Pages

Friday 19 July 2024

Tarap Dil Ki By Rimsha Hayat Urdu Complete Romantic Novel

Tarap Dil Ki By Rimsha Hayat Urdu Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writer ; Urdu Novels Stories

Novel Genre : Romantic Urdu Novel Enjoy Reading…

Tarap Dil Ki By Rimsha Hayat Complete Romantic Novel 


Novel Name: Tarap Dil Ki 

Writer Name: Rimsha Hayat 

Category: Complete Novel


” ہمارے کنٹریکٹ میں بچے کا ذکر نہیں تھا مسٹر صفوان اور اب آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو بچہ بھی چاہیے؟“ عروہ نے کرخت لہجے میں صفوان کو دیکھتے پوچھا۔مقابل کے خیالات جان کر تو اس کی جان لبوں پر آگئی تھی۔

مس عروہ میں کنٹریکٹ میں یہ لائن بھی لکھ دیتا ہوں۔پھر تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا نا؟؟؟؟

لیکن مجھے بچہ ہر حال میں چاہیے صفوان نے دوٹوک انداز میں عروہ کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑھتے کہا۔

” آپ اس قدر گھٹیا انسان بھی ثابت ہو سکتے ہیں مجھے امید نہیں تھی۔میں آپ کا کھلونا نہیں ہوں سمجھے آپ

اور میرا نہیں خیال کے آپ کے لیے یہ کام مشکل ہو گیا کسی بھی لڑکی کو آپ اس کام کے لیے ہائیر کر سکتے ہیں۔

عروہ نے تمسخرانہ انداز میں صفوان کو دیکھتے کہا جس کا ذلت اور توہین کے مارے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

ٹھیک کہا مس عروہ میرے لیے مشکل نہیں ہے لیکن مجھے کسی اور سے نہیں بلکہ آپ سے بچہ چاہیے۔تمھارا اور میرا پیار سا بچہ جو میرے جیسا ہو گا۔صفوان نے تیکھے لہجے میں عروہ کی آنکھوں میں دیکھتے مزید کہا۔

نکاح میں ہو تم میرے اور میں کچھ بھی کر سکتا ہوں تم مجھے روک نہیں سکتی۔

صفوان نے آنکھوں میں چمک لیے عروہ کے سرخ چہرے کو دیکھتے ڈھٹائی سے کہا۔


اگر آپ نے میرے قریب آنے کی کوشش کی یا مجھ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں اپنی جان لے لوں گی۔

عروہ نے انگلی اٹھائے صفوان کو تنبیہ کرتے اپنے قدم پیچھے لیتے سرد لہجے میں کہا۔

صفوان اس کی طرف ہی آرہا تھا۔


ٹھیک ہے مجھے انتظار رہے گا جانم کہ کب تم اپنی جان لیتی ہو۔لیکن ابھی صفوان نے عروہ کے قریب پہنچتے اسے کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے اس کے کان کے پاس جھکتے سرگوشی نما انداز میں بات کو ادھورا چھوڑتے گھمبیر لہجے میں کہا۔اور اس کی بات کا مطلب سمجھ کر عروہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

💜 💜 💜 💜 💜 💜


سر آپ کو دادا جان بلا رہے ہیں۔ملازم نے کمرے میں داخل ہوتے خود پر پرفیوم چھڑکتے خان کو دیکھتے نظریں جھکا کر کہا۔

وہ جو خود کے عکس کو آئینے میں دیکھتے چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا تھا اور اس کی نظریں اپنے ہاتھ میں پکڑی پرفیوم کی بوتل پر جمی تھیں۔اس نے بنا مڑے کرخت لہجے میں کہا۔

میری اجازت کے بنا تم اندر کیسے آئے؟ خان نے بھاری لہجے میں کہا۔

سو سوری سر وہ مجھے خیال نہیں رہا۔مجھے معاف کر دیں۔ملازم نے جلدی سے نظریں جھکائے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

تمھاری آخری غلطی سمجھ کر معاف کر رہا ہوں کیونکہ تم دادا جان کے پرانے اور وفادار لوگوں میں سے ایک ہو لیکن اگلی بار تمھاری غلطی معاف نہیں کی جائے گی۔

خان نے سنجیدگی سے اپنا کوٹ پکڑتے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔

ملازم جو سانس روکے کھڑا تھا۔

اس نے جلدی سے اپنا سانس بحال کیا۔

خان کتنا کھڑوس اور غصے کا تیز انسان تھا گھر میں سب لوگ جانتے تھے۔اور کافی ملازمین کو وہ نکال چکا تھا۔

وہ زیادہ کسی سے بات بھی نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی سرد آنکھیں ہی مقابل کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیتی تھیں۔

کہاں جانے کی تیاری ہے خان؟ دادا جان نے خان کو تیار دیکھتے ماتھے پر سلوٹیں لیے سنجیدگی سے پوچھا۔

ایک ضروری کام کے سلسلے میں جا رہا ہوں۔جان نے دادا جان کو دیکھتے کہا۔

آج ہمیں تمھارے سسرال جانا ہے کیا تمہیں یاد نہیں ہے؟ دادا جان کی آواز اونچی ہو گئی تھی سامنے کھڑا شخص ہمیشہ اپنی من مانی کرتا تھا۔اور ان کے صبر کا امتحان لیتا تھا۔

یاد ہے دادا جان اسی لیے تو باہر جا رہا ہوں خان نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

دادا جان اس کی صاف گوئی پر حیران ہوئے تھے۔

اپنے سسرال والوں کے سامنے تم ہمیں شرمندہ کرنا چاہتے ہو؟ آخر تم چاہتے کیا ہو؟ اگر تمہیں اُس لڑکی سے شادی نہیں کرنی تو رشتہ ختم کیوں نہیں کر دیتے کیوں اُس لڑکی کو اپنے نام سے باندھ کر تم نے رکھا ہوا ہے؟ جب سے واپس آئے ہو ایک بار بھی تم اپنے سسر سے ملنے نہیں گئے۔دادا جان نے سرد لہجے میں کہا۔


آپ لوگوں کو ہی تو شوق تھا دونوں خاندانوں کو ایک ساتھ جوڑنے کا تو اب مسئلہ کیا ہے؟

خان نے سامنے دروازے کی طرف اپنی نظریں گارڈھتے پوچھا۔

خان تم کرنا کیا چاہتے ہو؟ کیا وہ لڑکی ساری زندگی تمھارے نام سے جڑی رہے گی؟ ٹھیک ہے اس رشتے میں تمھاری مرضی نہیں تھی۔لیکن اب میں تمھاری اس خاموشی سے تنگ آگیا ہوں۔یا تو سیدھے طریقے سے شادی کرو یا اُس لڑکی کو اپنے نام سے جڑے رشتے سے آذاد کر دو. دادا جان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

آذاد ہی تو نہیں کر سکتا دادا جان

خان نے لہجے میں نفرت لیے کہا۔

اور پھر وہاں بنا دادا جان کا جواب سنے وہاں سے چلا گیا۔

دادا جان نے بےبسی سے اپنے پوتے ہو دیکھا تھا۔

وہ خود نہیں جانتے تھے کہ وہ چاہتا کیا ہے۔

💜 💜 💜 💜💜


صفوان بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ اپنے بھائی کو بھی ساتھ کھیلنے کے لیے لے جاؤ ورنہ وہ میرا سر کھائے گا۔

صفوان کی امی نے اپنے لاڈلے کو دیکھتے کہا. جو ہاتھ میں گیند پکڑے باہر جانے کی تیاری میں تھا۔

ماما وہ میرا سارا کھیل خراب کر دیتا ہے میں اُسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گا۔اور ابھی اُسے کھیلنا بھی نہیں آتا۔صفوان نے منہ بسوڑتے اپنی ماں کو دیکھتے کہا جو اپنے بیٹے کی بات سن کر ہنس پڑی تھی۔

بیٹا جب آپ چھوٹے تھے تو آپ کو بھی کھیلنا نہیں آتا تھا۔لیکن آپ کے پاپا پھر بھی آپ کے ساتھ کھیلتے تھے تو اب اگر آپ کے بھائی کو کھیلنا نہیں آتا تو آپ اُسے سیکھا دو پھر دونوں بھائی مل کر کھیلنا۔صفوان کی امی نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے ماما میں اُسے ساتھ لے جاتا ہوں۔صفوان نے اپنی ماں کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔

اس کی ماں کا مسکراتا چہرہ دھندلا ہو جاتا جا رہا تھا۔

ماما….

بیڈ پر لیٹے صفوان نے آنکھیں میچی ہوئی تھیں ماتھے پر بل ڈالے اس وقت اس کا پورا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔

علی…

صفوان چیختے ہوئے نیند سے جاگا اور گہرے سانس لیتے سامنے دیوار کو دیکھنے لگا۔جو اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آرہی تھی۔

پورا کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔

کھڑکی سے چاند کی روشنی کمرے میں جھانک رہی تھی۔ صفوان نے گہرا سانس لیتے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ کو اٹھایا اور گلاس میں پانی ڈال کر ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گیا۔

پرانی اور تکلیف دہ یادوں نے آج تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔اس کا بھائی بار بار اس کے خواب میں آتا تھا۔

کاش وہ اُس وقت اپنی فیملی کو بچا سکتا تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔

بہت انتظار کر لیا میں نے اب باری بدلہ لینے کی ہے۔وہ لوگ سکون سے کیسے رہ سکتے ہیں جنہوں نے مجھ سے میری ساری خوشیاں چھین لی۔

صفوان اب کسی کو نہیں چھوڑے گا۔کسی کو بھی نہیں صفوان نے غصے سے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو دیکھتے کہا اور اپنا موبائل پکڑے ٹیریس کی طرف چلا گیا کیونکہ اب اسے نیند تو آنی نہیں تھی۔اور پھر سے اس نے پوری رات جاگ کر گزارنی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜

عروہ میری بچی کیا ہوا؟ تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟ بلقیس نے عروہ کے پیلے پڑتی رنگت کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

وہ اماں مجھے ایسا لگا کوئی میرے پیچھے آرہا ہے۔میں ڈر گئی تھی۔

عروہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

میں دیکھتی ہوں بلقیس نے کہا اور عروہ کو دروازے سے پیچھے کرتے باہر گلی میں نکلتے دیکھا لیکن دوپہر کے وقت گلی میں کوئی نہیں تھا۔

عروہ پاس والے سکول میں پڑھانے جاتی تھی وہی سے واپس آرہی تھی جب اسے لگا جیسے کوئی ایسے دیکھ رہا ہو۔ کچھ ہی فاصلے پر اس کا گھر تھا اس لیے پیدل چل کر آتی تھی۔

اس نے اپنے سر پر لی چادر کو تھوڑا آگے کی جانب کیا اور بڑے بڑے قدم لیتی گھر کی جانب چل پڑی لیکن پھر اسے ایسا لگا کہ کوئی اس کے پیچھے آرہا ہے اس نے بنا پیچھے دیکھے وہاں سے دوڑ لگا دی اور گھر آکر سانس لیا۔لیکن اس کے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا یہ اس کا وہم تھا۔اور یہ آج کی بات نہیں تھی ہر دوسرے دن ایسا ہی ہوتا تھا۔عروہ کو ایسا لگتا تھا کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا پیچھا کر رہا ہے۔اور کبھی کبھار تو وہ اتنا ڈر جاتی کہ کی دن تک اپنے کمرے میں بند رہتی۔بلقیس بھی اس کی وجہ سے بہت پریشان تھی اس نے کافی علاج بھی کروایا۔لیکن کوئی فرق نہیں پڑا اور بلقیس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے ہسپتال میں عروہ کو لے کر جا سکتی۔

عروہ باہر کوئی نہیں ہے۔تم منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔بلقیس نے سنجیدگی سے کہا۔

نہیں اماں عروہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن بلقیس کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھتے خاموش ہو گئی اور چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

پتہ نہیں یہ لڑکی کب ٹھیک ہو گی نجانے کون سا ڈر اس کے دماغ میں بیٹھ گیا ہے۔

بلقیس نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

اور چھوٹے سے بنے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔

یہ گھر چھوٹا سا تھا۔جو دو کمروں اور ایک کچن پر مشتمل تھا۔صحن میں ایک چارپائی بچھائی ہوئی تھی۔

دو لوگوں کے لیے یہ گھر بلکل ٹھیک تھا۔

بلقیس کے شوہر کی بہت پہلے کیسز کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔

عروہ کو کچھ ماہ پہلے ہی سکول میں جاب ملی تھی۔

شام میں وہ گلی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔

گھر کا گزارا اچھے سے ہو رہا تھا۔

بلقیس گھر میں سلائی کرتی تھی لیکن عروہ کی جاب لگنے کے بعد اُس نے بلقیس کو منع کر دیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ثانیہ کہاں جانے کی تیاری ہے؟ بیٹا آج تمھارے سسرال والے آرہے ہیں۔تمہیں گھر پر رکنا چاہیے۔

عظمیٰ بیگم نے ثانیہ کو تیار دیکھتے کہا۔

موم کیا فائدہ میرے رکنے کا؟ کون سا میرا منگیتر بھی ساتھ آرہا ہے وہ تو منگنی کرکے بھول ہی گیا ہے کہ اُس کی ایک عدد منگیتر بھی ہے۔اور مجھے اُس کے دادا جان کے پاس بیٹھنے کا بلکل بھی شوق نہیں ہے۔

ثانیہ نے سرد لہجے میں اپنی ماں کو دیکھتے کہا۔

اُس کی خالہ بھی ساتھ آرہی ہیں۔وہ کیا سوچے گی۔عظمیٰ نے پریشانی سے کہا۔

تو کیا ہوا موم آپ ہیں گھر میں اور بھی لوگ ہیں میرا یہاں رکنا اتنا ضروری نہیں ہے میری فرینڈ کی سالگرہ ہے میرا وہاں جانا ضروری ہے۔

ثانیہ نے اپنے کندھے پر آئے بالوں کو پیچھے جھٹکتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

کیا جواب دوں گی میں اس کے باپ کو عظمیٰ نے پریشانی سے کہا۔

ثانیہ کی منگنی کچھ سال پہلے خان سے ہوئی تھی۔

خان منگنی کرواتے ہی ملک سے باہر چلا گیا تھا۔اس نے منگنی اپنے دادا کے کہنے پر کی تھی۔لیکن اب دور دور تک اس کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ثانیہ خان کو پسند کرتی تھی وہ کسی بھی قیمت پر خان کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی اس لیے آج تک اُس کے نام پت بیٹھی ہوئی تھی لیکن اب پانچ سال گزر چکے تھے۔خان نے اسے اپنی شکل نہیں دکھائی تھی۔

لیکن اب وہ واپس پاکستان آگیا تھا۔لیکن ثانیہ کو اس کا بات کا علم نہیں تھا۔

💜 💜 💜 💜


لڑکی اندھی ہو کیا؟ دیکھ کر نہیں چل سکتی؟ تمھاری وجہ سے میرا موبائل ٹوٹ گیا ہے۔

ارسم جو اپنے دھیان موبائل کان سے لگائے مارکیٹ کے اندر داخل ہو رہا تھا سامنے سے آتی ملائکہ سے اس کا زبردست تصادم ہوا۔اور ارسم کے ہاتھ میں پکڑا موبائل زمین پر گر گیا۔غلطی دونوں کی تھی۔لیکن ارسم اپنا قصور مان لے یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔اور اس کا موبائل بھی زمین پر گرا اپنی قسمت پر رو رہا تھا۔

ملائکہ نے سہمی ہوئی نظروں سے ارسم کی طرف دیکھا۔اور ایک نظر پیچھے ڈالی۔

سوری ملائکہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا اور وہاں سے بھاگنے لگی۔

سوری؟ ارسم نے غصے سے ملائکہ کو بازو سے پکڑ کر سامنے کھڑا کیا۔ملائکہ جو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی ولید کے چھونے پر ایک دم کپکپا گئی۔اس نے بنا سوچے سمجھے سامنے کھڑے ارسم کے چہرے پر تھپڑ دے مارا۔وہ شاید پہلے ہی کسی سے ڈر کر بھاگ رہی تھی۔اور اب ارسم کا اسے چھونا اس کے رہے سہے صبر کو بھی ختم کر گیا تھا۔

ارسم نے بے یقینی سے سامنے کھڑی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔جو ہولے ہولے کپکپا رہی تھی۔

آس پاس کے لوگ رک کر دونوں کو دیکھنے لگے تھے۔ملائکہ نے چادر کے پلو کو تھوڑا مزید آگے کیا اور وہاں سے بھاگ گئی۔

ارسم ابھی بھی بےیقینی کی کیفیت میں کھڑا تھا۔کوئی لڑکی اس پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے وہ بھی بھری مارکیٹ میں اسے یقین نہیں آرہا تھا۔اور اس نے تو اُس لڑکی کو ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا۔

چہرہ تو اس نے بھی اُس لڑکی کا نہیں دیکھا تھا جس نے چادر کے پلو سے اپنے چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔لیکن اس کی ڈری اور سہمی ہوئی کالی آنکھیں صاف نظر آرہی تھیں۔

ہوش میں آتے ہی ارسم نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو میچتے سرخ ہوتی آنکھوں سے زمین پر گرے موبائل کو دیکھا اور مارکیٹ کے اندر جانے کی بجائے اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔

تم نے ارسم خان پر ہاتھ اٹھا کر دنیا کی سب سے بڑی غلطی کی ہے لڑکی۔

اور یہ غلطی تمہیں میں کبھی بھولنے بھی نہیں دوں گا۔

ارسم نے گاڑی میں بیٹھتے سرد لہجے میں کہا۔ڈرائیور نے اپنے مالک کے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھتے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے ارسم صاحب غصے کے کتنے تیز ہیں۔اس لیے کوئی سوال نہیں کیا۔

💜 💜 💜 💜


اگلے دن عروہ کافی بہتر تھی۔پورا دن کمرے میں بند رہنے کے بعد وہ فجر کے وقت اپنے کمرے سے باہر آئی تھی۔

بچوں کو اس نے چھٹی دی تھی اس لیے آرام سے فجر کی نماز کے بعد باہر آئی تھی باہر بلقیس بیٹھی تھی۔

امی مجھے بھوک لگی ہے۔

عروہ نے اپنے بالوں کا جوڑا بناتے اپنی ماں سے کہا۔

ابھی بھی کمرے میں بند رہنا تھا بیٹا باہر آنے کی کیا ضرورت تھی؟ تم نے تو قسم کھائی ہوئی ہے اپنی ماں کو پریشان کرنے کی۔بلقیس نے طنزیہ لہجے میں کہا تو عروہ ہنس پڑی۔

امی مجھے معاف کر دیں میرا مقصد آپ کو پریشان کرنا نہیں تھا۔عروہ نے اپنی ماں کی گود میں سر رکھتے کہا۔بلقیس جانتی تھی کہ ہمیشہ عروہ ایسے ہی کرتی تھی۔اور بعد میں اپنی ماں سے سوری بولتی۔

عروہ….

بلقیس نے عروہ کے بالوں میں ہاتھ چلاتے دھیمے لہجے میں پکارا۔

جی امی عروہ نے کہا تو بلقیس نے گہرا سانس لیتے اس کی طرف دیکھا۔

کس سے ڈر کر بھاگ رہی ہو؟ بلقیس کے سنجیدگی سے پوچھے گئے سوال نے عروہ کو کپکپانے پر مجبور کر دیا تھا۔

ک کیا مطلب امی؟ عروہ فوراً اُٹھ کر بیٹھی اور اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا۔

میرے کہنے کا مطلب ہے تمہیں کوئی پریشان کر رہا ہے؟ کوئی تمھارا پیچھا کرتا ہے؟ بلقیس کے سوال پر عروہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

کیا تم نے کسی کو دیکھا ہے؟ بلقیس نے تحمل سے پوچھا۔

مجھے کبھی کوئی نظر نہیں آیا لیکن امی عروہ نے اپنی ماں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے کہا۔

مجھے ایسا لگتا ہے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔

لیکن عروہ نے بےبسی سے بات کو ادھورا چھوڑتے کہا۔

لیکن بیٹا پوری دنیا تو تمھارا پیچھا نہیں کر سکتی نا اور تمہیں تو لگتا ہے ہر کوئی تم پر نظر رکھے ہوئے ہے ہر کوئی تمھارا پیچھا کر رہا ہے۔

یہ تمھارا وہم ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں بلقیس نے سنجیدگی سے کہا۔

امی یہ میرا وہم نہیں ہے ہاں میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن کوئی تو ہے جو مجھ پر نظر رکھتا ہے۔عروہ نے بےبسی سے کہا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جس طرح اپنی ماں کو سمجھائے۔

بلقیس ایک دو بار خود عروہ کے ساتھ سکول تک گئی تھی لیکن اسے ایسا بلکل بھی محسوس نہیں ہوا کہ کوئی ان کو دیکھ رہا ہو یا پیچھا کر رہا ہو لیکن عروہ وہاں سے گزرتے ہر انسان کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی آگر کوئی ان کے پیچھے چل رہا ہوتا تو اسے لگتا کہ وہ انسان اس کا پیچھا کر رہا ہے لیکن آگے جاکر وہ اپنے راستے چل پڑتا۔تو بلقیس کو اب یہی لگتا تھا کہ یہ عروہ کا وہم ہے۔اور بلقیس نے نوٹ کیا تھا کہ عروہ زیادہ مردوں سے ڈرتی ہے۔بات کرنا تو دور اُن سے بات کرتے ہوئے بھی اسے خوف محسوس ہوتا تھا۔

میں تمھارے لیے ناشتہ لگاتی ہوں پھر تمھیں سکول بھی جانا ہے۔بلقیس نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔

عروہ خاموش ہو گئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد اسکی ماں ناشتہ لے آئی دونوں نے خاموشی سے ناشتہ کیا اور پھر عروہ تیار ہونے چلی گئی۔

آج اس نے سفید رنگ کی شلوار قمیض پہنی تھی۔کالی چادر کو سر پر اچھی طرح سیٹ کیے وہ باہر آئی تو بلقیس کی نظریں اس ہر ٹھہر گئی۔

عروہ میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے سفید رنگ مت پہنا کرو۔بلقیس نے تھوڑا غصے سے کہا۔

کیوں امی اس میں کیا برائی ہے؟

عروہ نے منہ بسوڑتے پوچھا۔

میں نے منع کیا ہے نا عروہ تو بحث مت کرو اور جاکر تبدیل کرو۔

بلقیس نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

امی ابھی تو مجھے بہت دیر ہو رہی ابھی میں جا رہی ہوں۔عروہ نے اپنی ماں کی بات ہو نظر انداز کرتے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

بلقیس پیچھے سے آوازی دیتی رہ گئی لیکن عروہ نے ایک بھی آواز نہیں سنی۔


عروہ سکول پہنی تو اسے پتہ چلا کہ آج پرنسپل کے کچھ خاص مہمان آرہے ہیں اور سکول بھی اُن کے والد نے بنایا تھا۔

عروہ نے اس بات پر زیادہ غور نہیں کیا اور اپنی کلاس کی طرف چلی گئی۔

عروہ زیادہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔

اب بھی بریک میں سٹاف میں سب سے الگ بیٹھی اپنا کام کر رہی تھی جب دو ٹیچرز جو لگ بھگ اس کی عمر کی ہی تھیں اس سے کچھ فاصلے پر آکر بیٹھی۔

یار میڈم کے گیسٹ تو بہت ہینڈسم ہیں۔وہ جب آئے تو میں آفس میں ہی تھی لیکن میڈم نے مجھے باہر بھیج دیا۔

پہلی والی نے افسردگی سے کہا۔

ناچاہتے ہوئے بھی عروہ کا دھیان بھٹک کر ان کی باتوں کی طرف جا رہا تھا۔

لیکن انہوں نے تو مجھے ایک نظر بھی نہیں دیکھا۔لیکن وہ چھوٹے بچوں سے ملنے کلاس میں آئے گئے میڈم بتا رہی تھی۔

عروہ نے جب یہ سنا تو اسکے پیپر پر چلتے ہاتھ ایک دم کپکپائے تھے۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ کیوں وہ اتنا ڈر رہی ہے۔لیکن وہ یہ سن کر نجانے کیوں خوفزدہ تھی۔

مجھے نہیں ڈرنا وہ میڈم کے گیسٹ ہیں اور یہ سکول انکے والد نے ہی بنایا تھا وہ کلاس میں آئے گئے بچوں سے ملے گئے اور چلے جائے گئے اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔عروہ نے خود کو دل میں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

کیونکہ وہ چھوٹے بچوں کو ہی بڑھاتی تھی اسے بچے پسند تھے اس لیے جب وہ انٹرویو دینے آئی تو پرنسپل نے اس سے پوچھا تھا کہ آپ کون سی کلاس کو پڑھا سکتی ہیں تو اس نے یہی کہا تھا کہ وہ چھوٹے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہے۔اور چھوٹی کلاسز کے لیے ہی ٹیچر کی ضرورت تھی اس لیے پرنسپل کو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

عروہ نے ٹیبل سے اپنی چیزیں اٹھائی اور سٹاف روم سے باہر نکل آئی۔

اسے پیچھے سے ایک بچے نے آواز دی تو عروہ اُس کی طرف رخ موڑے اُس بچے کی بات سننے لگی۔

بچے سے بات کرنے کے بعد جیسے ہی عروہ پیچھے مڑی تو پیچھے کھڑے صفوان کے سینے کے ساتھ زور سے جا ٹکرائی اس کے ہاتھ میں پکڑے پیپرز زمین پر گر گئے تھے اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی صفوان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے گرنے سے بچایا۔

عروہ آنکھیں میچے چہرے پر خوف لیے صفوان کی بانہوں میں قید کھڑی تھی۔

صفوان کی سرد آنکھیں اس کی بند آنکھوں سے ہوتے ہوئے اس کے ہونٹوں کے نیچے تل پر ٹھہر گئی تھی۔اس کے ہونٹ کے دائیں جانب تھوڑا نیچے ایک تل تھا۔

عروہ نے جب محسوس کیا کہ وہ زمین پر نہیں گری تو اس نے جلدی سے آنکھیں کھولی اور مقابل کو دیکھ کر اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

💜 💜 

اگر آپ کے پاس آنکھیں موجود ہیں تو اُن کو استعمال میں بھی لایا کریں اور دیکھ کر چلا کریں۔صفوان نے عروہ کی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور اس کی کمر سے ہاتھ پیچھے کیے کھڑا ہو گیا جس نے صفوان کے چھوڑنے پر بمشکل خود کو گرنے سے بچایا تھا۔

عروہ نے سہمی ہوئی نظروں سے صفوان کو دیکھا اس کی آنکھوں ایسا کچھ ضرور تھا جو عروہ کو کپکپانے پر مجبور کر گیا تھا۔اس لیے بنا جواب دیے وہاں سے چلی گئی۔

صفوان ابھی بھی اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔

بیوقوف لڑکی صفوان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا اسے ایک ضروری کام یاد آگیا تھا۔اس لیے جلدی سکول سے نکل گیا تھا۔

عروہ کو لگ رہا تھا کہ خوف کے مارے وہ بےہوش ہو جائے گی۔اس لیے اس نے اپنی طبعیت کی خرابی کا پرنسپل کو کہا اور چھٹی لے کر سکول سے نکل گئی۔

عروہ کے سامنے بار بار صفوان کی سرد آنکھیں آرہی تھی۔

اسے لگ رہا تھا کہ زمین گھوم رہی ہے۔

اس نے کسی طرح گھر پہنچنا تھا۔

سکول سے باہر نکلتے کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی اسے لگا کہ اس کہ اس کا پورا جسم بےجان ہو گیا ہے اور آنکھوں کے سامنے آتے اندھیرے کی وجہ سے وہی زمین پر گر گئی۔

دور سے جو دو آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔اس نے عروہ کو زمین بوس ہوتے دیکھا تو اور آرام سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔اس سے پہلے وہاں کھڑا ایک آدمی عروہ کو چھو کر اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتا۔اُس شخص کی سرد آواز وہاں گونجی تھی۔

اسے کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔

مقابل نے کہا تو وہاں کھڑے لوگ اُسے دیکھنے لگے۔جو دیکھنے میں اچھے گھر کا لگ رہا تھا۔

اُس نے آگے بڑھ کر عروہ کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اُسے وہاں سے لے گیا۔

اُس شخص کے چہرے کو دیکھ کر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اُس سے کوئی سوال کر سکے۔

آخر کار تم مجھے مل ہی گئی۔اُس شخص نے عروہ کو اپنی گاڑی میں بیٹھاتے عروہ کے پرسکون سے چہرے کو دیکھتے دلچسپی سے کہا۔

مجھ سے ہی تو تم اتنے سالوں سے چھپ کر بھاگ رہی تھی اور اب دیکھو قسمت نے ہمیں دوبارہ ملوا دیا۔

لیکن مجھے پورا یقین ہے تم نے اگر میری شکل دیکھ لی تو دوبارہ بےہوش ہو جاؤ گی۔

مقابل نے گہرے لہجے میں عروہ کی شفاف گردن پر لگے کٹ کے نشان کو دیکھتے کہا جو چادر کے ہٹنے پر صاف نظر آرہا تھا۔

مقابل نے ہاتھ آگے بڑھاتے عروہ کے اُس نشان کو چھونا چاہا لیکن چاہنے کے باوجود بھی وہ عروہ کے نشان کو چھو نہیں پایا تھا۔

تمھارا یہ نشان بہت خوبصورت ہے حسینہ اسے چھپا کر رکھا کرو کسی دن میرا اد ہر دل آگیا تو پھر مجھ سے چھپتی پھیرو گی۔مقابل نے ہلکا سا مسکرا کر خود سے کہا اور اپنا ہاتھ پیچھے کیے ڈرائیونگ کرنے لگا۔

💜 💜 💜 💜


ارسم تم ہمارے ساتھ نہیں چلو گئے؟ تمھاری خالہ بھی ساتھ چل رہی ہیں۔

ارسم ابھی تھوڑی دیر پہلے گھر آیا تھا جب اس کی ماں نے اسے دیکھتے پوچھا۔

کہاں؟ ارسم نے سنجیدگی سے انجان بنتے پوچھا۔

خان کے سسرال کوثر بیگم نے ارسم کے تاثرات دیکھتے بتایا۔

امی جان جس کے سسرال آپ لوگ جا رہے ہیں یقیناً وہ محترم خود بھی آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہا تو نانا اور خالہ جان بھی وہاں کیا لینے جا رہے ہیں؟

اُن لوگوں سے رشتہ رکھنا تو دور میں اُن سے بات کرنا بھی گوارا نہیں سمجھتا اور آپ ساتھ جانے کی بات ک رہی ہیں۔ارسم نے اپنی شرٹ کے اوپری بٹن کو کھولتے ہوئے کہا۔

تم آج اتنا غصے میں کیوں ہو؟ کسی سے جھگڑ کر آرہے ہو؟ کوثر نے ارسم کی بات کو اگنور کرتے پوچھا۔

کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ خان اور ان کا اپنا بیٹا غصے کے کتنے تیز ہیں۔

امی جان آپ کو لگتا ہے کہ میں کسی سے جھگڑ کر اتنے آرام سے آپ کے سامنے کھڑا ہوتا؟ اگر میں کسی سے جھگڑتا تو اس وقت تھانے میں ہوتا کیونکہ جس کے ساتھ میں جھگڑا کروں گا یقیناً وہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہوگی تو اُسے اگلے جہان پہنچا کر ہی دم لوں گا۔

ارسم نے تپے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

کیا فضول بول رہے ہو؟ جانتے بھی ہو کیا کہہ رہے ہو تم؟

امی جان آپ اپنے سسرال جا سکتی ہیں لیکن پلیز میرے سامنے اُن لوگوں کے گھر کے کسی افراد کا بھی ذکر مت کیا کریں۔ارسم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

ارسم وہ بھی تمھارا گھر ہے وہاں تمھارے بھائی بھی ہیں۔کوثر نے مزید کچھ کہنا چاہا جب ارسم نے گہرا سانس لیتے اپنی ماں کو روکا۔

میرا صرف ایک بھائی اور ایک ہی بہن ہے اور وہی میرے کزنز بھی ہیں خان اور بسمہ اس کے علاوہ میرا کوئی بھائی بہن نہیں ہیں۔اور میں امید کرتا ہوں آئندہ آپ میرا نام کسی بھی ایسے انسان کے ساتھ نہیں جوڑیں گی جو مجھے پسند نہیں ہے۔

ارسم نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔کوثر نے بےبسی سے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا۔

کوثر کچھ دن کے لیے یہاں رہنے کے لیے آئی تھی ارسم زیادہ تو گھر پر نہیں ہوتا تھا لیکن جب بھی اس کی اپنی ماں اس سے بات کرتی تو دونوں میں کسی نا کسی بات کو لے کر ضرور جھگڑا ہوتا تھا۔

💜 💜 💜💜


کوثر دادا جان کے ساتھ اپنے سسرال واپس آگی تھی۔کوثر کے پہلے شوہر کی ایکسیڈنٹ میں موت ہو گئی تھی۔اُس وقت ارسم دس سال کا تھا۔

دادا جان کے دوست داجی نے کوثر کے لیے اپنے بیٹا کا رشتہ دادا جان کے سامنے رکھا۔داجی کے چھوٹے بیٹے سلطان جس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور طلاق کیوں دی یہ کسی کو معلوم نہیں تھا اور ان کے بھی دو بیٹے تھے۔

داجی نے دادا جان کو کہا کہ کوثر کی سارے زندگی پڑی ہے اور ان کا بیٹا کوثر کا بہت خیال رکھے گا کب تک کوثر اکیلی زندگی گزارے گی آگے ہماری زندگی کا کیا بھروسہ کسی بھی وقت بلوا آجائے تو پیچھے کوثر کا کیا ہو گا۔

دادا جان کو بھی داجی کی یہ بات ٹھیک لگی تھی اس لیے انہوں نے سادگی سے کوثر کا نکاح سلطان سے کر دیا۔

کوثر ہمیشہ سر جھکائے اپنے باپ کا کہنا مانتی تھی ماں تو بہت پہلے ہی جا چکی تھی ایک باپ کا ہی اس کے سر پر سایہ تھا۔اور اس بار بھی کوثر نے بنا کوئی سوال کیے اپنے باپ کا کہا مانا تھا۔لیکن وہ یہ نکاح کرکے اپنے بیٹے کو ناراض کر چکی تھیں۔

ارسم نے اپنی ماں کے ساتھ جانے سے منع کر دیا تھا دادا جان نے بھی اسے زیادہ فورس نہیں کیا اور کوثر کو اپنے دل پر پتھر رکھے اپنے بیٹے کو چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔وہ جانتی تھی کہ تحریم ان کے بیٹے اور خان کا اچھے سے خیال رکھے گی لیکن پھر بھی اپنے بیٹے کو چھوڑ کر جانا ان کے لیے مشکل تھا۔

تحریم دادا جان کی بیوی کی جو ملازمہ تھی اُن کی بیٹی تھی۔تحریم کا شوہر شراب پیتا تھا اور جوا کھیلتا تھا تحریم کی ایک بیٹی بسمہ تھی۔جب بیچنے کو کچھ نہیں بچا تو تحریم کے شوہر نے اپنی بیوی پر جوا لگایا۔

اور جوا ہارنے کے بعد اپنی بیوی کو اُن لوگوں کے حوالے کر دیا۔

اُس وقت تحریم کو اُن لوگوں سے چھڑوا کر خان کے ابو لائے تھے اور انہوں نے اُسی وقت کہا تھا کہ تحریم ان کی چھوٹی بہن ہے اور وہ گھر میں انکی بہن بن کر رہے گی نا کہ ملازمہ تحریم نے بھی بہن ہونے کا فرض بخوبی نبھایا تھا۔گھر میں سب لوگ تحریم کو گھر کا فرد ہی سمجھتے تھے۔اس کی بہت چھوٹی عمر میں شادی ہو گئی تھی۔

خان اور ارسم بسمہ کا بہت خیال رکھتے تھے۔اُن کو یہ چھوٹی سی گڑیا بہت پسند آئی تھی۔

دادا جان نے تو تحریم کی بھی دوسری شادی کروانے کی بہت کوشش کی لیکن تحریم اپنی ضد پر قائم رہی کہ وہ اب شادی نہیں کرے گی بلکہ اپنے بچوں کا خیال رکھے گی۔

کوثر جانے سے پہلے دونوں بچوں کی ذمہ داری تحریم کو دے کر گئی تھی۔

داجی کے گھر والے دادا جان کے گھر والوں سے بہت قریب تھے اس لیے دونوں خاندان ایک دوسرے کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے۔

سلطان کے نکاح کے کچھ دیر بعد ہی دا جی کا انتقال ہو گیا تھا۔

وقت گزرتا گیا۔اور داجی کی آخری خواہش پر ہی خان اور ثانیہ کی منگنی ہوئی تھی۔یہ داجی کی آخری خواہش تھی تو کیسے نا دادا جان اپنے دوست کی آخری خواہش پوری کرتے زبردستی ہی سہی لیکن دادا جان نے خان اور ثانیہ کی منگنی کروا دی تھی تاکہ دونوں خاندان کے تعلقات مزید گہرے ہو جائیں۔اور خان منگنی کے فوراً بعد ملک سے باہر چلا گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜


کچھ بھی کرو لیکن اُس لڑکی کو کہی سے بھی ڈھونڈ نکالو مجھے کل تک وہ لڑکی کسی بھی حال میں اپنے کمرے میں چاہیے۔

ارسم نے فون کان سے لگائے دہاڑتے ہوئے کہا۔

لیکن اس کے آدمیوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جو حلیہ ان کے بوس نے اُس لڑکی کا بتایا ہے ویسی تو ہزاروں لڑکیاں ہیں تو وہ کیسے اُس لڑکی کو ڈھونڈ کر لائے لیکن انکار بھی نہیں کر سکتے تھے اس لیے خاموشی سے اپنے بوس کو سن رہے تھے۔

ارسم نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔ابھی تک اس کی آنکھوں کے سامنے وہی نظارہ بار بار آرہا تھا۔

چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے کسی بھی حد تک جانا پڑے میں تمہیں ڈھونڈ نکالو گا۔

اور اس تھپڑ کی قیمت تمہیں پوری زندگی چکانی ہو گی۔

تمھارا ایک ایک پل میں تم پر عذاب بنا دوں گا۔

ارسم نے اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر اپنی پکڑ سخت کرتے غصے سے کہا۔

ملائکہ کو اس تھپڑ کی قیمت بہت مہنگی پڑنے والی تھی جس سے وہ لاعلم تھی۔

کوئی تھا جو اسے پاگلوں کی طرح اپنے بدلے کے لیے تلاش کر رہا تھا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ارسم خان تھا۔جس کے غصے کے قہر سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا تھا۔اور اس کا نشانہ ملائکہ بھی بننے والی تھی۔

💜 💜 💜 💜💜


عروہ کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں لیٹا پایا۔

وہ جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئی اور آنکھوں میں خوف لیے ارد گرد دیکھنے لگی۔اس کی چادر بھی اس کے پاس ہی پڑی تھی اس نے جلدی سے اپنی چادر اچھی طرح اوڑھی جب اس کا موبائل رنگ ہوا جو سائیڈ ٹیبل پر ہی پڑا تھا۔عروہ نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اپنا موبائل دیکھا جس پر ایک انجان نمبر سے میسج آیا ہوا تھا۔

ڈرتے ہوئے اس نے میسج کھولا جس میں لکھا تھا۔

” سویٹی اپنے چھوٹے سے دماغ پر زور مت ڈالنا کہ تم یہاں کیسے آئی اور میں کون ہوں۔

تم بہت خوبصورت ہو اس بار میں نے تمھارا ساتھ کچھ نہیں کیا لیکن اگلی بار کا میں کچھ کہہ نہیں سکتا تمہیں دیکھ کر تو انسان کا بھٹکنا بنتا ہے۔خیر یہ سب چھوڑو یہاں سے تم جا سکتی ہو۔لیکن میرے نمبر کو بلوک کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت اگر تم میرا کہنا مانو گی تو میں بھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا۔لیکن تم نے کیا کرنا ہے وہ میں تمہیں شام میں بتاؤں گا ابھی تم گھر جاؤ۔اور اس بارے میں کسی کو بتانے کی غلطی مت کرنا۔ورنہ اس کے نتائج بہت برے ہوں گئے۔

عروہ جیسے جیسے میسج پڑھتی جا رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ زرد ہوتا جا رہا تھا لیکن سب سے پہلے یہاں سے نکلنا تھا یہ ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔عروہ نے اپنا بیگ اور پیپرز اٹھائے اور جلدی سے باہر کی طرف بھاگی جہاں دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔بوکھلاہٹ میں اس نے گھر پر دھیان نہیں تھا۔

وہاں سے نکلتے ہی اس نے رکشہ لیا اور گھر آتے ہی اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔

بلقیس نے کافی بار دروازہ کھٹکھٹایا لیکن عروہ نے دروازہ نہیں کھولا اتنے میں ملائکہ بھی وہاں آگئی تھی۔جو ساتھ والے گھر میں رہتی تھی اور عروہ کی دوست بھی تھی۔

کیا ہوا آنٹی؟ ملائکہ نے بلقیس کو دیکھتے پوچھا۔

عروہ آج پھر آتے ہی کمرے میں بند ہو گئی ہے پتہ نہیں اس لڑکی نے قسم کھائی ہوئی ہے مجھے تنگ کرنے کی بلقیس نے غصے سے کہا۔

آنٹی میں اسے دیکھتی ہوں آپ پریشان مت ہوں ۔ملائکہ نے کہا تو بلقیس ایک نظر دروازے پر ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔ملائکہ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور عروہ کو دروازہ کھولنے کا کہا۔عروہ نے ملائکہ کی آواز سنتے جلدی سے دروازہ کھولا اور ملائکہ کو کلائی سے پکڑ کر اندر کھینچا اور پھر سے دروازہ بند کر دیا۔

عروہ کیا ہوا؟ ملائکہ نے پریشانی سے پوچھا۔

کچھ نہیں بس میں تھوڑا ڈر گئی تھی۔پہلے تو عروہ ساری حقیقت ملائکہ کو بتانے لگے تھی لیکن پھر اُس میسج کا سوچ کر خاموش ہو گئی۔

اچھا بیٹھو میں تمہیں بتاتی ہوں میرے ساتھ کیا ہوا۔

ملائکہ سمجھ گئی تھی کہ عروہ ڈر گئی ہے اس لیے دروازہ بند کیے بیٹھی تھی۔

امی نے مارکیٹ سے مجھے کچھ سامان لینے بھیجا تھا تم تو جانتی ہو نا میں اکیلی باہر نہیں جاتی تو وہاں دو لفنگے کھڑے تھے جو مجھے گھور کر دیکھ رہے تھے۔لیکن جب وہ چلتے ہوئے میرے پاس آنے لگے تو میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی میں بہت ڈر گئی تھی اور امی بھی میرے ساتھ نہیں تھیں۔

ملائکہ نے اپنا خلق تر کرتے کہا۔

پھر؟ عروہ جو تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن اپنی پریشانی کو بھولائے ملائکہ کی بات سن رہی تھی اس نے جلدی سے پوچھا۔

تو میں مارکیٹ سے باہر نکل آئی اور باہر ایک لڑکے سے ٹکرائی میرے ٹکرانے سے اُس کا موبائل ٹوٹ گیا لیکن غلطی اُس کی بھی تھی۔میں اُسے سوری بولے جب وہاں سے جانے لگی تو اُس نے مجھے بازو سے پکڑ کر سامنے کھڑا کیا میں پہلے ہی ڈری ہوئی تو بنا سوچے سمجھے میں نے ملائکہ سانس لینے کے لیے روکی تو عروہ نے جلدی سے پوچھا۔

کیا کیا تم نے؟

میں نے اُسے تھپڑ دے مارا ملائکہ نے کہا تو عروہ نے حیرت کے مارے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔

تم ایسے کیسے کسی کو تھپڑ مار سکتی ہو اگر وہ تم سے اس تھپڑ کا بدلہ لینے آگیا تو؟ عروہ نے اپنے خدشات بیان کرتے کہا۔

کچھ نہیں ہو گا۔

اور ویسے بھی میں کسی سے ڈرتی نہیں ہوں۔

ملائکہ نے عام سے لہجے میں کہا۔

ڈر تو اب کہی بھاگ گیا تھا اس لیے عام سے لہجے میں بات کر رہی تھی۔

تو پھر اُن لڑکوں سے ڈر کر بھاگی کیوں؟ عروہ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

وہ تو میں اُس وقت اکیلی تھی نا اس لیے ملائکہ نے بتیسی دکھاتے کہا۔

ملائکہ عروہ جیسی ڈرپوک نہیں تھی لیکن کبھی کبھار وہ بھی ایسی چیزوں سے ڈر جاتی تھی جس سے عروہ ڈرتی تھی۔

اگر اس کے ساتھ کوئی ہوتا تو ملائکہ میڈم شیرنی بنی پھیرتی تھی اور جب اکیلی ہوتی تو بھیگی بلی بن کر پھیرتی۔

آنٹی پریشان ہو رہی تھیں میں اُن کو بتا کر آتی ہوں کہ تم ٹھیک ہو۔ملائکہ نے کہا اور وہاں سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔

اس کے جاتے ہی عروہ کو پھر سے پریشانی نے آن گھیرا تھا۔

ابھی اس نے اپنے موبائل کو پکڑا ہی تھا جب وہ رنگ ہوا عروہ ڈر کے مارے اُچھلی تو موبائل بیڈ کر جا گرا۔

اس نے ڈرتے ہوئے دوبارہ موبائل اٹھایا جس پر اُسی نمبر سے میسج آیا تھا۔

ویڈیو دیکھنے کے بعد تو انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی اس لیے مجھے اگلے ماہ بیس لاکھ چاہیے اگر تم نے مجھے پیسے نہیں دیے تو میں یہ ویڈیو پولیس کے حوالے کر دوں گا۔

عروہ نے میسج پڑھا تو اس کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔لیکن جیسے ہی اس نے ویڈیو اون کی تو اُس ویڈیو کو دیکھتے اسے اپنے پیروں تلے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔اسی سے تو وہ کئی سالوں سے بھاگ رہی تھی اور اب وہی سب کچھ دوبارہ اس کے سامنے آگیا تھا۔خوف سے آنکھیں اس کی پھیل گئی تھیں بےساختہ اس کے آنسو بہہ کر اس کے گال کو بھگو گئے تھے۔اس وقت عروہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کو روکنی کی کوشش کر رہی تھی۔پرانی اور تلخ یادیں پھر سے اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگی تھی۔

💜 💜 💜 💜💜


کوثر، دادا جان، تحریم اور بسمہ کے ساتھ اپنے سسرال آگئی تھی دادا جان ثانیہ کے ڈیڈ سے باتیں کر رہے تھے انہوں نے بتا دیا تھا کہ خان واپس آگیا ہے ۔اور دادا جان نے اگلے ہفتے سب کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی تھی۔

بسمہ نے اپنی ماں کو کہا کہ وہ کوثر کی مدد کرنے کرنے کچن میں جا رہی ہے تحریم نے اثبات میں سر ہلایا دیا اور عظمیٰ بیگم سے باتیں کرنے لگی۔

بسمہ کمرے سے باہر آئی تو سامنے آفاق چلا آرہا تھا۔بسمہ نے آفاق کو دیکھا تو اسے سلام کیا۔

آفاق نے غصے سے بسمہ کو دیکھا تھا۔

کتنی بار میں نے تمہیں منع کیا ہے کہ اپنی گندی زبان سے میرا نام نا لیا کرو جتنا مرضی تم خود کو سنوار لو لیکن رہو گی تو تم ایک ملازمہ کی ہی بیٹی آفاق نے زہریلے لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

بسمہ کے آنسو جو پہلے ہی باہر نکلنے کو تیار تھے۔آفاق کے جاتے ہی باہر آگئے۔

تم کب آئی؟ وہاج جو بسمہ کو دیکھ چکا تھا اس نے بسمہ کے پاس آتے پوچھا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے تھے۔

کس نے رلایا تمہیں؟ وہاج نے سنجیدگی سے پوچھا لیکن بسمہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

میں نے پوچھا کس نے رلایا تمہیں؟ اس بار وہاج نے بسمہ کو دونوں بازوں سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے غصے سے پوچھا۔

بسمہ وہاج کو دیکھ کر ڈر گئی تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ وہاج کی انگلیاں اس کے بازوں میں پیوست ہو جائیں گی۔

تکلیف کے مارے بسمہ کے رونے میں روانی آگئی تھی۔وہاج نے اس کا کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹنے کے انداز میں وہاں سے لے گیا۔

💜 💜 

کیا ہوا؟ کسی نے کچھ کہا؟ وہاج نے اس بار پیار سے بسمہ کو دیکھتے پوچھا۔وہ اسے اپنے کمرے میں لے آیا تھا کیونکہ اگر باہر بات کرتا تو کوئی نا کوئی دیکھ کر چھوٹی سی بات کو رائی کا پہاڑ بنا لیتا اور خاص طور پر اس کی اپنی پھوپھو جو شاید کسی ایسے موقع کے تلاش میں ہی رہتی تھی۔

کچھ نہیں ہوا بسمہ نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے گال کو رگڑتے ہوئے کہا۔

اور یہ حرکت کرتی ہوئی وہ وہاج کو بہت معصوم لگی تھی۔

وہاج بسمہ کو پسند کرتا تھا لیکن وہ اس بات سے غافل تھی۔ایک وہاج ہی تھا جس کے ساتھ وہ نارملی بات کر لیتی تھی ورنہ باقی سب تو اسے کھڑوس ہی لگتے تھے۔

تو پھر رو کیوں رہی ہو؟ وہاج نے اپنی ہاتھ کی انگلی سے اس کا چہرہ ٹھوڑی سے اوپر کرتے پوچھا۔

میں آپ کو کیوں بتاؤں؟ بسمہ نے منہ بسوڑتے پوچھا۔

کیونکہ میں خود تم سے پوچھ رہا ہوں میڈم تو بتانا آپ پر فرض ہے۔

وہاج نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

سامنے کھڑی لڑکی اس کے دل کے بہت قریب تھی اس کا رونا یا پریشان ہونا اسے برداشت نہیں تھا۔

یہ ایک طرفہ محبت تھی ناجانے وہاج کی قسمت میں سامنے کھڑی لڑکی کا ساتھ لکھا بھی تھا یا نہیں۔

یہ کیا بات ہوئی بھلا اور میں جا رہی ہوں امی کو اگر میں کچن میں نا ملی تو؟ بسمہ نے پریشانی سے کہا اور جلدی سے وہاں سے جانے لگی جب وہاج نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے روکا۔بسمہ نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

رویا مت کرو تمھاری آنکھوں میں آنسو دیکھنا میرے لیے دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔

وہاں نے گھمبیر لہجے میں کہا۔

بسمہ کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے تھے۔وہاج جانتا تھا کہ بسمہ کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی اس لیے اس نے بسمہ کا ہاتھ چھوڑ دیا جو کندھے اچکاتے وہاں سے چلی گئی۔

پتہ نہیں اس لڑکی کو میری آنکھوں میں اپنے لیے جذبات نظر کیوں نہیں آتے وہاج نے نفی میں سر ہلاتے خود سے کہا اور خود بھی کمرے سے باہر نکل گیا۔

💜 💜 💜 💜


بیس لاکھ بیس لاکھ میں کہاں سے لے کر آؤں گی؟ میں کیا کرو؟ میرے پاس تو پچاس ہزار بھی نہیں ہیں اور بیس لاکھ اگر اُس نے وہ ویڈیو پولیس کو دے دی تو مجھے پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ نہیں مجھ مجھے کچھ کرنا ہو گا۔عروہ نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے خود سے کہا۔

جب سے اس نے ویڈیو دیکھی تھی اُس وقت سے چکر لگاتی کچھ نا کچھ سوچ رہی تھی۔

خوف سے اس کا رنگ سفید ہو گیا تھا۔

پتہ نہیں کون تھا جو اسے بلیک میل کر رہا تھا۔اسے تو لگا تھا اُس وقت ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے لیکن کسی تیسرے کو کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ اُس دن کمرے میں کیا ہوا تھا۔

سوچ سوچ کر اب تو درد سے اس کا دماغ پھٹنے لگا تھا۔

اگر مجھے لون مل جائے اگر میں بنک سے لون لے لوں تو؟ عروہ کے دماغ میں اچانک خیال آیا تھا لیکن پھر خود ہی اپنے خیال کو جھٹک دیا۔

مجھ جیسی کنگال کو لون کون دے گا اور بنک کی شرائط کو کون پورا کرے گا۔بیس لاکھ کی اقساط ہر مہینے کون دے گا؟میری تو اتنی تنخواہ بھی نہیں ہے۔

یا اللہ میں کیا کروں؟ امی کو بتا دوں لیکن اُن کو وجہ کیا بتاؤں گی۔عروہ نے خود سے کہا۔لیکن کسی بھی طرح اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔

مجھے ایک بار پرنسپل سے بات کرنی چاہیے ہو سکتا ہے وہ کوئی راستہ بتا دیں۔اُن کے تو کافی لوگ جاننے والے ہوں گئے۔عروہ نے اپنے قدموں کو بریک لگاتے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

ہاں ہو سکتا ہے وہ میرا مسئلہ حل کر دیں عروہ نے خوشی سے کہا۔اتنا سوچنے کے بعد اسے تھوڑی تسلی ہوئی تھی ابھی وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن پرسکون ہوئی ہی تھی جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔

پھر سے اس کے چہرے پر خوف کا سایہ لہرایا تھا۔اس نے موبائل کو پکڑا وہی نمبر سکرین پر جگمگا رہا تھا۔

عروہ نے اس بار کال اٹھانے کی بجائے اپنا موبائل ہی بند کرکے اسے بیڈ پر پھنک دیا۔

اسے بس صبح کا انتظار تھا۔اس لیے سونے کے لیے لیٹ گئی لیکن نیند تو اس کی آنکھوں سے کو سو دور تھی۔

پوری رات اس نے جاگ کر گزارنی تھی۔

💜 💜 💜 💜


داجی کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔

داجی کے بڑے بیٹے رحمان کی شادی بعد میں جبکہ سلطان جو کہ داجی کا چھوٹا بیٹا تھا اُسکی شادی پہلے ہوئی تھی۔لیکن رحمان کو اللہ نے پہلے اولاد جیسی نعمت سے نوازہ تھا۔

بیٹی جس کا نام ثمینہ تھا وہ وہ کالج میں اپنے کلاس فیلو کو پسند کرتی تھی اس بات کو لے کر گھر میں بہت ہنگامہ ہوا تھا۔

داجی نے معلوم کروایا تو اُن کو پتہ چلا کہ وہ لڑکا اچھا نہیں ہے۔داجی نے انکار کر دیا تو ثمینہ نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔لیکن یہ شادی زیادہ دیر تک نہیں چلی لڑکے کے گھر والوں نے بھی اسے گھر سے نکال دیا تھا اس لیے وہ لڑکا شادی کے ایک سال بعد ہی ثمینہ کو طلاق دے کر ناجانے کہاں چلا گیا تھا۔

ثمینہ روتی ہوئی داجی کے گھر آئی۔داجی بھی بےبس تھے کیونکہ ثمینہ اُن کا اپنا خون تھا اس لیے اُسے معاف کر دیا۔

ثمینہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

داجی کے جانے کے بعد پیچھے کا سارا نظام رحمان اور سلطان نے سنبھالا تھا۔

رحمان کی بیوی کا نام عظمی تھا۔ان کی ایک بیٹی اور بیٹا تھا۔

بڑے بیٹے کا نام حمزہ اور چھوٹی بیٹی کا نام ثانیہ تھا۔

رحمان سے چھوٹے بیٹے سلطان کے دو بیٹے تھے جو ان کی پہلی بیوی میں سے تھے۔ دوسری شادی ان کی کوثر کے ساتھ ہوئی تھی۔

سلطان کے بڑے بیٹے کا نام آفاق تھا جو حمزہ سے ایک سال چھوٹا تھا اور چھوٹے بیٹے کا نام وہاج تھا۔

وہاج اور آفاق کی نیچر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

وہاج کوثر کی بہت عزت کرتا تھا اور اُسے ماں ہی پکارتا تھا لیکن آفاق تو سیدھے منہ کوثر سے بات بھی نہیں کرتا تھا۔

💜 💜 💜 💜


اگلے دن عروہ جلدی سکول کے لیے نکل گئی تھی۔خوف اور پریشانی کے مارے وہ پوری رات نہیں سوئی تھی۔

پرنسپل سے اس نے بات کی کہ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔

پرنسپل نے اسے کہا کہ وہ کسی کو جانتی ہے جو اس کی مدد کر سکتا ہے۔پرنسپل کو لگا کہ اسے گھر میں پیسوں کی ضرورت ہو گی اس لیے زیادہ سوال جواب نہیں کیے۔

لیکن پرنسپل نے جس کا نام لیا اُس کا چہرہ جیسے ہی عروہ کی نظروں کے سامنے آیا اس نے خوف کے مارے جھرجھری لی تھی۔

میڈم کیا وہ مجھے دس لاکھ تک پیسے دے سکتے ہیں؟ عروہ نے پریشانی سے پوچھا۔

تمہیں اتنے پیسے کیوں چاہیے؟ میڈم نے حیرانگی سے پوچھا۔اُن کو لگا زیادہ سے زیادہ اسے پچاس ہزار تک پیسے چاہیے ہوں گئے۔

وہ میری امی میری شادی کرنا چاہتی ہیں تو لڑکے والوں نے جو ڈیمانڈ کی میں اُسے پورا کرنا چاہتی ہوں میں نہیں چاہتی میری امی میری وجہ سے پریشان ہوں۔عروہ کے منہ میں جو آیا اسنے بول دیا۔

تو تمھاری امی وہاں تمھاری شادی کیوں کر رہی اگر ابھی انہوں نے ایسی ڈیمانڈ کی ہے تو بعد میں بھی کریں گئے میڈم نے کہا تو عروہ نے دل میں سوچا کہ یہ اُن نے کیا بونگی مار دی ہے لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

خیر یہ تمھارا پرسنل معاملہ ہے۔میں اتنا کر سکتی ہوں تمھارے لیے میں صفوان سے بات کر لوں گی۔

تم نے کہا کہ ایک سال بعد تمھاری شادی ہے تو اگر ایک سال تم صفوان کے آفس میں کام کرو تو ساری اقساط چکا سکتی ہو وہ تمہیں میرے کہنے ہر سیلری بھی اچھی دے گا۔

میڈم نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا۔

میڈم کو یہ لڑکی شروع میں ہی بہت اچھی لگی تھی جو اپنے کام کے ساتھ بہت مخلص تھی اور آج جب عروہ نے پیسوں کی بات کی تو ان کے دل نے کہا تھا کہ اس لڑکی کی مدد کریں اس لیے اس نے عروہ کو صفوان کا بتایا۔

تھینک یو تھینک یو سو مچ میڈم آپ نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں عروہ نے تشکرانہ انداز میں کہا۔

سچ میں میڈم نے اس کی سب سے بڑی مشکل حل کر دی تھی۔

اس کی ضرورت نہیں ہے جیسے یہاں دل لگا کر کام کرتی تھی وہاں بھی ایسے ہی کام کرنا۔

میڈم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

جی اور میڈم کیا میں آج ہی انٹرویو کے لیے کا سکتی ہوں؟

عروہ نے جلدی سے پوچھا۔

آج؟ ہاں ایسا کرو تم چلی جاؤ میں اُسے کال کرکے بتا دیتی ہوں میڈم نے تھوڑا سوچنے کے بعد کہا تو عروہ نے ایک بار پھر سے پرنسپل کا شکریہ ادا کیا اور اپنی چیزیں لینے کے بعد سکول سے چلی گئی۔

اس نے جتنا بھی وقت یہاں گزارا اچھا گزارا تھا۔لیکن اس نے یہاں کوئی دوست نہیں بنائی تھی نا کسی سے بات کرتی تھی۔اس لیے بنا کسی سے ملے وہاں سے آگئی۔

صفوان کا سوچ کر اسے ڈر تو لگ رہا تھا لیکن جو مصیبت اس کے سر پڑی تھی اُسکے سامنے صفوان کا خوف تو معمولی سا تھا۔

💜 💜 💜 💜


خان ارسم کہاں ہوتا ہے؟نظر نہیں آتا۔

دادا جان نے چائے کا کپ پکڑتے پوچھا اس سے پہلے خان کوئی جواب دیتا ارسم کندھے پر کوٹ لٹکائے وہاں آیا تھا۔

اور خان کے دائیں جانب آکر بیٹھ گیا۔

آتے ہی اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا تھا۔

تحریم بھی وہی بیٹھی تھی۔

اور بسمہ کب میں چائے ڈال رہی تھی۔

بھائی آپ چائے پیے گئے؟ بسمہ نے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

بلکل اپنی بہن کے ہاتھوں کی چائے بنی میں ضرور پیوں گا۔ارسم نے بسمہ کو دیکھتے کہا۔

بسمہ نے حیرانگی سے ارسم کی طرف دیکھا تھا۔

آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ چائے میں نے بنائی ہے؟ بسمہ نے پوچھا تو ارسم ہنس پڑا۔

کیونکہ میں نے اپنی چھوٹی سی بہن کو کبھی کام کرتے نہیں دیکھا تو آج وہ اگر چائے ڈال کر دے رہی ہے تو یقیناً اُس نے خود بنائی ہو گی۔ارسم نے کہا تو یہ سن کر وہاں بیٹھے سب لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

بلکل ٹھیک اندازہ لگایا آپ نے آج میں نے خود چائے بنائی ہے۔ بسمہ نے خوشی سے چائے کا کپ ارسم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

خان بھی بسمہ کو خوش دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔وہ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جایا کرتی تھی۔

واہ چائے تو سچ میں بہت مزےدار ہے۔ارسم نے چائے کا پہلا سیپ لیتے کہا۔

مجھے معلوم تھا کہ آپ کو بہت پسند آئے گی۔

بسمہ نے اپنی ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

بچوں اگلے ہفتے رحمان کی پوری فیملی ہمارے ہاں آرہی ہے۔خان واپس آگیا ہے اس لیے وہ لوگ یہاں آرہے ہیں تاکہ اس سے مل لیں یہ تو جائے گا نہیں وہاں دادا جان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

نانا جان ہفتے والے دن آرہے ہیں نا؟ ارسم نے پرسکون انداز میں پوچھا۔

خان خاموش تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ ارسم کیا کہنے والا ہے۔

ہاں کیوں کیا ہوا؟ دادا جان نے حیرانگی سے پوچھا۔

تو ہفتے کا پورا دن مجھے باہر گزرانا پڑے گا خان تم میرے ساتھ آنا چاہو گی؟ ارسم نے خان کی طرف دیکھتے پوچھا۔

خان نے سنجیدگی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔دادا جان بت بنے دونوں کی شکلوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔تحریم نے مسکرا کر دونوں شیطانوں کی طرف دیکھا تھا۔


اگر تم لوگوں نے ہفتے کے دن ایک بھی قدم گھر سے باہر نکالا تو پھر دونوں سے میں پوری زندگی بات نہیں کروں گا۔

دادا جان کے پاس آخر میں یہی ہتھیار بچا تھا۔

نانا جان یار کوئی بلیک میل کرنا آپ سے سیکھے۔ارسم نے پیچھے صوفے سے ٹیک لگاتے پرسکون سے انداز میں کہا۔

خان اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا تھا۔

اب تم کہاں جا رہے ہو؟ ایک گھر آتا تو دوسرا گھر سے نکل جاتا دادا جان نے تپے ہوئے لہجے میں خان کو دیکھتے پوچھا۔

ایک ضروری کام کے سلسلے میں جا رہا ہوں جلدی واپس آجاؤ گا خان نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

پتہ نہیں اس کے ضروری کام کب ختم ہونگے دادا جان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہا۔

بھائی ہم لوگ پیزا کھانے چلیں؟ بسمہ نے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

ہاں چلتے ہیں چلو ارسم نے فوراً ہامی بھرتے کہا۔بسمہ گھر میں واحد تھی جس کی بات کی نفی یا انکار خان اور ارسم نے کبھی نہیں کیا تھا۔

لیکن بچوں کھانا تیار ہے تحریم نے جلدی سے کہا۔

کوئی بات نہیں خالہ رات میں کھا لیں گئے۔ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں وہاں سے چلے گئے۔

ابو جان آپ کے لیے کھانا لگا دوں؟ تحریم نے دادا جان سے پوچھا وہ بھی کوثر کی طرح دادا جان کو ابو ہی کہتی تھی۔

ہاں اور ساتھ اپنا کھانا بھی لے آنا مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے دادا جان نے سنجیدگی سے کہا اور اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔تحریم بھی کچن کی طرف چلی گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜 💜


عروہ نے حیرانگی سے سامنے بڑی سی عمارت کو دیکھا تھا۔

وہ انسان تو پھر سچ میں بہت زیادہ امیر ہے۔

عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔اور آفس کے اندر داخل ہوئی۔

عروہ نے بڑی سی کالی چادر لی ہوئی تھی۔آفس میں سب لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔پرنسپل نے اسے صفوان کا کی کمپنی کا کارڈ دیا تھا۔جو اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔

سب لوگوں کی خود پر جمی نظریں دیکھ کر اس نے کارڈ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔

عروہ ارد گرد ہی دیکھ رہی تھی کہ اب کیا کرے کیونکہ اتنا بڑا آفس تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں جائے جب ایک لڑکی اس کے پاس آئی۔

آپ کا نام عروہ ہے؟ لڑکی نے آنکھوں میں حیرانگی لیے عروہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا اسے حیرانگی ہو رہی تھی کہ اس کے کھڑوس باس نے اس لڑکی کے انتظار میں اسے ایک گھنٹے سے اسے یہاں کھڑا کیا ہوا تھا اور جو حلیہ اس کے باس نے اسے بتایا تھا وہ لڑکی عروہ کو دیکھ کر ہی پہچان گئی تھی کہ یہی وہ لڑکی ہے۔

جی میں ہی عروہ ہوں۔عروہ نے اُس لڑکی کو دیکھتے کہا جو اس کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے نظروں سے سالم نگل جائے گی۔

چلیں میرے ساتھ اُس لڑکی نے سرد لہجے میں کہا تو عروہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔

اُس لڑکی نے دروازے ناک کیا اور عروہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔

عروہ گہرا سانس لیتے کمرے میں داخل ہوئی جو کافی بڑا تھا۔ہر چیز کو خوبصورتی سے رکھا گیا تھا۔

صفوان دائیں جانب بنی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کا نظارہ دیکھ رہا تھا۔

عروہ اندر تو آگئی لیکن اب اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے مقابل کو مخاطب کرے۔لیکن صفوان نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔

بیٹھ جائیں۔صفوان کی سنجیدہ آواز کمرے میں گونجی تھی۔

عروہ جلدی سے بیٹھ گئی تو صفوان نے رخ موڑے ایک بھر پور نگاہ عروہ پر ڈالی جس کے چہرے کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ وہ کافی گھبرائی ہوئی ہے۔

صفوان چلتا ہوا عروہ کے سامنے بیٹھ گیا۔

عروہ میں ہمت نہیں تھی کہ وہ سامنے بیٹھے انسان کو دیکھ سکے۔

آپ کی کوالیفیکیشن کیا ہے؟ صفوان نے ہاتھ میں پکڑے پن کو گھماتے ہوئے عروہ سے پوچھا۔نظریں ابھی بھی اس کے چہرے پر جمی تھیں۔

گریجویٹ ہوں میں عروہ نے نظریں جھکائے ہی کہا۔

آپ کی سی وی کہاں ہے؟ صفوان نے اگلا سوال کیا۔

وہ… عروہ نے اب اپنا چہرہ اوپر کیا تھا۔لیکن صفوان کے چہرے پر چھائی سرد مہری دیکھ کر اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

میرے پاس نہیں ہے۔عروہ نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔جلدی کے چکر میں وہ سی وی لانا بھول گئی تھی۔

آپ انٹرویو دینے آئی ہیں اور ساتھ سی وی نہیں لائی؟ آپ تو ابھی سے غیر زمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں بعد میں کیا کریں گئی؟

صفوان نے چیئر پر جھولتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

لیکن عروہ نے فوراً فیصلہ کیا تھا کہ وہ یہاں کام نہیں کرے گی اگر وہ ایک دن بھی یہاں رہی تو جو اسکا دل خوف سے سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا اُس نے خوف سے پھٹ جانا تھا کیونکہ سامنے بیٹھے انسان کی باتیں ہی اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھیں۔

تو آگے ناجانے کیا کرتا۔

مجھے یہ جاب نہیں چاہیے شکریہ

عروہ نے کہا اور جلدی سے اُٹھ کر وہاں سے جانے لگی۔

پرنسپل بتا رہی تھیں آپ کو پیسوں کی ضرورت ہے۔صفوان نے عام سے لہجے میں کہا۔

عروہ کے پیروں کو وہی بریک گی تھی۔

آپ کو جتنے پیسے چاہیں میں دینے کو تیار ہوں لیکن صفوان نے بات کو ادھورا چھوڑتے کہا۔

عروہ نے مڑ کر صفوان کی طرف دیکھا تھا۔

جو اپنی جگہ سے اُٹھ کر چلتا ہوا عروہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

کتنے پیسے آپ مجھے دے سکتے ہیں؟ عروہ نے پوچھا۔پیسوں کا سوچ کر پھر سے وہ رک گئی تھی۔

جتنے آپ کو چاہیے۔صفوان نے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے کہا۔

کیا آپ مجھے بیس لاکھ دے سکتے ہیں؟ عروہ نے کہا تو ایک پل کے لیے صفوان کے چہرے پر حیرانگی آئی تھی لیکن صرف ایک پل کے لیے

اگر آپ تیس لاکھ بھی مانگے گی تو میں آپ کو دے دوں گا۔صفوان کی اس بات نے عروہ کو حیران کیا تھا۔

لیکن آپ مجھے اتنے پیسے کیوں دے رہے ہیں؟ آپ تو مجھے جانتے بھی نہیں ہیں۔اگر میں آپ کے پیسے لے کر بھاگ گئی تو؟

عروہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔صفوان سے بات کرتے اس کا ڈر کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔

دنیا میں کوئی بھی کام مفت میں نہیں ہوتا اُس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔اور جہاں تک بات ہے میری تو میں کسی کے پاس اپنا ایک روپیہ بھی نا رہنے دوں بیس لاکھ تو بہت بڑی رقم ہے۔لیکن میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اپنی چیز واپس کیسے لینی ہے تو ایک شرط پر میں آپ کو پیسے دے سکتا ہوں۔

صفوان نے کہا تو عروہ نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

کیسی شرط؟ عروہ نے پوچھا۔

صفوان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی تھی اس نے اپنے اور عروہ کے درمیان نا ہونے کے برابر فاصلے کو ختم کیا اور اس کے قریب آیا۔

عروہ گھبرا کر پیچھے ہونے لگی لیکن دیوار کی وجہ سے ہو نہیں پائی۔

صفوان عروہ کے کان کے پاس جھکا۔عروہ کا چہرہ پھر سے خوف سے زر پڑ گیا تھا۔

مجھ سے نکاح کرنا ہو گا۔صفوان نے گھمبیر لہجے میں کہا۔

عروہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔

💜 💜 💜 💜

کیا بکواس کر رہے ہیں آپ؟ عروہ نے خود میں ہمت جمع کرتے صفوان کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے دھکا دیتے کہا۔

عروہ کے پیچھے کرنے پر تو نہیں لیکن صفوان خود ایک قدم اس سے پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا۔

اس کے اطمینان میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔

آپ کتنے گھٹیا انسان ہیں مجھے نہیں چاہیے آپ کے پیسے اور نا ہی آپ کی یہ جاب عروہ نے غصے سے صفوان کو دیکھتے کہا۔جو غور سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

عروہ کا چہرہ توہین کے مارے سرخ ہو گیا تھا۔

اس میں گھٹیا پن کیا ہے مس عروہ؟ گھٹیا تو اُس وقت ہوتا نا جب میں آپکو بنا نکاح کے رہنے کی آفر کرتا لیکن میں نے تو نکاح کی آفر کی۔

ہمارے درمیان ایک کنٹریکٹ ہو گا جب آپ میرے پیسے واپس کر دیں گی پھر آپ آذاد ہیں۔

لیکن جب تک آپ پیسے واپس نہیں کریں گی آپ میرے نکاح میں رہے گی اور میرے آفس میں آپ کو کام کرنا ہو گا۔

صفوان نے گہرے لہجے میں کہا۔

عروہ نے ایک غصیلی نگاہ صفوان پر ڈالی اور بنا کچھ کہے وہاں سے جانے لگی۔

مس عروہ یہ لیں میرا کارڈ آپ کل تک مجھے جواب دے دیں اگر آپ کا جواب ہاں ہوتا ہے تو بھی آپ مجھے انفارم کریں گی اگر نا ہوتا ہے پھر بھی آپ مجھے بتا دیں گی اگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا تو مجبوراً مجھے آپ کے گھر آنا ہو گا جواب کے لیے کیونکہ مجھے ادھورے کام پسند نہیں ہیں۔صفوان نے ہاتھ میں پکڑا کارڈ عروہ کے سامنے کرتے سنجیدگی سے کہا۔

آپ کو سب سے پہلے بات کرنے کی تمیز سیکھنی چاہیے مسٹر کہ کسی لڑکی کے ساتھ کیسے بات کرتے ہیں۔اور اپنے الفاظ کا چناؤ بھی ٹھیک کریں۔عروہ نے کرخت لہجے میں صفوان کے ہاتھ سے کارڈ چھینے کے انداز میں پکڑا اور وہاں سے چلی گئی صفوان کی باتوں نے اسے طیش دلا دیا تھا۔

صفوان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آکر مدھم ہوئی تھی۔

لڑکی میں ہمت تو ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے تمھاری مجبوری دوبارہ تمہیں میرے سامنے لا کھڑا کرے گی۔صفوان نے گہرا سانس لیتے خود سے کہا اور دوبارا کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔

ناجانے وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔

💜 💜 💜 💜


حمزہ تمھارے ڈیڈ تمہیں بلا رہے ہیں۔عظمیٰ نے اپنے بیٹے کو دیکھتے کہا جو کہی باہر جانے کی تیار میں تھا۔

موم ابھی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے میں رات میں اُن سے ملتا ہوں۔

حمزہ نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

عظمیٰ نے پریشانی سے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا۔ان کی اولاد کو بگاڑنے میں زیادہ ہاتھ ان کے باپ کا تھا۔

جو ان کی ہر جائز اور ناجائز بات کو پورا کرتے تھے۔اور اب تو حمزہ اپنے باپ کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

حمزہ کی گال پر ایک نشان تھا جو اسے کچھ سال پہلے ہی ملا تھا۔کیسے ملا یہ حمزہ نے کبھی کسی کو بتایا نہیں تھا۔

حمزہ گاڑی میں بیٹھا کسی کا انتظار کر رہا تھا۔جب اس کی نظر سامنے سڑک کراس کرتی لڑکی پر پڑی۔

جو شاید جلدی سڑک کراس کرنا چاہتی تھی۔اس لیے بنا دائیں جانب دیکھے سڑک کراس کرنے لگی لیکن ایک بائک جو تیز سپیڈ میں آرہی تھی اُس لڑکی کے بےحد قریب آکر رک گئی۔

اُس لڑکی نے زور سے چیخ ماری اور وہی بےہوش ہو کر گر گئی۔

بائیک والے نے بروقت بریک لگا لی تھی لیکن خوف کے مارے وہ بےہوش ہو گئی۔

حمزہ یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے سگریٹ سلگایا ہوا تھا۔

اسنے گاڑی کی کھڑکی سے سگریٹ باہر پھینکا اور دروازہ کھولے باہر آیا۔

وہاں جمع لوگ اُس لڑکی کو ہی کوس رہے تھے جنہوں نے اسے سڑک پار کرتے دیکھا تھا کیونکہ غلطی اُس لڑکی کی تھی۔

اگر تم میں کسی نے اس لڑکی کی مدد نہیں کرنی تو باتیں بھی مت کرو تم لوگ اُسے باتیں تو ایسے سنا رہے ہو جیسے وہ لڑکی سن رہی ہو۔

حمزہ نے سنجیدگی سے کہا اور زمین پر پڑی بےسدھ لڑکی کو اپنی بانہوں میں اُٹھایا اور اسے اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔

اس نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اُس لڑکی کو بیٹھایا۔اور پانی کی بھری بوتل اُس لڑکی پر انڈیل دی تھی۔

ملائکہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی۔اور خود کو کسی انجان کی گاڑی میں دیکھ کر ایک پل کے لیے ڈر گئی تھی۔

کون ہو تم؟ ملائکہ نے اپنی چادر ٹھیک کرتے پوچھا۔حمزہ سامنے سڑک پر دیکھ رہا تھا اس نے اپنے چہرے کا رخ ملائکہ کی طرف کیا جو حمزہ کے چہرے کا نشان دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔

تم مجھے کڈنیپ کر رہے ہو؟

دیکھو میں بہت غریب ہوں میری امی نے تمہیں کوئی پیسے نہیں دینے بلکہ وہ تو کہیں گی اچھا ہوا جان چھوٹی میری

میری ماں نے ایک پھوٹی کوڑی بھی تمہیں نہیں دینی اور اتنی بڑی گاڑی تمھارے پاس ہے پھر بھی تم ایسے کام کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے ملائکہ جو ایک بار بولنا شروع ہوئی تو بولتی چلی گئی۔اس وقت اسے اپنے حلیے کی بھی پرواہ نہیں تھی۔

حمزہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے اس نے آگے بڑھ کر ملائکہ کے منہ پر اپنا وزنی ہاتھ رکھتے اس کا منہ بند کیا۔

تمہیں نہیں لگتا کہ تمھاری زبان غلط وقت پر کچھ زیادہ ہی چلتی ہے؟ اور اب اگر تم نے اپنی زبان سے ایک لفظ بھی باہر نکالا تو کاٹ کر رکھ دوں گا۔

حمزہ نے سرد لہجے میں کہا تو ملائکہ نے آنکھیں پھاڑے حمزہ کو دیکھا تھا۔

نکلو میری گاڑی سے حمزہ جو ایک پل کے لیے ملائکہ کی گہری آنکھوں میں کھو گیا تھا اس نے ہوش میں آتے اس کے منہ سے ہاتھ پیچھے کرتے سیدھا ہوتے کہا۔

ملائکہ نے گاڑی سے باہر نکلنے سے پہلے ایک گھوری سے حمزہ کو نواز اور باہر نکل گئی۔

اس نے گاڑی کا دروازہ اپنا پورا زور لگا کر بند کیا تھا۔

حمزہ نے غصے سے سٹیرنگ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔

پاگل لڑکی حمزہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور گاڑی سٹارٹ کرتے وہاں سے چلا گیا کیونکہ اب اس کا کسی سے بھی ملنے کا موڈ نہیں تھا۔


ملائکہ کے باپ نے دو شادیاں کی تھی ملائکہ پہلی بیوی میں سے تھی۔

ملائکہ کی ماں کی وفات کے بعد اس کے باپ نے دوسری شادی کی تھی۔اس کی سوتیلی ماں اس کے ساتھ نا زیادہ اچھی تھی نا زیادہ بری گھر کا سارا کام ملائکہ کرتی تھی تو اس کی ماں کو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

لیکن باہر جاتے ہوئے وہ ضد کرکے اپنی ماں کو ساتھ لے کر جاتی تھی لیکن اب اس کی ماں نے صاف انکار کر دیا تھا کہ اب وہ بار بار اس کے ساتھ باہر نہیں جائے گی اگر اسے جانا ہے تو اکیلی جائے تو مجبوراً اپنے کام کے لیے یا اس نے اپنی کچھ چیزیں لینی ہوتی تو اکیلی باہر آنا پڑتا۔

💜 💜 💜 💜 💜

بھائی…

بسمہ نے خان کے کمرے کا دروازہ ناک کیا اور اجازت ملنے پر اندر آتے اس نے خان کو پکارا۔

کیا ہوا مانو؟ خان نے بسمہ کو دیکھتے پوچھا۔

ارسم اور خان دونوں بسمہ کو پیار سے مانو کہتے تھے۔

بھائی بھابھی آئی ہیں بسمہ نے خان کو دیکھتے کہا۔

خان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

مانو میری یا ارسم کی ابھی شادی نہیں ہوئی تو تمھاری بھابھی کہاں سے آگئی؟

خان نے کتاب بند کرتے سنجیدگی سے پوچھا۔

سوری بھائی وہ اس سے پہلے بسمہ ثانیہ کے آنے کا بتاتی وہ خود کمرے میں آگئی تھی۔

ٹھیک ہی تو وہ کہہ رہی ہے خان اُس کی بھابھی ہی تو میں لگتی ہوں۔

ثانیہ جو بسمہ کی بات سن چکی تھی اس نے مسکراتے ہوئے کہا ویسے تو اسے بسمہ پسند نہیں تھی لیکن اس کی یہ بات اسے اچھی لگی تھی۔

کیا اب تم یہی کھڑی رہو گی؟ جاؤ یہاں سے اور میرے لیے چائے بنا کر لاؤ ثانیہ نے بسمہ کو دیکھتے کہا۔

بسمہ نے ثانیہ کو دیکھا تو خاموشی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔

تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی کہ کسی کے بھی کمرے میں آنے سے پہلے دروازے کو ناک کرنا چاہیے اور اجازت ملنے پت اندر آنا چاہیے خان نے بنا ثانیہ کو دیکھے سنجیدگی سے کہا۔

اپنے منگیتر کے کمرے میں آئی ہوں مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ناک یا کسی کی بھی اجازت کی ضرورت ہے۔ثانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کسی کی اجازت سے مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن یہاں میری اجازت لینا بہت ضروری ہے۔آئندہ میری اجازت کے بغیر میرے کمرے میں داخل مت ہونا اب تم جا سکتی ہو مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے۔

اور ہاں مانو سے عزت کے ساتھ پیش آیا کرو۔

خان نے کہا تو ثانیہ کا توہین کے مارے چہرہ سرخ ہو گھا تھا۔خان نے ایسا کچھ کہا نہیں تھا لیکن پھر بھی ثانیہ کو ایسا ہی لگا کہ خان نے اس کی بےعزتی کی ہے۔

اسے کبھی کسی نے پیار سے بھی ڈانٹا نہیں تھا اور بقول ثانیہ کے خان اس کی بےعزتی کر رہا تھا اور بسمہ کو اس پر فوقیت دے رہا تھا۔

تم اُس ملازمہ کو مجھ پر فوقیت دے رہے ہو؟ کیا اوقات ہے اُس کی میرے سامنے؟ ثانیہ نے چیختے ہوئے کہا۔

خان نے سرخ آنکھوں سے ثانیہ کو دیکھا اور غصے سے آگے بڑھتے اس کی گردن کو دبوچا۔

اپنی زبان پر قابو پاؤ ورنہ تمھاری قینچی جیسی چلتی زبان کو کاٹنے میں مجھے ایک سیکنڈ نہیں لگے گا۔

اور جسے تم ملازمہ کہہ رہی ہو وہ میری بہن ہے خان کی بہن سمجھی کسی نے بھی اُس کے بارے میں بکواس کی میں اُس کی جان لے لوں گا۔اب دفاع ہو جاؤں یہاں سے خان نے ثانیہ کو پیچھے دھکا دیتے ہوئے سرد لہجے میں کہا جو لڑکھڑا کر پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگی اور کھانستے ہوئے اپنے سانس کو بحال کرنے لگی۔


بہت برا کیا تم نے خان ثانیہ نے غصے سے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا ایک ہاتھ ابھی بھی اس کا اپنی گردن پر تھا۔

ثانیہ نے ایک قہر برساتی نگاہ خان پر ڈالی اور وہاں سے چلی گئی۔

خان کی ماتھے کی رگیں پھول چکی تھیں کسی بھی طرح اس کا غصہ کم نہیں ہو رہا ثانیہ نے یہ بات کرکے جو خان کے دل میں اس کے لیے تھوڑی بہت عزت تھی اُسے بھی ختم کر دیا تھا۔

اس لیے اس نے گاڑی کی چابیاں اُٹھائی اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

لیکن یہ بات یہی پر ختم نہیں ہوئی تھی۔

ثانیہ نے گھر جاتے ہی پورے گھر کو رو رو سر پر اُٹھا لیا تھا۔

عظمیٰ بیگم بار بار اس سے وجہ پوچھ رہی تھیں لیکن وہ بس روئے جا رہی تھی۔

حمزہ اور وہاج بھی وہی آگے تھے۔آفاق پہلے سے وہاں پر موجود تھا۔

سلطان اور رحمان دونوں کام کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے اس لیے وہ دونوں گھر چہر نہیں تھے۔

ثمینہ ثانیہ کے پاس بیٹھی تھی۔ثانیہ اپنی پھوپھو کی چہیتی تھی یہ بات سب لوگ جانتے تھے۔

پھر سے کوئی نیا ڈرامہ شروع ہو گیا ہے وہاج نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور وہاں سے جانے لگا جب اس نے بسمہ کا نام سنا تو وہی رک گیا۔

کیا ہوا بیٹا؟ ثمینہ نے پیار سے پوچھا۔

کوثر بھی پریشانی سے ثانیہ کو دیکھ رہی تھی۔

پھوپھو میں تو خان سے ملنے گئی تھی لیکن جب میں خان کے کمرے میں داخل ہوئی تو ثانیہ کہتے ہی خاموش ہو گئی۔

کیا؟ ثمینہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

مجھے تو بتاتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے اس لیے خان مجھ سے شادی نہیں کر رہا وہ بسمہ کو پسند کرتا ہے۔اور کمرے میں وہ دونوں اس سے پہلے ثانیہ اپنی بات مکمل کرتی کوثر کی سرد آواز وہاں گونجی تھی۔

ثانیہ سوچ سمجھ کر بات کرو خان بسمہ کو بہن کہتا ہی نہیں بلکہ مانتا بھی ہے اور تم ان دونوں کے کردار پر کیچڑ اچھال رہی ہو۔کوثر نے سرد لہجے میں ثانیہ کو دیکھتے کہا۔

آپ تو دونوں کی سائیڈ لے گی ہی لیکن بسمہ اُس کی سگی بہن نہیں ہے اور جو میں نے دیکھا وہی میں نے بتایا۔ثانیہ نے بدتمیزی سے کوثر کو دیکھتے کہا۔

وہاج نے اپنی ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے غصے کو کنٹرول کیا تھا۔

دوبارہ اگر نے میری ماں سے اونچی آواز میں بات کی تو بہت برا حال کروں گا تمیز تو تم میں ویسے ہی ختم ہو گئی ہے۔وہاج نے آگے بڑھتے ثانیہ کو تنبیہ کرتے کہا باقی سب خاموشی سے دونوں کو دیکھ رہے تھے لیکن حمزہ اپنی بہن کو اچھی طرح جانتا تھا اور وہ خان کو بھی جانتا تھا کہ وہ کیسے کردار کا مالک ہے۔اس لیے وہ کافی حد تک معاملے کو سمجھ گیا تھا۔

وہاج ثانیہ کو کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی اُس نے جو دیکھا وہی بتاتا۔اور ہم کیا جانے کہ وہ لڑکی خان کے ساتھ کیا کرتی رہتی ہے نام کی ہی بہن ہے ثمینہ نے نحوست سے کہا اُس کے ہاتھ میں تو بات آگئی تھی۔

بس پھوپھو بہت ہو گیا۔

کیا ثبوت ہے اس کے پاس؟ کیسے ہم اس کی بات پر یقین کر لیں؟ اور خان کی عادت سے تو سب واقف ہیں اب بیٹھ کر یہ سوچو کہ تم نے جو خان پر الزام لگایا ہے اُسے ثابت کیسے کرو گی۔

کیونکہ یہ چھوٹی بات تو ہرگز نہیں ہے کل ڈیڈ اور تایا جان واپس آرہے ہیں میں خود اُن سے بات کروں گا۔اور پھر کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ سب کے سامنے آجائے گا لیکن بنا کوئی ثبوت کے کسی کے کردار کو اچھالا نہیں جائے گا۔

اور دوسری بات تم رات کے وقت وہاں کیوں گئی؟ کیا تمھارا وہاں جانا ٹھیک تھا؟

وہاج نے سرد لہجے میں پوچھا۔

ثانیہ اد کے سوال پت ہڑبڑا گئی تھی۔

وہاج نے ایک قہر برساتی نگاہ ثانیہ پت ڈالی اور وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔


میری بچی تم پریشان مت ہو مجھے پتہ ہے کہ تم سچ بول رہی ہو ثمینہ نے ثانیہ کو گلے لگاتے کہا لیکن اُسے وہاج کی باتوں نے ٹیشن میں ڈال دیا تھا۔اور یہ چھوٹی بات تو بلکل بھی نہیں تھی۔

کوثر بھی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اُسے پورا یقین تھا کہ ثانیہ جھوٹ بول رہی ہے۔اسکا خان اور بسمہ ایسے نہیں ہو سکتے۔بسمہ کو تو وہ اپنی بہن مانتا ہے اور ثانیہ اتنا بڑا الزام اُس پر لگا رہی تھی۔

باقی سب بھی اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔

کوثر نے تحریم کو فون کرکے ساری بات کا بتا دیا تھا اُسے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ ثانیہ اتنا بڑا الزام انکے بچوں پر لگا سکتی ہے۔

تحریم نے فون بند کیا لیکن اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے وہ سب کو بتائے۔

💜 💜 💜 💜

اگلے دن سلطان اور رحمان واپس آگئے تھے سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے جب وہاج نے بات شروع کی۔

ثانیہ کے ہاتھ سے چمچ پلیٹ میں گر گیا تھا۔

ڈیڈ اور تایا جان مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی بلکہ پھوپھو آپ کو تفصیل سے بتاتی ہیں۔وہاج نے طنزیہ لہجے میں کہا تو پھر ثمینہ نے سارا واقعہ نمک مرچ لگا کر دونوں کو بتا دیا۔

دونوں کو تو یقین نہیں آیا تھا۔

ثانیہ کیا تم ابھی بھی اپنی بات پر قائم ہو؟ رحمان نے اپنی بیٹی سے سرد لہجے میں پوچھا جو اپنے کہے جھوٹ میں پھنس چکی تھی۔

یس ڈیڈ ثانیہ نے بس اتنا ہی کہا۔

سلطان نے کوثر کی طرف دیکھا تھا جس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

رحمان اور سلطان دونوں کو اپنی بیویوں سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔

ورنہ اُنکو پہلے پتہ چل جاتا۔

وہاج دادا جان کا نمبر ملاؤ مجھے اُن سے بات کرنی ہے اگر اُن کے پوتے نے یہی سب حرکتیں کرنی ہے تو ہماری بیٹی کو کیوں اپنے نام سے باندھ کر رکھا ہے رحمان نے کہا تو وہاج نے جلدی نمبر ملا کر رحمان کی طرف فون بڑھایا۔

دوسری جانب دادا جان بھی بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔بسمہ لیٹ ناشتہ کرتی تھی اس لیے وہ یہاں نہیں تھی لیکن ارسم اور خان یہی پر تھے۔تحریم کچھ خاموش خاموش تھی۔سب نے یہ نوٹ کیا تھا وہ ٹھیک سے ناشتہ بھی نہیں کر رہی تھی۔

کیا ہوا پھوپھو آپ ٹھیک ہیں؟ خان تحریم کو دیکھتے پوچھا۔اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی ملازم نے آکر فون کو دادا جان کے سامنے کیا اور بتایا کہ رحمان صاحب کی کال آئی ہے۔

دادا جان نے فون کان سے لگایا لیکن جیسے وہ مقابل کی بات سنتے جا رہے تھے اُن کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔

رحمان تم اپنی بیٹی کی بات پر یقین کرکے میرے بچوں پر اتنا بڑا الزام کیسے لگا سکتے ہو؟ تمہیں یہ بات کرتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے۔

دادا جان نے غصے س کہا اور فون بند کر دیا۔ارسم اور خان حیرانگی سے دادا جان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

دادا جان نے ایک نظر تحریم پر ڈالی اور وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے؟

خالہ جان یقیناً آپ جانتی ہیں؟ کیا بات ہے؟ ارسم نے تحریم کو دیکھتے پوچھا۔

وہ بیٹا…. تحریم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے وہ بتائے۔

خان اور ارسم دونوں کی نظریں اس وقت تحریم پر جمی ہوئی تھیں۔

وہ رات مجھے کوثر کی کال آئی تھی۔تحریم نے دونوں کے چہروں کی طرف دیکھتے بات کا آغاز کیا۔

پھر؟ ارسم نے پوچھا۔

وہ بیٹا رات ثانیہ آئی تھی۔اُس نے گھر جا کر کچھ فضول بولا ہے۔

کوثر نے پریشانی سے کہا۔

پھوپھو جان اُس نے میرے بارے میں ہی کچھ نا کچھ کہا ہو گا لیکن اس میں اتنی پریشانی والی کیا بات ہے؟ اور دادا جان کو دیکھ کر تو لگ رہا تھا بات کوئی بڑی ہے۔

خان نے سنجیدگی سے کہا۔کیونکہ اسے یہی لگ رہا تھا کہ ثانیہ نے گھر میں جا کر اس کے بارے میں کچھ نا کچھ کہا ہو گا۔

نہیں بیٹا بات صرف تمھاری نہیں ہے بسمہ کی بھی ہے۔تحریم نے کہا تو دونوں نے ناسمجھی سے تحریم کی طرف دیکھا تھا۔

پھر اس نے جو بات کوثر نے اسے بتائی تھی ساری ارسم اور خان کو بتا دی۔

وہ جاہل لڑکی اتنی بےہودہ بات میری بہن کے بارے میں کر بھی کیسے سکتی ہے؟ اور اُس کا باپ کیا کان کا اتنا کچھا ہے کہ جو بھی اُس کی بیٹی کہے گی وہ مان لے گا؟ ارسم تو یہ سنتے ہی بھڑک اُٹھا تھا۔

خان جبڑے تانے ٹیبل کو گھور رہا تھا۔

میں ابھی اُس لڑکی کا دماغ ٹھیک کرکے آتا ہوں ارسم نے غصے سے اُٹھتے ہوئے کہا۔

نہیں ارسم تم نہیں میں وہاں جاؤں گا۔خان نے سرد لہجے میں وہاں سے اٹھتے کہا اور بنا کسی کی بات سنے وہاں سے چلا گیا۔

تحریم نے پریشانی سے ارسم دیکھا تھا۔

بیٹا اُس کے پیچھے جاؤ وہ کچھ الٹا ناکر دے تحریم نے کہا۔

خالہ جان آپ کو ہمیں رات ہی یہ بات بتا دینی چاہیے تھی۔اور خان کی ٹیشن مت لیں وہ سب ٹھیک کر دے گا۔یہ بات کسی بھی طرح مانو کو پتہ نہیں چلنی چاہیے۔

ارسم نے سنجیدگی سے کہا اور خود بھی وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔

تحریم دادا جان کے کمرے کی طرف چلی گئی تھی اسے ڈر تھا کہ خان غصے میں کچھ ایسا ویسا نا کر گزرے۔

💜 💜 💜 💜

حمزہ گھر سے باہر جا رہا تھا جب اسے سامنے خان آتا ہوا نظر آیا۔

جس کی آنکھیں سرخ اور ماتھے پر بل پڑے تھے آج کافی سالوں بعد اس نے خان کو دیکھا تھا۔

خان نے اک نظر حمزہ پر ڈالی اور اندر چلا گیا۔

جہاں سب لوگ بیٹھے اسی بارے میں بات کر رہے تھے کہ آگے کیا کرنا ہے۔

ثانیہ بھی وہی موجود تھی آفاق گھر پر نہیں تھا۔

وہاج وہی بیٹھا موبائل پر ٹائپنگ کر رہا تھا جب اس کی نظر کمرے میں داخل ہوتے خان پر پڑی۔

خان آپ وہاج نے خان کو دیکھتے اونچی آواز میں کہا۔

سب لوگوں نے خان کی طرف دیکھا تھا۔

ثانیہ کے چہرے کا رنگ خان کو دیکھتے سفید ہو گیا تھا۔

رحمان اور سلطان بھی وہی موجود تھے۔

خان نے بنا کسی کی پرواہ کیے ثانیہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا۔

سب کی آنکھیں حیرت سے باہر آگئی تھیں۔

وہاج کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ثمینہ تو منہ ہر ہاتھ رکھے خان کو دیکھ رہی تھی۔ثانیہ تھپڑ لگنے کی وجہ سے پیچھے صوفے پر جا گری تھی۔

اس نے اپنی گال پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے خان کو دیکھا۔کسی کو بھی اس بات کی توقع نہیں تھی کہ خان ثانیہ پر ہاتھ اٹھائے گا۔

خان تم نے میرے ہی گھر آکر میری بیٹی پر ہاتھ اٹھایا؟ تمھاری ہمت کیسے ہوئی ؟رحمان نے آگے بڑھتے خان کے سامنے آتے غصے سے کہا۔

ہمت کی تو آپ بات ہی نا کریں۔میری ہمت کتنی ہے اور میں کیا کچھ کر سکتا ہوں وہ ابھی آپ جانتے نہیں ہیں۔

شکر کریں میں نے آپ کی بیٹی کی جان نہیں لے۔ ورنہ میرے لیے یہ مشکل نہیں تھا۔

اگر یہی تھپڑ آپ نے اسے مارا ہوتا تو آج آپ کی بیٹی بھی جانتی ہوتی کہ دوسروں کی بہن بیٹی کی عزت کیسے کرنی ہے۔

خان نے رحمان کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔

تمہیں لگتا ہے کہ میری بیٹی جھوٹ بول رہی ہے؟ اور تم سچے ہو؟ رحمان نے مٹھیاں بھینچتے غصے سے کہا۔

مجھے فرق نہیں پڑتا کہ آپ یا کوئی بھی میری بات پر یقین کرے یا نا کرے میں یہاں صفائیاں دینے نہیں آیا بلکہ آپ کی اس کم عقل بیٹی کو وارن کرنے آیا ہوں۔

اگر اس نے یا کسی نے میری بہن کے کردار پر انگلی اٹھائی تو میں اُس انسان کو دنیا سے اٹھا دوں گا۔

اپنی بہن کے بارے میں میں ایک لفظ بھی غلط برداشت نہیں کروں گا۔

خان نے کھا جانے والی نظروں سے رحمان کو دیکھتے کہا۔

خان بس کر دو اتنی چھوٹی سی بات کو تم نے رائی کا پہاڑ بنا لیا ہے۔ثمینہ نے غصے سے خان کو دیکھتے کہا۔

واہ چھوٹی سی بات؟ ویسے ٹھیک کہا آپ نے آپ کے لیے یہ چھوٹی بات ہی ہو گی۔لیکن ہم غیرت والے لوگ ہیں۔ہمارے لیے یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔میرے لیے میری بہن کی عزت مجھے اپنی عزت سے زیادہ عزیز ہے۔

امید کرتا ہوں آپ لوگ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گئے۔خان نے کرخت لہجے میں کہا اور جیسے آیا تھا ویسے وہاں سے چلا گیا۔

وہاج پرسکون سا کھڑا تھا۔

معاملہ اب حد سے بڑھ گیا ہے خان کو میری بیٹی پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا رحمان نے غصے سے کہا۔

بھائی آپ کو نہیں لگتا ایک بار ہمیں پھر سے ثانیہ سے حقیقت پوچھ لینی چاہیے۔

خان کی عادت سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں وہ اتنا بھڑکا ہوا ہے تو ضرور کچھ نا کچھ ایسی بات ہوگی جس سے ہم لوگ واقف نہیں ہیں۔

سلطان نے اپنے بھائی کو دیکھتے کہا۔

رحمان نے ثانیہ کی طرف دیکھا تھا۔

مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے لیکن خان کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔رحمان نے دانت پیستے کہا۔

لیکن وہاج کو اپنے تایا کے ادارے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔

خان تم نے اُس لڑکی کی وجہ سے میری بیٹی کو تکلیف دی ہے اب دیکھنا میں اُس کی کیا حالت کرتا ہوں۔

رحمان نے غصے سے دل میں سوچتے ہوئے کہا۔

اس بار تو کوثر نے بھی خان کو نہیں روکا تھا۔

💜 💜 💜 💜💜


حمزہ گھر سے باہر چلا گیا تھا۔اسے کسی کی تلاش تھی۔اس نے ہر جگہ اُسے تلاش کر لیا تھا۔

کہاں ہو تم؟ کہاں کہاں نہیں تمہیں میں نے تلاش کیا؟

ایک بار تم میرے ہاتھ آجاؤ پھر دیکھنا میں تمھارا کیا حال کرتا ہوں۔

حمزہ نے سگریٹ سلگاتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔

ابھی بھی وہ گاڑی میں بیٹا ہوا تھا جب اس کی نظر نیچے گئی جہاں پر ایک سلور کلر کا بریسلٹ گرا ہوا تھا۔

حمزہ نے جھک کر بریسلٹ اٹھایا تو اسے یاد آیا کہ یہ اس نے اُس لڑکی کے ہاتھ میں دیکھا تھا۔

حمزہ کے چہرے پر بےساختہ مسکراہٹ آگئی تھی جو اسے بھی معلوم نہیں تھا۔

تم میں کچھ تو خاص بات ضرور ہے کہ میرے جیسا انسان تمھاری خوبصورت آنکھوں کے سحر میں قید ہو گیا تھا۔

حمزہ نے اُس بریسلٹ کو دیکھتے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔

لیکن میں یہی چاہتا ہوں کہ ہماری دوبارہ ملاقات کبھی نا ہو ورنہ پھر تمہیں مجھ سے کوئی بچا نہیں سکے گا۔

کیونکہ حمزہ کو آج تک کسی سے محبت نہیں ہوئی اور اب اگر ہوئی تو یقیناً کسی ایسی لڑکی کے ساتھ ہو گی جس میں کوئی نا کوئی بات تو ضرور ہو گی اور تم میں کچھ نا کچھ تو ایسا ہے جو مجھے تمھاری طرف مائل کر رہا ہے۔

حمزہ نے بریسلٹ لو اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

رات بھی کافی بار پتہ نہیں کیوں اسے ملائکہ کا بار بار خیال آرہا تھا۔

وہ خود بھی حیران تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بار کسی سے ملنے کے بعد بار بار اُس کا خیال آئے۔

💜 💜 💜 💜


خان تم کہاں گئے تھے؟ دادا جان نے خان کو آتے دیکھا تو سنجیدگی سے پوچھا۔

ارسم بھی ان کے پاس ہی بیٹھا تھا ان کو ارسم سے پتہ چل گیا تھا کہ خان کہاں گیا ہے۔

دادا جان آپ کو معلوم ہے کہ میں کہاں گیا تھا۔

خان نے صوفے پر بیٹھتے اپنی کنپٹی کو دباتے ہوئے کہا۔

کیا کہا تم نے وہاں جا کر؟ دادا جان نے اگلا سوال کیا۔ارسم بھی خان کو ہی دیکھ رہا تھا۔

دادا جان مجھے کیا کہنا چاہیے تھا؟

خان نے الٹا دادا جان کو دیکھتے سوال کیا۔

خان میں تم سے سوال پوچھ رہا ہوں اور تم جواب دینے کی بجائے مجھ سے سوال پوچھ رہے ہو؟ دادا جان نے غصے سے کہا۔

کچھ خاص نہیں کہا دادا جان بس وارن کیا ہے۔

مجھے تمھاری بات پر یقین کیوں نہیں آرہا خان؟ تم خود وہاں گئے تو کچھ نا کچھ تو وہاں ہوا ہو گیا۔دادا جان نے جانچتی ہوئی نظروں سے خان کو دیکھتے پوچھا۔

دادا جان جو الزام اُس جاہل لڑکی نے میری بہن پر لگایا میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔

اپنی مجھے پرواہ نہیں ہے میرے بارے میں کوئی کچھ بھی بولے مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن اپنی فیملی کے بارے میں ایک لفظ بھی غلط برداشت نہیں کروں گا۔خان نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ویسے نانا جان میرے خیال سے خان نے بلکل ٹھیک کیا جو بھی کیا مجھے اپنے بھائی پر پورا بھروسہ ہے۔

ارسم نے گہرا سانس لیتے دادا جان کو دیکھتے کہا جو خاموشی سے ارسم کو دیکھ رہے تھے۔

میں بھی نکلتا ہوں مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں جانا ہے۔ارسم نے کھڑے ہوتے کہا اور وہاں سے چلا گیا پیچھے دادا جان کسی سوچ میں پڑ گئے تھے۔

💜 💜 💜 💜 💜


عروہ گھر آکر اپنے کمرے میں بند ہو گئ۔اُس اجنبی کی بار بار کالز اور میسج آرہے تھے۔

اس نے سوچا کہ وہ نمبر بلاک کر دیتی ہے لیکن اُس کے پاس اس کی ویڈیو تھی اگر اُس نے پولیس کے حوالے کر دی تو میرا کیا ہو گا؟

اور دوسری جانب وہ نوکری تھی اور نکاح اس کا تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔

نا کسی کو بتا سکتی تھی نا کسی کی مدد لے سکتی تھی۔

اگر اُس آدمی نے پیسے لینے کے بعد بھی مجھے تنگ کیا تو؟ لیکن ابھی ایک چھوٹی سی ہی سہی لیکن امید ہے کہ وہ پیسے لینے کے بعد مجھے تنگ نہیں کرے گا۔

لیکن اُس کے لیے مجھے اُس کھڑوس سے نکاح کرنا ہو گا۔

میں کیا کروں میں پاگل ہو جاؤں گی۔عروہ نے اپنے بالوں کو پریشانی سے کھنچتے ہوئے کہا۔

اگر میں اُن سے کنٹریکٹ کر لیتی ہوں تو ساری رقم ادا کرنے کے بعد تو میں آذاد ہو جاؤں گی اور مجھے نکاح کے بعد بھی صرف اُنکے آفس میں کام کرنا ہے اس طرح میرا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور اُس انسان کو پیسے بھی دے دوں گی۔

اور پھر میں آرام سے طلاق بھی لے لوں گی۔

عروہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد خود سے کہا۔

اس کی نظر بیڈ پر پڑے کارڈ پر پڑی تھی۔

اس نے حلق تر کرتے کارڈ کو پکڑا۔اور اس پر لکھا نمبر اپنے موبائل میں ڈائل کرنے لگی۔ایک سیکنڈ میں اس نے فیصلہ کیا تھا لیکن وہ نہیں نہیں جانتی تھی کہ اس فیصلے کی وجہ سے وہ کتنی بڑی مصیبت میں پڑنے والی ہے۔ لیکن اس وقت اس کے سر پر اُس آدمی کا ڈر سوار تھا جس کے پاس اس کی ویڈیو تھی۔

اس نے نمبر ڈائل کیا تو پہلی ہی رنگ پر کال اٹھا لی گئی تھی۔

دوسری جانب صفوان جو لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اس نے موبائل رنگ ہونے پر بے دھیانی میں موبائل اٹھا کر کان سے لگایا۔

لیکن دوسری جانب چھائی خاموشی نے اسے نمبر دیکھنے پر مجبور کیا۔

مس عروہ؟ صفوان نے کہا تو عروہ بھی حیران ہوئی تھی۔

اس نے تو اندازہ لگایا تھا۔

جی عروہ نے بس اتنا ہی کہا۔

تو کیا جواب ہے آپ کا؟ صفوان نے پیچھے بیڈ سے ٹیک لگاتے گہرے لہجے میں پوچھا۔

وہ میں عروہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح کہے۔

ابھی تو وہ اس کے سامنے نہیں تھا تو اس کی یہ حالت ہو رہی تھی۔

میں نکاح کے لیے تیار ہوں لیکن میری بھی کچھ شرائط ہیں۔عروہ نے جلدی سے کہا۔

صفوان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

ٹھیک ہے کل آپ میری آفس آجائیں اور کنٹریکٹ پیپرز پر سائن کر لیں۔اور نکاح جب آپ چاہیں۔صفوان نے کہا تو عروہ نے اپنا حلق تر کیا تھا۔

عروہ نے بنا کوئی جواب دیے فون بند کر دیا۔

صفوان نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور اسے بیڈ پر رکھ دیا۔

مس عروہ تم خود اپنی زندگی کو جہنم بنانا چاہتی ہو تو تمھارے ساتھ اب سے جو کچھ بھی ہو گا اُس کی ذمہ دار صرف تم ہی ہو گی۔

صفوان نے سرد لہجے میں کہا۔

اور دوبارہ اپنا کام کرنے لگا۔

💜 💜 💜 💜

تم لوگوں سے ایک لڑکی ڈھونڈی نہیں جا رہی؟ ارسم نے اپنے آدمیوں کو دیکھتے دہاڑتے ہوئے کہا۔

سر ہم پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ لڑکی ہمیں نہیں مل رہی۔ ایک آدمی نے نظریں جھکا کر کہا۔

تم سب کسی کام کے نہیں ہو ارسم نے غصے سے کہا اور وہاں سے نکل گیا۔

آخر دنیا کے کون سے کونے میں تم چھپ گئی ہو؟ لیکن میں تمہیں تلاش کر لوں گا۔

ارسم نے ڈرائیونگ کرتے سرد لہجے میں کہا۔

وہ آج خود بسمہ کو لینے یونی گیا تھا خان نے کہا تھا کہ اب سے وہی بسمہ کو یونی چھوڑے گا اور اُسے واپس لے کر آئے گا۔

ارسم گاڑی سے باہر نکلا اور اس سے ٹیک لگائے کھڑا ہو گیا۔

اس نے گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

بلیو جینز پر اس نے سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

وہاں سے سے گزرتے لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔لیکن وہ لاپرواہ بنا بسمہ کا انتظار کر رہا تھا جب اس کی نظر اُس لڑکی پر پڑی جسے وہ پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا تھا۔

ملائکہ اپنے باپ سے ضد کرکے یہاں یونی میں ایڈمیشن لینے آئی تھی۔ماں تو اس حق میں نہیں تھی لیکن ملائکہ آگے پڑھنا چاہتی تھی۔اور اب تو وہ خود اکیلی باہر آ جا سکتی تھی تو یونی میں آنے میں کیا مسئلہ تھا۔

ملائکہ اپنے دھیان جا رہی تھی جب کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر کھنچا۔ملائکہ تو بوکھلا گئی تھی۔

ارسم اسے کھنچتے ہوئے ایک سنسان جگہ پر لے گیا تھا۔

اس نے ملائکہ کے منہ پر اپنا وزنی ہاتھ رکھا۔

ملائکہ نے ارسم کو دیکھا تو خوف سے اسکی آنکھیں باہر آگئی تھیں۔

آخر کار تم مجھے مل ہی گئی۔ارسم نے تمسخرانہ انداز میں ملائکہ کی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

تمہیں کیا لگا تم مجھے تھپڑ مار کر آسانی سے چلی جاؤ گی؟

میں اپنے دشمن کو کبھی نہیں بھولتا۔اور تم تو ایک خوبصورت دشمن ہو ارسم نے سرد لہجے میں کہا۔

ملائکہ کو جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو اس نے ارسم کے ہاتھ پر اپنے دانت گاڑھ دیے۔

ارسم نے گھور کر ملائکہ کو دیکھا اور اپنا ہاتھ پیچھے کیے جہاں پر ملائکہ کے دانتوں کے نشان موجود تھے۔اور وہاں سے خون بھی نکل رہا تھا۔

ایک اور غلطی ہاں ارسم نے اپنے ہاتھ کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

ملائکہ ارسم کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے دھکا دینے لگی جب ارسم نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اسے کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کیا۔

جو اس کے سینے سے آ لگی تھی۔

تمھارا مجھ سے بچنا اب مشکل ہی نہیں نامکمل ہے۔

تم نے جو غلطی کی ہے اُس کی سزا تو ضرور ملے گی۔ارسم نے ملائکہ کے کان کے پاس جھکتے ہوئے پرسرار لہجے کہا۔اس کی گرم سانسوں کی تپش کی وجہ سے ملائکہ کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔

ابھی میں جا رہا ہوں لیکن بہت جلد پھر سے ہماری ملاقات ہو گی مجھے پوری امید ہے۔ارسم نے اس بار ہلکا سا مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ملائکہ جو اپنا سانس روکے کھڑے تھی جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی۔

ایک لڑکی کی تصور بھیج رہا ہوں۔اُس لڑکی پر نظر رکھو اور دیکھو وہ کس کے ساتھ آتی جاتی ہے؟ کیا کرتی ہے؟ اُس کی پل پل کی خبر مجھے چاہیے۔

رحمان نے موبائل کان سے لگائے سنجیدگی سے کہا۔

ایک دو اور ہدایت دینے کے بعد اس نے فون بند کر دیا تھا۔

ڈیڈ کیا کرنے والے ہیں آپ؟ حمزہ جو اپنے باپ کی بات کرتے سن چکا تھا اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

تم اس معاملے میں نا ہی پڑو تو بہتر ہے۔خان یہاں آیا تمھاری بہن کو تھپڑ مار کر گیا اور تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہے؟

رحمان نے غصے سے کہا۔

ڈیڈ آپ کی آنکھوں پر تو اپنی بیٹی کے پیار کی پٹی بندھی ہوئی ہے لیکن میں اُس کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہوں۔

حمزہ نے عام سے لہجے میں کہا۔

کیا کہنا چاہتے ہو تم؟ صاف صاف لفظوں میں کہو۔رحمان نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

کچھ نہیں لیکن آپ کو مشورہ دینا چاہتا ہوں آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے آپ کو دادا جان سے معافی مانگنی ہو گی اُس کے بعد آپ کچھ بھی کریں کسی کا شک آپ پر نہیں جائے گا لیکن ابھی اگر آپ نے بسمہ کے ساتھ کچھ بھی کیا تو خان کا صاف شک آپ کی طرف جائے گا تو بہتر یہی ہے کہ آپ دادا جان سے اپنے رویے کی معافی مانگ لیں۔حمزہ نے سمجھداری سے کہا۔

حمزہ کی بات سن کر رحمان بھی سوچ میں پڑ گیا تھا۔حمزہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔

وہ اپنی بات کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

اگر وہ چاہتا تو اپنے باپ کو روک سکتا تھا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا۔

💜 💜 💜 💜💜

اگلے دن عروہ صفوان کے آفس میں موجود تھی۔

پریشانی سے وہ کرسی پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو مڑوڑ رہی تھی۔

جب سے وہ آئی تھی خاموش بیٹھی تھی۔

اور صفوان سامنے بیٹھا اس کی حرکات دیکھ رہا تھا۔

آپ مجھے گھورنا بند کریں گئے؟ عروہ نے آخر کار اکتا کر کہا۔اسے صفوان کی نظروں سے اسے خوف آرہا تھا۔

مس آپ کو یہاں آئے آدھا گھنٹا ہو گیا ہے آپ نے تو مجھے سلام تک کرنا گوارا نہیں سمجھا اور اب اگر آپ بولی بھی ہیں تو یہ مجھے گھورنا بند کرو۔صفوان نے تھوڑا آگے جھکتے سنجیدگی سے کہا وہ جانتا تھا کہ اس وقت عروہ کس قدر گھبرائی ہوئی ہے وہ بہادر بننے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن اس کے چہرے کو دیکھتے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ ڈر رہی ہے۔

سوری السلام علیکم

عروہ نے شرمندگی سے کہا۔وہ اتنا گھبرائی ہوئی تھی کہ اُسے سلام کرنا بھی یاد نہیں رہا تھا۔

مس عروہ یہ کنٹریکٹ پیپرز ہیں۔ان کو اچھی طرح پڑھ لیں۔

اور جب تک آپ میری ساری رقم ادا نہیں کر دیتی آپ اس آفس کو چھوڑ نہیں جا سکتی اور نا میں آپ کو طلاق دوں گا۔اگر آپ آفس کو چھوڑ دیتی ہیں اور طلاق مانگتی ہیں رقم ادا کرنے سے پہلے تو اپ کو مجھے پانچ گنا زیادہ رقم دینی ہوگی۔

صفوان نے عروہ کے تاثرات دیکھتے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا۔

پانچ گنا؟ عروہ نے آنکھیں پھاڑے پوچھا۔

جی بلکل ٹھیک سنا آپ نے صفوان نے گہرا سانس لیتے کہا۔

میں آپ کے آفس میں کام کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن کیا نکاح کرنا ضروری ہے؟ عروہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔

مس عروہ نکاح کرنا بہت ضروری ہے اور میرے لیے تو بےحد ضروری ہے۔صفوان نے سرد لہجے میں عروہ کو دیکھتے کہا۔لیکن اُسے ابھی بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔کہ صفوان اسے اپنے جال میں پھنسا رہا ہے اور وہ آسانی سے پھنستی جا رہی تھی۔

عروہ نے کنٹریکٹ پیپرز پڑھے لیکن اس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو اسے ٹھیک نا لگا ہو۔اس میں نکاح کا بھی لکھا ہوا تھا۔

جب آپ کا نکاح میرے ساتھ ہو گا تو اُسی وقت میں آپ کو بیس لاکھ دے دوں گا۔

صفوان نے سنجیدگی سے کہا۔

عروہ نے ایک نظر صفوان کو دیکھا اور گہرا سانس لیتے کنٹریکٹ پیپرز پر سائن کر دیے۔

صفوان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

میری بھی کچھ شرائط ہیں۔

عروہ نے سائن کرنے کے بعد کہا۔

اگر آپ کی شرائط مناسب ہوئی تو میں ضرور پوری کروں گا۔

صفوان نے پرسرار لہجے میں عروہ کو دیکھتے کہا۔

میرے نکاح کا ہم دونوں کے علاوہ کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔نا آپ کے گھر والوں کو نا میرے گھر والوں کو اور نا اپ میری پرسنل زندگی میں دخل اندازی کریں گئے نا میں کرو گی۔

عروہ نے صفوان کو دیکھتے کہا۔

اوکے اور؟

آپ اس نکاح کا فائدہ اٹھاتے کبھی میرے قریب آنے کی کوشش نہیں کریں گئے۔عروہ نے نظریں جھکا کر کہا۔

صفوان نے نفی میں سر ہلایا۔

ٹھیک ہے اور؟

صفوان نے پوچھا۔

اور میں دو دن کے بعد سے آفس جوائن کروں گی۔عروہ نے اپنی آخری شرط بتائی۔

مجھے آپ کی ساری شرائط منظور ہے۔لیکن میں چاہتا ہوں ہمارا نکاح آج ہی ہو۔

صفوان نے سنجیدگی سے کہا۔

آج؟ عروہ نے پریشانی سے پوچھا۔

کیوں کوئی مسئلہ ہے؟

کل بھی تو کرنا ہے تو آج کیوں نہیں؟ صفوان نے پوچھا۔

نہیں مجھے مسئلہ نہیں ہے۔عروہ نے جلدی سے کہا۔

تو پھر چلیں؟ صفوان نے کھڑے ہوتے کہا۔

کہا؟ عروہ نے پریشانی سے پوچھا۔

میڈم اگر آپ کہتی ہیں تو یہی مولوی صاحب کو بلا لیتا ہوں لیکن آپ کو ہی پسند نہیں آئے گا کہ یہاں کے سٹاف کو پتہ چلے۔

اور فکر مت کریں آپ مجھ پت بھروسہ کر سکتی ہے کچھ نہیں کروں گا۔نکاح کے بعد میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آؤں گا۔اتنا بھروسہ تو آپ کر ہی سکتی ہیں مجھ پر۔

صفوان نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

عروہ بھی وہاں سے کھڑی ہوتی روم سے باہر چلی گئی مجبوری انسان کو کتنا بےبس کر دیتی ہے یہ بات اسے آج پتہ چل رہی تھی۔

آگے اس کے ساتھ کیا ہونا تھا یہ کسی کو پتہ نہیں تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ڈیڈ مجھے خان سے ہی شادی کرنی ہے۔چاہے کچھ بھی ہو جائے ثانیہ نے اپنے باپ کو دیکھتے ضدی لہجے میں کہا۔

وہ اب تم سے شادی نہیں کرے گا ثانیہ ضد نا کرو رحمان نے کہا تو ثانیہ بھڑک اٹھی تھی۔

ڈیڈ آپ دادا جان سے معذرت کر لیں وہ اپنے دادا جان کی بات کبھی نہیں ٹالے گا لیکن مجھے خان سے ہی شادی کرنی ہے بلکہ آپ ہمارا نکاح کروا دیں کیسے بھی کرکے ثانیہ نے اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

تم اُس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہو جس پر کل تم الزام لگا رہی تھی؟ رحمان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا ڈیڈ ثانیہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے ہم لوگ اس ہفتے وہاں جائیں گئے میں مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کروں گا۔

رحمان نے اپنی بیٹی کے سامنے ہتھیار ڈالتے کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹی خان کو پسند کرتی ہے اور انہوں نے حمزہ کی بات کے بارے میں بھی سوچا تھا تو دادا جان سے معذرت کرنا ضروری تھا۔

ثانیہ نے خوشی سے اپنے باپ کے ہاتھوں کو چوم لیا تھا تھینک یو ڈیڈ ثانیہ نے خوشی سے کہا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔

عظمی بیگم دونوں باپ بیٹی کو دیکھ رہے تھے۔

رحمان آپ ثانیہ کا ساتھ دے کر اُس کے ساتھ غلط کر رہے ہیں۔عظمیٰ نے کہا تو رحمان نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔

مجھے اچھے سے معلوم ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں اس لیے خاموش رہو تم رحمان نے سرد لہجے میں کہا اور اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔

عظمیٰ بیگم نے بےبسی سے اپنے شوہر کو دیکھا تھا۔

رحمان تو اب ان سے کوئی مشورہ بھی نہیں کرتا تھا بچوں کو بھی اس نے اپنے جیسا بنا لیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ملائکہ اپنے بیگ پر گرفت مضبوط کیے بھاگنے کے انداز میں وہاں سے جا رہی تھی اس وقت وہ ڈر چکی تھی بس جلدی سے گھر پہنچنا چاہتی تھی۔

یہ وہی لڑکی ہے نا جو اُس دن مارکیٹ سے ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔

ایک دوکان کے پاس کھڑے دو لڑکوں نے ملائکہ کو دیکھتے کہا۔یہ وہی تھے جو اُس دن مارکیٹ میں ملائکہ کو دیکھ رہے تھے لیکن اُس دن وہ ان کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔

ان کا ایک گینگ تھا لڑکیوں کو اغوا کرکے آگے بیچ دیتے تھے۔

تو آج اگر ہم اس لڑکی کو پکڑ لیتے ہیں تو ہمیں اچھے پیسے مل جائیں گئے ایک لڑکے نے دوسرے کو دیکھتے کہا۔

اسے پیچھلی والی گلی میں لے جاتے ہیں وہاں کوئی نہیں ہوتا اور پھر کال کرکے کسی کو بلا لیں گئے ایک لڑکے نے پلان بتاتے دوسرے کو کہا اور دونوں نے ملائکہ کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے۔

ملائکہ جو اپنی دھیان جا رہی تھی۔

اس نے مارکیٹ والے لڑکوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ڈر کے مارے وہاں سے دوڑ لگا دی۔

دونوں لڑکوں نے بھی اس کے پیچھے دوڑ لگا دی تھی لیکن ملائکہ بھاگتے ہوئے ایک گلی کے اندر چلی گئی۔لیکن بدقسمتی سے وہ آگے سے بند تھی۔

ملائکہ نے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے پیچھے دیکھا اور وہاں سے بھگانے لگی لیکن راستے میں پڑے پتھر کی وجہ سے وہی زمین پر گر گئی تھی۔

اس کے منہ سے بےساختہ چیخ نکلی تھی گرنے سے اسکے ماتھے اور ہاتھ سے خون نکلنے لگا تھا۔ہاتھ میں تو اس کے زمین پر گرا ہوا شیشہ لگا تھا جس کا تھوڑا سا ٹکرا اس کی ہتھیلی میں ہی تھا۔

اس سے پہلے وہ وہاں سے اٹھتے وہی لڑکے وہاں آگئے تھے۔

بہت بھاگیا ہے تم نے اب نہیں چھوڑے گئے تجھے ایک لڑکے نے غصے سے کہا۔

اس سے پہلے دونوں ملائکہ کی طرف بڑھتے پیچھے کسی نے ان میں سے ایک کے سر پر ڈنڈا دے مارا دوسرے نے مڑ کر دیکھا تو حمزہ نے اسکے سر پر بھی ڈنڈا دے مارا تھا۔

دونوں وہی بےہوش ہو کر گر گئے تھے۔

حمزہ اپنے دوست کی طرف آیا تھا۔

راستے میں اسے کچھ کام تھا جب اس کی نظر ملائکہ پر پڑی اور اس کے پیچھے اس نے لڑکوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔تو ایک سیکنڈ میں معاملے کو سمجھ گیا تھا۔

اس نے ڈنڈے کو زمین پر پھینکا اور چلتا ہوا ملائکہ کے پاس آیا۔

اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا ملائکہ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کی گال پر بہہ رہے تھے۔

اس وقت اس کا رنگ خوف سے سفید پڑ گیا تھا۔

حمزہ سرد نظروں سے اس کے ماتھے سے نکلتے خون کو دیکھ رہا تھا۔

یہاں کیا کر رہی ہو؟ حمزہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔لیکن ملائکہ اسے جواب دینے کی بجائی وہی بےہوش ہو گئی۔حمزہ نے اسے بازو سے پکڑا ہوا تھا اس لیے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے گرنے سے بچایا تھا۔

حمزہ کی نظر اس کے ہاتھ کی طرف گئی جہاں شیشہ لگا ہوا تھا اور خون بھی نکل رہا تھا۔

اس نے ملائکہ کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسے اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔

وہ اسے اپنے فرینڈ کے گھر لے کر نہیں جا سکتا تھا۔

اس نے فرسٹ ایڈ باکس پکڑا اور اس میں سے روئی نکالے ملائکہ کے ماتھے کے زخم کو صاف کرنے لگا۔

ملائکہ کے چہرے پر ابھی بھی آنسوؤں کے نشان موجود تھے۔

حمزہ کی نظر اس کے آنسوؤں کے نشان پر ٹھہر گئی تھی۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی انگلی کی پور سے ملائکہ کی گال کو چھوا تھا۔

کیسے فضول حرکتیں کر رہا ہوں میں کبھی سوچا نہیں تھا کہ میرے جیسا انسان بھی کسی کی مدد کرے گا۔

حمزہ نے خود پر ہنستے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

حمزہ نے ملائکہ کا ہاتھ پکڑا جہاں شیشہ لگا تھا اس کے ہاتھ میں ملائکہ کا ہاتھ چھوٹا سا سا ہی لگ رہا تھا۔

چھوٹا سا شیشے کا ٹکرا اس کے ہاتھ میں ابھی بھی تھا۔اس نے کھنچ کر باہر نکالا تو تکلیف کے مارے ملائکہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے حمزہ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔

حمزہ بہت احتیاط سے ملائکہ کی پٹی کر رہا تھا۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ پیچھے ہو کر بیٹھ گیا اور سگریٹ کی ڈبی پکڑے اس میں سے سگریٹ نکالنے لگا لیکن پھر اس نے ایک نظر ملائکہ کی طرف دیکھا اور پھر سے سگریٹ کو ڈبی کے اندر رکھ دیا۔

کیا مصیبت ہے حمزہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

جب اس کا موبائل رنگ ہوا اس کے دوست کی کال تھی۔

اس نے کال اٹینڈ کرتے موبائل کان سے لگایا۔

ہاں مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا تھا اس لیے میں آج نہیں آ سکتا۔حمزہ نے ملائکہ کے پرسکون سے چہرے کو دیکھتے کہا۔اور پھر موبائل بند کر دیا۔

حمزہ کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اسے جگائے۔

عجیب لڑکی ہے۔مجھ جیسے انسان کو قابو کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔

حمزہ نے ملائکہ کو دیکھتے دل میں سوچا۔

وہ کافی دیر اسے بیٹھا ایسے ہی دیکھتا رہا تھا۔

حمزہ کو سگریٹ کی طلب ہو رہی تھی اس لیے سگریٹ پکڑے گاڑی سے باہر نکل گیا اس کے باہر نکلتے ہی تھوڑی دیر بعد ملائکہ کو ہوش آ گیا تھا۔

لیکن جیسے ہی اسے سارا واقعہ یاد آیا تو جلدی سے سیدھی ہو کر بیٹھی۔

اس نے باہر کچھ فاصلے پر کھڑے حمزہ کو دیکھا تو آرام سے گاڑی کا دروازہ کھولتے وہاں سے بھاگ گئی۔

حمزہ جب گاڑی کا دروازہ کھولتے اندر آیا تو خالی جگہ دیکھ کر ہلکا سا مسکرا پڑا تھا۔

پاگل لڑکی حمزہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور گاڑی سٹارٹ لیے وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

سادگی سے صفوان کا نکاح عروہ سے ہو گیا تھا۔صفوان نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے گھر چھوڑ دیتا ہے لیکن عروہ نے کہا کہ وہ خود چلی جائے گی۔صفوان نے عروہ کو اپنے کہی گئی بات کے مطابق بیس لاکھ کا چیک دے دیا تھا۔

عروہ نکاح کے بعد خاموش سی صفوان کو لگی تھی۔اور اتنا بڑا فیصلہ اُس نے خود اکیلی نے کیا تھا تو اس کا پریشان ہونا تو بنتا تھا۔

صفوان کے علاوہ کسی نے بھی عروہ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔کیونکہ اس نے لمبا گھونگٹ لیا ہوا تھا۔

مس عروہ ضد مت کریں میں آپ کو میں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔

صفوان نے سنجیدگی سے کہا۔

سر میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے تو وہاں کسی نے بھی مجھے آپ کے ساتھ دیکھ لیا تو میرے لیے مسئلہ ہو جائے گا۔

عروہ نے کہا تو صفوان کو بھی اس کی بات ٹھیک لگی تھی۔

ٹھیک ہے لیکن آج آپ اپنے گھر والوں کو اپنی اس جاب کے بارے میں بتائے گئی اور ساتھ یہ بھی کہیں گی کی کمپنی والے آپ کو پک اینڈ ڈراپ بھی دے رہے ہیں اور اس بات پر کوئی بحث نہیں ہو گی۔

صفوان نے بات ختم کرنے والے انداز میں کہا۔

سر مجھے آپ کا مزید کوئی احسان نہیں چاہیے۔

مس عروہ یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ کنٹریکٹ میں یہ بات لکھی ہوئی تھی۔صفوان نے اسے یاد دلاتے کہا۔

کنٹریکٹ کا سوچ کر عروہ خاموش ہو گئی تھی۔

اور بنا کچھ کہے وہاں سے جانے لگی۔اور جلدی نکلنے کے چکر میں وہاں پڑے ٹیبل سے اس کا پاؤں زور سے ٹکرایا ابھی وہ گرنے ہی لگی تھی جب صفوان نے آگے بڑھتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے گرنے سے بچایا تھا۔

دیکھ کر چلا کریں مس عروہ ہر جگہ آپ کو سنبھالنے کے لیے میں موجود نہیں ہوں گا۔

صفوان نے عروہ کے سہمے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے پرسرار لہجے میں کہا۔

عروہ جو اپنے چہرے کے بےحد قریب صفوان کے چہرے کو دیکھ رہی تھی فوراً ہوش میں آئی اور صفوان سے پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئی۔

میں چلتی ہوں۔عروہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

صفوان جس کے چہرے پر مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی عروہ کے جانے کے بعد فوراً سمٹ گئی۔

نکاح مبارک ہو مسز صفوان

صفوان نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔

اور اپنا موبائل نکالے کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔

امی مجھے آپ کو ایک بات بتانی تھی۔

عروہ نے اپنی ماں کو دیکھتے کہا۔

ہاں کہو کیا بات ہے۔اور آج تم سکول بھی نہیں گئی خیریت؟ تمھاری طبعیت ٹھیک ہے؟ بلقیس نے عام سے لہجے میں پوچھا۔

جی امی میں ٹھیک ہوں میں نے وہ جاب چھوڑ دی ہے۔

عروہ نے جلدی سے اپنی بات کہہ دی۔

بلقیس نے حیرانگی سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تھا۔

کیا مطلب؟ کوئی مسئلہ ہوا تھا؟ بلقیس نے حیرانگی سے پوچھا اب اس کا پورا دھیان عروہ کی طرف تھا۔

امی وہاں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔لیکن آپ کو معلوم ہے کہ میں نے کافی جگہ اپنی سی وی بھیجی تھی تو ایک بہت بڑی کمپنی سے مجھے انٹرویو کے لیے کال آئی تھی۔

میں نے سوچا کہ انٹرویو دے دیتی ہوں کیونکہ مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ میری جاب وہاں ہو گی۔

لیکن انہوں نے انٹرویو کے بعد مجھے بلا لیا اور سیلری بھی اچھی دے رہے ہیں۔اس لیے میں نے سکول کی جاب چھوڑ دی۔

پک اینڈ ڈراپ بھی کمپنی دے رہی ہے اگر آپ چاہے تو میرے ساتھ چل کر دیکھ سکتی ہیں۔

عروہ نے سوچی سمجھی کہانی اپنی ماں کو سنا دی اُسے جھوٹ بولتے ہوئے برا تو بہت لگ رہا تھا لیکن اس وقت وہ مجبور تھی۔

بیٹا جی ابھی بھی مجھے بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور تمہیں تو یہاں تک جانے میں ڈر لگتا تھا تو اتنی دور کیسے جاؤ گی؟ بلقیس نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

امی میں ہمیشہ ایسے ڈر کر تو نہیں رہ سکتی نا عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اپنا خیال رکھنا اور کب سے جانا ہے تم نے؟ بلقیس نے پوچھا۔

پرسوں سے اور امی ملائکہ تو دن میں اتنے چکر لگاتی ہے اب آئی کیوں نہیں؟ عروہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

ہاں میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہی اُس کی طبعیت خراب نا ہو۔تم اُس کی خیریت معلوم کر آؤ بلقیس نے کہا۔

جی امی عروہ کہتے ہی اپنی جگہ سے اُٹھی لیکن اس کے جانے سے پہلے ہی ملائکہ وہاں آگئی تھی اس کے سر کا زخم اب ٹھیک تھا لیکن ہاتھ میں ابھی بھی درد تھا۔

تمہیں کیا ہوا؟ عروہ نے ملائکہ کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

بلقیس نے بھی اس کی طرف دیکھا تھا۔

کچھ نہیں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔

ملائکہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ایک پورا دن وہ کمرے میں بند رہی تھی۔

وہ خود نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ وہ کس طرح کی مصیبت میں پھنس چکی ہے۔

ایک کو تو اُس نے تھپڑ مارا تھا اور دوسرے نے اس کی مدد کی تھی۔لیکن دونوں اس کے لیے اجنبی تھے۔

اس نے فیصلہ کیا کہ وہ باہر جانا چھوڑ دے گی نا باہر جائے گی نا اُن دونوں میں سے اسے کوئی ملے گا اور یہ فیصلہ کرتے وہ کافی حد تک مطمئن ہو گئی تھی۔

تم اپنا خیال رکھا کرو اگر زیادہ چوٹ لگ جاتی تو؟ بلقیس نے پریشانی سے کہا۔

جی آنٹی ملائکہ نے مسکرا کر کہا۔

عروہ اس کو بازو سے پکڑے اپنے کمرے میں لے گئی۔

تمھارے ایڈمیشن کا کیا بنا؟ عروہ نے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

اُس کا کیا بننا تھا۔مجھے آگے نہیں پڑھنا۔

ملائکہ نے نظریں چراتے کہا۔

کیا مطلب؟ تم تو آگے پڑھنا چاہتی تھی تمھارا شوق تھا۔

تو پھر کیا مسئلہ ہو گیا؟

عروہ نے حیرانگی سے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

بس اب میرا موڈ نہیں ہے۔

میں تو سوچ رہی ہو شادی کروا لیتی ہوں شادی زیادہ بہتر ہے تم کیا کہتی ہو؟ ملائکہ نے بات کو بدلتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

ضرور کوئی بات ہوئی ہے ورنہ تمھارا فیصلہ ایک دن میں بدل نہیں سکتا لیکن میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ کسی کی بھی وجہ سے اپنی خواہشات کو ادھورا مت چھوڑنا۔

میں تمھارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہو عروہ نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

ملائکہ نے گہرا سانس لیا تھا اب وہ اسے کیا بتاتی کہ کیوں وہ یونی جانا نہیں چاہتی۔

💜 💜 💜 💜💜


آفاق اور حمزہ کے علاوہ باقی سب لوگ دادا جان کی طرف آئے تھے ویسے تو کسی کو امید نہیں تھی کہ وہ لوگ یہاں آئے گئے لیکن وہ آئے تھے۔

خان اور ارسم بھی گھر پر ہی تھے۔بسمہ نے پلان بنایا تھا کہ پوری فیملی باہر کھانا جائے گئے۔لیکن اب پلان کنسل ہو گیا تھا۔

ثانیہ تو اچھی طرح تیار ہو کر آئی تھی لیکن پھر بھی خان نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔

ثمینہ بیٹھی بسمہ کو گھور رہی تھی۔

اور بسمہ ان کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی۔

وہاج کو تو اگر کوئی ساتھ چلنے کا نا بھی کہتا تو اُس نے ساتھ ضرور آنا تھا۔

دادا جان مجھے آپ سے معافی مانگنی تھی اور بسمہ اس سے پہلے رحمان بسمہ کو دیکھتے کچھ کہتے خان بول پڑا تھا۔

بسمہ جاؤ یہاں سے خان نے سنجیدگی سے کہا تو بسمہ اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی۔

بسمہ کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اور نا ہی اُسے کچھ پتہ چلنا چاہیے۔

خان نے رحمان کو دیکھتے کہا۔

یہ تو اچھی بات ہے رحمان نے ہنستے ہوئے کہا۔

لیکن دادا جان میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔

مجھے آپ سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔

ثانیہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔میں شرمندہ ہوں اور میں خود یہاں آکر آپ سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔

اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بسمہ کو اپنی بیٹی بنا لوں اگر آپ کو مناسب لگے تو رحمان نے جیسے ہی کہا تو وہاج جس نے لبوں سے پانی کا گلاس لگایا ہوا تھا۔زور زور سے کھانسنے لگا۔

خان نے سنجیدگی سے وہاج کی طرف دیکھا تھا۔

آرام سے بیٹا کوثر نے وہاج کو دیکھتے کہا۔

وہاج کی بےساختہ نظر پر پڑی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔

اسے کیا ہوا؟ سلطان نے کوثر کو دیکھتے پوچھا۔جس نے سر نفی میں ہلا کر لاعلمی کا مظاہرہ کیا تھا۔

دادا جان نے خان کی طرف دیکھتے اسے اشارے سے کچھ بھی بولنے سے باز رکھا تھا۔

دیکھو رحمان تمھاری بیٹی نے جو الزام لگایا۔وہ چھوٹا نہیں تھا۔

آج اُس نے یہ کہا ہے آگے جا کر اور بھی کچھ کہہ سکتی ہے تم تو اپنی بیٹی کی ہی بات پر ہی یقین کرو گئے لیکن مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگا کہ آگے جاکر میرے بچوں کو کسی کی بھی غلط بیانی کی وجہ سے تکلیف پہنچے۔

دادا جان نے سنجیدگی سے کہا۔

دادا جان میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں پلیز مجھے معاف کر دیں آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ثانیہ نے اپنے لہجے میں شرمندگی لاتے کہا۔

دادا جان خاموش رہے تھے۔

تو دادا جان بسمہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔

اور میں سوچ رہا تھا بسمہ کے نکاح کے ساتھ ثانیہ کا نکاح بھی کر دیا جائے۔

رحمان نے مسکراتے ہوئے کہا ارسم نے خان کی طرف دیکھا تھا جو ابھی بھی آرام سے بیٹھا باتیں سن رہا تھا۔

دیکھو رحمان بسمہ کی پسند بھی ضروری ہے اور جہاں تک بات ہے اُس کی شادی کی تو یہ فیصلہ اُس کے بھائی کریں گئے کیوں تحریم بیٹا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟ دادا جان نے تحریم کو دیکھتے پوچھا۔

جی بلکل دادا جان اس کے بھائی ہی فیصلہ کریں گئے اور مجھے پوری امید ہے وہ دونوں جو بھی فیصلہ کریں گئے۔میری بیٹی کے حق میں بہتر ہو گا۔

تحریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔اور یہ سن کر کوثر تھوڑی پرسکون ہوئی تھی۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہاج بسمہ کو پسند کرتا ہے۔

اور خان کب نکاح کرنا چاہتا ہے یہ وہی تمہیں بتا سکتا ہے دادا جان نے خان کو دیکھتے کہا۔

جو ان کی چالاکی کو سمجھ گیا تھا۔

سب لوگوں کی نظریں خان پر جمی تھیں۔

کھانا تیار ہے بسمہ نے اندر آتے ہی کہا۔

ثانیہ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

پہلے کھانا کھا لیتے ہیں یہ باتیں تو ہوتی رہے گی۔ارسم نے جلدی سے کہا۔

ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو۔ثمینہ نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا تو باقی سب کو بھی وہاں سے اٹھنا پڑا۔

ثانیہ نے گھور کر اپنی پھوپھو کو دیکھا تھا اس سے زیادہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتی تھی۔پھوپھو کو بھوک لگی تھی۔اس لیے وہاں سے چلی گئی۔

کھانے کے بعد سب لوگ باتیں کر رہے تھے۔ارسم رحمان کو شادی کی بات کی طرف آنے نہیں دے رہا تھا۔

ثانیہ خان سے بات کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی جو اسے مل گیا۔

خان شاید کسی سے بات کر رہا تھاجب ثانیہ وہا‌ں آگئی خان نے کال کٹ کی اور وہاں سے جانے لگا۔

خان ثانیہ نے جلدی سے اس کا بازو پکڑتے اسے پکارا۔خان نے رک کر پہلے اپنے بازو کی طرف دیکھا پھر ثانیہ کی طرف دیکھا جس نے اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا تھا۔

تم شادی سے بھاگ کیوں رہے ہو؟ ثانیہ نے خان کے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا۔

تمہیں کس نے کہا کہ میں شادی سے بھاگ رہا ہوں؟ جب مجھے کوئی لڑکی پسند آگئی تو ضرور میں اُس سے شادی کروں گا۔

خان نے عام سے لہجے میں کہا۔

اور میں؟ ثانیہ نے بےیقینی سے پوچھا۔

تم بھی شادی کر سکتی ہو میں نے تمہیں روکا نہیں ہے۔خان کہتے ہی وہاں سے جانے لگا۔جب ثانیہ نے غصے سے خان کو بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنے سامنے کیا اور ہاتھ اٹھائے اُسے تھپڑ مارنے لگی۔

خان نے اس کا وہی ہاتھ پکڑا اور مڑوڑتے ہوئے پیچھے کمر تک لے گیا۔

تکلیف کے مارے ثانیہ کے منہ سے چیخ نکلی تھی۔

تمھاری اوقات کیا ہے جو تم مجھ پر یعنی خان پر ہاتھ اٹھا رہی ہو؟ تمھارے اس ہاتھ کو مجھے توڑ دینا چاہیے تاکہ تم دوبارہ ایسی غلطی نا کرو۔

خان نے ثانیہ کے ہاتھ پر مزید دباؤ ڈالتے سرد لہجے میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔

جس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

خان تم جنگلی انسان ہو چھوڑو میرا ہاتھ ثانیہ نے بےبسی سے کہا۔

معافی مانگو ابھی اور اسی وقت خان نے پرسرار لہجے میں کہا۔

سوری مجھے معاف کر دو ثانیہ نے بنا کوئی بحث کیے جلدی سے معافی مانگ لی کیونکہ اسے لگ رہا تھا اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔

دوبارہ ایسی غلطی مت کرنا خان نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ثانیہ نے اپنا ہاتھ دیکھا تھا جع سرخ ہو رہا تھا۔

تمہیں تو پاگل خانے ہونا چاہیے تھا جنگلی انسان ثانیہ نے پیچھے سے چیختے ہوئے کہا لیکن خان جا چکا تھا۔

💜 💜 💜 💜

بسمہ یہ سب چھوڑو مجھے تم سے بات کرنی ہے۔وہاج نے کچن میں آتے بسمہ کے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو نیچے رکھتے سنجیدگی سے کہا۔

بسمہ نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

کیا تم کسی کو پسند کرتی ہو؟ وہاج نے بےچینی سے پوچھا۔اسے اپنے تایا کی بات بلکل بھی پسند نہیں آئی تھی۔اور حمزہ اُس سے پوچھے بغیر اُس کا باپ اُس کے رشتے کی بات کر رہا تھا۔

ہاں بہت سے لوگ ہیں جن کو میں پسند کرتی ہو۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ بسمہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

میں وہ والی پسند نہیں دوسری والی پسند کی بات کر رہا ہوں۔

وہاج نے پریشانی سے کہا۔

کیا مطلب؟ پسند تو پسند ہوتی ہے۔

اور آپ کی بات مجھے سمجھ نہیں آرہی مجھے ابھی کام ہے۔بسمہ نے مصروف سے انداز میں کہا۔

میری ایک بات یاد رکھنا بسمہ

وہاج نے اسے بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے اس کے کان کے پاس جھکتے ہوئے کہا۔

تم کسی بھے ایرے غیرے سے شادی کرنے کے لیے کبھی ہامی نہیں بھرو گی۔

اگر تم نے ایسا کیا تو پھر میں کچھ برا کر گزروں گا۔

وہاج نے غصے سے کہا۔اس کے قریب آنے پر بسمہ اپنی سانسیں روکے کھڑی ہوئی تھی۔

جیسے ہی وہاج پیچھے ہوا بسمہ نے اپنا روکا ہوا سانس بحال کیا تھا۔

وہ وہاج کی بات تو سمجھ نہیں پائی تھی لیکن اس کے قریب آنے پر گھبرا ضرور گئی تھی۔

وہاج کو کچن سے نکلتے کوثر نے دیکھا تھا۔اُس نے سوچا تھا کہ وہ تحریم سے بات کرے گی لیکن ٹینشن اسے اس بات کی تھی کہ اگر خان مان بھی جاتا تو ارسم کبھی نہیں مانے گا۔

اسی بات کی فکر اسے کھائی جا رہی تھی۔

وہاج نے ایک نظر کوثر کو دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔

کوثر بھی گہرا سانس لیتے کچن کے اندر داخل ہوگئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

رحمان لوگ گھر واپس آگئے تھے، لیکن ثانیہ کے نکاح کی بات پھر بھی نہیں ہو پائی تھی۔

ڈیڈ آپ کیسے بنا مجھ سے پوچھے میرے ہی رشتے کی بات کر سکتے ہیں؟

حمزہ کو جب سے پتہ چلا تھا اس کا غصہ کسی بھی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

تو اس میں برائی کیا ہے؟ رحمان نے اپنے بیٹے کو دیکھتے پوچھا۔

برائی؟ شادی مجھے کرنی ہے تو اس بات کا فیصلہ بھی میں ہی کروں گا کہ مجھے کس سے شادی کرنی ہے اور اُس لڑکی میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

میں اُسی لڑکی سے شادی کروں گا جو مجھے پسند ہو گی۔

حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔

میں تمھارا باپ ہوں مجھے پورا حق ہے فیصلہ کرنے کا رحمان نے غصے سے کہا۔

نہیں ڈیڈ یہ میری زندگی ہے تو اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کرنے کا حق بھی صرف مجھے ہی ہے۔اور امید کرنا ہے اب آپ اس بارے میں مجھ سے دوبارہ بات نہیں کریں گئے۔

حمزہ نے بات کو ختم کرتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

میری دی ہوئی چھوٹ کی وجہ سے آج تم میری بات بھی نہیں مان رہے لیکن میں بھی تمھارا باپ ہوں دیکھتا ہوں کیسے تم اُس لڑکی سے شادی نہیں کرتے رحمان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔اور فریش ہونے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

عروہ کا آج آفس میں پہلا دن تھا۔اس نے اُس انسان کو کال پر کہا تھا وہ ایک ماہ بعد اسے سارے پیسے دے دیں گی تو اُس سے پہلے اسے کال کرکے کے تنگ نا کرے۔

تو تم ہو سر کی نئی پرسنل سیکرٹری؟ اُسی لڑکی نے عروہ کو دیکھتے تھا جو اُس دن آفس میں اسے ملی تھی۔

ویسے تم میں سیکرٹری والی کوئی بات نہیں ہے پھر بھی سر نے تمہیں اپنی سیکرٹری رکھ لیا۔اُس لڑکی نے عروہ کی سادہ سی شلوار سوٹ کو دیکھتے تیکھے لہجے میں کہا۔

کیوں یہاں صرف وہی لوگ کام کر سکتے ہیں جنہوں نے واہیات کپڑے پہنے ہو؟

عروہ نے الٹا اس کے کپڑوں کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا جس نے سفید کلر کی تنگ شرٹ ساتھ بلیک کلر کی پنٹ پہنی ہوئی تھی۔

تم اس سے پہلے وہ لڑکی غصے میں کچھ کہتی صفوان کی سرد آواز وہاں گونجی تھی۔

وہ دونوں کی باتیں سن چکا تھا اور عروہ کے جواب نے تو اسے مسکرانے پر مجبور کر کر دیا تھا۔

مس شیزا میری سیکرٹری کے آس پاس آپ دوبارہ نظر نا آئیں۔صفوان نے سنجیدگی سے کہا تو شیزا اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے غصے سے چلی گئی۔

چلیں میرے ساتھ صفوان نے ایک نظر عروہ کو دیکھتے کہا اور اپنے روم کی طرف چلا گیا۔

میں آپ کی سیکرٹری نہیں بننا چاہتی۔

عروہ نے روم میں داخل ہوتے ہی صفوان کو دیکھتے کہا۔

کیوں سیکرٹری بننے میں کیا برائی ہے۔

صفوان نے حیرانگی سے پوچھا۔

وہ میں نے پڑھا ہے ایک ناول میں سیکرٹری اپنے بوس پر ڈوڑے ڈالتی ہے اور بوس اُس سے دور بھاگتا دوسری طرف بوس اپنی سیکرٹری کو پسند کرتا وہ اُس سے دور بھاگتی اور کچھ تو سیکرٹری اچھی بھی نہیں ہوتی عروہ نے پریشانی سے کہا وہ خود نہیں جانتی کہ کتنا فضول وہ بول چکی ہے۔

صفوان کے چہرے پر حیرانگی کے تاثرات تھے۔

مجھے لگتا ہے کہ آپ نے بہت زیادہ اس قسم کی کہانیاں پڑھی ہوئی ہیں۔اسی لیے آپ کو اتنی معلومات ہے۔

صفوان نے اپنے قدم عروہ کی طرف بڑھاتے سنجیدگی سے کہا۔

نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔

عروہ نے صفوان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو پریشانی سے کہا۔

مس عروہ آپ کے سارے خدشات درست ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی لیکن ہماری بات الگ ہے۔تو جیسا آپ سوچ رہی ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔میں آپ پر کبھی فدا نہیں ہونے والا اور آپ بھی مجھ پر ڈوڑے مت ڈالیے گا۔

تو سب کچھ ٹھیک رہے گا۔

اور صفوان نے عروہ کے دائیں جانب ہاتھ رکھتے گھمبیر لہجے میں کہا۔

اگر آپ کا دل مجھ پر آگیا تو پھر میں کچھ نہیں کر سکتا یہ آپ کی غلطی ہو گی۔مجھے آپ اس بات کا الزام نہیں دیں گی۔ہمارے دوران ایک کنٹریکٹ ہوا ہے تو بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں پروفیشنل کی طرح کام کریں۔صفوان نے عروہ کے ہونٹوں پر نظریں گاڑھتے ہوئے کہا۔

تو پروفیشنل میں بوس اپنے ایمپلائے کے اتنے قریب آکر بات نہیں کرتا۔

عروہ کے جواب نے صفوان کو لاجواب کر دیا تھا۔

بلکل ٹھیک کہا۔میں کچھ زیادہ ہی قریب آگیا تھا۔

چلیں آپ کام پر لگ جائیں۔

میری سیکرٹری آپ کو بتا دے گی کہ آپ کو کیا کچھ کرنا ہے تین دن تک آپ کو وہ سیکھا دے گی۔اُس کے بعد وہ چلی جائے گی کام میں میں کسی قسم کی کوتاہی کو پسند نہیں کرتا تو آپ کوشش کیجیے گا کہ کوئی غلطی نا ہو، صفوان کی ٹون ایک سیکنڈ میں تبدیل ہوئی تھی۔

وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کیا اس کی وجہ سے پہلے والی سیکرٹری کو نکالا لیکن صفوان کا موڈ دیکھ کر اس میں پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔

اتنے میں صفوان کی پہلی سیکرٹری بھی وہاں آگئی اور عروہ کو وہاں سے لے گئی۔

صفوان رخ موڑے کھڑا تھا۔مجھے خود کو کنٹرول کرنا ہو گا۔صفوان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

پھر کیا سوچا تم نے؟ دادا جان نے خان کی طرف دیکھتے پوچھا۔

اس وقت سب لوگ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔

کس بارے میں؟ خان نے پوچھا۔

بسمہ کے بارے میں دادا جان نے اسے یاد دلاتے کہا۔

دادا جان حمزہ کے ساتھ میں اپنی بہن کی شادی کبھی نہیں کروں گا۔وہ میری بہن کے لائق نہیں ہے۔خان نے سنجیدگی سے کہا۔

میں بھی خان کی بات سے متفق ہوں۔وہ انسان ہماری بہن کے لائق نہیں ہے۔

ارسم نے بھی خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔

اور تمھارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ دادا جان نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

رشتہ ختم کر دیں۔خان نے کندھے اچکاتے کہا تو ارسم کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر پلیٹ میں گرا تھا۔تحریم نے بھی حیرانگی سے خان کی طرف دیکھا۔

کیا کہا تم نے؟ دادا جان نے حیرانگی سے پوچھا۔

رشتہ ختم کر دیں میں نا تو پہلے اُس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا نا اب اور جو اب اُس نے حرکت کی ہے ۔اُس کے بعد تو بلکل بھی نہیں خان نے عام سے لہجے میں کہا۔

تو اتنے سال تم نے کیوں اُسے اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر رکھا ہوا تھا؟ اور اب میں کیا جواب دوں گا رحمان کو؟ دادا جان نے غصے سے پوچھا۔

یہ آپ کا مسئلہ ہے دادا جان

خان نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔

خان تم کسی کو پسند کرتے ہو؟ خان وہاں سے مڑ کر جانے لگا جب دادا جان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

آپ نے یہ سوال کیوں پوچھا؟ خان نے مڑتے دادا جان کو دیکھتے پوچھا۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔دادا جان نے دانت پیستے کہا۔

دادا جان ایسا کچھ نہیں ہے لیکن اب میں مزید اُس لڑکی کو برداشت نہیں کرسکتا اس لیے اس رشتے کو ختم کر دیں۔

خان کہتے ہی وہاں سے چلا گیا۔

کیا تم ہی اس بارے میں کچھ معلوم ہے؟

دادا جان نے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

نانا جان آپ کا پوتا جو بھی کرتا ہے یہ اُس کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا تو آپ مجھ سے تو اس بارے میں کچھ نا ہی پوچھیں۔

ارسم نے کندھے اچکاتے کہا۔

تم دونوں ایک جیسے ہو سب جانتے ہو ایک دوسرے کے بارے میں۔

جانتا ہوں میں دادا جان نے ارسم کو گھورتے ہوئے کہا۔

لیکن نانا جان اس بارے میں میں سچ میں کچھ نہیں جانتا۔

ارسم نے جلدی سے صفائی دیتے کہا۔

میں بھی چلتا ہوں ارسم نے کہا اور جلدی سے اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔

پتہ نہیں یہ دونوں کیا کرنا چاہتے ہیں۔

دادا جان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہا۔

تحریم دادا جان کی بات سن کر مسکرا پڑی تھی۔اور ناشتہ کرنے لگی۔

💜 💜 💜 💜

ارسم اپنے آفس میں بیٹھا ملائکہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

اسے لگا کہ اس نے اُس دن اُس لڑکی کے ساتھ غلط کیا تھا وہ کتنی ڈری ہوئی تھی۔

لیکن اُس نے بھی تو مارکیٹ میں مجھے تھپڑ مارا تھا۔

اگر میں چاہوں تو یہ سب بھول سکتا ہوں۔

اور اُس تھپڑ کے لیے اُسے معاف بھی کر سکتا ہوں۔کیونکہ میں ایسا انسان نہیں ہوں جو ایک تھپڑ کی خاطر ایک لڑکی کی زندگی خراب کر دوں۔

ہاں پہلے مجھے بہت غصہ تھا اور اگر اُس وقت وہ لڑکی مجھے مل بھی جاتی تو ناجانے میں کیا کر گزرتا۔لیکن اب میرا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہے۔

لیکن ایک بار میں ضرور تم سے ملنا چاہوں گا۔اگر قسمت نے چاہا تو ہم ضرور ایک بار پھر ملے گئے۔

ارسم نے پرسوچ انداز میں کہا اور اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا۔

شٹ مجھے تو بسمہ کو پک کرنا تھا۔

ارسم نے جلدی سے اٹھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

یونی کے باہر پہنچتے ہی وہ گاڑی سے باہر نکلا۔اور بسمہ کا انتظار کرنے لگا۔

ملائکہ جو یونی سے باہر آرہی تھی اس کی نظر ارسم پر پڑی تو فوراً الٹے قدم لیتے دوبارا یونی کے اندر چلی گئی۔

ارسم کی نظر اس پر نہیں پڑی تھی۔

اس نے بہت سوچا تھا۔

پڑھنا اس کا شوق تھا اور اتنی محنت کر بعد اسے آگے پڑھنے کا موقع ملا تھا تو ڈر کر وہ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔

ملائکہ الٹے قدم لیتی پیچھے کی طرف بھاگی لیکن پیچھے سے آتی بسمہ کے ساتھ اس کا زبردست تصادم ہوا اور دونوں زمین بوس ہو گئی۔

بسمہ نیچے جبکہ ملائکہ اس کے اوپر تھی۔

ایم سوری میری غلطی ہے آپ کو لگی تو نہیں؟ ملائکہ نے شرمندہ لہجے میں بسمہ کو دیکھتے کہا۔

جو اُٹھ کر ملائکہ کا ہاتھ پکڑے کھڑی ہو گئی اور اپنے کپڑے جھاڑنے لگی۔

نہیں کوئی بات نہیں میں ٹھیک ہوں۔

آپ ٹھیک ہیں؟ بسمہ نے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

جی میں ٹھیک ہوں۔ملائکہ نے مسکرا کر کہا اور یونی کے اندر چلی گئی۔

ملائکہ بھی باہر آگئی تھی۔

جہاں ارسم کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا۔

بسمہ کے آتے ہی اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا

اور اس کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کیے وہاں سے چلا گیا۔

ملائکہ نے باہر نکل کر دیکھا۔تو اب وہاں کوئی نہیں تھا اس لیے سکون کا سانس لیتے وہاں سے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

ماں کاش آپ میرے ساتھ ہوتی تو دیکھتی کہ آپ کا بیٹا بھی ایک کامیاب بزنس مین بن گیا ہے۔

اُن لوگوں نے ہم سے سب کچھ چھین لیا لیکن دیکھیے آج صفوان کو ہر کوئی جانتا ہے۔

آج میرے پاس بہت پیسہ ہے۔ان پیسوں سے میں آپ کو واپس نہیں لا سکتا۔

لیکن اس پیسے کا استعمال کرکے میں اُن لوگوں کو ویسے ہی تکلیف دے سکتا ہوں جیسے انہوں نے آپ سب کو دی۔

صفوان نے اپنی ماں کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

کمرے کی ساری لائٹس بند تھیں چاند کی روشنی کمرے میں آرہی تھی۔

جانتی ہیں میں نے نکاح کر لیا۔

اُس انسان کی بیٹی سے جو آپ کے قاتلوں میں شامل تھا۔

میں اُسے بھی ویسی ہی تکلیف دوں گا جیسی آپ کے جانے کے بعد مجھے ملی۔

میں اُسے بھی اتنی ہی اذیت دوں گا جتنی مجھے ملی۔اُس کی زندگی میں جہنم بنا دوں گا۔

میں اُسے پل پل تڑپتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔بہت انتظار کیا ہے میں نے اس پل کا

اور ایک ایک کرکے اُن سب کو مار دوں گا جنہوں نے آپ کو اور بھائی کو تکلیف پہنچائی۔

صفوان نے سنجیدگی سے تصویر کو دیکھتے کہا۔

ناجانے وہ عروہ کے ساتھ کیا کرنے والا تھا۔

لیکن اس کے ادارے خطرناک ہی لگ رہے تھے۔

💜 💜 💜 💜 💜

آج میری ایک بہت اہم میٹنگ تھی آپ نے مجھے یاد کیوں نہیں دلایا؟

اگلے دن صفوان کافی مصروف رہا تھا۔آج اس کی بہت اہم میٹنگ تھی لیکن عروہ نے اسے یاد نہیں دلایا۔

یہ جاب اس کے لیے نئی تھی بلکہ سب کچھ نیا تھا۔اور وہ تھوڑا گھبرا بھی رہی تھی۔

وہ سر مجھے یاد نہیں رہا۔

عروہ نے نظریں جھکا کر شرمندہ لہجے میں کہا۔

میری اتنی اہم میٹنگ تھی اور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ بھول گئی؟ اس طرح آپ کام کریں گی؟ ابھی آپ کو آئے دو دن نہیں ہوئی اور آپ غیر زمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

صفوان نے سرد لہجے میں عروہ کے جھکے ہوئے سر کو دیکھتے کہا۔

ناجانے کیوں اسے آج غصہ بہت آرہا تھا۔

اور سارا غصہ عروہ پر نکل رہا تھا۔

اب آپ مجھے بتانا پسند کریں گئی؟ اب میری کون سی میٹنگ ہے؟ صفوان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

لیکن عروہ ابھی بھی نظریں جھکائے کھڑی تھی۔

میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے مجھے بتانا پسند کریں گی؟ صفوان نے عروہ کی طرف دیکھتے کہاجس نے نظریں اٹھا کر سامنے کھڑے کھڑوس انسان کو دیکھا تھا۔

آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں نے اس کے پورے چہرے کو بگو دیا تھا۔

عروہ کے آنسوؤں کو دیکھ کر صفوان نے زور سے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اسے بھینچا تھا۔

مس عروہ اگر آپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے بیٹھ جائیں گی تو کام کیسے کریں گی؟

صفوان نے گہرا سانس لیتے اپنے غصے کو کنٹرول کرتے کہا۔

سوری عروہ نے بس اتنا ہی کہا تھا اور اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔

جائیں یہاں سے صفوان نے کہا۔

عروہ ایک سیکنڈ سے پہلے وہاں سے گئی تھی۔

وہ جب آفس سے باہر نکلی تو اندر آتے صفوان کے مینیجر سے اس کا زور دار ٹکراؤ ہوا اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی مینیجر نے عروہ کو کلائی سے پکڑ کر گرنے سے بچایا تھا اور یہ منظر صفوان نے دانت پیستے دیکھا تھا۔

آپ ٹھیک ہیں؟ مینجر نے عروہ کی سرخ آنکھیں دیکھتے پوچھا۔

جی عروہ نے جلدی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

مینیجر نے صفوان کی طرف دیکھا جو اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے آنکھوں سے سالم نگل جائے گا۔

سر مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔مینیجر نے کہا تو صفوان نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

اور کام کی بات کرنے لگے۔

لیکن صفوان کا دھیان بار بار بھٹک کر عروہ کی طرف جا ریا تھا لیکن ابھی اُسے یہ نہیں معلوم تھا کہ عروہ میڈم غصے میں گھر کے لیے نکل چکی ہیں۔

💜 💜 💜 💜

حمزہ آج خود ملائکہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔

اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ آج اسے ڈھونڈ رہا تھا۔

جہاں وہ اسے پہلی بار ملی تھی وہاں بھی گیا تھا لیکن وہ اسے کہی نہیں ملی اور اب اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا ہاتھ میں اس نے ملائکہ کا بریسلٹ پکڑا ہوا تھا۔

جب اس کی نظر سامنے موبائل شاپ پر پڑی جہاں سے اسے ایک لڑکی نکلتی ہوئی نظر آئی جو حلیے سے اسے ملائکہ کے جیسی ہی لگی تھی۔لیکن وہ کافی دور تھی۔

اس نے پیسے جمع کیے تھے اور موبائل لینے آئی تھی کیونکہ کام کے سلسلے میں اسے ضرورت پڑنے والی تھی۔

وہ اپنے دھیان ہی چل رہی تھی۔جب حمزہ نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔

تم دیکھ کر نہیں چل سکتی؟ حمزہ نے ملائکہ کو دیکھتے سرد لہجے میں پوچھا کیونکہ وہ نظریں جھکائے چل رہی تھی۔اور ایک گاڑی اس کے پیچھے آرہی تھی۔

آپ کو اور کوئی کام نہیں ہے جو ہمیشہ میرے سامنے آجاتے ہیں؟ ملائکہ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

ابھی بھی اس کا ہاتھ حمزہ کے ہاتھ میں تھا۔

ہو سکتا ہے قسمت ہمیں بار بار ملانا چاہتی ہو۔

حمزہ نے پرسکون سے انداز میں اسے دیکھتے کہا۔

لیکن دور کھڑا ارسم جو بسمہ کے کہنے پر خود اُسکے لیے موبائل لینے آیا تھا اس نے جب حمزہ کو ملائکہ کے ساتھ دیکھا تو پہلے تو اسے یقین نہیں آیا۔لیکن پھر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

یہ اس لڑکی کو کیسے جانتا ہے؟ لگتا ہے اس لڑکی کو اپنی جان عزیز نہیں ہے۔ارسم نے دانت پیستے کہا۔

پہلے تو میرا ارادہ تمھارا پیچھا چھوڑ دینے کا تھا لیکن اب نہیں ارسم نے سرد لہجے میں کہا۔

مجھے گھر جانا ہے آپ پلیز مجھے راستہ دیں۔

ملائکہ نے کہا تو حمزہ جلدی سے ہوش میں آیا۔

ہاں جاؤ حمزہ نے پیچھے ہوتے کہا تو ملائکہ اسے ایک گھوری سے نواز کر وہاں سے چلی گئی۔

ابھی ملائکہ نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا جب سامنے اسے ارسم کھڑا ہوا نظر آیا۔

ارسم کو دیکھتے ملائکہ نے ڈر سے اپنا حلق تر کیا تھا۔

لگتا ہے آج کا دن ہی برا ہے۔یہ دونوں ہمیشہ مجھے ہی کیوں ملتے ہیں ان کو کوئی اور کام نہیں ہوتا۔

ملائکہ نے دل میں سوچا۔اس کا ارادہ وہاں سے بھاگنے کا تھا۔لیکن ارسم چلتا ہوا اسکے پاس آیا اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ارسم سے ڈر رہی ہے۔

تم اُس لڑکے کو کیسے جانتی ہو؟ اور وہ تمہیں چھو کیوں رہا تھا؟ ارسم نے ملائکہ کے قریب آتے اسے کندھوں سے پکڑ کر غصے سے پوچھا۔ملائکہ کو ارسم کی انگلیاں اپنے بازو میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

میں تمہیں جواب دہ نہیں ہوں تم ہوتے کون ہو مجھ سے پوچھنے والے؟ میرے باپ لگتے ہو؟ تمھارا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے۔اس بار ملائکہ نے اپنے ڈر پر قابو پاتے ارسم کو پیچھے دھکا دیتے کہا۔

وہ تنگ آگئی تھی۔اور اب تو اس کا صبر جواب دے گیا تھا۔

حق ٹھیک ہے حق بھی حاصل کر لیتا ہوں۔

ارسم نے سرد لہجے میں ملائکہ کو بازو سے پکڑتے کہا اور اسے وہاں سے لے جانے لگا جب حمزہ نے آتے ہی اس کے جبڑے پر زور سے مکا دے مارا۔

ملائکہ کے جانے کے بعد اسے ہوش آیا تو اس کے سوچا اُد سے نمبر ہی لے لیتا اس لیے اس کے پیچھے آیا تھا۔لیکن ارسم کو. دیکھ کر اس کا خون خول گیا۔

ملائکہ ڈر سے چیخ مارے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی تھی۔اور منہ پر ہاتھ رکھے دونوں کو دیکھنے لگی۔

ارسم نے سرخ آنکھوں سے حمزہ کو دیکھا جو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔

تمھاری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی حمزہ نے آگے بڑھتے ارسم کا گریبان پکڑتے سرد لہجے میں کہا۔

تیری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ارسم نے کہتے ہی حمزہ کے منہ پر بھی مکا دے مارا۔

ملائکہ دور کھڑی رونے کا کام سر انجام دے رہی تھی۔اس سے پہلے وہ دونوں کی طرف اپنے قدم بڑھاتی ارسم کی کرخت آواز گونجی تھی۔

اگر تم نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو سب سے پہلے تمھاری ٹانگیں توڑوں گا۔

ارسم نے ملائکہ کو دیکھتے کہا جس کے پاؤں کو وہی بریک لگی تھی۔

دونوں ایک دوسرے کی جان لینے کے در پر تھے۔

لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔

کیا ہو رہا ہے یہاں؟ انسپکٹر جو وہاں سے گزر رہا تھا بھیڑ دیکھ کر وہاں پر آیا۔

دونوں کو پولیس اہلکاروں نے ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔

تم دونوں کو تھانے جانا ہو گا اور وہ لڑکی انسپکٹر نے ملائکہ کی طرف اشارہ کیا۔

نہیں وہ کہی نہیں جائے گی۔دونوں نے جلدی سے کہا۔

سر اُس لڑکی کا اس سارے معاملے سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔

میں آپ کے ساتھ تھانے چلتا ہوں۔

ارسم نے اپنے ہونٹ سے نکلتے خون کو صاف کرتے کہا۔

مجھے تو ایسا لگ رہا ہے تم دونوں اُس لڑکی کی وجہ سے ہی جھگڑ رہے تھے تو اُس لڑکی کا بھی تھانے جانا ضروری ہے انسپکٹر نے بھاری لہجے میں کہا۔

ملائکہ نے جب تھانے کا سنا تو اس کے رونے میں روانگی آگئی تھی۔

ارسم نے ملائکہ کی طرف دیکھا تھا جو کھڑی رو رہی تھی حمزہ تو پہلے سے اسے دیکھ رہا تھا۔

صفوان نے غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد عروہ کو اندر بلایا لیکن اسے پتہ چلا کہ وہ گھر جا چکی ہے اور یہ سن کر اس کا غصہ پھر سے ساتویں آسمان تک پہنچ گیا تھا۔

مجھے لگتا ہے وہ نہیں بلکہ میں اُس کے پاس جاب کرنے آیا ہوں۔

لیکن میں بھی صفوان ہوں۔

اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں صفوان نے غصے سے کہا اور اپنی گاڑی کی چابیاں پکڑے آفس سے نکل گیا۔

عروہ کے گھر کے بارے میں وہ پہلے سے معلوم کروا چکا تھا۔

عروہ بنا بتائے آفس سے نکل تو آئی تھی لیکن اب اسے یہ حرکت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔اس لیے کہتے ہیں غصے میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے لیکن عروہ میڈم کب اتنا سوچتی تھیں۔

بلقیس شاید مارکیٹ گئی تھی۔گھر میں کوئی نہیں تھا۔

ہاں میں مانتی ہوں مجھے آفس سے گھر نہیں آنا چاہیے تھا لیکن اُس کھڑوس انسان نے بھی تو چھوٹی سی بات پر مجھے اتنا سنا دیا۔

ٹھیک ہے مجھے سے غلطی ہوئی تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ کچھ بھی سنا دے۔

عروہ نے غصے سے پانی پیتے ہوئے خود سے کہا۔

اور پانی پینے کے بعد دوبارہ کمرے میں آئی تو اس کا موبائل رنگ ہو رہا تھا۔

اس نے نمبر دیکھا تو کوئی انجان نمبر تھا۔

لگتا ہے یہ وہی انسان ہے اسے بھی سکون نہیں ہے جب کہا ہے ایک ماہ بعد پیسے

مل جائیں گئے پھر بار بار کال کرنے کا کیا فائدہ؟ عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور کال اٹینڈ کرتے فون کان سے لگایا۔

آپ کو ایک بار بات سمجھ میں نہیں آتی۔

بار بار مجھے کال کیوں کر رہے ہیں؟ عروہ نے فون اٹھاتے ہی کہا۔

مس عروہ کیا بول رہی ہیں ہوش میں تو ہیں؟ سپیکر پر صفوان کی وزنی آواز سنائی دی تو عروہ نے حیرانگی سے اپنے کان سے موبائل پیچھے کرتے نمبر کو دیکھا۔

یہ تو اُس کھڑوس کی کال ہے۔

عروہ نے دل میں سوچا۔

ہیلو سر؟ آپ ہیں مجھے لگا کوئی رانگ نمبر ہے آپ کا نمبر میرے پاس سیو نہیں تھا نا اس لیے میں پہچان نہیں پائی عروہ نے لمبی چوڑی دلیل دیتے کہا۔

میں آپ کی گلی کے باہر کھڑا ہوں ابھی اور اسی وقت آپ باہر آئیں گی۔اور اگر آپ نا آئی تو میں خود اندر آجاؤ گا اگر میں یہاں تک آسکتا ہوں تو اندر بھی آنا میرے لیے مشکل نہیں ہے۔

صفوان نے سنجیدگی سے کہتے کال کٹ کر دی۔

گلی کے باہر یا اللہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ عروہ نے اپنی چادر تلاش کرتے کہا۔اور اپنی چادر کو لیتے بھاگتے ہوئے گھر سے نکلی۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر اس کا کھڑوس بوس یہاں تک آسکتا ہے تو گھر کے اندر آنے میں بھی وقت ضائع نہیں کرے گا۔

عروہ نے گلی کے باہر دیکھا تو وہ ایک کونے کے پاس اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔

دوپہر کا وقت تھا تو اس وقت یہاں کوئی نہیں تھا۔

صفوان نے عروہ کو آتے دیکھا تو اپنے گلاسز اتارتے ہوئے اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔

عروہ نے ارد گرد دیکھا اور جلدی سے صفوان کے پاس آئی۔

اس نے صفوان کو بازو سے پکڑتے پریشانی سے کہا۔

ہم اندر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟ عروہ نے صفوان کع دیکھتے پوچھا اس کے لہجے میں صفوان کو خوف صاف محسوس ہو رہا تھا۔

وہ تو کبھی اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھتا تو کبھی اپنے بازو کی طرف

بیٹھو اندر صفوان نے سنجیدگی سے کہتے گاڑی کا دروازہ کھولا عروہ جلدی سے اندر بیٹھ گئی تھی۔

آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں؟

عروہ نے اندر بیٹھتے صفوان کی طرف دیکھتے پوچھا۔

پہلے میرے سوال کا آپ جواب دیں آپ میری بوس ہیں یا میں آپ کا بوس ہوں؟ صفوان نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

آپ میرے بوس ہیں کیا آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں ہے؟ عروہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

تو آپ اپنی مرضی سے بنا بتائے گھر کیسے آسکتی ہیں؟ صفوان نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

سوری عروہ نے نظریں جھکا کر کہا۔

یہ ٹھیک ہے پہلے غلطی کر لو بعد میں سوری صفوان نے دل میں سوچا اور گاڑی سٹارٹ کی۔

آپ گاڑی کیوں سٹارٹ کر رہے ہیں؟

مجھے تو یہاں اترنے دیں۔

عروہ نے بوکھلائے ہوئے انداز میں صفوان کو دیکھتے کہا۔

ہم آفس جا رہے ہیں۔

اگر آپ نے ایک بھی چھٹی کی تو آپ کی سیلری کٹے گی تو پھر آپ میرے پیسے کیسے دے گی؟ صفوان نے گاڑی ڈرائیو کرتے عام سے لہجے میں کہا۔

عروہ یہ سن کر خاموش ہو گئی تھی۔

اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔اب کچھ بھی کہنا بیکار تھا۔

آفس سے تھوڑا دور ہی عروہ پھر سے بولی تھی۔

سر آپ مجھے یہی پر اتار دیں۔

عروہ نے کہا تو صفوان نے ایک سنجیدہ سی نظر اس پر ڈالی تھی۔

اگر آپ یہ کہنے والی ہیں کہ کوئی ہمیں ساتھ دیکھ نا لے اس لیے میں آپ کو یہاں اتار دوں تو یہاں ہمیں کوئی بھی دیکھے مجھے فرق نہیں پڑتا۔

اس لیے خاموشی کے ساتھ بیٹھی رہیں۔ صفوان نے کہا تو عروہ نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔

آپ مجھے گھور کیوں رہی ہیں مس عروہ؟ صفوان نے کہا تو عروہ نے فوراً اپنی گردن دائیں جانب موڑ لی۔

اسے کیسے پتہ چلا کہ میں اسے گھور رہی ہوں۔عروہ نے دل میں سوچا۔

صفوان نے آفس کے پاس گاڑی روکی۔عروہ اترنے ہی لگی جب صفوان نے اسے پکارا۔

میرا نمبر سیو کر لیں اور دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کیجیے گا کیونکہ دوبارہ میں اتنے پیار سے پیش نہیں آؤں گا۔

صفوان نے سامنے سڑک کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

تو کیا اب تک جو آپ طنز کے تیر چلا کر بات کر رہے تھے وہ پیار سے بات کر رہے تھے؟ عروہ نے اپنے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

صفوان کے ہونٹ ہلکے سے مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

آپ کیا چاہتی ہیں مس عروہ کیا میں مزید آپ سے پیار سے بات کروں؟ صفوان نے عروہ کی طرف اپنا رخ موڑے گہرے لہجے میں پوچھا۔

نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔

عروہ نے جلدی سے کہا۔اس وقت صفوان کی آنکھوں میں دیکھنا اسے دنیا کا مشکل تقریب کام لگ رہا تھا پتہ نہیں کیا تھا سامنے بیٹھا انسان کبھی اتنے اچھے سے بات کرتا کہ عروہ کو حیرت ہوتی اور کبھی اتنی سخت لہجے میں بات کرتا کہ عروہ کو رونا آتا۔

اب آپ مجھے گھور رہی ہیں مس عروہ

صفوان نے اس کی اپنے چہرے پر جمی ہوئی نظریں دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

سوری عروہ نے بوکھلاہٹ میں کہا اور جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولے باہر نکل گئی۔

بیوقوف لڑکی…

صفوان نے نفی میں سر ہلاتے کہا۔

اور خود بھی گاڑی سے باہر آتے اندر کی جانب چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

ارسم اور حمزہ نے بہت بار کہا لیکن انسپکٹر نے ان کی بات نہیں مانی۔

سر آپ ایک بار میرے بھائی سے بات کر لیں پھر آپ جیسا کہے گئے ویسا ہی ہو گا۔

ارسم نے کہتے ہی خان کو کال کی اور اُسے ساری صورتحال کا بتاتے فون انسپکٹر کی طرف بڑھایا۔

خان صاحب آپ؟ یہ آپ کے بھائی ہیں مجھے معلوم نہیں تھا لیکن دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ابھی تو میں ان کو جانے دے رہا ہوں وہ بھی آپ کے کہنے پر کیونکہ آپ ہمارے سر کے بہت قریبی دوست ہیں۔لیکن آئندہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا۔

انسپکٹر نے کہا۔آگے ناجانے خان نے کیا کہا۔وہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔انسپکٹر نے فون بند کرتے اسے ارسم کو پکڑایا۔

اس بار تم لوگوں کو جانے دے رہا ہوں اگلی بار ایسا کچھ کیا تو سیدھا جیل جاؤ گئے۔

انسپکٹر نے کہتے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہاں سے چلے گئے۔

ملائکہ نے جب پولیس کو جاتے دیکھا تو خود بھی وہاں سے بھاگ گئی۔

ارسم اور حمزہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔

یہ کہاں گئی حمزہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔

ارسم کو خان کا میسج ملا تھا کہ وہ ابھی گھر آئے تو ارسم بھی وہاں سے چلا گیا۔

ارسم گھر آیا تو ملازم نے اسے بتایا کہ خان کمرے میں اس کا انتظار کر رہا ہے۔تو سیدھا اُس کے کمرے میں گیا۔

خان اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔

وہ لڑکی کون ہے جس کے لیے تم اور حمزہ آپس میں جھگڑ رہے تھے؟

خان نے رخ موڑے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

خان میں اُس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ارسم نے خان کے سوال کا جواب دیے بنا اپنی بات کہی۔

تم اُس لڑکی سے نکاح اس لیے کرنا چاہتے ہو کیونکہ وہ لڑکی حمزہ کو پسند ہے؟ خان نے ایک آبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔

تم اچھی طرح جانتے ہو میں کیوں اُس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔

ارسم نے غصے سے کہا۔

لیکن مجھے لگتا ہے وہ لڑکی تم سے زیادہ حمزہ کو پسند کرتی ہے۔تو کیا تم اُسکے ساتھ زبردستی کرو گئے؟ خان نے کہا تو ارسم نے سرخ آنکھوں سے خان کی طرف دیکھا تھا۔

تم نے کب سے ہم تینوں پر نظر رکھی ہوئی ہے خان؟ ارسم نے الٹا سوال کیا۔

یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔خان نے ارسم کے پاس آتے کہا۔

خان مجھے بس اُس لڑکی سے نکاح کرنا ہے چاہے وہ مجھے پسند کرے یا نا کرے لیکن مجھے اُس لڑکی سے ہی نکاح کرنا ہے۔اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے اگر تم نے اس میں میرا ساتھ نہیں دیا تو پھر میں وہی کروں گا جو میرا دل کرے گا۔ارسم نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

خان ابھی بھی وہی کھڑا تھا۔

یہ کرنا کیا چاہتا ہے لگتا ہے اسطکا دماغ خراب ہو گیا ہے۔خان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اپنا موبائل پکڑے اُس پر نمبر ڈائل کرنے لگا۔

💜 💜 💜 💜

حمزہ گھر نہیں گیا تھا بلکہ سڑکوں پر گاڑی گھوما رہا تھا اسے ایک بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ارسم ملائکہ کو کیسے جانتا ہے۔

جیسے وہ بات کر رہا تھا اس کا مطلب تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں۔

حمزہ اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔جب اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی اور وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ عروہ تھی جو واپسی پر کچھ سامان لینے کے لیے وہی پر اس نے ڈرائیور کو کہا تھا کہ اتار دے۔

عروہ …. حمزہ نے اسے دیکھتے بےیقینی سے منہ میں بڑبڑایا۔

اس نے جلدی سے اپنی سیٹ بیلٹ کھولی اور گاڑی سے باہر نکل کر اُسی جگہ پر گیا جہاں پر اس نے عروہ کو دیکھا تھا۔

کہاں چلی گئی یہی پر تو تھی۔

حمزہ نے ارد گرد دیکھتے خود سے کہا۔

عروہ تم مجھے مل ہی گئی۔تم زندہ ہو اور سہی سلامت بھی ہو۔

لیکن فکر مت کرو اب میں تمھاری زندگی جہنم بنا دوں گا۔مجھ سے بچ کر بھاگ رہی تھی نا اور دیکھو آج طتم مجھے نظر آ ہی گئی۔مجھے لگا تھا کہ تم مر گئی ہو گی لیکن میں غلط تھا تمھارا میرے ہاتھوں مرنا لکھا ہوا ہے۔

حمزہ نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے اپنے چہرے کے نشان کو چھوتے ہوئے کہا۔

اور اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔

شیزا آج میری کس کس کے ساتھ میٹنگز ہیں؟ارسم نے اپنے سر کو ہاتھ کی دو انگلیوں سے دباتے ہوئے پوچھا۔

تو شیزا جو اس کی سیکرٹری تھی۔اس کی میٹنگز کے بارے میں بتانے لگی۔

ساری میٹنگز کینسل کر دو اور خان کہاں ہے؟

ارسم نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پوچھا۔

وہ اپنے روم میں ہیں۔

شیزا نے کہا۔

ٹھیک ہے ارسم کہتے ہی اُٹھ کر اپنے آفس سے باہر چلا گیا۔

دروازہ ناک کرتے ارسم خان کے روم میں داخل ہوا جو عروہ کی کوئی بات سن رہا تھا۔

عروہ کو دیکھتے ہی اس نے حیرانگی سے خان کی طرف دیکھا۔

عروہ ایک نظر ارسم کو دیکھتے وہاں سے چلی گئی تھی آج اس نے پہلی بار ارسم کو آفس میں دیکھا تھا اور اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔

خان یہ تمھاری نئی سیکرٹری ہے؟ ارسم نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

ہاں لیکن تم اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟ خان نے عام سے لہجے میں پوچھا۔

نہیں تمھاری سیکرٹری کا حلیہ اس بار کافی مختلف ہے۔اس لیے تھوڑا عجیب لگا۔لیکن خوبصورت تو ہے۔

ارسم نے خان کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔

تم مجھے اُس کے آس پاس نظر نہیں آؤ گئے ارسم جتنا ہو سکے اس سے دور رہنا خان نے اسے وارن کرتے کہا۔

کہی یہی وہ لڑکی تو نہیں جس کی وجہ سے تم نے دادا جان کو رشتہ ختم کرنے کا کہا؟

ارسم نے مشکوک انداز میں پوچھا کیونکہ وہ کافی دنوں بعد آفس آیا تھا۔

شٹ اپ اپنے دماغ کو تھوڑا پرسکون بھی ہونے دیا کرو ہمیشہ الٹا ہی سوچتے ہو۔

خان نے ڈپٹتے ہوئے کہا۔

میں نے تو صرف پوچھا۔اور لڑکی تو پیاری ہے۔اور خوبصورتی کی تعریف کرنی چاہیے۔

ارسم نے اسے چڑھانے والے انداز میں کہا۔

ارسم اگر تمہیں کوئی کام ہے تو ٹھیک ہے ورنہ جاؤ یہاں سے کیونکہ تمھاری بیکار کی باتیں سننے کا میرے پاس وقت نہیں ہے۔خان نے لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریں جمائے سنجیدگی سے کہا۔

ضروری بات ہی کرنے آیا تھا لیکن پھر تمھاری سیکرٹری نظر آگئی۔

ارسم نے خان کو دیکھتے کہا جس نے اسے گھوری سے نوازہ تھا۔

اچھا ٹھیک ہے اب کچھ نہیں کہوں گا۔

مجھے تم سے اپنے نکاح کی بات کرنی تھی۔

تو کیا تم میری مدد کرو گئے یا مجھے خود ہی کچھ نا کچھ کرنا پڑے گا؟ ارسم نے سنجیدگی سے خان کو دیکھتے پوچھا۔

اگر وہ لڑکی حمزہ سے شادی کر بھی لیتی ہے تو تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ جہاں تک مجھے لگتا ہے حمزہ اُس لڑکی کو پسند کرتا ہے اور اُس کا اچھے سے خیال رکھے گا۔خان نے لیپ ٹاپ بند کرتے ارسم کو دیکھتے کہا۔

تمہیں لگتا ہے کہ حمزہ کبھی سدھر سکتا ہے اور یہ بات تم تو اچھی طرح جانتے ہو۔

اُس انسان سے اچھے کی امید نہیں رکھی جا سکتی اور میں نہیں چاہتا کہ اُس کی وجہ سے کسی معصوم کی زندگی خراب ہو۔ارسم نے کہا تو خان ہلکا سا مسکرا پڑا تھا۔

اور جو تم اُس لڑکی کی مدد کرنے کے چکر میں اُس سے زبردستی نکاح کرو گئے کیا وہ تمہارے بارے میں اچھے خیالات رکھے گی؟

اُسے تو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے وہ تو تمہیں ہی غلط سمجھے گی۔خان نے ناسمجھی سے کہا۔

مجھے فرق نہیں پڑتا خان مجھے بس اُس سے نکاح کرنا ہے بس ایک بار نکاح ہو جائے پھر وہ کچھ نہیں کر سکے گا۔

ارسم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی تمہیں جس طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہو گی میں کروں گا۔لیکن اُس لڑکی کا تمہیں شوہر کی طرح ہی خیال رکھنا ہو گا اور جب حمزہ کو نکاح کا پتہ چلے گا تو وہ کسی بھی طرح آرام سے نہیں بیٹھے گا۔

خان نے پر سوچ انداز میں کہا۔

بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی خان فلحال تو میں اُس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ابھی نکلتا ہوں۔مجھے ایک ضروری کام ہے ارسم نے کھڑے ہوتے کہا۔

تم اُس لڑکی سے محبت تو نہیں کرتے۔ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟ خان نے ارسم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ٹھیک کہا تم نے میں اُس سے محبت نہیں کرتا کیونکہ ہماری پہلی ملاقات میں ہی اُس لڑکی نے بنا سوچے سمجھے بھری مارکیٹ میں مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا۔مجھے صرف اُس لڑکی سے ہمدردی ہے۔ارسم نے کندھے اچکاتے کہا اور وہاں سے نکلنے لگا جب عروہ دروازہ ناک کرتے اندر آئی۔

مس بیوٹی کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟ ارسم نے خان کو دیکھتے عروہ سے پوچھا۔

خان کھا جانے والی نظروں سے ارسم کو دیکھ رہا تھا۔

عروہ

عروہ نے ارسم کو دیکھتے کہا۔

بہت خوبصورت نام ہے بلکل تمھاری طرح اور اس سے پہلے ارسم مزید عروہ کی تعریفوں کے پل باندھتا خان کی سرد آواز کمرے میں گونجی تھی۔

ارسم تم یہاں سے جاؤ گئے یا میں خود تمھیں باہر تک چھوڑنے آؤں؟

خان نے دانت پیستے کہا۔

نہیں صفوان خان اس کی ضرورت نہیں ہے میں خود چلا جاؤں گا۔

ارسم نے مسکراہٹ دباتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔عروہ حیرانگی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

مس عروہ آپ کو کوئی کام تھا؟ صفوان خان نے عروہ کو دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

جی سر عروہ کہتے ہی صفوان کی طرف بڑھی جب کوئی آندھی طوفان کی طرح دروازہ کھولے اندر آیا تھا۔

صفوان کے ساتھ عروہ نے بھی دروازے کی طرف دیکھا۔جہاں ثانیہ سرخ چہرہ لیے اندر آئی ثانیہ کو دیکھتے ہی خان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

تمھاری ہمت کیسے ہوئی مسٹر صفوان خان اس رشتے کو توڑنے کی میں اتنے سالوں تک تمھارے نام سے جڑے بیٹھی رہی اور اب تم نے اتنی آسانی سے رشتہ ختم کر دیا؟

ثانیہ نے ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے خان کی طرف جھکتے ہوئے غصے سے کہا۔

عروہ تو ثانیہ کو کھڑی دیکھ رہی تھی آخر یہ کون تھی جو خان سے اس لہجے میں بات کر رہی تھی۔

اور تم باہر جاؤ یہاں کیوں کھڑی ہو؟ ثانیہ نے عروہ کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔

جو اثبات میں سر ہلائے وہاں سے جانے لگی۔

جب تک میں نا کہوں تم کہی نہیں جاؤ گی۔خان نے عروہ کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

عروہ نے بےبسی سے جان کو دیکھا تھا۔

تم نے ہر ایک کو مجھ پر فوقیت دینی ہوتی ہے چاہے وہ تمہارے گھر کے ملازم ہو یا آفس کے ثانیہ نے چیختے ہوئے کہا۔

خبردار اگر تم نے ان کے لیے ملازم کا لفظ استعمال کیا تمھاری زبان کھینچ کر نکال لوں گا۔اور ابھی میرے آفس سے نکلو ورنہ گارڈ کو بلا کر دھکے دے کر باہر نکلوا دوں گا۔

خان نے کھڑے ہوتے کرخت لہجے میں کہا۔

تم مجھے یہاں سے نکواؤ گئے؟ ثانیہ نے بےیقینی سے پوچھا۔

عروہ کو لگ رہا تھا اس نے ثانیہ کو کہی دیکھا ہے۔

لیکن کہاں اسے یاد نہیں آرہا تھا۔

تم جا رہی ہو یا گارڈ کو بلواؤں؟ خان نے کھڑے ہوتے دروازے کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

میری ایک بات یاد رکھنا صفوان خان مرتے دم تک میں تمھارا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔

ثانیہ نے غصے سے کہا اور پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔

عروہ ابھی بھی وہی کھڑی تھی۔

یہ کون تھی؟ عروہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

میری منگیتر صفوان نے عام سے لہجے میں کہا۔

بہت خوبصورت ہے۔عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

لیکن اس کی بڑبڑاہٹ صفوان سن چکا تھا۔

اس سے بچ کر رہنا آگے جاکر یہ تمھاری دشمن بننے والی ہے۔صفوان چلتا ہوا عروہ کے پاس آیا اور تھوڑا اس کے کان کے پاس جھک کر کہتے ہی وہاں سے چلا گیا۔

میری دشمن وہ کیوں بنے گی؟ عروہ نے حیرانگی سے سوچا پھر کندھے اچکا کر خود بھی وہاں سے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

خان کا پورا نام صفوان خان تھا۔اس کے والدین کا بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا۔اس کا ایک بھائی بھی تھا۔

وہ بھی ایک حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔

خان پڑھائی کے لیے بہت سا عرصہ باہر رہا تھا لیکن ایسا دادا جان اور باقی سب کو لگتا تھا لیکن کچھ سال باہر گزارنے کے بعد خان واپس پاکستان آگیا تھا اور اس بارے میں صرف ارسم کو معلوم تھا۔

یہاں آتے اس نے اپنے بزنس کو مزید کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا اور آج ان کی کمپنی کا شمار ملک کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔

آج وہ جانا مانا بزنس مین تھا۔

لیکن کچھ خیالات اسے سکون سے جینے نہیں دے رہے تھے۔

کچھ خواب آج بھی اس کا پیچھا کرتے تھے اور ان دور بھاگتے ہوئے صفوان تھک گیا تھا۔

اب وہ سب چیزوں کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔

اُس سب لوگوں کو ختم کر دینا چاہتا تھا جس نے اس کے اپنوں کو تکلیف دی تھی۔


عروہ خان کے ساتھ چل رہی تھی اس نے بھی بلیک کلر کا سوٹ پہنا تھا اور خان نے بھی بلیک کلر کی پینٹ شرٹ پہنی تھی جس بھی وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔

مس عروہ آپ اندر کیوں نہیں آرہی؟ صفوان نے لفٹ میں داخل ہوتے عروہ کو باہر کھڑے دیکھا تو پوچھا۔

وہ سر میں سیڑھیوں سے آجاتی ہوں۔

عروہ نے جلدی سے کہا شاید صفوان کے ساتھ اکیلے جانے میں اسے ڈر لگ رہا تھا۔

صفوان نے آگے بڑھتے اسے بازو سے کھنچ کر لفٹ کے اندر کیا۔

اگر مجھے آپ کے ساتھ کچھ کرنا بھی ہوگا تو میں موقع تلاش نہیں کروں گا۔بلکہ کر گزروں گا۔اس لیے اپنے چھوٹے سے دماغ میں فضول کے خیالات نا لایا کریں۔

صفوان نے سامنے دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

عروہ کو اپنی سوچ پر شرمندگی تو ہوئی تھی لیکن وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہی وجہ تھی جو میں لفٹ میں نہیں آرہی تھی؟

عروہ نے صفوان کو دیکھتے پوچھا۔

تو پھر مجھ سے دور بھاگنے کی کیا وجہ تھی مس عروہ؟ صفوان نے اچانک عروہ کی طرف اپنا رخ موڑا اور اس کی جانب اپنے قدم بڑھانے لگا۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ عروہ نے صفوان کو خود کے قریب آتے دیکھا تو بوکھلائے ہوئے انداز میں پوچھا۔

آپ کا جواب سننا چاہتا ہوں۔آپ مجھ سے دور کیوں بھاگتی ہیں؟ صفوان نے عروہ کے قریب آتے دائیں جانب دیوار پر ہاتھ رکھتے گہرے لہجے میں پوچھا۔

وہ عروہ کے اس قدر قریب آگیا تھا کہ اس کے تیز پرفیوم کی خوشبو کو اپنے بےحد قریب محسوس کر سکتی تھی۔

میں آپ سے دور نہیں بھاگ رہی۔عروہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔

مس عروہ آپ کیا اتنی معصوم ہیں یا بننے کا ڈرامہ کرتی ہیں؟

صفوان کی نظریں بھٹکتے ہوئے عروہ کے ہونٹوں کی طرف جا رہی تھیں۔

آپ عروہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کہے صفوان کے قریب آنے پر اس کی اپنی حالت عجیب ہو رہی تھی۔

مس عروہ مجھ سے دور رہا کریں۔کیونکہ جب آپ میرے قریب آتی ہیں تو میں اپنے ارادوں سے بھٹک جاتا ہوں۔

صفوان نے گہرے لہجے میں عروہ کو دیکھتے کہا۔جو سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔

صفوان اس کے خوفزدہ چہرے کو دیکھتے پیچھے ہو گیا۔

عروہ نے اپنا سانس بحال کیا تھا۔

لفٹ کے رکتے ہی عروہ جلدی سے باہر آئی لیکن جتنی جلدی وہ وہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔ اتنی ہی تیزی سے سامنے آتے انسان کو دیکھتے دوبارہ لفٹ میں آگئی۔

صفوان جو لفٹ سے نکل رہا تھا عروہ کے ٹکرانے سے دوبارہ لفٹ میں آگیا۔

لیکن صفوان حمزہ کو دیکھ چکا تھا اور عروہ کے چہرے کا اڑا ہوا رنگ دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

عروہ بوکھلائے ہوئے انداز میں لفٹ کے بٹن دبانے لگی۔

صفوان کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

اس نے آگے بڑھتے عروہ کو کلائی سے پکڑتے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

لفٹ کا دروازہ دوبارہ سے بند ہو گیا تھا۔

مجھے بتانا پسند کریں گی آپ کہ کس سے اتنا خوفزدہ ہو رہی ہیں آپ؟ صفوان نے عروہ کی خوف سے پھیلی ہوئی آنکھوں میں دیتے پوچھا۔

جو اتنا ڈر گئی تھی کہ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔

وہ.. اس سے پہلے عروہ کچھ کہتی اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آتا محسوس ہوا اور وہی صفوان کی بانہوں میں بےہوش ہو گئی۔

صفوان سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔اسکی نظر اس کے گردن کے نشان پر پڑی تھی۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر عروہ کے نشان کو اپنی انگلی کی پور سے چھوا۔

یہ نشان تمہیں بہت تکلیف دیتا ہے۔

صفوان نے اس کے نشان کو دیکھتے کہا۔اور اپنا موبائل نکالے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہتے ہی عروہ کو اپنا بانہوں میں اٹھائے وہاں سے لے گیا۔

💜 💜

عروہ کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو کسی انجان کمرے میں پایا۔

لیکن جیسے ہی اس یاد آیا کہ اس نے حمزہ کو دیکھا تھا اور پھر وہی بےہوش ہو گئی جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔

صفوان صوفے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا عروہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔

سر میں کہاں ہوں؟ عروہ کی نظر جب خان پر پڑی تو اس نے پریشانی سے پوچھا۔

میرے فلیٹ پر اگر آپ کو یاد ہو تو آپ میری ہی بانہوں میں کسی کو دیکھ کر بےہوش ہوئی تھیں۔کون تھا وہ جیسے دیکھ کر آپ اتنی خوفزدہ ہوئی کہ بےہوش ہو گئ؟

خان اپنی جگہ سے اٹھ کر چلتا ہوا عروہ کے پاس آیا اور سنجیدگی سے پوچھا۔

میں کسی کو دیکھ کر بےہوش نہیں ہوئی تھی شاید میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے میں بےہوش ہو گئی۔

عروہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔

مس عروہ اگر آپ سچ بول رہی ہیں تو نظریں کیوں چرا رہی ہیں؟ خان نے عروہ کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

سر یہ میرا ذاتی معاملہ ہے آپ پلیز اس کے بارے میں مجھ سے کچھ مت پوچھیں اور مجھے اب گھر جانا ہے۔عروہ نے صفوان کو دیکھتے کہا۔

ٹھیک ہے میں باہر آپ کا انتظار کر رہا ہوں اور ہاں ایک اور بات جب میں آپ کو لفٹ سے باہر لے کر آرہا تھا تو آفس کے لوگوں نے ہم دونوں کو دیکھا تو اس معاملے میں مجھ سے شکایت مت کیجیے گا۔کیونکہ میرے پاس کوئی جادو تو تھا نہیں جو میں آپ کو پکڑے غائب ہو جاتا۔خان نے تیکھے لہجے میں کہا۔

کیا ہم دونوں کو آفس سٹاف نے ایک ساتھ دیکھا؟ عروہ نے پریشانی سے خان کو دیکھتے پوچھا۔

مس ساتھ نہیں میری بانہوں میں سب نے دیکھا ہے۔خان نے اس کی بات بکی درستگی کرتے کہا۔اور وہاں سے چلا گیا۔

عروہ نے اپنا حلق تر کیا تھا۔

پتہ نہیں نہیں وہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گئے۔

عروہ نے دل میں سوچا اور وہاں سے باہر چلی گئی۔لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔کسی نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ہاں ایک انسان نے دیکھا تھا اور وہ تھا ارسم جسے خان کی بانہوں میں عروہ کو. دیکھ کت شوکڈ ضرور لگا تھا۔

عروہ کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حمزہ وہاں کیا کر رہا تھا۔

اب ناجانے آگے کیا ہونے والا تھا۔

💜 💜 💜 💜


حمزہ کام کی کیا صورتحال ہے؟ سب ٹھیک چل رہا ہے؟

رحمان نے حمزہ کو دیکھتے پوچھا۔

سب ٹھیک چل رہا ہے ڈیڈ لیکن مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔

حمزہ نے اپنے باپ کو دیکھتے کہا۔

ہاں کہو کیا بات ہے؟

رحمان نے پوچھا۔

ڈیڈ میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

اور میں چاہتا ہوں کہ آپ شریف لوگوں کی طرح اُن کے گھر رشتہ لے کر جائیں۔

حمزہ نے سنجیدگی سے اپنے باپ کو دیکھتے کہا۔

کون ہے وہ لڑکی؟ رحمان نے پوچھا۔

اُس کا تعلق کسی امید خاندان سے نہیں ہے۔

اُس کے باپ کی ایک سبزی کی دکان ہے۔

حمزہ نے کہا تو رحمان نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

تمھارا ٹیسٹ کب سے خراب ہو گیا؟ اب تم ایک سبزی بیچنے والے کی لڑکی سے شادی کرو گئے؟

اور تمہیں لگتا ہے میں یعنی رحمان اُن غریب لوگوں کے گھر اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے جاؤں گا؟ ہرگز نہیں اور میں تمھاری شادی کسی بھی ایسی لڑکی سے ہونے نہیں دوں گا جو غریب ہو۔غریب لفظ سے ہی مجھے نفرت ہے تم اچھی طرح جانتے ہو۔پھر بھی اُس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو؟

اور اگر بات ایک دو راتیں گزارنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے تو تم جو کرنا چاہتے ہو کرو اُس لڑکی کے ساتھ جب دل بھر جائے تو چھوڑ دینا لیکن شادی تو بلکل بھی نہیں۔

رحمان نے سرد لہجے میں کہا۔

حمزہ ماتھے پر بل لیے اپنے باپ کی بات سن رہا تھا۔

ڈیڈ اگر وہ لڑکی مجھے ایک یا دو راتوں کے لیے چاہیے ہوتی تو کبھی بھی آپ کے پاس نا آتا۔

میں آپ کے پاس آیا ہوں تو اس کا مطلب ہے وہ لڑکی مجھے ساری زندگی کے لیے چاہیے۔ میں اُسے اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں۔

اس لیے آپ اُس کے گھر رشتہ لے کر جائیں گئے یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔اور آپ مجھے روک نہیں سکتے آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔

حمزہ نے غصے سے کہا اور کہتے ہی وہاں سے چلا گیا۔

میری بھی ایک بات کان کھول کر سن لو میں کبھی بھی تمھاری شادی اُس لڑکی سے ہونے نہیں دوں گا۔رحمان نے پیچھے سے اونچی آواز میں کہا۔

لیکن حمزہ وہاں سے جا چکا تھا۔

رحمان نے اپنا موبائل نکالا اور کال ملائی۔

معلوم کرو کہ حمزہ کس لڑکی کے پیچھے پاگل ہوا پڑا ہے مجھے اُس کی تصویر چاہیے۔

رحمان نے اپنے آدمی کو کہتے ہی موبائل بند کر دیا.

میں بھی دیکھتا ہوں کہ کیسے تم اُس لڑکی سے شادی کرتے ہو۔رحمان نے سرد لہجے میں کہا اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜


عروہ گھر آئی تو بلقیس نے کہا کہ ملائکہ اسی کا انتظار کر رہی ہے تو عروہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔جہاں ملائکہ بیٹھی ہوئی تھی۔

خیریت؟ تم پریشان لگ رہی ہو؟ عروہ نے اپنی چادر اتراتے بیڈ پر رکھتے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

عروہ مجھے تم سے بات کرنی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں۔ملائکہ نے عروہ کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے سامنے بیٹھاتے ہوئے کہا۔

ہاں کیا ہوا؟ عروہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

تو ملائکہ نے ساری صورتحال عروہ کو بتا دی ارسم کو تھپڑ مارنے سے لے کر تھانے جانے والی بات تک اس نے سب عروہ کو بتا دیا تھا۔

تمھارے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اور تم مجھے اب بتا رہی ہو؟ عروہ نے ملائکہ کو گھورتے ہوئے کہا۔

مجھے لگا یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔اور اب تو مجھے یونیورسٹی بھی جانا ہے اگر نا گئی تو امی نے ویسے ہی میری جان نکال دینی ہے کہ پہلے میں جانے کی ضد کر رہی تھی اور اب چھوڑ رہی ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کرو؟ اگر اُن دونوں میں سے پھر کوئی میرے سامنے آگیا تو؟ پتہ نہیں وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔

میں کیا کروں مجھے سمجھ نہیں آرہی ملائکہ نے پریشانی سے پوچھا۔

تم اُن سے پوچھو کہ وہ دونوں چاہتے کیا ہیں؟ جہاں تک مجھے لگتا ہے وہ دونوں تمہیں پسند کرتے ہیں عروہ نے پر سوچ انداز میں کہا۔

عروہ میرا مزاح کا موڈ نہیں ہے۔

اس وقت میں بہت پریشان ہوں۔ملائکہ نے گھورتے ہوئے کہا۔

ارے میں مزاح نہیں کر رہی۔

دیکھو تم کب تک گھر میں چھپ کر بیٹھو گی اگر تم یونی چھوڑ بھی دیتی ہو تو یہ مسلے کا حل نہیں ہے وہ تمہیں کہی بھی مل سکتے ہیں اس لیے اُن سے پوچھ لو کہ وہ تم سے کیا چاہتے ہیں۔تم کہہ رہی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں تو تم دونوں میں سے ایک سے بھی پوچھ لو گی تو پتہ چل جائے گا۔

عروہ نے سنجیدگی سے کہا۔

ہاں یہ ٹھیک ہے اور اللہ کرے مجھے وہ کھڑوس دوبارہ نا ملے ملائکہ نے ارسم کا سوچ کر جھرجھری لیتے کہا۔

وہ حمزہ سے زیادہ ارسم سے ڈر رہی تھی۔

ٹھیک ہے میں اب چلتی ہوں امی نا آجائے یہاں ملائکہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔

ملائکہ اپنا خیال رکھنا عروہ نے کہا تو ملائکہ ہنس پڑی اور پھر وہاں سے چلی گئی۔

عروہ بھی فریش ہونے چلی گئی تھی۔


اگلے دن ملائکہ یونی کے لیے نکل گئی تھی ناجانے آج اسے لگ رہا تھا کہ کچھ عجیب ہونے والا ہے۔

لیکن پھر بھی اللہ کا نام لیتے یونی کے لیے نکل گئی۔

جب وہ بس میں بیٹھی تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔لیکن جب مڑ کر دیکھتی تو کوئی بھی نا ہوتا۔

بس نے سٹاپ پر اتارا تو یونی تک اس نے پیدل چل کر جانا تھا۔اور سٹاپ سے یونی تک کا راستہ پانچ منٹ کا تھا۔

وہ اپنے دھیان چل رہی تھی جب کسی نے اسے پیچھے سے آکر اس کے منہ پر رومال رکھا۔ملائکہ وہی اُس شخص کی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی تھی۔

لیکن پھر مقابل کی بانہوں میں بےہوش ہو گئی صبح کا وقت تھا اور اس راستے پر لوگ بھی نا ہونے کے برابر تھے۔

💜 💜 💜 💜

ڈیڈ خان کیسے شادی سے انکار کر سکتا ہے؟ مجھے اُسی سے شادی کرنی ہے۔

ثانیہ نے اپنے باپ کو دیکھتے روتے ہوئے کہا۔

ڈیڈ وہ اپنی پھوپھو سے بہت پیار کرتا ہے اور اُنکی خاطر وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے گا۔

آپ بس کسی طرح چچی کی لاعلمی میں خان کو پیغام بھجوا دیں کہ اگر خان نے مجھ سے شادی نہیں کی تو چاچو کوثر چچی کو بھی طلاق دے دیں گئے۔

ثانیہ نے اپنے دماغ میں.ل آتے خیال کو اپنے باپ تک پہنچاتے کہا۔

اگر سلطان کو پتہ چل گیا تو وہ کیا کرے گا؟

رحمان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

ڈیڈ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی لیکن ابھی بس یہی راستہ ہے جس سے ہم خان کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔

پھر یہ کام تم ہی کرو گی اور خان سے خود اس بارے میں خود بات کرو گی۔

رحمان نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ثانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

خان تم صرف میرے ہو تمہیں حاصل کرنے کے لیے میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں۔

ثانیہ نے اپنے آنسو صاف کرتے مسکرا کر کہا اور اپنا موبائل اٹھائے اُسے دیکھنے لگی۔

💜 💜 💜 💜

مس عروہ آپ کا موبائل کہاں ہے صفوان نے آفس میں داخل ہوتی عروہ کو دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

عروہ جو ڈرتے ہوئے آفس میں داخل ہوئی تھی کہ جن سٹاف نے اسے دیکھا ہے وہ اسے دیکھ کر باتیں نا کریں اُن سے بچتے ہوئے اندر جا رہی تھی جب اسے صفوان ملا۔

جی سر وہ میرے بیگ میں ہے شاید چارجنگ نہیں ہے۔

عروہ نے صفوان کو دیکھتے کہا۔

کل آپ ایک عدد فائل گھر لے کر گئی تھیں۔اور اب مجھے وہ فائل چاہیے یقیناً آپ وہ فائل گھر چھوڑ کر آئی ہوں گی؟

صفوان نے دانت پیستے عروہ کو دیکھتے کہاجس نے پریشانی سے صفوان کی طرف دیکھا تھا کیونکہ وہ فائل سچ میں گھر پر بھول آئی تھی۔

سوری سر لیکن وہ فائل میں گھر بھول آئی ہوں عروہ نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔

شکر ہے آپ خود یہاں آگئی ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا جیسے آپ کے حالات چل رہے کہی آپ خود کو ہی گھر پر نا بھول آئے۔

اور مس عروہ مجھے وہ فائل ایک گھنٹے کے اندر چاہیے۔ ابھی آپ گھر واپس جائیں گی اور فائل لے کر آئے گی دوسری بات جب بھی میں کال کروں آپ کا موبائل اون ہونا چاہیے اور پہلی بیل پر ہی کال اٹینڈ ہونی چاہیے ورنہ آپ اچھی طرح جانتی ہیں۔صفوان طنزیہ لہجے میں کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

کھڑوس انسان عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

کل حمزہ ارسم کے بارے میں ہی خان سے بات کرنے آیا تھا لیکن آفس آکر اسے پتہ چلا کہ خان آفس میں نہیں ہے اس لیے واپس آگیا۔


اور اب عروہ کو دوبارہ گھر واپس جانا تھا۔

اس لیے منہ بسوڑتے آفس سے نکل گئی۔

صفوان نے جو ڈرائیور عروہ کے لیے رکھا تھا عروہ غصے میں اُس کے ساتھ نہیں گئی بلکہ رکشہ لے کر گھر گئی تھی۔

عروہ گھر گئی اور وہاں سے وہ فائل لے کر دوبارہ آفس آئی۔

سر یہ آپ کی فائل عروہ نے روم میں داخل ہوتے صفوان کو دیکھتے کہا۔جو اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر مسکرا پڑا تھا۔

آپ تو بڑی جلدی فائل لے آئی مس عروہ صفوان نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔اور پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔

عروہ نے ایک نظر صفوان کو دیکھا پھر پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے پینے لگی۔

اتنے میں ارسم دروازہ ناک کرتے اندر آیا اسکے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔

خان حمزہ کیا لینے آیا ہے یہاں؟ وہ کل بھی آیا تھا؟ ارسم نے خان کو دیکھتے پوچھا۔

لیکن حمزہ کا نام سن کر عروہ جو پانی پی رہی تھی زور زور سے کھانسنے لگی۔

خان اور ارسم دونوں نے عروہ کو دیکھا تھا۔

آپ ٹھیک ہیں؟ ارسم نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

جس نے خان کی طرف دیکھا تھا۔

ارسم وہ مجھ سے ملنے آیا ہے تو میں اُس سے بات کرتا ہوں تم جاؤ ابھی خان نے سنجیدگی سے کہا۔تو ارسم اثبات میں سر ہلائے وہاں سے چلا گیا۔

آپ ٹھیک ہیں؟ صفوان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

کیا وہ یہاں آپ سے ملنے آئے گئے؟ عروہ نے صفوان کو دیکھتے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔اور اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا۔

کون؟ صفوان نے انجان بنتے پوچھا۔

وہ عروہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح حمزہ کا پوچھے۔

مس عروہ آپ کی طبعیت ٹھیک ہے؟ صفوان اس بار فکر مندی سے پوچھا۔

کیونکہ عروہ چہرے کا رنگ پیلا ہو گیا تھا۔

جی می میں ٹھیک ہوں۔عروہ نے کپکپاتے لہجے میں کہا۔

فکر مت کریں میری اجازت کے بغیر یہاں کوئی نہیں آئے گا۔صفوان نے کہا تو عروہ تھوڑی پرسکون ہوئی تھی۔

مس عروہ ہر بار آپ اُس سے چھپ نہیں سکتی کبھی نا کبھی تو آپ دونوں کی ملاقات ضرور ہو گی تو کیوں نا ایک بار آپ خود ہی اُس کے سامنے آجائیں۔آپ کا خوف بھی ختم ہو جائے گا۔صفوان نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔

عروہ خاموش رہی تھی۔

صفوان نے ایک نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔

لیکن عروہ کے دماغ میں اچانک خیال آیا کہ اب وہ کیوں اُس آدمی کو پیسے دے اب تو حمزہ اس کے سامنے سہی سلامت ہے۔

جس بات کو لے کر وہ آدمی اسے تنگ کر رہا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں ہے اور وہ پیسے صفوان کو واپس کر دے گی تو اسے یہ جاب بھی نہیں کرنی پڑگی نا وہ یہاں آئے گی اور نا ہی اُس کا سامنا حمزہ سے ہو گا۔

یہ عروہ نے سوچا تھا آگے صفوان کیا کرنے والا تھا وہ تو صرف اُسے ہی معلوم تھا اتنی آسانی سے تو وہ اُس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا تھا۔

سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔

اگلے دن عروہ آفس آئی تو سیدھی صفوان کے آفس آئی تھی جو فون کان سے لگائے کسی سے بات کر رہا تھا۔

جی کیا بات کرنی ہے آپ نے؟ صفوان نے موبائل ٹیبل پر رکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

مجھے یہ جاب چھوڑنی ہے اور آپ کے پیسے واپس کرنے ہیں۔اور جب میں پیسے واپس کر دوں گی تو یہ کنٹریکٹ بھی ختم ہو جائے گا اور آپ مجھے طلاق بھی دے دیں گئے۔عروہ نے صفوان کو دیکھتے کہا جو ابھی بھی آرام سے بیٹھا عروہ کی بات سن رہا تھا۔

عروہ نے گھر جاتے ہی بلیک میل کرنے والے کو کال کی تھی اور اُسے کہا تھا کہ جس بات کی بنا پر وہ اُسے تنگ کر رہا ہے ویسا تو کچھ بھی نہیں ہے تو اب اگر وہ ویڈیو پولیس کو مل بھی جاتی ہے تو وہ لوگ عروہ کو کبھی گرفتار نہیں کریں گئے۔

بکل ٹھیک کہا آپ نے مس عروہ تو لائیں بیس لاکھ کا چیک صفوان نے عروہ کے چہرے کے تاثرات دیکھتے کہا.جس نے اپنے بیگ کو سامنے ٹیبل پر رکھے چیک نکالنے لگی۔لیکن اسی چیک نہیں ملا ایک دم عروہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے اور صفوان کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

کہاں گیا ابھی کل ہی تو میں نے اسے بیگ میں رکھا تھا۔عروہ نے پریشانی سے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

کیا ہوا مس عروہ کوئی پریشانی ہے؟ صفوان نے اپنی کرسی پر جھولتے پوچھا۔

سر میں نے اسی میں چیک رکھا تھا لیکن اب مل نہیں رہا۔

عروہ نے پریشانی سے کہا۔

اس کا مطلب آپ نے چیک کھو دیا ہے۔تو اب آپ کیا کریں گی؟ آپ کو تو اب یہی کام کرکے میرے پیسے واپس کرنے ہوں گئے۔

صفوان نے پر سوچ انداز میں عروہ کو دیکھتے کہا۔

لیکن میں نے اُسے کھویا نہیں ہے مجھے لگتا ہے گھر رہ گیا ہو گا۔

عروہ نے صفوان کو دیکھتے کہا۔

تو ٹھیک ہے مس عروہ کل آپ اُس چیک کو واپس لے آئیے گا اور اگر آپ نا لائی تو پھر آپ کو یہی کام کرنا پڑے گا لیکن آج کا شیڈول مجھے بتائیں کیا ہے کیونکہ ابھی آپ نے میرے پیسے واپس نہیں کیے تو آپ میری سیکرٹری ہیں۔

صفوان نے اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتے کہا۔جو پریشانی سے وہاں بیٹھ گئی تھی۔

لیکن پھر اچانک اسے یاد آیا کہ یہاں آتے ہوئے وہ ایک عورت سے ٹکرائی تھی۔عروہ اپنے بیگ سے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔لیکن اُس عورت کے ٹکرانے پر اس کا بیگ زمین پر گر گیا تھا ہو سکتا ہے اُس وقت چیک کہی گر گیا ہو۔

سر اگر کوئی اُس چیک کو کیش کروائے گا تو آپ کو پتہ چل جائے گا نا؟ عروہ نے صفوان کو دیکھتے پوچھا۔

اس وقت وہ صفوان کو چھوٹی معصوم سی بچی ہی لگ رہی تھی۔جس کے چہرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ابھی رو پڑے گی۔

ایک پل کے لیے صفوان کو لگا کہ وہ اس کے ساتھ غلط کر رہا ہے اُسے آذاد کر دے اپنے نام سے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دے لیکن یہ خیال صرف ایک پل کے لیے آیا تھا۔

جی بلکل مجھے پتہ چل جائے لیکن مس عروہ اگر اُس نے وہ چیک کیش نا کروایا تو مجھے کیا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا۔

صفوان نے سنجیدگی سے کہا تو عروہ نے بےبسی سے صفوان کی طرف دیکھا تھا۔

اب کام کی بات کریں؟ صفوان نے عروہ کی معصوم چہرے سے نظریں چراتے کہا۔

عروہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔

اس نے کیا سوچا تھا اور اس کے ساتھ کیا ہو گیا تھا آگے کیا ہونے والا تھا اسے معلوم نہیں تھا۔

میں آتی ہوں عروہ نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔

کیونکہ مزید اپنے آنسوؤں کو روکنا اس کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔

اور صفوان بھی اس کے آنسوؤں کو دیکھ چکا تھا۔اس لیے خاموش رہا تھا۔

کیا مصیبت ہے صفوان نے کھڑے ہوتے ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے غصے سے کہا۔

حمزہ… صفوان نے سرد لہجے میں اس کا نام لیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ملائکہ بیڈ پر بےہوش لیٹی ہوئی تھی اس کے پاس ہی ارسم بیٹھا ہوا تھا وہ اسے اپنے فلیٹ پر لے آیا تھا۔

تم کتنی معصوم ہو۔ارسم نے ملائکہ کے پرسکون چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

کاش تم نے وہ تھپڑ مجھے نا مارا ہوتا تو تم مجھے زیادہ اچھی لگتی۔

ارسم نے کہتے ہی پانی کا جگ پکڑے پورا ملائکہ پر اڈھیل دیا۔

جو ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی تھی۔

اور پہلے تو انجان نظروں سے ارسم کو دیکھنے لگی لیکن جیسے ہی اس کے ہوش بحال ہوئے تواس کے چہرے پر خوف کے سائے لہرانے لگے تھے۔

ارسم اسکے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا۔

آپ مجھے یہاں کیوں لاؤ ہو؟ ملائکہ نے اپنی چادر کو مزید ٹھیک کرتے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا جو پانی کی وجہ سے گیلی ہو گئی تھی۔

تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ارسم نے عام سے لہجے میں ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

یقیناً آپ نے مجھ سے بدلہ لینا ہو گا جو میں نے آپ کو تھپڑ مارا تھا۔

لیکن میری بات کا یقین کریں میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا تھا۔بس وہ صورتحال کچھ ایسی بن گئی تھی لیکن پھر بھی میں آپ سے معافی مانگتی ہوں پلیز مجھے معاف کر دیں اور یہ وجہ ہو سکتی ہے جو آپ مجھے یہاں لے کر آئے ہیں ورنہ میں کوئی اتنی خوبصورت تو ہوں نہیں کہ پہلی نظر میں آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی اور آپ مجھے اغوا کرکے یہاں لے آئے ملائکہ کی زبان جو ایک بار چلنا شروع ہوئی تو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

ارسم جو ملائکہ کی بات سن رہا تھا۔آخری بات پر اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی۔

بےساختہ اس کی نظریں ملائکہ کی آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس کے حرکت کرتے ہونٹوں پر آ ٹھہری تھیں۔

تم نے کبھی خود کو غور سے آئینے میں دیکھا ہے؟ ارسم نے تھوڑا ملائکہ کے قریب ہوتے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔

وہ جو اپنی دھن میں بولتی جا رہی تھی ارسم کو قریب آتا دیکھ اس کی زبان کو باریک لگی تھی۔

ہاں میں نے کافی بار دیکھا ہے اور مجھے گھر جانا ہے۔

ملائکہ نے پیچھے ہوتے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔

اگر تم نے اپنے چہرے کو غور سے آئینے دیکھا ہوتا تو تم یہ تو کبھی نا کہتی کہ تم خوبصورت نہیں ہو۔

تم میں کچھ خاص بات ضرور ہے کہ حمزہ جیسا انسان تمھارے پیچھے پاگل ہوا پڑا ہے۔

ارسم نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔

ٹھیک ہے مان لیتی ہوں وہ میرے پیچھے پاگل ہوا پڑا ہے لیکن آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟ اگر بات تھپڑ کی ہے تو آپ بھی مجھے تھپڑ مار کر اپنا حساب برابر کر لیں۔

ملائکہ نے اپنا چہرہ آگے کرتے کہا۔

اب بات تھپڑ سے بہت آگے نکل گئی ہے میڈم

ارسم نے اپنی انگلی سے ملائکہ کے ماتھے کو پیچھے کرتے کہا۔

مجھے یہاں سے جانا ہے۔پلیز مجھے جانے دیں میں آپ کے کسی کام کی نہیں ہوں ملائکہ نے ارسم سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوتے کہا۔

ایک شرط پر تمہیں جانے دے سکتا ہوں۔ارسم نے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔

کیسی شرط؟ ملائکہ نے ناسمجھی سے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

مجھ سے نکاح کر لو پھر ہی تم یہاں سے جا سکتی ہو ورنہ تمھارا یہاں سے نکلنا ناممکن ہے ارسم نے کہا تو ملائکہ کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔

میں آپ سے نکاح کیوں کروں؟ آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے؟ پہلے آپ نے مجھے اغوا کیا اور اب نکاح کا کہہ رہے ہیں میں آپ سے کبھی بھی نکاح نہیں کروں گی۔

اور میں یہاں سے جا رہی ہوں ملائکہ نے غصے سے کہا اور اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے لیکن دروازہ اس سے کھل نہیں رہا تھا۔

میری مرضی کے بغیر یہ دروازہ کبھی نہیں کھلے گا۔

اور اگر تم ٹائم پر گھر نہیں پہنچی تو تمھارے گھر والوں پر کیا گزرے گی۔میرے خیال سے لوگ باتیں بھی بنائے گئے؟ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟ ارسم چلتا ہوا ملائکہ کے پاس آیا اور سوچنے کے انداز میں کہا۔

آپ کیوں ایسا کر رہے ہیں پلیز مجھے جانے دیں۔میں آپ سے نکاح نہیں کر سکتی ملائکہ نے بے بسی سے کہا۔

کیوں نہیں کر سکتی مجھے وجہ بتا دو ارسم نے سنجیدگی سے پوچھا۔

وہ میرا نکاح ہو چکا ہے ملائکہ نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے کہا۔

اور اس کی بات سن کر ارسم کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

💜 💜 💜 💜 💜

تم یہاں کیا لینے آئی ہو؟ خان ابھی گھر آیا ہی تھا جب سامنے اسے ثانیہ نظر آئی جو مسکراتی ہوئی اسی کی طرف آرہی تھی۔

اس کا سر پہلے ہی درد سے پھٹ رہا تھا۔

اپنے منگیتر سے ملنے آئی ہوں ثانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ ڈھیٹ لڑکی ہو میں یہ رشتہ ختم کر چکا ہوں اب نا میرا تم سے کچھ بھی لینا دینا ہے نا تمھاری فیملی سے خان نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے جانے لگاجب ثانیہ نے اس کو بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔

خان میری بات تو سنتے جاؤ۔ثانیہ نے کہا تو خان نے زور سے اپنے ہاتھ کو جھٹکا تھا۔

آئندہ مجھے ہاتھ مت لگانا۔

خان نے اسے تنبیہ کرتے کہا۔لیکن سامنے بھی دنیا جہاں کی ڈھیٹ لڑکی ثانیہ کھڑی تھی اور مسکرا رہی تھی۔

تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہو گی خان

ثانیہ نے خان کو دیکھتے کہا۔

اور میں ایسا کیوں کروں گا؟

خان نے سینے پر ہاتھ باندھتے پوچھا۔

اپنی پھوپھو کی خاطر اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کی تو چچا جان اُن کو طلاق دے دیں گئے۔

ثانیہ نے کہا تو خان کا دل کیا سامنے کھڑی لڑکی کی اپنے ہاتھوں سے جان لے لیں۔

تمھاری بکواس ختم ہو گی تو دفع ہو جاؤ۔میں تمھاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا اور دوبارہ اگر تم میرے گھر میں آئی تو زندہ واپس نہیں جاؤ گی۔

خان نے سرد لہجے میں کہا۔اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔اور اس کے چہرے پر چھائی سرد مہری دیکھ کر ثانیہ بھی گھبرا گئی تھی اور بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔

خان غصے سے گھر میں داخل ہوا تھا۔

دادا جان کہاں ہیں؟ خان نے ملازم کو دیکھتے سرد لہجے میں پوچھا۔

برخوردار کیا ہوا ہے؟ اتنے غصے میں کیوں ہو؟

دادا جان نے خان کو دیکھتے پوچھا۔

تحریم بھی وہی آگئی تھی۔

ثانیہ یہاں کیوں آئی تھی؟ خان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

بیٹا وہ ابو جان سے ملنے آئی تھی۔ابھی گئی ہے۔تحریم نے خان کو دیکھتے کہا۔

وہ ملنے نہیں آئی تھی جانتی ہیں وہ باہر مجھے کیا کہہ کر گئی ہے۔خان کو دھمکی دے کر گئی ہے دادا جان میں اُس کا لحاظ کر رہا ہوں تو صرف آپ کی وجہ سے ورنہ آپ بھی مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔

خان نے کہا تو دادا جان نے حیرانگی سے تحریم کی طرف دیکھا تھا۔

ایسا بھی اُس نے کیا کہہ دیا خان جو تم اتنا غصہ ہو رہے ہو؟ دادا جان نے حیرانگی سے پوچھا۔

وہ مجھے دھمکی دے کر گئی ہے اگر میں نے اُس سے شادی نہیں کی تو اُس کا چچا پھوپھو کو طلاق دے دیں گا۔

اتنی سی اہمیت ہے پھوپھو کی اُس گھر میں؟ کہ وہ آج کی لڑکی پھوپھو کا گھر خراب کر رہی ہے۔اور کسی کو پرواہ نہیں؟

خان نے سرد لہجے میں کہا تو تحریم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے خان کو دیکھا تھا۔

دادا جان یہ آخری بار تھا اب آگر آپ کے دوست کے گھر والوں نے اب کچھ بھی غلط کرنے کی کوشش کی تو صفوان خان اُن لوگوں کو اپنے طریقے سے ہینڈل کرے گا۔اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرا طریقہ کار کیا ہے۔

صفوان نے غصے سے کہا اور وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

پیچھے دادا جان اور تحریم نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔

کس سے ہوا ہے تمھارا نکاح؟ارسم نے خود کو پرسکون کرتے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا۔

لڑکے سے ملائکہ نے کہا تو ارسم جو ماتھے پر سخت تیور لیے کھڑا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

میرے سامنے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔تمھارا نکاح جس لڑکے سے ہو گا وہ میں ہوں اب آگے تمھاری مرضی جتنی دیر تم ہاں بولنے میں کرو گی۔اس میں تمھارا ہی نقصان ہے۔ تو اچھی طرح سوچ لو۔ارسم نے ہلکا سا مسکرا کر کہا اور ملائکہ کو بازو سے پکڑ کر پیچھے کرتے کمرے سے باہر چلا گیا۔

ملائکہ نے دروازے کو کھولا لیکن وہ بند تھا۔

اس نے پورے کمرے کو دیکھ لیا لیکن کہی بھی اسے باہر جانے کا راستہ نظر نہیں آیا تھا۔

اور دوبارہ آکر بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔

اگر وہ وقت پر گھر نہیں پہنچی تو اس کے لیے مسئلہ ہو جائے گا۔

کیا کروں میں؟ ملائکہ نے ارد گرد دیکھتے سوچا جب اسے شیشے کا گلاس نظر آیا۔

اس نے گلاس پکڑا اور دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی۔

اور ارسم کے اندر آنے کا انتظار کرنے لگی۔

اسے وہاں کھڑے کافی دیر ہو گئی تھی۔لیکن ارسم اندر نہیں آیا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ملائکہ سیدھی ہوکر کھڑی ہوئی اور اپنے ہاتھ میں پکڑے گلاس پر گرفت مضبوط کی۔

ارسم جو اپنے دھیان دروازہ کھولے اندر آیا تھا اور اچانک ملائکہ نے دروازے کے پیچھے سے اس کے سر پر گلاس سے وار کرنا چاہا لیکن سامنے آئینے میں ارسم اسے دیکھ چکا تھا۔

اس نے ملائکہ کے اُسی ہاتھ کو پکڑا اور اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔

ملائکہ کے ہاتھ سے گلاس زمین پر گرے چکنا چور ہو گیا تھا۔

مجھے مارنا چاہتی ہو؟

ارسم نے اسے بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے پوچھا۔

ملائکہ ایک دم بوکھلا گئی تھی۔

تمہیں لگتا ہے کہ اس طرح تم مجھ سے بچ کر بھاگ جاؤ گئی؟ ارسم نے ملائکہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

جس کی زبان پر تو تالا لگ گیا تھا۔

اب جواب کیوں نہیں دے رہی؟ ارسم نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔

ہاتھ چھوڑو میرا ملائکہ نے غصے سے کہا۔

نکاح کے لیے تیار ہو یا نہیں؟

ارسم نے سنجیدگی بسے پوچھا۔

مجھے آپ سے نکاح نہیں کرنا۔اور یہ بات آپ کو سمجھے کیوں نہیں آرہی؟ ملائکہ نے چیختے ہوئے کہا۔

آرام سے لڑکی تمھارے پاس ہی کھڑا ہوں۔اتنا چیخ کیوں رہی ہو؟

ارسم نے گھورتے ہوئے کہا۔

بس بہت باتیں ہو گئی۔اب کام کی باتیں کرتے ہیں۔

ارسم نے سرد لہجے میں ملائکہ کے ہاتھ کو چھوڑتے ہوئے کہا۔

جو لڑکھڑا کر ارسم سے کچھ قدم پیچھے جا کھڑی ہوئی تھی۔

اگر تم نے ابھی نکاح کے لیے ہاں نہیں کی تو دوبارہ میں شام میں یہاں آؤں گا اور اگر ابھی تم نے مجھ سے نکاح کر لیا تو خود تمھیں گھر چھوڑ آؤں گا۔

ارسم نے کہا تو ملائکہ نے بےبسی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

ٹھیک ہے میں نکاح کے لیے تیار ہوں۔ملائکہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔کیونکہ وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ بنا نکاح کے سامنے کھڑا انسان اسے یہاں سے کبھی بھی جانے نہیں دے گا۔

ارسم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

اپنی چادر سے اپنے چہرے کو کور کرو مولوی صاحب باہر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔

ارسم نے کہا۔

آپ کو اتنا یقین تھا کہ میں ہاں کر دوں گی؟ ملائکہ نے دانت پیستے پوچھا۔

بلکل مجھے پورا یقین تھا اب دیر مت کرو چلو میرے ساتھ ارسم نے ملائکہ کو بازو سے پکڑتے کہا اور اسے وہاں سے باہر لے گیا۔

باہر کون لوگ تھے۔ملائکہ نے کسی کو نہیں دیکھا۔

بس اسے اتنا یاد تھا کہ اس کا نکاح ایک ایسے انسان کے ساتھ ہو رہا ہے جیسے وہ جانتی تک نہیں ہے نا ہی اسے اُس شخص کے نام کا پتہ ہے جس سے اس کا نکاح ہو رہا تھا۔

مولوی صاحب نے جب اس سے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے تو پہلے تو ملائکہ خاموش رہی پھر اس نے تین بار قبول ہے بول کر خود کو اُس شخص کے حوالے کے دیا جس نے اسے اغوا کیا تھا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے لیکن آگے کے آثار اسے کچھ اچھے نہیں لگ رہے تھے۔

نکاح کے بعد ملائکہ دوبارہ اُسی کمرے میں آگئی تھی۔

ارسم کمرے میں داخل ہوا تو ملائکہ نے جلدی سے کہا کہ اُسے گھر جانا۔

ارسم نے آگے بڑھتے اسکا موبائل پکڑا اور اُس میں اپنا نمبر سیو کر دیا۔

یہ میرا نمبر ہے اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے کال کر لینا۔اور فکر مت کرو اب میں تمہیں پریشان نہیں کروں گا۔ارسم نے موبائل ملائکہ کے آگے کرتے کہا۔

جتنا پریشان آپ نے کیا ہے وہ بھی کم نہیں ہے۔

ملائکہ نے ارسم کے ہاتھ سے موبائل چھینے کے انداز میں پکڑا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

ارسم بھی اس کی بات پر ہلکا سا مسکراتے اسکے پیچھے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

آپ؟ بھائی کہاں ہیں؟

بسمہ جب یونی سے باہر آئی تو اس نے ارسم کی جگہ وہاج کو دیکھا تو حیرانگی سے پوچھا۔

تمھارے بھائی نے ہی مجھے بھیجا ہے۔وہاج نے بسمہ کے چہرے کو دیکھتے کہا۔

ارسم بھائی نے؟ بسمہ نے پوچھا تو وہاج ہنس پڑا۔

وہ تو کبھی مر کر بھی مجھے کوئی کام نا کہے وہاج نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

کیسی باتیں کر رہے ہیں ایسی باتیں نہیں کرتے بسمہ نے جلدی سے کہا۔

اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو میں تمھاری کال پر بات کروا دیتا ہوں خان کی مجھے کال آئی تھی انہوں نے ہی کہا تھا کہ آج میں تمہیں یونی سے پک کرکے گھر چھوڑ دوں وہاج نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔

اس کی ضرورت نہیں ہے مجھے آپ کی بات پر بھروسہ ہے۔بھائی نے ہی کہا ہو گا آپ کو بسمہ نے جلدی سے کہا۔

وہاج اس کی بات سن کر ہنس پڑا تھا۔

اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو بسمہ اندر بیٹھ گئی۔

مجھے پیاس لگی ہے مجھے پانی پینا ہے۔تھوڑی دیر بعد بسمہ نے وہاج کو دیکھتے کہا۔

جس نے اثبات میں سر ہلاتے ایک بیکری کے سامنے گاڑی کو روکا۔

میں پانی لے کر آتا ہوں۔

وہاج نے کہا اور گاڑی سے باہر چلا گیا۔

بسمہ سامنے سڑک پر دیکھ رہی تھی۔

جب اس کی نظر سامنے سے آتے ہوئے وہاج پر پڑی۔اس نے تو اب غور کیا تھا کہ وہاج نے بھی بلیو شرٹ ساتھ بلیو جینز پہنی تھی اور اس کے سوٹ کا کلر بھی ڈارک بلیو تھا۔

شرٹ کو کہنیوں تک فولڈ کیے اور آنکھوں پر بلیک کلر کے گلاسز لگائے اس وقت وہ بسمہ کو سب سے مختلف ہی لگ رہا تھا۔

بسمہ ابھی بھی وہاج کو دیکھ رہی تھی۔

کیا ہوا؟ وہاج نے گاڑی میں بیٹھتے بسمہ کو خود کو تکتے پایا تو پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھاتے پوچھا۔

وہ میں دیکھ رہی تھی کہ اس سے پہلے بسمہ کہتی کہ” آپ پر یہ رنگ بہت سوٹ کر رہا ہے“یہ کہنے سے پہلے ہی اس کی زبان کو بریک لگی تھی۔

کچھ نہیں بسمہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور پانی کی بوتل پکڑے اسے پینے لگی۔

وہاج نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر گاڑی سٹارٹ کر دی۔

بسمہ نے دوبارہ وہاج کی طرف نہیں دیکھا تھا۔

وہاج نے ایک دو بار اس کی طرف دیکھا جو اپنا پورا دھیان باہر چلتی گاڑیوں کی طرف لگائے بیٹھی ہوئی تھی۔جیسے اس سے ضروری اور کوئی کام ہی نا ہو۔

💜 💜 💜 💜

ڈیڈ حمزہ بسمہ کے ساتھ شادی کرنے کے لیے مان گیا؟ آفاق نے سلطان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

بیٹا جی حمزہ مانے یا نا مانے وہ بعد کی بات بات ہے۔

جب تک اُس کے بھائی نہیں مانے گئے اُس وقت تک کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

اور خان نے صاف صاف لفظوں میں منع کر دیا ہے کہ وہ اپنی بہن کی شادی حمزہ کے ساتھ تو کبھی نہیں کرے گا۔سلطان نے سنجیدگی سے کہا تو آفاق کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

اس کا مطلب خان نے حمزہ کو منع کر دیا ہے تو حمزہ کا کیا ردعمل ہے؟ آفاق نے پوچھا کیونکہ وہ زیادہ گھر پر نہیں ہوتا تھا اس لیے اسے آج ہی اس بارے میں پتہ چلا تھا۔

حمزہ نے بھی منع کر دیا تھا وہ شاید کسی اور لڑکی کو پسند کرتا ہے۔سلطان نے کہا تو آفاق نے حیرانگی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔

آپ کو کس نے کہا کہ حمزہ کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے؟ آفاق نے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

مجھے معلوم نہیں ہے بھائی صاحب نے سرسری سی بات کی تھی۔

آفاق تمھارا کیا خیال ہے؟ اگر میں دادا جان سے تمھارے اور بسمہ کے بارے میں بات کروں تو؟ اگر بسمہ اس گھر میں آجاتی ہے تو خان سے ہم اپنے مطلب کے بہت سے کام کروا سکتے ہیں۔خان جانا مان بزنس مین ہے ہماری بھی بزنس میں مدد کر سکتا ہے۔

میں وہاج کی بات بھی کر سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کی عادت کا معلوم ہے وہ اپنی مرضی کرے گا میری بات نہیں مانے گا۔

سلطان نے آفاق کو دیکھتے کہا۔

مجھے بسمہ کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اس سے ہمارے بزنس کو کافی فائدہ ہو گا۔

آفاق نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ناجانے ایسا کیا ہوا تھا۔کہ آفاق کے بسمہ کے بارے میں خیالات تبدیل ہو گئے تھے۔

ٹھیک ہے پھر میں کوئی موقع دیکھ کر تمھاری اور بسمہ کی بات کرتا ہوں سلطان نے خوشی سے کہا۔

آفاق خاموش ہو گیا تھا۔پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہا تھا اور کیا کرنا چاہتا تھا۔یہ تو آنے والے وقت میں بہی پتہ چلنا تھا۔

💜 💜 💜 💜

مس عروہ آج آپ میرے ساتھ چلے گی میری ایک میٹنگ ہے۔صفوان نے عروہ کو دیکھتے کہا۔

آپ کی میٹنگ زیادہ تر باہر ہی کیوں ہوتی ہیں؟ فضول کا خرچہ آفس میں بھی تو میٹنگز ہو سکتی ہیں۔

عروہ نے آخری بات منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہی۔

کل کا پورا دن عروہ نے گھر جاتے تنہا گزارا تھا اور کافی حد تک خود کو سنبھال چکی تھی۔بلقیس نے زیادہ کچھ نہیں پوچھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ عروہ کی اب تو کمرے میں بند رہنے کی عادت سی بن گئی ہے۔لیکن اب وہ کافی حد تک بہتر تھی۔

کیا کہا آپ نے؟ صفوان نے ناسمجھی سے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

کچھ نہیں چلیں عروہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

آپ کو باہر جانے میں مسئلہ ہے یا میرے ساتھ باہر جانے میں مسئلہ ہے؟صفوان نے اپنے قدم عروہ کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔

آپ تو بہت عقلمند ہیں بہت اچھا اندازہ لگاتے ہیں آپ عروہ نے کہا تو صفوان مسکرا پڑا۔

مس عروہ میں آپ کی سوچ سے بھی زیادہ سمجھدار اور عقلمند ہوں اور آہستہ آہستہ آپ کو پتہ چل جائے گا۔اور ہو سکتا ہے قسمت میں ہمارا ساتھ پوری زندگی کا ایک ساتھ لکھا ہو۔

لیکن یہ بعد کی بات ہے ابھی آپ میرے ساتھ چلیں۔صفوان نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔عروہ کو اس کی بات سمجھ میں تو نہیں آئی تھی پھر بھی کندھے اچکاتے وہاں سے چلی گئی۔

صفوان عروہ کو ایک ریسٹورنٹ میں لے کر آیا تھا۔

ایک بار وہ صفوان کے ساتھ اس ریسٹورنٹ میں آئی تھی۔اُس وقت بھی صفوان کی کوئی میٹنگ تھی۔

عروہ صفوان کے سامنے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔اور صفوان کی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔

صفوان آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن عروہ لاعلم تھی۔

آپ شکل سے بہت شریف لگتے ہیں۔لیکن درحقیقت ایسے ہیں نہیں عروہ نے صفوان کو دیکھتے چہرے ہر زبردستی کی مسکراہٹ لاتے کہا۔

آپ بھی میرے ساتھ رہتے ہوئے کافی سمجھدار ہو گئی ہیں مسز عروہ صفوان نے کافی کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا تو عروہ نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔

جب اس کے کانوں میں جانے پہچانی آواز پڑی۔

کیسے ہو خان؟

رحمان صاحب نے صفوان کو دیکھتے کہا۔

لیکن عروہ اور رحمان نے جب ایک دوسرے کو دیکھا تو دونوں اپنی اپنی جگہ ساکت ہو گئے تھے۔

عروہ نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا۔

رحمان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔

مسٹر رحمان کیا آپ ٹھیک ہیں؟

صفوان نے رحمان کو دیکھتے پوچھا۔

جی بلکل میں ٹھیک ہوں۔رحمان نے اپنے گھبراہٹ پر قابو پاتے کہا۔

اور کرسہ کھینچ کر وہاں بیٹھ گیا۔

عروہ بھی صفوان کے دائیں جانب بیٹھ گئی تھی۔

اس کے دونوں ہاتھ اس قدر کانپ رہے تھے کہ پانی کا گلاس بھی اس سے پکڑا نہیں جا رہا تھا۔

صفوان کی نظریں عروہ کے ہاتھوں پر جمی تھیں۔

رحمان اب کافی حد تک خود کو پرسکون کر چکا تھا اور اب بیٹھا عروہ کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔

صفوان نے عروہ کے ہاتھ پر اپنا وزنی ہاتھ رکھا جس نے نظریں اٹھا کر صفوان کی طرف دیکھا جس نے اسے نظروں سے ریلیکس ہونے کا اشارہ کیا تھا۔

یہ آپ کی سیکرٹری ہیں؟ رحمان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

جی بلکل آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا۔

تو اب کام کی بات کریں؟ صفوان نے سنجیدگی سے کہا تو رحمان نے اثبات میں سر ہلایا۔

پوری میٹنگ میں عروہ خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔

میٹنگ کے ختم ہوتے ہی عروہ نے شکر ادا کیا تھا۔

اب تو ہماری ملاقات ہوتی رہے گی۔رحمان نے کھڑے ہوتے صفوان سے ہاتھ ملاتے عروہ کو دیکھتے کہا۔

بلکل اب تو ملاقات کا ہونا بنتا بھی ہے۔صفوان نے مسکراتے ہوئے کہا۔تو رحمان چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لیے وہاں سے چلا گیا۔

عروہ نے گہرا سانس لیا تھا۔

اور دوبارہ وہی بیٹھ گئی۔

صفوان اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

یقیناً رحمان صاحب سے آپ کا ڈرنا بھی آپ کا ذاتی معاملہ ہو گا اس لیے میں آپ سے ڈرنے کی وجہ نہیں پوچھوں گا۔

صفوان نے بھی بیٹھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔

آپ کا تعلق ان صاحب سے صرف بزنس کی حد تک ہے یا یہ آپ کے رشتے دار بھی ہیں؟ عروہ نے صفوان کو دیکھتے پوچھا۔

کیونکہ وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی حمزہ کا آفس آنا اب رحمان کا صفوان سے ملنا ضرور ان دونوں کا خان سے کوئی گہرا تعلق ہے۔لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے اگر خان حمزہ کا رشتے دار ہوتا تو عروہ کو بھی معلوم ہوتا۔

اگر میں آپ کو کہوں کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے تو؟

صفوان نے عروہ کی بات اسے ہی لوٹاتے ہوئے تھوڑا اسکی طرف جھکتے ہوئے کہا۔

تو ایک پل کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملی تھیں لیکن اگلے ہی پل عروہ نے اپنی نظریں پھیر لیں۔

آپ کی میٹنگ ہو گئی ہے تو ہم لوگ چلیں؟ عروہ نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پوچھا۔

تو صفوان بھی اثبات میں سر ہلائے کھڑا ہو گیا تھا۔

کھڑے ہوتے اس نے اپنے کوٹ کے بٹن بند کیے اور عروہ کو پہلے چلنے کا اشارہ کیا۔

تو عروہ خاموشی سے چل پڑی۔

وہ پورے راستے سوچتی رہی تھی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ کیوں وہ سب لوگ اسے کے سامنے آرہے ہیں۔جن سے وہ بھاگ رہی تھی۔

لیکن اس کا جواب اسے نہیں ملا تھا۔

صفوان نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا تھا۔وہ اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

صفوان نے عروہ کو اُس کے گھر چھوڑ دیا تھا۔

عروہ نے بھی کوئی سوال نہیں کیا تھا۔

گھر آتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

بلقیس نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی اور عروہ کے کمرے میں آئی۔

تم آج جلدی آگئی؟ بلقیس نے عروہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

جی زیادہ کام نہیں تھا اس لیے گھر آگئی۔عروہ نے کہتے ہی ٹی وی اون کیا۔

اس وقت اس کے دماغ میں بہت سے خیال چل رہے تھے۔جن نے بارے میں وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔

عروہ الماری میں سے کچھ تلاش کرنے لگی جب اس کے کانوں میں جانی پہچانی آواز پڑی تھی۔

اس نے مڑ کر ٹی وی کی طرف دیکھا تو وہاں پر صفوان خان کا انٹرویو چل رہا تھا لیکن اس نے غور نہیں کیا اس کی ماں کے چہرے پر ایک سایہ سا آکر گزرا تھا۔

وہ سامنے بیٹھے انسان کو کیسے نا پہچانتی وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ سامنے بیٹھا انسان صفوان خان ہے۔

امی میں ان کی کمپنی میں کام کرتی ہوں۔یہ جانے مانے بزنس مین ہیں۔

عروہ نے اپنی ماں کو دیکھتے کہا۔

بلقیس نے بےیقینی سے عروہ کی طرف دیکھا تھا۔

تم ان کی کمپنی میں کام کرتی ہو؟ بلقیس نے عروہ کے پاس آتے حیرانگی سے پوچھا۔

جی امی یہی میرے بوس ہیں۔

عروہ نے عام سے لہجے میں کہا۔

عروہ میری بات سنو تم یہ نوکری چھوڑ رہی ہو کل سے تم آفس نہیں جاؤ گی۔

بلقیس نے عروہ کو کندھوں سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کرتے کہا۔

کیا ہوا امی؟ عروہ کو سمجھ نہیں آئی اس لیے ناسمجھی سے اپنی ماں کو دیکھتے پوچھا۔

میں نے کہا تم کل سے آفس نہیں جاؤ گی تو نہیں جاؤ گی بات ختم بلقیس نے غصے سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

عروہ ابھی بھی حیران کھڑی تھی۔

آگے مصیبتیں کم تھیں جو اب ایک اور نئی مصیبت آگئی۔

اب وہ اپنی ماں کو کیسے بتاتی کہ وہ اب چاہ کر بھی جاب کو چھوڑ نہیں سکتی

لیکن خان کو دیکھ کر اس کی ماں پریشان کیوں ہو رہی ہے اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

لو جی ایک اور پریشانی آگئی کیا ضرورت تھی عروہ تجھے بتانے کی اب وہ مجھے آفس جانے نہیں دیں گی اور سر کو میں نے پیسے واپس کرنے مجھے لگتا ہے میں نے بہت جلد پاگل ہو جانا ہے۔

عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہا اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔

💜 💜 💜 💜

پلیز مجھے چھوڑ دو۔

کیا بگاڑا ہے میں نے آپ کا پلیز مجھے جانے دو۔لڑکی نے گڑگڑاتے ہوئے سامنے کھڑے ظالم انسان کے قدموں میں بیٹھتے کہا۔

کیا ہو رہا ہے یہاں پر؟ حمزہ کی سرد آواز نے اس کے آدمیوں جو چوکنّا کر دیا تھا۔

سر باقی ساری لڑکیاں اتنا شور نہیں کر رہی جتنا یہ لڑکی کر رہی ہے۔اس کی بس ایک ہی رٹ ہے کہ اسے چھوڑ دیں۔

لڑکی کے پاس کھڑے آدمی نے حمزہ کو دیکھتے کہا۔ان سب لڑکیوں کو صبح تک دوسرے ملک بھجوانا تھا۔

حمزہ نے ایک نظر اُس لڑکی کی طرف دیکھا۔

اسے وہ لڑکی ملائکہ جیسی لگی تھی نا جانے اُس لڑکی میں ایسا کیا تھا لیکن اسے لگا جیسے سامنے زمین ملائکہ بیٹھی رو رہی ہے۔

حمزہ آگے بڑھا اور زمین پر گھٹنوں کے بل اُس لڑکی کے پاس بیٹھ گی۔جو خوف سے تھوڑا پیچھے کو کھسک گئی تھی۔

تمھاری قسمت اچھی ہے جو میں تم پر رحم کھا کر تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔

حمزہ نے سنجیدگی سے اُس لڑکی کو دیکھتے کہا جو پہلے تو حمزہ کے چہرے کے نشان کو دیکھ کر خوف میں مبتلا ہوئی تھی پھر حمزہ کی بات سن کر حیران ہوئی۔

اس لڑکی کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا اور سہی سلامت اسے کے گھر تک اسے چھوڑ کر آؤ۔

حمزہ نے وہاں سے کھڑے ہوتے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔

اس کے آدمیوں نے حیرانگی سے ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔

لیکن سر اگر اس لڑکی نے ہمارے بارے میں کسی کو بتا دیا تو؟ اور آپ کے ڈیڈ بھی غصہ کریں گئے۔اور ہماری جان لے لیں گئے۔

اُس آدمی نے آگے بڑھتے ہوئے حمزہ کو کہا۔

یہ میرا حکم ہے اگر تم لوگوں نے نا مانا تو ڈیڈ سے پہلے میں تم لوگوں کی جان لے لوں گا۔

حمزہ نے سرخ آنکھوں سے اُس آدمی کو دیکھتے کہا۔

جی سر میں اسے گھر چھوڑ آتا ہوں اُس آدمی نے جلدی سے کہا۔اور اُس لڑکی کو وہاں سے لیے چلا گیا۔

تمھاری خاطر کیا کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔اب تو ہر جگہ تم مجھے نظر آتی ہو۔حمزہ نے ملائکہ کے بارے میں سوچتے ہوئے خود سے کہا۔

ملائکہ کا خیال آتے ہی اس کے چہرے بہت مسکراہٹ آئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

خان آجکل تم کیا کر رہے ہو؟ اور کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔تم نے کبھی کسی لڑکی کی اتنی پرواہ نہیں کی جتنی تم اپنی نئی سیکریٹری کی کر رہے ہو۔

ارسم نے خان کو دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

مجھے لگتا ہے تم اپنا کام نہیں کرتے بلکہ مجھ پر نظر رکھتے ہو۔خان نے ارسم کو دیکھتے ہوئے کہا۔

کچھ ایسا ہی سمجھ لو لیکن مجھے لگتا ہے تم کچھ بڑا کرنے والے ہو۔

جس میں باقی کا تو پتہ نہیں لیکن زیادہ نقصان اُس لڑکی کا ہو گا جس کے قریب تم آجکل رہتے ہو۔ارسم نے پرسوچ انداز میں کہا۔

کیونکہ وہ کافی دنوں سے نوٹ کر رہا تھا۔

کہ خان کچھ زیادہ ہی اُس لڑکی کی پرواہ کر رہا ہے۔وہ تو کبھی سیدھے منہ اپنی سیکریٹری سے بات بھی نہیں کرتا تھا لیکن اب تو یہ خان اسے الگ ہی لگ رہا تھا۔

یا خطرناک لگ رہا تھا یہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

ضروری نہیں کہ میں اُس کا نقصان ہی کروں فائدہ بھی کر سکتا ہوں۔

خان نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔

خان تم نے ایسا کیا کیا ہے جو وہ لڑکی تمھاری سیکریٹری بننے کے لیے تیار ہو گئی۔وہ لڑکی مجھے باقی سب لڑکیوں سے مختلف لگی ہے۔اور میں کسی بھی طرح اس بات پر یقین نہیں کرسکتا کہ وہ خود اپنی مرضی سے ابھی تک تمھارے پاس جاب کر رہی ہے۔

ارسم نے کہا تو خان ہنس پڑا۔

عروہ آصف کی بیٹی ہے خان نے کہا تو ارسم جو آرام سے بیٹھا تھا اس کی آنکھیں باہر آگئی۔

کیا کہا تم نے؟ وہ آصف کی بیٹی ہے؟ خان تم اُس کے ساتھ کیا کرنے والے ہو؟ ارسم نے پریشانی سے پوچھا۔

اب اسے عروہ کی فکر ہونے لگی تھی۔

تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے میں اُس کے ساتھ کچھ غلط کروں گا؟ خان نے پرسرار لہجے میں ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

کیا مطلب؟ ارسم نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا۔

اپنی بیوی کے ساتھ بھلا میں کیا برا کروں گا؟

خان نے عام سے لہجے میں کہا۔

لیکن اس کے اتنے بڑے انکشاف پر ارسم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔

تم اُس سے نکاح کر چکے ہو؟ اتنا سب کچھ ہو گیا اور مجھے معلوم ہی نہیں ہے۔ اگر حمزہ اور اُس کے باپ کو پتہ چل گیا کہ عروہ ہی آصف کی بیٹی ہے تو وہ لوگ جانتے بھی ہو کیا کریں گئے؟ ارسم نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

حمزہ اور رحمان دونوں عروہ کو دیکھ چکے ہیں اور رحمان سے تو میں نے خود اُسے ملوایا ہے۔خان نے کافی کا کب لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔

خان تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے تم جانتے بھی ہو کہ تم نے اُس کی جان کو خطرے میں ڈال دیا ہے ایک طرف کہہ رہے ہو وہ تمھاری بیوی ہے اور دوسری طرف تم نے اُس کے دشمنوں کو بتا بھی دیا کہ وہ زندہ ہے۔آخر تم کرنا کیا چاہتے ہو؟

ارسم نے اس بار غصے سے پوچھا۔

مجھے وہ انسان چاہیے کسی بھی حالت میں جب اُسکی بیٹی میرے قبضے میں ہو گی تو وہ ضرور واپس آئے گا۔

اور مجھے فرق نہیں پڑتا اگر وہ حمزہ یا رحمان کے ہاتھوں ماری بھی جاتی ہے مجھے بس اُس کا باپ کسی بھی حالت میں چاہیے

خان نے کھڑے ہوتے دہاڑتے ہوئے کہا۔

اس کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔

تم اتنے خودغرض کیسے ہو سکتے ہو خان؟ تم ایک لڑکی کا استعمال کر رہے ہو اور لڑکی بھی وہ جو تمھاری بیوی ہے تمھاری عزت ہے؟ اس کا مطلب تمہیں اُس کی عزت کی بھی پرواہ نہیں ہے؟ ارسم نے خان کے سامنے کھڑے ہوتے نفی میں سر ہلاتے پوچھا۔

خان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔دانت سختی سے بھینچے سرخ آنکھوں سے وہ سامنے دیوار کو دیکھ رہا تھا۔

ارسم تم میرے معاملے میں دخل اندازی نا کرو۔

خان نے گہرا سانس لیتے کہا۔

میں نے کبھی تمھارے کام میں دخل اندازی نہیں کی خان اور نا ہی کروں گا۔لیکن ایک بات تمہیں کہنا چاہوں گا ایسا نا ہو بدلے کے چکر میں تم پھر سے کسی اپنے کو کھو دو۔

اور اس بار اگر تم نے کسی کو کھویا تو کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤ گئے یاد رکھنا میری بات ارسم نے جھک کر ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھاتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا موبائل غصے سے دیوار میں دے مارا تھا۔

حمزہ تم نے تو کہا تھا عروہ مر چکی ہے؟

رحمان نے حمزہ کو دیکھتے سرد لہجے میں پوچھا۔

آپ کب اُس سے ملے؟ حمزہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

وہ خان کی سیکریٹری ہے۔رحمان کے اس انکشاف پر پہلے تو حمزہ کو یقین نہیں آیا پھر اسے یقین کرنا پڑا تھا۔

مجھے تو یہی لگا تھا وہ مر چلی ہو گئی کیونکہ وہ اچانک کہاں غائب ہو گئی پتہ نہیں چلا حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔لیکن خان کی سیکریٹری والی بات نے اسے حیران کیا تھا۔

وہ لڑکی ہمارے لیے مسئلہ بن سکتی ہے اُسے جتنا جلدی ہو سکے ختم کر دو رحمان نے کہا تو حمزہ نے مسکرا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔

اتنی جلدی میں اُس کا کام تمام نہیں کروں گا۔ بہت سے حساب برابر کرنے ہیں حمزہ نے اپنے نشان پر ہاتھ پھیرتے غصے سے کہا۔

تمہیں جو کرنا ہے کرو لیکن وہ لڑکی زندہ نہیں رہنی چاہیے۔

رحمان نے گہرا سانس لیتے کہا۔

ڈیڈ اُسے میں دیکھ لوں گا آپ ملائکہ کے گھر کب جا رہے ہیں؟ حمزہ نے اپنے باپ کو دیکھتے پوچھا۔جو پہلے سے ہی ملائکہ کے بارے میں معلوم کروا چکا تھا۔

ایک شرط پر میں تمھاری شادی اُس لڑکی کے ساتھ کروا سکتا ہوں رحمان نے چہرے پر مسکراہٹ لیے کہا۔

کیسی شرط؟ خمزہ نے ناسمجھی سے رحمان کو دیکھتے پوچھا۔

اگر تم نے عروہ کو راستے سے ہٹا دیا تو اُسی دن میں تمھارا نکاح اُس لڑکی سے کر دوں گا۔لیکن پہلے تمہیں عروہ کو مارنا ہو گا۔رحمان نے اپنے مطلب کی بات کہتے ہوئے مسکرا پڑا۔

تو ٹھیک ہے آپ کل اُس کے گھر جائے گئے اور رشتے کی بات کریں گئے آپ کا کام بہت جلدی ہو جائے گا۔

حمزہ نے کہا تو رحمان مسکرا پڑا اُس نے سوچ لیا تھا کہ اپنے بیٹے کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے اس کا ارادہ حمزہ کی شادی ملائکہ کے ساتھ کرنے کا بلکل بھی نہیں تھا بلکہ یہ اس کی چال تھی۔

ابھی دونوں اسی بارے میں بات کر رہے تھے۔

جب سلطان غصے سے وہاں آیا۔

بھائی صاحب آپ کی بیٹی کیا کچھ کرتی پھیر رہی ہے آپ کو زرا بھی علم ہیں؟ سلطان نے رحمان کو دیکھتے سرد لہجے میں پوچھا۔

کیا ہوا ہے سلطان اتنے غصے میں کیوں ہو؟ رحمان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

آپ کی بیٹی خان کو کہہ رہی ہے اُس سے شادی کر لے ورنہ میں کوثر کو چھوڑ دوں گا؟ اُس نے یہ بات کی بھی کیسے؟ اب وہ میری زندگی کا میرے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرے گی؟

سلطان نے اونچی آواز میں کہا۔

حمزہ خاموش کھڑا سلطان کی بات سن رہا تھا۔

سلطان بچی ہے غصے میں آکر اُس نے کہہ دیا ہو گا۔رحمان نے سلطان کے غصے کو ٹھنڈا کرنا چاہا لیکن لگتا تھا آج تو سلطان کچھ زیادہ ہی غصے میں تھا۔

بھائی صاحب وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے۔اُسے کہیں مجھ سے اور میری بیوی سے دور رہے اگر کسی نے میری بیوی کو مجھ سے الگ کرنے کی بات بھی کی تو میں اُس انسان کی اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گا۔اس معاملے میں بہت برا ہوں میں آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔

سلطان نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

آپ اس کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے نا؟ اور آپ نے ثانیہ کو ایسی بات ہی کیوں کرنے دی؟ چاچو کوثر چچی کے معاملے میں کتنے پاگل ہیں یہ بات آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔

حمزہ نے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔

جانتا ہوں میں کہ سلطان لوثر کے معاملے میں کسی کی نہیں سنتا یہاں تک کے اُس نے کوثر کے پہلے شوہر تک کو مار دیا تھا۔

لیکن مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں تمھاری بہن کا کسی کی بات نہیں سنتی

وہ تو بس خان سے شادی کرنے کی ضد لگائے بیٹھی ہوئی ہے۔رحمان نے اپنے ماتھے کو مسلتے ہوئے کہا۔

خان کو قابو کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ کی بیٹی سمجھ رہی ہے اُسے کہیں فضول حرکتیں چھوڑ دے۔

پہلے اُس نے خان اور ملائکہ پر الزام لگایا اور اب جاکر خود اُسکے دھمکی دے کر آئی ہے۔خان کو جتنا میں جانتا ہوں اب وہ اس کی کوئی بھی ایسی ویسی حرکت برداشت نہیں کرے گا۔ایسا نا ہو کہ آپ کو اپنی بیٹی کھونی پڑ جائے حمزہ نے رحمان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔پیچھے رحمان سوچ میں پڑ گھا تھا کہ ثانیہ کا کچھ نا کچھ کرنا ہی ہو گا۔یہ ناہو حمزہ کی بات سچ ہو جائے۔

💜 💜 💜 💜

اگلے دن عروہ آفس نہیں آئی تھی اس نے تو بہت کوشش کی لیکن بلقیس نے اسے آنے نہیں دیا۔

خان آفس میں آیا تو عروہ کو غیر حاضر دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

ارسم کی باتوں کا سوچ کر ویسے ہی اسے پوری رات نیند نہیں آئی تھی اور اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسے غصہ آرہا تھا۔

مس عروہ کہاں ہیں؟ صفوان نے شیزا سے پوچھا۔

سر وہ ابھی تک نہیں آئی ویسی تو وہ جلدی آجاتی ہیں لیکن ابھی تک نہیں آئی۔

شیزا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

صفوان اثبات میں سر ہلاتے اپنے آفس کی طرف چلا گیا تھا۔

ابھی اسے بیٹھے پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے جب دروازہ ناک ہوا اور حمزہ مسکراتا ہوا اندر آیا۔

خان نے حمزہ کو دیکھا تو اسکے چہرے پر کے تاثرات پل بھر میں تبدیل ہوئے تھے۔

کیسے ہو خان؟ حمزہ نے خان کے سامنے بیٹھتے ہوئے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔

کیا لینے آئے ہو؟ خان نے الٹا سوال کیا۔

لینے تو کچھ نہیں آیا۔لیکن تمھاری سیکریٹری نظر نہیں آرہی؟ حمزہ نے ارد گرد دیکھتے ہوئے پوچھا۔

تم اُسے دیکھنے کے لیے آئے ہو؟ خان نے کرخت لہجے میں پوچھا۔

نہیں یار میں تو تم سے بات کرنے آیا ہو لیکن سوچا اُس سے بھی مل لیتا ہوں مجھے دیکھنے کے بعد اُس کے تاثرات کیسے ہوں گئے بس وہ دیکھنا چاہتا تھا۔حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تم میری سیکریٹری کو کیسے جانتے ہو؟ خان نے انجان بنتے تھوڑا آگے ٹیبل پر جھکتے ہوئے پوچھا۔

بہت گہرا تعلق ہے میرے اور تمھاری سیکریٹری کے درمیان حمزہ نے آنکھوں میں چمک لیے خان کو دیکھتے کہا جس نے غصے سے جبڑے بھینچے تھے۔

تم یہاں تھے نہیں اور نا کبھی ہمارے گھر آئے اس لیے تم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے لیکن ہمارے گھر والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ لڑکی ہمارے گھر سے کیا کچھ لے کر بھاگی تھی۔حمزہ نے پرسرار لہجے میں کہا۔

خان اس بار حمزہ کی بات پر ہنس پڑا تھا۔

تمہیں لگتا ہے کہ مجھے تمھاری بات پر رتی برابر بھی یقین ہے؟

اگر وہ سچ میں تم لوگوں کے گھر سے کچھ قیمتی لے کر بھاگی ہوتی تو اس وقت تم میرے سامنے بیٹھے بات نا کر رہے ہوتے بلکہ اُسے پولیس کے حوالے کرتے۔خان نے تمسخرانہ انداز میں کہا تو اس بار غصے میں آنے کی باری حمزہ کی تھی۔

خان میں تمہیں وارن کرنے آیا ہوں میرے معاملے میں دخل اندازی مت کرنا۔

حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔

اگر تمھارا معاملہ میرے کسی قریبی کے ساتھ جڑا ہوا تو میری دخل اندازی کرنا تو ضروری ہے۔خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تمھاری سیکریٹری کا تو تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔حمزہ نے خان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ایک پل کے لیے خان خاموش ہو گیا تھا۔

تم اب یہاں سے جا سکتے ہو۔خان نے کہا تو حمزہ ہنس پڑا۔

اور پھر ایک نظر خان پر ڈالے وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی خان نے عروہ کو کال کی جو شاید موبائل سامنے رکھے پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی۔اسے معلوم تھا کہ خان کی کال ضرور آئے گی۔

پہلے تو عروہ موبائل کو دیکھتی رہی پھر اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے موبائل کو ہاتھ میں پکڑا۔

لیکن کال بند ہو چکی تھی۔

اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور موبائل دوبارہ رنگ ہوا۔عروہ نے کال اٹینڈ کی اور موبائل کان سے لگایا۔

ایک گھنٹے کے اندر اگر آپ آفس نہیں آئی تو میں خود آپ کو لینے آجاؤں گا۔

صفوان نے سرد لہجے میں کہا اور کال کٹ کر دی۔

عروہ کو تو اس نے بولنے کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔

عروہ نے پریشانی سے موبائل کو دیکھا۔

اسے سمجھ نہیں آرہی تھی اب اپنی ماں کو کیسے سمجھائے پتہ نہیں وہ کیوں اسے جانے نہیں دے رہی تھیں۔

عروہ کچھ نا کچھ تو کرنا پڑے گا ورنہ وہ کھڑوس انسان گھر بھی آسکتا ہے۔

عروہ نے پریشانی سے منہ میں بڑبڑاتے بوئے کہا اور اُٹھ کر ٹہلنے لگی۔

کچھ ما کچھ تو ضرور سوچنا تھا۔

عروہ کے دماغ میں اچانک ایک ترکی آئی اور باہر چلی گئی۔

اس کی ماں کچن میں تھی۔

امی مجھے آفس جانا ہے اور مجھے جانے کیوں نہیں دے رہی؟

عروہ نے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

میں نے ایک بار منع کر دیا ہے نا تو اب تم کہی نہیں جاؤ گی۔بلقیس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

امی بڑی کمپنیوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں میں ایسے ہی جاب نہیں چھوڑ سکتی۔اگر میں نے ایسا کیا تو مجھے کمپنی کو پیسے دینے ہوں گئے۔

عروہ نے کہا تو بلقیس نے حیرانگی سے عروہ کو دیکھا تھا۔

یہ کیا بات ہوئی؟ اور کتنے پیسے دینے ہعں گئے؟ بلقیس نے پوچھا۔

دس لاکھ عروہ نے جلدی سے کہا۔

دس لاکھ تم اتنے پیسے کہاں سے لاؤ گی؟ اور تم کیوں اُن کو اتنے پیسے دو گی؟

بلقیس نے عروہ کے پاس آتے پوچھا۔

امی بڑی کمپنیوں میں انٹرویو کے بعد پیپرز پر سائن کرواتے کہ آپ نے اتنی دیر اس کمپنی میں کام کرنا ہے اگر آپ بھاگ گئی تو آپ کو پیسے دینے ہوں گئے۔اس طرح لوگ وہی رہ کر کام کرتے ہیں۔عروہ کے منہ میں جو آرہا تھا بولتی جا رہی تھی۔

بلقیس خاموش رہی تھی۔

امی ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں جو میں کمپنی کو دے دوں۔اور مجھے تو وہاں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے سب اچھے ہیں۔

اور میں آفس جا رہی ہوں۔

عروہ نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

اب بلقیس اسے کیا بتاتی کہ وہ کیوں اسے روک رہی ہے لیکن عروہ کی بات بھی ٹھیک تھی۔اس لے بلقیس خاموش ہو گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

موم ہم یہ کون سی جگہ پر آئے ہیں؟ یہاں سب لوگ کتنے عجیب ہیں۔

ثانیہ نے منہ بسوڑتے ہوئے چھوٹی سی گلی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

رحمان نے عظمی کو کہا تھا کہ حمزہ کا رشتہ دیکھنے جانا ہے عظمی حیران ضرور ہوئی تھی۔اس نے پوچھا کہ لڑکی کون ہے تو رحمان نے بس اتنا ہی کہا کہ حمزہ کی پسند ہے تو عظمی خاموش ہو گئی تھی۔

ثانیہ تو بلکل بھی تیار نہیں تھی لیکن عظمیٰ زبردستی اسے ساتھ لے کر آئی تھی اور ملائکہ کے گھر کے پاس اور گلی کو دیکھتے وہ کافی کیڑے نکال چکی تھی۔

رحمان ملائکہ کے گھر کے پاس پہچا اور دروازے کو کھٹکھٹایا۔کچھ عورتیں اپنے گھروں کے باہر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔

دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد ملائکہ کی ماں باہر آئی تھی لیکن سامنے کھڑے لوگوں کو دیکھ کر

اس کے چہرے پر حیرانگی اتر آئی تھی۔

جی آپ کون؟ ملائکہ کی ماں نے رحمان کو دیکھتے پوچھا۔

ہم اندر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟ رحمان نے کہا تو ملائکہ کی ماں نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔

ملائکہ کا باپ گھر پر نہیں تھا۔

میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں ملائکہ کی امی نے اٹھتے ہوئے کہا۔

نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ہم اپنے بیٹے کی رشتے کی بات کرنے آئے ہیں آپ پلیز اپنی بیٹی کو بلا لیں۔رحمان نے سنجیدگی سے کہا۔

ملائکہ کے رشتے کے لیے آپ لوگ آئے ہیں؟ ملائکہ کی امی نے حیرانگی سے پوچھا۔

کیونکہ سامنے بیٹھے لوگوں اچھے خاصے گھر کے لگ رہے تھے۔اور اسے امید نہیں تھی کہ ملائکہ کا رشتہ کسی امیر گھبرانے سے بھی آسکتی ہے۔

جی آپ اپنی بیٹی کو بلا لیں عظمیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں ابھی اُسے بلا کر لاتی ہوں ملائکہ کی امی نے کہا اور وہ اُٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔

بھائی کو ایک غریب لڑکی ہی پسند آنی تھی۔ڈیڈ ان لا گھر دیکھیں اس سے بڑے تو ہمارے ملازمین کے کمرے ہوتے ہیں۔

ثانیہ نے منہ گھر کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے رحمان کو کہا۔

خاموش رہو ایسے نہیں کہتے عظمیٰ نے ثانیہ کو ڈپٹتے ہوئے کہا۔رحمان تو خاموش بیٹھا ہوا تھا۔

ملائکہ اپنے کمرے میں تھی جب سے اُس کا نکاح ہوا تھا خاموش سی ہو گئی تھی۔

ملائکہ جلدی سے اپنا حلیہ ٹھیک کرو باہر کچھ لوگ تمہارے رشتے کے لیے آئے ہیں مجھے تو وہ لوگ کافی کافی امیر لگے ہیں۔

ملائکہ کی امی نے خوشی سے کہا۔

کون آیا ہے؟

ملائکہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

تم جلدی سے باہر آجاؤ وہ لوگ بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔

ملائکہ کی امی کہتی ہی باہر چلی گئی۔

ملائکہ نے اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کیا اور باہر آگئی۔

💜 💜 💜 💜

عروہ آفس پہنچی تو اس کا دل ناجانے آج کیوں اتنی زور سے دھڑک رہا تھا۔

وہ صفوان کے آفس کا دروازہ ناک کرتے اندر آئی جو نظریں لیپ ٹاپ پر پر جھکائے کام کر رہا تھا۔

مس عروہ آپ مجھے وجہ بتانی پسند کریں گی کہ آپ آفس کیوں نہیں آنا چاہتی تھیں کیونکہ دیکھنے میں آپ بیمار تو لگ نہیں رہی تو کیا وجہ ہے جو آپ آفس نہیں آنا چاہتی تھیں؟ صفوان نے سنجیدگی سے پوچھا لیکن نظریں ابھی بھی جھکی ہوئی تھی۔

آپ نے تو ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا تو پھر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں بیمار نہیں ہوں؟ عروہ نے خان کو دیکھتے بیوقوفانہ سوال کیا۔

خان نے عروہ کی بات سنتے زور سے لیپ ٹاپ بند کیا اور اس کی طرف دیکھا۔

خان کی سرخ آنکھیں دیکھ کر عروہ ڈر گئی تھی۔

خان اپنی جگہ سے اٹھا اور چلتا ہوا عروہ کے پاس آیا جا نے خوف کے مارے اپنے قدم پیچھے کی جانب لیے تھے اور پیچھے چلتے دروازے کے ساتھ جا ٹکرائی۔خان چلتا ہوا عروہ کے قریب آیا اور اس کی کمر کی طرف ہاتھ بڑھایا عروہ کی آنکھیں باہر کو آگئی تھیں۔

یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ عروہ نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔جب اس نے لاک کے بند ہونے کی آواز سنی تو اس کی جان لبوں پر آئی تھی۔

دروازہ بند کر رہا ہوں تاکہ کوئی ہمیں ڈسٹرب نا کرے خان نے پرسرار لہجے میں عروہ کی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔

ملائکہ باہر آئی تو عظمیٰ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

ملائکہ ان کو پہلی ہی نظر میں پسند آئی تھی۔بنا کسی میک اپ کے سادگی میں بھی سر ہر ڈوپٹہ لیے پیاری لگ رہی تھی۔

لیکن ثانیہ کے چہرے پر نا پسندیدگی کے تاثرات تھے۔وہ کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ اس کے بھائی کی ہونے والی بیوی اس سے زیادہ خوبصورت ہو۔

رحمان کا چہرہ بےتاثر تھا۔

ملائکہ نے سب کو سلام کیا۔اور وہی بیٹھ گئی۔اس کی ماں بھی اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

آپ کے شوہر کب تک آئے گئے ہم آئے ہیں تو بات پکی کر کے ہی جاتے ہیں۔رحمان نے کہا تو ملائکہ نے حیرانگی سے نظریں اٹھا کر دیکھا تھا۔

اس کے بابا بس آتے ہی ہوں گئے۔لیکن آپ لوگ یہاں کیسے آئے میرا مطلب ہے کہ کسی نے آپ کو ہمارا بتایا؟ کیونکہ ہم نے تو کسی رشتے والی کو بھی رشتہ تلاش کرنے کا نہیں کہاں تھا۔

ملائکہ کی ماں نے عظمیٰ کو دیکھتے پوچھا۔

وہ میرے بیٹے نے آپ کی بیٹی کو شاید کہی دیکھا تھا تو اُسی وقت اُس نے گھر آکر کہا کہ وہ اسی لڑکی سے شادی کرے گا۔اور کچھ دن آپ کا گھر تلاش کرنے میں لگ گئے لیکن اللہ کا شکر ہے ہمیں آپ کا گھر مل گیا۔

اور آپ کی بیٹی سچ میں بہت پیاری ہے عظمیٰ نے مسکراتے ہوئے ملائکہ کو دیکھتے کہا۔

کیا میں آپ کے بیٹے کی تصویر دیکھ سکتی ہوں؟ ملائکہ کی ماں نے کہا تو عظمیٰ بیگم نے اپنے موبائل میں حمزہ کی تصویر نکالی اور ملائکہ کی امی کو دکھائی۔ملائکہ پاس ہی بیٹھی تھی۔

اس نے جب حمزہ کو دیکھا تو اس کے چہرے پر خوف کا سایہ سا لہرایا تھا۔

ماشاءاللہ سے آپ کا بیٹا بہت پیارا ہے۔ملائکہ کی امی نے کہا اتنے میں ملائکہ کے بابا بھی آگئے تھے۔

ثانیہ بیٹا جاؤ تم ملائکہ کا کمرہ دیکھو اُس سے باتیں کرو۔

عظمیٰ نے کہا تو ناچاہتے ہوئے بھی ثانیہ کو ملائکہ کے ساتھ جانا پڑا تھا۔

ملائکہ ثانیہ کو اپنے کمرے میں لے آئی تھی۔

ان کا گھر بھی عروہ کے گھر کی طرح تھا۔زیادہ بڑا نہیں تھا۔

لیکن صاف ستھرا تھا۔ملائکہ کو تو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اب آگے کیا ہو گا۔اس کا نکاح تو ہو چکا ہے۔اگر اس کے باپ نے رشتہ قبول کر لیا تو وہ کیا کرے گی۔

تم اس چھوٹے سے کمرے رہتی ہو؟ ثانیہ نے کمرے کو دیکھتے ناک چڑھاتے ملائکہ سے پوچھا۔

جی یہ میرا کمرہ ہے۔ملائکہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

ویسے تو بھائی کو تم جیسے لوگ پسند نہیں آتے لیکن تم میں ایسا ناجانے کیا ہے جو وہ تم ہر دل و جان سے فدا ہے۔ثانیہ نے اپنے بال کو پیچھے جھٹکتے ہوئے کہا۔

ملائکہ چہرے پر سنجیدگی لیے ثانیہ کی بات سن رہی تھی۔

تم جیسے امیر اور بگڑے ہوئے لوگ جب اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں نا تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سامنے والے کی بےعزتی کر رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ بےعزتی نہیں اپنی احساسِ کمتری کے بارے میں بتا رہے ہوتے اور وہ بھی کھلے عام کہ ہم تم سے جیلس ہو رہے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ سامنے والے کی بےعزتی کر رہے۔ملائکہ نے ٹکا کر جواب دیا تو ثانیہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

تم کہنا چاہ رہی ہو کہ تمہیں دیکھ کر میں احساسِ کمتری کا شکار ہوئی ہوں؟ اور تم سے جیلس ہو رہی ہو؟ ثانیہ نے غصے سے دانت پیستے ملائکہ سے پوچھا۔

خیر میں نے ایسا نہیں کہا لیکن عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور اب آپ یہاں سے جا سکتی ہیں۔ملائکہ نے باہر دروازے کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

تمھاری اتنی اوقات کہ تم اپنی اس بیکار سی چھونپڑی سے مجھے جانے کا کہہ رہی ہو؟

تمھارے جیسی لڑکی کو تو میں اپنی ملازمہ بھی نا رکھو بھابھی بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔

ثانیہ نے سرد لہجے میں کہا۔

مجھے بھی شوق نہیں ہے اور میں نے تم لوگوں کو نہیں بلایا کہ آکر میرا رشتہ لو تمھارے بھائی نے تم لوگوں کو یہاں بھیجا ہے۔اور جس جگہ تم کھڑی ہو وہ میرا گھر ہے۔اس لیے یہاں سے عزت کے ساتھ چلی جاؤ تمھارے جیسی پڑھی لکھی جاہل کے میں منہ نہیں لگتی۔

ملائکہ نے گھورتے ہوئے کہا تو ثانیہ کا چہرہ ذلت و توہین سے سرخ ہو گیا تھا۔

تم اس سے پہلے ثانیہ ملائکہ پر حملہ کرتی عظمیٰ بیگم وہاں آگئی تھیں۔

ثانیہ یہ کیا کر رہی ہو تم؟ عظمی نے غصے سے ثانیہ کو دیکھتے کہا۔

ثانیہ نے غصے سے ملائکہ کی طرف دیکھا اور وہاں سے چلی گئی۔

سوری بیٹا وہ تھوڑی غصے کی تیز ہے میں تم سے ملنے آئی تھی۔بہت جلد ہماری پھر سے ملاقات ہو گی تم یہ رکھ لو عظمی نے اپنے کنگن اتار کر ملائکہ کی کلائی میں پہناتے ہوئے کہا۔

ملائکہ تو آگے سے مسکرا بھی نہیں پائی تھی۔عظمیٰ نے اسکا ماتھا چوما اور وہاں سے چلی گئی۔

کنگن دینا دوبارا آنا اس کا مطلب ہے اس کے باپ نے رشتہ قبول کر لیا ہے ملائکہ وہی سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی اگر اس کا نکاح نا ہوا ہوتا تو کوئی مسئلہ نا ہوتا لیکن اب صورتحال مختلف تھی۔

یا اللہ میری مدد فرما ملائکہ نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

پتہ نہیں آگے کیا ہونے والا تھا۔

💜 💜 💜 💜

حمزہ یہاں آیا تھا۔اور آپ کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔اب یہ مت کہنا کہ آپ اُسے جانتی نہیں ہیں۔

خان نے عروہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

وہ کیا کہہ رہا تھا؟ عروہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

اس کا مطلب ہے کہ آپ اُسے اچھی طرح جانتی ہیں خان نے عروہ سے پیچھے ہوتے ہوئے کہا جس نے خان کے پیچھے ہوتے گہرا سانس لیا تھا۔

آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟ خان کے پیچھے ہوتے ہی عروہ اپنی ٹون میں واپس آئی تھی۔

جو میں جاننا چاہتا ہوں کیا آپ وہ مجھے سچ سچ بتائے گی؟ خان نے عروہ کی طرف دیکھتے ایک آبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔

کیا جاننا چاہتے ہیں آپ؟ عروہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔

حمزہ آپ کو کیسے جانتا ہے؟ خان نے سوال پر عروہ ایک پل کے لیے خاموش رہی تھی۔

میرے بابا اُن کے بابا کے ڈرائیور تھے۔ہمارا گھر بھی اُس کے گھر کے پاس تھا۔

حمزہ نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی۔بس میں آپ کو اتنا ہی بتا سکتی ہوں۔

عروہ نے جلدی سے ایک سانس میں بتا دیا۔

خان کو امید تو نہیں تھی کہ عروہ اسے سچ بتائے گی لیکن عروہ نے اسے سچ بتا دیا تھا۔

آپ کے بابا اب کہاں ہے کیا وہ اب بھی انکے ڈرائیور ہیں؟

خان نے سرد لہجے میں پوچھا۔

اُن کا انتقال ہو گیا ہے۔

عروہ نے کہا۔

اور آپ کی ماں؟ خان نے پوچھا تو عروہ نے خان کی طرف دیکھا تھا۔

اب آپ زیادہ پرسنل ہو رہے ہیں۔

عروہ نے کہا تو خان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔

مس عروہ حمزہ کے ارادے مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے اُن سے بچ کر رہیے گا۔اور آپ کو پورا یقین ہے کہ آپ کے بابا کا انتقال ہو گیا ہے؟

خان نے مرتے ہوئے کہا۔

یہ کیسا سوال ہے؟ عروہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔

خیر یہ بات آپ کے چھوٹے سے دماغ میں نہیں گھسے گی۔خان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

آپ حمزہ کو کیسے جانتے ہیں آپ کا اُس سے کیا رشتہ ہے؟ عروہ نے پہلے خان کو گھور کر دیکھا پھر سوال کیا تو خان نے رک کر دوبارہ اس کی طرف دیکھا تھا۔

مس عروہ آپ نے بھی میرے ایک سوال کا جواب دیا تو میں بھی آپ کو دے دیتا ہوں۔

وہ میرا ہونے والا سالا تھا۔خان نے کہا تو عروہ نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

حمزہ کی ایک بہن تھی جو باہر پڑھنے گئی تھی اس کا مطلب سر ہی وہ انسان ہیں جس کے ساتھ حمزہ کی بہن کی باپ پکی ہوئی تھی۔یہ بات میں نے پہلے کیوں نہیں سوچی۔امی نے بتایا تو تھا کہ خان کے ساتھ اُس کی بات پکی ہوئی ہے تو جو اُس دن آفس میں آئی تھی وہ حمزہ کی بہن تھی؟ عروہ کھڑی خود سے سوال جواب کر رہی تھی۔

اس نے ایک بار سرسری سی نگاہ ثانیہ کی تصویر پر ڈالی تھی۔وہ باہر کے ملک پڑھنے گئی تھی۔اسے ثانیہ کی شکل یاد نہیں تھی نا وہ کبھی اس سے ملی تھی۔

مس عروہ آپ ٹھیک ہیں؟ خان نے عروہ کو ایک جگہ کھڑے دیکھا تو پوچھا۔

سر جو لڑکی اُس دن آپ کے آفس آئی تھی وہ آپ کی منگیتر ہے کیا؟ عروہ نے خان کو دیکھتے پوچھا۔

تھی اب نہیں ہے۔خان نے سنجیدگی سے کہا۔

عروہ یہ تو کہاں پھنس گئی ہے؟ اب تو کیا کرے گی حمزہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔

یہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتی سر کے پیسے دینے ہے۔میں کیا کرو؟ عروہ کھڑی زمین کو گھور رہی تھی اور اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑا رہی تھی۔مس عروہ مجھے لگتا ہے آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔خان نے اس بار تھوڑا فکر مندی سے کہا۔

نہیں سر میں ایک دم ٹھیک ہوں عروہ نے جلدی سے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لاتے کہا۔

پھر کام کی بات کریں۔خان نے کہا اور اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔

عروہ نے بھی اپنے قدموں ٹیبل کی طرف بڑھا دیے لیکن دماغ ان سب چیزوں سے بچنے کا طریقہ سوچ رہا تھا۔لیکن اسے طلگ رہا تھا کہ وہ بہت بری طرح ان سب میں پھنس چکی ہے۔جس سے باہر نکلنا اب مشکل ہے۔

💜 💜 💜 💜

آفاق اپنے دوستوں کے ساتھ مال آیا تھا جب اسے تحریم کے ساتھ بسمہ نظر آئی۔ بسمہ آئسکریم کھا رہی تھی۔

آفاق نے اپنے دوستوں کو آگے چلنے کا کہا اور خود چلتا ہوا بسمہ کے پاس آیا۔

تحریم کے پاس آتے ہی اس نے سلام کیا۔

تحریم آفاق کو وہاں دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔

اور وہ خود چل کر ان کے پاس آیا تھا اس بات نے بھی اسے حیران کیا تھا۔

کیسے ہو بیٹا؟ گھر میں سن کیسے ہیں؟ تحریم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

سب ٹھیک ہیں۔

آفاق نے بسمہ کو گہری نظروں سے دیکھتے کہا۔

جس کا پورا دھیان اپنی آئسکریم کی طرف تھا۔

ماما ڈرائیور کو آنے میں تھوڑا ٹائم لگے گا۔بسمہ نے اپنے موبائل پر آئے میسج کو دیکھتے کہا۔

اس سے پہلے تحریم کچھ کہتی آفاق بول پڑا تھا۔

میں آپ دونوں کو گھر چھوڑ دیتا ہوں اگر آپ کو کوئی مسئلہ نا ہو تو آفاق نے کہا۔

نہیں بیٹا ہم تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتے ہم تھوڑی دیر انتظار کر لیتے ہیں تم بھی یہاں کسی کام کے سلسلے میں آئے ہو گئے تحریم نے جلدی سے کہا۔

نہیں میں بھی گھر ہی واپس جا رہا تھا۔

اگر آپ میرے ساتھ نہیں آنا چاہتی تو کوئی بات نہیں افاق نے سنجیدگی سے کہا۔

نہیں بیٹا ایسی بات نہیں ہے۔

چلو تحریم نے مسکراتے ہوئے کہا تو آفاق کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔

تحریم آگے چل پڑی بسمہ اپنے موبائل پر میسج ٹائپ کر رہی تھی۔اور وہ تھوڑا پیچھے رہ گئی۔

آفاق اس کے پاس آیا۔

بسمہ نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا آفاق کی نظر اس کے ہونٹوں پر لگی آئسکریم پر پڑی۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر بسمہ کے ہونٹ پر لگی آئسکریم کو اپنے انگوٹھے سے صاف کیا۔یہ سب کچھ اچانک ہوا تھا۔

آفاق کی اس بےباکی پر بسمہ گھبرا گئی تھی۔

اس نے اپنی ماں کو دور جاتے ہوئے دیکھا اور وہاں سے بھاگ گئ۔

پیچھے آفاق ہلکا سا مسکرا پڑا تھا۔

پھر پورے راستے اس کی نظریں بسمہ کے پریشان سے چہرے پر جمی ہوئی تھیں اسے آفاق کی نظریں اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

پھر بھی خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔گھر آتے ہی اس نے شکر ادا کیا اور گاڑی کا دروازہ کھولتے اندر بھاگ گئی۔

تحریم نے آفاق کا شکریہ ادا کیا اور خود بھی وہاں سے چلی گئی۔

آفاق جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی دونوں کے جاتے ہی ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔پتہ نہیں اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔اور وہ کیا کرنے والا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ماضی….

راحیل آپ علی کو لے کر یہاں سے چلے جائیں۔میری فکر مت کریں۔پلیز یہاں سے جائیں۔

لبنی نے تکلیف دہ لہجے میں راحیل کو دیکھتے کہا۔

آگ چاروں طرف پھیلتی جا رہی تھی۔

میں تمہیں چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤ گا۔

راحیل نے غصے سے کہا۔

علی کی خاطر پلیز یہاں سے چلے جائیں۔لبنی نے راحیل کی بانہوں میں بےہوش لیٹے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

راحیل آپ کو میری قسم ہے پلیز میرے بچے کو لے کر یہاں سے چلے جائے۔میرے بچے کی جان بچ جائے گی۔

پلیز میری بات مان لیں۔یہ چھت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔لبنی نے بےبسی سے کہا۔

میں کیسے تمہیں چھوڑ کر جا سکتا ہوں؟

راحیل نے اپنی کان سے پیاری بیوی کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔

اس سے پہلے لبنیٰ مزید کچھ کہتی چھت سے ایک بڑا سا لکڑی کا ٹکرا راحیل پر آگرا تھا۔

لبنیٰ کی چیخ اس چھوٹے سے کمرے میں گونجی تھی۔

لبنیٰ نے ہاتھ سے آگ کو اپنے بیٹے اور شوہر سے پیچھے کرنا چاہا لیکن آگ پھیلتی ہوئی لبنیٰ تک بھی پہنچ گئی تھی۔وہ پاگلوں کی طرح پوری کوشش کر رہی تھی اپنے شوہر اور بچے کو بچانے کی چیخ رہی تھی لیکن کوئی اس کی فریاد سننے والا نہیں تھااور پھر آگ نے تینوں کو اپنی لپٹ میں لے لیا۔جہاں کچھ دیر پہلے چیخیں گونج رہی تھیں۔اب سناٹا چھا گیا تھا۔ہر طرف خاموشی چھا گئی تھی۔

ملائکہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔اس کے باپ نے ہاں کر دی تھی۔اور وہ جانتی تھی کہ اس کے ماں باپ نے پیسے دیکھے ہیں اور پیسے دیکھنے کے بعد ان کو کچھ اور نظر نہیں آیا ہو گا۔ اس لیے بنا کوئی سوال کیے انہوں نے ہاں کر دی۔

رحمان نے کہا تھا کہ وہ لوگ سیدھا نکاح کرنا چاہتے ہیں۔

اور ملائکہ کے باپ نے کہا کہ ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

لیکن اس کی اپنی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔

یہ تو اُس انسان کو جانتی بھی نہیں تھی کہ اس کا نکاح کس سے ہوا ہے وہ کہاں رہتا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ نام کے علاوہ اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا اور نمبر وہ غصے میں ڈلیٹ کر چکی تھی۔جو ارسم نے اس کے موبائل میں سیو کیا تھا۔ابھی بھی وہ اسی بارے میں سوچ رہی تھی جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔

کوئی انجان نمبر تھا۔

ملائکہ نے موبائل کی طرف دیکھا پھر اور کال کاٹ کر دوبارہ موبائل کو بیڈ پر رکھا دیا۔

لیکن اس کا موبائل دوبارہ رنگ ہوا تھا۔

اس نے کال اٹینڈ کی اور فون کان کے ساتھ لگایا۔

ویسے تو میں نے کہا تھا تمہیں تنگ نہیں کروں گا پھر سوچا اپنی نئی نویلے دلہن کا حال چال ہی پوچھ لوں۔

ارسم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو ناجانے کیوں اسے ایسا لگا جیسے اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

مجھے آپ سے ملنا ہے آج ہی ملائکہ نے جلدی سے کہا تو ارسم جو انتظار کر رہا تھا کہ وہ آگے سے غصہ کرے گی اسے جلی کٹی سنائے گی لیکن اس کے ملنے والی بات نے اسے حیران کیا تھا۔

تم ملائکہ ہی بات کر رہی ہو نا یا میں نے نمبر غلط ڈائل کر دیا ہے ارسم نے کہا اس کے لہجے میں ابھی بھی حیرانگی تھی۔

میں نے کہا کہ مجھے آپ سے ملنا ہے تو فضول گوئی سے پرہیز کریں اور جو آپ نے میرے ساتھ کیا ہے وہ بہت برا ہے میرے ہاتھ میں ہوتا تو آپ کی اب تک جان لے چکی ہوتی ملائکہ نے دانت پیستے کہا تو ارسم ہنس پڑا تھا۔

میں نے بلکل ٹھیک نمبرز ڈائل کیا ہے اب مجھے یقین ہو گیا ہے۔

ارسم نے کہا تو ملائکہ نے موبائل کو کان سے پیچھے کرتے اسے گھور کر دیکھا تھا جیسے وہاں ارسم ہو۔

ارسم نے اسے جگہ کے بارے میں بتایا ملائکہ نے یہ سنتے ہی موبائل بند کر دیا۔

ارسم ابھی مزید بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ فون کاٹ چکی تھی۔

عجیب لڑکی ہے۔لیکن بات ضرور کوئی بڑی ہو گی جو وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے ورنہ تو میری شکل دیکھنا پسند نہیں کرتی۔

ارسم نے منہ میں بڑبڑاتے بوئے کہا اور اپنے آفس سے باہر چلا گیا۔

ارسم نے اپنے آفس کے پاس والے ریسٹورنٹ میں ہی اسے بلایا تھا اس لیے وہ پہلے ہی وہاں جا کر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا تھا۔

پندرہ منٹ بعد ملائکہ وہاں آگئی تھی جس نے بلیک کلر کی بڑی سی چادر لی ہوئی تھی۔چہرے پر اس کے پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ارسم نے یہ بات نوٹ کی تھی۔ملائکہ نے ارسم کو دیکھا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔

مسز کچھ دن ہی میں تم سے نہیں ملا اور تم اداس ہو گئی؟ ارسم نے سنجیدگی سے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

مجھے آپ سے فضول بات نہیں کرنی آپ کو ابھی اور اسی وقت مجھے طلاق دینی ہو گی۔

ملائکہ نے کہا تو ارسم کے چہرے کی مسکراہٹ ہل بھر میں غائب ہوئی تھی۔

میں نے نکاح طلاق دینے کے لیے نہیں کیا۔اگر کوئی اور بات کرنی ہے تو وہ کرو ارسم نے سرد لہجے میں کہا۔

آپ کو سمجھ کیوں نہیں آرہی مجھے آپ سے طلاق چاہیے۔ملائکہ نے غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے کہا۔

ارسم نے گہرا سانس لیتے اپنے غصے کو قابو کیا اور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ملائکہ کے پاس آیا اور اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتے اسے وہاں سے باہر لے گیا۔

ملائکہ نے اپنے ہاتھ کو آذاد کروانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔

ارسم نے اسے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولتے اندر دھکا دینے کے انداز میں بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا۔

اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ؟ ارسم نے اپنا رخ ملائکہ کی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔

مجھے طا…. اس سے پہلے ملائکہ طلاق کی بات دوبارہ دہراتی ارسم نے پہلے ارد گرد دیکھا پھر آگے بڑھتے ملائکہ کے سر کے پیچھے اپنا ہاتھ لے جاتے اس کا چہرہ خود کے قریب کیا اور اپنے طریقے سے اس کی بولتی بند کر دی۔

ملائکہ جو صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جب اسے ہوش آیا تو اس نے ارسم کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے کرنا چاہا۔لیکن ارسم زارا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا۔

تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی پیچھے ہوا۔اور ملائکہ کے چہرے کی طرف دیکھا جو پتہ نہیں غصے سے یا شرم سے سرخ ہو رہا تھا۔

طلاق کی بات دوبارا اگر تم اپنی زبان لائی تو اس سے بڑی سزا ملے گی۔ارسم نے سنجیدگی سے کہا۔

آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی؟ ملائکہ نے خونخوار لہجے میں ارسم کو دیکھتے کہا۔

بیوی کو چھونے میں کیسی ہمت میں کون سا کسی غیر کو چھو رہا ہوں؟ ارسم نے عام سے لہجے میں کندھے اچکاتے کہا۔

اگر کوئی پریشانی والی بات ہے تو تم کہہ سکتی ہو ورنہ جا سکتی ہو کیونکہ مجھے بہت کام ہیں ارسم نے سامنے سڑک کو دیکھتے ہوئے کہا۔

ملائکہ کا دل تو کر رہا تھا کہ ابھی اور اسی وقت اس کھڑوس اور بدتمیز انسان کی گاڑی سے باہر چلی جائے اور باہر جاکر ایک بڑا سا پتھر پکڑ کر اس کی گاڑی پر دے مارے اور اپنے غصے کو نکالے لیکن ابھی وہ ایسا کر نہیں سکتی تھی۔

میرے گھر والوں نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے اور وہ لوگ بہت جلد نکاح کرنا چاہتے ہیں اور اب میں اپنے گھر والوں کو کیا جواب دوں؟ ملائکہ نے دانت پیستے پوچھا۔

منع کر دو اس میں مشکل کیا ہے ارسم نے عام سے لہجے میں کہا۔

منع کردوں؟ اُس کی ماں مجھے یہ کنگن پہنا کر گئی ہے وہ بھی آپ کے جیسا سر پھیرا انسان ہے جس نے پہلے میرے گھر کا معلوم کیا اور پھر رشتے کے لیے بھیجا لیکن وہ انسان آپ سے تو بہتر ہے انسانوں کی طرح میرے گھر رشتہ بھیجا ناکہ زبردستی مجھے اغوا کرکے نکاح کیا۔ملائکہ غصے میں بولتی جا رہی تھی۔

جب اس کی نظر ارسم پر پڑی۔تو اس کی زبان کو بریک لگی۔

کیا اُسی لڑکے کا رشتہ آیا ہے جسکے ساتھ اُس دن میرا جھگڑا ہوا تھا؟

ارسم نے سرد لہجے میں پوچھا تو ملائکہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

ارسم نے ملائکہ کا ہاتھ پکڑا اور وہاں پہنے کنگن اتار کر باہر پھینک دیے۔

یہ آپ کیا کر رہے ہیں میں گھر والوں کو کیا جواب دوں گی ملائکہ نے پریشانی سے کہا۔لیکن ارسم نے بنا کوئی سوال کیے گاڑی سٹارٹ کر دی تھی۔

مجھے تمھاری آواز نا آئی ورنہ ابھی باہر پھینک دوں گا۔

ارسم نے کرخت لہجے میں کہا اس کے لہجے کی سرد مہری دیکھ کر ملائکہ بھی ڈر کے مارے خاموش ہو گئی تھی۔

یا اللہ کہاں پھنس گئی ہوں میں؟ ملائکہ نے باہر سڑک کو دیکھتے دل میں سوچا۔

پتہ نہیں اب یہ انسان اسے کہاں لے کر جا رہا تھا۔

لیکن ملائکہ میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سے کچھ پوچھ سکے۔اس لے خاموش بیٹھی رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ڈیڈ آپ لوگوں کو میں نہیں نظر نہیں آتا؟ ماما آپ تو اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں بسمہ کو کس حد تک چاہتا ہوں۔

آپ لوگوں نے پہلے حمزہ کی بات کی اب آفاق کی بات کی اور میں؟ میں تو اُسے پسند کرتا ہوں میری پسند آپ کو نظر نہیں آتی۔وہاج نے غصے سے کہا۔

اس کے باپ نے جب بات کی کہ وہ دادا جان سے بسمہ اور آفاق کی بات کریں گئے یہ سنتے ہی وہاج کا غصے ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا۔اور اب اپنے ماں باپ کے سامنے بول رہا تھا۔

کیا بول رہے ہو وہاج ہوش میں تو ہو؟ سلطان کے سرد لہجے میں کہا۔

کوثر خاموش کھڑی تھی۔کیونکہ یہ بات تو اسے بھی معلوم نہیں تھی۔

میں بسمہ کو پسند کرتا ہوں اور اُسی سے شادی کروں گا۔اور اگر کسی نے درمیان میں آنے کی کوشش کی تو پھر بعد میں آپ مجھ سے شکایت مت کیجیے گا۔

وہاج نے اپنے باپ کو دیکھتے تنبیہ کرنے کے انداز میں کہا۔

تم اُس لڑکی کی خاطر کس لہجے میں اپنے باپ سے بات کر رہے ہو وہاج؟ سلطان نے آگے آتے وہاج کو دیکھتے پوچھا۔

آپ لوگوں نے ہی مجبور کیا ہے۔یہاں انسان خاموشی سے سر جھکائے جی حضوری کرتا رہے تو وہ فرمانبردار ہے اور جہاں وہ اپنے دل کی بات بتائے وہاں وہ غلط ہو گیا؟یہ کیا بات ہوئی؟

اور آفاق کو تو ویسے ہی بسمہ پسند نہیں تھی اب اُس میں ایسا کیا نظر آیا کہ اُس نے ہاں کر دی؟ وہاج نے اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

پہلے کی بات اور تھی لیکن اب میری پسند بدل چکی ہے۔آفاق نے کمرے میں داخل ہوتے وہاج کو دیکھتے کہا۔وہ اپنے باپ سے بات کرنے آیا تھا۔اور وہاج کی بات سن چکا تھا۔

کیوں اب کیوں تمھاری پسند بدل گئی؟ یا اُس کے بھائی کی جائیداد نے پسند بدلنے پر مجبور کر دیا؟ وہاج نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا۔

اپنی زبان کو قابو میں رکھو وہاج

آفاق نے آگے بڑھتے وہاج کے گریبان کو پکڑتے ہوئے غصے سے کہا۔

خبردار اگر تم دونوں نے ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکالا جاؤ دونوں یہاں سے سلطان نے دونوں کو دیکھتے کرخت لہجے میں کہا۔

آفاق نے گھورتے ہوئے وہاج کے گریبان کے چھوڑا۔جو ایک ملامت بھری نظر آفاق پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا تھا۔آفاق بھی اس کے جاتے وہاں سے چلا گیا۔

کوثر نے پریشانی سے سلطان کو دیکھا تھا جو خود پریشان ہو گیا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔دونوں بھائی ایک دوسرے کی دشمن بن گئے ہیں۔

💜 💜 💜 💜

دادا جان مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔خان نے دادا جان کو دیکھتے کہا۔

تحریم بھی وہی بیٹھی ہوئی تھی۔

ہاں بیٹا کیا بات کرنی ہے تم نے؟ دادا جان نے خان کو دیکھتے پوچھا۔

دادا جان میں آپ کو اپنے نکاح کا بتانا چاہتا ہوں۔میں نکاح کر چکا ہوں۔

خان نے سنجیدگی سے کیا۔

تحریم اور دادا جان کے سر پر یہ خبر سنا کر خان نے بم پھوڑا تھا۔

کیا کہا تم نے؟ تم نکاح کر چکے ہو؟ لیکن کس سے؟ تحریم نے بےیقینی سے پوچھا۔

پھوپھو جان لڑکی سے نکاح کیا میں نے خان نے تحریم کو دیکھتے کہا۔

میرا مطلب ہے بیٹا ایسی کون سی مجبوری آگئی کہ تمہیں ہم سب کو بتائے بنا نکاح کرنا پڑ گیا؟ تحریم نے حیرانگی سے پوچھا۔

پھوپھو جان کچھ صورتحال ایس بن گئی تھی کہ مجھے نکاح کرنا پڑ گیا تھا۔

خان نے گہرا سانس لیتے کہا۔

میں تو اُسی وقت سمجھ گیا تھا جب تم نے منگنی توڑنے کی بات کی تھی۔ضرور لڑکی کا معاملہ ہے۔لیکن پہلے میں اُس لڑکی سے ملنا چاہتا ہوں۔دادا جان نے خان کو دیکھتے کہا۔

دادا جان نکاح جس صورتحال میں ہوا وہ اس نکاح کو نہیں مانتی۔

اور وہ بہت جلد مجھ سے الگ بھی ہو جائے گی میں نے اُس کی مدد کی ہے بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہمارا کنٹریکٹ ہوا ہے کب وہ ختم ہو جائے گا تو میں اُسے طلاق دے دوں گا۔خان نے عام سے لہجے میں کہا۔

خان تم نے نکاح کیا ہے یہ کوئی بچو کا کھیل نہیں ہے۔اور اگر یہی بات تھی تو تم اُسے طلاق دینے کے بعد ہمیں بتا دیتے ابھی بھی بتانے کی کیا ضرورت تھی۔

دادا جان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

دادا جان آپ کو بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر آپ کے آدمی مجھے کیسی لڑکی کے ساتھ دیکھیں بھی تو آپ کو غلط انفارمیشن نا دیں۔

خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

دادا جان سیدھے ہو کر بیٹھے تھے۔اسے یہ بات بھی پتہ چل گئی۔دادا جان نے دل میں کہا۔

کیونکہ خان نوٹ کر چکا تھا کہ کچھ لوگ اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔اور اس کا سیدھا شک دادا جان پر ہی گیا تھا۔

اب میں چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے خان نے دادا جان کو دیکھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

پیچھے تحریم نے دادا جان کی طرف دیکھا تھا۔

بیٹا میں نے اُس پر نظر اس لیے رکھی تھی کہ پتہ لگ سکے کہ دادا جان نے صفائی دینی چاہی لیکن تحریم نے ان کو روک دیا تھا۔

ابو جان مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ نے خان کے پیچھے اپنے آدمی لگائے تھے۔بات یہ ہے کہ وہ لڑکی کون ہے جس سے خان کا نکاح ہوا ہے۔

مجھے لگتا ہے ارسم کو معلوم ہو گا۔

اور ہمیں اُس لڑکی سے ملنا چاہیے ہو سکتا ہے ہم اُس کا ارادہ تبدیل کر دیں۔

تحریم نے پر سوچ انداز میں کہا۔

ارسم آتا ہے تو اُس سے پوچھتے ہیں۔

یقیناً اُسے معلوم ہو گا۔

دادا جان نے بھی کہا۔کیونکہ خان نے نکاح کیا تھا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔

💜 💜 💜 💜

یہ لڑکی بھی آپ کی سیکریٹری ہے اس کا مطلب آپ نے مجھے نکال دیا ہے؟ عروہ آفس میں آئی بتو اسے ایک نیا چہرہ نظر آیا اور جب اُس سے پوچھا تو اُس لڑکی نے بتایا کہ وہ صفوان خان کی سیکریٹری ہے، وہ لڑکی جس کا نام اقرا تھا۔اور وہ سیم شیزا جیسی تھی۔

مس عروہ آپ کو اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر میں آپ پر انحصار کرتا رہا تو سیکریٹری کے کام بھی مجھے خود کرنے پڑے گئے۔

خان نے سنجیدگی سے کہا تو عروہ جو خوش ہو رہی تھی کہ وہ اسے نکال دے گا اس کی امیدوں پر پانی پھیر گیا۔

تو پھر میں کیا کروں گی؟ عروہ نے منہ بسوڑتے پوچھا۔

آپ کے لیے بھی بہت سے کام ہیں میرے پاس مس عروہ آپ وہ کریں گی لیکن فلحال آپ میرے لیے کافی بنا کر لائیں۔

خان نے عروہ کو دیکھتے کہا۔

میں؟ عروہ نے حیرانگی سے اپنی طرف اشارہ کرتے کہا۔

آپ کے علاوہ کوئی یہاں آپ کو نظر آرہا ہے؟ خان نے آبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔

اب آپ مجھے اپنا کُک بنانا چاہتے ہیں؟ عروہ نے بےیقینی سے پوچھا۔

آپ کو کوئی مسئلہ ہے کیا؟ میں آپ کو جو کہوں گا آپ کو وہ کرنا ہو گا اس لیے جلدی سے میرے لیے کافی لے کر آئے اور مس اقرا کو اندر بھیجیں۔

خان نے کوسی کھنچتے اُس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

عروہ گھور کر وہاں سے چلی گئی۔اس کے جاتے ہی خان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

مس عروہ آگے میں جو کرنے جا رہا ہوں اُس میں آپ کو تکلیف تو بہت ہو گی لیکن میں بھی بےبس ہوں اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔خان نے سنجیدگی سے دروازے کو دیکھتے کہا۔

ہم کہاں آئے ہیں؟ ملائکہ نے گاڑی رکتے ہی پوچھا۔

اندر چلو پتہ چل جائے گا۔

ارسم نے سرد لہجے میں کہا اور گاڑی کا دروازہ کھولتے باہر آیا۔

اس نے دوسری طرف آکر دروازہ کھولا اور ملائکہ کو بازو سے پکڑ کر اندر لے کر گیا۔

یہ ایک بہت بڑا گھر تھا۔ملائکہ تو ارسم کے ساتھ کھینچی چلی جا رہی تھی۔گھر کو دیکھنے کا ہوش نہیں تھا۔

ارسم کو اندر جانا نہیں پڑا سامنے ہی اسے حمزہ باہر آتا ہوا نظر آیا تھا۔

یہ حمزہ کا اپنا گھر تھا۔جو اس کے باپ نے اسے گفٹ کیا تھا۔

حمزہ کو سامنے دیکھ کر ملائکہ کی آنکھیں باہر آگئی تھی۔

اور حمزہ تو ارسم کے ہاتھ میں ملائکہ کا ہاتھ دیکھ کر جل بھن گیا تھا۔

سالے صاحب میں آپ کو ایک خوشخبری دینے آیا ہوں۔

ہم دونوں نکاح کر چکے ہیں۔ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ملائکہ تو خاموش کھڑی تھی۔

کیا بکواس کر رہے ہو؟ تمہیں لگتا ہے کہ میں تمھاری بات پر یقین کر لوں گا؟

حمزہ نے سرد لہجے میں کہا۔

فکر مت کرو میں تمہیں نکاح نامہ بھی بھیجوا دوں گا۔

اور اب تم اپنے گھر والوں کو میری بیوی کے گھر نہیں بھیجو گئے۔

ارسم نے اسے تنبیہ کرتے کہا اور جیسے آیا تھا ویسے واپس چلا گیا۔

حمزہ ابھی بھی حیران کھڑا ہوا تھا۔

ارسم نے کہا کہ وہ ملائکہ سے نکاح کر چکا ہے۔وہ اتنا بڑا جھوٹ کبھی نہیں بولے گا اس کا مطلب تھا وہ سچ میں ملائکہ سے نکاح کر چکا تھا۔

یہ تم نے کیا کیا ارسم؟ تمہیں لگتا ہے اس طرح تم مجھے ملائکہ سے دور کر دو گئے؟ لیکن مجھے پرواہ نہیں ہے اگر تمھاری بیوہ کے ساتھ بھی مجھے نکاح کرنا پڑا تو میں کروں گا۔لیکن ملائکہ میری ہے صرف میری حمزہ نے چہرے پر خطرناک تیور لیے دھاڑتے ہوئے کہا۔

اور وہاں سے چلا گیا۔


ارسم خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔

ملائکہ کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔

اس لیے خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔اس کی زندگی کو دونوں نے مل کر مزاح بنا دی تھی۔ارسم نے ملائکہ کے گھر سے کچھ دور گاڑی روکی۔

اب حمزہ کے گھر والے تمھارے گھر نہیں آئے گئے۔اور میرے نمبر کو سیو کر لو۔ارسم نے سنجیدگی سے کہا تو ملائکہ غصے میں بنا کوئی جواب دیے گاڑی کا دروازہ کھولے وہاں سے چلی گئی۔

اس کے جاتے ہی ارسم نے گہرا سانس لیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔

ملائکہ نے اپنے گھر آتے ہی خود کو اپنے کمرے میں بند کیا کر لیا تھا۔کیونکہ اس وقت وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔

💜 💜 💜 💜

آپ دونوں مجھے ایسے کیوں گھور رہے ہیں؟

ارسم نے دادا جان اور تحریم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

بسمہ بیٹھی مسکرا رہی تھی۔کیونکہ اسے کسی بھی بات کا معلوم نہیں تھا۔

تم ہمارے سوالوں کا سچ سچ جواب دو گئے اگر تم نے غلط جواب دیا تو یہاں پورا دن یہی بیٹھے رہو گئے۔دادا جان نے سخت لہجے میں کہا۔

لیکن آپ دونوں نے پوچھنا کیا ہے؟ ارسم نے بے چارگی سے دادا جان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

خان کا نکاح جس لڑکی کے ساتھ ہوا کیا تم اُسے جانتے ہو؟ تحریم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

آپ کو کیسے پتی چلا کہ خان نکاح کر چکا ہے؟ ارسم نے لہجے میں بےیقینی لیے پوچھا۔

اس کا مطلب تمہیں اُس کے نکاح کا پتہ تھا لیکن تم نے بھی ہمیں نہیں بتایا۔دادا جان نے گھورتے ہوئے کہا۔

نانا جان یہ خان کا ذاتی معاملہ ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کسی کے ذاتی معاملے میں دخل اندازی کرنے کا ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

خام تمھارا بھائی ہے۔ایک تو بنا کسی کو بتائے اُس نے نکاح کیا۔اور اب آکر آرام سے ہمیں کہہ رہا کہ میں نکاح کر چکا ہوں اور بہت جلد اُسے طلاق بھی دے دوں گا۔

آجکل کے بچوں نے شادی بیاہ کو مزاح سمجھ لیا ہے۔

تم ہمیں یہ بتاؤ کیا تم اُس لڑکی سے مل چکے ہو؟ دادا جان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

نہیں میں اُس لڑکی کو نہیں جانتا۔ارسم نے جلدی سے کہا لیکن پھر اس کے دماغ میں ایک خیال آیا۔

ایک منٹ آپ نے یہ جان کر کیا کرنا ہے؟ ارسم نے جلدی سے پوچھا۔

ہم لوگ چاہتے ہیں کہ خان اُس لڑکی کو طلاق نا دے اگر اُس نے نکاح کر ہی لیا ہے تو پوری زندگی اُسی لڑکی کے ساتھ گزارے۔

تحریم نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے پھر کل ہی میں آپ کو اُس لڑکی سے ملوا دیتا ہوں۔

ارسم نے خوشی سے کہا کیونکہ وہ بھی یہی چاہتا تھا۔

لیکن پہلے تو تم نے کہا کہ تم اُسے نہیں جانتے؟ دادا جان نے مشکوک انداز میں پوچھا۔

وہ زبان پھسل گئی تھی۔ارسم نے مسکین سی شکل بناتے کہا۔

ایک منٹ کیا یہ سچ ہے؟ صفوان بھائی نکاح کر چکے ہیں؟ کون ہے وہ لڑکی؟ بسمہ نے بےچینی سے پوچھا۔

بریک پر پاوں رکھو گڑیا بہت جلد تم بھی اپنی بھابھی سے مل لینا لیکن ابھی نانا جان کو ملنے دو ارسم نے ریلیکس سے انداز میں کہا۔

کس سے ملنے کی بات ہو رہی ہے؟ خان کی آواز پر ارسم فوراً سیدھا ہوا تھا۔

خان تم آج جلدی آگئے؟ تحریم نے خان کو دیکھتے پوچھا۔

جی آج میں نے سوچا کہ اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارتا ہوں اس لیے جلدی گھر آگیا۔

خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

آج چاند کس طرف سے نکلا ہے؟ ارسم نے کھڑے ہوتے حیرانگی سے پوچھا۔

آپ لوگ تیار ہو جائیں ہم ڈنر باہر کریں گئے۔اور تم میرے ساتھ کمرے میں آؤ۔خان نے پہلے نرم لہجے میں تحریم اور دادا جان کو دیکھتے کہا اور آخری بات اس نے ارسم کو دیکھتے گھورتے ہوئے کہی۔

لو جی یہ بات بھی اسے پتہ چل گئی ارسم نے منہ میں بڑبڑاتے بوئے کہا۔

تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں مجھے نہیں بلکہ کسی اور کو کمرے میں بلانا چاہیے؟ ارسم نے خان کے پاس آتے اس نے ایک آنکھ دباتے بےباکی سے کہا۔

شٹ اپ جلدی آؤ خان نے ڈپٹتے ہوئے کہا اور وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

دادا جان مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔

تحریم اور بسمہ بھی اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

خان اپنے کمرے میں داخل ہوا اس کے پیچھے ہی ارسم بھی چل رہا تھا۔

خان نے اپنی تائی پہلے ڈھیلی کی پھر اُسے اتار کر بیڈ پر رکھا۔

اور اپنے شرٹ کا اوپری بٹن کھولا ارسم کھڑا خان کو دیکھ رہا تھا۔

خان یار میں تمھارا بھائی ہوں۔کچھ تو شرم کرو میرا انٹرسٹ لڑکیوں میں ہے۔ارسم نے اس قدر سنجیدگی سے کہا کہ پہلے تو خان بھی تھوڑی دیر حیرت میں مبتلا ہوا لیکن جیسے ہی اسے سمجھ آئی اس کا دل کیا کہ ارسم کا سر پھاڑ دے۔

شٹ آپ ارسم تمھارے دماغ میں ہمیشہ فضول خیال ہی کیوں آتے ہیں۔

اور تم ملائکہ کو حمزہ کے پاس کیوں لے کر گئے اور اُسے اپنے نکاح کا کیوں بتایا؟ اب وہ ہر ممکن کوشش کرے گا تمہیں نقصان پہنچانے کی خان نے گھورتے ہوئے کہا۔

پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ تمہیں اتنی جلدی سب پتہ کیسے چل جاتا ہے؟ ارسم نے حیرانگی سے پوچھا۔

مجھے حمزہ کی کال آئی تھی۔وہ چاہتا ہے تم آرام سے ملائکہ کو طلاق دے دو۔پہلے وہ مجھ سے آرام سے بات کرنا چاہتا تھا۔

اگر میں نے اُسے طلاق نہیں دی تو؟ اُس نے بتایا نہیں کہ ورنہ وہ یہ کر دے گا وہ کر دے گا؟ مطلب کوئی دھمکی نہیں دی؟ ارسم نے ڈرامائی انداز میں پوچھا۔

ارسم ہر بات مزاح نہیں ہوتی اگر حمزہ نے تمھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اپنے ہاتھوں سے اُس کی جان لوں گا.

خان نے سنجیدگی سے کہا۔

خان مجھے کچھ نہیں ہو گا۔تمھاری پریشانی میں سمجھ سکتا ہوں اگر میں یہ سب نا کرتا تو ملائکہ کے گھر والے حمزہ کا نکاح اُس سے کر دیتے کیونکہ حمزہ ملائکہ کے گھر تک پہنچ گیا ہے اور رشتہ بھی فائنل ہو گیا۔دونوں بلے گھر والے کسی بھی وقت دونوں بکا نکاح کر. سکتے تھے۔ارسم نے بھی سنجیدگی سے کہا۔

ٹھیک ہے لیکن اپنا خیال رکھنا اور جاؤ تیار ہو جاؤ پھر ہمیں جانا بھی ہے۔خان کچھ سیکنڈ ارسم کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔

خان کبھی کبھی تم مجھے حیران کر دیتے ہو۔ارسم نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

خان کے چہرے پر بھی دھیمی دی مسکراہٹ آگئی تھی۔

اور خود بھی فریش ہونے چلا گیا۔

💜 💜 💜💜

عروہ گھر آئی تو بلقیس نے اسے ملائکہ کے رشتے کے بارے میں بتایا۔پہلے تو اسے حیرانگی ہوئی پھر سیدھا ملائکہ کے گھر اس سے ملنے چلی گئی۔

ملائکہ کی ماں سے پتہ چلا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے۔

عروہ دروازہ کھولے اندر آئی تو ملائکہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔

ملائکہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ عروہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

کس بارے میں؟ ملائکہ نے لیٹے ہی پوچھا۔

اپنے رشتے کے بارے میں عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

مجھے بھی ابھی پتہ چلا ملائکہ نے گہرا سانس لیتی کہا۔

عروہ ہم آج دونوں کہی باہر چلے؟ اگر تمہیں کوئی مسئلہ نا ہو تو؟ شاپنگ کریں گئے اور تھوڑی بہت مستی بھی ملائکہ نے اٹھتے ہوئے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

کیونکہ ابھی وہ اپنے دماغ کو تھوڑا پرسکون کرنا چاہتی تھی۔

ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں۔

عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا اب تو اس کا ڈر بھی کافی حد تک ختم ہو گیا تھا۔

تم جلدی سے چادر لے کر آؤ میں تمھارا انتظار کر رہی ہوں باہر عروہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا۔

اس نے زیادہ رشتے کے بارے میں ملائکہ سے نہیں پوچھا تھا اسے وہ کچھ پریشان سی لگی تھی۔

دونوں گھر سے نکل گئی تھیں۔

دونوں نے بہت سی شاپنگ کی اور آخر میں عروہ نے کہا کہ وہ اسے ایک زبردست سی جگہ پر لے کر جائے گی۔

لیکن جب عروہ اسے ایک مہنگے سے ہوٹل لے کر گئی تو ملائکہ کی تو حیرت کے مارے آنکھیں کھل گئی تھیں۔

عروہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔تم یہاں کیوں لائی ہو؟ ملائکہ نے عروہ کی بازو کو پکڑتے اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتے کہا۔

تم فکر مت کرو۔میرے پاس ہیں پیسے عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

دونوں وہاں جا کر بیٹھ گئی۔صفوان کی وجہ سے وہ کافی کچھ سیکھ گئی تھی۔

کھانا عروہ نے آڈر کیا اور دونوں باتیں کرنے لگی جب عروہ کی نظر خانپت پڑی اور خان بھی اسے دیکھ چکا تھااور حیران تو وہ ساتھ ملائکہ کو دیکھ کر ہوا تھا۔

دادا جان، تحریم اور بسمہ بیٹھے ارسم سے باتیں کر رہے تھے۔لیکن خان کی نظریں عروہ پر جمی ہوئی تھیں۔اور وہاں اب کنفیوز ہو رہی تھی۔

انہوں نے بھی آج ہی یہاں آنا تھا۔عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

کیا ہوا؟ ملائکہ نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

کچھ نہیں ۔عروہ نے کہا۔تو اتنے میں ایک لڑکا چلتا ہوا ان دونوں کی ٹیبل کے پاس آیا۔

تم ملائکہ ہو نا؟

اُس لڑکے نے ملائکہ کو دیکھتے ہوئے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

آپ؟ ملائکہ نے بھی حیرانگی سے پوچھا۔

عروہ تو دونوں کی شکلیں دیکھ رہی تھی۔

عروہ یہ امی کے بھائی کے بیٹے ہیں۔

ارمان بھائی ملائکہ نے عروہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

آپ پلیز بیٹھیں نا ملائکہ نے ارمان کو دیکھتے جلدی سے کہا۔

جو مسکرا کر ان کے پاس بیٹھ گیا تھا۔

آپ واپس کب آئے؟ ملائکہ نے پوچھا۔

کل ہی واپس آیا ہوں اور آج میں نے پھوپھو سے ملنے بھی آنا تھا۔لیکن تم یہی پر مل گئی اور یہ کون ہیں؟ ارمان نے عروہ کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔

یہ میری فرینڈ اور بہن بھی ہے عروہ

ملائکہ نے عروہ کی طرف دیکھتے لہجے میں محبت لیے کہا۔

لگتا ہے آپ دونوں میں بہت محبت ہے ارمان نے عروہ کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔

جی بہت زیادہ ملائکہ نے کہا تو اتنے میں ویٹر کھانا لے آیا تھا۔

آپ لوگ انجوائے کریں اور واپس آپ دونوں میرے ساتھ جائیں گی میں ویٹ کرتا ہوں۔ارمان نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا۔

آپ بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا کھا لے عروہ نے جلدی سے کہا۔

نہیں میں تو واپس جا ریا تھا تو ملائکہ نظر آئی۔میں وہ سامنے والی ٹیبل پڑ بیٹھا ہوں ارمان نے اپنی ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

ایسے اچھا نہیں لگتا آپ بھی یہی بیٹھ جائیں۔

عروہ نے کہا۔

اگر اتنا ہی کہہ رہی ہیں تو میں یہی بیٹھ جاتا ہوں ارمان نے کہا تو عروہ بھی مسکرا کر کھانا کھانے لگی۔لیکن اسکی یہ مسکراہٹ خان کو زہر لگ رہی تھی۔

اس کا سارا دھیان عروہ کی طرف تھا۔

جو ارمان کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔

خان نے بل ادا کیا اور ارسم کو کہا کہ سب کو گھر لے جائے اسے ایک ضروری کام ہے۔

دادا جان اور باقی سب بہت خوش تھے کہ سب نے ایک ساتھ وقت گزارا ہے۔ارسم لوگ کے جاتے ہی خان نے اُس ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں عروہ بیٹھی ہوئی تھی۔

لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔خان باہر آیا تو عروہ اور ملائکہ اُسی لڑکے کے ساتھ اُس کی گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں۔

مس عروہ کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟ خان نے تھوڑا اونچی آواز میں کہا عروہ جسکے چہرے پر مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی اُس کی جگہ بےزاری نے لے لی۔

ارمان اور ملائکہ نے بھی سامنے کھڑے خان کو دیکھا تھا۔اور ارمان خان کی پرسنیلٹی سے کافی متاثر بھی ہوا تھا۔

یہ کون ہیں؟ ارمان نے ملائکہ سے پوچھا جس نے کندھے اچکاتے یہی سوال عروہ سے پوچھا۔

میں بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں خان چلتا ہوا آگے آیا لیکن عروہ کو لگ رہا تھا کہ خان کچھ فضول ہی بولنے والا ہے اس لیے اس کے چہرے پر خوف کا سایہ سا آکر گزرا تھا۔

مس عروہ میرے آفس میں جاب کرتی ہیں۔

خان نے کہا تو عروہ نے سکون کا سانس لیا تھا۔

میرا نام ارمان ہے۔میں ملائکہ کا کزن ہوں۔

ارمان نے آگے آتے خان کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔

ایک پل کے لیے خان ارمان کو دیکھتے وہی منجمد ہو گیا تھا اسے دیکھ کر اسے کسی اپنے کی یاد آئی تھی۔

میرا نام صفوان خان ہے۔خان نے خود ہاتھ اس کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

آپ وہ والے خان ہیں جو بزنس مین ہے اور کافی مشہور بھی ہے؟ ارمان نے خوشی سے خان سے ہاتھ ملاتے پوچھا۔

خان مسکرا پڑا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ سامنے کھڑے لڑکے میں ایسا کیا ہے لیکن اسے سامنے کھڑا لڑکا اپنا سا لگا تھا۔

تم سے مل کر اچھا لگا ارمان

اور مس عروہ آپ دھیان سے جائیے گا۔

خان نے عروہ کو دیکھتے کہا پہلے اس کا ارادہ خود دونوں کو گھر چھوڑنے کا تھا لیکن ارمان سے ملنے کا بعد اس کا ارادہ تبدیل ہو گیا تھا۔

سر کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھا سکتا ہوں؟ خان مڑ کر جانے لگا تھا جب ارمان نے جلدی سے کہا۔

ملائکہ اور عروہ تو دونوں کی باتیں سن رہی تھیں۔

خان نے مڑ کر ارمان کی طرف دیکھا۔

آپ اتنے فٹ کیسے ہیں؟مطلب آپ کتنا ٹائم جم میں لگاتے ہیں؟ ارمان نے خان کو دیکھتے پوچھا تو عروہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی کو روکا تھا۔

ملائکہ تو منہ کھولے اپنے عقل سے پیدل کزن کو دیکھ رہی تھی۔

ارمان تم نے یہ جان کر کیا کرنا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہیے۔ملائکہ نے آگے آتے ارمان کو بازو سے پکڑتے کہا۔

خان کے ہونٹ بھی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔

اگر ارسم یہاں ہوتا تو کیا کرتا؟ خان نے ملائکہ کے ہاتھ کو دیکھتے دل میں کہا جو اُس نے ارمان کے بازو پر رکھا ہوا تھا۔

یہ میرا کارڈ ہے پھر کبھی ملنا تفصیل سے بتاؤں گا۔خان نے اپنا کارڈ ارمان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

تھینک یو سر میں ضرور آپ سے ملنے آؤں گا۔ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

خان نے ایک نظر ارمان پر ڈالی اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

ارمان بھی پھر گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔

گھر کے پاس جاتے اس نے گاڑی روکی راستے میں بھی تینوں باتیں کرتے آئے تھے۔اور عروہ کو ارمان کی نیچر اچھی لگی تھی اس کی نظر میں اس کے لیے اور ملائکہ کے لیے عزت اور احترام تھا اور یہی بات اسے زیادہ اچھی لگی تھی۔

میں جاکر پہلے امی کو بتاتی ہوں ملائکہ کہتے ہی گاڑی سے نکل کر چلی گئی۔

عروہ کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟

ارمان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

جو گاڑی سے باہر نکلنے لگی تھی۔

جب سات سال پہلے میں یہاں پھوپھو سے ملنے آیا تھا باہر جانے سے پہلے تو آپ یہاں پر نہیں رہتی تھیں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں؟ ارمان نے پوچھا۔

جی آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اُس وقت ہم لوگ یہاں پر نہیں تھے۔لیکن آپ کے بارے میں ملائکہ نے کافی بار بات کی ہے۔

عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

مجھ جیسے ہیینڈسم انسان کی بات کرنا تو بنتا ہے نا ارمان نے کندھے چوڑے کرتے کہا۔

بلکل ٹھیک کہا آپ نے عروہ نے ہنستے ہوئے کہا اور گاڑی سے باہر نکل گئی۔

ارمان بھی گاڑی سے نکل کر گھر کے اندر چلا گیا تھا۔

ارمان اپنے ماں باپ کی وفات کے بعد سات سال پہلے ہی ملک سے باہر چلا گیا تھا۔اور اب وہ دوبارہ اپنی پڑھائی مکمل کرکے واپس آیا تھا۔اور یہاں آکر اس نے سوچا تھا کہ اپنے لیے ایک فلیٹ لے گا۔

اور اُس کے بعد کسی بزنس کا سوچے گا۔

💜 💜 💜 💜

حمزہ نے عروہ کے بارے میں سب معلوم کروا لیا تھا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔اور یہ جان کر اسے حیرت ہوئی تھی کہ وہ بھی وہی رہتی ہے جہاں ملائکہ رہتی تھی۔

اس نے کسی طرح عروہ کا نمبر حاصل کیا اور اُسے کال کی۔

تیسری بل پر کال اٹینڈ کر لی گئی تھی۔

ہیلو کون؟ عروہ نے مصروف سے انداز میں پوچھا۔اج وہ بہت تھک گئی تھی بس سونا چاہتی تھی۔اور سونے کی تیاری کر رہی تھی۔

اتنی جلدی مجھے بھول گئی؟ حمزہ کی آواز نے اس کے چلتے ہاتھوں کو وہی تھما دیا تھا۔

کو کون؟عروہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

تمھارے لہجے کی کپکپاہٹ سے تو لگ رہا ہے تم مجھے پہچان گئی ہو۔

اور حیرت ہے مجھے ایک ہی گھر میں تم اور بلقیس دونوں ہی مل گئیں چلو میرے لیے آسانی ہو گئی۔

اب میں آرام سے دونوں کا کام تمام کر سکتا ہوں۔حمزہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

تم ہمیں مارنا کیوں چاہتے ہو؟ عروہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

بلقیس ہماری تھوڑی بہت حقیقت جانتی ہے اور تمہیں کیوں مارنا چاہتا ہوں تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔اور میں تمھاری جان بخش بھی سکتا ہوں۔

اگر حمزہ نے بات کو ادھورا چھوڑتے ہوئے کہا۔

اگر کیا؟ عروہ نے جلدی سے پوچھا۔

اگر تم بلقیس کو میرے حوالے کر دو میں تمھاری جان بخش دوں گا۔اور ویسے بھی وہ کون سی تمھاری سگی ماں ہے تو تمہیں مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں کل تک تمھارے جواب کا انتظار کروں گا۔حمزہ نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

عروہ ابھی بھی بےیقینی سے موبائل کان سے لگائے بیٹھی ہوئی تھی ایک مصیبت سے وہ نکلتی نہیں تھی دوسری مصیبت میں پھنس جاتی تھی۔

میری مدد صرف ایک انسان ہی کر سکتا ہے۔کچھ دیر سوچنے کے بعد عروہ نے خود سے کہا۔اس کے دماغ میں خان کا خیال آیا تھا۔

اب اسے صبح کا انتظار تھا۔

پوری رات ٹھیک سے وہ سو بھی نہیں پائی تھی۔

فجر کی آذان اس کے کانوں میں پڑی تو اُٹھ کر اس نے نماز پڑھی اور آفس کے لیے تیار ہونے لگی۔

بلقیس بھی حیران تھی کہ آج تو عروہ کچھ زیادہ ہی جلدی اُٹھ گئی تھی۔

عروہ نے ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا اور آفس کے لیے نکل گئی۔

💜 💜 💜 💜

ارمان جب گھر میں داخل ہوا تو ملائکہ کی امی یاسمین اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔وہ تو اپنے لاڈلے کے صدقے واری جا رہی تھی۔

شکر ہے تم نے اپنی شکل تو دکھائی ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا وہی کوئی گوری پسند آگئی ہو گی اور تم اُس وقت واپس آؤ گئے جب تمھارے چار یا چھ بچے ہو جائیں گئے۔

یاسمین نے کہا تو ارمان جو پانی پی رہا تھا سیدھا اس کے حلق کو جا لگا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔

پھوپھو یار بچے کچھ زیادہ نہیں؟ ارمان نے معصومیت سے پوچھا تو ملائکہ کے ساتھ اس کی ماں بھی ہنس پڑی۔

اب میں تمہیں کہی جانے نہیں دوں گی۔جو بھی تمہیں کرنا ہے اپنے ملک میں رہ کر کرو یاسمین نے کہا۔

جی پھوپھو اب تو میرا بھی کوئی موڈ نہیں ہے باہر جانے کا۔

اور آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ ارمان نے ارد گرد دیکھتے پوچھا۔

وہ جلدی سو جاتے ہیں۔اُن سے تمھاری ملاقات صبح ہی پو گی۔

یاسمین نے کہا۔

چلیں صبح مل لیں گئے۔

اور ارمان بھائی آپ یہی ہمارے پاس رہے گئے نا؟ ملائکہ نے جلدی سے پوچھا۔

نہیں میں سوچ رہا ہوں ایک فلیٹ لے لیتا ہوں اپنے لیے وہی رہوں گا۔

ارمان نے سنجیدگی سے کہا۔

کیا کہا تم نے؟ یاسمین نے ارمان کا کان مڑورتے ہوئے کہا۔

پھوپھو یار کان تو چھوڑ دیں بنا کان کے تو کوئی لڑکی بھی پسند نہیں کرے گی۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کہا۔

تم یہی رہو گئے اور اپنے گھر کے ہوتے ہوئے تمہیں فلیٹ میں رہنے کی کیا ضرورت ہے۔اور خبر دار اب اگر تم نے کہی باہر رہنے کی بات کی۔لیکن ہمارا گھر چھوٹا ہے اگر اس لحاظ سے تم یہاں نہیں رہنا چاہتے تو وہ الگ بات ہے۔یاسمین نے سنجیدگی سے کہا۔

ارے پھوپھو کیسی باتیں آپ کر رہی ہیں۔میں یہی رہوں گا لیکن اس طرح مجھے بلیک میل نا کریں۔ارمان نے کہا تو یاسمین ہنس پڑی۔ ٹھیک ہے تم آرام کرو تھک گئے ہوگئے۔اور تمہیں پتہ ہی ہے کہ تمھارا کمرا کون سا ہے۔

یاسمین نے کہا تو ارمان اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے اٹھ گیا اور کمرے کی طرف چلا گیا اور ملائکہ بھی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

صفوان کے آتے ہی عروہ اندر آئی۔سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔عروہ نے صفوان کو دیکھتے ہوئے کہا۔

جی کیا بات کرنی ہے؟ صفوان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

کیا آپ میری مدد کریں گئے؟ عروہ نے گہرا سانس لیتے پوچھا۔

کیسی مدد؟ صفوان نے آبرو اچکاتے پوچھا۔

میں اپنی ماں کو حمزہ سے بچانا چاہتی ہوں۔

کیا اس معاملے میں آپ میری مدد کریں گئے؟ عروہ نے پوچھا تو ایک سیکنڈ میں خان کو بات سمجھ میں آئی تھی اور اسطکے چہرے پر مسکراہٹ آگئ۔

میں آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن آپ کو بھی میری ایک بات ماننی پڑے گی۔

صفوان نے اپنے قدم عروہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

کیا؟ عروہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

مجھے آپ سے ایک بچہ چاہیے ۔خان نے عروہ کے چہرے کے تاثرات دیکھتے کہا۔

جس نے پہلے تو بےیقینی سے خان کی طرف دیکھا پھر اس لا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔

” ہمارے کنٹریکٹ میں بچے کا ذکر نہیں تھا مسٹر صفوان اور اب آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو بچہ بھی چاہیے؟“ عروہ نے کرخت لہجے میں صفوان کو دیکھتے پوچھا۔

مس عروہ میں کنٹریکٹ میں یہ لائن بھی لکھ دیتا ہوں۔پھر تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا نا؟؟؟؟ اور کنٹریکٹ میں تو یہ بھی نہیں تھا کہ میں آپ کے گھر والوں کی حفاظت کروں؟

اور اگر آپ اس بات کی ہامی بھر لیتی ہیں کہ آپ مجھے بچہ دیں گی تو میں بھی آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ صفوان نے دوٹوک انداز میں عروہ کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑھتے کہا۔

” آپ اس قدر گھٹیا انسان بھی ثابت ہو سکتے ہیں مجھے امید نہیں تھی۔میں آپ کا کھلونا نہیں ہوں سمجھے آپ

اور میرا نہیں خیال کے آپ کے لیے یہ کام مشکل ہو گیا کسی بھی لڑکی کو آپ اس کام کے لیے ہائیر کر سکتے ہیں۔

عروہ نے تمسخرانہ انداز میں صفوان کو دیکھتے کہا جس کا ذلت اور توہین کے مارے چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

ٹھیک کہا مس عروہ میرے لیے مشکل نہیں ہے لیکن مجھے کسی اور سے نہیں بلکہ آپ سے بچہ چاہیے۔تمھارا اور میرا پیار سا بچہ جو میرے جیسا ہو گا۔صفوان نے تیکھے لہجے میں عروہ کی آنکھوں میں دیکھتے مزید کہا۔

نکاح میں ہو آپ میرے اور میں کچھ بھی کر سکتا ہوں آپ مجھے روک نہیں سکتی۔

صفوان نے آنکھوں میں چمک لیے عروہ کے سرخ چہرے کو دیکھتے ڈھٹائی سے کہا۔پتہ نہیں اس کے دماغ میں ایسا کیا چل رہا تھا جو وہ ایسے عروہ سے بات کر رہا تھا۔

اگر آپ نے میرے قریب آنے کی کوشش کی یا مجھ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں اپنی جان لے لوں گی۔

مروہ نے انگلی اٹھائے صفوان کو تنبیہ کرتے اپنے قدم پیچھے لیتے سرد لہجے میں کہا۔

صفوان اس کی طرف ہی آرہا تھا۔

عروہ کی بات سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

مس عروہ جتنا آپ مجھے بدتمیز سمجھتی ہیں اتنا میں ہوں نہیں۔اور آپ اتنا فضول سوچ بھی کیسے لیتی ہیں؟

خان نے عروہ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوتے گھورتے ہوئے پوچھا۔

کیا مطلب؟ عروہ نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔

میں بس آپ کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا۔

جو میری سوچ کے بلکل ہی برعکس تھا مجھے لگا آپ میری بات مان لیں گی لیکن آپ نے میری سوچ کو غلط ثابت کیا۔

ایم سوری میرا ارادہ آپ کو ڈرانے کا نہیں تھا۔

خان نے سنجیدگی سے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

عروہ کا دل کیا یہاں سے کوئی وزنی چیز پکڑ کر سامنے بیٹھے انسان کے سر پر دے مارے۔

سر آپ کو معلوم ہے کہ آپ بہت ہی برے انسان ہیں۔عروہ نے آگے آتے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھتے دانت پیستے کہا۔

بہت بہت شکریہ مس عروہ آپ کے بتانے کا لیکن یہ بات میں پہلے سے جانتا ہوں آپ پلیز بیٹھ جائیں پھر بات کرتے ہیں۔

خان نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

عروہ گھورتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔خان کی بات نے تو اس کو خوفزدہ کر دیا تھا۔

آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کی مدر کی حفاظت کرو حمزہ سے تو اُس کے لیے آپ کی مدر کو میرے گھر آکر رہنا ہو گا۔کیونکہ وہاں حمزہ نہیں آسکتا اور باقی کسی بھی جگہ وہ پہنچ سکتا ہے۔

خان نے عروہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

لیکن امی کبھی بھی نہیں مانے گی۔عروہ نے پریشانی سے کہا۔

یہ تو آپ کا مسئلہ ہے مس عروہ میں نے آپ کو حل بتا دیا ہے آگے اس پر عمل کرنا یا نا کرنا وہ آپ پر ہے۔خان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

لیکن ان سب کے بدلے میں میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

آپ کی مدر کی تو ڈیتھ ہو گئی تھی تو پھر جس کے ساتھ آپ رہتی ہیں وہ کون ہے؟ خان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

اور اب تو اسے پتہ چل گیا تھا کہ خان کی فیملی کی حمزہ کی فیملی کے ساتھ اچھی دوستی تھی اس لیے خان اس کی ماں کے انتقال کے بارے میں بھی جانتا تھا۔

میں اپنی خالہ کے ساتھ رہتی ہوں۔عروہ نے نظریں جھکا کر کہا۔

خان پہلے سے جانتا تھا کہ وہ اپنی خالہ کے ساتھ رہتی ہے پھر بھی اس نے عروہ سے یہ سوال پوچھا تھا۔

اور آپ کی اپنی ماں کی وفات کیسے ہوئی؟ خان نے اگلا سوال کیا۔

اُن کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔عروہ نے دکھی لہجے میں کہا۔

مس عروہ آپ بہت معصوم ہیں۔وقت آنے پر آپ پر بہت سی حقیقتیں کھلے گی۔اُس کے لیے خود کو تیار رکھیے گا۔اور اب آپ گھر جاکر اپنی خالہ کو راضی کریں اور ہاں ایک اور بات اگر اُن کی حفاظت کے لیے آپ کو اپنے نکاح کا بھی بتانا پڑا تو آپ بتا سکتی ہیں۔خان نے اپنا لیپ ٹاپ اوپن کرتے کہا۔

عروہ کو تو خان کی پہلی بات بلکل بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔

لیکن پھر بھی بنا کوئی سوال کیے وہاں سے اُٹھ گئی۔

اس سے پہلے وہ آفس سے باہر جاتی۔آفس کا دروازہ کھلا اور دادا جان اندر آئے۔

دادا جان کو دیکھتے عروہ وہی منجمد ہو گئی تھی۔کیونکہ حمزہ کے گھر سے جب وہ اپنی عزت بچا کر بھاگی تھی تو اسے اپنی خالہ سے پتہ چلا کہ حمزہ نے اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی ماں کے زیور لے کر بھاگی ہے اور وہ زیور حمزہ نے کہی چھپا دیے تھے۔

اور اب دادا جان کی نظر میں عروہ ایک چور سے بھر کر کچھ نہیں تھی۔

خان اور ارسم تو کبھی رحمان کے گھر نہیں گئے تھے۔لیکن دادا جان تو وہاں جاتے رہتے تھے۔

تم؟ دادا جان نے عروہ کو دیکھتے لہجے میں بےیقینی لیے کہا۔

خان یہ لڑکی تمھارے آفس میں کیا کر رہی ہے؟ جانتے بھی ہو یہ رحمان کے گھر سے کیا کچھ چوری کرکے بھاگی تھی؟ ہاں تمہیں کیسے معلوم ہو گا تم نے اس لڑکی کو دیکھا تھوڑی ہے لیکن میں ابھی پولیس کو کال کرتا ہوں۔دادا جان نے سرد لہجے میں کہا۔

عروہ کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔حمزہ کی وجہ سے کتنا خراب اس کا امیج سب کی نظروں میں بن گیا تھا بےقصو ہوتے ہوئے بھی سب اسے قصوروار سمجھ رہے تھے۔

خان نے ایک نظر عروہ کی طرف ڈالی۔اسی وقت اس کا دل کیا کہ اس لڑکی کا ہر دکھ تکلیف خود پر لے لیں اور اسے ہر مصیبت اور پریشانی سے آذاد کر دے۔

مس عروہ آپ گھر جائیں۔خان نے عروہ کو دیکھتے بھاری لہجے میں کہا جو خان کی بات سنتے ہی ایک سیکنڈ سے پہلے وہاں سے غائب ہوئی تھی۔

خان تم نے اُسے جانے کیوں دیا؟ اُسے پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا؟ دادا جان نے غصے سے خان کو دیکھتے کہا۔

دادا جان آپ میرے بڑے ہیں۔لیکن اپنی بیوی کے خلاف میں ایک بھی غلط لفظ برداشت نہیں کروں گا۔

جب تک وہ میری بیوی ہے وہ میری ذمہ داری ہے۔خان نے سرد لہجے میں دادا جان کو دیکھتے کہا۔

خان تم نے اس لڑکی سے نکاح کیا؟ تمہیں اسے آج ہی طلاق دینی ہو گی میرے پوتے کی بہو ایک چورنی نہیں ہو سکتی۔دادا جان نے کرخت لہجے میں کہا۔

دادا جان اُس نے کوئی چوری نہیں کی۔اور مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کوئی کچھ بھی کہے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔

اور آپ پلیز گھر جائیں میری ایک ضروری میٹنگ ہے۔خان نے رخ موڑے کہا۔

ٹھیک ہے ابھی میں جا رہا ہوں لیکن گھر پر اس بارے میں بات ہو گی۔دادا جان نے کہا اور وہاں سے چلے گئے۔

ان کے جاتے ہی خان نے غصے سے اپنی ٹیبل پر پڑی فائلز زمین پر پھینک تھی۔

اچانک اس کا موبائل رنگ ہوا جس ہر ارسم کا نام جگمگا رہا تھا۔

لیکن مقابل کی بات سن کر خان وہی بت کا بن گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

کیا ہوا ابو جان آپ جلدی واپس آگئے؟ تحریم نے دادا جان کو دیکھتے پوچھا۔

تم جانتی ہو خان نے کس لڑکی سے نکاح کیا؟ دادا جان نے تحریم کو دیکھتے پوچھا۔

جس نے ناسمجھی سے دادا جان کی طرف دیکھا تھا۔

خان نے اُس لڑکی کے ساتھ نکاح کیا جو رحمان کے ملازم کی بیٹی ہے جو رحمان کے گھر سے زیور چوری کر کے بھاگی تھی۔

اور خان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا۔

دادا جان نے غصے سے کہا۔

تحریم تو حیران پریشان سی کھڑی تھی۔

ابو جان خان نے سوچ سمجھ کر ہی نکاح کیا ہو گا۔وہ اچھے سے جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے آپ پریشان مت ہوں اور ویسے بھی اُس نے اُس لڑکی کو طلاق دے دینی ہے۔تو پھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔تحریم نے تحمل سے کہا۔

جس لہجے میں اُس نے آج اُس لڑکی کی خاطر مجھ سے بات کی مجھے نہیں لگتا کہ وہ اسے طلاق دے گا۔

دادا جان نے منہ میں بڑبڑاتے بوئے کہا۔

لیکن ابو جان حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہے۔ہم سب نے تو حمزہ کی بات پر یقین کیا۔اب ہمیں کیا معلوم کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ

تحریم نے کہا۔تو کچھ دیر کے لیے دادا جان بھی سوچ میں پڑ گئے تھے۔

لیکن جو بھی ہے ایک چورنی ہمارے گھر کی بہو تو کبھی نہیں بنے گی۔اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ دادا جان کہتے ہی وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔

پیچھے تحریم بھی اپنے کمرے میں چلی گئی تاکہ کوثر کو کال کرکے صحیح بات معلوم کر سکے۔

💜 💜 💜 💜

خان فوراً ہسپتال پہنچا تھا۔اسے ہسپتال سے کال آئی تھی کہ ارسم کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔

وہاں پہنچتے ہی اسے ارمان نظر آیا اور ارمان کو وہاں دیکھ کر خان حیران ضرور ہوا تھا۔ارمان ہی ارسم کو ہسپتال لے کر آیا تھا۔

زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی۔ماتھے پر ہلکی سی لگی تھی۔

آپ؟ تو آپ ان کے بھائی ہیں؟ ارمان نے خان کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

ارسم کیسا ہے وہ ٹھیک ہے؟ خان نے اس کی بات کو اگنور کرتے پوچھا۔

جی وہ ٹھیک ہیں ماتھے پر چوٹ لگی ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے۔ارمان نے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا۔

خان نے شکر کا سانس لیا تھا۔

تم اُسے یہاں لے کر آئے ہو؟ خان نے سنجیدگی سے پوچھا تو ارمان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

تھینک یو سو مچ تمھارا یہ احسان میں کبھی بھی بھول نہیں پاؤں گا۔خان نے دل سے اس کا شکریہ ادا کرتے کہا۔

سر کیسی باتیں کر رہے ہیں مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ کے بھائی ہے اگر اُن کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو میں اُس کی بھی مدد کرتا۔

اور اب میں چلتا ہوں۔میرا انٹرویو تھا۔کافی لیٹ ہو گیا ہوں۔ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تم ایسا کرو کل میرے آفس آنا انٹرویو کے لیے اگر تم نے مجھے اپنی قابلیت سے متاثر کیا تو ضرور تمہیں وہاں جاب مل جائے گی۔خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تھینک یو سر لیکن کہی آپ یہ جاب مجھے اس لیے تو نہیں دے رہے کہ میں نے آپ کے بھائی کی مدد کی ہے تو میں اپنی قابلیت پر جاب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

ارمان نے خان کو دیکھتے کہا۔

مجھے تمھاری بات پسند آئی ارمان اور تم یہ مت سمجھو کہ تم نے میرے بھائی کی مدد کی اس لیے میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔اگر تم اس جاب کے لائق ہوئے تو تمہیں جاب مل جائے گی ورنہ نہیں اور اب گھر جاؤ خان نے ارمان کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

تھینک یو سر ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ارمان نے پہلے تو سوچا تھا اپنا بزنس سٹارٹ کرے گا پھر اس نے کہا جاب ہی کر لیتا ہوں اب بزنس میں اتنی محنت کون کرے اس لیے آج انٹرویو دینے جا رہا تھا۔جب اسے سڑک پر. رش نظر آیا اور گاڑی سے اتر کر رش والی جگہ پر گیا۔سب لوگ وہاں جمع تھے لیکن کوئی ارسم کو. ہسپتال لے کر نہیں جا رہا تھا. اس لیے یہ اُسے ہسپتال لے آیا۔


خان کمرے میں داخل ہوا تو ارسم بیٹھا موبائل استعمال کر رہا تھا۔ماتھے پر اس کے بینڈیج لگی ہوئی تھی باقی وہ فٹ ہی لگ رہا تھا۔

خان تم؟ وہ لڑکا کہاں گیا جو مجھے یہاں لایا تھا؟ ارسم نے خان کو دیکھتے پوچھا۔

وہ چلا گیا ہے اور یہ کام حمزہ کا ہے؟ خان نے مشکوک انداز میں پوچھا۔

نہیں یار میری غلطی ہے۔میرا دھیان موبائل پر تھا تو یہ ایکسیڈنٹ ہو گیا۔

ارسم نے خان کو دیکھتے کہا۔

آئندہ تم ڈرائیونگ کے دوران موبائل یوز نہیں کروا گے ورنہ میں نے تم سے موبائل لے لینا ہے۔

خان نے ارسم کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

اچھا میرے باپ ٹھیک ہے۔اور مجھے گھر چھوڑ دے۔ڈرائیونگ تو تونے کرنے نہیں دینی۔ارسم نے سنجیدگی سے کہا۔

تم اپنے فلیٹ پر چلے جاؤ زیادہ بہتر ہے۔خان نے کہا تو ارسم نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔

دادا جان آج آفس آئے تھے۔

انہوں نے عروہ کو دیکھ لیا ہے اور کافی کچھ اُس کے سامنے بولا ہے۔جو اُن کو نہیں بولنا چاہیے تھا۔

اور وہ کافی غصے میں ہیں۔خان نے پوری بات بتائی تو ارسم ہنس پڑا۔

مجھے معلوم ہے تم سب سنبھال لو گے۔اور ہاں مجھے فلیٹ پر ہی چھوڑ دو۔

ارسم نے کہا۔

اور دوسری بات جو لڑکا تمہیں یہاں لایا ہے وہ تمھارا سالہ ہے مطلب لائبہ کا کزن ہے۔خان نے بھی کھڑے ہوتے کہا۔

واہ کیا حسین اتفاق ہے۔لیکن لڑکا اچھا ہے۔مجھے اچھا لگا۔پتہ نہیں کیوں لیکن اپنا اپنا سا لگا۔ارسم نے کہا تو خان نے اس کی طرف دیکھا تھا۔اسے بھی تو ایسا ہی لگا تھا جب وہ پہلی بار ارمان سے ملا تھا۔

چلیں؟ ارسم نے خان کو دیکھتے پوچھا۔جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

خان نے اپنا موبائل نکالا اور عروہ کو میسج کیا کہ اس جگہ پر پہنچ جائے وہ اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔میسج سینڈ کرتے ہی اس نے موبائل واپس اپنی جیب میں رکھا اور وہاں سے چلا گیا۔

خان نے ارسم کو فلیٹ پر چھوڑ دیا تھا۔اور خود اُسی جگہ پر عروہ کا انتظار کر رہا تھا۔جہاں پر اس نے آنے کا کہا تھا۔

اس نے کبھی کسی کا انتظار نہیں کیا تھا لیکن اب بیٹھا عروہ کا انتظار کر رہا تھا۔عجیب صورتحال ہو گی تھی اس کی اپنی بھی وہ سب کر رہا تھا جو اس نے کبھی کیا نہیں تھا۔

تھوڑی دیر بعد عروہ وہاں آئی اس کی آنکھوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ روئی ہے۔

مس عروہ آپ ٹھیک ہیں؟خان نے سیدھا ہوتے بیٹھتے پوچھا۔

اگر کوئی اور وقت ہوتا تو عروہ اس کے لہجے کی بے چینی ضرور نوٹ کرتی۔

آپ کو بھی لگتا ہے کہ میں چوری کرکے بھاگی تھی؟

عروہ نے خام کی طرف دیکھتے پوچھا؟

نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا۔خان نے ایک سیکنڈ بھی سوچنے میں نہیں لگایا تھا اور فوراً جواب دیا۔

مس عروہ جتنا میں آپ کو جانتا ہوں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتی لیکن حمزہ بہت چلاک ہے۔اُس نے آپ پر الزام لگایا ہے کہ آپ نے زیور چوری کیے ہیں۔لیکن مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔آپ بےقصور تھیں تو پھر حمزہ سے بھاگ کیوں رہی تھیں؟ اور رحمان صاحب سے آپ کیوں ڈر رہی تھیں؟ خان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا

آپ کے سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے میرے پاس اور وہ یہ کہ میں اکیلی لڑکی تھی اور میں ان دونوں مردوں کا اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔اُن کے سامنے تو میری کوئی بھی اہمیت نہیں تھی۔

اور حمزہ کا باپ بھی اپنے بیٹے کی کرتوت کو اچھی طرح جانتا ہے وہ جیسا نظر آتا ہے ویسے ہے نہیں۔

اور دوسرا میری خالہ نے کہا تھا کہ ہم اس سارے معاملے سے دور رہے گئے شاید اُن کو اس بات کی فکر تھی کہ کہی مجھے کچھ ہو نا جائے لیکن میرے ساتھ کیا ہوا اور میں حمزہ کے گھر سے کیوں بھاگی یہ بات میں نے اپنی خالہ کو کبھی نہیں بتائی تھی۔بس اُن کو ایک بات عجیب لگتی تھی کہ میں کس سے اتنا ڈرتی ہوں اور بعد میں اُن کو لگا کہ مجھے کوئی دماغی بیماری ہے جو میں ہر کسی سے خوفزدہ ہو جاتی ہوں لیکن حقیقت اُن کو معلوم نہیں تھی۔

عروہ نے خان کو دیکھتے کہا۔

مس عروہ دادا جان کی باتوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی اُس کے لیے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں میں جانتا ہوں اُن کی باتوں نے آپ کو بہت ہرٹ کیا ہے۔خان نے عروہ کی بات سننے کے بعد کہا۔

آپ معافی کیوں مانگ رہے ہیں اگر اُن کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو بھی یہی سب کہتا۔

عروہ نے ہلکا سا مسکرا کر کہا۔

مس عروہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی خالہ کے ساتھ میرے فلیٹ پر رہے اور پک اینڈ ڈراپ میں آپ کو دوں گا۔

خان نے کافی کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔

خان نے عروہ کے لیے بھی کافی منگوائی تھی۔

جس نے بےدھیانی میں کافی کا کپ لبوں سے لگا لیا۔

یہ کیا ہے؟ عروہ نے کافی کو دیکھتے ناک منہ بسوڑتے کہا۔اور جلدی سے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔

اس کو کافی کہتے ہیں۔خان نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

تو آپ نے میرے لیے کیوں منگوائی؟ یہ کتنی کڑوی ہے آپ کیسے اسے پی لیتے ہیں؟

عروہ ابھی بھی بار بار پانی پی رہی تھی۔

چلیں میں آپ کو آئسکریم لے کر دیتا ہوں اُس سے آپ کا ٹیسٹ ٹھیک ہو جائے گا۔

خان نے کھڑے ہوتے کہا۔

عروہ بھی اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے اٹھ گئی۔

باہر آتے خان نے عروہ کو آئسکریم لے کر دی تھی۔اس کا مقصد عروہ کا موڈ ٹھیک کرنا تھا جو کافی حد تک ہو گیا تھا۔

عروہ آئسکریم کھانے لگی تھی جب خان کی نظر اس کے ہونٹوں پر لگی چاکلیٹ پر پڑی۔

اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے اپنے انگوٹھے سے عروہ کے ہونٹ پر لگی چاکلیٹ کو صاف کیا۔

عروہ وہی شوکڈ ہوئی تھی۔خان کے چھونے پر اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔

لیکن دور کھڑی ثانیہ نے یہ سین چہرے پر نفرت لیے دیکھا تھا۔خان ثانیہ کو دیکھ چکا تھا۔لیکن اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔

مس عروہ چلیں؟ خان نے بت بنی عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

ہاں جی چلیں عروہ نے ہوش میں آتے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔اور آگے چل پڑی۔

خان اس کی بوکھلاہٹ دیکھ کر ہنس پڑا تھا۔اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜 💜

خان نے عروہ کو اُسبکے گھر چھوڑا جو پورے راستے خاموش رہی تھی۔اس چھوڑنے کے بعد اس نے وہاج سے ملنا تھا جس نے کچھ پہلے ملنے کا کہا تھا تو اُس وقت تو خان مصروف تھا اور اب اس نے وہاج کو ملنے کا کہا۔

وہاج بیٹھا خان کا انتظار کررہا تھا اسے ٹیشن بھی تھی کہ اگر خان نے منع کر دیا تو ابھی وہ اسی بارے میں سوچ رہا تھا جب خان وہاں آیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

کیسے ہو وہاج جان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں بھائی۔آپ بھی ٹھیک ہی ہوں گئے؟ وہاج نے جان کو دیکھتے پوچھا۔جو ہنس پڑھا تھا۔

بھائی مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔وہاج نے خان کو دیکھتے کہا۔

میں سن رہا ہوں۔خان نے سنجیدگی سے کہا۔

وہاج نے گہرا سانس لیا اور بات کا آغاز کیا۔

میں بسمہ کو پسند کرتا ہوں۔اب سے نہیں بہت پہلے سے وہاج نے نظریں جھکائے جلدی سے کہا۔

یہ بات میں جانتا ہوں۔خان نے کہا تو وہاج نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

میں بسمہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔آپ جس طرح بھی مجھے آزمانا چاہیں آزما سکتے ہیں۔

آج آپ کے سامنے میں خود بات کرنے اس لیے آیا ہوں کیونکہ ڈیڈ اس رشتے کے لیے کبھی نہیں مانے گئے۔

وہاج نے خان کو دیکھتے کہا۔

تمھارے ڈیڈ چاہتے ہیں کہ آفاق کے ساتھ میری بہن کی شادی ہو جائے وہ دادا جان سے اس بارے میں بات کر چکے ہیں اور وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں وہ بھی میں اچھی طرح جانتا ہوں۔

اور دوسری بات وہاج تمہیں میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں تم میں کوئی برائی نہیں ہے۔لیکن میں اپنی بہن کو اُس گھر میں بھیجنے کے حق میں نہیں ہوں۔

خان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔

اس کا مطلب آپ کو گھر سے مسئلہ ہے؟ تو میں بسمہ کو الگ گھر لے دوں گا۔

وہاج نے کہا تو خان ہنس پڑا۔وہ اس کی بےتابی نوٹ کر چکا تھا۔

ٹھیک ہے تمھاری یہ بات بھی میں مان لیتا ہوں۔لیکن ارسم کو تم کیسے راضی کرو گئے؟ وہ تو کبھی نہیں مانے گا۔

خان کی اس بات پر وہاج خاموش ہو گیا تھا۔کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا ارسم ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔

دیکھو وہاج آگر تم ارسم کو راضی کر لیتے ہو تو میں خوشی خوشی اپنی بہن کا ہاتھ تمھارے ہاتھ میں دینے کو تیار ہوں۔لیکن ارسم کو راضی کرنے کے لیے تمہیں کافی محنت کرنی ہو گی۔

خان نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا اور وہاج کا کندھا تھپتھپا کر وہاں سے چلا گیا۔

پیچھے وہاج سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔کیونکہ ارسم کو اس رشتے کے لیے راضی کرنا بہت مشکل تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

آگئے تم؟خان کو دیکھتے یی دادا جان نے تیکھے لہجے میں کہا۔

تحریم بھی وہی پر بیٹھی ہوئی تھی۔

دادا بجان مجھے عروہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔یہ میری زندگی ہے میں جس مرضی نکاح کروں یہ میرا مسئلہ ہے۔آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

خان کہہ کر وہاں سے جانے لگا جب دادا جان کی بات نے اس کے قدموں کو روکا تھا۔

تم اُس لڑکی کی خاطر اپنے دادا سے اس لہجے میں بات کر رہے ہو؟

دادا جان نے دکھی لہجے میں کہا۔

میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں دادا جان لیکن شروع سے آپ کو ہم سے زیادہ اپنے دوست کی فیملی پر یقین ہے۔وہ کچھ بھی کہہ دیں گئے آپ سچ مان لیں گئے۔

لیکن وہی بات اگر ہم میں سے کوئی کرے گا آپ یقین نہیں کریں گئے۔اتنا سب کچھ ہو گیا۔لیکن آپ نے ایک بار بھی سوچا کہ ڈیڈ کی اتنی بڑی کمپنی کیسے ایک دن میں ختم ہو گئی؟

کیسے ہمیں ایک چھوٹے سے گھر میں رہنا پڑا؟ اور یہ سب ڈیڈ کی ڈیتھ کے اگلے دن ہی ہو گیا؟ اور رحمان جس کی چھوٹی سی کمپنی تھی۔وہ کیسے ایک ہفتے میں کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچ گی؟

خان نے سنجیدگی سے دادا جان ہو دیکھتے کہا۔اس کے لہجے میں تکلیف تھی۔

تمھارے باپ کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔

اُس نے سارے شئیرز کم دام میں بیچ کر کمپنی کو برباد کر دیا۔

دادا جان نے غصے سے کہا۔

اور یہ کہانی بھی آپ کو رحمان نے ہی سنائی ہو گی۔ٹھیک ہے آپ کریں اُن پر یقین لیکن میرے معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا۔کیونکہ یہ حق اپنے علاوہ میں کسی کو بھی نہیں دیتا۔خان نے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

پیچھے تحریم نے بےبسی سے دادا جان کی طرف دیکھا تھا۔اور یہ بات سچ بھی تھی۔دادا جان رحمان کی فیملی پر زیادہ یقین کرتے تھے۔دادا جان بھی غصے میں اپنے کمرے کی طرح چلے گئے

خان بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا جب اس کی وہی بیٹھے آنکھ لگ گئی۔ اچانک اس کا موبائل رنگ ہوا۔تو اس نے آنکھیں کھولی اور اپنے سینے پر رکھی کتاب کو پیچھے کرکے رکھتے اس نے موبائل کی طرف دیکھا جہاں عروہ لکھا آرہا تھا۔ خان فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔کیونکہ عروہ نے کبھی اسے کال نہیں کی تھی اور اگر اب کر رہی تھی اس کا مطلب تھا کہ کوئی بڑی بات تھی۔جس کی وجہ سے وہ کال کر رہی تھی۔

اس نے جلدی سے کال اٹینڈ کی اور موبائل کان سے لگایا۔

دوسری جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔خان کو کچھ برا ہونے کا احساس ہوا تھا۔

مس عروہ آپ ٹھیک ہیں؟

خان نے لہجے میں بےچینی لیے پوچھا۔

عروہ ابھی بھی خاموش تھی لیکن خان کو اس کی سسکیوں کی آوازیں سنائی دی تھی۔

عروہ کیا ہوا ہے؟ آپ ٹھیک ہیں؟ اس وقت کہاں پر ہیں آپ؟ خان نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے پریشانی سے پوچھا۔

اور چابیں پکڑے وہاں سے باہر کی طرف بھاگا۔

می میں ہسپتال میں ہوں عروہ نے بمشکل جواب دیا۔

ہسپتال میں؟ کیا نام ہے ہسپتال کا؟ خان نے جلدی سے پوچھا۔

عروہ نے ہچکی لیتے خان کو ہسپتال کا بتایا۔

ٹھیک ہے میں پہنچ رہا ہوں۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔خان فون ہر ہی عروہ کو دلاسے دے رہا تھا۔

یہ تو وہی جانتا تھا کہ اس کا دل کس قدر گھبرا رہا تھا۔

تیز ڈرائیونگ کرتے دس منٹ کے اندر خان ہسپتال پہنچا تھا۔

اور بھاگتے ہوئے ہسپتال کے اندر آیا اسے سامنے ہی عروہ نظر آگئی تھی۔لیکن اس نے خان کو نہیں دیکھا تھا۔

عروہ آپ ٹھیک ہیں ؟خان نے عروہ کے پاس جاتے اسکا رخ اپنی طرف کرتے بےتابی سے پوچھا اور اسے پریشانی سے دیکھنے لگا۔

عروہ نے سامنے خان کو دیکھا تو بنا کچھ کہے اس کے سینے سے جا لگی۔

خان تو حیران کھڑا عروہ کو دیکھ رہا تھا۔اُسے نہیں لگ رہا تھا کہ عروہ یہ حرکت کرے گی۔

لیکن خان نے محسوس کیا کہ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔

عروہ کیا ہوا؟ آپ پلیز رونا بند کریں پہلے خان نے پیار سے عروہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے کہا۔

میری امی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اُن کی حالت بہت بری ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اُن کو خون نہیں مل رہا۔اگر جلدی خون نا ملا تو وہ اُن کو بچا نہیں پائے گئے۔عروہ نے خان سے پیچھے ہوتے روتے ہوئے کہا آنکھوں کے ساتھ رونے سے اس کا پورا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

آپ پریشان مت ہوں اور اللہ سے دعا کریں سب ٹھیک ہو گا میں دیکھتا ہوں۔

ٹھیک ہے ۔خان نے عروہ کو پاس والے بینچ پر بیٹھاتے ہوئے پیار سے کہا۔

اور خود وہاں سے چلا گیا۔

عروہ جب گھر آئی تواسے بلقیس کہی نظر نہیں آئی۔اسے لگا کہ وہ پاس والی مارکیٹ گئی ہوں گی لیکن کافی دیر تک جب وہ واپس نہیں آئی تو عروہ پریشان ہو گئی تھی۔

ایک طرف اسے یہ ڈر تھا کہی حمزہ نے بلقیس کے ساتھ کچھ غلط نا کر دیا ہو اور اسکا ڈر سچ ثابت ہوا جب اس کا موبائل رنگ ہوا۔اس نے کال اٹینڈ کی۔کسی ہسپتال سے کال تھی انہوں نے جب عروہ کو بلقیس کے ایکسیڈنٹ کا بتایا تو عروہ بنا کسی کو بتائے گھر سے بھاگی اسے ہوش نہیں تھا کہ ملائکہ کو بتا دے یا اُسے اپنے ساتھ لے جائے۔ہسپتال جاکر اسے پتہ چلا کہ بلقیس کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور خون کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹرز کو وہ خون کہی سے مل بھی نہیں رہا اُس وقت عروہ کو سمجھ نہیں آئی کس سے مدد لے لیکن ایک انسان کا چہرہ اسے کی نظروں کے سامنے آیا تھا اور وہ صفوان خان تھا اسے لگا تھا کہ وہ اسکی مدد ضرور کرے گا۔اس لیے اس نے خان کو کال کی تھی۔

خان کافی دیر بعد واپس آیا تھا۔عروہ پیچھے بیٹھی رو روہی تھی اور بلقیس کی صحت کے لیے دعا مانگ رہی تھی۔

جب خان وہاں آیا۔تو عروہ اسے دیکھتے ہی کھڑی ہوگئی۔

میری امی ٹھیک ہیں نا؟ عروہ نے خان امید بھرے لہجے میں پوچھا۔

آپ پریشان مت ہوں وہ اب خطرے سے باہر ہیں خون کا انتظام ہو گیا تھا۔

خان نے کہا تو عروہ نے سکون کا سانس لیا تھا۔

خان کا خون میچ ہو گیا تھا اس لیے اس نے اپنا خون دیا تھا اور اب بلقیس خطرے سے باہر تھی۔

ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ صبح تک ان کو ہوش آجائے گا۔

مس عروہ آپ نے کچھ کھایا؟ خان نے اسے دیکھتے پوچھا۔جس نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔

مجھے بھوک نہیں ہے۔

عروہ نے کہا تو خان بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا اور جب تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک سینڈوچ تھا ساتھ جوس بھی تھا۔

اسے بنا کوئی سوال جواب کیے کھا لیں ورنہ میں زبردستی کھلا دوں گا۔

خان نے دونوں چیزوں کو عروہ کے سامنے کرتے دھمکی دینے کے انداز میں کہا۔

عروہ نے گہرا سانس لیتے دونوں چیزیں خان کے ہاتھ سے پکڑ لی تھیں۔

اور وہی بیٹھ کر کھانے لگی۔خان بھی اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔

مس عروہ آپ اب دونوں اپنے گھر واپس نہیں جائیں گی بلکہ میرے ساتھ جائیں گئی خان نے سنجیدگی سے کہا اسے پتہ چل گیا تھا کہ یہ کام حمزہ کا ہے اور وہ کس قدر گھٹیا ہے وہ تو خان اچھی طرح جانتا تھا۔

لیکن امی نہیں مانے گی۔عروہ نے خان کو دیکھتے کہا۔

اس کے ہونٹوں پر پھر سے کیچپ لگا ہوا تھا۔

خان کی نظریں اس کے ہونٹوں پر پڑی تو وہی جم گئی۔اس نے اپنا رومال نکالا اور اس کے ہونٹوں پر لگی کیچپ کو صاف کیا۔

عروہ نے ایک پل کے لیے خان کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور اسے آج یقین ہو گیا تھا کہ زیادہ دیر تک وہ خان کی آنکھوں میں دیکھ نہیں سکتی۔

جب وہ ہوش میں آئے گی تو میں خود اُن سے بات کر لوں گا آپ ٹیشن نا لیں۔خان نے سیدھا ہوتے بیٹھتے ہوئے کہا۔

تھینک یو آپ میری اتنی مدد کر رہے ہیں اتنی تو آجکل کے دور میں کوئی اپنا بھی نہیں کرتا۔

عروہ نے سنجیدگی سے کہا۔اور اسے اپنی گلے لگنے والی حرکت یاد آئی تو اب اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی۔

میں خود نہیں جانتا کہ میں کیوں آپ کی مدد کر رہا ہوں خان نے گہرا سانس لیتے دل میں سوچا۔

آپ اندر روم میں اپنی خالہ کے پاس خاکر بیٹھیں میں آتا ہوں۔

خان نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا اس نے عروہ کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔

یا اس نے پاس جواب تھا نہیں

عروہ نے اثبات میں سر ہلایا اور خان بھی وہاں سے چلا گیا۔عروہ وہاں سے اُٹھ کر روم میں چلی گئی تھی جہاں پر ایک صوفہ رکھا ہوا تھا۔عروہ وہاں جاکر بیٹھ گئی اور اسے یاد آیا کہ ملائکہ کو بتا دے اس لیے موبائل نکال کر اُسے میسج کرکے بتانے لگی۔اور اسے بھی اس نے مطمئن کر دیا تھا کہ وہ اس وقت نا آئے صبح آجائے اور بلقیس بھی اب ٹھیک ہے۔

ابھی اس نے موبائل رکھا ہی تھا جب خان اندر آیا اور کچھ فاصلے پر آکر عروہ کے پاس بیٹھ گیا۔اور خاموشی سے اپنا موبائل نکالے اُس پر کچھ ٹائپ کرنے لگا۔

عروہ تو بہت تھک گئی تھی آج بہت کچھ ہوا تھا اب اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔

خان ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ موبائل پر لگ جاتا۔لیکن اس بار اس نے عروہ کی طرف دیکھا جو نیند میں جا چکی تھی۔اس سے پہلے اس کا سر نیچے جاتا خان نے فوراً اپنا کندھا اس کے سر کے پاس کیا اور خود بھی عروہ کے قریب ہوکر بیٹھ گیا۔ جو اب آرام سے تھوڑا آگے کو ہوتے خان کے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی۔اور اس نے خان کے بازو کو بھی زور سے پکڑ لیا تھا۔

خان نے اپنا موبائل سائیڈ پر رکھا اب اس کا دھیان پورا عروہ کی طرف تھا جسکی چادر سر سے اتر کر کندھوں تک آگئی تھی۔اور چہرے پر بالوں کی کچھ لٹیں بوسہ دے رہی تھیں۔

خان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس بالوں کو کان کے پیچھے کیا۔اس کے ہاتھ کی پشت عروہ نے نرم گال سے ٹکرائی تھی۔خان کو ایسے لگا جیسے اس نے روئی کو چھو لیا ہو۔

اور ناجانے اسے کیا ہوا جو اس نے جھک کر عروہ کے بالوں پر پیار سے بوسہ دیا اور پھر خود بھی اپنا سر پیچھے کیے آنکھیں موند لیں۔

عروہ آرام سے خان کے پہلو میں سو رہی تھی۔

💜 💜 💜 💜

اگلے دن ارسم اپنے فلیٹ سے ہی آفس کے لیے تیار ہو کر نکلا تھا اسے خان کا میسج مل گیا تھا کہ وہ آج آفس لیٹ آئے گا۔

اس لیے جلدی آفس کے لیے نکل گیا تھا۔

آفس پہنچتے ہی سامنے کھڑے انسان کو دیکھتے اس کا موڈ سخت خراب ہو گیا تھا۔

تمہیں سکون نہیں ہے جو بار بار یہاں آجاتے ہو؟

ارسم نے حمزہ کو دیکھتے کہا۔

تمہیں وارن کرنے آیا ہوں بہت جلد ملائکہ میرے پاس ہو گئی اور وہ صرف میری ہے اگر تم نے اُسے ہاتھ لگایا تو میں تمھارے ہاتھ توڑ دوں گا۔حمزہ نے ارسم کے سامنے آتے سرد لہجے میں کہا۔

کیا کہا تم نے؟ بیوی تو وہ میری ہے تو تم کیسے میرے سامنے کھڑے ہو کر میری بیوی پر اپنا حق جتا سکتے ہو؟ارسم نے دہاڑے ہوئے ارسم کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔

تمھارے آفس کے لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ارسم نے اردگرد دیکھتے حمزہ کا گریبان چھوڑا اور اس سے پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا۔

تم سوائے باتوں کے کچھ نہیں کر سکتے اور یہ بات تم بھی جانتے ہو۔کہ وہ لڑکی تمھارے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔تم جتنی مرضی کوشش کر لو اُسے حاصل نہیں کر سکتے۔

ارسم نے اپنے غصے کو کنٹرول کرتے مسکرا کر کہا۔

پھر تم ابھی جانتے نہیں ہو کہ میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔

اور اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔حمزہ نے چیلنجنگ انداز میں ارسم کو دیکھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ارسم بھی اندر کی جانب چلا گیا تھا۔

حمزہ نے باہر آتے ہی اپنے آدمی کو کال کرکے کے ملائکہ کو اغوا کرکے اس کے فلیٹ پر لانے کا کہا۔

تمہیں لگتا ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔ملائکہ کو میں اپنا بنا کر ہی دم لوں گا۔حمزہ نے پرسرار لہجے میں کہا۔اور اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا۔

بسمہ آج ڈرائیور کے ساتھ یونیورسٹی آئی تھی۔وہ گاڑی سے نکلی اس سے پہلے وہ اندر جاتی کسی نے اسے بازو سے پکڑا تھا۔

بسمہ نے پریشانی سے مڑ کر دیکھا تو وہاں آفاق چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا تھا۔

مجھے تم سے بات کرنی ہے۔آفاق کہتے ہی اسے کھنچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔

اور دروازہ کھول کر اسے اندر بیٹھایا۔

بسمہ کو اس نے بھاگنے کا بھی موقع نہیں دیا تھا۔

آفاق دوسری طرف سے آکر اندر بیٹھا۔بسمہ کو اس سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔

ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی تو کچھ نہیں کروں گا۔

آفاق نے اپنا رخ بسمہ کی طرح کرتے بوئے مسکرا کر کہا۔

کیا بات کرنی ہے آپ نے؟ بسمہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

تم وہاج سے شادی کے لیے کبھی ہاں نہیں کروں گی اگر تمھارے بھائی بھی کہتے ہیں تو بھی تم ہاں نہیں کروں گی تمھاری شادی صرف مجھ سے ہو گی سمجھ گئی؟ آفاق نے سنجیدگی سے بسمیہ کو دیکھتے کہا۔

جو بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو تمھارے بھائیوں کو اس کی سزا بھگتی پڑے گی۔

میں اُن کے ساتھ کچھ بھی کروایا سکتا ہوں۔

اُن کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے یا اُن پر کوئی فائرنگ کر سکتا ہے۔کچھ بھی ہو سکتا ہے۔آفاق نے مسکراتے ہوئے کہا تو بسمہ کی خوف سے آنکھیں پھیل گئی تھیں وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کس طرح بسمہ کو قابو کرنا ہے اور اسے ڈرانا آسان تھا کیونکہ وہ ابھی یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے بھائی کیا کچھ کر سکتے ہیں اور اسی بات کا آفاق فائدہ اٹھا رہا تھا۔

نہیں آپ پلیز ایسا کچھ نہیں کریں گئے میں آپ کی بات مانو گی بسمہ نے جلدی سے کہا۔وہ سچ میں ڈر گئی تھی۔

گڈ گرل اور تم اپنے بھائیوں سے کہو گی کہ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔

آفاق کی اگلی بات پر تو بسمہ کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔

ارے ابھی نہیں رونا رونے کے لیے تو پوری زندگی پڑی ہے۔آفاق نے اس کی آنکھوں میں پانی دیکھتے مصنوعی فکر مندی سے کہا۔

آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں آپ تو مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔

بسمہ نے بھاری لہجے میں کہا۔

پسند تو ابھی بھی میں تمہیں نہیں کرتا آفاق نے آنکھوں میں چمک لیے کہا۔

لیکن اب تم میری ضد بن گئی ہو۔جانتی ہو کیوں؟

کیونکہ تمہیں میرا بھائی پسند کرتا ہے۔

اور اُسے اُس کا پیار مل جائے ایسا میں کبھی ہونے نہیں دوں گا۔

بس یہی وجہ ہے اور دوسری وجہ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتا۔اب تم جاؤ اور اگر تم نے کسی کو بتانے کی کوشش کی تو نتائج بہت برے ہوں گئے۔ آفاق نے بسمہ کے گال کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

جو فوراً گاڑی سے نکل گئی تھی۔

میرا کام تو ہو گیا۔آفاق نے گہرا سانس لیتے کہا اور گاڑی سٹارٹ کر دی اسے پورا یقین تھا کہ جیسا اس نے کہا ہے بسمہ ویسا ہی کرے گی۔

💜 💜 💜 💜

صبح خان کی آنکھیں کھلی تو عروہ اس کے ساتھ چپکی سو رہی تھی اسے دیکھتے ہی خان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اس نے جھک کر عروہ کے چہرے کی طرف دیکھا جو پرسکون سی سو رہی تھی۔

مس عروہ خان نے اسکے گال کو تھپتھپاتے ہوئے اسے جگانے کی کوشش کی۔

عروہ نے مندی مندی سی آنکھیں کھول کر خان کی طرف دیکھا پہلے تو وہ خان کو دیکھ کر مسکرا پڑی لیکن جیسے ہی اسے ہوش آئی۔فوراً خان سے پیچھے ہٹنے لگی۔لیکن اس کے بال خان کی شرٹ کے بٹن میں پھنس گئے تھے۔

آہ عروہ ہلکی آواز میں چیخی۔

ایک منٹ خان نے مسکراہٹ دباتے کہا اور اپنی شرٹ کے بٹن سے بال باہر نکالے۔عروہ جب پیچھے ہوئی تو اسکے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات تھے۔

ایم سوری سر رات میں کیسے آپ کے پاس آگئی مجھے پتہ نہیں چلا۔عروہ نے نظریں جھکائے کہا۔

کوئی بات نہیں مس عروہ اگر دیکھا جائے تو میں کوئی غیر نہیں ہوں۔خان نے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا۔

عروہ نے نظریں اٹھا کر خان کی طرف دیکھا تھا۔

آپ کی خالہ کو ہوش آرہا ہے۔خان نے اس کا دھیان بلقیس کی طرف کرتے کہا۔عروہ فوراً اُٹھ کر بلقیس کے پاس گئی تھی۔

امی عروہ نے خوشی سے اپنی ماں کا گال تھپتھپایا۔

بلقیس نے آنکھیں کھول کر عروہ کی طرف دیکھا تھا۔

میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں عروہ نے خوشی سے کہا اور وہاں سے باہر کی طرف چلی گئی۔

خان اپنی جگہ سے اُٹھا اور بلقیس کے پاس آیا۔

خان کو دیکھتے ہی بلقیس حیران ہونے کے ساتھ اس کے چہرے پر خوف کا سایہ بھی لہرایا تھا۔

آپ کو مجھ سے تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ مجھے اچھی طرح پہچانتی ہیں۔کہ میں کون ہوں۔

میں بس آپ کو یہی کہنا چاہوں گا۔مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے۔آپ نے جو کیا عروہ کی سیفٹی کے لیے کیا۔تو حمزہ کو اب پتہ چل گیا ہے کہ آپ دونوں زندہ ہیں اور وہ عروہ سے زیادہ آپ کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے کیونکہ آپ اُن کی حقیقت سے واقف ہیں۔یہ ایکسیڈنٹ بھی اُسی نے کروایا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں میرے فلیٹ پر رہے۔اور یہ سب میں مس عروہ کے کہنے پر ہی کر رہا ہوں کیونکہ انہوں نے مجھ سے مدد مانگی تھی۔کہ میں آپ کی حفاظت کروں۔

خان نے تفصیل سے ساری بات بتاتے ہوئے کہا۔

بیٹا تم بہت اچھے ہو لیکن میں نہیں چاہتی کہ تمہیں ہماری وجہ سے کوئی مسئلہ ہو بلقیس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

مجھے کوئی مسئلہ یا پریشانی نہیں ہے۔لیکن آپ کو کچھ ہو جاتا ہے تو عروہ کا کیا ہو گا۔آپ کو اُس کی خاطر میری بات ماننی ہو گی۔کیونکہ اُسی کی وجہ سے تو آپ اب تک خاموش تھیں۔اور اب اُسکی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔خان نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

بلقیس خاموش ہو گئی تھی خان کی بات بھی ٹھیک تھی۔

ٹھیک ہے بیٹا میں عروہ کی خاطر تو کچھ بھی کر سکتی ہوں وہ میری بہن کی آخری نشانی ہے میرے پاس میں اُسے ہر حال میں سنبھال کر رکھنا چاہتی ہوں۔

بلقیس نے کہا تو خان نے اثبات میں سر ہلایا۔

اتنے میں ڈاکٹر بھی وہاں آگئے تھے۔

عروہ خان کے پاس اکرم کھڑی ہو گئی تھی۔

آپ کی خالہ مان گئی ہیں۔خان نے سنجیدگی سے کہا۔

آپ نے بات کر بھی لی؟ عروہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

جی بلکل آپ اپنی خالہ کے پاس رہیں۔اور اپنی گھر مت جائیے گا۔میں تھوڑی دیر تک واپس آتا ہوں۔مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔خان نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

عروہ اپنی خالہ کے پاس آتے بیٹھ گئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ملائکہ نے ہسپتال جانا تھا۔اور اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا۔اسے چاہیے تھا ارمان کو اپنے ساتھ لے کر جاتی لیکن وہ اکیلی گئی تھی۔

ابھی وہ اپنی گلی سے باہر نکلی ہی تھی جب سامنے ایک بلیک کلر کی گاڑی آکر رکی اُس میں سے کالے کپڑے پہننے آدمی نکلے تھے جنہوں نے ہاتھ میں گنز پکڑی ہوئی تھیں۔

ملائکہ تو ان کو دیکھ کر ڈر گئی تھی۔

میڈم آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گا۔ان میں سے ایک آدمی نے آگے آتے موبائل کو ملائکہ کے آگے کرتے کہا۔

جس نے ناسمجھی سے موبائل بکی طرف دیکھا اور اسے پکڑے کان سے لگایا۔

سپیکر میں ارسم کی آواز گونجی تھی۔

خاموشی کے ساتھ جیسا یہ لوگ کہتے ہیں ویسا کرو اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں خود تمہیں لینے آؤں گا۔

ارسم نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

ملائکہ نے دانت پیستے موبائل کو دوبارہ اُس آدمی کو پکڑایا اور خود جاکر پیچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ جو کہہ رہا ہے کرکے دکھائے گا۔اس لیے خاموشی سے بیٹھ گئی تھی۔

لیکن اسے ارمان نے دیکھ لیا تھا۔اُسے حیرانگی ہوئی تھی کہ وہ لوگ کون تھے۔اور ملائکہ آرام سے انبکے ساتھ بیٹھ کر چلی گئی۔

وہ جب تک وہاں پہنچا وہ لوگ جا چکے تھے۔

ارمان نے جلدی سے ملائکہ کو کال کی اسے فکر ہو رہی تھی۔

ملائکہ نے موبائل کہ سکرین پر ارمان کا نام جگمگایا دیکھا تو کال اٹینڈ کی۔

ملائکہ تم ٹھیک ہو؟ اور وہ لوگ کون تھے؟ارمان نے جلدی سے پوچھا۔

بھائی میں بلکل ٹھیک ہوں۔اور آپ فکر مت کریں میں گھر آکر آپ کو ساری بات بتا دوں گی۔لیکن پلیز آپ امی کو مت بتائیے گا۔

ملائکہ نے بےبسی سے کہا۔

اچھا نہیں بتاتا کسی کو بھی لیکن مجھے تمھاری فکر ہو رہی ہے۔اور تم اتنی ریلیکس کیسے ہوسکتی ہو؟ ارمان نے اپنا ماتھا مسلتے کہا۔

میں بلکل ٹھیک ہوں میری بات پر یقین کریں۔میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ملائکہ نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

ارمان کو تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

پھر بھی اگر ملائکہ اتنے یقین سے کہہ رہی تھی تو اسے بھی ٹیشن لینے کی ضرورت نہیں تھی۔لیکن پھر بھی اسے ٹینشن ہو رہی تھی اور یہ اُس وقت تک رہتی جب تک ملائکہ سہی سلامت گھر واپس نا آجاتی۔

💜 💜 💜 💜

ڈیڈ آپ نے ارسم کے ڈیڈ کی جان لی؟ ارسم نے کمرے میں آتے ہی دھاڑتے ہوئے کہا۔

وہ اپنے باپ بلسے بات کرنے آیا تھا جب اس نے اپنے باپ کے منہ سے کوثر کے پہلے شوہر کا نام سنا اور یہ انکشاف اس کے لیے ناقابل یقین تھا۔کہ اس کے باپ نے ارسم کے ڈیڈ کی جان لی اس لیے کہ وہ کوثر کو پسند کرتا تھا۔

اور اُسے ایک یہی راستہ نظر آیا تھا جس سے وہ کوثر کو حاصل کر سکتا تھا۔

کیا بکواس کر رہے ہو آہستہ بولو آفاق نے سرد لہجے میں کہا۔تم اپنی بکواس بند کرو میں ڈیڈ سے بات کر رہا ہوں۔

وہاج نے آفاق کو دیکھتے غصے سے کہا۔

آپ ایک قاتل بھی ہیں؟ شرم آنی چاہیے آپ کو اور کیا آپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہیں کرتا؟ وہاج نے اپنے باپ کے سامنے کھڑے ہوتے کرخت لہجے میں کہا۔

وہاج تم غلط سمجھ رہے ہو۔ایسا کچھ نہیں ہے۔سلطان نے اسے سمجھانا چاہا۔

میں نے غلط سنا ہے؟ ابھی جو آپ نے کہا میں نے وہی سنا ہے اور وہی سچ ہے۔

آپ اتنا کیسے گر سکتے ہیں؟ میرا باپ ایک قاتل ہے اور کھلے عام آزاد پھیر رہا ہے؟ وہاج نے اونچی آواز میں کہا۔

میں ابھی جا کر ماں کو سب کچھ بتاتا ہوں پھر دیکھتا ہوں کیسے وہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔

وہاج نے سرخ آنکھوں سے سلطان کو دیکھتے کہا اور وہاں سے جانے لگا.

جب آفاق نے سامنے آتے اس کے جبڑوں پر زور سے مکا دے مارا۔

وہاج کے ہونٹ سے خون نکلنے لگا تھا۔

ڈیڈ کی خوشی تم سے برداشت نہیں ہوتی اور یہ سب انہوں نے اپنی خوشی کے لیے کیا اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔

آفاق نے وہاج کو دیکھتے غصے سے کہا۔

خوشی کسی کی جان لے کر خوش ہونا لعنت ہے ایسی خوشی پر اور تم میرے راستے سے دور رہو ورنہ اپنی خوشی کے لیے میں تمھاری جان بھی لے سکتا ہوں۔وہاج نے اس کی بات اسے ہی واپس لوٹاتے ہوئے کہا اور وہاں سے جانے لگا۔

جب آفاق کو کوئی راستہ نظر نہیں آیا تو اس نے اپنا چھوٹا سا چاقو نکالا جو یہ اپنے پاس رکھتا تھا اور وہاج کے پیٹ میں دے مارا۔

آفاق یہ کیا کیا تم نے؟ سلطان چیختا ہوا وہاج کے پاس آیا جو بےیقینی سے آفاق کو دیکھ رہا تھا۔

چاقو چھوٹا ضروری تھا لیکن بہت تیز تھا۔

خون زمین پر گرے لگا تھا۔وہاج وہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

وہاج بیٹا سلطان نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے گڑگڑایا۔

جس نے بےبسی سے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔

آفاق کا چہرہ بےتاثر تھا۔

اس نے آگے بڑھتے پھولوں کا گلدستہ پکڑا اور وہاج کے سر کے پیچھے دے مارا۔جس کے سر سے بھی خون نکلنے لگا تھا اور وہی بےہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔

آفاق سلطان نے چیختے ہوئے کہا اور اس کے سامنے کھڑے ہوتے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔

تم گھر کب جا رہے ہو؟

خان نے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

آفس کے بعد گھر ہی جاؤں گا لیکن ابھی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔

ارسم نے خان کو دیکھتے کہا۔

جو ابھی تھوڑی دیر پہلے آفس آیا تھا۔

اس نے عروہ اور بلقیس کو اپنے فلیٹ پر چھوڑ دیا تھا جس کا صرف ارسم کو معلوم تھا۔

اور اب آفس آیا تھا۔

تم اب انتظار کس کا کر رہے ہو؟ خان نے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔خان نے حیرانگی سے پوچھا۔

وہاج کی کال آئی تھی۔وہ مجھے سے ملنا چاہتا تھا۔تو میں نے اُسے یہی بلایا تھا لیکن ابھی تک وہ آیا نہیں۔ارسم نے خان کو دیکھتے کہا۔

تم نے کال کی اُسے؟ خان نے پوچھا۔

ہاں کی تھی لیکن اب اُس کا نمبر بند جا رہا ہے۔

تمہیں کچھ معلوم ہے؟ ارسم نے خان سے پوچھا جس نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔

تمہیں تو وہ لوگ پسند نہیں ہیں تو تم نے وہاج سے ملنے کی ہامی کیسے بھر لی؟

خان نے پیچھے کرسی سے ٹیک لگاتے اسے دیکھتے پوچھا۔

ان کی فیملی میں مجھے صرف یہی عقل مند اور اچھا انسان لگتا ہے۔اور سچائی کا ساتھ دیتا ہے۔لیکن آفاق ناجانے کیوں مجھے زہر لگتا۔اُس کی شکل دیکھ کر ہی اچھی فیلنگز نہیں آتی۔ارسم نے دانت پیستے کہا۔

خان اس کی بات سن کر ہنس پڑا تھا۔

مجھے لگتا ہے اُسے کوئی کام آگیا ہو گا اس لیے نہیں آیا۔اگر آئے گا تو میں اُس سے بات کر لوں گا تم جاؤ خان نے سنجیدگی سے کہا۔

ٹھیک ہے لیکن اُس کا نمبر بند ہونا مجھے کچھ عجیب لگا تم ایسا کرنا اگر وہ نہیں آتا تو امی کو کال کرکے کے اُس کا پوچھ لینا۔کیونکہ وہ اپنی بات کا بہت پکا ہے جو کہتا ہے کرتا ہے اور اب اس کا نا آنا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ارسم نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے سنجیدگی سے کہا اور اپنا موبائل پڑے وہاں سے چلا گیا۔

خان بھی سوچ میں پڑ گیا تھا۔خیر تھوڑی دیر تک اگر وہاج نہیں آتا تو وہ کوثر کو کال کرکے پتہ کر لے گا یہی سوچ کر خان کام میں بزی گیا۔

💜 💜 💜 💜

ملائکہ کو ارسم کے آدمیوں نے ایک کمرے میں چھوڑ دیا تھا۔

اور وہ غصے سے کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔اس کا دل کر رہا تھا۔کہ ارسم کا سر پھاڑ دے اس نے ہسپتال جانا تھا۔

اور اسی بات کا اسے غم کھائے جا رہا تھا اور اب تو اسے ارمان کو بھی سب سچ بتانا پڑنا تھا۔اگر جھوٹ بولتی بھی تو کیا بولتی۔

اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو اس نے خونخوار نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا۔

اسے معلوم تھا کہ ارسم ہی آیا بے اُس کے علاوہ یہاں کون آسکتا ہے۔

ارسم چہرے پر مسکراہٹ لیے کمرے میں داخل ہوا تھا۔

کیسی ہو ڈارلنگ تمہیں زیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا نا؟

ارسم نے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

میرا دل تو کر رہا ہے کہ میں آپ کا خون پی جاؤں۔ملائکہ نے غصے سے ارسم کے سامنے آتے دانت پیستے کہا۔

جو اس کی بات سم کر ہنس پڑا تھا۔

میں نے کب روکا ہے مسز ارسم نے ملائکہ کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے دھیمے لہجے میں کہا۔

ارسم کی اس حرکت پر ملائکہ ایک دم گھبرا گئی تھی۔

مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟ ملائکہ نے اس کی بات کو اگنور کرتے پوچھا۔

تمہیں دیکھنے کو دل کر رہا تھا۔ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔اور جھک کر ملائکہ کے بالوں کی خوشبو کو محسوس کرنے لگا۔

ملائکہ تو ایک دم ڈر گئی تھی اسے ارسم کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔

ارسم… ملائکہ نے اسے پکارتے اسے پیچھے کرنا چاہا۔جس کی گرم سانسیں اسے اپنی گردن پر پڑتی محسوس ہو رہی تھیں۔

تم کون سا شیمپو استعمال کرتی ہو؟ ارسم نے پیچھے ہوتے ملائکہ کے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی پر لپٹتے ہوئے پوچھا۔

مجھے یہاں سے جانا ہے بہت کام ہیں مجھے ملائکہ نے اسکے فضول سے سوال پر اسے گھور کر دیکھتے کہا۔

میں تمھارا شوہر ہوں اور مجھ سے زیادہ ضروری تمھارے لیے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔

ارسم نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔

زبردستی کے شوہر ملائکہ نے بھی اسے یاد دلاتے کہا۔

شوہر تو شوہر ہوتا ہے چاہے زبردستی کا ہو یا پسند کا ارسم نے گہری نظروں سے ملائکہ کو دیکھتے کہا۔

میں سوچ رہا ہوں اب مجھے اپنی نکاح کا سب کو بتا دینا چاہیے۔تم کیا کہتی ہو؟ ارسم نے پر سوچ انداز میں ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

مجھ سے تو آپ ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے میری بات آپ کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے ملائکہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

یہ بات تو بلکل ٹھیک کہی تم نے مسز تم تو کافی عقل مند ہو۔ارسم نے لہجے میں مصنوعی حیرانگی لیے کہا۔

ارسم مجھے گھر جانا ہے۔ملائکہ نے اسے دیکھتے گہرا سانس لیتے کہا۔

ارسم نے اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے دھکا دیا جو پیچھے بیڈ پر جا گری تھی۔

چلی جانا ارسم نے ملائکہ کے اوپر آتے مسکراتے ہوئے کہا۔

ارسم کو دیکھتے ملائکہ کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔

میں بھی تمھارے ساتھ تمھارے گھر جاؤں گا۔اور اپنے نکاح کا بتاؤں گا۔

ارسم نے آنکھوں میں چمک لیے ملائکہ کو دیکھتے کہا۔اُسے اس وقت ارسم کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی اس وقت تو ارسم کو دیکھ کر اس کی جان لبوں تک آئی ہوئی تھی۔

یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ملائکہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے کرنا چاہا۔لیکن ارسم نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا تھا۔

اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ نے مجھے یہاں بلابکر یہ چھچھوری حرکتیں کرنی ہیں تو میں کبھی بھی یہاں نا آتی۔ملائکہ نے ارسم کو دیکھتے کہا۔جس کا چہرہ ملائکہ کے چہرے کے قریب تھا اور مسکرا رہا تھا۔

میرا بھی ارادہ آج تم سے ملنے کا نہیں تھا۔بس اچانک پلان بنا تو میں نے سوچا موقع کے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے بعد میں نا جانے کب یہ حسین موقع ملے۔

ارسم نے بے باکی سے کہا اور جھک کر ملائکہ کی ناک کو اپنے لبوں سے چھوا۔

ملائکہ نے آنکھیں زور سے بند کر لی تھیں۔

ارسم اسے دیکھتے ہنس پڑا اور ملائکہ سے پیچھے ہوتے کھڑکا ہو گیا۔

اس کا موبائل رنگ ہوا تھا۔اور حمزہ کا نمبر دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

کیا ہوا؟ ارسم نے کال اٹینڈ کرتے لہجے میں حیرانگی لیے پوچھا۔

ملائکہ نے آنکھیں کھولے سامنے کھڑے ارسم کو دیکھا اور خود بھی وہاں سے اٹھ گئی۔

تم نے اچھا نہیں کیا ارسم حمزہ کی غصے سے بھری آواز سپیکر میں ابھری تھی۔

میں نے کیا کیا؟ ارسم نے انجان بنتے پوچھا۔

زیادہ معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے تم اچھی طرح جانتے ہو اور تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھے اتنی آسانی سے ہرا سکتے ہو تو ایسا کبھی نہیں ہو گا۔

حمزہ نے دھمکی دیتے کہا اور فون بند کر دیا۔

ارسم نے مڑ کر ملائکہ کی طرف دیکھا جو اسے گھور رہی تھی۔

میری ایک بات اپنے کان کھول کر سن لو مسز حمزہ اچھا انسان نہیں ہے۔جتنا برا تم مجھے سمجھتی ہو وہ مجھے سے دس گنا زیادہ برا ہے۔اُس کی بات پر کبھی یقین مت کرنا آگر تم نے ایسا کیا تو بہت پچھتانا پڑے گا تمہیں اور ہر وقت میں تمہارے پاس نہیں رہوں گا۔

کیا غلط ہے کیا صحیح تمہیں ان دونوں میں فرق خود دیکھنا ہو گا۔

ارسم نے سنجیدگی سے ملائکہ کو دیکھتے کہا۔جو خاموش رہی تھی۔

چلو میرے ساتھ ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا تو ملائکہ بنا کوئی جواب دیے اس کے ساتھ چل پڑی۔

💜 💜 💜 💜

یہ دونوں ہوتے کہاں ہیں اپنی شکلیں ہی نہیں دکھاتے؟ دادا جاب نے تحریم کو دیکھتے پوچھا۔

جس کے پاس خود کوئی جواب نہیں تھا۔

دو دو دن تک کہ دونوں گھر نہیں آتے۔نا باہر جانے کا ٹائم نا گھر واپس آنے کا کچھ پتہ ہے دونوں نے بڑھاپے میں مجھے تنگ کرنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔

دادا جان نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

اتنے میں ملازم نے آکر بتایا کہ ثانیہ آئی ہے۔

اُس نے جب سے خان کو اُس لڑکی کے ساتھ دیکھا کسی طرح بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔

دادا جان مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔

ثانیہ نے آتے ہی بنا سلام کیے سنجیدگی سے کہا۔

بیٹا بڑوں سے پہلے سلام کرتے ہیں۔دادا جان نے ثانیہ کو دیکھتے کہا جس نے سلام کیا۔

دادا جان میں خان کو پسند کرتی ہوں اور یہ بات آپ سب لوگ جانتے ہیں۔

میری منگنی آپ سب کے کہنے پر اُس کے ساتھ ہوئی تھی۔

اور اب اتنی آسانی سے اُس نے منگنی توڑ دی۔اور دوسری لڑکی کے ساتھ ڈنر کر رہا ہے؟

میں کس قدر تکلیف میں ہوں کسی کو اندازہ نہیں ہے۔نا میرے باپ کو نا آپ لوگوں کو کسی کو. میری پرواہ نہیں ہے۔

میں نے تو نہیں کہا تھا کہ آپ لوگ میری منگنی خان سے کریں؟

ثانیہ نے بھاری لہجے میں کہا۔آج وہ پورا پلان بنا کر آئی تھی کہ کسی بھی طرح خان سے شادی کے لیے دادا جان راضی ہو جائیں۔

دادا جان کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت دوبارہ اپنے آپ کو دہرا رہا ہے۔فرق صرف اتنا تھا اُس وقت ایک لڑکی کے پیچھے دو لوگ پڑے تھے اور اب خان کے پیچھے دو لڑکیاں پڑی تھیں۔لیکن عروہ خان کے پیچھے نہیں تھی۔صرف ثانیہ خان کے پیچھے پڑی تھی۔

دادا جان کے دماغ میں ایک خیال آیا۔

جس سے وہ عروہ سے چھٹکارا پا سکتے تھے۔

تم پریشان مت ہو تمھارا نکاح میں خود خان سے کرواؤں گا۔

دادا جان نے ثانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے کہا۔

تحریم حیرانگی سے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔

تھینک یو دادا جان آپ بہت اچھے ہیں اور اب میں چلتی ہوں ثانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔بس وہ یہی بتو چاہتی تھی۔اور اس کا کام ہو گیا تھا۔

اس کے جاتے ہی تحریم نے حیرانگی سے دادا جان کی طرف دیکھا تھا۔

ابو آپ خان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔

آپ کو اُس کی خوشی دیکھنی چاہیے۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خان ثانیہ کو پسند نہیں کرتا اگر اُس نے نکاح نا بھی کیا ہوتا تو بھی وہ ثانیہ سے کبھی شادی نا کرتا اور اب آپ نے ثانیہ کا حوصلہ بڑھا کر ٹھیک نہیں کیا۔تحریم نے سنجیدگی سے کہا۔

اگر وہ لڑکی چورنی نا ہوتی تو مجھے بھی اس رشتے سے کوئی مسئلہ نا ہوتا لیکن اب میں نہیں چاہتا وہ خان کی بیوی اور اس گھر کی بہو بنے اس سے بہتر تو ثانیہ ہے۔

دادا جان نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے کہا۔

لیکن خان کبھی نہیں مانے گا۔تحریم نے پریشانی سے کہا۔

وہ میرا کام ہے۔رحمان چاہتا ہے کہ بسمہ اور آفاق کا نکاح ہو جائے مجھے بھی اس میں کوئی برائی نظر نہیں آرہی اگر میں ان دونوں کو دیکھتا رہا تو وہ کوئی فیصلہ نہیں لے پائے گئے اس لیے آفاق اور خان کا ایک دن ہی نکاح ہو گا بسمہ اور ثانیہ سے دادا جان نے سرد لہجے میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔

بسمہ جو دادا جان کی باتیں سن رہی تھی۔آفاق کے ساتھ شادی کا سوچ کر ہی اس کی روح کانپ گئی تھی۔

دونوں بھائیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

وہاج کتنے پیار سے اس سے بات کرتا تھا اور آفاق کو دیکھتے ہی اب اسے ڈر لگنے لگا تھا۔

اس کا ارادہ کل یونیورسٹی جانے کا نہیں تھا۔

اسے ڈر تھا کہ کہی دوبارہ آفاق وہاں نا آجائے

وہ دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔

ماضی…..


راحیل اور رحمان ہم عمر تھے۔دونوں ایک ساتھ ہی کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے۔راحیل رحمان کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔لیکن ریحان اس سے ہمیشہ چڑتا تھا۔

راحیل کے ساتھ والا گھر کافی عرصہ سے خالی پڑا ہوا تھا۔

کچھ دن پہلے اسے دادا جان نے بتایا کہ وہاں لوگ آگئے ہیں۔

راحیل نے کہا اچھی بات ہے اس نے زیادہ نوٹ نہیں کیا۔

ویسے تو دونوں فرینڈز تھے۔

لیکن راحیل سلطان سے زیادہ اچھی پرسنیلٹی کا مالک تھا۔

ساتھ والے گھر پر جو لوگ رہنے آئے تھے۔ان کے ماں باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔

بڑے بھائی کا نام صفدر اور چھوٹی بہن کا نام لبنیٰ تھا۔

راحیل نے لبنیٰ کو یونیورسٹی میں دیکھا تو اُسے پسند کرنے لگا بعد میں اسے پتہ چلا کہ یہ تو ساتھ والے گھر میں رہتی ہے۔اور یہ جان کر اسے بہت خوشی ہوئی تھی۔

رحمان بھی راحیل کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔وہ بھی لبنیٰ کو پسند کرتا تھا لیکن لبنیٰ راحیل سے محبت کرتی تھی۔

اور اسی بات نے رحمان کو بدگمان کیا تھا۔اسے لگتا تھا راحیل اس سے زیادہ بہتر ہے سب لوگ اسے اہمیت دیتے ہیں۔

آہستہ آہستہ وہ پوری طرح راحیل سے بدگمان ہو گیا اور اس سے جیلس ہونے لگا تھا۔

رحمان سے چھوٹا سلطان کوثر کو پسند کرتا تھا۔دونوں خاندان کی آپس میں اچھی جان پہچان تھی۔ایک دوسرے کے گھر آتے رہتے تھے۔

اسے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا تھا۔اس لیے اس نے سوچا واپس آکر اپنے باپ سے اپنے اور کوثر کے رشتے کی بات کرے گا۔

لیکن اس کے جاتے ہی راحیل نے اپنے باپ کو اپنی پسند کے بارے میں بتایا اور دادا جان نے سب معلوم کروایا تو لبنیٰ میں اُن کو کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی بلکہ اُن کو تو صفدر بھی کوثر کے لیے اچھا لگا تھا۔

اس بارے میں دادا جان نے صفدر سے بات کی کہ اگر اسے کوئی مسئلہ نا ہو تو ایک ہی دن تم دنوں کا نکاح رکھ لیتے ہیں صفدر نے بھی ہامی بھر لی کیونکہ کوثر میں کوئی برائی نہیں تھی۔

داجی بھی بہت خوش تھے لیکن جب لبنیٰ کے نکاح کی خبر رحمان کو ملی تو وہ خوش نہیں تھا۔

اس نے سوچا کہ وہ وہ اپنے دل کی بات لبنیٰ کو بتائے گا جو کچھ وہ اُس کے بارے میں سوچتا ہے وہ سب اُسے بتائ دے گا۔

اس نے لبنیٰ کو میسج کیا اور ملنے کا کہا۔

لبنیٰ نے کہا کہ کل وہ مارکیٹ شاپنگ کے لیے جا رہی ہے وہاں آجائے کیونکہ لبنیٰ رحمان کو اپنا بھائی سمجھتی تھی۔

اگلے دن جب رحمان نے اپنے دل کی بات لبنیٰ کو بتائے تو اسے غصہ تو آیا تھا ساتھ وہ حیران بھی ہوئی تھی۔

آپ کو معلوم ہے نا کہ میرا نکاح راحیل سے ہونے والا ہے اور آپ کو ایسی بات کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے راحیل آپ کے دوست ہیں۔لبنیٰ نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے کہا۔

میں بھی اُس کا دوست ہوں اور ایسا اُس میں کیا ہے جو مجھ میں نہیں ہے میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں تمہیں خوش رکھوں گا اور تمہیں کیا چاہیے؟ رحمان نے بھی کھڑے ہوتے تھوڑا غصے سے کہا۔

لیکن میں جس سے محبت کرتی ہوں وہ راحیل ہے آپ مجھے وہ خوشی نہیں دے سکتے جو راحیل دے سکتا ہے کیونکہ وہ میری محبت ہے۔

اور امید کرتی ہوں آپ اس بےہودہ خیال کو اپنے دماغ سے نکال دے گئے اور دوبارہ میرے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کریں گئے۔

لبنیٰ نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

رحمان ابھی بھی ویسے ہی کھڑا تھا۔

لبنیٰ کو تو اس کی فیلنگ کی پرواہ تک نہیں تھی۔

لبنیٰ تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔

رحمان نے بےبسی سے کہا۔اور وہاں سے چلا گیا۔

💜 💜 💜 💜

حال……..


ارسم ملائکہ کے گھر آیا تھا۔ملائکہ کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے اسے ڈر بھی لگ رہا تھا اس نے ارسم سے پوچھا بھی لیکن اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ارمان گھر پر ہی تھا اس نے ملائکہ کو ارسم کے ساتھ دیکھا تو کافی حیران ہوا تھا۔

آپ یہاں؟ ارمان نے کھڑے ہوتے ارسم کو دیکھتے کہا جو مسکرا کر اسکے گلے جا لگا تھا۔

ناجانے کیوں پہلے دن سے ہی ارمان اسے اپنا اپنا سا لگا تھا۔

مجھے ملائکہ کے ابو سے بات کرنی ہے وہ کہاں پر ہیں؟ ارسم نے ارمان کو دیکھتے پوچھا۔

وہ اندر ہیں آپ اندر آجائیں۔ارمان نے دروازے کی طرف دیکھا اشارہ کرتے کہا۔

ارسم کمرے میں داخل ہوا اور اس نے ملائکہ کے ابو کو سلام کیا اور کہا کہ وہ اکیلے میں ان سے بات کرنا چاہتا ہے اس لیے ارمان اور یاسمین باہر آگئے۔

اندر ناجانے ارسم نے ملائکہ کے ابو سے کیا بات کی کسی کو معلوم نہیں تھا۔

یہ سب کیا ہے ملائکہ؟ ارمان نے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

تو ملائکہ نے اسے بتا دیا کہ اندر بیٹھا انسان اس کا شوہر ہے نکاح کیسے ہوا وہ اس نے ارمان کو نہیں بتایا تھا۔

کیا تم نکاح کر چکی ہو؟ لیکن کیوں؟ ارمان نے بے یقینی سے پوچھا۔

صورتحال کچھ ایسی بن گئی تھی۔ملائکہ نے نظریں چراتے کہا۔

اس سے پہلے ارمان کچھ کہتا ملائکہ کے ابو کے ساتھ ارسم باہر آیا تھا۔

ملائکہ اپنے سامان باندھ لو تم ارسم کے ساتھ جاؤ گی۔

ملائکہ کے ابو نے سنجیدگی سے کہا۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ یاسمین نے آگے آتے حیرانگی سے پوچھا۔

نکاح کے بعد لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ملائکہ کے ابو نے کہا تو یاسمین نے حیرانگی سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا تھا۔

ارمان خاموش تھا۔

اس لڑکے نے ہماری بیٹی کی جان بچائی ہے۔اور ہمیں اسطکا شکریہ ادا کرنا چاہیے ملائکہ کے ابو نے کہا۔ارسم چہرے پر مسکراہٹ لیے کھڑا ہوا تھا۔

ناجانے ارسم نے اُس کو ایسا کیا کہا تھا کہ وہ بلکل بھی پریشان نہیں تھے۔

یا ان کو معلوم تھا کہ ارسم صفوان خان کا چھوٹا بھائی ہے۔

جاؤ ارمان نے ملائکہ کو دیکھتے کہا جو اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔

یاسمین تو خاموش تھی۔

ملائکہ کے باپ نے اسے اپنی دعاؤں کے سائے تلے ارسم کے ساتھ رخصت کر دیا۔

دونوں کے جانے کے بعد ارمان اور یاسمین نے ملائکہ کے باپ کی طرف دیکھا تھا۔

میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔

اور مجھ سے کوئی سوال نا کرے کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔

ملائکہ کے باپ نے کہا اور اندر چلا گیا۔

پیچھے ارمان تو مطمئن نظر آرہا تھا کیونکہ اسے ارسم اچھا لگا تھا۔

لیکن یاسمین کو تو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچانک ہوا کیا ہے۔اچانک سے ایک لڑکا آتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ نکاح کر چکا ہے اور لڑکی کو لےطکر چلا گیا۔

خیر مجھے کیا ہے اُسے کا باپ جانے یا وہ خود یاسمین نے منہ میں بڑبڑاتے بوئے کہا۔ اور وہاں سے چلی گئی۔

ارمان بھی اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

ڈیڈ آپ فکر مت کریں میں وہاج کو سنبھال لوں گا۔آفاق نے سلطان کو دیکھتے کہا۔

آفاق وہاج کو ہسپتال سے اپنے فلیٹ پر لے آیا تھا۔جو ابھی بےہوش تھا۔اور خطرے سے باہر تھا۔

تمہیں لگتا ہے کہ اتنا سب ہونے کے بعد میں تمہیں وہاج کے ساتھ چھوڑوں گا؟

سلطان نے غصے سے آفاق کو دیکھتے کہا۔

اگر میں ایسا نا کرتا تو وہ سارے حقیقت آپ کی بیوی کو جاکر بتا دیتا پھر آپ کیا کرتے؟

آفاق نے اپنے باپ کو دیکھتے کہا۔

جو آفاق کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا۔

تم وہاج کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گئے اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمھاری جان لے لوں گا۔سلطان نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

ڈیڈ میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔اور آپ پریشان مت ہوں بس میری شادی بسمہ سے کروا دیں پھر مجھے وہاج سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

آفاق نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں نے دادا جان سے بات کی ہے۔اور اب میں چلتا ہوں۔وہاج کا خیال رکھنا۔

سلطان نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

آفاق چلتا ہوا وہاج کے پاس آیا جس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔

اس وقت اگر میں چاہوں تو تمھاری جان بھی لے سکتا ہوں۔

حیرت کی بات ہے نا تم میرے بھائی ہو لیکن پھر بھی مجھے اچھے نہیں لگتے اور میرے دل میں تمھارے لیے اُس وقت زیادہ نفرت پیدا ہوئی جب ڈیڈ نے اپنا آفس تمھارے نام کر دیا کہ تم زیادہ سمجھدار ہو اور اچھی طرح بزنس کو سنبھال سکتے ہو۔

لیکن اب میں تمھاری جان لے کر یہ قصہ ہی ختم کر دوں گا۔

لیکن ابھی تم آرام کرو کل صبح تم سے ملنے آؤں گا آخری بار آفاق نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی وہاج نے آہستگی سے اپنی آنکھیں کھولی اور کمرے کو دیکھنے لگا۔

وہ کب کا ہوش میں آگیا تھا۔

اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھ نہیں پایا۔

بڑی مشکل سے اس نے اُٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگائی اور گہرا سانس لینے لگا۔

وہ جانتا تھا کہ یہ آفاق کا فلیٹ ہے۔اور وہ اس کی کھڑکی سے کود کر بھاگ بھی سکتا تھا چونکہ ڈاکٹر نے آفاق کو کہا تھا اسے کل تک ہوش آئے گا اس لیے مطمئن سا ہو کر وہاں سے چلا گیا تھا۔

وہاج نے ہمت کرتے خود کو کھڑا کیا اور چلتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا۔

نیچے فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔لیکن وہاج کی پہلے ہی حالت ٹھیک نہیں تھی۔

لیکن یہاں سے بھاگنا بھی ضروری تھا۔

اس لیے وہاج نے اللہ کا نام لیا اور کھڑکی سے کود گیا۔

وہ زور سے نیچے زمین کے ساتھ جا لگا تھا۔اس نے اپنا سر اوپر رکھا تھا۔

لیکن پیٹ سے اس کے پھر سے خون نکلنے لگا تھا۔

اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا اور وہاں سے بھاگ گیا باہر آتے اس نے ایک آدمی سے موبائل مانگا۔جس نے پہلے عجیب سی نظروں سے وہاج ہو دیکھا اور پھر اسے اپنا موبائل دے دیا۔وہ جانتا تھا اس وقت صرف ایک انسان ہی اس کی مدد کر سکتا ہے اس نے خان کو کال کی جو بیٹھا کام کر رہا تھا۔خود دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا ہو گیا تھا اس کا سر گھومنے لگا تھا۔

خان نے اپنے موبائل کی طرف دیکھا نمبر انجان تھا۔اس نے ماتھے پر بل لیے کال کو اٹینڈ کرتے کان سے لگایا۔

بھائی… وہاج نے بس اتنا ہی کہا تھا۔خان فوراً اس کی آواز پہچان گیا تھا۔

وہاج تم ٹھیک ہو؟ خان نے جلدی سے پوچھا۔

بھائی آپ یہاں آسکتے ہیں؟ وہاج نے دھیمے لہجے میں کہا۔

ہاں تم بتاؤ اس وقت کہاں ہو میں ابھی آتا ہوں خان نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے کہا اور باہر کی طرف بھاگا۔

یہ کون سی جگہ ہے؟ آپ پلیز ان کو بتا دیں وہاج نے موبائل اُس آدمی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

تو اُس آدمی نے خان کو ایڈریس کا بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ جلدی آجائے کیونکہ وہاج کی شرٹ خون سے رنگی ہوئی تھی۔

خان یہ سن کر پریشان ہو گیا تھا۔

تیز ڈرائیونگ کرتے وہ وہاں پہنچا۔وہاج وہی زمین پر ڈھے سا گیا تھا۔

خان اپنی گاڑی سے باہر آیا اور بھاگتا ہوا ان دونوں کی طرف آیا۔اس نے اُس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور وہاں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

جو نیم بےہوشی میں تھا۔وہاج خان نے اس کے چہرے کو تھپتھپاتے اسے پکارا اس کی حالت دیکھ کر اسے دکھ ہو رہا تھا۔

اس نے وہاج کو کندھے سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔خان کی اپنی شرٹ پر بھی خون لگ گیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

آپ نے بابا سے کیا کہا؟ گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی جب ملائکہ کی آواز گونجی۔تمہیں کیا لگتا ہے میں نے ایسا کیا کہا ہو گا۔جو وہ فوراً مان گئے اور تمھاری رخصتی بھی کر دیں؟

ارسم نے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔

کوئی فضول سی کہانی سنا دی ہو گی اس سے زیادہ آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ملائکہ نے باہر دیکھتے کہا۔

مسز میں بہت کچھ کر سکتا ہوں اور وہ تمہیں آج کمرے میں جاتے پتہ چل جائے گا۔

ارسم نے ملائکہ کو بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے کہا۔

وہ تو اس کی بات سن کر سٹپٹا گئی تھی۔

تم تو ابھی سے شرمانے لگی ہو۔

ارسم نے ملائکہ کے سرخ چہرے کو دیکھتے شرارتی لہجے میں کہا۔

بازو چھوڑو میرا ملائکہ نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

لو چھوڑ دیا ارسم نے ملائکہ کا ہاتھ اپنے لبوں تک لگاتے وہاں بوسہ دینے کے بعد اس کے ہاتھ کو چھوڑتے کہا۔

اور اندر تم کچھ بھی نہیں بولو گی۔ارسم نے آخری بات سنجیدگی سے کہی اور گاڑی سے باہر چلا گیا۔ملائکہ بھی گاڑی سے باہر آگئی۔

اس کا دل گھبرا رہا تھا ناجانے ارسم کے گھر والے کیسے ہوں گئے۔

ارسم نے محسوس کر لیا تھا کہ ملائکہ گھبرا رہی ہے اس نے آگے بڑھتے اس کا ہاتھ پکڑا۔

گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں تمھارے ساتھ ہوں ارسم نے ملائکہ کو دیکھتے کہا اور اسے اندر لے گیا۔

سب لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔جب تحریم کی نظر ارسم پر پڑی۔لیکن وہ ساتھ ایک لڑکی دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔

ارسم یہ لڑکی کون ہے؟ تحریم نے حیرانگی سے پوچھا۔

بسمہ اور دادا جان نے بھی ارسم کی طرف دیکھا تھا۔

خالہ جان یہ میری بیوی ہے۔ارسم نے کہا تو تینوں نے بےیقینی سے ارسم کی طرف دیکھا۔

کیا بکواس کر رہے ہو؟ دادا جان نے کھڑے ہوتے سرد لہجے میں ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

نانا جان یہ میری بیوی ہے ملائکہ میں اس سے نکاح کر چکا ہوں۔

ارسم نے ریلیکس سے انداز میں کہا۔

تم دونوں بھائیوں نے مجھے پاگل سمجھا ہوا ہے ایک نے پہلے نکاح کر لیا اور بعد میں آکر بتا رہا اور دوسرے نے تو سونے ہر سہاگا اپنی بیوی کو ہی ساتھ لے آیا۔

ہم لوگ کیا مر گئے ہیں اگر تم ہمیں بتا دیتے تو کیا ہم منع کر دیتے؟ نا تمھاری ماں کو اس بات کا پتہ ہے نا کسی اور کو دادا جان نے ارسم کو دیکھتے غصے سے کہا۔

ملائکہ نے ارسم کے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔

نانا جان امی کو بتانے کی کیا ضرورت ہے وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں اُنکو میرے زندگی سے کیا لینا دینا اور میں جسے پسند کرتا تھا میں نے اُس سے نکاح کر لیا۔کچھ غلط تو نہیں کیا۔

اور ایسا نہیں ہے کہ اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔خان سب جانتا تھا۔

ارسم نے کندھے اچکاتے کہا۔

مجھے اچھی طرح معلوم ہے کسی کو پتہ ہو یا نا ہو خان کو تو تمھاری ساری کرتوتوں کا پتہ ہوتا ہے۔اور تم دونوں ایک دوسرے کی باتوں پر پردہ ڈالتے ہو۔

دادا جان نے گھورتے ہوئے کہا۔

نانا جان اب غصہ تھوک دیں اور صورتحال کچھ ایسی بن گئی کہ مجھے بنا کسی کو بتائے نکاح کرنا پڑا ورنہ میران ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ارسم نے سنجیدگی سے کہا۔

بیٹا جی تم دونوں اچھی طرح جانتے ہو کہ کیا کچھ کر رہے ہو بس کسی تیسرے کو بتانا گوارا نہیں کرتے دادا جان نے طنزیہ لہجے میں کہا تو ارسم ہنس پڑا۔

دادا جان نے پھر کچھ نہیں کہا تھا اور اپنے کمرے کی طرف چلے گئے تھے۔

بسمہ اور تحریم آگے آئی تھیں۔اور دونوں پیار سے ملائکہ سے ملی تھیں۔

ارسم نے ملائکہ کو تحریم اور بسمہ کا تعارف کروایا۔

بھابھی آپ تو بہت پیاری ہے بسمہ نے ملائکہ کو دیکھتے کہا جس نے شرما کر نظریں جھکا لیں تھیں۔

میری پسند ہے معمولی تو ہرگز نہیں ہو گی۔

ارسم نے فخریہ انداز میں کہا۔

بسمہ تم ایسا کرو اپنی بھابھی کو ارسم لے کمرے میں لے جاؤ مجھے تمھارے بھائی سے بات کرنی ہے۔تحریم نے بسمہ کو دیکھتے کہا جو اثبات میں سر ہلائے ملائکہ کو وہاں سے لے گئی۔

بیٹا جی آپ نے نکاح کیا ہے اور میں بھی تمہیں یہی کہنا چاہوں گی کہ تمہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا۔

ہم ملائکہ کے گھر رشتہ لے کر جاتے اور اُس کے گھر والوں نے کیسا ردعمل ظاہر کیا ہو گا؟

تحریم نے سنجیدگی سے ارسم کو دیکھتے کہا۔

خالہ جان آپ پریشان مت ہوں میں نے سب سنبھال لیا ہے۔اور ملائکہ کے ابو نے خود خوشی سے ملائکہ کو میرے ساتھ رخصت کیا ہے اور میں اس طرح نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا بس……

بس صورتحال کچھ ایسی بن گئی یہی کہنا چاہتے ہو نا؟ آگے کی بات تحریم نے پوری کرتے کہا۔

تو ارسم ہنس پڑا۔

صبح میں کوثر کو کال کرکے بھی بتا دوں گی اور یہ جاننا اُس کا حق ہے۔اور اب تم اپنے کمرے میں جاؤ تحریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

جی ٹھیک ہے ارسم نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

تحریم بھی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔

ارسم اپنے کمرے میں داخل ہوا تو بسمہ ملائکہ سے باتیں کر رہی تھی۔

چلیں بھابھی میں چلتی ہوں۔ارسم کو دیکھتے بسمہ نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

ملائکہ نے پورے کمرے کو دیکھا تھا جو خاصا بڑا اور خوبصورت تھا۔

اور اب اسے ارسم سے ڈر لگ رہا تھا۔

مجھے کہاں سونا ہے؟ ملائکہ نے ارسم کو دیکھتے سوال کیا۔جو اپنی شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا۔

یہ اتنا بڑا بیڈ نظر نہیں آرہا؟ ارسم نے رخ موڑے ملائکہ کو دیکھتے کہا اس کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔جس سے اس کا چوڑا سینہ نظر آرہا تھا۔

ملائکہ نے جلدی سے اپنی نظریں جھکا لیں تھیں۔

تو آپ کہاں سوئے گئے؟ ملائکہ نے بے تکا سا سوال کیا۔

مسز میرے خیال سے آپ پورے پورے بیڈ پر تو سونے سے رہی کیونکہ آپ کے فیگر کے مطابق آپ تھوڑی سی جگہ پر بھی لیٹ سکتی ہیں۔ ارسم نے ملائکہ کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھتے کہا۔

بےہودہ انسان ملائکہ نے منہ میں بڑبڑاتے بوئے کہا۔لیکن ارسم اس کی بات سن چکا تھا اور ہنس پڑا۔

مسز بےہودہ حرکت تو ابھی میں فریش ہونے کے بعد کروں گا۔

ارسم نے جھک کر ملائکہ کی آنکھوں میں دیکھتے شرارتی لہجے میں کہا جو ارسم سے پیچھے ہو گئی تھی۔

ارسم مسکرا کر فریش ہونے چلا گیا۔

ملائکہ جلدی سے بیڈ پر لیٹی اور منہ تک کمبل کو تانے لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔تاکہ ارسم جب باہر آئے تو اُسے لگے کہ وہ سو گئی ہے۔

ارسم فریش ہوکر باہر آیا تو ملائکہ کو دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

اس سے پہلے وہ بیڈ پر جاکر لیٹتا اس کا موبائل رنگ ہوا تھا۔

خان کی کال تھی اس نے موبائل کان سے لگایا۔جس نے اسے ابھی بلایا تھا۔

ٹھیک ہے میں آتا ہوں ارسم نے کہا اور موبائل بند کرکے ملائکہ کے پاس آیا اور اس کے چہرے سے کمبل پیچھے کیا۔

ملائکہ زور سے آنکھیں میچے لیٹی ہوئی تھی۔

ارسم نے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھے۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا پڑ رہا ہے جلدی واپس آجاؤ گا۔ارسم نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی ملائکہ نے آنکھیں کھول لی تھیں۔

اب میں آرام سے سو سکتی ہوں۔ملائکہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔اور آنکھیں موندے لیٹ گئی۔

💜 💜 💜 💜

خان وہاج کو ارسم کے فلیٹ پرنلے آیا تھا کیونکہ اس کے اپنے فلیٹ پر عروہ اور بلقیس تھی۔

ارسم اپنے فلیٹ پر پہنچا۔اور بیڈ پر لیٹے وہاج کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔

اسے کیا ہوا؟ اور اس کی یہ حالت کس نے کی؟ ارسم نے خان کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔

لیکن اس کی حالت دیکھ کر مجھے دکھ ہو رہا ہے۔اس کے سر کے پیچھے گہری چوٹ لگی ہے اور پیٹ کا زخم بھی ٹھیک نہیں ہے۔

خان نے پریشانی سے کہا۔

خان مجھے لگتا ہے معاملہ بہت بڑا ہے۔وہاج کی یہ حالت مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔

ارسم نے بھی پریشانی سے کہا۔

ارسم جانتے ہو وہاج تم سے کیوں ملنا چاہتا تھا۔خان نے ارسم کو دیکھتے پوچھا جس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

وہ بسمہ کو پسند کرتا ہے۔اور مجھ سے بھی بات کر چکا تھا۔میں نے اُسے کہا تھا کہ اگر تم مان جاتے ہو تو مجھے بھی مسئلہ نہیں ہے اس لیے وہ تم. سے ملنا چاہتا تھا پھر یہ سب ہو گیا۔

خان نے گہرا سانس لیتے کہا۔ارسم نے وہاج کی طرف دیکھا تھا۔

مجھے اس رشتے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے میں اُن لوگوں سے نفرت ضرور کرتا ہوں لیکن وہاج اپنے باپ اور بھائی سے الگ ہے۔ارسم نے سنجیدگی سے کہا۔

تم ملائکہ کو گھر لے آئے ہو؟ خان نے ارسم کو دیکھتے پوچھا۔

جس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔

کل میں دادا جان سے بسمہ اور وہاج کی بات کروں گا۔اور تمھاری ریسیپشن کی بھی کیونکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ بسمہ اور آفاق کی شادی ہو جائے۔خان نے کہا۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن میری ریسیپشن کی کیا ضرورت ہے؟ ارسم نے ناسمجھی سے پوچھا۔

میں نے اپنی بیوی کا بھی تو سب سے تعارف کروانا ہے۔خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

خان تم سچ کہہ رہے ہو؟ تم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر لیا ہے نا؟

ارسم نے خوشی سے پوچھا۔

بلکل عروہ میری بیوی ہے لیکن اُس کا باپ میرا دشمن ہے اور اُسے میں کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑوں گا۔

خان نے سنجیدگی سے کہا۔

ارسم خاموش ہو گیا تھا۔وہ کبھی بھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ خان چاہتا کیا ہے۔

💜 💜 💜 💜

اگلے دن صبح ہی خان اور ارسم گھر واپس آگئے تھے۔وہاج کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔

ملائکہ ابھی تک سو رہی تھی۔ارسم اپنے کمرے میں چلا گیا۔اور خان بھی فریش ہونے چلا گیا تھا۔

ارسم اپنے کمرے میں گیا تو ملائکہ ابھی تک سو رہی تھی۔

ارسم اسے دیکھ کر فریش ہونے چلا گیا۔

جب واپس آیا تو ملائکہ اُٹھ چکی تھی۔

تمہیں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ تم کل رات آرام سے سوئی ہو۔ارسم نے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

تو کیا مجھے آرام سے نہیں سونا چاہیے تھا؟ ملائکہ نے اپنے بال باندھتے الٹا سوال کیا۔

اس سے پہلے ارسم اس کی طرف آتا ملائکہ نے اسے ہاتھ کے اشارے سے وہی روک دیا تھا۔

میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔یہاں لانے سے پہلے میری ضروریات کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھا۔

ملائکہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

ارسم اس کی بات سن کر ہنس پڑا اور الماری کے پاس جاتے اندر سے ایک سرخ رنگ کا جوڑا نکال کر ملائکہ کی طرف اچھالا۔جلدی سے فریش ہو کر آؤ خان بھی آگیا ہے اُس سے بھی مل لینا۔

اور میں اپنی بیوی کی ہر ضروریات کا اُس کی سوچ سے زیادہ خیال رکھتا ہوں۔

ارسم نے جتائے ہوئے انداز میں کہا تو ملائکہ نے نظریں چراتے ارد گرد دیکھا اور سوٹ پکڑے فریش ہونے چلی گئی۔

ملائکہ باہر آئی تو ارسم اسے دیکھتے ہی رہ گیا جس پر سرخ رنگ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

اس نے ابھی بھی گلے میں وہی لاکٹ پہنا ہوا تھا جو ارسم نے اسے گفٹ کیا تھا۔

ارسم نے بلیک کلر کی پینٹ شرٹ پہنی تھی۔

دونوں کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی تھی تیار ہونے کے بعد ملائکہ نے ارسم کی طرف دیکھا جو دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

آپ کے نانا تو مجھے پسند نہیں کرتے ملائکہ نے ارسم کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔

میں ہوں نا تمھارے ساتھ تو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور ویسے بھی وہ مجھ سے ناراض ہیں تم سے اُن کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اب چلو ارسم نے اس کا ہاتھ پکڑتے کہا اور اسے کمرے سے باہر لے گیا۔

سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے خان بھی تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔

بھابھی اور بھائی آگئے بسمہ نے دونوں کو دیکھتے کہا۔

تحریم نے دونوں کو دیکھتے دل میں ماشاءاللہ کہا تھا۔دونوں لگ ہی اتنے پیارے رہے تھے۔

دادا جان تو خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے۔

ملائکہ نے سب کو سلام کیا۔

ارسم نے اسے خان کے بارے میں بتایا کہ یہ اس کا بھائی ہے۔

ملائکہ نے مسکرا کر اسے اسے بھی سلام کیا۔جس کا خان نے خوش دلی سے جواب دیا تھا۔

دادا جان میں چاہتا ہوں کہ ارسم کا ولیمہ کر دیا جائے ایسے سب لوگوں کو پتہ بھی چل جائے گا۔خان نے دادا جان کو دیکھتے کہا۔

ٹھیک ہے مجھے مسئلہ نہیں ہے لیکن میری بھی ایک بات تمہیں ماننی ہو گی۔

دادا جان نے سنجیدگی سے کہا۔

سب لوگ دادا جان کو دیکھ رہے تھے۔میں چاہتا ہوں بسمہ کا نکاح آفاق سے اور تمھارا ثانیہ سے ہو جائے دادا جان نے سنجیدگی سے کہا۔تو خان ہنس پڑا۔

پہلی بات آفاق اور وہاج دونوں بھائی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ وہاج بسمہ کے لیے بہتر رہے گا۔آپ سلطان صاحب کو کہے کہ وہاج کے ساتھ یہاں آئے ہم رشتہ فائنل کر دیتے ہیں اور آپ کو بھی وہاج سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

خان نے دادا جان کو دیکھتے کہا اُن کو بھی خان کی بات میں کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی وہاج بھی اچھا تھا۔

ٹھیک ہے اور تمھارے نکاح کا کیا؟ دادا جان نے پوچھا۔۔

اس بارے میں ارسم کے ولیمے کے بعد بات کرے گئے۔خان نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ارسم اس کی بات سمجھ کر مسکرا پڑا تھا اور ناشتہ کرنے لگا۔

اور وہاج کا سن کر بسمہ بھی تھوڑی مطمئن ہوئی تھی۔

آپ؟ عروہ نے دروازہ کھولتے سامنے کھڑے خان کو دیکھتے کہا۔

جی میں کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ خان نے گہری نظروں سے عروہ کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔ جو جلدی سے دروازے سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔

ایم سوری عروہ نے نظریں جھکا کر کہا۔

کس بات پر آپ سوری بول رہی ہیں؟ خان نے آتے مسکرا کر پوچھا۔

وہ میں آپ چائے لے گئے یا کافی؟ عروہ کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں پوچھا۔

آپ کو بہتر پتہ ہے کہ میں کیا پینا پسند کروں گا۔خان نے عروہ کے ہونٹوں پر اپنی نظریں گاڑھتے ہوئے تھوڑا جھک کر کہا۔

عروہ خود حیران تھی کہ اس کا دل اتنی زور سے کیوں دھڑک رہا ہے۔

اس نے پوری رات خان کے بارے میں سوچا تھا کوئی اپنا بھی اتنی مدد نہیں کرتا جتنی خان نے اس کی اور بلقیس کی مدد کی تھی۔

دل میں خان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا تھا۔

لیکن پھر اسے یاد آیا کہ یہ ایک کنٹریکٹ ہے جو جلد ختم ہو جائے گا لیکن اس نے تو پیسے واپس نہیں کیے۔انہی سب باتوں کو سوچتے ہوئے اسے نیند آگئی اور وہی سو گئی تھی۔

عروہ کون آیا ہے؟ بلقیس نے آواز دیتے پوچھا۔

خان نے عروہ کی طرف دیکھا تھا۔

مس عروہ میں آپ کی خالہ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔خان نے سنجیدگی سے کہا۔جس نے اثبات میں سر ہلاتے اندر کمرے کی طرف اشارہ کیا تھا۔

میں آپ کے لیے کافی لے کر آتی ہوں عروہ کہتے ہی وہاں سے چلی گئی اور خان اندر کمرے میں چلا گیا تھا۔

خان نے دروازہ ناک کیا اور کمرے میں داخل ہوا۔اسے دیکھتے بلقیس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن خان نے جلدی سے منع کر دیا۔

اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ خان نے بلقیس کو دیکھتے پوچھا۔

میں اب ٹھیک ہوں بیٹا بلقیس نے مسکرا کر کہا۔

آنٹی میں یہاں آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنے آیا ہوں۔

خان نے سنجیدگی سے گہرا سانس لیتے کہا۔

بلقیس غور سے اس کی بات سن رہی تھی۔

اگر میں آپ سے کہوں کہ میں عروہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں تو کیا اس رشتے سے آپ کو کوئی مسئلہ ہو گا؟ خان نے بلقیس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے پوچھا۔

جو کچھ دیر کے لیے خان کا سوال سن کر سوچ میں پڑ گئی تھی۔

بیٹا مجھے تم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کچھ لوگ اُسے پسند نہیں کرتے تو تم عروہ کی خاطر اپنوں کے خلاف تو نہیں جاؤ گئے نا؟

بلقیس کا اشارہ خان کے دادا اور حمزہ کے گھر والوں کی طرف تھا۔

آپ مجھے اپنا فیصلہ بتائیں باقی سب کو میں دیکھ لوں گا۔آپ کو اتنا یقین دلا سکتا ہوں کہ ہمیشہ اُس کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔

خان نے پراعتماد لہجے میں کہا۔

اس میں عروہ کی مرضی بھی پوچھنی ضروری ہے۔

بلقیس نے کہا تو خان ہنس پڑا۔

اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ خان نے کنفرم کرنا چاہا۔بلقیس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔تو خان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں عروہ سے نکاح کر چکا ہوں۔

کیونکہ میں جب جاب کے لیے عروہ میرے پاس آئی تو اُس وقت ہی مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ کون ہے اور یہ نکاح میں نے اس کی سیفٹی کے لیے کیا تھا۔تاکہ وہ میرے آس پاس رہے میں اُس کا خیال رکھ سکوں۔اور اب میں چاہتا ہوں اس نکاح کا باقی سب کو بھی پتہ چل جائے تاکہ وہ عروہ کے ساتھ کچھ بھی غلط کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔

خان نے سنجیدگی سے کہا تو بلقیس نے حیرانگی سے خان کی طرف دیکھا تھا۔

تم دونوں نکاح کر چکے ہو؟ بلقیس کے لہجے میں حیرانگی تھی۔

جی میں عروہ سے نکاح کر چکا ہوں وہ تو مان نہیں رہی تھی لیکن جاب کے لیے میں نے شرائط ہی کچھ ایسی رکھی کہ اُسے ماننی پڑی۔

اور میں آپ کی بیٹی کو بلکل بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔

میرا ارادہ اُسے تکلیف پہنچانا یا اُس کے ساتھ غلط کرنے کا کبھی نہیں تھا۔

خان نے جلدی سے صفائی دینی چاہی آج اس نے جو بھی بلقیس کے سامنے کہا تھا وہ ایک ایک لفظ سچ تھا اور دل سے کہا تھا۔

تم عروہ کی مدد کیوں کر رہے ہو؟ بلقیس نے سنجیدگی سے پوچھا۔کیونکہ وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ خان عروہ کو پسند کرتا ہے ورنہ کوئی بھی کسی کی خاطر اتنا نہیں کرتا جتنا وہ عروہ کے لیے کر رہا تھا۔اور لڑکی بھی وہ جیسے اس کے گھر والے پسند نہیں کرتے تھے۔

یہ بات میں خود بھی نہیں جانتا لیکن آپ پلیز عروہ کو مت ڈانٹیے گا کیونکہ اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں ہے اگر آپ کو نکاح کو لے کر ڈانٹنا ہے تو آپ مجھے ڈانٹ سکتی ہیں۔

خان نے بلقیس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ صفوان خان تم پر بھروسہ کر رہی ہوں میری بیٹی کا خیال رکھنا۔اگر عروہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے تو مجھے اس سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے اُس کی خوشی میں میری خوشی ہے۔بلقیس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

تھینک یو میں وعدہ کرتا ہوں آپ کی بیٹی کا خود سے زیادہ خیال رکھوں گا۔

لیکن ابھی آپ اُسے نہیں بتائے گی کہ آپ کو میں نکاح کا بتا چکا ہوں۔کیونکہ میں چاہتا ہوں وہ خود آکر آپ کو یہ سب بتائے خان نے کہا تو بلقیس مسکرا پڑی۔

ٹھیک ہے میں اُسے کچھ نہیں بتاؤں گی۔

بلقیس نے کہا تو اس کے بعد خان ارد گرد کی باتیں کرنے لگا۔

اتنے میں عروہ خان کے لیے کافی لے آئی تھی۔

اور وہی بیٹھی دونوں کی باتیں سننے لگی۔اس کی نظریں بار بار بھٹک کت بات کرتے خان کی طرف جا رہی تھی۔

بلقیس نے سمجھداری کا ثبوت دیا تھا وہ جانتی تھی کہ خان کی عادت کیسی ہے اور وہ خان کی آنکھوں میں عروہ کے لیے پسندیدگی دیکھ چکی تھی۔خان نے کہا کہ اُس کی حفاظت کے لیے اُس نے عروہ سے نکاح کیا تو بلقیس کو اس کی بات پر یقین تھا۔

اور وہ بھی اس لیے کہ خان ان کی اتنی مدد کر رہا تھا وہ ان کو اپنا سمجھتا تھا تو ان کی مدد کر رہا تھا ورنہ اتنا کون کرتا ہے۔

💜 💜 💜 💜

ارسم تم نے نکاح کر لیا؟ کوثر کو جب سے پتہ چلا وہ تو حیران ہوئی تھی۔ارسم نے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی تھی۔

کوثر کے ساتھ سلطان بھی آیا تھا۔

امی جان میں نے نکاح کیا کوئی غلط کام نہیں کیا جو آپ سب اس طرح کا تاثر دے رہے ہیں جو لڑکی مجھے پسند تھی میں نے اُس سے نکاح کر لیا اور اب میں اپنی بیوی کو لے کر شاپنگ کے لیے جا رہا ہوں۔

ملائکہ چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے ارسم نے ملائکہ کو دیکھتے کہا.

جس نے پہلے ارسم کو گھور کر دیکھا پھر کوثر کے ساتھ سلطان کو سلام کیا۔

کوثر نے اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔

آپ کی امی آئی ہیں تو ہمیں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھنا چاہیے۔ملائکہ نے ارسم کو دیکھتے کہا۔

کوثر کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

تم نے بلکل ٹھیک لڑکی کا انتخاب کیا ہے ارسم اب میں مطمئن ہوں۔کوثر نے ارسم کو دیکھتے کہا۔

واہ ایک سیکنڈ میں آپ کی رائے بدل گئی؟ ارسم نے ملائکہ کو گھورتے ہوئے کہا جو ارسم کی گھوری کو کسی خاطر میں لائے بغیر کوثر کو دیکھ رہی تھی۔

میں نے یہ تو نہیں کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں ہے میں نے کہا کہ تمہیں ہم میں سے کسی کو بتانا چاہیے تھا۔خیر اب تم نے نکاح کر لیا تو ولیمہ ہم دھوم دھام سے کر لیں گئے۔

چلو بیٹا اندر کوثر نے مسکراتے ہوئے کہا اور ملائکہ کو لیے وہاں سے چلی گئی۔پیچھے ارسم نے ایک نظر سلطان پر ڈالی اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔

سب لوگ اندر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جب سلطان نے آفاق اور بسمہ کے رشتے کی بات شروع کی۔

آفاق کا نام سن کر بسمہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی اور یہ بات ارسم کے ساتھ ملائکہ نے بھی نوٹ کی تھی۔

میں اور خان چاہتے ہیں کہ وہاج سے بسمہ کا نکاح ہو جائے دونوں آپ کے ہی بیٹے ہیں لیکن وہاج مجھے لگتا ہے بسمہ کے لیے ٹھیک رہے گا۔ٹھیک کہہ رہا ہوں نا امی؟

ارسم نے اپنی ماں کو دیکھتے کہا بسمہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی تھی۔

بلکل دونوں ہمارے ہی بیٹے ہیں کوثر نے سلطان کو دیکھتے مسکرا کر کہا وہ بھی یہی چاہتی تھی۔

وہاج کے نام پر سلطان نے پہلو بدلہ تھا۔

سلطان تمہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے نا؟ دادا جان نے سلطان کو دیکھتے پوچھا۔

نہیں دادا جان مجھے بھلا کیا مسئلہ ہو گا۔وہاج بھی میرا ہی بیٹا ہے۔

سلطان نے جلدی سے کہا۔

ویسے امی وہاج کہاں پر ہے؟ ارسم نے سر سرسری سا پوچھا۔

وہ بیٹا اُسے آفس کے کام سے شہر سے باہر جانا پڑ گیا تھا۔تو وہ یہاں نہیں ہے۔کوثر نے ارسم کو دیکھتے کہا جو اسے سلطان نے بتایا وہی اس نے ارسم کو بتا دیا تھا۔

اوہ ٹھیک شہر سے باہر گیا ہے۔تو میرے ولیمے تک تو واپس آہی جائے گا۔پھر اُس سے مل لوں گا۔

اور مسز اب چلیں یا ابھی بھی آپ نے اپنی ساسو ماں کے پاس بیٹھتے باتیں کرنی ہیں؟ ارسم نے میٹھا سا طنز کرتے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا۔

ہاں بیٹا جاؤ تم دونوں کوثر نے جلدی سے کہا تو تحریم ہنس پڑی۔

ملائکہ اور ارسم پھر وہاں سے چلے گئے تھے۔

پیچھے باقی سب باتیں کرنے لگے تھے اور سلطان کو اس بات کی فکر کھائی جا رہی تھی کہ وہ آفاق کو کیا جواب دے گا۔اور وہاج اُس کا کیا کرے گا۔

💜 💜 💜 💜 💜

خان بلقیس سے اجازت لے کر کمرے سے باہر آیا اس کے پیچھے ہی عروہ بھی نظریں جھکائے چلی آرہی تھی۔جب خان نے پیچھے مڑ کر عروہ کی طرف دیکھا جو اپنے دھیان چل رہی تھی اور سیدھا خان کے سینے سے جا ٹکرائی۔بوکھلائے ہوئے انداز میں اس نے پیچھے ہونا چاہا اور گرنے ہی والی تھی جب اس نے ہاتھ آگے کرتے صفوان کو کالر سے پکڑنا چاہا لیکن اس کے کالر کو پکڑنے کی وجہ سے خان کی شرٹ کے دو بٹن ٹوٹ گئے اور اس کا سینہ نمایا ہونے لگا۔

مس عروہ آپ کرنا کیا چاہتی ہیں؟ خان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے گرنے سے بچایا اور گہرے لہجے میں پوچھا۔

عروہ نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لی۔خان اس کے چہرے کو دیکھ کر ہنس پڑا۔

اس کی نظر عروہ کے چہرے سے ہوتی ہوئی اس کے گردن کے نشان پر آکر ٹھہر گئی تھی۔

صفوان نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی گردن کے نشان کو چھوا۔

عروہ نے اس کا لمس محسوس کرتے فوراً آنکھیں کھول لی تھیں۔

مس عروہ آپ نے میری شرٹ کے بٹن توڑ دیے ہیں۔

خام نے اس کا دھیان اپنے بٹن کی طرف کرتے کہا۔

سوری سر میں ابھی سوئی دھاگا لے کر آتی ہوں۔عروہ نے جلدی سے کہا۔

لیکن آپ کو یہاں پر سوئی دھاگا نہیں ملے گا

خان نے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے پرسکون سے انداز میں کہا۔

آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں ہے کہ سوئی دھاگا کتنا ضروری ہوتا ہے گھر میں؟ عروہ نے خان کو دیکھتے کہا۔

جس نے اپنے قدم عروہ کی طرف بڑھائے تھے۔عروہ نے خان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اپنا حلق تر کرتے پیچھے کو قدم لینے لگی۔

ایک تو آج اسے صفوان خان الگ ہی لگ رہا تھا اور اب اس کی شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھا۔وہ عروہ کو کافی وجیہہ لگ رہا تھا اس لیے اس نے نظریں چرائی تھیں۔

میرے اس فلیٹ پر میں کبھی کبھار آکر اکیلا رہتا تھا۔

خان نے عروہ کے دائیں جانب ہاتھ رکھتے گہرے لہجے میں مزید کہا۔

تو یہاں کوئی عورت نہیں تھی لیکن اب میں سوچ رہا ہوں سوئی دھاگا لا کر رکھ لو آگے ضرورت پڑے گی۔

خان نے عروہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔جو اس سے نظریں چرا رہی تھی ایک تو خان اس کے اتنے قریب کھڑا تھا کہ اس کے پرفیوم کی خوشبو سے اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

مس عروہ آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں؟ اور یہ پسینہ؟ خان نے مسکراہٹ دباتے اس کے ماتھے کی طرف اشارا کرتے پوچھا۔

مجھے پسینہ نہیں تو عروہ نے جلدی سے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے کہا۔

آپ کو میرے ساتھ میرے بھائی کے ولیمے میں چلنا ہے۔

خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میں؟ لیکن کیوں؟ عروہ نے نظریں اٹھائے خان کو. دیکھتے پوچھا۔

کیونکہ مجھے آپ کو سب سے ملوانا ہے۔

اب یہ مت پوچھیں گا۔

کیوں؟ کیوں کے اس جا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے۔

اور اب میں چلتا ہوں خان نے پیچھے ہوتے کہا۔

عروہ کو اس کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔

کہ وہ کیوں اسے ساتھ لے کت جانا چاہتا ہے کیونکہ وہ تو اس کی سیکریٹری تھی۔

وہ آپ کے بٹن؟ عروہ نے یاد آنے پر جلدی سے کہا۔

کوئی بات نہیں اور آپ اپنا خیال رکھیے گا۔اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے کال کر لیجیے گا۔

خان نے عروہ کو دیکھتے کہا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

خان نے عروہ کی طرف مسکراہٹ اچھالی اور وہاں سے چلا گیا۔

عروہ ابھی بھی وہی کھڑی تھی۔

اور کتنی دیر ہمیں اسی طرح چلنا ہو گا؟ ملائکہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا کیونکہ ارسم کو کوئی جوڑا پسند نہیں آرہا تھا۔

میڈم ابھی تو ہم صرف پانچ شاپ پر گئے ہیں جہاں ہمیں کوئی سوٹ پسند نہیں آیا۔ابھی پوری مارکیٹ پڑی ہوئی ہے۔

ارسم نے تنگ کرنے والے انداز میں ملائکہ کو دیکھتے کہا۔

تو کیا یہ کم ہے؟ اور ہمیں نہیں صرف آپ کو کچھ پسند نہیں آرہا۔

ملائکہ نے اس کی لائن کی درستگی کرتے کہا۔

میری بیوی ہر ایک سے الگ نظر آنی چاہیے اس کے لیے ہمیں تھوڑی بہت تو محنت کرنی پڑے گی نا؟ ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

مجھے تو لگتا ہے آپ کو کوئی بھی سوٹ پسند نہیں آئے گا۔ملائکہ نے منہ بسوڑتے کہا۔

تم دونوں بہت خوش لگ رہے ہو؟ اس سے پہلے ارسم کچھ کہتا حمزہ کی آواز نے دونوں کو متوجہ کیا تھا۔

ملائکہ نے حمزہ کو دیکھ کر اپنا حلق تر کیا تھا۔

تو کیا ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے؟ ارسم نے حمزہ کو دیکھتے ابر اچکاتے پوچھا۔

اتنا بھی خوش مت ہو کچھ بھی ہو سکتا ہے ایسا ناہو بعد میں رونا پڑے۔حمزہ نے ملائکہ کو دیکھتے ڈھکے چھپے لفظوں میں کہا۔

اس بکواس کی وجہ؟ ارسم نے غصے سے پوچھا۔

ارے تم تو ابھی سے غصہ ہو گئے؟

مجھے دیکھو مجھ سے تم نے ملائکہ کو چھین لیا اور میں آرام سے کھڑا ہوں اور تم سے میری ایک بات بھی برداشت نہیں ہو رہی؟

یہ تو غلط بات ہے ۔اب میں تم دونوں کو ہنستے مسکراتے تو دیکھ نہیں سکتا۔اور اتنا اچھا تو ہوں نہیں کہ تم دونوں کو خوش رہنے کی دعا دینے کے بعد اپنے راستے چل پڑوں۔ولن کا رول بھی تو تم دونوں کی لو سٹوری میں کسی کو ادا کرنا ہے نا؟ حمزہ نے مسکراتے ہوئے مزید کہا۔

اور وہ رول میں بہت اچھے طریقے سے سر انجام دوں گا۔اور دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔حمزہ نے ملائکہ کو دیکھتے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ملائکہ ارسم کا بازو پکڑے کھڑی ہوئی تھی۔آج اسے حمزہ سے خوف محسوس ہوا تھا۔اس کی باتوں نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔

تم ٹھیک ہو؟

ارسم نے ملائکہ کو دیکھتے پوچھا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

ارسم گہرا سانس لیتے ملائکہ کا ہاتھ پکڑے اسے وہاں سے لے گیا تھا۔اس وقت ملائکہ کو گھر لے کر جانا ہی بہتر تھا۔سارا موڈ حمزہ نے آکر خراب کر دیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ماضی….

راحیل اور لبنیٰ شادی کے بعد بہت خوش تھے اللہ نے ان کو ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا تھا۔جس کا نام راحیل نے صفوان خان رکھا تھا۔

کوثر بھی صفدر کے ساتھ خوش تھی۔

ان کو بھی اللہ نے بیٹے سے نوازہ تھا جسکا کا نام کوثر نے ارسم رکھا تھا۔

رحمان نے لبنیٰ کی شادی کے بعد داجی کے کہنے پر عظمیٰ سے شادی کر لی تھی۔جو ایک سلجھی ہوئی خاتون تھی۔لیکن پھر بھی رحمان کو ان کی قدر نہیں تھی۔

ان کے ہاں جب حمزہ پیدا ہوا تو گھر میں سب لوگ بہت خوش تھے۔

سلطان جب واپس آیا تو اُسے کوثر کی شادی کا پتہ چلا پہلے تو اسے یقین نہیں آیا وہ اندر سے کافی ٹوٹ گیا تھا کیونکہ وہ کوثر سے محبت کرتا تھا۔

اور اُسی کے غم میں اس نے رات کو کلب جانا شروع کر دیا وہاں پر اسے وہ لڑکی ملی جس کا نام مالا تھا۔

مالا کے ملنے کے بعد سلطان کوثر کو بھولنے لگا تھا اس نے داجی سے شادی کی بات کی پہلے تو وہ نہیں مانے پھر بیٹے کی خوشی کی خاطر مان گئے۔اُ کو معلوم تھا کہ وہ لڑکی کبھی گھر نہیں بسا سکے گی۔

مالا کی شادی سلطان سے ہوئی تھی وہ گھر کی روک ٹوک سے تنگ آگئی تھی۔وہ آذاد رہنا چاہتی تھی اس لیے اپنے بچوں اور شوہر کو چھوڑ کر چلی گئی اس نے سلطان سے طلاق مانگی تھی اور ساتھ دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے طلاق نہیں دی تو وہ عدالت جائے گی۔سلطان نے کافی اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب اس نے بات نا مانی تو سلطان نے اسے طلاق دے دی۔

مالا کو طلاق دینے کے بعد سلطان پھر سے کوثر کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔

کوثر لوگ اپنی زندگی میں بہت خوش تھے۔

راحیل اور لبنیٰ کو اللہ نے دوسرے بیٹے سے نوازہ تھا جس کا نام انہوں نے علی رکھا تھا سب لوگ خوش تھے۔

جب ایک روز کوثر کو خبر ملی کہ صفدر کی ایکسیڈنٹ میں موت ہو گئی ہے۔وہ خبر کوثر کے لیے ناقابل یقین تھی۔

ہنستے مسکراتے گھر میں خاموشی چھا گئی تھی۔اچانک صفدر کوثر کو چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

اور یہ کام سلطان نے اپنے بھائی رحمان کے ساتھ مل کر کروایا تھا۔اس نے رحمان کو کہا کہا وہ کوثر کو پسند کرتا ہے اور اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔رحمان بھی راحیل کو برباد کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو اس نے ایکسیڈنٹ کا مشورہ دیا اس سے کوثر اس کی ہو سکتی تھی۔اور دونوں اپنے برے ارادے میں کامیاب بھی ہو گئے۔

کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ راحیل کو کمپنی میں بہت بڑا لاس ہوا۔یہاں تک کہ انکو اپنا گھر بیچ کر ایک چھوٹے سے گھر میں رہنا پڑا تھا۔

سب کچھ اچانک ہی ہوا تھا۔راحیل کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

رحمان بہت سوچ سمجھ کر چال چل رہا تھا۔ان کا بزنس اتنا بڑا نہیں تھا لیکن راحیل کی کمپنی جب برباد ہوئی تو رحمان کی کمپنی کافی آگے آگئی تھی۔اُس وقت رحمان نے دادا جان کو جھوٹی کہانی بنا کر سنائی کہ راحیل کی وجہ سے سب کچھ ہوا ہے اور دادا جان نے بھی اپنے بیٹے کی بات پر یقین نہیں کیا بلکہ رحمان کی بات پر یقین کیا تھا۔

رحمان نے بدلہ لینے کے لیے بہت انتظار کیا تھا۔جب وہ راحیل اور لبنی کو ایک ساتھ دیکھتا تو اس کا خون کھول اٹھتا۔

اور اپنی نفرت میں وہ اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اس نے دونوں کی جان لینے کا سوچا۔

جس گھر میں دادا جان اور باقی سب رہتے تھے وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا۔

رحمان کے ساتھ عروہ کا باپ آصف بھی شامل تھا۔آصف رحمان کا ڈرائیور اور بھروسے مند آدمی تھا وہ پیسوں کا لالچی انسان تھا۔پیسوں کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔

رحمان نے آصف کے ساتھ مل کر دادا جان کے گھر کو آگ لگانے کا پلان بنایا وہ بھی پیسوں کی خاطر مان گیا تھا۔

لیکن جس دن اس نے گھر میں آگ لگانے کا پلان بنایا تھا اُس دن دادا جان خان کو لیے کوثر کی طرف گئے تھے جس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلی رہے گی۔

دادا جان اسے اپنے ساتھ لانا چاہتے تھے۔گھر میں راحیل لبنی اور علی تھے۔

راحیل بزنس کو ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔

رحمان نے رات میں جب تینوں سو رہے تھے تو اس نے گھر پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

راحیل اپنے کمرے میں جبکہ لبنیٰ اپنی چھوٹے بیٹے علی کے ساتھ خان کے کمرے میں لیٹی سو رہی تھی۔

کیونکہ علی ضد کر رہا تھا کہ اُسے خان کے کمرے میں سونا ہے۔

راحیل کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے اس لیے اس نے شہر سے تھوڑا دور سنسان سی جگہ پر گھر لیا تھا۔جہاں دور دور تک ایک دو اور مکان تھے۔

راحیل کی آنکھ کچھ جلنے کی بو سے کھلی۔اس نے کب دیکھا کہ باہر اگ لگی ہے اور کھڑکی سے اندر آرہی ہے تو اسے پہلا خیال لبنیٰ اور علی کا آیا تھا وہ بھاگتے ہوئے خان کے کمرے کی طرف گیا اور دروازے کو کھولتے اندر آیا جہاں آگ زیادہ پھیل گئی تھی شاید دونوں دھوئیں کی وجہ سے بےہوش ہو گئے تھے۔

اس نے آگے بڑھتے لبنیٰ کے گال کو تھپتھپایا جس نے مندی مندی سی آنکھیں کھول کر راحیل کی طرف دیکھا۔

لبنیٰ جلدی سے اٹھو اور چلو یہاں سے راحیل نے علی کو گود میں لیتے کہا۔

لبنیٰ نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آرہا تھا۔

دروازے کے پاس بھی آگ زیادہ پھیل گئی تھی۔

لبنیٰ ہمت پیدا کرتے راحیل کی طرف دیکھتے کہا۔

راحیل آپ علی کو لے کر یہاں سے چلے جائیں۔میری فکر مت کریں۔پلیز یہاں سے جائیں۔

لبنی نے راحیل کو دیکھتے کہا۔

آگ چاروں طرف پھیلتی جا رہی تھی۔

میں تمہیں چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤ گا۔

راحیل نے غصے سے کہا۔

علی کی خاطر پلیز یہاں سے چلے جائیں۔لبنی نے راحیل کی بانہوں میں بےہوش لیٹے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

راحیل آپ کو میری قسم ہے پلیز میرے بچے کو لے کر یہاں سے چلے جائے۔میرے بچے کی جان بچ جائے گی۔

پلیز میری بات مان لیں۔یہ چھت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔لبنی نے بےبسی سے کہا۔

میں کیسے تمہیں چھوڑ کر جا سکتا ہوں؟

راحیل نے اپنی جان سے پیاری بیوی کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے کہا۔

اس سے پہلے لبنیٰ مزید کچھ کہتی چھت سے ایک بڑا سا لکڑی کا ٹکرا راحیل پر آگرا تھا۔

لبنیٰ کی چیخ اس چھوٹے سے کمرے میں گونجی تھی۔

لبنیٰ نے ہاتھ سے آگ کو اپنے بیٹے اور شوہر سے پیچھے کرنا چاہا لیکن آگ پھیلتی ہوئی لبنیٰ تک بھی پہنچ گئی تھی۔وہ پاگلوں کی طرح پوری کوشش کر رہی تھی اپنے شوہر اور بچے کو بچانے کی چیخ رہی تھی لیکن کوئی اس کی فریاد سننے والا نہیں تھا۔

علی کا پورا بازو جل گیا تھا۔راحیل بمشکل اٹھا اور اسنے کھڑکی کی طرف دیکھا اور وہاں سے علی کو باہر پھینک دیا۔ جو دور زمین پر جا گرا تھا۔

راحیل نے لبنیٰ کو دیکھا جو شاید اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی راحیل پر بھی آگ پھیلتی جا رہی تھی اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔اور موت کو گلے لگائے اپنی بیوی کے پاس گر گیا۔


آصف جو کھڑا گھر کو جلتے دیکھ رہا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر علی کو اٹھایا جو بے ہوش تھا اور اس کا ایک ہاتھ جل گیا تھا۔اس کے چہرے پر پریشانی چھائی ہوئی تھی۔وہ علی کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔اس نے چادر سے منہ کو چھپایا ہوا تھا۔وہ جتنا بھی برا سہی لیکن بچے کی جان نہیں لے سکتا تھا۔اس نے علی کو سڑک کے کنارے پت لیٹایا اور وہاں بسے بھاگ گیا۔

اور رحمان کے پاس آیا تھا جو اپنی خوشی کا جشن منا رہا تھا۔اسے لگا سب مر گئے ہیں۔

آصف نے اسے علی کا نہیں بتایا تھا۔

آصف آج میں بہت خوش ہوں۔تم بھی گھر جاؤ اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارو اور ہاں تمھاری بیوی کو سب پتہ چل گیا ہے۔وہ میرے پاس آئی تھی اور کہہ رہی تھی وہ پولیس کے پاس جائے گی۔

رحمان نے آخری بات سنجیدگی سے کہی۔سر اب میں کیا کروں؟ آصف نے پریشانی سے پوچھا کیونکہ صبح اُسے ایسا لگا تھا جیسے دروازے کے باہر کھڑا کوئی اس کی باتیں سن رہائش ہو جب وہ فون پر رحمان سے بات کر رہا تھا۔

میرے پاس ایک حل ہے جس سے تم بچ سکتے ہو اور کسی کا شک بھی تم پر نہیں جائے گا رحمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اور ایک میڈیسن آصف کے سامنے کی۔اسے اپنی بیوی کو دے دینا سب کو لگے گا کہ اُسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اس طرح تم بچ سکتے ہو۔

رحمان نے آصف کے چہرے کے تاثرات دیکھتے کہا۔

اس کے بدلے میں بھی مجھے پیسے چاہیے آصف نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ رحمان ہنس پڑا تھا۔

ٹھیک ہے کام ہو جانے کے بعد مل جائے گئے رحمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔آصف لالچ میں اتنا اندھا ہو گیا تھا کہ اسے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔

وہاج ابھی تک بےہوش تھا اسے ہوش نہیں آیا تھا۔آفاق جب اگلے دن فلیٹ پر آیا تو وہاج کو وہاں نا دیکھ کر پریشان ہوا تھا اس نے کال کرکے اپنے باپ کو وہاں بلایا۔

وہ یہاں سے کیسے بھاگ سکتا ہے اُس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ بھاگ سکتا۔

سلطان نے آفاق کو دیکھتے پریشانی سے کہا۔

مجھے صرف ایک بات کی فکر ہے اگر وہ کسی کے ہاتھ لگ گیا تو سب کچھ سچ بتا دے گا پھر آپ کیا کریں گئے؟ آفاق نے اپنے باپ کو دیکھتے کہا۔

آفاق نے اپنے باپ کو دیکھتے کہا۔

جو خاموش رہا تھا۔

ارسم کا ولیمہ ہے اور ہم سب نے جانا ہے۔سلطان نے آفاق کو دیکھتے کہا۔

آپ نے بسمہ اور میری بات کی؟ آفاق نے جلدی دے پوچھا۔

وہ لوگ چاہتے ہیں کہ بسمہ اور وہاج کی شادی ہو جائے اُن کو بسمہ وہاج کے لیے پسند ہے اور وہ لوگ اُس سے ملنا چاہتے ہیں۔

سلطان نے نظریں چراتے کہا۔

ڈیڈ میری شادی بسمہ سے ہو گی اگر نہیں تو وہاج اگر زندہ ہوا تو اُس کی شادی میں بسمہ سے ہونے نہیں دوں گا۔

اگر وہ میری نہیں ہو سکتی تو اُس کی بھی نہیں ہونے دوں گا۔اب اگر وہ مجھے نظر بھی آیا تو اپنی جان سے جائے گا۔

آفاق نے سرد لہجے میں کہا۔

تم اپنے بھائی کی جان لو گے شرم آنی چاہیے تمہیں سلطان نے غصے سے کہا۔

آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھ لیں لیکن میں وہی کروں گا جو میرا دل کرے گا۔

آفاق نے سرد لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا پیچھے سلطان اپنا سر پکڑے بیٹھ گیا تھا۔

اب وہ کیا کرے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔

💜 💜 💜 💜

گھر میں تیاریاں زور شور پر تھیں۔گھر ہی اتنا بڑا تھا اس لیے فنکشن گھر میں ہی رکھا تھا۔

ملائکہ اپنی کمرے میں تھی۔جب بسمہ دروازہ ناک کرتے اندر آئی اس کے ہاتھ میں ایک بیگ جھول رہا تھا۔

کیسی ہیں آپ بھابھی؟

بسمہ نے ملائکہ کو دیکھتے مسکرا کر پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں۔

تم آؤ ملائکہ نے بھی مسکرا کر کہا۔

بھابھی یہ بھائی نے آپ کے لیے بھیجا ہے اور بیوٹیشن بھی آتی ہوں گی۔تو آپ جلدی سے چینج کر لیں۔

بسمہ نے ہاتھ میں پکڑا بیگ ملائکہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

بسمہ کیا میرے گھر والے بھی آرہے ہیں؟ ملائکہ نے تھوڑا گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ وہ بھلا کیوں نہیں آئے گئے؟ بسمہ نے حیرانگی سے کہا تو ملائکہ مسکرا پڑی۔

مجھے لگا شاید وہ نہیں آرہے میں چینج کرکے آتی ہوں ملائکہ نے وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا اور چینج کرنے چلی گئ۔

وہ جب چینج کرکے باہر آئی تو خود کو آئینے میں دیکھ کر اس نے ارسم کہ چوائس کی دل سے تعریف کی تھی۔

بھابھی آپ تو بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ بسمہ نے ملائکہ کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔

ارسم اس کے لئے ریڈ کلر کا لانگ فراک لایا تھا جس میں وہ باربی ہی لگ رہی تھی۔

بسمہ کی تعریف پر ملائکہ نے شرما کر نظریں جھکا لی تھیں۔

اتنے میں دروازہ ناک ہوا اور بیوٹیشن اندر آئی۔گھر کو دیکھنے کے بعد وہ دلہن کی قسمت پر رشک کررہی تھی لیکن اسے دلہن بھی کسی سے کم نہیں لگی تھی۔

آپ یہاں بیٹھ جائیں.اُس لڑکی نے کہا تو ملائکہ آئینے کے سامنے بیٹھ گئی۔

بھابھی میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں بسمہ نے ملائکہ کو دیکھتے کہا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

بسمہ وہاں سے باہر چلی۔

بسمہ کے جاتے ہی وہ لڑکی ملائکہ کو تیار کرنے لگی تھی۔

💜 💜 💜 💜

عروہ بیٹھی کسی سوچ میں غم تھی۔اس نے اپنے گردن کے نشان کو اپنے ہاتھ سے چھوا۔

سر میری اتنی مدد کیوں کر رہے ہیں؟

عروہ نے خود سے سوال کیا۔

لیکن جواب اس کے پاس نہیں تھا۔

ہو سکتا ہے مجھ پر ترس آگیا ہو۔

عروہ نے خود سے کہا۔

تو کیا وہ ہر ایک پر ایسے ہی ترس کھاتے ہیں۔

عروہ نے گہرا سانس لیتے کہا۔

جب اس کے موبائل پر خان کا میسج آیا تھا۔

یہ یہاں کیا کر رہے ہیں عروہ نے حیرانگی سے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔اور کمرے سے باہر نکل کر دروازہ کھولا جہاں سامنے خان کھڑا تھا ایک پل کے لیے تو عروہ تو خان کو دیکھ کر حیران ہو گئی تھی۔براؤن کلر اس پر کافی سوٹ کر رہا تھا یہ کلر خان نے پہلے بھی پہنا تھا لیکن شاید آج اس نے نوٹ کیا تھا۔

مس عروہ آپ ٹھیک ہیں؟

خان نے اسے خود کو گھورتے دیکھا تو پوچھا۔جو بوکھلائے ہوئے انداز میں ہوش میں آئی تھی۔

آئیں نا آپ اندر عروہ نے جلدی سے دروازے سے پیچھے ہوتے کہا۔

خان اندر آیا تو عروہ کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگ پر گئی۔

یہ کیا ہے؟ عروہ نے حیرانگی سے خان کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو دیکھتے پوچھا۔

آپ خود دیکھ لیں خان نے سنجیدگی سے کہا۔تو عروہ نے بیگ پکڑا اور اندر سے ایک خوبصورت سوٹ نکالا۔

یہ کس لیے ہے؟ عروہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

آج ارسم کا ولیمہ ہے اور آپ جلدی سے تیار ہو جائیں پھر ہمیں نکلنا بھی ہے۔

خان نے عروہ کو دیکھتے نرم لہجے میں کہا۔

لیکن میں امی کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔عروہ نے پریشانی سے کہا۔

تھوڑی دیر تک ملازمہ آجائے گی وہ اُن کا خیال رکھ لے گی آپ جلدی سے تیار ہو جائیں۔

خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اس کی بات سن کر عروہ تھوڑی مطمئن ہوئی تھی۔عروہ اثبات میں سر ہلائے وہاں سے چلی گئی تھی۔

اسے ابھی بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ خان اسے اپنے ساتھ لے کر کیوں جانا چاہتا ہے۔

عروہ چینج کرکے باہر آئی اور خود کو اس نے آئینے میں دیکھا یہ بلیو کلر کی فراک اس پر کافی سوٹ کر رہی تھی۔

لیکن اس کی بیک پر ڈوریاں لگی ہوئی تھیں۔جو اس سے تو بند نہیں ہو رہی تھی۔اس نے سوچا تیار ہونے کے بعد بلقیس کے کمرے میں جاکر بند کروا لے گی۔

اس لیے تیار ہونے لگی۔

بلقیس اس سے نارملی ہی بات کر رہی تھی۔

تیار ہونے کے بعد عروہ نے ایک آخری نگاہ آئینے میں ڈالی وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔

اپنے کھلے بالوں کو اس نے پیچھے کمر پر ڈالا اور باہر جانے لگی جب باہر سے اندر آتے خان سے ٹکرائی جس نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے گرنے سے بچایا تھا۔

خان نے عروہ کو دیکھا تو پلکیں جھپکانا بھول گیا۔اس نے پہلی بار عروہ کو تیار دیکھا تھا۔

عروہ خان کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی اس نے ابھی بھی عروہ کو ویسے ہی پکڑا ہوا تھا۔

سر عروہ نے دھیمے لہجے میں پکارا تو خان فوراً ہوش میں آیا۔

آپ ٹھیک ہیں؟ خان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا جس نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

وہ پیچھے مڑی تو خان نے اس کی بیک پر ڈوریاں کھلی ہوئی دیکھی اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا جو ناجانے جھک کر کیا دیکھ رہی تھی۔

اس نے کندھوں سے پکڑ کر عروہ کو سیدھا کھڑا کیا اور اس کے بالوں کو دائیں جانب کندھے پر ڈالا۔

عروہ وہی سانس روکے کھڑی ہوئی تھی۔

خان ایک ایک کر کے ڈوری بند کرنے لگا تھا۔

اس کی ہاتھ عروہ کی کمر سے ٹچ ہو رہا تھا۔لیکن خاموش کھڑی تھی۔

خان نے ڈوری بند کرنے کے بعد اس کا رخ اپنی طرف کیا۔اور پیچھے کمرے پر ڈال دیے۔

عروہ نے خان کی طرف دیکھا جو مسکرا کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

سر آپ… عروہ نے کچھ کہنا چاہا۔

جب خان نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش رہنے کا کہا۔

آج سے آپ مجھے خان یا صفوان کہہ کر پکارے گی۔

دونوں ناموں میں جو آپ کو ٹھیک لگتا ہے اُس سے آپ مجھے پکارے گی۔ٹھیک ہے؟ خان نے عروہ کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔

جی لیکن میں آپ کا نام کیسے لے سکتی ہوں؟ عروہ نے بوکھلائے ہوئے انداز میں پوچھا۔

عروہ جی میرے نام لینے پر ٹیکس تو لگتا نہیں ہے جو آپ کو دینا پڑے گا تو آپ زبان سے جیسے مجھے سر کہتی ہیں ویسے میرا نام بھی لے سکتی ہیں۔

خان نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا عروہ نے جلدی سے کہا۔

تو آپ کا کیا مطلب تھا؟ خان نے پوچھا۔

اسے عروہ کو تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا۔

ہمیں چلنا چاہیے دیر ہو رہی ہے عروہ سے جب کوئی جواب نہیں بن پایا تو اس نے نظریں چراتے کہا۔

ایک سیکنڈ خان نے کہتے اپنی جیب میں سے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکالی جس کے اندر دو گولڈن کلر کی رنگز تھیں۔

اس نے چھوٹی والی رنگ پکڑی اور عروہ کا ہاتھ پکڑتے اس میں پہنا دی۔

اور دوسری رنگ عروہ کی طرف بڑھائی۔

اور اپنا ہاتھ آگے کیا۔عروہ نے ایک نظر خان کی طرف دیکھا اور رنگ پکڑ کر اس کی انگلی میں پہنا دی۔

میں نہیں جانتی کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔عروہ نے معصومیت سے خان کو دیکھتے کہا۔

وہ آج آپ کو پتہ چل جائے گا۔خان نے گہرے لہجے میں کہا اور عروہ کا ہاتھ پکڑے اسے وہاں سے لے گیا۔

جو خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔

ملائکہ تیار ہو گئی تھی اس نے جب تیار طہو کر خود کو آئینے میں دیکھا تو حیران رہ گئی تھی۔

جب اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو اس نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں ارسم کھڑا چہرے پر حیرانگی لیے سر سے لے کر پاؤں تک ملائکہ کو دیکھ رہا تھا۔اس نے خود بھی بلیک کلر کا پنٹ کوٹ پہنا ہوا تھا جس میں وہ کافی وجہہ لگ رہا تھا۔

میری بیوی کو آپ نے کہی دیکھا ہے؟ ارسم نے سنجیدگی سے ملائکہ کو دیکھتے اس کے پاس آتے پوچھا۔

جس نے حیرانگی سے ارسم کی طرف دیکھا تھا۔

اوہ تو آپ نے نہیں دیکھا تو مجھے لگتا ہے میں غلط کمرے میں آگیا ہوں۔ارسم نے مسکراہٹ دباتے کہا۔ملائکہ نے اس کی بات کا مطلب سمجھ کر اس کو گھور کر دیکھا تھا۔

ویسے میک اپ بھی کیا کمال کی چیز ہے انسان کو بدل کر رکھ دیتا۔

ارسم نے ہنستے ہوئے کہا۔

ہو گیا آپ کا؟ ملائکہ نے دانت پیستے پوچھا۔

ارے نہیں ابھی تو میں نے شروع کیا ہے تمہیں تنگ کرنا اور تم اتنی جلدی اکتا گئی۔

ارسم نے ملائکہ کو کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے گہرے لہجے میں کہا۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو اور یہ ڈریس بھی تم پر بہت پیار لگ رہا ہے ارسم نے ملائکہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا۔

نکاح میں طاقت ہی اتنی ہوتی ہے کہ وہ دو اجنبی لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا کر دیتا ہے۔

کاش میں بھی آپ کے بارے میں یہی کہہ سکتی ملائکہ نے ارسم کو دیکھتے حساب برابر کرتے کہا جو قہقہہ لگائے ہنس پڑا تھا۔

امی ٹھیک کہتی ہیں بلکل ٹھیک بیوی کا انتخاب کیا ہے میں نے ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

آپ ایک بات ابھی بھی یاد رکھیے گا میں نے آپ کو معاف نہیں کیا۔ملائکہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔

معاف؟ ارسم نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

لو آپ کو تو یاد بھی نہیں ہے۔ملائکہ نے کمر پر ہاتھ رکھتے دانت پیستے کہا۔

ارسم کو ابھی بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔

آپ نے زبردستی مجھ سے نکاح کیا تھا یاد ہے یا بھول گئے۔ملائکہ نے طنزیہ لہجے میں اسے یاد دلاتے کہا۔

اُس وقت کو تو میں کبھی نہیں بھول سکتا میڈم اُسی پل تو تم میرے نام کر دی گئی تھی۔ اور اب تم پوری کی پوری میری ہو۔ارسم نے ملائکہ کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور باری باری دونوں آنکھوں پر پیار سے بوسہ دیا۔

ملائکہ نے زور سے آنکھیں میچ لی تھیں۔

مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے ابھی بھی میرا دیا ہوا لاکٹ پہنا ہوا ہے۔

ارسم نے ملائکہ کی خوبصورت گردن میں پہنے لاکٹ کو پکڑتے مسکرا کر کہا۔

وہ مجھے اسے اتارنا یاد نہیں رہا ملائکہ نے نظریں چراتے کہا۔

اب تم اسے اتارنے کی غلطی کرو گی بھی نہیں ارسم نے کہتے ہی جھک کر اس کی گردن پر پیار سے بوسہ دیا اور پیچھے ہٹ گیا۔

ملائکہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

تمھارے امی ابو اور بھائی آگئے ہیں۔تو چلیں پھر؟ ارسم نے ملائکہ کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلاتے ہوئے کہا جسے ملائکہ نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے تھام لیا تھا۔

ارسم نے نرم سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور اس کا ہاتھ پکڑے کمرے سے باہر لے گیا۔

باہر سارے مہمان آچکے تھے رحمان کی فیملی بھی آچکی تھی۔

عظمی نے جب ارسم کے ساتھ آتی ملائکہ کو دیکھا تو اس نے حیرانگی سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا تھا۔حیران تو ثانیہ بھی تھی۔لیکن رحمان آرام سے کھڑا تھا۔وہ یہی سوچ کر مطمئن تھا کہ اب اس کا بیٹا اس غریب لڑکی کا پیچھا چھوڑ دے گا۔

ارسم نے ملائکہ کو سب سے ملوایا تھا۔

حمزہ دور کھڑا سرخ آنکھوں سے دونوں کو دیکھ رہا تھا آج اس کا یہاں آنے کا مقصد کچھ اور تھا۔اور پتہ نہیں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا بھی ہے یا نہیں۔

یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا۔

ملائکہ جب عظمیٰ سے ملی تو اسے پتہ چلا کہ ارسم سے ان کا کیا رشتہ ہے۔ملائکہ کی نظر حمزہ پر پڑی جس نے ایک نرم سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھال دی تھی۔اس نے فوراً نظریں دوسری جانب پھیر لی تھیں۔

ملائکہ جاکر اپنے ماں باپ سے ملی تھی۔ارمان اسے خوش دیکھ کر خوش تھا۔

دادا جان کب سے ارمان کو دیکھ رہے تھے۔ارسم نے ارمان کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور اسے دادا جان کے پاس لے کر گیا۔

نانا جان یہ ارمان ہے ملائکہ کا بھائی ارسم نے ارمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔

جس نے دادا جان کو جھک کر سلام کیا تھا۔

بیٹا تمہیں دیکھ کر مجھے کسی اپنے کی یاد آئی ہے۔خوش رہو دادا جان نے خوشی سے اسکے سلام کا جواب دیتے کہا۔

جو دادا جان کی بات سن کر مسکرا پڑا تھا۔

ارسم خان کہاں ہے؟ سب لوگ آچکے ہیں اور اُس کا کسی کو معلوم نہیں ہے۔دادا جان نے تھوڑا غصے سے کہا۔

میں اُسے کال کرتا ہوں ارسم نے جلدی سے کہا۔ارمان دادا جان سے باتیں کرنے لگا تھا۔تحریم اور بسمہ کوثر کے پاس کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔

ویسے ٹھیک لڑکا پھنسایا ہے تم نے ثانیہ نے ملائکہ کے پاس آتے طنزیہ لہجے میں کہا۔

تمہیں دیکھ کر تو لگ رہا ہے آج تک تم سے وہ پھنسا نہیں جسے تم نے پھنسانا چاہا لیکن افسوس سب تمھارے جیسے نہیں ہوتے اور میں نے کسی کو نہیں پھنسایا وہ جو میرے شوہر ہیں نا ملائکہ نے ارسم کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

جب انہوں نے پہلی بار مجھے دیکھا تو مجھے پر دل و جان سے فدا ہو گئے اور فوراً مجھ سے نکاح کر لیا۔

تو مجھے تمھاری فضول کی کسی بات پر توجہ نہیں دینی۔اور تم بھی پھنسانے کی کوشش کرو ہو سکتا ہے کوئی نا کوئی پھنس جائے ملائکہ نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

پیچھے ثانیہ غصے سے دانت پستی رہ گئی تھی۔

اس نے گہرا سانس لیتے اپنے موڈ کو ٹھیک کیا اسے خان کا انتظار تھا جو پتہ نہیں کہاں ہر تھا۔

💜 💜 💜 💜

سر اگر کسی نے مجھے آپ کے کمرے میں دیکھ لیا تو؟ عروہ نے پریشانی سے خان کو دیکھتے کہا۔جو کب کا گھر آچکا تھا اور پیچھلے دروازے سے عروہ کو اپنے کمرے میں لے آیا تھا کیونکہ اس کی جوتی کی ہیل ٹوٹ گئی تھی۔تو خان نے بسمہ سے مدد لی تھی۔بسمہ نے عروہ کو دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔اس کی یہ بھابھی بھی کسی سے کم نہیں تھی۔

خان نے اسے کہا تھا کہ کسی کو بتائے نا تو بسمہ اثبات میں سر ہلائے وہاں سے چلی گئی تھی۔

عروہ اگر کوئی دیکھ بھی لیتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے آپ بیوی ہیں میری خان نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے کہا۔

آج پہلی بار خان نے اپنا حق جتایا تھا۔

عروہ نے نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔

ایسے مت دیکھیں خان نے آگے بڑھتے عروہ کے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹو کو کان کے پیچھے کرتے گھمبیر لہجے میں کہا۔

اور میں نے آپ کو کہا تھا کہ آپ مجھے اب سر نہیں کہیں گی۔

خان نے اسے یاد دلاتے کہا۔

جی وہ مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔

عروہ نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے کہا۔

جی میں سن رہا ہوں۔خان نے عروہ کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر کرتے کہا۔

آپ میری اتنی مدد کیوں کر رہے ہیں؟ عروہ نے خان کے چہرے کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

اس کا سوال سن کر خان ہلکا سا مسکرایا اور جھک کر بنا عروہ کو سمجھنے کا موقع دیے بغیر پیار سے اس کے ہونٹوں پر اپنا لمس چھوڑا۔

عروہ آنکھیں پھیلائے شوکڈ سی کھڑی تھی۔

آپ کے اس سوال کا جواب میں بعد میں آرام بسے دوں گا لیکن ابھی ہمیں نیچے چلنا چاہیے۔

خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اور عروہ کو کمر سے پکڑ کر خود کے. ساتھ لگاتے اسے کمرے سے باہر لے گیا۔

نیچے سب لوگ باتیں کر رہے تھے جب ان کی نظر سیڑھیوں سے نیچے اترتے خان اور عروہ پر پڑی۔

یہ تو صفوان خان کی سیکریٹری ہے نا؟

خان کے آفس ایمپلائز نے خان کے ساتھ آتی عروہ کو دیکھتے اپنے ساتھ کھڑے ساتھی کو کہا۔

جس نے بلیو کلر کی لانگ فراک پہنی ہوئی تھی۔اور خان نے براؤن کلر کی پینٹ کے ساتھ براؤن کلر کی ہی واسکٹ پہنی تھی۔واسکٹ کے نیچے پہنی شرٹ اوف وائیٹ کلر کی تھی۔

سب کی نظر سیڑھیوں سے نیچے اترتے خان اور عروہ پر تھیں۔

بھائی یہ تو وہی لڑکی ہے نا جو ہمارے گھر کا زیور چوری کرکے بھاگی تھی۔

ثمینہ نے اپنے بھائی رحمان کو دیکھتے کہا۔جو خود عروہ کو یہاں خان کے ساتھ دیکھ کر حیران تھا۔

خان نے عروہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔

ملائکہ تو سب سے زیادہ حیران ہوئی تھی۔

یہ عروہ آپ کے بھائی کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟ ملائکہ نے ارسم کو دیکھتے حیرانگی سے پوچھا۔

بیوی شوہر کے ساتھ ہی ہو گی نا ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ملائکہ نے حیرت کے مارے منہ کھولے ارسم کو دیکھا تھا۔

لیڈیز اینڈ جنٹلمین میں تھوڑی دیر کے لیے آپ سب کی توجہ چاہتا ہوں۔خان نے سب کو دیکھتے کہا.

ویسے تو سب کی توجہ دونوں کی طرف ہی تھی۔لیکن جو نہیں بھی دیکھ رہے تھے۔وہ بھی ان دونوں کی طرف دیکھنے لگے تھے۔

ثانیہ نے دادا جان کی طرف دیکھا تھا۔جو خود حیران تھے۔

میں اپنی خوبصورت بیوی کا آپ سب سے تعارف کروانا چاہتا ہوں۔ویسے تو یہ ارسم اور ملائکہ کا خاص دن ہے۔لیکن پھر بھی میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں سادگی سے نکاح کر چکا ہوں چونکہ مجھے شور شرابہ پسند نہیں ہے تو میں نے سوچا آج میں اپنے نکاح کا بھی بتا دیتا ہوں کیونکہ کچھ لوگوں کو لگ رہا تھا میں ابھی بھی سنگل ہوں تو مجھے شادی کا مشورہ دے رہے تھے۔تو اُن سب کو بتانا بھی ضروری تھا کہ اب میں شادی شدہ ہوں اور میری بیوی کو اچھا نہیں لگے گا اگر کوئی میری شادی کی بات کرے۔آخری بات خان نے مسکراتے ہوئے عروہ کو دیکھتے کہی اور اس کو کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کرتے اس کے بالوں پر پیار سے بوسہ دیا۔

عروہ تو سب سے زیادہ شوکڈ کھڑی تھی اسے امید نہیں تھی کہ خان ایسا کچھ بھی کہے گا۔

آپ لوگ پلیز انجوائے کریں۔خان نے مسکراتے ہوئے کہا تو سب لوگ مسکرا کر اس کے پاس آتے مبارک باد دینے لگے جہاں کچھ لوگ خان اور عروہ کے لئے خوش تھے وہی کچھ لوگ آنکھوں میں نفرت لیے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔تو اس خوشی کے ماحول میں ثمینہ کیسے خاموش رہتی۔

خان زرا یہ بھی بتا دو کہ تمھاری بیوی کام کیا کرتی ہے۔بلکہ میں سب لوگوں کو بتا دیتی ہوں۔ثمینہ نے آگے آتے طنزیہ لہجے میں کہا تو حمزہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔عروہ نے خان کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔

ارسم نے سنجیدگی سے خان کی طرف دیکھا۔

جو ابھی بھی پرسکون سا کھڑا تھا۔

آپ کس نے حق دیا ہمارے گھر کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا؟ خان چلتا ہوا ثمینہ کے سامنے آیا اور پرسکون سے لہجے میں اسے دیکھتے پوچھا۔

حمزہ اپنی پھوپھو کو سنبھال لو ایسا نا ہو بعد میں ان کی کہی گئی باتوں سے کسی اور کو پچھتانا پڑے۔خان نے مڑ کر حمزہ کی طرف دیکھتے کہاجو خان کی بات کا مطلب اچھے سے سمجھ گیا تھا۔

پھوپھو چلیں یہاں سے حمزہ نے آگے آتے اپنی پھوپھو کو دیکھتے دانت پیستے کہا۔

لیکن ثمینہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن حمزہ اس کا ہاتھ پکڑ وہاں سے لے گیا تھا۔

خانا اگر اتنے یقین سے کہہ رہا تھا اس کا مطلب تھا ضرور اُس کے پاس کوئی نا کوئی ثبوت ہے۔

آپ سب لوگ پلیز انجوائے کریں خان نے کہا اور خود دادا جان کے پاس آگیا۔

جو قہر برساتی نظروں سے خان کو دیکھ رہے تھے۔

ماضی…..

آصف نے ویسا ہی کیا جیسا رحمان نے کہا تھا۔

عروہ کی ماں کی وفات کے بعد آصف بھی ایک دن کہی غائب ہو گیا تھا۔

رحمان نے کہا کہ اُس کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا ہے۔

عروہ کو بلقیس نے سنبھالا تھا۔

وہ بھی رحمان کے گھر کام کرتی تھی۔

وقت گزرتا گیا عروہ بھی کبھی کبھار رحمان کے گھر آکر اپنی خالہ کا ہاتھ کام میں بٹا دیتی تھی۔

اُس وقت حمزہ کی نظر عروہ پر پڑی تھی۔

جو کچن میں میں بنا ڈوپٹے کے اپنے دھیان کھڑی کام کر رہی تھی۔بلقیس کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔اس لیے وہ گھر پر تھی۔

عروہ کو دیکھتے ہی حمزہ کی نیت خراب ہوئی تھی۔

جو چلتا ہوا کچن میں آیا۔وہ جانتا تھا کہ گھر پر کوئی نہیں ہے۔

رحمان کے دور کے کزن کا انتقال ہو گیا تھا اس لیے سب کو اچانک ہی وہاں جانا پڑا۔

ثانیہ اپنی پڑھائی کے لیے ملک سے باہر گئی تھی۔

حمزہ چلتا ہوا کچن میں داخل ہوا۔

اور عروہ کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔

جو پیچھے ہوئی تو حمزہ کے ساتھ ٹکرا گئی۔

عروہ فوراً ڈر کے پیچھے ہوئی اور مڑ کر حمزہ کی طرف دیکھا۔جو کھڑا مسکرا رہا تھا اس نے جلدی سے ڈوپٹہ لیا۔

آپ کو کچھ چاہیے تھا؟ عروہ نے گھبرائے ہوئے لہجے پوچھا۔

ہاں میرے کمرے میں کافی لے کر آؤ حمزہ نے سر سے لے کر پاؤں تک عروہ کو دیکھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی عروہ نے اپنا حلق تر کیا اور حمزہ کے لیے کافی بنانے لگی۔لیکن کمرے کا سوچ کر ہی اسے خوف محسوس ہو رہا تھا تھا۔

اس نے اپنی حفاظت کے لیے ایک چھوٹا سا چاقو اپنے پاس رکھا اور کافی اٹھائے حمزہ کے کمرے کی طرف چلی گئی۔

حمزہ اسی کا انتظار کر رہا تھا۔

عروہ نے دروازہ ناک کیا اور کمرے میں داخل ہوئی۔حمزہ نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔

یہ آپ کی کافی عروہ نے اسے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا تو جلدی سے کافی اس کی طرف کرتے کہا۔

جس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔حمزہ کے قریب آنے پر اس نے کافی کو اس کی طرف پھینکنا چاہا لیکن حمزہ اس کا ارادہ بھانپ گیا تھا اور ہاتھ سے کب کو زمین پر پھینک دیا۔جو زمین ہر گرتے ہی چکنا چور ہو گیا۔

حمزہ نے جھک کر کپ کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکرا اٹھایا۔

عروہ آنکھوں میں خوف لیے زمین پر ٹوٹے کپ کو دیکھ رہی تھی۔

اس نے اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے تاکہ وہ یہاں سے بھاگ سکے لیکن حمزہ نے اسے بازو سے پکڑا اور ہاتھ میں پکڑا جس سے اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا ٹکرا عروہ کی گردن پر جا لگا جہاں سے خون نکلنے لگا تھا۔

یہاں سے تم بھاگ نہیں سکتی۔

حمزہ نے کمینگی سے کہتے عروہ کو اپنے قریب کیا جس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چھوٹا سا چاقو حمزہ کی گال پر دے مارا تھا۔

جو عروہ کا ہاتھ چھوڑے پیچھے ہوا اور اپنا ہاتھ اپنی گال پر رکھا۔

حمزہ نے غصے سے دوبارہ اسے پکڑنا چاہا جب عروہ نے وہی چاقو اس کے پیٹ میں دے مارا تھا۔

حمزہ وہی زمین پر گر گیا۔

عروہ نے اسی موقعے کو غنیمت جانا اور وہاں سے باہر بھاگ گئی۔

حمزہ نے بمشکل خود کو کھڑا کیا اور ہسپتال تک لے گیا۔اگر کوئی گھر آجاتا تو وہ کیا جواب دیتا۔

چاقو چھوٹا تھا اس لیے بچت ہو گئی۔

اور چہرے کا زخم بھی گہرا تھا اُس پر ٹانکے لگے تھے۔


عروہ گھر آئی تو کافی بوکھلائی ہوئی تھی۔

امی ہم کہی جا رہے ہیں؟

عروہ نے حیرانگی سے بلقیس کو دیکھتے پوچھا۔جو سامان پیک کر رہی تھی۔

یہاں سے کہی دور اور تم. مجھ سے کوئی سوال نہیں کرو گی۔بلقیس نے جلدی سے کہا۔

وہ رحمان کی باتیں سن چکی تھی۔

اسے معلوم تھا کہ آصف زندہ ہے اور اُسی نے اس کی بہن کی جان لی ہے اور خان کے ماں باپ بھی حادثاتی طور پر نہیں مرے تھے بلکہ اُن کو مارا گیا تھا۔اور اُس میں بھی آصف اور رحمان شامل تھے۔اور یہ جانتے ہی وہ دو دن تک تو بیمار رہی تھی اور اس نے سوچا کہ وہ یہاں سے عروہ کو لے کر دور چلی جائے گی اگر آصف واپس آجاتا ہے اور اُس نے اپنی بیٹی کی بھی جان لے لی تو وہ کیا کرے گی اس لیے وہ عروہ کو یہاں سے لے جانا چاہتی تھی۔ عروہ نے بھی مزید کوئی سوال نہیں کیا کیونکہ جو وہ کرکے آئی تھی۔ اُس کے بعد اس کا یہاں سے غائب ہونا ہی بہتر تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ حمزہ مر گیا ہے۔


حمزہ نے گھر آتے اپنی ماں کا زیور غائب کیا۔

اور جب عظمیٰ بیگم کو اپنا زیور نہیں ملا تو انہوں نے رحمان کو بتایا۔

اُس وقت حمزہ نے بتایا کہ عروہ جو بلقیس کے ساتھ آتی تھی۔میں نے اُسے ایک بیگ اپنے ساتھ لے کر جاتے دیکھا تھا اور وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔حمزہ نے کہا تو بلقیس کے گھر جا کر معلوم کیا گیا اور آس پاس سے پتہ چلا کہ کچھ دن پہلے ہی وہ لوگ یہاں سے چلے گئے ہیں اور اب تو گھر والوں کا شک پکا ہو گیا تھا۔

لیکن رحمان کو سچائی پتہ چل گئی تھی لیکن پھر بھی وہ خاموش رہا تھا۔

کیونکہ اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس کے بیٹے نے جو بھی کیا وہ غلط تھا یا ٹھیک

کیونکہ وہ خود بھی برا انسان تھا اور بیٹے کو بھی ویسا ہی بنایا تھا۔

💜 💜 💜 💜

دادا جان نے جب اپنے گھر کو جلے ہوئے دیکھا تو ان کو یقین نہیں آیا کہ ان کا بیٹا بہو اور پوتا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

پولیس کو دو لوگوں کی لاش ملی تھی۔

خان تو خاموش ہو گیا تھا۔اُس وقت اس نے سوچا کہ اپنے باپ کے بزنس کو آگے لے کر جائے گا۔پھر اس نے دن رات محنت کی۔

اسے رحمان پر شک تھا کہ ضرور اس نے اس کے باپ کے ساتھ کچھ کیا ہے۔اس نے پھر رحمان پر نظر رکھی تھی اور کسی طرح اس نے حمزہ کے کمرے میں ایک خفیہ کمرا لگایا تھا۔کیونکہ وہ جانتا تھا رحمان سب سے زیادہ بجس پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کا خود کا بیٹا ہے۔اور کمرہ لگانے سے اسے ضرور کوئی نا کوئی سوراخ ملے گا۔

اُسے زیادہ تو اپنے باپ کے بارے میں پتہ نہیں چلا لیکن وہ ویڈیو مل گئی۔جس میں وہ وہ عروہ کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اُس وقت سے اُس نے عروہ کی حفاظت کے لیے اُس پر نظر رکھی ہوئی تھی۔لیکن بعد میں جب اسے پتہ چلا کہ عروہ کا باپ بھی رحمان کے ساتھ شامل تھا۔تو اسے آصف کی بھی تلاش تھی۔اتنا تو اسے پتہ چلا گیا تھا۔کہ دونوں ساتھ ملے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے پتہ چل سکے کہ رحمان اور آصف نے اس کے ماں باپ اور بھائی کی جان لی ہے۔

پہلے وہ عروہ کی وجہ سے آصف کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن بعد لی اس کا ارادہ تبدیل ہو گیا عروہ کو لے کر اس کے جذبات تبدیل ہو گئے تھے۔

اب اسے آصف تو چاہیے تھا کیونکہ سارا سچ وہ جانتا تھا لیکن عروہ کو اب وہ کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔

💜 💜 💜💜

عروہ اور ملائکہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑی تھیں دونوں اپنی جگہ پر حیران تھیں۔

عروہ تمھارا نکاح صفوان بھائی سے ہوا ہے؟ ملائکہ نے لہجے میں حیرانگی لیے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔اور تمھارا نکاح ارسم بھائی سے ہوا عروہ نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔

ہاں صورتحال کچھ ایسی بن گئی تھی۔ملائکہ نے جلدی سے کہا۔

میری بھی صورتحال کچھ ایسی بن گئی تھی۔

عروہ نے بھی گہرا سانس لیتے کہا۔

مجھے نہیں معلوم تھا شادی کے بعد بھی ہم ایک ہی گھر میں آجائیں گی۔

ملائکہ نے مسکراتے ہوئے کہا جب اس کی نظر ثانیہ پر پڑی۔عروہ بھی اس کی بات سن کر ہلکا سا مسکرا پڑی تھی۔

عروہ وہ لڑکی تمہیں گھور رہی ہے جیسے نظروں سے ہی سالم نگل جائے گی۔

ملائکہ نے ثانیہ کہ طرف اشارہ کرتے کہا۔

عروہ نے بھی ثانیہ کی طرف دیکھا تھا۔

یہ سر کی منگیتر تھی۔عروہ نے ملائکہ کو دیکھتے کہا۔

سر کون؟ ملائکہ نے حیرانگی سے پوچھا۔

سر وہ عروہ نے خان کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

وہ تمھارے شوہر ہیں ابھی بھی تم اُنکو سر کہتی ہو؟ ملائکہ نے گھورتے ہوئے پوچھا۔

مجھے تو خود سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں۔عروہ نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

کیونکہ خان کا سب کے سامنے اسے اپنی بیوی تسلیم کرنا یہ بات اسے سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ان کا تو کنٹریکٹ ہوا تھا اور اب یہ سب اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔

باقی کے مہمان باری باری کرکے جا چکے تھے اب رحمان کی فیملی رہ گئی تھی۔

دادا جان خان سے بات نہیں کر رہے تھے۔

بات کرنے کی کوشش اُس نے بھی نہیں کی تھی۔وہ بعد میں بات کرے گا یہی سوچ کر وہ ارسم سے باتیں کر رہا تھا۔

ارمان بھی ارسم اور خان سے ملنے کے بعد چلا گیا تھا۔

اسے خان کے آفس میں جاب مل گئی تھی۔کچھ دن پہلے وہ انٹرویو دے کر آیا تھا۔اور آج اسے کال آئی تھی۔

ثانیہ جو کب سے کھڑی اپنے غصے کو کنٹرول کر رہی تھی وہ عروہ کی طرف بڑھی۔جو کوثر سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی۔

تمہیں شرم آنی چاہیے۔تم نے میرے خان پر ڈورے ڈالے مجھے تو اُس وقت ہی سمجھ جانا چاہیے تھا۔جب تمہیں میں نے اُس کے آفس میں دیکھا تھا۔

ثانیہ نے عروہ کے پاس آتے اس پر جھپٹتے ہوئے چیخ کر کہا۔عروہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔وہ ایک دم. بوکھلا گئی تھی۔جب ثانیہ کا ناخن اس کی گردن پر لگ گیا۔

باقی سب لوگ بھی ان کی طرف دیکھنے لگے تھے۔خان جو ارسم کے ساتھ کھڑا بات کر رہا تھااس نے ماتھے پر بل لیے ثانیہ کی طرف دیکھا اور اپنے قدم دونوں کی طرف بڑھا دیے تھے۔

اس سے پہلے ثانیہ عروہ کے چہرے پر تھپڑ مارتی خان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔

عروہ آنکھیں زور سے میچے کھڑی ہوئی تھی۔

خان نے زور سے ثانیہ کے ہاتھ کو جھٹکا۔اور عروہ کو بازو سے پکڑ کر اسے اپنے پہلو میں کھڑا کیا۔

آج تو تم نے یہ حرکت کر لی ہے آئندہ اگر میری بیوی کو تکلیف پہچانے کی کوشش کی تو اپنے ہاتھوں سے تمھاری جان لے لوں گا۔

سنبھالیے اپنی پاگل بیٹی کو خان نے رحمان کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔

خان تم نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے مجھے اس لڑکی کی خاطر چھوڑا ہے میرا کیا قصور تھا مجھ سے کیوں منگنی کی؟ ثانیہ نے بھی چیختے ہوئے کہا۔

تمہارے ساتھ میں نے نہیں بلکہ ہمارے بڑوں نے زیادتی کی ہے۔

اُن سے جواب مانگو میں کبھی بھی اس منگنی کے حق میں نہیں تھا لیکن دادا جان کو اپنی دوستی زیادہ عزیز تھی۔تمہارے ساتھ میں نے کبھی کوئی وعدہ نہیں کیا۔نا ہی یہ کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔تو میں نے تمھارے ساتھ زیادتی کیسے کی؟

خان نے سرد لہجے میں ثانیہ کو دیکھتے کہا۔

جو آنکھوں میں آنسو لیے خان کو دیکھ رہی تھی۔دادا جان نے بھی اس کی بات پر نظریں چرائی تھیں۔

خان نے عروہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے کمرے کی طرف لے گیا۔

ثانیہ بھی غصے وہاں سے چلی گئی تھی۔

حمزہ تو پہلے ہی اپنی پھوپھو کو لے کر جا چکا تھا۔

ملائکہ ارسم کے ساتھ کھڑی تھی اس نے ارسم کی طرف دیکھا جس نے کندھے اچکا دیے تھے۔جیسے کہہ رہا ہوں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

خان نے کمرے میں جاتے ہی عروہ کا ہاتھ چھوڑا۔

اور اس کی طرف مڑ کر دیکھا۔

ایم سوری وہ لڑکی تھوڑی پاگل ہے۔خان نے عروہ کو دیکھتے کہا۔

مجھے آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔

عروہ نے خان کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

آپ نے سب کے سامنے مجھے اپنی بیوی کیوں تسلیم کیا؟ عروہ نے سوال پوچھا تو خان ہنس پڑا تھا اور چلتا ہوا اس کے قریب آیا۔

تو کیا آپ میری بیوی نہیں ہیں؟

خان نے ہاتھ کی پشت سے عروہ کی گردن پر آہستہ سے ہاتھ پھیرتے کہا۔

جو خان کی اس حرکت پر خود میں سمٹ سی گئی تھی۔

میرا مطلب ہے کہ ہمارا کنٹریکٹ ہوا تھا۔عروہ نے جلدی سے کہا۔

اب میں نے وہ کنٹریکٹ ختم کر دیا ہے۔

خان نے کہتے ہی جھک کر اُس جگہ پر ہونٹ رکھ دیے جہاں ثانیہ کا ناخن لگا تھا۔

عروہ نے خان کو پیچھے کرنا چاہا لیکن کر نہیں پائی۔

خان نے پیچھے ہوتے عروہ کے سرخ چہرے کو دیکھا تو ہنس پڑا۔

آپکو کیا ہو گیا ہے؟ آپ بدل گئے ہیں۔عروہ نے خان سے نظریں چراتے پوچھا۔

خان عروہ کے کان کے پاس جھکا اور سرگوشی نما انداز میں کہا۔

اب خان کو اس چھوٹی سی لڑکی سے محبت ہو گئی ہے۔خان نے کہتے ہی اس کے کان کی لو پر بوسہ دیا۔

عروہ پتھر کی بنی خان کا اظہارِ محبت سن رہی تھی۔

اسے امید نہیں تھی کہ خان اسے پسند کرتا ہو گا۔

ارسم یہ سب کچھ کیا تھا؟

ارسم اپنے کمرے میں داخل ہوا تو ملائکہ نے حیرانگی سے اسے دیکھتے پوچھا۔

خدا کی بندی اس وقت تمہیں گھونگھٹ نکال کر میرا انتظار کرنا چاہیے تھا اور تم یہاں کھڑی میرے سے سوال کر رہی ہو؟ ارسم کے اسے دیکھتے گھور کر کہا۔

یہ سب کچھ اُس وقت کرتے ہیں جب شادی لڑکا اور لڑکی دونوں کی رضا مندی سے ہوئی ہو۔ملائکہ نے رخ موڑے کہا۔

ملائکہ کی بات پر ارسم کا چہرہ سیریس ہوا تھا۔

ملائکہ ارسم نے سنجیدگی سے اسے پکارا۔

ملائکہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور اسے یہ دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا کہ ارسم اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانو کو پکڑا ہوا تھا۔

مسز ارسم کیا آپ اپنے شوہر کی آخری غلطی سمجھ کر اسے معاف کر دیں گی؟ میں وعدہ کرتا ہوں آپ کو ہمیشہ خوش رکھوں گا۔

ارسم نے اس قدر سنجیدگی سے کہا کہ نا چاہتے ہوئے بھی ملائکہ ہنس پڑی تھی۔

وہ بھی ارسم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔

اس وقت آپ مجھے اس طرح کان پکڑے بیٹھے بہت پیارے لگ رہے ہیں۔بلکل ایک چھوٹے سے بچے کی طرح ملائکہ نے مسکراہٹ دباتے کہا۔

مسز اب میں پوری رات تو ایسے نہیں بیٹھ سکتا۔پلیز اپنے شوہر کو معاف کر دو ارسم نے معصومیت سے کہا۔

ٹھیک ہے۔لیکن ایک شرط پر میں معاف کرو گی آپ ہمیشہ میری بات مانے گئے۔اگر میں کبھی کوئی غلطی کرتی ہوں تو آپ مجھے کبھی نہیں ڈانٹے گئے۔

ملائکہ نے مسکرا کر کہا۔

مجھے منظور ہے۔

تمھاری ہر بات منظور ہے۔

ارسم نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے پیار سے کہا۔

تو ٹھیک ہے میں نے بھی آپ کو معاف کیا۔

ملائکہ نے گردن اکڑا کر کہا۔

ارسم اس کا چہرہ دیکھ کر ہنس پڑا تھا۔

اس نے کھڑے ہوتے ملائکہ کو اپنی بانہوں میں اٹھایا۔

ارسم یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ ملائکہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

ارسم نے اسے آرام سے بیڈ پر بیٹھایا اور اور خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

ملائکہ خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

جانتی ہو تمھارے گفٹ نے کتنا مجھے خوار کیا۔مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ میں تمھارے لیے کیا لوں پھر میں نے سوچا کہ کیوں نا تمہیں اپنا کریڈٹ کارڈ دے دوں تمھارا جو دل کرے تم وہ لے لینا۔

اور پھر یہ آئیڈیا مجھے ٹھیک بھی لگا تو یہ ہے میرا کریڈٹ کارڈ تو جو تمھارا دل کرے لے لینا۔

ارسم نے ملائکہ کے سامنے اپنا کریڈٹ کارڈ کرتے کہا۔

مجھے یہ نہیں چاہیے مجھے گفٹ ہی چاہیے آپ منہ دکھائی کا تحفہ نہیں لائے؟ لائبہ نے گھورتے ہوئے کہا۔

ارسم اس کی بات سن کر مسکرا پڑا تھا۔

میڈم تمھارا منہ تو میں کئی بار دیکھ چکا ہوں اور اب تم کون سا گھونگھٹ نکال کر بیٹھی تھی۔

ارسم نے بھی ڈبل گھوری سے نوازتے ہوئے کہا اس کا ارادہ شاید ملائکہ کو تنگ کرنے کا تھا۔اور اسے مزہ بھی آرہا تھا۔

آپ شادی کی پہلی رات مجھے تانے مارنے لگے ہیں ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے۔پھر کیا کریں گئے آپ ؟ ملائکہ نے دانت پیستے ارسم کو دیکھتے کہا۔

میں نے کب تانا مارا۔میڈم اسے تانہ مارنا نہیں کہتے صحیح والے تانے تو تمھاری ساسوں ماں مارے گی۔

ارسم نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔

اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ساسوں ماں اچھی ملی ہیں لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ ساسوں ماں کا کام میرے شوہر سر انجام دیں گئے۔

ملائکہ نے کہتے ہی وہاں سے اٹھنا چاہا جب ارسم نے اس کا ہاتھ پکڑے اسے دوبارہ بیڈ پر بیٹھایا تھا۔

فکر مت کرو مسز میں صرف شوہر والا کام ہی سر انجام دوں گا۔

ارسم نے ملائکہ کے سرخ ہونٹوں پر اپنی نظریں گاڑھتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا۔

ملائکہ ایک دم گھبرا گئی تھی۔

مجھے چینج کرنا ہے۔ملائکہ نے جلدی سے کہا۔

اپنا گفٹ تو لیتی جاؤ۔ارسم نے کہا اور دو سونے کے کنگن ملائکہ کی خوبصورت کلائی پکڑے اس میں پہنانے لگا۔

یہ تمھاری ساسوں میں نے دیے ہیں سنبھال کر رکھنا۔

انہوں نے جب میں چھوٹا تھا تو ڈیڈ کے ساتھ ضد کرکے گئی تھی کہ ارسم کی دلہن کے لیے بنوانے ہیں بعد میں زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ارسم نے ملائکہ کی طرف دیکھتے کہا اور آخر میں چہرے پر تکلیف دہ مسکراہٹ لیے ہنس پڑا۔

ملائکہ خاموش نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

اس وقت اچانک ارسم کے دماغ میں ایک خیال آیا اس نے مسکراہٹ دباتے جھک کر ہلکا سا ملائکہ کو ہونٹوں کو چھوا اور ڈریسنگ کی کی طرف چینج کرنے چلا گیا۔

ملائکہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔لیکن جیسے ہی سمجھ سمجھ آئی اس نے ڈریسنگ کے بند دروازے کی طرف گھور کر دیکھا اور خود فریش ہونے چلی گئی۔

💜 💜 💜 💜

خان چینج کرکے واپس آیا تو عروہ ابھی تک وہی کھڑی ہاتھوں کو مڑوڑ رہی تھی۔

آپ نے ابھی تک چینج نہیں کیا؟ یا یہ ڈریس آپ کو کچھ زیادہ ہی پسند آیا ہے؟ خان نے سینے پر ہاتھ رکھتے سنجیدگی سے پوچھا۔

وہ میں تو گھر سے اپنا کوئی سوٹ ہی نہیں لائی۔

عروہ نے اپنی پریشانی بیان کرتے کہا۔

اوہ یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہو گیا۔اب آپ کیا کریں گی عروہ؟ خان نے مصنوعی پریشانی سے عروہ کو دیکھتے کہا جو خود پریشان لگ رہی تھی۔

آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ کیا کرنے والے ہیں؟ اور امی بھی اکیلی ہوں گی اُنکو بھی میں نے کچھ نہیں بتایا۔عروہ نے پریشانی سے کہا تو خان چلتا ہوا عروہ کے قریب گیا۔

اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود کے قریب کیا۔

آپ کی امی پریشان نہیں ہو رہی ہوں گی۔اُن سے میں رخصتی کی اجازت لے چکا ہوں۔

اور اُن کے پاس ملازمہ ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

خان نے کہا تو عروہ نے حیرانگی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔

پہلے وہ خان کے قریب آنے پر گھبرائی تھی اور اب گھبراہٹ کی جگہ حیرانگی نے لے لی تھی۔

آپ نے اُن کو نکاح کا بتا دیا؟ عروہ نے پوچھا تو خان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

آپ نے اُن سے کیا کہا؟ وہ تو غصے میں ہوں گی۔عروہ نے پریشانی سے کہا۔

نہیں وہ غصے میں نہیں ہیں اور میں چاہتا تھا آپ خود ہمارے نکاح کا اُن کو بتائیں لیکن آپ کے ارادے دیکھ کر تو مجھے لگ رہا تھا آپ کو اگر پوری زندگی بھی اس حقیقت کو چھپانا پڑا تو آپ چھپائیں گی۔اس لیے آپ پریشان نا ہوں وہ ساری حقیقت جانتی ہیں اور اُن کو اس نکاح سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

خان نے تحمل سے عروہ کو ساری بات بتاتے کہا۔

وہ جانتی تھی کہ صفوان کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو جو کچھ اس نے کہا وہ سب سچ ہی ہو گا۔اور اس کی ماں کو اس نکاح سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اس احساس نے ہی اسے پرسکون کر دیا تھا۔

خان عروہ سے پیچھے ہوتے چلتا ہوا الماری کے پاس گیا اور اور اندر سے ایک سوٹ نکال کر عروہ کی طرف بڑھایا۔

الماری میں اور بھی کپڑے موجود تھے۔

یہ باقی سب بھی میرے سوٹ ہیں؟ عروہ نے الماری کی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔

مسز میرے بیڈ روم میں میری بیوی کے علاوہ کس کے کپڑے ہو سکتے ہیں؟ خان نے الٹا سوال کیا تو عروہ اس کے سوال پر ایک دم بوکھلا گئی تھی۔

جائیں اور فریش ہو جائیں۔میں آپ کے لیے کھانا منگواتا ہوں آپ نے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا تھا۔

خان نے کہا جب عروہ جلدی سے بول پڑی تھی۔مجھے بھوک نہیں ہے۔عروہ نے کہا تو خان نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔

عروہ میں نے آپ سے پوچھا نہیں ہے آپ کو بتایا ہے جلدی سے چینج کرکے آئیں۔خان نے تھوڑا سخت لہجے میں کہا تو عروہ فورا چینج کرنے بھاگ گئ خان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

💜 💜 💜 💜

ثانیہ نے گھر جاتے ہی اپنے کمرے کی ساری چیزیں توڑ دی تھیں۔

وہ لڑکی کیسے میرے خان کو مجھ سے چھین سکتی ہے میں اُس کی جان لے لوں گی۔

ثانیہ نے چیختے ہوئے کہا۔

کوثر وہی رک گئی تھی اور عظمیٰ اپنی بیٹی کو روکنے کے چکر میں ہلکان ہو رہی تھی جو اس وقت پاگل بنی چیزیں توڑ رہی تھی۔

موم مجھے کیسی بھی حال میں خان چاہیے۔

ثانیہ نے اپنی ماں کو. دیکھتے کہا۔

اتنے میں رحمان وہاں آگیا تھا۔

اس نے سنجیدگی سے کمرے کی حالت دیکھی اور ثانیہ کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔

ڈیڈ خان نے مجھے دھوکہ دیا ہے مجھے خان کسی بھی حال میں چاہیے۔ثانیہ نے بےبسی سے روتے ہوئے اپنے باپ ہو کہا۔

میری طرف دیکھو ثانیہ اور رونا بند کرو۔رحمان نے پیار سے ثانیہ کو دیکھتے کہا۔

جس نے سرخ آنکھوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔

مجھ پر یقین رکھو تمھارا باپ تمھاری خوشی لے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔تمہیں بس تھوڑا سا صبر کرنا ہے۔

رحمان نے پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

آپ خان کو لے آئے گئے نا؟ ثانیہ نے کنفرم کرنا چاہا۔

ہاں بلکل خان صرف تمھارا ہے ابھی تم آرام کرو ہم. اس بارے میں کل بات کرتے ہیں ٹھیک ہے؟ رحمان نے کہا تو ثانیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

عظمیٰ خاموش کھڑی باپ بیٹی کی باتیں سن رہی تھی۔اب ناجانے رحمان کیا کرنے والا تھا۔

لیکن رحمان جو بھی کرتا اُس میں ثانیہ تو خوشی ہو جاتی اگر کسی کا نقصان ہونا تھا تو وہ عروہ کا تھا۔

عظمیٰ خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل گئی

تھوڑی دیر بعد رحمان بھی کمرے سے باہر آگیا تھا۔

💜 💜 💜 💜

ملازمہ کھانے کی ٹرے رکھ کر چلی گئی تھی۔

عروہ نے سادہ سا سفید رنگ کا سوٹ پہنا اور باہر آئی۔

خان اسی کا انتظار کر رہا تھا۔

عروہ تھوڑا جھجھکتے ہوئے آگے بڑھی آج تو اسے صفوان الگ ہی طرح کا انسان لگ رہا تھا۔

خان نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو عروہ اسکے سامنے بیٹھ گئی۔

اسے بھوک تو لگی تھی لیکن جو کچھ اس کے ساتھ آج ہوا تھا۔وہ سب اس کے لیے بلکل نیا تھا جس کے لیے وہ تیار بھی نہیں تھی۔اس لیے ٹھیک سے کھانا نہیں کھا پائی۔

آپ خود کھانا کھائیں گی یا میں اپنے ہاتھوں سے آپ کو کھلاؤں؟

خان نے عروہ کے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا۔

نہیں میں خود کھا لوں گی۔عروہ نے جلدی سے کہا۔اور کھانا کھانے لگی۔خان کی نظر اس کے ہاتھ کی انگلی پر پڑی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

عروہ اپنے چہرے پر خان کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی۔

آپ مجھے گھورنا بند کریں گئے؟

عروہ نے آخر میں اکتا کر کہا۔خان اس کی بات سن کر قہقہہ لگائے ہنس پڑا تھا۔

اس سے پہلے خان کچھ کہتا اس کا موبائل رنگ ہوا تھا۔

اس نے کال اٹینڈ کی مقابل وہ انسان تھا جسے خان نے وہاج کی دیکھ بھال کے لیے رکھا تھا۔اس نے بتایا کہ وہاج کو ہوش آگیا ہے۔

یہ سنتے ہی خان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

میں آرہا ہوں خان نے کہتے ہی فون بند کر دیا۔

عروہ بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

مجھے ایک ضروری کام سے جانا پڑ گیا ہے ۔

آپ آرام کریں صبح جلدی میں واپس آجاؤں گا۔خان نے موبائل رکھتے عروہ کو دیکھتے کہا۔

سب ٹھیک ہے؟ عروہ نے جلدی سے پوچھا۔

جی بلکل اب سب ٹھیک ہے۔اور آپ یہ مت سمجھنا کہ میں کسی لڑکی کے پاس جا رہا آپ کو رات کے اس پہر چھوڑ کر خان نے کھڑے ہوتے اسے گہری نظروں سے دیکھتے کہا۔

میں نے تو ایسا سوچا بھی نہیں ہے۔عروہ نے منہ بسوڑتے ہوئے کہا۔اس وقت وہ خان کو بہت کیوٹ سی بچی لگی تھی۔

اس نے آگے بڑھتے جھک کر عروہ کے ماتھے پر بوسہ دیا۔آپ کبھی ایسا سوچیں گی بھی نہیں کیونکہ خان صرف ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے اور وہ ہے آپ جو اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں۔اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے۔خان نے کہا اور پھر اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

عروہ نے اس کے جاتے ہی اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔

جہاں ابھی بھی خان کا لمس محسوس تھا۔اس کے چہرے پر بےساختہ مسکراہٹ آگئی تھی جس کے بارے میں اسے بھی معلوم نہیں تھا۔

عروہ نے بیڈ پر لیٹتے سکون سے آنکھیں موندھ لی تھیں۔

💜 💜 💜 💜

رحمان اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور ثانیہ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔وہ ایسا کیا کرے کہ خان عروہ کو چھوڑ دے۔

اچانک اس کا موبائل رنگ ہوا اس نے نمبر دیکھتے موبائل کان سے لگایا۔

تم واپس آگئے؟

رحمان نے سیدھے ہوتے بیٹھتے بےیقینی سے پوچھا۔

تم مجھے کل ملو مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔

رحمان نے کہتے ہی ایک دو اور باتیں کرتے فون بند کر دیا۔اب وہ پرسکون تھا۔

کیسا لگے گا جب ایک باپ اپنی ہی بیٹی کی جان لے گا۔

رحمان نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے کہا۔

اس کے ادارے بہت خطرناک تھے۔

اپنے مطلب کے لیے وہ بہت سے گناہ کر چکا تھا جس کا اسے احساس نہیں تھا۔

اور نا کبھی ہونا تھا۔

خان اپنے فلیٹ پر پہنچا اور کمرے میں داخل ہوا جہاں وہاج بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔

اس کے زخم اب کافی بہتر تھے۔

خان کے کمرے میں داخل ہوتے وہ آدمی کمرے سے باہر چلا گیا۔جو وہاج کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔

وہاج نے آنکھیں کھول کر خان کو دیکھا۔وہاج کافی کمزور لگ رہا تھا۔

اب کیسی طبیعت ہے تمھاری؟ خان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

ٹھیک ہوں۔

وہاج نے سنجیدگی سے کہا۔

تمھاری یہ حالت کس نے کی تھی؟ خان نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

میرے بھائی نے وہاج نے دو لفظوں میں جواب دیا۔

اور خان کو یہ جان کر حیرت بلکل بھی نہیں ہوئی تھی وہ جانتا تھا کہ آفاق کس طرح کا انسان ہے۔

آپ نے میری اتنی مدد کی اُس کے لیے شکریہ لیکن آپ نے میری مدد کیوں کی؟ اگر کوئی اور ہوتا تو کبھی نا کرتا وہاج نے گہرا سانس لیتے ہوئے پوچھا۔

تم بھی میرے کزن ہی لگتے ہو وہاج اور میری بہن کے ہونے والے شوہر ہو تو میں کیسے نا تمھاری مدد کرتا؟ خان نے کہا تو وہاج نے حیرانگی سے دیکھا تھا۔

تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر میں چاہتا ہوں تمھارا سادگی سے نکاح ہو جائے اور نکاح کے بعد تم اپنے گھر والوں کے سامنے جاؤ۔

خان نے کہا تو وہاج ابھی بھی حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

بھائی میں آپ کی بہن سے محبت ضرور کرتا ہوں لیکن اپنی وجہ سے اُس کی زندگی مصیبت میں نہیں ڈال سکتا۔

مجھے اب آفاق پر بلکل بھی بھروسہ نہیں ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

وہاج نے خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ تمھاری جان کیوں لینا چاہتا ہے؟ ایسا بھی تم کیا جانتے ہو جسے وہ چھپانا چاہتا ہے؟ خان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

وہاج نے کچھ پل خان کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔

وہ میں آپ کو بعد میں بتا دوں گا۔وہاج نے نظریں چراتے کہا۔

ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی لیکن تمہیں میں ایک مشورہ دے سکتا ہوں اگر تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ آفاق تمہیں یا بسمہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو تم لوگ نکاح کے بعد باہر سیٹل ہوجانا اور تم دونوں کس ملک جا رہے ہو اس بارے میں اپنے گھر والوں کو مت بتانا۔اگر تم. پرسکون زندگی گزرانا چاہتے ہو تو ایسا کر سکتے ہو۔

خان نے وہاج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اس کی بات سے متاثر ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔

لیکن فلحال خاموش رہا تھا۔

تم جلد بازی میں کوئی فیصلہ مت کرنا آرام سے سوچ لو پھر بتا دینا۔

لیکن تمھارے بارے میں میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔جب تک تم کوئی فیصلہ نہیں لے لیتے اُس وقت تک کسی کو تمھارے بارے میں پتہ نہیں چلنا چاہیے۔

خان نے کہا تو وہاج نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

اب میں چلتا ہوں تم آرام کرو یہاں تمہیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

خان نے ایک نظر وہاج کو دیکھا اور پھر کھڑے ہوتے کہا۔

وہاج خاموش رہا تھا۔

خان وہاں سے چلا گیا۔

پیچھے وہاج سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کیا کرے خان کو حقیقت بتا دے۔

یا بسمہ سے نکاح کرکے باہر چلا جاؤں۔

بسمہ سے میں محبت کرتا ہوں اگر میں یہاں رہا تو آفاق میرے ساتھ اُسے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔مجھے اپنی پرواہ نہیں ہے لیکن میں بسمہ کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔

اور میں ایسے جا بھی نہیں سکتا۔

ڈیڈ نے ارسم کے بابا کا ایکسیڈنٹ کروایا۔

صرف اپنی خوشی کے لیے کسی کی جان لی میں خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا۔یا اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔

ڈیڈ کو اس کی سزا ضرور ملے گی۔

وہاج نے پرعزم لہجے میں خود سے کہا۔

اب وہ کسی فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔

بےشک سامنے والا انسان اس کا باپ تھا لیکن وہ سچائی کا ساتھ دینا چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ یہ سب اس کے لیے بہت مشکل ہونے والا ہے۔لیکن وہ ہمت نہیں ہارنا چاہتا تھا۔

اس لیے اس نے گہرا سانس لیتے آنکھیں موندھ لی تھیں۔

💜 💜 💜 💜

اگلے دن ارسم کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ملائکہ اس کے سینے پر سر رکھے آرام سے سو رہی تھی۔

اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔کل رات جب وہ چینج کرکے آئی تو ارسم اپنی جگہ پر لیٹ چکا تھا۔

وہ بھی بیڈ کے کنارے پر آکر لیٹ گئی۔ارسم اسے دیکھ رہا تھا اس نے ملائکہ کو بازو سے پکڑ کر خود کے قریب کیا اور اسے کہا کہ آرام سے سو جائے اور خود اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔

ملائکہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور تھوڑا جھجھکتے ہوئے آنکھیں موندے لیٹ گئی۔آج وہ کچھ زیادہ ہی تھک گئی تھی اس لیے جلدی سو گئی۔

ارسم بھی تھوڑی دیر بعد سو گیا تھا۔

اب تم خود میرے ساتھ چپک کر سو رہی تھی۔

ارسم نے ملائکہ کی ناک کو کھنچتے ہوئے کہا۔

جو گہری نیند میں سو رہی تھی۔

ارسم نے جھک کر اس کی گال پر بوسہ دیا اور فریش ہونے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی ملائکہ نے آنکھیں کھول لی تھیں وہ جاگ گئی تھی۔

اس نے اپنی گال پر ہاتھ رکھا اس کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ آگئی تھی۔

وہ اُٹھ کر بیٹھی۔اور اپنے بال باندھنے لگی۔

تھوڑی دیر بیٹھی وہ پورے کمرے کا. معائنہ کرتی رہی تھی۔ اور پھر اُٹھ کر اپنی الماری کھولے کپڑے دیکھنے لگی۔

کون سا سوٹ پہنوں؟ ملائکہ نے پر سوچ انداز میں کپڑوں کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔

جب اس اپنے کان کے پاس ارسم کی آواز سنائی تھی۔

ڈر سے وہ ایک دم اُچھل پڑی تھی۔

پتہ نہیں کب وہ فریش ہو کر باہر آیا تھا۔اس نے شرٹ نہیں پہنی ہوئی تھی اور گردن میں ٹاول لٹک رہا تھا۔

وہ گلابی رنگ والا جوڑا پہن لو ارسم نے گہرے لہجے میں کہا اس کی گرم سانسوں کی تپش ملائکہ کو اپنی گردن پر پڑتی محسوس ہو رہی تھی۔

اس نے جلدی سے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ جوڑا پکڑا اور پیچھے ہونا چاہا لیکن پیچھے کھڑے ارسم کے ساتھ جا ٹکرائی اور ارسم کو بنا شرٹ کے دیکھ کر اس نے فوراً اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔

ارسم اس کی معصوم حرکت پر محض مسکرا پڑا تھا۔

مسز تم مجھے دیکھ سکتی ہو۔

بیوی ہو میری ارسم نے اس کی آنکھوں سے ہاتھ پیچھے کرتے کہا۔

مجھے فریش ہونے جانا ہے ملائکہ نے جلدی سے کہا اور واشروم کی طرف بھاگ گئی۔

پیچھے ارسم قہقہہ لگائے ہنس پڑا تھا۔اس کے قہقہے نے پیچھے واشروم تک ملائکہ کا پیچھا کیا تھا۔

جس نے اندر جاتے اپنے چہرے کو دیکھا جو سرخ ہو رہا تھا اور دل بھی ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر آجائے گا۔

ملائکہ کو خود پر حیرت ہو رہی تھی کہ اس کا چہرہ سرخ کیوں ہو رہا ہے۔پھر اپنی سوچ پر خود ہی ہنس پڑی اور فریش ہونے لگی تھی۔

💜 💜 💜 💜

خان جب گھر آیا تو عروہ اُٹھ چکی تھی اور فریش ہوئے بیٹھی تھی۔

اس نے مہرون کلر کا سوٹ پہنا تھا۔جس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

السلام علیکم! خان نے عروہ کو دیکھتے سلام کیا۔

صفوان مجھے امی کے پاس جانا ہے۔خان کی آواز سنتے ہی عروہ نے فوراً کھڑے ہوتے کہا۔جو شاید بلو کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔

عروہ اتنی بھی کیا جلدی ہے میری بات ہوئی ہے وہ ٹھیک ہیں ناشتہ کرکے ہم دونوں چلیں گئے۔لیکن پہلے میرے سلام کا تو جواب دے دیں۔خان نے عروہ کے پاس آتے کہا۔

اوہ سوری عروہ نے جلدی سے کہتے سلام کا جواب دیا۔

میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر نیچے چلتے ہیں۔

خان نے اس کے گال تو تھپتھپاتے ہوئے کہا اور فریش ہونے چلا گیا۔

نیچے سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے۔

دادا جان اپنے کمرے میں ہی تھے۔

کوثر نے ارسم اور ملائکہ کو آتے دیکھا تو دل میں دونوں کی نظر اتاری دونوں ایک ساتھ بہت پیارے لگ رہے تھے۔

ملائکہ نے آتے ہی سلام کیا۔کوثر نے اسے گلے لگایا تھا۔

بسمہ ملائکہ کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

اتنے میں خان بھی عروہ کو لیے آگیا۔

کوثر نے عروہ کو بھی گلے لگایا اور اسے بیٹھنے کا کہا۔

آج تو ہمارے گھر میں تم دونوں کی وجہ سے رونق ہو گئی ہے۔اللہ اس رونق کو ہمیشہ قائم رکھے۔

تحریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کوثر نے دل میں آمین کہا تھا۔

عروہ اور ملائکہ ہنس پڑی تھیں۔

دادا جان نہیں آئے اُن کی طبیعت ٹھیک ہے؟ خان نے دادا جان کی خالی کرسی کو دیکھتے پوچھا۔

ہاں وہ کہہ رہے تھے اپنے کمرے میں ناشتہ کریں گئے وہ تم سے ناراض ہیں تو اس طرح اپنی ناراضی ظاہر کر رہے ہیں۔

کوثر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کوئی بات نہیں میں اُن کو منا لوں گا۔خان نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔

اس نے عروہ کی طرف دیکھا جو خالی پلیٹ میں چمچ چلا رہی تھی۔

عروہ ناشتہ کرنا ہے۔پلیٹ کو گھورنا نہیں ہے خان نے عروہ کو دیکھتے کہا۔

میرا ابھی دل نہیں کر رہا۔عروہ نے خان کی طرف دیکھتے کہا۔خان نے جوس کا گلاس اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔

اب کوئی بہانہ نہیں اسے ختم کریں خان نے سنجیدگی سے کہا اور اپنا ناشتہ کرنے لگا۔تحریم دونوں کو دیکھ کر ہنس پڑی تھی۔

خان جانتا تھا کہ عروہ جب تک خود بلقیس سے مل نہیں لیتی اور ساری حقیقت نہیں بتا دیتی اسے سکون نہیں ملے گا۔اس لیے بلقیس کی طرف جانے کے لیے بےچین ہو رہی تھی۔

خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا تھا۔

ناشتے کے بعد خان عروہ کو بلقیس سے ملوانے کے لئے لے گیا۔اور ارسم کا ارادہ آج ملائکہ کو باہر لے کر جانے کا تھا۔

اج کوثر نے بھی اپنے گھر چلے جانا تھا۔

💜 💜 💜 💜

رحمان حمزہ کے ساتھ بیٹھا آصف کا انتظار کر رہا تھا۔حمزہ کو تھوڑی دیر پہلے ہی رحمان نے آصف کے واپس آنے کا بتایا تھا۔

تھوڑی دیر بعد آصف وہاں آگیا۔

جب اسکی بیوی مر گئی تھی تو وہ رحمان کے کہنے پر دوسرے ملک چلا گیا تھا۔اور اب جب پیسے ختم ہوئے تو واپس آیا تھا۔

آصف تم واپس کیوں آئے ہو؟

رحمان نے آصف کو دیکھتے پوچھا۔

پیسے ختم ہو گئے میرے پاس جو تھے۔

آصف نے مسکراتے ہوئے کہا۔

حمزہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔کیسا انسان تھا پیسوں کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔

تو اس کا مطلب ہے تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے؟ رحمان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

آصف نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔

تم جتنے پیسے مانگو گئے میں دینے کے لیے تیار ہوں لیکن تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا۔

رحمان نے سنجیدگی سے کہا۔

پیسوں کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔

آصف نے کہا تو رحمان ہنس پڑا۔

تو ٹھیک ہے کل تمہیں پتہ چل جائے گا کہ تمہیں کیا کرنا ہے اور پیسے کام ہونے کے بعد ملے گئے۔حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔

ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں رحمان نے کھڑے ہوتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

تم نے مجھے بتانے کیوں نہیں دیا کہ اُسے اپنی بیٹی کا کام تمام کرنا ہے؟ رحمان نے حمزہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ڈیڈ آپ کو پورا یقین ہے کہ وہ اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا۔

بات اُس کی سگی بیٹی کی ہے۔حمزہ کے اپنے لہجے میں تھوڑی حیرانگی لیے کہا۔

میں اُسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں اگر تم آصف کو پیسے دے کر کوئی بھی کام بولو گے وہ بنا کوئی سوال پوچھے کام کر دے گا۔

اور یہ کام آصف سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔

مجھے پورا یقین ہے اس بات پر

رحمان نے مڑ کر حمزہ کو دیکھتے کہا۔

آصف کی تلاش خان کو بھی ہے اگر وہ اُس کے ہاتھ لگ گیا تو ہمارے لیے مسئلہ ہو سکتا ہے۔

حمزہ نے اپنے باپ کو دیکھتے کہا۔

تم فکر مت کرو جب یہ ہمارا کام کر دے گا میں اس کا کام تمام کر دوں گا۔ کیونکہ پھر وہ ہمارے کسی کام کا نہیں رہے گا۔

رحمان نے اپنے خیالات بتاتے ہوئے کہا۔

چلیں دیکھ لیتے ہیں۔ اور اب میں چلتا ہوں مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔حمزہ نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

رحمان نے دوبارہ اس سے ملائکہ کی بات نہیں کی تھی نا حمزہ نے خود اس بارے میں کوئی بات کی تھی۔

تمہیں میں نے منع کیا تھا کہ تم یہاں نہیں آؤ گئے۔کیا لینے آئے ہو تم یہاں؟ جانتے بھی ہو یہاں کتنا خطرہ ہے؟

خان نے سخت نظروں سے ارمان کو دیکھتے کہا۔

بھائی آپ اگر مصیبت میں ہو تو میں کیسے نا آتا۔میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

ارمان نے خان کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

ارمان اسے سر سے بھائی کہہ رہا تھا۔تو خان کو بھی سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا تھا کہ ارمان کو ساری حقیقت پتہ چل گئی ہے۔

تمہیں حقیقت پتہ چل گئی۔

خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ایک پل میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

رپورٹ دیکھنے کے بعد تو کوئی سوال ہی نہیں رہتا بھائی اور میرے بابا نے مجھے بتایا کہ تھا میں اُن کی سگی اولاد نہیں ہوں لیکن انہوں نے بہت پیار سے مجھے پالا تھا۔

ارمان کہتے ہی خان کے گلے لگ گیا۔

اگر وہ آج زندہ ہوتے تو میں ضرور اُن کا شکریہ ادا کرتا انہوں نے میرے بھائی کی حفاظت کی اُسے اپنے بیٹے کی طرح پالا۔میں اُن کا احسان مند ہوں۔

خان نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔وہ بہت پہلے ہی جان گیا تھا کہ ارمان ہی اس کا بھائی ہے۔

ارمان خان کے گلے ہی لگا ہوا تھا جب اس نے پیچھے حمزہ کو کھڑے دیکھا جس نے ہاتھ میں گن پکڑی ہوئی تھی۔اور چہرے پر سرد تاثرات چھائے ہوئے تھے۔

اس سے پہلے ارمان کچھ سمجھ پاتا حمزہ نے گن کا رخ خان کی طرف کیا تھا۔

بھائی…. ارمان نے چلاتے ہوئے خان کو پیچھے کرنا چاہا لیکن حمزہ گولی چلا چکا تھا جو خان کی پشت پر لگ گئی تھی۔

ٹھاہ کی آواز وہاں گونجی تھی۔اور اگلے ہی پل سناٹا چھا گیا۔

ارمان نے بےیقینی سے خان کے چہرے کی طرف دیکھا۔

بھائی بےبسی سے اس کے منہ سے یہی لفظ نکلا تھا۔

کیسی محبت ہے تمھاری ہاں؟تم مجھ سے محبت کے دعوے کرتے ہو اور میری ہی خوشی کی تمہیں پرواہ نہیں ہے؟ محبت میں تو انسان اپنے محبوب کی خوشی میں خوش ہوتا ہے۔ اور تم نے کیا کیا؟ ملائکہ نے روتے ہوئے حمزہ کے کالر کو پکڑتے بھاری لہجے میں کہا۔

حمزہ بے تاثر چہرہ لیے ملائکہ کے سامنے کھڑا تھا۔

تم نے کیا کیا؟ تم نے اُس انسان کو. مارنے کی کوشش کی جسے میں پسند کرتی ہوں۔اگر میرے ارسم کو کچھ ہوا تو میں تمھاری جان لے لوں گی۔

ملائکہ نے حمزہ کے منہ پر تھپڑ مارتے چیختے ہوئے کہا۔

ارسم اوندھے منہ زمین ہر پڑا ہوا تھا۔سر سے اس کے خو ن نکل رہا تھا۔

تمہیں اُس کی تکلیف نظر آرہی ہے میری تکلیف کا کیا؟ حمزہ نے غصے سے ملائکہ کو بالوں سے دبوچتے ہوئے پوچھا۔

جو تکلیف سے کراہ پڑی تھی۔

تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تمہیں چاہا جائے۔

تمھارے جیسے انسان کو میں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔تکلیف کے باوجود ملائکہ نے اپنے لہجے میں طنز لاتے کہا۔

حمزہ کا چہرہ ذلت اور توہین کے مارے سرخ ہو رہا تھا۔

ایسا کیا ہے اُس میں جو تم اُس کے لیے پاگل ہوئے جا رہی ہو محبت میں بھی تم سے کرتا ہوں تو فکر تمہیں صرف اُس کی کیوں ہو رہی ہے؟ حمزہ نے کرخت لہجے میں ملائکہ کو دیکھتے کہا جس کی آنکھیں رونے سے سرخ ہو رہی تھیں۔بکھرا حلیہ اس وقت ملائکہ کی حالت بھی قابل رحم لگ رہی تھی۔

یہ سوال تم خود سے پوچھو۔ ملائکہ نے حمزہ کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے دھکا دیتے کہا۔

ٹھیک ہے پھر حمزہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنے جذبات پر قابو پاتے کہا۔

ہاتھ میں اس نے گن پکڑی ہوئی تھی۔

تم اس کے لیے پاگل ہو رہی ہو نا؟حمزہ نے زمین پر گرے ارسم کہ طرف اشارہ کرتے کہا۔

یہ کمینہ اتنی جلدی نہیں مرے گا۔

حمزہ نے آگے بڑھتے ملائکہ کی نازک کلائی کو پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ارسم کے پاس لاتے اپنی گن کا رخ اس کے سر کی طرف کیا۔

ملائکہ کی خوف سے آنکھیں پھیل گئی تھیں۔

حمزہ نے ٹریگر دبایا۔گولی کی آواز گونجی لیکن گولی ارسم کو لگنے کی بجائے سامنے آتی ملائکہ کو لگ گئی تھی۔

حمزہ نے بے یقینی سے ملائکہ کو دیکھا اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور ملائکہ نے سدھ سی ارسم کے پاس ہی زمین پر گر گئی تھی۔

عروہ…. خان نے کہتے ہی اپنے قدم اس کی طرف

بڑھائے جو زمین پر بےہوش ہو کر گر گئی تھی۔

خوف کی وجہ سے وہ بےہوش ہو گئی تھی۔

آصف اپنا بازو پکڑے زمین پر بیٹھا کراہ رہا تھا۔

پولیس آفیسر جو یہاں پارکنگ ایریا میں آیا تھا اپنی گاڑی کی طرف جاتے اس کی نظر آصف پر پڑی۔جو کسی لڑکی کی گردن پر ٹوٹا ہوا آئینہ رکھے کھڑا ہوا تھا۔

اس نے اپنی گن نکال کر اس کا رخ آصف کے بازو کی طرف کیا۔کیونکہ اتنا وقت نہیں تھا کہ آصف کو روکا جاتا اس لیے اس نے گن کا ٹریگر دبا دیا۔

اور بازو پر گولی لگنے کی وجہ سے کوئی نقصان بھی نہیں ہونا تھا۔

خ و ن نکل کر زمین پر بہنے لگا تھا پولیس آفیسر نے جلدی سے آگے آتے آصف کو ہتھکڑی لگائی۔

خان جلدی سے عروہ کے پاس گیا اور اس کی گال کو تھپتھپاتے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔

خان نے پولیس آفیسر کی طرف دیکھا۔

آپ کو ہمارے ساتھ تھانے چلنا ہو گا۔

پولیس آفیسر نے کہتے ہی اپنے ساتھیوں کو کال کرنے لگا۔

سر میں اپنی بیوی کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔میں ان کو گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔

خان کہتے ہی عروہ کو اٹھائے جلدی سے اپنی گاڑی کی طرف لے گیا اور دروازہ کھولتے اسے آرام سے اندر لیٹایا۔

عروہ کو صحیح سلامت دیکھ کر خان نے سکون کا سانس لیا تھا ورنہ اس کو لگ رہا تھا کہ آج وہ عروہ کو کھو دے گا۔

تھوڑی دیر بعد وہاں پولیس کے باقی کے اہلکار بھی آگے تھے۔

اور آصف کو پکڑ کر لے گئے۔

خان نے ارسم کو کال کرکے یہاں آنے کا کہا تھا۔

گاڑی میں ایک نظر وہ پیچھے بےہوش لیٹی عروہ پر ڈال لیتا گھر پہنچتے ہی اس نے عروہ کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور کمرے میں آتے ہی اسے وہاں لیٹایا۔

عروہ کی گردن پر آئینہ لگنے کی وجہ سے ہلکی سی خراش آئی تھی جس میں سے خ و ن نکل رہا تھا۔

خان نے فرسٹ ایڈ باکس پکڑے اس کے زخم کو احتیاط سے صاف کیا۔

اور پھر مرہم لگانے کے بعد اس نے جھک کر عروہ کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

میں سب ٹھیک کر دوں گا۔خان نے عروہ کی بند آنکھوں کو دیکھتے پرعزم لہجے میں کہا۔

اور اس پر کمبل ٹھیک کرتے وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔

باہر جا کر اس نے ملازمہ کو عروہ کا خیال رکھنے کے لیے کہا اور خود گھر سے باہر چلا گیا۔اسے تھانے جانا تھا۔

💜 💜 💜 💜 💜

خان پولیس سٹیشن چلا گیا تھا وہاں جا کر اس نے آصف کے خلاف رپورٹ درج کروائی تھی۔

آصف کے بازو پر پٹی کر دی گئی تھی ابھی تو وہ ٹھیک تھا۔

خان نے کہا کہ وہ آصف سے ملنا چاہتا ہے۔اُسے معلوم تھا کہ پولیس اُس سے اگلوا لے گی کہ اس نے کس کے کہنے پر یہ سب کیا۔

لیکن وہ اپنے بھائی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔

خان جیل کے اندر داخل ہوا جہاں آصف زمین پر سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔

میرا بھائی کہاں ہے؟

خان نے آصف کو دیکھتے سوال کیا۔

جس نے سر اٹھا کر سامنے کھڑے خان کو دیکھا تھا۔

لیکن خاموش رہا تھا۔

آفیسر نے آگے بڑھتے آصف کے پٹی میں بندھے بازو کو زور سے پکڑا آصف تکلیف کے مارے کراہ پڑا تھا۔

جواب دے کہاں ہے اس کا بھائی؟ آفیسر نے کرخت لہجے میں پوچھا۔

مجھے نہیں معلوم میں نے اُسے سڑک کے کنارے چھوڑ دیا تھا۔

اُس کا ایک بازو جل گیا تھا سانسیں چل رہی تھیں اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔

پتہ نہیں وہ زندہ ہے یا مر گیا میں نہیں جانتا۔

آصف نے کراہتے ہوئے کہا۔

خان کا دھیان فوراً ارمان کی طرف گیا تھا۔

ایک پل کے لیے دل نے کہا تھا کہ وہی اس کا بھائی ہے۔

لیکن بنا کسی ثبوت کے وہ اپنے دل کو تسلی نہیں دینا چاہتا تھا۔اگر ڈی این کروانے کے بعد ارمان اس کا بھائی نا نکلا تو اسے زیادہ تکلیف ہوتی۔

آفیسر اس کے پیچھے کوئی ضرور ہے جس کے کہنے پر اس نے میری بیوی اور اپنی بیٹی پر حملہ کیا اور اُسے مارنے کی کوشش کی۔

اس طرح کے انسان کو تو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔اور مجھے اس پر شک ہے کہ میرے ماں باپ کی جان بھی اسی شخص نے لی ہے۔خان نے آفیسر کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔

آپ فکر مت کریں۔تھوڑی دیر کی خاطر تواضع کے بعد ہی یہ سچ بولنے لگے گا۔ آفیسر نے آصف کو دیکھتے کہا۔

آپ کا بہت بہت شکریہ آفیسر خان نے تشکرانہ انداز میں کہا۔اور وہاں سے چلا گیا۔


دوسری جانب رحمان کو خبر مل گئی تھی۔کہ آصف پکڑا گیا ہے۔اس نے حمزہ کو کہا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ آصف آسانی سے اپنا منہ کھول

دے گا۔

ڈیڈ میں کہی نہیں جا رہا اگر مجھے جیل جانا ہی ہے تو ارسم کی جان لے کر ہی جاؤں گا۔

حمزہ نے تلخ لہجے میں کہا۔

حمزہ ابھی ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے تم اپنی بہن اور ماں کو لے کر باہر کے ملک چلے جاؤ۔میں بھی آجاؤں گا۔ٹھیک ہے رحمان نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔

لیکن ڈیڈ حمزہ نے کچھ کہنا چاہا جب رحمان جلدی سے بول پڑا تھا۔

اگر تمھارے دل میں میرے لیے زرا سی بھی عزت ہے تو تم میری بات سے انکار نہیں کرو گئے رحمان نے بےبسی سے حمزہ کو دیکھتے کہا۔

جس نے خاموش نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔

ماں اور بہن کو اس نے کچھ بتایا نہیں بس یہی کہا کے ڈیڈ کا حکم ہے۔اور ثمینہ کو بھی عظمیٰ بیگم اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ثانیہ تو کسی بھی طرح جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔

جب حمزہ نے اسے کہا کہ ڈیڈ نے کہا ہے اگر اس نے بات نہیں مانی تو وہ اسے جائیداد سے عاق کر دیں گئے۔تو اس کے بعد ثانیہ کے پاس کچھ بھی کہنے کو نہیں بچا تھا۔

خان سے زیادہ اسے اپنے عیش اور آرام اہم تھے اس لیے خاموشی سے حمزہ کے ساتھ چل پڑی اور اس نے سوچا کہ وہ واپس آکر بھی خان کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ واپس کبھی نا آنے کے لیے جا رہی ہے۔

لیکن اس وقت تو ان سب کو رحمان کا حکم ماننا تھا۔

💜 💜 💜 💜

خان گھر آیا تو شام ہو چکی تھی۔

ملازمہ نے اسے بتایا کہ عروہ کو ہوش آگیا ہے اور وہ بات بھی نہیں کر رہی بس خاموش لیٹی ہوئی ہے۔

ملازمہ نے بتایا تو خان گہرا سانس لیتا کمرے کی طرف گیا تھا وہ جانتا تھا کہ یہ بات عروہ کے لیے قبول کرنا بہت مشکل ہے۔

خان کمرے میں داخل ہوا تو عروہ چھت کو گھور رہی تھی۔

خان چلتا ہوا اس کے پاس گیا۔

عروہ… خان نے دھیمے لہجے میں اس کا نام پکارا۔

عروہ نے خان کی طرف دیکھا لیکن ویسے ہی لیٹی رہی۔

خان نے اس کے پاس بیٹھتے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

آپ ٹھیک ہیں؟

خان نے عروہ کو دیکھتے پوچھا۔

بابا کہاں ہیں؟ عروہ نے الٹا سوال کیا۔

اُن کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے وہ جیل میں ہیں۔خان نے سرد لہجے میں کہا۔

انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے ہی امی کی جان لی تھی۔عروہ نے بھاری لہجے میں کہا۔

آنسو آنکھوں سے نکل کر کنپٹی کو بھگو رہے تھے۔

عروہ آپ پلیز رونا بند کریں۔اُس انسان کی خاطر تو میں آپ کو بلکل بھی رونے نہیں دوں گا۔

خان نے پیار سے عروہ کے آنسوؤں کو صاف کرتے کہا۔

میرا آپ سے وعدہ ہے آپ کی امی کے قاتل کو ضرور سزا ملے گی۔

اور وہ انسان آپ کا باپ کہلوانے کے بھی لائق نہیں ہے۔اور اب آپ اس بارے میں نہیں سوچے گی۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔بس یہاں سب ٹھیک ہو جائے پھر ہم واپس چلے جائیں گئے۔

خان نے عروہ کو تسلی دیتے کہا۔

لیکن اتنی بڑی حقیقت کو برداشت کرنا بھی آسان نہیں تھا۔عروہ خاموش رہی تھی۔

جب ملازمہ نے دروازہ ناک کرتے باہر ارسم کے آنے کی اطلاع دی۔

آپ آرام کریں میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔

خان نے کہتے ہی جھک کر عروہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اُٹھ کر وہاں سے باہر چلا گیا۔

عروہ خان کے جاتے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔

اور بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔

اسے یہی لگتا تھا کہ اس کا باپ مر چکا ہے اور اب جب وہ سامنے آیا بھی تو اتنی بڑی حقیقت اس پر کھل گئی کہ اس کی ماں کو مارا گیا تھا اور قاتل کوئی اور نہیں اس کا اپنا باپ تھا۔جو آج اپنی بیٹی کی بھی جان لینا چاہتا تھا۔

بابا میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔

عروہ نے بےبسی سے کہتے اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

دل کا غبار بھی باہر نکلنا ضروری تھا۔

عروہ کو بھی ہمت سے کام لینا تھا۔

اور اس کی ہمت تو خان تھا جو اسے کسی قسم کی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

💜 💜 💜 💜

خان باہر آیا تو ارسم بیٹھا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔

سب ٹھیک ہے بھابھی ٹھیک ہیں؟ ارسم نے کھڑے ہوتے پوچھا۔

اُس کا باپ زندہ ہے اور باپ نے ہی اُس کی ماں کی جان لی اب بیٹی کی بھی لینا چاہتا تھا یہ سب جاننے کے بعد کسی کو بھی نارمل ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

خان نے گہرا سانس لیتے کہا۔

وہ تو ہے لیکن اُس آصف کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔اُس نے منہ کھولا کہ علی کہا ہے اور تمھارے ماں باپ کے بارے میں کچھ بتایا؟ ارسم نے خان کی گرفت دیکھتے پوچھا۔

علی کو اُس نے سڑک کے کنارے چھوڑ دیا تھا۔اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں جانتا باقی پولیس اُس سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے جلد ہی پتہ چل جائے گا۔کہ اس کے ساتھ اور کون شامل ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس سب معاملے میں رحمان بھی شامل ہے لیکن ایک دفعہ آصف اپنی زبان سے اپنے گناہ کا اعتراف کر لے تو اُسے سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔میں خود دونوں کو سزا دلاؤں گا۔صفوان نے پرعزم لہجے میں کہا۔

ارسم اس کی بات سن رہا تھا۔

ارسم تم یہاں سب دیکھ لینا میں نے آفیسر سے بات کر لی ہے۔میں عروہ کو لے کر گھر جا رہا ہے ہوں باقی کی کاروائی وہاں ہو گی۔لیکن یہاں کا معاملہ تم دیکھ لینا۔

خان نے سنجیدگی سے کہا۔

ٹھیک ہے تم ٹینشن نا لو اور بھابھی کو لے کر گھر جاؤ میں یہاں سب سنبھال لوں گا۔

ارسم نے کہا تو خان نے ہلکا سا سر ہلائے وہاں سے جانے کے لیے مڑنے لگا جب ارسم نے پوچھا۔

تو اس کا مطلب ہے علی کا ابھی بھی ہمیں پتہ نہیں چلا؟ ارسم نے پوچھا تو خان نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

مجھے لگتا ہے علی ہمارے سامنے ہی ہے بس ہم اُسے پہچان نہیں پا رہے۔

خان نے پرسوچ انداز میں کہا تو ارسم نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

کیا مطلب ارسم نے حیرانگی سے پوچھا۔

تمہیں بعد میں بتاؤں گا ابھی پہلے میں خود تسلی کر لوں۔

خان نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

ارسم کو کچھ سمجھ تو نہیں آئی تھی پھر بھی خاموش رہا تھا۔

اگر خان کہہ رہا ہے تو اُسے اس کی بات پر یقین تو کرنا ہی ہو گا۔

ارسم یہ سوچتے ہی گھر سے باہر چلا گیا اسے پولیس سٹیشن جانا تھا۔

ختم شدہ  "

 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Web by Madiha Shah Writes.She started her writing journey from 2019.Masiha Shah is one of those few writers,who keep their readers bound with them , due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey from 2019. She has written many stories and choose varity of topics to write about


 

 Tarap Dil Ki Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tarap Dil Ki written Rimsha Hayat .Tarap Dil Ki by  Rimsha Hayat  is a special novel, many social evils has been represented in this novel. She has written many stories and choose varity of topics to write about

Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel you must read it.

Not only that, Madiha Shah provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Forced Marriage Based Novel Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

If you all like novels posted on this web, please follow my webAnd if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

If you want to read More  Mahra Shah Complete Novels, go to this link quickly, and enjoy the All Mahra Shah Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                  

 

Complete Novels Link 

 

Copyrlight Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only share links to PDF Novels and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

 


  

No comments:

Post a Comment