی تھی کہ وہ اسے بانہوں میں اٹھا چکا تھا.. وہ سٹپٹا گئی ایک دم سے.. 

اسے بانہوں میں بھرے بیڈ پہ آیا تھا.. اسے لیٹاتا خود اسکے ساتھ لیٹا تھا کہنی بیڈ پہ ٹکاتا ہاتھ پہ سر رکھے ہوئے اسے لو دیتی محبت بھری سے دیکھ رہا تھا..سر اسکے سر سے اونچا تھا اس کے ماتھے پہ لگے ٹکے کو اتارا تھا پھر اسکی گردن سے ہار نکال دیا.. اسکے سنہری زلفوں کو چہرے سے ہٹاتا اسکے اوپر جھکا تھا.. نیلم تیز ہوتی دھڑکنوں سے اسے دیکھ رہی.. اسے خود پہ جھکا ہوا دیکھ بولی.. 

مم.. "

اسکے لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں پہ قفل لگایا تھا.. 

کافی دیر تک وہ اسکی سانسوں کو اپنے اندر اتارتا رہا.. 

جب پیچھے ہوا تو نیلم زور زور سے سانسیں لیتی اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی.. 

مدھوشی میں اسکی گردن پہ جھکا تھا.. وہ مزاحمت کرنے لگی تھی.. اسکے سینے پہ ہاتھ رکھے اسے دور کرنا چاہا تھا.. 

وہ تب بہت بری طرح لرزی..مدھوشی میں جا بجا لمس چھوڑتا وہ مزید آگے بڑھتا کہ نیلم نے اپنے سینہ پہ کروس بنا کر ہاتھ رکھ لئے.. آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے..

نیلم کچھ غلط نہیں کررہا تمہارے ساتھ یہ میرا حق ہے" پیار سے سمجھاتا اسکے ہاتھ پکڑے تھے مگر اسنے اپنے ہاتھ مزید مضبوط کر لئے.. روتے ہوئے نا کے انداز میں زور سے سر ہلایا تھا.. 

وہ اٹھ کر بیٹھ گیا.. اپنے بالوں پہ ہاتھ پھیرا تھا اور وہ جوں کی توں ہی لیٹی تھی.. 

اچھا اٹھو جاؤ چینج کر کے آؤ.. وہ بنا اسکی طرف دیکھے بولا تھا.. 

وہ اپنی ڈریس درست کرتی اٹھی.. اور واشروم میں بند ہوئی..

وہ اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتا لیٹ گیا تھا.. 

سخت بدمزہ ہوا تھا خود پہ ضبط کرنے لگا تھا..

جب وہ چینج کرکے باہر آئی تو ولی لائٹس آف کئے آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹا تھا.. 

گھبرارہی تھی بیڈ پہ جانے سے.. ہمت کرتی بیڈ کی دوسری سائیڈ آ کر بیٹھی تھی.. ولی کو دیکھتی کبھی ادھر ادھر دیکھتی.. وہ بازو آنکھوں پہ رکھے ہوئے تھا مگر اسکی حرکتیں نوٹ کررہا تھا.. 

پھر کچھ دیر بعد کچھ سوچتی وہ لیٹ گئی.. نظریں ولی پہ تھی.. پھر تھوڑا سا اسکی طرف کھسکتی اسکے سینے پہ سر رکھ گئی..اسکے گرد  بازو پھلا دیے.. 

ولی کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے.. 

ولی نے بھی اسکے گرد بازو پھیلا دیے.. تھکن کے باعث وہ دونوں ہی جلد ہی نیند کی آغوش میں چلی گئے.

اگلے دن ولیمہ تھا.. ..نیلم نے آج آف وائٹ فراک پہنی تھی جس میں ہلکا پھلکا گولڈن کام تھا.. 

وہ تیار کھڑی آئینہ کے سامنے خود کو جائزہ لے رہی تھی.. 

ولی نے بلیک تھری پیس پہنے اسکے پیچھے کھڑا تھا بس کردو ..آج تمہارا ولیمہ نہیں ہے.. 

میں تو ویسے ہی چلیں.. وہ گڑبڑا گئی.. وہ اسے بغور دیکھتا باہر نکل گیا.. نیلم بھی اسکے پیچھے گئی.. 

تھوڑی دیر میں وہ حال پہنچ گئے تھے.. 

ولی لڑکوں کی سائیڈ چلا گیا اور وہ اندر کرن کو ڈھونڈ رہی تھی..

شکر ہے تم آگئی.. کرن نے اسے دور سے دیکھا تو آپ اس تک پہنچ گئی.. 

پیچھے سے آواز آئی تو اسکی طرف مڑی.. 

ہاں تو آنا ہی تھا.. وہ مسکراتی بولی.. 

کل کہاں غائب ہوگئی تیار ہوکر گئی واپس نہیں آئی.. " 

"وہ ولی نہیں آئے تھے آفس سے تو جب وہ آئے تو دیر ہوگئی " وہ وضاحت دیتی بولی.. 

اچھا آؤ بھابی سے ملواؤں.. 

وہ اسے لئے اسٹیج پہ چلی گئی.. 

🥀🥀🥀

ولیمہ سے تھکے ہارے گھر پہنچے تھے.. 

وہ بہت تھک گئی تھی.. جلدی سے چینج کرکے بستر پہ لیٹ گئی..

ولی کمرے میں آیا تو سر تک چادر لئے بستر پہ دراز تھی.. وہ بھی چینج کرتا بیڈ پہ آیا تھا.. 

وہ ابھی جاگ رہی تھی ڈر بھی لگ رہا تھا ولی سے.. کل والی حرکت ابھی بھی اسکے دماغ میں گھوم رہی تھی.. مگر آج اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اور منہ دوسری سائیڈ کئے لیٹ گیا تھا.. 

نیلم کو کیوں اسکا یوں منہ موڑنا اچھا نہیں لگا تھا.. آنکھیں بند کئے سونے کی کوشش کرنے لگی.. 

اگلے دن پھر سے وہی عام روٹین سے دن کا آغاز ہوا.. نیلم کو اسکول چھوڑتا ہوا خود آفس چلا جاتا.. شام کو گھر ..

دو دن یونہی گزرے تھے.. 

رات کو ولی بیڈ پہ لیپ ٹاپ پہ آفس کا ضروری کام کررہا تھا.. نیلم اسکے برابر میں بیٹھی تھی اپنی بکس لئے.. مگر اسکا دھیان بک میں کم اور ولی پہ زیادہ تھا جو ولی بھی نوٹ کررہا تھا.. 

کیا ہوا.. " وہ پوچھ بیٹھا.. 

کچھ نہیں " ساری توجہ بک پہ کرلی.. 

کچھ تو ہے بتاؤ"

آپ ناراض ہو مجھ سے.. " اس دن کے بعد سے ولی اسکے قریب نہیں آیا تھا..  بیڈ پہ اس سے فاصلہ پہ سوتا تھا.. 

  تو وہ دل میں آئی بات پوچھ بیٹھی

نہیں تو.. اور تمہیں کیوں لگا.. " استفسار کیا

نن.. نہیں.. ایسے.. ہی.. وہ.. اس رات آپکی بات نہیں.. مانی.. تو لگا مجھے.. شاید آپ.. ناراض ہوگئے"..الفاظ توڑ جوڑ اس نے اپنی بات پوری کی.. 

تم اپنی اسٹڈی پہ دھیان دو پیپرز نزدیک ہیں تمہارے..

اور اپنے ننھے سے دماغ پہ زیادہ زور مت ڈالو اسے پڑھائی کی طرف لگاؤں بس.. کہتے اسکی گال تھپائی.. اور پھر سے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوگیا.. 

تو وہ بک سائیڈپہ رکھے لیٹ گئی.. کچ دیر بعد ولی بھی اپنا کام ختم کرتے جمائی لیتا لیٹا تھا.. ابھی کچھ دیر گزری ہی تھی کہ نیلم نے اسکی طرف کھسکتے اسکے کاندھے پہ سر رکھ لیا.. 

وہ جو آنکھیں بند کئے لیٹا تھا اسکی اس حرکت پہ چونکا تھا.. 

نیلم کو اسکے کاندھے پہ سر رکھ کر سونے کی عادت سی ہوگئی تھی دو دن نہیں رکھا تو بے چین سی ہوگئی تھی.. 

ولی نے مسکراتے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرا تھا اور آنکھیں بند کرلی

ولی بہت محنت سے کام کررہا تھا.. ایم بی اے کی ڈگری ڈگری بھی مکمل کر چکا تھا اس بیس پہ آفس پہ اسے پروموشن بھی مل گئی

عروج اسے لیکر سیریس ہوتی جا رہی تھی 

بہانے بہانے سے اسکے کیبن میں جانا اس سے باتیں کرنا اسکے قریب ہونے کی کوشش کررہی تھی.. ولی نے اسے پہلے بھی صاف لفظوں میں کہا تھا کہ انکا تعلق صرف دوستی کی حد تک ہوگا مگر وہ کہاں باز آئی

نیلم کا آج آخری پیپر تھا بہت ہی ریلیکس فیل کررہی تھی آج وہ.. بہت تھکا دیا تھا ان پیپروں نے آج اسکا دل کرن سے ملنے کو کررہا تھا کتنی بار کرن ہی اس سے ملنے آئی تھی ..

آج سوچا خود ہی چلی جائے ملنے

کرن دیکھو کون آیا ہے دروازے پہ 

کرن کی ماں نے اسے آواز لگائی.. جب کرن نے دروازہ کھولا تو سامنے نیلم کھڑی تھی

واہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے.. وہ اسے دیکھتی حیرانی سے بولی 

اب ساری باتیں یہیں کرنی ہے یا اندر بھی بلاؤ گی.. نیلم مسکراتی بولی

آؤ بھی آؤ

وہ اندر آئی کرن کی والدہ سے پیار لیا سلام کرتے 

جیتی رہو خوش رہو آباد رہو..  انہوں ڈھیروں دعائیں دی. 

آؤ تمہیں بھابھی سے ملاؤں ..سامنے سے آتی اسکی بھابی کو نیلم نے سلام کیا 

اسلام علیکم بھابی

وعلیکم السلام " امبر نے اسکا سر تا پیر جائزہ لیا.. گوری رنگت تیکھے نین نقش نیلی آنکھیں نیوی بلو رنگ کا سوٹ پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی

بھابھی یہ نیلم ہے.. میری فرینڈ.. کرن نے اسکا تعرف کروایا

امبر میری بات سننا.. رافع کمرے سے نکلا تھا نیلم کو دیکھتے چونکا

نیلم آئی ہے.. رافع مسکراتا بولا

"اسلام علیکم رافع بھائی " نیلم نے مسکراتے سلام کیا

وعلیکم السلام کیسی ہوٹھیک ہوں.. اسنے مسکراتے کہا 

امبر کو اچھا نا لگا رافع کا اس سے یوں مخاطب ہونا وہ بھی مسکرا کر.. اور اوپر سے اسکا اتنا خوبصورت ہونا 

رافع واپس کمرے میں چلا گیا

نیلم وہیں صحن میں بیٹھ گئی جہاں اسکی ماں بیٹھی ہوئی تھی

نیلم تمہیں پتا ہے ہمارے ہاں خوشخبری ہے.. کرن نے پرجوش ہوتے کہا

کیانیلم نے تجسس سے پوچھا 

بھابھی ماما بننے والی ہے اور میں پھپھو.. اس نے خوشی سے کہا 

مبارک ہو تمہیں..  نیلم نے مسکراتے کہا 

خیر مبارک ویسے تم مجھے خالہ کب بناؤ گی.. کرن نے اسے چھیڑتے کہا.. 

تو وہ خاموش رہی اسکی بات تو سمجھ گئی تھی مگر جواب نا بن پایا.. "

کرن جاؤ نیلم کیلئے کچھ کھانے پینے کیلئے لاؤ.. حاجرہ بیگم نے اسے ٹوکا تھا

جی ابھی لائی.. نیلم بھی اسکے ساتھ چلی گئی.  

امبر تو ابھی بھی حیرت سے اسے تک رہی تھی

یہ شادی شدہ ہے.. وہ اپنی ساس کے پاس بیٹھتی بولی 

جبکہ نظر ابھی بھی کچن میں بیٹھی نیلم پہ تھی

ہاں.. تمہاری شادی سے کچھ عرصہ پہلے اسکا نکاح ہوا تھا

مگر یہ تو بہت چھوٹی لگ رہی ہے.. وہ ابھی بھی حیرت میں مبتلا تھی

چھوٹی سی تھی جب اسکی خالہ اسے لائی تھی.. ماں تو پیدا ہوتے چل بسی تھی.. حاجرہ بیگم نے شروع سے آخر تک کی ساری کہانی سنائی تھی اسے 

اچھا کرن دیر ہورہی ہے میں چلتی ہوں..  کافی دیر اسکے ساتھ گپے ہانکنے کے بعد اس نے اجازت طلب کی 

یار رک جاؤ اور  کرن نے اسے مزید روکنا چاہا 

نہیں رک سکتی ولی آنے والے ہوں گے.. " انہیں بغیر بتائے آئی ہوں.. تو انہیں اچھا نہیں لگے گا.. " اس نے اپنی مجبوری بیان

کرن جانے دو اسے ماشاللہ بہت ہی سمجھداری کی بات کی ہے".. کرن کی ماں نے اسے ٹوکا

اچھا میں چلتی ہوں.. کہتی وہ چلی گئی. 

آج پھر عروج نے جان بوجھ کر بس مس کردی

اور وہ بس اسٹاپ پہ کھڑی تھی شام کے سائے رات میں ڈھل رہے تھے جانتی تھی ولی ضرور اسے دیکھتے اسکے پاس آئے گا اور یہی ہوا

ولی وہاں سے گزر رہا تھا جب اسے بس اسٹاپ پہ اکیلے کھڑے دیکھا. 

تم نے پھر بس مس کردی

نہیں خود چھوڑی ہے

کیوں؟؟ وہ حیران ہوا

کیوں کہ رش ہی اتنا تھا بس میں پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں تھی.. "  اسے آرام سے کہا

اچھا آؤ میں تمہیں چھوڑ دوں

 نہیں میں چلی جاؤ گی تم رہنے دو جان بوجھ کر انکار کردیا. 

آجاؤ اگلی بس دیر سے آئے گی..  ولی نے اسرار کیا تو وہ 

پیچھے بیٹھ گئی.. فاتحانہ مسکراہٹ بکھری تھی اسکے چہرے پہ

تھوڑی دیر میں وہ اسکے گھر کے سامنے تھے

ولی آج تو تمہیں آنا پڑے گا میرے گھر.. زبردستی اسے اپنے ساتھ لیے گھر میں داخل ہوئی 

بابا یہ دیکھیں کون آیا 

کون ہےولی.. سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ولی کھڑا تھا

اسلام علیکم!!  ولی نے جھک کر ان سے پیار لیا تھا

بیٹھو..  جاؤ عروج بیٹے.. ولی کیلئے کھانے کا بندوبست کرو

نہیں انکل مجھے گھر جانا ہے پھر کبھی دیر ہوجائے گی.. ولی معذرت کرتا بولا

ٹھیک ہے پھر چائے تو پینی پڑے گی.. اب کہ وہ ہنستے بولے تو ولی منع نا کرسکا 

عروج کچن میں چلی گئی.

تو کون کون ہے تمہارے گھر میں.. احمد صاحب استفسار کیا

کوئی نہیں میں خود ہوں.. " وہ مسکراتا بولا 

تمہارا باپ ولید بہت اچھا انسان تھا.. بہت کم زندگی لکھوا کر لایا تھا.. وہ ماضی کو سوچتے افسردگی سے بولے.

آپ جانتے ہیں میرے بابا کو ولی متجسس ہوا 

ہاں تمہاری ماں انیلا کو بھی.. وہ دونوں میرے یونیورسٹی فیلو تھے.. اور بہت ہی اچھے دوست بھی

وہ مسکرا کر بولے. 

کیا..  وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی 

اتنے میں عروج چائے بھی لے آئی اور ساتھ کچھ لوازمات بھی

ولی نے بس چائے ہی لی. 

چائے ختم کرتے ہی اس نے گھر کی راہ لی تھی

بہت ہی اچھا بچہ ہی بلکل اپنے باپ کی طرح ہے. اسکے جاتے ہی احمد صاحب بولے 

بابا آپ کو ولی پسند ہے نا.. عروج مسکراتی بولی

مجھے تو پسند ہے مگر تم کچھ زیادہ ہی پسند کرتی ہو.. احمد صاحب اسے جانچتے بولے تو وہ شرما گئی

اگر تم دونوں راضی ہو لڑکا اچھا ہے مجھے پھر کوئی اعتراض نہیں ہے.. وہ رشتہ مانگے مجھ سے تمہارا پھر.

رشتہ.. ؟؟ وہ سوچ میں پڑی

ہاں 

مگر میں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی اس سے آپ اگر خود اس سے بات کرلیتے تو.

اچھا ٹھیک ہے اگر اسکی زندگی کوئی اور لڑکی ہوئی تو.. " وہ خدشہ سے بولے

نہیں ایسا نہیں ہے وہ..  وہ یقین سے بولی 

تو پھر ٹھیک ہے.. وہ مسکراتے بولے 

تھینک یو بابا.. آپ بہت اچھے ہیں..  وہ خوشی سے کھل اٹھی تھی 

کرن نے گھر سے آنے کے بعد وہ سوچوں میں گم تھی 

کرن کی باتیں اسکے دماغ میں گردش کررہی تھی

وہ اب نادان نہیں رہی تھی.. اس گزرے عرصہ نے اسے کافی سمجھدار بنا دیا تھا اور وقت سے پہلے ہی بڑا کردیا تھا 

دل نہیں لگ رہا تھا بوریت سی ہورہی تھی 

ٹی وی چلا کر بیٹھ گئی..سرچنگ کرتے ایک مووی سامنے آگئی.. تو وہ دیکھنے لگ گئی

اسے ولی کی آمد کا اندازہ نا ہوا تھا 

ولی جب گھر کے اندر آیا تو اسکی نظر نیلم پہ گئی جو ٹیوی دیکھنے میں مگن تھی.. جب ِٹیوی پہ چلتے مناظر پہ نگاہ گئی جہاں رومینٹک مناظر چل رہے تھے. 

ولی ٹیوی کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا.. نیلم کے ہاتھوں سے ریموٹ چھوٹ کر زمین پہ گرا تھا اچانک اسکی آمد سے 

اپنی جگہ پہ ساکت ہوگئی

کیا ہوا.. بہت رومینٹک فلمیں دیکھی جا رہی ہیں.. وہ اسکے برابر بیٹھتا بولا 

نیلم کی تو جان نکل رہی تھی.. بولا بھی کچھ نہیں جا رہا تھا.. اپنی نیلی آنکھوں کو بار بار جھپکائے جا رہی تھی

میں اینوی صبر کئے بیٹھا ہوا ہوں.. بیوی تو میری بڑی رومینٹک ہے,,.. وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے ساتھ لگا چکا تھا

جبکہ نیلم کی آنکھوں سے تو آنسو جاری ہوگئے تھے

وہ سین تو بڑا انجوائے کررہی تھی بس میرے پاس آتے یہ آنسو بہانا شروع کردیئے ہو 

اسکی ٹھوڑی کو پکڑتے اونچا کیا تھا 

لرزتے ہونٹ اسے دعوت دے رہے تھے مگر وہ اپنے جذباتوں پہ بند باندھ کر اٹھ گیا تھا

نیلم کی تو جان میں جاں آئی تھی.. وہ منظر تو اچانک سے شروع ہوگیا تھا اور وہ چینل چینج کرنے والی تھی کہ ولی آگیا اوپر سے.. اور ریموٹ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا.. 

وہ تو ولی کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی تھی کتنا غلط سوچ چکا تھا اسکے بارے میں.. 

ولی چینج کر کے فریش سا باہر آیا تو نیلم کھانا لگا چکی تھی.. 

اسے دیکھتا وہ اپنی کرسی پہ بیٹھا تھا.. 

"پیپر ہوگئے تمہارے" کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولا.. 

جی.. " آج لاسٹ تھا.. وہ آہستگی سے بولی جو وہ مشکل سے سن پایا.. 

آگے کا کیا ارادہ ہے کچھ سوچا بھی ہے یا فلمیں ہی دیکھنی ہے,,.. روٹی کا نوالہ بنا کر منہ میں ڈالتا ہوا بولا.. 

نیلم نے نظریں اٹھا کر اس دشمن جاں کو دیکھا جسے اب بات مل گئی تھی بنانے کیلئے.. 

اب کیا کرنا ہے میں نے.. " وہ اسے دیکھتی بولی.. 

اب ترقی کرنی ہے فیملی میں دو سے تین ہونا ہے.. وہ اسے دیکھتا شرارتی انداز میں بولا.. 

جی.. " اسکے منہ سے اچانک نکلا 

پڑھائی تو ہوگئی نا تمہاری بس اب اتنی ہی چھوٹ تھی.. اب اور نہیں.. اپنا کھانا ختم کرتا بڑے آرام سے بولا تھا جبکہ نیلم سے تو نوالہ نگلا ہی نہیں جا رہا تھا اسکی بے باک باتوں پہ.. 

جا رہا ہوں آرم سے کھا لینا.. جلدی آجانا کمرے میں" آنکھوں میں شرارت تھی.. کہتا وہ کمرے کی طرف مڑ گیا.. 

نیلم کی تو روح فنا ہورہی تھی.. اسکا جلدی آنے کا کہنے کا مقصد وہ سمجھ رہی تھی.. 

کچن کا کام نمٹا کر وہ کمرے میں آئی تھی اندر سے خوفزدہ بھی ہو رہی تھی.. 

پھر بتایا نہیں تم نے کیا سوچا ہے نیکسٹ.. " وہ بیڈ پہ لیپ ٹاپ لئے بیٹھا تھا جب وہ ساتھ آکر بیٹھی تھی.. 

کیا کرنا ہے پھر,,.. وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا بول رہا جبکہ اسے سمجھ ہی نہیں کرتا تھا.. 

فیملی بڑھانی ہے"".. وہ معصومیت سے گویا ہوئی.. 

ولی نے سر موڑ کر اس چھوئی موئی کو دیکھا جو چہرے پہ بے انتہا معصومیت سجائے ہوئے تھی.. 

بےوقوف لڑکی میں تمہاری آگے اسٹڈی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں اپنے بارے میں نہیں.. تھوڑا عقل کا بھی استعمال کرلیا کرو.. " 

اب تو تمہیں سمجھدار ہو جانا چاہئے.. کب تک بچی ہی رہو گی.. "

آج تو کرن کی ماما تو کہہ رہی تھی میں بہت سمجھدار ہوں.. " اس نے اپنی طرف سے بڑی مثال سے کہا.. 

تم کرن کے گھر گئی تھی.. " تھوڑا لہجہ سخت ہوا.. 

ج. جی.. وہ گھبرا گئی تھی اسے بغیر بتائے جو گئی تھی.. 

کیوں.. ؟؟؟

وہ مجھے.. اسکی بھابھی سے ..ملنا تھا.. بہت اچھی ہیں.. اس رک رک کر بات مکمل کی.. 

اسے گھبراتا دیکھ نرم پڑا تھا.. 

اچھا تو پھر کیا خبر ہے انکے گھر کی.. آرام سے بولا.. 

وہ کرن بہت خوش تھی.. رافع بھائی کے ہاں گڈ نیوز ہے.. وہ پھپھو بننے والی ہے.. وہ خوش ہوتی بولی.. 

بڑی جلدی ترقی کر لی ہے.."

 اور یہاں … کوئی آس امید ہی نہیں..وہ منہ میں بڑبڑاتے واپس اپنے لیپ ٹاپ پہ کام پہ لگ گیا.. 

وہ تکیہ سیٹ کرکے سونے کیلئے لیٹ گئ.. 

بس سوتی رہنا .. میرے ارمانوں پر پانی پھیر کر.. وہ برا سا منہ بناتا بڑبڑاتا رہ گیا.. اور وہ سوتی بنی 

ولی آفس میں اپنے کام میں مصروف تھا جب اسے کوئی

 ملنے کیلئے آیا.. 

جب اسنے سامنے دیکھا تو حیران رہ گیا.. 

ارمان تم.. " وہ ابھی بھی صدمہ میں تھا اسکا پرانا دوست.. 

ہاں میں یاد ہے تجھے مجھے لگا تو مجھے بھول گیا ہوگا.. 

وہ اسکے قریب آتا اسکے گلے لگا تھا.. 

کیسے بھول سکتا ہوں تجھے ایم سوری یار.. اپنی غلطی پہ آج تک پچھتا رہا ہوں.. وہ اسے الگ ہوتا بولا تھا.. 

چل کہیں اور بیٹھ کر بات کرتے ہیں.. ارمان نے کہا

ہاں آفس سے اوف لے لیتا ہوں.. وہ دونوں باہر نکل گئے.. 

اب وہ ایک کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے.. 

تو گھر آجاتا آفس چلا آیا.. وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے.. 

تو نے گھر سے جو نکال دیا تھا پھر کیسے آتا دوبارہ نکال دیتا پھر.. وہ طنزیا بولا تھا.. 

یار کیا ہوگیا ہے اب ہوگئی غلطی مجھ سے.. وہ شرمندہ سا بولا.. 

تو سوچ بھی کیسے سکتا تھا میں نیلم کیساتھ.. کرن کو چاہتا ہوں اور آج بھی اسکی وجہ سے ہی تجھے ملنے آیا ہوں.. نہیں بھول پایا ان پانچ سالوں میں اسے.. اور تجھ سے تو میں کبھی زندگی میں بھی نہیں ملنا چاہتا تھا.. وہ پھر بھی اسے سناتے ہوئے بولا.. 

ہاں تو سیدھا چلا جاتا کرن نے گھر مجھے کیوں ملنے آیا پھر.. وہ خفگی سے بولا.. 

کیونکہ تو دوست ہے لاکھ برا سہی جگر ہے اپنا.. "

تو غائب کہاں ہوگیا تھا.. کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تجھے.." ولی بولا

میں ملک ہی چھوڑ گیا تیرے دکھ سے".. وہ مذاق اڑاتا بولا.. 

اچھا چھوڑ نگہت آنٹی کا سنا.. کیسی ہے.. "

شی از نو مور".. ولی افسردہ سا بولا.. 

واٹ"" کب.. کیسے.. ارمان کو شاک سا لگا.. 

ایک سال پہلے".. وہ اداس سا بولا.. 

اووہ.. ایک دم سے نیلم کا خیال آیا.. 

اور نیلم وہ کہاں ہے پھر.. ""

کہاں ہونا اس نے " میرے ساتھ ہے" اسکا تھا ہی کون ماما اور میرے علاوہ" 

"کیا مطلب تیرے جیسے جن کے ساتھ کیسے رہ رہی ہے وہ" وہ حیرت سے بولا 

"کیوں میرے کیا دانت باہر نکلے ہوئے ہیں کوئی خوفناک شکل ہے میری.. " اسکی بات سے ماتھے پہ تیوڑی چڑھی تھی.. 

"نہیں شکل تو اچھی ہے تیری بس عادتیں خون چوسنے والی ہیں " وہ پچیس سالہ خوبرو ولی کو دیکھتا بولا.. 

"بس اسکا تیرے ساتھ کوئی رشتہ بھی تو نہیں ہے"

" رشتہ ہے تو ساتھ رکھا ہوا ہے نا" ولی نے مسکراتے کہا.. 

"کیسا رشتہ " ارمان سنجیدگی سے بولا.. 

دل کا رشتہ" وہ پھر مسکراتا اور دل پہ ہاتھ رکھتا بولا.. اسے اور تجسس میں مبتلا کرگیا.. 

سہی سہی بتا پہیلیاں کیوں بجھا رہا ہے.. "

نیلم میری بیوی ہے.. " ولی ہنستا ہوا بولا.. 

ارمان تو اچھل پڑا تھا اپنی جگہ سے.. 

"تجھے میں جانتا ہوں اچھے سے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا.. تو نے تو اس بچی کا خون سکایا ہوا تھا " اور اب کہہ رہا ہے بیوی ہے.. "وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا اور ولی ہنس رہا تھا.. 

یہ ماما کی خواہش تھی.. مگر مجھے افسوس ہے کہ میں انکی لائف میں انکی خواہش پوری نا کرسکا.. مگر اسکا میرے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور اسکا میرے علاوہ کوئی نہیں تھا اس وقت مجبوری میں مجھے اس سے نکاح کرنا پڑا تھا.. مگر آج وہ میری محبت بن گئ ہے.. 

سوچا تو کچھ اور تھا اسکے لئے مگر اب زندگی بھر کیلئے اسے ہی ہمسفر بنا نا چاہتا ہوں نادان ہے ابھی مگر وہ اچھی لگتی ہے.. اسکی نیلی آنکھوں میں کھو سا جاتا ہوں.. 

"ارمان تو منہ کھولے اسکی باتیں سن رہا تھا.. مگر اسکی باتوں سے یقین کر چکا تھا.. 

چل یہ تو بہت اچھی بات ہے " اب میرا کیس بھی سولو کردے میری بھی شادی کرا دے.. کک. کرن کیساتھ.. 

ہاہا تو دونوں ہنس دیے.. 

اسکے گھر والے مانے تو نا.. ولی نے کہا.. 

مان جائیں گے.. کینیڈین نیشنیلٹی ہوں.. اپنی وائف کو ساتھ رکھوں گا اور تمہارا دوست بھی بس کیسے بھی کرکے جگاڑ لگا لے.. 

🥀🥀🥀

 تیار رہنا کل ایڈمیشن کروانا ہے کالج کا یا گھر ہی بیٹھنا ہے.. 

وہ صوفہ پہ بیٹھا ٹیوی دیکھ رہا تھا جب نیلم اسکے لئے چائے لائی.. 

میرا دل نہیں کررہا.. وہ بچوں کی طرح منہ بناتی بولی.. 

"کیوں نہیں کررہا.. " آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتا بولا.. 

"مجھ سے نہیں پڑھا جاتا.. " وہ بچوں کی طرح ضدی لہجہ میں بولی.. 

نکمی رہو گی سدا کی میٹرک میں بھی سیونٹی پرسنٹ مارکس لئے ہیں بس.. " میری ناک کٹوا دی میرا اے پلس آیا تھا.. " وہ اسے ڈپٹتے بولا.. 

نکمی کہے جانے پر اسے غصہ آیا تھا.. 

اچھے نمبر ہیں اب اتنے بھی کم نہیں ہے.. " غصہ سے ناک پھلاتی بولی.. 

اتنی ناسیں نا پھیلایا کرو چوڑی ہوجائیں گی".. وہ اسکی ناک کھنچتا بولا.. 

افف.. اپنی ناک پکڑتی بولی جو سرخ ہوچکی تھی.. 

کل تیار رہنا پہلے کالج چلیں گے پھر میں آفس جاؤں گا.."

کہتے وہ کمرے میں چلا گیا.. 

افف کیا مصیبت ہے کب جان چھوٹے گی میری پڑھائی سے.. " وہ اکتا کر بولی تھی.. 

کچن کے کام ختم کرکے وہ کمرے میں آئی.. ولی لائٹ اوف کئے لیٹا تھا.. 

اسکی دوسری سائیڈ تکیہ سیٹ کئے لیٹی تھی.. 

"بات سنو میری" ابھی آنکھیں. بند کی تھی کہ ولی بول پڑا.. 

ہاں جی بولیں" وہ اسکی طرف منہ کرتی بولی.. 

یہ کرن کی کہیں بات وات پکی ہوگئی.. "

کون سی بات "وہ نا سمجھی سے بولی.. 

شادی کی بات " ولی نے اسکے سر پہ چت لگائی جس سے اسکے بال ماتھے پہ بکھرے.. 

تو آرام سے بھی تو بتا سکتے تھے".. اپنے بالوں کو سائیڈ پہ کرتی غصہ سے بولی 

آرام سے تمہارے نکمے دماغ میں کہاں پڑتی ہے بات.. "

کیا ہر وقت نکمے کی رٹ لگائی رکھی ہے.. " اسے اور غصہ آیا.. 

"ادھر آؤ پہلے تمہارا دماغ تو سیٹ کروں.. " اسکی کمر میں ہاتھ ڈال اسے ساتھ لگا چکا تھا.. نیلم کی سٹی گم ہوئی تھی.. 

"کیا ہوا یوں آنکھیں کیوں پھاڑ کر دیکھ رہی ہو.. مانا ہینڈسم ہوں نظر لگاؤ گی.. " ہلکی سی سمائل پاس کرتا بولا.. 

دور ہٹیں.. " ایک دم سے سکتہ سے باہر آتی بولی.. 

"کیوں ہٹوں " تم میری ہو.. تمہارا کوئی حق نہیں مجھے دور کرنے کا" وہ اسکی سرخ ہوتی ناک کو کھنچتا بولا.. 

اسکا پارا مزید چڑھا تھا.. 

اپنے کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی.. ننھی سی چڑیاں کی مانند اسکی بانہوں پھڑپھڑا نے لگی تھی.. 

وہ بس اسکی حرکتیں ملاحظہ کررہا تھا.. 

ایک دم سے اسکے ہونٹوں پہ جھکتا اسے ساکت کردیا تھا.. 

آج پھر اسے اپنے ہونے کا احساس دلا گیا تھا.. 

آج محبت ہی محبت تھی اسکے لمس میں اسکے لئے.. اگلے ہی پل اسے آزاد کردیا تھا.. 

آرام سے لیٹی رہو کچھ نہیں کررہا بس میری باتوں کا جواب دو.. " اسکا سر اپنے کندھے پہ رکھتا آرام سے سے بولا.. 

تو خاموش رہی تھی اپنے دھڑکتے دل کی زور سے سختی ہوئی دھڑکنوں کو سنبھالنے لگی تھی.. 

کرن کا کہیں رشتہ وغیرہ پکا ہوا ہے یا نہیں.. "  وہ اپنی بات پہ آیا.. 

نہیں.. " سوالیہ نظروں سے اسے گھورنے لگی.. 

"مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں.. " دل میں آئی بات پوچھنے لگی..

رشتہ کرانا ہے اسکا " 

رشتہ مگر کسکا" متجسس ہوئی.. 

اپنا رشتہ کروانا.. "" ایک دم سے شرارت اتر آئ اسکے دماغ میں.. 

"اپنا " سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا.. 

ہااں" کھینچ کر کہا ہاں.. اور کیا تم سے زیادہ ہوشیار ہے.. چالاک ہے میچور ہے پڑھائی میں بھی بیوی بھی اچھی ہی ثابت ہوگی.. "

"اچھا ہے نا تمہاری دوست تمہارے ساتھ رہے گی" اپنی ہنسی کو دباتے وہ ایکسپریشن انجوائے کرنے لگا اور مرچ مسالحہ لگا بات کو بڑھا چڑھا کر بولا.. 

وہ بھونچکا کر رہ گئ وہ کرن نے بارے میں ایسا سوچتا ہے.. 

ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی.. "آپکو شرم آنی چاہیے کیسی گھٹیا باتیں کررہے ہیں.. " مس حبہ کے بعد اب کرن بھی.. وہ غصہ میں جو منہ میں آیا بولتی چلی گئ.. 

نیلم.. " اسنے ٹوکنا چاہا تھا نیلم کو مگر بولتی چلی گئی بنا اسکی سنے.. کہاں برداشت تھا اسے ولی اسکے سامنے کسی اور کا نام بھی لے کتنا پوزیسو ہوگئی تھی اسکے لئے خود بھی نہیں جانتی تھی. 

ولی نے اسے بیڈ سے اترنے سے پہلے ہی بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کانچ لیا.. 

نیلم پاگل ہوگئی ہو کیا" میں صرف تمہارا ہوں.. اپنے لہجہ محبت سموئے ہوئے وہ گویا ہوا تھا.. اپنے ساتھ لگائے اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا.. 

ارمان ملا تھا اسکے لئے کرن کا رشتہ کرانا ہے.. "

تم تو میری جان ہو تمہارے علاوہ مجھے کوئی نظر نہیں آتا " آنکھوں میں محبت لئے وہ اسے پیار سے گویا ہوا تھا.. 

وہ تو شرم سے نظریں جھکا گئی تھی.. دل سرشار ہوگیا تھا.. 

ارمان بھائی ملے تھے کب.. اور وہ گھر کیوں نہیں آئے.. "

نہیں آئے گا گھر.. اب اور سوال مت کرنا " وہ اسکے ارمان کے متعلق سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا.. 

مگر کیوں نہیں آئے گھر.. "وہ پھر بھی پوچھ بیٹھی.. 

کہا نا اور سوال  نہیں سو جاؤ کل جلدی بھی اٹھنا ہے " کالج جانا ہے.. "

کالج کے نام پہ اسنے منہ کے زاویے بگاڑے تھے.. 

🥀🥀🥀

گرلز کالج میں اسکا ایڈمیشن فارم جمع کروایا..

وہ برا سا منہ بنانے لگی کالج کے نام پہ اور سبجیکٹ مشکل رکھے تھے جس سے وہ چڑ کھاتی تھی.. 

"یہ کیا پکوڑے جیسا منہ بنایا ہوا ہے تم نے" وہ موڈ اوف لئے بیٹھی تھی اسکے سامنے.. 

میں نے میڈیکل نہیں کرنی آپ نے کیوں وہ میڈیکل سبجیکٹس رکھے میرے مجھے آرٹس رکھنی تھی".. وہ منہ پھلاتی بولی

اچھا بیٹھو اب.. " وہ بائیک پہ بیٹھتا بولا.. 

تو وہ بیٹھ گئی.. 

کچھ ہی دیر میں وہ اب قبرستان میں پہنچے تھے.. 

ماما سے مل لے آج ان کو ہم سے بچھڑے ایک سال ہوگیا ہے.. "

نیلم کی تو آنکھیں بھر آئی تھیں.. ساتھ ولی کی بھی آنکھیں نم ہوئیں تھیں.. 

یہاں تو اسکا سارا خاندان آباد تھا.. ماں باپ پیدا کرنے والے اور پالنے والے بھی یہیں دفن تھے.. 

نیلم نگہت کی قبر کے پاس بیٹھ گئی.. آنسو روانی سے جاری ہوئے تھے.. 

کتنی باتیں تھی وہ جو ان سے کرنا چاہتی تھی.. ماما کیسی ہیں آپ.. آپ کی نیلی بہت اکیلی ہے.. مگر ولی بہت اچھے ہیں.. اب وہ بھی نہیں ڈانٹتے مگر آپکی یاد بہت آتی ہے.. "وہ سسک پڑی تھی.. 

ولی کا سارا دھیان نیلم کی باتوں پہ تھا وہ بہت آہستہ بول رہی تھی مگر اسے سن رہا تھا.. 

کچھ دیر گزارنے کے بعد وہ اسے وہاں سے اٹھاتا باہر لے آیا.. 

تھینکس ماما سے ملانے کیلئے " وہ بھرائی آواز میں بولی.. 

چلو تمہیں گھر چھوڑ دوں آفس سے کافی لیٹ ہو رہا ہوں.. 

وہ بھی افسردہ ہوگیا تھا.. 

🥀🥀🥀

نیلم کو گھر چھوڑنے کے بعد وہ آفس آیا تھا.. 

ابھی وہ اپنے کیبن بیٹھے کچھ دیر گزری تھی کہ عروج آ دھمکی تھی.. 

آج لیٹ آئے ہو خیریت تھی سب.. " وہ اسکے سامنے بیٹھتی بولی 

"ہاں سب خیریت ہے.. تم اپنا کام کرو جاکر..ہر وقت میرے سر پر سوار رہتی ہو " وہ لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا.. 

اپنی بےعزتی پہ وہ منہ بسور کر رہ گئی.. 

کام ہی کررہی ہوں تمہیں پریشان دیکھ کر آئی ہوں.. نہیں بتانا نا بتاؤ" وہ بھی حساب برابر کر کے چلتی بنی.. 

وہ منہ بنا کر اپنی کرسی پہ بیٹھ گئی.. 

تمہیں بھی شوق ہوتا اس سے اپنی انسلٹ کروانے کا" اقرا نے اسکے بگڑے موڈ کا اندازہ لگاتے کہا.

تم اپنا کام کرو " عروج کو اسکی بات پسند نہیں آئی.. 

تمہاری بات بنی کے نہیں " پورا اسٹاف باتیں کرتا ہے تم لوگ کافی کلوز ہوتے جا رہی ہو.. " کبھی لنچ اکٹھے ہو رہا ہے کبھی شام ساتھ گھر جایا جا رہا ہے.. " عباس انکا کولیگ انکے پاس ہی بیٹھا تھا انکی باتوں میں حصہ لیا تھا..اور اقرا کا فینسی بھی تھا… 

اسکی دال مجھے گلتی نظر نہیں آ رہی " اقرا نے اسکا مزاق اڑاتے کہا.. 

ویسے ولی کیا کہتا ہے اس نے تمہیں کبھی اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تم سے.. عباس عروج سے بولا.. 

یہی تو مسئلہ کچھ کہتا نہیں.. وہ بے بسی سے بولی.. 

چل تم ٹرائیاں جاتی رکھو.. ہولے ہولے ہوجائے گا پیار " عباس ہلکا سا گنگنایا تھا وہ وہ ہنس دی.. 

ولی آفس می کچھ ضروری فائل پہ کام کررہا تھا.. جب اسکا موبائل رنگ ہوا بے دھیانی کان سے لگایا.. 

ہیلو" 

ہیلو " ولی کیسا ہے.. "

ارمان تم " میں ٹھیک ہوں تم سناؤ "

ہاں میں ٹھیک ہوں "پہلے یہ بتا میرے کام کا کیا بنا" وہ سیدھا اپنی بات پہ آیا.. 

کونسا کام " ہاں اچھا..سوری بھول گیا تھا.. 

بس بھول گیا.. ارمان کو غصہ آیا.. 

اتنی جلدی کس بات کی ہے.." یار نیلم سے بات کی تھی میں نے اس بارے میں کل.. بات کرتا وہ کھڑا ہوگیا تھا باہر شیشہ کے پار دیکھنے لگا.. 

کیا کہا اس نے پھر " نیلی سے کہنا ضرور بات کرے وہ کرن سے"

میں نیلم سے آج گھر جا کر پھر بات کروں گا..

بڑا خیال ہے نیلم نیلم لگائی ہے.. ارمان اسے چھیڑتے ہوئے بولا 

صبح اسی کو لیکر گیا تھا کچھ ضروری کام تھا آفس بھی لیٹ پہنچا تھا".. اور".. بات کرتا کرتا وہ مڑا کے پیچھے عروج کھڑی تھی.. ہاتھ میں فائل لئے.. 

تم " موبائل کان سے لگائے اس نے پوچھا.. 

یہ فائل تمہیں دینے آئی تھی یہ میں نے کمپلیٹ کرلی ہے ..آپ اسے چیک کرلیں.. پھر میں باس کو دکھاؤں گی.. بمشکل اس نے اپنی بات مکمل کی تھی.. 

ولی نے فون کاٹ کر جیب میں رکھ لیا اور اسکے ہاتھ سے فائل تھام لی 

اور وہ بنا رکے وہاں سے چلی گئی.. 

ولی کی کہی گئی آخری باتیں اس نے سن لی تھیں.. 

"نیلم سے گھر جا کر پھر بات کروں گا.. "

"صبح اسی کو لیکر گیا "

وہ کسی کے ساتھ تھا آج.. اور آفس بھی اسی کی وجہ سے لیٹ آیا.. میں نے بات کی تو کود کر پڑا مجھے.. کیا ولی کی لائف میں کوئی اور لڑکی ہے.. " وہ اپنی ہی سوچوں کے گھوڑے دوڑا رہی تھی.. چھٹی کا ٹائم تھا سب نکل رہے تھے آفس سے باہر اور وہ گم سم سی بیٹھی تھی.. " 

ولی اسکے پاس سے گزر رہا تھا جب اسے گم سم سا پایا.. ولی نے اسکے پاس آتے بائیک کی چابی اسکے سامنے ٹیبل پہ ٹک ٹک کرتے دو تین بار ماری تو وہ ہوش میں آئی.. 

"کہاں گم ہو چلو ورنہ پھر تمہاری بس مس ہوجائے گی.. اور اقرا نہیں جاتی تمہارے ساتھ.. "وہ نارمل انداز میں اسکے سامنے بات کررہا تھا.. 

نہیں وہ عباس کے ساتھ جاتی ہے.. اسکا فیانسی ہے.. وہ جلدی سے اپنا پرس اٹھاتی تیزی سے چلتی اسکے آگے نکل گئی..

وہ کسی کے ساتھ تھا آج.. اور آفس بھی اسی کی وجہ سے لیٹ آیا.. میں بات کی تو کود کر پڑا مجھے.. کیا ولی کی لائف میں کوئی اور لڑکی ہے.. " وہ اپنی ہی سوچوں کے گھوڑے دوڑا رہی تھی.. چھٹی کا ٹائم تھا سب نکل رہے تھے آفس سے باہر اور وہ گم سم سی بیٹھی تھی.. " 

ولی اسکے پاس سے گزر رہا تھا جب اسے گم سم سا پایا.. ولی نے اسکے پاس آتے بائیک کی چابی اسکے سامنے ٹیبل پہ ٹک ٹک کرتے دو تین بار ماری تو وہ ہوش میں آئی.. 

"کہاں گم ہو چلو ورنہ پھر تمہاری بس مس ہوجائے گی.. اور اقرا نہیں جاتی تمہارے ساتھ.. "وہ نارمل انداز میں اسکے سامنے بات کررہا تھا.. 

نہیں وہ عباس کے ساتھ جاتی ہے.. اسکا فیانسی ہے.. وہ جلدی سے اپنا پرس اٹھاتی تیزی سے چلتی اسکے آگے نکل گئی.. 

وہ اسکے عجیب سے رویہ پہ حیران ہوا تھا.. 

پھر سوچا شاید صبح والے رویہ سے ناراض ہے.. وہ بھی بلاوجہ اسے سنا گیا تھا.. 

🥀🥀🥀

عروج خلاف عادت گھر میں اداس سی داخل ہوئی تھی.. 

ورنہ ہمیشہ چہکتی ہوئی آتی تھی.. 

اسلام علیکم بابا.. 

وعلیکم السلام.. وہ انکے سامنے بیٹھ گئی..تھکی تھکی سی لگی تھی.. 

کیا بات ہے بیٹا.. " احمد صاحب بولے.. 

بابا آپ ولی سے بات کریں گے ہمارے رشتہ کے حوالے سے.. " وہ بلا جھجک بولی.. 

ہاں بیٹا میں کروں گا بات"

تو آپ جلدی بات کر لیں اس سے " میں اس لئے نہیں کہہ رہی کہ مجھے جلدی ہے.. بلکہ مجھے اسے کھو دینے کا ڈر ہے" وہ خدشہ کے تحت وضاحت دیتے بولی.. 

کوئی بات ہے.. " جو ولی کے حوالے سے تمہیں معلوم ہوئی ہے.. " 

بابا مجھے ڈر کہیں دیر نا ہوجائے اور ولی میرے ہاتھ سے نکل جائے.. وہ اپنا ڈر بیان کرتے بولی.. 

ٹھیک میں اس سے جلد ہی بات کروں گا اگر وہ تمہاری قسمت میں ہے تو کوئی تم سے وہ چھین نہیں سکتا.. 

اور اگر قسمت میں نہیں تو میں کچھ نہیں کرسکتا"وہ دانائی سے اسے سمجھاتے ہوئے بولے.. 

میں اسے قسمت سے بھی چھین لوں گی" وہ ایک دم سے بولی.. 

یوں جنونی نہیں ہوتے.. " صبر بھی کرنا پڑتا ہے " وہ اسے ٹوکتے ہوئے بولے.. 

وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی.. 

آنسوؤں پہ مزید قابو نا رکھ سکی تھی دروازہ بند کرتے ہی سسک پڑی تھی.. 

ماں کو کھو دینے کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ وہ کسی اور کے لئے رو رہی تھی.. 

وہ ولی کو کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی.. وہ کچھ کر گزرے گی اگر ولی اس سے دور ہوگیا تو.. " روتے ہوئے 

" ولی تم صرف میرے ہو.. صرف میرے.. میں تمہیں چھوڑ دوں یہ کیسے ممکن ہے.. تم تو میری سانسوں کی طرح مجھ میں بستے ہو.. تمہیں بہت چاہا ہے میں نے.. " سسک کر خود سے ہی ولی کو تصور کرتی بول رہی تھی.. 

اور احمد صاحب کو عروج کی ٹینشن ہو رہی تھی.. وہ تو بہت ہی تحمل مزاج لڑکی تھی کیسے جنونی ہوگئی.. میں نے ولی کی نظروں میں عروج کے لئے ایسی کوئی کشش نہیں دیکھی.. " 

🥀🥀🥀

اب تمہارا موڈ کیوں خراب ہے.. 

وہ منہ پھلائے بیٹھی ہوئی تھی.. ولی واش روم سے باہر آیا تھا. بلیک شرٹ ساتھ بلیک ہی ٹراؤزر پہنے.. ماتھے پہ بکھرے سیاہ بال وہ کافی وجیہ نظر آ رہا تھا.. 

وہ بیڈ پہ گود میں تکیہ رکھے ہوئے بیٹھی تھی.. ناک پہ غصہ دھرا ہوا تھا.. 

اسکے ساتھ بیٹھتے.. اسکی گود سے تکیہ نکالتے اپنا سر رکھ لیا تھا.. 

میں کالج نہیں جاؤں گی.. " صبح کی ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی.. 

نیلم مار کھاؤ گی مجھ سے اب اگر تم نے دوبارہ کہا تو.. "

وہ تھوڑا غصہ دکھاتے بولا تھا.. 

ہاں تو مار لیں کرلیں شوق اپنا پورا.. " وہ غصہ ہوتی بولی.. 

تو وہ اٹھ کر اسکے مقابل بیٹھ گیا.. 

شوق ہی تو پورا نہیں کرنے دیتی.. " آنچ دیتی نظروں سے دیکھتے اسے گھمبیر لہجہ میں بولا تھا.. 

اسکی نظروں سے گھبراتی سر جھکا گئی.. 

اسکی ٹھوڑی سے پکڑے اسکا چہرہ اونچا کیا تھا.. 

لب کپکپانے لگے تھے..  صاف شفاف چہرہ گلابی پنکھڑیوں سے لرزتے ہونٹ.. نیلی آنکھوں پہ پلکوں کے جھالر گرائے.. اسے گستاخی پہ اکسا رہے تھے.. 

مگر اپنے دل پہ قابو پاتے.. وہ پیچھے ہوا تھا.. 

نیلم کی رکی سانسیں بحال ہوئی جب وہ پیچھے ہٹا تھا.. 

تم کل کرن کے گھر جانا اور اسکی ماما سے ارمان کے بارے میں بات کرنا.. اسنے ساری بات اسے سمجھاتے ہوئے کہا.. 

جیسے میں نے تمہیں سمجھایا ہے ویسے ہی بات کرنا اور اپنی عقل کا استعمال زرا احتیاط سے کرنا سارے کئے کرائے پہ پانی نا پھیر دینا.. "

اب اتنی بھی ناقص عقل نہیں ہوں کرلوں گی سب ہینڈل"

ہاں سب کو کرسکتی ہو ہینڈل سوائے مجھے " تکیہ پہ سر رکھتا میٹھا سا شکوہ کرگیا ..

🥀🥀🥀

عروج صبح آفس جانے کیلئے تیار ہورہی تھی جب باہر جانے لگی تو احمد صاحب نے اسے آواز دے کر روکا.. 

عروج بیٹا "

جی بابا" وہ جو باہر کی جانب بڑھ رہی تھی انکی آواز پہ انکے پاس آکر رکی.. 

ولی اللہ کا نمبر مجھے دینا زرا.. " 

جی بابا ابھی دیتی ہوں اپنا موبائل پرس سے نکال ولی کا نمبر نکال کر اس نے احمد صاحب کے موبائل میں سیو کر کے انہیں موبائل تھمایا.. 

"بابا یہ رہا ولی کا نمبر " ولی سے بات کرنی ہے آپ کو.. " چہرے پہ مسکراہٹ در آئی تھی.. 

ہاں.. " اسلیے تو نمبر مانگا ہے.. " وہ بھی مسکرائے.. 

تو وہ مسکراتی باہر نکل گئی.. 

🥀🥀🥀

ولی بھی تیار ہو کر آفس کے لئے نکل رہا تھا جب اسکا موبائل بجا.. 

انجان نمبر دیکھ کنفیوز ہوا مگر اگلے ہی پل کان ریسیو کر لی.. 

ہیلو "

"اسلام علیکم "بیٹے کیسے ہو.. " 

مقابل جانی پہچانی آواز گونجی تھی جسے پہچاننے میں کچھ ہی سیکنڈ لگے تھے.. 

وعلیکم السلام انکل کیسے ہیں آپ "

ماشاللہ ٹھیک ہوں.. جلدی ہی پہچان لیا تم نے" وہ مسکراتے ہوئے بولے.. 

"انکل آپ نے اس وقت کال کی کام تھا کچھ "

"ہاں سہی کہا " کام تو ہے ضروری اگر تم مل سکو تو " وہ پرسوچ انداز میں بولے.. 

تو کب " ملنا ہے آپ بتائیں میں خود ہی آجاؤ گا.. " 

آج ہی اگر وقت نکال لو تھوڑا سا.. "

"آج.. " وہ سوچتا ہوا بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا.. 

ٹھیک ہے میں ابھی آ جاتا ہوں اگر مناسب لگے تو.. "

یہ تو اور بھی اچھی بات ہے " ضرور آؤ.. ایک دو اور باتیں کرکے فون کاٹ دیا.. 

وہ باہر نکل رہا تھا تن اسکے پیچھے نیلم آئی "آپکا والٹ"

تھینکس " اپنا والٹ تھامتا اسکے ماتھے پہ لب رکھے تھے.. 

تو وہ مسکرائی تھی.. 

وہ بھی مسکرا تا باہر نکل گیا.. 

🥀🥀🥀

کچھ دیر میں عروج کے گھر کے سامنے کھڑا تھا.. ڈور بیل بجائی.. 

کچھ ہی دیر میں دروازہ کھلا تھا.. 

آؤ بچے آؤ"  بہت ہی فرمانبردار اولاد ہو ولید کی آج وہ ہوتا تو دیکھتا اپنے سپوت کو کتنا خوش ہوتا" وہ اندر بڑھتے ہوئے بولے انکے پیچھے ولی بھی اندر آیا تھا.. 

وہ دونوں آمنے سامنے کرسی پہ بیٹھے تھے.. 

چائے لاتا ہوں تمہارے لئے.. " وہ اٹھنے لگے تو ولی نے اسے روک لیا.. 

نہیں انکل میں گھر سے پی کر آیا ہوں " اب دل نہیں چاہ رہا آپ پلیز بیٹھے " تو وہ بیٹھ گئے..

آپ کیا بات کرنے والے تھے"

عروج میری اکلوتی اولاد ہے..  کچھ عرصہ پہلے اسکی ماں چل بسی تھی.. بہت غم کیا تھا اس نے اپنی ماں کا.. میں عروج کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالا ہے.. اسکی خاطر دوسری شادی نہیں کی" حالات ہمارے اچھے ہیں ایک گھر اور ہے جو کرایہ پہ دیا ہے میں ریٹائرڈ ہوں.. پینشن ملتی ہے.. عروج تو بس اپنے شوق کیلئے جاب کرتی ہے.. اب اسکی فکر رہتی ہے اسکے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں.. سوچ رہا ہوں اسکی شادی کے بارے میں.. " وہ تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا.. 

یہ تو اچھی بات ہے " میں آپکی کیا مدد کرسکتا ہوں.. ولی مسکراتا ہوا بولا.. 

تم عروج سے شادی کرو گے.. " تم مجھے پہلی نظر میں ہی ہو پسند آئے عروج کیلئے اس لئے تم سے بات کررہا ہوں.. " وہ نہایت ہی عزت اور آس سے اسکی طرف دیکھتے بولے تھے.. 

ولی تو شاک ہی ہوگیا تھا انکی بات سن کر ..اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا جواب دے.. 

انکل ایم سوری میں عروج سے شادی نہیں کر سکتا.. عروج بہت اچھی اور صاف دل کی لڑکی ہے.. اس کو مجھ سے بہتر رشتہ ملے گا .. وہ اپنی بات سمجھاتے ہوئے بولا.. 

احمد صاحب کے مسکراتے ہونٹ سکڑے تھے ولی جب بولا تھا.. 

"مگر کیوں وجہ جان سکتا ہوں.. کیا تمہاری زندگی میں کوئی اور لڑکی ہے" وہ اپنے تئیں اندازہ لگاتے بولے.. 

"ہاں " ولی انہیں دیکھتا آہستہ سے ہاں بولا تھا.. چہرے کے تاثرات سنجیدہ تھے.. 

احمد صاحب تو ساکت رہ گئے.. 

پہلی بار جب آپ نے مجھ سے میری فیملی کے بارے میں پوچھا تو میں نے آپ سے جھوٹ کہا تھا.. 

میرے ساتھ کوئی اور بھی رہتا ہے".. ولی کو لگا انہیں سچ بتا دینا چاہئے..

وہ ساکت بیٹھے اسکی باتیں سن رہے تھے.. 

کون" اسکے چپ ہونے پہ بولے.. 

میری بیوی نیلم " ایک سال پہلے میرا نکاح ہوا تھا نیلم کے ساتھ.. " وہ میری ماما جنہوں نے مجھے پالا ہے انکی بھانجی تھی.. نیلم کی ماں اسے پیدا کرتے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی.. انہوں نے ہم دونوں کو پالا ہے.. 

اور جاتے جاتے ہمیں نکاح کے بندھن میں منسلک کر گئی.." 

ولی نے تفصیل سے انہیں آگاہ کیا تھا.. 

تو تم نے اپنی شادی کیوں چھپائی.. " وہ سخت لہجہ میں بولے.. 

کیونکہ میں ابھی اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہوں اور نیلم بھی ابھی چھوٹی ہے وہ بس سولہ سال کی ہے اس لئے میں چاہتا ہوں وہ زرا میچور ہوجائے.. سٹڈی کررہی ہے.. ابھی فرسٹ ائیر میں اسکا ایڈمیشن کروایا ہے.. اس لیے ابھی میں اپنی شادی ایکسپوز نہیں کرنا چاہتا تھا.. 

مگر آپکو بتا رہا ہوں.. " آپکے علاوہ آفس میں یہ بات کسی کو ظاہر نہیں کی میں نے عروج کو بھی نہیں.. "

احمد صاحب تو پریشان ہوگئے اپنی جگہ پہ وہ بھی ٹھیک تھا.. 

اچھا ٹھیک ہے خوش رہو.. اس بات کا ذکر عروج سے مت کرنا جو میں نے عروج کے حوالے سے تمہیں کی ہے.. " وہ زبر دستی مسکراتے بولے.. 

اچھا ٹھیک ہے میں لیٹ ہو رہا ہوں آفس سے " وہ اٹھتا بولا اور چلا گیا.. 

پیچھے احمد صاحب سوچ میں پڑ گئے تھے.. عروج کو کیسے سمجھائیں گے.. 

🥀🥀🥀

وہ آفس آیا اور اپنی سیٹ سنبھالی تھی.. 

کچھ دیر بعد عروج آئی تھی اس کے پاس.. 

کل میں نے فائل دی تھی چیک کرنے کیلئے پلیز مجھے دے دیں باس نے منگوائی ہے فائل. " 

ولی نے سر اٹھا کر اسے پہلے غور سے دیکھا تھا.. چہرے پہ اداسی چھائی تھی.. پہلے کی فریش بھی نہیں لگ رہی تھی اور بیہیو بھی روکھا سا.. 

"آج نہیں پوچھو گی لیٹ کیوں آیا ہوں سب خیریت تو ہے" ولی بجائے فائل دینے کے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا تھا.. 

مجھے اپنی بار بار بے عزتی کروانے کا شوق نہیں ہے.. " پلیز فائل دے  دیں "وہ نروکھے پن سے بولی.. 

یہ لو" میں نے چیک نہیں کی" اس نے فائل اٹھا کر اسکی طرف بڑھا دی.. " 

تو اس نے جھپٹنے کے انداز میں فائل لی اور غائب ہوگئ.. 

ولی تو حیران ہوا اسکے رویہ سے.. وہ اتنی روکھی سی لگی .. 

🥀🥀🥀

نیلم بھی جلدی سے سارے گھر کے کام نمٹاتے کرن نے گھر گئی تھی.. 

نیلم تم" آؤ اندر آو" حاجرہ بیگم کرن کی ماں اسے دن بارا بجے اپنے دروازے پہ دیکھ حیران ہوئی تھی.. 

کرن تو گھر نہیں ہے یونیورسٹی گئی ہوئی ہے.. " 

نہیں مجھے کرن سے نہیں آپ سے ملنا ہے " وہ مسکراتے ہوئے بولی.. 

مجھ سے ' بیٹھو 

جی آپ سے بہت ضروری بات کرنی تھی کرن نے حوالے سے اگر برا نا مانے تو..وہ ہچکچاتے بولی.. 

ہاں بولو" وہ بھی متجسس ہوئی.. 

آنٹی دراصل بات یہ ہے.. کہ 

ولی کے ایک دوست ہیں انکے کلاس فیلو بھی تھے.. وہ اب کینیڈا شفٹ ہوگئے ہیں.. اور اب وہ باہر سے یہاں آئے ہیں شادی کے لیے.. 

انہوں نے ولی سے کہا ہے کہ یہاں کوئی اچھی لڑکی دیکھ کر رشتہ کروائیں.. 

تو ولی نے آپ سے کہا ہے مجھے بات کرنے کو.. 

ارمان بھائی بہت اچھے ہیں جب میں چھوٹی تھی تو وہ کافی بار آئیں ہیں گھر.. ماما کو بھی وہ بہت اچھے لگتے تھے.. پھر وہ ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے.. 

 نیلم ولی کی سمجھائی ہوئی بات بہت اچھے طریقے سے کرن کی ماں سے بات کی.. 

"اچھا.. ویسے کرن کے ایک دو اور رشتہ بھی آئیں ہیں.. اسکی شادی کا ارادہ تو ہے.. ٹھیک ہے پھر ولی کے دوست سے بھی بات کرلیتے ہیں رافع کام سے آتا ہے تو اس بات کرکے بتاؤں گی تمہیں میں پھر بلکہ رافع سیدھا ولی سے ہی بات کر لے گا.. ا

نیلم مسکرائی.. تھینک یو آنٹی.. " 

اچھا چائے پیو گی.. " 

جی آنٹی ضرور.. اور بھابھی کہاں ہے" 

وہ اپنے میکے گئ ہے کچھ دنوں کیلئے " وہ کہتی کچن میں گئی..

🥀🥀🥀

ہیلو " آ جاؤ لنچ کریں.. 

ولی اسکے پاس آکر بولا تھا لنچ ٹائم ہوگیا تھا آج وہ اسکے پاس نہیں آئی لنچ کا بولنے اس لئے ولی خود چلا آیا.. 

"نہیں مجھے بھوک نہیں ہے.. "اس نے آج انکار کردیا جبکہ اندر سے خوش بھی ہوئی.. 

کیوں نہیں ہے " آ جاؤ " وہ کہتا آگے چل پڑا.. 

اگر تمہیں آج گھاس ڈال ہی رہا ہے تو یہ اٹیٹیوڈ کیوں دکھا رہی ہو.. " اقرا اسکے ساتھ بیٹھی تھی تو بول پڑی.. 

تم چپ رہو" اب اتنا تو بنتا ہے نا " کہتے وہ بھی ولی کے پیچھے گئی.. 

اقرا نے نفی میں سر ہلایا تھا.. 

ولی کے سامنے آ کر بیٹھی تھی چہرے کے تاثرات بلکل سنجیدہ تھے.. 

اچھا اب اپنا موڈ تو ٹھیک کرو.." مجھے کل تم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی.. "

اس نے کھانا منگوایا اور دونوں نے اچھے موڈ کیساتھ کھایا.. 

عروج تو بہت خوش ہوئی تھی.. 

لنچ کے بعد عروج اپنی جگہ پہ آگئی تھی.. 

بڑے دانت نکل رہے ہیں تمہارے.. اقرا بولی.. 

"تم نا بس مجھ سے جلتی رہنا جل ککڑی" وہ ناک چڑھا کر بولی.. 

تم سے جلتی میری جوتی "ہہنہہ " اقرا نے بھی کہتے منہ چڑھا تے کہا.. 

🥀🥀🥀

آج میں گئی تھی کرن کے گھر اسکی ماما سے بات کی تھی.. 

ولی گھر آیا.. کھا نا کھاتے ہوئے نیلم نے کہا..

اچھا " کیا کہا پھر انہوں نے.. " 

وہ کہہ رہی ہیں کے رافع بھائی سے بات کرکے بتائیں گی.. اور پھر رافع بھائی خود ہی آپ سے بات کرلیں گے " ویسے مجھے لگ رہا ہے بات بن جائے گی ارمان بھائی کی " نیلم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا..

ہہم " ارمان کی تو بات بن جائے گی مگر میری کب بنے گی" ولی نے نیلم کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے شوخ سے لہجہ میں کہا.. 

تو وہ شرم سے نظریں جھکا گئی.. 

میں میں کیا بات کررہی ہوں اور آپ بات کو کہاں لے گئے ہیں " وہ آہستگی سے بولی.. 

"میری تو بات آ جا کر تم پہ ہی ختم ہوتی ہے" وہ کھانا ختم کرتے اٹھ گیا.. 

اور ہاں اپنے خوبصورت ہاتھوں سے پیاری سی چائے لیکر آؤ.. کہتے ہی وہ سامنے صوفہ پہ جا کر بیٹھ گیا اور ٹیوی اون کر کے نیوز لگا لی.. 

کچھ ہی دیر بعد نیلم چائے لیکر حاضر ہوئی.. 

واہ بڑی فاسٹ ہو" چائے لیتے وہ بولا.. 

کہاں جا رہی ہو " وہ واپس مڑی تو ولی نے اسکا ہاتھ تھام لیا. 

بیٹھو " تو وہ اسکے برابر میں بیٹھ گئی.. 

کل سے کالج اسٹارٹ ہے تمہارا.. " اسنے چائے کا سیپ لیتے یاد دہانی کرائی.. 

مجھ معلوم کرلی ہے تیاری میں نے وہ منہ بناتی بولی.. 

پڑھنا ہے یہ پکوڑے جیسی شکل کل نا دیکھوں میں.. " وہ اسکی ناک کھنچتا بولا.. 

سس" اسنے ناک پکڑی تھی اپنی.. جو سرخ ہوچکی تھی.. 

آپ میں بلکل تمیز نہیں ہے.. " وہ غصہ سے کہتی اٹھ گئی 

نہیں ابھی اس ناک میں چھید کروا کر نوزپن بھی ڈالنی ہے.. 

چائے کا سیپ لیتا وہ بولا.. 

نو" میں اپنی ناک کیساتھ یہ ظلم نہیں ہونے دوں گی.. " وہ اپنی ناک پہ ہاتھ رکھتے بولی.. 

ظلم کیا ہی کہاں ہے ابھی تک تو خیر ہی منا رہی ہو زیادہ دن تک نہیں بچ سکو گی اب تم" وہ شریر سے لہجہ میں گویا ہوا تھا.. نیلم اب بنا کچھ بولے ہی وہاں سے چلی گئی.. 

🥀🥀🥀

ایک ہفتہ ہوگیا تھا نیلم کو کالج جاتے ہوئے.. 

ولی آفس میں بیٹھا نیلم کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا.. اسے خیال آیا کہ کیوں نا وہ نیلم کو موبائل ہی لے کر دے دے وہ اس سے بات ہی کرلیا کرے گا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ گئی ہے.. ایسے میں اسے نیلم کی ٹینشن ہی ہوتی تھی وہ گھر پہنچ گئی ہے کہ نہیں.. کالج بھی دور تھا.. اس نے وین تو لگوا دی تھی مگر پھر بھی فکر لاحق رہتی تھی.. 

سوچتے ہی وہ اٹھ گیا ..

اور کمپنی سے باہر نکل گیا.. 

یہ کہاں چلا گیا"

اسے باہر جاتے ہوئے دیکھ عروج بولی تھی.. 

پوچھ لیتی اسی سے مجھے کیا پتا.. اقرا بولی.. 

عروج کو ناجانے کیوں فکر لاحق ہوئی تھی اسے خیال آنے لگا کہیں وہ پھر اسی لڑکی کے ساتھ نا ہو.. 

کن فکروں میں پڑ گئ ہو.. اسے سوچوں غرق دیکھ عروج بولی.. 

کچھ نہیں " وہ فائل کھولے بیٹھ گئی.. 

گرلز آج لنچ کیوں نا باہر کردیا جائے.. عباس انکے قریب آتا بولا.. 

مشورہ برا نہیں ہے.. اقرا بولی.. 

کام کس نے کرنا ہے اگر باہر چلے گئے.. " عروج بولی.. 

کام کی ٹینشن نا لو ایک گھنٹہ تو ہوتا ہے نا.. ہم بس آنا جانا کریں گے.. باہر چلتے ہیں عباس.. اقرا بولی تھی.. 

اچھا ٹھیک ہے ابھی آدھا گھنٹہ ہے اپنے کام نمٹا لو جلدی.. جگہ ڈیسائیڈ کرو بس.. عباس بولتا اپنی سیٹ سنبھالی تھی..

ولی چھٹی ٹائم کالج کے باہر بائیک پہ بیٹھا نیلم کا انتظار کررہا تھا.. 

چھٹی ہو چکی تھی.. سب لڑکیاں باہر نکل رہی تھی.. 

جب اسے نیلم نظر آئی.. نیلم بھی ولی کو دیکھتے اسکے قریب آئی.. 

آپ" وہ اسے دیکھتے بولی.. وہ اس وقت کالج یونیفارم کے اوپر کالا عبایا پہنے ہوئے تھی اور ساتھ حجاب پہنے ہوئے تھی جس کا اس نے نقاب بھی کیا ہوا تھا.. اور کاندھے پہ بیگ لٹکایا ہوا تھا.. 

بیٹھو مسز ولی".. ولی نے کہتے بائیک اسٹارٹ کی.. وہ بھی اسکے پیچھے بیٹھ گئی.. 

وہ اسے لئے کیفے میں آیا تھا.. 

آپ یہاں کیوں لے آئے.. " کاندھے پہ بیگ لٹکائے وہ ادھر ادھر دیکھتے بولی.. 

لنچ کرنے یار.. ولی نے اسکا ہاتھ تھام لیا تھا.. اور سیدھا چلتا ہوا سامنے ٹیبل پہ گیا.. بیٹھو.. اسنے بیگ ٹیبل پہ رکھا اور بیٹھ گئی اسے بٹھا کر خود اسکے سامنے بیٹھ گیا.. 

اقرا.. عروج اور عباس تینوں نے ایک ساتھ ولی کو دیکھا جو نیلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے انکے کچھ فاصلہ پہ بیٹھا تھا.. 

یہ بچی گھوما رہا ہے.. یہاں" عباس ہنستا ہوا بولا تو اقرا نے اسے کہنی مار کر چپ کروایا.. جبکہ عروج کے ایکسپریشن کافی سنجیدہ تھے..

ولی کا دھیان صرف نیلم پہ تھا آس پاس کی اسے کچھ خبر نہیں تھی.. 

کیا لو گی.. " وہ نیلم کو دیکھتے بولا.. جو ارد گرد لوگوں سے گھبرا رہی تھی.. 

مجھے برگر کھانا " وہ جلدی سے بولی.. 

اتنے میں انکے پاس ویٹر آگیا.. اور ولی نے اسے آرڈر لکھوا  دیا

نیلم گھبراؤ مت میں ہوں نا.. اور یہ دیکھو میں تمہارے لئے کیا لایا ہوں".. مسکرا کر کہتا ایک شاپنگ اسکی طرف بڑھایا ..جسے اس نے تھام لیا تھا.. 

یہ کیا ہے" شاپنگ بیگ کھول کر اس میں سے ایک موبائل فون برآمد ہوا جو ڈبہ میں بند تھا.. 

موبائل فون میرے لیے" .. نیلم نے حیران ہوتے ڈبہ کھول کر اس میں موبائل نکالا

اسنے مسکراتے ہاں میں سر ہلایا  ..

فون گفٹ کررہا ہے.. ٹھرکی آفس میں تو بڑا شریف زادہ بنا پھرتا ہے.. عباس کی زبان پہ کھجلی ہوئی.. 

عروج پتھرائی سی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی.. 

کوئی کالج گرل لگ رہی ہے.. نیلم کو دیکھتے اقرا نے اندازہ لگایا.. آتی کالج ہیں اور اس بہانے یہ کام سر انجام دیا جارہا ہوتا ہے کوئی حال نہیں ان لڑکیوں کا.. اقرا نے مزید اضافہ کی انکی معلومات میں.. 

ولی نے ہاتھ بڑھا کر نیلم کا نقاب اتار دیا.. یہ مکھڑا مجھ سے کیوں چھپایا ہوا ہے"..گوری رنگت تیکھے نین نقش نیلی آنکھیں حسن کا پیکر ..گلابی مسکراتے ہوئے ہونٹ.. 

نیلم موبائل فون ہاتھ میں لئے بچوں کی طرح خوش ہو رہی تھی.. 

ولی نے ہاتھ بڑھاتے اسکے مومی نرم ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا.. وہ سٹپٹا گئی یوں سب کے سامنے ہاتھ پکڑنا.. 

"یہ موبائل اس لئے لیا ہے تاکہ میں آفس میں بھی تم سے رابطہ میں رہوں.. "

"نیلم میں تمہیں اب اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں.. میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں.. تم مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت معصوم سی لڑکی لگتی ہو.. میں خوش نصیب ہوں تم میری ہمسفر ہو"

اسکے برملا اظہار پہ شرمسار سی نظریں جھکا گئی ولی کے  چہرے پہ دلفریب مسکراہٹ بکھری تھی.. 

ادھر عباس اور اقرا تو حیران ہوئے تھے نیلم کو دیکھ کر پھر ولی کا ہاتھ پکڑنا.. اسے محبت پاش نظروں سے دیکھنا..ولی کا یہ روپ تو وہ پہلی بار دیکھ رہے تھے ورنہ ہمیشہ اسے سیریس موڈ میں ہی دیکھا تھ اب تک

واہ کیا خوبصورتی ہے اور اوپر سے اظہار محبت فرمایا جا رہا ہے.. " عباس اقرا کو دیکھتا بولا عروج نے آنسو پیتے منہ پھیرا تھا.. 

اور اپنی جگہ سے اٹھ گئی اس سے اور برداشت نہیں ہو ہو رہا تھا.. 

کہاں جا رہی ہو.. اسکا رخ ولی کی طرف دیکھتے اقرا نے اسکا ہاتھ پکڑا اور دبی سی آواز میں اسے روکنا چاہا.. 

اس دھوکہ باز سے پوچھنے کہ کیوں کیا ایسا میرے ساتھ.. 

وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے بولی.. 

تم شاید بھول رہی ہو ولی نے تم سے ایسا کوئی اظہار نہیں کیا.. اقرا بولی مگر وہ ہاتھ کاچھڑا گئی.. 

عباس بھی کھڑا ہوا حالات بگڑتے دیکھ اقرا نے اسے بیچارگی سے دیکھا.. 

واہ مسٹر ولی اللہ.. وہ انکے پاس آتی تالی مارتی بولی.. 

ولی اور نیلم جو ایک دوسرے میں کھوئے سے تھے عروج کی آواز پہ دونوں نے ایک ساتھ اسے دیکھا.. 

بہت شریف بنتے ہو ویسے.. اور یہاں ایک کالج کی لڑکی کے ساتھ رومانس کیا جا رہا ہے.. 

ولی اسکی کی گئ باتوں پہ حیران ہوتا کھڑا ہوا تھا.. 

"عروج بیہیو یور سیلف" وہ دبی سی آواز میں غصہ سے دانت پیستا بولا.. 

تم پہلے اپنے آپ کو دیکھو .. پھر مجھے کہنا.. شرم آنی چاہیے تمہیں مسٹر ولی" ایسی حرکتیں سر عام کرتے ہوئے.. " 

ولی کا ضبط جواب دے گیا تھا اب.. 

بسس" ایک لفظ اور نہیں سنو گا میں.. میرا تمہارے ساتھ ایسا کوئی تعلق نہیں ہے جو تمہیں جواب دوں.. " 

"اپنی بیوی کے ساتھ کہیں پہ بیٹھنے کے لئے مجھے کسی کی اجازت درکار نہیں ہے" وہ غصہ سے دانت پیستے ہوئے بولا تھا.. نیلم بھی سکتہ میں تھی..

عروج کے پیچھے اقرا اور عباس بھی کھڑے تھے تینوں شاک میں آئے تھے ولی کی بات سن کر.. گویا کہ ان کے سر بم دھماکہ ہوا ہو.. 

ولی نے جلدی سے ٹیبل سے ساری چیزیں سمیٹی اور نیلم کا بیگ اٹھائے اسکا ہاتھ پکڑے تیزی سے وہاں سے نکلا تھا.. نیلم تو صدمہ میں تھی گویا.. 

عروج کو ابھی بھی اپنے کانوں پہ یقین نہیں ہو رہا تھا.. وہ کیا کہہ کر گیا ہے.. 

بیوی کہاں سے آگئی اسکی.. " وہ بھی اتنی چھوٹی سی.. عباس ابھی بھی حیران تھا.. 

تو اس نے اپنی شادی چھپائی کیوں" اقرا کے ذہن میں بھی سوالات امڈ رہے تھے.. 

عروج تو ابھی سکتے میں کھڑی تھی..

عروج چلو یہاں سے.. اقرا نے اسے کاندھے سے ہلایا.. 

عروج کے آنسو بہہ نکلے تھے.. 

اپنا پرس اٹھاتی وہ تیزی سے نکلی تھی.. 

عروج.. اقرا پیچھے سے اسے آوازیں دیتی رہ گئی اور جلدی سے آٹو میں بیٹھتی وہاں سے نکل گئی.. 

چلو آفس ہمیں یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا.. عباس کہتا آگے بڑھا تھا .. یقین تو اقرا کو ابھی بھی نہیں آ رہا تھا.. 

ولی نیلم کو گھر چھوڑ کر   چلا گیا اس دوران ان دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی.. نیلم کے ذہن میں کئی سوالات امڈ رہے تھے وہ لڑکی کون تھی اور وہ کیسے ولی پہ حق جتا رہی تھی.. وہ اسے کیوں ایسے باتیں سنا رہی تھی جیسے اسکا ولی سے کوئی گہرا تعلق ہو.. 

اپنی سوچوں کے گھوڑے دوڑا کے تھک گئی مگر اسے جواب نا مل سکا.. 

ولی سے ہی پوچھنے کا ارادہ رکھتی تھی مگر وہ تو غائب ہوگیا اسے چھوڑ کر.. 

🥀🥀🥀

ویسے عروج کا یہ ری ایکشن بنتا نہیں ہے.. عباس اور آفس آ چکے تھے.. عروج اور ولی دونوں ہی اس وقت آفس سے غائب تھے.. 

میں اسے بہت سمجھاتی تھی نا بھاگے ولی کے پیچھے.. مگر وہ ہی پاگل ہوئے جا رہی تھی اب بھگتے" وہ عروج کے لئے کافی پریشان تھی.. 

یار بندے کے پاس اتنی سوہنی کمسن حسیں بیوی ہو وہ کیوں باہر ٹائم پاس کرے گا... عباس نیلم کی خوبصورتی کا قائل ہوگیا تھا.. 

چھہ مہینے پہلے ہم نے ولی کو اس لڑکی کے ساتھ کسی مال میں دیکھا تھا.. اس وقت بھی عروج نے پوچھا تھا تو وہ ٹال گیا اور کہا کہ وہ کزن ہے.. اس وقت وہ سچ بول دیتا.. 

ابھی وہ باتیں کررہے تھے کہ.. 

ولی آفس میں آیا تھا انکے قریب سے وہ تیزی سے گزرتا اپنے کیبن میں گیا تھا.. چہرے پہ غصہ والے تاثرات تھے سنجیدہ تاثرات تھے.. 

اپنے کیبن میں آکر وہ چیئر پہ بیٹھا تھا ابھی تک اسکے کانوں میں عروج کے جملے گونج رہے تھے.. 

نیلم کیا سوچ رہی ہوگی میرے بارے میں.. کتنی انسلٹ ہوئی اسکی آج .. دونوں ہاتھ ٹیبل رکھے وہ بس سوچے جا ری تھا.. وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا عروج اسکے بارے میں یہ خیالات رکھتی ہے..

مے آئی کم ان.. اقرا کی آواز پہ سامنے دیکھا.. 

آجاؤ.. 

عروج نے جو آج کیا وہ غلط تھا مگر آپ نے بھی تو جھوٹ بولا تھا نا.. عروج آپ کو لیکر سیریس تھی مسٹر ولی.. اقرا اسکے سامنے آتی بولی.. 

میں اسے پہلے ہی صاف لفظوں میں کہہ چکا تھا کہ ہمارا تعلق صرف دوستی کی حد تک ہی رہے گا..  میں نے تو اسے کوئی ایسی آس یا امید نہیں دلائی تھی.. وہ دانت پیستے بولا تھا چہرے کے تاثرات سنجیدہ تھے.. 

آپ شادی شدہ ہیں اس بات کو چھپانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے ہمیں بھی یہی لگتا تھا کہ آپ بھی عروج میں انٹرسٹڈ ہیں. ایون کے آفس پورے سٹاف میمبرز کو بھی یہی لگتا تھا.. اقرا دونوں ہاتھ باندھے سپاٹ لہجہ میں بولی تھی اور رکی نہیں تھی وہاں بات کرتے ہی چلی گئی.. 

ولی تو حیرت سے دیکھ رہا تھا اسے.. اور اسکے جاتے ہی سختی سے مٹھیاں بھینچی تھی اپنے غصہ کو کنٹرول کرنے لگا تھا.. عجیب کشمکش میں پڑ چکا تھا وہ.. 

🥀🥀🥀

عروج وہاں سے سیدھا گھر آئی تھی.. اور آتے ساتھ ہی خود کو کمرے میں بند کردیا تھا.. 

آنکھوں کے پردے پہ ابھی بھی وہی مناظر گھوم رہے تھے.. کیسے ولی اسکا ہاتھ تھامے ہوئے تھا کتنی محبت تھی اسکی نظروں میں جن نظروں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا.. ایسا پیار تو وہ ولی کا اپنے لیے چاہتی تھی.. 

آنسو آنکھوں مسلسل بہی رہے تھے وہ ٹوٹ چکی تھی اندر سے.. برداشت سے باہر تھا یہ درد اسکے لئے.. 

اپنی نظروں کے سامنے اپنی محبت کو کسی اور سے محبت کرتے دیکھنا.. 

لفظ بیوی اسکی ساعتوں میں گونج رہا تھا.. اسے پانے کی رہی سہی امید بھی خاک ہوگئی تھی.. 

احمد صاحب یہ کوئی چوتھی بار دروازہ بجانے آئے تھے.. وہ الگ پریشان ہوگئے عروج کو لیکر.. 

عروج منہ ہاتھ دھو کر چینج کر باہر نکلی تھی.. مگر چہرے پہ چھائی اداسی کو نا کم کرسکی تھی.. 

عروج بیٹے کیا ہوگیا ہے شام سے بند ہو کمرے میں رات ہونے کو آئی ہے اور اب نکلی ہو کمرے سے باہر".. وہ صوفہ پہ بیٹھے ہوئے تھے جب عروج انکے ساتھ آکر بیٹھی تھی.. وہ فکر مند ہوئے اسکے لئے.. 

بابا ولی جھوٹا ہے" وہ کہتے سسک پڑی تھی.. 

بابا مجھے ڈر تھا کہیں میں ولی کو کھو نا دوں اور وہی ہوا.. " وہ روتے ہوئے بولی تھی. 

بیٹا میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا ولی تمہاری قسمت میں ہوگا تو تمہیں مل جائے اگر قسمت میں نہیں تو ہم کچھ نہیں کرسکتے".. وہ بڑے تحمل سے اسے سمجھاتے ہوئے بولے.. 

بابا وہ پہلے سے شادی شدہ ہے" وہ کہتے تو پڑی.. 

اس نے جھوٹ بولا تھا.. " دھوکہ باز ہے وہ.. کیوں کیا ایسا اس نے میرے ساتھ.. 

تم سارے الزامات ولی پہ ہی لگائے جا رہی ہو.. " کیا تم نے اس سے کوئی بات کی تھی.. " احمد صاحب بولے.. 

میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی " آج وہ کیفے میں اپنی بیوی کے ساتھ نظر آیا تھا.. میں نے بھی اسے خوب سنائی ہے"اس آج کی ساری کہانی سنائی   

بیٹا تم نے غلط کیا" 

آپ مجھے غلط کہہ رہے ہیں" اسے کچھ نہی. کہا.. 

بیٹا وہ مجبور ہے " کسی وجہ کے تحت اس نے سب چھپایا ہے.. "

کیا آپ کا ولی کے بارے سب معلوم تھا..  " وہ انکی باتوں سے اندازہ لگاتے بولی جس پہ خاموش ہوگئے.. 

بابا آپ بھی اسکے ساتھ ملے ہوئے ہیں.. " وہ افسوس کیساتھ بولی.. 

ہاں میں نے کچھ دن پہلے ولی کوبلایا تھا ملنے کیلئے.. تاکہ میں تمہاری اس سے بات کرسکو رشتہ کیلئے.. اور تب اس نے یہ انکشاف کیا تھا.. اور میں خاموش رہا.. اب تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم اسے بھول جاؤ.. وہ زرا سخت ہوئے تھے.. 

بابا.. وہ صدمہ سے بولی تھی.. 

وہ بنا کچھ بولے اٹھ گئے انہیں غصہ آنے لگا تھا عروج پہ اب کیوں وہ بے جا ضد لے کر بیٹھ گئی ہے.. 

عروج تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی.. 

🥀🥀🥀

نیلم ولی کا انتظار کرتی رہی کافی دیر تک مگر وہ آنے سے رہا.. اب وہ دوسرے کمرے میں جا کر سوتی بنی تھی.. 

رات گیارہ بج چکے تھے جب وہ گھر آیا یونہی بے ضرر باہر پھرتا رہا آج.. 

گھر آیا تو خالی گھر اسکا منہ چڑھا رہا تھا.. جب کمرے میں داخل ہوا تو کمرا بھی ویران اور سنسان پڑا تھا نیلم وہاں موجود نہیں تھی.. 

ولی کو غصہ آیا تھا نیلم پہ.. دوسرے کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ آرام سے سو رہی تھی.. 

اور اسکا سکون تو جیسے  برباد ہوگیا تھا آج اور وہ آرام سے سو رہی تھی.. 

وہ بھی غصہ میں اپنے کمرے میں. آیا تھا.. 

اب اس وقت اسے نیلم پہ شدید غصہ آ رہا تھا.. دماغ پھٹ رہا تھا اسکا.. کیا کچھ نہیں کیا اس نے نیلم کے لئے اور اس نے کیا دیا اسے آج تک.. 

کتنا خوبصورت اظہار کیا تھا اس نے آج اپنی محبت کا.. وہ اسکی آغوش میں سکون پا لینا چاہتا تھا.. مگر اس نے آج اسی کے کمرے سے نکل سکون بھی چھین لیا ..

سر شدید درد تھا..  منہ ہاتھ دھو کر چینج کر کے باہر آیا تھا.. 

بیڈ پہ لیٹا سر دبانے لگا تھا اپنا.. آج نیلم کی غیر موجودگی اچھی نہیں لگ رہی تھی.. اور اسکی بیوقوفی یہ غصہ بھی تھا.. 

🥀🥀🥀

صبح نیلم کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں نہیں تھی.. پھر یاد آیا وہ تو اسی کمرے میں خود آئی تھی ولی کا خیال آیا.. اٹھ کر اسکے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ سویا ہوا تھا.. 

ولی اس سے ملا نہیں .. اور اگر سو گئ تھی تو اٹھا دینا چاہئے تھا.. غلطی بھی خود کی ہے اور اکڑ بھی خود رہا ہے.. غصہ آیا تھا ولی پہ.. کمرے میں داخل ہوئے بغیر ہی دوسرے کمرے میں آگئی.. 

بدگمانی بھرنے لگی تھی ذہن میں ولی کے لئے..

ولی کی آنکھ کھلی تو وہ اکیلا ہی بیڈ پہ تھا نیلم نہیں آئ.. 

اٹھ کر آفس جانے کے کیلئے تیار ہونے لگا.. 

تیار ہوکر باہر آیا تو نیلم پھر دکھائی نا دی.. خود ہی کچن میں گھسا..خود ہی اپنے لیے چائے بنائی .. ساتھ میں دو سلائس لئے بریڈ کے چائےبمشکل اپنے حلق سے نیچے اتاری تھی جس میں چینی بہت تیز تھی ناشتہ کرکے وہ چلتا بنا.. 

کچھ دیر بعد نیلم بھی کالج یونیفارم میں تیار باہر آئی.. ولی جا چکا تھا.. 

اورغصہ آیا تھا ولی پہ.. اتنی اکڑ.. 

کچن میں گئ تو کچن کا حلیہ بگڑا ہوا تھا.. صرف چائے بنانے کیلئے ولی نے کچن کا حلیہ تہس نہس کردیا.. 

چولہے پہ چائے گری ہوئی تھی پتیلی سے چائے ابل کر باہر آئی تھی کپ میں ڈالتے ہوئے چائے آدھی کپ میں اور آدھی شیلف پہ گری ہوئی تھی پتی اور چینی کے ڈھکن کھلے ہوئے تھے.. بریڈ کا پیکٹ بھی باہر کھلا پڑا تھا.. 

ناشتہ کرنے بجائے نیلم نے کچن صاف کیا تھا.. اور اتنے میں اسکی وین آگئی.. 

🥀🥀🥀

ولی آفس میں آیا تھا.. عروج کی کرسی خالی پڑی تھی اسے گھور کے دیکھتا اپنے کیبن میں چلا گیا..

وہ اپنے کیبن میں آکر بیٹھا تھا.. 

عروج پہ بے انتہا غصہ آ رہا تھا.. آج غیر حاضر رہ کر ثابت کیا کرنا چاہتی ہے.. "

پھر ساری سوچوں کو جھٹکتے کام میں مصروف ہوگیا.. 

🥀🥀🥀

عروج بیٹے آفس نہیں گئی تم آج.. 

وہ اداس سی صوفہ پہ بیٹھی تھی جب احمد صاحب اسکے پاس آکر بیٹھے.. 

میرا دل نہیں چاہ رہا اور ویسے بھی میں یہ جاب چھوڑ رہی ہوں.. وہ سرد سے لہجہ میں بولی.. 

کیوں چھوڑ رہی ہو تم جاب.. ولی کے لئے اسے تمہاری جاب سے کوئی لینا دینا نہیں چاہے تم کرو چاہے نا کرو جاب.. اسکی لائف تو سیٹ ہے.. " اور تم اسکی وجہ سے اپنا کیریئر خراب کرنا.. یہ کہاں کی عقل مندی ہے.. "

" ضروری نہیں ہے کہ انسان کا ہر خواب ہی حقیقت بن جائے کچھ خواب محض خواب ہی رہتے ہیں اور ان خوابوں کو بھلا دینا ہی بہتر ہے"

وہ اسے پیار سے سمجھا تے ہوئے بولے.. 

اس نے بس ہاں میں ہی سر ہلایا تھا.. وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے چکے گئے وہاں سے.. 

کیسے بھلا دوں میں اسے " بہت مشکل ہے کام میرے لئے " ایک موتی آنکھ سے بے مول ہو کر گرا تھا.. 

🥀🥀🥀

نیلم کالج سے گھر آئی تھی.. ابھی بھی ولی کی سوچوں میں غرق تھی.. آخر کیا چاہتے ہیں وہ.. اچھے بھلے تو تھے.. اور اس لڑکی نے اچانک سب خراب کردیا کون تھی وہ.. کہیں ولی کا اس لڑکی کے ساتھ کوئی چکر تو نہیں چل رہا.. وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی.. اب کیا بنے گا میرا.. 

خود سے سوالوں کے جواب بنا رہی تھی.. بدگمانیاں کے بادل چھانے لگے تھے.. 

🥀🥀🥀🥀

ولی آفس میں ضروری فائل پہ کام کررہا تھا کہ جب اسکا موبائل رنگ ہوا.. 

ہیلو.. "

ہیلو کے بچے کہاں کھپ گیا ہے" ارمان کی آواز گونجی تھی.. 

کہاں ہوں یہیں ہوں کام کررہا ہوں آفس میں.. اور تم سناؤ کیسے ہو اور کہاں ہو دوبارہ ملے نہیں.. " ولی بولا تھا الفاظ میں تھکن سی تھی.. 

میں تو ٹھیک ہوں پر تم ٹھیک نہیں لگ رہے کیا بات ہے" ارمان اسکی بے چینی نوٹ کرتا بولا.. 

کچھ نہیں آفس میں بزی تھا تو تجھے ایسا لگا ہو.. "

ولی بات ٹال گیا.. 

اچھا میرے کام کا کیا بنا" 

کچھ نہیں ابھی تک تو نیلم گئی تھی انکے گھر بات کرنے مگر ابھی کوئی مثبت جواب نہیں آیا.. " 

تو فکر نا کر " ہوجائے گا کچھ نا کچھ سوچنے کا ٹائم دے"

اچھا دیکھ بات سنبھال لینا اچھا.. " کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرتے کال کی کردی.. "

اور وہ پھر سے اپنے کام پہ جت گیا.. "

🥀🥀🥀

رافع پھر کیا سوچا ہے تم نے.. ولی کے دوست کے بارے میں.. کرن کی امی نے رافع سے بول رہی تھی

ہاں میں سوچ رہا ہوں ولی سے بات کرلوں ..لڑکے کا پتا لگاتے ہیں اگر لڑکا اچھا ہوا تو پھر بات چلا لیں گے.. رافع نے جواب دیا.. 

یہ ماما اور بھائی کس رشتہ کے بارے میں کررہے ہیں.. کرن کچن میں ساری باتیں سن رہی تھی ساتھ کھڑی اپنی بھابھی سے دریافت کیا.. 

پتہ نہیں مجھے ..آپس میں بات کررہے ہیں تمہارا کوئی رشتہ آیا ہے.. امبر بولی.. 

کیا میرا رشتہ.. کون لے کر آیا.. کرن نے حیرت سے کہا.. 

پتا ہوتا تمہیں بتا دیتی " امبر بولی.. 

کرن تو پریشان. سی ہوگئی.. 

🥀🥀🥀

ولی رات گئے گھر لوٹا تھا.. تھکا سا.. کمرے میں آیا تو کمرہ خالی تھا.. 

نیلم کو کمرے میں نا پاکر غصہ آیا تھا اسے.. جی تو چاہ ابھی اسکی جا کر اسکی عقل ٹھکانے لگائے کیا تماشہ لگایا ہوا ہے.. 

مگر خود پہ کنٹرول کرتا بیٹھ گیا.. پھر اٹھ واش روم چلا گیا.. چینج کرکے باہر آیا تھا.. اب رخ کچن کی طرف تھا بھوک لگی ہوئی تھی.. 

نیلم کو پتہ چل گیا تھا ولی گھر آگیا ہے.. مگر وہ جان بوجھ کر کمرے سے باہر نہیں آئی.. 

ولی نے کھانا گرم کرکے کھایا..  اور پھر اپنے لیے چائے بنائی اور کمرے کی طرف چل دیا..

اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچا تھا کے ساتھ والے کمرے کے دروازے پہ نگاہ گئی.. ہلکا سا دروازہ کھولا تھا.. بیڈ پہ نیلم دوسری سائیڈ نیلم کروٹ لیے لیٹی تھی.. کچھ سوچتا کمرے کے اندر چلا گیا.. 

نیلم نے جلدی سے آنکھیں بند کرلیں تھی.. 

وہ بیڈ کی دوسری ساییڈاسکے برابر بیٹھ گیا.. 

چائے کا سیپ لیا اسے دیکھتے.. معصوم سا چہرہ.. سرخ سفید رنگت.. سنہری بالوں کی آوارہ لٹیں چہرے کو چھو رہی تھی ..انہیں سمیٹنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا مگر اسی وقت ہاتھ کھینچ لیا.. اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا.. 

نیلم کو اچھا نہیں لگا تھا یوں اسکا چلے جانا.. ٹیس سی اٹھی تھی اسکے دل میں وہ آ ہی گیا تھا.. ایک بار تو آواز دیتا اسے.. دو موتی آنکھوں سے بے مول ہو کر گرے تھے.. 

ولی کمرے میں آیا تو اور بے سکون ہوگیا تھا.. اسے پتا چل چکا تھا وہ جاگ رہی ہے.. میں اپنے ساتھ کئے گئے عہد سے نا پھرتا اور تم سے محبت ہی نا ہوتی مجھے تو اچھا تھا.. 

جلن سی ہوئی تھی آنکھوں میں اسکے.. چائے کا خالی کپ ٹیبل پہ  ٹیبل پٹخا تھا ..اپنی تمام تر سوچوں کوجھٹکتے لیٹ گیا تھا آنکھیں بند کرے سونے کی کوشش کرنے لگا.. 

دونوں طرف ہی بے چینی تھی ادھر نیلم اور یہاں ولی دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر ادھورے تھے.. 

ایک انا تھی جو آڑے آ رہی تھی ..

🥀🥀🥀

تین دن.  یونہی گزر گئے عروج آفس نہیں آرہی تھی..

ولی نے بھی خود کو کام میں مصروف رکھنے کی ہوتی کوشش کی تھی.. 

وہ ابھی آفس میں بیٹھا ہوا تھا جب اقرا اسے فائل دینے آئی.. 

ولی یہ فائل.. ولی نے فائل تھامی اسکے ہاتھ سے.. 

جب وہ پلٹی تو ولی نے اسے آواز دے کر روک لیا.. 

اقرا.. " مجھے تم سے بات کرنی ہے بیٹھو.. "

تو وہ چپ چاپ بیٹھ گئی.. 

عروج کیسی ہے اور آفس کیوں نہیں آرہی.. "

"آپ کو کیوں عروج کی فکر ہونے لگ گئی.. آپ اپنی وائف کی فکر کریں بس" وہ طنزیا بولی.. 

عروج کو اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی.." اسکی بھی تو غلطی ہے.. 

اور آپ نے جھوٹ بولا وہ " آپکی غلطی بھی تو ہے.. 

میں نے جھوٹ نہیں بولا میں نے بس چھپایا تھا.. اور چھپانے کا مقصد کسی کو ٹریپ کرنا نہیں تھا.. " 

تو پھر کیا تھا " اقرا بولی.. 

میرا ایک سال پہلے نکاح ہوا تھا نیلم سے بڑوں کی مرضی سے ہوا تھا.. میری ماما کی بھانجی ہے.. انہوں نے اسے پالا تھا.. انفیکٹ وہ میری بھی ماما نہیں تھی.. وہ ہماری ماں نہیں تھی بلکہ ماں سے بڑھ کر تھیں.. انکی خواہش تھی کہ میں نیلم سے نکاح کرلوں وہ چھوٹی تھی میں نہیں مانا اور ماما کی دیتھ ہوگئی.. کیا کرتا میں بڑوں کی مرضی کے آگے سر جھکانا پڑا اس بھیڑ جیسی دنیا میں میں اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا.. 

نیلم ابھی سٹڈی کررہی تھی.. اور میں اپنا اچھا کیرئیر بنانا چاہتا ہوں.. اس لیے میں ابھی اپنی شادی کو ایکسپوز کرنا نہیں چاہتا تھا وہ ابھی چھوٹی ہے اپنی پڑھائی مکمل کرلے.. پھر میں اسے سب کے سامنے لاؤں گا..

اسکے ساتھ رہتے ہوئے مجھے اس سے محبت ہونے لگی.. وہ میرے دل کے بہت کلوز ہے میں اس سے دور نہیں رہ سکتا اس دن کی وجہ سے اب تک ناراض ہے مجھ سے.. 

اور عروج کو لیکر میرے ایسے جذبات تھے ہی نہیں اگر ہوتے تو اس سے اسطرح کی کوئی بات کرتا اس سے پیار محبت کے کوئی دعوے کیے ہوتے..

" تم دوست ہو اسکی بتاؤ مجھے اگر یہ جذبات عروج کو مجھے لیکر تھے تو وہ بس اسکے ہی تھے میرے نہیں.."

وہ اقرا کو دیکھتے پوچھنے لگا.. 

اقرا نے بس نا میں سر ہلایا اور اٹھ کر چلی گئی وہاں سے.. 

وہ اپنی کرسی پہ آکر بیٹھی تھی.. 

" کیا کہہ رہا تھا وہ" عباس اسکے برابر میں بیٹھا بولا.. 

ہی از رائٹ.. وہ ٹھیک ہے اپنی جگہ عروج ہی اسکے پیچھے پاگل تھی.. کتنا سمجھایا تھا اسے میں نے مگر وہ نا مانی.. " انکل کو بھی پریشان کیا ہوا ہے بس کمرے میں بند رہتی ہے.. نا ٹھیک سے کھاتی پیتی ہے بیمار ہوجائے گی..وہ فکر مند ہوئی عروج کے لئے.. 

🥀🥀🥀

نیلم پریشان سی بیٹھی تھی.. شام کا وقت تھا دروازہ بجا.. 

گیٹ کھولا تو کرن تھی.. 

اداس چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی.. 

بہت مصروف ہوگئی ہو بھئ ملتی بھی نہیں" اندر آتے ہی شکوے شروع کرن کے.. 

"تو تم کونسا ملنے آ جاتی ہو.. میرا اتنا ٹائم نہیں ہوتا جو تمہارے گھر کے چکر لگاؤں.. 

ہاں بھئی پتا ہے بہت بزی ہو اپنی میرڈ لائف میں "

بس میرا بھی نام آنے لگا تمہاری لسٹ میں"

کیا مطلب تمہارا.. " نیلم بولی 

"افف.. مطلب یہ کہ میرا رشتہ آیا ہے بہت سوچ وچار ہورہی ہے اس رشتہ کے بارے میں " کرن مسکراتے بولی.. 

کونسا رشتہ" نیلم جھٹ بولی 

یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کوئی باہر کا ہے" کرن نے کہا تو نیلم سمجھ گئی.. 

مگر یار ابھی اتنی جلدی یہ شادی کے جھمیلے میں نہیں پڑنا مجھے.. "وہ بے چارگی سے بولی.. 

کرنی تو پڑے گی.. " نیلم مسکراتی بولی.. 

یار مجھے کیا پتا کون ہے ..جاننا بھی تو ضروری ہے محبت بھی ضروری ہے.. " جیسے تم.. تم سے محبت کرتے ہیں ولی بھائی.. " بات کا رخ وہ اسکی طرف موڑ گئی.. 

ولی کا اس دن کا کیا اظہار محبت یاد آیا تو مسکرا دی.. 

مگر اچانک سے ہی اس لڑکی کا خیال آیا تھا.. تو ماتھے پہ بل آئے.. 

اور کوئی بات کرو تم" نیلم نے اسے ٹالنا چاہا.. 

شرم آ رہی ہے بتاتے ہوئے.. "کرن اسے چھیڑتے ہوئے بولی.. 

تمہیں بھی آجائے گی سمجھ بس ہوجانے دو تمہاری شادی پھر پتہ چلے گا تمہیں" نیلم منہ بناتی بولی.. 

تو تم بتا دو نا ابھی " ولی بھائی تمہیں کیسے پیار کرتے ہیں" کرن نے اسے مزید تنگ کیا.. 

کرتی ہوں آنٹی سے بات جلدی شادی کرائیں اسکی "وہ مصنوعی غصہ دکھاتے بولی.. تو دونوں ہنس دی.. 

کافی دیر باتیں کرنے کے بعد کرن چلی گئی.. 

🥀🥀🥀

رات ولی آفس سے گھر آیا تو دس بج رہے تھے.. 

اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا.. 

جب کمرے کے سامنے نیلم کو کھڑا پایا تھا.. کتنے دنوں بعد اسے دیکھ رہا تھا.. 

آگئی عقل ٹھکانے" دل میں سوچتا ہوا نیلم کی طرف بڑھا.. 

نیلم کی ساری توجہ اسی پہ تھی چہرے کے تاثرات سنجیدہ تھے.. وہ بنا اس سے بات کئے اپنے کمرے میں جانے لگا.. 

نیلم نے اسکا بازو پکڑ لیا.. 

"میرے سوالوں کا جواب دیں پہلے "

پھر جہاں جانا ہے جائیں" سرد سے لہجہ میں بولی تھی.. 

وہ پھر سے اسکے سامنے آیا " بولو " 

کیوں کررہے ایسا میرے ساتھ کیا غلطی ہوئی ہے مجھ سے بتاییں" کتنے دن ہوگئے اگنور کئے جا رہے ہیں" وہ تو پھٹ پڑی تھی جیسے.. 

اچھا اگنور" اور تم خود کیا کررہی ہو " وہ  کہتا اسکے مزید قریب ہوا تھا.. 

میں نے کچھ نہیں کیا" آپ کررہے ہیں " وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نڈر ہوکر بولی.. 

میں کیا کررہا ہوں " وہ اسکے مزید قریب ہوتا سارے فاصلہ طے کر گیا مگر نیلم نے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتے مزید آگے بڑھنے سے روکا.. 

آپ چکر چلا رہے ہیں باہر.. آپ کی گرل فرینڈ نے انسلٹ کی ہے میری" وہ سیریس انداز میں بولی تھی.. مگر ولی کا میٹر گھوم گیا.. اس چھٹانک بھر کی لڑکی سے یہ الفاظ سن کر.. 

وہ اسے بازو سے مضبوطی سے پکڑے کھینچ کر اپنے کمرے میں لے آیا تھا.. 

"یہ کیا بکواس کررہی ہو تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا.. " بازو ابھی اسکی مضبوط گرفت میں تھا اسکی انگلیاں اپنے بازو میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی تھی.. درد سے نیلم کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے.. 

تو وہ اسکی طرف دیکھتی پھر سے بولی تھی.." آپ چیٹ کررہے ہیں کون تھی وہ لڑکی " اسکی سوئی ابھی وہیں اٹکی ہوئی تھی.. 

شٹ اپ نیلم " تم بھول گئی ہو شاید میں نے تمہیں اپنایا تھا تمہیں سہارا دیا.. تمہیں اس مقام تک لایا ہوں.. تم پہ کبھی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالا تم پہ کبھی اپنا حق نہیں جتایا.. " اور تم اس مہربانیوں کا یہ سلہ دے رہی ہو مجھے.. " کوئی بھی کچھ بھی بول دے گا تم اس پہ یقین کرو گی.. " وہ دکھ سے بول رہا تھا.. 

وہ سر جھکائے بس روئے جا رہی تھی.. اسکا نازک سا وجود روتے ہوئے ہچکولے کھا رہا تھا.. 

یا پھر تمہیں احساس دلاؤں اپنے اور تمہارے رشتہ کا.. چہرہ اسکی ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کیا تھا.. 

بھیگی پلکیں اٹھا کر نیلی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا.. جس کے چہرے پہ اب غصہ نہیں تھا اور ہی جذبات تھے.. 

آپ کا احسان ہے مجھ پہ جس کی قیمت میں نہیں چکا سکتی.. " برفیلے تاثرات تھے.. 

یہ میرا احسان نہیں محبت ہے میری.. احسان ہوتا کب کا تمہارے وجود سے کھیل چکا ہوتا.. وہ پھر سے اسے غصہ دلا گئ.. 

شاید تمہارا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہوگیا ہے".. دل تو چاہتا ہے ابھی ہی ٹھکانے لگانے دوں.." کپڑے نکالو میرے "کہتا وہ واشروم کی جانب بڑھا..پھر رک کر اسکی طرف مڑا

" اور ہاں کھانا گرم کرو بہت بھوک لگی ہے" ایک اور حکم صادر کرتا واش روم میں گھسا.. 

وہ اپنے آنسوؤں صاف کرتی الماری کی طرف بڑھی تھی.. اسکے بلیک ٹی شرٹ اور ٹراوزر نکال کر بیڈ پہ رکھا اور اب کچن کی طرف کیا.. 

وہ فریش سا باہر آیا تھا.. تو وہ کھانا لگا چکی تھی.. 

اسے دیکھتا اپنی کرسی پہ بیٹھا تھا ..روئی ہوئی لال سوجھی آنکھیں ناک بھی رونے کے باعث لال تھی وہ ابھی تک تو رہی تھی.. 

کھانا کھانے لگا تھا تب وہ وہاں سے جانے لگی.. 

" تم کہاں جا رہی ہو میں نے تم سے کہا جانے کو " بیٹھ جاؤ.. 

تو وہ چپ چاپ بیٹھ گئی.. ولی نے نظروں کے حصار میں لیا ہوا تھا کھانا کھاتے ہوئے.. 

وہ اسکی نظروں کی تپش سے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی.. 

وہ کھانا ختم کرتا اٹھ گیا ..

" اپنے خوبصورت ہاتھوں اپنے جیسی پیاری سی چائے بنا کر لاؤ " پھر تمہارا دماغ درست کرتا ہوں " وہ نارمل انداز میں کہتا چلا گیا.. 

وہ چپ رہی تھی.. بس اس کے لئے چائے بنائی.. اور اسکے کمرے کی طرف چل دی.. 

ولی بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا موبائل چلا رہا تھا.. جب نیلم کمرے میں آئی چہرے کے تاثرات سنجیدہ ہر جذبات سے آری.. سائیڈ ٹیبل پہ چائے رکھ کر وہ باہر جانے کے لیے مڑی تو کی آواز پہ رکی.. 

" رکو " اب کہاں جا رہی ہو ادھر آؤ .. چائے کا کپ اٹھا کر منہ سے لگایا.. 

وہ اسکی طرف مڑی تھی.. موڈ ابھی بھی بنا ہوا تھا.. 

"ادھر آؤ یہاں سوؤ گی تم " نیند نہیں آتی تمہارے بغیر چائے کے سیپ لیتا شوخ سے لہجہ میں بولا تھا.. 

تو وہ چپ چاپ اپنی جگہ پہ آکر لیٹ گئی.. 

ولی اپنی چائے ختم کرتا ..لائٹ اوف کرکے اسکے برابر میں لیٹ گیا.. 

نیلم دوسری سائیڈ منہ کئے لیٹی تھی.. آنکھوں سے آنسو ابھی بھی جاری تھے..

ولی نے اسکی کمر پہ ہاتھ ڈال کر اسے اپنی جانب کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا تھا.. 

اب ایسے بھی کون سے ظلم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں تم پہ " اسکی نم آنکھوں کو دیکھتے زچ ہوا تھا.. 

پلیز مجھے سونے دیں " رونے آواز بھاری ہو رہی تھی.. 

سو جاؤ میں نے کچھ نہیں کہا تمہیں.. " وہ اسکی گال پہ بوسہ دیتا بولا.. 

دور ہٹیں " تھوڑا غصہ سے کہا.. 

یہ تو ناممکن" اب کے نظریں اسکی گلابی ہونٹوں پہ جا ٹھہری تھی.. 

آپ کے بہت احسان ہیں مجھ پہ مزید.. " ابھی وہ بول رہی تھی کہ اسکے لبوں پہ قفل لگا گیا.. 

اسکے رونے میں روانی آئی تو اسے الگ ہوا تھا.. 

"مسز ولی ایک بات میری کان کھول کر سن لو.. تمہیں تمہاری جگہ کا احساس میں ابھی دلوا سکتا ہوں.. مگر میں تمہاری مرضی کے بغیر اپنی حد پار نہیں کروں گا.. حق رکھنے اور حق پہ ہونے کے باوجود میں تم سے قریب نہیں ہوا تو کسی اور کے قریب کیسے جاؤں گا میں اتنا کمزور مرد نہیں ہوں ..

اور نا ہی اتنا گیا گزرا ہوں اتنا تو یقین تمہیں ہونا چاہئے مجھ پہ.... 

اسکے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کرتے اسکے ماتھے اپنی محبت کی مہر ثبت کی تھی.. سو جاؤ کاندھے پہ اسکا سر ٹکاتا آنکھیں موند لی

اگلے دن ولی آفس چلا گیا.. مگر نیلم کالج نہیں گئی آج اسکا دل ہی نہیں کیا جانے جو.. ولی نے اسکے سوالوں کے جواب نہیں دیے.. الٹا اس پہ غصہ کیا اپنے بازو کو سہلایا جہاں ابھی درد تھا ولی نے زور سے بازو پکڑا تھا کہ اسکی انگلیاں پوست ہوگئی تھی جیسے.. 

وہ لڑکی کون تھی یہ سوال اٹھ اسکے ذہن میں منڈلا رہا تھا.. 

دروازہ پہ بیل ہوئی تھی.. اٹھ کر دروازہ کھولا تو خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی.. 

پھپھو.. " وہیں کھڑے انہیں زور سے گلے لگایا تھا.. 

ارے بھئی اندر تو آنے دو" وہ اسے پیچھے ہٹاتے بولی.. 

آئیں اندر آئیں.. " وہ انکا سامان پکڑ کر اندر لاتی بولی.. 

" پھپھو بمشکل اپنا گھٹنا پکڑ کر چل رہی تھی.. 

"پھپھو یہ کیا ہوا.. " انہیں ایسے چلتا دیکھ نیلم فکر مندی انکا ہاتھ تھام کر صوفہ پہ بٹھایا..

گھٹنوں میں درد رہنے لگا ہے اب اور سفر کی تھکان ہے.. " وہ تکلیف سے بولی تھی.. 

نیلم نے جلدی سے پانی لاکر دیا انہیں.. 

اچھا آپ منہ ہاتھ دھو لیں میں چائے بناتی ہوں آپکے لئے.. "نیلم انہیں پانی کا گلاس دیتی بولی.. 

"جیتی رہو شاباش.. اللہ خوش رکھے.. تم رکھو چائے میں زرا ہاتھ منہ دھو لوں.. وہ انہیں ڈھیروں دعائیں دیتی بمشکل کھڑی ہوئی.. نیلم انکا ہاتھ پکڑتی واش روم تک لے گئی.. 

پھپھو بوڑھی ہوگئی ہیں آپ " نیلم ہنستی بولی.. 

یہ تو گھٹنوں کو درد نے ادھ موا کردیا ورنہ میری عمر ہی کیا ہوئی ہے ابھی.. " پھپھو بولی تو نیلم کی ہنسی نکلی تھی.. 

ہاں ہاں اڑا لو مذاق میرا.. "پھپھو اسکے کان کھینچنے بولی.. 

آپ تو ابھی اتنی خوبصورت اور جوان ہیں.. "   مسکا لگاتی بولی.. 

تو پھپھو ہنس دی.. بہت شرارتی نہیں ہوگئی تم" 

🥀🥀🥀

ولی جب آفس آیا تو عروج اپنی کرسی پہ بیٹھی ہوئی تھی سارا دھیان کمپیوٹر کی سکرین پہ تھا.. 

ولی نے اسے ایک نظر دیکھا اور اور اپنے کیبن میں چلا گیا.. 

اسکے جاتے ہی عروج نے سر پکڑا تھا.. اسکو بہت مشکل سے اگنور کیا تھا.. 

گڈ عروج ایسے ہی رہنا اب" اقرا اسے تھمب دکھاتے بولی.. 

اقرا نے بہت مشکل سے اسے سمجھایا تھا.. تبھی آج وہ آفس آگئی.. 

مگر اب ولی کے آنے کے بعد اسکا ایک منٹ بھی رکنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا.. مگر خود کو کمپوز کرتی اپنے کام پہ جت گئی.. 

🥀🥀🥀

ناشتہ کرنے بعد اب وہ دونوں بیٹھی باتیں کرنےگی.. 

نیلی ولی کیسا ہے.. " اور تمہارے اسکا رویہ تو ٹھیک ہےنا " بلقیس پھپھو پیار سے پوچھنے لگی.. 

" وہ کچھ افسردہ ہوئی.. 

کیا ہوا نیلی.. "

" پھپھو پہلے ٹھیک تھا مگر اب" وہ پھپھو کی طرف دیکھتے بیچارگی سے بولی.. 

"اب کیا" 

پھپھو ولی کا باہر چکر چل رہا ہے کسی لڑکی کیساتھ" وہ خوب مظلومیت کا مظاہرہ دکھاتے بولی.. 

" کیا " پھپھو نے تو دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا.. 

" ہاں " نیلم کی تو آنکھیں بھر آئی تھیں.. 

" مگر کب سے چل رہا ہے یہ سب" ولی کو شرم آنی چاہئے اتنی خوبصورت بیوی کے ہوتے باہر خاک چھان رہا ہے.. " وہ تو تپ گئی.. 

"پہلے اتنے اچھے تھے " جب سے وہ لڑکی آئی ہے تب سے خراب ہوگئے " یہ دیکھیں کل کیا میرے ساتھ " اپنی آستین اوپر کرکے بازو پہ انگلیوں کے نشان دکھائے..

ہائے میری بچی " پھپھو نے نیلم کو گلے لگا لیا.. 

اس ولی کو آ جانے دو گھر دیکھنا کیسے سیدھا کرتی ہوں اسے کیا حال بنا دیا بچی کا.. 

"اب پتا چلے گا ولی کو" اپنے آنسو صاف کرتی بولی.. 

خوب مرچ مصالحہ لگا کر پھپھو کو بھڑکا دیا نیلم نے.. 

🥀🥀🥀

وہ اس وقت میٹنگ روم میں بیٹھے تھے.. ولی پریزینٹیشن دے رہا تھا.. میٹنگ میں عروج بھی شامل تھی.. 

ولی سامنے کھڑا تھا اور وہ کرسی پہ بیٹھی تھی ضبط کئے بیٹھی تھی.. ولی پہ ایک نگاہ تک نا ڈالی تھی.. 

ولی کی نظر اس پہ کئی بار گئی تھی جو سنجیدہ اور اداس سی بیٹھی تھی.. 

میٹنگ ختم ہوتے ہی سب چلے گئے وہاں سے.. ولی بھی نکل رہا تھا جب اسکا ٹکراؤ عروج سے ہوا.. وہ اسے دیکھتی ہی جلدی سے آگے نکل گئی.. 

وہ آتے اپنی کرسی پہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی.. 

کیا ہوا تمہیں " اقرا اسکے پاس آتی بولی.. 

یار مجھ سے نہیں ہوتی جاب " میرا سر پھٹ رہا ہے.. وہ نظر آتا ہے تو برداشت نہیں ہوتا " مجھ سے.. وہ قرب سے بول رہی تھی.. 

یار سنبھالو خود کو " کیوں بے وجہ اپنے آپ کو اذیت دے رہی ہو" وہ اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھتی بولی.. 

🥀🥀🥀

ولی اپنی کیبن میں بیٹھا تھا عروج پہ غصہ بہت آ رہ تھا خامخواہ میں تماشہ کررہی ہے"

ایسے شو کررہی ہے جیسے میں نے دھوکہ دیا ہو" 

اتنے میں اقرا اسکے پاس کچھ فائل لے آئی.. 

یہ فائل نہیں تھی " ابھی جو میٹنگ ہوئی ہے اسکی فائل چاہئے.. مس عروج کے پاس ہوگی " وہ اکتا کر بولا.. 

مسٹر ولی آپ نے پھر مجھے کیوں کہا فائل لانے کو.. " وہ تنک کربولی.. 

جائیں فائل لاکر دیں ابھی باس کے حوالے کرنی ہے.. " 

اچھا " کہتی وہ چلی گئی ..

عروج آج کی فائل دو ولی کہہ رہا ہے تمہارے پاس ہے.. " 

ہاں یہ رہی" عروج نے فائل اٹھائی.. 

مس اقرا آپکو باس بلا رہے ہیں ابھی آئیں.. اقرا پریشان سی بولی.. 

یار تم فائل دے آؤ " کہتی وہ چلی گئی.. 

اب عروج سوچ میں پڑ گئی کیا کرے.. 

پھر کچھ سوچتے ولی کے کیبن میں چلی.. 

فائل.. " عروج اسکے سامنے کھڑی تھی اسنے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا.. 

جسکے چہرے تاثرات کافی سنجیدہ تھے بجھا بجھا سا چہرہ.. 

عروج" وہ مڑنے لگی تو ولی نے اسے پکارا.. 

تو وہ اسکی مڑی ..

جی" 

بیٹھو " کرسی کی طرف اشارہ کرتا بولا.. 

تو وہ چپ چاپ بیٹھ گئی.. 

جی بولیں" سرد سا لہجہ تھا.. 

کیوں کررہی ہو ایسا" میری کیا غلطی ہے "میں نے تو تمہیں ایسا کچھ نہیں کہا کوئی اس طرح کا اظہار خیال کیا.. " اس طرح سے شو کروا رہی ہو جیسے میں کوئی وعدہ خلافی کی ہو.. "

آپ نے جھوٹ بولا مسٹر ولی آپ میرڈ ہیں اگر آپ مجھے تب ہی سچ بتا دیتے تو شاید میں اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتی مگر اور میں اپنے جذبات میں بہت آگے نکل آئی ہوں جہاں واپسی ممکن نہیں.. " آنکھیں نم ہوئی تھی کہتے.. 

ولی اس سے نظریں چرا گیا.. 

آئی نو میں نے اپنی شادی چھپائی مگر میرا مقصد تمہارے جذبات سے کھیلنا نہیں تھا.. مگر میں پھر بھی ایکسکیوز کرتا ہوں تم سے.. " تم شادی کرلو " ولی اسے اپنے تئیں مشورہ دیتا بولا.. شاید وہ اس سانحہ کو بھول جائے.. 

ہہم..  تو پھر تم شادی کرو گے مجھ سے " عروج نے بڑی بے باکی کا مظاہرہ کرتے اسے آفر دی.. 

شٹ اپ عروج..  میری زندگی میں صرف ایک ہی لڑکی ہے.. میری بیوی نیلم.. میں بہت محبت کرتا ہوں نیلم سے.. اور اسکے علاوہ میں کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا " جاؤ یہاں سے.. ولی کو طیش آیا تھا.. 

تم اپنی محبت نہیں چھوڑ سکتے تو میں کیسے اپنی محبت سے دستبردار ہوجاؤں ..مسٹر ولی اللہ.. 

تو وہ غصہ میں کہتی کھڑی ہوئی تھی اور وہاں سے نکل گئی.. 

ولی نے غصہ سے پین ٹیبل پہ پٹخا تھا اور سر پکڑ رہ گیا.. 

وہ معاملات سلجھانا چاہتا تھا اور وہ بگاڑ رہی تھی.. 

🥀🥀🥀🥀

ولی شام کو گھر آیا تھا.. 

گھر میں پھپھو کو دیکھ خوشگوار سی حیرت ہوئی تھی... 

انکے گلے جا لگا تھا.. پھپھو بھی خوش ہوتی اس سے ملی تھی.. 

نیلم.. نے اسے پانی لاکر دیا.. 

کیسی ہیں پھپھو آپ بہت دیر بعد چکر لگایا آپ نے".. 

 بس بیٹا اب طبیعت پہلے جیسے نہیں رہی بہت ہمت کر کے آئی ہوں.. " وہ نرم مزاج سے بولی.. 

اچھا پھپھو میں فریش ہو کر آیا.. پھر جوائن کرتا ہوں آپکو .. "

بیگم صاحبہ کپڑے نکالے میرے.. " کھڑا ہوتا نیلم سے مخاطب ہوا جو سامنے کھڑی تھی.. اس نے نا میں سر ہلایا.. 

سر کیوں گھما ر ہی ہو نکالو ہر کام کہہ کر کروانا پڑتا ہے.. " بڑبڑاتے کمرے میں چلا گیا.. 

دیکھا پھپھو کیسے بول رہے ہیں " شکایتی بولی.. 

تو تم نے اسکا کام کر کے رکھنا تھا.. " انہوں اسے ہی سنا دیا.. 

واہ پھپھو نے پارٹی بدل لی" کہتی وہ اسکے پیچھے گئی.. 

ولی اپنی شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا.. جب وہ کمرے میں گئی 

اسے نظر انداز کرتی الماری کی طرف بڑھی.. کپڑے نکال کر بیڈ پہ رکھے.. ولی کی نظریں اسی پہ جمی ہوئی تھی اب وہ شرٹ اتر چکا تھا.. اسکے پاس سے گزر رہی تھی کہ ولی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا.. 

وہ اسکے چوڑے سینے کے ساتھ جا لگی.. 

اسکی کمر پہ دونوں ہاتھ باندھے ہوئے اسکے معصوم چہرے کو دیکھ رہا ..

وہ دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ رکھے فاصلہ بنائے ہوئے تھی.. 

لگتا ہے دماغ ابھی تک ٹھکانے نہیں آیا تمہارا.. شوخ سے لہجہ میں کہتا اسے مزید خود میں بھینچا تھا.. 

چھوڑے مجھے " دماغ تو آپکی پھپھو ٹھکانے لگائے گی" آخری بات اس نے دل میں کہی تھی..

غصہ سے سرخ پڑتی سفید رنگت چھوٹی سی ناک.. گلابی ہونٹ اسے گستاخی پہ اکسا رہے تھے.. وہ اسکی گرفت میں ننھی سی چڑیاں کی مانند پھڑپھڑا نے لگی تھی.. اسکے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی.. اور اپنی گرفت سے آزاد کردیا تھا.. 

ایک سیکنڈ بھی دیر کیا بنا وہاں سے بھاگ نکلی تھی.. اور وہ ہنستا واش روم میں گھسا تھا

نیلم اپنی پھولی ہوئی سانس ہموار کرنے لگی تھی.. 

پھپھو کچن میں تھی.. اپنے آپ کو کمپوز کرتی کچن کی طرف بڑھی تھی.. 

کھانا لگاؤ.. ولی آتا ہے تو پھر اکٹھے ہی کھائیں گے.. " 

کہتے پھپھو نے نیلم کی جانب دیکھا تھا جس کی رنگت حیا سے سرخی مائل ہو رہی تھی.. 

آپ بہت طرف داری کر رہی  ولی کی " وہ خفگی سے بولی.. 

پہلے اسے کھانا تو کھا لینے دو پھر پوچھوں گی" وہ مسکرادی.. 

تو وہ موڈ سے کھانا لگانے لگی.. 

ولی بھی وائٹ ٹی شرٹ کیساتھ ٹراؤز پہنے باہر آیا تھا.. 

وہ دونوں ٹیبل پہ بیٹھی اسکا انتظار کررہی تھی.. 

آؤ بیٹا بیٹھو " پھپھو نے پیار سے کہا تو وہ مسکراتا بیٹھ گیا.. 

اوہ آج تو بہت ہی اچھی خوشبو آ رہی ہے کھانے کی.. 

اپنی پلیٹ میں بریانی ڈالی تھی ..یقیناً یہ سارا کھانا آج پھپھو نے بنایا ہے.. " کہتا منہ چاول کھانے لگا.. 

🥀🥀🥀

بھئی واہ پھپھو مزا آگیا آج آپ کے ہاتھ کا کھانا  کھا کر.. " ورنہ کبھی سبزی میں نمک تیز تو کبھی مرچی تیز..  وہ نیلم کو تپا گیا تھا.. 

بیٹا سیکھ جائے گی وقت کے ساتھ ساتھ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کے تم نیلم کو باتیں سناؤ " پھپھو نے زرا لہجہ تیز کیا.. 

باتیں تو نہیں سنا رہا بس ویسے ہی.. " 

"کیوں بچی کو تنگ کیا ہوا ہے تم نے" وہ تھوڑا رعب سے بولی.. 

میں نے کیا کہا" وہ حیرت سے بولا.. 

کون ہے وہ لڑکی جسکے ساتھ چکر چل رہا ہے تمہارا.. " وہ غصہ سے بولی.. 

کیا" اسنے نیلم کو کڑے تیور سے دیکھا تھا.. جو پھپھو کے پیچھے چھپ کر بیٹھی تھی انکے کاندھے سے سر نکال کر ولی کو دیکھ رہی تھی.. 

یہ بچی کو کیا ڈرا رہے ہو" دیکھو تو سہی کیسے بچی کی رنگت پیلی پڑ گئی ہے.. " 

پیلی رنگت " ٹھیک ٹھاک تو ہے" وہ حیرت زدہ بولا.. 

میں تو سمجھی تھی کوئی خوش خبری ہوگی " افسوس سے سر ہلاتی بولی.. 

"خوش خبری " وہ زیر لب بڑبڑایا 

محترمہ ہاتھ تولگانے دیتی نہیں " وہ بس سوچ سکا.. 

پھپھو کو تم نے پٹیاں پڑھائی ہے نا. " اب کے وہ نیلم کی طرف بڑھا تھا.. 

تم کہہ کر دکھاؤ اسے کچھ بچی ہے تو تم کیا اس بات کا غلط فائدہ اٹھاؤ گے.. " پھپھو درمیان میں آئی.. 

پھپھو جھوٹ ہے یہ سب " وہ لڑکی میری دوست ہے بس" 

پھپھو سن لیا آپ نے کیا کہہ رہے یہ دوست ہے" مگر پھر بھی مجھے جھوٹ کہہ رہا ہے.. "نیلم جھٹ سے بولی

نیلم بات کو غلط رنگ مت دو " اب کے ولی کا اس پہ غصہ آیا تھا..

پھپھو مجھے ماما کی قسم میرا اس لڑکی سے ایسا کوئی تعلق نہیں ہے" نیلم ہی میری بیوی ہے ..اور وہ لڑکی میری آفس کی کولیگ ہے.. بس.. " اسکی طرح اسکا دماغ بھی چھوٹا ہے.. " 

سمجھا دیں اسے بے وجہ باتوں کو بڑھا وا نہیں دیتے ورنہ رشتہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں.. " وہ سیریس ہوتا بولا.. 

پھپھو خاموش رہی.. 

اور تم آؤ کمرے کام ہے چائے لیکر آنا ساتھ میں سر درد کررہا ہے.. 

کڑے تیور سے اسے دیکھتا کمرے میں چلا گیا.. 

نیلم کتنی غلط بات ہے.. " تم بلا وجہ شک کررہی ہو ولی پہ.. 

مگر پھپھو میں  نے خود اس لڑکی کو دیکھا جو.. "

بسس.. نیلم جاؤ کمرے میں.. ولی کے لئے چائے لیکر.. 

پھپھو نے حکم نامہ جاری کیا.. 

میں نہیں جاؤ گی" وہ ضدی لہجہ میں بولی.. 

نیلم.. ابھی ولی تمہارے ہاتھوں میں ہے اسے ابھی سے کنٹرول میں رکھو گی تو یہ تمہارا رہے گا ورنہ مرد دیر نہیں لگاتے بدلنے میں اور ولی ایسا لڑکا نہیں ہے.. 

" کیا تم ولی سے محبت کرتی ہو" پھپھو نے اسکی تھوڑی پہ ہاتھ رکھتے کہا.. 

"تو نیلم نے شرماتے ہاں میں سر ہلایا "

تو پھر جاؤ شاباش" 

چار و ناچار اسے پھپھو کی بات ماننی پڑی.. 

چائے کے ساتھ ہی وہ کمرے میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوئی.. ولی سامنے ہی کھڑا تھا.. 

آجاؤ محترمہ.. " میں جتنا تمہیں نرمی سے پیش آتا ہوں تم اتنا ہی میرے سر چڑھتی جا رہی ہو.. 

نیلم کے تو ہاتھ پاؤں پھولے تھے اپنی ہی شامت کو دعوت دے بیٹھی ہے.. 

ادھر آؤ.. اپنے پاس بلایا تھا.. 

وہ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی اس تک جا رہی تھی.. پنک کلر کا سادہ سا سوٹ پہنے دوپٹہ کو گلے میں ڈالے سنہری بالوں کی چوٹی بنائی.. سرخ سفید رنگت خوف سے پھیلی نیلی آنکھیں.. ولی نے چائے پکڑتے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ تھی.. وہ مڑتی کے اسکا بازو پکڑ چکا تھا.. 

کہاں چل دی تم.. " ہاں کیا کہا تھا پھپھو سے تم نے " اسکا پیچھے لے مروڑ ہوا بولا.. 

سسس "" درد سے سسکی برآمد ہوئی تھی اسکے منہ سے.. 

کک.. کچھ نہی. کہا.. بڑی مشکل سے بولی تھی موٹے موٹے آنسو نکل آئے تھے.. اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگا گیا تھا.. 

بس اب بہت چھوٹ دے دی تمہیں.. 

اسکی گردن پہ تشنہ لب رکھے تھے.. وہ اپنے آپ میں سمٹی تھی.. 

چھوڑیں مجھے.. " ایک دم سے ہوش میں آئی اسکا حصار توڑنے کی کوشش کی.. 

شش" ڈسڑب مت کرو مجھے.. " ویسے بھی اب پھپھو کو دادی بنانا ہے.. سو ریڈی رہو.. 

اسکا رخ اپنی طرف موڑتا شریر سے لہجہ میں گویا ہوا.. 

اسکی بے باک سرگوشی پہ اسکی دل کی دھڑکنوں میں تلاطم برپا ہوا.. 

مم.. مجھے نن..نیند آرہی ہے.. پلیز سونا.. ہے.. معصومیت بھرے لہجہ میں بڑی مشکل سے کہا تھا.. 

ولی کو بے پناہ پیار آیا تھا.. اسکی معصومیت پہ.. 

اسے کاندھے سے پکڑ کر کر بیڈ پہ بٹھایا تھا.. 

نیلم.. " اسکے دونوں مومی ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے پیار سے اسے پکارا تھا.. 

نیلم شرم سے سر جھکا گئی.. وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا.. 

نیلم تم مجھ سے محبت کرتی ہو.. وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتا بولا.. 

نیلم نے نظریں اٹھا کر اپنے مہربان کو دیکھا تھا.. کیوں نا ہوتی اس سے محبت اسی نے تو اسے محبت کرنا سکھایا ہے.. وہ زندہ تو صرف اسی کی وجہ سے تھی اور آج خوش بھی.. کیوں نا ہوتی اس مہربان سے محبت جو اسکا ہمسفر بھی ہے.. 

آپ میرے ہمسفر ہیں.. اور محبت بھی.. کوئی نہیں تھا میرا اس دنیا میں. آپ نے مجھے اپنا کر معتبر کردیا.. 

کہتی وہ اسکے گلے سے لگ گئی تھی.. 

ولی بھی اسکے گرد بازو حائل کرتا مسکرایا تھا.. 

نیلم تم نے میری بے رونق زندگی میں رنگ بھرے ہیں ..

میں  خود میں محسوس کرنا چاہتا ہوں.. 

کیا مجھے اجازت ہے.. اسکے کان کے قریب سرگوشی کی.. 

نیلم نے جھکے سر کو خم کیا تھا.. دل کی دھڑکنیں بے ساختہ تیز ہوئی تھی.. وہ اپنے آپ میں سمٹی تھی.. 

ولی نے اسے اپنی بانہوں میں بھرلیا تھا.. اسے خود میں بھینچے اسے اپنے اندر محسوس کررہا تھا.. 

تمام فاصلے مٹاتے وہ اسکے وجود کو اپنے نام کر گیا.. وہ پیار بھرے لمس سے اسے باور کرا گیا وہ صرف ولی کی ہے .آج اس پہ اپنے پیار کی مہر لگا کر اسکے وجود کو فتح کردیا .. آج کی حیسن شب دو پیار کرنے والے ہمسفر کے نام ہوئی ..آج تو چاند بھی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا..

صبح نیلم کی آنکھ نو بجے کھلی تھی وہ بیڈ پہ اکیلے لیٹی تھی ولی آفس جا چکا تھا..

وہ اس وقت ولی کی شرٹ پہنے ہوئے تھی.. 

رات کا حسیں منظر آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلا تھا.. تو شرما گئی..

کیسے ولی نے اسے خود میں سمو لیا تھا اپنی بے تابیوں اور شدتوں سے اسے باور کروا گیا اسکے آغوش میں گزارے ہوئے اپنی خوبصورت شب کے پل اسکی نئی زندگی کا آغاز اپنے ہمسفر کے سنگ.. 

اسکی شدتوں کو سہتے نڈھال سی ہوگئی تھی صبح پتا بھی نا چلا کب وہ اٹھا اور چلا گیا.. وہ بمشکل بیڈ سے اتری تھی اور واشروم میں بند ہوئی.. 

 شاور لیکر فریش سی باہر آئینہ کے سامنے آئی اپنے آپ کو دیکھا تو خود کو دیکھنے لگی ولی اس پہ اپنا رنگ چڑھا چکا تھا آج وہ خود کو الگ ہی نظر آئ سنہری گیلے بالوں میں برش پھیرے سیدھا کئے.. 

 کمرے سے باہر وہ پھپھو کے پاس آئی.. اسکا نکھرا نکھرا سا وجود دیکھ پھپھو مسکرائی.. وہ شرم سے نظریں جھکا گئی تھی.. 

 ناشتہ بناؤں اپنی بیٹی کے لئے.. اس نے ہاں میں سر ہلایا تھا.. 

 یہ موبائل ولی دے کر گیا ہے کہا تمہارا ہے" پھپھو نے اسکی طرف موبائل بڑھایا وہ وہی موبائل تھا جو اس دن ولی نے اسے دیا تھا دوبارا اس نے موبائل کو ہاتھ لگانے کی زحمت ہی نہیں کی.. 

پھپھو اسے موبائل دیے کچن میں چلی گئی.. 

ابھی وہ موبائل چلا رہی تھی جب موبائل رنگ ہونے لگا ولی نام جگ مگا رہا تھا اسکرین پہ.. 

ہچکچاتے موبائل کان کیساتھ لگا گئی.. 

ولی اپنے کیبن میں بیٹھا تھا.. نیلم کا خیال آیا سوچا اسکا حال چال کرلے صبح جلدی میں وہ آفس آیا تھا ..

عروج بھی تھی آج آفس میں.. مس عروج ولی سے بلو کلر والی فائل لے آئیں اٹس ارجنٹ.. " سی او نے کہا تو اسے جانا پڑا ..

ابھی وہ اسکے پاس پہنچی تھی جو وہ چیئر کا رخ دوسری طرف موڑے فون پہ باتوں میں مصروف تھا.. وہ اسے بلانے والی تھی کے اسکی باتوں کو سنتے چپ ہوگئی.. 

تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا.. صبح جلدی میں تھا اس لئے تمہیں نہیں جگایا.. 

جی.. ٹھیک ہوں.. نیلم نے ہلکی سی آواز میں کہا.. 

اچھا..  رات کو تمہیں کچھ زیادہ ہی تنگ کردیا تھا..طبیعت ٹھیک ہے نا تمہاری " وہ مسکراتا بولا.. 

ہہہم.. نیلم کے منہ سے مارے شرم کے کوئی الفاظ نکل نہیں رہے تھے.. 

تھینکس نیلم میری زندگی کو خوبصورت بنانے کیلئے.. آئی لو یو سو مچ.. "

مسٹر ولی باس فائل منگوا رہے تھے کائنڈلی آپ فائل دیں دے.. عروج سے مزید نا سنا گیا تو بول پڑی.. 

ولی ویسے ہی مڑا تھا.. موبائل کان کیساتھ لگا ہوا تھا.. فائل اٹھا کر اسکی طرف بڑھا دی.. 

عروج نے جلدی سے فائل لی اور تیزی سے نکلی تھی وہاں.. مارے ضبط کے چہرہ سرخ ہوا تھا.. 

ولی نے اپنی بات جاری رکھی نیلم کے ساتھ.. 

🥀🥀🥀

نیلم نے ولی سے بات کرکے فون کاٹ دیا تھا کہ پھپھو ناشتہ لیکر حا ضر ہوئی تھی.. 

بیٹا ایک بات سمجھ لو ولی تمہارا شوہر ہے اسکے اور اپنے درمیان کسی بھی غلط فہمی کو دور کرنا ہے ناکہ اسے بات کا پتنگڑ بنانا.. وہ تو ولی سمجھدار ہے جو تمہارے ساتھ نہایت سمجھداری سے چلا ہے.. تم ابھی چھوٹی ہو اسکی تمہیں سیکھنے میں وقت لگے گا کہ رشتہ کا کیسے سنبھالا جاتا ہے تمہارے سر پہ ذمہ داری کا بوجھ بہت جلدی پڑ گیا ہے.. مگر اب تم ایک بیوی کے مقام پہ فائز ہو تمہیں شوہر کے معاملے بہت حساس طریقہ سے چلنا ہے.. بے جا شک شوہر کو تم سے بد ظن کر سکتا ہے کوئی بھی بات ہو پہلے اسے خود بات چیت سے سلجھانا ہے.. شک رشتوں میں دراڑ ڈال دیتا ہے.. 

پھپھو نے بڑے طریقہ سے اسے سمجھایا تھا.. 

 جی پھپھو اس نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا.. 

🥀🥀🥀

عروج اپنی کرسی پہ آکر بیٹھی تھی.. ولی کا اس طرح سے اظہار محبت کرنا کسی اور کے ساتھ اسکی برداشت سے باہر تھا.. اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی.. 

سر درد سے پھٹ رہا تھا ..

آر یو اوکے عروج " اقرا اسکی حالت بولی تھی..

یار مجھے ولی چاہئے.. " میں اسے کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتی.. " 

شٹ اپ " اقرا کو غصہ آیا تھا اس پہ.. 

تمہیں ایک بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے وہ تمہارا نہیں ہے.." میرڈ ہے اور اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے.. " انکل سے کہتی ہوں شادی کروائے تمہاری جلد از جلد کسی سے بھی. " وہ اس پہ غصہ کرتی بولی.. 

تم نہیں سمجھ سکتی میرے جذبات کو تمہیں تو تمہاری

محبت مل گئی ہے.. وہ اداسی سے بولی تھی.. 

اقرا نے نفی میں سر ہلایا مزید اسکی بات کوئی جواب نہیں دیا.. 

🥀🥀🥀🥀

ولی عروج کے بارے سوچ رہا تھا جب وہ کال پہ بات کررہا تھا تو اسنے اسکی باتیں سنی تھی.. اور اسکے چہرے سخت تاثرات بتا رہے تھے کہ اسنے اسکی باتیں سن لی ہیں.. 

وہ سوچ رہا تھا اپنے اور نیلم کے آنے والے مستقبل کے بارے میں وہ کسی تیسرے بندے کو اپنے درمیان نہیں برداشت کرے گا.. اس لیے اس نے اپنے لیے نئی جاب تلاش کرنے کا فیصلہ کیا... 

🥀🥀🥀

شام کو ولی جلدی گھر آیا تھا.. 

اسلام علیکم پھپھو.. 

وعلیکم السلام " جیتے رہو.. 

ولی نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائیں.. پھپھو سمجھ گئی وہ نیلم کو ڈھونڈ رہا.. 

نیلم  کمرے میں ہے.. " پھپھو نے مسکراتے کہا ..

اچھا میں چینج کر کے آیا.. ولی اٹھ کر کمرے میں آگیا.. 

نیلم شیشہ کے سامنے اپنے بال بنا رہی تھی پھپھو کے مطابق اسے شوہر کے آنے سے پہلے تیار رہنا چاہئے اسی بات پہ عمل کرتی اس نے مہرون رنگ کی فراک پہنی تھی ہلکا سا میک اپ کئے.. اب اپنے سنہری بالوں کو سلجھا رہی تھی جب ولی نے پیچھے سے اسے بانہوں میں بھرا تھا.. 

ایک دم سے وہ گھبرائی مگر ولی کا لمس پاتے پرسکون ہوئی شرمیلی سی مسکان چہرے پہ آئی تھی.. 

ولی نے اسکے بالوں میں منہ چھپایا تھا.. اسکے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی سی مہک اسے محسور کررہی تھی ..

اسکا رخ اپنی طرف موڑ لیا تھا ماتھے سے اسکا ماتھا ٹیکاتے.. 

مائے سویٹ ہارٹ ایک ہی دل میرا.. ہر بار تم پہ ہی آجاتا ہے.. 

شریر سے لہجہ میں کہتا اسکے ماتھے محبت کی ثبت کی تھی.. 

آپ چینج کرلیں.. چائے لاؤں آپکے لئے.. فرمانبردار بیویوں والا رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا.. 

نہیں میں چینج کرتا ہوں اور ہم  باہر چلتے ہیں ..

ولی اسکی گال پہ بوسہ دیتے واشروم چلا گیا.. 

دونوں ایک ساتھ تیار کمرے سے باہر نکلے تھے.. 

پھپھو نے انہیں ایک ساتھ دیکھ دعائیں دی کتنے خوبصورت لگ رہے تھے دونوں ایک ساتھ.. 

پھپھو ہم باہر جا رہے ہیں آپ بھی چلیں نا ہمارے ساتھ.. 

ولی انکے سامنے آتا خوش اخلاقی سے بولا.. 

ارے نہیں بیٹا مجھ سے کہاں چلا جائے گا تم دونوں جاؤ.. یہ تمہارے دن ہیں گھومنے پھرنے کے.. انہوں خوش ہوتے کہا.. اور ولی نیلم کا ہاتھ تھامے باہر کی طرف چل دیا.. 

آج نگہت بہت خوش ہوگی اسکے دونوں بچے آپس میں خوش اور راضی ہیں.. بلقیس نگہت کو یاد کرتے آبدیدہ ہو گئیں..

🥀🥀🥀

عروج مجھے لگتا ہے تم سائیکو ہوگئی ہو.. 

جب وہ تم سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتا کیوں اسکے پیچھے پڑی ہو.. 

اقرا اسکے پاس بیٹھتی بولی.. وہ اس وقت اسکے گھر تھی.. 

اقرا وہ میری محبت ہے کیسے دستبردار ہوجاؤں میں اس سے.. 

تم پاگل ہو" اقرا بولی.. 

ہاں میں پاگل ہوں جو ابھی بھی اس سے پیار کرتی ہوں.. وہ دیوانہ وار بولی.. 

اقرا چڑ گئی تھی اسکی باتوں سے تو اب..

یہ تمہاری محبت نہیں ضد ہے سچ تو یہ کہ تم ولی سے ضد لگا بیٹھی ہو بس.. " وہ کہتی رکی نہیں تھی.. 

عروج کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے اب.. 

🥀🥀🥀

وہ اسے لئے ساحل سمندر میں آیا تھا شام کا وقت تھا ٹھنڈی ہوا بہت بھلی لگ رہی تھی ولی اسکا ہاتھ تھامے ساحل پہ چل رہا تھا.. 

نیلم تم نے میری زندگی کو نئی رونق بخش دی ہے.. بہت ٹوٹ چکا تھا میں.. پہلے ماما پاپا ایک ساتھ چھوڑ کر چلے گئے.. پھر دادا پھر ہمیں پالنے والے ماما بابا.. 

ماما کے جانے سے بہت ٹوٹ گیا تھا.. 

تم سے نکاح کرنے کے بعد تمہارے لئے کچھ اور ہی سوچا تھا میں نے مگر تمہارے ساتھ رہتے ہوئے دل تمہارا گرویدہ بنا.. تمہاری قربت میں سکوں ملا مجھے.. تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بعد خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ تم جیسا لائف پارٹنر ملا مجھے.. بس تھوڑی سی نکمی ہے.. باقی سب ٹھیک ہے.. آخری بات اس نے شرارت سے کہی اسے دیکھتے.. 

نیلم نے اسے آنکھیں دکھائیں..

مگر پھر اسکے کاندھے کے ساتھ سر ٹکا لیا.. 

ولی آپ نے مجھے عزت دی ہے مان دیا ہے.. سچ تو یہ ہے کے ماما کے جانے سے میں بھی بہت ٹوٹ گئی تھی مگر آپ نے بہت حوصلہ دیا ہے آپ ہی کی وجہ سے میں مجھے زندگی جینے کا حوصلہ ملا.. آپ کے ساتھ میں کو بھی برداشت نہیں کرسکتی مجھ میں حوصلہ نہیں. آپکو کھو دینے کا.. 

آئی لو یو ولی.. " بڑے ہی معصومیت سے اظہار کیا تھا نیلم نے.. 

ولی کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری تھی ولی نے اسکی رخسار پہ بوسہ دیا اور اپنے سینے میں بھینچ لیا تھا.. 

🥀🥀🥀

رافع نے ولی سے رابطہ کر کے ارمان کے بارے میں سب ڈیٹیل لی.. 

اور پھر ولی کے ساتھ ارمان سے ملاقات کی بھی ارمان نے رافع کو ہر طرح سے مطمئن کردیا تھا.. 

پھر اسے اپنے گھر مدعو کیا کہ وہ باقاعدہ رشتہ لیکر آئے.. 

ہر طرح سے تسلی کرنے کے بعد انہوں نے رشتہ کے لئے ہاں کردی.. 

🥀🥀🥀

مبارک ہو تمہیں تیری بات پکی ہوگئی.. 

ارمان اس وقت ولی کے گھر تھا.. ولی نے اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھتے خوش ہوتے کہا.. 

نیلم جلدی چائے اور کچھ کھانے پینے کو لاؤ ارمان آیا ہے.. 

نہیں یار سسرال والوں نے ہی پیٹ بھر دیا میرا.. ارمان بولا.. 

اب تو پہلی بار آیا ہے میرے گھر کچھ تو لینا پڑے گا نا.. ولی ہنستے بولا.. 

ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر میرے سسرال والوں نے ٹھیک نہیں کیا میرے ساتھ لڑکی نہیں دکھائی انہوں نے.. وہ دہائی دیتا بولا.. 

تھوڑی دیر بعد نیلم کچن سے باہر آئی ہاتھ میں ٹرے پکڑے.. 

ارمان نے جب نیلم کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ جب چھوٹی سی تھی تب بھی اتنی خوبصورت تھی اب تو وہ پہچان میں بھی نہیں آ رہی تھی.. 

لال کلر ہلکا کام والا سوٹ پہنے سر پہ دوپٹہ ٹکائے لال گلابی رنگت نیلی آنکھیں.. وہ کوئی پری ہی لگی تھی ارمان کو.. 

اسلام علیکم ارمان بھائی.. " نیلم نے مسکراتے کہا

وعلیکم السلام.. ماشاللہ چھوٹی سی تھی نیلی اب دیکھو پہچان میں بھی نہیں آ رہی.. ارمان بولا.. تو وہ دونوں مسکرائے.. 

یہ جلاد تو خون سکائے رکھتا تھا تمہارا اب تو ٹھیک ہے نا.. ارمان نے ہنستے کہا.. 

اب یہ بہت اچھے ہیں.. نیلم نے معصومیت سے کہا.. 

نیلم یار تمہاری دوست نہیں ملی اسے اچھا نہیں کیا.. ولی نیلم سے بولا.. 

وہ اس لئے کے ارمان بھائی ابھی اجنبی ہیں.. صرف بات ہی پکی ہوئی ہے اور وہ لوگ اس معاملے میں زرا سخت ہیں.. نیلم نہایت سمجھداری سے جواب دیا.. 

بات تو ٹھیک کی ہے نیلم نے ولی نے بھی اسکی سائیڈ لی.. 

چل بات تو پکی ہوگئی ہے اب جلد از جلد نکاح کی بات کرو ان سے میری.. ارمان نے کہا.. 

اتنی جلدی.. نیلم بولی 

یار مجھے اگلے مہینے واپس جانا ہے اور میں اکیلا نہیں جاؤں گا.." پلیز اتنا کردیا ہے تو آگے بھی کردے ..ارمان منتیں کرتا بولا اور مسکین سی شکل بنا لی نیلم کو تو ہنسی آئی تھی.. 

چلیں آپ لوگ کریں باتیں میں کرن کے پاس جا رہی ہوں " نیلم کہتی چلی گئی وہاں سے 

کچھ دیر بعد وہ کرن کے پاس بیٹھی تھی.. 

اور سناؤ پھر ہوگئی بات پکی تمہاری بھی.. نیلم کرن کو چھیڑتے بولی.. 

ہاں ہوگئی.. "

لڑکا کیسا ہے دیکھا تم نے" نیلم نے جان بوجھ کر کہا جبکہ اسے پتا تھا.. 

نہیں دیکھا نا بھائی نے منع کیا تھا ابھی سامنے نہیں آنا.. 

میں نے چھپ کر دیکھ نے کی کوشش کی مگر پھر بھی نہیں دیکھ پائی بس بیک ہی دیکھ سکی" وہ افسوس سے بولی.. 

اچھا نام کیا ہے ہمارے جیجو کا" نیلم نے اسے دیکھتے مسکراتے کہا جو نام کے نام سے شرما گئی.. 

ارمان نام ہے.. تمہیں یاد ہے ارمان ولی بھائی کے دوست بھی تھے..

کون " مجھے یاد نہیں آ رہا " وہ سوچنے کی ایکٹنگ کرتی بولی.. 

یاد کرو نا جنہیں ولی بھائی نے گھر سے نکال دیا تھا.."

کرن نے اسے یاد کروانے کی کوشش کی

ہاں ہاں آ گیا یاد وہ ارمان بھائی تمہیں یاد ہے" نیلم اسکے سامنے بنتی بولی.. 

ہاں یاد ہے .. مجھے وہ بھولے نہیں .. دل میں کہیں نا کہیں انکے آنے کا انتظار تھا.. وہ نا سہی کوئی اور سہی" سب بات قسمت کی ہے " وہ ارمان کو یاد کرتی بولی جبکہ وہ ابھی تک اس بات سے انجان تھی کہ یہ ارمان وہی شخص ہے.. 

تم واقعی لکی ہو کرن یہ والے ارمان بھی تمہیں پسند آئیں گے" نیلم مسکراتی بولی.. 

🥀🥀🥀

اگلے دن ولی نے ارمان کا پیغام انہیں پہنچا دیا کہ.. شادی اگلے مہینے کرنی ہے کیونکہ ارمان واپس چلا جائے گا اور ساتھ میں کرن کو بھی لے جائے اس لئے وہ اگلے ہفتہ نکاح کرلیں تاکہ کرن کے باہر جانے کیلئے پیپرز بنوالے گا پندرہ دن کے اندر.. 

ایک دن کے سوچ بچار کے بعد انہوں نے ہاں کردی نکاح کیلئے.. 

🥀🥀🥀

ولی پلیز میری بات سن لیں " ولی استعفیٰ دے کر آج آفس سے جارہا تھا آج اسکا اس آفس میں آخری دن تھا.. 

عروج سے برداشت نا ہوا تو اسکے پیچھے دوڑی جب وہ باہر نکل رہا تھا.. 

جی مس عروج " وہ اسکی طرف پلٹا اور سرد سے لہجہ میں بولا.. 

آپ میری وجہ سے یہ جاب چھوڑ رہے ہیں.." وہ دکھ سے بولی

میرا یہاں سے چلے جا نا ہی بہتر ہے " کیونکہ آپ اس طرح اپنی لائف میں آگے نہیں بڑھ پائیں گی.. پلیز اپنے بابا کا سوچیں انہیں کیوں تکلیف دے رہی ہیں اپنی بے جا ضد کو چھوڑ کیوں نہیں دیتی "

وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تحمل سے بولا.. 

بہت کوشش کی ہے خود کو سمجھانے کی مگر مجھ سے نہی. ہوتا برداشت پلیز ولی مجھے چھوڑ کر مت جاییں" وہ اسکی منتیں کرنے لگی.. 

اور ولی اسکو اسکے حال پہ چھوڑ کر چلا گیا.. 

🥀🥀🥀

آج کرن کا نکاح ہے سب تیاریاں مکمل ہے.. 

گھر میں نکاح کا ایونٹ تھا آنگن میں ہی سجاوٹ کی گئی تھی پھولوں کی اور سامنے صوفہ رکھا گیا تھا.. 

کرن دلہن بنی تیار بیٹھی تھی اس وقت کمرے میں گھر میں تمام رشتہ دور موجود تھے اور اسکی کزنز بھی آئی ہوئی تھی  کرن کو سب سے زیادہ انتظار نیلم کا تھا جو ابھی تک نہیں آئی تھی.. کچھ دیر بعد لڑکے والے کے آنے والوں کی اطلاع ملی.. 

لڑکے والے آگئے " ایک لڑکی وہاں کہتی آئی.. 

ارمان کیساتھ ولی اسکی پھپھو.. نیلم اور کچھ دوست حضرات اور بھی تھے. 

نیلم کرن کے پاس آئی جلدی.. 

واؤ کتنی پیاری لگ رہی ہو.. " آف وائٹ فراک پہنے ساتھ ریڈ دوپٹہ لئے ہلکی سی جیولری پہنے نفیس سا میک اپ کئے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی.. 

جاؤ میں نہیں کرتی بات تم سے اب آئی ہو " کرن ناراض ہوتی بولی.. 

سوری مگر میرے پاس سرپرائز ہے تمہارے لئے.. " نیلم اسکے پاس بیٹھتی بولی.. 

کیسا سرپرائز" کرن بولی.. 

کچھ دیر بعد دکھاؤں  گی.. ابھی وہ باتیں کررہے تھے جب رافع مولوی صاحب اور ولی اور ساتھ میں کچھ بڑے بزرگ تھے.. 

نیلم کرن کے دوسری سائیڈ بیٹھ گئ اور نکاح پڑھانا شروع کیا مولوی صاحب نے.. پہلے  کرن سے ایجاب و قبول کیا اور پھر یہی عمل ارامان کے ساتھ دہرایا گیا.. 

اور یوں دونوں نکاح جیسے خوبصورت بندھن میں منسلک ہوگئے.. 

کرن بہت گھبراہٹ کا شکار تھی.. دل کی دھڑکن تیز ہی یو رہی تھی.. جیسے جیسے اپنے دلہے سے ملنے کا وقت قریب آ رہا تھا.. 

تھوڑی ہی دیر آرڈر ملا کے دلہن کو باہر لایا جائے.. 

چلو کرن تمہارا سرپرائز تمہارے دلہے میاں ہیں.. نیلم اسکا بازو تھامے آہستگی چلتے ہوئے اسے کمرے سے باہر لائی تھی.. باہر آنگن میں جہاں تمام مہمان موجود تھے.. سامنے صوفہ پہ ارمان براجمان تھا وائٹ کاٹن کا سوٹ پہنے ساتھ بلیک ویسکوٹ پہنے ہوئے ہینڈ سم لگ رہا تھا.. اسکے ساتھ ولی بھی کھڑا تھا اس وقت وہ بھی وائٹ کاٹن کا سوٹ پہنے ہوئے..  

کرن نے جھکی نظریں اٹھائی تھی سامنے اپنے دلہے کو دیکھ دنگ رہ گئی.. سامنے ارمان کھڑا تھا.. 

یہ تو وہی ارمان ہے ولی بھائی کے دوست.. کرن نے ہلکی سی آواز میں نیلم سے کہا.. 

ہاں.. کیسا لگا سرپرائز..  نیلم نے اسکے کان قریب ہوتے کہا.. وہ بھی اس وقت اوف وائٹ لانگ فراک پہنے ہوئے تھی کانوں میں بھاری آوازے ہلکا سا میک اپ کئے ہوئے بہت پرکشش نظر آرہی تھی.. 

آہستہ آہستہ چلتے وہ اسکے قریب آئی..  کرن کو ارمان کے ساتھ ارمان کے ساتھ بٹھایا گیا.. وہ تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر بیٹھی تھی.. جسے ارمان نے کھسکتے ختم کردیا.. 

کیسی ہو جان من.. ارمان اسکے کان کے قریب سرگوشی کی.. وہ پہلے ہی اتنا گھبرا رہی تھی.. تھوڑا سا چہرہ موڑ کر اسکی جانب دیکھا تھا ا.. اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا اس نے اپنی محبت پا لی ہے.. ان دونوں کے درمیان ایسی کوئی بات بھی نہیں ہوئی تھی مگر انکا رشتہ دل کا تھا.. 

شرم سے نظریں جھکا گئی.. 

وہ اسکی بے باک سرگوشیوں سے اسکا چہرہ گلنار ہوا تھا.. پھر موقع کا فائدہ اٹھاتے ارمان نے اسکا ہاتھ تھام لیا تھا.. 

چھوڑے کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا.. ہلکی آواز میں اپنا ہاتھ چھڑاتے بولی.. 

تو ارمان نے چھوڑ دیا.. لوگوں کا بہانہ ہے زرا آؤ تو سہی میری دسترس میں پھر نہیں چھوڑوں گا.. اسکے گال دھک اٹھے تھے اسکی معنی خیزی سرگوشی سے.. 

کھانے کا دور شروع ہوا پھر سب مہمان اپنے گھر کو ہوئے رات کافی ہو رہی تھی..کرن بھی اٹھ کر کمرے میں آگئی تھی.. 

سب سے ملتےارمان بھی وہاں نکلا تھا.. 

نیلم کرن کے پاس بیٹھی.. 

اور سناؤ کیسا لگے پھر ارمان بھائی.. وہ شرارت سے بولی.. 

تمہیں پہلے سے پتا تھا نا" وہ اسے آنکھیں دکھائی بولی.. 

ہاں پتا تھا تمہارا رشتہ ارمان بھائی کیلئے میں ہی تو لائی تھی.. وہ ہنستے بولی.. 

کتنی وہ ہو تم اور مجھے بتایا بھی نہیں.. وہ حیرت اور خفگی سے بولی.. 

ارمان بھائی ایک مہینہ پہلے پاکستان آئے تھے تم سے شادی کرنے کے لیے ولی سے رابطہ کیا اور پھر انہوں مجھے تمہارے گھر بھیج دیا.. اور پھر آگے کی کہانی تمہیں پتا ہے.. 

نیلم کو ولی نے پیغام بھیجا کے باہر آجائے گھر جانا ہے.. 

تو وہ کر باہر چلی گئی..

کرن کا اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا.. اسکا ہمسفر اسکا ارمان ہوگا جسے دل ہی دل میں وہ یاد کرتی تھی

ولی کے بلانے پہ نیلم باہر آئی تو وہ دروازے کے باہر کھڑا اسکا انتظار کررہا تھا.. 

میڈم اب گھر آجاؤ.. " 

جی میں بس آ ہی رہی تھی "وہ اسکی طرف بڑھتی ہوئی بولی.. 

سامنے ہی وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے.. 

کمرے میں آتے ہی نیلم نے اپنا دوپٹہ اتار کر سائڈ پہ رکھا.. کانوں میں پہنے بھاری آوازے اتارے تھے.. کانوں میں درد ہوگیا تھا.. 

اب اسکا رخ چینج کرنے کیلئے واش روم کی طرف تھا.. 

وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ والی آگیا کمرے میں 

"تم کدھر.. " اسکا ہاتھ تھامے اپنی جانب کھینچ لیا.. 

وہ اسکے چوڑے سینے کے ساتھ جا لگی تھی.. 

چینج کرنے" دھیمی سی آواز میں کہا..

میں نے ابھی تمہیں ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں اور چلی چینج کرنے.. " وہ اسے اپنے ساتھ لگائے بولا.. 

اتنی رات ہوگئی ہے پلیز سونے دیں" وہ ملتجی نظروں سے دیکھتے بولی.. 

تو ولی نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا.. 

نو مسز ولی.. آج مری مرضی چلے گے..وہ اسے بیڈ پہ لئے آیا تھا.. 

اپنی محبت سے اسکے وجود کو خود میں سمو لیا تھا.. 

🥀🥀🥀

ٹھیک پندرہ دن بعد کرن کی رخصتی رکھی گئی تھی اور آج وہ دن آن بھی پہنچا تھا.. 

پورے دھوم دھام سے رخصتی ہوئی تھی.. 

ولی کرن کو لئے اپنے فلیٹ پہ آیا تھا جو کچھ دن کے لئے اس نے کرایہ پہ لیا ہوا تھا.. 

وہ اکیلا تھا یہاں.. اس لیے خالی گھر نے انکا استقبال کیا تھا.. 

وہ سجی سنوری دلہن بنی کرن کا ہاتھ تھامے اپنے کمرے میں کی طرف بڑھا تھا کمرا بہت خوبصورت طریقہ سے سجایا ہوا تھا تازہ گلاب کے پھولوں سے کمرہ مہک رہا تھا.. 

کرن سر جھکائے اسکے ساتھ تھی.. 

تو فائنلی تمہیں اپنے پاس دیکھنے کا خواب پورا ہو ہی گیا امید نہیں تھی تم اتنی آسانی سے مل جاؤ گی.. 

پاکستان تو صرف تمہاری محبت میں کھنچا چلا آیا تھا.. 

تو جان من ..کیا تمہیں بھی میرا انتظار تھا یا بھولی بیٹھی تھی وہ سے لیے بیڈ پہ آیا تھا.. 

کیوں کرتی میں تمہارا انتظار " تم کونسا کسی ریاست کے شہزادے ہو.. " وہ تیکھی سے انداز میں بولی تھی .. 

اوہ.. ارمان نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنساتے اسکے سجے سنورے روپ کو اپنے بلکل سامنے کیا تھا.. 

شدت سے ان سرخ ہونٹوں پہ جھکا تھا.. کرن نے حنائی ہاتھوں سے اسکے سینہ مکے برسانے لگی تھی.. 

مگر وہ اپنی مرضی سے پیچھے ہوا تھا.. 

اپنی محبت سے اسکے وجود کو اپنے نام کرگیا تھا.. 

🥀🥀🥀

ولی کی نئی جاب شروع ہوچکی تھی ہفتہ ہو گیا تھا اسے یہاں کام کرتے بہت اچھی پوسٹ پہ اسکی جاب لگی تھی کمپنی کی طرف سے اسے گاڑی بھی ملی تھی

تھری پیس سوٹ پہنے پینٹ کوٹ پہنے ٹائی لگائے وہ بہت ہی ہینڈسم اور پرکشش نظر آ رہا تھا

اپنے آفس می بیٹھا کام کررہا تھا.. جب اسکا انٹر کام بجا ییس.. ولی نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا

مسٹر ولی آپ زرا آفس میں آئے گے.. وہاں کی باس کی بیٹی پریشے نے اسے اپنے آفس میں بلوایا 

مے آئی کم ان میم

ییس کمہیو آ سیٹ  پریشے نے خوش اخلاقی سے پیش آئی 

میم پریشے کوئی کام تھا  ولی مسکرا کر بولا

نو میم جسٹ پریشے  پریشے نے اسکی درستگی کی

آپ کو کوئی کام تھا 

ہاں ام تھاوہ مسکراتی بولی.. سرخ سفید رنگت براؤن آئیز چھوٹی سی ناک مسکراتی تو وہ دلکش لگی

آپ کے گھر کون کون ہیں.. آئی مین آپکی فیملی" اسکی آنکھوں میں کچھ اور ہی چمک تھی

میں اور میری وائف نیلم  ولی سمائل کرتے کہا 

آر یو میرڈ پریشے شاک ہوئی 

ییس آئی ایم ہیپیلی میڑڈاینی پروبلم.اسنے آئیبرو اچکاتے پوچھا

آپ نے میرا دل ہی توڑ دیا وہ دل کے مقام پہ ہاتھ رکھتے افسردہ ہونے کی ایکٹنگ کرتی بولی

مے آئی گو  ولی کھڑا ہوتا بولا

ییس پریشے بولی اور وہ چلا گیا

افف کتنا ہینڈسم اور وائف سے لاوئل بندا ہے ورنہ مجھ سے جھوٹ بھی بول سکتا تھا.. اسکے جاتے ہی پریشے بولی تھی 

دو سال بعد

آج نیلم اداس سی بیٹھی تھی بیڈ پہ اسکے ساتھ ولی بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پہ کام کررہا تھا 

نیلم کی خاموشی کو نوٹ کرتا ہوا بولا

کیا ہوا مسسز آج بولتی کیوں بند ہے 

آج کرن کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے. اسنے دھیمے سے کہا

تو تمہیں خوش ہونا چاہئےپھر یہ منہ لٹکا ہوا کیوں ہے.. سائیڈ ٹیبل سے کافی کا مگ اٹھا کر سیپ لیا تھا اسکی سنتے بولا

کرن کیلئے میں تو خوش ہوں دو سال سے پاک واپس ہی نہیں آئی ماشاللہ بہت خوش ہے

مگر سب مجھ سے پوچھتے ہیں وہ سامنے دیکھتے اداسی سے بولی

اب سب نے تم سے کیا پوچھ لیا.. اب وہ اسکی طرف پورا متوجہ ہوا

میں خوش خبری کب سناؤ گ اب یہ میرے بس میں تو نہیں ہے. وہ اسکے کاندھے پہ سر رکھتے بولی

تم خود ابھی بچی ہو چپ چاپ اپنی پڑھائی پہ توجہ دو لوگوں کی فضول بکواس پہ توجہ مت دو اچھا ہے تم ابھی یہ ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی ہو. وہ کافی کا سیپ لیتا نارمل سے انداز میں بولا

میں سنبھال سکتی ہوں یہ ذمہ داری بھی.. آپ

بسس.. وہ اسکی منہ پہ انگلی رکھ گیا.. میں ابھی صرف تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں میں نہیں چاہتا کوئی تیسرا ہمارے درمیان  آئے اور ہماری پرائیویسی ڈسٹرب کرے".. وہ اسکے قریب آتا سرگوشی کے انداز میں بولا

مطلب کے آپکو بے بی نہیں چاہیےوہ. معصومیت سے اسے دیکھتی بولی

بے بی کی کیا ضرورت ہے ابھی تم جو ہوبےبی وہ اسکی ناک دباتا پیار سے بولا تھا

تو وہ ہنس دی 

" بس یونہی ہنستی مسکراتی رہا کرو" وہ اسے خود میں بھینچ گیا

وہ صبح آفس جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا جب نیلم کچن میں اسکے لئے ناشتہ بنا رہی تھی 

تم بھی کرو ناشتہ بیٹھو

نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا.ناشتہ کو دیکھ کر وہ اکتا کر بولی 

اب یونیورسٹی کیا بھوکی جاؤ گی.یہ لو چائے پی لو

وہ چائے کا کپ اسکی طرف بڑھاتے بولا

عجیب سی فیلنگ ہو رہی تھی اسکی بڑی مشکل سے چائے کے دو سیپ لئے تھے.. کہ منہ ہاتھ رکھ کر واش روم بھاگی

وومٹنگ کر کے نڈھال سی باہر آئی.. ولی تو پریشان ہوگیا تھا اسکی یہ حالت دیکھ ولی نے اسے پکڑ کر چیئر پہ بٹھایا تھا

نیلم آر یو اوکے چلو ڈاکٹر کے پاس " پریشانی سے بولا تھا

وہ سر تھام کے رہ گئی.. سر چکرانے لگا تھا

ولی اسے کاندھے سے پکڑتا باہر آیا اسے گاڑی میں بٹھا کر کلنک کی طرف نکل پڑا تھا

کچھ ہی دیر میں وہ ڈاکٹر کے پاس تھے

ڈاکٹر اسکا چیک اپ کرکے باہر آئیں

ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے.. " ولی پریشانی سے بولا

ٹینشن کی کوئی بات نہیں ہے بس بی پی لو ہوگیا تھا.. ناؤ شی از فائن ایسی کنڈیشن میں اکثر ایسا ہوجاتا ہے اور پھر ایج بھی بہت کم لگتی ہے

کیسی کنڈیشن " ولی فکر مندی سے بولا

شی از پریگننٹ.وہ مسکراتی بول 

واٹ ریلی  .حیرت اور خوشی سے بولا تھا 

ہاں اب آپکو انکا بہت خیال رکھنا ہے.. انکے کھانے پینے کا بہت خیال رکھنا ہے.. ڈاکٹر کہتی چلی گئی

مگر ولی پریشان سا ہوگیا نیلم کو لیکر 

ولی نیلم کو لئے گھر جا رہا تھا

ولی خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جبکہ نیلم کی خوشی کوئی انتہا نہیں تھی

ولی آپ خوش نہیں گڈ نیوز سن کر.. وہ اسے دیکھتے بولی 

نیلم مجھے تمہاری ٹینشن ہو رہی ہے کیسے مینیج کرو گی تم.. " فکر مندی سے بولا

میں کرلوں گی ولی آپ اس بات کی ٹینشن نا لو.. " وہ اسکے کاندھے پہ سر رکھتے بولی

تو وہ مسکرا دیا

ولی نے نیلم کا بہت زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا تھا

پھپھو کو بھی نیلم نے فون کرکے یہ خوشخبری سنائی تھی.. تو وہ بہت خوش ہوئی تھی..  مگر اب انکا آنا ممکن نہیں تھا.. وہ سفر نہیں کر سکتی تھی اب.. اس لیے اس نے نیلم کو بہت حوصلہ اور ڈھیروں دعائیں دی

آج نیلم کا آپریشن ہونا تھا.. اچانک طبیعت بگڑ گئی اور ڈاکٹرز نے کہا آپریشن کرنا پڑے گا.. مہینے کے آخری دن ہی چل رہے تھے جب نیلم کی طبیعت خراب ہوئی 

ولی بہت پریشان حالت میں آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھا ہوا تھا اسے بہت فکر لاحق ہو رہی تھی نیلم کی 

مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے.. ولی کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری تھی 

اور میری وائف. نیلم کا خیال آیا

ناؤ شی از آؤٹ اوف ڈینجر.. کچھ دیر بعد انہیں روم میں شفٹ کردیا گے پھر آپ ان سے مل سکتے ہیں

وہ خوشی سے نہال ہو رہا تھا.. اور ساتھ آج اسے اپنی فیملی بھی یاد آگئی تھی اگر سب لوگ موجود ہوتے تو کتنا خوش ہوتے سب

مبارک ہوپیچھے سے آواز آئی تو اسنے مڑکر دیکھا جہاں عروج کھڑی مسکرا رہی تھی

خیر مبارک سنجیدگی سے جواب دیا 

اب بھی ناراض ہو مجھ سےوہ اطمینان سے بولی تھی 

تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا 

میں جانتی ہوں مجھ سے نادانی ہوئی ہےوہ میری ضد ہی تھی ضروری نہیں کہ جس چیز کو انسان چاہتا ہے وہ مل بھی جائے

میں نے چھ ماہ پہلے شادی کرلی ہے.. وہ ہنستے ہوئے بولی مگر اسکی آنکھیں اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی

اپنا روٹین چیک اپ کیلئے آئی تھی تو تمہیں یہاں دیکھ لیا.. جلد ہی میں بھی  ماں کے عہدے پہ فائز ہو نے جا رہی ہوں وہ مسکراتے بولی 

مبارک ہویہ تو اچھی بات ہے تم نے شادی کرنی.. اور انکل کیسے ہیں" ولی نے بھی مسکراتے بات کا آغاز کیا

ہی از نو موردو ماہ پہلے ہی وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چکے گئے.. اداسی سے کہا 

ولی کو دکھ ہوا انکے لئے 

عروج پیچھے سے عروج کو اسکے ہسبنڈ نے آواز دی 

جی آئی وہ پلٹ کر چلی گئی 

کہاں چلی گئی تھیوہ  اسے لئے آگے بڑھ گیا 

ولی نیلم کے پاس آیا وہ آنکھیں بند کئے لیٹی تھی.. اور ساتھ ہی گلابی کپڑے میں لپٹی ننھی سی پری.. لال گلابی پھولے ہوئے گال.. نیلم کی طرح ہی نیلی آنکھیں 

ولی نے اپنی گڑیا کو گود میں بھرا تھا.. اسکی آنکھیں نم ہوئی تھی.. خود کو بہت خوش قسمت سمجھنے لگا تھا.. نیلم نے آہستہ سے آنکھیں کھولی  تھیں ..اپنے سامنے ولی کو دیکھا جو اپنی گڑیا کو گود میں لئے کھڑا تھا

اس سے  ہلکی ہلکی باتیں کررہا تھا نیلم پہ نظر گئی جو اسے دیکھتے مسکرا رہی تھی

نیلم میں تمہارا کیسے شکریہ ادا کروں تم نے مجھے دنیا کا سب سے خوبصورت تحفہ دیا ہےنیلم کا ہاتھ تھام کر اس نے کہا

اس میں شکریہ کہ کیا بات ہےآپ نے جو میرے لئے کیا یہ اسکے لئے تو کچھ بھی نہیں نیلم نے دھیرے سے کہا

آج تم نے میری زندگی مکمل کردی .. میری محرومیوں کو ختم کردیا میری ادھوری زندگی مکمل کردی 

کیسی ہے میری بیٹی

بہت خوبصورت بلکل تمہاری طرح 

عمل ولی اللہ اسکی گال پہ بوسہ دیتے کہ

اور پھر نیلم کے پیشانی یہ لب رکھے تھے

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mere Humsafar Mere Meharban Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mere Humsafar Mere Meharban written by Ayesha Noor. Mere Hamsafar Mere Meharban by Ayesha Noor is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment