Pages

Friday 19 July 2024

Fida E Janah By Samiya Baloch New Complete Romantic Novel

Fida E Janah By Samiya Baloch New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Fida E Jana By Samiya Baloch Complete Romantic Novel 

Novel Name:  Fida E Janah

Writer Name: Samiya Baloch

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

"ٹھاہ ٹھاہ۔"


شمل خان کے دشمن سلطان کی غیر موجودگی میں اس کے اس عالیشان محل نما گھر کے باہر لگاتار گولیوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔

امشال جو اپنے بیڈ روم میں بیڈ کے نیچے خوف کے باعث چھپی ہوئی تھی روم میں کسی کے قدموں کی آہٹ سن کر سختی سے اپنے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی سانسوں کی آواز کو لبوں میں دبانے لگی۔


"ام بچہ آپ کہاں ہوں باہر نکلوں۔"


اپنے آغا جان کی آواز سن کر وہ بیڈ کے نیچے سے نکلی اور سامنے کھڑے اپنے باپ کو دیکھ کر وہ روتی ہوئی بھاگی اور ان کے سینے سے لگ کر بری طرح سے رونے لگی۔


"آغا جان مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"


وہ نم آنکھوں کو اٹھا کر انکی جانب دیکھتی ہوئی سسک کر بولی۔


"ام بچہ یہاں سے نکلنا مت۔"


شمل خان سلطان کے لائبریری میں بنے خفیہ روم کا دروازہ کھول کر اس کے اندر امشال کو لیجاتے ہوئے پیار سے اس کے گیلے بالوں کو اسکے رخسار سے ہٹاتے ہوئے بولے۔


"آغا جان مجھے چھوڑ کر مت جائے پلیز۔"


امشال ان کے سفید شلوار کے پائنچے کو خون سے بھرے کیوں کہ باہر اندھا دھن فائرنگ کی وجہ سے ایک گولی ان کے ٹانگ پر لگی تھی وہ انکے خون کو پانی کی طرح بہتے ہوئے دیکھ کر روتی ہوئی ان سے بولی۔


"ام میری جان میں جلد آ جاؤں گا بس بچہ تم یہاں سے مت نکلنا ورنہ وہ لوگ تمہیں مار دیں گے۔"


شمل خان نے اسے سامنے صوفے پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔

اور پھر اپنے قدم انہوں نے باہر کی جانب بڑھائے۔


"نہیں آغا جان۔"


امشال انہیں روم سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ روتی ہوئی ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی بولی۔


"شمل خان تو تم یہاں چھپ کر بیٹھا ہے اس عالیشان محل میں چھپ کر تم نے سمجھا تھا ہم تم کو نہیں ڈھونڈے گا اپنے دوست کے بل میں چھپ کر تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے اب اس کی سزا تمہیں بھی ملے گا اور تمہارے یار کو بھی تمہارے بعد اس کی بھی باری ہے۔"


وہ اس روم سے باہر نکلنے ہی والی تھی کہ شمل خان ان ظالم لوگوں کو لائبریری کے اندر آتے ہوئے دیکھ روم کے دروازے کو بند کیے بنا سامنے کھڑا ہوگیا۔

امشال خان آدھ کھلے دروازے کے سامنے کھڑے اپنے باپ کو نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اس کی اپنی لاڈلی بیٹی کی جان بچا رہے تھے۔


"ٹھاہ ٹھاہ۔"


گولیوں کی آوازیں پوری لائیبریری میں گونج کر لائیبریری کو وحشت ناک بنا گئیں امشال خان شمل خان کی کراہت سن کر اپنے لبوں پہ ہاتھ رکھ کر بری طرح سے رونے لگی

اور دھندلی نظروں سے اس مضبوط لوہے کی بنی ڈور کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔

جبکہ وہ دروازہ کھولنا اتنا آسان نہیں تھا وہ خفیہ روم کا دروازہ تھا اور شمل خان کے نیچے گرنے پر بند ہو گیا۔


امشال خان شمل خان کا مضبوط وجود اپنی آنکھوں کے آگے بار بار آتے ہوئے دیکھتی صدمے سے بیہوش ہو کر نیچے گر پڑی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ان کی ہمت کیسے ہوئی یہاں تک آنے کی۔؟؟

اور یہ سیکورٹی فورسز کہاں مر گئی تھی جب وہ لوگ یہاں داخل ہو رہے تھے فرجاد۔؟؟


سلطان مینشن میں لگی ہر طرف آگ کو دیکھ سلطان عالم شاہ غصے سے غرائے۔

وہ اس حادثے کا سنتے ہی اپنا ایک امپورٹڈ میٹنگ چھوڑ کر یہاں بھاگا بھاگا چلا آیا تھا۔صرف اپنے دوست اپنے مسیحا کے لیے جس نے اسے مرنے سے بچایا تھا۔بھلا وہ اسے خطرے میں کیسے چھوڑ سکتا تھا۔


"باس سیکیورٹی کو مار کر وہ لوگ اندر داخل ہوئے تھے۔"


فرجاد نے ڈرتے ہوئے کہا۔


"شمل اور امشال وہ دونوں کہاں ہے اس وقت۔؟؟


جب سلطان کو اپنے جگری دوست شمل خان اور اس کی بیٹی کا خیال آیا تو وہ سخت پریشانی سے اپنے سیکرٹری فرجاد سے پوچھنے لگے۔


"باس میں نے انہیں ہاسپٹل بھیج دیا ہے۔"


فرجاد نے کہا۔

ہاسپٹل کا سن کر سلطان کو شدید جھٹکا لگا۔


"وہاٹ ہاسٹل فرجاد وہ لوگ ٹھیک تو ہے نا انہیں کچھ ہوا تو نہیں ہیں نا۔؟؟


سخت پریشانی سے وہ فرجاد سے پوچھنے لگے۔


"باس امشال میڈم ٹھیک ہے بس انہیں چھوٹی موٹی چوٹیں آئی ہے جب کہ شمل سر کو ان لوگوں نے بہت زیادہ گولیاں ماری ہے جن کی وجہ سے ان کی حالت سخت سیریس ہیں۔"


فرجاد کی بات پر ان کے قدم ڈگمگائے۔

فرجاد انہیں سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھ تیزی سے آگے بڑھا۔


"فرجاد جاؤ جلدی سے گاڑی نکالو مجھے ابھی اسی وقت ہاسپٹل میں اپنے یار کے پاس جانا ہے اسی اس وقت میری سخت ضرورت ہے۔"


وہ گہری سانس لیتے ہوئے اپنی نم آنکھوں کو اٹھا کر فرجاد کو حکم دیتے ہوئے بولے۔

فرجاد ان کے حکم پر انہیں چھوڑ کر تیزی سے باہر نکلا۔تو اس کے باہر نکلتے ہی انہوں نے اپنی سرخ آنکھوں سے اپنے عالیشان محل نما گھر کو آگ کی لپیٹ میں دیکھتے ہوئے۔ خود سے وعدہ کیا۔

کہ وہ اپنے دوست اپنے یار کے اوپر قاتلانہ حملہ کرنے والے کو ہر گز زندہ نہیں چھوڑے گے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


وہ ہاسپٹل کے اس روم کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں انکا یار اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا سیاہ آنکھوں سے آنسوؤں بہہ رہے تھے۔


"سر اس روم میں امشال میڈم ہے۔"


فرجاد کی آواز پر وہ چونکے اور اس کے سامنے کے روم کی جانب اٹھی انگلی سے اشارہ کرنے پر وہ اسی جانب دیکھنے لگے۔


"مسٹر سلطان اچھا ہوا آپ آ گئے آپ اس بچی کو سنبھالے وہ اپنے بابا سے ملنے کا ضد کر رہی ہیں۔"


روم سے باہر نکلتے ڈاکٹر اظہر علی نے انہیں سامنے ساکت و جامد کھڑے پایا۔ تو وہ انکے قریب آکر انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔


"ڈاکٹر شمل وہ کیسا ہے وہ ٹھیک تو ہے ناں۔؟؟


انکے ذہن میں اس وقت صرف شمل خان گھوم رہے تھے۔

اسی لیے انہوں نے ڈاکٹر کی بات پر دھیان نہیں دیا۔


"وہ ٹھیک ہے مسٹر سلطان آپ ابھی اس وقت ان کی بچی کو دیکھے اگر اسی طرح وہ روتی رہی نا تو وہ بچی شاک کی وجہ سے یا تو کوما میں چلی جائے گی یا میموری لوس بھی ہو سکتا ہے۔"


ڈاکٹر کی بات پر انہیں ہوش آئے۔

وہ ڈاکٹر اظہر سے کچھ بھی کئے بغیر روم کی جانب بڑھے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"دور رہوں میرے قریب مت آنا ورنہ میں تم لوگوں کو جان سے مار ڈالوں گی۔"


وہ روم میں داخل ہوئے تو سامنے دیکھنے لگے جہاں سولہ سال کی ایک معصوم سی لڑکی ہاتھ میں چھوٹی سی چاقو پکڑے غصے سے چیخ چیخ کر نرس کو اپنے قریب آنے سے روک رہی تھی۔


"امشال بے بی۔"


سلطان عالم شاہ نے پیار سے اس لڑکی کا نام لیا۔

تو وہ لڑکی انکی آواز پر پیچھے مڑی اور انہیں دیکھنے لگی۔


"سس۔سلطان انکل۔"


انہیں اپنے قریب دیکھ وہ روتی ہوئی چاقو دور اچھال کر انکے سینے سے لگی۔


"سلطان انکل وہ لوگ بہت برے تھے انہوں نے آغا جان کو۔"


وہ ان کے چوڑے سینے سے لگی ان لوگوں کو سوچ کر ڈرتی ہوئی ان سے کہنے لگی۔

سلطان عالم شاہ اس چلبلی لڑکی کو اتنا خوفزدہ دیکھ کر اپنی مٹھیاں زور سے کھسنے لگا۔


"شششش۔"

کول ڈاؤن بے بی میں آ گیا ہوں نہ انہیں چھوڑوں گا نہیں جہنوں نے میرے بھائی کو اور میری بچی کو ہرٹ کیا ہے۔"


وہ اسے خود سے دور کرتے ہوئے اس کے چہرے پر آئے بالوں کو اس کی کان کے پیچھے کرتے ہوئے اس کے رخساروں پر بہتے اشکوں کو صاف کرتے ہوئے بولے۔


"سلطان انکل آغا جان کہاں ہے مجھے ان کے پاس جانا ہے۔"


وہ اس کی موجودگی کی وجہ سے اب کافی پرسکون ہو گئی تھی۔اسی لیے ان سے اپنے بابا کے متعلق پوچھ رہی تھی۔


"آپ جلدی سے یہ فینش کر لے پھر ہم دونوں آپ کے بابا کے پاس چلے گے۔"


اسے بیڈ پر بیٹھا کر نرس کے ہاتھوں سے سوپ کا باؤل لیتے ہوئے انہوں نے کہا۔

تو وہ خاموشی سے ان کی بات مان کر وہ سوپ پینے لگی۔

اسے سوپ پیتے ہوئے دیکھ وہ اسکے پٹی میں جکڑے نازک کندھے کو نم آنکھوں سے دیکھنے لگے۔


وہ لڑکی شمل خانزادہ اور اسکے لیے بے حد اہم تھیں وہ دونوں دوست اسے جب بھی تکلیف میں دیکھتے تھے تو تڑپ اٹھتے تھے۔

آج اس بچی کو کسی نے اتنا تارچر کیا تھا تو بھلا وہ کیسے خاموش رہتے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"جتنی جلدی ہو سکے فرجاد شمل خان اور امشال کو میرے سیو ہاؤس پہنچاؤ اب انکا ٹریٹمنٹ وہی ہوگا ان لوگوں کو بلکل بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ شمل خان اور امشال کو میں نے کہاں چھپایا ہے۔"


امشال کو سلانے کے بعد وہ روم سے باہر نکلا۔

سامنے کھڑے فرجاد کو حکم دینے لگا۔


"اوکے باس۔"


فرجاد نے ادب سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔


"جو جو شمل خان کے خاندان کے قتل کے وقت شامل تھے ان سبھی لوگوں کے بارے میں پتہ کروں فرجاد۔ مجھے ان لوگوں کی لاشیں صبح ہونے سے پہلے پہلے ہر نیوز چینل پر نظر آنی چاہیے۔"


انہوں نے سرد لہجے میں کہا۔

فرجاد اپنے باس کو اپنے اصل فارم میں آتے ہوئے دیکھ ڈر گیا۔


"اوکے باس۔"


فرجاد نے ڈرتے ہوئے کہا۔


"بابا سائیں اماں سائیں اور نیناں ادی کو بھی سیو ہاؤس میں شفٹ کروں۔"


اپنی فیملی کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ بولے۔

تو انکی بات پر فرجاد نے بے بسی سے ان کی جانب دیکھا۔


"باس وہ بابا سائیں نہیں مانیں گے۔"


فرجاد نے کہا۔


"فرجاد اس وقت ان کی ضد سے زیادہ ان کی جان عزیز ہے مجھے تم وہی کروں جو میں کہ رہا ہوں۔"


سلطان عالم شاہ نے سختی سے کہا۔


"اوکے باس میں کوشش کر کے دیکھتا ہو اگر وہ مانیں تو ٹھیک ورنہ میں آپ کو کال کر کے انکے فیصلے سے آپ کو آگاہ کر دوں گا۔"


فرجاد نے ان کی جانب دیکھنے سے پرہیز کرتے ہوئے کہا۔

کیوں کہ وہ جس طرح اسے گھور رہے تھے ڈر تھا کہ کئی وہ اس بات پر اسکے سینے پر اپنے ریوالور کی ساری گولیاں نہ اتار دے۔


"کوشش نہیں عمل کرو اگر انہیں کچھ ہوا فرجاد تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا گاٹ اٹ۔"


انہوں نے آگے بڑھا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے دباتے ہوئے برفیلے لہجے میں کہا۔

فرجاد انکی برفیلے لہجے پر ڈر کر بری طرح سے جھرجھری لینے لگا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"اب کونسا گناہ کر دیا ہے اس نے جسے چھپانے کیلئے وہ یہ سب کر رہا ہے۔؟؟


سرفراز شاہ فرجاد کو اپنی دہلیز پر دیکھ اسے باہر روکتے ہوئے غصے سے پوچھنے لگے۔


"بابا سائیں باس نے نہ آج کچھ کیا ہے نا ہی کل آپ انہیں ہمشیہ غلط سمجھتے آر ہے ہیں وہ اتنے بھی برے نہیں ہے بس انکے حالات نے انکی امیج کو آپ کے سامنے برا دیکھایا ہے اور دیکھا رہا ہے مگر باس کو صرف آپ لوگوں کی فکر ہے اسی لیے انہوں نے مجھے یہاں آپ لوگوں کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں آپ لوگوں کو سیو ہاؤس میں لیکر جاؤ کیوں صرف انکے دشمنوں سے بچانے کے لیے وہ آپ لوگوں کو کسی خطرے میں نہیں دیکھ سکتے ہیں۔"


فرجاد اپنے باس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا تھا اسی لیے وہ اپنے باس کی سائیڈ لیتے ہوئے ان سے کہنے لگا۔


"ہنہہہ ہماری حفاظت کرنے کے لیے اب ایک غنڈہ رہ گیا ہے جاؤ جا کر اس غنڈے سے کہوں ہمیں اس کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنا خیال اچھے سے رکھنا جانتے ہیں۔"


انہوں نے سخت نظروں سے فرجاد کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

اور قدم سامنے رکھے چئیر کی جانب بڑھائے۔


"بابا سائیں وہ غنڈہ نہیں ہے وہ ایک بزنس مین ہے آپ انہیں غنڈہ سمجھنا بند کر دے اور میرے ساتھ چلے کیوں کہ اس وقت آپ لوگوں کا یہاں رہنا سیو نہیں ہے۔"


فرجاد نے چڑتے ہوئے کہا۔


"نہیں جاؤں گا کیا کر لو گے تم ہاں ماروں گے تو آؤں ماروں ان کمزور لوگوں کی طرح جنہیں تمہارا وہ شریف بزنس ٹائیکون ہر دن دھمکاتا ہے صرف اس لیے کیوں کہ وہ ہم سے ملتے ہیں۔"


انہوں نے غصے سے کہا۔


"بابا سائیں وہ آپ کی غیر موجودگی میں اماں سائیں اور نیناں سے بدتمیزی کرنے آتے تھے اسی لئے باس نے انہیں مار کر دھمکایا تھا تاکہ وہ یہاں دوبارہ نظر نہ آئے۔"


فرجاد نے انہیں اصلیت بتائی لیکن وہ یہ سننے کو بلکل بھی تیار نہیں تھے کیوں کہ سلطان عالم شاہ پر انہیں یقین بلکل بھی نہیں تھا وہ انہیں ایک کرمنل سمجھتے تھے۔


"وہ لوگ اس کی طرح بدمعاش نہیں ہے جو یہ گھٹیا گری ہوئی حرکتیں کرے گے۔وہ نیک شریف لوگ ہے۔ میری غیر موجودگی میں یہاں آنا تو دور وہ اس علاقے میں قدم رکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔"


انکی اتنی زیادہ بدگمانی پر فرجاد بے بس نظروں سے انہیں دیکھتا غصے سے باہر نکلا اور اپنی گاڑی کے قریب آکر باس کو کال ملانے لگا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"سلطان میری بیٹی سے شادی کر لو۔؟؟


خون سے شرابور ہاسپیٹل کے پرائیویٹ روم کے بستر پر اکڑی سانسوں کے درمیان اس کے جگری دوست شمل خان نے کہا۔جسے سن کر سلطان عالم شاہ کو لگا جیسے ہاسپٹل کی پوری عمارت اس کے اوپر آ گری ہو۔


"شمل یار یہ تم کیا کہ رہے ہوں وہ ابھی بچی ہے مجھ سے بہت زیادہ چھوٹی ہے اور میں ایک تیس سالہ مرد کیسے ایک اسکول کی دسویں جماعت کی طالبہ سے شادی کرسکتا ہوں۔"


سلطان عالم شاہ نے شمل خان کے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا۔


"مجھے پتہ ہے سلطان میرے جگر یہ درست نہیں ہے وہ تم سے بہت زیادہ چھوٹی ہے سولہ سال کی ہے وہ ابھی لیکن میرے یار حالات ایسے ہیں کہ ہمیں یہ اسٹیپ لینا پڑے گا اگر مجھے کچھ ہوگیا تو وہ میری بچی کو برباد کر دے گے اسے بھی میرے خاندان کی طرح ختم کر دے گے۔اس وقت تم ہو صرف تم میرے یار جو ان سے مقابلہ کر سکتے ہو کیوں کہ تم ان سے بھی زیادہ مضبوط بیک گراؤنڈ رکھتے ہوں۔وہ تمہارے ساتھ محفوظ رہے گی۔۔"


شمل خان نے اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کی۔

سلطان عالم شاہ نے بے بس نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔


"شمل یار یہ میرے لیے بہت زیادہ مشکل ہے۔جسے میں اپنی بھتیجی سمجھتا ہوں اس سے میں کیسے نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔تم اگر مناسب سمجھوں تو کیا میں اپنے چھوٹے بھائی سمیر سے اسکا نکاح پڑھواؤں وہ ہماری امشال کے لیے پرفیکٹ میچ ہے۔"


سلطان نے شمل خان کی خراب حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو ضبط سے روکتے ہوئے کہا۔


"نہیں سلطان عالم شاہ میری مشال کے لیے اس وقت صرف تم پرفیکٹ میچ ہو تمہارے ہوتے ہوئے میرے دشمن اسے ہاتھ لگانا تو دور اسکے قریب آنے سے بھی ڈرے گے یار تمہیں پتہ ہے میں جو پہلے تمہارے غصے سے سخت چڑتا تھا نفرت کرتا تھا۔آج تمہارے غصے پر مجھے پیار آ رہا ہے کیونکہ یہ تمہارا غصہ میری امشال کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہوگا جس میں وہ رہ کر محفوظ ہوگی کوئی برا سایہ اس تک نہیں آئے گا تم اس کے لیے مضبوط سہارا ہو سلطان کوئی اور نہیں۔"


شمل خان نے کھانستے ہوئے کہا۔


"سلطان عالم شاہ اگر تم نے انکار کر دیا تو میں سمجھوں گا تم نے مجھے کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں تھا۔"


شمل خان اسے خاموش دیکھ اکڑی سانسوں کے درمیان بولا۔

سلطان جو ان سب باتوں کو سوچ رہا تھا شمل خان کی بات پر تڑپ کر اس پر جھکا اور اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر سرخ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔


"شمل میرے یار یہ تم نے مجھے کس مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے میں نہ ہاں کر سکتا ہوں نہ ہی انکار اگر انکار کر دیا تو اس معصوم کی زندگی خطرے میں ڈال دوں گا اور اگر ہاں کر دیا تو میں خود اپنی نظروں میں گر جاؤں گا اپنا رشتہ اپنا مقام کھو دوں گا۔"


سلطان عالم شاہ شمل خان کے خون سے تر چہرے کو پکڑتے ہوئے اسے بے بس نظروں سے دیکھتے ہوئے گلوگیر بھاری نم آواز میں بولے۔


"سلطان میرے جگر میرے یار ہمت کرو اگر تم اس وقت ٹوٹ گئیں تو امشال کو کیسے سنبھالو گے میرے دوست ابھی اور امتحان باقی ہے تم دونوں کے لیے ابھی میری بچی کو اپنے باپ کی جدائی بھی تو سہنی پڑے گی پوری زندگی کے لیے اس کے لیے اُس آنے والے وقت کے لیے بہادر بنوں۔"


شمل خان نے درد بھری آواز میں کہا۔


"شٹ اپ شمل خان تم نے ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے اور ان لوگوں سے بھی ہم دونوں نے مل کر بدلا بھی تو لینا ہے جن لوگوں نے تمہارے پورے نسل خاندان کو ختم کرنا چاہا ہے۔"


سلطان عالم شاہ شمل خان کی بات پر سخت غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولے۔

تو اسکے غصے سے سرخ ہوتی کھڑی مغرور ناک کو دیکھتے ہوئے شمل خان درد کے باوجود بھی مسکرانے لگے۔

شمل خان کے روم میں وہ نرس کے سہارے جب داخل ہوئی تو سامنے اپنے مضبوط باپ کو پٹیوں میں جکڑے دیکھ وہ اپنا ہاتھ لبوں پہ رکھ کے اپنی سسکیوں کا گلہ گھونٹنے لگی۔


"آغا جان۔"


وہ لرزتے قدموں سے ان کے پاس جا کر نیچے بیٹھتی ہوئی لرزتے ہاتھ انکے سینے پر رکھ کر انہیں پکارنے لگی۔


"ا۔م ب۔بچہ۔"


شمل خان اپنی بیٹی کی نم آواز سن کر اپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگے۔

جو اب انکے چہرے پر ہاتھ رکھ کر انہیں دیکھ رہی تھیں۔


"کیوں آغا جان آپ باہر نکلے اس روم سے کیوں۔اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا آپ نے یہ سوچا ہے۔؟؟


وہ انکی جانب دیکھتی ہوئی رو کر ان سے بولی۔


"ب۔بچہ اس وقت دماغ کام نہیں کر رہا تھا حالات ہی بہت خراب تھے اس وقت مجھے صرف آپکی فکر تھی اسی لیے میں باہر نکل گیا۔"


شمل خان نے مشکل سے اپنی یہ بات کی۔

امشال انکی بات پر انہیں خفگی سے گھورنے لگی۔


"آغا جان اگر آپ کو کچھ ہوتا تو میں مر جاتی شکر ہے آپ ٹھیک ہے بس اب جلدی سے آپ ٹھیک ہو جائے تو ہم یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے ان لوگوں سے بہت دور۔"


وہ اپنی ناراضگی بھول کر اپنے آنسوؤں صاف کرتی ہوئی بولی۔

شمل خان اس کی بات پر اسے دیکھنے لگے۔


"نہیں بچہ یہ صحیح وقت نہیں ہے ہم جہاں جائیں گے وہ لوگ ہمارے پیچھے آئے گے اتنی جلدی وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اسی لیے میں نے تمہارا نکاح سلطان سے طے کر دیا ہے۔"


شمل خان کے سلطان سے نکاح والی بات سن کر امشال کو لگا جیسے پورے ہاسپٹل کی درودیوار ہلنے لگی ہو۔

وہ ساکت نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"میرا نکاح سلطان انکل سے نہیں یہ نہیں ہو سکتا آغا جان۔"


وہ پھٹی آنکھوں سے شمل خان کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


"بچہ مجھے پتہ ہے یہ آپ کیلئے ایکسپیٹ کرنا بے حد مشکل ہے لیکن یہ بہت ضروری ہے ان خراب حالات میں آپ کے لیے کسی کا مضبوط سہارا ہونا بے حد ضروری ہے اور آپ کے لیے مجھے سلطان سے بہتر سہارا کوئی نہیں لگا۔"


شمل خان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

امشال انکی بات پر آنسوؤں بہانے لگی۔

سلطان انکل سے نکاح یہ سوچ اسے شرمندہ کر رہی تھی تو وہ کیسے اس رشتے کو قبول کرتی جسے اس نے ہمیشہ اپنے انکل کی طرح سمجھا تھا ان سے کیسے وہ یہ رشتہ اس سے آگے سوچ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے یکدم سے اسکے لبوں سے ایک سسکی نکلی۔


تب ہی روم کا دروازہ کھول کر سلطان عالم شاہ اندر داخل ہوئے جنہیں دیکھ وہ بلکی اور تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور نرس کے سہارے باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی۔


سلطان عالم شاہ اسے خاموشی سے خود کو نظر انداز کرنے پر سمجھ گیا شمل خان نے اس سے ان دونوں کے نکاح کی بات کی ہوگی جو وہ اسے نظر انداز کر رہی تھی۔

وہ اسکے اس رویے پر بے بس نظروں سے اسے وہاں سے روتے ہوئے نرس کے سہارے جاتے ہوئے دیکھنے لگے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"امشال بے بی بہت بارش ہو رہی ہے آپ یہاں کیا کر رہی ہیں چلے اندر چلتے ہیں ورنہ آپ کو ٹھنڈ لگ جائے گی؟؟


سلطان جب اس کے روم میں آئے تو اسے وہاں نا پا کر وہ تیزی سے باہر نکلے اور سامنے سے آتی نرس سے اس کے بارے میں پوچھنے لگے۔نرس کے باہر کی جانب اشارہ کرنے پر وہ اسکی لاپرواہی پر اس نرس پر غصہ کرنے لگے۔

کیونکہ باہر بہت زیادہ طوفانی بارش ہو رہی تھیں۔ پریشانی سے باہر نکلے تو سامنے اسے بارش میں بھیگتے ہوئے دیکھ کر آگے بڑھے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر بولے۔


"تو لگنے دے ٹھنڈ مرنے دے مجھے سلطان انکل آپ سے نکاح کرنے سے بہتر ہے میں مر جاؤں۔"


وہ روتی ہوئی چیخ کر بولی۔

بارش کی وجہ سے وہ مکمل بھیک چکی تھی۔

اور سلطان عالم شاہ بھی اس وقت بھیک رہا تھا انہیں اس موسم سے شدید نفرت تھیں۔مگر پھر بھی وہ اس کی فکر میں بھیگ رہے تھے۔


"بے بی ایسا مت کہوں پلیز یہ موت کی باتیں مت کروں اگر اب میری زندگی میں اگر کوئی اور مجھ سے بچھڑ گیا نا تو میں اس بار ٹوٹوں گا نہیں بلکہ مر جاؤں گا۔"


انہوں نے تڑپ کر اسکے بھیگے چہرے کو پکڑتے ہوئے نم آواز میں کہا۔


"سلطان انکل میں ایسا کیا کروں سب کچھ ٹھیک ہو جائے ایسا کیا کروں کیسے منع کروں آغا جان کو نکاح سے کیوں کہ میں نے ہمشیہ آپکو صرف ایک انکل کی نظر سے دیکھا ہے بھلے آپ سے خون کا رشتہ نہیں ہے لیکن میں نے اپنے اور آپ کے درمیان ایک حترام کا رشتہ بنایا تھا اپنے اور آپ کے درمیان ایک اپنائیت کا مقام بنایا ہے۔پھر آپ بتائیں کیسے میں کوئی دوسرا رستہ قبول کروں۔؟؟


وہ اپنی نیلی سمندروں جیسی خوبصورت آنکھوں کو ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں میں ڈال کر بولی۔

سلطان عالم شاہ اس کی بات پر اپنے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹا کر اسے دھندلی نظروں سے دیکھنے لگے۔


"بے بی ہم چاہ کر بھی یہ حالات نہیں بدل سکتے اگر تم نے شمل کو مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا تو وہ ٹوٹ جائے گا اس کی حالت مزید بگڑے گی اور وہ ڈر کے مارے ان لوگوں کو سوچ کر اس راہ پر نکل جائے گا جس پر ہم اسے کبھی نہیں دیکھ سکتے ہیں تو منع مت کروں جو چل رہا ہے اسے چلنے دو۔"


سلطان کی بے بسی اس کے لہجے میں پنپ رہی تھیں۔

امشال انہیں ساکت نظروں سے دیکھنے لگی۔


"سلطان انکل ہمارا رشتہ بدلتے ہی سب کچھ بدل جائے گا۔ وہ پیار بھی بدل جائے گا جو میں آپ سے کرتی ہو۔ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہوگی ہم اس طرح محسوس نہیں کرے گے جس طرح ایک بھائی ایک تایا ایک باپ کی طرح میں پہلے آپکی موجودگی آپ کے قریب رہتے ہوئے محسوس کیا کرتی تھیں اگر یہ رشتہ ختم ہوگا تو میں اور آپ اجنبی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے پلیز سوچ لیں ورنہ آپ پچھتائے گے۔"


وہ انہیں ان باتوں کو سامنے لا کر جن سے انہیں آگے آنے والی زندگی میں مشکلات ہوگی آئینہ دیکھانے لگی تو وہ

ان سب باتوں کو سوچ کر اپنے سینے پر اٹھتے درد سے تڑپ کر رہ گئے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"آپ کا نکاح سلطان سرفراز عالم شاہ ولد سرفراز عالم شاہ سے سکا رائج الوقت پانچ لاکھ حق مہر کے عوض طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟"


وہ مولوی کی آواز پر سسک اٹھی۔

جنکو اس نے اپنے تایا کی طرح سمجھا تھا اپنا بڑا سمجھا تھا آج کن حالات میں وہ انہی کی زوجیت میں لکھ دی جا رہی تھی۔

یہ اس کے لیے اذیت سے کم نہیں تھا۔


"آپ کا نکاح سلطان سرفراز عالم شاہ ولد سرفراز عالم شاہ سے سکا رائج الوقت پانچ لاکھ حق مہر کے عوض طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟"


یہ لفظ اسے ہتھوڑے کی ضرب کی طرح اپنے اوپر پڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔

مولوی کے دوسری بار پوچھنے پر وہ اپنی سرخ آنکھوں کو اوپر اٹھا کر شمل خان کی جانب بے بس نظروں سے دیکھتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔

شمل خان کے اشارہ کرنے پر وہ نم آنکھوں سے سلطان عالم شاہ کی جانب دیکھنے لگی جو اس کی بے بس نظروں کو دیکھ نظریں چڑا کر رہ گئے۔


"قبول ہے۔"


بے بس نظروں سے وہ ان دونوں کو دیکھتی جو اسکے قریب تھے اس کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔

مگر اس وقت وہ دونوں اسے اجنبی لگے۔


کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔"


مولوی کے دوسری بار پوچھنے پر وہ سختی سے اپنی آنکھیں موند گئی۔


"قبول ہے۔"


وہ سسکیوں کا گلہ دبا کر بولی۔


"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔"


وہ آنکھیں بند کیے ان لمحوں کو اپنی آنکھوں کے آگے آتے ہوئے دیکھنے لگی سلطان کا اسکے سر پر ایک تایا ایک باپ کی طرح شفقت سے ہاتھ رکھنا

اسے ایک بیٹی کی طرح ٹریٹ کرنا سب کچھ اسکی نظروں کی اسکرین پر چل رہا تھا وہ ان لمحوں کو یاد کرتی بری طرح سے روتی ہوئی تیسری بار مولوی کے پوچھنے پر خود کا اور سلطان کا رشتہ بدل گئی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


نرس نے جب ان سے اس کے کھانے نا کھانے کی ضد کا بتایا تو وہ اسکے پاس چلے آئے آج وہ الگ رشتے سے اس کے پاس آئے تھے جھجک کے باوجود بھی وہ اسکی فکر میں اس کے قریب جا رہے تھے۔


"امشال بے بی یہ کیا حالت بنائی ہے آپ نے اٹھے اور کچھ کھا لیں۔"


وہ سامنے بیڈ پر خاموش لیٹی تھی۔

انہیں دیکھ کر بھی اس نے اپنی نظریں نہیں اٹھائی تو اسے اس طرح دیکھ وہ دل میں اٹھتی ٹھیسوں کو دبا کر اس کے پاس جا کر اسے کندھوں سے پکڑ کر اسے پکار اٹھے۔


"سلطان انکل یہ کیا ہوگیا مجھے صرف آپ انکل کی طرح اچھے لگتے تھے مجھے یہ رشتہ نہیں چاہیے مجھے اپنے وہی انکل چاہیے۔

جن سے میں اپنی ہر بات شئیر کیا کرتی تھی جب بھی میں آپ سے اپنی چھوٹی سی چھوٹی بات شئیر کرتی تھی نا تب مجھے اپنی مما کی یاد آتی تھی اب ایسا نہیں ہوگا یہ سوچ مجھے مارے ڈال رہی ہے۔"


امشال خان سلطان کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتی اسے پکار اٹھی۔


"شششش امشال مجھے پتہ ہے یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہے لیکن حالات نے ہم دونوں کو اس جگہ لاکھڑا کر دیا ہے۔

جس میں ہم صرف بے بس ہے۔مجھے بھی اچھا نہیں لگ رہا۔

لیکن میں مجبور ہوں۔اور ہمیں یہ سب ایکسپیٹ کرنے کیلئے تھوڑا وقت لگے گا۔لیکن یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔بس آپ مجھ سے پرومس کرے کے اب آپ مجھے کبھی انکل کہ کر نہیں بلائی گی۔"


سلطان عالم شاہ ضبط سے سرخ ہوتی آنکھیں اس پر سے ہٹاتے ہوئے بولے۔


"یہ بہت مشکل ہے۔"


امشال بلکتی ہوئی بولی۔


"مشکل میرے لیے بھی ہے مگر آہستہ آہستہ سب کچھ بدل جائے گا شاید ہم اس رشتے کو بھی قبول کرنے لگ جائے گے

اگر آپ کو یہ انکمٹربل لگ رہا ہے تو میں آپ کے پاس نہیں آؤں گا۔"


وہ اسے اٹھاتے ہوئے بولے۔


"نہیں آپ مجھ سے دور مت جائے آپ کے بغیر تو میں بلکل بھی نہیں رہ پاؤں گی آغا جان کے بعد آپ ہی تو میرے اپنے ہیں اگر آپ مجھ سے دور رہے گے میرے پاس نہیں آئیں گے تو میں اپنی ہر بات کس سے شئیر کروں گی۔؟؟


امشال انکی بات پر اٹھی اور اچانک سے انکے سینے سے لگ کر روتی ہوئی بولی۔


"کام ڈاؤن بے بی میں کئی نہیں جا رہا یہی ہوں۔"


پہلے بھی وہ اسی طرح اس سے گلے لگا کرتی تھی مگر اس بار انکا رشتہ الگ تھا پہلے کبھی انہیں اتنی جھجک اسکے قریب آنے پر محسوس نہیں ہوئی تھی جو اس وقت اسکے نازک وجود کو اپنے سے لگے ہوئے محسوس کرتے وہ اپنی پیشانی کو بھیگتے ہوئے محسوس کر سخت ہڑبڑا کر اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بولے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


پشاور کے اس چھوٹے سے گاؤں میں ہو رہی طوفانی بارش کی وجہ سے گاؤں کے لوگ ڈرے ہوئے تھے جبکہ مظفر خان شمل خان کے سوتیلے تایا کی حویلی میں مردانے میں گاؤں کے معزز بزرگوں کے ساتھ بیٹھے سردار مظفر خان کو یہ بارش کسی اور رخ پر سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔


"سردار یہ بارش تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اگر اسی طرح یہ ساری رات برستا رہا نہ تو ہماری سالوں کی محنت مٹی میں مل جائے گا۔"


گل خان نے پریشانی سے کہا۔


"مزمل خان۔"


مظفر خان جو سپاٹ چہرہ لیے گاؤں کے معزز بزرگوں کی باتیں سن رہے تھے انہوں نے سامنے کھڑے اپنے بڑے بیٹے کو پکارا۔


"جی آغا جان۔؟؟


مزمل خان ان کے قریب آ کر سر جھکاتے ہوئے بولا۔


"تم نے اس لڑکی کو بھی ختم کر دیا تھا نا اس کے خاندان کے باقی لوگوں کی طرح۔؟؟


سنجیدگی سے اس سے انہوں نے پوچھا۔

تو انکے سوال پر مزمل خان سخت گھبرا کر رہ گیا۔


"کیا ہوا تم خاموش کیوں ہیں۔کیا وہ بد بخت ابھی تک زندہ ہے۔؟؟


انہوں نے سخت نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے پوچھا۔


"جج۔جی آغا جان وہ ابھی تک زندہ ہے۔"


مزمل خان نے ڈرتے ہوئے کہا۔

تو اس کی بات سن کر مظفر خان غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔


"اسی لیے ہمارے سر پر اتنا بڑا طوفان اٹھا ہوا ہے وہ ہمارے خاندان اور اس گاؤں کے لیے ایک بد سایہ ہے جب تک اس کا سایہ ہمارے آس پاس ہے ہمارا گاؤں ہمارا گھر کبھی آباد نہیں رہے گا جاؤں ابھی اور اسی وقت اسے ڈھونڈ کر ختم کر دوں مزمل خان اس جیسی ڈائن کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔"


نفرت سے پکارتے ہوئے وہ اپنے بیٹے کو حکم دیتے ہوئے بولے۔

تو انکے حکم کو سن کر مزمل خان سخت گھبرا کر رہ گئے کیوں کہ اسکے اوپر ایک نہیں دو تلواریں تھیں ایک اسکا باپ اور دوسرا سلطان عالم شاہ اگر وہ اپنے باپ کی بات نہیں مانے گا تو وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا اور اگر وہ اس لڑکی کو مارنے جائے گا تو اسے سلطان عالم شاہ بھی نہیں چھوڑے گا۔

"فرجاد ایک گارڈ یہاں شمل خان کے کمرے کے باہر کھڑا کرنا اور ایک امشال کے کمرے کے باہر اگر اس بار کچھ ہوا تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔"


سلطان عالم شاہ اپنے اسی امپورٹڈ میٹنگ کے لیے جا رہے تھے جو حادثے کی وجہ سے وہ چھوڑ کر آئے تھے۔وہ ہاسپٹل میں اپنے دو تین گارڈز کو شمل خان اور امشال خان کی سیفٹی کے لیے انکے کمرے کے باہر کھڑا کر کے فرجاد کو سختی سے عدایت دے رہے تھے۔


"جی باس آپ بے فکر ہو کر میٹنگ اٹینڈ کرے یہاں میں دیکھ لوں گا۔"


فرجاد نے ان سے کہا۔


"اگر چھوٹی سی بھی غلطی ہوئی فرجاد میں نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔"


انہوں نے ترچھی نگاہوں سے فرجاد کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

فرجاد انکے اس طرح دیکھنے پر سخت ڈر کر رہ گیا۔


"نہیں باس کوئی غلطی نہیں ہوگی۔"


فرجاد نے سخت ہڑبڑاتے ہوئے کہا۔


"گڈ بوائے۔"


انہوں نے اسکے کندھے کو زور سے دباتے ہوئے اسے شاباشی دیتے ہوئے کہا۔

فرجاد انکے بھاری ہاتھ کو اپنے کندھے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے دیکھ اپنے کندھے کو ٹوٹتے ہوئے محسوس کرنے لگا۔


"تھینک یو باس۔"


فرجاد نے انکے پیچھے ہٹتے ہی اپنے کندھے کو پکڑتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتے ہوئے اسے کچھ بھی کیے بغیر شمل خان کے روم کی جانب بڑھیں۔


"کن سوچوں میں گم ہو شمل خان۔؟؟


وہ روم میں داخل ہوئے تو شمل خان کو کسی سوچ میں ڈوبے دیکھ وہ بیڈ کی جانب بڑھیں اور سامنے رکھی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ کر انہیں اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے بولے۔


"تمہاری اور ام کے درمیان بنے اس پاکیزہ رشتے کی سوچوں میں گم ہو۔"


شمل خان نے نظریں چھت کی جانب سے ہٹا کر سامنے بیٹھے سلطان عالم شاہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"کیوں ہمارے رشتے کے متعلق کیوں سوچ رہے ہوں اتنا مت سوچو ورنہ تمہاری حالت اور بھی زیادہ بگڑ جائے گی تم اس وقت صرف امشال کے بارے میں سوچو اگر تمہیں کچھ ہوگیا وہ ٹوٹ جائے گی۔"


انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔

شمل خان آج پہلی بار اسے غور سے اسے دیکھنے لگے خوبصورت سیاہ آنکھیں کھڑی مغرور ناک سیاہ سلکی بال اور سیاہ و سرمئی گھنی مونچھیں جو انہیں تیس سال سے کم عمر دکھا رہے تھے۔


"سلطان عالم شاہ اب تم مجھے حترام سے بلایا کروں اب تم میرے دوست کے ساتھ میرے داماد ہو۔"


شمل خان نے ماضی کی ایک بات کو سوچتے ہوئے مسکرا کر کہا۔


"ہوں تو اب یار سے تمہیں سسسر سمجھنا شروع کر

دو شمل خان تم یہ چاہتے ہو مگر میں یہ رشتہ ابھی ایکسپیٹ نہیں کر پا رہا ہوں وقت لگے گا جب میرے اندر وہ فیلنگ ڈیویلپ ہوگی نا تو تب میں تمہیں سسسر کی نظر سے ضرور دیکھوں گا ابھی تم یہ مجھ سے امید مت کرنا میں نے تمہاری بات صرف اپنی امشال بے بی کی سیفٹی کے لیے مانا ہیں۔"


انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔


"ہاں میں یہ کیسے بھول گیا کہ یہ رشتہ تو ایک سیفٹی زون ہے اگر ان جاہل لوگوں کے اندر تھوڑی سی عقل ہوتی تو آج سلطان نا تمہیں نا ہمیں اور نا ہی ام کو یہ دن دیکھنا پڑتا نا ہی یار تم اس طرح مجھ سے امشال سے نظریں چرا رہے ہوتے۔"


شمل خان نے نم آواز میں کہا۔

سلطان عالم شاہ اسکی بھاری آواز پر نظریں اوپر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگے جو بنا آواز کے رو رہے تھے۔


"پلیز شمل خان ان سب باتوں کو بھول جاؤ وہ گزری باتیں ہیں جنہیں سوچ کر کیوں خود کو جلا رہے ہو اور اپنی صحت کو خراب کر رہے ہو۔"


انہوں نے ایک ہاتھ سے انکا ایک ہاتھ پکڑا اور دوسرے سے انکے آنسوؤں کو صاف کرتے کہا۔

شمل خان انکی بات پر خود کو خوش قسمت سمجھنے لگے کیوں کہ اللہ نے ان کی زندگی میں سلطان کی صورت میں ایک مخلص دوست ایک مخلص بھائی بھیجا ہے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


مزمل خان ہاسپٹل کے باہر سلطان عامم شاہ پر نظر رکھے ہوئے تھا جب اس نے ہاسپٹل سے اسے فرجاد کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے دیکھا تو وہ اپنے ادمیوں کو اشارہ کرتے ہوئے ہاسپٹل کی جانب بڑھا۔


"اس لڑکی کو ڈھونڈو۔مجھے وہ ہر حال میں آج ہی چاہیے.ایک ایک کمرے کی تلاشی لو وہ آج بچنی نہیں چاہیے۔"


اپنے آدمیوں کو حکم دیتے ہوئے وہ خود بھی ہاسپٹل کے ایک ایک کمرے میں تلاشی لینے لگا۔


"خان وہ لڑکی یہاں نہیں ہے۔"


ایک آدمی نے سامنے کمرے میں دیکھا تو اسے وہاں امشال نہیں ملی تو وہ مزمل خان کے پاس آ کر بولا۔


"یہاں بھی نہیں ہے خان۔"


ایک اور آدمی نے کہا تو مزمل خان سخت پریشانی سے سامنے رکھی کرسی پر جا کر بیٹھا۔


"میرا دم گھٹ رہا ہے مجھے ٹیرس پر لیکر چلو۔"


امشال جو نرس کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف آ رہی تھی سامنے کرسی پر مزمل خان کو دیکھ وہ خوفزدہ ہو کر اس نرس کو وہاں سے چلنے کے لیے کہنے لگی۔


"اوکے میم۔"


نرس نے کہا۔

اور اسے پکڑتے ہوئے اسے لیے ٹیرس کی جانب والے راستے کی جانب بڑھی۔


"اسے ڈھونڈو اس سلطان نے ان دونوں باپ بیٹی کو اسی ہاسپٹل میں چھپایا ہے اگر وہ دونوں مجھے نہیں ملے تو میں تم سب کی جان لے لوں گا۔"


مزمل خان نے غصے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے سبھی آدمیوں کو دھمکاتے لہجے میں کہا۔

وہ امشال کی یہاں موجودگی نا پاکر ڈر و خوف کی وجہ سے نیم پاگل ہو گیا تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


مزمل خان دوسرے فلور پر جب اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا تو سامنے کھڑے دو گارڈز کو ایک کمرے کے دروازے پر کھڑے دیکھ کر وہ رک گیا۔


"یہی کمرہ ہے جس میں یا تو شمل خان ہوگا یا اسکی بیٹی۔"


مزمل خان نے کمینگی انداز میں مسکراتے ہوئے اپنے آدمیوں سے کہا۔


"لیکن خان ہم اندر کیسے جائے گے اس سلطان نے تو گارڈز کھڑے کر دیے ہیں۔؟؟


ایک آدمی نے گارڈز کی جانب دیکھتے ہوئے مزمل خان سے کہا۔


"ان کو راستے سے ہٹانا مزمل خان کے لیے حد آسان ہے۔"


مزمل خان نے کہا اور اپنا ریوالور نکال کر وہ ان دونوں گارڈز کی جانب بڑھا۔

انکے سروں پر ریوالور سے مار کر بیہوش کرکے وہ دروازہ کھول کر کمرے کے اندر داخل ہوا۔


"سلام چاچا جان۔"


کمرے میں داخل ہو کر وہ سامنے رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے کمینگی انداز میں شمل خان کو سلام کیا۔


"تم.!!

یہاں کیسے آئے۔؟؟


شمل خان مزمل خان کو دیکھ سخت گھبراتے ہوئے بولے۔


"دروازے سے چاچا جان۔"


دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزمل خان نے طنزیہ انداز میں کہا۔


"یہاں سے چلے جاؤ مزمل خان اگر تمہیں سلطان نے یہاں دیکھ لیا نا تو یہاں خون خرابہ ہو جائے گا اب میں کسی کا بھی خون بہتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ہوں تھک گیا تم لوگوں کی جاہلیت کو سہتے ہوئے۔"


شمل خان نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا۔


"جاہلیت قدر کے غصے کو بھی آپ جاہلیت کہوں گے چاچا جان آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں یہ خون خرابہ کس وجہ سے ہو رہا ہے۔اگر آپ اب اور خون بہاتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔تو اپنی بیٹی کو ہمارے حوالے کر دے تو یہ خون بہنا خودبخود بند ہو جائے گا۔"


مزمل خان نے شدید غصے سے سامنے رکھے ٹیبل پر فروٹ باسکٹ کو ہاتھ مار کر گراتے ہوئے غرا کر کہا۔


"وہ غصہ تم لوگوں کی جاہلیت کی وجہ سے ہیں اس وجہ سے نہیں جس وجہ کو وجہ بنا کر تم لوگوں نے میرے پورے خاندان کو مار ڈالا ہے میں اپنی بیٹی کو تم لوگوں کے حوالے نہیں کروں گا میں مر جاؤں گا لیکن اپنی بیٹی کو تم جیسے جاہل لوگوں کے ہاتھوں نہیں دوں گا۔"


شمل خان نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔


"ٹھیک ہے چاچا جان میں آپ کی یہ خواہش ابھی پورا کرتا ہوں۔"


مزمل خان نے انکے سر کے نیچے سے تکیہ نکالتے ہوئے سرد لہجے میں کہہ کر وہ تکیہ انکے پورے چہرے پر رکھ کر زور سے دبایا تو شمل خان تکیہ منہ ناک پر رکھنے کی وجہ سے اپنی سانسوں کو بند ہوتے ہوئے محسوس کرنے لگے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


امشال ٹیرس سے نیچے خوف کے مارے دیکھ رہی تھی وہ اس وقت چلا بھی نہیں سکتی تھی نرس کو اس نے نیچے اپنے آغا جان کے روم کی جانب بھیجا تھا۔

پتہ کرنے کے لیے اس وقت ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی وہ سردی اور خوف سے بری سے لرز رہی تھی۔


"پلیز آغا جان کی حفاظت کرنا اس دنیا میں آپ کے اور سلطان کے سوا کوئی نہیں ہے میرا آاپ انکی حفاظت کرنا اللہ۔"


وہ سیاہ بادلوں میں گرے آسمان کی طرف دیکھتی ہوئی رو کر کہنے لگی۔

لیکن شاید آج اسکی دعا کی قبولیت کی گھڑی نہیں تھی۔

آج قدر کا کچھ اور فیصلہ تھا۔


"امشال میم نیچے۔"


نرس نیچے سے ہانپتی ہوئی آئی تو گھبراتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔


"کک۔کیا ہوا ہے نیچے۔؟؟


امشال اسکی اڑی رنگت دیکھ کر سخت گھبراتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔


"وہ نیچے گارڈز بیہوش پڑے ہیں۔"


نرس نے کہا۔

تو نرس کی بات پر امشال کے چہرے کی رنگت اڑنے لگی۔


"گارڈ بیہوش پڑے ہیں آغا جان وہ کیسے ہیں تم نے انہیں دیکھا۔؟؟


وہ سخت پریشانی سے اپنے باپ کے بارے میں نرس سے پوچھنے لگی۔


"وہ کمرے کے باہر بڑی بڑی رائفل پکڑے لوگ کھڑے تھے اسی لیے میں وہاں نہیں گئی۔"


نرس نے ڈرتے ہوئے کہا۔


"اتنے بڑے ہاسپٹل میں رائفل پکڑے اتنے سارے لوگوں کو اندر آتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا کیا جو یہاں اتنی خاموشی ہے اس وقت دو جانوں کو خطرہ ہے اور تم لوگوں کا ہاسپٹل اسٹاپ چپ ہیں۔"


وہ شدید پریشانی سے نرس سے بولی۔


"امشال میم رات کے چار بچ رہے ہیں شاید کسی نے انہیں اندر آتے ہوئے نہ دیکھا ہوں آپ ٹینشن نہ کریں آپ ایک کام کریں میرے موبائیل سے سلطان سر کو فون کرے اور اس بارے میں انہیں بتائیں۔"


نرس نے اپنا موبائل اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔

تو اس نے جھپٹتے ہوئے اسکا موبائل فون لیا اور نم آنکھوں کو اسکرین پر مرکوز کر کے انکا نمبر ملا کر فون اپنے کان سے لگایا۔


"ہیلو کون۔؟؟


دوسری طرف انہوں نے ان نون نمبر دیکھ کر جلدی فون ریسیو کر لیا۔


"وہ لوگ سلطان وہ لوگ واپس آئے ہیں۔"


امشال دوسری طرف سلطان عالم شاہ کی آواز سنتی روتی ہوئی ان سے کہنے لگی۔


"اسٹاپ امشال رونا مت اور تم اس وقت کہاں ہوں اور آغا جان وہ ٹھیک تو ہے ناں۔؟؟


سلطان عالم شاہ جو میٹنگ روم سے باہر نکل رہا تھا اس کی بھیگی آواز سن کر وہ اسے رونے سے منع کرتے ہوئے کہنے لگے۔


"اس وقت میں ٹیرس میں چھپی ہو اور نرس نے کہا ہے آغا جان کے روم کے باہر کھڑے گارڈز وہ بیہوش ہے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آپ پلیز جلدی سے آ جائے وہ لوگ میرے آغا جان کو مار دے گے۔"


وہ روتی ہوئی بولی۔

سلطان اسکے رونے پر اپنے دل میں درد اٹھتے ہوئے محسوس کرنے لگے۔


"میں آ رہا ہوں امشال تم نیچے مت جانا وہی رہنا اور پلیز رونا مت بس دعا کرنا اس وقت دعا کی ضرورت ہے شمل خان کو وہ لوگ میری غیر موجودگی میں کچھ بھی کر سکتے ہیں اچھا میں فون رکھتا ہوں تم وہی رہنا نیچے مت جانا اوکے۔"


سلطان عالم شاہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔


"نن۔نہیں آپ فون مت رکھنا پلیز مجھ سے بات کرے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے اگر ان لوگوں نے ہمیں مار دیا تو۔؟؟


امشال نے تڑپتے ہوئے کہا۔

تو اسکی موت کا سن کر اپنے پورے وجود میں سنسنی خیز لہریں اٹھتی ہوئی محسوس کرنے لگے۔


"بے بر یو امشال کچھ نہیں ہوگا جب تک میں ہو نا وہ لوگ تم لوگوں کو میلی نگاہوں سے بھی دیکھنا پسند نہیں کرے گے۔"


وہ فون کان سے لگائے اس سے باتیں کرتے ہوئے اسے کنسول کرتے ہوئے بلڈنگ کی سیڑھیاں تیزی سے پھلانگ رہے تھے پریشانی انکے سفید خوبرو چہرے پر رقم تھا وہ جب بلڈنگ سے باہر نکلے تو اپنی گاڑی کی جانب بڑھے اور گاڑی اسٹارٹ کرکے روڈ پر ڈال کر آج زندگی میں پہلی بار فاسٹ ڈرائیونگ کرنے لگے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"فرجاد تم کہاں مر گئے تھے ہاں اگر شمل خان اور امشال کو کچھ ہوا نا تو میں ان لوگوں کو ختم کرنے سے پہلے تمہاری جان لے لوں گا۔"


وہ ہاسپٹل کے پاس اپنی گاڑی روک کر دروازہ کھول کر سامنے کھڑے پریشان فرجاد کی جانب بڑھیں اور اسے کالر سے پکڑ کر اس کے چہرے پر گھونسا مارتے ہوئے غراتے ہوئے بولے۔


"باس میں آپ کو باہر چھوڑنے گیا تھا تب یہ لوگ آئے تھے شاید۔"


فرجاد اسے پرانے والے سلطان کے روپ میں دیکھ سخت ڈرتے ہوئے بولا۔


"باس آپ اندر نہیں جا سکتے ان لوگوں نے دوسرا فلور اپنے قبضے میں کر لیا ہے انکی صرف ایک ڈیمانڈ ہے انہیں امشال میم چاہیے۔"


اسکی بات پر وہ اسے چھوڑ کر غصے سے ہاسپٹل کی جانب بڑھیں اس سے پہلے وہ اندر داخل ہوتے پیچھے سے فرجاد نے آکر انہیں پکڑتے ہوئے کہا۔


"تم مجھے روکوں گے تم۔"


اس کی بات سنے بغیر غصے سے انہوں نے مڑ کر اسکے پیٹ پر مکا مارتے ہوئے غراتے ہوئے کہا۔


"یس باس کیوں کہ اس وقت اندر خطرہ ہے اگر مجھے آپ کو روکنے کے لیے آپ سے لڑنا بھی پڑا نا تو میں آپ سے لڑوں گا لیکن آپ کو اندر جانے نہیں دوں گا۔"


فرجاد نے اب بنا ڈرے ان سے کہا۔


"خطرہ مجھے نہیں اندر موجود میرے دو عزیز لوگوں کو ہیں اور تم چاہتے ہو میں یہاں اس وقت انہیں اس حالت میں چھوڑ کر یہاں بیٹھ کر صرف تماشا دیکھوں ہٹوں سامنے سے میں اندر جاؤں گا انہیں اس وقت میری ضرورت ہے ۔"


انہوں نے فرجاد کو جو انکے آگے کھڑا تھا غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔


"سلطان۔"


تبھی اوپر ٹیرس سے امشال کی چیخ سن کر وہ دونوں اوپر سر اٹھا کر دیکھنے لگے جہاں مزمل خان امشال کو ہاسپٹل کی بلڈنگ کے نیچے کی جانب جھکائے سلطان عالم شاہ کی جانب فتح مندانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


"سلطان مجھے بچائے۔"


امشال نیچے جھکنے کی وجہ سے انہیں دیکھتی زور زورسے چیختی ہوئی کہنے لگی۔


"تو تم ہو دی گریٹ سلطان عالم شاہ۔مجھے لگا ایک دھم دار قسم کا انسان ہوگا یہ سلطان مگر تم تو ایک ڈرفوک قسم کے انسان نکلے دیکھوں اپنی آنکھیں کھول کر دیکھوں میں کیسے تمہارے سامنے اس ڈائن کو یہاں سے پھینکوں گا۔

اور میں دیکھتا ہوں دی گریٹ سلطان عالم شاہ آج ایک ساتھ کیسے بچاتا ہے ان دونوں باپ بیٹی کو۔

مجھے لگتا ہے چاچا اندر کمرے میں پھانسی لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کر رہا ہوگا یا پھر ہو سکتا ہے میری دھمکی نے انہیں خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا ہو اگر ایسا ہوا نا تو تمہارا پیارا دوست وہ تو مر جائے گا اور اگر تم اسے بچانے جاؤ گے تو میں اس چڑیل کو یہاں سے پھینک کر اپنے گاؤں کو اس بھلا سے نجات دلا دوں گا۔فیصلہ کر لو آج تم کسے بچانا چاہتے ہو اسے یا شمل خان کو۔؟؟


مزمل خان نے ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں بلند آواز میں کہا۔

سلطان عالم شاہ اسکی بات پر غصے سے اپنی مٹھیاں کھسنے لگا۔


"کر لیا میں نے فیصلہ کے آج مجھے کسی بچانا ہے اور کسے مارنا ہے۔"


سلطان عالم شاہ نے سخت نظروں سے اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہ کر اپنے قدم ہاسپٹل کے داخلی دروازے کی جانب بڑھائے۔

"چھوڑ دو امشال کو ورنہ تمہاری حالت ایسی کروں گا کتوں کو بھی تمہاری ہڈیاں نصیب نہیں ہوگی۔"


ٹیرس پر پہنچتے ہی انہوں نے شدید غصے سے مزمل خان کی جانب دیکھتے ہوئے برفیلے لہجے میں کہا۔


"دی گریٹ سلطان عالم شاہ تمہاری خواہش بہت مہنگی ہے سوچ لو کیوں کہ اگر میں نے اس ڈائن کو چھوڑ دیا تو تم ساری زندگی پچھتاؤں گے۔؟؟


مزمل خان امشال کو ٹیرس سے نیچے جھکا کر کھڑا تھا ان کی آواز پر پیچھے مڑا اور اسے طنزیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔


"تم ایسے نہیں مانوں گے نا کمینے انسان ٹھیک ہے۔میں تمہیں اپنے طریقے سے سمجھاتا ہوں۔"


سلطان عالم شاہ نے کہ کر اپنے قدم بنا خوف کے اس کی جانب بڑھائے۔


"آگے مت بڑھنا ورنہ میں گولی چلا لوں گا۔"


مزمل خان نے انہیں اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تو ڈر کے مارے اپنا ریوالور نکال کر امشال کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے انہیں دھمکاتے ہوئے بولا۔


"اگر تمہارے ریوالور سے ایک گولی بھی نکلی نہ تو میں تمہارے پورے جسم پر گولیوں کی برسات کروں گا۔"


سلطان عالم شاہ امشال کی کنپٹی پر رکھے ریوالور کو دیکھ غضب ناک لہجے میں بولے۔

مزمل خان نے اسکے قدموں کو اپنی جانب اسی طرح بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوف سے امشال کو دور دھکیل کر اس نے اپنے ریوالور کا رخ سلطان عالم شاہ کی جانب کیا۔


"سلطان عالم شاہ رک جاؤ ورنہ میں تم پر گولی چلا دوں گا۔"


مزمل خان اسکی قہر برساتی آنکھوں میں آگ کے شعلے دیکھ اپنے پورے وجود میں سنسنی خیز لہر دوڑتے ہوئے شدت سے محسوس کرنے لگا۔


"ٹھاہ۔۔""


سلطان عالم شاہ کے قدموں کو اس کی کھوکھلی دھمکیوں نے بھی نہیں روکا وہ اسی طرح چہرے پر سختی سجائے اس کی جانب بڑھ رہے تھے کہ تبھی خوف و دہشت کے مارے مزمل خان نے ان پر گولی چلا دی جو سیدھا جا کر انکے بائیں کندھے کو چھو کر گزری۔


"سلطان۔"


امشال جو مزمل خان کے دھکا دینے کی وجہ سے نیچے گری خوف سے ان دونوں کی جانب دیکھ رہی تھی سلطان کو گولی لگتے ہوئے دیکھ وہ تڑپ کر چیخی۔


سلطان عالم شاہ گولی لگنے کی وجہ سے وہ ایک لمحے کو ٹھہر گئے۔ مگر ان کے سر پر جو جنون سوار تھا اس جنون کی وجہ سے انہیں اس وقت بلکل بھی تکلیف کا احساس نہیں ہوا۔


اگر کوئی احساس انہیں پاگل کر رہا تھا تو وہ اس وقت تھا مزمل خان کی اپنے ہاتھوں جان لیوا موت جس نے انہیں خونخوار بنا دیا تھا وہ اپنے خون کو بہنے سے روکنے کے لیے اپنے کندھے کو سختی سے اپنے ایک ہاتھ سے دبا کر اپنے قدموں کو آگے کی جانب بڑھانے لگے۔


مزمل خان انہیں گولی لگنے کے باوجود بھی اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ بری طرح سے لرز اٹھا۔


"رک جاؤ سلطان ورنہ میں اب تمہاری کنپٹی پر نشانہ لگاؤں گا۔"


اور اپنی ریوالور کا رخ پھر سے انکی جانب کرتے ہوئے لرز کر کہنے لگا۔


"سلطان میں ٹھیک ہو۔آپ اپنے غصے پر قابو کرے۔

وو ورنہ بہت برا ہوگا۔اور آپکا خون بہت بہہ رہا ہے چلے نیچے چل کر کسی ڈاکٹر سے بینڈچ کراتے ہیں۔"


امشال مزمل خان کی بات پر ڈر کر اٹھی اور سلطان عالم شاہ کی جانب بھاگی اور انہیں پیچھے سے پکڑ کر روکتی ہوئی کہنے لگی جو غصے سے شعلا مکی بنے اپنی آگ برساتی آنکھوں سے مزمل کو گھور رہے تھے۔


"امشال نہیں جب تک میں اسے جان سے نہیں مارتا۔۔۔میں بینڈچ نہیں کرواؤں گا تم نیچے چلی جاؤ ہمیں اکیلا چھوڑ دو اس نے تمہیں ہاتھ لگا کر اچھا نہیں کیا ہے آج اس کی موت میرے ہی ہاتھوں لکھی ہے۔"


سلطان عالم شاہ نے غضب ناک نظروں سے مزمل خان کی جانب دیکھتے ہوئے امشال سے کہا۔


"نہیں میں نہیں جاؤ گی آپ کو لیے بغیر سمجھیں آپ۔میں اگر یہاں سے جاؤ گی تو آپ کے ساتھ جاؤ گی ورنہ میں یہاں سے ہلوں گی بھی نہیں سنا آپ نے سلطان۔"


امشال نے آگے آ کر انکے چوڑے سینے سے لگ کر ضدی لہجے میں کہا۔


"ضد مت کروں امشال چلی جاؤ نیچے۔"


انہوں نے اسے جدا کرتے ہوئے شدید غصے سے کہا۔


"میں نے کہا نہ میں آپکے ساتھ جاؤ گی تو آپ کے ساتھ ہی جاؤ گی گوٹ اٹ۔"


امشال انہیں بھی ضد کرتے ہوئے دیکھتی غصے سے انکے سینے پر مکا مارتے ہوئے آخر میں اپنا سر انکے چوڑے سینے پر رکھ کر بولی۔


"ٹھیک ہے تم پیچھے کھڑی ہو کر صرف تماشا دیکھوں میں تو آج اسے چھوڑنے والا نہیں ہو امشال ان لوگوں نے میرے محسن کے پورے خاندان کو ختم کیا ہے تو میں اپنے محسن کے لیے اتنا تو کر سکتا ہو۔

اسکے دشمنوں میں سے کسی ایک کا خاتمہ کرکے اسے سکون پہنچا سکتا ہو۔کیوں کہ مجھے اچھے سے پتہ ہے۔۔ شمل خان اور تم اپنے خاندان کے قاتلوں کے گلے میں پھانسی کا پھندا لگے دیکھنا چاہتے ہوں۔

میں تم دونوں کی خواہش آج پورا کروں گا اس کو پھانسی دے کر اور تم مجھے بلکل بھی نہیں روکوں گی۔"


انہوں نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے اسکے کندھوں کو سختی سے پکڑتے ہوئے غصے سے کہا اور پھر انہوں نے اپنے قدم مزمل خان کی جانب بڑھائے۔


مزمل خان جو کب سے خاموش کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا انہیں غضب ناک تیور لیے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر وہ ڈرتے ہوئے پیچھے کی طرف چلنے لگا۔


"تم اس لڑکی کے لیے ایک خونی بنوں گے سلطان عالم شاہ رک جاؤ یہ غلطی مت کرنا وہ بھی اس سیاہ قدم لڑکی کے لیے تم نہیں جانتے یہ بہت بڑی ڈائن ہے جب یہ پیدا ہوئی تھی تو پورے گاؤں میں آگ لگی تھی اور تو اور اپنے دادا اور دادی کو بھی کھا گئی تھی یہ اپنے پیدا ہوتے ہی اسے مت بچاؤ اسے مرنے دو ورنہ تم بھی اسکی سیاہ بختی کی لپیٹ میں آ جاؤں گے۔"


مزمل خان نے وہ سچائی اپنے منہ سے نکالی جسکا علم سلطان عالم شاہ کو نہیں تھا وہ یکدم سے ٹھہرے اور مڑ

کر امشال کی جانب دیکھنے لگے۔


"بد بخت میری امشال نہیں تم ہو کتے جو آج اپنی بدنصیبی کی وجہ سے اپنی موت میرے ہاتھوں آج کے دن لکھ کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔"


پھر ایک گہری سانس خارج کر کے پلٹے اور سرخ لہو چلکاتی نظروں سے مزمل خان کی جانب دیکھتے ہوئے آگے بڑھے اور زور سے اسکے منہ پر گھونسا مارتے ہوئے غرا کر بولے۔


"چھوڑ دیں سلطان اسے وہ مر جائے گا۔"


وہ سخت جنونی انداز میں اسے اپنی ٹھوکروں کی زد میں کیے بری طرح سے مار رہے تھے امشال جو منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں جنونی انداز میں مزمل خان کو پیٹتے ہوئے دیکھ رہی تھی مزمل خان کو بری طرح سے سانسیں لیتے ہوئے دیکھ وہ ڈر کر آگے بڑھی اور انہیں پیچھے سے پکڑ کر روتی ہوئی کہنے لگی۔


"کیسے چھوڑوں امشال اس نے تمہیں بد بخت کہا ہے۔"


انہوں نے اپنے پیٹ پر رکھے امشال کے نازک ہاتھوں پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھتے ہوئے اسکی جانب مڑے بغیر غصے سے ہاپنتے ہوئے کہا۔


"اسی وجہ سے تو یہ میرے پیچھے پڑے ہیں سلطان یہ کم عقل لوگ سمجھتے ہیں میں انکے لیے ان لکی ہو گاؤں میں یا حویلی میں جب بھی کوئی مصیبت آئے تو اسکی زمہ

دار یہ مجھ کو سمجھتے ہیں اسی لیے تو انہوں نے مجھے پروٹیک کرنے کی وجہ سے میری مورے لالہ اور چھوٹی بہن کو جان سے مار دیا ہے میں اور آغا جان ان سے اسی وجہ سے بھاگ رہے ہیں یہ مجھے اس گناہ کی سزا دینا چاہتے ہیں جو میں نے کیا ہی نہیں ہے۔"


امشال انکی پشت پر اپنا سر رکھ کر آنسوؤں بہاتی ہوئی اپنے اور اپنے آغا جان کی ان لوگوں سے چھپنے کی وجہ بتانے لگی۔

جسے سن کر سلطان عالم شاہ مزید بگڑ گیا۔

اس سے پہلے وہ مزمل خان کی جانب دوبارہ بڑھتا فرجاد کی آمد نے اسے انتہائی قدم سے روکا۔


"باس شمل سر وہ ۔؟؟


تبھی فرجاد گھبرایا سا وہاں آ کر سلطان عالم شاہ سے بولا۔


"فرجاد کیا ہوا شمل خان کو۔؟؟


سلطان عالم شاہ فرجاد کی گھبرائی آواز پر ہوش میں آتے ہوئے فرجاد کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے۔


"باس آپ نیچے چلے آپ کو خود پتہ چل جائے گا۔"


فرجاد نے نظریں نیچے جھکاتے ہوئے کہا۔

تو اسکی بات پر سلطان عالم شاہ نے امشال کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھا تو انکے پیچھے تیزی سے فرجاد بھی بڑھا۔

جبکہ پیچھے مزمل خان بری طرح پٹنے کی وجہ سے کراہ رہا تھا۔


🔥 🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


وہ تینوں شمل خان کے روم میں داخل ہوئے تو سامنے شمل خان کو ساکت و جامد بستر پر آنکھیں چھت کی جانب کیے دیکھ کر دروازے پر ہی وہ تینوں ساکت ہو کر رہ گئیں۔


"شمل خان دیکھو یار اگر مجھے اور امشال کو تنگ کرنے کے لیے تم یہ کر رہے ہو تو خدا کی قسم میں تمہاری جان لے لوں گا۔"


پہلے سلطان عالم شاہ کو ہوش آیا تو وہ لرزتے قدموں کے ساتھ اپنے یار اپنے ہر دکھ درد کے ساتھی اپنے دوست اپنے بھائی کے قریب جا کر ہاتھ آگے بڑھا کر انہیں ہلاتے ہوئے

انکو پکارنے لگے۔


"اٹھو شمل خان اٹھو ورنہ میں سچ میں تمہاری جان لے لوں گا تمھارا ابھی ایک حساب باقی ہے جو تمہیں مجھے دینا ہے اٹھو یار مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے کہ تم نے مجھے کیوں اجنبی سمجھا۔کک کیوں وہ بات مجھ سے چھپائی جس کی وجہ سے تم آج دربدر ہو کر امشال کے ساتھ گھوم رہے ہو کیوں مجھے اپنے یار کو تم نے اجنبی بنایا ہمممم کیوں جواب دوں مجھے کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا امشال آغا جان کو اٹھاؤ مجھے اس سے یہ پوچھنا ہے مجھے اس سے اس بارے میں لڑنا ہے.؟؟


انکی جانب سے کوئی ردعمل نا پاکر وہ انہیں بری طرح سے جھنجھوڑتے ہوئے چیخ کر کہنے لگے۔

امشال اپنے باپ کو ساکت دیکھ کر پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی سلطان کی چیخ پر وہ چونک کر انکی جانب دیکھنے لگی جو صدمے کی وجہ سے اپنے کندھے سے بہتے خون کی پرواہ کیے بغیر اپنے دوست کو بری طرح سے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پاگلوں کی طرح پکار رہا تھا۔


"آغا جان۔"


امشال آگے بڑھی اور سلطان کے دائیں جانب بیٹھ کر انہیں ہلاتی ہوئی بلانے لگی۔


"نہیں آغا جان نہیں آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے فرجاد جاؤ ڈاکٹر کو بلا کر لاؤں سلطان میرے آغا جان کو کچھ نہیں ہوگا وہ ٹھیک ہو جائے گے ابھی ڈاکٹر ا کر انکی ٹریٹمنٹ کریں گے تو وہ ٹھیک ہو جائے گے۔"


جب انکی جانب سے اسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ شدت سے چیختی ہوئی انہیں ہلاتی ہوئی کہنے لگی۔پھر مڑ کر چیخ چیخ کر روتے ہوئے سلطان کے چہرے کو پکڑ کر اپنی طرف کرتی ہوئی صدمے کی کیفیت میں ان سے کہنے لگی۔


"نہیں امشال وہ اب کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا وہ ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔"


سلطان عالم شاہ شمل خان کی خاموشی سے سمجھ چکے تھے کہ وہ ایک قیمتی شخص سے محروم ہو چکے ہیں وہ آج اس دنیا میں اکیلے ہو چکے ہیں انکا دوست انہیں چھوڑ کر خاموشی سے چلا گیا ہے۔

گولی لگنے کی وجہ سے اور خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اور اس گم کی وجہ سے وہ یہ کہ کر وہ امشال کے آگے گر گئے۔


"سلطان نہیں۔"


امشال اپنے سامنے انکے مضبوط وجود کو گرتے ہوئے دیکھ تڑپ کر تیزی سے انکے اوپر جھکتی ہوئی چیخ کر انکا نام پکارنے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"آہ۔ہ۔ہ۔"


رات کو جب انہیں ہوش آیا تو خود کو ہاسپٹل کے ایک روم میں پاکر وہ اٹھیں تو اپنے ہاتھ کی پشت پر ڈرپ لگے دیکھ وہ نیڈل کھینچ کر دور پھینک کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگے مگر کندھے پر اٹھتے ٹھیسوں کی وجہ سے وہ سخت کراہ کر اپنا سر تکیے پر رکھ گئے۔


"تھینکس گاڈ باس آپ کو ہوش آ گیا ورنہ آپ نہیں جانتے میں کتنا ڈر گیا تھا میں ابھی ڈاکٹر کو بلا لاتا ہوں۔"


فرجاد جو ہونگ رہا تھا انکی کراہت سن کر جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھول کر بیڈ کی جانب دیکھنے لگا تو انہیں تکیے پر سر رکھیں تکلیف سے کراہتے ہوئے دیکھ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور انکی جانب بڑھا۔

انکے پاس آ کر انہیں کہتے ہوئے وہ جب دروازے کی طرف بڑھا تو انہوں نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔


"امشال کہاں ہے اور شمل خان کے جنازے کی تیاری کی تم نے یا نہیں۔؟؟


وہ یہ کہتے ہوئے اپنے دل میں درد اٹھتے ہوئے شدت سے محسوس کر رہے تھے اور انکی آنکھوں سے آنسوؤں شمل خان کے چلے جانے کی وجہ سے بیہوشی کی حالت میں بھی بہہ رہے تھے۔


"وہ شمل سر کے جانے سے اور آپکے بہیوش ہونے کی وجہ سے صدمے کی وجہ سے آپکے بیہوش ہونے کے بعد بہیوش ہوگئی تھی اب وہ ٹھیک ہے ڈاکٹر نے انکا بھی ٹریٹمنٹ کیا ہے بس وہ ابھی ہوش میں نہیں آئی ہے۔"


فرجاد نے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"فرجاد مجھے ابھی اور اسی وقت امشال کے پاس لیکر چلوں وہ اس وقت اکیلی ہے اسے کسی اپنے کی ضرورت ہے اسے اس وقت کسی سہارے کی ضرورت ہے۔"


تو امشال کی بیہوشی کا سن کر وہ تڑپ اٹھیں اور تکیے سے سر اٹھا کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگے جب ان سے اٹھا نہیں گیا تو انہوں نے فرجاد کو حکم دیتے ہوئے کہا۔


"پر باس آپکی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے۔"


فرجاد نے پریشانی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔


"فرجاد مجھے غصہ مت دلاؤ ورنہ میں تمہیں جان سے مار دو گا اگر اسے کچھ ہوا نا تو نا ہی میں کبھی خود کو معاف کروں گا اور نا ہی تمہیں۔"


سرخ آنکھوں سے فرجاد کو گھورتے ہوئے وہ چلاتے ہوئے بولے۔

تو فرجاد انکے چلانے پر سخت ڈر کر آگے بڑھا اور انہیں کندھوں سے پکڑ کر اٹھانے لگا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


فرجاد انہیں ہاسپٹل میں بنے چھوٹے سے گارڈن میں لے کر آیا اور سامنے امشال کو نرس کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھ وہ اسی جانب بڑھا۔


"امشال۔"


امشال جو کھوئی کھوئی سی آگے بڑھ رہی تھی پاؤں کے نیچے پھتر آنے کی وجہ ٹھوکر لگنے کی وجہ سے وہ نیچے گری اسے نیچے گرے دیکھ سلطان عالم شاہ کے دل کو کچھ ہوا تو وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر اسے پکارتے ہوئے اسکی جانب تیزی سے بڑھیں۔


"امشال مائے ڈول تم ٹھیک تو ہو نا تمہیں چوٹ تو نہیں لگی ناں۔؟؟


انہوں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سخت پریشانی سے پوچھا تو امشال اپنی نظریں اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی۔

تبھی اسے ماضی کی ایک یاد شدت سے آئی تو وہ ماضی کی اسی یاد میں کھو کر رہ گئی۔


"امشال میری گڑیا آپ ٹھیک تو ہو نا۔؟؟


گیارہ سالہ امشال کو کھیلتے ہوئے دیکھ سلطان عالم شاہ مسکرا رہے تھے کہ تبھی اسے گرتے ہوئے دیکھ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھے اور اسکی طرف بھاگ کر اسے اپنی گود میں اٹھا کر پریشانی سے اسے چپ کرواتے ہوئے اس سے پوچھنے لگے۔


"سلطان میری گڑیا کو چوٹ تو نہیں لگی ہیں ناں۔؟؟


شمل خان جو لان میں رکھے چئیر پر بیٹھے چائے پی رہے تھے اپنی بیٹی کو گرتے ہوئے دیکھ وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی بیٹی کی جانب بھاگ کر سلطان سے پوچھنے لگے۔


"لگی ہے شمل یہ دیکھو اسے کھروچ آیا ہے چلو ہاسپٹل لیکر چلتے ہیں ورنہ انفیکشن ہو جائے گا۔"


سلطان عالم شاہ شمل خان سے زیادہ پریشانی سے امشال کی ٹانگ پر لگی چھوٹی سی کھروچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نم آواز سے بولے۔


"ارے اتنی سی چوٹ کے لیے ہاسپٹل والوں کو کیوں پریشان کرنا چاہتے ہو تم دونوں باپ اور انکل.؟؟


شمل خان کی بیوی ان دونوں کو پریشان دیکھ گاڑی کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھ ہنستی ہوئی ان دونوں سے کہنے لگی۔


"بھابھی چھوٹی سی کھروچ بھی سیو نہیں ہے ہماری گڑیا کے لیے ہمیں فوراً ہاسپٹل میں جا کر ٹریٹمنٹ کرنا پڑے گا ورنہ ہماری گڑیا کو بخار ہو جائے گا۔"


سلطان نے انکی جانب دیکھتے ہوئے سخت پریشانی سے کہا۔

شمل خان نے اپنی بیوی کی بات پر غور سے امشال کے ٹانگ کی جانب دیکھا تو چھوٹی سی کھروچ کو دیکھ وہ بھی مسکرانے لگے اور سلطان کی جانب دیکھنے لگے جو بلکل انکے لالہ جو انکے دشمنوں کی گولی لگنے کی وجہ سے اس دنیا سے چلے گئے تھے سلطان کو انکی طرح امشال کے فکر میں تڑپتے ہوئے دیکھ انکے آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔


"سلطان تم اسکی کئیر بلکل لالہ کی طرح کرتے ہوں میرے لالہ بھی بلکل میری امشال کا خیال تمہاری طرح رکھا کرتے تھے۔"


شمل خان نے اپنے لالہ کو یاد کرتے ہوئے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔


"تم روؤ مت میں اب سے شمل خان امشال کا اکیلے نہیں تمہارا بھی خیال ایک بڑے بھائی کی طرح رکھوں گا کیوں امشال بے بی ہم نے ٹھیک کہا ناں اب ہم آپ کے تایا اور آپ کے آغا جان کے لالہ بن گئے ہیں اب سے آپ دونوں مجھ سے ادب سے بات کرے گے اگر آپ دونوں نے مجھ سے بدتمیزی کی نا تو ہم آپ دونوں کو سزا بھی دے گے۔"


امشال انکی آواز پر ماضی کی یادوں سے نکل کر انکی جانب دیکھنے لگی جو انہیں پکار رہے تھے امشال انکی جانب دیکھتی ہوئی اپنے آغا جان کو یاد کرتی ہوئی انکے سینے سے لگ کر بری طرح سے رونے لگی۔۔


"آغا جان کیوں چلے گئے سلطان۔؟؟


وہ اسی طرح ان سے لگی روتی ہوئی بولی۔


"شششش خاموش امشال ہماری زندگی امانت ہے اس پاک ذات کی وہ جب چاہے ہمیں بلا سکتا ہے تم چپ ہو جاؤ میں ہو نا بس ان کے لیے تم دعا کرنا کے باقی کا سفر وہ آسانی سے طے کر سکے۔"


انہوں نے اسکی پشت پر ایک ہاتھ رکھ کر اور دوسرے سے اسکے سلکی بالوں پر پھیرتے ہوئے کہا ۔

درد تو انہیں بھی ہو رہا تھا لیکن وہ اس وقت صرف امشال کے لیے خود کو مضبوط بنائے ہوئے تھے اگر وہ ٹوٹ گئے تو امشال بھی جی نہیں پائے گی رو رو کر اپنا برا حال کر لیں گی۔

" تم یہاں کیوں آئے ہوں۔؟؟


سرفراز شاہ نے گھر کا دروازہ رات کے دس بجے کسی کے زور سے بچانے پر کھولا.

تو انہوں نے سامنے سلطان عالم شاہ کو کھڑے دیکھا تو شدید غصے سے بولیں۔


"آپ وہاں میرے پاس نہیں آ رہے تھے اسی لیے مجھے یہاں آنا پڑا اپنی ضد زرا کم کرے میں نے آپ کو وہاں صرف آپ کی، اماں سائیں اور اپنی چھوٹی بہن زہرا کی حفاظت کے لیے بلایا تھا اس وقت آپ سب خطرے میں ہے آپکی ضد کو اس بار میں نظر انداز کر رہا ہوں اور جب تک یہ خطرہ ہٹ نہیں جاتا میں یہاں سے نہیں جاؤں گا امشال آؤں میں تمہیں کمرہ دکھاتا ہوں۔"


سلطان عالم شاہ نے اپنے باپ کی طرف سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔

امشال جو انکے پیچھے چھپ کر کھڑی تھی انکے آواز دینے پر وہ سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔


"یہ کون ہے اور تمہارے ساتھ کیا کر رہی ہیں.؟؟


سرفراز شاہ کی نظریں پہلے اس پر نہیں پڑی تھی جب وہ سامنے آئی تو وہ حیرت سے سامنے کھڑی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھتے ہوئے اپنے بیٹے سے بولیں۔


"یہ میری بیوی ہے اور پوری دنیا کہتی ہے ایک اچھی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ زیادہ اچھی لگتی ہے اسی لیے یہ اس وقت میرے ساتھ کھڑی آپکو نظر آ رہی ہے۔"


انہوں نے اچانک سے امشال کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔

بیوی لفظ سن کر سرفراز عالم شاہ نے غور سے امشال کی جانب دیکھا۔


"اتنی چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے ہوئے تمہیں زرا سا بھی شرم نہیں آیا تھا اور اسکے ماں باپ کیا وہ اندھے تھے جو اپنی بیٹی کی شادی اسکے باپ کی عمر کے آدمی سے ان لوگوں نے کرایا ہے سہی کہتے ہیں دنیا والے دولت دیکھ کر انسان اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار ہو جاتا ہے۔"


انہوں نے اپنے بیٹے کو غصے سے گھورتے ہوئے کہ کر انہوں نے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھائے۔

سلطان عالم شاہ انکے باہر نکلتے ہی امشال کو کلائی سے پکڑ کر اپنے اس چھوٹے سے آبائی گھر کے چھت کی طرف جانے والی سیڑھیوں کی جانب بڑھے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ہم جب تک یہاں ہے ہمیں ایک روم ہی شئیر کرنا پڑے گا امشال۔"


اوپر اپنے روم میں اسے لا کر انہوں نے اپنا کوٹ اتارتے ہوئے کہا۔

امشال انکی بات پر انکی جانب ساکت نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"مگر ہم ایک روم کیسے شئیر کر سکتے ہیں۔"


انکی جانب آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھتی ہوئی وہ بولی۔

سلطان جو اپنا اور اسکا بیگ لینے نیچے جا رہے تھے اسکی بات پر وہ روکے اور مڑ کر اسے دیکھنے لگی جو اپنے ہاتھ مڑور رہی تھی۔


"امشال ہمارے لیے یہ رشتہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا اس دنیا میں بسے لوگوں کی نظروں میں ہے اگر ہم الگ الگ رہے گے تو میری فیملی کو لگے گا کہ میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے کیا تم اپنے سلطان کے لیے گھٹیا بد کردار ظالم انسان اس طرح کے لفظ سننا پسند کروں گی۔؟؟


انہوں نے آگے بڑھ کر اسے دونوں کندھوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔


"نہیں بلکل بھی نہیں مجھے یہ سب لفظ آپکے لیے اچھے نہیں لگے گے کیوں کہ آپ تو بہت ہی سویٹ ہے۔"


امشال کے لبوں پر آج تین دن بعد مسکراہٹ چمکی جسے دیکھ سلطان عالم شاہ نے اپنے دل میں راحت محسوس کیا۔


"اور تم بہت زیادہ کیوٹ ہو میری پیاری سی ڈول۔"


ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس کے گالوں کو کھینچتے ہوئے کہا۔


"آہہہ پلیز ایسا مت کریں اب میں وہ چھوٹی بچی نہیں رہی ہوں۔"


امشال نے چڑتے ہوئے کہا۔


"میں کار سے اپنا اور تمہارا بیگ لیکر آتا ہو۔"


اسکی بات پر آج انہوں نے غور سے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تو اسکے وجود میں وہ تبدیلی دیکھ جلدی سے اپنی نظروں کو اس پر سے ہٹا کر کہ کر تیزی سے روم سے باہر نکلے۔

جس بچی کو انہوں نے گود میں اٹھا کر کھلایا تھا آج وہ اسے ایک جوان دوشیزہ کے روپ میں دیکھ کر اپنے جذباتوں کی طوفان کو اٹھتے دیکھ سخت پریشان ہو گئے اور اپنے اندر مچی ہلچل سے وہ سخت ہڑبڑا اپنا اور اسکا بیگ چھوڑ کر گھر سے باہر نکل گئے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


وہ اس وقت کمرے میں خاموش بیٹھی تھی اسے پتہ بھی نہیں چلا کب سلطان کمرے میں داخل ہوا اور کب اس کے قریب آ کر بیٹھا۔

وہ اپنے آغا جان اپنی مورے لالہ اور چھوٹی بہن کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی چونکی تب جب سلطان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔


"مجھے پتہ ہے تمہارے لیے اب اپنوں کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے لیکن امشال یہ زندگی چلے جانے والے لوگوں کے ساتھ تو ختم نہیں ہوتی یہ زندہ رہنے والوں کے ساتھ چلتی ہیں میرا خیال ہے اب تمہیں اپنے فیوچر کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"


سلطان نے اسکے چہرے کو پکڑتے ہوئے اسے پیار سے سمجھایا۔

امشال انکی بات پر انکی جانب دیکھنے لگی۔


"میرا فیوچر میری فیملی سے جڑا تھا لیکن ان ظالم لوگوں نے میرے فیوچر کو تباہ کر دیا اب میں کیسے

جیو بولیں سلطان میں اب ان سب کے بغیر کیسے جیو جو میرے لیے خاص تھے جو میرے اپنے تھے میرے درد پر تڑپنے والے میری خوشی میں شریک ہونے والے میرے اپنے ماں باپ بہن بھائی۔"


وہ انکے سینے سے لگ کر روتی ہوئی بولی۔

سلطان عالم شاہ اپنی شرٹ پر اسکے آنسوؤں گرنے کی وجہ سے اپنے دل کو شدت سے ڈھرکتے ہوئے محسوس کرنے لگے۔

اس کی نزدیکی نے آج انہیں ایک الگ احساس سے روشناس کرایا وہ اسکے اپنے سینے سے لگ کر کھڑی ہونے کی وجہ سے اسکے سینے میں ڈھرکتے دل کی دھڑکنوں کو صاف طور پر محسوس کر سکتا تھا۔


"امشال میں جلد ان سب کو ختم کر دو گا۔جہنوں نے تمہیں رولانے کی غلطی کی ہے۔۔اور میرے دوست کو جان سے مارا ہے میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں ان سب لوگوں کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"


انہوں نے اسے الگ کرتے ہوئے اسکے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہ کر اپنے دل کی بات پر پورے استحقاق سے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیئے۔


"آپ کا تو خون بہہ رہا ہے۔"


امشال کو انکا یہ بدلا بدلا رویے بلکل بھی محسوس نہیں ہوا وہ انکے سفید شرٹ کی آستین پر لگے انکے خون کو پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔


"ہوں میں ابھی فرجاد سے کہ کر اپنی بینڈچ چھینج کرواتا ہوں۔"


انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔


"آئے میں آپکی بینڈچ چھینج کرتی ہو۔"


تو امشال نے انہیں روکنے کے لیے انکا ہاتھ پکڑا۔


"تم۔؟؟


سلطان عالم شاہ جو پہلے سے ہی اس الگ فیلنگز سے پریشان ہو رہے تھے اسکے اس آفر پر سخت ہڑبڑا کر بولے۔


"جی."


امشال نے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"تم رہنے دو میں فرجاد سے کہتا ہوں۔"


انہوں نے نظریں چراتے ہوئے اسے منع کرتے ہوئے کہا۔


"آپ مجھ سے نظریں کیوں چرا رہے ہیں کیا میں اب آپ کے لیے وہ گڑیا نہیں رہی جس کے ساتھ آپ خوش رہتے تھے ہنستے تھے اب ایسا کیا ہوگیا ہے جو آپ مجھ سے نظریں بھی ملانے سے ڈر رہے ہیں۔"


امشال انہیں نظریں چراتے ہوئے دیکھ روتی ہوئی بولی۔


"وہ ہمارا فاسٹ تھا امشال۔"


انہوں نے ضبط سے کہا۔

امشال انکی بات پر اپنی جگہ سے اٹھی تو اسکے اٹھنے کی وجہ سے اسکا شال نیچے جا گرا جس کی وجہ سے اسکا نازک حسین وجود اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت انکے سامنے اجاگر ہوگیا۔

وہ اسکا نازک سراپا دیکھ ہکا بکا رہ گئے۔

جس لڑکی کو وہ پہلے بچی کی نظر سے دیکھتے آ رہے تھے آج پاکیزہ رشتے کی وجہ سے وہ اس بچی کو اس نظر سے دیکھنے سے خود کو روک نہیں پا رہے تھے جو ایک مرد ایک عورت کو دیکھتا ہے۔


"آپ اس طرح کیوں کھڑے ہیں آپ ٹھیک تو ہے ناں۔۔؟؟


انکی نظروں کے پیام سے امشال انجان آگے بڑھی اور انکے سینے پر اپنا نازک ہاتھ رکھ کر انکو ساکت و جامد کھڑے دیکھ کر انہیں ہلا ہلا کر اپنی جانب متوجہ کرنے لگی۔

وہ اسکے قریب آنے پر بغور اسکے چہرے کے خدو خال کو آج پہلی بار ایک بچی کی نہیں ایک عورت کی طرح سمجھ کر دیکھنے لگے۔

انکی نظریں اب چہرے سے نیچے اسکی صراحی دار شفاف گردن پر آکر ٹھہر گیا تو اسکی سفید خوبصورت گردن کو دیکھ انکے دل نے شدت سے خواہش کی اسکی گردن پر اپنا گرم شدتوں بھرا لمس چھورنے کی وہ اپنی اس خواہش پر ضبط کے گھونٹ پی کر نظریں گردن سے نیچے کی حسین وادیوں کی جانب بڑھانے لگے تبھی انہیں اپنے دل کے قریب اسکا نازک ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تو وہ بری طرح سے چونکے اور سامنے کھڑی اپنی بدلی بدلی امشال کو دیکھنے لگے۔


"ہاں کیا کہ رہے ہو تم۔؟؟


وہ کھوئے کھوئے سے اس سے پوچھنے لگے۔


"میں نے پوچھا آپ ٹھیک تو ہے ناں۔"


امشال ان کی عجیب انداز پر ان سے انکی خیریت پھر سے پوچھنے لگی۔


"ہاں میں ٹھیک ہو مجھے کیا ہونا ہے۔"


انہوں نے اپنی فیلنگز چھپاتے ہوئے سخت گھبرا کر امشال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔

امشال انکی پیشانی پر پسینے کی بوندوں کو دیکھ کر انکے مزید قریب ہو کر اپنے دوپٹے سے انکی پیشانی کو صاف کرنے لگی وہ اس کے نزدیک آنے پر خودبخود اپنی آنکھیں بند کر گئے اور بے خیالی میں انہوں نے جھٹکے سے اسے اپنے قریب کر اپنے ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد باندھ کر وہ اسکی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگے۔

امشال انکے اس طرح جھٹکے سے اپنی کمر پکڑنے پر بھی انکی فیلنگز کو سمجھ نہیں سکی۔

انہیں جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنی آنکھیں کھول کر اسے خود سے الگ کیا اور اسے وہی اکیلا چھوڑ کر وہ تیزی سے روم سے باہر نکلے۔

پیچھے امشال حیرت سے اسے باہر نکلتے ہوئے دیکھنے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


رات کے بارہ بجے جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو گھر میں مکمل اندھیرا دیکھ وہ خاموشی سے کچن کی جانب بڑھے۔


"اماں سائیں آپ میری وجہ سے اتنی دیر تک جاگ رہی ہے۔"


کچن میں اماں سائیں کو دیکھ وہ خوشی سے انکے قریب گئے مگر انکی خوشی اس وقت مانند پڑ گئی جب وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے کچن سے خاموشی سے باہر نکلی۔


"مجھے پتہ ہے اماں سائیں آپ مجھ سے اسی طرح محبت کرتی ہیں جس طرح پہلے کرتی تھی اس بات کا ثبوت یہ گرم کھانا ہے۔"


سامنے ٹیبل پر رکھے باؤل میں سالن اور ہاٹ پاٹ میں رکھی روٹیوں کو دیکھ کر آگے بڑھے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے نم آواز میں کہتے ہوئے سامنے رکھی پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے ہاٹ پاٹ سے روٹی نکال کر ایک نوالہ بنا کر اپنے منہ میں رکھتے ہوئے کھانے لگے۔


کھانا کھانے کے بعد وہ پلیٹ دھو کر کچن سے باہر نکلے اور اوپر چھت پر بنے اپنے روم کی جانب بڑھے۔


جب روم میں داخل ہوئے تو اسے بیڈ پر بنا روم کی لائٹ آف کیے سوتے ہوئے دیکھا تو وہ مسکرا کر رہ گئے۔

اور پھر بنا آواز پیدا کیے وہ سوئچ بورڈ کی جانب بڑھے اور لائٹ آف کر کے روم میں نائٹ بلب جلا کر اسی خاموشی سے انہوں نے اپنے قدم واشروم کی جانب فریش ہونے کے ارادے سے بڑھائے۔


جب وہ واشروم سے فریش ہو کر بیڈ پر آ کر اس کی دوسری سائیڈ پر لیٹے تبھی اسی لمحے امشال نے کروٹ بدلی تو نائٹ بلب کی روشنی میں اس کے گہرے گلے سے نظر آتے منظر کو دیکھ وہ جیسے سانس لینا بھول گئے۔


وہ اِس حسین منظر میں ایسے کھوئے کہ اپنے دماغ میں چلتے خیالوں کو روک نا سکے اور سامنے حسین سراپے کے جال میں خود کو اس قدر دھنستے ہوئے بھی محسوس نہ کر سکے۔


اس سے پہلے وہ کوئی گستاخی کرتے انکے دماغ کے کسی کونے سے انکے دوست شمل خان کی وہ بات گونجی جو اس نے اپنے مرنے سے ایک دن پہلے ان سے کی تھی۔شمل خان کی اس بات نے انہیں ہوش کی دنیا میں لا کر تڑپایا تو وہ ہوش میں آتے ہی اپنی جگہ سے گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور امشال کی جانب دیکھے بغیر بیڈ سے نیچے اترے اور چہرے پر آئے پسینے کو صاف کرتے ہوئے وہ تیزی سے روم سے باہر نکلے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


ساری رات اسی بات کو سوچتے ہوئے انہوں نے گزار دی کے وہ کیسے ایسی رومانی باتیں خیالات ان کے دماغ میں اس کے لیے کیوں آ رہی ہیں جسے وہ صرف ایک بچی کی نظر سے دیکھتے آ رہے تھے۔

ابھی بھی وہ سگریٹ لبوں سے لگائے خود سے لڑ رہے تھے کہ کسی نے آ کر انکے لبوں میں دبے سگریٹ کو ہاتھ لگا کر نیچے گرایا۔


"یہ کیا حرکت۔"


وہ غصے سے اس انسان کی جانب مڑے جس نے یہ کام کرکے انکی سوچ میں خلل پیدا کرکے انہیں شدید غصہ میں مبتلا کر دیا۔

مگر سامنے امشال کو پا کر انکا غصہ یکدم سے برف کی طرح پگھل گیا۔اپنا غصہ یکدم سے غائب ہونے پر وہ شدید حیرت کی زد میں رہ گئے۔


"یہ سوال تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہیے سلطان کے یہ کیا حرکت ہے۔؟؟


امشال نے غصے سے سگریٹ انکی جانب کرتے ہوئے کہا۔

جبکہ وہ اسے بیویوں کی طرح ڈانٹتے ہوئے دیکھ کر مسکرانے لگے۔


" کیا میں آپ سے مزاق کر رہی ہو جو آپ مسکرا رہے ہیں۔؟آپکا دماغ اپنی جگہ پر ہے آپ کو پتہ بھی ہے ٹی وی پر اشتہاروں میں بھی دکھاتے ہیں کہ یہ چیز ایک ہتھیار سے کم نہیں ہے پھر بھی آپ اسے روز اپنی غذا کی طرح لیتے ہیں۔"


امشال انکے مسکرانے پر سخت غصے سے انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔


"پہلے یہ دماغ مجھ سے لڑ رہا تھا اسی لیے اپنی جگہ پر نہیں تھا لیکن اس وقت تمہیں بیویوں کی طرح مجھ پر حق جتاتے ہوئے دیکھ کر اب اپنی جگہ پر آ گیا ہے۔"


انہوں نے زومعنی لہجے میں کہا۔


"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں.؟


انکی زومعنی بات امشال کو سمجھ نہیں آئی تو وہ نا سمجھی سے انکی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


"کچھ نہیں تم جاؤ نیچے ڈائننگ ہال میں میں ابھی آتا ہو فریش ہو کر نیچے تمہارے پاس۔"


انہوں نے اپنے جذبات اس سے چھپاتے ہوئے کہا۔


"میں نیچے آپکے ساتھ جاؤ گی مجھے آپکے بابا سائیں سے بہت ڈر لگتا ہے کیسے وہ ہمیں کل رات کو گھور رہے تھے جیسے ہمیں کچا چبا لیں گے۔؟؟


وہ انکی جانب دیکھتی ہوئی جھرجھری لیتی ہوئی بولی۔

تو اسکی بات پر وہ قہقہہ لگا اٹھے۔


"میں ہو نا اپنی پیاری امشال کے ساتھ وہ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کچھ نہیں کہیں گے انکا غصہ صرف میرے لیے ہیں کیوں کہ بہت پیار کرتے ہیں نا وہ مجھ سے۔"


انہوں نے اسے کندھوں سے پکڑتے ہوئے کہا۔

امشال انکی بات پر مسکراتی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔


"چندہ مجھے نیچے سے میڈیکل باکس لاکر دینا۔"


امشال واشروم میں فریش ہونے کے لیے گئی تھی وہ اپنا بینڈچ چھینج کرنے کے لیے نیچے میڈیکل باکس لینے کے لیے روم سے باہر نکلے تو سامنے اپنی بہن کو سامنے لگے تار پر سے خشک دھلے ہوئے کپڑے اتارتے ہوئے دیکھ وہ اس سے بولے۔


"وہ ادا سائیں آپ کے روم میں الماری میں رکھا ہے۔"


زہرا بتول نے نظریں نیچے جھکا کر کہا۔


"چندہ آج تمہارا یونی ورسٹی میں پہلا دن ہے ناں۔۔؟؟


وہ آگے بڑھ کر اسکے جھکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھنے لگے۔


"جی ادا سائیں پر آپ کو کیسے پتہ چلا۔"


زہرا بتول نے حیرت سے کہ کر انکی جانب دیکھا۔


"چندہ مجھے اپنی فیملی کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے تم بس اپنی پڑھائی پر دھیان رکھنا باقی سب پر تمہارا ادا سائیں دھیان رکھیں گا۔"


انہوں نے ابکے سنجیدگی سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

زہرا بتول انکی بات پر انہیں حیرت سے دیکھنے لگی تبھی امشال سفید کپڑوں میں ملبوس روم سے باہر نکلی تو سامنے سلطان کو اپنی بہن سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ وہ بھی انکی جانب بڑھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


یونی ورسٹی کی چھت پر کھڑے اِس یونی کے مہشور گروپ کے سات نوجوانوں کو سپورٹس بائیک پر بیٹھے دیکھ کر نیچے کھڑے سبھی اسٹوڈنٹس کے دل زور زور سے ڈھرک رہے تھے۔


"مریم یہ کیا ہو رہا ہے۔؟؟


زہرا بتول کا آج اس یونی میں پہلا دن تھا وہ یونی کے گراؤنڈ میں لگی اسٹوڈنٹس کی بھیڑ اور اوپر چھت پر بائیک پر بیٹھے نوجوانوں کی جانب حیرت سے دیکھتی ہوئی اپنی دوست مریم سے پوچھنے لگی۔


"زہرا یہ ہماری یونی ورسٹی کے شان ہے یہ روز کچھ

نہ کچھ ایڈونچر کرتے رہتے ہیں آج بھی انہیں کوئی ایڈونچر کرنے کا دل کیا ہوگا۔"


"لیکن یہ تو خطرہ ہے ان میں سے اگر کوئی گر گیا تو۔"


زہرا بتول نے ساتوں خربرو نوجوان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"تو وہ اس گروپ سے فائر ہو جائے گا کیوں کہ اس گروپ کے ایڈ کو اپنے گروپ میں کمزور لوگ بلکل بھی پسند نہیں ہے تمہیں پتہ ہے انکا ایک اور ممبر بھی تھا جسے اس گروپ کے ایڈ نے صرف اس لیے نکالا کیوں کہ وہ پیار میں پڑ گیا تھا۔"


مریم کی بات پر حیرت سے زہرا بتول نے اس کی جانب دیکھا۔


"مطلب کس کے پیار میں پڑ گیا تھا وہ ممبر۔"


زہرا بتول نے کہا۔


"یونی کی سب سے خوبصورت لڑکی کے اور وہ لڑکی اس گروپ کے ایڈ کی دیوانی تھی اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے اس ممبر کے ساتھ پیار کا ناٹک کیا مگر پتہ ہے زہرا اس کی دال نہیں گلی تھی کیوں کہ زیرون راجپوت گرلز الرجک ہے اسے لڑکیوں سے سخت نفرت ہے جب اسے پتہ چلا اسکا ممبر کسی لڑکی کے ساتھ ہے تو اسنے اسے اسی وقت فائر کر دیا اب وہ ممبر بہت بڑا دشمن ہے زیرون راجپوت کا اب انکے درمیان صرف وار ہوتا ہے۔"


مریم کی بات پر زہرا بتول نے چھت کی جانب دیکھا ان ساتوں خربرو نوجوان میں سے صرف ایک نوجوان سیاہ سپورٹس کپڑوں میں ملبوس تھا باقی سب سفید کپڑوں میں ملبوس تھے۔

زہرا بتول بزنس ڈیپارٹمنٹ کے لڑکوں کو رینکنگ کرتے ہوئے دیکھتی سخت گھبرا کر وہاں سے جانے کے لیے پلٹی تبھی پیچھے سے آتے چٹان نما شخص سے بری طرح سے ٹکرا گئی۔


"وہاٹ دا ہیل تم دیکھ کر چل نہیں سکتی۔"


مقابل کے غصے سے کہنے پر زہرا بتول نے جب اپنی لمبی مڑی ہوئی پلکوں کو اوپر اٹھا کر مقابل کی جانب دیکھا تو سامنے کھڑا شخص نقاب سے جھانکتی اس کی خوبصورت سیاہ آنکھوں کے سحر میں کھو سا گیا غصے سے پہلے جو پیشانی پر بل نمودار ہوئے تھے۔

وہ ان سیاہ جھیل جیسی خوبصورت آنکھوں کے حسین وادیوں میں کھو کر اب غائب ہوگئے تھے۔


"معاف کرنا میں جان بوجھ کر آپ سے نہیں ٹکرائی تھی یہ میری گھبراہٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔"


مقابل اسکی نرم مدھم آواز پر بری طرح سے چونکا۔


"اٹس اوکے۔"


وہ اسکی بات پر نرمی سے بولا۔

اسے کسی لڑکی کے ساتھ نرمی سے بات کرتے ہوئے دیکھ اسکے ساتھ کھڑے اسکے گروپ کے سبھی لڑکے اس گھمنڈی

اکڑو انسان کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگے۔


"لو تم یہاں ہو اور میں تمہیں پوری یونی میں پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہی ہوں زہرا بتول۔"مریم مقابل شخص کو دیکھے بغیر بولتی ہوئی وہاں آئی۔


"یہ زیرون راجپوت یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔"اسکی نظریں سامنے کھڑے شخص پر جب پڑی تو وہ سخت ڈر کر زہرا بتول کو پکڑ کر سائیڈ پر لیجاتی ہوئی اس سے آہستگی سے پوچھنے لگی۔


"تو زہرا بتول نام ہے اس کا۔"


زیرون راجپوت اسکے سامنے سے ہٹنے پر بڑبڑا کر بولا۔

پھر اپنے چہرے کے تاثرات ہمیشہ کی طرح سخت کرتا وہ اپنے گروپ کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔


"وہ میں رینکنگ کے ڈر سے جب یہاں سے جانے کے لیے مڑی تو میں اس سے ٹکرائی مریم شکر ہے تم آ گئی یار مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"


"کیا وہ شخص زیرون راجپوت تو نہیں ہے جس سے میری بہادر اور شریف دوست ڈر گئی ہیں۔"


مریم نے شریر لہجے میں کہا۔


"مریم میں بھلا کیوں اس عام انسان سے ڈروں گی وہ اتنا خطرناک بھی نہیں ہے جو میں اس سے ڈروں گی تم بھی نہ یار۔"


اس نے مریم کو گھورتے ہوئے کہا۔


"یار وہ بہت بڑا خطرناک انسان ہے اس سے دور ہی رہنا ورنہ وہ کسی جن کی طرح چمٹ کر تمہیں زور ڈرائے گا۔"


مریم نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔

زہرا بتول اسکی بات کو اگنور کر کے اپنے قدم آگے بڑھانے لگی۔


دوسری طرف زیرون راجپوت اپنے گروپ کے ساتھ اپنے پرسنل روم جو یونی ورسٹی میں انہوں نے ایک کلاس کو خالی کروا کر خاص کر اپنے لیے بنایا تھا وہ وہاں آتے ہی اپنے مخصوص جگہ پر جا کر بیٹھا اور خاموشی سے سگریٹ لبوں سے لگا کر کچھ دیر پہلے ہوئے حادثے کو سوچنے لگا۔


زہرا بتول اس کے خیالوں میں بار بار اس لیے دستک دے رہی تھی کیوں کہ وہ پہلی لڑکی تھی جس سے اسے انسیکیور فیل نہیں ہوا تھا۔


زیرون راجپوت کی یہی انسیکیور اب زہرا بتول کی زندگی میں کوئی بھیانک طوفان لانے والا تھا۔

اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آگے اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"تمہارا بھائی اس شمل خان کو اور اسکی بیٹی کو مارنے گیا ہے اب تک لوٹا نہیں ہے اور تم یہاں کچھ کرنے کے بجائے کھانا کھا رہے ہو خوشحال خان۔"


کھانے کی میز پر خوشحال خان خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا کہ غصے سے اسکے باپ نے وہاں آ کر اسکے آگے رکھی پلیٹ کو ہاتھ مار کر گراتے ہوئے گرج کر کہا۔


"میں آپ لوگوں کے فضول بات پر کسی معصوم کی جان کیوں لو ڈیڈ جب آپ جانتے ہیں کہ آپ غلط ہے پھر کیوں بھیجا آپ نے لالہ کو ہممممم۔اور آپ مجھ سے اس بیوقوفی کی امید ہر گز مت کرئیے گا کہ میں بھی آپ لوگوں کی طرح بن کر کسی معصوم کی زندگی کے ساتھ کھلیوں گا۔ ؟؟


خوشحال خان نے سنجیدگی سے کہ کر سامنے رکھیں ڈونگے سے اپنے لیے سالن نکالا اور انکی جانب دیکھے بغیر دوبارہ سے کھانا کھانے لگا۔


"تمہیں پڑھا لکھا کر میں نے بہت بڑا گناہ کر دیا ہے خوشحال خان۔"


انہوں نے شدید غصے سے کہا۔


"ڈیڈ گناہ نہیں ثواب کا کام کیا ہے آپ نے مجھے پڑھا لکھا کر اٹلیس میں آپ سب کی طرح اجڈ تو نہیں ہو۔"


خوشحال خان نے طنزیہ لہجے میں کہا۔


"تم اپنے باپ کو اجڈ کہ رہے ہوں ۔"


انہوں نے شدید غصے سے کہا۔


"نہیں ڈیڈ میں تو ان دیواروں کو کہ رہا ہوں میری مجال کہا جو میں ایک اندھے ایک فضول بات کو لیکر اپنے ہی خاندان کو ختم کرنے والے بیوقوف انسان کو یہ خطاب کیسے دے سکتا ہوں اب میں چلتا ہوں کل میرا یونی ورسٹی میں پہلا لیکچر ہے جو مجھے ہر حال میں اٹینڈ کرنا ہے۔"


خوشحال خان نے اپنے ازلی بے نیاز لہجے میں ان سے کہا اور کرسی سے اٹھ کر خاموشی سے انکی بات سنے بغیر ڈائننگ ہال سے باہر نکلا۔


"تم میرے سب سے بڑے نالائق بیٹے ہو یاد رکھنا اگر میرے مزمل کو کچھ ہوا نا تو میں تمہاری جان لے لوں گا خوشحالے۔"


اسے جاتے ہوئے دیکھ وہ غصے سے اسے زور زور سے پیچھے سے سنانے لگے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"بھابھی سائیں آپ اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے ادا سائیں کیا وہ آفس سے ابھی تک نہیں آئے ہیں۔؟؟


رات کے گیارہ بجے زہرا بتول جو چھت پر مریم سے لیکچر کے بارے میں پوچھنے کے لیے اسے کال کرنے کے لیے آئی تو سامنے کرسی پر امشال کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر وہ اسکے قریب آ کر اس سے پوچھنے لگی۔


"ہاں وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں زہرا تم کھڑی کیوں ہو آؤ یہاں بیٹھو۔"


امشال نے کہہ کر اسے دوسری کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔


"بھابھی سائیں آپ سے ایک بات پوچھوں۔؟؟


زہرا بتول نے جھجکتے ہوئے اس سے پوچھا۔


"ہاں پوچھو۔"


امشال نے آگے جھک کر اسکے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔


"کیا ادا سائیں نے آپ سے زبردستی نکاح کیا ہے۔؟


زہرا بتول اسکی نرمی پر پر سکون ہو کر اس سے یہ سوال پوچھ بیٹھی۔


"نہیں انہوں نے مجھ سے کوئی زبردستی نہیں کی تھی بس ہماری قسمت میں ایسا لکھا تھا۔"


امشال نے نرمی سے کہا۔


"تو انہوں نے آپکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی ہے پھر آپ اس طرح کیوں ہے اجڑی اجڑی سی نا کوئی ہار سنگھار نا ہی آپکے چہرے پر کوئی خوشی بھابھی سائیں ایسا کیوں ہے آپ کو تو خوش ہونا چاہیے ادا سائیں کے لیے تھوڑا سا میک اپ کرنا چاہیے اپنے کپڑوں کو دیکھے اگر اس طرح آپ کرے گی تو ادا سائیں آپکے ہاتھ سے نکل جائے گے وہ کوئی چور راستہ چنے گے جب انہیں آپکی طرف سے پیار نہیں ملے گا تو وہ آپ سے بہت دور چلے جائیں گے۔"


زہرا بتول نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

امشال اسکی بات پر غور کرنے لگی اور پھر اسی رخ پر سوچنے پر مجبور ہوگئی زہرا بتول اسے خاموش دیکھ اپنی جگہ سے اٹھی اور اسے وہاں اکیلا چھوڑ کر نیچے چلی گئی۔


امشال کو جب ہوش آیا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے اور سلطان کے روم میں جا کر شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو دیکھنے لگی۔


"بھابھی سائیں یہ ان میں سے کوئی پہن کر اچھے سے تیار ہو کر آج رات ادا سائیں کو سرپرائز دے وہ آپ کو اس طرح دیکھ کر بہت خوش ہو جائے گے۔"


وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے سوگوار میک اپ سے پاک چہرے کی جانب دیکھنے لگی وہ شیشے میں اپنے چہرے کو چھو کر دیکھ رہی تھی تبھی زہرا بتول کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھنے لگی جو ہاتھ میں میک اپ باکس اور ایک بلیک رنگ کی ساڑھی اور سرخ رنگ کا خوبصورت سادہ فراک پکڑے کھڑی اس سے کہہ رہی تھی۔


" تھینکس۔"


وہ مسکرا کر اسکے ہاتھ سے کپڑے لے کر سامنے بیڈ پر رکھتی ہوئی بولی ۔


"مجھے شکریہ نہیں چاہیے مجھے پھپھو کہنے والی والا چاہیے بھابھی سائیں۔"


زہرا بتول نے شرارت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"زہرا۔"


امشال اسکی شرارت سے کہنے پر سرخ ہوتی اسے گھور کر بولی زہرا بتول اسکے شرم سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی ہنستی ہوئی وہاں سے بھاگی۔


امشال اسکے وہاں سے جاتے ہی سامنے بیڈ پر رکھے کپڑوں کو دیکھنے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


سلطان عالم شاہ روم میں داخل ہو کر اسے بنا دیکھے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھے اور اپنی گھڑی نکال کر وہ پیچھے مڑے تو سانس لینا بھول گئے کیوں کہ وہ سامنے کھڑی انکے ہوش اڑا رہی تھی اپنے سرخ فراک میں ملبوس بے حد حسین سراپے کے جادو سے امشال

انہیں ساکت کھڑے دیکھ مسکرا کر آگے بڑھی اور انکے پاس سے گزر کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بالوں کو آگے کر کے اپنے گیلے بالوں کو خشک کرنے لگی۔


سلطان عالم شاہ اسکے ہٹنے پر چونکے اور پیچھے مڑ کر اسے دیکھنے لگے جو شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں کو آگے کی طرف کیے اپنے لمبے بالوں کو تاول کی مدد سے خشک کر رہی تھی۔


"لگتا ہے میری چھوٹی دنیا آج میری جان لیکر رہے گی۔"


اسکے بلا کے حسین سراپے کو نظروں کی گرفت میں لیکر وہ بڑبڑائے تبھی انکی نظریں اسکی پشت پر اسکی کھلی ہوئی ڈوریوں پر پڑی تو وہ اپنے قدم اس حسین پری کی جانب بڑھانے سے روک نہ سکے۔


"سلطان اس طرح کیوں میرے قریب آ رہے ہیں پیچھے ہو جائے۔"


امشال جو اپنے بال ہئیر ڈرائر سے خشک کر رہی تھی انہیں اپنے قریب آتے ہوئے دیکھتی وہ پیچھے پلٹی تو انکے قریب آنے کی وجہ سے وہ پیچھے قد آور شیشے سے جا لگی۔


"شششش کچھ مت کہوں۔"


سلطان عالم شاہ نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھ کر اسے خاموش کروایا اور پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر جھٹکے سے اسکا رخ بدل کر اسکو شیشے سے انہوں نے لگایا۔

امشال انکی اس حرکت پر سختی سے اپنی آنکھیں میچ گئی۔


وہ اسے سرخ رنگ میں دیکھ اپنا سب کچھ اس ایک لمحے میں کھو گئے تھے اپنا ضبط توڑ کر وہ بے خودی کے عالم میں اپنے سرد لبوں کو اسکی سفید مرمری بے داغ پشت پر رکھ کر اپنی آنکھیں موند گئے تھے اور یہ عمل کرتے ہوئے انکی آنکھوں سے آنسوؤں قطار کی صورت بہہ کر انکی مونچھوں میں جزب ہو رہے تھے۔


"آہ سلطان پلیز نہیں۔"


امشال اب انکے سرد لبوں کو اپنی پشت پر محسوس کر وہ سسک کر بولی۔

سلطان عالم شاہ اسکی سسکی اسکی بات سنے بغیر اپنے سرد لبوں کو اوپر کی جانب لیجانے لگے امشال انکی اس گستاخی پر بلکی۔


تبھی وہ بری طرح سے چونکے تو اسے بری طرح سے لرزتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے خود کو کوسا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اسکی فراک کی ڈوریوں کو باندھ کر اسکا رخ اپنی طرف کیا۔

تو اسکے سرخ چہرے کی طرف دیکھ کر وہ مسکرا کر رہ گئے۔


"امشال کبھی بھی ایسا مت کرنا ورنہ میں وہ بات بھول جاؤ گا جس نے مجھے اب تک باندھا کر رکھا ہوا ہے۔"


انہوں نے کوئی گستاخی کرنے کے ڈر سے اسکے لرزتے سرخ لپ اسٹک سے سجے خوبصورت لبوں پر سے اپنی نظریں ہٹاتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا اور اسے وہی اکیلا چھوڑ کر تیزی سے باہر نکلے۔

کیوں کہ کچھ دیر اگر وہ وہی کھڑے رہیں نا تو اپنا کنٹرول کھو کر وہ اسکے ساتھ کچھ کر گزر جاتے اور ایسا ہوگیا تو وہ امشال کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے گر جاتے جو انہیں کبھی منظور نہیں تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


وہ اپنے کمپنی کے دوسرے برانچ کے آفس میں بیٹھے امشال کے متعلق سوچ رہے تھے آج انکا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔

انکے دل و دماغ میں صرف امشال چل رہی تھی۔

انکی سپورٹس کار بنانے کی کمپنی تھی انہیں ایک سپورٹس کار بنانے کا پروجیکٹ ملا تھا کار تو مکمل طور پر تیار ہو چکا تھا بس اسکے ایڈ کے لیے ایک ماڈل کا انٹرویو لینے وہ آج اپنے اس برانچ میں موجود تھے۔


"ہائے ڈارلنگ کیسے ہو تم۔؟

اور کیا یہ تم میرے خیالوں میں کھوئے ہوئے ہوں۔؟؟؟


وہ امشال کے خیالوں میں اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ روم میں نیلم شاہ کی آمد کو محسوس نہ کر سکے۔


نیلم شاہ اسے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھ شریر انداز میں مسکرائی اور پھر ایک ادا سے اپنے براؤن ڈائے کیے سلکی بالوں کو پیچھے جھٹک کر آگے بڑھی اور اسکے قریب آ کر اسکے اوپر جھک کر اپنے ہونٹ اسکے گالوں پر رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔


"نیلم شاہ تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی اور تم یہاں میرے آفس میں کیا کر رہی ہو۔؟؟


سلطان عالم شاہ اپنے سامنے نیلم شاہ کو دیکھ شدید غصے سے غراتے ہوئے بولے۔

امشال جو انکے لیے پیار سے کھانا لیکر آئی تھی انہیں دینے کے لیے جب وہ انکے آفس روم میں داخل ہوئی تو انہیں کسی اور کی باہوں میں دیکھ اسکی آنکھوں سے یکدم سے آنسوؤں بہنے لگے۔


نیلم شاہ دروازے پر اسے دیکھ چکی تھیں۔اور اسکی آنکھوں میں درد اعتبار ٹوٹنے کی کرچیاں دیکھ کر وہ سمجھ چکی تھی کہ سلطان کی وہ کیا لگتی ہے۔


وہ ضدی امیر زادی جو یونی کے زمانے سے سلطان کی دیوانی تھی تو بھلا کیسے اسے کسی اور کا ہونے دیتی وہ جلن کے احساس سے انکے گالوں پر اپنے لب رکھ کر اپنی سرخ آنکھوں سے پیچھے دروازے پر کھڑی امشال کو فتح مندانہ نظروں سے دیکھنے لگی۔


"تمہارے بلانے پر ہی تو میں یہاں آئی ہو سلطان ڈارلنگ کل رات تم نے مجھے کال کر کے بلایا تھا تم اتنی جلدی کیسے بھول گئے۔"


نیلم شاہ انکے چہرے پر ایک ادا سے اپنا ہاتھ سے لکیر کھینچتے ہوئے بولی

تو اسکی حرکت پر وہ اسے خود سے دور کرتے پیچھے مڑے تو سامنے امشال کو دیکھ وہ ساکت رہ گئے پھر اسکے آنسوؤں کو دیکھ وہ تڑپ کر آگے بڑھیں تو امشال انکو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھتی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخوں کا گلہ گھونٹ کر انکے روم سے باہر نکلی۔


"امشال ششش ڈونٹ کرائنگ پہلے میری بات تو سنو پھر تمہیں جو سزا دینا ہیں مجھے میں جی جان سے حاضر ہو۔"


وہ اسے آفس کے ایک روم میں لا کر اسے صوفے پر بیٹھاتے ہوئے اسکے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے بولے۔


"وہ سب کیا تھا اور وہ لڑکی کون تھی اور آپکے اتنے قریب کیوں تھی۔؟؟


وہ ہچکیوں کے درمیان ان سے بولی۔


"میری کیوٹ سی چھوٹی دنیا جیلس ہو رہی ہے وہ بھی اس لڑکی سے جس سے میں دنیا میں سب سے زیادہ نفرت کرتا ہوں سو انٹرسٹنگ۔"


انہوں نے اسکی سرخ چھوٹی سی ناک کو پکڑتے ہوئے معنی خیزی سے کہا۔


"شٹ اپ میں جیلس نہیں ہو رہی بس مجھے اس وقت آپ پر بہت غصہ آ رہا ہے اس کی ہمت کیسے ہوئی آپ کو چھومنے کی میں اسے نہیں چھوڑوں گی۔"


وہ غصے سے انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔

وہ جیلس ہو رہی تھی لیکن اسے غصے کی وجہ سے اس بات کا پتہ نہیں چل رہا تھا جبکہ سلطان اچھے سے جانتا تھا کہ وہ کیوں جیلس ہو رہی ہیں۔


"تو تم مجھے چھوم لو جاناں تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔"


اسکے دل میں بھی انکے لیے دلفریب احساس پیدا ہونے لگ گیا ہے اسے یہ سب احساس کرانے کے لیے انہوں نے یکدم سے اسے کمر سے پکڑ کر صوفے سے اٹھایا اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا۔


"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں اور یہ اس طرح آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہیں چھوڑیں مجھے سلطان۔"


امشال انکے اچانک سے اس طرح پکڑنے پر شرم سے سرخ ہوتی سخت سٹپٹا کے خود کو انکی باہوں سے چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔


"تمہیں شرم آ رہی ہیں تو ڈارلنگ یہ نیک کام کو کیا میں انجام دوں۔؟؟


انہوں نے اس کے سرخ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے جزبوں کی آنچ میں جلتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔


"یہ آپ کو آج ہو کیا گیا ہے آپ یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔؟؟


امشال اپنی ڈھرکنوں کو انکی نزدیکیوں سے تیز ہوتے ہوئے شدت سے محسوس کر رہی تھی تبھی وہ انہیں اپنے چہرے پر جھکتے ہوئے دیکھ وہ سٹپٹا کے انکے سینے پر ہاتھ رکھ کر انہیں خود سے دور کرتی ہوئی بولی۔


"میری چھوٹی دنیا تم بھی جلد سمجھ جاؤ گی کہ یہ مجھے ہو کیا گیا ہے میں تمہارے ساتھ اس طرح بے ہیو کیوں کر رہا ہوں۔"


انہوں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہ کر اچانک وہ کیا جس کی خواہش وہ دو راتوں سے اپنے دل میں دبا کر اپنے خواہش کے ادھورے ہونے کی وجہ سے جل رہے تھے۔

امشال انکی سانسوں کی مہک اپنی سانسوں میں گلتے ہوئے محسوس کر پھٹی آنکھوں سے انکو دیکھنے لگی۔

جو اسکے لبوں کے کناروں کو چھو کر اب اسکی ٹھوڈی کو پیار سے چھو کر اسے پیچھے آرام سے صوفے پر لٹا کر اسکے دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر رکھ کر اسکے چہرے پر جھکے اتنے دنوں اپنے کنٹرول کرنے کی وجہ اس پر اپنی شدتیں لٹا کر اسے بتا رہے تھے کہ وہ کتنا تڑپے تھے اسکی قربت کو پانے کے لیے جو وہ اسکی مرضی کے بغیر کبھی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

اس وقت وہ اسکی خاموشی کو اسکی خودسپردگی سمجھ کر اس پر اپنی شدتیں لٹا رہے تھے۔


جبکہ امشال کی خاموشی اسکی خودسپردگی نہیں بلکہ وہ شاکڈ تھا جو سلطان عالم شاہ کو اس روپ میں دیکھ کر اسے لگا تھا۔


وہ آنکھیں پھاڑ کر انہیں گستاخیاں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی جو اب اسکے گلے سے اسکا دوپٹہ نکال کر اسکی گردن پر اپنا گرم لمس کا اسے شدت سے احساس کرا رہے تھے۔


نیلم شاہ جو سلطان کو امشال کا ہاتھ پکڑ کر اسے

اس روم میں لیجاتے ہوئے دیکھ چکی تھیں۔

وہ تجسّس اور جلن کی وجہ سے انکے پیچھے بڑھی اور چھپ کر انکی باتیں سننے لگی۔

لیکن جب اس نے سلطان کو امشال کے چہرے پر جھکتے ہوئے دیکھا تو وہ جل کر غصے و نفرت سے امشال کی جانب دیکھتی ہوئی اپنی مٹھیاں کھسنے لگی۔

"سس۔سلطان آپ کو کوئی کام نہیں ہے کیا۔؟؟

سلطان عالم شاہ کی اس آفس روم میں بڑھتی گستاخیوں سے سخت ہڑبڑا کر امشال انکے چوڑے سینے پر اپنے ہاتھ رکھ کر انکو خود سے دور کرتی اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی بولی۔

"ہیں ناں اور اس وقت میں وہی کر رہا ہوں۔"

سلطان عالم شاہ نے یہ کہ کر اسے کمر سے پکڑ کر اپنے سے قریب کیا اور ہلکے سے اسکے خوبصورت نرم لبوں پر اپنے لب رکھ دئیے۔امشال انکی بےباکیت پر سخت سٹپٹا کے رہ گئی۔

"کہاں آپ کام کر رہے ہیں مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔؟؟

امشال انکی جانب دیکھتی ہوئی حیرت سے پوچھنے لگی۔

"میں اس وقت اپنی چھوٹی دنیا کے ساتھ رومینس والی جاب کر تو رہا ہوں اگر میری چھوٹی دنیا کچھ اور دیکھنا چاہتی ہے تو آج پوری رات آفس کے اس پرائیویٹ روم میں میں اپنی چھوٹی دنیا کو وہ دیکھانے کے لیے تیار ہوں جو وہ دیکھنا چاہتی۔"

سلطان عالم شاہ نے اپنی مخمور نظریں اسکے گلابی لبوں پر گاڑتے ہوئے بھاری گھمبیر آواز میں کہ کر اسکی گردن پر اپنے لب رکھ کر اسے تھوڑا سا اوپر اٹھا کر اپنا ہاتھ پیچھے لیجا کر اسکی فراک کی زپ کو کھولا امشال انکے زپ کھلولنے کے بعد اپنی پشت پر انکی انگلیوں کو شرارت کرتے ہوئے شدت سے محسوس کر بری طرح سے لرزی۔

"میں نے یہ تو کرنے کو نہیں کہا آپ سے سس۔سلطان۔"

امشال اپنے شولڈر سے فراک کو ہٹتے ہوئے محسوس کر تڑپتی ہوئی اپنا ہاتھ اپنے شولڈر پر رکھ کر بولی۔

"یہ تم کیا کہ رہی ہو میری چھوٹی دنیا ابھی تو تم نے اس کی خواہش کا اظہار کیا ہے میرے سامنے تو تم مکر کیسے سکتی ہو ڈارلنگ اب وہی ہوگا جسکا تم نے مجھے کرنے کو کہا ہے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے تم نے سچے دل سے تو میں یہ لمحہ کیسے جانے دے سکتا ہوں۔"

وہ صوفے سے اٹھے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہ کے وہ اسکی سانسوں کو اپنی سانسوں کی مہک سے سجانے لگے۔

مدہوشی میں اپنی شدتیں اس پر لٹا رہے تھے۔امشال اپنی فراک نیچے ہونے کے ڈر سے اپنے شولڈر پر ہاتھ رکھے انکی شدتوں پر اپنی ڈھرکنوں کو سست چلتے ہوئے محسوس کر یکدم سے اپنے دونوں ہاتھ انکے شولڈر پر رکھ گئی جس کے نیتجے میں اسکی فراک پھسل کر تھوڑی سی نیچے ہوگئی۔

جس کا علم جب اسے ہوا تو وہ تڑپ کر ایک ہاتھ سے اپنی فراک سنبھالنے لگی۔

اچانک سے اسے انہوں نے اسے پیچھے دیوار سے لگایا اور پھر اسکے دونوں ہاتھ اوپر دیوار سے لگائے جس کی وجہ سے اسکی فراک تھوڑی سی سرک کر نیچے ہوگئی۔

تو اسکی فراک تھوڑی سی نیچے ہونے پر انکے سامنے اسکی  سفید مرمری شولڈر کا حسین منظر جگمگایا جسے دیکھ وہ مزید مدہوش ہوگئے۔

اور بے خود ہو کر وہ اسکے نازک شولڈر پر اپنے لب رکھ کر نیچے کی طرف لیجانے لگے۔امشال انکی لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کر شدت سے اپنی آنکھیں میچ گئی تھی۔جبکہ وہ اس وقت اس پر اپنی شدتیں لٹاتے ہوئے اپنے آس پاس کو تو جیسے بھول چکے تھے اور یاد تھا تو صرف وہ پیچھے دیوار سے لگی اپنی پہلی اور آخری محبت جسے وہ اپنی عشق کی بارش میں بھگو رہے تھے۔

"کس کی ہمت ہوئی مجھے اس وقت ڈسٹرب کرنے کی۔" 

وہ مزید آگے کچھ کرتے تبھی کسی نے زور دروازے پر دستک دیا جس کی وجہ سے وہ سخت بدمزہ ہو کر اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹے۔

امشال تو اس شخص کو ڈھیر ساری دعائیں دینے لگی جس نے اس وقت آ کر اسے بچا لیا وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھیں انکی جانب نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

وہ ابھی اس رشتے کو قبول کرنے کیلئے بلکل بھی ذہنی طور سے تیار نہیں تھی۔

سلطان کے بدلے روپ کو دو راتوں سے دیکھ کر اس وقت ان کے آفس میں ان سے اسی متعلق بات کرنے آئی تھی۔کیوں کہ وہ ابھی یہ سب ہونے سے پہلے ان سے کچھ وقت مانگنا چاہتی  ہیں۔تاکہ وہ سچے دل سے اس رشتے کو قبول کرنے کیلئے خود کو ذہنی طور پر راضی کر لیں۔

وہ اس وقت انکی گستاخیوں سے سخت ڈر گئی تھی انکے باہر جاتے ہی وہ اپنی فراک درست کرتی اٹھی اور اپنا دوپٹہ اچھے سے اوڑھ کر تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ تھوڑا سا کھول کر باہر دیکھنے لگی۔

تو انہیں وہاں نا پاکر خدا کا شکر ادا کرتی تیزی سے روم سے باہر نکلی۔ان سے دور رہنے کیلئے جلدی گھر کی طرف روانہ ہوگئی تھی۔

تاکہ انکے آنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو ان سے بچانے کیلئے کچھ کر سکے۔ خود کو انہیں اتنی آسانی سے سونپنے نہیں دے گی کیوں کہ وہ جب تک اپنے دل میں وہ مقام انہیں نہیں دے گی تب تک وہ انہیں اپنے آس پاس بھی آنے نہیں دے گی۔

دوسری طرف سلطان عالم شاہ دروازے کے باہر فرجاد کو دیکھ اسے اپنے آفس کی جانب آنے کا کہ کر غصے سے اپنے آفس کی جانب بڑھا۔

"فرجاد تم نے اچھا نہیں کیا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔"

روم میں جب فرجاد کو آتے ہوئے دیکھ کر سلطان نے سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

"باس میں نے کیا کیا ہے جو آپ مجھ پر اتنا غصہ کر رہے ہیں میں تو آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ اس مزمل خان کا اب کیا کرنا ہے وہ اتنے دنوں سے ہماری قید میں ہیں۔؟؟

فرجاد نے انکی جانب دیکھتے ہوئے گھبرا کر کہا۔

"فرجاد تم نے بہت بڑا گناہ کیا ہے ایک شوہر کو اسکی بیوی سے دور کر کے کتنا اچھا وقت گزار رہا تھا میں اپنی چھوٹی دنیا کے ساتھ اور تم نے آ کر سب خراب

 کر دیا۔"

انہوں نے اسکی بات کو اگنور کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔

"ہوں یہ تو میں نے بہت بڑا گناہ کر دیا باس اس گناہ کی سزا کیا ہے میں تیار ہو اس سزا کے لیے۔"

فرجاد نے انکی جانب شریر نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"فلحال تو میں تمہیں بخش رہا ہوں کیوں کہ تم ضروری کام کی وجہ سے آئے تھے اگر اگلی بار تم اس طرح آئے تو میں ضروری کام ہونے کے باوجود بھی   تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔اور اسے میں آج رات 

کو ہی ماروں گا اس نے میرے دوست کو مارا ہے 

میری چھوٹی دنیا کو تکلیف دیا ہے اسے مارنے کا

 پلان بنایا ہے۔ ان لوگوں نے غلط جگہ پر وار کیا ہے 

سو انہیں بھگتنا تو پڑے گا۔"

وہ نفرت سے مٹھیاں کھس کر اپنی جگہ سے اٹھیں 

فرجاد سے کہتے روم سے باہر نکلے کیوں کہ انہیں امشال کا خیال آیا تھا۔

"چھوٹی دنیا کب تک اپنے سلطان سے بچوں گی۔؟؟

جب وہ اس روم میں پہنچے تو اسے وہاں نا پا کر مسکراتے ہوئے امشال کو تصور میں لا کر معنی خیزی سے بولے۔

           🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

امشال کچن میں کھڑی سلطان سے بات کرنے کیلئے انہیں اپنی بات کو منانے کیلئے ان کیلئے کچھ اسپیشل بنانے کا سوچ رہی تھی۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو۔؟

وہ فریج کو کھولے کھڑی انکے لیے کیا بناؤ یہ سوچ لیے فریج کے اندر دیکھ رہی تھی تبھی پیچھے سے سرفراز شاہ کی آواز پر وہ پلٹی۔

"وو۔وہ میں۔"

امشال انکی سرخ نظروں کو اپنے اوپر دیکھ سخت گھبرا کر رہ گئی کیوں کہ انکے گھورنے کی وجہ سے الفاظ اسکے لبوں سے ادا نہیں ہو رہے تھے وہ اٹک اٹک کر ان سے بولی۔

"وہ اور میں کے آگے بھی بولنا آتا ہے یا نہیں تمہیں لڑکی جواب دو تم رات کے گیارہ بجے یہاں کیا کر رہی ہو۔؟؟

انہوں نے سخت لہجے میں دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔

"وو۔وہ میں سلطان کے لیے کھانا بنانے۔"

اسکی بات انہوں نے بیچ میں کاٹی۔

"یہ راشن تمہارے اس شوہر کے حرام کمائی سے نہیں آتا ہے یہ میری حلال کمائی سے آتا ہے جو تم اس نواب زادے کے لیے کھانا بنا رہی ہوں اگر تم دونوں کو یہاں رہنا ہے تو اپنا راشن خود خریدوں میرے اوپر بوجھ کیوں بننے کی کوشش کر رہے ہوں تم لوگ میں اس شہزادے کی طرح غلط کام کر کے نہیں کماتا ہوں۔"

انہوں نے انتہائی گھٹیا بات کہ کر امشال کو سخت غصہ دلایا مگر وہ انکی عمر کا لحاظ کرتی چپ ہو 

کر انکی باتوں کو سننے لگی۔

"سلطان کی کمائی حرام نہیں ہے وہ بھی آپکی طرح حلال کماتے ہیں بس انکا بزنس بڑا ہے شاید اسی لیے آپ کو انکی ترقی ہضم نہیں ہو رہی ہیں جو آپ اس طرح اس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں وہ آپکی سگی اولاد ہے یا پھر آپ نے انہیں سڑک سے اٹھایا ہے جو آپکے لہجے میں اتنی نفرت ہے انکے لیے۔"

امشال انکے اس الزام پر سر اٹھا کر غصے سے ان سے بولی۔

"لڑکی اتنی جرات میرے ہی گھر میں کھڑی ہو کر مجھ سے زبان چلا رہی ہو ابھی بتاتا ہوں کہ میں کیوں اس گھٹیا انسان سے اتنی نفرت کرتا ہوں۔"

انہوں نے شدید نفرت سے امشال کی جانب دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ اٹھایا تو امشال انہیں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتی ڈر کر اپنی آنکھیں میچ گئی۔

"ہاؤ ڈئیر یو آپ کی ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کے اوپر ہاتھ اٹھانے کی اور اس سے اس لہجے میں بات کرنے کی ہاں۔؟؟؟

 میں دو سال سے  آپکی گھٹیا ترین باتیں صرف اپنا باپ سمجھ کر آپکے حترام میں چپ ہو کر برداشت کر رہا ہوں لیکن اب جو آپ کر رہے ہیں وہ میں برداشت نہیں کر پاؤں گا سو آپ رک جائے ورنہ میں اس بار آپکا لحاظ بلکل نہیں کروں گا کیوں کہ میں اپنی بیوی کی بے عزتی ہر گز برداشت نہیں کر سکتا میں غصے میں اس انسان کی جان لے بھی سکتا ہوں جو میری بیوی سے مس بے ہیو کرے گا چاہے وہ شخص آپ ہی کیوں نہ ہو میں بلکل بھی لحاظ نہیں کروں گا۔"

 سلطان عالم شاہ خوشگوار موڈ لیے گھر میں داخل ہوئے اور اوپر اپنے روم کی جانب بڑھنے کے لیے کچن کی جانب سے گزرے تو اندر سے اپنے باپ کی چلاتی آواز سن کر وہ اس جانب بڑھیں۔

کچن میں سر جھکا کر انکی گھٹیا ترین باتیں سنتی امشال نے جب سر اٹھا کر اپنے سلطان کے بارے میں کہا تو سرفراز شاہ اپنے باپ کو غصے سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھ وہ غصے سے آگے بڑھے اور انکا ہاتھ روک کر غراتے ہوئے بولے۔

"اب تم دو سال بعد دوسرا گناہ کروں گے مجھ پر اپنے باپ پر ہاتھ اٹھا کر ناہنجار' اگر یہی بدتمیزی کرنے کے لیے تم یہاں آئے تو اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنی اس عیاشی کے سامان کو لیکر چلتے بنوں یا پھر اگر سچ میں تم اپنے اس بوڑھے باپ اور ماں بہن کی فکر میں یہاں رہنے آئے ہو تو اپنا اور اپنی اس عیاشی کے سامان کے خرچے کا بندوبست خود کروں میرے رزق حلال کی کمائی کو میں یوں پانی کی طرح بہتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔"

انہوں نے سلطان عالم شاہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"یہ میری عیاشی نہیں میری بیوی ہے اور دو سال پہلے میں نے نہ کوئی گناہ کیا تھا نا ہی غلطی آپ دوسروں پر تو یقین کر رہے ہیں لیکن اپنے بیٹے پر نہیں اس رات جو کچھ بھی ہوا تھا اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی وہ صرف ایک غلط فہمی تھی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔"

سلطان عالم شاہ نے سخت غصے سے دھارتے ہوئے کہا۔

"میری آنکھوں نے اس رات جو دیکھا تھا وہ کوئی غلط فہمی نہیں وہ ایک جیتا جاگتا سچ تھا۔یہ تمہاری بیوی ہے اسے تو پورا حق ہے جاننے کا سلطان عالم شاہ کے تم کتنے پانی میں ہوں۔"

انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہ کر امشال کی جانب دیکھا۔

"آپ بات کو بڑھا رہے ہیں بابا سائیں آپ چاہتے ہیں نا میں اس گھر کے کسی چیز کو ہاتھ نا لگاؤں تو ٹھیک ہے میں آج سے یہاں کے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاؤ ںگا بس آپ اپنا امیج ان بے تکی باتوں سے میری نظروں میں نہ گرائے چلو امشال اگر میں اور یہاں کھڑا رہا ناں تو وہ کروں گا جس کے بعد مجھے ساری زندگی پچھتاؤں میں گزارنا پڑے گا۔"

سلطان عالم شاہ ضبط سے سرخ ہوتے ہوئے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہ کر امشال کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔

جبکہ سرفراز شاہ غصے سے اسے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھنے لگے۔

         🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"وہ آپ سے اتنا نفرت کیوں کرتے ہیں کیا آپ انکے سگے بیٹے نہیں ہے جو وہ آپ سے اس طرح سلوک کرتے ہیں ایک سگے بیٹے کے ساتھ کوئی باپ ایسا سلوک تو نہیں کر سکتے سلطان کیا سچ میں آپ انکے بیٹے نہیں ہے۔؟؟

وہ دونوں اپنے روم میں داخل ہوئے تو امشال نے ان سے پوچھا۔

"میں انکا سگا بیٹا ہو ایک غلط فہمی کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہیں تم فکر مت کرو جانم وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔"

انہوں نے اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے مسکرا کر امشال کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے بولے۔

"انکا غصہ دیکھ کر مجھے کوئی آثار نظر نہیں آ رہا سلطان کے سب کچھ اتنی آسانی سے ٹھیک ہو جائے گا ایسا کیا ہوا ہے جسکی وجہ سے وہ آپ سے ناراض ہیں۔"

امشال نے غور سے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"تم فکر مت کرو میری چھوٹی دنیا تم جا کر تیار ہو جاؤ ہم ابھی باہر ڈنر کرنے جا رہے ہیں۔"

سلطان عالم شاہ نے اسکے گالوں کو پکڑتے ہوئے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ اپنا ماضی کسی بھی صورت امشال کے سامنے آنے دینا نہیں چاہتے تھے اسی لیے اپنے بابا سائیں کے بولنے سے پہلے ہی وہ امشال کو وہاں سے لیکر آئے ورنہ اگر امشال کو انکی ماضی کے بارے میں پتہ چلتا تو وہ بھی اس سے بدگمان ہو کر اسکے والدین کی طرح اسے اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی۔

"اس وقت۔"

امشال نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں بارہ بج رہے تھے۔

"ہاں اس وقت میری چھوٹی دنیا کیوں کہ میں آج رات کے اس وقت تمہارے ساتھ باہر رومنٹک ڈنر کرنا چاہتا ہوں۔اور پھر سمندر میں بنے ایک ہٹ پر جائے گے اور وہاں میں رات کی چاندنی میں وہ کروں گا جو میں نے آفس میں ادھورا چھوڑا تھا تم مجھ سے بھاگی تھی نا مجھے تم کو سزا بھی تو دینا ہے مجھے ڈارلنگ۔"

انہوں نے اسے تھوڈی سے پکڑ کر مخمور آنکھیں اسکے لرزتے لبوں پر تکاتے ہوئے کہا۔

"مم۔مجھے بلکل بھی بھوک نہیں لگی ہیں سس۔سلطان آپ کو اگر ڈنر کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو فرجاد کے ساتھ جا کر یہ رومنٹک ڈنر کر لے میں تو سونے جا رہی ہو۔"

امشال انکی بات پر ڈر گئی وہ یہ بات بھول گئی تھی سرفراز شاہ کی وجہ سے اب انہیں اسی روپ میں دیکھ وہ سخت گھبرا کر رہ گئی۔

"وہاٹ فرجاد کے ساتھ رومنٹک ڈنر۔"

امشال کی بات پر وہ شاکڈ ہو کر زور سے چلائے تو انکی شاکڈ آواز پر امشال نے کمبل اوڑھ کر اپنی ہنسی کا گلہ گھونٹا۔

          🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہیپی برتھڈے ٹو یو ہیپی برتھڈے ٹو ڈئیر زیرون۔"

زیرون راجپوت اپنے گروپ کے ساتھ کلاس میں انٹر ہوا تو سامنے کھڑے لڑکوں لڑکیوں نے بلند آواز میں اسے وش کیا

زیرون راجپوت سامنے کیک اور پیچھے ہیپی برتھڈے زیرون راجپوت لکھا ہوا دیکھا تو غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔

"رونی میں جانتی ہو تم اپنا برتھڈے کبھی نہیں مناؤ گے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم سب مل کر تمہاری برتھڈے سیلبریٹ کریں اسی لیے میں نے سب کے ساتھ مل کر تمہارا برتھڈے سیلبریٹ کرنے کا پلان بنایا ہے کیسا لگا تمہیں ہمارا یہ سرپرائز۔؟؟

ان لڑکے لڑکیوں کے بیچ کھڑی ایک خوبصورت لڑکی نے کہ

 کر اپنے قدم آگے کی جانب بڑھا کر زیرون راجپوت کو چھونا چاہا مگر زیرون راجپوت نے سرخ نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے خود سے دور رہنے کا اشارہ کیا۔

وہ لڑکی زیرون راجپوت کی پھپھو کی بیٹی تھی اسے اچھے سے معلوم تھا کہ وہ اپنے جنم دن تاریخ سے سخت نفرت کرتا ہے مگر پھر بھی وہ اپنی خوشی کے لیے یہ دن سیلبریٹ کرنا چاہتی تھی جس کے لیے اس نے اپنے پورے کلاس کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سجایا تاکہ زیرون راجپوت یہ سب دیکھ کر کچھ نا کر سکے مگر وہ یہ سب دیکھ کر اتنا بگڑے گا اسے اس کا علم نہیں تھا اگر ہوتا تو وہ کبھی یہ نا کرتی۔

"بکواس لگا مجھے یہ سب تمہیں پتہ ہے میں اپنے جنم دن کی تاریخ سے سخت نفرت کرتا ہوں ہر سال یہ تاریخ میرے لیے صرف سیاہ باب کی طرح آتا ہے تم چاہتی ہو میں اسے سیلبریٹ کروں وہاٹ آ جوک۔"

کیک اور اپنے نام کے ساتھ لگے برتھڈے وش کو دیکھتے ہوئے اس نے اس لڑکی کو سخت لہجے میں کہ کر شدید غصے سے کلاس روم سے باہر نکلا۔

         🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"مریم میرے خیال سے اب مجھے چلنا چاہیے یار بہت لیٹ ہوگئی ہو بابا سائیں کے غصے کے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا نا یار اگر آج میں گھر لیٹ پہنچی تو وہ میرا یونی بند کر دے گے۔"

وہ آج پہلی بار مریم کے ضد کرنے پر اسکے خوبصورت فلیٹ پر آئی تھی گھڑی میں پانچ بچنے کا سنگل دیا تو وہ سخت پریشانی سے مریم کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔

"ارے یار تم یہ کافی تو ختم کروں میں نے خاص تمہارے لیے بنوایا ہے۔"

مریم نے کافی اسے تھامتے ہوئے کہا۔

تو وہ دیر ہونے کے ڈر سے لرزتے ہاتھوں سے کافی کا مگ تھامنے لگی مگر خوف کی وجہ سے مگ اسکے اوپر گر کر اسکے برقعے کو سفید رنگ میں بدل گیا۔

"ارے یہ کیا زہرا بتول اب تم اپنا برقعہ کیسے صاف کروں گی۔؟؟

مریم نے پریشانی سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

"واشروم میں جا کر دھوؤں گی بے وقوف لڑکی۔"

زہرا بتول نے اسے گھور کر کہا۔

"بیٹا اس کا مطلب ہے کہ تم اب کیسے اپنا برقعہ صاف کروں گی ہمارے فلیٹ کے سبھی روم کے واشروم میں مسلئہ ہے مگر بیٹا تم فکر مت کرو سامنے والا فلیٹ خالی ہے مالک کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر گیا ہے جاؤ مریم تم لیکر جاؤ اپنی دوست کو میں کچھ کھانے کے لیے آڈر کرتی ہو۔"

مریم کی آنٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ہاں چلو زہرا بتول تم وہاں جا کر اپنا برقعہ صاف کرنا۔"

مریم نے خوشی سے اٹھتے ہوئے اسے اٹھایا۔

"مجھے مناسب نہیں لگ رہا کسی اجنبی کے گھر جانا یار۔"

زہرا بتول نے جھجکتے ہوئے کہا۔

"ارے یار وہ کسی اجنبی کا فلیٹ نہیں ہے آنٹی کے جاننے والے کا ہے تم بے فکر ہو کر وہاں اپنا برقعہ صاف کر لینا۔"

مریم نے اسے کھینچتے ہوئے اپنے فلیٹ سے باہر نکلا اور اس فلیٹ کو کھول کر اسے اندر کرتے ہوئے کہا

 جب اسنے زہرا بتول کو اس روم میں جاتے ہوئے دیکھا تو اپنے چہرے پر ایک عجیب طرح کی مسکراہٹ سجا کر اس نے اس فلیٹ کو باہر سے بند کیا اور پیچھے مڑ کر اپنے فلیٹ کے دروازے کے باہر کھڑی اپنی آنٹی کو پرسرار انداز میں اس نے ہنستے ہوئے وکٹری کا نشان دیکھایا۔

         🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

"ہوں تو دادا محترم کی جانب سے بھیجا گیا تحفہ تم ہو زہرا بتول یہی نام ہے نا تمہارا۔"

زیرون راجپوت اپنے فلیٹ کے بیڈروم میں اپنے جنم دن کے موقعے پر اپنے دادا کی جانب سے ہمیشہ کی طرح دیئے گئے تحفے کی صورت میں آج زہرا بتول کو دیکھ ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا۔

"تم اندر کیسے آئے یہ تو ساریہ آنٹی کے کسی جاننے والے کا فلیٹ ہے پھر تم یہاں کیا کر رہے ہو۔؟؟

زیرون راجپوت کو شام کے چھ بجے نشے میں دھت دیکھ کر زہرا بتول نے اسکی جانب ناگواری سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"کتنے میں تم نے اپنے جسم کو بھیجا ہے میرے دادا محترم کو مجھے خود سے اور زیادہ نفرت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ہاں بولو کتنے میں تم نے خود کو بھیجا ہے۔؟؟

اپنے عالیشان فلیٹ میں اسے دیکھ وہ غصے میں اپنے ہاتھ میں تھمی شراب کی بوتل پھینکتا اسکی جانب بڑھا۔

"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں۔؟؟

اس کی غصے سے کہی بات پر نقاب سے جھانکتی اس کی خوبصورت آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔

"اتنی بھولی مت بنوں اپنی قیمت لیتے ہوئے تمہیں پتہ نہیں تھا کیا کہ یہاں زیرون راجپوت کے فلیٹ پر تمہیں مرتضی راجپوت کیوں بھیج رہا ہیں اب یہ حجابن بننے کی ایکٹنگ کرنا بند کر دو تم اور جلدی سے اپنا اسکارف  نکال کر مجھے انٹرٹینٹ کروں ویسے یونی میں بہت شریف بنتی پڑتی ہو اب ایسی کونسی ضرورت آن پڑی ہے تمہیں جو تم پیسوں کی خاطر اپنا سب کچھ مجھے سونپ رہی ہو یا پھر میں سمجھو کہ یہ ضرورت نہیں تمہاری طلب ہے جو تم اس حد تک چلی آئی ہو۔"

زیرون راجپوت اسکی نقاب کی جانب اشارہ کرتا صوفے پر جا کر گرنے والے انداز میں بیٹھا اور اسکی جانب دیکھنے لگا۔

جو اسکی بات پر غصے سے اسے گھور رہی تھی۔

"نظریں نیچے کرو اس طرح ناٹک کر کے کیوں مجھے غصہ دلا رہی ہو میں نے سہی تو کہا ہے تم اپنی طلب پوری کرنے کے لیے اس حد تک گر کر یہاں مجھ تک آئی ہوں یا تمہیں شرم آ رہی ہے مجھے یہاں دیکھ کر تو پلیز مجھ سے شرماؤ مت مجھے بلکل بھی حجاب کے پیچھے چھپا یہ چہرہ دیکھ کر دھچکا نہیں لگا ہے کیوں کہ میں نے دنیا میں تم سے بھی بڑے اپنی طلب میں ہر حد پار کرنے والے گھٹیا لوگ دیکھیں ہیں۔"

زیرون راجپوت نے سرخ نشیلی آنکھوں سے اسکے حجاب میں چھپے نازک سراپے کی جانب دیکھتے ہوئے نفرت سے کہا۔

"چٹاخ۔"

میرے پردے پر سوال اٹھانے والے تم ہوتے کون ہوں زیرون راجپوت۔؟؟

زہرا بتول کو اسکی باتیں کسی تازیانے کی طرح لگی تو وہ شدید غصے سے آگے بڑھی اور اسے گریبان سے پکڑ کر زور سے اسے تھپڑ مارتی ہوئی چلائی۔

"تم نے مجھے تھپڑ مارا زیرون راجپوت کو تمہاری اتنی ہمت میں ابھی تمہیں اچھے سے بتاتا ہوں۔حجابن کہ اس تھپڑ کی قیمت تم کیا چکاؤ گی۔"


زہرا بتول کے زور دار تھپڑ کے تپش کو وہ اپنے گال پر اب بھی محسوس کر رہا تھا شدید غصے سے اس نے اسے پکڑنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے تو زہرا بتول تیزی سے پیچھے ہٹی۔


"خبردار جو مجھے چھونے کی ہمت کی ورنہ میں پھر سے تمہیں ایک اور تھپڑ ماروں گی زیرون راجپوت بلکہ اس بار میں تمہاری جان لیں لوں گی کیوں کہ جو میری عزت اور میرے پردے کا مزاق بنائے گا میں اسے موت کے گھاٹ اتار دوں گی۔"


زہرا بتول نے سرخ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنی انگلی اٹھا کر اسے کہا۔


"تم مجھے جان سے ماروں گی مجھے جانتی ہو نا ایک سال پہلے میں نے یونی کی لڑکیوں کے ساتھ کیا کیا تھا نا تم نہیں جانتی کیوں کہ مجھے تمہارے چہرے پر یہ رقم بہادری دیکھ لگتا ہے تم اس بات سے اب تک لاعلم ہو حجابن مگر کوئی بات نہیں میں ہو نا آج تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے ایک سال پہلے کیا کیا تھا۔"


زیرون راجپوت نے کہ کر اپنے قدم زہرا بتول کی جانب بڑھائے۔

زہرا بتول کی نقاب سے جھانکتی خوبصورت آنکھوں میں یکدم سے اسکے اپنی جانب قدم بڑھانے پر خوف چھانے لگا۔


"یا اللہ اس شیطان سے مجھے بچائے۔"


زہرا بتول نے اپنی آنکھیں میچ کر شدت سے کل کائنات کے مالک کو آنسوؤں بہا کر صدق دل سے پکارا اور شاید یہی لمحہ اسکی دعا کی قبولیت کا تھا۔


"اس سے پہلے کے میں تمہارے ساتھ کچھ کر بیٹھو چلی جاؤ ابھی کے ابھی یہاں سے مجھے تم جیسی جھوٹی مکار خود کو نیک اور شریف ظاہر کرنے والی عورت کو بلکل بھی چھونا نہیں ہے نکل جاؤ یہاں سے تم سے بدلا میں دوسرے طریقے سے لونگا لیکن اس طرح میں کبھی نہیں لوں گا کیوں کہ تم پاکیزگی کے نام پر دھبہ ہو۔"


زیرون راجپوت نے اسے کہ کر یہاں سے نکل جانے کے لیے کہا۔

زیرون راجپوت کے نفرت سے یہاں سے نکل جانے کا کہنے پر وہ تیزی سے وہاں سے بھاگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"مریم تمہاری سہیلی کا بھائی تو بہت خطرناک ہے اگر اسے ہماری اس حرکت کے بارے میں پتہ چلا کہ ہم نے اسکی نیک پردہ دار معصوم بہن کو کسی مرد کے بستر تک پہنچایا ہے تو۔"


مریم اور اسکی آنٹی مریم کے روم میں بیٹھے زیرون راجپوت کے دادا کی جانب سے بھیجی گئی رقم کو گن رہے تھے کہ اسکی آنٹی کو سلطان کے بارے میں خیال آیا تو وہ ڈرتی ہوئی مریم سے پوچھنے لگی۔


"فکر مت کریں اسے بلکل بھی پتہ نہیں چلے گا۔اور آپ پریشان کیوں ہو رہی ہو وہ زیرون راجپوت وہ ہیں نا وہ اس سلطان سے بھی کم نہیں ہے سلطان آگ ہے تو زیرون راجپوت وہ آئٹم بم ہے۔ آگ جلنے کی وجہ سے ہو رہے نقصان کو ہم پانی سے بجھا کر ختم کر سکتے ہیں آنٹی لیکن آئٹم بم کے نقصان کو ہونے سے ہم کسی بھی طرح سے روک نہیں سکتے وہ نقصان دھماکہ ہونے کی صورت ہر حال میں ہو کر رہتا ہے ہماری حفاظت اب زیرون راجپوت کے ذمے ہیں آپ بے فکر ہو کر اس عیاشی کو انجوائے کریں اب پتہ نہیں کب ہمارا اگلا شکار ہمارے ہاتھ لگے گا۔"


مریم نے اپنی آنٹی کے ہاتھ پکڑتے ہوئے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا پھر آخر میں ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے وہ پیسے اوپر اچھالتی ہوئی بولی۔


"ویسے مریم وہ زہرا بتول قیامت خیز حسن کی مالکن ہے کیوں نہ زیرون راجپوت کے استعمال کرنے کے بعد ہم اسے دھندے پر لگا دے ہمیں اس کام کے اور بھی زیادہ پیسے ملے گے۔"


آنٹی نے زہرا بتول کے خوبصورت سراپے کو آنکھیں بند کر کے اپنی نگاہوں کے سامنے لاتے ہوئے مریم سے کہا۔


"گریٹ آئیڈیا آنٹی کیا بات ہے۔۔۔ آپ تو مجھ سے بھی زیادہ لالچی نکلی۔ویسے آپکا یہ آئیڈیا بہت کمال کا ہے ہمیں اس طرح اور شکار پھنسنا نہیں پڑے گا ہمارے لیے زہرا بتول ہی کافی ہے۔"


مریم نے کمینگی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

باہر زہرا بتول جو یہ بات بتانے کے لیے آئی تھی مریم کی سچائی جان کر وہ بری طرح سے روتی ہوئی تیزی سے اس گھر سے باہر نکلی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


سلطان عالم شاہ سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے تبھی انکی نظر زہرا بتول پر پڑی جو روتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہو رہی تھی۔


"چندہ کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہوں۔؟؟


اسے روتے ہوئے دیکھ وہ سخت پریشان ہوگئے اور آگے بڑھ کر اسے تھامتے ہوئے پیار سے پوچھنے لگے۔


"ادا سائیں وو۔وہ۔"


مریم کی سچائی جان کر وہ سخت خوفزدہ ہو گئی تھی اور اوپر سے زیرون راجپوت نے جو کرنا چاہا تھا اس سے بھی وہ ڈر چکی تھی اس کے سامنے وہ بہادری سے کھڑی ہو کر لڑی ضرور تھی وہ اس وقت خود کو اس مرد کے آگے بہت ہی کمزور سمجھ رہی تھی لیکن پھر بھی اس نے اپنی عزت بچانے کی خاطر اس شخص کا سامنا بہادری سے کیا مگر اب اپنے بھائی کو سامنے دیکھتی وہ خود کو انکی موجودگی میں محفوظ تصور کرتی بری طرح سے رونے لگی۔


"ہاں چندہ وہ کیا۔؟؟


سلطان نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہ۔


"ادا سائیں میری دوست مریم آپ اسے جانتے ہیں نا اس نے آپکی بہن کو ایک مرد کے گھر دھوکے سے بھیجا اس نے مجھے اس مرد کو کسی طوائف کی طرح پیش کیا۔"


زہرا بتول نے روتے ہوئے ان سے کہا۔

جو یہ سن کر غصے سے اپنی مٹھیاں کھسنے لگے۔


"کون ہے وہ چندہ۔؟؟


سلطان عالم شاہ نے برفیلے لہجے سے زہرا بتول سے پوچھا۔


"وہ ہمارے یونی کا ایک بگڑا رئیس باپ کا اولاد ہیں۔"


زہرا بتول نے ہچکیوں کے درمیان ان سے کہا۔


"چندہ میں وعدہ کرتا ہوں وہ تمہیں کل یونی میں نظر نہیں آئے گا۔"


انہوں نے اسکے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا تو زہرا بتول انکی بات پر پرسکون ہوگئی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"میں نے کچھ نہیں کیا ہے زہرا بتول جھوٹ بول رہی ہے وہ مجھ سے شروع سے جلتی آ رہی ہے کیوں کہ میں ایک ماڈرن فیملی سے تعلق رکھتی ہو میں اپنی مرضی سے جو چاہے پہن سکتی ہو جو چاہے کھا پی سکتے ہو اور وہ ایک سید گھرانے کی لڑکی وہ اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتی ہے اور یہ اس نے خود مجھ سے کہا تھا اس نے اس دن اپنی جلن خود ظاہر کیا تھا اور مجھے کل ہی اس نے زیرون راجپوت کے بارے میں بتایا تھا وہ اس سے محبت کرتی ہیں اس سے ملنے والی تھی یہ مجھے بلکل بھی پتہ نہیں تھا وہ آپ کو بے وقوف بنا رہی ہے جھوٹ بول کر آپکی ہمدردی چاہتی ہے۔"


زہرا بتول مریم کے پاس سے آتے ہی خوفزدہ ہوگئی تھی وہ امشال کو اسکے پاس چھوڑ کر اپنی بہن کی حالت کو دیکھ اسی وقت مریم کے فلیٹ پر اپنے بہت سارے آدمیوں کے ساتھ چلے گئے تھے۔

اس وقت وہ اس کے پورے فلیٹ کا نقشہ بگاڑ کر اپنا غصہ وہاں موجود سبھی چیزوں پر نکالنے کے بعد سامنے صوفے پر جا کر بیٹھے تو مریم روتی ہوئی انکے پیروں پر گر کر ان سے کہنے لگی۔


"فرجاد اسکی زبان کاٹوں ابھی کے ابھی اس کی اتنی جرات میری پاک دامن بہن پر انگلی اٹھانے کی دونوں کے جسم کے خون کا قطرہ بھی مت چھوڑنا۔"


انہوں نے فرجاد کی جانب دیکھتے ہوئے شدید غصے سے کہا۔


"سلطان نہیں خدا کے میری زبان مت کاٹوں۔"


مریم نے تڑپتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔


"تو بتاؤ اس شخص کے بارے میں جس کے پاس میری بہن کو تم لوگوں نے دھوکے سے بھیجا تھا۔؟؟


انہوں نے جھک کر اس سے پوچھا۔


"وہ سامنے کے فلیٹ میں ہے وہ ابھی بھی وہی پر ہے آج اسکی برتھڈے ہیں اور ہر سال اس کی جنم دن پر اسکے دادا اسکے فلیٹ پر لڑکیاں بھیج کر اسے اسکی سالگرہ کی خوشی میں تحفہ دیتے ہیں لیکن وہ غصے سے ہمیشہ ان لڑکیوں کو دھکے دے کر اپنے فلیٹ سے باہر نکالتا تھا مگر آج پتہ نہیں کیوں اس نے زہرا بتول کو خود دھکے دے کر باہر نہیں نکالا آپ خدا کے لیے ہمیں چھوڑ دیں زہرا بتول کو زیرون راجپوت کے دادا نے چنا تھا۔وہ ہر سال پتہ نہیں کیوں ایسا کرتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں ہے ہم صرف انکے لیے کام کرتے ہیں میں انکی چنی لڑکیوں سے پہلے دوستی کرتی ہو اور پھر انہیں انکے کہنے پر زیرون راجپوت کے فلیٹ پر دھوکے سے بھیجتی ہوں جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے زہرا بتول کو دھوکے سے بھیجا تھا۔"


مریم کو اس وقت اپنے سامنے سلطان کی صورت اپنی موت نظر آ رہی تھی وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی زیرون راجپوت کے دادا کے بارے میں بتانے لگی۔


"چلو فرجاد اس لڑکے کے پاس۔"


سلطان ساری بات سننے کے بعد شدید غصے سے صوفے سے اٹھے اور فرجاد سے بولے۔

مریم انکی بات سن کر سخت گھبرا کر رہ گئی۔


"نہیں سلطان یہ غلطی مت کروں راجپوت کو آپ آسان ہدف سمجھ رہے ہیں وہ آسان ہدف نہیں ہے وہ مشکل ہے خاص کر زیرون راجپوت اسکا جنون اسکے غصے سے بھی خطرناک ہے اگر آپ اسے جا کر للکارے گے تو وہ ضد میں آ کر زہرا بتول کی زندگی کو جہنم بنا دے گا۔"


مریم نے سخت خوفزدہ ہو کر انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"وہ مشکل ہدف ہیں تو میں ایک اچھا نشانہ باز ہو میں جب تک زندہ ہو اسے اپنی بہن کے پاس آنے نہیں دوں گا فرجاد ان دونوں کو باندھ کر اس پورے فلیٹ میں آگ جلا دوں انکے مرنے سے دوسروں کی بہن بیٹیاں سیو تو رہے گی۔"


انہوں نے سرخ نگاہوں سے مریم کی جانب دیکھتے ہوئے کہ کر فرجاد کو حکم دیا اور سرخ آنکھوں کو باہر کی جانب کرتے انہوں نے اپنے قدم اس فلیٹ سے باہر نکال دئیے مریم اور اسکی آنٹی انکی بات پر زور زور سے چلاتی ہوئی رونے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"بھابھی سائیں۔"


زہرا بتول سامنے جائے نماز کو سامنے ٹیبل پر رکھتی امشال کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


"جی زہرا۔؟؟


امشال زہرا بتول کے پکارنے پر مسکرا کر اس کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


"یہاں آئے۔"


زہرا بتول نے بیڈ پر اپنے سائیڈ پر ہاتھ رکھ کر اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

امشال اسکے پاس بلانے پر جا کر اسکے پاس بیٹھی تو زہرا بتول جو کب سے زیرون راجپوت کی بدلے والی بات کو سوچ کر پریشان تھی وہ امشال کی جانب نم آنکھوں سے دیکھنے لگی۔


"کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں۔؟؟


امشال نے پریشانی سے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔


"بھابھی سائیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"


زہرا بتول نے اسکے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے خوفزدگی سے کہا۔

اور امشال اسکی سیاہ بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں وہ خوف دیکھ سکتی تھی۔


"کیوں کس سے ڈر لگ رہا ہے آپکو زہرا۔؟؟


امشال نے پوچھا۔


"اس شخص سے بھابھی سائیں وہ شخص مجھے اب نہیں چھوڑے گا کیوں کہ میں نے اسکی انا کو ٹھیس پہنچایا ہے وہ اب مجھ سے بدلا ضرور لے گا۔"


زہرا بتول نے روتے ہوئے زیرون راجپوت کی آنکھوں میں انتقام کی جنگاریوں کو یاد کرتے ہوئے امشال سے کہا۔


"فکر مت کریں اللہ آپکو اس شیطان سے بچائے گا میں دعا کروں گی آپکے لیے اپنی ہر نماز میں آپکو یاد کروں گی۔"


امشال نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے پرسکوں کرنا چاہا تو زہرا بتول اسکی بات پر پرسکون ہو کر اپنی آنکھیں صاف کرتی اسے دیکھنے لگی۔


"بھابھی سائیں میرا سر بہت درد کر رہا ہے میں آپکے لیے اور اپنے لیے چائے بنا کر ابھی آتی ہوں۔"


زہرا بتول سر میں درد اٹھتے ہوئے محسوس کرتی چائے بنانے کے ارادے سے اٹھی اور اس سے کہ کر دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔


"زہرا بتول میں بنا کر آتی ہوں آپ آرام کرے آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"


امشال تیزی سے بیڈ سے اٹھ کر اس سے بولی۔

زہرا بتول اسکی بات پر اسے نم آنکھوں سے دیکھتی ہوئی بیڈ پر کی جانب بڑھی اور امشال چائے بنانے کے لیے اسکے روم سے باہر نکلی۔


امشال زہرا بتول کے روم میں آج پہلی بار آئی تھی کیوں کہ سرفراز شاہ کے خوف سے وہ نیچے نہیں آتی تھی آج سلطان کے کہنے پر وہ زہرا بتول کے روم میں اسکا خیال رکھ رہی تھی اور لکی لی آج سرفراز شاہ اور زینب شاہ کسی قریبی رشتے دار کی فوتگی کی وجہ سے گاؤں گئے ہوئے تھے۔


وہ سرفراز شاہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے گنگناتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ رہی تھیں۔

کہ تبھی سامنے ایک بند روم کو دیکھ اس کے قدم رک گئے۔

اور خوبصورت آنکھیں دروازے پر لگے ویلکم ٹو مائے لائف اور ان لفظوں کے نیچے لگے گلاب کے سوکھے پھلوں پر پڑ کر حیرت سے پھیل کر رہ گئے ۔

دروازے پر لگے ان سوکھے پھلوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ روم کسی نئے نویلے جوڑے کا تھا۔


وہ آنکھوں میں تجسّس لیے اس روم کی جانب بڑھنے لگی۔اور قریب پہنچ کر جب اس نے دروازے پر لگے پھولوں پر اپنا ہاتھ رکھا تو سوکھنے کی وجہ سے وہ پھول ایک ایک کر کے نیچے گرنے لگے۔


آنکھوں میں اس روم کے راز کو جاننے کی چاہ لیے اسنے اپنا مرمری ہاتھ ہینڈل پر رکھا تبھی کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ پلٹ کر سامنے کھڑی شخصیت کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی۔

"زہرا تم۔"؟؟


امشال روم کے سامنے کھڑی اندر جانے کے لیے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھنے ہی والی تھی کہ پیچھے سے کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔وہ پیچھے پلٹی تو سامنے زہرا بتول کو دیکھ وہ بولی۔


جبکہ زہرا کی پریشانی سے دل زور سے دھڑکنے لگا جب اس نے امشال کو اس روم کے دروازے کو کھولتے ہوئے دیکھا اس سے پہلے کے امشال روم میں جاتی اس نے بھاگتے ہوئے اسے روکا۔


بھاگنے کی وجہ سے اسکی سانسیں پُھول چکی تھی وہ چہرے پر آئے پیسنے کو ایک ہاتھ سے صاف کرنے لگی اور دوسری ہاتھ سے اسے پکڑ کر سائیڈ پر کرتی خوفزدہ نظر اس بند روم کی جانب ڈال کر دیکھنے لگی۔


"بھابھی سائیں آپ یہاں کیا کر رہی ہیں۔؟؟


وہ اپنی گھبراہٹ کو سنبھالتی نظریں اس روم کے دروازے سے ہٹا کر سامنے کھڑی امشال کے چہرے پر ڈال کر اس سے پوچھنے لگی۔


"زہرا یہ روم کس کا ہے اور یہ کیوں لکھا ہے دروازے پر۔؟؟


امشال نے انگلی سے اس روم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔


"یہ رر۔روم۔"


زہرا اس سوال پر سٹپٹائی اور اپنے خشک لبوں پہ زبان پھیرتی ہوئی بولنے ہی والی تھی تبھی پیچھے سے ایک غصیلی آواز پر وہ ٹھہر گئی اور پلٹ کر پیچھے دیکھنے

لگی امشال بھی پلٹ کر دیکھنے لگی تو سامنے سرفراز

شاہ اور زینب شاہ کو کھڑے دیکھ وہ سہم کر زہرا بتول

کے کندھے کو تھام گئی۔


اس لڑکی کو اُس روم کے سامنے کھڑے دیکھ سرفراز شاہ

سخت غصے سے پاگل ہو کر آگے بڑھیں۔

زینب شاہ انہیں اتنے غصے میں دیکھ اپنا دل تھام کر رہ گئیں۔


"تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو۔؟؟


وہ ان کے سامنے آتے ہی غصے سے دونوں سے پوچھنے لگے۔

وہ دونوں انہیں اتنے غصے میں دیکھ سخت گھبرا گئی۔


"بابا سائیں۔"


زہرا بتول انکے غصے کی وجہ اچھے سے جانتی تھی اسی لیے وہ ڈرتی ہوئی انکا نام پکار اٹھی۔


"میں نے کچھ پوچھا ہے اس کا الٹا جواب مت دو بتاؤ کیا کر رہی ہو تم اس روم کے سامنے ہمممم۔؟؟


انہوں نے زہرا بتول کی جانب دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں دوبارہ پوچھا۔


"وہ بابا سائیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو بھابھی سائیں ادا سائیں کے کہنے پر میرا دھیان رکھ رہی ہے اسی لیے وہ یہاں نیچے میرے پاس۔"


زہرا نے ڈرتے ہوئے ان سے کہا۔

امشال ان سے پہلے ہی خوفزدہ تھی وہ انکی گھوریوں سے سخت خوفزدہ ہو رہی تھی۔


"میں نے یہ پوچھا نہیں ہے میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم "دونوں یہاں کیا کر رہی ہو.؟


اپنے سوال کا الٹا جواب سن کر وہ سخت غصب ناک ہوگئے اور سخت گیر لہجے میں ان دونوں سے بولے۔


"آپ جانے دے نا آپکی طبیعت پہلے سے ہی خراب ہے اپنا بی پی ہائی مت کرے آئندہ ایسا نہیں ہوگا بچیوں کو معاف کر دے زہرا تم امشال کو یہاں سے لیکر جاؤ دیکھو بچی کتنی زیادہ گھبرا گئی ہے۔"


زینب شاہ نے آگے بڑھ کر انہیں پرسکون کرتے ہوئے آخر میں زہرا بتول سے کہا تو وہ جلدی سے امشال کا ہاتھ پکڑ کر اسے لیکر وہاں سے جانے لگی لیکن سرفراز شاہ کے شدید غصے سے کہنے پر وہ دونوں ڈر کے مارے رک گئی۔


"جا کہاں رہی ہوں تم لڑکی رکوں جاننے کا بہت شوق ہے ناں تمہیں کہ اس روم کے اندر کیا ہے چلو میں تمہارے شوق کو پورا کرتا ہوں جاؤ زہرا جا کر اس روم کی چابی لیکر آؤں۔"


انہوں نے سخت لہجے میں کہ کر زہرا بتول سے کہا۔

تو زہرا بتول اور زینب شاہ انکی بات پر سخت ہڑبڑا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگی۔


"زہرا میں کچھ کہ رہا ہوں تم سے تمہیں سنائی نہیں دیا کیا ہاں۔؟؟


زہرا کو وہی کھڑے دیکھ انہوں نے شدید غصے سے کہا۔


"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں آپ اچھے سے جانتے ہیں اس طرح سب کچھ بکھر جائے گا سلطان کی زندگی برباد ہو جائے گی آپ نے اگر اس روم کا راز کھولا تو امشال میرے بیٹے سے نفرت کرے گی آپ کیوں میرے بیٹے

کو خوش رہنے نہیں دیتے کیوں اس سے اتنا نفرت کرتے ہیں آپ کیوں۔؟؟


زینب شاہ انکے آگے کھڑی ہو کر انکی آنکھوں میں اپنی نم آنکھیں گاڑ کر ان سے بولیں۔


"برباد میں نہیں اس نے خود کیا ہے خود کو زینب تم سب کچھ جانتی ہو پھر کیوں مجھے روک رہی ہو ہاں وہ ایک۔"


"خبردار اس سے آگے آپ نے ایک لفظ بھی نکالا تو میں اپنی جان لیں لوں گی سرفراز شاہ وہ بے قصور ہیں اور میں آپ کو اسکی زندگی برباد کرنے نہیں دوں گی ایک سال اس نے درد میں گزارا ہے اب نہیں میں اسکے ساتھ یہ زیادتی نہیں ہونے دوں گی."


زینب شاہ نے سخت لہجے میں کہا۔

امشال نا سمجھی سے ان دونوں میاں بیوی کو اپنے بیٹے کی وجہ سے لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

سرفراز شاہ کے سلطان کے اوپر لگائے الزامات کی وجہ سے اسے اس روم کے راز کو جاننے کی سخت بے چینی ہونے لگی وہ اپنی نظریں اس روم پر تکا کر غور سے اس روم کے دروازے کو دیکھنے لگی۔


"تو میں ایک سال سے اُس درد سے گزر رہا ہوں اس دن کا مجھے ایک ایک واقع اچھے سے یاد ہے زینب بی بی میں اپنی تذلیل اپنا سب کچھ اس دن کھو چکا ہوں اور تم کہتی ہو وہ بے قصور ہیں نہیں وہ قاتل ہے میرے۔"


سرفراز شاہ کی آنکھیں اس دن کو یاد کرتے ہوئے بھرنے لگی وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے سخت لہجے میں اپنے آخری لفظ ادا نہیں کر سکے جب زینب شاہ نے اپنی سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر روکا۔


"باس سرفراز شاہ بس بہت ہوگیا اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں میں اتنے سال صرف آپکے اس درد کی وجہ سے خاموش تھی جو آپکے سینے میں ہے صرف اسے کھونے کی وجہ سے میں آپکا خیال کر رہی تھی لیکن آج آپ میرے بیٹے کو اسکی بیوی کے سامنے ایک قاتل نہیں کہ سکتے اس کے دل میں بے وجہ شک پیدا نہیں کر سکتے کیوں کہ میرا بیٹا قاتل نہیں ہے اس دن جو ہوا تھا وہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا قصور صرف اس کا ہے شاہ سائیں صرف اس کا جو ہماری زندگی میں آگ لگا کر اپنی زندگی میں خوش ہے قصوروار وہ ہے اور ہمارا بیٹا بے گناہ ہوتے ہوئے بھی آپکی نظروں میں گناہ گار بن کر اپنی زندگی گزار رہا

ہے صرف آپکی وجہ سے وہ پاگل آپ سے محبت کرتا ہے ناں اسی لیے خود کو بے وجہ سزا دے رہا ہے لیکن اس بار نہیں بس بہت ہوگیا بے گناہ ہوتے ہوئے اسے

سزا کاٹنے میں نہیں دوں گی اس وقت آپکو میں موقع نہیں دوں اس کی زندگی میں آگ لگانے کا موقع سنا آپ نے۔"


زینب شاہ نے سخت نظروں سے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور سنجیدگی سے وہ امشال کی جانب بڑھی اور اسے پکڑ کر وہاں سے لیکر زہرا بتول کے روم کی جانب بڑھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


زیرون راجپوت زہرا بتول کی تھپڑ کو اسکی سخت باتوں کو سوچ کر تیسری شراب کی بوتل کو منہ سے لگا کر خالی کرتا غصے سے دور اچھال کر چوتھی بوتل اٹھا کر اپنے لبوں سے لگا کر ان باتوں کو بھولنا چاہ رہا تھا لیکن سوچیں کسی کالی ناگن کی طرح اسکے دماغ میں ڈھنگ مار کر اسے ڈس رہی تھی۔


"ہاہاہا ہاہاہا تم شیطان نیچ انسان ایک چھوٹی سی لڑکی سے ہار گئے ہاہا ہا ہا۔"


وہ صوفے کی بیک پر سر رکھیں آنکھیں بند کیے بوتل ہاتھ میں پکڑے سکون سے نیند کی وادیوں کے سفر پر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوبصورت نسوانی قہقہہ سن کر وہ اپنی براؤن نشیلی آنکھوں کو کھول کر سامنے دیکھنے لگا۔

جہاں سیاہ برقعہ میں اپنا چہرہ چھپائے وہ کھڑی قہقہہ لگاتے ہوئے اس سے طنزیہ انداز میں بول رہی تھی۔


"یو تمہاری اتنی ہمت مجھے شیطان کہ رہی ہو مجھے زیرون راجپوت کو۔زندہ نہیں چھوڑوں گا میں تمہیں ڈیم اٹ۔"


سامنے اپنے دشمن اول کو کھڑے دیکھ زیرون راجپوت آگ بگولہ ہوگیا اور نفرت سے اپنی جگہ سے اٹھا اور ہاتھ میں پکڑی بوتل کو اس کے اوپر اچھال کر غرایا۔


وہ غصے سے زہرا بتول کے سائے سے نشے کی وجہ سے باتیں کر رہا تھا کہ تبھی اس کے فلیٹ کا دروازہ کھول کر بہت سارے سیاہ لباس میں ملبوس گارڈز داخل ہوئے


"یہ کیا حال بنایا ہے تم نے پرنس اگر دادا جان نے تمہیں اس طرح دیکھ لیا تو وہ مجھ پر غصہ کرے گے یاراں پہلے تو تم نے دادا جان کے لڑکیاں بھیجنے پر خود کو اتنا ہرٹ نہیں کیا ہے تو آج ایسا کیا ہوا ہے کہ تم اس طرح خود کو غصے سے برباد کر رہے ہو اتنا شراب پی کر ہمممم۔"


اسکا تایا زاد ازحف راجپوت انکے پیچھے داخل ہوا تو اسے اس حالت میں دیکھ وہ سخت پریشانی سے آگے بڑھا اور اسے پکڑ کر پیچھے صوفے پر لیٹا کر اسے ڈانٹتے ہوئے بولا۔


"زہرا بتول آئی ول کل یو تم نے یہاں میرے گال پر تھپڑ مارا ہے نا اب میں تمہیں بتاتا ہوں تمہیں کہ تم نے کس آگ میں اپنے ہاتھ ڈالے ہیں۔"


زیرون راجپوت نشے کی حالت میں غصے سے بڑبڑاتے ہوئے اپنے تصور میں زہرا بتول کو سجا کر غراتے ہوئے بولا۔


"پرنس تم کس کی بات کر رہے ہو یہ زہرا بتول کون ہے کیا تمہاری محبوبہ ہے۔؟؟


ازحف راجپوت نے نشے میں دھت اپنے اس کھڑوس کزن کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا کیوں کہ راجپوت خاندان کا باغی سرپھرا بیٹا آج پہلی بار کسی لڑکی کا ذکر کر رہا تھا کیوں کہ اتنی لگن سے پہلے نا ہی ہوش میں اور نا ہی نشے میں اس نے کبھی کسی لڑکی کا نام نہیں لیا تھا۔


"شٹ اپ اس پر صرف میرا حق ہے کیوں کہ وہ میری دشمن ہے تو اسکے نام کو صرف میں لوں گا تم نہیں سمجھے۔"


زیرون راجپوت نے ازحف راجپوت کے منہ سے زہرا بتول کا نام سن کر سخت غصے سے اسکے چہرے پر مکا مارتے ہوئے غرا کر کہا۔


"اوکے مائے پرنس نہیں لوں گا تمہارے اس جانی دشمن کا نام۔ارے یار نشے میں بھی تمہارا تھپڑ زور کا۔ لگتا ہے اچھا ہوا جو تم نے تھپڑ مار کر میری آنکھیں کھول دیں کیونکہ اب میں آئندہ اس سوئے ہوئے شیر کو غصہ دلانے کی کوشش بلکل بھی نہیں کروں گا بلکہ ہمت بھی نہیں ہوگی۔

اس سوئے ہوئے شیر کے غصے کو جگانے کی میری۔

تم لوگ کھڑے میرا کیا منہ دیکھ رہے ہو اس زخمی شیر کو اٹھاؤ اگر ہم راجپوت مینشن لیٹ پہنچے نا تو وہاں اپنے پوتے کے انتظار میں چکر کاٹ رہے شیر ہمارے لیٹ آنے پر ہمیں ہی کئی نہ کاٹ لیں۔"


اسکے نشے میں ہونے کے باوجود ازحف راجپوت کو اسکا تھپڑ زور کا لگا وہ بلبلا کر رہ گیا۔

گارڈز کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے زیرون راجپوت کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

تو ازحف راجپوت کے کہنے پر سبھی گارڈز نے زیرون راجپوت کے مضبوط کسرتی جسم کو اٹھایا اور اسے لیے فلیٹ سے باہر نکلے جبکہ ازحف راجپوت سامنے ٹیبل پر شراب کی بوتل دیکھ انہیں اسے وہاں سے لیجانے کا کہتا خود صوفے پر بیٹھ کر بوتل اٹھا کر گلاس میں مشروب ڈال کر پینے لگا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"جی آپ لوگ کون ہے.؟؟


فرجاد کے زیرون راجپوت کے فلیٹ کا دروازہ زور سے پیٹنے کی وجہ سے ایک خوبرو نوجوان نے دروازہ کھولا تو سامنے اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر وہ نوجوان اپنا ایک آئی برو اٹھا کر انکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔


"تمہارا باپ۔"


فرجاد نے کہتے ہوئے اس نوجوان کو ایک زور دار تھپڑ مارا تو وہ نوجوان پیچھے جا گرا۔


"گڈ فرجاد تم آجکل میرے نقشے قدم پر چل رہے ہو۔"


سلطان جو پیچھے کھڑے تھے۔

انہوں نے فرجاد کو شاباشی بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"فرجاد کھڑکیاں کھولوں ورنہ کئی ایسا نہ ہو میں اس ناگوار بو کا غصہ اس بیچارے پر نا نکال دو۔"


سلطان عالم شاہ اندر داخل ہوئے تو سامنے قیمتی برانڈڈ شراب کی بوتلوں کو دیکھ کر انہیں نے ناگواری سے اپنے ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرجاد سے کہا۔


"اوکے سر۔"


فرجاد انکے حکم پر سامنے کھڑکیوں کی جانب بڑھا اور پردے ہٹا کر کھڑکیاں کھول کر واپس انکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔


"تمہارا نام کیا ہے۔؟؟


سلطان عالم شاہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے سامنے گرے نوجوان سے بولے۔


"ازحف راجپوت۔"


ازحف راجپوت دادا کے فیورٹ پوتے کو گارڈز کے حوالے کرنے کے بعد جو اپنی عیاشی کو پورا کرنے کے لیے ابھی گلاس لبوں سے لگا رہا تھا دروازے پر دستک کی آواز پر وہ منہ بنا کر اٹھا اور جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے لوگوں کو دیکھ کر وہ ڈر گیا۔

اسے لگا کہ دادا نے اسکی غیر موجودگی کی وجہ سے اسکی جاسوسی کے لیے انہیں یہاں بھیجا ہوگا مگر فرجاد کے تھپڑ کی وجہ سے وہ سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے جب سلطان عالم شاہ نے اس سے اسکا نام پوچھا تو انکی رعب دار پرسنالٹی کی وجہ سے اس کے منہ سے اپنا نام نکلا۔


"زیرون راجپوت تمہارا کیا لگتا ہے۔؟؟


سلطان عالم شاہ نے سگریٹ لبوں سے لگا کر لائٹر سے اسے جلاتے ہوئے انہوں نے ازحف راجپوت سے سرد لہجے میں پوچھا۔


"میرا کزن کیوں آپ کو اس سے کیا کام ہے۔؟؟


ازحف راجپوت کو انکے منہ سے زیرون کا نام سن کر بلکل بھی حیرت نہیں ہوا کیوں کہ زیرون راجپوت ایسا انسان تھا جس کے دوستوں سے زیادہ دشمن کی تعداد تھی تو یہ بھی ان میں سے کوئی ہونگے مگر اس سرپھرے انسان کی وجہ سے وہ خود کو مصیبت میں پھنستے ہوئے دیکھ اپنے دانت پیستے ہوئے دل ہی دل میں زیرون راجپوت کو گالی دینے لگا۔


"کام نہیں اس کتے کو سبق سکھانا ہیں اس سے کہنا اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو سلطان عالم شاہ کی بہن سے دور رہوں ورنہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔"


سلطان عالم شاہ نے شدید غصے سے ازحف راجپوت کے ہاتھ کو پکڑا اور سلگتے سگریٹ سے اسکی ہتھیلی کو جلاتے ہوئے وہ شدید نفرت سے بولے۔

اور پھر اٹھ کر اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے قدم اس فلیٹ سے باہر نکالے تو انکے باہر نکلتے ہی ازحف راجپوت کو جو انکے گارڈز نے دھویا وہ ازحف راجپوت کے فلیٹ سے باہر نکلتی چیخوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"راجپوت صاحب آپ کیوں اس بچے پر اتنی سختی کرتے ہیں پلیز آپ سختی زرا کم کرے کیوں کہ یہ بچہ آپکی ان سختیوں کی وجہ سے مینٹلی ٹارچر کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہوگیا ہے اگر آپ اسی طرح اس بچے پر سختی کرتے رہے نا تو یہ آپ سے بہت دور ہو جائے گا۔"


مینشن میں جب نشے میں دھت زیرون راجپوت کو لایا گیا تو راجپوت صاحب جو اسکا ویٹ کر رہے تھے اسے آج بہت زیادہ نشے میں دیکھ وہ شدید غصے سے اپنی مٹھیاں کھسنے لگے۔


"ڈاکٹر محمود اگر میں سختی نہیں کروں گا تو یہ اپنے فرض کو اچھے سے نہیں پورا کر پائے گا میں نے اپنے لوگوں کو اس پر نظر رکھنے کے لیے اسکے آس پاس چھوڑا ہوا ہے اسے آج تک پتہ نہیں ہے کہ میں اسکی ہر جگہ جاسوسی کرواتا ہوں جن لڑکیوں کو میں اس کے پاس دیکھ لیتا ہوں تو پہلے میں اپنے لوگوں سے اس لڑکی کی اچھی دوستی کرواتا ہوں پھر انہیں دھوکے سے اسکے پاس بھیجتا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں یہ لڑکیوں سے سخت نفرت کرے میں اسکے دل میں صرف اپنے خاندانی بزنس کا محبت پیدا کرنا چاہتا ہوں اسی لیے میں اتنا سختی کرتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کے مجھے اس سے محبت نہیں ہے میں زیرون سے اپنے سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں میں اپنے بعد اگر کسی پر بھروسہ کرتا ہوں تو وہ زیرون راجپوت ہے میں اسے ایک مضبوط بزنس ٹائیکون بنانا چاہتا ہوں۔"


راجپوت صاحب اپنے ضدی سرپھرے پوتے کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں جو اپنے شاندار روم میں اپنے شاندار بیڈ پر آنکھیں موندے ہوئے تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"امشال زہرا وہ اب کیسی ہے۔؟؟


سلطان جب اپنے روم میں داخل ہوئے تو امشال کو بیڈ پر کسی سوچ میں گم بیٹھے دیکھ کر وہ اسکی جانب بڑھیں اور اسکے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے زہرا بتول کے بارے میں پوچھنے لگے۔


"ہاں وہ ٹھیک ہے۔"


انکی آواز اور لمس پر امشال بری طرح سے چونک کر انکی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔

وہ اس روم کے بارے میں اور زینب شاہ کے غصے کے متعلق سوچ رہی تھی۔

اسکے دماغ میں اس وقت بہت سے سوال تھے جنکا جواب سلطان کے پاس تھا اور اس روم کے اندر۔


"تم ٹھیک ہو میری چھوٹی دنیا بہت پریشان لگ رہی ہو۔؟؟


انہوں نے اسے پریشان دیکھتے ہوئے اسکے گالوں کو پکڑتے ہوئے پیار سے پوچھا۔


"جج۔جی میں ٹھیک ہوں آپ نے کھانا کھایا یا پھر باہر سے کھا کر آئے ہیں۔؟؟


امشال نے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"نہیں مجھے بھوک نہیں لگی تم نے کچھ کھایا ہے میری چھوٹی دنیا۔؟؟


انہوں نے اسکی گود پر سر رکھتے ہوئے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔"


امشال کو بھوک اسی بات کی وجہ سے نہیں لگ رہی تھی وہ سلطان کے ماضی کے جاننے کے لیے بے چین تھی اسے اس روم میں جانا تھا لیکن کیسے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔


"تو میری چھوٹی دنیا کا دل اس وقت کیا چاہ رہا ہے۔کیا اپنے سلطان کو تو نہیں چاہ رہا یہ پاگل دل تمہارا مائے لٹل لائف؟؟


انہوں نے اسے پکڑتے ہوئے اپنے اوپر گراتے ہوئے اسکی تھوڈی کو چھوا امشال انکی اس حرکت پر سٹپٹا کے رہ گئئ۔


"سلطان مجھے نیند آ رہی ہے مجھے سونا ہیں پلیز مجھے چھوڑیں۔"


امشال سرفراز شاہ کی باتوں کی وجہ سے ڈسٹرب تھی اسی لیے وہ انکی قربت سے سخت پریشان ہو کر انکے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی۔


"میرے سینے پر سر رکھ کے سو جاؤ ڈارلنگ کیوں کہ میں تو تمہیں بلکل بھی چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔"


انہوں نے اسکا سر اپنے چوڑے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔تو امشال انکے سینے سے لگی اس روم میں جانے کے بارے میں سوچنے لگی اور اس بارے میں سوچتے سوچتے وہ کب نیند کی آغوش میں چلی گئی اسے پتہ نہیں چل جبکہ سلطان اسکی خاموشی کو محسوس کر اسے آرام سے بیڈ پر لٹا کر خود کہنوں کے بل بیٹھ کر اسے غور سے دیکھنے لگے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


کلاس میں سب دھیان سے پروفیسر کی جانب متوجہ تھے۔زہرا بتول کو پروفیسر کی جانب متوجہ دیکھ اسکے پیچھے بیٹھی لڑکی نے اپنی جیب سے ایک سفید پاؤڈر کا پیکٹ نکال کر احتیاط سے زہرا بتول کے بیگ میں ڈالا۔ پیکٹ ڈالنے کے بعد اس نے کسی کو میسج کیا۔


تبھی اسکا میسج اس شخص کے پاس پہنچتے ہی کلاس کے باہر بہت سے قدموں کی گونج سنائی دینے لگی۔تو وہ لڑکی ان قدموں کی آواز سن کر چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ سجاکے اپنی نظریں سامنے پروفیسر پر گاڑ کر خود کو ایسا ظاہر کرنے لگی جسے وہ کب سے غور سے لیکچر سن رہی ہو۔

سب پروفیسر سے اپنی نظریں ہٹا کر باہر دیکھنے لگے زہرا بتول بھی باہر دیکھنے لگی۔


جہاں وردیوں میں ملبوس پولیس کی بھاری نفری تیزی سے بھاگتے ہوئے انکے کلاس کی جانب بڑھ رہے تھے۔


"ہمیں اطلاع ملی ہے کہ یہاں کوئی اسٹوڈنٹ یونی میں معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کو درگزر بیچ رہا ہے ہمیں اس کلاس کے سبھی اسٹوڈنٹس کی تلاشی لینی ہے۔؟؟


تبھی ایک نہایت خوبرو پولیس آفیسر سنجیدگی سے انکے کلاس میں داخل ہو کر اپنی رعب دار آواز میں پروفیسر سے بولا۔


"ایسے کیسے آپ تلاشی لے سکتے ہیں کیا آپ کے پاس سرچ وارنٹ ہے اور یہ اطلاع آپکو کس نے دیا ہے۔؟؟


پروفیسر نے اس خوبرو پولیس آفیسر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

زہرا بتول کو چھوڑ کر کلاس کی سبھی لڑکیاں اس خوبرو پولیس آفیسر کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔

ان سب کے دل اتنے ہینڈسم پولیس آفیسر کو دیکھ بری طرح سے ڈھرک رہے تھے انکی نظریں اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔


"یہ رہا سرچ وارنٹ اور یہ اطلاع کس نے دیا ہے یہ ہم آپکو نہیں بتائے گے کیوں کہ ہم اس کی سیفٹی کے لیے ایسا کر رہے ہیں ۔"


پولیس آفیسر نے سنجیدگی سے پروفیسر کو جواب دیتے ہوئے کہا تو پروفیسر سرچ وارنٹ دیکھ کر پیچھے ہٹے تو پروفیسر کے پیچھے ہٹتے ہی پولیس آفیسر نے پیچھے کھڑی نفری کو اشارہ کیا تو وہ سب آگے بڑھے اور پوری کلاس کی تلاشی لینے لگے۔


کلاس کے باہر یونی کے اسٹوڈنٹس کھڑے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے تبھی سب زیرون راجپوت اور اسکے گروپ کو وہاں آتے ہوئے دیکھ اسکے لیے جگہ بنانے لگے۔


زیرون راجپوت چہرے پر پھرتیلے تاثرات سجائے پولیس کی بھاری نفری کو دیکھ لبوں پہ پراسرار مسکراہٹ سجا کر زہرا بتول کے کلاس کی جانب دیکھنے لگا۔


اس آفیسر نے جب وہاں زیرون راجپوت کو دیکھا تو اپنی ایک آنکھ ونک کرکے چھپکے سے وکٹری کا نشان بنا کر اسے دیکھا۔


"سر انکے بیگ سے یہ ملا ہے۔"


ایک لیڈی کانسٹیبل نے چلاتے ہوئے کہا۔

تو اس لیڈی کانسٹیبل کی آواز پر سب اسٹوڈنٹس کلاس روم کے اندر دیکھنے کے لیے آگے بڑھنے لگے لیکن پولیس کی بھاری نفری نے انہیں آگے بڑھنے سے روکا۔


زیرون راجپوت اس لیڈی کانسٹیبل کی چیخ پر جیب سے ایک سنہرے رنگ کا خوبصورت ڈبہ نکال کر اس میں سے سہنری رنگ کا سگریٹ نکال کر اپنے لبوں سے لگا کر اپنی سرخ آنکھوں کو اوپر اٹھا کر کلاس روم میں ہو رہے

کاروائی کو انجوائے کرنے لگا۔


"یہ آپ کیا کر رہے ہیں مجھے کیوں گرفتار کر رہے ہیں چچ۔چھوڑیں مجھے یہ میرا نہیں ہے مجھے پھنسایا جا رہا ہے پلیز مجھے چھوڑیں میں بے قصور ہو۔"


کلاس روم سے زہرا بتول کی گھبرائی اور روتی ہوئی آواز پر زیرون راجپوت کے کل سے جلتے دل میں ٹھنڈی پھوار پڑ کر اسے پرسکوں کرنے لگا وہ فتح کی خماری پورے تن بدن میں محسوس کر اپنے عنابی لبوں سے سگریٹ کا دھواں نکال کر فضا میں چھوڑتا اپنے دونوں بائیں آسمان کی طرف کر کے کھولتا اپنی براؤن خوبصورت آنکھیں بند کرکے وہ زہرا بتول کی گڑگڑاتی اور روتی آواز کو شاطرانہ مسکراہٹ سجا کر سننے لگا۔


"زہرا بتول یہ میرے انتقام کا چھوٹا سا ٹریلر ہیں فریکچر ابھی باقی ہے اب دیکھتے ہیں تم میرے قہر سے مرتی ہو یا بچتی ہوں۔"


زیرون راجپوت نے سرخ آنکھیں کھول کر کلاس روم کی جانب دیکھتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اپنے قدم اس نے یونی کے پارکنگ ایریا کی جانب بڑھائے سلطان عالم شاہ نے جو ازحف راجپوت کے ساتھ کیا تھا زیرون راجپوت کے دل میں جلتی آگ کو بھڑکا دیا تھا وہ اپنے بھائی کا بدلا زہرا بتول کو اس طرح سارے یونی کے سامنے ذلیل ہوتے دیکھ کر لے چکا تھا۔

"یہ تو پولیس اسٹیشن نہیں ہے آآپ لوگ یہ مم۔مجھے کہاں لیکر آئے ہیں آپ لوگ میرے ساتھ غلط کر رہے ہیں کیوں کہ وہ ڈرگز میرے نہیں ہے آپ لوگ مجھے اس طرح بنا ثبوت کے گرفتار نہیں کر سکتے چھوڑیں مجھے ابھی کے ابھی ورنہ میں آپ لوگوں کے خلاف آواز اٹھاؤ گی۔؟؟


پولیس وین کو ایک فارم ہاؤس میں داخل ہوتے ہوئے زہرا بتول حیرانی سے دیکھتی ہوش آتے ہی وہ سامنے عالیشان فارم ہاؤس سے اپنی نظریں ہٹا کر سخت پریشانی سے اپنے ساتھ بیٹھی لیڈی کانسٹیبل سے بولی۔


"چٹاخ۔"

بہت زبان چلتی ہے تمہاری اب ایک لفظ بھی اس منہ سے نکلا تو گاڑی سے باہر پھینک دو گی میں تمہیں لڑکی۔"


لیڈی کانسٹیبل نے اسے ایک زور دار تھپڑ جڑتے ہوئے سخت غصے سے کہا۔

زہرا بتول تھپڑ کی وجہ سے سخت ڈر کر اس لیڈی کانسٹیبل سے دور ہوئی۔

وین جھٹکے سے روکتے ہی وہ بری طرح سے آگے کی طرف جھکی۔


"سر اسے میں لیکر جاؤ بگ برادر کے پاس یا آپ خود انکے پاس اسے لیکر جائیں گے۔؟؟


وین پورچ میں رکی تو لیڈی کانسٹیبل نے وین کے دروازہ کھول کر باہر نکلی اور ہاتھ آگے بڑھا کر اسے گھسیٹنے والے انداز میں باہر نکال کر اسے لیے سامنے کھڑے ایس پی کی جانب بڑھتی ہوئی اسے دیکھتی بولی۔


"بگ برادر ۔"


اس لیڈی کانسٹیبل کے منہ سے باس سنتی زہرا بتول کی آنکھیں اس لیڈی کانسٹیبل اور ایس پی پر جم کر رہ گئی۔


"نہیں تم اسے میرے پیچھے لیکر آؤں کیونکہ یہ لڑکی مجھے شریف اور معصوم لگ رہی ہے اور اوپر سے پردہ کرتی ہے اور دوسری بات اس لڑکی سے میری نہیں اس کھڑوس بگ برادر کی دشمنی ہے۔

اگر میں نے اسے ہاتھ لگایا نا تو وہ مجھے کچا چبا جائے گا میں اسے اچھے سے جانتا ہو۔بٹ اس بار میں اس کی اس حرکت سے ناخوش ہو کیوں کہ مجھ کو یہ لڑکی غلط نہیں لگ رہی ہے یہ پاگل پتہ نہیں کیوں اور کیسے اس بیچاری کے پیچھے پڑ گیا ہے۔"


ایس پی نے زہرا بتول کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ ایک گریٹ آفیسر تھا نظروں سے ہی انسان کو پہچانتا تھا اگلا انسان کیسا ہے زہرا بتول کو دیکھ کر اسے وہ کسی اینگل سے مجرم نہیں لگی۔

تو یہ پرنس کیوں اس کے ساتھ یہ سب کر رہا ہے یہ سوال اسکے دماغ میں شدت سے چل رہا تھا۔


لیڈی کانسٹیبل ایس پی کی بات پر اسے تقریباً کھینچتی ہوئی اس شاندار فارم ہاؤس کے اندر داخل ہوئی تو سامنے کے منظر پر زہرا بتول کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی کیوں کہ سامنے بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں ناچتے ہوئے بے حیائی پھلا رہے تھے وہ ان بے حیا امیر زادوں کو دیکھتی اپنی آنکھیں میچ گئی۔


"یہ کیا یہاں تو پارٹی ہو رہی ہیں لگتا ہے ہم غلط وقت پر آئے ہیں سر۔؟


لیڈی کانسٹیبل سامنے ناچتے لڑکیوں کو سخت نظروں سے گھورتی ہوئی سامنے کھڑے ایس پی سے بولی جو خود بھی اس منظر سے خوش نہیں لگ رہا تھا۔

لیکن وہ جانتا تھا یہ سب پرنس نے اس لڑکی کے لیے کیا ہے کیوں کہ اس طرح کی پارٹی میں جانا اسے بلکل بھی پسند نہیں تھا ایس پی اسکے رگ رگ سے واقف تھا یہ سب شاید اس لڑکی کو سبق سیکھانے کے لیے پرنس کر رہا ہے وہ برقعے میں ملبوس اس لڑکی کی جانب مرا اور اسے افسوس سے دیکھنے لگا۔


"تم اسے اندر روم میں چھوڑ کر آؤ یہاں اس کا رہنا ٹھیک نہیں ہے میں نہیں چاہتا اسے یہاں یہ لوگ اس کے حلیے کی وجہ سے گھیر لیں اور اسکے ساتھ بدتمیزی کرے۔تم کسی سیو روم میں اسے لیکر جاؤ اور اسکے ساتھ وہی رہو اور کسی کو اسکے ساتھ مس بیہو کرنے مت دو میں ابھی آتا ہوں پرنس کو ڈھونڈ کر۔"


ایس پی نے لیڈی کانسٹیبل کو ایک اور حکم دیتے ہوئے کہا۔

اور اپنے قدم اس پرسنل روم کی جانب بڑھانے لگا کہ زہرا بتول نے چیختے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔


"نہیں بلکل بھی نہیں مجھے ایک منٹ بھی اس بے ہودہ جگہ پر نہیں رہنا ہے مجھے واپس یونی چھوڑ کر آئے میں جانتی ہو آپ لوگ مجھے کس کے کہنے پر یہاں لیکر آئے ہیں شرافت سے مجھے واپس اسی جگہ پر چھوڑ کر آئے جہاں سے آپ لوگوں نے مجھے اٹھایا تھا اگر آپ لوگ ایسا نہیں کرے گے تو میں آپ لوگوں کے خلاف کمپلین کروں گی۔"


زہرا بتول نے سخت نظروں سے ان دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"دیکھیے میڈم میں نہیں جانتا آپ لوگوں کی دشمنی کیا ہے لیکن میں آپکو ایک ایڈوائز دینا چاہتا ہوں۔آپ اسطرح شور مت کریں۔آپ بالکل بھی نہیں جانتی وہ کتنا بڑا ظالم انسان ہے۔

اگر آپ اسطرح چیخی شور کرے گی تو اسے اور شے ملے گا آپ پر اور ظلم کرنے کا ساتھ ہی ساتھ وہ گھمنڈی انسان آپکی فیملی کا بھی جینا حرام کر دے گا پلیز سوچ سمجھ کر ایکشن لے مصیبت میں تو آپ پڑ چکی ہے اب اس طرح باغی بننے کے چکر میں کئی اپنا سب کچھ کھو نا دے سو بی کئیر فل کانسٹیبل آپکو ایک روم میں لیکر جائے گی تو آپ وہاں جا کر ٹھنڈے دماغ سے کچھ ایسا سوچیں کے وہ آپ کا پیچھا خود چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔"


ایس پی نے نہایت آرام سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

تو زہرا بتول نے اپنی نقاب سے جھانکتی خوبصورت آنکھوں سے ایس پی کی جانب دیکھا تو اسکے اس طرح دیکھنے پر ایس پی اسکی گھیری سیاہ خوبصورت آنکھوں میں کھو سا گیا۔


"سر۔"


لیڈی کانسٹیبل ایس پی کو ساکت کھڑے زہرا بتول کی جانب دیکھتے پا کر اسے آواز دینے لگی۔


"ہاں کیا بات ہے عائشہ۔؟؟


وہ لیڈی کانسٹیبل کے بلانے پر بری طرح سے چونکا۔


"سر آپ جا کر جلدی سے بگ برادر کو بتائیں ہمیں اسٹیشن بھی تو جانا ہے ہم نے یہ اللیگل کام کیا ہے ہمیں یہاں سے اس منظر سے ہٹنا بھی تو ہے ورنہ کئی اگر اس لڑکی کی فیملی کو پتہ چلا تو ہم پھنس جائیں گے کیونکہ میں جانتی ہوں یہ لڑکی کس کی بہن ہے۔"


لیڈی کانسٹیبل اچھے سے جانتی تھی کہ زہرا بتول سلطان کی بہن ہے پورا ملک سلطان سے اچھی طرح واقف تھا وہ ایک بگ شاٹ ہے جبکہ جسکے کہنے پر وہ اس لڑکی کو یہاں لیکر آئے تھے وہ سلطان سے بھی بڑا چیز تھا وہ دونوں طرف کے انسانوں کے ڈر کی وجہ سے اس وقت کانپ رہی تھی۔


"تم ڈرو مت سلطان کچھ نہیں کرے گا تم جانتی ہو نا بگ برادر اس سے بھی بڑا بیک گراؤنڈ رکھتا ہے سلطان اسکے آگے کچھ بھی نہیں ہے بگ برادر کی وجہ سے پاکستان کا چھوٹا بڑا بزنس چلتا ہے اگر سلطان نے کچھ کیا تو وہ سلطان کو غائب کروانے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔"


ایس پی نے اطمینان سے لیڈی کانسٹیبل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا

زہرا بتول ایس پی کی بات پر سخت خوفزدہ ہوکر بری طرح سے لرزنے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


ایس پی اپنے بگ برادر کو ڈھونڈتا سوئمنگ پول ایریا میں داخل ہوا تو سامنے پول میں تیرتے اپنے بگ برادر کے پول میں موؤ کرتے مضبوط کسرتی جسم کو ستائشی نظروں سے دیکھنے لگا۔


"ہائے میرے پیارے ظالم بگ برادر کیسے ہو تم۔"


ایس پی نے اسے پکارا تو اسکا چہرہ جو پانی کے اندر تھا ایس پی کی آواز پر اسنے اوپر اٹھایا تو چہرہ اوپر اٹھانے کی وجہ سے پانی کسی ناگن کی طرح رینگتے ہوئے اسکے خوبرو چہرے سے نیچے بہننے لگا۔


"بگ برادر میں لڑکی کو تمھارے کہنے پر اسٹیشن کے بجائے یہاں تمھارے فارم ہاؤس پر لیکر آیا ہوں وعدے کے مطابق اب تم میرا ٹرانسفر رکھوا دو ورنہ میں لڑکی کو لیکر یہاں سے سیدھا یونی پرنسپل کے آفس میں جاؤ گا تمھاری شکایت کرنے مگر تم تو بگ برادر ہو پرنسپل سے خاک ڈروں گے تم سے یونی میں سب ڈرتے ہیں لیکن ڈئیر بگ برادر کوئی بات نہیں ایک شخص ہے نا جس سے تم سخت ڈرتے ہو وہی اب تمھیں اس چیز سے روکے گے اگر تم باز نہیں آئے زیرون تو سچ میں میں دادا محترم کے پاس جا کر تمھاری جھوٹی شکایت کر آؤں گا کہ تم آجکل ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ رہے ہو میں اچھے سے جانتا ہوں تم نے آج ایک اہم میٹنگ اٹینڈ کرنے اسلام آباد جانا ہے اگر تمھاری وڈیو میں جاکر دادا محترم کو دیکھاؤ تو تم اچھے سے جانتے ہو وہ تمھارے ساتھ ساتھ اس لڑکی کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے اور مجھے پتہ ہے تم جتنا بھی اس سے نفرت کرتے ہو اسے دادا محترم کے حوالے بالکل بھی نہیں کروں گے۔"


وہ سر ہلا کر اپنے سلکی چاکلٹی براؤن بالوں سے پانی جھٹکنے لگا اور پھر نیچے جھک کر ایک ہاتھ آگے کرتا تیر کر پول کے کنارے پر پہنچا تو ایس پی اسے پول کے کنارے آکر پشت ٹکا کر کھڑے ہوتے ہوئے دیکھ تیزی سے آگے بڑھا اور پول کے کنارے رکھیں برانڈڈ سگریٹ کا ڈبہ اٹھا کر اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر اسکے منہ سے لگا کر دانت کچکچا کر اس سے بولا۔


"تم وہاں جھوٹی کہانیاں بناؤ گے اور میں یہاں تمھاری زندگی میں ایک طوفان لاؤں گا ساحر راجپوت۔"


زیرون راجپوت نے سگریٹ کے دھوئیں فضا میں چھوڑتے ہوئے اسے نرمی سے دھمکاتے لہجے میں کہا۔


"یہی چیز مجھے روکتی ہے بگ برادر۔"


ساحر نے سخت چڑتے ہوئے کہا۔

وہ جانتا تھا اگر اس نے دادا کے پاس جا کر انکے لاڈلے ہوتے کی شکایت کی تو وہ اسے اس شاندار جاب سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ اسکا جینا حرام کر دے گا۔


"تو مجھے جاننے کے باوجود کیوں تم میرے اندر سوئے ہوئے آرام فرما رہے اس کمینے انسان کو جگاتے ہو جسے صرف خون خرابے اور لوگوں کی زندگیاں برباد کرنا پسند ہے ساحر راجپوت۔"


وہ اپنا رخ بدل کر ساحر راجپوت کی جانب ہوا اور سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔


"اس بار تم غلط کر رہے ہو زیرون راجپوت وہ لڑکی مجھے ایسی نہیں لگ رہی جو تم نے اسکے بارے میں مجھے بتایا تھا اور ازخف کی حالت کا زمہ دار وہ لڑکی نہیں اسکا بھائی ہے یار تم کیوں اسکے بھائی کی سزا اسے دینا چاہتے ہو تم اس سلطان سے آسانی سے جیت سکتے ہو پھر کیوں یہ سب کر کے اپنا امیج اور بھی زیادہ خراب کر رہے ہو۔؟؟


ساحر اب کے سنجیدہ ہو کر اس سے بولا۔


"شٹ اپ تم نے اپنا کام کر دیا مجھے بریفنگ دی نا اب تم یہاں سے جا سکتے ہو مجھے سیکھانے کی ضرورت نہیں ہے میں جو کر رہا ہوں بالکل سہی کر رہا ہوں سمجھے تم ۔"


زیرون راجپوت یکدم سے اپنے جلالی تاثرات چہرے پر سجاتے ہوئے ساحر راجپوت کی جانب دیکھتے ہوئے غرایا۔

ساحر اسکے تاثرات سے سخت گھبرا کر پیچھے ہٹا اسکے اندر اس ضدی انسان سے لڑنے کی بالکل طاقت نہیں تھا ساحر پولیس میں ہونے کے باوجود بھی اس سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا دادا نے اسکی سیفٹی کے لیے اسے ایسے ٹرین کیا تھا کہ آج وہ ایک خطرناک اور طاقتور فائٹنگ سے لیکر ہر ایکٹویٹی میں ماسٹر مائنڈ تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


لیڈی کانسٹیبل اسے ایک بڑے سے روم میں چھوڑ کر چلی گئی تھی وہ اس روم کو سرسری نظروں سے دیکھنے لگی روم میں بیش قیمتی پینٹنگ رکھے ہوئے تھے۔


ان پینٹنگ کی خوبصورت نقش و نگار اور سب سے بڑی بات اس کے ست رنگوں اور بنانے والے کی محنت نے اسکو اپنی جانب کھینچا تو وہ ان پینٹنگ کی جانب بڑھی۔


پینٹنگ کے سامنے کھڑی وہ ہاتھ آگے بڑھا کر پینٹنگ میں نظر آتے خوبصورت منظر کو چھونے والی تھی کہ پیچھے سے بھاری گھمبیر آواز پر وہ سٹپٹا کے پیچھے پلٹی تو اپنے بے حد قریب زیرون راجپوت کو دیکھ وہ گھبراہٹ کے عالم میں پیچھے اس پینٹنگ سے جا کر ٹکرائی اسکے ٹکرانے کی وجہ سے پیٹنگ نیچے گرتا اس سے پہلے زیرون راجپوت نے اپنے دونوں ہاتھ پیٹنگ پر رکھے زہرا بتول جو گھبراہٹ کے عالم میں پیچھے ہٹی تھی اسکے اس عمل پر اپنے آس پاس اسکے کلون اور سگریٹ کی ملی جلی خوشبو کو پھیلتے ہوئے محسوس کرنے لگی۔


زہرا بتول اسے اپنے مزید قریب دیکھ سخت گھبرا کر اپنی نظریں نیچے کر گئی لیکن جیسے ہی نظریں نیچے کرتے ہی اسے احساس ہوا کہ وہ اس وقت شرٹ لیس تھا نظریں نیچے ہونے کی وجہ سے اسکے سامنے اسکا مضبوط کسرتی جسم تھا جسے دیکھ وہ اپنی آنکھیں سختی سے میچ گئی۔


"تم جیسی لڑکی شرماتی بھی ہے ویری اسٹرینج۔؟؟


اسے آنکھیں میچے بری طرح سے لرزتے ہوئے دیکھ زیرون راجپوت طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔


"کک۔کیا مطلب۔؟؟


وہ اسکی بات پر اپنی نظریں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے سے بولی۔


"مطلب تم اچھے سے جانتی ہو نیک پروین بی بی کے میں تم سے کیا کہ رہا ہوں۔"


پینٹنگ دیوار سے لگا کر وہ اپنی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالتے ہوئے پیچھے ہٹا اور اسکی سیاہ خوبصورت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سپاٹ لہجے میں بولا۔


"میں نہیں جانتی تمھارے مطلبوں کو مسٹر گاڈ فادر کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوں تُم۔؟؟کیوں میری جان نہیں چھوڑتے تُم۔؟؟

میں اس دن دھوکے سے تمھارے فلیٹ میں آئی تھی۔اپنے آپکو بیچنے نہیں آئی سنا تُم نے۔اس دن مجھے میری دوست نے دھوکے سے میرے اوپر کافی پھینک کر مجھے اپنا برقعہ صاف کرنے کے لیے تمھارے فلیٹ پر یہ کہ کر بھیجا تھا کہ اسکے فلیٹ کے سارے واشروم کے نل خراب ہے۔میں اچھے سے جانتی ہو تم جیسے امیر بگڑے ہوئے رئیس زادے کو مجھ پر میری بات پر یقین نہیں آئے گا آئی ڈونٹ کئیر لیکن یہ جو تم مجھے نیچا دکھانے یا میری عزت کی دھجیاں بکھیرنے یہاں لیکر آئے ہو نہ تو سن لو میں یہ نہیں ہونے دو گی تمھیں جان سے مار دو گی۔اگر تم نے میرے ساتھ ایسا ویسا کچھ کیا نا تو مسٹر گاڈ فادر سنا تم نے نہیں چھوڑوں گی میں تمھیں گوٹ اٹ۔"


زہرا بتول نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے چبا چبا کر کہا۔


"کتنی جھوٹی ہو تم نیک بی بی میں اچھے سے جانتا ہوں تُم نیک پرہیزگار اس لیے بن کر یونی آتی ہو تاکہ تمھاری نیکی اور سادگی سے مجھ جیسا امیر رئیس لڑکا پاگل ہو جائے یہی مقصد ہے ناں تمھارا بٹ سوری فار ڈیٹ میں پاگل نہیں ہوا تمھاری ان شاطرانہ اداؤں کو دیکھ کر بلکہ میں تمھارا دشمن بن گیا ہو اگر تم مجھ سے بچنا چاہتی ہو تو میں تمھیں تین چوائس دیتا ہوں تب تم اور تمھارا وہ سو کالڈ بھائی مجھ سے بچ سکتا ہے ورنہ تمھارے انکار سے میں تمھاری فیملی کا نام و نشان مٹا دوں گا۔"


زیرون راجپوت کی نظروں میں اس وقت اس کے لیے سخت نفرت تھا اور لہجے میں تو جیسے آگ برس رہا تھا۔


"چوائس.؟؟


زہرا بتول اسکی بات پر بڑبڑا کر بولی۔


زیرون راجپوت اسکی بڑبڑاہٹ سنتا سامنے رکھی کرسی کھینچ کر اسکے بلکل سامنے بیٹھا اور اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھ کر اسکے پورے وجود پر اپنی خوبصورت براؤن آنکھوں کو گاڑ کر اسے دیکھنے لگا۔


"اپنی یہ غلیظ نظریں میرے اوپر سے ہٹاؤ مسٹر۔"


زہرا بتول کے پورے وجود میں اسکی نظروں کو اپنے وجود پر دیکھ کپکپی طاری ہوگئی وہ سٹپٹا کے اسے اپنے وجود سے نظریں ہٹانے کو بولی۔


"نیک بی بی میری نظریں ہیں تو میری مرضی میں جہاں چاہیں دیکھ لو تمھیں کیوں مرچی لگ رہی ہے چلو خیر اصل بات کی جانب بڑھتے ہیں چوائس کی جانب۔"


زیرون راجپوت نے اسے غصے سے کانپتے ہوئے دیکھ سپاٹ لہجے میں کہا۔


"بتاؤ اپنی ڈیمانڈ مجھے اب ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہنا۔"


زہرا بتول کو اسکی یہاں موجود ہونے کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا وہ اسے دیکھے بغیر سخت لہجے میں بولی۔


"تین چوائس ہیں تمہارے پاس مس شاہ پہلی چوائس اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھنا۔دوسری چوائس اپنے اس پرسرار حسین چہرے کے راز سے یہ نقاب ہٹا کر اپنے پورے وجود کو اس بڑے سے برقعے سے آزاد کرکے ننگے سر وہاں جا کر خاموشی سے بیٹھ کر مجھے پینٹنگ بنانے دو گی تب تم بچ سکتی ہو اور تمہارا خاندان بھی میری قہر سے بچ سکتا ہے اگر یہ چوائس پسند نہیں تو لاسٹ بھی بڑا دلچسپ ہیں۔"


زہرا بتول روم میں خوبصورت پینٹنگز دیکھتی اسکی آرٹ کو دل ہی دل میں سرائے بغیر نہ رہ سکی لیکن اس کی بات نے اسے ہکا بکا کر دیا۔


"تیسری چوائس کیا ہے۔؟؟


وہ اسکی جانب دیکھنے سے سخت پرہیز کرتی کچکچا کر بولی کیوں کہ وہ اس وقت صرف سفید پینٹ میں ملبوس تھا پینٹنگ بنانے کی وجہ سے اُس کی چوڑی پشت اسکے سامنے تھیں وہ اسکی پشت پر دو سانپ کے ٹیٹوز بنے دیکھ ہڑبڑا کر اپنی نظریں نیچے جھکا کر بولی۔


"ہمممم یہ ہے تیسری چوائس۔"


زیرون راجپوت یکدم سے اسکی جانب مڑتے ہوئے سامنے ٹیبل پر رکھے گلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا تو زہرا بتول اسکی لمبائی خوبصورت سفید انگلی کو ٹیبل کی جانب دیکھ اسی جانب نگاہ بڑھا کر دیکھنے لگی لیکن گلاس پر نظریں پڑتے ہی وہ دم بخود رہ گئی۔


"یہ کیا ہیں۔"


زہرا بتول آگے بڑھی اور اس گلاس کو ٹیبل سے اٹھا کر حیرانگی سے سامنے کھڑے شخص سے بولی۔


"ناٹک بند کروں اپنی میں اچھے سے جانتا ہوں تم جیسی لڑکی کو اس مشروب کو اچھے سے پہنچاتی ہو تم یہ نیک بی بی بننے کی ادکاری کسی چھچھوندر کے سامنے جا کر کرنا ڈیم اٹ میں اچھے سے پہچانتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کو جو رات کے اندھیرے میں اپنے شریف ماں باپ کو دھوکا دے کر اپنے لیے ایک موٹا شکار پھنسانے کے لیے کسی مہنگے کلب میں جا کر ایسی مشروب پی کے خود کو نشے میں دھت ظاہر کر کے انہیں اپنی جال پھنسا کر تم کہتی ہو کہ یہ چیز کیا ہے وہاٹ آ نائس جاک۔"


زیرون راجپوت زہرا بتول کو حیرانگی سے گلاس کی جانب دیکھتے پاکر اچانک سے زور سے ہنستے ہوئے تالیاں بجا کر آخر میں اپنے چہرے کو سنجیدہ کرتے سخت گیر لہجے میں بولا۔


"چٹاخ۔"

"شٹ اپ یی۔یہ تُم کیا بکواس کر رہے ہو۔"


زہرا بتول اسکی گھٹیا بات پر سخت غصے سے آگ بگولہ ہو کر آگے بڑھی اور اسے آج ایک اور زور دار تھپڑ مار کر اسکے نفرت کو مزید بھڑکا گئیں۔

زیرون راجپوت تھپڑ لگنے کی وجہ سے چہرہ پیچھے کیے کھڑا اپنے غصے کو کنٹرول کر رہا تھا آج پھر اس لڑکی نے اسے تھپڑ مار کر اسکے سر پر جنون سوار کر گیا۔

اسے برباد کرنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسکا یہ دوسرا تھپڑ اسے مہنگا پڑے گا۔


"یو تمھاری اتنی جرات نہیں چھوڑوں گا آج میں تمھیں آج تم اس فارم ہاؤس سے زندہ لاش بن کر نکلوں گی ڈیم اٹ۔"


چہرہ آگے کرتا وہ غصیلی نظروں سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے غرایا زہرا بتول اسکی غراہٹ پر سخت سہم کر پیچھے ہٹی تو پیچھے رکھیں گول نما نرم سیاہ رنگ کے صوفے پر جا گری۔


سلطان عالم شاہ میٹنگ روم میں ایک اہم میٹنگ اٹینڈ کرنے جا رہا تھا کہ راستے میں اپنے سینے پر سخت درد محسوس کر کے وہ رکے اور اپنا ہاتھ سامنے دیوار پر رکھ کر اپنی آنکھیں بند کرکے گہری گہری سانسیں لینے لگے۔


"باس آپ کو کیا ہو رہا ہے آپ ٹھیک تو ہے ناں۔؟؟


فرجاد جو انکے پیچھے آ رہا تھا انہیں اس طرح رکتے ہوئے دیکھ آگے بڑھیں تو انہیں سینے پر ہاتھ رکھیں آنکھیں بند کرکے گہری سانس لیتے ہوئے دیکھ وہ گھبراتے ہوئے آگے بڑھا اور انہیں تھامتے ہوئے پریشانی سے بولا۔


ف۔فرجاد آئی ایم ناٹ اوکے ای۔ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہے۔"


انہوں نے سینے کو مسلتے ہوئے مشکل سے کہا۔


"باس آپ یہاں بیٹھے میں آپ کے لیے پانی لیکر آتا ہو۔"


فرجاد انہیں سامنے رکھی کرسی پر بیٹھاتے ہوئے بول کر وہاں سے جانے کے لیے مڑا لیکن انکے ہاتھ پکڑنے پر وہ رک گیا اور پیچھے مڑ کر انکی جانب دیکھنے لگا۔


"فف۔فرجاد پتہ کروں زہرا ٹھیک ہے اور گھر میں بابا سائیں اماں سائیں امشال وہ سب ٹھیک ہے سب کے بارے میں پتہ کروں میرا دل اس لیے پھٹ رہا ہے کیوں کہ میرے اپنوں میں سے کوئی تکلیف میں ہے۔"


انہیں اپنے سینے کا درد اسی جانب متوجہ کرا رہا تھا فرجاد سے سب کے بارے میں پتہ کرنے کے لیے کہتا اپنا سینا پکڑ کر اپنی آنکھیں بند کر کے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر دل ہی دل میں سب کی سلامتی کی دعا کرنے لگے۔


دوسری طرف زیرون کو زہرا بتول اپنی جانب غضب ناک تیور لیے بڑھتے ہوئے دیکھ خوفزدہ ہو کر اپنی آنکھیں میچ کے صوفے کی پشت پر لگ کر اپنی جان عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لیے اللہ سے دعا مانگنے لگی۔

"میرے قریب مت آنا ورنہ میں تمھیں اس سے مار دوں گی دد۔دور ہو جاؤں میں سچ میں تمھیں مار دو گی سنا نہیں تم نے میرے قریب مت آؤں ۔"


زہرا بتول اسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھتی اپنی نظریں آس پاس ڈورانے لگیں تو سامنے ٹیبل پر رکھے خوبصورت گلدستے کو اٹھا کر بنا ڈرے اس سے بولی۔


لیکن زیرون راجپوت اسکے ہاتھوں میں اتنے چھوٹے سے گلدستے کو دیکھ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ بکھیر کر اسی طرح اپنے قدم آگے بڑھانے لگا۔


"تم میری بات کو مزاق میں لے رہے ہو مسٹر زیرون راجپوت میں نے کہا وہی رک جاؤ میں بلکل بھی رحم نہیں کروں گی تم پر یہ میں تمھاری سر پر سچ میں مار دو گی۔"


اسے قدموں کو روکنے کے بجائے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ زہرا بتول نے گلدستے پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔


"رکی کیوں ہو پھینکوں نا اور نشانہ بلکل یہاں۔یہاں میری پیشانی پر لگنا چاہیے اگر تمھارا نشانہ چگ گیا ناں تو میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا مس شاہ۔"


زیرون راجپوت نے ٹھہرتے ہوئے اپنی پیشانی پر انگلی رکھتے ہوئے برفیلے لہجے میں کہا۔


"تم اتنے یقین سے یہاں کیسے کھڑے ہو سکتے ہوں۔اگر میں نے سچ مچ میں یہ گلدستہ تمھارے سر پر مار دیا مسٹر زیرون راجپوت تو۔؟؟


زہرا بتول اسے تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے دیکھ سک کی سانس لے کر اس سے کہا۔


"وہاٹ آ جاک تم مارو گی پہلے اپنا یہ تمبو تو سہی سے سنبھالوں مس شاہ پھر آکر مجھ پر زیرون راجپوت پر قاتلانہ حملہ کرنے کی سوچنا۔"


زیرون راجپوت نے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے اس پر طنز کھستے ہوئے کہا۔

زہرا بتول اسکی بات پر سخت غصے سے سیاہ دستانے میں مقید اپنے دونوں ہاتھوں کو سختی سے فولڈ کر کے غصے سے جلتی ہوئی سختی سے بھینچنے لگی۔

اچھالا۔


زیرون راجپوت گلدستے کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھ جلدی سے سائیڈ پے ہوا تو گلدستہ جا کر پیچھے ایک خوبصورت پینٹگ پر جاکر لگا تو پیٹنگ بیچ سے تھوڑا سا ڈیمج ہوگیا۔


زیرون اپنے من پسند پینٹنگ کی حالت دیکھ سخت غصے سے پیچھے مڑا اور اسکی جانب بڑھا لیکن اسکی بات پر اسے وہی رکنا پڑا۔


"شٹ اپ بہت ہوگیا میں سب کچھ برداشت کروں گی لیکن پردے کا مزاق بلکل بھی نہیں جیسے تمھارے لیے حرام مشروب پینا دوسرے سے گالی گلوج کرنا گانا سننا یہ اپنے جسم میں عجیب و غریب ٹیٹوز بنانا لڑکیوں کو اغوا کر کے انکے ساتھ کھیلنا اہم ہیں اسی طرح میرے لیے میرا حجاب سب سے زیادہ اہم ہے سمجھے تم مسٹر زیرون راجپوت۔"


زہرا بتول نے اسکی جانب اپنی غصیلی سرخ آنکھوں کو گاڑتے ہوئے کہا۔


"ہوں مس شاہ تو تم کب سے میرے جسم کے ٹیٹوز گن رہی تھی انٹرسٹنگ ویری انٹرسٹنگ۔"


زور سے تالی بجا کر زیرون راجپوت اسکے آگے پیچھے گول گول گھومتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا۔


"شٹ اپ میں ایسی گری ہوئی لڑکی نہیں ہو جو ایک غیر مرد کے جسم کے حصے کو اسکے ٹیٹوز کو گھنوں گی اسے دیکھوں گی تم ایک بدتمیز انسان ہو کب سے اس طرح کھڑے ہو میں کب سے نظریں نیچے کر کے تم سے بات کر رہی ہوں مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے کہ اگر میری نظریں اٹھیں تو میں آنکھوں کے زنا کی مجرم بن جاؤں گی اور اپنی آخرت تباہ کر دوں گی اس گناہ سے بچنے کے لیے میں نیچے دیکھ رہی ہوں تو کم از کم تم ہی ہوش کر لو اور جا کر اپنی شرٹ پہنو تم خود تو ہر معاملے میں گناہ گار ہوں تو مجھے اپنی طرح گناہ گار تو مت بناؤ۔"


زہرا بتول کب سے اسکی شرٹ لیس جسم سے نظریں ہٹائے دوسری طرف دیکھ رہی تھی اسکی بات پر سخت غصے سے بولی۔


"تمھیں لگتا ہے میں گناہ گار ہوں۔؟؟


زیرون راجپوت اسکی بات سن کر اسکے قریب آکر کھڑا ہوا اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سے پوچھنے لگا۔


"ہاں بہت بڑے گناہ گار ہوں تم۔"


زہرا بتول نے سخت ناگواری سے کہا۔


"میں تمھاری نظروں میں ایک گناہ گار ہوں تو پھر ٹھیک ہے میں اپنے گناہوں میں ایک اور اضافہ کرتا ہوں تمھارے ساتھ غلط کر کے تمھاری ساری زندگی کو جہنم بنا کر مس شاہ۔"


وہ چہرے پر خطرناک سنجیدگی سجا کر اسکے مزید قریب ہونے لگا کہ زہرا بتول ڈر کے مارے پیچھے صوفے پر جا گری۔


"یی۔یہ تم کیا کر رہے ہو پیچھے ہٹو۔"


زہرا بتول اس چٹان نما شخص کو اپنے قریب بے حد قریب آتے ہوئے دیکھ آنکھوں میں خوف لیے لرزتی ہوئی بولی۔


زیرون راجپوت اسکی خوف سے پھیلی پڑتی رنگت اور سیاہ بڑے سے برقعے میں مقید اسکے نازک پردے میں چھپے سراپے کو بری طرح سے لرزتے ہوئے دیکھ عجیب طرح سے مسکرایا۔


"اپنے گناہ میں اضافہ۔"


زیرون راجپوت ہنستے ہوئے بولا۔


"کیا تم ایک ریپسٹ بھی ہو۔"


زہرا بتول اسکی بات پر سانس لینا بھول گئی۔

پھٹی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتی اتنا بولی۔


"شٹ اپ جسٹ شٹ اپ ہاں میں کمینا ہو شرابی ہو ایک بے غیرت ہو لیکن ایک ریپسٹ نہیں سمجھی میں بڑے سے بڑا گناہ کر سکتا ہوں لیکن یہ گناہ کبھی بھی نہیں مرتے وقت بھی نہیں سمجھی تم۔"


سرخ نظروں سے اسے گھور کر بولتا وہ اسکے کان کے پاس جھکتے ہوئے گویا ہوا۔


"تمھیں کیا لگا میں تمھارے قریب آؤں گا۔ تمھیں ہاتھ لگاؤں گا۔؟اور تمھاری عزت و آبرو کے ساتھ کھیل کر تمھارے دامن کو داغ دار کروں گا مائے فٹ۔یہ گناہ کے بارے میں سوچنے سے پہلے میں خود کی جان تو لے سکتا ہوں لیکن کسی لڑکی کی عزت کے ساتھ کبھی یہ گیم نہیں کھیل سکتا۔"

اب اپنی یہ آنکھیں کھولو میں تمھارے پاس صرف لاسٹ چوائس بتانے کے لیے بڑھا تھا۔"


زیرون راجپوت کمینا بدتمیز گھمنڈی ضدی ضرور تھا لیکن لڑکیوں کی عزت کے ساتھ وہ کبھی نہیں کھیلا زہرا بتول سے دشمنی کے باوجود بھی اسکے دماغ میں یہ خیال کبھی نہیں آیا وہ اسکے قریب صرف چوتھی چوائس بتانے کے لیے بڑھا تھا زہرا بتول کے تھپڑ رسید کرنے کے باوجود بھی وہ اسے پتہ نہیں کیوں ایک موقع دینا چاہتا تھا۔


"لاسٹ چوائس۔"


زہرا بتول آنکھیں میچیں صوفے پر دبک کر بیٹھی تھی اپنی کان میں جب اسکی بھاری گھمبیر آواز پڑی تو وہ جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھول کر پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔


"ہاں لاسٹ چوائس تم نے مجھے زیرون راجپوت کو تھپڑ مارا ہے وہ بھی ایک بار نہیں دو بار اب تو تمھیں بھگتنا پڑے گا مجھے اپنے فلیٹ والی بات دوسرے دن پتہ چل گیا تھا ہم دونوں کو دھوکا دیا گیا تھا ہمارے قریبی لوگوں کی جانب سے میں تمھیں اس وجہ سے تو چھوڑنے والا تھا اس دن کے تھپڑ کی وجہ سے بھی بخش رہا تھا لیکن آج کے اس تھپڑ نے مجھے غصہ دلایا مس شاہ آج میری نفرت کی وجہ تمھارا یہ تھپڑ ہیں جو تم نے آج مجھے مارا تمھیں ایک ضدی گھمنڈی رئیس زادے کو تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا مس شاہ۔"


زیرون راجپوت نے اپنی نفرت کی اصل وجہ بتاتے ہوئے اسے نفرت بھری نگاہوں سے گھورا۔


"تمھیں تھپڑ مارنے کا ریزن نظر نہیں آیا ہاں لیکن اپنا تھپڑ کھانا ضرور نظر آیا شیم لیس انسان۔"


زہرا بتول نے سخت نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"وہاٹ شیم لیس تم نے مجھے شیم لیس کہا ہاؤ ڈئیر یو میں تمھیں اب زندہ نہیں چھوڑوں گا بہت کر لیا تمھارا لحاظ اب اور نہیں بہت ناز ہے نا تمھیں اپنے اس حجاب سے اب تمھیں پتہ چلے گا کہ زیرون راجپوت سے الجھنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔"


زیرون راجپوت نے سخت نفرت انگیز نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور اسے پکڑ کر کھینچتا روم سے باہر نکلا۔


"نہیں نہیں مجھے چھوڑوں پلیز ورنہ میں مر جاؤں گی پلیز اپنے ہاتھ دور کروں مجھ سے پلیز۔"


زہرا بتول کسی غیر مرد کے ہاتھ اپنے ہاتھ پر دیکھ کر سسکی اور ہوش کرتے ہی زور زور سے اپنے آپکو چڑاتی ہوئی کہنے لگی۔


"تُم سب کو شراب دوں گی اپنے ان پاکیزہ ہاتھوں سے جن سے تم نے ابھی کچھ دیر پہلےاپنے لیے دوزخ خریدا ہے۔"


وہ اسکی باتوں کو اگنور کرتے ہوئے اسے لیکر نیچے اس پارٹی میں لیکر آیا اور اسے لاؤنج کے بیچوں بیچ دھکیل کر شدید غصے سے بولا۔


"نن۔نہیں میں یہ نہیں کر سکتی مجھے پلیز جانے دو خدا کے لیے۔"


زہرا بتول اسی بات پر سر تا پا بری طرح سے لرز گئی۔

اس سے پہلے زیرون راجپوت اسے یہ کام زبردستی کرواتا شاید زہرا بتول کی بے بسی خدا کو بلکل بھی اچھی نہیں لگی تبھی تو زیرون راجپوت کے فون پر ایک کال آیا جسے سننے کے بعد وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا۔


"یہ تم کیا کہ رہے ہوں کیا سچ میں پاکی کو کسی نے کڈنیپ کیا ہے تم کالج میں ڈھونڈو اسے وہ وہی کہیں ہوگی تم جانتے تو ہو نا وہ کتنی شرارتی ہیں یہ بھی اسکی کوئی شرارت ہوگی ہمیں ستانے کا نیا پلان۔"


زیرون راجپوت دوسری طرف اپنی لاڈلی بہن کے اغوا کا سن کر سخت پریشانی سے اپنی پیشانی پر آئے بالوں کو پیچھے کرتا دوسری طرف موجود شخص سے بولا۔


"ٹھیک ہے تم وہی رکوں میں ابھی آتا ہو۔"


وہ یہ کہ کر کال کاٹ کر زہرا بتول کی جانب دیکھنے لگا جسکی نقاب کے اوپر سے جھانکتی خوبصورت آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہوگئی تھی وہ گہری سانس لے کر آگے بڑھا لیکن زہرا بتول کے پیچھے ہٹنے پر وہ وہی رک گیا اور غصے سے اپنی مٹھیاں کھسنے لگا۔


"اس وقت میری بہن کو دعا دو تم کیوں کہ اسکی وجہ سے تم بچ گئی ہو ورنہ تم آج میرے اس حکم سے بلکل بھی نہیں بچتی اب تم مجھے کبھی نظر نہیں آنا ورنہ میں تمھیں بلکل بھی نہیں چھوڑوں گا گوٹ اٹ اب یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو چلی جاؤ یہاں سے۔"


اسکے قریب بیٹھا اور شدید نفرت سے بولا۔


"مم۔میں واپس کیسے جاؤ میرا بیگ یونی میں رہ گیا ہے میرے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہیں اور یہ کونسی جگہ ہے مجھے اسکا بھی پتہ نہیں ہے۔"


زہرا بتول اپنے بچنے پر اپنے پورے وجود میں سکون کی لہر دوڑتے ہوئے محسوس کرتی بے بسی سے اس شخص سے بولی جو اسکا سب سے بڑا دشمن تھا۔


"تو یہ بات ہے ٹھیک ہے میرا ڈرائیور تمھیں یونی تک چھوڑ آئے گا۔"


زیرون راجپوت نے گہری نظروں سے اسکے بری طرح سے لرزتے وجود کو دیکھتے ہوئے کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکلا تو اسکے وہاں سے جاتے ہی زہرا بتول اپنی عزت کو سلامت دیکھ نم آنکھوں سے سجدے پر گر کر اپنی خوش نصیبی پر رونے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


سوات کے جنگل کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت بڑا سا ولا بنا ہوا تھا درختوں سے گرا ہوا وہ ولا دن کے وقت بہت ہی خوبصورت نظر آتا تھا جبکہ رات کے وقت بہت ہی خوفناک اس بڑے سے ولا میں نوکروں کی تعداد بلکل بھی گنی نہیں جا سکتی تھی کیونکہ نوکروں کی فوج ہر وقت کبھی یہاں تو کبھی وہاں کام کرتے ہوئے نظر آتے تھے اس وقت بھی وہ ہاتھ تیز چلا رہے تھے۔


کیونکہ اس ولا کا اور اس شہر کا خطرناک مالک آنے والا تھا کک اسکی پسند کے ڈش بنا رہے تھے تو دوسرے نوکروں کی فوج ولا کو چمکا رہے تھے۔


سبھی گارڈز سیکورٹی چیک کر رہے تھے اس شخص کے آنے کی وجہ اس ولا میں خطرہ بڑھنے کا امکان زیادہ ہوتا تھا تو وہ سبھی اس کے آنے سے پہلے ہی سب کچھ سیٹ کر لیتے تھے کیوں وہ سب کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔


سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے کہ تبھی ایک ہیلی کاپٹر کو ولا کے لینڈنگ ایریا کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ اپنا اپنا کام چھوڑ کر اسی جانب بھاگے۔


سب نوکر گارڈز دو قطار کی صورت میں سر جھکا کر کھڑے ہو گئے ہیلی کاپٹر نیچے اترتے ہی ایک سیاہ لانگ کوٹ پہنے چہرے کو ماسک سے چھپائے آنکھوں پر سیاہ سن گلاسز سے چھپائے ایک شاندار شخص باہر نکلا۔


"ویلکم آر آر سر۔"


قطار میں کھڑے ایک نوکر نے سر مزید جھکاتے ہوئے اپنے مالک کو ویلکم کیا۔

تو اسکے ویلکم پر وہاں موجود سبھی لوگ ڈر کر رہ گئے کیونکہ اسکا شخص کا غصہ اسی کی طرح بہت ہی خطرناک تھا اگر اسے اس نوکر کا مخاطب کرنا پسند نہیں

آیا تو اسکے ساتھ ساتھ انکی بھی خیر نہیں تھی اسی لیے سب تھر تھر کانپنے لگے۔


"میرے ہی علاقے میں میرا ویلکم ناٹ بیڈ۔"


برفیلے لہجے میں کہتا وہ شخص عجیب طرح سے مسکرایا۔


"سس۔سوری آر آر آر مجھ سے غلطی ہوگئی آئیندہ میں یہ غلطی نہیں کروں گا۔"


وہ نوکر اپنے مالک کو نا خوش دیکھ تیزی سے اسکے پیروں پر گرتے ہوئے گڑگڑا کر کہنے لگا۔


"آئیندہ کے لیے میں تمھیں موقع نہیں دوں گا۔"


یہ کہ کر اس شخص نے اپنا ریوالور نکال کر اسکے ماتھے پر نشانہ لگایا تو گولی چلتے ہی وہ شخص نیچے گرا اور وہی پر تڑپ تڑپ کر مر گیا۔


اس نوکر کے ساکت وجود کو دیکھ سب خوفزدہ ہو کر رہ گئے جبکہ وہ شخص اس نوکر کے اوپر سے پیر گزار کر گزرا اور اپنے پرائیویٹ روم کی جانب بڑھا اسکے پیچھے اسکا رائٹ ہینڈ بڑھا۔


اسکا رائٹ ہینڈ جب اسکے پرائیویٹ روم میں داخل ہوا تو اندھیرے میں سامنے اسے صوفے پر بیٹھا اور اسکے سامنے سر جھکا کر کھڑا ایک آدمی نظر آیا۔


"کیا بات ہوئی تمھاری اس راجپوت سے۔؟؟


اس اندھیرے روم میں اس شخص کی بھاری سرد آواز گونجی۔


"نن۔نہیں آر آر۔"


سامنے کھڑا آدمی تھر تھر کانپتے ہوئے بولا۔


"ان لڑکیوں کو لائے ہوئے کتنا ٹائم ہوا ہے۔؟؟


اس آدمی کی بات سن کر آر آر نے کہا۔


"پانچ گھنٹے۔"


آدمی نے لرزتے ہوئے کہا۔


"ہممممم پانچ گھنٹے اور تم ابھی تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں۔"


تو اس کی بات پر وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور اس آدمی کے قریب آیا جس سے اسکا پورا وجود نظر آنے لگا سیاہ کپڑوں میں سیاہ ماسک لگا کر ایک کیپ پہنے جس

پر سونے کی تار سے آر آر لکھا ہوا تھا ہاتھوں میں چاندی

کی انگوٹھی جس پر بھی آر آر بنا ہوا تھا۔

ہاتھ میں تھما چاقو اسنے بے دردی سے اس آدمی کے سینے پر مارا اور نیچے پیٹ کی جانب لیجاتے ہوئے تند خو لہجے میں بولا۔


"آہ۔ہ۔ہہ۔"


سینے پر اور پیٹ پر چاقو لگنے کی وجہ سے وہ آدمی ڈرام سے نیچے زمین پر گرا اور بری طرح سے کراہنے لگا۔


"راجپوت اگر تم بھی نہیں مانے تو تمھارا حال ایسا ہوگا۔"


وہ شخص اپنے آدمی کے تڑپتے وجود پر نظریں گاڑتے ہوئے بھاری خطرناک لہجے میں کسی کو یاد کرتے ہوئے بولا۔


آر آر ایک خطرناک مافیا گینگ کا لیڈر تھا آج تک اس سے کوئی الجھا نہیں تھا لیکن پہلی بار راجپوت خاندان سے

وہ الجھا اسکی وجہ سے اسکے بہت سے آدمی مارے گئے

تو وہ اپنا نقصان کا بدلا انکے گھر کی چہتی کو اٹھا کر لیا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ہائے اللہ آخر کار میرا برسوں کا سپنا پورا ہوگیا ناول کی ہیروئن کی طرح مجھے بھی کڈنیپ کر لیا ہے کسی ہیرو نے افففف سجل وو۔وہ ظالمہ کیسا ہوگا کک۔کیا وہ بھی پیر کامل کے سالار سکندر کی طرح شاندار ہوگا یی یا پھر وہ دہشت ظلمات کے ہیرو ھاد مرزا کی طرح خطرناک۔"


اس شاندار ماسٹر بیڈروم میں دو لڑکیاں کرسی سے بندھی ہوئی تھیں کہ تبھی ان میں سفید فراک اور بلیو جینز میں ملبوس براؤن لمبے گھنے بالوں والی خوبصورت لڑکی نے اپنی ساتھی لڑکی سے پوچھا۔

ان دونوں کو چھٹی کے وقت کالج سے باہر کچھ لوگوں نے اغوا کیا تھا سجل نامی لڑکی سخت ڈری سہمی ہوئی تھی جبکہ اسکے برعکس پاکی نامی لڑکی اپنے کڈنیپ ہونے پر بے حد خوش لگ رہی تھی اور اپنے سپنوں کی وادیوں میں گھوم رہی تھی۔


"اففف ہوں پاکی تم بھی نا ہم لوگ اس وقت خطرے میں ہے اور تمھیں اپنے سالار سکندر اور ھاد مرزا کی پڑی ہوئی ہے مجھے تو وہ ہیرو نہیں دہشت گرد لگ رہے ہیں اگر انہوں نے تمھارا یہ تھرکی پن دیکھ لیا نا تو وہ تمھارے سر پر گولیاں برسائے گے گولیاں وہ بھی اصلی والے۔"


سجل نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔


"سجل میرے سالار سکندر اور ھاد مرزا کو کچھ مت کہنا ہاں ورنہ میں تمھیں ان اصلی گولیوں سے خود بھنوں گی۔"


سجل کی بات پر وہ بُرا مانتی ہوئی بولی۔

دونوں ایک دوسرے کی پشت سے لگے دوسری رخ پر منہ کیے ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔


"ہاہاہاہاہاہا کہوں گی ایک بار نہیں بلکہ ہزار بار کہوں گی تمھارا سالار سکندر۔"


سجل نے زور سے ہنستے ہوئے اسکے خوبصورت اناری چہرے کو غصے سے اور بھی زیادہ سرخ ہوتے ہوئے اپنے تصور میں دیکھتی ہوئی بولی۔


"باس سجل مصطفی راجپوت بس ایک لفظ اور نہیں ورنہ میں تمھارے ڈریم بوائے کا مزاق اڑاؤں گی تو تم کسی بچی کی طرح روؤں گی تو مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگا کیوں کہ تم روتی ہوئی بلکل چڑیل لگتی ہوں ہاہاہاہا ہاہاہاہا۔"


سخت سنجیدگی سے کہتی وہ لاسٹ میں زور زور سے ہنسنے لگی سجل اسکی بات پر دانت کچکچا کر رہ گئی۔

سجل اسکے ناول ہیروز کے بارے میں کہنے ہی والی تھی تبھی روم کا دروازہ کھول کر آر آر داخل ہوا کیونکہ اسکا پرائیویٹ روم اسی روم کے سائیڈ میں تھا وہ ان کی زور زور سے باتوں کی آواز سن کر اس روم کی جانب بڑھا تھا اس وقت وہ اپنے چہرے کو ہوریبل ماسک سے چھپائے اندر انکے سامنے کھڑا انہیں گھور رہا تھا۔

جبکہ وہ دونوں اس شخص کو سر تا پیر گھور رہے تھے۔


"ہائے میرا ناول ہیرو آ گیا۔"


سجل تو اس کڈنیپر کو دیکھتی بری طرح سے کانپنے لگی جبکہ پاکیزہ عرف پاکی اسکی ماسک کے اوپر سے جھانکتی نیلی آنکھوں کو دیکھ ایک ٹھندی آہ بھرتی ہوئی بولی۔


"ہماری سفید چڑیا یہ تم اپنا نا تھرک پن بند کر دوں ورنہ یہ جو تمھارا ناول کے ہیرو کی طرح دکھنے والا ہیرو ہے ناں یہ ہمیں سچ مچ جان سے مار دے گا دیکھوں تو یہ ہمیں کیسے گھور رہا ہے مجھے تو ایسا لگ رہا ہے یہ ہمیں ابھی کے ابھی ثابت نگل جائے گا۔"


سجل نے اسکی ڈائیلاگ بازیوں سے تنگ آکر دانت پیستے ہوئے آہستگی سے کہا تاکہ سامنے کھڑا کڈنیپر اسکی بات نا سن سکے جبکہ مقابل نے اسکی بات سن کر اسے گھورا۔


"تم دونوں یہ اپنی پرسنل باتیں زرا کم کرنا پسند کروں گی باہر کب سے تم لوگوں کی بکواس سن رہا ہوں اب اگر تم لوگوں کی بکواس سنائی دی تو اس ریوالور کی ساری کی ساری گولیاں تم دونوں کے دماغ میں اتار لوں گا۔"


"ہائے میرے ہیرو جی کیا ڈائیلاگ مارا ہے آپ نے قسمے میں تو آپکی دیوانی ہوگئی آج سے نہیں نہیں بلکہ ابھی سے میں آپکی دل گردے والی پنکی ٹھیک ہے ناں چلیں اب جلدی سے میرے پیارے ہیرو جی مجھے میرا ٹچ سکرین لا کر دے۔"


"کیا تمھارا دماغ خراب ہے پاکی یہ سامنے کھڑا جن تمھارا ہیرو نہیں ایک خطرناک کڈنیپر ہیں اور تم ہو کے اس سے فرمائش کر رہی ہو میرے ہیرو جی مجھے میرا ٹچ سکرین لاکر دے ہہنہہ فون ایسے مانگ رہی ہو جیسے وہ سچ میں تمھارا ناولی ہیرو ہے۔"


"سجل۔"


پاکی نے اسکا نام لیا تبھی مقابل نے شدید غصے سے اپنی ریوالور نکال کر انکے سامنے وال پیپر پر گولی چلائی تو وہ دونوں کی آنکھیں سامنے سفید وال پر چھید دیکھ پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔


"چپ ایک دم چپ اب اگر تم دونوں کی شور کی آواز آئی نہ تو میں اس بار وال پیپر کی جگہ تم لوگوں کے ماتھے پر چھید کروں گا سمجھی تم دونوں۔؟؟


"میں شور کہا کر رہی ہو وہ تو یہ سجل کر رہی ہیں میں تو صرف سیلفی لینا چاہتی ہو تمھارے ساتھ میرے پیارے سے ہیرو جی۔"


پاکی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

مقابل اسکی بات اور منہ کو بناتے ہوئے دیکھ سخت غصے سے اسے گھورنے لگا۔


"چپ لڑکی اب اگر تم نے کوئی ڈراما کیا نا تو میں سچ میں تمھارے ماتھے پر گولی مار کر تمھارے ساتھ سیلفی لوں گا۔"


وہ کڈنیپر پاکی کے اوپر جھکتے ہوئے سخت گیر لہجے میں بولا۔

"ہائے اللہ سجل یہ تو قریب سے سچ میں کسی ناول کا ہیرو لگ رہا ہے۔"

پاکی پر اس کڈنیپر کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ اسکی خوبصورت سمندروں جیسی نیلی آنکھوں کو اپنے قریب دیکھ چہکتی ہوئی سجل سے بولی تو سجل کا دل کیا اسکی بات پر اپنا سر سامنے لگے ایل سی ڈی پر جا کر مار دے جبکہ کڈنیپر پاکی کی بات پر تیزی سے پیچھے ہٹا۔

"میرے پیارے ہیرو جی آپ کی یہ نیلی سمندری طوفان برپا کرتی آنکھیں بہت زیادہ خوبصورت ہیں لاجواب ہے کمال ہے زبردست ہے شاعر کے شعر کی طرح ہیں ویسے ہیرو جی کیا یہ آپکی آنکھیں اصلی ہیں یا نقلی جیسے ہر ناول میں ہیرو کسی خفیہ مشن کی وجہ سے لینز لگاتے ہیں کیا آپ نے بھی اپنے کسی مشن کی وجہ سے کہی نیلی رنگ کے لینز تو نہیں لگائے ہوئے اپنی آنکھوں میں مجھے یہ لگ رہا ہے آپ کوئی مافیا وفیا نہیں ہے آپ کوئی خفیہ ایجنٹ ہیں جو آر آر کا بھیس بدل کر یہاں مشن کے لیے آئے ہیں۔"


پاکی آر آر کے گھورنے کی پرواہ کئے بغیر شریر مسکان چہرے پر سجاتی ہوئی بولی۔


"لڑکی تم بہت زیادہ پھیل رہی ہو۔"


آر آر نے دانت پیستے ہوئے اپنا گن اسکے ماتھے پر رکھتے ہوئے کہا۔


"ہائے ہیرو جی یہ آپ کیا کہ رہے ہیں میں کہاں پھیل رہی ہوں آپ بھی نا میں تو بہت زیادہ پتلی ہو یہ دیکھے بلکہ ایک کام کرے آپ میری رسیاں کھول کر دیکھ لیں کہ میں کیسی ہوں۔"


پاکی نے شرارت سے اپنی آنکھوں کو چھوٹی کرتے ہوئے معصومیت سے کہا اس طرح اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے وہ بلکل چینی گڑیا لگ رہی تھی جسے دیکھ ایک لمحے کو ڈان ساکت رہ گیا مگر اگلے پل وہ ہوش میں آ کر اس آفت کی پڑیا کو گھورنے لگا۔


"شٹ اپ۔"


آر آر نے سخت غصے سے کہا وہ اس لڑکی کی باتوں سے سخت چڑ رہا تھا حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ جو چھوٹی بات پر گن چلانے والا آج پتہ نہیں کیوں اس پٹاخہ رانی پر چلا نہیں پا رہا تھا شاید اسکی معصوم شریر حرکتوں کی وجہ سے یا پھر راجپوت سے اپنی ڈیمانڈ پوری کرنے کی وجہ سے۔


"پاکی بس بھی کر دو یار کیوں کر رہی ہوں تم یہ ڈراما سامنے کھڑا شخص تمھارا ناول ہیرو نہیں ایک خطرناک کڈنیپر ہیں وہ ہمیں کچا چبا جائے گا۔اللہ دیکھوں کیسے گھور رہا ہے۔"


اسکی بات پر سجل سخت ڈر کر آر آر کی جانب دیکھنے لگی جو سخت غصے بھری نگاہوں سے ان دونوں کو ہی گھور رہا تھا۔

سجل اسکی نظروں سے ڈرتی ہوئی پاکیزہ عرف پاکی سے ہلکی آواز میں بولی۔


"سجل یہ ڈراما میں اس لیے کر رہی ہو تاکہ یہ ہم سے بیزار ہو کر ہمیں خود ہی بڑی عزت سے ہمارے خوبصورت مینشن میں چھوڑ آئے۔"


پاکی نے بھی اسی طرح اسے اپنا پلان بتایا۔


"یار تمھارے اس ڈرامے کے چکر میں کئی یہ بھلا غصے میں آ کر ہماری جان نا لے لیں۔"


سجل نے اسکی بات سن کر آر آر کی جانب دیکھا جو ان دونوں کو اپنی کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا اسکی خطرناک نظروں سے ڈر کر وہ ہلکی آواز میں کہتی پھر سے وہ آر آر کی جانب دیکھنے لگی جو انہی کی جانب اپنی غصیلی نظروں سے دیکھ رہا تھا سجل اسکی خطرناک نظروں کو دیکھ بری طرح سے جھرجھری لینے لگی۔


"کچھ نہیں ہوگا تم مجھ پر بھروسہ کروں میں تمھیں کچھ بھی نہیں ہونے دوں گی کیوںکہ تم میرے چھچھورے بھائی ازحف راجپوت کی سب سے بڑی دشمن ہوں تو اس لحاظ سے تم میری دوست ہوئی نا تو بھلا میں تمھیں کیسے مرنے دو گی۔"


پاکی نے ہلکی آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔

سجل ازحف راجپوت کا نام سن کر منہ بنانے لگی۔


"ہیرو جی آپ نے تو وہ بات نہیں بتائی جس کے بارے میں میں آپ سے پوچھ رہی تھی۔؟؟


پاکی شریر نظروں سے آر آر کی جانب دیکھتی اپنی زبان دانتوں تلے دبا کر بولی۔


"کون سی بات۔؟؟


آر آر نے سخت نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"وہی نقلی آئی مین آپکی سمندری اصلی ان ستاروں کی بات کر رہی ہوں میں۔کیا یہ سچ میں اصلی آنکھیں ہیں آپکی یا پھر آپ نے بولڈن مارکیٹ سے سستے میں صرف دو ہزار میں خرید کر لگائی ہے ہم لڑکیوں کو اپنا دیوانہ بنانے کیلئے۔؟؟


پاکی نے اپنی آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑتے ہوئے شریر لہجے میں اسکی ماسک کے اوپر جھانکتی خوبصورت نیلی آنکھوں کے بارے میں کہا۔


"ٹھاہ ٹھاہ۔"


پاکی کی بات پر آر آر کو اتنا غصہ آیا کے اسنے سامنے ایل سی ڈی پر گولیاں برسائی سجل گولیوں کی آواز پر زور سے چیخی جبکہ پاکی کی آنکھیں ایل سی ڈی کی حالت دیکھ صدمے سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔


"ہائے اللہ ہیرو جی یہ آپ نے کیا کر دیا میں تو کب سے ان رسیوں میں جکڑی یہ پلان بنا رہی تھی کہ جب آپکو مجھ سے پیار ہو جائے گا جب آپ مجھے اس دو روپے والی رسی سے آزاد کرے گے تب میں lee min ho کے سارے ڈرامے اا۔اور اپنے song Kang کا ڈیمن والا ڈراما اس بڑے سے ایل سی ڈی میں دیکھوں گی ہائے اب میں کیسے دیکھوں گی۔لیٹرے جی آپ نے یہ بلکل بھی اچھا نہیں کیا۔ہاں آپ مجھے اب ایک نیا ایل سی ڈی لا کر دے ابھی کے ابھی مجھے انکا ڈراما دیکھنا ہے جب تک میں ڈراما نہیں دیکھوں گی تو مجھے نیند بلکل بھی نہیں آئی گی اور اگر مجھے نیند نہیں آئی نا تو آپکو ساری رات میری باتیں سننی پڑے گی۔"


پاکی صدمے سے نکل کر منہ ضدی بچوں کی طرح پھولا کر اپنی بڑی آنکھوں کو آر آر پر تھکا کر بولی۔

اسکا کیوٹ فیس دیکھ آر آر کا پھتر دل زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کے لیے ڈھرکا۔

لیکن وہ دوسرے ہی پل اپنے آپ کو سنبھال کر اسے گھورتے ہوئے دیکھنے لگا۔


"لگتا ہے تمھیں میری گن کی گولیاں کھانے کا بے حد شوق ہو رہا ہے۔"


اپنی گن اس پر تان کر وہ خطرناک آواز میں بولا۔


"نہیں تو مجھے تو گولی نہیں اس وقت کیک کھانے کا شوق ہو رہا ہے ہیرو جی۔"


پاکی نے شریر لہجے میں کہا۔


"شٹ اپ."


آر آر سخت نظروں سے اسے گھورتا غراتے ہوئے بولا۔


"ہیرو جی مجھے سچ میں اس وقت کیک کھانا ہے لاکر دے نا پلیز پلیز۔"


پاکی اپنی براؤن بڑی بڑی آنکھوں کو اور بھی بڑی کرتی منہ بچوں کی طرح پھولا کر سامنے کھڑے اس علاقے کے شہر کے ملک کے خطرناک ڈان سے بولی۔

وہ خطرناک ڈان جو مسلسل اس لڑکی کو گھور رہا تھا اسکی نئی فرمائش پر اسے تھیکی نظروں سے دیکھنے لگا جبکہ سجل کا دل اپنی نٹ کھٹ شریر کزن کی بات پر مرنے کو شدت سے چاہا۔


"ہیرو جی مجھے ایسے مت گھورے ورنہ آپکو مجھ معصوم کیوٹ سی لڑکی سے پیار ہو جائے گا اور اگر آپ کو مجھ سے پیار ہوگیا نا تو میں بیچاری اپنے گھر سے باہر نکلنے سے بھی ڈروں گی کیوںکہ پھر آپ بیسٹ بن کے مجھ انوسنٹ بیوٹی کو ہمشیہ کے لیے اپنے پاس اپنی قید میں رکھ لیں گے۔"


کب سے وہ یہاں سے نکلنے کے لیے اپنی شیطانی دماغ میں سے آئیڈیاز نکال نکال کر اس کڈنیپر کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہی تھیں۔مگر وہ آر آر تھا اس سے بھی تیز جو اسکی حرکتوں سے بنا بیزار اور گھبراتے ہوئے وہی روم میں اسکے سامنے کھڑا اسے بری طرح سے گھور رہا تھا۔

پاکی اسے اس طرح گھورتے ہوئے دیکھ منہ بنا کر بولی۔


"ہاہاہاہاہاہا پیار وہ بھی مجھ جیسے پھتر دل حیوان کو تم جیسی بے وقوف لڑکی سے نو نیور یہ کبھی نہیں ہوگا مجھ جیسے پھتر دل انسان کا دل کبھی بھی نہیں پگھلے گا یہ دن میں خواب دیکھنا بند کر تم دو بے وقوف لڑکی ورنہ میں تمھارے یہ پیار کا بھوت ایک گولی سے مٹا کر رکھ دوں گا۔"


آر آر نے پاکی کی بات پر عجیب طرح کا قہقہہ لگایا جو وہ اپنے دشمنوں کے روح کاپننے کے لیے ہمشیہ سے لگاتا تھا پاکی اسکے قہقہے سے تو نہیں ڈری ہاں اسکی بات پر وہ بچوں کی طرح رونے لگی۔

اسے اچانک سے بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھ آر آر بری طرح سے چونکا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"کس طرح کی سیکورٹی ہے اور کیسا انتظامیہ ہیں ہاں یہاں سے دو لڑکیوں کو اٹھایا گیا ہے اور کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے اگر میری بہنوں کو کچھ ہوا ناں تو میں اس کالج کو بند کروا دوں گا۔"


زیرون راجپوت اس وقت ساحر راجپوت کے ساتھ کالج میں پرنسپل کے آفس میں تھے پاکیزہ اور سجل کے بارے میں ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا تھا کہ انہیں کس نے کڈنیپ کیا ہے۔


زیرون راجپوت کالج کی انتظامیہ کی جانب سے خاموشی دیکھ سخت غصے سے پاگل ہو رہا تھا یہ ایک پرائیویٹ کالج تھا یہاں سیاست دانوں سے لیکر بڑے بڑے بزنس مین کے بچے پڑھ رہے تھے اسی وجہ سے اب تک کوئی اسٹیپ نہیں لے رہے تھے اسی بات کی وجہ سے زیرون راجپوت کو بے حد غصہ آ رہا تھا اس نے ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے پرنسپل سے کہا۔


تو پرنسپل اسکی دھمکی پر ڈر گیا وہ اچھے سے جانتا تھا کہ راجپوت خاندان یہاں کی ایلٹ فیملی سے بھی زیادہ طاقتور ہے اگر انکی لڑکیوں کو کچھ ہوا تو وہ اس کالج کو سچ میں بند کروا دے گے۔


"نن۔نہیں سر ایسا مت کریں ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں ہم یہ سب اپنی ریپوٹیشن بچانے کیلئے کر رہے ہیں ہماری انتظامیہ مجبوری میں خاموشی سے ان دونوں لڑکیوں کے بارے میں پتہ کر رہے ہیں مگر وہ کڈنیپر کوئی معمولی کڈنیپر نہیں ہے اس نے کالج کے سی سی ٹی وی کیمرے اغوا سے پہلے خراب کر دئیے تھے اسی وجہ سے ہمیں ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔"


پرنسپل نے سخت گھبراتے ہوئے کہا۔


"ہماری ریپوٹیشن کا کیا ہاں اگر ہماری ریپوٹیشن خراب ہوئی نا تو میں وعدہ کرتا ہوں تمھارا یہ جو کالج ہے نا میں اسے راکھ میں بدل دوں گا۔"


زیرون راجپوت نے اپنی سرخ آنکھیں پرنسپل پر گاڑتے ہوئے کہا۔

تو پرنسپل اسکی بات اور آنکھوں کی لالی دیکھ سخت ڈر گیا۔


"سر آپ اسکی فکر مت کریں آپکی ریپوٹیشن پر ایک داغ بھی نہیں لگے گا میں نے اس بارے میں بھی سوچا ہے ہم نے ان دونوں اسٹوڈنٹس کے سارے کلاس میٹ کو ایک ٹرپ پر بھیجا ہے تاکہ کسی کو اس معاملے کی بھنک بھی نہ پڑے۔"


پرنسپل نے زیرون راجپوت کی نظروں سے سخت گھبراتے ہوئے کہا۔


"ٹھیک ہے میں ایک موقع دیتا ہوں اگر میری بہنیں صحیح سلامت آئیں تو میں تم لوگوں کو بخشوں گا اگر انہیں کچھ ہوا تو میں اس کالج کے ساتھ تمھیں بھی راکھ کر دوں گا چلو ساحر۔"


زیرون راجپوت اپنی جگہ سے اٹھا اور انگلی پرنسپل کی جانب اٹھا کر اسے وارننگ دیتے ہوئے آخر میں ساحر راجپوت سے کہتا تیزی سے آفس سے باہر نکلا ساحر راجپوت بھی اسکی پیروی کرتے ہوئے تیزی سے اسکے پیچھے بڑھا جبکہ پرنسپل اس گھمنڈی انسان کے وہاں سے جاتے ہی ایک سکون محسوس کرنے لگا۔


"زیرون یہ تو مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ کڈنیپر پیسوں کے لیے نہیں کر رہا ہے اسکی دشمنی کسی اور وجہ سے ہے لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا اسکی دشمنی کی وجہ کیا ہے اور وہ دشمن ہے کس کا ہماری فیملی سے ازحف ازحف تو ابھی بچہ ہے اور شاہ میر ویر وہ تو ٹھنڈے مزاج کے ہیں انہیں ان لڑائی جھگڑوں سے سخت خوف آتا ہے بچے ہیں ہم دونوں تو یہ کنفرم ہم دونوں میں سے کسی کا دشمن ہیں ضرور اسے ہم دونوں پر غصہ ہیں اسی لیے اس نے یہ حرکت کیا ہے لیکن یہ جو کوئی بھی ہے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا اس نے میری سج مطلب ہماری شرارتی چڑیا اور سجل کو اغوا کر کے اچھا نہیں کیا ہے۔"


ساحر راجپوت کی آنکھوں کے سامنے سجل کا معصوم چہرہ آئے تو اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں کھستے ہوئے کہا لیکن آخر میں اسے ہوش آیا کہ وہ یہ کیا کہ رہا ہے تو جلدی سے زیرون راجپوت کی جانب دیکھتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔

زیرون راجپوت اسکی بڑبڑاہٹ پر اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔


"پرنسپل کے آفس میں بیٹھے بیٹھے مجھے بھی کسی کا خیال آیا ہے ساحر راجپوت اور اگر یہ حرکت اس نے کیا ہے نا تو اس بار وہ میرے اندر کے حیوان سے بلکل بھی نہیں بچے گا۔"


زیرون راجپوت نے سخت نفرت سے سرخ ہوتی آنکھوں کو سامنے سڑک پر گارتے ہوئے سخت غصے سے اپنی مٹھیوں کو بھینچتے ہوئے کہا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"سلطان عالم شاہ اپنے بل سے باہر نکلوں ابھی کے ابھی ورنہ مجھے ایک منٹ نہیں لگے گا تمھارے پورے خاندان کو برباد کرنے میں۔"


زیرون راجپوت کو پہلا شک سلطان پر ہوا تو وہ شدید غصے سے سلطان کے آفس پہنچا اور زور زور سے چلاتے ہوئے اسے آوازیں دینے لگا۔


"کون ہو تم اور یہ کیا بدتمیزی ہیں یہ آفس ہیں تمھارا گھر نہیں جو تم چیخ رہے ہو۔"


فرجاد اسکی آواز سن کر اپنے کیبن سے باہر نکلا اور اسکے قریب آکر اسے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کرتے ہوئے بولا۔


"سلطان عالم شاہ کا باپ۔"


زیرون راجپوت نے فرجاد کے ہاتھوں کو پکڑ کر غصے سے پیچھے لیجاتے ہوئے کہا۔

فرجاد اسکی حرکت پر بری طرح سے کراہ کر رہ گیا۔


"حیرت میرا باپ مجھ سے اتنا چھوٹا۔"


سلطان عالم شاہ زیرون راجپوت کی چیخ و پکار پر اپنے آفس روم سے باہر نکل رہے تھے کہ اسکے منہ سے سن کر وہ مسکرائے اور قدم اس پچیس سالہ نوجوان کی جانب بڑھا کر اپنی بھاری اور گھمبیر رعب دار آواز میں بولے۔


"کیوں کیا تم نے ایسا ہاں بولو۔؟

شاہ کا بھی خیال نہیں کیا تم نے جو تمھارے نام کے ساتھ لگا ہوا ہے مسٹر سلطان عالم شاہ۔"


انہیں روم سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ زیرون راجپوت سخت غصے سے آگے بڑھا اور سخت نفرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے انکا کالر پکڑ کر غراتے ہوئے بولا۔

زیرون راجپوت کے ہاتھ اپنی کالر پر دیکھ کر سلطان عالم شاہ کا غصہ سوا نیزے پر جا پہنچا وہ اسکے ہاتھ اپنی کالر پر سے ہٹا کر بری طرح سے جھٹکتے ہوئے اسے غصے سے گھورنے لگے۔


"اس بار تو ہاتھ لگایا ہے اگلی بار یہ مت کرنا ورنہ یہ ہاتھ آئیندہ کسی اور کے کالر تھامنے کے بھی قابل نہیں رہے گے۔"


سخت نظریں زیرون راجپوت کے مضبوط سرخ و سفید ہاتھ پر گارتے ہوئے انہوں نے غصے سے کہا۔


"اور میں نے ایسا کیا کیا ہے جو میں نے اپنے نام کے آگے لگے شاہ کا بھی خیال نہیں کیا۔؟؟


ابکے سلطان عالم شاہ کے لہجے میں تعجب تھا۔


"شٹ اپ اپنی یہ بکواس بند کرو ایک سید زادے ہو کر تم نے میرے خاندان کی ایک نہیں دو لڑکیوں کو اٹھایا ہے شیم آن یو مسٹر سلطان عالم شاہ تمھیں شرم آنی چاہیے ایک سید ہو کے کسی کے گھر کی عزت کے ساتھ کھیلتے ہوئے ۔"


زیرون راجپوت نے نفرت سے انہیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھ کر انہیں کالر سے پکڑتے ہوئے کہا۔


"مجھے کون شرم کا چیپٹر پڑھا ہے یہ جس نے خود ایک سید زادی کو اپنے فلیٹ میں دھوکے سے اپنے اندر لگی آگ کو بجھانے کے لئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے فلیٹ تک لاکر اسکے ساتھ وہ سب کرنا چاہا جسے اسلام میں زنا کہتے ہیں یہ زنا کار مجھے شرم کا مضمون پڑھا رہا مائے فٹ۔"


سلطان عالم شاہ نے غضبناک نظروں سے زیرون راجپوت کو اپنی نفرت سے سرخ رنگ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"تم اپنی ان باتوں سے مجھ سے نہیں بچ سکتے ہو ۔سلطان عالم شاہ بتاؤ کہاں ہے میری بہن اور کزن بتاؤ ورنہ میں تمھاری جان لے لوں گا۔"


زیرون راجپوت نے سرخ نگاہوں سے انہیں گھورتے ہوئے پوچھا۔


"مجھے کیا پتہ کہاں ہے میں نے انہیں کڈنیپ نہیں کیا ہے میں تمھاری طرح بے غیرت نہیں ہوں جو کسی کی بہن بیٹی کو اپنے فلیٹ پر دھوکے سے لاکر انکے ساتھ غلط کرکے انکی عزت کو پامال کرکے انہیں رسوا کر کے مرنے کے لیے چھوڑ دو ہہنہہ میں اتنا بھی گرا ہوا نہیں ہو مجھے میرے والدین نے اچھی تربیت دی ہیں انہوں نے مجھے عورت کی عزت کرنا اچھے سے سیکھایا ہے تم لوگوں کے بڑوں کی طرح نہیں ہے وہ جو چپ چاپ اپنے بچوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالتے ہیں بلکہ تمھارے بڑے تم لوگوں کو خود لڑکیاں چن کر زنا کیسے کرنا ہے اس کا درس دیتے ہیں۔"


انہوں نے تیھکی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"یو باسٹرڈ تمھاری اتنی جرات میرے بڑوں کے بارے میں اتنے غلیظ ترین الفاظ نکالنے کی آئی ویل کل یو میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"


زیرون راجپوت انکے منہ سے اپنے بڑوں کے متعلق سن کر غصہ سے آگے بڑھا اور انکے پاس پہنچ کر اس نے شدید غصے سے اپنا ہاتھ اٹھایا مگر بیچ میں ہی کسی نے آکر اسکا ہاتھ روک لیے۔


"تمھیں کسی نے تمیز نہیں سیکھایا کیا کہ کسی بڑے سے کیسے بات کرنا ہے کیسے پیش آنا ہے اگر نہیں سیکھایا تو میں سیکھا دیتا ہوں۔"


سامنے ایک لگ بھگ زیرون راجپوت کی عمر کا نوجوان پولیس یونیفارم میں ملبوس زیرون راجپوت کا ہاتھ سختی سے پکڑے اپنی سیاہ آنکھوں میں جلال لیے اسے گھورتے ہوئے بول رہا تھا۔

وہ راقم رحیم شاہ تھا سلطان عالم شاہ کے چاچا کا بیٹا انکے خاندان میں اسکا غصہ بہت زیادہ خراب تھا سلطان اسے یہاں دیکھ حیران رہ گئے۔


"ہاؤ ڈئیر یو تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ روکنے کی ہاں۔"


زیرون راجپوت نے سامنے کھڑے خوبرو تیھکے نقوش والے نوجوان کی جانب دیکھتے ہوئے سخت غصے سے کہا۔


"جیسے تمھاری میرے ادا سائیں پر ہاتھ اٹھاتے ہوئی تھی۔"


راقم رحیم شاہ نے دانت پیستے ہوئے خطرناک لہجے میں کہا۔


"راقم چھوڑوں اسے میں خود ہینڈل کر لوں گا تم اندر جاکر بیٹھوں ابھی گاؤں سے آئے ہو تھکے ہوئے لگ رہے ہو."


سلطان عالم شاہ نے اسکے سرخ و سفید چہرے پر غصے کی سرخی دیکھ کر اسے وہاں سے جانے کا کہا وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ دونوں ماحول کو گرم کرے کیوں کہ وہ اس سچویشن کو آرام سے ہینڈل کرنا چاہتے تھے بنا کوئی بحث کے بنا کوئی طوفان برپا کیے۔


"ادا سائیں اس کے تیور سے لگ رہا ہے کہ یہ آپکا قتل کرنے کے ارادے سے آیا ہے تو میں بھلا کیسے اپنے ادا سائیں کو اکیلا چھوڑ کر یہاں سے جاؤں ہممممم۔"


زیرون راجپوت کی نظروں میں سلطان عالم شاہ کے لیے نفرت کو دیکھ راقم رحیم شاہ نے سلطان عالم شاہ سے کہا۔


"تم دونوں یہ تماشا بند کروں اور مجھے بتاؤ میری بہنوں کو تم نے کہاں چھپایا ہے سلطان۔؟؟


زیرون راجپوت سخت گیر لہجے میں بولا۔


"میں سچ کہ رہا ہوں میں نے تمھاری بہنوں کو اغوا نہیں کیا ہے میری بھی بہن ہے اگر میں کسی اور کی بہن کے ساتھ یہ گھٹیا حرکت کرو گا بدلے میں کوئی اور میری بہن کے ساتھ یہ گھٹیا حرکت کرے گا جیسے تم نے میری بہن کے ساتھ یہ حرکت کیا تھا اب تم ڈر کیوں رہے ہو گھبرا کیوں رہے ہو اب بھگتوں اس سچویشن کو تم زیرون راجپوت۔"


سلطان عالم شاہ نے طنزیہ لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

تو زیرون راجپوت انہیں گھورنے لگا اس سے پہلے کہ وہ ان پر پھر ہاتھ اٹھاتا فون کی بیل نے اسے روکا تو وہ اپنا فون نکال کر دوسری طرف موجود ازحف راجپوت کی بات سننے لگا جسکی بات سن کر وہ شدید غصے سے اپنی مٹھی کھس کر سلطان عالم شاہ کی جانب دیکھے بغیر تیزی سے سلطان کے اس لگژری آفس سے باہر نکلا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"کیا پتہ چلا ہے تمھیں ساحر پاکیزہ اور سجل کے بارے میں انہیں کس خبیث نے کڈنیپ کیا ہے جلدی بتاؤ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔؟؟


پولیس اسٹیشن میں وہ انٹر کرتے ہی سیدھا ساحر راجپوت کے آفس میں داخل ہوا اور اسکے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا۔


"بب۔بگ برادر۔"


ساحر راجپوت سخت ڈر رہا تھا اپنی بات اس ظالم انسان سے کہنے سے اس نے اٹک اٹک کر صرف اسکا نام لیا۔


"ساحر علی راجپوت اگر میری بہنوں کو کچھ ہوا نا تو میں تمھیں اور تمھارے اس دشمن کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"


اسے ڈرتے ہوئے دیکھ زیرون نے اپنی آنکھیں ترچھی کر کے اسے دیکھا جسکی پیشانی پریشانی سے نم ہو رہی تھیں۔وہ سمجھ گیا کہ پاکیزہ اور سجل کے اغوا کے پیچھے اسکی وردی اور اسکے کسی مجرم کے کسی ساتھی کا ہاتھ ہے وہ شدید غصے سے کرسی سے اٹھا اور اسکے پاس آ کر اسے گریباں سے پکڑتے ہوئے کرسی سے اٹھا کر دھارتے ہوئے بولا۔


"بگ برادر وہ بہت بڑا ڈان ہے اسکی لوکیشن کسی کو کوئی بھی پتہ نہیں چلا سکتا کیونکہ وہ کہاں ہے اسکے آدمیوں تک کو پتہ نہیں جب تک میں اسکی بات نہیں مانوں گا وہ پاکی اور سجل کو نہیں چھوڑے گا اور وہ جو چاہتا ہے بگ برادر وہ میں نے اگر کر دیا تو مجھے جاب سے نکال دے گے اتنی مشکلوں کے بعد اسکا ایک آدمی ہمارے ہاتھ لگا ہے اس طرح اگر میں نے اسے چھوڑ دیا تو حکومت میری جان لے لے گی۔"


ساحر راجپوت نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

تو زیرون راجپوت نے اسکے کندھے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے اپنی سرخ جنونی آنکھوں سے گھورتے ہوئے دیکھا۔


"حکومت سے پہلے میں تمھاری جان لے لوں گا ساحر علی راجپوت اگر تم نے اس کڈنیپر کی ڈیمانڈ پوری نہیں کی نا تو۔"


اپنی چھوٹی نٹ کھٹ شریر بہن اور اپنے چھوٹے چاچا شاکر راجپوت کی بیٹی سجل شاکر راجپوت کا معصوم چہرہ نظروں کے سامنے آتے ہی زیرون راجپوت نے آنکھوں میں آگ کے گولے لیے ساحر راجپوت کی جانب دیکھتے ہوئے اچانک سے اسکی گردن کو پکڑ کر دباتے ہوئے سخت غصے سے بولا۔


"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں بگ برادر میں کیوں پورا نہیں کروں گا اس کڈنیپر کی ڈیمانڈ وہ بھی تو میری کزنیں ہے میں اس کڈنیپر کی ڈیمانڈ پوری کروں گا اسکے لیے میری جاب بھاڑ میں جائے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔"


ساحر راجپوت اسکی بات پر اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

اس وقت وہ بھی اپنی نٹ کھٹ کزن اور سجل شاکر راجپوت کے لیے سخت پریشان تھا۔


"تو جلدی سے ان لوگوں کو لیکر اس کڈنیپر کے پاس جاؤ اور میری بہنوں کو صحیح سلامت لے کر آؤ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی پاکی یا سجل کو کچھ ہوا تو میں وہی پر تمھیں اور اس کڈنیپر کی قبر بناؤں گا جہاں تم اس کڈنیپر کے کہنے پر ان قیدیوں کو لیکر جا رہے ہو سمجھے۔"


زیرون راجپوت نے اسکے کندھے کو چھوڑتے ہوئے اسے دور کر کے سخت لہجے میں کہا اور واپس جا کر کرسی پر بیٹھا اور سامنے رکھی گلاس اٹھا کر گھٹا گھٹ پانی پینے لگا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


رات کے پونے دو ہو رہے تھے اور اس وقت راجپوت مینشن میں مکمل اندھیرا تھا لان میں کتوں کی دو تین چار فوجوں کو کھلا چھوڑا گیا تھا سیکورٹی کے لیے دو چار سیکورٹی بھی پہرا دےرہےتھے۔


مینشن کے بڑے سے دیوار کو پھلانگ کر ایک شخص اندر داخل ہوا اور دبے پاؤں چل کر اندر کی جانب بڑھنے لگا جبکہ دو لوگ دیوار پر چڑھے اس شخص کو اپنے لبوں پر ایک شرارتی مسکراہٹ سجاکر دیکھ رہے تھے۔


تبھی اندر مینشن کے گیٹ کے قریب جا رہے شخص کی زور دار چیخ سن کر وہ دونوں جو دیوار پر بیٹھے تھے زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے نیچے کھودے۔


"دس از ناٹ فئیر سالار علی راجپوت شاہ ویر علی راجپوت تم لوگوں نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔"


اس شخص کی چیخ پر کتوں کی فوج زور زور سے بھوکتے ہوئے اسی جانب بڑھے یہ دیکھ وہ شخص روتے ہوئے ان دونوں سے بولا۔


"ہوں شرفو چاچا یہ آئیڈیا تمھارا تھا ہمارا نہیں تمھیں ہی شوق تھا ٹام کروز بننے کا ہم تو صرف تمھارے پارٹنر بن کر تمھاری ہلیپ کرنے کے لیے راضی ہوئے تھے ورنہ سرپرائز دینے کے لیے دروازہ سب سے بیسٹ ہے اگر ہم مما بابا کو سرپرائز دے گے تو دیوار کو پھلانگ کر نہیں دروازے سے شریفوں کی طرح انٹر ہو کر زور سے سرپرائز چلا کر دیں گے۔"


دونوں مینشن کے داخلی بڑے سے دروازے کے سامنے آکر کھڑے ہوئے تو ان دونوں کا چہرہ بلب کی روشنی میں نظر آنے لگا نیچے گرا شخص اٹھا تو اسکا بھی چہرہ نظر آیا وہ تینوں لڑکے بے حد ہینڈسم تھے تینوں نے اس وقت سیاہ کپڑے پہنے تھے دو جو دیوار پر بیٹھے لڑکے اب مینشن کے دروازے کے سامنے کھڑے اس تیسرے شخص کو شریر نظروں سے دیکھ رہے تھے جو سخت تھپا ہوا لگ رہا تھا وہ دونوں تو جڑواں بھائی تھے جبکہ تیسرا انکا دونوں کا کزن تھا۔


"وہاٹ میرا آئیڈیا یہ کب میرا آئیڈیا تھا تم لوگوں نے ہی تو مجھے کہا تھا اگر ہم نے سب گھر والوں کو اس طرح سرپرائز دیا تو وہ بہت زیادہ خوش ہونگے اب تم دونوں پلٹی مار رہے ہو۔"


اس نے رونی شکل بناتے ہوئے سامنے کھڑے شیطان کے باپ سے کہا۔


"شرفو چاچا ہم نے کب آئیڈیا دیا تم خود وہاں لندن میں یونیک طریقے سے سب کو سرپرائز دینے کے لیے تڑپ رہے تھے ہم نے تو بس تمھیں سرپرائز کیسے دینا ہے وہ طریقہ بتایا تھا تو تم اب اسے ہمارا آئیڈیا کیسے کہ سکتے ہو۔"


سالار راجپوت نے شریر مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا جبکہ آئیڈیا ان دونوں بھائیوں کا تھا اور انکا کزن بے وقوف جو سوچے سمجھے بغیر رات کو اس طرح سارے گھر والوں کو لندن سے آ کر سرپرائز دینے کے چکر میں ان کے ساتھ نکل پڑا یہ سوچے بغیر کہ رات کے وقت انکے گھر میں فیملی ممبر کی نہیں خونخوار کتوں کی فوج کا راج ہوتا ہے وہ دونوں بھائی بہت ہی تیز ہونے کے ساتھ ہر معاملے میں ایکٹو تھے خونخوار کتوں کی فوج کو آتے ہوئے دیکھ نیچے بیٹھے اپنے بے وقوف کزن کو کھینچتے ہوئے مینشن کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے اندر داخل ہوتے ہی ان تینوں کو بہت بڑا جھٹکا لگا وہ یہاں سب کو سرپرائز کرنے نکلے تھے انہیں پتہ نہیں تھا کہ انکا خود ایک سرپرائز ویلکم کرنے والا تھا۔

"ارے یار یہ ڈریکولا کو بھی آج ہی یہاں ہونا تھا سالار اب ہم کیا کرے کیسے اس سے بچے۔؟؟


سالار راجپوت نے اندر صوفے پر زیرون راجپوت کو دادا بڑے تایا اور اپنے بابا اور چھوٹے چاچا کے ساتھ دیکھا تو کانپتے ہوئے ان دونوں سے آہستہ آواز میں بولا جبکہ اندر سب پاکیزہ اور سجل کو لیکر بہت زیادہ پریشان تھے دن سے رات ہوگئی لیکن اب تک انکا کوئی ہتہ پتہ نہیں تھا۔وہ سب سخت پریشان تھے اس لیے ان پر ان کا دھیان نہیں گیا جس کا فائدہ ان تینوں نے اٹھایا اور اپنے اپنے کمروں کی جانب دبے پاؤں چلنے لگے لیکن زیرون راجپوت کی نظر ان پر پڑی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور انکی جانب بڑھا۔


"تم تینوں اپنی اسٹڈیز چھوڑ کر کیوں آئے ہوں۔؟؟


زیرون راجپوت نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے سخت لہجے میں ان سے پوچھا وہ تینوں جو خاموشی سے اپنے اپنے روم کی جانب بڑھ رہے تھے زیرون راجپوت کی رعب دار آواز پر سٹپٹا کے پیچھے مڑے تو اسے سخت تاثرات چہرے پر سجائے سامنے کھڑے دیکھ وہ تینوں ڈر گئے۔


"وو۔وہ بب۔بھائی۔"


تینوں کو کوئی بہانہ نہیں سوجھ رہا تھا تو تینوں ہکلاتے ہوئے ایک ساتھ بولے۔


"وہ بھائی کالج میں ایک حادثہ ہوا ہے تو سب اسٹوڈنٹس اپنے اپنے گھر جا رہے تھے تو ہم نے بھی سوچا کیوں نہ اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر آپ کو سرپرائز دے اسی لیے ہم خاموشی آئے ہیں۔"


سالار راجپوت نے گھبراتے ہوئے کہا۔


"کیسی پروبلم۔؟؟


زیرون راجپوت نے ترچھی نگاہوں سے ان تینوں کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔


"وو۔وہ بھائی.""


سالار راجپوت کو کوئی بہانہ نہیں سوجھا کیوں کہ کالج میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا وہ لوگ ہی وہاں سے بھاگ آئے تھے کیوں کہ کل انکا ایک امپورٹڈ لیکچر تھا اور جس کا تھا وہ بہت ہی سخت قسم کا پروفیسر تھا اسی وجہ سے وہ تینوں پاکستان آئے تھے لیکن اب وہ زیرون راجپوت کے سوال اور سخت نظروں سے سخت گھبرا رہے تھے۔


"ووو۔وہ بھائی کالج میں سفید فام اور سیاہ فام اسٹوڈنٹس کے بیچ جھگڑا ہوا تو کالج کا ماحول بہت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے کالج انتظامیہ نے سب اسٹوڈنٹس کے مینٹلی ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے گھر جانے کے لیے کہا تو ہم بھی یہاں آ گئے آآآپ چاہے کالج فون کرکے پوچھ سکتے ہیں میں سچ کہ رہا ہوں۔"


شاہ ویر نے جلدی سے کہا۔


"زیرون تم فون کروں زرا کالج مجھے ان لوگوں پر بلکل یقین نہیں ہے یہ لوگ ضرور کچھ کارنامہ سر انجام دے کر آئے ہیں جو اس طرح ہم سب سے چھپ کر اندر جا رہے تھے یہ تینوں بہت زیادہ بگڑ گئے ہیں ہمیں ہر پل کی خبر ملتی ہے تم تینوں کی تم لوگوں کو کیا لگا تم لوگوں کو میں ایسے ہی چھوڑوں گا۔"


دادا جو کب سے ان تینوں کے حلیے کو دیکھ رہے تھے وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور ان لوگوں کے قریب آ کر بولے۔


"دادا میں سچ کہہ رہے ہیں کالج کا ماحول بہت خراب ہے اور ہم بگڑے بلکل نہیں ہے وہ جھوٹ بولتا ہے جسے آپ نے ہماری جاسوسی کے لیے ہمارے پیچھے لگایا ہوا ہے۔"


شاہ ویر نے زیرون راجپوت کی جانب اور دادا کی جانب دیکھتے ہوئے ڈر کر کہا۔


"ہوں اچھا تم لوگ بگڑے نہیں ہو تو پھر یہ تم لوگوں کا حلیہ کیسا ہے سالار یہ تمہارے کانوں میں لڑکیوں کی طرح بالیاں کیوں ہے اور یہ شاہ ویر تمھارے بال گوری لڑکیوں کی طرح سنہری رنگ میں کیوں ہے اور تم یاسر تمھارا پینٹ یہ پٹا کیوں ہے۔؟؟


داد نے ایک ہاتھ سے سالار راجپوت کے کان کو زور سے کھینچتے ہوئے جہاں سیاہ رنگ کی بالیاں اور پھر شاہ ویر کے بالوں کو دوسرے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے سامنے کھڑے اپنے نواسے کی پٹی جینز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے۔


"دادا جانی یہ تو فیشن ہے۔"


دونوں ٹیونز نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔


"ہاں نانا جانی یہ فیشن ہے."


یاسر نے اپنے نانا کی جانب ہڑاہڑا کر دیکھتے ہوئے کہا۔


"کپڑے پٹے ہوئے بال رنگے ہوئے اور کانوں میں بالیاں ہہنہہ یہ کیسا فیشن ہے بھلا۔"


دادا نے تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

تبھی زیرون راجپوت چہرے پر سختی سجائے وہاں آیا اور ان تینوں کو سخت غصیلی نظروں سے دیکھنے لگا۔


"کیا کہا زیرون کالج والوں نے۔؟؟


دادا زیرون راجپوت کے وہاں آتے ہی انہوں نے اس سے پوچھا۔


"یہ سچ کہہ رہے ہیں سچ میں ماحول بہت کشیدہ ہے۔"


زیرون راجپوت نے سرخ نگاہوں سے ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے چبا چبا کر کہا۔


"چلو اک کام تو ان نمونوں نے اچھا کیا۔"


دادا نے ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

جبکہ وہ تینوں زیرون راجپوت کے جھوٹ پر ہکا بکا رہ گئے جبکہ وہ تینوں کو اپنے روم کی جانب اشارہ کر کے وہاں سے بے حد غصے سے اوپر اپنے روم کی جانب چل دیا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


راجپوت صاحب کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی بڑے بیٹے کا نام سلیمان راجپوت۔دوسرے کا نام علی راجپوت۔تیسرے کا نام شاکر راجپوت بیٹی کا نام ہانیہ راجپوت چاروں کی شادیاں انہوں نے اپنے قریبی رشتےداروں میں کی تھی۔

انکے بڑے بیٹے کی بیوی شمائلہ ان کے دو بچے تھے ایک بیٹا زیرون راجپوت جو گھر میں سب بچوں سے بڑا اور مزاج میں کافی زیادہ سخت جبکہ بیٹی پاکیزہ راجپوت جو گھر میں سب سے چھوٹی اور کافی شرارتی۔


دوسرے بیٹے کی بیوی کا نام ہاجر۔ انکے چار بیٹے سب سے بڑا شامیر راجپوت جو زیرون راجپوت سے ایک سال چھوٹا اور کافی سنجیدہ طبیعت کا مالک دوسرا ساحر راجپوت جو گھر کے باقی لوگوں سے مختلف ہنس مکھ جبکہ ان دونوں کے جڑواں بھائی سالار راجپوت شاہ ویر راجپوت پاکیزہ کے کرائم پاٹنر اور سب مردوں سے بے حد مختلف زیادہ شرارتی


شاکر راجپوت انکی بیوی شرمین راجپوت۔انکی صرف ایک بیٹی سجل شاکر راجپوت جو پاکیزہ کے برعکس سخت شرمیلی اور معصوم تھی۔


ہانیہ شرجیل راجپوت کی شادی انکے خاندان میں ہی راجپوت صاحب نے کی تھی انکے صرف دو ہی بیٹے تھے بڑے بیٹے کا نام ازحف شرجیل راجپوت یاسر شرجیل راجپوت ازحف شرارتی قسم کا ایک موج مستی کی زندگی گزارنے والا انسان تو اسکے برعکس اسکا بھائی یاسر بہت ہی شرمیلا اور ڈرپوک قسم کا انکے خاندان کے سبھی افراد راجپوت کے بڑے سے مینشن میں ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہے تھے کہ پاکیزہ راجپوت کے ایک سال پورے ہوتے ہی راجپوت صاحب کے بڑے بیٹے اور بہو کے زیرون اور پاکی کے ماں باپ کی کار ایکسڈنٹ کی وجہ سے موت سے پورے راجپوت مینشن کو ہلا کر رکھ دیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ انکا یہ غم کم تو نہیں ہوا ہاں ان سب کو صبر کرنا ضرور آ گیا تھا لیکن زیرون راجپوت اس بھیانک حادثے کی وجہ سے ٹوٹ کر ایک سخت پھتر بن گیا پہلے وہ ہنستا تھا مگر اپنے والدین کے مرنے کے بعد تو وہ جیسے ہنسنا ہی بھول گیا تھا اسکے دل میں صرف غصہ اور غم کے علاؤہ کچھ بھی نہیں تھا ہاں اسکے دل میں اپنی بہن اور اپنی فیملی کے لیے ایک احساس تھا جیسے وہ اپنی آنکھوں سے ان پر ظاہر کرتا تھا وہ کچھ کہتا نہیں تھا لیکن سب کی خوشی کی خاطر وہ کبھی کبھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت انکے ساتھ گزرتا تھا اور جب اسے آج اپنی بہن اور کزن کے اغوا کا پتہ چلا وہ پریشان ہو کر سیدھا مینشن کی جانب چلا آیا تھا اس وقت وہ اپنوں کے ساتھ بیٹھا اپنی موجودگی سے وہ انہیں یقین دلا رہا تھا کہ وہ بہت جلد پاکی اور سجل کو لیکر آئے گا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


زہرا بتول زیرون راجپوت کے پاس سے جب سے آئی تھی ڈر کے مارے اپنے روم سے نہیں نکل رہی تھی وہ اس وقت بہت سہمی ہوئی تھی۔


اس وقت وہ پنک بڑے سے دوپٹے میں لپٹی جائے نماز پر بیٹھی نماز پڑھ رہی تھی نماز پڑھتے ہوئے اسکا ڈرا سہما دل اب پرسکون ہو گیا تھا وہ سب کچھ بھول کر عبادت میں مشغول تھی۔


جب دعا کے لیے اس نے اپنے ہاتھ اٹھائے تو اس ظالم انسان کی حرکت کو یاد کرکے اسکی خوبصورت سیاہ آنکھیں بھرنے لگی۔


"آپ اس ظالم شخص کے دل کو موم کر دے نا اسے عورت کی عزت کرنا سیکھا دے اے میرے پیارے مالک آپ ہی اسے میرے ساتھ غلط کرنے سے روک سکتے ہیں آپ جیسے ہر بار میری حفاظت کرتے ہیں اس بار کچھ ایسا کر دے کہ وو۔وہ ظالم انسان مجھ سے دور چلا جائے ہمارا غلطی سے بھی سامنا نا ہو جائے یا پھر کچھ ایسا کرے کہ وہ اس بات کو بھول جائیں جسکی وجہ سے وہ میرے پیچھے پڑا ہوا ہے پلیز آپ میری عزت کی خاطر اسے ایک ایسی راہ دیکھائے جس سے وہ میرا پیچھا چھوڑ دے۔"


سیاہ پانیوں سے بھری آنکھیں اوپر اٹھی فریاد کر رہی تھی لبوں پر اپنی عزت کی سلامتی کی دعائیں نکل رہی تھی وہ دعا میں اتنی مگن تھی کہ اسے روم میں امشال کے آنے کا پتہ نہ چل سکا۔


"بھابھی سائیں خیریت آپ اس وقت یہاں۔؟؟


جب وہ اپنے چہرے پر آئے نمی کو صاف کرتے ہوئے جائے نماز سے اٹھی تبھی بیڈ پر امشال کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر وہ بولی۔


"زہرا وہ روم کس کا ہے اور سلطان کا ماضی کیا ہے مجھے بتاؤ پلیز میں اتنے دنوں سے اس روم کے بارے میں اور سلطان کے ماضی کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی ہو ہر بار دماغ میں الٹے سیدھے خیالات آتے ہیں پلیز زہرا تم میری مدد کر دوں اور مجھے اس بے چینی سے باہر نکالو پلیز ورنہ میں سوچ سوچ کر مر جاؤ گی میں یہ سوچ کر سلطان سے بات نہیں کرتی کئی وہ مجھ سے ناراض نا ہو جائے اسی لیے میں ان سے نہیں پوچھتی اس بارے میں۔"


امشال ان چار پانچ دنوں سے اس روم کے بارے میں اور سلطان کے ماضی کے بارے میں جاننے کے لیے سخت بے چین تھی اسی وجہ سے وہ آج کل سب کو بہت کھوئی کھوئی لگتی تھی۔


"بھابھی سائیں آپ اس بات کو رہنے دے کیوں کہ یہ بات جان کر آپکو صرف درد ملے گا اور اس کے بعد آپکے اور ادا سائیں کے بیچ میں دوریاں پیدا ہوگی اگر آپ ادا سائیں سے دور رہنا چاہتی ہیں تو میں آپ کو ابھی بتاتی ہو۔مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن آپ لوگوں کے رشتے پر بہت بڑا اثر پڑے گا اسی لیے آپ اس بات کو بھول جائیں۔"


زہرا بتول نماز پڑھنے کے بعد اب اپنے اندر سکون محسوس کر رہی تھی امشال کے ہاتھوں کو تھام کر وہ بیڈ پر اسکے دائیں جانب بیٹھتی ہوئی بولی۔


"زہرا پر مجھے سچ میں جاننا ہیں۔"


امشال نے تڑپتے ہوئے زہرا بتول کے ہاتھ پر اپنی گرفت سخت کرتے ہوئے کہا۔


"تو بھابھی سائیں یہ آپ ادا سائیں سے جاننے کی کوشش کرے شاید وہ آپکے سامنے اپنا درد کھول دے اور ہمت کر کے آپکو اپنا ماضی بتا دیں۔"


زہرا بتول نے امشال کے ہاتھ کو تھپکتے ہوئے کہا۔

تو امشال نے اپنا سر ہاں میں ہلایا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"بھائی مجھے واشروم جانا ہے۔"


پاکی سامنے کھڑے تیس سالہ شخص کو دیکھتی ہوئی بیچارگی سے بولی۔جو ان دونوں کے لیے کھانا لیکر آیا تھا۔


"لڑکی چپ کر کے کھانا کھاؤ۔"


اس شخص نے سخت غصے سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

اس باس نے انہیں سختی سے اس لڑکی کی باتوں میں نہ آنے کے لیے کہا تھا اسی لیے وہ اس وقت پاکی کو گھور رہا تھا۔


بھائی مجھے میری نظروں کے آگے چڑیا چاند اور بہت سی گاڑیاں بہت ساری عمارتیں اور بہت سارے آئی فون آتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں نیچرل کال کی وجہ سے اور آپ ہے کہ مجھے زبردستی کھانا کھانے کے لیے کہ رہے ہیں ناٹ فئیر آپ نا ایک بچی کے ساتھ اس طرح سے سختی کرکے اپنے گناہوں میں مزید اِضافہ کر رہے ہیں۔"


پاکی نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔


"کیا میں تمھیں واشروم لیکر نہیں جا رہا تو میری گناہوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہاٹ آ جوک ہاہاہاہا ہاہاہاہا۔"


اس شخص نے ہنستے ہوئے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"ہائے ممی میرا پیٹ اگر اور زیادہ روک لیا نا تو میں آپکے اور ڈیڈ کے پاس آ جاؤ گی میرے ویلکم کی تیاری اچھے سے کرنا۔"


پاکی اس شخص کی چالاکی پر اپنے دانت پیسنے لگی پھر اچانک سے اپنا سر پیٹ کی جانب لیجاتی ہوئی زور زور سے چلاتی ہوئی کہنے لگی۔


"لڑکی تم ٹھیک تو ہو نا چیخ کیوں رہی ہوں۔؟؟


اسکے چیخ چیخ کے کہنے پر وہ شخص سخت گھبراتے ہوئے اس کے قریب آکر اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔


"ہائے میری پاکی مجھے لگتا ہے آج کسی کی لاپرواہی کی وجہ سے تمھاری یہ سنگین بیماری تمھیں مار ہی ڈالے گی میں کیا کرو یہ لوگ ظالم ہیں تمھیں مار رہے ہیں۔"


سجل جو کب سے پاکی کی نوٹنکی پر اپنی ہنسی کنٹرول کر رہی تھی وہ بھی رونے کی نوٹنکی کرتی ہوئی کہنے لگی۔


"کیا کیسی بیماری۔؟؟


اس شخص کے ساتھ پاکی نے بھی سجل کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"آہہہہہہہہہہہہہہ ہائے اللہ آپ نے کیوں میری ایک کڈنی کو فیل کر دیا ہے کیوں دیکھے نا آج آپکے کچھ بندوں کی وجہ سے میں تکلیف میں ہو اگر میں مر گئی نا تو آپ انہیں بلکل بھی معاف مت کرنا انہیں گرم تیل میں ڈال کر اچھے سے فرائی کرنا انہیں ٹھنڈے پانی مار مار کر برف بنا دینا انہیں مشین کے آگے ڈال کر انکا قیمہ کچومر بنا دینا۔"


البتہ اسکی آواز ست تھی مگر سجل تک پہنچ گئی اسکی بات پر وہ اسے نظروں ہی نظروں میں کچھ اشارہ کرنے لگی جسے سمجھ کر پاکی نے اور بھی زیادہ بلند آواز میں چیخنا شروع کر دیا جو دیکھ وہ شخص بری طرح سے ہڑبڑا کر تیزی سے آگے بڑھ کر پاکی کو رسیوں سے آزاد کرنے لگا۔


"نہیں یہ بددعا مت دینا میری ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔"


اس شخص نے پاکی کی بدعا پر روتے ہوئے کہا۔


"پھر مجھے کھولو اور واشروم جانے دوں۔"


پاکی نے چہرے پر نقلی درد کے تاثر پیدا کرتے ہوئے کہا۔


"اوکے میں تمھیں واشروم لیکر جاتا ہوں۔"


اس شخص نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پاکی کے اوپر سے رسی کو ہٹاتے ہوئے کہا۔


"انکل آپ میری پیاری سی کزن کو دیکھے میں خود ڈھونڈ لوں گی واشروم."


پاکی اسکی رسیاں دور کرنے پر ایک شاطرانہ مسکراہٹ سجاکے اسے دیکھتی ہوئی نم آواز میں کہنے لگی۔


"تم کیسے نہیں تمھیں میں اکیلے نہیں بھیج سکتا ورنہ باس

مجھے جان سے مار دے گا."


پاکی کی بات پر اس شخص نے اس خطرناک درندے صفت انسان کی درندگی کا سوچ کر بری طرح سے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔

کیوں کہ ان دونوں لڑکیوں کی زمہ داری اس خطرناک ترین انسان نے اسے سونپا تھا اگر ان دونوں میں سے ایک بھی مس ہوگئی تو وہ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گا بلکہ اسے بد تر سزا دے کر پھر ہی موت دے گا۔


"ارے انکل آپ میرا یقین کرے میں بہت ہی معصوم ہو میں گیم پلاننگ کرنا بلکل بھی نہیں جانتی ہو آپ بے فکر ہو کر مجھے جانے دے میں جلد واپس آ جاؤ گی۔"


پاکی نے معصومیت سے کہا تو اس شخص نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ تیزی سے دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولنے سے پہلے اس شخص سے نظریں بچا کر سجل کو دیکھتی ہوئی ایک آنکھ کو ونک کرتی باہر گئی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ارے یار یہ راستہ کہاں ہے اب آپ ہی میری ہلیپ کرے اس جلاد کے مجھ پر نظر پڑنے سے پہلے ہی مجھے راستہ دکھا دے کیوں کہ میں آسانی سے اسکے آدمی کو تو بے وقوف بنا کر نکل گئی ہوں مگر اس کھڑوس ظالم کو میں بے وقوف نہیں بنا پاؤں گی وہ بہت ہی بڑا مائنڈ ماسٹر ہیں۔"


پاکی اس بڑے سے ولا میں خفیہ راستہ ڈھونڈ رہی تھی جو ولا بڑا ہونے کی وجہ سے اسے نہیں مل رہا تھا وہ جب ایک روم کے پاس سے گزر رہی تھی تو اس نے جب اس روم کے دروازے کو آدھ کھولا ہوا دیکھا تو آگے بڑھی اور اندر جھانکنے لگی لیکن اندر کے منظر پر وہ ساکت و صامت رہ گئی۔

کیونکہ کمرے میں ایک خوبصورت نوجوان سیاہ کپڑوں میں ٹیبل پر رکھے بہت سارے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔


پاکیزہ تو اس نوجوان کے جاہ و جلال پر فدا اسے گھور رہی تھی تبھی اپنی مدہوشی میں وہ اندر بڑھی اور کارپٹ میں پیر پھسننے کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر اس کے قدموں میں گری۔


"میں نے سب خفیہ جگہوں کو اڑا دیا ہے سر لیکن اب تک مجھے اس آر آر کے بارے میں پتہ نہیں چلا ہے وہ اس وقت کہاں ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ہے ہاں ہاں ان لوگوں کو بلکل بھی شک نہیں ہوا مجھ پر۔"


وہ جو اپنے سینئر سے بات کر رہا تھا اپنے قدموں کے پاس اسے گرے دیکھ ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا جو اب گھٹنوں کے بل پر بیٹھی اسے مبہوت ہو کر دیکھ رہی تھی۔


"تم یہاں کیا کر رہی ہو۔؟؟


وہ چونکی تب جب اسنے اسے کندھوں سے بری طرح سے ہلا کر ہوش میں لاکر غصے سے پوچھا۔


"ہائے اللہ ہیرو جی آپ سچ میں ایک ایجنٹ ہیں۔"


وہ اسکی سینے پر چمکتے پاکستان کے چھوٹے سے جھنڈے کو دیکھ کر خوشی سے چہکتی ہوئی بولی۔

تو مقابل نے اسکی نظروں کو اپنے سینے پر دیکھ تیزی سے وہ بیج نکال کر اپنی جیب میں رکھا۔


"بتاؤ لڑکی تم یہاں کیسے آئی ہوں۔؟؟


مقابل نے بری طرح سے اسے جھنجھوڑتے ہوئے غصے سے پوچھا کیوں کہ وہ آج اپنا فائنل فیصلہ کر چکا تھا ان دونوں لڑکیوں کو باہر نکالنے کے بعد اس ایریا کو اڑانے کا لیکن اس پٹاخہ رانی کی اس حرکت پر وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔

اس کا دل چاہا کہ سامنے بیٹھی چھوٹی سی چھوئی موئی لڑکی کے سینے پر اپنے ریوالور کی سبھی گولیاں مار دیں کیوںکہ اس لڑکی نے اسکے اس پلان پر پانی پھیر دیا تھا اس وجہ سے وہ غصے سے تلملا رہا تھا۔


"میں وہ ہیرو جی اپنے ان نازک پیروں سے۔"


پاکی اسکے چہرے پر پھیلے غصیلی تاثرات پر توجہ دیئے بغیر شرارتی لہجے میں بولی۔

اسے سنجیدہ نہ دیکھ کر مقابل نے غصے سے اسے کندھوں سے پکڑ کر بری طرح سے جھنجوڑا۔


"شٹ اپ تم نے خود کو رسیوں سے کیسے آزاد کر لیا ہممم۔؟


شدید غصے سے اپنے سخت گرفت اسکے نازک کندھوں پر گارتے ہوئے اس نے سخت غرا کر اس سے پوچھنے لگا وہ اسکی سختی پر ڈرنے کے بجائے اسے اپنی شرارت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


"سمپل میں نے آپکے ہوں سوری سوری اس اصلی آر آر کے بندے کو بے وقوف بنا کر خود کو اس سے رسیوں سے آزاد کرا کر یہاں راستہ ڈھ نہیں نہیں پاکی یہ بھلے ایجنٹ ہیں لیکن اب اپنی اصلیت جاننے کے بعد تمھارا دوست نہیں دشمن بن گیا ہے تم نے اس سے اپنے پلان کا ذکر بلکل بھی نہیں کرنا ہے۔"


اسکا خوبرو چہرہ اس وقت سیاہ ماسک کے پیچھے نہیں تھا بلکہ اس وقت اسکا چہرہ اسکے سامنے تھا وہ اسکی غصے سے گھنی مونچھوں تلے دبے ہونٹوں کو دیکھ اپنے شریر دل کو سنبھالتی ہوئی شروع میں زور سے بولی لیکن آخر میں جب آسے احساس ہوا کہ اب اس نے اسکا چہرہ دیکھ لیا ہے تو شاید وہ اسے مار دے اسی لیے وہ ہلکی آواز میں بولنے لگی۔


"تم کیا کہ رہی ہو زور سے بولو مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا۔؟؟


اسے پہلے تو زور سے پھر آخر میں ہلکی آواز میں بولتے ہوئے دیکھ مقابل نے اپنے دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا۔


"وو۔وہ ہیرو جی میں کہ رہی ہو میں آپکی سچائی جان گئی ہو تت۔تو کیا اب آپ مجھے مار دے گے۔؟؟


پاکی نے ابکے اچانک سے اپنے چہرے پر سنجیدگی سجاتے ہوئے اس سے پوچھا۔


"ہاں کیوں کہ میرے پاس اب یہی اوپشن ہے اگر میں نے تمھیں نہیں مارا تو تم ضرور لالچ میں آکر خود کو اور اپنی کزن کو بچانے کے لیے میری سچائی ان لوگوں کے آگے کھول دو گی جو فلحال تو میں نہیں چاہتا کیوں کہ جب تک میرا مشن کمپلیٹ نہیں ہو جاتا مجھے انکا باس بن کر انہیں بے وقوف بنانا پڑے گا اس کے لیے پہلے مجھے تمھارا کام تمام کرنا پڑے گا۔"


اب اسے سنجیدہ ہوتے ہوئے دیکھ مقابل کے لب خوبصورتی سے مسکرا دئیے وہ سامنے ٹیبل پر رکھا ایک نوکیلا چاقو اٹھا کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے خطرناک لہجے میں کہنے لگا تو پاکی اسکے ہاتھوں میں چاقو دیکھ پیچھے ہٹنے لگی۔

"نن۔نہیں میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ہوں میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ہے میں نے تو ابھی کچھ بھی دیکھا نہیں ہے مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے ہیرو جی آپ پلیز مجھے کچھ مت کریں پلیز دیکھیں میں آپکے پیر پکڑتی ہو پلیز مجھے جانے دے پلیز۔"


پاکی اسے اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ اچانک سے اس شخص کے جو یہاں آر آر کے بھیس پر آر آر کے بندوں کو ختم کرنے آیا کے مشن پر آیا تھا۔

وہ اس شخص کے قدموں کے قریب بیٹھ کر اسکے پیروں کو پکڑ کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔


"تمھاری شادی ہوگئی ہوں یا نہیں مگر آج تمھیں مارنا تو پڑے گا کیوں کہ تم میری سچائی جان چکی ہوں اور میں اپنی اصلیت کو اِن لوگوں سے چھپانے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہوں سمجھی لڑکی کچھ بھی تو اب تم ریڈی ہو جاؤ مرنے کیلئے۔."


وہ شخص ہونٹوں پر سفاکی سجا کر اسے اٹھا کر اپنا ریوالور نکال کر اسکی کنپٹی پر رکھ کر سنجیدگی سے بولا۔


"نن۔نہیں۔"


اپنی کنپٹی پر ریوالور محسوس کر پاکی اپنی آنکھیں بند کر شدت سے چیخی۔

اس کی چیخ مقابل کے ارادے کو نا ڈگمگا سکے وہ ریوالور پر گرفت مضبوط کیے اسے غصے سے دیکھ رہا تھا۔


"اگر اس زندان سے زندہ بچ کر نکلنا چاہتی ہوں تو چپ چاپ کھڑی ہو کر صرف تماشائی بن کر میرا ساتھ دو۔ اگر تم نے ان کے سامنے کچھ کہا نا تو تم اپنے قبر کے لیے کوئی جگہ ڈھونڈنا کیوں کہ انہیں ٹھکانے لگانے کے بعد میں تمھیں ٹھکانے لگاؤں گا۔"


اس سے پہلے کے وہ اس پر گولی چلاتا باہر سے کسی کے قدموں کی آواز پر مقابل چونکا اسکی سیاہ آنکھیں پاکی سے ہٹ کر دروازے کی جانب بڑھی دروازہ بند تھا وہ یکدم سے اپنا رخ دروازے کی طرف کرتا اچانک سے پاکی کو کھینچ کر اپنی مضبوط حصار میں لیتا اسکی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر ہلکی آواز میں بولا۔پاکی پہلی بار کسی کے دھمکی پر ڈر کے مارے بُری طرح سے تھر تھر کانپنے لگی۔


"اا۔اوکے ہیرو جی میں وہی کروں گی جو آپ چاہتے ہیں۔"


پاکی سخت کانپتی آواز میں بولی۔

مقابل اسکے پورے وجود پر کپکپی طاری محسوس کر شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر مسکرایا۔


"گڈ گرل۔"


اسکے نرم رخسار پر ریوالور سے پریس کرتا مقابل نے اپنے بھاری گھمبیر آواز میں کہا۔

تبھی روم کا دروازہ کھول کر اس آر آر کا خاص بندہ اندر داخل ہوا تو سامنے پاکی کو ایک شخص کی گرفت میں مچھلی کی طرح مچلتے ہوئے دیکھ غصے سے اپنا ریوالور نکال کر وہ آدمی غراتے ہوئے بولا۔


"اے کون ہو تم اور اندر کیسے آئے۔"


اس آدمی کی بات پر مقابل لبوں پر خطرناک مسکراہٹ سجا کر اسے اپنی سیاہ آنکھوں سے دیکھنے لگا۔تو اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھ وہ آدمی بری طرح سے ڈر کر پیچھے ہٹا کیونکہ اس ڈراک ورلڈ میں ان سیاہ آنکھوں کو سب اچھی طرح سے پہنچاتے تھے کیونکہ ایجنٹ ون کی آنکھوں میں ہی اس جرائم کی دنیا کے گند کو جڑ سے ختم کرنے کا ایک جنون چمک بن کر ان سیاہ آنکھوں کو خوفناک بناتا تھا اور ان خوفناک آنکھوں کی چمک سامنے والے کو خوف سے روبرو کراتا تھا اس وقت بھی سامنے کھڑے شخص کی آنکھیں اس آدمی کو خوف سے روبرو کرا رہا تھا وہ آدمی بری طرح تھر تھر کانپتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا۔


"ایجنٹ ون مجھے جانے دو پلیز مجھے جانے دو۔"


پاکی اسکی مضبوط گرفت میں بری طرح پھڑپھڑا رہی تھی تبھی ایک زور دار دھماکہ ہوا تو وہ آدمی ڈر کے مارے نیچے زمین پر گرا اور مقابل سے گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگا۔


"تمھیں جانے دو تمھیں اپنے ملک کے غدار کو۔"


پاکی جو مسلسل ہوتے دھماکے سے لرز رہی تھی اپنی سماعت سے ٹکرائی اس خوفناک بھاری آواز پر وہ اپنی نظریں اوپر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو اس کی جانب نہیں سامنے نیچے گرے آدمی کی جانب متوجہ تھا۔


"میں نے صرف آر آر کے کہنے پر معصوم لوگوں کو مارا ہے میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا ہے میں نے اپنے باس کے آڈر پر سب کیا ہے پلیز ایجنٹ ون مجھے معاف کر دو مم۔میں آئیندہ یہ دوبارہ نہیں کروں گا بلکہ میں اب ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کروں گا۔"


"تم کوشش کروں گے تم.؟؟ پہلے بھی تم نے یہ وعدہ کیا تھا اور اب پھر سے وعدہ میں تمھارے اس جھوٹے وعدے میں نہیں آؤں گا۔"


ایجنٹ ون نے غضب ناک نظروں سے اس آدمی کو گھورتے ہوئے چبا چبا کر کہا اور پاکی کا چہرہ اچانک سے موڑ کر اپنے لمبے چوڑے سینے سے لگاتا وہ نیچے جھکا اور اپنا کنجر نکال کر نفرت سے اس آدمی کی دونوں آنکھوں کو نکال کر نیچے اپنے قدموں کے پاس پھینک کر بری طرح سے مسلنے لگا جبکہ وہ آدمی اس اچانک حملے پر سنبھل نہیں سکا اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر زور سے چلاتے ہوئے ایجنٹ ون کے قدموں پر گرا تو اس آدمی کے قدموں پر گرنے کی وجہ سے آدمی کی آنکھوں سے پوارے کی صورت نکلتا خون ایجنٹ ون کے سیاہ جوتے کو گیلے کرنے لگے۔


پاکی اسکے اچانک سے اپنے سینے سے لگانے پر جیسے سانس لینا بھول گئی وہ اس طرح اسکے سینے سے لگانے پر تھوڑی دیر پہلے جو اپنے دل میں اس کے لیے ڈر محسوس کر رہی تھی وہ ڈر بھول کر اسکی خوشبو کو اپنے قریب آنکھیں بند کر کے محسوس کرنے لگی۔

لیکن ایک زور دار چیخ اور کسی چیز کے چڑ مڑ ہونے کی آواز پر وہ اپنی آنکھیں کھول کر اپنے آس پاس ہو رہے حرکات کو محسوس کر اپنے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر تھوڑا سا پیچھے ہوئی لیکن مقابل کے جھٹکے سے سینے سے لگانے پر وہ سٹپٹا کے رہ گئی۔


تبھی دھماکہ پاس سے سن کر ایجنٹ ون نے اسے خود سے دور کیا اور نیچے گرے آدمی کی جانب بڑھا پاکی جو اب اس شخص سے کافی ڈری ہوئی تھی یہاں سے بھاگنے کے لیے ایک سنہرا موقع دیکھ کر وہ نم آنکھوں کو صاف کرتی وہاں سے بھاگی۔


"سجل وو۔وہ ہیرو جی سچ میں ایک ایجنٹ ہیں وہ اس ایریا کو تباہ کر رہا ہے اا۔اور میں نے اسکا چہرہ دیکھ لیا ہے وو۔وہ مجھے مارنا چاہتا ہے سجل مجھے ابھی نہیں مرنا چاہتی ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے میں یہاں سے نکل بھی گئی نا یار وہ مجھے ڈھونڈ کر مار دے گا سجل پلیز تم میری مدد کروں پلیز مجھے بچا لوں اس ڈیول سے۔"


پاکی وہاں سے بھاگ کر سیدھا سجل کے پاس پہنچی اور اسے کندھوں سے پکڑ کر خوفزدہ آواز میں بولی۔


"پاکی پاکی جسٹ ریلکس یار پہلے تم اپنے آنسو صاف کرو اور پھر مجھے ان رسیوں سے آزاد کروں۔"


سجل اپنی شرارتی پاکی کو اتنے ڈرے ہوئے دیکھ آرام سے اسے دیکھتی ہوئی بولی تو پاکی نے وہی کیا جو اس نے کہا پہلے اس نے ایک گہری سانس لی پھر اپنے آنسو صاف کر کے وہ تیزی سے سجل کے پیچھے کھڑی ہو کر اسے رسیوں سے آزاد کرنے لگی۔


رسیوں سے آزاد ہوتے ہی سجل نے اسے سختی سے کلائی سے پکڑا اور تیزی سے اس روم سے باہر نکلی اور سامنے نظر آتے سیڑھیوں کی جانب تیزی سے بڑھی۔


وہ لوگ جب نیچے پہنچے تو سامنے ایک بڑا گیٹ دیکھ وہ اسی جانب بھاگے اور اس گیٹ سے باہر نکلے تو اپنے سامنے سب چیزوں کو جلتے ہوئے دیکھ وہ دونوں ایک لمحے کو خوف سے ساکت ہو گئے پھر جب انکی نظر سامنے روڈ پر پڑی تو وہ تیزی سے اس دروازے کی جانب بڑھے جہاں سے وہ نکل کر اس جگہ سے سیو ہو کر اپنے گھر پہنچ سکتے تھے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


سالار راجپوت شاہ ویر راجپوت یاسر راجپوت تینوں زیرون راجپوت کے اسٹڈی روم میں سر جھکا کر کھڑے تھے سامنے وہ شان سے صوفے پر بیٹھا انہیں سنجیدگی سے گھور رہا تھا۔


"اس بار میں نے تم تینوں کو صرف اس لیے بچایا ہیں کیوں کہ اس وقت سب گھر والوں پریشان ہیں لیکن تم تینوں یہ مت سمجھنا کہ میں تم تینوں کی اس غلطی کو معاف کروں گا تم لوگ یہاں جتنے دن رہوں گے عیش وآرام کے بغیر رہوں گے نا کوئی پارٹی نا کوئی سیر و تفریح صرف گھر میں اپنے اپنے کمروں میں اس تاریخ تک رہوں گے جو تم لوگوں کی ٹکٹ پر لکھا ہوا ہے اگر تم تینوں میں سے مجھے کوئی باہر کسی ریسٹورنٹ پر یا دوستوں کے ساتھ گھومتے ہوئے ملا نا تو میں اس سے بھی بڑا سزا دوں گا تم لوگوں کو گوٹ اٹ۔"


زیرون راجپوت نے ترچھی نگاہوں سے ان تینوں کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے اپنے ازلی سرد مہر لہجے میں کہا۔


"بھائیا ہم جان بوجھ کر نہیں آئے وہاں سے سچ میں وہاں بہت بڑا جھگڑا ہوا ہے اسی وجہ سے ہم تینوں یہاں آئے اگر کوئی جھگڑا نہیں ہوتا تو ہم آئی سیویر یہاں نہیں آتے پلیز آپ اتنی بڑی سزا مت دیں ہمیں پلیز۔"


اتنی پابندی سن کر سب سے زیادہ صدمہ سالار کو ہوا وہ آنکھوں میں نقلی مکلی کا نمی لیے اسکے پیروں کے قریب بیٹھ کر گلوگیر آواز میں بولا۔


"شٹ اپ آئی سی جشٹ شٹ اپ یہاں سے زیادہ تم لوگ وہاں سیو ہو ڈیم اٹ یہاں اتنا بڑا واقع ہوا ہے ہم اس واقع کی وجہ سے ڈسٹرب ہے اور اوپر سے تم لوگوں نے یہاں آ کر ہمیں اور زیادہ فکر مند کر دیا ہے اگر تم لوگوں کو کچھ ہو گیا تو تم تینوں نے سوچا ہے دادا اور تم لوگوں کے والدین اور بہن بھائیوں پر کیا گزرے گی سوچا ہے تم لوگوں نے یہ ہمممم۔؟؟


زیرون راجپوت نے شدید غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے غرا کر کہا تو تینوں اس کی غصیلی آواز پر ڈر کر بری طرح سے لرزے۔


"واقع بھائی کیسا واقع۔؟؟


سالار راجپوت پہلے سنبھلا تو اس نے حیرانگی سے زیرون راجپوت کے غصے سے سرخ ہو رہے چہرے پر نظریں گاڑ کر پوچھا۔


"ہماری پاکی اور سجل کو ایک دہشت گرد نے اغوا کیا ہے وہ دنوں اس وقت اس کے قبضے میں ہیں۔"


زیرون راجپوت نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔

تو اسکی بات پر وہ تینوں نے ہکا بکا رہ گئے۔


"وہاٹ بھائی یہ کیسے ہوا ہے.؟ ہمارے اردگرد سیکورٹی کی اتنی بھاری نفری ہونے کے باوجود یہ کیسے فوسیبل ہے۔؟ پاکی اور سجل کو ٹائٹ سیکورٹی کے باوجود اتنی آسانی سے کوئی کیسے اغوا کر سکتا ہے۔؟؟


شاہ ویر نے سخت تعجب سے زیرون راجپوت کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

وہ سچ کہ رہا تھا راجپوت خاندان کے سبھی لوگوں کے اردگرد اتنی زیادہ سیکورٹی ہوتی تھی کہ اگلا انسان اتنی سیکورٹی دیکھ حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔


"وہ ایک ماسٹر مائنڈ انسان ہے اسنے اپنا کام بہت ہوشیاری سے کیا ہے۔باہر ہمارے دشمن دن با دن بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ سب ایک اور حملے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اگر تم تینوں گھر سے قدم باہر نکالوں گے تو میں تم تینوں کو انکے چنگل سے نکال کر مار دوں گا۔"


زیرون راجپوت نے گہری سانس لی اور پھر سنجیدگی سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں ان سے کہنے لگا

تو وہ تینوں اسکی دھمکی پر سٹپٹا کے رہ گئے۔


"ہوں مائے گاڈ بھائی آپ اپنے بھائیوں کو مارے گے آپ کتنے زیادہ سنگدل ہیں۔"


یاسر راجپوت نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے اپنے ازلی ڈرپوک لہجے میں بولا۔


"ہمممم تو تم لوگ مرنا نہیں چاہتے۔"


زیرون راجپوت اسکی بات پر پرسوچ انداز میں بولا۔


"بلکل بھائی ابھی تو میری ہزار کے قریب گرل فرینڈز بھی تو پورے نہیں ہوئے ہیں اور تو اور میں نے اپنی بیوی کے ساتھ عشق والی سیلفی بھی لینا ہے اتنی جلدی مجھے نہیں مرنا پلیز آپ یہ ہمارا قتل کرنے والا پروگرام کینسل کر دے پلیز۔"


شاہ ویر راجپوت نے بنا سوچے سمجھے اپنی فیوچر پلاننگ اس شخص کے آگے کھول دیا جو ڈیول سے کم نہیں تھا۔

اسکی بات پر سالار راجپوت کا دل چاہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔


"یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو سالار راجپوت۔"


زیرون راجپوت اسکی ہزار گرل فرینڈز والی پلاننگ کا سن کر سخت غصے سے اسے دیکھتے ہوئے غرایا تو اسکی غصے سے پتھریلی آواز پر وہ تینوں کانپ کر رہ گئے۔

سالار راجپوت کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو تیزی سے اسکے قریب جاکر اس نے اسکے پیروں کو پکڑا۔


"سس۔سوری برو وو۔وہ میرے منہ سے نکل گیا۔"


وہ اسکے پیر پکڑ کر روتے ہوئے بولا۔


"شاہ ویر راجپوت تمھیں عشق کرنے کا بے حد شوق ہے ناں تو ٹھیک ہے بغیر پیسوں کے عشق فرماؤ کیوں کہ میں نے تم لوگوں کے کارڈ بلوک کروا دئیے ہیں۔"


اپنے قدموں کے پاس بیٹھے شاہ ویر راجپوت کو سخت گھورتے ہوئے زیرون راجپوت نے سخت لہجے میں کہا۔


"برو دِس از ناٹ فئیر۔۔۔۔آپ اچھے سے جانتے ہیں میں کتنا بھولا اور بھیبھا معصوم بچہ ہوں میں عشق کے ع سے بھی لاعلم ہوں ہزار کی گرل فرینڈز کی پلاننگ شاہ ویر کر رہا ہے تو آپ اسکی سزا ہمیں کیوں دینا چاہتے ہیں سزا تو اسے ملنی چاہے برو کیوںکہ اس نے لندن میں کلاس پروفیسر کو بھی نہیں چھوڑا ہے انہیں بھی پروپوز کیا ہے اس عاشق مزاج انسان نے برو پلیز ہماری زندگی ہم سے مت چھینے کیوں کہ کریڈٹ کارڈ کے بغیر ہم مر جائیں گے."


کریڈٹ کارڈ بلوک ہونے کا سن کر سالار راجپوت بھی شاہ ویر کے سائیڈ پر بیٹھتے ہوئے زیرون راجپوت کے دوسرے پاؤں کو پکڑتے ہوئے روتے ہوئے کہنے لگا۔

جبکہ یاسر راجپوت تو کارڈ بلوک کا سن کر آنکھیں پھاڑ کر زیرون راجپوت کو دیکھ رہا تھا۔


"اب شاید تم لوگوں کو ایک رئیس زادے سے ڈرائیور بننے کا شوق ہو رہا ہے جو تم لوگ پتر پتر میرے سامنے بکواس کر رہے ہو۔"


"نہیں برو مجھے ڈرائیور نہیں بننا میری تو ابھی لائسنس بھی نہیں بنا ہے مم۔میں کیسے ڈرائیور کروں گا ان لوگوں نے تو لندن میں لائسنس بنا لیا ہے یہ لوگ ایزلی آپکے ڈرائیور کے کام اچھے سے نبھائے گے آپ ان دونوں کو ہی اپنا ڈرائیور بنا لیں مگر پلیز مجھے نہیں۔"


یاسر راجپوت ڈرائیور کا سن کر زور زور سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے نیچے گرتے ہوئے بولا۔


"تو تم لوگ رئیس والی زندگی گزارنا چاہتے ہو ٹھیک ہے میں کارڈ سے بلوک ہٹا دیتا ہے بٹ بٹ جس طرح میں چاہتا ہوں تم لوگ اسی طرح رہوں گے اگر تم تینوں میں سے کسی نے ہوشیاری کی تو مجھے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا تم تینوں کو بادشاہ سے فقیر بناتے ہوئے۔"


زیرون راجپوت کو ان تینوں بچوں پر رحم آیا تو وہ صوفے سے اٹھا اور ان تینوں کے کریڈٹ کارڈ سے بلوک ہٹانے کے لیے کسی کو میسج کرنے کے بعد ان تینوں کو خوشخبری کے ساتھ دھمکی دیتے ہوئے بول کر سنجیدگی سے ان تینوں کو سخت نظروں سے دیکھتا وہاں سے نکلا تو اسکے وہاں سے جاتے ہی وہ تینوں خوشی سے نعرہ لگا کر وہی ڈانس کرنے لگے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب امشال کی آنکھیں کھولی تو چھت پر لٹکے فانوس کی مدھم روشنی میں اس جانب دیکھنے لگی جہاں سلطان سوتے تھے وہاں اس وقت انہیں نا پاکر وہ جھٹکے سے اٹھی اور روم میں اپنی نظریں ڈورانے لگی۔ وہ وہاں ہوتے تو اسے ملتے وہ سخت پریشانی سے بیڈ سے نیچے اتری اور انہیں آواز دیتی ہوئی واشروم کی جانب بڑھی۔


"سلطان آپ کدھر ہے پلیز باہر نکلے ناں مجھے اس طرح تو مت ڈرائیے ناں آپ اس وقت بچوں کی طرح کیوں چھپے ہیں پلیز باہر نکلے ورنہ میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گی۔"


انکی اس وقت غیر موجودگی پر پتہ نہیں کوئی اس کا دل گھبرانے لگا وہ اپنے نازک دل پر ہاتھ رکھ کر واش روم کا دروازہ کھول کر انہیں اندر ڈھونڈنے لگی وہاں بھی انہیں نا پاکر وہ تیزی سے روم سے باہر نکلی۔


باہر خوفناک اندھیرا دیکھ وہ اپنے پورے وجود میں خوف کے باعث کپکپی طاری ہوتے ہوئے محسوس کرنے لگی لیکن سلطان کی غیر موجودگی کا سوچ کر وہ اپنے اندر ہمت جمع کر کے سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔


جب وہ نیچے آئی تو سلطان کو رات کے تین بجے اس روم کے دروازے کو عجیب دیوانوں کی طرح چھوتے ہوئے دیکھ وہ بھونچکا رہ گئی۔


"تم مجھے چھوڑ کر کیوں گئے کیوں ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوگئے تم ہاں کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا مجھ پر یقین نہیں کیا تم نے بولو ایسا کیوں کیا تم نے ہاں مجھے جاننا ہیں یہ سب تم چاہے واپس آ کر مجھے یہ بتاؤ یا پھر میرے خوابوں میں آ کر مجھے بتاؤ میں کچھ نہیں جانتا مجھے بس آج یہ سب جاننا ہیں۔۔؟؟یہ سب تمہیں آکر بتانا ہوگا کیوں تم نے خود کو اتنی بڑی سزا دی۔؟تمھیں پتہ تھا تم اچھے سے جانتے تھے کہ میں کتنا زیادہ چاہتا ہوں تمھیں لیکن پھر بھی تم نے وہ قدم اٹھایا مجھے تکلیف پہنچانے کے لیے کیوں تم نے یہ قدم اٹھایا کیوں ہاں کیوں۔؟ ہماری جان ایک ہونے کے باوجود پھر بھی تم نے خود کو نقصان پہنچا کر مجھے ساری زندگی کے لیے بے جان کر دیا۔"


انکی بھاری گھمبیر آواز پر وہ ہوش میں آئی تو انہیں نم آنکھوں سے دیکھنے لگی جو اس دروازے پر لگے گلاب کے سوکھے پتوں کو ہٹا کر نیچے رکھے تازہ گلاب کے پھول لگاتے ہوئے ویلکم ٹو مائے لائف پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولنے لگے امشال کو انکے لہجے میں کسی اور کے لیے اتنا جنون محسوس ہوا تو وہ بے آواز رونے لگی۔


"تمھیں پتہ ہے جب میں نے اس کمرے میں داخل ہو کر پنکے پر تمھارے بے جان وجود کو لٹکے ہوئے دیکھا تھا نا تو میرا دل پھٹا تھا تمھارے وجود کو نیچے اتارتے ہوئے مجھے یہاں پر بہت درد ہو رہا تھا میرا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا جب میں نے تمھارے خوبصورت چہرے کو سفید پڑتے ہوئے دیکھا تھا تمھارے وجود سے لپٹ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا جسے میرا روح بھی تمھارے روح کے ساتھ پرواز کر رہا ہے میں اس وقت ٹوٹ گیا تھا اور آج بھی میں وہ درد محسوس کرتا ہوں۔"


اچانک سے وہ نیچے گرتے ہوئے دروازے پر زور زور سے اپنا سر مارتے ہوئے بچوں کی طرح روتے ہوئے درد بھری آواز میں کہنے لگے انکا گلا رونے کی وجہ سے خشک ہو رہا تھا لیکن وہ اس وقت اپنے درد کی وجہ سے یہ بھولیں صرف روئے جا رہے تھے جبکہ انکے پیچھے امشال انہیں اس دروازے پر سر مارتے ہوئے جنونی انداز میں زور زور سے کہتے ہوئے سرخ نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔


"پلیز اتنا مت تڑپاو مجھے آ جاؤ میرے پاس میرے خوابوں میں ورنہ میں تمھارے غم میں اس بار سچ میں مر جاؤں گا۔"


وہ دروازے پر سے اپنا سر ہٹا کر پیچھے ہوتے ہوئے بچوں کی طرح ضدی لہجے میں کہنے لگے کیوںکہ وہ ایک سال سے اسی تاریخ کو یہاں اس گھر میں اپنے بابا سائیں کی ناراضگی کے باوجود اس روم کے دروازے پر پھول لٹکا کر اس ہستی کے سامنے اپنا سارا غم کھول کر رکھ دیتے تھے جس سے اسکا گہرا رشتہ تھا جس نے ایک سال پہلے شادی کے دن ایک دھوکے سے ان سے ناراض ہو کر اس دنیا سے منہ موڑ لیا تھا اور یہ غم اتنا بڑا تھا ان سب کے لیے خاص کر سرفراز شاہ کے لیے اور اسی لیے وہ سلطان عالم شاہ سے سخت نفرت کرتے تھے۔


امشال انکے لہجے اور حرکات میں کسی اور کیلئے جنونیت کی انتہا کو دیکھ منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلہ گھونٹ کر مڑی اور سیڑھیوں کی جانب بھاگی۔

کمرے میں پہنچ کر وہ بیڈ پر منہ کے بل گر کر زور زور سے سسکیاں لے کر رونے لگی اسکی سسکیوں کی گونج پورے کمرے میں سوگواریت پھیلا کر ماحول میں وحشت کی لہرے ڈورہا کر ماحول کو افسردہ کر رہا تھا۔

"سس۔سجل وہاں کوئی جانور ہے شاید۔"


جب وہ دونوں اس جگہ سے باہر نکلی تو سڑک دیکھ اس پر تیزی سے دوڑنے لگی پاکی جو ایجنٹ ون کے خوف سے لرز رہی تھی سڑک کے کنارے بڑے بڑے جھاڑیوں کے پیچھے سے ہلچل محسوس کر ڈرتی ہوئی سجل سے بولی۔


"ہہ۔ہاں مم۔مجھے بھی یہی لل۔لگ رہا ہے پاکی۔"


سجل نے بھی اس طرف دیکھتے ہوئے ڈر کر کہا۔


"اب کیا کرے سجل یہاں تو دور دور تک کچھ نظر نہیں آ رہا اب ہم گھر کیسے جائیں گے۔"


پاکی نے خوف سے کانپتی آواز میں کہا۔


"پاکی میرے خیال سے ہمیں اسی طرح چلنا چاہیے شاید آگے کچھ مل جائے۔"


سجل نے ڈرتے ڈرتے اپنی نظریں ان جھاڑیوں سے ہٹاتے ہوئے کہا کیوں کہ وہ جھاڑیوں کے پیچھے چمکتی سرخ آنکھیں دیکھ چکی تھی اور وہ یہ بات پاکی سے کر نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ پہلے سے ہی ڈری ہوئی تھی۔


"ہاں سجل چلو چلتے ہیں شاید آگے چل کر ہمیں ہوئی سواری ہی مل جائے۔"


وہ اسکی کلائی کو پکڑ کر آگے بڑھی تو سجل بھی سر جھٹک کر اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگی دونوں کو گھپ اندھیرے کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا وہ سنبھل سنبھل کر اپنے قدم آگے بڑھا رہے تھے تبھی وہ دونوں سامنے ایک پولیس گاڑی کو دیکھ سجل خوشی سے چیختی ہوئی آگے بڑھی۔

جبکہ پاکی خوف کی وجہ سے لہرا کر نیچے گری تو سجل اپنے پیچھے کسی کے گرنے کی آواز پر پیچھے پلٹی تو پاکی کو نیچے بیہوش پڑے دیکھ کر وہ اپنی خوشی بھول گئی اور پھٹی آنکھوں سے پاکی کو دیکھنے لگی پھر جب وہ ہوش میں آئی تو تیزی سے پاکی کی جانب بڑھی۔


"دیکھ کر بریک نہیں مار سکتے تھے اگر میرے سر پر لگتا نا تو میں تمھاری یہی اسی سڑک پر قبر کھودتا ڈیم اٹ۔"


ساحر کو جب انکی لوکیشن کا علم ہوا تو وہ اور زیرون نکل کھڑے ہوئے انہیں لانے کے لیے اس وقت دونوں چہرے پر سنجیدگی سجائے گاڑی سے باہر دیکھ رہے تھے کہ تب ھی ساحر کو سامنے کسی کا ہیولا نظر آیا تو جھٹکے سے اس نے گاڑی کو روکا جسکی وجہ سے زیرون راجپوت کا سر سامنے گاڑی کے ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا وہ اپنا سر سنبھال کر غصے سے ساحر کی جانب دیکھنے لگا۔


"وو۔وہ بھائی سامنے دیکھیں۔"


وہ جو پھٹی آنکھوں سے باہر دیکھ رہا تھا اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولا تو زیرون راجپوت نے اسکی بات پر اپنی نظریں باہر کی جانب کی تو سامنے ایک ہیولا دیکھ کر وہ ترچھی نگاہوں سے اور غور سے اس ہیولے کو دیکھنے لگا۔

جو اب آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب بھاگا یہ دیکھ زیرون راجپوت کو کچھ گڑبڑ لگا تو وہ ساحر کی جانب دیکھے بغیر تیزی سے گاڑی کا دروزاہ کھولا کر باہر نکلا۔


"بھائی آپ باہر کیوں نکل رہے ہیں پلیز مت جائے مجھے چھوڑ کر کیا پتہ وہ ایک چڑیل ہو۔"


اسے دروازہ کھول کر باہر نکلتے ہوئے دیکھ ساحر راجپوت نے ڈرتے ہوئے کہا کیونکہ اسے بھوت چڑیل جیسی بھلاؤ سے سخت ڈر لگتا تھا زیرون راجپوت جو گاڑی کا دروزاہ بند کر رہا تھا اسکی بات پر اسے سخت نظروں سے گھورنے لگا۔


"چپ کر کے بیٹھوں ورنہ میں ایک منٹ بھی نہیں لگاؤں گا تمھیں انسان سے بھوت میں بدلنے میں گوٹ اٹ۔"


زیرون راجپوت نے شدید غصے سے کہا تو ساحر اسکی بات پر خاموش ہو گیا تو وہ اسکے خاموش ہوتے ہی اس جانب دیکھنے لگا جہاں وہ ہیولا کھڑا تھا وہ ایک گہری سانس لے ک کر اس جانب بڑھا تو اسے اس جانب جاتے ہوئے دیکھ ساحر نے اپنی آنکھیں بند کر لی جبکہ زیرون راجپوت اس ہیولے کے قریب پہنچا تو اسے پتہ چلا وہ لڑکی تھی جو سامنے گری لڑکی کو ہلا رہی تھی وہ تھوڑا قریب گیا تو وہ کوئی اور نہیں اس کی بہن پاکیزہ اور کزن سجل تھی انہیں دیکھ وہ ایک گہری سانس لیکر سجل کو پکار کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے لگا اپنے پیچھے اپنے زیرون بھائی کی آواز پر وہ مڑی تو سامنے اسے دیکھ وہ آگے بڑھی اور انکے چوڑے سینے سے لگ کر رونے لگی زیرون اسے الگ کر کے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے خاموش کروانے کے بعد اپنی لاڈلی بہن کی جانب بڑھا اور اسکے بیہوش وجود کو اپنی مضبوط بازوؤں میں لیکر گاڑی کی جانب بڑھا اسکے پیچھے سجل بھی تیزی سے چلنے لگی۔


"ایجنٹ ون تم اس طرح سب کچھ برباد کر کے نہیں جا سکتے رک جاؤ ورنہ میں گولی چلا دوں گا."


دوسری طرف ایجنٹ ون پوری جگہ کو برباد کرنے کے بعد وہاں سے نکل رہا تھا کہ پیچھے سے ایک آدمی کی گھبرائی آواز پر وہ اپنا مٹھیاں کھسنے لگا۔

کیونکہ اس لڑکی کی وجہ سے آج وہ شخص اسے للکار رہا تھا کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اسکے سامنے منہ کھولنے کی اور وہ شخص بڑے ہی دلیری سے اسکے سامنے کھڑا ریوالور اسکی طرف کیے اسے دھمکی دے رہا تھا وہ پاکی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر آگے بڑھا تبھی اس آدمی نے اس پر گولی چلا دیا جس کی وجہ سے گولی اسکی کمر پر سے چھو کر گزرا۔


"تم میری ایک غلطی ہو اور میں اپنی غلطی کو جڑ سے ختم کرنا اچھے سے جانتا ہوں۔"


ایجنٹ ون نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے اپنا ریوالور نکال کر اسکے پورے وجود پر ریوالور میں موجود سبھی گولیاں جنونی انداز میں برسانے لگا۔


"میرے مشن کے درمیان میں آکر لڑکی تم نے اچھا نہیں کیا تم سے میں اس چیز کا بدلا ضرور لوں گا۔"


اپنی کمر سے بری طرح سے رستے خون پر ہاتھ رکھ کر وہ پاکی کو اپنے تصور میں لاکر نفرت سے بولا پاکی کو سوچ کر اس وقت اسکی آنکھوں میں خون سوار ہوگیا تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


پاکی کو زیرون راجپوت اسکے کمرے میں بیہوشی کی حالت میں لیکر آیا تھا وہ ابھی تک بہیوش پڑی تھی ڈاکٹر کے اسے صبح تک ہوش میں آنے کہا کہنے پر سب گھر والے پرسکون ہوگئے تھے اس وقت سب اپنے اپنے کمروں میں تھے پاکیزہ کے پاس پھپھو رہنے والی تھی وہ اس وقت کچن میں تھی اور ملازموں سے صفائی کروا رہی تھی اس لیے اس وقت پاکیزہ کے روم میں وہ اکیلی تھی۔


تبھی کوئی کھڑکی کھول کر اندر آیا اور بیڈ کی جانب بڑھا پاکی جسے ہلکا ہوش آ رہا تھا وہ روم میں کسی کی موجودگی محسوس کر چکی تھی اسی لیے مکمل ہوش میں آنے کے باوجود بھی اسنے اپنی آنکھیں نہیں کھولی۔لیکن مقابل کی حرکت پر اسے اپنی آنکھیں کھولنے پڑی کیونکہ مقابل کی گرم سانسوں کو وہ اپنے چہرے اور اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی۔


"ہہ۔ہیرو جی۔"


پاکی سے جب اپنے اوپر گرم سانسوں کی گرمائش برادشت نا ہوئی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو اپنے اوپر جھکے موت کو دیکھ وہ سخت خوفزدہ ہوکر اتنا بولتی ہوئی اٹھنے کی کوشش کرنے لگی مگر اپنے اوپر جھکے موت کی موجودگی سے وہ اپنے اندر ہلنے جلنے کی طاقت کو کھو چکی تھی۔


"بہت شوق ہے ناں تمھیں بھاگنے کا مس راجپوت۔.؟؟


اسکے ساکت وجود کو دیکھ مقابل نے سخت گیر لہجے میں کہا۔

پاکی اٹھنے کیلئے اپنے اندر ہمت جمع کر رہی تھی مگر سامنے اپنے اوپر جھکے شخص کی بات پر وہ اپنی آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔


"نن۔نہیں تو ہیرو جی میں بھاگی تت۔تھوڑی تھی میں تو آپ کے لیے بھاگی تھی دیکھیں ہہہہ۔ہیرو جی اگر میں اور سجل وہاں سے نا بھاگتی تو آپ ہماری ٹینشن میں گر کر اپنا مشن پورا نہیں کر پاتے اسی لیے میں سجل کے ساتھ صرف آپکی فکر میں وہاں سے بھاگ گئی تھیں۔"


پاکی نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اٹک اٹک کر بولی تو اسکی بات پر مقابل غصے سے اسے جبڑے سے پکڑ کر اسے غصے سے دیکھنے لگا۔


"بہت دماغ چلتا ہیں نا تمھارا لڑکی اب یہاں آ کر اپنے ہاتھ چلاؤ تمھاری شرارت کی وجہ سے میری کمر پر ان لوگوں نے گولی ماری ہے اس وقت میں اس حال میں ہاسپٹل بلکل بھی نہیں جا سکتا کیوں کہ میں اپنی شناخت کسی پر ظاہر نہیں کر سکتا اس وقت میں اپنے اصل شناخت کے ساتھ کسی ہاسپٹل پر نہیں جا سکتا کیوں کہ اس وقت میری ڈیوٹی نہیں ہے۔"


مقابل نے سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اپنا سیاہ شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ اتارا تو امشال کی آنکھیں اسکے آگ جیسی باڈی کو دیکھ کھلی کی کھلی رہ گئی اسے منہ کھولے اور اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھاڑے اسکو اپنی باڈی کو دیکھتے ہوئے پاکر وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔


"اپنی ان بھیس کی آنکھوں جیسی موٹی آنکھوں پر کنٹرول کروں لڑکی ورنہ انہیں نکالنے میں مجھے ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا جلدی سے جو میں نے تمھیں کہا ہے وہی کروں جاؤ استری لیکر آؤں۔"


اپنی پینٹ کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر کر کے اپنا چاقو نکال کر اسکی آنکھوں کے آگے کرتا وہ غصے سے بولا۔


"ہیرو جی استری وہ کیوں۔؟؟


پاکی نے معصومیت سے پوچھا۔


"میرے سر پر رکھنے کے لیے۔"


اسکی بات پر مقابل نے شدید غصے سے کہا۔


"ہائے ہیرو جی پھر تو آپکے سلکی بال جل جائے گے۔"


پاکی نے اپنی آنکھیں بڑی کر کے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔


"شٹ اپ اس روم میں آگ نہیں جلا سکتے کیوں کہ باہر سب کو پتہ چل جائے گا تمھارے کمرے میں کوئی ہے استری سے آسانی سے یہ چاقو گرم ہو جائے گا۔"


مقابل نے سخت نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"ہیرو جی یہ آپ چاقو کو کیوں گرم کرے گے۔؟؟


پاکی نے آنکھیں معصومیت سے چھوٹی کرتے ہوئے کہا۔


"ڈیم اٹ اس طرح گولی جلدی سے بنا زیادہ تکلیف دیے تم آرام سے نکال سکوں گی۔"


مقابل اسکی بے تکی بات پر اپنا سر پیٹتے ہوئے بولا۔۔

پاکی اسکی بات پر پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔


"کک۔کیا ہیرو جی یہ آپ کیا کہ رہے ہیں میں ڈاکٹر تھوڑی ہو جو آپ مجھ سے گولی نکالنے کا پلان بنائے بیٹھے ہیں۔"


پاکی نے آنکھیں بڑی کرتے ہوئے کہا۔


"تم نے یہ مجھ سے پنگا لینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور اب تم میری غلام ہوں آج سے میں تمھیں جو حکم دوں گا تمھیں ماننا پڑے گا اگر تم نے مجھ سے ہوشیاری کی تو میں تمھاری کنپٹی اڑا دوں گا چلو اب گولی نکالوں۔"


اسکی بات پر ایجنٹ ون کو شدید غصہ آیا تو اسنے ایک ہاتھ سے اسکی نازک کمر کو پکڑ کر اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا پاکی اسکی نزدیکی پر اسکی گرفت میں جھٹپھٹانے لگی مگر مقابل کی گرفت اسکے جھٹپھٹانے پر بھی کمزور نہیں ہوا بلکہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"کیا ہوا ہے میری چھوٹی دنیا تم اس طرح رو کیوں رہی ہوں کیا بابا سائیں نے پھر سے غصہ کیا ہے تم پر ہممم مجھے بتاؤ اگر انہوں نے آپکو ڈانٹا ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ میری بیوی کو مت ڈانٹا کرے اسکے بدلے مجھے چاہے مار دے لیکن میری کیوٹ سی بیوی پر کبھی غصہ مت کریں کیوں کہ اس میں میری جان بستی ہے مجھے اس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو بلکل بھی اچھے نہیں لگتے۔؟؟


سلطان عالم شاہ رات لیٹ جب اپنے روم میں داخل ہوئے تو بیڈ پر امشال کو منہ کے بل دیکھ وہ آگے بڑھیں جب وہ اس کے پاس پہنچے تو اسکی ہلکی آواز میں سسکیاں سن کر وہ سخت پریشانی سے اسکے قریب جا کر بیٹھے اور اسے کندھوں سے پکڑ کر بولے۔


"سلطان آپ مجھ سے پیار نہیں کرتے۔؟؟


امشال انکی جانب دیکھتی ہوئی بولی.

اسکی بات پر سلطان عالم شاہ ہکا بکا رہ گئے۔


"امشال جانم یہ تم سے کس نے کہا میں تم سے خود سے بھی زیادہ پیار کرتا ہوں پلیز روؤ مت مجھے تمھارا رونا بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تم صرف ہنستی ہوئی اچھی لگتی ہو جاناں۔"


انہوں نے اسکے رخسار کو نرمی سے پکڑ کر اسکی دونوں بھیگی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔


"آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ مجھ سے نہیں اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں سلطان میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپکو نیچے روتے ہوئے دیکھا تھا اور میں نے آپکی باتیں بھی سنی تھی میں آپکی بیوی ہو جیسے میرے ہر چیز پر آپکا حق ہے اسی طرح آپکے غصے جنونیت اور نفرت پیار پر صرف میرا حق ہے پھر آپ کیوں جنونیت سے اپنا سر اس دروازے پر مار رہے تھے کیوں بولیں جس جنونیت پر میرا حق ہے پھر اس روم کے مکین کے لیے کیوں اتنی جنونیت دیوانہ پن ہاں کیوں۔؟


امشال نے شدید غصے سے انکے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے انکے کالر پر ہاتھ رکھ کر آخر میں روتے ہوئے انہیں بری طرح سے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔


"تو تم نے دیکھ لیا میری جنونیت کو میرے پاگل پن کو میری گڑگڑاہٹ کو میری دیوانگی کو ہاں میں تمھارے علاؤہ بھی کسی سے پیار کرتا ہوں لیکن میرا وہ پیار الگ ہے اس سے میرا رشتہ الگ ہے امشال۔"


سلطان عالم شاہ اسکی بات پر گہری سانس لیتے ہوئے اسکےتھا کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔


"شٹ اپ سلطان آپ کی جنونیت سے ایسا لگ رہا تھا جسے وہ انسان آپکے لیے سب کچھ تھا وہ رشتہ الگ نہیں لگ رہا تھا مجھے وہ احساس الگ نہیں لگ رہا تھا میں نے کچھ دیر پہلے آپکی آنکھوں میں میں نے بلکل اس جیسا احساس دیکھا تھا جو میں محسوس کرنے لگی ہو آپکے لیے یہ بات میں آپکو سرپرائز دے کر بتانے والی تھی لیکن مجھے پتہ نہیں تھا مجھے آپ اتنا سرپرائز دیں گے۔"


امشال انہیں خود سے دور کرتی انکے چہرے پر زور سے تھپڑ رسید کرتی ہوئی شدید غصے سے بولی

سلطان عالم شاہ اسکی لفظ لفظ میں اتنی بے اعتباری دیکھ صدمے میں چلے گئے جبکہ وہ اپنی بات کہ کر روتی ہوئی واشروم کی جانب بھاگی۔


"امشال دروازہ کھولو میں تمھیں سب کچھ بتاتا ہوں پلیز اوپن دا ڈور پلیز امشال جانم پلیز۔"


اسکی بے اعتباری کی وجہ سے سلطان عالم شاہ اپنے دل پر چھریاں چلتے ہوئے محسوس کرنے لگا وہ تیزی سے آگے بڑھا اور واشروم کا دروازہ نوک کرتے ہوئے بے بسی میں امشال کو اوازیں دینے لگا۔


"مجھے کچھ نہیں سننا آپ یہاں سے چلے جائے مجھے اکیلا رہنا ہے میرا دل آج بہت بری طرح سے آپ نے توڑا ہے میں آپ کو اپنے شوہر کا مقام دینا چاہتی تھی لیکن آپ نے کیا کیا میرا مان توڑ دیا میں اپنے دل میں آپکے لیے پیدا ہوتے جذبات محسوس کر بہت زیادہ خوش تھیں لیکن آپ کی اس اصلیت کو جان کر مجھے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہو رہا ہے آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے یہ سوچ مجھے پاگل کر رہا ہے سلطان اگر آپ کو اپنے سامنے دیکھ لیا نا تو میں مر جاؤں گی چلے جائے آپ اس وقت یہاں سے پلیز۔"


اندر سے امشال نے روندی ہوئی آواز میں کہا۔


"نہیں امشال جانم جب تک تم میری بات نہیں سنتی میں یہاں سے کئی نہیں جاؤں گا اگر تم باہر نہیں نکلی تو میں اپنا سر پورے کمرے کی چیزوں پر مار مار کر خود کو ختم کر دوں گا۔"


انہوں نے دروازہ پر سر رکھ کر اسی جنونی انداز میں کہا جس طرح کچھ دیر پہلے وہ نیچے اس روم کے دروازے پر سر مارتے ہوئے جنونیت سے کہ رہے تھے۔

امشال کو انکی بات پر اپنا دل ٹھہرتا ہوا محسوس ہوا لیکن وہ تھس سے مس نہ ہوئی اسی طرح واشروم کے دروازے سے لگی وہ رو رہی تھی تبھی باہر بھاری چیز کے گرنے کی آواز پر وہ سٹپٹا کے تیزی سے واشروم کا دروازہ کھول کر باہر دیکھنے لگی تو سامنے نظر آتے منظر پر جیسے اسکی روح فنا ہو گئی۔


"سلطان۔"


سامنے سلطان عالم شاہ نیچے گرے ہوئے تھے انکی کلائی سے خون تیزی سے نکل کر نیچے کارپٹ پر پھیل رہا تھا جبکہ انکی آنکھیں بند تھیں امشال ہوش میں آ کر زور سے چیختی ہوئی انکی جانب بڑھی۔


"مجھے چھوڑ کر مت جانا جانم ورنہ میں مر جاؤں گا۔"


سلطان عالم شاہ امشال کے سینے سے لگے ہلکی آواز میں دیوانوں کی طرح بول رہے تھے۔


"نہیں سلطان میں آپکو چھوڑ کر کہی نہیں جاؤں گی پلیز آپ اپنی آنکھیں کھولیں مجھے مت تڑپائے پلیز۔"


وہ انکا سر اٹھا کر اپنے سینے سے لگاتی ہوئی پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی ان سے بولی۔تو اسکی بات پر سلطان کے لب خوبصورتی سے مسکرا اٹھے اور پھر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئے امشال کو جب انکے وجود پر کوئی حرکت محسوس نہیں ہوا تو وہ انہیں زور سے ہلاتی ہوئی چیخنے لگی اسکی چیخ دروازہ کھولا ہونے کی وجہ سے نیچے سرفراز شاہ اور زینب شاہ زہرا بتول کو سنائی دی تو وہ لوگ تیزی سے اوپر اسکے اور سلطان کے کمرے کی جانب بڑھے جب وہ کمرے میں پہنچے تو سلطان کو دیکھ تینوں ساکت رہ گئیں جب سرفراز شاہ کو ہوش آیا تو وہ تیزی سے آگے بڑھے اور اپنے جوان بیٹے کے ساکت وجود کو اپنے لرزتے ہاتھوں میں لیکر اسے دیکھنے لگے زہرا بتول جو اپنے بھائی کی حالت دیکھ صدمے میں چلی گئی تھی وہ ہوش میں آتے ہی اپنے چاچا ذاد بھائی راقم رحیم شاہ کو فون کرنے تیزی سے باہر نکلی۔


زہرا بتول کے فون کرنے کے ٹھیک تھوڑی دیر بعد راقم رحیم شاہ نے وہاں آتے ہی سلطان عالم شاہ کو ہاسپٹل لیکر چلا گیا سرفراز شاہ زینب شاہ راقم رحیم شاہ کے ساتھ اسکی گاڑی میں چلے گئے اور زہرا بتول امشال جو راقم رحیم شاہ کے کیب بک کرنے کی وجہ وہی ویٹ کرنے لگی جب کیب آیا تو وہ دونوں ہاسپٹل کے لیے روانہ ہوگئی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


راقم سلطان عالم شاہ کو ایک پرائیویٹ ہاسپٹل لیکر چلا گیا تھا اس وقت اسکا آپریشن چل رہا تھا سب اس وقت پریشانی سے آپریشن تھیٹر کے باہر کرسیوں پر بیٹھے تھے۔


امشال کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا زہرا اسے سنبھال رہی تھی جبکہ سرفراز شاہ کے چہرے پر بھی تکلیف کے آثار صاف طور پر نظر آ رہا تھا۔


زینب شاہ اپنے جوان بیٹے کی حالت دیکھ کر صدمے میں چلی گئی تھیں اس وقت وہ ہاتھوں میں تبزی لیے پڑھ رہی تھی انکے لبوں پہ صرف اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے دعائیں نکل رہی تھی۔


جبکہ اندر سلطان عالم شاہ کا ساکت وجود ڈاکٹر کے رحم و کرم پر ہونے کے باوجود بھی اسکا دماغ اسکے قابو میں تھا اس وقت اسکے دماغ میں امشال کے اپنے سے دور ہونے کی وجہ سے ایک جنگ چل رہا تھا جسکی وجہ سے اسکی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔


جب ڈاکٹر انکی سانسیں دھیمی چلتے ہوئے دیکھ تیزی سے انکے چوڑے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ کر زور زور سے جھٹکا دینے لگا۔


باہر امشال جو رو رو کر تھک چکی تھی وہ آنکھیں کھولے آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کو دیکھ رہی تھی دروازہ کھولتے ہوئے دیکھ وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھی اور ڈاکٹر کی طرف بڑھی جو باہر نکل رہا تھا۔


"ڈاکٹر سلطان میرا سلطان وہ کیسے ہے وہ ٹھیک تو ہے ناں۔؟؟


"آئی ایم ریلی سوری۔"


امشال ڈاکٹر کی سوری پر چیختی ہوئی تیزی سے آگے بڑھی اور آپریشن تھیٹر کے اندر چلی گئی ڈاکٹر کی ٹیم نے اسے روکا نہیں جبکہ باقی ڈاکٹر کی بات پر ساکت کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔


"سلطان آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں مم۔ میں آپکے لیے فیلنگز محسوس کیا کرنے لگی آپ نے تو اپنا رنگ ڈھنگ دیکھانے شروع کر دئیے مجھے پتہ ہے آپ میرے ساتھ مزاق کر رہے ہیں اٹھ جائے ورنہ میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔"


امشال جو آپریشن تھیٹر کے اندر داخل ہوئی تو بیڈ پر انکے اوپر سفید چادر منہ تک دیکھ کر وہ روتی ہوئی آگے بڑھی اور انکے اوپر سے چادر ہٹا کر اپنا سر انکے چوڑے سینے پر رکھ کر روتی ہوئی بولی۔


"اگر آپ نہیں اٹھیں نا تو میں آپ سے ساری زندگی نفرت کروں گی۔"

وہ اپنا سر انکے سینے پر سے اٹھا کر انکے پیلے پڑتے چہرے پر اپنی نم آنکھیں جماتی ہوئی سسک کر بولی۔

سلطان عالم شاہ کا مضبوط ہاتھ جو بیڈ پر رکھا ہوا تھا وہ اچانک سے نیچے گرا تو امشال یہ دیکھ انکے ہاتھ کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھی تو سامنے مشین کی آواز پر وہ اس جانب دیکھنے لگی مشین میں ٹھیڑی لکیر کو سیدھے چلتے ہوئے دیکھ وہ ساکت ہو گئیں۔

"یہاں آؤ لڑکی مجھے بار بار اپنا سوال دہرانا پسند نہیں ہے۔"


ایجنٹ ون اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے انگلی کے اشارے سے اسے اپنے قریب بلانے لگا۔

پاکی اس کی کمر پر لگے ریوالور کو دیکھ ڈرتی ہوئی پیچھے ہٹی۔


"نہیں میں نہیں آؤں گی ہیرو جی مجھے پتہ ہے آپ مجھے مارے گے۔"


خوفزدہ نظروں سے ریوالور پر نظریں جمائے وہ اس سے ڈرتی ہوئی بولی۔


"شٹ اپ تم بچی نہیں ہو جو اس طرح ریکٹ کر رہی ہو شرافت سے یہاں میرے پاس آؤں ورنہ میں اس سے تمھارے اس عالیشان گھر کو اڑا دوں گا۔"


اسے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھ ایجنٹ ون نے ایک دستی بم نکال کر سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے خون آشام نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔

پاکی ٹیبل پر بم دیکھ اب رونی صورت بنا کر ایجنٹ ون کو دیکھتی ہوئی سر نفی میں ہلانے لگی۔


"نن۔نہیں ہیرو جی ایسا مت کریں مم۔میں آ رہی ہوں۔"


زور زور سے سر نفی میں ہلاتی ہوئی وہ بول رہی تھی ایجنٹ ون اسکی بات پر غصے سے اسے گھورنے لگا۔


"گڈ گرل اسی طرح میری باتیں مانتی رہا کروگی نا تو بدلے میں، میں تمھارا پیچھا چھوڑ دوں گا۔"


ایجنٹ ون اسے ڈر کر مانتے ہوئے دیکھ لبوں پر مسکراہٹ سجا کر بولا۔

پاکی جو ڈرتی ہوئی اس کے قریب آکر صوفے پر بیٹھ کر اسکے جسم میں لگی گولی کو شرم سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اپنے لرزتے ہاتھوں کو اسکے سینے پر رکھ کر ٹٹولنے لگی۔

اسکی نظریں دوسری طرف ہونے کی وجہ سے وہ اسکے وجود کو نہیں دیکھ پا رہی تھی اسی وجہ سے اسکو گولی ڈھونڈنے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔


لیکن جب اسے اپنے ہاتھ نم محسوس ہوئے تو اس نے شرم سے سرخ ہوتی اپنی نم آنکھوں کو اس جانب کیے تو اسے اسکی کمر سے خون بہتا ہوا نظر آیا جسے دیکھ وہ نظریں ایجنٹ ون کے چہرے کی جانب بڑھا کر اسے دیکھنے لگی جو غور سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا اسکے اپنی جانب دیکھنے پر وہ اپنی نظریں تیزی سے ہٹا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔


"ہیرو جی آپ کو گولی کہاں لگی ہے۔"


اسکی کمر پر صرف کرونچ کے نشان کو دیکھ وہ حیرت سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔


"تم اندھی ہو کیا یہ دیکھو یہاں لگی ہے۔"


ایجنٹ ون نے غصیلی نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنی کمر کی جانب کرکے اسے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔


"ہیرو جی یہاں تو کوئی گولی لگنے کا نشان نہیں ہے صرف کرونچ ہے یہاں۔"


پاکی نے اسکی کمر پر جہاں کرونچ کا نشان بنا ہوا تھا رکھتے ہوئے اس نشان پر زور دیتے ہوئے کہا ایجنٹ ون اسکے زور سے دبانے پر چیخ اٹھا۔


"آہہہہ لڑکی ماروں گی کیا مجھے۔"


وہ کراہتے ہوئے چیخ کر بولا۔

پاکی اسکے کراہنے پر ڈر کر پیچھے ہٹی۔


"ہوں سس۔سوری ہیرو جی آپ کو درد تو نہیں ہوا۔؟؟


وہ اسے چیختے ہوئے دیکھ سخت پریشانی سے اسکے سرخ چہرے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔


"درد دے کر کہتی ہو کہ مجھے درد تو نہیں ہو رہا ہے آخر تم کیا ہو۔؟؟


ایجنٹ ون اس کی بات پر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔


"میں ایک کیوٹ سی لڑکی ہوں۔"


پاکی نے معصومیت سے آنکھیں پھڑپھڑاتے ہوئے کہا۔


"تم اور کیوٹ۔"


ایجنٹ ون نے گھور کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"دیکھئے۔"


اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتی ایجنٹ ون نے آگے بڑھ کے اس کے لبوں پہ ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروایا۔


"شششش اگر میرے بارے میں کسی کو بتایا تو میں واپس آ کر تمھاری جان لے لوں گا۔"


کسی کے قدموں کی آواز سن کر وہ اسے دھمکی بھری نگاہوں سے دیکھتا اسے بیڈ پر دھکیل کر کھڑکی کی طرف بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے نکل کر غائب ہوگیا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"سلطان پلیز آنکھیں کھولیں نا پلیز۔"


امشال انکے بے جان ہاتھ کو پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ تبھی اسے اپنی سانسیں بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ ہوش میں آتی تیزی سے آگے بڑھی اور انکے سینے پر سر کر روتی ہوئی بولی۔


"اگر آپ بھی چلے گئے تو میں میں اکیلی ہو جاؤ گی پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائے پلیز۔"ت


وہ انکے سینے سے لگ کر اپنی آنکھیں موندے ہوئے تھی تبھی نرس نے اسے ان سے دور کیا تو وہ آنکھیں کھول کر اس نرس کو بری طرح سے گھورنے لگی تو اسکے گھورنے پر نرس سخت گھبرا کر پیچھے ہوئی۔


"میم آپ انہیں تکلیف دے رہی ہیں اس طرح کر کے پلیز آپ باہر چلی جائے میم ۔"


نرس اسے پکڑ کر باہر کی جانب لیجانے کے لیے مڑی تو امشال غصے سے نرس سے دور ہوئی اور سلطان کے پاس جا کر بولی۔


"نہیں میں یہاں سے نہیں جاؤ گی مجھے اپنے سلطان کے پاس رہنا ہے بلکہ تم ایک کام کرو مجھے ایسی دوا لا کر دو جس سے میں بھی سلطان کے پاس چلی جاؤ میں انکے بغیر جی کر کیا کروں گی انکے بغیر رہ کر میں ویسے بھی مر جاؤں گی اس سے بھتر ہے میں انہیں کے ساتھ یہاں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں."


امشال نے دیوانگی سے اس نرس کو کندھوں سے پکڑ کر روتے ہوئے کہا۔


"یہ آپ کیا کہ رہی ہیں میم..؟؟


نرس آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورنے لگی جو دیوانی بنی اپنے شوہر کی جدائی کا سوچ کر تڑپ رہی تھی۔


"تم مجھ سے سوال کیوں پوچھ رہی ہو میں نے کہا مجھے کوئی دوائی لا کر دو مجھے زندہ نہیں رہنا مجھے بھی اپنے سلطان کے پاس جانا ہے۔"


امشال نرس کو کھڑے دیکھ کر مشتعل ہو کر چیختی ہوئی بولی۔


"میم پلیز آپ خود کو سنبھالیں پلیز۔"


نرس اسکی حالت پر افسوس سے اسے دیکھتی ہوئی آگے بڑھی اور اسے کندھوں سے پکڑ کر بولی۔


"تو تم مجھے دوائی نہیں دوں گی ہممممم ٹھیک ہے میں خود کچھ کرتی ہو۔"


امشال نرس کو دور کرتی اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی کہتی روم میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔نرس اسے کچھ ڈھونڈتے ہوئے دیکھ ڈر کر اسے دیکھنے لگی۔


امشال جو پورے روم میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی اسکی تلاش سامنے رکھے میڈیکل کٹ پر پڑی تو وہ تیزی سے اسی جانب بڑھی۔


اس میڈیکل کٹ سے اس نے ایک چھوٹی سی چاقو نکال کر اپنی آنکھیں بند کر کے اس چاقو کو اپنی کلائی پر رکھا۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنی نس کاٹ لیتی تبھی کسی نے اسکی کلائی کو مضبوطی سے پکڑا۔


"آر یو میڈ تم پاگل ہو گئی ہو اگر تمھیں سچ میں کچھ ہو جاتا تت تو تم نے سوچے سمجھے بغیر یہ قدم اٹھایا میرے بارے میں سوچا بھی نہیں کہ اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا وائفی تم اگر مجھے چھوڑ کر چلی جاتی نا تو میں مر جاتا۔؟؟


امشال جو آنکھیں سختی سے بند کیے چاقو پکڑے ہوئے تھی کہ اپنی نازک گردن اور کان کے بے حد قریب کسی کی سانسوں کی گرمی کو محسوس کر جھٹ سے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے پاس بے حد قریب کھڑے شخص کو پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔


"سس۔سلطان آپ۔"


امشال انہیں اپنے بے حد قریب دیکھ نم آنکھوں سے اُسے دیکھتی ہوئی ہکلا کے بولی۔


"ہاں میں تمھارا سلطان کیسا لگا تمھیں چھوٹی دنیا یہ میرا سرپرائز۔"


سلطان عالم شاہ نے شرارت سے اسکی چھوٹی سی ناک کو جو رونے کی وجہ سے سرخ ہوگیا تھا ہلکے سے دباتے ہوئے کہا۔


"سرپرائز۔"


امشال انکی شریر نظروں اور لفظوں کو نہ سمجھ کر انہیں منہ کھول کر دیکھتی ہوئی بولی۔


"ہاں سرپرائز یہ سب میرا پلان تھا کیوں کہ مجھے صرف ہلکی چوٹ لگی تھی۔میری کلائی کا نس نہیں کٹا تھا اگر کٹ جاتا تو میں بہیوش ہو جاتا۔"


لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا میں بلکل ٹھیک ہو اور راقم جب مجھے یہاں لایا تھا میں اس وقت بھی ہوش میں تھا اور اس وقت بھی ہوش میں تھا جب تم روتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔


اسی لمحے مجھے ایک شرارت سوجھی تو میں نے اس پر عمل کیا۔


گھر سے ہاسپٹل تک جو بھی ہو رہا ہے یہ سب میرا ڈراما تھا میری چھوٹی دنیا چھوٹی دنیا اور میرے اس ڈرامے میں میرا ساتھ راقم اور ڈاکٹر نے دیا باقی گھر والوں کو میرے اس شرارت کے بارے میں پتہ نہیں ہے ڈارلنگ۔


میں صرف تمھارے منہ سے بار بار اپنے لیے محبت کا اظہار سننا چاہتا تھا اس لیے میں نے یہ ڈراما مسلسل کیا۔"


"جانم ایک بار پھر سے اظہار کروں نا میرے کان پھر سے تمھارے ان گلاب جیسے نرم و نازک لبوں سے محبت بھرے خوبصورت لفظ سننے کے لیے بیتاب ہو رہے ہیں۔"


سلطان عالم شاہ آنکھوں میں چمک لیے بولے۔


"اچھا آپ کو اظہار سننا ہیں۔"


امشال انکی بات پر انہیں گھورتی ہوئی دیکھ کر بولی۔


"ہاں جانِ من۔"


سلطان عالم شاہ نے اسکے قریب آکر اسے اپنے قریب کر سینے سے لگاتے ہوئے اسکے سر پر اپنے ہونٹ رکھ کر گھمبیر آواز میں کہا۔


"آئی ہیٹ یو۔"


امشال نے غصے سے انکے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔


"آئی لو یو جاناں۔"


سلطان عالم شاہ اسکی بات پر بدلے میں محبت سے بولتے ہوئے اسے دور کر کے اسکے گالوں پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے اپنے ہونٹ اسکے نرم کومل ہونٹوں پر رکھ اسکی خوبصورت ہونٹوں پہ بوسا دیکر دور ہوئے۔


"دور رہیے آپ میں آپ سے ناراض ہوں۔"


امشال انکی گستاخی پر انہیں گھورتی ہوئی ان سے دور ہو کر غصے سے بولی۔


"یہ تو اب ناممکن ہے جانم۔"


سلطان عالم شاہ نے گھمبیر آواز میں کہہ کر اسے اپنے قریب کھینچا اور اسکے اوپر جھکا انہیں اپنے اوپر جھکتے ہوئے دیکھ کر امشال نے انہیں دھکا دیا اور انکی جانب دیکھے بغیر بھاگتی ہوئی روم سے باہر نکلی انکی اس حرکت پر وہ ان سے سچ میں ناراض ہوگئی تھی اس وقت وہ ان سے دور رہنا چاہتی تھی کیونکہ اس وقت وہ سخت غصے میں تھی وہ ان پر غصہ بلکل بھی نہیں نکال چاہتی تھی ۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"یار مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کونسی ڈش آڈر کروں یہاں تو سبھی ڈشز میری فیورٹ ہے میرا تو دل سب ڈشز کو آڈر کرنے کا چاہ رہا ہے لیکن اگر زیادہ پیسے نکالے کارڈ سے تو اس ڈریکولا کو پتہ چل جائے گا کہ ہم لوگ اس وقت گھر سے باہر ہیں یار تم لوگ ہی کچھ آڈر کروں۔"


سالار راجپوت کے منہ میں مینیو کارڈ میں طرح طرح کے ڈشز دیکھ کر پانی آنے لگا تو وہ اپنے اوپر ان دونوں کی نظروں کو دیکھ گھبراتے ہوئے جلدی سے مینیو کارڈ شاہ

ویر کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔


"میرے بھائی اس وقت مجھے کھانے سے زیادہ ایک حسینہ کی ضرورت ہے کتابی کیڑے تم کچھ آڈر کرو میں ابھی اس حسینہ کا نمبر لیکر آتا ہو اگر یہ پت گئی تو تمھارے بھائی کی ہزار گرل فرینڈز والی خواہش پوری ہو جائے گی۔"


شاہ ویر راجپوت کی نظریں سامنے سے آتی ایک حسینہ پر پڑی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور سمیر راجپوت سے کہتا اس حسینہ کے پیچھے بھاگا۔


"اففففففف یہ ٹھرکی انسان کبھی نہیں سدھرے گا۔"


سالار راجپوت نے اپنے جڑواں بھائی کو گھورتے ہوئے کہا۔

جو اس حسینہ کے پیچھے کسی پروانے کی طرح بھاگ رہا تھا۔


"ایسکیوز می."


دوسری طرف شاہ ویر راجپوت اس حسینہ کے پاس جا کر سینا چوڑا کر کے کھڑا ہوا اور بولا۔


"یس۔"


لڑکی جو ایک ٹیبل پر بیٹھی جوس کے شپ لے رہی تھی اپنے سامنے ایک ہینڈسم چھوٹے سے لڑکے کو کھڑے دیکھ مسکرا کر بولی۔


"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں بیوٹی فل لیڈی۔؟؟


شاہ ویر راجپوت نے اپنی آواز کو بھاری کرتے ہوئے کہا۔


"شیور۔"


لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا تو شاہ ویر راجپوت اجازت ملتے ہی کرسی لڑکی کے بے حد قریب کر کے بیٹھ گیا۔


"بیوٹی فل لیڈی کیا میں آپکا نام جان سکتا ہوں۔؟؟


شاہ ویر راجپوت اسی بھاری آواز میں اس حسینہ سے اسکا نام پوچھنے لگا۔


"یس افکورس کیوں نہیں۔"


حسینہ نے دلفریب مسکراہٹ لبوں پہ سجاتے ہوئے کہا۔


"ہوں تھینک یو سو مچ بیوٹی فل لیڈی تو آپ اب بتائیے نا اپنا خوبصورت نام میرے کان سننے کے لیے ترس رہے ہیں"


شاہ ویر راجپوت نے گہری سانس لیتے ہوئے بھاری گھمبیر آواز میں کہا۔


"اوکے ڈارلنگ مائے نیم از مایا اینڈ واٹس یور نیم۔"


حسینہ نے ایک ادا سے اپنے بال پیچھے جھٹکتے ہوئے کہا۔


"ہوں بیوٹی فل نیم۔"


شاہ ویر راجپوت نے مسکرا کر کہا۔

وہ حسینہ جو کرسی پر بیٹھی تھی اچانک سے اپنی جگہ سے اٹھی تو اسے اٹھتے ہوئے دیکھ شاہ ویر راجپوت بھی اپنی جگہ سے اٹھا۔


"اوکے ڈارلنگ اب میں چلتی ہوں۔"


حسینہ نے دلفریب لہجے میں کہہ کر اپنے قدم ریسٹورینٹ سے باہر کی جانب بڑھائے تو شاہ ویر راجپوت ساتھ چلنے لگا اسے اپنے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ اس حسینہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی


"ایسکیوز می بیوٹی فل لیڈی کیا میں آپکو آپکے گھر تک چھوڑ دوں۔؟؟


شاہ ویر راجپوت نے اس حسینہ کو یہ آفر کیا۔


"کیوں۔؟؟


حسینہ اسکے آفر پر اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"کیونکہ میرے بگ برادر کہا کرتے ہے کہ کسی بھی لڑکی کو اکیلے رات بارہ بجے سڑک پر نہیں گھومنا چاہیے اسپیشلی ریسٹورینٹ سے تو بلکل بھی نہیں۔"


شاہ ویر راجپوت نے اپنے سلکی بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔


"ہوں تو اتنی شرافت ہیں آپ میں۔"


حسینہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔


"آہ ہاں مجھ میں نہیں میرے بگ برادر میں تو پھر کیا میں آپکو آپکے گھر تک چھوڑ دوں۔؟؟


شاہ ویر راجپوت نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔


"نو تھینکس میرا گھر یہی قریب ہے۔"


اس حسینہ نے جٹ سے کہا اور اپنے قدم ریسٹورینٹ کے ڈور سے باہر نکالنے لگی لیکن شاہ ویر کے آگے آنے پر وہ ٹھہر کر اسے دیکھنے لگی۔


"کوئی بات نہیں میں اتنا بھی چل سکتا ہوں کیونکہ ٹھرک لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے اگر کسی ٹھرکی انسان نے آپکو دیکھ کر آپکا راستہ روک دیا تو نا بابا نا میں کوئی رسک نہیں لے سکتا."


شاہ ویر راجپوت ایسے فکر کر رہا تھا جیسے وہ راہ چلتی حسینہ اسکی بیوی ہوں جبکہ وہ حسینہ اسکی بات پر منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔


تبھی پیچھے سے شاہ ویر راجپوت کو کسی نے گردن سے پکڑا تو وہ سخت ہڑبڑا کر پیچھے مڑا تو اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ وہ سانس لینا بھول گیا کیونکہ سامنے زیرون راجپوت کھڑا اسے اپنی غضب ناک نظروں سے گھور رہا تھا جب کہ وہ حسینہ سامنے اتنے ہینڈسم شخص کو دیکھ کر پھتر کی مورت بن گئی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


اس وقت وہ تینوں ڈر کے مارے سر جھکا کر سامنے کھڑے تھے اور زیرون صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا انہیں سخت غصے سے گھور رہا تھا۔


وہ انہیں رات کے بارہ بجے ریسٹورینٹ میں دیکھ کر وہاں انکی کلاس لینے کے بعد اب انکے روم میں بیٹھا انکی کلاس لے رہا تھا۔

سجل اور پاکی جو زیرون بھائی کو غصے سے ان تینوں کو گھر میں لاتے ہوئے دیکھ چکی تھیں وہ دونوں بھی انکے پیچھے ان تینوں کے روم میں داخل ہوئی تھی۔

اور اب ان تینوں کی کلاس لگتے ہوئے انجوائے کر رہی تھیں۔


"میں نے منع کیا تھا نا تم تینوں کو گھر سے باہر نکلنے سے تو پھر تم تینوں کیوں نکلے باہر ہممممم جواب دو مجھے۔؟؟


سنجیدگی سے ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے زیرون راجپوت نے سخت لہجے میں پوچھا۔


"و۔وہ بھائی ہمیں سخت بھوک لگی تھیں اور اس وقت کھانا تیار نہیں تھا تو اسی لیے ہم ریسٹورینٹ میں اپنی من پسند کھانا کھانے گئے تھے۔"


شاہ ویر راجپوت نے ہکلاتے ہوئے کہا۔


"کھانا کھانے گئے تھے یا اپنی ٹھرک مٹانے۔؟؟


اسکی بات پر زیرون نے اسے تیھکی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔


"بب۔بگ برادر ٹھرک مٹانے یہ گیا تھا ہم تو اپنی بھوک مٹانے گئے تھے۔"


سالار راجپوت نے سخت ڈرتے ہوئے کہا۔


"جس بھی ارادے سے گئے تھے تم لوگ مگر تمھیں اس چیز کے لیے میں سزا ضرور دوں گا کیونکہ آج اگر سزا نہیں دیا تو تم لوگ روز یہی حرکتیں کروں گے آج سے گھر کے سارے کام تم تینوں کروں گے۔"


"پاکی اور سجل تم دونوں میرے پیچھے آنا زرا۔"


زیرون راجپوت کٹیلے لہجے میں کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور آخر میں پاکی سجل کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔

پاکی اور سجل زیرون کے بلانے پر وہ دونوں تیزی سے اسکے پیچھے بڑھی جو دروازے سے باہر نکل چکا تھا۔

وہ دونوں اسے اپنے روم کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ تیزی سے اسکے قریب پہنچے تو ان دونوں کے قریب آتے ہی اسنے ان دونوں کو ان تینوں پر نظر رکھنے کا کہہ کر اپنے روم کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔


"اب آئے گا مزا۔"


پاکی اور سجل زیرون راجپوت کے روم کا دروازہ بند کرنے کے بعد پیچھے مڑ کر ان تینوں کے روم کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"یہ لو ہمارے کیوٹ سے نیو میڈی بوائز۔"


پاکی اور سجل ہاتھ میں تین بیگ پکڑے جب انکے بڑے سے بیڈ روم میں داخل ہوئی تو پاکی نے سجل کے ہاتھ سے بیگ لیتے ہوئے انکی جانب بڑھاتے ہوئے شرارت سے کہا۔


"یہ کیا ہیں۔؟؟


ان تینوں نے شکی نظروں سے پہلے بیگ پھر ان دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے یک زبان ہو کر پوچھا۔


"تم تینوں کے یونیفارم جو بھائی نے خاص تم لوگوں کے لیے منگوایا ہیں۔"


پاکی نے شریر نظروں سے ان تینوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"یہ یونیفارم بھائی نے نہیں ضرور اس پھلجڑی نے منگوایا ہوگا ہمارا مزاق اڑانے کے لیے بھائیوں اس پھلجڑی پر بلکل بھی یقین مت کرنا۔"


شاہ ویر راجپوت جو اسکی رگ رگ سے واقف تھا اسنے تیھکے چتونوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔


"تم نے یقین نہیں کرنا تو نا کروں مجھے کیا لیکن میری بات تم اس وقت ضرور سمجھوں گے جب تم لوگوں کو بھائی ان برانڈڈ کپڑوں میں اپنے روم میں صفائی کرتے ہوئے دیکھیں گے تب تم لوگوں کی پھر سے کلاس لیگا نا تب تم اچھے سے سمجھ جاؤں گے اور پچھتاؤ گے بھی کہ کیوں میں نے اپنی بہن کی بات نہیں مانی ہنہہہہ۔"


پاکی نے منہ بناتے ہوئے کہا تو کلاس کا سن کر تینوں ڈرتے ہوئے آگے بڑھے اور اسکے ہاتھ سے بیگ پکڑ کر روم سے باہر نکلے انہیں اس طرح کرتے ہوئے دیکھ سجل اور پاکی شرارت سے مسکرانے لگی۔


"اب کچھ اور بھی رہتا ہے وہ بھی ہمیں بتاؤ ہم وہ بھی کر لیں گے۔"


تھوڑی دیر بعد جب وہ تینوں لڑکے روم میں داخل ہوئے تو جاپانیز میڈ کے سیاہ کاسٹیوم میں ملبوس شرم سے سر جھکا کر انکے سامنے کھڑے ہو کر یک زبان ہو کر بولے۔

"ہاں ایک چیز ابھی کرنا باقی ہے۔"


پاکی نے شرارت سے اپنی زبان دانتوں تلے دباتے ہوئے کہا۔


"وہ کیا۔؟


تینوں نے سر اٹھا کر یک زبان ہو کر پوچھا۔


"سیلفی۔"


تو انکے پوچھنے پر پاکی نے اپنے جیب سے شاہ ویر راجپوت کا مہنگا سیل فون نکال کر انکے قریب آکر شرارت سے کہا۔


"یہ تت۔تو میرا سیل ہیں۔"


اسکے ہاتھ میں اپنا مہنگا سیل فون دیکھ کر شاہ ویر راجپوت نے ہکلاتے ہوئے کہا۔


"ہاں میرے بھائی یہ سیل فون تمھارا ہی ہے اور یہ سیلفی میں نے صرف اسپیشلی تمھارے فیس بُک پروفائل پر لگانے کے لیے لیا ہے ہاہاہاہاہاہا سچ میں تم لوگ بے وقوف ہوں میں نے تم لوگوں کو اتنی آرام سے بے وقوف بنا لیا اور تم لوگ بن بھی گئے ہاہاہاہاہاہاہا تم لوگ کتنے بے وقوف ہو تمہیں لگتا ہے اس طرح کے کپڑے بھائی منگوائے گے اپنے بھائیوں کے لیے ہاہاہا ہاہاہا تم لوگ بھی حد کرتے ہو یار۔"


پاکی نے شاہ ویر راجپوت کے سیل فون سے سیلفی لینے کے بعد فیس بُک کھول کر وہ سیلفی اسکی آئی ڈی کے پروفائل پر لگاتے ہوئے کہا۔

اسکی پروفائل ڈی پی لگانے کا سن کر شاہ ویر راجپوت کی سانسیں تھمنے لگی وہ چیختے ہوئے پاکی کی طرف بھاگا لیکن وہ اسے منہ چڑھا کر انکے روم سے باہر نکلی جبکہ وہ ان میڈ کاسٹیوم کی وجہ سے شرم کے مارے باہر نہیں نکل سکا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"یار یہ خونی ڈریکولا نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا ہے ہم نے صرف گھر کے کھانوں سے تنگ آکر باہر جا کر ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تھا نہ کہ ڈاکا ڈالا تھا جو اس نے ہمیں اتنی بھیانک سزا دیا ہے لگتا ہی نہیں کہ ہم اتنے بڑے خاندان کے چشم وچراغ ہیں ہماری حالت تو اس گھر کے ملازموں سے بھی بد تر ہوگئی ہے انکی وجہ سے ہم ملازموں کی طرح دن رات گزار رہے ہیں۔"


کبھی دیکھوں ہم اتنے بڑے گھر کے عالیشان کمروں میں واشروم کی صاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی میڈ کے ساتھ کچن میں برتن دھوتے ہوئے اور اب یہ پورے خاندان کے کپڑے دھوتے ہوئے ارے یار یہ کس پہلوان کا کپڑا ہے۔"


قسم سے اس پہلوان کی اولاد کے کپڑوں سے تو ہماری اس پٹاخہ رانی کے دو تین سوٹ بن جائے ہنہہہ میری بددعا ہیں اس ڈریکولا کو بیوی ایک جلاد قسم کی ملے۔"


وہ اس ڈریکولا خونی کی غلطی پر ساری رات پنکے پر اسے لٹکا کر اور پھر بار بار بٹن بند اور کھول کر انہیں اس پنکے پر گھومنے پر مجبور کر دے۔"


اور جب وہ رومینس کے موڈ میں ہو تو وہ بدلے میں اسے الٹا لیٹا کر اسکی خوب دھلائی کرے قسمے یہ بھی کوئی سزا ہے جو اس ڈیول نے ہمیں دیا ہے۔"


سالار راجپوت نے ایک سفید گیر دار شلوار کو زور سے نیچے فرش پر زور سے پٹختے ہوئے غصے سے واشنگ پاؤڈر کا ڈبہ اس شلوار پر الٹتے ہوئے غصے سے کہا۔


"پاگل ہو گئے ہوں یار کیوں ہماری سزا میں اضافہ کرنا چاہتے ہوں ہم پہلے سے ہی تمھاری بے وقوفی کی وجہ سے یہ سب کر رہے ہیں اور یہ جس کا کپڑا ہے اگر اس پر ایک چھید بھی آیا نہ تو وہ پہلوان آئی مین وہ انسان ہمارے پورے جسم میں چھید کر دے گا۔"


اسے زور زور سے فرش پر رکھ کر اس کپڑے کو پٹختے ہوئے دیکھ کر شاہ ویر کی سیاہ آنکھیں ڈر کے باعث پھیل کر رہ گئی ہوش اسے یاسر راجپوت کے ہلانے پر آیا تو وہ تیزی سے سامنے رکھے بالٹی کے اندر اپنے ہاتھ ڈال کر اپنے دونوں ہاتھ دھونے کے بعد آگے بڑھا اور سالار راجپوت کو ہٹا کر نیچے سے وہ سفید کپڑے کو اٹھا کر اسے گھورتے ہوئے بولا۔


"جسٹ ریلکس یار یہ اس ڈریکولا کا نہیں ہے کیوں کہ وہ ڈریکولا صرف پینٹ شرٹ پہننا پسند کرتا ہے اس گھر میں ہمارا دشمن صرف وہی ہے اور ہماری جسم پر چھید کرنے کی ہمت وہی کر سکتا ہے کیونکہ باقیوں میں ہمیں چھونے کی ہمت بلکل بھی نہیں ہے اور رہا یہ پہلوان جو بھی ہے میں اسے دیکھ لوں گا۔"


سالار راجپوت نے شاہ ویر کے ہاتھ سے وہ کپڑا لیتے ہوئے واپس نیچے فرش پر رکھ کر زور زور سے پٹختے ہوئے بے فکری سے کہا۔


"ابے او یار ہم لوگ گھر سے صرف ایک سال سے دور تھے پوری بچپن ہم لندن میں نہیں تھے۔ جو تم سب گھر والوں کو بھول گئے ہوں کہ کون کس طرح کا انسان ہے اور کون کیا پہنتا ہے۔"


شاہ ویر راجپوت نے سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے فرش سے وہ کپڑا اٹھاتے ہوئے کہا۔


"یار شاہ تم تو ایسے ریکٹ کر رہے ہوں جیسے یہ کپڑا ینگ جنریشن میں سے کسی کا نہیں ہمارے جلاد والد گرامی کا ہے یار چل کروں اور کپڑا دھونے کو انجوائے کروں میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی اور یہ کتابی کیڑا بھی کہ یہ کپڑا ہمارے سویٹ بھائی شامیر کا ہے وہی اس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔"


سالار راجپوت نے سکون سے اپنے جڑواں بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔


"واہ کیا بات ہے برخوردار آج تو تمھیں اپنے بھائیوں پر بہت زیادہ پیار آ رہا ہے زرا ہمیں بھی تو بتاؤ اس محبت کی وجہ کیا ہے جو تم اپنے بھائیوں پر لٹا رہے ہو۔؟؟


تبھی انکے پیچھے سے ایک غصیلی آواز گونجی جسے سن کر سالار راجپوت سخت گھبرا کر شاہ ویر سے دور ہوا۔


وہ اس آواز کو اچھے سے پہچانتا تھا کیوں کہ وہ آواز علی راجپوت کی تھیں جو سامنے کھڑے غصے سے اپنے بیٹے کو گھور رہے تھے۔


"ڈیڈ وو۔وہ میرے بھائی سرونٹ کے حلیے میں بہت زیادہ کیوٹ لگ رہے ہیں نا تو اسی لیے مجھے ان پر پیار آ گیا اور جب مجھ سے میری فیلنگز کنٹرول نہیں ہوسکی تو میں خود کو انہیں جادو کی جھپی دینے سے روک نہیں پایا۔"


سالار راجپوت کی انکو مینشن کے پچھلے حصے پر اچانک دیکھ کر ہوائیاں اڑ گئی وہ ہکلاتے ہوئے شاہ ویر راجپوت اور یاسر راجپوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان سے بولا۔


جو کے اس وقت پاکی اور سجل کے دئیے ہوئے سیاہ میڈ کے یونیفارم میں ملبوس لڑکے کم لڑکی زیادہ لگ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ تینوں بہت زیادہ کیوٹ لگ رہے تھے۔


شاہ ویر اور سمیر راجپوت جو نظریں نیچے جھکا کر کپڑے دھو رہے تھے سالار راجپوت کی ڈرتی ہکلاتی آواز پر اپنی اپنی نظریں اوپر اٹھا کر اسے غصے سے گھورنے لگے لیکن جب انکی نظریں سامنے کھڑے علی راجپوت پر پڑی تو وہ ڈر کر نظریں نیچے جھکا کر اپنا کام کرنے لگے۔


"اچھا تو برخوردار جو تم نے مجھے نیا نک نیم دیا ہے اسکے بارے میں تم کیا کہوں گے۔؟؟


سامنے کھڑے اپنے باپ کو غصے سے لال بھبوکا چہرہ لیے دیکھ کر اور انکی بات پر سالار راجپوت کو ساٹھ سو والٹ کا کرنٹ لگا تو وہ اپنا سر نفی میں ہلا کر خاموشی سے اور شرافت سے نیچے فرش پر گرے اس سفید کپڑے کو جو کچھ دیر پہلے وہ غصے سے پٹخ کر دھو رہا تھا اب اسے آرام سے اٹھا کر آرام سے اس کپڑے کو دھونے لگ گیا۔


"برخوردار میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے جواب دو مجھے اور یہ تم کچھ دیر پہلے کیا کہ رہے تھے میں یعنی تمھارا والد گرامی ایک پہلوان ہے جسکے کپڑوں سے گھر کی ساری عورتوں کے لیے ایک ایک سوٹ بن سکتا ہے ہہہہممم تو اسکا مطلب تمھیں اپنا باپ جلاد کے ساتھ ساتھ پہلوان بھی لگتا ہے آئی ایم رائٹ نا مائے بوائے۔؟؟


اس کی خاموشی پر علی راجپوت کو اور بھی زیادہ غصہ آیا تو وہ آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے پکڑ کر بولے۔


"نہیں ڈیڈ میں نے تو صرف ہماری پٹاخہ رانی عرف پاکی کا کہا تھا کہ اس پہلوان کے کپڑوں سے ہماری پاکی کے لیے دو تین سوٹ بن سکتے ہیں ڈیڈ آپ بھی ناں درست نہیں سنتے آپ کو نہ اپنے کان کی ٹریٹمنٹ کرانی چاہیے کسی اچھے سے ڈاکٹر سے کیونکہ ڈیڈ اگر آپ بھری جوانی میں بہرے ہو گئے تو موم جی کا کیا ہوگا انکا تو روم کی صفائی کے لیے آوازیں دے دے کر گلا بیٹھ جائے گا اگر ایسا کچھ ہوا نا تو اس گھر میں جنگ عظیم چھڑ جائے گا آپ آگے اور وہ ڈنڈا لیکر آپکے پیچھے ہائے وہ منظر کتنا خوبصورت ہوگا۔"


انکی بات پر سالار راجپوت سخت گھبراتے ہوئے وہ بول گیا جو اسے اس وقت نہیں بولنا چاہیے تھا اور اسے ہوش اپنے کندھے پر رکھے بھاری ہاتھ پر آیا تو وہ اپنی آنکھیں کھول کر اپنے کندھے پر رکھے اپنے باپ کے ہاتھ کو دیکھنے لگا پھر نظریں اوپر اٹھا کر اس نے انکی نظروں کی جانب دیکھا جو غصے سے سرخ ہو گئے تھے۔


"ہوں تو برخوردار ڈنڈا لیتے ہوئے اپنی ممی کو میرے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔"


علی راجپوت نے اپنی سرخ آنکھوں سے اپنے بیٹے کو گھورتے ہوئے بھنویں چڑھاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔


"نن۔نہیں تو ڈیڈ میں ایسا نہیں چاہتا بلکل بھی نہیں."


سالار راجپوت کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہتا پیچھے ہٹا تو اسے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھ کر علی راجپوت آگے بڑھے جسے دیکھ سالار راجپوت ہڑبڑا کر وہاں سے گیلے کپڑوں کی پرواہ کئے بغیر بھاگا تو اسے بھاگتے ہوئے دیکھ علی راجپوت بھی اسکے پیچھے بڑھ گئے۔

جبکہ انہیں اس طرح جاتے ہوئے دیکھ شاہ ویر اور سمیر زور سے قہقہہ لگا اٹھیں۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"اب رو کیوں رہے ہوں موٹو یہ جو تمھارے ساتھ ہوا ہے نا یہ تمھاری وجہ سے ہی ہوا ہے اگر تم یہ لندن سے پڑھائی چھوڑ کر بھاگنے کا گھٹیا پلان نہ بناتے نا تو اس وقت ہم لندن میں بیٹھے مزے سے اسپائسی چکن اور مٹن تکہ اور بیف بریانی کھا رہے ہوتے۔"


شاہ ویر راجپوت سالار راجپوت کی سوجھی آنکھ کو برف سے سیکھائی کرتے ہوئے اور اپنے باپ کے ہاتھوں بنی اسکی درگت پر اور اسکی حالت پر اپنی ہنسی کنٹرول کرتا اسکے صحت مند وجود کو دیکھتے ہوئے اسے موٹو کا خطاب دیکر آنکھوں کو ترچھی کرتے ہوئے اس پر طنز کھستے ہوئے بولا۔


"کیا تم بھی میرے نوالوں پر نظر رکھتے ہوں تمھاری سچائی جان کر مجھے بے حد افسوس ہوا۔

شاہ ویر علی راجپوت مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی میں تو تمھیں اپنا خیر خواہ سمجھتا تھا لیکن تم تو میرے سب سے بڑے دشمن نکلے۔"


سالار راجپوت نے اپنے بھائی کے منہ سے اپنے لیے موٹو لفظ سن کر غصے سے اسے گھورا۔


"تمھارے نوالوں پر نظر رکھنے کا بھی مجھے کوئی شوق نہیں ہے وہ تو تم بڑے ہی بھوکڑوں کی طرح کھاتے ہوں ناں تو نا چاہتے ہوئے بھی میری نظریں تمھارے نوالوں پہ چلی جاتی ہے ورنہ میں تمھیں دیکھو بھی نہ کھانا کھاتے وقت ہہنہہ۔"


شاہ ویر راجپوت نے منہ بناتے ہوئے کہا۔


"یہ میرے گھپلوں بھائی کی حالت کس نے بگاڑا ہے قسم سے سلی کا چہرہ سوجھ کر بلکل ہمارے کیمسٹری پروفیسر کی طرح لگ رہا ہے وہ جب غصے میں ہوتے ہیں نا تو انکا چہرہ بھی اسی طرح سوجھ جاتا ہے۔"


پاکی جب انکے کمرے میں داخل ہوئی تو سالار کے چہرے کو دیکھ کر وہ ہنستی ہوئی بولی۔


"تم تو چپ کروں تمھاری وجہ سے میری نو سو گرل فرینڈز میری میڈ کے روپ والی سیلفی دیکھ کر ڈر کر مجھے فیس بک سے بلوک کر کے بھاگی ہے۔"


شاہ ویر راجپوت جو سالار راجپوت کی سوجھی آنکھ پر برف کی ٹکور کر رہا تھا پاکی کو وہاں دیکھ کر غصے سے سالار راجپوت کی آنکھ پر برف کو زور سے دباتے ہوئے بولا۔


"آہہہہہہہہہہہہہہ ٹھرکی انسان تم مجھے کیوں مار رہے ہوں تمھاری سیلفی میں نے نہیں اس پاکیزہ کی بچی نے تمھاری فیس بُک پروفائل پر لگایا ہے اسکی وجہ سے تمھاری نو سو گرل فرینڈز نے تمھیں بلوک کیا ہے میں نے نہیں ڈیم اٹ۔"


سالار راجپوت نے درد سے تڑپ کر اسے بیڈ سے نیچے دھکا دیتے ہوئے غصے سے کہا پاکی جو سامنے کھڑی ان تینوں کو دیکھ رہی تھی شاہ ویر کو نیچے گرے دیکھ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے ہنسنے لگی۔


"شیطان کی باجی تم ٹھاہ ٹھاہ کر کے ہنس کیوں رہی ہوں آج جو بھائی نے بھائی کو نیچے گرایا ہے نا تو صرف تمھاری وجہ سے گرایا ہے فسادن میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"


شاہ ویر راجپوت پاکی کو ہنستے ہوئے دیکھ کر نیچے سے اٹھا اور اسکی جانب بڑھتے ہوئے سختی سے بولا۔


"شاہ نہیں اگر تمھارے مارنے کی وجہ سے میں فوت ہوگئی تو تم اس بات کو سننے کے لیے محروم رہ جاؤں گے جو میں یہاں تم لوگوں سے شئیر کرنے آئی تھی۔"


پاکی نے معصومیت سے اپنی آنکھیں پھڑپھڑاتے ہوئے کہا۔


"کونسی بات.؟؟


اسکی بات پر وہ رکا اور اسے دیکھنے لگا تو سالار اور سمیر بھی پاکی کی جانب دیکھنے لگے۔


"شادی کی بات۔"


پاکی نے اپنی آنکھیں ان تینوں پر جماتے ہوئے انکے ری ایکشن کو دیکھا جو یہ بات سن کر شاکڈ ہو گئے تھے۔


"شادی کس کی شادی۔"


تینوں نے ایک ساتھ کہا۔


"سجل اور ہمارے کتابی کیڑے۔"


سمیر پاکی کی پوری بات سنے بغیر صرف اپنا نام سن کر شرماتے ہوئے اپنا چشمہ درست کرنے لگا اسے شرماتے ہوئے دیکھ کر وہ تینوں اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگے۔


"میرے اور تم لوگوں کے کزن اور ہمارے پیارے کتابی کیڑے کے چھچھوندر بھائی ازحف راجپوت کے ساتھ۔"


پاکی کی پوری بات جب سمیر نے سنی تو وہ اب شرم کی بجائے شرمندگی سے اپنی نظریں چرانے لگا جو دیکھ پاکی اور سالار راجپوت شاہ ویر راجپوت کا قہقہہ چھوٹ گیا۔


"پاکی یار تم ہر بات میں یہ سسپنس کری ایٹ کیوں کرتی ہو مجھے لگا نانا جی نے میرے بگڑنے کے ڈر سے میری شادی کا سوچا ہے لیکن نہیں تم نے اپنی گھٹیا سسپنس سے میرا سارا موڈ خراب کر دیا ہے۔"


سمیر راجپوت نے ان تینوں کو قہقہہ لگاتے ہوئے سنا تو غصے سے پاکی سے بولا۔


"ابے ٹھرکی کچھ شرم کر سجل آپی ہم سے ایک سال بڑی ہے اور وہ ہماری آپی ہے مجھے دیکھو میں کتنا شریف ہوں لندن میں گوری گوری دوشیزاؤں کو دیکھ کر بھی شرافت سے سر جھکا کر انکے سامنے سے گزرتا تھا اور ایک تم دونوں ٹھرک کی دوکان جو گوری دوشیزاؤں کو دیکھ کر کتوں کی طرح زبان باہر نکال کر انکے پیچھے پروانوں کی طرح بھاگتے تھے۔"


شاہ ویر نے پہلے سمیر کو پھر سالار کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو اسکی بات پر سالار نے اور سمیر نے عجیب نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔


"جانی تم اور شریف۔"


دونوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔


"ہاں برادر لوگوں تم کو کوئی شک الحمدلله سے ہمارے پورے خاندان میں صرف ایک اکلوتا شریف پیس ہے اور ماشاء اللہ سے وہ میں ہوں شاہ ویر راجپوت 🤭


"تتت۔تم اور شریف پیس تم تو مجھے کسی اینگل سے بھی شریف پیس نہیں لگتے بلکہ تم ہمیں زیادہ چھچھورے پیس لگتے ہو۔"


سالار راجپوت نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔


"ہمارے شریف پیس اب اتنی بھی شرافت کے جھوٹے خواب مت دیکھاؤں ہمیں کیوں کہ کل کلب کے باہر ہم تمھاری اسی ٹھرک پن کے جراثیم کی وجہ سے اپنے خون چوسنے والے ڈریکولا بھائی کے ہاتھوں لگے تھے ہمیں اچھے سے یاد ہے اب تم بھی ہوش کی دنیا میں آ جاؤ۔"


سمیر نے جلتے ہوئے کہا۔

تو شاہ ویر راجپوت کل رات کی بات یاد آتے ہی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر نفی میں سر ہلانے لگا تو اسے اس طرح کرتے ہوئے دیکھ پاکی اور سالار ،سمیر نے زور سے قہقہہ لگایا۔

سلطان عالم شاہ کے ناٹک کی وجہ سے سرفراز شاہ غصے سے اس وقت منہ بگاڑے ہاسپٹل کے اس روم کے باہر کھڑے اسے گھور رہے تھے جو سر جھکا کر انکے سامنے کھڑے تھے امشال جو ان سے ناراض تھی وہ اس وقت اپنی ساس کے ساتھ کھڑی انہیں غصے سے گھور رہی تھی۔


"نالائق یہ کیا بچپنا ہے تیس سال کے بڈھے ہو کر بھی تک بچوں کی طرح حرکتیں کرتے ہوں تمھیں شرم نہیں آتی اس طرح کے مذاق کرتے ہوئے۔؟"اگر آج تمھاری ماں کو کچھ ہو جاتا ناں تو میں تمھیں زندہ دفن کر دیتا۔"


سرفراز شاہ نے غصے سے گھورتے ہوئے ان سے پوچھا۔

زینب شاہ کا نام لینا تو صرف بہانہ تھا دراصل اسکی نس کاٹنے والے ڈرامے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ڈر گئے تھے اسی لیے اس وقت وہ اپنا غصہ سلطان پر نکال رہے تھے۔


"معاف کر دے بابا سائیں آیندہ ایسی حرکت پھر کبھی نہیں کروں گا۔"


انہوں نے شرمندگی سے نظریں مزید جھکاتے ہوئے کہا۔


"ایندہ بھی تم یہی کروں گے جب تک تم میرے گھر میں ہوں مجھے اور میری فیملی کو سکون سے رہنے نہیں دوں گے پھر سے بیوی کی جدائی سے پریشان ہو کر تم یہی قدم اٹھاؤ گے میں تمھیں اچھے سے جانتا ہوں سلطان عالم شاہ جب تم کسی سے عشق کرتے ہوں نا تم اسکے لیے پاگل ہو جاتے ہوں اور جذبات میں بہہ کر ہر حد پار کر لیتے ہوں۔"


سرفراز شاہ نے غصیلی آواز میں کہا۔

وہ اپنے اس سرپھرے بیٹے کو اچھے سے جانتے تھے کیونکہ وہ اسکی جذباتی پن سے اچھی طرح واقف تھے وہ جنونی انسان اگر کسی کے لیے عشق اور نفرت کے جذبات اپنے دل میں محسوس کرلیتا ہے تو اسے بڑے ہی لگن سے نبھانے لگتا ہے چاہے زبردستی سے یا پھر رضامندی سے وہ اس رشتے کو ضرور نبھاتا ہے۔


"نہیں بابا سائیں میں اب دوبارہ یہ غلطی نہیں کروں گا اور آپ بے فکر ہو جائے کیونکہ اب میں آپکو کوئی تکلیف نہیں دوں گا کیونکہ میں اپنی بیوی کو لیکر یہاں سے بہت دور جا رہا ہوں راقم تم بابا سائیں اماں سائیں اور گڑیا کو گھر لیکر جاؤں میں بس سوات کے لیے نکلنے ہی والا ہوں۔"


سلطان عالم شاہ نے راقم رحیم شاہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا سوات میں شفٹنگ والی بات انہوں نے صرف راقم رحیم شاہ کو بتائی تھیں اسی لیے وہ مطمئن انداز میں کھڑا انکی بات سن رہا تھا۔


"کیا تم سوات میں شفٹ ہو رہے ہوں بیٹا اور یہ بات تم اب بتا رہے ہوں۔"


زینب شاہ نے انکی جانب گھورتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔


"اماں سائیں آپکے شوہر کو تو میرا آپکے پاس آنا بلکل بھی پسند نہیں ہے تو میں آپکو یہ بات کیسے بتاتا۔؟؟


سلطان عالم شاہ نے اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے اپنی اماں سائیں سے کہا۔


"جب تم اپنی حرکتیں درست کر لوں گے ناں تب میں تمھیں اپنی بیوی کے پاس آنے کی اجازت دے دوں گا۔"


سرفراز شاہ نے گھورتے ہوئے جان بوجھ کر بڑبڑاتے ہوئے انہوں نے کہا جو سلطان عالم شاہ نے باخوبی سن لیا وہ انکی بڑبڑاہٹ پر مسکراتے ہوئے اور انکی اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے زینب شاہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے ان سے اجازت لے کر سرفراز شاہ کی جانب بڑھا اور انکے ہاتھ پکڑ کر چھومتے ہوئے اپنی پیشانی سے لگا کر ان سے بھی اجازت لینے لگا جو انہوں نے سر ہلا کر ناگواری سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے دے دیا پھر وہ زہرا بتول کی جانب بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنا خیال رکھنا کا کہہ کر

راقم رحیم شاہ کو اسکی اور اپنے ماں باپ کی حفاظت کا کہہ کر امشال کی جانب بڑھے جو اسکی جانب غصے سے گھور رہی تھی وہ اسکی غصیلی نظروں کو نظر انداز کرتے اسکی گوری کلائی کو پکڑ کر اسے لیے سب پر ایک نظر ڈال کر تیزی سے وہاں سے نکلے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


زہرا بتول یونیورسٹی کے لائبریری میں ایک کتاب ڈھونڈ رہی تھیں اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے وہ کتاب جلد ڈھونڈ کر یہاں سے نکلنے کے درپے تھی کیونکہ یونیورسٹی کی چھٹی ہونے ہی والی تھی۔


"آخر تمھیں مسئلہ کیا ہے ہر وقت دیکھوں مجھ سے ٹکراتی ہو کبھی باہر تو کبھی یہاں یونی میں اب تو میں تھک گیا ہوں تمہیں اپنے سے دور رہنے کی وارننگ دیتے ہوئے.؟"


وہ کتاب ریک کے لاسٹ رو میں ڈھونڈنے کے لیے بڑھی تبھی سر جھکنے کی وجہ سے وہ کسی سے بری طرح سے ٹکرائی سامنے زیرون جو اسکے ٹکرانے کی وجہ سے اپنی ناک پکڑے کھڑا اسے گھور رہا تھا اسکی نظریں اپنے اوپر اٹھتے ہوئے دیکھ وہ غصے سے بولا۔


"تو میں تمھیں دعوت نہیں دیتی ہوں جنگلی بیل کی طرح میرے پاس لپکنے کے لیے اپنی آنکھیں کھول کر شریفوں کی طرح چلا کروں تو ہمارا ٹکراؤ زرا کم ہوگا ہنہہہہہ پتہ نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے۔"


زہرا بتول نے سخت نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے آخری لفظ اپنے دل میں دبائے کیونکہ وہ اس جنگلی بیل کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ اچھے سے جانتی تھی کہ وہ ان لفظوں کو دل میں لیکر اس سے انتقام لے گا۔


"کیا تم نے مجھے جنگلی بیل کہا۔"


زیرون راجپوت اسکے خود کو جنگلی بیل کہنے پر سخت غصے سے پاگل ہو کر غراتے ہوئے بولا۔


"ہاں میں نے تمھیں جنگلی بیل کہا۔"


زہرا بتول نے آرام سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے کہا۔


"وہاٹ میں تمھیں کس اینگل سے جنگلی بیل لگتا ہوں بتاؤ مجھے کس طرح میں تمھیں ایک بیل لگتا ہوں میری شکل پے تو بیل نہیں لکھا ہوا ہے مس نقابن تمھاری آنکھیں خراب ہے یا تمھارا یہ چھوٹا سا دماغ جو تم اتنے ہینڈسم لڑکے کو ایک بیل سے تشبیح دے رہے ہوں اگر یہ دونوں چیزیں خراب ہے نا نقابن تمھاری تو نو پرابلم میں آج ہی کسی ڈاکٹر کا پتہ کرکے تمھیں بتا دیتا ہوں تم جا کر اپنا علاج کرانا اس طرح میری بھی جان چھوٹ جائے گی اور تمھارا بھی فائدہ ہو جائے گا۔"


زیرون راجپوت نے گہری نظروں سے اسکے نقاب سے جھانکتی خوبصورت آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"علاج کی مجھے نہیں مسٹر زیرون راجپوت تمھیں سب سے زیادہ ضرورت ہے تم جا کر خود ہی اس ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانا کم از کم یہاں یونی ورسٹی کے اسٹوڈنٹس کی بچٹ تو ہو جائے گی تم جیسے پاگل اسٹوڈنٹس سے اور جب تم سدھروں گے تب ان معصوموں کا تو کچھ فائدہ ہو جائے گا وہ بچ جائیں گے تمھارے ہاتھوں سے ضائع ہونے سے ہنہہہ۔"


زہرا بتول نے ناگواریت سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"مس حجابن لگتا ہے تمھیں بہت شوق ہو رہا ہے میرے ہاتھوں سے ضائع ہونے کا جو روز میرے سامنے آ کر اپنی بکواس سے میرا دماغ گرم کرتی ہوں۔"


زیرون راجپوت نے خونخوار لہجے میں اس سے کہا۔


"اگر تم نے مجھے ہاتھ لگایا نا تو میں تمھارے ہاتھ کاٹ کر رکھ دوں گی۔"


زہرا بتول نے چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"ہوں تو تم میرا لمس پانا چاہتی ہوں اسی لیے تم بار بار جان بوجھ کر بہانے سے مجھ سے ٹکراتی ہوں کیا وہیات قسم کی لڑکی ہوں تم یار میری توجہ پانے کے لیے یہ نیک بی بی بن کر یہ جعلی نیکی والے حربے استعمال کر رہی ہوں تم سیدھے طرح سے کہتی میں تمھیں ایسے ہی اپنا ایک رات مفت میں دے دیتا۔"


زیرون راجپوت نے اسکے حجاب کا مزاق اڑاتے ہوئے تمسخر اڑاتی نظروں سے اسکے پردے میں چھپے نازک سراپے کو گھورتے ہوئے کہا۔


"شٹ اپ میں نے کوئی حربہ استعمال نہیں کیا ہے میں جیسی ہوں وہی سب کو نظر آتی ہوں تم مجھے کس نظریے سے دیکھتے ہوں مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ہٹوں میرے راستے سے۔"


وہ اسے گھورتی ہوئی بول کر سائیڈ سے ہو کر گزری تو زیرون راجپوت اسکی بات پر تمسخر اڑاتی نظروں سے اسکی پشت کو گھورنے لگا۔

جبکہ زہرا بتول دروازے کے پاس پہنچی تو دروازے کو بند دیکھ اچھنبے سے دروازے کی جانب گھورنے لگی۔

پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے لگی جو باہر سے بند تھا یہ دیکھ وہ سخت پریشانی سے دروازہ پیٹنے لگی۔


زیرون راجپوت جو وہی کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اسے اچانک سے پاگلوں کی طرح دروازہ پیٹتے ہوئے دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور جب وہ اسکے قریب پہنچا تو دروازہ باہر سے بند دیکھ ایک شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر سیاہ برقعے میں ملبوس ڈری سہمی زہرا بتول کو دیکھنے لگا۔


"دروازہ کھولو۔"


زہرا بتول اسکی نظروں کی تپش محسوس کرتی سہمتی دروازہ پیٹتی ہوئی رونی آواز میں چیخنے لگی۔


"اس طرح دروازہ پیٹنے سے کوئی فایدہ نہیں ہے اپنی انرجی بچا کر رکھو یہ انرجی بعد میں تمھارے کام آئے گی حجابن بی بی کیونکہ یونی میں اس وقت صرف ہم دونوں ہے اور۔"


زیرون راجپوت اسکی ہرنی جیسی ڈری سہمی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اپنی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے اسکے لرزتے وجود کو دیکھنے لگا۔


"اور کون ہے ہمارے علاؤہ تم نے بات بیچ میں کیوں کاٹی بتاؤ نا تمھارے ساتھ اور کون ہے یہاں ہاں؟؟


زہرا بتول اسکی آدھی بات پر بری طرح سے لرزتی ہوئی پوچھنے لگی۔


"میں اسکی بات کر رہا ہوں جس کے بارے میں سن کر سب لڑکیاں ڈرتی ہے خاص کر تم جیسی حجابن لڑکی۔"


زیرون راجپوت نے سسپنس کریٹ کرتے ہوئے کہا۔


"کس کی بات کر رہے ہوں تم اب بتا بھی دوں نا تم اتنا سسپنس کیوں پیدا کر رہے ہوں یہاں میری سوچ سوچ کر حالت پٹلی ہو رہی ہیں پتہ نہیں وہ کون ہے جسے دیکھ کر ہم لڑکیوں کی جان جاتی ہے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے لیکن تمھیں اپنی بے شرمی سے فرست ملے تب تم مجھے بتاؤں گے اسکے متعلق ہنہہہہ دیکھو اگر تم نے نہیں بتایا نا تو میں یہ موٹی کتاب تمھارے سر پر دے ماروں گی۔"


اپنے ہاتھ میں تھمی موٹی کتاب اوپر اٹھاتے ہوئے زہرا بتول نے غصے سے زیرون راجپوت سے کہا آج پہلی بار زیرون سے اس لڑکی کو ڈرتے ہوئے دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کر پانا مشکل ہو رہا تھا۔


"مس حجابن لگتا ہے تمھیں اپنی جان پیاری نہیں ہے جو اس وقت تم یہ موٹی کتاب مار کر مجھے بہیوش کرنے کے خواب سجائے بیٹھی ہوئی ہوں۔"


زیرون نے اپنی ہنسی کا گلہ گھونٹتے ہوئے کہا۔


"میں خواب میں نہیں حقیقت میں تمھیں ماروں گی اگر تم نے مجھے اس کے بارے میں نہیں بتایا نا جو اس وقت ہمارے بیچ موجود ہیں تو میں تمھیں اس کتاب سے مار مار کر گنجا کر دوں گی۔"


زہرا بتول نے اپنے لفظوں کو شدت سے چباتے ہوئے کہا۔


"یہ گستاخی مت کرنا مس حجابن کیونکہ اس وقت اُس چیز سے میں ہی تمھاری حفاظت کر سکتا ہوں اگر میں بہیوش ہوگیا تو وہ میرے ساتھ تمھیں بھی کاٹے گا۔"


زیرون نے شرارت سے آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا۔


"کیا مطلب کون ہمیں کاٹے گا۔؟؟


زہرا بتول اسکی بات پر حیرانی سے اسکی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


"چھپکلی اور کون۔"


زیرون راجپوت نے لاپرواہی سے کہا۔


"کیا چھپکلی۔"


زہرا بتول نے زور سے چیختے ہوئے کہا۔


"ہاں چھپکلی وہ بھی موٹی تازی۔"


زیرون راجپوت نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"تم چھپکلی کی تعریف ایسے کر رہے ہوں جیسے وہ چھپکلی نہیں کوئی موٹی تازی مچھلی ہوں۔"


اسکے موٹی تازی لفظ سن کر زہرا بتول نے ناگواریت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"مس حجابن تمھیں کس خوشی میں میرے تعریف کرنے پر کیوں جیلسی ہو رہی ہیں اس بیچاری چھپکلی سے۔؟؟


زیرون راجپوت نے سخت لہجے میں پوچھا تو زہرا بتول اسکی بات پر سخت سٹپٹا کے رہ گئی۔


"میں کیوں اس چھپکلی سے جیلس ہونے لگی میری بھلا سے تم جا کر کسی بولڈ لڑکی کی تعریف کروں یا اس چھپکلی کی ہنہہہہ۔"


زہرا بتول نے کہہ کر اپنے قدم سامنے رکھی کرسی کی جانب بڑھائے تو اسے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھ زیرون راجپوت نے ایک سکون کی لہر اپنے اندر دوڑتے ہوئے محسوس کیا کیونکہ اسکی نزدیکی سے پتہ نہیں کیوں آج اس سنکی پتھر دل کا دل اسے دھوکا دینے کے لیے بری طرح سے مچل رہا تھا ۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


اس وقت سلطان عالم شاہ سنجیدگی سے کار ڈرائیو کر رہے تھے اور امشال انکے بگل میں خاموشی سے بیٹھی باہر کے نظارے میں گم تھی۔


کار اس خاموش اندھیری رات میں ہائے وے پر تیزی سے ڈور رہا تھا وہ دونوں اس وقت خاموشی سے اس سفر میں گم تھے تبھی اس خاموشی کو توڑنے کے لیے سلطان عالم شاہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر امشال کے گود میں رکھے اسکے نازک ہاتھ کی جانب بڑھا کر اسکے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیکر گیئر پر رکھتے ہوئے اسی طرح کار ڈرائیو کرنے لگا۔


"یہ آپ کیا کر رہے ہیں چھوڑیں میرا ہاتھ۔"


امشال اپنا ہاتھ انکے بھاری ہاتھ کے نیچے دبے ہوئے دیکھ غصے سے انہیں گھورتی ہوئی بولی۔


"کب تک ناراض رہوں گی اب مان بھی جاؤ ناں جاناں کیوں مجھے تڑپا رہی ہوں؟؟


انہوں نے اپنے ایک سے اسکا نازک ہاتھ گیئر سے اٹھا کر اپنے لبوں کی جانب لیجاتے ہوئے کہا اور دوسرے سے بڑے ہی ماہرت سے اسٹیئرنگ گھمانے لگے۔


"ساری زندگی میں نہیں مانوں گی کیوں کہ آپ اس لائق ہی نہیں ہے کہ میں مان کر آپ سے اپنی ناراضگی بھول کر پیار سے ہنسی خوشی اپنی زندگی گزاروں آپ نے اگر وہ ڈراما نہیں کیا ہوتا نا تو شاید میں آپ کو اپنا آپ سونپتی لیکن آپ نے وہ ڈراما کر کے میرے ساتھ بلکل بھی اچھا نہیں کیا ہے اب بھگتے میری ناراضگی کو ہنہہہ۔"


امشال نے منہ بناتے ہوئے ناراضگی سے کہا۔


"جانم اگر میں وہ ڈراما نہیں کرتا ناں تو آج میں تمھاری فیلنگ سے ساری زندگی انجان رہتا جو تم میرے لیے دل میں احساس لیے پھرتی ہوں نہ اسے جاننے کا محسوس کرنے کا حق صرف میرا ہے تمھارا بھی نہیں۔"


تو اسکی بات پر سلطان نے کار سائیڈ پر روکا اور اسکی طرف مڑتے ہوئے اسے کندھوں سے پکڑ کر اسکی ناراض آنکھوں کے اوپر باری باری اپنے ہونٹ رکھ کر اپنا لمس

چھوڑا امشال جو ناراضگی سے منہ پھلا کر بیٹھی ہوئی تھی اچانک سے انکی بے باک حرکت پر جھٹکے سے اپنی آنکھیں موند گئیں۔


"آپکی یہ بے شرمایا مجھ پر بلکل بھی کام نہیں کرنے والی اس سے بھتر ہے آپ چپ چاپ کار ڈرائیو کرے ورنہ میری ناراضگی کی جگہ غصے میں نہ بدل جائے۔"


امشال انہیں اپنے گالوں پر جھکنے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر انہیں دور دھکیلتی ہوئی بولی۔


"دیکھتا ہوں کیسے غصے میں بدلا ہے یہ تمھاری ناراضگی میڈم۔"


معنی خیزی سے کہتے وہ جھکے اور اسکی سانسوں کو بری طرح سے منتشر کرنے لگے امشال کی آنکھیں انکی شدتوں پر شاکڈ کی وجہ سے بڑی ہونے لگی جبکہ سلطان اسکے اوپر جھکے اپنی شدت بھرے لمس کو اسکی انگ انگ میں چھوڑ رہے تھے اور انکی شدتوں پر امشال خود کو روک نہیں سکی اور انکی لمس میں کھونے لگی۔


"ڈارلنگ اب تمھارے سارے گلے شکوے ختم ہوگئے ہیں یا نہیں جلدی سے بتا دو مجھے کیونکہ میں اس وقت بلکل موڈ میں ہوں انہیں مٹانے کے لیے۔؟؟


وہ اسکی گردن پر جھک کر زور سے بائٹ کرکے پیچھے ہٹتے ہوئے اس بائٹ کے نشان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مخمور آنکھیں اسکے سرخ ہوتے لبوں پر گارتے ہوئے بولے۔


"نن۔نہیں سب مٹ گئے۔"


امشال انکی گستاخ نظروں کو اپنے گردن سے نیچے بڑھتے ہوئے دیکھ سخت سٹپٹا کے بولی۔


"گڈ مائے لٹل وائفی اسی طرح مان جایا کرنا بلکہ ایک کام کرنا مجھ سے ناراض ہونے کی گستاخی مت کرنا کیونکہ میرا منانے کا انداز بہت ہی خطرناک ہے تم سہہ نہیں پاؤں گی میرے اس خطرناک انداز سے یہ تو بس چھوٹا سا ٹریلر ہیں اس خطرناک ترین مووی سے ابھی تک تمھارا واسطہ نہیں پڑا ہے اگر پڑ گیا نا تو تم بہیوش ہو جاؤں گی۔"


انہوں نے اسکے سرخ لبوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا امشال اپنے لبوں پہ انکی بھاری انگلی کو سرکتے ہوئے محسوس کر سر تا پا لرز اٹھی۔


سلطان عالم شاہ جو اسے اپنی آغوش میں بھر کر اسے پیار سے دیکھ رہے تھے کہ سامنے سے اچانک سے لائٹ پڑھنے پر چونک کر اس جانب دیکھنے لگے جہاں سے لائٹ ان پر پڑ رہی تھیں وہ اس لائٹ کے بارے میں جان پاتے کے تبھی اچانک سے انکی کار پر دوسری طرف سے کسی نے گولی کی بوچھاڑ شروع کر دی وہ امشال کو جھکا کر دوسری سائیڈ کا ڈور کھولنے کی کوشش کرنے لگے اور جب وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے جھٹکے سے امشال کو باہر کی جانب دھکا دیا اور خود اپنا ریوالور نکال کر اپنا رخ اس طرف کر کے سیٹ پر لیتے ہی کھڑکی سے نظر آتے دو تین آدمیوں پر انہوں نے اندھا دھن فائر کرنے لگے۔


"آہہہہہہہہہہہہہہ۔"


وہ غصے سے فائر کر رہے تھے باہر سے امشال کی زور دار چیخ پر گولی لگنے کی وجہ سے گباڑ بن چکے دروازے کو زور سے لاتھ مار کر باہر نکلے وہ تینوں آدمی گولی لگنے کی وجہ سے نیچے گرے بری طرح سے تڑپ رہے تھے وہ انہیں نظر انداز کر کے اپنی امشال کو ڈھونڈنے لگے جو کار کے دوسری سائیڈ پر بھاگ رہی تھی۔


"امشال۔"


اسکے پیچھے دو تین آدمی بھاگ رہے تھے ان تینوں کے ہاتھوں میں تلوار نما چاقو تھے وہ ان چاقو کو دیکھ کر امشال کی جانب پاگلوں کی طرح بھاگنے لگے لیکن امشال کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی ایک آدمی نے وہ چاقو امشال

کی جانب اچھالا جو سیدھا امشال کی پشت پر جا کر لگا جسے دیکھ سلطان عالم شاہ نے درد ناک چیخ مار کر اسکی جانب اپنے قدم تیزی سے بڑھائے۔


"نہیں امشال جانم پلیز مجھے چھوڑ کر مت جانا پلیز اپنی آنکھیں بند مت کرنا پلیز۔"


امشال جو چاقو پشت پر لگنے کی وجہ سے منہ کے بل گرنے والی تھی انہوں نے آگے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں بھر کر اسکا نام روتے ہوئے پکار کر بولے۔


"آآ۔آپ پلیز یہاں سس سے چلے جائے وو۔وہ لوگ یہی آ رہے ہیں اگر انہوں نے آپکو میرے ساتھ دیکھا تو وہ آپ کو بھی مار دیں گے۔"


وہ اُنکے سینے سے لگی مشکل سے بول پا رہی تھی کیونکہ ان لوگوں کی اسکی پشت پر چاقو سے وار کرنے کی وجہ سے زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ اس وقت کمزوری کی وجہ سے نہ ہل پا رہی تھی اور نا ہی بات کر پا رہی تھی۔


"نن۔نہیں جاناں ۔میں تمھیں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاوں گا چاہے اس وقت وہ لوگ مجھے مار ہی کیوں نہ دے میں تمھارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔"


وہ اسکی پشت پر ہاتھ رکھ کر خون بہنے سے روکتے ہوئے بھاری گھمبیر آواز میں بولے اپنی پشت پر انکے بھاری انگلیوں کو محسوس کر وہ ہلکی آواز میں کراہ کر رہ گئی۔


"آپ ضد کیوں کر رہے ہیں وہ لوگ مجھے مارنا چاہتے ہیں اگر آپ نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ آپکو بھی مار دیں گے اور یہ میں نہیں چاہتی پلیز مجھے چھوڑ کر چلے جائے پلیز۔"


وہ تھوڑا سا اپنا سر اوپر اٹھا کر انہیں دیکھتی ہوئی درد کی وجہ سے اپنی زبان دانتوں تلے دباتے ہوئے مشکل سے بولی۔

"ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ ورنہ تم لوگوں کا انجام بہت برا ہوگا اس وقت میری امشال کی زندگی میرے لیے اہم ہے میں تم جیسے لوگوں سے بھڑ کے اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔"


سلطان عالم شاہ امشال کو گود میں اٹھائے سامنے کھڑے آدمیوں سے بولے جو انکے سامنے کھڑے خونخوار نظروں سے امشال کی جانب دیکھ رہے تھے۔


"بس دعا کرنا کہ میری بیوی کو کچھ نہ ہوں کیونکہ اگر اسے کچھ ہوا نا تو تم سب کے سب بہت بری موت مروں گے۔؟؟


سرخ آنکھوں کو ان پر جماتے ہوئے چبا چبا کر بولے۔


"اس نحوست کو بچانے کی وجہ سے تم ویسے بھی بچوں گے نہیں کیونکہ تم نے اس منہوس کو ہم سے چھپا کر رکھا ہے اس گناہ کی سزا تو تمھیں مل کر رہے گی اور اسکی سزا صرف تمھاری جان کی قیمت ہے جو ہم ہر حال میں تم سے لیکر رہے گے۔"


ایک آدمی نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔


"ڈونٹ کال نحوست میری امشال نحوست نہیں بلکہ تم لوگ ہوں نحوست کیونکہ تم لوگ صرف ایک جاہل سوچ کی وجہ اپنا آج سنوارنے کے بجائے بگاڑ رہے ہوں۔"


سرخ آنکھوں سے اس آدمی کو گھورتے ہوئے۔


مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے تم لوگوں کی اس سوچ پر اگر تم لوگ یہ چھوٹی سوچ نا رکھتے تو آج میری امشال کی زندگی میں اسکے اپنے موجود ہوتے اور وہ اس حال میں نا ہوتی۔"


انہوں نے امشال کو اپنی مضبوط بازوؤں کے حصار میں چھپاتے ہوئے کہا۔


"ہمارا وقت برباد مت کروں سیدھے طریقے سے لڑکی کو ہمارے حوالے کر دوں۔"


اس آدمی نے سلطان کو غصے سے گھورا۔


"اس کا زیادہ یہاں سانس لینا ہمارے گاؤں کے لیے ٹھیک نہیں ہے اگر تم دونوں کی وجہ سے ہم پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے نا تو میں تم دونوں کو بھیانک موت دوں گا۔"


آدمی نے اپنی سرمئی سے بھری نیلی سرخ آنکھوں سے امشال کی جانب دیکھا۔


"اگر تم سکون سے مرنا چاہتے ہوں تو اس لڑکی کو ہمارے حوالے کر کے اس پہاڑ پر جا کر کھود جاؤں۔۔"


وہ آدمی امشال پر اپنی غصیلی نگاہوں کو جماتے ہوئے نفرت انگیز لہجے میں بولا۔


"گل خان۔"


سلطان عالم شاہ اسے جواب دینے کے لیے منہ کھول رہے تھے تبھی کسی کی بھاری رعب دار آواز پر وہ چپ ہو کر سامنے دیکھنے لگے جہاں پر ایک آسمانی کلر کے قمیض شلوار میں ملبوس کریم کلر کی شال کندھوں پر اوڑھے ایک نوجوان کھڑا اس آدمی کو گھور رہا تھا۔


"چھوٹے خان آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں۔؟؟


جو آدمی سلطان کو دھمکا رہا تھا وہ اس سرخ و سفید پھتانی نقش والے نوجوان کے سامنے جاکر اپنا سر جھکا کر بولا۔


"تم لوگوں کا تماشا دیکھنے۔"


نوجوان نے سخت نظروں سے گل خان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"چھوٹے خان یہ تماشا نہیں ہے میں جو کر رہا ہوں ہم سبکی بھتری کے لیے کر رہا ہوں اگر یہ منہوس لڑکی نہیں مری ناں تو آہستہ سے ہمارے گاؤں میں جانوروں کے ساتھ انسان بھی ختم ہونے لگ جائیں گے۔"


گل خان سلطان عالم شاہ کی باہوں میں امشال کے بہیوش وجود کی جانب دیکھتے ہوئے نفرت سے بولا۔


"اففففففف ایک تم لوگوں کی یہ جاہلیت۔"


اس نوجوان نے غصے سے گل خان کی جانب دیکھا۔


"یہ لڑکی منہوس نہیں ہے بے وقوف انسان گاؤں میں جانور ایک وائرس پھیلنے کی وجہ سے مر رہے ہیں اور یہ وائرس اتنا خطرناک بن چکا ہے کہ اب جانوروں کے ساتھ انسان پر بھی اثر کر رہا ہے۔"


اس نوجوان نے ان لوگوں کی جاہلیت کی وجہ سے پتیوں میں مقید آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔


"اس وائرس کو ختم کرنے کے بجائے اور شہر سے ڈاکٹر کی ٹیم کو بلانے کے بجائے تم لوگ یہاں ان معصوم لوگوں کو جانوروں کی طرح کاٹنے کیلئے انکے پیچھے کسی جنگلی جانور کی طرح بھاگ رہے ہوں تم سبکے سب اسی وقت

شہر جا کر لندن سے آئے ڈاکٹر کی ٹیم کو یہاں لاوں۔"


وہ نوجوان سخت نظروں سے ان سب کی جانب دیکھتے ہوئے بولا تو اس نوجوان کی بات پر وہ سب تیزی سے وہاں سے چلے گئے ان سب کے وہاں سے جاتے ہی وہ نوجوان مڑ کر ان دونوں کی جانب دیکھنے لگا۔


"آپ انہیں لیکر میرے پیچھے آئیے۔"


سلطان عالم شاہ سے کہہ کر وہ سامنے کھڑی سیاہ جیپ کی جانب بڑھا تو سلطان عالم شاہ امشال کو لیے خاموشی سے اسکے پیچھے بڑھے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"سر یہ نوجوان کون ہے۔؟؟


ساحر کمشنر کو اپنے آفس میں پولیس وردی میں ملبوس ایک بے حد ہینڈسم نوجوان کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر ادب سے کھڑا ہو کر کمشنر کو سیلوٹ پیش کرکے ان سے اس نوجوان کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔


"یہ آج سے تمھاری جگہ لیں گا تم آج سے ایس ایچ او کی پوسٹ سے ہٹ کر انسپکٹر کے کام سر انجام دوں گے۔"


کمشنر کی بات پر ساحر راجپوت ہکا بکا رہ گیا۔


"سس۔سر یہ تو نا انصافی ہے میں کتنی ایمانداری سے اپنا فرائض نبھا رہا ہوں اور آپ مجھے میرے رتبے سے ہی ہٹا رہے ہیں۔"


ساحر راجپوت نے انکے سامنے کھڑے ہو کر سنجیدگی سے کہا۔


"کتنی ایمانداری سے تم اپنا فرض نبھا رہے ہوں یہ میں اچھے سے دیکھ رہا ہوں ساحر علی راجپوت۔"


کمشنر نے گھور کر اسے دیکھا۔


"اگر تم نے اپنے کام کے بیچ میں اپنے خاندان کی عزت کو چنا نہ ہوتا ناں تو آج وہ آر آر ہماری گرفت میں ہوتا وہ آج ہماری ہاتھوں سے نکلا ہے تو صرف تمھاری وجہ سے نکلا ہے۔"


کمشنر نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"سر وہ آر آر بھاگا ہے میں نے اسکے ساتھیوں کو تو اسکے کہنے پر چھوڑا نہیں ہے ناں۔"


ساحر راجپوت اس نوجوان کی نظروں کو خود پر محسوس کر اپنی نظریں اٹھا کر اسکی جانب دیکھنے لگا جو اسے اپنی سیاہ آنکھوں سے دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔


"اور اگر میرے پاس انہیں چھوڑنے کے علاؤہ کوئی اوپشن نہیں ہوتا نا تو تب سر میں اس کے آدمیوں کو اس کے ایریے پر چھوڑ کر اسی وقت ان سب کو اڑا دیتا اس آر آر کے ساتھ بھاگنے نہیں دیتا۔"


اس نوجوان کی گھوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔


"اس وقت میرے پاس راقم رحیم شاہ تم سے زیادہ بھتر اوپشن ہے اس آر آر کو پکڑنے کے لیے تم سے امید لگا کر میں نے دیکھ لیا اب مجھے تم سے کوئی بھی امید نہیں لگانا اب میری ساری امیدیں صرف راقم رحیم شاہ سے ہے۔"


کمشنر کی بات پر ساحر نے اس نوجوان کی جانب دیکھا جو چہرے پر پھرتیلے تاثرات سجائے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔


"آخر سر اس میں ایسی کیا بات ہے جو آپ اسے مجھ سے کمپیئر کر رہے ہیں۔"


ساحر علی راجپوت نے بھنویں سکوڑتے ہوئے کہا۔


آہہہہہہہہہہہہہہ ظالم تم پاگل ہوں کیا جو بلا وجہ مجھے مار رہے ہوں۔"


اس کی بات پر راقم رحیم شاہ نے آگے بڑھ کر اسے اٹھا کر نیچے پھٹکا تو اس اچانک حملے پر ساحر زور سے چیخ اٹھا۔


"I don't like noise."


"تم بہت شور کرتے ہوں مجھے شور مچانے والے لوگوں سے سخت نفرت ہے سو آئندہ سے میرے سامنے اپنی یہ گز بھر کی زبان پر لگام ڈالنا ورنہ میں اسے کاٹ کر ہماری سرچ کرنے والے خونخوار کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔"


راقم رحیم شاہ کی بھاری گھمبیر آواز اس روم میں گونجی۔


"سر آپ اس پاگل سرپھرے سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔"


ساحر علی راجپوت اپنی کمر پکڑ کر غصے سے راقم رحیم شاہ کی جانب گھورتے ہوئے کمشنر سے بولا۔


"ہاں میں اس کے اسی سرپھرے اور اسی پاگل پن کی وجہ سے اس سے امید لگانے پر مجبور ہوں یہ تمھاری طرح بے وقوف بلکل نہیں ہے یہ سوچ سمجھ کر اپنا مشن پورا کرتا ہے اور جب اسے غصہ آتا ہے نا اور پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں نا اسے تب یہ اپنے مشن کو اسی وقت ختم کر دیتا ہے جس وقت اسے وہ مشن ملتا ہے."


کمشنر نے فخر سے راقم رحیم شاہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کمشنر کی تعریف پر ساحر علی راجپوت جل بھن کر رہ گیا جبکہ راقم رحیم شاہ اپنی تعریف پر بھی مسکرایا نہیں بلکہ وہ اسی سرد پتھریلے تاثرات سے کھڑا ساحر راجپوت کو گھور رہا تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


لائٹ جانے کی وجہ سے لائبریری میں اندھیرا چھایا ہوا تھا جسکی وجہ سے اس وقت لائیبریری میں ایک وحشت ناک ماحول بن چکا تھا۔


زہرا بتول جو ریک سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھیں وہ اتنی خاموشی پر اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے لپیٹ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی اور اس طرح دیکھنے پر اسکے دل میں ڈر اور بھی زیادہ بڑھنے لگا۔


"ارے یار کیا مسئلہ ہے چارج کو بھی ابھی ختم ہونا تھا۔"


زیرون راجپوت جو دروازے کے پاس کھڑا کسی کو کال ملا رہا تھا لیکن لائبریری بند ہونے کی وجہ سے وہاں نیٹ ورک نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے کسی کو کال نہیں لگ رہا تھا۔


اسکے بار بار کال ملانے کی وجہ سے اسکے موبائل کے چارج ختم ہوئے تو وہ موبائل بند ہوتے ہی زور سے چیخ کر بولا۔


"تم سکون سے بیٹھ نہیں سکتے کیا پہلے سے ہی تمھاری وجہ سے مجھے برے برے خیالات آ رہے ہیں۔"


اسکی چیخ پر زہرا بتول اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اندھیرے میں اسکے بڑے سے ہیولے کو گھورتی ہوئی بولی۔


"کیسے خیالات آ رہے ہیں میڈم زرا روشنی ڈالنا۔؟؟


اندھیرے میں اسکی آواز سن کر زیرون راجپوت دروازے کے قریب کھڑے ہی زور سے بولا۔


"ہائے اللہ یہ بندہ پتہ نہیں کس مٹی سے بنا ہے مجھے ڈرانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا مجھے لگتا ہے اس کی ماں نے اسکے وقت زیادہ کریلے کھائے ہوگے تبھی یہ مجھے ایک سڑے ہوئے کریلے کی طرح لگتا ہے۔"


زہرا بتول اسکی سوال کا جواب دینے کے بجائے زور سے بڑبڑاتے ہوئے خود سے بولنے لگی۔


"تم پاگل حجابن میری موجودگی میں تم مجھے گالیاں دے رہی ہوں تمھاری اتنی ہمت ابھی بتاتا ہوں میں تمھیں۔"


اسکے ارشادات جب زیرون راجپوت کے تیز کان میں جا کر لگی تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور اندھیرے میں بکس ریکس پر ہاتھ رکھ کر ٹٹول ٹٹول کر اسکی جانب بڑھنے لگا۔


"تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے کبھی تم مجھے کسی طوائف سے تشبیح دیتے ہوں تو کبھی ایک مکار لڑکی سے اور اب ایک گندی زبان یوز کرنے والی لڑکی سے آخر تمھاری پرابلم کیا ہے کیوں تم نے میرے لیے اتنی غلط فہمیاں پالی ہوئی ہے۔؟؟


زہرا بتول نے اندھیرے میں گھورتے ہوئے کہا۔


"حجابن کیا تم اس وقت بغیر نقاب کے میرے سامنے کھڑی ہوں۔؟؟


زیرون جو اسکے قریب ٹٹول ٹٹول کر آ رہا تھا اسکی آواز قریب سن کر مسکرا کے اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ اپنا ہاتھ ریک کے بجائے کسی نرم و ملائم چیز پر محسوس کر ساکت ہو کر اس سے تعجب سے بولا۔


"حجابن تم رو رہی ہوں۔؟؟


زہرا بتول جو اپنے رخسار پر اسکے بھاری ہاتھ کے لمس کو محسوس کر اس وقت بولنے کے قابل نہیں تھی اسکی آواز پر آنسو بہانے لگی جب زیرون کو اپنی چوڑی ہتھیلی پر نمی کا احساس ہوا تو اسے اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا


"پلیز اپنے ہاتھ ہٹاؤ۔"


زہرا بتول نے نمی گھلی آواز میں ہلکے سے کہا۔


"ہوں سوری۔"


زیرون راجپوت اسکی بات پر اپنے ہاتھ اسکے بھیگے رخسار سے ہٹاتے ہوئے سٹپٹا کے بولا۔


"سوری حجابن یہ سب لائٹ آنے کی وجہ سے ہوا تم بھی جانتی ہوں اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے۔"


اچانک سے لائٹ آنے کی وجہ سے ان دونوں کی آنکھیں بند ہوگئی تھوڑی دیر بعد جب زیرون نے اپنی آنکھیں کھولی تو اپنی آنکھوں کے آگے ایک سرخ و سفید چہرہ دیکھ وہ اپنی سانسوں کو تھمتے ہوئے محسوس کرنے لگا وہ اپنا سد بدھ کھو کر یک ٹک اس چہرے کو تکنے لگا اسے ہوش سسکیوں کی آواز پر آیا تو وہ اپنی نظروں کو پھیر کر دوسری طرف رخ کر کے کھڑا ہو کر بولا۔


وہ انسان جو کسی کے آگے سر جھکاتا نہیں تھا آج دوسری بار اس لڑکی کو سوری کہہ رہا تھا جس سے وہ بے فناہ نفرت کرتا تھا۔


"تمھاری وجہ سے آج میں بے حجاب ہوئی ہوں صرف تمھاری وجہ سے یہ لائیبریری میں اپنے ساتھ مجھے بند کروانے کا پلان تمھارا ہے ناں۔؟؟


زہرا بتول آج خود کو کسی غیر مرد کے سامنے بے پردہ ہوتے ہوئے دیکھ نیچے بیٹھ کر اپنے گھٹنوں میں سر دے کر بری طرح سے رونے لگی۔


"نہیں بلکل بھی نہیں یہ میرا پلان نہیں ہے یہ صرف ایک حادثہ ہے اس میں میرا نہیں ہمارے اللہ کا پلان ہے حجابن ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے یہ وہی کر رہا ہے میں نہیں۔"


زیرون راجپوت نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔


"جھوٹ مت بولو تم نے مجھے بے حجاب کرنے کے لیے یہ سب سوچا ہے۔"


زہرا بتول اسی طرح سر گھٹنوں میں دئیے سسکتی ہوئی بولی۔


"نہیں میں سچ کہہ رہا ہوں یہ میرا پلان نہیں ہے."


آج وہ خود کی صفائی دیتے ہوئے خود کو بہت بے بسی محسوس کر رہا تھا۔


"تم یہاں سے چلے جاؤں پلیز۔"


اسکی بات پر زہرا بتول نے چیختے ہوئے کہا تو اسکی بات پر زیرون راجپوت کی آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر نیچے گرا۔


"یہ مم۔میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔؟؟


زیرون راجپوت نم آنکھوں سے اسے زور سے سسکیاں لیتے ہوئے دیکھ کر اسکی سسکیوں کو سن کر اپنے دل کو کسی تیز دار چھری سے کٹتے ہوئے محسوس کرتے ہوئے اچانک سے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑبڑا کر ہلکی آواز میں خود سے کہتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا۔

سلطان امشال کو باہوں میں اٹھائے اس سنسان ہرے بھرے جنگل میں چل رہے تھے امشال جو اس وقت ہوش میں تھی وہ اپنے ہاتھ انکی گردن پر رکھے انکے چہرے کے خد و خال کو دیکھ رہی تھیں۔


بہار کا موسم تھا اس برفانی جگہ میں برف کی جگہ خوبصورت جنگلی پھولوں کی چادر ہر طرف پھیلا ہوا تھا ان دونوں کو وہ نوجوان پاس کے ایک چھوٹے سے کلینک میں چھوڑ کر چلا گیا تھا امشال کی پٹی کرانے کے بعد سلطان اسے لیے ان لوگوں سے بچنے کے لیے اس جنگل کی طرف آیا تھا۔


تبھی سامنے ایک پھولوں میں گرے چھوٹے سے لکڑی کے گھر کو دیکھ کر سلطان عالم شاہ نے اپنے قدم اس گھر کی طرف بڑھا دئیے۔


"کپل لینڈ۔"


گھر کے سامنے پہنچ کر جب ان دونوں نے باہر لگے بڑے سے بورڈ پر لکھیں نام کو پڑھا تو حیرت سے دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ساتھ بول اٹھے۔


امشال انکی نظروں پر تیزی سے اپنی آنکھیں ہٹا کر بورڈ کے نیچے لکھے رولز کو پڑھنے لگی تو اسے بورڈ پر نظریں جماتے ہوئے دیکھ انہوں نے بھی بورڈ کی جانب دیکھتے ہوئے ان رولز کو پڑھنا شروع کر دیا۔


یہ گھر ایک اٹالین کپل نے اس لیے بنایا تھا تاکہ وہ یہاں اس سنسان ہرے بھرے جنگل میں اکیلے گزارے وہ ایک سال تک یہاں رہے تھے اور یہ گھر اسی طرح چھوڑ کر اپنے ملک چلے گئے تھے لیکن جانے سے پہلے انہوں نے اپنی طرح دنیا سے کٹ کر کپل کے لیے اس گھر کے دروازے کھول دئیے تھے۔


مگر بورڈ پر لکھیں انکے رولز کے مطابق یہاں کپل رہ سکتے تھے ورنہ نہیں۔


"قدرت کی جانب سے ہمیں اتنا خوبصورت موقع ملا ہے بیوی کیوں نہ ہم ان کپل کے بنائے ہوئے رولز کو فالو کریں۔"


سلطان جب رولز پڑھیں تو انہوں نے شریر نظروں سے امشال کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"سلطان آپ بھی ناں اس وقت ہم مصیبت میں ہے اور میری پشت پر چاقو لگنے کی وجہ سے مجھے اتنا درد ہو رہا ہے اور آپ کو اپنی رومینس کی پڑی ہے۔"


امشال نے گھورتے ہوئے انکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"ارے مجھے رومینس کی نہیں پڑی ہے بیگم وہ تو اس بورڈ پر رولز والی لائن میں سب سے اوپر والی لائن میں لکھا ہے نو فائٹ اونلی رومینس اور اگر ہم صرف فائٹ کرے گے تو ہمیں وہ اندر بیٹھا کتا باہر نکال دیگا۔"


سلطان عالم شاہ نے امشال کے رخسار کو اپنے لبوں سے چھو کر سامنے اندر گھر کے خوبصورت پھولوں سے سجے صحن میں کھڑے سیاہ کتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔


"یہ دیکھو جاناں اس بورڈ پر اس کتے کے بارے میں بھی رولز میں لکھا ہوا ہے یہ ان لوگوں کا کتا ہے جو انہوں نے یہاں کپل پر نظر رکھنے کے لیے چھوڑا ہے۔"


سلطان نے بورڈ کی جانب امشال کو متوجہ کراتے ہوئے۔


"کیونکہ اگر کسی کپل کے درمیان فائٹ ہوا تو یہ کتا ان کپل کو باہر کا راستہ دکھا دے گا دیکھوں ڈرالنگ تمھارے گھورنے پر وہ ہمیں کیسے گھور رہا ہے۔"


سلطان نے اسکا چہرہ اس جانب کیا جہاں وہ کتا کھڑا انہیں بُری طرح سے گھور رہا تھا کتا انکے جانب دیکھ رہا تھا انکو اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر وہ خونخوار نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔


"سس۔سلطان وہ ہمیں ہی گھور رہا ہے پلیز چلے یہاں سے چلتے ہیں ورنہ یہ ہمیں کاٹ لیں گا۔"


امشال سامنے صحن میں اتنا بڑا کتا دیکھ کر ڈر کے مارے سلطان کے چوڑے سینے سے چپک کر لگ کر ان سے بولی۔


"میں ابھی اس کے سامنے ایک کام کروں گا تو مجال ہے یہ ہہیں کاٹے جاناں۔"


سلطان نے امشال کو لیے اپنے قدم اندر کی طرف بڑھاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔


"کک۔کیسا کام سلطان۔؟؟


امشال نے حیرانگی سے انکی جانب دیکھا سلطان عالم شاہ اسکی بات کا جواب دئیے بغیر اسکی لبوں پہ جھکا اچانک اس عمل سے امشال کی آنکھیں بڑی ہوگئی وہ کتا سلطان کے اس حرکت پر صحن سے باہر نکلا۔


کتے کے باہر نکلنے کے باوجود بھی سلطان نے اسے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا وہ اسے اپنی باہوں میں لیے سامنے رکھے لکڑی سے بنے صوفے پر لیجا کر اسے لیٹا کر اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر پیچھے رکھیں کشن میں دھنسا کر اپنا لمس اسکی گردن پر چھوڑنے لگا۔


"آہہہہہہہہہہہہہہ۔"


امشال انکی گستاخیوں پہ انکی تنگ گرفت میں بُری طرح سے کسمسا نے لگی اسکے مچلنے پر سلطان نے اسکی نازک کمر کو سختی سے پکڑا تو انکی سختی سے پکڑنے پر امشال کے منہ سے ایک سسکاری نکلی۔


"رک جائے پلیز سلطان میری کمر میں درد ہو رہا ہے پلیز چھوڑیں ناں مجھے۔"


امشال انکے چوڑے سینے پر اپنے نازک ہاتھ رکھ کر انکی طرف دیکھتے ہوئی بولی۔


"ڈارلنگ اگر میں رک گیا ناں تو وہ جلاد یہاں آکر ہمیں اس اندھیرے جنگل میں کتوں کی طرح بھگائے گا۔"


سلطان تھوڑا سا اوپر ہو کر صوفے کے اوپر جگمگاتے جومڑ کی روشنی کی وجہ سے روشن امشال کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کے سرخ لبوں پہ انگلی پھیرتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا۔


"لیکن میری کمر۔"


امشال نے درد سے تڑپ کر کہا۔


"بہت خون بہہ رہا ہے جان تم روکو میں ابھی میڈیکل باکس ڈھونڈ کر آتا ہوں۔"


اسکی تڑپتی آواز پر سلطان عالم شاہ اسکے اوپر سے ہٹے اور پریشانی سے اسے اٹھا کر اسکی پشت کو اپنی طرف کر اسکے فراک پے لگیں خون کو دیکھ اسکی فراک کی زپ کھول کر شولڈر کی جانب سے اسکی فراک کو نیچے کی طرف سرکانے لگے۔

امشال جو درد کی وجہ سے اپنی آنکھیں موندے اپنے لبوں کو دانتوں کے تلے دبائے ہوئے تھی۔


انکی اس حرکت پر شرم و حیا سے اپنے دانت لبوں میں گاڑ گئی جسکی وجہ سے اسکے لبوں سے خون بہنے لگا سلطان کا رخ اسکی پشت کی جانب تھا۔


اسی وجہ سے وہ اسکے گلزار لبوں سے نکلتے خون سے انجان سامنے اسکی گوری کمر پر بہتے خون کو دیکھتے فکر مندی سے بول کر اپنی جگہ سے اٹھے اور پریشانی سے اس چھوٹے سے گھر میں میڈیکل باکس ڈھونڈنے لگے۔


چھوٹے سے کچن میں انہیں ایک چھوٹا سا باکس ملا تو وہ اسے لیے واپس صوفے کی جانب بڑھے اور سامنے ٹیبل پر باکس کو رکھ کر امشال کو پیٹھ کے بل لیٹا کر باکس کے اندر سے ایک روئی نکال کر اسکی مدد سے اسکی کمر پر لگے خون کو صاف کرنے لگے۔


امشال انکی انگلیوں کی لمس اپنی کمر پر سرکتے ہوئے محسوس کر اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سامنے رکھیں کشن کو پکڑ کر سختی سے اس کشن کو جکڑ کر اپنے اوپری لب سختی سے نیچلے لب میں دبا کر بری طرح سے کانپنے لگی۔


"چلو جانم اندر روم میں چل کر ہم اپنا ادھورا کام ختم کرتے ہیں۔؟؟


اسکے لرزتے وجود کو دیکھ کر انہیں ایک شرارت سوجھی تو اس پر جھک کر اسکی گوری پشت پر اپنا ایک ہاتھ رکھ کر اسکی گردن سے نیچے کمر کی طرف لیجاتے ہوئے اسکی نرم و ملائم پشت پر بے باکیت سے پھیرتے ہوئے اور اسکی کان کی لو کو اپنے دانتوں میں دھنسا کر اپنی گرم سانسوں کو اسکی نازک گردن پر چھوڑ کر اپنا دوسرا ہاتھ اسکی پیٹ پر رکھ کر اسکی پیٹ پر پیار سے پھیرتے ہوئے بے باک انداز میں بولے۔


"سس۔سلطان پلیز ابھی مجھے وقت چاہیے میں اس کے لیے ابھی ریڈی نہیں ہوں پلیز ابھی نہیں۔۔"


امشال جو شرم کے مارے اپنی آنکھیں بند کیے تھی انکے مضبوط ہاتھوں کے لمس اپنے نازک سراپے پر تیرتے ہوئے محسوس کر لرزتی ہوئی بولی۔


"اوکے جانم ابھی تمھارے منع کرنے پر تمھیں چھوڑ رہا ہوں لیکن جس دن تم نے مجھے اپنا آپ سونپا نا تو اس دن تم میرے پاگل پن اور شدتوں سے سمجھ جاؤں گی کہ میرے دل میں تمھارے لیے کتنا جنون ہیں۔"


سلطان عالم شاہ نے اسکے کانپتے وجود کو اپنی مضبوط آغوش میں لے کر اور اسے کسی نازک کلی کی طرح اپنے سے لگا کر جنونیت سے بولے۔

امشال انکے سینے سے لگانے پر اپنی آنکھیں موند کر انکی باتیں سننے لگی۔


سلطان عالم شاہ جو اسے باہوں میں بھر کر صوفے پر لیٹے اسے اپنے اوپر کیے اس سے اپنے احساس کے بارے میں بتا رہے تھے۔


تبھی امشال کی سانسوں کو بھاری محسوس کرکے انہوں نے اپنی نظریں نیچے جھکا کر اسے دیکھا جو اسکی باہوں میں گہری نیند سوتی کسی خرگوش کی طرح لگ رہی تھی۔


انہوں نے اسکے معصوم چہرے کو پیار سے تکتے ہوئے اسکی پیشانی پر جھک کر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑا اور پھر اسے اپنی باہوں میں کھس کر اپنی آنکھیں موند گئے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ایس ایچ او صاحب مجھے آپ سے ایک کیس کے سلسلے میں کچھ بات کرنی ہے کیا آپ اس وقت فری ہے۔"راقم اسٹیشن کے گیٹ سے باہر نکلا تبھی پیچھے سے ایک لیڈی آفیسر نے اسے روکتے ہوئے کہا۔


ساحر جو صبح راقم کے ہاتھوں بنی اپنی درگت کی وجہ سے ابھی تک غصے سے جل رہا تھا اسٹیشن کے گیٹ کے باہر اس سرپھرے کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی لیڈی آفیسر کو دیکھ کر اسے اپنا انتقام لینا کا سنہرا موقع ملا۔


وہ سبکی ٹیبل پر گلدستے کے اندر سجے پنک روز کو جو کے ایک کانسٹیبل ہمیشہ سبکی ٹیبل پر رکھتا تھا نکال کر ان پنک روز کو لیے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ سجا کے اوپر ٹیرس کی جانب بڑھا۔


"جی ۔"


راقم نے بات کرنے کے لیے اپنے لب جیسے ہی کھولے تبھی اوپر سے پنک روز کی پنکھڑیاں ان دونوں پر گرنے لگی لیڈی آفیسر جو راقم کی ڈیشنگ پرسنالٹی کی وجہ سے پہلے ہی دیوانی ہوگئی تھی۔

اچانک سے اپنے اوپر پنک روز گرتے ہوئے دیکھ لبوں پہ مسکراہٹ سجا کر راقم کی جانب شرما کر دیکھنے لگی۔


دوسری طرف ساحر جو ٹیرس پر بیٹھا ایک ایک پھول کے پتے توڑ کر نیچے پھینک رہا تھا اس لیڈی آفیسر کو شرماتے ہوئے دیکھ شریر مسکراہٹ چہرے پر سجا کر راقم رحیم شاہ کی جانب دیکھنے لگا جسکا چہرا شدید غصے سے سرخ ہو رہا تھا ساحر اب پھول پھینکنا چھوڑ کر اسکا ری ایکشن دیکھنے لگا۔


اوپر سے پھول گرنے بند ہوگئے تو راقم سکوں کی سانس لیکر اپنی بات کہنے کے اپنے لب کھولنے لگا تو ساحر اسے پھر سے بات کرنے کے لئے لب کھولتے ہوئے دیکھ دوسرا پھول اٹھا کر اسی طرح پتیاں توڑ کر ان پر گرانے لگا۔


راقم کی جب نظریں اوپر بیٹھے ساحر پر پڑی تو وہ شدید غصے سے اپنی مٹھیاں کھس کر لمبے لمبے قدم لیکر واپس اسٹیشن کے اندر داخل ہوا اور غصے سے ٹیرس کی جانب بڑھا۔


"وو۔وہ سوری دراصل یہ پھول سڑ رہے تھے تو میں نے سوچا کیوں نہ اوپر جاکر انہیں ہوا میں اڑا دوں لیکن یہ اوپر اڑنے کے بجائے تمھارے اور لیڈی آفیسر کے اوپر گر گئے۔"


ساحر جو اس سرپھرے ڈیول کی نظروں میں آنے کی وجہ سے اوپر ہڑبڑا کر چھپنے کے لیے کوئی جگہ تلاش کر رہا تھا سامنے اسے آتے ہوئے دیکھ کر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔


"بہت شوق ہے ناں ایسے بولڈ آئیڈیا سوچنے کا تمھیں کوئی بات نہیں آج میں تمھارا یہ شوق بھی پورا کر دیتا ہوں۔"


راقم رحیم شاہ نے سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔


"کک۔کیا مطلب۔؟


ساحر نے ہکلاتے ہوئے کہا۔


"زیادہ بات میرے سامنے مت کروں کیونکہ مجھے بولنے والے لوگوں سے بھی چڑ ہے تم یہاں جتنے کوٹھے ہیں ان پر جا کر اس آر آر کے آدمیوں پر نظر رکھوں گے۔"


انگلی اٹھا کر گھورتے ہوئے۔


"وہ کیا کرتے ہیں کہاں جاتے ہیں کتنا ڈرگز اسمگل کرتے ہیں سب کے متعلق پتہ کر کے مجھے روز واپس آ کر اپڈیٹ دوں گے سمجھے اب جاؤں یہاں سے تمھارے ٹائم شروع ہوتے ہیں اب ٹک ٹک ون ٹک ٹک ٹو۔"


راقم رحیم شاہ نے اپنی سیاہ رسٹ واچ پر انگلی رکھ کر آخر میں بولا تو اسکی بات پر ساحر چہرے پر سنجیدگی سجا کر وہاں سے بھاگ نکلا۔

کیونکہ وہ اب اس سرپھرے کے ہاتھوں اپنی ہڈی نہیں توڑنا چاہتا تھا۔



🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"بھائی اللہ کے نام پر کچھ دے دو یہ دیکھو میرے شوہر کا ایک ہاتھ کٹا ہوا ہے میں بہت دنوں سے بھوکی ہو میرا شوہر بھوکا ہے اور میری بیٹی بھی بھوکی ہیں۔"


پاکیزہ راجپوت سامنے ایک لمبے تڑنگے فقیر کو دیکھ چہرے پر شریر مسکراہٹ سجا کر نیچے گرے ایک کوہلے سے اپنا خوبصورت چہرہ سیاہ کرتی اور اپنی ملازمہ کا بڑا سا دوپٹہ لیکر اور اسکی بیٹی کو اس سے لیکر اس کے پاس گئی اور اسکے ساتھ کھڑی ہو کر ہاتھ سامنے کھڑے سوٹ بوٹ پہنے شخص کے سامنے پھیلاتی ہوئی بولی۔


"تُم یہاں کیا کر رہی ہو۔؟یہاں سے چلی جاؤ اس وقت یہاں خطرہ ہے بے وقوف لڑکی یہ تمھارا بڑا سا راجپوت مینشن نہیں ہے یہ ایک مصروف شاہراہ ہے۔"


وہ اس وقت ایک فقیر کے بھیس میں اپنے مشن کے لیے اس وقت اس مصروف شاہراہ پر دوسرے گروہ کا انتظار کر رہا تھا تبھی وہ اس بم کو دیکھ کر اپنا دانت پیستے ہوئے بولا۔


"لٹیرے جی ویسے ماننا پڑے گا بہت اچھے میک اپ آرٹسٹ ہیں آپ میں اپنی شادی پر میک اپ کیلئے آپکو بلاؤ گی کیا آپ آئے گے مجھے دلہن کی طرح میک اپ کرنے۔؟؟


پاکیزہ راجپوت شریر نظروں سے اسکے میک اپ سے چہرے کو مہارت سے سیاہ رنگ میں اور ایک ہاتھ پر شاندار طریقے سے جلنے کا نشان بنے ہوئے اور دوسرے ہاتھ کو غائب دیکھ ستائشی نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


"شٹ اپ چلی جاؤ ورنہ۔"


اس نے شدید غصے سے اسکے کوہلے سے رنگے سفید چہرے کو دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ نیچے رکھے بوری کے اندر ڈالتے ہوئے کہا۔


"نہیں نہیں لٹیرے جی مجھے مت مارییے۔اگر آپ یہ کرے گے اور مجھے مارے گے تو ہماری بچی کا کیا ہوگا ہائے یہ کتنی چھوٹی اور معصوم سی ہے۔"


پاکیزہ اسے بوری کے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے دیکھتی اچانک سے اسکے بوری کے اندر کچھ ڈھونڈتے ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا۔


"ہماری بچی مائے فٹ مجھے تمھیں اسی دن مار دینا چاہیے تھا جس دن میرے گروہ نے تمھیں کالج سے اٹھایا تھا تو آج مجھے تم جیسی مصیبت سے نجات مل جاتا۔"


اس نے چڑتے ہوئے کہا۔


"لیٹرے جی آپ مجھے نہیں مارے گے آپ میں ہمت نہیں آپ پستول ضرور پکڑیں گے لیکن گولی نہیں چلائیں گے آپکو پتہ ہے کیوں۔"


پاکیزہ راجپوت کا ناول ہیروئن والی روح جاگ اٹھی وہ اپنی ملازمہ کے ہلکے سستے دوپٹے کو اپنی لبوں میں دبا کر شریر لہجے میں بولی۔


"چی چی ہک۔"


لیکن یہ کیا ملازمہ کا دوپٹہ منہ میں جاتے ہی اسے اپنی ستواں ناک میں عجیب طرح کی اسمیل اور منہ کے اندر ایک خراب قسم کا ذائقہ گلتا ہوا محسوس ہوا تو وہ منہ ٹھیرا کر کے جھٹکے سے دوپٹہ منہ سے نکال کر بولی۔


"کیا ہوا میری فقیرنی اپنی ملازمہ کا دوپٹہ کھا کر کیسا لگا تمھیں ۔؟؟


وہ اسکے منہ کو تھیڑا اور منہ سے عجیب طرح کی آوازیں نکلتے ہوئے دیکھ شریر لہجے میں بولا۔


"بہت بُرا ہک چی چی میرے فقیر جی۔"


پاکیزہ راجپوت نے منہ بناتے ہوئے کہا۔


وہ اس سے شرارت کے چکر میں ملازمہ کے کپڑے پہن کر یہاں آئی تھی اب وہ ملازمہ کے دوپٹے میں لہسن ادرک پتہ نہیں کس کس چیز کی بو کو سونگھ کر اپنا منہ بنا رہی تھی۔

زہرا بتول کی آنکھ ساری رات نہیں لگی تھی کیونکہ وہ زیرون راجپوت کی اپنے پاس موجودگی کی وجہ سے سو نہیں سکی تھی۔


لیکن فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اسکی تھکن کی وجہ سے صبح سات بجے آنکھ لگ گئی وہ بکس ریک سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر سوئی تھی۔


زیرون جو سامنے ٹیبل پر زہرا بتول سے پشت کیے بیٹھا تھا خاموشی پر مڑا تو اسے سوتے پاکر مسکرایا تبھی لائیبریری کا دروازہ کھولا۔


دروازہ کھولنے والا زیرون راجپوت کا جگری دوست ارسلان خان تھا زہرا بتول کو اسنے اکیلا سمجھ کر بند کیا تھا اس نے یہ زیرون راجپوت کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔


"پرنس تم یہاں۔؟؟؟


ارسلان نے زیرون کو ٹیبل پر اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے لپیٹ کر اسے سامنے بکس ریک کی جانب دیکھتے پایا تو آگے اسکی جانب بڑھ کر اسکا نام زور سے لیتے ہوئے کہا۔


"شششش۔"


زیرون راجپوت جو زہرا بتول کے نور کے ہالے میں مقید پاک وجود میں کھویا ہوا تھا اپنے جگری دوست ارسلان کی آواز پر غصے سے لال ہوگیا۔


"خاموش میری حجابن ابھی سوئی ہے اگر تمھاری آواز سے وہ ڈر کے باعث اٹھ گئی ناں تو میں تمھاری قبر یہی بناؤں گا۔"


وہ ٹیبل سے جمپ مار کر نیچے اترتے ہوئے ارسلان کے پاس جا کر شدید غصے سے اسکے کالر کو درست کرتے ہوئے اسکے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ کر ہلکے سے اسکے سینے پر تپکی دیتے ہوئے سرد لہجے میں بولا۔


"آہ ہاں میری حجابن۔"


ارسلان اسکے غصے کی پرواہ نہ کرتے ایک آنکھ ونک کرتا۔


"خیر تو ہے نا پرنس یہ لڑکی تمھاری کب سے ہوئی جو تم اسے میری کہہ رہے ہوں؟؟؟


شریر نظروں سے زیرون راجپوت کی جانب دیکھتا ارسلان نے کہا۔


"شٹ اپ۔"


زیرون راجپوت جو روانی میں زہرا بتول کو اپنی کہہ گیا تھا اب اپنی جھینپ مٹانے کے لیے غصے سے ارسلان کی جانب دیکھنے لگا۔


"یہ جو تم نے ابھی بکواس کی ہیں نا یہ بکواس باہر نہیں نکلنی چاہیے اگر تمھاری اس بکواس کی وجہ سے حجابن کو کچھ ہوا ناں آئی پرامسم میں تمھارے جسم سے سارا خون نچوڑ کر اسٹیفنی کے آگے ڈال دوں گا۔"


اسٹیفنی اسکے کتے کا نام تھا جو اسی کی طرح خطرناک تھا۔


"نا بابا نا میں ایسی گستاخی نہیں کروں گا تم اپنی چیزوں کے کھونے پر اتنا زیادہ وائلڈ ہو کر ہنگامہ کھڑا کرتے ہوں۔"


ارسلان اسٹیفنی کا نام سن کر ڈر سے بری طرح سے کانپنے لگا۔


"تو اپنے کسی خاص کے لیے تو تم دیوانے ہو جاؤں گے اور اس دیوانے کے ہاتھوں میں اپنی سانس کی ڈور کو نہیں کاٹنا چاہتا۔"


ارسلان نے اسکی سرخ انگارہ بنی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔


"زیادہ بکواس مت کروں اور یہاں سے جلدی سے باہر نکلوں اگر تمھاری نظریں غلطی سے بھی اس پاک لڑکی کے وجود پر چلی گئی ناں تو میں تمھارے جسم کے کسی بھی پارٹ کو نہیں چھوڑوں گا۔"


زہرا بتول کے پاک وجود پر ارسلان کی نظریں نہیں تھی اس وقت پتہ نہیں کیوں زیرون اتنا پازیسیسو ہو رہا تھا ارسلان کی موجودگی اسے پاگل کر رہا تھا۔


"سب کچھ کاٹ کر اسٹیفی کے آگے ڈال دوں گا میں گھنوں گا بھی نہیں اور اپنا کہا سچ کر دو گا اس سے پہلے کے میں اپنا کہا سچ کر دو تم ابھی کے ابھی میری نظروں کے سامنے سے غائب ہو جاؤں ورنہ میں خاور سے کہہ کر اسٹیفنی کو یہاں لانے کا کہوں گا۔"


زیرون راجپوت کا اسے ڈھیٹوں کی طرح وہی جمے دیکھ غصے سے خون کھول اٹھا۔


"اور تم اچھے سے جانتے ہوں،اسٹیفنی سے زیادہ میرا گارڈ خاور وفاداری نبھاتا ہیں کہی ایسا نہ ہو وہ اسٹیفنی کا کام اکیلے کر لیں۔"


وہ ارسلان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا کندھا نیچے جھکا کر دباؤ ڈال کر زور دیتے ہوئے بولا۔


"ظالم انسان تم نا ہی خاور کو بلاؤ نا ہی اسٹیفنی کو۔"


ارسلان نے اسکی سرخ رنگ میں بدلتی آنکھوں کو دیکھتے۔


"میرے لیے تو تم ہی کافی ہوں،اور میری اتنی مجال نہیں ہے کہ میں ایک ڈیول کی محبت پر نظر رکھوں گا۔"


ارسلان لرزتے ہوئے کہہ کر تیزی سے پیچھے مڑ کر دروازے کی جانب ایسے بھاگا جیسے زیرون راجپوت اسے سچ میں یہی دفنا دے گا اور یہ سچ بھی تھا کیونکہ زیرون راجپوت کا دل اس وقت صرف زہرا بتول پر کسی اور مرد کی نظریں پڑنے کے خیال سے جل رہا تھا اگر اس وقت غلطی سے بھی ارسلان کی نظریں زہرا بتول پر پڑ چکی ہوتی تو وہ ڈیول اپنے غصے میں بہہ کر اسے یہی زندہ دفنا دیتا۔


ارسلان کے وہاں سے جاتے ہی زیرون راجپوت ایک بار پھر زہرا بتول کی جانب دیکھنے لگا جو سر تا پیر خود کو پردے میں چھپا کر اس کے پتھر دل کو موم کر رہی تھی۔


"یہ تم کیا کر رہی ہو حجابن مت کروں ایسا ورنہ تم بہت پچھتاؤ گی۔"


وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے۔


"مجھے بدل کر تم ٹھیک نہیں کر رہی ہوں،میں بہت زیادہ جنونی ہوں اگر میں تمھارے لیے بدل گیا ناں تو میرا جنون تمھارا پیچھا نہیں چھوڑیں گا۔"


اس پاک اور نیک دل لڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے اسکی آنکھیں جنونیت سے چمکنے لگی۔


"اور میرا جنون عشق سے زیادہ جان لیوا ہیں۔"


لبوں پہ قاتلانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے اور جنونیت کی انتہا کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے کنارے سے بہتے نمی کو صاف کرتے ہوئے بھاری گھمبیر آواز میں بولتے ہوئے وہ اس پاکیزہ لڑکی کو اپنی آنکھوں میں بھسا کر نظریں اس پر سے ہٹا کر دروازے کی جانب قدم بڑھا کر وہاں سے باہر نکلا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


اپنی حرکتیں سدھارو۔

بے بی شارک ڈو ڈو ڈو ڈو ڈو۔

ورنہ بگ کے ہاتھوں مار کھاؤ۔

بے بی شارک ڈو ڈو ڈو ڈو ڈو۔

ہزار کے بدلے ایک موٹی بیاہ لاؤ۔

بے بی شارک ڈو ڈو ڈو ڈو ڈو۔

ورنہ سنگل ہو کر مر جاؤ۔

بے بی شارک ڈو ڈو ڈو ڈو ڈو۔

رگڑ رگڑ کر دھوؤں گھر کو۔

بےبی شارک ڈو ڈو ڈو ڈو ڈو ۔

ورنہ تایا کے ہاتھوں دھوتے جاؤں۔

بے بی شارک ڈو ڈو ڈو ڈو ڈو۔


سجل شریر لہجے میں سالار،شاہ ویر،اور سمیر کی جانب دیکھتے ہوئے گنگنا رہی تھی۔


"تمھیں مزا آ رہا ہے ناں ہماری حالت پر موٹی۔"


سالار راجپوت نے منہ بناتے ہوئے کہا۔


"تمھیں تو شادی کے بعد پتہ چلے گا بیٹا کے سنگل رہنا اچھا ہے یا منگل۔"


شاہ ویر راجپوت نے جلے کٹے لہجے میں کہا۔


"کس کی شادی کی بات ہو رہی ہیں یہاں۔"


ساحر جو اس سرپھرے کی وجہ سے تین دن سے سبھی کوٹھے کے چکر لگا رہا تھا آج تین دن بعد گھر آیا تھا اسی لیے اسے گھر میں کیا ہو رہا ہے اسکے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔


وہ سامنے رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے ان سے پوچھنے لگا۔


"بھائی اپنی موٹی کی اور کس کی۔"


شاہ ویر راجپوت نے اپنے بڑے بھائی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


ساحر جو صوفے پر بیٹھ کر صوفے کی بیک پر اپنا سر رکھے اپنی کنپٹیوں کو سہلا رہا تھا اپنے چھوٹے بھائی کی بات پر ساکت رہ گیا۔


وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ گیا کیونکہ شاہ ویر راجپوت کے کہے لفظوں کو سننے کے بعد اسکا دل شدت سے ٹکروں میں بٹ گیا تھا۔

وہ اچانک سے اٹھا اور سجل کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔


"سجل تم خود اپنے ہاتھوں سے میرے لیے چائے بنا کر میرے روم میں لیکر آنا اگر کسی ملازمہ کے ہاتھ بھیجا نا تو میں وہ چائے نہیں پیؤ گا کیونکہ اس وقت مجھے تمھارے ہاتھ کے چائے کی طلب ہو رہی ہیں۔"


وہ سرخ آنکھوں سے سجل کی جانب دیکھتا اپنے اوپر قابو کرتا۔


"کیونکہ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے تمھارے ہاتھ کے جادو کی وجہ سے شاید ٹھیک ہو جائے اور میں اس وقت آرام کرنے جا رہا ہوں اگر تم لوگوں میں سے مجھے کسی نے بھی ڈسٹرب کیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔"


ان تینوں کو گھورتے ہوئے تنبیہ کرتا لمبے لمبے ڈگ بڑھتا اوپر اپنے روم کی جانب بڑھا اسے اچانک سے اوپر کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر تینوں نے سخت حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جبکہ سجل چائے بنانے کے لیے کچن کی بڑھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"بھائی آپکی چائے۔"


وہ جب چائے لیکر اسکے روم میں داخل ہوئی تو اسے غصب ناک تاثرات چہرے پر سجائے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھے ہوئے دیکھ کر اسکی جانب بڑھنے لگی۔


"ڈونٹ کال می بھائی نہیں ہوں میں تمھارا بھائی۔"


اسکے منہ سے بھائی لفظ سن کے مقابل نے اپنی مٹھیاں کھسی اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے قدم اس کی جانب اسنے بڑھائے۔


"ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ بھائی میرا نا کوئی بھائی ہے نا ہی کوئی بہن میں آپ سب کو اپنا بھائی مانتی ہوں پھر آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔؟؟


سجل اسکی بات پر ڈرتی ہوئی کہتی اسے اپنی جانب کسی دیوانے کی طرح تکتے پا کر قدم آگے بڑھاتے ہوئے دیکھتی ڈر کر پیچھے قدم لینے لگی۔


"بی کاز ڈیم اٹ آئی لو یو۔"


اس نے قریب پہنچ کر اسکے ہاتھ سے چائے کی کپ لیکر سامنے کی ٹیبل پر رکھ کر جھٹکے سے اسے اسکی نازک کمر سے پکڑ کر اپنے بے حد قریب کرکے گھمبیر آواز میں بولا۔


"مجھے تم سے محبت کب ہوا اس کا تو مجھے پتہ نہیں ہے ہاں لیکن اس چیز کا مجھے اچھے سے پتہ ہے کہ میں تم سے جنونی قسم کی محبت کرتا ہوں۔"


وہ اسکی نازک کمر پر گرفت سخت کرتا ایک ہاتھ سے اسکے رخساروں پر شرارت سے اپنا لمس چھوڑتے اسکی زلفوں کو گھورتے ہوئے ہاتھ سے انہیں ہٹاتے۔


"میں تم پر تمھارے وجود پر بس اپنی مہر لگتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں کسی اور کی نہیں پھر جاناں وہ کون ہے جس کے ساتھ تمھیں جوڑ کر تم پر اسکے نام کی موہر لگا کر تمھیں مجھ سے دور کرنے کی سازش کر رہے ہیں گھر والے۔؟؟


اسے اس کا یوں خود سے دور ہونا اچھا نہیں لگا تو شدید غصے سے اپنا لال بھبوکا چہرہ لیے اپنا مضبوط گرفت اسکی نازک کمر پر سخت کرتا سخت گیر لہجے میں بولا۔


"آہہہہہہ میرا ہاتھ چھوڑیں یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔؟؟


اسکی سخت گرفت پر اسکی سرمئی آنکھیں بھیگنے لگی۔


"پرنسس مجھ سے دور جانے کا سوچنا بھی مت کیونکہ تم صرف میری ہوں کوئی تمھیں مجھ سے چھین نہیں سکتا گھر والے بھی نہیں جہنوں نے تمھارا نام جس کے ساتھ جوڑا ہے میں آج ہی اسے ختم کر دوں گا۔"


اسکے خود کو چھڑوانے پر وہ جنونیت سے اسکے مزاحمت کرتے ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں جکڑ کر اسے دونوں کندھوں سے پکڑتے۔


"اگر تم اسے مرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی ہوں تو خود اس رشتے سے انکار کر دو کیونکہ اگر تم انکار کروں گی تو میں اس کو چھوڑ دوں گا یہ تمھارے لیے لاسٹ وارننگ ہیں۔"


اپنی انگلی اسکی نازک کمر پر گاڑتے ہوئے۔


"اور اگر تم نے میری اس وارننگ کو ہلکے میں لیا نا تو میں کیا کروں گا اسکا مجھے بھی پتہ نہیں ہے پھر مت کہنا میں نے تمھیں نہیں بتایا تھا۔۔"


اپنی جنون سے بھری سرخ آنکھوں سے اُسے شدید گھورتے ہوئے اسے بالوں سے پکڑ کر اسکا چہرہ اوپر اٹھا کر اپنا چہرہ اسکے چہرے کے بے حد قریب کرتے وہ اپنی گرم سانسوں کو اسکے چہرے پر چھوڑتے ہوئے۔


"کروں گی نہ تم اس شادی سے انکار سے انکار پرنسس۔؟؟


اچانک سے اسکی آنکھیں جنون کے باعث سرخ ہو گئی۔


"آآ۔آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں چھوڑیں نا مجھے پلیز۔"


سجل کی آنکھیں اس جنونی انسان کی سخت گرفت کی وجہ سے بھیگ رہی تھی وہ اپنے لبوں کو ہلاتے ہوئے درد بھری آواز میں بولی۔


"تم یہ ضد چھوڑ دوں جاناں کیونکہ میں تمھیں کبھی بھی چھوڑوں گا نہیں پرنسس اپنی آخری سانس تک بھی نہیں کیونکہ میں تمھیں جلد اپنے ساتھ باندھ کر رکھوں گا چاہے خوشی سے یا زبردستی سے اگر تم نے دادا کے پاس جا کر اس رشتے سے انکار نہیں کیا ناں تو میں اپنی جان لے لوں گا ایسی بھیانک طریقے سے جسکا کبھی تم نے سوچا بھی نہیں ہوگا اور میری موت کی زمہ دار تم ہوگی۔"


اسے جنونیت سے زور سے جھنجھوڑ کر وہ کہتا اسے جھٹکے سے چھوڑ کر غصے سے روم سے باہر نکلا جبکہ سجل اسکے اچانک چھوڑنے پر پیچھے صوفے پر جا کر گری تو اسکی بات پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"سلطان یہ آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔؟؟


امشال کچن سے ایک کیک پلیٹ میں ڈال کر کچن سے باہر نکلی تو انہیں سامنے اس چھوٹے سے لاؤنج میں سیڑھی پر چڑھے فانوس اور بلب کو نکال کر انکو کچھ ڈھونڈتے ہوئے پاکر وہ ان سے پوچھنے لگی۔


"بیوی میں کمیرہ ڈھونڈ رہا ہوں۔"


انہوں نے مصروف انداز میں کہا۔


"کیا کمیرہ۔"


امشال کیک کا چھوٹا سا پیس منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔


"ہاں ڈارلنگ کیمرہ مجھے اس گھر کے مالکوں پر اب شک ہو رہا ہے۔"


سلطان سیڑھی سے نیچے اتر کر اسکے قریب آکر بولے۔


"آپ کو ان پر شک کیوں ہو رہا ہے سلطان۔؟؟


کیک کا دوسرا پیس انکی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔


"ڈارلنگ تم زرا اس گھر کی ایک ایک چھوٹی بڑی چیزوں کو غور سے دیکھوں۔"


سلطان نے کیک کا پیس منہ میں لیتے ہوئے اسے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔

پورا گھر میں کیمرہ وغیرہ ڈھونڈنے کے بعد جب انہیں کچھ نہیں ملا تو وہ اپنی چھان بین چھوڑ کر اسکی جانب بڑھے۔


"کیا تمھیں ان سب چیزوں کو دیکھ کر ان سکیور فیل نہیں ہو رہا ہے ڈارلنگ۔؟؟


انہوں نے آگے جھک کر اسکے لبوں پہ لگی کریم کو انگلی کی مدد سے ہٹاتے ہوئے کہا۔


"نہیں مجھے تو بلکل بھی یہاں آ کر ان سکیور فیل نہیں ہو رہا ہے۔"


امشال انکی نزدیکی پر سٹپٹا کے پیچھے ہوئی۔


"آپ کو کیوں ہو رہا ہے یہاں ان سکیور فیل جبکہ میں یہاں تو بہت زیادہ سکون فیل کر رہی ہوں۔"


نظریں نیچے جھکا کر وہ ہلکی آواز میں بولی۔


"تم بہت بھولی ہوں بیوی۔"


آگے بڑھ کر انہوں نے پیار سے اسکے سر پر مارتے ہوئے۔


"اس دنیا کے بُرے لوگوں سے ناواقف ہوں تم جان ویسے چلوں یہ بھی اچھا ہے تمھارے لیے کیونکہ بُرے لوگوں کی اصلیت انسان کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔"


انہوں نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔


"سلطان آپ اتنے ڈراؤنے انداز میں کیوں بات کر رہے ہیں آج آپ اس وقت ایسا کیا فیل کر رہے ہیں جسکی وجہ سے آپ اس طرح کی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔؟؟


امشال انکے کھلے گریبان سے جھانکتے انکے چوڑے سینے پر ہاتھ رکھ کر انکی ڈھرکنوں کو محسوس کرتی ہوئی بولی۔


"ڈارلنگ میں جو فیل کر رہا ہوں یہ اگر میں نے تم پر ظاہر کیا نا تو تم مجھ سے دور ہو جاؤں گی۔"


امشال کو اپنی باہوں میں بھینچ کر اسکے ریشمی بالوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے۔


"اور یہ مجھے کبھی منظور نہیں ہے کیونکہ تمھاری دوری مجھے پاگل بنا دیگی اور میں کئی اپنے پاگل پن کی وجہ سے اس پوری دنیا میں آگ نہ لگا دوں۔"


اسی طرح وہ اسے سینے سے لگائے اسکی انگلیوں کو اپنی مضبوط انگلیوں میں پھنسا کر جنونیت سے بولے۔

امشال انکے لہجے میں جنونیت محسوس کر بری طرح سے لرز اٹھی۔


"سلطان کیا سچ میں آپ مجھ سے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیں۔؟؟


وہ اپنی نظریں ان پر جما کر نم آواز میں پوچھنے لگی۔


"ہاں جاناں میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اپنی جان سے بھی زیادہ۔"


انہوں نے اسکی نم گالوں پر پھسلتے موتیوں کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا۔


"آپکو مجھ سے کب محبت ہوئی تھی سلطان۔؟؟


انکی لمس اپنے لبوں کے کناروں پر محسوس کر وہ شرم سے اپنی آنکھیں میچ کر بولی۔


"جب میں نے تمھیں پہلی بار دیکھا تھا تب جاناں مجھے تم سے بے حساب محبت ہوگیا تھا۔"


انہوں نے اسکے نرم رخسار پر اپنے لب رکھ کر خمار بھری آواز میں کہا۔


"پہلی بار کب ہماری پہلی ملاقات تو تب ہوئی تھی ناں جب آپ اٹھائیس سال کے تھے اور میں چودہ سال کی تو پھر اس وقت آپکو کیسے ایک چودہ سالہ چھوٹی سی لڑکی سے محبت ہوئی تھی سلطان۔؟؟


امشال نے معصومیت سے کہہ کر انکی جانب دیکھا۔


"جاناں ہماری حقیقت میں تو ملاقات اس دن ہوا تھا جب تم سرخ رنگ کی ساڑھی میں میرے سامنے آئی تھی تب مجھے احساس ہوا تھا۔"


اسکی معصومیت سے آنکھیں پھڑپھڑانے وہ دیوانہ ہوگئے اور آگے بڑھ کر اسکی دونوں آنکھوں کو پیار سے چھوتے ہوئے۔


"تم اب وہ چودہ سالہ بچی نہیں بلکہ میری شرعی اور قانونی بیوی ہوں میں نے اس وقت پہلی بار اپنا دل تمھارے لیے زور سے ڈھرکتے ہوئے محسوس کیا تھا۔مگر میںنے جاناں تمھاری معصومیت کی وجہ سے خود کو بہت روکا۔"


اسے اپنی مضبوط باہوں میں بھر کر وہ اسے اٹھا کر سامنے بڑی سی کھڑکی کی طرف لیجاتے ہوئے۔


"کیونکہ جانم تم اس وقت میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچتی تھی جس طرح آج سوچتی ہوں میں نے اس وقت خاموشی اختیار کی کیونکہ میں اچھے سے جانتا تھا میری محبت تمھیں کسی دن ضرور پگھلا دے گا اور وہ دن آچکا ہے اور میں بہت زیادہ خوش ہوں۔"


کھڑکی کے سامنے رکھی گول نما نرم بستر پر بیٹھ کر انہوں نے پیچھے لکڑی سے بنے وال کے بیک سے ٹیک لگا کر اسے کسی نازک گڑیا کی طرح اپنے سے لگاتے ہوئے کہا۔


"میں بھی بہت زیادہ خوش ہوں آپکا ساتھ پاکر سلطان۔"


امشال انکے چہرے کو پکڑتی ہوئی نرم لہجے میں بولی۔


سلطان عالم شاہ جو اسکے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے اسکے سرخ لبوں کو ہلتے ہوئے دیکھ رہے تھے اسکی معصومانہ اظہار پر سرشاری سے اسے نیچے بستر پر لٹا کر اپنے شرٹ کے بٹن کھولنے کے بعد انہوں نے اپنا نکال کر نیچے پھینکا۔

اس پر جھک کر اسکے دونوں ہاتھ اوپر گول نما سرخ کشن کے اندر دھنسا کر اپنے بھاری وجود کے نیچے اسے چھپاکر وہ اسکے گلاب لبوں کو اپنی سخت لبوں کی دسترس میں لے کر اسکی سانسوں میں اپنی محبت کی مہک گھولنے لگے۔


امشال انکی اچانک سے اپنے اوپر جھکنے پر خود کو سنبھال نہ پائی اور آنکھیں پھاڑ کر انہیں اپنے اوپر جھکے گستاخیاں کرتے ہوئے دیکھنے لگی۔


امشال کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں انکا وجود چمکتے ہوئے دیکھتی مبہوت زدہ اپنے ہاتھ انکی پشت پر رکھ کر انکے لمس کو اپنی گردن پر پھسلتے ہوئے محسوس کرتی سکون سے اپنی آنکھیں موند گئی۔


تھوڑی دیر بعد جب سلطان کو اسکی بھاری سانسوں کی آواز سنائی دی تو انہوں نے اپنی نظریں اوپر اٹھا کر دیکھا تو اسے سوتے ہوئے دیکھ کر انکے لب خوبصورتی سے مسکرا اٹھے۔

"جتنا سونا ہے تمھیں ڈارلنگ سو جاؤ کیونکہ کل رات میں تمھیں بلکل بھی سونے نہیں دوں گا۔"

وہ اسکی پیشانی کو لبوں سے چھوتے ہوئے معنی خیز سے کہہ کر اسے اپنی باہوں میں بھر کر اپنی آنکھیں موند گئے۔

یونیورسٹی کے کیفی ٹیریا میں زیرون راجپوت ارسلان اور باقی کے چھ گروپ ممبرز کے ساتھ اپنے مخصوص ٹیبل پر بیٹھا کافی کے گھونٹ بھر رہا تھا۔


"یار بہت سی بولڈ لڑکیوں کے ہم نے مزے لیے ہیں مگر کبھی کسی برقعے والی کا نہیں لیا کیا خیال ہے کسی برقعے والی کو پٹا کر اپنی رات رنگین بنا لیں۔؟؟


پیچھے بیٹھے لڑکے کی بات پر اسکی نیلی آنکھوں کے آگے زہرا بتول کا پردے کے ہالے میں چھپا سراپا آیا تو اس نے غصے سے اپنی مٹھیاں کھسی۔


"یار تمھاری بات سن کر میرے منہ میں پانی آ رہا ہے۔"


دوسری آواز پر شدید غصے سے زیرون راجپوت کے ہاتھ کی نسے ابھرنے لگی پیشانی پر نس ابھرنے کی صورت لکیر نظر آنے لگا۔


"ارے یار وہ دیکھوں ہماری شکار خود چل کر ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔"


تیسری آواز پر زیرون نے اپنی سرخ نیلی آنکھوں کو انکی جانب کیا جو سامنے اپنی حوس بھری نگاہوں سے سامنے کیفی ٹیریا کے اندر داخل ہوتی مکمل پردے میں خود کو چھپائی لڑکی پر مرکوز تھیں۔


زیرون راجپوت کی نظریں جب کیفی ٹیریا کے دروازے سے اندر داخل ہوتی لڑکی پر پڑی تو اسکا چہرہ انگار برسانے لگا۔


سامنے زہرا بتول پردے میں خود کو چھپائے کیفی ٹیریا کے اندر داخل ہوکر نظریں نیچے جھکائے ایک ٹیبل پر بیٹھ گئی تھی۔


زیرون راجپوت نے اپنی سرخ آنکھوں کو ان لڑکوں کی جانب کیا تو انہیں زہرا بتول کے پاک وجود کی جانب حوس بھری نظروں سے دیکھتے پا کر وہ اپنا آپا کھو بیٹھا۔


غصے سے اپنا مضبوط ہاتھ ابھری ہوئی نس پر پھیرتے ہوئے اپنے قدم اس نے زہرا بتول کی جانب بڑھائیں زہرا بتول جو اردگرد سے بے خبر کافی پی رہی تھی اسکی نظر اچانک سے اس پر پڑی تو ڈنگ رہ گئی۔

کیوں کہ اس وقت زیرون راجپوت کی نیلی آنکھوں میں غصہ پاگل پن جنون سوار تھا۔


"حجابن ابھی کے ابھی یہاں سے نکل جاؤ۔"


اس کے قریب پہنچ کر زیرون راجپوت نے سرد بے تاثر لہجے میں کہا۔


زہرا بتول اسکی حکم بھرے لہجے پر جل بھن گئی۔


"کیوں نکل جاؤ کیا یہ جگہ تمھارے باپ کی ملکیت ہے جو تم مجھے یہاں سے نکلنے کے لیے کہہ رہے ہوں۔"


وہ نقاب کے اوپر سے جھانکتی خوبصورت سیاہ آنکھوں میں سرخی لیے چبا چبا کر بولی۔


"تم آرام سے نہیں مان سکتی کیا حجابن جب دیکھو مجھے زبردستی پر اکساتی ہوں۔"


زیرون راجپوت اسکی بات پر آگ بگولہ ہو گیا۔


"اس وقت میں بہت زیادہ غصے میں ہوں بنا لڑے یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤں ورنہ تم بھی میرے قہر کی زد میں آ جاؤں گی۔"


اسے اپنی سرخ آنکھوں سے گھورتے ہوئے وارننگ دیتے لہجے میں بولا۔


زہرا بتول اسکی وارننگ کرتی نگاہوں کو دیکھ ایک لمحے کو سہم گئی مگر پھر اسکا حکم بھرا لہجہ یاد آتے ہی وہ غصے سے لال ہو کر اسے چھبتی نظروں سے گھورنے لگی۔


"یہ تم مجھ پر ہمیشہ حکم کیوں چلاتے ہوں ہاں۔؟؟


تیکھے چتون سے اسے گھورتی۔


"میں تمھاری کوئی زر خرید ملازمہ نہیں ہوں جو تم مجھ پر اس وقت حکم چلا رہے ہوں ہنہہ میں بھی تمھاری طرح اس یونی کی اسٹوڈنٹ ہوں۔"


غصے سے اپنی سفید مکروتی پتلی خوبصورت انگلی اٹھا کر

اسی طرح غصے سے گھورتی۔


"تم جیسے بدمعاش اوباش ضدی گھمنڈی اور پاگل سرپھرے اسٹوڈنٹ سے میں اچھی طرح سے نبٹنا جانتی ہو،میں یہاں سے نہیں جاؤ گی تمھیں جو کرنا ہے کر لوں۔"


نفرت سے اس سرپھرے کی آنکھوں میں دیکھتی۔


"مجھے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر تم اگر مجھے مارنا چاہتے ہو تو تم مجھے مار دینا میں بنا ڈرے تمھارے ہاتھوں مر جاؤں گی لیکن اپنی آواز کبھی نہیں دباؤ گی۔"


وہ کب سے تیز گام کی طرح بولتی جا رہی تھی اس پر اپنا غصہ نکال رہی تھی زیرون راجپوت اسکی باتوں سے بیزاری سے اس پر سے اپنی نظریں ہٹا کر پیچھے پلٹا

تو سامنے ان لڑکوں پر نظر پڑتے ہی وہ غصے سے باؤلا ہوگیا۔

وہ تینوں لڑکے زہرا بتول کی جانب اپنی حوس زدہ نظریں گاڑے ہوئے اسے مستقل گھور رہے تھے۔

ان تینوں اوباشوں کی حوس زدہ نظریں اس پاک لڑکی پر مرکوز دیکھ کر زیرون راجپوت غصے سے اپنی آنکھیں بند کرتا اپنی مٹھیاں شدت سے کھسنے لگا۔


"اسٹاپ چپ کر جاؤں ورنہ میں یہاں سبکی موجودگی میں تمھیں بے نقاب کر کے تمھاری زبان کھینچ لوں گا زہرا بتول شاہ۔"


وہ غصے سے پیچھے پلٹ کر سرد لہجے میں کہتا زہرا بتول کے وجود کو زلزلے کے جھٹکوں کی طرح جھٹکے دیتے ہوئے واپس پیچھے مڑا اور اپنی سرخ نیلی آنکھوں سے ان تینوں اوباشوں کی جانب دیکھنے لگا۔


ان تینوں کی نظریں جب اس جنونی سرپھرے عاشق پر پڑی تو وہ تینوں اوباش لڑکے لرز کر رہ گئے جبکہ زیرون راجپوت نفرت سے انہیں شدید غصے سے گھورتا سامنے سے آتے ویٹر کے ہاتھوں سے کافی کے بھاپ اڑاتے دو مگ لیکر انکی جانب بڑھا۔


"کیا کہہ رہے تھے تم لوگ کچھ دیر پہلے ہمممممم بتاؤ مجھے منہ کھولو باسٹرڈ اب ڈر کیوں رہے ہوں ہاں بولو کیا بکواس کر رہے تھے تم تینوں خبیثوں۔؟؟


کافی کا مگ اپنے پیچھے آ رہے ہیں ارسلان کو پکڑاتے ہوئے۔


"برقعے والی کے ساتھ مزا کرنا ہے تم تینوں ہڈ حراموں کو بہت شوق چڑھ رہا ہے ناں تم تینوں کو کسی پاک ان چھوئی لڑکی سے مزے کرنے کا۔"


جس نے زہرا بتول کو دیکھ کر شکار کہا تھا زیرون راجپوت نے اسے ٹیبل پر پھینک کر اسکی گریبان کو زور سے جکڑ کر پے در پے اسکے چہرے پر مکے برساتے ہوئے۔


"بھوت سوار ہے ناں تم تینوں کے اوپر کسی پاک لڑکی کی عزت نیلام کرنے کا میں نکالتا ہوں اس بھوت کو میں کراتا ہوں تم تینوں کو مزے."


اس لڑکے کی گردن کو شدت سے دبوچ کر وہ پیچھے پلٹ کر ارسلان کے ہاتھ سے ایک مگ لیکر اس لڑکے کی آنکھوں میں بھاپ اڑاتی کافی انڈیلنے لگا۔


"آہہہہہہہہہہہہہہ۔"


پورے کیفی ٹیریا میں اس لڑکے کی چیخ بلند ہوگئی بھاپ اڑاتی گرم کافی آنکھوں کے اندر انڈیلنے سے اسکی آنکھیں بند ہوگئی تھیں۔


آنکھیں کافی کے گرم بھاپ کی وجہ سے سوجھ کر اور گال پر جلنے کی وجہ سے سیاہ نشان بن گئے تھے جس کی وجہ سے وہ لڑکا بدصورت نظر آ رہا تھا۔


"تمھاری خبیث کمینے رال ٹپک رہی تھی نا میری حجابن کو دیکھ کے میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا ڈیم اٹ۔"


دماغ میں یکدم سے اس لڑکے کے زہرا بتول کے لیے کہا گیا شکار لفظ گھومنے لگا تو وہ جنون میں مبتلا ہو کر سامنے ٹیبل پر رکھے کانٹے کو اس نے اٹھا کر اپنے دوسرے ہاتھ سے اسے منہ سے دبوچ کر اس نے اسکا منہ کھول کر کانٹا اسکی زبان میں گھسا دیا۔


"اس پر اپنی حوس بھری نظریں ڈال کر اسے شکار کہہ کر تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا میں تم لوگوں کی باڈی کے ہر پارٹ پر اتنا وار کروں گا کسی اور دشمن کے لیے تمھارے وجود پر چھید کرنے کے لیے جگہ بھی نہیں بچے گا۔"


اس بے جان لڑکے کو چھوڑ کر اب وہ دوسرے کی طرف بڑھا۔


"نن۔نہیں پلیز مجھے جانے دو پلیز۔"


وہ تینوں لڑکے پیچھے کی طرف قدم لیجاتے ہوئے خوف سے بولتے ہوئے آخر میں رونے لگے۔


زہرا بتول اسے جنونی انداز میں جنگلی جانوروں کی طرح ان لڑکوں کو مارتے ہوئے دیکھ کر خوف سے تھر تھر کانپتی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر اپنی آنکھیں ڈر کے باعث سختی سے میچ گئیں۔


"تم لوگوں کو چھوڑ دو میں ہاں بولوں کس وجہ سے میں تم لوگوں کو چھوڑ دوں ہممممم۔؟؟


زیرون راجپوت خونخوار تیور سے انہیں گھورتا۔


"تم یہاں آنا زرا اور مجھے ایک وجہ بتانا صرف ایک وجہ کے کس وجہ سے میں تم اوباشوں کو چھوڑ دوں اگر تم نے وہ وجہ مجھے بتا دیا تو میں تم اوباشوں کو یہاں سے بنا ادھ مرا کیے جانے دوں گا۔"


ایک لڑکے کو غصے و نفرت سے اپنی طرف بلاتے ہوئے۔


"ورنہ تم لوگوں کی حرکت سے میرا تو دل اس وقت چاہ رہا ہے کہ میں تم لوگوں کو ایسی سزا دوں جسکی وجہ سے تم نا مردوں میں شمار کیے جاؤ نا ہی زندوں میں ؟؟


نفرت سے مٹھیاں کھستا۔


"تم لوگوں کی غلیظ نظروں نے اُس نیک معصوم لڑکی کو چھوا ہے جو اب یہاں اس پتھر دل میں شان سے بھس چکی ہیں۔؟؟


آگ برساتی نیلی آنکھیں ان تینوں لڑکوں پر گاڑتے وہ اپنے چوڑے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہلکی آواز میں بولا جو صرف ان تینوں نے سنا۔


"ہمیں معاف کر دو زیرون راجپوت ہمیں سچ میں پتہ نہیں تھا کہ یہ تمھاری بندی ہے۔"


ان لوگوں کے لیڈر نے روتے ہوئے گڑگڑا کر کہا۔


"اگر ہمیں پتہ ہوتا تو ہم آنکھ اٹھا کر بھی تمھاری بندی کو نہیں دیکھتے پلیز زیرون راجپوت ہمیں بخش دوں ہم سے چھوٹی سی غلطی ہوئی ہے۔"


اپنے دوست کی حالت دیکھ کر لیڈر کی پینٹ گھیلی ہوگئی تھی وہ اس وقت کسی بھی طرح سے زیرون راجپوت سے معافی مانگ کر یہاں سے بھاگنے کے لیے پر تول رہا تھا۔


"ڈونٹ میرا نام اس کے ساتھ مت ملاؤ وہ ایک شریف اور نیک پردہ دار لڑکی ہے میں نہیں چاہتا اس کے نام کے ساتھ کسی غیر مرد کا نام جوڑ جائے۔"


غضب ناک نظروں سے اسے گھورتا۔


"چاہے وہ نام میرا یعنی زیرون راجپوت کا ہی کیوں نہ ہو میرے نام کی وجہ سے اس کے پاک دامن میں کیچر اچھلے یہ میں ہر گز برداشت نہیں کروں گا۔"


نیلی آنکھیں جنون کے باعث سیاہ و سرخ رنگ میں بدل چکی تھی۔


"اور اگر کبھی ایسا ہوا تو میں اسکی حفاظت کے لیے اپنی جان لے لوں گا لیکن کسی کو حجابن پر کیچر اچھالنے نہیں دوں گا۔"


وہ آگے بڑھ کر اس لیڈر کو اس کی گریبان سے سختی سے پکڑ کر اسکی کان کے پاس ہوا اور اپنی جنون کی وجہ سے سرخ و سیاہ رنگ میں تبدیل آنکھیں سامنے آنکھیں میچے کرسی پر بیٹھی زہرا بتول کے پردے میں چھپے نازک سراپے پر گاڑتے ہوئے ہلکی بھاری گھمبیر آواز میں کہنے لگا۔


اپنے لفظ اس لڑکے کی سماعت میں ڈال کر وہ اسے پیچھے دکھیل کر نفرت سے جنونی انداز میں ان چاروں کو اپنی ٹھوکروں کی زد میں کرتا انہیں بری طرح مارنے لگا۔


کیفی ٹیریا میں جتنے بھی اسٹوڈنٹس تھے وہ یونی ورسٹی کے سب کے قابل اسٹوڈنٹ کو جنونی انداز میں یونیورسٹی کے عیاش لڑکوں کو خوف سے پیٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔


زہرا بتول نے جب ان لڑکوں کی چیخیں سنی تو لرز کر اپنی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھنے لگی جہاں زیرون راجپوت انہیں مارتے ہوئے کسی دیوانے کی طرح لگ رہا تھا۔


ان لڑکوں کی دھلائی کرتے ہوئے اسکی شرٹ کے اوپری دو تین بٹن کھلنے کی وجہ سے اسکا گورا بالوں سے بھرا چوڑا سینا نظر آ رہا تھا اور مضبوط ہاتھوں کی رگیں اُبھریں اور پیشانی کی رگیں ابھر کر لکیر کی صورت اختیار کر چکے تھے۔


اسکے اس غضبناک حلیے کو دیکھ وہاں موجود سبھی بولڈ لڑکیوں کا دل پسلی توڑ کر باہر آنے کے لیے شدت سے مچلنے تڑپنے لگا لیکن ان میں وہ واحد لڑکی تھی جو اسکے اس حلیے پر اپنی پاکیزہ نظریں جھکا گئی تھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


سجل ساحر کے جنون پاگل پن کی وجہ سے خوف سے خود کو اپنے روم میں بند کر چکی تھیں۔اس وقت زیرون ، ساحر اور اسے چھوڑ کر سب گھر والے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔


"بیٹا سہی سے کھانا کھاؤ۔"


پاکیزہ نے جو اسکے بغیر کبھی کھانا نہیں کھایا تھا وہ آج اسکی غیر حاضری پر بے دلی سے کھا رہی تھی دادا اسکی حرکت کو نوٹ کرتے ہوئے اسے بولے۔


"دادا جان میرا دل نہیں چاہ رہا۔"


پاکیزہ نے معصومیت سے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔


"وہ کیوں بیٹا آپکا دل کیوں نہیں چاہ رہا۔؟؟


دادا نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔


"ایک تو دادا جان زیرون ویر اور ساحر ویر یہاں ہمارے ساتھ زور ڈنر کے وقت موجود نہیں ہوتے ہیں اور دوسرا سجل کے بغیر کچھ بھی کھانے کو آج میرا بلکل بھی دل نہیں چاہ رہا ہے۔"


اسکی بات پر ازحف راجپوت جو خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا اپنی نظریں اوپر اٹھا کر اسکی دائیں جانب رکھی خالی کرسی کی جانب جس پر ہمیشہ سجل بیٹھتی تھی حیرت سے دیکھنے لگا۔

وہ اسکی غیر حاضری اب نوٹ کر چکا تھا کیونکہ وہ کھانے کے وقت ہمیشہ سے نظریں صرف ٹیبل پر رکھتا تھا آج اس دشمن جاہ کی غیر موجودگی پر وہ دل میں چھبن محسوس کرنے لگا۔


"بیٹا وہ دونوں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور سجل بیٹی اب سے اپنے روم میں کھانا کھایا کرے گی۔"


ہاجرہ بیگم نے اسکی جانب محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"وہ کیوں چاچی سجل کیوں اپنے روم میں کھانا کھائے گی ہمارے ساتھ کیوں نہیں۔"


اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو مزید بڑا کرتے ہوئے ان سے پوچھا۔


"وہ اس لیے بیٹا کیوں کے یہاں تمھارے ازحف ویر موجود ہیں تو اس لیے اب سے وہ روم میں کھانا کھایا کرے گی اور اسکی موجودگی میں وہ اپنے روم سے باہر نہیں نکلے گی۔"


پھپھو نے اپنے بیٹے کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔


"ہیں یہ کیا بات ہوئی بھلا اس لومڑ کی موجودگی میں سجل کیوں اپنے روم سے باہر نہیں نکلے گی پھپھو جانی۔؟؟


وہ سخت نظروں سے ازحف راجپوت کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔


"کیونکہ بیٹا شادی نزدیک ہیں اور ہمارے خاندان میں ایک ایسا رسم ہے جس میں اگر دلہا نے دلہن کو غلطی سے شادی سے پہلے دیکھ لیا نا تو وہ ساری زندگی اپنی دلہن کے حصے کا کام بنا پیشانی پر شکن ڈالے کرے گا مطلب جاڑو پونچھا کپڑے دھونا کھانا بنانا وغیرہ۔"


پھپھو نے پاکی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"ہائے اللہ ہمارے خاندان کا یہ کتنا کمال کا رسم ہے قسمے پھپھو جان."


وہ شرارت سے چہکتی ہوئی بولی۔


"اب دیکھنا میں تمھارے ساتھ کیا کرتی ہو لومڑ۔"


وہ ازحف راجپوت کی جانب دیکھتی ہوئی بولی اور اپنی جگہ سے اٹھی۔


"پھپھو میرے لیے کھانا سجل کے روم میں بھیج دے میں بھی اب اسکے ساتھ کھانا کھایا کروں گی۔"


وہ کرسی کھسکا کر اٹھی اور پھپھو سے کہہ کر سجل کے روم کی جانب بڑھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


" یار تمھیں پتہ ہے سجلی یہ تم کیوں کانپ رہی ہو کیا ہوا ہے تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔؟؟


وہ سجل کے روم میں بنا اسے دیکھے بولتی ہوئی داخل ہوئی لیکن اسے بیڈ پر خوف سے لرزتے ہوئے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھی اور اسے اپنے سے لگاتی ہوئی بولی۔


"پپ۔پاکی وہ خود کو مار ڈالے گا پلیز اسے ایسا کرنے سے روک لوں پلیز۔"


سجل نے روتے ہوئے کہا۔


"سجلی کون خود کو مار ڈالے گا یار تم کس کی بات کر رہی ہوں۔؟؟


وہ نا سمجھی سے اسکے بھیگے رخساروں کو صاف کرتی ہوئی بولی۔


"پاکی وہ سس۔ساحر۔"


اس نے ڈرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔


اس وقت اسے ایسا لگ رہا تھا جسے دو براؤن جنونیت سے بھری آنکھیں اسے گھور رہی ہوں۔


"سجل وہ بھلا کیوں خود کو مارے گا۔؟؟


پاکی نے حیرانی سے اسکی جانب دیکھا۔


"پاکی وہ چاہتا ہے میں شادی سے انکار کر دو اور اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو۔"


وہ نم آنکھوں سے پاکی کی جانب دیکھتی۔


"وہ خود کو جان سے مار دے گا پلیز پاکی کچھ کروں مجھے ازحف سے شادی کرنی ہے میں انکار نہیں کر سکتی کیونکہ۔"


وہ اسکے سرخ و سفید نازک ہاتھ اپنے سانولے ہاتھوں میں لیکر تڑپتی ہوئی۔


"پاکی میں نے اگر انکار کیا تو میرے ماں باپ کو دکھ پہنچے گا اور یہ وہ سمجھنے کو بلکل بھی تیار نہیں ہے۔"


اچانک سے وہ اپنا سر اسکی گود میں رکھ کر ہچکیاں لیتی ہوئی۔


"وہ بس چاہتا ہے میں انکار کروں وہ پاگل ہوگیا ہے مجھے پانے کے لیے مجھے لگتا ہے اسے ابھی تک شاید پتہ نہیں چلا ہے کہ پاکی میں اسکے پھپھی زاد بھائی کی ہونے والی بیوی ہوں۔"


وہ اسکی گود میں سر رکھ کر بلکتی ہوئی بولی۔


"ایسے کیسے وہ پاگل انسان تم پر اپنی دھونس جما سکتا ہے چلو شاباش جا کر منہ ہاتھ دھو کر آؤں پھر ہم مل کر اسکی کلاس لیتے ہیں۔"


وہ اسے اٹھا کر شدید غصے سے بولی۔


وہ سجل کے منہ سے ساحر کی بے ہودہ حرکت سن کر غصے سے پاگل ہوگئی تھی ابھی اور اسی وقت اس بدتمیزی پر اسے سبق سکھانا چاہتی تھی اسی لیے سجل کو تیار ہونے کے لیے واشروم کی جانب بھیج کر خود اپنے روم کی جانب بڑھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


امشال کی آنکھیں تیز گولیوں کی آواز سے کھل گئی تو وہاں سلطان کو نا پاکر وہ خوف سے بستر سے نیچے اتری اور لرز رہے پاؤں کو باہر کی جانب بڑھانے لگی۔


"نہیں میرے سلطان کو چھوڑیں۔"


باہر آٹھ دس لوگ سلطان کو گھیرے میں لیے کھڑے تھے وہ سلطان کو ان لوگوں میں گھیرے میں دیکھ زور سے چیخی۔


"نہیں بلکل بھی نہیں۔"


اسے گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر سلطان عالم شاہ ٹرپ اٹھے۔


"امشال تم باہر مت آنا وہی رہنا۔"


انہوں نے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"نہیں سلطان میں آپ کے بغیر اندر نہیں جاؤں گی۔"


امشال روتی ہوئی اپنا سر نفی میں ہلاتی ہوئی بولی۔


"شٹ اپ اندر چلی جاؤ امشال۔"


اسے اپنی بات نا مانتے ہوئے دیکھ انہیں شدید غصہ آیا۔


"اے اسے بھیج کر کیا فائدہ مارہ تمھیں ٹھکانے لگانے کے بعد ہم اسے بھی ٹھکانے لگا دے گا۔"


شمل خان کے سوتیلے بڑے بھائی نے نفرت سے امشال کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"نہیں تایا خان آپ انہیں کچھ مت کریں چاہے بدلے میں آپ میری جان لے لیں مگر پلیز انکو کچھ مت کریں انکی کوئی غلطی نہیں ہے۔"


امشال روتی ہوئی اپنے سوتیلے تایا کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی۔


"ٹھاہ ٹھاہ۔"


اسکی بات پر تایا خان کا غصہ سوا نیزے پر جا پہنچا تو اس نے سلطان کی ٹانگ پر غصے سے گولی مارا۔


"آہہہہہہ۔"


گولی لگنے پر سلطان کے منہ سے ایک درد بھری کراہ نکلی۔


"نہیں۔"


وہ انکی ٹانگ سے تیزی سے بہتے خون کو دیکھ کر تڑپی اور انکی جانب بھاگ کر انہیں قیدی کی طرح اپنے گھیرے میں لیے کھڑے آٹھ دس ہٹے کٹے آدمیوں کو ہٹا کر روتی ہوئی انکے سینے سے لگی۔


"غلطی لڑکی تم سمجھتا ہے اس مردود کی کوئی غلطی نہیں ہے۔"


تایا خان ان دونوں کے قریب پہنچ کر اسے پیچھے سے بالوں سے پکڑ کر سلطان کے سینے کی جانب ریوالور کا رخ کرتے ہوئے غرا کر بولا۔


"نہیں پلیز ایسا مت کریں میرے سلطان کو یہاں سے جانے دیں پلیز۔"


امشال انکی گرفت میں کسی تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپ کر بولی جبکہ دوسری طرف سلطان کی آنکھوں میں اس آدمی کے ہاتھوں میں اپنی نازک چھوٹی سی بیوی کے بالوں کو دیکھ کر آگ برسنے لگا۔


"ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ۔"


فضا میں تین گولیوں کی تیز آواز پر درخت کے اوپر بیٹھے معصوم پرندے ڈر کے مارے اڑ گئے جبکہ گولی کی آواز پر امشال کا دل دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

ڈین کے آفس میں وہ چاروں لڑکے اپنے چہروں پر زخموں کے نیلے پڑتے نشانوں کی وجہ سے بدصورت چہروں اور بگڑی ہوئی حالت میں اپنا سر جھکائے کھڑے تھے۔۔

مگر انکے برعکس زیرون راجپوت شان سے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا ڈین کو اپنی شعلے برساتی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔


"یہ سب کیا ہے زیرون راجپوت۔؟؟


ڈین نے سخت غصے سےان چاروں لڑکوں کے خراب حلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زیرون راجپوت سے پوچھا۔


"یہ چھوٹا سا تحفہ ہے۔"


ڈین کے اس سوال پر زیرون راجپوت ٹیبل پر ایک ہاتھ رکھ کر آگے جھک کر انکی نظروں میں اپنی نیلی سرخ دوروں سے بھری سحر انگیز آنکھیں ڈال کر۔


"جو میں نے انکے حسین کارنامے کی وجہ سے انہیں دیا ہے

۔"


رعب دار آواز میں بولا۔


"سر دیکھا آپ نے۔۔۔۔۔"


ان لڑکوں کا لیڈر اپنے سوجھے منہ کو پکڑتے ہوئے۔


"یہ کس طرح آپ سے ہمارے متعلق بات کر رہا ہے اسے بلکل بھی تمیز نہیں ہے بلکہ یہ یونی ورسٹی میں اسی طرح ہم جیسے کمزور بیک گراؤنڈ رکھنے والے غریب اسٹوڈنٹس کے ساتھ اسی طرح روڈلی پیش آتا ہے۔"


زیرون راجپوت کی جانب دیکھتے ہوئے وہ لیڈر بکواس کر رہا تھا۔


جبکہ ڈین کے ٹیبل کی دوسری سائیڈ پر بیٹھا زیرون راجپوت اسکی اس بکواس پر طنزیہ انداز میں مسکرا کر اپنی جیب سے مہنگا سگریٹ کا ڈبہ نکال کر منہ سے لگا کر لائٹر سے سگریٹ جلا کر بے نیازی سے سگریٹ کا دھواں منہ سے نکال کر فضا میں چھوڑ رہا تھا۔


"ہاں سر اس نے صرف ایک لڑکی کی وجہ سے ہمیں اتنا مارا ہے جبکہ ہمارا قصور کچھ بھی نہیں تھا........


دوسرے لڑکے نے اپنے زخمی ٹوٹے ہاتھ کو پکڑ کر بری طرح سے روتے ہوئے۔


مگر اس نے ہمارے بے گناہ ہونے کے باوجود بھی ہم پر تشدد کیا۔"


ڈین کی نظروں میں اپنے لیے ہمدردی دیکھ کر وہ لڑکے پھیل رہے تھے۔


زیرون راجپوت ڈین کی وجہ سے خاموش تھا وہ بھلے ایک بگڑا ہوا امیر زادہ تھا لیکن اسنے کبھی بھی استاد سے بدتمیزی نہیں کی تھیں۔۔۔۔۔وہ ہمشیہ اپنے استادوں کی عزت کرتا تھا۔


آج بھی وہ اسی احترام کی وجہ سے ان لڑکوں کو کچھ نہیں کہہ رہا تھا مگر اسکی اس خاموشی کا فائدہ ڈین اچھی طرح اٹھا رہا تھا۔۔


یہ بھولے ہوئے کے سامنے بیٹھا شخص ایک آگ ہے۔۔۔۔۔ جس سے کھیل کر اپنے ہاتھوں کو وہ جلا کر ان لڑکوں کی وجہ سے اس جنونی انسان کے آگے اپنا رتبہ گرا رہا ہے۔


اس لڑکے کی بات پر ڈین نے شدید غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے۔


"کیوں زیرون راجپوت اس لڑکی کی وجہ سے تم نے انہیں مارا جبکہ انکا کہنا ہے وہ لڑکی ایک فحاشہ ہے۔"


ڈین کے شروع کے لفظوں نے تو اسے مشتعل نا کیا مگر اسکے آخری لفظ نے اسکے غصے کو پھر سے جگایا۔


اسکا ضبط ٹوٹ گیا اور شدید غصے سے اسکا روم روم سلگ اٹھا تھا مضبوط جسم سے آگ کے شعلے بھڑک کر اس ٹھنڈے روم میں ہونے کے باوجود بھی اسے گرمی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔


"کیا تمھارا اس فاحشہ کے ساتھ کوئی تعلق ہے جو تم نے اس فاحشہ کے لیے ان بے چاروں پر تارچر کیا زیرون راجپوت۔؟؟


ڈین نے اس کے سرخ نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے۔ اس معصوم پاکیزہ کو ایک ایسا نام دیا جو اسکے لیے ایک گالی سے کم نہیں تھا۔۔

ڈین کو خبر نہیں تھا کہ وہ اس پاکیزہ لڑکی کے ساتھ اسے یہ گالی دیکر اپنی موت کو گلے لگا چکا تھا۔


غصے و جنون سے نیلی آنکھوں سے انگارے نکل رہے تھے مضبوط ہاتھوں کی نسے ابھر کر اسکے غصے کا پتہ دے رہا تھا کہ اسکا غصہ اس وقت آخری منزل پر پہنچ چکا ہے اس وقت غصے و نفرت سے خون پورے اسکے خوبرو چہرے پر چھلکنے کے لیے بے تاب تھا ۔


یکدم سے وہ غصے کی آگ میں لپٹے وجود کو حرکت دیتا اپنی جگہ سے اٹھا اور بیچ میں رکھے ٹیبل پر سے ایک نوکیلا پینسل اٹھا کر ڈین کے قریب پہنچا۔


"یہاں ایک ایک اسٹوڈنٹ ایک ایک پروفیسر کو پتہ ہے زہرا بتول ایک شریف اور نیک لڑکی ہے پھر تمھاری ہمت کیسے ہوئی اسے یہ نام دینے کی ہممممم۔؟؟


ڈین کے قریب آ کر اسنے ڈین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہاتھ کا ناخن اسکے کندھے پر گاڑ کر غصے سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے۔


"زز۔زز۔"


ڈین اسکی نیلی آنکھوں میں بے پناہ جنونِ پاگل پن دیکھ خوف سے کانپتی آواز میں بس اتنا بول پایا۔


"ایک پاکیزہ نیک پردے کی پابند لڑکی کے اوپر فاحشہ نام کا ٹیگ لگانے کی صورت تمھیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔۔۔۔

یہ تم اچھے سے جانتے تھے پھر کیوں میرے سامنے تم نے یہ بکواس کی ہاں ٹیل می۔؟؟؟


اچانک ڈین کے چہرے کو سختی سے دبوچ کر اسنے وہ پینسل اسکی زبان میں پیوست کرتے ہوئے سرد لہجے میں پھنکارتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔


ڈین کے زبان پر پنسل پیوست ہونے کی صورت تیزی سے خون کا پھوار سیدھا اس گھمنڈی ضدی جنونی شخص کے خوبرو چہرے پر جا گرا۔۔


وہ ڈین کے تڑپتے وجود کو چھوڑ کر پیچھے ہٹا۔۔۔۔ اس وقت اسے اپنے اس عمل پر بلکل بھی شرمندگی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔

کیونکہ ڈین کی بات نے اسے جنونی بنا دیا تھا وہ بھول چکا تھا سامنے بیٹھا شخص کبھی اسکا استاد رہ چکا تھا وہ اس وقت اس پاکیزہ لڑکی کے لیے اسکے منہ سے یہ گالی برداشت نہیں کر سکا تھا۔۔


ڈین کے آفس کے باہر مجما لگا ہوا تھا زیرون راجپوت کے ڈین کے آفس میں ہونے کی وجہ سے سب تجسس کا شکار ہوگئے تھے کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ اس یونیورسٹی میں کسی کی ہمت نہیں تھیں۔۔۔۔


اس گھمنڈی امیر زادے سے پنگا لینے کی مگر آج ڈین کے آفس میں اسکی موجودگی سبھی اسٹوڈنٹس اور پروفیسر کے باعث حیرانگی تھی سب ڈین کے آفس کے باہر کھڑے ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانک رہے تھے۔


زیرون راجپوت کے اچانک سے ڈین پر ہاتھ اٹھانے پر سب شاکڈ رہ گئے تھے۔۔


جبکہ زیرون راجپوت اندر سرخ آنکھوں سے مڑ کر ان لڑکوں کی جانب دیکھتے ہوئے۔۔


"کیا ان کے برین واش کی وجہ سے تم نے یہ لفظ اپنے منہ سے نکالا ہے یا تم نے ان فقیروں سے رشوت لیا تھا یہ لفظ میرے سامنے بولنے کے لیے۔؟؟


غصے نفرت سے غرایا۔۔


"آہ۔ہہھھھھگگھھ۔۔"


ڈین اپنی زبان پر پینسل لگنے کی وجہ سے بول نہیں پا رہا تھا بلکہ اس وقت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ اپنا سر چکراتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔


"تمھاری آنکھیں کہہ رہی ہے ڈین کے تم نے ان لفنگو سے رشوت لیا ہے مجھے بھڑکانے کے لیے۔"


ڈین کی کمزور حالت کی پرواہ کئے بغیر اسے گردن سے دبوچ کر غراتے ہوئے بولا۔


"نن۔نہیں انہوں نے ہم سے رشوت نہیں لیا ہے پلیز انہیں چھوڑ دوں پلیز۔"


لڑکوں نے جب ڈین کی آنکھیں اس سنکی انسان کی سخت گرفت کی وجہ سے باہر آتے ہوئے دیکھا تو ڈر سے لرزتے ہوئے آگے بڑھ کر اسے ڈین سے الگ کرتے ہوئے ایک ساتھ بولے۔


رشوت انہوں نے دیا تھا اور اگر ڈین کو کچھ ہوا تو انکا گھناؤنا چہرہ سب کے سامنے آ جائے گا اور اسی ڈر کی وجہ سے وہ چاروں ڈر گئے تھے اسی لیے وہ اس وقت ڈین کو اس جنونی پاگل انسان سے بچا رہے تھے۔


انکی بات پر زیرون راجپوت نے ڈین کو چھوڑا اور انہیں اپنی نیلی غضبناک نظروں سے گھور کر تیزی سے ڈین کے آفس سے باہر نکلا۔


جیسے ہی وہ طوفان تھما تو اس طوفان کی تباہی پوری یونیورسٹی میں پھیل گیا اور زہرا بتول اس تباہی کی زد میں آگئی۔


کیونکہ ڈین کی حالت اور زیرون راجپوت کے پاگل پن کی وجہ سے یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس اسے عیجب نظروں سے دیکھ رہے تھے اور چہ میگوئیاں کر رہے تھے جس سے اس کے دل میں زیرون راجپوت کے لیے نفرت اور بھی بڑھ گیا۔۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ۔"


سوات کے اس بیاباں جنگل میں گولیوں کے تھرتھراہٹ نے ماحول میں دہشت پھیلا دیا تھا خان آنکھیں پھاڑ کر اپنے آدمیوں پر گولی برستے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔


خان کے اور اسکے آدمیوں کے ساتھ اس وقت جو ہو رہا تھا وہ سلطان کرا رہا تھا کیونکہ سلطان نے صبح سویرے امشال کی بے خبری کا فائدہ اٹھا کر بڑے ہی چالاکی سے اس پورے خاموش جنگل میں اپنے اور امشال کے کپڑوں کے ٹکرے اور جوتے سوراخ کے طور پر چھوڑے تھے۔تاکہ خان اپنے آدمیوں کے ساتھ ان تک پہنچ جائے اور وہ اپنا اگلا قدم اٹھا سکے۔


یہ ابھی جو کچھ بھی ہو رہا تھا یا آگے ہونے والا تھا وہ سب سلطان کے پلان کا ایک حصہ تھا اس وقت نرمی سے امشال کے ڈرے سہمے نازک وجود کو اپنی آغوش میں لیے کھڑے وہ چمکتی آنکھوں سے خان کو دیکھ رہے تھے۔


"یہ سب تم کر رہے ہو ناں۔۔؟؟


خان اسے صحیح سلامت کھڑے دیکھ ڈرتے ہوئے بولا۔


"تمھیں کوئی شک خان۔"


سلطان عالم شاہ نے امشال کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے خان کی بوڑھی مگر سخت سفاک آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے۔


"افکورس یہ میں کرا رہا ہوں تمھیں سرپرائز دینے کے لیے یہ تو چھوٹے موٹے پٹاخے ہیں ابھی تو بڑا دھماکہ رہتا ہے جو میرے یہاں سے نکلتے ہی تم پر اور تمھارے آدمیوں پر میرے آدمی گرانے والے ہیں ویسے خان تمھیں میرا یہ خوبصورت سرپرائز کیسا لگا۔؟؟


امشال کو کھس کر اپنی باہوں میں بھر کر وہ خان سے بولے۔


"تت۔تم نے یہ کیسے کیا تم پر تو ہم نے گولی چلایا تھا پھر تم زندہ کیسے۔؟؟


خان ابھی تک ناسمجھی سے اسے زندہ اپنے سامنے کھڑے دیکھ رہا تھا۔


"اس جیکٹ کی وجہ سے۔"


اپنے بلڈ پروف جیکٹ کو نکال کر دور اچھالتے ہوئے وہ طنزیہ انداز میں بولے۔


"باس آپ کے کہنے پر میں مزمل خان کی باڈی لیکر آیا ہوں۔"


فرجاد نے وہاں آکر ایک تابوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جس میں مزمل خان کی لاش تھی وہ مزمل خان اور سامنے کھڑے جلاد نما انسان کو ایک ساتھ جلانا چاہتے تھے اسی لیے مزمل خان کو مار کر انہوں نے اسی دن جس دن مزمل خان نے شمل خان کا قتل کیا تھا فرجاد کو اسکی باڈی سیو رکھنے کا کہا تھا۔


وہ اس ظالم شخص کا قصہ ہمشیہ کے لیے ختم کرنا چاہتے تھے جس نے اسکے دوست اسکی زندگی کے پورے خاندان کو ختم کر دیا تھا اسی لیے اس وقت وہ سوات میں کھڑے اس ظالم انسان پر اپنے آدمیوں سے وار کروا کر اسے بے بس کر رہے تھے۔


"فرجاد تابوت کھولو۔۔"


انہوں نے برفیلے لہجے میں فرجاد کو حکم دیا۔


"ننن۔نہیں میرا بچہ خان مزمل خان اٹھو بچہ یہ تم نے کیا کیا ہے میرے بچے کے ساتھ ظالم انسان۔؟؟


تابوت کھُلتے ہی مزمل خان کا مرجھایا نیلا پڑتا چہرا سامنے آیا جسے دیکھ کر خان آگے بڑھا اور اپنے بیٹے کے مردہ جسم کو جھنجھوڑ کر اسے پکارنے لگا۔

مگر اپنے ہلانے کے باوجود بھی جب خان نے مزمل خان کے جسم میں کوئی حرکت محسوس نہیں کیا تو وہ پلٹ کر سلطان سے غصے سے پوچھنے لگا۔


"ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا۔"


سلطان عالم شاہ نے اسکی بات پر نفرت سے زور دار قہقہہ لگایا اور پھر اپنے قدم انہوں نے اسکی جانب بڑھائے۔


"اپنے بچے کے لیے تم اتنے تڑپ رہے ہو تو سوچو خان۔"


نفرت انگیز نگاہوں سے اسے دیکھتے گردن سے دبوچ کر تابوت سے لگاتے ہوئے۔


"اس وقت میری امشال اپنے پورے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر کتنا تڑپی ہوگی اور میں تم سے اسکی تڑپ کا بدلہ گن گن کر لونگا۔"


نفرت سے اس شخص کو اس تابوت میں اسکے مردہ بیٹے کے ساتھ اندر ڈالنے کے بعد امشال کے خوف اور رونے کی وجہ سے کانپتے وجود کو تھام کر فرجاد کو حکم دیں کر امشال کو اپنی باہوں میں بھر کر سامنے کھڑی اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


پاکی سجل کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے پولیس اسٹیشن

کے اندر داخل ہوئی تو سامنے ساحر علی راجپوت کو دیکھ کر وہ غصے سے دانت کچکچا کر آگے بڑھی اور ایک زور دار گھونسہ اس کو مار کر پیچھے ہٹی۔


سجل اسکی وجہ سے اتنے دنوں سے خوف میں مبتلا تھی یہ بات اسے رہ رہ کر غصہ دلا رہی تھی اس وقت وہ اپنا غصہ سامنے کھڑے شخص پر اتارنا چاہتی تھی۔


سجل جو اسکے ساتھ کھڑی تھی اسکی دلیری پر ہڑبڑا کر ساحر کے تاثرات جانچنے لگی جو آنکھیں پھاڑ کر سامنے کھڑی چھوٹی قد کی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔


پاکی تم پاگل ہوگئی ہوں کیا جو تم نے بنا وجہ کے یہاں آکر مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔۔"


ساحر علی راجپوت نے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


"شرم تو آپکو آنی چاہیے کیونکہ آج آپ کی وجہ سے آپکے گھر کی عزت آپ سے ڈر رہی ہیں آپ ایک نہایت ہی گھٹیا قسم کے انسان نکلے۔"


پاکی غصے میں دانت پیستے ہوئے۔


"مجھے بلکل بھی یقین نہیں آ رہا آپ ایسے نکلے گے کیونکہ میں آپ کو ایک غیرت مند اور شریف انسان سمجھتی تھی۔ لیکن آپنے تو اپنے ہی گھر کی عزت کو ہراساں کرکے خود کو میری نظروں میں گرا دیا ہے۔"


غصے سے اسکی خوبصورت نیلی آنکھوں میں سرخ دوروں نے بسیرا کر لیا تھا سجل تو چھوٹی سی لڑکی کے غصے سے اور بھی زیادہ سامنے کھڑے شخص کے ری ایکشن کی وجہ سے ڈر کر رہ گئی تھیں۔


وہ آگے کچھ کہتی اس سے پہلے ایک گھمبیر لہجہ ان تینوں کو دوسری طرف دیکھنے پر مجبور کر گیا سامنے راقم رحیم شاہ کو دیکھ ساحر علی راجپوت نے ایک پرسکون سانس خارج کیا۔

کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ سامنے کھڑا کھڑوس انسان اب اس سچویشن کو اچھے سے ہینڈل کر لے گا۔

اسی لیے وہ خاموشی سے بے فکری سے پاکی کی غصیلی نگاہوں میں دیکھنے لگا۔


"یہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔؟؟


اس نے اپنے قدم سنجیدگی سے اس چھوٹی قد والی لڑکی کی جانب بڑھائے جو غصے سے سامنے لاپرواہی سے کھڑے ساحر علی راجپوت پر گاڑے ہوئے تھی تھوڑی دیر پہلے اس نے اسے ساحر علی راجپوت پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔


وہ اس شخص کے اس میئٹر پر کبھی بھی آگے نہیں بڑھتا مگر ساحر علی راجپوت کے گال پر اس لڑکی کے تھپڑ مارنے پر وہ خود کو روک نہیں پایا۔


"ہہ۔ہیرو جج۔جی آپ پولیس والے بھی ہے۔؟؟


پاکی اپنے سامنے پولیس یونیفارم میں ملبوس راقم رحیم شاہ کو پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔


راقم رحیم شاہ نے سامنے کھڑی شریر لڑکی کی بات پر غصے سے اسے گھورا۔


"بھی کیا کیا مطلب ہے تمھیں میری وردی نظر نہیں آ رہا کیا یہ سیاہ ودری جھوٹ نہیں میں ایک پولیس والا ہوں۔"


راقم نے دانت کچکچا کر۔


"اور تم اس وقت پولیس اسٹیشن میں ایک ایس ایچ او کے سامنے کھڑی ہوں۔۔"


اپنی سیاہ وردی کی جانب اشارہ کرتے۔۔۔


"اور مس تمھیں پولیس اسٹیشن میں آکر ایک آفیسر پر ہاتھ اٹھانے کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے..."


وہ آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی پہناتے ہوئے اسکی پھٹی نیلی خوبصورت آنکھوں میں اپنی سیاہ آنکھوں کو گاڑتے ہوئے بولا۔


"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں سر پاکی نے ان پر ہاتھ صرف مجھے پروٹیک کرنے کے لیے اٹھایا ہے اور یہ ہمارا گھر کا میئٹر ہے۔"


سجل پاکی کے نازک ہاتھوں میں ہتھکڑی دیکھ کر آگے بڑھی


"تم فکر مت کروں ہماری پاکی کا جلاد بھائی اس عقل کے اندھے آفیسر سے اچھے سے نبٹ لیں گا تم چلو میرے ساتھ مجھے اس وقت تم سے اس متعلق بات کرنی ہے۔"


ساحر جو راقم رحیم شاہ کو اپنی چمکتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا سجل کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور اسے پکڑتے ہوئے ہلکی آواز میں سجل سے بولا۔


اسکی مضبوط پکڑ سے سجل خوفزدہ ہوگئی اور اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی مگر ساحر اسکی مزاحمت پر مسکرا کر اپنی گرفت اور مضبوط تر کر گیا۔


اس وقت وہ اپنے پاگل پن کی وجہ سے سجل کو سہما رہا تھا وہ اسکی جنونیت سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔


"نننننننن۔نہیں مجھے نہیں آنا آپ۔آپ کے ساتھ۔"


سجل اٹک اٹک کر بولی۔


"مائے انوسنٹ لٹل بیوٹی تم شرافت سے چلنا چاہتی ہو یا پھر میں تمھیں ان سب کے سامنے بڑے ہی رومنٹک انداز میں اٹھا کر لے جاؤ جانِ عزیز؟


ساحر ایک ہاتھ سے اسکی گھنی سیاہ پلکوں کو چھوتا اور دوسرے سے اسکے خوف سے لرزتے گلابی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو سہلاتا بے باک انداز میں گھمبیر آواز میں بولا۔


"نننننن۔نہیں پلیز آپ ایسا مت کریں مم۔میں چلتی ہوں آپکے ساتھ۔"


ڈری سہمی سجل اسکی بات پر اچانک سے شرم سے سرخ رنگ میں بدلتا اپنا چہرہ جھکا کر منمنائی اسے اس شخص کی اس بے شرمی پر اس وقت اپنا آپ سخت بے بس لگ رہا تھا۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"مجھے یہاں سے باہر نکالوں ہیرو جی ۔"


راقم رحیم شاہ کے کیبن کے باہر بنے چھوٹے سے ڈبے نما جیل میں بند پاکی کب سے یہی نعرہ لگا لگا کر راقم رحیم شاہ کا دماغ کھا رہی تھیں وہ بھی ڈھیٹ بنا اپنے کیبن ایک کیس کے بارے میں اپنے جونئیر آفیسر سے ڈسکس کر رہا تھا۔


"چلو جی ٹھیک ہے میں اس مرغی کے ڈربے میں سکون سے خاموشی سے رہ لوں گی مگر صرف سات شرطوں پر میرے ہیرو ایس ایچ او جی اگر آپکو میری یہ سات شرطیں منظور ہے تو ٹھیک ورنہ تو کون اور میں کون۔"


سلاخوں کے پیچھے کھڑی پاکی باہر کھڑے غصیل شخص کی جانب معصومیت سے دیکھا۔


"پہلی شرط اس ڈبے کو پنک پینٹ میں بدلا جائے۔"


اپنی نازک انگلی سے اپنی شرط گنتی۔


"دوسری شرط ایک پلیٹ مائیکرونی اور ایک پلیٹ بریانی جس میں بوٹی خوب بھری ہونی چاہیے۔"


چھٹکارے لیتی ہوئی۔


"تیسری شرط اس ڈبے میں ایک ای سی ہونی چاہیے وہ کیا ہے نا ایس ایچ او جی میں بڑی نازو نعم سے پلی بڑھی ہوں نا تو یہاں بھی اسی طرح نازو نعم سے پلنا چاہتی ہوں۔"


فخر سے اپنی حیثیت اسے بتاتی وہ اسے سخت زہر لگی۔


"چوتھی شرط ایک فریج جس میں ہر قسم کے کھانے کولڈ ڈرنکس اور پھل ہونے چاہیے۔"


اسے تپاتی ہوئی بول رہی تھی۔


"پانچویں شرط ایک پنک کلر کی شاندار بیڈ۔"


اپنی شاندار نرم بیڈ کو سوچتی۔


"چھتی شرط بہت ساری خوشبو والی موم بتیاں

وہ کیا ہے مجھے خوشبو والی موم بتیوں کے بغیر نیند نہیں آتی۔"


معصوم نظروں سے اسے دیکھتی۔


"ساتویں شرط ایک جام شریں کا جمبو پیک بوتل وہ کیا ہے نا اتنی گرمی میں مجھے بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور میری پیاس صرف جام شریں ہی بجاتی ہیں۔"


وہ شیطان کی چیلی بڑی بے چارگی سے

اسے غصہ دلا رہی تھی۔


"وہاٹ یہ جیل تمھیں کس اینگل سے ایک مرغی کا ڈربہ لگ رہا ہے۔؟؟


سلاخوں کے پیچھے کھڑی اس آفت کی پڑ خالہ کی

جانب ساکت نظروں سے دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔


"اور تم مریم نواز نہیں ہو جو میں تمھارے لیے

یہ سب ارینج کروں۔"


تیکھی نظروں سے اس چھوٹی مگر دھماکا خیز مواد کو گھورتے ہوئے بولا۔


"تو ایس ایچ او جی آپ مریم نہیں بے نظیر سمجھ کر ای سی اور فریج کا ارینج کریں میں بھی کسی مریم نواز سے کم نہیں ہوں میری بھی اس ملک میں ایک نام ہے۔"


شرارت سے آنکھ ونک کرتی پاکی بولی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"کتنی قیمت ہیں ان نگینوں کی ثریا بائی۔؟؟


کراچی کے ایک مشہور بار کے ایک پرائیوٹ روم میں چار لڑکے صوفے پر بیٹھے سامنے بیٹھی چار حسین لڑکیوں کو اپنی ہوس اور خباثت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔


ان لڑکوں میں سے ایک لڑکے نے سامنے سنگل صوفے پر بیٹھی پچاس سالہ عورت سے پوچھا جو سگریٹ کے سرخ لباس میں ہاتھ میں سگریٹ پکڑے انہیں دیکھ رہی تھیں۔


"ایک لاکھ۔"


صوفے پر بیٹھی عورت نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے کہا۔


"ان حسین پریوں کی قیمت صرف اتنی ہے ثریا بائی۔"


ان چاروں لڑکوں میں کب سے خاموش بیٹھے لڑکے نے استہزایہ لہجے میں کہا۔


"یہ ہیرے نہیں ہے اسی لیے میں تم لوگوں کو انکی قیمت اتنی دے رہی ہو۔"


اس عورت نے نخوت سے ان لڑکیوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔


"اور اگر میرے پاس کوئی بیش قیمتی ہیرا ہوتی ناں تو میں وہ تم لوگوں کو دیکھاتی ہی نہیں آخ ہاں لیکن میری ایسی خوش قسمتی کہاں جو میرے ہاتھوں ایک ایسی حسن کی دیوی لگتی جسکا حسن دیکھ کر سب پاگل ہو کر اپنا دولت اس کے اوپر لٹانے کو تیار ہو جاتے۔"


عورت نے سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا۔


"ایسا کیوں کہہ رہی ہوں تم بائی کیا آج کل کوئی حسین مال تمھارے خاص آدمیوں کے ہاتھوں نہیں لگ رہا کیا۔؟؟


وہی لڑکا سرخ حرام مشروب گلے میں اتارتے ہوئے بولا۔


"ہاں ارباب صاحب ہمارے اب وہ پرانے دن چلے گئے کیونکہ اب زمانہ بدل چکا ہے اب لڑکیاں تیز ہوگئیں ہیں اب کوئی لڑکی معصوم نہیں ہے۔"


عورت نے سگریٹ کا دھواں غصے سے فضا میں چھوڑتے ہوئے۔


"سب چالاک لومڑی بن چکی ہیں اب کوئی حسن کی ملکہ ہمارے کسی آدمی کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بنتی بلکہ وہ ہمارے آدمیوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔"


غصے سے اپنی نظریں اوپر سرخ فانوس سے ہٹا کر وہ عورت بولی۔


"ہوں تو یہ بات ہے ثریا بائی لیکن تم فکر مت کرو کیونکہ میری نظروں میں ایک ایسی حسن کی ملکہ ہے۔"


لڑکے نے جھک کر اس عورت کے گال کو چھوتے ہوئے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا۔


"لیکن وہ نیک پری اتنی آسانی سے تمھارے ہاتھ نہیں لگے گی اسکے لیے تمھیں پاپڑ بیلنے پڑے گے ثریا بائی۔"


لڑکا حرام مشروب کی وجہ سے نشے میں چور ہو چکا تھا۔

اس وقت اسکی نظروں کے سامنے صرف دو لوگ تھے۔۔جنہیں وہ برباد ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔

ایک تو وہ مغرور شہزادہ تھا اور دوسری ہستی وہ پردے میں خود کو چھپائے لڑکی۔۔۔

جسکی وجہ سے وہ اس شہزادے کے ہاتھوں اپنی حالت بگاڑ چکا تھا۔۔

اسکا خوبرو چہرہ اس شہزادے کے جنون کا اسکے پاگل پن کا ثبوت تھا جو اس وقت سوجھ کر اسے انتہائی بدصورت بنا رہا تھا۔

وہ اس نیلی آنکھوں والے شہزادے کی طوفانی آنکھوں میں اُس سیاہ برقعے والی کیلئے ایک پاکیزہ چمک دیکھ چکا تھا۔۔

وہ لڑکا اس چمک کو یاد کرتے لبوں پہ کمینگی سے مسکراہٹ سجا کر بدنام زمانہ ثریا بائی کو اپنا پلان بتانے لگا۔

ایک پاکیزہ نیک سیرت لڑکی کی بربادی کا پلان بناتے ہوئے وہ لڑکا بھول چکا تھا کہ جسے وہ برباد کرنا چاہتا ہے وہ ایک پاگل انسان کے دل کی ملکہ بن چکی ہیں۔۔

جیسے انسانوں کے زندہ رہنے کے لیے خوراک اور پانی اہم ہے زیرون راجپوت کے زندہ رہنے کیلئے پانی،خوراک کے ساتھ ساتھ اب زہرا بتول بھی اہم ہوگئی ہے اگر اسے کچھ ہو گیا تو وہ پاگل جنونی انسان بھی سانس لینا بھول جائے گا۔

ساحر اسے اپنے فلیٹ پر لیکر آیا تھا اسکے روکنے کے باوجود بھی وہ روکا نہیں تھا اب وہ اسکے فلیٹ پر ڈری سہمی اسے دیکھ رہی تھی جو سامنے کھڑا اسے بغور دیکھ رہا تھا۔


ساحر چل کر اسکے عین سامنے کھڑا ہوا تو سجل اسے اپنے بے قریب دیکھ اور بھی زیادہ خوف میں مبتلا ہوگئی۔


"جانِ من یہ جو تمھاری چمچی نے پولیس اسٹیشن میں آکر بڑے ہی جاں بازی سے مجھے تھپڑ مارا ہے نا اب تم اس جاں بازی کی بھرپائی کیسے کروں گی۔؟؟


ساحر نے اپنے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پاکی کے انگلیوں کے نشان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے۔۔


"کیا مجھ سے نکاح کرکے یا پھر اس ازحف سے نکاح کر کے۔؟


وہ اسے اچانک سے اسکے نازک کمر سے پکڑ کر اپنے بے حد قریب کرتا ازحف راجپوت کا نام چباتے ہوئے لینے لگا۔


"پلیز مجھے چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے۔"


سجل اسکی گرفت میں بری طرح سے کسمسا تی ہوئی نم آواز میں بولی۔


اسکے بری طرح سے مزاحمت کرتے نازک وجود کو بار بار ہلنے پر ساحر راجپوت نے اسے اپنے اور بھی زیادہ نزدیک کیا کہ اتنی زیادہ نزدیکی پر اس نازک لڑکی کی ڈھرکنیں متفرق ہو کر جیسے نازک گلابی لبوں تلے اگئی۔


"درد اہ تمھیں اپنے درد کا اچھے سے علم ہے لیکن میرے درد کا نہیں۔"


وہ اسکی آنکھوں میں اپنی جنون کیز سرکشی آنکھیں ڈال کر اسکے خوف سے کانپتے گلابی نازک لبوں کی اوپری حصے کو چھو کر اسے سہما گیا۔


"پتہ ہے جب سے ازحف سے تمھارے رشتے کا پتہ چلا ہے تب سے میں درد میں ہوں میرا سینا درد کر رہا ہے یہ سوچ کر کہ تم اس انسان کے نام لکھنے والی ہوں۔"


اچانک سے اسکی آنکھوں کا رنگ بدل کر سرخ رنگ میں بدل گیا پیشانی پر بل نمودار ہونے لگیں،تبہی یکدم سے وہ اسکے نازک کمر پر گرفت سخت کر گیا تو اپنی کمر پر اسکی گرفت سخت محسوس کر سجل سسک اٹھی۔


"جو کسی ایک لڑکی کا بن کر رہنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ ایک پلے بوائے ہیں اور اسکی سچائی جانتے ہوئے بھی تمھیں اس کا بنا دیا جا رہا ہے اگر ایسا ہوگیا تو تم جیتے جی مر جاؤں گی اور میں کچھ بھی نہیں کر پاؤں گا۔۔


اسکی آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے۔


"کیونکہ میں صرف تمھاری وجہ سے روکا ہوں کیونکہ جانم میں تمھاری مرضی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں ابھی بھی وقت ہے جانم منع کر دوں دادا سے اس رشتے سے انکار کر کے خود کو بچا لوں۔"


اسکی پیشانی پر اپنی پیشانی تکاتے ہوئے وہ گھمبیر آواز میں بولا۔


"نننن۔۔۔نہیں میں ایسا نہیں کروں گی۔"


سجل کو اب ڈر کے بجائے اس کے اوپر غصہ آیا تو وہ اسے پیچھے کرتی ہوئی۔


"میں اس رشتے سے کبھی بھی انکار نہیں کروں گی آپکو جو کرنا ہے آپ کریں کیونکہ میں ازحف کو اچھے سے جانتی ہو وہ ایسا بلکل بھی نہیں ہے کیونکہ میں آپکی نیت سے واقف ہوں میں ابھی طرح سے جانتی ہو آپ یہ اپنا راستہ کلیئر کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔"


وہ غصے سے چیختی ہوئی بولی۔


"شٹ اپ ڈیم اٹ سلی گرل میں اپنا راستہ کلیئر کرنے کے لیے یہ بکواس نہیں کر رہا ہوں۔۔۔


ساحر نے شدید غصے سے پیچھے دیوار پر مکا مارا تو وال پر لگا شیشہ ایک ہی چانکے سے ٹوٹ کر نیچے گرا شیشا ٹوٹنے کی زور دار آواز پر سجل سہم کر رہ گئی۔


فرش پر ساحر کی خون کو ٹپ ٹپ گرتے ہوئے دیکھ اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا سانسیں مدھم ہونے لگی۔


"وہ سچ میں ایک پلے بوائے ہیں اسے لڑکیاں صرف کھیلنے کے لیے پسند ہے گھر بسانے کے لیے نہیں اگر تمھیں یقین نہیں تو آؤں میرے ساتھ میں تمھیں دیکھاتا ہوں۔"


ساحر غصے سے کہتے ساتھ اسکا نازک اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر پکڑکر اسے وہاں سے لیجانے لگا تبھی وہ لہرا کر اسکے چوڑے مضبوط سینے سے جا کر لگی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"چٹاخ۔۔۔۔۔چٹاخ۔۔۔۔"


زیرون راجپوت اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اپنی لیکچر اٹینڈ کرنے کے لیے کلاس کی جانب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔۔


تبھی زہرا بتول نے بیچ راستے میں اسے روکا اور غصے سے اسکے چہرے پر زور دار تھپڑ مارا جسکی وجہ سے زیرون راجپوت کا چہرہ غصے سے ٹمٹما اٹھا۔


"ہاؤ ڈئیر یو تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی شاید تم ان لڑکوں کی حالت بھول چکی ہوں مس زہرا بتول جو اس طرح منہ اٹھا کر مجھ سے الجھنے آئی ہوں میرے غصہ آنے سے پہلے تم یہاں سے دفعہ ہو جاؤ ابھی کے ابھی ورنہ میں تمھیں اس وقت سلجھنے کا موقع بھی نہیں دوں گا۔"


زیرون راجپوت نے سرخ نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔


"تم نے مجھے خود الجھنے پر مجبور کیا ہے مسٹر راجپوت یہ دیکھو تمھارے کرتوت تمھاری اس کرتوت کی وجہ سے میں آج پوری یونی میں بدنام ہوگئی ہو صرف تمھارے اس تھرڈ کلاس انتقام کی وجہ سے آج میں تمھیں بلکل بھی نہیں چھوڑوں گی کیوں کہ آج تم نے میری عزت پر کیچڑ اچھالا ہیں۔"


زہرا بتول نے غصے سے کہ کر اسکے منہ پر ایک بڑی سی بینر ماری جو نیچے گر کر زیرون راجپوت کے قدموں کے سامنے کھل گیا تو زیرون راجپوت کی نظر اس بینر کے اندر انتہائی گھٹیا انداز میں بنی اپنی اور زہرا بتول کی تصویر پر پڑی تو وہ ساکت ہو کر رہ گیا۔


"یہ کیا ہے۔؟؟


زیرون راجپوت شدید غصے سے بینر پر اپنا ایک پاؤں رکھ کر زور سے اس بینر کو کچلتے ہوئے غرا کر پوچھنے لگا۔


"یہ تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو یہ تمھارا ہی کام ہے تم نے ہی یہ بنا کر یونی کی سب دیواروں پر لگایا ہے اب مکر کیوں رہے ہو یہاں صرف تم مجھے بدنام کرنا چاہتے ہوں اور مبارک ہو آج تم اس میں کامیاب ہوگئے ہوں۔"


اسکی بات پر شدید غصے سے زہرا بتول آگے بڑھ کر اسکی گریبان پر ہاتھ رکھ کر اسے بری طرح سے جھنجوڑ کر آخر میں نم آواز میں بولی۔


"شٹ اپ یہ میرا کام نہیں ہے سمجھی."


زیرون راجپوت نے اپنا گریبان چھڑانے کے لیے اسے پیچھے دھکیلا تو وہ اسکے دھکا دینے کی وجہ سے نیچے اس بینر پر جا گری۔


"یہ تمھارا ہی کام ہے زیرون راجپوت میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔"


اسے مکرتے ہوئے دیکھ شدید غصے سے پاگل ہوتی زہرا بتول نیچے سے اٹھی اور ایک بار پھر اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر اسے تھپڑ رسید کرنے لگی مگر زیرون راجپوت کے ہاتھ پکڑنے پر وہ ہکا بکا رہ گئی۔


"اس بار یہ غلطی مت کرنا ورنہ میں تمھاری جان سچ میں لے لوں گا سمجھی تم مس نیک بی بی۔"


زیرون راجپوت نے اسکا ہاتھ بری طرح سے جھٹکتے ہوئے غصے سے کہا۔


"تم مجھے بدنام کر کے اس طرح نہیں مکر سکتے مسٹر راجپوت تمھیں مجھے جواب دینا ہوگا تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا کیوں میری عزت کے ساتھ کھیلا کیوں۔؟؟


زہرا بتول نے اسے خون آشام نظروں سے گھورتے ہوئے کہا

تو زیرون راجپوت اسکی بات پر غصے سے اچانک اسے کلائی سے پکڑ کر تقریباً اسے گھسیٹتے ہوئے سامنے بنے ایک خالی ایک کلاس روم جانب بڑھا۔


"بس بہت ہوگیا اب میں اس بات کو آج ہی ختم کر کے تب ہی تمھیں یہاں سے جانے دوں گا مس نیک بی بی کیوں کہ تم نے مجھے غصہ دلا دلا کر اپنا باغی بنا دیا ہے۔۔


اسے اس خالی کلاس روم میں لاکر چھوڑتے ہوئے وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے خطرناک انداز میں بولتا وہ پیچھے مڑا۔

جبکہ زہرا بتول اسکے اگلے اقدام پر سخت ہڑبڑا کر رہ گئی۔


"آج میں یہ کڑوا گھونٹ پی کر تمھیں بھی تکلیف دوں گا اور خود کو بھی اتنے دنوں سے تمھیں جاننے کے بعد مجھے تمھارے متعلق بہت کچھ پتہ چلا ہے ایک یہ بھی کہ تم بہت زیادہ احساس ہو آج تمھاری یہی کمزوری تمھیں مار دے گی۔"


زیرون راجپوت کے ارادے بھیانک لگ رہے تھے اسکے قدم زہرا بتول کی جانب بڑھ رہے تھے زہرا بتول کو اسکا ایک ایک قدم اپنی موت کے قریب تر لگ رہا تھا۔


"یہ‌ تم میرے پاس کیوں آ رہے ہوں۔؟؟


زہرا بتول اس خالی کلاس روم میں اس وقت اس گھمنڈی شخص کے ساتھ اکیلی تھی یہ سوچ کر وہ بری طرح سے کانپنے لگی۔


"پلیز کچھ غلط مت کرنا پلیز۔"


اچانک سے زیرون راجپوت کو شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے دیکھ وہ بری طرح سے سہم کر پیچھے بڑے سے ٹیبل سے ٹکرائی۔


جبکہ وہ اپنا شرٹ اتار کر نیچے پھینکتا اب اپنی پینٹ کی بیلٹ نکال رہا تھا اسکے اس عمل پر زہرا بتول کی سانسیں سخت خوف کے باعث حلق میں اٹک کر رہ گئی۔۔۔۔

وہ اپنی نم سیاہ آنکھیں بند کر کے اپنی عزت کے تحفظ کے لیے اللہ سے دعا مانگنے لگی۔۔۔


زیرون راجپوت جو غصے سے پاگل بنا اسکی جانب بڑھ رہا تھا اسکی حجاب کے اوپر سے جھانکتی خوبصورت آنکھوں کے بند پلکوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔


اسکا غصہ پلکوں پہ اٹکے شفاف موتیوں کی وجہ سے غائب ہوگیا وہ اسے خود سے ڈرتے ہوئے دیکھ اپنے دل میں درد اٹھتا ہوا محسوس کرنے لگا۔


وہ جب سے اپنے اندر احساسات کے طوفان سے واقف ہوا تھا تب سے وہ سامنے کھڑی پاکیزہ لڑکی کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا سوچنا تو دور کی بات تھا۔


اس وقت اسے تکلیف میں دیکھ کر اسے خود پر بے تحاشا غصہ آیا تو اس نے سامنے شیشے کے میز پر زور سے اپنے دونوں ہاتھوں کا مکا مارا تو شیشہ ٹوٹ گیا۔


شیشہ ٹوٹنے کی زور دار آواز پر زہرا بتول نے اپنی نم سہمی آنکھوں کو کھول کر سامنے دیکھا تو فرش پر شیشوں کے ٹکروں کو دیکھ کر وہ ساکت رہ گئیں۔


"پلیز رونا بند کرو مجھے تمھارا رونا بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمھارے رونے سے اور میرے اس عمل سے مجھ سے نفرت مت کرنا حجابن ورنہ میں اس پوری دنیا کو ختم کر دوں گا۔"


زیرون راجپوت نیلی آنکھوں میں بے تحاشہ سرخی لیے تیزی سے بہتے اپنے خون کو دیکھتے ہوئے ہلکی بوجھل آواز میں بولا۔


یہ کہ کر وہ تیزی سے کلاس روم سے باہر نکلا تو زہرا بتول اسکے باہر نکلتے ہی سکون کی سانس خارج کرتی اس پاک ذات کا شکر ادا کرنے لگی۔۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


آدھی رات کو زیرون راجپوت لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ جب راجپوت مینشن میں داخل ہوا تو سامنے صوفے پر اپنے دادا کو بیٹھے دیکھ عجیب طرح سے مسکرایا اور اپنے لڑکھڑاتے قدم انکی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔


"آپ یہ روز رات کو میرا انتظار کیوں کرتے ہیں سوتے کیوں نہیں۔۔۔؟ جاگ کر ساری رات کیوں گزار دیتے ہیں۔۔۔آپ میری فکر کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟؟؟آپ اچھی طرح جانتے ہیں کبھی کبھی میری صبح کلبز میں بھی ہوتی ہے پھر آپ کیوں اپنا ٹائم مجھ پر ویسٹ کرتے ہیں۔؟؟


نشے کی وجہ سے اسکی آواز بھاری ہو گئی تھی وہ چل کر انکے پاس پہنچا اور انہیں اپنی مدہوش نگاہوں سے دیکھنے لگا۔


"جب تمھارے جیسا نالائق ضدی پوتا باہر رنگ رلیاں منا رہا ہوں تو مجھ جیسے دادا کو راتیں جاگ کر گزارنی پڑتی ہیں۔.


اسے نشے میں لڑکھڑاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے غصے سے اسکی جانب دیکھتے ہوئے۔۔


"برخوردار اگر تمھیں اپنے اس بوڑھے دادا کی تھوڑی سی بھی فکر ہے نا تو یہ سب چھوڑ دوں اور میری پسند کردہ لڑکی سے مل کر اسے جاننے کے بعد شادی کر لوں پھر ہمارا خاندانی بزنس سنبھالو ۔"


انہوں نے صوفے سے اٹھ کر اسکے قریب آتے ہوئے کہا۔


"ہاہاہاہاہاہا ہاہاہا ہاہاہا۔"


انکی بات پر وہ زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنے قدم انکی جانب بڑھاتے۔۔


"آپ اس چیز کو چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں جسے آپ نے خود میرے ساتھ باندھا ہے۔؟


اچانک سے اسکی آنکھیں ضبط کے باندھ توڑ کر سرخ انگارہ ہوگئی تھی۔۔


"میں حرام مشروب کبھی بھی پینا نہیں چاہتا تھا مگر آپ نے میرے بگڑ نا جانے کے ڈر سے اہم اہم تہواروں پر یہ حرام شے مجھے تحفوں میں دئیے۔۔۔


اسکی درد میں ڈوبی نشیلی آواز نے سامنے کھڑے اسکے بوڑھے دادا کو ہلا کر رکھ دیا۔


"تاکہ میں آپکے اس حرام تحفے کو پیار نہیں بلکہ آپکا ایک طنز سمجھ کر ہاتھ نا لگاؤ لیکن آپ شاید بھول چکے تھے کہ میں ایک جنونی پاگل انسان ہوں۔۔


اپنی سرخ نیلی آنکھوں کو اٹھا کر انکی جانب دیکھتے ہوئے۔


"مجھے جس چیز کو کرنے سے روکا جاتا ہے میں وہی کرتا ہوں آپکے اس طنز کو میں نے الٹا لیا اور میں نے اس حرام مشروب کو جب آپ نے مجھے پہلی بار میری اٹھارہ سال کی عمر میں مجھے عید کے دن دیا تب میں نے اس حرام چیز کو پہلی بار اپنے لبوں سے لگایا۔۔


آج زہرا بتول کی نفرت نے اسے توڑ دیا تھا اس لیے وہ نشے میں اپنے دادا سے اپنے دل میں اٹھارہ سال کی عمر سے دبی ان سبھی باتوں کو آج بھڑاس کی صورت نکال رہا تھا۔


"جس مبارک دن کو مسلمان خوشیاں مناتے ہیں اس دن میں نے آپکے اُس طنزیہ تحفے کی وجہ سے اتنی چھوٹی عمر میں اس خوشی بھرے دن کو میں نے اس حرام شے سے سیلبریٹ کیا تھا۔"


"جب میری یونیورسٹی لائف شروع ہوئی تب آپ نے میرے پلے بوائے نا بننے کے ڈر سے میری ہر سالگرہ پر یونی کی ان معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر جو نیک اور شریف لڑکی تھیں آپ نے انہیں میرے بیڈروم تک لانے کے لیے اپنی اس کرائے کی لڑکی کو حکم دیا تھا۔"


غصے سے انکی جانب دیکھتے ہوئے۔۔


"آپ انہیں میرے سامنے لاکر مجھے یہ دیکھانا چاہتے تھے کہ عورتیں صرف پیسوں کے لیے امیر لڑکوں کے پاس آتی ہے وہ محبت کے لائق نہیں ہوتی ہے۔۔


وہ نیلی آنکھوں میں انکی اس گھٹیا سوچ پر افسوس سموئے انکی جانب دیکھتا ہوا۔


"آپ چاہتے تھے میں کبھی کسی لڑکی کو اپنے دل میں جگہ نہ دوں عشق سے دور بھاگوں بلکہ عشق نام سے نفرت کروں مگر آپکی یہ سب کوشیشیں ایک نیک لڑکی نے ختم کر دی ہے دادا حضور اب آپکا یہ پوتا پور پور ایک نیک سیرت لڑکی کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔"


طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ انکے کندھے پر اپنا سر رکھ کر اپنی نشے میں ڈوبی آنکھیں بند کرتا نشیلی بھاری آواز میں بولا۔


"دادا حضور آپکا یہ اکڑ ضدی پوتا اس نیک پاکیزہ زہرا بتول کے عشق میں پاگل ہو چکا ہے اسکی آنکھوں کا دیوانہ اسکی ایک ایک معصومانہ ادا کا عاشق بن چکا ہے اب آپ اپنے اس ضدی سرکش پوتے کو چاہ کر بھی اس نیک پاکیزہ لڑکی سے دور کرنے کی کوشش نہیں کر پائے گے۔"


آنکھیں بند کیے زہرا بتول کو سوچتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔


اپنے پوتے کے لہجے میں جنونیت دیکھ کر وہ ڈر گئے وہ یہ سب نہیں چاہتے تھے اپنے اس پوتے سے انہیں بہت سی امیدیں تھی اپنے بڑے بیٹے کے دنیا سے جاتے ہی انہیں اپنے خاندانی بزنس کے لیے اپنا یہ پوتا پرفیکٹ لگا تھا اسی لیے وہ اسے لڑکی کے پیچھے بلکل بھی نہیں جانے دیتے تھے لیکن آج وہ اسے کسی لڑکی کے لیے اتنا دیوانہ دیکھ کر ایک فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔


اسے صوفے پر لیٹاتے ہوئے انہوں نے زور سے گھر کے سبھی ملازموں کو وہاں بلایا تو انکی آواز پر سب ملازم وہاں آکر کھڑے ہوگئے۔۔


انکے وہاں آتے ہی انہوں نے ان سبھی کو زیرون راجپوت کو اسکے بیڈ روم میں لیجانے کا حکم دیا۔


تو سب ملازموں نے مستندی سے آگے بڑھ کر زیرون راجپوت کے مضبوط جسم کو اٹھایا اور اسے لیے اسکے عالیشان بیڈ روم کی جانب بڑھے۔۔۔


اس وقت گھر کے باقی سبھی مکین اپنے اپنے ساؤنڈ پروف بیڈروم میں تھے اسی لیے باہر کی آوازیں ان تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


امشال نے اُس جنگل میں اتنے سارے لوگوں کی لاشوں کو جب سے دیکھا تھا تب سے وہ خوفزدہ تھیں ان لوگوں کو جسنے مارا تھا وہ اس انسان سے بے پناہ محبت کرتی تھی اسکے بغیر جینا اسکے لیے سنگ لاخ تھا۔


مگر آج اس انسان کی سفاکیت دیکھ وہ ایک پل کو بھی اس بڑے سے مینشن میں اسکے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی۔۔


وہ اپنے لرزتے نازک وجود کو گھسیٹ کر اسکے اس مینشن سے باہر نکل کر باہر لگے بہت سے درختوں کے پیچھے چھپ کر گہری گہری سانسیں لینے لگی۔


سلطان عالم شاہ جو فون کان سے لگائے فرجاد کو مینشن کے باہر سیکورٹی بڑھانے کا کہ کر اپنے عالیشان روم میں داخل ہوئے تو اسے وہاں نا پاکر وہ فون کاٹ کر روم سے باہر نکل کر اسے ڈھونڈنے لگے۔


"امشال۔۔۔۔۔ امشال..""


اس بڑے سے شاندار مینشن کو چھان مارنے کے بعد وہ لاؤنج میں آ کر جنونیت سے اپنے سیاہ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر زور سے چیختے ہوئے امشال کو آوازیں دینے لگے۔


"امشال میری جان تم کہاں ہو پلیز باہر آ جاؤں میں اچھے سے جانتا ہوں تم میری بدصورتی دیکھ کر مجھ سے چھپ رہی ہوں لیکن میں کیا کرتا جاناں وہ لوگ تمھیں مجھ سے چھیننا چاہتے تھے اسی لیے میں نے ان کو مار دیا۔"


وہ نیچے فرش پر بیٹھتے ہوئے کسی سائیکو پیٹھ کی طرح اپنے لبوں پہ ایک قاتلانہ مسکراہٹ سجا کر اپنی سیاہ سرخ آنکھیں چاروں طرف دوہراتے ہوئے۔


"پلیز جانم مجھے اتنا مت تڑپاو ورنہ میں تم پر سختی کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا کیونکہ اب میں تمھیں کسی قیمت پر بھی نہیں کھو سکتا۔۔۔


وہ اچانک سے اٹھے اور مینشن کے باہر نکلے۔۔


"کیونکہ میں نے اپنے بہت سے عزیر لوگوں کو اپنی بدلے کی آگ میں جل کر کھویا ہے جاناں اگر تم چلی گئی ناں تو میں وہی پہلے جیسا ظالم بن جاؤ گا اور سب کچھ تہس نہس کر دوں گا ۔۔"


مینشن کے گیٹ سے باہر نکل کر سیاہ سڑک پر چلتے ہوئے وہ نظریں دوڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے امشال انکی جنونی انداز پر سہم کر سختی سے اپنے دونوں ہاتھ گلابی خوبصورت لبوں پر رکھ کر اپنی سانسوں کی آواز کو دبانے لگی۔


اس وقت رات کے ایک بج رہے تھے اور آسمان بادلوں سے گرا ہوا تھا تیز طوفانی ہوائیں چل رہی تھی کہ اچانک سے بجلی چمکی تو آسمانی بجلی کی تیز روشنی سے انکی نظر سامنے درخت کے پیچھے سفید آنچل نا بچ سکا۔۔۔


وہ لبوں پر ایک جان لیوا مسکراہٹ سجا کر اس جانب بڑھے امشال انکی قدموں کی دھمک پر کانپ کر رہ گئی اور درخت کے پیچھے سے نکل کر ان سے دور ہونے لگی۔


وہ خوف و دہشت کے مارے پیچھے کی طرف بڑھ رہی تھی وہ آنکھوں میں سرخی لیے لبوں پہ جان لیوا مسکراہٹ لیے اسکی جانب بڑھ رہے تھے تبھی سیاہ آسمان سے تیز برکھا برسنے لگا جس سے وہ دونوں مکمل بھیگنے لگے۔


امشال اپنے نازک وجود پر ٹھنڈے گہوارش پڑنے کی وجہ سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر بری طرح سے کانپنے لگی جبکہ مکمل بھیگنے کی وجہ سے اسکے کپڑے اسکے وجود پر چپکنے کی وجہ سے اسکے نازک وجود کے نشیب و فراز کو صاف ظاہر کر رہے تھے۔


وہ انکی خوف سے اور اپنی اس حالت کی وجہ سے بہیوش ہو کر لہرا کر گرنے والی تھی کہ انہوں نے پھرتی سے آگے بڑھ کر اسے اپنی مظبوط باہوں میں بھر کر اٹھایا اور اسے کسی نازک گڑیا کی طرح احتیاط سے اپنے سے لگاتے ہوئے انہوں نے اپنے قدم مینشن کی جانب بڑھائے۔


مینشن میں پہنچ کر اپنے عالیشان بیڈ روم کی جانب بڑھے جب اپنے ماسٹر بیڈ روم میں داخل ہوئے تو انکی بے ارادہ ہی نظریں امشال کے بھیگے پھولوں کی مہک سے شرابور سراپے پر پڑی تو وہ ضبط کے گھونٹ بھر کر رہ گئے۔


اسے احتیاط سے بیڈ پر لیٹا کر اسکی شفاف پیشانی پر اپنا ٹھنڈا لمس چھوڑ کر پیچھے ہٹے تبھی اسی لمحے انکے فون پر میسج ٹون بجا۔


فون جیب سے نکال کر جب انکی نظریں اسکرین پر چمکتے نام پر پڑی تو شدید غصے وہ تلملا کر رہ گئے امشال پر ایک نظر ڈال کر وہ تیزی سے روم سے باہر نکلے۔


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


"ویلکم سویٹ ہارٹ۔"


میسج پڑھ کر غصے سے سوات کے اس عالیشان پینٹ ہاؤس کے لیے نکلے اور جب وہ اس پینٹ ہاؤس کے اندر داخل ہوئے تو سامنے سے ایک حسین لڑکی نے آکر انکے سینے سے لگ کر انکے گالوں کو چھوا تو وہ سخت ناگواری سے اس لڑکی کو خود سے دور کرتے ہوئے اندر اس روم کی جانب بڑھے جہاں اکثر وہ اس لڑکی کے کہنے پر رات گزارتے تھے۔۔


لڑکی ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے جب انکے پیچھے روم میں آئی تو انہیں سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے دیکھنے لگی۔


"اپنی حد میں رہوں تم اوکے اور میں یہاں صرف تمھیں یہ کلیئر کرنے کے لیے آیا ہوں کہ کل بھی میری زندگی میں ایک ہی عورت تھی اور آج بھی ایک ہی عورت ہے جو میری بیوی ہے۔"


انہوں نے انتہائی بے رحمی سے اس لڑکی کو اسکی حیثیت باور کروائی تو وہ لڑکی تلملا کر جوس سے بھرا گلاس انکے چہرے پر مارا تو جوس کے چھینتے پڑنے کی وجہ سے انکی گردن پر لگا میک اپ بہنے لگا۔۔


"میں بھی تمھاری بیوی ہوں شاہ یہ تم بھول کیوں جاتے ہوں اور تم کب تک کب تک اس لڑکی کو دھوکا دوں گے

اسے سب سچ کیوں نہیں بتا دیتے کہ تم۔"


لڑکی انکی گردن پر لگے امشال کے نام کا ٹیٹو دیکھ کر آگے بڑھی اور جنونی نے انداز میں اس ٹیٹو کو چھوتے ہوئے رو کر کہنے لگی۔


اس لڑکی کی بات بیچ میں انکے سختی سے نازک گردن پر ہاتھ رکھ کر دباؤ دینے کی وجہ سے رہ گئی وہ اپنی سیاہ جنونی آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے۔۔


"خبردار جو تم نے غلطی سے بھی میرے سامنے ماضی کا وہ باب کھولا تو ممممم۔ میں تمھیں بہت بری موت ماروں گا۔"


اسکی گردن چھوڑ کر وہ تیزی سے پیچھے ہٹے تو وہ لڑکی کھانستے ہوئے اپنے سانس درست کرنے لگی۔


"جان اگر تم روز میرے پاس آؤں گے تو میں اس لڑکی کو کچھ بھی نہیں کہوں گی بلکہ میں اسکے پاس جاؤ گی ہی نہیں۔"


جب وہ مکمل ٹھیک ہوئی تو صوفے پر انکے بے حد قریب بیٹھی اور پھر اپنا سر انکے چوڑے سینے پر رکھ کر انکی شرٹ کے بٹنوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے کہنے لگی۔۔


"کتنی قیمت پر تم میرا پیچھا چھوڑوں گی؟؟؟


رات کے آدھے پہر اسکی مضبوط باہوں میں وہ حسین نازک کلیوں کی مانند حسین لڑکی اپنی آنکھیں بند کیے اسکے جسم سے پھوٹتی خوشبو کو اپنے اندر اتار رہی تھیں۔


وہ لڑکی اس وقت ایک انڈین مہشور برانڈ گایتری دیوی کی سرخ رنگ کی ساڑھی میں اپنی تمام تر عشر سامانیوں کے ساتھ اسکے پاس اسکے چوڑے سینے پر اپنا سر رکھے ہوئے تھیں۔۔


جبکہ وہ اپنے چہرے پر سپاٹ تاثرات سجائے اسے بنا اپنے قریب سے اپنے سینے سے ہٹائے بغیر سرد لہجے میں اس سے پوچھنے لگے۔


"قیمت نہیں مجھے صرف تم چاہیے اور مجھے پتہ ہے یہ تم کبھی نہیں چاہوں گے اسی لیے میں نے۔"


لڑکی نے اپنا سر مقابل کے سینے سے ہٹا کر اسکی سرد سیاہ آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر سامنے ٹیبل پر رکھے اپنے پرس کے اندر سے ایک کاغذ نکال کر اسکے سامنے کرتے ہوئے۔


"تمھیں خود سے باندھنے کے لیے انتظام کر لیا ہے اب چاہ کر بھی جان تم مجھ سے دور نہیں جا سکتے۔"


مقابل کی سرد احساس سے عاری نظریں اسکے نازک ہاتھوں میں ڈبے کاغذات پر پڑی تو وہ غصے سے اپنی آنکھیں بند کر گئے۔۔

اس وقت انکے اندر ایک جنگ چل رہا تھا اور جنگ کی وجہ اس لڑکی کے ہاتھوں اپنا کھلونا بننا تھا۔


"مجھے تمھارے ساتھ نہیں بندھنا اب تم یہ بند کر دو ہمارا ماضی اسکے اِس دنیا سے جاتے ہی ختم ہوگیا ہے اب تم میرا پیچھا چھوڑ دوں۔۔۔۔

اور تم اچھے سے جانتی ہو میں تمھارے ساتھ کیوں ہو کس وجہ سے میں نے تم سے نکاح کیا تھا اور یہ بھی اچھے سے جانتی ہو کہ میں شروع سے صرف اسے ہی چاہتا آ رہا ہوں اور تم ہی میرے اسکے عشق کی انتہا کی گواہ ہوں کہ میں نے اسے پانے کے لیے کیا کیا کیا ہے۔"


مقابل اس حسن کی ملکہ کو بے دردی سے اپنے سینے سے ہٹا کر سرد لہجے میں بولا۔


لڑکی کی خوبصورت ہری آنکھوں سے اسکے ایک بار پھر سے خود کے ٹھکرائے جانے پر آنسو روانی سے بہنے لگے۔


وہ اپنی سرخ نم خوبصورت آنکھوں کو اسکے خوبرو گندمی رنگ کے سرد و سپاٹ چہرے پر گاڑتے ہوئے بے آواز رونے لگی۔


"اگر میں آگے نہ بڑھنا چاہوں تمھارے ساتھ اسی طرح ساری زندگی گزارنا چاہوں تو جان تم کیا کروں گے۔؟؟


اپنے آنسو صاف کرتی وہ حسین لڑکی آگے بڑھ کر اسکے سرد چہرے کو پکڑ کر سسکتی ہوئی شدتِ جنونیت سے وہ اسکے پورے چہرے پر اپنا لمس چھوڑتے ہوئے آخر میں اسکی کالر کو پکڑ کر روتی ہوئی جنونی لہجے میں بولی۔


"کیا مجھے بھی اپنے جڑواں بھائی کی طرح مار دوں گے میں جانتی ہو تم یہ سب اس چھٹانک بھر کی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو کر کر رہے ہوں میں اسے بلکل بھی زندہ نہیں چھوڑوں گی۔"


ہزیانی انداز میں اسکی کالر کو پکڑ کر وہ جنونی انداز میں اسے جھنجھوڑتے ہوئے۔


"جان پاگل پن میں آکر میں اس لڑکی سے بلکل تمھاری طرح انتقام لوں گی جس طرح تم نے اپنے سگے جڑواں بھائی سے اپنی محرومیوں کا بدلہ اسے موت دے کر لیا تھا۔"


جنونیت سے چیختی ہوئی وہ لڑکی بولی۔


"وہ لڑکی میری حیات ہے اسے عشق کرنے کا یا مارنے کا حق صرف مجھے ہے کسی اور کو نہیں۔"


اسکی بات پر اچانک سے اسے صوفے پر دھکا دیتے ہوئے اسکے اوپر جھکتے ہوئے سختی سے اسکی نازک گردن پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر شدت سے دبانے لگے

اس وقت ان کی آنکھوں میں اس لڑکی کے لیے بے پناہ نفرت تھا۔


"اور اگر کسی نے یہ حق سمجھ کر اسکے ساتھ کیا ناں تو میں اس شخص کی سانسیں چھیننے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاؤں گا۔"


صوفے پر تڑپتی نازک کلیوں کی مانند لڑکی کا گردن چھوڑ کر وہ نفرت سے بولتے شدید غصے سے لمبے لمبے ڈگ بڑھ کر اس شاندار ماسٹر بیڈ روم سے باہر نکلتے چلے گئے۔


"میں تمھیں اپنے شاہ کی زندگی سے ہمشیہ کے لیے دور نکال کر رہوں گی اسکے لیے اگر مجھے تمھیں مارنا بھی پڑا نا تو میں تمھیں مار دوں گی۔"


پیچھے صوفے پر وہ نازک حسین لڑکی اسکے پاگل پن پر اس لڑکی سے سخت جلن محسوس کرتی بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتی نفرت سے بولی۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Fida E Janah Romatic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Fida E Janah written by Samiya Baloch.Fida E Janah by Samiya Baloch is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment