The Real Owner Season 1 By Gul Writes Complete Romantic Story Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 1 July 2024

The Real Owner Season 1 By Gul Writes Complete Romantic Story Novel

The Real Owner Season 1 By Gul Writes Complete Romantic Story Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

The Real Owner By Gul Writes Complete Romantic Novel 


Novel Name:The Real Owner

Writer Name:  Gul Writes

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے 

صبح کا وقت تھا آسمان پر کہی کہی بادل موجود تھے کئی بادلوں نے سورج کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں بادلوں سے ٹکراتی سرخ اور نارجی رنگ کا دل مہ لینے والا منظر پیش کررہی تھی جس ی۔۔۔۔نیلے آسمان کئ خوبصورتی کو اور بڑھا دیا تھا اس پر چہچہاتے پرندے اس قدرتی منظر کو اور دلکش بنا رہی تھی

صاف شفاف پانی میں پڑتی ہلکی سورج کی کرنیں پانی میں چمک لارہی تھی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پانی میں کھیل رہی تھی اس دریا پر بنی پل کے بیچ و بیچ گاڑی کے بونٹ پہ وہ بیٹھی ان خوبصورت مناظر میں کھوئی تھی اسے قدرتی مناظر بہت اٹریکٹ کرتے تھے وہ ان رنگوں میں ڈوب کر اپنی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنا چاہتی تھی جو نجانے کتنے سالوں سے بےرنگ تھی

یار بابا کو شکایت لگاؤں گی چلو یونی دوسرا لیکچر سٹارٹ ہونے والا ہے پہلا لیکچر بھی تم مسس کرچکی ہو۔۔۔ اس نے اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھتے وارن کرتے کہا اسکی دھمکی سن اس کے گلابی ہونٹ گہری مسکراہٹ میں ڈھلے اس نے جینز کی پوکٹ سے موبائل نکال کر مطلوبہ نمبر ملاتے کان سے لگایا

ہیے ہینڈسم ۔۔۔

کہاں ہو؟؟؟ شازم خان نے نرمی سے پوچھا

بریج پہ ۔۔۔۔۔ گلابی ہونٹوں سے ہلکی سی آواز نکلی پاس کھڑی اسکی بہن نے اسے حیرانی سے دیکھا اور اپنا بیگ سر پر رکھتی گاڑی میں بیٹھتی یونی کی طرف ریش ڈرائیونگ کرنے لگی جانتی تھی ڈیڈ اپنی لاڈلی کو کچھ کہے گے نہیں اور انکی واٹ لگ جانی تھی

وہاں کیا لینے گئی ہو؟؟؟ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئے

سکون ۔۔۔اس نے گہری سانس بھرتے کہا اور دریا کے بہتے پانی کو دیکھنے لگی

میرا بچہ لوگ لندن پیرس امریکہ جاتے ہیں اور آپ ہو کہ دریا کنارے بیٹھی ہو ۔۔۔۔۔

وہ لوگ ہیں جاناں شازم خان نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جو بہت نرم نازک گلابی گلابی سے تھے انہوں نے لمبی سانس خارج کی جانتے تھے انکی بیٹی بہت موڈی ہے اس نے اپنی ہی کرنی تھی تو بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا

جلدی گھر آجانا اور اپنا خیال رکھنا اوکے لہو تو گارڈز بجھوا۔۔۔۔

نو ۔۔۔۔۔ وہ مزید کچھ کہتے کہ اس نے گارڈز کا سنتے خراب موڈ سے کہا اور لو یو کہتے کال کٹ کرتے موبائل پاکٹ میں رکھا اور آسمان میں پھیلے رنگوں کو دیکھنے لگی

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤

آگئی ہاہاہاہاہاہاہاہا دوسری کدھر ہے ؟؟؟ امنہ نے اسکو گاڑی سے اکیلے نکلتے دیکھ ہنس کر پوچھا وہ انکا پارکنگ میں ہی انتظار کر رہی تھی

یار تم کوئی بہت ہی بڑی کمینی ہو نہیں مطلب تمھیں چاہیے تھا مجھے لے کر آتی ساتھ لیکن نہیں مہرانیوں کی طرح اکیلی ہی منہ اٹھا کہ آگئی۔۔۔۔شائزہ نے اسکو گھورتے ہوئے کہا وہ ہنسی

کوشش کی تھی کہ تمھاری طرح شہزادی بن جاؤ لیکن کیا کرو رانی بن کر جینے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ چھوڑنا چاہو تو بھی چھوڑ نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔ وہ ہنس کر بولی لیکن شائزہ کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ اسکو اپنے لفظوں کی سنگینی کا احساس ہوا

رانی یا شہزادی بننا کونسا آسان کام ہے جان دینی پڑتی ہے اپنی عوام کے لئے ہم تو پھر بھی اپنے بابا کی شہزادیاں ہیں لیکن جو حقیقت کی شہزادی ہوگی اسکی لائف کتنی ٹف ہوگی ہم سوچتے ہیں کاش ہم بھی ایک ملکہ ہوتے یا پرنسسز ہوتے۔۔۔ یہ ہم اسی لئے کہتے ہیں کیونکہ ہمھیں اندازہ نہیں یے کہ شہزادیاں اور رانیاں نجانے کون کون سی پریشانیوں مشکلوں سے گزریں ہوگی ۔۔۔۔۔ شائزہ نے دکھ سے کہا آمنہ نے ہاں میں سر ہلایا اور اسے لیکچر کا کہتے ساتھ کھینچ کر کلاس میں لے گئی

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤

سالے ہم سے پنگا لے گا ؟؟؟ اتنی ہمت تیری ۔۔۔. غصے سے وہ اسے بہت برئ طرح مارنے پیٹنے میں مصروف تھا آمنہ اور شائزہ جو کلاس میں جارہی تھی بھیڑ لگی دیکھ وہاں پہنچی لیکن اس یونی کے لڑکے کو دوسروے لڑکوں کو مارتے دیکھ وہ ڈری

شازو چلؤ یہاں سے یہ لوگ پاگل ہیں ہم نہیں۔۔۔۔۔ امنہ نے اسکے ہاتھوں کو زور سے پکڑتے کہا

آہہہ ۔۔۔۔ وہ دونوں اپنے ہی دھیان میں کھڑی تھی لوگوں کے سائیڈ ہٹنا انہوں نے محسوس ہی نہ کیا لیکن جب اس شخص کے چوڑے سینے سے لگ کر آمنہ گری تو شازو نے بڑی بڑی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر اس لڑکے کو جو ابھی تھوڑی دیر پہلے دوسرے لڑکوں کو پیٹ رہا تھا

آم۔آمنہ چلو۔۔۔ شائزہ نے ہکلا کر پکارا لیکن اس امن نامی ُ لڑکے نے امنہ کو ہاتھ سے پکڑ کر جھٹکے سے اوپر آٹھایا جو سیدھا اسکے ساتھ آلگی امنہ نے خوف بھری نیلی آنکھوں کو زور سے میچا اور ڈر سے کپکپانے لگی ساری لڑکیوں نے جل کر اسے دیکھا کہ انکی جگہ لے چکی تھی وہ لڑکی شائزہ منہ پہ ہاتھ رکھتی شاک میں تھی

اوپن یور آئز۔۔۔۔ وہ حکمیہ لہجے میں گویا ہوا لیکن آمنہ کو سنتے نہ دیکھ اسکی کمر پر گرفت مضبوط کرتے اپنے قریب تر کیا آمنہ نے کپکپاتے نیلی آنکھوں میں خوف بھری آنکھیں کھولی تو سیدھا اسکی شرٹ سے جھلکتے چوڑے سینے پہ پڑی انکھون میں نمی لیے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھا

جو دلچسپی سے اسکا کاپنا ملاحظہ فرما رہا تھا اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ پیچھے ہٹا اور اپنے پیچھے کھڑے لڑکے کو مخصوص اشارہ کرتے وہاں سے نکلا لیکن پلٹ کر آمنہ کو دیکھنا نہ بھولا جو سرخ چہرے سے دل پر ہاتھ رکھے لمبے لمبے سانس بھر رہی تھی

امنہ ٹھیک ہو ؟؟؟ شائزہ نے اسے پانی دیتے کہا جو اثبات میں سر ہلا گئی ساری لڑکیاں حقارت سے اسے گھورتی وہاں سے ہٹی لڑکے تو پہلے ہی جاچکے تھے سوائے کچھ بوائز کے

آجاؤ گھر چلتے ہیں ۔۔۔۔ آمنہ منہ پر ہاتھ پھیرتی اٹھی اور شائزہ کے ساتھ اسی کی گاڑی میں بیٹھتی

....................................................................................

مطلب کی دنیا ہے ، فریب کا زمانہ ہے

دلوں میں نفرت ہے , منہ پر یارانہ ہے۔

....................................................................................

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤

سر آپ جاناں بیٹی کے لئے پریشان ہیں ؟؟؟ شازم کے پی اے نے انکے چہرے پہ پریشانی کے اثار دیکھے تو پوچھے بغیر نہ رہ سکا شازم نے اثبات میں سر ہلایا

نجانے کیا ہوگا اسکا بہت سنجیدہ رہتی ہے وہ کبھی ہنستے تو اسکو دیکھا ہی نہیں بسس کبھی کبھی مسکرا دیتی ہے کھوئی کھوئی سی رہتی ہے ۔۔پتہ نہیں کیا ہوگا میری بچی کا ۔۔۔۔۔ بچپن سے لے کر اب تک ہی انکی یہی بات تھی کہ جاناں کیوں نہیں ہنستی کھیلتی جیسے آمنہ اور شائزہ کھیلتی کھودتی ہیں وہ کیوں گم سم ریتی ہے عادل صاحب مسکرائے جو کافی عرصے سے انہیں جانتے تھے انکی کوئی اولاد نہ تھی وہ شازم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں مانتے تھے

سر آپ کیوں ہوتے ہیں پریشان سبکے اپنے اپنے شوق ہوتے ہیں ہماری جاناں خود کو خود کی زات تک محدود رکھنا چاہتی ہے کبھی نہ کبھی تو آپکی پریشانی حل ہو ہی جائے گی ۔۔۔۔ عادل صاحب نے مسکرا کہ کہا شازم نے آنکھیں موندتے سر سیٹ کی بیک سے لگایا

بہت ہی کم عمر میں شازم کی شادی ہوگئی تھی انکی تین بیٹیاں تھی شائزہ ّ آمنہ اور جاناں ۔۔۔۔شازم کی وائف جاناں کو پیدا کرتے ہی وہاں سے چلی گئی تھی نجانے کہاں پہلے پہل تو آمنہ اور شائزہ اپنی ماما کو پکارتے رونے لگتی تھی لیکن وہ ہوتی تو وہاں اتی وہ تو بے حس بنی انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جاچکی تھی پھر جیسے جیسے وہ بڑی ہورہی تھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ماں کو بھول چکی تھی سب اپنی زندگیوں میں خوش تھے ۔۔۔۔۔

لیکن شازم ۔وہ جاناں کی وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے کیونکہ اسکا لہجہ ہمیشہ سب کے ساتھ سرد ہی رہا تھا سوائے شازم کے ۔۔۔۔ اگر وہ غصہ ہوتی تو روم میں بند ہوکر سب کچھ تہنس نہس کردیتی لیکن دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دیتی کہ وہ غصہ ہے یا درد میں ہے ۔۔۔اسے اپنے بارے میں کسی کو کچھ بتانا پسند نہیں تھا بلا کہ لاپرواہ تھی جبکہ آمنہ اور شائزہ دونوں ہی نرم دل ہنس مکھ تھی

وہ بھرپور کوشش کرتی تھی جاناں کو ہنسانے کی لیکن انکی کوششوں کو دیکھتے جاناں صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتی تھی اسکی خاموشی سب کو اپنی طرف اٹریکٹ کرتی تھی ویسے وہ تینوں خوبصورت بھی بلا کی تھی لیکن جاناں تو کانچ کی گڑیا معلوم ہوتی تھی

اندھیرے سے بہت ڈرتی تھی وہ چپکلی کو دیکھ کر اسکا سانس تک رک جاتا تھا ضدی بھی بلا کی تھی اور اسکی معصومیت بھی لاجواب تھی جو بھی پہلی بار اسے دیکھتا اسکا اسیر ہوجاتا تھا اسکی شخصیت کافی پراسرار سی تھی.....................

بھول جاؤ سبھی__ سنی باتیں... 

مسکرانے پہ قرض تھوڑی ہے... 

عادتاً ہی لوگ ____بھونکتے ہیں... 

صرف کتوں پہ فرض تھوڑی ہے... 

💥💥❤❤


سر آگے ایک کار کھڑی ہے. ۔۔ ڈرائیور نے گاڑی روکتے کہا پیچھے بیٹھے شہزادوں سی آن بان رکھنے والے اس شہزادے نے گولڈن سرخ آنکھوں سے اسے گھورا


دفع ہو ہٹاؤ اسکو ۔۔۔۔ وہ سخت کوفت زدہ لہجے میں چیخا وہ ڈرائیور ہڑبڑاتا گاڑی سے نکلا اور غصے سے اس لڑکی کی طرف بڑھا


بی بی گاڑی ہٹاؤ میرے سر کی میٹنگ ہے لیٹ ہوجائیں گے ... ڈرائیور نے کہا لیکن اسے ٹس سے مس ہوتا نہ دیکھ ڈرائیور کو تپ چڑھی


بی بی جی یہاں سے ہٹیں آپ امیزذادوں کی وجہ سے ہماری نوکریاں خطرے میں پڑ جاری ہیں ۔۔۔۔۔۔ ڈرائیور بدتمیزی سے گویا ہوا تو اس نے کالی سرخ آنکھیں کھول کر اسکو دیکھا اسکے دیکھنے پہ ہی ڈرائیور کے جسم میں کپکپی طاری ہوئی تھی...


افففففف ۔۔۔۔ وہ غصے سے بڑبڑاتے گاڑی سے نکلا


۔۔۔۔چوڑی پیشانی پر بکھیرے براؤن بال۔۔ گولڈن آنکھوں میں غضب کا غصہ ۔۔۔۔۔مغرور کھڑی ناک ۔۔۔سختی سے بھینچے ہوئے عنابی لب ۔۔۔۔۔ چھ فٹ سے نکلتا قد بلؤ پینٹ کورٹ وائٹ شرٹ ہاتھوں میں برانڈڈ واچ پاؤں میں مقید برانڈڈ شوز ..حسن کا شہزادہ تھا وہ ۔۔۔دشمن بھی اسکی خوبصورتی کے چرچے کیا کرتے تھے اس نے مغرور تو ہونا ہی تھا


کیا ہورہا ہے یہاں ڈرائیور ۔۔۔۔بھاری قدم اٹھاتے وہ وہاں پہنچا تو ڈرائیور کو کپکپاتے دیکھ برفیلے لہجے میں بولا


س۔سر میم ۔س۔سن نہیں رہی ۔۔۔۔وہ خوف سے اسے دیکھنے لگا جو کولڈ نظروں سے اسے گھور رہا تھا ایک طرف وہ لڑکی تھی اور ایک طرف اسکا کھڑوس باس آگے کنواں تھا تو پیچھے کھائی کہاں پھنس گیا تھا وہ


یہ بریج آپ کی ملکیت ہے ؟؟؟؟ اس نے بونٹ پر بیٹھی لڑکی کو دیکھ سرد لہجے میں پوچھا جسکے بال ہوا کے تحت بار بار اسکے چہرے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ لڑکی بھی بنا کسی حرکت کہ آسمان کو تکے جارہی تھی


نہیں ۔۔مختصر سا جواب۔۔لبوں کی زرا سی جنبش پہ اسکے گال پہ گڑھا جھلک دیکھلاتے گم ہوا


تو یہاں اس انداز میں بیٹھنے کی وجہ جان سکتا ہوں ؟؟؟ کیونکہ آپکی وجہ سے میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے اسکو دیکھتے گویا ہوا ڈرائیور تو ان دونوں کو دیکھ رہا تھا


اس نے آسماں سے نظریں ہٹاتے اسکے چہرے پہ مرکوز کی وہ ساکت ہوا اسے دیکھ۔۔۔۔ کالی گہری آنکھیں ۔۔۔چھوٹی سی ناک گلابی گال اور گلاب ہونٹوں کو بھینچے اسکی ملائی جیسی رنگت ہلکی ہلکی سورج کی کرنیں پڑنے سے سرخ ہونے کا سبب تھی وہ کسی حور سے کم نہ تھی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


:روبرو حسن ہو اور حسن بھی تیرے جیسا


پھر کوئی دل کے خسارے کو کہاں دیکھتا ہے.


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہممم اس نے گارڈز سے لدی گاڑیوں کو دیکھتے ہممم کیا اور گاڑی کی چابی ڈرائیور کے پاس پھینکی اور گاڑی سائیڈ لگانے کا اشارہ کیا


اپنی گاڑی خود ہٹائیں ۔۔۔۔ اسکا اٹیٹیوڈ اسے کہاں ہضم ہونا تھا اسی لیے سختی سے گویا ہوا


لیٹ تم ہورہے۔۔۔۔


مزید یہ کہ اپنے لہجے کی سختی کا دوسروں پر رعب جھاڑنا ۔۔۔۔اس نے برفیلے لہجے میں غرا کر کہا ڈرائیور جلدی سے گاڑی سائیڈ پر لگاتے وہاں آیا


جانتی نہیں ہو کون ہوں میں ۔۔۔۔


نمبر ون بزنس مین ۔۔اس نے کہا تو وہ حیرت سے اسے گھورنے لگا


پھر بھی اتنا اٹیٹیوڈ ۔۔۔۔ اس نے دل میں سوچا


مغرور نہیں ہوں میں سچ بولتی ہو تو ہی تم جیسوں کو اناپرست لگتی ہوں۔۔۔۔وہ آہستہ سے بڑبڑائی


دیکھ لونگا ۔۔۔۔


سر ۔۔.حازم سر کی کال ہے ۔۔۔۔۔۔ مزید وہ کچھ کہتا کہ پیچھے سے گارڈ نے کہا وہ انگلی أٹھاتے وارن کرتی نظروں سے اسے دیکھتا وہاں سے نکلا جاناں نے آنکھیں گھمائی اور بریج کے کناروں پر چلنے لگی


.....................................


تجھے مل جائے گی تجھ جیسی خوش مزاج 🌺💫


میں حقیقت ہوں سبھی کو تلخ لگتی ہوں 🖤✨🔥


#معصوم گل 😍🙈..


.....................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


امن دیکھو شرافت سے بیٹھ کر پزا کھاؤ ورنہ مجھ سے جوتے کھاؤ گے۔۔۔۔ دوپہر میں جب وہ گھر ایا تو امن نے اسکو زبردستی کچن میں گھساتے پزا بنانے کا کہا اب جب بن گیا تو وہ کھانے سے انکار کر رہا تھا


پیزا یا جوتا دونوں کھانے کا میرا موڈ نہیں ہے۔۔۔تم برگر بنا لو یار اب بھائی کے لئے اتنا نہیں کرسکتے؟؟؟؟ امن نے معصوم منہ بناتے دانت دیکھائے


اسی معصوم بھائی کے دانت نہ توڑ دو پھر اور زیادہ معصوم لگو گے ۔۔۔۔۔ وہ مکہ دیکھاتے دانت کچکچاتے بولا امن نے جلدی سے ہونٹ بھینچے اور نہ میں سر ہلایا


ظالم انسان کیوں تم لڑکیوں کو ہارٹ اٹیک دلوانا چاہ رہے ہو ہاں؟؟مجھے ایک خراش بھی آئی تو انہوں نے چونے والے ہارٹ اٹیک سے مر جانا ہے ۔۔۔۔۔ میں ان چتر چالاک لومڑیوں مطلب معصوم لڑکیوں کو یوں مگرمچھ کے آنسو بہاتا نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔ میری خوبصورت کالی سیاہ گھنی پلکوں والی آنکھیں یہ ظلم برداشت نہیں کر پائینگی ۔۔۔۔۔ وہ ڈرامے باز ایک بار پھر اپنی ڈرامے بازی پہ اترا


تم سے کوئی خوبصورت لوگ پڑے ہیں دنیا میں ۔۔۔۔ تم کونسا بادشاہ جلال کے ولی احد ہو ۔؟ جو نادان داسیاں تمھارے عشق میں قربان جائیں گی ۔.۔۔۔ خوابوں میں مت رہو میرے لال حقیقی دنیا میں لڑکیاں تم جیسے نام کے معصوم لوگوں کے ساتھ بڑے معصوم سے کھیل کھیل کر چھوڑ جاتی ہیں سمجھا ۔۔ اور کم عقل انسان تمھاری آنکھیں بھوری ہے ۔۔۔۔۔ وہ اچھے سے اسے لتاڑنے لگا


یار بندہ دل ہی رکھ لیتا ہے ۔۔۔.۔


نہ بابا نہ میری باڈی میں صرف ایک ہی دل ہے جو میرا ذاتی ہے ۔۔۔.خیر اگر اتنا ہی شوق ہورہا دل رکھوانے کا تو ہوسپیٹل چل کے ڈونیٹ کر دینا قسمے لوگ تمھیں دعا دینگے. ۔۔۔۔۔ حازم نے اسے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا امن نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا


میری قبر پہ بیٹھ کہ دعا کرینگے ۔۔۔۔ حد ہے بندہ مزاق بھی نہیں کرسکتا ؟؟؟؟؟ وہ منہ بنا گیا


بندہ کون ہے یہاں بسسس مجھ ڈیسنٹ سے انسان کے علاوہ تم یعنی ڈرامہ سیریل موجود ہے اور کوئی زی روح بھی موجود نہیں ۔۔۔۔ حازم نے ادھر ادھر ڈھونڈنے کی ایکٹینگ کرتے کہا امن کا دل کیا کوئی چیز اسکے منہ میں ٹھوس دے


کیا ہوا بولو اب چپ کیوں ہوگئے۔۔۔۔ اس نے مسکراہٹ روکتے پوچھا امن نے خفگی سے اسے گھورا اور ہنہہ کرتے پزا چھپٹتے روم میں بند ہوا. ۔۔۔۔۔۔۔


بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ بڑبڑایا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


اندھیرے سے وحشت بکھیرتے کمرے میں صرف ایک چھوٹے سے بلب کی وجہ سے تھوڑا سا حصہ روشن تھا جہاں دو لوگ موجود تھے ایک کی آنکھوں میں وحشت تھی تو دوسرے کی آنکھوں میں نفرت ہوس ابھری ہوئی تھی


بہت سنا ہے ہے تمھارے بارے میں ہر جگہ تمھاری ہی دہشت پھیلائی ہوئی ہے کیا چیز ہو تم ؟ دانت پیستے پوچھا گیا اس نے سرد بے تاثر نگاہوں سے اسے دیکھا


وہ ہوں کہ دو ٹکے کہ بے ضمیر لوگ مجھے خرید نہیں سکتے۔۔۔ہڈی پہنے منہ پہ ماسک اور گوگلز لگائے وہ طنزیہ مسکراہٹ سے گویا ہوئی تو وجی جو کہ ایک مشہور ڈون تھا وہ تلملا اٹھا کہاں برداشت تھی اپنی بےعزتی


نئی نئی آئی ہو مجھ سے مت الجھو انڈرورلڈ میں جو ہوتا ہے سنو گی تو روح کانپ جائء گی۔۔۔۔۔. وہ اپنی موچھوں کو تاؤ دیتے بولا اس نے ہونٹ بھینچے


آج تک وہ سب اس لیے ہوتا تھا کیونکہ یہاں میں نہیں تھی لیکن ابکی بار میں آئی ہوں تمھارے قافلوں میں آگ لگانے ۔۔۔۔۔ وہ غضب ناک لہجے میں گویا ہوئی تو ایک لمحے کو وجی کے جسم میں خوف سراہیت کرگیا وہ مزید کچھ کہتا یا کرتا وہ اسی اندھیرے کمرے میں غائب ہوئی


اففف آخر کون ہے سب کی زندگیاں جہنم بنانے والی یہ مافیا کوئین ۔۔۔ وہ زور سے چلایا اور ٹیبل کو لات مارتے وہاں سے نکل گیا........


.....۔۔.............۔۔۔۔۔.............۔۔۔۔۔۔۔


شریف ساڈے تو وڈا کوئی نئ


تے بدمعاش اسی کسی نو مندے نئ


....................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


اندھیرے نے نیلے آسمان پر اپنی سیاہ چادر بکھیر دی تھی آسمان پہ چاند کے گرد ستارے ٹمٹما رہے تھے پرندے بھی اپنے گھونسلوں میں چھپے پورے چاند کی روشنی کے خوبصورت منظر کو دیکھ رہے تھے


لیکن خان ولا میں اس وقت گہری خاموشی چھائی تھی کئی رقبوں پر بنا یہ خان ولا شازم خان کی برسوں کی محنت اور مشقت سے بنا تھا اس ولا میں انکی ہنسی خوشی غم۔۔۔انکی والدین کی یادیں۔۔.انکی بیٹیوں کا بچپن سارے پل اس ولا میں قید تھے


اسلام وعلیکم بابا ۔۔۔۔ آمنہ اور شائزہ نے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے کہا تو شازم نے سر کے اشارے سے جواب دیتے جاناں کو دیکھا جو سیڑھیوں سے اتر رہی تھی بلیک جینز بلیک شرٹ جو کندھوں اور پیٹ کو واضح کررہی تھی پونی میں مقید براؤن سلکی بال ۔۔۔بڑی بڑی کالی رات سی آنکھیں چھوٹی سی ناک گلابی ہونٹوں کو بھینچے شاید وہ کہیں جانے کے لئے تیار تھی


کہاں کی تیاریاں ہے جاناں جی ۔۔۔۔ شائزہ نے جاناں کو دیکھ کر پوچھا اس نے نفی میں سر ہلاتے شازم سے پیار لیا اور اپنی جگہ پر بیٹھی


بچے آپ نے کل جانا ہے یونی ؟؟؟؟ شازم نے نرم سے لہجے میں پوچھا تو جاناں نے اثبات میں سر ہلایا


جاناں ۔۔.منہ میں دہی جمی ہے جو من بھر کا سر ہلا رہی ہو ۔۔۔۔ شارک کی زبان ہلانے میں تکلیف ہورہی ہے ۔۔۔۔آمنہ نے شریر لہجے میں کہا جاناں نے نظریں اٹھاتے اسکو دیکھا اور سر جھٹکتے اپنی پلیٹ پر جھکی جو ابھی شازم نے دی تھی


بچے اپنی بہنوں سے بات کیا کرو کیوں چپ چپ رہتی ہو۔۔؟؟ شازم نے ہمہ وقت کہی جانے والی بات دہرائی


اوکے۔۔۔۔ اس نے اہستہ سے کہا شائزہ اور امنہ تو اسکے گڑھوں کو دیکھنے لگی کتنی خوبصورت تھی انکی یہ بہن ۔۔۔لیکن اسکی خاموشی کی وجہ جاننے سے سب محروم تھے کچھ تو تھا جس پر پردہ تھا ۔۔۔


...........۔.........................


عادت اکیلے پن کی جو پہلے عذاب تھی


اب لُطف بن گئی ہے اذیت نہیں رہی

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤❤


خوبصورت سے ڈیکوریٹ کی گئی اس لائبریری میں وہ ایک فائل میں سر دئے بیٹھا تھا تبھی وہ دونوں ناک کرتے اندر ائے انکو دیکھ وہ فائل بند کر چکا تھا


اسلام وعلیکم بھائی۔۔۔


وعلیکم اسلام! کیسے ہیں میرے شہزادے ؟ وہ مسکرا کر بولا فقط یہی دو تو تھے اسکی مسکرانے کی وجہ


ہم ٹھیک ہیں آپ کیسے ہو؟؟؟ ابھی تک سوئے نہیں ؟؟؟ اسکے ساتھ بیٹھتے ان دونوں نے ایک ساتھ پوچھا


یہی سوال میں تم سے کرو تو ؟؟؟اب بتاؤ کیا بات ہے جو میرے شہزادوں کو یہاں تک لے آئی ؟ اس نے امن کے بال بکھیرتے پوچھا وہ دونوں مسکرا کر اسکے گلے لگے وہ انکی ہر بات سمجھ لیتا تھا


بھائی ہم کک کے ہاتھ کا بنا بدزائقہ کھانا کھا کر تھک گئے ہیں ۔۔۔ حازم نے منہ کے زاویہ بگاڑتے کہا


تو ہم کک چینج کر لیتے ہیں ۔۔۔۔میصم نے حل بتایا


اففف بھائی ہمھیں میڈ نہیں چاہیے اپنے گھر ۔۔۔۔ امن نے اسکو دیکھتے کہا


تو کوئی بات نہیں ہم کل ہی اسے چھٹی دے دینگے۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ دبا کہ بولا جانتا تھا انکی باتوں کا مطلب لیکن وہ ابھی ایسا کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا


افففف بھائی اتنے بڑے بزنس مین بننے کا کیا فائدہ جب اپنے ہی بھائی کو نہ سمجھ سکے۔۔۔ امن نے سر پر ہاتھ مارتے جل کر کہا میصم نے قہقہ لگایا


حازم تم سمجھ لو نہ اسکی بات ۔۔۔۔۔ اس نے حازم کو کہا جو شرم سے سرخ ہوا پھر ہنسنے لگا


آپ سے پہلے نہیں سمجھو گا ۔۔۔۔ وہ دانتوں کی بھرپور نمائش کرتے بولا


آپ دونوں نہ سمجھو میں ہی سمجھ جاؤ گا ۔۔۔۔ امن نے سر جھٹکتے کہا اور پیر پٹکتے وہاں سے واک آؤٹ کر گیا وہ دونوں مسکرائے


کیسی جارہی ہے پولیس کی جاب ؟؟؟ میصم نے حازم سے پوچھا


اچھی جارہی ہے۔۔۔۔


حازم میری مانو تو چھوڑ دو یہ پولیس کی جاب ۔۔۔۔۔ میصم نے کہا وہ مسکرایا


اچھا آپکی آفر پر سوچوں گا ضرور ۔۔۔۔لیکن آپ بھی امن کی باتوں کو سمجھے مہربانی ہوگی ۔۔۔۔۔۔. اس نے مسکا کر شرارت سے کہا اور نو دو گیارہ ہوا


اس نے گہری سانس بھرتے صوفے پہ سر ٹکایا لیکن وہ وحشت سے بھرپور کالی آنکھیں نظر آئی وہ اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی


کیا تھی وہ لڑکی اتنی خاموش اتنی تیز ۔ کچھ تو چھپا تھا ان گہری آنکھوں میں لیکن اسکے وہ ڈمپل ۔۔۔۔افف کیا ہو گیا ہے میصم چھوڑو اسکو اور کام پہ دھیان دو۔۔۔سر جھٹکتے بڑبڑایا اور فائل پہ جھکا لیکن اب کہاں کام ہونا تھا وہ فائل رکھتے اٹھا اور کافی لیتے گاڑدن میں چہل قدمی کرنے لگا


..........................................................................


نگاہ_یار میں ٹھہرا ہوا جمال ہوں میں۔۔🖤۔۔۔


میرا طواف ڪر اے عشق بے مثال ہوں میں۔۔۔۔


..........................................................................


وہ تین بھائی ہی ایک دوسرے کا سب کچھ تھے میصم سالار جو ایک اچھا بھائی ہونے کے ساتھ پوری دنیا کہ نمبر ون بزنس مینز میں بھی اسکا شمار ہوتا تھا وہ اس مقام تک اپنی محنت اور لگن سے اس مقام تک پہنچا تھا بلا کا سنجیدہ شخص اسکے چہرے پہ مسکراہٹ کی وجہ صرف اسکے بھائی بنتے تھے


دوسرا حازم سالار جسے بچپن سے ہی پولیس آفسر بننے کا شوق تھا اور آج وہ کراچی شہر کا ایس پی تھا میصم سے مختلف اسکا انداز تھا نہایتی نرم دل اور اپنے پیاروں پر جان چھڑکنے والا لیکن جب غصہ آتا تو سب کی تھیا تھیا کردیتا تھا


سب سے چھوٹا شراتوں کی دکان امن سالار جو یونیورسٹی میں پڑھائی کم لڑائی زیادہ کرتا تھا ان دونوں سے مختلف تھی اسکی شخصیت انتہا کا شرارتی تھا مسکان ہمیشہ اسکے چہرے پہ موجود ہوتی تھی بس ایک عادت ان تینوں میں ایک سی تھی لڑکیوں سے دور رہنا ورنہ نجانے کتنی لڑکیاں ان پر خود کو قربان کیے بیٹھی تھی


.....................................


#رکھتا ہوں یقین خدا پر #سہارا کسی کا لیتا #نہیں ہوں✌💯💯🔥🔥


#غیرت آنکھوں میں #غصہ دماغ میں اور #شرافت خون #میں_ہے....🔥,,


.....................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


اس پورے چاند کی طرح میں خوبصورت تو ہوں لیکن فرق صرف اتنا ہے اس چاند کے گرد ٹمٹماتے تارے ہیں اور میرے اردگرد گپ اندھیرا موت سی خاموشی ۔۔۔۔ لوگ تو چاند میں بھی نقص نکال لیتے ہیں لیکن میرا نام لینے سے بھی لوگوں کی جان جاتی ہے ۔۔۔ کیسے اس پورے چاند کی چاندنی پوری دنیا کو روشنی پہنچا سکتی ہے اسی طرح میری وحشت میرے اندر سلگتی آگ اس پوری دنیا کو جلا سکتی ہے ۔۔۔۔۔ بسس ایک چیز ہم میں ایک جیسی ہے کہ میری طرح اس چاند کو لوگ پسند تو کرسکتے ہیں لیکن اسکے پاس جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس پر خطرہ ہے جسم میں خون منجمند کر دینے والی ٹھنڈ ہے۔۔۔ ۔۔۔ یہ چاند چند لمحوں کا سکون تو بن سکتا ہے لیکن راحت جاں کبھی نہیں بن سکتا ۔۔۔ لوگ اس چاند میں بھی اپنے محبوب کا عکس دیکھتے ہیں ۔۔۔ اور مجھ میں اپنی موت. ۔۔۔


اندھیرے کمرے میں کھڑی وہ کھلی کھڑکی سے انے والے چاند کی چاندنی کو دیکھ بے تاثر لہجے میں بولی جان نکال لینے والا لہجہ تھا اسکا ان دونوں وجود کے جسم میں کپکپی پیدا ہوئی وہ چپ ہوئی تو وہاں پھر سے خاموشی نے اپنا بسیرا کر لیا


آپ کو اندھیرا کیوں پسند ہے ؟؟ آخر اس اندھیرے میں رہنے کی وجہ کیا ہے ۔۔؟؟؟ خاموشی کو چیرتی وہ آواز جیسے ہی اسکی سماعت ہوئی وہ کھڑکی کے قریب جاتی مڑی بلیک جینز شرٹ ہڈی میں موجود اسکے صرف کٹ لگے ہونٹ نظر آرہے تھے


آہستہ آہستہ ہر راز سے پردہ اٹھے گا۔۔۔وقت سے پہلے کچھ جاننا تمارے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔۔۔۔سرد برفیلا لہجہ اختیار کرتے وہ اسی اندھیرے میں جہاں سے آئی تھی وہی گم ہوئی پیچھے وہ دونوں وجود بھی اس اندھیرے سے ڈرتے باہر نکل گئے ۔۔۔۔


.....................................


تُو #شاعری کے سارے #ہُنر جانتا تو ہے...


میں حرف حرف #زخم ہوں #تحریر کر مجھے...


.....................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


مسس شائزہ یہ ٹاپک آپ کو ابھی میں نے بتایا ہے آپ ریپیٹ کریں۔۔۔ سر طارق کب سے اسکو خود میں گم دیکھ رہے تھے اسی لیے زرا سخت نظروں سے اسے دیکھتے بولے شائزہ نے انہیں دیکھا


یہ تو گئی ۔۔۔۔ سامنے بیٹھی لڑکیوں نے سرگوشی میں کہا کیونکہ سر طارق بہت سخت مزاج کے انسان تھے ۔۔۔


سوری سر میں نے دھیان نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی وہ غصے سے اسے گھورنے لگے


کیا مطلب ہے آپکا آپ نے دھیان نہیں دیا یہاں کوئی فلم چل رہی ہے جو بار بار اپ دیکھ لیں گی؟؟؟؟


سر آپ ایک کام کرلیں جب آپ پڑھانے لگے تو ویڈیو بنا لیا کریں تاکہ ہم جیسے سٹوڈنٹس کو پڑھنے میں اسانی ہو ۔۔۔۔ وہ چہرے پہ معصومیت طاری کرتی بولی طارق سر نے غصے سے اسے دیکھا اور بوڈ مارکل اسکی طرف پھینکا جسے بروقت شائزہ نے ہاتھ چہرے کے آگے کرتے پکڑا ساری کلاس میں خاموشی چھائی تھی ۔۔۔


گیٹ آؤٹ مائی کلاس۔۔۔۔۔ وہ چیخے


یہی آپ آرام سے بول ۔۔۔۔۔


گیٹ آؤٹ ۔۔۔۔۔ وہ دھاڑے وہ کندھے اچکا کر ایک بک اٹھاتی باہر کو بڑھی


کوئی انسانوں والی حرکت ہے تمھارے اندر ۔۔۔؟ آمنہ جو اسکے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑی سب سن رہی تھی اسکے پیچھے آتی بولی


ہمممم ہے لیکن تم سمجھ نہیں پاؤگی ۔۔۔۔۔


کیوں میں کیوں نہیں سمجھ سکتی۔۔۔؟؟؟


اسکو سمجھنے کے لئے دماغ کی ضرورت ہے جو ماشاءاللہ سے آپکے پاس نہیں ہے ۔۔۔۔۔ وہ شریر لہجے میں گویا ہوئی اور زبان دیکھاتے ٹیرس کی طرف بھاگی آمنہ کو اسکی بات کی سمجھ آئی تو اسے القابات سے نوازتی اسکے پیچھے دوڑی


رک میسنی ۔۔۔ رک جا ۔۔۔۔ اسکے پیچھے بھاگتے وہ اونچی آواز میں چلاتے بولی


ویسے ایک بات ناؤ تمھیں بھی کلاس سے نکالا گیا تھا نہ ؟؟؟ جو میرے اپارٹمنٹ کی یاد آئی تمھیں ہاں؟؟؟ وہ ٹھنڈی ہوا کے باعث اڑتے بالوں کو چہرے سے ہٹاتے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے بولی ٹوپ فلور پہ وہ موجود تھی جہاں کوئی بھی زی روح موجود نہ تھی


یار ہمارا قصور نہیں ہے ہمارے پروفیسرز کی غلطی ہے بندہ ایک بڑی سی ایل ای ڈی کلاس میں لگا دے جو بار بار ریپیٹ ہو ۔۔.تاکہ ہمھیں سمجھ آسکے ۔۔. وہ زمین پہ بیٹھتے بولی لیکن کچھ عجیب سی آواز پہ چونکی شاید کوئی آرہا تھا لیکن کون. ۔۔؟؟؟ وہ شائزہ کے ساتھ ایک پلر کے پیچھے ہوئی


جلدی لے جاؤ اور باس کو بولنا ناچیز انکو یاد کر رہا ہے ۔۔۔۔ وہ بولے تو ان دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا یہ آواز تو انکے پرنسپل کی تھی ۔۔۔۔ آمنہ نے سر نکالتے باہر دیکھا جہاں ایک موٹا گینڈا آدمی لڑکی کو بازو میں لیے اوپر جارہا تھا جہاں سے اب ہیلی کاپٹر اڑنے کی اواز آرہی تھی


کیا پرنسپل بھی اس کام میں ملوث ہے ۔۔۔۔ شائزہ نے دل میں سوچا قدموں کی آواز آہستہ آہستہ سست پڑنے لگی اور پھر ختم ہوگئی اچھے سے تسلی کرنے کے بعد وہ باہر آئی


یہ سب کیا تھا وہ آدمی کہاں لے گیا ٹینہ کو؟؟؟؟ اور سر نے جانے دیا ۔۔۔۔. آمنہ نے پریشانی سے ماتھا مسلتے کہا


اوہ تو لڑکیاں غائب ہوتی نہیں کروائی جاتی ہے ۔۔۔۔


کیا مطلب ۔۔؟؟؟


مطلب یہ کہ پرنسپل لڑکیاں بیچتا ہے اور افواہ یہ پھیلائی ہوئی کہ لڑکیاں بھاگ جاتی ہیں ۔۔۔۔ اس نے افسوس سے کہا


ہمھیں پولیس کو بتانا چاہیے ۔۔۔۔ آمنہ نے کہا شائزہ نے نفی میں سر ہلایا


پولیس بھی انہی لوگوں کے ساتھ ہونی ہے ہمھیں کچھ اور کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔


مثلاً کیا؟؟؟؟


بتاؤ گی ابھی چلو نکلتے ہیں یہاں سے ۔۔۔۔۔ اس نے کہا اور وہاں سے نکلی


.....................................


ہم وہ #شخصیت💪 ہیں،


جسے #گرانے👎 میں کئی لوگ #منہ🤫 کے بل گرے


.....................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


سر ہم نے بہت سی لڑکیوں کی پکچرز کلک کی ہیں ۔۔۔۔ یہ رہی وہ پکچرز۔۔۔۔۔جو آپکو پسند آئے ہمھیں حکم کریے گا ہر ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکی اپکے قدموں میں حاضر کردی جائے گی ۔۔۔۔ وجی ڈون نے ٹیبل پہ تصویریں رکھتے مسکرا کر سامنے بیٹھے شخص سے کہا۔ جسکی عمر اٹھائیس سال تھی


وہ تصویروں میں موجود ان لڑکیوں کا جائزہ لینے لگا ایک تصویر پر رکا وہ کالی آنکھیں گلابی ہونٹ وہ مسکرایا


یہ لڑکی۔۔۔ ۔۔۔ نیلی آنکھیں اس معصوم چہرے اور سنجیدہ تاثرات والی حور کے چہرے پر ٹکی تھی عجیب سی کشش محسوس ہورہی تھی


جی حضور کل تک یہ لڑکی آپکے قدموں میں ہوگی اور خوبصورت کلی ہے آپ جانتے ہی ہیں کیا قیمت ہوگی اس آئٹم پیس کی ۔۔۔۔. وجی نے چاپلوس لہجے میں کہا


شٹ اپ ۔۔۔۔ گن اٹھا کر اسکے منہ پہ مارتے وہ دھاڑا وجی اچانک ہونے والی افتاد سے نہ سنبھلتے زمین پہ گرا حیران پریشان ہوتے وہ اسکو دیکھنے لگا جو غصے سے سرخ ہوچکا تھا ہونٹ سے نکلتے خون کو صاف کرتے وہ سر جھکا کہ کھڑا ہوا


عزت سے قابل عزت ہے وہ تمھارے لئے جب بھی اسکا زکر ہو تو تمھارے لہجے تمہاری آنکھوں میں اسکے لیے صرف عزت نظر آنی چاہئے سمجھے ۔۔۔۔۔ بھول جاؤ کہ اس لڑکی کو کبھی دیکھا بھی ہے تم نے ۔۔۔۔۔ تصویر کو اپنے کورٹ میں رکھتے سرد لہجے میں بولا نیلی آنکھوں میں مرچی چبھنے لگی تھی اج تک وہ بہت سی لڑکیوں کے قریب گیا تھا لیکن کسی میں یہ احساس یہ شدت محسوس نہیں ہوئی تھی جو اس لڑکی کو ایک نظر دیکھ کر محسوس ہورہی تھی


ج۔۔جی سر آپ فکر ہی مت کریں ۔۔۔۔ وجی نے سر جھکاتے منمنا کر کہا اس نے ہنکار بھرا اور واپس سے صوفے پر بیٹھا


مافیا گرل کا کچھ پتہ چلا ؟؟؟؟ وہ اسکو غضب ناک تیوروں سے گھورتے سوال گو ہوا وجی گڑبڑایا


ج۔جی سر کل ملاقات ہوئی تھی ان سے لیکن کوئی بھی سوراغ ہاتھ نہیں لگا وہ اندھیرے میں آئی اور اسی میں ہی غائب ہوگئی۔۔۔۔ اس نے رٹو طوطے کی طرح بتایا


کسی کام کے نہیں ہو تم وہ لڑکی ہمارے سارے کام بگاڑ رہی ہے اور تم لوگ ایک لڑکی کا پتہ نہیں کروا سکے لعنت ہے تم پہ ۔۔۔۔ وہ وسکی سے بھرا کانچ کا گلاس اسے مارتے چیخا جو سیدھا وجی کے سر میں لگا اس نے ہونٹ بھینچتے چیخ روکی اس جلاد کو چیخنا پسند نہیں تھا اور جو اسے ناپسند تھا وہ کوئی بھی کرتا تو موت کے لئے ترستا تھا وہ حالت کردیتا تھا یہ ظالم


دفع ہوجاؤ یہاں سے ۔۔۔۔وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ کہ وجی سر پر ہاتھ رکھتے باہر کو بھاگا


تم سے میں خود ملوں گا کیوٹی ۔۔۔۔ وہ براؤن بالوں میں ہاتھ پھیرتے مسکرایا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہونٹوں پے اُلفت کا نام ہوتا ہے 💋❤️


آنکھوں میں چھلکتا جام ہوتا ہے👀💦


تلواروں کی وہاں اوقات کیا ہوگی🌚🔥🤙


جہاں آنکھوں سے قتل عام ہوتا ہے۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


سر کل ایک اور کیس آیا ہے لیکن کافی جانچ پڑتال کے بعد بھی کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگا ۔۔۔۔ کانسٹیبل نے حازم سے کہا جو پہلے ہی سر پکڑے بیٹھا تھا بہت سے کیسسز آچکے تھے جنکے پروف نہ ملنے پر وہ کیس ہی بند کردیتے


کچھ نہیں ملا؟ نہیں سر بسس یہ چٹ ملی ہے ۔۔۔۔۔۔ کانسٹیبل نے چٹ اسکا تھمائی حازم نے اسے جانے کا اشارہ کیا


مائی ڈئیر فیوچر ہسبینڈ پریشان ہو ؟؟؟ میں تمھاری پریشانی دور کردیتی ہوں اوکے تو آج تک جتنے بھی کیسسز میں تمھیں پروف نہیں ملے ۔۔۔ یہ سارے کے سارے کیسسز کے پیچھے میں ہوں۔۔۔۔۔


فقط تمھاری ۔۔۔۔۔۔ مافیا گرل۔۔۔۔۔۔


واٹ دا ہیل۔۔۔۔۔ چٹ پڑھتے اسکا دماغ گھوما پہلی بار ملی تھی اسے یہ چٹ وہ غصے میں بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تاکہ غصہ کچھ کم ہو۔۔۔۔۔۔ سکون نہ ملنے پر وہ کیپ ااعر چابی اٹھاتے باہر نکلا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


بھائی میں کیا سوچ رہا ہوں ؟؟؟ وہ سب ہی اس وقت رات کا کھانا کھا رہے تھے حازم کو پریشان دیکھ امن نے میصم کو اشارہ کرتے کہا


یہ تو تمھیں ہی معلوم ہوگا کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟؟؟؟


اففف بھائی دیکھیں حازم پریشان ہے کیوں نہ اسکی شادی کروا دیں میری نظر میں ایک لڑکی ہے ۔۔۔۔۔ امن نے سنجیدگی سے میصم کو دیکھتے کہا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا


کونسی لڑکی ؟؟؟؟ حاوز نے پریشانی کو سائیڈ پہ رکھتے کہا بھئی فیوچر کا سوال تھا بھلا کیسے نہ بولتا ؟؟؟ ان دونوں نے مسکراہٹ دبائی


کنفرم کرلو پھر بتاؤ گا ۔۔۔۔۔ لیکن ایک بات تو طے ہے شادی اس سے کرینگے جو تینوں بہنیں ہوں اور جنکی آپس میں ت پیار محبت ہو۔۔۔۔ وہ ہنس کر بولا حازم نے منہ بناتے اسے گھورا


کمینے پہلے کنفرم تو۔۔۔۔۔۔


سر یہ فائل ۔۔۔۔۔۔ وہ بات مکمل کرتا اس سے پہلے ہی گارڈ نے ایک فائل امن کے سامنے رکھی۔۔۔۔ میصم اور حازم نے کچھ اجنبھے سے اسے دہکھا کہ کیسی فائل کس چیز کی فائل


ہممم اوکے جاؤ۔۔۔۔ اسے جانے کا اشارہ کرتے وہ انکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔ اوہو یوں تو نہ دیکھیں یاررر یہ اسی لڑکی کی انفارمیشن ہے ؟؟؟؟ خود کو گھورتے پاکر وہ دانت دیکھاتے بولا


کیا مطلب تم نے سچ میں لڑکیاں ڈھونڈ لی؟؟؟؟؟ حازم نے حیرانی سے پوچھا تو امن نے ہونٹ دانتوں میں دباتے سر اثبات میں ہلایا اور فائل کھولی


یہ آمنہ ہے جس سے میری ایک ٹکر ہوئی تھی بیچاری وہ تو سہم گئی تھی لیکن میں تو اسکی نیلی آنکھوں اور کیوٹ سے فیس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔خیر اسکے ماما ہیں نہیں اور بابا ہیں شازم خان یہ تین بہنے ہیں آمنہ شائزہ نے جاناں ۔۔۔۔۔ اس نے آمنہ کی پکچر آپنے پاس رکھتے جاناں اور شائزہ کی پکچرز انکے سامنے رکھتے کہا میصم نے اسے گھورا کتنا تیز تھا وہ


حازم نے میصم کے سامنے پڑی تصویر اٹھائی جو شائزہ کی تھی۔۔۔۔۔ یار معصوم تو ہیں اور بتاؤ کچھ انکے بارے میں فائل دو ؟؟؟؟ وہ فائل لیتے بولا لیکن فائل دیکھ وہ ٹھٹھکا


یہ تو وہی لڑکی ہے یہاں بھی کتنے غرور ہے اس میں ۔۔۔.جاناں کی تصویر دیکھتے میصم بڑبڑایا جس میں وہ ًغصے میں کچھ بول رہی تھی اسکے گہرے ڈمپل تصویر میں واضح تھے ۔امن کے کان کھڑے ہوئے


آپ جانتے ہیں اسے؟؟؟؟ کہاں ملی کیسے ملی ؟؟اس نے سوالوں کی بوچھار کردی میصم نے اسے بتایا کیسے انکی بریج پہ ملاقات ہوئی اسکا اٹیٹیوڈ ۔۔۔۔۔


اووو کتنے میسنے ہو یاررر ہم سے پہلے ہی لڑکی پسند کرلی اور ہمارے سامنے شریف بنے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس نے خفگی سے منہ پھلایتے شکوہ کیا میصم ہلکی سی مسکراہٹ میں نفی میں سر ہلایا اور حازم کو دیکھا جو فائل کھنگال رہا تھا


کیا کررہے ہو حازم ؟؟؟؟ بھائی اس لڑکی کی ساری انفارمیشن غلط ہے صرف فیملی کے علاوہ اور ساری انفارمیشن بلینک ہے ۔۔۔۔ یا تو یہ کوئی گینگ میں شامل ہے یا پھر یہ ایجنٹ ہے ۔۔۔۔۔ اس نے مشکوک نظروں سے فائل کے لئے دیکھتے کہا میصم نے الجھ کر حازم کو دیکھا امن نے سر پر ہاتھ مارا ۔۔۔


رشتے والی لڑکیوں کع بھی نہ چھوڑنا تم ۔۔۔۔۔


بات رشتے والی کی نہیں ہے کیا پتہ جو تمھاری یونی سے لڑکیاں غائب ہورہی وہ یہی کر رہی ہو؟؟؟؟؟؟ میصم نے سوچتے ہوئے کہا امن نے منہ بنایا اسے اب غصہ آرہا تھا


بھائی معصوم سی لڑکی ہے آپ کیوں بال کی کھال نکال رہے ہو؟؟؟؟ وہ تھوڑا غصے میں بولا تو حازم نے فائل رکھی اور تیکھی نظروں سے اسے گھورا


مجرم سے شادی کروگے ؟؟؟؟؟


ضروری نہیں کہ وہ مجرم ہو آپ نے ہی تو کہا ہے کہ ہوسکتا وہ ایجنٹ ہوں؟؟؟؟


لیکن ۔۔۔۔.


بسسس یار حازی سب غلط ہی نہ سوچو تمھاری والی ہوگی گینگسٹر میری والی نہیں ۔۔۔۔. وہ ہاتھ اٹھائے بولا اور پکچر اور فائل اٹھاتے روم کی طرف بڑھا لیکن جاناں اور شائزہ کی پکچر اٹھانا بھول گیا یا شاید جان بوجھ کر رکھ گیا


بھائی کیا پتہ میں زیادہ سوچ رہا ؟؟؟؟؟ حازم نے کہا


ہوسکتا ہے تم ریلیکس ہو اسکو میں دیکھ لونگا لیکن یہ طے ہے کہ شادی وہ کروا کر رہے گا ۔۔۔۔۔ کہتے وہ ہنسا تو حازم نے پکچر اٹھاتے اپنے روم کی طرف بڑھا


ایک بار دیکھنے پہ ہی سارا سکون لے چکی ہو۔۔۔۔ اب تو تصویر موجود ہے دن رات تمھیں دیکھو گا تو تمہارا مرید بن جاؤ گا ۔۔۔۔ تصویر میں اس سے مخاطب ہوا اور مسکرا کہ سر جھٹکا......................

میم جے۔کے۔ اندر ہی اندر کوئی ڈیل کررہا ہے پکی انفارمیشن ہے کہ جے۔کے اس بار بہت بڑی ڈیل کرنے والا ہے ۔۔۔۔ اس شخص نے اپنے خبری سے حاصل ہوئی ساری جانکاری اسکے گوش گزار کر دی جو بلیک جینز ہڈی میں ملبوس ماسک سے چہرہ چھپائے اور ہاتھوں کو گلوز سے کور کیے لونگ بوٹس پہنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی


اور کل وہ اپنے مال کی ڈلیوری کر رہا ہے پیسہ کل شام میں ایک اٹالین مافیا کا آدمی لے ائے گا. ۔۔۔۔۔ وہ مزید بولا


گڈ۔۔۔۔ آئینہ اور تم چلو گے میرے ساتھ ۔۔۔ آخر اس جے۔کے کو بھی پتا چلے کہ مافیا گرلز کیا چیز ہیں ۔۔۔ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھتے دھیمے سے لہجے میں گویا ہوئی وہ شخص سر ہاں میں ہلاتے واپس کو مڑا لیکن جاتے جاتے پلٹا


سوچ لیں خطرہ ہوسکتا ہے شاید انڈرورلڈ کے لوگ بھی ہم سے الجھ جائے ۔۔۔۔۔ اس نے خبردار کیا


خطرے کے کھلاڑی ہے ہم ۔۔۔۔۔ ہیچھے سے آتے نفوس نے اس لڑکی کے پاس بیٹھتے کہا وہ سر جھٹکتے باہر کو روانہ ہوا


شیشہ کہاں ہیں ؟؟؟ سوری آئینہ کہاں ہے؟؟؟؟ اسکی سرد نظریں خود پر محسوس کیے وہ اپنا جملہ درست کرتے بولا لیکن اس نے وہاں سے اٹھتے بیڈ کی جانب قدم بڑھائے


کوئی عزت ہی نہیں ہے رے ببوا ۔۔۔ وہ منہ بگاڑتے بولا اور موبائل نکال کر کسی کو کال لگائی۔۔۔ جو کچھ ہی منٹس میں ریسو کر لی گئی۔۔۔


کیا ہے ارسل کیوں سر کھا رہے ہو ؟؟؟؟؟ سامنے سے کوفت بھرے لہجے میں پوچھا گیا تو اس نے منہ بگاڑا


تم کہاں ہو؟؟؟ اسکی بات کو اگنور کرتے سوال گو ہوا


ہممم یونی میں پرنسپل کے آفس میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔


میری کوئی ہیلپ چاہیے؟؟؟؟؟ ارسل نے مدد کرنی چاہی


اتنی مدد کرو کہ کوئی مدد نہیں کرو اللہ کا واسطہ ہے یارر ۔۔۔۔۔۔ اس نے التجا کی تو ارسل نے ہنس کر کال کاٹی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


سننے میں آیا ہے کہ آجکل تم اس لڑکی کے چکر میں ہو؟؟؟؟ ہارث نے امن کے پاس آتے آمنہ کی طرف اشارہ کیا تو امن نے آئبرو اچکایا


بڑے کتے پال رکھے ہیں تم نے ۔۔ ہر بات سونگھ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ تمھاری چاپلوسی کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ خیر جو تم نے سنا ہے وہ بلکل غلط ہے اس بار تمھارے کتوں نے غلط بتایا ہے تمھیں ۔۔۔۔ امن سالار کسی کے چکروں میں نہیں پڑتا اور صنف نازک کی تو امن ہمیشہ دل سے عزت کرتا ہے ۔۔۔۔ امن نے ٹکا سا جواب دیا تو ہارث اتنی بے عزتی کہ اسکو کتوں سے مشابہت دے دی وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے وہاں سے چلا گیا


امن یار واقعی ایسا کچھ نہیں کیا؟؟؟ اسکے دوست نے پوچھا تو امن نے آمنہ کو دیکھا ایک گہری مسکراہٹ نے اسکو لبوں کو چھوا


کچھ تو ہے یارر لیکن یوں سب کے سامنے اسکا اپنا بتا کر اسکا کردار مشکوک نہیں کروانا چاہتا میں ۔۔۔۔ کچھ دن میں جب وہ میری ہوگی تو پوری یونی میں اعلان کردونگا کہ وہ میری ہے ۔۔۔۔۔۔ صرف اور صرف میری ۔۔۔۔۔۔ خود پہ نظریں محسوس کر آمنہ نے اردگرد دیکھا امن کو اپنی جانب پا کر اس نے منہ ٹیڑا کیا اور شائزہ سے باتوں میں لگی ابھی وہ باتوں میں لگے تھے کہ


یونی کا گیٹ کراس کرکے اتی بلیک چمچماتی پراڈو رکی ساری لڑکیاں اس جانب متوجہ ہوئی لڑکے بھی تشویش سے آگے آئے پیچھے موجود گاڑیوں میں سے گارڈز نے اتر کر گاڑی کو کور کیا ایک گارڈ نے کار کا ڈور کھولا


اتنی گاڑیاں کوئی بہت ہی ہینڈسم بندہ ہونا ہے ۔۔۔۔ شائزہ نے ایک آنکھ دبا کر کہا آمنہ ہنسی جاناں سر جھٹکتی وہاں سے جانے لگی لیکن گاڑی سے اترتے شخص کو دیکھ اسکا کل صبح کا منظر یاد آیا


.....................................


🎗🍂نہ #غصہ😒 کیا اس نے نہ #محبت ❤کی بات ہوئی🎀♻️


🎗⚡#عجیب🙄 تھا وہ شخص جس سے #ملاقات🤝 ہوئی🎀♻️


🍁❗


.....................................


بلیک پینٹ کوٹ ۔۔ہاتھ میں چمکتی برانڈڈ واچ ۔۔۔. برانڈڈ شوز ۔۔گلاسس لگائے بالوں کو ماتھے پر بکھیرے وہ قدم ب قدم چلتے سب لڑکیوں کے دل آپنے پاوں تلے مسل رہا تھا اسکو دیکھ لڑکوں نے جلن سے منہ بنایا


اففف کتنا ہینڈسم ہے یار ۔۔۔۔


امن سالار کا بڑا بھائی ہے یار ۔۔۔۔ لڑکیوں کے منہ سے نکلا


وہ سیدھا پرنسپل کی طرف گیا جو پھول لیے اسی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔


ویلکم مسٹر میصم سالار ۔۔۔۔ انہوں نے لہجے میں شہد کئ مٹھاس لیے کہا میصم کی بجائے گارڈ نے وہ پھول پکڑائے


مٹھاس دیکھو کمینے کے لہجے میں لیکن فکر نہ کر جانی اس فیرول پارٹی میں تیری موت طے ہے ۔۔۔۔۔ وہاں موجود ایک شخص نے دل میں سوچا


ہیے بھائی آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سب کو امن نے ساری لڑکیوں کو اپنے بھائی پر نظریں جمائے دیکھ وہ بھاگ کر اسکے گلے لگتا بولا


جلدی سے اندر جاؤ ورنہ یہ لکڑیاں آپ پر جادو ٹونا کردینگی ۔..اسکے کان میں سرگوشی نما کہا اور مسکرا کر پیچھے ہٹا میصم نے سائیڈ سمائل سے اسے دیکھا اور پرنسپل کے ساتھ افس کی طرف بڑھا لیکن جاناں کو دیکھ رکا جو کوفت بھری نظروں سے اسے اور وہاں موجود ہر لڑکی کو گھور رہی تھی


افففف یہ لڑکی کیا چیز ہے یارر۔۔۔۔۔ اسکے دل میں ہلچل ہوئی


دیدار محبوب بعد میں کرلیجئے گا میصم صاحب ۔۔۔۔۔۔ کسی نے کہا میصم نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا لیکن سب ہی اس سے کافی فاصلے پر تھے تو وہ آواز کس کہ تھی؟؟؟؟؟ وہ سر جھٹکتا اندر بڑھا


اففف کتنا سویٹ ہے یاررر. ۔۔۔


سمائل کتنی پاری ہے بےبی کی ۔۔۔امن کے پیچھے کھڑی لڑکی نے کہا


اوو ہیلو سمائل کی بچی جا کہ کسی اور پہ فلرٹ جھاڑو یا اتنی لیپا تھوپی کے بعد بھی کوئی گھاس نہیں ڈالتا ؟؟؟؟ وہ اسکے میک اپ سے لدے چہرے کو دیکھتے چڑ کر بولا وہ لڑکی اسکو دل میں گالیوں سے نوازتی جل کر وہاں سے ہٹی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


ہر طرف کچرا ہی کچرا تھا اور ناقابل برداشت بدبو وہاں کھڑے رہنا محال تھا وہی کچھ لوگ ماسک لگائے دن کے اجالے میں وہ لوگ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے


رات کو ہی یہ مال انکے پاس پہنچ جانا چاہیے۔کیونکہ آجکل مافیا گرل سبکے کام بگاڑ رہی ہے ۔۔اس بار کوئی بھی غلطی سے بھی غلطی کی گنجائش نہ ہو۔۔۔۔ ورنہ جے۔کے نے ہمھیں زندہ دفن کردینا ہے ۔۔۔۔۔ مال لوڈ کرتے وہ اپنے آدمی سے بولا جو جی سر کہتے ٹرک کو کچرے والی جگہ پر کھڑا کر اس پر کچرا ڈال کر ٹرک کو چھپا رہے تھے سب ٹرک چھپا کر وہ سب وہاں سے بےفکر ہوکر نکلے کہ کچرے میں کون ڈھونڈے گا


آنکھ جاتے ہی دو لڑکے وہاں آئے اور ٹرک سے سارا مال اپنے ٹرکس میں لوڈ کرنے لگے ۔۔۔۔


ڈن اس بار تو مافیا گرل کی شاباشی لے کر رہوں گا۔۔۔۔۔ پہلے نے مال دوسرے ٹرک میں ڈالتے فخر سے سینہ چوڑا کرتے کہا تو دوسرے نے مسکراہٹ دبائی


خیال سے ہر بار کی طرح ایسا نہ ہو کہ شاباش لینے جاؤ اور جوتے کھا کر آؤ۔۔۔۔۔۔


ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اس نے ڈھٹائ سے کہا اور ایک گھٹنے بعد سارے ٹرک پہلے جیسے کرتے وہاں سے ہنس کر نکلے لیکن ایک نشانی چھوڑ گئے جو ہر جگہ چھوڑا کرتے تھے


اکثر وہ ہوجاتا ہے جو ہم نے سوچا تک نہیں ہوتا کیونکہ نا تو دوسروں کی سوچ ہمارے جیسی ہوتی ہے نہ ہم خود قسمت لکھ یا بدل سکتے ہیں


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


میصم صاحب کل ہمارے یونی میں پارٹی ہے اور ہم چاہتے ہیں آپ بطور چیف گیسٹ یہاں تشریف لائے آپکے أنے سے محفل میں جان اجائگی ۔۔۔. پرنسپل نے مسکرا کر کہا میصم نے گلاسس اتار کر ٹیبل پر رکھے


یہاں میرا کیا کام ؟؟؟؟


ہم نے سبھی بزنس مینز کو مدعو کیا ہے لیکن آپ ہمارے چیف گیسٹ ہونگے تو سپیشلی آپ سے گزارش ہے آپ کل ضرور ائے گا ۔۔۔۔۔۔انہوں نے التجا کی تو میصم نے امن کی بات یاد کرتے سر اثبات میں ہلایا اور گلاسس لگاتے اٹھ کھڑا ہوا


اللہ حافظ کل ملاقات ہوتی ہے ۔۔۔۔ پرنسپل نے کہا اور میصم نے سر ہلاتے باہر کی طرف قدم بڑھائے


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


واؤ سو ہینڈسم۔۔۔. شائزہ نے میصم کو دیکھتے کہا


شادی کرنی ہے اس سے ؟؟؟؟ جاناں نے سنجیدگی سے پوچھا وہ دونوں حیران ہوکر اسکی طرف مڑی خوشی تھی کہ پہلی بار اس نے خود بات کی لیکن پریشانی کہ بات جون سی کی مطلب کیا تھا


نہیں. ۔۔۔۔۔۔


بھائی بنانا ہے ؟؟؟؟


نہیں ۔۔۔.


تو جب کوئی رشتہ ہی نہیں رکھنا تو اسکی تعریف کرکے تمھیں کوئی ایوارڈ تو ملے گا نہیں ہاں لیکن گناہوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور اگر اس نے سن لیا ہوتا تو اسکی سوچ تمھارے لئے کیا ہوتی۔۔۔۔ یہ مجھ سے بہتر جانتی ہو تم ۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی شائزہ نے شرمندگی سے سر جھکایا


بہتر ہے اس شخص پر یہ کمنٹ پاس کرنا جو تمھارا ہو کسی بھی ایرے غیرے کی اتنی مت دو کہ تم اسکی تعریف کرو اور بدلے میں تمھیں بےعزتی ملے ۔۔۔۔۔ وہ کہتی وہاں سے چلتی بنی


بات سہی تھی شازو۔۔۔۔ آمنہ نے اسکی تائید کی شائزہ نے سر ہاں میں ہلایا


واہ کیا بات ہے ۔۔.۔امن جسکا وہاں سے گزرا ہوا تھا جاناں کہ باتیں سن وہ اسے سراہے بغیر نہ رہ سکا اور سیٹی بجاتے گیٹ کی جانب بڑھا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


اففف شدت سے انتظار ہے کل کا آپ سے ملنے کا ۔۔۔۔۔ رات ہے کہ کٹ ہی نہیں رہی ۔۔۔۔ وہ آسمان میں موجود پورے آب و تاب سے چمکتے چاند کو دیکھ کر گویا ہوا اسکا بسس چلتا تو رات میں ہی اسکے پاس پہنچ جاتا ۔۔۔ انتظار تھا کہ ختم ہی نہیں ہورہا تھا وہ خوشی کے مارے اسکی آنکھوں سے نیند ہی اڑ گئی تھی


سو جاؤ ہشام میرے بچے ۔۔۔۔. روم میں آتے اسکے بابا نے کہا وہ مسکرایا انکی طرف مڑا


ماشاءاللہ ۔۔۔۔ خوشی سے دھمکتے چہرے کو دیکھ وہ بےساختہ بولے وہ انکے گلے لگا


بابا نیند ہی نہیں آرہی کیا کروں۔۔۔۔۔ وہ ہنس کر بولا تو عالم مسکرائے


جب عشق ہو تو نیند اپنے آپ اڑ جاتی ہے ۔۔۔۔ میرا بچہ کس کے عشق میں گرفتار ہوا ہے ؟؟؟؟؟ اسکی خوشی اور گہری مسکراہٹ کو پرکھتے وہ اسکے بال بکھیرے سوال گو ہوئے تو ہشام ساکت ہوا۔۔۔۔۔


کیا اسے عشق ہوچکا تھا پہلی نظر کا عشق ۔۔۔۔ اسکی دل کی دھڑکن تیز ہوتی اسکی بات کی یقین دھیانی کروا گئی کہ ہشام عالم شاہ کو اس کالی آنکھوں والی سے عشق ہے ۔۔۔


کیا راز و نیاز ہورہی ہے باپ بیٹے کے درمیان میں ؟؟؟؟؟ بھاری زیوروں سے لدی ہشام کی ماں خانم شاک نے وہاں آتے پوچھا تو عالم نے انہیں بازو کے گھیرے میں لیا


آپکے بیٹے عشق کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ چکے ہیں اب آپ تفتیش کریں کہ کون ہے اور کیسی ہے ہماری شاہ کی پسند؟؟؟؟ وہ ہشام کو کان سے پکڑ کر انکے حوالے کرتے بولے تو خانم نے بےیقینی سے ہشام کو دیکھا جو معصومیت سے سر پر ہاتھ پھیرتے مسکرا رہا تھا


ہائے میرا پتر کونسی لڑکی ہے بتاؤ تاکہ ہم اسکے گھر رشتہ لے کر جاسکیں ۔۔۔خانم نے اسکا ماتھا چومتے بےتابی سے پوچھا تو عالم شاہ مسکرا کر وہاں سے ڈھیرے کی طرف نکلے اور ہشام خانم کے نا ختم ہونے والے سوالوں میں پھنس کر رہ گیا


یہ تھے عالم شاہ اور انکی زوجہ خانم اور انکی اک لوتی اولاد ہشام شاہ نہایتی مغرور بگڑا شہزادہ ۔۔چھ فٹ سے نکلتا قد بھورے ہمہ وقت ماتھے پہ بکھرے رہنے والے سلکی بال خوبصورت سی کالی آنکھیں مغرور ناک گلاب لب ہلکی بھوری شیو وہ حسن کا شاہکار تھا انڈرورلڈ کا جانا پہچانا ڈون بھی تھا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


آسمان پہ موجود پورے چاند کے گرد ٹمٹماتے تارے ۔۔۔۔ صاف شفاف دریا کا پانی۔۔۔۔۔اور تیز چلتی ہوائیں ۔۔۔۔ ایک پل کو لگتا کہ چاند بلکل قریب ہے دریا میں چاند کا عکس نظر آرہا تھا ۔دریا کے کنارے پہ چلتے تیز ہوا کے سبب اسکے بال ہوا میں لہرا رہے تھے وائٹ گھٹنوں تک آتی جینز اور بلو شورٹ سلیولیس شرٹ میں وہ ننگے پاؤں پورے چاند میں کھوئی اگے دریا میں چلتی جارہی تھی کہ پانی اسکی تھوڑی کو چھونے لگا تھا کہ اسکا طلسم ٹوٹا کوئی تیزی سے اسے اپنے ساتھ کھینچتے باہر دریا کنارے جارہا تھا


لڑکی تم پاگل ہو ۔۔۔۔۔ کنارے پہ اسکا ہاتھ چھوڑتے میصم نے گھور کر اسے دیکھا وہ یہاں موڈ بحال کرنے آیا تھا لیکن کسی لڑکی کو یوں دریا میں جاتے دیکھ پہلے تو اس نے سر جھٹکا لیکن پھر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا وہ لڑکی کوئی اور نہیں جاناں شازم خان ہے وہ تیزی سے دریا کی طرف بھاگا


میں پاگل ہوں یا نہ ہو تمھیں اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے اور آئندہ ٹچ کیا تو ہاتھ توڑ دونگی سمجھے ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے بولی اپنے بازو پہ ابھی تک جلن محسوس ہورہی تھی اسکے پکڑنے پر


اگر میں نہ بچاتا تو اب تک مر چکی ہوتی تم۔۔۔۔۔ بجائے تھیکنس کہنے کے تم میرے ہی گلے پڑ رہی ہو۔۔وہ غصے سے ہونٹ بھینچے بولا ورنہ دل تو کررہا تھا یک لگا دے اس پاگل لڑکی کو جو جب سے ملی تھی یا تو اپنے ڈمپلز دیکھا کر ساکت کر دیتی یا یوں اٹیٹیوڈ دیکھا کر دماغ ریتی


میں مر جاتی تو تمھارا کچھ نہ جاتا ۔۔۔۔ میں نے نہیں کہا تھا کہ فالتو کی ہیرو گیری کرو میرے سامنے۔۔ وہ ٹکا سا جواب دیتی رخ موڑتی چلنے لگی میصم نے گھور کر اسکی پشت کو دیکھا لیکن اسکی حرکت پہ سٹپٹاتے نظریں چرا گیا جس نے بالوں کو اوپر جوڑے میں باندھ دیا تھا جس سے اسکہ نازک دودھیا کمر نیلے رنگ اور چاند کی چاندنی میں دھمک رہی تھی


عجیب لڑکی ہے اتنا اٹیٹیود اور کتنی حاضر جواب ہے نجانے مجھے کیا ہوجاتا اسکے سامنے ۔۔۔۔ اسکو گاڑی میں بیٹھتا دیکھ وہ اپنی گاڑی کی طرح بڑھا لیکن ریت پہ کچھ چمکتی چیز دیکھ رکا


اوہ یہ اس لڑکی کی چین گر گئی۔۔۔۔ گولڈ کی پتلی سی زنجیر میں ایک نفیس سا دل بنا ہوا تھا اس نے چین اٹھاتے دل میں سوچا


میں دے آؤں کیا؟؟؟؟ نہیں میں کیوں جاؤ خود ہی مانگے گی تو دونگا ۔۔۔۔وہ دل میں اپنے ہی والوں کے جواب دے رہا تھا


لیکن وہ پریشان ہوگی ۔۔۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


کون ہے یہ مافیا گرل بول ؟؟؟؟ کانسٹیبل نے مار مار کر اسے ادھ موا کرتے کہا لیکن بدلے میں اسے ہنستے دیکھ وہ ہنٹر پھینکتے سر پکڑ کر بیٹھ گیا


ہہ جیل کا منظر تھا جہاں ایک لڑکے کے پاؤں کو رسی سے باندھ کر الٹا لٹکایا گیا تھا اور ڈنڈوں کے بعد ہنٹر سے مارا جارہا تھا اتنا کہ اسکے جسم میں جگہ جگہ سے خون بہتے اسکے ہاتھوں سے زمین پر قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا گہرے زخم بن چکے تھے لیکن وہ لڑکا کچھ بتانے کو تیار ہی نہ تھا


بتا دو کہاں ہے مافیا گرل ورنہ مر جاو گے .۔۔۔۔کانسٹیبل نے اسکے خون میں لت پت بالوں کو دبوچتے کہا


مم۔۔موت دینے والا تو ک۔کون ہ۔ہوتا ہے ۔بے سالے ؟؟؟ موت تو میرا خدا دیتا ہے زندگی موت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔۔ موت سے ڈ۔۔ڈر نہیں لگتا م۔مجھے۔۔۔۔ خون سے بھری آنکھوں کو نیم وا کیے وہ رک رک کر بولا کانسٹیبل نے افسوس سے اسے دیکھا


سب کہتے ییں وہ موت سے نہیں ڈرتے جب موت سر پر آتی ہے تو سبکی جان لبوں پہ آجاتی ہے ۔۔۔۔ حازم نے اندر آتے طنز کیا


وہ سب ہیں ہم ت۔تھوڑی ہ۔ہیں ؟؟؟ اسکا لہجہ تمسخر بھرا تھا حازم نے ہونٹ بھینچتے ایک زور دار پنچ اسکے پیٹ میں مارا کہ اسکے منہ سے خون نکلا لیکن وہ لڑکا دھیٹ بنا ہنسنے لگا


دیکھو جتنا پیسہ کہو گے تمھیں دونگا بسس اس لڑکی کا پتہ بتادو ؟؟؟ یا صرف نام بتا دو میں تمھیں چھوڑ دونگا۔۔۔۔ابکی بار وہ نرمی سے بولا تو اس لڑکے کا بلند قہقہہ گونجا کانسٹیبل اور حازم نے حرانی سے اسے دیکھا اتنی مار کھانے کے بعد بھی وہ ہنس رہا


کان لاؤ ۔۔۔ وہ نیم وا آنکھوں سے اسے اپنے قریب انے کا اشارہ کرنے لگا حازم کان اسکے منہ کے قریب لایا


غداری میرے خون میں شامل نہیں ۔۔.گر میں چاہو تو ابھی یہاں سے بھاگ جاؤ تم کیا تمھارے یہ دو ٹکے کے پولیس والے بھی مجھے روک نہیں سکتے ۔۔۔۔میرا کام ہوگیا ۔۔۔۔آج ہی میں بھاگ یہاں سے رہا ہوجاؤنگا جو اوکَھاڑنا ہے اوکھاڑ لے ایس پی ۔۔۔۔ وہ تمسخرانہ لہجے میں گویا ہوا حازم نے کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی غصے سے ہاتھ کی نسیں ابھرنے لگی اس نے ہنٹر لیا اور در پر در اسکے جسم پہ ضرب لگاتے وہ اسے ادھ موا کر چکا تھا


انجان تھا ایس پی کہ اسکے ایک ایک زخم کا حساب لیا جائے گا اس سے ۔۔۔ وہ عزیز جاں تھا مافیا گرلز کا ۔۔۔۔۔۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


بارہ بجے کا ٹائم تھا سب ہی سکون کی نیند سو رہے تھے بارہ بجے کا ٹائم تھا سب ہی سکون کی نیند سو رہے تھے لیکن شہر سے کافی دور قدرے سنسان سے علاقے میں اس روشنیوں سے جگمگاتے کلب میں اس وقت بے حیائی چھائی تھی ہر کوئی نشے میں دھت اپنے ایک دوسرے کہ بانہوں میں جھول رہے تھے۔۔ کوئی ڈرنک کررہا تھا تو کوئی ڈانس کر رہا تھا ۔۔


کلب سے نکلتی وہ اندھیری رات کے اندھیرے میں وہ بلیک سکرٹ پہنے ہاتھوں میں ہائی ہیل پکڑے۔۔وہ۔ نشے میں دھت کبھی یہاں گرتی کبھی وہاں ۔۔۔۔۔


ہیے بےبی یہاں آؤ میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ دوں ۔۔۔ اسکو اکیلا دیکھ وہ لڑکا اسکے پیچھے آتے آنکھوں میں ہوس لیے اسکے وجود کو دیکھتے بولا


تم م۔مجھ۔ے گھر چ۔ھوڑو گے میرا ت۔تو کو۔ئی گھر ہی نہیں ہے ۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں ہیل دوسرے کو گال پر رکھ کر لڑکھڑا کر چلتی وہ کلب سے تھوڑا دور تھے


میں تمھیں اپنے گھر لے جاؤ گا ایک بار میرے ساتھ تو آؤ جانی ۔۔۔۔ وہ اسکے بالوں کو غلیظ ہاتھوں سے چھونے لگا لیکن اس سے پہلے وہ اسکو چھوتا اس لڑکی نے نے اسکا ہاتھ پکڑ کر موڑا اسکے منہ میں کپڑا گھسایا اور دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر پیچھے کی طرف باندھا وہ آدمی دیدے پھاڑے بےبسی سے مچلنے لگا


تمھارے گھر کا مجھے پتہ نہیں تو چلو تمھاری خاطر طواضا کرتے ہیں وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی تو وہ ادمی بھاگنے لگا کہ اس نے بالوں سے چاقو نکالتے اسکی ٹانگ پر مارا وہ آدمی چیخا لیکن اسکی چیخ کپڑے کے پیچھے دب گئی ۔۔چاقو کی دھار اتنی تیز تھی کہ اس لڑکے کا گوشت لٹک کر اسکی ٹانگ کہ ہڈی واضح کرنے لگا


اب کہاں اب ناممکن ہے بچنا اب مافیا گرل کے ہاتھ لگے ہو۔۔۔۔ وہ اسکو گھورتے بولی اور اسکو ٹانگ سے گھسیٹ کر اپنی گاڑی کے پاس لے جانے لگی


میرا کام مکمل ہوا۔۔۔۔ کان میں لگے آلے میں بولی اور مڑ کر لڑکے کو دیکھا جو لڑکا ہوش حواس سے بیگانہ ہوچکا تھا.........


آپ لوگ تو کمنٹس کرتے ہی نہیں ؟؟؟؟ ناول اچھا نہیں ہے کیا؟؟؟؟ 

💥💥💥💥💥💥💥🌹🌹


آمنہ آپ میٹنگ اٹینڈ کرنے جاؤ گی۔۔۔۔ بہت امپورٹینٹ میٹینگ ہے ۔۔۔۔ شازم نے آمنہ کو دیکھتے کہا جو منہ بنائے شائزہ کو دیکھنے لگی شائزہ نے جاناں کو معصومیت سے دیکھا


یونی میں پارٹی ہے ان دونوں نے ڈانسنگ میں پارٹیسپیٹ کیا ہے انہیں ریہرسل کرنی ہے سو میں چلی جاؤ گی ۔۔۔۔۔ جاناں نے شازم کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا آمنہ نے اٹھ کر اسے زور سے کسس کردی جاناں نے گال پہ ہاتھ رکھتے شاک سی حالت میں اسے دیکھا شازم ہنسے بیٹی کے تاثرات دیکھ کر


اووو سو کیوٹ ۔۔.شائزہ اسکے دوسرے گال کو کھینچتی پیار سے بولی جاناں کو اپنے گالوں پہ تپش محسوس ہونے لگی اسکے گلابی گال سرخ انار بن چکے تھے


دور ہٹو چھچھوری ۔۔۔۔۔۔اسکو دور ہٹاتے وہ بڑبڑائی ہال میں ان تینوں کو قہقہہ گونجا جاناں شائزہ کو خفگی سے گھورتی اوپر کمرے کی طرف چل دی


تمھاری ماں بھی ایسی تھی جب غصہ ہوتی سیدھا روم میں بند ہوجاتی تھی ۔۔۔۔ہنستے ہوئے بے دھیانی میں شازم کے منہ سے نکلا شائزہ اور آمنہ نے چونک کر انہیں دیکھا کتنے سالوں بعد انکی ماں کا ذکر ہوا تھا اس گھر میں انکا اپنی طرف دیکھتا پاکر شازم کو اپنی بات کا احساس ہوا


جاؤ تم لوگ ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔ میری طبیعت خراب ہے مجھے ریسٹ کرنا ہے ۔۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئے اور اٹھ کر جانے لگے لیکن امنہ کہی بات نے انکے قدم روکے


کب تک چھپائیں گے بابا ۔۔۔ اب ہم بچے نہیں ہیں کہ آپ بات بدلے گے اور ہمھیں پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔۔ ایک نہ ایک دن تو جان کر ہی رہینگے کہ آخر کیا وجہ تھی جو ماما ہمیں چھوڑ کر کہاں گئی اور کیوں گئی۔۔۔۔ہمارا کیا قصور تھا جو چند سال کی بچیوں سے ماں کا پیار چھین لیا.انہوں نے۔۔۔۔۔اور آپ نے کبھی انکا نام لینا بھی ضروری نہ سمجھا ۔۔۔ نجانے ماضی میں ایسا کیا ہوا ہے جو میری بہن کی زندگی پر اثرانداز ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسکی بات پر شازم جھٹکے سے مڑے اڑی رنگت سے انکا چہرہ تکنے لگے کیا انکی بیٹی کی خاموشی کی وجہ وہ خود تھے سوچ کر ہی انکے دل میں ہول اٹھنے لگے تھے


آمنہ جاؤ اور جاکر یونی تیار ہوجاؤ آج تم لوگوں کو میں چھوڑنے جاؤں گا ۔۔۔۔۔ وہ سرخ ہوتی آنکھوں اور اڑی رنگت سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے ضبط سے گویا ہوئے لاتعداد سوچوں نے انہیں آن گِھیرا


بابا .۔۔۔۔.۔!!!!! شائزہ نے انکی خراب ہوتی حالت دیکھ پکارا لیکن وہ انکو نظرانداز کرتے روم میں بند ہوئے


چلو شائزہ ۔۔۔۔آمنہ نے شائزہ کو کہا اور روم میں جاتے یونی جانے کے لئے ریڈی ہونے لگی


آپکی اس بگڑتی حالت نے میرے شک شک کو یقین میں بدل دیا ہے ڈیڈ۔۔ کچھ تو بہت غلط ہے اور وہ کیا ہے یہ سب ہمھیں ہی معلوم کرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔


سیڑھیوں پہ کھڑی جاناں ماتھا مسلتے دل میں سوچا اور گلاسسز لگاتی باہر کو بڑھی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


بھائی سچ میں اتنی اچھی بات کی جاناں نے امیزنگ بلکل آپکے جیسی ہیں وہ سیڑیل اکڑو۔۔۔۔!!!! گردن پہ ہاتھ محسوس ہوتا تو اسکی زبان کو بریک لگی اور ہونٹ دانتوں تلے دبائی اس نے چور نظروں سے میصم کو دیکھا جو اسکے گوہر فیشانیاں سن کر اسکے گھور رہا تھا


تو کیا ہوں میں ؟؟؟؟ سڑیل اکڑو ؟؟؟ اور بھی بتاؤ کچھ ؟؟؟؟ میصم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا تو امن نے پھیکی ہنسی ہنستے گردن اسکے گھمائی اور احتیاط تھوڑا دور کھسک کر بیٹھا میصم اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا


ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ آپ کسی کڑوے کریلے سے کم نہیں ہیں لیکن وہ جو بھابی ہیں نہ انکے سامنے کیوں آپکی زبان نہیں کھلتی میں نے اپنے ایجنٹ سے سنا ہے کہ آپ کل رات کو بیچ پر تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔


اس نے ہنس کر کہتے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا تو میصم گڑبڑایا یہ لڑکا ہمیشہ اسکے بارے میں سب جان لیتا تھا اللہ جانے اسکے کونسے ایسے ایجنٹس تھے


بھئی تیری بھابی بہت غصے والی ہے بسسس وہی ختم کرنے گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے بات بدلتے کہا تو امن نے منہ بنایا


بھائی وہ بہت اچھی ہیں آپ نے ہی کچھ کیا ہونا ہے ورنہ وہ تو غصہ نہیں کرتی ۔۔۔۔


امن زیادہ اسکے چمچے نہ بنو ابھی تو وہ تمھاری بھابی بنی نہیں پہلے ہی اسکی چمچا گری شروع کردی تم نے ۔۔۔ اور اگر وہ اچھی ہے تو اس میں میرا کیا قصور جو تم یوں میرے پیچھے پڑے ہو ۔۔۔۔ مجھے میٹینگ میں جانا ہے سو ہٹو اب ۔۔۔۔ وہ اسکو ایک سائیڈ پر کرتے بولا اور کوٹ اٹھا کر آفس سے باہر نکل گیا امن نے منہ کھولتے اسے دیکھا "مطلب وہ فضول بول رہا تھا"؟؟؟


کسی کو میری قدر ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ میں پارٹی میں اکیلا نہیں جاؤنگا حازی کو لے جاتا ہوں۔۔ وہ پیر پٹکتے بولا اور اٹھ کر حازم کی طرف نکل گیا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


مجھے وہ سہی سلامت چاہیے ۔۔۔۔ وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں گویا ہوئی تو سب کو سانپ سونگھ گیا بھلا کیسے وہ اسے پولیس کی کسٹڈی سے نکال سکتے تھے


باس بیل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ایک گینگسٹر سمجھا جا چکا ہے ۔۔۔۔ وہ منمنایا۔۔۔


بیل نہیں ہورہی تو کیا ؟؟؟؟ میرا بھائی وہاں ان حرام خوروں سے مار کھاتا رہے گا باس اب آپ ہی کچھ سوچے بھائی کو لے آئے۔۔۔ مافیا گرل بےبسی سے کہتے گھٹنوں پہ بیٹھی


اتنا کمزور دل نہیں ہے وہ جو تھوڑی سی مار پر مر جائے گا ۔۔۔۔ شیر ہے وہ ۔۔۔ شیر زخمی ہو تو زیادہ خطرناک بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔ بےبس لوگ مجھے پسند نہیں ۔۔۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی


رات کو ہی جب وہ اسکو سنٹرل جیل شفٹ کرنے جائیں گے ہم اسے پازیاب کروا لیں گے ۔۔۔اندھیری رات کے اندھیرے میں سرگوشی نما اواز نکلی.


باس کل یونیورسٹی میں پارٹی ہے جہاں وجی کا آدمی بطور سٹوڈنٹ جاتا ہے لیکن اصل میں وہ لڑکیوں کی پکچرز بنا کر وجی کو دیتا ہے اور وہ انہی لڑکیوں کی تصویرات دیکھا کر انکا سودا کرتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ اسکی پکچرز دکھاتے بولا


اسکا دی اینڈ تو میں کرونگی ۔۔۔۔ آس نے پکچرز کو غور سے دیکھتے کہا اور مافیا کوئین کی طرف دیکھا جو سرد نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی


آل دا بیسٹ۔۔۔۔ اس نے کہا تو وہ پکچرز اٹھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی


ویسے باس ایک بات پوچھو یہ ماسک لگا کر آپ سانس کیسے لیتی ہیں میرا تو دم گھٹنے لگتا ہے ۔۔۔۔ وہ تصور میں ہی خود کو ماسک لگائے دیکھ لمبی سانس بھرتے سوال گو ہوا


اچھا اچھا آپ ایسے گھورے تو نہ بندے کی جان نکل جائے گی ۔۔۔۔اسکی غضب ناک تیوروں کو دیکھتے وہ دل پہ ہاتھ رکھتے بولا اور وہاں سے نو دو گیارہ ہوا وہ سر جھٹکتے کل کے لئے پلان بنانے لگی ۔۔۔۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


شازو سہی لگ رہی ہوں نہ ؟؟؟؟


اووو بی بی کان خراب ہیں ؟؟؟؟ کتنی بار کہو کہ اچھی لگ رہی ہو اب مجھ سے مت پوچھنا کیشی لگ لہی ۔۔۔۔ اسکے بار بار ایک ہی سوال کرنے پہ وہ سخت کوفت سے بولی اور اسکی نکل کی امنہ نے اسے گھورا اور فٹے منہ کہتے یونی میں داخل ہوئی


یہ سب ہمھیں کیوں گھور رہیں ہیں ؟؟؟؟؟ وائٹ جینز پنک شرٹ میں ملبوس شائزہ نے کالی آنکھیں گھما کر پوچھا


ہر طرف گہما گہمی تھی کچھ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس تھے تو کچھ آؤٹ آف یونی کے کافی لڑکوں کی نظروں کو اپنی جانب گھومتے دیکھ وہ مضطرب ہوئی


میں جا کہ پوچھ آؤ؟؟؟؟ اس نے طنز کیا ۔۔۔۔وائٹ جینز اور کندھوں سے نیچے آتی شرٹ آمنہ ۔۔۔۔سب لڑکوں کی نظریں آمنہ پر جم چکی تھی وہ کنفیوز سی ادھر ادھر دیکھنے لگی


ہائے آمنہ. ۔۔ انکی سینئر لیزا نے انکے پاس آتے کہا


اسلام وعلیکم !


وعلیکم اسلام! تمھارا ہی انتظار تھا ۔۔۔ وہ مسکرا کہ بولی آمنہ اور شائزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا


بسسس ایسے ہی تم سے ملنے کا دل کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس نے دائیں جانب کھڑے اپنے گروپ کو آنکھ مارتے کہا ان سب نے اسے گڈ لک کا اشارہ کیا


کچھ گڑبڑ ہے ورنہ یہ بھوتنی اپنے پاس کیوں اتے اور لہجہ دیکھو شہد ٹپکا رہا ہے میں کہہ رہی ہوں پکا اس شہد میں کسی چیز کی ملاوٹ ہے ۔۔۔۔۔ شائزہ نے آمنہ کے کان میں سرگوشی کی آمنہ نے سر ہاں میں ہلایا


کیا ہوا ؟؟؟؟ انکو کھسر پھسر کرتے دیکھ لیزا نے پوچھا تو شائزہ نے مسکرا کر نہ میں سر ہلایا


آؤ ہم سب فرینڈز اس بلڈنگ میں جارہیں ہیں تم بھی ہمھیں جوائن کرسکتی ہو۔۔۔۔۔ اسنے اپنے پلین کے مطابق اسے اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی


اوکے ۔۔۔شائزہ اور آمنہ نے سر ہلایا اور خوشی خوشی انکے ساتھ چل دی۔۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


ہیلو مسس سر اس ٹیبل پر بیٹھے ہیں ۔۔۔۔ بلیک جینز شرٹ میں ملبوس کرل بالوں کو کھلا چھوڑے کالی آنکھوں کو گلاسسز سے چھپائے سفید نازک سے پاؤں کو بلیک ہیل میں قید کیے وہ سبکی نظروں میں تھی سب ہی کھانا چھوڑے اسے دیکھ رہے تھے جو ہیل سے ٹک ٹک کرتی اس ٹیبل کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں کچھ لوگ اسی کے انتظار میں بیٹھے تھے


اسلام وعلیکم!! خوشبوؤں میں بسا وجود چیئر پہ بیٹھا تو سب چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوئے


جانی پہچانی آواز پہ اس نے سائیڈ ٹیبل پر دیکھا ایک بار پھر اسی ڈمپل گرل کو دیکھ میصم نے لمبی سانس لی


آپ۔۔۔۔؟؟؟


یہ شازم خان کی چھوٹی بیٹی جاناں شازم خان ہیں انکی طبعیت خرابی کی وجہ سے وہ میٹینگ میں نہیں آسکے۔۔۔۔ شازم کے پی اے نے وضاحت دیتے کہا سب نے سمجھتے سر ہلایا اور میٹینگ سٹارٹ کی


اگر آپ اس میں انویسٹمنٹ کریں گے تو آپکو بھی منافع ہوگا ۔۔۔۔ اور ہمھیں بھی ۔۔۔. ایک آدمی نے پروجیکٹ دیکھاتے بات ختم کرتے کہا


ہم اس میں انویسٹ نہیں کرینگے ۔۔۔۔۔ جاناں نے سنجیدگی سے کہا سب نے حیرانی سے اسے دیکھا کہ اتنا اچھا پروجیکٹ پھر منع کرنے کی وجی؟؟؟؟؟


اینی ریزن ۔۔۔۔۔۔


یس ۔۔۔۔ اس پروجیکٹ میں نا ہمارا اور نا ہی عوام کا فائدہ ہوگا ۔۔۔ صرف آپکا منافع ہوگا ۔.۔۔ کسان اتنی محنت سے کھیتی باڑی کرتے ہیں کسی بھی جراثیم سے پاک غذا ہمھیں مہیا کرتے ہیں. ۔۔ تاکہ ہم لوگ تندرست رہ سکے اور آپ لوگ اسی میں ملاوٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس عوام میں بیماریاں پھیلے اور ان کسانوں کی سالوں کئ محنت بیکار جائے اور آپکے یہ کیمیکلز ہماری نیو جنریشن کو ویک کردیں ۔۔۔۔۔ اور تو اور اگر یہ کیمیکلز سے سبزیاں پیدا کی جائے گی تو کسان بیچارے کہاں جائے گے ۔۔۔۔. شیم اون یو ۔۔۔۔ کچھ کرنا ہے تو اپنے دم پر کرو یوں معصوم کسانوں کی روزی کیوں چھیننا چاہتے ہو ..۔۔۔۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی نظریں اس آدمی پہ تھی جو غصے سے لال پیلا ہوتے اسے گھور رہا تھا میصم اسکے ڈمپلز کو محویت سے دیکھ رہا تھا جو لُکا چھپی کا کھیل کھیل رہے تھے ۔۔۔


اگر تمھیں نہیں پسند تو چلی جاؤ ۔۔۔ دوسرے کا دماغ خراب مت کرو۔۔۔. وہ بدتمیزی سے گویا ہوا تو میصم نے غصے سے اسے دیکھا


دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جاؤ کوئی بھی اس پروجیکٹ میں انویسٹ نہیں کریگا کیونکہ یہ پروجیکٹ جاناں خان نے ریجیکٹ کیا ہے اور اس پر میں جاناں شازم پر اپ پر کیس فائل کرونگی ۔۔۔۔۔ وہ سرد لہجے میں گویا ہوئی میصم نے سراہتی نظروں سے اسے دیکھا


میم سب ہی یہ کام کر رہیں ہیں اگر ہم کرینگے تو کیا مسئلہ ہے ؟؟؟؟ آپ خود سوچیں فصل سبزیاں ٹائم سے پہلے ملے گی تو سب کا فائدہ ہوگا ۔۔۔۔۔ اسکی بات سن وہ بوکھلایا


جو لوگ کریں وہ جاناں نہیں کرتی ۔۔۔۔اللہ حافظ ۔۔۔۔ ایک ہی بات کرتے وہ اپنے گلاسس ٹھیک کرتی اٹھی اور ٹک ٹک کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئی اس کے پیچھے وہ سب بھی وہاں سے نکلے


لڑکی میں کچھ تو بات ہے ۔۔.۔۔۔۔ وہ بڑبڑایا اور سر جھٹکتے وہاں سے نکلے


.....................................


زندگی اگر جنگ ہے 🔫🔪


تو ہم بھی دبنگ ہیں 😊😉


.....................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


آہہہہہ کھولو ۔۔۔۔ وہ لیزا کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی کہ پیچھے سے دو لڑکیوں نے انہیں اندر کی طرف دھکا دیا اور دروازہ لاک کرتے بلڈنگ سے باہر بھاگے


لیزا اگر انہیں کچھ ہوگیا تو ؟؟؟؟ اسکی فرینڈ نے ڈر کر پوچھا


یہاں کوئی نہیں آتا سوائے جن بھوت کے اور ہم بسس ایک گھٹنے بعد آکر انہیں نکال لیں گے سمپل اپنا ٹائم مزے میں گزرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لیزا نے ہنس کر کہا وہ تینوں ہنستے ہوئے وہاں سے نکلے یہ جانے بنا کہ انکے مزے کے چکر میں ان کی جان بھی جا سکتی ........ ................

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤❤


آمنہ ہ۔ہم پھنس گئے ۔۔۔۔یہ کونسی جگہ ہے ۔۔۔۔۔؟؟؟؟ شائزہ نے اس خستہ حال خوفناک سی بلڈنگ کو دیکھتے ڈر کر آمنہ سے پوچھا جو خود بھی خوف سے کپکپا رہی تھی اس بلڈنگ میں ہر جگہ جالے تھے ایسا لگتا تھا جیسے صدیوں سے یہاں کوئی نہ آیا ہو ۔۔


آگے چلتے ہیں کیا پتہ باہر نکلنے کا راستہ مل جائے....... آمنہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا اور وہ دونوں دپ دل مضبوط کرتی جالے ہٹائے أگے بڑھی


کوئی راستہ نہیں ہے ادھر اور اندھیرا بھی بہت ہے چلو وہی شٹر کھٹکھٹاتے ہیں کیا پتہ کوئی سن کر ہمھیں یہاں سے نکال لے۔۔۔۔ آمنہ نے اداسی سے کہا اور وہ واپس اسی جگہ جانے لگی


چلو بھی شازو یہ کوئی گارڈن نہیں ہے جہاں تم یوں مٹک مٹک کر چل رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ آمنہ نے شائزہ کو اپنے ہمقدم نہ پاکر چلتے ہوئے کہا


آمنہ۔۔۔۔۔


شازو کی پھنسی پھنسی آواز نکلی آمنہ کو کچھ بہت غلط ہونے کا احساس ہوا وہ شائزہ کی طرف مڑی لیکن سامنے کا منظر دیکھ اسکی روح لرز اٹھی جہاں دو موٹے سانڈھ نما گارڈز شائزہ کے سر پر گن رکھے ہوئے تھے اور دوسرے کی گن کا رخ امنہ کی جانب تھا ڈر سے اسکا حلق سوکھ گیا


بغیر کسی ہوشیاری کے چلو ہمارے ساتھ ورنہ یہی دونوں کو زمین میں گاڑ دینگے ۔۔۔۔۔ شائزہ کے سر پر گن مار کر اسے آمنہ کی طرف دھکیلتے گن ان پر تانتے کہا شائزہ کے سر سے خون کی ایک لکیر نکلتی اسکی آنکھ گال اور ہونٹ سے گزرتی گردن پر بہہ نکلی تکلیف سے اسکی بےساختہ چیخ نکلی آمنہ بھاگ کر اسکے پاس آئی جسکے سر سے خون بہہ رہا تھا


اے چپ کر ورنہ یہی گولیوں سے بھون ڈالونگا ۔۔۔۔۔ سینہ آدمی چیخا تو آمنہ اور شائزہ نے منہ پر ہاتھ رکھا اور ڈر خوف سے کانپنے لگی ان گارڈز نے انہیں اپنے آگے چلنے کا اشارہ کیا تو وہ خوف سے کپکپاتی ایک دوسرے سے چمٹی انکے آگے چلنے لگی


یہ کون ہیں ؟؟؟؟ ٹرک کے پاس موجود گارڈ نے پوچھا شاید وہ انکا باس تھا


باس یہ اسی بلڈنگ میں گھوم رہی تھی کسی دشمن کی لڑکیاں لگتی ہیں ....اس نے وضاحت بیان کی تو اس باس نے ہاں میں سر ہلایا


ہممم ویسے بھی دو لڑکیوں کی کمی تھی چلو اب پوری ہوگئی ڈالو انکو ٹرک میں ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے شائزہ اور امنہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھا انکا دل کیا اسکی غلیظ نظروں سے کہیں دور بھاگ جائیں انکے آنسو تھے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے


پلی۔پلیزز ہمھیں جانے دیں آپ جو کہیں گے ہم کرے گے پلیزز ۔۔۔۔ گارڈز نے انکے ہاتھ باندھنے چاہے لیکن وہ دونوں پیچھے کی طرف کھسکتی انکی منت سماجت کرنے لگی


چل اے بدزات عورت ۔۔۔۔۔۔ پیچھے کھڑے باس نے انکی کمر میں زور سے لوہے کا راڈ مارا


آہ۔ہ۔ہ۔ہ ام۔امن۔۔۔۔۔۔


وہ آگے کو گری اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی توٹتی ہوئی محسوس ہوئی سرگوشی نما آواز میں اس دشمنِ جاں کا نام نکلا۔۔۔ ایک امید تھی وہ اسے بچا لے گا لیکن۔۔۔اسے کیسے معلوم ہوگا کہ وہ مصیبت میں ہے ۔۔۔۔۔۔


آہہہہ ۔۔۔۔شائزہ کی دردناک چیخ بلڈنگ میں گونجی جو بلڈنگ میں داخل ہوتے نفوس کی جان حلق طوفان کہ زد میں آگئی تھی۔۔۔۔۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


حازی تم یہاں بھی ڈیوٹی پہ ہو یار حد ہے ۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس وقت کیفٹیریا میں موجود تھے جہاں ساری لڑکیاں اردگرد ٹیبلوں پہ بیٹھی ان دونوں بھائیوں کو گھور رہی تھی لڑکے بھی مڑ مڑ کر ان بھائیوں کو حسد اور ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے


جو بلیک پینٹ کوٹ میں بے حد حسین دیکھائی دے رہے تھے وہ دونوں ایک سی ڈریسنگ میں موجود تھے۔۔فرق بس اتنا تھا کہ حازم کے چہرے پہ سنجیدگی چھائی تھی وہ بےزار ہوچکا تھا وہاں لڑکیوں کی جھرمٹ سے ۔۔ اور امن جسکی چہرے پہ بڑی سی مسکان اور بھوری آنکھوں میں شرارت کے دیئے چمک رہے تھے


حازم کان میں بلوٹوتھ لگائے اپنی ٹیم سے کنٹیکٹ میں تھا جو آج یونی میں ہونے والی سب سے بڑی ڈیل کو روکنے کے لئے یہاں موجود تھے


یاررر امن باتیں کر تو رہا ہوں تجھ سے اب کیا بندریا ڈانس کرو تیرے ساتھ ۔۔۔؟؟؟ حازی نے گلے میں لاکٹ گھماتے اردگرد نظریں دوڑائی


پاگل انسان بندریا ڈانس نہیں بندر والا ڈانس ہم لڑکے ہیں لڑکیاں تو نہیں جو بندریا کی طرح ناچے گے ۔۔۔۔. امن کا قہقہ بلند ہوا لڑکیاں جانثار نگاہوں سے انہیں تکے گئی جو لاکھوں حسیناؤ کا پرنس چارمنگ ہوسکتا تھا


ویری فنی ۔۔۔۔۔


لگتا ہے ابھی تک آمنہ وغیرہ نہیں آئی ۔۔۔۔وہ آئیں گی تو آپ کو اپکی بھابی اور میں اپنی بھابھیوں سے مل لونگا ۔۔۔۔ بسس انتظار اس پل کا ہے ۔۔جب وہ میرے سامنے ہو ۔۔۔۔کیا خیال ہے حازی آج اسکو پرپوز کردو؟؟؟؟


امن برگر کھاتے کھاتے بولے ہی جارہا تھا حازم کا دل کیا جیسے وہ برگر کھارہا ہے سارا برگر اسکے منہ میں ٹھونس کر اسے چپ کرادے لیکن سبکی خود پر جمی نظریں ۔۔۔۔افففف وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا


جیسا تیرا تھوبڑا ہے اس نے ریجیکٹ ہہ کرنا ہے تجھے۔۔۔اب اپنی منہ کو روزہ دو۔۔۔۔۔ اس نے دانت پیستے لفظوں سے اسکی زبان بند کروانا چاہی ۔۔۔


قدر ہی نہیں ہے جب میں نہیں بولوں گا تب میری آواز اور میری قدر ہوگی تم لوگون کو ۔۔۔۔ امن کا منہ کھلا اسکی بات پہ وہ جل بھن کر بولا۔۔۔اتنے میں ہنستے ہوئے ایک گروپ انکی ساتھ والی ٹیبل پہ آبیٹھا


تین لارج پزا اور برگر ۔۔۔۔ لیزا نے آرڈر دیا


یار وہ بیچاریاں وہاں بیٹھی ہمھیں کوس رہی ہونگی اور ہم یہاں چین سے بیٹھے برگر کھا رہے ہیں دس از ناٹ فیر۔۔۔۔۔ ایک لڑکے نے آمنہ اور شائزہ کی حالت تصور کرتے کچھ ہمدردی سے کہا


تمھیں بڑی ہمدردی ہورہی ہے کہی پسند وسند تو نہیں آگئی وہ ؟؟؟؟ لیزا نے آنکھ ونک کرتے پوچھا تو وہ لڑکا کھسیانی ہنسی ہنسا سارا گروپ ہونٹنگ کرنا لگا حازم اور امن نے بیزار سی نظروں سے انہیں گھورا


ہاں یار وہ لڑکی کیا نام ہے اسکا۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔آمنہ وہ بہت خوبصورت ہے اسکی خوبصورتی کا بیڑق غرق نہ ہوجائے ۔۔۔۔ وہ لڑکا قہقہ لگاتے بولا تو سب ہی ہنسنے لگے امن آمنہ کا نام سن پہلے تو شاک ہوا پھر اسکی آنکھوں میں خون اترا پیشانی کی نسیں واضح ہونے لگی اسکا تنفس غصے کے باعث تیز ہونے لگا تھا


نہیں یار واقع اس بلڈنگ کی حالت کافی خراب تھی اور سالوں سے وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔۔۔ کوئی چیز ان پر گری تو وہ نازک سی اپسرائیں آسمان کی پریاں ہی نہ بن جائیں۔۔۔۔ لیزا کی دوست نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے کہا


سر یونی کے عین سامنے والی بلڈنگ میں ہی ان لوگوں نے لڑکیوں کی ڈیل کرنی ہے ۔۔۔۔۔ بلوٹوتھ سے أتی آواز اور اس لڑکی کی بات سن وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر وہاں سے نکلا اور بلڈنگ کی طرف بھاگا بلڈنگ کے باہر ہی اسے اپنی ٹیم نظر آئی وہ لمحوں میں انکے پاس پہنچا


یار کیا چیز تھی آ۔۔۔۔ ابھی وہ مزید کوئی غلاظت بکتا کہ امن نے مٹھیاں بھینچے اسکے منہ پر زوردار مکہ جڑا مکہ اتنا زور کا تھا کہ وہ لڑکا زمین پہ گرا کراہنے لگا کیفیریا میں ایک دم خاموشی چھا گئی سب ہی امن کو غصے میں دیکھ ڈر خوف سے پیچھے ہٹنے لگے


ہم نے تمھیں کچھ نہیں کہا امن تو یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔۔۔۔ لیزا نے اپنے ڈر پر قابو پاتے نظریں جھکا کہ کہا امن اسے اگنور کرتے اس لڑکے کے کالر سے پکڑ کر جھٹکے سے کھینچتے اپنے مقابل کھڑا کیا


جس لڑکی کی بات تو کر رہا تھا وہ میری ہے تیری ہمت بھی کیسے ہوئی اسکے بارے سوچنے کی بھی ہاں ؟؟؟؟ بول ؟؟؟؟؟ ایک کے بعد ایک مکہ اسکے پیٹ میں مارتے وہ غرایا وہ لڑکا درد سے بلبلاتا اپنے بچاؤ کے لئے کچھ کر ہی نہیں پارہا تھا


اسکا یہ وحشیانہ روپ دیکھ جو لڑکیاں دیوانوں کی طرح اسکو نہار رہی تھی وہ اب خوف سے کپکپاتی توبہ کرتی وہاں سے بھاگی تھی امن نے مار مار کر اسکا حال بےحال کر دیا تھا اس لڑکے کا وجود لہولہان ہوچکا تھا لیزا منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے اسکا ادھ مرا وجود دیکھ رہی تھی


کسی خیال کے تحت وہ اس لڑکے کو چھوڑتے لیزا کی طرف مڑا اسکو خود کو سرخ خونخوار نظروں سے گھورتے دیکھ لیزا کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی


کونسی بلڈنگ میں بند کیا؟؟؟؟؟ وہ لیزا کے منہ پر دھاڑتے سوال گو ہوا


س۔سا۔۔سامنے وا۔۔۔۔ تھر تھر کانپتی لیزا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بلڈنگ کی طرف بھاگا لیزا بے جان ہوتی ٹانگوں سے اس لڑکے کے پاس آئی جو بےہوش پڑا تھا


کیسا درندہ ہے کتنی بری طرح پیٹا ہے ۔۔۔۔۔ اسکی دوست نے کہا


چپ چپ ۔۔اس بات کی کسی کو بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے ورنہ وہ وہ ہمھیں مار ڈالے گا ۔۔۔۔ لیزا کی آواز کپکپا رہی تھی انکا ڈرنا جائز تھا امن سالار اپنے خلاف جانے والوں کی نسلیں تک اجاڑ دیتا تھا وہ شخص سمندر جیسا تھا باہر سے خوبصورت اور اندر سے خطرناک جو اس سے الجھتا تھا وہ اپنی موت کو خود بلاوا دیتا تھا بڑے بڑوں کی امن سالار کے سامنے ہوائیں اڑ جاتی تھی وہ تو پھر بھی نازک سی لڑکیاں تھی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


جے۔کے اس لڑکی نے سارا کام خراب کردیا ورنہ وہ لوگ ہمارے پروجیکٹ میں انویسٹ کرنے کو تیار تھے ۔۔۔۔۔۔ اس شخص نے سامنے بیٹھے شخص سے کہا جو تھی تو کافی عمر کی لیکن خود کو اتنا مینٹین رکھا تھا کہ بیس سال کی لڑکی لگتی تھی


کونسی لڑکی ؟؟؟؟؟


میم اس میٹینگ میں خانز بھی شامل تھے شازم خان کی بیٹی جاناں ُُ خان نے سارے پلین پہ پانی پھیر دیا۔۔۔۔ وہ شخص بنا اسکو دیکھے بولا جسکی شازم نام پہ وہ چونکی لیکن بیٹی لفظ سن وہ مسکرائی


ہممم تم یہ پروجیکٹ وجی کے ہاس بھجوا دو وہ اپنے باس سے اس بارے میں بات کرے گا اپنا کام بن جائیگا اور رہی بات خانز کی تو انکے لیے میرے پاس بہت بڑی ڈیل ہے ۔۔۔۔۔ درخت کے سائے میں بیٹھی وہ کچھ سوچ کہ بولی


کونسی ڈیل ؟؟؟؟؟ وہ آدمی حیران ہوا اسکے چہرے پہ پرسرار سی مسکراہٹ دیکھ


ہے کچھ تم appointment لو امریکہ سے آتے ہی ہم ان سے ڈیل کرینگے ۔۔۔۔۔۔ عجیب سا لہجہ تھا اسکا ۔۔ نجانے اب کیا کرنے کا ارادہ رکھتی تھی


اوکے جے۔کے ۔۔۔۔۔۔ وہ سر جھٹکتے بولا اور وہاں سے نکلا


اوہ تو شازم اتنا اونچائی پہ پہنچ گئے ماننا پڑے گا تمھیں اپنی بات کے پکے ہو۔۔ایمانداری کے اعلیٰ مقام پہ پہنچ چکے ہو ۔۔۔۔۔۔لیکن اب تمھاری زندگی میں ایک بار پھر آئی ہوں میں تمھاری سکون بھری زندگی کو پھر سے بے سکون کرنے ۔۔۔۔وہ کہتے ہی قہقہہ لگا کہ ہنس دی ............


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


بابا میں یونی پہنچنے والی ہوں ۔۔۔۔ میٹینگ کے بارے میں گھر آکر بات کرتی ہوں۔۔۔۔ جاناں جو یونی کے گیٹ پہ گاڑی روکے کھڑی شازم سے بات کر رہی تھی کہ پیچھے سے گاڑی نے ہارن بجایا


اففففففف ۔۔۔۔ وہ ہارن کی مسسلسل آواز سے بیزار ہوتی پلٹی اسی پراڈو کو دیکھ وہ کال کاٹ کر موبائل پوکٹ میں رکھتی اپنی سپورٹس کار میں بیٹھی اور پارکنگ میں پارک کردی گاڑی سے باہر نکلتے وہ اندر کی طرف بڑھی


وہ اندر پہنچی تو کوئی باتوں میں لڑکے لڑکیوں پر کمنٹ پاد کر رہے تھے کہی کوئی لوو برڈز موجود تھے تو کوئی ڈانس میں مگن تھا اس نے ہونٹ بھینچے اور کالی آنکھوں سے پوری ہونی کو دیکھا جہاں ہر طرف لڑکے اور لڑکیاں موجود تھی ۔۔۔۔پرنسپل وہاں آئی ہوئی بڑی بڑی ہستیوں کے استقبال کے لئے گیٹ پر ہی ہاتھ میں پھول تھامے کھڑا تھا


تیری قبر پر یہی پھول بچائیں جائیں گے ۔۔۔۔۔۔پرنسپل کے کان میں سرگوشی ہوئی تو وہ خوف سے سفید پڑتی رنگت سے مڑا لیکن وہاں کسی کو نا پاکر اس نے اردگرد دیکھا


کیا ہوا سر ؟؟؟؟ لیزا نے پرنسپل سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا اور پھولوں کا گلدستہ گاڑی سے اترتے میصم سالار کے حوالے کیا


لگتا ہے سارا پاکستان یہاں موجود ہے۔۔۔ وہ بڑنڑائی سمپل سا بلیک شورٹ فراک اور بلیک جینز میں ملبوس کالی آنکھیں اور چہرے پر غضب ڈھاتی معصومیت وہ کسی کے دل کا قتل عام کرسکتی تھی


پاکستان کی آبادی اس سے زیادہ ہے ۔۔۔۔ کسی نے جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کی جاناں پسشانی پہ بل لیے مڑی


آپ سے نہیں پوچھا۔۔۔۔۔۔


اپ پوچھتی ہی کہاں ہیں ۔۔۔؟


میرا پوچھنے کا انداز کافی الگ ہے اور یہ صرف اسپیشل لوگوں کے لئے ہوتا ہے سو تم دور ہی رہو ؟؟؟؟؟ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی لیکن کھڑے حارث کو یہ بات مذاق لگی وہ ہنسنے لگا


کریزی ۔۔۔۔ گھور کر کہتے وہ آمنہ اور شائزہ کو ڈھونڈنے لگی


کریزی تو ہوں لیکن آپ کے لئے ۔۔۔۔. سر پر ہاتھ پھیرتے ؤہ دلکش سی مسکراہٹ سے بڑبڑایا


آئی ایم سوری ۔۔۔۔میرا دھیان نہ۔۔۔۔۔ وہ جو امنہ کو کال کرتی آگے بڑھ رہی تھی کسی سے ٹکرا گئی سوری کرتے اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا ۔۔سرخ و سفید رنگت پر وائٹ پینٹ شرٹ اور بلیک کوٹ تیکھے نین نقوش والا گارڈز سے گھرا وہ لڑکا گلاسسز پہنے اسے ہی دیکھ رہا تھا


اے لڑک۔۔۔۔۔ گارڈ نے گن دیکھاتے سخت لہجے میں کچھ کہنا چاہا لیکن اس کے ہاتھ کے اشارے پر وہ گارڈ سر جھکاتے پیچھے ہوا


میں نے دیکھا نہیں ۔۔۔جاناں سنجیدگی سے اس گارڈ کو دیکھتے بولی جاناں کے غصے سے سرخ چہرے اور مٹھیوں کو بھینچے دیکھ اس لڑکے کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری


کوئی بات نہیں آپ شرمندہ مت ہوں ۔۔۔۔ اس نے مسکرا کر کہا تو جاناں نے ایک نظر اسے دیکھا


جانتی تو ہونگی آپ مجھے؟؟؟؟ اس نے جاناں کی تاثرات جانچتے کہا وہ ایک بزنس مین تھا پوری دنیا میں مشہور تھا وہ بھی اسے جانتی ہی ہوگی


نہیں میں انجان لوگوں کو جاننے کا شوق نہیں رکھتی ۔۔۔۔۔۔ جاناں نے امن کو یونی سے باہر بھاگتے دیکھ بیزاری سے کہا اسکے ڈمپل پہ نظر پڑتے ہی ہشاب کی دل کی دھڑکن بڑھتی جاناں نے وہاں سے جانا چاہا اسے شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا


میں ہشاب عالم شاہ ۔۔۔۔ جاناں کے اٹیٹیوڈ کو متاثرہ نظروں سے دیکھ اس نے اپنا تعارف کروایا آخر کو وہ ہشاب عالم کی پسند تھی مغرور کیوں نہ ہوتی ۔۔۔۔


مجھے کوئی شوق نہیں آپ کو یا کسی بھی انجان شخص کو جاننے کا اللہ حافظ ۔۔۔۔۔ کوفت بھرے لہجے میں کہتے وہ اسکے گارڈز کی سخت نظروں کو نظرانداز کرتی امن کے پیچھے ہو لی


اففف کیا قاتل حسینہ ہے ۔۔۔۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھتے مسکرا کر پیچھے سر گرائے قہقہ لگایا ۔ہائے اسکا یہ دلکش انداز لڑکیوں کی ڈھڑکنیں منتشر کرگیا


باس وہ آپ سے بدتمیزی کر ۔۔۔۔


تم لوگوں کی میم ہے وہ آئیندہ ادب سے اسکو مخاطب کرنا ۔۔۔۔۔ اس نے کہا اور اپنی سیٹ کہ طرف بڑھا اسکے لہجے کی سرد مہری گارڈز محسوس کر گارڈز کے جسم میں سنسناہٹٹ ہوئی


جاناں کو اپنے جانی دشمن کے ساتھ باتیں کرتا دیکھ میصم کو اندیکھی آگ میں جھلسا گیا اس نے مٹھیاں بھینچے انہیں دیکھا تھا


اس کی ہمت کیسے ہوئی اس سے بات کرنے کی ؟؟؟؟ اس نے ہشاب کو غضب ناک تیوروں سے گھورتے لب بھینچتے سوچا ہشاب جو سامنے والے صوفوں پہ بیٹھنے لگا تھا میصم کو دیکھ دل جلاتی مسکراہٹ سے اسکے پاس آیا گارڈز کو وہی رکنے کا اشارہ کیا تھا


کیسے ہیں میصم صاحب ؟؟؟؟ آجکل بہت مصروف نظر آ رہے ہیں ؟؟؟؟


آلحمداللہ میں ہمیشہ کی طرح دشمنوں کو دھول چٹانے کے لئے تیار اور بلکل درست ۔۔۔۔۔۔ حلال کا پیسہ کمانا اسان نہیں ہوتا خیر آپ کو کیسے پتہ ہوگا آپ کونسا حلال کماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میصم نے تمسخرانہ نگاہوں سے اسے گھورتے کہا جسے ہشاب نے اگنور کیا ۔۔۔ اسکا موڈ بہت خوشگوار تھا جسے وہ اپنے جانی دشمن کی وجہ سے خراب ہرگز نہیں کرنا چاہتا تھا


چھوٹے موٹے کیڑوں کو مسل دینے سے کوئی شیر نہیں بن جاتا میصم صاحب ۔۔۔۔ محنت تو ہم بھی کرتے ہیں جناب بس ہمارا طریقہ تھوڑا الگ ہے ۔۔۔۔ اس نے ڈھٹائی سء مسکرا کر کہا میصم نے کوفت سے اسکی مسکراہٹ دیکھی اسکا دل کر رہا تھا یہ مسکراہٹ نوچ لے جو اسکی جاناں سے بات کرتے مسلسل مسکرا رہا تھا


چھوٹے کیڑے بھی اکثر وہ کام کر جاتے ہیں جو بڑے سے بڑا جانور بھی نہیں کرپاتا ۔۔۔ عقل مند انسان وہی جو ہر چیز کو سیریس لے چاہے وہ چھوٹا سا کیڑا ہو یا انسان نما گدھ ۔۔۔۔۔ ہشاب کو دیکھتے وہ استہزائہ انداز میں گویا ہوا ۔۔۔تزلیل سے ہشاب کا منہ سرخ ہوا ہاتھوں کی نسیں ابھری تھی ۔۔۔پیشانی پہ لاتعداد بل آئے تھے۔۔۔۔آنکھوں کی پتلیاں سرخ ہونے لگی ۔۔۔ دور سے دیکھنے پر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے پہ طنز کے تیر چلا رہیں ہیں۔۔۔۔


لفظوں کا چناؤ زرا سوچ سمجھ کر کریے میصم صاحب ۔۔۔اکثر ہمیں باتوں میں مصروف پاکر دشمن کو موقع مل جاتا ہے وار کرنے کا ۔۔۔ ہوشیار رہیے کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے صاف صاف الفاظ میں دھمکی دے ڈالی میصم نے گھور کر اسے دیکھا


آپ اپنی فکر کریں ۔۔میرے بارے میں سوچنے کے لئے میں اکیلا ہی کافی ہوں ۔۔۔۔۔۔ میصم سالار ہر وقت تیار رہتا ہے ۔۔۔۔۔


اس نے کہا اور چیف گیسٹ کے لئے رکھے گئے صوفے پر براجمان ہوا ہشاب نے بامشکل مسکرا کر اسے دیکھا دیکھا بھی کیا دیکھا گھورا زیادہ تھا اور سر جھٹکا پھوٹی قسمت کہ بیٹھنا بھی انہوں نے ساتھ ہی تھا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


اس یونیورسٹی میں پارٹی ہے یہی چھپ جاؤ اس سے بہتر کوئی سیف جگا نہیں ۔۔۔۔۔ وہ آدمی اس لڑکے کو یونی کے پاس چھوڑتے بولے وہ سر ہلاتا یونی میں گھسا


اسلام وعلیکم! ۔۔۔۔ مائک کی آواز آئی اس نے سٹیج پہ دیکھا جہاں بہت سے بزنس مینز موجود تھے اور ساری لڑکی اچھل اچھل کہ آن ہی لڑکوں کو دیوانہ وار دیکھ رہی تھی وہ سر جھٹکتے اسی بھیڑ میں گھسا جہاں لڑکے ڈانس کر رہے تھے


میں ابھی یونیورسٹی میں موجود ہوں جان۔ آج اسکا آخری دن ہے اس دنیا پہ ۔۔۔۔ سالہ ہم سے الجھے گا۔۔۔۔ بلیک جینز ۔۔ کندھوں اور پیٹ کو نمایا کرتی چھوٹی سی بلیک شرٹ لونگ بوٹس چہرے پہ ماسک آنکھوں پہ بلیک گوگل لگائے ہاتھوں کو گلوز سے کور کیے وہ چھ منزلہ بلڈنگ کے اوپر کھڑی نیچے یونی پارٹی میں انجوائے کرتے اس لڑکے کا نشانہ باندھتے کان میں لگے آلے سے بولی سامنے والی نے اسے گڈ لک اور مزید کوئی تفصیلات دی


اوکے ۔۔۔.اس. نے گن جسکے آگے کوئی کیمیکل بھرا انجیکشن رکھا گیا تھا وہ اس لڑکے پر شوٹ کرتے بولی


لگتا ہے کسی نے شرارت کی ہے ۔۔۔۔۔جو اس لڑکے کے سیدھا دل میں پپوست ہوا وہ لڑکا درد سے بلبلاتا اٹھا اور انجیکشن نکال کر زمین پہ پھینکا اردگرد دیکھا سب کو اپنے میں مصروف پاکر وہ بڑبڑایا وہ بھی ڈانس میں مگن ہوا اس بات سے انجان کہ موت تو اسکے سر پہ کھڑی ہے


ایک گولی اور چلی اور خوش گپوں میں مصروف پرنسپل کے سینے میں عین اسکے دل میں پپوست ہوئی میصم کے گارڈز نے فوراً اسے گھیرتے وہاں سے نکال لے گئے یونی میں ہر طرف افرا تفری پھیل گئی سبکو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے کوئی کہیں بھاگ رہا تھا تو کوئی کہیں ۔۔


وہ لڑکا جسکو انجیکشن لگا تھا وہ نہ تو بھاگ پارہا تھا نہ ہل پا رہا تھا سن ہوتی ٹانگوں کے ساتھ وہ زمین پر گرا منہ سے نکلت خون ۔۔وہ درد سے تڑپتے لگا تھا


ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا بےوقوف انسان اوپر دیکھتا نہ ہم ۔۔۔۔ تم جیسے گرے ہوئے تھوڑی ہوتے ہیں ۔۔۔طنزیہ کہتے وہ ہنسی اسکی ہنسی کی آواز کسی کے کانوں میں رس گھول گئی


وہ جو یہاں پرسکون سانس کی خاطر آیا تھا کسی لڑکی کو خود سے باتیں کرتے اور قہقے لگاتے دیکھ رکا اتنی پیاری ہنسی تھی اسکی


اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ گی ڈارلنگ اور میرے مقصد کا کیا ۔۔۔مردانہ اواز پہ مڑی سامنے مغرور شہزادے کو دیکھ اس نے کوفت سے نظریں گھمائی ۔۔۔.یہ چہرہ دیکھنے کی خواہش دل میں ابھری ہے اور مجھے امید ہے یہ خواہش تم ہر صورت پوری کروگی۔۔۔۔وہ آہستہ آہستہ اسکی طرف بڑھتے بولا


ہم سے امیدیں مت لگاؤ ہمھیں امیدوں کے ساتھ انسان توڑنا پسند ہیں ۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی


اور میرا جو دل کرتا ہے میں وہ کرکے رہتا ہوں ۔۔۔۔تم مجھ سے بچ نہیں پاؤگی.....


پکڑ تو لو ۔۔۔۔ وہ آئبرو اِچکا کہ کہتی ہاتھ پھیلاتے بلڈنگ سے نیچے گری وہ بھاگ کر أگے آیا اور نیچے دیکھنے لگا لیکن اسے ہوا میں اڑتے دیکھ وہ سرخ ہوا اس لڑکی نے سیدھے ہاتھ کی دو انگلیوں کو ماتھے تک لے جاتے سی خدا حافظ کہا اور پیراشوٹ ونگ کی مدد سے وہاں سے اڑتی چلی گئی


.....................................


شاید تم ناواقف ہو میرے مزاج سے"


"تیری توقع سے ذیادہ #سرپھری ہو میں"


.....................................


آہہہ آج پھر بچ گئی آخر ہے کون یہ مافیا گرل؟؟؟ لیکن جو بھی ہے خوبصورت تو بہت ہے ۔۔۔۔ وہ اسکی ہنسی سے اندازہ لگاتے بولا اور سرخ کالی آنکھوں پہ گلاسس چڑھائے نیچے کو بڑھا جہاں وہ لڑکا اب تڑپ تڑپ کر مر رہا تھا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


بھائی مجھے جانا ہے پلیززز چھوڑو۔۔۔۔ وہ مصیبت میں ہے اور میں یہاں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔۔ لیو می پلیززز ۔۔۔۔


وہ اندر جانے لگا تھا لیکن حازم نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا تھا امن کی برداشت ختم ہوئی تو وہ اندر جانے لگا لیکن حازم نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا وہ جانتا تھا امن کافی جنونی ہے


امن جوش سے نہیں ہوش سے کام لو ۔۔۔بات صرف ایک کی نہیں ہے نجانے کتنی لڑکیاں یہاں قید ہیں ۔۔۔ہمھیں فل پلاننگ کے ساتھ اندر جانا ہے ۔۔۔۔تاکہ ان لڑکیوں پر ایک آنچ تک نہ آئے ۔۔۔۔۔


اس نے سمجھایا اور اسے چھوڑتے اپنی ٹیم کو سائیڈ سے جانے کا اشارہ کیا وہ سب سر ہلاتے بلڈنگ کو پوری طرح سے گھیر چکے تھے اور اللہ کا نام لیتے اندر کی طرف بڑھے امن اور حازم سامنے سے اندر گئے امن نے اپنی گن نکالی جو کہ اس نے سب سے چھپا کے لی تھی۔۔ سائلینسر لگی گن کے سامنے جو آرہا تھا وہ اسے شوٹ کر رہے تھے


نسوانی چیخ کی آواز سن وہ تیزی سے اس جانب بڑھے اور چھپ کر سامنے کا منظر دیکھنے لگے جہاں آمنہ اور شائزہ زمین پر بیٹھی سسک رہی تھی وہی وہ گلے میں چین ڈالے موٹا کالا گینڈا لوہے کا راڈ لیے کھڑا تھا وہ سمجھ نہ پائے چیخ تھی کس کی


چل اوئے ڈال شوریوں کو ٹرک میں ۔۔۔پان تھوکتے اس نے اپنے آدمی سے کہا جو آمنہ کے بالوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔اسکے بالوں کی طرف جاتا ہاتھ ہوا میں ہی متعلق ہوا


آمنہ نے بھیگی پانی سے لبریز سرخ آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو سامنے امن کو دیکھ اسکی سانس میں سانس آئی ورنہ اسے لگا آج وہ مر جاتی شائزہ کا خیال آتے ہی وہ دکھتی کمر کے ساتھ اسکے پاس ہوئی جو بےہوش پڑی تھی


تیری تو ۔۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھ پکڑ کر گھماتے امن اسکی گردن کے گرد اسکا ہاتھ لیپیٹے ایک زوردار جھٹکے سے چھوڑا "کرچ" کی آواز سے اسکی بازو اور گردن ٹوٹی وہ آدمی بے جان ہوتے زمین پر گرا باس بھی ایک لمحے کو کانپا اس نے گارڈز کو ٹرک لے جانے کا اشارہ کیا اور خود بھاگنے لگا لیکن سامنے ایس پی حازم کو دیکھ اس نے اپنی گن اسکی جانب کی


میرے قریب نہ آئیو أیس پی ورنہ جانے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو ۔۔۔۔۔۔ باس نے دھمکی دی جسے سن حازم نے طنزیہ مسکراہٹ سے اسے دیکھا


جس دن یہ وردی پہنی تھی اسی دن کفن بھی باندھ لیا تھا ۔۔۔۔ تو مجھے دھمکی دے گا تیری اتنی اوقات ہے ؟؟؟؟ استہزائہ نظروں سے اسے گھورتے گھوما کر ایک ٹانگ اسکے گن والے ہاتھ پہ ماری گن سیدھا امن کے پیروں میں جاگری جسے اٹھاتے امن نے ایک فائر ٹرک چلانے والے ڈرائیور کے سر پر ماری اور ایک ٹرک کے ٹائر پر


پوری بلڈنگ میری نے گھیر لی ہے تم بچ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔ اب کیا کرے گا باس ؟؟؟؟؟ ایس پی نے سوچنے کی ایکٹینگ کرتے پوچھا


تیرے ہاتھوں مرنے سے اچھا میں خود ہی موت کو گلے لگا لو۔۔۔


پکڑنے جانے کا احساس ہوتے ہی اس نے اپنی سیکڑیٹ گن نکالی اور اپنے سر پر فائر کیا حازم کو سمجھ ہی نہ آیا کہ ہوا کیا وہ بھاگ کہ اسکے پاس گیا ۔۔۔ لیکن اسکا ساکت وجود دیکھ اس نے ایک مکہ زمین پہ مارا


آخری ذریعہ تھا اس انڈرورلڈ ڈون تک پہنچنے کا شٹٹٹٹ ۔۔۔۔۔۔ اس نے ماتھا مسلتے سوچا


آمنہ ٹھیک ہو ۔۔؟؟؟ اسے کیا ہوا؟؟؟؟


امن آمنہ سے پوچھتے شائزہ کی جانب متوجہ ہوا جو بےہوش پڑی تھی حازم وہاں آیا انکی حالت دیکھ اسے افسوس ہوا تھا اپنی سوچ پہ اس نے سوچ بھی کیسے لیا کہ وہ نازک سی لڑکیاں مافیا گرل ہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ اب تک ان لوگوں کو دھول چٹا چکی ہوتی


انہوں نے لوہے سے مارا ۔۔۔امنہ نے روتے ہوئے کہا تو امن نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی


رو مت اسے ہوسپیٹل لے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ اسکے آنسو صاف کرتے وہ نرمی سے بولا اور شائزہ کو اٹھاتے باہر کھڑی ایمبولینس میں لیٹایا جو پولیس پہلے ہی منگوا چکی تھی حازم نے ٹرک میں موجود لڑکیاں باہر نکالی جو زخمی تھی کچھ یونی کی تھی اور کچھ باہر کی نجانے کون کون سے شہر کی تھی وہ لڑکیاں


آنکھ ماں باپ کا کو انفارم کردو اور کو یہاں رہنا چاہے انہیں اس گرلز ہاسٹل میں بھجوا دو جہاں گرلز کی ٹرینگ ہوتی ہے ۔۔۔۔ حازم نے لڑکیوں کو روتے دیکھ کہا اور باہر کی طرف بڑھا لیکن ایک لڑکی کی آواز پہ مڑا


یہ آپکے لیے ۔۔۔۔ اس نے ہاتھ آگے کرتے اسے کوئی چٹ پکڑائی حازم نے وہ چٹ پکڑی


یہ آپکو کس نے دی؟؟؟؟



ایک لڑکی نے ۔۔۔۔۔


کہاں ہے وہ لڑکی ؟؟؟؟ ویسی ہی چٹ دیکھ اسکا ماتھا ٹھنکا


وہ تو چلی گئی ۔۔۔۔ اس لڑکی نے اردگرد دیکھتے کہا


کہاں کیسی دکھتی تھی ؟؟؟؟


اس نے منہ کور کر رکھا تھا ۔۔۔بس یہ چٹ آپکو دینے کو بولا۔۔۔۔۔ وہ معصومیت سے بولی


تھیکنس گڑیا ۔۔۔۔اسکے سر پر ہاتھ رکھتے وہ ایک سائیڈ پر گیا چٹ کھول کر پڑھنے لگا


مائی ڈئیر ایس پی کیوں ہوتے ہو پریشان جب تک زندہ ہے تمھاری جان ۔۔۔۔دیکھو ایس پی خانم چاہے تم مجھ سے نفرت کرتے ہو لیکن میں تو تمھارے عشق میں دیوانی ہوچکی ہو ۔۔۔۔اسی لیے میرا فرض بنتا ہے نہ ۔! تمھاری مدد کرنا ۔۔؟؟ کیا ہے نہ تمھیں ٹینشن میں نہیں دیکھ سکتی میرے دل کو کچھ ہوجاتا ہے ۔۔۔خیر یہ جو ڈان ہے نہ اسکی معلومات میں تمھیں دو دن کے تک میل کردونگی ۔۔۔تھوڑا انتظار کر لینا ایس پی جانم ۔😘۔ چلو کسی بہانے تم میرا انتظار تو کرو گے ۔۔۔۔۔


مافیا گرل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پتہ نہیں کون ہے یہ. ؟ مافیا کی ہے پھر میری مدد کیوں کر رہی ہے ؟؟؟؟؟ چٹ پڑھتے ہی اسکے دماغ میں کئی سوال گھومنے لگے گھومتے سر کے ساتھ وہ یونہ جانے کا ارادہ کینسل کرتے گھر کی جانب گاڑی دوڑانے لگا


💥💥💥💥💥💥💥

آمنہ کیا ہوا؟؟؟ اور شائزہ کہاں ہے ؟؟؟ جاناں آمنہ کو ایمبولینس کے پاس کھڑا دیکھ وہی آئی تھی آمنہ روتے ہوئے اسکے گلے لگی جاناں نے اجنبھے سے اسے دیکھا جو سیدھی کھڑی نہیں ہوسکتی تھی


جاناں شائزہ بے ہوش ہے ا۔اسے پتہ نہیں کیا ہوگیا ۔۔۔۔ بھیگے لہجے میں کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کہ رو دی


سب ٹھیک ہوگا روو مت ۔۔۔۔۔


جاناں نے اسکی کمر سہلاتے تسلی دینی چاہی لیکن اسکے کراہنے پہ اسے پیچھے پڑی چئیر پر بیٹھا گئی


ڈاکٹر ۔۔۔ آپکو نظر نہیں آرہا میری بہن کو درد ہے ۔۔۔۔۔


ڈاکٹر جو امن کی باتیں سن رہا تھا جاناں کے آکر لڑنے پہ بےبس سی شکل بنا گیا


آپ انکی بات تو سن لیں وہ کیا کہنا چاہ رہیں ہیں ؟؟؟؟ ۔۔۔


ڈاکٹر کی مسکین صورت دیکھ کانسٹیبل نے کہا تو جاناں اور امن نے ایک دوسرے کو دیکھا اور سر ہاں میں ہلایا


اندر کو پیشنٹ ہیں انکو ہوش آگیا ہے اور مس آمنہ کو ہم پین کلر دے چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔


ڈاکٹر کے کہنے پہ امن نے اسے گھورا جبکہ جاناں شائزہ کا شائزہ کی طرف دھیان گیا


اگر اسکو میڈی دی ہے تو اسے درد کیوں ہے کہیں لوکل میڈسن تو نہیں دے دی ۔۔۔۔


آمنہ کو روتے دیکھ اسکو عجیب سی بےچینی ہورہی تھی وہ ہمیشہ اسے ہنستا مسکراتا دیکھنے کا خواہش مند تھا اسکا رونا اسے تکلیف پہنچا رہا تھا


آہستہ آہستہ ہہ درد ختم ہوگا ۔۔۔۔۔


آہستہ کیوں ۔۔؟ کوئی ایسی میڈی دو نا جس سے دو سکینڈ میں درد غائب ہوجائے وہ تکلیف میں درد کی وجہ سے رو رہی ہے اور تم ڈاکٹر یہاں گپوں میں مصروف ہو ۔۔۔۔۔۔


سرخ آنکھوں سے گھورتے وہ ڈاکٹر کو مارنے کے در پہ تھا ڈاکٹر بوکھلایا


امن میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔


اسکو مسلسل بحث کرتے دیکھ آمنہ بامشکل چل کر وہاں آئی تھی جاناں شائزہ کو سہارہ دیتی انکے پاس آئی


چلو گھر چلیں ۔۔۔۔


جاناں نے آمنہ سے کہا آمنہ نے چکراتا سر اثبات میں ہلایا


میں ڈروپ کردیتا ہوں ۔۔۔۔۔


تم نے میری بہنوں کی جان بچائی اسکے لئے تھیکنس لیکن ہم خود چلے جائیں گے ۔۔۔۔۔


بے رخی سے کہتے جاناں آگے بڑھی لیکن آمنہ جو حواس کھوتے گرتی اگر بروقت امن نے سنبھالا ہوتا تو وہ زمین بوس ہوچکی ہوتی ۔


میری جان کیا ہوا؟۔۔۔۔۔


اسکا گال تھپتھپاتے بےساختہ اسکے منہ سے نکلا جاناں نے اسے گھورا لیکن وہ اس سے بھے نیاز اسے بانہوں میں اٹھائے گاڑی کی طرف بڑھا


یہ شخص ضائع ہوگا میرے ہاتھوں ۔۔۔۔شائزہ نے امن کی پشت کو گھورتے کہا انہیں زرا برابر پسند نہ آیا یوں امن کا اسے بانہوں میں لینا لیکن ابھی وہ مجبور تھی اسی لیے سر جھٹکتے اپنی گاڑی میں بیٹھی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


کیسے ہوا یہ سب ؟؟؟


یونی میں پروفیسرز کو دیکھتے حازم نے کرخت لہجے میں پوچھا


سر ہمھیں معلوم نہیں جن گولی چلی ہم سب یہی موجود تھے اور ابھی وہ آدمی کہہ کہ گیا ہے کہ گولی اوپر سے چلائی گئی ہے ۔۔۔۔۔


سر ہم سب نے قصور ہیں ۔۔۔۔


سر طارق جو ہیڈ پرنسپل کی غیر موجودگی میں یونی کا نظام دیکھتے تھے وہ آگے آتے بولے تو سب نے انکی بات کہ تائید کی ۔۔


دوسرا لڑکا جسکی موت زہر سے ہوئی ہے اور وہ زہر اس انجیکشن سے انجیکٹ کیا گیا ہے ؟۔۔۔۔۔ کیا آپ لوگ جانتے ہیں اس لڑکے کو؟؟؟؟


انجیکشن گلوز لگے ہاتھوں میں پکڑے وہ اس لڑکے کی طرف اشارہ کرتے سوال کیا لیکن ان سب کے نفی میں سر ہلانے پر وہ پریشانی سے اس آدمی کی طرف آیا جسکی تلاشی کانسٹبل لے رہا تھا


سر یہ ٹیٹو اسکی کلائی پر نصب ہوئے ٹیٹو کو دیکھتے حازم کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔۔


یہ سی گینگ کا آدمی ہے جسکی آج ڈیل ہوتے ہوتے رہ گئی۔۔۔ لیکن یہ آدمی یہاں کیوں آیا تھا ۔۔۔۔۔ اسے یاد آیا بلڈنگ میں آدمیوں کو مارتے ہوئے اس نے انکی کلائیوں پر بھی باز کا ٹیٹو بنے دیکھا تھا حازم نے پیشانی مسلتے سوچا وہ گھر جارہا تھا تبھی راستے میں اسے کانسٹیبل ارمان کی کال آئی تو وہ سیدھا یونیورسٹی پہنچا تھا جہاں صرف پروفیسر موجود تھے باقی سب ڈر کر بھاگ گئے تھے


پشت پر کچھ لگنے سے وہ مڑا نیلے کلر کی چٹ دیکھ جلدی سے وہ چٹ اٹھا چکا تھا


تم اشارہ سمجھ لیتے تو یہ تمھاری کسٹڈی میں ہوتا۔۔۔۔ لیکن تم پولیس والے سدا کہ حرام خور کہاں کچھ وقت سے پہلے کرتے ہو ؟۔۔۔۔۔ اب اسکے مردہ وجود کے افسوس میں بیٹھ کر ماتم کرو ۔۔۔۔۔ تمھاری کسٹڈی میں جو انسان ہے اسے جلد ہی تمھاری قید سے رہا کروا لونگی ۔۔۔۔۔


مافیا کوئین ۔۔۔۔۔


اسکی تو ۔۔۔۔۔۔ ہونٹ بھینچتے اپنے لفظوں کو روکا اور دماغ کو پرسکون کیا اسے یاد آیا کہ ایک بچے نے اسے کہا تھا کہ " یونی گندی ہے " تو کیا وہ ایک اشارہ تھا مافیا کی طرف سے ؟؟؟؟


مطلب مافیا گرل ،، مافیا کوئین الگ الگ ہیں ۔؟ ہاں شاید لیکن یہ چاہیں تو میری ساتھ مل کر کام کرسکتی ہیں لیکن یوں چھپ کر انسان نما درندوں کی جان لینا ۔۔۔


یقیناً انکا کوئی مقصد ہے جسے پورا کرنے کے لئے وہ لوگ پردے میں چھپی ہیں ۔۔۔۔ اس نے بڑبڑاتے سب کو جانے کا اشارہ کیا اور خود جیپ میں بیٹھا


آج کے دن بہت تھکا دینے والا تھا ایک ساتھ دو حادثات نے اسے الجھا دیا تھا کچھ دیر آرام کی غرض سے وہ سمندر کنارے آیا تھا تاکہ کھل کر سانس لے سکے شام کا ٹائم تھا ہر طرف سکوت چھایا تھا گاڑی کے بونٹ پر بیٹھتے وہ آنکھیں موند کر ٹھنڈی ہوا میں سانس بھرتے خود کو پرسکون کرنے لگا تھا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


ایک کام تم لوگ مل کر نہ کرسکے پھر کیا فائدہ تم حرام خوروں کو پالنے کا ۔۔۔۔


لڑکیوں سے بھرے ٹرک کے پکڑے جانے پر وہ پاگلوں کی طرح چلا رہا تھا سر جھکا کر گارڈز اسکی دھاڑنے پر خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے


کبھی وہ مافیا گرل کام بگاڑ دیتی ہے تو کبھی یہ سالم ایس پی ۔۔۔۔۔


اس ایس پی کی تو (گالی) ۔۔۔۔۔۔ بہت اچھل رہا ہے اسکے پر تو کاٹنے ہی پڑے گے ۔۔۔۔


ایس پی حازم کی تصویر کو دیکھتے وہ پرسوچ انداز میں گویا ہوا بجتے موبائل اسکی توجہ کا مرکز بنا سکرین پر چمکتے نام کو دیکھ اس نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا اور گارڈز کو جانے کا اشارہ کیا جو اسکے اشارے پہ ہی گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ہوئے


اس بار بھی تم سے یہ ڈیل نہ ہو پائی۔۔۔۔


کرخت لہجے میں کیے گئے سوال پہ اس نے تھوک نگلا چاہے وہ انڈرورلڈ کا ایک مشہور ڈون تھا لیکن انڈرورلڈ کے بادشاہ کے آگے اسکی بھی بولتی بند ہوجایا کرتی تھی پورے انڈرورلڈ کے لوگ انڈرورلڈ کے اس بےتاج بادشاہ کی ایک نظر پڑھنے سے مرنے کے قریب ہوجاتے تھے اتنی دہشت پھیلائی ہوئی تھی انڈرورلڈ میں کہ جو بھی بادشاہ کا نام سنتا تھر تھر کاپنے لگتا ۔۔


باد۔بادشاہ اس ای۔ایس پی نے کام خراب کردی۔۔۔۔!


بہانے مت بناؤ ۔۔۔اب یہ کام تم نہیں کروگے کوئی اور کرے گا ۔۔۔۔۔ غصیلے لہجہ کو محسوس کرتے وہ معافیوں پر اتر آیا


بادشاہ پلیز ایک آخری موقع یہ ڈیل میں خود کرونگا پلیز بادشاہ آپ تو سرکار ہیں ۔۔۔۔۔


ایک آخری موقع اب کام مکمل نہ کیا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ۔۔۔۔۔۔


شکریہ بادشاہ ۔۔۔۔اس نے گہری سانس بھرتے کہا جبکہ آگے سے کال کٹ ہوچکی تھی وہ دھڑام سے صوفے پر گرا شکر تھا کہ وہ بات سنبھال چکا تھا ورنہ بادشاہ کی عدالت میں کام نہ ہونے پر اسکو موت کی سزا سنائی جانی تھی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


بھائی آپ ٹھیک ہو نہ ؟؟؟


امن جو آمنہ وغیرہ کو چھوڑ کر گھر آیا تھآ میصم کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ اسکے پاس آیا


آلحمداللہ میں ٹھیک ہوں لیکن تم لوگ کہاں غائب ہو؟ حازم کہاں ہے تمھارے ساتھ تھا نہ؟۔۔۔۔


بھائی وہ میرے ساتھ تھا لیکن اون ڈیوٹی تھا۔۔۔ اور وہ کہہ رہا تھا کسی کو سنٹرل جیل شفٹ کرنا ہے ۔۔۔۔ شاید وہی گیا ہے ۔۔۔۔۔


امن نے کہا تو میصم نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا


اچھا اور سنائیں بھابی سے ملے تھے؟۔۔۔۔


ملا نہیں پر دیکھا ضرور تھا ۔۔۔۔۔ میصم نے جاناں اور ہشاب کا بات کرنا یاد آیا تو اس نے دانت پیسے


بھائی کیوں نہ ہم رشتہ لینے چلیں ؟؟۔۔۔۔


تم کیوں جاؤ گے ؟۔۔۔۔


ارے بھائی اپ میرا اور حازی کا رشتہ مانگ لینا میں آپکا رشتہ مانگ لونگا اب آپ اپنا رشتہ مانگتے اچھے تھوڑی لگو گے۔۔۔۔😁


امن نے سمجھداری سے اسے سمجھایا تو میصم نے اسے گھورا


اچھا آپ غصہ نہ ہوں میں سونے جارہا ہوں آپ بھی ریسٹ کرلیں گڈ نائٹ ۔۔۔۔۔


اس نے میصم کے گلے لگتے کہا اور روم کی طرف بڑھا


اب نیند نہیں آئیگی۔۔۔۔ اس دشمنِ جاں کا خیال ہی کافی ہے نیند اڑانے کے لئے ۔۔۔ بند آنکھوں سے جاناں کو دیکھتے اس نے سرگوشی کی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


جنگل کے بیچ سے گزرتی پولیس وین جسکے آگے حازم کی جیب تھی انکی گاریاں سنٹرل جیل کی جانب گامزن تھی۔۔۔۔۔


تم کچھ نہیں کرسکو گے ۔۔۔۔ ہونٹ سے رستے خون کو آستین سے صاف کرتے وہ ہنس کر بولا تو کانسٹیبل نے اسے گھورا


رسی جل گئی پر بل نہیں گیا ۔۔۔۔۔


اتنی ٹارچر ہونے کے بعد بھی دماغ ٹھکانے نہیں آیا تمھارا ؟؟؟ دوسرے کانسٹیبل نے افسوس سے سر جھٹکا


ہاہا ہاہا جسکو تم لوگ ٹارچر کہتے ہو ۔۔۔آتما میرے ایک دن کا وام اپ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ استہزائہ ہنسا تو کانسٹیبل ک جھرجھری آئی عجیب لوہے کا بندہ تھا ڈنڈا، ہنٹر!، کرنٹ ، ہر قسم کا ٹارچر کرچکے تھے لیکن اسے تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا


ایک گولی چلی جو وین کے ٹائر میں پپوست ہوئی وین کلابازیاں کھاتے حازم کی جیب کے اوپر سے گزرتے آگے جاگری ۔۔۔حازم نے جیب روک کر گن نکالتے وین کی طرف بڑھا جس سے کانسٹیبل بری زخمی حالت میں نکل رہا تھا جنکہ دوسرا کانسٹیبل بےہوش تھا اور ارسلان کو وین سے نکل کر مسکراتے دیکھ حازم کآ غصہ آسمان کو چھونے لگا وہ آگے بڑھتے اسے مارتا کہ اسکا ہاتھ کسی نرم گرم سی گرفت میں آیا


غلطی سے بھی غلطی مت کرنا ایس پی ورنہ اس ہاتھ کو بدن سے جدا کرنے میں سیکنڈ نہیں لگاؤنگی۔۔۔۔۔ بدلی سی آواز میں کانسٹیبل کے سر پر گولی مارتے وہ ایس پی کا ہاتھ زور سے جھٹکتے غررائی ارسلان ہنسا


اوو تو ایک نازک دوشیزہ اس مجرم کو بچانے آئی ہے ۔۔۔۔؟


بلیک جینز شرٹ پر ماسک لگائے نازک وجود حکو دیکھتے تمسخربھرے لہجے میں کہاا جس پر غصے سے بےقابو ہوتے آئینہ نے ایک زوردار مکہ اسکی گال پہ مارا جس پر حازم جیسا مضبوط مرد بھی لڑکھڑا گیا لیکن خود کو بروقت سنبھالتے اس نے پلٹ وار کرتے ایک تھپڑ اسکے گال مارا جس پر آئینہ کو اپنا دماغ گھومتا ہوا وہ محسوس ہوا وہ پیچھے کو گری وہ اسکی گن چھین ہی چکا تھا


جتنی مرضی مضبوط سہی ہو تو لڑکی ہی نہ ۔۔۔۔۔۔ استہزائہ ہنستے وہ ارسلان کی طرف پلٹا جو ہتکھڑی سے آزاد ایک لڑکے کے ساتھ کھڑا تھا


مقابلہ کرنا ہے تو ہم سے کر ایس پی ۔۔۔ارسل نے کہتے ساتھ گھوم کر ایک پاؤں اسکے پیٹ میں مارا اور دوسری اسکے جبڑے پر ۔۔۔اچانک ہوئے حملے پر حازم منہ سے نکلتے خون کے ساتھ زمین پر گرا ہونٹوں سے خون صاف کرتے وہ اسکے مقابل آیا گتھم گتھا ہوتے دونوں ایک دوسرے کو مارنے کے در پر تھے


اگر وقت ہوتا تو اس فائٹ کو ضرور انجوائے کرتی لیکن ٹائم کی کمی ہے سو اللہ حافظ ایس پی ۔۔میری جان اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔ آئینہ نے ٹائم دیکھتے ارسل کو اشارہ کیا جسے سمجھتے اس نے گن کی پچھلی سائیڈ حازم کی کنپٹی پہ ماری جس پر وہ چکراتے سر سے نیچے گرا اور بندہل ہوتی آنکھوں سے آئینہ کو اپنی پاس بیٹھتے دیکھا


میری جان جلد ملاقات ہوگی ۔۔۔۔۔۔ غنودگی میں جاتے اس نے آخری الفاظ سنے اور اسکا دماغ تاریکی میں ڈوب گیا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥

ایک ہفتے بعد


کیسے کرلیتی ہو اتنا سب ؟؟؟ گھر کی سجاوٹ کو دیکھتے شائزہ نے منہ بنایا


ہاتھوں اور دماغ سے ۔۔۔۔ ٹیبل پر بیٹھتے آمنہ نے مسکرا کر اسکو دیکھا جو فکرمندی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی اسکی کمر کا درد بھی ٹھیک ہوچکا تھا پچھلے دنوں میں میصم اور حازم رشتے کے لئے آئے تھے شازم نے سوچنے کا ٹائم لیا تھا اور آج خان ولا میں پارٹی تھی جس میں شازم نے میصم کو بھی پارٹی میں مدعو کیا تھا


ویسے ایک بات تو بتاؤ ہمارا سسٹم الٹا نہیں ہورہا ؟؟؟؟


مطلب؟؟؟ شائزہ کی بنا سر پیر کی بات پہ آمنہ الجھی


اففف پگلی دیکھو اس گھر میں تم بڑی ہو ہے نہ ؟؟؟ اور امن سب سے چھوٹا ہے تم میری چھوٹی دیورانی بنو گی ۔۔۔۔۔۔ شائزہ کی خوشی کا اندازہ اسکا چہرہ خوب بیان کررہا تھا آمنہ مسکرائی


ہائے کتنا مزہ آئے گا ہم سب ساتھ ہونگی بسس جاناں میصم بھائی کے لئے مان جائے ۔۔۔۔۔۔ امنہ نے کہا اور شائزہ کو دیکھا


لڑکی شرم کرو تمھیں بڑی جلدی ہے شادی کی ہاں ؟؟؟ شائزہ نے آنکھ ونک کرتے معنی خیز لہجے میں پوچھا تو آمنہ نے اسے گھورا


تم نے ہی شروع کی انکی بات ۔۔۔۔۔


ہائے اوئے صدقے ابھی سے اتنی عشت "انکی" ہورہی ہے اللہ جی کہیں میرے کانوں کو ہاڑٹ اٹیک نہ ہوجائے ۔۔۔۔کانوں پہ ہاتھ رکھتے اسکا ڈرامائی انداز شروع تھا آمنہ کا چہرہ گلنار ہوا


بابا دیکھیں یہ تنگ کررہی ہے ۔۔۔۔ شازم کے ساتھ لگتی وہ معصومیت سے گویا ہوئی


نہ تنگ کرو شازو ۔۔۔۔ انہوں نے شائزہ کو مصنوعی جھڑکا وہ ہنسی ۔۔۔جاناں کہاں ہے ؟؟؟


وہ ریڈی ہورہی ہے.... شائزہ نے اندازا لگاتے کہا


باتیں ہوگئی ہوں تو ریڈی ہو جاؤ گیسٹ آنے والے ہیں ۔۔۔۔۔ شازم نے انکے پاس آتے کہا وہ دونوں مسکرا کر سر ہلاتی اوپر کو بھاگی شازم کے چہرے سے واضح تھا کہ وہ کسی پریشانی میں ہیں لیکن وہ پریشانی کیا تھی یہ وقت پتانے والا تھا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


شاور سے بہتا ٹھنڈا یخ پانی اس کے نازک وجود کو بھگو رہا تھا دیوار پہ رکھتے بند آنکھوں سے نکلتے اسکے آنسو پانی میں بہتے چلے جارہے تھے ٹھنڈ سے نیلے پڑتے بھینچے ہوئے ونٹ سرخ گالوں پہ پڑتا پانی اسے مزید سرخ کرچکا تھا اسے یاد آیا جب شازم اسکے پاس آئے تھے


جاناں آپکے لیے میصم کا رشتہ آیا ہے کیا میں ہاں کردو؟؟؟ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے شازم نے شفقت سے پوچھا جاناں انکا ہاتھ ہٹاتے اٹھ کھڑی ہوئی


بچے ایک موقع دے کر تو دیکھو کیا پتہ وہ آپکی سیاہ زندگی کو خوشیوں کے حسین رنگوں سے بھر دے ؟؟؟؟ اسکی حالت سمجھتے شازم نے سمجھانا چاہا


پلیز بابا ۔۔۔۔۔ جاناں نے کوفت سے سر جھٹکا


باپ ہوں تمہارا تمھیں ایسی حالت میں دیکھ میرا دل کٹتا ہے میری جان جو غلطیاں تم سے ہوئی ہی نہیں ان کی ۔۔۔۔!


بسس کردیں ۔۔۔۔۔۔ جاناں کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی تھی ضبط سے مٹھیاں بھینچتے وہ درد غصے کی انتہا پر تھی


ماں باپ کی کرنی ہمیشہ اولاد اٹھاتی ہے آپکا کیا ہمارے سامنے آئے گا ۔۔۔۔۔ میں وہ سب فیس کر چکی ہوں لیکن اگر آپکے ماضی کی تھوڑی سی جھلک بھی میری بہنوں کی زندگی پر پڑی تو میں جاناں شازم ہر رشتے کو سائیڈ پہ رکھتے حقیقت کو سب پر اشکار کردونگی پھر نہ مجھے آپ روک پائیں گے نہ کوئی اور ۔۔۔۔۔۔ جاناں کی باتیں تیر کی طرح شازم کے دل میں پپوست ہوئے تھے وہ جھکے سر سے روم سے نکلے


جاناں نے ہاتھوں کی مٹھی بنائے دیوار پہ دے ماری ۔۔۔۔۔ آنسو گلابی عارضوؤں سے لڑکتے جا رہے تھے دیوار سے لگ کر نیچے بیٹھتی وہ پھوٹ پھوٹ کہ رودی آنسو تھے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔ جس دردناک اذیت سے وہ گزری تھی اس ازیت سے وہ آمنہ اور شائزہ کو محفوظ رکھنا چاہتی تھی


وقت برا ہوتا نہیں ہے ہم خود اسے برا بنا دیتے ہیں بابا جو کرتے ہیں وہ میری زندگی بدل گیا اس نے میری مسکراہٹ میری شرارتیں سب مجھ سے چھین لی کیوں ۔۔۔۔۔۔


زور سے چلائے وہ بری طرح دیوار میں ہاتھ مارتی اپنا ہاتھ لہولہان کر چکی تھی نجانے کیا قسمت میں لکھا تھا اسکی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


امن وہاں تمیز کے دائرے میں رہنا اللہ کا واسطے ۔۔۔۔۔ حازم نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے میصم نے انکو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا انکے بیٹھتے ہی میصم نے گاڑی سڑک پر ڈالی


تمھیں کیوں آگ لگ رہی ہے بھئی میرا سسرال ہے ۔۔۔۔


ابھی سسرال بنا نہیں ہے ۔۔۔۔ لڑکی نے ہاں نہیں کی ۔۔۔میصم نے یاد دلایا تو امن کی ہنسی کو بریک لگی جبکہ حازم کا بلند قہقہہ گونجا


اور لڑکی نے ہاں کرنا وی نہیں جیسے اسکا تھوبڑا ہے ۔۔۔۔ حازم اسکا مزاق اڑاتے ہنسا میصم نے امن کے سرخ چہرے کو دیکھ مسکراہٹ دبائی


ابھی بتاتا ہوں کس کا تھوبڑا کیسا ہے ۔۔۔۔ بلیوں کی طرح اسکا منہ نوچتے امن نے خفگی سے کہا


ارے پیچھے ہٹو باگڑ بلے ۔۔۔۔۔ اسے دور دھکیلتے حازم چیخا اور اپنے بال سہی کرنے لگا جو گھنے جنگل کی طرح پھیل چکے تھے امن کا حال بھی مختلف نہ تھا انکی حالت پہ میصم قہقہ لگائے بغیر نہ رہ سکا


تم دونوں کی یہ شکلیں لے کر جاؤ گے تو انہوں نے اندر ہی نہیں گھسنے دینا گیٹ سے ہی ٹانگ مار کر نکال دینگے ۔۔۔۔ میصم کی بات پر وہ اپنا حلیہ درست کرنے لگے بھئی پرسینلٹی بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں ؟؟؟؟😂😂😂😂




چلو اترو اور دونوں کو وارن کررہا کوئی حرکت نہیں انسانوں کی طرح برتاؤ کرنا اپنے جنگلی پن کا مظاہرہ کیا تو گھر جاکہ مجھ سے پٹو گے ۔۔۔۔۔ گاڑی سے نکلا کر میصم نے وارن کرتی نظروں سے انہیں دیکھا جس پر وہ شرافت سے سر اوپر نیچے ہلاتے اسکے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیر گئے


میرے شیر ۔۔۔۔۔آن دونوں کو گلے لگاتے اس نے لمبی سانس بھری۔۔۔خود کو پُرتپش نظروں کے حصار میں محسوس کر اس نے اردگرد نظریں دوڑائی تو خان ولا کی کھڑکی میں کھڑے کسی نازک وجود کو دیکھا جسکا چہرہ اندھیرے کی وجہ سے اوجھل تھا


میصم کے دیکھنے پہ وہ وجود مسکرا کر آگے ہوا اسکی کالی آنکھیں واضح ہوئی تو میصم کو گماں ہوا جیسے وہ جاناں ہے لیکن کیا سچ میں وہ جاناں ہی تھی یا کوئی اور ۔۔۔؟


بھائی اللہ کا واسطہ ہے بھابی سمجھ ظلم نہ کریں آزاد کردیں اپنی قید سے ۔۔۔۔۔۔ امن کی گھٹی گھٹی آواز پہ وہ ہوش میں آتے پیچھے ہوا کھڑکی کو دیکھا جہاں صرف اندھیرا تھا وہ وجود چلا گیا تھا لیکن وہ تھی کون ؟


کیا وہ جاناں تھی؟؟؟ ہاں اسکے علاوہ کون ہوگا. ۔۔۔چھپ چھپ کر دیکھ رہی ہے مطلب اسے مجھ سے محبت ہے ۔۔۔۔ وہ نجانے کن کن سوچوں میں الجھ چکا تھا یہ احساس ہی اسکی خوشی دوبالا کرگیا تھا کہ جاناں اس سے محبت کرتی ہے لیکن کیا یہ سچ تھا یا صرف احساس ؟؟؟؟؟؟


میں نے کہا نہ بھائی جاناں بھابی کے خیالوں میں کھوئے ہیں ۔۔۔۔۔ حازم کے کان میں سرگوشی کرتے امن نے دانت دیکھائے اس امن کو گھورا اور چپ رہنے کا اشارہ کیا


بھائی خیال سے کہیں ڈوب نہ جانا۔۔۔۔ حازم نے شرارت سے اسکو جھنجھوڑتے کہا وہ جو جاناں کو سوچ رہا تھا جھٹکے سے اردگرد نظریں گھماتے سوال گو ہوا


کہاں کہاں ہے پانی ؟؟؟ سنجیدہ سا میصم اس وقت کوئی بچہ معلوم ہورہا تھا حازم اور امن کا ہنس ہنس کر برا حال تھا انکی شرارت سمجھتے میصم نے انہیں گھورا 😂😂😂😂😂😂😂


انسان کے بچے بنو اور چلو اندر ۔۔۔۔۔۔ گارڈز کو مسکراہٹٹ دباتے دیکھ میصم نے سنجیدگی سے کہا اور اندر کہ طرف بڑھا.............


💥💥💥💥💥💥💥💥💥

آئے میصم صاحب کیسے ہیں ۔۔۔ دروازے پہ ہی انہیں شازم مل گئے جو سب کا ویلکم ک رہے تھے وہ ان سے بغلگیر ہوتے اندر کی طرف بڑھے جہاں وائٹ بلیک ٹائٹس شارٹ شرٹ ۔۔۔کھلے بالوں میں حسن بکھیرتی جاناں اور بلو گاؤن میں آمنہ اور شائزہ موجود تھی


بلو پینٹ کورٹ وائٹ شرٹ میں وہ تینوں بھائی اپنی شاندار پرسینلٹی سے انکی طرف بڑھے جانی پہچانی آہٹ پہ وہ مڑی ڈیشنگ سے میصم کو دیکھ چونکی اس نے وہاں سے جانا چاہا لیکن کسی کے پکارنے پہ رکی


ہائے جاناں کیسی ہیں آپ ؟؟؟ بلو جینز واسکٹ وائٹ شرٹ پہنے ہشاب عالم کی انٹری ہوئی تو میصم نے غصے سے مٹھیاں بھینچی


جیسی ہوں اس سے آپکو کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔۔ سنجیدگی سے اسے گھورتی جاناں میصم کا جلنا نوٹ کر چکی تھی


غرض تو ہے ۔۔۔۔۔ وہ کچھ پراسرار سا بولا میصم نے گھور کر اسے دیکھا جاناں نے شازم کی طرف قدم بڑھائے


چپکنے کی عادت نہیں گئی تمھاری ۔۔۔۔اسکے جاتے ہی میصم نے طنز کیا


جیسے تمھاری عادت نہیں گئی ٹانگ اڑانے کی ۔۔۔ وی الٹا اسی پہ طنز کرتے ہنسا


زیادہ ہنسنا بھی خطرے کا باعث ہوتا ہے ۔۔۔


سو مشکلات آئیں لیکن بادشاہ کبھی مسکرانا نہیں چھوڑتا کیا سمجھے ؟؟؟ ہشاب کی آنکھیں جاناں پہ ٹکی تھی جو میصم کو آگ لگا رہی تھی


آپنی آنکھیں قابو میں رکھو ورنہ نوچ کر کتوں کو ڈال دونگا ۔۔۔۔ اردگرد دیکھتے وہ غرایا ہشاب نے چونک کر اسے دیکھا اگر وہ جاناں کو دیکھ رہا تھا تو میصم کی کیوں جل رہی تھی


تمھیں کیا مسئلہ ہے کام سے کام رکھو ۔۔۔۔ چانچتی نظروں سے اسکی آنکھوں کو دیکھتے وہ کچھ پتہ لگانے کی کوشش میں تھا


میری چیزوں پہ کسی کی نظریں برداشت نہیں مجھے ۔۔۔۔۔اس نے غصے سے کہا اور جاناں کی طرف بڑھا


اسکا مطلب کیا تھا ؟؟؟ کیا یہ میری جاناں کو ۔۔۔۔ اس سے أگے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔اگر ایسا ہوا تو زمین میں گاڑ دونگا اسے۔۔۔۔


.........................................

😉#جلنا جلانا #سب کچھ #فضول ہے۔✌✌

#جانی 💪

☝🏾اپنی #مستی مے #رہنا یہی اپنا #اصول۔ ہے۔🙏🙏.

..................................................


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


ماشاءاللہ آپکی تینوں بیٹیاں بہت خوبصورت اور ہونہار ہیں خوش نصیبوں کو ایسی بیٹیاں ملتی ہیں ۔۔۔۔ شازم سے آکر ملتے اسکے دوست کی بیوی نے کہا شازم مسکرائے


جنکی بیٹیاں ہوتی ہیں وہ سب ہی خوش نصیب ہوتے ہیں ۔۔۔میں کیا جسکے گھر بھی بیٹیاں ہیں وہ سب خوش نصیب ہیں کیونکہ بیٹیاں تو اللہ کہ رحمت ہیں انہی کی وجہ سے میں آج اس مقام پر ہوں میری بیٹیاں میرا بخت ہیں ۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولے بیٹیوں کے نام پر ہی انکے لہجے میں چاشنی گھلی تھی


شادی کا کچھ سوچا ؟؟؟ انکے دوست نے پوچھا


بہت اچھا رشتہ آیا ہے منگنی ہوجائے پھر جب خدا نے چاہا شادی بھی ہوجائے گی ۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولے تو انکا دوست دو تین باتیں کرتا وہاں سے چلا گیا


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


.........................................

ہمارے عشق کی کہانی ❤کو_____ہم ایسا مقام

دیگے❤😍


لفظ محبت جہاں ائےگا ❤لوگ وہاں تیرا میرا نام لیں گے ❤😍

..............................


کیسی ہیں آپ فیوچر مسسز امن سالار ۔.۔۔۔ اسکے کان پہ جھکتے امن نے سرگوشی کی جاناں کی طرف متوجہ آمنہ ایک دم اچھلی سب نے اسے دیکھا


کیا ہوا ؟؟ شائزہ پریشانی سے گویا ہوئی تو اس نے نفی میں سر ہلایا


انسانوں کی طرح بات نہیں کرسکتے یوں کسر پھسر کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔اسکے پیٹ میں کہنی مارتی آمنہ نے دانت پیسے امن نے مسکراہٹ دبائی


تو اپنی باتیں اب سبکو سنانی ہے ۔۔۔


اپنی باتوں سے مراد ابھی تم میرے منگیتر بھی نہیں ہو اور جناب کی شوخیاں دیکھو جیسے شوہر بن گئے ہو۔۔۔۔ اسکی نقل کرتے وہ منہ بنا گئی


وہ بھی بن جاؤ گا ۔۔۔ایک دن ۔۔


نجانے وہ دن آئیگا بھی یا نہیں ۔۔۔آمنہ پرسرا لہجے میں بڑبڑائی


کچھ کہا ؟؟؟ امن نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا آمنہ نے نفی میں سر ہلایا اور جاناں کے پاس ہوئی امن نے معصومیت سے ہونٹ لٹکائے


امن کا اترا ہوا منہ دیکھ حازم مسکرایا


آپ مسکرا کر کسکو دیکھ رہے ہیں ؟؟ مشکوک لہجے میں حازم کو دیکھتے اس نے اسکی نظروں کی سیدھ میں دیکھا جہاں ایک بولڈ لڑکی کھڑی تھی اس نے خونخوار نظروں سے حازم کو دیکھا جو ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا


اللہ تعالی نے دیکھنے کی چیز دی ہے تو دیکھو گا ہی نہ۔۔۔۔ غلط ٹائم پہ غلط الفاظ اسکے منہ سے نکلے شائزہ کا منہ کھلا


آپکا مطلب کیا ہے آپ ہر چیز کو دیکھے گے ۔۔۔


ہاں تو تم نہیں دیکھتی ۔۔۔۔میری مانو تو دیکھا کرو اللہ کی نعمت ہے ۔۔۔۔ وہ بیچارہ تو آنکھوں کی بات کر رہا تھا لیکن شائزہ تو کچھ اور ہہ سمجھ چکی تھی غصے کے باعث اسکی رنگت شدت سے سرخ ہوئی تھی کالی آنکھوں میں نمی سی چھائی تھی


کیا ہوا شائزہ آر یو الرائٹ ؟؟؟ اسکی حالت دیکھ حازم نے اسکے گال پہ ہاتھ رکھتے پوچھا لیکن اسے جھٹکا لگا اسے لگا جیسے کوئلہ چھو لیا ہو


اسکے پوچھنے کی دیر تھی کہ شائزہ کے آنسو ٹپ ٹپ کرتے برسنے لگے اسکا جھٹک کر وہ اپنے گاؤن ہاتھوں میں پکڑتی اوپر بھاگی


وہ اسکی حالت سمجھ نہ پایا پہلے تو ٹھیک بات کر رہی تھی امن کو دیکھا جو وہاں موجود نہیں تھا لیکن وہاں لڑکی کو دیکھ اسے شائزہ کی بات یاد آئی


اووو پاگل لڑکی میں تو امن کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ سر جھٹکتے وہ اسکے پیچھے گیا


...................................

#درد جو دے کِســــــــــی کو_____ #میں وہ #انســــــــــــان نہیں🙂🎗️

🍁. . . . . . . . . . . . .

#خامیاں _____ #مُجھ میں بھی ہیں مگر _____ #میں #بے_ایمـــــــان نہیں 😏💯 ✍️🥀✨

..............................................

💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


زرا سنیں یہاں باتھروم کہاں ہے ۔۔۔۔ وجی جسکے کوٹ پر جوس گرگیا تھا وہ کمروں کی طرف کھڑے شخص سے پوچھنے لگا


لیکن اس شخص کے مڑتے ہی وجی کو جھٹکا لگا خوف سے اسکے پیشانی پسینے سے بھیگنے لگی ہاتھوں کی کپکپاہٹٹ پر قابو پاتے وہ نیچے اسکے قدموں میں جھکا


با۔د۔شاہ۔۔۔۔۔ آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے ی۔یاد کرلیتے غلام حاضر ہوتا ۔۔۔۔۔ اسکی نیلی آنکھوں کی وحشت سے کپکپاتے وجی کا انگ انگ لرز رہا تھا


یہ کام مجھے کرنا تھا اسی لیے اٹلی سے یہاں آنا پڑا اور میں یہاں ہوں اس بات کی بھنک کسی کو نہ پڑے ۔۔۔۔ برف کردینے والے لہجے میں کہتے وہ ایک روم میں گھسے جو شازم کا تھا


ایسا کیا کام تھا کہ انکا یہاں آنا پڑا ؟؟؟ وجی حیران تھا کیونکہ آج تک بادشاہ نے خود کسی کام کو انجام تک نہیں پہنچایا تھا خاص لوگوں کے لئے ہی وہ انڈرورلڈ سے باہر نکلتا تھا اور آج اسکا یوں خان ولا میں ہونا وجی کو حیران کر گیا تھا بھلا یہاں ایسا کون تھا جسکے لئے بادشاہ کو یہاں آنا پڑا ایسی کیا مجبوری تھی


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


تاروں بھری رات سرد ہواؤں کے سبب اڑتے اسکے بال ۔۔۔ وہ لاپرواہ چاند میں کھوئی پول کے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھا تھی


سب کے موجود ہوتے بھی اکیلا بیٹھنا مناسب نہیں لگتا نہ۔۔۔۔آپکو ہمارے ساتھ ٹائم سپند کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔ اسکے ساتھ بیٹھتے وہ اسکے بالوں کو اسکے چہرے سے ہٹانے لگا


چہرے پر کسی کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے وہ چونکی جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کرتے وہ اسکی طرف مڑی وہ جو بلکل اسکے قریب بیٹھا تھا اسکے مڑنے پہ جاناں کے ہونٹوں پہ لگی لپسٹک ہشاب کی گال کی زینت بنی


کس کرنی تھی تو بتا دیتی یار میں تمھارے ان نرم پھولوں جیسے ہونٹوں کی نرمی تو محسوس کر پاتا ۔۔۔۔ گال پہ ہاتھ رکھتے وہ دلکش لہجے میں گویا ہوا تو جاناں اسے دکھا دیکر اٹھنا چاہا لیکن ہشاب نے ایسا ہونے نہ دیا اسکی برہنہ کمر کے گرد بازو حائل کرتے وہ اسے اپنے قریب کرچکا تھا جاناں نے کالی آنکھوں سے اسے گھورا


...................

💕__ﺗﺠﮭﮯ ﭼﺎﮦ ﮐﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ🙂


💔 💕ﮐﺮﻭﮞ؟💕


💕__ﺗﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ🙂


💕ﮐﺮﻭﮞ؟💕

💔

💕__ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﯽ _ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﻟﮕﯽ ﺑﮭﯽ


🙂 💕ﮨﮯ___💕


💕_ﭘﮭﺮ ﮐﯿﻮﮞﺍﻭﺭﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮔﻨﺎﮦ


💔 💕ﮐﺮﻭﮞ؟💕

...................


کیا بے ہودگی ہے چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔چہرے کو پیچھے کرتے وہ ہلکی آواز میں غرراتی خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی وہ مسکرا کر اسکی مزاحمتیں دیکھ رہا تھا


اتنا اداس اتنا سنجیدہ ، نا مسکرانے کی وجہ جان سکتا ہوں ۔؟ اسکے ڈمپل کو چھونے لگا چاندی رات اور چاند سے محبوب کی نزدیکی اس پر خماری چھانے لگی تھی


تمھیں کچھ بھی بتانا میں ضروری نہیں سمجھتی ہو ہی کون تم میرے۔۔۔۔ اسکے ہاتھ پہ ناخن گاڑتے وہ آسکی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی تھی


میں تمہارا کیا ہو؟؟ عاشق ہوں تمھارا ۔۔۔۔۔ اسکے ڈمپل پر لب رکھتے وہ اسکے گال کی نرمی محسوس کرنے لگا جاناں کو لگا جیسے دہکتا کوئلہ اسکی گال پر رکھ دیا ہو ماضی ایک جھلک اسکی زہن میں ابھری


ماضی


چھ۔چھوڑو مجھے ماما بچاؤ۔ؤ ۔۔۔۔ ایک نازک سی بچی اندھیرے میں خود پر شیطان نما انسان کی گرفت محسوس کرتے بن پانی کے مچھلی کہ طرح تڑپنے لگی تھی لیکن وہ شیطان صفت انسان ہر چیز سے لاپرواہ آنکھوں میں ہوس لیے اسکے نازک وجود کو دبوچے کھڑا تھا اک اندھیرا اور شیطانی گرفت اسکا دل شدت سے دعا گو تھا کہ اسکا سپر ہیرو آجائے اسے بچانے


تم بہت خوبصورت ہو میں عاشق ہوں تمھارے حسن کا۔۔ تمھیں دیکھ کر ہی میرا دل نشے میں جھوم جاتا ہے ۔۔۔۔۔ ہوس بھرے لہجے میں کہا گیا


چھوڑو کون ہو ؟؟ بابا ۔۔ اسکی چیخیں گونجی تھی


میں کون ہوں ؟؟ تمھارا عاشق ۔۔۔۔۔ اتنا کہتے وہ شخص اپنی درندگی دیکھانے کے لئے اسے اپنے ساتھ کھینچ کر لے جانے لگا وہ روتی گڑگڑاتی دہائیاں دیتی مدد مانگنے لگی لیکن وہاں سننے والا کوئی نہ تھا جو تھا وہ کسی شیطان سے کم نہ تھا


#شکوہ، شکایت، ‏#دکھ، درد، #تکلیف، حسد، #نفرت سب رہنے دیجیئے! دنیا #فانی ھے۔ #دعا دیجیئے، دعا #لیجئے!


(حال)


جاناں کیا ہوا سوری یوں روو تو مت نہ ۔۔۔۔ ماضی میں کھوئی جاناں کو معلوم ہی نہ ہوا کہ اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو گلابی گالوں پہ رواں تھے ہشاب کے آنسو صاف کرنے پہ وہ ہوش میں آتی جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور وہاں سے بھاگ گئی


۔۔۔۔ شازم کے کہنے پر وہ جو جاناں سے بات کرنے آیا تھا جاناں کو بھاگ کر جاتے دیکھ پیچھے ہشاب کو بیٹھے دیکھ غصے سے کھولتا اسکے سر پر پہنچا


تمھیں عزت راس نہیں ہے کیوں رولایا اسے کمینے ۔۔۔


بےقابو ہوتے وہ اسے پنچ مار چکا تھا ۔۔۔


خان ولا کہ بیک سائیڈ اس وقت وہ دونوں ایک دوسرے کو مارنے کے در پر تھے ایک کی آنکھوں میں دیوانگی تھی تو دوسرا محبت کی تپش میں جل رہا تھا خونخوار شیروں کی طرح مار مار کر وہ ایک دوسرے کی بہت بری حالت کرچکے تھے


وہ میری ہے ۔۔۔۔ اس سے دور رہو ورنہ جان سے مار دونگا ۔۔۔۔۔ وہ اسکے منہ میں پنچ مارتے غرایا


تیری بہتری اسی میں ہے کہ اسے اپنا کہنا بند کردے میصم ورنہ یہی تیری قبر کھود دونگا. ۔۔۔۔ اس سے دگنی طاقت سے پلٹ وار کرتے وہ دھاڑا جنگلی بلوں کی طرح ایک دوسرے پہ در پر در وار کرتے وہ پول میں جاگرے چھناک سے پول کا پانی اچھلا اور پولی کے اطراف میں پھیل گیا


تو کیا قبر کھودے گا میں یہی تیرا قصہ ختم کردیتا ہوں ۔۔۔ اسکو پانی میں ڈبوتے میصم نے اپنے ارادہ اسے بتایا جسے سن اس نے قہقہہ لگایا


شیر کو مارنا آسان نہیں ۔۔۔گیڈروں کی کوشش بیکار جائے گی ۔۔۔. اسکے پیٹ میں ٹانگ مار کر منہ پہ مکہ مارا میصم پانی میں جاگرا اور تیش سے اٹھتے وہ اسے مارنے لگا


بس کردو جنگلیوں کی طرح لڑنا یہ ہمارا گھر ہے کوئی اکھاڑہ نہیں ۔.... نسوانی آواز پہ ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈاے کھڑے ان دونوں نے اسکی اسے دیکھا جو کمر ہاتھ باندھے انہیں ہی گھور رہی تھی۔۔.۔۔۔۔.۔


💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥❤


اندھیرے کمرے میں چھائی وحشت ۔۔۔ وہاں تین نفوس موجود ہونے کے باوجود دل دہلا دینے والی چھائی خاموش ماحول کو خوفناک بنا رہی تھی


کیا فائدہ اس سب کا جب وہ خوشی سے جشن منا رہیں ہیں ۔۔۔اتنے لوگوں کی جان ۔۔۔ اتنی لڑکیوں کی عزت کی دھجیاں بکھیر کر۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت دوشیزہ کی سرد آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا


ایجنٹ 420 آپ اپنے غصے کو قابو میں رکھیے ۔۔۔انکی خوشیاں چند لمحوں یا دن کی محتاج ہیں اور جو ہم کررہے ہیں اس میں ہمارے ملک کی بھلائی ہے ۔۔۔۔۔ جرنل سلطان نے اندھیرے کو دیکھتے کہا


یہ قانون کے چکروں میں الجھانے کی کوشش نہ کرو جرنل میں نے جب حقیقت اشکار کی تو یہ حکومت یہ تمھارے ارادے سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔۔۔۔ مین چئیر پر بیٹھی اس لڑکی نے کولڈ لہجے میں کہا اسکی اسکی آواز میں وحشت تھی وہ دونوں نفوس ایک پل کو ڈرے لیکن سر ہاں میں ہلاتے اٹھے


دیکھو مافیا کوئین تم نے جو کہا ہم نے وہ کیا انفیکٹ تمھیں اپنی ایجنٹ بھی دی لیکن تم ۔۔۔۔


بسس میں چاہوں تو منٹوں میں اس سو کالڈ قانون کی دھیجیاں بکھیر دوں یہ جو ایمانداری کے مکھوٹے ہیں جھٹ سے اتار پھینکو کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہو گے تم لوگ اور جرنل تم مجھے دا مافیا گرل کو قانون سیکھا رہے ہو پہلے خود سمجھ لو کہ قانون ہے کیا پھر مجھ سے الجھنا سمجھے اور آئندہ اس بکواس کے لئے مجھے مت بلانا ورنہ اسی دن تمھاری موت پکی ہے ۔۔۔۔۔ ٹیبل پہ ہاتھ مار کر وہ غرائی اور ایک وہ فائل پھاڑ کر پھینکتی اندھیرے میں غائب ہوئی اسکے جاتے ہی کمرہ روشنی سے نہا گیا


سر آپ کیوں سنتے ہیں اسکی وہ مافیا ہے اور ہم۔۔۔ مافیا اور قانون کبھی ایک نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ آئینہ نے کہا تو جرنل مسکرائے


بہت بڑی گیم ہے آیجنٹ تم انجان ہو میں نہیں انکے اپنے ہی انکے جانی دشمن ہیں مافیا کوئین بھی انجان ہے جس دن ماضی سامنے آیا تو وہ سب تباہ کردیگی میرا دعوہ ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرے گی چاہے وہ اسکا شخص اسکے ڈل کا قریبی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ انکی لہجے میں خوف سا تھا


سر آپ جانتے ہیں مافیا کوئین کون ہیں ؟؟؟ آئینہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی تو جرنل نے اثبات میں سر ہلایا


پھر آپ اسکو پکڑ لیں نہ ؟؟؟


پہلی بات وہ چھوٹی ہے ابھی وہ قانون کی مدد کررہی ہے جب تک وہ ہماری ٹیم میں ہے ہماری ہے اور دوسری بات نازک ہرن کو پکڑنا سمجھداری نہیں سمجھداری تو شیر کا شکار کرنے میں ہے ۔۔۔۔


پرسرار لہجے میں کہتے اسے سوچوں میں الجھا چھوڑ وہ وہاں سے نکل گئے


💥💥💥💥💥💥💥💥💥

⭐⭐⭐⭐


مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کوئی مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ میرا کسی اور کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا ۔۔۔ اسکے پیچھے ٹیرس پہ آتے وہ اسکے گالوں سے انسو صاف کرتے گویا ہوا


مجھے محبت نہیں ہے بسس مجھے پسند نہیں کہ جو میرا ہو وہ کسی اور کو دیکھے ۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو پیچھے کرتی وہ ٹیرس سے نیچے دیکھنے لگی جہاں ہشاب اور میصم لڑجھگڑ رہے تھے


ابھی پرمننٹ میں تمھارا نہیں یوا ۔۔۔


اگر ہونا ہے تو ہوجاؤ گے لیکن سنو آئندہ اگر تمھیں لڑکیوں کو دیکھتے دیکھا تو تمھاری خوبصورت سی شکل کو لنگور بنا دونگی ۔۔۔ وہ اسکی طرف مڑتی وارن کرتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو مسکراتی نظریں اسی پہ جمائے کھڑا تھا


💗سانســـــــــیں تو بس نمـــــــــائش ہیں۔💗

💗میـــــــــری زندگی تو تم ہو💗🙈🤗


یہی بات میں تم بھی زہن نشین کرلو ۔۔۔اسکے نم گال پہ ہاتھ کی پشت پھیرتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا شائزہ کی کالی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ وہ چونکا شائزہ کا یوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وارن کرنا یہ اٹیٹیوڈ اسے گہری سوچوں میں الجھا گیا اسکے دماغ میں مافیا گرل کی ایک جھلک آئی اسکی نیلی آنکھوں میں یہی جنون تھا یہی سکون تھا یہی ادا ۔۔۔۔


کچھ تو گڑ ہے مجھے چیک کرنا ہوگا ۔۔۔۔ پولیس کی جاسوسی جاگی مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے وہ مسکرایا


تمھاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں کو دیکھتے بول اٹھا شائزہ کے مسکراتے لب سکڑے جن آنکھوں میں کچھ دیر پہلے چاند سی چمک تھی وہی آنکھیں اب آگ اگل رہی تھی


مجھے کچھ کام ہے ۔۔۔۔ نرمی سے اسکی طرف دیکھتے وہ ٹیرس سے بھاگی


یہ کہاں گئی ؟؟؟ میں اسکا روم چیک کرلیتا ہون کیا پتہ کوئی ثبوت ہاتھ لگ جائے ۔۔۔ لیکن مجھے کیا پتہ اسکا روم کونسا ہے ؟؟؟ تین کمروں کے باہر کھڑے وہ سوچ میں ڈوبا اور کچھ سوچتے دوسرے روم میں داخل ہوا نفاست سے سجائے روم میں ہارٹ شیپ بیڈ کے اوپر شائزہ کی پکچر لگی تھی جس میں وہ گن ہاتھ میں پکڑی کھڑی تھی وہ روم کو چیک کرنے لگا


⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐


بس کردو جنگلیوں کی طرح لڑنا یہ ہمارا گھر ہے کوئی اکھاڑہ نہیں جہاں تم لوگ کبڈی کبڈی کھیلنے لگ گئے ۔۔۔۔ وہ زور سے کان پر ہاتھ رکھتے بولی نسوانی آواز پہ ایک دوسرے کا گلا دباتے وہ اسکی طرف دیکھنے لگے ہشاب کو جھٹکتے وہ پول سے باہر آیا


جاناں تم ٹھیک تو ہو رو کیوں رہی تھی ؟؟؟ اسکے قریب پہنچتے گیلے کپڑوں سمیت میصم اسے خود میں بھینچ چکا تھا وہ جو پہلی ہی نظر میں اس پر فدا ہوچکی تھی اسکے کمر کے گرد بازو حائل کرتے اسے خود کے قریب محسوس کرنے لگی ہشاب کے کھینچنے پر وہ اسکے حصار سے نکلی


دور رہو اس سے ورنہ مار ڈالوں گا ۔۔۔۔ ٹانگ اسکے پیٹ میں مارتے وہ دھاڑا میصم جو جاناں کی خوشبو میں کھویا تھا لڑکھڑا کر سیدھا ہوا


اسے مارنا بند کرو میں جاناں نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔ میصم کو چوٹ لگتے وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی وہ چیخی تو ان دونوں سمیت بھاگ کر آتی شائزہ بھی سکتے میں آئی ہشاب نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا جو پنک شلوار کمیض میں نیٹ کا ڈوبٹہ کندھے پہ سیٹ کیے چھوٹے سے بالوں کو کھلا چھوڑے ڈارک میک اپ کیے کھڑی تھی


یہ میری جاناں ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔ اسکے میصم کی طرف دھکا دیتے وہ ہنسا خوشی اس بات کی تھی کہ وہ جاناں کے گلے نہ لگا تھا وہ کوئی اور تھی اسکی جاناں کو صرف وہ چھو سکتا تھا ۔


تم کون ہو؟ میصم نے حیرانی سے پوچھا اسکے میک اپ کو دیکھ میصم کو خود سے گھن محسوس ہونے لگی وہ کیسے کسی اور کو گلے لگا گیا اسکا دل کیا اس لڑکی کا منہ توڑ دے جو اسکے گلے سے چمٹی تھی


میں ایزل ہوں ۔۔۔ وہ مسکرا کر بولی شائزہ غصے سے کھولتی ادھر پہنچی اور سوری کرتی ایزل کو کیچھ کر اپنے ساتھ لے گئی ۔۔


سہی لڑکی کو گلے لگایا اب اسی کو ہی ساری زندگی گلے لگانا کیونکہ جاناں تو تمھیں ملنے سے رہی۔۔۔. ہونٹ کے کنارے سے خون صاف کرتے وہ دلکشی سے ہنسا اور سیٹی بجاتے وہاں سے چلا گیا ۔۔


.


شٹ۔۔۔۔ پیچھے وہ درخت پہ مکہ مارتے اپنا ہاتھ زخمی کر چکا تھا


⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐


یار بتاؤ تو شادی کروگی یا نہیں ؟؟؟ وہ کب سے اسکے سر پہ چڑھا یہی سوال کرکے اسے ایریٹیٹ کر چکا تھا آمنہ ہونٹوں پہ مسکراہٹ لیے اگے آگے چل رہی تھی امن اسکے پیچھے مسکین سی صورت بنائے سوال پر سوال کررہا تھا


شادی تیرے نا کرواں گی


اوو شادی تیرے نا کرواں گی


جھاڑو پونچھا تسی لا لیو چاہ آپے میں بناواں گی ۔۔۔


ہنس کر گاتے وہ اسکے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیر گئی اسکے دیوار سے لگاتے وہ اسکے گال پہ جھکا آمنہ ساکت ہوئی تھی اسکے لمس سے


ارے!آپ بھی ہنسنے لگے مجھ پر🙄🙂😒

مجھے تو گمان تھا کہ آپ سمجھے گیں🥀💔


کام تو میڈ کردے گی تم بسس میری ہونے کی تیاری کرو ۔۔۔ اسکے قریب بوجھل سے لہجے میں کہتے وہ اسکے گلابی چہرے پہ پھونک مارتے پیچھے یوا جو سخت نظروں سے اسے گھور رہی تھی


بدتمیز ہو تم ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے نتھے پھلائے بولی امن نے قہقہہ لگایا


اسجو بدتمیزی نہین کہتے جاناں اسے تو پیار کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ اسکی گال کھینچتے بولا آمنہ نے اسکے ہاتھ پہ تھپڑ مارا


جب تک نکاح نہیں ہوتا تب تک یہ اتنا کلوز مت ہونا ورنہ پنچ کھاؤ گے ۔۔۔ نازک سے ہاتھوں کا مکہ بنا کر دیکھاتے وہ اسکے صدقے وارتی نگاہوں کے حصار میں تھی


تم نے اتنی اچھی کیوں ہو ؟؟؟کیا میٹھا زیادہ کھاتی ہو ؟؟؟ وہ اسکی ناک کھینچ کر بولا جو سرخ ہورہی تھی


تم مجھے کونسا چکہ ہے جو۔۔۔۔۔۔ بول کر وہ خود ہی سرخ ہوئی چور نظروں سے اسے دیکھا جو ہنسی چھپانے کی کوشش میں لگا تھا


اچھا مطلب ۔۔۔۔ ارے سنو تو ۔۔۔۔ وہ بات پوری کرتا آس سے پہلے ہی وہ وہاں سے غائب ہوئی

یہ لڑکی پاگل ہے ۔۔۔۔. وہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہنسا

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

یہاں تو کچھ نہیں ہے ۔۔ پورے روم کی تلاشی لیتے وہ تھک کر بیٹھا لیکن کسی کی آہٹ محسوس کرتے وہ ڈریسنگ روم میں گھسا دروازہ کھول کر اسے ایک جھٹکے سے بیڈ پر پھینکا دروازہ بند کرتے وہ اسکی طرف مڑی

ہمت کیسے کی اس گھر میں آنے کی ؟؟ اسکا منہ دبوچتے وہ چیخی اسکا ہاتھ پکڑ کر گھماتے جھٹکتے سے وہ اسے بیڈ پہ گرا کر اسکے اوپر چڑھتی اسکا گلہ دبوچ گئی

.یہ گھر میرا بھی ہے سمجھی بڑی ہو اسی لیے ہر بار چھوڑ دیتی ہوں ورنہ ابھی تک تم بہت بری طرح پٹ چکی ہوتی میرے ہاتھوں ۔۔۔۔ گلے پہ گرفت بڑھا کر اک دم چھوڑتے وہ پیچھے ہوئی شائزہ کھانستی اٹھ بیٹھی

لیکن تم تو ماما کے پاس تھی تو یہاں آنے کا مقصد ؟ کیا ماما بھی آئی ہیں؟ وہ کچھ سوچ کر نرمی سے سوال گو ہوئی حازم غور سے انکی باتیں سن رہا تھا

نہیں وہ امر۔۔۔۔ تمھیں کیوں بتاؤ میں یہاں جاناں سے ملنے آئی تھی ۔۔۔۔ اسکی چالاکی سمجھتے وہ بات گھماتی بولی شائزہ نے گھور کر اسے دیکھا

تم بتا کیوں نہیں دیتی کہ ماما کہاں ہیں ؟؟ وہ اسکے ہاتھوں کو تھامتے تھکے لہجے میں بولی بھیگے لہجے سن وہ اسکے ساتھ بیڈ پہ بیٹھی

شازو تم ماضی سے انجان ہو دعا کرو کبھی ماما اور بابا کا آمنہ سامنا نہ ہو ورنہ دردناک ماضی اور ماضی کا ہر فریبی چہرہ سبکے سامنے ہوگا جسے میں تو برداشت کرسکتی ہوں لیکن تم تینوں کی برداشت سے باہر ہوگا اور پھر وہی تباہی شروع ہوجائے گی جو ماضی میں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اسکے لہجے میں ڈر واضح تھا تباہ ہوجانے کا ڈر

اساں اجڑے لوگ مقدراں دے

ویران نصیب دا حال نہ پچھ

توں شاکر آپ سیانا ایں

ساڈا چہرا پڑھ حالات نہ پچھ___

💔💔

ایسا کیا ہوا تھا جو یہ اتنی خوفزدہ ہے ۔۔۔۔ حازم دماغ کے گھوڑے دوڑانے لگ

کیا ہوا تھا ایسا جو تم جانتی ہو میں نہیں ایزل ۔۔۔۔ شائزہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے پوچھا

تباہی تھی شازو قیامت تو جاناں پہ گزری تھی اسکی ازیت تم یا میں کبھی نہیں سمجھ سکتے ہم الگ ہیں ۔۔ جاناں کی خاموشی کی وجہ صرف ایک شخص ہے ۔۔۔

کون ہے وہ ؟؟؟؟ شائزہ نے بےچینی سے پوچھا

ہمارے اپ۔۔۔۔

کیا ہو رہا ہے یہاں ۔۔اکیلی اکیلی گپے لگا رہی ہو دونوں ہیں کمینوں...... آمنہ نے جھٹکے سے دروازہ کھولتے کہا اسکی غلط ٹائم کی انٹری پہ شائزہ نے اسے گھورا وہی ایزل ہوش میں آئی وہ ی کیا کرنے جارہی تھی پلک چھپک کر آنسو اندر دھکیلتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی

مجھے جانا چاہیے پھر مل لونگی جانان سے ۔۔۔۔

وہ کہتی بنا رکے روم سے نکلی

تھوڑی دیر اور نہ آتی تو کام بن جانا تھا ۔۔۔

کیا مطلب کونسا کام ؟؟ آمنہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

وہ مآضی بتانے لگی تھی ۔۔۔۔۔کون ہے وہ انسان جس نے ہماری زندگیوں سے کھیلا ۔۔۔۔ وہ پیشانی مسلتے سوچنے لگی آمنہ بسس بیڈ پر بیٹھی اسے دیکھنے لگی وہ ہر ممکن کوشش کرکے اپنے دشمن کا پتہ لگانا چاہتی تھی اس بات سے انجان جس دن انہیں اصلیت پتہ چلے گی وہ ٹوٹ جائے گی یہ ہمت کہیں سو جائے گی بےیقینی سے بےیقینی ہوگی درد کا مقام ہوگا

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

رات کے بعد شائزہ اور امنہ غصہ سے کھول رہی تھی انکا بسس نہیں چل رہا تھا کہ سب تہس نہس کردیتی ابھی شائزہ کو شاپنگ مال جانے لگی تھی کہ راستے میں لیڈی کانسٹیبل نے اسے پکڑا


کچھ انفارمیشن چاہیے چل ۔۔۔۔۔ وہ دونوں پرسرار لہجے میں کہتی اسے کھینچ کر ساتھ لے جانے لگی


کونسی انفارمیشن چاہیے ۔۔۔ ہاتھ چھوڑو ۔۔۔۔ بھرے بازار میں اسے یوں لے جارہی تھی اور کوئی بھی اسکی مدد کو نہیں آیا تھا یقیناً کچھ تو گڑبڑ


چھوڑو مجھے کہاں لے جارہے ہو چھوڑ ۔۔۔۔۔ اسے وین میں دھکا دیا تو شائزہ چیخی


اے چپ سالی (گالی) ۔۔۔۔ تھپڑ اسکی نازک گلابی گال پر مارتے لیڈی کانسٹیبل نے گھور کر کہا تو شائزہ سہم کر بیٹھی اسکی چھٹی حسس اسے کچھ غلط ہونے کا پتہ دے رہی تھی اس نے نظر بچا کر اپنی گھڑی میں کوئی بٹن دبایا


دو گھنٹوں کی مسافت کے بعد وین ایک کھنڈر بلڈنگ کے سامنے رکی اسے کھینچ کر باہر نکالا اور اس کھنڈر نما بلڈنگ کے اندر لے جانے لگی


لے آگئی ایک اور لڑکی اب دے دے اسے بادشاہ کو اسکی خوبصورتی دیکھ کر ضرور بادشاہ ہمھیں انعام دینگے ۔۔۔۔ لیڈی کانسٹیبل کے لباس میں موجود وہ ایک گینگ کی عورت تھی شائزہ نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا بادشاہ کون بادشاہ ؟؟؟ اور اردگر نظر دوڑائی جہاں گنتی کے صرف پانچ لوگ تھے دو عورتیں اور تین مرد اور دو لڑکیاں لوہے سے بندھی ہوئی تھی


لڑکی تو قیامت ہے اسکے یہ ملائی جیسے گال رس بھرے۔۔۔۔۔!وہ بات مکمل کرتا کہ ایک گولی اسکا سینہ چیرتی اسکی جان نکال گئی وہ سب اپنی اپنی گن نکالتے پیچھے مڑے جہاں دو لڑکے اور ہڈی میں ملبوس ماسک لگائے ایک لڑکی کھڑی تھی جسکے ہاتھ میں گن تھی


کون ہو تم ؟؟؟


مافیا کوئین ۔۔۔۔سرد لہجے میں گویا ہوئی تو ان سب کو سانپ سونگھ گیا انڈرورلڈ میں آجکل مافیا کوئین کے ہی چرچے تھے سبکو اسکی تلاش تھی جو پردے میں چھپی تھی


ارسل اور ارسلان کی بندوق چلی اور وہاں موجود آدمیوں کی لاشیں زمین پہ گری ایک عورت نے گولی چلانی چاہی اسے سے پہلے وہ شوٹ کرتی شائزہ نے کلابازی کھاتے ایک ٹانگ اسکے گن والے ہاتھ اور دوسرا اسکے منہ میں مارتے سیدھی ہوئی دوسری مافیا کوئین کے ایک پنچ پر ہی بےہوش ہوچکی تھی


کیا چل رہا تھا یہاں ؟؟ ارسل نے اس عورت سے پوچھا جس کے ہاتھ شائزہ باندھ چکی تھی ۔...


باد۔بادشاہ کی رکھیل ۔۔۔


کہاں ہیں یہ بادشاہ ۔۔۔؟؟ اسکی بات کاٹتے وہ سوال گو ہوئی


انکا پتہ کوئی نہیں جانتا کسی نے انکو نہیں دیکھا سوائے ایک شخص کے۔۔۔۔۔ وہ عورت ڈر کر بولی


کون ہے وہ ؟؟؟ ارسلان کی چپی ٹوٹی


مجھے نہیں معلوم اس بات کا صرف پی کے جواب دے سکتا ہے ۔۔۔۔


وہ کہاں ملے گا ؟؟؟؟ وہ سب غور سے اسکی بات سن رہے تھے


وہ لندن میں رہتا ہے لیکن کہاں یہ معلوم نہیں ۔۔۔ اب مجھے جانے دو مجھے بسس یہی معلوم تھا ۔۔۔۔۔ وہ گڑگڑائی


جو اپنے باس کا نہ ہوا وہ ہمارا کیا ہوگا ؟؟؟؟ ارسل نے اسکے دماغ میں گولی ماری اور وہ سب وہاں سے جانے لگے


کیا ہوا؟؟؟ مافیا کوئین کو رکتے دیکھ شائزہ نے پوچھا مافیا کوئین نے مڑ کر دوسری عورت کے دل میں گولیاں مادی جو بےہوشی کا ڈرامہ کرتی انکی باتیں سن رہی تھی ایک چیخ کے ساتھ ہی اپنے جان سے گئی تھی


یوں ہی نہیں کہتا یہ مافیا کوئین ہے! ۔۔۔ ارسل نے شائزہ کو کندھا مارا تو وہ ہاتھ اٹھا کر بسس کرنے کا اشارہ کرتی باہر کو بڑھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


یونیورسٹی اوپن ہوچکی تھی پرنسپل چینج ہوچکے تھے ابھی تک کلیئر تو نہیں ہوا تھا کہ مرڈر کس نے کیا ہے اور ہونا بھی نہیں تھا پہلے کیسسز کی طرح یہ کیس بھی بند کردیا جانا تھا


وہ دونوں بھی یونی میں موجود تھے آمنہ جو کیفٹریا میں بیٹھی تھی کہ کوئی لڑکا اسکی ٹیبل پر بیٹھتے اس سے کچھ پوچھنے لگا یا شاید بات کرنے کا بہانہ تلاش کررہا تھا


امن جو امنہ کے پاس آرہا تھا کسی اور کو اسکے ساتھ بات کرتے دیکھ غصے سے مٹھیاں بھینچ گیا اور انکو دیکھتے دیکھتے ہی واپس مڑا آمنہ نے اسے واپس جاتے دیکھا


سوری بھائی مجھے نہیں معلوم اس ٹاپک پہ آپ سر سے سمجھ لیجئے گا ۔۔۔۔ اس نے لڑکے کو کہا جو اسکے بھائی کہنے پہ منہ بگاڑ چکا تھا


امن۔۔۔ وہ اسکے پیچھے آئی لیکن اسکو کسی اور لڑکی سے کچھ لیتے دیکھ اس نے پلکیں چھپکی اور آنسوؤں کو روکتے وہاں سے کلاسز کی طرف بڑھی


آہہہہ ۔۔۔۔وہ جو جارہی تھی کہ کسی نے اسے کھینچا تو وہ چیخنے لگی لیکن اسکے منہ پہ بھاری ہاتھ رکھتے وہ اسکی آواز روک گیا آمنہ نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا جو غصے سے اسے گھور رہا تھا


لڑکوں کیا لڑکیوں سے بھی دور رہو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔ اسکے منہ سے ہاتھ ہٹائے وہ سختی سے بولا


تم بھی تو اس لڑکی سے بات کررہے تھے ؟؟ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئی امن نے اسکی نیلی آنکھوں پھر اسکے ہونٹوں کو دیکھا


یہ دیکھو ٹکٹ لے رہا تھا کیونکہ آج ہم مووی دیکھنے جائیں گے ۔۔۔۔۔ تمھارے علاوہ میں کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ورنہ ایک چڑیل ہے جو مجھ سے چمٹ جائے گی ۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ ڈبا کہ بولا


چڑیل کسکو کہآ؟؟ تم چڑیل تمھاری بیوی بچے چڑیل میں تو پری ہوں ۔۔۔۔


خبردار جو میرے بچوں کو کچھ کہا مانا تم انکہ ماں ہو لیکن تمھارا کوئی رائٹ نہیں کہ میرے بچوں کو کچھ کہہ سکو سمجھی ۔۔۔۔۔ اسکے بالوں کو کان کے پیچھے اڑھستے وہ شریر لہجے میں گویا ہوا آمنہ نے اسے گھوری سے نوازا


بچوں کی فکر ہے انکی اماں کہ نہیں ؟؟؟


ارے انکی اماں خود ہی چڑیل ہے ہے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ لینگی ۔۔۔۔۔ لیکن بات سنو آج تم نے بہت ہرٹ کردیا ۔۔۔۔ وہ کچھ اداسی سے مسکرایا آمنہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا


پرومس کرو آئندہ یوں منہ موڑ کر نہیں جاؤ گی چاہے جو مرضی ہوجائے ۔۔۔۔میں جب بھی بلاؤ تم دوڑی چلی آؤگی ۔۔۔۔ اسکے سامنے چوڑی ہتھیلی پھیلاتے اس نے کچھ سوچ کر پوچھا آمنہ نے چانچتی نگاہوں سے اسے دیکھا اسے کچھ غلط لگ رہا تھا


مجھے جانا ہوگا ۔۔۔۔اچانک اسکی واچ بیپ ہوئی تو اس نے امن کے ہاتھوں سے ہاتھ نکالتے جانا چاہا لیکن امن نے اسکی کمر پر گرفت مضبوط کی


پہلے وعدہ کرو ۔۔۔۔


ہوسکتا ہے من کہ کبھی تمھیں مجھ سے منہ موڑنا پڑے ۔۔۔.کیا پتہ کہ تم مجھ س نفرت کرنے لگ جاو۔۔۔ شاید تم مستقبل میں میرا چہرہ بھی دیکھنا پسند نہ کرو ۔۔۔ایسے وعدے مت کرو جن سے میں اپنے ارادے میں کمزور ہوجاؤ ۔۔۔۔ اور تم مجبور ہوجاؤ ابھی بھی موقع ہے ایک بار سوچ لو کیا تم میری دنیا کے ساتھ مجھے قبول کرو گے ؟؟؟ وہ بول کر اسکے ہاتھ ہٹاتے نیلی آنکھوں میں نمی لئے وہاں سے نکلی اسے جانا تھا بلاوا آچکا تھا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


سر جیسے اپ نے کہا ہے ہم نے اپنے آدمیوں کو میم کے پیچھے لگا دیا ہے کچھ بھی عجیب لگا تو ہمھیں انفارم کردینگے ۔۔۔۔ کانسٹیبل نے آکر حازم سے کہا جو اہزل اور شائزہ کی باتوں کو سوچ رہا تھا


ہممم اوکے جاؤ۔۔۔ حازم نے پیشانی مسلی اسکا سر درد ہوگیا تھا ان بہنوں کا سوچ کر۔۔۔ کانسٹیبل سلیوٹ کرتے باہر گیا


بہت شاطر ہیں یہ بہنیں ۔۔کچھ تو سولڈ کرنا پڑے گا تاکہ انکہ ہر حرکت پہ میں نظر رکھ سکوں ۔۔۔۔ ہاں شادی شادی ہی ایک ایسا اوپشن ہے جس سے یہ میرے گھر ہوگی اس پر نظر رکھ پاؤگا ۔۔۔ گریٹ ۔۔۔۔ سوچ کر اٹھتے وہ پولیس اسٹیشن سے نکلا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کیا فائدہ جان کیا فائدہ ہوا ہمھیں سالہ ہمارے پیچھے لوگ لگا رکھے ہیں تمھارے کہنے پہ ہم نے ان سے شادی کے لئے ہاں بھی کردی لیکن وہ ہم پر شک کر رہیں ہیں ۔۔۔۔۔ چھت سے لٹکتی بوری کو گلوز پہن کر در پہ در مکہ مارتے وہ زخمی شیرنی بنی ہوئی تھی


شائزہ اپنے غصے کو کنٹرول میں رکھو ۔۔۔ وہ سرد لہجے میں گویا ہوئی تو شائزہ نے سرخ آنکھوں سے مڑ کر اسے دیکھا


تم ہی بتاؤ کیا کرو یار وہ الو کا پٹھا ایس پی میرے پیچھے پاگل کتوں کی طرح پڑا ہے یہہ سب چلتا رہا تو ہم پکڑے جائیں گے ۔۔۔۔بوری سے رستے خون کو ہاتھوں جھٹکتے وہ اسکو دیکھنے لگی جو سگریٹ کا کشش لگاتے دھواں فضا میں پھیلا رہی تھی


کتا ہے تو کتے لی موت مرے گا سالہ ۔۔۔! آمنہ اور ایزل نے وہاں آتے کہا اور جاناں کو ملی


مارنا نہیں ہے اسے وہ اپنا کام ایمانداری سے کررہا ہے کرنے دو۔۔۔۔۔ جاناں نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے دوسری سگریٹ سلگائی


مجھے سمجھ نہیں آتا جان تم کرنا کیا چاہتی ہو؟؟؟شائزہ پرہشان ہوئی تھی


ہاں جہاں تک ہمھیں معلوم ہے ہم نے سب سے رئیس بننا ہے لیکن تم کسی اور ہی رستے پہ چل نکلی ہو ۔۔۔۔۔ آمنہ نے اسکے پاس بیٹھتے کہا جاناں نے نظریں پھیر کر اسے دیکھا


مجھے بادشاہ چاہیے اگر وہ ختم تو دنیا ہمارے قدموں میں ہوگی کیونکہ بادشاہ پوری دنیا کا بادشاہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اسکی انکھوں میں کچھ پانے کی چمک تھی ان تینوں نے جھٹکے سے اسے دیکھا کہ جیسے وہ پاگل ہو


دماغ تو نہیں پھر گیا تمھارا کیا کہہ رہی ہو؟؟؟؟ کیا چل رہا ہے تمھارے دماغ میں؟ ایزل نے حیرانی سے اسے گھورا أمنہ اور شائزہ تو صدمے میں تھی انکی بہن نجانے کونسے طوفان کو چھیڑنے والی تھی


میں سہی کہہ رہی ہوں مجھے بادشاہ چاہیے اسے ختم کرکے ہی میرا کام ہوگا ۔۔۔۔۔ جاناں نے سنجیدگی سے کہا ایزل نے گہرا سانس بھرا


اسے مارنا بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔۔۔۔جان۔۔۔۔گناہوں کا بے تاج بادشاہ ہے وہ ڈر کو بھی ایک بار خوف آجائے اس سے ۔۔۔۔ اسکی مرضی ہوتی ہے تو ہی وہ کسی کے سامنے آتا ہے ۔۔۔۔کئی آئے اسے مارنے لیکن اس تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔۔۔۔اسکے ایک نظر دیکھنے پہ ہی پورا انڈرورلڈ کانپ اٹھتا ہے ۔۔۔۔وہ انڈرورلڈ جس میں ترکی اٹالین مافیا ہر طرح کی گینگ ہیں اور آنکو صرف ایک انسان کا خوف ہے اور وہ ہے بادشاہ ۔۔۔تمھارا اس تک پہنچنا ناممکن ہے ۔۔۔۔ ایزل نے سمجھایا جاناں کے ڈمپل جھلک دیکھلاتے غائب ہوئے جسکا صاف مطلب تھا کہ وہ بادشاہ تک پہنچے گی


بادشاہ ایک جلاد ہے ۔۔۔وہ کسی کو نہیں بخشتا اگر تمھیں اسے مارنا بھی ہے تو اسکی سلطنت میں جانا ہوگا ۔۔۔۔جہاں سے آج تک کوئی زندہ لوٹ نہیں پایا ۔۔۔ وہاں انسان نہیں جانور رہتے ہیں انسانوں کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں وہاں انسانی جان کہ رتی برابر بھی اوقات نہیں ہے ۔۔۔۔ ان حیوانوں میں احساس نہیں ہے ۔۔۔۔ ایک بار سوچ لو ۔۔۔۔ ساری تفصیلات بتاتے وہ اسکی جانب دیکھنے لگی جو کسی گہری سوچ میں مبتلا تھی


نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں جانے کی ۔۔ جان نہی جاؤ گی تم سمجھی ۔۔۔آمنہ نے جاناں کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے کہا شائزہ بھی اسکے پاس آئی


بہت خطرہ ہے جان ہم نہیں کرسکتے ۔۔۔۔۔ بادشاہ کے بارے میں سنتے ہی آس پر خوف طاری ہوگیا تھا


ہم نہیں کرسکتے لیکن جاناں کرسکتی ہے ۔۔۔ آمنہ کے ہاتھ ہٹاتے وہ ہلکا سا مسکرائی شائزہ اور امنہ کو اسکی مسکراہٹ سے ہی خوف محسوس ہوا


تم اکیلے کرنے کا ارداہ رکھتی ہو ؟؟؟؟ ایزل کی حیران پریشان آواز ابھری تو اس نے ہاں میں سر ہلایا


تم لوگ شادی کی تیاریاں کرو ۔۔۔۔۔


میں نہیں کرونگی شادی ۔۔۔.شائزہ نے ناک چڑھاتے کہا تو جاناں نے اسے گھورا وہ ہڑبڑا کہ سیدھی ہوئی


تم ڈیٹ بتا دو کب ہے شادی ؟ اس نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا تو آمنہ ایزل نے. مسکراہٹ دبائی


میسج کردونگی ۔۔۔۔ ابھی جاؤ ۔۔۔۔ وہ صوفے پہ سر ٹکاتے گویا ہوئی تو وہ تینوں ہی روم سے نکلی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

کیا ہوا بیٹا تم اتنے پریشان کیوں ہو اور اتنا ارجینٹلی کیوں بلوایا ہے؟؟؟ شازم نے چییر پر بیٹھتے اسکی پریشان صورت کو دیکھ کر پوچھا

انکل مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔

ہوں بولو؟؟

انکل میں چاہتا ہوں یہ میری مجبوری ہے کہ آپ جلد از جلد اپنی بیٹیوں کی شادی ہم سے کردیں کیونکہ شادی کے بعد ہی ہم نے لندن شفٹ ہوجانا ہے میں نے پہلے بھی زکر کیا تھا آپ سے ۔۔۔۔ میصم کی بات پر شازم گہری سوچوں میں گھرے تھے

لیکن اتنی جلدی ۔۔۔۔

میری مجبوری ہے انکل پلیزز ۔۔۔۔ میصم نے انکے سامنے بیٹھتے اپناہیت سے کہا تو وہ منع نہ کرسکے

جاناں نہیں مانی ۔۔۔۔۔ میصم نے امید سے پوچھا تو شازم نے نفی میں سر ہلایا

شادی تک مان جائیں گی آپ شادی کی تیاریاں کرو ۔۔۔۔ میصم نے کہا اور انکے ساتھ دوسری باتوں میں مصروف ہوا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

تمھیں پوری رات میں نہیں سویا ۔۔۔۔ امن امنہ ساتھ گارڈن میں بیٹھے تھے امن نے اسکے چہرے کو دیکھتے کہا

کیوں؟؟؟

مجھے تمھاری یاد آرہی تھی اسی لیے ۔۔۔۔ امن نے اسکے گال کھینچ کر پیار سے کہا

میں بھی نہیں سوئی ۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ معصومیت تھی

تمھیں بھی میری یاد آرہی تھی نہ ۔۔۔۔امن چہکا

نہیں مچھر بہت تھے اسی لیے ۔۔۔ اسکی خوش فہمی دور کرتے وہ مسکراہٹ دبا گئی اسکا جواب امن کو تپا گیا

تم مجھے یاد کیوں نہیں کرتی ؟؟ کیس تمھیں مجھ سے محبت نہیں ؟؟ میں ہی پاگلوں کی طرح تمھاری چاہ کرتا ہوں اور تم ہو کہ بسس ۔۔۔۔۔ اسکے بازو پکڑتے وہ اسے جھنجھلاہٹ سے بولا اسکی آنکھوں میں غصہ ہلکورے لے رہا تھا

بسس کیا ؟؟؟؟ اس نے جاننا چاہا

تمھاری آن خوبصورت سی آنکھوں میں مجھے اپنے لیے نفرت نظر آتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم میرے ساتھ زبردستی بات کرتی ہو ۔۔۔سچ سچ بتانا کیا یہ شادی تمھاری مرضی سے ہورہی ہے.... امن کہ آنکھوں میں ڈر تھا کہ کہیں امنہ منع نہ کردے وہ تو اسے اپنی زندگی بنا چکا تھا

ایسا کچھ نہیں ہے من تم غلط سمجھ رہے ہو ۔۔۔۔ آمنہ نے نظریں چرائی

جب تک شادی نہیں ہوتی تب تک ٹائم ہے تمھارے پاس اپنا مائنڈ سیٹ لرلینا ۔۔۔کیونکہ شادی کے بعد مجھ سے دو سکینڈ بھی دور نہیں جا پاؤگی۔۔۔۔۔ امن نے اسکو نظریں چراتے دیکھ کر کہا آمنہ ہاتھ جھٹکے سے چھڑاتے یونی سے نکلتی چلئ گئی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ہر طرف پھول اور پودے تھے وہ وہاں پھیلی پھولوں کی خوشبو کو محسوس کرتے وہ سوچو کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا بلیک جینز وائٹ شرٹ میں اسکا کسرتی سینہ واضح تھا بکھرے بالوں میں آستین چڑھائے رف سے حلیے میں بھی وہ بے حد پرکشش معلوم ہورہا تھا

وہ اس وقت اپنے ہوٹل میں بنے پول گرین ہاؤس میں بیٹھا تھا اسکی ڈیل ہوچکی تھی بسس پیسہ دو دن بعد ملنے کا وعدہ تھا اور ہشاب عالم کہ پریشانی سوا نیزے پر تھی کیونکہ مافیا کوئین کی دھمکی اور اپنے آدمیوں کہ لاشیں دیکھ وہ شدید غصے میں تھا

لگتا ہے تمھیں عزت راس نہیں ہے اسی لیے تو جہاں جاؤ وہاں پہنچ جاتے ہو۔۔۔ میصم کو آتے دیکھ وہ طنزیہ بولا تو میصم جو بہت خوش تھا اسکی طنز کو سمجھ کر ہنسا

تمھیں خوشخبری سنانی تھی انویٹیشن کارڈ بھی دے سکتا تھا لیکن میں نے سوچا میں خود ہی تمھیں یہ بریکنگ نیوز دونگا ۔۔۔۔اسی لئے یہاں موجود ہوں ورنہ تم جیسوں کے منہ کون لگے ؟؟ میصم کی خوشی اسکے چہرے سے جھلک رہی تھی ہشاب کو اپنے اردگرد خطرے کہ گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئی

زیادہ دماغ پر زور مت ڈالو ہشاب عالم شاہ ۔۔۔۔ میری شادی ہے کچھ دن بعد۔۔۔ تمھیں انوائٹ کرنے آیا ہوں ۔۔۔۔

اوو تو اس بہن جی سے تم نے شادی کرنے کا فیصلہ کرہی لیا گڈ ۔۔۔بہت خوشی ہوئی جان کر ۔۔۔ ہشاب نے مصنوعی خوشی سے کہا تو میصم نے قہقہ لگایا

تم غلط سمجھے میری شادی ہے جاناں شازم خان کے ساتھ ۔۔ میصم نے دل جلاتی مسکراہٹ سے کہا تو ہشاب کا وجود طوفانوں کی زد میں آیا تھا پیشانی پہ بل نمودار ہوئے ۔۔۔ہونٹ بھینچتے اسنے اپنی آنکھوں کو بند کیا جن میں مرچی سی چبھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔ہاتھوں کہ مٹھی بنائے اس نے اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو کنٹرول کیا ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ یہی اسکا دھڑ سر سے جدا کر دیتا

ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ۔۔۔ خوش فہمیاں اچھی پال لی ہیں تم نے۔۔۔ وہ ہنسا تو میصم نے سنجیدگی سے اسے گھورا

حقیقت تمہارے نہ ماننے سے بدل نا جائے گی ۔۔۔۔ انویٹیشن کارڈ اسکے ہاتھ میں پکڑاتے وہ دلکش قہقہہ لگاتے وہاں سے نکلا جانتا تھا اب تک ہشاب عالم آتش فشاں بن چکا ہوگا اور ہوا بھی یہی وہ گرین ہاؤس جسکے ہر طرف پودے ہر طرف پھولوں کی خوشبو بکھیربکھری تھی وہی اب سارے پھول زمین پر پڑے اپنی بےقدری پر رو رہے تھے سارے پودے گملے ہر چیز بکھر چکی تھی اور وہ بھپرا شیر غصے سے دھاڑتے ہر چیز فنا کردینا چاہتا تھا

جاناں صرف میری ہے صرف میری ورنہ قیامت بھرپا کردونگا ۔۔۔۔میصم سالار تمھاری قسمت اب میں ہشاب عالم لکھو گا ۔۔۔۔ وہ حلق کے بل چیخا اور وہاں سے نکلا ہر چیز تباہ کرنے ۔۔۔جاناں کو اپنا بنانے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

جاناں بیٹا اپنے باپ کی عزت رکھ لو ۔۔ اسکے روم میں بیٹھے وہ اس سے گزارش کر رہے تھے جو غصے سے لال پیلی ہوئی بیٹھی تھی چیخ پڑی

آپ نے رکھی تھی "عزت" کتنا روئی تھی میں کتنی آوازیں دی تھی ۔۔۔۔آپ آئے؟.۔۔ نہیں نا ۔۔۔جب آپکو اپنی بیٹی کی فکر نہیں تھی تو میں کیوں کرو ۔۔۔۔ اسکی بات پر شازم کے کندھے جھکے تھے ماضی کی دردناک جھلک یاد سے گزری جب جاناں بےسدھ پڑی تھی

لیکن بیٹا ۔۔۔۔

اگر بوجھ لگ رہی ہوں تو بتا دیں چلی جاؤں گی یہاں سے اور رہی بات شادی کی تو ایزل کی شادی کروا میری ہی ہمشکل ہے ۔۔۔۔ اس میصم کو کوئی فرق ہی نہیں پڑے گا کیونکہ اسے تو لڑکی چاہیے ۔۔وہ جاناں ہو یا ایزل کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔اسکی بات باہر سے گزرتی ایزل کے سماعت ہوئی تو وہ ٹھٹک کر رکی

ٹھیک ہے پھر ۔۔.لیکن دو ماہ کے بعد تمھارا فرض بھی ادا کردونگا ۔۔۔۔ شازم نے سنجیدگی سے کہا تو جاناں نے جانچتی سرخ نظریں انکے چہرے پہ گھاڑی

آپ کو میری شادی ہی کیوں کروانی ہے کچھ چھپا رہیں ہیں ؟؟ مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا تو شازم ایک پل کو گڑبڑایا

ارام کرو صبح یونیورسٹی جانا ہے تم نے ۔۔۔۔ وہ جلدی سے کہتے وہاں سے چلتے بنے جیسے کوئی چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو جاناں سوچ میں ڈوبی

تھینکس جانی. تمھیں پتہ نہیں تم نے مجھے کیا خوشی دی ہے ۔۔۔۔۔ ایزل کے گلے لگانے پہ وہ ہوش میں آئی جو نجانے کیا کیا کہہ رہی تھی

ہممم ہٹو اور ریڈی ہوجاؤ ۔۔۔۔ اسکو پیچھے کرتے وہ اپنا موبائل اٹھائے کسی کو کال کرنے لگی ۔۔۔

ارسل میری لندن کی ٹکٹ کنفرم کرواؤ ۔۔ایزل نے حیرانگی سے اسے دیکھا کیا وہ واقعی ہی بادشاہ سے الجھنے کا ارادہ رکھتی تھی ؟.۔۔ شاید ہاں ۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

آہ۔۔۔۔ وہ جو ابھی اپنے روم میں داخل ہوئی تھی کسی کے کھینچنے پر اسکی چیخ نکلی جو اس شخص نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھتے دبائی امنہ نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا جو وائٹ شرٹ بلیک پینٹ ماتھے پہ بال بکھیرے بھوری چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا

دنیا کو بلاؤ گی کیا ۔۔ہونے والی مسسز امن سالار ۔۔۔۔امن نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی امنہ کی سانسیں رکی اسکی سانسوں کی تپش اسکے کان اور گردن کو جھلسا رہی تھی

کیا مسئلہ ہے ہونے مسٹر امن سالار ۔۔۔ ہیل اسکے پاؤں پہ مارتی وہ پیچھے ہٹی اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی

مسسز امن میں تو صرف مبارک دینے آیا ہوں لیکن تمھاتی بکھری سانسیں کچھ گڑبڑ کا احساس کروا رہی ہیں ۔۔۔ معنی خیز لہجے میں پوچھتے ۔۔.کیا ہوا تمھیں ۔۔۔ امنہ کی رونے سے سرخ آنکھیں دیکھ وہ فکرمند ہوا

کچھ نہیں تم چھوڑو مجھے ۔۔۔۔ اس نے امن کو پیچھے کرنا چاہا لیکن اب کہاں ممکن تھی رہائی

وہ کوئی عام سی لڑکی تو نہیں ہو سکتی،

میں جِسے #اپنا کہوں#عِشق کروں، اور #رُو پڑوں

چھوڑنے کے لئے تمھیں اپنا نہیں مانا ائندہ سوچ سمجھ کر بولنا امنہ ۔۔۔ کیونکہ اب تمھیں مجھ سے دور کوئی بھی نہیں کرسکتا کیونکہ اب تم میرے جینے کی وجہ ہو تم سے ہی میری سانسیں وابستہ ہیں ۔۔۔۔ غصے سے سرخ چہرے سے کہتے وہ پل میں اس سے دور ہوا اور بالکونی سے کود گیا لیکن جاتے جاتے آسکے ماتھے کو لبوں سے معتر کرگیا

کیسے سمجھاؤ من جس دن تمھیں پتہ چلا کہ ہم بھی مافیا گرلز ہیں تو تم میرے زکر سے بھی خار کھاؤ گے تمھیں مجھ سے نفرت ہوجائے گی ۔۔۔.لیکن پلہز کبھی مجھ سے نفرت مت کرنا یہ شادی بھی بسس مجبوری کے تحت ہورہی ہے اور وہ مجبوری بھی تمھیں جلد پتہ چل جائے گی ۔۔۔ اور شاید اسکے بعد ہم زندہ بھی نہ ہو ۔۔۔۔ اپنی پیشانی کو چھوتے وہ نم لہجے میں گویا ہوئی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

سو مس شائزہ تیار ہیں قید میں آنے کے لئے ۔۔۔ بیچ پر بیٹھی شائزہ کے کان میں سرگوشی ہوئی تو وہ چونکی پیچھے حازم کی موجودگی محسوس کرتے اس نے آنکھیں گھمائی

شائزہ کو قید کرنا تمھارے بسس کی بات کہاں ڈیئرحازم ۔۔۔. اسکا لہجہ وہ خوب سمجھ رہی تھی اسی لیے مسکرا کہ گویا ہوئی

بس ایک بار شادی ہوجائے پھر اپ کیا آپکی سانسیں بھی میرے بسس میں ہونگی ۔۔۔۔ اسکے ساتھ بینچ پہ بیٹھتے وہ کچھ پرسرار سا گویا ہوا شائزہ نے مصنوعی قہقہ لگایا حازم نے ہونٹ بھینچے اسے مصنوعی مگر پرکشش قہقہ لگاتے دیکھا ایک خاصیت ان چاروں بہنوں میں تھی اپنی خوبصورتی سے ہی سبکا منہ بند کروا دیتی تھی

شادی ہاہاہاہاہا پہلے شادی کا ٹائم تو آئے پھر وہ بھی دیکھ لینگے۔۔۔۔

کیا مطلب. ۔۔ ؟۔۔۔ اسکا انداز حازم کو ٹھٹھکا گیا کیا کرنے کا ارداہ رکھتی تھی یہ انڈرورلڈ کی جاسوس. ۔۔ وہ اسکے چہرے کو غور سے دیکھتے اسکے تاثرات پڑھنے کی کوشش کرنا لگا لیکن کہا اسکے گلابی ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اسکی چمکتی آنکھیں پانی پر ٹکی تھی پانی پر پڑتی لائٹ اسکی چہرے پہ ریفلیکٹ ہورہی تھی ایک پل کو تو حازم اسکی ُُُُخوبصورتی میں ہی کھو گیا تھا لیکن اسکے انڈرورلڈ سے تعلقات یاد آتے ہوش میں آیا

حازم یہ ایک گینگ کی لڑکی ہے اور چور پولیس کبھی ایک نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔ وہ خود کو باور کروانے لگا

مطلب خود ڈھونڈو ایس پی حازم کیونکہ مجھے قید کرنے کے لئے تمھیں مجھے سمجھنا ہوگا ۔۔۔۔

اور تمھیں سمجھنے کے لئے کیا کرنا ہوگا. ۔۔۔۔ اسکی نظریں شائزہ کے چہرے کا طواف کر رہی تھی

مجھے سمجھنے کے لئے مجھ میں الجھنا پڑے گا ۔۔۔۔۔ ایک نظر اسے دیکھ وہ بینچ سے اٹھی حازم بھی کھڑا ہوا

تم میں الجھنے میں مزہ آئے گا نہیں ؟؟

اکثر آسان نظر آنے والوں پر تباہی ملتی ہے. ۔۔۔کہتے وہ وہاں سے چل دی اور پیچھے حازم کو سوچو میں چھوڑ گئی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

جاناں. ۔تھیکنس کہ تم شادی کے لئے مان گئی ۔۔۔

میصم جو خان ہاؤس آیا تھا ایزل کو وہاں جاناں کی ڈریسسز میں موجود تھی اس کے ہاتھ پر بوسہ دیتے کہا تو ایزل مسکرائی

تھیکنس کی کیا بات ہے جنہیں ملنا ہوتا ہے وہ کسی بھی طریقے سے مل جاتے ہیں ۔۔۔

تو بسس ہم اپنی شادی خوب انجوائے کرینگے پوری دنیا کو پتہ چلے گا کہ میصم سالار کی شادی ہے ایک ۔۔.!

نواب زادی سے ۔۔۔۔ ایزل نے اسکی بات کاٹتے کہا میصم مسکرایا

میرے دل کی ملکہ سے ۔۔۔۔ وہ پیار سے بولا ایزل نے دل ہی دل میں جاناں کا شکر ادا کیا تھا جو اسے جاناں بنا کر خود لندن جارہی تھی

ہوگئی باتیں تو آجاؤ اور کھانا کھالو سب ۔۔. شازم نے ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھتے کہا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے اپنی اپنی نشت سنبھال گئے اتنے میں آمنہ اور شائزہ بھی وہاں آئی ۔.

بابا میں ڈنر کرکے آئی ہوں میں سونے جارہی ہو گڈ نائٹ. ۔۔. میصم کو تیکھی نظروں سے گھورتی وہ اوپر کو بڑھی آمنہ کا چہرہ بھی سرخ ہورہا تھا وہاں صرف ایزل اور میصم ہی تھے جو مسکرا رہے تھے بعد میں پوچھنے کا سوچ شازم انکے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف ہوئے ۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

جاناں اپکی فلائٹ نو بجے کی ہے اور آپ ابھی سے ایئرپورٹ جارہی ہیں ۔۔؟۔۔ جبکہ ابھی صرف آٹھ بجے ہیں ۔۔۔کان میں لگائے آلے سے ارسل کی تفکر بھری آواز ابھری

راستے میں کچھ کام ہے ارسل ۔۔ مختصر سا جواب دیتے وہ گاڑی کی سپیڈ سلو کرگئی اسے بہت دور سڑک پر بہت سی لائٹیں نظر آرہی تھی

ایک بات بتاؤ جاناں یہ جواب دینے میں اتنی کنجوسی کرتی ہو حکومت کتنا پیسہ دیتی ہے ؟؟ اسکا مختصر جواب ہمیشہ ارسلان کو غصہ دلا دیتا ہے وہ اکثر ہی اسے کنجوس کہتا تھا

کم بولنا عقل والوں کی نشانی ہے ۔۔۔ ارسل نے ہنس کر کہا ارسلان نے اسے گھورا

کیا مطلب تمھارا کیا میں پاگل ہوں ہاں ۔۔۔ وہ بھڑکا

پاگل کو پاگل ہی کہتے ہیں ۔۔۔ جاناں نظریں سامنے رکھتے گویا ہوئی جیسے جیسے وہ قریب ہورہی تھی ویسے ویسے وہ چیزیں واضح ہورہی تھی

جاناں دس از ناٹ فیئر یار ۔۔میں پاگل نہیں ہوں. ۔. اسکا منہ بنا جاناں سے وہ یہ ایسپیکٹ نہیں کررہا تھا

پاگل ہمیشہ کہتا میں پاگل نہیں ہوں ہاہاہا. ۔۔ ارسل نے قہقہ لگاتے اسے چھیڑا وہ دونوں بھائی تھے جب جاناں مشکل میں تھی تو ان بھائیوں نے ہی اسے بچایا تھا جاناں آج زندہ تھی تو وہ ان بھائیوں کی بدولت اسی لیے وہ جاناں کے ساتھ تھے ہر کام ہر مشکل میں ۔۔۔ شازم ان دونوں سے انجان تھے

بعد میں بات کرتی ہوں. ۔۔۔ اس نے گاڑی روکی سامنے گاڑیوں سے رستہ روکے کوئی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا تھا وہ کال کٹ کرتی ڈور کھولتی باہر نکلی وائٹ بلیک ویسٹن بولڈ ڈریس کو اسکے نوخیز حسن کو واضح کررہی تھی ریڈ ہیل میں نازک پاؤں کھلے بال ۔۔۔ وہ سر سے لے کر پاؤں تک وبال جاں تھی لیکن اسکی ڈریسنگ نے کسی کی آنکھوں میں مرچی بھر دی.........

 وہاں موجود اسلحہ سمیت گارڈز کو نظریں جھکائے کھڑے تھے ہشاب عالم کے اشارے پر رخ موڑ گئے

گاڑی ہٹاؤ ۔۔ اسکی سرخ آنکھوں کو اگنور کرتی وہ سرد لہجے میں گویا ہوئی ہشاب نے مٹھیاں بھینچی اسکے لباس کو دیکھا جو اسکے وجود کو چھپا کم دیکھا زیادہ رہا تھا وہ چل کر اسکے قریب آیا

یہ بیہودہ لباس زیب تن کرکے کیا سابت کرنا چاہتی ہو تم ہاں ۔۔۔ دھیمے مگر سرد برفیلے لہجے میں کہتے وہ اپنی جیکٹ اسکو پہنانے لگا جاناں نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن ہشاب نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے قریب کھینچا اسکے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی

میں جو مرضی کرو تمھاری پروبلم نہیں ہے ۔۔۔چھوڑو ۔۔۔اسکی سخت انگلیاں کمر میں دھنستی محسوس ہوئی تو وہ چیخی

تم جو مرضی کرو مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر تم نے جاناں کو نقصان پہنچایا یا تمھاری وجہ سے جاناں کو ہلکی سی بھی خراش آئی تو تمھیں میں اپنے ہاتھوں سے مار ڈالوں گا سمجھی ۔۔۔ جبڑے بھینچتے وہ گویا ہوا تو جاناں نے حیرت سے آنکھیں واا کیے اسے دیکھا وہ بات تو ایسے جیسے جاناں شازم پر ہشاب عالم کی حکومت ہو ایک پل لو جاناں کو لگا کہ وہ جیسے وہ جاناں نہیں کوئی اور ہو

پیچھے ہٹو ۔۔۔ اسکے مسکرانے پہ جاناں نے اسے پیچھے جھٹکنا چاہا لیکن ایک پتھر وجود کے آگے اس نازکِ جاں کی کیا چلنی تھی

تمھاری بدتمیزی بھی برداشت ہے لیکن تمھیں کوئی اور دیکھے یہ قطع برداشت نہیں ہے اور اگر تمھیں خود کو نمایا کرنے کا شوق ہے تو ابھی سے ختم کردو جاناں شازم کیونکہ ہشاب عالم سب پہ کمپرومائز کر سکتا ہے سوائے جاناں شازم کے ۔۔۔۔

اسکی کمر کو سختی سے پکڑ کر اسے جیکٹ پہناتے وہ اسکے کان میں غراریا نشے کا اثر تھا اور جاناں کی موجودگی اسکی آواز بھاری ہوچکی تھی اس نے پیچھے ہوکر اسکا جائزہ لیا کریم کلر کی پاؤں کو چھوتی جیکٹ اسکے وجود کو چھپا چکی تھی

کہاں جارہی ہو مس ۔۔۔ اسکی جیکٹ پکڑتے وہ نشے میں گمبھیر آواز میں گویا ہوا جاناں نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا

جہاں مرضی جا۔۔۔ ایئرپورٹ جارہی ہوں ۔۔۔ جیکٹ کے مزید کھینچے جانے پہ وہ دانت پیس کر بولی

میری جاناں ابھی تو قریب آئی ہو اور ابھی سے دور جانے کا کیسے سوچ سکتی ہو ہاں ؟ نشے میں مدھوش ہوتے وہ اسکی کمر کے گرد بازوں حائل کرتے اسکے کندھے پر سر ٹکا گیا وہ پورا اسے خود پہ جھکا دیکھ آنکھیں میچ گئی اسکے اس عمل سے جاناں اپنی سانس تک روک چکی تھی ۔۔۔ آنکھیں سرخ ہوئی ٹھنڈ میں بھی اسکے پیشانی پر ننھے ننھے پانی کے قطرے جگمگائے

چھ۔چھوڑو ۔۔۔۔ کانپتے ہاتھوں سے اسے پیچھے کرنا چاہا جو اس میں گم نجانے کونسی وادیوں میں کھو چکا تھا

ہ۔ہشاب۔۔۔ کپکپاتے ہونٹوں سے نام ادا ہوا تو ہشاب ہوش میں آتے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو خطرناک حد تک سرخ ہورہی آنکھوں میں معصومیت التجا لیے تھی ماتھے پہ آیا پسینہ کانپتے ہونٹ وہ پل میں اس سے دور ہوا

آئی آیم سوری جاناں میں ۔۔۔۔میں نے کہا نہ تم مجھ سے دور نہیں جاسکتی ۔۔۔ وہ ابھی بولتا کہ جاناں وہاں سے جانے لگی اسکا بازو اپنی مضبوط گرفت میں لیتے وہ اسے کھینچ کر اپنی گاڑی کے اندر پٹکنے کے انداز میں بیٹھاتے دھاڑا

زیادہ چوں چراں کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ آرام سے چلو ورنہ زبردستی کرنا تو میری عادت ہے ۔۔۔ اب تمھارا مجھ سے دور جانا تو امپوسبل ہے ۔۔۔ کیونکہ اب جاناں شازم جلد ہی جاناں ہشاب عالم میں چینج ہوجائے گی ۔۔۔.جاناں جو کچھ بولنے کے لئے منہ کھولنے لگی تھی ہشاب اسکے جبڑے کو ہاتھوں میں دبوچتے سرخ آنکھوں سے غراریا تو جاناں نے درد سے آنکھیں میچتے اپنے آنسو روکے

سوری سوری جاناں میں پیار سے کہہ رہا ہوں نہ کہ مہرے ساتھ چلو تمھیں رانی بنا کر رکھونگا۔۔۔ میں تم سے دور نہیں رہ سکتا جان ت۔تم سمجھنے کی کوشش کرو نا ۔۔۔ دیوانہ وار اسکے چہرے کو چھوتے وہ بولے ہی جاا رہا تھا کہ جاناں کو پل پل حیران کررہا رہا تھا

اوکے اب اچھی بچی بن کر چلو مہرے ساتھ میں تمھیں آئسکریم بھی کھلاؤں گا ۔۔۔۔ بچوں کی طرح جاناں کو بہلاتے وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا اور باتیں کرتے کرتے وہ اسکے کان پکا چکا تھا اسکے گارڈز بھی اسکے بیٹھتے اپنی اپنی نشت سنبھالتے اسکی گاڑی کے پیچھے ہولیے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

مجھے نہیں کھانا جاؤ یہاں سے ۔۔۔جب سے وہ آئی تھی ایک ہی روم میں بیٹھی تھی جبکہ ہشاب اسے کہہ چکا تھا اس عالیشان سے بنگلے میں جہاں اسکا دل چاہے وہاں گھومے لیکن غصے کے مارے جاناں بسس کمرے میں ہی بند تھی ملازمہ کئی بار آکر کھانے کا پوچھ چکی تھی ہر بار جاناں کا انکار سن ہشاب کے کہنے پر اس بار ملک شیک ساتھ لائی تھی جو جاناں نے ہاتھ مار گتا دیا ملازمہ اچھل کر پیچھے ہوئی اور خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی

جاؤ۔۔۔ہشاب کا حکم ملتے ہی وہ سر سے سینگ کی طرح غائب ہوئی

ہممم کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ رات سے تم نے کچھ کھایا نہیں ہے اور ابھی بھی ناکھانے کی ضد کررہی ہو ۔۔۔۔میں نے پہلے ہی کہا تھا جاناں پر کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتا۔۔ اس لیے کھانا تو تمھیں کھانا ہی ہوگا۔۔۔سکے پاس بیٹھتے ہشاب نے گردن ترچھی کرکے اسے دیکھا جو اسکی جیکٹ میں غضب لگ رہی تھی

میں نہیں کھاتی جاؤ۔۔۔ وہ اسے دھکا دیتی چیخی ہشاب کی غصے کی انتہا ہوئی تو ملازمہ سے کھانا لانے کا بولتے اسکے قریب جھکا

اگر تم نے کھانا کھا لیا تو میں تمھیں ایک بار یہاں سے جانے کا موقع دونگا ۔۔۔۔ وہ کچھ سوچ کہ بولا جاناں نے جھٹ سے اسے دیکھا آنکھوں کی چمک بڑھی

مکرو گے تو نہیں ۔۔۔۔

نا میری جان ۔۔۔۔ اسکے معصوم سے سوال پر وہ ہنس پڑا جاناں نے اثبات میں سر ہلایا اتنے میں ملازمہ کھانا لے آئی جسے دیکھتے ہی جاناں نے پیچھے کردیا

کیا ہوا ؟؟؟ ہشاب کہ نظریں اسکے معصوم تاثرات پر پڑی تو وہ سمجھتے مسکرایا

یہ ناشتہ نہیں ۔۔۔ پاستہ بنا دو اور کچھ دیر بعد کافی دے دینا اوکے ۔۔۔۔ جاناں نے پہلے ہشاب پھر ملازمہ سے کہا تو وہ جی کہتی باہر کو بھاگی اور کچھ منٹ بعد ہی ملازمہ پاستے کے ساتھ حاضر تھی

اب بتاؤ کب چانس ملے گا ؟؟ ناشتہ کرتی وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگی ہشاب نے اسے دیکھا آخر ایسا بھی کیا ضروری تھا جو اسے یہاں چین نہیں مل رہا

شام پانچ بجے جہاں دل کرے وہاں چلی جانا ۔۔۔۔ لیکن تب تک مجھ سے باتیں کرو اوکے ۔۔۔

مجھے نہیں کرنی تم سے باتیں ۔۔۔۔ جاناں نے منہ بنایا

ٹھیک ہے پھر چانس بھی نہیں ہوگا ۔۔۔۔ ہشاب نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے کہا جو جھٹ سے سیدھی ہوئی تھی

اچھا بتاؤ اکیلے رہتے ہو؟ ڈر نہیں لگتا اس جنگل میں ۔۔۔؟گلاس وال سے باہر جنگل کو دیکھتے وہ سوال گو ہوئی

اکیلا کہاں ہوں ؟۔۔ تمھاری یادیں ہوتی تھی اور اب تم ہو ۔۔۔ اسکے جواب پر جاناں کا دل کیا اسکا سر پھوڑ دے

تمھیں مجھ سے محبت کب ہوئی ؟؟؟ ۔۔۔

میں تم سے محبت نہیں کرتا ۔۔۔ ہشاب نے نفی میں سر ہلایا تو جاناں نے گہرا سانس بھرا لیکن اگلے ہی لمحے اسکی سانس حلق میں ہی اٹکی

محبت میرے ٹائپ کی نہیں ہے ۔۔۔ مجھے جنون پسند ہے ۔۔۔۔ اور تم وہ پہلی انسان ہو جسے ہشاب عالم جنون سے بھی بڑھ کر چاہتا ہے ۔۔۔ اور رہی بات تمھارا جنون کب ہوا ۔۔۔ تو جب جب میرے جنون کو دیکھتا ہوں مزید شدت سے تمھیں اپنی جنونیت دیکھانے کا من کرتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ شدت بھرے لہجے میں گویا ہوا تو جاناں کو اسکی باتوں سے ہی خوف سا محسوس ہوا اسکے لفظوں میں اتنی شدت تھی تو۔۔۔۔ اگے سوچنا بھی محال تھا

ہنہہہ ۔۔۔. کچھ دن کا نشہ ہے پھر اتر جائے گا ۔۔. خیر مجھے یہاں لانے کی وجہ کیا ہے ۔۔۔؟ تفتیشی انداز میں پوچھتے جیسے وہ سب کچھ پوچھنے کا ارداہ کیے بیٹھی تھی

میں اپنی ہر چیز کے لئے بہت پوززیسو ہوں پھر سوچ لو کہ میرا جنون کیسا ہوگا ۔۔۔اس میصم کے بچے کو اسکی اوقات دیکھانی ہے اسکو بتانا ہے کہ ہشاب عالم کی پسندیدہ انسان یا چیزوں پر نظر رکھنے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔۔۔۔

کیا کرنے کا ارداہ ہے ؟۔۔۔. کافی کا سپ لیتے وہ سب کچھ بھلاتے اس سے باتوں میں مگن تھی ہشاب کی مسکراتے لب گہری مسکراہٹ میں ڈھلے تھے کچھ ہی گھنٹوں میں وہ اسکے ساتھ کافی فرینک ہوچکی تھی شاید ہشاب کی دھوپ چھاؤں سے لہجے نے اس میں تبدیلی لائی تھی ۔۔۔۔ 

جاؤ یہ دروازہ تمھارے لیے کھلا ہے ۔۔۔۔ گیٹ کھول کر اس نے جاناں سے کہا جو چمکتی آنکھوں سے جنگل کو دیکھ رہی تھی وہ آگے بڑھی لیکن ہشاب نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے قریب کیا

جتنا بھاگنا ہے بھاگ لو لیکن اگر تمھیں میں نے پکڑ لیا تو پھر تم کبھی مجھ سے جدا نہیں ہو پاؤگی ۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا  یہ لو چابی ۔تمھیں بہت شوق ہے نہ بائیک چلانے کا تو لو اور مزے کرو ۔۔۔۔ اسکی کمر پہ گرفت مضبوط کرتے وہ اسکے چہرے کو پیاسی نظروں سے دیکھ رہا تھا 

کیا پروف کہ تم پیچھے نہیں آؤ گے ؟۔۔۔ 

میں جو کہتا ہوں پھر اسے ہر حال میں پورا کرتا ہوں۔۔ویسے بھی چوہا بلی کےکھیل میں کس کو مزہ نہیں آتا ؟۔۔۔ ۔ایک عزم سے کہتے وہ اسکی گال پر لب رکھتے رخ موڑ گیا اسے خود سے دور جاتا وہ نہیں دیکھ سکتا تھا

دو دن سے پہلے مت ڈھونڈنا مجھے ۔۔۔۔ وہ ہیلمٹ پہن کر ہونڈے پر بیٹھی ۔۔۔۔کچھ گھنٹے ہی سہی کمپنی اچھی تھی تمھاری زندگی رہی تو ملاقات ہوگی۔۔۔اسکی پشت کو دیکھتی گویا ہوئی ہشاب جسکا دل کہہ رہا تھا جاناں کو قید کرلے کبھی دور نا جانے دے اسکی بات سن مسکرایا ۔۔ اور بنا مڑے اندر کو بڑھا۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

تیار ہو آج ٹائیٹینک سمندری جہاز میں انڈرورلڈ بادشاہ کے سیکنڈ ہینڈ نے پارٹی رکھی ہے جس میں ہمھیں بھی مدعو کیا ہے ۔۔۔ شائزہ اور أمنہ کو ساتھ ٹیرس پہ بیٹھے دیکھ ایزل نے وہی اتے کہا

ہممم جانا بھی ضروری ہے لیکن وہاں جاناں کا ہونا لازم و ملزوم ہے تم میں سے کسی سے رابطہ ہوا اسکا ۔۔۔جون کہہ رہا تھا جاناں لندن نہیں پہنچی انفیکٹ وہ ایئرپورٹ ہی نہیں گئی ۔۔۔۔ آمنہ نے پریشانی سے ماتھا مسلتے کہا

چل یار وہ جاناں ہے کچھ کررہی ہوگی اور کیا ۔۔۔

نہیں ایزل تم سمجھ نہیں رہی جاناں ایک بار کال ضرور کرتی لیکن وہ غائب ہے کچھ تو ہے ۔۔۔ ایئرپورٹ اور ولا کے درمیان سے ہی وہ غائب ہوئی ہے اور اسکی کار بھی ہمھیں وہی ملی لیکن یہ نہیں معلوم ہورہا کہ جاناں کہاں گئی ۔۔۔۔ شائزہ نے سوچتے ہوئے کہا

شاید وہ بادشاہ کی انفارمیشن لینے گئی ہو ؟؟ تم لوگ پریشان مت ہو۔۔۔اور پارٹی میں ایک سرپرائز ہے تم دونوں کے لئے ۔۔۔ایزل نے انکا دھیان بٹاتے کہا

کیسا سرپرائز ۔۔؟

اب بتا دیا تو سرپرائز کیسا ؟؟ شام تک کا انتظار کرو لڑکیوں.... ایزل نے شرارت سے کہا اور امنہ کی کافی کا مگ اٹھاتی وہاں سے رفو چکر ہوئی پیچھے وہ دونوں ہی سر نفی میں ہلانے لگی کہ اسکا کچھ نہیں ہوسکتا شکل جاناں جیسی تھی لیکن حرکتیں ایک دم مختلف۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ہیلو شازم خان ۔۔۔۔ وہ جو اپنے آفس سے نکلنے لگے تھے کہ سامنے کھڑی ہستی کو دیکھ انکے ہوش اڑے انہیں زرا گمان بھی نہ تھا کہ انکا ناضی انکے سامنے اان پہنچے گا 

کیسے ہیں آپ شازم ؟۔۔۔جےکہ عرف جویریہ شازم خان نے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھرے پوچھا تو شازم ہوش میں آئے اور اردگرد دیکھنے لگے کہ انکو کسی نے دیکھا تو نہیں اور جویریہ کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتے گارڈز کو ہاتھ کے اشارے سے وہی روکا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال گئے

افففف شازم اتنا ڈر وہ بھی اپنی ہی اولاد سے ؟۔۔۔ انکے ماتھے پہ بل دیکھ جویریہ نے تنسخر سے کہا تو شازم نے گھور کر اسے دیکھا گاڑی اپنے فارم ہاؤس کے اندر لے گئے اور گاڑی سے نکلتے جویریہ کو بازو سے دبوچتے گھسیٹ کر اندر لے گئے 

کیا لینے آئی ہو ۔۔۔ اسکو صوفے پہ پھینکتے شازم غرارئے انہیں ڈر تھا کہ کہی جاناں یا وہ دونوں جویریہ کو نا دیکھ لے ۔۔وہ ہنسی 

تم نے مجھے کچھ دیا ہی کب ہے سوائے آنسو  اور دکھ کے ۔۔۔۔ 

بکواس بند کرو یوں میرے سامنے آخر کیا کرنا چاہتی ہو تم. ۔۔ اسکی بات کو نظرانداز کرتے وہ چیخے 

ڈر کیوں رہے ہو شازم خان جس شازم کو میں جانتی ہو وہ تو کسی سے ڈرنے والا نہیں تھا ؟ آخر انڈ۔۔۔۔!

اپنی زبان کو لگام دو ورنہ یہی قبر کھود دونگا تمھاری۔۔۔ میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ۔۔۔۔ سمجھی ۔۔.اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی کہ شازم اسکا منہ دبوچتے دھاڑے 

میری بیٹیوں کو اس معصومیت ایمانداری کے مکھوٹے کے پیچھے چھپا بھیانک چہرہ نہیں دیکھایا۔۔شازم کا ہاتھ جھٹکتی وہ حلق کے بل چیخی کہ چھناک کی آواز پہ وہ دونوں مڑے  سامنے کھڑے شخص کو دیکھ شازم کی سانس رکی وہی جویریہ کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

میں آج بہت بہت خوش ہوں کہ وہ اب میرے نام لکھی جائے گی اففف بھائی بھائی کتنا اچھا ہوگا نہ سب جب وہ تینوں بہنیں ہم بھائیوں کی خدمتیں کریں گی اور ہمھیں سڑے ہوئے کوک کے ہاتھ کا بدزائقہ کھانا کھانے سے ہمیشہ کے لیے چھٹی مل جائے گی ۔۔۔۔نان سٹاپ بولتے وہ میصم کو ہنسا رہا تھا جسکی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی کچھ دن میں ہی انکی محبتیں انکے پاس ہونگی یہ خیال ہی انکو سرشار کر رہا تھا

بھائی یہ لڑکیاں ٹھیک نہیں ہیں ۔۔۔حازم نے منہ بگاڑتے کہا

اووو پلیز حازی پھر سے شروع مت ہوجانا کہ وہ گینگسٹرز ہیں اوکے۔۔۔میصم نے سنجیدگی سے کہا تو حازم نے منہ بنایا

اپ انجان ہیں حقیقت سے ۔۔

تم جانتے ہو حقیقت یہی کافی ہے میرے بھائی ابھی جاکہ منہ دھو آآ مجھے الٹی آرہی ہے تمھاری بدبو سے ۔۔۔۔ مہنگا ترین اتر جو خاص کر حازم نے سپیشلی تیار کروایا تھا اسکی سمیل پہ امن نے ناک پر ہاتھ رکھتے کہا حازم نے اسے گھورا

بڑے کمینے ہو اتنی اچھی خوشبو ہے خیر اس میں قصور تمہارا نہیں جیسے خود پھوہڑ نالائک بیکار ویسے ہی تمھیں پرفیوم پسند ہیں ۔۔۔۔ بھگو بھگو کہ مارتے وہ روم میں بند ہوا

بھائی دیکھا سب ہی آکر ڈانٹ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

بچے ہوتے ہہ سبق سننے کے لئے ۔۔۔۔ مسکراہٹ دباتے وہ شریر ہوا تو امن پاؤں پٹکتے لان میں چل دیا.............

...................

جاناں آپ یہاں کیوں ؟ شازم پل میں جاناں کے پاس پہنچے جو ساکت نظروں سے جویریہ خان کو دیکھ رہی تھی


شاید تمھارا سچ جاننے کے لئے خدا نے اسے یہاں بھیجا ہے ۔۔۔۔ میری بچی کتنی پیاری ہو تم ۔۔۔. شازم کو طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھتے وہ جاناں کو گلے لگا گئی جو ابھی تک منجمند کھڑی تھی اسکے چہرے پہ کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے تھی تو بسس سنجیدگی وحشت ۔۔۔۔۔


ہشاب کے ساتھ جو آنکھوں میں چمک آئی تھی وہ چمک اب تو غائب ہوچکی تھی۔۔۔ ہوش میں آتے اس نے ایک نظر شازم پھر جویریہ کو دیکھا جو اسکا منہ چوم رہی تھی ۔۔۔ ہاتھ کے اشارے سے انہیں پیچھے کرتے وہ شازم کی طرف مڑی


آپ نے کہا تھا کہ یہ عورت ہمھیں خود چھوڑ کر گئی ہے ۔۔۔تو آج اس وقت یہ آپکے فارم ہاؤس میں کیا کر رہی ہے ۔۔۔۔ اسکے لہجے میں شک کے تاثر تھے نگاہوں میں انتہا کی سرد مہری شازم کا سانس رکا


میں تمھیں چھوڑ کر گئی تھی ۔۔۔ کیونکہ اس شخص نے مجھے مجبور کردیا تھا بھاگنے پر ۔۔۔ میں تمھیں بھی ساتھ لے جاتی مگر اس گھٹیا انسان نے تمھیں اور امنہ شائزہ کو کسی آدمی کے حوالے کر کے غائب کروا دیا تھا ۔۔۔۔جویریہ خان کے الفاظ تھے یا گویا بم جو اسکی سماعت پر گرے ۔۔اس نے بے یقین نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا


نہیں بیٹا یہ جھوٹ بول رہی ہے بھلا میں کیوں اپنی بیٹی کا برا چاہوں گا ۔۔۔ انکی آواز میں لرزش تھی اسکی آنکھوں میں نمی چھلکنے لگی اسکی بربادی کی وجہ اسکا ہی باپ تھا


کونسی ماں اپنے بچوں کو چھوڑ جاتی ہے جاناں ۔۔ جاناں تم اس انسان کی حقیقت سے ناواقف ہو ۔۔۔یہ ہی انڈ۔۔۔۔جویریہ خان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے کہنا چاہا لیکن شازن نے اسکے بازو پکڑ کر اپنے مقابل کیا اور تھپڑ انکے گال پر جڑنا چاہا جسے درمیان میں ہی جاناں نے پکڑ لیا


یہ ہی کیا؟ ٹھٹھراتے خون منجمند کردینے والے لہجے میں پوچھا گیا شازم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں جویریہ کو وارن کیا لیکن ان انکی بیٹیاں انکے ساتھ نہیں لیکن پاس تو تھی


شازم خان یہ دنیا کا سب سے بڑا جلاد ہے اس نے مجھ پہ بہت ظلم کیے اور۔۔۔! ابھی وہ کچھ اور کہتی کہ وہ بےہوش ہوتی زمین پر گری شازم نے سکھ کا سانس بھرا جاناں کو وہاں دیکھ کر ہی شازم اسے ایک پن جس پر بےہوشی کی دوائی تھی وہ چھبا چکے تھے


بیٹا لڑائی جھگڑا کس گھر میں نہیں ہوتا اپ بیٹھے میں آپکو خود بتاتا ہوں۔۔۔۔


نہیں میں واپس آتی ہوں تب تک یہ مجھے سہی چاہیے اور اگر انہیں زرا بھی تکلیف ہوئی تو آپ مجھے بھی جانتے ہیں ۔۔۔۔۔ کہتے وہ جویریہ خان کو دیکھتی باہر نکل گئی


شکر کہ دوا کام پر اثر کرگئی ورنہ اس نے تو آج قیامت لادینی تھی۔۔۔ لمبی سانس بھرتے وہ ریلیکس ہوئے کچھ نہ کچھ کرکے وہ جاناں سے سچائی چھپا ہی لیں گے

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کالی گہری رات تھی دور دور تک صرف پانی ہی پانی تھا ہر طرف اٹھتی سمندری لہروں کا شور تھا رگوں میں خون منجمند کر دینے والی ٹھنڈی فضا ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی تھی ۔۔۔۔


اسی ثناء میں وہاں سے ایک ٹائیٹینک شپ گرزا جو لائٹوں سے جگمگا رہا تھا گمان ہوتا کہ رات نا ہو دن ہو ۔۔ ماسک تھیم پارٹی تھی ۔۔۔۔ہر طرح قہقہوں گالم گلوچ کی آوازیں تھی۔۔ وائن، سگار، سگریٹ، شیشہ ،چرس مبادا ہر چیز کی بو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ویسٹن ڈریس میں موجود بولڈ لڑکیاں تتلیوں کی طرح ادھر ادھر پھر رہی تھی ۔۔۔۔ ان سب سے دور بلیک بیک لیس سکرٹ میں بلیک ماسک لگائے وہ اپنی سرخی سے جلتی آنکھوں سے ایک ہی شخص کو گھورنے میں مصروف تھی اپنا غصہ نکالنے کے لئے وہ اپنا شکار ڈھونڈ چکی تھی


او پی کے کتنے مہینوں بعد شکل دیکھائی ہے کہاں گم تھے ۔۔۔۔وہاں موجود ایک شخص نے پوچھا


بادشاہ کا حکم تھا کہ منظر عام سے غائب ہوجاؤ اور انہی کی بدولت پھر سے یہاں موجود ہوں....


اچھا اجکل کس مشن پر ہو ۔۔۔۔؟ ایک اور سوال آیا


مافیا گرل انڈرورلڈ میں بہت چرچے ہونے لگے ہیں ۔۔۔۔ انڈرورلڈ میں وہ اپنا خوف پھیلا رہی ہے ۔۔۔۔۔انجان ہے کہ انڈرورلڈ میں صرف بادشاہ کی دہشت اور اسی کا سکہ چلتا ہے ۔۔۔۔بہت اڑ لیا اب پر کاٹنے کا ٹائم آگیا ہے ۔۔۔جلد ہی ملنا یوگا اس لڑکی سے ۔۔۔۔۔ پی کے نے کہا تو جاناں کے لپسسٹک سے سجے ہونٹوں کو بھینچا


کچھ دیر پھر مجھ سے ملنے کا خواب بھی پورا کرونگی تمھارا پی کے ۔۔۔۔ زہریلی مسکراہٹ سے کہتے اس نے اپنے پیچھے کی طرف ایک اشارہ کیا اور ٹک ٹک کرتی شپ کے مین پارٹ میں جانے لگی


سب وہاں انجوائے کر رہے اور تم یہاں یہ شپ چلانے میں مصروف ہو ۔۔۔۔ بالوں سے کوئی سوئی نما چیز نکالتی وہ فرینک انداز میں پائلٹ سے بات کرنے لگی


جان زیادہ امپورٹینٹ ہے ڈئیر انجوائے تو پھر کبھی کر لیں گے ۔۔۔۔


کیا مطلب ۔۔.جانتے بوجھتے بھی وہ سوال کر گئی


پہلی بات بادشاہ کا حکم ہے کہ شپ کہیں بھی رکنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر شپ رکا تو ہمھیں معلوم نہیں ہوگا کہ کس سمت میں آئس سٹونز ہیں ۔۔۔۔ پائلٹ نے نرمی سے کہا


اگر شپ آئس سٹونز سے ٹکرا گیا تو شپ تباہ ہوجائے گا نا ؟۔۔۔۔ مزید معلومات جاننے کے لئے وہ سبز پانی کو دیکھنے لگی


سمندر کے جسس علاقے میں ہم ہیں۔۔۔ یہاں آئس سٹونز بہت زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔ آئس سٹونز کی وجہ سے ہی یہاں اتنی ٹھنڈ ہے ۔۔۔۔۔ یہاں کا پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ انسانی جان پندرہ بیس منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔سورج کی حرارت سے ہی یہاں کا ٹمپریچر نارمل ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ اور اگر شپ آن سے ٹکرا گیا تو ڈوب جائے گا ۔۔۔۔۔! اور شپ میں موجود بائیس سو لوگ مارے جائیں گے ۔۔۔۔۔ سوائے ایک کہ کیونکہ ہمارے پاس اتنے بوٹس موجود نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ جو سب لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا سکے ۔۔۔۔ اگر سب پانی میں کھود گئے تو بھی مارے ہی جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تفصیل سے سمجھانے لگا


بائس سو لوگ ۔۔۔ بادشاہ کچھ تو کرے گا نا اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے ۔۔۔۔ اگر انکی جان چلی گئی تو انڈرورلڈ ختم ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ اسکی بات پہ پائلٹ مسکرایا


بی بی اس سمندر کی ہی مثال لے لو۔۔۔۔۔ کیا چند ایک مچھلیوں کے مرنے سے سمندر سوکھ جاتا ہے ؟۔۔۔ نہیں نا ۔۔۔۔. کیونکہ سمندر میں انگنت مچھلیاں ہیں ۔۔۔۔۔ ایک دو ہزار مچھلیوں کے مر جانے سے سمندر کو فرق نہیں پڑتا بلکل ویسے ہی انڈرورلڈ ہے ۔۔۔۔۔ جہاں ان لوگوں کے مرنے پر افسوس بھی نہیں کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ اور رہی بات بادشاہ کی تو وہ ایک بے رحم بادشاہ ہے ۔۔۔۔۔ احساس نامی جزبہ تو اس میں پایا ہی نہیں جاتا۔۔۔۔۔ اسکے پاس کروڑوں کی تعداد میں انسان نما حیوان موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارے مرنے سے بھی اسی کا فائدہ ہوگا ۔۔۔ ساری ڈیلز اسے مل جائیں گی ۔۔۔ بات کرتے کرتے جیسے وہ خود پہ ہنسا ۔۔


زلت کی زندگی سے بہتر ہے مرحانا۔۔۔ جاناں کے کہنے پہ اس نے چونک کر جاناں کو دیکھا جو اسکے ہاتھوں کو دبوچ کر پیچھے باندھ چکی تھی


لڑکی تم پاگل ہوچکی ہو کھولو مجھے ۔۔۔۔.


پاگل تو میں بچپن سے ہوں اور یہ ہاتھ تو اب کبھی نہیں کھلے گے ۔۔۔۔۔ شپ کو تیز رفتار سے ادھر ادھر چلاتے وہ ہنسی شپ کے پیچھے ہی ایک چھوٹی شپ موجود تھی جسے جاناں نے خود بنایا تھا اچانک شپ رکی ایک زودار جھٹکا شپ کو لگا کہ جاناں بھی ناسنبھلتے شیشے میں جا لگی شپ وہی رکی تو پیچھے والی چھوٹی شپ بھی رکی ۔۔۔۔اسکے سر سے خون نکلنے لگا


ضد،جنون اور جزباتوں سے بھری ہوں..!!🙌💯

میں بہت اچھی اور خاصی بری ہوں۔۔!!!👿🔥


وہ پائلٹ کو خود کو بری کرنے کی کوشش کر رہا تھا جھٹکے پہ رکا فق ہوتی رنگت سے اپنا انجام سوچ رہا تھا اب تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا تھا وہی جھٹکے پہ شپ میں بھگڈر مچی کیونکہ شپ آہستہ آہستہ پانی میں ڈوب رہی تھی اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ایزل نے بھاگتے پی کے کی گردن میں ہاتھ ڈالتے پیچھے گرایا اور شائزہ کے ساتھ اسکو بے ہوش کیا اور گھسیٹ کر شپ کے کنارے پر لے آئی جہاں ٹائیٹینک شپ کے بلکل ساتھ ہی وہ شپ موجود تھی پانی میں تیرنے کے لئے جیکٹ پہنتی وہ دونوں پی کے کے ساتھ پانی میں کھود گئی


لوگ اوپر کی طرف بھاگتے چھوٹی لکڑی کی بوٹس میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ایک دوسرے کو پانی میں گرا رہے تھے جہاں کچھ دیر پہلے قہقہے تھے وہی اب دل دہلا دینے والی چیخے تھی جاناں نے سر پر ہاتھ رکھتے خون روکا ۔۔۔کانچ کافی اندر تک جا لگا تھا پیچھے مڑ کر پائلٹ کو دیکھا جو سجدے کی حالت میں گرا رو رہا تھا اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا ۔۔آخری وقت میں ہی سبکو خدا یاد آتا ہے


چاہو تو میرے ساتھ آسکتے ہو۔۔۔۔جاناں نے ترس کھاتے کہا


نہیں اگر زندہ رہا تو پھر گناہ کرونگا کیونکہ جسکو ایک بار حرام کی لت لگ جائے تو وہ کبھی نہیں چھوٹتی ۔۔۔۔ مجھے آخری وقت میں اپنے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ پہ رحم کریں۔۔۔۔ وہ نفی میں سر یلاتے گویا ہوا جاناں نے کندھے اچکائے اور بھاگ کر شپ سے پانی میں جمپ کر گئی


ٹھنڈے ٹھار پانی میں بغیر کسی جیکٹ کے وہ کھود تو گئی تھی لیکن اپنی شپ تک پہنچتے اسکے بالوں تک میں برف جم چکی تھی شائزہ نے اسے اوپر کھینچا جو اب بےسدھ ہوتی ڈوبنے لگی تھی


جاناں ہوش کرو میری جان ۔۔۔۔ ایزل کو بوٹ چلانے کا اشارہ کرتی وہ جاناں کا گال تھپتھپاتے پریشان ہوئی اسکی نیلی پڑتی رنگت شائزہ کا چین برباد کر گئی جاناں بہت ہی نازک تھی زیادہ ٹھنڈ یا گرمی اسکی جان نکالنے لگتی تھی ابھی تو وہ یخ بستہ پانی میں نہا کہ آئی تھی


شازو اسے اندر ہیٹر کے سامنے لے جاؤ جلدی ۔۔۔۔ اسکی دھیمی پڑتی سانسوں کو محسوس کر آمنہ چیخی اگر اسے کچھ ہوجاتا تو ان بہنوں کا کیا ہوتا ۔۔۔ بھلے وہ کسی سے زیادہ فرینک نہیں تھی لیکن وہ سب کی جان تھی کبھی نہ رونے والی وہ تینوں اس وقت بےبسی سے رو پڑی تھی اسکے ہاتھ پاؤں مسلتے وہ بار بار اسے پکار رہی تھی جو ہوش میں آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔


شپ ادھا ٹوٹ کر پانی میں گرا ایک ہی دن دوسرا حصہ بھی اوپر کی طرف اٹھا کہ سارے لوگ پھسل کر پانی میں جانے لگے کافی لوگ جیکٹس پہن کر پانی میں کھود چکے تھے اور کافی بوٹس میں بیٹھ کر شپ سے تھوڑا دور ہوچکے تھے اور لوگوں کو مرتا دیکھ رہے تھے ۔۔


شپ ایک ہی دم پانی میں دھنسا اور دھنستے چلا گیا ابھی بھی اا ٹائیٹینک شپ میں تقریباً ہی پندرہ سو لوگ موجود تھے ساتھ سو لوگوں میں کچھ پانی میں گرے تھے تو کچھ لکڑی کی بوٹس پر بیٹھے مدد کا یا موت کا انتظار کررہے تھے۔۔۔ وہ سب چلا رہے تھے بچاؤ بچاؤ۔۔.لیکن ان درندوں کو کون بچاتا جو سبکی زندگیاں ہڑپ جاتے تھے۔۔۔۔


اس وقت بھی بجائے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کہ وہ ایک دوسرے کو پانی میں ڈوبوتے خود اوپر رہنے کی کوشش کررہے تھے ۔۔۔ بوٹ میں بیٹھے لوگ بھی ٹھنڈ کے باعث جان گوانے لگے تھے ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ہر سو سناٹا تھا نہ کسی کی آواز تھی نہ رونا تھا تو بسس پانی کی آواز سمندر کی اوپر کو اٹھتی لہریں۔۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


چھ بجے کا وقت تھا وہ نماز پڑھ کر پولیس ٹیشن کے لئے تیار ہوکر نیچے آیا


اوئے ہوئے سوہنیا کونسی معشوق سے ملنے کا پروگرام ہے آج۔۔؟ پولیس کی وردی میں وہ بہت جازب لگ رہا تھا کہ امن نے اسے چھیڑا میصم نے پانچ ہزار کے نوٹ نکالتے انکے اوپر سے وارے اور ملازم کو غریبوں کو دینے کا کہا


بھائی یہ کیا کرتے رہتے ہو یار ۔۔. امن الجھا


یہ صدقہ دے رہا ہو گدھے۔۔. وہ مسکرا کہ بولا تو وہ کان کھجاتے اپنی چیئر پر بیٹھا

.ویسے بھائی اتنے دن ہوگئے ہم خان ہاؤس نہیں گئے انکل کیا سوچ رہیں ہونگے کہ رشتے کی ہاں کیا کی ان لوگوں نے تو مڑکر بھی نہ دیکھا ۔۔۔۔ بہت دنوں سے آمنہ کو نا دیکھ وہ میصم کو شازم کا حوالہ دیتے بولا


کیوں امنہ نہیں ارہی کیا یونی ؟.۔۔.


نہیں بھائی پتہ نہیں کیوں وہ تینوں ہی یونی نہیں اتی اتی ہیں تو اسئمنٹ سبمٹ کروا کر غائب ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔۔ امن پریشانی سے گویا ہوا اسے ابھی تک امنہ کی باتیں نا بھولی تھی اب کہ میصم بھی سوچ میں ڈوبا


کسی کو مارنے کا پلان بنا رہی ہونگی اور کیا ؟۔۔۔۔ حازم منہ میں بڑبڑایا ان دونوں نے گھور کر اسے دیکھا


بھئی میرا مطلب اللہ خیر کرے نجانے اب کس کی جان حلق میں اٹکی ہے نہیں میرا مطلب ۔۔۔۔


بہت اچھے سے جانتے ہیں ہم آپکے مطلب ۔۔۔۔ امن نے خفگی سے کہا کہ حازم کا موبائل بجا


سر خبر آئی ہے کہ کل رات گینگسٹرز کی پارٹی جو کہ ایک ٹائیٹینک شپ میں تھی وہ شپ ڈوب چکا ہے اور وہاں سب لوگ ہی مرچکے ہیں ۔۔۔۔ سننے میں آیا ہے شپ آئس سٹونز سے ٹکرا گیا تھا ۔۔۔۔ صبح ہی صبح اتنی بری خبر حازم نے منہ بنایا لیکن شائزہ کا خیال آتے جھٹ سے اٹھا نجانے کس احساس کے تحت اسکا دل شائزہ کی ٹھیک ہونے کی دعائیں کرنے لگا


کیا ہوا۔۔. اسے جلدی میں بغیر ناشتے کے جاتے دیکھ میصم نے پوچھا نفی میں سر ہلاتے وہ کی اٹھائے باہر بھاگا جیپ میں بیٹھتے اسکا ارادہ خان ہاؤس جانے کا تھا


شکر اللہ پاک کا تم ٹھیک تو ہو چوٹ رو نہیں لگی ؟۔۔۔۔ جیپ روکتے وہ اندر کو بھاگا شائزہ کو روتے ہوئے گھر سے باہر نکل رہی تھی یوں اچانک حازم کے گلے لگا کہ پوچھنے پر حیران ہوئی پھر جاناں کا خیال آتے ہی اپنے دشمن کے کندھے پہ سر ٹکاتے رو پڑی ۔۔۔۔۔ اسکا رونا حازم کو تڑپا گیا وہ مزید فکرمند ہوا.. ۔...........


🔥_____


🔥#جلنے_والو کا بھی #کوئی_قصور نہیں🔥


مرشد??😎


#ہماری_دوستی کے انداز ہی #کچھ_ایسے ہیں


#____. ❤️

کل سے ہی وہ بولایا بولایا پھر رہا تھا جاناں کی غیر موجودگی اسے مزید خونخوار بنا رہی تھی عجیب سی بےچینی نے اسکے دل میں بسیرا کرلیا تھا جو سامنے آرہا تھا وہی اسکے سخت اعتناب کا نشانہ بن رہا تھا سارے ملازمین اسکے غصے سے پناہ مانگتے اپنی میڈم کی واپس آنے کی دعا کررہے تھے


اگر تم ٹھیک ہو تو میرے دل کی دھڑکن اتنی مدھم کیوں ہے ۔۔۔۔ دل میں ٹھسیں کیوں اٹھ رہی ہیں ایسا کیوں محسوس ہورہا کہ تم تکلیف میں ہو۔۔۔ جاناں اگر تمھیں زرا بھی چوٹ پہنچی تو میں تمھارے پرومس کو توڑ کر تمھیں اپنے پاس لے آؤں گا پھر کوئی بھی ہمھیں جدا نہیں کرپائے گا ۔۔۔۔


ہاتھوں کی مٹھی بنائے وہ اپنی پیشانی پر بجاتے تصور میں جاناں سے مخاطب ہوا جو ہوسپیٹل کے بیڈ پر بےسدھ پڑی تھی


سر وجی سر آئے ہیں ۔۔۔۔۔ انٹرکام پہ اسکا سیکریٹری بولی


اسے لہو میں بزی ہوں۔۔۔۔۔ اس وقت اسے جاناں کی فکر کھائے جارہی تھی وہ صرف جاناں کو سوچنا چاہتا تھا


سر وہ وجی سر میم کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔


جلدی اندر بھیجو۔۔۔جاناں کا نام لیتے ہی وہ سیدھا ہوتے افس میں آتے وجی کو دیکھنے لگا جسکا چہرہ پسینے سے تر تھا


کیا خبر لائے ہو۔۔خبردار جو اس بار کوئی منحوس خبر دی ۔۔۔۔ اسکے بولنے سے پہلے وہ اسے وارن کرنے لگا تو وجی نے بےبسی سے اسے دیکھا


س۔سر کل رات گینگسٹرز کی پارٹی تھی ٹائیٹینک شپ میں اور آپ سن چکے ہونگے کہ وہ شپ تباہ ہوگیا اس میں موجود سارے لوگ مارے گئے۔۔۔!


اپنی میم سے ریلیٹڈ بات بتاؤ ورنہ نکلو۔۔۔۔ وہ کوفت سے گویا ہوا تو وجی نے تھوک نکلی اور خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا


اسی شپ میں میم بھی مو۔موجود تھی ۔۔۔الفاظ تھے یا سیسہ جو اسکے سماعت میں ڈالا گیا بے یقینی سی کیفیت میں وہ جھٹکے سے رولنگ چئیر سے اٹھ کھڑا ہوا


کیا بک رہے ہو وجی دماغ چل گیا ہے تمھارا کمینے انسان میری جاناں کے بارے میں یہ غلاظت بک رہے ہو ۔۔۔ در پہ در اسکے منہ کو مکوں سے سجاتے وہ دھاڑا اسکی دھاڑ پر کمپنی میں موجود سب اچھلے


یا اللہ رحم ۔۔۔۔ باس کو جو چاہئے وہ انہیں مل جائے پلیز ۔۔۔۔ ایک امپلائے نے دل میں دعا کی


وہ ز۔زندہ ہیں ۔۔۔ اس بپھرے شیر کو روکنے کا بسس یہی طریقہ تھا ایک جھٹکے سے اسے ٹیبل پر پھینکتے وہ اپنی جلتی آنکھوں کو بند کرگیا وجی کے الفاظ نے تو گویا اسکی جان نکال لی تھی اسے اپنی دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی یہ سن کر کہ اسکی جاناں ڈوب گئی اسکا دل بند ہونے لگا تھا


کہاں ہے وہ اور وہ وہاں کرنے کیا گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا


.


وہ ہوسپیٹل میں ہیں اور وہاں وہ کیوں گئی اس بارے میں معلومات جلد ہی اپکو مل جائے گی ۔۔۔۔ وجی نے جلدی سے کہا اور وہاں سے نو دو گیارہ ہوا


اففف تم کیوں اپنی اور میری جان کی دشمن بنی ہوئی ہو ۔۔ تمھیں اس غلطی کی سزا ملے گی ضرور ملے گی ۔۔۔۔ ہشاب عالم کا اصلی چہرہ اب تم دیکھو گی ۔۔۔تمھیں وارن کیا تھا۔۔۔۔۔ کہ میری جاناں کو کچھ نا ہو ۔۔۔۔۔ لیکن تم نے مجھے سیریس نہ لیا ۔۔۔۔ اب انجام کی زمیدار بھی تم خود ہوگی جاناں شازم خان ۔۔۔۔ کانچ کی ٹیبل کو ٹانگ مارتے وہ دھڑام سے آفس سے نکلتے کمپنی سے ہی نکل گیا اسکا رخ ہوسپیٹل کی طرف تھا ۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کیا ہوا تمھیں یہ آنسو کیوں شونا؟۔۔.نرمی سے اسکے آنسو صاف کرتے وہ اسکی رونے کی وجہ سے سرخ ہوتی رنگت دیکھ رہا تھا


ہاہا ہونا کیا ہے بھلا تم نے گلے لگایا اور اتنے سینٹی انداز میں حال پوچھا تو میں نے سیچویشن کو مدنظر رکھتے تھوڑا رونا ڈال دیا ۔۔۔ زور سے قہقہہ لگاتی وہ اس سے فاصلے پہ ہوئی لیکن اسکے ہونٹ تو مسکرا رہے تھے لیکن اسکی آنکھیں نجانے کیوں وہ غمگین تھی


واقعی ؟ کوئی پروبلم تو نہیں ہے نہ ؟۔۔۔ اس نے کنفرم کرنا چاہا


ہاں جی واقعی ۔۔۔۔


ویسے یہاں کیسے آنا ہوا تمھارا ۔۔۔؟ وہ اسکی جاسوس نظروں سے بچنے کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگی


دیکھنے آیا کہ تم زندہ ہو یا ہماری جان چھوٹ گئی ۔۔۔ کیا بتاتا کہ اسکی فکر کھینچ لائی تھی اسکو


ہاہاہاہا ہاہاہا تمھاری جان مجھ سے کبھی نہیں چھوٹ سکتی یقین جانو جب تک میں زندہ ہوں تب تک تمھارا جینا حرام کرونگی اور جس دن مرگئی اس دن تمھیں میری یادیں میری باتیں جینے نہیں دینگی ۔۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی حازم نے چونک کر اسے دیکھا اسکی آخری بات اسکے دل میں کانٹے کی طرح چبی..... وہ بدل رہا تھا یا اسکے جزبات وہ یکسر انجان تھا اپنے انجام سے گر جو اسے معلوم ہوتا کہ یہ جذبات اسکے لیے وبال جان بن جائے گی اسکی محبت اسکے دل میں ایسے پنجے گاڑے گی کہ وہ زندہ ہوکر بھی مردہ کہلائے گا


مطلب مر کر میری جان نہیں چھوڑنی تم نے ۔۔۔۔


کبھی نہیں ۔۔.وہ کھلکھلائی ۔۔۔۔ نجانے کس احساس کے تحت حازم کے ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ کھیلنے لگی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


نجانے کتنے گھنٹے گزر چکے تھے جاناں کو آئی سی یو میں ڈاکٹرز کے ساتھ گئے ہوئے لیکن ابھی تک اسے ہوش نہیں آیا تھا نرس آرہی تھی جارہی تھی


کوریڈور میں بیٹھے ارسل ارسلان ایزل اور آمنہ سر پکڑے بیٹھے تھے پریشانی انکے چہروں سے واضح تھی شازم کو ابھی اس سب کی خبر نہیں تھی


ڈاکٹر میری بہن کیسی ہے ۔۔۔ماسک اتار کر ڈاکٹر کو باہر آتے دیکھ وہ سب انکے پاس پہنچے ڈاکٹر نے گہری سانس لی


چوٹ انکے دماغ والی سائیڈ پر لگی ہے جہاں پہلے سے ہی چوٹ کا نشان ہے ۔۔۔ خون کے زیادہ مقدار میں بہنے اور ٹھنڈ کی وجہ سے انکا مائنڈ بلینک ہوچکا ہے ۔۔۔۔مطلب کہ ابھی وہ خطرے سے باہر ہیں لیکن اگر انکو بارہ گھنٹوں میں ہوش نا آیا تو ۔۔۔۔


سسپینس کیوں کریٹ کر رہے ہو ۔۔۔بتاؤ نا کیا ہوا ہے ۔۔۔غصے سے اسکے کالر پکڑ کر جھٹکا دیتے ارسلان دھاڑا تو ڈاکٹر گھبرا گیا


ارسلان پلیززز ۔۔۔آمنہ نے التجا کی تو وہ کالر جھٹکتے پیچھے ہوا


اگر پیشنٹ ہوش میں نا آئی تو وہ قومہ میں جاسکتی ہیں اگر ہوش آگیا تو انکی یاداشت کچھ حد تک ایفیکٹ ہوسکتی ہے ۔۔یا جو وہ بھول چکی ہے وہ سب انہیں یاد آجائے ۔۔ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔آپ لوگ دعا کریں انہیں دعا کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔ کالر سیٹ کرتے ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چل دیے


ا۔اگر اسے کچھ ہوگیا ت۔تو میں بابا کو کیا کہوں گی ہمارا کیا ہوگا ؟۔۔۔۔ آمنہ منہ پر ہاتھ پھیرتی رونے لگی


آمنہ رونے کی بجائے دعا کرو ۔۔۔۔دعا سب پر بھاری ہے خدا نے چاہا تو ہماری گڑیا ہمارے ساتھ ہوگی ۔۔۔۔ ارسل نے آمنہ سے کہا جو سر پکڑے روئی جارہی تھی اسکی بات سن کر سر اثبات میں ہلاتی وضو کرنے چل دی


💞💞💞💞💞💞

سر آپ یوں آندر نہیں جاسکتے ۔۔۔۔ آئی سی یو میں داخل ہوتے ہشاب کو دیکھ ڈاکٹر نے کہا ہشاب نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا تو ڈاکٹر نے پیچھے ہٹنے میں ہی بھلائی جانی ۔۔وہ پاگل سا سارے پردے ہٹائے جاناں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ ایک بیڈ پر رکا جہاں وہ پٹیوں آکسیجن کی نالیوں میں لپٹی پڑی تھی


ڈاکٹر ۔۔ اسکی ایک آواز پہ ڈاکٹر آگے آیا


اسے کیا ہوا ہے ۔۔.۔۔ اسکے پاس بیڈ پر بیٹھتے وہ اسکے زرد چہرے کو نگاہوں کی زد میں رکھتا سر لہجے میں سوال گو ہوا


انکے سر کی پچھلی سائیڈ پر چوٹ لگی ہے جہان پہلے سے ہی کچھ مارنے کا نشان تھا ۔۔۔۔


کیسا نشان ۔۔۔ وہ ڈاکٹر کی طرف پلٹا آسکے اچانک پلٹنے پر ڈاکٹر اچھل کر رہ گیا


.


کسی بھاری چیز جیسے ہتھوڑے یا راڈ سے مارا گیا ہو لیکن یہ زخم کافی پرانا ہے اور کو میڈیسن یہ کھارہی تھی ان سے یہ اپنی کافی میموری لاس کرچکی ہیں لیکن اب اللہ نے چاہا تو اب ٹھیک ہوجائے گا ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے ساری معلومات اسے دی ہشاب عالم ایک بار تو سکتے میں آگیا بھال کون اسکی معصوم سی جان کو ایسی ِِ ٹیبلیٹ دے گا۔۔.لیکن جس نے بھی اسے تکلیف پہنچائی ہے اسکا مرنا تو لازمی تھا کیونکہ بات یہاں اسکے جنون کی تھی


جان ۔۔یہ کیا ہوگیا تمھیں ۔۔۔۔ یار ایک بار بھی تمھیں میرا خیال نہ أیا ۔۔.میں نے تمھیں منع بھی کیا تھا کہ تمھاری وجہ سے میری جاناں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے پھر بھی تم نے اسے درد دیا اور ان حیوانوں میں چل دی ۔۔۔ اسکے پٹی بندھے سر پر ہونٹ رکھتے وہ سرخ آنکھوں سمیت گویا ہوا لیکن ایک چیز اسے ٹھٹھکا گئی


لیکن تم انڈرورلڈ گئی کیوں ؟ ۔۔۔ انڈرورلڈ معصوم لوگوں کے لئے تو نہیں بنا ۔۔۔ گلابی گالوں پر سایا فگن لمبی گھنیری پلکوں کو چھوتے وہ پرسوچ ہوا ہاتھ کی پشت اسکی گال پر پھیرتے وہ اسے بےچین کر گیا


کسی کا لمس اپنی آنکھوں ، گالوں سے ہوتے لبوں پر محسوس ہوا تو اس نے ہلکی سی کالی آنکھیں وا کی پلکوں میں ہوتی جنبش ہشاب نے جلدی سے ڈاکٹر کو بلایا اور قریب ہی کھڑا ہوگیا اسے دیکھنے لگا جو تیز روشنی کے آنکھوں میں چبھنے سے ڈرپ والا ہاتھ اٹھانے لگی اس سے پہلے ہی ہشاب اسکی آنکھوں پہ اپنے مضبوط ہاتھ کا سایا کرچکا تھا


آہ ۔۔۔ آہستہ سے آنکھیں کھولتے اس نے اٹھنا چاہا لیکن سر میں اٹھتی ٹھیس نے اسے ایسا کرنے سے روکا


دھیان سے جان ۔۔۔۔ لیٹی رہو تمھیں چوٹ لگی ہے ۔۔۔ اسکے کندھوں کو بیڈ سے لگاتے وہ سختی سے گویا ہوا جاناں نے ہونٹ بھینچتے انجان نظروں سے اسے دیکھا پھر آہستہ آہستہ سب منظر آنکھوں میں لہرائے کہ کیسے وہ پانی میں کھودی اور پھر اسکے بعد اسے یاد نہیں. ۔۔.


ہ۔ہاتھ ہٹاؤ ای۔ایڈیٹ ۔۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں غررائی ہشاب نے دلچسپ نظروں سے اسے دیکھا ایسی حالت میں بھی وہ لڑنے کو تیار تھی


آپ پلیز پیشنٹ کا چیک اپ کرنے دینگے ؟۔۔۔ ڈاکٹر نے زرا غصے سے کہا وہ کب سے کھڑا اسکی حرکتیں دیکھ رہا تھا بھئی بندہ پوچھے ڈاکٹرز کیا پینشنٹ اور انکے لوورز کا رومینس دیکھنے کے لئے تھوڑی وہاں ہوتے ہیں 😕


ہشاب نے اشارے سے چیک کرنے کا کہا اور ڈاکٹر کو اس سے کچھ سوال کرتے دیکھنے لگا لیکن جیسے ہی ڈاکٹر نے ہاتھ جاناں کی طرف بڑھایا اسے فوراً ہی ہشاب نے تھام لیا


ہاتھ کیوں لگا رہے ہو ۔۔۔ بنا ٹچ کرے دوائی دو اور نکلتے بنو سمجھے ۔۔۔ اسکے ہاتھ کو سختی سے پکڑ کر پیچھے پھینکتے وہ غراریا جاناں نے اسے گھوری سے نوازا


س۔سوری پلیز کالر چھوڑیں میں لیڈی ڈاکٹر کو بھیجتا ہوں۔۔۔ ڈاکٹر جلدی سے کہتے وہاں سے نکلا کہی وہ اسکی پٹائی ہی نہ کردے .......


میری جاناں کو ہاتھ لگانے کہ اجازت صرف اور صرف مجھے ہے صرف مجھے ۔۔۔۔ غصے سے کہتے وہ بیڈ کے ساتھ پڑے سٹول پر بیٹھا


جاؤ یہاں سے. ۔۔ پلیز ۔۔۔ میری بات مان لو ابھی چلے جاؤ ۔۔۔


لیکن. ۔۔!


پلیزززز ۔۔۔. وہ آنکھیں بند کرتے بولی


اوکے جارہا ہوں لیکن واپس أنے کے لئے اپنا خیال رکھنا پلیز ۔۔تمھارا درد میری جان لے لے گا۔۔۔ پیشانی سے پیشانی ٹکاتے وہ بےبسی سے گویا ہوا اسکی پیشانی پہ لب رکھتے آئی سی یو سے نکل گیا۔۔۔


شکر ۔۔۔۔۔ وہ سکون سے أنکھیں موند گئی لیکن جانی پہچانی رونے کی آواز پہ اس نے چونک کر آنکھیں کھولی آواز باہر سے آرہی تھی


یہ تو شازو ۔۔۔۔ دماغ پر زور دیتی وہ بڑبڑائی ہاتھ سے ڈرپ کھینچ کر نکالتی دکھتے سر پر ہاتھ رکھا نازک گلابی پاؤں کو بیڈ سے نیچے رکھا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی باہر کو بڑھی ۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


یہ کہاں گئی ۔۔۔ شازم جو اگلی صبح جویریہ خان کو دیکھنے آیا تھا لیکن اسے بیڈ پر موجود نا پاکر اردگرد ڈھونڈنے لگا لیکن انکا تو نام و نشان نہیں تھا


اففف (گالی) کدھر گئی (گالی) ۔.۔۔۔ اسے زندہ چھوڑ کر ہی بہت بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے ۔۔۔۔ اسی دن مار دیتا تو آج یہ مصیبت میرے سر نا آتی ۔۔ غلاظت بکتے وہ دودھ کا گلاس وہی پھینکتے باہر کو بھاگا اپنے گارڈز کو جویریہ کو ڈھونڈنے کا کہتے وہ بجتے موبائل کی طرف متوجہ ہوئے غیر شناسا نمبر تھا کال یس کرتے موبائل کان سے لگایا تو کسی کا قہقہہ سنائی دیا


ہاہاہا اتنی جلدی ہاتھ آجاؤ گی یہ سوچا بھی کیسے تم نے ۔۔بادشاہ ہوگے تم دوسروں کے لئے میرے لیے تو تم کسی شیطان سے کم نہیں ہو ۔۔۔۔ وہ شیطان جس کی وجہ سے میری بیٹی کے ساتھ اتنی بڑی انہونی ہوگئی ۔۔۔۔اب میں انکا سچائی بتا کرہی رہوں گی ۔۔۔۔ جویریہ غصیلے لہجے میں دھاڑی تو شازم عرف بادشاہ کا خون کھولنے لگا


انکو کچھ بتانے سے پہلے ہی میں تمھیں جان سے مار دونگا ۔جیری ۔۔۔ غصے سے دندناتے وہ چیخے اگر انکی بیٹیوں کو انکی حقیقت پتہ چل جاتی تو وہ ان سے نفرت کرنے لگتی جو انہیں کسی کی بھی قیمت پر منظور نہیں تھا


میں پہنچ چکی ہوں اب سے تمھاری بربادی شروع ۔۔ اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ بیٹیاں ہی اپنے باپ کی بربادی کی وجہ بنے گی ۔۔۔۔۔ اسکا قتلِ عام کرینگی ۔۔۔۔۔.


نہیں تم ایسا کچھ نہیں کروگی۔۔۔مجھے کوئی نہیں مار سکتا میری بیٹیاں مجھ سے بہت محبت کرتی ہے وہ کبھی تمھاری باتوں پہ یقین نہیں کرینگی ۔۔۔۔ جیری ۔۔۔۔ مغرور لہجے میں کہتے وہ کال کٹ کرنے لگے


ہاہاہا یہ محبت بھی ختم ہوجائے گی جب انہیں معلوم ہوگا کہ انکے باپ نے نجانے کتنی معصوم لڑکیوں کی زندگی تباہ کی نجانے کتنی ماؤں کی کھوکھ اجاڑ دی ۔۔۔ وہ نفرت کرینگی تم سے جب انہیں معلوم ہوگا کہ انکے سگے باپ نے انہیں مروانے کی کوشش کی کیا گزرے گی اس پر جب میں اسے بتاؤں گی کہ جس شخص نے اسکے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی وہ اسکے اپنے باپ کا بھیجا ہوا آدمی تھا ۔۔۔۔ سوچو بادشاہ جب تمھاری بیٹیاں جو اصل میں مافیا گرلز ہیں وہ تمھارا کیا حال کرینگی شازم خان عرف بادشاہ جب انہیں علم ہوگا کہ انکا باپ انکی ڈیل کرچکا ہے انہیں بیچ چکا ہے ۔۔۔ کہتے کہتے انکا لہجہ بھیگ گیا پیچھے کھڑے وجود پر جیسے ساتوں آسماں گرے تھے نیلی آنکھیں لبالب پانی سے بھر گئی لان میں گھٹن محسوس ہونے لگی تیز تیز سانس لیتی وہ گاڑی میں بیٹھتی سیدھا ہوسپیٹل کی طرف نکلی ۔۔۔


یو بچ تمھیں تو میں زندہ نہیں چھوڑو گا ۔۔۔۔ کال کٹتے ہی وہ موبائل زمین پر مارتے پاگل سانڈ کی طرح دھاڑنے لگا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


آم۔آمنہ ۔۔۔شائزہ نے کوریڈور میں انٹر ہوتے بلایا بکھرے بال ملجے سے حلیے میں آنسو اسکے گلابی گالوں سے بہتے زمین پر گر رہے تھے أنکھوں کی پتلیاں سرخ ہورہی تھی انکی کہانی میں ایسا موڑ آیا تھا کہ مافیا گرلز کی پوری دنیا گھوم کر رہ گئی تھی آنسو تھے کہ بہتے ہی جارہے تھے


کیا ہوا شازو ۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھ اسے خوف لاحق ہوا وہ اسکے پاس آئی جو لرزتے جسم کے ساتھ زمین پر بیٹھی روئی جارہی تھی ایزل کی پکار پر اسکے گلے لگی


ہ۔ہمھیں نیلام کر دیا ہماری ب۔بولی لگادی ۔۔۔۔ اسکے اندر چھپتی وہ سسک سسک کر رونے لگی جاناں کو دروازے کے سہارے باہر آرہی تھی اسکے قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے ہوں


شازو ہوش میں ہو تم کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔ امنہ نے اسے جھنجھوڑا تو وہ چیخی


ہاں آمنہ ہمھیں ہمارے ہی باپ نے بیچ دیا ہماری عزت کی دھجیاں بکھیر دو کوڑی کا بنا دیا ہمھیں ۔۔۔۔۔۔ آمنہ ساکت ہوئی ارسل نے جاناں کو دیکھا جو سنجیدہ تاثر لیے کھڑی تھی


پلیز سائیلنس یہ شور شرابا آپ باہر جا کر کریں یہ ہوسپیٹل ہے ۔۔۔۔۔ نرس نے آخر سختی سے کہا


چلو شازو ہم گھر چلتے ہیں تمھاری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔۔۔۔ ارسلان نے انکو کہا وہ مردہ قدموں سے اٹھتی باہر کو بڑھی


آجاؤ ۔۔۔ ارسل نے جاناں کا ہاتھ تھامنا چاہا جس نے ہاتھ اوپر اٹھاتے اسے روکا


یہاں کا دیکھ لینا تم اور ارسلان ہمھیں اکیلا چھوڑ دو۔۔۔صبح ملاقات ہوگی ۔۔۔۔ کہتی وہ انکے پیچھے چل دی ارسلان نے بےبسی سے انہیں دیکھا جو اپنے دکھ میں کسی کو بھی شریک کرنا پسند نا کرتی تھی ۔۔۔۔


ماضی کئ ان اذیت ناک یادوں میں ہم بہنوں کو اکیلے ہی سفر کرنا ۔۔۔۔۔ ایزل نے ان دونوں کو دیکھتے کہا اور آمنہ کے ساتھ باہر نکل گئی


ویران سڑک پر چلتی وہ چاروں ایک دوسرے کا سہارہ تھی ۔۔۔۔ شائزہ کے آنسو رک چکے تھے ان چاروں کے چہرے پر کپکپی پیدا کردینے والے تاثرات تھے ۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞


چلتے چلتے وہ چاروں نجانے کہاں پہنچ چکی تھی ویران سی سڑک جس کی چاروں اور گھنے درختوں کا سایا تھا آج تو چاند بھی آسماں میں نہیں تھا


ہمارا کیا قصور ہے ۔۔۔۔ ؟ ماں کی ممتا سے محروم رہے باپ نے محبت کی تو وہ فریب نکلی ۔۔۔۔ شائزہ نے جاناں کو دیکھا جو نظریں سرک پر مرکوز کیے چلے جارہی تھی


انکی محبت میں شروع سے کھوٹ تھا غلطی ہماری ہے ہم انہیں سمجھ نہ سکے ۔۔۔. ایزل نے افسوس سے کہا شائزہ رکی تو وہ تینوں بھی رک چکی تھی


جاناں آج تو بتا دو آخر تمھاری اس خاموشی کی وجہ کیا ہے ۔۔تنہائی پسند کیوں بن گئی تم ۔۔۔ اس خوفناک اندھیرے میں ڈر سے میری جان نکل رہی لیکن تم تمھارے چہرے پر ڈر ایک تاثر بھی نمایا نہیں ہے ۔۔۔ ماضی میں ایسا کیا ہوا کیا تھے بابا کیوں چھوڑا انہوں نے ماما کو مجھے جاننا ہے ۔۔۔۔۔ سوالوں کی لمبی لسٹ تھی لیکن جواب دینے والی خاموش تھی جاناں آگے چلنے لگی ایزل نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور چلنے کا اشارہ کیا انکے پیچھے آتی جویریہ نے بولنا شروع کیا


(ماضی)


خان فیملی جنکی حکومت پانچ گاؤں میں چلتی تھی خان نہایتی مغرور ، اور بگڑے ہوئے تھے انکے خاندان میں کوئی عورت نہ تھی نہ ماں کی ممتا تھی نا بہن کی شرارتیں انکی فیملی میں صرف پانچ مرد تھے ۔۔۔ اعظم خان کو کہ وہاں کے سردار تھے اور انکے بدتمیز عیاش چار بیٹے ۔۔۔ شازم ۔۔ ہشمت ۔۔ عباس اور میکال ۔۔۔ نہایتی بگڑیل طبعیت کے مالک تھے انکے باپ کی حکومت نے انہیں مزید عیاش بنا دیا تھا


آج گاؤں میں کسی بدنصیب لڑکی کی دن تاریخ تھی گاؤں کے کافی لوگ وہاں موجود تھے کہ تبھی ایک جیپ بغیر کسی کی جان کی پرواہ کیے وہاں پڑی چارپائیوں پر بیٹھے گاؤں والوں کو زخمی اور کسی کی جان لیتی سیدھا لڑکی کے پاس رکی جس کی شادی ہونے والی تھی۔۔ جیپ چلانے والا شازم خان تھا اور ساتھ اسکے بھائی موجود تھے


آجا چھمک چھلو۔۔.کلائی سے پکڑ کر لڑکی کو گود میں بیٹھایا اور اسکے باپ سے مخاطب ہوا جو ہاتھ جوڑے اپنی بیٹی کو چھوڑنے کی التجا کررہا تھا


اے بڈھے کب ہے شادی ۔۔۔۔ ٹانگ اسکے سینے پہ مارتے شازم غراریا تو سبکو سانپ سونگھ گیا وہ لڑکی روتی روتی بےہوش ہوچکی تھی


پرسوں ۔۔۔۔ کسی لڑکے نے کہا تو وہ اور اسکے بھائی قہقہہ لگا اٹھے خاموش فضا میں انکے شیطانی قہقہے گونجے


بڑی جلدی ہے لیکن کوئی بات نہیں اس بند کلی کو زرا چھک کر واپس کرجائیں گے ۔۔۔ جیپ سٹارٹ کرتے وہاں سے قہقہے لگاتے نکلے اسکا باپ دل پر ہاتھ رکھتے زمین پر گرا اور تڑپنے لگا یہ کوئی نہیں بات تو نہیں تھی گاؤں میں جب بھی کسی کی شادی ہوتی تو وہ اس لڑکی کو اٹھا لیتے اور جب بارات لڑکی والے گھر پہنچتی سبکے سامنے اس لڑکی کے بےجان برہنہ وجود کو وہی دلہے کے قدموں میں پھینک آتے


وہ سب لوگ بےبسی کی مورتیاں بنے کھڑے تھے وہ لوگ کچھ بھی کرنے سے ندار تھے اگر کوئی آواز اٹھاتا تو وہ ظالم انہیں گولیوں سے چھلنی کردیتے تھے اور اسکے جسم کہ بوٹی بوٹی کرکے انکے سامنے ہی جنگلی کتوں کو کھلاتے تھے ۔۔۔


گاؤں کے درمیان میں انکی ایک بڑی سی حویلی تھی اسی میں داخل ہوتے وہ اس لڑکی کے وجود کو جنگلی بھیڑیوں کی طرح نوچنے لگے اس لڑکی کی درد ناک چیخیں پورے گاؤن میں گونجنے لگی اسکی ماں کی برداشت ختم ہوئی تو وہ چیخی


خدا غارت کرے تمھیں ایک ماں کی بددعا ہے تم کبھی خوش نا رہو جو تم دوسروں کی عزتوں کو نیلام کرتے ہو حیوانوں خدا تمھین بھی بیٹیاں دے ۔۔۔۔بددعا ہے ہر اس ماں کی جسکی بیٹیوں کو روند کر تم حیوان خوش ہو تمھیں کبھی بیٹا نا ہو تمھاری بربادی تمھاری اولاد ہو جب تم مرو تو دنیا دیکھیں تمھیں مرنے کو مٹی نصیب نہ ہو خدا تم پر عذاب نازل کرے ۔۔۔ میں نا رہی یہ لوگ دیکھیں گے کہ اک ماں کی بددعا کیا دردناک انجام کرتی ہے تمھارا ۔۔۔۔ تم روؤں گڑگڑا تب بھی تمھیں موت نصیب نا ہو ۔۔۔۔ چیخ چیخ کر کہتی وہ سب گاؤں والوں کا دل دہلا گئی لیکن ان حیوانوں کے کان پر تو جون تک نا رینگی اور وہ عورت اپنی بیٹیوں سمیت کھائی میں کھود گئی جانتی تھی اگر ان معصوموں کو بڑا کیا تو انکا انجام بھی وہی ہوگی جو انکی بڑی بیٹی کا ہورہا تھا


آہستہ آہستہ اس لڑکی کی آواز ختم ہوگئی سب گاؤں والے خوف سے اسکی کانپتے اپنے مٹی کے گھروں میں چھپے ہوئے تھے ۔۔ اتنے میں وہ چاروں باہر آئے


دم نہیں تھا لڑکی میں ۔۔۔ اتنے میں کون مرتا ۔۔۔ شازم نے غلیظ لہجے میں کہا تو اسکے بھائیوں نے قہقہہ لگایا اتنے میں دو آدمی بیڈ شیٹ میں لپٹے وجود کو گاؤں کے بیچ و بیچ پھینکتے وہاں سے چل دئے


غم کی عجب داستان تھی ایک معصوم بچی کو وہ حیوان اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر ہنسی خوشی جی رہے تھے خدا کا زرا بھی خوف نا تھا ان میں ۔۔۔۔۔.


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


بھائی آپ نے ایسا کیوں کیا جب انہیں پتہ لگے گا کہ آپ ان تینوں کو خرید چکے ہیں تو کیا گزرے گی ان پر ۔۔۔۔ حازم کی بے یقین آنکھیں اس پر ٹکی تھی جو مکمل طور پر انہیں نظر انداز کررہا تھا ۔چاہے اسے ان بہنوں سے کوئی غرض نہیں تھی لیکن انہیں تکلیف میں دیکھنا بھی اسے ہرگز منظور نہ تھا


بھائی وہ کیا سوچے گی کہ میں نے اسکی عزت کی بولی لگادی ؟۔۔۔ بھائی وہ مجھ سے نفرت کرنے لگی گی ۔۔۔میں اسکی نفرت برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔۔پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچتے وہ چیخا


اگر میں نا خریدتا تو کوئی اور خرید لیتا میرا ارادہ تمھیں یا کسی کو بھی اس بارے میں بتانے کا نہیں تھا۔۔۔۔ہمیشہ کے لئے جدا ہونے سے کچھ گھنٹوں کی ناراضگی بہتر ہے ۔۔۔ میصم نے سنجیدگی سے کہا


کون خرید لیتا ؟؟۔۔۔ ہوا کیا جو آپ کو یہ قدم اٹھانا پڑا؟۔۔۔ حازم نے حرانی سے پوچھا


جب میں رشتے کی بات کرنے گیا تھا تب ہی شازم کسی سے بات کررہے تھے لڑکیوں کے بیچنے کی تو میں حیران ہوا کہ شازم جو اپنی بیٹیوں سے اتنی محبت کرتے ہیں وہ بھلا کیوں انہیں بیچے گے لیکن میری یہ غلط فہمی بھی انہوں نے جلد ہی دور کردی ۔۔۔


کروڑوں کے پیچھے اپنی ہی بیٹوں کو بیچتا وہ بدنصیب شخص انکی بولی لگا کر بہت خوش تھا ۔.پھر میں نے انہیں ایک آفر دی جس میں فون والے سے دگنی رقم تھی تب یہ طے ہوا کہ انکی تینوں بیٹیاں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہماری ہوچکی ہیں ۔۔.لیکن میں یہ بات کبھی بھی اپکو پتہ نہیں چلنے دونگا کیونکہ میں نے انہیں خود سے دور ہوجانے کے ڈر سے یہ سب کیا ۔۔اسکے پیچھے میری نیت بری نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ سب بتاتے آخر میں کچھ شرمندہ ہوا


لیکن اگر انہیں پتہ چل گیا تو ؟۔۔۔۔ امن نے خدشہ ظاہر کیا


تو ہم انہیں وہ ویڈیو دیکھا دینگے جس میں شازم اور میری بات ہوئی تھی ۔۔۔۔ میصم نے یو ایس بی سامنے کرتے کہا تو حازم نے اسے تھمز اپ کا اشارہ کیا


جب پہلی بار دیکھا تھا تو انکل کتنے اچھے لگے تھے لیکن انکا صرف چہرہ ہی معصوم ہے جبکہ وہ اندر سے شیطان ہیں ۔۔۔۔ حازم نے غصے سے مٹھیاں بھینچی


مجھے تو آمنہ کی فکر ہورہی اگر جو اسے معلوم ہوا تو انکی کیا حالت ہوگی نازک سی دوشیزائیں اتنا بڑا سچ جان کر کیا ریکٹ کرینگی ۔۔۔۔


کوئی نہیں بتائے گا انہیں تم لوگ جاؤ جاکر سو جاؤ رات بہت ہوچکی ہے ۔۔۔انکا روم میں بھیجتے وہ بھی سونے چل دیا

💞💞💞💞💞💞💞


ہیلو۔۔۔ ہشاب عالم میری لندن کی ٹکٹ بک کرواو آبھی جلدی ۔۔۔۔ شازم نے ہشاب کو کال کی جو جاناں کی پریشانی میں یہاں گھوم رہا تھا کہ بادشاہ کہ کال پہ حیران ہوا اسکے لہجے میں ڈر کا عنصر نمایا تھا


اوکے ۔۔۔ اس نے کہا تو بادشاہ نے فون بند کرتے اپنے اڈے کے اندر گھسا اسے ڈر نہیں تھا لیکن اسے جلد از جلد پاکستان سے باہر جانا تھا ورنہ یقیناً اسکی بیٹیاں اسکو موت کے گھاٹ اتار دیتی


اسے خوف تھا تو وہ بھی اپنے ہی خون سے اسکا ڈر جائز بھی تھا اتنے معصوم لڑکیوں آدمیوں معصوم بچوں کی بددعائیں تھی اتنے لوگوں کی اسے آہ لگی تھی یقیناً اسکی موت بہت بری ہونی تھی


عباس تم لندن جاؤ گے میری جگہ اور میں گاؤں جاؤں گا ۔۔۔۔۔ عباس کو کہتے وہ گاؤں کی طرف نکل گیا جہاں اب اسکے لوگ (درندے) موجود تھے وہاں اسے مارنا ناممکن تھا کیونکہ وہاں انسان نہیں حیوان بستے تھے


ہاہاہاہاہا ہاہاہا بادشاہ کی بھی بربادی کی وجہ آگئی مطلب کوئی ایسا آگیا اس دنیا میں جو بادشاہ سے ٹکر لے گا ۔۔۔۔ ہشاب اسکے ڈرنے پہ قہقہہ لگاتے گویا ہوا اسکا دل کیا کہ ٹکٹ ہی نہ کروائے لیکن اسکے بابا یعنی عالم شاہ نے اسے غصہ کرنا تھا اسی لیے ٹکٹ کنفرم کرتے بادشاہ کو میسج کر چکا تھا


۔ 💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


ماضی


گاؤں میں ہر طرف افراتفری مچی تھی کیونکہ ہشمت خان گاؤں کے سارے لڑکوں کو جمع کرنے لگا تھا تاکہ اپنے دشمن عالم شاہ پر حملہ کروا سکے لیکن کچھ لڑکے خوف کے مارے اپنے گھروں میں چھپ چکے تھے


اگر اپنی ماں بہنوں کی عزت اور زندگی چاہتے ہو تو شرافت سے اپنی ماں کے پلو سے نکلو اور اپنا فرض بھاؤ آخر کو ہم تمھارے سردار کے اکلوتے وارث ہیں ۔۔۔۔ شیطانی مسکراہٹ سے وہ سپیکر میں بولا گاؤں کے کونے کونے میں اسکی آوازیں گونجی


سب لوگ ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکلے لیکن ایک گھر بند تھا ہشمت کے اشارے پر اسکے آدمی دروازہ توڑ کر اندر گھسے اور وہاں موجود پانچ سالہ بچی جوکہ ڈر سے اپنے بھائی سے لپٹی ہوئی تھی اسے کھینچا اور گھسیٹتے ہوئے باہر لے آیا وہ بچی ڈر خوف سے دھاڑے مار کر رونے لگی


سرکار سرکار معاف کردیں سرکار میری بہن میری پوری دنیا ہے اسے چھوڑ دیں سرکار ۔۔۔۔ وہ اٹھارہ سالہ لڑکا ہشمت کے پیر پکڑتے گڑگڑایا انکے ماں باپ کو تو وہ حیوان پہلے ہی مار چکے تھے اب اسکی معصوم بہن پر ان درندوں کی نظر پڑ چکی تھی


چل ہٹ اتنا لذیذ مال کہاں چھپایا ہوا تھا یہ ابھی اتنی خوبصورت ہے تو بڑی ہوکر تو قیامت بنے گی ۔۔. افففف۔۔۔ پاؤں اس لڑکے کے منہ پہ مارتے وہ اس لڑکی کو ہوس بھری نظروں سے گھورنے لگا وہ لڑکا اسکے پیر پکڑتے رو پڑا


سرکار میری بہن مر جائے گی رحم سرکار رحم ۔۔۔۔


تو مر جائے گا تو یہ کلی تو جیتے جی مر جائے گہ نہ تو چل پہلے یہ مرجائے اسکو دفنا کر تو مر جانا ۔۔۔ افسوس سے کہتے وہ قہقہہ لگا اٹھا اور اس لڑکی کو معصومیت سے اپنے بھائی کو روتے دیکھ رہی تھی اسکو گود میں اٹھایا تو وہ ہاتھ پاؤں مارنے لگی وہ لڑکا اسکے پیچھے بھاگا اپنی بہن کے لئے ۔۔۔لیکن آج تک کوئی ان بچیوں یا عورتوں کو ان حیوانوں سے بچا پایا تھا نہیں ۔۔اسکے آدمی کو ہنس رہے تھے بندوق کی ایک گولی اسکے گٹھے اور دوسری اسکے سینے میں ماری


گڑیا ۔۔م۔میری گڑیا ک۔و چھو۔ڑ دو گ۔گڑ۔یا۔۔۔ زمین پر گرتے وہ لڑکا ہشمت خان کو حویلی جاتے دیکھنے لگا اسکی بہن اسے بلا کر رو رہی تھی اسکے پاس جانے کے لئے مچل رہی تھی لیکن ہشمت گرفت مضبوط کرتے اسکی چیخوں اسکی رونے سے لطف اندوز ہوتے اسے اندر لے گیا


آہہہہ بھیا ۔۔۔۔ آہہ ۔۔۔ دل دہلا دینے والی چیخوں پہ جہاں اس لڑکے کا دل دھڑکنا بند ہوا وہی گاؤں کے لوگ اپنی بیٹیوں کے کانوں پر ہاتھ رکھتے انہیں اندر دھکیل گئے ان سبکے دل سے ہشمت اور انکے بھائیوں کے لئے موت کہ دعا کررہے تھے ہشمت کے آدمی قہقہہ پر قہقہہ لگا رہے تھے


گڑ۔یا۔۔مرتے وقت بھی وہ اپنی بہن کو بچانے کی منت کررہا تھا ایک آخری آنسو گرا اور اسکی بہن کی چیخوں کے ساتھ وہ بھی بےجان ہوتے زمین پر سر گرا گیا اسکا انجان دیکھ سب لڑکے خوف سے کپکپاتے وہاں حاضر ہوچکے تھے کہ کہی انکی بہنوں یا بیٹیوں کے ساتھ وہ سب نا ہوجائے انکی بیٹیاں بھی اپنی زندگی نا گوا دیں


کتنی بری بات ہے ہشمت ۔۔۔(گالی) اکیلے اکیلے ہی مزے کررہا ہے بھائیوں کا حصہ کہاں ہے ۔۔۔۔ وہ جو خان حویلی میں داخل ہوا تھا کہ عباس اور میکال اس کے سامنے آئے تو وہ ہنسنے لگا


یار کچی کلی تھی ابھی آخری سانسیں شاید تمھارے لیے ہی بچی ہیں ۔۔۔ جاؤ عیش کرو ۔۔۔۔ وہ غلاظت بکتے اپنے کمرے میں چل پڑا اور وہ دونوں اس معصوم کی بچی کچی سانسوں کو چھیننے چل پڑے


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


آمنہ بات سنو ۔۔۔۔ یار آج ہمارا نکاح ہے اور تم مجھ سے بات ہی نہیں کر رہی ۔۔۔؟۔۔۔ وہ سب اس وقت شاپنگ مال میں تھے آج انکا نکاح تھا ایزل جاناں بن کر وہاں موجود تھی اور حازم تو منہ بنائے گھوم رہا تھا کیونکہ میصم زبردستی اسے یہاں لایا تھا


میری مرضی ہے من تم ابھی فل حال مجھے ڈسٹرب مت کرو ورنہ میں نے گھر چلے جانا پھر کرتے رہنا اپنی اور میری شاپنگ ۔۔۔ آمنہ نے کوفت بھرے لہجے میں اسے دیکھا امن نے ناک چڑھائی یوں کرتے وہ اتنا کیوٹ لگا کہ آمنہ ہنسنے لگی


پاگلوں والی حرکتیں کرتے رہتے ہو ۔۔۔ ہر وقت ۔۔۔ آمنہ نے اسکے گال پر انگلی مس کرتی کہا اور ڈریس دیکھنے کے لئے أگے بڑھی شادی کی ڈریس تو وہ آرڈر پر تیار کروا چکی تھی لیکن عام جینز شرٹ لینے وہ کب سے انہیں گھما رہیں تھی


افففف یہ لڑکی ۔۔۔.امن نے دل پر ہاتھ رکھا ۔۔۔


منہ سیدھا کرلو سب لوگ دیکھ کر کیا سوچے گے ۔۔۔۔۔ شائزہ نے حازم سے کہا جس نے اسے گھورا


کیا سوچیں گے ؟۔۔۔


یہی سوچ رہیں ہونگے کہ تمہارے ڈائناسور جیسے منہ کو ہم نے ہتھوڑے مار مار کر ٹیرا کیا ہے لیکن انہیں کیا معلوم کے تمھارا منہ ہے ہی ایسا ۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔اپنی ہی بات پر وہ ہنسنے لگی تو حازم نے غصے سے اسے دیکھا


جیسی خود ہو ویسےہی دوسروں کو سمجھتی ہو۔ حازن نے دانت دیکھاتے کہا


کیا مطلب تمھارا کیسی دکھتی ہوں میں ۔۔۔۔ ؟؟ شائزہ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورتے آئبرو اچکایا


بال تمھارے چڑیل جیسے ہیں جب دیکھو کھلے رہتے ڈریسنگ تمھاری ملنگنیوں جیسی ہے جدھر سے دیکھو پھٹی ہوئی ہوتی ۔۔۔ آنکھیں تمھاری مچھلی جیسی ہیں بٹنوں والی ہنسی تمھاری بھوتینوں جیسی ہے جیسے وہ نہیں لگاتی قہقہے ویسے تو تم ہنستی ہو۔۔۔أئی بڑی خود کو مائرہ خان سمجھنے والی ۔۔۔ حازم نے دل جلاتے لہجے میں کہا


تم جل ککڑے جلتے ہو میری خوبصورتی سے میسنے کہیں کے شرم حیا ہے یا نہیں کمینے انسان تمھارا منہ نوچ لونگی میں ۔۔۔ شاپنگ بیگز وہی پھینکتے وہ اسکا منہ نوچنے کے لئے بھاگی جو پہلے ہہ وہاں سے بھاگ نکلا تھا


یار تم تو بھاگتی بھی کچھوے کی طرح ہو ہاہاہا ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ وہ اسے مزید چڑاتے بولا شائزہ نے سینڈل اتار کر اسکی کمر کا نشانہ لیتے پھینکا حازم کے دائیں مڑنے پر وہ سینڈل ایک موٹے شخص کی توند میں جا لگا شائزہ نے منہ پر ہاتھ دھرا ۔۔۔۔ جبکہ حازم پیٹ پکڑے ہنس رہا تھا ۔۔۔۔


تمھیں شرم ہے لڑکی ۔۔ زرا تہزیب نہیں تمھیں۔۔۔ اپنے سے بڑے لوگوں کی عزت کرتے ہیں ناکہ انہیں جوتیاں مارتے پھرے ۔۔ اسکے وجود کو غور سے دیکھتے ہشمت نے مصنوعی غصے سے کہا شائزہ نے اسے گھورا


اوو ہیلو مسٹر انکل آگے آپ آئیں ہیں اور رہی بات تہذیب کی تو آپ کو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو جتنی عزت کے لائق ہوتا شائزہ شازم خان انہیں اتنی عزت دیتی ہے ۔۔۔ حازم کا غصہ اب کہیں تو نکلنا تھا جہاں شازم نام پر ہشمت خان چونکا وہی شائزہ نے ہونٹ بھینچے اس شخص کا نام اپنی زبان سے نہیں لینا چاہتی لیکن جلد بازی میں زبان سے نکل گیا ۔۔۔


بہت چالاک ہو۔۔اور خوبصورت بھی ۔۔۔۔ ہشمت نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک گھورتے کہا تو حازم انکے قریب آیا


ایکسکیوز می انکل کچھ عمر کا ہی لحاظ کرلیں بیٹی کی عمر کی لڑکی کو چھیڑتے آپکو شرم نہیں آرہی ۔۔۔. حازم کا دل کیا دع جڑ دے جو اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی کو غلیظ نظروں سے گھور رہا تھا ۔۔

سوری.۔۔. شائزہ ۔۔۔ ہشمت نے شائزہ سے کہا اور وہاں سے چل دیا ۔

اسکی نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ شائزہ ایک پل کو رکی لیکن اپنا وہم سمجھتی وہ سر جھٹکتے حازم کے ساتھ بچی کچی شاپنگ کرنے میں مصروف ہوئی

💞💞💞💞💞💞💞

💞💞💞💞💞💞💞


کہاں کی تیاریاں ہیں چاچو جی ۔۔۔ عباس جو ابھی ایئرپورٹ میں داخل ہونے لگا تھا کہ بیچ میں ایزل آئی


اوو میری جان بسس لندن زرا گھومنے کا ارادہ ہے ۔۔۔ عباس خان نے اردگرد لوگوں کو موجود دیکھ نرمی سے مسکرا کر کہا


لندن تو آپ بہت بار گھوم چکے ہیں یار اس بار ہمارے ساتھ چلیں ہم آپکو لندن کیا دنیا گھوما دینگے ۔۔۔ آمنہ نے انکے بازو میں بازو ڈالتے کہا تو عباس نے شوخی سے اسے دیکھا


شازم تیری بیٹیاں تو مست ہیں ۔۔۔ دل ہی دل میں شازم سے مخاطب ہوا اور نفی میں سر ہلایا


بیٹا مجھے جانا ہوگا ۔۔۔


اور تجھے ہم جانے دینگے کمینے ۔۔۔ اسکے ناک پہ کلوروفارم میں بھیگا رومال رکھتے دو سکینڈ میں ہٹا گئی اردگرد موجود اسکے گارڈز انکے قریب آنے لگے اس سے پہلے ہی وہاں وین آئی جس میں عباس کو دھکا دیتے وہ اس پر سوار ہوتی یہ جا وہ جا ہوگئی ۔۔۔ وہ گارڈز اسکے پیچھے گئے لیکن وین انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نا ملی ملا تو صرف ایک ٹرک ۔۔۔۔ جو آہستہ آہستہ چل رہا تھا ۔۔۔


پتہ نہیں کہاں گئے ۔۔.ہیلو باس سر عباس کڈنیپ ہوگئے ۔۔


تو تم لوگ وہاں کیا مکھیاں مار رہے تھے ؟۔۔۔۔ آگے سے ہشمت دھاڑا تو گارڈ نے موبائل کان سے دور کیا


جب تک عباس نا ملے تب تک اپنی شکل مت دکھانا ورنہ بوٹی بوٹی کرکے چیل کوں کو کھلا دونگا ۔۔۔سمجھا ۔۔۔۔ دھاڑتے وہ موبائل بند کرگیا


ہنہہ لڑتے خود ہیں اور مرنا ہمھیں پڑتا ہے ۔۔۔ وہ دل میں سوچتے ساتھ کھڑے پریشاب حال گارڈش کی طرف متوجہ ہوا


چلو انکو ڈھونڈو ۔۔۔. حکم صادر کرتے وہ بھی انکے ساتھ ہولیا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


بھائی آج کچھ بھی ہوجائے کچھ بھی لیکن ہم رخصتی لے کر ہی آئیں گے ۔۔۔شادی چاہے بعد میں کرلیں گے۔۔۔۔ امن نے حازم کی گود میں لیٹتے میصم سے کہا


کیا ہے یار امن بچے ہو کیا تم ؟۔۔۔. کوفت سے کہتے اس نے امن کو گھورا جو بچے کی طرح اسکی گود میں براجمان تھے


اب بچے کو بچہ نہیں تو بوڑھا کہو ۔۔۔ امن نے دانت دیکھاتے پوچھا تو حازم نے اسے گود سے جھٹکا


میرے پٹرول میرے ڈیزل تمھیں کیا ہوا ہے منہ کیوں پھلائے بیٹھے ہو ۔۔۔؟ دوبارہ سے اسجی گود میں چڑھتے وہ لڑکی کی طرح پوچھنے لگا جب سے اس نے فیسبک پر پوسٹ پڑھی تھی کہ اپنے جانو کو پٹرول ڈیزل بلایا کرو تب سے وہ حازم کی ناک میں دم کررہا تھا


کچھ نہیں تم اپنی حرکتیں سدھارو چھچھورے ۔۔۔۔ چھچھورے لفظ پہ ان دونوں نے قہقہ لگایا


بھئی ہم تمھارے ساتھ چھچھور پن کررہے ہیں تو تم اپنی بیوی کے ساتھ کرلینا ۔۔۔۔۔ ابکی بار میصم نے لقمہ دیا تو ناچاہتے ہوئے بھی حازم کی ہنسی چھوٹ گئی


بھائی وہ ایک نمبر کی جوالا مکھی ہے ہاتھ کیا بھگو بھگو کہ مارتی ہے بندہ شرم سے ڈوب مرے۔۔۔۔ وہ معصومیت سے بولا تو وہ دونوں پھر سے ہنسے


نہیں میرے والی تو بہت معصوم ہے اتنی کہ ہر وقت معصوم حرکتیں کرتی رہتی ۔۔۔امن نے آمنہ کی معصوم صورت دل میں بساتے کہا


اور بھائی آپکے والی ؟؟؟ بیک وقت ایک ہی لمحے دونوں نے پوچھا اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہنس پڑے


پہلے تو ہر وقت مرچیں رکھتے تھی لیکن آجکل بہت شرمیلی سی ہے ۔۔۔ میصم نے مسکرا کر کہا تو حازم نے سمجھتے قہقہ لگایا مطلب اسکے بھائی کے ساتھ ڈبل گیم ہورہی تھی


پہلے والی جاناں ہوگی اور اب والی ایزل ۔۔۔۔ وہ ہنس کر بولا تو میصم نے ایک دم گاڑی کو برہک لگایا


آرام سے ۔۔۔امن نے حوصلہ دیا اور حازم کو ناسمجھی سے دیکھنے لگا


جاناں اور ایزل جڑواں بہنیں ہیں شازم انکل کی ۔۔۔ حازم نے کہا تو امن نے ہونٹوں کو گول کرتے اوووو کہا


نہیں وہ جاناں ہی تھی ۔۔۔ میصم نے جیسے خود کو یقین دلایا ۔۔۔.


دیکھتے ہیں چلیں آجائیں ۔۔۔ امن نے گآڑی سے نکلتے کہا اور بؤکے اٹھاتے اندر کی طرف بڑھا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


آج خان ولا کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا پورا خان ولا رنگ برنگی لائٹوں سے جگمگا رہا تھا جویریہ خان یہاں وہاں گھن چکر بنی ساری تیاریاں دیکھ رہیں تھی اور ساتھ ساتھ گیسٹ کو بھی آٹینڈ کررہی تھی اپنی بیٹوں کی خوشیوں کے اس دن کو وہ یاد گار بنا دینا چاہتی تھی ۔۔۔۔


دلہن تو چلو سمجھ آتی ہے لیکن آپ کون ہو اور شازم بھائی صاحب کہاں ہیں ؟۔۔۔۔ ساتھ والی پڑوسن نے پوچھا تو جویریہ خان کو چپ لگی


آنٹی آپ تو جانتی ہیں کہ میرے بابا اکثر کام کے سلسلے میں باہر پائے جاتے ہیں تو اس بار وہ اپنی بیٹیوں کی خوشیوں میں بھی شریک نہیں ہوپائنگے گے اور ہم انکے کزن ہیں ۔۔۔۔ اور یہ ہماری ماما ۔۔۔۔ ارسلان نے جویرہ خان کو گلے لگاتے بتایا تو وہ عورت ہان میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی


ارے آجاؤ بچوں بڑی دیر کردی ۔۔۔۔ جویریہ خان نے میصم ؤغیرہ کو اندر آتے دیکھ پوچھا ارسلان نے سبکو یہی بتایا تھا کہ وہ لوگ آمنہ وغیرہ کے کزن ہیں اور جویرہ انکی تائی۔۔۔۔


آنٹی بھائی تو ابھی بھی میٹینگ میں بزی تھے میں یاد نا دلاتا تو یقیناً یہ اپنا نکاح ہی بھول جاتے۔۔۔ ارسلان سے بغلگیر ہوتے امن نے کہا جویریہ نے حیرت سے اسے دیکھا


نہیں نہیں آنٹی اسکی تو بکواس کرنے کی عادت ہے چھوڑیں ۔۔۔۔ امن کو گھورتے وہ دانت پیس کے بولا


اچھا آؤ قاضی صاحب آچکے ہیں تم انکے پاس بیٹھو میں دلہنون کو لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔


آنٹی گھونگھنٹ والا رواج نا ہو پلیز ۔۔۔امن نے گزارش کی تو وہ ہنس کر اثبات میں سر ہلاتی اوپر کو بڑھی جہاں دلہنیں تیار ہورہی تھی


آپ ہو دلہے ۔۔۔ انکے سٹیج پر بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے پوچھا


ہم آپکو کیا لگتے ہیں ۔۔۔۔ امن نے مسکرا کر پوچھا


لگتے تو کوئی چور و چکے ہو ۔۔.انہوں نے اپنی گلاسس ٹھیک کرتے کہا تو امن کا پھیلتا سینا واپس سے سکڑ گیا 😂


کمال ہے یار ۔۔۔۔ امن نے منہ بگاڑا تو وہ دونوں مسکراہٹٹ دبا گئے


بیٹا کمال تو اپنے گھر ہے ویسے آپکو کیسے پتہ میرے بیٹے کا ۔۔۔؟۔۔۔ مولوی صاحب کو تشویش ہوئی تو ابکی بار جہاں میصم اور حازم نے قہقہہ لگایا جبکہ امن نے گہری سانس بھری


میں اپکے بیٹے کی بات نہیں کررہا۔۔۔


تو کس کی بات کررہے ہو۔۔۔۔ انکے پھر سے سوال پوچھنے پر امن کا دل کیا کہیں چھپ جائے


اپنی دلہن کی ۔۔۔۔


آپکی دلہن کو نام کمال ہے ویسے کمال نام تو لڑکے ہوتا ہے کمال کرتے ہو بیٹا ۔۔۔۔ مولوی صاحب اسکی شرارت سمجھتے مسکرائے تو امن نے سر پر ہاتھ مارا وہاں بیٹھے حازم اور میصم کا ہنس ہنس کر چہرہ لال ہوگیا تھا کہ ٹک ٹک کی آواز پر وہ تینوں سیڑھیوں کی طرف متوجہ ہوئے جہاں وہ اپسارائیں کھڑی اپنے ہوش ربا حسن سے انکو مزید پاگل کررہی تھی


💞💞

ٹک ٹک کی آواز پر وہ سیڑھیوں کی طرف متوجہ ہوئے جہاں وہ اپسرائیں اپنے ہوش ربا حسن نے انکو مزید اپنا دیوانہ بنا رہی تھی لیکن حازم کا حیرت کے مارے کھلا کیونکہ شائزہ نے اپنے نکاح کے دل بھی فقیرنیوں والے مطلب وائٹ غرارہ زیب تن کیا تھا جسکا ڈیپ گلا اسکے نشیب و فراز کو واضح کررہا تھا امن اور میصم کی تو نظریں ہی نہیں ہٹ رہی تھی آمنہ اور ایزل دونوں ہی وائٹ پاؤں تک آتے سادہ سے فراک پر ریڈ ڈوبٹہ کندھے پہ سیٹ کیے لائٹ سے میک اپ میں حسن کی دیویاں معلوم ہورہی تھی


وہ سب بھی بلیک شلوار قمیض میں کریم کلر کی اجراک اوڑھے کسی ریاست کے شہزادے معلوم ہورہے تھے ۔۔۔۔ ایک ادا سے سیڑھیاں اترتی وہ انکے قریب آئی


اور سٹیج پر پر تری سٹیئر صوفے پر ایک ساتھ براجمان ہوئی انکی چالاکی پر وہ دونوں جل بھن کر رہ گئے جبکہ حازم تو پہلے ہی جلا بھنا بیٹھا تھا شائزہ کی ڈریسنگ اسکے تن من میں آگ لگا گئی تھی اس نے نظریں گھمائی تو سب کو اسکی طرف دیکھتے پایا غصے سے مٹھیاں بھینچتے وہ اٹھا شائزہ کے سامنے چوڑی ہتھیلی پھیلائی جس پہ حیران ہوتے شائزہ نے اپنا نازک سا گلابی ہاتھ رکھتے اسے دیکھا اسکا دل تیزی سے دھڑکنے لگا جب حازم نے اپنی گرد لپٹی اجراک شائزہ کو گرد اس طرح لپیٹا کہ اسکی چولی کمر اور گلا پوری طرح چھپ چکا تھا


آئندہ اس طرح کا لباس پہنے لوگوں کے سامنے آئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھی تم ۔۔۔۔ بظاہر مسکرا کر سخت لہجے میں اسے وارن کرتے وہ واپس جابیٹھا جبکہ شائزہ ابھی تک ویسے ساکت کھڑی اسکی شال سے أتی بھینی بھینی خوشبو کے زیر اثر تھی ایزل نے سیٹی بجائی تو وہ ہوش میں آئی اسے گھوری سے نوازتی اپنی جگہ پر بیٹھی


جبکہ جاناں یعنی ایزل کو سیٹی بجاتے دیکھ امن شاک ہوا جب سے وہ اس سے ملا تھا تو اسے ہمیشہ غصے میں ہی دیکھا تھا لیکن اج وہ کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی ۔۔۔۔ اسے حازم کی بات یاد آئی


تو کیا یہ ایزل ہے بھائی کو جھوٹ کیوں بولا پھر ۔۔۔قصور انکا نہیں ہے ہوبہو جاناں بھابی جیسی ہیں یہ ۔۔۔ امن نے دل میں سوچا اور ایزل کو گھورا جو نظریں جھکائی بیٹھی تھی اس نے میصم سے بات کرنے کے لئے پہلو بدلا جو مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا


ایزل خان ولد شازم خان آپکا نکاح میصم سالار ولد میکال اعظم خان کے ساتھ سکہ رائج وقت دو سو کڑوڑ طے پایا جاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔؟


(تمھاری زندگی تم سے چھین لوگی) قبول ہے ۔۔۔


کیا أپکو یہ نکاح قبول ہے ؟۔۔۔۔


(تمھارے باپ کے کارناموں کا حساب تم دوگے) قبول ہے ۔۔۔۔


کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔؟۔۔۔


(تمھارے خاندان کو ختم کرنا ہی میرا آخری مقصد ہوگا ۔) قبول ہے ۔۔۔۔ نفرت کی آگ لیے وہ نکاح نامے پر سائن کرچکی تھی مولوی صاحب میصم کی طرف مڑے جو مسکرا کر ایزل کو دیکھ رہا تھا اسکے کانوں میں تو بسس ایزل کی قبول ہے ہی گونج رہی تھی


میصم سالار ولد میکال اعظم خان آپکا نکاح ایزل خان ولد شازم خان سے سکہ رائج وقت طے پایا جاتا ہے کیا یہ نکاح آپکو قبول ہے ۔۔۔۔۔


(تمھیں دنیا کی ہر خوشی دونگا) قبول ہے ۔۔۔۔


کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔؟


(تمھاری ہر خوشی میری خوشی تمھارا ہر غم میرا غم ہوگا) قبول ہے ۔۔۔۔


کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔؟۔.


(مرتے دم تک تمہارا ساتھ نہیں چھوڑو گا یہ وعدہ ہے میصم سالار کا اپنی جاناں سے ۔) قبول ہے ۔۔۔۔ تین بار پوچھا گیا اور تین بار ہی بنا نام پر غور کیے وہ ایزل کو دیکھتے قبول ہے قبول ہے بولتا گیا حازم اور امن نے اسے دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی ۔۔۔


کہ میصم دستخط کرتے نکاح نامے کو نہ دیکھے ۔۔۔ اور ہوا بھی وہی وہ جلدی سے نکاح نامے پہ سائن کرتے ایزل کے ساتھ جا بیٹھا دعا کے لیے سب نے ہاتھ اٹھائے دعا مانگتے وہ سب اسے مبارک دینے لگے


امن اور حازم کا نکاح پڑھایا گیا مبارکباد کے بعد حویریہ خان نے کھجور سب میں بانٹی کہ مولوی صاحب شائزہ سے بولے


بیٹا ماشاءاللہ بچیاں تو بہت پیاری ہیں اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے اور تمھیں بہترین ہمسفر سے نوازے ۔۔۔


قاضی صاحب یہی میرا ہمسفر ہے لیکن ہے تھوڑا ڈائناسور ۔۔ حازمم کے ساتھ کھڑی ہوتی وہ اسے چڑاتے بولی جو ابھی تک اسکی ڈریس کو لے کر غصے میں تھا وہاں سے ہٹ گیا


مبارک ہو بیگم صاحبہ اب تو اپ ہماری ہیں تاعمر کے لئے ۔۔۔۔ امن نے آمنہ کا ہاتھ تھامتے کہا جو سنجیدہ تاثرات سے اسے گھورتی اپنا ہاتھ کھینچ گئی ۔۔۔


بیگم کے کچھ لگتے پہلے میرا گفٹ تو دو آخر کو میرا پہلا نکاح ہوا ہے ۔۔۔ اس نے اسکے سامنے نازک سی ہتھیلی پھیلائی جس پر امن نے مولوی صاحب کا لحاظ کیے بنا ہی لب رکھے کہ أمنہ نے گھبراتے ہاتھ پیچھے کیا


بیٹا کوئی شرم لحاظ ہے ۔۔۔ ہمارے زمانے میں تو بزرگوں کے سامنے میاں بیوی ایک چارپائی پر بیٹھنے سے کتراتے تھے اور تم ہو کہ توبہ توبہ ۔۔. مولوی صاحب نے کانوں کو چھوا


مولوی صاحب آپکے کتنے بچے ہیں ۔۔؟۔۔ حازم نے سوالیہ انداز میں پوچھا


ماشاءاللہ سے چھ بچے ہیں میرے ۔۔۔۔


اگر ایسا زمانہ تھا تو آپکے بچے کیسے ہوئے ۔.؟۔۔ مطلب اتنا ٹائم مل جاتا تھا ۔۔۔ امن نے تشویش سے پوچھا تو میصم نے اسے گھورا وہی مولوی صاحب گڑبڑاتے وہاں سے چلتے بنے


امن کچھ تو شرم کرلو مولوی کو بھی تم نے بولنے لائق نا چھوڑا ۔۔۔


یار بھائی آپ ہی دیکھو کب سے دماغ کی دہی بنا رہا تھا ۔۔۔وہ منہ بناتے بولا تو سب نے قہقہ لگایا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


وہ اس وقت ٹیرس پر کھڑی تھی کہ میصم وہاں آیا


ماشاءاللہ آج تو آپ چاند لگ رہیں ہیں ۔۔؟۔۔ ایزل کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے گویا ہوا تو ایزل نے بھاری پلکوں کی جھالر اٹھا کر اسے دیکھا اسے دیکھنا کیا دیکھنا تھا کہ میصم اسکا ہاتھ جھٹکتے پیچھے ہوا بے یقینی سے اس نے ایزل کو دیکھا


تم جاناں کہاں ہے. ۔۔؟ اسکی نیلی آنکھوں کو غصے سے اسکا دل کیا وہ ایزل کا گلا دبا دے جو اسکی جاناں کی جگہ پہ کھڑی تھی ۔۔


نکاح تمھارا مجھ سے یعنی ایزل خان سے ہوا ہے تو میری بہن جاناں سے تمہارا کیا تعلق ؟ ہممم ۔۔۔ سینے پر ہاتھ باندھتے وہ اس پر بم گرا گئی


بکواس بند کرو میرا نکاح نہیں ہوا تم سے سمجھی ۔۔۔۔ وہ غصے سے ڈھاڑا


یاد نہیں ہے کیا کہ نکاح میں نام میرا لیا گیا تھا ایزل خان ولد شازم خان جسکو تم نے دل و جان سے قبول کیا ہے ۔۔۔ اب مکرو تو مت نہ جان ۔۔۔۔ زہریلی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی


دھوکہ دیا تم لوگوں نے مجھے ۔۔۔۔ اسکی گردن کو اپنے ہاتھوں میں دبوچتے وہ غررایا ایزل نے اسکے گردن پر رکھے ہاتھوں پہ ہاتھ مارتے پیچھے کرنا چاہا لیکن وہ گرفت مزید سخت کرتا اسکی جان لینے کے در پر تھا ایزل منہ کھولے سانس لینے کی سعی کررہی تھی نیلی آنکھوں سے آنسو کا دریا بہنے لگا تھا لیکن وہ ظالم آج اسے مار کر ہی چھوڑنے والا کہ کہ پیچھے سے کسی نے اسکا رخ اپنہ جانب کرتے زور دار گھونسا اسکے منہ پر مارا


أیزل کھانستی کھانستی نیچے گری اور لمبی لمبی سانسیں بھرنے لگی اگر وہ نہ آتی تو یقیناً آج اسکا جنازہ نکلنا تھا اس خان ولا سے ۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


آہہہ چھوڑو مجھے کیا بدتمیزی ہے چھوڑو ۔۔۔ وہ جو ابھی خان ولا کے لئے نکلنے لگی تھی کہ ہشاب نے اسکو کلائی سے پکڑ کر گاڑی میں ڈالا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آتے ڈرائیونگ کرنے لگا


گاڑی رکو مجھے۔۔۔۔۔


ہششششش بہت سن لی تمھاری بکواس اب چپ کرکے میرے ساتھ چلو ورنہ ۔۔۔۔ چاقو اسکی گردن پر رکھتے وہ اسکی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑھتے غررایا تو جاناں کی زبان کو چپ لگی


میں نے کیا کیا ۔۔۔ گاڑی ایک حویلی کے سامنے رکی تھی گاٹیکے رکتے ہی وہ جو اسے بازو سے کھینچ کر شاہ حویلی کے اندر لے جاریا تھا اسکی معصومیت بھرے سوال پہ نرم پڑتے اسکی طرف پلٹا جو منہ پھلائے کھڑی تھی


زیادہ معصوم نہ بنو سمجھی جو پوچھو سچ سچ بتانا۔۔۔۔اس نے سختی سے پوچھا تو اس نے سر اثبات میں ہلایا


اس پارٹی میں کیا کرنے گئی تھی ہنہہ۔؟۔۔ لاؤنج میں پڑے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھتے وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا


پارٹی میں کیوں جاتے ہیں ۔؟۔۔۔


میرے سوال کا جواب دو ۔۔۔ وہ اتنی زور کا دھاڑا کہ جاناں صوفے پر جاگری ایک پل کو اسکا دل مانو اپنے بسس میں ہی نہیں تھا


مجھے انویٹسن آیا تھا کس۔کسی بادشاہ کی طرح سے تو میں چلی گئی ۔۔۔۔ وہ لڑکھڑاتی زبان سے آدھا سچ بولی اسے بادشاہ نے ہی تو بلایا تھ ۔۔۔۔ ہشاب حیرانی سے کھڑا ہوا


بادشاہ نے ۔۔؟۔۔ اس نے بلایا اور تم منہ اٹھا کہ چل دی اگر تمھیں کچھ ہوجاتا تو ۔۔ کچھ ہوجاتا تو تمھیں زندہ گاڑ دیتا ۔۔۔۔بات سنو جاناں آیندہ ایسا انویٹیشن آئے بھی تو مت جانا سمجھی یار وہ اچھا آدمی نہیں ہے سننے میں آیا تھا۔۔ کہ اس نے اپنی ہی بیٹی کو ایک رات کے لئے اپنے بھائی کو پیچ دیا تھا جو شخص اپنی ہی بیٹی کو بیچ سکتا تو تم ۔۔۔۔ بسس آئیندہ کہیں بھی جانے سے پہلے مجھے بتانا سمجھی ۔۔۔ جاناں نے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا


بی۔بیٹی کو؟۔۔۔ اس نے جیسے یقین کرنا چاہا تو ہشاب نے اسکے ساتھ بیٹھتے اثبات میں سر ہلایا


اچھا تمھیں ایک خوشخبری دینی ہے آج میرا نکاح ہے ۔۔۔۔ وہ جوش سے بولا لیکن جاناں تو شاید بت بنی بیٹھی تھی اس نے اشارہ کیا تو گارڈ نے نظریں جھکائے شاپنگ بیگ وہاں رکھے اور واپس چلا گیا


جاؤ یہ ڈریس چینج کرکے آؤ جاناں ۔۔۔ جان ۔۔۔ اسے متوجہ نہ پاکر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ اسکا ہاتھ جھٹکتے اٹھ کھڑی ہوئی


کی۔کیا ہوا ؟۔۔۔ اس نے چونک کر پوچھا


یہ لو پانی پیو ۔تمھیں اتنا پسینہ کیوں أرہا ہے طبعیت تو ٹھیک ہے نہ تمھاری ۔۔۔رومال نکال کر اسکی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے وہ فکرمند ہوا تو جاناں نے نفی میں سر ہلایا


میں ٹھیک ہوں بسس گھر جانا ہے ۔۔۔۔


ارے رکو تو ایسے کیسے گھر جانا ہے ہاں میں نے کہا نہ آج اپنا نکاح ہے ۔۔بنا نکاح کیے تو تم یہاں سے جانے سے رہی ۔۔۔۔ وہ اسکی کلائی پکڑ کر صوفے پر گرا گیا جاناں نے نظریں پھیر کر اسے گھوری سے نوازا


میں یوں چھپ چھپا کر نکاح نہیں کرتی ۔۔۔۔ اوکے ۔۔وہ کہتی اٹھی لیکن سامنے کسی عورت اور اسکے ساتھ موجود عالم شاہ کو دیکھ ٹھٹھکی یہ انسان یہاں کیسے ۔؟۔۔۔ اس نے سوالیہ نظروں سے ہشاب کو دیکھا


یہ تمھاری ساس یعنی میری بیوی اور میں تمھارا سسر یعنی ہشاب کا باپ ہوں۔۔۔ عالم شاہ نے تعارف کروایا جاناں پراسرار سا مسکرائی مطلب سارے دشمن ایک ہی علاقے میں ۔۔یا تو یہ بادشاہ کا کوئی پلان تھا یا مافیا گرلز کی قسمت


اسلام وعلیکم آنٹی ۔۔.انکل ۔۔انکل پہ خاصا زور دیتے مسکرائی وہ دونوں خوشی سے آس سے ملے آخر کو اک لوتے بیٹے کی پسند تھی


واعلیکم اسلام ماشاءاللہ بچی تو بہت پیاری ہے بیٹا آپکے ماما بابا کہاں ہیں اور کون ہیں ۔۔۔۔ عالم شاہ نے پیار سے پوچھا


وہ دونوں ہی اس دنیا میں نہیں ہیں ۔۔وہ مصنوعی اداسی سے بولی تو خانم شاہ نے اسے گلے سے لگایا


بیٹی ہم ہیں نہ تمھارے ماں باپ کبھی یہ تمھیں تنگ کرے تو میرے پاس آجانا ۔۔۔۔ وہ اسکا ماتھا چومتے پیار سے بولی


چلو آجاو تمھیں تیار کرو ۔.میرے بیٹے کی دلہن میں خود تیار کرونگی ۔۔۔۔ وہ جاناں کو روم میں لے گئی


آجاؤ تم بھی تیار ہوجاؤ ۔۔۔۔ عالم شاہ نے اسکے کندھے کے گرد بازو پھیلاتے کہا تو وہ انکے گلے لگا


بابا میں بہت خوش ہوں ۔۔ آج وہ میری ہوجائے گی ۔۔یہ دن کتنا خوبصورت ہے نہ ۔؟ ۔۔۔۔


چلو اب ۔۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


خوبصورت سی سجائے گئے لان میں جسکے درمیان ایک چھوٹا سا سٹیج بنایا گیا تھا جس پر دو صوفے پڑے تھے جن میں سے ایک پر ہشاب عالم براجمان تھے اور عالم شاہ مہمانوں کا استقبال کررہے تھے کہ خانم شاہ کے ساتھ وائٹ لہنگے جسکے صرف باڈر پر خوبصورت سی کڑھائی کہ گئی تھی لائٹ میک اپ کے ساتھ نازک پاؤں کھسے میں مقید کیے پائل چھنکاتی آہستہ آہستہ اسکی طرف قدم بڑھا رہی تھی


اسکا ہر بڑھتا قدم ہشاب کی دھڑکنیں تیز کررہا تھا اسکی آنکھیں اسکے خوبصورت سراپے پہ ٹکی تھی بےخود سا ہوتے وہ اٹھا اور اسکے سامنے مضبوط ہتھلی پھیلائی جس پر اس نے نازک مہندی سے سجا ہاتھ رکھا اسکی ہاتھ کی حرکت ہو کہ چوڑیاں بج اٹھی ۔۔۔ ہشاب نے دل پر ہاتھ رکھتے اسے اپنی طرف کھینچا


ہتھیاروں سے لیس ہوکر آپکے ارادے ہمارا قتل عام کرنے کے معلوم ہوتے ہیں جان جی۔۔۔ دلفریب لہجے میں کہتے وہ اسکے لپسسٹک سے سجے ہونٹوں کو دیکھنے لگا جو اسکا کڑا امتحان لے رہے تھے


قتل کرنے کا طریقہ میرا بہت مختلف ہے ۔۔اور تڑپا تڑپا کر مارنا میرا شوق ۔۔۔۔ وہ مسکارے سے بھاری ہوتی پلکیں اٹھا کر آہستہ سے بولی کہ ہشاب تو اسکے گلابی گالوں پہ بنتے ڈمپل پر ہی مر مٹا تھا


ہمھیں أپکے ساتھ آپکا ہر فن قبول ہے ۔۔۔بے خودی میں وہ اسکے گال پر جھکا اسکے ڈمپل کو لبوں سے چھوتے سرگوشی کی کہ اابکی بار جاناں نے گھبرا کر اسے پیچھے کیا اور چور نظروں سے سبکی طرف دیکھا جو دلچسپی سے انہیں دیکھ رہے تھے


بیٹا ابھی نکاح نہیں ہوا ۔۔۔ خانم شاہ نے مسکراہٹٹ دباتے کہا تو وہ اس سے دور ہوا


مجھ پر گیا ہے نا بیگم ؟۔۔۔ عالم شاہ نے مسکرا کر پوچھا تو خانم شرما کر انہیں گھوری سے نوازتے مولوی صاحب کو نکاح پڑھانے کا بولا


جاناں خان ولد شازم خان أپکا نکاح ہشاب عالم شاہ ولد عالم شاہ سے سکہ رائج وقت پانچ ہزار کروڑ طے پایا جاتا ہے کیا أپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔؟ مولوی صاحب نے جاناں سے پوچھا جو عالم شاہ کو مسکراتے دیکھ رہی تھی اس نے ہشاب کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھے جا رہا تھا


قبول ہے (میری کوشش ہوگی کہ تم مجھ سے نفرت کرو) ۔۔۔


کیا أپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔۔۔


قبول ہے ۔۔(میری سچائی تمھیں کبھی معلوم نہیں پڑنے دونگی )


کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ۔۔؟


قبول ہے (تمھارا باپ میرا دشمن ہے لیکن تم نہیں اگر تم ہمارے بیچ ائے تو تمھیں بھی نہیں بخشو گی ۔)


ہر ایک بول کے ساتھ وہ ایک وعدہ خود سے کرچکی تھی کیا یہ اسکے وعدے پورے ہوگیں یا اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلا بسے گی ؟ کیا وہ اسے خود سے نفرت کرنے پر مجبور کر پائے گی؟ کیا اسکا مقصد میں کامیاب ہوپائے گی ؟؟؟ نکاح نامے پت سائن کرواتے قاضی صاحب ہشاب کی طرف مڑے


قبول و دعا کے بعد مبارکباد کا سلسہ جاری ہوا سب ہی اسے مبارکباد دے رہے تھے جاناں کے چہرے پر عجیب سی چمک آئی تھی


بابا۔۔۔۔ مبارک نہیں دینگے اپنی بہو کو ؟۔۔۔ جاناں نے طنزیہ مسکراہٹ سے عالم شاہ کو دیکھا جو ساکت کھڑے تھے کیا جاناں شازم یعنی بادشاہ کی بیٹی تھی ؟ کیا اسکی بربادی اب شروع ہوچکی تھی ؟ کیا ہونے والا تھا ؟ سب اس سے انجان تھے۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞

کیوں جلے بھنے بیٹھے ہو ؟۔۔۔ شائزہ نے منہ بنا کر بیٹھے حازم سے پوچھا حازم نے غضے سے اسے دیکھا جو ابھی تک اسکی ہی شال میں تھی اور غصے سے اسکو بازو دبوچتے دیوار کے ساتھ پن کرگیا شائزہ نے ناسمجھی سے اسکی لال انگارہ آنکھوں میں دیکھا


کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔ اسکے سینے پہ ہاتھ دھرتے اسے پیچھے کرنا چاہا لیکن وہ فولاد جیسا مضبوط انسان نہ ہلا


یہ بدتمیزی لگ رہی ہے تو یہ گھٹیا لباس کیوں پہنتی ہو ہال میں سبکی نظریں تم پر تھی ۔۔۔۔ تمھارے پاس کوئی ڈھنگ کا لباس نہیں ہے ۔۔۔۔اسکے بازو پہ گرفت سخت کرتے وہ غراریا شائزہ کو بھی اپنی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی محسوس ہوں تھی وہ مچلی


میری مرضی میں جو پہنو تمھیں کیا ۔۔۔۔۔


مجھے کیا ؟ مجھے بہت کچھ ہے دل جلتا ہے میرا جب کوئی تمھیں دیکھتا ہے دل کرتا ہے پہلے دیکھنے والے کو جان سے مار دوں پھر تمھیں ۔۔۔ ایک ہاتھ سے اسکا منہ دبوچتے وہ دانت پیس کے گویا ہوا


اگر دل جلتا ہے تو د۔دیکھائی کیوں نہیں دیتا ؟ ویسے کس چیز سے جلتا ہے مرچی سے یا آگ سے ۔؟۔ اس نے تشویش سے پوچھا جیسے سب سے ضروری بات ہی یہی ہو ۔۔۔۔


جس دن تمھیں اس دل میں لگی آگ میں جلایا تو خود دیکھ لینا کہ آگ ہے یا مرچی ۔۔۔۔ اسکے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے اسکا لہجہ بھاری ہوا شائزہ نے چونک کر اسے دیکھا اور اسکی ڈھیلی گرفت سے نکلتی ٹیرس کی طرف بھاگی


وہ جو پہلی بار اسکو اپنے قریب دیکھ رہا تھا اسکے بھاگنے پر ہوش میں آیا اور اسکی پشت کو گھورا جس پر بال لہرا رہے تھے


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


دماغ ہل گیا ہے تمھارا اگر میری بیٹی کو کچھ ہوجاتا تو تمھاری جان نکال لیتی ۔۔۔ وہ جو مہمانوں کو الوداع کرتے ان سبکو بلانے آئی تھی کہ میصم کو ایزل کی گردن پر ہاتھ دیکھ انکی آنکھیں پھٹی جلدی سے آگے بڑھتے اسکا رخ اپنی جانب کرتے وہ اسے تھپڑ جڑتی چیخی ایزل انکت گلے لگی لمبے لمبے سانس بھر رہی تھی


اسے مر ہی جانا چاہیے اس نے دھوکہ دیا ہے مجھے میرا نکاح میری جاناں سے ہونا تھا لیکن یہ وہاں ادکی جگہ آگئی ۔۔.وہ سرخ أنکھوں سے چیخا تو ایزل نے بھیگی آنکھوں سے اسے گھورا


دھوکہ نہیں دیا تم جاہل انسان تمھیں چاہیے تھا نکاح نامے پر دیکھ کر سائن کرتے الو اب مجھ پر چلا رہے ہو ۔۔۔۔ وہ غصے سے چلائی


جاناں کہاں ہے ۔۔.کہاں ہے وہ ؟۔۔۔۔ وہ حلق کے بل چیخا تو نیچے موجود ارسل ارسلان آمنہ آمن شائزہ اور حازم اوپر کو بھاگے


انہیں معلوم ہوگیا کہ ایزل جاناں نہیں ہے ۔۔۔۔ امن نے گہری سانس بھرتے کہا


کیا مطلب انہیں معلوم نہیں تھا تو نکاح کیوں کیا منع کردیتے ؟ أمنہ نے کہا تو اس نے کندھے اچکائے کہ میں نہیں جانتا ۔۔۔


جیسے تم لوگوں نے کیا ہے ویسے تو وہ کبھی نہ تم سے شادی کرتی ۔۔۔شائزہ نے آنکھیں گھمائی اتنے میں اسے پائل اور چوڑیوں کی آواز سنائی دی وہ سب مڑے سامنے دیکھا جہاں جاناں وائٹ لہنگے میں سجی سنوری کھڑی تھی آج اسکے چہرے پر مسکراہٹٹ تھی وہ تینوں اسکے پاس آئی


ماشاءاللہ سولہ سنگھار مبارک ہو۔۔ شادی مبارک ۔۔۔منہ نے اندازہ لگاتے کہا تو وہ سب شاک ہوئے


تم شادی کیسے کرسکتی ہو ہاں یہ نکاح نہیں مانتا میں تم میری ہو۔۔۔ میصم نے جاناں کو گھورتے کہا تو جاناں نے اسے گھورا


وہی سب کررہے ہو تم بھی جو تمھارے باپ نے کیا ۔۔۔۔ جانان نے کوفت سے کہا


کیا کیا میرے بابا نے جو آپ لوگ انہین کوسے جارہے ہو ؟ حازم آگے آیا


اتنی ہمت ہے کہ سن سکو ۔۔۔تو سنو ۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کیا ہوا بابا ؟۔۔۔۔۔ ہشاب نے انکے پاس آتے پوچھا جو بسس جانان کو تکے جارہے تھے اسکے ہلانے پہ ہوش میں ائے


کچھ نہیں وہ ہماری ب۔بیٹی اتنی پیاری لگ رہی ہے کہ نظر ہی نہیں ہٹ رہی ۔۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولے لیکن لفظ بیٹی پہ اٹکے تو جاناں مسکرائی اسکی بولی میں وہ بھی تو شامل تھے


تم لوگ انجوائے کرو مجھے تمھاری ماں بلا رہی ہے ۔۔۔ وہ کہتے وہاں سے جاچکا تھے کہ ہشاب نے اسکی چوڑیوں سے بھری کلائی پکڑی اور اپنے ساتھ اپنے روم میں لے آیا جو اسکی پسند سے سجا ہوا تھا


کیسا لگا میں نے خود ڈیکوریٹ کیا ہے ۔۔۔۔ ہشاب نے اسکے من موہنے چہرے کو نظروں کے ذریعے دل میں اتارتے پوچھا


امممم اچھی ہے لیکن اگر اسکا رنگ کالا ہوتا تو زیادہ اچھی لگتی ۔۔۔ جاناں نے سارے کمرے میں نظریں دوڑاتے کہا تو وہ اسکو پیچھے سے اپنے حصار میں لیتے اسکی گردن میں منہ چھپا گیا


اب آپ میری لائف لائن بن چکی ہیں جان ۔۔۔ میں چاہتا ہوں یہ سیاہ رنگ آپکی زندگی سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجائے ۔۔۔۔آپ جہاں جائیں وہاں اپنے ہر طرف خوشیوں کے انیک رنگ پائیں ۔۔۔۔ میں آپکو دنیا کی ساری خوشیاں سارے رنگ آپکی جھولی میں ڈال دوں۔۔۔۔ سرگوشی میں ہلتے اسکے لب اسکی گردن پر مس ہوئے تو جاناں نے اسے جھٹکے سے پیچھے کہا نجانے کیسا احساس تھا


گھبراہٹ کے مارے اسکے ماتھے پر ننھے ننھے پانی قطرے تھے گال کو پہلے گلابی تھے اب لال انار بن چکے تھے وہ حیران تھی اسکے اندر یہ کیا تبدیلی ہوئی تھی


آپ شرماتی بھی ہیں ؟ ہشاب حیران ہوا اسے اندازہ بھی نہ تھا کہ اسکی لائف لائن شرماتی بھی ہے ۔۔۔۔ جاناں نے اسے گھورا


میں شرما نہیں رہی تمھاری ۔۔۔!


بات سنے جان ۔۔.جب آپکے چھوٹے ہوتے ہوئے بھی میں آپکو آپ کہہ کت مخاطب کررہا ہوں تو میں تو آپ سے عمر میں بڑا ہوں تو أپکو چاہئے کہ اپ بھی مجھے آپ کہہ کر مخاطب کریں ۔۔۔۔بازوں سے تھام کر اپنے قریب کرتے وہ مدھم مگر گمبھیر لہجے میں گویا ہوا


جاناں کا خوبصورت سراپہ اسے مدہوش کررہا تھا اب تو وہ اسکی محرم تھی وہ حق رکھتا تھا اس پر ۔۔بے خودی مین وہ اسکے ہونٹوں پہ جھکا


اسکے لب جاناں کے کے لبوں سے ٹکرائے کہ جاناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹٹ ہوئی اس نے پیچھے ہونا چاہا لیکن ہشاب نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر گرفت مضبوط کر اسے خود میں انڈیلنے لگا


جنگلی انسان ۔۔۔۔اسکے سینے پہ نازک ہاتھوں کا دباو دیتے وہ اسکے پاؤں پہ اپنی ہائی ہیل کھبونے لگی جسکا اس پر اثر نا ہوتے دیکھ وہ اسکے ہونٹوں پہ اپنے دانت گاڑ گئی کہ وہ ہوش میں آتے پیچھے ہوا اس نے بڑبڑاتے اسے دھکا دیا جس سے وہ انچ بھر بھی نہ ہلا کہ جاناں لہنگا ہاتھوں میں اٹھاتے باہر بھاگی اسکی بجتی پائل اور چوڑیوں کہ چھنکار سے پورا کمرہ گونج اٹھا


ہائے یہ دلنشیں ادائیں ۔۔۔۔ وہ دل پہ ہاتھ رکھتے بیڈ پہ گرا


........................


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


ماضی


مالک مالک اگر میری زمین چلی گئی تو میرے بچے بھوکے مر جائیں گے مالک مجھ پر ظلم نا کرین مالک میری محنت بیکار جائے گی مالک ۔۔۔۔ وہ آدمی اعظم خان کے پاؤں میں پڑا گڑگڑا رہا تھا جو اسکی فصل سمیت ساری زمین ہڑپ چکا تھا


تم لوگ کونسی محنت کرتے ہو ہاں صرف بیج بوتے ہو اور آسمان سے بارش آتی ہے اور زمین سے فصل نکلتی ہے اس میں تمھاری محنت کہان ہیں ہاں؟۔۔۔۔ ہاتھ ہلا کر کہتے وہ مغرور ظالم انسان خود کو خدا سمجھنے لگا (نعوذوباللہ)


مالک رحم کریں مالک ۔۔۔۔ وہ گرگڑایا سب لوگ کھڑے انکا تماشہ دیکھ رہے تھے ایک طرف وہ چاروں بھائی وہاں پڑی کرسیوں پر براجمان تھے درمیان میں رکھی کرسی پر وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے مغرور لہجے میں گویا ہوا


بابا اگر وہ اتنا کہ ہی رہا ہے تو مان لیتے ہیں لیکن ہمادی ایک شرط ہے تیری زمین تجھے واپس مل جائے گی لیکن اسکے بدلے میں اپنی بیوی کو ہمارے حوالے کرنا ہوگا ۔۔اب مرضی تیری ہے زمین چاہیے یا بیوی ۔۔۔ میکال نے اسکی بیوی کو دیکھتے سینے پر ہاتھ ملتے کہا تو وہ آدمی گھبرایا


نہیں مالک مجھے زمین نہیں چاہئے آپ کی زمین ہے وہ ۔۔۔۔ ہاتھ جوڑ کر روتے وہ آدمی وہاں سے اٹھا اور اپنی بیوی کو لیتے گاؤں کی طرف بڑھا


سمجھدار لگتا ہے ۔۔۔۔ میکال نے مسکرا کر کہا


مجھے فخر ہے تم پر ۔۔۔۔اعظم خان نے اپنے بیٹے کا کندھا تھپتپاتے کہا کہ ایک گولئ اسکا سینہ چیرتی نکل گئی اس اچانک ہوئی افتادا پہ کوئی نہ سنبھالا کہ دوسری گولی انکے ماتھے پر لگی اور وہ میکال پر گرے گاؤں میں بھگدڑ مچی وہ تینوں بھائی حیرانی سے اپنے باپ کا بےجان وجود دیکھ رہے تھے کہ شازم ہوش میں آتی ریفل آٹھائی اور اس جیپ کے ٹائر پر گولی چلائی


کس نے بھیجا ہے تجھے بول سالے بول ؟۔۔۔ اسکے قریب پہنچتے وہ اس آدمی کے منہ پہ مکہ جڑتے غراریا


عالم شاہ ۔۔۔۔۔ اس نے مختصر جواب دیا اور اسکے منہ سے جاگ نکلنے لگا کہ شازم نے اسے جھٹکے سے پیچھے پھینکا جو تڑپ تڑپ کر مر رہا تھا عالم شاہ سے انکی دشمنی چند سال پہلے ہوئی تھی جب عالم شاہ کا باپ انکے گاؤں میں محبت پھیلانے آیا تھا کہ اعظم خان نے انہیں سبکے سامنے ہی جان سے مار دیا تھا اور اسکی لاش کو شاہ حویلی کے باہر پھینک دیا تھا عالم شاہ دل میں نفرت کی آگ لیے ہوئے اندر ہی اندر جل رہا کہ کب وہ سب اکھٹے ہوں اور وہ اعظم خان کو موت کے گھاٹ اتار سکے آج اسے موقع مل ہی گیا تھا


اسکی تو (گالی) ۔۔چھوڑو گا نہیں کمینے کو ۔۔۔ عباس تیش میں کہتے جیپ کی طرف قدم بڑھائے


عباس رک جاؤ اب مرگئے تو مرگئے انہوں نے مارا تھا تو مر گئے بسس تم لوگ اب کوئی پڈھا مت ڈالو بلکہ اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ تاکہ ہمھیں بھی کچھ فائدہ ہو سنا ہے اسکا تعلق بدمعاشوں سے ہے ۔۔۔۔۔ شازم نے کہا تو وہ تینوں اسے حیرت سے دیکھنے لگے پھر بات کو سمجھتے مسکرائے اور اپنے باپ کی طرف بڑھے


۔.................................................


تدفین کے بعد وہ شاہ حویلی آئے تھے جہاں عالم شاہ کے گارڈز نے انہیں بندوقوں سے گھیر لیا تھا


تمھاری اتنی مجال کہ میرے گاؤن میں قدم رکھ لیا کیا زندگی پیاری نہین ہے تمھیں ۔؟؟ عالم شاہ نے بالکنی میں کھڑے ہوکر نیچے دیکھا جہاں وہ گارڈز سے گھرے تھے


ہم تو دوستی کا ہاتھ ملانے آئیں ہیں ۔۔.میکال نے کہا


دوستی وہ بھی اپنے باپ کے قاتل سے ناممکن ۔۔۔۔ عالم غراریا ۔۔۔ تو شازم نے آن سبکو اشارے اشارے میں کچھ کہا


تو ٹھیک یے تم دوستی نہ کرو لیکن کام کے لئے تمھیں مجھ سے ہاتھ ملانا ہی پڑے گا۔۔ کیونکہ تم اچھے سے جانتے ہو کہ ہماری زمین سونا ہے سونا۔۔جسکی تمھیں اشد ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ وہ چالاکی سے بولا جانتا تھا اب عالم منع نہیں کرپائے گا اور وہی ہوا وہ مان گیا


ہمم ٹھیک لیکن میری تمھاری دوستی نہیں ہوگی بسسس کام میں میں تمھاری اور تم میری مدد کروگے ۔۔۔۔ گارڈز کو گن نیچے کرنے کا اشارہ کرتے وہ سنجیدگی سے بولا تو شازم مسکرایا


تم بنا کسی اپنے فائدے کے تو یہاں آؤ گے نہیں تو بتا2 کیا چاہیے بدلے میں ۔۔؟ لائنج میں بیٹھتے عالم شاہ نے پوچھا وہ جانتے تھے اس مطلبی شخص کو


ہممم جن لوگوں سے تمھارا تعلق ہے ان سے ملنا ہے انکے ساتھ کام کرنا ہے ۔۔۔شازم نے مسکرا کر کہا تا عالم نے سر اثبات میں ہلایا اور اسے جانے کا اشارہ کیا


..............


دن ہفتے پھر مہنوں میں گزرے ان کچھ مہنوں میں انڈرورلڈ سے انکے تعلقات مضبوط ہوگئے تھے وہ لوگ گاؤں خالی کرواکر بیچ چکے تھے جہاں پہلے آبادی تھی وہی اب فیکٹریز بن رہی تھی وہ سب ایک عام انسان کہ طرح رہنے لگے تھے عیاشی کے لئے کوٹھے پہ جاتے جہاں سے لڑکیاں انڈرورلڈ کے لوگوں پاس جاتی تھی


ایک رات اسمگلنگ کرتے ہوئے شازم کو گولی لگی تو بدقسمتی سے جویریہ جو وہاں کی ڈاکٹر تھی انہون نے, شازم کا علاج کیا جب جویرہ شازم کو پسند آئی تھی پھر وہ زور ہوسپیٹل اتے بہانے بہانے سے جویرہ اکیلی تھی اسکے گھر میں صرف اسکی ایک بہن تھی جو کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ چکی تھی


وہ شازم کا زور آنا محسوس کرتی تھی ایک جب شازم نے انہیں پرپوز کیا تو جویریہ نے ہاں کردی اتنا خوبرو انسان بھلا وہ کیسے منع کرتی مسجد میں نکاح ہوا شازم انہین اپنے گھر لے گئے سال گزر گئے شازم جویرہ کی جاب چھڑوا چکا تھا جویرہ کو آمنہ اور شائزہ کے پیدا ہونے کے بعد پتہ چلا کہ شازم کے تین بھائی بھی ہیں لیکن وہ ان سے کبھی ملی نہیں تھی تین سال کی شائزہ کے بعد جاناں اور ایزل پیدا ہوئی


شازم آپ نے کبھی اپنے بھائیوں سے نہیں ملوایا ؟ جویرہ جو کب سے پوچھنے کا سوچ رہی تھی کہ رات کے کھانے پر انہوں نے پوچھ ہی لیا


آبھی لو ابھی ملوا دیتا ہوں ۔۔۔ شازم نے پیار محبت سے کہا تبھی انکے گھر کی بیل بجی گارڈز کے دروازہ کھولنے پر کچھ لوگ اندر آئے


بھابی ۔۔۔جی نے یاد کیا ہم حاضر ہیں ۔۔۔۔ میکال نے اپنی وائف کے ساتھ اندر اتے کہا جویرہ مڑی تو انہیں زور دار جھٹکا لگا انکی بہن ۔۔۔ میکال کی بیوی


تم ۔۔؟ انکا حال بھی کچھ الگ نہ تھا


میں جانتا ہوں کہ أپ دونوں شاک ہیں اسی لیے ہم آپکے سامنے نہیں آتے تھے ۔۔میکال نے کہا تو اس نے نظریں پھیر کر ہشمت اور عباس کو دیکھا جو گہری نظروں سے شائزہ کو گھور رہے تھے


چلو بچوں تم جاؤ۔۔روم میں ۔۔ اس نے امنہ سے کہا جو شائزہ یو لیتی وہاں سے چلی گئی عباس نے منہ بنایا وہ پھیکا سا مسکراتی انکی وائف کے ساتھ کچن کی جانب چل دی تاکہ کچھ بنا کر کھلا سکے


یہی ہے جاناں ۔۔بھائی جیسی خوبصورتی ویسا نام سبکی جان نکال لینی اسکے حسن نے ۔۔دو ماہ کی جاناں کی کالی خوبصورت آنکھیں دیکھ ہشمت نے کہا تو شازم کا قہقہہ گونجا


بیٹی کسکی ہے ؟انکا لہجہ فخر میں ڈوبا ہوا تھا


کمال کرتی ہو جیری تمہیں تو بدمعاشی پسند نہیں تھی اور یہاں تم نے بادشاہ سے ہی شادی رچا لی ۔۔طنزیہ لہجے میں استفسار کرتے وہ منہ بنا گئی


کون بادشاہ میری شادی شازم سے ہوئی ہے۔۔۔ جویرہ نے ناسمجھی سے پوچھا


اتنی بھولی مت بنو تم جانتی ہو شازم ہی بادشاہ ہے پھر بھی ناٹک سے باز نہیں آرہی ۔۔۔۔ وہ کوفت سے بولی اور چائے اٹھاتی کچن سے نکلی جویرہ تو بت بنے کھڑی تھی شازم اور بادشاہ بے یقینی سے قدم باہر کی جانب اٹھے جہاں انکی بیٹی کی قیمتیں لگائی جارہی تھی


ویسے بھابی بھی بہت مست ہے یار ۔۔۔۔


چٹاخخخخ۔۔۔ تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے اور میری بیٹیوں کے بارے میں یہ غلاظت بکنے کی ہاں ۔۔۔۔ ایک ساتھ دو کرارے تھپڑ جڑتے وہ چیخی کہ ہشمت نے بازو سے دبوچ کر باہر کی طرف دھکا دیا


ہشمت ۔۔.شازم غراریا


خیرہ جان وہ بسس مزاق کررہا آپ یہاں آئیں۔۔۔۔شازم نے پیار سے کہا


کمینی بدزات (گالی) ۔۔۔۔ عباس نے گندے الفاظ میں کہتے چیخا کہ تیز آواز پر جاناں ااور ایزل رونے لگی


شازم ۔۔۔ حیرت بےیقینی سے انکے لب سرگوشی میں ہلے جسے وہ تعریف کہہ رہا تھا وہ انکی نظر میں انکے منہ پر بے عزتی کے تھپڑ مار رہا تھا بھلا ایک عورت اپنے بارے میں غلیظ لفظ کیسے سن سکتی ہے ۔۔۔.


میری بچیاں ۔۔۔ وہ جانان کو اٹھانے کے لئے بڑھی لیکن میکال کی بیوی نے اسے اٹھا لیا اور طنزیہ مسکراہٹ سے انکو دیکھا جو ایزل کو جھپٹ چکی تھی


یہ بچی میری ہے مجھے دو۔یہ معافی مانگ لے حا خیری میری جان پلیزز۔۔ شازم نے ہاتھ پھیلاتے جویریہ سے بچی مانگی وہ نہ میں سر ہلاتے پیچھے کو قدم بڑھانے لگی


میں اپنی بچی نہیں دونگی ۔۔۔ وہ نفرت سے پھنکاری اور دروازہ کے پاس پہنچتی آٹو لاک لگاتی باہر ہوئی اس سے پہلے کہ وہ لوگ دروازے سے نکلتے کہ دروازہ بند ہوگیا لوہے کا بھاری دروازہ آٹو لاک کرنے پر آدھا گھنٹے تک مشکل سے کھلتا تھا وہ نارمل ظاہر کرتی گارڈز کے سامنے ہنستی باہر کو بڑھئ حویلی سے نکلتے ہی ایزل کق سینے میں بھینچ کر دوڑ لگادی اور اپنے سوتیلے باپ جنہوں نے اسے پالا تھا اسکے گھر پہنچی وہ بہت امیر ہستی تھے ماں سے پیسے لے کر وہ اپنی ٹکٹ بک کرواتی لندن جانے کی تیاری کرنے لگی


بھاگنی نہیں چاہیے ڈھونڈو اسے اور دروازہ کھولو۔۔شازم سیکوڑٹی ہیڈ کو کال کرتے دھاڑا اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔ نجانے کیوں انہیں جویریہ کا جانے سے اپنے اندر کچھ کمی سی معلوم ہورہی تھی ۔۔۔۔یہ پہلا جزبہ تھا جو انہوں نے پہلی بار محسوس کیا تھا ۔۔۔


بھائی جب یہ بڑی ہوگی تو ایک رات کے لئے میری ۔۔۔۔ میکال نے جانان کے گلابی نازک ملائم گال چھوتے کہا


اپنی بکواس بند کرو۔۔۔۔ شازم جو جویرہ کی ٹینشن میں تھا جاناں کو اس سے چھیننے سے انداز میں لیتے ملازمہ کو پکڑایا اور خیال رکھنے کا کہتے باہر کو بھاگا تاکہ جویرہ کو ڈھونڈ سکے


میری بچیوں مجھے معاف کرنا لیکن وعدہ رہا میں جلد ہی تمہارے پاس لوٹوں گی ۔۔۔.آمن وغیرہ کو سوچتے وہ بھیگے لہجے میں بولی اگر یہاں رکتی تو یقیناً یہ لوگ اسے بیچ دیتے اور اسکی بیٹیوں کو بھی بیچ دیتے ۔۔جو وہ ہرگز نہیں ہونے دینا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔بادشاہ کے گارڈز پاگلوں کی طرح انہیں شہر کی گلی گلی ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ تو لندن جاچکی تھی


آٹھ سال گزر گئے جاناں بھی آٹھ سال دو ماہ کی ہوچکی تھی گول مٹول سی نازک گلابی گلابی گڑیا سبکا دل بےایمان کرتی تھی میکال جو شروع سے ہی اس پہ گندی نظریں گاڑے بیٹھا تھا بسس موقع ملنے کی دیر تھی وہ اپنا شکار کرلیتا


انکے تین بیٹے تھے میصم حازم اور امن جنکو وہ بہت پیار کرتے تھے


کہ ایک بھیانک کالی رات آئی شازم خان میٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا موقع کو غنیمت جان میکال نے اپنے بھائیوں کو اپنے ارادے سے خبردار کرتے آمنہ اور شائزہ کو ملازمہ کے ساتھ آئسکریم کھانے بھیج دیا اور خود سوئی ہوئی جاناں کی طرف بڑھے لائٹ اف کرتے وہ اسکے گالوں کی نرماہٹ محسوس کرنے لگے


کو۔کون بابا ۔۔۔ جاناں نے اٹھ کر چینجنگ پوچھا لیکن اندھیرا دیکھ اسکی جان حلق میں آئی کہ اپنے جسم پت رینگتا بچھو جیسا لمس وہ تڑپ کر پیچھے ہوئی


بابا آہہہہ بابا بچاؤ۔۔۔۔ وہ درندہ اسکی چیخوں کو انجوائے کرتا اسکی سانس بند کرگیا کہ جاناں مرنے جیسی ہوگئی


ھ۔چھوڑو مجھے ماما بچاؤ۔ؤ ۔۔۔۔ ایک نازک سی بچی اندھیرے میں خود پر شیطان نما انسان کی گرفت محسوس کرتے بن پانی کے مچھلی کہ طرح تڑپنے لگی تھی لیکن وہ شیطان صفت انسان ہر چیز سے لاپرواہ آنکھوں میں ہوس لیے اسکے نازک وجود کو دبوچے کھڑا تھا اک اندھیرا اور شیطانی گرفت اسکا دل شدت سے دعا گو تھا کہ اسکا سپر ہیرو آجائے اسے بچانے


تم بہت خوبصورت ہو میں عاشق ہوں تمھارے حسن کا۔۔ تمھیں دیکھ کر ہی میرا دل نشے میں جھوم جاتا ہے ۔۔۔۔۔ ہوس بھرے لہجے میں کہا گیا


چھوڑو کون ہو ؟؟ بابا ۔۔ اسکی چیخیں گونجی تھی


میں کون ہوں ؟؟ تمھارا عاشق ۔۔۔۔۔ اتنا کہتے وہ شخص اپنی درندگی دیکھانے کے لئے اسے اپنے ساتھ کھینچ کر لے جانے لگا وہ روتی گڑگڑاتی دہائیاں دیتی مدد مانگنے لگی لیکن وہاں سننے والا کوئی نہ تھا جو تھا وہ کسی شیطان سے کم نہ تھا


اسکے دوست ارسل جو اسے اپنے گھر بلانے ایا تھا کہ اسکی چیخوں کو سنتے ڈر کر گھر بھاگا اور رونے لگا ارسلان جو اس سے بڑا اور کافی سمجھدار تھا


کیا ہوا سلو؟ اس نے پیار سے پوچھا


سلمان وہ وہ جان چیخ رہی ہے بچاؤ بچاؤ کہہ رہی ہے مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔. وہ سہم کر بولا کہ اسکی یہ بات اسکی ماں نے سن لی اپنے شوہر کے ساتھ وہ حویلی داخل ہوئی اور جاناں کی ہولناک چیخیں سنتے وہ جلدی سے کمرے میں بھاگے سامنے کا منظر قیامت سے کم نہیں تھا وہ دردندہ اس پر جھکا اسے نوش رہا تھا


ارسل کے والد نے اسے جو پہلے ہی وہاں موجود فوج کو کال کرچکے تھے وہ وہاں آئی میکال کو گھسیٹ کر پیچھے کرتے انہوں نے بلک بلک کر روتی جاناں پر چادر اوڑھائی اور میکال کو کالر سے گھسیٹ کر باہر لے گئے ارسل کی والدہ نے شازم کو کال کی اور جاناں کو گلے لگا گئی


اگر وہ وقت پر نہ اتی تو کیا ہوجاتا ۔۔۔۔ أمنہ اور شائزہ واپس ائی اتنے سارے لوگون کو دیکھ جاناں کا خیال آیا وہ آئسکریم پھینکتے اسکے روم میں بھاگی جہاں ڈاکٹر اسکا چیک اپ کر رہی تھی میکال کو جیل بھیج دیا گیا تھا اس دن سے جانان نا تو ہنستی تھی نہ روتی تھی بسس سنجیدگی اور غصہ اسکی شخصیت کا خاصہ بن چکا تھا


شازم واپس آئے تو ملازمہ نے اسے بتایا شازم کا دل پھٹنے کو آیا اپنی بیٹی کی حالت سوچ وہ اسے دیکھنے کو تڑپنے لگا روم میں گیا جہاں وہ پہلے سے کمزور ہمہ وقت رہنے والا گلابی چہرہ زرد ہوچکا تھا


سوری بچہ آئی آئم سو سوری میں تمھاری حفاظت نہ کر پایا پلہز معاف کردو اپنے بابا کو چھت کو دیکھتی جاناں کو خود میں بھینچتے وہ رونے لگے جاناں نے بےتاثر نگاہوں سے انہیں روتا دیکھا


روئیں مت ڈیڈ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی


بچے میری جان بابا بولو نہ ۔۔۔. شازم تڑپ ہی تو اٹھا تھے ڈیڈ لفظ پر وہ جب ان سے شدید ناراض تو ہی انہیں ڈیڈ کہا کرتی تھی ۔۔۔ انکا دل اسکی حالت پہ خون کے آنسو رو رہا تھا


مجھے معاف کردو ۔۔۔۔میری جان ۔۔۔ وہ اسے گلے لگاتے رونے لگے وہ تو اپنی بیٹیوں کو سب سے دور رکھنا چاہتے تھے انہیں ایک نارمل لائف دینا چاہتے تھے جاناں کو سلاتے وہ جیل گئے جہاں میکال کو رکھا گیا تھا


بھائی پلیز یار یہاں سے نکال لیں ۔۔۔۔ میکال نے نارمل لہجے میں کہا کہ ایک پولیس والا شازم کے اشارے پر وہاں قیمے والی مشین لے آیا تھا ۔۔۔۔۔


نجانے وہ کیا کرنے والا تھا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


اور رہی سہی کسر تم نے ہماری قیمت لگا کر پوری کردی ۔۔۔۔ وہ آنکھوں میں نفرت لیے گویا ہوئی تو امن نے شاک سے اسکے لہجے کو دیکھا اسکی آنکھوں میں نفرت دیکھ اسے دھچکا لگا


جمیں بھلا کیوں تمھاری بولی لگاؤں گا بھلا کوئی اپنی عزت کو بھی بیچتا ہے ؟۔۔۔ محبت سے زیادہ میں تمھاری عزت کرتا ہوں بھلا میں کیوں ایسا کرونگا جس سے تمھیں ہرٹ ہو۔۔۔۔ اگر تمھیں یقین نہیں تو اس یو ایس بی میں ثبوت ہے دیکھ لو۔۔۔ یو ایس بی اسکے سامنے کرتے وہ بولا جو جویریہ خان نے لی اور لیپ ٹوپ میں لگاتی ویڈیو چلائی


مجھے نہیں ٹرسٹ ان پر ۔۔۔۔شائزہ نے غصے سے کہا


اووو بی بی مت کرو ٹرسٹ ہم بھی نہیں مررہے تمھارے ٹرسٹ کے لئے ۔۔۔۔ اسکا لہجہ حازم کو آگ لگا گیا اسی لیے وہ بھی سختی سے بولا تو شائزہ بازو چڑھاتے آگے بڑھی لیکن جاناں کی گھوری پہ رکی


پلیز نٹی آپ ہی کچھ سمجھائے انہیں ہماری تو شادی ہوچکی ہے میں بھلا میں اپنی ہی بیوی کو کیوں تکلیف دونگا ۔۔۔امن جویریہ کے پاس پہنچا


شادی۔۔ہاہاہا جب تم ہی نہ رہے تو کہاں کی شادی کیسی شادی ۔ہممم؟ ۔۔۔۔ آمنہ نے امن پر نظریں گھاڑتے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا تو ابکے عہ تینوں ہی ساکت ہوئے


لیکن کیوں ہم پروف کرچکے ہیں ہم بےقصور ہیں۔۔۔ ابکی بار میصم سخت لہجے میں بولا


کیونکہ تمھارے باپ کا کیا تم بھگتو گے وہ تو مرگیا لیکن تم لوگ تم لوگ نہیں بچو گے ہم سے ۔۔۔۔ ایزل چیخی


حیران ہو؟ ۔۔۔میری بہن کو دیکھا ہے ۔۔ اس کی خاموشی کی وجہ اور کوئی نہیں تمھارا باپ ہے ۔۔.۔ اس نے ایک رات کے لئے خریدا تھا اسے ۔۔۔۔ ایزل کہتے ہی رو پڑی وہ بھائی تو جیسے طوفانوں کی زد میں تھے اسکی محبت اسکے ہی باپ نے ۔۔۔۔۔.


لیکن شکر ارسل اور ارسلان کا جنہوں نے وقت رہتے ہی شور مچایا اور تمھارا وہ باپ اپنے گندے اردوں میں ناکام رہا ۔۔۔۔۔ وہ بولتی جارہی تھی جاناں کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھی تکلیف یا غصہ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا


ہم سے شادی یا کسی بھی رشتے کی امید بیکار ہے کیونکہ آج تک جو تم سے شادی کا ڈرامہ تھا وہ تمھیں تکلیف پہنچانے کے لئے تھا ارادہ تع اور بھی بہت کچھ کرنے کا تھا لیکن تم نے جو کیا ضرف اسکے لیے تمھیں چھوڑ دیا آئندہ ہم سے ملنے کا سوچنا بھی مت سمجھے ۔۔۔ شائزہ نے حازم کو دیکھتے سختی سے کہا امن نے آمنہ کو دیکھا جو اس سے نظریں چرا رہی تھی


بسسس بہت ہوا۔۔جو کیا میرے باپ نے کیا تو اسی سے بدلہ لیتی نہ ہماری زندگی کوئی کھیل تو ہے نہیں۔۔اور شوہر ہیں ہم تمھارے کوئی بوائے فرینڈ نہیں کہ تم لوگوں کو پسند نہیں آیا تو چھوڑ دیا ۔۔۔ میصم زور چیخا تو جہاں وہ تینوں اچھلی وہی جاناں نے کوفت سے نظریں گھمائی


ہماری زندگیوں میں آنے کا فیصلہ تمھارا تھا اور ہماری زندگی سے کون کب جائے گا یہ فیصلہ ہمارا ہوگا ۔۔۔اور اگر تم اپنی ضد کی پکی ہو تو میری ضد تم نے ابھی دیکھی نہیں ہے ۔۔۔۔


چلو حازم ۔۔۔ انہیں وہاں سے لیتے وہ وہاں سے نکلا مغرور شہزادے نے تھوڑی نرمی کیا برتی کہ سب ہی خود کو بادشاہ سمجھنے لگے ۔۔۔۔۔ اس سب میں جویرہ خان خاموش تھی اگر جو انہیں حقیقت کا پتہ چل جاتا تو ۔۔۔۔ سوچ کر ہی انکے جسم میں سنسناہٹٹ پیدا ہوئی..........

بھائی یہ مشین کک۔کیوں اٹھوائی ہے ؟ کسی خطرے کے احساس کے تحت اسکی زبان لڑکھڑائی


میکال میرے دل کے ٹکڑے گارڈز ہو تم تینوں ۔۔۔مگر جب بات میری اولاد کی آئے گی تا پھر چاہے تم ہو یا کوئی اور موت اسکا مقدر ہوگی ۔۔۔تمھاری وجہ سے میری بیٹی نے ہنسنا چھوڑ دیا ۔۔۔وہ مجھ سے ناراض ہے تمھاری وجہ سے ۔۔تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بیٹی کو غلط نظر سے دیکھنے کی ہممم؟۔۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑ کر سہلاتے وہ ایک دم اسکا ہاتھ زور سے موڑتے دھاڑا کہ میکال کی سانسیں رکی اور ہاتھ میں اٹھتی تکلیف پر اسکی چیخیں نکلی


بھ۔بھائی میں نے کچھ نہیں کک۔کیا بھ۔بھابی نے کہا تھا ۔۔۔۔ اپنی زندگی بچانے کو وہ جویرہ کا نام لیتے بولا آخر وہی تو تھی اصل پلانر شازم ٹھٹھکا


کیا بکواس کررہے ہو تم ۔۔۔۔


مم۔میں ٹھیک کہہ رہا ہوں بھائی بھابی کے کہنے پر یہ سب کیا وہ آپکو کمزور کرکے تخت حاصل کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ وہ ہر ایک راز اس پر اشکار کرنے لگا کہ شروع سے ہی جویریہ عرف جیری اسکے ساتھ تھی لیکن جب اس نے شازم کو دیکھا تو اسکے دل میں انڈرورلڈ کی مالکن بننے کی خواہش جاگی لیکن اسکے لیے اسے شازم کو مارنا پڑتا مگر وہ ایسے ہی شازم کو نہیں مار سکتی تھی اسی لیے اس نے میکال کو اپنے ساتھ ملایا اور ڈاکٹر بن کر اسکے سامنے آئی پھر شادی ہوئی لیکن وہ شازم مارنے کی بجائے جزبات میں بہہ کر وہ لمحے محسوس کرنے لگی تھی


جاناں کے پیدا ہونے سے پہلے نجانے اس نے شازم کو کس سے بات کرتے سنا کہ وہ پھر سے بیزار ہوتی ہر چیز تباہ کرنے پر تلی تھی اسی لیے اس نے ہشمت کے دھکے پر وہ اوور ریکٹ کرتی خود نیچے گری اور موقع کو غنیمت جان کر ایزل کو لے کر بھاگی من کیا کہ پھینک دے ایزل کو کہیں کچرے کے ڈھیر میں مگر اس طرح وہ پھنس سکتی تھی اسی لیے اسے اپنے پاس رکھنا اسکی مجبوری بن گئی


ساتھ سال بعد جب اس نے میکال سے رابطہ کیا تو میکال کے جاناں کی تعریف کرنے پر اس نے اپنا شیطانی ارادے بتانے لگی لیکن اس عورت نے آکر انکا پلین خراب کردیا اور جاناں کو بچا لیا ورنہ شازم کہیں منہ دیکھانے کے قابل نا رہتا ۔۔۔ مگر پھر بھی


اس نے اپنے کچھ بندوں کے زریعے یہ بات پھیلائی کہ شازم نے اپنی بیٹی میکال اعظم کو بیچ دی لیکن اس سے شازم کو کوئی فرق نا پڑا بلکہ انڈرورلڈ میں اسکی دہشت مزید بڑھ گئی اس واقع کے بعد شازم نے کراچی میں شفٹنگ کر لی کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں پر کوئی انچ نہیں آنے دینا چاہتا تھا لیکن پھر سے جویریہ کا آنا اور شازم کے بارے میں غلط باتیں بتانا شازم نے حالات کو دیکھتے عباس کو لندن بھیجا اور خود اپنے اسی علاقے کی طرف چلا گیا


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کیسے ہیں آپ ۔۔۔۔ چئیر پر بندھے بیٹھے عباس کو دیکھتے وہ انکے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی اسکے پیچھے ہی آمنہ شائزہ اور ایزل موجود تھی عباس نے بمشکل آنکھیں واا کرتے اسے دیکھا


ت۔تم۔۔۔ عباس کے لہولہان چہرے پر سوالیہ تاثرات تھے جاناں نے سائیڈ مسکراہٹٹ سے اسے دیکھا اور ٹھنڈے ٹھار لہجے میں گویا ہوئی


صرف اتنا جان لو کہ تمھاری موت ہوں میں ۔۔۔۔ عباس نے خوف سے اسکے ہڈی میں چھپی کالی آنکھوں کو دیکھا اسکے جسم میں سنسناہٹٹ پیدا ہوئی


ما۔فیا گرل ش۔شازم کی بیٹیاں... ۔.۔۔ اسکی آنکھیں باہر ابلنے کو تھی۔۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا اا۔اسکے ساا۔تھ میکائل نے کک۔کیا تھا ۔۔۔۔۔ ڈر خوف سے وہ صفائی دینے لگا


تم نے کچھ نہیں کیا ۔؟۔۔ اوکے ۔۔پھر تو تمھیں جانے دینا چاہئے.ناں؟ امنہ نے پرسوچ آنداز میں کہا تو عباس کی آنکھیں چمکی


ہاں مجھے جج۔جانے دو میں نے کک۔کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔ایزل نے نیلی آنکھیں گھماتے پاس پڑی ایسڈ کی بوتل اٹھائی جسے دیکھ عباس کئ جان حلق میں آئی


جانے دینگے لیکن ایک بات مجھے جاننی ہے اگر اس دن بابا میٹنگ کے سلسلے میں باہر تھے تا ماما نے ایسا کیوں کہا کہ بابا نے جاناں کو بیچا تھا ؟۔۔۔۔ آمنہ نے سنجیدگی سے پوچھا کیونکہ وہ اپنی پرانی ملازمہ سے بھی یہی سن چکی تھی کہ اس دن شازم میٹنگ میں تھے


و۔ووہ۔


کیا وہ وہ لگا رکھی ہے حقیقت بتاؤ گے یا ۔۔۔۔ شائزہ نے زوردار پنچ اسکی گال پر مارا کہ اسکے منہ سے خون کا فوارہ نکلا


میں ب۔بتاتا ہوں یی۔یہ سب ایک پلین کے تحت کیا گیا تھا۔۔۔۔عباس کو جان زیادہ پیاری تھی اسی لیے سالوں سے چھپے راز کو فاش کرنے لگا تھا


پلین کیسا پلین اور کس کا پلین؟ جاناں نے سپاٹ لہجے میں پوچھا


میں اور میکال شروع سے ہہ۔ہی جیری کو جانتے تھے اسے انڈرورلڈ میں آنے کا بہت شوق تھا ہمارا پلین تھا کہ ہم شازم اور جیری کی شادی کروائیں گے اور شادی کے کچھ مہینے بعد ہی شازم کو مار ڈالے گے اور اسکی جگہ میں اور جیری انڈرورلڈ پر راج کرینگے مگر ایسا ممکن نا ہوا کیونکہ جیری شازم کو پسند کرنے لگی تھی اس نے شازم کو مارنے کا ارادہ ملتوی کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔


اور ہم سے ہر قسم کے تعلقات توڑ دیئے پھر جب ہم جاناں اور ایزل کی پیدائش کے بعد حویلی پہنچے تو جیری کا دل شازم سے بھر چکا تھا کیونکہ وہ بہت عیاش قسم کی لڑکی تھی لیکن مجبوری کے تحت شازم کے ساتھ رہ رہی تھی پھر عباس اور میکال کو پھر سے اپنے ساتھ ملاتے وہ ایزل کو لے کر وہاں سے نکلی اسکا ارداہ تو ایزل کو بھی وہی پھینک جانے کا تھا مگر شازم کو دیکھانے کے لئے وہ ایزل کو ساتھ لیے ہوئے تھی پلین تھا کہ جیری کے جانے کے بعد شازم بکھر جائے گا مگر ایسا نہ ہوا تا دوسرا پلین جیری نے بنایا جسے میکال نے سرانجام دینا تھا اور وہ ۔۔۔۔ جاناں۔۔۔۔۔۔۔


کے س۔ساتھ زبردستی کا پلین تھا جیری شازم کو توڑنا چاہتی تھی تاکہ وہ کمزور ہو اور اسے مار کر انڈرورلڈ پہ وہ ملکیت کرے لیکن شازم ٹوٹنے کی بجائے اور مضبوط اور طاقتور ہوتا جارہا تھا یہی بات جیری کو آگ میں جھونک رہی تھی اور تمھارے واقع کا غصہ شازم نے میکال سے بہت اچھے سے لیا تھا اسی بیچ میکال نے اسے بتایا تھا کہ کیسے جیری ان سے ملی ڈاکٹر بننے کی آیکٹینگ کرکے شازم کی نظروں میں آنا محبت شادی بچے اور اسکے بعد جاناں کا ریپ۔۔۔۔۔ یہ سب اسکی پلانگ تھی ۔۔۔۔


۔۔شازم کو تب سے خود سے کراہیت محسوس ہوئی تھی جس عورت کی خاطر وہ انڈرورلڈ چھوڑنے کو تیار تھا وہ ہی عورت اسکی بیٹیوں کی جان کی دشمن بنی بیٹھی تھی۔۔میکال کے خاتمے کے بعد وہ جیری کو ختم کرنے نکلا لیکن میں پہلے ہی اسے پاکستان سے باہر بھجوا چکا تھا جانے سے پہلے جیری اور میرے کچھ آدمیوں نے یہ بات آگ کی طرح پھیلائی تھی کہ شازم عرف بادشاہ اپنی ہہ بیٹی کو ایک رات کے لئے بیچ چکا تھا ۔۔۔۔


تھک ہار کر اپنی بیٹیوں کے لئے شازم نے عباس وغیرہ کو حویلی سے اپنی بیٹیوں سے دور رہنے کا کہا اور خود انڈرورلڈ میں بادشاہ اور بظاہر ایک مشہور بزنس مین بن گیا لیکن پھر سے جیری نے اسکی زندگی میں انٹری لی جسکے بارے میں ہمھیں علم نہیں تھا اور دوسرا شازم نے جو ڈیل کی تھی وہ صرف جیری کو بھڑکانے کا ایک بہانہ تھی بیشک ہم نے بہت ظلم ڈھائے مظلوموں پر لیکن شازم اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بہت پوزیسسو ہے ۔۔۔۔۔۔


اسکی بات ختم ہوتے ہی جاناں نے اسکا منہ مکوں سے سجا دیا کتنے بڑے دھوکے باز تھے وہ لوگ اپنے ہی بھائی کے دشمن بنے ہوئے تھے اسے افسوس ہوا تھا شازم پر


اتنا سب کیا ہے جانی تو انعام وصول کرنا تو تمھارا حق ہے اور میرا فرض ۔۔۔ ایزل نے ایسڈ آہستہ آہستہ ہی اسکے ہاتھ پر گرانے لگی کہ پورا روم عباس کی دردناک چیخوں سے گونج اٹھا گوشت ہٹتے اسکی ہڈیاں نظر آنے لگا گوشت گلنے کی سمیل پورے روم میں پھیل چکی تھی جاناں نے تمسخر سے اسکے بےہوش وجود کو دیکھا


دوسروں پہ ظلم کے پہاڑ توڑنے والے تھوڑی سی جلن برداشت نہیں کر پاتے ۔۔۔۔کہتے ساتھ وہ چاروں اسے چھوڑ کر باہر کو بڑھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


ہشاب بیٹا کیا حالت بنا رکھی ہے اور ہماری بیٹی کہاں ہیں ؟۔۔۔اسکے کمرے میں آتے وہ ایک نظر بکھرے ٹوٹے سامان پر ڈالتی اسکی طرف بڑھی جو زمین پر بیٹھا تھا


ہشاب ۔۔۔جواب نا پاکر وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے پکارنے لگی لیکن ٹھٹھکی انہیں لگا جیسے کسی بھٹی کو چھو لیا ہو


ہشاب آپکو تا اتنا بخار ہے اور آپ یہاں بیٹھے ہیں ۔اٹھیں کھانا کھائیں ۔۔۔۔ اسکو جھنجھوڑتے وہ فکرمندی سے گویا ہوئی کیونکہ وہ بخار میں بےقابو ہوجاتا تھا جو دل میں ائے بنا سوچے سمجھے کردیتا تھا


میں ٹھیک ہوں ماں آپ بسس یہ کمرہ ٹھیک کروا دیں ۔۔۔۔بھاری ہوتی آواز میں کہتے وہ آستین اوپر کرتے کمرے سے نکلا اسکا خطرناک حد تک سرخ چہرہ دیکھ خانم شاہ گھبرائی


ہشاب کچھ کھا کے میڈیسن لے لو پھر ۔۔۔۔


ماں فکر نہ ہی کرو میں اپنی دوا لینے ہی جارہا ہوں ۔۔۔ وہ بنا مڑے بولا تو خانم نے ناسمجھی سے اسکی پشت کو دیکھا


بخار کا علاج تو ہے ماما لیکن دل ۔۔۔دل کی دوا تو صرف جاناں ہے جو مجھ سے دور رہ کر تکلیف میں ہے ۔۔۔۔ اور میرا دل زخمی کررہی ہے ۔۔۔۔۔ وہ کہتے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھتے رواں دواں ہوا پیچھے خانم شاہ جاناں کے لئے دعا گو تھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کل رات دل نہیں بھرا جان کو آج پھر سے میرے ساتھ آنا چاہتی ہو ہممم۔۔۔۔۔۔ اسکے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے وہ زو معنیت سے گویا ہوا تو پاس سے گزرتی آمنہ ساکت ہوئی یہ آواز تا امن کی تھی ۔۔۔۔ پھر اپنا وہم سمجھتی بنا مڑے ہی آگے بڑھی لیکن اگلی بات پر وہ جھٹکے سے مڑی اسے لگا شاید یہ اسکا وہم ہے مگر یہ حقیقت تھی کہ اسکا امن کسی اور لڑکی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑا تھا اسے لگا جیسے یونی کی دیواریں اسکے سر پت گری ہوں


جان تم اتنی ہاٹ ہو کہ میرا دل بھی تمھاری قربت کے لئے مچل رہا ہے ۔۔۔۔۔ اسکے کمر پہ گرفت مضبوط کرتے وہ اسکے اوپر جھکا کہ آمنہ کو دیکھ رکا مگر پھر وہ اس لڑکی کی گال پر اپنے لب رکھ گیا آمنہ نے شعلہ بار آنکھوں سے یہ منظر دیکھا


کیا بدتمیزی ہے یہ چھوڑو اسے ۔۔۔.لڑکی کو کھینچ کر الگ کرتے وہ چیخی تو امن نے کوفت سے اسے گھورا جبکہ وہ لڑکی غصے سے لال پیلی ہوئی


میری گرل فرینڈ ہے وہ میں بدتمیزی کرو یا رومینس تمھیں کیا مسئلہ ہے ؟۔۔۔۔ اس نے دل جلاتی مسکراہٹٹ ہونٹوں پہ سجاتے اس لڑکی جسکا نام ابہیا تھا اسے اپنے پاس کھینچا اور کس کر کمر سے پکڑ لیا


کون ہے یہ بےبی ؟۔۔۔۔ ابیہا نے آمنہ کو نخوت سے سر سے لے کر پاؤں تک گھورتے کہا جو وائٹ شورٹ شرٹ اور وائٹ پینٹ میں کھلے بالوں کے ساتھ اسے نفرت سے گھور رہی تھی


بےبی کی بچی میں اسکی جو بھی ہوں تمھیں کیا نکلو یہاں سے ۔۔۔۔ تمھیں شرم نہیں آرہی امن میرے سامنے کسی غیر لڑکی کی کمر میں بانہیں ڈالے کھڑے ہو۔۔۔۔کمر پر رکھے امن کے ہاتھ کو دیکھ وہ مٹھیاں بھینچ گئی امن نے گہری مسکراہٹ سے اسے دیکھا


جان تم جاؤ میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔ اس لڑکی کو اشارہ کرتے وہ آمنہ کی طرف متوجہ ہوا جو غصے سے لال ہورہی تھی


تمھاری غیر موجودگی میں ہی میں اسے محسوس کرونگا ۔۔۔پکا۔۔تاکہ تم کو مجھ سے کوئی گلہ شکوہ نہ ہو ۔۔۔۔ تمسخرانہ انداز میں کہتے وہ اسکے دل میں اپنے لفظوں کے تیر پپوست کررہا تھا


گڈ ۔۔۔۔ پلکیں جھپکا کر آنکھوں میں آئی نمی پیچھے دھکیلتے وہ مسکرائی تو امن نے غور سے اسے دیکھا اسے لگا وہ چیخے گی چلائے گی مگر یہاں تا وہ مسکرا رہی تھی


اوکے بائے میری جان میرا انتظار کررہی ہے ۔۔۔۔ ویسے آج کلب میں پارٹی رکھی ہے میں نے کیونکہ میری جان کا برتھ ڈے ہے تو تم بھی آنا ۔۔۔۔ اسکو وش کرنے ۔۔۔۔۔ آخری تیر چلاتے وہ پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتے سیٹی بجاتے وہاں سے چلا گیا


ر کر خود کو کمزور مت کرنا آمنہ ۔۔۔۔ وہ تمھیں جلانے کے لئے کر رہا ہے تاکہ تم اسکے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔۔ اسکے جاتے ہی آمنہ کی آنکھیں بھیگی تھی کہ کان میں لگے آلے سے سرد سی آواز ابھری تو وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنی ایپمارٹمنٹ کی لڑکی سے نوٹس لیتے یونی سے نکلی


💞💞💞💞💞💞💞

سر وہ سارے پروف ہمارے پاس موجود ہیں جس سے ہم ان چاروں کو جیل کر سکتے ہیں تا پھر آپ ایکشن کیوں نہیں لے رہے ؟۔۔۔ اسکے آفس میں کھڑے کانسٹیبل نے پرسوچ انداز میں پوچھا تو حازم نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا کہ کانسٹیبل حلق تر کرتا وہاں سے رفو چکر ہوا


کیسے اس مسینی کو جیل میں ڈالو ؟ کیا وہ نازک جان وہاں کا ٹارچر برداشت کرلے گی ؟۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں میں بھلا کیسے اسے اد جہنم میں ڈال سکتا ہوں ۔۔؟۔۔ یہ جانتے ہوئے کہ خوبصورت لڑکی کو وہ لوگ کوٹھے پر بھیج دیتے ہیں ۔۔۔۔ پیشانی مسلتے وہ خود سے ہی مخاطب تھا وہ ایسا کر بھی دیتا مگر اسکا دل اس سے بغاوت کربیٹھا تھا


اسے یوں کھلا بھی نہیں چھوڑ سکتا ورنہ وہ پھر کسی کی جان لے لے گی ۔۔۔۔۔ کیپ پہنتے وہ کچھ سوچ کر مسکرایا اور کی اٹھاتے جیپ میں بیٹھتے اپنے ارادے کو پورا کرنے کی چلا تھا ۔۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


انہیں حقیقت پتہ چلنے سے پہلے ہی مجھے انکا بندوبست کرنا پڑے گا ۔۔۔۔وہ پریشانی سے یہاں وہاں ٹہلتی یہی سوچے جارہی تھی کچھ ایسا کریں کہ جاناں وغیرہ کا دھیان ان پر سے ہٹ جائے اور انہیں سچائی کا معلوم ہی نہ ہو وہ اس بات سے انجان تھی کہ انکی سچائی تا انکے ہی چیلے عباس خان نے کھول دی تھی


کچھ سوچتے اس نے میصم کو کال ملائی ۔۔جو پہلی ہی بیل پر ریسو کرلی گئی


بیٹا مجھے معاف کردو میری بیٹیاں نادان ہیں انہیں نہیں معلوم کہ کیا سہی کیا غلط۔۔ تم لوگ انہیں سمجھا کر رخصت کرکے لے جاؤ ۔۔۔۔کال دیسسو ہوتے ہی انہوں نے مصنوعی افسوس سے کہا


جی بلکل وہ تا دودھ پیتی بچیاں ہیں جو روٹی کو "آلو " کہتی ہیں اور پانی کو "مانی " کہتی ہیں بسس ہم نے ہی ساری سمجھداری اپنے پاس انسٹال کی ہوئی ہے کہ جو ناسمجھ ہو اسے اپنے پاس سے تھوڑی عقل دیں دے ہیں نا ؟۔۔۔۔۔ وہ تو جیسے غصے سے بھرا بیٹھا تھا کھری کھری سنائی کہ جویرہ خان بوکھلا گئی انہیں امید نہیں تھی کہ میصم انہیں کھری کھوٹی سنا دے گا


نہیں میرا مطلب تھا کہ تمھاری امانت کب تک سنبھالوں گی کیا پتہ کب میری موت ہوجائے جیتے جی ہی میں اپنی بیٹیوں کو مضبوط ہاتھوں میں سونپنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ وہ جھوٹ موٹ کے آنسو بہانے لگی کہ میصم نے ہنہہ کیا


پہلی بات آنٹی ابھی آپکے مرنے کے چانسسز نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو نیک لوگوں کی ضرورت ہے ۔۔۔۔آپ بے فکر رہیں اور دوسری بات ہمارے ہاتھ سیمنٹ سے نہیں بنے ہوئے جو مضبوط ہونگے ہم بھی انسان ہیں آپکی بگڑی ہوئی بیٹیاں آپ سے نہیں سنبھلی تو ہمارے متھے ملنے کا ارادہ ہے آپکا پہلے انکو سدھارے اسکے بعد مجھ سے رابطہ کریے گا اللہ حافظ میں بہت مصروف ہوں ۔۔۔۔۔۔ جلی کٹی سناتے وہ کھٹاک سے کال کٹ کرگیا کہ ہکی بکی کھڑی جویریہ خان ہوش میں آئی کیا تھا یہ لڑکا اتنی باتیں تا انہیں آج تک کسی نے نا سنائی تھی


بڑا ہی کوئی بدلحاظ ہے زرا تہذیب نہیں کہ ساس سے کیسے بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ اونچی آواز میں بڑبڑائی تو شائزہ نے مسکراہٹ دبائی


ساس بھی ساس بنے نا سانس بننے کی کیا ضرورت ہے آپکو مسسز شازم ؟۔۔۔۔ وہ ہنس کر بولی کہ جویریہ خان نے پھیکی مسکراہٹ سے اسے دیکھا


میں تو بسس اس فرض کے بوجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہوں ۔۔۔۔


بسس کچھ ہی دن کی بات ہے برداشت کرلے پھر ہم نجات دلا دینگے آپکو (اس دنیا سے) وہ مسکرا کر بولی کہ جویرہ نے تعقب سے اسے دیکھا


چلو سہی کچھ دن بعد ہی رخصتی رکھ لیتے ہیں ۔۔۔۔جویریہ خان نے سر اثبات میں ہلایا دل میں تا لڈو پھوٹ رہے تھے چلو جان چھوٹے گی ان مصیبتوں سے


جی جی پکا رخصت کردینگے کچھ دن بعد زندگی سے ہی آزاد ہوجائیں گی تو فرض بھی ختم ہوجائے گا ۔۔۔۔ جویریہ نے گھبرا کر اسے دیکھا ۔۔میرا مطلب کے آپ فرض سے آزاد ہوجائیں گی نہ ۔۔۔شائزہ مسکرائی تا جویرہ نے اثبات میں سر ہلایا


کچھ پنز(انجیکشن) لینی تھی میں جاکر لے آتی ہوں آپ تب تک تیاری کرلیں ۔۔۔۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ سے انہیں دیکھنے لگی تو جویریہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا


ارے رخصتی کی یاررر ۔۔۔۔ شائزہ انکے ڈرنے پر ہنسی تو جویریہ نے گہری سانس لی شائزہ بائے کرتی باہر کو بڑھی ۔۔۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


میڈم اتنی محنت کرکے ہم لوگوں نے اپنے گاؤں کی مٹی سے یہ کیمیکلز نکالے ہیں تاکہ ہم سب کیمیکلز سے پاک آناج اگا سکے لیکن پھر کچھ لوگ ہمارے گاؤں میں آئے ہیں وہ زمین ہی ہم سے چھیننے میڈم اگر ایسا ہوگیا تا ہم بےروزگار ہوجائیں گے ہماری مدد کریں ہماری پاس اور کچھ نہیں جس سے ہم اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے اگر وہ زمین ہم سے چھن گئی ہم سب مر جائیں گے میڈم۔۔۔۔۔۔ خان انڈسٹریز میں وہ جو کوئی اٹلی سے آئے بزنس مین سے ملنے آئی تھی کہ ایک بزرگ آدمی گارڈز کو دھکا دے کر اسکے پاؤں میں گر کر رونے لگا جاناں فورا سے پہلے نیچے بیٹھتے اس آدمی کو اٹھایا


کیا کر ہیں انکل پلیز اس طرح تو مت کریں آپ آئیں یہاں بیٹھیں ۔اور ریلیکس ہوکر بتائیں کہ کس نے کیا اپکے ساتھ آیسا کون لینا چاہتا ہے آپکی زمین ۔۔۔۔ اسے صوفے پر بیٹھاتے وہ گارڈ کو پانی لانے کا اشارہ کرتی انکی طرف متوجہ ہوئی شور کی آواز سے میٹنگ روم میں بیٹھے لوگ بھی باہر آئے


میڈم ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم نے اپنی زمین کاشت کی ہے کہ کچھ انجان لوگ وہاں بنا بتائے ہی وہاں سپرے کرنے لگے پوچھنے پر وہ لوگ بولے کہ ۔۔ عالم شاہ اس زمین کو خرید چکے ہیں ۔۔ تم لوگ اپنا سامان اٹھاؤ اور چلتے بنو ۔۔میڈم وہ زمین سرکار نے ہمھیں دی تھی میڈم ہماری زمینوں میں وہ لوگ پھر سے زہر ڈال رہیں ہیں ہماری محنت سب برباد ہوجائے گی ہم برباد ہوجائیں گے میڈم ہماری مدد کریں ۔۔۔۔۔ وہ آدمی پھوٹ پھوٹ کر روتے ہاتھ جوڑ گیا کہ اسکی تکلیف محسوس کرتے اسکی کالی کانچ سی آنکھیں بھی نم ہوئی جسے کسی نے بڑے غور سے دیکھا تھا


آپ بےفکر ہوکر گھر جائیں جو لوگ سپرے کرنے آئے تھے وہ آپ سے معافی بھی مانگے گے اور اپکی زمین کوئی نہیں چھینتا یہ میرا وعدہ ہے آپ سے ۔۔۔۔۔ جاناں نے مسکرا کر کہا تا وہ آدمی ہاتھ جوڑ کر شکریہ کرتے وہاں سے روانہ ہوئے اور سارے کو اپنے گرد دیکھ جاناں نے شعلہ بار نظروں سے انہیں گھورا تا سب سٹپٹاتے اپنے کاموں میں لگے


میم سر میٹینگ روم میں اپکا انتظار کر رہیے ہیں ۔۔۔ سیکرٹری نے میٹینگ روم کی طرف اشارہ کیا تا جاناں سر ہلاتے اسے فائل لانے کا کہتے میٹینگ روم کہ طرف چل دی


اسلام وعلیکم ۔۔۔.میٹینگ روم میں داخل ہوتے ہی عادت کے مطابق بلند آواز میں سلام کیا جسکا جواب صرف ایک ہی شخص نے دیا


مس جاناں خان ہم آپکے ساتھ پارٹنرشپ کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ پہلے شازم خان کے ساتھ تھی لیکن کچھ ایشوز کی وجہ سے ہم الگ ہوگئے بٹ ہم پھر سے ۔۔۔۔! اسکے چئیر پر بیٹھتے ہی مسٹر دل شاد کی سیکرٹری بولنے لگی جاناں نے گلاسس اتار کر ٹیبل پر رکھتے اسے گھورا کہ اسکے الفاظ منہ میں ہی دفن ہوئے ۔۔۔


آپ میٹینگ کرنے آئیں ہیں تو یہ نفوس یہاں یہاں میرا منہ دیکھنے آئے ہیں تا میں ایک بات کلیر کردوں کہ مجھے سخت ناپسند ہیں وہ لوگ جنہیں گھورنے کی عادت ہو ۔۔۔وہ سرد و سپاٹ لہجے میں گویا ہوئی اور سرد مہری سے دل شاد کو گھورا جو اردگرد بھلائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ہوش میں آیا


آپ انسلٹ کررہی ہیں ہماری ۔۔۔۔ وہ برا منا گیا تو جاناں نے کندھے اچکائے جیسے کہہ رہی ہو کہ جو سمجھ لو ۔۔۔۔۔


مجھے آپ سے پارٹنرشپ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اپ اٹلی سے یہاں تک آئے اسکے لئے تھیکنس ۔۔۔۔


لیکن کیوں میم ؟۔۔۔۔ سیکرٹری نے پریشانی سے اسے دیکھا اور دل شاد کو اسے ہی دیکھ رہا تھا مسکرایا


میں آپکو بتانے کی قائل نہیں ہوں مگر پھر بھی بتادوں کہ مجھے مطلبی لوگ نہیں پسند کو اچھے وقت میں ساتھ رہے اور برا وقت آتے ہی دم دبا کر بھاگ جائیں ۔۔آپ لوگ جاسکتے ہیں ۔۔۔۔ ٹھیک ٹھاک بےعزتی کرتے وہ گلاسس لگاتی چیئر سے اٹھی


میری ایک فری کی آفر ہے صرف آپکے لیے محترمہ ۔۔۔۔ کسی کی حقیقت اسکے سامنے نہیں لانی چاہیے کیونکہ ہت انسان اتنا صابر نہیں ہوتا کہ اپنی خامیاں سن سکے ۔۔۔اور رہی بات مدد نہ کرنے کی تو جب بھی آپکو ہماری ضرورت پڑے تو بندہ خادم حاضر ہوگا ۔۔۔۔۔ کوٹ جھٹک کر کھڑے ہوتے وہ نظریں اسکے بلیک جینز شرٹ پر براؤن سلکی بالوں کو پونی میں مقید کیے وہ گلابی چہرے والی نازک سی لڑکی پر گاڑھتے گویا ہوا تا جاناں نے آئبرو اچکایا


میم کوئی ہشاب عالم آپکے آفس میں اپکو بلا رہیں ہیں بہت کوشش کے بعد بھی وہ ضد کررہیں ہیں کہ آپکو بلائیں کافی غصے میں ہیں ۔۔۔۔ سیکرٹری کے جلدی سے بتانے پر وہ چونکتی آفس کی طرف بڑھی دل شاد کو پہلے ہی وہاں سے جاچکا تھا


جان کو بلاؤ ورنہ تم لوگوں کی لاشیں بچا دونگا ۔۔۔وہ حلق کے بل چلایا


کیا ہورہا ہے ۔۔۔۔ جاناں نے سبکو جانے کا اشارہ کیا ہشاب جاناں کو دیکھ جھٹ سے اسکے پاس پہنچتے اسے خود میں بھینچ گیا کہ سارا سٹاف حیرت سے منہ کھولے انہیں دیکھنے لگا


کک۔کہاں تھی یار میں مسس کررہا تھا آپکو ۔۔۔۔ اسے مزید خود میں بھینچتے وہ اسکی گردن میں منہ دیے اسکی خوشبو انہیل کررہا تھا جاناں نے حیرت سے آنکھیں کھولے اسکے آگ کی طرح دہکتے وجود کو دیکھا اسے اپنا وجود جھلستا ہوا محسوس ہورہا تھا


میں میٹینگ میں تھی ۔تمھیں تو بہت بخار ہے ۔۔۔سانس نہ آنے پر اسکے سینے پر نازک ہاتھوں کا دباؤ دیتے وہ اسے پیچھے کرنے لگی کہ ہشاب نے اسکے بالوں میں ہاتھ ڈالتے اسکی کمر پر گرفت مضبوط کی کہ جاناں کو اپنی کمر ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی


میٹینگ مجھ سے زیادہ امپورٹینٹ ہے تمہارے لیے ہممم۔۔۔ ابھی تک دور ہی تھی نا اب کیا مسئلہ ہے تمھیں ۔۔۔۔۔اب کیوں دور جانا چاہتی ہو ۔۔۔۔ وہ آنکھوں میں آگ لیے اسکے منہ پر دھاڑا کہ جاناں نے زور سے آنکھیں میچی


م۔میری با۔تت تا سس۔سنو۔۔۔۔


بہت سن لی تمھاری اب تم مجھے سنو مجھے سمجھو ۔۔۔۔۔ اسکے لبوں پہ انگلی رکھتے وہ اسے خود میں بھینچ کر گھمبیر آواز میں سرگوشی کرنے لگا کی جاناں نے جھرجھری لی۔۔۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


وہ اس وقت میصم کے آفس کے سامنے بنے ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی


ھینکس یار ۔۔۔ایزل نے مسکرا کر سامنے بیٹھے لڑکے کو دیکھا جو میصم کی آواز میں جویریہ سے بات کررہا تھا وہ جانتی تھی کہ جویرہ میصم کو کال ضرور کرے گی اسی لیے میصم کا موبائل تو وہ اسکے ہی آفس سے منٹوں میں چرا لائی تھی


کون تھی یہ لیڈی ۔۔۔


میری ماما تھی یار زبردستی شادی کروانے پر تلی ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔ بسس اسی لیے یہ سب کرنا پڑا ۔۔وہ ہنس کر بولی کہ غصے میں اسکی طرف آتے میصم نے سنجیدگی سے ساتھ بیٹھے لڑکے کو گھورا


میں تمھیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اور تم یہاں ہو ۔۔۔اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر سختی سے اسے خود سے لگاتے وہ دانت پیستے گویا ہوا کہ ایزل کے دوست نے حیرانی سے ایزل کو دیکھا جو خود آنکھیں پھیلائے میصم کو دیکھ رہی تھی


اے مسٹر کون ہو تم چھوڑو میری فرینڈ کو ۔۔۔ وہ لڑکا ایزل کو شروع سے ہی بہت پسند کرتا تھا اسی لیے آیزل کو کھینچنے کے لئے ہاتھ بڑھایا جو میصم نے پکڑ کر موڑ دیا


یہ میری بیوی ہے ۔۔۔دوبارہ میری وائف کو چھونے کی ہمت کی تو جان سے مار ڈالوں گا سمجھے نکلو یہاں سے ۔۔۔۔ جھٹکے سے اسکا بازو موڑ کر پیچھے جھٹکتے وہ دھاڑا کہ اردگرد بیٹھے لوگوں نے خوف سے اسے دیکھا وہ لڑکا دم دبا کر بھاگا


مجھے جلنے کی بو آرہی ہے تمھیں آرہی ہے کیا ؟۔۔۔ ایزل نے کمر میں دھنستی اسکی انگلیوں کو پکڑ کر دور جھٹکتے تمسخر سے اسکے غصے سے تمتماتے سرخ چہرے کو دیکھتے اسکے اور اپنے درمیان فاصلہ بنایا میصم نے گھور کر اسے دیکھا نجانے کیوں اسکا ہاتھ جھٹکنا اسے آگ لگا گیا اسکی کلائی اپنی سخت گرفت میں لیتے کھینچتے ہوئے اور وہاں سے لیتے آفس میں صوفے پر لاپٹکا ایزل نے حیرانگی سے آنکھیں پھیلائی


آئیندہ اگر کسی انجان شخص کے ساتھ نظر آئی تو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چیل کووں کو کھلا دونگا سمجھی ۔۔۔اسکے جبڑے کو اپنے پنجے میں دبوچے وہ دھاڑا کہ آفس میں موجود سٹاف بھی خوف سے اچھلا درد کے باعث اسکی نیلی آنکھیں بھیگی


یہ ٹسوے بہا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم ہاں ۔۔۔۔ اسکی بند آنکھوں کو دیکھتے وہ حلق کے بل چلایا کہ ڈر کر وہ آنکھیں کھولے اسکی سرخ ہورہی أنکھوں میں دیکھنے لگی وقت جیسے رک سا گیا ہو ہر چیز تھم سی گئی تھی نظر آرہی تھی تا وہ صرف وہ نیلی آنکھیں جو لبالب پانی سے بھری تھی نیلے نین کٹوروں میں چھلکتا شفاف پانی اسے لگا مزید اگر وہ اسی طرح اسے دیکھتا رہا تو یقیناً ان جھیل سی آنکھوں میں ڈوب جائے گا ۔۔۔


اسے کھویا دیکھ ایزل نے موبائل کو سائیڈ میں پڑی کانچ کی ٹیبل پر سرکایا اور پلکیں جھبکیں تا تا وہ ہوش میں آیا پیچھے ہٹتے وہ گلاس وال پر ہاتھ دھرتے گہرے سانس خارج کرنے لگا یہ اسے کیا ہوا تھا


یہ جنگلی سانڈ پھر سے شیر بنے چل نکل ایزل ۔۔۔ وہ بڑبڑاتی اور آفس سے باہر بھاگی


یہ بہنیں ہمھیں پاگل کرکے چھوڑے گی ۔۔۔۔۔ اسکو بھاگتے دیکھ وہ خود سے ہی مخاطب ہوا۔......

💞💞💞💞💞


چلو میرے ساتھ بہت ہوگیا تمھارا کب سے تم نے مجھے کانٹوں پر گھسیٹ رکھا ہے ۔۔۔۔۔ وہ تنی ہوئی رگوں سے کہتے اسکے کلائی پکڑ چکا تھا ابکی بار جاناں نے کوفت سے آنکھیں گھمائی


اوکے چلو ۔۔۔۔۔ مصنوعی مسکراہٹٹ سے کہتے وہ اپنی سیکرٹری کو مخصوص اشارہ کرتے اسکے ساتھ چل دی


ماں تمھارے بارے میں پوچھ رہی تھی انہیں تم سے بات کرنی ہے شاید۔۔۔۔ ہشاب نے دکھتے سر اور سرخ تمتماتے چہرے سے کہا جاناں نے گہری سانس خارج کی اب اس عالم شاہ کا سامنہ کرنا تھا


اسکا ارادہ تو میٹنگ کے بعد شازم کے پاس جانے کا تھا مگر ہشاب کی ضد اور طبعیت کو لے کر وہ اسکے ساتھ چلی آئی ۔۔۔۔


ہممم ۔۔۔سیٹ سے سر ٹکاتے وہ آنکھیں بند کرگئی کہ اچانک ہی گاڑی ڈگمگا کر رکی اس سے پہلے وہ کچھ سمجھتے کہ چاروں اور سے فائرنگ سٹارٹ ہوئی گاڑی کے شیشے بند کرتے ہشاب نے تحیر سے جاناں کو دیکھا جو باہر جانے کے پر تول رہی تھی


ہیے جان باہر نہیں نکلنا تمھیں چوٹ لگ سکتی ہے ۔۔۔ خاموشی سے بیٹھی رہو گاڑی بلٹ پروف ہے ۔۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے نرمی سے گویا ہوا ہشاب جانتا تھا یہ آدمی بادشاہ کے ہیں مگر بادشاہ نے اس پر حملہ کیوں کروایا لیکن جاناں وہ غصے سے ابھرتی نسوں کو چھپانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی رخ ونڈو کہ جانب کرگئی غور سے ان گارڈز کو دیکھنے لگی کہ اسے ہڈی میں چھپی ایزل اور شائزہ دیکھائی دی


کچھ ہی دیر میں وہ ان گارڈز کو موت کی نیند سلائے جاناں کو اشارہ کرتی وہاں سے روانہ ہوئی جاناں گہری سوچ میں الجھی تھی شازم ایسا نہیں کرسکتا تھا یعنی ہشمت ۔۔۔ اسے شک ہوا


جاناں تم ۔۔۔۔۔ وہ اسکی طرح مڑا مگر وہاں کسی کو نا پاکر ٹھٹھکا گاڑی سے نکل کر دیکھا تا اردگرد سوائے مٹی اور ہوا کہ کچھ بھی نہیں تھا پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے اسکی سانس سینے میں اٹک چکی تھی ۔۔۔کہ اچانک سے جاناں کیسے غائب ہوئی ۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


اوو ہیلو یہ دھمکیاں لگاتے شرم نہیں آتی اور ہم نے کب تم لوگوں کو پاگل کیا ہاں ۔۔۔۔ ؟ خود کو کمپوز کرتی وہ واپس سے اسکے آفس میں آٹھپکی تھی اسکا دل جیسے بجھنے لگا تھا میصم مسکراہٹ روکتے سنجیدگی سے اسکی طرف مڑا


اب کیوں آئی ہو۔۔ آفت کہیں کی ۔۔۔ وہ ریسٹورنٹ میں انکی باتیں سن چکا تھا ایزل نے اسے گھورا


آفت ہوگے تم بڑے آئے سانڈ کہیں کے ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے نتھے پھلائے کمر پر ہاتھ رکھتے پوری لڑائی کے موڈ میں تھی میصم نے سانڈ لفظ پہ اسے بےیقینی سے دیکھا وہ کہاں سے سانڈ لگتا تھا


سانڈ سیریسلی ایزل کچھ شرم کرلو شوہر ہوں تمہارا ۔۔۔۔۔۔


آہاں شوہر سائیں آپ ہی کچھ شرم ادھار دیں دے میرے پاس ختم ہوگئی ہے ۔۔۔۔ایزل نے صوفے پر دھڑم سے بیٹھتے ٹانگیں ٹیبل پر رکھتے مزے سے کہا میصم نے اس پاگل سنکی لڑکی کو دیکھا جس سے جانے کیوں لیکن اسکا دل کررہا تھا وہ اس سے پمیشہ ایسے ہی بات کرتا رہے یہ وقت یہی تھم جائے لیکن وقت کا کام ہے گزرنا وہ گزر ہی جاتا ہے وقت کسی کو نہیں دیکھتا


میرے پاس جتنی بھی موجود ہے وہ ساری میرے کام آچکی ہے ۔۔۔۔۔


مطلب آب تم بھی بےشرم ہو ؟۔۔. وہ تالی مار کر ہنسی تو میصم نے لب دبائے اسے ہنستے دیکھا بےشک اسکے گالوں پر گڑھے نہیں تھے مگر وہ ہنستی ہوئی اسے اپنے دل کے قریب معلوم ہورہی تھی شاید یہ انکے بیچ رشتے کا اثر تھا کہ وہ اسکا دل ایزل کی جانب ہمکتا تھا لیکن آج اسکا دل اداس تھا جسکی وجہ جاننے سے وہ قاصر تھا


چلو تم جاؤ میں میٹینگ آٹینڈ کرنی ہے یہ فالتو باتیں اپنی بہنوں کو سنا کر انکے کان پکاؤ۔۔۔ میصم نے جان خلاصی کروائی


دیکھ لو اس بار چلی گئی تا پھر نہیں آؤ گی ۔۔۔۔بےساختہ اسکے لبوں سے نکلا میصم نے سنجیدگی سے اسے دیکھا


بکواس کرنے میں تم نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے کیا ۔۔ایک کام کرو تم یہی وہٹ کرو میں پانچ منٹ میں آتا ہوں لیکن یہ بکواس آئندہ نہ کرنا میرے سامنے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔ وہ بگڑ کر دھیمی آواز میں غررایا


میصم صاحب کہیں کچھ کچھ تا نہیں ہونے لگا آپکو ۔اتنی فکر ۔۔وہ بھی میری ۔۔۔۔ وہ بےیقین ہوئی میصم نے لب کچلتے اسے دیکھا اور پھر ٹائم دیکھتے


بیوی کی فکر ہے تمھاری کون کر رہا ۔۔۔اسکے گال پر لب مس کرتے وہ آفس سے نکلا ایزل نے مڑ کر گال پر ہاتھ رکھے اس مغرور شہزادے کی پشت کو آنکھیں پھیلائے دیکھا


اللہ ہی معاف کرے سٹل تو ایسے کھڑی ہو جیسے وہ تمہارے ہونٹوں پہ کس کرگیا ہو گل پر ہی کس کی ہے نا ۔۔۔۔ اتنی پاگل دیوانی ہورہی ۔۔۔۔ شائزہ نے کیمرے سے نظر آتے منظر کو دیکھ مسکراہٹ روکتے ایزل سے کہا جو ہوش میں آتی گڑبڑائی


شرم کرلو ۔۔۔۔۔۔


میرے پاس بھی ختم ہوچکی ہے ۔۔۔۔شائزہ نے دانت دیکھائے تا جاناں اور آمنہ کی بھی ہنسی نکلی وہ چاروں ایک دوسرے سے رابطے میں تھی کان میں پہنے ٹوپس میں لگے منی کیمرے سے ایک دوسرے کو دیکھتے وہ کان میں لگے آلے سے ایک دوسرے کی آواز سن پارہی تھی


اپنے اپنے کام پر لگو یار پھر رات کو ڈنر بابا کے ساتھ کرینگے ۔۔۔۔ آمنہ نے جلدی سے ہاتھ چلاتے کہا ۔۔۔۔۔۔ ان سب نے سر اثبات میں ہلایا


پارٹی میں جاؤ گی تو سلو کو ساتھ لے جانا۔۔۔۔۔. جاناں نے مسکرا کر کہا تا آمنہ نے ہنکار بھرا ۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


لگتا ہے ایڈجسٹ کرلیا ہے آپنے یہاں ۔۔۔جاناں نے روم میں قدم رکھتے پوچھا تا عباس نے خوف سے اسے دیکھا کہ اب نجانے کیا کرنے آئی تھی اسکا ایک بازو تا وہ ایسڈ سے خاکستر کرچکی تھی کہ صرف ہڈیاں ہی نظر آرہی تھی عباس کو بار بار اپنے گناہ یاد آرہے تھے ۔۔۔۔ وہ رو رہا رھا گڑگڑا رہا تھا لیکن اسکی سننے والا اب کوئی نہیں تھا


ارے آپ تو ڈر گئے ویسے میں آپ سے کچھ انفارمیشن لینے آئی تھی اب مرنے ہی والے ہیں پوری زندگی تا گناہوں کی نظر کیے ہیں مجھے کچھ انفارمیشن دے کر ایک دو اچھے کام بھی کرلیں ۔۔۔۔ جاناں نے سرد سی مسکراہٹ پاس کی عباس نے جلدی سے سر اثبات میں ہلایا مبادا وہ اسکی جان ہی نہ لے لے ۔۔۔


ہشمت خان کہاں ہے ۔۔۔۔ اسکے سوال پر عباس نے آنکھیں بند کی


و۔۔۔وہ ہمارے گاؤں میں ۔۔۔۔زخموں نے اسے مزید بولنے نہ دیا جاناں نے افسوس سے اسکی حالت دیکھی جو بھی تھا جیسا بھی تھا اسکا اپنا خون تھا اس سے پہلے اسکا دل نرم پڑتا وہ وہاں سے نکل گئی اسکا رخ خان پیلس کی طرف تھا


جاناں بیٹا کہاں تھی آپ ۔۔۔میں پریش۔۔۔۔۔ اسکی سرخ آنکھیں خود پر محسوس کر انکی زبان کو بریک لگی ۔۔فکر ہورہی تھی ۔۔حلق تر کرتے وہ منمنائی


آپکو میری فکر میں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جویریہ خان رخصتی کی تیاری کریں دن قریب ہیں ۔۔۔۔ شعلہ بار نگاہوں سے اسے گھورتے وہ پرسرار سا بولی اور نظریں لائنج میں گھمائی جسے میں رنگ برنگی لائٹس لگائی گئی تھی اس نے آئبرو اِچکا کر جویریہ کو دیکھا جو بظاہر مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی مگر دل ہی دل میں پریشان ہو رہی تھی


یہ کیوں اتنا خوش ہے ؟۔۔. کہیں کچھ تا گڑبڑ ہے ۔۔۔


دل ہی دل میں وہ گہری سوچ میں مبتلا ہوچکی تھی انکی چھٹی ہس کچھ غلط ہونے کا اشرہ کررہی تھی لیکن کیا جسے وہ سمجھ نہیں پارہی تھی


کوشش کریں کے ہر چیز نفاست سے سجی ہو یہ تاکہ جشن کی جگہ ماتم بھی ہو تو سمجھ رہی ہیں نہ ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرا کر انکی پہلی میں الجھا کر اپنے روم کی طرف بڑھی فریش ہوکر چینج کرتے وہ شاہ حویلی کی طرف بڑھی


اسلام وعلیکم ۔۔۔ خانم شاہ کے پاس أتے وہ آدب سے بولی


وعلیکم اسلام ۔۔وہ اسکے ماتھا چومتے مسکرائی اور اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا


ایکچلی مجھے بابا سے بات کرنی تھی مگر وہ یہاں نہیں ہیں اس لیے مجھے آپ سے بات کرنے آنا پڑا ۔۔۔۔ وہ تھوڑا جھجھکی


جی بے جھجھک ہوکر بتائیں کیا مسئلہ ہوا ہے ہماری گڑیا کو ۔۔۔۔ پیار سے اسکو نہارتے وہ محبت سے بولی تھی آخر وہ انکے اک لوتے بیٹے کی زندگی تھی


ماما وہ بابا نے کچھ لوگوں کی زمین کسی غلط فہمی کی بنا کر لے لی ہے حالانکہ وہ زمین گورنمنٹ نے انہیں دی تھی تاکہ وہ غریب لوگ کھیتی باڑی کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں اور انہی کی وجہ سے ہمھیں اناج حاصل ہوتا ہے مگر بابا کیمیکل یوز کرکے اناج جلد ہی اگانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے سبکی صحت پر اثر ہوسکتا ہے اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو کمیکلز یوز کرتے ہیں لیکن اگر ہم ایک کو روکے گے تا دوسروں کو روک سکتے ہیں مگر شروعات تو کرنی ہی اپنوں سے چاہیے وہ کسان بچارے کھیتی نہیں کرینگے تا کہاں جائیں گے انہیں تا فیکٹریوں میں کام کرنا بھی نہیں آتا وہ خود کو بھوکے بھی رہ لیں گے لیکن اپنے بچوں کو بھوکا دیکھ انکا دل بابا کو بدعا دے گا میں نہیں چاہتی کہ بابا(الو کا پٹھا) کو کوئی بھی بدعا دے جس سے انہیں نقصان پہنچے (کیونکہ اسے تا میں اپنے ہاتھوں سے ماروں گی) ۔۔۔ سوچ سمجھ کر لفظوں کا چناؤ کرتے وہ خانم شاہ کے دل میں مزید اپنے لیے محبت عزت حاصل کرگئی ۔۔۔


میرے بچے آپکو اتنی فکر ہے انکی دیکھ کر اچھا لگا آجائیں تا میں بات کرتی ہوں شام سے پہلے ہی انکی زمین واپس کردی جائے گی ۔۔۔ وہ صدقے واری گئی


جاناں نے مسکرا کر انہیں دیکھا


ایک اور بات ۔۔۔۔


ہممم وہ کیا؟۔۔۔۔۔خانم شاہ نے دلچسپی سے اسے دیکھا انہیں اس نازک سی لڑکی سے اتنی سمجھداری کی امید ہرگز نہیں تھی


کچھ گارڈز نے ان سے بدتمیزی بھی کی تھی تا میں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ گارڈز ان سے معافی مانگے گے کیونکہ انہیں بھی تا بڑوں کی عزت کرنی چاہئے نا ۔۔۔۔ جاناں نے معصومیت سے کہا جو خانم شاہ نے چٹاچٹ اسکے گال چومے جس پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ بلش کرگئی کہ عالم شاہ ان دونوں کو ایک دوسرے پر پیار وارتے دیکھ کر وہی چلے آئے وہی جاناں کی گھڑی میں بپ ہوئی اسکا دل بےچین ہوا تا وہ اٹھی


آپ بات کریں مجھے کچھ کام ہے ۔۔۔عالم شاہ کو آنکھ مارتے وہ وہاں سے نکلی جانتی تھی اسکا کام تو ہوگیا کیونکہ عالم شاہ جو اپنی زوجہ کی کوئی بات نا ٹہلتے تھے یہ کیسے ٹال دیتے ۔۔۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


تم لوگ ان چھوئی موئی سی لڑکیوں کو نہیں مار سکتے ۔۔۔بسس حرام کھا کھا کر سانڈ بنتے جارہے ہو۔۔۔ ہشمت غصے سے چلایا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کچھ کر گزرتا


چھوئی موئی تو نہیں ہیں خیر ۔۔۔۔ نسوانی آواز پر وہ جھٹکے سے پلٹا ہیلی سے اترتی ایزل کو دیکھ اسکے اوسان خطا ہوئے سیاہی آسمان پر پھیل چکی تھی وہ اسکی طرف بڑھی ہشمت کے اشارے پہ گارڈز اسکی جانب بڑھے اور کچھ گارڈز تو جان بچا کر بھاگ چکے تھے


یہ گارڈز میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہشمت خان مجھے تا تم سے لڑنا ہے تاکہ تمھیں اپنے ہاتھوں سے جہنم پہنچا سکو ۔۔۔۔ گارڈز کو دھنک کر رکھتی وہ دھاڑی کہ ہیلی سے بندھے ہاتھوں سے عباس خان گرا


عباس میرے بھائی ۔۔۔ ہشمت جھٹ سے اسکے پاس پہنچا اسکے ہاتھ کو دیکھ وہ غصے سے پاگل ہوا


تم دو ٹکے کی لڑکی تمھاری اتنی مجال کہ میرے بھائی کو چوٹ پہنچاؤ ۔۔۔. وہ چلاتے سائیڈ سے ہتھوڑا اٹھائے اسکے اوپر چھپنٹا کہ ایزل نے پروفیشنل فائٹر کی طرح اسکے ہر وار سے خود کو محفوظ کیا اور مکوں اور لاتوں کی برسات اس پر کردی جس سے وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا جس بات کا فائدہ اٹھاتے ایزل نے اسی کا بھاری ہتھوڑا اپنی پوری طاقت سے اٹھائے اسکے سر پر مارا کہ ہشمت خان کو اپنا سر پھٹتا ہوا محسوس ہوا خون کی لکیریں اسکے سر سے ہوتی گریبان میں سے نیچے جانے لگی


نہیں اتنی آسانی سے نہیں ۔۔۔مرنا تم نے ہشمت خان ۔۔۔۔ اسکے بالوں کو زور سے مٹھی میں جکڑے وہ نفی میں سر ہلانے لگی جو غنودگی میں تھا ہوش میں آتے چلانے لگا کہ حویلی سے شازم چیخوں پر حیران ہوتے باہر آیا سامنے ایزل کو ہشمت پر جھکا دیکھ اسے پکارا


جاناں۔۔۔ لیکن وہ نہ پلٹی


یزل۔۔۔۔۔۔ وہ مڑکر شازم کو دیکھنے لگی بالوں پر گرفت ڈھیلی ہوئی اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہشمت نے ہتھوڑا اسکے کمر پر دے مارا کہ ایزل ایک چیخ کے ساتھ زمین بوس ہوئی


بابا ۔۔۔۔ وہ چیخ کر اٹھنی کی کوشش کرتی انہیں ہوش میں لائی جو بےیقینی سے اسے دیکھ رہے تھے اس سے پہلے وہ ہشمت کو روکتے کہ ہشمت نے اٹھ کر ایک کہ بعد ایک وار کرتے اسکی جان ہی نکال لی ۔۔۔


سالی مج۔۔مجھے مارے ۔۔گ۔۔گی۔۔۔۔ ہتھوڑا پھینکتے وہ اسکی نا پہچاننے والی شکل کو دیکھ قہقہ لگا گیا ۔۔شازم جو اتنے سالوں بعد اپنی بچھڑی بیٹی کو گلے لگانے کہ چاہ ہوئی تھی سالوں سے وہ اپنی بیٹی کے لئے ترسے تھے اسے اپنی ہی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھ انکا وجود ساکت ہوا اسے گلے لگانے کو اٹھے ہاتھ بےجان ہوتے پہلو میں گرے


جو آنکھیں لڑکیوں کی بوٹی بوٹی کرتے نہیں روئی تھی ان آنکھوں سے برسوں بعد ایک آنسو بغاوت کرگیا تھا ایک کے بعد ایک أنسوؤں گرتے گئے وہ روتے روتے وہی ڈھے سے گئے


تم نے میری بیٹی کو۔۔میری جان کو۔۔مار ڈ۔۔۔ڈالا ؟۔۔۔ اپنے بال نوچتے وہ غصے سے ہشمت پر جنگلی شیر کی طرح چھپٹے عباس اور ہشمت نے درد سے تڑپتے انہیں دیکھا جو ان دونوں کی ہی ہڈیوں کو ہتھوڑے سے لکڑی کی طرح توڑنے لگے


تھے کہ سنسان پڑے اس گاؤں میں انکی دردناک چیخیں گونجنے لگی گاؤں کے لوگ خوف سے کپکپاتے کھڑکی سے نظر آتے اس خوفناک منظر پر اپنی منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی چیخیں روک گئے جہاں ایک بھائی اپنے ہی دونوں بھائیوں کی ہڈیاں کلہاڑے سے الگ کر رہا تھا یہ کیسا منظر تھا کہ وہ سب لوگ جو انکے ظلم کے عادی ہوچکے تھے انکی یوں اس طرح دردناک موت پر انکی ہی سلامتی کی دعا کررہے تھے


لڑکیوں نے ڈرتے یہ منظر دیکھا تھا لیکن دل میں ایک امید سی جاگی تھی کہ اب وہ ان ظالم درندوں کے قہر سے محفوظ ہونگی وہی دوسری طرف افسوس بھی تھا کہ ایک نازک جان اپنی جان کی بازی ہار چکی تھی ..........

ہر طرح پارٹی لائیٹس جگمگا رہی تھی کچھ لڑکیاں اور لڑکے ڈانس فلور پر ایک دوسرے کی بانہوں میں جھول رہے تھے اس پارٹی میں سب ابیہا کے ہی فرینڈز موجود تھے ابیہا سبکے بیچ ڈانس کرنے میں اتنی مگن تھی کہ اسے امن کی کوئی فکر ہی نہیں تھی


اور امن وہ صوفے پر بیٹھے آمنہ کا شدت سے انتظار کررہا تھا وائٹ شرٹ بلیک پینٹ ماتھے پہ بکھرے براؤن بال بھوری آنکھوں میں چمک تھی کہ ہر لڑکی اس حسن کے دیوتا کو دیکھتے ٹھنڈی آہ بھر رہی تھی


آبھی جاؤ یار ۔۔۔۔۔ وہ برانڈڈ گھڑی میں ٹائم دیکھتے بیزار ہوا کہ سامنے دیکھتے ہی حیرت غصے سے منہ کھولے وہ کھڑا ہوا ہاتھ سے ایپل جوس کا گلاس چھوٹے زمین بوس ہوا ۔۔۔ سامنے ہی وہ بلیک سکرٹ جو کندھوں سے نیچے اور گھنٹوں سے اوپر تھی کھلے بالوں کو کرل کرکے پارٹی میک اپ میں گلے میں ڈائمنڈ نیکلس پہنے بولڈنیس کی ساری حدیں پار کرگئی ۔۔۔۔ ارسل کے بازو میں بازو ڈالے قیامت بھرپا کرتی ابیہا کی طرف بڑھی


یہ کون ہے اسکی ہمت کیسے ہوئی اسکو ٹچ کرنے کی ۔۔۔۔یہ اسکے قریب ہی کیوں گئی ۔۔۔۔ غصے اور جلن کے مارے اسکا بھوری آنکھوں میں سرخی دوڑ گئی جلن سے مانو وہ انگاروں پر لوٹنے لگا


ہیپی برتھ ڈے ابیہا ۔۔۔۔ آمنہ نے مسکرا کر اسکو گفٹ تمھاتے کہا جو تحیر سے أنکھیں پھیلائے اسے پھر پیچھے سے جوالہ کی طرح آتے امن کو دیکھا جو اس نے حلق تر کرتے گفٹ لیا اور چند قدم پیچھے ہٹی آمنہ نے حیرت سے اسے دیکھا


چلو سلو ہم۔۔۔۔ابھی وہ مزید کہتی کہ کسی نے بازو اسکی کمر میں لپیٹے اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ کٹی ڈال کی طرح اسکے سینے سے لگی أنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی


بےبی ڈول لگتا ہے مجھے بہت مسس کررہی تھی تم ۔۔۔کمر پر گرفت مضبوط کرتے اسکی نیلی آنکھوں میں بھوری سرخ آنکھیں گاڑھتے چبا چبا کر بولا آمن نے اسکے کمر میں لپٹتے ہاتھ پر اپنا نازک ہاتھ رکھتے ہٹانا چاہا لیکن کہاں ممکن تھا اس ظالم کی گرفت سے آزاد ہونا


امن چھوڑو مجھے ۔۔۔ آمنہ نے اسے گھورا لیکن یہاں فرق کسکو پڑتا تھا


۔۔۔. اگر میری قربت چاہئے تھی تو بتا دیتی میں رخصتی کروا لیتا یوں کھلم کھلا اپنے نازک حسن دیکھا کر مجھے بہکا رہی ہو ۔۔۔۔۔ تو یہی نا روم بک۔۔۔۔۔


مسٹر امن اپنی لمٹ کراس مت کریں ۔۔۔۔ اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ غرارئی اپنے لیے ایسے بےہودہ الفاظ سن اسکی نیلی آنکھیں بھیگی تھی ارسل نے ضبط سے مٹھیاں بھینچی


لیو ہر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ امنہ کی کلائی پکڑ کر اپنے پاس کرتے دھیمی آواز میں غررایا امن نے غصے سے کھولتے اسے گھورا جسے آنکھوں سے ہی آگ لگا دے گا ابیہا تو کانوں کو ہاتھ لگاتی ڈانس میں مگن ہوئی


مسٹر امن میری غیر موجودگی میں تم نے آمنہ کو جتنی بھی تکلیف دی وہ تو میں برداشت کرگیا مگر اب اسکی زرا سی تکلیف دی تو تمھاری جان میں اپنے ہاتھوں سے نکالو گا سمجھے ۔۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں دھاڑا امن نے ہونٹوں کو گول کرتے اوووو کیا


میری بیوی ہے یہ میری مرضی جو بھی کرو اسکے ساتھ تم کون ہوتے مجھے روکنے والے ہاں؟۔۔۔. بھائی لگتے ہو اسکے ؟۔۔۔۔ آمنہ کو غصے سے دیکھتے بولا


جی ہاں ۔۔۔۔ بھائی ہوں اسکا۔۔۔۔ اسکے اطمینان سے جواب دینے پر امن گڑبڑایا وہی آمنہ نے لب دباتے مسکراہٹ روکی۔۔۔۔ جیجا جی اگر زیادہ ہوا میں اڑے تا پر کاٹنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔۔۔


ہمارے پت کاٹنا اتنا آسان نہیں سالے ۔۔۔صاحب خیر مل کر اچھا لگا ۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولا تو ارسل بھی ہنس پڑا


جو کام دیکھنے میں مشکل لگے وہ کرنے میں آسان ہوتا ہے ۔۔۔۔ ارسل نے فوراً جواب دیا تا امن نے تعریفی انداز میں اسے دیکھا


ایکچلی میں تو یہاں اپنی معصوم بہن کی حفاظت کے لئے آیا تھا مگر تم یہاں ہو تو میں چلتا ہوں ۔۔۔۔ ارسل نے آمنہ کے آشارے پر کہا اور امن سے بغلگیر ہوتے وہاں سے چل دیا


تم آؤ میرے ساتھ ۔۔۔۔. اسکو بازو سے دبوچتے وہ کلب میں موجود روم میں آیا ۔۔.مجھے پہلے ہی معلوم تھا تم بولڈ ڈریسنگ کرتی ہو مگر اتنی بولڈ ڈریس ۔۔اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔ ڈریس اسکو تھماتے وہ چینج کرنے کا اشارہ کرتے بیڈ پر بیٹھا


ایکسوز می ۔۔جس طرح کی بھی میری ڈریس ہے اس سے تمھیں کیا تم جاؤ اپنی بےبی کے پاس وہ ویٹ کررہی ہوگی نہ تمھارا ۔۔کیک جو کٹ کرنا ہے ۔۔۔۔ وہ غصے سے چبا چبا کر بولی آسکی باتیں سنتے جاناں اور شائزہ بھی ہنس رہی تھی ۔۔۔۔ امن نے گھور کر اسے دیکھا


بات سنو ۔۔سمپل سی بات ہے اس طرح کی ڈریسنگ اگر میری گرل فرینڈ بھی کرتی تو میں اسکو بھی منع کرتا اور تم تو میری بیوی ہو بھلا کیسے میں تمھیں ایسی ڈریس میں دیکھو یاررر ۔۔۔۔۔ امن نے اسے سمجھایا کہ کیا سمجھایا آمنہ نے شکوہ کناہ نگاہوں سے اسے دیکھا


جاؤ یہاں سے دفع ہو جاؤ۔.اپنی جی۔ایف کے پاس نکلو کمینے ۔۔۔. اسے روم سے دھکا دیتے وہ روم لاک کرتے وہ بیڈ پر بیٹھ کر سسکی کہ شائزہ بےچین ہو اٹھی


میری جان رو کیوں رہی ہو تمھیں تو اسے رلانا ہے نہ چلو ایسے ہی پارٹی میں جاؤ ۔۔۔۔۔۔ شائزہ نے پیار سے کہا جو وہ آنسو صاف کرتے باہر کی طرح بڑھی جہاں وہ دونوں کیک کاٹ چکے تھے


کیک کا چھوٹا سا پیس لیے وہ اسکے سامنے کھڑا تھا آمنہ نے نفی میں سر ہلایا


ڈریس نہیں چینج کی نہ تم نے ضدی لڑکی ۔۔۔چلو کیک تو کھالو کیا پتہ اندر کی جلن ختم ہوجائے ۔۔۔۔ امن نے دل جلاتی مسکراہٹٹ سے کہتے لب دانتوں تلے دبائے اسے دیکھا جو جوالہ مکھی بن چکی تھی


اوکےاوکے نا کھاؤ میں ہی کھا لیتا ہوں ۔۔کیک خود ہی کھاتے وہ مزے سے اسکے فیس ایکسپریشن ملاحظہ فرما رہا تھا ۔۔۔۔ کہ ایک لڑکا آمنہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر ڈانس کا پوچھنے لگا آمن کو جلانے کی خاطر وہ ہنہہہ کرتی اس لڑکے کے ساتھ ڈانس فلور پر چلی آئی اور ڈانس کرنے لگی امن نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا کیونکہ وہ لڑکا بار بار جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کر رہا تھا آمنہ نے پیچھے ہوتے امن کو معصومیت سے دیکھا جو اسے ہی گھور رہا تھا کندھے اچکا گیا کہ خود ہی گئی ہو


لعنت ہو کمینہ مسینہ ۔۔۔کس کام کا شوہر ایک ٹھرکی سے بچا نہیں سکتا ۔۔ دل ہی دل میں امن کو سلواتیں سناتے وہ اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی جو اسکے مزید قریب ہورہا تھا


سوری لیکن انکو کو کسی سے ملوانا ہے ۔۔۔ اسکا ہاتھ پکڑتے وہ اسے اپنے پاس کھچنے لگا کہ وہ لڑکا بولا


یہ بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔آس ہیرے کو یہاں پارٹی میں لاکر آپنے بہت بڑا رزق اٹھایا ہے ۔۔۔خیال سے کہیں کوئی اس ہیرے کو چھین نا لے ۔۔۔۔ اسکے خوبصورت سراپے کو گہری نظر سے دیکھتے وہ مسکرایا تا امن نے آمنہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے ساتھ لگایا


رزق لینا میری عادت بھی ہے اور شوق بھی ۔۔اور رہی بات چھیننے کی تا کسی کی اتنی ہمت نہیں کہ میری ملکیت کو مجھ سے چھین سکے ۔۔۔۔وہ غصے میں دانت پیستے بولا تا وہ لڑکا آمنہ کو أنکھ مارتے وہاں سے غائب ہوا تا آمنہ کو لیے وہ غصے سے اسی کمرے میں بڑھا


کیا مسئلہ ہے تمھیں ہاں کہا تھا نہ چینج کرلو کیوں اپنے ۔۔۔۔ میری بات سنو تم بہت اڑ لیا ہوا میں اب اگر مجھے کپڑوں میں نظر آئی نا تو اڈھیر کے رکھ دونگا سمجھی ۔۔۔۔اسکی گردن کو آہنی ہاتھوں میں دبوچے وہ دھاڑا کہ آمنہ نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا


پہلے کیا کم درد دے رہے ہو جو اب تمہارے ہاتھ گلے تک آپہنچے ۔۔۔۔۔ نیلی آنکھوں کی پتلیاں سرخ ہونے لگی تھی دم گھٹنے کے باعث لیکن وہ ظالم شدت سے دھاڑتے گرفت مضبوط کرتے اسکی جان لینے کے در پر تھا


بکواس بند کرو اگر اس طرح حسن کی نمائش کروگی تو تمھیں پھولوں کے ہار تو پہنانے سے رہا میں ۔۔۔۔۔۔


آمنہ اسکی تو میں دیکھتی ہوں تم نکلو وہاں سے ۔۔۔گارڈز کو اشارہ ملتے ہی وہ روم کی طرف بڑھے جاناں کا بس چلتا تو اس لڑکے کی جان ہی نکال لیتی


چ۔چھوڑو مجھے ۔۔۔سانسیں تھمنے لگی تا اس نے مزاحمت کی یہی بات اسے مزید آگ میں جھونک گئی


چھوڑنے کا تا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔تمھیں مجھ سے الگ تو صرف ہم دونوں کی موت ہی کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن اسکے خطرناک حد تک سرخ پڑتی رنگت کو دیکھتے جھٹکے سے اسے چھوڑتے رخ موڑ گیا ۔۔۔ کہ دروازہ ناک ہوا غصے سے مٹھیاں بھینچتے وہ دروازہ کھول گیا مگر گارڈز کو دیکھ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا


جو اسکی سب سے بڑی غلطی تھی جسکا احساس اسے جلد ہی جدائی کی آگ میں جلانے والا تھا ۔۔۔ ایسی آگ جسے سہن کرپانا مشکل تھا


ﯾﮧ ﺑﺠﺎ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻣِﺰﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ______ ﻧﻮﺍﺯِﺷﯿﮟ ﮨﯽ ﻧﻮﺍﺯِﺷﯿﮟ


ﯾﮧ ﻓﻘﻂ ﻧﺼﯿﺐ ڪﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ____ ﺗﯿﺮﮮ ﺍِﻧﺘﺨﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ


کبھی کبھار جان سے پیارے لوگ بھی ہماری ذات اور جذبات کی اس قدر خوبصورتی سے تذلیل کر جاتے ہیں کہ جب وہ لمحے دماغ میں گردش کرتے ہیں تو ہماری روح تک لرز جاتی ہے"💔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


لگتا ہے مافیا گرل پاگل بھی ہوچکی ہیں ۔۔۔۔۔۔گارڈن میں بیٹھی وہ آمنہ اور امن کی باتیں سن ہنس ہنس کر پاگل ہورہی تھی کہ وہاں آتے حازم نے طنز کیا وہ سیدھی ہوئی


اوہ چل گیا پتہ تمھیں ؟۔۔گڈ ۔۔۔۔ وہ پرسکون لہجے میں گویا ہوئی تو حازم نے حیرانی سے اسکو سکون میں دیکھا


میں چاہو تا تمھیں ایریسٹ کرسکتا ہوں۔۔۔۔


لیکن کر نہیں پاؤگے ایس پی کیونکہ مافیا گرل مرنا پسند کرے گی جیل جانا نہیں ۔۔۔۔۔ درخت سے ٹیک لگائے وہ اپنے بال دونوں اطراف میں آگے کو پھیلاتے کان میں لگا آلہ چھپا گئی


زندگی سے تنگ ہو جو موت کی یاد آرہی ہے ؟۔۔۔


کہتے ہیں انسان کو موت اور قبر کو یاد کرنا چاہیے ۔۔۔۔ کیونکہ قبر ہر رات ہمارا انتظار کرتی ہے ۔۔۔ حازم نے چونک کر اسے دیکھا جسکا چہرہ مرجھایا ہوا تھا بے ساختہ ہی وہ اسکے قریب ہوا اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے دھیمی مگر نرم آواز میں اس سے مخاطب ہوا


کیا ہوا ہے کوئی پریشانی ہے کیا ؟۔۔۔اگر کچھ پروبلم ہے تو تم بے جھجھک مجھ سے شئیر کرسکتی ہو۔شازو۔۔۔۔۔


تمھیں معلوم ہے ایس پی ہم نے تم سے شادی کس لئے کی ۔۔۔۔۔ وہ جیسے آج دل کا سارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی حازم نے نفی میں سر ہلایا


ہم چاہتے تھے تم لوگ تڑپو جیسے بچپن سے ہم تڑپے تھے بنا ماں کی ممتا کے ۔۔۔۔ تمھیں برباد کرنا چاہتے تھے تاکہ ہماری بربادی کی کچھ ادائیگی ہوجائے ۔۔۔۔ نیلی آنکھیں انجانے احساس کے تحت بار بار بھیگ تھی حازم نے ناسمجھی سے اسکے چہرے کو دیکھا یہ سب تو وہ جانتاتھا


لیکن تم لوگ لوگ بہت اچھے ہو حازم ۔تم سوچ رہے ہوگے کہ میں وہی باتیں کیوں دہرا رہی ہوں۔ہے نا ۔۔۔میرا دل کہہ رہا ہے تمھیں بتانے کو ۔۔۔۔۔۔تم سے بات کرنے کو ۔۔۔۔ اسکے چہرے کو آنکھوں کے ذریعے دل میں اسکا نقش حفظ کررہی تھی


میں تمہیں اتنا دیکھنا چاہتی ہوں! کہ تمہارے چہرے کے تمام نقش میری آنکھوں کو حفظ ہو جائیں کیونکہ جانتی ہوں کہ پھر تجھے دیکھے بغیر ایک عمر گزارنی ہے 🥺👀🖤


اگر باتیں ہی کرنی ہے تو شادی کے بعد والی کرو تاکہ کچھ پتہ بھی چلے کہ تمھارے کیا خیالات ہیں ۔۔۔۔۔ وہ کچھ شریر ہوا مقصد اسکا موڈ ٹھیک کرنا تھا


نکاح ہوگیا پتہ نہیں کل تک بھی زندہ رہو گی یا نہیں شادی تک دور کی بات ہے ۔۔۔۔ وہ آسودہ سی مسکراہٹ سے گویا ہوئی تو حازم نے تڑپ کر اسے خود میں بھینچا


یار ہوا کیا ہے یار اس طرح کی باتیں کیوں کررہی ہو۔۔۔اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ اس طرح کی باتیں کرنے سے میں تم سے شادی نہیں کرونگا تو تمھیں خوش فہمیاں پالنے کی ضرورت نہیں شادی بھی ہوگی اور بچے بھی ہونگے ۔۔۔۔ اسکا موڈ بےحال کرنے کی پوری کوشش کی تھی


ایزل آمنہ کیا ہوا تم لوگوں کو ۔۔۔۔۔ انکی دھیمی پڑتی سانسوں کو محسوس کر وہ بےچین ہوئی کہ جاناں کی پریشانی سے ڈوبی آواز اسکی سماعت ہوئی


جلد از جلد کلب آمنہ کے پاس پہنچو مجھے کچھ سہی نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔


لیکن جان ۔۔کک۔یا ہوا۔۔۔۔ اسکی بھیگتی آنکھیں حازم نے حیرانی سے اسے دیکھا جو اسے چھوڑ باہر کو بھاگی تھی


رکو میں لے کر چلتا ہوں۔۔۔ اسکو بازو سے پکر کر اپنی جیپ میں بیٹھاتے جلدی سے جیپ سٹارٹ کرتے کلب کی طرف بڑھا


اگر میری بہن کو کچھ کیا نہ تمھارے ََ بھائی نے تا وہی اسکی قبر کھودنے میں ٹائم نہیں لگاؤنگی سمجھے ۔۔تم ۔۔۔۔بار بار ایزل اور آمنہ کی سانوں کی رفتار کم ہورہی تھی اسکی جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


ایزل ایزل کیا ہوا۔۔۔۔ایزل تم سے بات کررہی ایزل جواب دو ۔۔۔۔۔ اس نے جو دیکھا وہ ناقابل یقین تھا


جاناں ایزل کچھ بب۔بول کیوں نہیں رہی کلب سے نکلتی اسکی آواز کسی انجانے خوف میں ڈوبی ہوئی تھی


ارسل جلدی پہنچو اور ساتھ اس عورت کو بھی لے لینا ۔۔۔۔جلد بازی میں کہتے وہ ہیلی میں بیٹھتے مسلسل اہزل سے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور کیمرہ بھی بند ہوچکا تھا


ڈونٹ وری جان۔۔ہم پہنچ جائیں گی کچھ نہیں ہوگا اسے ۔۔۔۔۔ ارسلان نے اسے حوصلہ دیا


مجھے چھور کر تم واپس بھابی (ارسلان کی بیوی) کے پاس چلے جانا انہیں تمھاری زیادہ ضرورت ہے ۔۔۔۔


لیکن۔۔۔۔


ہلیز اسلان بھائی میں نییں چاہتی کہ آپکو کچھ ہو ۔۔۔۔ وہ منت بھرے لہجے میں گویا ہوئی تو ارسلان نے اس ضدی لڑکی کو دیکھتے اثبات میں سر ہلایا جاناں نے گارڈز کو کال کی لیکن سبکے فون بند کچھ سوچتے وہ شازم کو کال ملانے لگی جو کہ جا تو رہی تھی لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا تھا ۔۔.


ڈیم.اٹ کیا ہورہا ہے وہاں ۔۔۔۔ ماتھا مسلتے وہ اس وقت سخت تیش میں تھی پیشانی کی ابھرتی نسیں اسکے شدید اشتعال میں ہونے کا پتہ دے رہی تھی اگر جو ایزل کو کچھ ہوا تا وہ اس گاؤں کو ہی تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی جس نے اسکی خوشیاں چھین لی تھی اس سب میں قصور عالم شاہ کا بھی تھا آخر وہ ہی توتھا جس نے شازم کو انڈرورلڈ کا راستہ دیکھایا تھا.......


💞💞💞💞💞💞


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


جیسے ہی امن نے اسے چھوڑا ہائی کے باعث وہ خود کا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور زمین بوس ہوئی کہ پیچھے پڑی کانچ کی ٹیبل کا کنارہ اسکے سر پر عین دماغ کی جگہ لگا کہ اسکی چیخ حلق میں ہی کہیں دب گئی نیلی آنکھیں درد کے باعث پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہونٹ کھلے تھے جیسے وہ بولنے کی کوشش میں ہو مگر زبان اسکا ساتھ نہ دے رہی تھی خون کی لکیریں اسکے سر کی پچھلی سائیڈ سے بہتی سفید ماربل کے فرش کو سرخ کرگئی امن کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے اٹھے ہاتھ بےجان ہوتے زمین پر گرے


میڈم کا حکم ہے میم کو یہاں سے لے جانا ہے ۔۔۔۔۔ اسکے سوالیہ نظروں کو دیکھتے گارڈز نے کہا تا امن نے کوفت سے آنکھیں گھمائی


جاؤ کچھ دیر میں میم آجائیں گی انفیکٹ میں خود چھوڑ آؤ گا گھر اوکے ۔۔۔۔۔


لیکن میم۔۔۔۔


جاؤ ۔۔۔۔ دروازہ انکے منہ پہ بند کرتے وہ مڑا تو ساکت ہوا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا سرخ لہو اسکے قدموں تک آن پہنچا تھا اسکی زرد پڑتی رنگت ۔۔۔۔ پہلو میں گرے ہاتھ ۔۔۔ساکت آنکھیں ۔۔۔ اسکی جان نکالنے لگی


ہیے آمنہ کیا ہوا آئی ایم سوری میں تمھیں درد نہیں دینا چاہ رہا تھا ۔۔۔سوری یار پر ایسے تو مت کرو نہ دیکھو یہ مزاق میں برداشت نہیں کرونگا یار ۔۔۔.میرا دل پھٹ جائے گا ۔۔۔امنہ اپنے من سے بات کرو نا پلیز ۔۔۔۔۔۔اسکا سر اپنی گود میں رکھتے وہ دل میں پیدا ہوئے خدشے کو نظرانداز کیے اس سے معافی مانگ رہا تھا اسکے گالوں کو تھپتپاتے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اب کبھی ہوش میں نہیں آئے گی وہ کبھی اسے معاف نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔


آمنہ ناراض ہونا مجھ سے دیکھو جان وہ جو ابیہا ہے نا میری دوست تھی تمھیں جلانے کے لئے میں بسس ناٹک کررہا تھا لیکن مجھے اب برا لگ رہا ہے سچی آئندہ نہیں کرونگا ایسا کچھ بھی بسس اب تو تم بات کرو نا ۔۔۔۔امنہ اچھا نہیں کررہی تم یارررر میں مر جاؤں گا اس طرح ریکٹ نہیں کرو آمنہ میں مع۔معافی مانگ تا رہا ہوں پلیز ۔۔۔۔۔۔ اسکی سانسوں کو ساکت دیکھ اسے اپنی سانسیں منجمد ہوتی محسوس ہوئی پاگلوں کی طرح اسکے منہ چومتے وہ بڑبڑا رہا تھا کہ زور دار جھٹکے سے دروازہ کھلا اور شائزہ اور حازم اندر داخل ہوئے پارٹی ختم ہوچکی تھی سب ہنسی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے تھے لیکن کلب میں تا جیسے قیامت آئی تھی


خون کو چاروں اور پھیلا دیکھ شائزہ لڑکھڑائی بروقت حازم نے اسے سنبھالا امن امنہ کا سر اپنی گود میں رکھے پاگلوں کی طرح اسکا چہرہ ہاتھوں سے چھوتے بڑبڑا رہا تھا اسکا بےجان وجود دیکھ شائزہ لرزتے جسم سے لڑکھڑا کر اسکے پاس بیٹھی آنکھوں کی پتلیاں ساکت امن کے چہرے پر تھی زرد چہرے پر آسودگی آنسو کے نشانات تھے


آمنہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔ ایک چیخ کے ساتھ وہ اس سے لپٹی امن نے حیرانی سے اسے دیکھا


امن ۔۔۔۔ حازم نے اسے پکارا تو پیچھے دھکیلتے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ ہونے کا اشارہ کیا حازم نے تشویش سے اپنے بھائی کی پاگلوں سی حالت دیکھی


ششششششش۔۔۔۔۔ میری جان سو رہی ہے تنگ مت کرو اسے ۔۔۔۔سرخ انگارہ آنکھیں اسکی جانب کرتے وہ دھیمی آواز میں غررایا ۔۔


آمنہ میری جان ا۔اٹھو دیکھو مزا۔ق کا وو۔وقت نہیں ہے آمنہ اٹھو نا میں مرجاؤں گی تمھاری بنا ۔۔۔۔۔۔ اسے جھنجھوڑتے وہ حلق کے بل چیخی حازم نے نم نظروں سے اسکی حالت دیکھی لیکن پرسوچ بات یہ تھی کہ یہ سب ہوا کیسے امن چپ چاپ بیٹھے اسکے بال سہلا رہا تھا تا کبھی اسکے کان میں کچھ سرگوشی کررہا تھا حازم نے اسے پیچھے ہٹانا چاہا لیکن وہ دھاڑا


دفع ہوجاؤ کہا نہ میری جان کو تنگ مت کرو ۔۔۔وہ سو رہی ہے ۔۔۔۔


آمنہ ۔۔۔ دھاڑے مار روتے وہ اسکے ساکت وجود سے لپٹی حازم نے کال کرتے اپنی ٹیم بلائی اور میصم کو بھی کال کردی


ہیے شازو تم کیوں رو رہی ہو آمنہ سو رہی ہے اسے تکلیف ہوگی تمھیں روتے دیکھ کر چلو ہنسو اپنی آمنہ کو کچھ ہوا تھوڑی ہے ۔۔۔ وہ ہنس کر آمنہ کے گال پر لب رکھ گیا شائزہ نے سرخ نگاہوں سے اسے دیکھا وہ پاگلوں کی طرح اس کو چوم رہا تھا کبھی اسکے بال سہلاتے بڑبڑاتا تا کبھی اسکے ہاتھوں پر بوسہ دیتا کوئی پاگل ہی لگ رہا تھا


ایمبولینس کے آتے ہی میصم اور پولیس وہاں پہنچی میصم نے شائزہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے آمنہ پر سفید چادر ڈالی شائزہ کا بس نہیں چلا وہ امن کی جان لے لیتی حازم امنہ کو اٹھانے لگا کہ امن نے آگے آتے اسکےہاتھ جھٹکے


میری چیزوں کو ہاتھ مت لگانا میں خود اسے روم میں سلاؤں گا ۔۔۔۔


یہ تمھارا پاگل بھائی میری ۔میری بہن کو مار تا چکا ہے اب نجانے کیا کرے گا اسکے ساتھ۔۔۔ اب تو پہچھا چھوڑ دو میری بہن کا مار کر سکون نہیں ملا ۔۔۔۔۔ وہ امن کی طرف لپکی مگر حازم نے اسکی کمر کے گرد بازو پھیلائے اسے روکا


من آمنہ کہہ رہی ہے کہ اسے اس وائٹ وین میں جانا ہے ۔۔۔۔ میصم نے اسے پیار سے بہلایا تو امن نے امنہ کو دیکھا جسکی آنکھیں بند تھی وہ سر اثبات میں ہلاتے ایمبولینس میں داخل ہوتے اسے سٹیچر پر لیٹا گیا اور اسکے ہاتھوں کو ہاتھوں میں لیتے گویا ہوا


آمنہ دیکھو اب ہم وائٹ وین میں ہیں ۔۔۔ اب تو آنکھیں کھولو نہ اتنی بھی کیا ناراضگی ۔۔۔۔ اسکے ہاتھ پر سر ٹکاتے وہ شکوہ کر گیا لیکن وہ تو بے سدھ بےجان پڑی تھی


شائزہ کیا ہوا آمنہ کو شائزہ بولو بھی ۔۔۔۔دل پر ہاتھ رکھتے وہ میر پور کی زمین پر قدم رکھتے شائزہ سے سوال گو ہوئی لیکن شائزہ تو خود ہی غموں سے نڈھال جاناں کو بھول چکی تھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


بابا ۔۔۔۔ جانے کتنے عرصے سے یہ پکار انکی حسرت رہی تھی آور یہ پکار سنی بھی کب جب انکا دل غم سے پھٹ رہا تھا جاناں نے نظریں گھمائی تو حویلی کے اردگرد موجود لوگوں کو دیکھا جو اسکے بابا کی پکار پر حیران و پریشان دیکھائی دے رہے تھے حویلی کے آگے بنے اس میدان نما صحن میں قدم رکھتے ہی خون کی بدبو نے اسکا استقبال کیا اندھیرے کی وجہ سے کچھ واضح تا نہ تھا لیکن وہ اتنا ضرور جان گئی تھی کہ وہاں کسی انسان کے جسم کے ٹکڑے موجود ہیں موبائل کی ٹارچ جلاتے وہ آگے بڑھی ایک بےجان وجود کے پاس کوئی آدمی سر جھکا کر بیٹھا نظر آیا


بابا ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ آدمی شازم ہے اسکے قریب جاتے پکارا اور اردگرد نظریں دوڑاتے ایزل کو ڈھونڈنا چاہا لیکن مایوسی سے شازم کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو انہوں نے سوجی ہوئی لال تھکن سے چور آنکھیں اٹھا اسے دیکھا


کیا ہوا آپکو یہاں کیوں بیٹھے ہیں اور ایزل کہاں ہے نظر کیوں نہیں آرہی ۔۔۔سامنے پڑے لڑکی کے وجود کو سراسر نظرانداز کرتے وہ جلدبازی سے پوچھنے لگی بےچینی سوا نیزے پر پہنچ چکی تھی دل مانو کسی بوجھ تلے دبا تھا


یہ کیا کہہ رہیں ہیں آپ ہوش میں تو ہیں ۔۔۔۔۔ انکے اس بےجان وجود کی طرف اشارہ کیا جسکا چہرہ کچلا ہوا تھا کہ پہچان میں ہی نہیں آرہا تھا اسکے پیروں تلے زمین کھسکی اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا محال لگا تا زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔۔ لیکن آنسو ؟ آنسو تو تھے ہی نہیں اسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا


میں برباد ہوگیا ۔۔۔۔میں نے اپنے پی ہاتھوں اپنی بیٹیوں کو برباد کردیا ۔۔۔ میری دنیا اجڑ گئی ۔۔۔۔۔ میں لٹ گیا ۔۔۔۔ اپنا بال نوچتے وہ اور بھی کچھ بڑبڑا رہے تھے مگر جاناں تو کچھ سن ہی نہیں رہی تھی اسکی نگاہیں تو آیزل کے بگڑے چہرے پر تھی ۔۔۔۔


صبح سے گرجتے بادل اب پورے زور شور سے برسنے لگے ہوا سے اسکے بال اڑ رہے تھے لیکن وہ منجمد سی بیٹھی اسے تکے جارہی تھی


کچھ الفاظ اسکی سماعت ہوئے


جان کی بچی ابھی تو تمھیں میری قدر نہیں جب میں مروگی نا تب بیٹھی رو رہی ہوگی مگر تب میں تمھیں چپ کرانے نہیں آؤ گی ۔۔۔۔


میں آج بھی نہیں مررہے روئی ایزل۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے تمارے جانے کا دکھ نہیں ہے ۔۔۔مگر میں بےبس ہوں ایزی ۔۔۔۔۔مجھے رونا نہیں آرہا ۔۔۔۔تمھاری طرح یہ آنسو بھی مجھ سے روٹھ گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔


ہاہاہا جاناں کبھی تو ہنس لیا کرو یاررر ہر وقت ناک پر غصہ سجائے رکھتی ۔۔۔۔ پتہ ہے میری حسرت ہے کہ میں تمھیں ہنستا ہوا دیکھ تمھیں ہنستا دیکھ کر موت بھی آجائے تو خوشی خوشی قبول ہے ۔۔۔۔۔ اسکی آواز میں حسرت تھی وہ آسودگی سے مسکرائی بارش کے قطرے اسے بھگو چکے تھے شازم سر جھکائے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بیٹھے تھے گاؤں والے انکے دکھ میں شریک ہوئے تھے


میں تا مسکرائی ہی نہیں ایزی ۔۔۔۔ تم پہلے ہی مجھ سے دور ہوگئی یہ کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔۔ جب میں مسکرانے لگتی ہوں ایسا کچھ ہوجاتا ہے کہ مسکرانا چاہو تب بھی مسکرا نہیں سکتی ۔۔۔۔ شاید میری قسمت میں مسکرانا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔


یہ کیسی بھیانک رات تھی وہ سب ہی درد میں تھے یہ رات آن سبکے لیے بھاری تھی ارسلان وہاں ہی موجود تھا ارسل بھی آچکا تھا اسکی آنکھوں میں آنسو بارش کے قطروں کے ساتھ بہہ رہے تھے


سلو یار میرا دل کرتا ہے تمھارا سالن بنا کر رکھ دوں دماغ کی دہی کردیتے ہو۔۔قسمے ۔۔۔۔ اسکی غصے بھری آواز سنائی دی اعصاب شکن ماحول میں بھی اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری وہ شرارتی لڑکی انکی جان تھی لیکن اسکی اچانک موت کا سن اسے جو جھٹکا لگا تھا کہ چار سو والٹ کا تھا


ارسلان کے اشارے پر وہ شازم کے کان کے پاس جھکا کچھ کہتے وہ اٹھا اور کچھ ہی دیر میں ایزل کو کفن پہنائے وہ لوگ اسکا جنازہ لیے جارہے تھے جاناں نے کوئی ریسپونس نہ کیا تھا بسس زمین پر بیٹھی اسی جگہ کو گھورے جارہی تھی جہاں ایزل کو رکھا گیا تھا ٹھنڈ کے باعث وہ کانپ رہی تھی مگر اس پتھر پر تا کوئی اثر ہی نہیں پڑ رہا تھا ادھر آمن کو سکون کا انجیکشن لگاتے وہ آمنہ کی تدفین کے بعد جاناں وغیرہ کا انتظار کررہے تھے جویریہ خان غائب تھی


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


وہ پاگل سا جاناں کو ڈھونڈ رہا تھا جب تھک ہار کر گھر لوٹا تا خانم شاہ نے جاناں کی آمد کا بتایا تو وہ گہری سوچ میں ڈوبا شروع سے لے کر اب تک کا اسکا لہجہ اسکی حرکتیں یاد کی تا کافی مشکوک لگی اگر جاناں معصوم سی ڈر پھوک لڑکی ہوتی تو یقیناً وہاں سے قدم باہر نکالنے کی کوشش نہ کرتی


ابھی وہ بیڈ پر لیٹا کوئی فلم دیکھ رہا تھا جب عالم شاہ روم میں آئے انہیں دیکھ وہ لیپ ٹوپ بند کرتے اٹھ بیٹھا


بیٹا آج تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔ کچھ بتانا ہے ۔۔۔۔ وہ تّمحید باندھنے لگے


جہ جی بابا بتائیں کیا بات ہے آپ پریشان لگ رہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ عالم شاہ کے چہرے پر پریشانی دیکھ اسے عجیب لگا کیونکہ بچپن سے ہی انہیں ٹینشن فری دیکھا تھا


کیا تم انڈرورلڈ کے بادشاہ بننا چاہتۓ ہو ؟۔۔۔۔


بابا یہ آپ کیا کہہ رہیں ہیں آپ جانتے ہیں بادشاہ بننے کے لئے مجھے بادشاہ کو مارنا پڑے گا جو بلکل آسان نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ہشاب نے حیرانی سے کہا آخر کیوں وہ یہ بات کررہے تھے


اس وقت آسان یہی کام ہے اور ضروری بھی کیونکہ میرے سارے آدمی اب بادشاہ یعنی انڈرورلڈ کے بادشاہ کے غلام ہیں اگر تم بادشاہ بن گئے تا ہماری جان بھی بچ جائے گی ۔۔۔۔۔ وہ سمجھانے لگے


کون مارنا چاہتا ہے آپکو ؟۔۔۔اور بادشاہ کو مارنا آسان کیسے ؟؟۔۔آپ جانتے ہیں بادشاہ کون ہے ۔۔۔۔ اسے تشویش ہوئی


بادشاہ جاناں کے والد یعنی شازم ہے اور تمھاری بیوی مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہے میری جان کی دشمن بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ اس وقت اسکی دو بیٹیاں مرچکی ہیں ۔۔لوہا گرم ہے ہتھوڑا مار دو اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔۔۔۔۔۔


مگر بابا میں جاناں کے والد کو ماروں گا تا وہ مجھ سے نفرت کرنے لگی گی جو میں ہرگز افورڈ نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔ جاناں کا سن کر جھٹکا تو لگا تھا مگر وہ بےوقوف تھوڑی تھا جو اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لے لیتا ۔۔۔۔


اسے پتہ ہی نہیں چلنے دیں گے کہ شازم کو تم نے مارا یہ الزام ہم اسکی ماں پر لگادینگے جو پہلے ہی شازم کی جانی دشمن ہے ۔۔۔۔۔ وہ اپنے شیطانی دماغ کو چلاتے گویا ہوا تو ہشاب نے پرسوچ انداز میں سر اثبات میں ہلایا اگر گدی اور جاناں دونوں مل جائیں تا اسکی لائف بن جائے


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


کچھ دن بعد۔۔۔۔۔


سب اپنا سامان باندھ لیں اب آپ لوگ شہر جاکر رہیں گے آپکو وہیں کھیتی کے لئے زمین اور ساری سہولتیں دی جائیں گی وہاں کوئی درندہ بھی نہیں ہوگا آپ بےخوف ہوکر اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں تاکہ وہ بڑے ہوکر درندہ نہ بنے جسکو نہیں جانا وہ یہ سن لے کہ اس گاؤں کا نام و نشان میں آج اس دنیا سے ہی مٹا دونگی گاؤں کے چاروں اور بم فٹ کردئے گئے ہیں آپ لوگ چاہیں تا رک جائیں ورنہ ان وین پر تمیز کے دائرے میں رہ کر سوار ہوں اور ہاں ہر وین میں صرف ایک فیملی جائے گی ۔۔۔۔۔


سرد و سپاٹ لہجے میں کہتے وہ شازم کے ساتھ ہیلی میں بیٹھی گاؤں سب اپنے اپنے گھر والوں کو لیتے وین میں بیٹھے ان سبکے گاؤں سے نکلتے ہی اس نے دور سے میر پور کو دیکھا جو شروع سے ہی انکی بربادی سابت ہوا تھا وہ گاؤں ہی منحوس تھا انکے لیے ۔۔ایک کلک کی آواز سے گاؤں ہر طرف بم پھٹنے لگے کچھ ہی دیر میں وہاں صرف آگ ہی آگ تھی


ابھی تا ایک اور قیامت بھرپا ہونا باقی تھی جب اسے پتہ چلنا تھا کہ اسکی بڑی بہن بھی جان کی بازی ہار چکی ہے وہ بھی اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں۔۔۔۔۔ ان کچھ دنوں میں جاناں نے شازم کو مخاطب کرنا گوارہ تک نہ کیا کیونکہ وہ انہیں ہی ایزل کی موت کا قصور وار سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞


بھائی ان مافیا گرلز نے تو واقعی ہمھیں برباد کردیا ہمارا بھائی کیسا پاگل ہوگیا ہے ۔۔۔۔ جب سے امن کو ہوش آیا تھا وہ پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچتے آمنہ کو بلا رہا تھا لیکن وہ ہوتی تو آتی نہ شائزہ نے بھی خود کو کمرے حد تک محدود کر رکھا تھا اسکی حالت کو دیکھتے میصم اسے امریکہ بھیجنا چاہ رہا تھا تاکہ اسکا علاج ہوسکے ۔۔۔۔۔


اگر ہماری یہ حالت ہے حازی تا سوچو ان بہنوں کا کیا حال ہوگا جسکی بہن ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ کر جاچکی ہے امن ہمارے سامنے تو ہے لیکن وہ وہ تا مٹی تلے جاسوئی ہے ۔۔۔ دکھ سے کہتے وہ امن کے بےہوش وجود کو بھروسہ مند لوگوں کے حوالے کرگیا تاکہ اسے امریکہ لے جایا جاسکے اسکی حالت ٹھیک ہوسکے ۔۔


وہ جانتے ہوئے بھی انجان بن رہا تھا بھلا عشق کے ڈسے لوگ ٹھیک ہوسکتے ہیں نہیں انکا دل تو مردہ ہوجاتا ہے یہ عشق کا زہ۔ر تھا جو سانپ سے کے زہ۔ر سے بھی زیادہ زہ۔ریلہ تھا انکی سانسیں چل رہی ہوتی ہیں لیکن روح ۔۔۔روح تو اپنے محبوب میں قید ہوتی ہے ۔۔۔۔۔


سنو جاناں


تم میری خواہش نہیں ہو ،


خواہش پوری ہو، جائے تو طلب نہیں رہتی۔


تم میری عادت نہیں ہو ،


عادت بری بھی ہوتی ہے۔


تم میری ضرورت بھی نہیں ہو ،


ضرورت پوری ہو جائے تو دوسرے کی تلاش رہتی ہے۔


تم میری دنیا نہیں ہو ،


دنیا تو فانی ہے ایک دن ختم ہو جائے گی۔


تم میری محبت ہو ،


جس کی طلب ہمیــــــــشہ رہتی ہے


تم میری سانس ہو ،


جس کے بعد اگلی سانس کا انتظار رہتا۔


تم میری جان ہو ،


جب تک جسم میں موجود ہے ،


ہم ساتھ ہیں جب جسم سے نکلی تو ختم


💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

بھائی ابھی تک جاناں کو اس بارے میں معلوم نہیں لیکن جب اسے معلوم ہوگا تو وہ پتہ نہیں کیسے ریکٹ کرینگی ۔۔۔ لائنج میں بیٹھے وہ ماتھا مسلنے لگا اسے اندازہ تھا جاناں کے غصے کا

میں اسے پتہ ہی نہیں چلنے دونگا حازی ۔۔۔۔۔ تم جاؤ شائزہ کو کھانا کھلاؤ کتنے دن ہوگئے اسے بوکھا رہتے ہوئے ۔۔۔۔میصم نے پرسوچ انداز میں کہتے سر جھٹکا مگر پیچھے کسی کی آہٹ محسوس کر کے سٹل ہوا

کیا نہیں پتہ چلنے دوگے ۔۔۔۔۔ اور وہ بھوکی کیوں ہے ۔۔۔۔ شازم کے ساتھ اندر آتی جاناں نے سرد مہری سے پوچھا تو میصم نے گہری سانس بھری اور حازم کو جانے کا اشارہ کرتے اسکی طرف مڑا دل میں امید ہوئی کہ آبرو اس دشمنِ جاں کا دیدار نصیب ہوگا لیکن وہاں صرف جاناں اور شازم موجود تھے اسکی آنکھوں میں مایوسی چھائی جو جاناں نے محسوس کی

ایزل نہیں آئی ۔۔۔؟ ہجر کی آگ میں جلتے بھڑکتے دل پر ضبط نہ ہوا تو آخر وہ پوچھ ہی بیٹھا ایزل کی یاد شدت سے ستا رہی تھی اسکے چہرے پر سایہ آخر گزرا وہ گلاسس ٹھیک کرتی صوفے پر بیٹھی شازم اپنے کمرے کی طرف چل دئیے

بتاؤ میری بیوی کہاں ہے ۔۔۔۔۔ دل میں سو وسوسے پہدا ہورہے تھے وہ بے قرار لہجے میں سوال گو ہوا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

شائزہ پلیز دروازہ کھولو پلیزززز تھوڑا سا ہی کچھ کھالو ۔۔۔۔۔ دروازہ کھٹکھٹاتے وہ بےبسی سے بولا پچھلے کچھ دنوں میں وہ ایسے ہی دروازہ کھٹکھٹاتا لیکن اندر سے بسس گہری خاموشی چھائی تھی

جاناں آئی ہوئی ہے تمھارے بارے میں سن کر وہ پریشان ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔ کیا ۔۔۔۔ بات مکمل ہونے سے پہلے ہی دروازہ کھلا بکھرے بالوں۔۔۔ زرد رنگت ۔۔۔۔ نیلی سوجی ہوئی آنکھوں کے نیچے پڑتے حلکے ۔۔۔۔۔ خشک ہونٹ ملجے سے حلیے میں وہ پہلے سے زیادہ کمزور لگ رہی تھی حازم کا دل جیسے پاؤں تلے کچلا

شازو۔۔۔۔ اس نے پکارا مگر وہ سائیڈ سے بھاگتی جاناں کے پاس جانے لگی

کچھ دن پہلے ہی ہم نے ایزل کی تدفین کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ سرد و سپاٹ لہجے میں دل پر پتھر رکھ کر گویا ہوئی پیچھے سے آتی شائزہ کے قدم ساکت ہوئے اور میصم تو جیسے پتلہ بن چکا تھا حیرت سے کنگ آنکھیں میں جو ملنے کی آس تھی وہ دل میں ہی کہیں دفن ہوچکی تھی

شازو ۔۔۔۔ دھڑام کی آواز پر جاناں مڑی تو شائزہ کو بے ہوش پڑے دیکھ وہ تڑپ کر اسکی طرف لپکی حازم کی مدد سے اسے وہہ صوفے پر لیٹاتے وہ پریشانی سے اسکی بےحال حالت ملاحظہ کررہی تھی ڈاکٹر اسے چیک کر رہی تھی

بہت بڑا صدمہ لگا ہے بہت زیادہ ویک بھی ہیں ۔۔ انکا خاص خیال رکھیں ڈپریشن سے دور رکھے۔۔ ہیلتھی چیزیں کھلائے تاکہ ویکنس ختم ہو ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تو اس نے ساتھ کھڑے حازم کو دیکھا جو نظریں چرا رہا تھا وہ ڈاکٹر کو چھوڑنے گیا

آمنہ کہاں ہے جب سے آئی ہوں نظر نہیں آئی۔۔۔۔ شائزہ کے پاس بیٹھتے وہ اندر آتے حازم سے سوال گو ہوئی۔۔

کلب میں جب پارٹی تھی تو بادشاہ کے آدمیوں نے وہاں اٹیک کیا اس اٹیک میں آمنہ کی ڈیتھ ہوگئی امن بھی۔۔۔۔۔

تم نے ایک بار بھی نہیں بتایا کہ اسکو کچھ ہوا ہے ایک بار بتا دیتی کیا پتہ میں اسے بچا لیتا ۔۔آخری بار دیدار ہی کرلیتا لیکن تم لوگ جانتے ہی نہیں وہ میرے لیے کیا تھی۔ ۔۔۔ غم و غصے سے دھاڑتے بپھرے شیر کی طرح وہاں سے نکلا جاناں نے بےتاثر نظروں سے اسکی پشت کو دیکھا

آمنہ کا سن کر اسکے حواس معطل ہورہے تھے اسکی دونوں بہنیں اسے تنہا کرگئی کیوں کیا قصور تھا انکا ۔۔۔۔لیکن اسکی بہن اتنی کمزور تو نا تھی کہ بادشاہ کے کتوں سے ڈر جاتی ۔۔۔کچھ چھپا رہے تھے یہ لوگ

اللہ تمھیں صبر دے ۔۔۔۔۔ حازم نے افسوس سے اسکی گم صم حالت دیکھتے کہا اور میصم کے پیچھے ہولیا ۔۔۔

م۔میں آج بھی تنہا ہوں لگتا ہے ماضی پھر خود کو دہرا رہا ہے اس دن بھی مجھ سے سب چھن گیا تھا اور آج میرے عزیز مجھ سے چھن گئے ۔۔۔۔ اسکا دل مزید پتھر ہوا سارے احساسات ایک ایک کرتے مرنے لگے تھے آنکھوں میں ویرانیت چھائی تھی میڈ کو شائزہ کا خیال رکھنے کا کہتے وہ ننگے پاؤں گھر سے نکلی تھی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

اللہ جی اسکو حوصلہ صبر دونوں کی اشد ضرورت ہے اسکی مدد کرنا اسکا دکھ کم کرنا میرے مولا ۔۔۔۔۔ جب سے ایزل اور امنہ کی ڈیتھ کا پتہ چلا تھا وہ بےسکونی سے سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا من کر رہا تھا کہ اسکے پاس چلا جائے لیکن نجانے وہ کیسے ریکٹ کرے ۔۔۔

شٹ ۔۔۔۔۔ جاناں کو سوچنے میں وہ اتنا مگن تھا کہ سامنے نا دیکھا اس سے پہلے گاڑی عورتوں سے ٹکراتی کہ عین وقت پہ اس نے موڑ کاٹتے بریک لگائی اور جلدی سے نکل ان عورتوں کی طرف بڑھا

آپ ٹھیک تو ہیں آیم ریئلی ویری سوری میں نے دیکھا نہیں ۔۔۔۔ وہ سر جھکائے شرمندگی سے گویا ہوا

اسے بھول جاؤ وہ غم زادی ہے ۔۔۔ اسکی زات سے جڑ کر تم نے اپنی موت کو دعوت دی ہے وہ غم زادی سبکی بربادی ہے وہ مار ڈالے گی تمھیں تمھارے اپنوں کو ۔۔۔اس سے دور ہوجاؤ تمھاری بھلائی اسی میں ہے ۔۔۔۔۔ شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر پھیرتے وہ مسکرائی تو ہشاب نے ناسمجھی سے انکی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ عورتیں نہیں تھی وہ ہیجڑے تھے ۔۔.کافی بزرگ تھی اللہ کی اس مخلوق کے چہرے پر نور ہی نور تھا وہ عقیدت سے اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھ گیا

میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔۔۔ وہ الجھا

ممکن ہے کہ تمھاری موت اسکے ہاتھوں کو ۔۔۔۔ ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے دھیمے لہجے میں بولی ہشاب نے پرسوچ انداز میں انہیں دیکھا وہ الجھ رہا تھا

وہ تمھاری کیا کسی کی نہیں ہے اسکی منزل کچھ اور ہے اپنے مقصد کے لئے وہ بنائی گئی ہے وہ غم زادی ہے ۔۔ناسمجھ لڑکے تم انکے بیچ آئے ہو تمھیں ہٹنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔

آپ کیا کہہ رہیں ہیں ایسا نہیں ہے ۔۔۔.ہشاب نے نفی میں سر ہلایا

جاو لوٹ جاؤ اس رستے سے پلٹ جاؤ یہاں دہشت ہے ایسی دہشت ہے کہ دیکھتے ہی کلیجہ منہ کو آجائے ۔۔لوٹ جاؤ۔۔۔ وہ کہتے وہاں سے جاچکے تھے لیکن وہ وہی انکی باتوں پر غور کر رہا تھا

سنکی باتیں حقیقت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ وہ منہ بنا کر بالوں میں ہاتھ چلاتے گاڑی میں بیٹھا اور زنننن سے گاڑی بھگا لے گیا ۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ابھی تو محبت کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھا تھا ابھی محبت کو سمجھنا  تھا جاننا تھا محبت کا سرور۔۔۔ محبت کی تاثیر جاننی تھی ۔۔۔ مگر ۔محبت شروع ہونے سے پہلے ہی اسکی قسمت میں جدائی لکھ دی گئی تھی ۔۔۔ اسکا گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ گیا تھا ۔۔۔ وہ سجدے میں گرے پیشانی زمین پر ٹکائے آنکھیں موندے سکون کی بھیک مانگ رہا تھا ۔۔۔۔ آج تک اس نے کوئی نماز قضا نہ کی تھی نہ حازم اور امن سے کروائی تھی اسے یقین تھا کہ خدا سے تعلق مضبوط رکھو تو مصیبتوں کو جھٹ سے حل کیا جاسکتا ہے  خدا ساتھ ہو تو بڑی سے بڑی مصیبت بھی آسان لگتی ہے خدا کو یاد رکھو تا وہ ہمھیں یاد رکھتا ہے ۔۔۔۔۔

یا خدا آج تیرے اس گناہگار بندے کو سکون بخش دے ۔۔اسکی جدائی سے دل میں جو حشر بھرپا ہے اسے پرسکون کردے ۔۔۔ تیرے فیصلے دل و جاں سے قبول ہے میرے مالک ۔۔۔یا تو سانسیں روک دے یا ازیت کم کردے ۔۔۔۔ انکھوں سے چند قطرے جائے نماز میں جزب ہوئے وہ آنکھیں کھولتے اٹھا جائے نماز تہہ کرتے اسکی جگہ پر رکھی اور بالکنی میں آن بیٹھا دل خاصا پرسکون تھا چہرے پر سکون کہ لہریں تھی ۔۔ آنکھیں بند کرکے گہری سانس کھلی ہوا میں خارج  کرتے وہ وہی پڑے صوفے پر بیٹھا ڈائری اٹھائے وہ ڈائری بچپن سے اسکے پاس تھی جس میں وہ اپنے دل کی بات لکھا کرتا تھا ایزل سے نکاح کے  بعد وہ اسے بھول ہی گیا تھا لہکن آج تنہائی میں میں وہ پھر اسکی ہمسفر تھی 

 سنو جاناں تم مجھے روتا بلكتا سسکتا دیکھنا چاہتی تھی لو لے آئ زندگی اس مقام پر بھی جہاں اکثر و بیشتر میری آنکھوں کا غسل ھوتا رہتا ہے جہاں لوگ تو سوچنے پر مجبور ہیں اس بندے کو پریشانی کیا ہے عیش و آرام ہے دولت شہرت عزت سب ہے ۔۔۔۔ کیا بتاؤ انھے مجھے تمہارا روگ اندر سے کھا رہا ہے پچھلے کچھ گھنٹوں س میں کس قدر بیمار ھوں اندازہ بھی نہیں هو گا تمھیں تمھاری قبر کی مٹی تک نہیں ملے گی مجھے جاناں۔۔۔ یہ کیسا ظلم تھا ۔۔۔۔روپوش ھو گئی ہو جاناں منوں مٹی تلے کسی درگاہ کا فقیر عشق کر بیٹھا اک غم زادی سے اسے نہیں تھا علم عشق کرنا آج کے دور میں سخت سزا ہے کیا بتاؤ اس دل نادان کی لگا میں خانہ کعبہ سے ھوا اور باتیں تمہاری آنسو گلاف کعبہ تمھارے نام پر تر کر رہے ہیں لیکن کیا کہوں مزید لکھا نہیں جا رہا مجھ سے آنکھیں بند هو رہی ہے دیکھو نہ میرا کمرہ اندھیروں کا عادی هو گیا ۔۔۔. قلم بند کرتے وہ صوفے سے سر ٹکا گیا 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

رات کی تایکی ہر سو پھیلی تھی وہ بھی کمرے میں بند پرسکون سی سوئی تھی کہ اچانک کسی نے اسکے ہاتھوں پاؤں کو زنجیر سے باندھتے کرسی پر پٹخا وہ چیخنے کو منہ کھولنے لگی کہ اس نے جویرہ کے منہ کے اندر اسی کا سٹولر ٹونس دیا

اممم۔اممممممممممم۔۔۔ زنجیرون پر لگے کانٹے نما چیز اسے زخمی کررہی تھی وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی لیکن اسکی آواز منہ میں ہی کہیں دب جاتی تھی

تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ اپکا انجام اتنا ہولناک ہوگا کہ دنیا کا ہر برا انسان کانپ اٹھے گا ۔۔۔۔۔ ماسک پہن کر ویڈیو ریکآڈر آن کرتے وپ موبائل سائیڈ پر رکھتے مسلسل انہیں سرخ نگاہوں سے گھور رہی تھی

تھپڑ مارا تھا نہ ایزل کو (ایزل نے اسے بتایا تھا کہ جویریہ خان نے اسے تھپڑ مارا تھا جاناں سے ملنے پر) ۔۔۔۔ وہ انکا سیدھا ہاتھ پکڑتے سوال گو ہوئی تو جویریہ نے حیرانی اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے اسے دیکھا کہ اچانک فضا میں ایک دل دہلا دینے والی چیخ گونجی کیونکہ وہ انکا ہاتھ آہستہ آہستہ آری سے کاٹنے لگی خون کا فوارہ اسکے کپڑوں کو رنگین کرتے زمین کو سرخ کررہا تھا

آہہہہہ امممممممم۔۔۔۔۔ ۔۔۔ہل کے بال چلاتے وہ اپنے آپ کو چھڑوانے کے لئے جھٹپٹا رہی تھی

آپکو درد محسوس ہورہا ہے ۔۔؟ یہ درد نہیں ہے ۔۔جب آپ نے اسکو مارا ہوگا اسے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی ۔۔ پورے گوشت کو کاٹتے وہ غررائی

کلائی پکڑ جب اپنی گرفت مضبوط کرتے ہیں تا جانتی ہیں کیسا محسوس ہوتا ہے ایسے ۔۔اس نے ایک دم زور سے کلہاڑی سے اسکے بازو کو جسم سے الگ کردیا کہ رو رو کر تڑپ کر وہ درد کی شدت سے غنودگی میں جانے لگی

نااا سونا نہیں ہے ۔۔۔ابھی بہت سے حساب کلئیر کرنے ہیں ۔۔۔۔ آپ نے میرے بابا کو دھوکا دیا ہممم ۔۔۔ انکے درد کا اندازہ ہے آپکو ۔۔۔۔ انکے بالوں کو زور سے کھینچتے وہ انکے منہ پر دھاڑی کہ جویرہ نے سرخ روتی ہوئی آنکھوں میں التجا لیے اسے دیکھا جاناں کا پاگل پن دیکھ انکی سانسیں رک رہی تھی

ارے کیا ہوا آپکو آپکی سانسیں کیوں اکھڑ رہی ہیں ۔۔۔۔۔ انکے منہ سے کپڑا نکالتے وہ اسکی آنکھوں میں درد ابھرا کھینچ کھینچ کر سانس لیتی وہ اسکے سامنے کانپتا ہاتھ اٹھائے معافی کی طلب گار تھی

معا۔۔معافی۔۔۔

کیسے معاف کردو کیسے بابا کے ساتھ جو کیا سو کیا ۔۔۔لیکن ہم،،، ہم تو آپکی اولاد تھے ہمھارے ساتھ ظلم کرتے آپکا دل نا کانپا ؟۔۔۔۔ میں نے سنا تھا ماں تو بچے کا برا نہیں چاہتی ۔۔۔۔ تو آپ کیسی ماں ہیں ۔۔آپکا دل نہ پھٹا نا میری بہنوں کی موت کی خبر سن کر ۔۔۔درد چھوڑیں کیا انسانیت کے ناطے ہی زرا افسوس نا ہوا ۔۔۔۔۔آپکو سنے میری بات سنے آپکو سننا ہوگا آپ کا نہیں سکتی ۔۔۔سنے نا ۔۔۔ممماااااااا ۔۔۔۔۔۔ اپنے گناہ سوچتے انکا دماغ مفلوج ہوچکا تھا سانسیں دھیمی پڑنے لگی تھی ۔۔ اسکو درد سے تڑپتے دیکھ دل کی دھڑکن منجمد ہوچکی تھی ۔۔۔۔انکو بے جان دیکھ وہ انکے گال تھپتھپاتے دھاڑی

اپ ایک بار پھر تنہا کرگئی ۔۔۔سب کہتے ہیں ماں باپ بہن بھائی ہی اپنے ہوتے ہیں ۔۔۔بھائی میرا ہے نہیں ماں وہ تو دشمن سے بدتر نکلی ۔۔باپ وہ دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتا تھا ۔۔اور اسکا صلہ یہ نکلا کہ انکی بیٹیاں برباد ہورہی ۔۔۔۔ باپ کا کیا وہ بھگت رہی بچیوں کئ آہ ان گنت ماؤں کی بددعائیں ہمھیں نگل گئی ۔۔ہمارا وجود ریزہ ریزہ کرگئی ۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞

آمنہ تم کہاں ہو ۔۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح سفید پردوں میں چھپی آمنہ سے مخاطب ہوا وہ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکا تھا

من ڈھونڈو مجھے میں پاس ہوں تمھارے بہت پاس ۔۔۔۔ اسے اپنے کان میں سرگوشی سنائی دی اور پائل جھنکی اس سے پہلے وہ فر دور جاتی وہ اسے کلائی سے پکڑتے اپنے مقابل کیا وائٹ لونگ فراک چوڑی دار پجامہ ۔۔آنکھوں میں کاجل ۔۔گلابی ہونٹوں پر جان لیوا مسکراہٹٹ ۔۔۔ پاؤں میں پہنی پائل ۔۔۔ وہ اسے پاگل کردینے کو تھی

کیا دیکھ رہے ۔۔۔۔۔ وہ اسکے سامنے چھٹکی بجاتے ہنسی وہ اسکی ہنسی میں ہی کھو گیا جانے کتنے دن بعد اس دشمن جاں کا دیدار نصیب ہوا تھا آنکھوں کی پیاس بجائے نہیں بجھ رہی تھی

دیکھ رہا ہوں کہ زندگی اگر دوبارہ مل جائے تا کتنی خوشی ہوتی ہے رگ رگ میں سکون کی لہریں دوڑ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد کیے وہ اسکے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے کرگیا اسکے ہاتھوں کا لمس پاکر اسکی بیک بون میں سنسنی پیدا ہوئی

ٹھنڈ بہت ہے تم نازک جاں یہاں کیوں ہو ۔۔۔۔ اسکے یخ بستہ گلابی گالوں کو سہلاتے وہ تشویش سے اسے دیکھنے لگا ۔ آمنہ نے نم نظروں سے اسے دیکھا

اب تو میرا یہی بسیرا ہے من ۔۔۔ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔ میں تمھیں تنہا رہنے نہیں دینا چاہتی لیکن میں مجبور تھی ۔۔۔۔ نیلی آنکھوں سے سمندر بہنے لگا گلابی ہونٹ کانپنے لگے اسکی تکلیف کو خود پر محسوس کر وہ اسے خود میں بھینچ گیا سکون کی ایک لہر اسکے اندر ڈور گئی ہونٹوں کی مسکان مزید گہری ہوئی ۔۔۔۔تشکر سے آنکھیں نم ہوئی

میں تمھیں لے جاؤں گا یہاں سے اپنے ساتھ ۔۔۔۔ وہ اسکی پشت سہلانے لگا لیکن سینے میں سانس تو تب اٹکی جب وہاں کسی کو موجود نا پایا اپنے خالی بازوں کو دیکھ اسکا دل ڈر کے مارے زور سے دھڑکا

آمنہ جان مزاق کک کا وقت نہیں ہے کہاں ہو آمنہ سامنے آؤ یار میرا دل دھڑکنا بند کردیگا تمھاری سانسیں میری سانسوں کی وجہ ہے میری سانسیں رک رہ رہی ہیں آآ۔امنہ ۔۔۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر گہری گہری سانسیں بھرتے وہ تڑپنے لگا کہ آمنہ کا دل پسیج گیا

آمنہ ۔۔۔۔۔ ایک ہی جھٹکے میں بیڈ سے اٹھتے وہ جھٹپٹایا لیکن وہاں نہ تو وہ ۂرفسوں ماحول تھا نہ ہی آمنہ کا نام و نشان تھا اسکی چیخ سن کر ڈاکٹر نرسیں اندر آئی اسے ہوش میں دیکھ سب نے شکر کا سانس لیا

تھینک گاڈ سر آپ کو ہوش آگیا اب کیسی طبعیت ہے آپکی ؟۔۔ اسے گم صم دیکھ ڈاکٹر نے پوچھا تا امن نے سرخ لہو رنگی نظریں اسکی جانب گھمائی تو ڈاکٹر کا سانس رکا

مجھے یہاں آئے کتنے دن ہوگئے ۔۔۔۔۔ اسے یاد تھا کہ آمنہ کو اس نے نیچے گرے دیکھا تھا پھر کیا ہوا وہ انجان تھا

ایک منتھ سے ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تو امن نے شاک سے اسے دیکھا ۔۔ایک مہینے سے وہ بیرون ملک تھا آمنہ کیسی تھی اور وہ خواب میں اسکو تنہا کیوں کرگئی اسکی کیا مجبوری تھی اپنے بالوں کو کھینچتے وہ بیڈ پر بیٹھا سو سوال تھے جواب دینے والا کوئی نہیں تھا اتنے میں اسکے سیکورٹی انچارج نے اسکے پاس آتے اسکی طبعیت کا پوچھا

ہیلی ریڈی کرو پاکستان جانا ہے ۔۔۔۔ چھت کو گھورتے وہ مختصر سا بولا وہ سر ہلا کر واپس پلٹا میصم کو بھی امن کے ہوش میں آنے کہ خبر دینی تھی۔۔۔۔۔

😌سکون اور عشق وہ بھی دونوں ایک ساتھ

رہنے دوغالبؔ کوئی عقل کی بات کرو۔😏

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ہشاب تم جلدی سے خان پیلس پہنچو یہ رہا خان پیلس کا نقشہ پچھلے دروازے سے جانا اور شازم کو مار کر خوفیہ رستے سے نکل آنا میں وہی ملوں گا ویسے بھی وہاں ریڈ پڑنے والی ہے ۔۔۔۔۔۔ اسے نقشہ پکڑاتے عالم شاہ نے سنجیدگی سے کہا 

بابا ایک بار پھر کہہ رہا ہوں جاناں کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ اس نے نقشہ دیکھتے کہا تو عالم شاہ اس اثبات میں سر ہلایا 

جاناں ایک بار یہ گدی مل جائے پھر تم بھی میری حکومت بھی میری رانی کی طرح رکھوں گا تمھیں ۔۔۔۔۔  وہ دل ہی دل میں جاناں سے مخاطب ہوا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ایک مہینہ گزر چکا تھا شائزہ اسکے بعد نہ روئی تھی گاؤں والوں کو رہنے کے لئے وہ انکے لے گھر بنواچکے تھے ۔۔۔۔۔ جاناں نے خود کو بزنس میں اتنا مصروف کر لیا تھا کہ کھانا بھی اسے شائزہ کھلاتی تھی ارسل بھی آتا تھا شائزہ کو ہنسانے کی کوشش کرتا لیکن وہ بسس مسکرانے پر اکتفا کرتی شازم کی طبعیت کافی ناساز تھی انہوں نے شائزہ اور جاناں سے معافی مانگ لی تھی شائزہ تو روتی ہوئی انکے گلے لگی تھی لیکن جاناں وہ بےحس بنی وہاں سے نکل گئی تھی اسے انکے یہ آنسو بھی کوئی سازش لگتے تھے چاہ کر بھی وہ اب کسی پر یقین کرنے سے قاصر تھی حازم نے کافی بار شائزہ سے ملنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ہمیشہ اسے نظرانداز کردیتی

میصم بھی بزنس میں خود کو الجھا چکا تھا لیکن اس دشمن جاں کی یادیں تھی کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تھی وہ بہنیں تو ٹوٹی بکھری تھی مگر ان بھائیوں کا بھی کچھ سلامت نہیں رہا تھا ۔۔۔

وہ اس وقت بھی اس سے ملنے خان پیلس میں موجود تھا ملازمہ کو شائزہ نے پیغام دے کر بھیجا تھا کہ وہ اس سے نہیں ملنا چاہتی لیکن حازم کی اب بسس ہوئی تھی اسی لیے بنا جاناں کا لحاظ کیے وہ روم کی طرف بڑھا کمرے میں داخل ہوتے اس نے نظریں گھمائی تو وہ اسے نماز پڑھ کر اٹھتی نظر آئی ایک ہی جست میں اس تک پہنچتے اسکی کلائیوں کو آپنی اہنی گرفت میں لیتے وہ اسے دیوار سے پن کر چکا تھا

مجھ سے نا ملنے کہ وجہ جان سکتا ہوں ۔۔۔تمھارے یوں ہر روز نظرانداز کرنے سے جانتی ہو مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ مجھے دکھ ہے کہ تمھاری بہن نہین رہی مگر اس میں میرا کیا قصور ہمم۔مجھے کیوں ہجر کے انگاروں پر گھسیٹ رکھا ہے ۔۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں غراریا شائزہ نے بےتاثر نگاہوں سے اسے دیکھا اسے ڈر نہیں لگ رہا تھا اس سے ۔۔ اسکی آنکھوں میں وہرانی دیکھ اسکے دل کو کچھ ہوا

جانے والے کو کون روک پایا ہے شازو ۔۔۔ تم تکلیف میں ہو میں جانتا ہوں لیکن سوچو وہ کتنی تکلیف میں ہوگی تمھاری یہ حالت دیکھ تمھارے پاس جاناں ہے شازن انکل ہے لیکن اسکے پاس کیا ہے وہ تو تنہا ہے تمھیں اداس دیکھ کر ہی وہ اداس ہوگی اور تمھاری خوشی ہی اسکی مسکراہٹ کا سبب بنے گی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے پیار سے بہلانے لگا نرمی سے سمجھانے لگا ۔۔۔۔۔

کیا تم چاہتی ہو وہ روئے ۔۔۔اسے تکلیف ہو ۔۔۔۔۔ اسکا گال انگوٹھے کی مدد سے سہلاتے وہ دھیمے لہجے میں سوال گو ہوا تا توقع کے مطابق اس نے نفی میں سر ہلایا

تو ہنسا کرو میری جان ۔۔۔ ہنس کر مسکرا کر اسکو یاد کرو اپنی لائف میں آگے بڑھو ۔۔۔۔۔ اسکی پیشانی پر نرمی سے لب رکھتے وہ اسے خود میں شدت سے بھینچ گیا رو شائزہ کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ جھلک دیکھلاتی غائب ہوئی

یہ وقت اس طرح اداس ہونے کا نہیں ہے تمھارے دشمن تمھاری تاک میں ہیں وہ تو تمھیں کمزور جان کر حملہ کرنے کی سازش کیے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ اسے سینے سے لگائے دیوار سے پشت ٹکا گیا شائزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا

کرنل کے ساتھ تم لوگوں کا کوئی پلین تھا ؟۔۔۔ وہ اس کی ناک پر لب رکھتے سوال گو ہوا شائزہ نے اثبات میں سر ہلایا

ہم انڈرورلڈ کے بادشاہ کو پکڑنا چاہتے تھے کیونکہ وہی ہمارا دشمن تھا اس سب میں کرنل اور ایجنٹ آئنہ بھی ہمارے ساتھ تھی لیکن کچھ ایشوز کی وجہ سے جاناں نے ان سے رابطہ ختم کردیا ۔۔۔۔۔۔ شائزہ کے بتانے پر اسکے وجہیہ چہرے پر پریشانی کے تاثر نمایا ہوئے

شروع سے ہی وہ تمہارے زریعے بادشاہ تک پہنچنا چاہتے تھے اور پھر تمھیں اور بادشاہ کو ایک ساتھ پکڑنے کا ارادہ رکھتے تھے اور آج وہ یہاں ریٹ کرنے والے ہیں ۔۔۔۔ پولیس ٹیشن سے ملی ساری انفارمیشن وہ اسے بتانے لگا شائزہ نے چونک کر اسے دیکھا

لیکن وہ ہمارے ساتھ تھا ۔۔۔۔۔۔

دھوکہ تھا یار انکی نظر میں تم بھی ایک خطرناک کلر ہو۔۔۔۔

اور تمھاری نظر میں ؟۔۔۔ شائزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جو حازم نے چونک کر اسے دیکھا

میری نظر میں تم ایک ، بے حد حسین خوبصورتی سے بنائی گئی ۔۔۔۔۔۔ اسکے بالوں کی لٹ کو انگلی میں لپیٹے وہ بھاری سرگوشی نما آواز میں کہتے جملہ ادھورا چھوڑا شائزہ کی پلکیں شرم سے جھکی چہرے پر گلال بکھرا ہونٹوں پر شرمگیں مسکراہٹٹ کھلنے لگی۔۔۔

چڑیل ہو۔۔۔شریر نظروں سے اسے تکتے وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا وہ جو شرم سے نظریں جھکائے شرما رہی تھی اسکا شوشہ سن خونخوار نظروں سے اسے گھورنے لگی ۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

میں جان سکتی ہوں تمھارے ان فالتو حرکتوں کا مطلب ؟۔۔۔ اندھیرے کمرے میں تین صوفے پر وہ تینوں نفوس براجمان تھے سگریٹ کا کش لگاتے جاناں نے غصے سے سرخ نظروں سے انہیں گھورا ۔۔۔ تا وہ دونوں نفوس گڑبڑا گئے 

ضروری تھا ورنہ میں ایسی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں ۔۔۔۔۔ پہلے نفوس نے جلدی سے کہا جبکہ دوسرے کے اطمینان میں زرا برابر کمی نہیں آئی تھی 

میرا تو کچھ اور کرنے کا ارادہ تھا جان مگر اس وقت مجھے سچ میں کچھ خبر نہیں تھی ۔۔۔۔ دوسرے نفوس نے صوفے پر ٹکاتے کہا تا وہ اسے گھورنے لگی 

دل تو کر رہا ہے تمھیں ایک تھپڑ لگاؤ ۔۔۔۔ جاناں نے لب دباتے مصنوعی سنجیدگی سے کہا تو وہ دونوں نفوس  ہنسے 

کوشش کرکے دیکھ لو ۔۔۔.جانی ۔۔۔۔وہ دونوں ایک ساتھ بولتے اسے ہنسنے پر مجبور کرگئے 

خیر بہت ہنس لیا ۔۔۔ کرنل نے دھوکا کیا ہے اسے سبق سکھانا پڑے گا اور شائزہ کو اس بارے میں کوئی کچھ نہیں بتائے گا پہلے وہ کافی ویک ہے ٹینشن لے گی تو مزید طبیعت خراب ہوجائے گی ۔۔۔۔۔ وہ نفوس سنجیدگی سے گویا ہوا تو جاناں نے اثبات میں سر ہلایا  اور وہ تینوں پلین ڈسکس کرنے لگے 

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

ابھی تک سو رہے ہو ۔۔۔۔ نفاست سے سجے اس روم میں اندھیرا کیے وہ شخص جہازی سائز بیڈ پہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ اس نے گلاس وال سے پردے ہٹائے سورج کی تیز روشنی بیڈ پر سوئے وجود کے چہرے پر پڑی تو اس نے منہ کا زاویہ بگاڑتے تکیہ اٹھاتے منہ پر رکھا لیکن ایک دم جانی پنچانی آواز سن کر اس نے جھٹکے سے تکیہ پیچھے کیا اور گلاس وال کے ساتھ کھڑے نفوس کو دیکھنے لگا مگر سورج کی تیز روشنی نے ایسا ہونے نہ دیا آنکھوں پر ہاتھ رکھتے وہ بیڈ پر سے اٹھا ہاتھ ہٹاتے سامنے کھڑے نفوس کو دیکھتے اسے یقین ہی نہ آیا اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا ہے 

کنفرم کرنے کے لئے ہاتھ بڑھاتے اسکی گال کو چھوا وہ حقیقت میں اسکے پاس موجود ہے  ۔۔۔۔ اسکو بے یقین دیکھ وہ اسکے گلے میں بازوں کا ہار بناتے اسکی ناک سے ناک مسس کرگئی 

یقین ہوا میصم سائیں۔۔۔۔ وہ کھلکھلا  کر ہنسی تو میصم نے آسکی کمر کے گرد بازو ہائل کرتے اسے خود میں بھینچتے اسکی  گردن میں منہ دیا اسکی خوشبو محسوس کرتے اسکے تڑپتے بے قرار دل کو جیسے قرار آگیا ہو۔۔۔ اسے بانہوں میں سمیٹتے کیسے پوری دنیا کا سکون اسکی بانہوں میں آسمایا ہو خوشی سے اسکے آنکھیں نم ہوئی 

ہیے کیا ہوا سڑے کریلے ۔۔۔۔ وہ جو اسکے گرد بازو باندھے پرسکون تھی کہ گردن پر کچھ گیلا محسوس ہوا تا چونک گئی ۔۔۔۔کہ وہ اسکی گردن کو ہاتھوں میں دبوچتے گلاس وال سے لگا گیا اور لہو رنگی نگاہیں اسکے خوبصورت چہرے پر ٹکائی 

میرے ساتھ اس طرح کا بےہودہ مزاق کرنے کی تمھاری ہمت کیسے ہوئی ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ وہ سرخ چہرے ماتھے کی رگیں خطرناک حد تک پھولی ہوئی تھی وہ دھاڑا تا ایزل کی جان ہوا ہوئی 

اللہ ک کے بندے اے اتنے دنوں بعد زندہ ملی ہوں  اب کیا سچ میں مارنے کا ارادہ ہے تمھارا ۔۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں پر اپنی نازک ہاتھ رکھتے وہ گھگیا گئی امید نہیں تھی کہ وہ ایسے ریکٹ کرے گا ۔۔۔۔۔

موت کا ڈرامہ کرتے تمھیں زرا شرم نہ آئی ایزی لوڈ۔۔۔ تم جانتی ہو میری کیا حالت ہوگئی تھی یہ سوچ کر ہی کہ تم اب ۔۔۔۔۔ اسے بولتے ہوئے بھی تکیلف ہوئی اسے نرمی سے چھوڑتے وہ پیچھے ہوا 

ضروری تھا اگر وہ سب نہ کرتی تو آج میں یہاں نہ ہوتی ۔۔۔۔۔ ایزل نے گلے پر ہاتھ پھیرتے کہا تو میصم نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے آئبرو اِچکایا کہ کیا وجہ تھی 

ایک مہینہ پہلے ۔۔۔۔۔

ایزل تم وہاں جانا مگر خیال سے ایسا نہ ہو کہ یوں ہی منہ اٹھائے  چل دینا ۔۔۔خطرہ ہے وہاں وہ درندے نجانے کیا کردیں۔۔۔۔۔ آمنہ نے پارٹی کے لئے تیار ہوتے ایزل کو کہا جو غور سے اسے دیکھ رہی تھی

ڈونٹ وری ۔۔۔۔میں سنبھال لونگی ۔۔۔۔ایزل نے مسکرا کر کہا

کوئی نہیں سنبھال لوگی ہرا ۔۔اس نے باہر سے کسی کو اندر بلایا ۔۔۔۔ حرا اس سے ملو یہ ہے ایزل جسکے چہرے کا ماسک تمھیں لگایا گیا ہے ۔۔۔۔ تم اسکی جگہ جانا خطرہ ٹل جائے تا ایزل تم وہاں جاؤ گی ورنہ وہاں جانے کا سوچنا بھی مت ۔۔۔۔ آمنہ نے تنبیہ کرتی نظروں سے اسے دیکھا جو ہونق بنی حرا کو دیکھ رہی تھی جو بلکل اس کے جیسے لگ رہی تھی اسکی ہونق زدہ صورت دیکھ آمنہ نے حرا کو ماسک اتارنے کا اشارہ کیا تو حرا نے ماسک اتارا تا ایزل کی سانس میں سانس آئی

شکر ورنہ مجھے لگا کہ میری کوئی جڑواں تیسری بہن بھی ہے ۔۔۔

تم پاگل ہو ۔۔۔۔ آمنہ نے اسے گھورا وہ ہنسی ۔۔۔۔

اچھا تم جاؤ یہ آتی ہے ۔۔۔۔ آمنہ نے کہا تا حرا باہر کو بڑھی ۔۔۔ایزل اسکے قریب آئی

یہ کب کیا تم نے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں سکیڑ کر پوچھنے لگی

میں نے کب کیا ارسل نے کیا نکما بیٹھا رہتا تھا تو میں نے تمھارا میرا۔اور شائزہ کا ماسک بنوایا تھا جسکی ابھی ہمھیں ضرورت بھی پڑ گئی اور ارسل نے اپنا ہنر بھی دیکھا دیا ۔۔۔ امنہ نے کہتے کندھے اچکائے تو وہ اسکے ساتھ لگی

اچھا وہ پن رکھ لی نہ ساتھ ایک بار ہی یہ پن اسکے باڈی کو ٹچ کرگئی تا وہ ایک گھٹنے کے لئے بلکل مردہ ہوجائے وہ سن بھی سکتی ہوگی پر اسکے علاوہ کچھ بھی کرنے سے محروم ہوجائے گی پھر چاہے تم اسکو ڈھنڈے سوٹیوں سے مارو۔۔۔ چلؤ میں بھی نکلو ۔۔۔۔۔۔

حال۔۔۔۔۔

اتنا دماغ کہاں سے لاتی ہو تم ایزی لوڈ ۔۔۔۔ میصم نے اسکی گال پر لب رکھے تا ایزل نے اسے گھورا

تم چلغوزے زیادہ فری نہ ہو میرے ساتھ اوکے اور میں یہاں تم سے نہیں آمن سے ملنے آئی تھی ۔۔۔۔

من آج آچکا ہے فارم ہاؤس میں ہے ۔۔۔ اس نے کہا تو ایزل نے موبائل اٹھائے کسی کو میسج کیا اور میصم کی طرف متوجہ ہوئی جو جاں نثار کرنے والی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

شازم نے اسے روم میں بلایا تھا لمبا سانس بھرتے وہ روم میں داخل ہوئی تو شازم کو صوفے پر بیٹھا پایا ۔۔۔۔۔ اسکو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو جاناں صوفے پر ٹکی

آج تک جو میں نے گناہ کیے مجھے اپنے گناہوں پر پچھتاوا ہے ۔۔۔ان لوگوں سے معافی مانگ چکا ہوں اب تم بھی معاف کردو اس سے پہلے کہ میں مر جاؤں ۔۔۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا تو جاناں کے دل کو کچھ ہوا

آپکو معاف کرنا میرے بسس میں نہیں ۔۔۔. وہ سرد مہری سے گویا ہوئی ۔۔تو ازیت سے شازم نے لب بھینچے ۔۔

جان آپ کیا سوچ رہی ہو۔۔کیا ہے آپکے دل میں ۔۔ ایک بار بتاؤ تا سہی ۔۔۔۔ شازم سمجھتے تھے کسی کو اپنی دل کی حالت نہ بتا کر وہ اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی

میرا۔۔میرا دل کرتا ہے میں آپکو ۔جان مار ڈالوں لی۔لیکن میرے سینے میں جو دل دھڑکتا ہے ۔۔یہ مجھے مجبور کررہا ہے ۔۔میرا دل چاہتا ہے اپکو بخش دوں۔ مگر پھر اپنی اور ان معصوم لڑکیوں کی آہوں کا سوچتے ہی میری جان جانے لگتی ہے دل جلتا ہے من کرتا ہے اسی طرح آپکے چتڑے چھتڑے کرکے کتوں کو نہیں پوری دنیا میں پھیلا دوں تاکہ آپ جیسے درندوں کو سبق مل جائے کہ ان گناہوں کا انجام کتنا ہولناک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ آنکھوں میں نفرت لیے وہ پتھریلے لہجے میں گویا ہوئی

آپکو پتہ ہے جب وہ درندہ مجھے چھو رہا تھا مجھے لگا جیسے میرے جسم پر کسی نے سانپ چھوڑ دئے ہو مجھے لگا یہ میرا آخری دن ہے پھر میں اپنے بابا کو نہیں دیکھ پاؤں گی جانتے ہیں میں اس اذیت بھری رات کے بعد پتھر ہوگئی ڈیڈ مگر آپکے لیے جو پیار تھا وہ کبھی کم نہیں ہوا۔۔۔ کاش میں اسی دن مر جاتی تو اتنی ازیت تو نہ ملتی کہ میری ماں ہی نہیں ہماری دشمن تھی۔۔ مرجاتی تو یہ معلوم تو نہ ہوتا کہ میرا ٹاپ معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخشتا تھا ۔۔۔۔میں مرجاتی تو اچھا تھا ۔۔۔۔۔ سانس لیے بغیر پاگلون کی طرح اپنے بال نوچتے وہ بےحال سی گھٹنوں کے بل زمین پر گری

م۔مجھے معاف کر۔دو جان۔اں م۔میں تم۔ھاری حفا۔ظت بی کر پ۔پایا۔۔۔۔۔ انہوں نے آنسو ضبط کرتے کانپتے لہجے میں کہا ضبط کرتی جاناں کے آنسو گال پر بہنے لگے کالی سرخ آنکھیں اٹھا کر انکی جانب دیکھا تا شازم کے دل کو کچھ ہوا

بابا میرا کیا قصور تھا ؟؟؟ انکے گھٹنے سے لگتی وہ دھاڑے مار کر رونے لگی اسے دکھ نجانے باپ کی تکلیف کا تھا یا اپنی عزت کا وہ دونوں ہی اسکے لیے ازحد ضروری تھے اسکی آوازیں اسکی آنسو ایسے قہر بنے کہ شازم کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے باہر کھڑے حازم شائزہ ایزل اور میصم کی آنکھیں بےساختہ نم ہوئی کتنا بدنصیب تھا اتنی پیاری بیٹی کو وہ دنیا بھر کی ازیتیں دے چکا تھا جن بیٹوں کو لوگ سر آنکھوں پر رکھتے ہیں وہ انہیں دو کوڑی کا بنا گیا تھا

میرا قصور تھا کہ میں بیٹی تھی یا خوبصورت تھی بابا میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ مجھے برباد میرے اپنے بابا کرینگے ۔۔۔۔ اس سے اچھا ہوتا آپ مجھے مار ڈالتے لیکن اس قدر درد تو نہ دیتے کہ مجھے خود سے نفرت ہوتی ہے جب جب اس شخص کا لمس اپنے جسم پر محسوس ہوتا ہے من کرتا ہے اس حصے کو نوچ کر اس دردندے کا لمس خود سے دور کردو۔۔۔۔ میں أپکو کیوں بتا رہی ہوں آپکو تو کوئی فرق نہیں پڑتا نا ہمارے جینے یا مرنے سے ۔۔۔ وہ آنسو صاف کرتی وہاں سے اٹھی کہ اچانک سے بہت سی گاڑیوں کے ٹائروں کی چرچڑاہٹ سنائی دی وہ سب ایک دم الرٹ ہوئے ۔۔۔۔۔

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

پولیس کی وینز خان پیلس کے باہر رکی ملٹری نے خان پیلس کو چاروں اور سے گھیر لیا تھا کہ کرنل نے مائک لیتے انکو سیرنڈر کرنے کا کہنے لگے

بادشاہ ہم نے چاروں اور سے تمھیں گھیر لیا ہے ۔۔۔اپنے بل سے نکلو باہر۔۔۔ بہتر ہے سیرنڈر کردو ۔۔۔ بخش دیے جاؤ گے ورنہ یہی تمھیں گولیوں سے بھون ڈالے گے ۔۔۔.کرنل کی آواز سن شازم کے چہرے پر مسکراہٹٹ بکھری ۔۔. ادھر ہشاب بھی خان پیلس میں داخل ہوچکا تھا ۔۔ نقشے کو دیکھتے وہ سیدھا شازم کی کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کی کرنل کی آواز سن وہ چونکا

شازم کے روم کا دروازہ کھلا تھا سارا خان پیلس موت سے سناٹوں کی زد میں تھا ۔۔۔ یقیناً وہ سب شازم کے روم میں موجود تھے ۔۔۔

شائزہ حازم کے ساتھ نکلو اور خبردار جو تم نے کوئی چالاکی کی ۔۔۔۔ وہ وارن کرتی نظروں سے شائزہ کو دیکھتے گنز میں بلٹ چیک کرتی باہر کو بڑھی شازم بھی گہری سانس بھرتے اٹھے سالوں بعد موقع ملا تھا اپنے پرانے روپ میں آنے کا انکی خوشی کی انتہا نا تھی

چلو شازو ۔۔۔ ایزل کے بٹن دبانے پر بیڈ سائیڈ پر ہوا اور نیچے سے زمین سرکی تا وہاں پہ سیڑھیاں دیکھ حازم نے شائزہ کا ہاتھ پکڑے آگے کیا ۔لیکن وہ اپنی جگہ سے نا ہلی بلکہ ایزل کو گھورنے میں مصروف تھی

تم پاگل ہو بھلا میں اپنی بہنوں کو چھوڑ کر جاؤ گی وہ بھی تب جب وہ مصیبت میں ہے۔۔۔۔۔ اسکا ہاتھ جھٹکتے وہ غرائی حازم نے پریشانی سے اسے دیکھا ۔۔وہ اتنی کمزور تھی کہ ایک پنچ لگنے سے ہی زمین بوس ہوجاتی ۔۔۔۔

شازو جسامت دیکھو اپنی اور حرکتیں دیکھو ۔۔۔۔۔

بچے چلے جاؤ ۔۔۔میصم نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلاتی ایزل کے ساتھ باہر کو بھاگی

سر لگتا انہیں عزت راس نہیں ۔۔۔ایجنٹ نیناں نے بھنا کر کہا کہ عین اسی وقت جاناں نے ماسک لگائے خان پیلس سے قدم باہر رکھے وائٹ شرٹ بلیک جینز کالی آنکھوں میں نفرت لیے وہ طنزیہ مسکراہٹ سے باہر آتی وہاں موجود کافی لڑکوں کا دل دھڑکا گئی اسکے پیچھے ہی شازم ایزل اور شائزہ نکلے انکے باہر آتے ہی سب ان پر بندوقیں تان چکے تھے ۔

عزت کی بات مت کرو لڑکی اتنی عزت تا تمھاری اس دنیا میں نہیں جتنی میری اس علاقے میں ہے ۔۔۔شازم نے روعب دار لہجے میں کہا انہیں زرا برابر فکر یا ڈر نہیں تھا ان سے

سیرینڈر کردو بادشاہ ورنہ بےموت مارے جاؤ گے۔۔۔ کرنل نے کہا تو شازم نے تمسخرانہ نظروں سے اسے گھورا

اتنی تمھاری اوقات نہیں کرنل کہ تم میرے بابا کو چھو بھی تک سکو ۔۔۔شائزہ نے آگے آتے کہا تو جاناں نے اسے گھورا

فائر بوائز ۔۔کرنل دھاڑا کہ اچانک فضا میں دھواں پھیلنے لگا وہ گولیوں کی بوچھار شروع کرچکے تھے ۔۔وہ بھی اپنی اپنی گنز نکالے انہیں مارنے میں مصروف تھے ہر طرف گولیوں کا شور تھا شازم کے آدمی بھی مقابلے میں شامل ہوچکے تھے کئی جانیں قربان ہورہی تھی لیکن وہاں کسی کو پرواہ نہیں تھی اسی ثناء میں آئینہ نے شائزہ کو دیکھتے فائر کیا وہ جو دوسروں پر نشانے لگانے میں مصروف تھی جاناں نے اسے وہاں سے دھکا دیا لیکن وہ گولی جاناں کے کندھے کو چیرتی اندر گھسی وہ پھر سے چھپی تھی بار بار فائر کرتے وہ دوسری جگہ جانے لگی کہ شازم نے ایک عین آئینہ کے دل پر نشانہ باندھا اور فائر کردیا کہ وہ تڑپتی زمین بوس ہوئی

جانان ۔۔۔ شائزہ تڑپ کر اسکی طرف بڑھی مگر جاناں نے ہاتھ اٹھاتے اسے منع کیا اور اسکا بازو کھینچ کر شازم کو اشارہ کرتی پیلس کے اندر بھاگی انہیں جلد از نکلنا تھا یہاں سے کیونکہ وہ لوگ پہلے ہی پیلس میں بم فٹ کرچکے تھے ۔۔۔۔ میصم اور حازم بھی اس لڑائی میں شریک تھے ایزل پیلس کے اندر بھاگی اسکے پیچھے ایک آدمی نے اسکا نشانہ باندھا کہ بائیں سائیڈ سے زور دار ضرب لگنے پر منہ کے بل گرا اسکا نشانہ چوک چکا تھا ۔۔۔ وہ دونوں مختلف راستوں سے ہوتے شازم کے روم میں پہنچے ایزل کو تھامتے وہ خوفیہ راستے کی اندر جانے لگے

چھوڑو مجھے جان اکیلی ہے اسے میری ضرورت ہے ۔۔۔۔ ایزل نے اسکا ہاتھ جھٹکا

مجھے بھی تمھاری ضرورت ہے سمجھی تم اب چلو ۔۔۔اسے بازو سے گھسیٹتے وہ سختی سے گویا ہوا اس وقت زرا سی نرمی بھی ایزل کو شیر بنا سکتی تھی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔ غیر معمولی سے احساس پر اندر جاتے شازم مڑے سامنے ہشاب کو دیکھ وہ سوالیہ نظروںنظریں اسکے چہرے پر گھاڑ گئے ۔۔۔

بہت جی لیا تو نے میں تیری موت لکھنے آیا ہوں ۔۔۔۔ اس نے اچانک ہی گن نکال کر شازم پر فائر کرتے قہقہہ لگایا

ی۔یو با۔۔باسٹرڈ ۔۔۔ شازم دھاڑے اور اس پر فائر کرنا چاہا لیکن ہشاب نے ایک فائر انکے دماغ پر کیا کہ پیچھے سے آتی جاناں کا دل زورو سے دھڑکا شازم کو گولی لگتے دیکھ وہ دونوں اس آدمی پر چھپٹی شائزہ نے ٹانگ مار کر گن اسکے ہاتھوں سے گرائی اور جاناں نے اسکا رخ اپنی جانب کرتے مکہ جڑنا چاہا لیکن اسکا چہرہ دیکھ اسکا ہاتھ بیچ میں رکا ۔۔ حیران تو ہشاب بھی تھا جاناں اور یہاں

تم بے غیرت انسان ۔۔۔شائزہ نے اسکے سر پر گن مارتے کہا جاناں نے ایک پنچ اسکے منہ پہ دے مارا وہ گھبرا گیا اسے وہاں دیکھ جاناں کے دور ہوتے وہ وہاں سے بھاگنے لگا کہ پاکٹ سے ایک انجیکشن نکالتے جاناں نے اسکی جانب پھینکا جو اسکی کمر میں جالگا لیکن وہ وہاں سے بھاگ نکلا

بابا ۔۔۔ امنہ کی رندھی ہوئی آواز سن شائزہ نے امنہ کو دہکھا جو سہی سلامت تھی بسس سر پر پٹی بندھی تھی

( آمنہ کو جب امن نے پیچھے کیا تب ہیل کی وجہ سے وہ پھسلتی نیچے گری تھی اسکے بالوں میں موجود وہ پن اسکے بالوں سے نیچے آتی اسکے کندھے پر چبھی جس سے نہ تا وہ بول پارہی تھی نہ جسم کو حرکت دے پارہی تھی وہ سبکا رونا چیخیں سن رہی تھی ۔۔۔استسر پر چوٹ ضرور لگی تھی مگر وہ زندہ تھی ۔۔جب وہ ہوش میں آئی تو ہوسپیٹل میں تھی پتہ چلا تھا کہ میصم نے اسکی جگہ کوئی اور لڑکی لاش رکھ دی تھی اور کسی کو بھی اسکے زندہ ہونے کی خبر نہ تھی سوائے میصم نے)

۔۔۔۔ باہر گولیوں کا شور تھا امنہ نے کسی خدشے کے زیر اثر شازم کی گردن پر ہاتھ رکھتے نبض چیک کی جو بلکل ساکت تھی وہ ایک دم پیچھے ہوئی

مجھے معاف کردو جان پتہ نہیں زندگی کب تک ساتھ دیتی ہے ۔۔۔ معاف کردو اس سے پہلے کہ میں گناہگار ہی مرجاؤ ۔۔۔۔ اسکی سماعت شازم کے الفاظ ہوئے تو ایک آنسو بغاوت کرتے زمین پر گرا وہ انکے پاس بیٹھی آمنہ شائزہ ان سے لپٹی رو رہی تھی ابھی تو انہیں انکے ساتھ اپنی خوشیاں باٹنی تھی جاناں کے سینے موجود دل میں درد اٹھا

م۔میں نے آآ آپکو م۔معاف کیا ب۔بابا ۔۔۔۔بھیگے لہجے میں نم نظروں سے انہیں بےجان دیکھتے وہ انکے سینے پر سر رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی برسوں کا غبار آنسؤؤں کے ذریعے نکال رہی تھی ۔۔سینے میں تکیلف بڑھتی ہی جارہی تھی وہ تینوں ہی زارو قطار رونے میں مصروف تھی

‏جب آنسو نکل آتے ہیں تو ان میں صرف نمک اور پانی نہیں ہوتا ۔۔۔ ان میں ماضی کی تکلیفیں ۔۔۔ درد دکھ ۔۔ اپنوں کے ستم ۔ ۔۔.چاہنے والوں کی بےاعتباری ۔ ۔۔۔بھی نہ لوٹ آنے والوں کا غم ۔۔ ۔۔وعدوں کی پامالی اور نہ جانے کیا کیا احساسات اور جذبات چھپے ہوتے ہیں.۔۔وہ تو تھی ہی غم زادی سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی تو وہ دل پر ہاتھ رکھتے پیچھے کو گری سانس جیسے سینے میں اٹکی ہو دل پسلیوں میں سر پٹک رہا تھا ادھر بم پھٹنے میں بسس پانچ منٹ باقی تھے ٹائم تیزی سے گزر رہا تھا

جان کیا ہوا تمھیں ۔۔.ہمت کرو میری جان اٹھو چلو ٹائم کم ہے ۔۔۔۔آمنہ اسے اٹھانے میں مدد کرو۔۔۔۔ آنسو صاف کرتے وہ ہوش میں آئی انہیں نکلنا تھا یہاں سے ۔۔۔۔ جاناں نے انہیں کانپتے ہاتھوں سے چلنے کا اشارہ کیا دل پر ہاتھ رکھتے وہ لزرتے کانپتے اٹھی انکے ساتھ اپنے روم میں جاتے دیوار میں نصب بٹن دبایا کہ دیوار دو حصوں میں بٹی ۔۔

جان چلو میں تمھاری ہیلپ۔۔۔۔۔

آآگے ہ ہی ہیلی تت تیار ہہ ہے بب بنا پپ پیچھے دیکھے بھا بھاگو ۔۔۔۔۔ وہ مضبوطی سے دانت پیس کر بمشکل بولی شائزہ نے نم نظروں سے اسکی حالت دیکھی اور اسکے کہے مطابق وہ تینوں ایک دوسرے کے گلے لگتے اندر بھاگی ۔۔۔۔ جاناں نے اس بٹن پر فائر کرتے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ خوفیہ راستہ چھپا دیا

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

وہ بھاگتے بھاگتے عالم شاہ کے پاس پہنچا جو ہیلی میں اسی کا انتظار کر رہے تھے وہ ہیلی میں بیٹھا تا پائلٹ نے اسکے بیٹھتے ہی ہیلی اڑایا

کام ہوا ۔۔۔۔ عالم شاہ نے پوچھا تا ہشاب نے سر اثبات میں ہلایا اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھی اسکا جسم پھولنے لگا تھا عالم شاہ کی نظر اس پہ پڑی تو انکی آنکھیں باہر کو اپلنے لگی ہشاب کا کسرتی وجود پھول پھول کر غبارہ بنتا جارہا تھا

بابا.۔۔۔۔۔یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔ عجیب سے نشانوں پر پھولتے وجود کو دیکھ درد سے پھٹتے جسم سے  وہ چیخا اس سے پہلے وہ جواب دیتے کہ اسکا وجود خطرناک حد تک پھیلتے ایک دم پھٹ پڑا اسکی جسم کے ساتھ ہیلی کے چتڑے چتڑے ہوتے ہوا میں لہراتے زمین پر گرنے لگے

وہ غلط تھے مکار تھے وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے اس نے اس مخلوق کی بات کو نظرانداز کیا تھا ایک غم زادی سے عشق کرنے چلا تھا نادان انجان تھا وہ غم زادی تو خود دکھوں کی ماری تھی قسمت سے ہاری تھی اسکی زات سے جڑ کر اسے آیک ہی چیز حاصل ہونی تھی وہ تھی موت درد ناک موت ۔۔۔.جو اسے مل چکی تھی

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

میرا دل میرے دل کو کچھ ہورہا ہے وہ چاروں ابھی تک نہیں پہنچے بم بلاسٹ ہونا شروع ہوجائے گے ٹائم نہیں بچا ۔۔.مجھے جانے دو میری بہنیں میرے بابا اندر ہیں ۔۔۔ ہاتھ پاؤں بندھے درد سے تڑپتے وہ دل میں اٹھی تکیلف کو محسوس کرتے جھٹپٹائی اسکا کوئی اپنا درد میں تھا وہ بلک بلک کر رو رہی تھی اسکا دل کہہ رہا تھا کہ کوئی اپنا اس سے دور جارہا ہے ۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھ میصم نے اسے سینے میں بھینچا تھا

وہ دیکھو شائزہ اور آمنہ آرہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ حازم نے شائزہ کو دیکھ سکھ کا سانس بھرتے مسکرا کر کہا تا ایزل نے جھٹ سر اٹھاتے انکو دیکھا لیکن صرف وہ دونوں ہی تھی جاناں کہاں تھی شازم کہاں تھا

افففف ۔۔۔۔ جان چلو اوپر۔۔۔۔ امنہ نے ہیلی کے پاس رک کر پیچھے مڑتے جاناں سے کہا لیکن اسے شدید جھٹکا لگا جب اپنے پیچھے کسی کو موجود نہ پایا انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی

جان اور بابا کدھر ہیں ۔۔۔دل میں پیدا ہوتے ڈر کو وہ جھٹلاتی ایک آس سے انکی طرف دیکھنے لگی کہ ابھی وہ کہیں گی کہ وہ دونوں آرہیں ہیں لیکن انکی طرف سے خاموشی محسوس کر میصم کے سینے میں منہ دے گئی

نن نہیں نا اس بار نم نہیں ۔۔ نفی میں سر ہلاتے شائزہ نے واپس قدم بڑھائے کہ حازم نے اسے پکڑا اور ہیلی میں پھٹکا ۔۔

دماغ چل گیا ہے تم لوگوں کا چپ چاپ بیٹھو ۔۔۔۔۔ انکی حالت اور انکی خاموشی کو سمجھتے وہ دھاڈا پائلٹ ہیلی ہوا میں اڑا تھا آمنہ اور شائزہ کی ساکت سی بیٹھی آگ کا خان پیلس کو اپنے اندر لپٹتا دیکھ رہی تھی آگ وہاں لگی تھی مگر دل انکے جھلس رہے تھے ۔۔۔

💕#موت سے بھی عشق ہے،،،

تم سے بھی پیار ہے،،،💕

💕

موت پر بھی یقین ہے،،،

تم پر بھی اعتبار ہے،💞

💕

دیکھتے ہیں پہلے کون آتا ہے،،،

ہمیں تو دونوں کا انتظار ہے💞

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

باہر کی طرف بڑھی کہ تکلیف کی شدت سے زمین بوس ہوئی بمشکل خود کو گھسیٹتے وہ شازم کے پاس پہنچی انکے سینے پر سر رکھتے جیسے اسے سکون آیا

میرا دل کرتا ہے مم میں کہیں بہت دور کک کسی دوسری دنیا میں چلی جاوں جہاں نہ کوٸی مجھے حج جانتا ہو اور نہ ہی میں کسی کو جانتی ہوں اور میری ہپ پچھلی زندگی کی یاداشت تلف ہو جاے اور میں ایسا محسوس کروں کے زندگی ابھی شروع ہوٸی ہے اور پھر اس زندگی میں کبھی کوٸی خخ خزاں نہ آے کبھی کوٸی دُکھ نہ ہو...

کاش کل کوئی بیٹیوں سے بھی تت تو پوچھے کبھی کہ میری پیاری بیٹی بتاؤ تو کیا دس دکھ ہے جس کو چھپانے میں یوں ہلکان ہو رہی ہو, کیا چاہئے ہے جو ہم سے کہا نہیں جا رہا, آج اتنی خاموش کیوں ہے, یی یہ آنکھ روئی روئی کیوں لگ رہی ہے۔۔۔۔۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھتا تو آج میں یہاں اس حالت مم میں نا ہوتی ۔۔۔۔

بب بابا مم مجھے آآ آپ سے بہ بہت مم محبت ہے ۔۔ ۔۔۔آنکھوں سے بہتے آنسو وہ انکے سینے پر سر رکھے ٹائم دیکھتی آنکھیں میچ گئی ۔۔۔ دو سکینڈ اور بم بلاسٹ ہونا شروع ہوچکے تھے ۔۔۔۔

حج جب درد کی کی شدت برداشت سے باہر ہوجائے تو مم مر جانا بہتر ہوتا ہے ۔۔۔۔ بمشکل بولتے وہ درد سے تڑپنے لگی درد شدت پکڑ چکا تھا ۔۔جیسے ابھی پھٹ جائے گا شائزہ ایزل اور امنہ کو یاد کرتے اسکی آنکھیں تیزی سے بھیگنے لگی کہ ایک آخری آنسو پلکوں سے گرا اسکی سانسیں تھمی دل کی دھڑکن خطرناک حد تک بڑھتی ایک دم رکی ۔۔۔۔۔

سفید شرٹ جو لہولہان ہوچکی تھی شازم کے سینے پر سر رکھے وہ نازک غم زادی بےجان پڑی تھی جو اپنی قسمت میں ہی ََََغم ُُ لکھوا کر آئی تھی سنکی حفاظت کرتے وہ خود کو بھول گئی تھی باپ کے آغوش میں لپٹی وہ پری حقیقت میں ایک رانی تھی ۔۔۔ ملکہ تھی ۔۔۔

اندھیر نگری کی خوبصورت رانی تھی

جسکی قسمت درد وحشت آنکھ کا پانی تھی

نہ لبوں پہ ہنسی نا قہقے کی وہ عادی

تن تنہا معصوم، دلوں کی ملکہ تھی ایک غم زادی ۔۔۔۔ بقلم خود :گل رائٹس

💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞

پندرہ سال بعد۔۔۔۔۔۔

یہ تھی ایک غم زادی کی کہان۔۔۔۔وسیع رقبے پر بنی اس حویلی کے لاؤنج میں وہ سب چھوٹے بڑے صوفوں پر براجمان تھے صوفوں کے درمیان سنگل سٹیئر صوفہ پڑا تھا جس پر وہ اپنی نم آنکھیں صاف کرتے بولتے بولتے چپ ہوئے ۔۔۔۔

چھوٹے پاپا وہ کیسی دکھتی تھی ۔۔۔۔ ایزل اور میصم کی بیٹی جاناں نے اپنی کالی آنکھوں میں آئے انسو صاف کرتی بھیگے لہجے میں پوچھا تا صوفے پر بیٹھے امن نے غمگین نگاہوں سے میصم کے ساتھ بیٹھی روتی ہوئی ایزل کو بلکتے دیکھا

میصم اور ایزل کی ایک ہہ بیٹی تھی جسکا نام انہوں نے جاناں رکھا تھا کیونکہ اسکی آنکھیں اسکا انداز سب جاناں سا تھا مگر ایک چیز کو اسے جاناں سے مختلف بناتی وہ تھا اسکا شرارتی مزاج ۔۔۔۔۔

حازم اور شائزہ کی دو اولادیں تھی مائزہ اور حاوز ۔۔ دونوں بلا کے سنجیدہ تھے ایک دوسرے میں انکی جان تھی

آمنہ اور امن کے دو بیٹے تھے ۔۔۔ سیم اور ولی۔۔۔۔

اس حادثے کے بعد کافی عرصے تک وہ تینوں چپ چپ سی رہتی تھی انکی حالت دیکھ میصم نے اپنا سارا بزنس امریکہ میں شفٹ کرلیا تھا ایزل کی بیٹی پیدا ہوئی جو جاناں جیسی خوبصورت تھی اسکے بعد وہ تینوں اسے ہی جاناں سمجھ کر دل کو بہلاتی خوش رہنے کی کوشش ۔۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ انکی فیملی بڑھ گئی وہ سب خوش تھی لیکن دل میں آج بھی اسکی یادیں تھی لاکھ وہ ہنستی کھلکھلاتی لیکن وہ خود ہی اپنے اندرونی کیفیت جانتی تھی کہ کیا گزرتی ہے ان پر ۔۔۔۔۔۔

۔۔ وہ سب ایک ساتھ بہت خوش تھے مگر جاناں اور شازم کی کمی انکو ہر وقت محسوس ہوتی تھی آج بھی ان لمحوں کو یاد کرتے وہ رونے لگتی تھی ایزل نے ضد کی تھی کہ اسے پاکستان جانا ہے لیکن میصم کے ایک بار غصے سے منع کرنے پر وہ خاموش ہوچکی تھی ۔۔ایک حسرت تھی کہ ۔ پاکستان جاکر اسکی خوشبو کو ان ہواؤں میں محسوس کر سکے مگر اب ایسا ہونا ناممکن تھا ۔۔۔۔۔۔۔

جاناں کہاں جارہی ہو ادھر آؤ۔۔۔ وہ سب رات کے وقت گھوم رہے تھے کہ جاناں نے دور سڑک پر کسی کا عکس دیکھا تو اسکی جانب چل دی مائزہ نے اسے گھورا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی

میں آپکی مدد کردو ۔۔۔۔ وہ نامرد تھا نا عورت جاناں نے انکی نازک حالت دیکھ کر کہا تو وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھتی بمشکل اپنی جگہ سے اٹھی

تو بلکل اس جیسی ہے خوبصورت ۔۔۔۔ لیکن تیری قسمت الگ ہے وہ خود بھی ظالم تھی مگر تو تجھے اہک ظالم خوبصورت پنجرے میں قید کرے گا ۔۔۔ اسکی نیلی آنکھیں تیری تاک میں ہیں اسکا روم روم تیرا منتظر ہے ۔۔۔۔اسکے خوابوں کی تعبیر ہے تو ۔۔۔ وہ شخص تیری زندگی کو آباد کرے گا جب تیرے پاس کوئی نا ہوگا تب وہ تیرا ہوگا تیرے پاس ہوگا ۔۔۔۔۔ عشق زادے کہلاؤ گے تم تمھاری قسمت تمھیں عاشق بنا دیگی ۔۔۔۔۔

کیا تھی اس نازک جاناں کی کہانی یہ تو وقت ہی ساتھ ہی پتہ چلنی تھی ۔۔۔۔۔لیکن یہ تو طے تھا وہ جاناں سے الگ تھی اسکی قسمت الگ تھی اسکی کہانی الگ تھی ۔۔۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔۔۔۔


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


The Real Owner Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel The Real Owner written by  Gul Writes .The Real Owner by Gul Writes is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stori es and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages