Pages

Friday 19 July 2024

Mohabbat Khawab Sarab Si Novel By Seema Shahid Complete Romantic Urdu Novel

Mohabbat Khawab Sarab Si  Novel By Seema Shahid  Complete Romantic Urdu Novel 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Khawab Sarab Si By Seema Shahid Compkete Romantic Novel 

Novel Name: Mohabbat Khawab Sarab Si

Writer Name: Seema Shahid 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

'افف آج فرائیڈے ہے  ایک اور ویک اینڈ اکیلے  فیس کرنا پڑے گا ۔۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ کے سیڑھیاں چڑھتے قدم دھیمے ہڑگئے تھے  اس وقت سناٹا سا چھایا ہوا تھا کوئی بھی اس کے رکنے کو نوٹس کرنے والا دور دور تک نہیں تھا ۔

 کاریڈور بھی ویران پڑا تھا وہ مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی روم نمبر اٹھارا کے سامنے آکر رکی کندھے پر لٹکتے پرس میں سے چابی نکال کر دروازہ کھولنے لگی ۔

یہ  چار منزلہ گرینڈ لاروش مینشن تھا جہاں بہت سے لوگ کمرہ کرائے پر لے کر رہتے تھے ان میں زیادہ تر تعداد اسٹوڈنٹس کی تھی اور کسی کو کسی سے کوئی مطلب کوئی غرض نہیں تھی  اسے  گیسٹ ہاؤس کم ہوٹل کہنا زیادہ مناسب تھا نیچے فلور پر ریسپیشنسٹ بھی تھی اور دروازے پر باوردی چوکیدار بھی ۔

یہاں کے کمرے بڑے کشادہ تھے اور ہر کمرے میں ایک چھوٹا سا کچن ساتھ تھا۔ انہیں اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کہا جاسکتا تھا ۔

کنزہ مرتضیٰ کو یہاں  تنہا رہتے چھ مہینے ہوگئے تھے اب تو وہ اس تنہائی اس سناٹے کی عادی ہوتی جارہی تھی ۔

اندر پہنچ کر اس نے اپنا پرس اچھال کر کمرے میں موجود واحد صوفے پر ڈالا اور ہاتھ منہ دھو کر کچن میں چائے بنانے چلی آئی کیتلی میں چائے کا پانی چڑھا کر وہ فرج اور پھر کیبنٹ کھول کر گروسری چیک کرنے لگی عموماً وہ ایک ہفتے کی گروسری ایک ساتھ کرکے رکھ لیتی تھی کہ بار بار مارکیٹ نا جانا پڑے ۔

چھ ماہ پہلے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد وہ اس جگہ موو ہوئی تھی کہ پرانا گھر اس کے والد کی دوسری بیوی نے خالی کروالیا تھا۔ 

اس کے والد مرتضی کمال جنہوں نے اس غیر ملک میں آنے کے بعد گرین کارڈ کے لئیے دوسری شادی کرلی تھی کہنے کو تو وہ ایک پیپر میرج تھی اور انہوں نے جینا ان کی امریکن وائف سے کچھ نہیں چھپایا تھا مگر جلد ہی وہ جینا جیسی طرح دار اپنی ہم عمر حسینہ کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب کر اپنی کم عمر مشرقی پاکستانی بیوی اور بیٹی کو بھلا کر بس جینا کے ہو کر رہ گئے تھے ۔

کنزہ مرتضیٰ کو اس کی ماں نے اکیلے پالا تھا وہ تو کچھ اللہ نے مرتضی کمال کے دل میں رحم ڈال دیا تھا کہ انہوں نے ان ماں بیٹی سے قطع تعلق کے باوجود انہیں اس دیار غیر  میں  گھر سے نہیں نکالا بس خود گھر چھوڑ کر جینا کے ساتھ نئئ دنیا بسا لی تھی اور پھر کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا ۔

کنزہ کی ماں کے کے مرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی بیٹی کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا تھا ۔

چائے کا پانی ابل ابل کر خشک ہورہا تھا جب کنزہ کے سیل فون  کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔

اپنی سوچوں سے باہر نکل کر اس نے جلدی سے چولہا بند کیا اور کچن سے باہر نکل کر سائیڈ میز پر پڑا اپنا فون اٹھا کر کان سے لگایا ۔

کیتھرین آنٹی کی کال تھی اس کی سابقہ پڑوسی اور مما کی دوست اس نے مسکراتے ہوئے انہیں ہیلو کہا ۔

" کنزہ بے بی ! آج مائیکل گھر آرہا ہے اس کے ساتھ ایک مسلم لڑکا بھی ہے تم ٹھیک آٹھ بجے تک گھر آجانا ۔۔۔۔" انہوں نے ہدایت دی کنزہ کی والدہ کے گزر جانے کے بعد ان کی پوری کوشش تھی کہ کنزہ کی شادی کروا دی جاتی وہ تو اپنے بیٹے مائیکل کے لئیے بھی راضی تھیں مگر کنزہ نے انہیں پیار سے مذہب کا سمجھا کر انکار کیا تھا تب سے ان کے سر پر اس کے لئیے مسلم لڑکا ڈھونڈنے کا بھوت سوار ہوگیا تھا ۔یہ بھی شاید اس کی مرحوم ماں کی کوئی نیکی ہی تھی ورنہ اتنا مخلص آج کے دور میں کون ہوتا ہے ؟ ۔۔۔

"کیتھرین آنٹی ! کل صبح آفس جلدی جانا ہے اس لئیے آج تو آنا ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔" اس نے بہانہ بنایا ۔

" میں سب سمجھتی ہوں ۔۔۔۔" وہ ناراض ہوئیں ۔

" دیکھو گرل ! زندگی میں ایک مرد کا ہونا بہت ضروری ہے جس کے ساتھ تم گھومو انجوائے کرو اپنے دکھ درد خوشیاں شئیر کرو ۔۔۔۔" 

" آنٹی پلیز ۔۔۔۔مجھے مرد ذات پر اعتبار نہیں آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں ۔۔۔۔' کنزہ نے ان کی بات کاٹی۔ 

" پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور بنا آزمائے سب کو ایک ترازو میں تولنے والے احمق ہوتے ہیں ۔۔۔" کیتھرین آنٹی نے سمجھایا  پر وہ کہاں سمجھنے والوں میں سی تھی ۔

" آنٹی میں جانتی ہوں آپ میری فکر کرتی ہیں میری مدد کرنا چاہتی ہیں اور میں یہ سب ایپریشیٹ  بھی کرتی ہوں لیکن پلیز ابھی میرا دل و دماغ کسی بھی رشتے کے لئیے تیار نہیں ہیں ۔۔۔۔" 

" تم غلطی کررہی ہو ۔۔۔۔" کیتھرین آنٹی نے افسردگی سے سانس بھری ۔

" آخر کب تک اس طرح اکیلی زندگی گزارتی رہو گئی ؟ یہ دنیا بڑی بے رحم ہے یہاں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا سوائے آپ کے ہمسفر کے۔ ۔۔۔" 

" آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔۔۔میں سوچوں گئی اس پر ۔۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ نے بڑی مشکل سے اپنی جان چھڑائی تھی ۔

وہ جانتی تھی کہ کیتھرین آنٹی کا کہا ایک ایک لفظ درست تھا مگر اس کا دل کسی بھی مرد پر بھروسہ کرنے کے لئیے تیار ہی نہیں ہوتا تھا ۔۔  

                               *------*-------*

نیویارک کی صبح ہمیشہ کی طرح ہنگامہ خیز تھی ٹریفک اسکول بسوں کا شور  بچے بڑے بوڑھے ہر کوئی تیزی میں تھا وہ بھی اپنے وقت پر آفس پہنچ چکی تھی ۔

یہ ایک امپورٹ ایکسپورٹ ٹریڈنگ کمپنی تھی جس کے مالک انکل جارج ۔۔۔ کیتھرین آنٹی کے بھائی تھے وہ اپنی امی کے انتقال کے بعد سے یہاں جاب کررہی تھی  ان کی پی اے کی حیثیت سے  ۔

فکر معاش کے چکر میں اس کی  پڑھائی بھی ادھوری رہ گئی تھی ۔

ابھی بھی وہ پرنٹر سے آرڈرز کا پرنٹ آؤٹ نکال رہی تھی جب اس کے آفس میں کھانستے ہوئے انکل جارج داخل ہوئے ۔

" آپ ؟ ۔۔۔" وہ انہیں دیکھ کر حیران ہوئی کہ تین دن پہلے ہی وہ مائنر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہاسپٹلایز ہوئے تھے ۔

" آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے کال کردیتے یوں آفس آنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔۔" وہ خفا ہوئی ۔

" بیٹھیں ادھر میں آپ کے لئیے دودھ گرم کرکے لاتی ہوں ۔۔۔" وہ آفس کے اندر بنے کچن میں گئی اور فرج سے دودھ نکال کر مائیکرو ویو میں گرم کر ان کے پاس آئی 

" تم بالکل اپنی ماں جیسی ہو رحم دل ، خوبصورت ، پر خلوص ، میں کبھی  کبھی سوچتا ہوں اگر تم نا ہوتی تو میں کیا کرتا ؟ ۔۔۔۔" انکل جارج نے کپ تھامتے ہوئے اسے سراہا۔ 

" ابھی تو آپ صرف وہ کریں جو آپ کے ہارٹ اسپیشلسٹ نے کہا ہے ۔۔۔آرام خوب ڈھیر سارا آرام ۔۔۔۔۔" کنزہ نے کہا ۔

" اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اوپر سے پیٹر ( بیٹا ) بھی چھوٹا ہے ابھی پڑھ رہا ہے اس کی مدد بھی نہیں لے سکتا تو بس لے دے کہ اب تم ہی بچی ہو ۔۔۔۔۔" 

" آفکورس ! جارج انکل آپ بتائیں کیا کام کرنا ہے میں کردونگی ۔۔۔۔" اس نے نرمی سے انہیں اپنے ساتھ کا احساس دلایا ۔

" وین ہوٹ کو افگنز سے خرید لیا ہے ۔۔۔۔" 

" تو آپ کو کیا لگتا ہے اس سے ہمیں کوئی فرق پڑے گا ؟ ۔۔۔" وہ ان کے نزدیک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔

" ہمارا کانٹریکٹ وین ہوٹ کے ساتھ تھا اب افگنز اسے رینیو کرینگے ورنہ ہم بینک کرپٹ ہوجائیں گئے ۔۔۔۔" وہ اپنا سر تھامتے ہوئے بولے ۔

" انکل  آپ پریشان مت ہوں آپ کو تو اتنا تجربہ ہے کہ کوئی آپ کو انکار کرہی نہیں سکتا بس آپ ان سے میٹنگ ارینج کرکے اپنا کانٹریکٹ رینیو کروا لیں ۔۔۔۔" اس نے حوصلہ بڑھایا ۔

" اسی لئیے تو یہاں آیا ہوں وہ میٹنگ آج ہے اور میری طبیعت ابھی اس قابل نہیں کہ میں اتنی دیر بیٹھ کر میٹنگ کروں پھر آفیشل ڈنر ۔۔۔۔۔" وہ ٹھیک ٹھاک پریشان تھے ۔

" کنزہ ہمیں ہر حال میں یہ کانٹریکٹ چاہئیے کیا تم میری مدد کرو گئی ؟ ۔۔۔۔۔" 

" میں ؟ ۔۔۔۔" وہ حیران ہوئی ۔

" ہاں تم ! ۔۔۔۔" 

" مگر انکل ! مجھے تو کچھ نہیں آتا میں کیسے ۔۔۔۔۔" 

" میں نے فائل بنائی ہوئی ہے بیٹھو میں تمہیں نکات سمجھا دیتا ہوں ۔۔۔۔" 

" مگر ۔۔۔اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی تو ۔۔۔؟ ۔۔۔" وہ پریشان ہوئی ۔

" نہیں ہوگی ۔۔۔۔" انہوں نے شفقت سے کہتے ہوئے فائل کھول کر کسی ٹیچر کی طرح دھیرے دھیرے اسے سب سمجھانا شروع کردیا ۔

" میٹنگ رات آٹھ بجے بیسٹ ویسٹرن میں ہے تم میری گاڑی لے جانا ۔۔۔۔" 

" اٹس اوکے انکل میں ٹیکسی کرلونگی ویسے بھی پارکنگ وغیرہ کے چکر میں کون پڑے ۔۔۔۔" اس نے مسکرا کر جواب دیا ۔

وہ اٹھے اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر نکلنے لگے ۔

" انکل یہ تو بتا دیں میٹنگ کس کے ساتھ ہے ؟ ۔۔۔۔" 

" اذلان افگن ۔۔۔۔۔" وہ نام بتا کر باہر نکل گئے ۔

" اذلان افگن ۔۔۔۔ " اس کا چہرہ یہ نام سن کر سفید پڑگیا تھا وہ تیزی سے باہر نکلی ۔

" انکل جارج ۔۔۔۔۔" اس نے تیزی سے انہیں کارہڈور میں روکا ۔

" آئی ایم سوری انکل میں ۔۔۔ میں یہ سب نہیں کرسکتی ۔۔۔ویری سوری ۔۔۔۔۔" وہ بے انتہا نروس تھی ۔

" کیوں ؟ کیوں نہیں کرسکتیں ؟ تم ہماری کمپنی کی بیسٹ ایمبیسڈر ثابت ہوگی خود پر کانفیڈنس رکھو گرل ۔۔۔" 

" انکل میں وہ اذلان افگن ۔۔۔" وہ بے ربط انداز میں بولی ۔

" کیا تم مسٹر افگن کو جانتی ہو ؟ ۔۔۔۔۔" انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" نن نہیں ۔۔۔۔۔" وہ چپ ہوگئی کہ ضروری تو نہیں دنیا میں ایک ہی شخص کا نام اذلان افگن ہو ۔۔۔

اذلان افگن ۔۔۔اگر اس دنیا کا آخری آدمی بھی ہوتا تو وہ اس سے کبھی بھی ملنا نہیں چاہتی ۔۔۔اس کا چہرہ خوف سے سفید پڑگیا تھا ہاتھ پیر الگ ٹھنڈے پڑنا شروع ہوگئے تھے ۔

" کنزہ ۔۔۔۔کنزہ ۔۔۔۔۔" انکل جارج کی آواز پر وہ ہوش میں آئی ۔

" کیا تم مسٹر افگن کو جانتی ہو ؟ ۔۔۔۔۔" وہ پوچھ رہے تھے ان کا چہرہ پسینے پسینے ہو رہا تھا وہ بار بار اپنا سینہ سہلا رہے تھے یقیناً ان کی طبیعت خراب ہورہی تھی ۔

"جی ۔۔۔۔۔" وہ بوکھلا اٹھی ۔

 " میں انہیں جانتی ہوں کہ نہیں آپ پریشان مت ہوں گھر جائیں اور پلیز گھر جائیں  ڈاکٹر کو کال کریں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی  ۔۔۔۔" 

" مگر یہ کانٹریکٹ ؟ ۔۔۔۔" انہوں نے بیچارگی سے اسے دیکھا۔ 

" میں دیکھ لونگی ،آپ کی جان سے بڑھ کر نہیں ہے ۔۔۔" وہ ہمت کرکے ہامی بھر گئی کہ کہیں دل میں موہوم سی امید تھی کہ یہ وہ نا ہو ۔۔۔۔ویسے بھی پوری دنیا میں ضروری تو نہیں کہ ایک ہی اذلان افگن ہوتا ۔۔۔

" بہت شکریہ گرل ! رات اگر وقت سے گھر آجاؤ تو مجھے کال کرنا میں انتظار کرونگا ورنہ صبح بات کرلینگے ۔۔۔۔۔" 

                                *----*-----*

وہ آفس سے جلدی گھر آگئی تھی اور اب اپنی وارڈروب کھولے کھڑی تھی اسے ہر قیمت پر انکل جارج کی کمپنی اور اپنی نوکری بچانے کے لئیے یہ کانٹریکٹ حاصل کرنا تھا  ۔

دو  تین لباس کو تنقیدی نظروں سے دیکھنے کے بعد اس نے ایک سفید جرسی کے ساتھ نیلا لانگ اسکرٹ سلیکٹ کرکے لباس تبدیل کیا اپنے گھنے گھنگھریالے بالوں کو اونچا کرکے پونی میں قید کرکے گلے میں دوپٹہ نما اسکارف پہن کر آئینے میں اپنا جائزہ لیا ۔ناک کان گلا ہاتھ سب خالی تھے اس نے کوئی جیولری نہیں پہنی تھی سرد کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے لائٹ پنک لپ گلوس اٹھا کر لگایا ۔

وہ اپنے ہی عکس کو آئینے میں غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

اذلان افگن تو اب تک مجھے بھول بھی چکا ہوگا  ۔۔۔۔

اسے کہاں یاد ہوگا کہ کوئی کنزہ بھی تھی وہ تو اب شاید اسے پہچانے بھی نا ۔۔۔

تین سال ۔۔۔۔تین سال کم نہیں ہوتے تین سال پہلے وہ محض اٹھارا سال کی تھی اس وقت اس کا چہرہ بہت کیوٹ بچوں کا سا ہوتا تھا بال بھی گھٹنوں کو چھوتے تھے ماں کا سایہ سلامت تھا اور اب ۔۔۔

اب وہ ایک اکیس سال کی بھرپور دوشیزہ تھی  سیاہ چمکدار گھونگریالے ریشم کے لچھوں جیسے بال اب  کمر کو چھوتے تھے ۔

کنزہ مرتضیٰ نے ایک گہری سانس بھری ۔۔۔

" اور اگر وہ وہی ہوا اور مجھے پہچان گیا تو ؟ ۔۔۔۔" 

" ماضی تو گزر چکا ہے اتنا عرصہ کون کسی کے خلاف نفرت پالتا ہے ؟ وہ یقیناً آگے بڑھ چکا ہوگا ۔۔۔۔" اس نے خود کو تسلی دی تھی ۔۔۔۔۔

                                *----*----*

بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کی عالیشان بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی وہ ویٹر کی رہنمائی میں ریزرو سیٹ کی طرف بڑھی اور ایک لمحے کو اس کے قدم ڈگمگا سے گئے تھے ۔۔

پورے راستے وہ دعائیں مانگتی ،منتیں مانگتی ہوئی آئی تھی کہ یہ اذلان افگن کوئی اور ہو مگر یہ تو وہی تھا ۔۔۔۔

کھڑے مغرور تنے تنے سے نقوش سرخ و سفید رنگت ، گھنا شیو جو اس کے چہرے کو اور بھی ہینڈسم بنا رہا تھا بھنچے ہوئے لب ۔۔۔۔۔سفید ڈریس شرٹ میں کف فولڈ کئیے وہ بڑی بے زاری سے میز پر بیٹھا ہوا اپنی انگلیاں میز پر بجاتے ہوئے شاید اپنی سیکریٹری سے بریفنگ لے رہا تھا وہ آج بھی ویسا ہی تھا ذرا سا بھی نہیں بدلا تھا  ۔۔۔۔

وہ وہیں کھڑی اسے دیکھے جارہی تھی قدم جیسے جم سے گئے تھے ۔اس نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا ابھی بھی وقت تھا وہ تیزی سے پلٹی ۔۔۔۔دو تین قدم ہی آگے بڑھی تھی ۔

" گڈ ایوننگ مس مرتضی ۔۔۔۔۔" ایک بھاری گھمبیر آواز اس کے عقب سے ابھری ۔۔

وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنا دھک دھک دھڑکتا ہوا دل بمشکل سنبھالتے ہوئے پلٹی ۔۔۔۔دراز قد اذلان افگن اس کے سامنے کھڑا تھا اس کی گہری نیلی آنکھیں کنزہ مرتضیٰ پر جمی ہوئیں تھیں ۔پر ان میں شناسائی کی کوئی رمق  نہیں تھی ۔۔۔

اس نے بڑی مشکل سے اپنے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائی کہ بہرحال وہ اس وقت اس کی کمپنی کا ایک اہم کلائنٹ تھا جس سے اسے انکل جارج کی خاطر ہر حال میں کانٹریکٹ سائن کروانا تھا ۔

" آئی ایم سوری انکل جارج ، آئی مین جارج سر کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مجھے ان کی جگہ  آنا پڑا کہ آن دا اسپاٹ میٹنگ کینسل کرنا مناسب نہیں تھا  ۔۔۔" کنزہ نے اپنی موجودگی کی وضاحت دی پر وہ ۔۔۔۔وہ تو عجیب سی سرد نظروں سے اسے دیکھے چلا جا رہا تھا ۔

" مسٹر جارج نے مجھے اچھی طرح سے سمجھا کر ادھر بھیجا ہے میرے پاس کانٹریکٹ کی ساری ڈیٹیلز موجود ہیں اگر آپ ڈسکس کرنا چاہیں یا آپ کے ذہن میں کوئی پوائنٹس ہوں تو آئی تھنک میں کلئیر کر سکتی ہوں ۔۔۔" وہ اس کی نظروں کے ارتکاز سے ٹھیک ٹھاک گھبرا رہی تھی پر خود کو مضبوط ثابت کرنے کے لئیے جمی ہوئی تھی کہ اب جب وہ اسے دیکھ ہی چکا تھا تو چھپنا ،بھاگ جانا سب بیکار تھا مگر دیکھنا الگ ہوتا ہے اور پہچاننا الگ ۔

" اللہ جی ! میں سو نفل شکرانے کے پڑھونگی بس یہ آدمی مجھے پہچانے نہیں ۔۔۔۔۔" وہ دل ہی دل میں منتیں مانگ رہی تھی ۔

" جارج کے ساتھ نیا اور ڈائریکٹ  کانٹریکٹ ؟ ۔۔۔۔" اس نے سوالیہ نظروں سے کنزہ مرتضیٰ کو دیکھا  

" یس ۔۔۔۔" وہ اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتی ہوئی بولی ۔

" آئیں ۔۔۔۔" وہ اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے اپنے لئیے مخصوص میز پر آیا ۔

" سر ۔۔۔۔" اس کی طرحدار سیکریٹری نے جلدی سے اس کے لئیے کرسی سیدھی کی ۔

" بیٹھئیے ۔۔۔۔" وہ کنزہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرکے اپنی سیکریٹری کی طرف متوجہ ہوا ۔

" مس ملیسہ آپ جاسکتی ہیں ۔۔۔۔" 

" شیور سر ۔۔۔۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی ایک نظر سامنے بیٹھی کنزہ پر ڈالتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی ۔

" دو لیمونیڈ ۔۔۔۔۔" ڈنر کا آرڈر کرکے اذلان نے ویٹر کو لیمونیڈ پہلے سرو کرنے کا حکم دیا اور پھر سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا جس کا سر جھکا ہوا تھا اور وہ میز کے نیچے اپنے دونوں مومی ہاتھوں کو گود میں رکھے مسلسل مسلے چلی جا رہی تھی ۔

اس نے اپنی پاکٹ میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر کھولا ۔

" سگریٹ ۔۔۔۔؟ " وہ اس کی جھکی نظروں کے آگے پیکٹ رکھے آفر کررہا تھا ۔

" نو تھینکس ۔۔۔۔۔" کنزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے منع کیا جو ایک لڑکی کو سگریٹ آفر کررہا تھا اس ملک میں یہ کوئی معیوب بات نہیں تھی پر وہ ایک دیسی لڑکی تھی اتنا تو وہ بھی جانتا تھا پھر بھی ۔۔ ۔

وہ تھوڑا سا ریلیکس ہوئی کہ اگر وہ اسے پہچان چکا ہوتا تو کبھی بھی سگریٹ آفر نہیں کرتا ۔

" لیمونیڈ سر ۔۔" ویٹر دو نفیس سے گلاس میں مشروب سرو کررہا تھا ۔

" اگر آپ اس کانٹریکٹ کی ڈیٹیلز جارج سر کے ساتھ ڈسکس کرنا چاہتے ہیں تو ہم یہ میٹنگ کینسل کرسکتے ہیں اور جب انکل کی طبیعت تھوڑی بہتر ہوگی وہ آپ سے رابطہ کرلینگے ۔۔۔۔۔" وہ بنا اس کی آنکھوں میں دیکھے  اپنے سامنے رکھے گلاس پر نظریں جمائے ہوئے بات کررہی تھی ۔

"آئی ڈونٹ نو کہ آپ کے انکل جارج کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔" اس نے کندھے اچکائے ۔ 

" انہیں ہارٹ اشیو ہے اور ڈاکٹر نے ریسٹ بتایا ہے پر وہ ورک سے آف نہیں کرپارہے اسی لئیے طبعیت ٹھیک نہیں ہورہی ۔۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔

" ہمم ۔۔۔" اذلان افگن نے ہنکارہ بھرا ۔

" وہ کیا اس سچویشن میں کوئی بھی عقل مند بزنس مین بریک نہیں لیگا جب آپ کے کمپیٹیٹرز آپ کا گلا کاٹنے کو تیار بیٹھے ہوں خیر آپ کی کمپنی وین ہٹ کو کتنے عرصے سے مال سپلائے کررہی تھی ؟ ۔۔۔۔" اس نے سوال کیا ۔

" پانچ سال ۔۔۔۔" 

" وین ہٹ اب ختم ہوچکی ہے اسے افگنز نے خرید لیا ہے کیا آپ میں ہمیں ہماری بڑی ڈیمانڈز کے حساب سے سپلائے فراہم کرنے کی صلاحیت ہے ؟ ۔۔۔۔۔" اس کا سوال سن کر وہ سوچ میں پڑ گئی تھی ان کی کمپنی افگنز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی اور نا ہی سپلائے فراہم کرنے کے بارے میں جارج انکل نے اسے بریف کیا تھا کہ وہ کتنا مال دے سکتے ہیں کتنا نہیں ۔۔۔۔کنزہ کے اعصاب پر ٹینشن سوار ہونا شروع ہوگئی تھی اسے بزنس کی ان باریکیوں کی الف ب بھی نہیں پتہ تھی ۔

" ڈنر شروع کریں ۔۔۔۔" وہ ویٹر کے جانے کے بعد اپنی پلیٹ سیدھا کرتا ہوا بولا ۔

" جی ۔۔۔" اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنی پلیٹ میں بمشکل تھوڑے سے چائینیز رائس ڈالے اور بےدلی سے چمچ الٹ پلٹ کرنے لگی ۔

" ناو ٹیل می تم ادھر کیوں آئی ہو ؟ ۔۔۔۔۔" وہ آرام سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا ۔

" آپ جانتے ہونگے کہ ہماری کمپنی وین ہٹ کو سپلائی فراہم کرتی تھی اور اب وین ہٹ آپ خرید چکے ہیں تو ان کے ساتھ جو ہمارا کانٹریکٹ تھا اسے آپ کی کمپنی سے رینیو کرانا ہے ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولی ۔

" تمہاری اس جارجز فرم میں کیا  پوزیشن ہے ؟ ۔۔۔۔" اذلان افگن نے سکون سے پوچھا ۔

" میں جارج سر کی پرسنل اسسٹنٹ ہوں ۔۔۔۔" 

" ہمم آئی سی !  کیا وہ اس کمپنی کے اکیلے ڈائریکٹر ہیں ؟ " اس کا سوال سن کر کنزہ نے اپنے لب سختی سے بھینچے تھے کیا سامنے بیٹھا شخص بنا کسی تحقیق کے کانٹریکٹ کرنے آیا تھا ؟ یا وہ اسے اس میٹنگ کے قابل نہیں سمجھتا تھا ؟ .

" مسٹر مائیکل بھی ہیں لیکن وہ بزنس ٹور پر ڈیلاس گئے ہوئے تھے  ورنہ وہی آتے اور مسٹر ٹیلر بھی ہیں مگر وہ چھٹیوں پر ہیں  ۔۔۔۔" وہ تفصیل سے بتانے لگی تھی ۔

" مجھے فضول ڈیٹیلز سے کوئی کنسرن نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ اس کی بات کاٹ گیا تھا۔ 

" تو آپ کیا جاننا چاہتے ہیں مسٹر افگن ۔۔۔؟ ۔۔ " وہ سنجیدگی سے بولی 

"جان بوجھ کر انجان بن کر بزنس کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے  مس کنزہ مرتضیٰ ؟ ۔۔۔۔" وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا ۔

وہ لمحہ آگیا تھا جس سے وہ ڈر رہی تھی اس کا حلق خشک پڑگیا تھا جیسے کانٹے سے اگ آئے ہوں ۔۔۔۔

" آپ ۔۔۔۔۔۔" وہ بمشکل بولی ۔

" تم نے مجھے نا پہچانے کی اداکاری کیوں کی ؟ یوں انجان بن کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو ؟ ۔۔۔" وہ کڑے لہجے میں پوچھ رہا تھا اور کنزہ کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے اس کی آنکھوں میں پانی ابھرنے لگا تھا ۔

" تم آج بھی نہیں بدلیں پتہ نہیں یہاں آنے کا حوصلہ تم نے کیسے کرلیا ۔۔۔۔" اس کی بات سن کر کنزہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں میں امنڈتی نمی صاف کی اور سامنے میز پر پڑا اپنا فولڈر اٹھایا ۔

" میرے خیال سے مجھے چلنا چاہئے ۔۔۔۔تھنکس فار ڈنر ۔۔۔۔" وہ کھڑی ہونے لگی تھی ۔

" خاموشی سے بیٹھی رہو فضول میں سین کری ایٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے  ۔۔۔۔۔" وہ پھنکارا ۔

" تم ادھر کانٹریٹ سائن کرنے آئی تھی نا ؟ اس کا کیا ؟ ۔۔۔۔" 

" آپ نہیں بدلے ذرا سا بھی نہیں بدلے اتنے عرصے میں تو آپ کو سب کچھ بھلا دینا چاہئے تھا ۔۔۔" وہ شکوہ کناں ہوئی ۔

" واقعی ؟ سب کچھ بھلا دینا چاہئیے تھا ؟ ۔۔۔۔" وہ ابرو اچکائے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

تھوڑی دیر میز پر سناٹا سا چھایا رہا تھا ۔

" تمہاری امی کا چھ ماہ پہلے انتقال ہوگیا جس کا مجھے بہت افسوس ہے اور سنا ہے جس منگیتر کے لئیے تم نے مجھے چھوڑا تھا وہ بھی تمہیں چھوڑ چکا ہے تو کیا اب تم سنگل ہو یا تمہارے انکل جارج کا بیٹا تمہارا نیا امیدوار ہے ؟ ۔۔۔۔" وہ پوری طرح سے باخبر تھا یہ بات اس نے کنزہ کو جتا دی تھی ۔

اس کی بات سن کر کنزہ نے اپنے سامنے رکھی پلیٹ کھسکا کر دور کی ۔

" آپ کو اس وقت سچویشن کے لحاظ سے برتری حاصل ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ میری اس طرح بے عزتی کریں میں اپنی کمپنی کی وفادار ہوں اسی لئیے یہاں آئی ، اگر آپ کو کانٹریکٹ سائن کرنا ہے تو بتا دیں ورنہ اپنا اور میرا وقت برباد مت کریں ۔۔۔۔" وہ مضبوط لہجے میں بولی ۔

"وفادار ؟ ۔۔۔۔" اس اچھنبے سے اسے دیکھا ۔

"  لگتا ہے تم نے اب وفاداری کرنا سیکھ لیا ہے !!  افسوس  تمہیں کسی سے بہت پہلے وفاداری نبھانی چاہئیے تھی پر تم نے ایسا نہیں کیا ۔۔۔۔" وہ سگریٹ کا دھواں اڑا رہا تھا ماحول بہت ٹینس ہوچکا تھا ۔۔۔

" ویری ویل ! لیٹس ٹاک بزنس تو بتائیں مس مرتضی آپ کون سی گریٹ ڈیل میری کمپنی کے لئیے آفر کرتی ہیں ..." وہ سگریٹ بجھا کر کہنیاں میز پر رکھتے ہوئے سیدھا ہوا ۔

کنزہ نے فولڈر کھول کر اسے سارے پوائنٹس ترتیب سے بتانے شروع کئیے جس کی تیاری سے انکل جارج نے کرائی تھی پر سامنے بھی ایک نمبر کا کائیاں آدمی تھا وہ چن چن کر ایسے نکات اٹھا رہا تھا کہ کنزہ کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں تھا ۔یہ اپنی زندگی کا ایک انتہائی اسٹریس فل اور خوفناک ڈنر تھا .

اذلان افگن بزنس کی دنیا کا ایک بے رحم سخت دل غیر انسانی رویہ رکھنے والا انسان تھا اس بات پر کنزہ مرتضیٰ کو یقین ہوگیا تھا ۔

کانٹریکٹ کی ایک ایک شق پر وہ اتنے پوائنٹ اٹھا رہا تھا اور ہر شق کا اتنا تجزیہ کررہا تھا کہ کنزہ کی نسیں چٹخنے لگیں تھیں اب وہ بس چپ چاپ اسے سن رہی تھی جب وہ رکا اور فائل بند کرکے اس نے ایک بار پھر سگریٹ سلگایا ۔

وہ کئی گھنٹوں سے  انتہائی صبر کا مظاہرہ کرتی ہوئی اس کے کانٹریکٹ سائن کرنے کا انتظار کررہی تھی ۔

" لیٹس گو ۔۔۔یہاں سے چلتے ہیں ۔۔۔" وہ اطمینان سے بولتا ہوا ویٹر کو اشارہ کرچکا تھا جب کے وہ پہلو بدل کر رہ گئی تھی ۔

ویٹر کو اس نے کریڈٹ کارڈ سے پیمنٹ کی اور پرس سے بڑا سا نوٹ نکال کر ٹپ دینے کے بعد وہ دوبارہ کنزہ مرتضیٰ کی طرف متوجہ ہوا ۔

" آپ نے کانٹریکٹ کے بارے میں نہیں بتایا ؟ ۔۔۔" کنزہ نے اس کی توجہ اس کام پر دلائی جس کے لئیے وہ یہاں ملے تھے ۔

" مجھے وقت برباد کرنے کی عادت نہیں ہے ۔۔۔۔۔" وہ اکھڑ انداز میں بولتا ہوا اپنی کرسی کھسکا کر اٹھا سائیڈ پر رکھا اپنا کوٹ پہن کر کنزہ کی سمت آیا اور اس کے احتجاج کی پرواہ کئیے بغیر سختی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لئیے ہوٹل سے باہر نکل آیا ۔

" میں کبھی بھی کسی عورت کو اپنے ساتھ بزنس میں انوالو کرنا پسند نہیں کرتا ، نا ہی عورتوں سے کوئی ڈیلنگ کرتا ہوں ۔۔۔" اس نے  نیم اندھر پارکنگ لاٹ  میں آکر اس کا ہاتھ چھوڑا ۔

" ویل ! اب یہاں سے ہمیں کہاں جانا چاہئیے ؟ ۔۔۔۔"وہ اس پر نظریں جمائے پوچھ رہا تھا ۔ اس کی یہ بات سن کر کنزہ نے اپنا غصہ دباتے ہوئے اسے گھورا تو وہ ہنس پڑا ۔

" کم آن گرل ۔۔۔یہاں پاس ہی میری گاڑی کھڑی ہے تم میرے ساتھ میرے گھر چلو باقی باتیں وہیں کرینگے ۔۔۔" 

" نہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے فوری انکار کیا وہ پتہ نہیں اسے  کیا سمجھ رہا تھا ۔

"انکار  کیوں ؟ میں اپنے سیشنز کا اختتام ڈنر کے بعد اپنے گھر میں بنے آفس میں ہی کرتا ہوں۔۔۔۔" وہ لاپرواہی سے بولا ۔

" سوری پر میں آپ کے ساتھ آپ کے گھر نہیں جاسکتی اور ویسے بھی بہت رات ہوگئی ہے میں آلریڈی لیٹ ہوچکی ہوں اور ۔۔۔۔" وہ بہت زیادہ ان کمفرٹیبل فیل کررہی تھی ۔

" کیا تمہیں آج بھی  اپنی ریپیوٹیشن خراب ہونے کا خوف ہے ؟ یہی بات ہے نا ..." اذلان افگن  کا لہجہ طنز و حقارت سے بھرپور تھا .

" ہاں یہی بات ہے ۔۔۔۔" کنزہ سخت لہجے میں بول کر پلٹنے لگی تھی جب اس کی آواز نے اس کے قدم جکڑ لئیے ۔

" تم ذرہ برابر بھی نہیں بدلیں ۔۔۔۔" وہ قدم اٹھاتا ہوا اس کے نزدیک آیا ۔

" تمہارا یہ معصوم خوبصورت چہرہ ، یہ دلکش سراپا کسی بھی مرد کو احمق بنا سکتا ہے مگر مجھے نہیں ۔۔۔۔" وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے زہریلے لہجے میں بولا ۔

" میرے خیال سے اب مجھے چلنا چاہئیے آپ کے تمام اعتراضات میں انکل جارج کو بتا دونگی وہ خود آپ سے ان پر بات کرلینگے ۔۔۔۔" وہ سکون سے اس کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی پیچھے ہٹی ۔

" ڈنر کے لئیے بہت شکریہ ۔

گڈ نائٹ مسٹر افگن ۔۔۔" وہ کہہ کر باہر کی طرف چلنے لگی ۔

" تم کہاں جارہی ہو ؟ ۔۔۔۔" اذلان افگن نے آواز دے کر پوچھا ۔

" اپنے گھر ۔۔۔" 

" کیسے ؟ تمہاری گاڑی کدھر ہے ؟ ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے پوچھتا ہوا اس کے نزدیک آ کر اسے روک گیا ۔

" میں ٹیکسی کرونگی ۔۔  " 

" چلو میں تمہیں ڈراپ کردیتا ہوں ۔۔۔۔" اس نے اندھیرا دیکھتے ہوئے آفر کی ۔

" نہیں ۔۔۔۔" وہ صاف انکار کرکے رکی ۔

" آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے یہاں سے ٹیکسی آسانی سے مل جائے گی ۔۔۔" 

" یقیناً تمہیں ٹیکسی مل جائے گی لیکن میں ۔۔۔۔" وہ رکا ۔

" میں رات کے ایک بجے کسی خاتون  کو یوں اکیلا سڑک پر چھوڑ کر نہیں جاسکتا ۔۔۔" اس نے سختی سے اس کے بازو کو اپنی گرفت میں لیا اور اسے گھسیٹتا ہوا اپنی مرسڈیز تک لایا اور پچھلا دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیل کر دروازہ لاک کرکے خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ۔

" الٹا سیدھا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اگر دنیا کی تمام عورتیں ختم ہوگئی تو بھی میں تمہیں چھونا پسند نہیں کرونگا ۔۔۔۔۔" اس کے لہجے کی کرختگی سرد پن کنزہ کو سن کرگیا تھا ۔

" کدھر جانا ہے ؟ ایڈرس دو ۔۔۔" اس نے گاڑی اسٹارٹ کرکے سوال کیا ۔

"مجھ سے اتنا نفرت انگیز برتاؤ یقیناً آپ کی مردانہ انا کو تسکین پہنچا رہا ہوگا۔۔۔۔۔" کنزہ نے بھیگے لہجے میں کہا ۔

" نفرت ؟ ۔۔۔۔" اذلان افگن نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور ایک جھٹکے سے ہاتھ بڑھا کر اسے گردن سے پکڑ کر  اپنے نزدیک کیا ۔

" نفرت کرنا محبت کرنے کے ہی مترادف ہے اور تم ۔۔۔۔ " اس نے حقارت سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا  ۔

" تم جیسی بے حس لڑکی کو  تو ان دونوں جذبوں کے معنی تک نہیں پتہ ہونگے اگر پتہ ہوتے تو آج تم یہاں ، اس طرح نا ہوتیں ۔۔۔۔" اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تو وہ پچھلی سیٹ سے جا ٹکرائی ۔

" ایڈرس ؟ ۔۔۔۔۔" اس کی سرد آواز ابھری  ۔

" لاروش مینشن ۔۔۔۔" 

" ہمم ۔۔۔۔"۔ وہ گاڑی کی اسپیڈ بڑھا چکا تھا ۔۔

                            *-----*------*

وہ لب بھینچے خاموشی سے سامنے ونڈ اسکرین پر دیکھتا ہوا گاڑی چلا رہا تھا ،کنزہ نے کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا ۔۔

کیا انہیں بھی وہ رات یاد آرہی ہوگی ؟ آج سے تین سال پہلے جب ہم نے آخری بار ایک ساتھ سفر کیا تھا ؟جب ہم ہاسپٹل سے نکلے تھے۔۔۔

وہ اس وقت ہی اسے اپنے اور ارسلان کے بارے میں سب سچ سچ بتا دینا چاہتی تھی مگر جب ہمت کرکے اس نے بتانے کی کوشش کی اپنی صفائی دینے کی کوشش کی تو نا جانے کیوں پر اسے رونا آنے لگا تھا الفاظ حلق میں پھنس گئے تھے یہ سب بتانا اپنی ذات کی نفی کرنا اتنا آسان تو نہیں ہوتا ۔۔۔

اس رات برستی بارش میں اس کے گھر کے قریب پہنچ کر اذلان نے گاڑی روکی تھی اور خود نیچے اتر کر اسے گھسیٹ کر بڑی بیدردی سے اپنی گاڑی سے اتارا تھا ۔

کنزہ نے ایک گہرا سانس لے کر اپنی آنکھیں بند کی ۔اس کے زخم تو آج تین سال بعد بھی تازہ تھے اس کے کانوں میں آج بھی اذلان کی حقارت سے بھرپور آواز گونجتی تھی ۔

" تم ایک چیپ گھٹیا خودغرض لڑکی ہو ۔۔۔۔۔"

" تمہاری وجہ سے میرے بھائی کی زندگی میں جو ٹریجڈی ہوئی میں تمہیں اس پر کبھی بھی معاف نہیں کرونگا ۔۔۔۔" وہ ماضی میں کھوئی ہوئی تھی ۔

" مس مرتضیٰ ! تمہاری منزل آگئی ہے ہم یہ سیشن پھر کنٹنیو کرینگے ۔۔۔۔۔"

اذلان افگن کی گھمبیر آواز سن کر وہ ماضی سے نکلی ۔

گاڑی لاروش مینشن کے آگے رکی ہوئی تھی ۔

" تم مسٹر جارج کو بتا دینا کہ اگر کانٹریکٹ چاہئیے تو ایک میٹنگ اور سیٹ کرنی ہوگی ، ویسے کب ملو گی تم اپنے جارج انکل سے ؟۔" وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

" آپ کا پیغام انہیں پیر کی صبح پہنچا دیا جائے گا ۔۔۔۔۔" اس نے سادگی سے جواب دیا ۔

" پیر کی صبح کیوں ؟ " اس نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا ۔

" کیونکہ ابھی بہت رات ہوگئی ہے دوسرا سیٹرڈے ، سنڈے آفس بند ہوتا ہے اور یوں اس وقت یا ویک اینڈ پر انہیں کال کرکے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں وہ بہت بیمار ہیں ۔۔۔"اس نے ضبط سے جواب دیتے ہوئے سیٹ پر سے اپنا فولڈر اور پرس اٹھا کر گاڑی سے اترنے کی تیاری کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھا جس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی ۔

" ڈونٹ وری مسٹر افگن ! میں پیر کو آفس کھلتے ہی آپ کی سر جارج سے بات کروا دونگی ۔۔۔۔"وہ پروفیشنل انداز میں بولی ۔

"ہمم۔۔۔۔" اس نے ہنکارہ بھرا ۔

"پیر بہت لیٹ ہو جائے گا ،میں پیر کی صبح پیرس جارہا ہوں ۔۔۔۔"

" کتنے دنوں کے لئیے ؟...." وہ پریشان ہوئی کہ یہ کانٹریکٹ ان کی کمپنی کی بقا کے لئیے بہت ضروری تھا اور مقابل بھی یہ بات جانتا تھا پھر بھی لٹکا رہا تھا ۔

" جمعرات تک واپسی ہوگی ۔۔۔۔" اس نے اطمینان سے جواب دیا ۔

" اوکے آپ واپس آجائیں پھر آپ سے سر جارج کی میٹنگ سیٹ کرلینگے ۔۔۔۔"کنزہ نے سادگی سے جواب دیا کہ وہ جانتی تھی وہ یہ سب جان کر کررہا تھا ۔

"واؤ ۔۔۔۔" اذلان افگن نے اس کا جواب سن کر داد دیتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ سیٹ پر پھیلایا تو وہ مزید دروازے کی جانب کھسک کر سمٹ گئی ۔

" تم اتنی آسانی سے میرا اکاؤنٹ جارجز کے ہاتھ سے نکلوانا چاہتی ہو ؟ جب جارج نے تمہیں یہ ڈیل کرنے بھیجا ہے تو اگر وہ کل نہیں مل سکتا تو تمہیں ملنا ہوگا دس از یور جاب مس کنزہ مرتضیٰ ۔۔۔۔" وہ سرد لہجے میں بولا ۔

" مگر ۔۔۔۔" وہ الجھی ۔

" تم کیا سمجھتی ہو یہ بزنس ،کامرس یہ سب بچوں کا کھیل ہے ؟ تم نے آج میرا وقت برباد کیا ہے تو مجھے اس کا رزلٹ بھی چاہئیے میں پکا بزنس مین ہوں اتنا تو تم بھی جانتی ہو مس کنزہ مرتضیٰ ۔۔۔۔۔" اس نے کنزہ کی طبعیت صاف کی ۔

" گڈ نائٹ مسٹر افگن اور اس زبردستی کی لفٹ دینے کے لئیے بہت شکریہ ۔۔۔۔" وہ اس کی بات نظر انداز کرتی دروازہ کھول کر اترنے لگی ۔

"کیا تم کچھ بھول نہیں رہی؟ ۔۔۔۔۔" اس نے سنجیدگی سے اسے روکا جس پر کنزہ مرتضیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اپنے ہاتھ میں دبے فولڈر اور پرس کو چیک کیا سب کچھ تو تھا اس کے پاس ،وہ الجھی ۔

" کیا تم ارسلان افگن کے بارے میں کچھ نہیں پوچھو گئی ؟؟ " اذلان کا سوال اسے سن کرگیا تھا چہرے کا رنگ مانند پڑگیا تھا ۔۔۔

" کیا میرا ارسلان افگن کے بارے میں پوچھنا بہتر ہوگا ؟ ۔۔۔۔" وہ بہت مدھم آواز میں بولی جس پر ازلان کی نگاہوں میں شعلے سے بھڑکے تھے ۔

" وہ ۔۔۔وہ کیسے ہیں ؟ ۔۔۔۔" اس نے بڑی مشکل سے پوچھا ۔

" زندگی بھر کے لئیے معذور ہوگیا ہے پر یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور ڈاکٹرز تو پہلے ہی ناامید ہوچکے تھے کیوں تمہیں یاد نہیں ڈاکٹرز نے کیا کہا تھا ؟ ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سوال کررہا تھا ۔

" مجھے سب یاد ہے میں وہ سب کبھی بھی بھول نہیں سکتی ۔۔۔" کنزہ کا لہجہ لمحے بھر کو نم ہوا تھا ۔

"تم ۔۔۔۔" ازلان افگن نے لب بھینچے ۔

" کیوں ؟ کیوں یاد رکھا ہے ؟ ویسے بھی کیا کرو گی یاد رکھ کے ؟ ۔۔۔۔" اس نے طنز کیا ۔

وہ اگنور کرتی ہوئی تیزی سے دروازہ کھول کر اتری ۔

" کیوں مس مرتضیٰ ! جواب نہیں ہے تمہارے پاس جو یوں چوروں کی طرح سامنا کرنے سے بھاگ رہی ہو ؟ ۔۔۔" وہ کٹیلے لہجے میں بولا ۔

اس کی یہ بات کنزہ مرتضیٰ کو جھلسا گئی تھی ۔

"آپ آخر چاہتے کیا ہیں ؟ میں معذرت کروں شرمندہ ہوں وہ بھی ایک ایسے کام پر جو میں نے کیا ہی نہیں ،جس کی میں ذمہ دار نہیں ،پہلے دن سے آپ نے اپنے دماغ میں مجھے مجرم قرار دیا ہوا ہے اور میں ۔۔۔۔" وہ ہذیانی انداز میں بولتے بولتے رکی ۔

" یہ سب باتیں اب کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟ آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔۔" وہ خود پر قابو پاتی ہوئی پیچھے ہٹی اور اندر کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے جب گاڑی کا دروازہ کھول کر اذلان افگن نیچے اتر کر لمبے لمبے قدم اٹھاتا اس کے سامنے آیا ۔

" تم نے کبھی کسی بھی رشتے کی ،کسی بھی جذبے کی پرواہ کی ہی نہیں تم ایک مطلبی خودغرض لڑکی ہو ۔۔۔۔" اس کی آنکھوں میں بلا کی سرد مہری تھی ۔

" تف ہے تم جیسی لڑکی پر ۔۔۔۔۔" وہ نفرت سے اسے دیکھتا ہوا پیچھے ہٹا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا ہوا وہ وہاں سے جاچکا تھا ۔

وہ غائب دماغی سے کافی دیر سڑک کے کنارے کھڑی رہی ۔

موسم بدلنے لگا تھا ہلکی پھلکی سی بارش کی پھوار اسے ہوش میں لائی اور وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتی ہوئی بلڈنگ کے اندر داخل ہوگئی ۔

اپنے فلیٹ کے اندر داخل ہوکر اس نے لائٹ جلائی دروازہ لاک کیا اور پرس سائیڈ پر ڈالتی ہوئی ہیروں سے سینڈل اتار کر شو ریک پر رکھنے کے بعد کچن میں آگئی ۔

وہ اپنے اعصاب کو پرسکون کرنے کے لئیے چائے بنانا چاہ رہی تھی مگر ہاتھ کام ہی نہیں کررہے تھے ۔۔۔۔وہ چائے بنانے کا ارادہ ترک کرکے بیڈ پر آگئی اور بنا لباس تبدیل کئیے ایسے ہی لیٹ کر آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔

پر قسمت کی طرح نیند بھی آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی بند آنکھوں میں اس سنگدل کھٹور انسان کی شبیہہ اترنے لگی تھی ۔

ہوٹل کی میز پر بیٹھا یونانی دیوتاؤں کی وجاہت رکھنے والا مغرور اذلان افگن اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا اج پورے تین سال بعد اس کو دیکھا تھا اور وہ ۔۔۔۔۔

وہ آج بھی اتنا ہی ظالم اتنا ہی کھٹور تھا ۔

کنزہ نے کروٹ بدلی ۔

انکل جارج کے بیٹے نے اسے شام ہی ان کی دوبارہ ہاسپٹلائز ہونے کا بتا دیا تھا آج فرائیڈے تھا جمعرات میں پورے چھ دن باقی تھے اس وقت تک یقیناَ ان کی طبیعت بہتر ہوجانی تھی ۔۔۔۔

وہ دوبارہ اذلان افگن سے کیوں ملے ؟ فضول میں اس کے الزامات اور تحقیر بھرا رویہ کیوں برادشت کرے ۔۔۔

نہیں وہ اس سے اب نہیں ملے گی ۔۔۔

وہ فیصلہ کرکے سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن دور کہیں وہ بھی یہ جانتی تھی کہ اذلان افگن اسے اتنی آسانی سے اس معاملے میں چھوڑنے والا نہیں تھا ۔

*-----*-----*

سورج کی روشنی بلائنڈز سے چھن چھن کرتی کمرے کے اندر آرہی تھی وہ آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھی سر ابھی تک بھاری ہو رہا تھا ۔

شاور لے کر تولیہ میں بالوں کو لپیٹتی ہوئی وہ کچن میں آئی اور اپنے لئیے ناشتہ تیار کرنے لگی ۔

چائے ایگ فرائی ٹوسٹ ۔۔۔۔تیار کرکے وہ کمرے میں موجود واحد صوفے پر آکر بیٹھ گئی ہفتہ کا دن تھا اور ویک اینڈ اس کا ہمیشہ ہی اکیلے کمرے میں بند بڑی مشکل سے گزرتا تھا پہلے تو اس کی مما جانی تھیں مگر ان کے بعد زندگی میں جیسے ایک سناٹا سا چھا گیا تھا کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں ۔

وہ بیدلی سے ناشتہ کررہی تھی جب اس کا فون بجنا شروع ہوا پلیٹ رکھ کر اس نے اپنے فون کی تلاش میں نظریں دوڑائیں ۔بیل کی آواز دروازے کے پاس سے آرہی تھی وہ اٹھ کر دروازے کی سائیڈ پر پڑے اپنے پرس کے پاس آئی رات سے اس کا فون پرس میں پڑا تھا ۔

فون نکالا تو کال بند ہوچکی تھی کال لاگ چیک کیا کیتھرین آنٹی کی کال تھی وہ انہیں کال ملاتی ہوئی واپس صوفے پر آکر بیٹھ گئی ۔

" ہیلو آنٹی ! گڈ مارننگ ۔۔۔۔" کال ملتے ہی اس نے خوشدلی سے کہا ۔

" کنزہ گرل ! میں ہاسپٹل میں ہوں جارج کی طبیعت بہت خراب ہے بہت ٹینشن لے رہا ہے بار بار کسی ایگریمنٹ کا پوچھے جا رہا ہے ۔۔ " ان کی پریشان آواز ابھری ۔

" آنٹی وہ ۔۔۔ " اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہے ۔

" ایک آدمی آیا تھا تھوڑی دیر پہلے پھول لے کر اور پیغام دے کر گیا ہے کہ کانٹریکٹ سائن کرنا ہے تو آج دوپہر دو بجے تمہیں اس کے باس سے ملنا ہوگا ۔۔۔ " انہوں نے جیسے اس کے اعصاب پر بم گرایا تھا ۔

" آنٹی ۔۔۔" وہ ایک لمحے کو ذہنی طور پر مفلوج سی ہوگئی تھی ۔

" میرے پاس فائل ریڈی ہے میں ہاسپٹل آرہی ہوں آپ اس آدمی سے مل کر سائن کروا لیں انکل کے پاس میں رک جاؤں گئی ۔۔۔" اس نے سوچ سمجھ کر اپنے تئیں حل پیش کیا۔

" میں ؟ مجھے بھلا بزنس کا کیا پتہ ؟ ۔۔ " وہ اس کی بات سن کر حیران ہوئیں ۔

" اگر تم جانا نہیں چاہتیں تو رہنے دو میں جارج کو سمجھا دونگی ۔۔۔" انہوں نے شاید اسکا گریز بھانپ لیا تھا۔

" انکل کیسے ہیں ؟ ۔۔۔" وہ بات پلٹ گئی ۔

" ابھی بھی بلڈ پریشر بہت ہائی ہے اور ہارٹ بیٹ کنٹرول میں نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ پریشانی سے بتا رہی تھیں ۔

فون رکھ کر وہ جلدی سے تیار ہوکر جارج انکل کو دیکھنے کے لئیے ہاسپٹل جانے کے لئیے نکل گئی تھی ۔

کیتھرین آنٹی ،ان کے بھائی جارج انکل نے اس کی والدہ کے گزر جانے کے بعد اس کا بہت خیال رکھا تھا اور آج تک رکھ رہے تھے پھر وہ بھلا انہیں ایسے کیسے دیکھ سکتی تھی ۔

راستے میں رک کر اس نے پھول اور کچھ پھل اور سینڈوچز خریدے ۔

ہاسپٹل پہنچ کر ریسیپشن سے پوچھتی ہوئی وہ انکل جارج کے پرائیویٹ روم میں داخل ہوئی جہاں مشینوں میں جکڑے سفید داڑھی والے انکل جارج بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور کیتھرین آنٹی وہیں کرسی ڈالے بیٹھی ہوئیں تھیں ۔

" آنٹی آپ جائیں فریش ہو لیں اور یہ لیں کچھ کھائیں ۔۔۔" وہ پھول انکل جارج کے سرہانے رکھ کر سینڈوچز کیتھرین آنٹی کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی ۔

" اچھا ہوا تم آگئیں جارج کو جگاؤ میں آتی ہوں ۔۔۔۔" وہ اسے جارج کی حالت بتاکر خود فریش ہونے واش روم چلی گئیں تھیں ۔

" انکل جارج آنکھیں کھولیں ۔۔۔" وہ پیار سے ان کا بوڑھا ہاتھ پکڑے انہیں پکار رہی تھی ۔

" کنزہ مائی ڈاٹر ۔۔۔۔" انہوں نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھ کر تکلیف برداشت کرتے ہوئے مسکرائے ۔

" بات کرنے ضرورت نہیں ہے ۔۔۔" وہ انہیں بیٹھنے میں مدد دیتی ہوئی بولی ۔

" اٹس گڈ ٹو سی یو کنزہ ۔۔۔" انہوں نے کمزور آواز میں کہا ۔

" یہ لیں ۔۔۔۔" اس نے سائیڈ پر رکھا پھولوں کا بوکے ان کے ہاتھ میں دیا۔

" بہت پیارے ہیں بالکل تمہاری طرح ۔۔ " وہ شفیق لہجے میں بولے ۔

" اب آپ کیسا محسوس کررہے ہیں ؟ ۔۔۔" وہ پھولوں کا گلدستہ ان کے ہاتھ سے لے کر سائیڈ میز پر رکھتی ہوئی پوچھ رہی تھی ۔

" پہلے سے بہتر ہوں ،تم بتاؤ افگن نے ہمارا کانٹریکٹ رینیو کردیا ؟ ۔۔۔" وہ بوڑھی آنکھوں میں امید لئیے اسے دیکھ رہے تھے ۔

" انکل انہیں پیر کو کسی ضروری کام سے پیرس جانا تھا وہ ایک ہفتے بعد میٹنگ کا کہہ رہے تھے اب آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں تو پھر انہیں دیکھ لیجئے گا ۔۔۔۔" اس نے آگاہ کیا ۔

" کچھ امید تو دلائی ہوگی اس نے ؟ ۔۔۔۔" وہ خاصا پریشان تھے اگر یہ کانٹریکٹ ہاتھ سے چلا جاتا تو ان کی چھوٹی سی کمپنی کا دیوالیہ نکل جانا تھا وہ تو پہلے ہی خاصا سپلائے کا سامان منگوا چکے تھے انہیں کیا پتہ تھا کہ وین ہٹ سیل ہوجائے گی ۔

*------*------*

اتوار کا دن تھا ،وہ دو دن سے لگاتار ہاسٹل جا رہی تھی آج بھی وہ ہاسپٹل پہنچی ہی تھی کہ نرس ڈاکٹر سے ملنے کا بلاوا لے کر آگئی وہ نرس کی ہمراہی میں چلتی ہوئی ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئی ۔

" بیٹھئیے ۔۔۔۔" ڈاکٹر نے کرسی کی طرف اشارہ کیا ۔

" آپ مسٹر جارج کی سیکریٹری ہیں ؟ ۔۔۔۔" ڈاکٹر کے سوال پر اس نے سنجیدگی سے سر ہلایا ۔

"ان کی کنڈیشن ابھی ٹھیک نہیں ہے آپ کو چاہئیے کہ ان دنوں کام کا اسٹریس لیکر ادھر مت آیا کریں ۔۔۔" ڈاکٹر شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ روز آفس کی پرابلمز لے کر اپنے باس کے پاس آکر انہیں مزید اسٹریس دیتی ہے ۔

" میں تو صرف ان کی طبیعت پوچھنے آتی ہوں کام کی تو کوئی بات ہی نہیں ہوتی ۔۔۔۔" وہ پریشان ہوئی ۔

" دیکھئیے مس ! ہمارے پاس ایسے بزنس مینوں کے بہت سے کیسز آتے ہیں جہاں ان کے آفس کے لوگ وزیٹر بن کر ان کے لئیے آفس کی پریشانیاں ہسپتال تک لے آتے ہیں ہم آپ پر کوئی الزام نہیں لگا رہے لیکن مسٹر جارج کا ہارٹ کام نہیں کررہا انہیں اس وقت اسٹریس فری رکھنا بہت ضروری ہے ویسے کیا واقعی کوئی چیز انہیں بہت پریشان کررہی ہے ؟ ۔۔۔۔"

" یس ۔۔ ایک کانٹریکٹ کو لے کر انکل جارج بہت پریشان ہیں ۔۔۔" وہ دھیمے لہجے میں بولی جیسے یہ سارا قصور اس کا ہی ہو۔

" ویل مس ! آپ اس پریشانی کو حل کریں ان کا یہ اسٹریس ختم ہونا بہت ضروری ہے ، ہوسکتا ہے یہ آپ کے باس کی زندگی کا آخری کانٹریکٹ ہو ۔۔ان کے دل کے والو کام نہیں کررہے شوگر الگ ہے اوپر سے عمر بھی بہت زیادہ ہے ہم زیادہ ہرامید نہیں ہیں ۔۔۔۔" ڈاکٹر نے واضح کیا ۔

" شیور ڈاکٹر ۔۔۔" وہ کھڑی ہوگئی ۔

" آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں اب انہیں کوئی اسٹریس کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔"وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی ۔

لیکن کیا واقعی وہ ایسا کرسکتی تھی ؟ کیا وہ انکل جارج کو یقین دلا کر کہ سب ٹھیک ہو جائے گا کانٹریکٹ بھی مل جائے گا کہہ کر اس اذلان افگن سے یہ کانٹریکٹ سائن کروا سکتی تھی ؟ ۔۔۔۔

*-----*-----*

بے قراری سی بے قراری ہے

وصل ہے اور فراق طاری ہے ​

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے ​


دن تو جیسے پر لگا کر اڑ رہے تھے وہ میتھیو اور سارہ کے ساتھ آفس دیکھ رہی تھی آج صبح سے ہی وہ حددرجہ اسٹریس میں تھی آفس میں آکر اپنی ڈیسک پر فائلز سیدھی کرکے اس نے میز پر رکھے چھوٹے سے کیلنڈر پر نظر ڈالی ۔

آج جمعرات تھی ۔۔۔۔

وہ یقیناً واپس آگیا ہوگا ۔۔

اسے کسی بھی طرح اس سے کانٹریکٹ سائن کروانا تھا ۔۔

مگر کیسے ؟؟؟ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا تنگ آکر وہ اٹھی اور تیس سالہ میتھیو کمپنی کے پارٹنر اور شئیر ہولڈر کے کمرے میں آئی۔

" میتھیو ۔۔۔۔" اس نے دروازہ ناک کیا ۔

" کم ان ! کنزہ ۔۔۔۔" وہ خوشدلی سے بولا ۔

" افگنز سے ڈیل فائنل کرنی تھی وہ پیرس گئے ہوئے تھے آج آگئے ہیں لاسٹ ٹائم وہ میری پریزینٹیشن سے مطمئن نہیں ہوئے تھے تو اب ۔۔ "

"لسن کنزہ ۔۔۔۔" میتھیو سیدھا ہوا ۔

" جارج نے تمہیں یہ کام دیا تھا اگر تم ہینڈل نہیں کرسکتیں تو میں کرلیتا ہوں مگر تمہیں پھر میری سیکریٹری کی پوزیشن سنبھالنی ہوگی ۔۔۔۔" میتھیو نے کئی بار اسے دی گئی آفر پھر دہرائی کہ اس کی نظر پہلے دن سے کنزہ کے مشرقی حسن پر تھی مگر جارج کی وجہ سے وہ مجبور تھا ۔

" میں جارج انکل سے پوچھے بغیر ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی ۔۔۔ " کنزہ نے سنجیدگی سے دامن بچایا ۔

" اوکے تم میری مسٹر افگن سے میٹنگ سیٹ کرو میں دیکھتا ہوں ۔۔۔۔" میتھیو سنجیدہ ہوا کہ یہ واقعی کمپنی کی بقا کا سوال تھا ۔

" یس سر ۔۔۔۔" وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے واپس اپنے آفس میں آگئی ۔

پورا دن وقفے وقفے سے وہ مسٹر اذلان افگن سے میتھیو کی میٹنگ سیٹ کرنے کے لئیے رابطہ کرتی رہی مگر کوئی مثبت جواب نہیں ملا اذلان کے آفس کا اسٹاف بار بار اس کے میٹنگ میں ہونے کا کہتا رہا تھا اور اپنا سیل فون وہ اٹھا ہی نہیں رہا تھا ۔

شام کے پانچ بجنے والے تھے وہ تھک ہار کر واپس میتھیو کے روم میں آئی اور اسے بتایا کہ اس کا ابھی تک اذلان سے کوئی کانٹیکٹ نہیں ہوا ۔

" نیور مائنڈ ۔۔۔میں رات کو کلب جارہا ہوں وہ بھی اکثر ادھر آتا ہے اگر وہ مجھے ملا تو میں اس سے وہیں بات کرلونگا ۔۔۔"میتھیو نے سوچتے ہوئے کہا ۔

" پلیز میتھیو ! اگر تمہاری مسٹر افگن سے بات ہو جائے تو مجھے ضرور بتانا میرا کل آف ہے میں سارا دن انکل جارج کے پاس رہونگی ۔۔۔۔" کنزہ نے ریکوئسٹ کی ۔

" شیور میں تمہیں رات یا پھر صبح تو کنفرم کال کرکے ڈیٹیلز بتا دونگا ہاں اگر اس نے کوئی مثبت اشارہ دیا تو تم جارج کو انفارم کردینا اس کی طبیعت پر اچھا اثر پڑے گا ۔۔۔۔"

" اللہ کرے ایسا ہی ہو ۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ نے سر ہلا کر اس کی تائید کی تھی۔

*------*------*

جمعہ کا دن تھا نہا دھو کر لائٹ پنک کلر کی فل سلیو ہائی نیک اور جینز پہننے اپنے نم بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے وہ کچن میں موجود تھی ۔

اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے وہ کچن میں سوپ اور کھچڑی تیار کرکے پیک کرچکی تھی بس اب اسے میتھیو کے فون کا انتظار تھا مگر اس نے ابھی تک اسے کوئی اطلاع نہیں دی تھی ۔

" ہوسکتا ہے وہ کلب آیا ہی نہیں ہو ۔۔۔۔" وہ سوچتی ہوئی اپنا چائے کا کپ اٹھا کر ٹیرس کی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی ۔

یہاں کھڑے ہو کر چاہے پیتے ہوئے سڑک پر گزرتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے ٹائم پاس کرنا اس کا مشغلہ بن چکا تھا ابھی بھی وہ آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی جب ایک سیاہ نئے ماڈل کی مرسڈیز گاڑی ان کی بلڈنگ کے نیچے آکر رکی جس کے سامنے ایک بچہ فٹ بال اچھال رہا تھا ۔ وہ دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جب مرسڈیز کا دروازہ کھلا اور ڈرائیور نیچے اترا ۔۔۔۔

ایک لمحے کو اس کا سانس رک سا گیا تھا ۔۔۔

مغرور شہزادوں کی سی آن بان کا مالک اذلان افگن گاڑی لاک کرکے بلڈنگ کے اندر داخل ہو رہا تھا۔

" یہ یہاں ؟ پر کیوں ؟ ۔۔۔۔۔" وہ تیزی سے پیچھے ہٹی اور جلدی سے دوڑتی ہوئی دروازے تک آئی اور جلدی سے لاک کو چیک کرکے وہی دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی ۔

کچھ ہی دیر بعد اس کے فلیٹ کے باہر بھاری قدموں کی دھمک سنائی دی ۔۔۔۔

" میں دروازہ نہیں کھولوں گی ۔۔ " اس نے جیسے خود کو تسلی دی ۔

اب وہ گھنٹی بجا رہا تھا ۔۔

کچھ گھنٹیوں کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔

" مجھے پتہ ہے تم اندر ہوں دروازہ کھولو ورنہ میں بلڈنگ سپروائزر کو بلواتا ہوں ۔۔ " اس کی بھاری آواز ابھری ۔

کنزہ نے اپنے دھک دھک کرتے دل ہر ہاتھ رکھا۔

وہ ایک جانی مانی بارسوخ شخصیت تھا یقیناً سپروائزر سے نا صرف دروازہ کھولوا سکتا تھا بلکہ اسے بھی یہاں سے نکلوا سکتا تھا۔

کنزہ نے دھیرے سے آدھا دروازہ کھولا ۔

" کہئیے کیا کام ہے ؟ "

" کیا تم مجھ سے دروازے پر ہی سارے مذاکرات کرنا چاہتی ہو ؟ ۔۔۔۔ " اذلان افگن نے طنز کیا تو وہ شرمندہ ہوتی ہوئی پیچھے ہٹی۔ ۔۔

اذلان افگن فلیٹ کے اندر داخل ہوا وہ سامنے ہی نم بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ گلابی نازک سے ننگے پیر لئیے اس کی نگاہوں کو خیرہ کررہی تھی ۔

" ایکسکیوز می ۔۔۔۔" وہ اسے اندر موجود صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتی ہوئی تیزی سے شو ریک کی طرف متوجہ ہوئی جلدی سے پیروں میں سلیپر پہن کر کھونٹی پر لٹکا ہوا اسٹالر اٹھا کر گلے میں ڈالا اور اذلان کی طرف متوجہ ہوئی جو ناقدانہ انداز سے اس اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کا جائزہ لے رہا تھا ۔

" آپ چائے لینگے ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" کافی ۔۔۔۔" اس نے بلا تکلف کہا

" شیور ۔۔۔۔" وہ کونے پر بنے چھوٹے سے کچن میں آئی اور اس بن بلائے مہمان کے لئیے تیزی سے کافی بنانے لگی ۔

" اکیلی رہتی ہو ؟ ۔۔۔۔۔۔"وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا ۔

" یہ آپ کا کنسرن نہیں ہے آپ بتائیں یہاں اس طرح کیسے آنا ہوا ۔۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتی ہوئی اس کے سامنے کافی کا مگ پیش کرگئی تھی ۔

" تمہارا فیانسی کدھر ہے ؟ اس نے تمہیں ایسے اکیلے کیسے رہنے دیا ؟ ۔۔۔۔" ازلان نے کافی کا مگ منہ سے لگاتے ہوئے سوال کیا ۔

" آپ یہاں اتنی دور مجھ سے میرے فیانسی کے بارے میں تو بات کرنے نہیں آئے ہونگے بہتر ہے آپ صاف بتائیں آپ یہاں کیوں آئے ہیں ۔۔۔۔۔" وہ تلخی سے بولی ۔

" اتنا عجیب سا سوال تمہارے منہ سے جو پچھلے ہفتے سے کل تم مجھے تقریباً سو دوسو بار کال کرتی رہی ہو اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔" اس نے طنز کیا ۔

" وہ کالز میں نے میتھیو سر کے کہنے پر کی تھیں ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے صفائی دی ۔

"وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔جارج کی طبیعت اب کیسی ہے ؟ ۔۔۔۔۔" اس نے ٹوکا ۔

" پہلے سے تھوڑی بہتر ہے مگر وہ ابھی بھی بہت بیمار ہیں ۔۔۔" کنزہ نے افسردگی سے جواب دیا ۔

" ہمم ۔۔۔۔" اس نے ہنکارہ بھرتے ہوئے اپنی پاکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگائی ۔

" اس کے گھر آنے کے کوئی آثار ؟ ۔۔۔۔"

" نہیں ابھی تو ڈاکٹر نے انہیں آئی سی یو میں رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔" وہ آگے بڑھی اور اذلان کا خالی کیا ہوا کافی کا کپ اٹھا کر کچن کی طرف بڑھی تھی کہ اس کا پیر لڑکھڑایا اس سے پہلے اس کے ہاتھ سے کپ اور ساسر فرش پر گرتا ازلان نے تیزی سے اٹھ کر ایک ہاتھ سے کنزہ کو سنبھالا اور دوسرے سے اس کے ہاتھ میں تھامے کافی کے کپ کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔

" اتنی جلدی کیا ہے مس مرتضیٰ ؟ ۔۔۔۔" اس نے ٹوکا

" مجھے کہیں جانا ہے میں لیٹ ہورہی ہوں ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے کہا ۔

" ویک اینڈ پر تم کہاں جا رہی ہو ؟ " ۔۔۔۔اس نے ایک گہری ناقدانہ نظر اس لڑکی پر ڈالی ۔

" کیا آپ کو انکل جارج سے ملنا ہے ؟ ۔۔۔۔۔" کنزہ نے سوال کیا ۔

" نہیں اور اگر تم ہاسپٹل جانے کا پروگرام بنارہی ہو تو بہتر ہے کینسل کردو ۔۔۔۔" وہ اطمینان سے بولتا ہوا واپس صوفے پر بیٹھ چکا تھا ۔

" یہ ویک اینڈ تمہارے لئیے بہت مصروف ثابت ہونے والا ہے اس لئیے اپنے سارے آنے جانے کے پلانز کینسل کردو ۔۔۔۔" اس نے سکون سے اسے آگاہ کیا جو پہلے کی اس کے یوں اچانک گھر چلے آنے پر پریشان تھی ۔

" سنئیے مسٹر افگن ۔۔۔۔" کنزہ نے گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کیا ۔

" کیا آپ پہیلیاں بوجھوانے کی بجائے مجھ سے سیدھی بات کرنا پسند فرمائیں گئے ؟ ۔۔۔۔"

" تم مجھ سے یہ کانٹریکٹ سائن کروانا چاہتی ہو ؟ یس اور نو ؟ ۔۔۔۔۔" اس نے کڑے لہجے میں پوچھا ۔

" یس ۔۔۔۔۔" وہ مضبوط لہجے میں بولی ۔

"ویری ویل مس مرتضیٰ ! اگر یہ کانٹریکٹ سائن کرنا ہے تو اس کی ساری ڈیٹیلز وغیرہ ہم اسی ویک اینڈ پر فائنل کرینگے ۔میں تمہیں اپنے ساتھ ویگاس لے جارہا ہوں ابھی اسی وقت ۔۔۔۔" اس نے ایک بم سا اس کی سماعت پر گرایا تھا ۔

" نہیں ۔۔۔ " وہ تیزی سے بولی ۔

" کیوں کانٹریکٹ سائن نہیں کروانا ؟ ۔۔۔۔" اذلان افگن نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔

" مگر ۔۔ ۔ " وہ پینک ہورہی تھی ایسے کیسے وہ اس کے ساتھ لاس ویگاس جیسی بدنام زمانہ جگہ جاسکتی تھی۔

" سوری میں اتنے شارٹ نوٹس پر آپ کے ساتھ نہیں جاسکتی اور ویسے بھی کل مجھے میتھیو سر کے آفس میں کچھ کام ہے ۔۔۔۔۔"

" وہ مائنڈ نہیں کرے گا آخر تمہارا جانا اس کی کمپنی کے انٹرسٹ میں ہے اسے بزنس دیگا ۔۔۔۔۔"

وہ ٹھیک ٹھاک پریشان ہوچکی تھی کانٹریکٹ اہم تھا لیکن اس کے لئیے وہ اپنی عزت تو داؤ پر نہیں لگا سکتی تھی یوں اس طرح ویک اینڈ گزارنے کسی مرد کے ساتھ جانا کوئی عقل کا اندھا بھی سمجھ سکتا تھا کہ یہ سب کیا تھا ۔

اذلان افگن بڑے سکون سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ نوٹ کررہا تھا ۔

" سنا ہے تمہارے جارج انکل نے ہی تمہاری پڑھائی کا خرچا برداشت کیا تھا ۔۔۔۔۔چچ چچ آج وہ ہسپتال میں پڑا ہے اس بیچارے بوڑھے آدمی کا سارا بزنس بس ایک ڈیل کر اٹکا ہوا ہے اور کوئی اس کے احسانات کا بدلا اتارنے کو تیار نہیں ۔۔۔۔۔"

وہ جو انکار کرنے کے لئیے اپنا منہ کھول رہی تھی ایکدم چپ سی ہوگئی جو بھی تھا انکل جارج اور کھیترئین آنٹی کے اس پر ، اس کی مرحومہ ماں پر بہت احسانات تھے اس کی ماں کا ہسپتال کا خرچہ تدفین سب انکل جارج نے ہی برداشت کیا تھا کہ وہ تو اپنے سگے باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیمی کی زندگی گزار رہی تھی ۔

" مجھے تھوڑا وقت دیجئے میں اپنا ضروری سامان پیک کرلوں ۔۔۔۔" وہ نم لہجے میں بولی ۔

" شیور ۔۔۔۔" وہ اطمینان سے اپنے پیر صوفے کے سامنے رکھی میز پر رکھ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔

" لسن یہ کوئی فارمل سا ورک ٹرپ نہیں ہے مگر میں بڑی مشکل سے اپنا ویک اینڈ خراب کرتے ہوئے تمہارے لئیے وقت نکال رہا ہوں اب بورڈ روم ہو یا ساحل سمندر میں کہیں بھی تم سے بزنس کی بات کرسکتا ہوں ۔۔۔ "

وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی کیبنٹ تک آئی اور ایک چھوٹا سا ہینڈ کیری نما بیگ نکال کر اس میں کچھ لباس رکھے ۔۔۔۔"

" اپنے پرسنل استمعال کی چیزیں بھی رکھ لو ۔۔۔۔۔" اس نے اس ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں جس میں پرائیویسی نام کو بھی نہیں تھی اسے کپڑے رکھتے دیکھ کر مشورہ دیا تو کنزہ کا چہرہ خفت سے دہک اٹھا تھا ۔

اس نے جلدی سے بیگ بند کیا اور اپنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹ کر اسٹالر ٹھیک کرتی ہوئی شو ریک تک آئی اور اپنے پسندیدہ سنیکرز شوز پہن کر وہ وہی دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی ۔

"لیٹس گو ۔۔۔۔" وہ اٹھا ۔

کنزہ نے فلیٹ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے دروازہ بند کرکے لاک کیا اور اپنا بیگ اٹھائے اذلان کے ساتھ چلتی ہوئی باہر اس کی گاڑی کے نزدیک پہنچ گئی ۔

" بیٹھو ۔۔۔۔۔" فرنٹ سیٹ کا دروازہ ان لاک کرکے اس نے کنزہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ۔

گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی تھی یہ کئی گھنٹوں پر مشتمل ا یک لانگ ڈرائیو تھی ۔۔۔۔

دو ماضی کے جاننے والوں کا ایک ساتھ سفر ۔۔۔۔

*-----*-----*

وسیع عریض مرسڈیز میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔

سورج نکلا ہوا تھا موسم بہت خوشگوار تھا روڈ پر کئی بائیکرز ،سائیکل سوار اور گاڑیوں کا رش تھا جس کی وجہ سے ڈرائیو کرتے ہوئے ازلان افگن کی ساری توجہ ڈرائیونگ پر تھی جس کی وجہ سے کنزہ مرتضیٰ خود کو کافی کمفرٹیبل محسوس کررہی تھی ورنہ اذلان افگن نے ساتھ سفر ۔۔۔۔اس سوچ نے ہی اسے خاصا دہلایا ہوا تھا ۔۔۔۔

تین سال ۔۔ پورے تین سال سے وہ کہیں نہیں گئی تھی اس کی دنیا اس ایک کمرے کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ سے لے کر اپنی جاب تک جامد ہوکر رہ گئی تھی ۔

ماں کے گزر جانے کے بعد اگر انکل جارج اور کیتھرین آنٹی نہ ہوتے تو شاید وہ بھی تنہائی کا ،ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کرچکی ہوتی ۔۔۔

تقریباً چار گھنٹے مسلسل ڈرائیو کرنے کے بعد ازلان نے گاڑی ہائے وے سے اتاری اور ایک چھوٹے سے صاف ستھرے کشادہ سڑکوں والے ٹاؤن میں داخل ہوگیا آگے جا کر ایک کاٹج نما پیٹرول پمپ اسٹیشن تھا جس کے ساتھ ہی کافی شاپ اور ریسٹورنٹ موجود تھا ۔ازلان کے گاڑی روکنے پر کنزہ نے اسے دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی کو کہ ادھر کیوں رکے ۔۔۔

" ہم ادھر سے کچھ کھا پی کر فریش ہوکر آگے چلینگے ۔۔۔" اس نے جواب دیتے ہوئے گاڑی کا اگنیشن بند کرکے چابی نکالی اور اپنا والٹ اٹھاتے ہوئے کنزہ کو اترنے کا اشارہ کرکے وہ خود بھی نیچے اتر گیا ۔

" کم ۔۔۔۔" وہ اسے ساتھ لئیے اندر داخل ہوا ۔

بہت چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا جس میں بمشکل چار یا پانچ میزیں تھیں اور کسٹمرز تو تھے ہی نہیں ۔۔

ایک میز منتخب کرکے اس نے کنزہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کاؤنٹر پر آرڈر کرنے چلا گیا ۔

آرڈر کرکے واش روم سے منہ ہاتھ دھو کر فریش ہونے کے بعد وہ واپس آیا ۔

" لیڈیز روم اس طرف ہے جاؤں فریش ہوکر آؤ ۔۔۔" اس نے کنزہ کو ہاتھ کے اشارے سے واش روم کا بتایا ۔

وہ خاموشی سے اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی تھی ۔

فریش ہو کر وہ واپس آئی تو میز پر کافی کے ساتھ پزا سلائس موجود تھے ۔

" ہیلپ یور سیلف ۔۔۔" ازلان نے صرف کافی کا مگ اٹھایا تھا ۔۔

کنزہ نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا تھا صبح ہوتے ہی تو اس کے سر پر ازلان آفت بن کر سوار ہوگیا تھا وہ خاموشی سے ایک سلائس اٹھا کر سلیقے سے کھانے لگی تھی ۔

اذلان اپنی کافی ختم کرکے سکون سے بیٹھا ہوا تھا جب تپ کر کنزہ نے اسے مخاطب کیا ۔

" میرے خیال سے اب چلنا چاہئیے ابھی بھی کم سے کم چار گھنٹے کا سفر تو باقی ہوگا ۔۔۔۔"

" میں ابھی آرام کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ " وہ بڑے سکون سے بولا ۔

"آرام ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا وہ اس وقت اللہ جانے کس ٹاؤن میں تھے رات سر پہ تھی اور صاحب آرام کرنا چاہتے تھے ۔وہ بڑی مشکل سے اپنے اعصاب پر قابو پاتی ہوئی خاموش رہی ۔

آدھے گھنٹے بعد وہ اٹھا اور وہ دونوں واپس گاڑی میں آگئے ۔

اذلان گاڑی کو اس ٹاؤن کے اندر ہی گھما پھرا رہا تھا ۔

" آپ ہائے وے کیوں نہیں لے رہے ؟ ۔۔۔" تنگ آکر وہ بول پڑی ۔

" میری مرضی ۔۔۔۔" وہ اس کا دل جلانے کا جیسے ٹھیکہ اٹھائے ہوئے تھا۔

" اب ہم کدھر جارہے ہیں ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سوال کیا کہ ہائے وے تو وہ لے نہیں رہا تھا ۔

" بس ایسے ہی آس پاس کا علاقہ دیکھنے کا موڈ ہے یہاں پاس ہی ساحل سمندر ہے ادھر تھوڑی واک کرینگے میرے پھیپھڑوں کو تازہ سمندری ہوا کی ضرورت ہے ۔۔۔ " وہ سرسری انداز میں بولا ۔

اس کے اس بےضرر دوستانہ انداز میں بات کرنے پر وہ خود کو اسے دیکھنے سے روک نہیں پائی تھی اسی لمحے اذلان افگن نے بھی اسے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا ایک لمحے کو جیسے کوئی بجلی سی کوندی تھی ۔۔۔

" کوئی اعتراض ؟ ۔۔۔۔" اس نے ابرو اچکا کر پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئی ویسے بھی وہ کون سا اس کی سننے والا تھا جو وہ کچھ کہہ کر اپنی بات خراب کرتی ۔

تین چار میل کے بعد وہ گاڑی سمندر کے کنارے کھڑی کرچکا تھا انجن بند کرکے اس نے چابی نکالی اور پوری توجہ سے کنزہ کی طرف رخ کیا ۔

"تم اس سب سے باہر کیوں نہیں نکل رہیں ؟ ۔۔۔ " اس کا سوال سن کر کنزہ کی انگلیوں کی گرفت اس کی گود میں رکھے پرس پر سخت ہوگئی تھیں ۔

" کس سب سے ؟ ۔۔ " کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔

" میں تمہیں ادھر کیوں لایا ہوں ؟ ۔۔۔ " وہ گہری نظر سے اسے دیکھنے لگا تھا ۔

" آپ ۔۔۔ " وہ رکی ۔

" آپ کو سمندر کی تازہ ہوا چاہئیے تھی ۔۔۔" کنزہ نے کچھ دیر پہلی کی کہی ہوئی اس کی بات دہرائی ۔

" واؤ ۔۔۔۔" ازلان کی فراغ پیشانی پر بل پڑے تھے ۔

" تم ذرہ برابر بھی نہیں بدلیں ۔۔۔۔" وہ گاڑی سے اترا اور گھوم کر دوسری سائیڈ پر آکر کنزہ کی طرف کا دروازہ کھول کر اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھایا وہ باہر ایک نظر ڈال چاہ کر بھی اس کا ہاتھ تھامنے سے انکار نہیں کرسکی تھی کہ اس نے گاڑی ایک بڑے پتھر کے ساتھ پارک کی تھی وہ اترتے ہوئے ڈگمگا کر گر سکتی تھی ۔

کنزہ کا ہاتھ پکڑ کر اس نے گاڑی سے اترنے میں مدد کی پھر اس کے ہاتھ پر غیر محسوس انداز میں اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ اس اونچی نیچی ڈھلان پر واک کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا تھا ۔

ساحل سمندر سے اٹھتے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ان دونوں کو چھو رہے تھے مغرب کا وقت قریب آگیا تھا سورج ڈھلنے کو تھا ۔۔۔

" کیا تم نے ان برسوں میں بوٹ چلانی سیکھی یا ابھی بھی ایک بدترین بوٹر ہو ؟ ۔۔۔۔۔" لہروں کے نزدیک آکر ازلان نے سوال کیا ۔

" ہمم ۔۔۔۔" وہ سر جھکا گئی ماضی تھا کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا ۔

"یو نو ! ارسلان نے اپنے بوٹنگ کے شوق کو ہمیشہ کے لئیے خیرباد کردیا ہے ۔۔۔۔"

" کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اسے یہ سب کرنا پڑا اس کے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی ۔۔۔۔۔" ازلان افگن کی بات سن کر کنزہ کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی اس نے ایک گہری سانس لے کر اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری ۔۔

ایک ٹیلے کے پاس پہنچ کر وہ جمپ لگا کر اوپر چڑھا اور جھک کر اپنا ہاتھ نیچے کھڑی کنزہ کی طرف پھیلایا ۔۔۔

" اوپر آؤ ۔۔۔" اسے ساکت کھڑا دیکھ کر وہ سختی سے بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی کنزہ نے اپنا ہاتھ اس کی چوڑی ہتھیلی پر رکھا ایک جھٹکے سے اس نے کنزہ کو اوپر کھینچا تھا اور اس کے اوپر آتے ہی اذلان افگن نے کنزہ مرتضیٰ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔

اب وہ دونوں اس چٹان پر ایک دوسرے سے تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھے سمندر کی لہروں کا رقص دیکھ رہے تھے ۔۔سورج غروب ہورہا تھا ملگجا سا اندھیرا پھیلنا شروع ہوچکا تھا ۔۔۔

"وہ سمندری سفر کا دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اذلان افگن کی گھمبیر آواز نے سناٹے کو توڑا ۔

ہم اس کا دل بہلانے کو اسے ابروڈ لے گئے تھے افگنز کروز پر اس کی آسانی کے لئیے وہیل چئیر ایکسز اور پورے شپ میں ریمپ لگوائے مگر ۔۔۔ " اذلان افگن نے گہرا سانس لیا وہ دم سادھے سب سن رہی تھی ۔

" اسے کچھ بھی پسند نہیں آیا انفیکٹ

He hated it ....

وہ اور فرسٹریشن کا شکار ہوگیا تھا بات بات کر غصے کا شکار ہونے لگا تھا ،وہ ٹرپ جو اس کی بھلائی کے لئیے پلان کیا گیا تھا وہ سب کے لئیے ایک مصیبت ،ایک ڈپریشن بن گیا تھا ،اس ٹرپ کو وقت سے پہلے ہی ختم کرکے ہم نے افگنز کروز کو بیچنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔۔۔" وہ اب پتھریلی چٹان پر لیٹ کر آسمان دیکھنے لگا تھا۔

" میں نے ممی نے سب نے اس کا انٹرسٹ ان ڈور گیمز اور ایکٹیوٹی پر ڈیولپ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ انکار کرگیا اس کے لئیے اسپیشل ڈس ایبلڈ پرسن کار منگوائی مگر وہ اسے ڈرائیو نہیں کرنا چاہتا تھا کئی تھراپی سیشن ارینج کرائے مگر اسے کوئی انٹرسٹ نہیں تھا وہ گھنٹوں ایک جگہ کتاب ہاتھ میں تھامے بیٹھا رہتا تھا ایک ورق تک نہیں پلٹتا تھا اسے ہم سب برے لگتے تھے کیونکہ ہم چل سکتے تھے اور وہ معذور ہوچکا تھا مگر اپنی اس معذوری کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔"

اذلان آسمان پر چھائے ہوئے اندھیرے کو دیکھ رہا تھا جو آہستہ آہستہ روشنی کو نگل رہا تھا۔

" دو سال تک ایسا ہی چلتا رہا اور پھر ممی کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تو مجھے اپنا سب کام چھوڑ کر گھر پر توجہ دینی پڑی اور پھر ممی کو میں نے سوئٹزرلینڈ بھیج دیا اور ارسلان کی ذمہ داری خود اٹھا لی اس کی ذہنی حالت درست کرنے کی ،اسے زندگی کی طرف واپس لانے کی میں نے بہت کوشش کی پھر اس کا انٹرسٹ پینٹنگ کی طرف ہوگیا مگر ۔۔۔۔ " وہ ہنسا زخمی سی ہنسی ۔۔۔

" اس کی بنائی پینٹنگز کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھیں اس کا موڈ اب ٹھیک ہی نہیں ہوتا تھا مگر اس نے اپنی قسمت سے ،اپنی معذوری سے سمجھوتا کرنا سیکھنا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔" وہ بولتے بولتے اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنا رخ خاموشی سے فرش پر انگلی سے لکیریں کھینچتی ہوئی کنزہ مرتضیٰ کی طرف کیا اور ہاتھ بڑھا کر اس کی انگلیوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔

" وہ اپنی قسمت سے سمجھوتہ ضرور کررہا ہے لیکن کچھ بھی بھولا نہیں ہے ۔۔۔۔" ایک ایک لفظ اس نے چبا چبا کر ادا کیا تھا ۔

" اور نہ ہی آپ کچھ بھولے ہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے طنز کیا آخر یہ سب وہ اسے کیوں سنا رہا تھا ؟ کنزہ نے اعصاب چٹخنے لگے تھے ۔

"ارسلان کے حادثے اور معذور ہونے کا الزام آپ اور آپ کی فیملی آخر کب تک مجھ پر لگاتی رہے گئی ؟ وہ ایک حادثہ تھا ۔۔۔ سنا آپ نے ۔۔۔۔" وہ چلا اٹھی ۔

" صرف ایک حادثہ ۔۔ ۔ " کنزہ غصے سے لرزنے لگی تھی ۔

" میں جانتا ہوں کہ وہ ایک حادثہ تھا ، ممی سب گھر والے سب جانتے ہیں کہ وہ ایک حادثہ تھا مگر ۔۔۔۔۔" اس کا لہجہ سرد ہوا ۔

" مگر کیا ؟؟؟...... " کنزہ نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔

" میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس حادثے کی وجہ کیا تھی کیوں وہ کریش کرگیا ۔ حالانکہ اس نے آج تک کبھی بھی تمہیں اس سب پر الزام نہیں دیا نا ہی ذمہ دار ٹہرایا ہے ۔۔۔۔" ازلان کی آنکھوں میں سردمہری تھی ۔

" جب آپ سب جانتے ہیں تو پھر مجھ پر یہ سب الازم تراشیاں کیوں کرتے ہیں ؟ ۔۔ " وہ ترش لہجے میں بولی ۔

" کیونکہ تم نے اپنا وعدہ توڑا ۔۔۔۔۔" وہ تیز ہوا ۔

" اس سب کی وجہ صرف اور صرف تم ہو ۔۔۔یو آر ڈیم سیلفش ۔۔۔۔۔ " وہ دھاڑا۔

" اپاہج اسے نہیں تمہیں ہونا چاہئیے تھا ۔۔۔" اس کی بات کنزہ کو سن کرگئی تھی ۔

*-----*-----*

کنزہ بس حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو اسے طعنے مارے جا رہا تھا ،ازلان افگن نے بس اپنی سنی تھی عدالت بھی اس کی تھی فیصلہ بھی اس کا تھا اور وہ کچھ سننے کو ، سچائی جاننے کو تیار ہی نہیں تھا تو اسے کچھ کہنا یا بتانا بیکار ہی تھا ۔۔۔

تین سال پہلے بھی کنزہ نے اسے سچائی بتانے کی کوشش کی تھی اور آج بھی وہی صورتحال تھی وہ اس کے مجرم ہونے کا یقین کئیے بیٹھا تھا پہلے بھی اس کا بس چلتا تو وہ اسے پھانسی پر چڑھوا دیتا لیکن وہ ارسلان افگن کے آگے مجبور ہوگیا تھا ۔۔۔

کنزہ مرتضیٰ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے ایک گہری سانس لی وہ کوئی ڈرپوک یا بزدل لڑکی نہیں تھی اسے اپنا دفاع کرنا آتا تھا مگر سامنے والا کچھ سننے کو تو تیار ہوتا ۔

" تو آپ اس لئیے مجھے یہاں اپنے ساتھ لائے ہیں تاکہ اس بند قصے کو دوبارہ کھول سکیں؟ اپنی نفرت اپنے اندر کی تلخیاں مجھ پر نکال سکیں ؟ ۔۔۔" کنزہ نے زخمی سی ہنسی ہنستے ہوئے اسے دیکھا ۔

" ارسلان نے کبھی بھی مجھ سے اس طرح سے نفرت نہیں کی اور وہ جو اس سب میں سب سے زیادہ ہرٹ ہوا جسے سب سے زیادہ تکلیف پہنچی ،اسے مجھ سے کوئی شکایت نہیں اور آپ !آپ کو بدلہ لینے کا جنون چڑھا ہوا ہے مگر کیوں ؟ میں نے آپ کا آخر کیا بگاڑا ہے اور اتنے عرصے بعد اب آپ گڑے مردے کیوں اکھاڑ رہے ہیں ؟۔۔۔۔"

" میں ! میں گڑے مردے اکھاڑ رہا ہوں ،میں جس نے تمہیں نہ چاہتے ہوئے بھی قانون کی گرفت میں آنے سے بچایا تھا ۔۔۔۔"

" تو پھر اب آپ یہ دوغلا پن کیوں کررہے ہیں ؟ جب ارسلان آپ سے کہہ چکا تھا کہ میرا اس سب میں کوئی قصور نہیں میں اس کے ساتھ ہرخلوص تھی پر ۔۔۔۔"

"دوغلا پن ؟؟؟ جانتی بھی ہو دوغلا پن کیا ہوتا ہے ؟؟؟" ازلان نے ترشی سے اس کی بات کاٹی ۔۔

" اپنی غرض میں لپٹے ہوئے لوگوں نے بھی اپنا نام خلوص رکھ چھوڑا ہے ٹو ہیل ود یور خلوص ۔۔ رشتے ہوں یا جذبے سب میں دھوکہ چھپا ہے اور افسوس دھوکہ دینے والے ہی فرشتے بن بیٹھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔" وہ کاٹ دار انداز میں بولا ۔

" تو پھر مجھ جیسی دھوکے باز کے ساتھ آپ اس وقت اپنا وقت کیوں برباد کررہے ہیں گلا گھونٹ کر یہ قصہ ہی ختم کیوں نہیں کردیتے ۔۔۔۔۔؟ "

" لاسٹ ویک جب تم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئیں تو میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ تم اب بھی ویسی ہی ہوں جیسی تین سال پہلے تھی یا وقت نے تمہیں بدل دیا یا تمہیں آج بھی یہی لگتا ہے کہ تم اس سب میں بالکل بھی قصور وار نہیں ہو ۔۔؟ " اس نے دوبارہ ملنے کی وجہ بتائی ۔

" آپ نعوذ باللہ خدا ہیں کیا ؟ آپ ہوتے کون ہیں کسی کو زبردستی غلط ٹہرانے والے ؟ میں نے کل بھی کہا تھا آج بھی کہتی ہوں میری اس سب میں کوئی غلطی نہیں تھی ۔۔۔۔" وہ تڑپ کر اپنی صفائی میں بولی جس پر ازلان افگن کے جبڑے بھنچ سے گئے تھے ۔

" ہم سب جانتے ہیں اس رات ارسلان بہت زیادہ ڈسٹرب تھا وہ بیوقوف سمجھتا تھا کہ تم اس سے شادی کروگی اور تم ۔۔۔۔۔ " اس کی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوگئیں تھیں ۔

" یو ٹو ٹائمنگ وویمن ۔۔۔۔۔۔" وہ پھنکارا ۔

" اس معصوم چہرے سے میرے چھوٹے بھائی کو بیوقوف بنایا اور جب اس سے بھی اچھا کوئی مل گیا تو اسے چھوڑ دیا واہ ۔۔۔" اس نے شرارہ اگلتی نگاہوں سے اسے گھورا ۔

" شادی کے وعدے ارسلان سے کئیے اور پھر کسی اور کے لئیے اسے چھوڑ دیا میرا بھائی ایک غیرت مند مرد تھا ظاہر ہے یہ سب جان کر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اسے پاگل ہونا ہی تھا اسی لئیے تو وہ اس برستی بارش میں رات کو بنا سوچے سمجھے کسی پاگل کی طرح گاڑی چلا رہا تھا اور تم اس سے کیا امید رکھتی تھی ؟ کاش وہ جان سکتا کہ تم ایک سیلفش ، پیسے کی لالچی بچ ہو ۔۔۔۔" وہ نفرت سے بولا ۔۔

" آپ اب تک یہی سمجھتے ہیں ؟ ۔۔۔۔۔" کنزہ کے لب ہلے تھے۔

"میں نے آپ کو بتایا بھی تھا کہ میں اس رات دلاور کے ساتھ کیوں تھی اس کے بعد ۔۔۔۔۔" وہ چپ ہوگئی الفاظ حلق میں اٹک سے گئے تھے ۔۔۔

" تم نے اس دلاور سے منگنی کرلی تھی! کیوں نہیں کی تھی کیا ؟ ...." وہ بلا کا روڈ ہورہا تھا۔

" چلو میں ایک لمحے کے کئیے دلاور کو اس سین سے نکال دیتا ہوں تو کیا اب تم اپنے اس خوفناک روہے کی وجہ بتا سکتی ہو جو تم نے ارسلان کے ساتھ اختیار کیا ؟ ۔۔۔ "

" تم اس رات ارسلان نے ساتھ گاڑی میں تھی اس سچائی کو جھٹلا سکتی ہو ؟ حادثے کے بعد تم گاری سے نکل کر بھاگ گئی تھیں یقین کرو اگر مجھے ارسلان ہوش میں آنے کے بعد نہیں روکتا تو ایک ایک اخبار ایک ایک نیوز چینل پر میں نے تمہیں ایکسپوز کردینا تھا کتنی سنگدل ہو تم تم نے میرے بھائی کو سڑک پر زخمی حالت میں مرنے کے لئیے چھوڑ دیا وہ مر بھی سکتا تھا پر تمہیں کیا پرواہ ،اس پر تم چاہتی ہو کہ تمہیں اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے ۔۔۔۔"

" بس ۔۔۔ " کنزہ مرتضیٰ نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا ۔

" میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی تھی مگر آپ نے کبھی بھی میرا یقین نہیں کیا اس حادثے میں گاڑی الٹ گئی تھی ارسلان کا خون بہہ رہا تھا وہ بیہوش ہورہا تھا سیل فون بھی ٹوٹ گیا تھا میں بڑی مشکل سے گاڑی سے نکلی تھی اور دوڑتی ہوئی کسی نزدیکی فون بوتھ کی تلاش میں نکلی تھی کہ نائین ون ون کال کرکے مدد لونگی مگر دور دور تک کوئی فون بوتھ نہیں تھا نا رات کے اس پہر کوئی گاڑی سڑک پر تھی میلوں دور پہنچ کر ایک فون بوتھ ملا پر وہ خراب تھا میں اسے چھوڑ کر اور آگے بڑھی ۔۔۔۔"

" کتنی عجیب سی بات ہے تم میرے بھائی کو سڑک پر زخمی حالت میں اکیلا مرتا ہوا چھوڑ کر میلوں دور فون کی تلاش میں گئی اور اس رات پولیس کے پاس کوئی ایمرجنسی کال کا ریکارڈ نہیں ملا ۔۔ کیوں جھوٹ بولتی ہو سچ تسلیم کرو تم ڈر گئی تھیں ارسلان تمہاری بیوفائی جان گیا تھا اسی لئیے تم بھاگ گئیں ۔۔۔۔"

" ایسا نہیں ہے ۔۔۔ " کنزہ بلبلا اٹھی ۔

" مجھے دور دور تک کوئی فون بوتھ نہیں ملا میں پلٹ کر واپس آئی تھی پر بہت دیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔"

" یو آر ڈیم رائٹ واقعی بہت دیر ہوچکی تھی ۔۔۔۔" ازلان افگن نے طنز کیا ۔

راستے سے گزرنے والے ایک موٹر سائیکل سوار نے ایمبولینس کال کردی تھی میں جب پہنچی تو وہ اسے لے جاچکے تھے وہاں کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔"

" تو تم نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے اپنے گھر چلی گئیں اور پھر ایسا ظاہر کیا جیسے تم کچھ جانتی ہی نہیں اس حادثے کے بارے میں ، پہلے تو میں نے بھی تمہارا یقین کرلیا تھا حالانکہ اس وقت بھی تمہارا خوف سے سفید پڑتا چہرہ ساری کہانی سنا رہا تھا اوپر سے ارسلان نے ہوش میں آنے کے بعد پہلی بات یہی کی تھی کہ تمہیں اس سب میس سے دور رکھا جائے وہ نہیں چاہتا تھا کہ تم کسی قسم کی انکوائری کا سامنا کرو اور تم بجائے اس کا شکریہ ادا کرنے کے اسے چھوڑ کر اپنے منگیتر کے پاس چلی گئیں ! میرے بھائی کو دیوانہ بنا کر اس کے جذبات سے کھیل کر تم کسی دوسرے آدمی کی زندگی میں شامل ہوجاتی ہو اور پھر حیران ہوتی ہو معصوم بنتی ہو کہ میں اتنا تلخ کیوں ہورہا ہوں ۔۔۔۔" وہ پھٹ پڑا تھا ۔

"اٹھو ہمیں ولا وقت سے پہنچنا ہے ارسلان انتظار کررہا ہوگا ۔۔۔۔" اس نے کنزہ کے اعصاب پر بم گرایا تھا ۔

*----*----*

کنزہ مرتضیٰ کا حلق خشک ہونے لگا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں بھیگنے لگیں تھیں جنہیں اس نے بڑی مشکل سے روکا تھا وہ جان گی تھی کہ وہ کبھی بھی ازلان افگن کو اس بات پر قائل نہیں کرسکتی کہ قصور اس کا کبھی بھی نہیں تھا اور نہ ہی ہوسکتا تھا کیونکہ اسے قائل کرنے کے لئیے سارا سچ بتانا پڑتا اور یہ وہ کبھی بھی نہیں کرسکتی تھی سچ نے صرف درد پیدا کرنا تھا اور کئی زندگیوں کو برباد کردینا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ خاموش ہوگئی تھی اور جب ارسلان افگن نے خاموش رہنا مناسب سمجھا تھا تو وہ کیوں کسی کا پردہ فاش کرتی ؟ ۔۔۔

مگر ایسا کب تک چل سکتا تھا ؟ تین سال پہلے بھی ازلان افگن نے اسے سزا دلانے کی کوشش کی تھی مگر ارسلان نے دباؤ پر پیچھے ہٹ گیا مگر آج پھر وہ ایک نائٹ میئر بن کر اس کے سامنے آگیا تھا ۔۔۔۔

کنزہ نے اپنے ہاتھ سختی سے ایک دوسرے میں جکڑ لئیے تھے وہ اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کی پوری کوشش کررہی تھی ۔

کاش وہ جانتا ! کہ اگر اس سب میں وہ تھوڑا بہت بھی قصور وار تھی تو اس نے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ادا کی تھی ایک ایسے سنگدل کھٹور انسان سے محبت کرکے جو اس سے نفرت کرتا تھا اسے قصور وار سمجھتا تھا جس نے اسے اس گناہ کی سزا دی تھی جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔

" اگر تم سچی ہوتیں تو ہم میں سے کوئی بھی تمہیں اس سب کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا ہم بھی انسان ہیں فرشتے یا کوئی ولی اللہ نہیں مگر سچ جھوٹ میں تمیز کرنا جانتے ہیں اور ویسے بھی اب وہ زمانہ نہیں رہا جب ہم مرد لڑکیوں کو اینجل ، معصوم فرشتہ صفت سمجھتے تھے اور تم ؟؟ تم نے اپنے چہرے پر یہ جو شروع سے معصومیت کا نقاب چڑھایا ہوا ہے اس سے تم ارسلان کو الو بنا سکتی ہو پر مجھے نہیں ....." اذلان افگن نے اسے گھورا ۔

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔

" اگر تم صاف صاف کہہ دیتی کہ تمہاری زندگی میں کوئی اور ہے تو ارسلان کبھی بھی اتنا آگے نہیں بڑھتا مگر تم نے ایسا نہیں کیا الٹا اس سے پیچھا چھڑانے کی خاطر تم نے دکھاوا کیا کہ تم میرے ساتھ ۔۔۔۔ افف خدایا تم ایسا کیسے کرسکتی تھیں ۔۔۔۔؟ " وہ سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا ۔

" دکھاوا ؟؟ ۔۔" کنزہ شاکڈ ہوئی ۔

" اگر آپ کو ارسلان کے ایکسیڈنٹ کا الزام مجھے دینا ہے تو دے دیجئیے مگر مجھ پر دکھاوے کا الزام مت لگائیں ۔۔۔۔"

" کیوں ؟ ۔" وہ اس کے نزدیک آیا بیحد نزدیک ! کنزہ کی پلکیں اسے اتنے نزدیک پا کر لرز کر جھک گئی تھیں

" کیا تم نے مجھ سے محبت کا دکھاوا نہیں کیا تھا ؟ ۔۔۔۔ " اس کی گرم سانسیں کنزہ کا چہرہ جھلسا رہی تھیں ۔

" نہیں ۔۔۔۔۔" کنزہ نے پلکیں جھکائے نفی میں سر ہلایا ۔

"وہ دکھاوا ہی تھا مس کنزہ مرتضیٰ ۔۔۔میرے چھوٹے بھائی سے جان چھڑانے کے لئیے تم نے مجھ سے محبت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا یا ۔۔۔۔ " وہ طنزیہ انداز میں بولتا ہوا دو قدم پیچھے ہٹا۔

" یا میں یہ سمجھوں کہ تمہیں ہم دونوں بھائیوں میں سے تمہارے لئیے بیسٹ چوائس کون ہوگا یہ فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا تھا ؟ " وہ طنز کے کوڑے مار رہا تھا۔

" آپ کو شرم آنی چاہئیے ۔۔۔۔" کنزہ نے سر اٹھا کر اسے ٹوکا ۔

" میری ماں نے ارسلان کے کہنے پر تمہیں دیکھا اور تمہاری ماں سے ارسلان کے لئیے تمہارا رشتہ مانگا تھا ۔۔۔۔"

" اس ویک اینڈ تم ارسلان کے کروز میں پارٹی پر انوئیٹٹڈ تھیں وہ تمہیں سمندر کی سیر کو لے جانا چاہتا تھا اور تم ۔۔۔۔تم نے اس کی خواہش کو نظر انداز کرتے ہوئے سمندر کنارے واک کی فرمائش کردی وہ بھی اس کے بڑے بھائی کے ساتھ ۔۔۔۔"

" اپ کے مجھے خود آفر کی تھی واک کی ۔۔۔ " وہ چیخ پڑی ۔

" کیونکہ میں گدھا تھا میں نے تمہاری اس معصوم صورت پر یقین کیا مجھے لگا کچھ لڑکیوں کی طرح تمہیں بھی سمندر سے ڈر لگتا ہوگا اور اوپر کروز ہر جاکر اگر تمہاری طبیعت خراب ہوگئی تو پارٹی کا ماحول خراب ہو جائے گا تو بہتر یہی تھا کہ تمہیں واک پر لےجایا جاتا تاکہ تم تھوڑا بہتر محسوس کرتیں ۔۔ " وہ خشک لہجے میں بولا۔

" آپ یقینا مجھ پر یقین نہیں کرینگے مگر میں آپ کی شکرگزار ہوں۔۔۔۔" وہ دھیمے لہجے میں بولنا شروع ہوئی .

" امی نے جب ارسلان کا انویٹیشن میرے لئیے ایکسیپٹ کیا تھا تو انہیں اور مجھے دونوں کو نہیں پتا تھا کہ وہ کروز ہر پارٹی ہے اور ارسلان مجھے تین دن تک اس کروز پر اپنے ساتھ رکھے گا ،جب میں وہاں پہنچی اور مجھے ارسلان سے ہی اس بارے میں پتہ چلا تو میں نے انکار کردیا تھا اسی لئیے میں کروز سے اتر کر نیچے ڈیک پر آئی تھی جہاں آپ مل گئے تھے ۔۔۔۔"

"اتنی ہی شریف تھیں تو گلابی اسکرٹ پہن کر اتنا تیار ہو کر کیوں آئی تھی ؟ ۔میں کون سا تمہارا محرم تھا جو میرے ساتھ ۔۔۔" اس کی بات سن کر کنزہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں وہ کچھ بھی نہیں بھولا تھا یہاں تک کہ اسے اس کے کپڑوں کا رنگ تک یاد تھا ۔۔۔۔

" آپ کے لئیے تو وہ چانس ہی تھا کہ آپ مجھے پرکھ سکیں جانج سکیں کہ میں آپ کے بھائی ، آپ کے خاندان نے قابل بھی ہوں کہ نہیں ۔۔۔۔"

" تمہارا ڈریس سینس اچھا تھا یہ میں مانتا ہوں گلابی اسکرٹ سفید کرتی اور اس پر تم نے اپنے ان گھنگھریالے بالوں کو اونچی پونی میں جکڑ کر خود کو پورا باربی ڈول بنایا ہوا تھا تاکہ کسی کی نظر تم پر سے ہٹ ہی نا سکے ،نو ڈاوٹ ارسلان تمہیں شکی نظر سے دیکھ رہا تھا جب تم نے کروز کی آفر کو ٹرن ڈاؤن کیا ۔۔۔۔"

کنزہ نے خاموشی سے پتھر پر پڑا اپنا بیگ اٹھا اور کھڑی ہونے لگی تھی جب اذلان افگن نے تیزی سے اس کا بازو اپنی گرفت میں لے کر اسے روکا اور اس کا چہرہ اپنے مدمقابل کیا ۔

" اتنی جلدی کیا ہے مس کنزہ مرتضیٰ ؟ لاسٹ ٹائم تو تم بڑا کمفرٹیبل تھیں میرے ساتھ ، تمہیں کوئی جلدی نہیں تھی تو آج کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔"

" میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔۔۔" اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی ۔

اذلان افگن نے بڑی دلچسپی سے اس کی اس بچکانہ حرکت کو دیکھا اور اپنا سر جھٹک کر اسے مزید گھسیٹ کر نزدیک کرلیا۔

" ابھی نہیں ۔۔۔۔تم میری مرضی کے بغیر یہاں سے ایک انچ بھی نہیں کھسک سکتیں ۔۔۔۔" اس نے بولتے بولتے کنزہ ایک ہاتھ سے اس کے نازک ہاتھوں پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے دوسرے سے اس کے شہد رنگ بال سہلائے تو وہ لرز کر رہ گئی ۔

" تم اب سترہ اٹھارا سال کی معصوم لڑکی نہیں ہو کنزہ ۔۔۔۔" وہ نرمی سے بولتے ہوئے اس کے چہرے پر جھکنے لگا تھا جب کنزہ پوری قوت سے اسے دھکا دے کر پیچھے ہٹی۔

" کیا ہوا ہنی ؟جب فرسٹ ٹائم میں نے تمہیں چھوا تھا اس وقت تو تم نے اتنی مزاحمت نہیں کی تھی تو آج کیوں ؟ ۔۔۔۔" اذلان کے منہ سے انگارے برسے تھے۔

"اب تک مجھ سمیت کتنے مردوں کو اپنی ان بڑی بڑی آنکھوں اور معصوم چہرے سے اپنا دیوانہ بنا چکی ہو ؟ ۔۔۔۔"

" آپ کی غلط فہمیوں کا کوئی علاج نہیں کاش میں آپ سے کبھی بھی نہیں ملی ہوتی ،کاش آپ لوگ میری زندگی میں کبھی بھی نہیں آئے ہوتے ،آپ کون ہوتے ہیں میرے کردار پر بنا جانے بوجھے بدکرداری کا ٹھپہ لگانے والے ؟ ۔۔ "

" تو اس دن کیا تمہارا ہمزاد میرے ساتھ تھا ؟ ۔۔۔۔۔" اذلان افگن غرایا ۔

" آپ پہلے آدمی ہیں جس نے مجھے یوں چھوا اور اس پر آج تک مجھے خود سے گھن آتی ہے آئی ہیٹ یو مسٹر افگن آئی ہیٹ یو ۔۔۔۔۔" کنزہ کی آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہنے لگے تھے

" ہیٹ ؟ مجھ سے ۔۔۔۔" اذلان افگن نے اسے دیکھا ۔

کنزہ نے سختی سے اپنے لب بھینچ کر خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اسے حقیقت کا آئینہ دکھا دے اس کے بھائی کی اصل تصویر دکھا دے اسے بھی اتنی ہی تکلیف دے جتنی اس نے اسے پہنچائی مگر ۔۔۔۔۔۔

وہ پلٹی ۔

" ویل ! اب آپ کیا چاہتے ہیں ؟ کیا مجھے یہاں لا کر میری تضحیک کرکے آپ کی مردانہ انا کو سکون مل گیا ؟ کیا آپ چاہتے ہیں میں واپس جاؤں اور جا کر انکل جارج کو بتا دوں کہ وہ اس کانٹریکٹ پر فاتحہ پڑھ لیں ؟اپ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ آپ وین ہوٹ کے ساتھ کانٹریکٹ کرنا ہی نہیں چاہتے آپ کو بس اپنا انتقام لینا ہے ۔" وہ پھٹ پڑی ۔

" میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔" ازلان افگن نے سنجیدگی سے اس کا سرخ پڑتا چہرہ اور پھولی ہوئی سانسوں کو دیکھا ۔

" ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی انسان کا رویہ سب سمجھا دیتا ہے ۔۔۔۔" کنزہ نے تلخی سے جواب دیا ۔

" لگتا ہے تمہارے انکل جارج نے تمہیں بزنس کرنے کا سلیقہ نہیں سکھایا ۔۔۔۔" وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑا ہوگیا ۔

" میں یہاں صرف اپنا وقت برباد کررہی ہوں اور آپ اپنا ۔۔۔۔" کنزہ نے ہمت ہار دی تھی ۔

"ہمم تو میں اپنا وقت برباد کررہا ہوں ؟ ۔کیسے ؟ ۔۔" وہ جمپ لگا کر پتھریلی چٹان سے اترا اور اپنا ہاتھ سہارا دینے کے لئیے کنزہ مرتضیٰ کے آگے پھیلایا۔

وہ اس کا پھیلا ہوا ہاتھ نظر انداز کرتی ہوئی احتیاط سے نیچے اترنے لگی ۔

" اٹس اوور مسٹر افگن ! سب ختم ہوچکا ہے ۔۔۔ "

"واٹس اوور ؟ ۔۔۔۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے اس کا راستہ روکا جو پتھریلی زمین پر چلتی ہوئی آگے جانا چاہ رہی تھی۔

" سب کچھ اور میری طرح آپ بھی یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔۔۔۔۔" کنزہ نے سختی سے کہا

" واقعی ؟ ۔۔۔ " اس نے کنزہ کی آنکھوں میں جھانکا ۔

" کچھ بھی اوور نہیں ہوا ہے ! ۔۔۔۔۔یہ تو ابھی شروعات ہیں ۔۔۔۔۔ "

It isn't over ,it's just beginning .,..

اذلان افگن ایک ہاتھ میں اس کا بیگ پکڑے اور دوسرے سے اس کا بازو تھامے گارڈن کے دروازے سے گھر کے اندر داخل ہوا ،یہ وہ دروازہ تھا جسے سب گھر والے استمعال کرتے تھے اندر داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا لانچ نما کمرہ تھا جس میں لیدر کے صوفے اور آرام دہ چئیرز موجود تھیں سب کچھ ویسا کا ویسا ہی تھا کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا یہاں تک کے بڑے سے ایل ڈی اسکرین نے پاس رکھا پام گملا آج بھی ویسا کا ویسا ہی تھا سائیڈ کی دیوار پر بڑا سا لکڑی کا کیبنٹ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اس گھر کا ایک ایک کمرہ پالشڈ بہترین فرنیچر سے سجا مالکین کی عمارت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔۔۔

" کیا رباب آنٹی ( ارسلان ازلان افگن کی مدر ) بھی ادھر ہونگیں ؟ ۔۔۔۔" کنزہ کے ذہن میں سوچ ابھری

وہ سنجیدگی سے اس کو بازو سے تھامے کمروں کے سامنے سے گزرتا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر گئیسیدھا ایک سفید رنگ کے لمبے سے ہال نما کمرے میں لایا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔

" ہم نے یہاں ہر کچھ تبدیلیاں کی ہیں اسی لئیے تمہیں یہ اپنے لاسٹ وزٹ کے مقابلے میں تھوڑا بہت مختلف لگ رہا ہوگا ." اذلان افگن نے اس کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر خود ہی کلئیر کیا ۔

" یہ میرا پورشن ہے ! ارسلان سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا چل نہیں سکتا تو گراؤنڈ فلور کو اس کے لئیے مختص کردیا ہے وہاں اس کی وہیل چئیر اور جگہ جگہ ریلنگ لگوا دی ہیں تاکہ اسے کوئی مشکل نہیں ہو ۔۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا اور کنزہ کا بیگ قالین پر رکھا ۔

" تم سے اپنا ہی گھر سمجھو تھوڑا آرام کرکے ٹھیک ایک گھنٹے بعد تیار ہوکر نیچے آجانا اس وقت تک ڈنر ریڈی ہوچکا ہوگا۔ " وہ نرمی سے بولتا ہوا پلٹا اور کمرے سے باہر نکلنے لگا جبکہ کنزہ خاموشی سے ساکت کھڑی ہوئی تھی وہ بھلا کیوں تیار ہوکر اس کے ساتھ ڈنر کرتی ؟ وہ بس ازلان کے کمرے سے نکلتے ہی یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی ۔

" تم اپنا سامان ان پیک کرکے الماری میں رکھو اور ریڈی ہوجاؤ یا یہ فریضہ بھی میں انجام دوں ؟ ۔۔۔۔" وہ بنا پلٹے دروازے پر کھڑا سوال کررہا تھا ۔ظاہر ہے اس کی رگ رگ سے وہ واقف جو تھا ۔۔۔

" اس سب کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔" وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولی تو اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جس کے چہرے پر ناگواری چھائی ہوئی تھی ۔

" برابر والا کمرہ میرا ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو آجانا ۔۔۔۔" اس کی بات سن کر کنزہ نے آگے بڑھ کر تیزی سے اسے باہر دھکا دیتے ہوئے زور سے دروازہ بند کرکے لاک لگایا تھا ۔

کچھ دیر وہ دروازے سے ہشت لگائے گہری سانس بھرتی رہی اسے یہاں نہیں ہونا چاہئیے تھا مگر وہ صرف انکل جارج سے ہمدردی کے چکر میں ماری گئی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ دروازے کے پاس سے ہٹی اپنا بیگ اٹھا کر اس ڈبل کنگ سائز سفید صاف شفاف بیڈ پر رکھا اسے یہاں رہنا نہیں تھا تو سامان ان پیک کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا ہاں لمبی لانگ ڈرائیو اور پھر راستے میں ساحل سمندر پر رکنا پڑا تھا اس وقت اس کے کپڑے واقعی گرد آلود ہورہے تھے اس نے چلتے وقت بس بیدلی سے دو ہی جوڑے بیگ میں ڈالے تھے ان میں سے ایک جو جینز کرتا اور اسٹالر ہر مشتمل تھا نکالا اور واش روم کا رخ کیا ۔

شاور لے کر فریش ہونے کے بعد وہ واپس کمرے میں آئی بیگ سے برش نکال کر سیدھا ڈریسنگ ٹیبل کی طرف رخ کیا اور اپنے بال سلجھانے لگی ۔

"ابھی اس نے اذلان کے ساتھ بمشکل چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزارے تھے اسے یوں اپنے اعصاب کمزور نہیں پڑنے دینے چاہئیں۔" وہ آئینہ میں ابھرتا ہوا اپنا تھکا تھکا سراپا اور سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی.

" اذلان افگن کو کبھی بھی ،کسی بھی قیمت پر یہ پتہ نہیں چلنا چاہئیے کہ میں اس سے ڈر رہی ہوں ! اور میں اس سے ڈروں بھی کیوں ؟ ۔۔۔۔" اس نے خود سے سوال کیا ۔

" سچ یہ ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے ، اپنے بھائی کے ایکسیڈنٹ کا الزام مجھ پر لگاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے پاس پاور ہے کہ وہ مجھے ہرٹ کرسکے انکل جارج نے کانٹریکٹ کو رفیوز کرکے ۔۔۔۔اور مجھے توڑ سکے کہ کیونکہ میں ۔۔۔۔۔" اس نے اذیت سے اپنی آنکھیں بند کیں کہ وہ اس نفرت کی اصل وجہ سے نظریں چرا رہی تھی یا شاید حقیقٹ کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔

تین سال کے بعد اب وہ کسی بھی قیمت پر ازلان افگن کو یہ سیٹیسفیکشن نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ اسے ڈسٹرب کرنے میں ، اس کا اطمینان و سکون غارت کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔وہ آئینے میں نظر آتیں اپنی سرخ شکوہ کناں آنکھوں سے نظریں چراتی ہوئی پیچھے ہٹی وہ ابھی طرح سے جانتی تھی کہ اسے ذہنی سکون صرف اور صرف ازالان افگن کی پہنچ سے دور بہت دور جا کر ہی ملنے والا تھا ۔

ایک گھنٹہ پورا ہونے والا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ اذلان افگن اسے لینے آئے وہ کمرے سے نکلی اور احتیاط سے چاروں جانب دیکھتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا نیچے اتر کر وہ ڈائننگ روم کی طرف بڑھی جب اسے ایک کمرے کے ادھ کھلے دروازے سے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی ۔۔۔اسے تھوڑا سا سکون ملا کہ وہ اکیلی ازلان کے ساتھ نہیں ہوگی۔ وہ دروازے کے پاس آکر رہی تو ایک لحظے کو اندر سے آتی ہوئی آواز خاموش ہوگئی پھر ازلان افگن کی بھاری آواز ابھری ۔

" نہیں ! تم ایسا کچھ نہیں کرنے والی ! ہم آج رات اس کے ساتھ ڈنر کرینگے اس لئیے تم اپنے پلانز بھول جاؤ یہی بہتر ہے ۔۔۔۔"

" مگر میں سب ارینج کرچکی ہوں اور یہ سب میں نے اس کے کہنے پر ہی کیا تھا ۔۔۔۔" نسوانی جھلائی ہوئی آواز ابھری ۔

" کس کا آئیڈیا تھا، کس کا نہیں تھا ، آئی ڈونٹ کئیر تم ارسلان کو اکیلے اپنے ساتھ کہیں نہیں لے جاسکتی شہر سے باہر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔"

" کیوں ؟ ۔۔۔۔کیوں نہیں لے جاسکتی ؟ آپ ہمیشہ میرے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ میں سب جانتی ہوں آپ بس مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں آپ کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں آپ کے بھائی کو آپ سے چھین نا لوں ،آپ نے ہمیشہ اسے اپنے نیچے دبا کر رکھا مگر اب ایسا نہیں ہوگا آپ کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے پتھر ۔۔۔۔ " وہ نسوانی آواز رونے لگی ۔

" جب وہ ارسلان کو اس حال تک پہنچا کر چھوڑ چکی تھی تو آپ کیا سوچ کر اسے واپس لائے ہیں ؟ ارسلان کو اس کی چاہ اب نہیں ہے وہ اس مکار لالچی لڑکی سے محبت نہیں کرتا وہ ۔۔۔وہ صرف مجھ سے پیار کرتا ہے وہ صرف میرا ہے بس میرا اور آپ اسے مجھ سے محبت کرنے سے روک نہیں سکتے ۔۔۔۔۔"

" شٹ اپ ۔۔۔۔جسٹ شپ اپ ۔۔۔۔" ازلان کی غصے سے لبریز غراتی کوئی سرد آواز نے باہر کھڑی کنزہ کو بھی لرزا کر رکھ دیا تھا۔

" اس گھر میں رہنا ہے تو تمہیں تمیز سے بات کرنا سیکھنا ہوگا ورنہ ایک سیکنڈ میں تمہیں یہاں سے نکال پھینکوں گا اور ہاؤ ڈئیر یو ٹالک ٹو می لائک دیٹ ؟ ۔۔۔"

" آپ مجھ سے ایسے بات نہیں کرسکتے ۔۔۔۔" وہ لڑکی بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی ۔

" میں تم سے جیسے چاہے بات کرسکتا ہوں اور اب خدا کے لئیے اپنا باجا بجانا بند کرو تمہارے پاس پورا ویک پڑا ہے جیسے چاہو ارسلان کے ساتھ گزار لینا لیکن آج تمہیں میری خواہشات کا احترام کرنا ہوگا ۔۔۔۔ "

" آپ ایک بہت بڑے ڈیکیٹر ہیں ۔۔۔۔" وہ لڑکی جل کر بولی تھی

" اب جاؤ اور ڈیوڈ کو بولو میں بلا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔"

" میں آپ کی نوکر نہیں ہوں جو آپ ہر وقت مجھے حکم دیتے رہتے ہیںں۔۔۔۔" اس لڑکی نے زور سے پیر پٹخے تھے ۔

" اگر تمہیں یہ سب پسند نہیں تو پھر تمہیں کیا کرنا چاہئیے یہ تم اچھی طرح سے جانتی ہوں ۔۔۔۔" ازلان افگن کی سرد آواز ابھری تھی ۔

کچھ لمحے کے لئیے کمرے میں سناٹا سا چھا گیا تھا پھر دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز ابھری اور ایک لڑکی تیزی سے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔سفید بیضوی چہرہ ،کالے سیاہ شولڈر کٹ بال ہلکے ہلکے میک اپ میں ،لبوں کر سرخ لپ اسٹک لگائے وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی جس کی آنکھیں اس وقت آنسوؤں سے لبریز تھیں وہ باہر نکلتے ہی کنزہ سے ٹکرائی تھی ایک لمحے کو ان دونوں لڑکیوں کی نظریں آپس میں ملیں تھیں اس لڑکی کی نظروں میں کنزہ کے لئیے بلا کی نفرت تھی ۔۔۔

ازلان افگن کے قدموں کی دھمک سن کر وہ لڑکی کنزہ کو دھکا دیتی ہوئی تیزی سے وہاں سے چلی گئی تھی اس سے پہلے کنزہ بھی وہاں سے ہٹتی اذلان افگن باہر آچکا تھا ۔

اس کے نقوش میں سختی ابھری ہوئی صاف نظر آرہی تھی ماتھے پر الگ بل پڑے ہوئے تھے ۔

اس سے پہلے وہ کچھ کہتا کنزہ نے اپنی نظریں ہال وے سے ہٹائیں ۔۔۔

" یہ ۔۔۔۔۔یہ ماریہ تھی ؟ ماریہ انعام ؟ پاکستانی سفیر کی بیٹی ۔۔۔ " وہ حیرانگی سے پوچھ رہی تھی ۔

" یس ! تم جانتی ہو اسے ؟ ۔۔۔۔" اذلان نے سوال کیا ۔

" نہیں ! مگر کئی سال پہلے بس ایک بار ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی مگر میں شیور نہیں ہوں کہ یہ وہی لڑکی ہے یا نہیں ۔۔۔۔" وہ محتاط انداز میں بولی ۔

" ماریہ انعام ایک نفسیاتی کیس ، حددرجہ کی بگڑی ہوئی بچ ۔۔۔۔اس عذاب سے جو ایک بار مل لے وہ اسے بھول ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔" وہ سفاکی سے بولتا ہوا آگے بڑھا ۔

" ایکسکیوزمی ! ۔۔تم اندر بیٹھو میں بس ایک سیکنڈ میں تمہیں جوائن کرتا ہوں ۔۔۔" وہ تیزی سے بولتا ہوا اندر گم ہوگیا تھا کنزہ مرتضیٰ کو شاکڈ میں کھڑا چھوڑ کر ۔۔۔

جو صرف یہ سوچے جا رہی تھی کہ ۔۔۔۔

" واٹ دا ہیل ۔۔۔ یہ ماریہ انعام ادھر ،اس گھر میں کیا کررہی تھی ؟؟؟ " وہ آہستگی سے چلتی ہوئی اسی کمرے میں داخل ہوئی اور ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔

ماریہ انعام پاکستان کی ایک فیوڈل فیملی سے تعلق رکھتی تھی اس کا باپ منسٹر رہ چکا تھا اور کافی عرصہ سے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے امریکہ میں موجود تھا۔

کنزہ ، ارسلان اور ماریہ کے باپ ایک زمانے میں اچھے دوست تھے پھر کنزہ کا باپ تو اپنی دوسری بیوی کا ہوکر رہ گیا تھا اور افگنز کے فادر اور انعام جتوئی میں دشمنی کی داغ بیل پڑ گئی تھی کئی بار افگن سر پر جان لیوا حملے بھی ہوئے تھے اور اب ۔۔۔

افگن سینئیر کا انتقال ہوگیا تھا ، انعام جتوئی ایک ایکسیڈنٹ میں معذور ہوگیا تھا اور اب ساری پاور

"دی اذلان افگن "کے ہاتھ میں تھی اس کی قسمت کا ستارہ عروج پر تھا باپ کے بزنس کو وہ ٹیک اوور کرچکا تھا اور ان کی سینٹ کی سیٹ بھی اس کے ہی پاس تھی ۔۔۔۔

بتیس سال کا ازلان افگن ایک کامیاب ترین انسان تھا مگر اتنا ہی مغرور اور بددماغ آدمی تھا وہ ۔۔۔

اس سب میں ماریہ انعام کی یہاں اپنے باپ کے دشمنوں کے گھر موجودگی انتہائی حیران کن تھی ۔۔

کیا یہ بھی ازلان افگن کا کوئی پلان تھا ؟

تین سال صرف تین سال میں کیا سے کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔

اسے اور اس کی ماں کو احساس ہوگیا تھا کہ افگنز ان کے لئیے نہیں ہیں اسی لئیے وہ ان سب کو چھوڑ کر دور چھپ گئی تھی مگر انہی دنوں اس کی ماں گزر گئی اور اب ازلان افگن اسے واپس گھسیٹ لایا تھا ۔۔۔۔۔وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اسے ازالان کے کمرے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا جو کافی دیر سے اس کے نزدیک کھڑا اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے سے محفوظ ہورہا تھا ۔

وہ اس وقت چونک اٹھی جب اسے نے پیچھے سے اس کے شانوں پر اپنے بھاری ہاتھ رکھے تھے ۔

" کیا تمہیں میرے اندر آنے کا احساس نہیں ہوا ؟ اتنی بھی کیا بے خبری ۔۔۔۔۔۔" وہ نرمی سے بولا تھا ۔

" نہیں ۔۔۔۔۔" کنزہ نے اپنے شانوں پر سے اس کے ہاتھ ہٹائے۔

" کیا آپ نے مجھے ڈرانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ؟ ۔۔۔ "

" مجھے دن میں خواب دیکھنے والے لوگ بہت برے لگتے ہیں خیر چھوڑو سب یہ بتاؤ تمہیں ہوا کیا ہے ؟ لگتا ہے اب تمہیں پچھتاوا ہونے لگا ہے ۔۔۔"

وہ اس کی گھورتی ہوئی نظروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نفی میں سر ہلاتی ہوئی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

" میں نے عرصہ ہو اپنی زندگی پچھتانا چھوڑ دیا ہے اپنی امی کی قبر کے ساتھ ہی میں اپنے سارے پچھتاوے دفن کر کے خود کو گرو اپ کرلیا تھا ۔۔۔۔"

" ویل تمہارے لئیے تو وہ بہت برا دن ہوگا اپنی ماں کو کھونا اوپر سے بچپنا چھوڑ کر میچیور ہونا یقیناً تمہارا ضمیر بھی جاگ گیا ہوگا اور اب تمہیں میرے لئیے افسوس ہورہا ہوگا ۔۔ " اس نے طنز کیا

وہ ازلان کا طنز سن کر دھیمے سے مسکرائی ۔

" آپ اس دنیا کے آخری آدمی ہونگے جس پر میں ، کنزہ مرتضیٰ افسوس کریگی ،ویسے کیا آپ کو ہمدردی بٹورنی ہے ؟ ۔۔ ۔"

"میں کبھی بھی کسی کی بھی ہمدردی حاصل کرنا پسند نہیں کرتا ۔۔۔۔"

" نہ ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی آپ کسی سے ہمدردی کرتے ہیں ۔۔۔۔یہی تو آپ کی خوبی ہے مسٹر افگن ایک مغرور خود پسند انسان ۔۔۔۔۔" کنزہ نے طنز کیا ۔

" میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کوئی بھی شخص کسی سے بھی بلاجواز ہمدردی نہیں کرتا اگر کوئی تم سے ہمدردی جتاتا ہے تو یہ تمہارے لئیے لمحہ فکریہ ہونا چاہئیے ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا

" کیا ارسلان ؟ ۔۔۔۔" وہ پوچھتے پوچھتے رک گئی ۔

" وہ ادھر ہی ہے ڈنر کے لئیے تیار ہورہا ہے ۔اور ابھی تھوڑی دیر پہلے جو ادھر سین ہوا تھا میں نے اس کی سزا کے طور پر ماریہ کو یہاں سے چلتا کردیا ہے ۔۔۔"

"اور وہ چلی گئی ؟ اکیلی ۔۔۔۔" کنزہ نے حیرت سے پوچھا ۔

" اس کے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی ویسے ڈیوڈ اس کے ساتھ گیا ہے اور ویسے بھی ۔۔۔۔" اس نے دروازے پر پہنچ کر کنزہ کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا ۔

" ویسے بھی میرے خیال میں ہم تین اکیلے ہونگے تو بات کرنا آسان ہوگا ۔۔۔۔ "

" ڈیوڈ کون ہے ؟ ۔۔۔" وہ بات بدلتی ہوئی پوچھنے لگی ۔

" وہ ارسلان کی دیکھ بھال کرتا ہے اس کا کئیر ٹیکر ہے اسے اٹھانا نہلانا واش روم لے جانا کپڑے بدلوانا یہ سب ڈیوڈ کرتا ہے ۔۔۔۔" وہ اسے ڈیوڈ کی ذمہ داریاں بتا رہا تھا جنہیں سن کر کنزہ مرتضیٰ کا دل دکھ سے بھر گیا تھا۔

" آئی ایم سوری ۔۔۔ یہ سب ارسلان کے لئیے بہت خوفناک بہت مشکل ہوگا ۔۔۔۔۔"وہ سچ میں پریشان ہوچکی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ازلان افگن آخر اسے ارسلان سے کیوں ملوانا چاہتا تھا ؟ وہ اگر اس دنیا کی آخری انسان بھی ہوتی تو بھی اس حالت میں ارسلان اس سے ملنا پسند نہیں کرتا تو پھر ازلان ایسا کیوں کررہا تھا ؟ ۔۔۔۔۔۔

" کیا تم ارسلان افگن سے دوبارہ ملنے سے خوفزدہ ہو ؟ ۔۔۔ " اس کا سپیڈ پڑتا چہرہ دیکھ کر اذلان افگن نے بڑی نرمی سے سوال کیا تھا ۔۔۔۔

*-----*-----*

اذلان افگن بڑی توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

" پانی پیو گی ؟ ۔۔۔" اس نے روم فرج سے پانی کی بوتل نکال کر ڈھکن کھول کر اس کی طرف بڑھایا۔

کنزہ نے خاموشی سے پانی کی بوتل تھامی اور چند گھونٹ ٹھنڈا پانی پی کر بوتل واپس رکھ دی۔

" تم نے بتایا نہیں کیا تم ارسلان کو دیکھنے سے گھبرا رہی ہو ؟ ۔۔۔" اس نے اپنا سوال دہرایا ۔

" نہیں میں بھلا اسے دیکھنے سے کیوں گھبراؤ گئی ؟ آپ تو ایسے بات کررہے ہیں جیسے مجھے یہ سب بہت ناگوار لگے گا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے بالکل بھی نہیں ہے ۔۔۔۔"

" تو پھر کیسا ہے ؟ ۔۔ " اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" کیا میرا یوں ارسلان سے ملنا عقلمندی ہے ؟ آخر اس سب سے کیا حاصل ہوگا ؟ اور یوں اتنے عرصے بعد ملنا سارے گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف نہیں ہوگا ؟ ۔۔۔۔" وہ پریشانی سے بولتی ہوئی اس کے نزدیک آئی اور اپنا ہاتھ اذلان کے بازو پر رکھا ۔

" ازلان ! کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ سب دوبارہ شروع کرکے آپ درست کررہے ہیں ؟ ماضی گزر چکا ہے، اب نا اسے واپس پلٹا جاسکتا ہے نا ہی اسے بدلا جاسکتا ہے ۔۔۔" وہ اس کے نزدیک کھڑی اسے جیسے بہت اپنا سمجھ کر بات کررہی تھی ۔

" ایسا کچھ نہیں ہے نا ہی ماضی کو میں پلٹنا چاہتا ہوں نا ہی بدلنا چاہتا ہوں مگر اب اس سب کا ایک اختتام ہوجانا چاہئیے ۔۔۔"

" اختتام ؟ ۔۔۔" کنزہ نے حیرت سے اسے دیکھا جس نے اپنے ہاتھ پر رکھے اس کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کر لی تھی ۔

" یس ۔۔۔اینڈ ۔۔۔۔اختتام ۔۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا ۔

" تم سب کچھ بھول جانا چاہتی ہو مگر یہ نہیں جانتی کہ سب کچھ بھولنے کے لئیے پہلے سب کچھ ختم کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔پرانے راستے بند کئیے بغیر نئے راستے تلاشنے نہیں چاہئیے ۔۔۔" وہ نرمی سے کہتا ہوا اس کے گال چھو گیا تھا ۔

" لیٹس گو ! وقت آگیا ہے کہ میں تمہیں ارسلان کے سامنے لے آؤں ۔۔"

*----*----*

ازلان خاموشی سے اس کا ہاتھ تھامے اسے گھر کے دوسرے پورشن میں لے جارہا تھا اور وہ سر جھکائے اس کے ساتھ چلتی خاصی ٹینس تھی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ارسلان سے ابتدائی بات چیت کیسے کرے گی ۔۔۔۔

اور اگر ازلان نے اسے بتایا ہی نا ہو کہ وہ اسے کنزہ مرتضیٰ کو گھر لا رہا ہے تو ؟؟؟ وہ کپکپا اٹھی ۔

تین سال بہت ہوتے ہیں ازلان نے اسے پہچان لیا تھا ضروری تو نہیں ارسلان بھی اسے پہچان لے ؟ تو پھر وہ اپنا تعارف کیسے کروائے گئی ؟ وہ پریشان سوچوں میں گم تھی جب اذلان ایک دروازے کے آگے رکا اور اسے کھول کر اندر داخل ہوا کنزہ کے قدم جم سے گئے تھے جب اس نے جھٹکا دے کر اسے کمرے کے اندر کھینچا ۔

یہ ایک بڑا طویل کمرہ تھا جس میں کھلی فرنچ ونڈوز کے سامنے ایک وہیل چئیر موجود تھی ۔ان کے قدموں کی آواز سن کر کرسی پر بیٹھے وجیہہ چہرے کے مالک ارسلان نے وہیل چئیر گھمائی ۔

" کتنی دیر سے میں انتظار کررہا ہوں آپ آخر تھے کدھر ؟ ۔۔۔" وہ اونچے ناراض لہجے میں بولا ۔

ایک لمحے کو کنزہ کو لگا وہ اسے شاید پہچانا ہی نہیں ۔

" تمہاری نخریلی گرل فرینڈ سے ڈیل کررہا تھا بڑی مشکل سے اسے دفعان کیا ہے اب تم بھی موڈ درست کرو ،تھوڑا پولائٹ رکھو خود کو ۔" اذلان افگن نے اسے تنبیہہ کی ۔

" ہیلو کنزہ ڈارلنگ ۔۔۔لانگ ٹائم نو سی ۔۔۔۔" ارسلان افگن نے ساکت کھڑی کنزہ کو مخاطب کیا۔

" تم کنزہ کو چائے پلاؤ میں ڈنر لگواتا ہوں ۔۔۔" اذلان افگن اسے آنکھ سے اشارہ کرتا ہوا تیزی سے کنزہ کو اس کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گیا ۔

" کنزہ ۔۔۔۔"

" یس ۔۔۔" وہ چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لائی ۔

" اوہ فار گاڈ سیک ۔۔۔۔" وہ اس کے چہرے پر زبردستی کی ترس کھا کر لائی ہوئی مسکراہٹ پر تپ اٹھا تھا ۔

" تم بھی باقی سب کی طرح ہو مجھ پر ، میری معذوری پر ترس کھانے والی۔۔۔ چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجا کر ایک معذور سے پوچھنا کہ تم کیسے ہو ؟ آئی ایم سک آف اٹ ۔۔۔۔" وہ چلایا ۔

" اوکے میں تم سے ہرگز بھی تمہارا حال نہیں پوچھوں گئی ۔۔۔ " اسے یہ سب سچویشن بہت عجیب لگ رہی تھی ۔

" پوچھنا بھی مت ورنہ میں تمہیں بھی باقی سب کی طرح اگنور کردونگا ۔۔۔" وہ سختی سے بولا ۔

کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی ۔۔۔۔

" کیا تم واقعی چائے پیو گئی ؟ ۔۔۔" ارسلان کی گھمبیر آواز نے کمرے کے سکوت کو توڑا ۔

" نہیں ۔۔۔" وہ نفی میں سر ہلا گئی ۔

" کچھ کہو گئی نہیں ؟ ۔۔۔" اس نے کندھے اچکا کر پوچھا ۔

" آپ کا کمرہ بہت اچھا ہے ۔۔۔" کچھ لمحوں کے توقف کے بعد کنزہ نے کمرے کی تعریف کی ۔

" سیریسلی ؟ کیا تم بس یہی کہہ سکتی تھی ؟ ۔۔۔"

کنزہ نے اپنے لب بھینچ لئیے ۔

" مجھے نہیں پتہ مجھے کیا کہنا چاہئیے یا آپ مجھ سے کیا سننا چاہتے ہیں بہت وقت گزر چکا ہے اب کیا بات کریں ۔۔۔؟ "

" واقعی بہت وقت گزر چکا ہے ۔۔۔" وہ کنزہ کی بات کاٹتے ہیں افسردگی سے بولا ۔

وہ آج بھی ویسا ہی تھا موڈی ، اپنی چلانے والا اور شکل صورت میں اپنے بڑے بھائی ازلان افگن سے ملتا جلتا مگر اس معذوری نے اسے چڑچڑا بنا دیا تھا۔

" تم اتنی دور کیوں کھڑی ہو ؟ ادھر میرے پاس صوفے پر آکر بیٹھو ۔۔ " اس نے اپنی وہیل چئیر کے پاس رکھے صوفہ سیٹ کی طرف اشارہ کیا ۔

" ڈرو مت ! اب میں اگر چاہوں بھی تو تمہیں سڈیوز نہیں کرسکتا جانتی ہو کیوں ؟؟ ۔۔ "

" کیونکہ اب ہم بڑے اور سمجھدار ہوگئے ہیں ۔اور معذور بھی ۔۔" وہ ہنسا ۔

" کیا واقعی ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ چپ ہوگیا ۔

" ایک بات بتاؤ گی ؟ ۔۔۔ "

" کیا ؟ ۔۔ " کنزہ نے اسے دیکھا ۔

" تم مجھے ہاسپٹل میں دوبارہ دیکھنے کیوں نہیں آئیں ؟ ۔۔۔"وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

" مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم مجھے دوبارہ دیکھنا چاہو گئے ۔۔۔" وہ سادگی سے بولی ۔

" شیور یہی وجہ تھی ؟ ۔۔۔" ارسلان نے گہری نظر سے اسے دیکھا ۔

" ہمم ۔۔۔"

" آر یو شیور بگ برو نے تمہیں ڈرایا دھمکایا نہیں تھا کہ مجھ سے دور رہو ۔۔۔"

" نہیں ۔۔۔" اس نے جھوٹ بولا ۔

" مجھے یہی مناسب لگا کہ میں سب سے دور ہوجاؤں ۔۔۔۔"

کمرے میں دوبارہ خاموشی چھا گئی تھی ۔

" کیا تم نے مجھے معاف کردیا ؟ ۔۔۔" ارسلان کی سوچ میں ڈوبی آواز ابھری۔

" میں تمہیں بہت پہلے ہی معاف کرچکی تھی وہ سب جو ہوا شاید وہی ہماری قسمت میں لکھا تھا ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔

" گڈ ۔۔۔ویری گڈ ۔۔۔۔" ارسلان نے اپنی وہیل چیئر گھمائی ۔

" میں نے بھی تمہیں معاف کردیا تھا ۔۔۔۔" وہ اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے اسے آگاہ کررہا تھا وہیل چئیر صوفے کے نزدیک کرکے اس نے کنزہ کے مومی آرٹسٹک ہاتھوں کو جو وہ اپنی گود میں رکھے بیٹھی تھی دھیرے سے چھوا تو وہ تیزی سے اپنا ہاتھ پیچھے کرگئی اس کے خوبصورت چہرے پر ناگواری چھا گئی تھی ۔۔۔

" ویل ویل ویل ۔۔۔۔۔" وہ کھل کر ہنستے ہوئے پیچھے ہوا ۔

" تم ذرہ برابر بھی نہیں بدلی وقت نے تمہیں میچیور کردیا ہے تم پہلے سے کہیں زیادہ حسین ہوگئی ہو مگر اندر سے آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہو ڈرپوک شرمیلی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبرا جانے والی ۔۔۔۔۔" وہ ریلیکس ہو کر اپنی وہیل چئیر پر سر پیچھے کرکے بیٹھ گیا تھا ۔

" تم وہ پہلی لڑکی تھی جو میرے اگینسٹ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔جس نے مجھے ، میری پرسنیلٹی کو گھاس نہیں ڈالی ۔۔۔۔" اس نے شکوہ کیا ۔

" میں تمہاری زندگی میں آنے والی کوئی پہلی لڑکی تو نہیں تھی ۔۔۔۔۔" کنزہ نے اسے ٹوکا ۔

" تم پہلی واحد لڑکی تھی جس نے میرے ساتھ سونے سے صاف انکار کردیا تھا ۔۔۔۔" وہ صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا ۔

کنزہ نے بے چینی سے پہلو بدلا تھا یہ مغربی کلچر میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے امیرزادے یہ بھلا کہا مشرقی حیا کو سمجھ سکتے تھے۔

" تمہیں کیا لگتا ہے میں تم سے شادی کیوں کرنا چاہتا تھا ؟ کیوں اپنی مدر کو تمہارے گھر اولڈ فیشن وے میں رشتہ لینے بھیجا تھا ؟ ۔۔۔۔" وہ سوال کررہا تھا ۔۔۔

" نہیں ۔۔۔اور میں پتہ کرنا بھی نہیں چاہتی ۔۔۔۔" وہ سختی سے بولی ۔

" تم اسکول میں میری جونئیر تھیں چپ چاپ اپنے آپ میں مگن رہنے والی ۔۔۔۔۔

پھر جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوا اور ڈیڈ نے پارٹی رکھی تو وہاں کئی سال بعد پہلی بار میں نے تمہیں تیار دیکھا تم بڑی ہوچکی تھیں تمہارا شفاف چہرہ ،تمہاری خوبصورت آنکھیں ، لمبے بال اور معصوم چہرہ ۔۔۔۔۔

اس پارٹی میں شامل ہر مرد تمہیں چھونا ،تمہیں دیکھنا چاہتا تھا میں نے بھی تمہیں ڈانس کی آفر کی تھی پر تم ۔۔۔۔تم نے ریجیکٹ کردی ۔۔۔میں تم پر بہت غصہ تھا پھر کئی بار میں نے تمہیں پھول بھیجے ڈیٹ پر لے جانا چاہا مگر تم ۔۔۔۔

تم بلیک میلنگ پر اتر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔" وہ ماضی یاد کررہا تھا ۔

" میں اور بلیک میلنگ ؟ ۔۔۔" وہ شاکڈ ہوئی ۔

" یس یس بلیک میلنگ ۔۔۔۔یاد ہے نا تم نے کہا تھا کہ شادی سے پہلے تمہیں یہ سب پسند نہیں ۔۔؟" ارسلان نے اسے یاد دلایا ۔

" بس تمہیں حاصل کرنے کے لئیے میں نے شادی کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔" وہ سچائی سے اپنا دل کھول کر اس کے سامنے رکھ رہا تھا ۔۔

" تو آپ صرف ۔۔۔۔" کنزہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔

" نو ۔۔۔مجھے غلط مت سمجھنا ۔۔۔تم میری زندگی میں آنے والی واحد لڑکی تھیں جسے میں ساری زندگی صبح اٹھ کر ہر روز اپنے پہلو میں دیکھنا چاہتا تھا مگر تمہاری شرط کے شادی سے پہلے تم کسی کو خود کو چھونے نہیں دوگی اس نے مجھے ضد دلا دی تھی ۔۔۔۔" وہ رکا ۔

"بگ برو نے افریقہ ایک سرجن ڈھونڈ نکالا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ میری یہ بے جان ٹانگیں ٹھیک کرسکتا ہے مگر اس علاج پر میں صرف ایک شرط پر راضی ہوا ہوں ۔۔۔۔۔"

" جاننا چاہو گی کون سی شرط ؟ ۔۔۔۔"

" چلو میں خود بتا دیتا ہوں ۔۔۔

تمہاری میری زندگی میں واپسی ۔۔۔۔۔"

*-----*-----*

" ایکسکیوز می ۔۔۔۔۔" ارسلان کی بات سن کر کنزہ مرتضیٰ تیزی سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی ۔وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اذلان افگن مر تو سکتا ہے لیکن ایسی بات ہرگز نہیں کرسکتا ۔

" اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے ؟ مجھے زندہ رہنے کی کوئی خاص خواہش نہیں تھی مگر میرا بھائی اور ماں مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں اس لئیے میں نے بھی شرط رکھ دی پہلے تم پھر آپریشن ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا ۔

" آپ خود کو پپٹ ماسٹر اور دوسروں کو کیا کٹھ پتلی سمجھتے ہیں جو سب آپ کے اشاروں پر ناچیں گئے ؟ ۔۔۔۔۔" وہ کڑے لہجے میں بولی ۔

" مائی ڈئیر کنزہ ڈارلنگ ! میں صرف خواہش کرتا ہوں انہیں انجام میرا بڑا بھائی دیتا ہے آخر وہ بڑا جو ہے میری خواہشاتِ پوری کرنا اس پر فرض ہے خاص کر اس حادثے کے بعد ۔۔۔" ارسلان کے لہجے میں طنز تھا ۔

وہ خاموشی سے اس کے لہجے کے کڑوے پن کو محسوس کررہی تھی یہ بات اس نے سالوں پہلے بھی نوٹ کی تھی کہ وہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے اکھڑے اکھڑے رہتے تھے ،ازلان ہمیشہ سے حاکمانہ انداز و اختیارات رکھتا تھا اور ارسلان وہ ایک بگڑا ہوا رئیس زادہ تھا۔

" کچھ کہو گی نہیں۔؟ ۔۔۔۔" ارسلان نے اس کی خاموشی پر چوٹ کی اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز ابھری جسے سن کر کنزہ کو سکون سا محسوس ہوا کم سے کم اب وہ اکیلی نہیں تھی ۔

" چلو گائیز ڈنر ریڈی ہے ۔۔۔۔" بارعب سا اذلان افگن اندر داخل ہوا ۔

" آپ ہمیں کیوں ڈسٹرب کررہے ہیں ؟ ابھی ہم اہم باتیں کررہے تھے ۔۔۔۔" ارسلان نے ناگواری سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا ۔

" اٹس ڈنر ٹائم ۔۔۔باقی باتیں بعد میں ۔۔۔" اذلان نے سختی سے کہا اور کنزہ کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔

وہ تو پہلے ہی اس عجیب و غریب ماحول میں گھبرائی ہوئی تھی اسی لئیے بنا ادھر ادھر نظر ڈالے وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی تھی ۔

باہر کھانے کی میز پر ہاؤس کیپر ان تینوں کا انتظار کررہی تھی ان کے بیٹھتے ہی اس نے تیزی سے پہلے سوپ سرو کیا۔


یہ ایک پرتکلف ڈنر تھا جس میں دیسی اور کونٹینینٹل ڈشز شامل تھیں ازلان افگن پورے ڈنر کے دوران خاموش رہا تھا جبکہ ارسلان نے کنزہ سے چھوٹی موٹی باتیں کرنے کی کوشش کی تھی جس کا جواب اس نے ہوں ہاں کرکے دیا تھا جس پر ارسلان خاصا اپ سیٹ ہوگیا تھا اور بنا کھانا ختم کئیے اپنی پلیٹ ایک طرف کرکے اس نے نیپکن سے منہ صاف کیا ۔

" آپ کو مجھے اس بارے میں پہلے بتا دینا چاہئیے تھا ۔۔۔۔" اس نے سربراہی کرسی پر بیٹھے اذلان کو مخاطب کیا ۔

" کس بارے میں ؟ " اذلان نے چمچ رکھ کر اچھنبے اسے دیکھا ۔

" یہی کہ آپ اس ویک اینڈ پر کنزہ کو یہاں لارہے ہیں ۔۔۔۔" ارسلان نے شکوہ کیا ۔

" میں نے تمہیں کل رات بتا دیا تھا ، کیا یہ کافی نہیں ؟۔ " اذلان افگن نے ناگواری سے اسے ٹوکا اور ساتھ ہی ٹرائفل کی ڈش کنزہ کی طرف بڑھائی ۔

" یہ سوئیٹ ٹرائے کرو ۔۔۔"

کنزہ نے خاموشی سے ایک چمچ ٹرائفل اپنی پلیٹ میں ڈالا ۔

" تم لو گے ؟ ۔۔۔" اس نے ارسلان کی طرف ڈش بڑھائی ۔

" نو تھینکس ۔۔۔۔" ارسلان نے خفگی سے انکار کیا ۔

کچھ لمحے سناٹا سا چھا گیا تھا صرف چمچوں کے ٹکرانے کی آوازیں ابھر رہیں تھیں پھر اس سناٹے کو ارسلان کی خفا روٹھی ہوئی آواز نے توڑا ۔

" ویسے تو آپ یہاں مہینوں جھانکتے تک نہیں نا ہی فون کرنے کی زحمت کرتے ہیں اور آج یوں اچانک وہ بھی کنزہ کے ساتھ آپ کی آمد ۔۔۔۔۔آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں بگ برو ؟ ۔۔۔۔"

" مجھے خود بھی نہیں پتہ تھا بس اچانک سے موڈ بن گیا تو میں چلا آیا ۔۔۔۔" اذلان افگن سرسری انداز میں بولا ۔


یعنی اس نے رات کو اسے اس مصیبت ارسلان سے ملانے کا یہ واہیات پروگرام بنایا اور بنا اسے بتائے بنا اس کی رضامندی کے وہ اسے صرف اپنی طاقت اور اس کانٹریکٹ کے لئیے بلیک میل کرکے یہاں تک لایا تھا کس قدر بے حس اور خود پسند شخص تھا یہ اذلان افگن ۔۔۔۔۔کنزہ نے تپ کر سوچا۔


" آپ نے اچانک پروگرام بنالیا اور ماریہ بیچاری کا بھی نہیں سوچا آپ جانتے ہیں وہ ہمیشہ ویک اینڈ پر پلانز رکھتی ہے مگر آپ کو کیا پرواہ ۔۔۔" ارسلان نے غصے سے کہا ۔

" ہاں نہیں سوچا اور اگر تمہیں اتنا ہی اپنا اور اس ماریہ کا پلان خراب ہونے کا دکھ ہے تو کوئی بات نہیں میں کل صبح ہی کنزہ کو اپنے آفس لے جاؤنگا ویسے بھی ہمیں ادھر بزنس ڈسکس کرنا ہے ۔۔۔۔" اذلان افگن لاپرواہی سے بولا ۔

" بزنس ؟ ۔۔۔۔" ارسلان نے چونک کر اسے دیکھا جو بڑے کروفر سے بیٹھا ہوا تھا ۔

" کیسا بزنس ؟ " اس نے کنزہ اور اذلان دونوں کو باری باری حیرت سے دیکھا ۔

" کانٹریکٹ مائی برادر کانٹریکٹ ۔۔۔کنزہ اب وین ہٹ کے ساتھ کام کرتی ہے ۔۔۔۔" ازلان افگن کی بات پر اس نے شکایتی نظروں سے کنزہ کو دیکھا ۔

" کنزہ ! تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ تم یہاں کانٹریکٹ کی وجہ سے آئی ہو ؟ اور میں سمجھتا رہا میرے لئیے ، مجھے ملنے ۔۔۔۔" وہ بات آدھی ادھوری چھوڑ کر زخمی سی ہنسی ہنسا ۔

" اور بگ برو آپ ! میں نے سوچا تھا کہ آپ کا اچانک سے کہیں کسی محفل میں کنزہ سے سامنا ہوگیا ہوگا تو آپ اسے میرا بتا کر یہاں ملوانے لائے ہونگے ۔۔۔۔"

" تم ہمیشہ ہی غلط سوچتے ہو ۔۔۔ازلان نے طنز کیا اور بس یہاں کنزہ مرتضیٰ کی برداشت ختم ہوگئی تھی وہ ان دونوں بھائیوں کے بیچ لڑائی کی وجہ ایک بار پھر بننا نہیں چاہتی تھی۔

" پلیز ۔۔۔۔" وہ کرسی کھسکا کر کھڑی ہوئی ۔

" آپ دونوں یہ فضول بحث ختم کیجئے اور ارسلان میں بہت معذرت چاہتی ہوں کہ میری آمد سے آپ کا اور آپ کی ماریہ کا پروگرام خراب ہوا ویسے بھی اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ادھر آتی ہی نہیں ۔۔۔۔" وہ تلخ ہوئی تھی ۔

" کنزہ ! بے بی ۔۔ " ارسلان نے تیزی سے اپنی وہیل چیئر اس کی سمت گھمائی ۔

" میں تمہیں تو کچھ نہیں کہہ رہا انفیکٹ تمہارا آنا تو میرے لئیے ۔۔۔۔۔۔" وہ بات کررہا تھا جب اذلان افگن نے درشت لہجے میں اس کی بات کاٹی ۔

" ارسلان اگر تم صاف صاف بات کرو اور ہمیں بتا دو کہ تم کیا چاہتے ہو تو یہ زیادہ مناسب ہوگا یوں ملنے پر خوش ہونا اور پھر اپنے پلانز خراب ہونے کے دکھڑے رونا ۔۔۔گرو اپ مین صاف بات کرو ۔۔۔ " اذلان افگن نے درشتگی سے کہا ۔

" آپ اسے یہاں صرف بزنس کی بات کرنے لائے ہیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ پہلے آپ بزنس کی باتیں کرلیں ، میں چلتا ہوں اور ہاں کل دوپہر لنچ پر دریا کنارے ماریہ نے کمیونٹی باربی کیو رکھا ہے اگر بزنس سے فرصت مل جائے تو ادھر آجائیے گا میوزک ، فرینڈز ، ایک طرح سے پارٹی ہی ہے ، وہاں بات کرینگے ۔۔۔" ارسلان نے سنجیدگی سے کہا ۔

" اوکے ! دیٹس گریٹ پھر ہم تمہیں وہیں جوائن کرینگے ۔۔۔۔" اذلان نے اس بار تھوڑی نرمی سے جواب دیا ۔

" لیب ٹاپ بریف کیس اور کوٹ پہن کر ؟ ۔۔۔ " ارسلان نے طنز کیا تو اس بار اذلان نے اسے اگنور کرنا ہی مناسب سمجھا ۔

" چلو میں تمہیں روم میں چھوڑ دوں .. " اذلان افگن نے کنزہ مرتضیٰ کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور ارسلان کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ کنزہ کو ساتھ لئیے وہاں سے چلا گیا تھا۔

*-----*----*

وہ کنزہ کو ساتھ لئیے اوپر اپنے پورشن میں آیا کل رات سے مسلسل جاگنے اور ڈرائیو کرنے کی وجہ سے اب اس پر تھکان سوار ہو رہی تھی آنکھیں اور سر الگ بھاری ہورہا تھا ۔وہ اپنے بیڈ روم کے برابر والے روم میں کنزہ کو لے کر داخل ہوا ۔

" اب تم آرام کرو صبح سات بجے تیار رہنا آفس چلینگے ۔۔۔۔" اس نے دروازہ پر کھڑے ہوکر اسے ہدایات دیں ۔

" اوکے ۔۔۔" وہ بجھے بجھے انداز میں بولی کہ اسے یہاں آنا یہاں رکنا کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔

وہ بنا کچھ بولے خاموشی سے اس کا تھکا تھکا اترا ہوا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔

" وقت بہت گزر چکا ہے تم بھی اب پہلے سے کہیں زیادہ میچیور سمجھدار ہوچکی ہو مجھے نہیں لگتا کہ پرانی باتوں سے تمہیں پریشان ہونا چاہئیے تم میرے لیے کیا تھیں یہ تم بہت اچھی طرح سے جانتی ہو اور ارسلان وہ میرا چھوٹا بھائی ہے بہت ضدی اور انتہا کا جذباتی اس کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنی معذوری اور اپنے ساتھ ہوئے حادثے کو قبول نہیں کرپارہا اس لئیے تم اس کی باتوں کو نظرانداز کرنا سیکھ لو ۔۔۔۔" اس نے سر جھکائے کھڑی کنزہ کو سمجھایا پھر دو قدم آگے بڑھا ۔

" سنو ۔۔۔۔" نزدیک آکر اس نے کنزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے سر اٹھا کر اذلان افگن کی تھکن سے سرخ آنکھوں کو دیکھا ،اس کا سپاٹ چہرہ ، سرد تاثرات نہ جانے کیوں کنزہ کو یہ کسی سنگین طوفان کی آمد کا پیش خیمہ لگ رہا تھا ۔


" تمہارا سارا حساب کتاب صرف اور صرف مجھ سے، اذلان افگن سے ہے ،میرے علاوہ تم اس دنیا میں کسی کو جواب دہ نہیں ہو یہ یاد رکھنا اور ۔۔۔۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے کنزہ مرتضیٰ کی مڑی ہوئی گھنی پلکوں کو چھوا ۔۔۔

"پلیز ۔۔۔۔" وہ لرز کر پیچھے ہٹی ۔

" اذلان افگن حساب کا بڑا پکا ہے ۔۔۔۔۔یہ کبھی مت بھولنا ۔۔۔۔" وہ جھک کر اس کی لرزتی ہوئی پلکوں پہ پھونک مارتا ہوا پیچھے ہٹا اور کمرہ بند کرکے باہر نکل گیا ۔

*-----*-----*

انجان جگہ تھی اسے رات نیند سکون سے نہیں آئی تھی فجر کے وقت سے کچھ پہلے ہی وہ اٹھ چکی تھی کچھ دیر اپنے سیل فون پر وقت گزاری کرنے کے بعد اس نے وضو کرکے فجر کی نماز ادا کی پورا گھر نیم اندھیرے اور سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا وہ دوپٹہ ڈھیلا کرتی ہوئی احیتاط سے بنا آواز کئیے دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلی ۔

اس گھر میں وہ چار سال پہلے اپنی ماں کے ساتھ آئی تھی اور اس گھر سے خاصی واقفیت رکھتی تھی ابھی بھی وہ اپنے اندر کی گھٹن سے گھبرا کر باہر باغیچے میں جانے کے لئیے نکلی تھی ۔

سنگ مرمر سے بنے اس سفید کاٹج اسٹائل گھر کے کاریڈور کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تو ٹھنڈی خوشگوار ہوا کے جھونکوں نے اس کے چہرے کو چھو کر تازگی سی بخشی تھی وہ چار سیڑھیاں اتر کر گھاس پر اتری اور پیروں سے سلیپر اتار کر ننگے پاؤں واک کرنے لگی ۔

کبھی کبھی اس کا دل چاہتا تھا کہ اپنا دل کھول کر اس دل میں مدفن تمام پریشانیاں تمام راز کھول کر سامنے رکھ دے ۔مگر اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ سب جاننے کے بعد ازلان کا رویہ کیا ہوگا وہ جو ابھی اس سے اتنا متنفر تھا کیا وہ اسے سمجھے گا ؟ اور اگر نہ سمجھا تو ؟ بس یہی سب سوچ کر پہلے بھی وہ خاموشی سے الگ ہوگئی تھی اور اب جب سب کچھ دوبارہ سے اس کے سامنے آرہا تھا اس سے وہ الجھ رہی تھی بند باب کھلنے لگے تھے اور یہ اس کی زندگی کا وہ باب تھا جسے وہ بند کرچکی تھی اور دوبارہ کھولنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی ۔


رات بھر نیند تو ارسلان افگن کو بھی نہیں آئی تھی وہ کھڑکی کے پاس اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا سگار پیتا رہا تھا جب الصبح اسے کنزہ باہر جاتی نظر آئی ۔

وہ بڑے سکون سے اسے واک کرتا دیکھتا رہا تھا وہ آج بھی پہلے کی طرح تھی ،نازک معصوم سی دکھنے والی دلکش لڑکی ۔۔۔ کچھ سوچ کر اس کی آنکھیں جگمگائیں ۔

اس نے انٹر کام اٹھا کر وقت کا خیال کئیے بغیر ہاؤس کیپر کو فون ملا کر جگایا اور اسے اپنا پالتو بل ڈاگ ٹوبی فوری پارک میں چھوڑنے کا حکم دیا ۔

اب وہ دلچسپی سے کنزہ کا تماشہ دیکھنے کو تیار تھا ۔

*-----*-----*

وہ واک کرتی ہوئی پلٹی تو اس کی سانس اوپر کی اوپر رہ گئی اس سے ذرا سے فاصلے پر ایک خطرناک سا بل ڈاگ زبان باہر نکالے اسے اپنی سرخ آنکھوں سے گھور رہا تھا ۔

کنزہ نے بڑی مشکل سے اپنی چیخ کو روکا تھا اس دنیا میں واحد کتے ہی ایسی مخلوق تھے جن سے وہ شدید قسم کا ڈرتی تھی ۔ اس سے پہلے وہ خطرناک بل ڈاگ اس پر جمپ کرتا وہ ننگے پاؤں تیزی سے دوڑتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی اور تیزی سے اوپر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگی وی بل ڈاگ بھونکتے ہوئے اس کے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوا ، وہ خوف سے لرزتی بہت تیزی سے اوپر چڑھنے لگی تھی کہ اس کا پیر مڑا اس سے پہلے وہ گر جاتی ایک مضبوط ہاتھ نے اسے تھام کر گرنے سے روک کیا تھا لمس جانا پہچانا تھا وہ آنکھیں میچ گئی ایک سکون سا ،تحفظ کا احساس سا رگ رگ میں اترتا محسوس ہوا تھا ۔

"اسٹاپ ٹوبی آؤٹ ۔۔۔۔" اذلان کی گھمبیر آواز ابھری وہ جو سوتے سے ٹوبی کے بھونکنے کی آواز سن کر باہر نکلا تھا اس وقت خوف سے لرزتی کانپتی کنزہ کو اپنے سینے سے لگائے ٹوبی کو ادھر سے باہر بھیج رہا تھا ۔

ٹوبی اس کو دیکھ کر دم ہلاتا ہوا واپس باہر اپنے ڈاگ ہاؤس میں چلا گیا تھا ۔

اب وہ اطمینان سے کنزہ کی طرف متوجہ ہوا۔

" ریلیکس ! وہ جا چکا ہے ۔۔۔ "

" آئی ایم سوری ۔۔۔" وہ شرمندگی سے خود کو سنبھالتی ہوئی اس سے دور ہوئی۔

"اس وقت باہر کیا کررہی تھیں ؟ ۔۔۔ " وہ ملگجا سا سویرا طلوع ہوتا دیکھ کر اس سے سوال کررہا تھا ۔

" میں بس ایسے ہی ۔۔ " اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اس گھر میں ، ان دونوں بھائیوں کی موجودگی کے احساس سے اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔

"کسی بھی لڑکی کو یوں اکیلے انجان جگہ پر نہیں نکلنا چاہئیے خیر روم میں جاؤ اور آفس کی تیاری کرو تمہیں مجھ سے پہلے ریڈی ہو کر میٹنگ کے لئیے باہر ہونا چاہیے انڈر اسٹینڈ ؟ ۔۔ " وہ سختی سے اسے دیکھے ہوئے بولا جس کا دوپٹہ فرش کو سلامی دے رہا تھا وہ شاید ٹوبی سے ڈر کر روئی بھی تھی اس کی گھنیری پلکیں نم تھیں ۔

" شیور ۔۔ " وہ سنجیدگی سے بولی ۔

" اب جاؤ ۔۔۔" وہ سائیڈ پر ہوکر اسے راستہ دیتا ہوا بولا تو وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر روم میں چلی گئی تھی ۔

کنزہ کے جانے کے بعد وہ نیچے اترا سامنے ہی ہاؤس کیپر بوکھلائی ہوئی کھڑی تھی۔

" صاحب ہم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔" وہ اس کے نزدیک آنے پر جلدی سے بولی ۔کہ کل ہی تو ازلان نے یہاں آنے سے پہلے فون کرکے سختی سے ٹوبی کو اندر بند رکھنے کا حکم دیا تھا ۔

" تو ٹوبی کو کس نے کھولا ؟ ۔۔ " وہ بلا کے سرد لہجے میں استفسار کررہا تھا۔

" صاحب ! وہ چھوٹے بابا نے ۔۔۔ " وہ ادھورے الفاظ بول کر خاموش ہوگئی ۔۔

"ہمم ۔۔۔۔" وہ ہنکارہ بھرتے ہوئے اسے کنزہ کے لئیے اوپر روم میں ہی ناشتہ پہنچانے کا کہہ کر خود بھی تیار ہونے چلا گیا تھا۔

*-----*-----*

جینز کے اوپر سفید سلیف کڑھائی کا شیفون کا سفید کرتا پہن کر اس نے جلدی سے اپنے بالوں کا میسی سا جوڑا بنایا اور پیروں میں جوگرز پہن کر وہ اذلان افگن کے ساتھ اس کے ویگاس آفس برانچ میں جانے کے لئیے تیار تھی ۔


ناشتے کے لوازمات ملازمہ پہلے ہی کمرے میں پہنچا چکی تھی اس نے صرف ایک کپ چائے ہی لی تھی باقی پورا ناشتہ ویسا کا ویسا ہی پڑا ہوا تھا ۔


وہ اپنا پرس اور جارج انکل کی کانٹریکٹ فائل سنبھالتی ہوئی تیزی سے نیچے اتری سامنے ہی دراز قد اذلان افگن سیاہ سوٹ کوٹ پہننے گلے میں ٹائی ڈالے نک سک سے تیار کھڑا ہاؤس کیپر کو کچھ ہدایات دے رہا تھا اسے دیکھ کر اس نے اپنی بات ختم کی ۔


" لیٹس گو ۔۔۔۔" وہ کنزہ کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے باہر نکلا جہاں ڈرائیور ان دونوں کا انتظار کررہا تھا ۔


" میں خود ڈرائیو کرنا پسند کرتا ہوں تمہیں چھوٹے صاحب کے لئیے رکھا ہے بس اس کا خیال رکھا کرو ۔۔۔" اس نے مستعد کھڑے ڈرائیور کو انکار کرکے گاڑی کی چابی اس کے ہاتھ سے لے کر اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا پھر کنزہ کو دیکھا جو چپ چاپ کھڑی نہ جانے کون سا مراقبہ کررہی تھی ۔

" اب چلو بھی ٹائم بہت ہوچکا ہے ہم لیٹ ہورہے ہیں ۔۔۔۔" اس نے ٹوکا تو وہ سر ہلاتی ہوئی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی ۔


اس کی روئی روئی سی سرخ آنکھیں ،سپاٹ سا چہرہ اذلان نے بغور دیکھا تھا مگر بنا کچھ کہے وہ تیزی سے گاڑی ڈرائیوے سے نکال چکا تھا ۔


بیس پچیس منٹ کی مسافت پر وہ اسے لئیے اپنی کمپنی کی ایک برانچ میں داخل ہوا ۔


پے در پے اس کی کئی میٹنگز تھیں وہ اپنے کلائنٹس اور اسٹاف کے ساتھ بے انتہاء مصروف تھا اور کنزہ خاموشی سے اس کے آفس میں ایک کونے پر بیٹھی اس کے فارغ ہونے کا بڑے صبر و تحمل سے انتظار کررہی تھی ۔


تقریباً تین چار گھنٹے بعد وہ میٹنگز نبٹا کر فارغ ہوا تو کنزہ اٹھ کر اس کی میز کے پاس آئی ۔


" کیا اب آپ انکل جارج کا کانٹریکٹ ڈسکس کرنا یا سائن کرنا پسند کرینگے ؟ ۔۔۔۔"

اذلان نے اس کی آواز سن کر لیب ٹاپ بند کرکے اس کی طرف دیکھا جو سادہ سے کرتا جینز میں ملبوس گلے میں اسٹالر ڈالے اسے گھور رہی تھی ۔


" ٹائم کیا ہوا ہے ؟ ۔۔۔۔۔" اس نے کنزہ مرتضیٰ سے سوال کیا تو اس نے کلس کر اسے دیکھا جس کی کلائی پر گھڑی بندھی ہوئی تھی اور سامنے دیوار پر بھی چار گھڑیاں لگی ہوئیں تھی جو دنیا پھر کے ٹائم ڈسپلے کررہی تھیں ۔


" بارہ بج رہے ہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے جواب دیا تو وہ بنا تاخیر کئیے اپنی آفس چئیر کھسکا کر کھڑا ہوگیا ۔


" لیٹس گو ہمیں وقت سے لنچ پر پہنچنا ہے ارسلان انتظار کررہا ہوگا ۔۔۔۔" اس نے اپنا کوٹ والٹ اور کار کی کیز اٹھائیں ۔

" مسٹر افگن ! ہم یہاں کانٹریکٹ سائن کرنے کے لئیے آئے تھے اگر آپ کو اس میں کچھ اعتراضات ہیں تو بتائیں میں دور کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔" کنزہ نے ہاتھ میں پکڑی فائل اس کے سامنے کی ۔


" آئی تھنک میں تمہیں یہ بتا چکا تھا کہ اس کانٹریکٹ کو میں جب اور جہاں چاہوں وہاں ڈسکس کرونگا اور تم اچھی طرح سے جانتی ہوں مجھے اپنی بات دہرانا پسند نہیں ہے ۔۔۔" اس نے کنزہ کے ہاتھ سے فائل لے کر میز پر اچھال دی ۔


" تو پھر آپ مجھے آفس کیوں لائے تھے ؟ ۔۔۔" اس نے تپ کر سوال کیا ۔


" میری مرضی ۔۔۔۔" وہ بے نیازی سے کہتا ہوا آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا کنزہ کے تو آگ ہی لگ گئی تھی وہ ایک چٹان ہی تو تھا جس سے وہ صرف انکل جارج کی خاطر سر پھوڑ رہی تھی ۔


چند لمحے بعد وہ خود کو کمپوز کرکے میز پر سے اپنی فائل اٹھا کر اس کے پیچھے آفس سے نکل گئی ۔


*----*----*

ویگاس کے راستوں سے اس کی اتنی واقفیت نہیں تھی وہ تو بس ادھر ایک ہی بار اپنی امی کے ساتھ آئی تھی جب مسز افگن نے رشتہ طے ہونے کے بعد ارسلان کی برتھ ڈے پارٹی ادھر ارینج کی تھی اور اسے خصوصی بلاوا دیا تھا وہ اپنی امی کے ساتھ تین دن اس گھر میں رکی تھی جہاں رنگ و بو پینا پلانا اور بہت شور شرابا تھا وہ اور اس کی امی دونوں ہی ادھر مس فٹ تھیں اور سونے پہ سہاگا اس کے والد صاحب بھی اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ادھر آئے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر اس کی امی کے زخم ایک بار پھر ہرے ہوگئے تھے وہ بس کمرے میں قید ہوکر رہ گئیں تھیں اور کنزہ خاموشی سے سب دیکھ رہی تھی اسے آج بھی اچھی طرح یاد تھا جب ارسلان زبردستی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے ڈرنک کرنے پر مجبور کررہا تھا اور اس کے صاف انکار پر اس کے دوستوں نے اسے بیک ورڈ نن ہونے کا خطاب دیا تھا۔

اس دن اسی وقت ٹو پیس ڈنر سوٹ میں ملبوس اذلان افگن جو اسی دن وہاں پہنچا تھا جسے دیکھ کر تقریباً ہر تقریب میں شامل ہر شخص اس سے ملنے کو بیقرار ہوگیا تھا وہ سب سے ملتا ملاتا اپنی موم مسز افگن ناز کے پاس آیا تھا ۔

" برتھ ڈے بوائے کدھر ہے موم ؟ ۔۔۔۔" اس نے سنجیدگی سے پوچھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے باہر دوستوں کے جھرمٹ میں کھڑے ارسلان کی طرف اشارہ کیا تھا ۔


وہ ایک ہاتھ میں بئیر کا کین پکڑے اور دوسرے سے ایک نازک سی سہمی گھبرائی ہوئی لڑکی کو تھامے ہوئے تھا اور اسے زبردستی وہ بئیر پلانے کی کوشش کررہا تھا ۔


اذلان کے چہرے پر ناگواری سی چھا گئی تھی وہ اگنور کرکے وہاں سے چلے جانا چاہتا تھا جب اسے ارسلان کے دوست اس لڑکی کا مذاق اڑاتے ہوئے نظر آئے اسے اس لڑکی پر ترس آیا اور وہ اپنے قدموں کو اس سمت بڑھنے سے نہیں روک سکا تھا ۔


" یہ کیا ہورہا ہے ؟ ۔۔۔۔" ایک بھاری گھمبیر آواز سن کر کنزہ نے چونک کر اس کی سمت دیکھا تھا ۔یہ وہی تو تھا جو اس دن مسز ناز افگن کے ساتھ اس کے گھر رشتے کے لئے آیا تھا اور اس رات مہمانوں کے جانے کے بعد وہ نادان اپنی امی سے شرماتے ہوئے اسے ہی لڑکا سمجھ کر ہاں کرگئی تھی ۔۔

کاش اس نے امی سے لڑکے کی تصویر مانگ لی ہوتی یا نام ہی پوچھ لیا ہوتا وہ اتنی بیوقوف کیسے ہوسکتی تھی ؟ جب ارسلان کالج کے دنوں سے اس کا سینئیر ہونے کے باوجود اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اس نے " میں شادی سے پہلے کے تعلقات پر یقین نہیں رکھتی " کہہ کر پیچھا چھڑایا تھا تو وہ یہ کیسے بھول سکتی تھی کہ رشتہ اس کا بھی تو ہوسکتا تھا ۔۔


اس رات وہ ساکت کھڑی اپنے سامنے کھڑے اس شاندار سے شخص کو دیکھے چلی جارہی تھی جو دلوں کو تسخیر کرنے ، ماحول پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔۔


کب اس نے کنزہ کو ارسلان کی گرفت سے چھڑایا اسے پتہ ہی نہیں چلا تھا۔


وہ اسے اپنے ہمراہ گھر کے اندر لے آیا تھا۔


" اکیلی آئی ہو ؟ ۔۔۔" اندر پہنچ کر اس نے پوچھا تھا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے اپنی امی کے روم میں لے آئی تھی ۔

جہاں اس نے ان دونوں ماں بیٹی کو کمپنی دے کر اپنے بھائی کی بے حسی کا مداوا کرنا چاہا تھا ۔


گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی وہ دونوں اپنے اپنے دائرے میں قید تھے جب ایک مشہور زمانہ مال کے آگے ازلان نے گاڑی روکی ۔


"آؤ ۔۔۔" وہ انجن بند کرکے گاڑی سے اترتا ہوا بولا تو کنزہ نے اپنی سوچوں سے نکل کر حیرت سے مال کو دیکھتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔

" کیوں ؟ ۔۔۔"

" شاپنگ کرنے کا موڈ ہے ۔۔۔" وہ لاپرواہی سے بولتے ہوئے ایک بار پھر اس کی جان جلا گیا تھا ۔


" آپ شاپنگ کر آئیں میں یہی ٹھیک ہوں ۔۔۔" وہ اپنی کوفت چھپاتے ہوئے بولی ۔


" کیا تم چاہتی ہو میں تمہیں باہر نکالنے کے بہانے چھووں ؟ " اس نے ابرو اچکا کر پوچھا تو وہ کلس کر گاڑی سے اتری اور پوری قوت سے زور سے دروازہ بند کرکے اپنی جھنجلاہٹ باہر نکالی ۔


" ہوگیا تمہارا ؟ ۔۔۔" اذلان نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ خاموشی سے اسے نظر انداز کرتی ہوئی دائیں بائیں دیکھنے لگی ۔

وہ اسے ساتھ لئیے مال کے اندر داخل ہوا اور سکون سے چلتا ہوا ایک نامی گرامی آؤٹ لیٹ میں داخل ہوا ۔

" ڈریسز فار لیڈی ۔۔۔" اس نے اپنے مخصوص اکھڑ انداز میں کنزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیلز گرل کو حکم دیا ۔

" شیور سر ۔۔۔" وہ پروفیشنل مسکراہٹ چہرے پر سجائے کنزہ کے ناپ کے لحاظ سے اسے ڈریس دکھانے لگی ۔

" آپ یہ سب کیا کررہے ہیں ؟ ۔۔ " کنزہ نے اسے روکنا چاہا ۔

" جب تک تم میرے ساتھ ہو تمہیں میرے اسٹینڈرڈ کے حساب سے لگنا چاہئیے ۔۔۔" وہ سختی سے بولا ۔

"کانٹریکٹ سائن کریں اور یہ ساتھ ختم کردیں ۔۔۔" کنزہ سمجھایا ۔

" لسن کنزہ ! آئی ڈونٹ کئیر تم کیا وئیر کرتی ہو ، کیسی لگتی ہو مگر ابھی تم میری مہمان کی حیثیت سے ارسلان اور ماریہ کی پارٹی میں چل رہی ہو تو جسٹ شٹ اپ اور یہ ڈریس چینج کرکے آؤ ۔۔۔" اس نے سیلز گرل کے دکھائے ملبوسات میں سے ایک منتخب کرکے اس کی سمت بڑھایا ۔

" آپ ۔۔۔" اس نے مٹھیاں بھینچ کر اسے دیکھا ۔

" ہری اپ گرل ہم پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں ۔۔۔" وہ اسے حکم دے کر خود کاؤنٹر پر چلا گیا پیمنٹ کرنے ۔

*----*----*

جدید طرز کی سفید گلابی آمیزش کی لانگ میکسی پہن کر اس نے خود کو آئینے میں دیکھا یہ لباس اس پر بہت جچ رہا تھا اوپر سے بالوں کا اونچا میسی سا جوڑا اس کی نازک سی دودھیا شفاف گردن کو نمایاں کررہا تھا وہ جھجکتی ہوئی ڈریسنگ روم سے نکل کر باہر آئی تو سامنے ہی کاؤنٹر سے ٹیک لگائے وہ اس کا انتظار کررہا تھا۔

اس پر نظر پڑتے ہی اذلان افگن کی آنکھوں میں ستائش اتر آئی تھی وہ سیدھا ہوکر اس کی طرف بڑھا ۔

" ناؤ یو آر لکنگ لائک آ نارمل انسان ۔۔۔۔" اس نے ناقدانہ انداز میں سر سے پیر تک اسے دیکھ کر تبصرہ کیا جسے سن کر کنزہ کو ٹھیک ٹھاک مرچیں لگی تھیں۔

" آؤ چلتے ہیں ۔۔۔۔ " وہ اسے ساتھ لئیے باہر نکلا ۔

وہ اس کے ساتھ ہم قدم ہو کر چل رہی تھی گاڑی میں بیٹھ کر اذلان افگن نے ایک بار پھر اسے دیکھا ۔

" تمہارے پاس کوئی کلر وغیرہ نہیں ہے ؟ ۔۔۔۔"

" کلر ؟ مگر کیوں ؟ ۔۔۔ " وہ حیران ہوئی ۔

تھوڑا سا ہونٹوں پر لگا لیتیں تو اور اچھی لگتیں ۔۔۔" اس نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے اسے شاکڈ کیا تھا یعنی وہ اب اس کے لئیے لپ اسٹک بھی لگائے ۔۔۔۔۔بڑے زور سے اس کی انا چمکی تھی۔

"میں ایسے ہی ٹھیک ہوں آپ کو لے کر جانا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے نیویارک واپسی کی ٹرین کروا دیں ۔۔ " اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اذلان افگن نامی بلا کا گلا دبا کر یہ قصہ ہی ختم کردیتی۔

" ایز یو وش ۔۔۔۔" وہ کندھے اچکا کر گاڑی کا رخ کاٹیج کے پاس والی نہر کی طرف کرچکا تھا جہاں ماریہ انعام اور ارسلان نے لنچ باربی کیوں پارٹی ارینج کی ہوئی تھی ۔

*-----*-----*

پارٹی اپنے زوروں پر تھی ایک طرف لائیو میوزک کا انتظام تھا اور بیچ میں باربی کیو کی بڑی سی مشین سیٹ کی ہوئی تھی جس پر برگر ، چکن تکے اور سیخ کباب ان کی ہاؤس کیپر اپنے ملازمین کے ساتھ بنوا رہی تھی ۔

کنزہ مرتضیٰ نے چاروں طرف دیکھا کم سے کم بھی پندرہ افراد یہاں موجود تھے اور ارسلان ۔۔۔۔اس نے نظریں دوڑائیں تو وہ اسے اپنی الیکٹرک وہیل چئیر پر کچھ لڑکے لڑکیوں سے بات کرتا نظر آیا ۔

" کم ۔۔۔۔" گاڑی لاک کرکے اذلان افگن اس کے نزدیک آیا اور اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے اندر گارڈن میں داخل ہوگیا ۔

" ہیلو ہیلو ۔۔۔۔۔" کیپری جینز پر ٹی شرٹ پہنے ماریہ نے ان دونوں کو سب سے پہلے دیکھا تھا ۔

" لکنگ گڈ ! ۔۔۔۔" اس نے ایک ستائشی نظر کنزہ پر ڈالی ۔

" اگر اچھے کپڑے پہن ہی لئیے تھے تو شوز بھی ڈھنگ کے پہن لیتیں ۔۔۔۔" ساتھ چلتے ہوئے اس کی نظر کنزہ کے جاگرز پر پڑی ۔

"دریا کنارے باربی کیو پارٹیز پر جاگرز ہی چلتے ، سینڈل پہن کر آنے والے احمق ہی کہلائیں گے ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔

" دس وے ۔۔۔۔" وہ کنزہ کے جواب کو اگنور کرتی ہوئی ان دونوں کو آگے لے آئی جہاں ارسلان اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا ہوا تھا ۔

ارسلان اس سے مل کر خوش ہوا تھا کھانے پینے کے بعد اب سب مل کر گول دائرے میں بیٹھے مختلف گیمز کھیل رہے تھے جن میں کنزہ کا کوئی انٹرسٹ نہیں تھا وہ تو بس مارے بندھے ادھر ایک کونا سنبھال کر بیٹھی ہوئی تھی ۔جب ماریہ اور ارسلان نے اس کی طرف رخ کیا ۔

" کنزہ تم میرے ساتھ تاش کھیلو گی ؟ ۔۔۔" ارسلان نے پوچھا ۔

"نو ! مجھے کارڈز کھیلنے نہیں آتے ۔۔۔" اس نے صاف انکار کیا تو ارسلان کا چہرہ اتر گیا تھا ۔

" کنزہ ! تم تھوڑی دیر ہمیں دیکھوں آبزرو کرو اتنا مشکل بھی نہیں ہے کارڈز کھیلنا تمہیں آجائے گا ۔۔۔" ماریہ نے ارسلان کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر کنزہ کو ٹوکا ۔

" کیوں ڈارلنگ ! میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ؟ ۔۔۔" کنزہ سے بات ختم کرکے وہ ارسلان سے مخاطب ہوئی ۔

" کم کنزہ تم ادھر میرے ساتھ آکر بیٹھو میں تمہیں کارڈز کھیلنا سکھاتا ہوں ۔۔۔۔" ارسلان پرجوش ہوکر اپنی وہیل چئیر کے برابر میں اشارہ کرتے ہوئے بولا .

ماریہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور ارسلان کی وہیل چئیر کے پیچھے آکر کھڑی ہونے کے بعد اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتی ہوئی تھوڑا سا جھکی یوں کہ اس کے لب ارسلان کے کان کی لو کو چھونے لگے تھے ۔

" یہ تم کیا کررہے ہو ؟ ۔۔۔" اس نے سرگوشی کی ۔

" گیم ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے اس کے ہاتھ اپنے شانوں پر سے ہٹا گیا ۔

اذلان جو ان سب سے دور دریا کنارے کھڑا تھا وہ چلتا ہوا ان دوستوں کے دائرے کے نزدیک آیا ۔

" کیا تمہیں کارڈز کھیلنے ہیں ؟ ۔۔۔۔" وہ سب کو اگنور کئیے سیدھا کنزہ سے پوچھ رہا تھا ۔

" نہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔

"گڈ ! ویسے بھی مجھے تاش کھیلنے والے مرد اور عورت بہت برے لگتے ہیں ۔۔۔۔" وہ بولا تو سب ہی شور مچا کر ناراض ہونے لگے ۔

" اذلان یہ صرف ایک فرینڈلی گیم ہے تم ۔۔۔۔۔" ماریہ نے کنزہ کو گھورتے ہوئے اسے جواب دینا چاہا ۔

" آئی ڈونٹ کئیر ۔۔۔تم چل رہی ہو یا ۔۔۔۔" اس نے جان کر جملہ ادھورا چھوڑ کر کنزہ کو گھورا تو وہ کھڑی ہوگئی ۔

" برو ! تمہیں جانا ہے تو جاؤ کنزہ کو کیوں فورس کررہے ہو ؟ ۔۔۔۔" ارسلان نے تیزی سے کہا ۔

" کیا میں تمہیں فورس کررہا ہوں ؟ ۔۔۔۔" اذلان نے پوچھا ۔

" نہیں ۔۔۔۔" وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی اس دائرے سے نکل گئی ۔

" ہم کہیں نہیں جارہے یہی دریا کنارے واک کررہے ہیں ۔۔۔" وہ ارسلان کو جواب دیتا ہوا کنزہ کا ہاتھ تھامے واپس دریا کنارے پلٹ گیا ۔

دریا کنارے پہنچ کر اس نے کنزہ کا ہاتھ چھوڑا اور جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوا جو بہتے ہوئے پانیوں کا رقص دیکھ رہی تھی ۔

" کیا سوچ رہی ہوں ؟ ۔۔۔۔"

" آپ مجھے ادھر کیوں لائے ہیں ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے دماغ میں مچلتا ہوا سوال کیا ۔

" مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی اس لئیے ۔۔۔۔" وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بولا ۔

" کانٹریکٹ ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔

" وہ بعد میں ۔۔۔۔" وہ انکار کرگیا ۔

" تمہیں ارسلان کے گرد جو دوستوں کا جھمگتا لگا رہتا ہے یہ کیسا لگتا ہے ۔۔۔۔؟ "

" کیا مطلب ؟ ۔۔۔۔" کنزہ ایک غیر متوقع سوال سن کر چونک گئی اور اس نے ناسمجھی سے اذلان کو دیکھا ویسے بھی ارسلان اکیلا رہے یا مجمع میں یہ اس کا ہیڈک نہیں تھا ۔

" اوکے لیٹس اسٹریٹ ، تمہیں ارسلان کے دوست کیسے لگتے ہیں ؟ ۔۔۔۔" اب کے اس نے صاف صاف سوال کیا ۔

" وہ ۔۔۔۔وہ بس ٹھیک ہی ہیں جو لوگ ہلا گلا پسند کرتے ہیں وہ ہی ان کی کمپنی انجوائے کرسکتے ہیں ۔۔۔" وہ سوچ سمجھ کر کچھ لمحوں کے توقف کے بعد بولی ۔

" مگر تم تو ان سے امپریسڈ نہیں لگتیں انفیکٹ مجھے تو تم بہت ان کمفرٹیبل لگیں ایسا کیوں ؟ کیا یہ غلط لوگ ہیں ۔۔۔" اس کا سوال کنزہ کو کنفیوز کرگیا تھا ۔

" میں نے ایسا کب کہا ؟ اور آپ مجھ سے یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ یہ میرے دوست احباب نہیں ہیں کہ میرا ان کو جج کرنا مناسب ہو ۔۔۔۔" وہ کترا گئی کہ اس موضوع پر وہ بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

" پر میں تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں ۔۔۔۔" وہ اٹل لہجے میں بولا ۔

اذلان کی سنجیدگی اس کا اٹل انداز کنزہ کی چھٹی حس اشارہ کررہی تھی کہ یہ کوئی عام سوال ہرگز نہیں تھا وہ خامشی سے واپس دریا کی لہروں کا رقص دیکھنے لگی ۔

" اچھا سب کو چھوڑو صرف ماریہ انعام کے بارے میں بات کرتے ہیں اس کے بارے میں تم کیا سوچتی ہو ؟ ۔۔۔۔" وہ سگریٹ مٹی میں پھینک کر کنزہ کو بازو سے پکڑ اپنی سمت گھماتا ہوا اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا اسے شاکڈ کرگیا تھا ۔

کنزہ کے لئیے اس کا یہ سوال کسی وارننگ سے کم نہیں تھا اسے ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا تھا کچھ لمحوں کے توقف کے بعد خود کو سنبھال کر وہ اپنا حلق تر کرتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئی جو بڑی گہری اندر تک اتر جانے والی نگاہوں سے اسے دیکھے چلے جارہا تھا۔

" میری سمجھ سے باہر ہے آپ کا یہ سوال اور اگر آپ کو ماریہ یا کسی کی بھی کمپنی پر کوئی شک و شبہ ہے تو اسے خود سورٹ آؤٹ کریں ۔۔۔۔۔" وہ خفا ہوئی ۔

" میں یہ سوال کوئی فضول وقت گزاری کے لئیے نہیں کررہا اور کیوں کررہا ہوں تم بھی یہ اچھی طرح سے جانتی ہو مگر انجان بن رہی ہو ۔۔۔۔" وہ سرد لہجے میں بولا ۔

" میں جو کچھ بھی جان چکا ہوں مجھے اس کی کنفرمیشن چاہئیے اور وہ تم ہی کرو گی ۔۔۔" اس کی آنکھوں میں عجیب سی تپش عجیب سے احساسات تھے جنہیں دیکھ کر وہ اب صحیح معنوں میں پریشان ہوگئی تھی آخر وہ کیا جان چکا تھا ؟ کیا ارسلان نے ؟ نہیں ایسا ممکن نہیں ۔۔۔اس نے اپنی ہی سوچ کی نفی کی ۔۔

تو پھر ؟ اذلان افگن اس وقت اس سے کیا جاننا چاہتا تھا ؟ ۔۔۔

" اچھا میں تمہارے لئیے سوال اور آسان کردیتا ہوں ۔۔۔۔" اذلان نے اسے مشکل سے نکالنے کی کوشش کی مگر یہ تو طے تھا وہ آج کنزہ مرتضیٰ سے سب جانے بغیر اسے بخشنے والا نہیں تھا ۔

"ماریہ اور میرے بھائی کے ریلیشن شپ کے بارے میں تمہارے کیا تاثرات ہیں ؟ ۔۔۔"

" وہ مجھے ارسلان سے بہت متاثر لگتی ہے یا شاید محبت کرتی ہے ۔۔۔۔" کنزہ نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے لفظوں کا انتخاب کیا ۔

" اور ایک دن میں میں کیسے اسے یا اس کی فیلنگز کو جج کرسکتی ہوں ؟ ارسلان کو اس کنڈیشن میں ایک دوست ایک ساتھی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔"

" ہاں مگر وہ دوست یا ساتھی ماریہ انعام کبھی نہیں ہوسکتی اسے ماریہ کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ ترشی سے بولا ۔

" آپ ماریہ کو پسند نہیں کرتے ؟ کیوں ۔۔۔۔؟" وہ سپاٹ لہجے میں بولی ۔


" وہ ارسلان کے لئیے انتہائی بدتر اثر رکھتی ہے ۔۔میری ماں سے بھی زیادہ بدترین ۔۔۔۔"

اذلان کے لہجے کی نفرت اور شدت پسندی کنزہ کو شاکڈ کرگئی تھی ۔۔

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ نے اسے دیکھا ۔

" آپ مذاق کررہے ؟ ارسلان کوئی چھوٹا سا بچہ تو نہیں ہے جس پر بری صحبت اثرانداز ہو جائے ؟ یوں دوسروں پر الزام لگانا بند کردیں ایسے کیسے کوئی خود کو بری صحبت کا شکار بنا سکتا ہے ؟ ۔۔۔۔"

" کیسے ؟ ۔۔۔۔" اذلان افگن طنزیہ انداز میں ہنسا ۔

" ہر ویک اینڈ کو ہمارے گھر میں یہ کریزی لڑکے لڑکیاں آجاتے ہیں کھل کر ڈرنک اور گیمبلنگ کی جاتی ہے ہمارا گھر ویک اینڈ پر وائلڈ پارٹیز کا گڑھ بن چکا ہے اور انہیں کون لاتا ہے ؟ کون یہ پارٹیز ڈرنکس اور ڈرگز ارینج کرتا ہے ؟ صرف اور صرف ماریہ انعام ۔۔۔۔۔" وہ پھنکارا ۔

" وہ تو پہلے سے ہی ان سب کو جانتا ہے تو آپ ایسے کیسے اس سب سے اپنے بھائی کو بری الزمہ قرار دے سکتے ہیں ؟ ۔۔۔"

" ہاں جانتا ہے ! لیکن پہلے وہ معذور نہیں تھا اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا تھا اس نے پہلے کبھی اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے لینے کی کوشش نہیں کی تھی نا اسے سوسائیڈ کے خیالات آتے تھے کیا تم جانتی بھی ہو کہ وہ ان تین سالوں میں چھ بار خودکشی کی کوشش کر چکا ہے ؟ ۔۔۔۔"

" نہیں ! لیکن کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ اس کے لیے ماریہ کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں؟ جیسے ۔۔۔۔ " اس کی آواز نم ہوئی

" جیسے آپ نے مجھے قصور وار ٹھہرایا تھا یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ سب بھی میری وجہ سے ہورہا ہے ۔۔" وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولی ۔

" میرے خیال سے تم میرا نظریہ اس بارے میں اچھی طرح سے جانتی اور سمجھتی ہو اسی لئیے میں تمہیں ادھر لایا ہوں ....." اذلان افگن سرد مہری سے بولا ۔

" کیا مطلب ؟ ۔۔۔۔۔"

" ماریہ انعام ! ارسلان سے شادی کرنا چاہتی ہے ، اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ معذور ہے یا نہیں اور ارسلان اس شادی پر راضی ہوتا لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔"

ارسلان کی شادی ماریہ انعام سے ؟ یہ سوچ ہی اس کا دماغ ہلا گئی تھی ارسلان شادی کرسکتا تھا ،شادی کرنا اس کا حق تھا اور بہت سے معذور افراد شادی کرتے ہیں اور ایک اچھی زندگی گزارتے ہیں تو پھر ارسلان کیوں نہیں ؟مگر ماریہ انعام جیسی ڈرگ ایڈٹ شرابی لڑکی سے شادی ؟ ۔۔۔۔ کنزہ نے اپنا سر جھٹکا ۔

" تو آپ اس شادی کے مخالف ہیں ؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپس میں پیار کرتے ہوں ۔۔۔۔"کنزہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔

" مخالف ؟ یہ بہت چھوٹا لفظ ہے میں کسی بھی قیمت پر یہ شادی نہیں ہونے دونگا یہ ایک بدترین فیصلہ ہوگا جو میں ہونے نہیں دونگا ۔۔۔ "

" کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ شادی ہوگی ؟ ۔۔۔"

" یس ! وہ اپنی معذوری ،اہنی زندگی سے تنگ آچکا ہے اور ظاہر ہے ایک دن وہ ہار مان کر اپنی باگ دوڑ اس لڑکی کے ہاتھ میں تھما دے گا ۔۔۔"

" فار گاڈ سیک ! وہ ابھی بچی ہے ایک بگڑی ہوئی بچی وہ اتنی بڑی ذمہ داری ہرگز نہیں اٹھائے گی ، آپ کچھ زیادہ ہی سوچ رہے ہیں ۔۔۔ " کنزہ نے تاسف سے اسے دیکھا ۔

" آپ بہت ہارش ہو رہے ہیں اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو آپ کے بھائی کے حالات آپ سے الگ ہیں وہ آپ جیسا نہیں ہے اور اگر اسے کوئی ساتھی ملتا بھی ہے جو اس کو اس سچویشن سے نکال سکے تو آپ کو کیا پرابلم ہے ؟ ۔۔۔

" یہ اچانک سے تمہیں اس کی بھلائی کا اتنا خیال کیسے ہوگیا ؟ خیر اچھی بات ہے کہ تمہارے دل میں اس کے لئیے نرم گوشہ پیدا ہوگیا ہے اب یہ کام اور بھی آسان ہو جائے گا ۔۔۔۔۔"

" آسان ، کام ! آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ ۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا جس پر وہ مسکرایا ایک عجیب سی سرد پراسرار سی مسکراہٹ ۔۔۔۔کنزہ کو اپنی رگ رگ میں ایک تیز ٹھنڈی لہر سی اٹھتی محسوس ہوئی تھی ۔

وہ اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے وہی پاس رنگ برنگی چھتریوں کے نیچے بنی ہوئی بینچ پر بیٹھ کر اسے جانجتی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔

" میں واپس جانا چاہتی ہوں ۔۔۔۔" کنزہ نے اس کی نظروں سے گھبرا کر کہا ۔

" ابھی نہیں ۔۔۔ " وہ صاف انکار کرگیا ۔

" میری بات غور سے سنو میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ارسلان ابھی بھی تمہاری طرف اٹریکٹ ہوتا ہے کہ نہیں اور میں نے کل سے اب تک یہی آبزرو کیا کہ وہ ۔۔۔۔" ازلان بولتے بولتے رکا ۔

کنزہ حددرجہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔

" وہ آج بھی تمہیں نہیں بھولا ہے تم اسے آج بھی اٹریکٹ کرتی ہو ممکن ہے کہ یہ صرف اسے اتنے عرصے بعد پرانا چہرہ نیا ہو کر لگ رہا ہو مگر تین سال پہلے میرا بھائی تمہارے لئیے ہر حد سے گزر گیا تھا وہ کسی بھی قیمت پر تمہیں پانا چاہتا تھا اس لئیے مجھے نہیں لگتا کہ وہ تمہیں بھول سکتا ہے ۔۔۔۔۔تم کیا کہتی ہو ؟ ۔۔۔۔" بات ختم کرکے اس نے کنزہ کی رائے جاننا چاہی جو ابھی تک اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی ۔

اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زور شور سے چلائے سب کو پکڑ پکڑ کر بتائے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کیا ہورہا ہے ۔

اسے آج بھی یاد تھا جب اس رات ارسلان نے اسے سب کے اسے سامنے کس کرنے کا حکم دیا تھا اور انکار پر ۔۔۔۔۔۔۔

کنزہ نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچ کر خود کو کچھ کہنے سے روکا ۔۔۔

" مائی ڈئیر کنزہ مرتضیٰ ! " وہ اٹھا اور اس کے سامنے کھڑا ہوکر اس کی ضبط سے سرخ پڑتی آنکھوں میں جھانکا ۔

" اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرو ۔۔۔۔" وہ ایک ایک لفظ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا تھا ۔

" کفارہ ؟ ۔۔۔۔" کنزہ کے لبوں سے سرگوشی میں نکلا ۔

" یس کفارہ ۔۔۔۔تمہیں ارسلان کی زندگی سے ماریہ انعام کو نکالنا ہوگا اسے خود سے ری پلیس کرنا ہوگا اور ابھی تم نے خود کہا تھا کہ ارسلان کو ایک ساتھی کی ضرورت ہے تو وہ ساتھی تم خود کیوں نہیں ہوسکتیں ؟ ۔۔۔۔" وہ کڑے لہجے میں سوال کررہا تھا۔

"یہ میں نہیں کرسکتی ہرگز بھی نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔"وہ تیزی سے انکار کرگئی ۔

" کیوں ؟ کیوں نہیں کرسکتیں ؟ ۔۔۔۔"

" مم میں کیسے ۔۔۔۔یہ ناممکن ہے آپ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں اور آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ ۔...." وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رو پڑی ۔

" اب تم آزاد ہو جس لڑکے سے تمہاری منگنی ہوئی تھی وہ میری معلومات کے مطابق ختم ہو چکی ہے جب تم اپنے باپ کے لئیے کسی کو اپنی زندگی میں شامل کرنے پر تیار ہوگئی تھیں تو اب میرے بھائی کو قبول کرنے میں کیا قباحت ہے ؟ وہ تو تمہیں چاہتا بھی رہا ہے ۔ " وہ سپاٹ لہجے میں بولا ۔

" آپ کا مطلب میں ارسلان سے شادی کرلوں ؟ ۔۔۔ " وہ ابھی تک بے یقین تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ازلان ۔۔۔ازلان افگن نے اتنا گھٹیا پرپوزل اس کے سامنے رکھا ہے ۔

" ہاں میں چاہتا ہوں تم ارسلان سے شادی کرو ۔۔۔۔"

" مگر ۔۔۔۔" وہ ہچکچائی ۔۔۔

" مگر کیا ؟ ۔۔۔۔" اذلان نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔

" میں آپ کے بھائی سے محبت نہیں کرتی اور وہ بھی ۔۔۔۔۔"

" محبت ۔۔۔۔۔" ازلان افگن نے غراتے ہوئے اس کی بات کاٹی ۔

" محبت ؟ سیریسلی تم مجھ سے محبت کی بات کررہی ہو ؟ اور اس کیس میں محبت کوئی میٹر نہیں کرتی ۔۔۔۔"

" آپ پاگل ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔" وہ جھرجھری لیتی ہوئی پیچھے ہٹی ۔

" میں کچھ بھی ہوسکتا ہوں مگر مائی ڈئیر کنزہ مرتضیٰ پاگل ہرگز نہیں ہوں ۔۔۔۔" اس نے گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی ۔

" تم یہ تسلیم کیوں نہیں کرتیں کہ تم نے اپنے کزن سے منگنی صرف اور صرف ارسلان سے پیچھا چھڑانے کے لئیے کی تھی ۔۔۔"

" نہیں یہ سچ نہیں ہے ۔۔۔۔۔" کنزہ شاک سی اسے دیکھ رہی تھی آسمان پر سیاہ بادل اچانک سے چھا گئے تھے اور وہ ساکت کھڑی تھی ۔۔۔۔

"اپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں ؟ صرف اس لئیے کہ آپ کا بھائی کہیں ایسی لڑکی سے شادی نہ کرلے جسے آپ پسند نہیں کرتے تو آپ یہ گھٹیا پلان بنا کر مجھے زبردستی ادھر لے آئے ؟ مسڑ اذلان افگن ! آپ ایک خود غرض اور مطلبی انسان ہیں ،آپ کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے پتھر ۔۔۔۔" کنزہ نے ترش لہجے میں کہا ۔

" واؤ ! پتھر دل کی بات تمہارے لبوں پر ججتی نہیں ہے اور رہی بات محبت کی تو محبت کب سے تمہارے لئیے ضروری ہوگئی ؟ ۔۔۔۔"

" اگر میں آپ کو سب بتانے کی کوشش بھی کروں تو مجھے یقین ہے آپ نہیں سنیں گئے ۔۔۔۔" وہ ٹوٹے بکھرے لہجے میں بولی۔

" اور اگر آپ میری بات نہیں سنیں گئے تو پھر مجھے انڈر اسٹینڈ کیسے کرینگے ؟ ۔۔۔۔"وہ بجھے بجھے انداز میں بات کررہی تھی اور وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔

*-----*-----*

وہ ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جب اس نے کنزہ کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

" تم لڑکیاں اس سو کالڈ پیار عشق محبت کو ایک الہامی جذبہ سمجھتی ہو مائی ڈئیر آنکھیں کھولو یہ سب بیکار کی کتابی باتیں ہیں اور یہ جو تم لڑکیاں ٹرسٹ اور انڈرسٹینڈنگ کی باتیں کرتی ہو سب بیکار ہیں تم لڑکیاں صرف اور صرف سیلف سینٹرڈ ہوتی ہو تمہارے جذبات ، تمہاری خواہشات، سب اہم ۔۔۔ دوسرے کی فیلنگز اس کی خواہشات کی تم لڑکیوں کو کوئی قدر نہیں ہوتی ۔۔۔۔" وہ سفاکی سے بولتا ہوا رکا ۔

" تم عورت ذات پیار حاصل کرنے کے لئیے روتی ہو اور جب چوٹ لگتی ہے تو بھی روتی ہو کیوں ؟ ۔۔۔۔۔"

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ کے لبوں نے جنبش کی ۔

" آپ انسان نہیں پتھر ہیں ۔۔۔۔۔"

" نہیں ! میں سچائیوں کا سامنا کرتا ہوں اپنے آپ کو اندھے جذبات کے دھارے پر نہیں چھوڑتا اپنی عقل و خرد کو حاضر رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔"اس کے ہاتھوں کا دباؤ کنزہ کے شانوں پر بڑھ گیا تھا سانسوں کی تپش اس کے چہرے کو چھو رہی تھی ۔

" تم تسلیم کیوں نہیں کرتی کہ صرف " یو آر مائین " سننے کی خواہش ہے تمہیں ۔۔۔۔" وہ بلا کے طنزیہ انداز میں بولا تو کنزہ نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ اپنے شانے سے ہٹانے چاہے ۔

پر وہ گرفت اور مضبوط کرگیا ۔

" مجھے آپ سے نفرت ہے شدید نفرت ، میں نے آج تک آپ جیسا انتہائی بدتمیز آدمی نہیں دیکھا ۔۔۔۔ " وہ پھنکاری۔


" پھر تو تمہیں شکرگزار ہونا چاہئیے کہ تم مجھ سے شادی نہیں کررہی ۔۔۔۔۔۔" اس نے کندھے اچکائے۔

" شادی وہ بھی آپ سے نیور اور آپ مجھے کسی اور سے بھی شادی کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ۔۔۔۔"

" نہیں میں تمہیں مجبور ہرگز نہیں کرونگا بس تمہاری شادی کراونگا ۔۔۔۔ " اس کی آواز میں عجیب سی پراسراریت تھی.

"آپ بہت گھٹیا بات کررہے ہیں آپ کو اندازہ بھی ہے اس کا ؟ ۔؟۔"

" گھٹیا ؟ ۔۔۔" اس نے ابرو اچکا کر کنزہ کو دیکھا ۔

" واقعی ؟ ۔۔۔۔" وہ اس کے شانوں پر سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا ۔

" میرے ہاتھ میں دو بہت اہم کارڈز ہیں بس وہی کھیلوں گا ۔۔ " وہ سکون سے بولا ۔

" دو کارڈز ۔۔۔۔" کنزہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا ایک خوف سا اس کی رگ رگ میں سمانے لگا تھا وہ اس کے ان الفاظوں کے پیچھے چھپی دھمکی کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔

"آپ کا مطلب اگر میں آپ کے اس چیپ ناممکن قسم کے پلان میں آپ کا ساتھ دوں تو آپ کانٹریکٹ سائن کرینگے ؟ ۔۔۔۔"

" کچھ ایسا ہی سمجھ لو ۔۔۔" وہ اطمینان سے بولا ۔

" یہ کھلی بلیک میلنگ ہے ۔۔۔ " کنزہ نے احتجاج کیا ۔

"ویل ! تم اسے اخلاقی بلیک میلنگ کہہ سکتی ہو ، مائی ڈئیر کنزہ " اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔

"یہ ایک غیر اخلاقی پلان ہے ایسا ہونا آپ بھی جانتے ہیں کہ ناممکن ہے اور اسے بلیک میلنگ ہی کہیں گئے ۔۔۔۔" کنزہ نے سختی سے کہا ۔

" میرے خیال سے تم اخلاقی طور پر ارسلان افگن کی مقروض ہو اور اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنا قرض اتار دو ۔۔۔"وہ اس کی بات صاف نظر انداز کرگیا ۔


" آپ جانتے بھی ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔


" میں بنا سوچے سمجھے کوئی بات نہیں کرتا اتنا تو اب تک تم بھی مجھے جان چکی ہوگی ..." اذلان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

" مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی بھی آپ کو سمجھ سکوں گی ، پہچان سکوں گئی آپ ۔۔۔ " کنزہ کا لہجہ روہانسا ہوگیا۔

" آپ اتنی شدت سے نفرت کیسے کرسکتے ہیں ؟ ۔۔۔۔" اس نے آنکھوں میں آئی نمی کو ہتھیلیوں سے رگڑا ۔

" اتنا تو میں آپ کو جانتی ہوں کہ آپ یہ سب اپنے چھوٹے بھائی کے لئیے نہیں کررہے بلکہ آپ یہ سب صرف اور صرف اپنے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئیے کررہے ہیں ، مگر کیوں ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔

" زیادہ اموشنل ہونے کی ضرورت نہیں ہے تمہاری چوائس ہے ایک بار اچھی طرح سے سوچ لو ۔۔۔۔" وہ اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کرکے پارکنگ کی طرف چلنے لگا ۔

" ایک بات کا خیال رکھنا میں تو تمہارے جواب کا انتظار کرسکتا ہوں مگر وین ہوٹ ، تمہارے انکل کا ڈوبتا ہوا بزنس وہ زیادہ دیر افورڈ نہیں کرسکے گا ۔۔۔" وہ ہلکا سا مسکرایا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا تھا ۔

*-----*-----*

اگلی صبح دس بجے کے قریب وہ لوگ واپس اپنے شہر آچکے تھے اذلان افگن ایک لمبی ڈرائیو کے بعد اسے بلڈنگ کے باہر اتار کر چلا گیا تھا وہ اپنا بیگ لئیے بلڈنگ کے اندر داخل ہوئی تھکن سے اس کا برا حال تھا اوپر اپنے فلور پر پہنچ کر اس نے فلیٹ کا دروازہ ان لاک کیا اور اندر داخل ہوئی ۔

اپنا بیگ اور پرس صوفے پر پھینکتی ہوئی وہ کمرے کے وسط میں کھڑی بس یہی سوچ رہی تھی کہ اسے پہلے کیا کام کرنا چاہئیے ۔۔۔

کیا پہلے کیتھرین آنٹی کو کال کرکے انکل جارج کی طبیعت کا پتہ کرے ۔

یا خود ہی ہاسپٹل کا چکر لگا لے ؟ اور چیک کرے ان تک افگنز نے کیا اپ ڈیٹ پہنچائی ہیں ۔۔

یا پھر آفس چلی جائے ۔۔۔

واپسی کا سفر بہت کھٹن تھا ذہنی اور جسمانی دونوں طریقے سے ۔۔۔

وہ پورے راستے بس ازلان کے اس نامناسب پرپوزل پر سوچتی اور کڑھتی رہی تھی۔

وہ ایسا کہہ سکتا تھا ؟

نہیں وہ سیریس نہیں ہوگا بس ۔۔۔۔

میں ایسے کیسے ارسلان سے شادی کرسکتی ہوں ؟ یہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔۔۔

عجیب بات یہ تھی کہ پارٹی سے واپسی پر وہ سیدھا اسے گھر لے گیا تھا اور بنا ایک بھی لفظ کہے اپنا اور اس کا سامان ہاؤس کیپر سے گاڑی میں رکھوا کر واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور پورے راستے اس نے کنزہ مرتضیٰ سے ایک بھی بات نہیں کی تھی اور نا ہی کہیں گاڑی روک کر ریسٹ لیا تھا۔

اسے اس سفر میں ایسا محسوس ہوا تھا جیسے وہ کسی ڈرائیور کے ساتھ محو سفر ہو ۔یہ سوچنا کہ وہ اپنی بات کہہ کر بھول گیا ہو یا اپنا پلان بدل گیا وہ یقیناً اب اس کے جواب کا انتظار کرے گا اور پھر اپنی چال اس وقت چلے گاجب اس کا وقت آئیگا ، اتنا تو وہ بھی اسے جانتی تھی ۔

جب وہ بلڈنگ کے پاس پہنچے تھے تو وہ گاڑی سے اترا تک نہیں تھا بس اپنی انگلیاں اسٹیئرنگ وہیل پر بجاتے ہوئے اس کے اترنے کا انتظار کررہا تھا ۔

" پھر میلنگے ۔۔۔۔" اس کے اترتے ہی وہ یہ کہتا ہوا اپنے سن گلاسز لگاتا وہاں سے گاڑی بھگا لے گیا تھا ۔

" اب میں کیا کروں ؟ ۔۔۔۔" وہ سر پکڑ کر وہی صوفے پر گر گئی پیروں سے جوتے اتار ایک طرف ڈالے ۔

اب تو بس ایک ہی امید تھی ۔

" کاش کوئی معجزہ ہوا ہو اور انکل جارج کی طبیعت بہتر ہوگئی ہو ۔۔۔۔" تاکہ وہ اس منحوس کانٹریکٹ کہ ذمہ داری انہیں ہی سونپ دے اور اس کے شانوں پر سے یہ بوجھ اتر جائے۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ اٹھی اس کا ارادہ آفس جانے کا تھا کچھ دل میں خوف بھی تھا کہ کہیں افگنز سے کانٹریکٹ کینسل کی کوئی نیوز یا ای میل نا آئی ہوئی ہو ۔

منہ پر پانی کے جھپاکے مار کر اس نے خود کو فریش کیا جلدی جلدی الٹا سیدھا بالوں میں برش کرکے وہ اپنا کوٹ اور پرس اٹھاتی ہوئی اپنی تھکن کو بھاڑ میں جھونکتی ہوئی آفس کے لئیے نکل گئی ۔

آفس پہنچتے ہی اسے میتھیو کا بلاوا آگیا تھا ۔

" کانٹریکٹ پیپرز کدھر ہیں ؟ ۔۔۔" میتھیو نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا ۔

" وہ ۔۔۔۔افگنز نے کہا تھا وہ ۔۔۔۔" کنزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہے ؟ کیا یہ بتائے کہ وہ ان کانٹریکٹ کے بدلے میں اس سے ڈیل مانگ رہا ہے ؟ اسے ٹریپ کررہا ہے ؟

" کنزہ ! تم نے سنا میں نے کیا پوچھا ؟ ۔۔۔" میتھیو نے اس کی غائب دماغی پر اسے ٹوکا۔

" یس ! وہ ابھی سائن نہیں ہوئے ان کو مزید وقت درکار ہے ۔۔۔۔" وہ جلدی سے بولی ۔

" انکل جارج کی طبیعت اب کیسی ہے ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے جلدی سے دوسرا سوال کیا ۔

"ویسی ہی ہے دو دن میں کون سا معجزہ ہوجانا تھا ابھی تو انہیں ہاسپٹل سے ڈسچارج نہیں ملنے والا ۔۔۔۔اور مجھے نہیں لگتا کہ ابھی وہ چھ سات ماہ سے پہلے ریکوور کرکے آفس جوائن کرسکیں گئے بٹ آئی وش گاڈ اسے فاسٹ ریکوری دے ۔۔۔۔" میتھیو نے سنجیدگی سے کہا وہ خاموش کھڑی رہی کہ اسے خود بھی ایسا ہی محسوس ہورہا تھا۔

" افگنز سے کانٹریکٹ ہی اس ڈوبتی ہوئی کمپنی کو بچا سکتا ہے بس دعا کرو ۔۔۔۔" میتھیو نے کچھ فائلز اس کی طرف بڑھائیں ۔

" انہیں ٹائپ کروا کر میل کردینا ۔۔۔"

" اوکے ۔۔۔۔" وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اس کے کیبن سے نکل گئی ۔

*------*------*

اگلے دن وہ آفس سے واپسی پر پھولوں کا گلدستہ لئیے انکل جارج سے ملنے ہاسپٹل چلی آئی ۔

وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے اور ان کی ساری باتیں اس کانٹریکٹ سے متعلق ہی تھیں وہ بہت پرامید تھے ان کے چہرے کو دیکھ کر وہ چاہ کر بھی انہیں نہیں بتا سکی کہ وہ ویک اینڈ پر ازلان افگن نے ساتھ تھی افگن ہاؤس میں ،اور انہوں نے وہ کانٹریٹ ڈسکس بھی کیا تھا اور صرف اس کی ایک ہاں پر وہ کانٹریکٹ اٹکا ہوا تھا ۔

" آئی ایم سوری انکل ! مجھے امید تھی کہ آج افگنز سے کوئی جواب مل جائے گا مگر ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ۔۔۔ " وہ شرمندگی سے بولی ۔

" اتنی پریشان مت ہو مائی ڈئیر ڈاٹر ! ۔۔۔۔" انہوں نے شفقت سے اس کے ہاتھوں پر اپنا بوڑھا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا ۔

" میں جانتا ہوں تم اپنا بیسٹ دے رہی ہو اس لئیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ مسکرائے ۔

" دیکھو میں تو پریشان نہیں اور اب ہم اتنے بھی برے نہیں کہ گاڈ ہمارا ساتھ نہ دے ؟ ۔۔۔۔" وہ اسے سمجھا رہے تھے مگر کنزہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ ان کی مسکراہٹ ذبردستی کی تھی اندر سے وہ بہت پریشان تھے۔

اگر یہ کانٹریکٹ انہیں نہیں ملتا تو بینک کریپسی فائل کرنی پڑتی ان کا دیوالیہ نکل جانا تھا ۔

ان سے کچھ باتیں کرکے وہ وزیٹنگ آورز ختم ہونے پر واپس اپنے فلیٹ چلی آئی تھی ۔

شاور لے کر ہلکی سی کاٹن کی ٹی شرٹ اور آرام دہ ٹراوزر پہننے وہ سونے کے لئیے بیڈ پر لیٹ گئی مگر نیند ؟ ۔۔

نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ...

انکل جارج ،ان کا بیٹا ، کیتھرین آنٹی ، میتھیو اور آفس میں کام کرنے والے پانچ لوگ ۔۔۔ان سب کی خوشیاں اس کانٹریکٹ پر بیس کرتی تھیں ورنہ سب کی جابز ختم ہوجانی تھیں ۔

اندھیرے کمرے میں وہ بستر پر سیدھی لیتی ہوئی چھت کو گھورے چلی جارہی تھی ۔اس وقت وہ مایوسی کی انتہا پر تھی ۔

" ازلان افگن ! میں تم سے شدید نفرت کرتی ہوں ۔۔۔۔"

" آئی ہیٹ یو ۔۔۔۔۔"

" واقعی ؟ ۔۔۔۔" اس کے دل نے احتجاج کیا ۔

کروٹ لے کر اس نے اپنا چہرہ تکیہ میں چھپا لیا ۔

وہ سونے کی کوشش کررہی تھی جب اس کا سیل فون بجنا شروع ہوا ۔

" اتنی رات گئے کس کا فون ہوسکتا ہے ۔۔۔۔"

" کہیں اذلان تو نہیں ؟ ۔۔۔" اس کا چہرہ فق پڑگیا ۔

" کیا پتہ ہاسپٹل سے فون ہو ۔۔۔۔" یہ سوچ آتے ہی وہ اور پریشان ہوئی ۔

فون تھا کہ بجے چلا جارہا تھا وہ کہنیوں کے بل اٹھی اور سائیڈ لیمپ آن کرکے اپنے سیل فون کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جو بیڈ کے نیچے گرا پڑا تھا ۔

فون اٹھایا ایک انجان نمبر تھا اس نے ڈرتے ڈرتے فون کان سے لگایا ۔

"ہیلو کنزہ ! کہیں میں نے تمہیں جگا تو نہیں دیا ۔۔۔۔" ارسلان افگن کی آواز ابھری وہ ایک لمحے کو کچھ بول ہی نہیں سکی ۔

"کنزہ ! کیا تم لائن پر ہو ؟ تم ٹھیک تو ہو بول کیوں نہیں رہیں ۔۔۔" ارسلان کی متفکر آواز اس کے کان سے ٹکرائی ۔

" میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔

" مجھے تمہاری کال آسکتی ہے اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا انکل جارج ہاسپٹل میں ہیں مجھے لگا کوئی بری خبر ہے ۔۔۔۔" وہ اپنا ڈر بتا گئی ۔

" آئی ایم سوری ! میں نے تمہیں پریشان کردیا ۔۔۔" وہ شرمندہ ہوا ۔

" مجھے نیند نہیں آرہی تھی اور میں تمہارے بارے میں ہی سوچ رہا تھا اس لئیے سوچا کیوں نہ کال کرکے بات کرلوں ۔۔۔۔" ارسلان نے اپنی کال کی وضاحت کی ۔

" اٹس اوکے ۔۔۔" وہ نرمی سے بولی ۔

" تم تھکی ہوئی تو نہیں ہو ؟ ۔۔۔"

" آپ بات کریں کیا کرنی ہے ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔

" میں اکثر راتوں کو سو نہیں پاتا کبھی کبھار ماریہ کو فون کرکے گھنٹوں باتیں کرتا ہوں مگر آج میں ماریہ سے نہیں تم سے بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔" وہ رکا ایک گہری سانس لی ۔

" اتنے عرصے بعد تم سے ملنا بہت عجیب تھا اور ویسا تو بالکل بھی نہیں ہوا جیسا میں نے سوچا کرتا تھا ۔۔۔۔"

" آپ کیا سوچا کرتے تھے مسٹر ارسلان ؟ ۔۔۔۔" وہ روکھے لہجے میں بولی ۔

" پتہ نہیں ! تم بتاؤ کیا تم نے یہاں انجوائے کیا ؟ ۔۔۔"

" یس ۔۔۔" اس نے جھوٹ بولا ۔

" تو پھر دوبارہ بھی جلد آؤں گی نا ؟ ویک اینڈ گزارنے ۔۔۔۔" ارسلان نے بیقراری سے پوچھا ۔

" وہ ۔۔۔میں ۔۔۔۔۔" کنزہ کی سمجھ نہیں آیا کیا کہے ۔

" اگر ازلان ادھر ہوا تو کیا اس وقت آؤں گی ؟۔ ۔۔"وہ رکا ایک لمحے کو اس نے توقف کیا ۔

" یا وہ ادھر نہیں ہوا تو آؤ گی ؟ ۔۔۔"

" کیا ازلان ہر ویک اینڈ پر گھر نہیں آتے ؟ ۔۔۔۔۔"کنزہ نے احتیاط سے سوال کیا ۔

" ازلان اور گھر ؟ اوہ گاڈ واٹ آ جوک ۔۔۔نہیں وہ ادھر آنا پسند نہیں کرتا اسے ماریہ اور اس کے دوستوں سے چڑ ہے وہ انہیں دیکھنا نہیں چاہتا اور انہیں چھوڑ نہیں سکتا سمپل ۔۔" ارسلان ہنسا۔

" ہمم ۔۔۔۔" وہ چپ رہی۔

"تمہیں اذلان کی زندگی ، اس کے مدار میں واپس آئے کتنا عرصہ ہوچکا ہے ؟ ۔۔۔۔" وہ چبھتے ہوئے انداز میں پوچھ رہا تھا۔

"واپس ؟ نہیں میں واپس تو نہیں آئی ۔۔۔۔" کنزہ کی آواز مدھم ہوئی۔

" لاسٹ ویک میں پہلی بار پورے تین سال بعد ان سے ملی تھی کیا انہوں نے تمہیں بتایا نہیں ؟ ۔"

" فرائیڈے نائٹ کو برو کا فون آیا تھا کہ وہ اس وقت میری ایکس ، میری سابقہ محبت کے ساتھ ڈنر کررہے ہیں ۔۔" وہ اسے بتا رہا تھا ۔

" سابقہ محبت ۔۔۔۔۔۔" کنزہ نے بنا جنبش کئیے دہرایا اب یہ الفاظ ازلان کے تھے ؟ یا ارسلان کے ؟ وہ سوچنے لگی ۔

" کیا ہوا ؟ ۔۔۔" اس کی خاموشی پر ارسلان نے اسے پکارا ۔

" وہ ایک بزنس ڈنر تھا اور کچھ نہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔

" ہاں وہ کانٹریکٹ ! آخر کس قسم کا کانٹریکٹ ہے جو اتنا وقت لے رہا ہے ؟ ۔۔۔" ارسلان کا سوال سن کر وہ اذیت سے آنکھیں میچ گئی ۔

"وہ کیا کھیل ،کھیل رہا ہے کنزہ ؟ ۔۔۔۔۔" ارسلان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

" مجھے نہیں پتہ ،کیا واقعی وہ کوئی کھیل کھیل سکتے ہیں ۔۔۔" کنزہ مکر گئی کہ وہ ان دونوں بھائیوں کے ہاتھ کھلونا بننا نہیں چاہتی تھی ۔

" وہ ازلان افگن ہے جو بنا ریزن کوئی کام نہیں کرتا پکا بزنس مین ہے اور اسے مجھ سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے آخر بھائی ہوں اس کا ۔۔۔۔" اس کی بات سن کر کنزہ کنفیوز ہوگئی تھی کیا ارسلان سب جانتا تھا ؟ کیا اسے پتہ تھا کہ اذلان ،کنزہ سے کیا ڈیمانڈ کررہا ہے ؟ ۔۔۔۔۔

" کنزہ ۔۔۔۔" ارسلان کی آواز سے وہ ہوش میں آئی ۔

" ہمم ۔۔۔۔" اس نے ہنکارہ بھرا ۔

" میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ سب مجھے کافی عرصہ تک کیوں نہیں پتہ چلا ؟ کیوں مجھے اس سب کا احساس نہیں ہوا ۔۔۔"

" کیا پتہ نہیں چلا ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے حیرانی سے پوچھا۔

"کیا تمہارے اور ازلان کے درمیان کچھ تھا ؟ کچھ بہت اسپیشل ؟ ۔۔۔"اس کا سوال سن کر کنزہ کی سانسیں تھم گئی تھیں۔ ۔۔۔جسے وہ بھانپ گیا تھا

" میں بھی کتنا احمق تھا ، عقل کا اندھا ہوگیا تھا تو تین سال پہلے سارے وقت میں میرا اپنا بھائی ۔۔اور میں کبھی سمجھ ہی نہیں سکا اور نہ اس نے کبھی اپنے منہ سے ایک بھی لفظ نکالا ۔۔۔۔" وہ ہنسا زخمی طنزیہ ہنسی ۔۔۔

وہ ساکت سی فون کان سے لگائے اس کی ہنسی سن رہی تھی وہ خود پر ہنس رہا تھا اپنا ہی مذاق اڑا رہا تھا ۔۔۔

" ہے کیا تم لائن پر ہو ؟ ۔۔۔۔" کچھ دیر بعد وہ اس کی خاموشی محسوس کرکے بولا ۔

" یس ۔۔۔۔" وہ اپنا حلق تر کرتی ہوئی بمشکل بولی ۔

" ارسلان تم غلط سمجھ رہے ہو ایسا کچھ نہیں تھا ازلان کے پاس تو میرے لئیے کبھی بھی وقت نہیں تھا اور پھر ۔۔۔۔" وہ صفائی دینا چاہتی تھی پر وہ ترشی سے بات کاٹ گیا ۔

" کنزہ پلیز ! تمہیں ڈرنے کی یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے سب چلتا ہے تمہیں پتہ ہے جن لڑکیوں کے ساتھ میں یا وہ سیریس نہیں ہوتے تھے انہیں ہم آپس میں اکثر ایکسچینج کرلیا کرتے تھے اور ازلان برو تو کبھی بھی کسی بھی لڑکی کے لئیے سیریس ہوا ہی نہیں سوائے فارح کے ۔۔۔۔" وہ نرمی سے بولا

" سوائے فارح کے ۔۔۔۔" وہ بڑبڑائی ۔

" فارح ! تم فارح کو جانتی ہو ؟ ۔۔۔۔" ارسلان نے اس کی بڑبڑاہٹ سن لی تھی ۔

" نہیں ! کیا وہ ان کی فیانسی ہے ؟ ۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا

" فیانسی ؟ خدا کا خوف کرو اذلان کہاں رشتوں میں بندھنے والا آدمی ہے وہ تو فارح اسے رشتے میں باندھ لینا چاہتی ہے وہ ہے بھی بہت حسین طرح دار ٹرکش حسینہ مگر اذلان نے ابھی کوئی کمٹمنٹ نہیں کی ہے بس شاید اسے ڈیٹ کررہا ہے ۔۔۔" وہ ہنستے ہوئے اسے اذلان کی بابت بتا رہا تھا۔

" وہ ۔۔۔۔۔" کنزہ کی سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے

"مم مجھے پتہ نہیں تھا ۔۔۔۔" اس نے بمشکل جملہ مکمل کیا ۔

" ظاہر ہے تم اتنے عرصے سے ہم سب سے کٹ آف ہو تمہیں کیسے پتہ ہوگا ؟ فارح کو تو اذلان کی زندگی میں آئے ابھی صرف ایک سال ہی ہوا ہے ۔۔۔۔" وہ رکا

" ویسے مجھے لگتا ہے فارح کو تم سے ،کسی آدمی کو اپنے معیار تک کیسے لایا جاسکتا ہے یہ سبق ضرور سیکھنا چاہئے

۔۔۔" اس نے طنز کیا اور ایک سرد سی لہر کنزہ کی رگ رگ میں دوڑی تھی ۔

" کچھ کہوں گی نہیں ؟ ۔۔۔"

" بہت دیر ہوگئی ہے صبح مجھے آفس جانا ہے ۔۔۔۔" اس نے فون رکھنا چاہا۔

" یہ تو بتا دو کب آرہی ہو ؟ ۔۔۔۔" وہ جلدی سے بولا ۔

" پتہ نہیں ۔۔۔۔" وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔

" ویل ! تم ابھی تھکی ہوئی لگ رہی ہو آرام کرو میں بعد میں کال کروں گا گڈ نائٹ ۔۔" ارسلان نے فون بند کردیا تھا۔

یہ صرف ابتدا تھی اب ارسلان نے اسے رات گئے فون کرنا شروع کردیا تھا اسے کنزہ سے ماریہ اور اپنے دوستوں کے بارے میں بات کرنا اچھا لگنے لگا تھا تین دنوں میں ہی وہ اس کی ان بے ضرر کالز سے تھک چکی تھی وہ جانتا تھا کہ کنزہ کو صبح آفس جانا ہوتا ہے پھر بھی وہ اسے رات گئے کال کرکے اپنا وقت کاٹنے لگا تھا۔ دوسری جانب وہ اس پر بار بار واپس آنے کا بھی دباؤ ڈالنے لگا تھا ۔انکل جارج کی طبعیت بھی کچھ خاص نہیں تھی وہ ابھی تک ہاسپٹل میں تھے اور افگنز نے ابھی تک کانٹریکٹ کی بابت کوئی ای میل نہیں کی تھی ،رہا اذلان افگن وہ تو ان گزرے تین دنوں میں شاید اسے بھول ہی گیا تھا ۔

کبھی کبھی کنزہ کا دل چاہتا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور جا بسے جہاں کوئی نہ ہو ۔۔۔۔

جمعرات کا دن تھا وہ آفس سے نکل رہی تھی جب کیتھرین آنٹی کا فون آیا ۔

وہ بہت خوش تھیں انکل جارج کی طبیعت میں ٹہراؤ آیا تھا اور آج پہلی بار ڈاکٹرز نے انہیں دس منٹ واک کروائی تھی ۔۔

" اب جارج جلدی سے گھر جائے گا ۔۔" وہ اسے خوشی خوشی بتا رہی تھیں پر وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اسٹریس انکل جارج کے لئیے زہر سے بدتر تھا اور ابھی ان کو اس سےدور ہی رکھنا تھا ۔ان کا دل ابھی کمزور تھا اور یقیناً واپس آتے ہی ان کا پہلا سوال اس کانٹریکٹ کے متعلق ہی ہونا تھا ۔

" مجھے ازلان سے بات کرنی ہوگی ان کی منت سماجت کرنی ہوگی ان کا سارا زہر ساری کڑواہٹ برداشت کرنی ہوگی بس وہ ایک بار اس کانٹریکٹ پر سائن کردیں ۔ ۔" وہ خود کو ہمت دلا رہی تھی ۔

شام ڈھلے اپنے فلیٹ میں پہنچ کر اس نے دو چار بار ہمت کرنے اذلان کو کال کرنی چاہی پر کر نا سکی اسے اپنی ہار کا خوف تھا۔ کافی ہمت کرکے اس نے آخرکار کال ملا لی مگر بیل جاتی رہی ازلان نے اس کا فون نہیں اٹھایا تھا ۔

فون بند کرکے وہ کچن میں آگئی۔

کام کرتے ، ڈنر کرتے سارا وقت اس کی توجہ اپنے فون پر رہی تھی کہ شاید وہ کال بیک کرے لیکن نہیں کوئی کال نہیں آئی ۔

رات بارہ کے قریب وہ لائٹس آف کرکے سونے لیٹ گئی وہ نیم غنودگی میں تھی جب اس کا سیل فون بجنا شروع ہوا ۔

" افف یہ ارسلان نہ خود سوتا ہے نا دوسروں کو سونے دیتا ہے ۔۔۔۔" اس نے تکیہ پر ہاتھ مار کر اپنا فون اٹھا کر بنا دیکھے کانوں سے لگایا ۔

" میں تمہیں صبح ہوتے ہی نیند کی گولیوں کا گفٹ سینڈ کرنے والی ہوں ۔۔۔۔" وہ تنک کر بولی ۔

" مگر مجھے تو نیند کی گولیوں کی کبھی ضرورت نہیں پڑی ۔۔۔۔" ازلان کی بھاری گھمبیر آواز اس کے کانوں میں گونجی ۔۔۔

کنزہ نے تیزی سے رسیور ہٹا کر نمبر چیک کیا۔

" تمہیں کیا لگا ؟ فون پر کون ہے ؟ ۔۔۔۔" اس نے سختی سے پوچھا ۔

" ارسلان ۔۔۔۔" کنزہ نے سادگی سے جواب دیا ۔

" اوہ ! تو تم دونوں ایک دوسرے سے رابطے میں ہو ؟تم نے مجھے بتایا بھی نہیں " اس کی آواز میں ایک عجیب سی تکخی تھی ۔

" میں ۔۔۔"

"اس نے تمہیں ویک اینڈ پر انوائیٹ کیا تھا ؟ ۔۔۔۔" وہ سیدھا سوال کررہا تھا۔

" یس ! مگر ۔۔۔"

" کوئی اگر مگر نہیں ، کل فرائیڈے ہے آفٹر ورک تم چل رہی ہو میں فری تو نہیں مگر تمہیں ٹھیک شام تین بجے پک کرلوں گا ۔۔۔" وہ احسان جتاتے ہوئے بولا ۔

" آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ٹرین سے جاؤں گئی ۔۔۔" اس نے پیچھا چھڑانا چاہا ویسے بھی اسے ارسلان سے ملنے جانا تھا وہ سوچ چکی تھی کہ اس سے مل کر اسے یوں راتوں کو کال کرنا بار بار آنے پر اسرار کرنا اس سب سے بڑے سبھاؤ سے منع کریگی۔

" ٹرین سے سفر ؟ صرف وقت کا زیاں ہے ۔۔۔" اذلان کی آواز ابھری

" وہ میرا پرابلم ہے آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔"

" بس ! نو نور آرگیومنٹ میں ٹھیک تین بجے تمہیں پک کررہا ہوں لنچ ہم راستے میں کرینگے اور ڈیٹس فائنل ۔۔۔گڈ نائٹ ۔۔۔۔" وہ ہمیشہ کی طرح بنا اس کی سنے فون رکھ گیا تھا ۔

*----*----*

فرائیڈے ہمیشہ سے ہالف ڈے ہوتا تھا وہ بارہ بجے جاب سے فلیٹ واپس آچکی تھی اور اب ایک چھوٹے سے بیگ میں دو جوڑے کپڑوں کے رکھ کر جانے کی تیاری کررہی تھی اس کا ارادہ دو بجے کے قریب یہاں سے نکل کر نزدیکی اسٹیشن سے ویگاس کی ٹرین پکڑنے کا تھا۔

دو بجے کے قریب وہ فلیٹ کی کھڑکیاں بند کررہی تھی جب اس کے فلیٹ کا دروازہ کھلا اور ازلان افگن اندر داخل ہوا ۔

" آپ ؟ ۔۔۔" وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی ۔

" آپ اس وقت ۔۔۔۔" اس نے دیوار پر ٹنگی گھڑی میں وقت دیکھا جو پونے دو بجا رہی تھی ۔

" جلدی فارغ ہوگیا تھا تو سوچا جلدی نکل جاتے ہیں ۔۔۔" وہ لاپرواہی سے بولتا ہوا اندر آگیا ۔

" آپ اندر کیسے آئے ؟ ۔۔۔۔" کنزہ کے سوال پر اس نے ہاتھ میں پکڑی فلیٹ کی ماسٹر کی لہرائی ۔

" یہ غیر قانونی ہے میں رپورٹ بھی کرسکتی ہوں ۔۔۔"

" شوق سے ! ویسے تمہاری اطلاع کے کئیے عرض ہے یہ بلڈنگ میں خرید چکا ہوں ۔۔۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا ۔

اب وہ اس ایک کمرے کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں چلتے ہوئے ایک ایک چیز کو بغور دیکھ رہا تھا ۔

" تم ریڈی ہو تو چلیں ؟ ۔۔۔۔" اس نے کنزہ کو مخاطب کیا ۔

" شیور ۔۔۔۔" اس نے کلوزٹ کھول کر جیکٹ نکال کر پہنی اور اپنا بیگ لے کر دروازے کے پاس آگئی ۔

" چلیں ۔۔۔۔" اس نے کمرے کے وسط میں کھڑے اذلان کو مخاطب کیا ۔

" تم نے کچن میں اسٹوو وغیرہ چیک کرلیا ہے ؟ کہیں گیس تو کھلی نہیں چھوڑ دی ۔۔ " اس کی کائیاں نگاہیں ہیٹر کھلا دیکھ چکی تھیں۔

" سب بند ہے ۔۔۔۔" کنزہ نے تپ کر کہا وہ ویسے بھی اسے دیکھ کر اپ سیٹ ہوچکی تھی ۔

" تمہارا ہیٹر کھلا ہوا ہے ۔۔۔" ازلان نے اشارے سے دکھایا تو وہ خود پر ضبط کرتی ہوئی آگے بڑھی اور ہیٹر کا تار سوئچ سے نکال دیا ۔

" تم خوش نظر نہیں آرہی ؟ کیا اس کی وجہ میری سسٹر ان لاء بننا ہے ؟ ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

" پلیز مجھے گھٹیا مذاق پسند نہیں ہیں اور میں آپ کو اس بارے میں پہلے ہی انکار کرچکی ہوں ۔۔۔" وہ سختی سے بولی۔

ایک لمحے کو فلیٹ میں خاموشی سی چھا گئی تھی ۔

*-----*-----*

" آپ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے میں آپ کو واضح طور پر اپنی فیلنگز بتا چکی ہوں پھر بھی آپ ۔۔۔۔" وہ بول رہی تھی جب اذلان افگن نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے اسے چپ کرایا تو وہ لب بھینچ گئی ۔

" ایک منٹ ۔۔۔۔۔" اس نے مغرورانہ انداز میں اسے ٹوکا ۔

" میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ تم مجھ سے ٹھیک ٹھاک نفرت کرتی ہو ، مجھے سنگدل کھٹور گردانتی ہو مگر مس کنزہ مرتضیٰ ۔۔۔۔" اس نے کنزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔

"میں تمہیں دو باتیں یاد دلادیتا ہو جن میں سے ایک تو تمہارے لئیے بہت اہم ہے، کیوں میں یہ نہیں جانتا جارجز سے تمہارا کیا رشتہ ہے جو تم اس کانٹریکٹ کو حاصل کرنے کے لئیے تڑپ رہی ہو ،میرے امپلائیز بھی میرے لئیے بہت وفادار ہیں لیکن اس طرح کوئی اپنی نیند اپنا چین میرے یا کمپنی کے کام کے لئیے نہیں گواتا تو اس سے مجھے یہی لگتا ہے کہ تمہارے اور جارجز کے درمیان یقیناً کوئی پرسنل ریلیشن شپ ہے کہیں... " وہ رکا ۔

" تمہارا ان انکل جارج کے بیٹے سے کوئی افئیر تو نہیں چل رہا ؟ ۔۔۔" اس نے کنزہ کو بغور دیکھتے ہوئے بات مکمل کی ۔

" یہ آپ کا پرابلم نہیں ہے ۔۔۔ " کنزہ نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا کہ آخر وہ کیوں وضاحت دیتی اپنے اور انکل جارج کے رشتے کی ؟ یہ دنیا بہت خراب ہے اسے کسی کا خلوص نظر نہیں آتا بس آپ کسی کے کام آئیں تو شک و شبہہ شروع ہوجاتا ہے کہ یہ کیوں اس کا اتنا کام کررہی ہے ، اب یہی دستور دنیا بن چکا ہے کہ ہر کوئی اپنے کام سے ،اپنے مطلب سے ہی کسی دوسرے کا کام کرتا ہے اور جب کام نکل جاتا ہے تو اسے ہی نشانے پر رکھ لیتا ہے اپنے گریبان میں تو لوگوں نے جھانکنا ہی چھوڑ دیا ہے تو اگر ازلان اسے اور جارجز کو لے کر مشکوک ہورہا تھا تو وہ اسے کوئی صفائی دینا نہیں چاہتی تھی ۔

" بےشک یہ میرا پرابلم نہیں ہے مگر اس سے ایک بات کی وضاحت تو صاف ہورہی ہے ۔۔۔۔" اس نے کنزہ کا جائزہ لیا جو بیزار سی کھڑی تھی ۔

" اب مزید کسی وضاحت کی گنجائش رہی ہے کیا ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سردمہری سے کہا ۔

"اور آپ یہ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ اس کانٹریکٹ کو سائن کرنے کی جو شرائط آپ نے رکھی ہیں وہ بہت کلئیر اور بہت گھٹیا ہیں ۔۔۔۔" کنزہ چٹخ اٹھی ۔

" نہیں کیوں کہ اخلاقی اقدار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ گھٹیا تو ہرگز نہیں ! نا ہی میں کچھ چھپ کر یا دھوکہ دے کر تو تم سے نہیں کروا رہا صاف بات کی ہے شرائط منظور ہیں تو ڈیل فائنل نہیں تو بات ختم ۔۔۔۔ " وہ سکون سے بولا ۔

" مورال ! اخلاق ۔۔۔۔" وہ ہنسی ۔

" یہ لفظ آپ پر سوٹ نہیں کرتے مسڑ افگن ۔۔۔"

" تم ہمیشہ کی طرح صرف اپنے پوائنٹ آف ویو کے بارے میں سوچ رہی ہو وہ جو تمہارے لئیے بہتر اور اہم ہے اور میں ۔۔۔۔" اذلان افگن نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا۔

" میں اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہا ہوں جس کی فلاح و بہبود میرے لئیے اہم ہے ۔۔۔۔۔اب چلیں ۔۔۔" وہ اسے گھڑی دکھاتے ہوئے بولا ۔

"کیا آپ کے نزدیک کسی چیز یا کسی انسان کی کوئی اہمیت ہے؟ ۔۔۔۔لگتا تو نہیں ۔۔۔۔" کنزہ بڑبڑاتے ہوئے نے اپنا سفری بیگ ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کیا کہ وہ کھڑے کھڑے تھک چکی تھی اور موصوف نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔

وہ اس کی بڑبڑاہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی سمت بڑھا اور اس کے ہاتھ سے بیگ لے لیا ۔

" ہاں تو تم کیا کہہ رہی تھی ؟ ۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا ۔

" کچھ نہیں ۔۔۔" وہ پیچھے ہوئی ۔

" اور میں نے کیا کہا تھا ؟ ۔۔۔۔" اس نے فوری دوسرا سوال کیا تو وہ نظریں پھیر گئی۔

" تمہارے اوپر میرے اپاہج بھائی کی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہ بات کبھی بھی نہیں بھولنا مس کنزہ مرتضیٰ ۔۔۔" اس نے سختی سے اپنے الفاظ دہرائے ۔

" کیا آپ مجھے کبھی بھی یہ بھولنے دینگے ؟ ۔۔۔" کنزہ طنز کرتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگی

" نہیں ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے سے ہٹنے سے روک گیا تھا ۔

" ایک تو کانٹریکٹ ہوگیا اس کے علاوہ ایک بات اور ہے ۔۔۔۔۔" اس نے ٹوکا تو کنزہ خاموشی سے نظریں سامنے والی دیوار پر ٹکا دیں ، صاف ظاہر تھا وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس بات چیت کو یہی ختم کردے ۔

" دوبارہ میرے بھائی کا دل مت توڑنا اور اگر پھر تم میرے بھائی کے جذبات سے کھیلیں تو اس بار قسم سے تم بہت پچھتانے والی ہو ۔۔۔۔"وہ اس کا چہرہ اپنی انگلیوں سے پکڑتے ہوئے اس کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا غرایا اور پھر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا ہوا باہر کا دروازہ کھول کر اس کے باہر نکلنے کا ویٹ کرنے لگا ۔

کنزہ کے باہر نکلتے ہی اذلان نے دروازہ بند کرکے اس کا لاک چیک کیا اور اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے ایک ہاتھ میں اس کا بیگ تھامے بلڈنگ سے باہر نکل آیا جہاں اس کی گاڑی پارک تھی ۔

*-----*-----*

ویگاس پہنچتے ہی وہ کنزہ کو اوپر اپنے پورشن میں وہی لاسٹ ٹائم والا کمرہ دے کر غائب ہوگیا تھا وہ ڈنر کے وقت ملازمہ کے بلانے پر نیچے اتری جہاں ارسلان اکیلا میز پر اس کا انتظار کررہا تھا کنزہ نے چاروں جانب دیکھا مگر اذلان نہیں تھا ۔

" وہ چلا گیا ہے امید ہے کل ضرور آئیگا ویسے بھی میں نے اس کے لئیے ایک سرپرائز پلان کیا ہے ۔۔۔" ارسلان کنزہ کی نظروں کی تلاش کو بھانپ گیا تھا مگر وہ اس کی سرپرائز والی بات پر دھیان دئیے بغیر خاموشی سے کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی اس کا ذہن اس وقت اذلان افگن میں الجھا ہوا تھا اگر اسے ادھر رکنا نہیں تھا تو اتنی دور اتنی لمبی ڈرائیو کرکے کیا وہ صرف اسے یہاں چھوڑنے آیا تھا ؟ یہ کام تو وہ کسی ڈرائیور سے بھی لے سکتا تھا ۔

" اہمم اہمم ۔۔۔۔۔" ارسلان جو خاصی دیر سے کنزہ کے جواب کا انتظار کررہا تھا وہ کھنکھارا ۔

" کیا ہوا کنزہ ؟ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے ؟ ۔۔۔۔" اس نے سوال کیا ۔

" کچھ نہیں ! کچھ بھی تو نہیں چل رہا اور کچھ ہے کیا جو چلے ؟ ۔۔۔۔۔" کنزہ نے غائب دماغی سے جواب دیا ۔

" یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ کچھ ہے کیا جو تمہیں پریشان کررہا ہے ؟ ۔۔۔" اس نے سنجیدگی سے کہا ظاہر ہے وہ بچہ تو نہیں تھا جو اس کے چہرے پر چھائی سوچ کی پرچھائیوں کو پڑھ نہیں پاتا ۔

" کون ہے جو تمہیں پریشان کررہا ہے ؟ ۔۔۔" اس کے ڈائریکٹ سوال پر وہ بوکھلا گئی اس کے ہاتھ سے چمچ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔

" میں صرف انکل جارج کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ ابھی تک ہاسپٹل میں ہیں بس ان کی اور کچھ آفس کے کاموں کی ٹینشن سر پر سوار ہے ۔۔۔" کنزہ نے گول مول سا جواب دیا۔

" میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس معذوری نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے جیسے ۔۔۔۔ " ارسلان نے مسکراتے ہوئے اس کی سمت چائینیز رائس کی ٹرے بڑھائی ۔

" جیسے کیا ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" جیسے لوگوں کے چہرے ان کے تاثرات پڑھنا ان باتوں کو جاننا جنہیں وہ دنیا سے چھپا رہے ہوں اب دیکھوں نا معذور ہونے کے بعد میرے پاس وقت ہی وقت ہے سوچنے سمجھنے اور انسانی رویوں کی جانچ پر پریکٹس کرنے کا ۔۔۔مثال کے طور پر میرا بڑا بھائی اذلان افگن ۔۔۔۔۔" وہ رکا اور اس نے ہونقوں کی طرح اپنی بات سکتی کنزہ کو دیکھا۔

" اذلان کو اس ویک اینڈ پر جرمنی سے آئے ایک بہت اہم بزنس مین سے ملنا تھا وہ اس میٹنگ کے لئیے بہت کام کررہا تھا اسی وجہ سے اس نے فارح کو بھی انکار کردیا جس نے اپنی کسی کامیابی کو سیلیبرٹ کرنے کے لئیے ایک بڑی سی پارٹی رکھی تھی پر اذلان نے صاف انکار کرکے اس بیچاری کا دل توڑ دیا اور ۔۔۔۔۔" ارسلان ہنسا جس پر کنزہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا کہ وہ آخر کہنا کیا چاہتا تھا ۔

" اتنی مصروفیات کے باوجود اس نے تمہارے لئیے وقت نکالا سب چھوڑ چھاڑ کر تمہیں پک کیا اور اب تمہیں ادھر ڈراپ کرکے وہ اس جرمن بزنس مین کے ساتھ میٹنگ کرنے چار گھنٹے کی ڈرائیو پر واپس گیا ہے ۔۔۔۔اس نے اپنا اتنا قیمتی ٹائم صرف تمہیں ادھر ڈراپ کرنے کے لئیے کیوں نکالا ؟ کنزہ ۔۔۔۔" ارسلان نے اس کے چہرے پر اپنی نگاہوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے سوال کیا ۔

" مجھے کیا پتہ ؟ میں نے تو اسے کل رات ہی کہہ دیا تھا کہ ۔۔۔۔۔"

" آہاں ۔۔۔۔تو میں ٹھیک سوچ رہا تھا تم دونوں کے درمیان کچھ ہے اور کل رات تم دونوں ساتھ تھے ۔تو پھر آج وہ تمہیں ادھر میرے لئیے کیوں چھوڑ کر گیا ہے ؟اخر چل کیا رہا ہے ۔"ارسلان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا ۔

" اسٹاپ امیجنگ اسٹوپڈ تھنگز ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا ۔

" الٹا سیدھا مت سوچو ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ کھانے سے ہاتھ کھینچ گئی تھی ۔

" میں کچھ الٹا سیدھا نہیں سوچ رہا کنزہ جی !لاسٹ ٹائم جب تم یہاں آئی تھیں تب سے اب تک اذلان میں کافی تبدیلی آئی ہے سیریس تو وہ پہلے بھی تھا لیکن اب تو۔۔۔۔۔" ارسلان رکا ۔

" لسن کنزہ ! تقریباً تین سال سے تم ہماری زندگی میں ایگززٹ نہیں کرتی تھیں پھر اچانک سے ایک دن تم سامنے آجاتی ہو اور خود بھی الجھی ہوئی سی جسے خود نہیں پتہ کہ اسے کیا کرنا ہے اوپر سے بگ برو بھی الجھا الجھا سا خود سے لڑتا ہوا نظر آتا ہے ۔۔۔"

" میں تمہیں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ میں ان تین سالوں میں کبھی بھی ازلان سے نہیں ملی بس کچھ ہفتے پہلے ایک ہوٹل میں کمپنی کے کام کے سلسلے میں پہلی بار ملی تھی ۔۔۔ " کنزہ اسے بتا رہی تھی پر وہ اس کی سن کب رہا تھا وہ تو بس اپنی سوچ میں گم تھا ۔

" کنزہ ۔۔۔۔۔" سرسراتے ہوئے لہجے میں ارسلان نے اسے پکارا ۔

" تم نے اسے کبھی بھی سچ نہیں بتایا ؟ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ؟ ۔۔۔" وہ شارپ نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

" نہیں ۔۔۔۔" وہ نروس ہوتی ہوئی نظریں جھکا گئی ۔

" تھینکس گاڈ ! ۔۔۔۔" ارسلان نے اوپر دیکھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا ۔

" اچھا کیا ورنہ وہ تو زمین آسمان ایک کردیتا ۔۔۔۔" ارسلان بڑبڑایا ۔

" ہسپتال میں میں جب ہوش میں آیا تو میرا دماغ بہت بوجھل سا تھا مجھے ہیوی ٹرنکولائزر دی جارہی تھیں اور مجھے اس وقت کچھ بھی یاد نہیں تھا پر صرف ایک بات ذہن میں تھی کہ جو بھی ہوا اسے سوائے ہم دونوں کے کسی کو بھی ،میری ماں اور بھائی تک کو پتہ نہیں چلنا چاہئیے تھا ۔۔۔۔" وہ اداس لہجے میں بولا ۔

" جو ہوچکا اسے بھول جاؤ اب اور اب تو اسے ویسے بھی کوئی جاننے میں انٹرسٹٹڈ نہیں ہوگا ۔۔۔" وہ نرمی سے بولی ۔

ارسلان خاموشی سے اس کے چہرے کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔

" ہم لوگ کبھی بھی تمہارے ساتھ مہربان نہیں رہے ٹھیک کہہ رہا ہوں نا ؟ ۔۔۔۔" ارسلان نے پوچھا تو وہ بنا کچھ کہے کھڑی ہوئی اور دیوار پر لگی پینٹنگز کے پاس آگئی ۔

" کیا یہ تم نے بنائی ہے ؟ ۔۔۔" کنزہ نے موضوع بدلا ۔

" ہاں مگر بہت بیکار بنی ہے ۔۔۔ " وہ کندھے اچکا کر بولتا ہوا اپنی وہیل چیئر گھسٹتا ہوا دیوار کے پاس لے آیا ۔

کنزہ غور سے اس پینٹنگ کو دیکھ رہی تھی جس میں سمندر تھا اور اس کا پانی سرخ رنگ تھا پیچھے سورج غروب ہورہا تھا ایک عجیب سی یاسیت سی تھی اس تصویر میں ، زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ سورج کے ساتھ ساری زندگیاں بھی غروب ہوگئی ہوں ۔۔۔۔سمندر کی لہروں کے بیچ اسے کوڑا سا نظر آیا ۔

" کیا تمہیں کوڑا دکھانا ضروری تھا ؟ ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی کے بعد سب چلے گئے اور سمندر کوڑا سمیٹے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔ " وہ بولتے بولتے رکی خوف کی ایک تیز لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا تھا وہ کوڑا نہیں ٹوٹی پھوٹی انسانی ہڈیاں تھیں ۔۔۔

" یہ ۔۔۔یہ تم نے کب بنائی ۔۔۔۔یہ بہت خوفناک ہے ۔۔۔۔" وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولتی ہوئی پیچھے ہٹی۔

" اب تم میری پینٹنگ کی توہین کررہی ہو ۔۔۔" وہ ناراض ہوا ۔

" میں تو بس ۔۔۔۔" وہ ہاتھ مسلتی ہوئی پیچھے ہٹی۔

" چھوڑو یہ سب آؤ میرے روم میں چلتے ہیں وہاں بیٹھ کر کچھ ڈرنک کرینگے آپس میں باتیں کرینگے ۔۔۔۔" وہ اسے آنکھ مارتے ہوئے بے باکی سے بولا۔

" کیوں ؟ میرا مطلب میں ڈرنک نہیں کرتی اور جو باتیں کرنی ہے یہی کرو اس کے لئیے روم میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔" کنزہ نے بدک کر انکار کیا ۔

" اب میں اتنا بھی احمق نہیں ہوں کنزہ جی ! تمہیں میرا بھائی بلاوجہ تو ادھر میرے پاس چھوڑ کر نہیں گیا ۔۔۔۔"

" میں نے تمہیں کبھی بھی احمق نہیں سمجھا ۔۔۔" وہ اطمینان سے بولتی ہوئی وہی ایک صوفے پر بیٹھ گئی ۔

" ماریہ اور وہ تمہارا کئیر ٹیکر کدھر ہے ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سوال کیا ۔

" وہ دونوں شاپنگ کے لئیے گئے ہیں ۔۔۔" ارسلان نے جواب دیا ۔

" کیا تم جیلس نہیں ہوتے کہ وہ تمہیں چھوڑ کر تمہارے ملازم کے ساتھ شاپنگ ،گھومنے پھرنے جاتی ہے ؟ ۔۔۔"

" نہیں ! کیونکہ وہ صرف میری ہے اور کسی کی نہیں ۔۔۔ " وہ اطمینان سے بولا ۔

ارسلان اسے ماریہ اور اپنے دوستوں کے بارے میں بتا رہا تھا ملازمہ ان دونوں کو کافی سرو کرکے جاچکی تھی اور وہ غائب دماغی سے اس کی باتیں سنتی ہوئی بس یہی سوچ رہی تھی کہ اذلان افگن اپنے چھوٹے بھائی کے لئیے ٹھیک پریشان تھا وہ لڑکی ہر وقت ارسلان کے دوستوں کے ساتھ یا پھر اس کئیر ٹیکر کے ساتھ رہتی تھی ارسلان تو بس اس کے اخراجات اٹھا رہا تھا ۔

" کنزہ ۔۔۔۔" ارسلان نے اسے زور سے آواز دی تو وہ چونکی ۔

" ہاں ۔۔۔بولو ۔۔۔" اس نے اپنے دماغ کو حاضر کیا ۔

" تم نے بتایا نہیں اتنے سال دور رہنے کے بعد کیا تمہیں کبھی بھی میری اہمیت کا احساس ہوا ؟ یا میری کمی محسوس ہوئی ؟ ۔۔۔یا ابھی تک وہی کی وہی کھڑی ہو ۔۔۔۔" ارسلان کی بات پر کنزہ نے اسے گھورا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

" گھور کیوں رہی ہو ؟ تسلیم کرلو کہ تم ہی اب اس سب کو ٹھیک کرو گی ۔۔۔" وہ اس وقت کنزہ کو ایک سائیکو لگ رہا تھا وہ بھی خود کو ان دو پاگل بھائیوں کے درمیان پھنسا ہوا محسوس کررہی تھی ۔

" یہ تو کنفرم ہے کہ میرا بگ برادر یہ سمجھ رہا ہے کہ تمہیں میری زندگی میں واپس لا کر وہ تمہیں کامیاب کردے گا تو وہ غلط ہے ۔۔۔۔" وہ بنا اس کی جواب کا انتظار کئیے خود ہی بول اٹھا۔

" کیوں ؟ " کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" اذلان افگن ! دی گریٹ اذلان افگن ہمیشہ سے اپنی چلاتا آیا ہے دوسروں کے اوپر اپنی مرضی تھوپنا ، ان کی زندگی کے فیصلے خود لینا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔۔۔۔" وہ اپنی وہیل چئیر گھماتے ہوئے کھڑکی کے پاس لے گیا ۔

"آخر میں کیوں ساری زندگی اس کا محتاج بن کر رہوں ؟ کیوں ۔۔۔" وہ چلایا ۔

" کبھی کبھی میں سوچتا ہوں مجھے پیدا ہی نہیں ہونا چاہئیے تھا ۔۔۔۔۔" وہ اپنے بال نوچتے ہوئے چیخا ۔

" فار گاڈ سیک تم یہاں سے چلی جاؤ ، مجھے اکیلا چھوڑ دو، مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے ، مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔" وہ چلا رہا تھا اور کنزہ شاکڈ سی اس کا یہ مینٹل بریک ڈاؤن دیکھ رہی تھی ،اسے ارسلان پر اب ترس آرہا تھا وہ اپنا خوف اپنی مایوسی سب بھول کر تیزی سے صوفے سے اٹھ کر بھاگتی ہوئی کھڑکی کے پاس اس کی وہیل چئیر کے پاس آئی اور ارسلان کا ہاتھ پکڑا ۔

" ارسلان ! ۔۔۔۔لسن ۔۔۔" اس نے کسی ماں کی طرح اس کا سر سہلایا تھا ۔

" یہ سب کیا ہے ؟ تم ایسا کیوں کررہے ہو کیوں اتنا مایوس ہو ؟ کیا مجھ سے شئیر نہیں کروگے تم تو بہت مضبوط تھے ۔۔۔۔"

" میں مضبوط تھا اب نہیں ہوں ۔۔۔۔" وہ اپنا ہاتھ کنزہ کی گرفت سے نکالتے ہوئے بولا ۔

" کیوں ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

" کیوں فضول میں میری بکواس سن کر اپنا وقت برباد کرنا چاہتی ہو ۔۔۔۔" اس نے تلخی سے اسے دیکھا ۔

" اگر بات کرنے سے ،اپنی کہنے سے تم اچھا محسوس کرو گے تو میں ادھر ہوں تم بات کرو اور اگر نہیں تو کوئی بات نہیں میں چلی جاتی ہوں ۔۔ " وہ پلٹنے لگی ۔

" رکو کنزہ ۔۔۔۔" وہ جلدی سے بولا ۔

" اب تم ہمیں چھوڑ کر نہیں نہیں جانے والی اور اب ایسا بھی کچھ خاص بتانے کو نہیں ہے یہ سب تو پہلے بھی ہوتا آیا تھا مگر اس وقت مجھے یہ سب محسوس نہیں ہوتا تھا مگر اب میں شاید بہت حساس ہوگیا ہوں ۔۔۔۔" اس نے اپنا سر دبایا ۔

" اگر برا نہ مانو تو میز پر سے میری سگریٹ کا پیکٹ اٹھا دو ۔۔۔" اس نے گزارش کی تو کنزہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس سگریٹ کا پیکٹ لا کر تھمایا ۔

اس نے پیکٹ میں سے سگریٹ نکال کر سلگائی ایک گہرا کش لیا ۔

" اذلان اور میں ! ہمارے درمیان ہمیشہ سے ایک نارمل بھائیوں والا رویہ رہا ہے ہم کبھی بھی ایک دوسرے کے سر پر سوار نہیں رہے اور نہ ایک دوسرے کے محتاج رہے ۔۔۔" اس نے ایک اور کش لگایا ۔

" ہمارے والدین کے درمیان ہمارے بچپن میں ہی علیحدگی ہوگئی تھی وہ دونوں ہم بچوں کے لئیے بھی کمپرومائز کرنے کے لئیے تیار نہیں تھے اور انہیں ہماری ماں پر بھی شک رہتا تھا ۔

اذلان بڑا تھا تو اسے ڈیڈ نے رکھ لیا اور میں چھوٹا تھا تو مجھے ممی کے پاس رہنا پڑا ۔

ڈیڈ نے ارسلان کی پرورش اپنے طریقے سے کی اسے چائنہ کے ایک اسکول میں بھیج دیا جہاں آدھی رات کو بچوں کو اٹھا کر ان سے برف تڑوائی جاتی تھی اور پہاڑوں پر مشقیں کرواتے تھے لگتا تھا ڈیڈ ممی کی بیوفائی کا بدلہ اذلان سے لے رہے تھے میری خوش قسمتی کہ میں ممی کے پاس تھا تو اس سب سے بچ گیا پھر جب بھائی چودہ سال کا ہوگیا تو ڈیڈ اور ممی میں بھی دوبارہ مفاہمت ہوگئی تھی میں اس وقت دس سال کا تھا ۔

بھائی کو ڈیڈ نے بیسٹ یونیورسٹی سے ڈگری دلوائی اور پڑھائی کے دوران ہی اسے اپنے بزنس میں شامل کرلیا تھا اور جب کچھ سال بعد ڈیڈ کا انتقال ہوا تو بگ برو نے بڑی آسانی سے سارا بزنس سنبھال لیا ۔"

" کسی نہ کسی نے تو بزنس سنبھالنا تھا نہ ؟ ورنہ سب مخالفین کے ہتھے چڑھ جاتا اور تم اس وقت اپنی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے تھے تو اذلان کو ہی آگے آنا تھا ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے کہا کہ وہ یہ سب اپنی ماں سے سن چکی تھی اور اس نے خود بھی اپنی آنکھوں سے بہت کچھ دیکھا تھا ۔

" تمہیں یہ سب بہت مشکل لگتا ہوگا مگر یہ بھی تو سوچو کہ وہ صرف تمہاری زندگی اچھی کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے ۔۔۔" کنزہ نے سمجھایا ۔

" میں مانتا ہوں سب مانتا ہوں مگر اپنی زندگی کے فیصلے میں خود لینا چاہتا ہوں یہ میری زندگی ہے اسے کیسے ، کس کے ساتھ گزارنا ہے یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف میرا ہونا چاہئیے میں کوئی کٹھ پتلی نہیں ہوں ۔۔۔" وہ چلایا -

" وہ ادھر جب مرضی ہو آتا ہے میرے دوستوں کو ناپسند کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ماریہ کے ساتھ بلا کا روڈ رویہ اختیار کرتا ہے ہمارے تاش کھیلنے پر اسے اعتراض ہوتا ہے میرے دوستوں کی پارٹیز کے بل دیکھ کر وہ مجھ پر چلاتا ہے ۔۔ڈرنکنگ اور گیمنگ کے سوا اب میری دنیا میں اور کیا بچا ہے ؟ وہ یہ بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے ۔۔۔"

وہ اپنا غبار نکال رہا تھا اور کنزہ خاموشی سے سن رہی تھی وہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے الٹ تھے اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بالکل درست تھے اور غلط بھی تھے ۔۔۔۔

*------*------*

" تم کچھ کہو گی نہیں ؟ ۔۔۔ "اپنی بات ختم کرکے ارسلان نے خاموش بیٹھی کنزہ کو ٹوکا ۔

"کچھ تو کہو ، میں انتظار کررہا ہوں ۔۔۔۔" وہ عجیب سے انداز میں اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا تھا ۔

" میں کیا کہوں ؟ ۔۔۔ " کنزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

" کم آن یار ! یہ معصوم بننے کا ناٹک بند کرو اور مجھے حوصلہ دلانے والی جادوئی باتیں ، جھوٹی باتیں کرو ، میں غلط ہو ،بگ برو ٹھیک ہے مجھے آپریشن کروانے کا رسک لینا چاہئیے چاہے اس میں میری جان چلی جائے ،ماریہ میرے لئیے غلط چوائس ہے اسے چھوڑ دینا چاہئیے ، ان سب موضوعات پر مجھے قائل کرنے والی باتیں کرونا تم ۔۔۔ اسی لئیے تو وہ تمہیں ادھر لایا ہے بولو ؟ وہ یہی چاہتا ہے نا کہ میں تمہاری بات سنوں اور تم مجھ سے وہی سب منوا لو جو وہ چاہتا ہے جو وہ ان گزرے تین سالوں میں منوا نہیں پایا ۔۔۔۔" وہ سفاکی سے سچ بول رہا تھا ۔

کنزہ مرتضیٰ نے لب بھینچ کر خود کو کچھ بھی الٹا سیدھا کہنے سے باز رکھا تھا کہ جو بھی تھا وہ ان دونوں بھائیوں کے درمیان لٹکتے اس رشتے کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتی تھی دوسرا وہ ہوتی کون تھی جو ارسلان سے اپنی باتیں منواتی ؟ اس نے خود کو کمپوز کیا۔

"ارسلان مجھے لگتا ہے کہ تم اپنے بڑے بھائی کو غلط سمجھ رہے ہو اس نے مجھ سے تمہارے آپریشن کے بارے میں ، یا تم وہ آپریشن نہیں کروانا چاہتے یا تم کیا چاہتے ہو انفیکٹ تمہارے بارے میں مجھ سے کوئی بات کی ہی نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ صاف مکر گئی کہ یہی اس وقت بہتر تھا ورنہ ارسلان کا دل اپنے بھائی سے مزید خراب ہوجاتا ۔

" میں مان ہی نہیں سکتا کہ اس نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔" وہ پریقین انداز میں بولا ۔

" ٹرسٹ می ! میری اس سے اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی ہے ۔۔۔" کنزہ نے اسے یقین دلایا ۔

" ویل ! اگر وہ تم سے ایسا کچھ کہے بھی تو پلیز مجھے کچھ مت بتانا ! یہ میری زندگی ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں کہ مجھے اپنے اشاروں پر زندگی گزارنے پر مجبور کرے ۔۔۔۔تم میری بات سمجھ رہی ہو نا ؟ ۔۔۔۔" اس کے پوچھنے پر کنزہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا ۔

وہ وہیل چئیر کو گھماتا ہوا ایک کیبنٹ کے پاس لے گیا اس کی ڈراز کھول کر گولیوں کا پتہ نکالا اور دو گولیاں نکال کر منہ میں رکھنے کے بعد پاس رکھی پانی کی بوتل کھول کر منہ سے لگا گیا ۔

کمرے میں سناٹا سا چھا گیا تھا وہ گولیاں کھانے کے بعد آنکھیں بند کرکے اپنی وہیل چئیر کی پشت پر سر ٹکا گیا تھا ۔

"تم ٹھیک تو ہو ؟ اور یہ تم نے کون سی گولیاں کھائیں ہیں ۔۔۔۔" کمرے کے سناٹے سے گھبرا کر کنزہ نے فضول سا سوال کیا ۔

" جب یہ ساری دنیا مجھے تاریک لگنے لگتی تھی تو یہ نشے کی گولیاں مجھے روشنی دکھاتی ہیں ۔۔۔۔" اس کے لہجے میں دنیا بھر کی کڑواہٹ تھی آنکھیں بوجھل ہورہی تھی ۔

" ارسلان تم ٹھیک ہو نا ۔۔۔۔" کنزہ اس کی نیم بیہوشی دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔

" فکر مت کرو کنزہ ڈارلنگ ۔۔" اس کی نشے سے بھاری ہوتی آواز ابھری ۔

" آر یو شیور کنزہ وہ تمہیں میرے خلاف استعمال نہیں کررہا ؟ ۔۔۔۔" وہ پھر سے سیدھا ہوا کہ ابھی بھی وہ وہی اٹکا ہوا تھا ۔

" تمہارے خلاف ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے صاف انکار کیا ۔

" تو بس تم میرا کوئی فیصلہ نہیں بدلوانا ۔۔۔۔۔اوکے ۔۔۔۔" اب وہ غنودگی میں جارہا تھا۔

" نہیں میں ایسا نہیں کرونگی ۔۔۔۔" اس نے ایک بار پھر تسلی دی ۔

" کنزہ ! ۔۔۔۔۔" ارسلان نے بمشکل اپنی آنکھیں کھول کر اس کا معصوم چہرہ دیکھا ۔

" تم میری زندگی سے دوبارہ مت جانا ۔۔۔ پرامس کرو ۔۔۔۔ " وہ اس کے آگے اپنا ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔وہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی جب وہ ہنسا اور اپنی مٹھی بھینچ کر آنکھیں موند گیا ۔

*-----*-----*

شام ڈھلے ماریہ اور پیٹر ( ارسلان کا کئیر ٹیکر) شاپنگ بیگز سے لدے پھندے گھر واپس آچکے تھے۔وہ دونوں ہی کنزہ کو دیکھ کر چونکے تھے ۔

پیٹر نے تو دوستانہ انداز میں کنزہ کو وش کیا جبکہ ماریہ نے مارے بندھے اسے ہیلو کہا تھا اس نے کنزہ کو دیکھ کر اپنی ناگواری چھپانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی ۔

" اینا یہ میرا سامان اندر بیڈروم میں رکھوا دو ۔۔۔ " وہ اپنے بیگز ہاؤس کیپر کو دیتی ہوئی ارسلان کی طرف متوجہ ہوئی جو نیم غنودگی میں تھا ۔۔۔

" ارسلان ۔۔۔ اٹھو ڈئیر دیکھو میں آگئی ہوں ۔۔" اس نے ارسلان کے گال تھپتھپاتے ہوئے اسے آواز دی ۔

" جلدی سے فریش ہو کر آؤ میں ڈنر لگواتی ہوں ۔۔۔" ماریہ کے اشارے پر پیٹر ارسلان کو اندر اس کے بیڈروم میں فریش کروانے کے لئیے لے گیا تھا ۔

ان سب نے کنزہ کی موجودگی کو بالکل اگنور کیا ہوا تھا جیسے اس کا وجود وہاں کوئی معنی نہیں رکھتا ہو ۔

کچھ دیر بعد میز پر کھانا لگنے کی آوازیں آنے لگی تھیں ۔فریش سا ہاتھ منہ دھوئے ہوئے خوشبوؤں کی۔ بسا نئے کپڑے بدلے ارسلان بھی وہیل چئیر پر واپس کمرے میں آچکا تھا پیٹر نے پیچھے سے اس کی وہیل چئیر تھامی ہوئی تھی ۔

ماریہ نے ارسلان کو آتے دیکھا تو سارے کام چھوڑ کر سیدھا اس کے پاس آئی اور فرش پر دوزانو ہو کر بیٹھنے کے بعد اپنا سر ارسلان کی گود میں رکھ دیا تھا ۔

ارسلان پیار سے آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا اور پیٹر اطمینان سے ان دونوں کی اس نزدیکی کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ روز کا معمول ہو ۔

کنزہ کو یہ سب بہت عجیب سا لگ رہا تھا ۔

دیکھتے ہی دیکھتے ارسلان کے چہرے پر ایک عجیب سی سنسی خیز سی مسکراہٹ ابھری اور اس نے ماریہ کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کرکے زور سے اس کی ناک پر کاٹا پھر تیزی سے اپنی وہیل چئیر پیچھے کی تو ماریہ جو اس کے زانوں پر دونوں ہاتھ رکھے ٹکی بیٹھی تھی زور سے نیچے گری ۔

"تم حیوان ہو ! تم سارے لوگ حیوان ہو ،مجھ مجبور پر ظلم کرتے ہو ۔۔۔۔ائی ہیٹ یو ۔۔" وہ زور زور سے چلاتی ہوئی مغظلات بکنے لگی۔

"زیادہ زبان چلائی تو اسے کاٹ کر کتوں کو کھلا دونگا ۔۔۔۔" ارسلان کے اشارے پر پیٹر اس کی وہیل چئیر روتی ہوئی ماریہ کے پاس لے گیا تھا ۔

" تم مالک لوگ اور کر بھی کیا سکتے ہو ۔۔۔" ماریہ زہرخند لہجے میں بولی تو ارسلان نے تیزی سے جھک کر اس کا جبڑا سختی سے اپنی انگلیوں کی گرفت میں لیا ۔

"ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے ۔۔۔" وہ زور سے اس کا جبڑا مسلتے ہوئے بولا تو ایک جھٹکے سے ماریہ نے خود کو چھڑوایا اور پھر بھاگ کر دوسرے کمرے میں جا کر زور شور سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔

کنزہ نے پیٹر کو دیکھا تو وہ کندھے اچکا کر دوبارہ ارسلان کی طرف متوجہ ہوگیا ۔

" ارسلان ! یہ سب کیا ہے ؟۔۔۔" کنزہ نے اسے ناپسندیدگی سے دیکھا تو وہ بیدلی سے مسکرا دیا ۔

" ڈونٹ وری وہ ابھی کچھ دیر میں نارمل ہو جائے گی ویسے بھی وہ موڈی لڑکی ہے اپنے موڈ پر چلتی ہے ۔۔۔"

" مگر ! ۔۔۔۔" کنزہ کھڑی ہوئی ۔

" اسے چوٹ لگی ہوگی کسی کو تو اسے سہارا دینا چاہئیے میں دیکھتی ہوں اسے ۔۔۔۔" وہ باہر جانے لگی ۔

" رکو کنزہ ! غلطی سے بھی اس کے پاس جانے کی کوشش مت کرنا یہ اس کا رومینٹک مومنٹ ہے تم نے اسے برباد کیا تو وہ تمہیں چھوڑے گی نہیں ۔۔۔ " ارسلان کی بات پر کنزہ کا دماغ بھک سے اڑا تھا ۔

" رومینٹک مومنٹ ؟ ۔۔۔۔کیا یہ دونوں سائیکو ہوگئے تھے ؟ ۔۔۔۔" کنزہ کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی ۔

" کاش اذلان افگن اس وقت ادھر ہوتا ۔۔۔۔" اب وہ اسے مس کررہی تھی۔

" میں تھک گئی ہوں اب آرام کرونگی ۔۔۔" اس نے وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا ۔

" ڈنر ؟ ۔۔۔۔"

" نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتی ہوئی تیزی سے ارسلان کے پورشن سے نکل کر اوپر اذلان کے پورشن میں آئی جہاں اذلان نے اس کا کمرہ سیٹ کیا ہوا تھا اور اندر اپنے لئیے مختص بیڈروم میں داخل ہوتے ہی اس نے اچھی طرح سے دروازے کھڑکیاں لاک کرلیں تھیں ۔

وہ اس وقت ٹھیک ٹھاک ڈسٹرب تھی اور صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کرچکی تھی ۔

پوری رات ایک طرح سے کانٹوں پر کٹی تھی نیچے شاید ارسلان کے کچھ اور دوست یار بھی آگئے تھے رات بھر میوزک ڈرنکس اور شور شرابہ ہوتا رہا تھا اور ستم یہ موسم بھی خراب ہوگیا تھا طوفانی ہواؤں اور بارش نے الگ اسے ڈرا دیا تھا وہ کمرے میں بند رات پھر دہلتی رہی تھی ۔

صبح کا ملگجا سا اجالا پھیلتے ہی اس نے کروٹ بدل کر فون میں وقت دیکھا تو ابھی چھ بھی نہیں بجے تھے اب نیچے کے پورشن میں موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔

اس کا ذہن ابھی تک ارسلان اور ماریہ میں لگا ہوا تھا کیا وہ دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ ایسے ہی برتاؤ کرتے تھے ؟ ایک دوسرے پر ٹونٹ کرنا ،لڑنا ، گالیاں دینا ؟ یہ کس قسم کا رومینس تھا ؟ ۔۔۔ وہ سوچ رہی تھی اس کی نظر میں یہ ایک بہت ہی اسٹرینج ریلیشن شپ تھا۔

وہ اب اس سب میں الجھنا نہیں چاہتی تھی اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ مزید اس کانٹریکٹ کی خاطر خود کو اذلان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونے دیگی ۔

وہ وہاں سے بھاگ جانے کا پلان سوچ رہی تھی جب اس کے دروازے پر کسی نے ہلکے سے کھٹکھٹایا ۔۔۔۔

" میم ۔۔۔۔"

" میم آپ جاگ رہی ہیں ؟ ۔۔۔۔" پیٹر کی آواز ابھری تھی ۔

" میم ! میں اندر آرہا ہوں ۔۔"دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا یعنی اس کی پاس چابی موجود تھی کنزہ جو اس کے اندر آنے کی بات کو بلف سمجھی تھی اسے دیکھ کر تیزی سے سیدھی ہوئی ۔

" آپ کی چائے ۔۔۔۔" وہ نرمی سے بولتا ہوا چائے اور ناشتے کے لوازمات کی ٹرالی اس کے سامنے سیٹ کرنے لگا ۔

" سوری میں ایسے اندر آگیا ، آپ کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی اور سر نے بتایا تھا کہ آپ صبح خیز ہیں ۔۔۔۔" وہ رکا ۔

" آپ نے رات ڈنر بھی نہیں کیا تھا اس لئیے سوچا آپ کو ناشتہ پہنچا دوں ۔۔۔۔" وہ اپنے آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کمرے کی کھڑکی سے پردے ہٹانے لگا۔

" پیٹر ! کیا تم ایک ٹرینڈ نرسنگ اسٹاف ہو ۔۔۔" کنزہ نے سوچ سمجھ کر سوال کیا ۔

" یس میم ! اسی لئیے تو اذلان سر نے مجھے ہائر کیا تھا ۔۔۔"

" کل جو ہوا کیا وہ ۔۔۔۔" کنزہ کی سمجھ نہیں آیا کہ کس طرح پوچھے کہ ان دونوں ارسلان اور ماریہ کے درمیان کیا ہے ۔

" میم ! کل جو ہوا وہ تو یہاں کا نارمل روٹین ہے دیکھنے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ارسلان سر ماریہ میم کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں انہیں بہت بری طرح ٹریٹ کرتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور ماریہ میم کو ان کی غلام بن کر چوٹ کھانا پھر رونا پیٹنا کوسنے دینا اچھا لگتا ہے وہ دونوں ہائی ہو کر اسی طرح ایک دوسرے کو سیٹیسفیکشن دیتے ہیں ۔۔۔" پیٹر نے بات ختم کی اور جانے لگا ۔

"ہائی ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے شاکڈ سے اسے دیکھا ارسلان نے تو اس کے سامنے گولیاں لیں تھی پر کنزہ ؟ کیا اس نے بھی ؟ ۔۔۔

" میم ! آپ اس سب سے دور رہیں ۔۔۔" پیٹر نے مخلصانہ مشورہ دیا ۔

" تھینکس فار بریک فاسٹ ۔۔۔" کنزہ نے مدھم آواز میں شکریہ ادا کیا ۔

" مینشن ناٹ میم ۔۔۔۔" وہ سر خم کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا۔

اب اسے سمجھ آگئی تھی کہ اذلان کیوں ماریہ کو اپنے بھائی کی زندگی سے نکال دینا چاہتا تھا ۔

ناشتہ کرنے کے بعد وہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی ۔

باہر ابھی بھی تیز بارش ہورہی تھی ایسے میں بس اسٹاپ تک جانا ممکن نہیں تھا ۔

وہ کمرہ لاک کرکے اس بار بڑی مشکل سے بھاری صوفہ گھسیٹ کر دروازے کے ساتھ لگانے کے بعد دوبارہ سونے لیٹ گئی تھی کہ بارش رکنے سے پہلے یہاں سے جانا ممکن نہیں تھا اور کمرے میں دوبارہ کوئی اور داخل نہ ہو اسی لئیے اس نے حفاظتی اقدام کے طور پر صوفہ دروازے کے ساتھ لگایا تھا ۔

دوپہر کے وقت اس کی آنکھ کھلی مندی مندی آنکھوں سے اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔

وہ انگڑائی لیتی ہوئی بستر سے اٹھی اور فریش ہونے واش روم چلی گئی ۔

کپڑے بدل کر اپنا بیگ پیک کرنے کے بعد اس نے واپس صوفہ گھیسٹ کر کمرے کو اس کی نارمل حالت میں لائی ۔

نیچے گارڈن سے ماریہ اور ارسلان کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں وہ کھڑکی کے پاس آئی نیچے دیکھا تو ارسلان اور ماریہ فٹ بال کھیل رہے تھے ارسلان کے ہاتھ میں اسٹک تھی جس سے وہ بال کر کک کررہا تھا وہ دونوں اتنا خوش لگ رہے تھے کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ رات ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا ۔

اب باہر نکلنے کے لئیے ان دونوں سائیکو کا سامنا کرنا ضروری تھا ۔وہ اپنا بیگ وہی چھوڑ کر نیچے اتری اس کا ارادہ ارسلان اور ماریہ سے رخصت لے کر نکلنے کا تھا ۔

" ہیلو ۔۔۔۔" نیچے اتر کر گارڈن میں آکر اس نے ان دونوں کو وش کیا ۔

" ہیلو کنزہ ۔۔۔" ارسلان خوشدلی سے بولا ۔

وہ چلتی ہوئی ارسلان کی وہیل چئیر کے پاس پہنچی ہی تھی کہ گھر کا مین ڈور کھلا اور ایک سفید اسپورٹس کار تیزی سے اندر داخل ہوئی اور سیدھی ان کے پاس ہی آکر رکی ۔

گاڑی کا دروازہ کھلا اور سفید لانگ اسکرٹ اور آسمانی رنگ کے بلاؤز میں ملبوس ایک طرحدار خوبصورت سفید فام عراقی لڑکی اتری ۔۔

" ہائے گائیز ۔۔۔۔" وہ ہاتھ ہلاتی ہوئی ان کے نزدیک آئی ۔

" کیا ہورہا ہے فرینڈز ؟ ۔۔۔۔" وہ لڑکی مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔

" گیم کھیل رہے تھے ۔۔۔۔جو تم نے اسپوائل کردیا ۔۔۔" ماریہ نے کنزہ کو گھورتے ہوئے اس لڑکی کو جواب دیا ۔

" یہ کنزہ ہے ۔۔۔ کنزہ مرتضیٰ ۔۔۔" ارسلان نے اچانک سے کنزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سامنے کیا۔

" اور کنزہ ! یہ فارح ہے بگ برو کی کرنٹ گرل فرینڈ ۔۔۔۔۔" ارسلان نے تعارف کروایا ۔

" اذی ! کدھر ہے ؟ ۔۔۔۔" وہ ایک سرسری سی اچٹتی ہوئی نگاہ کنزہ پر ڈال کر دوبارہ ارسلان کی طرف متوجہ ہوئی ۔

" وہ تو ادھر نہیں ہے ! کیا تم اسے ادھر ایکسیپٹ کررہی تھیں ؟ ۔۔۔ " ارسلان نے پوچھا

"ظاہر ہے جب تم نے مجھے ادھر انوائیٹ کیا تو مجھے یہی لگا کہ وہ بھی ادھر ہوگا ورنہ میرا یہاں کیا کام اور کیا اس کی وہ فضول کانٹریکٹ والی ڈیل ڈن ہوئی ؟ ۔۔۔۔" فارح نے اکتائے ہوئے انداز میں پوچھا ۔

" جس ڈیل کی تم بات کررہی ہو فارح ڈئیر وہ تمہارے سامنے کھڑی ہے ۔۔۔۔" ارسلان نے کنزہ کی طرف اشارہ کرکے ان دونوں کو ہی چونکا دیا تھا ۔

*------*------*

" رئیلی !! ۔۔۔۔۔" فاراح نے چونکتے ہوئے سر سے پیر تک کنزہ کا معائنہ کیا اس کی آنکھوں میں حسد صاف جھلک رہی تھی کنزہ کو دیکھتے ہوئے وہ وہی ارسلان کی وہیل چئیر کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئی ۔

اب فاراح ارسلان اور ماریہ آپس میں باتوں میں لگے ہوئے تھے کنزہ کو اپنا آپ ان تینوں کے درمیان فضول سا محسوس ہوا تھا وہ خاموشی سے پلٹ کر اوپر کمرے میں آگئی ۔اس کا ارداہ ارسلان کو اپنے جانے کا بتا کر یہاں سے نکل جانے کا تھا مگر وہ تو فاراح کے آتے ہی اس میں اتنا مگن ہوا تھا کہ کنزہ کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس نے کنزہ کی غیر موجودگی محسوس کی ہوگی ۔

"بھاڑ میں گئے مینرز کے بتا کر جاؤ ان لوگوں کو ! یہ سب پاگل ہیں اور اس سے پہلے میں پاگل ہو جاؤں میرا نکل جانا ہی بہتر ہوگا ۔۔۔۔" کنزہ نے اپنا مائنڈ سیٹ کرلیا تھا وہ اٹھی اور آکر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی وہ سب باہر ہی بیٹھے ہوئے تھے وہ پلٹ کر اپنا فون اٹھاتی بیڈ پر بیٹھ گئی کہ ان کے سامنے سے نکل کر جانا اور فضول میں کوئی تماشہ لگانا وہ یہ سب نہیں چاہتی تھی۔

دو گھنٹے تک وہ ان سب کے اندر آنے کا ویٹ کرتی رہی وہ تو اندر نہیں آئے مگر پیٹر ایک بار پھر اس کے کمرے کے دروازے پر آگیا تھا۔

" میم لنچ ٹائم ہوگیا ہے ارسلان سر آپ کو نیچے بلوا رہے ہیں ۔۔۔۔" اس نے ادب سے کہا ۔

"اوکے ۔" وہ انکار کرنا چاہتی تھی پھر یہ سوچ کر کھڑی ہوگئی کہ اس سے اچھا موقع اسے یہاں سے جانے کا نہیں ملنے والا وہ لنچ ٹیبل پر ہی ارسلان کو اپنے جانے کا بتا دے گی۔

" تم چلو میں آتی ہوں ۔۔۔۔" پیٹر کو بھیج کر اس نے آئینے کے آگے کھڑے ہوکر اپنا جائزہ لیا ۔

سفید پینٹ پر گلابی کرتی اور گلے میں اسکارف اس کا حلیہ مناسب تھا اس نے اپنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹا ہوا تھا جو اس پر بہت سوٹ کررہا تھا مطمئن ہوتے ہوئے اس نے اپنا سیل فون اٹھا کر کیب کال کی اور کمرے سے اپنا بیگ اٹھائے نیچے اتر آئی ۔

اندر ڈائننگ روم سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھی وہ اطمینان سے چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی ۔

" آؤ کنزہ دیکھو میں نے آج تمہاری پسند کی فش فرائی کروائی ہے ۔۔۔۔" ارسلان اسے دیکھتے ہی خوشدلی سے بولا ۔

" اٹس اوکے آپ لوگ لنچ کریں میری کیب باہر ویٹ کررہی ہے مجھے اب چلنا چاہئیے ۔۔۔" وہ نرمی سے بولی ۔

" واٹ ! ۔۔۔۔" ارسلان پہلے حیران پھر غصہ ہوا ۔

" تم ایسے کیسے جاسکتی ہو ؟ پیٹر ۔۔۔۔۔جاؤ کیب کو فارغ کر کے آؤ ۔۔۔" وہ اسے ٹوکتا ہوا پیٹر سے بولا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھا ۔

" رکو پیٹر ! ۔۔۔" کنزہ نے اسے روکا ۔

" ارسلان لسن ! انکل جارج ہاسپٹل میں ہیں وہ مجھے بلا رہے سوری بٹ مجھے جانا ہوگا ۔۔۔۔" وہ نرمی سے بولی ۔

" تم کہیں نہیں جارہی کم سے کم لنچ سے پہلے تو ہرگز نہیں ، بیٹھو لنچ کرو پھر اس بارے میں بات کرینگے ۔۔۔۔" وہ پیٹر کو اشارہ کرتے ہوئے بولا تو پیٹر نے آگے بڑھ کر کنزہ کے ہاتھ سے اس کا بیگ لیا اور باہر نکل گیا ۔

وہ ہیچ و تاب کھاتی ہوئی خاموشی سے ڈائننگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گئی ۔

لنچ پر بھی وہ تینوں آپس میں باتوں پر لگے ہوئے تھے کئی بار ارسلان نے کنزہ کو شامل گفتگو کرنا چاہا پر وہ خاموش رہی ۔

لنچ کے بعد وہ سب لیونگ روم میں آکر بیٹھ گئے چائے کا دور چل رہا تھا جب دروازہ کھلا اور تھکا تھکا سا دراز قد اذلان افگن ایک ہاتھ میں کوٹ اور دوسرے میں اپنا بریف کیس تھامے اندر داخل ہوا ۔

" اذی ڈارلنگ ۔۔۔" سب سے پہلے فاراح اسے دیکھتے ہی چہکی اور تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے گلے جالگی ۔

" تم ادھر کیسے ؟ ۔۔۔۔۔" ازلان اسے خود سے الگ کرتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔

"کیا تم مجھے دیکھ کر خوش اور سرپرائزڈ نہیں ہوئے ؟ ارسلان نے مجھے بلایا تھا تمہیں سرپرائز کرنے کے لئیے ...." وہ خفا ہوئی ۔

" میں واقعی سرپرائزڈ ہوا ہوں مگر ہنی ! میں تمہیں کہیں باہر لے کر جانے والا نہیں ہوں ۔۔۔" وہ ابرو اچکاتے ہوئے اپنے ازلی اکھڑ انداز میں بولا ۔

" کوئی بات نہیں آج نہیں تو کیا ! تم مجھے کل گھمانے لے جاسکتے ہو ، ہم ڈیٹ پر جاسکتے ہیں آج کل پرسوں سارا وقت ہمارا ہی تو ہے !! میرا ،تمہارا ، ہم دونوں کا ۔۔۔۔" وہ کنزہ کو کن اکھیوں سے دیکھتی ہوئی بڑے ناز سے بولی ۔

" ہمم ۔۔۔" وہ ہنکارہ بھرتے ہوئے اوپر اپنے پورشن کی طرف جانے لگا تھا جب فاراح نے اسے روکا ۔

" کیا تم نے لنچ کیا سوئیٹ ہارٹ ۔؟ ۔۔۔۔"

" یس ۔۔۔"

" اچھا پھر کم سے کم۔ چائے تو پی لو ہمارے ساتھ ۔۔۔۔" فاراح نے روکا ۔

" کافی پلیز ۔۔۔۔" وہ اطمینان سے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا اپنا کوٹ وہی ایک صوفے پر ڈالتا ہوا بیٹھ گیا ۔

فاراح نے کچن کا رخ کیا جہاں ہاؤس کیپر نے پہلے ہی کافی بنائی ہوئی تھی وہ کافی اس کے ہاتھ سے لیتی ہوئی واپس لیونگ روم میں آئی اور بڑے ناز و ادا سے اذلان کے آگے آکر ایسے جھک کر اسے کپ پیش کیا کہ اس کا چہرہ اذلان کے چہرے کو چھونے لگا تھا ۔

کنزہ کوشش کررہی تھی کہ وہ یہ سب نہ دیکھے اس نے اپنی پوری توجہ اپنے چائے کے کپ پر لگائی ہوئی تھی ۔

تو یہ تھی اذلان افگن کی گرل فرینڈ ۔۔۔۔

اسے اپنا آپ یہاں بہت مس فٹ محسوس ہورہا تھا وہ جانتی تھی کہ اذلان افگن کسی کا نہیں ، کم از کم اس کا تو ہرگز نہیں مگر پھر بھی اس کا دل اپنی اس تحقیر پر بری طرح دکھا تھا ۔

کافی پینے کے دوران ہی اذلان کے فون پر کوئی اہم کال آگئی تھی وہ کال سننے کے بعد اپنا آدھا پیا کافی کا مگ میز پر رکھتا کھڑا ہوگیا ۔

" میں چلتا ہوں ایک اہم میٹنگ آگئی ہے ۔۔۔" وہ بنا کسی کا جواب سننے ایکسکیوز کرتا اپنا کوٹ اور بریف اٹھا کر اوپر اپنے پورشن میں جانے لگا کہ اسے ایک اہم کانفرینس کال لینی تھی ۔

فاراح تیزی سے دوڑتی ہوئی اس کے پیچھے گئی ۔

" اذی ۔۔۔۔اذی پلیز ۔۔۔۔۔" وہ اس کی آواز سن کر سیڑھیوں کے پاس رکا ۔

" اذی میں تمہارے لئیے آئی تھی اور تم ۔۔۔۔" وہ خفا ہوئی ۔جس پر اذلان نے جانجتی ہوئی نگاہوں سے اسے پھر اس کے پیچھے نظر آتی صوفے پر بیٹھی کنزہ کو دیکھا۔

" فاراح ڈارلنگ ۔۔۔" اس نے بریف کیس نیچے رکھا اور آگے بڑھ کر فاراح کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرا ۔

" تمہیں اب تک مجھے سمجھ جانا چاہئیے تھا ہنی ! میں اپنا ویک اینڈ تمہارے جیسی پیاری سی لڑکی کے ساتھ ارینج کرکے اسے کام میں پڑ کر نظر انداز کرنے والے مردوں میں سے نہیں ہوں اسی لئیے تو میں نے ہمارا یہ ٹرپ کینسل کردیا تھا کہ میں تمہیں ٹائم نہیں دے سکوں گا ۔۔۔" اس نے سمجھایا ۔

" تو پھر مجھے یہاں کیوں بلوایا ؟ ۔۔" وہ روہانسی ہوئی ۔

" میں نے تو تمہیں نہیں بلوایا ۔۔۔۔" اس نے دھیرے سے اس کے گال چھوئے جن کی نرمی کنزہ کے گالوں جیسی ضرور تھی پر وہ بات نہیں تھی ۔

" کنزہ ۔۔۔۔" یہ نام ذہن میں آتے ہی وہ فاراح کو چھوڑ کر پیچھے ہٹا ۔

" میں ادھر نہیں ہوں تو کیا ہوا تم اب آگئی ہو تو ٹہرو اور ارسلان وغیرہ کے ساتھ انجوائے کرو ۔۔۔" اس نے اپنا بریف کیس اٹھایا ۔

" پیٹر ۔۔ شام سات بجے اوپر اسٹٹڈی میں سینڈوچز اور کافی بھجوا دینا ۔۔۔" اس نے پلٹ کر اونچی آواز میں کہا اور بنا رکے اوپر اپنے پورشن میں چلا گیا ۔

*----*-----*

" ارسلان ۔۔۔۔" کنزہ نے اذلان کے جانے کے بعد اسے مخاطب کیا ۔

" پلیز میرا بیگ واپس کرو مجھے نکلنا ہے میں پہلے ہی بہت لیٹ ہوچکی ہوں ۔۔۔۔"

" اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو ہم سب مل کر مووی دیکھیں گئے ۔۔۔۔" وہ ہنستے ہوئے ماریہ کو اشارہ کرتا ہوا بولا تو ماریہ نے فوری لائٹس آف کرکے پردے گرا دئیے پورا لیونگ روم اندھیرے میں ڈوب گیا تھا اور اب دیوار گیر ساٹھ فٹ کی ٹی وی اسکرین آن ہوچکی تھی جس پر مشہور زمانہ ہالی ووڈ مووی "نوٹ بک " شروع ہوچکی تھی ۔

وہ سب مووی میں مگن تھے جب کنزہ خاموشی سے اٹھی اور باہر لان میں نکل آئی ۔

ہلکی ہلکی سی پھوار پڑرہی تھی ساتھ ٹھنڈی ہوا ۔۔

اس نے گھاس پر چلتے ہوئے ایک گہری سانس لی اس کا پرس پیسے سب کچھ اس بیگ میں تھا جسے ارسلان نے کہیں رکھوا دیا تھا اب وہ چاہتی بھی تو ادھر سے نہیں جاسکتی تھی ۔

چلتے چلتے اس کی ذہنی رو بھٹک کر پھر سے اذلان اور فاراح کی طرف چلی گئی ۔

اذلان افگن اس وقت اس گھر میں اندر کہیں موجود تھا لیکن اسے اس کی موجودگی اس کی پریزنس کا احساس باہر لان میں بھی ہورہا تھا اپنی سوچوں پر ، اپنے دل و دماغ پر ہزاروں بند باندھے تھے کہ وہ نہ اذلان افگن کو یاد کرے گی ، نہ اس کی بارے میں کبھی بھی سوچے گی ، لیکن آج ؟ ۔۔۔آج لگتا تھا سارے بند کمزور پڑ گئے تھے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسی کے بارے میں سوچے چلی جا رہی تھی ۔۔۔

فاراح خوبصورت تھی مگر وہ اسے روڈ خود پسند لڑکی لگی تھی اسی لئیے وہ کنزہ کو اچھی نہیں لگی تھی ۔

" کیا واقعی اسی لئیے وہ مجھے اچھی نہیں لگی ؟ یا ۔۔۔" کنزہ نے خود سے سوال کیا

" یا اذلان افگن اسے پسند کرتا ہے تو ظاہر ہے جتنا اس کی نیچر اجازت دیتی ہوگی اتنا پیار تو وہ اسے کرتا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔"

" مجھے تم پر ترس آرہا ہے فاراح جلد یا بدیر یہ شخص تمہارا دل بھی بہت بری طرح سے توڑنے والا ہے ۔۔۔۔۔"وہ چلتی چلتی پول کے کنارے تک آگئی تھی ہلکی ہلکی پھوار اور سرد ہوا سے اس کے بالوں کا جوڑا کھل سا گیا تھا کئی بھیگی لٹیں گلابی گالوں کو چوم رہی تھیں وہ سردی کی لہر سے کپکپا اٹھی اور واپس جانے کے لئیے پلٹی ۔۔۔اور

ایک لمحے کو اس کا دل رک سا گیا تھا ۔۔۔

لمبا چوڑا اذلان افگن ماتھے پر بل لئیے اس کے عین سامنے کھڑا تھا ۔۔۔

" کب سے تمہیں آواز دے رہا ہوں کہاں کھوئی ہوئیں تھیں ؟ ۔۔۔۔" وہ جو ٹیرس پر سے اسے دیکھتا ہوا نیچے آیا تھا پوچھنے لگا ۔۔۔

" مجھے تو آپ کی کوئی آواز نہیں آئی ۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے کہا .

" لگتا ہے کسی گہری سوچ میں ہوں جیسے کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہو ۔۔۔"وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کی طرف لے جانے لگا ۔

" ایسا تو کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔" کنزہ نے نرمی اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ نکالنے کی کوشش کی تو وہ رک گیا ۔ اپنا سر اس کی سمت گھمایا اور بغور اس کے بھیگے بھیگے گلابی سے چہرے کو دیکھا جس کے گرد گیلے بالوں کی لٹیں احاطہ کئیے اس خوبصورت چہرے کو اور سحر انگیز بنا رہی تھیں ۔

اذلان کی پرتپش نظروں کے ارتکاز سے وہ کپکپا اٹھی تھی ۔

" کیا ہوا ؟ تم ٹھیک تو ہو ؟ سردی لگ رہی ہے کیا ؟ ۔۔۔۔" وہ پوری توجہ سے ،فکرمندی سے سوال کررہا تھا ۔

" نہیں ۔۔۔ہاں۔۔۔ شاید ۔۔" وہ کہاں اس کی اس توجہ کی عادی تھی اس لئیے گڑبڑا گئی ۔

" میک یور مائنڈ گرل ۔۔۔۔" اذلان نے اسے ٹوکا ۔

" یا کہو تو یہ نیک کام بھی میں ہی کردیتا ہوں ۔۔" اس نے اپنا مضبوط توانا بازو اس کے شانوں کے گرد پھیلا کر اسے اپنے حصار میں لیا جس پر کنزہ نے تڑپ کے پیچھے ہونے کی کوشش کی ۔

" اٹس ٹو لیٹ گرل ! اگر تمہیں مجھ سے بات نہیں کرنی تھی تو یہاں رکنا ہی نہیں چاہئیے تھا بلکہ مجھے یہاں دیکھتے ہی بھاگ کر اندر چلا جانا چاہئیے تھا اور ۔۔۔۔" اس نے بات کرتے کرتے کنزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔

" تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ بنا میرے تم کوئی فیصلہ کبھی بھی نہیں کرسکتیں ۔۔۔ " وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔

" آپ ۔۔ " کنزہ کی آنکھوں میں شکوہ ابھر آیا تھا ۔

" تم اتنی ٹھنڈی کیوں ہورہی ہو ؟ ۔۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں ابھرتے شکوے کو نظر انداز کرتا ہوا اپنے ہاتھ اس کے شانوں پر سے ہٹا کر اس کے ٹھنڈے نم نازک سے ہاتھ تھام گیا تھا اور اب بڑی توجہ سے اس کی نرم ہتھیلیوں کو سہلا کر گرمائش دینے کی کوشش کررہا تھا ۔

" تمہیں کوئی کوٹ یا شال لے کر گارڈن میں آنا چاہئیے تھا ۔۔۔ " اذلان نے اسے ٹوکا ۔

" میں یہاں ٹھنڈ انجوئے کرنے ہی آئی تھی ۔۔۔۔' کنزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔تو وہ اثبات میں سر ہلاتے اسے توجہ سے دیکھنے لگا۔

" سنئیے ۔۔۔۔" کنزہ نے اسے پکارا ۔

" میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ نے کھل کر بات کرنے کا سوچ لیا تھا ۔

" کرو بات ! میں یہی کھڑا ہوں ۔۔۔" وہ بھی سنجیدہ ہوا ۔

" ہاں مگر ۔۔۔" کنزہ نے چاروں طرف دیکھا ۔

" مگر کیا ؟ ۔۔۔۔" اس نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔

" یہاں نہیں ! اور ایسے تو بالکل نہیں ۔۔۔۔" وہ اس کی نزدیکیوں سے گھبرا رہی تھی جس پر اذلان نے اسے دوبارہ اپنے بازوؤں کے حصار میں جکڑ لیا تھا ۔

" ایسے ! سے تمہاری کیا مراد ہے ؟ ذرا ایکسپلین تو کرو ۔۔۔۔" وہ اس کا چہرہ اوپر کئیے سوال کررہا تھا ۔

" آپ دور ہوں پلیز ۔۔۔کوئی دیکھ لے گا تو ۔۔۔۔" وہ گھبرائی گھبرائی سی اس کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی ۔

" کوئی دیکھتا ہے تو دیکھ لے مجھے کوئی پرواہ نہیں ، انفیکٹ اگر ارسلان دیکھ لیتا ہے تو اچھا ہے جیلس ہوگا اور واپس نارمل زندگی کے بارے میں سوچے گا ۔۔۔۔" وہ مضبوطی سے بولتا ہوا مزید نزدیکیاں بڑھاتا اسے ہراساں کرگیا تھا ۔

کنزہ مسلسل اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کررہی تھی ۔۔۔

" چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔۔آپ شاید اپنے کہے الفاظ بھول گئے ہیں ۔۔۔۔" اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے چوڑے سینے پر رکھ کر اسے دھکا دیا ۔

" کیا کہا تھا میں نے ؟ ۔ ۔۔"اذلان نے گھمبیر بھاری لہجے میں پوچھا ۔

" یہی کہ ۔۔۔۔" وہ گڑبڑائی ۔

"یہی کہ کیا ؟ ۔۔۔" اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" اگر دنیا کی تمام عورتیں ختم ہوگئی تو بھی آپ مجھے چھونا پسند نہیں کرینگے ۔۔۔۔۔"اس نے بڑی مشکل سے مزاحمت کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی ۔

"وہ پرانی بات تھی اور جو اب ہے وہ الگ ہی ہے ۔۔۔" وہ آرام سے بولا ۔جس پر وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔

" تم نے ہمیشہ میرے اعصاب پر سوار ہو کر مجھے ناقابل تسخیر ہونے کا چیلنج دیا ہے اور کنزہ مرتضیٰ یاد رکھو ہم مرد ذات چیلنج پسند ہوتے ہیں ۔۔۔۔" وہ پھنکارا ۔

" غلط جھوٹ ۔۔میں نے کبھی بھی آپ کو یا آپ کی مرادانہ انا کو چیلنج نہیں کیا ۔۔۔" وہ نظریں جھکا گئی ۔

" نہیں کیا ؟ ۔۔۔۔۔اگر ایسا ہے تو چہرہ اوپر اٹھاؤ اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو یا تم ڈرتی ہو ؟ ۔۔۔" وہ نرمی سے اس پر طنز کرتا ہوا بولا ۔

" مجھے آج بھی یاد ہے وہ دونوں مواقعے جب تم میری بانہوں میں آئیں تھیں اس میں تمہاری مرضی بھی شامل تھی اور میں جانتا تھا کہ تم مجھے پسند کرتی ہو میری طرف اٹریکٹ ہوتی ہو ۔۔۔تو کیا اب میں اتنا بدل گیا ہوں کہ تمہاری ساری اٹریکشن ختم ہوگئی ہے ؟ ۔۔۔۔۔" وہ سوال کررہا تھا جب کنزہ کی آنکھوں میں پانی اترنے لگا ۔

" آپ کبھی بھی نہیں بدل سکتے ، آپ صرف لوگوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئیے استعمال کرتے ہیں آپ بہت پتھر دل ہیں ،سنگدل ،بے رحم ہیں ۔۔۔" وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں نمی پیتے ہوئے بولی۔

" کیا واقعی میں سنگدل ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔" اس نے اپنے بازوؤں میں قید کنزہ کو ایک جھٹکا دیا ۔

" ڈیم اٹ ! میں تم سے پیار کرتا تھا ، تمہیں پیار کرنا چاہتا تھا اور آج پھر تمہیں پیار کرنے کی خواہش ابھر رہی ہے ۔۔۔میں نے یہ بات تسلیم کی تھی کھل کر کہی تھی اور آج بھی کہہ رہا ، تو کیا پیار کا اظہار کرنا سنگدلی یا بے رحمی ہے ۔۔۔" وہ غرایا ۔

" پیار ؟ ۔۔اس سب میں پیار کو مت گھسیٹیں یہ لفظ آپ کو سوٹ نہیں کرتا آپ کو تو اس کا مطلب بھی نہیں پتہ ہوگا اور اگر ۔۔۔۔۔۔" وہ چٹخ اٹھی تھی اس کی آواز بھرا گئی تھی ۔

" اگر آپ کو پیار کرنے کی اتنی ہی خواہش محسوس ہورہی ہے تو اندر جائیں آپ کی گرل فرینڈ موجود ہے اپنی خواہش ادھر پورا کریں ۔۔۔۔" کنزہ نے پورا زور لگا کر اس کا حصار توڑنے کی کوشش کی ۔

" نہیں اس کے پاس نہیں جانا کیونکہ اسے دیکھ کر میرے اندر وہ جذبات نہیں جاگتے جو تمہیں دیکھتے ہی بھڑک اٹھتے ہیں ۔۔۔" وہ بےباکی سے بولا ۔

" آپ ۔۔۔۔۔" کنزہ کے رگ رگ میں شعلے سلگ اٹھے تھے ۔

" آپ دھوکے باز ہیں ۔۔۔میں آپ سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت ۔۔۔۔۔" وہ چلائی اس کی شفاف کانچ سی آنکھوں سے دکھ بے بسی غم سب صاف جھلک رہے تھے اگر وہ اذیت میں تھی تو اتنے عرصے سے وہ بھی اس سے کم اذیت میں تو ہرگز نہیں تھا ۔

" تو میں دھوکے باز ہوں ۔۔۔۔" وہ اچانک سے اسے اپنے حصار سے آزاد کرگیا ۔

" میں دھوکے باز ہوں ۔۔۔۔تم ذرہ برابر بھی نہیں بدلیں ۔۔۔ " وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جارہا تھا ماحول میں ایک عجیب سی خاموشی تاری ہوگئی تھی صرف ہوا اور پتوں کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی ۔

"کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ہم میں سے اصل تہمت لگانے والا ،بدنام کرنے والا کون تھا ۔۔۔" اذلان افگن کی بھاری آواز نے ماحول پر تاری سناٹے کو توڑا۔

" میرے ساتھ آؤ ،کچھ ایسا ہے جو کم سے کم تمہیں ضرور دیکھنا چاہئیے ۔۔۔۔" اس نے سرد لہجے میں کہا تو ایک کرب کی لہر کنزہ کے وجود میں اٹھی تھی وہ ساکت سی اپنی جگہ فریز ہوگئی تھی ۔

" کسی مرد کو ، اس کی خواہشات کو ، اس کے جذبات کو موت کے گھاٹ کیسے اتارا جاتا ہے یہ بھلا تم سے بہتر کون جانتا ہوگا ؟ ۔۔۔۔۔" وہ سفاکی سے کہہ رہا تھا اور گرم گرم سا سیال کنزہ مرتضیٰ کی آنکھوں سے بہتا ہوا اس کا پورا چہرہ بھگو گیا تھا ۔

*-----*-----*

وہ ساکت سی کھڑی تھی اب نہ جانے وہ اسے اور کیا دکھانے والا تھا ۔

" لیٹس گو ۔۔۔۔" اذلان نے اس کے وجود میں کوئی حرکت نہ پاکر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ گھر کے پچھلے دروازے کی طرف لے گیا جہاں سے اوپر اس کے پورشن میں جانے کے لئیے الگ سے سیڑھیاں تھیں ۔

کنزہ کو ساتھ لئیے وہ اوپر اپنے پورشن میں لایا اور ایک بند دروازے کے سامنے آکر رکا ۔

دروازہ لاک تھا۔

" یہی رکو ۔۔۔۔" وہ برف سے لہجے میں اسے دروازے کے پاس چھوڑ کر اپنے روم میں گیا اور دو تین منٹ میں وہاں سے اس لاک کمرے کی چابی لے کر باہر نکلا جو شاید اس کا آفس نما اسٹٹڈی روم تھا ۔

کنزہ کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اس نے وہ کمرہ کھولا ۔

پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا کھڑکیوں پر گہرے دبیز پردے تھے روشنی کی ایک جھری تک نہیں تھی ۔

ازلان نے دیوار پر ہاتھ مار کر لائٹس کا سوئچ آن کیا ۔

کمرے میں اچھی خاصی خنکی تھی بالکل اپنے مالک کے مزاج جیسی ۔۔۔۔۔۔

ازلان افگن اپنی ڈیسک پر رکھے پیپرز اور فائلز کو الٹ پلٹ کرتا ہوا کچھ ڈھونڈ رہا تھا ۔

" اہممم ۔۔۔" کنزہ نے بڑی مشکل سے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا ۔

"آپ مجھے ادھر کیوں لائے لیں ہیں ؟ اگر یہاں کچھ ایسا ہے جس سے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے اس واہیات ناممکن آئیڈیا پر مجھے عمل کرنے پر مجبور کرینگے تو سن لیجئے میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی ۔۔۔۔" وہ اب اس سب سے اکتا چکی تھی کانٹریکٹ ملے نہ ملے یہ انکل جارج کا ہیڈک تھا وہ جتنی مدد کرسکتی تھی کرچکی تھی ۔

ازلان افگن نے اس کی بات پر کوئی رسپانس نہیں دیا تھا اور اب وہ میز کی درازیں چیک کررہا تھا ۔

" میں اب ارسلان سے کبھی بھی نہیں ملونگی اور نہ ہی میں اسے ایسا کچھ بھی کرنے پر مجبور کرونگی جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو وہ پہلے ہی بہت کچھ سہہ چکا ہے اب میں اسے مزید سہنے پر مجبور نہیں کرونگی ۔۔۔ سنا آپ نے ۔۔۔۔" اس کی آواز بلند ہوگئی تھی ۔

پر وہ اسی طرح اسے نظرانداز کئیے اب الماری کھول چکا تھا جس میں سے اس نے ایک چمڑے کا بیگ نکال کر میز پر رکھا ۔

اس بیگ پر بھی نمبر لاک لگا ہوا تھا ۔لب بھینچے ہوئے اس نے وہ لاک کھولا ۔

پورا بیگ پیپرز اور فائلز سے بھرا ہوا تھا وہ تیزی سے ان سب پیپرز اور فائلز نکال نکال کر میز پر پٹختا جا رہا تھا آخرکار اس کے ہاتھوں سے ایک بڑا خاکی لفافہ ٹکرایا ۔۔۔

اس نے کنزہ کو جتاتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے اس بڑے سے اینویلپ کو کھولا ۔

اس کے اندر تصویریں تھی مختلف سائز کی پورٹ فولیو سائز تصویریں ۔۔۔

وہ سیدھا کھڑا ہوا اس کی چہرے پر اس کوئی ایکسپریشن نہیں تھے ۔

" کیا تمہیں یہ یاد ہے ؟ ۔۔۔۔۔" اس نے وہ تصویریں کنزہ کی طرف بڑھائیں جس کا دل اس وقت ایک ان جانے خوف سے زور زور سے دھڑک رہا تھا چہرے کی رنگت زرد پڑی ہوئی تھی اور ہونٹ بالکل خشک جیسے برسوں سے پانی کے پیاسے ۔۔

" انہیں دیکھوں کنزہ ۔۔۔۔" اس نے زبردستی وہ تصویریں آگے بڑھ کر اس کے ہاتھوں میں تھمائیں ۔۔

کنزہ کے تو بدن میں جیسے خون کی ایک رمق بھی نہیں بچی تھی ۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے اس نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں زبردستی تھمائی گئیں تصاویر کو دیکھا ۔

"ی یہ یہ ۔۔۔۔یہ آپ کو کدھر سے ملیں ؟ ۔۔۔۔" وہ بڑی مشکلوں سے بولی ۔

"یہ پکس ؟ یہ تین سال پہلے میں نے خریدی تھیں ایک ایڈ ایجنسی سے ۔۔۔۔" کنزہ کو اس کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی

" ایڈ ایجنسی ؟ ۔۔۔۔" اس نے دہل کر اذلان کو دیکھا ۔

اذلان نے اس کے ہاتھ سے ان تصاویر کا لفافہ واپس لیا اور ایک تصویر نکال کر اسے بغور دیکھنے لگا اس کے چہرے پر غضبناک سے تاثرات تھے آنکھوں میں جیسے خون اترا ہوا تھا اور کنزہ ۔۔۔

اس نے شرمندگی سے اپنی آنکھیں میچ لی تھیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔۔۔

اس نے شدت سے اس وقت خدا سے اپنی موت مانگی تھی ۔۔۔۔

" تم کل بھی وینس کی طرح تھیں ایک خوبصورتی کا مجسمہ جسے پانے کی چاہ میں ہاروت اور ماروت کو چاہ بابل میں سزا ملی اور آج ۔۔۔۔" وہ استہزایہ انداز میں اس کی بند آنکھوں اور لرزتے ہوئے لبوں کی کپکپاہٹ کو دیکھتے ہوئے ہنسا ۔

" میں تمہاری اس خوبصورتی اور چارم سے انکار ہرگز نہیں کرونگا کہ آخر میں بھی تو اسی کا شکار ہوا تھا ۔۔۔۔۔" اس نے دو انگلیوں سے کنزہ کی بند آنکھوں پر لرزتی کوئی پلکوں کو چھوا ۔

" ایک بات تو بتاؤں ! ایک لڑکی کو اس طرح کا کام کرنے کے لئیے کتنی ہمت چاہئیے ہوتی ہے ؟ یوں برہنہ ہو کر کیمرے کا سامنا کرنا اپنے آپ کو ، اپنے حسن کو دنیا کے لئیے ایکسپوز کرنا، کیا یہ آسان ہوتا ہے ؟ ۔۔۔۔۔خیر میں سلیوٹ کرتا ہوں اس فوٹوگرافر کو جس نے تمہارے اس بے داغ حسن کو اس طرح کیمرے کی آنکھ سے نمایاں کیا ہے کہ یہ ایک آرٹ بن گیا ہے ۔۔۔۔" ۔۔۔وہ طنز کررہا تھا ۔

" انہوں نے قسم کھائی تھی کہ کوئی بھی ان تصاویر کو دیکھ کر مجھے نہیں پہچان سکے گا یہ ۔۔۔۔ " وہ سسکی ۔

" یہ ایک اسپیشل میڈیکل اسکن کینسر اسائنمنٹ اسٹٹڈی کے لئیے لی گئی تھی اور انہوں نے کہا تھا ایسی اسٹٹڈی کے لئیے پروفیشنل ماڈلز نہیں لئیے جاتے ۔۔۔۔ " وہ بمشکل آنسو پیتے ہوئے بولی تھی ۔

" تم اور تمہاری یہ معصومیت ۔۔۔۔ " وہ دھاڑا تھا ۔

" مجھے آج تک اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی ہے میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ۔۔۔۔۔" اس کی آواز بھرا گئی ۔

" مگر میں مجبور ہوگئی تھی مجھے پیسوں کی شدید ضرورت تھی ۔۔۔۔۔" اس نے اپنی آنکھیں مسلی کہ جو ہوچکا تھا وہ اسے پلٹ نہیں سکتی تھی اور اگر وہ ان تصاویر کی ساری سچائی اس بے رحم سنگدل انسان کو بتا بھی دیتی تو اس نے کون سا اس کا یقین کرلینا تھا ۔

" مگر یہ آپ کو کس نے اور کیوں دیں ؟ ۔۔۔" کنزہ نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے ان تصاویر کو لفافے میں واپس ڈالا ۔

" یہ نیویارک ہے ! سوئیٹ ہارٹ ، یہاں ایڈ کمپین میں یہی سب ہوتا ہے اور یہ تصاویر پلے بوائے کیلنڈر کے لئیے دس ملین ڈالر میں بیچی گئی تھیں ظاہر ہے ایشین مسلم بیوٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے میں اس وقت اتفاق سے وہی تھا اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں میں نے خرید لیا ،اب سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ اس بار افگنز بھی اپنی ماڈل بدل لیتے ہیں اور ان تصاویر کو اپنے کمپنی کمپین میں استمعال کرلینگے ۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتا ہوا اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھ رہا تھا۔

" آپ ۔۔۔۔۔۔" کنزہ کی نس نس میں خوف اتر آیا تھا ۔

" آپ ایسا نہیں کرینگے ۔۔۔۔۔" اس کے لبوں سے سرگوشی میں نکلا ۔

"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں ایسا نہیں کرونگا ؟ ۔۔۔" اس نے کڑے لہجے میں سوال کیا جس پر کنزہ کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے تھے وہ یہ کیسے بھول گئی کہ ازلان افگن ایک سنگدل بے رحم انسان تھا ۔۔۔۔

" میں لوگوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئیے استعمال کرتا ہوں ! میں پتھر دل ،سنگدل ،بے رحم ہوں ! یہی کہا تھا نا تم نے ؟ ۔۔۔"اذلان نے ابرو اچکا کر اسے اس کے کہے الفاظ یاد دلائے ۔

" تم تو تین سال پہلے ہی ان تصاویر کی پوری قیمت وصول کرچکی ہو اور میں ٹھہرا پکا بزنس میں اب اتنا پیسہ لگایا ہے تو اسے ضائع تو نہیں ہونے دونگا ! میرے لئیے صرف بزنس اہم ہے میری جان ۔۔۔۔۔" وہ بڑے سکون سے اس کی اطمینان کی دھجیاں اڑا رہا تھا ۔

یہ تھا اس کا دوسرا کارڈ ۔۔۔یعنی اگر وہ اس کی بات سے انکار کرتی ہے تو وہ اس کی ان تصاویر کو ۔۔۔۔۔اس سے آگے سوچ کر وہ لرز اٹھی ۔

" اچھی طرح سوچ لو میں تم سے بعد میں بات کروں گا ۔۔۔۔" وہ لفافہ واپس الماری میں لاک کرکے کمرے سے نکل گیا تھا ۔

*----*----*

اذلان افگن کے جانے کے بعد وہ بڑی مشکل سے خود کو گھسیٹتی ہوئی اپنی لئیے مختص کمرے میں آئی تھی اس کا چہرہ جیسے صدیوں کا بیمار لگ رہا تھا وہ اس وقت پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی مگر ۔۔۔

کمرے میں اس کے بیڈ پر ماریہ انعام بڑے آرام سے بیٹھی اس کا ہی انتظار کررہی تھی ۔

ماریہ نے کنزہ کے تھکے تھکے انداز اور سفید پڑتے چہرے کو بغور دیکھا اور سیدھی ہوئی ۔

" مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔"

" پلیز ابھی نہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے سر تھامتے ہوئے انکار کیا ۔

" مگر مجھے بات کرنی ہے اور ابھی کرنی ہے ۔۔۔" وہ ضدی لہجے میں بولی ۔

" دیکھو اس وقت میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے ..."

" تم دیکھنے میں بھی بہت تھکی ہوئی اور بیمار لگ رہی ہو ۔۔۔۔" ماریہ نے اطمینان سے اس کے نالج میں اضافہ کیا ۔

" اچھا سنو کیا تمہیں بیہوشی سی تاری ہوتی تو نہیں محسوس ہورہی ؟ بتا دو تاکہ میں پیٹر کو بلا لوں وہ ایک ٹرینڈ نرس ہے ۔۔۔" ماریہ نے نرمی سے پوچھا

" نہیں ! اس کی ضرورت نہیں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔" کنزہ نے منع کیا ۔

" ٹھیک ہو تو پھر مجھ سے بات کرو ۔۔ " ماریہ نے سختی سے کہا ۔

"تم کیا چاہتی ہو ؟ ۔۔۔ " کنزہ بیڈ کے کنارے کو پکڑتی ہوئی بیٹھ گئی ۔

" میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تم کیا گیم کھیل رہی ہو ۔۔۔" ماریہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔

" گیم ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے تاسف سے اسے دیکھا ۔

" تمہیں جو کہنا ہے کہہ دو اور پھر پلیز یہاں سے چلی جاؤ ، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں اس وقت کوئی بحث لڑائی نہیں کرنا چاہتی ،میں اچھا فیل نہیں کررہی ۔۔" وہ تھکے تھکے لہجے میں بولی


"اوہ ! تم اچھا فیل نہیں کررہی ۔۔۔۔تو تمہارا یوں اچانک سے ہماری زندگی میں واپس آنا ! کبھی سوچا ہے مجھے کیسا فیل ہوتا ہوگا ۔۔۔۔" ماریہ پھنکاری ۔

" میں یہاں خود سے نہیں آئی ! مجھے انوائیٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔" وہ کمزور لہجے میں بولی ۔

" جھوٹ ۔۔۔سب جھوٹ ۔۔۔تم یہاں اس لئیے آئی ہو کہ اذلان افگن چاہتا ہے کہ میرا اور ارسلان کا بریک اپ ہوجائے اور اسے لگتا ہے کہ تم یہ بریک اپ کروا سکتی ہو ۔۔۔مگر تم ایسا نہیں کرسکتی اور اگر تم تھوڑی سی بھی عقلمند ہو تو ایسا کرنے کی کوشش بھی نہیں کرو گی ۔۔۔" ماریہ نے اسے وارن کیا ۔

"جب تین سال پہلے بھی تمہیں ارسلان سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تم اسے انکار کرچکی تھیں تو اب ۔۔۔۔" ماریہ رکی اس کی سانس پھول رہی تھی چہرہ غصے سے سرخ تھا ۔

" اب بھی تمہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہئیے چلی جاؤ یہاں سے نکل جاؤ اس گھر سے ، ہماری زندگیوں سے دور چلی جاؤ ۔۔۔" وہ کھڑی ہوکر چلائی ۔

" ماریہ ! ۔۔۔۔ " کنزہ نے ہمت کرکے اسے پکارا اور اس کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔

"میرا ارسلان سے کوئی تعلق نہیں ہے ہم صرف اچھے دوست ہیں میں اس کا برا نہیں چاہتی نہ چاہوں گی ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔

" میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اس کا اچھا برا سوچنے کے لئیے میں ہوں ۔۔۔" ماریہ چٹخ کر بولی ۔

" میں جانتی ہوں ۔۔۔۔" کنزہ نے نرمی سے کہا ۔

" یہاں سب سمجھتے ہیں کہ وہ ارسلان کا بھلا چاہتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ کیا چاہتا ہے سب اندھے ہیں سب کو وہ ڈرگز لیتا نظر آتا ہے لیکن وہ ڈرگز کیوں لیتا ہے یہ کوئی نہیں سوچتا وہ راتوں کو سو نہیں پاتا وہ اکیلا ہوتا ہے اسی لئیے وہ کبھی تمہیں کال کرکے اپنے دن بھر کی روداد سنا کر وقت کاٹتا ہے تو کبھی مجھے ۔۔۔۔اسے کسی کا ترس ،کسی کی ہمدردی نہیں چاہئیے وہ صرف جینا چاہتا ہے اپنی ٹرمز پر ۔۔۔نشہ اس کے دماغ سے معذوری کو نکال دیتا ہے پر کوئی بھی اسے نہیں سمجھتا نہ اس کا بڑا بھائی ،نہ ماں اور نہ تم ۔۔۔۔۔" ماریہ روہانسی ہوگئی ۔

" سب اس کے پیچھے پڑے تھے کہ آپریشن کرا لو ،اس نے سوچ سمجھ کر پیچھا چھڑانے کے لئیے تمہاری واپسی کی شرط رکھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اذلان افگن کبھی بھی تمہارے پاس نہیں جائے گا اور نہ ہی تم کبھی واپس آؤں گی لیکن سب الٹا ہوگیا وہ تمہیں واپس لے آیا ۔۔۔" ماریہ نے انکشاف کیا ۔

" اگر وہ آپریشن کروا لے تو پھر سے چل پھر سکتا ہے معذوری ختم ہوسکتی ہے ۔۔۔نشہ ڈرگز یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔" کنزہ نے سمجھانے کی کوشش کی ۔

" آپریشن ؟ تم جانتی بھی ہو اس کی ریڑھ کی ہڈی اور دماغ دونوں کا ہوگا اور وہ مر بھی سکتا ہے اس میں ۔۔۔۔" ماریہ نے اسے گھورا

" ارسلان ابھی ینگ ہے وہ یہ آپریشن کی سختی برداشت کرسکتا ہے ۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے ازالان کے کہے الفاظ دہرائے ۔

" سب یہی کہتے ہیں ۔۔۔۔" ماریہ روتے ہوئے فرش پر بیٹھ گئی ۔

" کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ وہ اندر سے کتنا خوف زدہ ہے ؟ اسے پیار چاہئیے ،موٹیویشن چاہئیے تاکہ وہ دل سے خوف نکال کر اس آپریشن کے لئیے خود تیار ہو ۔۔۔" ماریہ نے روتے ہوئے کہا ۔

" دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اس سے بڑھ کر اور کیا موٹیویشن ہوسکتی ہے ؟ ۔۔۔۔۔" کنزہ نے سمجھانے کی کوشش کی ۔

" اگر تم ہماری زندگی میں واپس نہیں آتیں تو سب آسان ہوتا ۔۔۔۔" ماریہ کی یہ بات کنزہ کو تیش دلا گئی ۔

" اوہ فار گاڈ سیک ماریہ ! میں یہاں دوسری بار آئی ہوں اور میں نے ایسا کیا کردیا ؟ ۔۔۔۔"

" مسز افگن ! چھٹیاں منانے دو ماہ کے لئے کروز پر گئی ہوئی ہیں ۔وہ ارسلان کو بھی زبردستی ساتھ لے جانا چاہتی تھیں مگر میں نے ارسلان کو روکا کیونکہ ان کے پیچھے ہمارا شادی کرنا آسان تھا اور اب تک تو ہماری شادی ہو بھی گئی ہوتی اگر تم بیچ میں نا آتیں ۔۔ "

" شادی ! ۔۔۔۔" کنزہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔

" کیا ازلان افگن یہ شادی ہونے دیتا ؟ اور ایک لمحے کو مان لو تم اور ارسلان شادی کربھی لیتے تو تم اس کی اکیلے دیکھ بھال کیسے کرتیں؟ تم لوگ کہاں رہتے ؟ کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ ایک معذور آدمی کی کتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ؟ یہ سب پاگل پن ہے ماریہ ! تم ابھی بہت چھوٹی ہو صرف اٹھارا سال کی تم یہ ساری ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتیں ۔۔۔۔"

" میں پاگل نہیں ہوں اور میں نے سب پلان کیا ہوا ہے لیکن اگر میں تمہیں اپنا پلان بتا بھی دوں تو مجھے لگتا ہے بجائے میری اور ارسلان کی مدد کرنے کے تم الٹا جا کر اذلان کو میرا پلان بتا دو گی ۔۔۔۔"ماریہ نے اسے اپنا خدشہ صاف صاف بیان کیا ۔

" نہیں ! اذلان اگر اس دنیا کا آخری آدمی بھی ہوا تو میں کبھی اس کے پاس جا کر بات کرنا پسند نہیں کرونگی ،اگر تم مجھے بتانا نہیں چاہتی تو مت بتاؤ مجھے کوئی کنسرن نہیں ہے ۔۔۔" وہ نرمی سے بولی تو ماریہ تیزی سے اچھل کر اس کے سامنے آئی اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئیے ۔

" میں چاہتی ہوں کہ میں اور ارسلان سب سے چھپ کر سیکرٹ شادی کرلیں وہ بھی ستائیس سال کا ہے اور میں بھی اب اٹھارا سال کی ہوگئی ہوں ہم دونوں کی لیگل ایج ہے ہم کورٹ میرج کرسکتے ہیں کوئی ہمیں روک نہیں سکتا اور مجھے لگتا ہے پیٹر بھی اس سلسلے میں میری اور ارسلان کی مدد ضرور کریگا جیسے ڈاکٹر وزٹ کے بہانے وہ ارسلان کو کورٹ لے آئیگا میں پہلے ہی ادھر چلی جاؤں گی اور یوں ہم دونوں سب سے چھپ کر شادی کرکے واپس آجائیں گے ۔۔۔اور مناسب وقت آنے تک کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے ۔۔۔" ماریہ نے اسے پلان بتایا ۔

" یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ماریہ ۔۔۔۔" کنزہ نے اسے ٹوکا ۔

" ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی ۔۔۔" ماریہ جلدی سے بولی ۔

" میں جانتی ہوں یہ سب آسان نہیں ہے مگر یہ ایک پراپر میرج ہوگی ارسلان معذور ضرور ہوا ہے لیکن معذوری نے اسے نامرد نہیں بنایا وہ ایک بھرپور مرد ہے اس کے بھی جذبات ہیں ۔ بس ایک بار شادی ہوجائے تو اذلان افگن کچھ بھی نہیں کرسکے گا اور اگر کیا بھی تو زیادہ سے زیادہ ہمیں اس گھر سے نکال دے گا تو میرا اپنا گھر موجود ہے میرا باپ میرے لئیے کڑوڑوں کی جائیداد چھوڑ کر مرا ہے وہ کس دن کام آئیگی اور اگر مجھے ارسلان کے لئیے دن رات مزدوری بھی کرنی پڑی تو میں کرونگی یہ سب مجھے پریشان نہیں کرتا ۔۔۔۔" اس کی باتوں سے کنزہ کو اس پر فخر محسوس ہورہا تھا وہ ایک بہادر لڑکی تھی کو اپنی محبت کے لئیے ہر حد سے گزرنے کو تیار تھی ۔

" اس کے بعد کیا ہوگا ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" پھر وہ ایک دن آپریشن کے لئیے خود خوشی خوشی تیار ہوگا اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔" ماریہ آنکھیں بند کرکے جذب سے بولی .

" اور اگر وہ کبھی بھی آپریشن کے لئیے تیار نہیں ہوا تو ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے اسے تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہا ۔

"نہیں وہ انکار نہیں کریگا ۔۔۔" ماریہ جوش سے بولی ۔

" دیکھو کنزہ ! اگر ابھی اس حالت میں ، میں اس سے شادی کرتی ہوں تو وہ جان جائے گا کہ مجھے اس کی معذوری سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی میں کبھی اسے آپریشن کا کہونگی لیکن ۔۔۔۔۔" وہ شرمائی .

" جب میں پریگنینٹ ہو جاؤں گئی اور ہمارا بچہ آنے والا ہوگا تو دیکھنا وہ خود صرف اور صرف اپنے بچے اور اس بچے کو ایک اچھی زندگی دینے کے لئیے یہ آپریشن خود کرانے پر رضامند ہوگا میں تو بس اسے اس کی زندگی میں ایک امید دینا چاہتی ہوں ۔۔۔۔" وہ شرمائی شرمائی سی بول رہی تھی ۔

کنزہ نے تحسین سے اسے دیکھا اب وہ اسے پسندیدگی سے دیکھ رہی تھی یہ چھوٹی سی لڑکی واقعی ارسلان کے قابل تھی ۔

" تم اسے بہت پیار کرتی ہوں نا ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔

" آف کورس میں اس سے پیار کرتی ہوں بہت سارا پیار کرتی ہوں اور اب سے نہیں تین سال سے کرتی آرہی ہوں ، میں نے آج تک اس کے سوا کسی اور مرد کو نہ دیکھا نہ سوچا ۔۔۔مجھے ارسلان کے ساتھ ریلیشن میں رہنے کے لئیے اپنے پیرنٹس سے ، اذلان سے سب سے لڑنا پڑا اور ۔۔۔۔ " وہ رک گئی ۔

" میں اور ارسلان کچھ ایسا شئیر کرتے ہیں جس نے ہمیں باندھ لیا ہے اب ہم چاہیں بھی تو مرتے دم تک الگ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس حقیقت سے بھاگ سکتے ہیں اس لئیے ہم دونوں کے لئیے بہتر یہی ہے کہ ہم شادی کرلیں اور ایک ساتھ اپنی ساری زندگی شئیر کریں چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔۔۔۔" ماریہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہی تھی ۔

پورے کمرے میں موت کا سا سناٹا چھا گیا تھا کنزہ مرتضیٰ بھی تو ارسلان افگن کے ساتھ ایک ایسا راز شئیر کرتی تھی جسے وہ مر کر بھی کسی کو بتانا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔

" اب تم پلیز یہاں سے چلی جاؤ تاکہ میں سکون سے ارسلان سے شادی کرسکوں ۔۔ " کمرے کے سناٹے کو ماریہ کی آواز نے توڑا ۔

" سنو ۔۔۔۔" کنزہ نے پرسوچ نظروں سے ماریہ کو دیکھا ۔

" کیا تم میرے لئیے کچھ کرسکتی ہو ؟ ۔۔۔۔" اس نے ماریہ سے سوال کیا .

" یہ تو ڈیپینڈ کرتا ہے کہ تم کیا کروانا چاہتی ہو ۔۔۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی ۔

"میں یہاں سے صبح ہوتے ہی چپ چاپ خاموشی سے نکل جانا چاہتی ہوں مگر مجھے نہ اس شہر کے ریلوے اسٹیشن کا پتہ ہے نا ٹرین کی ٹائمنگ کا دوسرا میرا بیگ بھی پتہ نہیں کدھر ہے ۔۔۔۔"

" یہ تو بڑا آسان کام ہے تم صبح ریڈی رہنا میں تمہیں خود اسٹیشن چھوڑ دونگی اور رہا بیگ تو وہ ارسلان کے کمرے میں ہے وہ سو جائے تو میں تمہیں رات ہی لادونگی ۔۔۔" ماریہ نے اس کی ساری مشکلیں آسان کردی تھیں ۔

*----*----*

وہ دونوں سویرے ہی ٹرین اسٹیشن پر موجود تھیں ماریہ نے اس کا ٹکٹ بھی خود ہی خریدا تھا ۔

کنزہ کی ونڈو سیٹ تھی وہ اسے ٹرین میں بٹھا کر خداحافظ کہتی ہوئی نیچے اترتے اترتے رکی ۔

" کنزہ ! تم اذلان افگن میرے جیٹھ جی کی فکر مت کرنا میں اسے بریک فاسٹ کے بعد بتا دونگی کہ تم یہاں سے جاچکی ہو ۔۔۔۔"

ٹرین اسٹارٹ ہوچکی تھی ماریہ خداحافظ کہتی نیچے اتر گئی تھی اور کنزہ ۔۔۔۔

وہ کھڑکی سے سر ٹکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔

وہ کانٹریکٹ ۔۔۔۔۔

وہ تصاویر ۔۔۔۔

انکل جارج ۔۔۔

اس کا ماریہ کے ساتھ مل جانا ۔۔۔۔

یہ سب اس کے دماغ میں گڈمڈ ہورہا تھا ۔۔۔۔۔

وہ صاف کہہ چکا تھا کہ اس کے لئیے سب صرف ایک بزنس ہے ۔۔

وہ واقعی ایک بے رحم پتھر دل انسان تھا ۔۔۔

مگر ۔۔۔۔

کنزہ مرتضیٰ کو اس سے محبت تھی ۔۔اٹوٹ محبت ۔۔۔۔

*-----*------*

کنزہ مرتضیٰ کو نیویارک واپس آئے کئی دن ہوگئے تھے وہ ان دنوں مسلسل ذہنی اذیت کا شکار رہی تھی ۔ اس کا یوں خاموشی سے ویگاس سے چلے آنا بنا اذلان افگن کو بتائے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا ۔اسے توقع تھی کہ اذلان اس سے رابطہ کریگا اسے سخت سنائے گا ، کانٹریکٹ کی بات کریگا پر ایسا کچھ نہیں ہوا وہ روز رات کو سونے سے پہلے ڈرتے ڈرتے اپنا فون چیک کرتی تھی مگر اس پر ازلان افگن کا کوئی میسج کوئی مسڈ کال یا نوٹیفکیشن نہیں ہوتا تھا اور ازالان تو ایک طرف ارسلان نے بھی اسے کوئی کال کوئی میسج نہیں کیا تھا ۔

دو دن بعد اس نے آفس بھی واپس سے جوائن کرلیا تھا انکل جارج نے تو اس سے کانٹریکٹ کے بارے میں پلٹ کر بھی نہیں پوچھا تھا وہ ابھی تک ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے ان کے دل کے والو نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا سارا بزنس میتھیو بلیک ان کا پارٹنر دیکھ رہا تھا اور وہ کنزہ سے خوش نہیں تھا۔۔

میتھیو کو لگتا تھا کہ کنزہ نے شاید وین ہٹ کے لئیے کانٹریکٹ حاصل کرنے کی ٹھیک طرح سے کوشش ہی نہیں کی ۔

ابھی بھی کنزہ اس کے کمرے میں فائل لے کر داخل ہوئی تو میتھیو نے اسے بغور دیکھا ۔

" مس کنزہ ! تم روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہوں اور دیکھنے میں بیمار لگنے لگی ہو ۔۔۔۔" وہ اس کے پریشان ٹینشن زدہ چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔

کنزہ بھی کیا کرتی ؟ وہ ازلان کے خوف سے ٹھیک طرح سے نہ سو پاتی تھی نا ڈھنگ سے کھانا پینا کررہی تھی ۔۔۔

" میں ٹھیک ہوں ۔۔۔" کنزہ نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا ۔

" میرے خیال سے تم کچھ ہفتوں کے لئیے چھٹی پر چلی جاؤ ویسے بھی جارج تو یہاں ہے نہیں جس کی تم پرسنل اسسٹنٹ ہو تو جاؤ آرام کرو ۔۔۔۔۔" میتھیو نے مشورہ دیا ۔

" نہیں میتھیو ! آئی ایم فائن اور انکل جارج نہیں ہیں تو کیا ہوا آپ ان کے حصے کا کام مجھے دیں میں کرلونگی ۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے چھٹی لینے سے انکار کیا کہ وہ ابھی چھٹی لینا افورڈ بھی نہیں کرسکتی تھی اس کے پاس کوئی سیونگ کچھ بھی نہیں تھا اور ہر ماہ اسے اپنے بیچلر پینٹ ہاؤس کا کرایہ دینا ہوتا تھا پھر جو بچتا تھا اس میں گروسری فون بجلی وغیرہ کے بلز ۔۔۔

" ہمم ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی ایسا کرو اپنا نوٹ پیڈ لے آؤ میں افگنز کو لیٹر بھیجنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔" میتھیو نے اسے ہدایات دیں جسے سن کر کنزہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ۔

" بہت ہوگیا یہ بلی چوہے کا کھیل اگر افگنز کو کانٹریکٹ کرنا ہے تو بتا دیں نہیں کرنا تو بھی صاف صاف انکار کریں ہماری کمپنی کب تک ان کی ہاں یا ناں کے بیچ میں لٹکتی رہی گی ؟ آخر یہ افگن اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے ؟ ۔۔۔۔" میتھیو ٹھیک ٹھاک تپا ہوا تھا ۔

کنزہ نے سنجیدگی سے اپنا نوٹ پیڈ کھولا جس پر کمپنی کا لیٹر ہیڈ پرنٹٹد تھا ۔

" ڈئیر مسٹر افگن ۔

وین ہٹ کمپنی گزشتہ تین ہفتوں سے آپ کے فیصلے کا انتظار کررہی ہے ۔اگر آپ کو ہماری کارکردگی یا اسٹاف سے کوئی پرابلم ہے تو ہمیں خوشی ہوگی آپ شیئر کریں تاکہ ہم اس کا حل نکال سکیں ۔

اگر آپ ہمارے ساتھ مزید بزنس نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں آگاہ کریں تاکہ ہم پھر کسی اور کمپنی کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کرسکیں ۔

شکریہ

میتھیو بلیک

چئیر مین

وین ہٹ ۔۔

میتھیو نے خط لکھوا دیا تھا ۔

" مس کنزہ یہ خط آج ہی افگنز کی ٹیبل پر ہونا چاہئے اسے رجسٹرڈ کورئیر کرو ۔۔۔۔"

کنزہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی اس کا ذہن بس یہی سوچ رہا تھا کہ اس خط کو پڑھنے کے بعد ازلان افگن جیسے اناپرست کا کیا ری ایکشن ہوگا ۔۔۔

*-----*-----*

کئی دن گزر گئے تھے جارج انکل کا آپریشن ہوچکا تھا ان کے دل کے دو والو بدلے گئے تھے اور آج ہی وہ آفس سے واپسی پر ان سے ملنے ہاسپٹل آئی تھی ڈاکٹر نے اگلے پیر تک انہیں چھٹی دینے کا کہہ دیا تھا ۔

" تمہیں پتہ ہے میں کس قدر تنگ آگیا ہوں ہاسپٹل میں رہتے رہتے بس اب جلدی سے پیر آئے اور میری جان اس ہاسپٹل سے چھوٹے ۔۔۔۔" وہ اپنا ڈرپ لگا ہاتھ دیکھتے ہوئے بولے ۔

" انکل اتنا ایکسائیٹٹڈ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بس جلدی سے ٹھیک ہوں پھر گھر چلینگے ۔۔۔" کنزہ نے انہیں ٹوکا جو اپنے ہاتھ سے ڈرپ نکال رہے تھے ۔اور اب وہ سکون سے تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے اسے دیکھنے لگے ۔

" آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے الجھ کر انہیں دیکھا ۔

' تم اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو ؟ ۔۔۔۔۔ " انکل جارج نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" کیا واقعی انکل میں پریشان لگ رہی ہوں ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سوال کیا ۔

" پتہ ہے کنزہ ! تم بالکل اپنی ماں جیسی ہو ،جب وہ تمہاری عمر کی تھی تو بالکل تمہارے جیسی دکھتی تھی بہت معصوم اور خوبصورت ۔۔۔۔" انکل جارج کے ذہن میں ماضی پر کھولنے لگا تھا ۔۔۔۔


" میں نے پہلی بار تمہاری ماں کو ائیر پورٹ پر دیکھا وہ بمشکل انیس بیس سال کی لڑکی چہرے پر پریشانی لئیے سامان کے ساتھ اکیلی کھڑی تھی ۔۔۔۔"جارج کی آنکھوں میں ایک نازک دلکش سراپا ابھرنے لگا تھا ۔۔۔۔

" ایکسکیوز می ینگ لیڈی ! کیا میں تمہاری کچھ مدد کرسکتا ہوں ؟ ۔۔۔" سرخ و سفید رنگت کا حامل نیلی آنکھوں والا جارج اس پریشان کھڑی دوشیزہ کے پاس آیا ۔۔۔

" لگتا ہے تم انگلش نہیں سمجھتی ۔۔۔۔۔" جارج نے اسے کے ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھنے پر کہا جو سوائے اس کے چاروں جانب گردن گھما کر دیکھے چلی جارہی تھی ۔

جارج کی فلائٹ کا وقت ہورہا تھا وہ اپنا بیگ اور ٹکٹ سنبھال کر ایک ہاتھ میں پاسپورٹ لئیے کاؤنٹر کی طرف بڑھا ۔

وہ اپنا ٹکٹ سیکیورٹی چیک کروا رہا تھا جب اس کی نگاہ شیشوں کے پار کھڑی اس ایشین بیوٹی پر پڑی جس کی سیاہ کانچ سی آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھی وہ بڑے سے دوپٹے میں خود کو چھپا رہی تھی اور دو لمبے تڑنگے کالے اس کے سامنے بئیر کے کین لئیے کھڑے اسے چھیڑ رہے تھے ۔

وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنی فلائٹ کی پرواہ کئیے بغیر تیزی سے باہر نکل کر اس لڑکی کے پاس آیا ۔

" نکلو یہاں سے یہ میرے ساتھ ہے ۔۔۔" وہ نزدیک پہنچ کر ان دونوں لڑکوں کے سینے پر ہاتھ مار کر انہیں پیچھے دھکیلتا ہوا تلخی سے بولا ۔

ان کے جانے کے بعد وہ اس لڑکی کی طرف مڑا ۔

" ایک گھنٹے سے ادھر اکیلی کیوں کھڑی ہو ؟ کیا تمہارے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔" پچیس سال کے جارج نے سختی سے پوچھا ۔

وہ چپ چاپ اپنی آنکھوں میں امنڈتے ہوئے آنسوؤں کو اپنے مومی ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے صاف کرتی ہوئی رخ موڑ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔

"او گاڈ ! کہیں تم گونگی تو نہیں ہو ؟ ۔۔۔۔" جارج پھر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔

" ہ۔۔۔ہم ۔۔۔گونگے نہیں ہیں ۔۔۔۔" وہ بمشکل اٹک اٹک کر بولی ۔۔۔

" تمہارا نام ؟ ۔۔۔۔"

" ثمن ۔۔۔۔" اس کے پنکھڑیوں جیسے لب ہلے تھے ۔

" اکیلی ہو ؟ ۔۔۔۔۔"

" نہیں ۔۔۔۔" اس نے نفی میں سر ہلایا ۔

" کس کے ساتھ آئی ہو ؟ ۔۔۔۔" اس نے اگلا سوال کیا ۔

" ان کے ساتھ ۔۔ "

" ان کے کون ؟ ۔۔۔۔۔" اس لڑکی کے آدھے ادھورے جملے اس کو پسند نہیں آرہے تھے ۔

" وہ میرے ہسبنڈ وہ مجھے ادھر کھڑا کرکے گئے تھے مگر اتنی دیر ہوگئی ابھی تک واپس آئے ہی نہیں ۔۔۔۔" وہ بولتے بولتے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔

" ہسبنڈ ۔۔۔۔" جارج تو شاکڈ ہوگیا تھا یہ چھوٹی سی لڑکی میرڈ تھی اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔

" کتنی دیر ہوگئی ہے ؟ ۔۔۔"

" تین گھنٹے ۔۔۔۔۔"

" اوہ گاڈ ! تم تین گھنٹوں سے ادھر کھڑی ہو ۔۔۔" وہ سخت حیران ہوا ۔

"جی ۔۔۔" اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔

" تمہارے ہسبنڈ کا نام کیا ہے ؟ ۔۔۔۔اور تمہارے پاس کوئی ایڈرس وغیرہ ہے ؟ ۔۔۔۔۔" جارج نے پوچھا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ آدمی اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔

" کیوں ؟ ۔۔۔۔۔" وہ گھبرائی اجنبی ملک میں ایک اجنبی پر وہ کیسے اعتبار کرتی ۔

" تمہیں گھر چھوڑنا ہے اس لئیے ، جلدی کرو ۔۔۔۔" وہ نرمی سے بولا

" وہ آتے ہی ہونگے ۔۔۔۔۔" وہ لڑکی مرے مرے لہجے میں بولی ۔

جارج نے غور سے اسے دیکھا جس کی ابھی تک امید قائم تھی ۔

" ہوسکتا ہے وہ تمہیں بھول گیا ہو ؟ ۔۔۔" اس نے بڑی مشکل سے خود کو وہ تمہیں جان کر چھوڑ گیا ہے ورنہ کوئی جیتی جاگتی لڑکی کو بھی بھولتا ہے وہ بھی جو اس کی بیوی ہو ۔۔۔کہنے سے روکا تھا ۔

" ان کا نام مرتضیٰ ہے اور یہ ہمارا ویزہ اس پر ان کے گھر کا پتہ ہے ۔۔۔۔" وہ اپنے پرس میں سے کچھ ڈاکیومنٹ نکال کر اسے تھماتے ہوئے بولی کہ ساری رات تو وہ بھی ائیرپورٹ پر کھڑی نہیں رہ سکتی تھی اور نہ ہی اس دیار غیر میں وہ کسی کو جانتی تھی ۔

پیپرز دیکھنے کے بعد جارج نے اس کا بیگ اٹھایا اور اسے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے اسے ساتھ لئیے اندر گراؤنڈ پارک اینڈ فلائے پارکنگ میں آگیا جہاں اس کی اسپورٹس کار پارک تھی ۔

پچھلی سیٹ پر اس نے ثمن کا بیگ رکھا اور آگے کا دروازہ کھول کر اس کے بیٹھنے کے بعد دروازہ لاک کیا اور خود بھی گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ۔

کچھ ہی دیر میں گاڑی نیویارک کی مصروف شاہراہوں پر دوڑ رہی تھی ۔

نیویارک کی جگمگاتی ہوئی سڑکیں چمکتے ہوئے نیون سائن بورڈ تیزی دوڑتی بھاگتی ہوئی زندگی ۔۔۔

وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی جب ایک گھر کے آگے جارج نے گاڑی روکی ۔

" لیجئے میڈم آپ کا گھر آگیا ہے ۔۔۔۔" وہ خوشدلی سے بولا تو وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی نیچے اتری ۔

" بہت شکریہ ۔۔۔۔" وہ مدھم لہجے میں اس کا شکریہ ادا کرکے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس اجنبی سے گھر کی طرف بڑھ گئی ۔

اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا تھا وہ اندر چلی گئی ۔

اس لڑکی کے گھر کے اندر چلے جانے کے بعد جارج نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ایک الوداعی نظر اس گھر پر ڈالتے ہوئے آگے نکل گیا ۔

گلی کے نکڑ پر پہنچتے ہی اسے اس لڑکی کے بیگ کا خیال آیا جسے وہ گاڑی میں ہی بھول گئی تھی ۔

وہ گہری سانس بھرتے ہوئے واپس پلٹا کہ بیگ تو لوٹانا ہی تھا ۔

*-----*------*

وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ آہستگی سے دروازہ کھولتی ہوئی اندر داخل ہوئی پورا گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا بس ملگجی سی روشنی تھی ۔

" سنئیے ۔۔!! "

" مرتضی ۔۔۔۔" وہ دھیمے دھیمے اسے آواز دیتی ہوئی آگے بڑھی اور ایک کمرے کے باہر آکر رک گئی کہ اندر سے ہلکے ہلکے میوزک کی آواز آرہی تھی اور ساتھ ہی کسی لڑکی کی آوازیں ۔۔۔۔

وہ سخت شرمندہ ہوئی ۔۔۔

" ہم شاید کسی غلط گھر میں آگئے ہیں ۔۔۔۔" وہ پلٹنے لگی تھی کے سائیڈ پر رکھے گلدان سے ٹکرا گئی ۔

" کون ہے ادھر ۔۔۔۔۔"۔ ایک بھاری مردانہ آواز ابھری اور وہ سن سی کھڑی رہ گئی ۔۔۔۔یہ اس کے شوہر مرتضی کی آواز تھی۔

ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا تھا اور بنا شرٹ کے مرتضی اس کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے بنا لباس ایک گوری لڑکی کھڑی تھی ۔

" تم ۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔" مرتضی اسے دیکھ کر غرایا پھر پلٹا ۔

" ہنی تم اندر میرا ویٹ کرو ۔۔۔۔"۔ اس گوری لڑکی کو واپس روم میں جانے کا کہہ کر دروازہ بند کیا

" تم یہاں کیسے اور کس کی اجازت سے آئی ۔۔۔"وہ سختی سے اس کا جبڑا بھینچے سوال کررہا تھا جو اس وقت صرف اور صرف شاکڈ تھی ۔

ایک سال سے وہ اپنے کزن مرتضی کے نکاح میں تھی جو اسے یہاں بلانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا ابھی بھی پورے خاندان کے دباؤ اور جائیداد سے عاق کردینے کی دھمکی پر وہ اسے ہزار باتیں سناتا ہوا پشاور سے نیویارک لایا تھا اور ائیر پورٹ پر بس ابھی آیا کہہ کر جو گیا تھا واپس ہی نہیں پلٹا تھا اور اب یہاں اس طرح ۔۔۔ وہ سسک اٹھی ۔

مرتضی نے ایک جھٹکے سے اس کا جبڑا چھوڑا تو وہ ڈگمگا کر رہ گئی ۔

" ادھر تک کیسے پہنچی تم ؟ ۔۔۔۔۔" وہ اب اس کی گردن پکڑ کر غرایا

" انہیں میں لایا ہوں ۔۔۔۔" جارج جو بیگ لوٹانے اندر آیا تھا تیزی سے ثمن کا بیگ فرش پر رکھ کر آگے بڑھا اور ایک جھٹکے سے مرتضی کو بازو سے پکڑ کر دور دھکیلتے ہوئے ثمن کی گردن چھڑائی ۔

" یو راسکل ۔۔۔۔" مرتضیٰ مغظلات بکتا ہوا جارج کی طرف لپکا ۔

" انہیں کچھ مت کہیں انہوں نے تو ہماری مدد کی ہے ۔۔۔" ثمن روتے ہوئے بولی ۔

" اوہ ! تو آتے ساتھ ہی یاریاں بھی بنالیں ۔۔۔۔" مرتضی نے کڑی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ثمن پر طنز کیا ۔

" آپ ہمیں غلط سمجھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔" ثمن نے صفائی دینا چاہی پر وہ کچھ کہنے سننے کو آمادہ نہیں تھا ۔

" گیٹ آؤٹ فرام مائی ہوم ۔۔۔۔" مرتضی نے جارج کو دھکا دیا تو وہ تاسف سے ثمن کو دیکھتا ہوا باہر نکل گیا ۔

" اپنا سامان اٹھاؤ ۔۔۔۔" مرتضی نے ثمن کو حکم دیا تو وہ کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے بیگ اٹھاکر پلٹی ۔

" یہ گیسٹ روم ہے تم ادھر ٹہرو گی اور خبردار نینسی کو کچھ کہا تو ۔۔۔۔" وہ اسے ایک کمرے میں چھوڑ کر واپس اپنے بیڈروم میں نینسی کے پاس چلا گیا ۔

نیا ملک ،نیا گھر اور اس کا شوہر برابر والے کمرے میں ایک غیر عورت کے ساتھ ۔۔۔۔

وہ اکیلی اس اجنبی کمرے میں دیوار سے ٹیک لگاتی ہوئی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔۔۔

*----*----*

ثمن کو نیویارک آئے تین دن ہوگئے تھے وہ یہاں اب مزید رہنا نہیں چاہتی تھی مرتضی میں ہر طرح کی برائی تھی وہ شراب پیتا تھا اس کی گرل فرینڈ تھی حرام حلال اسے کسی چیز کی تمیز نہیں تھی اور ٹمن کو تو اس نے پلٹ کر نہیں پوچھا تھا ۔

وہ اپنی اس ناقدری پر اور اپنے شوہر کی بیوفائی اور بےحیائی پر خوش نہیں تھی پر افسوس نا اس کے پاس کوئی فون تھا نہ ہی کوئی اور ذریعہ کہ وہ پاکستان اپنے گھر بات کرسکتی۔

ثمن کے پاس دادا جان کی دی ہوئی رقم موجود تھی لیکن اکیلے ائیر پورٹ جانا جبکہ اسے یہاں کے راستے بھی پتہ نہیں تھے ، پاکستان واپسی کی سیٹ بک کروانا یہ اس نازک سی لڑکی کے لئیے جو اس اجنبی شہر میں تنہاء تھی اور نہ ہی وہ اس ملک کی زبان اچھے سے بول سکتی تھی اس کے لئیے بہت مشکل تھا ۔۔۔۔

آج بھی صبح دس کے قریب مرتضی اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ اپنے کام پر چلا گیا تھا وہ گھر کی صفائی کرکے کچن میں چلی آئی کہ گھر اور کچن کی ساری ذمہ داری مرتضی زبردستی اس کے سر ڈال چکا تھا وہ اس کے لئیے بس ایک ملازمہ ہی تو تھی ۔

اپنے لئیے چائے بنا کر وہ اداس سی کرسی پر آکر بیٹھ گئی وہ چائے پی رہی تھی جب بیل بجنا شروع ہوئی وہ اپنا کپ میز پر رکھ کر اٹھی اور دروازہ کھولا ۔

"ہیلو بیوٹیفل لیڈی ۔۔۔۔" سامنے ہی وہ ائیر پورٹ والا خوشکل ہینڈسم انگریز کھڑا تھا ۔

" آ۔۔۔آپ ۔۔۔۔" وہ اسے دیکھ کر پریشان ہوئی ۔

" اندر نہیں بلاؤ گی ؟ ۔۔۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔

" مم میں اکیلی ہوں ۔۔۔۔۔" ثمن نے مشکل سے کہا کہ وہ ایک طرح سے اسکا محسن تھا پر وہ چاہ کر بھی اس کی مہمان نوازی نہیں کرسکتی تھی ۔

" تم ٹھیک تو ہوں نا ؟ اور تمہارا وہ چیٹر ہسبنڈ کدھر ہے ؟ ۔۔۔۔" جارج اس کی پریشانی بھانپ گیا تھا اسی لئیے وہی دروازے میں کھڑا ہوگیا ۔

" کیا آپ ۔۔۔۔" کچھ لمحوں کی خامشی کے بعد ثمن نے نظریں اٹھائیں تو وہ لڑکا اسے ہی بڑے اطمینان سے سکون سے دیکھ رہا تھا ۔

" جارج ۔۔۔۔میرا نام جارج ہے ۔۔۔۔" وہ اس کے نظریں چرانے پر مسکرایا ۔

" کیا آپ میری مدد کرینگے ؟ ۔۔۔۔" وہ ہچکچاتی ہوئی بولی نہ جانے کیوں یہ اجنبی اسے اپنا سا لگا تھا ۔

" اسی لئیے تو آیا ہوں ۔۔۔" جارج کی زبان سے پھسل گیا اب وہ سامنے کھڑی لڑکی کو کیسے بتاتا کہ جس دن سے اس نے ثمن کو دیکھا تھا وہ سو تک نہیں پایا تھا اس کا دل بس ثمن کا اسیر ہوگیا تھا شاید یہی لو ایٹ فرسٹ سائٹ کہلاتا تھا۔

"آپ ۔۔۔۔" وہ رکی ہاتھ مسلے ۔

"کیا آپ ہمارا پاکستان واپسی کا ٹکٹ کروا سکتے ہیں ؟ ۔۔۔۔" ثمن نے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔

" کیوں ؟ ۔۔۔۔" وہ چونکا ۔

" ہمیں واپس جانا ہے ۔۔۔۔" وہ اٹل لہجے میں بولی ۔

جارج نے سنجیدگی سے سامنے کھڑی دلربا سی لڑکی کو دیکھا ۔

" تم ۔۔۔۔" اس کی سمجھ نہیں آیا کیا کہہ کر اسے تسلی دے جس کا شوہر اس کے سامنے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ تعلق بنائے ہوئے تھا اور وہ اسی کے گھر اسی کی چھت کے تلے رہ رہی تھی ۔۔

" سب سے پہلے تم یہ گھر چھوڑ دو ۔۔۔۔" جارج کے الفاظ سن کر وہ چونکی ۔

" اسی لئیے تو آپ سے مدد مانگ رہے ہیں ہمارے پاس پیسے پاسپورٹ سب ہے لیکن ہمیں ٹکٹ لینا ائیرپورٹ جانا نہیں آتا ۔۔۔۔" وہ مایوسی سے بولی ۔


" کہاں کا ٹکٹ کرانا ہے ؟ ۔۔۔۔" جارج اس مشکل وقت میں اس کی مدد کرنے کو تیار ہوگیا تھا ۔

" پشاور پاکستان کا ۔۔۔۔" وہ ہاتھ مسلتی ہوئی بولی ۔

" آپ رکیں میں پیسے لاتی ہوں ۔۔۔۔" وہ اسے وہی دروازے پر چھوڑ کر اندر گئی اپنا بیگ کھول کر اندر سے ڈالر کی گڈی نکالی جو دادا جان نے چلتے ہوئے زبردستی اس کے پرس میں دلوائی تھی اور باہر آئی ۔۔

دروازہ کھولا ۔۔

" لیجئے ہم پیسے لے آئے ہیں ۔۔۔۔"مگر دور دور تک کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔۔وہ جا چکا تھا ۔۔۔

*------*------*

مرتضی نے نیا نیا لیدر کا کاروبار شروع کیا تھا اور اس میں اس کا یونیورسٹی فیلو شہاب افگن اس کی مدد کررہا تھا۔

شہاب افگن کا تعلق ایک مشہور بزنس گھرانے سے تھا وہ شادی شدہ تھا اور اس کے بچے تھے بڑا اذلان افگن اور چھوٹا ارسلان ۔۔۔

ابھی بھی وہ شہاب افگن کے آفس میں آیا ہوا تھا جب دروازہ کھول کر نینسی اندر داخل ہوئی ۔

" ہیلو ۔۔۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتی ہوئی شہاب سے ہاتھ ملا کر مرتضی کے پہلو میں بڑے استحقاق سے بیٹھ گئی تھی

" یہ لانچ ہم بڑے لیول پر کرینگے سارے اخبار نیوز چینلز فیشن انڈسٹری سب کو انوائیٹ کیا جائیگا ۔۔۔۔" وہ دونوں پارٹنر اپنی نئی ونٹر لانچ کی بات کررہے تھے اور نینسی خاموش تھی ۔

" سب ٹھیک تو ہے ؟ تمہارا موڈ کیوں آف ہے ۔۔۔۔" شہاب افگن نے اس کی بیزاری نوٹ کرلی تھی ۔

" شہاب کیا تمہیں پتہ تھا کہ مرتضی شادی شدہ ہے ؟ ۔۔۔۔ " نینسی نے شہاب افگن سے ڈائریکٹ سوال کیا ۔۔

" آر یو جوکنگ نینسی ۔۔۔۔" شہاب افگن نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا ۔

" نو آئی ایم ناٹ ! تمہارے دوست نے مجھے چیٹ کیا ہے ۔۔۔۔۔" وہ پھٹ پڑی ۔

" اتنا ڈرامہ کیوں کررہی ہو تم ؟ میں بتا تو چکا ہوں میرا اس کا کوئی فزیکل ریلشن نہیں ہے ۔۔" مرتضی پھٹ پڑا ۔

" تو پھر وہ تمہارے گھر میں کس حیثیت سے رہ رہی ہے مسٹر مرتضیٰ ؟ ۔۔۔۔ " نینسی نے چمک کر پوچھا جبکہ شہاب اب تک حیرت سے یہ سارا معاملہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔

" جس دن سے وہ آئی ہے الگ روم میں رہ رہی ہے تم ہر رات میرے ساتھ ہوتی ہو پھر بھی مجھ پر اعتبار نہیں ؟ ۔۔۔ "

" ویٹ آ منٹ تم دونوں چپ کرو ۔۔۔۔" شہاب نے ان دونوں کو سختی سے ٹوکا ۔

" لسن مرتضی ! افگنز کا ایک نام ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اس وقت جب تم میرے ساتھ کوئی بزنس شروع کررہے ہو میری کمپنی تمہاری وجہ سے کسی اسکینڈل کا شکار ہو ۔۔۔ " شہاب افگن سختی سے بولا ۔

" شہاب میری بات سنو ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔" مرتضی نے اسے کلئیر کرنا چاہا ۔

" تم اس لڑکی کو یا تو ایکسیپٹ کرلو اور میڈیا کے سامنے اپنی بیوی کی حیثیت سے متعارف کراو یا پھر اس لانچ سے پہلے اسے چھوڑ دو ۔۔۔۔" شہاب افگن سفاکی سے بولا ۔

" چھوڑ دوں ؟ ۔۔۔۔" مرتضی ہچکچایا کہ وہ اس کی خاندانی بیوی تھی جس سے پیچھا چھڑانے کا مطلب ساری آبائی جائیداد کا ہاتھ سے نکلنا تھا ۔

" میں یہ لانچ دو ماہ ڈیلے کررہا ہوں تم اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرلو پھر اس پر بات کرینگے ۔۔۔۔" شہاب افگن نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ۔

" اوکے ۔۔۔۔" مرتضی پژمردگی سے بولتا ہوا اٹھا جب کافی دیر سے خاموش بیٹھی نینسی کھڑی ہو کر اس کے سامنے آکر رکی ۔

" مرتضی سوری ! مگر میں اب تمہارے ساتھ مزید ریلیشن شپ میں نہیں رہ سکتی کاش تم مجھے پہلے بتا دیتے کہ تم شادی شدہ ہو تو میں کبھی بھی تمہاری گرل فرینڈ بننا پسند نہیں کرتی ۔۔۔۔" نینسی نے بھی اس سے بریک اپ کرلیا تھا۔ مرتضی بالکل خاموش ہوگیا تھا اور غصہ پیتے ہوئے افگنز کے آفس سے نکل کر سیدھا گھر کی طرف روانہ ہوا تھا ۔

غصے میں کافی دیر تک گاڑی فضول میں سڑکوں پر دوڑانے کے بعد وہ شام ڈھلے گھر میں داخل ہوا گاڑی کی چابیاں اچھال کر کاؤنٹر پر ڈالتے ہوئے اس نے اپنا کوٹ اتار کر وہی صوفے پر پھینکا اور تھکے قدموں سے اپنے بیڈروم کی طرف بڑھا ۔۔۔

برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اس کے قدم تھمے ۔۔۔

پھر کچھ سوچ کر وہ بنا دستک دئیے ثمن کے کمرے میں داخل ہوگیا جہاں سامنے ہی جائے نماز بچھائے وہ نماز پڑھ رہی تھی ۔

وہ جوتوں سمیت ہی اس کے بستر پر گر سا گیا تھا اور اب پرسوچ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کی نماز کے ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا ۔

ثمن اس کی کمرے میں آمد بھانپ چکی تھی لرزتے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے نماز کے بعد دعا کے لئیے ہاتھ اٹھائے ۔

"میں ساری رات تمہارے فارغ ہونے کا انتظار نہیں کرسکتا ! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔۔" وہ بے تاثر لہجے میں بولا تو وہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی ۔

" میرا اور تمہارا کوئی جوڑ نہیں تھا اور نہ ہی میں تم سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھو کہ میرے نصیب میں تم ہی لکھی تھیں خیر میں تمہیں صاف صاف بتا رہا ہوں کہ جلد یا بدیر میں دوسری شادی ضرور کرونگا ۔۔۔۔۔" وہ کھڑا ہوا ۔۔۔

" چلو ۔۔۔۔۔" اس نے سنجیدگی سے ثمن کو حکم دیا ۔

" کدھر ؟ ۔۔۔۔" تحیر بھرے انداز میں اس کے ہونٹوں میں جنبش ہوئی ۔

" میرے بیڈروم میں ۔۔۔۔۔" وہ خشک لہجے میں بولا ۔

" کک ک کیوں ۔۔۔۔ " ثمن کی آواز لڑکھڑا گئی تھی

" اسی لئیے تو آئی ہو نا ادھر تو پھر دیر کس بات کی ۔۔۔۔" وہ زہر خند لہجے میں بولتا ہوا اس کی مومی کلائی سختی سے جکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگا ۔

" چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔۔مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔۔" وہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئی ۔

" مجھے بھی تمہیں چھونے کا کوئی شوق نہیں ہے اور نہ تم کبھی میری خواہشوں میں تھی نہ ہی کبھی ہونگی لیکن مائی ڈئیر وائف جب یہاں تک میری وائف بن کر آہی گئی ہو تو باقی کی ساری فارمیلیٹیز بھی اب تمہیں پوری کرنی ہونگی ۔۔۔" وہ اسے اپنے بیڈ روم میں لاکر بیڈ پر دھکیل چکا تھا ۔

*-----*------*

رات گزر چکی تھی مگر یہ گزری رات ثمن کو ایک زندہ لاش بنا گئی تھی وہ زبردستی ہی سہی مگر اس کی رگ رگ میں اتر چکا تھا اس پر اپنی چھاپ چھوڑ چکا تھا اور اب اس کے سارے پر کٹ چکے تھے وہ چاہ کر بھی واپس نہیں جاسکتی تھی ۔۔۔

ان دونوں کے درمیان کچھ بھی تو کامن نہیں تھا ذہنی ہم آہنگی تک نہیں تھی وہ دونوں جیسے دودریا کے کناروں کی طرح تھے ۔۔۔

مرتضی صبح کا گیا رات گئے گھر آتا تھا کبھی کبھار نشے میں بھی ہوتا تھا وہ ثمن کے سارے حقوق مارے بندھے ادا کررہا تھا ۔۔۔

ایسے ہی دنوں میں ایک دن جارج چلا آیا وہ اس کا ائیر ٹکٹ لایا تھا ۔۔۔

ثمن اس سے بات کررہی تھی جب مرتضی جو اپنی فائل گھر بھول گیا تھا واپس آیا اور اسے ایک گورے مرد کے ساتھ بات کرتے دیکھ کر اس کا خون کھول گیا تھا ۔

ایک جھٹکے سے اس نے آگے بڑھ کر ثمن کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر جتاتی ہوئی نظروں سے جارج کو دیکھتے ہوئے لفافہ کھولا تو اس میں پاکستان کا ٹکٹ دیکھ کر وہ استہزایہ انداز میں مسکرایا اور ٹکٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ثمن پر اچھالتا ہوا اندر چلا گیا تھا ۔

" وہ میں ۔۔" جارج کے سامنے اپنی اتنی بےعزتی ہو اس کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے تھے ۔۔۔

جارج خاموشی سے کچھ بھی کہے بنا وہاں سے چلا آیا تھا ۔۔۔۔

وقت پر لگا کر اڑنے لگا تھا افگنز کے ساتھ مرتضی کا کانٹریکٹ ہوگیا تھا اور اب اکثر مسز شہاب اس سے ملنے آجاتی تھیں ۔

ایسے ہی دنوں میں ثمن کو اپنے ماں بننے کی خبر ملی تو وہ شاکڈ رہ گئی ۔

وقت کے ساتھ وہ دن بدن مرجھاتی چلی جارہی تھی اب تو کئی کئی دن رات مرتضی گھر نہیں آتا تھا انہیں دنوں ان کے برابر والے گھر میں نئے پڑوسی شفٹ ہوگئے تھے ۔۔۔۔

کرسٹین ۔۔۔۔ایک بہت زندہ دل خوش شکل کیتھولک لڑکی ۔۔۔۔۔اس نے ثمن کے پیچھے پڑ کر اس سے دوستی کرلی تھی اور یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔

کرسٹین نے ثمن کو انگلش بول چال سکھانا شروع کردی تھی اسے ڈاکٹر کے لے جاکر باقائدہ چیک اپ کروانا اس کی غذا کا دھیان رکھنا وہ سگی بہنوں سے بڑھ کر ثابت ہوئی تھی ۔

پر قسمت پر کس کا زور چلا ہے اسے لگتا تھا بچے کی پیدائش کے بعد شاید سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ۔۔۔۔۔

اس کا آٹھواں مہینہ شروع ہوا تھا جب مرتضی نے اپنی پسند سے ایک موڈل لڑکی سے دوسری شادی کرلی ۔۔۔۔

بڑے احسانوں کے بعد اس نے ترس کھاتے ہوئے اپنی نئی بیوی کا صدقہ سمجھ کر وہ گھر ثمن کو رہنے کے لئیے دے دیا تھا اور خود نئی بیوی کے ساتھ نئے گھر میں شفٹ ہوگیا تھا ۔

ثمن کے پاس ڈیلوری کے وقت بھی صرف کرسٹین موجود تھی اور جب ثمن کی بیٹی پیدا ہوئی تب وہ اسے گود میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی کوئی اس کی بچی کے کان میں اذان دینے والا بھی نہیں تھا اور رہا مرتضی تو اس نے تو پلٹ کر جھانکا بھی نہیں تھا ۔۔۔

*-------*--------*

"اللہ ہو اکبر ۔۔ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔"

وہ سو رہی تھی جب اذان کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی ۔

سامنے ہی سر پر سفید رومال ڈالے جارج اس کی ایک دن کی بیٹی کو گود میں لئیے ایک ہاتھ میں پیپر تھامے اس میں سے دیکھ دیکھ کر اس معصوم کے کانوں میں اذان دے رہا تھا ۔۔۔

" آپ ۔۔۔۔" اسے دیکھ کر ثمن کی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ ابھرے تھے ۔۔۔

بعد میں ثمن کو کرسٹین سے پتہ چلا کہ جارج ان کا چھوٹا بھائی تھا اور جارج کے کہنے پر ہی وہ اپنا گھر بیچ کر ثمن کے برابر والے گھر میں آئیں تھیں کہ اس کا خیال رکھ سکیں ۔۔۔

کنزہ گڑیا سوا مہینے کہ ہوچکی تھی وہ اسے سلا کر بیڈ پر سر جھکائے بیٹھی تھی کنزہ کی پیدائش کی اطلاع بھجوانے کے باوجود مصطفی نے پلٹ کر اس کی خبر نہیں لی تھی اور نہ کوئی خرچہ بھجوایا تھا ہاسپٹل کے ڈیوز بھی جارج نے ادا کئیے تھے جس پر وہ حد سے زیادہ شرمندہ تھی۔

سوا مہینے کی کیوٹ گول مٹول سی کنزہ اس کی سب پریشانیوں سے بے خبر انگوٹھا منہ میں لئیے میٹھی نیند سو رہی تھی اور ثمن ۔۔

اس کے حسین چہرے پر آنسو کسی جھرنے کی طرح بہے چلے جارہے تھے اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس غیار دیر میں وہ اکیلی اس معصوم بچی کو کس طرح سے پالے گی واپسی بھی ممکن نہیں تھی کہ دادا حضور نے صاف کہہ دیا تھا کہ اب تمہارا جنازہ ہی اس گھر سے نکلنا چاہئیے اور ۔۔۔

اوپر سے کرسٹین اور جارج کے اس پر احسانات بڑھتے چلے جارہے تھے وہ دونوں ہی بہت کشادہ دل کے مہربان لوگ تھے مگر اسے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

جارج ایک باوقار وضع دار مرد تھا اپنی دنیا میں مگن رہنے والا مگر اس کی آنکھوں میں وہ اپنے لئیے محبت دیکھ چکی تھی ۔۔۔وہ خود محبت کے ہاتھوں ڈسی گئی تھی کیسے محبت کو نہ پہنچاتی ۔۔۔

*------*------*

کنزہ کو کرسٹین نے پاس چھوڑ کر وہ نوکری کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی کہ اب زندگی تو بسر کرنی ہی تھی ۔

شام ڈھلے وہ تھکی ہاری واپس لوٹی اور سیدھا کرسٹین کی طرف آئی تو سامنے ہی باغ میں جارج گلابی سی گول مٹول کنزہ کو گود میں اٹھائے اس سے کھیل رہا تھا ۔۔۔

وہ تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھی ۔۔۔

"ہیلو ۔۔۔۔"

" تم آگئی ؟ دیکھوں کنزہ تمہاری ممی آگئی ۔۔۔" جارج نے کنزہ کو اچھالا تو وہ بچی کھلاکھلا کر ہنس پڑی ۔

" لائیں اسے مجھے دے دیجئیے ۔۔" ثمن نے اس کے ہاتھوں سے کنزہ کو لیا اور وہاں سے جانے لگی تھی جب جارج کی بھاری گھمبیر آواز نے اسے روکا ۔

" ثمن ۔۔۔مجھ سے شادی کرینگی ۔۔۔؟ ۔۔۔۔" اس کے قدم تھم سے گئے تھے وہ اپنی جگہ فریز ہوگئی تھی جب جارج چلتا ہوا اس کے سامنے آکر رکا ۔

" میں ایک عام سا انسان ہوں لیکن آپ کو خوش رکھ سکتا ہوں آپ کے اور ہماری بیٹی کے لئیے تحفظ فراہم کرسکتا ہوں بس مجھے صرف اپنے دل میں تھوڑی سی جگہ دے دیجئیے ۔۔۔۔۔۔" وہ اسے پرپوز کررہا تھا ۔۔۔

" نہیں پلیز ہم ایسا نہیں کرسکتے ۔۔۔۔" ثمن کے لب ہلے تھے ۔

" اگر آپ مذہب کی وجہ سے ایسا کہہ رہی ہیں تو میں اسلام قبول کرنے کے لئیے تیار ہوں بس آپ ہامی تو بھریں ۔۔۔۔"

" ہم ! مصطفی کے نکاح میں ہیں ۔۔۔۔۔" ثمن نے اسے سمجھانا چاہا پر وہ بات کاٹ گئے

" آپ جانتی ہیں کہ وہ آپ کا نہیں ہے اس نے آپ کو آج تک اپنی بیوی تسلیم ہی نہیں کیا ہے اس سے علیحدگی اختیار کرنا آپ کا حق ہے ثمن ۔۔۔۔" جارج نے سمجھایا ۔۔۔

" ہم سب جانتی ہیں ان کی دوسری شادی کی بھی ہمیں خبر ہے ۔۔۔۔جارج آپ ایک بہت اعلی ظرف نفیس انسان ہیں میں آپ کے احسانات کبھی بھی نہیں بھول سکتی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔" وہ رکی ۔

" آپ کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کرلیجیے پہلے ہی مرتضی آپ کو لیکر ہماری کردار کشی کرچکا ہے اب مزید الزامات لگے تو ہم جیتے جی مرجائیں گئے آپ پلیز ہمارے لئیے ،ہماری خاطر کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کرکے یہاں سے بہت دور چلے جائیں ۔۔آپ کو ہماری قسم ہے ۔۔۔۔۔" وہ اسے بولنے کا موقع دئیے بغیر ہی موت کی سزا سنا گئی تھی ۔

ہاسپٹل کے کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی کنزہ آنکھوں میں عقیدت لئیے جارج انکل کو دیکھ رہی تھی جنہوں نے دور جا کر بھی ان ماں بیٹی کی خبر گیری میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔

"لڑکی اب تم جاؤں تھوڑا آرام کرو میں بھی کچھ دیر سوؤں گا ۔۔۔۔" جارج انکل نے اسے زبردستی گھر بھیجا تھا۔

" کاش آپ میرے والد ہوتے ۔۔۔" کنزہ مرتضیٰ نے جارج کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگائے ۔

" بچپن سے لے کر آج تک مجھے جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑی ہمیشہ آپ ہی آگے آئے سگا باپ تو پیدا کرکے بھول ہی گیا تھا ۔۔۔۔" اس کے لہجے میں مرتضیٰ کے لئیے شدید نفرت تھی ۔

" ممی کے بعد جب سب کچھ ختم ہوگیا تھا تو آپ نے مجھے تحفظ دیا میرے سر پر ہاتھ رکھا مجھے وین ہٹ میں کوئی کام نہ آتے ہوئے بھی جگہ دی مجھے دوبارہ زندہ رہنے پر مجبور کیا ورنہ ممی کے بعد تو مجھے لگا تھا کہ میرا زندہ رہنا بھی بیکار تھا ۔۔۔۔اور وہ میرا باپ ۔۔۔۔" وہ زخمی سی ہنسی ہنسی ۔۔۔

" اس نے ایک لمحے کو بھی میرا نہیں سوچا اور وہ گھر بیچ دیا اگر آپ نہیں ہوتے تو میں کب کی سڑکوں پر رُل کر مر چکی ہوتی ۔۔۔" کنزہ کے لہجے میں کانچ کی کرچیاں سی بکھر رہی تھیں ۔

انکل جارج نے تاسف سے اسے دیکھا ۔۔۔۔


" جانتی ہو میں ثمن سے شادی کرنا چاہتا تھا اسے اور تمہیں دونوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا پر وہ ایک خالص مشرقی عورت تھی جس کے لئیے اس کی ،اس کے ماں باپ اور خاندان کی عزت بہت اہم تھی ۔تمہارے دادا آدھی جائیداد ثمن کے نام کرگئے تھے یہی وجہ تھی کہ مرتضی اسے طلاق نہیں دینا چاہتا اور نہ ہی اسے بسانا چاہتا تھا ۔اتنی جائیداد کے ہوتے ہوئے بھی ثمن نے سسک سسک کر چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے تمہیں پالا پوسا اور ۔۔۔۔۔" انکل جارج چپ ہوگئے کمرے میں سناٹا سا چھا گیا تھا ۔

" کنزہ ! تم ہوبہو اپنی ماں جیسی ہو اور یہی بات مجھے پریشان کرتی ہے تم یوں اس طرح ساری زندگی اکیلی نہیں رہ سکتیں، تمہیں کسی ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو تمہیں پیار کرے ، تمہارا دھیان رکھے تمہاری ٹیک کئیر کرے ، میری مانو تو شادی کرلو ۔۔۔۔"

"انکل پلیز ۔۔۔۔" کنزہ نے شکایتی نظروں سے انہیں دیکھا ۔

" میں مانتا ہوں اپنے باپ کی وجہ سے تمہیں مردوں پر اعتبار نہیں رہا لیکن بچے پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ۔۔۔۔" انکل جارج نے اسے سمجھایا ۔

رات گزر چکی تھی صبح کا اجالا پھیلنے لگا تھا کرسٹین آنٹی ناشتہ لے کر ہاسپٹل پہنچ چکی تھیں وہ کچھ دیر ان کے پاس رک کر واپس اپنے گھر چلی آئی تھی ۔

گھر پہنچ کر اس نے ٹھنڈے یخ پانی سے اپنا منہ دھویا اور آئینے کے آگے کھڑی ہو کر اپنی پوری توجہ اپنے بالوں کو سلجھانے اور پھر نائٹ کریم چہرے پر لگانے میں لگا دی اس کی پوری کوشش اذلان افگن کو اپنے ذہن سے دور رکھنے کی تھی ۔

*--------*--------*

پورا دن پوری رات وہ سوتی رہی تھی ۔گزرے چھ سات ماہ میں پہلی بار وہ اتنی گہری نیند سوئی تھی ۔

اگلے دن صبح کے وقت اس کی آنکھ کھلی تھی انگڑائی لیتے ہوئے وہ اٹھی اور جب گھڑی پر نظر گئی تو چونک گئی وہ چوبیس گھنٹے سے زائد سوتی رہی تھی ۔

جلدی سے بستر چھوڑ کر وہ آفس کے لئیے تیار ہونے لگی جینز پر سفید کرتا اور گلے میں اسکارف پہن کر اس نے اپنے بالوں کی اونچی پونی بنا کر اپنا بیگ اٹھایا دروازے کے پاس آکر شو ریک سے اپنے جاگرز اٹھا کر پہنے اور فلیٹ لاک کرتی ہوئی آفس جانے کے لئیے نکل گئی ۔

وین ہٹ پہنج کر وہ مین بلڈنگ کے اندر داخل ہوئی پورا آفس آج سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا نہ ٹائپ رائیٹر کی کھٹ کھٹ کی آوازیں آرہی تھیں اور نہ ہی اسٹاف کی باتیں کرنے کی ۔

وہ چاروں طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھی ۔

سامنے میتھیو کے آفس کے باہر اپنی اپنی ڈیسک پر اکاؤنٹنٹ ہاورڈ اور الیزبتھ دونوں خاموش بیٹھے ہوئے تھے دوسرے اسٹاف کے لوگ حتی کہ چپراسی بھی وہی موجود تھا۔

" کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے حیرت سے ان سب کو دیکھا اور میتھیو کے دروازے کی طرف بڑھی ۔

" ابھی اس وقت اندر جانا مناسب نہیں ہے میں تمہاری جگہ ہوتا تو کبھی بھی اندر نہیں جاتا ۔۔۔۔" ہاورڈ نے اسے ٹوکا تو وہ رک گئی ۔

" کیوں ؟ آخر ہوا کیا ہے ؟ ۔۔۔۔" اس نے سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھتے ہوئے ہاورڈ سے سوال کیا ۔

" میں شیور تو نہیں ہوں مگر اتنا جانتی ہوں کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔"خاموش بیٹھی الیزبتھ نے رائے دی ۔

" اندر کون کون ہے ؟ ۔۔۔۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" میتھو سر ہیں ،ان کے ساتھ جارج سر کے بیٹے مسٹر ٹائیلر ہیں اور سنا ہے شاید کمپنی بند ہو جائے گی پھر خدا جانے ہماری نوکریوں کا کیا ہوا ۔۔۔۔" الیزبتھ نے پریشانی سے جواب دیا جسے سن کر کنزہ مرتضیٰ نے یکدم سے اندر جانے کا فیصلہ کیا اور کمرے کے اندر چلی آئی جہاں میتھو بلیک اور سترہ سال کا ٹائیلر جارج سر پکڑے بیٹھے ہوئے تھے ۔

" سر ۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے میز کے نزدیک آکر پریشانی سے ان دونوں کو دیکھا ۔

" یہ چیک کرو ۔۔۔۔" میتھیو نے ایک سفید لفافہ اس کے سامنے کیا ۔

کنزہ نے میتھیو اور جارج کو دیکھتے ہوئے وہ لفافہ کھولا ۔

مسٹر میتھیو بلیک !

میں پرسنلی آپ کو انفارم کرتا ہوں کہ اس وقت افگنز کا کچھ معمالات کی وجہ سے آپ کی کمپنی کے ساتھ سپلائے کانٹریکٹ رینیو کرنے کا ارادہ نہیں ہے ۔

کائنڈلی میرا یہ فیصلہ مسڑ جارج تک پہنچا دیں ۔


اذلان افگن ۔۔۔

چئیر مین افگنز اینڈ سنز


" یہ ۔۔۔۔۔" کنزہ نے پاس پڑی کرسی پر گرفت مضبوط کی ۔

" اس نے منع کردیا ہے میں اب ڈیڈ کو کیا کہوں گا ڈاکٹر نے پہلے ہی سختی سے انہیں ہر طرح کا اسٹریس لینے سے منع کیا ہوا ہے ۔۔۔" ٹائیلر پریشانی سے بولا ۔

" یہ کوئی چھوٹی بات نہیں بہتر ہے جارج کو سب صاف صاف بتا دیا جائے میں آج آفس ٹائم کے بعد ہاسپٹل جاؤں گا ۔" میتھو دو ٹوک فیصلہ کن انداز میں بولا ۔۔

وہ دونوں آپس میں باتوں میں لگے ہوئے تھے اور کنزہ وہ خط ہاتھ میں لئیے بس اس کی سطروں کو گھورے چلی جارہی تھی ۔

" کنزہ سسٹر ! کل رات تم ڈیڈ کے پاس تھی نا تمہارا کیا خیال ہے وہ یہ خبر جھیل سکیں گے ؟ ۔۔۔۔" ٹائیلر نے اسے پکارا ۔

" نو ۔۔ نہیں ۔۔ ابھی انہیں کچھ بھی بتانا مناسب نہیں ہے ۔۔۔۔" وہ جلدی سے بولی ۔

" ڈیم اٹ ! تم دونوں سمجھتے کیوں نہیں یہ فیکٹری ، جارج کا گھر سب اس کانٹریکٹ کے ختم ہوتے ہی ختم فنش ۔۔۔۔۔دی اینڈ ۔۔ ہمیں اسے بتانا چاہئے وہ ایک تجربہ کار آدمی ہے کیا پتہ کوئی آپشن اس کے پاس ہو یا کوئی بیک اپ پلان ۔۔۔ " میتھو نے غصے سے ان دونوں کو دیکھا ۔

" میں آج شام جارج سے بات کرنے جارہا ہوں ۔۔۔ ٹائیلر تم ساتھ آؤں گے یا میں اکیلا ہی یہ کام کروں ؟ ۔۔۔ " میتھیو سختی سے بولا ۔

" نہیں پلیز ۔۔۔۔۔مم ۔۔ میرے پاس ایک اور آئیڈیا ہے بس آپ ایک دن رک جائیں بس صرف کل تک رک جائیں پلیز ۔۔۔۔" کنزہ نے میتھو کی منت کی ۔

" فار گاڈ سیک کنزہ ! تم ایک دن میں کیا کر لوگی ؟ ۔۔۔" میتھیو نے اپنا سر پکڑ لیا تھا ۔

" میں ازلان افگن سے ملونگی ان سے بات کرونگی میں پوری کوشش کرونگی کہ وہ اپنا یہ فیصلہ بدل لیں اس کے لئیے چاہے مجھے جو بھی کرنا پڑے میں کرونگی ۔۔۔۔" وہ عزم سے بولی ۔

" کیا ازالان افگن جیسا اپنی بات پر قائم رہنے والا ،ضدی آدمی اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے ؟ ۔۔۔" میتھیو نے الٹا سوال کیا ۔

" نہیں ! مگر مجھے ایک کوشش تو کرنے دیں ۔۔۔۔" اس کے بس گڑگڑانے کی کسر رہ گئی تھی ۔

اس پوری دنیا میں اس کا اب انکل جارج کے علاوہ تھا ہی کون ؟ اور انکل جارج کے اس پر ، اس کی ماں پر بےشمار احسانات تھے جن کا وہ شمار بھی نہیں کرسکتی تھی تو ایسے کیسے وہ انہیں اسٹریس لے کر مرتا ہوا دیکھ لیتی ؟ ۔۔۔۔

" ٹھیک ہے کل شام چھ بجے تک کا وقت ہے تمہارے پاس اس کے بعد ہمیں جارج کے سامنے ساری حقیقت رکھنی ہوگی۔۔۔۔" میتھیو نے تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ اتنا تو وہ بھی جانتا تھا کہ ازلان افگن جیسے پتھر سے نرمی کی امید رکھنا عبث تھا ۔

اس فیصلے کے بعد کنزہ نے شکرمندانہ انداز میں میتھو کو دیکھا اور پھر اس سے اجازت لے کر آفس سے ہی باہر نکل آئی ۔

وہ غائب دماغی سے فٹ پاتھ پر چل رہی تھی ۔۔۔

"کیا مجھے اذلان کو فون کرنا چاہئے ؟؟ ۔"

" نہیں یہ مناسب نہیں ۔۔۔ ۔" وہ خود سے سوال جواب کررہی تھی ۔

اذلان کا ایڈرس وہ گوگل کر چکی تھی وہ ایک بہت مشہور بزنس مین تھا بڑی آسانی سے سرچ ہوگیا تھا۔

" کیا وہ اس وقت گھر پر ہوگا یا اپنے آفس میں ؟ ۔۔۔" کنزہ نے سوچا ۔

" یہ بھی تو ممکن ہے کسی کام کے سلسلے میں شہر سے ہی باہر گیا ہوا ہو ؟ ۔۔۔۔"

وہ الجھی الجھی سی چلتی ہوئی جانے پہچانے راستوں پر قدم اٹھا رہی تھی ۔

*-----*-----*

تقریباً دو گھنٹے تک چلنے کے بعد وہ ایک مشہور و معروف علاقے میں داخل ہوچکی تھی یہاں کافی فاصلے سے بڑے بڑے گھر بنے ہوئے تھے وہ چلتی ہوئی ایک بڑے سے گیٹ کے سامنے آکر رک گئی جس پر " ازلان افگن ۔۔ " کی نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی سائیڈ پر ایک بیل کا بٹن موجود تھا

اس کا چہرہ پسینے سے تربتر تھا ٹانگیں شل ہوچکی تھیں اس نے ہمت کرکے اپنا ہاتھ بیل بجانے کے لئیے اٹھایا ۔

" آج فرائیڈے ہے کیا پتہ وہ گھر پر نہ ہو ویگاس گیا ہوا ہو ۔۔۔۔" وہ رکی تھی بیل بجائے یا نہ بجائے وہ اسی سوچ و بچار میں پڑی ہوئی تھی جب اوپر بالکونی سے اذلان کی آواز ابھری .

" دروازہ کھلا ہوا ہے اندر آجاؤ ۔۔۔۔" وہ بالکونی میں ریلنگ پر دونوں کہنیاں جمائے بڑے اطمینان سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

کنزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔

" میرے خیال سے تم ادھر میری ہی تلاش میں آئی ہو ۔۔۔ " وہ بولتا ہوا اس پر نظریں جمائے نیچے اترنے لگا ۔

" شاید مجھے یہاں نہیں آنا چاہئیے تھا ۔۔۔" کنزہ نے سوچا مگر اب آر یا پار انکل جارج کی خاطر اسے بات کرنی تھی ۔

"اندر آؤ ۔۔۔۔" اذلان دروازہ کھولے کھڑا تھا وہ سرجھکائے اس کی سائیڈ سے ہوتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی ۔

وہ اسے دیکھتا ہوا دروازہ بند کرکے آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لے آیا ۔۔

" ویلکم ہوم ۔۔۔۔" اس نے اندر لاکر اس کا ہاتھ چھوڑا ۔

" کیا لوگی ؟ کافی چائے یا کوئی ڈرنک ۔۔۔۔" وہ اچھا میزبان بنا ہوا تھا۔

" کچھ نہیں شکریہ ۔۔۔" وہ مدھم لہجے میں بولی

" کیا آپ کہیں باہر جارہے تھے ؟ ۔۔۔۔" اس نے برانڈڈ جینز پر پولو شرٹ پہننے اذلان کو دیکھا ۔

" نہیں کبھی کبھار میں گھر پر رکنا پسند کرتا ہوں ۔۔۔" وہ روم فرج سے کوک کا کین نکال کر اس کے سامنے والے صوفے پر پیر پسار کر بیٹھ گیا تھا اور کوک کے سپ لیتے ہوئے مسکراتا ہوا کنزہ کو دیکھ رہا تھا۔

" ویل ! تمہیں آج یہاں اس طرح اچانک سے دیکھ کر مجھے اچھا لگا ۔۔۔اٹس آ گڈ سرپرائز ۔۔۔ " وہ مسکراتے ہوئے اس پر نظریں جمائے اس کی مشکل اور بڑھا رہا تھا ۔

وہ اسے دیکھنے سے کترا رہی تھی اسی لئیے ادھر ادھر کمرے کا ، کمرے کی دیواروں کا جائزہ لیتی ہوئی دل ہی دل میں مناسب الفاظ منتخب کرنے کی کوشش کررہی تھی۔

" آؤ تمہیں گھر دکھاتا ہوں سنا ہے تم لڑکیاں جب پہلی بار کسی کے گھر آتی ہو تو گھر کا ٹور ضرور کرتی ہو ۔۔۔۔" وہ کوک کا کین خالی کرکے کھڑا ہوگیا اس کا موڈ خوشگوار تھا کنزہ کن اکھیوں سے اسے دیکھتی ہوئی کھڑی ہوگئی کہ ابھی اسے اس پل پل بدلتے شخص سے اپنی بات منوانی تھی انکل جارج کا کانٹریکٹ سائن کروانے کی منت کرنی تھی۔

" آؤ ۔۔۔۔" وہ اسے ساتھ لئیے گھر دکھانے لگا ۔

"یہ لیونگ روم ہے اس کے برابر میں یہ ڈرائنگ روم اور یہ ۔۔۔" اس نے دروازہ کھولا

" یہ گیرج کا دروازہ ۔۔۔۔ " اس نے دروازہ بند کیا اور اسے لئیے ایک اوپن کچن میں آگیا جہاں جدید ترین سہولیات موجود تھیں۔

" یہ کچن اس کا آرکیٹیکچر اٹلی سے بلوایا تھا ۔۔۔۔۔" وہ باتیں کرتا اسے لئیے کچن میں آیا اور خود فرج کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔

" تم اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ اتنی دیر سے میں نے جو کچھ بھی کہا ، بتایا تم نے اس کا ایک لفظ بھی نہیں سنا ہے ۔۔ تم ادھر کیوں آئی ہو کنزہ مرتضیٰ ؟ ۔۔۔۔۔" وہ بلا کی سنجیدگی سے اس پر نگاہیں ٹکائے سوال کررہا تھا ۔

کنزہ نے ایک گہری سانس لی ۔۔۔اور اپنا حلق تر کیا ۔

" میں یہاں آپ سے ریکوئسٹ کرنے آئی ہوں ۔۔۔ " اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔

"مم میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں پلیز ۔۔۔۔ "

" کون سے فیصلے پر ؟ ۔۔۔۔" ازلان افگن نے سکون سے سوال کیا ۔

" آپ جانتے ہیں میں کس کی بات کررہی ہوں آج آفس میں آپ کا بھیجا لیٹر ملا تھا ۔۔۔۔" وہ اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے بولی ۔

" اوہ ! تو تم ادھر مجھ سے ملنے نہیں بلکہ بزنس کے لئیے آئی ہو ۔۔۔ " اذلان کا لہجہ خشک ہوا ۔

" نہیں ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔" کنزہ نے اپنی پلکوں کو نم ہونے سے روکنے کی ناکام کوشش کی یوں ایک سنگدل سے کانٹریکٹ مانگنا اس کے لئیے بھیک مانگنے کے ہی مترادف تھا ۔

" میں آپ سے کانٹریکٹ ریجکٹ کرنے کی کوئی لاجیکل ویلڈ ریزن پتہ کرنے آئی ہوں اور آپ نے لیٹر میں لکھا کہ کچھ معاملات کی وجہ سے ابھی یہ کانٹریکٹ آپ ڈیلے کررہے ہیں اس کا کیا مطلب ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

" میرے خیال سے تم اچھی طرح سے جانتی ہو اس کا مطلب ۔۔۔۔" وہ سنجیدہ ہوا ۔

" اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں آپ سے پوچھ نہیں رہی ہوتی ۔۔۔۔" وہ جھلا گئی ۔

" ویری ویل ۔۔۔۔" وہ سیریس ہوا ۔

" میں سوچ رہا کہ وین ہٹ کی بولی لگا دوں ۔۔ "

" واٹ ؟ ۔۔آپ ۔۔۔آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں ۔۔۔ " وہ شاکڈ ہوئی۔

" کیوں نہیں کرسکتا ؟ ۔۔۔۔۔" اذلان افگن نے کڑی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔

"وہ کمپنی بینک کریپٹ ہونے والی ہے یعنی تباہی کے دہانے پر ہے مگر ہم افگنز اسے قابل استعمال بنا لینگے ۔۔۔ " وہ سکون سے بولا ۔

" مگر وین ہٹ سیل پر نہیں ہے ،جارج انکل کا خواب ہے یہ کمپنی اور وہ اپنا خواب کبھی بھی نہیں بیچ سکتے ۔۔۔یہ ممکن نہیں ۔۔۔ " کنزہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولی ۔

" ناممکن کو ممکن بنانا اذلان افگن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے مس مرتضی ۔۔۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔۔" وہ پراعتماد لہجے میں بولا ۔

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا ۔

" آپ نے یہ پلان یقیناً پہلے سے بنایا ہوگا تاکہ آپ کی مردانہ انا کی تسکین ہوسکے ۔۔۔" وہ چٹخ اٹھی ۔


" ٹھیک کہہ رہی ہو ! کافی ہفتے پہلے ہی میں یہ کمپنی خریدنے کا پلان کرچکا تھا بس اسے نیلامی تک لانا باقی تھا وہ ٹارگٹ بھی پورا ہو ہی گیا ہے اور اب تمہارے انکل جارج اور وہ میتھیو نیلامی سے بچنے کے لئیے اسے بیچنا ہی مناسب سمجھیں گے ۔۔۔ "

" اتنے دنوں سے آپ نے یہ سب سوچا ہوا تھا اور مجھ سے ذکر تک نہیں کیا ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

"وہ وقت مناسب نہیں تھا ۔۔۔" اذلان نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا ۔

" مم ۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔۔۔" کنزہ کا نازک سا وجود غم و الم سے لرز اٹھا تھا ہاتھ پیر سرد ہونا شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔

" کیا آپ یہ سب ارسلان اور ماریہ کی وجہ سے یا پھر میری وجہ سے ۔۔۔۔ " وہ ہذیانی انداز میں اسے دیکھ رہی تھی ضبط کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا تھا ۔

" میں ایک بزنس مین ہوں اور میں ہر فیصلہ اپنے بزنس کی بہتری کے لئیے لیتا ہوں وین ہٹ تو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اس کے ساتھ کانٹریکٹ کرنا بیکار ہے ہاں میں اسے خرید کر اس پر انویسٹ کرکے اسے دوبارہ مارکیٹ میں کھڑا کرسکتا ہوں اسے منافع بخش بنا سکتا ہوں ۔۔۔"

" صرف بزنس اور منافع آپ کے لئیے اہم ہے ؟ لوگ ،ان کے جذبات احساسات یہ سب کوئی معنی نہیں رکھتے ؟ ۔۔ " کنزہ نے سوال کیا تو وہ کندھے اچکاتے ہوئے کچن سے نکلنے لگا تو پیچھے سے کنزہ کے لبوں سے نکلتے الفاظ اس کے قدم روک گئے ۔

" اذلان ! پلیز سچ بتائیں کیا یہ سب کچھ جو ہورہا ہے اس کی وجہ میں ہوں ؟کیا آپ یہ سب اس لئیے کررہے ہیں کہ میں جارج فیملی کی دوست ہوں ان سے منسلک ہوں ؟ آپ میرے لئیے ، ارسلان کے لئیے ماریہ کے لئیے کیا فیلنگز رکھتے ہیں یہ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں مگر ۔۔۔ " وہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کے چٹان جیسے وجود کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔

" کیا آپ اپنی پرسنل فیلنگز کی وجہ سے کسی کے کاروبار کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینگے ؟ " وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔

اذلان افگن نے سکون سے اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ۔

" فرض کرو اگر میں کہوں ہاں تو پھر تم کیا کہو گی ؟ ۔۔۔ " وہ ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔

" آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں مجھے یقین نہیں آئیگا اور ۔۔۔۔ " کنزہ کے سرخ گالوں پر آنسو بہنے لگے تھے گھنیری پلکیں نم ہوکر ایک جادو سا کررہی تھیں ازلان افگن نے بڑی دلچسپی سے یہ من پسند منظر دیکھا تھا۔

" مجھے نہیں پتہ ، میں کچھ نہیں جانتی بس اتنا جانتی ہوں کہ آپ کا یہ فیصلہ انکل جارج کا دل توڑ دے گا اور کمپنی کے بہت سے اسٹاف ہرٹ ہونگے ان کی زندگی متاثر ہونگیں صرف ۔۔۔ " وہ سسک اٹھی

" صرف میری وجہ سے ۔۔۔۔ " اس نے آنسوؤں کے بیچ اپنی بات مکمل کی اس وقت اس کے اعصاب جواب دے گئے تھے سر چکرانے لگا تھا ۔۔۔اب یہاں رکنا بیکار تھا وہ پیچھے ہٹی ۔

" میں چلتی ہوں ۔۔۔۔۔" وہ پلٹ کر باہر نکلنے لگی ۔

" کنزہ ۔۔۔۔۔ " اذلان کی بھاری گھمبیر آواز ابھری پر وہ رکی نہیں ، تو وہ بھاری قدم اٹھاتے ہوئے اس کے عین سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔

" میں تمہیں سمجھ نہیں پارہا جارجز کے ساتھ تمہاری اتنی وفاداری ، ان کے بزنس کے لئیے تمہارا اتنا پریشان ہونا کہ تمہاری خود کی جان پر بن آئی یہ سب نارمل تو نہیں ؟ ایسا کیوں ؟ ۔۔۔ " وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔

" کیا مطلب ؟ ۔۔ " کنزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔

" کوئی بھی عورت بنا کسی مطلب یا رشتے کے لئیے کسی کے ساتھ اتنی وفادار نہیں ہوتی خیر چھوڑا دفع کرو ۔۔ " اذلان افگن نے جیسے اس کے کردار کی دھجیاں اڑا دی تھیں وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو نہ جانے اس کے اور انکل جارج کے رشتے کو کیا سمجھ رہا تھا۔

" آ۔۔۔آپ یہ سب کیسے کہہ سکتے ہیں اتنی گھٹیا بات آپ الزام تراشی کررہے ہیں ۔۔۔"وہ شاکڈ تھی ۔

" فار گاڈ سیک کنزہ !میں غلط نہیں کہہ رہا نہ ہی تم پر کوئی الزام لگا رہا ہوں ۔۔۔" ازلان چلایا ۔

" کیا واقعی آپ غلط نہیں کہہ رہے ؟ ۔۔۔ " وہ تلخی سے بولی ۔

" یہ تم کہہ رہی ہو ؟ ہاؤ ٹیپیکل ۔۔۔۔۔" اس نے جبڑے بھینچے۔

" صرف عورت ہی ایک جھوٹ پر اسٹینڈ لے کر جمی رہ سکتی ہے اور پھر اس جھوٹ کو نبھانے کے لئیے آخر تک لڑتی رہتی ہے جیسے تم لڑ رہی ہو ۔" اس کے لہجے میں کیسے انگارے اگل رہے تھے۔

" لڑائی ؟ میں ۔۔۔" کنزہ نے اسے دیکھا ۔

" میں کیسے لڑ سکتی ہوں ؟ جبکہ سارے ہتھیار تو آپ کے پاس ہیں اور ایک جھوٹ کے لئیے میں کیوں لڑوں جب آپ نے نے سچ سننے سے انکار کردیا تھا تو کیا سچ کیا جھوٹ یہ آپ کو کیا پتہ ؟ ۔۔۔۔" وہ بھیگے بھیگے لہجے میں بولتی ہوئی دو قدم پیچھے ہٹی انداز ہارا ہوا تھا ۔

" شروع سے ہی آپ نے مجھے غلط سمجھا ،اپنے بھائی کے ایکسیڈنٹ کا الزام بھی مجھے دیا ، آپ نے پوری کوشش کی کہ میں آپ کے بھائی کا افئیر اور ہونے والی شادی تڑوا دوں وہ بھی اس لڑکی سے جو آپ کے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی ہے مگر وہ آپ کو پسند نہیں ۔ ۔آپ نے مجھ پر بے وفائی کا الزام لگایا ۔آپ نے حقائق جانے بنا جج بن کر مجھے مجرم قرار دے دیا اور ۔۔۔ میری بےعزتی کی ۔۔۔۔۔" وہ رو پڑی اس کی آنکھوں میں غصہ درد تھا ایک تکلیف تھی۔

" میں یہ کبھی بھی نہیں بھول سکتی کہ آپ نے تین سال پہلے کس طرح مجھے ، میرے کردار کو پرکھا تھا مجھ سے جھوٹی محبت کا ناٹک کرکے صرف یہ دیکھنے کے لئیے کہ میں آپ کے نشئی بھائی کے قابل بھی ہوں کہ نہیں ۔۔۔ارسلان نے مجھے خود بتایا تھا کہ آپ میرے نزدیک صرف اور صرف مجھے پرکھنے کے لئیے آئے تھے ۔۔۔۔" وہ رکی اور اپنی ہتھیلیوں سے آنکھیں مسل کر صاف کی جبکہ ازلان افگن خاموشی سے اس کی طرف توجہ مرکوز کئیے کھڑا تھا اس کے چہرے پر بلا کا سکون تھا ۔

" آپ کو نفرت کرنی ہے ، سزا دینی ہے تو مجھے دیجئیے اس کا نشانہ جارجز کو مت بنائیں ۔۔۔۔" کنزہ کی بات سن کر وہ سیدھا ہوا ۔

" وہ بوڑھا جارج تمہارے لئیے اتنی اہمیت کیوں رکھتا ہے کنزہ مرتضیٰ ؟ کیوں اس کی تکلیف تم سے برداشت نہیں ہورہی ؟ ۔۔۔۔۔" وہ سرد لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔

" ہاں وہ میرے لئیے بہت اہم ہیں۔ پلیز میری وجہ سے ان کے ساتھ یہ ناانصافی مت کریں یہ فئیر نہیں مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا ۔۔۔۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔

اذلان جبڑے بھنچے ایک جھٹکے سے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنے نزدیک لا کر اس کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کو پوری توجہ سے اپنی انگلی کی پوروں سے سمیٹنے لگا ۔

"تم نے خود یہ الزامات اپنے اوپر لگائے ہیں کنزہ ۔۔۔۔تم اوہ گاڈ!! روؤ مت آخر تم عورتیں اپنے آنسوؤں کو کیوں ہتھیار بنا لیتی ہو ۔۔۔۔" وہ اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں سے زچ ہوا تھا۔

کنزہ تیزی سے پیچھے ہوئی اور تیز قدموں سے گھر کے مین دروازے تک پہنچ کر دروازہ کھولنے لگی تھی کہ وہ جو ساکت کھڑا اپنی انگلیوں کی پوروں پر چمکتے اس کے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا تیزی سے آگے بڑھا اور اسے بازو سے پکڑ کر دروازے سے دور کیا ۔

" تم اس طرح سے ،اس حالت میں باہر نہیں جاسکتیں ڈیم اٹ " وہ اس کا سرخ چہرہ اور بکھرا نڈھال سراپا دیکھ کر غرایا تھا ۔

" ایک تو میں تمہارے ان آنسوؤں سے تنگ ہوں ۔۔۔ " وہ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے لاچاری سے بولا ۔

" مجھے جانے دیں پلیز ۔۔۔۔"

" نہیں ۔۔۔۔" وہ دوٹوک انداز میں بولتا ہوا اس کے نزدیک آیا اور ایک جھٹکے سے اسے اپنی گرفت میں لیتا ہوا سینے سے لگا گیا تھا۔

" ریلیکس کنزہ ۔۔۔ سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔" وہ اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے سرگوشی کررہا تھا۔

" نہیں اب کچھ بھی کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوگا ۔۔۔ " وہ اس کے چوڑے سینے سے سر اٹھاتی ہوئی بھرائے ہوئے لہجے میں بولی ۔

" میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا ۔۔۔ میں کبھی بھی ۔۔۔۔۔"

" شسشش ۔۔۔۔" اذلان نے اسے چپ کرایا ۔

" کچھ مت کہو مجھے سب پتہ ہے ۔۔۔۔۔"

"آپ کو سچائی نہیں پتہ آپ کو سمجھ رہے ہیں ۔۔ " کنزہ نے سنجیدگی سے کہا ۔

"بس اب ایک لفظ نہیں ۔۔۔ " اذلان نے سختی سے اسے ٹوکا ۔

کچھ لمحے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی تھی ۔

" کیا جارج نے تمہیں یہاں بھیجا تھا ؟ ۔۔۔۔۔" اذلان کی گھمبیر آواز نے خاموشی توڑی ۔

" نہیں ! انہیں تو پتہ بھی نہیں کہ میں یہاں آئی ہوں انہیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ نے کانٹریکٹ منسوخ کردیا ہے اور میں چاہتی بھی نہیں کہ انہیں پتہ چلے ۔۔۔۔" وہ بمشکل بولی ۔

وہ خاموشی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا جیسے کسی روتے ہوئے بچے کو پیار سے سہلا کر چپ کراتے ہیں ۔۔۔

اس کی یہ بے اختیار حرکت کنزہ مرتضیٰ کو مزید نروس کرگئی تھی اس کے گال تپ اٹھے تھے اور آنکھوں میں مزید آنسوؤں ابھر آئے تھے اس وقت جس طرح اذلان نے اسے سنبھالا ہوا تھا وہ جو خود کو ماں کے مرنے کے بعد اس بھری دنیا میں تنہا محسوس کرتی تھی آج اذلان افگن جیسا پتھر انسان اسے اپنا اپنا سا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔۔

" یہ میں کیا کررہی ہوں ۔۔۔؟ ۔۔۔" ایک سوچ سی اس کے دماغ میں ابھری اور وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے سے اذلان افگن کی گرفت سے نکلی اس میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ اذلان افگن کا سامنا کرسکتی ۔

" تم ٹھیک ہو ؟ ۔۔۔۔" وہ بڑی توجہ سے پوچھ رہا تھا ۔

وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی دو قدم مزید پیچھے ہٹی ۔

"سنو ۔۔۔۔۔" ازلان کی گھمبیر آواز ابھری ۔۔۔۔

" تمہیں پتہ ہے میں تین سال پورے تین سال سے تمہیں اپنے گھر میں اپنے سامنے دیکھنے کے لئیے ، تمہیں چھونے کے لئیے کتنا تڑپا ہوں ؟ ۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔" اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔

" تم ۔۔۔۔۔" ازلان نے جھٹکے سے اسے خود سے قریب کیا اور بنا سوچے سمجھے اس کے چہرے پر جھک گیا ۔۔۔۔

ایک سکون سا ! مکمل ہونے کا احساس سا کنزہ کی رگ رگ میں اتر گیا تھا وہ آنکھیں میچے خود کو اس کی وارفتگیوں کے حوالے کر چکی تھی ۔

لمحات طویل ہوتے جارہے تھے ۔۔۔

"بہت جلد تمہیں طلاق کے پیپرز مل جائینگے اور قسم ہے تمہیں تمہاری ماں کی اگر تم نے اذلان کو کبھی بھی سچائی بتائی تو ۔۔۔۔۔۔" مسز ناز افگن کی تلخی سے بھرپور آواز اس کے ذہن میں ابھری تھی اور وہ کسمسا کر خود کو اس کی آہنی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی مگر مقابل تو جیسے آج بن پیئے بہک چکا تھا ۔۔۔۔

" چھوڑیں مجھے ۔۔۔۔۔۔" وہ بڑی مشکل سے بولی ۔

" یہ سب ٹھیک نہیں ہے آپ ۔۔۔۔۔۔" کنزہ کا لہجہ لڑکھڑایا ۔۔۔۔

" آپ مجھے تین سال پہلے اس برستی طوفانی رات میں طلاق دے چکے ہیں ۔۔۔۔۔" کنزہ کی آواز اس کے اعصاب پر بم بن کر گری تھی اور وہ ایک جھٹکے سے دور ہٹا ۔۔۔۔۔

" چلی جاؤ اس سے پہلے میں کچھ کردوں ۔۔۔۔" وہ اپنا سر پکڑتے ہوئے زور سے دھاڑا تھا ۔

*------*------*

تین سال پہلے ۔۔۔

ثمن ازلان افگن سے مل کر بہت خوش ہوئیں تھیں کچھ دن ویگاس والے گھر میں رہ کر وہ کنزہ کو لے کر واپس اپنے گھر آگئی تھیں ۔

اذلان افگن اکثر ان کے گھر کے چکر لگاتا رہتا تھا دوسری طرف اس نے ارسلان کے ساتھ بھی سختی کرنی شروع کردی تھی سچ یہ تھا کہ اسے کنزہ مرتضیٰ اچھی لگنے لگی تھی اس کی سادگی ،اس کی معصومیت اذلان افگن جیسے اسٹون مین کے دل میں جونک لگا گئی تھی پر وہ اس کے بھائی کی فیانسی تھی ۔

ارسلان کی حرکات روز نت نئی گرل فرینڈز نشہ شراب شباب یہ سب دیکھے ہوئے ازلان نے اپنی ماں ناز افگن سے کنزہ اور ارسلان کا رشتہ توڑ کر اپنا رشتہ طے کرنے کی دو ٹوک بات کر لی تھی پر ناز افگن راضی نہیں ہورہی تھیں ۔

ان ہی دنوں کنزہ کے باپ مرتضی نے ثمن سے کنزہ کا رشتہ اپنی دوسری ایرانی بیوی کے بھانجے سے کرنے پر اسرار کیا تھا لڑکا اچھا تھا لیکن معذور تھا ۔

ویک اینڈ پر وہ چند رشتے داروں کے ساتھ کنزہ کے نکاح کے لئیے آرہے تھے انہیں ثمن اور کنزہ کی مرضی کی چنداں فکر نہیں تھی ۔

ثمن انہیں بتا چکی تھیں کہ وہ کنزہ کی منگنی کرچکی ہیں ۔

" منگنی ہی تو ہے کوئی نکاح تو نہیں جو توڑا نہ جاسکے ۔۔۔۔" مرتضی نے بڑے کروفر سے کہا تھا ۔

کنزہ کالج گئی ہوئی تھی ثمن بہت پریشانی کے عالم میں افگن ہاؤس آئی تھیں تاکہ ناز سے بات کرکے کنزہ اور ارسلان کا نکاح جلد از جلد کروا دیا جائے ۔

ارسلان ان دنوں پندرہ سال کی ماریہ انعام کے حسن کا تازہ تازہ شکار ہوا تھا اور اس کے ساتھ ویک اینڈ گزارنے ہوائی گیا ہوا تھا ۔

ناز افگن نے معذرت کرلی تھی پر قسمت ۔۔۔۔

اذلان اسی وقت ایک بزنس ٹرپ سے لوٹا تھا اور وہ ثمن کی پریشانی سن کر فوری طور پر کنزہ مرتضیٰ سے نکاح کا فیصلہ کرچکا تھا ۔

ناز افگن کی لاکھ ناراضگی کے باوجود ازلان افگن کنزہ کو اپنے نکاح میں لینے کے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا ۔

اس ہفتے جب مرتضی اپنی دوسری بیگم اور چند رشتے داروں کے ساتھ نکاح کے لئیے آئے تو وہاں مولوی صاحب ، ازلان افگن ، ناز افگن کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور جب اذلان نے انہیں اپنا اور کنزہ کا نکاح نامہ دکھایا تو وہ مغضلات بکتے ہوئے وہاں سے گئے تھے ۔

" آنٹی اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں کنزہ سے تنہائی میں مل سکتا ہوں ؟ ۔۔۔" اس نے حق رکھتے ہوئے بھی ثمن سے اجازت مانگی تھی ۔

" ضرور بیٹا وہ بائیں طرف والا کمرہ اسی کا ہے ۔۔۔۔" ثمن مسکرائیں تھیں ۔

" اذلان تم کنزہ سے پھر کسی دن مل لینا ابھی گھر چلو مجھے دیر ہورہی ہے ۔۔۔۔" ناز افگن نے اسے ٹوکا ۔

" آنٹی ۔۔۔اب وہ میری ذمہ داری ہے اور میں اپنی ذمہ داری اٹھانا بخوبی جانتا ہوں آپ پریشان مت ہوئیے گا ۔۔۔ " وہ عزت سے ان کے ہاتھ چومتا ہوا ایک نظر اندر کمروں کی طرف ڈالتا اس گھر سے باہر نکل آیا تھا ۔۔۔۔مگر دل ۔۔۔۔۔۔دل ادھر ہی رہ گیا تھا ۔

رات بارہ ساڑھے بارہ بجے کے قریب اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ کنزہ اذلان افگن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئیے ان کے گھر کی طرف روانہ ہوا تھا پوری گلی سناٹے میں ڈوبی ہوئی تھی اسے اس وقت بیل بجا کر ثمن آنٹی کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں لگا اور وہ بڑے آرام سے دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوگیا تھا ۔

دبے پاؤں وہ کنزہ کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کمرے کے پاس پہنچ کر آہستگی سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوکر دروازہ بند کرکے پلٹا ۔

سامنے بیڈ پر وہ دشمن جان دلربا سی لڑکی سوئی ہوئی تھی جس نے اس اسٹون مین کے دل میں محبت کی چنگاری لگائی تھی ۔

وہ آہستگی سے چلتا ہوا بیڈ کے نزدیک آیا ۔سائیڈ لیمپ کی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ۔

کنزہ کے کھلے سلکی لمبے بال تکیہ پر بکھرے ہوئے تھے دوپٹہ آدھا سینے پر اور آدھا زمین پر سلامی دے رہا تھا وہ مہبوت سا اسے دیکھے جا رہا تھا اس کے سرخ گالوں پر لمبی گھنیری پلکوں کا عکس ۔۔۔۔

وہ اسے بغور دیکھتا آہستگی سے بیڈ پر بیٹھا تھا ۔

سامنے لیٹی لڑکی جو اب اس کے نکاح میں تھی اس وقت اس کا نرم و نازک وجود ازلان افگن جیسے اسٹون مین کو جھلسا رہا تھا دل میں انہونی سی خواہشیں بیدار ہورہی تھی اور اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ بے ساختہ اس پر جھکا تھا چہرے پر سے بالوں کی لٹوں کو ہٹاتے ہوئے اس کی شفاف جبین پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی تھی ۔۔۔۔

اس کی محبت کی حدت سے کنزہ کی آنکھ کھلی تھی پہلے کچھ لمحے تو وہ بے دھیانی سے اسے دیکھے گئی ۔۔۔۔

" نکاح مبارک ہو مسز ازلان افگن ۔۔۔۔۔" ازلان نے پیار سے اس کی آنکھوں کو معتبر کیا تھا ۔۔۔۔

" آ ۔۔۔آ۔ آپ ۔۔۔۔" وہ ازلان کو اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر ہوش میں آئی اس کا چہرہ شرم سے سرخ پڑگیا تھا اور دل ۔۔۔۔وہ تو زور زور سے دھڑکے چلا جارہا تھا ۔

کنزہ کا یہ شرم حیا سے بھرپور روپ ۔۔۔۔۔ازلان کو گھائل کرگیا تھا اور وہ ہاتھ بڑھا کر سائیڈ لیمپ آف کرتے وہی اسے اپنی گرفت میں لئیے بستر پر دراز ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔" کنزہ کی آواز لڑکھڑائی ۔

"مسز ازلان ۔۔۔۔بی مائین ۔۔۔۔" وہ گھبیر لہجے میں کہتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے گیا تھا۔

کنزہ کا نازک وجود اس کی قربت میں لرز اٹھا تھا۔۔۔

اس رات کی صبح بہت خوبصورت تھی ۔۔۔۔روشن روشن جگمگ جگمگ کرتی ہوئی ۔۔۔

وہ اپنے پہلو میں کنزہ کو دیکھ کر بہت خوش بہت مطمئن تھا اس نے ایک بار پھر جھک کر ایک استحقاق بھری مہر اس کی پیشانی پر ثبت کی تھی شرمائی شرمائی سی کنزہ اور وہ خود دونوں ہی بہت خوش تھے ۔۔۔

" سنو ۔۔۔۔میں بزنس ٹرپ پر دو دن کے لئیے شہر سے باہر جارہا ہوں اور واپس آتے ہی مجھے تمہیں رخصت کرانا ہے تیار رہنا ۔۔۔۔" وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا دھیرے سے اس کے چہرے پر پھول کھلاتے ہوئے اٹھا تھا۔

ارسلان ویک اینڈ گزار کر گھر واپس آیا تو مسز ناز افگن نے اسے سخت سناتے ہوئے ازلان اور کنزہ کے نکاح کی خبر دی تھی ۔

وہ تو ایک لمحے کو یہ سن شاکڈ رہ گیا تھا مانا کہ کنزہ مرتضیٰ جیسی مشرقی ٹائپ لڑکی اس کے لائف اسٹنڈرڈ سے میچ نہیں کرتی مگر اس کا حسن ۔۔۔۔۔

" موم آپ ایسا کیسے کرسکتی ہیں ؟ میں مرا تو نہیں تھا ۔۔۔ " وہ سر پکڑ کر چلایا تھا ۔۔۔۔

" ارسلان ۔۔۔۔" ناز افگن نے اسے سنبھالنا چاہا ۔

" وہ میری فیانسی تھی موم اور اب بھائی کی بیوی ذرا سوچے ایک لڑکی دو بھائیوں کے بیچ میں ؟ میں کیسے زندگی بھر اسے اس گھر میں ، بھائی کی زندگی میں برداشت کروں گا ؟ ۔۔۔ " وہ چلایا تھا پر انہیں سوچ میں ڈال گیا تھا واقعی یہ رشتہ ان دونوں بھائیوں کے بیچ زندگی بھر کی دڑاڑیں ڈال سکتا تھا تو بہتر یہی تھا کہ اسے پنپنے سے پہلے توڑ دیا جائے ۔۔

وہ ازلان افگن کو اچھی طرح سے جانتی تھیں وہ مرتے مرجاتا لیکن کنزہ کو نہیں چھوڑتا اس لئیے اب انہیں ہی کچھ کرنا تھا۔

بہت سوچ سمجھ کر وہ کنزہ سے ملنے اس کے گھر چلی آئیں تھیں ۔

کنزہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بڑی عزت سے انہیں اندر لے آئی ۔

" آنٹی آپ چائے لینگی یا کافی ۔۔؟ ۔۔" اس نے شرمائے شرمائے انداز میں میزبانی کے فرائض نبھانے چاہے ۔

" ثمن کدھر ہے ؟ ۔۔۔۔" ناز افگن نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا ۔

" ممی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ کرسٹین آنٹی کے ساتھ ہاسپٹل چیک اپ کے لئیے گئی ہیں ۔۔۔"

" تم نہیں گئیں ؟ ۔۔۔" ناز افگن نے اس کے نکھرے نکھرے سراپے کو دیکھا کچھ تو تھا اس لڑکی کا روپ ان دو دنوں میں ہی بہت نکھر گیا تھا ۔

" وہ بس ۔۔۔۔" اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ آج ازلان افگن نے واپس آنا تھا اور وہ واپس آتے ہی اسے دیکھنا چاہتا تھا ۔

" چلو اچھا ہی ہوا تم نہیں گئیں ۔۔۔۔" وہ اطمینان سے بیٹھ گئیں ۔

" دیکھو کنزہ ! تم مجھے اچھی لگتی ہو اسی لئیے تو میں نے تمہارا رشتہ ارسلان سے کیا تھا وہ کالج کے زمانے سے تم پر عاشق تھا اور کل سے وہ شدید اذیت میں ہے میرے دو ہی بیٹے ہیں اور میں نہیں چاہتی کہ ان دونوں کی زندگی میں ایک ہی لڑکی ہو ،ذرا سوچوں تمہارا اکلوتا دیور تمہارا عاشق چھی ۔۔۔۔۔

اس لئیے بہتر یہی ہے کہ تم ازلان سے آج ہی طلاق کا مطالبہ کردو ۔۔۔۔۔" ان کے الفاظ کنزہ کی روح تک کو لرزا گئے تھے ۔

"تمہاری ماں ثمن ایک خوددار عورت ہے اگر اس کی بیٹی ہو تو یقیناً تم ایسے گھر میں نہیں آنا چاہو گی جہاں تمہاری عزت نہ ہو ،جہاں تم ان چاہی ہو سب سے بڑھ کر تمہاری عزت محفوظ نہ ہو ۔۔۔۔" وہ تلخی سے بولیں ۔

" مگر آنٹی ۔۔۔۔۔" وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ اذلان افگن یہ رشتہ آگے بڑھا چکا ہے اس کی رگ رگ میں اتر کر روح تک میں بس چکا ہے ۔

" تمہیں تمہاری ماں کی قسم ! اگر تھوڑی سی بھی عزت نفس رکھتی ہو تو میرے دونوں بیٹوں کی زندگی سے عزت سے خود ہی نکل جاؤ ورنہ اگر میں نے ایکشن لیا تو بات عدالت تک جائیگی اور ادھر وکیل کیسے کیسے الزام لگاتے ہیں اتنا تو جانتی ہی ہوگی ، تمہاری ماں تمہاری بدنامی اور کردار سازی برداشت نہیں کر پائے گی اور یہ سب دیکھ کر تمہارا باپ جو پہلے ہی تمہاری ماں کو چھوڑے بیٹھا ہے دو منٹ نہیں لگائے گا اسے طلاق دینے میں ،اپنی ماں کی عزت اور اس کی زندگی کے لئیے ہی سہی میرے بیٹوں کی جان چھوڑ دو ۔۔۔" وہ اپنی بات کے اختتام میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ گئی تھیں ۔

" آج افگنز کے نئے کانٹریکٹ کی خوشی میں ارسلان نے شپ پر پارٹی رکھی ہے تمہیں ادھر آنا ہے اور ازلان سے طلاق کا مطالبہ کرنا ہے آگے میں خود سنبھال لونگی ۔۔۔۔۔" وہ اپنا حکم سنا کر چلی گئی تھیں ۔وہ اسے جیسے کسی اونچی پہاڑی سے دھکا دے کر چلی گئیں تھیں ۔

*-----*-----*

محبت خواب سراب سی

نہ کوئی کنارہ نہ ساتھی

محبت خواب سراب سی

نہ کوئی دلدار رہا

نہ رہیں دلداریاں

یاد رہا تو یہ رہا

محبت خواب سراب سی


سمندر کے کنارے شپ یارڈ پر پارٹی رکھی گئی تھی اوپر شپ پر زور شور سے میوزک بج رہا تھا ارسلان کے کئی دوست ڈانس میں مگن تھے پینے پلانے کا دور بھی چل رہا تھا ۔

سفید شرٹ پر بلیک ڈریس کوٹ پینٹ پہننے ایک ہاتھ میں سگریٹ پکڑے ازلان افگن ماحول پر چھایا ہوا تھا ہر لڑکی اس کی توجہ چاہتی تھی پر وہ سب سے بے نیاز گھڑی پر نظریں ڈالے کنزہ اذلان افگن کا انتظار کررہا تھا ۔

وہ اسے خود لینے جانا چاہتا تھا لیکن ناز افگن نے اسے روک دیا تھا کہ وہ اپنی بہو کو خود لانا چاہتی تھیں ۔

سفید خوبصورت شیفون کی میکسی میں نازک سی جیولری اور ہلکے پھلکے میک اپ، دودھیا پیروں میں ہیل پہننے اپنے نازک سے سراپے کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔

" یہ کسی بھی طرح سے اس کی ڈرنک میں ڈال دینا ۔۔۔۔۔ " وینیو پر پہنچ کر ناز افگن نے دنیا کی سب سے مہنگی تیز ترین ڈیول ڈرگ کی گولی کنزہ کے ہاتھ میں تھمائی ۔۔۔

" یہ کیا ہے ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے حیرت سے ہاتھ میں رکھی گولی کو دیکھا ۔

" یہ کھلا کر تم نے اذلان سے طلاق کا مطالبہ کرنا ہے اور وہ تمہیں طلاق دے دیگا کیونکہ یہ ڈرگ انسان کو سامنے والے کا ہر حکم ماننے پر مجبور کردیتی ہے اگلی صبح وہ سب بھول چکا ہوگا اور تمہیں طلاق کا آڈیو ہم ریکارڈ کرلینگے ۔۔۔۔" وہ اسے اپنا پلان بتا رہی تھی کنزہ نے کپکپاتی ہوئی انگلیوں سے اپنی ہتھیلی پر رکھی اس گولی کو چھوا ۔۔۔۔

" آنٹی آپ لوگ جلدی کریں نا شپ کا ٹائم ہورہا ہے ۔۔۔۔۔" ماریہ انعام کی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا تھا ۔

کنزہ نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے وہ گولی اپنی مٹھی میں بھینچ لی تھی۔

شپ پر ایک شور برپا تھا وہ گھبرائی گھبرائی سی ایک کونے پر کھڑی تھی جب اذلان افگن چہرے پر سنجیدگی لئیے اس کے سامنے آیا ۔

" کیسی ہو ۔۔۔۔۔" وہ سر سے پیر تک اسے بغور دیکھ رہا تھا ۔

" چلو ۔۔۔۔" ازلان نے اس کے آگے اپنا ہاتھ پھیلایا ۔۔

" جی ۔۔۔ " کنزہ نے غائب دماغی سے اسے دیکھا ٹھنڈی ٹھنڈی تیز ہوا کنزہ کے بالوں کو اڑا رہی تھی جس سے اس کی دودھیا گردن بہت نمایاں ہورہی تھی اذلان نے ناگواری سے چاروں جانب دیکھا اور اپنا کوٹ اتار کر کنزہ کے شانوں پر پھیلایا ۔

" چلو ۔۔۔۔" اس نے کنزہ کا ہاتھ تھاما اور اسے لئیے شپ سے نیچے چلا آیا ۔۔۔

" ہم کہاں جارہے ہیں ؟ ۔۔۔۔" کنزہ نے پریشانی سے باہر پھیلتے اندھیرے کو دیکھا ۔

' رات کو میرا فون اٹینڈ کیوں نہیں کیا ؟ ۔۔۔۔" وہ کڑے لہجے میں استفسار کررہا تھا ۔

" آپ ۔۔۔۔۔" اس کا لہجہ نم ہوا ۔۔۔

وہ اسے ساتھ لئیے ساحل کنارے بنے ایک پرائیوٹ ہٹ میں لے آیا جہاں اس نے ایک کینڈل لائٹ ڈنر کا اہتمام کروایا ہوا تھا ۔

" بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔۔" اس نے گھمبیر لہجے میں کہتے ہوئے اس کا نازک مہکتا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگایا ۔

" مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تم دن با دن مجھے اتنی خوبصورت کیوں لگنے لگی ہو ۔۔ "وہ دل کا حال بیان کررہا تھا اور کنزہ کا دل آنے والے وقت کا سوچ کر لرزے چلا جارہا تھا۔

وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے دل کی حکایتیں سنائے چلا جارہا تھا اور وہ ۔۔۔۔ وہ تو بس اپنے اسکارف کے پلو میں بندھی گولی کے بارے میں سوچے چلی جارہی تھی ۔۔

" اتنا گھبرا کیوں رہی ہو ؟ ۔۔۔" اذلان نے ایک دم بازو سے پکڑ کر اسے اپنی سمت کھینچا تھا۔۔۔۔

" آپ ۔۔۔۔" اس نے اپنے ہاتھ اذلان کے سینے پر رکھ کر خود کو اس کے وسیع سینے سے لگنے سے روکا تھا ۔

" میں مانتا ہوں کہ میں تم سے عمر میں بہت بڑا ہوں لیکن تم مجھے بہت عزیز ہوچکی ہو تمہاری محبت منہ زور طوفان کی طرح میرے اوپر سوار ہوچکی ہے اور اب میں تم سے ایک پل بھی دور رہنا نہیں چاہتا تم میرے نکاح میں ہو ، میری ساری دیوانگی ، محبت ، سب پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے بولو مجھ سے محبت کروگی ؟ ۔۔۔۔" اسے اپنے حصار میں لئیے وہ سوال محبت کررہا تھا ۔۔۔۔

اتنی محبت ۔۔ کنزہ کی آنکھوں سے آنسو بہتے چلے گئے تھے ۔

" پلیز ۔۔۔مجھے تمہاری آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے ۔۔۔۔" اس نے اپنے لبوں سے اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو بڑے پیار سے چنا تھا ۔

"تمہاری طلب نے ،تمہاری خواہش نے ، اس گزری رات نے میری زندگی بدل دی ہے۔ بس آج ابھی سے تم میری ہو صرف میری سمجھو تمہاری رخصتی ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔" وہ اپنی قربت سے ،اپنے جذبات سے اس کے ہوش اڑا رہا تھا ۔

" پانی پلیز ۔۔۔۔۔" بڑی مشکلوں سے وہ خود پر قابو پاتی ہوئی کپکپاتے ہوئے بولی تو اذلان افگن ہنستے ہوئے اس کے سرخ چہرے کو دیکھتا ہوا پیچھے ہٹا اور سیل فون اٹھا کر اسٹاف کو پہلے جوس اور بعد میں ڈنر سرو کرنے کا آرڈر دیا ۔

چند لمحوں میں ایک بارودی ویٹر دو جوس کے نفیس گلاس اندر لاکر سرو کرچکا تھا۔

" سنئیے ۔۔۔۔۔۔۔" کنزہ نے اسے پکارا ۔

" جی کہئیے ۔۔۔۔" وہ دل و جان سے اس کی طرف متوجہ ہوا ۔

" وہ ۔۔۔" اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بہانہ بنا کر اسے ادھر ادھر کرے اور وہ نشہ اور گولی اس کے جوس کے گلاس میں ڈال سکے ۔۔۔

پر یہ سب کرنے کی اس میں ہمت نہیں ہورہی تھی وہ اس کو دھوکا نہیں دینا چاہتی تھی مگر ۔۔۔۔

جوس بمشکل چند گھونٹ ہی پیا تھا اس نے اور اب ڈنر سرو ہورہا تھا جب اذلان کا سیل فون بجا ۔۔۔

" یس موم ۔۔۔ " ناز افگن کی کال تھی ۔

" کدھر ہو تم ادھر ہنگامہ ہوگیا ہے ارسلان کسی کے کنٹرول میں نہیں آرہا ۔۔۔۔۔"

وہ کنزہ کو بیٹھے رہنے کا اشارہ کرکے اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا ۔

اس کے باہر جاتے ہی دروازے کھول کر ناز افگن اندر داخل ہوئیں اور کڑی نظروں سے کنزہ کو دیکھتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ پھیلایا ۔

کنزہ نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے اسکارف کا پلو کھول کر وہ گولی ان کے ہاتھ میں رکھی ۔

" آنٹی پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔۔" اس نے منت کی ۔

" مت بھولو میں نے تمہیں تمہاری ماں کی قسم دی ہے اور اگر آج یہ تم نے نہیں کیا تو کل اپنی ماں کے ساتھ کورٹ آنے کے لئیے تیار رہنا ۔۔۔۔" وہ زہریلے لہجے میں بولتی ہوئیں سامنے رکھے جوس کے گلاس میں وہ گولی ڈال کر چمچ سے مکس کرچکی تھیں ۔

" وہ آتا ہی ہوگا اب مزید کوئی اور غلطی مت کرنا ۔۔۔۔" وہ اسے وارن کرتی ہوئیں وہاں سے نکل گئی تھیں ۔

*-----*-----*

شپ پر سب ٹھیک ٹھاک تھا۔

"ایک تو موم بھی ۔۔۔ "۔ وہ تپتا ہوا وہاں سے واپس پلٹ کر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا واپس آیا تھا ۔

" سوری جانم ۔۔۔۔" وہ کنزہ سے معزرت کرتا ہوا اس کے نزدیک بیٹھا ۔

"آپ کا جوس ۔۔۔۔" نظریں جھکائے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے جوس کا گلاس اٹھا کر اذلان افگن کی سمت بڑھایا ۔

" اپنے ہاتھوں سے تو آپ اگر زہر بھی پلا دیں تو شہد لگے گا ....." وہ اس کے ہاتھوں کو تھامتا ہوا اسی کے ہاتھوں سے وہ جوس گھونٹ گھونٹ پینے لگا ۔

آدھا گلاس پی کر اس نے کنزہ کا ہاتھ چھوڑ کر جوس کا گلاس میز پر رکھا ۔۔۔۔

وہ ڈری سہمی نظروں سے اسے دیکھے جارہی تھی جب وہ ہنسا ۔۔۔

" کیا ہوا جان ؟ ۔۔۔اتنا ڈر کیوں رہی ہو ؟ ۔۔۔۔" اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔

" ازلان ۔۔۔۔۔" وہ حلق تر کرتی ہوئی کھڑی ہوئی ۔۔۔

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ نے سختی سے آنکھیں بند کیں ۔

" آپ مجھے طلاق دے دیں ۔۔۔۔۔" وہ جلدی سے کہہ گئی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔

*-----*-----*

ارسلان ایک ہاتھ میں بئیر کا گلاس پکڑے دوسرے سے ماریہ انعام کی کمر تھامے میوزک پر تھرک رہا تھا جب اسے تیزی سے اذلان شپ پر آتا پھر الٹے قدموں تیزی سے واپس جاتا ہوا نظر آیا ۔

"یہ بگ برو کو کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔"

" تم میری بات سنو ۔۔۔۔" ماریہ اس کے ہاتھ سے بئیر کا کین اچھالتی کوئی اسے گھسیٹتی ہوئی شپ کے نیچے لے آئی ۔

" ارسلان ۔۔۔۔" وہ اسے شام میں ناز افگن انٹی اور کنزہ کی کوئی بات سنانے لگی جو اس نے حادثاتی طور پر سن لی تھی ۔

" واٹ ۔۔۔۔" وہ چیخا ۔

" تمہاری موم نے انہیں ڈیول ڈرگ دی ہے وہ ہر انسان کا دیا حکم مانے گے اور صبح جب نشہ اترے گا تو انہیں کچھ بھی یاد نہیں رہے گا ۔۔۔۔"

ارسلان ماریہ کو وہی چھوڑتے ہوئے بھاگتا ہوا اس ہٹ میں پہنچا جہاں کنزہ آنکھیں بند کئیے ازلان سے طلاق کا مطالبہ کررہی تھی ۔

" تمہارا دماغ درست ہے ۔۔۔" ارسلان نے ایک جھٹکے سے کنزہ کو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا ۔

" ارسلان چھوڑو اسے یہ تمہاری بھابھی ہے ۔۔۔" وہ غرایا ۔

" بھائی تم ہرگز بھی کنزہ کو طلاق نہیں دوگے اٹس این آرڈر اور تم ۔۔۔۔تم میرے ساتھ باہر چلو ۔۔۔۔" وہ نشے میں مدہوش ازلان کو حکم دے کر ٹیبل پر سجے ڈنر کو تاسف سے دیکھتے ہوئے کنزہ پر غرایا اور نکلتے نکلتے ٹیبل پر رکھے آدھے جوس کے گلاس کو اٹھا کر غٹاغٹ پی گیا تھا ۔

" یہ ۔۔۔۔یہ تم نے کیا کیا ؟ ۔۔۔ " کنزہ شاکڈ ہوئی ۔

" کنزہ اب تم میری بھابھی ہو اور میں ہرگز بھی نہیں چاہونگا تمہاری کسی حماقت سے میرے بھائی کا دل ٹوٹے ۔۔۔۔" وہ اسے گھسیٹتا ہوا پارکنگ لاٹ میں لایا جہاں پہلے ہی ماریہ موجود تھی ۔

" لیٹس گو فار رائیڈ ۔۔۔۔" ماریہ کی چہکتی ہوئی آواز ابھری ۔

ارسلان میکانکی انداز میں گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ۔

" ارسلان یہ تم کیا کررہے ہو ؟ ۔۔۔" کنزہ پریشان ہوئی کہ ماریہ ایک ٹین ایجر لڑکی تھی جسے شاید ٹھیک سے ڈرائیو کرنا بھی نہیں آتا تھا اور وہ دونوں گاڑی میں ہی الٹی سیدھی حرکات کرنا بھی شروع ہوگئے تھے ۔


ایک جھٹکے سے ماریہ نے گاڑی اسٹارٹ کی تھی اور پھر اونچے قہقہے لگاتی اسے ایک ایڈونچر سمجھ کر گاڑی بلا کی تیزی سے دوڑاتی ہوئی سڑک پر لے گئی تھی ۔

کنزہ نے تیزی سے چاروں طرف دیکھا اور دوڑتی ہوئی باہر نکلی وہ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب ایک گاڑی اس کے پاس آکر رکی اور اس میں سے دراز قد دلاور اس کی سوتیلی ماں کا رشتے دار جس سے اس کا باپ اس روز نکاح کروانے والا تھا اسٹک پکڑے اترا ۔

" کنزہ آپ یہاں اس وقت ؟ ۔۔۔"

"پلیز ابھی جو سرخ فراری ادھر سے گئی ہے کیا آپ اس کا پیچھا کرسکتے ہیں پلیز ۔۔۔۔" وہ گڑگڑائی تو دلاور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسے آگے بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ۔

" تیز چلائیں پلیز ۔۔۔" کنزہ نے ریکوئسٹ کی ۔

آگے ایک بڑا ٹرالر آرہا تھا جس سے ارسلان کی گاڑی ٹکرا کر گول گھوم گئی تھی دلاور نے اپنی گاڑی کے بریک بروقت لگائے مگر اس کی گاڑی بھی الٹ گئی تھی ۔

کنزہ بڑی مشکل سے گاڑی سے باہر نکلی دلاور بیہوش تھا وہ دوڑتی ہوئی ارسلان کی گاڑی تک آئی خدا کی کرنی کہ ماریہ کا بال بھی بانکا نہیں ہوا تھا مگر جس سائیڈ پر ارسلان بیٹھا تھا وہ ٹرالر سے ٹکرا کر پچک گئی تھی ۔

" مم مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔" ماریہ نے رونا شروع کیا ۔

" کنزہ پلیز مم مار ماری یہ کو پولیس سے بچا لینا ۔۔۔۔۔" ہوش کھوتے ارسلان نے بمشکل کہا تھا ۔

کنزہ نے جلدی سے ماریہ کو گاڑی سے نکلنے مدد کی اور اسے وہاں سے جانے کو کہا ۔

" جلدی کرو پولیس ایمبولینس آتی ہونگیں تم سڑک پار جاکر کوئی ٹیکسی کرلو ابھی تم نابالغ ہو نہ صرف تم جیل جاؤں گی بلکہ ایک نابالغ لڑکی سے تعلقات رکھنے کے جرم میں ارسلان بھی پھنسے گا ۔۔ "

ماریہ کو وہاں سے غائب کرکے وہ مدد کی تلاش میں فون بوتھ ڈھونڈتی ہوئی کافی آگے نکل آئی تھی ۔

حال ۔۔۔۔

اسے آج بھی اچھی طرح سے یاد تھا رات ڈھل چکی تھی جب وہ ہاسپٹل پہنچی تھی سڑک پر بہت دیر بے یارو مددگار پڑے رہنے سے ارسلان کی ٹانگوں کے زخم میں زہر پھیل چکا تھا وہ چپ چاپ ہاسپٹل میں کھڑی تھی جب اذلان افگن ہاسپٹل میں داخل ہوا اور اسے دیکھ کر ٹھٹکا ۔۔جیسے حیران ہوا ہو ۔

اس دن ازلان نے ہی اسے اس کے گھر چھوڑا تھا یہ ان دونوں کا ایک ساتھ تین سال پہلے آخری سفر تھا ۔

دو دن بعد اسے فون پر مسز ناز افگن نے ایک وڈیو بھیجی ۔۔۔۔جس میں وہی ہٹ تھا اور ازلان افگن غصے سے چلا رہا تھا ۔

میں ازلان افگن کنزہ مرتضیٰ کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔

میں ازلان افگن کنزہ مرتضیٰ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔

میں ازلان افگن کنزہ مرتضیٰ کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔

اس نے تین بار یہ اذیت ناک الفاظ دہرائے تھے پھر وہی ڈھے گیا تھا ۔۔۔

*-----*-----*

جب سے وہ ازلان کے گھر سے واپس آئی تھی اس کا ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں کھویا ہوا تھا وہ بھی انسان تھی کتنا برداشت کرتی صبح ہونے تک وہ بیہوش ہوچکی تھی ۔

کنزہ کا شدید نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا پورے ایک ہفتے وہ ہاسپٹل میں رہی تھی اب کچھ بہتر تھی تو اپنے وارڈ سے نکل کر جارج انکل کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی ۔وہ بہت خوش نظر آرہے تھے ۔

" تمہیں پتہ ہے کنزہ ! افگنز نے نہ صرف وہ کانٹریکٹ رینیو کردیا ہے بلکہ ہمارے پیسے بھی ڈبل کردئیے ہیں ۔۔۔۔" جارج انکل نے اسے حیران کردیا تھا ۔

" ڈاکٹر کہتا ہے کہ کل تک میری چھٹی ہو جائیگی اب لٹل گرل تم بھی جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ ہمیں بہت کام کرنا ہے ۔۔۔۔" وہ پیار سے بولے ۔

" جی انکل ۔۔۔۔" کنزہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا تھا اسے ابھی بھی بہت اعصابی تھکن محسوس ہورہی تھی ۔

اگلے دن صبح کنزہ کو ڈسچارج کردیا گیا تھا ۔

وہ کرسٹین آنٹی کے ساتھ جارج انکل کی گھر واپسی کی خوشی میں کیک بیک کررہی تھی پورا گھر ان دونوں نے جارج انکل کے بیٹے ٹائیلر کے ساتھ مل کر سجایا تھا بس اب ان کی واپسی کا انتظار تھا مگر ۔۔۔۔ فون بجا ۔۔۔۔

انکل جارج اچانک سے حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے تھے ۔۔۔۔۔۔

یہ خبر ایک بم کی طرح اس کے اعصاب پر گری تھی ۔۔۔۔۔۔

آج اسے احساس ہوا تھا کہ اب اس کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

انکل جارج کے فیونریل کے بعد اس نے یہ شہر چھوڑ کر اپنے باپ اور سوتیلی ماں کے پاس جانے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔۔۔۔۔۔اس میں زندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں بچی تھی کم سے کم اپنے باپ کے گھر میں اگر مری تو اسے جنازہ شاید نصیب ہوجاتا ۔۔

یہی سوچ کر اس نے یہ کڑا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔

زندگی پہلے ہی کون سا اسے پھولوں میں رکھ رہی تھی جو اسے آنے والے وقت کی مشکلات کا ڈر ہوتا ۔۔۔۔۔

*-----*-----*

ارسلان افگن ۔۔۔۔نے ماریہ انعام سے شادی کرنے کا اٹل فیصلہ کرلیا تھا آج ویگاس میں افگن ولا کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں سفید میکسی میں سر پر بڑے اسٹائل سے دوپٹہ اوڑھے پیروں میں سلور نازک ہائی ہیلز اور ڈائمنڈ جیولری پہننے دلہن ماریہ انعام تیار ہونے کے بعد سب دوستوں سے ہیلو ہائے کرتی ارسلان کی وہیل چیئر کو دھکیلتی اسے ساتھ لئیے سیدھی اوپر اذلان کے پورشن میں آگئی تھی۔

" ہیلو بگ برو ۔۔ " اس نے دروازہ ناک کرکے اندر جھانکا ۔

" تم ؟ ۔۔۔۔" اذلان نے اسے ناگواری سے دیکھا ۔

" کم سے کم آج تو آرام سے ایک جگہ ٹک جاؤ ۔۔۔۔" اذلان نے ان دونوں کو ٹوکا ۔

"ہمیں نکاح سے پہلے آپ سے کچھ کنفیس کرنا ہے ۔۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولتی ہوئی بنا اس کی اجازت کے اندر چلی آئی۔

" ہمم ۔۔۔۔کہو ۔۔۔۔" وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولا ۔

" بھائی میں نے آپریشن کرانے کی شرط اس لئیے رکھی تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ اس بہانے ہی سہی آپ شاید کنزہ بھابھی سے رابطہ کریں اور آپ دونوں کے درمیان یہ جو فصیلیں کھڑی ہوئی تھی وہ ٹوٹ جائیں ۔۔۔۔" ارسلان افگن نے بات شروع کی ۔

" اور مجھے اس بات کا غصہ تھا کہ آپ اس طرح اپنی منکوحہ کو ، اپنی عزت کو یوں میرے ارسلان کے سر کیوں ڈال رہے ہیں اور وہ بھی آپ کی بیوی ہوتے ہوئے یہ غلط کام کرنے کا کیسے سوچ سکتی تھی ؟ ۔۔۔۔" ماریہ انعام بڑے مزے سے اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

" وہ میری بیوی نہیں ہے ہماری طلاق ہوچکی ہے ۔۔۔۔" اذلان نے دل کے اندر اٹھتے کرب کو دباتے ہوئے کہا ۔

" واٹ ؟ ۔۔۔۔یہ کیا بکواس ہے ۔۔۔" ارسلان غضبناک ہوا ۔

" جس رات تمہارا حادثہ ہوا تھا اسی رات یہ سب ہوا میں نے اس رات شاید زیادہ پی لی تھی کنزہ میرے ساتھ ہی تھی پھر اس سے آگے مجھے کچھ یاد نہیں ۔۔۔۔" وہ الجھا الجھا بول رہا تھا ۔

" صبح کے چار بجے گھبرائی ہوئی موم نے مجھے زبردستی چہرے پر ٹھنڈا پانی مار مار کر ہوش دلایا اور بتایا کہ تمہارے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے اور کئی گھنٹوں تک سڑک پر اکیلے بےیارو مددگار پڑے رہنے کی وجہ سے تمہاری حالت بہت نازک تھی میں ہاسپٹل کی طرف دوڑا تم آئی سی یو میں تھے اور وہیں کوریڈور میں کنزہ کھڑی ہوئی تھی ۔

میں نے اسے اس رات اس کے گھر ڈراپ کیا تھا پھر صبح ہوتے ہی اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوانے کی کوشش کی مگر اس جگہ کیمرہ نہیں تھا ۔اس سے تھوڑی دور سگنل والے کیمرے سے چیک کیا تو ادھر بھاگتی ہوئی کنزہ نظر آئی یعنی حادثے کے وقت وہ تمہارے ساتھ تھی مگر تمہیں یوں اکیلا بے یارو مددگار مرنے کے لئیے چھوڑ کر جائے وقوع سے بھاگ گئی تھی۔۔۔۔۔" وہ رکا ۔

" میں اس سے ملنا چاہتا تھا سوال جواب کرنا چاہتا تھا پر وہ اپنی ماں کو لیکر راتوں رات فرار ہوگئی دوسری طرف موم نے مجھے اس رات شپ یارڈ کی سیکورٹی فوٹیج دکھائی۔۔۔۔۔" اذلان افگن نے سختی سے اپنے لب بھینچ لئیے ۔

" کیا تھا اس فوٹیج میں ؟ ۔۔۔۔۔" ارسلان نے برفیلے لہجے میں سوال کیا ۔

" کچھ نہیں ۔۔ " اذلان نے خود کو کمپوز کیا ۔

" بھائی کیا تھا اس وڈیو میں مجھے ابھی دکھائیں ورنہ قسم ہے آپ کی میں ابھی اسی وقت سوسائیڈ کرلونگا ۔۔۔۔" ارسلان چیخ کر بولا ۔

" اذلان برو ! اس رات میں اپنا سیل فون گاڑی میں بھول گئی تھی وہ لینے میں پارکنگ میں آئی تو ناز آنٹی ۔۔۔۔۔۔" وہ سارا قصہ سنانے لگی کہ کس طرح وہ کنزہ کو ڈرگ دے رہی تھیں اس کی بات سنتے ہوئے اذلان کا چہرہ سفید پڑتا جارہا تھا ۔

" یہاں بہت کچھ غلط ہے آپ کے پاس اگر وہ وڈیو محفوظ ہے تو دکھائیں بھائی ۔۔۔۔" ارسلان نے کہا ۔

بنا کچھ کہے اس نے اپنا لیب ٹاپ اٹھا کر بیڈ پر رکھا اور اپنی فائلز میں جاکر ایک وڈیو سلیکٹ کرکے پلے کری ۔۔۔

وہی ہٹ کا سین تھا ۔۔۔

" کیا ہوا جان ؟ ۔۔۔اتنا ڈر کیوں رہی ہو ؟ ۔۔۔۔" ازلان بڑی توجہ سے پوچھ رہا تھا

" ازلان ۔۔۔۔۔" وہ حلق تر کرتی ہوئی کھڑی ہوئی ۔۔۔

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ نے سختی سے آنکھیں بند کیں ۔

" آپ مجھے طلاق دے دیں ۔۔۔۔۔" وہ جلدی سے کہہ گئی ۔۔۔۔۔

تم ۔۔۔۔۔وہ پیچھے ہٹا ۔

"میں تم سے پیار نہیں کرتی اگر ذرا سی بھی غیرت رکھتے ہو تو مجھے ابھی کے ابھی طلاق دو ۔۔۔ " وہ سر پکڑے کھڑا تھا جب کنزہ کی آواز ابھری تھی پر اس کی شکل نظر نہیں آرہی تھی کیمرہ شاید دھندلا ہوگیا تھا ۔

میں ازلان افگن کنزہ مرتضیٰ کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔

میں ازلان افگن کنزہ مرتضیٰ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔

میں ازلان افگن کنزہ مرتضیٰ کو طلاق دیتا ہوں ۔۔۔

اس نے اسی طرح سر پکڑے تین بار یہ اذیت ناک الفاظ دہرائے تھے پھر وہی ڈھے گیا تھا ۔۔۔

" یہ ناممکن ہے ۔۔۔۔۔۔" ارسلان وڈیو کلپ دیکھ کر بڑبڑایا ۔

" یہ سب بہت بڑا فراڈ ہے یہ جعلی وڈیو ہے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اس وڈیو کو ایڈٹ کیا گیا ہے بھائی ۔۔۔۔" ارسلان جو غور سے وڈیو کو دیکھ رہا تھا لیب ٹاپ بند کرتے ہوئے بولا ۔

"واٹ ۔۔۔؟ ۔۔۔" اذلان افگن کو سو واٹ کا جھٹکا لگا تھا ۔

" ماریہ میرا فون دینا ۔۔۔۔" ارسلان نے سنجیدگی سے کہا

اور ماریہ سے فون لے کر کچھ دیر کانٹیکٹ میں سرچ کرنے کے بعد شپ یارڈ کا فون ملایا ۔

" ارسلان افگن ہئیر ! رابرٹ سے بات کراو ۔۔۔۔" وہ اپنے ازلی اکھڑ انداز میں بولا ۔

" یس سر ۔۔۔۔۔" دو منٹ میں رابرٹ لائن پر تھا۔

" رابرٹ تین سال پہلے جس رات میرا حادثہ ہوا تھا اس رات کی شپ یارڈ کی سیکیورٹی وڈیو چاہئیے فوری ۔۔۔۔"

" بٹ سر ۔۔۔۔" وہ ہچکچایا ۔

" تمہیں سنائی نہیں دیا مجھے اوریجنل کیمرہ فوٹیج چاہئیے ایک ایک سیکنڈ کی اور ۔۔۔۔۔۔" وہ رکا ۔

"مجھ سے چالاکی کرنے کی کوشش بھی مت کرنا میں جو ہوا وہ سب اچھی طرح سے جان گیا ہوں دو منٹ میں تمہیں جیل کروا دوں گا اگر ذرا سی بھی ہیر پھیر کی ، اتنا تو مجھے جانتے ہی ہونگے ۔۔۔۔۔" وہ برفیلے سرد لہجے میں بولا ۔

پندرہ بیس منٹ کے جان لیوا انتظار کے بعد ای میل پر وڈیو فائل آچکی تھی ۔


اذلان پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنا فون آنا ۔۔۔

اپنا کمرے سے نکل جانا ۔۔۔۔

پھر موم کا کمرے میں آکر کنزہ کو دھمکانا ۔۔۔

جوس کے گلاس میں گولی ملا کر کنزہ کو وارن کرنا۔۔۔

کنزہ کا روتے ہوئے طلاق کا مطالبہ کرنا ۔۔۔

اسی وقت ارسلان کا آنا اور سختی سے اذلان کو روکنا ۔۔۔

کنزہ کا باہر بھاگنا ۔۔

اور اذلان کا سر پکڑ کر وہی بیہوش ہونا ۔۔۔۔۔

پھر موم کا کمرے میں رابرٹ کے ساتھ آنا ۔۔۔

کسی وائس اوور آرٹسٹ کو بلوا کر ازلان کی آواز نکلوا کر وڈیو بنوانے کا حکم دینا ۔۔۔۔

سسرسسرسرسرسرسس ۔۔۔۔وڈیو ختم ہوچکی تھی ۔


" بھائی وہ اب بھی آپ کی بیوی ہے آپ کے نکاح میں ہے ۔۔۔۔۔۔" ارسلان کی آواز ابھری ۔

"میں ابھی ائی۔۔۔۔۔" ماریہ اٹھی ۔

" تم کہاں جارہی ہو ؟ ۔۔۔۔۔" ارسلان نے اسے ٹوکا ۔

" شادی کینسل کرنے اب ہماری شادی کنزہ بھابھی کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ۔۔۔۔۔"۔ وہ دو ٹوک لہجے میں بولی جس پر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ارسلان نے انگوٹھا دکھایا تھا ۔

*-------*-------*


دنیا بدل جاتی ہے لوگ بدل جاتے ہیں کچھ لوگ چلے جاتے ہیں مگر ۔۔۔۔

مگر زندگی چلتی چلی جاتی ہے ۔۔۔

اس وقت اسے اپنی زندگی ایک قید سی محسوس ہورہی تھی جیسے اسے اوپر والے نے زندہ رہنے کی سزا سنائی ہوئی ہو ،جارج انکل کے بعد اس کا دماغ ماؤف ہوکر رہ گیا تھا اکیلی تو وہ اپنی ماں کے مرنے کے بعد سے رہ رہی تھی پر جارج انکل کا سایہ اس پر سلامت تھا ان کے ہوتے کوئی اس کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اب ۔۔

اکیلی جوان لڑکی کا اکیلا رہنا ۔۔۔۔

بہتر یہی تھا وہ اپنی ماں کے رشتے داروں کے پاس پاکستان چلی جاتی مانا کہ ادھر بھی وہ شاید ان چاہی ہوتی کہ زندگی میں وہ کبھی بھی ان لوگوں سے نہیں ملی تھی مگر وہ اس کے باپ اور سوتیلی ماں سے تو پھر بھی بہتر ثابت ہوسکتے تھے ۔


اسے یاد تھا جب ثمن ہاسپٹل میں تھیں اور ان کے اچھے علاج اور ہاسپٹل ڈاکٹر کے اخراجات کے لئیے اسے پیسوں کی ضرورت تھی ان دنوں جارج انکل کسی کام سے اٹلی گئے ہوئے تھے وہ بڑی آس لے کر اپنے باپ کے پاس آئی تھی لیکن ۔۔۔۔

اس شخص نے پہلے کون سا باپ یا شوہر ہونے کا کوئی حق ادا کیا تھا جو اب کرتا ۔۔۔۔

الٹا اسے دھتکار دیا تھا ۔۔۔۔۔

وہ بہت پریشان تھی جب اس کی سوتیلی ماں جو پیشے کے لحاظ سے ایک پروفیشنل فوٹوگرافر تھی اس کے پاس آئی ۔

" میرے پاس ایک آفر ہے اگر تمہیں منظور ہو تو میں یہ پیسے تمہیں ارینج کروا کر دے سکتی ہوں ۔۔۔۔۔" پاؤلا ایڈولف اس کے بے داغ حسن کو سر سے پیر تک بغور دیکھتے ہوئے بولی ۔

" کیسی آفر ؟ ۔۔" کنزہ نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" مجھے ایک میڈیسن کمپنی کی اسٹٹڈی کے لئیے ینگ ایشین لڑکیوں کی اسکن پکس کی ضرورت ہے ۔۔۔۔اسکن پکس سمجھتی ہوں نا ؟ ۔۔۔"

" آپ ۔۔۔۔" کنزہ کا چہرہ ان کی آفر پر غصے سرخ پڑا تھا ۔

"بیفکر رہو میں خود پکس لونگی اور اس میں تمہارا چہرہ بالکل بھی نظر نہیں آئیگا اور یہ ایک اچھے مقصد کے لئیے ہیں اسکن کینسر اسٹٹڈی ۔۔۔۔" وہ اسے سمجھاتی ہوئی بولی ۔

" سوچ لو ! تمہاری ماں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے اگر وقت پر اس کا ٹرانسپلانٹ نہیں ہوا تو ۔۔۔۔۔۔" پاؤلا ایڈولف نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔

"میں یہ نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔" کنزہ نے صاف انکار کردیا تھا اب اس کا ارادہ اونے پونے دام گھر بیچنے کا بن گیا تھا۔

کئی دنوں کی بھاگ دوڑ کے باوجود وہ گھر نہیں بیچ پائی کہ اس کے باپ نے گھر میں اپنے حصے کا دعویٰ کردیا تھا ۔

ثمن کی حالت بگڑتی جارہی تھی انہیں جب سے کنزہ کی طلاق کا پتہ چلا تھا وہ ڈھے گئیں تھیں ۔

ہر طرف سے مایوس ہوکر وہ مجبوراً پاؤلا ایڈولف کے پاس کام مانگنے آگئی تھی ۔

اس بار پاؤلا نے اسے پیسے بھی کم دئیے تھے وہ بکنی میں سمندر کنارے شوٹ کروا کر واپس آئی چار ہزار ڈالر کا چیک ہاتھ میں لئیے ہاسپٹل پہنچی مگر ۔۔۔۔۔

اس کی خوددار ماں یہ دنیا چھوڑ چکی تھی ۔۔۔۔

اس نے آنے میں دیر کردی تھی ۔۔۔۔

وہ یاپسٹل کی دیوار سے ٹیک لگا کر وہی سکتے میں بیٹھ گئی تھی اور اس کے ہاتھ میں پھڑپھڑاتا ہوا چیک ۔۔۔

خالی خالی نظروں سے اس چیک کو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کردیا تھا ۔


اپنا فلیٹ وہ خالی کرچکی تھی سارا سامان اس نے کرسٹین آنٹی کو دے دیا تھا اور اب وہ ایک سوٹ کیس میں اپنے ڈاکیومنٹ اور ضروری سامان پیک کئیے فلیٹ پر ایک ایک آخری طائرانہ نظر ڈال رہی تھی ۔۔۔

زندگی نے اب اسے کہاں لے جانا تھا یہ وہ نہیں جانتی تھی اگر پاکستان ماں کے رشتے داروں کے گھر اسے جگہ نہیں ملتی تو اس نے پاکستان میں ہی بے سہارا عورتوں کے شیلٹر ہاؤس جانے کا بیک اپ پلان سوچا ہوا تھا ۔

اس نے ایک بار پھر اپنا بیگ چیک کیا ، جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا پاسپورٹ ، ٹکٹ چیک کیا ۔

اپنا بیگ اٹھائے وہ گھر لاک کرکے نیچے آئی فلیٹ کی چابی بلڈنگ سپروائزر کو واپس کی اور ایک آخری الوداعی نظر بلڈنگ پر ڈالتی ہوئی باہر نکل آئی جہاں وہ پہلے ہی کیب کال کرچکی تھی ۔

بلڈنگ کی سیڑھیوں کے پاس ہی ٹیکسی کھڑی ہوئی تھی وہ اپنا بیگ اٹھا کر ٹیکسی کی سمت آئی جب پیچھے سے ایک مضبوط مردانہ ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے بیگ کنزہ کے ہاتھ سے لے لیا۔

" تم جاسکتے ہو ہمیں ابھی ٹیکسی کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔" جیب سے کڑکڑاتا ہوا نوٹ نکال کر وہ ڈرائیور کو دیتا ہوا بول رہا تھا اور کنزہ ساکت و جامد سی اسے دیکھ رہی تھی جو بہت پرسکون اور پہلے سے کہیں زیادہ ہینڈسم نظر آرہا تھا۔

وہ ٹیکسی ڈرائیور کو چلتا کرکے پلٹا ایک ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھاما اور دوسرے میں اس کا بیگ اٹھا کر واپس بلڈنگ کے اندر چلا گیا تھا ۔

کنزہ کا دماغ یوں اچانک سے اذلان افگن کی موجودگی ، پھر یوں استحقاق بھرے انداز میں اس کا ہاتھ پکڑنے پر ماؤف سا ہوکر رہ گیا تھا وہ اس کے ساتھ گھسیٹتی ہوئی سی چلی جارہی تھی ۔۔۔

ختم شدہ

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Khawab Sarab Si Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Khawab Sarab Si    written by Seema Shahid  . Mohabbat Khawab Sarab Si  by Seema Shahid is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like th episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 


No comments:

Post a Comment