Suno Na Sangemarmar By Hina Asad New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 22 July 2024

Suno Na Sangemarmar By Hina Asad New Complete Romantic Novel

Suno Na Sangemarmar By Hina Asad New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sano na Sangemarmar By Hina Asad Complete Romantic Novel 

Novel Name:Suno Na Sangemarmar

Writer Name: Hina Asad

Category: Complete Novel

22جون کا گرم ترین دن تھا ۔آگ اگلتے ہوئے سورج کی تپش انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند پرند اور

 جانوروں تک کو جُھلسا رہی تھی دور تک پھیلے اس تھر کے صحرا میں گرم ریت اڑ رہی تھی۔تیز چلتی لُونے جسم میں کانٹے سے بھر دئیے تھے ۔۔۔

صحرائے خاران (Kharan Desert) ایک ریت کا صحرا ہے جو پاکستان کے صوبے بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔۔

ان صحراؤں میں چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں گاؤں کے لوگ سادہ لوح ہیں۔زراعت اور گلہ بانی انکا پیشہ ہے ۔

" او ۔۔۔ری ۔۔۔ سسی ! ۔زرا تھم کہ چل ۔۔۔۔!!!

زرا وہاں تو دیکھ اس صحرا میں یہ دھول اڑاتے ہوئے بھلا کون چلا آرہا ہے "

اس نے پانی کا مٹکا کنویں سے بھر کر سر پہ دھرنے کی بجائے سانس لینے کو گرم ریت پہ رکھا ۔۔۔اور اپنی ساتھی سسی سے کہا ۔۔۔

" ہائے۔۔۔امینہ ۔۔۔ ایسی بڑی گاڈی میں کون آسکتا ہے بھلا ؟سسی نے پانی سے بھرا گھڑا کمر پہ ٹکاتے ساتھ رنگ برنگی چنری دوپٹہ اپنے دانتوں تلے دبا کر حیرت زدہ آواز میں کہا ۔"

"اچھا چل چھوڑ جو بھی ہو ماڑی بلا سے ۔۔۔گھر جلدی نا پہنچی تو تھارا تو کچھ نا جائے گا ماڑی خیر نئیں ۔ ماں سا سے ۔۔۔۔

اس نے سر جھٹک کر کہا ۔۔۔

ان کے ساتھ آئیں باقی سکھیاں بھی اپنے گھڑے بھرنے لگیں ۔۔۔

سسی اپنا پانی سے بھرا ایک گھڑا کمر پہ رکھے تو دوسرا سر پہ رکھے سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے چل رہی تھی ۔۔۔۔اس کے کھسے میں مقید نازک پاؤں گرم ریت میں دھنسے چلے جا رہے تھے ،مگر وہ اس سب کی عادی تھی ۔۔۔۔

تبھی ایک تیز رفتار چیپ کے ٹائروں کی چڑاچڑاہٹ کی آواز سے اسکے بالکل قریب آن رکی ۔۔۔

ڈر کے مارے سسی کے سر والا گھڑا غیر متوازن ہوکر نیچے گرا اور ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔۔۔پانی گرم ریت پہ گرا ۔۔۔

جو دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی تمازت سے خشک ہوگیا ۔۔۔

اس نے فق نگاہوں سے چیپ کو دیکھا ۔۔۔

وہ جادو گر چھلانگ لگا کر فرنٹ سیٹ سے نیچے کودا ۔۔۔

گرم ریت کے ذرات اڑاتی ہوئی دھول کا منظر پیش کرنے لگے ۔۔۔

سب لڑکیوں نے اپنی چنریوں سے منہ ڈھانپ لیا ۔۔۔

سوائے سسی کے ۔۔۔۔وہ ہوش میں ہوتی تو ہل پاتی نا ۔۔۔

"بلیو جینز پہ چاکلیٹ براؤن شرٹ پہنے ،سرخ و سفید رنگت مغرور تیکھے جاذب نظر نقوش ،سیاہ آنکھوں میں بے حد چمک تھی ۔۔۔ایسی مقناطیسی چمک جو کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑ کر  ہوش بھلا دینے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔۔۔

"پانی ...!!!

اس جادوگر نے اپنی بھاری گھمبیر آواز میں کہا۔

"ج۔۔۔جی ۔۔۔یی۔۔۔"

سسی نے چونک کردیکھا ۔

اور اپنی کمر پہ موجود گھڑے سے اسکے ہاتھوں پہ کنویں کا ٹھنڈا میٹھا پانی ڈالا ۔۔۔

اس نے اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا اور اپنے منہ پہ چھپاکے مارنے لگا ۔۔۔۔

اسکی گھنی مونچھوں تلے عنابی مسکراتے لب ،چہرے پہ تازہ شیو کی نیلاہٹیں نمایاں تھیں ۔۔۔

سسی بنا سوچے سمجھے یک ٹک بس اسکے ہاتھوں پہ پانی بہاتی گئی ۔۔۔۔

سردار آتش بلوچ نے ایک اچٹتی نگاہ اس حسینہ پہ ڈالی جو اسے دیکھ کر دنیا جہاں سے بیگانہ ہوچکی تھی ۔۔۔۔اس نے ایک مبہم سی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی ۔۔۔۔گھڑے سے بہتے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور ساتھ ساتھ نگاہوں کی بھی ۔۔۔

اس نے ایک ہاتھ کی مٹھی پانی سے بھر کر سسی کے چہرے کی طرف اچھالا ۔۔۔

وہ سٹپٹا کر حیرت سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔

نظروں کا نظروں سے تبادلہ ہوا ۔۔۔

وقت جیسے وہیں تھم سا گیا تھا ۔۔۔۔

سسی کے ہاتھ سے پانی کا دوسرا گھڑا بھی چھوٹ گیا ۔۔۔

سب سکھیاں جو دور سے سارا منظر دیکھ رہی تھیں سسی کی حالت پہ کھکھلانے لگیں ۔۔۔

سسی نے پیچھے مڑ کر انہیں اپنی بڑی بڑی سیاہ غزالی آنکھوں سے سخت گھوری ڈالی

سردار آتش بلوچ اس کی طرف جاندار سی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے ویسے ہی چھلانگ لگا کر جیپ میں بیٹھا ۔جیسے نیچے اترا تھا اور آنکھوں پہ سیاہ گاگلز لگاتے ہوئے لمحوں میں دھول اڑاتی ہوئی جیپ لیے آنکھوں سے اوجھل ہوگیا ۔۔۔۔

"تو نے تو کمال کردیا ""امینہ نے قریب آتے سسی کے شانے سے شانہ مارتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔

"امینہ سچ بتا مارے کو ۔۔۔

"یہ مارا کوئی خواب تھا یا حقیقت۔۔۔۔؟

وہ ابھی بھی اسی کیفیت میں مبتلا کھوئی ہوئی تھی۔۔۔

"حقیقت تھی پگلی ...!!!

"سچ پوچھ تو سسی مجھے لگا کہیں کا شہزادہ اپنے علاقے کا پتہ بھول ۔۔۔مارے علاقے میں آبھٹکا تھا ۔۔۔۔

امینہ بھی اسکے سحر میں مبتلا تھی ۔۔۔۔

"ورنہ یہاں کے تو ایک بھی مرد کی شکل دیکھنے لائق نہیں ۔۔۔وہ جل کر بولی ۔۔۔۔

"زہر لگتی مارے کو انکی بڑی بڑی مونچھیں ۔۔۔۔دیکھا اسے ۔۔۔وہ تو مجھے گھنا(زیادہ ) پیارا لگا ۔۔۔

"چل اب نیت خراب نا لیجیو تو ۔۔۔۔وہ تو مارے سپنوں کا شہزادہ ہے "

سسی نے مسکرا کر ایک بار دوپٹے کا پلو دانتوں تلے دبایا۔۔۔

امینہ نے برا سا منہ بنایا ۔۔۔

"او تیری !!!

امینہ اب کیا کروں ؟؟؟

"مارے تو دونوں گھڑے اس شہزادے کے چکر میں پھوٹ گئے ۔۔۔۔

"ایسے خالی ہاتھ گھر گئی نا تو ماں سا نے میرا سر پھوڑ دینا ان کی طرح "

"اب بتا کیا کروں ؟"

وہ پریشانی سے بولی ۔۔۔

" ہاں تو تجھے کس نے کہا تھا۔۔۔اسے دیکھ کر سب بھلا دینے کو ۔۔۔۔چل تو میرا ایک گھڑا لے لے ۔۔۔۔اتنا ہی کرسکتی تھارے لیے ۔۔۔ تھاری وجہ سے مارے کو بھی دیر ہو گئی اب تو دونوں کی خیر نہیں ۔"

امینہ اس کے قدم سے قدم ملا کر چلتی اسے الزام دینے لگی۔

" واہ ری۔۔۔۔دیکھ لی تھاری دوستی ۔۔۔۔ اب تو بھی مجھے طعنے دے گی اس شہزادے کے ۔۔۔۔

سسی خفگی سے منہ پھلا کر بولی ۔۔۔۔

"اچھا چھوڑ ساری باتیں ۔۔۔ناراض نا ہوا کر ایسے ہی کہہ دیا تھا "

اس نے صلح جو انداز میں کہا تو سسی بھی سب بھلا کر مسکرانے لگی ۔

" سسی...!وہ آہستگی سے بولی ۔۔۔۔"

"ہاں بول...اس نے امینہ کے چپ ہوجانے پہ پوچھا ۔

"تو اس شہزادے کے ساتھ چلی جائے گی تو مارے لیے بھی ویسا ہی شہزادہ ڈھونڈھنا ۔۔۔میں تھارے بغیر کیسے رہوں گی ؟

امینہ کے لہجے میں دکھ سمٹ آیا تھا ۔۔۔۔سسی کی شادی کے بعد رخصتی کا سوچ کر

"میں کونسا تھارے بنا رہ سکتی ۔۔۔۔ضرور ڈھونڈھوں گی تھارے لیے بھی ایسا ہی شہزادہ ۔۔۔اب دعا کر اللّٰہ اسے میری قسمت میں لکھ دے ۔۔۔

وہ مسکرائی مگر امینہ چپ تھی ۔۔۔

چل اب مسکرا دے نا . . !! ۔نہیں تو یہیں کسی ُمچھڑ (مونچھوں )سے بیاہ ہوجائے گا تھارا ۔۔۔ہاں نئیں تو "

اس کی بات سن کر امینہ بھی کھکھلا اٹھی ۔۔۔۔

دونوں امینہ کے گھر کے دروازے پہ رکیں ۔۔۔

"امینہ صبح بھیڑ بکریاں چرانے چلی گی مارے ساتھ "؟

"نانا ۔۔۔میں نہیں ۔۔۔وہ کام تو بھائی سا کرے گا ۔۔۔۔میں نہیں کرتی ۔۔۔

اس نے انکار کیا ۔۔۔

"ماں سا نہیں جا سکتی نا اسی لیے مجھے ہی جانا پڑے گا ۔۔۔۔

سسی افسردگی سے کہتے ہوئے اپنے گھر کے راستے پہ چل دی جو یہاں سے بیس قدم کی دوری پہ تھا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ امریکہ کے ایک مشہور ترین کلب

DJ-studded Chicago

میں ایک بازو صوفے پر پھیلاۓ اپنے دوستوں کے جمگھٹے میں بیٹھا تھا اسکے دوستوں نے آج پہلی بار اسے وائن پینے کے لیے مجبور کیا تھا ۔۔۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان سے مردانگی کے طعنے سنتے ہوئے مجبور ہوگیا تھا اس حرام شے کو منہ لگانے کو ۔۔

ڈانس فلور پہ کئی لڑکے اور لڑکیاں بے ہنگم میوزک پہ ایک دوسرے کی بانہوں میں جھوم رہے

ایک ماڈرن امریکی لڑکی جس نے آدھا ادھورا جدید طرز کا لباس ناہونے کے برابر پہن رکھا تھا ۔۔۔ ان میں سے نکل کر اس کے پاس آئی ۔۔

So, baby, pull me closer

In the back seat of your Rover

That I know you can't afford.

اس نے ویسٹرن سٹیپ لیتے ہوئے اسکی شرٹ میں انگلی پھنسا کر اسے اٹھنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

Bite that tattoo on your shoulder

Pull the sheets right off the corner

Of that mattress that you stole

From your roommate back in Boulder۔

اس لڑکی کی نظریں اس کے ٹی شرٹ سے جھانکتے کسرتی سفید اور سرخ بازوؤں پہ تھیں ۔جس پہ ٹیٹو بنا تھا ۔۔وہ شخص اپنے اندر شہزادوں سی آن بان رکھتا تھا۔وجاہت میں اسکا کوئی ثانی نہیں تھا۔مغرور ایسا کہ اسکی بے رخی جان سے مار ڈالے لیکن اپنوں کے لیے وہ نہایت پہ مہربان ثابت ہوا تھا ۔اسکی وجاہت میں جو چیز چار چاند لگاتی تھی وہ تھیں اسکی آنکھیں۔۔۔۔جن میں ایک سرد پن تھا ۔۔۔۔پر بلا کی پرکشش آنکھیں تھیں۔ سیاہ مڑی ہوئی پلکیں ،دیکھنے والا خواہ مرد ہو یا صنف مخالف ہر کوئی ان آنکھوں کے طلسم میں ڈوب جاتا ۔۔۔

اس نے آنکھیں بند کر کہ ایک ہی سانس میں یہ زہر اپنے اندر انڈیلا ۔۔۔وہ جلد از جلد اس زہر سے اپنا پیچھا چھڑوا لینا چاہتا تھا۔۔۔

اس نے لڑکی نے اسے اٹھنے پہ مجبور کیا تو اس نے بیدری سے اس کا ہاتھ پیچھے جھٹک دیا ۔۔۔۔

"کیا یارم بلوچ ....!!!!!

"میں نے تو سنا ہے ۔۔۔سردار اپنے گاؤں کی کسی لڑکی کو نہیں چھوڑتے ۔۔۔

"تو کیسا سردار ہے ۔۔۔۔ایک لڑکی پکے ہوئے آم کی طرح تیری جھولی میں گرنے کو تیار ہے ۔۔۔اور تیرے ٹشن نہیں ختم ہورہے ۔۔۔۔"

اسکے ساتھ بیٹھے ہوئے بابر نے کہا ۔۔۔۔

"اوئے کمینے پہلے ہی تیرے کہنے پہ پی لی ۔۔۔۔

"اب بکواس کی نا تو تیرا یہ شیطانی دماغ والے سر کو توڑ کر کلب سے باہر پھینکوا دوں گا ۔۔۔۔"

وہ لڑکھڑاتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔۔

We ain't ever getting older

We ain't ever getting older

We ain't ever getting older

So, baby, pull me closer

In the back seat of your Rover

That I know you can't afford

Bite that tattoo on your shoulder.

وہ لڑکی اسکی شخصیت سے اچھی خاصی متاثر ہوچکی تھی ۔۔۔مغرور ناک ،چہرے پہ سنجیدگی ،صبیح پیشانی پہ بکھرے سلکی سیاہ بال ،اسکی شخصیت کو چار چاند لگا رہے تھے ۔اس نے اپنی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے ڈانس فلور کی حدود سے باہر جاتے ہوئے یارم بلوچ کا بازو کھینچ لیا۔۔۔

اب وہ لڑکی اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے اس کے قریب آ کر ڈانس کرنے لگی۔۔

"Stay away from me"

یارم نے ایک بار پھر اسکے بازو اپنے گردن سے جھٹکے ۔۔۔۔

اس لڑکی کو اس سے اس قسم کے جارہانہ تیوروں کی قطعا امید نہیں تھی ۔۔۔

وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکی،،، لہراتی ہوئی ڈانس فلور پہ گری ۔۔۔۔

اس نے فق نگاہوں سے اسے دیکھا جو بے نیازی سے چلتا ہوا باہر نکل رہا تھا ۔۔۔اس کے دوست بھی سب اس کے پیچھے باہر نکلے ۔۔۔۔

وہ گاڑی میں فل والیوم میں میوزک لگاۓ واپسی کے سفر پر گامزن تھے ۔۔۔۔گاڑی یارم بلوچ کی تھی اسی لیے وہی ڈرائیو بھی کر رہا تھا باقی سب اسکے ساتھ ہلہ گلہ کرنے میں مصروف تھے ۔۔۔آج رات ان کی یہاں آخری رات تھی ۔۔۔کل ان لوگوں نے واپس پاکستان فلائی کرجانا تھا۔۔۔۔

یارم بلوچ جو ایم بی_ بی_ ایس کرچکا تھا ،سپیشلائزیشن کے لیے امریکہ گیا تھا ۔وہ بہت سنجیدہ اور لیے دئیے رہنے والا انسان تھا ۔مگر دوستوں کے ساتھ بہت مخلص ۔۔۔آج رات اس کے دوستوں نے اسے مجبورکیا کہ وہ آج رات کو یادگار بنانا چاہتے ہیں۔انہیں کے اصرار کرنے پہ وہ ان کے ساتھ آیا تھا ۔۔۔۔

شراب کا نشہ دھیرے دھیرے اس پہ چھانے لگا تھا ۔۔۔۔

آنکھیں اپنے آپ ہی بند ہونے لگیں تھیں ۔۔۔روڈ پہ رات کے اس وقت ٹریفک نا ہونے کے برابر تھیں ۔۔۔اسےسب دھندھلا سا دکھائی دے رہا ۔۔۔۔

اسے بند ہوتی آنکھوں سے اتنا دکھائی دیا کہ کوئی پیدل چلتے ہوئے گاڑی کے سامنے آ رہا تھا ۔۔۔۔اس نے گاڑی کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی ۔۔۔۔

مگر جب وقت خراب ہوتو ہر کام ہی خراب ہوتا ہے ۔۔۔

کوئی اسکی گاڑی سے ٹکرا کر دور جا گرا ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے گاڑی کو وہیں بریکس لگائیں ۔۔۔۔گاڑی کے ٹائروں کی چڑاچڑاہٹ کی آواز روڈ پہ گونجی ۔۔۔

وہ یکلخت کار کا دروذہ کھول

کر باہر نکلا ۔۔۔باقی دوستوں نے بھی اس کی تقلید کی ۔۔۔۔

ایک لڑکے کو زخمی حالت میں تڑپتے دیکھ کر سردار یارم بلوچ کا سارا نشہ ہرن ہوا ۔۔۔

اس کی سیاہ روشن آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں اس لڑکے کے سر اور منہ سے خون نکلتے دیکھ کر ۔۔۔۔

وہ لڑکا بہت بڑی طرح زخمی ہو چکا تھا ۔۔۔۔اس ٹھنڈ میں بھی یارم کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں ابھریں۔۔۔۔

"Cha....aaaa ..

اس لڑکے کے منہ سے ٹوٹے ہوئے لفظ نکلے ۔۔۔۔یارم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اسے اٹھانے کے لیے ۔۔۔تاکہ وہ اسے بروقت ہسپتال لے جائے اوراس کا علاج کرسکے ۔۔۔۔

اس لڑکے نے یارم کا ہاتھ اپنے خون سے لت پت ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیا ۔۔۔۔

یارم نے اسکی بات سمجھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

"Cha....aaaaa.....!!!!

اسکے منہ سے یہ آخری لفظ نکلے ۔۔۔۔پھر اسکے ہاتھ کی گرفت یارم کے ہاتھ سےڈھیلی پڑتے ہوئے آخر کار بے جان ہوگئی ۔۔۔

اس کی ادھ کھلی آنکھوں کی پتلیاں ساکت رہ گئیں۔۔۔۔

یارم کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔

"بابر ۔۔۔۔میں نے اسکی جان لے لی ۔۔۔۔۔

وہ پلٹ کر اپنے پیچھے کھڑے ہوئے دوستوں کی طرف دیکھ کر تڑپتے ہوئے چیخا ۔۔۔۔

"نہیں یارم ۔۔۔۔یہ بس ایک حادثہ تھا "

بابر نے اسکے قریب آتے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اپنے تئیں اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔۔۔۔

"نہیں بابر ۔۔۔مم۔۔۔م۔میں ذمہ دار ہوں اسکی موت کا ۔۔۔

"آج میں نے انہیں ہاتھوں سے کسی کی جان لے لی ۔۔۔۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو روڈ پہ زور سے مار کر بولا ۔۔۔۔

پھر اپنے بالوں کو مٹھیوں میں زور سے جکڑ لیا ۔۔۔

وہ ضبط کی انتہاؤں پہ پہنچا تھا۔۔۔۔مگر آنسو ضبط کرنا مشکل ہوا ۔۔۔۔

وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا ۔۔۔۔اسکی ہر چیز پر خواہش بنا کہے پوری ہوجاتی تھی ۔۔۔آنسووں کا اوراس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔۔۔۔

آج زندگی میں پہلی بار وہ ایسے رویا تھا ۔۔۔

"یارم چل چلیں یہاں سے پولیس نے دیکھ لیا تو مشکل ہو جائے گی ۔۔۔۔

بابر نے اسے وہاں سے اٹھانے کے لیے اس کا بازو کھینچ کر کہا ۔۔۔

"نہیں ۔۔۔۔یارم نے ہاتھ چھڑوانا چاہا ۔۔۔

"تجھے پتہ ہے نا یہاں امریکہ کے رولز کتنے سخت ہیں ۔پکڑے گئے تو عمر بھر کے لیے جیل میں بند ہو جائیں گے ۔۔۔پاکستان کی ہوا سونگھنے کو بھی ترس جائیں گے ۔۔۔۔ان گوروں کی جیل میں ۔۔۔

"میں کہہ رہا ہوں ۔۔۔چل نکل چلتے ہیں یہاں سے "

اس نے اپنے تئیں ایک بار پھر مخلصانہ مشورہ دیا۔۔۔۔

"پاگل ہے تو بابر ۔۔۔۔۔

"ایک گناہ تو کردیا میں نے اسے ۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے مار کر ۔۔۔

"اب اسے بے یار و مددگار سڑک پہ چھوڑ جاؤں ۔۔۔۔اس کے گھر والوں کا نجانے کیا حال ہوگا ۔۔۔۔صرف میری وجہ سے ۔۔۔۔

وہ اٹھتے ہوئے غرایا ۔۔۔

"یارم تو سمجھ نہیں رہا ۔۔۔تو پھنس جائے گا ۔۔۔۔

باقی سب نے بھی اسے سمجھانا چاہا ۔۔۔

"تم سب لوگ میری مدد کرو ۔۔۔۔

اس کے دماغ نے کام کیا ۔۔۔۔تو وہ سوچتے ہوئے بولا ۔۔۔

"وہ کیا ؟؟؟

بابر نے پوچھا ۔۔۔۔

"اس کی پاکٹ سے اس کا ایڈریس وغیرہ ملت گا ۔۔۔جو بھی ملے وہ نکال لو ۔۔۔

یہاں قریب ہی ایک مسلم کمیونٹی کا علاقہ ہے ۔اسے وہاں لے چلتے ہیں ۔شکل سے تو انگریز نہیں مسلمان لگ رہا ہے ۔

اس کی اچھے سے تدفین کردیتے ہیں ۔میں اسے اپنا بھائی ظاہر کرواؤں گا ۔۔۔

تم سب میرا ساتھ دینا۔۔۔

وہاں سے فارغ ہوکر اسکے گھر جائیں گے ۔۔۔۔میں ان کی کچھ مدد کردوں گا ۔۔۔

سب نے تحمل سے اس کی بات سنی پھر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"منشی صاحب آپ ایسا کیجیے یہ حساب کتاب والا رجسٹر ہمیں دیجیے ۔۔۔کل تک ہم اسے اچھے سے دیکھ لیں گے پھر آپ کو بتائیں گے کہ اور کتنی زمین خریدنی پڑے گی "

"جو حکم سردار ۔۔۔!

منشی صاحب نے تھوڑا سا سر کو خم دیتے ہوئے حویلی سے ہی اجازت چاہی ۔۔۔

سردار فلک بلوچ رجسٹر اٹھائے اندر کی طرف آئے ۔۔۔

سردار فلک بلوچ جدی پُشتی مُرشد و پِیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی وہ اپنے خاندان کی ساکھ برقرار رکھے ہوئے تھے اندر داخل ہوتے ہی ایک بڑا سے ہال نما لاؤنج کا منظر تھا ہال یہاں کے مکینوں کے بہترین ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔۔۔ہال کے وسط میں نہایت قیمتی فانوس روشن تھے ۔۔۔۔وہاں بلوچی طرز لکڑی کے نقش و نگار سے کنندہ صوفے ۔۔۔۔اور بلوچی سجاوٹ کے شو پیس سجائے گئے تھے ۔۔۔دیوار پہ رائفلز لٹک رہی تھیں ۔شکار کرنے کے آلات اور ایک بارہ سنگھا کی کھوپڑی کا شو پیس لگا تھا ۔۔۔

دیوار پہ ایک انلارج سائز کی تصویر لگی تھی ۔۔۔۔

جسے شہر سے بڑی کروا کر یہاں لگایا گیا تھا ۔۔۔

اس تصویر میں چار مرد حضرات نظر آرہے تھے ۔۔۔

شاہانہ انداز میں صوفے پہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے سردار فلک بلوچ۔داہنے طرف انکا سب سے چھوٹا بیٹا سردار آتش بلوچ ،

بائیں طرف انکے دوسرا بیٹا سردار ھاد بلوچ ،

اور انکے صوفے کے پیچھے کھڑا سب سے بڑا بیٹا سردار یارم بلوچ ۔۔۔۔سردار فلک بلوچ وجیہہ تھے ۔۔۔لیکن ان کے تینوں بیٹیوں نے اصل خوبصورتی اپنی ماں زرش بلوچ سے چرائی تھی ۔۔۔۔

تینوں وجاہت میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔۔۔۔کوئی بھی ان تینوں میں چناؤ کرتا کہ کون بہتر ہے تو اسے چناؤ کرنا مشکل ہوجاتا ۔۔۔

" سردار صاحب آتش آیا نہیں ابھی تک ۔۔۔۔۔؟؟۔۔"

زرش بلوچ نے اپنی بلوچی زبان میں دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

" آج آجائے گا یہی کہا تھا اس نے ۔۔۔۔ہم آگئے ہمیں بھی کوئی چائے پانی پوچھ لو "

ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی یقینا یہ ان کو بھی دلی خوشی تھی اس کے آنے کی مگر ان کا دھیان بٹانے کو ٹھیٹ بلوچی میں جوابا کہا تو زرش بلوچ اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

کچھ دیر بعد ٹرے میں پانی لیے انکی طرف آئیں ۔۔۔۔

" ھاد کہاں رہ گیا وہ بھی نہیں آیا اب تک ۔۔۔۔"؟

انکی پریشانی حد سے سوا تھی ۔۔۔آخر کو وہ ایک ماں تھیں اور انکی پریشانی بجا تھی اپنے بیٹوں کو لے کر ۔۔۔۔

"یارم ایک دو دنوں میں آئے گا امریکہ سے ۔۔۔۔آتش آنے ہی والا ہے ۔۔۔

تم بیٹھو ۔۔۔۔یہاں ۔۔۔

انہوں نے زرش بلوچ کو اپنے ساتھ بیٹھے کو کہا ۔۔۔

اور وہ گئی بات ھاد کی تو اس کے کالج کے کسی دوست کی شادی ہے اس میں گیا ہے اب ایک دو دن تو اسے بھی لگ ہی جائیں گے واپسی میں ۔۔۔۔تم آتش کی پسند کا کھانا تیار کرواو ۔۔۔مارا لاڈلا بیٹا ہے ۔۔شہر سےاپنی پڑھائی مکمل کر کہ آ رہا ہے ۔۔۔۔میرا شیر ۔۔۔اسکی خاطر میں کوئی کمی نا رہ جائے ۔۔۔۔

"جی سردار ۔۔۔۔

وہ ایک بار پھر کھانے کا انتظام دیکھنے کچن کی طرف بڑھیں کہ ملازمہ نے کھانا تیار کیا یا نہیں ابھی تک ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج سردار ھاد بلوچ کے دوست کی مہندی تھی ۔۔۔اسی حساب سے گاؤں میں پنڈال سجایا گیا تھا اور بڑے پیمانے پہ مہندی کے فنکشن کا انتظام کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔رئیس اسکے کالج کا دوست تھا ان دونوں نے ساتھ ہی بی_بی_اے کیا تھا ۔۔۔اسکے بعد ھاد نے آگے کی تعلیم مکمل نہیں کی ۔۔۔کیونکہ اسکا بڑا بھائی یارم اور چھوٹا بھائی آتش دونوں پڑھائی کے سلسلے میں گھر سے دور تھے ۔۔۔تو اس نے اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔وہ انہیں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔تبھی اپنے آگے پڑھنے کا خواب ادھورا چھوڑ دیا ان کے لیے ۔۔۔مگر رئیس کے بار بار اصرار کرنے پہ آج وہ اسکے گاؤں آیا تھا اس کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے ۔۔۔۔ان کے گاؤں کی رسمیں بہت عجیب تھیں اسے یہاں آکر پتہ چلا تھا ۔۔۔وہ کافی حیران بھی تھا مگر خوش بھی ۔۔۔۔

ھادیہ جو سردار دلاور بلوچ کی اکلوتی بیٹی تھی ۔۔۔وہ بھی اپنی دوست کی شادی میں شرکت کے لیے یہاں آئی ہوئی تھی ۔۔۔مہندی مشترکہ ہونی تھی اور رسمیں بھی ۔۔۔۔

ھادیہ آج بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔کالے رنگ کا خوبصورت شیشیوں سے مزین فراک پہنے۔سلور رنگ کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس کانوں میں سجائے بال رول کیے،لائٹ پنک میک اپ میں وہ بہت دلکش دکھائی دے رہی تھی ۔ 

مہندی کی رسم شروع ہوئی ۔۔۔

دو باؤل میں پرچیاں ڈال دیں گئیں ۔۔۔۔

ایک طرف سے ایک لڑکے نے آنا تھا اور دوسری طرف سے لڑکی نے ۔۔۔۔

جس لڑکی کا نام بولتا اسے آکر اس لڑکے سے اپنے ہاتھ پہ مہندی لگوانی ہوتی ۔۔۔۔

سب سے پہلے دولہا نے اپنی دلہن کہ ہاتھ پہ مہندی لگا کر رسم نبھائی ۔۔۔

سب نے خوب ہوٹنگ کی ۔۔۔۔

"ہائے اللّٰہ یہ تو پہلی باری کی میری آگئی ۔۔۔نجانے کون ہوگا ۔۔۔۔

سب سے پہلی پرچی پہ ھادیہ کا نام نکلا تو اس نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔

"کاش میری سہیلی ھادیہ کو میری مہندی میں اسکا ھاد مل جائے ۔۔۔۔انزلہ نے اسے چھیڑتے ہوئے شرارت سے کہا ۔۔۔

انزلہ ھادیہ کی ماموں زاد تھی اور اسکی بچپن کی دوست بھی وہ دونوں ہی اپنی اس دوست کی شادی میں شرکت کے لیے ایک ساتھ آئیں تھیں ۔۔۔

"چل ہٹ بدتمیز ۔۔۔بے حیا کہیں کی ۔۔۔وہ شرماتے ہوئے اسے دھپ رسید کیے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔

"دوسری طرف سے آرہے ہیں سردار ھاد بلوچ ....باہر سے سردار ھاد بلوچ کا نام سن کر ھادیہ کا دل ساکت ہوا ۔۔۔

"ہا۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔سچ کہا تھا میں نے مل گیا نا میری ھادیہ کو سردار ھاد ۔۔۔۔اب کی باری انزلہ نے شرارت سے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"تیری زبان ہی کالی ہے ۔۔۔چڑیل ۔۔۔۔ھادیہ نے دانت کچکچا کر کہا ۔۔۔۔

"چل بیٹا تو زرا سردار ھاد سے نپٹ لے پھر آنا مجھ تک "

اس نے باہر جاتی ھادیہ کو پیچھے سے ہانک لگائی۔۔۔

"ھادیہ دھیان سے کہیں ھاد بلوچ کوئی بڈھا کھڑوس نا نکل آئے ۔۔۔

"تجھ سے تو میں واپس آکر نبٹتی ہوں "

وہ بھی جوابا دھمکی دینا نہیں بھولی ۔۔۔۔

پنڈال کے درمیان میں دو کرسیاں بیٹھنے کے لیے رکھی گئیں تھیں اور ٹیبل پر مہندی رکھی گئی تھی ۔۔۔۔

جیسے ہی ھادیہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے سر جھکائے کرسی تک پہنچی ۔۔۔

اسکی نظر کھیڑی میں مقید اس کے پاؤں پہ پڑی ۔۔۔۔

پھر اسکی سیاہ رنگ کی گھیرادر شلوار پہ وہ سیاہ رنگ کے بلوچی لباس میں ملبوس شانوں پہ سیاہ رنگ کی شال اوڑھے ۔۔۔۔اسے ہی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

کیا کوئی مرد اتنا بھی وجیہہ ہوسکتا ہے ۔۔۔اس نے دل میں سوچا ۔۔۔۔

"تف ہے تم پہ ہادیہ بلوچ ۔۔۔سنبھال اپنے بے قابو دل کو اور بے صبری نگاہوں کو ۔۔۔۔اس نے خودی کو ڈپٹا ۔۔۔۔

اسکی بڑابڑاہٹ نہایت آہستہ تھی جو اسکے خود کے بھی کانوں تک نہیں پہنچی ۔۔۔

سردار ھاد بلوچ نے اسکے بس ہلتے کٹاؤ دار لبوں کو دیکھا جو گلاب پنکھڑیوں سے نازک لگے ۔۔۔ دل میں پہلی بار کسی صنف نازک کے لبوں کو چھو کر محسوس کرنے کی خواہش نے سر اٹھایا۔۔۔۔

اسکی تھوڑی پہ بنے تین سبز تل تو اسکے دل کا قرار لُوٹ گئے ۔۔۔۔

"سلام بلوچن سائیں ...!

وہ اپنی مخصوص بھاری آواز میں بولا۔۔۔

تو ھادیہ کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔۔

 اس نے مسکارے کے بوجھ سے گھنی جھکی پلکیں اٹھا کر سامنے دیکھا ۔۔۔

ھادیہ نے بنا کچھ کہے اپنی ہتھیلی آگے کی ۔۔۔۔

 وہ بس کسی طرح اسکی حدود سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔

تبھی جلدی کی ۔۔۔

ھاد نے مہندی اٹھائی اور ایک ہاتھ آگے کیا تاکہ وہ اس پہ اپنا ہاتھ رکھ دے ۔۔۔۔

"آپ مہندی لگائیے نا ہاتھ کو کیا کرنا ہے "

ھادیہ نے دل کو قابو کیے زرا سخت گیر لجہے میں کہا ۔۔۔

"آپ ہاتھ میرے ہاتھ میں دیں گی تبھی تو مہندی لگاؤں گا نا ۔۔۔۔مجھ سے ایسے دور سے مہندی نہیں لگائی جاتی ۔۔۔

اس نے گھمبیر آواز میں کہا۔۔اور اپنے لبوں پہ امڈتی ہوئی مسکراہٹ کو پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔

نا چاہتے ہوئے بھی ھادیہ نے اپنا ہاتھ اسکی چوڑی ہتھیلی پہ رکھ دیا ۔۔۔۔

سردار ھاد بلوچ نے نرمی سے اسکا نازک سا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔

اور مہندی کی کون اٹھائی ۔۔۔

مہندی کون میں سے نکل کر نا دے رہی تھی ۔۔۔۔

وقت گزرنے لگا ۔۔۔۔اسکی گرفت میں موجود ھادیہ کہ ہتھیلی پہ پسینہ پھوٹنے لگا ۔۔۔

"اس میں سے "پن " نکالیں گے تبھی مہندی چلے گی نا "

ھادیہ نے کون پہ نظر پڑتے ہی جھنجھلاہٹ سے کہا ۔۔۔۔

میں اس حصار سے نکلوں تو کچھ اور سوچوں

تمھارے پیار سے نکلوں تو کچھ اور سوچوں ۔

تمھاری جسم کی خوشبو نے کردیا مسحور

اس آبشار سے نکلوں تو کچھ اور سوچوں۔

وہ سحر انگیز آواز میں بولا تو ھادیہ نے ٹھٹھک کر اسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں ان کہے شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔

سردار ھاد بلوچ نے اسکی ہتھیلی پر مہندی سے "ھاد " لکھ دیا ۔۔۔۔

"یہ کیا ؟

اس نے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"اپنا نام آپکے ہاتھوں پہ لکھ دیا ہے ۔۔۔

"اب بس دیکھنا یہ ہے ۔۔۔کہ کب یہ نام بلوچن سائیں کی ہتھیلی سے ہوکر اسکے دل میں اترتا ہے ۔۔۔"

وہ طلسم زدہ نظروں اس پہ اپنا سحر پھونک رہا تھا ۔۔۔

ھادیہ نے اس بار اس کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں دہرائی اور تیزی کے سے بھاگتے ہوئے واپس لڑکیوں کے جھرمٹ کی طرف آئی ۔۔۔۔

"ہائے صدقے ...!!!

"ھادیہ تیرا ھاد تو غضب کا نکلا ۔۔۔۔

"ھادیہ جی آپ کو آپ کا ھاد بلوچ مبارک ہو "امینہ نے اسے چھیڑا ۔۔۔۔

ھادیہ تو اس وقت اپنے دل کی دھڑکنوں کا شمار نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔

"چل ہٹ "

وہ شرماتے ہوئے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپانے لگی ۔۔۔۔

"رک رک ..!

"تیرے ھاد کی لگائی مہندی تیرے دل کی بجائے چہرے پہ بھی چھاپ چھوڑ جائے گی ۔۔۔

امینہ شرارتی انداز میں بولی ۔۔۔

"امینہ بلوچ ....!!!!

باہر سے آواز آئی ۔۔۔۔

"لے اب میں جاتی ہوں دیکھنا میرے لیے بھی کوئی شہزادہ سلیم آئے گا ۔۔۔۔

امینہ ناک سکوڑ کر جیسے ہی باہر نکلی ۔۔۔۔

سامنے کرسی پہ موجود ایک ساتھ سال کے عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا ۔۔۔

تو اپنی قسمت پہ ماتم کناں ہوتے ہوئے اپنے سر پہ خودی چپت رسید کرتے خراماں خراماں چلتی ہوئی اس کے قریب آئی ۔۔۔۔

اس بزرگ نے امینہ جیسی کم عمر دوشیزہ کو دیکھا تو اسکی بتیسی باہر آئی ۔۔۔۔جس میں آدھے دانت تو غائب تھے ۔۔۔۔

"ہائے کیسے شودوں کی طرح تاڑ رہا ہے بچی کو ۔۔۔۔

وہ دانت کچکچا کر آہستہ آواز میں بولی ۔۔۔۔

"بزرگوں پہلے چشمے کا نمبر تو ٹھیک کروالو پھر آنا لگانے مہندی ۔۔۔۔

"ہنہہ آیا بڑا ٹھرکی بڈھا نا ہو تو ۔۔۔۔بوڑھی گھوڑی لال لگام۔۔۔

وہ شانے پہ موجود پراندے کو پشت پہ جھٹک کر بولی ۔۔۔

اور لبوں کو ٹیڑھا کیے سر جھٹکتے ہوئے واپس آگئی ۔۔۔۔

ھادیہ نے واپسی پہ اس کا خوب ریکارڈ لگایا ۔۔۔۔وہ جز بہ جز ہوکر رہ گئی۔۔۔

مہندی کی رسموں کے بعد گانے بجانے کی محفل کا آغاز ہوا ۔۔۔۔

تو رئیس نے ھاد سے فرمائش کی ۔۔۔۔۔

ھاد نے اس کا دل نا توڑتے ہوئے اسکی خواہش کا مان رکھا ۔۔۔

پھر اپنے سروز کو لیے ایک چئیر پہ آبیٹھا ۔۔۔۔

ایک طرف ساری لڑکیاں اور عورتیں موجود تھیں ۔۔۔دوسری طرف سارے مرد حضرات۔۔۔۔جبکہ وہ سروز ہاتھوں میں لیے ان دونوں کے درمیان میں بیٹھا تھا ۔۔۔۔

سروز کا شمار بلوچی موسیقی کے قدیم ترین سازوں میں ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی سحر طاری کرنے والی آواز کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔

یہ اپنے مخصوص ڈیزائن کے ساتھ لکڑی، چند تاروں اور ایک چھوٹی سی پوست پر مشتمل اس ساز کے بغیر بلوچستان کے قبائلی معاشرے کی لوک موسیقی نامکمل ہے۔

اگر یہ کسی ماہر کے ہاتھ میں ہوتو کسی اور آلۂ موسیقی کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی بلکہ اکیلا ہی کئی دھنیں بجانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔۔۔اور ایسا ہی کچھ ھاد بلوچ کے ساتھ بھی تھا ۔۔۔

وہ ہاتھوں میں سروز لیے دلکش دھن بجانے لگا ۔۔۔۔۔۔

اسکے سروز کی تاروں نے ایسی دھن چھیڑی ۔۔۔۔کہ سب بولنا بھلائے ۔۔۔۔اس کے سحر میں مبتلا ہونے لگے ۔۔۔۔

سیاہ رات کے اس پہر اتنے افراد کے وہاں موجود ہونے کے باوجود بھی وہاں خاموشی چھائی ہوئی تھی صرف و صرف سروز کی دلکش آواز چہار سو بکھری ہوئی تھی ۔۔۔۔

ھادیہ زمین پہ بچھے گدے پہ بیٹھی کشن گود میں دھرے ۔۔۔اسکی دھن کو بند آنکھوں سے محسوس کرنے لگی ۔۔۔۔

اسے اپنی رگوں میں سرور سا اترتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔

وہ تو کسی ماورائی دنیا میں پہنچ چکی تھی ۔۔۔۔

تبھی سب کی تالیوں کی گونج سے اس نے چونک کر اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔

اس کی نظر سردار ھاد بلوچ پہ پڑیں جو سینے پہ ہاتھ رکھے سر کو ہلکا سا خم دئیے ۔۔۔عاجزانہ انداز میں سب سے داد وصول کررہا تھا ۔۔۔۔

ھادیہ تو اسکا عاجزانہ انداز دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔

تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!

جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں !

وہ اونچی آواز میں سب کے سامنے بولا ۔۔۔۔

اسکی ذومعنی نظروں کا ارتکاز جب ھادیہ نے خود پہ پایا تو گڑبڑا کر چہرہ پھیر لیا ۔۔۔

کہیں کسی نے سردار ھاد بلوچ کی نظروں کی تعاقب میں اسے دیکھ لیا تو کیا ہوگا ۔۔۔۔

اس نے سرعت سے اٹھ کر اپنی جگہ تبدیل کی ۔۔۔

کھانے کا وقت ہوا تو سب لوگ اسی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔

ھادیہ جو اپنی مہندی والا ہاتھ دھونے کے لیے پنڈال اے نکل کر گھر کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔

اچانک اندھیرے میں کسی مضبوط ہاتھ نے اسکی کلائی سے کھینچ کر اسے اپنے ساتھ پنڈال میں لگے پردوں کے پیچھے لے جانے لگا ۔۔۔

"ک۔۔۔کون ۔۔۔ہو ۔۔۔؟؟؟

"چھوڑو مجھے ۔۔۔۔

ھادیہ نے اسکی آہنی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروانے کے لیے جھپٹاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"اس ناچیز کو لوگ سردار ھاد بلوچ کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔آپ بھی قریب آئیں گی تو جان جائیں گی ۔۔۔۔

وہ اس کی پشت پردے سے لگاتے ہوئے اپنے دونوں بازوں اسکے دائیں بائیں شانوں کی طرف رکھتے ہوئے اسکی فرار کی تمام تر راہیں مسدود کرگیا ۔۔۔۔۔

"جانے دیں مجھے ۔۔۔نہیں جاننا آپکے بارے میں کچھ بھی ۔۔۔

وہ اس کی اس قدر قربت پہ ڈر کے مارے تھوڑی سی آنکھیں کھولے اسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"دل کی سنو ۔۔۔۔

وہ کیا کہہ رہا ہے ۔۔۔۔

وہ اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔

"سنا ہے دل کی سننے والا انسان ہمیشہ برباد ہی ہوا ہے ۔۔۔۔۔

ھادیہ نے برجستگی سے جوابا کہا ۔۔۔۔

وہ مبہم سا مسکرایا ۔۔۔۔

"میں تو دل کی سن کر برباد ہو چکا ۔۔۔۔

"کیا تم برباد نہیں ہونا چاہتی ؟؟؟

وہ فسوں خیز آواز میں بولا تو ھادیہ کی سانسیں مدھم پڑیں ۔۔۔۔

"میرا سسٹم آؤٹ آف کنٹرول ہوگیا ہے بلوچن سائیں آپ کو دیکھتے کر "

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔

ھادیہ دھڑکتے دل سے اسے زور سے پیچھے دھکیلتے ہوئے شرما کر بھاگی ۔۔۔۔

سردار ھاد بلوچ مسکراتے ہوئے اپنی تراشیدہ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوا مسکرایا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”آگيا ميرا شہری بیٹا“ سردار فلک بلوچ اسے گلے لگا کر اسکی پيٹھ تھپتھپا کر بولے۔ 

"کيسے ہيں آپ بابا سائيں" وہ محبت بھرے انداز میں انکے گلے لگ کر پوچھنے لگا ۔ 

”اپنے جوان بیٹوں کی غیر موجودگی میں کیسا ہوسکتا ہوں بھلا؟“اس کا شانہ تھپتھپا کر محبت بھری نظروں سے اپنے وجیہہ بيٹے کو ديکھا۔پھر نظر نا لگ جانے کے خیال سے نگاھیں پھیر لیں۔ وہ شہر جا کر بلوچی لباس کی بجاۓ بالکل شہری لوگوں کی طرح کا لباس زیب تن کرنےلگا تھا۔

جینز اور شرٹ پہنے ہوۓ تھا ۔مگر اپنے بابا ساٸیں کی خاندانی روایات کی پاسداری کا خیال کرتے اس نے علاقاٸی  چادر کندھوں کے گرد اوڑھ رکھی تھی۔

”اب میں آگیا ہوں نا کہیں بھی نہیں جاوں گا آپ کو چھوڑ کر “ وہ مونچھوں تلے عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ بولا۔ 

”ایک تو یہ یارم بھی واپس آنے کا نام نہیں لے رہا جانے کیوں؟“سردار فلک بلوچ نے اپنی پیشانی کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے اپنی پریشانی اس سے بیان کی ۔۔ 

”ابھی پتہ کرلیتا ہوں“اس نے جینز کی پاکٹ سے موبائل نکال کر کان سے لگایا ۔

”بھاٸی سا ان شااللہ جلد واپس آ رہے ہیں۔آپ فکر نا کریں “۔

اس نے یارم سے بات کرنے کے بعد انہیں تسلی دی ۔

”چل پریشانی دور ہوٸی ماری “وہ ہلکے پھلکے انداز میں اسکے کندھوں کے گرد بازو کا گھيرا بنا کر اسے لئے اپنے کچن کی طرف آٸے۔۔تاکہ اس کی والدہ زرش بلوچ کو سرپراٸیز دے سکیں۔۔۔

”ماں سا “اس نے چولہے کیبطرف رخ کیے کھڑی زرش بلوچ کو پیچھے سے بانہوں میں بھر کہ محبت بھرے انداز میں کہا ۔

”ماں سا واری“  ۔۔مارا لاڈلا آگیا ۔۔۔۔آنکھیں ترس گئی تھیں ۔۔۔۔۔"

وہ جھلملاتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ ۔۔۔۔

"جی ماں سا آگیا ۔۔۔۔

"روئیں تو مت "

وہ انکی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوؤں کو اپنی پوروں سے چن کر پیار بھرے انداز میں بولا ۔۔۔

 "اب اپنی ماں سا سے دور جانے کا سوچا بھی تو سچ میں رو رو کر دریا بہا دوں گی  " وہ اسے پیار بھری دھمکی دیتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

 "نہیں جاتا کہیں بھی آپ کو چھوڑ کر ۔۔۔۔یہیں رہوں گا ۔۔۔بابا سائیں سے پوچھ لیں ۔۔۔

"ہے نا بابا سائیں ۔۔۔۔

اس نے خاموش فلک بلوچ کو بات میں گھسیٹ لیا ۔۔۔

"کھانا لگواو بھئی بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔"

فلک بلوچ نے بات سمیٹتے ہوئے انکا دھیان کھانے کی طرف دلوایا ۔۔۔ 

 "آؤ چلیں "

وہ آتش بلوچ کے ساتھ ڈائننگ ہال کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔

"آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے ؟"

انہوں نے کھانے کے دوران آتش بلوچ سے پوچھا ۔۔۔

"بابا سائیں اپنا بزنس کروں گا ۔۔۔۔"وہ پانی کا گھونٹ بھر کہ حلق میں پھنسا لقمہ نیچے اتار کر بولا ۔۔۔

"اتنی زمین ہیں ،انکی دیکھ ریکھ کون کرے گا ؟؟؟

"پڑھنے سے میں نے کبھی منع نہیں کیا مگر اب وقت آگیا ہے تم لوگ ملکر سب سنبھالو ۔۔۔وہ کرخت انداز میں بولے ۔۔۔۔عمر گزرنے کے باوجود بھی  ان کا رعب اور دبدبہ قائم تھا ۔

"بابا سائیں ۔۔۔!!!

"ھاد بھائی سا آپکے ساتھ ملکر سب دیکھ رہے ہیں نا ۔۔۔مجھے ان چیزوں میں انٹرسٹ نہیں ۔۔۔۔

وہ ازلی لاپرواہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

اس کا انکار سن کر فلک بلوچ کے گلے میں کھانسی کا پھندہ لگا ۔۔۔وہ بری طرح کھانسنے لگے ۔۔۔۔

آتش بلوچ سرعت سے اٹھ کر انکی طرف لپکا ۔۔۔۔

"بابا سائیں۔۔ !!!

"یہ لیں پانی پئیں ...

اس نے پانی سے بھرا ہوا گلاس انکے لبوں سے لگایا اور انکی پشت کو سہلایا۔۔۔۔

وہ ایسا ہی تھا ۔۔۔۔نرم مزاج انسان،ہمدرد کسی کو بھی دکھ تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔کسی کی چھوٹی سی بھی چوٹ کو دیکھ کر بلبلا اٹھتا ۔۔۔۔

لیکن آنے والا وقت نجانے کتنا سنگدل بنانے والا تھا ۔۔۔۔

اسکا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرنے والا تھا ۔۔۔۔

"بابا سائیں جو آپ کہیں گے ویسا ہی کروں گا ۔۔۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔۔"

"آپ کی خواہش سے بڑھ کر میری کوئی خواہش نہیں "

اپنی ازلی نرم دلی کے باعث وہ فورا پگھل گیا ۔۔۔۔

"اچھا چل تو شوق پورا کر لے اپنا پر بزنس اسی گاؤں میں شروع کر " سردار فلک بلوچ نے اسے اجازت دی ۔ 

"بابا سائیں اس گوٹھ میں کون بزنس کرتا ہے "

اس نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔۔۔

"یہ ٹھیک ہے مارا لاڈلا جلدی سے کام کرنا شروع کر پھر تھارے لیے لڑکی ڈھونڈھ کر تھارا بیاہ رچا دوں گی " زرش بلوچ نے بھی اپنے دل کی بات کہی۔ ۔۔ ان کی بات پر آتش بلوچ کے چہرے کا رنگ يک لخت بدلا۔ 

"ماں سا میں نے ابھی شادی نہیں کرنی ۔۔۔۔میں اپنی مینٹلیٹی کے مطابق لڑکی سے شادی کروں گا ۔۔۔آپ پہلے دونوں بڑے بھائیوں پہ توجہ دیں ان دونوں کی کروائیں نا پھر میری باری بھی آ جائے گی ۔۔۔۔اس نے ان کی توجہ ان دونوں کی طرف دلائی ۔۔۔

"چل آجائیں یارم اور ھاد بھی ان دونوں سے پوچھ لیتی ہوں ۔۔۔  "

وہ کھانے کے برتن سمیٹ کر کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

آتش بلوچ اور فلک بلوچ لاونج میں موجود صوفے پر بیٹھے اور نیوز دیکھنے لگے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سورج کی سنہری کرنیں آسمان پہ جلوہ افروز ہوئے ہر سو اپنی روشنی بکھیر رہی تھی ۔کہ امریکہ کہ مسلم کمیونٹی کے علاقے میں ایک چھوٹے سے فلیٹ کے کمرے میں لگے سفید پردے کھڑکی سے آتی ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ ہل رہے تھے راؤنڈ شیپڈ خستہ حال سے بیڈ جس پہ سفید اور پرپل رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی پرپل کمفرٹر کے ساتھ ڈھکا ہوا تھا جو آدھا بیڈ سے زمین پہ لٹک رہا تھا اور آدھا اوپر تھا ۔۔۔بڑے بڑے تین چار پرانے ٹیڈی بئیرز کارپٹ کی زینت بنے ہوئے جبکہ رائٹنگ ٹیبل پر کچھ بے ترتیب اور ادھ کھلی کتابیں پڑیں ہوئیں تھیں کبرڈ کا دروازہ نیم واہ سا تھا ۔۔۔جس میں سے آدھے کپڑے باہر جھانک رہے تھے ۔۔۔

" Get up Chaa...! "

"میں نے ناشتہ بنا دیا ہے ،آجاو ملکر کریں ۔۔۔پھر مجھے کام کے لیے جانا ہے "

اس نے چاہت کے کمرے کا دروازہ کھول کر آواز لگائی ۔۔۔

"Just five minutes Adam bro ... !

 !

اس نے نیند سے بوجھل مگر باریک سی آواز میں کہا ۔۔۔۔

"No ..oooo....chaaa.... it's too much late ....

اس کی ہڑبڑی سن کر وہ بادل ناخواستہ اٹھ کر بیٹھی اور کمفرٹر خود سے اتارا شب خوابی کے لباس میں ملبوس وہ کوئی ننھی سی گڑیا ہی معلوم ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔

وہ اٹھ کر واش روم میں چلی گئی ۔۔۔

جب باہر آئی تو اپنے کمرے کو دیکھ کر چونک گئی ۔۔۔۔

"ایڈم یہ آپ نے صاف کیا ؟"

" میرے علاؤہ کوئی بھوت تو کرنے سے رہا "

اس نے کمفرٹر درست کیے جوابا کہا ۔۔۔

"آپ نے مجھے بھوت کہا "

نو مائی سویٹ لٹل سس۔۔۔

آپ بھوت نہیں بھوتنی ہو اور وہ بھی کیوٹ والی ۔۔۔

اس نے جیسی کے گال کو پیار سے چھو کر کہا ۔۔۔۔

This is not fair Adam bro....

اس نے خفگی سے منہ پھلا کر کہا ۔۔۔۔

"Don't angry with me my doll

تمہیں پتہ ہے نا آدم تمہیں ناراض نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔

ہم دونوں کے پاس ایک دوسرے کے علاؤہ اور ہے ہی کون ؟

Sorry bro .. 

اس نے آدم کو سنجیدہ دیکھا تو فوری مان گئی ۔۔۔

"I really love you .....

میں نے تو کبھی اپنے مام ڈیڈ کو دیکھا نہیں ۔۔۔۔مجھے یاد بھی نہیں وہ کیسے تھے ۔۔ میرے لیے بھی آپ ہی سب کچھ ہیں ۔۔۔ آپ سے ناراض ہوکر کہاں جاؤں گی "

وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی ۔۔۔

تو آدم نے اسے بازووں میں بھینچ لیا ۔۔۔پھر اسکے بالوں پہ بوسہ دیتے ہوئے باہر تک لایا ۔۔۔

وہ بریڈ پہ جیم لگانے لگا ۔۔۔

چاہت اسکی تھائی پہ آکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

"چاہ۔۔۔ اب تم بڑی ہوگئی ہو چئیر پہ بیٹھو "

"نو برو "

اس نے لاڈ سے نفی میں سر ہلایا 

"آپ نے مجھے بچپن سے یہاں بٹھا کر کھانا کھلانے کی عادت ڈالی ہوئی ہے ۔اب کہیں اور بیٹھ کر کھایا نہیں جاتا "

وہ معصومیت سے بولی ۔۔۔

"Ok my little doll....

آدم نے اسکی ناک دبا کر پیار بھرے انداز میں کہا۔۔۔

دونوں نے ایک ساتھ ملکر ناشتہ کیا ۔۔۔۔

"میری چاہ ۔۔۔کے لیے ایک سرپرائز ہے "

"کیا برو ؟؟؟.وہ بریڈ کی بائیٹ لیتے ہوئے پرجوش آواز میں پوچھنے لگی۔۔۔

"اونہہ۔ سرپرائز تو سرپرائز ہوتا ہے ۔ایسے نہیں بتاؤں گا ۔۔۔

"پھر کب بتائیں گے "؟

اس سے صبر نہیں ہورہا تھا ۔۔۔

"رات کو بتاؤں گا "

اس نے چاہت کا گال تھپتھپاکر کر کہا ۔

"پرامس ؟"۔۔۔!

"یس ۔۔۔پرامس ....

"تمہاری آنلائن کلاس ... کا وقت ہوگیا۔ ۔۔۔۔

آدم نے اپنا موبائل نکال کر اسکے سامنے کیا تو وہ کرسی پہ بیٹھ کر لیکچر لینے لگی ۔۔۔۔

اتنی دیر میں آدم نے سارے برتن سمیٹ کر کچن میں رکھے ۔۔۔۔

ایڈم جس کا اصل نام آدم تھا لیکن وہاں کے لوگ اسے ایڈم کہہ کر پکارتے تھے ۔۔۔

اسکی ایک چھوٹی بہن تھی ۔۔۔

اس کے والد پاکستانی تھے ،وہاں سٹڈیز کے سلسلے میں گئے ۔۔۔۔وہاں جیولیٹ نامی ایک لڑکی سے دوستی ہوگئی ۔پھر دوستی محبت میں بدلی اور کچھ نیشنلٹی ہولڈر بننے کے لیے انہوں نے شادی کرلی ۔۔۔

گھر کا گزر بسر بس جیسے تیسے ہورہا تھا ۔ان کی زندگی میں ان کا پہلا بیٹا آدم آیا ۔۔ آہستہ آہستہ ذمہ داریاں بڑھنے لگیں ۔۔۔وہ کرائے کے فلیٹ پہ رہتے تھے ۔۔ جیولیٹ کے گھر والوں نے ان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے سے اس سے ہر تعلق واسطہ ختم کرلیا تھا ۔۔ اس لیے انکی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے آدم دس سال کا ہوگیا انکی ایک چھوٹی سی بیٹی نے اس دنیا میں قدم رکھا تو ان کے دن ِپھر گئے ۔۔اس کے والد نے اپنے بیٹے کا نام آدم رکھا تھا جس پہ جیولیٹ نے کافی بیزاری ظاہر کی تھی۔۔۔آدم ہو بہو اپنے والد جیسا تھا ۔۔۔ لیکن جب بیٹی آئی تو جیولیٹ نے اپنی پسند کا نام رکھنا چاہا ۔۔۔۔لیکن وہ نہیں مانے اور انہوں نے اپنی بیٹی کا نام چاہت رکھا وہ نیلی آنکھوں والی گڑیا مشرقی و مغربی دونوں حسن کے امتزاج کی مالک تھی ۔۔۔۔۔ان دونوں کو ایک ہوٹل میں اچھی جاب مل گئی ۔۔۔انہوں نے دس سالہ آدم پہ چاہت کی ذمہ داری ڈال دی اور خود جاب کرنے لگے ۔۔۔۔

لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔ ایک دن وہ دونوں میاں بیوی ہوٹل سے واپسی پہ ایک حادثے کا شکار ہو کر موقع پہ ہی جاں بحق ہوگئے ۔۔۔

آدم تو اپنے ماں باپ کی جدائی پہ بوکھلا کر رہ گیا ۔۔۔ 

وہ خود بہت رنجیدہ تھا ۔۔ مگر جب اپنی چھوٹی سی بہن کو دیکھتا تو اپنے آنسو پونچھ کر اس روتی ہوئی گڑیا کو گود میں اٹھا لیتا ۔۔۔۔

اپنا دکھ بھول جاتا اس کی پرواہ میں ۔۔۔۔

وہ خود بہت چھوٹا تھا اس ذمہ داری کے لیے ۔۔۔ مگر اپنی چھوٹی سی بہن کے لیے وہ وقت سے پہلے بڑا بن گیا تھا ۔۔۔

ان کے فلیٹ کے بالکل سامنے ایک فیملی رہتی تھی ۔جو پاکستان سے ہی یہاں شفٹ ہوئی تھی ۔۔۔۔ان میں سے ایک عورت (صوفی ) ان دونوں کو یہاں اکیلا دیکھ کر انکی روزانہ خبر گیری کرنے آتی رہتی تھی اسنے آدم کی بہت مدد کی چاہت کو سنبھالنے میں ۔۔۔۔وہ کچھ دیر کے لیے ہی دن میں آتی ۔۔ آدم سارا دن اور رات اسے سنبھالتا ۔۔ جب دن میں وہ کچھ گھنٹوں کے لیے سوجاتی تو وہ گھر کو باہر سے لاک کیے کوئی چھوٹا موٹا کام ڈھونڈھنے نکل جاتا ۔۔۔۔اسے اپنی بہن کے لیے دودھ کا انتظام بھی تو کرنا تھا اور اپنے لیے کھانے کا ۔۔۔۔

اس نے دن رات محنت کیے اپنی بہن کو پال پوس کر بڑا کیا خود کا بھی خیال نہیں کیا ۔۔۔۔

وہ جب سکول جانے کی عمر کی ہوئی تو اسے گھر ہی کتابیں لاکر پڑھانے لگا ۔۔۔اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ۔۔۔

چاہت کی کل کائنات اس کا بھائی آدم ہی تھا اور اس دو کمروں پہ مشتمل فلیٹ کی چار دیواری ۔۔۔۔بس کبھی کبھار وہ آدم کے ساتھ قریبی پارک میں چلی جاتی ماسوائے اس کے اس نے کبھی باہر نکل کر نہیں دیکھا ۔۔۔۔وہ اسے ننھے بچے کی طرح اپنے پروں میں چھپائے ہوئے تھا ۔۔۔

اسے امریکہ کے کھلے ماحول کی ہوا تک نا لگنے دی۔امریکا دنیا کا سپر پاور ملک ہے لیکن یہ جان کر آپ حیران رہے جائیں گے کہ یہاں پر بھی ریپ کی شرح دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں ہر چھ میں ایک خاتون ریپ کا شکار ہوچکی ہے جبکہ کالج جانیوالی لڑکیوں میں سے چودہ سال کی عمر تک کی لڑکیاں یا تو جنسی طور پر ہراساں یا ریپ کا شکار ہوچکی ہیں۔اسی بات کا خوف اسے ایسا کرنے پہ مجبور کر گیا تھا ۔۔۔اسے زمانے کے ہر سرد و گرم سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا آدم نے ۔۔۔

چاہت کی دنیا آدم سے شروع اور آدم پہ ہی ختم ہوتی تھی ۔دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے ۔۔۔۔

چاہت کے لیے آدم نے اپنے ایک دوست سے کم قیمت پہ پرانا سا موبائل خریدا تھا ۔۔۔جس سے چاہت گھر رہتے ہوئے آنلائن کلاسز کے زریعے تعلیم حاصل کر رہی تھی ۔

وہ او لیولز کی تیاری کر رہی تھی ۔۔۔ان دنوں ۔۔۔۔آدم کو ایک پرکشش جاب ملی تھی ۔۔۔وہ رات کو چاہت کو اسکا فیورٹ پیزا کھلا کر اسے یہ خوشخبری دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔

اسی لیے اسے نہیں بتایا ۔۔۔۔

چاہت اپنی کلاسز اٹینڈ کر چکی تھی آدم تب تک تیار ہوکر اس کی طرف آیا اور اس سے موبائل لیے پاکٹ میں ڈالا ۔۔۔

"میں رات میں جلدی آوں گا سرپرائز کے ساتھ "

وہ مسکرا کر بائے کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔۔

چاہت کی نظریں دروزے پہ تب تک ٹکیں رہیں جب تک وہ بند نہیں ہوگیا ۔۔۔۔

نجانے کیوں اسے آج کچھ عجیب سا لگا تھا جب آدم نے بائے کے لیے ہاتھ ہلایا تھا ۔۔۔۔

وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ آج ان دونوں کی یہ آخری ملاقات تھی ۔۔۔۔

نجانے اب ان دونوں کو زندگی کس موڑ پہ لے جانے والی تھی ۔۔۔۔ 

شام میں جب آدم ،چاہت کے لیے پزا لینے کے لیے روڈ کراس کر رہا تھا تب ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے زور دار ٹکر ماری ۔۔۔۔۔اسے کچھ ہوش نہیں رہا کہ اس کے ساتھ یہ اچانک کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔

اس کی آنکھوں کے سامنے بس اسکی بہن چاہت کی شبیہہ لہرائی تھی ۔۔۔۔

اتنی گہری چوٹ لگنے پہ بھی اسے درد محسوس نا ہوا ۔۔۔اس کٹھن وقت میں بھی اس کو فکر تھی تو صرف چاہت کی ۔۔۔

وہ تو زمانے کی اونچ نیچ سے بھی ناواقف تھی ،بہت معصوم سی تھی ۔۔۔پھر کیسے وہ اکیلے سراوئیو کر پائے گی ۔۔۔۔یہی سوچ اسے اپنی موت کے مزید قریب لے جا رہی تھی ۔۔۔۔وہ جینا چاہتا تھا ۔۔۔اپنے لیے نہیں اپنی بہن کے لیے ۔۔۔۔

"کاش اسے چند پل کی مہلت مل جاتی اور وہ اپنی بہن کو کسی مضبوط ہاتھوں میں سونپ دیتا ۔۔۔۔۔

یہ آخری خواہش اسکے من میں آئی ۔۔۔۔دل سے اک ہوک سی اٹھی۔۔۔۔

اس نے بند ہوتی آنکھوں سے کسی شخص کا دھندھلا سا چہرہ دیکھا اور اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھا کر آخری لفظ یہی کہا ۔۔۔چاہ۔ہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ ۔۔۔۔!! 

جملہ مکمل کرنے کی اسے مہلت نہ ملی اور اسکی روح قفس عنصری پہ پرواز کر گئی۔۔۔۔۔

آج اس کا جسم ہر بوجھ سے آزاد ہوچکا تھا مگر روح اپنی بہن کی حفاظت کے لیے تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔۔

آج بارات کے استقبال کے لیے امینہ اور ھادیہ دونوں راہ میں کھڑی تھیں ۔۔۔۔

"ھادیہ پھول تو لے آؤ "

کسی سوبر سے عورت نے اسے خالی ہاتھ دہلیز پہ کھڑے دیکھا تو یاد دلایا ۔۔ ۔

"اوہ ۔۔۔میں تو بھول ہی گئی ۔۔۔۔ابھی لے کر آتی ہوں ۔ ۔

کہتے ہوئے وہ اوپری منزل پہ گئی جہاں ٹیبل پہ سرخ گلاب کی پتیوں سے بھرا تھال موجود تھا ۔۔۔ 

وہ اس تھال کو دونوں ہاتھوں میں اٹھائے سہج سہج کر قدم اٹھاتے ہوئے سیڑھیاں نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔

معا کہیں اس کا لہنگا اسکے پاوں کے نیچے نا آ جائے ۔۔۔

وہ سفید شیفون کے لہنگے میں ملبوس تھی جس کے باڈر پہ گولڈن کورے کا نفیس سا کام کیا گیا تھا ۔۔۔ہلکے سے میک اپ میں وہ انتہائی دلکش دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔

وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا ۔۔۔اپنے ہی لہنگے میں اس کا پاؤں اٹکا ۔۔وہ غیر متوازن قدموں سے لڑکھڑائی ۔۔۔۔ابھی تو خدا کا شکر تھا کہ وہ آخری سیڑھی پہ تھی ۔۔۔وہ خود تو گرنے سے بچ گئی ۔۔۔مگر گلاب کے پھول اور کی پتیاں ساری زمین پر بکھر گئیں ۔۔۔۔

"ھادیہ آج تو یہ پھول گریں ہیں کل کو تم خود گر گئیں تو تمہارے ھاد بلوچ کو بلانا پڑے گا تمہیں اٹھانے ۔۔۔امینہ نے اسے شرارت سے کہا ۔۔۔اس سے پہلے کہ ھادیہ غصے سے کوئی  جوابی کاروائی کرتی ۔۔۔۔

"بلوچ حاضر ہے بلوچن سائیں"

وہ بوتل کے جن کی طرح ۔۔۔"نام لیا اور حاضر " اس کی نظروں کے بالکل سامنے تھا ۔۔۔۔

"وہ مہندی تیرے ہاتھوں کی ،،

وہ لالی تیرے ہونٹوں کی ،،،

دیکھتے ہوں گے جب گلاب ،،،

تو وہ بھی مر جاتے ہوں گے ،،

وہ اک دلکش لب و لہجے میں بول کر اسکے دل کو مٹھی میں جکڑ گیا ۔۔۔۔۔منتشر پھولوں کی طرح اسے سامنے دیکھ کر اسکی دھڑکنیں منتشر ہو گئیں ۔۔۔

اور اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں نرمی سے لیے بولا ۔۔۔۔

اسکی ہتھیلی پہ مہندی سے لکھا ھاد کا رنگ بہت گہرا آیا تھا ۔۔۔۔

"آپکے ہاتھوں پہ لگی مہندی سے سجا میرا نام انتہائی خوبصورت لگ رہا ہے ۔۔۔۔

سردار ھاد بلوچ گھمبیر آواز میں بولا۔

"سنا ہے جن کی مہندی کا رنگ بہت گہرا آتا ہے ،اسے کوئی بہت پیار کرتا ہے ۔۔۔۔

"اب کی بار وہ ہلکا سا مسکرایا  ۔۔۔

وہ لمحہ بھر میں سنبھلتی دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔۔

"اسے میرے ہاتھوں پہ مہندی اچھی لگتی ہے ،،،

اور مجھے اسکے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ ،،،،،

ھادیہ کے دل سے آواز آئی ۔۔۔

وہ اپنے دھڑ دھڑ کرتے دل کو جتنا  ڈپٹ کر سلانے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی سرکش ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔

"آپ سے "تم 'اور تم "سے ہم کا سفر طے کرنا چاہتا ہوں "

"آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں "

وہ سوالیہ انداز میں ابرو اچکا کر بولا۔۔۔

یونہیں تھام کر رکھ میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں،،،

کہ میں چاہ کر بھی تم سے دور نا جا سکوں ،،،،

بالآخر دل میں پنپتے جذبات امڈ کر ھادیہ کی زبان پہ آ ہی گئے ۔۔۔۔

اس نے بلا اختیار ہی زبان دانتوں تلے دبائی ۔۔۔

سردار ھاد بلوچ جو اپنی مٹھی گلاب کی پتیوں سے بھر چکا تھا ۔۔۔۔

اس کا اقرار سنتے جوش میں آ کر مٹھی میں بھریں پتیاں اس کی طرف اچھالیں ۔۔۔

جو اسکے گلابی رخساروں کو بوسہ لے کر زمیں بوس ہوئیں ۔۔۔

تیری مہندی ،،،

تیری پائل ،،،

تیری باتوں کی قسم ،،،

میں تجھے بھول نہیں سکتا ،،،

تیرے ہاتھوں کی قسم ،،،،،

اس نے آہستگی سے کہا۔۔۔

ھادیہ اسکی بولتی نگاہوں کی تاب نا لاتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے ۔۔۔لہنگا اٹھا کر وہاں سے بھاگتی ہوئی لڑکیوں کی بھیڑ میں گم ہوگئی   ۔۔۔۔

"One day ....you will be mine  forever...."

وہ اسے دور جاتے دیکھ بالوں میں ہاتھ پھنسائے خودی سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اسے دفنانے کے بعد نیا دن چڑھ آیا تھا کہ اسکا دل بے چین تھا ، نظریں اس کے گھر والوں  کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔

وہ اپنے دوست بابر کے ساتھ اس لڑکے کے والٹ سے نکلے آئی ڈی کارڈ اور تصویر کی مدد سے اسکے گھر پہنچ گیا تھا ۔وہ ایک معمولی سی سوسائٹی تھی امریکہ جیسے سوپر پاور ملک کا ایک ایسا غریب طبقہ آباد تھا جس کا کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا ۔۔۔پرانی سی بلڈنگ تھی آمنے سامنے فلیٹس بنے ہوئے تھے ۔۔۔۔

اس نے ڈور بیل بجائی تو ایک کم عمر لڑکی نے دروازہ کھولا ۔۔۔ سردار یارم بلوچ نے اسے سر تا پا دیکھا ۔۔۔

وہ ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس تھی،،سوئیٹر یا کوٹ پہننے کی بجائے ٹھنڈ کی وجہ سے شانوں کے گرد شال لپیٹ رکھی تھی ۔۔۔

اس نے دروازے پہ موجود ایک اجنبی شخص کو اپنی نیلی شفاف پانیوں جیسی آنکھوں سے حیرت سے دیکھا ۔۔۔۔

ہلکی بڑھی شیو ،سنجیدہ چہرہ ، روشن سرمئی الجھی آنکھیں لئے،،، چہرہ جیسے سوچوں کے جال میں پھنسا تھا۔ شرٹ کے اوپری دو بٹن کھلے تھے۔آستینیں کہنیوں تک فولڈ ہونے کی وجہ سے اسکے ورزشی بازو دکھائی دے رہے تھے۔لمبا چوڑا مضبوط مرد تھا۔اسکے سیاہ بال منتشر تھے۔پر کشش آنکھوں کی عجیب سی کیفیت تھی۔اتنے ٹھنڈے موسم میں بھی وہ کوٹ کے بغیر تھا ۔اسکے اندر جو جوار بھاٹا ابل رہا ،اسے کسی بھی موسم کو محسوس کرنے کی صلاحیت چھین چکا تھا ۔

"Who are you Uncle?"

اس نے اجنبی شخص دروزے میں ایستادہ دیکھ کر حیرت زدہ لہجے میں اس کو دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔

سردار یارم بلوچ کے پیچھے کھڑے ہوئے بابر نے اس لڑکی کے یارم کو "انکل " کہنے پہ زوردار قہقہہ لگایا۔۔۔۔

یارم نے پلٹ کر اسے تند نگاہوں سے گھور کر دیکھا ۔۔۔تو بابر کی باہر نکلی بتیسی کو بریکس لگیں ۔۔۔اس نے فورا سے بیشتر اپنی لب باہم پیوست کیے اور سنجیدہ ہوا ۔۔۔۔کیونکہ وہ یارم کے چہرے پہ تناؤ اور سختی دیکھ چکا تھا جس کے خوبرو چہرے پہ اس وقت بلا کہ سرد تاثرات چھائے ہوئے تھے ۔۔۔۔

We are your brother's friends ...

بابر نے جوابا کہا تاکہ وہ انہیں اندر آنے دے اور وہ انکے گھریلو حالات جان کر انکی کوئی مدد کرسکیں ۔۔۔

"اوہ تو آپ برو کے فرینڈز ہیں ۔۔۔۔آئیں اندر ۔۔۔آپ ۔۔۔ بیٹھیں نا ۔۔۔۔کہیں آپ ہی تو نہیں برو کا سرپرائز ۔۔۔۔۔؟؟؟

اس نے حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا اندازہ لگایا ۔۔۔۔

یارم نے خشمگیں نگاہوں سے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔

"آپ کو اردو آتی ہے "؟

بابر نے اس مشرقی و مغربی امتزاج کی مالکن لڑکی سے پوچھ لیا ۔۔۔جس کا حلیہ تو مغربی تھا ۔مگر زبان میں مشرقی عنصر نمایاں تھا۔

"جی برو نے سکھائی ہے ۔۔۔میرے ڈیڈ برو سے ایسے ہی بات کرتے تھے ۔۔۔۔ایڈم برو نے بتایا تھا مجھے ۔۔۔۔"

اسے جب پتہ چلا کہ یہ اسکے بھائی کے دوست ہیں ۔تب ہی وہ ان دونوں سے ایسے باتیں کر رہی تھی ،ورنہ اس نے کبھی کسی اجنبی سے ایسے بات نہیں کی تھی ۔

وہ دونوں کرسیوں پہ بیٹھ گئے وہاں دو کرسیاں ہی موجود تھیں وہ بھی کافی خستہ حال ۔۔۔۔

یارم نے فلیٹ کے چاروں طرف نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔جگہ جگہ سے سیمنٹ اکھڑا ہوا تھا ،نجانے کب سے پینٹ کروانے کی زحمت نہیں کی گئی تھی ،نہاہت ہی بری حالت تھی ۔۔۔۔مگر فلیٹ صاف ستھرا تھا ۔۔۔ 

بابر نے بات کا آغاز کیا ۔۔۔۔

"آپ کے گھر میں آپ کے اور آپکے بھائی ۔۔۔۔۔

بابر اسکا نام بھول گیا تھا ۔۔۔۔

یارم نے اس کا آئی ڈی کارڈ نکال کر ہاتھ میں چھپاتے ہوئے بابر کے ہاتھ میں دیا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آہاں ۔۔۔آدم کے علاؤہ اور کون رہتا ہے ۔۔۔

میرا مطلب ہے آپکے مام ڈیڈ؟؟؟

اس نے آئی ڈی کارڈ پہ نام پڑھ کر اس سے پوچھا۔

"برو نے آپکو بتایا نہیں ۔۔۔۔؟

وہ ایک لکڑی کے چھوٹے سے سٹول پہ بیٹھی تھی انکی بات سن کر حیرت سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔

"یہی کہ ہمارے مام ڈیڈ نہیں ہیں ۔۔۔یہاں صرف میں اور میرے برو رہتے ہیں "

"ہاں ۔۔۔بتایا تھا ۔۔۔۔میں بھول گیا ۔۔۔۔

بابر نے خجالت سے سر کھجکاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

یارم نے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔۔

تبھی دروازے پہ دستک ہوئی۔۔۔

یارم اور بابر نے چونک کر اندر آنے والی ہستی کو دیکھا۔۔۔

وہ کوئی پچاس پچپن کے لگ بھگ عمر کی سوبر سی عورت تھیں ۔۔۔سر پہ دوپٹہ لیے اندر آئیں ۔۔۔۔

"چاہ۔۔۔!!!.....!!!.. کون آیا ہے "؟

وہ ان دونوں کی بجائے ڈائیریکٹ اسی سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔

"میں یہی سوچ کر یہاں دیکھنے آئی ہوں کہ اتنے سال ہوگئے مجھے یہاں رہتے آج سے پہلے تو آدم کے علاؤہ اس گھر میں کوئی نہیں آیا پھر آج کون آگیا ۔۔۔۔؟....!

وہ اچنبھے سے ان دونوں کی طرف دیکھتی ہوئی استفسار کر رہی تھیں ۔

"گڑیا آپ پانی لادو ایک گلاس ...."بابر نے اس لڑکی کو  منظر سے ہٹانا چاہا ۔۔۔۔کہیں ان کا پول نہیں کھل جائے ۔۔۔

"اوکے "۔وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"آپ بیٹھیے پلیز ...

صوفی وہاں کھڑی ہوئی تھی یارم نے کھڑے ہوکر انہیں احتراما  بیٹھنے کے لیے جگہ دی ۔۔۔۔

وہ اسکے ادب و آداب سے متاثر ہوئیں ۔۔۔۔

اور انکے چہرے پہ پھیلے تناؤ میں کمی آئی ۔۔۔۔

"جی بیٹا آپ لوگ کون ہیں "؟

انہوں نے نرمی و بردباری سے استفسار کیا۔۔۔۔

یارم نے بابر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

اور جذبات کی بجائے دماغ سے کام لیا ۔۔۔۔

"میں آدم کا کزن ہوں "یارم کے منہ سے یہ الفاظ نجانے کیسے پھسل گئے ۔۔۔۔

وہ نا تو انہیں سچ بتا سکتا تھا اور جھوٹ بھی سوچ سمجھ کر بولنا تھا ۔۔۔کیونکہ سچوئیشن ہی ایسی تھی کہ ایک بھی غلط لفظ انہیں انکے کی دام میں پھنسا سکتا تھا ۔۔۔۔

"مگر پہلے تو آدم نے کبھی تمہارا ذکر نہیں کیا ۔۔۔۔

"اوہ تو کہیں تم لوگ آدم کے باپ کی فیملی سے تو نہیں ۔۔۔؟

"جی ۔۔۔بابر نے چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے کہا ۔۔۔۔

جبکہ یارم بلوچ کا چہرہ سپاٹ تھا ۔۔۔

"تم نے آدم کو اپنے یہاں آنے کی خبر کی ؟؟؟انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔۔۔

"جی وہ ۔۔۔دراصل ۔۔۔بابر نے بولنا چاہا ۔۔۔

"دیکھو بیٹا جوان بچی اکیلی ہے فلیٹ پہ ایسے تم لوگوں کا آدم کے بغیر یہاں رکنا مناسب نہیں "

انہوں نے اپنے تئیں انہیں زمانے کی اونچ نیچ سے آشنا کروانا چاہا ۔۔۔

"جی ٹھیک کہا آپ نے "

بابر نے انکی ہاں میں ہاں ملائی 

"دراصل آدم نے ہی ہمیں یہاں بھیجا ہے ۔۔۔اسے اچانک کچھ عرصہ کے لیے نوکری کے سلسلے میں دوسرے ملک جانا پڑ گیا ہے ۔۔۔۔

"ارے ایسے کیسے وہ جواں جہان بہن کو اکیلا چھوڑ کر جا سکتا ہے کہیں بھی ؟؟؟

"میں مان ہی نہیں سکتی ۔۔۔ان دونوں کی طرف کتنے سالوں سے میرا آنا جانا ہے ۔۔۔اور آدم تو میرا دیکھا بھالا بچہ ہے۔ ۔۔وہ چاہ کے لیے کبھی ایسی لاپرواہی نہیں برت سکتا ۔۔۔۔ 

انہوں نے تشویش بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔

پھر جانچتی ہوئی نظروں سے ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔۔

وہ دونوں انہیں شش و پنج کی ادھیڑ بن میں مبتلا نظر آئے ۔۔۔۔

"بس اسے جانا پڑ گیا ۔۔۔۔ایسا کریں آپ یہ کچھ رقم رکھیں ۔۔۔۔گڑیا کے کام آئے گی ۔۔۔ یارم نے ایک اینولیپ انکی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

"میں یہ رقم نہیں لے سکتی ۔۔۔۔

بھلا میں پرائی بچی کی ذمہ داری کیوں اٹھاؤں ۔۔۔میری عمر کا کیا بھروسہ میں آج مری کل دوسرا دن ۔۔۔۔

نا ۔۔۔بابا۔۔۔ نا ۔۔۔"

وہ نفی میں سر ہلا کر اسکی زمہ داری سے انکاری ہوئیں ۔۔۔

"اب نجانے آدم کب واپس آئے ۔۔۔ایسا کرو تم اپنے ساتھ لے جاؤ بہن کو اگر اسکا اتنا ہی خیال ہے تو "

انہوں نے بابر کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔

"ارے ماں جی ۔۔۔۔ہم ساتھ نہیں لے جاسکتے ہم تو صرف مل کر خیریت پوچھنے آئے تھے 

اور مدد کرنے ۔۔۔۔۔

بابر نے فورا پنجے جھاڑے ۔۔۔

اس خواہ مخواہ کی گلے پڑنے والی مصیبت سے ۔۔۔۔

"بیٹا تم کیا کام کرتے ہو ؟؟؟

"کوئی اتہ پتہ؟؟؟

انہوں نے تفتیشی انداز میں سنجیدہ نظر آتے خوبرو انسان سے پوچھا ۔۔۔۔

"میں ڈاکٹر ہوں ،سپیشلائزیشن  کے لیے یہاں آیا تھا ۔۔۔

یہ میرا کارڈ ...

یارم نے اپنا کارڈ نکال کر انکی طرف بڑھایا ۔۔۔ 

"ہمممم۔۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔۔

اچھی بات ہے "

"بیٹا مدد کرنے آئے تھے تو خلوص دل سے کرو مدد۔۔۔آخر کو تم اسکے باپ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہو ۔۔۔۔

خاندان والوں کا بھی تو فرض بنتا ہے نا مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ۔۔۔

اس بے سہارا بچی کو سہارا دو گے تو خدا بھی خوش ہوگا ۔۔۔۔

نجانے اس خدا کو تمہاری کونسی نیکی پسند آ جائے اور وہ تمہارے ایسے گناہ معاف کردے جن سے تم واقف نہیں ۔۔۔

۔تم اگر چاہو تو چاہ سے نکاح کرلو اسے اپنی حفاظت میں لے لو ۔۔۔بہت معصوم بچی ہے دنیا کی تیز طراریوں سے بالکل واقف نہیں ۔۔۔۔یہ اکیلی یہاں اپنے بھائی کے بغیر رہی تو یہ دنیا اسے نگل جائے گی ۔"

انہوں نے سرسری سی بات کی تھی مگر یارم بلوچ کے دل کو چھو گئی ۔۔۔۔

"یہ لڑکی اسکی زمہ داری تھی جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا ۔۔۔ میں قاتل ہوں اس کا ۔۔۔ 

میں اسکے قتل کا بدلہ تو نہیں چکا سکتا ۔۔۔مگر اسکی ذمہ داری کو نبھا تو سکتا ہوں ۔۔۔شاید اس کی روح مجھے معاف کردے ۔۔۔۔"اس نے دل میں سوچا ۔۔۔۔

لمبی سانس کھینچ کر اسنے ہاتھ میں پکڑا سگریٹ لبوں سے لگایا۔ایک لمبا کش لے کر دھواں ہوا کے سپرد کیا۔

چاہت جو پانی کے دو گلاس ٹرے میں رکھ کر واپس آرہی تھی ۔۔۔

اس کی نظر دھویں پر جم گئی۔اس نے اپنی اس سولہ سالہ  زندگی میں پہلی بار کسی کو سیگریٹ پیتے دیکھا تھا۔   وہ مصروف سے انداز میں اسے شغل فرماتا دیکھ رہی تھی جیسے اس سے زیادہ اور اہم کام کوئی نہیں تھا ۔

 وہ اسی شغل میں مصروف سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا۔اسنے پھر کش لے کر دھواں پھونکا تو اب کی بار سردار یارم کی نظریں اس کے حسین چہرے کی طرف اٹھیں ۔۔۔

کم سن تروتازہ کھلا گلاب سا سرخ و سفید چہرہ ،،، نیلی آنکھوں کو دیکھ وہ اپنی جگہ تھم سا گیا۔ سنہری بال جو پونی ٹیل میں مقید تھے ۔۔۔۔کانوں میں پہنے دو چکمتے ٹاپس ۔۔۔۔کی چمک اسے اپنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی

اچانک وہی حادثہ اور آدم کا خون سے لت پت چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔۔

اسنے آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔وہی کرب ناک یادیں وہ پل واپس گھوم گھوم کر اسکے سامنے آنے لگے تھے یارم بلوچ نے لمبی سانس بھری ۔۔۔سیگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑے کو پاؤں کے نیچے مسل کر بجھا دیا ۔۔۔۔

تبھی اسکے فون پہ کال آنے لگی ۔۔۔۔وہ ایک طرف ہوا ۔۔۔

کال پہ دوسری طرف اسکا چھوٹا بھائی سردار آتش بلوچ تھا جو خود حویلی پہنچ چکا تھا اب اسکی واپسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔

"میں ایک دو دن میں آرہا ہوں کچھ مسلہ بن گیا ۔۔۔لیکن اب سب ٹھیک ہے ۔تم پریشان نہ ہو۔جلدی واپسی ہوگی "اسنے بھاری آواز میں اسے تسلی تھی۔

"سچ بتائیں کوئی مسلہ تو نہیں نا "

اس نے تفکر بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"میں نے کہا نا ۔۔کوئی مسلے والی بات نہیں تم  پریشان نہ ہو۔"آتش بلوچ کی فکر کو محسوس کر کے اسنے نرمی سے کہا۔جبکہ دماغ میں بہت سی باتیں چل رہی تھیں۔پیشانی پر سوچ بھری لکیریں نمودار ہوئیں۔کچھ دیر بات کر کے اسنے کال کاٹی۔پھر رات کے حادثے کا واقع یاد کر کے دانت پیسے۔پاکٹ سے نیا سگریٹ لے کر لبوں  میں رکھا۔ لائٹر سے شعلہ بھڑکا کر سگریٹ کے قریب کیا تو سگریٹ جلنے لگا۔پلٹ کر اسنے سگریٹ کا لمبا سا کش لیا۔اور دھواں ایک بار پھر سے ہوا میں تحلیل کیا ۔۔۔۔

"تو پھر کیا سوچا تم لوگوں نے ؟؟؟

صوفی نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

بابر اپنی کرسی سے اٹھ کر سرعت سے اسکے قریب آیا ۔۔۔

"یارم میں تو کہتا ہوں چل یہاں سے فضول میں ایک اور مصیبت گلے کیوں ڈال رہا ہے ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے مجھے منظور ہے ۔میں اس سے نکاح کر کہ اسکی ذمہ داری نبھانے کو تیار ہوں ".

سردار یارم بلوچ نے اٹل انداز میں کہا۔۔۔۔

تو صوفی کے چہرے پہ آسودگی کے رنگ پھیلے۔۔۔۔

"جاؤ بچے تم مولوی صاحب کا انتظام کرو ۔۔۔

انہوں نے بابر کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

بابر نے یارم کا بازو پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھینچ کر باہر لے گیا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

الصُبح کسی نے سروز پہ اک پرفسوں ساز چھیڑا ۔۔۔ تو فضا جھوم اٹھی ۔۔۔۔سرسز گھاس کے بیچ ان گنت خُوشنما خوابیدہ پھول انگڑائی لے کر بیدار ہوئے ۔۔۔۔۔آس پاس مُنڈلاتے بھنورے پھولوں کا منہ چوم کر ہواؤں میں اڑتی تِتلیوں کے سنگ ایک انوکھا گیت گنگنانا رہے تھے ۔

اس دلکش اور فُسوں خیر منظر کو دیکھ کر بھاگتا وقت ایک لمحے کے لیے ٹھہر سا گیا ۔اِس لمحے آبشار سے گرتا شفاف پانی،گھونسلوں سے نکلتے پرندے،اُفق پر تیرتی سفید و نیلی بدلیاں، رنگ برنگے جنگلی پھول اور ان کی خوشبو اِس دلسوز دھن و گِیت میں شامل ہو رہے تھے ۔امبر خمار زدہ تھا ۔۔۔

اس سروز کی دھن پہ گاتے ہوئے گِیت کو  اڑتے ہوئے پنچھی بھی اسکے ساتھ لہک لہک کر سن رہے تھے  ۔۔وہ گھر سے بہت دور نکل آئی ۔۔۔۔چلتے ہوئے ایک مکان کی کھڑکی سے لپٹی گُلابی پھولوں کی بِیل کو محبت سے چھو کر گزری ۔۔۔۔خوابوں کے شہزادے کے خواب  دل کے بنددروازے پر دَستک دے رہے تھے ۔۔۔

وہ چلتی ہوئی پھول کی پتیاں چُنتی سسی  کا دل انوکھے انداز میں دھڑکنے لگا اس کو یاد کیے ۔۔۔۔۔۔اُس کے لیے یہ احساس بہت دل فَریب ہے تھا کہ دکھوں کی شَام رخصت ہوئی۔اور اسکے خوابوں کے شہزادے نے حقیقیت کا روپ دھار لیا ہے ۔۔۔۔آج بے یقینی کے گہرے پانیوں پر ڈولتی اُس کی زندگی کی کشتی ساحل کنارے آ لگی۔اُس کی آنکھوں میں خواہشوں کے چمکتے ستارے تھے اس شہزادے کے ملن کے خواب بسے تھے اسکی آنکھوں میں ۔۔۔۔وہ بھیڑ بکریاں چرا رہی تھی ۔۔۔۔ سیاہ میمنے لیے پہاڑی کی جانب بڑھتی وہ شوخ و چنچل لڑکی چنری سے سر ڈھانپے ۔جنگلی گھاس کے بیچ سےگزرتے ہوئے پگڈنڈی پر آگے پھولوں کی باس چرا لیتی۔ندی نالوں سے منہ ہاتھ دھوتی اور پھر سے چل پڑتی۔کبھی تھک جاتی تو خواہشوں کی تتلیاں،بھنورے اور پرندے اسے پروں پر بٹھا کر آدھا راستہ پار کرا دیتے۔

وہ خود میں مگن گاؤں کی کچی سڑک پر چلتی جا رہی ،اس کا وجیہہ چہرہ یاد کرکہ وہ گھاس کی گٹھڑی سے جھانکتے سرخ پھولوں کی لالی اپنے رخساروں پر مل لیتی۔وہ گھاس پر پڑے شبنمی قطروں کا عرق پی کر کسی اونچے درخت پر بیٹھ جاتی۔ اسے علی الصبح چرند پرند کی چہکاروں کے گیت پسند تھے۔دور کہیں سے آنے والی بانسری کی دھن سے ہمیشہ محبت پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ۔وہ حسینہ میٹھے ُسروں کو پلو سے باندھ لیتی۔کبھی کبھی وہ کسی تانگے کے پچھلے حصے پر بیٹھ جاتی اور بھاگتے گھوڑے کی ٹاپوں کے ُسروں میں بہتی خود بھی انکے ساتھ بیتی چلی جاتی ۔ کھیتوں اور کھلیانوں کے بیچ میں سے گزر کر دوسرے گاؤں پہنچتی ۔۔۔۔

میمنے کے پیچھے چلتے چلتے اچانک سے سسی کا پاؤں ڈھلوان سے پھسلا ۔۔۔

ڈر کے مارے اسکا سانس رکنے لگا ۔۔۔۔

ابھی ابھی تو چاہتوں کے جگنوؤں نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا ۔۔۔اور ابھی زندگی اس پہ تنگ پڑنے لگی ۔۔۔

اس نے خوف سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ گہری کھائی میں گر جاتی ۔۔۔۔۔

اس نے پتھروں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دائیں بائیں ہاتھ جما کر خود کو مزید لڑھکنے سے روکا۔۔۔۔۔مگر ہاتھ پھسلتے جا رہے تھے عنقریب تھا کہ وہ نیچے گھاٹی کی طرف گرجاتی ۔اس نے اوپر آنے کی کوشش کی پاؤں پھنسا کر اوپر آنے لگی تو شاید نیچے کوئی خاردار جھاڑی تھی ۔۔۔سسی کے پاؤں چھل گئے ۔۔۔کھسہ اتر کر کہیں گر گیا۔۔۔نیچے گہرائی کی طرف دیکھنے میں اسکی ہمت نا تھی ۔۔۔۔۔وہ بے بسی سے روہانسی ہوکر آنکھیں میچ گئی ۔یکلخت کسی نے اس کے ہاتھوں کو اپنے آہنی ہاتھوں سے تھام لیا ۔۔۔۔

سسی اسکے ہاتھوں کے سہارے کی مدد سے اٹھنے میں کامیاب ہوگئی ۔۔۔۔۔

سسی نے خود کو بچانے کے لیے اس کی شرٹ کا کالر مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیا ۔۔۔۔

سردار آتش بلوچ نے اسے کھڑا کرتے اپنے ہاتھ فورا اسکے ہاتھوں سے چھڑوا لیے مگر سسی کے ہاتھ ابھی بھی اسکی شرٹ کے کالر پہ تھے ۔

",آپ کو چوٹ تو نہیں لگی "؟

چھوٹے سردار آتش بلوچ نے تفکر بھرے انداز میں پوچھا ۔

وہ سدا کا ہمدرد انسان سب کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔۔۔

کسی کو بھی مصیبت میں دیکھ کر رہ نہیں پاتا تھا ۔۔۔

وہ گاؤں میں سائٹ دیکھنے کے لیے علی الصبح اپنی جیپ میں حویلی سے نکلا تھا ۔اک لڑکی کو گرتے دیکھ فورا اسکی مدد کو پہنچ گیا ۔۔۔۔

سسی نے پاؤں زمین پہ رکھ کر دور ہونے کی کوشش کی ۔۔۔لیکن پاؤں زخمی ہونے کی وجہ سے چلنا دوبھر لگا ۔۔۔

وہ درد سے بلبلاتے ہوئے اپنا پاوں پکڑ کر زمین پہ ہی بیٹھ گئی ۔۔۔

"اور نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"ارے ایسے کیسے نہیں ۔۔۔۔؟..!

چلا آپ سے جا نہیں رہا اور کہہ رہی ہیں کہ چوٹ نہیں آئی ۔۔۔۔۔چھوٹے سردار کے بولنے کا انداز اتنا شگفتگی لیے ہوئے تھا کہ وہ حیران رہ گئی ۔۔۔۔

اس نے درد کی وجہ سے ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

سردار آتش بلوچ نے اس بت بنی دوشیزہ کے جواب کا انتظار کیے بنا ۔۔۔۔یکدم آگے بڑھ کر اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا لیا ۔۔۔۔

"ہائے ربا ....!

وہ کٹاؤ دار لبوں سے بڑبڑائی۔ 

سسی کا دل تو دھک سےرہ گیا۔وہ اس شہزادے کی بانہوں میں تھی ،اس کی قربت ،اسکے وجود سے اٹھتی مخصوص پرفیوم کی مہک اسکے حواس مختل کیے دے رہی تھی ۔وہ اس شہزادے کے سینے سے لگی اسکے اتنے قریب تھی کہ اسکے دل کی دھڑکنوں کو بخوبی شمار کر سکتی تھی ،مگر اسکی اپنی دھڑکنیں تو ڈوبی چلی جا رہی تھیں ۔وہ اسے تیزی سے لیے آگے بڑھ رہا تھا ۔۔

سردار آتش بلوچ نے سرسری سی نظر اس پہ ڈالی ۔۔۔۔

دودھ جیسا گورا رنگ گرمی کی شدت سے گلابی ہو رہا تھا بیضوی چہرہ اور تھوڑی میں ننھا سا گڑھا ، چھوٹی سی ستواں ناک میں چمکتی نتھلی اس کے چہرے کی دلکشی میں اضافہ کر رہی تھی بالوں کی کچھ شریر لٹیں صبیح پیشانی پہ گری تھیں۔گرنے کی وجہ سے چہرے پر کہیں کہیں مٹی چپک گئی تھی اس نے اچٹتی سی نظر اس پہ ڈالی۔

سسی نے دھیرے دھیرے اپنی بڑی بڑی بھوری آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔۔پل بھر کو نظریں ملیں ۔۔۔۔سسی کی حالت تو یوں تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔

سردار آتش بلوچ نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا ۔۔۔

یہ چہرہ وہ کیسے بھول سکتی تھی آخر ، یہی تو تھا اس کے خوابوں کا شہزادہ ۔۔۔۔جسے بچپن سے اپنے خوابوں میں دیکھتی آ رہی تھی۔۔۔۔

اسے خبر ہی نہیں ہوئی نجانے کب چھوٹے سردار نے اسے اپنی جیپ کی فرنٹ سیٹ پر لا کر بیٹھا دیا اور خود پلٹ کر دوسری طرف سے ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا ۔۔۔

"زیادہ تکلیف ہے تو کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلوں "؟

سردار آتش بلوچ نے اسکے پاوں سے رستے ہوئے خون کو دیکھ کر استفسار کیا ۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ چونک کر بولی ۔۔۔۔

"ماری بھیڑ بکریاں ..!؟.....اسے خیال آیا کہ وہ تو وہیں رہ گئیں ہیں ۔

اس نے گھبراہٹ سے کہا ۔۔۔

انہیں مویشیوں کی بدولت ہی تو وہ لوگ اپنا پیٹ پالتے تھے اس کی ماں حویلی میں صاف صفائی کا کام کرتی تھی ۔۔۔اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا ۔۔۔

"انکی تم فکر مت کرو میں کسی ملازم کو بھیج کر انہیں واپس تمہارے پاس بھجوا دوں گا ۔۔۔

اس نے سٹرئینگ پہ ہاتھ رکھے مصروف انداز میں کہا ۔۔۔

سسی بار بار نظریں اٹھا کر اسے دیکھتی رہی مگر وہ شیشے کے پار سڑک پہ نظریں جمائے ہوئے تھا ۔۔۔اس کے لیے کسی کی مدد کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی اک عام سی بات تھی ۔مگر سسی جیسی لڑکی کے لیے یہ سب بہت "خاص"تھا ۔وہ سراب کے پیچھے بھاگنے لگی تھی ۔۔۔۔پیار انسان کی سُدھ بدھ گنوا دیتا ہے ۔اور یہی واردات اسکے دل پہ کاری ضرب لگا گئی تھی ۔پیار کے جذبے نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا ۔وہ یہ بھی بھول گئی تھی کہ وہ ایک معمولی سے کمہار کی بیٹی اور کہاں وہ محلوں میں رہنے والا شہزادہ ۔۔۔۔۔اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ شہزادہ اوپر آسمانوں پہ اسکے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا یا نہیں ۔۔۔۔۔اسکا فیصلہ تو آنے والا وقت طے کرنے والا تھا ۔۔۔۔۔

"غرور تو بنتا ہے سرکار کا "

سسی نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے آنکھیں موند کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"سب مہمان چلے گئے ؟"

سردار ھاد بلوچ جب مہمان خانے سے باہر آیا تو اپنے جگری دوست سے استفسار کیا۔۔۔

"شادی ختم ہوئی تو ۔۔۔ہاں سب صبح ہی چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔اس نے سادہ سے انداز میں جوابا کہا ۔۔۔

ھاد بلوچ نے ایک گہرا سانس ہوا کہ سپرد کیا ۔۔۔

"یقینا ....وہ بھی چلی گئی ہوگی "

"کون چلی گئی ہوگی "؟

اسکے دوست نے تشویش بھرے انداز میں استفسار کیا۔۔۔

"تیری ہونے والی بھابھی "

وہ مونچھوں تلے عنابی لبوں سے مسکرایا ۔۔۔۔

"ارے یہ حادثہ کب ہوا ؟؟؟

اس نے شرارت سے پوچھا ۔۔۔

"بس تیری شادی میں مجھے بھی میری خوابوں کی شہزادی حقیقت میں مل گئی ۔۔۔۔

"کون ہے وہ خوش قسمت ؟؟؟

"جس پہ میرے یار کا دل آگیا ۔۔۔۔"

"ھادیہ نام ہے اسکا ۔۔۔۔زرا میری بھابھی سے پوچھ کر اسکا فون نمبر یا ایڈریس تو بتانا،آج میری واپسی ہے ۔

"تیری بھابھی تو میکے چلی گئی ۔۔۔

"او۔۔۔۔اچھا چل ٹھیک ہے ۔۔۔۔

جیسے ہی کچھ پتہ چلے ضرور آگاہ کرنا۔ ۔۔۔  "

سردار ھاد بلوچ سنجیدگی سے گویا ہوا۔

"چل ٹھیک ہے ،میں بتاؤں گا "

"بہت شکریہ یارا ۔۔۔۔

"میری شادی میں آکر اس میں چار چاند لگانے کا ۔۔۔۔"

وہ اسکے گلے لگتے ہوئے خوشدلی سے بولا ۔۔۔۔

"فی امان اللہ۔۔۔۔"اس نے سردار ھاد بلوچ کو سرشاری سے رخصت کیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اسلام وعلیکم بابا سائیں !

ھادیہ نے اندر داخل ہوتے ہی اپنے والد سردار دلاور بلوچ کو سلام کیا۔۔۔

وعلیکم السلام!

میری جان ....!

سردار دلاور بلوچ نے اپنی بانہیں واہ کیں تو ھادیہ بھاگتے ہوئے ان کی شفیق بانہوں آن سمائی ۔۔۔۔

"میرے بابا سائیں نے مجھے یاد کیا ؟"

وہ سر اٹھا کر انکی طرف دیکھتے ہوئے مان بھرے انداز میں پوچھ رہی تھی ۔۔۔

"خدا کی محبت کے بعد اگر میں نے کسی سے محبت کی تو وہ تم ہو میری جان ...!تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں ؟؟؟

بھولوں گا تو یاد کروں گا نا ۔۔۔!!!

"نماز کے بعد اگر میں نے کسی کو یاد کیا تو وہ میری بیٹی ہے ھادیہ بلوچ ۔۔۔۔۔۔تمہیں ہمیشہ سے اپنے سامنے پایا ہے ۔جب نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہو تو زندگی ویران لگنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔اب آگئی ہو تو تمہارے  بابا خوش ہوگئے ہیں ۔۔۔

وہ اسکے سر پہ بوسہ دیتے ہوئے شفقت بھرے انداز میں بولے ۔۔۔

"آپ باپ بیٹی کی تو محبت مثالی ہے ۔۔۔خدا یونہی قائم رکھے آپ دونوں کی محبت کو ۔۔۔۔۔اماں بی جو سفید نفیس سے سوٹ میں ملبوس پاس کھڑی تھیں انہوں نے  توصیفی انداز میں کہا۔

"اماں بی ...!!!!ھادیہ کی والدہ کی وفات کے بعد اس کابچپن آپ ہی کی گود میں گزرا ہے ۔اسے پالنے پوسنے میں آپ نے جو اپنی زندگی کا حصہ سرف کیا ہے ۔اس احسان کا قرض میں ساری زندگی نہیں چکا سکتا ۔

دلاور بلوچ نے ممنون نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے جوابا کہا ۔۔۔

"سردار ...!

 "پیدا کرنے والا اور پالنے والا تو وہ واحد پروردگار ہے ہم تو محض اک زریعہ ہیں ،رہی قرض چکانے کی بات تو وہ اب بھی چکا سکتے ہیں ۔

اماں بی مسرت سے لبریز لہجے میں بولیں ۔۔۔

وہ کیسے اماں بی ؟

انہوں نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔

"میری ھادیہ کے لیے ھاد تلاش کرلیجیے ۔۔۔کیونکہ اب اسکی شادی کی عمر ہوچکی ہے ۔

"ھاد" لفظ سن کر انکی پیشانی پہ سلوٹیں نمایاں ہوئیں ۔۔۔۔

"یہ ھاد کون ہے ؟؟؟انکے چہرے کے نقوش یکدم تن گئے ۔۔۔۔

وہ سپاٹ انداز میں بولے ۔۔۔

"اسلام وعلیکم ماموں جان !

امینہ اندر داخل ہوئی تو سردار لاہور بلوچ کو سلام کیے انکی طرف آئی ۔۔۔

"ماموں جان ۔۔۔۔دراصل اماں بی کو ھاد نام بہت پسند ہے ھادیہ سے ملتا جلتا ۔۔میں نے تو کہا ہے کہ اگر انہیں اپنی ھادیہ کے لیے کوئی ھاد نہیں ملا تو ۔۔۔وہ شرارت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔

"تو کیا ہوا ۔۔۔اگر اسکا نام کچھ اور ہوا تو ہم بدل کر ھاد رکھ دیں گے ۔اماں بی نے اس مسلے کا حل چٹکیوں میں نکالا ۔۔۔۔

"اماں بی ہماری بیٹی ھادیہ کی شادی ہمارا پہلا اور آخری خواب ہے ۔ہم اپنی بیٹی کی شادی پہ سارے علاقے  کو اتنے چراغوں سے روشن کردیں گے کہ زمین کی طرف دیکھ کر آسمان کے ستارے بھی آپس میں پوچھیں گے کہ زمین پہ آج کونسی رات ہے ۔جو زمین آسمان کے ستاروں کی طرح جگمگا رہی ہے ۔ہم رات کو چراغوں سے اتنا روشن کردیں گے کہ وہ دن میں بدل جائے گی ۔۔۔۔۔میری بیٹی ۔۔کی شادی اس علاقے کی ایسی بے مثال شادی ہوگی کہ جسے آس پاس کے قبیلے اور انکے سردار کبھی بھلا نہیں پائیں گے ۔

وہ رعونت آمیز انداز میں آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے ہوئے بولے ۔۔۔۔

"اللّٰہ آپ کے ارمان پورے کرے سردار ۔۔

اماں بی نے دعائیہ انداز میں دونوں ہاتھ بلند کیے کہا ۔۔۔

"سردار ...!!!!

اپنے قبیلے کا کوئی مظلوم فریاد لے کر آیا ہے ۔

حویلی کے دروازے سے ایک ملازم نے اندر آکر عجلت بھرے انداز میں اطلاع دی ۔۔۔

"بھیجو اسے ...

سردار دلاور نے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔

"جی سردار ...

وہ ان کا مثبت جواب سن کر باہر کی طرف لپکا ۔۔۔۔

"میری بیٹی کو بچا لیں سردار ۔۔۔۔میں لٹ گیا برباد ہوگیا ۔۔۔۔

ایک غریب کسان نے آتے ہی روتے ہوئے دہائی دی ۔۔۔۔

"کیا ہوا تمہاری بیٹی کو ؟

وہ رعب دار آواز میں غرائے ۔۔۔

"سردار گل  میری بیٹی کو اٹھا کر لے گیا ۔۔۔

"اس کی یہ مجال کہ ہمارے قبیلے کی بیٹی پہ نظر ڈالیں ۔۔۔ہم ان کی نگاہ کو جلا کر راکھ کر ڈالیں گے ۔۔۔

"شمشیر بلوچ ....!!!!

ان کی دھاڑ سن کر باہر موجود شمشیر بلوچ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اندر آیا ۔۔۔

چھ فٹ کو چھوتا قد ،چوڑے شانے ،گندمی رنگت ،تنے نقوش کا حامل شمشیر بلوچ ۔۔۔۔۔

سردار دلاور بلوچ کی اکلوتی بہن کا بیٹا تھا ۔سردار دلاور بلوچ کا دایاں ہاتھ ۔۔۔۔

"چلو ہمارے ساتھ اس خبیث گُل سے نبٹنے "

وہ کرخت لہجے میں کہتے ہوئے اپنی گن لیے شمشیر بلوچ کے ساتھ باہر نکل گئے ۔۔۔۔

سردار فلک بلوچ اور سردار دلاور بلوچ کی دشمنی تو سالوں پرانی تھی وہ دونوں آپس میں  چچا زاد بھائی تھے ۔کہنے کو دونوں کا قریبی رشتہ تھا پر وہ اسے نبھا دشمنوں کی طرح رہے تھے۔

ان کے دادا نے خاندانی دستار فلک بلوچ کے سر پہ رکھ کر دلاور بلوچ کے غصے کو ہوا دی ۔۔۔۔وہ بپھرا ہوا شیر بنا بیٹھا تھا ۔۔۔۔

تبھی فلک بلوچ کی بہن عنایا کے لیے ساتھ والے قبیلے سے گل خان کا رشتہ آیا ۔۔۔۔جو دلاور بلوچ کو قطعا گوراہ نہیں تھا ۔۔۔۔

۔دونوں (سردار فلک بلوچ اور دلاور بلوچ )کے درمیان جھگڑے کی وجہ "عنایا" تھی۔جو کے سردار فلک بلوچ کی اکلوتی اور جان سے پیاری "بہن " تھی ۔۔۔۔

اس پہ دلاور بلوچ کی نظر تھی ۔۔۔۔ وہ اسے کسی بھی صورت حاصل کرنا چاھتے تھے۔دوسری طرف عنایا کو بھی سردار دلاور بلوچ سے محبت تھی  ۔۔۔۔

ایک دن دونوں دنیا بھر کے رسم رواجوں کو توڑے حویلی سے بھاگ گئے ۔۔۔۔

"ہم نے یہ اچھا نہیں کیا ۔۔۔دلاور ۔۔۔۔

"مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ۔۔۔۔وہ ٹیلے پہ بیٹھی رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"سب بھول جاؤ بس یہ یاد رکھو ۔۔۔۔ہم دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی ہے ۔اور اس محبت کا انجام جدائی نہیں ملن ہوگا "یہ وعدہ ہے سردار دلاور بلوچ کا تم سے ۔۔۔۔

وہ محبت سے چور آواز میں بولا۔۔۔۔

عنایا بھیگی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے دھیما سا مسکرانے لگی ۔۔۔۔مگر نجانے کیوں دل میں کچھ برا ہوجانے کا کھٹکا سا تھا ۔۔۔۔

"رو کر اپنی ان حسین آنکھوں پہ ستم مت ڈھاؤ ۔۔۔۔

یہ سوچو کہ تم دلہن بنی ہو اور میں بارات لے کر آیا ہوں ۔۔۔۔تو تمہارا کیا حال ہوگا ۔۔۔۔

عنایا کے آنسوؤں میں شدت آئی ۔۔۔۔

"اونہہہ ۔۔۔عنایا ۔۔۔!!!!

دلاور نے اس کی تھوڑی کو چھو کر اس کہ رونے پہ تنبیہی نظروں سے گھورا ۔۔۔۔

"مسکرا دو نا ۔۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہیں پیار بھرے انداز میں بولے تو وہ روتے ہوئے مسکرانے لگی ۔۔۔۔

ان دونوں نے چھپ کر شادی کر لی ۔۔۔۔دونوں کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے ھادیہ رکھا ۔۔۔۔۔

سردار فلک بلوچ کو پہلے سے ہی سردار دلاور بلوچ پہ شک تھا ۔۔۔ ھادیہ کی پیدائش کے بعد اس نے سب کے سامنے اپنی شادی  کی اصلیت ظاہر کردی ۔۔۔۔۔

اور اپنا حصہ لے کر ساتھ والے گوٹھ میں نئی حویلی تعمیر کروائی ۔۔۔۔۔

ایک دن وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر سے دعوت کے بعد نکل رہے تھے کہ سردار فلک بلوچ کا سردار دلاور بلوچ اور اسکے خاندان سے ٹکراؤ ہوا ۔۔۔۔

اس دن سردار فلک بلوچ اور سردار دلاور بلوچ آمنے سامنے تھے ۔۔۔۔

عالم طیش میں آکر دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔۔۔ 

جس میں نقصان سراسر سردار دلاور بلوچ کا ہوا ۔۔۔۔

اس تصادم میں عنایا کے سینے میں گولی لگی اور وہ گود میں تڑپتی ہوئی ننھی سی بیٹی کو تنہا اس دنیا میں چھوڑ کر خود اللّٰہ کو پیاری ہوگئی ۔۔۔۔

اور سردار دلاور بلوچ کا بہنوئی ۔۔۔۔(سردار شمشیر اور امینہ کے والد )بھی اس حادثے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے  موت کی آغوش میں چلے گئے 

تب سے وہ چچا زاد بھائی دو الگ الگ قبیلوں میں بٹ گئے ۔۔۔۔

سردار فلک بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ بے گناہ ہیں انہوں نے کسی کی جان نہیں لی ۔۔۔۔

جبکہ دوسری طرف سردار دلاور بلوچ یہ سوچ رہا تھا کہ سردار فلک بلوچ نے بہن کا قتل  غیرت کی وجہ سے کیا ۔۔۔۔ 

۔دونوں میں سے ایک بھی ہار ماننےاور صلح کرنے کو تیار نہ تھا۔

سردار دلاور شروع سے ہی ایک  خود پسند انسان تھے۔جوانی سے ہی انکی فلک بلوچ سے نہیں بنی تھی۔ہر معاملے میں وہ فلک بلوچ کی مخالفت میں کھڑے ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔دلاور کہ ایک ہی بیٹی تھی ھادیہ ۔۔۔انکی محبت عنایا کی آخری نشانی ۔۔۔۔جسے وہ جان سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے ۔۔۔۔وہ بھی اپنی اس خاندانی دشمنی سے بخوبی واقف تھی 

دوسری طرف سردار فلک بلوچ ایک تحمل مزاج اور بردبار آدمی تھے ۔۔۔

انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت بھی بالکل ایسے ہی کی تھی۔انکی اولاد بھی ان جیسی ہی تھی۔انکے بیٹوں کو انکی پوری سپورٹ حاصل تھی اسلئے جو انکے دل میں آتا وہ کرتے تھے۔انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنی چاہی تو سردار فلک بلوچ نے اپنے تینوں بیٹوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت بخوشی دی ۔۔۔۔۔یارم بلوچ ایک ماہر ڈاکٹر تھا ۔ھاد بلوچ نے بی ۔بی ۔اے کیے اپنے والد کے ساتھ زمینوں کے کاروبار کو سنبھال رہا تھا ۔۔۔۔جبکہ آتش بلوچ بھی ایم بی اے کیے ابھی لوٹا تھا ۔۔۔۔وہ تینوں ہی انتہائی قابل تھے ۔فلک بلوچ  نے اپنے تینوں بیٹوں کو اس خاندانی جھگڑے اور قتل و غارت  سے بالکل دور کر رکھا تھا۔انکا کہنا تھا کہ یہ انکا اور دلاور کا آپسی مسئلہ ہے جس میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا۔

جبکہ ھاد بلوچ انکی اس بات کے ہمیشہ خلاف رہا تھا۔اسکا کہنا تھا کہ جب دلاور بلوچ اپنے بھانجے شمشیر بلوچ کو ان کے سامنے دیوار بناکر کھڑا کرسکتا ہے تو وہ کیوں نہیں ؟ پر فلک بلوچ نے سختی سے ھاد بلوچ کو اس مسلے میں گھسنے سے منع کیا تھا کہ وہ بیچ میں نہیں بولے گا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سردار آتش بلوچ فون کال اٹینڈ کرکہ فارغ ہوا تو ۔۔۔۔

"یہاں روک دیجیے سرکار ....!

سسی نے آبادی کا راستہ شروع ہوتے ہی اس سے جیپ رکوا دی ۔۔۔۔

"دیکھیں آپ کے پاؤں زخمی ہیں ایسی حالت میں چل کر گھر جانا آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا ۔۔۔

اسکی حالت کے پیش نظر وہ اسے گھر چھوڑنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔

لیکن فورا سے بیشتر اسکے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔۔۔۔

وہ سمجھ گیا کہ گوٹھ والوں کے سامنے وہ اسکی جیپ سے اتر کر کوئی تماشا نہیں بنوانا چاہتی تھی ۔۔۔

تبھی بات وہیں روک گیا ۔۔۔اور اسے مزید آگے بڑھنے کا اصرار کیے جیپ روک دی ۔۔۔

سسی ہمت کر کہ پاؤں زمین پر رکھنے لگی مگر جیسے ہی زخمی پاؤں گرم ریتیلی ریت کو چھوئے اسکے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔

"آہ ۔۔۔۔

سردار آتش بلوچ ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھ کر باہر نکلا اور اسکی طرف آیا ۔۔۔

اس نے سسی کا ہاتھ  پکڑ کر اسے نیچے اترنے میں مدد دی ۔۔۔

سسی کا ہاتھ اسکی آہنی گرفت میں تھا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ لڑکھڑا جاتی اس نے دوسرا ہاتھ آتش بلوچ کے شانے پہ رکھا سہارا لینے کو ۔۔۔

لحظہ بھر کو ڈگمگاتے قدموں سے اسکا سر سردار آتش بلوچ کے چوڑے سینے سے ٹکرایا ۔۔۔ 

اسکی گرم بھاپ اڑاتی ہوئی سانسوں سے سسی کو اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔

پاؤں درد سے جھنجھجنا اٹھے تو وہ گرنے کے در پہ تھی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے اسکی دونوں کلائیوں کو بروقت تھام کر اسے گرنے سے بچایا ۔۔۔۔

اسکے ایسا کرنے سے سسی کی کلائی میں موجود کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کر کرچیوں میں منقسم ہوگئیں ۔۔۔

کچھ چوڑیوں کے ٹکڑے  ریتلی زمین پہ گرے تو چند اسکی گوری کلائیوں میں پیوست ہوگئے ۔۔۔۔

مگر اسے درد کا ہوش کہاں تھا وہ تو اس شہزادے کی حددرجہ قربت پہ پگھلی جارہی تھی ۔۔۔دل کی دھڑکنوں نے سینے میں بھونچال کھڑا کر رکھا تھا ۔۔۔دل عجب تال پہ دھڑکنے لگا۔۔۔

ان دیکھا ،ان جانا جذبہ بیدار ہوا ،کب کسی مرد کی اتنی قربت دیکھی تھی ،کب کسی کے ملبوس سے اٹھتی مہک محسوس کی تھی ،کب کسی مرد کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت محسوس کی ۔یہ سب احساسات تو اسکے لیے بالکل نئے تھے ،محبت کی کلی چٹخنے لگی تھی ۔اس کے لیے تو ہر بات انوکھی تھی ۔اس شہزادے کا اتنا سا خیال کرنا اس سادہ سی لڑکی کے من مندر میں بھونچال مچا گیا تھا۔۔۔

یہ قیامت خیز لمحات آکر گزر گئے مگر سسی کا دل اپنے ساتھ لے گئے ۔۔۔۔

جبکہ مقابل موجود سردار آتش بلوچ اس کی کیفیات سے انجان تھا ،وہ تو محض جذبہ ہمدردی کے تحت اسکی مدد کر رہا تھا ۔۔۔۔وہ ایسا ہی تھا سب کا ہمدرد شوخ و شنگ،قسم کا نوجوان جو کسی کو بھی مصیبت میں دیکھ کر مدد کیے بنا رہ نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔ 

سسی پہ تو گویا قیامت برپا تھی ۔۔۔وہ بھاگتے ہوئے اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

سردار آتش بلوچ نے جیپ حویلی کے راستے پہ ڈال دی ۔۔۔۔

سسی نے گلی کی نکڑ سے پلٹ کر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔اسے سارا منظر ایک دم ویران لگنے لگا ۔۔۔جیسے جانے والا منظر کی ساری رعنائیاں اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔۔۔

وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔۔۔

"آگئی سسی ؟؟؟

"جی ماں سا "

اس نے سر جھکائے جواب دیا کہیں اس کی ماں اس کی آنکھوں میں چھپی تحریر نا پڑھ لیں۔۔۔

"آجا روٹی کھا لے "

"ماں سا بھوک نہیں "

وہ کہتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور اندر جاکر دروزے کی چٹخنی چڑھائی ۔۔۔

اور دروازے کے ساتھ پشت لگائے لمبے لمبے سانس بھرنے لگی ۔۔۔اپنی سانسوں میں اسکے مخصوص پرفیوم کی مہک ابھی تک گھلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ،کلائیوں پہ بھی اسکی آہنی گرفت ابھی تک محسوس ہوئی ۔۔۔اس نے زرا کی زرا نظر اپنی کلائیوں پہ ڈالی جہاں ابھی تک اسکی انگلیوں کے نشان ثبت تھے ۔۔۔۔

وہ چلا اختیار اپنی زخمی کلائیوں کو اپنی آنکھوں سے لگا کر آنکھیں موند گئی ۔۔۔

اسے نا تو پاؤں کے ذخموں کی درد تھی نا کلائیوں پہ چوڑیوں کے کانچ چبھنے کی درد ،بس دل میں میٹھا میٹھا درد محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔اسے ابھی تک اپنے چہرے پہ اس کی سلگتی ہوئی سانسوں کی حرارت محسوس ہورہی تھی ۔اسکے چوڑے سینے میں سے دھڑکتے دل کی آواز ابھی تک اپنے کانوں میں گونجتی ہوئی لگی ۔۔۔

وہ سدھ بدھ گنوائے شکستہ وجود لیے آکر چارپائی پہ گرنے کے انداز میں بیٹھی ۔۔۔۔

اک خوشنما احساس تھا جیسے  ارد گرد تتلیاں منڈلانے لگیں ۔۔۔۔

وہ تکیے پہ چہرے کے نیچے ہاتھ رکھے کھلی آنکھوں سے اس شہزادے کے سپنے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

میں چاہتوں کا حساب لکھ دوں 

آ تجھ پہ کوئی کتاب لکھ دوں،

کبھی کسی سے کیا نا جس نے ،

میں وہ پیار ِ بے مثال لکھ دوں ،

میری نظروں میں جو بس گیا ہے ،

وہ دلکشی ،وہ جمال لکھ دوں ،

بہت دنوں سے سوچتا ہوں ،

ہر شام تیرے نام لکھ دوں ،

اب گوارا ہو تجھے تو،

یہ زندگی تیرے نام لکھ دوں ،

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ھاد بلوچ نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔۔۔۔

وہ بہ نفسِ نفیس سرخ عروسی لباس میں ملبوس دلہن بنی پورے طمطراق سے اسکے بستر پر براجمان تھی ۔۔۔۔اور اپنی غزالی آنکھوں میں جذبات لیے اسے شرماتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

اسکی حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔۔

وہ خواب کی کیفیت میں مسرور انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے اپنے بستر پہ آیا ۔۔۔۔

جیسے ہی اس نے ھادیہ کو چھو کر محسوس کرنا چاہا اس کی شبیہہ ہوا میں تحلیل ہوگئی ۔۔۔اس کا خواب ٹوٹا ۔۔۔

وہ اپنے تکیے کو اپنی بانہوں میں بھینچے بستر پہ گرنے کے انداز میں لیٹ گیا ۔۔۔۔

یہ تقاضا ِعشق ہے،

میری آنکھوں کی مستی کا،

کھولوں تو دیدار تمہارا،

بند کروں تو تصور تمہارا ،

"آہ ۔۔۔آہ ۔۔۔۔ہا ۔۔۔۔وہ ٹھنڈی آہ بھر کر اس کے عکس سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔۔

 "ھاد بلوچ کو آپ سے پیار ہوگیا ہے بلوچن سائیں...!!!!!

"آپ ہی بتائیں نا ۔۔۔۔کیا کریں اب ؟؟؟

وہ تکیے کو ھادیہ سمجھ کر اس سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔اور مسکرا کر پوچھنے لگا ۔۔۔۔

"دل چاہتا ہے آپ ہمارے اتنے قریب آجائیں اور ہم آپ کو ہمیشہ کے لیے اس طرح سے اپنی آغوش میں لے لیں ۔۔۔۔" اب کی بار وہ پھر سے تکیے کو سینے میں زور سے بھینچ کر بولا۔۔۔۔

"دیکھو نا ۔۔۔تمہاری اتنی سی دیر کی دوری نے کتنا بے چین کردیا ہے مجھے ....!

"ہر جگہ تمہیں تم دکھائی دینے لگی ہو ۔۔۔۔

"اب دوری ممکن نہیں ۔۔۔۔

"میری ہر خواہش تم سے جڑ چکی ہے ۔۔۔۔

"آپ کے آنے سے ہی اب اس  دل کی آرزوئیں مکمل ہوں گی ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں روشن دئیے جگمگ کرنے لگے اسکے بارے میں سوچتے ہوئے ۔۔۔۔

"آپ کو جلد سے جلد ہمارے پاس آنا ہی ہوگا "

وہ مدھم آواز میں اس سے مخاطب تھا ۔۔۔۔

"مجھے اپنے عشق کا روگ لگا کر خود یوں گم نہیں ہوسکتی آپ ۔۔۔۔پاتال  سے بھی ڈھونڈھ لاؤں گا ۔۔۔آپ کو ۔۔۔۔اور تعویذ بنا کر سینے سے لگا لوں گا کہ پھر کہیں دور نا جاسکیں "

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش کرتی اسے مڑ کر مسکراتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

ھاد بلوچ تکیہ چھوڑے سرعت سے اسکی طرف لپکا ۔۔۔۔

مگر وہ شبیہ پھر سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔ 

"آپ دھیرے دھیرے مجھے پاگل بنا ڈالیں گی بلوچن سائیں...!!!!!!!

وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائے مسکرا کر بولا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"بس بھی کردے یار "

بابر نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

سوچوں میں گم وہ ایک دم چونکا۔

"What the hell...?

"دانت کچکچا کر اسنے اپنے  ہاتھ کو دیکھا ۔سگریٹ نے اسکی انگلی کو جلا دیا تھا۔ سوچوں کے گرداب میں گم اسے معلوم نہ ہوا کہ سگریٹ سلگ سلگ کر اسکی انگلی جلانے کے در پے تھا۔اسنے جھنجھلا کر سگریٹ روڈ پہ  پھینکا اور زور سے بوٹ کی ٹوہ سے مسلا۔ جلی انگلی کی پرواہ کئے بغیر وہ پھر سے نیا سگریٹ جلانے لگا۔آج تو جیسے اسنے سگریٹ پی پی کر اپنی جان  جلانے کی قسم کھا رکھی تھی۔پتہ نہیں کیوں آج وہ خود کو اتنا ٹوٹا ہوا محسوس کر رہا تھا۔اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ یوں اس پردیس میں تنہا تھا۔  وہی بھیانک حادثہ بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے آکر اس کی جان لے رہا تھا۔

"اتنے سگریٹ کیوں پھونک رہے ہو ؟"

"کہیں سے لگتا نہیں کہ دوسروں کو سیگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے کا مشورہ دینا والا ڈاکٹر خود اپنے پھپھڑوں میں زہر بھر رہا ہے "

اس نے سخت لہجے میں کہا۔

"اس حادثے نے زندگی میں زیر ہی تو بھر دیا ہے ۔"وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے پھر سے گہرا کش لیتے ہوئے دھواں ہوا میں اچھالنے لگا ۔۔۔

"تم اپنے ساتھ غلط کر رہے ہو یارم "بابر نے ایک مشکوک نظر اس پر ڈالی۔ "

"غلط میں نے اپنے ساتھ نہیں اس لڑکے کے ساتھ کیا ہے اسکی جان لے کر اور اسکی بہن کے سر سے اسکا واحد سہارا چھین کر ۔۔۔۔"اس نے کرب زدہ آواز میں کہا۔۔۔۔  

"کیا تمہیں واقعی لگتا ہے کہ میں غلط نہیں  ؟"یارم نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔

"نہیں "

"تم نے جان بوجھ کر نہیں کیا کچھ بھی وہ سب انجانے میں ہوا ۔تم خود کو قصوروار مت ٹہراؤ "اس نے دلیل پیش کی ۔

بابر اسکے سوال کا جواب دے کر اسکے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔جبکہ سردار یارم بلوچ آسمان پر اڑتے ہوئے پرندوں پہ نظریں جمائے ہوئے تھا۔ 

"تمہیں کیا لگتا ہے تم اس کی بہن کو اپنا پاؤ گے بیوی کے روپ میں جو اندر حامی بھر آئے ہو ؟"بابر  نے ایک دم پوچھا۔ 

" مجھے نہیں پتہ ۔۔آگے چل کر کیا ہوگا ۔۔۔میں بس اپنے جرم  اپنی غلطی کا مداوا کرنا چاہتا ہوں ۔"یارم نے بلا اختیار چہرہ پھیر کر اسے دیکھا۔ 

"تو پھر میرا یار نکاح کے لیے تیار ہے اس لڑکی سے تو مولوی کا انتظام کروں پھر ۔"بابر نے ماحول میں چھائی ہوئی تلخی کو کم کرنے کے لیے مسکرا کر کہا ۔

"ہمممم۔کرو ۔"وہ پھر سڑک پہ آتی جاتی تیز رفتار گاڑیوں کو  دیکھنے لگا۔ 

ایک رات میں زندگی کیا سے کیا ہوگئی تھی یوں لگ رہا تھا کہ اس ایک رات میں اس نے صدیوں کا سفر طے کرلیا تھا ۔۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ لڑکی تمہیں معاف کردے گی یہ جاننے کے بعد کہ تم اسکے بھائی کی موت کے ذمہ دار ہو ؟" بابر نے جاتے ہوئے واپس پلٹ کر سوال کیا ۔۔۔۔

"اسے بتائے گا کون "یارم بلوچ نے ابرو اٹھا کر تیکھے چتونوں سے اسے گھور کر پوچھا ۔۔۔

"تم خود ہی سچائی کے دیوتا مت بن جانا ۔"بابر نے اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا ۔

"مجھے اچھے سے پتہ ہے تمہارا ۔۔۔۔تمہارے اندر کا جو اچھا انسان ہے نا وہ تمہیں اندر سے سچ بتانے کے لیے بار بار کچوکے لگاتا رہے گا اور ایک نا ایک دن تم خود اپنے ہی منہ سے پھوٹ پڑو گے سچائی ۔۔۔۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"یارم بلوچ نے اسکی بات کی نفی کرتے ہوئے جھنجھلا کر کہا۔وہ اسکی بات ماننے کو تیار نہ تھا۔ 

"اپنے ہاتھوں سے خودی اپنی زندگی اجاڑ مت لینا میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنا منہ بند رکھنا ۔"

"فی الحال تو تم اپنا منہ بند کرو میرا دماغ مت کھاؤ جس کام جا رہے ہو وہ کرو جاکر جلدی ۔"یارم بلوچ جھنجھلایا۔ 

"بڑی جلدی ہے نکاح کی ۔"

وہ شرارتی انداز سے مسکرا کر اسے چھیڑنے لگا ۔۔۔

"شٹ اپ "اب کی بار یارم بلوچ کے ماتھے پر بل پڑے۔

"ابھی تو شادی ہوئی بھی نہیں اور تم نے آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیں ۔شادی کے بعد تو نجانے کیا کرو گے ۔"

وہ جاتے جاتے بھی اسے تنگ کرنا نا بھولا ۔۔۔

"Get lost ....Babar ....

۔"وہ سخت گیر انداز میں دھاڑا ۔۔۔۔۔

بابر ایک دم مسکرانے لگا۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج موسم بہت خوبصورت تھا ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ھادیہ لان میں موجود چئیر پہ بیٹھی اسی کی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔۔۔۔ھاد بلوچ کے ساتھ گزرے سب پل اسکی آنکھوں کے پردوں پہ چل رہے تھے ۔۔۔۔

"لگتا ہے عشق کا بخار چڑھ چکا ہے "

امینہ نے حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے ھادیہ کو خیالوں میں ڈوبے دیکھ کر بلند آواز میں کہا تو ھادیہ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"تجھے کیسے پتہ "؟

ھادیہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"سب پتہ چل جاتا ہے ۔۔۔تیرے چہرے پہ صاف صاف لکھا ہے ۔۔۔۔۔

"چہرے کی حالت تو جان لی میں نے یہ بتا تیرے دل کا حال کیسا ہے "؟

امینہ نے شرارت سے پوچھا ۔۔۔

"ہائے ۔۔۔۔!!!!!!  دل کا حال تو پوچھ ہی مت ۔۔۔۔

دل کی ہر دھڑکن اسی کا نام لے رہی ہے ۔۔۔۔

"دل کرتا ہے ان اڑتے ہوئے پنچھیوں سے کہوں اسے ڈھونڈھ لائیں کہیں سے ۔۔۔۔"

وہ آسمان پر اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھ کر افسردہ لہجے میں بولی۔۔۔۔۔

"اچھا یہ بتا تو اماں بی کو بتایا اس کے بارے میں ؟؟؟

امینہ نے چائے لے کر آتی ہوئی اماں بی کی طرف دیکھ کر ھادیہ سے پوچھا ۔۔۔۔

"اپنی اماں بی سے کیا چھپایا جا رہا ہے "؟

انہوں نے ٹرے میز پہ رکھتے ہوئے ھادیہ کی طرف دیکھ کر پیار بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"اماں بی آپکی برسوں کی خواہش پوری ہوگئی ۔۔۔۔آپ کہتی تھیں نا کہ ہماری ھادیہ کے لیے کوئی ھاد آنا چاہیے ۔۔۔۔تو سمجھیں وہ آگیا ۔۔۔۔امینہ نے ہنستے ہوئے اسکا پول کھولا ۔۔۔ 

"کون ھاد ؟وہ حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں ۔۔۔

"اماں بی جس شادی میں شرکت کے لیے گئے تھے نا وہیں ہماری ھادیہ کو اس کا ھاد مل گیا تھا ۔۔۔۔

"اور دیکھیں اس ھاد نے ہماری ھادیہ کی ہتھیلی پہ اپنے ہاتھوں سے اپنا نام بھی لکھ دیا ۔۔۔۔۔

امینہ نے ھادیہ کی ہتھیلی انکی طرف کیے انہیں دکھایا ۔۔۔۔

"ھادیہ بچے ۔۔۔۔!!!!

"کون تھا یہ ھاد ...؟"

"پتہ نہیں اماں بی ..."

وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔

"کہاں کا رہنے والا تھا ۔۔۔۔؟انہوں نے دوسرا سوال کیا ۔۔۔

"پتہ نہیں ۔۔۔۔

"اس کا کوئی ٹھکانہ تو ہوگا نا ۔۔۔۔؟

"معلوم نہیں اماں بی مجھے ۔۔۔۔

ھادیہ ابھی بھی اسی کو نظروں کے سامنے بیٹھا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ 

"جھلی ۔۔۔۔چل چائے پیو میں باقی کے کام دیکھ لوں " وہ ھادیہ کو پیار بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔

"امینہ دل کرتا ہے پرانے زمانے کی طرح اسے خط لکھوں اور اپنے پیار کا اظہار کروں اس سے ۔۔۔۔پھر وہ پیار بھرا خط کبوتروں کے ساتھ باندھ دوں یہ اڑ کر میرا خط اس تک لے جائیں ۔۔۔ 

وہ امینہ کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر لان میں خوشی سے گول گول گھومنے لگی ۔۔۔۔

"مگر سوچنے کی بات ہے ۔۔۔میں کبوتروں کو اس کا ایڈریس کیا بتاؤں گی۔۔۔۔وہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ۔۔۔۔

وہ گھومتے ہوئے ایک دم رک کر حیرانگی سے بولی ۔۔۔ 

"آج کل کے کبوتر بڑے فاسٹ ہیں ،زرا ڈیٹا پیکج لگا اور فیس بک سے ھاد بلوچ کی آئی ڈی چھان لے شاید اتہ پتہ مل جائے "

وہ کھکھلا کر بولی ۔۔۔۔

"امینہ یہ باد صبا جو چل رہی ہے ۔۔۔کیا پتہ اس کے شہر سے اسے چھو کر آئی ہو ۔۔۔۔؟؟؟

"مجھے چھو کر مجھے صندل کردے  "

وہ اپنے رخساروں پہ ہوا محسوس کیے بوجھل آواز میں بولا۔۔۔۔۔

امینہ نے اسکی حالت پہ تاسف سے سر ہلایا۔۔۔۔

"امینہ کاش میں بھی ہوا ہوتی ۔۔۔۔اڑ کر چلی جاتی اسکے پاس اسے چھو لیتی ۔۔۔۔۔

وہ مسرت سے لبریز لہجے میں بولی تو امینہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔۔۔

"اس " ِحنا " میں اسی کی صورت دکھائی دینے لگی ہے مجھے "

وہ اپنی ہتھیلی پہ مہندی سے لکھا ھاد کا نام چوم کر مسکراتے ہوئے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی ۔۔۔۔

"ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں بی تو بالکل جھلی ہوگئی ہے اس ھاد کے عشق میں "

امینہ اسکے شانے پہ چپت رسید کرتے ہوئے بولی ۔۔۔

"چاہت۔۔۔۔۔؟“

”جی آنٹی۔۔۔۔۔“وہ بڑے آرام  سے کرسی پر بیٹھی پانی پی   رہی تھی۔جب صوفی آہستہ آہستہ سے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئیں ۔۔۔۔

”چاہت بیٹا یہ جو لوگ تھے تمہارے بابا کے خاندان والے تھے ۔۔“ انہوں نے آہستہ سے تحمل بھرے انداز میں کہا۔دو تین دن سے انہیں بخار تھا لیکن وہ لاپرواہی سے چل پھر رہی تھی۔ آج تو ان میں بلکل ہی ہمت ختم ہوگٸی تھی اور کمزوری اور نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔۔لیکن چاہت کی حفاظت  کے لیے اس کے پاس آگٸی تھیں اسے دیکھنے ۔۔۔۔وہ اسے چھوٹے ہوتے سے جانتی تھیں ۔کہ کسطرح آدم نے اس نننھی پری کا خیال رکھا تھا اسکی غیر موجودگی میں وہ اسکا دھیان رکھتی تھیں ۔

اور اب جب آدم ہوں اچانک سے کہیں چلا گیا تھا وہ پریشان ہو چکی تھیں ۔ایک تو اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی پھر اسکی بھی پریشانی تھی کہ ایسے وقت میں انہیں کیا کرنا چاہیے تھا ۔

”تو ہوں مجھے کیا ۔۔۔“ چاہت نے لاپرواہی سے کندھے اچکا کر کہا ، اور پھر سے پانی کے گھونٹ بھرنے میں مصروف ہوگٸی،

”چاہت تمہیں پتہ ہے آدم کسی دوسرے ملک چلا گیا ہے جاب کے سلسلے میں ۔۔؟“

انہوں نے گویا اسکے سر پہ دھماکہ کیا۔۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟"

 اس نے روہانسی انداز میں کہا، وہ اب رو دینے کو تھی،

”مجھے تو خود بھی یقین نہیں ہورہا وہ ایسی لاپرواہی کیسے کر سکتا ہے اپنی جواں بہن کو اکیلے چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے ۔۔؟“انہوں نے  اس کی آڑی ہوئی رنگت دیکھ کر سوال کیا۔

”برو ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔میں اکیلے اس گھر میں کیسے رہوں گی ۔۔۔“ اس نے تنہائی کے خیال سے ڈرتے ڈرتے لڑکھڑاتی آواز میں کہا۔

”بیٹا خدا ایک در بند کرتا ہے تو دوسرا کھول دیتا ہے  ۔۔۔“ انہوں اس کی طرف دیکھ کر کہا پھر سر جھکا گٸی۔

چاہت زارو زار رونے لگی ۔۔۔۔

”بیٹا یہ رونے کا وقت نہیں اب تو خوشیوں کی سوغات تمہاری منتظر ہیں ۔۔غموں اور دکھوں کی عمر تمام ہوئی ،اب تمہیں مسکرانا ہے ،آج سے تم ایک نئی دنیا میں جانے والی ہو ،جہاں سے تمہیں اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنی ہیں ،ان آنسوؤں کو پونچھ لو ۔۔۔۔کیونکہ مجھے امید ہے وہ تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دے گا ۔۔میری ان جہاندیدہ نظروں نے اسکی آنکھوں میں تمہارے لیے احساس دیکھا ہے  ،خدا کبھی اپنے بندوں کو اسکی استطاعت سے زیادہ غم نہیں دیتا ،خدا نے تمہیں خوشیاں سمیٹنے کا موقع دیا ہے ،انہیں سمیٹ لو ،“ انہوں نے نرمی سے اسکے چاند چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر یقین دلایا ۔۔۔۔۔۔۔

"آپ کیا کہہ رہی ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔“چاہت نے ناسمجھی سے انکی طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔۔

انہیں لگا چاہت کو اسکے نکاح کا بتائیں گی تو وہ نجانے کیسا ری ایکٹ کرے ۔۔۔ان اس ٹینشن زدہ ماحول میں اتنی سردی میں بھی ماتھے پر شرمندگی سے پسینہ آ گیا تھا۔لیکن اسے بتانا بھی ان کے لیے ضروری تھا ،کیونکہ اس کے پاس اور کوٸی راستہ بھی نہیں تھا۔

"چاہت بچے میں نے آپ کا نکاح آج یارم بلوچ سے طے کردیا ہے "

”آنٹی یہ نکاح کیا ہوتا ہے ۔۔۔؟“ وہ حیرت زدہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے گویا ہوئی 

وہ تھوڑی دیر سوچ میں پڑ گئیں ۔۔۔پھر اس کے کچے زہن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اس کے ہی طریقے سے سمجھانے لگیں ۔۔۔۔

”بیٹا ۔۔۔پہلے آدم آپ کا خیال رکھتا تھا نا ۔۔۔اور اب جب تک آدم واپس نہیں آ جاتا ۔۔۔تب تک آپ کا خیال یارم رکھے گا ۔۔۔جیسے آپ آدم کو تنگ نہیں کرتی تھی ۔اس کی ساری باتیں مانتی تھی ۔۔۔ویسے ہی اب آپ یارم کی ساری باتیں ماننا اور اسے تنگ نہیں کرنا ۔۔۔کیونکہ آپ تو گڈ گرل ہو نا ۔۔۔“

چاہت نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

”ہممم ۔۔۔مگر مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا برو کے بغیر ۔۔۔انہیں کہیں نا جلدی سے واپس آجائیں ۔۔۔انہوں نے تو کہا تھا کہ وہ میرے لیے سرپرائز لے کر آئیں ۔۔۔۔نا تو وہ خود آئے اور نا سرپرائز لے کر آئے ۔۔۔اب وہ آئیں گے نا تو میں نے ان سے ناراض ہوجانا ہے ۔بات ہی نہیں کرنی ۔۔۔یوں کوئی چھوڑ کر جاتا ہے ۔انہیں پتہ بھی ہے میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔“اس نے صوفی کے سامنے اپنی شکایات کا پٹارا کھول دیا ۔۔۔ ، ان کو چاہت کو دلاسہ دینے یا اور  کچھ کہنے کی ہمت ہی نہ ہوٸی۔اسے روتے دیکھ کر 

”چاہ ۔۔! ۔۔۔روو مت نا ایسے روتی رہو گی تو کیسے چلے گا ؟“

وہ اسکے آنسوں کو پونچھنے لگیں ۔۔۔۔

”بیٹا یہ میرا فون نمبر رکھ لو مجھے اپنی خبر دیتی رہنا ۔انہوں نے اپنا فون نمبر اک پرچی پہ لکھ کر اسکے ہاتھ میں رکھا ۔،اب میں اپنی ذمہ داری سے آزاد ہونے جا رہی ہوں تمہیں ایک مضبوط رشتے میں جوڑ کر ۔میں نے دیکھا ہے وہ اثر و رسوخ والا انسان سکت رکھتا ہے تمہیں سنبھالنے کی،تمہارے بغیر دل تو نہیں لگے گا مگر کیا کریں یہ تو ازل سے ریت چلی آرہی ہے بیٹیوں کو ایک نا ایک دن اپنے اصل پیا کے گھر تو سدھارنا ہی پڑتا ہے ۔میں تمہاری اچھی زندگی کے لیے دعا کروں گی ۔ “انہوں نے نم آلود آواز میں آہستہ سے کہا ۔

”اپنا خیال رکھنا اور یارم کا بھی جب تک آدم واپس نہیں اجاتا ۔۔۔رکھو گی نا ۔۔؟“ انہوں نے جواب دے کر اگلا سوال کیا۔

”میں رکھوں گی ۔۔۔۔“ 

”تم جلدی سے تیار ہوجاو وہ لوگ مولانا صاحب کو لے کر آرہے ہوں گے لاؤ میں تمہاری مدد کروں “

وہ اسکے کمرے کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔اور کبرڈ کھول کر دیکھنے لگیں ۔وہاں جینز اور شرٹ ،سکرٹس کے علاؤہ کچھ بھی موقع کی مناسبت سے نہیں ملا تھا ۔۔۔

صرف ایک سرخ شال پہ نظر آئی تو وہ انہوں نے نکال کر چاہت کے سر پہ اوڑھا دی ۔۔۔۔

"وہ نکاح کر کہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائے گا "

وہ یکدم چونک کر دیکھنے لگی پھر نفی میں سر ہلایا۔۔۔

انہوں نے شفیق انداز میں اسکے سر پہ ہاتھ رکھا ۔

"چاہت بچے میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ،میں تمہاری حفاظت کی ذمہ داری زیادہ دیر نہیں اٹھا پاؤں گی بہت مشکل سے یہ فیصلہ لیا ہے ۔مجھے کمزور مت کرو ۔انہوں نے اسکے آنسو پونچھے۔۔۔تو چاہت نے انکا گرم ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔

 ابھی ان کی بات پوری نہیں ہوٸی تھی کہ چاہت نے ان کے بخار سے سرخ ہوتے چہرے کو ہاتھ لگایا اور ان کے بخار سے تپتے چہرے کو دیکھ کر پریشانی سے بولی۔۔

"آپ کو بخار کب سے ہے ؟"

”دوتین دن سے۔۔“ انہوں  نے دھیمے لہجے میں کہا،

”تو آپ  نے میڈیسن کیوں نہیں لیں ۔۔؟“ 

”لے رہی ہوں مگر فرق نہیں پڑ رہا بس تبھی ڈری ہوئی تمہارے معاملے میں اسی لیے یہ فیصلہ کیا ۔۔۔آدم مجھے اپنی ماں کا درجہ دیتا تھا اسی حثیت سے اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہوں....... “ وہ کہتے کہتے رک گٸی۔

”چاہت ۔۔۔اگر اس فیصلے کو لینے سے مجھ سے کوئی کوتاہی ہوگئی ہو تو مجھے معاف کردینا بیٹا “ وہ اس کی بہت اچھی دوست بھی تھیں ، تبھی بنا ہچکچاہٹ کے بولیں ۔۔۔۔

”آ۔۔۔آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں  ۔۔۔؟“ اس نے روتے ہوۓ کہا۔

”ارے ! روتے نہیں ۔۔تم میری  بیٹی کی طرح ہو۔۔ “ انہوں نے پیار سے اس کو ڈپٹا۔۔

”اب جاؤ جلدی سے باہر لگتا بچے آگئے ہیں ۔۔۔“ 

”لیکن  مم میں اکیلی کک کیسے جاٶں؟ مم مجھے تو کچھ پتا بھی نہیں۔“ وہ بہت جلد گھبرا جاتی تھی۔۔

” تم گھبراٶ نہیں۔۔۔ میں خود تمہارے ساتھ چلتی ہوں ۔۔“ انہوں نے فوراً ہی اس کی ڈھارس بندھائی ۔۔

”ٹھیک ہے پھر میں شال لے لوں۔۔“اس نے شال اوڑھ کر انکی طرف دیکھا ۔۔۔۔

صوفی محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

وہ بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی پھر ان کے گلے لگتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی آدم کی کمی اسے بری طرح سے کِھل رہی تھی ،اور لفظ نکاح کے بارے میں اس نے پہلے کبھی زندگی میں نہیں سنا تھا جو اب ہونے جا رہا تھا وہ بے حد گھبرائی ہوئی تھی ،

"چاہت بیٹا شادی تو خوشی کا موقع ہوتا ہے اس پہ روتے نہیں ۔۔۔۔او باہر چلیں ۔

وہ اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے اسے اپنے ساتھ باہر لے آئیں ۔۔۔۔

صوفی نے اپنے بیٹے اور بہو کو بھی کال کر کہ یہاں بلا لیا تھا وہ بھی باہر موجود تھے ۔۔۔۔

"ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔مولانا صاحب نے کہا ۔۔۔

صوفی نے انہیں بتایا کہ اسکے والدین حیات نہیں اور بھائی بھی کسی وجہ سے موجود نہیں ۔میرا بیٹا اسکا ولی بنے گا ۔۔۔۔

"انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے گہرا سانس لیا ۔۔۔۔

چاہت نے دیکھا ایک ادھیڑ عمر شخص سر پہ ٹوپی پہنے ہاتھ میں کچھ صفحات  لیے بیٹھا تھا اور دوسری کرسی پہ وہی شخص بیٹھا جو کچھ دیر پہلے  منہ سے عجیب انداز میں گول گول  دھواں نکال رہا تھا ۔۔۔

چاہت نے اسکی سرمئی آنکھوں میں دیکھا جہاں سرخ ڈورے نمایاں تھے ،تیکھی مغرور ناک،تراشیدہ مونچھوں تلے عنابی لب باہم پیوست تھے،سیاہ سلکی بال پیشانی پہ لاپرواہی سے بکھرے ہوئے تھے ،چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی ،وہ سپاٹ انداز میں ایک اچٹتی ہوئی نظر آتی ہوئی چاہت پہ ڈال کر نظروں کا زاویہ بدل گیا ۔۔۔

چاہت کو صوفی نے سٹول پہ بٹھا دیا۔۔۔۔

مولانا صاحب نے نکاح کے لیے پاکیزہ کلمات دہراتے ہوئے چاہت سے استفسار کیا ۔۔۔۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"

مولانا صاحب نے دوبارہ سے وہی کلمات دہرائے ۔۔۔۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟"

چاہت نے حیرانگی سے فق نگاہوں سے پاس کھڑی صوفی آنٹی کی طرف اپنی نیلی سمندر جیسی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔۔

"بیٹا قبول ہے کہتے ہیں تین بار  ۔۔۔آپ بھی انہیں جواب دو "

انہوں محبت بھرے انداز میں اسے سمجھاتے ہوئے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"ق۔۔۔قبو۔۔۔قبول ہے..!!!

"قبول ہے ۔۔۔۔!!!!

",قبول ہے ۔۔۔۔!!!!

اس نے سامنے بیٹھے سنجیدہ شخص کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

یہ سب سے بہت عجیب و غریب سا لگ رہا تھا ۔کبھی آدم کے بغیر کوئی کام نہیں کیا تھا ۔۔۔اج اسکی کمی بہت محسوس ہو رہی تھی اسے ۔۔۔۔

چاہت سے قبولیت کی سند پاتے ہی انہوں نے اپنا رخ یارم بلوچ کی طرف کیا ۔۔۔۔

 نکاح نامے پہ دونوں کے دستخط لیے ۔۔۔۔۔

دونوں اطراف سے ایجاب و قبول کا سلسلہ ختم ہوا تو سب نے انکی خوشگوار زندگی کے لیے ہاتھ بلند کیے دعا کی۔

پھر انہیں مبارکباد دی ۔۔۔۔

چاہت کی آنکھیں بھر آٸیں اور آنسو پلکوں کے بند توڑ کر رخسار پر بہنے لگ گٸے لیکن اس بار اس نے اپنے آنسو صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ان کو بہنے دیا تھا ۔۔۔۔!

وہ اک نئی منزل کی مسافر بن چکی تھی جس سے وہ قطعی نا آشنا تھی ،

بے سمت راستے ،،،،،

اور ،،،،،

منزلیں دھواں دھواں تھیں ۔۔!!!

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج بھی زبیدہ نے معمول کے مطابق نماز پڑھ کر قران پاک کی تلاوت کی اور پھر حویلی آگٸی، شازیہ پہلے ہی وہاں موجود تھی ۔۔وہ آلوؤں کو چولہے پہ چڑھا رہی تھی ابالنے کے لیے ۔۔۔۔

”کیا ہوا؟ آج تم اتنی خاموش کیوں ہو ۔؟“ شازیہ خاموشی سے سر جھکاۓ  اپنے کام میں لگی ہوٸی تھی،اس کو خاموش دیکھ کر اس کو حیرت ہوٸی،کیونکہ وہ بہت باتونی واقع ہوئی تھی ۔۔۔۔

”کک کچھ نہیں۔۔۔"اس نے پیچھے مڑ زرش بلوچ کو کچن کے دروازے میں ایستادہ دیکھ کر فقط اتنا ہی کہا ۔۔۔۔ 

”میں نے ہی اسے خاموش رہنے کو کہا ہے ۔زبان کم چلاؤ دونوں اور ہاتھ چلاؤ جلدی سب تھوڑی دیر میں باہر صبح کے کھانے کے لیے میز پہ جمع ہوجائیں گے ۔اور تم کھڑی کھڑی میرا منہ کیوں دیکھ رہی ہو ۔۔؟“ 

"آلو کے پراٹھے بنانے ہیں جلدی سے آٹا گوندھو۔۔۔۔انہوں نے فریج سے چاۓ کے لیے دودھ نکالتے ہوۓ زبیدہ سے کہا،

زبیدہ نے آٹا نکالا اور تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے گوندھنے لگی ۔۔۔۔تبھی اسے ایسی شدید قسم کی کھانسی آئی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

کھانس کھانس کر اس کے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔۔۔۔

"زبیدہ ہاتھ نکال اپنا آٹے سے ۔۔۔

پیچھے ہوجا ۔۔۔۔

"کیوں بیماری پھیلا رہی ہے آٹا کی طرف منہ کر ۔۔۔۔سب بیمار ہو جائیں گے "

"جا ۔۔۔۔جاکر ہاتھ دھو "

زرش بلوچ نے اسے کچن میں لگے نل کی طرف دھکیلا ۔۔۔۔

وہ کھانستے ہوئے ہاتھ دھونے لگی ۔۔۔۔

"اب گھر جا کل سے کام پہ آنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔"

انہوں نے سنجیدہ انداز میں کہا ۔۔۔۔

”لیکن کیوں۔۔؟“اس نے فق نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

”تو بیمار ہے اپنا علاج کرا پہلے ۔۔۔پھر آنا “

"لیکن وڈی سردارنی ....!!!!!

مارے گھر کا تو چولہا چوکھا تھارے دم سے چلتا ہے ۔۔۔یہاں کام ناہی کروں گی تو پیٹ کہاں سے بھریں گے ہم ماں بیٹی ؟"

وہ کھانستے ہوئے بے دم سی ہوکر بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے پھر کل سے اپنی بیٹی کو بھیج دینا ۔۔۔کام کے لیے ۔۔۔۔

انہوں نے آٹا گوندھ کر ایک برتن میں نکالا ۔۔۔۔

اور پلٹ کر کہا ۔۔۔۔

تو زبیدہ "جی اچھا "کہتے ہوئے سر جھکائے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔

"سلام بابا سائیں !

ھاد نے تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آ کر فلک بلوچ کو سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔

"کتنی بار کہا ہے ھاد ....پورا اسلام وعلیکم کہا کرو ...یہ سلام کیا ہوتا ہے ؟؟؟"

اس سے پہلے کہ فلک بلوچ اسکے سلام کا جواب دیتے زرش بلوچ جو کچن سے آلو کے پراٹھے لیے باہر آرہی تھیں ۔۔۔اسے گُھرکتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"ماں سا یہ ھاد بلوچ کا سٹائل ہے ۔۔۔۔"اب پلیز یہ مت پوچھنا کہ سٹائل کیا ہوتا وہ پھر کبھی سمجھاؤں گا ۔۔۔۔

"ابھی تو یہ گرما گرم بھاپ اڑاتا ہوا پراٹھا میری پلیٹ میں رکھیں ۔۔۔ 

وہ ڈائینگ کی کرسی گھسیٹ کر اس پہ بیٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"تیرے لیے نہیں یہ آتش کے لیے بنایا ہے اسے پسند ہے "

"اسلام وعلیکم ماں سا بابا سائیں ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں مسکراہٹ لیے کہا ۔۔۔۔

"وعلیکم السلام !!!

فلک بلوچ اور زرش بلوچ دونوں نے بیک وقت اسکے سلام کا جواب دیا ۔۔۔

فلک بلوچ اور آتش بھی اپنی اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔   ۔

"یہ تو نا انصافی ہے میرے ساتھ ماں سا ۔۔۔۔

یارم بھائی سا آپکے پہلے اور لاڈلے بیٹے ۔۔۔۔اور یہ آتش کب تک آپ کو ُچنو مُنو بیٹا رہے گا ۔۔۔  ان دونوں کی عمر نہیں رہی اب لاڈ کرنے کی ۔۔۔۔

کبھی تو مجھ درمیان والے پہ بھی پیار ُلٹا لیا کریں ۔۔۔۔

کہیں مجھے ساتھ والے گاؤں سے تو نہیں اٹھایا ....

وہ شاکی نظروں سے انہیں کہتے ہوئے چہرے پر خفگی لائے ناراضگی سے بولا ۔۔۔۔

اس نے آتش کی پلیٹ میں سے پراٹھا اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھا ۔۔۔۔اور لقمہ منہ میں ڈالا ۔۔۔

آتش نے مسکرا کر ھاد کی طرف دیکھا تو اس نے شرارت سے آنکھ ونگ کی ۔۔۔۔

"مارے لیے تو تم تینوں ہی برابر ہو ۔۔۔۔بس یارم میری پہلی اولاد ہے تو اس سے بس تھوڑا سا زیادہ پیار کرتی ہوں "وہ صاف گوئی سے بولیں ۔۔۔

"نجانے کب آئے گا واپس ۔۔۔ماری تو آنکھیں ترس گئیں ہیں اس کی راہ تکتے تکتے۔۔۔۔

وہ وہیں موجود ایک خالی کرسی پہ آہستگی سے بیٹھ کر رنجیدہ لہجے میں بولیں ۔۔۔۔

"ماں سا میری بات ہوئی تھی بھائی سا جلدی واپس آرہے ہیں ۔۔۔۔آتش بلوچ نے لسّی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بتایا ۔۔تاکہ انکی افسردگی کچھ کم ہو ۔۔۔۔

"بس جلدی سے واپس آجائے ۔۔۔پھر میں اپنی پسند سے اسکا بیاہ کروں گی "

وہ حسرت ذدہ میں بولیں ۔

سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا ۔۔۔۔

"آج میلہ لگا ہے ۔ شاہ صاحب سے مل لینا جا کر ۔۔۔۔انہوں نے ھاد کو کہا جو اپنا سروز ہاتھوں میں لیے اسے ہلکا ہلکا بجا رہا ۔۔۔۔اسکی تاروں میں سے دھیمے دھیمے ُسر بج رہے تھے ۔۔۔

"جی بابا سائیں میں مل لوں گا شاہ صاحب سے "

"آتش تم بھی جاو گوٹھ کے لوگوں کو اچھا لگے گا کہ ہم سرداروں میں سے وہاں کوئی ہوگا تو انہیں برابری کا احساس ہوگا ۔۔۔۔

"جی بابا سائیں میں چلا جاؤں گا ۔۔۔۔ویسے بھی دھوپ ڈھلنے پہ ہی میلہ شروع ہوگا میں چلا جاؤں گا ۔۔۔۔

"ھاد میں جانتا ہوں کہ تمہیں اس سروز سے بہت محبت ہے ،مگر بیٹا ہر وقت اسے مت پکڑا کرو ۔۔۔۔"

انہوں نے پیار بھری ڈانٹ پلائی ۔۔۔۔

"تم میرے ساتھ زمینوں کا کام دیکھ رہے ،مستقبل میں تمہیں میری جگہ لینی ہے ،خاندانی دستار تمہارے سر پہ سجا کر میں ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجانا چاہتا ہوں ۔۔۔

اور ایک سردار کے ہاتھوں میں سروز نہیں بندوق اچھی لگتی ہے "

وہ رعب دار آواز میں بولے ۔۔۔۔

"بابا سائیں بندوق تو خون ریزی اور نفرت کے ماحول کو چنگاری دیتی ہے ۔لیکن میرے اس سروز کے تاروں سے صرف محبت اور امن کے ُسر نکلتے ہیں "

"ھاد جس علاقے میں ہم رہ ہیں ،اس کے باہر نکلیں تو  دشمنی کے سائے تلے گولیوں کی ترتڑاہٹ اور تلواروں کی کھنک گونجتی ہے ۔۔۔۔

دشمنوں سے نپٹنے کے لیے سروز سے نہیں بندوق اور تلوار سے کام لیا جاتا ہے ۔۔۔۔"

انہوں نے انہیں حقیقت کا آئینہ دکھایا۔۔۔۔

"ھاد اپنے آپ کو اس سروز کی دھن میں اتنا نا کھو دینا کہ تم سردار بننے کی حثیت ہی کھو دو ۔۔۔۔

"پہلی تو بات یہ بابا سائیں بے شک میں آپکے ساتھ ساری زمینوں کا کام دیکھتا ہوں ۔۔۔لیکن مجھے اس سرداری اور اس دستار بندی کے کاموں سے دور ہی رکھیں ۔۔۔۔یہ حق یارم بھائی سا کا ہے ۔۔۔وہ بڑے ہیں ۔۔۔۔یہ ذمہ داریاں آپ انہیں سونپ دیں ۔۔۔۔

"بابا سائیں پلیز آپ برا نا مانیں تو میں بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج تک تو آپ نے کبھی ان بندوقوں اور تلواروں کی بات نہیں کی تو پھر آج ایسا کیوں ۔۔۔۔۔؟"

آتش بلوچ جو کب سے ان کی گفتگو سن رہا تھا بالآخر بول اٹھا ۔۔۔۔

"کیوں کہ اب تک میں سب سنبھال رہا تھا ۔۔۔کیا تین جوان بیٹیوں کے ہوتے ہوئے میں آرام نہیں کرسکتا ۔۔۔۔تم لوگوں کو ہمیشہ اس دشمنی سے دور رکھا ہے میں نے ۔۔۔۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں یہاں رہنے کے طور طریقے سکھاؤں ۔۔۔۔تاکہ تم لوگ اور کچھ نہیں تو اپنا دفاع کرنے کے قابل بن سکو ۔۔۔۔انہوں نے رسان سے سمجھانا چاہا ۔۔۔

"بابا سائیں ہم اپنے پیار اور محبت بھرے انداز سے دشمنوں کو سمجھائیں گے ۔۔۔ضروری نہیں کہ ہر کام تلوار اور بندوق سے کیا جائے "

آتش بلوچ نے دلیل پیش کی۔۔۔۔

"اور اگر کبھی ہمارے دشمنوں نے تمہیں بندوق اٹھانے کی مجبور کردیا تو ؟"

انہوں نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"بابا سائیں اگر ایسا ہوا تو یہ ہاتھ انصاف کے لیے تلوار بھی اٹھا سکتے ہیں ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے دیوار پہ لگی دو تلواروں میں سے ایک میان میں سے نکال کر درشت آواز میں کہا ۔۔۔۔

ھاد بلوچ کا بھی خون ابلنے لگا ۔۔۔۔اس نے سروز صوفے پہ پھینک کر بندوق اٹھائی ۔۔۔۔

سرداروں کے خون نے جوش مارا ۔۔۔۔ان کا ردعمل دیکھ کرفلک بلوچ کے سپاٹ چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔۔

"مجھے امید ہے میرے بیٹے اس علاقے کے لیے اچھے اور انصاف پسند سردار واقع ہوں گے "

انہوں نے ھاد بلوچ کا شانہ تھپتھپاکر کر مان بھرے انداز میں کہا۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ممانی سا امینہ کہاں ہے آج حویلی بھی نہیں آئی مجھ سے ملنے "؟

ھادیہ کی نظریں ادھر ادھر اسے ہی تلاش کررہی تھیں ۔۔۔

"بیٹا وہ ساتھ والوں کی طرف گئی ہے آج میلہ ہے نا تو سب کو ساتھ لے جانے کی تیاری کر رہی تھی ۔۔۔۔

"امینہ جائے گی میلے میں ؟"

اس نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔

"ہاں مجھے تو یہی کہہ رہی تھی ۔۔۔۔"وہ رسوئی کی طرف بڑھتے یوئے بولیں ۔۔۔

"کیوں تم نہیں جا رہی ؟"

"ممانی سا میں پہلے کبھی گئی نہیں ۔۔۔"

"جاکر دیکھو بہت مزہ آئے گا ۔۔۔تم شہر سے ابھی اپنی پڑھائی مکمل کر کہ لوٹی ہو ۔۔میری مانو تو۔اپنے گاؤں کو دیکھو اچھا لگے گا ۔۔۔"انہوں نے اپنے تئیں اسے مشورہ دیا ۔۔۔۔۔

"جی ضرور "

"اچھا میں شمشیر کے لیے روٹی ڈال لوں ۔۔۔۔"

وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔ ۔۔۔

"امینہ چھوڑ میری آنکھیں "

امینہ نے دبے پاؤں آکر پیچھے سے ہاتھ گزارتے ہوئے ھادیہ کی آنکھوں پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ دئیے تو ھادیہ نے اسے فورا پہچان لیا ۔۔۔۔

"ارے تجھے ان آنکھوں کی ضرورت کب سے پڑنے لگی ۔۔۔تجھے تو تیرا ھاد بند آنکھوں سے بھی دکھائی دیتا ہے "

امینہ نے اس کی آنکھوں سے اپنے ہاتھ ہٹائے بنا کہا ۔۔۔۔

"یہ تو تم نے بالکل ٹھیک کہا وہ تو ہر دم مجھے میرے من کی آنکھوں میں دکھائی دیتا ہے"

سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا تو شمشیر کی نظریں سامنے بیٹھی ھادیہ پہ پڑیں ۔۔۔۔

لائٹ فیروزی رنگ کے سوٹ اور ہم رنگ دوپٹے میں وہ آسمانی حور لگرہی تھی ۔۔۔۔

وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا ۔۔۔۔

"اچھا پیچھے کر نا اپنے ہاتھ "

ھادیہ نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔

"پہلے مجھے شعر سنا پھر چھوڑوں گی ۔۔۔۔امینہ نے شرط رکھی ۔۔۔۔

شاعری لکھنا ھادیہ کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔۔۔

 میرا وہ ہو ،جو نگاہوں میں حیا رکھتا ہو،

ہر قدم ساتھ چلنے کاعزم وفا   رکھتا  ہو،

ناز اس کے نہ اٹھاؤں تو  شکایت نہ کرے،

ہر غم سہہ کر  بھی ہنسنے کی ادا رکھتا ہو،

شمشیر بلوچ اس کاشعر سن کر عش عش کر اٹھا۔۔۔۔اور مسکراتے ہوئے اسےاپنی نظروں کہ حصار میں لیا ۔۔۔

"واہ ۔۔۔!!!

"واہ۔۔۔!!!۔۔۔!!!

شکایت نا کرے ....امینہ اسے شرارت سے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔

"چپ کر ۔۔۔کہیں کسی نے سن لیا تو ؟

"ھادیہ نے اسے گھور کر کہا ۔۔۔

"ہائے امینہ نجانے وہ دن کب آئے گا جب "وہ میری آنکھوں کے سامنے ہوگا "

ھادیہ امینہ کے بازوں پکڑتے ہوئے اسے زور  سے گول گول  گھماتے ہوئے شوخ لہجے میں بول رہی تھی۔ ۔۔۔۔

اچانک گھومتے ہوئے وہ ایک چٹان نما وجود سے ٹکرائی۔  ۔

تو ٹھٹھک کر وہیں رکی ۔۔۔

شمشیر بلوچ مسکراتی نگاہوں سے اسے اپنی نظروں میں سموئے ہوئے تھا ۔۔۔۔

"آجا شمشیر کھانا لگ گیا ہے "اسکی والدہ کی آواز آئی تو وہ مبہم سی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

"امینہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے شمشیر بھائی سا کے خوفناک چہرے سے ۔۔۔۔

وہ دھیمی آواز میں بڑبڑائی۔۔۔۔

"تیری اطلاع کے لیے بتا دوں کہ جس کی تو بات کر رہی ہے وہ میرے ہی بھائی سا ہیں "

امینہ ابرو اچکا کر بولی ۔۔۔

"ویسے وہ بچپن سے ہی ایسے خوفناک اور غصیلے ہیں ۔۔۔ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں انکی شکل ہی ایسی ہے "

وہ بھی ھادیہ کو دیکھ کر ہلکے پھلکے انداز میں بولی ۔۔۔تو دونوں ہنسنے لگیں ۔۔۔۔

""میں نے سنا ہے تو میلے میں جانے کی تیاریاں کر رہی ہے "

"ہاں نا چلتے ہیں ۔۔۔میری اور بھی بہت سی سہیلیاں بھی جا رہی ہیں ۔۔۔۔

"اچھا چل ٹھیک ہے ۔۔۔صبح بابا سائیں کو اپنی نئی غزل سنا رہی تھی تو بابا سائیں نے بتایا کہ دربار پہ ایک شاہ صاحب ہیں وہ شاعری کی اصلاح بھی کرتے ہیں ۔تو میں اپنی غزل کا آخری مصرعہ ان سے مکمل کروا لوں گی ۔۔۔۔

"ھادیہ مگر وہ تو صوفیانہ شاعری کرتے ہیں ۔۔۔اور تیری شاعری تو تیرے ھاد بلوچ پہ ہوگی ۔۔۔۔"امینہ نے کھکھلا کر کہا ۔۔۔۔

"تیری زبان کھینچ لوں گی اگر اس کا نام بھی تیری زبان پہ آیا ۔۔۔۔وہ صرف میرا ہے ۔"

وہ اترا کر بولی ۔۔۔

"اوہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔!

"اتنی جلن ۔۔۔۔!!!!!

"ہاں ہے تو ...؟... !

"اس کی طرف دیکھنا تو دور کی بات میں تو اسکا نام بھی کسی کو نا لینے دوں ....

وہ سر جھٹک کر بولی ۔۔

"وہ صرف تیرا ہی ہے ۔۔۔۔چل پھر شام کو ملتے ہیں اکٹھے چلیں گے میلے میں "

"ہاں ٹھیک ہے "

وہ حامی بھر کر چلی گئی ۔۔۔۔

زبیدہ گھر واپس جلدی آگئی تو سسی نے حیرانگی سے انہیں دیکھ کر استفسار کیا۔۔۔

"کیا ہوا ماں سا آج تو اتنی جلدی واپس آگئی "؟

"سسی زرا پانی تو لاکہ دے منے دوا لینی ہے "

وہ کھانستے ہوئے کچی اینٹوں سے بنے صحن کے بیچوں بیچ رکھی بان کی چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"جی ماں سا ابھی لائی ۔۔۔

سسی سرعت سے ایک طرف رکھے گھڑے کی طرف بڑھی اور گلاس بھر کر پانی لیے انکی طرف آئی ۔۔۔

"یہ ماں سا ..!

اس نے گلاس انکی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

"کیا ہوا ماں سا ۔۔۔۔کچھ بتا بھی "

"بڑے دنوں سے اس کھانسی نے تنگ کیا ہوا ہے ۔۔۔وڈی سردارنی نے جلدی چھٹی دے دی ۔۔۔۔

"تو دوا کہاں سے لائی ہے "

اس نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"اور کہاں سے لانی ہے اپنے گوٹھ کے ایک ہی تو حکیم صاب ہیں اسی سے لائی ۔۔۔۔

"ماں سا تو نا شہر سے اپنا علاج کرا ۔۔۔امینہ بتا رہی تھی وہاں کے طبیب بڑے قابل ہوے ہیں "

"جھلی نا ہو تو """

"ہم غریب کہاں ان شہری طبیبوں کا علاج کرا سکیں ہیں ۔۔۔۔اتنے پیسے کہاں سے لاویں گے ؟

"رب نے نصیبوں میں اور زندگی لکھی ہے تو کچھ نا ہوے گا ۔۔۔

"ماں سا ایسے نا کہا کر کیوں میرا جی جلاتی ہے ۔۔۔اک تھارے سوا مارا ہے ہی کون ؟"

"چل تو لیٹ جا میرا تیرا سر دباتی ہوں ۔۔۔۔

زبیدہ وہیں چارپائی پہ لیٹ گئی تو سسی اسکا سر دباتی تو کبھی ٹانگیں ۔۔۔۔

زبیدہ بے چین سی تھی ۔۔۔اور بار بار اٹھ کر کھانسنے لگتی ۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد دوائی نے کچھ اثر کیا تو انکی کھانسی کو کچھ سکون ملا ۔۔۔۔

"سسی تو ابھی تک تیار نہیں ہوئی میلے میں جانے کو ؟؟؟

امینہ نے دروازے کے اندر جھانک کو آواز لگائی ۔۔۔

"ماں سا کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔۔مارے کو نا جانا ۔۔۔تو چلی جا "

سسی نے وہیں بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی۔۔۔

"جا سسی تو چلی جا ۔۔۔اب میں ٹھیک ہوں "

زبیدہ نے بند آنکھوں سے کہا ۔۔۔

"تو نے سوچ بھی کیسے لیا ماں سا ۔۔۔ایسی حالت میں تھارے کو اکیلا چھوڑ کر میں خود موج مستی کرنے نکل جاؤں "

"میں تنے کہہ رہی ہوں نا جا چلی جا ۔۔۔۔تو خوش ہوے گی تو میرا من اپنے آپ خوش ہوجاوے گا ۔۔۔۔

"بس جانے سے پہلے جانوروں کو پٹھے ڈال جانا ۔۔۔کہیں وہ بھوکے نہ رہ جاویں ۔۔

"ماں سا وہ تو میں کردوں گی ۔۔۔پر سوچ لے ۔۔۔میں چلی جاؤں نا ۔۔۔تو سچ میں ٹھیک ہے نا ؟

"جا بھی ۔۔۔کیوں دماغ چاٹ رہی ہے ۔؟"

"اچھا ماں سا ۔"

وہ جلدی جلدی بندھی ہوئی بھیڑ بکریوں کو چارہ ڈالنے لگی ۔۔۔۔

"ماں سا آپ کو بھوک لگی ہے تو روٹی ڈال دوں ؟"

"نا ۔۔۔بھوک ناہی ہے ۔۔۔تو زرا یہ بکھرا ہوا چارہ جھاڑو سے سمیٹ دے "

"جی ماں سا"

اس نے ڈھیلے ہاتھوں سے جھاڑو گھماتے ہوئے چارہ سمیٹنے کی بجائے مزید صحن میں بکھیر دیا ۔۔۔

"کوئی بھی کام تجھ سے ڈھنگ سے تو ہوتا نہیں "

"تجھے تو محلوں میں پیدا ہونا چاہیے تھا "

انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے جلتے کڑھتے ہوئے کہا ۔۔۔

",ہاں تو ۔۔۔محلوں میں پیدا ہونے دیتی کیوں لے آئی مجھے یہاں "

"تیرا کچھ نہیں ہوسکتا "

انہوں نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔

"ہاں یاد آیا سسی ..!

وہ سوچتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"کیا ماں سا ؟"

"صبح سے حویلی چلی جانا مارے حصے کے کام کرنے ہوں گے ۔۔۔میں ٹھیک ہو جاؤں تو خود چلی جاؤں گی ۔۔۔۔تنے تو پتہ ہے نا منے زرا بھی بھلا نہیں لگتا تیرا کام کرنا ۔۔۔پر ماری بھی مجبوری ہے ،کام پہ نا جاویں گے تو روٹی کہاں سے کھاویں گے "

"ماں سا تنے ہمیشہ مارے کو منع کیا حویلی جانے سے ۔۔۔سچ مارے کو بڑا چاہ تھا وہاں جانے کا ۔۔۔ہمیشہ باہر سے دیکھی ہے حویلی باہر سے تو گھنی چوکھی لاگے مارے کو ۔۔۔اندر سے بھی اچھی ہی ہووے گی "

"صبح جائے گی تو دیکھ لینا اور ہاں وہاں ایسے کام نا کرنا وڈی سردارنی بہت غصہ کرتی ہیں کام ٹھیک نا ہووے تو ۔۔۔ماری بیعزتی نا کروا دیجیو "

حویلی میں جانے کا سن کر سسی کی آنکھوں میں چھوٹے سرکار سے ملنے کا سوچ کر ملن کے دیپ جل اٹھے ۔۔۔۔مسرت کے باعث اسکی آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا۔۔۔

"ماں سا عید والا جوڑا پہن لوں میلے میں "

اس نے زبیدہ کے گھٹنے سے لگ کر فرمائش کر ڈالی ۔۔۔۔

"کتنی بار سمجھاؤں وہ جوڑا تھاری شادی کے کپڑوں میں رکھ دیا ہے ،جا ۔۔۔کوئی دوسرا پہن لے "

انہوں نے ڈپٹ کر کہا ۔۔۔

"مان جا نا ماں سا ۔۔۔میری سب سکھیوں نے نئیے جوڑے پہنے ہوں گے اور میں ۔۔۔۔

وہ افسردہ لہجے میں بولی ۔۔۔زبیدہ نے اسکے لہجے میں یاسیت گھلی محسوس کی تو ۔۔۔۔گہرا سانس لیا ۔۔۔۔

اسے پھر سے کھانسی لگی ۔۔۔۔

"ماں سا پانی پی "

سسی نے اسکے منہ سے پانی کا گلاس لگایا اور اسکی پشت تھپتھپائی ۔۔۔۔

کچھ دیر میں اسکی کھانسی ٹھیک ہوئی تو اس نے سسی کو تیار ہوکر جانے کے لیے کہہ دیا ۔۔۔۔

سسی شیشے کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اس دیوار پہ لگے چھوٹے سے شیشے میں اسے بس اپنا چہرہ دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔

سنہرے چہرے پر پیا ملن کی چمک پھوٹ رہی تھی ،اس نے اپنی بادامی آنکھوں میں کاجل کی لکیر لگائی ۔۔۔جس سے اسکا چہرہ اور بھی دمک اٹھا ۔۔

اپنے گھٹنوں تک آتے لمبے بالوں کی چٹیا گوندھ کر اسنے شانے کے ایک طرف ڈالی ۔۔ناک میں باریک سی تار گول گھما کر پہنی ہوئی تھی پاؤں میں باریک سی پائل ۔وہ آتشی گلابی لہنگا چولی پہنے سر پہ چنری اوڑھے ،جانے کے لیے بالکل تیار تھی ۔۔۔۔

"سسی جلدی واپس آئیں"

باہر نکلتی ہوئی سسی کو زبیدہ نے پیچھے سے ہانک لگائی۔

"جی ماں سا "

وہ مڑے بنا بولی اور تیزی سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

"ہائے سسی آج تو قیامت لگ رہی ہے ۔۔۔امینہ نے اسکے شانے سے شانہ مارتے ہوئے شرارت سے کہا ۔۔۔

"زیادہ بکواس نا کر "

"لے بھلا اس میں بکواس کی کیا بات ہے ؟؟

"میں تو ان لوگوں کا سوچ رہی ہوں جنہیں تو آج ان قاتل نگاہوں سے گھائل کرنے والی ہے "

امینہ نے کھکھلا کر کہا ۔۔۔

"چل ہٹ "سسی نے جھینپ مٹانے کو اسکی پشت پہ دھماکا جڑ دیا ۔۔۔۔

وہ سب سکھیوں کے ساتھ ملکر میلے کی جگہ کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔۔

"ارے وہ دیکھ سسی آسمانی جھولا "

امینہ نے اسکی توجہ گول گول گھومنے والے میلے کے سب سے اونچے اور بڑے جھولے کی طرف دلائی ۔۔۔۔

"چل آ اس میں بیٹھتے ہیں "

وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہنستے ہوئے اپنے لہنگے زمین سے زرا اٹھائے جھولے کی طرف بھاگیں ۔۔۔۔


"یہ کیا ؟"

"آپ نے اسے جوتے کیوں نہیں پہنائے "

آتش بلوچ نے ایک بچے کو ننگے پاؤں ریت پہ چلتے دیکھ اسکے ساتھ چلتی ہوئی اسکی ماں سے حیرت زدہ آواز میں پوچھا ۔۔۔۔

دیکھا تو اسکی ماں بھی جوتوں کے بغیر تھی ۔۔۔۔

"جس کے پاس کھانے کو پیسے نا ہوں وہ جوتے کہاں سے خردیدے گا "

اس عورت نے غصے اور غم کے ملے جلے انداز میں کہا۔۔۔۔

"ہم کمی کمین لوگ ہیں ،ہمیں کون پوچھتا ہے ۔۔۔۔اس نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔


"ویسے آپ کون ہیں "؟

"کہیں سرداروں میں سے تو نہیں "؟


اس نے آتش بلوچ کا ظاہری طور پر جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔۔

وہ بلیک جینز اور بلیو شرٹ میں ملبوس شانوں پہ علاقائی چادر لیے ہوئے یہاں کے لوگوں سے قدرے مختلف لگا ۔۔۔۔

"نا سردار اور نا کمی کمین "

"فی الحال تو خود کو ایک انسان سمجھ رہا ہوں ۔۔۔۔

اور انسانیت کے ناطے میرے اندر کا انسان یہی کہہ رہا ہے کہ آپکو میری مدد کی ضرورت ہے ۔۔۔ائیے میرے ساتھ "

اس نے نہایت شائستگی سے کہا ۔۔۔۔وہ عورت اسکے لہجے اور انداز و بیاں سے خوب متاثر ہوئی ۔۔۔۔

"یہ لیجیے یہ پہن کر دیکھیں "

آتش بلوچ نے اپنے اندازے کے مطابق دو جوتیوں کے جوڑے خریدے اور اس عورت کی طرف بڑھائے ۔۔۔

نیچے بیٹھ کر بچے کے ننگے پاؤں میں خود جوتا پہنا کر دیکھنے لگا کہ اسے سائز ٹھیک ہے یا نہیں

"آپ بھی پہنیں "

اس نے اس عورت کو وہیں ساکت کھڑا پایا تو کہا ۔۔۔

"ج۔۔۔جی ۔۔۔

اس نے فورا جوتا پہنا ۔۔۔۔

"یہ رکھ لیں اسے میلے میں سے کچھ کھانے کے لیے خرید دیں جو اسے پسند ہو "

آتش بلوچ نے کچھ مناسب رقم اس عورت کے ہاتھ میں رکھ کر اس چھوٹے سے بچے کے بالوں کو پیار سے بگاڑا ۔۔۔پھر اسکی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔۔

وہ عورت فق نگاہوں سے اس فرشتہ صفت انسان کو لوگوں کی بھیڑ میں گم ہونے تک دیکھتی رہی ۔۔۔۔

اس کے دل سے اس انسان کے لیے ڈھیروں ڈھیر دعائیں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔

اس نے جھک کر اپنے بیٹے کے گال پہ بوسہ لیا ۔۔۔جس کے گالوں پہ جمے ہوئے آنسوؤں کے نشان تھے ۔۔۔۔

"آ۔۔۔ سسی ۔۔۔گول گپے اور چاٹ کھائیں "اس کی سکھیوں نے اسے اس ٹھیلے کی طرف گھسیٹا ۔۔۔۔

"امینہ مارے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں ۔۔۔مارے کو نہیں کھانا کچھ بھی "اس نے امینہ کے کان میں سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔۔

"تم لوگ کھاؤ ۔۔۔مارے کووہ چوڑیاں خریدنی ہیں "

سسی انہیں کہتے ہوئے سرعت سے ان میں سے نکل کر چوڑیوں والی دکان کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

وہاں رنگ برنگی ڈھیر ساری چوڑیاں لٹک رہی تھیں ۔۔۔

"بھائی سا ۔۔۔۔یہ گلابی چوڑیاں کتنے کی لگائی "؟

اس نے ایسے ہی پوچھ لیا ۔۔۔۔

"یہ سو روپے درجن "

"ہائے ۔۔۔تھارا تولگتا ہے دماغ گھوما ہوا ہے ۔۔۔اتنی مہنگی ....!

وہ حیرانگی سے بولی ۔۔۔۔

"لینی ہے تو لونہیں نکلو "

اس نے اسے نخوت سے جھاڑ دیا ۔۔۔۔

سسی غصے سے منہ پھلا کر سر جھٹکتے ہوئے پلٹی تو اسکا سر پیچھے کسی آہنی وجود سے ٹکرایا ۔۔۔۔

وہی مخصوص کلون کی مہک اسے اپنی سانسوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی،سسی نے پلکیں جھپکائے بنا سر اٹھاکر اپنے سامنے کھڑے شہزادے کو دیکھا۔۔۔۔

"یہ چوڑیاں دے دیں "

آتش بلوچ نے سنجیدگی سے دکاندار سے کہا ۔۔۔۔

سسی تو اسکے چہرے کے دلکش نقوش میں ایسا کھو گئی کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھی ۔۔۔۔اسے کچھ ہوش نا تھا کہ اردو گرد کیا ہورہا ہے،

اس کے لیے تو یہ احساس ہی خوش کن تھا کہ وہ اس کے اتنے پاس تھا ۔کہ وہ اسے جی بھر کر دیکھ سکتی تھی ۔۔۔

آتش نے بلوچ نے کب وہ چوڑیاں خریدیں کب ان کے پیسے دئیے اسے کچھ پتہ نہیں چلا۔۔۔۔

"یہ لیں "

اس نے جامد کھڑی سسی کے ہاتھ میں چوڑیاں تھمائیں۔۔۔اور خود آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔

"چھوٹے سرکار ...!

اس کے دور جاتے ہی سسی کو ہوش آیا ۔۔۔وہ چونک کر تیزی سے اسکی طرف بھاگی اور آواز لگائی ۔۔۔۔

مگر میلے میں اس قدر بھیڑ تھی کہ کسی ایک کو دوسرے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔سب اپنی اپنی دنیا اور ہنسی ٹھٹھولوں میں مگن تھے ۔۔۔۔۔ وہاں بے پناہ ہجوم تھا کیونکہ میلہ بہت بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا ۔

وہ ان گلابی کانچ کی چوڑیوں کو لبوں سے لگا کر ہولے سے مسکائی۔۔۔۔۔

پھر اپنے دھیان میں میلے میں لگی مختلف چیزوں کے ٹھیلے دیکھتے ہوئے چلی جا رہی تھی کہ۔۔۔۔


"اے چھوری اب تک کس بِل میں چھپی بیٹھی تھی ،؟"

"جو شمشیر کی تھارے پہ نظر نا پڑی ...!

وہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے رعونت آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔

سسی نے بنا کوئی جواب دئیے قدم واپسی کے راستے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔

"ہائے ۔۔۔!!!

"اس چاند سے روشن چہرے پہ غصے کے رنگ بڑے بھاویں ہیں ۔۔۔۔!!!

اس نے اس کے قدم سے قدم ملا کر چلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔


"ان نازک پاؤں سے اتنی محنت کیوں کر رہی ہو چلنے کی ۔۔۔؟"

"کہو تو اپنی گاڑی میں لے چلوں ...؟"

سسی نے اس کی فضول گویائی پہ کان نہیں دھرا ۔۔۔نا ہی اسکے لبوں پہ لگا قفل ٹوٹا ۔۔۔۔۔مگر آنکھوں میں حد درجہ ناگواری اتر آئی ۔۔۔۔

"میلے میں تو خوب مزے کیے ہوں گے ...کیوں کیے نا ؟؟؟"

وہ اسکے ساتھ چلتے ہوئے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔

"تیرے سونے جیسے حسین مکھڑے کو دیکھ کر تیرے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب رہا ہوں "....!

"لعنت ہو تھارے پہ ۔۔۔۔!!!!

بالآخر سسی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔۔۔۔اسکی آنکھوں کے حزن میں غصے کی شدت میں اضافہ ہوا ۔۔۔

"چلو شکر ہے ان رسیلے لبوں کا تالا تو ٹوٹا "

وہ خباثت سے مسکرا کر بولا۔۔۔۔

"کیڑے پڑیں تھاری زبان پہ ...!

"سمجھتا کیا ہے تو اپنے آپ کو ۔۔۔۔"؟

وہ تن کر اسکے سامنے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔

شمشیر بلوچ کی آنکھوں کی چمک میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔اسے شیرنی کی طرح دھاڑتے دیکھ کر ۔۔۔۔

"بہت طاقتور،،،،دانا ،،، اور چٹکیوں میں سب حاصل کر لینے والا ۔۔۔

اس نے تکبر زدہ لہجے میں کہا اور مسکرا کر سسی کے چہرے کو دیکھا جس کا چہرہ اس وقت ضبط کی انتہاؤں پہ سرخی مائل ہوتا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔

"لُچے ،،،لفنگے،،،بدمعاش اور کمینے لاگے ہو مارے کو تو "۔۔!!

وہ پختہ اور اٹل بہادری سے دوبدو بولی۔۔۔۔

مگر وہ تو ڈھیٹ ابن ڈھیٹ ثابت ہوا۔۔۔۔

مسکرا کر اس کا سر تا پا جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔۔

"تو شمشیر بلوچ کے دل کو بھا گئی ہے چھوری ...!

"تیرے منہ سے نکلنے والی تیزابی لفظ بھی مارے کو ٹھنڈے میٹھے شربت کی طرح لگ رہے ہیں "

"ہم تو تیرے حسن کی تعریف کر رہے تھے تو ،،،تو غصہ ہی کر گئی ۔۔۔۔ویسے غصے میں گھنی پیاری لگ رہی ہے ۔۔۔۔

قندھاری انار کی طرح ،،،دل کر رہا ہے ۔۔۔۔۔

"بکواس بند کر"

اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور گھٹیا بات کرتا ۔۔۔۔سسی نے چلا کر کہا ۔۔۔۔

"انسان کے بھیس میں شیطان ہے تو ۔۔۔۔دل کرتا تھاری زبان کھینچ لوں "

اب کی بار وہ آپے سے باہر ہوئی تو زہر خند لہجے میں بولی ۔۔۔کیسے اس نے خود اپنے شہزادے کے لیے دنیا کی نظروں سے بچا کر سینچ سینچ کر رکھا تھا ۔۔۔۔اور یہ گھٹیا انسان اس کے پیچھے ہی پڑگیا تھا ۔۔۔۔

"دو پیار بھری باتیں کیا کرلیں تو ۔۔۔مارے سر پہ چڑھی جا رہی ہے "

"ابھی دو گولیاں کھوپڑی میں ڈالوں گا ساری ہیکڑی نکل جاوے گی تھاری "

وہ شانے پر موجود بندوق کو ہاتھ ڈال کر غرایا ۔۔۔۔

سسی کے تن بدن میں چنگاریاں پھوٹ پڑیں ۔۔۔۔

"ڈرتی نہیں مرنے سے ۔۔۔۔عزت منے جان سے پیاری ہے ""

"جان لینے اور دینا اس اوپر والے کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔

"ڈر اس دن سے جب تیری لاش پہچاننے والا کوئی نا ہوگا "

وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔۔۔

"رک تیری تو ۔۔۔۔مجھے منع کرتی ہے ...(گالی )

اس سے پہلے کہ وہ اشتعال انگیزی سے بندوق کی نال کا رخ اسکی طرف کرتا ۔۔۔۔اس کے موبائل پہ دلاور بلوچ کی کال آنے لگی ۔۔۔۔

"تجھ سے تو میں آرام سے نپٹوں گا "

وہ دھمکی آمیز انداز میں کہتے ہوئے سر جھٹک کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔


🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋


سروز کی دلسوز دھن دربار کے احاطے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

واہ ۔۔۔!!!

"کیا بات ہے ۔۔۔!!!!!

انہوں نے اپنی بھاری گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔

"سلام شاہ صاحب ۔۔۔!!!!

ھاد بلوچ نے اپنی بند آنکھیں کھول کر سروز کی تاروں سےاپنی پوروں کو ہٹایا ۔۔۔اور انہیں سامنے دیکھ کر فورا سے بیشتر سلام کیا۔۔۔

"وعلیکم السلام..!!!

انہوں نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔

"آج تمہارے اس سروز کی تاروں نے اک نئی دھن چھیڑی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی میں نے "

انہوں نے حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں کہا ۔۔۔

"جی شاہ صاحب ۔۔۔!!!

"آپ نے بالکل ٹھیک پہچانا یہ میری نئی دھن ہے جو میری چاہت اور محبت سے ملکر بنی ہے"

"یہ محبت مجازی ہے یا حقیقی ؟"

شاہ صاحب نے اچنبھے سے پوچھا ۔۔۔

"شاہ صاحب فی الوقت تو مجازی ہے ،"

"اگر تم اس مجازی کو حقیقی میں بدل لو گے تو وہ حقیقی خالق کائنات تمہیں مجازی اپنے آپ عطا فرمائے گا۔۔۔۔انہوں نے اپنے تئیں اسے مشورہ دیا۔

"بے شک آپ نے بجا فرمایا"

اس نے مؤدب انداز میں کہا۔۔۔

"بابا سائیں نے آپ کے لیے سلام بھجوایا تھا اور پوچھا تھا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ؟؟"

"نہیں بیٹا کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔۔۔وہ پاک پروردگار بہت بے نیاز ہے سب کچھ اس پہ چھوڑ دو تو وہ بن مانگے عطا کردیتا ہے ۔"انہوں نے ہاتھ دعائیہ انداز میں اٹھا کر کہا ۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے شاہ صاحب میں چلتا ہوں "

وہ اپنا سروز لیے دربار کے احاطے سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔۔

"امینہ ایسا کرو تم اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلے کی طرف چلی جاؤ مجھے رش میں جانے سے کوفت ہوتی ہے میں زرا شاہ صاحب سے مل لوں بابا سائیں نے خاص بھیجا تھا مجھے ان سے غزل کی اصلاح کے لیے ۔۔۔ھادیہ نے کہا ۔۔۔

" چل ٹھیک ہے تو مل لے پھر یہیں رکنا ہم جاتے ہوئے واپسی پہ یہیں سے تجھے ساتھ لے لیں گے "امینہ نے جاتے ہوئے کہا تو ھادیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

"شاہ صاحب کہاں ملیں گے "؟

ھادیہ نے دربار پہ موجود ایک آدمی سے پوچھا ۔۔۔

"شاہ صاحب دربار کے پچھلے صحن میں ہیں "

"اچھا "

وہ کہتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دربار کی پچھلی طرف سے اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم شاہ صاحب..!!!

"وعلیکم السلام ۔۔!!!

"میں نے پہچانا نہیں "شاہ صاحب نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا ۔۔۔

"شاہ صاحب میں سردار دلاور بلوچ کی بیٹی ھادیہ ۔۔۔حال ہی میں شہر سے اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آئی ہوں "

"او اچھا ۔۔۔۔آو ۔۔۔آو ۔۔۔

"کسی خاص مقصد کے لیے آنا ہوا "؟

وہ سنجیدگی سے گویا ہوئے ۔۔۔

"جی شاہ صاحب ۔۔۔میں نے ایک غزل لکھی ہے مگر اس کا آخری مصرعہ نہیں بن رہا آپ مدد کریں گے میری "؟

"ہاں ضرور کروں گا "

تم پڑھو ۔۔۔۔"

ان سے اجازت ملتے ہی ھادیہ نے مخصوص انداز میں غزل پڑھنی شروع کی ۔۔۔۔


گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو

کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو


میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں

جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو

"واہ ۔۔۔!!!!انہوں نے توصیفی انداز میں داد دی ۔۔۔۔

کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں

یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو


قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے

محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو


یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا

کہیں ہوا کا ہی اس نے نہ روپ دھارا ہو


افق تو کیا ہے در کہکشاں بھی چھو آئیں

مسافروں کو اگر چاند کا اشارا ہو

وہ خاموشی سے سن رہے تھے ۔۔۔

شاہ صاحب اس سے آگے کی سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔

وہ پریشانی سے بولی ۔۔۔۔


میں اپنے حصے کے سکھ جس کے نام کر ڈالوں

کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو


اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے

وہ چاہے نظم کا ٹکڑا کہ نثر پارہ ہو


صحن میں موجود پلر کے پیچھے سے کسی کی مانوس گھمبیر آواز آئی تو ھادیہ نے متلاشی نگاہوں سے اس شخص کو دیکھنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔۔

جبکہ شاہ صاحب اس کی آواز سن کر ہلکا سا مسکرانے لگے ۔۔۔۔

"یہ کون ہے شاہ صاحب "

"یہ ہمارا ایک شاگرد ہی سمجھ لو اپنے سروز کی کی ہر دھن ہمیں سناتا آیا ہے ہمیشہ "

"سردار ھاد بلوچ ۔۔۔!!!!

"شاہ صاحب ان سے کہیے یہ مصرعہ میں نے نہیں کہا بے خودی میں میرے منہ سے نکل گیا ۔۔۔۔ھاد بلوچ نے وہیں سے کہا چہرہ ابھی تک سامنے نہیں لایا تھا ۔۔۔۔

ھادیہ کا دل مچل اٹھا اسے ایک جھلک دیکھنے کو ۔۔۔۔

"شاعرہ خوش ہیں کہ ان کی غزل مکمل ہوگئی "

شاہ صاحب نے بتایا ۔۔۔

"آؤ ھاد ملو ان سے ۔۔۔۔یہ ہیں ....

اس سے پہلے کہ وہ ھاد بلوچ سے اس کا تعارف کرواتے ۔۔۔

"شاہ صاحب لنگر تقسیم کردیں ۔۔۔۔؟دربار پہ موجود ایک شخص نے آکر پوچھا ۔۔۔

"میں ابھی آتا ہوں "

شاہ صاحب کہتے ہوئے اس شخص کے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گئیے ۔۔۔۔۔


"کیا پتہ تھا ان راستوں پہ آپ قدم رنجہ فرمانے والی ہیں ،ھم اس راستے میں پھولوں کی جگہ خود کو بچھا دیتے،،،، ساری گلیوں میں چراغاں کردیتے،،،،

محبوب ِ ھادبلوچ کی آمد پہ "

وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے قریب آیا ،پھر اسکے رخسار پہ جھولتی ہوئی لٹ کو پھونک مار کر فسوں خیز آواز میں بولا تو ھادیہ کی نظریں اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھ وہیں تھم سی گئیں ۔۔۔۔


"عجب جادوگری ہے سرکار کہ چہرے میں ،،،

دیکھتے ہی دل رفتار پکڑ لیتا ہے ،،،

وہ طلسم زدہ آواز میں بول کر اسکا دل دھڑکا گیا ۔۔۔۔


وہ دھیما سا مسکرائی ۔۔۔

"تبسم آفریں ۔۔۔!!!

ھاد اسکی مسکراہٹ پہ توصیفی انداز میں بولا۔۔۔۔


"یہ میرا عشق ہے یا فتور ہے میں نہیں جانتا ۔۔۔

بس تمہاری چاہ میں تمہاری راہ میں خود کو فنا کردینے کا جی چاہتا ہے ،

تمہارے حسن کا قصور ہے ،سب ۔۔۔۔تمہارا ہوکر خود کو مٹا دینے کا جی چاہتا ہے،

یہ جو تمہارا میرا ہونے کا سرور ہے بلوچن سائیں ۔۔۔،میرے عشق کو غرور میں مبتلا کر رہا ہے ۔۔۔۔

وہ لجاتے ہوئے پلر کے پیچھے ہوئی ۔۔۔

"مجھ سے ہوں چھپ کیوں رہی ہو "

وہ اس وقت اسے اپنے سامنے دیکھ کر بے بس ہوا ۔۔۔

"مجھے کیا ضرورت ہے آپ سے چھپنے کی ،میں نے کونسا آپ کی کوئی چیز چرائی ہے جو چھپوں گی آپ سے "

وہ چہک کر بولی

"چور ہی تو ہو تم۔۔۔ پہلی ملاقات میں میرا دل چرا کر اپنے ساتھ لے گئی ۔۔۔میری نیندیں چرا لیں ۔۔۔۔میرے دن رات کا چین چرا کر کہتی ہو کہ تم چور نہیں "۔۔!!!!

وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔

"مجھے پتہ ہے تم جانتی ہو میرے جذبات کو ۔۔۔

وہ کچھ پل کے لیے رکا پھر بولا ۔۔۔

"یا پھر ۔۔جان بوجھ کر انجان بن رہی ہو ؟؟؟

"کہیں تم میرے منہ سے تو نہیں سننا چاہتی کہ ھاد بلوچ اپنی بلوچن سائیں کے عشق میں گرفتار ہوچکا ہے "...!

اس نے بلا جھجھک کہہ ڈالا ۔۔۔۔ھادیہ کی نظریں بلا اختیار جھک گئیں ۔۔۔۔پلکیں لرزنے لگیں ۔۔۔۔اس نے رخ پلٹا ۔۔۔

"کچھ تو کہیں بلوچن سائیں..!!!

اس نے بڑے دھڑلے سے اس کے شانوں پہ ہاتھ رکھ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔۔


"بلوچن سائیں آپ کو پتہ ہے اٹھتے،، بیٹھتے،، لیٹتے ،،سوتے ،،جاگتے گھر والوں کے درمیان دوستوں کے درمیان ہر جگہ بس تم ہی تم مجھے دکھائی دیتی ہو ،،،دل چاہتا ہے کسی دن اپنی ناک کو تمہاری گردن کے اسقدر قریب لاؤں کہ تمہارے اس مرمریں بدن سے اٹھتی ہوئی صندلی مہک کو اپنی روح میں جذب کرلوں اور تمہیں پتہ بھی نا چلنے دوں "

وہ سحر انگیز آواز میں بول کر ھادیہ کا دل مٹھی میں جکڑ گیا ۔۔۔۔

"چھوڑیں مجھے "اس نے ھاد بلوچ کے ہاتھ اپنے شانوں سے ہٹانے چاہے ۔۔۔

"یوں تو بالکل نہیں ۔۔۔پہلے مجھے بتاؤ مجھے کیسا لگتا ہوں میں تمہیں "؟

وہ شرارت آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔

اس کے سوال پہ ھادیہ کے کانوں کی لوئیں سرخی مائل دکھائی دینے لگیں ۔۔۔۔

"تمہارا شرمانا مجھے دھیرے سے بتلا گیاہے تمہارے دل کی حالت ۔۔۔"

"اچھے لگتے ہیں "

وہ شاہ صاحب کے واپس آجانے کے ڈر سے جھٹ بولی ۔۔۔

"صرف اچھا ؟؟؟

"ٹھیک سے بتاؤ نا "

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں استفسار کر رہا تھا ۔

ھادیہ کی پیشانی عرق آلود ہوگئی اس پہ پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ابھر آئیں۔۔۔۔

ھاد بلوچ کو اس کا جواب مل چکا تھا۔۔۔۔

"کچھ تو کہیں بلوچن سائیں ....!

وہ جان بوجھ کر اسے اکسا رہا تھا ۔

بالآخر ھادیہ نے ہمت دکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔

"بلوچ سائیں ۔۔۔!!!!!

"آپ کے انداز دنیا میں سب سے الگ ہیں "

"میں بھی آپکے پیار میں پور پور ڈوب چکی ہوں "

اس نے شرم سے دوہری ہوتے ہوئے کہہ کر انگلی دانتوں تلے دبائی ۔۔۔


"آپ سے بھی حسین ہیں آپکی ادائیں تو بتائیں بھلا ہم کیوں نہ فدا ہو جائیں آپ پر "

وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ۔۔۔

" آپ کو دیکھنے کے بعد یہ دوریاں کاٹنا بہت مشکل ہوجائیں گی ۔۔۔ بلوچن سائیں۔ ۔۔۔۔!!! "

"کوئی تو حل بتلائیں ؟...."

اس کی پرتپش نگاہوں سے اس کا چہرہ گلنار ہوا ۔۔۔

پلکیں جھکا کر تیرا مسکرانا ۔۔۔

مجھ کو ستانا ۔۔۔

تیری ادا ۔۔۔وللہ ۔۔۔

ھاد بلوچ کی فسوں خیز شاداب مسکراہٹ پہ وہ سٹپٹا گئی ۔۔۔پھر اپنے خشک لبوں پر زبان پھیر کہ انہیں تر کرتے ہوئے خود میں ہمت مجتمع کیے بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"آپ ہمارے بابا سائیں سے ہمارا ہاتھ مانگ لیں ۔۔۔تاکہ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہو جائیں ۔۔۔

اس نے مسکراتے ہوئے سر جھکائے حل پیش کیا۔۔۔۔

"کچھ ایسا ہی کرنا پڑے گا "

وہ بالوں میں انگلیاں پھیر کر ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

شاہ صاحب۔۔!!!

ھادیہ شاہ صاحب کو واپس آتے دیکھ بوکھلا کر دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔

تو ھاد بھی سنجیدہ ہوا ۔۔۔

"ہاں تو میں تمہیں بتا رہا تھا کہ یہ ہے سردار دلاور بلوچ کی اکلوتی بیٹی ھادیہ ۔۔۔۔

"دلاور بلوچ"کا نام سنتے ہی سردار ھاد بلوچ کے چہرے کے زاویے یکلخت بدل گئے ۔۔۔اس کے تیکھے نقوش تن گئے ۔۔۔جبڑے آپس میں بھینچ کر وہ جیسے خود پہ ضبط کرنے کے آخری مراحل میں تھا ۔۔۔اسکے چہرے پہ غصیلے اور خفگی بھرے تاثرات چھا گئے ۔۔۔

"سلام شاہ صاحب ۔۔۔پھر ملاقات ہوگی "

وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے بنا ھادیہ کی طرف دیکھے وہاں سے باہر کی طرف نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔

اس کی نظریں پھیر کر چلے جانے پہ ھادیہ کی حالت تو یوں تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔

وہ فق نگاہوں سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

"ھاد ۔۔۔!!!!

اس نے تیز تیز قدم اٹھا کر جاتے ہوئے ھاد کو پیچھے آواز لگائی ۔۔۔

جتنی دیر میں وہ شاہ صاحب کو مل کر باہر نکلی وہ کافی دور پہنچ چکا تھا ۔۔۔

اس کے پیچھے بھاگ کر آتی ہوئی ھادیہ کی سانسیں پھولیں ہوئی تھیں۔

"وہیں رک جاؤ ۔۔۔۔!!!!

ھاد بلوچ نے پلٹ کر سپاٹ انداز میں اسے قبیلوں کے درمیان زمین پہ کھینچی گئی لکیر کو پار کرنے سے روک دیا ۔۔۔۔

ھادیہ کا اٹھایا ہوا ایک قدم وہیں ہوا میں معلق ہوکر رہ گیا اسکے بدلے تیور دیکھ کر۔۔۔

"تم غلط راستے پر چل نکلی ہو ۔۔سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا ۔۔ یہ وہ راستہ نہیں جو تمہارے گھر کو جائے گا ۔۔۔۔"

اس نے ابرو اچکا کر گھمبیر آواز میں کہا۔

"یہ راستہ صیحیح ہو یا غلط میں نہیں جانتی ۔۔۔۔

"مجھے ان راستوں سے کچھ لینا دینا نہیں،میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ میری منزل صرف تم ہو ۔۔۔۔"

"تم تک پہنچنے کے لیے جوبھی راستہ اختیار کرنا پڑا کر جاوں گی "

وہ بے خوفی سے بولی ۔۔۔

"ھادیہ تم وہ چاند ہو جسے چھونے کی خواہش میں مجھے نجانے کتنے صحراؤں کو پار کرنا پڑے ۔۔۔نجانے کتنی لاشوں پہ قدم رکھ کر گزرنا پڑے،میں ہماری وجہ سے کسی بے گناہ کی موت نہیں چاہتا ،میں اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو مرتے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔مجھے ہماری محبت کا انجام سوچ کر خوف آنے لگا ہے،  کیا تمہیں خوف نہیں آرہا ؟؟؟"

"ھاد اگر خوف کی زنجیر میرے پاؤں میں بندھی ہوتی تو آج میں اس بنائی گئی لکیر کو پار کر کہ کبھی تمہارے پاس نہیں آتی "

وہ بے دھڑک ہوکر کر قدم اٹھاتے ہوئے بنائی گئی لکیر کو پار کیے ھاد بلوچ کی جانب آئی ۔۔۔۔

"ھاد تمہارے لیے میں ہر خوف کی دہلیز کو پار کرنے کا حوصلہ رکھتی ہوں ،

"کیا تم ہمارے پیار کے لیے اس خوف کی زنجیر کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ؟؟؟"

اس نے بھی اسی کے انداز میں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ھادیہ ۔۔۔!!!

"مجھے لگنے لگا ہے اس تپتے ہوئے صحرا میں ہمارا پیار بھی دم توڑ جائے گا ۔۔۔۔دیکھو یہاں دور دور تک صرف ریت ہی ریت ہے ،کہیں منزل کا نشاں نہیں ۔۔۔۔اس نے ھادیہ کی نظریں صحرا کی جانب مرکوز کروائیں ۔۔۔

"ہم دونوں کا ساتھ ہی ہمیں ہماری منزل تک لے جائے ۔۔۔اکیلا مسافر تو بھٹک جاتا ہے ،

"ھاد میں اس صحرا ِ محبت کی اکیلی مسافر بن کر بھٹکنا نہیں چاہتی ۔۔۔۔ "

وہ آنکھوں میں آس لیے تڑپ کر بولی۔۔۔۔

"ھادیہ ہمارے قبیلوں کے درمیان دشمنی کی جو دیواریں کھڑی ہیں ،انکا کیا "؟

اس نے محبت کے جوش میں بہتی ہوئی ھادیہ کو حقیقت سے روشناس کرایا۔۔۔۔۔

"محبت کی طاقت کے آگے بڑی بڑی دیواریں تو کیا پہاڑ بھی گر جاتے ہیں "

"تم چاہو تو بُھلا سکتے ہو مجھے ۔۔۔۔لیکن جب ایک عورت کسی سے دل سے محبت کرتی ہے تو وہ ساری زندگی اسے بھلا نہیں سکتی ۔۔۔۔مجھ میں تمہیں بھلانے کا حوصلہ نہیں ۔میں مٹ جاوں گی ،مگر تمہیں کھو دینے کی ہمت نہیں "

اس بار اسکے لہجے میں بے بسی شامل تھی ۔۔۔۔

"جیسے اس صحرا میں ہر پیاسے کو الوژن میں پانی دکھائی دیتا ہے ،ویسے ہی ہم بھی اس سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں "

وہ شکست خوردہ سا مسکرایا۔۔۔

"ھاد ۔۔۔!!!

"یہ خدا کی رضا تھی جو ہم یوں ملے ،،،ہمارے اس ملن میں اسکی کوئی نا کوئی تو کار فرمائی شامل ہوگی نا۔۔۔۔"

"مثبت سوچو ۔۔۔اگر ہم چاہیں تو اس دشمنی کو محبت میں بھی تو بدل سکتے ہیں ،

اس نے اپنے تئیں ایک دلیل پیش کی ۔۔۔

"اور اگر ہمارے رشتے کو کسی نے قبول نا کیا تو "؟

وہ اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر وحشت زدہ آواز میں بولا۔۔۔۔۔

"تو کیا تم میرے لیے اپنا گھر اپنے گھر والے سب چھوڑ سکتی ہو "؟

اس نے من میں آیا سوال پوچھ ڈالا۔۔۔

"میری دنیا تم بن گئے ہو ھاد ۔۔۔تمہارے لیے وہ گھر تو کیا میں تو یہ دنیا بھی چھوڑ سکتی ہوں "

وہ محبت سے چور آواز میں بولی۔۔۔۔

اسکا جواب سن کر وہ سرشاری سے مسکرایا ۔۔۔۔

"تم سے ملکر میں اپنی زندگی سے ملا ہوں ،مجھے لگا میں مکمل ہوگیا ہوں بلوچن سائیں۔۔۔۔!!!!

وہ اسکے دوپٹے کا پلو پکڑ کر اس میں سے پھوٹتی مہک کر سانسوں میں اتارتے ہوئے دلکش انداز میں بولا ۔۔۔۔

ھادیہ کے چہرے پہ طمانیت بکھر گئی اس کو یوں مسکراتے دیکھ کر ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

نکاح کے بعد یارم اور بابر،،چاہت کی بھی اپنے ساتھ  پاکستان روانگی کے لیے بندوبست کرنے نکل گئے تھے ۔

وہ رات گئے واپس چاہت کے گھر آیا ،جیسے اس نے دروازہ کو کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ تو وہ کھلتا ہی چلا گیا ۔۔۔کیونکہ اندر سے لاکڈ نہیں کیا گیا تھا ۔کچھ دیر پہلے صوفی اور اسکے گھر والے اسے الوداع کیے واپس اپنے فلیٹ میں جا چکے تھے ،

 جیسے ہی اس نے فلیٹ میں قدم رکھا ٹھٹک کر رک گیا، کیونکہ اندر گھپ اندھیرا تھا۔اس نے تیزی سے سوٸچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لاٸیٹس روشن کیں ، پلک جھپکتے ہی پورا فلیٹ روشنی میں نہا گیا۔وہ آگے بڑھا، کچھ گھنٹوں پہلے بنی اپنی بیوی کو دیوار کے ساتھ لگے فرش پہ بیٹھے ہوئے سسکتا دیکھا تو اسے اچنبھا ہوا وہ سرعت سے چند قدموں کا فاصلہ طے کر کے اس کے قریب گیا ۔۔۔۔

”کیاہوا ایسے کیوں بیٹھی ہیں آپ۔۔۔۔۔؟“ لیکن جواب ندارد۔۔۔

وہ اس کو ایسی کنڈیشن میں دیکھ کر کافی پریشان ہوگیا تھا۔لیکن اس کے وجود میں کوٸی جنبش نہ ہوٸی۔ وہ فکرمندی سے اس پر جھکا اور اس کے چہرے کو تھپتھپا کر پوچھنے لگا۔۔

”طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔؟“ اس نے اپنی نیلی نمکین  پانیوں سے بھرے نین کٹوروں سے اس کی طرف دیکھا۔اس اجنبی کو اپنے لیے فکرمند دیکھ کر چاہت  کی آنکھوں میں مزید نمی گھلنے لگی ۔۔۔ لیکن بولی پھر بھی کچھ نہیں۔شاید اس میں بولنے کی سکت ہی نہیں تھی۔

”کیا ہوا ؟ رو کیوں رہی ہیں آپ ؟ کچھ بتاٸیں تو سہی پلیز۔۔۔“ اس نے ملاٸمت سے پوچھا۔

”مجھے بھائی کے پاس جانا ہے ۔۔۔“ وہ دھیرے سے بولی۔

”لیکن آپ وہاں نہیں جا سکتیں ۔۔۔؟“ وہ زیادہ پریشان ہوا۔۔

” یہ دیکھ کر کہ وہ انجانے میں اس کے لیے دکھ کا باعث بن چکا ہے  ۔۔“

”کیوں نہیں جا سکتی میں وہاں ۔۔ “ وہ اس کی بات سے الجھ گئی تھی ۔

”مجھے برو کے بنا نیند نہیں آتی جب تک میں ان سے بات نا کر لوں ۔۔۔۔۔“ وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی۔۔۔

”آپ پلیز روئیں مت اور اٹھیں یہاں سے آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی ۔“ 

”انکل ۔۔!۔۔۔“ آپ جائیں یہاں سے ۔جا کر برو کو لائیں ۔۔۔

"ابھی نہیں لا سکتا میں "

"اور تیار ہو جائیں ہماری ٹکٹس کنفرم ہو چکیں ہیں اب آپ میرے ساتھ چلیں گی "

آدم کی اتنی دیر کی غیر موجودگی سے وہ اچھی خاصی ڈپریسڈ ہوچکی تھی۔۔۔۔۔لیکن پھر وہ نارمل لہجے میں بولا۔

"مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سنننی ۔آپ جائیں یہاں سے۔۔۔مجھے بس میرے برو چاہیے ۔۔۔لاکر دیں ۔۔۔کہیں سے بھی ۔۔۔آپ گندے ہو انکل جاؤ یہاں سے ۔"

وہ اپنی ہتھیلی کی پشت سے اپنے گالوں کو بےدردی سے رگڑتے روتے ہوئے حلق کے بل  زور سے ِچّلائی ۔۔۔۔۔شدت غم سے چہرہ سرخی مائل ہونے لگا تھا۔اس کی بات پہ پہلے تو یارم بلوچ کی صبیح پیشانی پہ سلوٹیں نمودار ہوئی۔اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچ کر اپنے آپ کو قابو کیا ۔۔۔۔اور گہرا سانس لیتے ہوئے تاثرات میں نرمی لائی ۔۔۔۔

"آپ مجھے میرے برو کے پاس لے کر جائیں گے تو ہی میں یہاں سے جاؤں گی ورنہ نہیں جانا مجھے کہیں بھی ۔۔۔وہ یہیں آئیں گے میرے پاس ۔۔۔انہیں پتہ ہے میں یہاں اکیلی ہوں ۔"

اس نے ہچکیاں بھر کر روتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔

یارم نے اس کا مخملیں نازک سا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں بھر لیا۔۔۔۔

کچھ تو اس کا ڈاکٹری پیشہ بھی ایسا تھا ،اور کچھ اپنے کیے کا پچھتاؤا۔۔۔۔

اس نے اس نازک گلاب سی لڑکی کی مسیحائی کرنے کی ایک موہوم سی کوشش کی ۔۔۔

"آپ  اکیلی نہیں ہیں  ,میں ہوں نا آپ کے ساتھ "

"جیسے آپ  اپنے بھائی سے ہر چیز کی خواہش کرتی تھی ،مجھ سے کرنا ،میں پوری کروں گا سب ،

"آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو بلا جھجھک مجھے کہہ سکتی ہو ،یارم بلوچ نے پہلی بار میٹھے لہجے میں بات کی تو چاہت کی آنکھوں کی پتلیاں چند لمحوں کے لیے حیرت سے ساکت ہوئیں ۔۔۔۔

پھر وہ نرم سہارا پاتے ہی اس کے بڑھائے ہوئے ہاتھ  پہ سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔یارم بلوچ نے آہستہ آہستہ سے دوسرے ہاتھ سے اس کے سنہری بال سہلانے شروع کردیے۔یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئی۔

یارم نے بے بسی سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔اس طرح کی سچوئیشن کا پہلی بار سامنا کیا تھا ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیسے دلاسہ دے ۔۔۔۔

"جلدی سے اپنی پیکنگ کرلیں ،کچھ دیر میں ہماری فلائیٹ ہے  اور جو بھی ضرورت کی چیز ہو وہ رکھ لیں  ۔باقی اگر کچھ چاہیے ہوگا تو میں لے دوں گا "

اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پہ نظر ڈالی تو چاہت سے کہا ۔۔۔۔

اس نے سر اٹھایا تو چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔۔۔۔

"جاؤ فیس واش کرو اور پیکنگ کرو "

یارم کے دھیمے لہجے میں بات کرنے کا اثر تھا ۔۔۔شاید جو وہ نا چاہتے ہوئے بھی  آہستگی سے اٹھ کر آنسو پونچھتے ہوئے  چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر  اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

رات دو بجے کی فلائیٹ تھی ،یارم اسے اپنے ساتھ ائیر پورٹ پہ لے آیا ۔

اور اسے سٹنگ ایریا میں بٹھا کر خود نجانے کہاں چلا گیا تھا ۔۔۔۔ 

چاہت وہاں  سر جھکائے بیٹھی تھر تھر کانپ رہی تھی ،اتنے لوگ اس کے ارد گرد موجود تھے ،وہ گھبرا رہی تھی ،پہلی بار اکیلی اتنے ہجوم والی جگہ دیکھ کر اسے ڈر لگ رہا تھا اس لگا کہ ہر کوئی صرف اسے ہی دیکھ رہا ہے ،جیسے ہی یارم سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس گئی ۔۔۔

یارم نے نا سمجھی سے اسے دیکھا جس کی چہرے پہ خوف کی پرچھائیاں نمایاں تھی ،وہ سہمی ہوئی ہرنی کی مانند خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اسکے پاس آتے ہی اس نے یارم کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے محسوس کیا اس کا ہاتھ انتہائی ٹھنڈا تھا اور اسکی مضبوط گرفت میں آنے کے بعد بھی بری طرح کپکپا رہا تھا۔۔۔۔

وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا جو نظریں چکمتے ہوئے فرش پہ مرکوز کیے لرز ہی تھی ۔۔۔۔

"کیا یہ واقعی اتنی معصوم ہے ؟؟؟؟یا ۔۔۔۔میری نظروں کا دھوکہ ؟؟؟

وہ ان دونوں خیالات میں سے سچ کی تصدیق نہیں کر پایا ۔۔۔

"کیا ہوا اتنا ڈر کیوں رہی ہیں آپ "؟

اس نے چاہت کے ڈرے ہوئے چہرے کو دیکھا ۔جو سرخ شال میں اچھی طرح لپٹا ہوا تھا لیکن اس کی گھبراہٹ اور کپکپاہٹ اسے صاف محسوس ہو رہی تھی۔

"I..... w.. scared....

وہ ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں مسلتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور گھبرائی ہوئی آواز میں بمشکل بولی ۔

"Let's go"

یارم نے اسکا ہاتھ چھوڑے بنا اسے اپنے ساتھ لیے روانگی کے راستے کی طرف بڑھا ۔۔۔

دونوں ایک ساتھ پلین میں داخل ہوئے تو یارم نے اسے ونڈو کی طرف بٹھا کر اسکی سیٹ بیلٹ باندھ دی ۔پھر اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

کچھ دیر بعد جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری ۔۔۔۔اس نے خوف سے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا ۔۔۔۔اور گلے سے نکلنے والی چیخوں کا گلے میں ہی دم گھونٹ دیا ۔۔۔۔کیونکہ وہ پہلی بار پلین کا سفر کر رہی تھی ۔۔۔یہ سب اس کے لیے بالکل نیا تھا ۔۔۔۔

"سنو  ۔۔۔!!!!

یارم نے اسکی حالت کے پیش نظر اسے مخاطب کیا ۔۔۔

چاہت نے اسکی گھمبیر آواز سن کر دو انگلیاں آنکھوں سے ہٹا کر اسے نیلے نینوں کے جھروکوں سے دیکھا ۔۔۔

یارم کے بھنچے ہوئے لبوں پہ محض لحظہ بھر کے لیے مبہم سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔ساتھ ہی وہ سنجیدہ ہوگیا ۔۔۔۔

 اور اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔۔

"Don't worry..."

چاہت نے درزیدہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے آہستگی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اس نے ائیر پورٹ سے نکل کر ایک پرائیوٹ کار ہائیر کی اور اسی پہ وہ چاہت کو حویلی کی طرف لے جا رہا تھا ،سکول کالج اور یونیورسٹی کے لگنے کا وقت تھا ،راستے میں جیسے 

 گاڑیوں کا سیلاب امڈ آیا تھا،سب کو اک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جلدی مچی ہوٸی تھی، لیکن اک وہ ہی تھا جس کی گاڑی کی سپیڈ بلکل کم تھی، اور گاڑی کی کم سپیڈ سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے خیالات کی سپیڈ کہاں تک پہنچی ہوٸی ہے؟ وہ اس کے برابر والی سیٹ پر مجرموں کی طرح چپ چاپ سی سرجھکاۓ بیٹھی تھی، وہ بے دلی سے ڈراٸیو کر رہا تھا ، ڈراٸیو کرتے ہوۓ اچانک ہی اس کی نظر اپنی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے وجود پر پڑی تو اس کے لب پھینچ گٸے تھے،

وہ مظلوم تھی ۔۔۔جیسے اس ایک رات نے یارم کی زندگی بدل دی تھی ویسے ہی اس لڑکی کی زندگی بھی تو ایک رات میں بدل گئی تھی ،دونوں کی زندگیاں نیا موڑ اختیار کر گئیں ۔۔۔۔چند سیکنڈ اس کو دیکھنے کے بعد اس نے دوبارہ ونڈو سکرین پر نظریں جما کر گیٸر بدلا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی، سپیڈ اتنی تیز تھی کہ چند منٹ میں ہی اس نے بہت سی گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اتنی تیز گاڑی چلتی دیکھ کر چاہت  بھی چونکی  اور اس کی طرف دیکھا جو لب بھینچے سختی سے سٹٸیرنگ پر ہاتھ جماۓ ڈراٸیو کر رھا تھا، وہ اس کے چہرے کو دیکھ کر کچھ بھی اندازہ نہیں لگا پاٸی تھی کہ وہ کیا سوچ رہا تھا۔اور کس موڈ میں تھا۔۔۔

گاڑی شہر کی حدود سے نکل کر اب خالی سڑکوں سے ہوتی ہوئی انجان راستوں پہ رواں دواں تھی ،پہلے پلین کا سفر پھر گاڑی میں اتنا لمبا سفر طے کیے چاہت اب اکتانے لگی تھی ۔۔۔۔۔

"نجانے سفر کب ختم ہوگا "؟

وہ پوچھنا چاہتی تھی اس سے مگر پوچھ نا سکی خاموش رہی ۔۔۔۔۔اس میں ہمت ہی نہیں ہوئی اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر کچھ پوچھنے کی۔

"برو پتہ نہیں کب واپس آئیں گے ؟"

۔یہی سوچتے ہوئے وہ چونک گئی  ،کیونکہ گاڑی کے ٹاٸیر بہت بری طرح سے چرچراۓ تھے،اور گاڑی بہت ہی عالیشان و خوبصورت حویلی کی کشادہ اور وسیع روش پر اک جھٹکے سے رکی تھی۔سردار یارم بلوچ  اپنی طرف کا ڈور کھول کر باہر نکل آیااور چاہت  کی طرف آکر اس طرف کا ڈور بھی کھول دیا، وہ اترنے میں دیر کرتی لیکن اس کے سنجیدہ  موڈ کے پیش نظر وہ فوراً اتر آٸی تھی ، اس کے پیچھے اس نے دھڑام سے گاڑی کا دروازہ بند کیا۔

”آئیں میرے ساتھ ۔۔۔“ وہ اس کو اس کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر کے خود بھی آگے بڑھ گیا تھا،اس کے قدم مضبوط تھے لیکن وہ سست رفتاری سے چل رہی تھی۔۔

وہ بیرونی گیٹ عبور کر کے لان سے ہوتے ہوئے لاونج  میں داخل ہوۓ تھے۔

لاؤنج میں روشنیوں سے جگمگاتے فانوس لٹک رہے تھے جن کی چکا چوند سے آنکھیں چندھیا جا رہی تھیں ۔۔۔۔ وہ سنگ مرمر کے فرش پر چلنے کا عادی تھا اس لیے اسکو کوٸی ڈر نہیں تھا اور نہ اس کے لیے یہ روشنیاں اور یہ سنگ مر مر نیا نہیں تھا، جبکہ چاہت  کے لیے یہ سب نیا تھا،اسلیے وہ ڈر ڈر کر آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی، اسے لگ رہا تھا کہ جیسے روشنیاں فرش کے اندر سے نکل رہی ہیں ۔ جن پر پاٶں رکھتے ہوۓ وہ ڈر رہی تھی، اس کو ڈر تھا کہ اگر وہ تیز چلی تو اس چکنے فرش پہ پھسل کر گر جاۓ گی۔ اس کی سست رفتار دیکھ کر وہ رک گیا اور پھر پیچھے مڑ کر اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا ، اور دوبارہ قدم اندر کیطرف بڑھاۓ،وہ اس کے ساتھ گھسٹتی چلی گٸی ، اب تو آہستہ قدم اٹھانا دشوار تھا اگر وہ ایسے کرتی تو یقیناً گر جاتی۔۔

”آتش ۔۔۔!!!ھاد ۔۔۔۔!!!!کوئی فون لگاؤ مارے لاڈ سا کو پوچھو اس سے کب آرہا ہے ۔۔۔۔؟“ زرش بلوچ کی  جھنجھلاٸی ہوٸی آواز اس کو لاونج میں ہی سناٸی دے رہی تھی اور وہ سمجھ گیاتھا کہ وہ اس کی بات کر رہی تھیں،لیکن اس کو حیرت نہیں ہوٸی تھی، یہ تو ہونا ہی تھا،اتنے دن جو ہوگئے تھے اسے اپنی واپسی کا بتاتے ہوئے مگر وہ آکے ہی نہیں دے رہا تھا اور ادھر اس کی ماں کتنے دنوں سے اسکی واپسی کی  راہ تک رہی تھی ۔۔۔۔

”اسلام وعلیکم ماں سا “ اس نے لاٶنج میں داخل ہوتے ہوۓ انہیں مخاطب کیا تھا،۔۔

"وعلیکم السلام ۔۔۔!!! 

زرش بلوچ اسکی جانی پہچانی آواز سن کر تقریبا دوڑتے ہوئے اس تک آئیں یارم بلوچ تھوڑا جھکا تو زرش بلوچ نے اسے جواب دے کر اسکی پیشانی پہ پیار بھرا بوسہ دیا۔۔۔وہ ہمیشہ یونہی ملتا تھا ان سے ۔۔۔۔ 

”یہ ۔۔۔یہ  لڑکی ک۔۔کو۔۔۔کون ہے ؟...“انہوں نے یارم کے پیچھے کھڑی ہوئی لڑکی کو دیکھا تو جھٹکا کھا کر پلٹیں ' لیکن قدم اور زبان وہیں تھم گٸے تھے،کیونکہ یارم کے ساتھ جو لڑکی تھی وہ مغربی لباس ۔جینز اور شرٹ پہنے اس پہ سرخ رنگ کی بڑی سی شال میں لپٹی کھڑی تھی، 

زرش بلوچ نے غور کیا اُس کا ہاتھ یارم  کے ہاتھ میں تھا ۔۔ یارم  کے ساتھ لڑکیوں کا ہونا بڑی بات نہیں تھی، کیونکہ وہ ڈاکٹر تھا ۔تو شہر اور گاؤں میں کافی لڑکیوں کے ہاتھ پکڑ کر ان کا چیک اپ کرتا تھا ۔۔۔۔ مگر یہاں بات چیک اپ کی نہیں کچھ اور ہی معلوم ہورہی تھی ۔زرش بلوچ کا فورا سے بیشتر ماتھا ٹھنکا۔۔۔۔

 اس لڑکی کا حلیہ اور یارم بلوچ کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ ان کو حیرت و پریشانی میں مبتلا کر گیا،ان کا یہ انداز بہت کچھ کہہ رہا تھا۔۔

”یارم ۔۔۔۔!!!! کون ہے یہ۔۔۔۔؟“ زرش بلوچ آگے بڑھیں اور انہوں نے سوال کیا،وہ مزید صبر نہ کر سکیں۔۔

”یہ میری بیوی اور آپ کی بہو چاہت یارم بلوچ ۔۔“ اس  نے بہت  سکون سے ان کے سر پر دھماکہ کیا تھا، 

 وہ جانتا تھا کہ ان کے لیے یہ خبر کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوگی ۔کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کی ماں نے اسکی شادی کے لیے کتنے خواب دیکھ رکھے تھے ۔۔۔ 

”کیا ۔۔۔۔؟۔۔۔۔بیوی ؟؟؟“ان کو دو ہزار والٹ کا کرنٹ لگا تھا ۔۔

"یارم اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے تم نے ایک بار بھی گواراہ نہیں کیا کہ اپنے والدین سے پوچھ لو ۔۔۔"؟

"یا تمہیں ہماری رضامندی سے خفگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی  "؟

فلک بلوچ جو شام کے کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل کی طرف آرہے تھے یارم بلوچ کو سامنے پاکر سرشاری سے اس کی طرف بڑھے تھے ۔اسے اپنی شادی کا بتاتے دیکھ ان کے قدم وہیں رک گئے ۔۔۔۔انہوں نے بارعب آواز میں اس سے استفسار کیا۔۔۔۔

"بابا سائیں  ۔۔۔!!!!  میں نے اس سے نکاح کرلیا ہے۔۔۔“

" بس حالات کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ میں نے یہ نکاح کرلیا ۔۔۔۔۔اس نے بہت اطمینان سے بتاتا ۔۔۔۔

"مگر مجھے یہ ولایتی لڑکی بہو کے طور پہ بالکل قبول نہیں "

زرش بلوچ نے درشت آواز میں کہا ۔۔۔۔

"ماں سا ۔۔۔!!!

"آپ تو ماں ہیں میری آپ تو سمجھیں مجھے۔۔۔۔آپ نے ہمیشہ میری چھوٹی سے چھوٹی خواہش پوری کی ہے تو پھر اسے بھی میری خوشی سمجھ کر قبول کرلیں "

کبھی جنّت کا میں سوچوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

محبّت لفظ جو پڑھ لوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

تم ہی تو روکتی تھی ہر برائی اور شر سے ماں

کبھی غلطی سے جو بہکوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

تمہی تو پونچھتی تھی ماں میری آنکھوں کے سب آنسو 

میں خود ہی اشک جو پونچھوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

مجھے جب زخم لگتے ، تھے تو کیسے تم تڑپتی تھی

میں اپنے زخم اب دیکھوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

مجھے ڈر جب بھی لگتا تھا تو تم ہی تھامتی تھی ماں

کبھی جو ڈر کے میں لیٹوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

میرے ہر درد کی ساتھی ، میری تو رازداں تھی تم

میں خود سے راز جو کہہ لوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

بہت اکثر ، بہت زیادہ ، بہت ہی یاد آتی ہو

کبھی تنہا جو میں بیٹھوں ، تو ماں تم یاد آتی ہو

"لاڈ سا ہر خواہش پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی "

وہ نفی میں سر ہلا کر بولیں ۔۔۔

"مگر ماں سا ۔۔۔!!!!

یارم بلوچ نے بولنا چاہا۔۔۔

مگر زرش بلوچ نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا ۔۔۔

"تو اب اس کل کی آئی چھوکری کی وجہ سے اپنی ماں سے لڑے گا ۔۔۔۔نہیں رہے گی وہ یہاں ؟"

وہ بھی خفگی سے منہ پھلا کر بولیں۔۔۔۔

"ماں سا یہ میری بیوی ہے اور میرے ساتھ اسی گھر میں رہے گی ۔۔۔۔یارم بلوچ نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا زرش بلوچ نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے چاہت کو دیکھا۔۔۔۔

جو اس سچویشن کے لیے قطعا تیار نہیں تھی ۔ایک تو سب انجان لوگ پھر ان کی غیض و غضب ناک نگاہوں کا سامنا کرنا اسے دوبھر لگا ۔۔۔ اسے لگا کہ اگر یارم نے اس کا ہاتھ اپنی نرم گرم مضبوط  گرفت میں نا لیا ہوتا تو ابھی تک وہ خوف کے باعث زمیں بوس ہوچکی ہوتی ۔۔۔۔

"کتنے خواب سجائے تھے میں مارا لاڈ سا آئے گا تو اپنی پسند سے اس کی شادی کروں گی ۔تو نے مارے سارے ارمان ہی  توڑ ڈالے ۔۔۔۔۔اسے گھر سے باہر نکال دے ۔۔۔مجھے نہیں چاہیے یہ ولایتی بہو "

انہوں نے غم و الم سے دوچار لہجے میں کہا۔۔۔۔

"اگر اس کے لیے اس گھر میں جگہ نہیں تو ٹھیک ہے میں بھی اسے اپنے ساتھ لے کر یہاں سے چلا جاتا ہوں "

یارم بلوچ نے کھڑے کھڑے فیصلہ سنا دیا۔۔۔۔

”ہوش میں تو ہو تم۔۔؟“ اب کی بار فلک بلوچ گرجدار آواز  میں پوچھا تھا،

”جی الحمدللہ میں مکمل ہوش وہواس میں ہوں۔۔

یارم کا پختہ لہجہ سب کو چونکا گیا ۔۔۔  

حویلی میں اونچی آواز سن کر ھاد بلوچ اور آتش بلوچ کے ساتھ ساتھ ملازمین بھی باہر نکل آئے ۔۔۔ 

"بابا سائیں پسند کی شادی کرکہ بھائی سا نے کوئی جرم تو نہیں کیا "

ھاد بلوچ نے سارا معاملہ سمجھتے ہوئے  آگے بڑھ کر یارم بلوچ کی طرف داری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

"بابا سائیں ۔۔۔۔ماں سا ۔۔۔۔پلیز اگر بھائی سا نے شادی کرلی ہے تو ان دونوں کو معاف کر کہ بھابھی سا کو کھلے دل سے قبول کرلیں "

آتش بلوچ نے بھی اپنی بات کا ٹکڑا لگایا ۔۔۔ 

"تم دونوں تو ہمارے بیچ میں نہ ہی بولو تو اچھا ہوگا ۔۔فلک بلوچ  نے قطعی لہجے میں کہہ کر ان کو خاموش کروایا۔

”یہ کیا مذاق ہے یارم ۔۔۔؟“

"اس لڑکی کے لیے تم اپنے والدین کو چھوڑ کر چلے جاؤ گے ؟"

 اب کے فلک بلوچ چلتے ہوٸے اس کے سامنے آگئے۔۔

”میرا آپ کے ساتھ کوٸی مذاق نہیں میں اس سے نکاح کر کہ اپنے ساتھ لایا ہوں۔۔یہ میری ذمہ داری ہے اب ۔۔"

”کون سی بیوی اور کیسا نکاح؟ تم جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ یہ کون ہے ؟ کہاں سے آٸی ہے؟ ہم نہیں جانتے ، یہ جہاں کا گند ہے اس کو وہیں پھینک کر آٶ۔ابھی اور اسی وقت۔۔“زرش بلوچ غصیلی آواز میں دھاڑی ۔۔۔۔

”بس ۔۔۔بہہہت ہوگیا  ماں سا ۔۔۔“ اس نے یکدم غصے سے اونچی آواز میں کہا ، 

”شاذیہ ۔۔۔۔شازیہ۔۔۔؟“ اس نے ملازمہ کو آواز دی۔

”جی صاحب ۔۔۔۔۔ ! ۔۔۔۔۔۔“وہ ڈوری چلی آئی اس کی ایک آواز پر ۔

" انہیں ۔۔۔۔میرے کمرے میں چھوڑ آؤ ۔۔۔۔

"جی صاحب۔۔۔۔!...."

وہ مؤدب انداز میں بولی ۔۔۔

”یہ لڑکی میرے گھر میں نہیں رہے گی ۔۔۔“ زرش بلوچ چنگھاڑتی آواز میں بولتے ہوئے  غصے پھنکار کر آگے بڑھیں ۔۔

فلک بلوچ نے زرش بلوچ کو فی الفور چپ ہوجانے کا اشارہ کیا۔۔۔

یارم بلوچ ڈھال بن کر اس کے سامنے کھڑا ہوا اور  کپکپاتی ہوئی چاہت کو اس ملازمہ کے ساتھ اپنے کمرے میں بھجوا دیا ۔۔۔

چاہت اسکے پیچھے پیچھے شکستہ وجود لیے چلتی چلی گئی۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے ہم تمہاری بیوی کو اس حویلی کی بیوی کا رتبہ دیں گے ۔فلک بلوچ نے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔۔

زرش بلوچ اپنے سر کے سائیں کی بات پہ بل کھا کر رہ گئیں ۔۔۔۔

تو یارم کے چہرے پر چھائی سختی پہ تھوڑی کمی ہوئی ۔۔۔

"مگر ۔۔۔۔وہ کرخت آواز میں بولے ۔۔۔

یارم نے چونک کر یکلخت انکی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔

"اب تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گے ،یہیں رہ کر ہماری خاندانی روایات کو برقرار رکھو گے ،

"کل صبح سارے گاؤں کے سامنے تمہاری دستار بندی کی جائے گی ۔میرے سارے فرائض تم سنبھالو گے کل سے ۔

اگر تو میری شرط منظور ہے تو یہیں رہو ۔۔۔ 

"ورنہ ۔۔۔۔

وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئے پھر بولے ۔۔۔

یارم کا ہر عضو ۔۔۔۔آلہ ء سماعت بنا انکی بات سن رہا تھا ۔۔۔۔

"ورنہ منہ اندھیرے اپنی بیوی کو لے کر یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ ۔اور تمام زندگی کبھی واپس لوٹ کر نا آنا ۔۔۔ میں وصیت کردوں گا کہ تمہیں اپنے مرے ہوئے ماں باپ کا منہ بھی نا دیکھنے دیا جائے ۔۔۔۔ "

وہ اٹل انداز میں بولے ۔۔۔

"اتنی بڑی بات آپ نے کیسے آسانی سے کہہ دی "

یارم بلوچ نے تاسف بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔

"مجھے تمہارا فیصلہ سننا ہے ....!!!

وہ پشت پہ بازو باندھے سپاٹ انداز میں بولے ۔۔۔۔

"بابا سائیں میں نے اسپیشلائزیشن اس لیے کیا ہے کہ میں یہاں گاؤں سرداری کرتا پھروں ؟؟؟

"کیا فائدہ میرا اتنا پڑھنے کا ۔۔۔۔؟؟؟

"آپ میرے ساتھ اس طرح نہیں کرسکتے ....اس نے اپنے حق میں آواز اٹھائی ۔۔۔۔

"مجھے دلیلیں نہیں چاہیے تمہارا فیصلہ جاننا ہے "

وہ ابھی تک اپنی بات پہ بضد تھے ۔۔۔۔

یارم بلوچ کے لیے یہ فیصلہ لینا انتہائی کٹھن امر ثابت ہو رہا تھا ۔۔۔ 

ایک طرف اسکی ڈگری اسکی تعلیم و خواب تھے ،جبکہ دوسری طرف اسکے والدین ،،،

"ٹھیک ہے جیسا آپ چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا "

اس نے دل پہ پتھر رکھ کر فیصلہ لیا ۔۔۔ 

”یہ لڑکی ہے کون؟ کس خاندان کی ہے۔؟" اب کے زرش بلوچ نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔

”وہ لڑکی پہلے کون تھی ؟ کہاں تھی؟ اس بات سے آپ کو  کوٸی سروکار نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی مجھے کوٸی ایشو ہے، وہ اب میری بیوی ہے، میں اس کو پسند کرتا ہوں اور میں نے اپنی پسند سے اس سے شادی کی ہے، یہ گھر جتنا میرا ہے اتنا اس کا بھی ، اب یہ لڑکی اس گھر سے کہیں نہیں جاۓ گی۔ ادھر ہی رہے گی میرے ساتھ میرے کمرے میں۔۔۔“ وہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اس کے سامنے ڈٹ گیا تھا،اور زرش بلوچ اپنے سامنے ڈھال بن کھڑے اپنے ہی بیٹے  کو دیکھتی رہ گٸی تھی۔

اور رُکھائی سے کہتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

گھر میں عجیب تناؤ بھرا ماحول پیدا ہوگیا ۔۔۔۔سب یاسیت سے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔

"اماں بی وہ مجھے مل گیا "۔۔۔!!!

ھادیہ فرط مسرت سے لبریز انداز میں بھاگتے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوئی اور اماں بی کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھ کر انکے گلے سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔

"ارے ۔۔۔ارے ۔۔۔کون مل گیا ایسا  ؟؟؟

انہوں نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"جس کی وجہ سے آج میری بیٹی یوں مسکرا رہی ہے "؟

انہوں نے محبت بھرے انداز میں اسکی تھوڑی کو چھو کر پوچھا ۔۔۔۔

"اماں بی آج میں بہت خوش ہوں ۔۔۔۔"اس کی مسکراہٹ تھمنے میں نا آرہی تھی ۔۔۔۔

"اماں بی میری غزل کے ساتھ ساتھ میں خود کو بھی مکمل محسوس کر رہی ہوں "

مجھے میرا ھاد مل گیا ہے اماں بی "

"لیکن یہ ھاد ہے کون ؟؟یہ تو تو نے بتایا نہیں "؟

"اماں بی ھاد ۔۔۔سردار فلک بلوچ کا بیٹا ہے "

"کیا .؟؟؟

"سردار فلک بلوچ کا بیٹا ؟؟؟

ان کے سر پہ تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔۔

"اماں بی میرا سفید سوٹ "

سردار دلاور بلوچ جو اپنے کمرے سے باہر نکلے تھے اماں بی سے اپنے کپڑوں کے بارے میں جاننے کے لیے ۔۔۔۔ان کے چہرے کی فختائیاں اڑیں ہوئی دیکھ کر ٹھٹھک کر کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔

"کیا ہوا اماں بی کوئی پریشانی ؟؟؟

انہوں نے پہلے اماں بی کی طرف دیکھا پھر ھادیہ کی طرف ۔۔۔۔

ھادیہ نے ہولے سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"ک۔۔۔کچھ ۔۔۔نہیں سردار ۔۔۔۔اماں بی نے فورا اپنے جذبات پر قابو پایا۔۔۔۔

"ہمارے گھر میں ایک جوان بیٹی ہوتو پریشانی تو ہوتی ہے نا "

وہ بات بنا کر بولیں ۔۔۔۔

میں نے ھادیہ کو اپنی بیٹی کی طرح پالا ہے ۔اور اسکی شادی کے لیے فکر مند ہوں "

وہ ہاتھوں کی انگلیوں کو مڑوڑتے ہوئے حواس باختگی سے بولیں ۔۔۔

"بے شک آپ نے اسے پال کر مجھ پہ بہت بڑا احسان کیا ہے لیکن ھادیہ کی زندگی کے بارے میں سوچنے کا حق تو میں خود ھادیہ کو بھی نہیں دوں،،،اس کے پیار میں مجھ سے کوئی کمی نا رہ جائے اس لیے میں نے دوسری شادی نہیں کی اہنی ساری زندگی اس کے لیے وقف کردی ۔۔۔۔اب اتنا تو میرا بھی حق اس پہ بنتا ہے نا کہ اس کی زندگی کا فیصلہ میں خود لے سکوں ۔۔۔۔!!!!

"ھادیہ کی شادی کا سے ہوگی اس بات کا فیصلہ صرف اور صرف میں کروں گا "

وہ اٹل انداز میں بولے ۔۔۔

"جی سردار "۔۔۔۔!!!!

وہ سر جھکائے مؤدب انداز میں بولیں ۔۔۔۔

ھادیہ آہستگی سے چلتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ ایسے ہی سوچوں میں غرق تھی۔۔اک لمحہ لگا تھا جس میں اس کی پوری زندگی بدل گٸی تھی،جو کچھ اس نے کبھی اپنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا وہ ہوگیا تھا ، ساری پرانی یادیں اور باتیں اسکے ذہن میں گونج رہی تھیں جن کو وہ چاہ کر بھی اپنے ذہن سے  جھٹک نہیں پا رہی تھی،وہ شکستہ سی بستر پر لیٹ گئی۔۔۔۔

یارم بلوچ چھت پہ کھڑا کافی دیر سیگریٹ پھونکتا رہا اور اپنے ذہن کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر رہا تھا ۔یکدم اسے چاہت کا خیال آیا کہ اس نے نکاح کے بعد سے کچھ نہیں کھایا یہاں تک کہ پلین اور باقی سفر کے دوران بھی وہ بھوکی ہی رہی تھی ۔یارم خود اپنی سوچوں میں اسقدر گم تھا کہ اسے چاہت کے بھوکا رہنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔۔۔اب اسے یاد آیا تو وہ جی بھر کہ شرمندہ ہوا ۔۔۔۔

"ابھی تک بھوکی ہوگی وہ "وہ خود کلامی کرتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں پھیلانگتے ہوئے نیچے آیا اور جیسے ہی اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا وہ اس کے بستر پہ کمفرٹر اوڑھے سو چکی تھی ۔۔۔۔یارم دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔۔

اس کی آنکھوں کے پپوٹے مسلسل رونے کی وجہ سے سوجے ہوئے تھے اور چہرے پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے نشانات موجود تھے ۔۔۔۔

وہ اس کی حالت پہ آزردہ ہوا ۔۔۔۔۔

پھر گہری سانس لی۔۔۔۔اور اسکے ساتھ خالی جگہ پہ بنا کمفرٹر کے لیٹ گیا ،اے_ سی کی کولنگ کی وجہ سے کمرے میں خنکی بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔

صبح دستار بندی کے بارے میں سوچتے ہوئے نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔اور وہ دنیا و مافیہا کے جھنجھٹوں سے آزاد ہوئے نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔۔۔

چاہت نے کروٹ بدلی تو اسکی جاگ کھل گئی ۔۔۔تھکاوٹ کے باعث وہ سو تو گئی تھی مگر نئی جگہ ہونے کے باعث اسکی جلدی ہی آنکھ کھل گئی تھی ۔وہ بستر سے نکل کر واش روم کی طرف بڑھ گئی اور منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو ۔اس کی نظر اچانک بستر پہ لیٹے ہوئے یارم کی طرف اٹھی،وہ رات کو نجانے کب کمرے میں  آیا تھا۔۔۔ اور اس سے کوٸی بات کیے بغیر ہی سو گیا تھا،اب بھی وہ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا بے خبر سو رہا تھا۔۔۔۔

چاہت آہستہ آہستہ چلتی ہوٸی بیڈ کے پاس آگٸی،اور ہاتھ بڑھا کر بستر پہ پڑا کمفرٹر اس کے اوپر اوڑھانا چاہا ۔۔۔۔ ، تب ہی یارم ہلکا سا کسمسایا اور پھر دوسری طرف کروٹ بدل کر سو گیا، کمفرٹر اس کے نیچے دب گیا تھا ، چاہت نے تھوڑا آگے جھک کر اس کے نیچے دبے کمفرٹر کو نکال کر اسکے اوپر کروانے کی کوشش کی تب ہی اس کا توازن بگڑا اور وہ اپنے لہراتے وجود سے یارم کے اوپر گری۔۔۔۔۔۔۔ یارم بلوچ جو کہ گہری نیند میں تھا وہ اس اچانک آنے والی آفتاد پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔۔۔

”کک کیا ہوا آپ کو کچھ چاہیے ؟“ وہ اس کو اٹھتے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوگئی۔۔۔

”نن نہیں وہ مم میں آپ کا کک کمفرٹر ۔۔۔۔“ 

”آپ تو سوٸی ہوئی تھیں نا ۔؟“ وہ جو گہری نیند سے اٹھا تھا اس نے اپنی سرمئی آنکھوں کو مسل کر ان کو پوری طرح سے کھولا۔۔

”ابھی اٹھی تھی اب نیند نہیں آرہی ۔۔۔ “وہ کہہ کر وہاں سے پیچھے ہٹ گٸی، لیکن وہ اس کی بات پر چونک گیا۔۔

”لیکن کیوں؟ آپ کیوں کیا ہوا  ؟“ 

”وہ عجیب سا لگ رہا ہے یہاں ۔۔۔۔“یارم جانتا تھا کہ اس کو نیند کیوں نہیں آٸی تھی اور وہ کیا سوچ رہی تھی۔۔(یہی کہ اسکے گھر والوں کا برتاو مناسب نہیں تھا ،دوسرا نئی جگہ نیا ماحول )

”ہممممم۔۔ سہی ۔۔۔۔“ وہ بھی لب بھینچ گیا اور دوبارہ سونے کی بجاۓ بیڈ سے اٹھ گیا ، 

”سس سوری میں نے آپ کی نیند خراب کر دی ۔۔۔“ وہ خاصی شرمندہ لگ رہی تھی ۔۔ 

”کوٸی بات نہیں ۔۔۔! ویسے بھی نارملی میں اس وقت تک اٹھ جاتا ہوں ، زیادہ دیر تک سونے کی عادت نہیں مجھے“ وہ وال کلاک پر وقت دیکھ کر نرمی سے بولا۔ جہاں اس وقت صبح کے چھ بج رہے تھے،

وہ اس کی بات سن کر دوبارہ صوفے پر جا کر بیٹھ گٸی،جبکہ یارم  واڈ روب  سے کپڑے نکال کر فریش ہونے کے لیے واش روم میں گھس گیا، چاہت نے اک نظر واش روم کے بند دروازے پر ڈالی اور پھر آدم کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔

"پتہ نہیں برو کہاں ہیں ؟؟؟

"کب واپس آئیں گے "؟

"برو آئیں گے نا تو میں ان کے ساتھ واپس اپنے گھر چلی جاؤں گی ۔۔۔۔یہاں پہ سب کتنا زور زور سے بولتے ہیں "

وہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔۔۔۔

کہ چند ساعتوں بعد یارم ٹاول سے اپنے بال رگڑتا ہوا باہر نکلا اور ٹاول واپس ہینگ کیا ۔۔۔

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔کہاں جا رہے ہیں انکل ؟

اس نے یارم کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھ پوچھا ۔۔۔۔

اکیلا یہاں رہنے کے خیال سے ہی وہ کانپ کر رہ گئی ۔۔۔۔

"انکل کہنے پہ یارم کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی ۔۔۔مگر وہ سر جھٹک کر خود کو سنبھال گیا ۔۔۔۔

"میں ایکسرسائز کے لیے باہر لان میں جا رہا ہوں ...تم چلو گی ؟"

اس نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی پیشکش کی ۔۔۔۔

"وہ اس گھر کے لوگوں سے ڈر رہی تھی ۔باہر جانا تو نہیں چاہتی تھی ۔۔۔لیکن یہی سوچ کر ہی ہراساں تھی کہ اگر اسکے چلے جانے کے بعد گھر کا کوئی فرد اسکے کمرے میں آیا تو وہ اس کا سامنا کیسے کرے گی ۔۔۔خوف کے باعث اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔حالانکہ ایکسرسائز سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔۔۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے یارم بلوچ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آٸی، سیڑھیاں اتر کر وہ نیچے تو آگٸی لیکن اب اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ راہداریاں اور سیڑھیاں عجیب و غریب راستے تھے ۔۔۔۔اگر وہ اکیلی ہوتی تو گم ہوجاتی ۔۔۔۔اور واپس اس کمرے تک کبھی پہنچ نہیں پاتی ۔۔۔ 

،پورے گھر میں خاموشی کا راج تھا اس نے کمروں کے بند دروازوں کو دیکھا ”شکر ہے سب سوۓ ہوۓ ہیں؟ “ اس نے دل میں سوچا

یارم بلوچ باہر لان میں ایکسرسائز کرتا رہا اور چاہت کیاریوں میں لگے ہوئے پھولوں کے پاس بیٹھی رہی ان پہ گری اوس کی بوندوں کو چھو کر محسوس کررہی تھی ۔امریکہ میں بھی وہ کبھی کبھار آدم کے ساتھ کالونی کے پارک میں چلی جاتی تھی ،وہاں بھی وہ یونہی پھولوں کے پاس بیٹھی رہتی تھی ،اسے پھول بہت پسند تھے ۔انکی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتار کر اسے تازگی محسوس ہوتی تھی ۔

"ابھی کچھ دیر پہلے اسکے دوست ڈاکٹر وہاج کا فون آیا تھا ،اسکی سپیلائیزیشن کے بعد ڈاکٹر زارا اور وہاج نے اسکے ساتھ ملکر نیا ہاسپٹل بنانے کے سوچا تھا ۔وہ دونوں اس سے اسی ہسپتال کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔فی الحال تو یارم نے انہیں ٹال دیا تھا ۔مگر وہ خود کو عجیب کیفیت میں مبتلا محسوس ہورہا تھا ۔

آج دستار بندی تھی ۔سوچ سوچ کر اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔

یارم ایکسرسائز کیے واپس اندر جانے لگا تو وہ بھی اسکے پیچھے پیچھے اندر بڑھ رہی تھی ۔۔۔مالی بابا کیاریوں میں لگے پودوں کو پائپ لگا کر پانی دے رہے تھے  ۔۔۔چاہت جو بے دھیانی سے منہ اٹھائے چل رہی اچانک اس کا پاؤں پانی کے پائپ سے اٹکا اس سے پہلے کہ وہ گرجاتی پائپ کھنچنے کی وجہ سے یارم نے پلٹ کر دیکھا اور سرعت سے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھام کر گرنے سے بچایا ۔۔۔ 

"یہ کیا بچکانہ حرکت ہے ؟"

"نیچے دیکھ کر نہیں چل سکتی ۔۔۔۔ابھی گر جاتی تو "؟

یارم یارم برہمی سے سخت گیر لجہے میں بولا تو چاہت کے چہرے پہ رونے کے آثار دیکھ کر شرمندہ ہوا ۔۔۔ 

وہ ابھی تک اپنی پچھلی کیفیت کے ہی زیر اثر تھا اسی لیے روکھا بول گیا ۔۔۔۔۔

"I am sorry....

میرا تمہیں ڈانٹنے کا ارادہ نہیں تھا ۔۔۔وہ بس ایسے ہی منہ سے نکل گیا ۔۔۔۔۔نا چاہتے ہوئے ایک بار پھر سے وہ اس کی آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بن گیا تھا ۔۔۔۔

چاہت نے دونوں ہاتھوں سے رگڑ کر اپنی آنکھوں سے امڈ آنے والے آنسوؤں کو رگڑ کر صاف کیا ۔ ۔۔۔

"کوئی بات نہیں میری غلطی تھی ۔۔۔وہ سوں سوں کرتی سرخی مائل ناک  سے خفگی بھری آواز میں  بولی ۔۔۔۔

"آؤ اندر چلیں "یارم نے کہا ۔۔۔۔

حویلی میں ملازمین کی چہل پہل ہوچکی تھی ،سب اپنے اپنے کاموں میں لگ چکے تھے کچن میں زرش بلوچ شاذیہ کے ساتھ ملکر صبح کا ناشتہ تیار کررہی تھیں ۔کچھ صفائی ستھرائی میں لگے ہوئے تھے ۔چاہت بنا ادھر ادھر دیکھے یارم کے پیچھے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"سسی ۔۔۔او۔۔۔ری ۔۔۔۔سسی ۔۔۔!!!

"اب اٹھ جا،،،سورج سر پہ چڑھ آیا ہے ، آج حویلی جانا ہے تجھے بھول گئی کیا ؟؟؟

"وڈی سردارنی انتظار کر رہی ہوں گی تھارا ۔۔۔۔

وقت سے پہنچ جا ،ناہی تو وہ ناراض ہوجاوں گی "

زبیدہ نے سوئی ہوئی سسی کو آواز لگائی ۔۔۔۔

"اٹھ گئی ماں سا "

وہ توبہ شکن انگڑائی لے کر بیدار ہوئی اور آنکھیں مسلتے ہوئے انہیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی ۔مگر سورج کی کرنیں اس کی آنکھوں میں چبھ کر اسے ایسا کرنے سے روک رہیں تھیں ۔

وہ اندازے سے چلتی ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے منہ ہاتھ دھونے چل دی ۔۔۔۔

اب وہ مخصوص راستے سے حویلی کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

 سفید کھدر کی شلوار قمیض پہنے ،پاوں میں کھیڑی ،اورکلائی پہ گھڑی باندھ کر اپنے اوپر بے دریغ پرفیوم کا چھڑکاو کرتے ہوئے یارم بلوچ نے پلٹ کر چاہت کی طرف دیکھا جو افسردگی سے چہرہ جھکائے صوفے پہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔

"تم چینج کرلو پھر نیچے آجانا ڈائننگ ٹیبل پہ ۔۔۔۔

وہ کہتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

 چاہت نے اپنا بیگ کھول کر اس میں سے گرے سکرٹ اور ریڈ شرٹ نکالی پھر ایک گرے شال نکال کر واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”سسی تم چھوٹے سردار کے لیے جوس بنا کر ڈبل روٹی سینک لینا ، میں آملیٹ بنا کر پراٹھا بنا لوں گی بڑے سردار  کے لیے، پہلے ہی بہت دیر ہوگٸی ہے آج۔۔۔“

شازیہ نے سسی سے کہتی ہوئے تیزی سے ہاتھ چلائے ۔۔۔

زرش بلوچ کے کانوں میں کچن سے آتی آوازیں پڑیں تو وہ چلتی ہوٸی آوازوں کی سمت آگٸی، لیکن پھر دروازے میں ہی رک گٸی، 

”ارے زبیدہ نے بھیج دیا تمہیں ۔۔۔۔؟“اس کو وہاں دیکھ کر زرش بلوچ زیادہ  حیران نہیں ہوئیں، اس کی بات سن کر اورنج جوس بناتی سسی نے مڑ کر دیکھا ،

”جج جی وہ مم میں۔“ وہ گڑ بڑا سی گٸی، وڈی سردارنی کے سپاٹ انداز میں پوچھنے پہ ۔۔۔

”ٹھیک ہے جلدی سے کام نبٹاو ۔۔۔اور چائے کا پانی چڑھاو چولہے پہ ناشتے سے فارغ ہوکر کھیر بناو آج بانٹ دیں گے ۔۔۔پھر دستار بندی کے بعد کھانے کا خاص اہتمام کرنا ہے اسکی بھی تیاری کرنی ہے ۔۔۔آج بہت کام ہیں “ زرش بلوچ نے کہا، جبکہ شازیہ اور سسی نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔

”اچھا لاؤ میں بھی ناشتہ بنانے میں تم  لوگوں کی مدد کر دیتی ہوں“زرش بلوچ نے  آملیٹ بناتی شازیہ  سے کہا ۔

”ارے نن نہیں وڈی سردارنی  ! آپ رہنے دیں ہم خود کر لیں گی۔۔۔“ وہ گھبرا کر جلدی سے بولیں۔۔

”جی وڈی سردارنی ۔۔۔۔ہمارے ہوتے تھارے کو کام کرنے کی ضرورت نہیں “ وہ آہستہ آواز میں  بولی ،

”شازیہ تم لوگ دیکھو یہ میں سب کو ناشتے کے لیے بلا کر  ابھی آتی ہوں۔“وہ توس سینکنے کے لیے ٹوسٹر میں ڈال کر باہر نکل گٸی۔اب کچن میں سسی  اور شازیہ ہی رہ گٸی تھیں، اس نے آملیٹ پلیٹ میں نکال کر جلدی سے ٹوسٹر میں سے توس نکالے، پھر پراٹھا بنانے کے لیے فریج میں سے آٹا نکالنے لگی، وہ یہ سب کام بہت تیزی سے کر رہی تھی۔جیسے وہ اپنے گھر میں کرتی تھی۔جبکہ شازیہ اس کو اتنی تیز ی سے کام کرتے دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں، 

"زبیدہ تو کہتی تھی کہ تو ٹھیک سے کوئی کام نا کرتی ۔۔۔لیکن تو ۔۔۔تو سب ٹھیک سے کر رہی ہے "

"ماں سا سے وعدہ کر کہ آئی ہوں کہ وڈی سردارنی کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دوں گی "سسی نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔

"تجھے پتہ ہے سسی سردار یارم نا ایک ولایتی میم سے شادی کرکہ آئیں ہیں ۔۔۔بڑی خوبصورت ہے وہ ۔۔۔گوری چٹی اور بالکل گڑیا کی طرح نیلی نیلی آنکھوں والی ۔۔۔۔

شازیہ نے ستائشی انداز میں کہا ۔۔۔۔

 اس گھر میں دیکھ کر ان کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ اب ”حویلی  “ کی قسمت چمکنے  والی تھی، کیونکہ اب اس کو بدلنے والی آگٸی تھی۔اس کو سردار یارم  کی بیوی  بہت زیادہ  پسند آٸی تھی۔۔

اس کی نگاہ کچن میں سے باہر سیڑھیوں کی طرف اٹھی پھر وہیں ساکت رہ گئی ۔۔۔۔دل زوروں سے دھڑکنے لگا۔۔۔

ڈارک بلیو شرٹ اور جینز پہنے وہ شہزادہ باوقار انداز میں جس طرح سیڑھیاں اتر رہا تھا سسی کا دل مٹھی میں جکڑ گیا ۔۔۔۔اسکے بھاری قدم سسی کو سیڑھیوں کی بجائے اپنے دل پہ اٹھتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔۔۔جیسے وہ اس کے دل کی دہلیز پہ قدم رکھے اسکے دل کی سلطنت میں پورے طمطراق سے وارد ہوا ۔۔۔۔ خوبرو ،قابل دید ،جاہ و جلال،قابل رشک ، دازقد کا مالک   ،،،مگر سسی کے جذبات سے لاپرواہ اور اسکے دل میں اپنے مقام سے بے نیاز شہزادہ  ،،،،

وہ جیسے جیسے سیڑھیاں اتر کر اسی طرف آ رہا تھا سسی کے دل کی دھڑکنیں تھمنے لگیں تھیں ۔۔۔۔

"ماں سا کہاں ہیں "؟

اس نے کچن کے دروازے سے اندر جھانک کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

اس کے آنے سے اسکے  مخصوص کلون کی مہک سسی کو اپنی سانسوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

سارا ماحول جیسے مہک کر تروتازہ ہوگیا تھا ۔۔۔

سسی تو جیسے پتھر کی ہوگئی تھی اس کے بات کرنے پہ ہی ۔۔۔۔

"مارے سے انہوں نے بات کی "

وہ تو اتنے میں ہی مرنے والی ہوگئی تھی ۔۔۔۔

"چھوٹے سردار وڈی سردارنی ھاد سردار کے پاس گئیں ہیں "

سسی کو بت بنا کھڑا دیکھ شازیہ نے جواب دیا ۔۔۔

وہ جو موبائل پہ نوٹیفکیشن چیک کررہا تھا ،،سسی پہ ایک بھی غلط نگاہ ڈالے بنا ۔۔۔

"ہمممم...."کہتے پلٹ گیا ۔۔۔

وہ ایسے ہی ٹکٹکی باندھے اسی کو دیکھے جا رہی تھیں،

جانے والا تو کب کا جا چکا تھا ،مگر وہ تو وہیں کی وہیں رہ گئی تھی ۔۔۔۔ تب ہی سلیب سے کفگیر اٹھاتی  ہوئی شازیہ  کی نظراس پر پڑی تو وہ چونکی۔

”کیا ہوا تم ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔؟“ 

”کک کچھ نہیں ۔۔۔“ وہ چونک کر اپنے دھیان میں واپس آئی۔۔

”پھر بھی کچھ تو ہوا ہے ، بتا مجھے کیا ہوا  ۔۔۔۔؟“ 

"ن۔۔نہ۔۔ا۔۔ کچ۔۔کچھ نا ۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرا کر دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔

"ماسی آپ کیا دیکھ رہی ہیں ؟"

”وہ میں تو بس یارم سردار  کی پسند دیکھ رہی ہوں۔۔ اس نے ہیرا چنا ہے ہیرا۔۔۔بس اب اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچاۓ۔۔ان کی جوڑی کو “ شازیہ نے اس کی تعریف کی ، لیکن وہ تو ان کے منہ سے نکلنے والے لفظ ”پسند “ پر ہی اٹک گٸی تھی، 

”آمین ۔۔۔۔“ اس نے دل ہی دل میں کہا،

”کاش میں بھی چھوٹے سرکار کو پسند آجاؤں ۔۔“اس کے دل میں خواہش جاگی۔۔۔آپس میں باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ پراٹھے بنا کر توے پر ڈال چکی تھی، 

" ماسی آپ کب سے ہیں یہاں ۔۔۔؟“ اس نے سوال کیا،اور پراٹھے کی ساٸیڈ بدل کر اس پہ دیسی گھی لگایا ۔

”جب سے بڑے سردار کی شادی ہوٸی ہے تب سے میں اسی گھر میں ہی ہوں۔“ انہوں نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔

”اچھا۔۔۔ پھر تو سب کو  اچھے سے جانتی ہوں گی۔۔؟“

 اس نے اگلا سوال کیا۔اور پراٹھے کو اٹھا کر ہاٹ پاٹ میں رکھنے لگی ۔۔۔

”ہاں بیٹا جا نتی ہوں اور اب یہ بھی نظر آرہا ہے کہ یہ محل اب بہت جلد گھر بننے والا ہے۔۔“ ان کی بات پر سسی نے نہ سمجھی سے ان کی طرف دیکھا، 

”کیا مطلب تھارا ۔۔کچھ سمجھی نہیں۔۔؟“ 

”چھوڑو نا ابھی  ! ابھی کچھ نہیں سمجھیں گی تو ،،،لیکن آہستہ آہستہ جب سب کچھ دیکھے گی تو تجھ کو بھی سمجھ آجاۓ گا۔بس اب تو دیکھتی جانا سب۔۔۔“ وہ کہہ کر سسی کے ساتھ ملکر ناشتہ باہر ڈائننگ ٹیبل پر لگانے لگی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آؤ چاہت "

یارم بلوچ نے چاہت کو سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دیکھ لیا تھا ،مگر وہ سب کو ڈائننگ ٹیبل پر اکٹھے دیکھ کر گھبرائی ہوئی تھی تبھی سر جھکا کر دور کھڑی  کشمکش میں مبتلا انگلیاں چٹخا رہی تھی ،

یارم کی آواز سن کر اسے کچھ حوصلہ ملا تو وہ آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس آئی اور اس کی تھائی پہ بیٹھ گئی ۔۔۔

فلک بلوچ نے سرعت سے نظروں کا زاویہ بدلا۔۔۔

ھاد بلوچ جو پانی پی رہا تھا اسکے منہ سے پانی کا فوارا چُھوٹا ۔۔۔۔

آتش بلوچ نظریں کھانے پہ مرکوز کیے مدھم سا مسکرایا۔۔۔

زرش بلوچ کی تو سر پہ لگی اور تلوں پہ ُبجھی۔۔۔۔

یارم بلوچ کو تو خود جھٹکا لگا تھا سب کے سامنے اسکی حرکت پہ ۔۔۔۔

جبکہ چاہت کے لیے جیسے یہ سب نیا نہیں تھا ۔۔۔۔وہ نارمل تھی ۔۔۔۔۔

"دیکھ لیا ولایت سے بیوی لانے کا انجام ...؟"

"ایسی بیہودہ حرکتیں کرنی ہوتی ہیں تو اسے کمرے میں ہی رکھا کر "

"ایسے نہیں ہوتے مارے گھر کی بہوؤں کے طور طریقے"

زرش بلوچ نے چاہت کو تند نگاہوں سے گھورتے ہوئے  کرخت آواز میں کہا ۔۔۔۔

تو چاہت کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔۔۔۔

"و۔۔۔وہ ۔۔۔میں برو کے ساتھ ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھاتی تھی ۔۔۔۔۔

"آپ ۔۔۔نے ۔۔۔کہا تھا نا کہ ۔۔۔آپ مجھے ۔۔۔۔۔

وہ رک رک کر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں اپنی صفائی پیش کر رہی تھی ۔۔۔

"تم چئیر پہ بیٹھو میں تمہیں کھانا سرو کرتا ہوں "

یارم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھایا ۔۔۔

وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"لو جی یہ کسر رہ گئی تھی ۔۔۔۔اب میرا بیٹا بیوی کا نوکر بنے گا "

وہ جل کر بولی ۔

"بس بھی کرو ۔۔۔۔"

فلک بلوچ نے سخت لہجے میں زرش بلوچ کو کہا۔۔۔۔

 وہ پانی کا گلاس میز پہ زور سے پٹخ کر منہ پھلائے کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

چاہت کو زیادہ تو کچھ سمجھ نہیں آئی بس اتنا ہی پتہ چلا کہ وہ عورت اس کی وجہ سے ناراض ہورہی تھی ۔۔۔اس کی نیلی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔۔۔۔

"I am with you"

"تم کسی کی بھی بات پہ دھیان نہیں دو خاموشی سے کھانا کھاؤ کل سے کچھ کھایا نہیں "

یارم نے اسکے نازک سے ہاتھ پہ اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسے تحفظ اور اپنے ساتھ کا احساس دلاتے ہوئے نرمی سے کہا ۔۔۔۔اور اس کے لیے سلائس اٹھا کر اس پہ مکھن لگاتے ہوئے پلیٹ میں رکھنے لگا ۔۔۔۔

چاہت سر جھکائے پلیٹ کو گھور رہی تھی ۔۔۔

"چاہت ۔۔۔!!!!

یارم نے اسے ویسے ہی بیٹھے دیکھا تو تنبیہی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

چاہت نے فورا سلائس اٹھا کر بائٹ لی ۔۔۔

ھاد اور آتش بظاہر تو ناشتہ کرنے میں مگن تھے مگر دونوں کا دھیان نئے جوڑے کی طرف ہی تھا ۔۔۔۔

ھاد نے آتش کی طرف دیکھ کر شرارت سے آنکھ ونگ کی اور اسے یارم کا اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے کئیر کرنے کا انداز دیکھ کر آپس میں نظروں ہی نظروں میں اشاروں سے باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔

"آج تمہاری دستار بندی ہے ،وقت سے پہنچ جانا ۔۔۔۔"فلک بلوچ گھمبیر آواز میں کہتے ہوئے ہاتھ صاف کرتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل سے اٹھے اور باہر کہ طرف نکل گئے ۔۔۔۔

"ہیلو بھابھی کیسے مزاج ہیں آپ کے ؟

اب یارم ،ھاد،اور آتش ہی رہ گئے تھے ٹیبل پہ ۔۔۔۔انہوں نے ماحول سازگار دیکھا تو اپنی بھابھی سے بات کرنے کی ٹھانی ۔۔۔۔

"چاہت لفظ "بھابھی "سن کر آگے کچھ سوچ ہی نہیں پائی ۔۔۔اسکے نیلے نینوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئیں۔۔۔۔۔

"جی ۔۔۔۔آپ نے مجھے کچھ کہا ۔۔۔۔"؟

اس نے حلق سے بمشکل آواز نکلی ۔۔۔یوں اجنبی شخص سے بات کرتے ہوئے ۔۔۔۔

"ھاد ۔۔۔!!!

یارم نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"اوہو بھائی سا ۔۔۔۔میں تو جسٹ بھابھی سا سے سلام دعا کر رہا تھا ۔۔۔

"ویسے بھابھی سا ۔۔۔۔آپ نے اکیلے اکیلے ہی شادی کرلی امریکہ میں ۔۔۔اپنے چھوٹے چھوٹے دیوروں کا بھی خیال نہیں کیا "

آتش بلوچ نے بھی مسکرا کر ہلکے پھلکے انداز میں چاہت سے کہا ۔۔۔۔

"بھائی سا یہ بولتی تو ہیں نا ؟؟؟کہیں گونگ۔۔۔۔۔

ھاد نے چاہت کو خاموش دیکھا تو اپنے تئیں اندازہ لگایا۔۔۔ 

"مجھے بولنا آتا ہے ۔۔۔"چاہت خود کو گونگا بولے جانے پہ غصیلے لہجے میں جھٹ سے کہا  ۔۔۔۔

اسکے تلملا کر جواب دینے پہ یارم بلوچ کے مونچھوں تلے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

"آپ کیوں ہنس رہے ہیں انکل ۔۔۔انہیں بتائیں نا میں گونگی نہیں ہوں "

اب کی بار قہقہ لگا کر ہنسنے کی باری ھاد بلوچ اور آتش کی تھی ۔۔۔۔۔اپنے بھائی سا کی بیوی کے منہ سے اسکے لیے انکل سن کر وہ دونوں پیٹ پکڑ کر ہنستے ہوئے دوہرے ہونے لگے ۔۔۔۔

"رکو تم دونوں "

یارم کڑے تیوروں سے ان کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔تب تک وہ دونوں ہنستے ہوئے بھاگ کر اس سے بچنے کے لیے بیرونی دروازہ عبور کرگئے ۔۔۔۔۔

چاہت فق نگاہوں سے انہیں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"آپ تو گھنی پیاری ہو جی "

سسی جو ڈائننگ ٹیبل سے کھانے کے برتن سمیٹنے کے لیے آئی تھی ۔اس معصوم دکھائی دینے والی ۔۔۔روئی جیسی نرم و نازک سی چاہت کو دیکھ کر ستائشی انداز میں بولی ۔۔۔۔

"آپ مجھے میرے کمرے میں چھوڑ دیں گی ۔۔۔۔مجھے بھول گیا ہے اپنا کمرہ "

چاہت نے اسکی بات کا جواب دئیے بنا تیزی سے کہا ۔۔۔۔اسے نازش بلوچ سے ڈر لگ رہا تھا کہیں وہ یارم کی غیر موجودگی میں پھر سے آگئیں تو اور اسے ڈانٹنے لگ گئی تو وہ کیا کرے گی ۔۔۔یہی سوچ کر اس نے جھرجھری لی ۔۔۔۔

"آجائیں جی میں تھارے کو لے چلتی ہوں "

سسی اسکے ساتھ چلتی ہوئی اسے یارم کے کمرے تک لے گئی ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"اماں بی کھانا لگوائیں بہت زوروں کی بھوک لگی ہے "

دلاور بلوچ نے حویلی میں داخل ہوتے زور سے آواز لگائی ۔۔۔۔۔

"ابھی لگواتی ہوں بابا سائیں "

ھادیہ جو لاونج میں موجود صوفے پہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔اپنی جگہ سے اٹھ کر بولی ۔۔۔۔

"ہاں جاؤ میں ہاتھ منہ دھو کر ابھی آیا "

وہ کہتے ہوئے واش بیسن کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔

"اماں بی آج کھانا کس نے بنایا ہے اشتہا انگیز کھانے کی خوشبو سے ہماری بھوک مزید بڑھ گئی ہے "

وہ توصیفی انداز میں مسکرا کر بولے ۔۔۔۔

"آج ہماری ھادیہ بیٹیا نے کھانا بنایا ہے "

"تبھی تو کہتی ہوں اسکے ہاتھ پیلے کردیتے ہیں "

"اماں بی یہ جب سے ھادیہ اپنی دوست کی شادی سے واپس آئی ہے ۔۔۔اس کی شادی کا خیال آپ کو زیادہ نہیں آنے لگا ۔۔۔۔

"جی سردار میری بھی خواہش ہے اپنی بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھوں "

"بابا سائیں یہ لیجیے پانی "ھادیہ نے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر اسے سردار دلاور بلوچ کے آگے بڑھایا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ گلاس میز پہ رکھ کر پیچھے ہوتی سردار دلاور بلوچ نے ھادیہ کی کلائی پکڑ لی ۔۔۔۔

ھادیہ نے اچنبھے سے انکی طرف دیکھا ۔۔۔

ان کی نظر ھادیہ کی مہندی پہ پڑی جو ابھی تک مٹی نہیں تھی ۔۔۔۔انہوں  نے دوسرے ہاتھ سے ھادیہ کی ہتھیلی کھولی۔۔۔

تو انکی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا۔۔۔۔

انہوں نے لال انگارہ آنکھوں سے ھادیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"کون ہے یہ ھاد "؟؟؟

ان کی بلند گرجدار آواز سے حویلی کے در و دیوار بھی تّھرا اُٹھے ۔۔۔۔۔

ھادیہ اور اماں بی زرد چہروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں ۔۔۔۔

اسلام وعلیکم ماموں جان ۔.!!!!

",وہ دراصل اماں بی ہمیشہ کہتی ہیں نا کہ ھادیہ کے دلہے کا نام ھاد ہوگا تو بس اسی لیے مذاق سے میں نے ھادیہ کی ہتھیلی پہ میں ھاد لکھ دیا "

امینہ کی بات پہ ھادیہ نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔

امینہ اور اماں بی نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"اماں بی کسی نا محرم مرد کا نام اپنی بیٹی کی ہتھیلی پہ لکھا دیکھ کر میرے خون کے ہر قطرے میں آگ سی لگ گئی ہے ۔سوالات کی بوچھاڑ میرے دماغ میں شعلوں کی طرح بھڑکنے لگے ہیں ۔ میں قطعی برداشت نہیں کر سکتا مذاق میں بھی اپنی بیٹی کا نام کسی غیر مرد کے ساتھ "

غصہ سے انکے اندر کا لاوا دہک اٹُھا ۔

"سردار "۔۔۔۔!!!!

"بچیاں ہیں انہیں معاف کردیں بس نادانی ہوگئی ان سے آئیندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا "

اماں بی نے سر جھکائے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔

انہوں نے آنکھیں بند کیے گہرا سانس لیا ۔۔۔۔

پھر کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"Any problem?"

یارم کمرے میں اپنی شال لینے آیا تو وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔۔۔۔یارم نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔

"جی ۔۔۔ "وہ چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔۔۔

"مجھے نا برو کی یاد آرہی ہے ۔۔۔۔ آپ پلیز میری ان سے فون پہ بات کروادیں ۔۔۔۔

میں ان سے پوچھ لیتی ہوں کہ وہ کب واپس آئیں گے ۔۔۔۔۔

اس کی خواہش پہ وارڈ روب کھولتے ہوئے یارم کے ہاتھ وہیں ساکت ہوئے ۔۔۔۔

"آپ کی فی الحال اس سے بات نہیں کروا سکتا "

کچھ سوچ کر یارم نے سپاٹ انداز میں کہا اور وارڈ روب سے خاکی رنگ کی شال نکال کر شانوں پہ پھیلائی ۔۔۔۔

"لیکن کیوں "؟

"آپ نے ہی کہا تھا کہ میرے برو  آپ کے دوست ہیں ۔۔۔۔کیا آپ کے پاس ان کا فون نمبر نہیں ہے۔ "؟

اس نے حیرانگی سے استفسار کیا۔۔۔۔

"ہے میرے پاس اس کا نمبر "

"لیکن جہاں وہ ہے ،وہ کال نہیں اٹھا سکتا"۔

یارم بلوچ نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔۔۔۔

",ایسی کون سی جگہ پہ چکے گئے ہیں برو جہاں سے وہ فون نہیں اٹھا سکتے ۔۔۔۔ ؟؟؟؟

"آپ۔۔۔۔مجھے دیں فون میں خود برو کو کال کرتی ہوں ۔۔ مجھے ان کا نمبر یاد ہے "

چاہت نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے ہتھیلی اسکے آگے کی ۔۔۔۔۔یارم نے فون آہنی پاکٹ سے نکال کر اسکے ہاتھ پہ رکھ دیا ۔۔۔۔

چاہت نے فون پکڑ کر آدم کا فون نمبر پریس کیا ۔۔۔۔

مگر فون سوئچ آف آرہا تھا ۔۔۔

اس نے جھنجھلا کر دوبارہ سے کال ملا کر فون کان سے لگایا ۔۔۔۔مگر پھر سے وہی جواب سننے کو ملا ۔۔۔۔

چاہت نے بے بسی سے یارم کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

یارم بلوچ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑا آرام سے اسکے چہرے کے تاثرات اور اس کی  کاروائی ملاحظہ فرما رہا تھا ۔۔۔۔

"برو۔۔۔ رو۔۔۔۔ واقعی فون نہیں اٹھا رہے ۔۔۔۔۔انکل آپ کچھ کریں نا .....پلیز ۔۔۔۔اس نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔۔

"پہلی تو یہ کہ میں آپ کا انکل نہیں ہوں ",

وہ ابرو اچکا کر سرد انداز میں بولا تو چاہت نے آنکھیں بڑی کر کہ اس کا بدلہ سرد رویہ دیکھا ۔۔۔۔ انکل کہنے پہ ۔۔۔۔۔

"ہمارا نکاح ہوا تھا نا امریکہ میں ؟؟؟؟

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔

"ج۔۔۔جی ۔۔۔۔ہوا تھا ۔۔۔۔

چاہت کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔ 

"تو پھر ؟؟؟؟

"آپ میری منکوحہ ۔۔۔۔مطلب میری بیوی ۔۔۔۔جسے انگلش میں وائف کہتے ہیں ۔۔۔۔۔اور آپ نے مذکر مؤنث تو پڑھے ہی ہوں گے ۔بیوی کا مذکر شوہر ۔۔۔۔مطلب ہزبینڈ ہوتا ہے ۔۔۔۔

تو ڈئیر وائف اس لحاظ سے میں آپ کا ہزبینڈ ہوا ۔۔۔۔اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس انکل لفظ استعمال اگر دوبارہ ہوا تو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا آپ کو ۔۔۔۔۔

وہ اس کی نیلی حیرت زدہ آنکھوں میں اپنی سرمئی آنکھیں گاڑھے چبھتے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔۔۔

تو چاہت کی مدھم چلتی ہوئے سانسیں خشک ہوئیں ۔۔۔

"ہمارا ریلشن ہزبینڈ اور وائف کا ہے تو اب یاد رکھیے گا "

وہ برفیلے تاثرات سجائے بولا ۔۔۔۔

"پتہ ہے آپ کو ۔۔۔؟؟؟؟.....اپنے چھوٹے بھائیوں کے سامنے مجھے کتنی سبکی کا سامنا کرنا پڑا آپ کے اس انکل کہنے کی وجہ سے "

"آئیندہ احتیاط کیجیے گا "

وہ شال کا ایک کونا اٹھا کر دوسرے شانے پہ زور سے پٹختے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔۔۔۔

"جی ۔۔۔وہ اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔اور کشمکش میں مبتلا اپنی مخروطی انگلیاں چٹخا رہی تھی ۔۔۔۔

"یہ آپ کا موبائل "....!

چاہت نے کچھ لمحوں بعد ہمت کیے یارم کا موبائل اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

"اسے رکھیں اپنے پاس ۔۔۔۔ابھی میں مصروف رہوں گا کچھ دیر باہر دستار بندی کی وجہ سے تب تک اسے اپنے پاس ہی رکھیے ۔۔۔۔

میں نے اس پہ ڈیٹا آن کر دیا ہے ۔۔۔۔آپ نے کچھ سرچ کر کہ پڑھنا ہے تو پڑھ لیجیے ۔یا کوئی گیمز وغیرہ کھیلنا چاہیں تو کھیل لیں ۔وقت گزر جائے گا ۔۔۔۔آپکی تنہائی کے خیال کی وجہ سے دے رہا ہوں ۔تاکہ آپ اپنا دماغ الٹی سیدھی سوچوں میں نہ لگائیں ۔۔۔۔۔"

وہ کہتے ہوئے کمرے باہر نکلنے لگا تو پھر سے دروزے پر رکا ۔۔۔۔اور پلٹ کر اسے دیکھا جو صوفے پہ بیٹھ چکی تھی ۔۔۔۔ مگر ابھی بھی گومگوں کی کیفیت میں مبتلا تھی۔۔۔۔۔

"اور ہاں ۔۔۔میری کوئی کال آئی تو اٹینڈ مت کیجیے گا "

چاہت نے بنا بولے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔

تو یارم بلوچ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

اس کے جاتے ہی چاہت کے سانس بحال ہوئے ۔۔۔۔

چاہت نے موبائل سکرین پہ دیکھا ۔۔۔۔

یارم بلوچ کی تصویر لگی تھی ۔۔۔۔۔

وجیہہ چہرہ،سرمئی آنکھیں اس میں سیاہ گاگلز کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں ، جینز اور سیاہ شرٹ میں ملبوس،پیشانی پہ سیاہ سلکی بال بکھرائے ۔۔۔۔جینز کی ایک پاکٹ میں تین انگلیاں پھنسائے اور دوسرے ہاتھ سے جیکٹ شانے کی پشت پہ پکڑے وہ مسکراتے ہوئے، بلاشبہ بہت شاندار لگ رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت کے دل نے پہلی بار اک بیٹ مس کی۔

اس نے موبائل کو الٹا کر صوفے پہ رکھ دیا ۔۔۔۔

اور گہرے سانس لے کر اپنے زوروں سے دھڑکتے ہوئے دل کو قابو کیا ۔۔۔۔

"یہ مجھے کیا ہو رہا ہے "؟

وہ خود اپنی ہی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ منہ میں خود سے بڑبڑائی ۔۔۔

پھر اس نے واپس موبائل اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔

وہ پھر سے مسکراتا ہوا اپنی زیر کردینے والی پرسنالٹی سمیت پورے طمطراق سے چکمتی ہوئی سکرین پہ براجمان تھا ۔۔۔۔

اس کا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔

اس نے آنکھیں پٹپٹا کر اسے پھر سے دیکھا ۔۔۔۔تو گلاب پنکھڑیوں پہ مدھم سی مسکراہٹ ابھر آئی ۔۔۔۔

اس نے سر جھٹک کر خود کو اس عجیب و غریب کیفیت سے آزاد کیا اور گوگل کھولا ۔۔۔۔

پھر سرچ کا آپشن ۔۔۔۔

اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کیا سرچ کرے ۔۔۔۔۔

اس نے واپس صوفے کی پشت سے سر ٹکایا ۔اور آنکھیں بند کیں ۔۔۔

کچھ دیر پہلے کی گئیں یارم بلوچ کی باتیں اسکے دماغ میں گردش کر رہی تھیں ۔۔۔۔

اچانک کسی سوچ کے تحت اس نے جھٹ آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔

اور سرچ آپشن میں ۔۔۔۔۔

Husband and wife relationship.

لکھ کر سرچ کیا ۔۔۔۔

پھر جو سب اسکی نظروں کے سامنے آیا ۔۔۔۔اس کی نیلی آنکھیں حیرت کے سمندر میں غوطے لگاتے کبھی ڈوبنے کبھی ابھرنے لگیں ۔۔۔۔۔

"اُف ۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔.!!!!

اس نے گہرے سانس لیتے ہوئے موبائل بند کر کہ ایک طرف رکھ دیا ۔۔۔۔

اور صوفے پہ موجود کشن اپنی آنکھوں پہ رکھے وہیں بے دم سی ہوکر لیٹ گئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"اماں بی کیا آپ بھی وہی سوچ رہی ہیں جو میں سوچ رہی ہوں "؟

ھادیہ نے اپنے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی اماں بی کی جانب دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"نہیں ھادیہ جو تم سوچ رہی ہو وہ میں سوچ نہیں سکتی ۔۔۔۔کیونکہ تم دل کی سنتی ہو ۔۔۔۔مگر میں دماغ سے کام لے رہی ہوں ۔۔۔۔

"میری سوچ میں میری ساری عمر کا تجربہ شامل ہے ۔۔۔۔جبکہ تمہاری سوچ بچکانہ ہے ابھی ۔۔۔۔جوان خون ہے جوش مار رہا ہے ۔۔۔۔

"اس کا مطلب اماں بی آپ جانتی ہیں کہ میرے دل میں کیا ہے اور میں کس بارے میں سوچ رہی ہوں "؟

اس نے اپنے قدم وہیں روکتے ہوئے انکی طرف دیکھ کر سوال کیا ۔۔۔۔

"ہاں میری جان میں جانتی ہوں کہ تم کیا سوچ رہی ہو "

انہوں نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا۔۔۔۔۔

"لیکن ھادیہ بیٹا تم جو سوچ رہی ہو وہ ناممکن ہے "

انہوں نے گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا  ۔۔۔

"لیکن کیوں اماں بی ؟"

"بیٹا تمہاری سوچ ان دو قبیلوں کے درمیان دشمنی آگ کو بُجھا نہیں سکتی ۔۔۔۔

"سردار دلاور بلوچ اور سردار فلک بلوچ کی دشمنی کو ختم کرنا ناممکن ہے ۔۔۔۔"

"تماری محبت سے ان کی سالوں کی نفرت مٹ نہیں سکتی ۔۔۔۔"

"لیکن آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں یہ سوچ رہی ہوں اماں بی ۔۔۔۔"؟

"بیٹا میں نے بے شک تمہیں پیدا نہیں کیا مگر اتنی سے تھی تم جب تمہیں اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ۔۔۔تمہیں میں نے اپنی بیٹی کی طرح پالا ہے ۔اور ایک ماں اپنے بچے کی سب باتیں بنا کہے سن بھی لیتی ہے اور سمجھ بھی لیتی ہے "

"لیکن ھادیہ کچھ دنوں سے میں ڈرنے لگی ہوں "

لیکن کیوں اماں بی "

"ھادیہ ۔۔۔ایک ماں اپنی بیٹی کی خوشی کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی بھی چاہتی ہے ۔۔۔۔

"میں اپنی آنکھوں کے سامنے تمہیں کچھ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ پاؤں گی ۔۔۔۔

"اماں بی یاد رکھیے گا ۔۔۔ایک دن ایسا آئے گا ۔۔۔۔جب وہی ہوگا..... جیسا میں سوچ رہی ہوں "

"آؤ اندر چلیں شاہ صاحب سے ملنے ۔۔۔۔انہوں نے دربار کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

"آپ چلیے اماں بی میں آتی ہوں امینہ کے ساتھ زرا دربار کا بیرونی حصہ دیکھ لوں "

"ٹھیک ہے زیادہ دور مت نکل جانا مجھے بھی شاہ صاحب سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔میں کر کی آتی ہوں "

اماں بی کہتی ہوئی دربار کی سیڑھیوں چڑھنے لگیں ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم شاہ صاحب ؟

کیسے ہیں آپ ؟.

انہوں نے انکی خیریت دریافت کی۔۔۔۔

"وعلیکم السلام !

"شکر ہے اس پروردگار کا "

انہوں نے عاجزانہ انداز میں جوابا کہا ۔۔۔

کچھ رسمی گفتگو کے بعد اماں بی اصل مدعے کی بات کی طرف آئیں ۔۔۔ 

"شاہ صاحب ۔۔۔۔۔ھادیہ کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں ۔۔۔ وہ نجانے کن راہوں پہ چل نکلی ہے "

"یہی کی وہ ھاد بلوچ کی محبت میں مبتلا ہوچکی ہے "

انہوں نے گویا اماں بی کے سر پر دھماکہ کیا ۔۔۔۔

"جی ۔۔۔شاہ صاحب ۔۔۔۔

"لیکن سردار دلاور بلوچ اور سردار فلک بلوچ ان دونوں کے رشتے کو کبھی قبول نہیں کریں گے "

"ہاں جانتا ہوں میں "

"امینہ ۔۔۔۔!!!!

"اماں بی شاہ صاحب سے کیا بات کرنے آئیں ہوں گی "؟

"کہیں ھاد کے بارے میں بات تو نہیں کرنے آئیں وہ "؟

امینہ نے اپنے تئیں اندازہ لگایا ۔۔۔۔

"ہاں ہوسکتا ہے "

ھادیہ سادہ انداز میں بولی ۔

سروز کی تاروں نے دھن چھیڑی ۔۔۔۔۔

ھادیہ کو اس کے سروز کی تاروں سے آشنا سی دھن نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔

"امینہ یہ تو وہی غزل کی دھن ہے جو اس نے میں نے اور ھاد نے مکمل کی تھی ۔۔۔۔۔

ھادیہ اس سروز کی دھن کے تعاقب میں قدم اٹھانے لگی ۔۔۔ 

وہ اس اوڑھ تیزی سے بڑھنے لگی جہاں سے اسے یہ دھن سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔

"ھادیہ رک جا ۔۔۔۔!!!  

امینہ نے اسے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔۔۔

مگر ھادیہ کے کانوں میں تو اس دلکش دھن کے سوا اور کچھ سنائی کی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔وہ اسکے طلسم میں ڈوبی بس دوڑتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔

گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو

کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو

میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں

جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو

کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں

یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو

قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے

محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو

یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا

کہیں ہوا کا ہی اس نے نہ روپ دھارا ہو

افق تو کیا ہے در کہکشاں بھی چھو آئیں

مسافروں کو اگر چاند کا اشارا ہو،

میں اپنے حصے کے سکھ جس کے نام کر ڈالوں

کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو

اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے

وہ چاہے نظم کا ٹکڑا کہ نثر پارہ ہو

 ہاں وہ وہی تھا ۔۔۔ ھادیہ اسے جی بھر کر دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کو سیراب کرنے لگی ۔۔۔۔

وہ تپتے ہوئے صحرا میں ایک ٹیلے پہ بیٹھا سر جھکائے سروز بجا رہا تھا ۔۔۔۔

"ھادیہ ۔۔۔۔!!!!

کسی کی کرخت آواز پہ ھادیہ جو ھاد کو سامنے دیکھ کر اپنے ہوش و حواس بھلا بیٹھی تھی اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔۔

وہاں شمشیر بلوچ اپنے جلال سمیت کھڑا تھا ۔۔۔

"بیٹا شمشیر ۔۔۔۔۔!!!!

"کون ہے یہ جو اتنا میٹھا سروز بجا رہا ہے ؟"

اماں بی ،امینہ اور شاہ صاحب تینوں وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔

دور بیٹھے ھاد کو دیکھ کر اماں بی نے شمشیر بلوچ سے استفسار کیا ۔۔۔۔

ھاد ابھی بھی کسی سوچ میں گم اپنے سروز کی دھن بجا رہا تھا ۔۔۔۔ 

"مجھے کیا پتہ اماں بی ...!

"ہم سے پوچھیں کہ بندوق سے نکلنے والی گولیوں کی ترتڑاہٹ ،،،کیسی ہوتی ہے ۔۔۔۔

اس موسیقی کی آواز سے میرا 

  کوئی لینا دینا نہیں "

"چلیں آئیں گھر چلتے ہیں "

وہ ان سب کو اپنی گاڑی میں بٹھائے واپسی کے راستے پہ گامزن ہو گیا ۔۔۔۔۔

ھادیہ اسے گاڑی کے سائیڈ مرر پیچھے چھوٹتا ہوا دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

گاوں کے لوگوں کی کثیر تعداد اس وقت وہاں موجود اپنے نئے سردار کی دستار بندی کی رسم کے لیے  ۔ان میں زیادہ تر بلوچ لوگ شامل تھے۔۔۔اس صحرا میں اس وقت گرمی اپنے جوبن پہ تھی ،مگر وہاں آئے لوگوں کا شوق قابل دید تھا ۔۔۔۔اہنے سردار اے انکی محبت کا ثبوت تھا ۔۔۔۔جس طرح سردار فلک بلوچ نے اس علاقے کی ذمہ داری بخوبی نبھائی تھی ۔اسی طرح کی امید وہ اپنے نئے سردار یارم بلوچ سے بھی رکھتے تھے ۔۔۔۔تبھی جوق در جوق شامل ہوئے تھے ۔۔۔۔

 آج سردار فلک بلوچ کی برسوں پرانی  دلی مراد پوری ہونے والی ہو۔اور انکے برابر میں ان کا بیٹا آج انکی جگہ پہ  اپنی شان و شوکت سمیت براجمان تھا جس کے لئے آج یہ محفل سجائی گئی تھی۔سردار فلک بلوچ کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی جبکہ ۔۔۔۔۔سردار یارم بلوچ سپاٹ چہرہ لیے، سنجیدہ سا شلوار قمیض میں ملبوس شانوں پہ شال اوڑھے ،،،، سر پر دستار پہنے ،اور سرمئی آنکھوں میں سرخی مائل ڈورے لیے جیسے ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا ۔۔۔۔۔گھنی مونچھوں تلے عنابی لب باہم پیوست تھے ،چہرے پہ ہلکی سی بئیرڈ اس کی وجاہت میں مزید اضافہ کر رہی تھی ۔وہ چھ فٹ سے نکلتے ہوئے قد کا شاندار انسان آج خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا پھر اپنے والد فلک بلوچ کے سامنے تھوڑا نیچے جھکا تو انہوں نے اس کے سر پر خاندانی جدی پشتی دستار سجاتے محبت بھرے انداز میں اسکے چوڑے شانے پر تھپکی دی ۔وہ ان کا غرور تھا ۔۔۔۔

دستار سر پہ سجتے ہی لوگوں کی مبارکباد کی آوازیں اسکے کانوں میں سنائی دینے لگیں ۔۔۔

"بیٹا اب کو ہاتھ ہلاکر مطمئن کرو "سردار فلک بلوچ نے اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں کہا ۔۔۔تو

اس نے  زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے سامنے موجود تمام لوگوں کو انکی  محبت و عقیدت کا جواب ہاتھ ہلاکر کردیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ کا صدقہ کیا جا رہا تھا.. جبکہ وہ سر جھکائے بیزاری سے بیٹھا تھا ۔۔۔۔ 

لوگ اس سے مل رہے تھے  

اپنے نئے سردار کو مبارکباد دے رہے لیکن وہ خاموش تھا ۔۔۔۔

دن ڈھل گیا سب ہی وہاں سے لوٹ گئے ۔۔۔۔

اب وہاں صرف سردار فلک بلوچ اور سردار یارم بلوچ ہی رہ گئے تھے ۔۔۔۔۔

"اپنے بابا سائیں کے فیصلے کی وجہ سے ناراض ہو "؟

انہوں نے یارم کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

یارم خاموش رہا ۔۔۔۔

"یارم میں نہیں جانتا میری کتنی زندگی رہ گئی ہے ۔میں تو کیا ۔۔۔یہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ اگلا سانس لے بھی پائے گا یا نہیں ۔۔۔۔

"میں چاہتا ہوں ہمارے اس علاقے کو تم جیسا پڑھا لکھا باوقار سردار ملے جو ان کے لیے اچھے فیصلے کے سکے ۔۔۔۔

میرا مان ۔۔۔میرا غرور ہوتم ۔۔۔۔

یارم ۔۔۔۔!!! 

"میں نے سوچا کہ ۔۔۔۔اس گاؤں کے ہزاروں لوگوں کی خواہشات  پوری ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔لیکن اس کہ لیے تمہیں اپنی خواہشات کی قربانی دینی پڑے گی۔۔۔۔

"میں نے سوچا یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہوگا ۔۔۔۔

"کیا ہوا جو میرے ایک بیٹے کی خواہشات داؤ پہ لگ جائیں ۔۔۔۔۔لیکن اسکے بدلے ۔۔۔۔

دیکھو کتنے لوگوں کی خواہشات پوری ہوجائیں گی ۔۔۔۔جنہیں تم جیسا سردار ملے گا ۔۔۔۔

وہ فخر سے سینہ چوڑا کیے بولے ۔۔۔۔

"تم کرو گے نا ہمارے گاؤں والوں کے لیے کام ۔۔۔انہیں تمام سہولیات فراہم کرنے کی سکت رکھتے ہو ۔دماغ رکھتے ہو ،تو پھر اپنے بابا سائیں کا یہ خواب پورا نہیں کرو گے اس علاقے کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے ۔۔۔۔۔

انہوں نے مان بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں "

انکی باتیں سن کر یارم بلوچ کے لبوں کا قفل ٹوٹا ۔۔۔۔ تو اس نے انکی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔

فلک بلوچ کے ُبجھے ہوئے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔

"میں بہت خوش ہوں آج یارم ۔۔۔۔۔اب میں مر بھی جاؤں تو کوئی غم نہیں ۔۔۔۔بس اتنا بتادو کہ اپنے بابا سائیں سے ناراض تو نہیں ۔۔۔۔"؟

ورنہ مرنا مشکل ہو جائے گا "

وہ اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولے ۔۔۔۔

"بابا سائیں ایسی فضول باتیں مت کیجیے ۔۔۔ ورنہ میں سچ میں ناراض ہوجاوں گا "

یارم بلوچ نے چہرے پر خفگی لائے کہا ۔۔۔۔

سردار فلک بلوچ نے مسکرا کر اسے گلے سے لگایا ۔۔۔۔تو یارم نے بھی ان کے گرد بازو باندھ لیے ۔۔۔۔۔

"I love you Baba Saien"

اس نے محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"شاہ صاحب آپ "؟

ھاد بلوچ جو سرجھکائے ہوئے سروز بجا رہا تھا اس کی نظر شاہ صاحب کے ننگے پاؤں پہ پڑی تو سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔۔۔۔اور سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"ہاں میں ۔۔۔۔۔"

صحرا میں تیز گرم لو چلنے لگی ۔۔۔اور ریت اور مٹی اڑنے لگی ۔۔۔۔۔

"شاہ صاحب ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے بہت بڑا طوفان آنے والا ہے ۔۔۔۔؟"ھاد نے نظریں دور دور تک نظر آتے ہوئے صحرا کی جانب دوڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

"اک چھوٹا سا طوفان آیا تھا مگر تم اس سے بے خبر رہے ۔۔۔۔

ابھی ایک اور بہت بڑا طوفان آنے والا ہے ۔۔۔۔نجانے کیسے سامنا کرو گے تم اس طوفان کا ۔۔۔۔۔"؟

انہوں نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا تو ھاد بلوچ نے نا سمجھی سے انکی طرف دیکھا ۔۔۔

"ھاد آج تمہارے سروز کی دھن میں ھادیہ کی غزل سنی ہے اس کا کیا مطلب سمجھوں میں ؟؟؟

"مطلب تو آپ جان ہی چکے ہوں گے۔۔۔شاہ صاحب ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔مگر میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں اس کی سچائی "

"میرا سچ ھادیہ کے علاؤہ کچھ نہیں "

اس نے صاف گوئی سے کام لیا ۔۔۔۔

"اور ھادیہ کیا کہتی ہے "؟

انہوں نے تسبیح کے دانے کو انگلی میں روک کر سوال کیا ۔۔۔۔

"اس کا سچ بھی صرف ھاد بلوچ ہے "

وہ اٹل انداز میں بولا ۔۔۔

"تم دونوں نے جو فیصلہ لیا ہے یہ فیصلہ آسان نہیں ہے ۔۔۔اس راستے میں بہت سی دشواریاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سی کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا تم دونوں کو "

"مجھے یقین ہے ہماری چاہت ان نفرت کی دیواروں کا سینہ چیر دے گی ۔۔۔"

"میں آج ہی بابا سائیں سے سردار دلاور بلوچ کے گھر جاکر  ھادیہ کا رشتہ مانگنے کے لیے بات کرتا ہوں "

ھاد نے اپنا فیصلہ شاہ صاحب کو بتایا پھر واپسی کے راستے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"اماں سائیں مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے "

سردار شمشیر بلوچ نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔

"کہو بیٹے کیا بات ہے "؟

انہوں نے محبت سے چور آواز میں کہا ۔۔۔۔

"اماں سائیں ہر جوان بیٹے کی ماں کو اپنے گھر میں بہو لانے کی جلدی ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں اپنی بہو کو سونپ کر خود آرام کے مزے چکھے ۔۔۔۔

"کیا آپکو کوئی ایسی فکر لاحق نہیں "؟

اس نے ہلکا سا مسکرا کر پوچھا ۔۔۔۔

"کیوں میرے شیر بیٹے نے میرے لیے کوئی بہو تو نہیں تلاش کرلی ۔۔۔جو آج اپنی شادی کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے "...

"بس کچھ ایسا ہی سمجھیے ۔۔۔۔کرلی ہے تلاش ۔۔۔۔

وہ بندوق شولڈر سے اتار کر سامنے میز پہ رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"کون ہے وہ زرا مجھے بھی تو پتہ چلے ۔۔۔۔

انہوں اشتیاق سے پوچھا۔

"آپ جانتی ہیں اسے "

"لو بھلا میں کیسے جانوں گی اس کو "؟

"آپ ماموں جان کے گھر جائیں میرا رشتہ لے کر "

"سچ ۔۔۔۔!

وہ حیرانی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں بولیں ۔۔۔

"ہممم ۔۔اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تم نے تو میرے دل کی خواہش پوری کردی ۔۔۔۔"

"میں آج ہی بھائی سا کے پاس حویلی میں جاتی ہوں ان سے ھادیہ کا ہاتھ مانگنے مجھے پوری امید ہے کہ بھائی سا مجھے کبھی بھی انکار نہیں کریں گے "

وہ مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے کپڑے تیار کرنے لگیں جانے کے لیے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ایک گلاس پانی لادیں "

آتش بلوچ سارا دن گاؤں میں گھومتا رہا اپنے بزنس شروع کرنے کے لیے کسی موزوں جگہ کا انتخاب کرنے ۔۔۔ابھی گرمی سے نڈھال ہوئے حویلی واپس آیا تو سامنے سے گزرتی شازیہ سے پانی لانے کو کہا ۔۔۔۔

"جی چھوٹے سردار "

وہ کہتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔

"سسی ۔۔۔او ۔۔۔سسی ۔۔۔۔!!!

"وڈی سردارنی نے مجھے چائے بنا کر لانے کو کہا ہے میں انکے لیے چائے بنانے لگی ہوں تو ایسا کر باہر چھوٹے سرکار ہیں انہیں پانی دے کر آ "

شازیہ نے چولہاجلا کر اس پہ چائے کا پانی چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

وہ جو شام کے کھانے کے لیے چاول چننے میں مصروف تھی شازیہ کی بات سن کر چونک گئی۔۔۔دل زوروں سے دھڑکنے لگا۔

"کہاں کھو گئی سسی؟"

"جا بھی چھوٹے سردار انتظار کر رہے ہوں گے "

وہ فریج کھول کر اس میں گلاس میں پانی ڈال کر باہر کی طرف بڑھی ۔۔۔۔اس کے قدم واضح طور پر کپکپا رہے تھے ۔۔۔۔اس کے ڈگمگاتے  ہوئے قدم آتش بلوچ کے پاس جا کر تھم گئے ۔۔۔

"چھوٹے سرکار ...!!!

ودھیرے سے بولی ۔۔۔اسکی آواز میں صاف لرزش محسوس کی جاسکتی تھی ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔

آتش بلوچ جو آنکھیں موندے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے تھا ۔۔۔۔کسی کے آواز قریب سے سن کر آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔

"کیا مسلہ ہے "؟

وہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔۔۔اس کے چہرے پہ تھکن نمایاں تھی ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔چھوٹے سرکار ۔۔۔پا ۔پا ۔پانی ۔۔۔

سسی نے چہرے کو سر پہ لیے ہوئے پلو سے ڈھانپتے ہوئے  پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا ۔۔۔تو آتش بلوچ نے جیسے ہی اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑنا چاہا اس کی پوریں زرا سی سسی کی انگلیوں سے مس ہوئیں ۔۔۔سسی کے وجود میں جیسے برقی رو دوڑ گئی ۔۔۔۔

"کون ہو تم ؟"

آتش بلوچ نے اس سے پوچھتے ہوئے  گلاس لیے اپنے لبوں سے لگایا ۔۔۔۔

سسی کی بھوری کانچ سی  آنکھوں میں حیرت در آئی ۔۔۔

"ہائے ربا ۔۔۔انہیں تو یاد ہی نہیں کچھ بھی "

وہ سر جھکائے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے خودی سے الجھ رہی تھی ۔۔۔۔

"وہ میں ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ سسی کچھ بتاتی ۔۔۔۔

"ایک کپ چائے لے آئیے ۔۔۔۔

وہ گلاس سامنے رکھی میز پہ رکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

سسی کا کب سے رکا سانس بحال ہوا ۔۔۔اس نے واپسی کے لیے قدم اٹھائے ۔۔۔۔

"رکیے ۔۔۔سسی نے ابھی بمشکل چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ اس کی بھاری سحر انگیز آواز نے  مانوں زنجیر باندھے اس کے قدم روک دئیے ۔۔۔۔

سسی کا معمول پہ آیا دل پھر سے آپے سے باہر ہوا ۔۔۔

"چائے کے ساتھ ماں سا سے پوچھ کر ایک سردرد کی ٹیبلٹ بھی لے آئیے گا ۔۔۔۔اس نے بند آنکھوں سے ہی کہا ۔۔۔۔

اس کا سینے میں مقید ننھا سا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔

"ٹیبلٹ لفظ اسی کے سر کہ اوپر سے گزر گیا ۔۔۔مگر سردر سے اس نے اندازہ لگایا کہ وہ ضرور دوا کی ہی بات کر رہا تھا ۔۔۔۔

"جی سرکار ۔۔۔۔

سسی نے دیکھا اسکے پاوں میں چکمتے ہوئے سیاہ جوتے تھے ۔۔۔۔اسے جرابیں اور شوز پہنے دیکھ سسی کو خیال آیا کہ اسے گرمی نا لگ رہی ہو ۔۔۔وہ اپنا گھاگھرا سنبھال کر نیچے فرش پہ بیٹھی ۔۔۔۔اور آتش کے پاؤں میں سے جوتے نکالنے لگی۔۔۔

آتش بلوچ کو اپنے پاؤں پہ سرسراہٹ محسوس ہوئی تو اس نے اپنی طلسم زدہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟؟؟

"چھوڑئیے اسے ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے فورا سے بیشتر اپنے پاؤں پیچھے کیے ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔وہ میں آپکے جوتے ۔۔۔

اس نے اپنے تئیں اپنی صفائی پیش کرنی چاہی ۔۔۔

"مجھے بالکل بھی پسند نہیں کسی بھی عورت کا مرد کے پیروں کو ہاتھ لگانا ۔۔۔۔جائیے آپ یہاں سے "

سسی کو تو خبر ہی نہیں تھی کہ وہ اسے اسکی حرکت پہ سخت سست سنا رہا ہے ۔۔۔

اس کی نظریں تو بس اس شہزادے کے چہرے پہ تھیں ۔۔۔وہ خود کو بہت خوش قسمت تصور کر رہی تھی کہ زندگی میں کچھ پل کے لیے اس نے اس سے بات تو کی "

وہ پلو منہ میں دبائے ہوئے کچن کی طرف بھاگنے کے انداز میں چلی گئی ۔۔۔۔

آتش بلوچ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے پھر سے آنکھیں موند کر اپنی پیشانی مسلنے لگا ۔۔۔سردر کی وجہ سے ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم بھائی سا ۔۔۔!!!

"وعلیکم السلام کیسی ہے میری بہنا "

انہوں نے زینب کو سامنے دیکھ کر فرط مسرت سے لبریز لہجے میں استفسار کیا ۔۔۔۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں بھائی سا ۔۔۔۔

"آج آپ سے کسی خاص مقصد سے ملنے آئی ہوں "

"تو پھر آرام سے بیٹھ کر بات کرو "

سردار دلاور بلوچ نے انہیں سامنے رکھے صوفے پہ بیٹھنے کی پیشکش کی۔۔۔۔

"بہت شکریہ بھائی سا ۔۔

",تمہارا اپنا ہی گھر ہے ",

وہ مسکرا کر بولے ۔۔۔۔

"آج میں آپ سے اپنی خوشی مانگنے آئی ہوں "

انہوں نے بنا لگے لپٹے سیدھا سیدھا بول دیا ۔۔۔

"زینب میرے پاس میری جتنی خوشیاں ہے سب میری بہن پہ قربان "

"بھائی سا یہ خوشیاں مجھے اپنے لیے نہیں اپنے بیٹے شمشیر بلوچ کے لیے چاہیے "

"زینب میں کچھ سمجھا نہیں تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟

انہوں نے حیرانگی سے استفسار کیا۔۔۔

"بھائی سا میں اپنے بیٹے شمشیر کے لیے ھادیہ کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں "

"امینہ تو آگئی ۔۔۔میں تیرا ہی انتظار کر رہی تھی "

ھادیہ نے امینہ کو اپنے کمرے میں آتے ہوئے دیکھا تو فورا بستر سے اٹھ کر بولی ۔۔۔۔

"ہمممم ۔۔۔۔ماں سا ساتھ آئی ابھی ۔۔۔۔

"امینہ اماں بی بتا رہی تھیں کہ شاہ صاحب اور ھاد کی بات ہوئی ہے ۔۔۔اب جلد کی ھاد بلوچ اپنے والد کو ہمارے گھر بھیجے گا میرا ہاتھ مانگنے کے لیے "

"اچھا یہ تو بہت خوشی کی خبر سنائی تو نے ۔۔۔۔

اب تیرا اور ھاد بلوچ کا بیاہ ہوگا ۔۔۔۔ہائے مجھے بھی کوئی ویسا ہی خوبرو انسان مل جائے تیری شادی میں تو مزہ ہی آجائیے۔۔۔۔لگے ہاتھ دو کام نبٹ جائیں گے تو بھی پار لگے اور میں بھی کسی کنارے پہنچ جاؤں ",

"بڑی جلدی ہے تجھے شادی کی ۔۔۔ "ھادیہ نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا ۔۔۔۔

"تجھے بھی تو اس ھاد بلوچ سے شادی کی جلدی ہے "

وہ دوبدو بولی۔۔۔۔

"آہستہ بول امینہ کسی نے ھاد کا نام سن لیا تو وقت سے پہلے کی قیامت آ جائے گی ۔۔۔

وہ اسے گھورتے ہوئے ڈپنٹنے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"ویسے یہ بتا۔۔۔تیری ماں سا  میرے بابا سائیں سے کیا باتیں کر رہی ہیں "

ھادیہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"پتہ نہیں انہوں نے مجھے تو کچھ نہیں بتایا بس اتنا ہی کہا کہ انہوں نے ماموں جان سے کوئی ضروری بات کرنی ہے "

"زینب شمشیر بلوچ سے زیادہ مجھے کوئی عزیز نہیں "

"اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ شمشیر بلوچ میری ھادیہ کو بہت خوش رکھے گا ۔۔۔ 

یہ سنتے ہی زینب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم !

ھادیہ اور امینہ دونوں ایک ساتھ آئیں ۔۔۔

"وعلیکم السلام میری جان ...!

"کیا بات ہے پھپھی سا آج آپ بہت خوش دکھائی دے رہی ہیں ۔۔۔"؟

"ہاں آج میں بہت خوش ہوں ۔۔۔کیونکہ میرے بھائی سا نے خوشیوں سے میری جھولی بھر دی ہے "

"واہ بابا سائیں آپ نے بہت اچھا کیا ۔۔۔آپ نے ہی کہا تھا نا کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں ۔۔۔ 

"دیکھا زینب ۔۔۔۔میری بیٹی کتنی سمجھدار ہے ....؟

"جی بھائی سا بالکل ٹھیک کہا آپ نے"

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

شکر ہے اماں سا تیری کھانسی ٹھیک ہوئی رات تجھے اتنا تیز بخار تھا ساری رات تجھے گھڑے کے پانی سے پٹیاں کرتے رہی ۔۔  

ورنہ مارا  تو دل بند ہو رہا تھا۔۔اس کے انداز میں اپنی اماں سائیں کے لیے محبت کی جھلک نمایاں تھی ۔۔۔

"چل اب اٹھ کر دوا لے "

وہ اسکی طرف آئی ۔۔۔

"کب تو منے یہ منحوس کڑوی دوا کھلاتی رہے گی۔۔۔زبیدہ نے نحیف نقاہت زدہ آواز میں کہا..  

"جب تک ماری ماں سا پہلے جیسی نہیں ہوجاتی ۔۔۔

مجھے نا میری اماں سا ڈانٹتی ،حکم چلاتی اور نصیحت کرتی اچھی لاگے ہے ۔

جلدی سے ٹھیک ہوجا نا ہمارے سے گھر کے اور حویلی دونوں کے کام کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے ۔۔  ۔وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔۔۔

"اماں سائیں آپ کو پتہ ہے ۔۔۔ماری سکھی امینہ کی شادی طے ہوگئی ہے اپنے چاچے کے بیٹے سے ۔۔۔۔جو شہر رہتا ہے بہت خوش ہے آج اسکی مہندی ہے ۔۔۔۔

"اچھا تو پھر تو چلی جانا ۔۔۔

"نہیں ماں سا ۔۔۔۔تھارے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا ۔۔۔وہ انکے پاؤں دباتے ہوئے بولی ۔۔۔

"اور اگر تھاری ماں سا تجھے چھوڑ کر چلی گئی تو کیا کرے گی ۔۔۔۔انہوں نے کہا تو سسی نے ان کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں مزید بولنے سے روک دیا ۔۔  

"نا ہی ماں سا ایسا مت کہہ۔۔۔

"مارا ۔۔۔تھارے سوا اور ہے کون ؟؟؟!

"نا کیا کر ایسی دل دکھانے والی باتیں ۔۔۔ 

"اللہ کرے میری ماں سا کو میری بھی عمر لگ جاوے "

"بس تجھے بیاہ دوں ایک بار تو پھر مر بھی جاؤں تو کوئی غم نا ہوے گا "وہ نقاہت زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔

"ابھی ناہی کرنا مجھے کوئی بیاہ ۔۔۔۔پہلے تو بھلی ہوجا ۔۔۔۔

"اب بستر سے جلدی اٹھ ماں سا ۔۔۔تھارے کو پہلے سا چلتے پھرتے دیکھنا ہے مارے کو "

زبیدہ اسکے نروٹھے انداز پہ نقاہت کے باوجود مسکرانے لگی ۔۔۔۔ 

"ماری سسی ۔۔۔!!!!

انہوں نے اس کی پیشانی چوم لی ۔۔۔ 

سسی نے انکے گرد بازوں حمائل کرلیے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ماں سا آگئیں آپ ؟

وہ ان کے کمرے کے دروازے پر کھڑا سوالیہ انداز میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔

"ہاں تھوڑی دیر پہلے ہی واپس آئی ہوں "

"ماں سا "۔۔۔!!!

"ہاں کیا بات ہے ؟؟؟

"ماں سا آپ کو اچھی طرح پتہ ہے میں کیا پوچھنا چاہتا ہوں "

"مجھے نہیں پتہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو ۔۔۔۔

وہ مبہم سا مسکرا کر بولیں ۔۔۔

"ماں سا آپ ماموں سا کے گھر گئیں تھیں نا ؟؟؟

"ہاں شمشیر میں وہیں گئی تھی ۔۔۔۔

"تو پھر ؟؟؟؟

"کیا کہا انہوں نے ؟؟؟.

"کیا کہنا تھا بھائی سا نے بس ایک دوسرے کا حال پوچھا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔۔۔۔

"ماں سا آپ زرا نظریں ملا کر مجھے بتائیے کے انہوں نے کیا جواب دیا ۔۔۔ 

اس سے مزید صبر نہیں ہوا تو وہ ان کا رخ اپنی طرف موڑتے بولا ۔۔۔۔

"وہی کہا جو تیرے دل میں تھا ۔۔۔۔

"ماں سا ۔۔۔۔!! 

وہ خوشی سے جھوم کر انکے گلے لگا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ خوفزدہ ،ہراساں سی گھنے جنگلوں میں اندھا دھند بھاگ رہی تھی ،،،،

وہ مسلسل بھاگتی ہوئے تھکنے لگی تھی ، اب وہ ہانپتے ہوئے گہرے سانس لینے لگی۔

وہ گھنے جنگلات میں کھو گئی تھی اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی کہ کدھر جائے ۔۔۔جنگل ویران و سنسان تھا ،درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی ،دور سے جنگلی جانوروں کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔

تبھی وہ بھاگتے ہوئے کسی شخص کے چوڑے سینے سے ٹکرائی ۔۔۔۔یکلخت وہ کسی کی محفوظ پناہوں میں سما گئی،،،

اس نے چہرہ اٹھا کر دیکھا چاند کی روشنی سے اس مہرباں کا چہرہ واضح دکھائی دے رہا تھا ۔

اسکی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے ساکت رہ گئیں۔۔۔۔

اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔اس کے بھائی آدم  کا خون سے لت پت وجود بے جان پڑا تھا ،اور اس کے قریب اسکا خون بکھرا پڑا تھا ۔۔۔۔

"نہیں "۔۔۔۔۔!!!!!

وہ کرب زدہ چیخ مارے اس مہربان اجنبی کے ساتھ لگے بے تحاشا دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگی ۔۔۔۔ 

"نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔!!!!

یکدم وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی ،،،

کمرے میں اس وقت گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا ،اس نے سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ کو جلانے کی بجائے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپائے روتے ہوئے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔۔۔اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔"وہ ایک بھیانک خواب تھا ۔۔ برو کو کچھ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔"اس نے خودکلامی کی ۔۔۔۔ 

اس کی سانسیں مدھم بے ترتیب اور بدن پسینے سے شرابور تھا،

اپنے بھائی کو اس حالت میں۔ دیکھ کر اسکی روح تک جھنجھجنا اٹھی تھی ۔وہ گہرے سانس لیتے ہوئے ابھی تک خوف محسوس کر رہی تھی۔اس نے کپکپاتا ہوا ہاتھ بڑھایا اور سائیڈ لیمپ آن کیا ،

کمرے میں مدھم سی روشنی پھیل گئی ۔۔۔۔

اس کی نم آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں ،اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی سے بھرا ہوا جگ دیکھا تو ۔۔۔اس نے اپنے خشک حلق میں ایک گلاس میں پانی بھر کر لرزتے ہاتھوں سے اپنے اندر انڈیلا ۔۔۔۔

انجانے میں کتنا ہی پانی اس کی شرٹ کے گلے کو بھگو گیا اسے خبر ہی نہیں ہوئی وہ ابھی تک اسی خواب کی کیفیت کے زیر اثر خوفزدہ تھی ۔۔۔

اس نے نظر اٹھا کر سامنے لگے دیورا گیر کلاک کی طرف دیکھا۔۔۔جو رات کا ایک بجا رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے بستر پہ نگاہ ڈالی جو خالی تھا ۔۔۔۔

"انہوں نے تو کہا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہیں گے "

وہ سہمی ہوئی ہرنی کے مانند خالی کمرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔کمفرٹر کو خود سے پیچھے پھینک کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور دروازہ کھول کر باہر جانے لگی اس کی تلاش میں ۔۔۔۔مگر زرش بلوچ کا سوچ کر اس کے بڑھتے ہوئے قدم وہیں رک گئے۔۔۔۔اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو ڈانٹیں گی ۔۔۔۔

وہ وہیں دیوار کے ساتھ لگے نیچے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔اور گھٹنوں میں سر دئیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔

سردار یارم بلوچ جو سٹڈی روم میں تھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا ساتھ ساتھ سیگریٹ نوشی کا کام انجام دے رہا تھا فارغ ہوکر جیسے ہی اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آیا۔۔۔۔دیوار کے ساتھ لگی گھٹنوں پر سر رکھ کر سسکتی ہوئی چاہت پہ اس نے نظر ڈالی ۔۔۔۔ تو وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔۔۔

اس کے سنہرے گیسو اس کے چہرے کو پوری طرح چھپائے ہوئے تھے ،اس کی حالت پہ اسے تشویش لاحق ہوئی ۔۔۔وہ بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے اسکی سمت بڑھا ۔۔۔۔

"چاہت۔۔۔۔۔!!!!!

یارم بلوچ نے اسکے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اسے آہستگی سے پکارا ۔۔۔ 

چاہت چونک کر سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔

بھیگی بھیگی نیلی آنکھوں میں وحشت ہی وحشت دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔ 

یارم بلوچ صورت حال جاننے کی کوشش میں ہی تھا کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی اس کے ساتھ لگ گئی تھی ۔۔۔

یارم بلوچ اس صورت حال کے لیے قطعہ تیار نہیں تھا ۔اسے لگا جیسے کوئی دہکتا ہوا انگارہ اس کے ساتھ آلگا ہو ۔۔۔وہ بخار میں پوری طرح پھنک رہی تھی ۔۔۔

وہ اسکے چوڑے شانے سے لگی اپنے گرم آنسووں سے اسکی شرٹ بھگو رہی تھی ۔۔۔۔

اس کا نرم گرم وجود بری طرح کپکپا رہا تھا۔۔۔۔یارم نے بخوبی محسوس کیا ۔۔۔

وہ بلا اختیار ہی اسکے سنہری ریشمی گیسووں کو سہلانے لگا ۔۔۔

"م۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔ڈر ۔۔۔لگ رہا ہے ۔۔۔ "

"نہیں برو کو ۔۔ کچھ ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ ۔۔۔مر ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔ 

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بمشکل بول رہی تھی ۔۔۔۔ کئی ادھورے اور بے ترتیب لفظ اسکی زباں سے برآمد ہوئے ۔۔۔

وہ سر اس کے شانے پہ دھرے خود کو اس کی پناہگاہ میں محفوظ تصور کر رہی تھی ۔۔۔۔

وہ خود کو اسکے ساتھ لگائے نجانے کیوں اتنا سکون محسوس کر رہی تھیں۔۔۔۔

اس کے ریشمی گیسو کو سہلاتے ہوئے انجانے میں وہ ان سے پھوٹتی ہوئی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا تھا ۔۔۔۔

وہ فرشتہ تو نہیں تھا جو بھرپور استحقاق رکھتے ہوئے اس کا ایمان نا ڈگمگاتا،،،

اس معصوم پرفسوں حسن کے سامنے وہ پگھلتا نہیں ،،،،

لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ جسمانی طور سے مضبوط مرد تھا ،اخلاقیات کی پاسداری کرنا اچھی طرح جانتا تھا ، اس کی حالت کا فایدہ اٹھانا اخلاقیات کے خلاف تھا ،جذبات کی رو میں انسان بہک بھی جاتا ہے ،مگر یارم بلوچ اپنے جذبات پہ پوری طرح کنٹرول رکھتا تھا ۔۔۔۔

اصل معنوں میں اسے آئس میڈ کہیں یا اسٹون مین بے جا نا ہوگا ۔۔۔۔اپنے خوابوں کے ادھورا رہ جانے کے بعد وہ  ۔۔۔۔سرد ،،،جامد ،،،سخت ،،،،منجمد ،جذبات سے عاری انسان ،،،،بن چکا تھا ۔

چاہت ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر اسکے شانے پہ ہی لڑھک گئی ۔۔۔

یارم بلوچ نے اسے اپنی مضبوط بانہوں میں بھر کر بغور اس مومی مجسمے کا جائزہ لیا ۔۔۔۔وہ بے ہوش ہو چکی تھی ،بخار کی حدت سے اس کا جسم تپ رہا تھا ،وہ اس وقت شال کے بغیر تھی اس کی شرٹ بھیگ کر اسکے جسم سے لگی ہوئی تھی ،یارم بلوچ نے اسکے وجود کی رعنائیوں سے نظریں چراتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بستر کی طرف لایا ۔۔۔

اور نرمی سے اسے لٹا دیا ۔۔۔

سائیڈ ٹیبل پر موجود جگ میں سے تھوڑا سا پانی لے کر اسکے چہرے پہ چھڑکاؤ کیا تاکہ اسے ہوش  آجائے۔۔۔۔

منہ پہ پانی کے چھینٹے پڑنے سے چاہت نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔۔۔۔

"چاہت ۔۔۔چاہت ۔۔۔!!!!

اسے بے سدھ ہوتا دیکھ یارم نے دھیرے سے پکارا ۔۔۔ 

"چاہت ۔۔۔۔!!!!

اس نے چاہت کا روئی جیسا نرم گرم گال تھپتھپاکر اسے اٹھانا چاہا ۔۔۔ 

"جی ۔۔۔"اس نے بمشکل بند آنکھوں سے کہا ۔

"اٹھو چاہت "یارم بلوچ نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔

"آپ میرے پاس رہنا ۔۔۔۔

"وہ میرے برو کو ۔۔۔۔  

وہ زیر لب بڑبڑائی ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں اسے دیکھا جس کا چہرہ بخار کی شدت کے باوجود بھی انتہائی پرکشش لگ رہا تھا ،،،اسکے سنہری بال تکیے پہ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے ،

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔مجھے ۔۔۔۔چھوڑ۔۔۔  کر مت ۔۔۔جانا ۔۔۔۔مجھے ڈر ۔۔۔لگ رہا ۔۔۔۔

وہ بے ہوشی کی حالت میں بول رہی تھی ۔۔۔۔

"میں یہیں ہوں چاہت تمہارے پاس "یارم بلوچ نے تسلی آمیز انداز میں کہہ کر اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کیا ۔۔۔

 اے_ سی کا ریموٹ کنٹرول اٹھا کر اس کی سپیڈ بڑھا دی ۔۔۔ پھر اٹھ کر کبرڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔جہاں اس کا میڈیکل باکس رکھا تھا ۔۔۔

آرام سے بنا آواز کیے وہ میڈیکل باکس لیے اس کی طرف آیا ۔۔۔ 

تھرما میٹر ہے اس کا بخار چیک کیا ۔۔۔

پھر اسی حساب سے ٹیبلٹ نکالی ۔۔۔۔

"چاہت منہ کھولو ۔۔۔۔اس نے اسے میڈیسن کھلانے کے لیے کہا مگر اس نے زرا سی بھی حرکت نہیں کی ۔۔۔

یارم نے پانی گلاس میں ڈال کر اپنے پاس رکھا پھر دوسری طرف سے اپنی جگہ پہ آیا ۔۔۔

چاہت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھایا ۔۔۔

اسکے منہ میں ٹیبلٹ ڈال کر اسے پانی پلانے لگا ۔۔۔ 

وہ نیم بے ہوشی میں واپس بستر پہ ڈھ سی گئی ۔۔۔یارم نے اس کی کمفرٹر درست کیا ۔۔۔ 

آنکھیں بند کیے لیٹی وہ کوئی ماوارائی مخلوق لگ رہی تھی ،اس کے گالوں پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے نشانات تھے ۔۔ یارم نے ہاتھ بڑھا کر اسکی نبض چیک کی تو چاہت نے بیہوشی میں ہی اسکا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔وہ ابھی بھی خوف کی کیفیت میں مبتلا تھی تبھی اس کا ساتھ پاکر خود کو تحفظ دینا چاہتی تھی ۔۔۔۔

وہ اسکے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے نجانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی ۔۔۔ 

 🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"جا سسی یہ چھوٹے سردار کے کپڑے انکے کمرے میں رکھ آ"شاذیہ نے اسے استری شدہ کپڑے ہاتھ میں تھمائے ۔۔۔

"جی "وہ دھڑکتے دل سے اسکے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔۔آتش بلوچ اس وقت حویلی میں نہیں تھا ۔۔۔

وہ پہلے کبھی اسکے کمرے میں نہیں گئی تھی آج پہلی بار اس کے کمرے کی سمت اسکے قدم اٹھ رہے تھے ۔۔۔۔دل میں عجیب سا خوف بھی تھا ۔۔۔اس نے 

کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا ۔

اس نے کمرے میں آتے ہی آتش بلوچ کے کپڑوں کو ناک کے قریب کیے ان میں سے آتی اسکے مخصوص کلون کی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارا ۔۔۔

سارا تن بدن جیسے مہک اٹھا ۔۔۔۔

اس نے آتش بلوچ کے کپڑے بستر کے کنارے پہ رکھ دئیے پھر اسکی نظر شیشے کے سامنے پڑے اسکے پرفیومز پہ پڑی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ شیشی اٹھائی اور اسے ابھی کھولنے کی والی تھی کہ دروازے کے باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔۔۔۔وہ ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔

"کہیں چھوٹے سرکار تو نہیں "؟

اس نے اپنے تئیں اندازہ لگایا۔۔۔۔

اور ڈر کے مارے کھڑکی سے لگے پردے کے پیچھے چھپ گئی ۔۔۔۔وہ بری طرح کپکپا رہی تھی۔۔۔۔تبھی دھاڑ سے دروازہ کھلا اور آتش بلوچ اندر آیا ۔۔۔

موبائل بستر پہ پھینک کر فریش ہونے کی غرض سے واش روم کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسکی نظر کھڑکی کے پردے کی اوٹ سے جھانکتے کھسے میں مقید پاؤں پہ پڑیں ۔۔۔۔جس میں پازیب بھی پہنی گئی تھی ۔۔۔

آتش نے بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے دو ہی قدموں میں وہاں لپکتے ہوئے پردہ اٹھا دیا ۔۔۔

سسی اسکے ڈر سے آنکھیں میچے ساکت سی کھڑی  تھی ۔۔۔۔

دونوں ہاتھ پشت پہ بندھے تھے ۔۔۔۔

سسی کی حالت تو یوں تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔

"چوری کرنے آئی تھی تم میرے کمرے میں ؟

وہ غصیلی آواز میں دھاڑا ۔۔۔۔

آتش بلوچ اپنے نام سے الٹ بہت دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کا انسان تھا ۔۔۔مگر جب کبھی اسے غصہ آتا تو انتہائی لیول کا آتا تھا ۔۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔چوری نہیں کی ۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل بولی ۔۔۔۔ 

",یہ پیچھے ہاتھوں میں کیا چھپایا ہے ۔۔۔۔

"دکھاؤ مجھے "

آتش بلوچ نے اسکی کمر کے پیچھے سے ہاتھ لے جاتے ہوئے اسکی ہاتھوں کو قابو کیا ۔۔۔

پرفیوم کی شیشی اسکے کپکپاتے ہوئے  ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پہ جاگری ۔۔۔۔چکنے فرش پہ گرتے ہی وہ چھناکے کی آواز سے ٹوٹ کر کرچیوں میں منقسم ہو گئی ۔۔۔

سارا کمرہ اس کلون کی مہک سے مہک اٹھا ۔۔۔۔

آتش کی گرم بھاپ اڑاتی ہوئی سانسیں سسی کو اپنے چہرے پہ محسوس ہورہی تھی۔۔۔

اسکے چوری کے الزام لگانے پہ وہ تڑپ ہی تو اٹھی تھی ۔۔۔

اس کی بھوری آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہنے لگے اور اسکے شرمندگی کے باعث سرخی مائل رخساروں کو بھگونے لگے ۔۔۔۔

"سچ بتاؤ مجھے "!

آتش بلوچ نے اسکی کلائی مڑوڑ کر اسکی کمر سے لگائی ۔۔۔

"سسس ۔۔۔۔"اسکی مضبوط گرفت پہ سسی کے منہ سے سسکاری نکلی۔۔۔۔

وہ کچھ نہیں بولی اپنی صفائی میں ۔۔۔زباں پہ تو جیسے قفل لگ چکے تھے ۔۔۔وہ محض نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ کی نظریں اسکے چہرے پہ تھیں ۔۔۔۔اس نے سسی کے بلوریں نیناں سے آنسو رواں دیکھے تو ٹھٹھک کر رہ گیا ۔۔۔۔

"کیسی التجا تھی اسکی آنکھوں میں کیسے شکوہ تھے ۔۔۔۔وہ اسکی بھیگی  آنکھوں سے نظریں ہی نا ہٹا پایا ۔۔۔۔

"معاف کردو سرکار "

وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی آتش کی گرفت ڈھیلی پڑی ۔۔۔

سسی اسکے ہاتھوں سے آزادی پاتے ہی بنا رکے دوڑنے کے انداز میں اسکے کمرے سے باہر نکل گئی 

جیسے ہی سسی روتی ہوئی آتش بلوچ کے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔وہ دوسرے کمرے سے نکلتی ہوئی چاہت سے ٹکرائی ۔۔۔۔

"معافی سردارنی جی "

اس نے اپنے بھیگے گالوں کو ہتھیلیوں کی پشت سے رگڑتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔

چاہت جو یارم کو ڈھونڈنے کے لیے کمرے سے باہر نکلی تھی سسی کے ٹکرانے سے ہل کر رہ گئی۔۔۔۔

"It's ok...

Doesn't matter....

چاہت کے منہ سے بلا اختیار نکلا ۔۔۔۔

"سسی نے بڑی بڑی غلافی آنکھوں میں حیرت سموئے اسکی بات سمجھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

"آپ رو کیوں رہی تھیں "؟

چاہت نے معصومیت سے پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔کچھ نہیں "سسی نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔

"بتاؤ نا پلیز ۔۔۔۔تمہیں بھی میری طرح ڈر لگ رہا تھا ؟

چاہت نے اپنی رات والی حالت یاد کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں سردارنی سا ۔۔۔مجھے ڈر نہیں لگتا کسی سے بھی ۔۔۔۔"

اب کی بار وہ چاہت کے اتنے پیار سے بات کرنے پہ خود کو سنبھال کر نارمل لہجے میں بولی ۔۔۔۔

"میں نا اپنے روم میں اکیلی بور ہوجاتی ہوں ۔۔۔تم میری دوست بنو گی ؟؟؟

"پھر ہم زیادہ سی باتیں کریں گے مل کر "

چاہت نے اسے دوستی کی پیشکش کی۔۔۔اور اشتیاق  بھرے انداز میں اس کے جواب کی منتظر تھی۔۔۔۔

"سردارنی سا ۔۔۔آپ تو بڑے لوگ ہیں ۔۔۔اور ہم ٹہرے چھوٹی ذات ۔۔۔بھلا ہماری دوستی کا کیا جوڑ "؟

وہ سرد آہ بھر کر دھیمے سے بولی ۔۔۔۔

"آؤ ادھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔۔۔۔وہ دونوں لاونج میں اترنے والی سیڑھیوں میں سے پہلی سیڑھی پہ ایک ساتھ بیٹھ گئی ۔۔۔۔

"پہلے بتاؤ مجھے وہ غصہ کرنے والی آنٹی کہاں ہیں "؟

چاہت نے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"کون ؟؟؟سسی نے بھنوئیں  سکیڑ کر پوچھا ۔۔۔

"وہی جو زور سے بولتی ہیں "

چاہت کو ان کا نام نہیں پتہ تھا ۔۔۔۔

",آپ کہیں وڈی سردارنی کا تو نہیں پوچھ رہی "؟

سسی نے اندازہ لگایا۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔چاہت نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

"وہ تو جی اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہیں "

",اوہ ۔۔۔اچھا ۔۔۔۔

وہ تھوڑا ری لیکس ہوئی ۔۔۔

"چلو اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم تو کیوں رہی تھی "؟

"آپ نے کبھی پیار کیا ہے؟ سردارنی جی ۔۔۔۔

وہ اس کے سوال کا جواب دئیے بنا ۔۔۔۔کسی خیال میں کھوئے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"پہلے تو تم مجھے یہ سردارنی نا بولو ۔۔۔مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔پتہ ہے میرے برو ۔۔۔مطلب میرے بھائی نا مجھے چاہ کہتے تھے ۔۔۔۔کتنی دیر ہوگئی کسی نے مجھے اس نام سے نہیں بلایا ۔۔۔۔تم مجھے چاہ کہو ۔۔۔ٹھیک ہے ...وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔۔

"چلیں ٹھیک ہے چاہ ...!!!

سسی نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا اسے یہ گڑیا جیسی لڑکی بڑی بھائی تھی ۔۔۔۔

"اور تم نے پوچھا پیار کے بارے میں تو میں نا اپنے برو سے بہہہہہہہت زیادہ پیار کرتی ہوں ۔اس نے بہت کو لمبا کھینچ کر کہا ۔۔۔۔

"نہیں جی ۔۔۔گھر والوں سے پیار نہیں وہ والا پیار جو ہمیں کسی اور سے ہو جاتا ہے ",

سسی بھی شرماتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔۔۔

"اور کس سے ہوتا ہے ؟اس نے مخمصے میں ڈال دیا تھا اسے ۔۔۔۔

"تھارے کو یارم سردار سے پیار ہوا تھا تبھی ،،، شادی کی ہوگی ہے نا۔۔۔۔

سسی نے مسکرا کر کہا۔۔۔

"وہی پیار جو بیوی کو شوہر سے ہوتا ہے "

چاہت کی آنکھوں کے سامنے موبائل پہ چلنے والے شوہر اور بیوی کے ریلیشن شپ کے مناظر لہرائے ۔۔۔۔

تو اس نے شرم سے اپنی آنکھوں پہ دونوں ہاتھ رکھے۔۔۔

"میں ابھی وہ پیار نہیں کرتی کسی سے ۔۔۔۔۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے "اس نے سسی کا کان کے قریب چہرہ لے جاتے ہوئے رازدارنہ انداز میں بتایا ۔۔۔۔

سسی بھی لب دانتوں تلے دبا کر شرمانے لگی ۔۔۔

"تمہیں پیار ہوا ہے ؟؟؟

چاہت نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا ۔۔۔سسی کے مسکراتے ہوئے لب یکلخت  سمٹ گئے ۔۔۔

اس نے گہرا سانس لیا ۔۔۔۔

"کسی کو بتائیں گی تو نہیں نا ۔۔ "؟؟؟؟

اس نے چاہت کی طرف دیکھ کر سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔

"نہیں "اس نے سسی کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔۔۔

سسی کو اسکے وعدہ کرنے کے انداز سے تھوڑی ڈھارس ملی۔۔۔۔

"انہیں پہلی نظر دیکھتے میرے دل نے مجھے دھوکا دے دیا ۔۔۔۔

"میں ان دیکھی ڈور کی مانند انکی طرف کھنچتی چلی گئی ۔۔۔۔انجام کی پرواہ کیے بغیر۔۔۔۔کہ وہ آسمان پہ چکمنے والا ستارہ ہیں اور میں انکے قدموں کی دُھول "

"وہ شہزادے ہیں اور میں کم ذات "

وہ ہمت مجتمع کیے پھر سے بولی ۔۔۔۔

"میں جانتی ہوں میں نے بہت اونچے اونچےخواب دیکھ لیے ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں جی ۔۔۔۔مگر کیا کروں خواب تو خواب ہوتے ہیں نا کوئی بھی دیکھ سکتا ہے "

وہ پژمردگی سے بولی۔۔۔۔

"کون ہے وہ "؟

چاہت نے اچنبھے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔کہ بالاخر وہ کون تھا جس کے لیے وہ اتنی شدت رکھتی تھی۔۔۔

"مارا خواب مارا عشق سردار آتش بلوچ ہیں "

اس نے ایسا انکشاف کیا تھا کہ چاہت نے چونک کر سسی کے افسردہ چہرے کو دیکھا ۔۔۔

ان کے پیچھے جو سردار آتش بلوچ آن کھڑا ہوا تھا ساکت تو وہ بھی رہ گیا تھا ۔۔۔۔

اس کا وجود تو گویا زلزلوں کی زد میں تھا۔۔۔۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک غریب لڑکی پہ کی گئی زیادتی پہ اسے افسوس ہوا تھا ۔۔۔وہ اس سے معذرت کرنے کی غرض سے باہر آیا تھا ، اس لڑکی کو اپنی بھابھی کے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے دیکھ کر وہ وہیں رکا ۔۔۔اور جو چونکا دینے والا انکشاف اسکے کانوں نے سنا اسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا ۔۔۔۔

سسی اور چاہت بنا مڑے اپنی باتوں میں مگن تھیں ۔۔۔۔

"دل کب ان کے سنگ ہوا مارے کو پتہ ہی نا چلا ۔۔۔میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو روز جلتے ہیں ،روز خود سے لڑتے ہیں ۔۔۔۔خود سے لڑکر کبھی جیت جاتے ہیں کبھی ہار جاتے ہیں ،زباں پہ حرف نہیں لاتے لیکن دل میں محبت کا طوفان لیے پھرتے ہیں ۔۔۔اپنے ہونٹوں کو سئیے ۔۔۔۔دل کے درد کو دل میں دبا لیتی ہوں ،کوئی شکوہ نہیں کرتی ،محبت کر کہ صبر کی انتہا کردی ہے ،،،محبت انسان کو بہت طاقتور بنا دیتی ہے ۔۔۔۔مارے کو بھی محبت نے مضبوط بنا دیا ہے "وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولی۔۔۔۔

"تم نے بتایا نہیں انہیں  "؟

چاہت نے اسے رنجیدہ  دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

کہ اگر وہ آتش  سے اتنی محبت کرتی ہے تو اسے بتاتی کیوں نہیں .

"میں کیوں بتاؤں انہیں ؟؟؟

کہ میں انہیں کتنا چاہتی ہوں ؟؟؟

"بتایا تو جھوٹ جاتا ہے نا جی ۔۔۔۔!!!!

"سچی بات کی خوشبو تو محسوس ہوجاتی ہے ،،،

"مارے کو ماری محبت آزمانے دو ۔۔۔۔اُنہیں خود جان جانے دیں ۔۔۔۔"

وہ افسردگی سے بولی۔۔۔

آتش بلوچ تو حیرت کدہ بن گیا تھا ،،،اسے تو خبر ہی نہیں تھی کوئی اس کے عشق میں اسقدر ڈوب چکا تھا ۔۔۔۔کیسا بھید کھلا تھا اس پہ کہ اک لڑکی اس کی محبت میں نجانے کتنے جاں گسل لمحوں سے گزر رہی تھی ،،،،اس پہ تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے ۔۔۔۔

وہ ساکت سا کھڑا رہا ۔۔۔۔ 

"آپ کو کچھ سناؤں جی ؟؟؟

سسی نے خاموش بیٹھی چاہت سے پوچھا ۔۔۔۔

"ہاں ۔۔۔تم بولو نا ۔۔۔۔مجھے اچھا لگ رہا ہے تم سے باتیں کرنا اور تمہاری باتیں سننا ۔۔۔

اس نے اپنے ہاتھ میں موجود سسی کے ہاتھ کو نرمی سے دبا کر کہا ۔۔۔۔ 

"کوئی فال نکال کرشمہ گر،

میری راہ میں پھول گلاب آئیں ،

کوئی پانی پھونک کہ دے ایسا ،،،

وہ پئیں تو میرے خواب آئیں ،،،

کوئی ایسا کالا جادو کر ،

جو جگمگ کردے دن میرے ،

وہ کہے سسی جلدی آ ،،،

اب جیا نا جائے بن تیرے ،،،

کسی ایسی راہ پہ ڈال مجھے ،

جس راہ سے وہ دلدار ملے ،،،

کوئی تسبیح، دم ،دردو ،بتا ،،

جسے پڑھوں تو میرا یار ملے ،،،

سسی نے دلسوز آواز میں غزل کے زریعے اپنی دلی کیفیت بیان کی ۔۔۔۔

آتش بلوچ  اسکے الفاظ سن کر دبے قدموں سے جیسے آیا تھا ویسے ہی لوٹ گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ھاد تم جانتے بھی ہو کیا کہہ رہے ہو تم "،؟

سردار فلک بلوچ نے پلٹ کر رعب دار آواز میں کہا۔۔۔

"میں جانتا ہوں بابا سائیں "

"پلیز ۔۔۔۔۔

"بس ھاد ۔۔۔۔!!!!

انہوں نے ہاتھ بلند کیے اسے مزید بولنے سے روکا ۔۔۔۔

"سردار دلاور بلوچ مجھے اپنے بہنوئی اور خود میری ہی بہن کا مجھے قاتل سمجھتا ہے ،اس کے دل میں میرے لیے سوائے دشمنی کے اور کوئی جذبہ نہیں ۔۔۔۔"وہ سرد آواز میں بولے ۔۔۔۔ 

"مگر میں جانتا ہوں بابا سائیں وہ قتل آپ نے نہیں کیے ۔۔۔۔

"مجھے پورا یقین ہے آپ پہ "

ھاد بلوچ نے مان بھرے انداز میں کہا۔۔۔

"تمہارے جاننے یا نا جاننے سے کیا فرق پڑتا ہے "؟

"دلاور بلوچ نے ہم سے ہماری بہن چھین لی ۔۔۔۔وہ ہمارا اولین  دشمن ہے ،اور میں اپنے دشمن کی بیٹی کو اپنی بہو کبھی نہیں بناؤں گا "

وہ اٹل انداز میں بولے ۔۔۔۔

ہمارے قبیلوں کے بیچ خون کی ندیاں بہتی ہیں ،اس فیصلے سے لاشوں کے انبار لگ جائیں گے "

"بابا سائیں آپ سردار بن کر سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔

"ایک باپ بن کر سوچیں نا۔۔۔ آپکے بیٹے کی خوشی ہے "وہ"

"کیسے نا سوچوں ایک سردار بن کر ۔۔۔؟؟؟

"بتاؤ کیسے نا سوچوں اپنے قبیلے کے لوگوں کے بارے میں ؟؟؟

"وہ میری محبت میں اپنی سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے ۔۔۔۔

"مگر ان کا خون میرے سر پہ ہوگا ۔۔۔۔سمجھے تم ؟؟؟

وہ غصیلے انداز میں دھاڑے ۔۔۔

"میں کیسے بھلا دوں اپنے بڑوں کو جو اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ کر موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔۔۔۔

"میں اپنے آباؤ اجداد کے خون سے غداری نہیں کروں گا ۔۔۔۔جو دلاور کی وجہ سے کسی کو چہرہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔۔۔۔"

"ایک بار بابا سائیں میری خاطر ۔۔۔۔!!!!

"اپنے بیٹے کے بارے میں سوچیں ۔۔۔۔یہ سوچیں کہ اگر ہمارا رشتہ ہوگیا تو برسوں پرانی دشمنی دوستی میں بدل جائے گی ۔۔۔۔ وہ انکے قریب آتے ہوئے آنکھوں میں دیکھ کر بولا ۔۔۔۔ 

"تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ھاد ۔۔۔ایک رشتہ اتنی پرانی دشمنی کو ختم نہیں کرسکتا ۔۔۔۔ "

"مجھ پہ قتل کے الزام ہیں ،وہ کہتا ہے میرے ہاتھ اسکے اپنوں کے خون سے رنگے ہیں ۔۔۔۔

"وہ کبھی ان خونی ہاتھوں میں اپنی بیٹی کے مہندی بھرے ہاتھ نہیں سونپے گا "

وہ گھمبیر آواز میں بولے ۔۔۔۔

"سب ممکن ہے بابا سائیں ایک بار کوشش کر کہ تو دیکھیے "

"ھاد ۔۔۔۔ایک بات مجھے سچ سچ بتاؤ ۔۔۔۔"!

"جی بابا سائیں "

"یہ رشتہ تم صرف اس لیے کرنا چاہتے ہو کہ ہماری دشمنی دوستی میں بدل جائے ؟؟؟؟انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

"بابا سائیں میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا ۔۔۔۔۔"

"نا تو کبھی پہلے آپ سے جھوٹ بولا ہے اور کبھی آگے بولوں گا ۔۔۔۔

"سچ یہ ہے کہ مجھے دلاور بلوچ کی بیٹی ھادیہ سے محبت ہے ،اسی لیے اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہا ہوں ،،،،"

"اور دلاور بلوچ کی بیٹی ؟؟؟

انہوں نے گویا ھادیہ کے بھی جذبات جاننے چاہے اس بات کو لے کر ۔۔۔۔

"بابا سائیں ۔۔۔۔ھادیہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے "

اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔

"اب وہ میرے بنا رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔۔۔۔"

وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولا ۔۔۔

"اور تم ؟؟؟

انہوں نے ایک اور سوال داغ دیا۔۔۔۔

"میں بھی بابا سائیں اسکے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔"

وہ نڈر انداز میں بولا ۔۔۔

"اگر دلاور بلوچ نہیں مانا تو کیا وہ اپنے باپ کے خلاف جا کر تمہارا ساتھ سے گی "؟

آج وہ اپنے من میں آئے سارے سوالات اس سے کر لینا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔تبھی پوچھ رہے تھے ۔

"جی بابا سائیں وہ میرے لیے سب چھوڑنے کے لیے تیار ہے "

ھاد بلوچ نے انہیں ھادیہ کا فیصلہ بتا دیا ۔۔۔۔

"اور تم ؟؟؟؟

وہ تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولے ۔۔۔۔

"میں بھی اسے حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر جاؤں گا "۔وہ پختہ لہجے میں بولا۔۔۔۔تو سردار فلک بلوچ نے اسکی آنکھوں میں اپنی محبت کو پانے کا جنون سوار دیکھا ۔۔۔ 

"اسی بات کا ڈر تھا مجھے تبھی تم تینوں کو میں نے اس قبیلے کی دشمنی سے دور رکھا ۔۔۔ شہر پڑھنے بھیج دیا ۔۔۔۔۔لیکن آج تم نے میرے ڈر کو سچ ثابت کر دیا۔۔۔۔

وہ غصے کی شدت سے مٹھیاں بھینچ کر بولے ۔۔۔۔

"تمہارے سروز کی تاروں نے غلط دُھن چھیڑ دی نا آج ....!

"میرے سرزو کی تاروں نے ہمیشہ ہی پیار و محبت اور امن کے سُر چھڑیں ہیں بابا سائیں ۔۔۔۔"

"میں بالکل آپ پہ گیا ہوں ۔۔۔۔جیسے آپ ہمیشہ سے امن پسند تھے ۔۔۔جیسے آپ کو دشمنی سے نفرت رہی ہے ۔۔۔۔ویسے کی مجھے بھی ہے ۔۔۔۔

"آپ بے قصور ہیں میرا دل اس بات کا گواہ ہے ۔۔۔۔"

"اپنوں کی لاشیں دیکھ کر آپ کا دل بھی رو اٹھا ہوگا ۔۔۔آپ ہمیشہ سے امن چاہتے تھے ۔۔۔۔اور مجھے امید ہے آج بھی آپ کی وہی سوچ ہے ۔۔۔۔آپ بھی امن و سلامتی چاہتے ہیں ساری انسانیت کی ۔۔۔۔قبیلوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے چاہے وہ قبیلہ سردار دلاور بلوچ کا ہو یا سردار فلک بلوچ کا ۔۔۔۔بستے تو ان میں انسان ہی ہیں نا ۔۔۔۔اور آپ انسانیت کے خیر خواہ ہیں ",

وہ اپنے تئیں انہیں سمجھا رہا تھا ۔۔۔۔

"ھاد تم نے مجھے آج بہت بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے ۔۔۔۔۔"

وہ سوچنے کے انداز میں بولے ۔۔۔۔

"بابا سائیں میں چاہتا تو رات و رات ھادیہ کو لے کر کہیں دور چلا جاتا اور اس سے نکاح کر لیتا ۔۔۔ جیسے دلاور بلوچ نے کیا تھا ہماری پھپھی سے ۔۔۔۔

"مگر میں ان کی والی حرکت دہراؤں گا نہیں۔ ۔۔۔۔۔

"اپنی وجہ سے آپ سب کی زندگیاں داؤ پہ نہیں لگاؤں گا ۔۔۔۔میرا ضمیر گوارا  نہیں کرسکتا کہ خود تو اپنی محبت کے ساتھ سکوں سے رہوں ۔۔۔۔اور یہاں میری وجہ سے لاشوں کے ڈھیر لگ جائیں ۔۔۔۔۔

"مجھے لگتا ہے جو رشتے والدین کی دعاؤں اور انکی مرضی سے جڑتے ہیں وہ کبھی نہیں ٹوٹتے ۔۔۔۔۔

جبکہ خود بنائے گئے رشتے دیر پا اثر نہیں رکھتے ۔۔۔۔کیونکہ ان میں بڑوں کی دعائیں جو شامل نہیں ہوتی ۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں ہم دونوں کا رشتہ باہمی رضامندی سے جڑے ۔۔۔۔۔"

فلک بلوچ کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔۔۔۔

"میں تیری خوشی کے لیے یہ بھی کر کہ دیکھوں گا "

انہوں نے چند لمحوں میں اپنا فیصلہ بدل لیا ۔۔۔۔اپنے بیٹے کی خاطر ۔۔۔۔

"Love you a lot baba Saien"

وہ انکا مثبت جواب سن کر جوش سے ان کے گلے سے لگا ۔۔۔۔۔

انہوں نے ھاد بلوچ کا شانہ تھپتھپایا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”میں کہے دے رہی ہوں امینہ میں شمشیر بلوچ سے کبھی شادی نہیں کروں گی اور یہ بات میں ہزار دفعہ کہہ چکی ہوں۔۔کہ میں صرف اور صرف ھاد بلوچ سے شادی کروں گیں“اماں بی بھی اٹھ کر اس کے پیچھے ہی کمرے میں آگٸیں،وہ جو پہلے ہی رو رہی تھی اُن کو دیکھتے ہی غصے سے بولی ' اماں بی  نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا،تو وہ اور زیادہ رونے لگ گٸی۔

”تمہارے بابا  سائیں راضی ہیں ' ابھی شادی کرنے پر اور انہیں ہاں کہہ چکے ہیں۔۔۔“ اماں بی دھیرے سے بولی۔ھادیہ نے انہیں ایسی نظروں سے  دیکھا،جیسے کہہ رہی ہو کہ آپ  تو سب جانتی تھی ۔پھر بھی ایسی باتیں کر رہی ہیں ۔وہ جلدی سے نظریں چرا  گٸیں۔۔۔۔۔امینہ چپ چاپ کھڑی اسے روتا دیکھ رہی تھی۔

” ابھی ہوا تو ایسے ہی ہے ۔۔! لیکن ۔تم فکر نا کرو ہم  دونوں تمہارے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔۔۔“ امینہ  نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ اسے تسلی دی۔

”امینہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔!

اماں بی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔۔۔

"لیکن ماموں جان اور شمشیر بھائی سا کے سامنے ہم کچھ نہیں کر پائیں گے ۔۔۔۔

 تم تو انکی بہت لاڈلی ہو۔وہ تمہاری بات ضرور مانیں گے۔تم خود اپنے بابا سائیں سے بات کرو ۔"امینہ  نے بھی اسے تسلی دے کر مشورہ دیا ۔۔۔

” اگر میری شادی شمشیر بلوچ سے ہوٸی تو میں مر جاٶں گی۔حلیہ دیکھا ہے آپ نے اس موالی  کا'گھن آتی ہے مجھے اس کو دیکھ کر۔“ اس نے دوبارہ سے امینہ کے گلے لگ کر دھواں دھاری روتے ہوۓ اسی کے بھائی کی اسی کے سامنے اسکے حلیے پر چوٹ کر گئی '"

”جانتی ہوں۔۔! ۔بس  اب تم روٶ نہیں۔۔۔۔تمہارا ھاد ہے ناں۔وہ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا تمہارے ساتھ ۔۔“ امینہ  نے آگے بڑھ کر اس کو خود سے لگا لیا۔اسے سب رشتوں سے زیادہ اپنی دوسری عزیز تھی تبھی وہ آج ھادیہ کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

 اُس کمرے کے سامنے سے گزرتے یارم بلوچ کے قدم اندر سے آنے والے آواز سن کر ٹھٹک کر رکے گٸے تھے اور پھر وہ وہیں جم گیا ، اس کے پیچھے آتے آتش بلوچ نے اس سے وہاں رکنے کی وجہ پوچھنی چاہی تو یارم  نے اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔۔

”ھادیہ تم گھبراؤ مت میں  نے اپنے بابا سائیں سے بات کر لی ہے وہ ایک دو دن میں تمہارے بابا سائیں سے بات کریں گے ۔“ 

ھاد بلوچ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

پچھلی بار انہوں نے فون نمبر ایکسچینج کرلیے تھے ۔۔۔آج پہلی بار ھادیہ نے ہمت کر کہ اسے کال ملائی تھی اور اپنے اور شمشیر بلوچ کے رشتے کے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔۔۔جسے سن کر ھاد بلوچ کو جھٹکا تو بہت بڑا لگا تھا مگر وہ ھادیہ کو تسلی دینے کے لیے آرام سے بولا ۔۔۔۔

”ھادیہ روؤ مت  پلیز۔۔“ کب سے اس کی سسکیاں سنتے ہوئے ھاد سے برداشت نہیں ہوا تو اس نےاس کو چپ کروانا چاہا۔

یارم بلوچ نے پریشانی سے اپنے پیچھے کھڑے  آتش بلوچ  کی طرف دیکھا۔

”میرے کمرے میں آٶ آتش ۔۔“

وہ سنجیدگی سے کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔وہ بھی جلدی سے اس کے پیچھے ہی اس کے کمرے آ گیا۔

”میں ھاد کے ساتھ ہوں ، میرے لیے میرے بھائی کی خوشیوں سے بڑھ کوٸی چیز نہیں ، اور یہ بات بابا سائیں  کو بھی ماننی پڑے گی۔۔۔۔“ یارم بلوچ نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اُسے کہا۔

”میں بھی بھائی سا کہ منہ سے سن کر اب یہی چاہتا ہوں کہ یہ رشتہ ہو!۔۔۔

"اور میں  میرے بھائی سا کی خوشیوں میں کسی کو رکاوٹ بننے نہیں دوں گا ۔۔“ وہ بھی غصے سے بولا۔

”ہممممم تم ٹینشن نہ لو ۔۔تمہارے بھائی سا ابھی زندہ ہیں  ناں۔۔“ وہ اس کو غصّے میں دیکھ کر پیار سے بولا۔”جی آپ کے ہوتے ہوۓ تو مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔۔“ وہ بھی مسکرا دیا۔لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح تھے۔۔

"کیا ہوا بھائی سا کیا سوچ رہے ہیں۔۔؟" 

کچھ نہیں۔۔" اس نے بات کو ٹالنا چاہا۔

"بتائیں تو سہی کچھ ۔۔" 

”یار دلاور بلوچ کا مستقبل میں ہمارے بابا کے ساتھ پیش آنے والا رویہ مجھے بہت پریشان کر رہا ہے “ اس نے پریشانی سے کیا۔

”وہ کیسے لالا۔۔۔؟“

”مجھے لگتا ہے وہ کبھی اس رشتے کے لیے نہیں مانے گا اتنے سالوں کی دشمنی نہیں بھلا سکتا وہ اتنی جلدی ۔۔"

" تو پھر ھاد بھائی سا کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟" اس نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔

"ھاد کی باتوں میں سنا تھا نا کہ بابا سائیں خود اس دلاور بلوچ سے ملکر بات کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔تو اس کا مطلب  بابا سائیں نے ھاد کی بات مان لی ہے ۔۔۔تبھی تو وہ رشتہ مانگ رہے ہیں ۔۔۔۔

" ویسے یار لگتا ہے یہ کوٸی تیسرا بندہ لگتا ہے۔۔۔ ! جو ہمیں لڑوانا چاہتا ہے۔۔جیسے سالوں پہلے اس نے دلاور بلوچ اور میرے بابا سائیں کے درمیان یہ دشمنی کی دیواریں کھڑی کردیں جو آج تک گرنے کا نام کی نہیں لے رہی ۔۔۔۔“

”نہیں بھائی سا دلاور بلوچ خود ہی اچھا انسان نہیں اور دوسرا اس کا وہ چمچہ شمشیر بلوچ گاؤں والوں سے سنا ہے بہت ہی واہیات انسان ہے وہ ۔۔“

”ہاں میں نے بھی سنا تو  ہے۔۔۔! وہ پر سوچ انداز میں بولتا آتش بلوچ کی طرف دیکھنے لگا ۔

"مجھے بھی اِس کی بات سمجھ نہیں  آ رہی کہ معاملہ کیسے سلجھے گا ۔۔۔

” سہی کہہ رہےہیں آپ بھائی سا ۔“

اس نے بھی یارم کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔

 ”ہممممم اس سے پہلے کے دیر ہوجاۓ۔۔ مجھے پتا لگانا پڑے گا۔۔دلاور بلوچ کا " وہ کسی نتیجے پر پہنچتے ہوۓ بولا۔

”جی میں بھی اپنے ذریعے سے پتا لگانے کی کوشش کروں گا ۔۔“

”ٹھیک ہے۔۔۔۔! اب میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے مجھے۔" اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا جہاں سات بجنے والے تھے۔ 

”کہاں جا رہے آپ۔۔؟“ وہ ایکدم سے اداس ہوا اس کو جاتے دیکھ کر۔۔

”شہر جا رہا ہوں یار بہت کام رکے ہوۓ ہیں۔پچھلے ایک ہفتے سے ڈاکٹر زارا اور ڈاکٹر وہاج کو بہانے بنائے جا رہا ہوں اب تو وہ مجھ سے ناراض ہونے  لگے ہیں۔۔ “

”اوہ ۔۔۔! تو پھر کب آٸیں گے واپس۔؟“ اس نے فکر مندی سے پوچھا۔

”رات  تک ۔۔۔۔! اگر جلدی فری ہو گیا تو آٶں گا ' نہیں تو پھر جب ٹاٸم لگا۔۔“

”بھائی سا اک بات کہوں آپ یہی رہیں ،یہاں سے ہی روز چلے جایا کریں شہر ، یہاں سے شہر کوٸی اتنا دور بھی نہیں ہے،آپ اس سرداری کے ساتھ اپنا پیشہ ترک مت کریں ۔اور بھابھی سا بھی آپ کے جانے سے اداس نہیں ہوں گی“اسے کے جانے کا سن کر وہ اداس ہوا تھا۔۔ اس لیے اس نے مشورہ دیتے ہوۓ آخر میں شرارت سے آنکھ دبا کر کہا،

چاہت کے ذکر پہ یارم بلوچ کی نظروں کے سامنے اس کا معصوم چہرہ گھوم گیا ۔۔۔۔۔جس کو وہ صبح ناشتہ کروا کہ باہر آیا تھا اور باہر آنے کے بعد گاؤں کے لوگوں کے مسلوں میں ایسے الجھا کہ دوبارہ اس کے بارے میں کچھ سوچ ہی نہ سکا ، لیکن اب وہ پوری آب و تاب کے ساتھ اس کے ذہن و دل پر سوار ہو گٸی تھی،  ۔۔ 

”بھابھی سا کی سوچوں میں کیوں گم ہوگئے اب تو وہ با نفس ِنفیس آپ کے کمرے میں موجود جائیں اور ہاتھ بڑھا کر چھو لیں ۔۔“، وہ اُس کے کھوۓ ہوۓ لہجے کو محسوس کر کے اس کے پاس آکر شرارت سے بولا۔

مگر یارم نے تو کچھ سنا ہی نہیں تھا ۔۔۔اگر سن لیا ہوتا تو ابھی تک اسے سخت قسم کی گھوری سے تو ضرور نواز چکا ہوتا ۔۔۔

”بھائی سا  مجھے ایسے لگتا تھا،،، جیسے دال میں کچھ کالا ہے' لیکن اب آپ کی حالت دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے ساری دال ہی کالی ہو گٸی ہے۔۔“

وہ اس کی بات پہ چونکا لیکن پھر اس کی شرارت سمجھ آنے پر اک زوردار مکا اس کے کندھے پر جڑ کر مصنوعی غصے سے بولا۔

”بکواس نہیں کرو ایسا کچھ بھی نہیں۔۔"

"تو پھر کہاں کھو جاتے ہیں آپ۔۔؟" وہ شرارت سے آنکھ دبا کر بولا۔

"مجھے نہیں پتہ۔۔۔! تم جاؤ یہاں سے ' تنگ نہیں کرو۔۔“ ایکدم ہی دونوں کا موڈ خوشگوار ہو گیا تھا۔۔

”ہاہاہاہاہاہاہا۔۔! ویسے میں خود ہی پتا لگا لوں گا۔۔۔ دال کالی ہے یا نہیں۔۔۔“وہ مسکرا کر کہتا باہر جانے کے لیے مڑا۔۔

”تمہاری دال بھی کالی ہوچکی ہے ۔۔۔۔مجھے بھی صاف صاف دکھائی دے گیا ہے ۔۔۔

”ہیں وہ کیسے ۔۔۔۔؟“ وہ گڑبڑاتے ہوئے  کرنٹ کھا کر اس کی طرف مڑا اور پھر حیرت زدہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا۔

”تمہارے چہرے پہ لکھا تھا میں نے پڑھ لیا ۔۔۔چلو اب  بھاگو یہاں سے۔۔“وہ ہلکا سا مسکرا کر کہتے ہوئے  پلٹ گیا ۔۔۔جبکہ آتش بلوچ منہ بنا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ 

"آپ ابھی تک سوئی نہیں "؟

یارم رات گئے شہر سے واپس آیا تو فریش ہونے کی غرض سے سیدھا اپنے کمرے میں چلا  آیا۔۔۔اور سامنے صوفے پہ چاہت  پاؤں لٹکائے بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

"نیند نہیں آ رہی تھی "

چاہت نے  بنا اسکی طرف دیکھے سر جھکائے جواب دیا ۔۔۔۔

"تو یقیناً آپ نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ہو گا ۔۔؟؟"اپنے بہت قریب سے یارم بلوچ کی گھمبیر آواز سن کر چاہت نے  ایک پل کے لیے اپنے نیلے نینوں کی ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

"ج۔جی۔ مج ۔۔۔  مجھے بھوک لگی تھی اسی لیے نیند نہیں آرہی تھی ۔۔" اس کی خائف نظروں سے ڈر کر ہکلاتے لہجے میں گویا ہونے لگی۔

"ہمممم۔۔۔۔

وہ گہرا سانس لیتے ہوئے اپنے شانوں پر موجود شال اتار کر صوفے پہ پھینکتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔۔۔۔اور کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔جہاں سے ابھی بھی کھٹر پٹر کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔۔

شازیہ جانے سے پہلے کچن کی چیزیں سمیٹ رہی تھی ۔۔۔

"سنیں ۔۔؟؟"یارم کچن کے دروازے پر کھڑے کھڑے ہی کچن میں کام کرتی ہوئی شاذیہ کو آواز دے دی۔

شازیہ سردار یارم کی آواز سن کر فورا پلٹ کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"جی سردار  ۔۔؟؟کچھ چاہیے آپ کو۔۔؟؟" شازیہ نے مؤدب انداز میں پوچھا ۔۔۔

"صبح ناشتے کے بعد میں نے سوپ بنانے کے لیے کہا تھا بنایا تھا آپ نے ۔۔"یارم نے اسے یاد دلایا ۔۔۔۔

"جی سردار بن گیا تھا ۔۔۔۔"

"تو پھر آپ نے چاہت کو دیا کیوں نہیں ؟"وہ سپاٹ انداز میں استفسار کر رہا تھا ۔۔۔

"معاف کیجئے گا سردار ۔۔۔مجھے پتہ نہیں تھا یہ سوپ کا کے لیے بنوایا گیا ہے ۔۔۔

اب کی بار وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولی ۔۔۔۔

"شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔غلطی میری ہی تھی مجھے آپکو بتادینا چاہیے تھا کہ یہ سوپ آپ نے کس کو دینا ہے ۔۔۔۔ایک باؤل میں سوپ نکال دیں ، جوس اور پانی کا گلاس بھی ٹرے میں رکھ دیں ۔۔"

شازیہ نے اسکی ہدایات کے مطابق ٹرے سجائے اسکے آگے کیا ۔۔۔

"میں لے آؤں سردار ؟؟؟

"نہیں اس کی ضرورت نہیں"

"میں خود لے جاؤں گا "یارم بلوچ نے شازیہ کے ہاتھوں سے ٹرے لیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

شازیہ نے حیرت انگیز نگاہوں سے اپنے سردار کو جاتے ہوئے دیکھا

"یہ لو سوپ پیو ",یارم بلوچ دروازہ کھول کر اندر آیا اور ٹرے چاہت کے سامنے رکھ کر حکمیہ انداز میں بولا ۔۔۔

 چاہت تو ابھی تک شاک کے عالم میں سوپ کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔

"میں نہیں پیتی سوپ ۔۔۔یہ بھی کوئی پینے کی چیز ہے اس نے دل میں کہا اسکے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہیں تھی ۔

"کیا ہوا ؟؟؟۔۔!!

"شروع کریں۔۔"یارم بلوچ نے نرم لہجے میں گویا ہوتے ہوئے بت بنے بیٹھی چاہت کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"یہ میں پیوں گی ۔۔؟؟",

چاہت نے اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ 

"کیوں کیا ہوا ؟؟؟کوئی مسلہ ہے تو آپ شئیر کرسکتی ہیں مجھ سے ۔۔۔۔میں آپ کو پہلے بھی بہت بار کہہ چکا ہوں کہ آپ بلا جھجھک ہر دل میں آئی بات اور دماغ میں آیا خیال مجھ سے شئیر کرسکتی ہیں "

وہ ملائمت سے بولا ۔۔۔۔

چاہت کی آنکھیں نم ہوئیں اسکی بات پہ ۔۔۔۔

"ایسے ہی تو پیار سے میرے برو مجھ سے بات کرتے تھے اور میرے سارے نخرے اٹھاتے تھے "آدم کو یاد کر کہ اسکے چہرے پہ مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

"جلدی جلدی شروع کریں۔۔سوپ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔"

"نا مجھے نہیں پینا یہ سوپ ",

وہ نخوت سے ناک بھنوئیں چڑھا کر بولی ۔۔۔اور سوپ کا باؤل اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔

"آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسی لیے سوپ بنوایا تھا بخار میں روٹی کھانے سے بخار بگڑ سکتا ہے اس لیے لائٹ سا سوپ بہتر رہے گا آپ کے لیے ۔۔۔۔

"میں نے کہا نا مجھے نہیں پینا تو نہیں پینا ۔۔۔۔

وہ اس کے پاس سے اٹھ کر اپنی ہونی ٹیل جھٹکتی ہوئی دور جا کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔

"سوپ تو آپ کو پینا پڑے گا ۔۔۔۔یوں بھوکا تو سونے نہیں دوں گا آپ کو "

یارم بھی بضد ہوا ۔۔۔۔اس کی صحت کے خیال سے ۔۔۔۔

"چلیں ٹھیک ہے آپ نے اگر مجھے پکڑ لیا تو میں سوپ پئیوں گی اور اگر نہیں پکڑ سکے تو مجھے ڈیری ملک کھلانی ہوگی ۔۔۔۔اس نے شرط رکھی ۔۔۔۔

"اچھا تو ایسی بات ہے "

اس کے چیلنجنگ انداز پہ یارم نے ابرو اچکا کر کہا ۔۔۔

"جی بالکل۔۔۔۔آپ مجھے پکڑ نہیں سکتے ۔۔۔۔"کہتے ہی چاہت نے بستر کے دوسری طرف دوڑ لگائی ۔۔۔یارم اسکے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔

چاہت پاؤں بستر پہ رکھ کر اوپر چڑھی ۔۔۔۔

جب تک یارم اس کی طرف آیا ۔۔۔وہ بستر کے دوسری طرف اتر چکی تھی ۔۔۔۔

وہ اسکی اوڑھ دوسری سمت آیا ۔۔۔۔

چاہت پھر سے اسے چکما دئیے اس کے بازوں کے نیچے سے نکلتے ہوئے دوسری طرف گئی ۔۔۔۔

وہ کبھی بستر کے اوپر سے چڑھ کر دوسری طرف اتر جاتی کبھی تیزی سے اس کی پہنچ سے دور ہوجاتی ۔۔۔

کمرے کے چکر کاٹ کاٹ کر دونوں کے سانس پھول چکے تھے ۔۔۔۔

چاہت کھکھلاتے ہوئے اس بار اسکی پکڑ سے نکلنے ہی والی تھی کہ یارم نے اسکی کلائی سے کھینچ اسے ڈریسر سے لگایا ۔۔۔۔

چاہت کی پشت ڈریسر کی طرف تھی ۔۔۔

یارم ڈریسر کے دائیں بائیں اپنے بازو رکھ کر اسکے بھاگنے کی تمام راہیں مسدود کرچکا تھا ۔۔۔

"آپ پکڑی گئیں ۔۔۔اب تو سوپ پینا پڑے گا ۔۔۔۔"

اپنے پکڑے جانے پہ وہ حیران رہ گئی ۔۔۔آدم اسے کبھی پکڑ نہیں پاتا تھا ۔۔۔وہ سمجھی تھی یارم سے بھی وہ جیت جائے گی ۔۔۔۔مگر صد افسوس۔۔۔۔!!!!ایسا حقیقت میں نا ہوا ۔۔۔۔

چاہت  کی حیرانگی بھری کیفیت پر یارم  کے اندر اس وقت ہنسی کے فوارے پھوٹ رہے تھے جبکہ چاہت  کا گلابی مائل چہرہ اس وقت ہار جانے کی شرمندگی کی وجہ سے مزید سرخ پڑ چکا تھا۔

"پر مجھے وہ بدمزہ سوپ نہیں پسند ۔۔۔",وہ چہرے کے زاوئیے بگاڑ کر بولی ۔۔۔

یارم کی ہنسی کو بریکس لگیں۔۔۔۔اس نے اپنی سرمئی آنکھوں سے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"اچھا ایک ہی شرط پہ ",

اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا ۔۔۔

"وہ کیا ؟؟ ۔۔"اس نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔

یارم نے اسکے چہرے کی سرخی کو شرمندگی کے علاؤہ بھی مزید سرخ دیکھا تو آگے بڑھے اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر اسکا بخار چیک کیا ۔۔۔۔

"دیکھا ۔۔۔یوگیا نا پھر سے ٹمپریچر۔۔۔۔کہا بھی تھا آپ کو آرام کریں ۔۔۔۔فضول میں اچھل کود کر رہی تھیں ۔۔۔۔اب تھکاوٹ سے بخار ہوگیا ۔۔۔ 

یارم کی برداشت کچھ ہی دیر بعد جواب دے گئی اسی لیے تیز لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔۔

چاہت کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا اسکی ڈانٹ سے ۔۔۔۔

"یار ایک تو آپ بات بات پہ ناراض ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔آپ ہی کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوا ہے بخار اب آپ کو ڈانٹوں بھی نہیں ۔۔۔۔

"اچھا بتائیں مجھے کیسے پینا چاہ رہی تھیں سوپ ۔۔۔۔شرط بتائیں وہ بھی ۔۔۔۔

اس نے مفاہمت سے کہا ۔۔۔۔تاکہ وہ مزید ناراض نا ہوجائے ۔۔۔۔

"جیسے برو کھانا کھلاتے تھے ویسے ۔۔۔۔"

وہ منہ پھلا کر بولی ۔۔۔۔

یارم نے اپنی سرمئی آنکھوں کو سکیڑ کر اسکی طرف دیکھا اور دماغ کے گھوڑے دوڑائے ۔۔۔کہ آخر وہ کیا چاہتی تھی ۔۔۔۔

یکلخت اس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا ۔۔۔پہلے دن ہی وہ ڈائننگ ٹیبل پہ اسکی تھائی پہ آکر بیٹھ گئی تھی۔اور کہہ رہی تھی کہ اس کا بھائی بھی اسے بچپن سے ایسے ہی کھانا کھلاتا تھا ۔۔۔

یارم نے ٹھنڈی بھری اور جاکر بیڈ پہ بیٹھا ۔۔۔۔

",آئیں ادھر "

یارم  نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا ۔۔۔۔چاہت نے اپنا نازک سا ہاتھ اسکے ہاتھ پہ دھر دیا اور خود اسکی تھائی پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔

" چلیں جلدی پیئیں ۔! پھر آپکا علاج بھی کرنا ہے ۔۔" یارم بلوچ چہرے پر بنا کوئی تاثر ظاہر کئے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے از حد سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔

"نا میں نے کوئی علاج نہیں کروانا ۔۔۔اب آپ ڈاکٹر ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟؟؟۔۔"

"نا آپ ساری ڈاکٹری مجھ معصوم کہ نکالیں گے "

"آج بڑی زبان چل رہی ہے خیر تو ہے ۔۔۔کس کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگی ہیں ",

یارم نے ہمیشہ اسے چپ دیکھا تھا مگر آج یوں پٹر پٹر بولتے دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔۔۔

چاہت فوراً غصے میں آتے ہوئے اس کی تھائی سے اٹھی مگر یارم  نے اب کی بار مضبوطی سے اس کا بازو تھام کر اس کی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کو فوراً ناکام بنا دیا۔

وہ ہمیشہ آدم سے ایسے کی ڈھیروں ڈھیر باتیں کرتی تھی رات کو جب وہ تھک کر آتا تو چاہت اسے سارے دن کی روداد سناتی اسے چھوٹی سے چھٹی بات بتاتی ۔۔۔۔کبھی کبھی تو آدم اسکی باتیں سنتا ہوا سو جاتا ۔اور صبح اٹھ کر دونوں کی اس بات پہ پیار بھری جھڑپ ہوجاتی ۔۔۔۔آج سسی سے باتیں کر کہ اسے وہی دن پھر سے یاد آگئے ۔۔۔۔اس لیے وہ یارم کے سامنے بھی ویسے ہی بولنے لگی ۔۔۔۔

",ابھی آپ کو ٹیکا بھی لگانا ہے ،میڈیسن سے بخار کو فرق جو نہیں پڑ رہا ۔۔۔۔یارم نے گویا اس کے سر پہ دھماکہ کیا ۔۔۔

اسے ہمیشہ ہی ٹیکے سے ڈر لگتا تھا ۔۔۔پہلے بھی جب کبھی وہ بیمار ہوجاتی تھی وہ آدم سے کہہ کر میڈیسن منگوا لیتی تھی ۔۔۔۔مگر ٹیکے سے کوسوں دور بھاگتی تھی ۔۔۔آج ٹیکے کا نام سن کر اس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔۔۔۔

"ن۔نن۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ٹیکا نہیں ۔۔۔۔آپ رکیں۔۔ میں سوپ پی لیتی ہوں ۔۔۔" چاہت ٹیکے  کا سن کر منہ پھلائے پیر پٹخنے کے انداز میں واپس اس کی تھائی  پر بیٹھ گئی۔سوپ  اسقدر پھیکا اور بد ذائقہ تھا کہ اس کے حلق سے نیچے ہی نہیں اتر رہا تھا۔

"افف۔۔۔!اتنا پھیکا سوپ ہے۔۔ میں کیسے پیوں گی اسے ۔..؟"چاہت اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سمیت سوپ کے باؤل  کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔

"گڈ گرل کی طرح ختم کریں اسے ۔۔"یارم  نے اب کی بار چہرے پر تھوڑی سختی لائے کہا ۔۔۔۔اور چمچ بھر کر اس کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔۔

"آدم بھائی ۔۔۔آپ واپس آئیں گے تو پوچھوں گی آپ سے اچھی طرح ۔۔"چاہت نے غائبانہ طور پر زیر لب بڑبڑانے لگی ۔۔۔۔

اسے جھنجھلاہٹ سے بڑبڑاتے دیکھ یارم بلوچ کے مونچھوں تلے عنابی لبوں پر مبہم سی  مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

 یارم سوپ کے چمچ بھر کر اسکے منہ میں ڈالتا رہا اور وہ نا چاہتے ہوئے بے دلی سے پیتی رہی ۔۔۔۔

"آپ یہاں بیٹھیں میں آپ کے لیے میڈیسن لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔

وہ چاہت کا بازو پکڑ کر اسے بستر پہ بٹھاتے ہوئے خود وہاں سے اٹھا اور اپنے میڈیسن باکس میں سے میڈیسن نکسل کر لایا ۔۔۔۔

"یہ بہت کڑوی ہوتی ہے "وہ برا سا منہ بنا کر بولی ۔۔۔۔

"اگلی بار میڈیسن کمپنی کو کہوں گا آپ کے لیے میٹھی دوا ایجاد کریں ۔۔۔۔"

وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔

چاہت نے ناراض نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

"جوس کے ساتھ لیں میڈیسن پھر زیادہ کڑوی نہیں لگے گی "

یارم نے جوس کا گلاس اٹھا کر اسکی طرف بڑھایا ۔۔۔۔تو چاہت نے اسے تھام کر ٹیبلٹ منہ میں رکھی اور جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے سارا خالی کردیا ۔۔۔

یارم بلوچ نے میڈیکل باکس میں سے سرنج اور انجیکشن نکالا ۔۔۔

چاہت نے خوفزدہ آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔

اسکے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

وہ انجیکشن تیار کر چکا تھا ،اس نے اسے تھوڑا سا پریس کرکہ سوئی کی جانب سے تھوڑا سا انجیکشن باہر نکالا ۔۔۔۔

انجیکشن دیکھ کر چاہت کی جان لبوں پہ آئی۔۔۔۔اس نے تھوک نگلتے ہوئے اسے ہراساں نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ 

"O come on chahat"

اتنی بڑی ہوکر اتنے چھوٹے سے انجیکشن سے ڈرتی ہو "

یارم بلوچ نے گھٹنوں کے بل اسکے سامنے دوزانوں بیٹھ کر کہا ۔۔۔۔

چاہت کی نظر یارم پہ کم اور انجیکشن کی نوکیلی چکمتی ہوئی سوئی پہ زیادہ تھی ۔۔۔

"پلیز ۔۔۔۔انکل مجھے ڈر لگتا ہے انجیکشن سے ۔۔۔۔۔وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

اس بار پھر سے انکل کہنے پہ یارم کی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا۔۔۔۔

"میرا بخار بھی اتر گیا ہے ۔م۔۔۔م۔۔میں ٹھیک ہوں ۔مجھے اسکی کوئی ضرورت نہیں"

  "آ۔۔۔۔آپ ۔۔۔کو نیند نہیں آئی ۔۔۔آپ سوجائیں نا پلیز "

اس نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

"چاہت انجیکشن لگانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ،چلو شاباش جلدی بازو آگے کرو "

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔اس نے ڈرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

"Relax chahat ...."

اس نے چاہت کو پرسکون کرنا چاہا ۔۔۔۔

"اچھا میری بات سنو مجھے تم سے کچھ کہنا ہے "

یارم بلوچ نے اسکی نیلی آنکھوں میں اپنی سرمئی آنکھیں گاڑھے آنچ دیتے لہجے میں کہا تو چاہت اسکی گہری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جیسے ان میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔۔۔

"پہلے میری پوری بات دھیان سے سننا اسے سمجھنے کی کوشش کرنا پھر کی کوئی فیصلہ کرنا "

وہ کسی فیصلے پر پہنچ کر آج اس سے ساری بات کرلینا چاہتا تھا اسے سچائی سے روشناس کروانا چاہتا تھا ۔۔۔۔

"ان کی آنکھوں کا رنگ کتنا پیارا ہے ،اور بال ،،،وہ اسکی پیشانی پہ بکھرے سیاہ بالوں کو دیکھ رہی تھی ،اسکی نظر یارم بلوچ کی ستواں ناک پہ ٹہر سی گئی جو تیکھی اور مغرور سی لگی بالکل اسی کی طرح ۔۔۔۔وہ اسکے وجیہہ نقوش کو نہار رہی تھی ۔۔۔۔

"چاہت مجھے تم سے کہنا تھا ۔۔۔۔میرا مطلب مجھے تمہیں بتانا تھا کہ ۔۔۔ 

وہ ہمت مجتمع کر رہا تھا ۔۔۔مگر نجانے کیوں آج زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔۔۔۔

اس نے چاہت کی گوری کلائی پہ اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔۔مگر چاہت کو اس کا لمس محسوس ہی نہیں ہوا وہ اس قدر کھو چکی تھی اسے قریب سے دیکھنے میں ۔۔۔۔

یارم کا ہاتھ اسکی کلائی سے سرکتا ہوا اسکی شال بازو سے ہٹا چکا تھا ۔۔۔۔

"میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔ "وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیرے سے بولا ۔۔۔۔

"کہ ۔۔۔؟؟؟؟چاہت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔اسکا دل یکبارگی سے دھڑکا ۔۔۔۔

"کیا جو سسی کہہ رہی تھی ۔۔۔میرے ہزبینڈ بھی مجھ سے اپنے پیار کا اظہار کرنے والے ہیں ۔۔۔۔یہ سوچ کر اسکے چہرے پہ شرمگیں مسکان پھیل گئی ۔۔۔۔سینے میں دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگیں ۔۔۔۔

"میں آج تمہیں ایک سچ بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔ 

"کون سا ؟؟؟

وہ حلق تر کرتے ہوئے بمشکل بولی۔۔۔۔

"چاہت کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ،

جن کا نظر اتارنے کا دل کرتا ہے ،

بالکل تمہارے جیسے ہوتے ہیں وہ لوگ ،

تمہیں پتہ ہی تمہاری آنکھیں کتنی پیاری ہیں ،اور تمہاری نقرئی گھنٹیوں جیسی جلترنگ آواز ۔۔۔

"تمہیں دیکھ کر ،،،

تمہاری آنکھوں کو دیکھ کر ،،،

تمہاری مسکراہٹ کو دیکھ کر صدقے جانے کو جی چاہتا ہے ،،،یارم کی آنکھوں بول رہی تھیں مگر زبان زنگ آلود ہوچکی تھی۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔تبھی چاہت کے منہ سے زوردار چیخ نکلی ۔۔۔

کیونکہ یارم بلوچ اپنا کام دکھا چکا تھا اسکے بازو میں انجیکشن لگا کر ۔۔۔۔

اس نے مسکرا کر نچلا لب دانتوں تلے دبایا۔۔۔۔

چاہت کی آنکھیں نم ہوگئیں اس نے چھپٹ کر یارم پہ حملہ کر دیا اور اسکے ہاتھ پہ اپنے دانتوں سے کاٹ لیا ۔۔۔

"آہ ۔۔۔!!!! 

"یہ کیا تھا ظالم لڑکی ؟؟؟

یارم بلوچ نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں اسکے دانتوں کے نشان ثبت ہوچکے تھے ۔۔۔۔

"ظالم میں نہیں آپ ہیں ۔۔۔۔

"اور ساتھ ہی ساتھ چیٹر بھی ہیں ۔۔۔۔انکل ۔۔۔۔وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔بدلہ لے کر اسے سکون محسوس ہوا ۔۔۔۔

"Cheater ....

تو  ٹھیک ہے لیکن اگر دوبارہ انکل کہا تو یقین کرو بہت برا ہوا گا ۔۔۔

"کہوں گی۔۔۔۔انکل ۔۔۔انکل ۔۔۔انکل ۔۔۔۔وہ مسکرا کر بھاگنے کے لیے پر تول رہی تھی کہ یارم نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔۔

"اب بولو ۔۔۔کیا کہو گی ؟"

"م۔۔۔م مجھے لگا آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔

اس کے اتنے قریب آنے پہ چاہت کا دل پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب تھا ۔۔۔۔

"مثلاً کیا کہنا چاہتا تھا میں ۔۔۔۔وہ اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں کچھ نہیں ۔۔۔"وہ انکاری ہوئی ۔۔۔۔

"کہو جو دل میں محسوس ہورہا ہے ",

وہ اسے اکسا رہا تھا .

"آ۔۔۔آپ پہلے بتائیں ۔۔۔۔وہ موم کی مانند پگھل رہی تھی۔۔۔۔

"میں تم سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ ۔۔۔۔۔

یارم نے اب کی بار سنجیدگی سے اسے سچ بتانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔

اور اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔۔۔

ٹھک ۔۔۔ٹھک ۔۔۔ٹھک ۔۔۔۔باہر سے دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی تو دونوں نے چونک کر دروازے کو دیکھا ۔۔۔۔

"جی ۔۔۔۔!!!؟

"اتنی رات کو ۔۔۔آپ یہاں ۔۔۔کوئی مسلہ ہے ؟"

یارم نے دروازہ کھولا تو سامنے شازیہ تھی ۔۔۔۔اس نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔۔۔

",جی وہ وڈے سردار کو چائے دینے گئی تھی انہوں نے آپ کا پوچھا تو میں نے بتادیا کہ آپ شہر سے واپس آگئے ہیں ۔۔۔تو وہ آپ کو اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں ۔"

اس نے تفصیل سے بات بتائی ۔۔ 

",ٹھیک ہے آپ جائیں ",

اس نے کہتے ہی دروازہ بند کیا ۔۔۔۔

چاہت وہیں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

"آپ بھی میرے ساتھ چلیں ۔۔۔۔بابا سائیں اور ماں سا سے ملنے ۔۔۔۔

"نہیں آپ جائیں ۔۔۔۔"

اس نے زرش بلوچ کے روئیے کا سوچ کر انکار کیا ۔۔۔

"سارا دن کمرے میں رہ کر بور نہیں ہوجاتی آپ ۔۔۔۔؟

"کمرے سے باہر نکلا کریں گھوما پھرا کریں اس سے صحت پہ اچھا اثر پڑتا ہے ۔۔۔

"لیکن ۔۔۔۔وہ کہنا بھی چاہتی تھی مگر چپ رہی ۔۔۔۔

وہ اس کی کیفیت کو بخوبی سمجھتا تھا وہ اس کی والدہ کی وجہ سے پریشان تھی ۔۔۔

"میری ماں سا دل کی بہت اچھی ہیں ،آپ ایک بار آگے بڑھ کر ان سے بات کریں دوستی کی کوشش کریں ۔۔۔مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ایک اچھی ماں کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ساس بھی ثابت ہوں گی ۔۔۔۔

"مگر ۔۔۔۔وہ کشمکش میں مبتلا انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔

",آپ کو بس ان سے سوری کہنا ہے ",

"مگر کیوں ؟

اس نے ناسمجھی سے پوچھا ۔۔۔

"انہیں لگتا ہے آپ نے ان سے ان کا بیٹا چھین لیا ہے ۔۔۔۔

"لیکن میں نے تو نہیں چھینا آپ کو کسی سے "

"مجھے پتہ ہے آپ بے قصور ہیں ہم ماں بیٹے کی لڑائی میں پس رہی ہیں ۔۔۔۔ایک گھر میں رہتے ہوئے یوں الگ الگ رہنا معیوب لگتا ہے کہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے آپ کر کہ دیکھ لیں ۔۔۔اگر وہ نا مانی تو دوبارہ آپ سے کبھی ایسا کرنے کو نہیں کہوں گا ۔۔۔۔

"کہہ دے گی نا ؟؟؟

"جی "

اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

وہ یارم کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم!

یارم بلوچ نے کمرے میں داخل ہوکر دونوں کو مشترکہ سلام کیا۔۔۔۔

وعلیکم اسلام !

دونوں نے اسے جواب دیا ۔۔۔

چاہت نے بھی ڈرتے ڈرتے آہستہ آواز میں سلام کیا۔۔۔

"آؤ بیٹھو بچو ۔۔۔مجھے یارم تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی اسی لیے تمہیں بلایا ۔۔۔

"جی بابا جان کہیے ۔۔۔۔کمرے میں بیڈ سے زرا دوری پہ دو صوفے رکھے ہوئے تھے انہیں میں سے ایک پہ سردار فلک بلوچ براجمان تھے ۔۔۔یارم بلوچ انکے ساتھ والے صوفے پہ جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔جبکہ چاہت وہیں کھڑی یارم کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

یارم نے اسے آنکھوں سے اشارہ کیا بیڈ پہ زرش بلوچ کے ساتھ بیٹھنے کا ۔۔۔۔

اس نے جھٹ نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

اس بار یارم نے زرا گھورتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔

وہ بادل ناخواستہ قدم اٹھاتے ہوئے بستر کے ایک کونے پہ ٹک گئی ۔۔۔۔

اس کا جسم ہولے ہولے کپکپا رہا تھا ۔۔۔زرش بلوچ کے اتنے قریب بیٹھنے پہ ۔۔۔

زرش بلوچ نے قریب بیٹھی چاہت کا سر تا پا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔۔۔۔

"یارم میں چاہتا ہوں کہ کل تمہارا ولیمہ رکھ لوں ،سارے گاؤں میں تمہارے نکاح کی خبر پھیل چکی ہے ،تو ولیمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔تم بتاؤ کیا کہتے ہو اس بارے میں ۔۔۔۔؟

"مجھے کوئی اعتراض نہیں بابا سائیں آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔۔۔۔

"ہمممم ۔۔۔۔دل خوش کردیا تم نے تو ۔۔۔۔اب اپنے باپ کی ایک آخری خواہش بھی پوری کردو ۔۔۔۔

وہ مسکرا کر بولے ۔۔۔۔

"بابا سائیں آخری مت کہیں ۔۔۔بس آپ حکم دیں ۔۔۔کون سی خواہش ۔۔۔۔؟

"جلدی سے مجھے میرے ننھے منے وارثوں کا منہ دکھا دو ۔۔۔۔"وہ یارم کی طرف دیکھ کر اتنی آہستہ آواز میں بولے ۔۔۔۔کہ وہ بات ان دونوں کے سوا کوئی نہیں سن سکا۔۔۔

"لیکن بابا سائیں ۔۔ ؟

اس نے حیرت زدہ نظروں سے انہیں دیکھ کر کچھ کہنا چاہا ۔۔۔۔

"کیا میری خواہش نا جائز ہے ۔۔۔۔؟؟؟

انہوں نے ابرو اچکا کر سوالیہ  انداز میں پوچھا ۔۔۔

"نہیں بابا سائیں مگر ۔۔۔۔"

"سوری ۔۔۔!!

بالآخر ہمت کیے چاہت نے زرش بلوچ سے کہہ ہی دیا ۔۔۔۔

"وہ کس لیے "؟

زرش بلوچ تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

"وہ انہوں نے کہا تھا آپ سے کہنے کے لیے "

اس نے یارم کی طرف انگلی کا اشارہ کیے زرش بلوچ سے کہا ۔۔۔

یارم بلوچ اپنا بھانڈا پھوٹنے پہ ازحد شرمندہ ہوا ۔۔۔۔

فلک بلوچ کے چہرے پہ مسکراہٹ رینگ گئی ۔۔۔۔

"لو یہ پٹیاں پڑھا کر لایا ہے تمہیں ۔۔۔۔

"میں تو سمجھی تھی کہ تو میرے بیٹے کو میرے خلاف پٹیاں پڑھاتی ہوگی جو یہ اپنی ماں کو بھول گیا ۔۔۔۔

انہوں نے شکوہ کناں نگاہوں سے یارم کو دیکھتے ہوئے نروٹھے لہجے میں کہا ۔۔۔۔ 

"نہیں ماں سا ایسی بات نہیں بس گاؤں اور شہر دونوں کے کاموں سے فراغت میسر نہیں ۔۔۔۔

"تو معافی اس سے کیوں منگوا رہا ہے ۔۔۔معافی تو تجھے مانگنی چاہیے ۔۔۔۔

"جی میں وہی مانگنے والا تھا ۔۔۔۔مجھے معاف کردیں ماں سا ۔۔۔۔میں نے آپ سے پوچھے بنا اتنا بڑا قدم اٹھایا ۔۔۔۔

وہ بولتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور زرش بلوچ کے پاس آیا ۔۔۔۔

"ہماری بیٹی ہمارے پاس آکر بیٹھے اور بتائے کہ اسے کل ولیمے کے لیے کیسے کپڑے چاہیے ۔۔۔۔فلک بلوچ نے چاہت کو پیار بھرے انداز میں مخاطب کیے اپنے پاس بلایا ۔۔۔وہ اٹھ کر یارم بلوچ کی خالی کی گئی جگہ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔۔

”بات سنو۔۔۔۔۔زرش بلوچ نے چاہت کو پکارا ۔۔وہ بھی ان کی آواز سن کر چپ چاپ ان کی طرف دیکھنے لگی ۔۔

”جی آنٹی ۔۔؟“ اس نے آہستہ سے پوچھا، 

"یہ ولایتی رشتہ آنٹی کیا ہوتا ہے ۔۔۔جیسے یارم مجھے ماں سا کہتا ہے ویسے ہی کہو۔ ۔۔۔۔

”مگر مجھ سے بولا نہیں جاتا ۔۔۔ماں سا ۔۔۔! 

عجیب سا لگتا ہے ۔۔۔میں آپکو ممی کہوں ؟۔۔۔“ اس نے ڈرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"لوجی بہو بھی ولایتی اور رشتہ کا نام بھی ۔۔۔۔وہ مسکرا کر ہلکے پھلکے انداز میں بولیں ۔۔۔۔

"چلو ٹھیک ہے جیسے تمہیں اچھا لگے ۔۔۔۔ان کا دل پسیج گیا تھا ۔۔۔۔اس کے بارے میں سن کر ۔۔۔۔

"ویسے ایک بات ہے یارم میری بہو چاند کا ٹکڑا لگتی ہے ",

وہ اسکے معصوم چہرے کی طرف دیکھ کر بولیں ۔۔۔

"اسی لیے تو چاند کو آسماں سے چرا کر اپنے ساتھ لے آیا ہوں ۔۔۔۔اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔۔۔۔

چاہت نے چونک کر اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔یارم نے نظریں چرائیں ۔۔۔۔

وہ پہلو بدل کر رہ گئی ۔۔۔۔

 ۔

”آپ مجھے معاف کردیں ماں سا میری ہر نادانی کے لیے ، آپ کی دل سے قدر کرتا ہوں۔۔“اس نے دھیرے کہا ۔۔۔

"ماں سا چاہت کے پیرنٹس کی اسکے بچپن میں ڈیتھ ہوگئی تھی ۔۔۔۔اور میرے ہاتھوں بھی اس کا بہت بڑا نقصان ہوگیا تھا ۔۔۔بس حالات کی کچھ ایسے تھے کہ مجھے اس سے نکاح کرنا پڑا ۔۔۔۔۔

"کیوں کیا ہوا"؟

"ماں سا پھر کبھی تفصیل سے برسوں گا ۔۔۔۔چاہت کے ماں باپ کی وفات کا سن کر زرش بلوچ

 کے چہرے پر بھی اک سایہ آ کر گزر گیا انہیں بھی پتا تھا کہ تب کیا ہوا تھا۔۔جب وہ یارم کے ساتھ اس گھر میں آئی تھی ۔۔۔۔بس ان کو وقتی غصہ تھا ۔۔۔وہ اخروٹ کی طرح باہر سے سخت اور اندر سے نرم تھیں ۔۔۔۔

"یہاں آؤ میرے پاس "

انہوں چاہت کو پیار سے آواز دے کر اپنے پاس بلایا ۔۔۔۔

چاہت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے آکر یارم بلوچ کے ساتھ انکے قریب بیٹھ گئی ۔۔۔۔

” پیار کرتی ہو میرے بیٹے  سے۔۔۔۔؟“ انہیں تعجب ہوا تھا ،یارم کی آدھی ادھوری بات پہ  لیکن اس بات کی خوشی بھی ہوٸی تھی کہ اس  کو بہت پیاری بیوی ملی تھی۔۔

”جی پیار "؟؟؟؟"

اسکی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے کھلی کی کھلی رہ گئی انکے سوال پہ ۔۔۔۔

"میں آدم برو سے پیار کرتی تھی ۔۔۔لیکن اب ۔۔۔“ اس نے اپنی آنکھوں میں اترتی نمی کو پلک جھپک کر اندر دھکیلا اور بات ادھوری چھوڑ دی ۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انکی بات کا کیا جواب دے ۔۔۔

”تم بھی مجھے معاف کر دو میں اپنے گزشتہ رویے پر بہت شرمندہ ہوں، میں نے تم کو سمجھنے میں بہت غلطی کر دی“زرش بلوچ نے اس سے اپنے گزشتہ رویے کی معزرت کی۔ انہیں بہت کچھ سمجھ آ چکا تھا۔

”مجھے آپ کے رویے سے کوٸی شکوہ نہیں۔ تب حالات ہی ایسے تھے۔۔۔۔۔۔“اس نے اپنے تئیں سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔۔

زرش بلوچ نے اس کے دونوں  ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ۔۔۔

"مجھے اس حویلی کا وارث کب دے گی "؟

انہوں نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔۔کتنے سال بیت چکے تھے اس حویلی میں کسی بچے کی قلقاری نہیں گونجی تھی ۔۔۔۔وہ اس حویلی کو پھر سے آباد دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔ 

"وارث ۔۔۔۔؟؟؟.وہ کیا ہوتا ہے ؟؟؟

چاہت نے مخمصے میں پھنسے بالاخر پوچھ ہی ڈالا ۔۔۔۔

"لوجی ادھر تو بات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی ۔۔۔۔

یارم یہ کس صدی سے بہو لے آیا ہمارے لیے ۔۔۔۔کہیں پچھلی صدی سے تو نہیں ۔۔۔۔؟

انہوں نے حیرانگی سے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔

یارم کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

"میں سمجھا دوں گا آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔

"او۔۔۔۔چن مکھناں ۔۔۔۔کہہ تو رہا ہے سمجھا دے گا "

وہ مسکراتے ہوئے بولے ۔۔۔۔

تو یارم کے لبوں پہ مسکراہٹ گہری ہوئی اپنے بابا سائیں کے اپنی ماں سا کے لیے طرز تخاطب استمعال کرنے پہ ۔۔۔۔

"آپ بھی بچوں کے سامنے شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔

انہوں فلک بلوچ کو گھوری سے نوازا ۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے بچوں تم لوگ جا کر آرام کرو کافی رات ہوگئی ہے ۔۔۔۔زرش تم کل شہر سے بہو کے لیے اچھے سے کپڑے لے آنا ',

"جی بہتر "

انہوں نے جوابا کہا۔۔۔

یارم اور چاہت دونوں وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گئے اور اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔۔۔

"بہت اچھا کیا تم نے بچی کو معاف کر کہ "

انہوں نے پیار بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے توصیفی انداز میں کہا ۔۔۔۔

"کیسے نا کرتی ۔۔۔میرے بیٹے کی خوشی اس میں ہے ۔۔۔۔میرا بیٹا خوش تو میں خوش ۔۔۔۔

"آئیں اب اپنی جگہ پہ سو جائیں صبح بہت کام ہیں ۔۔۔جلدی اٹھنا ہوگا ۔۔۔۔

وہ صبح کاموں کی فہرست کا سوچ کر بولیں ۔۔۔

"ھاد کہاں ہے ؟

انہوں نے پوچھا ۔۔۔

",وہ تو اپنے کمرے میں سونے کے کیے لیٹ گیا تھا ۔۔۔

"آتش ابھی تک واپس نہیں آیا ۔۔۔۔؟

"نہیں ابھی تک تو نہیں آیا ۔۔۔

"اسے میں نے ہمارے گاؤں میں ایک بچی کی شادی تھی وہاں بھیجا تھا راشن اور کچھ رقم دے کر تاکہ شادی کے سلسلے میں انکی تھوڑی مدد ہو جائے ۔۔۔۔انہوں  سردار فلک بلوچ صوفے سے اٹھ کر اپنی جگہ پہ آگئے اور انہیں بتایا ۔۔۔

"ٹھیک کیا آپ نے ۔۔۔۔آجائے گا آتش سمجھدار ہے وہ آپ اس کی فکر مت کریں ۔۔۔۔

انہوں نے سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ آف کر کہ کہا ۔۔۔۔

۔اب یہ تو کل کا نیا اگنے والا سورج کی بتانے والا تھا کہ کل کیا ہونا تھا ۔۔۔۔۔؟؟؟...!!!!

"سسی جلدی آنا "زبیدہ نے تیار ہوتی ہوئی سسی کو آواز لگائی ۔۔۔۔۔

آج امینہ کی مہندی کی رسم تھی ،

"ابھی تو میں گئی بھی نہیں اور آپ کو میری  واپسی کی جلدی ہے "

آج وہ میرون رنگ کی گھاگھرا چولی پہنے سر پہ دوپٹہ اوڑھے آنکھوں میں بھر بھر کر کاجل ڈالے بہت خوب صورت دکھائی دے رہی تھی ،بظاہر تو وہ خوش تھی۔کیونکہ آج اسکی پیاری سہیلی کی شادی ہونے جا رہی تھی  مگر دل اداس اس کے جانے سے،،،ایک اور روگ جو وہ دل کو لگا بیٹھی تھی اپنے خوابوں کے شہزادے سے پیار کرکہ وہ اسے اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھائے جا رہا تھا ۔۔۔۔وہ شیشے میں خود کو دیکھنے لگی ،،،بڑی بڑی بھوری غزالی آنکھیں،ستواں ناک اس میں باریک سی تار ،باریک پنکھڑیوں سے نازک لبوں پہ ہلکی سی لپسٹک ،جو امینہ نے ہی اسے میلے سے خرید کر دی تھی ،کمر سے نیچے آتے ریشمی گھنے سیاہ گیسو ،جسے اس نے چوٹی میں گوندھ کر شانے پہ ڈال رکھا تھا ،دودھ ملائی جیسی رنگت ،وہ کسی شہزادی سے کم تو نا تھی ،مگر امیری غریبی تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔کہ وہ جسے چاہے دے ،جسے چاہے نا دے ،اصل امیر ہونا دل کا امیر ہونا ہوتا ہے ،پیسہ حاصل کر کہ تو کوئی بھی امیر ہوجاتا ہے ،مگر کسی کو دینے کی سکت کسی کسی میں ہی ہوتی ہے ،دنیا میں کتنا ہی پیسہ کما لو قبر میں انسان خالی ہاتھ ہی جاتا ہے ،سسی دل کی امیر تھی ،ہاں اس نے اونچی جگہ دل لگایا تھا ،خواہش تو ہر انسان کرتا ہے اس نے بھی کی اس کا پورا ہونا انسان کے بس میں نہیں اس خدا کے ہاتھ میں تھا ،اور اس خدا کی کیا رضا تھی ،یہ تو وہی بہتر جانتا تھا ،وہ اپنے بارے میں سوچتے ہوئے کھونے لگی تھی ۔۔۔۔

”ادھورا پن ہی زندگی ہے “ 

میں دھیرے دھیرے اپنے آپ کو کھو رہی ہوں اور میری روح میں بے چینیاں بھرنے لگی ہیں۔دل جن راہوں پر چلنے کے لیے ضد کرنے لگا ہے وہ راستہ آسان نہیں ہے۔لیکن دل کو تیری ہنسی کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا مگر میں سن رہی ہوں وہ آوازیں جن میں شاید کبھی تیری ہنسی دب جائے ۔۔۔ 

سنا ہے محبت میں خود کو کھونا پڑتا ہے۔لیکن میں خود کو کھو دینے سے ڈر رہی ہوں۔ میں نے خود کو کھو دیا تو کبھی تلاش نہیں کر پاٶں گی کیونکہ ہم جیسوں کا کھو کر واپس ملنا ناممکن ہے۔

ہر انسان کا خود کو واپس لانے کا طریقہ دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔اگر میں تم ہو کر ڈوب گئی تو اس گہرے کنویں سے خود کو نکال کر لانا بہت مشکل ہو جائے گا۔شاید میں اپنی ذات کا ایک حصہ کھو دوں۔

تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ میں اس کھوئے ہوئے حصے کے بنا کیسے آگے بڑھ پاٶں گی۔؟

آدھے ادھورے خواب بہت تکلیف دیتے ہیں۔

پتا ہے خوابوں میں جینے والے ایک دوسرے کے ہو جائیں تو زندگی انہیں چین سے جینے نہیں دیتی۔

"آجا باہر سسی "

"جی آئی ....وہ دوپٹہ درست کیے  برق رفتاری سے باہر نکلی ۔۔۔۔

امینہ کے گھر ِاس محلے کی ساری عورتیں اور لڑکیاں موجود تھیں ڈھولک کی تھاپ پہ علاقائی گیت گائے جا رہے تھے ،،،،سسی بھی ان کے ساتھ ملکر اپنی میٹھی آواز میں ان کا ساتھ دے رہی تھی ،،،،

"کچھ دیر بعد علاقائی دھن پہ سب لڑکیاں دھیرے دھیرے علاقائی سٹیپس لیتے ہوئے رقص کرنے لگیں ۔۔۔۔سسی بھی ان میں شامل تھی ،آخر اس کی دوست کی مہندی تھی تو وہ اپنا حصہ ڈال رہی تھی ،باقی عورتیں تالیاں بجا کر داد دے رہی تھیں ،،،امینہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی ،سسی کو اپنی مہندی پہ یوں رقص کرتے دیکھ ،

"یہ کچھ راشن اور رقم بابا نے بھیجی ہے ،آپکی بیٹی کی شادی کے لیے "

"سردار اس کی کیا ضرورت تھی "امینہ کے والد نے سعردار آتش بلوچ سے کہا ۔۔۔۔

"ضرورت کیوں نہیں تھی بیٹی کی شادی میں ان چیزوں کی ضرورت تو پڑتی ہے ،اور یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے علاقے کے لوگوں کا خیال کریں ،"

آتش بلوچ نے انکے شانے پہ ہاتھ رکھ کہا ۔۔۔

"بہت شکریہ آپ کا چھوٹے سردار ۔۔۔۔وہ ممنون لجہے میں بولا ۔۔۔۔

"آپ آئیے نا اندر کچھ چائے پانی پی لیجیے ۔۔۔۔"

اس نے آتش بلوچ کو اندر آنے کی دعوت دی ۔۔۔

"نہیں اس کی ضرورت نہیں اندر عورتوں کی رسم چل رہی ہے میں کیا کروں گا "

وہ جانے کے لیے مڑا ۔۔۔

"ہمارے غریب خانے میں قدم رکھنے سے ۔۔۔۔۔اس کے منہ سے بلا اختیار نکلا ۔۔۔اس نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی ۔۔۔۔

"ایسی بات بالکل بھی نہیں ہم سب انسان برابر ہیں ،جب اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابری کا درجہ دیا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ،فرق کرنے والے ۔۔۔۔چلیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور ہاں اب تو میں چائے پی کر ہی جاؤں گا آپکے گھر سے "

وہ خوش دلی سے مسکراتے ہوئے بولا 

"آئیے آئیے سردار ....اس نے اندر آنے کا راستہ دیا تو آتش بلوچ اندر داخل ہوا۔۔۔۔

سسی جو رقص کے دوران گھوم رہی تھی ،گھومتے ہوئے اچانک پیچھے سے آتے ہوئے آتش بلوچ کے سینے سے لگی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ ٹکرانے کی وجہ سےاپنا توازن کھو کر گر جاتی آتش بلوچ نے اس کے شانوں سے تھام کر اسے گرنے سے روکا ۔۔۔

کسی طلسمی لمحے نے سسی کے پیر ان دیکھی زنجیر سے جکڑ ڈالے ۔۔۔۔اس وقت وہ اس کے انتہائی قریب تھا ،اس کی نظر اٹھنے سے انکاری کوئی ،اس کا بس تو اپنے دل کی دھڑکنوں پر بھی کسی طور نا چل رہا تھا جو سینے میں دھڑک دھڑک کر اب اسکے کانوں میں۔ سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔۔

وہ خوشبوؤں کے دیس کا باسی ۔۔۔۔اپنے مخصوص پرفیوم کی مہک میں بسا بسایا اس کے بے حد قریب تھا ،آج تو گویا سسی کے دل کی مراد بر آئی تھی اس ستمگر شہزادے نے پہلی بار اس پیاری لڑکی کو غور سے دیکھا تھا ،جس کی گھنی مژگانیں رخساروں پہ جھکیں بری طرح لرز رہی تھیں ۔۔۔۔

آج قسمت نے انہیں اک قرب کا لمحہ بخشا تھا ،مگر سسی میں تو ہمت ناپید ہو چکی تھی ،نظریں ملانے کی ،،،،

آتش بلوچ بغور اسکی سمت تک رہا تھا ۔۔۔۔

آج وہ سامنے تھا ،

اس کے مد مقابل تھا ،

اسی پہ نگاہیں جمائے ہوئے تھا ،

مگر سسی کی زبان زنگ آلود ہوچکی تھی ،

”یہ چند لمحوں پہلے کی بات ہے جب وہ اس کی زندگی میں چپکے سے چلی آئی ۔آنے والا احساس  دبے پاؤں آتش بلوچ کے پیچھے آن کھڑا ہوا اور اس کی آنکھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیے۔۔۔اس نے پوچھا 

”کون۔۔۔؟ “

 اس احساس نے شرارتی انداز میں کہا 

”محبت“ اس نے یہ کہتے ہوئے اپنے کپکپاتے ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ دیے اور دونوں ہنس دیے۔وہ خوبصورت لمحہ  چپکے سے اس کے دل میں اتر گیا۔جو دل میں داخل ہونے کے سبھی راستے جانتے ہوں، وہ دستک نہیں دیتے۔

دل بھی بڑا عجیب ہے۔ہر آنے والے کے لیے دروازہ نہیں کھولتا۔اس کے سنگ چلتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔۔جہاں چمکتے ستاروں نے روشن ہوکر اسے محبت نامی آسمانی تحفہ ملنے پہ جھلملاتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا “

آج سسی اکیلی اس محبت نامی جذبے کا شکار نا تھی وہ شہزادہ بھی اس محبت نامی بلا کے طلسم کے زیر اثر آگیا تھا ،

لوگوں کی چہ میگوئیاں سن کر آتش نے سب سے پہلے خود کو سنبھالا اور سسی کو چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہوا ۔۔۔۔

سسی اپنی بھوری آنکھوں کو زمیں پہ جمائے نجانے کیا ڈھونڈھنے  میں سرگرداں تھی جو اسے مل کر نا دے رہا تھا ،

"بیٹھیے سردار "

امینہ کے والد نے موڑھا رکھا تو آتش بلوچ اس پہ براجمان ہوا ۔۔۔

سب عورتیں اور لڑکیاں عالم اشتیاق سے اس خوبرو شہزادے کو دیکھنے لگیں اور آپس میں سرگوشیوں میں اس پہ تبصرے کرنے لگیں ،،

سسسی کی حالت تو یوں تھی جیسے وہ ابھی بھی اس ستمگر کے حصار میں مقید تھی،اسکے ہاتھوں کا لمس ،اس کی مخصوص کلون کی مہک اسے ابھی بھی اپنی سانسوں میں محسوس ہو رہی تھی ،اسے لگا آج اس لمحے اس نے اپنی ساری زندگی جی لی تھی ،

"لیجیے سردار چائے "

امینہ کی والدہ نے اسکے آگے چائے رکھی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے ایک سرسری سی نظر دور کونے میں دبکی بیٹھی سسی پہ ڈالی ۔۔۔۔جس کا بدن ابھی بھی اسے ہولے ہولے لرزتا ہوا دکھائی دے رہا تھا ،گورے گالوں پہ کچھ لمحات پہلے کی کاروائی کی سرخی چھائی ہوئی تھی ،وہ مبہوت رہ گیا اس کی نازک اداؤں پہ ۔۔۔۔آج سے پہلے تو کبھی اس نے ایسا محسوس نہیں کیا تھا ،،،تو کیا سسی کی دعائیں رنگ لے آئیں تھیں جو آتش بلوچ کو محبت کے آکٹوپس نے خود میں  جکڑ لیا تھا ،

چائے پی کر شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ جس شان و عظمت سے چلتا ہوا آیا تھا اسی وقار سے واپس لوٹ گیا ۔۔۔۔۔

آج ساری رات سسی سو نا سکی ،اسی کے خیالوں میں کھوئی رہی ۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف آتش بلوچ کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نا تھا ۔

وہ آنکھیں بند کرتا تو اسکا سرخی مائل چہرہ دکھائی دیتا ۔۔۔۔آنکھیں کھولتا تو اس کی بڑی بڑی بھوری بھیگی شکوہ کرتی  آنکھیں دکھائی دیتیں ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج دوپہر میں یارم بلوچ اور چاہت  کا ولیمہ تھا،زرش بلوچ صبح سویرے ہی شہر کے لیے روانہ ہوچکی تھیں ،رسم کے مطابق چاہت کے لیے خریداری کرنے ،،،،

چاہت کے سو کر اٹھنے سے پہلے ہی یارم بلوچ کمرے سے باہر جا چکا تھا ،

"یہ لیں چاہ آپ کا کھانا "

سسی ناشتے کی ٹرے لے کر اسکے کمرے میں آئی ۔۔۔

سسی حویلی آئی تو شازیہ نے اس کے ہاتھ چاہت کا ناشتہ بھیج دیا ۔۔۔۔کیونکہ سردار یارم نے کہا تھا کہ اس کا ناشتہ کچھ دیر بعد کمرے میں بھیج دیا جائے ۔۔۔۔

"واؤ ۔۔۔۔تم آگئی ۔۔۔۔۔مجھے نا تمہیں ایک بات بتانی تھی ۔۔۔

چاہت نے سسی کو سامنے دیکھ کر پرجوش انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

"جی کیا بتانا تھا "؟

وہ کھڑے ہوئے بولی ۔۔۔

"آؤ نا بیٹھو تو سہی پھر بتاتی ہوں ",

چاہت نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر پہ بٹھانا چاہا۔۔۔

"چاہ ۔۔۔میں نا جہاں بیٹھ جاتی ہوں "

سسی نے زمین پہ بیٹھ کر کہا ۔۔۔ 

"تمہیں پتہ ہے مجھے یہ پسند نہیں ۔۔۔چلو اٹھو یہاں آؤ "۔چاہت نے اسے زمین پہ بیٹھے دیکھا تو ناگواری سے کہا ۔۔۔

",اچھا آپ بتائیں تو کیا کہنا چاہتی تھیں "؟

"وہ نا آج ولیمہ ہے ممی نے کہا ۔۔۔۔اور ہاں میری اور ممی کی نا دوستی ہوگئی ہے ۔۔۔چاہت نے ہنس کر کہا ۔۔ 

"ویسے یہ ولیمہ کیا ہوتا ہے مجھے یہ پوچھنا تھا .

وہ تکیہ گود میں رکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگی ۔۔۔

"وہ نا ولیمے پہ آپ اچھے اچھے کپڑے پہنیں گی اچھا سا تیار ہوں گی سب آپ کو شادی کے تحفے دیں گے ،سسی کو جو پتہ تھا اس نے بتا دیا ۔۔۔۔

"پھر ؟؟؟چایت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

"ان کپڑوں میں آپکے سردار آپکی تعریف کریں اور کیا "

وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔۔

"وہ تو میری تعریف کرتے نہیں کبھی "

چاہت نے یاد کرنے پہ خفگی سے منہ پھلا کر کہا ۔۔۔۔

"چاہ آپ ۔۔۔ اچھے اچھے کپڑے پہنیں تب ہی وہ تعریف کریں گے نا ایسے کپڑے شاید انہیں پسند نا ہوں ۔۔۔ 

"تو پھر کیسے کپڑے پسند یوں گے "؟چاہت نے اپنی نیلی آنکھوں کو بڑا کیے پوچھا ۔۔ 

"جیسے سب گاؤں کی عورتیں پہنتی ہیں گھاگھرا چولی ۔۔۔۔اس نے اپنے تئیں اندازہ لگایا۔۔۔۔

"ہوووو۔۔۔ یہ مجھ سے نہیں پہنا جائے گا ۔۔۔۔مجھے تو جینز پہننے کی عادت ہے ،اور زیادہ سے زیادہ سکرٹ اور شرٹ ،،،

چاہ ۔۔۔۔!!!

یہ بھی گھاگھرے جیسا کچھ ہے ۔۔۔۔ایک بار پہن کر تو دیکھیں ۔۔۔۔

اس نے مشورہ دیا ۔۔۔۔

"مگر میرے پاس تو ہیں ہی نہیں ایسے کپڑے "

اس نے متفکر لہجے میں کہا۔

"آپ وڈی سردارنی جی سے کہیے گا وہ لادیں گی "

"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔تم بھی اچھا سا تیار ہوکر آنا ولیمے پہ ۔۔۔۔

"میں نے تو کام ہی کرنے ہیں ،کیا فایدہ تیار ہونے کا ۔۔۔۔

"ویسے میں رات کو اپنی سہیلی امینہ کی مہندی پہ خوب تیار ہوکر گئی تھی ۔۔۔۔

سسی نے بتایا ۔۔۔

'تو پھر میں بھی تو تمہاری دوست ہوں ۔۔۔کیا میرے لیے نہیں کرو گی ؟

اس نے منہ بسور کر کہا ۔۔۔

"جی ٹھیک ہے ضرور ہوں گی ۔۔۔ 

"چلیں آپ ناشتہ کرلیں سردار سے ملنے کچھ لوگ آئیں ہیں میں زرا باہر کام دیکھ لوں ۔۔۔ 

سسی کہتی ہوئی باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔

چاہت نے کافی دیر یارم کے کمرے میں آنے کا انتظار کیا مگر وہ نہیں آیا تو وہ خودی کمرے سے باہر نکل آئی آج تو زرش بلوچ کا ڈر بھی نہیں تھا ،کیونکہ ان کی صلح ہوچکی تھی اور دوسرا وہ اس وقت حویلی میں بھی نہیں تھیں تبھی چاہت بے دھڑک ہوکر کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔وہ سکرٹ اور شرٹ میں ملبوس تھی آج تو شال بھی نہیں لی  تھی ۔۔۔

اس نے دیکھا یارم نیچے لاونج کے صوفے پہ بیٹھا تھا اور سیگریٹ پی رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔۔

اس نے یارم کو پہلی بار امریکہ میں سیگریٹ پیتے دیکھا تھا ۔۔۔۔وہ تب حیران رہ گئی تھی کہ منہ سے کیسے گول گول  دھواں نکل سکتا ہے ،اس نے پہلے تو کبھی کسی کو یوں کرتے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔

اس کے دل میں خود بھی منہ سے دھواں نکالنے کی خواہش جاگی ۔۔۔وہ بنا سوچے سمجھے تیزی سے سیڑھیاں پھیلانگتے ہوئے نیچے آئی ۔۔۔۔

"انکل مجھے بھی سیگریٹ پینا ہے ۔"

وہ اردو اور مغربی لہجہ کے ملاوٹی انداز میں بولی ۔۔۔

تیس سالہ سردار یارم جو سفید کھدر کی شلوار قمیض میں ملبوس سر پہ اپنی خاندانی دستار باندھے پورے جاہ و جلال سمیت حویلی کے شاہانہ صوفے پہ براجمان تھا ۔۔زمین پہ اسکے گاؤں کے زائرین بیٹھے تھے ۔۔۔اپنے سردار کی گود میں آکر بیٹھتی سولہ سالہ لڑکی جو مغربی طرز کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھی،دھپ سے آکر اسکی گود میں بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔

"I swear ... 

آپ جب اسے پی کر جو دھواں اڑاتے ہیں نا مجھے بڑا cool لگتا ہے ۔۔۔۔وہاں امریکہ میں تو ۔۔۔

اس سے پہلے کہ اس کی فراٹے بھرتی زبان اسے سب کے سامنے مزید شرمندہ کرواتی ۔۔۔

"آپ اندر جائیں "

وہ برفیلے تاثرات سجائے قہربار نظروں سے دیکھتے ہوئے غرایا ۔۔۔۔

"مگر میری بات تو ۔۔ 

اس نے بولنا چاہا ۔۔۔

"بس ۔۔۔!!!! 

اس کی بھاری دھاڑ گونجی ۔۔

سب نے نظریں جھکائیں ۔۔۔سوائے چاہت کے ۔۔۔

یارم  نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکا اور کلائی سے پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنی گود سے اٹھایا ۔۔۔

"میں نے کہا جائیں ....وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔۔۔

اس نے سردار یارم کی سرمئی آنکھوں میں لہو چھلکتے دیکھا تو اپنی سانسیں خشک ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔

اس کانچ کی گڑیا کی چکمتی ہوئی نیلی آنکھوں میں یکلخت نمی گھلنے لگی ۔۔۔

وہ نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں پہ خفگی بھری نظر ڈالتے ہوئے الٹے قدم لیے وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔۔

اسکے جاتے ہی سب لوگ سرگوشیوں میں بات کرنے لگے ۔۔۔

"ارے یہ تو سردار کی نئی دلہن ہے نا تو سرادر کو انکل کیوں کہہ رہے تھی "

ان سرگوشیوں میں سے ایک سرگوشی سردار یارم کے کانوں سے مخفی نہیں رہ سکی ۔۔۔اسنے تلملاتے ہوئے دانت پیسے ۔۔۔۔

"کتنی بار اسے منع کیا ہے انکل بولنے سے ",وہ منہ میں بڑبڑایا۔۔۔۔۔

اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی چاہت کی پشت کو دیکھا جس پہ سنہری بالوں کی پونی ٹیل بل کھا رہی تھی ۔۔۔۔

ایک تو سب کے سامنے شال کے بغیر باہر آنا دوسرا سب کے سامنے اسکی گود میں بیٹھنا تیسرا انکل اور چوتھا سب کے سامنے سیگریٹ پینے کی فرمائش کرنا گویا اسے کے تن من میں آگ ہی لگا گیا تھا وہ اپنا غصہ قابو نا کرسکا ۔۔۔۔اسی لیے اسے سب کے سامنے ڈپٹ دیا تھا ۔۔۔۔

"آپ سب دوپہر میں مردان خانے میں آجائیے گا ۔۔۔۔

سردار یارم بلوچ نے سپاٹ انداز میں کہا تو سبھی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج اسے روایتی دلہنوں کا سا روپ دے کر پور پور سجا دیا گیا تھا ،خاندانی بھاری زیورات کا بوجھ اٹھا اسے دوبھر ہوا جا رہا تھا ،دیدہ زیب ڈیزائن کی ماتھا پٹی ، گلوبند ،جھمکے ،ہاتھوں میں کنگن چوڑیوں سمیت ،عرق سے لگائی گئی ارجنٹ مہندی جو سوکھ کر اس کی سفید بازوں پہ عجب جھب دکھلا رہی تھی۔سر پہ سرخ زرتار آنچل ،شہر سے زرش بلوچ ایک ماہر بیوٹیشن کو ساتھ لے آئی تھیں جس نے اپنے ماہر ہاتھوں سے چاہت کے حسن کو مزید چار چاند لگا دئیے تھے ،سرخ عروسی لباس میں ملبوس سرخ میک اپ میں اپنے دو آتشہ روپ میں غضب ڈھا رہی تھی۔۔۔۔تیار ہونے کے بعد چاہت نے خود کو کمرے میں موجود ڈریسر کے شیشے میں دیکھا حیران رہ گئی ،یہ کیسا سنگھار کیا تھا اس کا کہ وہ خود کو پہچاننے سے انکاری ہوگئی ۔۔۔۔وہ ساکت سی کھڑی تھی ۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے بیوٹیشن اسے تیار کیے کمرے سے جا چکی تھی ،چاہت نے حیرانگی سے اپنے گال کو چھو کر دیکھا ۔۔۔۔واقعی یہ میں ہی ہوں "؟!!!

تبھی کسی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آیا ۔۔۔۔

چاہت نے پلٹ کر اندر آنے والے کو دیکھا اس کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا ۔۔۔۔ایسے جیسے ابھی سینے سے نکل کر باہر آ جائے گا ۔۔۔۔اک ایسا احساس تھا جسے سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھی ۔۔۔

اندر آنے والے نے ساکت ذاویہ نگاہ سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

اس کی پلکیں جھپکنے سے انکاری ہوئیں ۔۔۔۔وہ ٹھٹھک گیا اس کے ماورائی حسن کو دیکھ کر اس کی سادگی کیا کم تھی جو آج وہ کیل کانٹوں سے لیس ہوکر اسکا امتحان لینے پہ تلی ہوئی تھی ۔۔۔۔اس کا مرمریں نازک سراپا اس کے وبال جان بن گیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ کی نگاہوں کی تپش تھی کہ اسکی اتنی دوری پہ بھی چاہت کو اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔

چاہت نے اپنا آنچل درست کیا جو شانے سے تھوڑا ڈھلک گیا تھا ۔۔۔۔

اسکی حرکت سے کمرے کی خاموش فضا میں چوڑیوں کی کھنک سے جیسے جلترنگ بج اٹھا ۔۔۔

"میں نہیں بولتی آپ سے "

اچانک صبح والی ڈانٹ یاد آتے ہی چاہت نے بے رخی سے اپنا رخ پھیرا ۔۔۔۔تو پاؤں میں پہنی پائل کی جھنکار کمرے میں گونجی ۔۔۔۔جو یارم بلوچ کو اپنے دل پہ پڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔

اس نے گہرا سانس ہوا میں اچھال دیا۔۔۔

"اس وقت ان باتوں کو بھول جائیں ،

اس نے دو قدم آگے بڑھ کر کہا ۔۔۔۔

"نہیں پہلے یہ بتائیں آپ نے مجھے ڈانٹا کیوں تھا "وہ نروٹھے پن سے آگے بڑھ کر اسکے سینے پہ انگلی رکھ بولی ۔۔۔

"آئندہ آپ کمرے سے باہر نکلتے وقت شال اوڑھے گی ۔۔۔۔

"آپ کا یہ معصوم سا چہرہ صرف میرے لیے ہے ،میں آپ کو دنیا میں ہر نظر سے دور رکھنا چاہتا ہوں ،میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور آپ کو دیکھے ،

آپکی نظر آپکی وفا پہ صرف میرا حق ہے"

یارم بلوچ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے کھینچتے ہوئے اپنے حصار میں لیے فسوں خیز آواز میں بولا۔

اس نے چاہت کا سر تا پا بغور جائزہ لیا ،،،،اس پہ بھرپور ستائشی نگاہیں جمائیں ۔۔۔

چاہت دھیما سا مسکرائی ۔۔۔۔

"آپ نے میری تعریف بھی نہیں کی بتائیے نا میں کیسی لگ رہی ہوں "...!؟

اس نے اپنے نیلے نینوں کی پتلیاں پھیلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

"بہت دلکش ،بالکل اپسرا ۔۔۔!!!!

اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔۔۔۔

"تھینک یو سو مچ۔۔۔۔اب تھوڑا سکون ملا ۔۔۔۔"وہ تھوڑا پیچھے کھسک کر بولی ۔۔۔

"آپ کو پتہ ہے میں نے پہلی بار ایسی جیولری دیکھی ہے ،اور پہنی بھی وہ اپنی صراحی دار گردن میں پہنے گلوبند کو چھو کر بولی ۔۔۔۔اسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا سانس رک جائے گا اتنے ہیوی گلوبند سے ۔۔۔

"آپ کو پتہ ہے مجھے کیا لگ رہا ہے "...؟

"کیا ۔۔۔۔؟وہ مدھم سی آواز میں بولا۔۔۔۔نظریں ابھی بھی اسی کے سراپے کا طواف کر رہی تھیں ۔۔۔۔

"جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں اور یہ ابھی ٹوٹ جائے گا ۔۔۔۔

"اگر آپ چاہیں تو یہ خواب کبھی بھی نہیں ٹوٹے گا ۔۔۔ہم ملکر اس خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں "

وہ اس بار سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔۔

چاہت نے چونک کر دیکھا مگر اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ جو ہمیشہ سادہ سی رہتی تھی ،اج اس کے نام کا ہار سنگھار کیے ۔اپنے قیامت خیز حسن سے اس کے جذبات بڑھا رہی تھی ۔۔۔۔

وہ اپنے جذبات پر قابو پانے میں ماہر تھا آج بھی اس نے اپنے بہتے ہوئے جذبات پہ قابو پا لیا اور اس کے نوخیز حسن سے نظریں چراتے ہوئے فریش ہونے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

وہ ڈریسنگ روم سے تیار ہوکر باہر آیا تو چاہت نے ٹھٹھک کر اسکی جانب دیکھا ۔۔۔

وہ روایتی ڈریس میں تیار ہوئے بہت خوبرو لگ رہا تھا ،

"آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں چاہت نے اسے دیکھ کر جھٹ کہا ۔۔۔اسے یارم کی طرح اپنے جذبات پہ کنٹرول جو نہیں تھا ،کچی عمر کی پہلی محبت یونہی بچپنے کرواتی ہے ۔۔۔۔

"بہت شکریہ "

"آئیں باہر سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے "

یارم بلوچ نے اپنی کشادہ ہتھیلی اسکی طرف بڑھائی ۔۔۔

چاہت نے آہستگی سے اس پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔

چاہت کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔

یارم بلوچ نے محسوس کیا اسکا ہاتھ پسینے سے بھیگنے لگا تھا ۔۔۔۔اور ہولے ہولے لرز رہا تھا ۔۔۔۔

"کیا ہوا ؟؟؟

اس نے چاہت کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔

"باہر سب ہوں گے وہ ہمیں ہی دیکھیں گے ۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔

"ارے سب ہمیں دیکھنے آئے ہیں تو ہمیں ہی دیکھیں گے نا ۔۔۔۔"

And don't worry....

میں ہوں نا "

اس نے ہلکی سی مسکراہٹ اچھالی چاہت نے اسکی سرمئی آنکھوں میں نرمی کا تاثر دیکھا ۔۔۔۔ اس کو تسلی ہوئی ۔۔۔۔ 

وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے تو سبھی نے ستائشی نظروں سے انہیں دیکھا ۔۔۔

"وڈی سردارنی جی آپکی بہو تو چاند کا ٹکڑا ہے ",کسی عورت کی توصیفی آواز سن کر زرش بلوچ نے مسکراتے ہوئے چاہت اور یارم کا صدقہ اتارا۔۔۔۔

"کتنے مہینے ہوگئے ان کی شادی کو "وڈی سردارنی کے خاندان والوں میں سے ایک عورت نے پوچھا ۔۔۔

"ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا پورا "وہ پلٹ کر بولیں ۔۔۔۔

"اچھا چلو پھر ٹھیک ہے ۔۔۔۔میں سمجھی منہ دکھائی کے ساتھ کی گود بھرائی بھی کرنے والی ہو ۔۔۔ایک ہی دعوت میں دو دو کام نپٹانے لگی ہو ۔۔۔

اس نے پھیکی سی مسکراہٹ لیے کہا ۔۔۔

"میں تمہاری طرح کنجوس نہیں یاسمین ۔۔۔۔"زرش بلوچ نے بھی مسکراتے ہوئے بدلہ چکایا ۔۔۔۔اس نے اگر چبھتی ہوئی بات میٹھی چھری کی طرح کی تھی ۔۔۔تو زرش بلوچ نے بھی مسکراتے ہوئے طنز کا تیر پھینکا ۔۔۔۔

سب لوگوں نے آکر انہیں تحائف اور دعائیں دیں ۔۔۔۔

مردوں کے لیے مردان خانے میں کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔۔۔ھاد اور آتش وہیں سب امور سنبھال رہے تھے ۔۔۔۔

کھانے سے فراغت پاتے ہی سب لاونج میں اکٹھا ہوگئے کچھ ہلہ گلہ کرنے کے لیے کیونکہ اتنے سالوں بعد تو اس حویلی میں خوشی کا ماحول بنا تھا ۔۔۔۔

سب مسکراہٹیں بکھیرتے شاداں و فرحاں دکھائی دے رہے تھے ،لڑکیاں ہنسی ٹھٹھولوں میں مگن تھیں ،عورتوں نے اپنی الگ محفل جمائی ہوئی تھی ۔۔۔۔

"سردار ۔۔۔۔!!!!

منشی صاحب نے سردار فلک بلوچ کے کان کے پاس آکر انہیں سرگوشی نما آواز میں مخاطب 

کیا ۔۔۔

"ہاں بولو ۔۔۔۔!!!.

"سردار آپ نے مجھے حکم دیا تھا کہ سردار دلاور بلوچ سے آپکی ملاقات کا وقت مقرر کر لوں ۔۔۔۔تو میں نے رات کو سردار دلاور بلوچ کو آپ کا پیغام دے دیا تھا ۔۔۔۔پہلے تو اس نے انکار کردیا تھا ۔۔۔مگر اب فون پہ کہا ہے کہ گاؤں کے بارڈ پہ ملے ۔۔۔۔جہاں ہم نے لکیر  کھینچی تھی ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تم گاڑی نکالو میں آرہا ہوں ۔۔۔

ہاں ۔۔۔رکو ۔۔۔۔ایک اور بات ۔۔۔۔

انہوں نے اسے روک کر کہا ۔۔۔

"جی سردار "

منشی صاحب نے جھک کر پوچھا ۔۔۔۔

"میری اور دلاور کی ملاقات کا یارم ،ھاد اور آتش میں سے کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔۔۔۔میں نہیں چاہتا میری اور دلاور کی دشمنی کی آنچ میرے بیٹوں پہ آئے ۔۔۔۔وہ دو ٹوک انداز میں بولے ۔۔۔۔

"جو حکم سردار ...!!!

وہ مؤدب انداز میں بول کر باہر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

"یارم مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا میں بس تھوڑی دیر تک واپس آتا ہوں "

وہ پارم کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولے ۔۔۔۔

"مگر بابا سائیں ۔۔۔اسوقت کون سا ضروری کام ہے ؟اس نے حیرانگی سے استفسار کیا۔۔۔

"تمہیں نہیں پتہ اس بارے میں آکر تفصیل سے بتاؤں گا ۔۔۔تم اپنی دلہن پہ دھیان کرو ۔۔۔

انہوں نے مسکرا کر اسکی توجہ چاہت پہ دلائی اور خود تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکل گئے ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے چاہت کو دیکھا جو زمین پہ بیٹھی سسی کو اپنی مہندی دکھا رہی تھی ۔۔۔۔

اور اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی وہ روایتی دلہنوں کی طرح بالکل بھی شرمانے والا کام نہیں کر رہی تھی لاپروا سی کھلنڈری سی شوخ و چنچل حسینہ،کاش تم ہمیشہ یونہی میری نظروں کے سامنے رہو اور مسکراتی رہو ۔۔۔ یارم کی گہری نظروں نے اس کا کافی دیر تک جائزہ لیا ۔۔۔

"سسی تو نے تو رات امینہ کی مہندی پہ کمال گانے گائے یہاں بھی کچھ سنا دے ۔۔۔ایک عورت نے سسی کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"تجھے گانا آتا ہے "؟

زرش بلوچ نے اچنبھے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔

"جی بس تھوڑا بہت گا لیتی ہوں "وہ خجالت سے سر جھکائے بولی ۔۔۔

آتش بلوچ اور ھاد بلوچ بھی یارم کے ساتھ آکر بیٹھ گئے ۔۔۔

"ویسے تو بہت دھنیں بجاتا ہے آج نہیں بجائے گا کچھ "

یارم نے ھاد کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"میں صرف بجا سکتا ہوں گانے کی امید مجھ سے مت رکھنا ۔۔۔۔ھاد بلوچ نے شازیہ سے کہہ کر اپنا سروز منگوایا ۔۔۔۔

"اپنا آتش بھی تو کچھ حصہ ڈالے گا نا ۔۔۔آج یہ کچھ سنائے گا ۔۔۔ اس نے اپنے دائیں جانب بیٹھے ہوئے آتش کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"بھائی اتنی اچھی آواز نہیں میری کیوں سب کے سامنے بیعزتی کروانی ہے ۔۔۔۔

"یونیورسٹی کے اینول فنکشن میں تو تیری سنگنگ کی دھوم مچی تھی اب کیوں گھبرا رہا ہے ۔۔۔۔ھاد نے اسے کہا ۔۔۔

"سسی سب کو مٹھائی کھلاو لاکر "

زرش بلوچ نے اسے کہا تو وہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ کچن سے نکلنے لگی ایک بار پھر سے آتش بلوچ کے چوڑے سینے سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

اس نے اپنی بلوریں حیرت زدہ آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔

دل ایک بار پھر سے دغا دے گیا ۔۔۔۔اور دھڑکنیں بے قابو ہوئیں ۔۔۔

اس دیو قامت کو دیکھنے کے لیے سسی کو سر کافی اوپر اٹھانا پڑا ۔۔۔سسی بمشکل اسکے شانے تک پہنچتی تھی ۔۔۔

اس کے اندر قیامت پرپا تھی ۔۔۔

آتش بلوچ نے تفصیلی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا جو آج آتشی گلابی رنگ کے گھاگھرے میں آتشی گلابی کانچ کی چوڑیاں پہنے سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی ۔۔۔

یہ وہی چوڑیاں تھیں جو آتش بلوچ نے سسی کو میلے میں لے کر دیں تھیں ۔آج اس نے اسے اپنی گوری کلائیوں کی زینت بنایا تھا ۔۔۔۔

وہ حیرت کا مجسمہ بنی کھڑی تھی ۔۔۔

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی "

وہ سادہ سے انداز میں بولا۔

مگر سسی کی دنیا کو زیر و زبر کرگیا ۔۔۔

وہ خوشی کے مارے مرنے والی ہوگئی تھی آج اس کے شہزادے نے اسے روک کر خود اس سے بات کرنی چاہی تھی ۔

"ج۔۔۔جی۔۔۔ی۔۔۔ی ۔۔۔۔مجھ سے ؟؟؟"

وہ حیرت زدہ آواز میں بولی اور دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔آتش بلوچ نے دیکھا وہ اچھا خاصا کپکپا رہی تھی ۔۔۔۔ہاتھ میں موجود مٹھائی کی پلیٹ بھی لرز رہی تھی ۔۔۔

"میں جن تھوڑی نا ہوں جسے سامنے دیکھ کر تم یوں کانپ رہی ہو "؟

وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔۔۔

"نہیں جی ایسی بات نہیں ۔۔میں نہیں ڈر رہی ۔۔۔۔"اس نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیر کر انہیں تر کیا ۔

آتش بلوچ نے اسکی یہ حرکت بخوبی نوٹ کی ۔۔۔۔مگر اسکے چہرے کا خوف اسے عجیب لگا ۔۔۔۔

"میں بھی تمہاری طرح ایک عام انسان ہوں تو مجھ سے ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں ۔۔۔۔وہ رسان سے اسے سمجھا رہا تھا ۔۔۔

"جی ",سسی نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔

"میں تم سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ تمہارے من میں جو بھی چل رہا ہے مجھے لگتا ہے وہ صرف اک کشش کے سوا اور کچھ نہیں "

سسی نے چونک کر اسے دیکھا اس کے سر پہ تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔۔تو کیا وہ جان گیا تھا میرے دل کی بات۔۔۔

اس نے ہراساں نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔

"تم اس گاؤں میں رہتی ہو یہاں پلی بڑھی ہو ،کبھی شہر نہیں گئی ۔۔۔اگر گئی ہوتی تو آج تمہاری سوچ مختلف ہوتی ۔۔۔۔

وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بول رہا تھا ۔۔۔

سسی یک ٹک خاموشی سے اسے سن رہی تھی ۔۔۔۔

"شہر میں سب میرے جیسے دکھائی دیتے ہیں میرا مطلب پہناوے سے ہے ۔۔۔۔

یہ میری جینز اور شرٹ یہ سٹائل وہ اپنے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیر کر بولا ۔۔۔

شہر کے سب لوگ ایسا ہی کرتے ہیں ۔تم نے پہلی بار کسی کو الگ سا دیکھا تو تمہیں اچھا لگا ۔۔۔۔کیونکہ میں تمہیں سب سے الگ لگا اسی لیے ۔۔۔۔

"وہاں دیکھو میرے دونوں بھائیوں کو وجاہت میں وہ مجھ سے کم نہیں ۔۔۔۔مگر تمہارا دل مجھ پہ ہی کیوں آیا ۔۔۔۔صرف اس پہناوے اور سٹائل کی خاصیت کی وجہ سے ۔۔۔۔یہ ایک وقتی جذبہ ہے،جو گزرتے وقت ساتھ ختم ہو جائے گا "وہ اپنے تئیں اسے سمجھا رہا تھا ۔۔۔

"میرے سامنے تو ساری دنیا بھی لاکر کھڑی کردیں گے نا سرکار تو میری نظر صرف آپ پہ ٹہرے گی ۔۔۔۔مجھے اس دنیا کی بھیڑ میں آپکے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔۔۔۔پہلی بار آپ کو  دیکھتے ہی میرا دل آپکے سنگ  ہوگیا تھا ۔۔۔۔میں مانتی ہوں میں آپ کے قابل نہیں ۔۔۔آپ مجھے رد کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں مگر میرے جذباتوں کو وقتی کشش کا نام مت دیجیے ۔۔۔۔"

"میں مروں گی تب ہی آپکی محبت میرے دل سے نکل سکے گی "

وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے مٹھائی کی پلیٹ لیے ایک طرف سے ہوکر باہر نکل گئی ۔۔۔۔جبکہ آتش بلوچ اس کے الفاظ کی گہرائی میں ڈوب چکا تھا ۔۔۔۔

"میرے سامنے تو ساری دنیا بھی لاکر کھڑی کردیں گے نا سرکار تو میری نظر صرف آپ پہ ٹہرے گی"

اسکے کہے گئے الفاظ ابھی تک اسکے کانوں میں سنائی دے رہے تھے ۔۔۔۔

وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا ۔۔۔۔

اس نے سب کے سامنے مٹھائی کی پلیٹ کی تو سب نے ایک ایک ٹکڑا اٹھا لیا ۔۔۔سب کو دیتے ہوئے آتش بلوچ جو آکر  یارم کے ساتھ اپنی پہلی والی جگہ بیٹھ چکا تھا ۔۔۔

سسی نے اسکے سامنے پلیٹ کی تو ۔۔۔۔

"میں میٹھا نہیں کھاتا "کہہ کر رخ دوسری طرف کرلیا ۔۔۔

جبکہ سسی اسکے روئیے پہ دل مسوس کر رہ گئی ۔۔۔۔

اسکی بھوری آنکھوں میں یکلخت نمی چھلک آئی ۔۔۔۔اس نے آنکھوں میں امنڈ آنے والے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا ۔۔۔کسی کے سامنے آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسوؤں کو پینا ہی دنیا کا سب سے مشکل ترین امر ہوتا ہے ۔۔۔

آتش نے سرسری سا اسے واپس دیکھا ۔۔۔۔تو حیران رہ گیا ۔۔۔اس کی زرا سی بے رخی بھی وہ برداشت نہیں کر سکی ۔۔۔تو کیا وہ اس کے عشق میں اتنا آگے تک نکل آئی تھی ۔۔۔۔اسے سسی کی خود کے لیے محبت دیکھ کر ناز ہوا ۔۔۔

"سسی اب سناؤ بھی کچھ "

وہ مٹھائی سرو کیے فارغ ہوئی تو کسی نے آواز لگائی ۔۔۔

ھاد بلوچ اپنے سروز کی تاروں سے نئی دھن چھیڑی ۔۔۔۔

تو سسی نے اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا۔۔۔۔

"رات یوں دل میں تیری بھولی ہوئی یاد آئی ۔۔۔

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے ۔۔۔

جیسے صحراؤں پہ ہولے سے چلے باد ِنسیم ۔۔۔

جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے ۔۔۔

آپ بیٹھے ہیں بالن میری ۔۔۔۔

موت کا زور چلتا نہیں ۔۔۔۔!!!

"آپ بیٹھے ہیں بالن پہ میری ۔۔۔موت مجھ کو گوارا ہے ،،لیکن ،،

کیا کروں دم نکلتا نہیں ہے ،

کیا کروں دم نکلتا نہیں ہے ،

سسی،،،  آتش بلوچ کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے گنگنائی ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ اٹھ کر زرش بلوچ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا اور اپنی آواز کا سُر بکھیرا ۔۔۔۔

"یہ ادا کہ نزاکت براسل ۔۔۔

میرا دل تم پہ قربان لیکن ،،

سسی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوئی اسی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔کہ اسکا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر شانے پہ گرا ۔۔۔

کیا سنبھالو گے تم میرے دل کو ؟؟؟؟

کیا سنبھالو گے تم میرے دل کو ؟؟؟؟

جب یہ آنچل سنبھلتا نہیں ہے ۔۔۔۔۔

  وہ زرش بلوچ کے شانے پہ تھوڑی ٹکائے سسی کی طرف دیکھ کر شرارت سے آنکھ ونگ کیے گنگنایا ۔۔۔

سسی تو حیرت سے دنگ رہ گئی ۔۔۔۔اسے لگا یہ اس کا خیال تھا ۔۔۔۔حقیقت میں آتش بلوچ ایسا کرے گا وہ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔

"میرے نالوں کی سن کر زبانیں  ہوگئیں موم کتنی چٹانیں ۔۔۔۔

میں نے پگھلا دیا پتھروں کو 

اک تیرا دل کہ پگھلتا نہیں ہے ۔۔۔۔

میں نے پگھلا دیا پتھروں کو 

اک تیرا دل کہ پگھلتا نہیں ہے ۔۔۔۔

سسی  نےنم آواز میں گانے کے بول ادا کیے ۔۔۔

اور روتے ہوئے بھاگنے کے انداز میں حویلی سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

آتش بلوچ کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا ۔۔۔۔اس نے دل میں عہد کرلیا کہ اس پیاری سی لڑکی کا مزید امتحان نہیں لے گا اور آج ہی اس سے اپنے جذبات کا اظہار کردے گا ۔۔۔۔

مگر دور بیٹھی قسمت اس کی سوچ پہ قہقہے لگا کر ہنس رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔!!!! 

مہ کدوں کے سبھی پینے والے ۔۔۔۔۔

لڑکھڑا کر سنبھلتے ہیں ۔۔۔

لیکن ،،،

تیری نظروں کا جو کام پی لیں عمر بھر وہ سنبھلتا نہیں ہے ۔۔۔۔۔!!!!

اسکی نظروں کے سامنے ھادیہ کی دلکش آنکھیں لہرائی تو ھاد بلوچ نے اسے یاد کرتے ہوئے آنکھیں بند کیے آخری فقرہ گنگنایا ۔۔۔۔

"ماموں جان سردار فلک بلوچ کا پیغام میں نے قبول کرلیا ہے اور اسے وہی پرانی جگہ پہ ملنے کے لیے بلایا ہے "شمشیر بلوچ نے سنجیدہ انداز میں سردار دلاور بلوچ کو خبر دی ۔۔۔۔

"فلک بلوچ نے مجھے اکیلے میں ملنے بلایا ہے ؟"سردار دلاور بلوچ نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا ۔

"جی اس نے اکیلے ملنے بلایا ہے ،مگر میں آپ کو قطعی اس سے اکیلے ملنے جانے نہیں دوں گا ۔۔۔میں آپکے ساتھ جاؤں گا " سردار شمشیر بلوچ نے اٹل انداز میں کہا۔

"کئی برسوں پہلے اس فلک بلوچ نے میرے بابا کا قتل کردیا تھا آج میں آپ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا رہوں گا آپ کو ہلکی سی خراش بھی نہیں آنے دوں گا ",

"مگر ۔۔۔شمیشر ۔۔۔۔انہوں نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ۔۔۔

"نہیں ماموں جان مجھے منع مت کیجیے گا۔آپ کی حفاظت میرا اولین فرض ہے "

وہ اشتعال انگیز نظروں سے فلک بلوچ کے بارے میں سوچتے ہوئے بولا ۔۔۔

"ٹھیک ہے ہم اپنے قبیلے کے اہم بندوں کو ساتھ لے کر جائیں گے سردار فلک بلوچ سے ملنے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ولیمے کے اختتام پہ سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ،

”یہ لو آتش ۔۔۔! یہ میں تمہارے لیے لائی تھی  ۔۔“ زرخ بلوچ نے ایک شال نکال  کر بولی۔

”اس کی کیا ضرورت تھی میرے پاس پہلے ہی اتنی تھیں ۔۔“۔۔

”تو کیا ہوا مجھے اچھی لگی تو لے لی تم مجھے یہ لے کر دکھاؤ ۔۔“ ۔

”بہت اچھی ہے شکریہ ماں سا۔“

”میں دیکھ رہی ہوں آتش تمہاری نظریں کب سے دروازے کی طرف ہیں ۔کہیں جانے کا ارادہ ہے ؟۔“

”جی ماں سا ۔۔" مگر میں جلدی واپس آجاؤں گا ۔۔

” پکا۔۔“ اس نے بھی اپنا ان کے شانے پہ رکھ کر کہا ۔

”چلو پھر جاؤ ۔“ انہوں نے مسکرا کر کہا۔

”تھینکس ۔۔۔ یہ ہوٸی نہ بات۔۔۔! 

"بیسٹ آف لک بھابھی اینڈ بھائی سا ۔۔“

"جاؤ چاہت تم جا کر آرام کرو پھر رات کے کھانے پہ ملتے ہیں ۔۔“

”آج منشی صاحب نے ایک کھاتے کا رجسٹر دیا تھا اسی کا حساب کتاب چیک کرنا ہے میں بھی زرا اسے دیکھ لوں کمرے میں رکھا ہے ۔۔“ھاد بلوچ بھی مسکراتے ہوۓ کھڑا ہوگیا۔۔

”آپ بھی صبح کی کاموں میں لگی ہوئی ہیں آپ بھی کچھ دیر آرام کرلیں  ۔۔“ یارم بلوچ ان کی طبیعت کا سوچ کر بولا۔

”کچھ نہیں ہوتا مجھے تم بے فکر رہو میری جان ۔۔۔! میں زرا عصر کی نماز پڑھ لوں ۔۔ “ انہوں نے بھی پیار سے یارم کا شانہ تھپتھپاکر کر کہا اور نماز ادا کرنے کے لیے چل دی ۔۔۔۔!

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

کچھ ہی دیر میں چار پانچ گاڑیاں اور ایک جیپ بھر کر سردار دلاور بلوچ مختص کی گئی جگہ پہ پہنچ گئے ۔۔۔

سردار فلک بلوچ وہاں پہنچ چکے تھے اور اکیلے وہیں ٹہل رہے تھے ۔۔۔۔

تبھی گاڑی کے ٹائروں کی چڑاچڑاہٹ سن کر مڑے اور دیکھا کہ سردار دلاور بلوچ اپنی جیپ سے باہر نکلا اس کے ساتھ ہی سردار شمشیر بلوچ بھی لال انگارہ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اسی کے طرف آرہے تھے ۔۔۔۔

سردار دلاور اور شمشیر بلوچ کھینچی گئی لکیر کے پاس آکر رک گئے ۔۔۔۔

اب وہ سردار فلک بلوچ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔ جبکہ شمشیر بلوچ نے زہر خند نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے سر جھٹکا ۔۔۔۔

"مجھے یہاں بلانے کا مقصد کیا ہے تمہارا فلک بلوچ...!!!!؟",

دلاور بلوچ نے غراہٹ نما آواز میں کہا ۔۔۔۔

”کیوں آئے ہو یہاں۔۔۔؟“ اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔

”دلاور بلوچ میں لڑنے نہیں۔۔۔! کچھ ضروری بات کرنے آیا ہوں۔ڈرنے کی ضرورت نہیں۔“وہ اسے ریوالور تانے دیکھ کر سنجیدگی سے کہتا اس کی طرف بڑھا۔

"دلاور بلوچ ۔۔۔!!!! 

"میں چاہتا ہوں کہ ہمارے قبیلوں کے درمیان جو نفرت کی دیواریں ہیں انہیں ملکر توڑ ڈالیں ۔۔۔۔آج میں یہاں امن کا پیغام لے کر آیا ہوں ",

فلک بلوچ نے رسان اسے اسے اپنے یہاں آنے کی وجہ بتلائی ۔۔۔۔

"ہا۔۔۔ہا ۔۔۔۔ہا ۔۔۔۔

سردار دلاور بلوچ نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔

"امن ۔۔۔۔!!!!!!...؟؟؟؟

"ہمارے اور تمہارے قبیلے کے درمیان امن ۔۔۔۔!!!

"آگ اور شعلے کے درمیان کیا کبھی " امن " سانس لے سکتا ہے ؟؟؟

"تمہارے دئیے ہوئے زخم ۔۔نہیں بھلا سکتا ۔۔۔۔میں نے اپنوں کی لاشیں اٹھائیں تھیں ان ہاتھوں سے جنہیں تم نے قتل کیا ۔۔۔

"جب تک دلاور بلوچ کی سانسیں قائم ہیں ہمارے بیچ دشمنی کی دیواریں کبھی مٹ نہیں سکتی "

"سردار دلاور بلوچ ۔۔۔!!!

"میں ہمارے قبلیوں کے درمیان ایسی بنیاد کھڑی کرنا چاہتا ہوں جو امن اور محبت سے بنی ہو "فلک بلوچ ٹہرے ہوئے انداز میں بولے ۔۔۔۔

"دنیا میں ایسی کوئی چیز پیدا نہیں ہوئی جو ہمارے قبیلوں کے درمیان موجود نفرت کو مٹا سکے "

وہ رعونت آمیز انداز میں بولا ۔۔۔

"ہے ایسی چیز ۔۔۔۔۔!!!!

سردار فلک بلوچ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔۔۔

سردار دلاور بلوچ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"ھاد اور ھادیہ کی محبت ۔۔۔۔!!!

بالآخر فلک بلوچ دل کی بات زبان پر لے آئے ۔۔۔

ھاد بلوچ کا نام سن کر ۔۔۔۔

یکلخت سردار دلاور بلوچ کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔۔۔

جب انہوں نے ھادیہ کی ہتھیلی پر مہندی سے لکھا ھاد بلوچ کا نام دیکھا تھا ۔۔۔وہ لمحوں میں بات کی گہرائی تک پہنچ گئے ۔۔۔۔

"تمہاری بیٹی ھادیہ سے میرے بیٹے ھاد بلوچ کا نکاح اس دشمنی کی دیواروں کو گرا دے گا "

"خاموش ۔۔۔۔!!!!

سردار دلاور بلوچ غصے میں آکر  زہریلے سانپ کی طرح پھنکارا ۔۔۔ 

"تمہاری جراءت بھی کیسے ہوئی میری بیٹی کا نام اپنے بیٹے کے ساتھ لیتے ہوئے "

وہ غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے اونچی آواز میں چلائے ۔۔۔ 

"دل تو کرتا ہے میری بیٹی کا نام اپنی زبان پہ لانے والے کی زبان کاٹ دوں ۔۔۔۔یا تیری گردن کاٹ کر تیرے اس بیٹے کے حوالے کروں جس نے میری بیٹی پہ بری نظر ڈالی "

وہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔۔۔۔

سردار دلاور نے اور شمشیر بلوچ نے اپنے شانوں پہ موجود بندوقیں اتار کر انکی نال کا عخ فلک بلوچ کی طرف کیا  ۔۔۔

"اپنی زبان کو لگام دو دلاور بلوچ....

شاید تم سچائی نہیں جانتے کہ تمہاری بیٹی بھی میرے بیٹے سے محبت کرتی ہے،میں صرف ان دونوں کی وجہ سے تیری یہ بد زبانی برداشت کر رہا ہوں ۔۔۔۔  "

"میں اپنی بیٹی کا رشتہ شمشیر بلوچ سے طے کر چکا ہوں ،اور اگر نا بھی کیا ہوتا تو تیرے بیٹے سے تو مر کر کبھی نا کرتا ۔۔۔۔

"اگر تیری بات میں سچائی ہوئی نا فلک بلوچ ۔۔۔۔تو میں اپنی بیٹی کی جان اپنے ان ہاتھوں سے لے لوں گا ،،،لیکن  اس کا نکاح تیرے بیٹے سے کبھی نہیں کروں گا "

سردار دلاور بلوچ پختہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

"تمہاری بیٹی کے دل میں میرا بیٹا ۔۔۔۔

"ایک لفظ اور نہیں فلک بلوچ ۔۔۔۔شمشیر جو کب سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مچل رہا تھا ھادیہ کے بارے میں سن کر اسکا غصہ مزید بڑھا ۔۔۔۔اس نے اپنی بندوق فلک بلوچ پہ تانی اور دلاور بلوچ نے بھی ۔۔۔۔

ان سے چند قدم کے فاصلے پر گاڑیوں کی اوٹ میں کھڑے شخص نے بھی اپنا ریوالور نکال کر نشانہ تان لیا اور اک عقابی نظر اِدھر اُدھر دوڑاٸی، جب اسے علم ہوا کہ فلک بلوچ اور دلاور بلوچ ملنے والے ہیں تب سے اس نے ہر گھڑی ان پہ نظر رکھی ہوئی تھی کہ وہ دونوں کب ملتے ہیں ۔۔یہ جان کر تو اسے  اور بھی زیادہ خوشی ہوٸی کہ اس کی برسوں کی خواہش پوری ہونے والی ہے تو اس نے پلاننگ کرنے میں اک لمحہ نہیں لگایا اور اب وہ وہاں ان دونوں کے پیچھے موجود تھا۔۔ جس سے بےخبر وہ دونوں اپنی باتیں کرنے میں مصروف تھے۔ان دونوں کو اشتعال میں آتے ہوتے دیکھ کر اس نے اپنی گن پہ گرفت مضبوط کی' اک پل کے لیے اس کے ہاتھ کپکپائے تھے ، دل میں بھی ڈر کی لہر بھی ابھری۔ لیکن دوسرے ہی لمحے نفرت اس ڈر پر غالب آگٸی اور اس نے ٹریگر دبا دیا۔

تب ہی فضا میں ایک ساتھ فائرز کی آواز گونجی اور فلک بلوچ کے جسم کو اک جھٹکا لگا ' سینے اور کنپٹی سے خون کا فوارہ ابل پڑا، دلاور بلوچ کے قبیلے والوں نے بے یقنی سے لہرا کر گرتے ہوئے فلک بلوچ کی طرف دیکھا ۔جو بے جان ہوکر پوری قوت سے نیچے جا گرا،کچھ رحم دل لوگ تیزی سے دوڑ کر اس تک پہنچے اور اس کے جھٹکے کھاتے وجود کو  دیکھا ۔۔۔۔

”لا الہ اللہ محمد رسول اللّٰہ۔۔“فلک بلوچ کے منہ سے نکلنے والے آخری الفاظ تھے ۔۔۔

ایک گولی اسکی کنپٹی سے ہوتی ہوئی اس کی آنکھ کو ضائع گئی ۔۔۔۔دوسری اسکا سینہ چھلنی ۔۔۔۔اسے سانس لینے کا بھی وقت نہیں ملا اور فلک بلوچ موقع پہ کی دم توڑ گئیے ۔۔۔۔ انہیں پکڑنے والوں کے ہاتھ خون سے رنگین ہو گٸے تھے،۔

اس تپتے ہوئے ریگستان میں گرمی کی شدت سے پھڑپھڑاتے پرندے بڑی زورو شور سے چیخ  کر ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔دلاور بلوچ پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔جس کی آنکھوں میں حیرت اور بےیقنی جم کر رہ گٸی تھی۔خوف نے پوری شدت سے اس پر حملہ کیا۔

”نن نہیں فلک بلوچ۔۔۔ میں نے ۔ میں نے۔۔  نہیں مارا تمہیں۔۔۔“ وہ اٹھا اور پلٹ کر پوری شدت سے بھاگا تھا وہاں سے۔۔

صحرا کی گود میں جھلستا ریگستان آج پانی سے ٹھنڈا  کی بجائے خون سے رنگین ہوگیا تھا ۔۔۔۔

سورج ڈھل چکا تھا ، مغرب ہونے والی تھی ،ریگستان میں ہر طرف اندھیرا پھیل رہا تھا۔۔۔! ۔فضا میں بھی اک عجب سی بو پھیل رہی تھی اور وہ بو تھی موت کی، جو فلک بلوچ کے خوشبودار وجود سے اٹھ رہی تھی۔۔۔

گاڑیوں کی اوٹ میں کھڑے شخص نے مسکرا کر دلاور بلوچ کو وہاں سے ڈر کے بھاگتے دیکھا اور چلتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف آ گیا۔۔۔ !

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"او ری تتلی۔۔۔۔!!!!

 یہ اکیلی اکیلی کدھر اڑتی پھر رہی ہے "

سسی جو حویلی سے نکل کر روتے ہوئے اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔

کسی اجنبی آواز پہ مڑ کر اس نے دیکھا ۔۔۔۔

وہ شخص خباثت بھری نظروں سے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔

"آج موقع بھی ہے اور تنہائی بھی تو کیوں نا موقعے سے فائدہ اٹھا لیں "

وہ مکارانہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس کے قریب آتے اسکی کلائی سے پکڑ کر بولا ۔۔۔

وہ حیران رہ گئی ۔۔۔۔ اس طرح اس کے کھلے عام جرات مندانہ اقدام پر ۔۔۔۔۔

"دور رہ ۔۔۔۔میں تیری جان لے لوں گی  ؟؟؟؟

وہ چلانے کے انداز میں بولی۔۔۔

اس کے خود کی طرف بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر وہ سراسیماں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔

"آج تو تجھے نہیں چھوڑوں گا بڑی مشکل سے ہاتھ آئی ہے ۔۔۔۔"شمشیر بلوچ نے اس کی کلائی پکڑی ۔۔۔

اس کے بات سن کر سسی نے اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔۔۔قوت ِ گویائی جیسے سلب ہوئی۔۔۔۔۔

شمشیر کے ہاتھ کی گرفت بات کرتے ہوئے ڈھیلی ہوئی تو۔۔۔۔

سسی اپنی کلائی اس کی گرفت سے چھڑوا کر واپسی کے راستے پہ بھاگی ۔۔۔۔

وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔ وہ بالکل اس کے قریب پہنچ چکا تھا بس وہ چند قدموں کی دوری تھی۔۔۔۔

بھاگتے ہوئے سسی کو اپنا سانس گلے میں اٹکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔

"یا اللہ مدد ۔۔۔!!!!!!۔۔۔۔اسے خود کی ہی آواز اجنبی لگی۔۔۔۔۔گلے میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے ۔۔۔۔

"ابھی تو اس رات کا بدلہ لینا ہے پھر تیرے حسن کو خراج بھی تو دینا ہے نا ۔۔۔۔چل اپنے آپ آجا نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔!!  

"اُس دن تجھے قریب سے دیکھ کر اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا آج تجھے چھو کر محسوس کروں گا تو قیامت ہی آ جائے گی  ۔۔۔۔۔

"اور آج تو اپنے سے روپ  میں کیا بجلیاں گرا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔اپنے عاشق پہ ۔۔۔۔

وہ برق رفتاری سے ہانپتی ہوئی سسی تک پہنچا گیا  اور  ایک بار پھر اس کی نازک کلائی کو اپنی قید میں لیا ۔۔۔۔۔

"یہ ۔۔یہہ۔۔۔۔کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے  ؟؟؟

اس کی حالت تو یوں تھی  جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والا حساب ہوا تھا ۔۔۔۔

" مجھے جانے دے تجھے اللّٰہ کا واسطہ "

وہ اس دیو قامت انسان کا اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتی تھی اسی لیے  اپنی عزت بچانے کے خیال سے منت بھرے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"اتنی جلدی بھی کیا ہے ؟پہلے مجھے وہ تو لینے دو جس کے لیے میں کب سے تڑپ رہا ہوں۔۔۔۔اس نے سسی کا ریشمی آنچل اس کے سر سے کھینچ کر  اپنے ہاتھ پر لیٹتے ہوئے خمار ذدہ آواز میں کہا۔

سسی کو اپنا بنا دوپٹے کا جسم کوئلوں کی مانند جلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

شمشیر بلوچ نے اسے دھکا دے کر ٹیلے پہ گرایا ۔۔۔

سسی کا سر ٹیلے سے لگا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔

"یہ۔۔۔یہ۔۔۔کیا کر رہے ہو خبیث انسان  ؟؟؟؟وہ اپنے دُکھتے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر چلائی ۔۔۔۔

"وہی جو تمہارے اس بے داغ  حسن نے مجھے کرنے پر مجبور کیا ہے "

اس کی وحشی نظریں سسی کو اپنے جسم کے آر پار ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔

" خدا کے لیے  !!!!!! مجھ پر رحم کرو  "

"مجھے جانے دو۔۔۔۔۔!!!!،وہ اس کے سامنے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔اس کا مرمریں وجود خوف کے باعث لمحوں میں پسینے میں نہا گیا۔۔۔۔

"خدا کے لیےمجھے بخش دو ۔"

اپنی جانب اسے جھکتا ہوا دیکھ کر وہ دہشت سے زدہ آواز میں وحشت سے چیخی۔۔۔۔۔

"تیری آواز نکلی تو گلا دبا کر یہیں تیرا کام تمام کردوں گا ۔۔۔سمجھی "وہ اس کے جبڑوں کو اپنی مٹھی میں بھینچ کر غرایا۔۔۔۔اس وقت اس کے لہجے میں اژدھوں کی سی پھنکار تھی۔۔۔

وہ شدید مزاحمت کیے اس کی آہنی گرفت سے خود کو چھڑوانے کے لیے مچل رہی تھی۔۔۔

",میں اس پیاسے صحرا جیسا ہوں۔۔۔ تمہارے بدن کی خوشبو مجھے سیراب کردے گی ۔۔۔صحرا میں پیاسا کنویں کے پاس آکر لوٹ جائے ایسا کبھی ہوتے دیکھا ہے ۔۔۔۔ "؟

وہ طنزیہ انداز میں ہنسا ۔۔۔

"تم جیسا گھٹیا انسان میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔۔ " 

"اور کبھی دیکھو گی بھی نہیں ۔۔۔"اس نے سسی کے منہ پہ زوردار طمانچہ رسید کیا جس سے اسکا ہونٹ پھٹ گیا اور خون رسنے لگا ۔۔۔۔

وہ نازک وجود حیرت کے مارے جھٹکوں کی زد میں تھا ۔۔۔

"میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں کہو تو تمہارے پاؤں پکڑ لوں گی ۔۔۔میں نے جو بھی کیا اس کے لیے مجھے معاف کردو ۔۔۔ مگر مجھے جانے دو ۔۔۔۔ 

وہ اس کو اپنے پر جھکتا دیکھ گڑگڑائی تھی ۔۔۔۔۔

"شمشیر بلوچ جیسے سنگدل کے کاغذوں میں معافی کا لفظ شامل نہیں ۔۔۔۔"وہ سفاکیت سے غرایا ۔۔۔ 

 سسی نے اس کے چہرے کو دیکھا جس پر اس وقت شیطانیت نے قبضہ کر رکھا تھا ۔۔۔

اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا کیوں وہ حویلی سے اکیلی نکلی اور اس سنسنان راستے کا انتخاب کیا۔۔۔

وہ خود کے لیے پر ماتم کرنے لگی۔۔۔۔مگر ابھی اس سب کا وقت نہیں تھا ۔۔۔وہ پل بھر میں ہی ہوش کی منازل طے کرتے ہوئے واپس حواسوں میں لوٹی۔۔۔۔

"وہ کیسے بچائے خود کو۔۔۔۔

آنکھوں سے بھل بھل بہتے آنسووں سے اس شیطان صفت کا چہرہ دھندھلا گیا۔۔۔۔

"تمہارے یہ آنسو میرے ارداوں کو ناکام نہیں بنا سکتے ۔۔۔

اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے سسی کی دونوں نازک  کلائیوں کو جکڑا۔۔۔۔۔

سسی کو لگا جیسے کسی دہکتے ہوئے انگارے نے چھو لیا ۔۔۔۔۔

"خدا کے واسطے مجھے جانے دو ۔۔۔!!!!!  "وہ منت بھرے انداز میں اس کی مضبوط گرفت میں مچلتی ہوئی بولی۔۔۔۔

نجانے اس میں اتنی قوت کہاں سے آئی ۔۔۔۔

وہ اسے خود سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کھڑی ہوئی۔۔۔۔

اور دوسری  طرف بھاگی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ زیادہ دور بھاگ پاتی شمشیر نے ایک ہی جست میں اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا۔۔

"چھوڑ دو مجھے ذلیل انسان ۔۔۔۔۔۔  اس کی گھٹیا حرکت پر تلملاتے ہوئے ۔۔۔اس بار وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری

"منہ بند رکھ اپنا "

وہ اس بال اپنی مٹھی میں جکڑ کر بولا۔۔۔۔

اور پوری قوت سے اسے کھینچا۔۔۔۔۔

وہ پوری کی پوری ہل کر رہ گئی۔۔۔۔۔

سسی کا لرزتا وجود ۔۔۔۔آنسووں سے تر آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہونٹ سے خون کی ہلکی سی لکیر نمایاں تھی۔۔۔۔

اس کے  دوسرے نا قابل برداشت زور دار تھپڑ نے اس کے رہے سہے حواس بھی چھین لیے۔۔۔۔وہ خوب چیخی چلائی ۔۔۔۔۔

مگر اس جانور نما انسان نے اس کی ایک بھی آہ و بکا نا سنی ۔۔۔۔۔وہ اس کے نازک وجود پہ پوری طرح قبضہ حاصل کر چکا تھا ۔۔۔۔

"یا اللہ مجھے موت دے دے  ۔۔۔۔!!!!!!!!

ایسی ذلت بھری زندگی سے توموت  بہتر ہے ۔۔۔۔

 سسی کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا روح کسی بھی وقت اس جسم سے نکل کر قفس عنصری پہ پرواز کر جائے گی ۔۔۔۔اس نے فلک شگاف چیخ ماری۔۔۔۔۔

اس نے سسی کے وجود کو بری طرح روند کر اسے گھسیٹتے ہوئے ٹیلے سے نیچے کی طرف پھینک دیا جہاں سے ریگستان شروع ہوتا تھا ۔۔۔۔

سسی کا بے جان وجود لہراتا ہوا ریت پہ گرا ۔۔۔۔۔

اس حوا کی بیٹی کی حالت دیکھ کر بادل خون کے آنسو رونے لگے ۔۔۔۔۔

نیلے بادلوں پہ یکلخت سرخی چھا گئی ۔۔۔۔۔

"ہوا نے اسکے برہنہ بدن کو دیکھ کر چیخیں ماریں ۔۔۔۔

ہر طرف تیز جھکڑ چلنے لگے ۔۔۔۔

ہوا و آندھی کا اس قدر تیز طوفان آیا کہ سارے ریگستان میں ریت اڑنے لگی ۔۔۔۔

اس اڑتی ہوئی  دھول نے سسی کے بے جان وجود کو ڈھانپ دیا ۔۔۔۔

تیز طوفان کے باعث کھڑکیوں کے پٹ آپس میں بجنے لگے ۔۔۔۔۔

"کہتے ہیں کسی معصوم پہ ظلم ہوا ہو تو یوں لال بادل چھا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔

گاؤں کی ایک عورت نے طوفان سے ڈرتے ہوئے اپنے گھر کی کھڑکی بند کی "اور اپنے شوہر سے کہا ۔۔۔۔

"خدا کا قہر برپا ہوا ہے ""

اس نے جوابا کہا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”ابھی تک واپس نہیں آئے نجانے ایسا کون سا کام تھا کہ کسی کو بتا کر نہیں گئے ۔۔۔۔۔زرش بلوچ  پریشانی سے بولی۔۔ 

"کوٸی رابطہ ہوا تمہارے بابا سے  ۔۔۔؟“

انہوں نے ادھر ادھر پریشانی سے  ٹہلتے ہوئے یارم سے پوچھا ۔۔۔۔

”نہیں ۔۔۔! فون کر رہا ہوں مگر اٹھا نہیں رہے ۔۔" اس نے پریشان و متفکر انداز  میں کہا اور اُنکے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا۔

"بہت لاپروہ ہوگئے ہیں تمہارے بابا بھی ۔۔! بندہ بتا کر تو جاتا ہے "زرش بلوچ نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔

”ہمارے بابا سائیں  لاپرواہ نہیں یہ نا ہو گاؤں سے باہر گئے یوں ۔بس وہاں پر سگنلز کا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔اسی لیے کال نہیں کر سکے ہوں گے ' میں ابھی پھر سے کال کرتا ہوں۔اور آپ سے بات کرواتا ہوں ان کی ۔آپ پریشان نا ہوں ۔" اس نے اٹھ کر پیار سے اُنہیں تسلی دی۔۔

ھاد بلوچ بھی ان کی باتیں سن کر وہیں آ گیا ۔۔۔ اس کے چہرے پر بھی پریشانی کے اثرات واضح تھے، لیکن بڑی مشکل سے وہ خود کو نارمل ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔وہ اپنی ماں کو پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔

"ھاد تم بھی اپنے بابا سائیں  کا نمبر ملاؤ  ' میرا دل بڑا گھبرا رہا ہے۔۔۔"زرش بلوچ نے ھاد کو کہا تو اس نے انہیں کال ملائی۔لیکن ان کا سیل آف جا رہا تھا۔۔۔وہ بے چین ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔

” سردار  ساٸیں۔۔۔۔! مردان خانے میں چلیں آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔" حویلی کے پہرہ دار  نے وہاں آ کر نظریں جھکائیں اور پیغام پہنچایا۔

"کون آیا ہے وہاں "؟

"سردار دوسرے قبیلے سے کچھ لوگ ہیں "

” ہوں میں مردان خانے جا رہا ہوں تم بھی آجانا ھاد ۔۔۔" 

یارم بلوچ  نے جاتے ہوئے پلٹ کر ھاد سے کہا۔۔۔۔

”السلام علیکم۔۔۔۔! سردار ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ یارم بلوچ باہر نکلتا منشی صاحب نے اندر آکر بھیگے ہوئے لہجے میں سلام کیا ۔۔۔۔

ھاد اور یارم دونوں نے پریشان کن نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور منشی صاحب کے سلام کا جواب دیا ۔۔۔۔

"آپ بھی چلیں منشی صاحب ہمارے ساتھ مردان خانے میں ۔۔۔۔ساتھ والے قبیلے سے کچھ لوگ آئے ہیں اب بابا سائیں بھی یہاں نہیں ہیں تو آپ چلیں ہمارے ساتھ ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے کہا ۔۔۔۔

مگر منشی صاحب سر جھکائے خاموش کھڑے رہے ۔۔۔۔

 کیا ہوا آپ اتنے خاموش کیوں ہیں۔۔۔؟" 

ھاد نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔

"وہ لوگ جو بتانے آئے ہیں وہ میں جان گیا ہوں "منشی صاحب رندھے لہجے میں بولے ۔۔۔۔۔

یہ دل دہلا دینے والی روح فرسا خبر سن کر ھاد بلوچ کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر  فرش پر جا گرا اور یارم بلوچ جیسا مضبوط اعصاب کا مالک  بھی خود کو سنبھال نہیں پایا تھا اور کھڑے قد سے زمین بوس ہو گیا تھا۔۔ 

"کیا ہوا ہے بابا سائیں کو "؟

چاہت جو زرش بلوچ کی چیخیں سن کر نیچے آئی تھی یارم بلوچ کو یوں شکستہ وجود لیے دیکھا تو چلائی ۔۔۔۔

"بتائیں نا  ۔۔۔؟ کیا ہوا ہے بابا  کو۔۔۔؟"

"دلاور بلوچ نے مار دیا سردار فلک بلوچ کو ۔۔" منشی صاحب کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سنتے ہی زرش بلوچ کے ساتھ چاہت کی بلند و بالا چیخوں نے حویلی کے درودیوار ہلا دیئے تھے۔ھاد بھی فرش پر گر سا گیا تھا  ۔۔۔۔

آج ان سب کے سر سے ان کے شفیق باپ کا سایہ چھن گیا تھا ۔۔۔۔

یارم ۔۔۔۔!!!جس نے اپنے باپ کے کہنے پہ اپنے خواب  قربان کردئیے وہی باپ نا رہا ۔۔۔

ھاد ۔۔۔۔!!!!جس نے اپنے باپ کا ساتھ دینے انکا ہاتھ بٹانے کے لیے اپنی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ،آج وہی باپ کا ساتھ اس سے چھوٹ گیا تھا ۔۔۔۔

زرش بلوچ ۔۔۔۔!!!!جس کے سر کا سائیں اس کی زندگی کے سکھ دکھ کا ساتھی آج اسے بھری دنیا میں تنہا کر گیا تھا ۔۔۔۔

"چاہت ۔۔۔۔!!!! جس نے ابھی باپ کی محبت کو فلک بلوچ کی صورت میں محسوس کرنا شروع ہی کیا تھا کہ آج ایک بار پھر وہ یتیم ہوگئی تھی ۔

آتش بلوچ ۔۔۔!!!!جو گھر سے نکلا تھا اسے ابھی تک خبر ہی نہیں تھی کہ اس فلک بلوچ اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے ۔۔۔۔

"فلک بلوچ" کی موت کی خبر " حویلی والوں "  کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔۔!

ہنستا بستا گھر پل بھر میں ماتم کدے میں بدل گیا تھا ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"تم نے گلابی کپڑوں میں ابھی کسی لڑکی کو ادھر جاتے دیکھا ہے "؟

اس نے ایک بچے کو روک کر پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں "اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا پھر تیز ہوا سے ڈر کر گھر کی طرف بھاگ گیا ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ حویلی سے کافی دور نکل آیا تھا سسی کو ڈھونڈھتے ہوئے ۔۔۔۔

کچھ عورتیں کمر پہ گھڑے ٹکائے شاید کنوئیں سے پانی بھر کر اب تیزی سے واپس اپنے گھر کی طرف جا رہی تھیں ۔۔۔۔۔

"سنیں کیا آپ نے سسی کو دیکھا ہے ۔۔۔۔اس نے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔۔۔۔

اس نے ان گزرتی ہوئی عورتوں کو روک کر پوچھا ۔۔۔۔

انہوں نے بھی نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔

چلتے ہوئے آتش کی نظر نیچے پڑیں ٹوٹی ہوئی گلابی کانچ کی چوڑیوں پہ پڑیں ۔۔۔۔

اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے سسی کی وہی چوڑیاں لہرائیں جو آج اس نے پہنیں ہوئی تھیں ۔۔۔۔آج پہلی بار تو آتش نے سسی کے لباس اور اس پہ غور کیا تھا تبھی ۔۔۔۔

اس نے حیرت زدہ نظروں سے ان ٹوٹے ہوئے کانچ کے ٹکڑوں کو جھک کر اٹھایا ۔۔۔۔

پھر ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا ۔۔۔۔

کچھ دور ٹیلے کے پاس تیز ہوا کے باعث اڑتا ہوا گلابی آنچل نظر آیا ۔۔۔۔وہ فورا اسے پہچان گیا اور تیزی سے اس کے طرف بھاگا ۔۔۔۔

"یہ تو سسی کا دوپٹہ ہے "

اس نے دوپٹے کو پکڑ کر کہا ،،،، دل میں اک انجانا سا خوف بیدار ہوا جو اسے کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہا تھا ۔۔۔۔

کیونکہ اس نے ہمیشہ سسی کو سر پہ دوپٹہ اوڑھے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

"سسی ۔۔۔۔!!  

"سسی ۔۔۔۔!!! 

وہ بلند آواز میں چلایا ۔۔۔۔

ریگستان میں تیز ہوا کہ باعث اسکی آواز دبنے لگی ۔۔۔۔۔

وہ پاگلوں کی طرح بھاگا ۔۔۔۔

مگر اسے سسی کہیں دکھائی نہیں دی ۔۔۔۔۔

اچانک ایک ٹیلے کے ساتھ اسے ٹھوکر لگی ،، وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکا اور بل کھاتا ہوا نیچے کی طرف لڑھکنے لگا ۔۔۔

چاروں طرف ریت ہی ریت تھی ۔۔۔۔دھول کا طوفان اٹھ رہا تھا ۔۔۔۔جو اس کی آنکھوں میں چبھ رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے اپنی آنکھوں کو مسل کر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔

اسے ریت میں سے کچھ ابھرا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

وہ پاؤں تھا جس میں پائل تھی ۔۔۔۔۔

اس نے دوبارہ دیکھنے کی کوشش کی شام ہونے کی وجہ سے کچھ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

وہ آگے بڑھا ۔۔۔۔

اچانک ہوا کا ایک تیز جھکڑ چلا جو سسی کے بے جان وجود کی جھب اسے دکھلا گیا ۔۔۔۔۔۔

"سسی ۔۔۔!!!!

اس کے مسخ شدہ وجود کو دیکھ کر آتش بلوچ کی دلدوز کرب زدہ  چیخ نے ریگستان کے ذرے ذرے کو ہلا ڈالا ۔۔۔۔

وقت جیسے تھم سا گیا تھا ،،،

وہ گھٹنوں کے بل پورے قد سے گرا ،،،،

"سسی ۔۔۔!!!

اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پہ ہلکی سی جنبش ہوئی ۔۔۔

آسمان بھی رو پڑا ۔۔۔۔

اچانک بجلی کی گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش برسنے لگی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے شانوں سے اپنی شال اتار کر  کپکپاتے ہاتھوں سے اس کے وجود کو لپیٹ دیا ۔۔۔۔۔

بارش کے پانی میں اس کے آنسو بھی شامل تھے ۔۔۔۔

اس کی حالت پہ آتش بلوچ کے ساتھ ساتھ برستے بادل بھی خون کے آنسو رو رہے تھے ۔۔۔

برستی تیز بارش کے باعث اور سسی کی حالت کودیکھ کر اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ایسی گھمبیر صورتحال میں بھی آتش بلوچ نے اپنے بکھرتے حواسوں کو مجتمع کیابس پھر وہ اپنی بدحواسی پہ قابو پائے  اُسے اپنی جیپ میں لے کر شہر کے ہسپتال کی طرف نکل گیا ۔اگر گاؤں کے کسی عام سے کلینک لے کر جاتا تو یہ خبر گاؤں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ۔بے شک وہ اپنا سب کچھ گنوا چکی تھی ،مگر گاؤں والوں کے سامنے وہ اسے نظریں جھکائے نہیں دیکھ سکتا تھا تبھی اس نے یہ فیصلہ لیا ۔۔۔

وہ یارم بلوچ کے دونوں دوستوں ،ڈاکٹر وہاج اور ڈاکٹر زارا کے نئے ہسپتال میں لے آیا ۔۔۔

"ڈاکٹر زارا پلیز واپس آئیں اور اس کا ٹریٹمنٹ کریں جلدی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے سسی کے شال میں لپٹے ہوئے وجود کو بانہوں میں بھر رکھا تھا ۔۔۔۔

ڈاکٹر زارا جو ڈیوٹی ختم کیے گھر کو روانہ ہورہی تھیں ۔آتش بلوچ کی آواز سن کر ٹھٹھکیں ۔۔۔۔

"تم ڈاکٹر یارم کے بھائی ہو نا "

انہوں نے آتش بلوچ کے چہرے پہ نظر ڈال کر اسکا جائزہ لیا تو انکی آنکھوں میں شناسائی کے رنگ اترے ۔۔۔۔

"جی میں انہیں کا بھائی ہوں ۔۔۔۔

"اچھا آئیے میرے ساتھ اندر "

وہ ان کی تقلید میں تیز رفتار قدم اٹھاتے ہوئے بڑھا ۔۔۔۔

"انہیں سٹریچر پہ ڈال دیں ۔۔۔"

وہ اپنے پیشہ ورانہ انداز میں بولیں ۔۔۔

"آپ انہیں آپریشن تھیٹر میں لے چلیں،اور آپ آپریشن کی تیاری کریں  "

اس نے ڈیوٹی پہ موجود نرس اور وارڈ بوائے سے کہا ۔۔۔

وہ اسے اندر لے گئے ۔۔۔۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر زارا آپریشن تھیٹر سے باہر آئیں ۔۔۔

"آتش یہ تو پولیس کیس ہے وکٹم کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے "

"ڈاکٹر زارا آپ کے پاس لانے کا مقصد یہی تھا کہ بات پولیس تک نہ پہنچے پلیز آپ اس کا علاج شروع کریں "

ڈاکٹر زارا لب بھینچ کر واپس چلی گئیں ۔۔۔ اب اندر اس کا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا جبکہ باہر  کوریڈور میں ادھر اُدھر ٹہلتے ہوئے وہ خود سے بےنیاز بےچینی سے ڈاکٹر کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن ساتھ ہی اس کے ذہن میں یہی بات گردش کر رہی تھی کہ آخر سسی کے ساتھ یہ سب کیا کس نے ہوگا ؟؟ سوچ سوچ کر وہ تھک گیا ' درد سے اس کا سر پھٹنے والا ہو گیا۔لیکن پھر بھی کوئی سرا  اس کے ہاتھ نہیں آیا۔وہ سر جھکائے گہری سوچ میں گم تھا ۔۔۔  اس کے لبوں پر سسی کی صحت یابی کی دعائیں تھیں۔ اس سارے واقعے کا ابھی تک کسی کو بھی علم نہیں تھا۔اور نہ ہی وہ کسی کو پتہ لگنے دینا چاہتا تھا۔۔۔

اتنا ٹائم گزر گیا تھا اُسے وہاں بےچینی سے ٹہلتے ہوئے۔۔! ابھی تک  ڈاکٹر زارا اور نرسز میں سے کوئی باہر نہیں آیا۔اس کی پریشانی و بےچینی مزید بڑھ گئی۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ خود سے لاپرواہ بنا کوریڈور کے کوئی سو چکر لگا چکا تھا۔۔کپڑوں پر لگے جابجا لگے سسی کے خون کے نشانات بھی اب جم چکے تھے۔لیکن پھر بھی اس کی نظریں ایمرجنسی روم کی طرف ہی تھیں۔۔۔

آخر کار اس کا انتظار ختم ہوا۔۔۔!

آپریشن تھیٹر کی لائیٹ بند ہوئی  جب ڈاکٹر زارا باہر آئیں تو وہ جلدی سے بھاگ کر ان کی طرف گیا۔۔

" سسی کیسی ہے۔۔؟"

"ڈونٹ وری آتش بلوچ۔۔۔!!!  پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہے۔۔۔ مگر اس کی حالت بہت بری ہے ۔۔۔کچھ دیر کے لیے ہوش میں آئیں تھیں بہت چیخ چلا رہی تھیں خوف سے ۔۔۔۔۔اور آپ کو شاید پتہ نہیں کہ ایسے کیسز میں لڑکیاں کم کی بچ پاتی ہیں ۔اور اگر بچ جائیں تو اس کرب ناک واقعہ کو یاد کر کہ تل تل مرتی ہیں ۔ان کی مینٹل کنڈیشن بھی ابتر ہوسکتی ۔۔۔۔بار بار وہی سب یاد کر کہ  انہیں ٹھیک ہونے میں ابھی کم از کم ایک ہفتہ تو لگے گا ۔ابھی ہم انہیں انڈر آبزرویشن رکھیں گے ۔۔" ڈاکٹر زارا  نے اسے تفصیل سے آگاہ کیا۔

"ڈاکٹر کیا میں سسی سے مل سکتا ہوں۔۔۔؟" اس نے دل ہی دل میں اپنے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے پوچھا۔

"ابھی پیشنٹ ہوش میں نہیں ہیں۔۔۔۔۔! آپ کے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔" انہوں نے بتایا۔

"لیکن میں اُنہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔" اس کی بے قراری کو دیکھ کر ڈاکٹر زارا  کو اچنبھا ہوا ۔۔ 

"پیشنٹ آپ کی۔۔۔؟"

" وہ میری عزت ہے ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔" اس نے بات کاٹ کر تیزی سے بتایا ۔۔ وہ بہت بےتاب تھا سسی  کو سلامت دیکھنے کے لیے۔

"آتش پریشان ہونے کی ضرورت نہیں پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہے ۔۔ ہم نے ٹریٹمنٹ کر دیا ہے ۔۔لیکن اُن کو کچھ دن ہسپتال میں ہی رہنا پڑے گا زخموں کی وجہ سے۔کسی وقت بھی انہیں ڈاکٹر کی ضرورت پڑسکتی" تب ہی ڈاکٹر وہاج بھی وارڈ سے باہر آئے ۔۔۔۔۔  یونیورسٹی کے دور  سے ہی وہ یارم بلوچ کو جانتا  تھا' انکی اچھی دوستی تھی ۔آتش سے بھی وہ یارم کے ساتھ ایک دو بار پہلے مل چکا تھا ۔۔۔۔وہ اُسے بہت اچھا لگا  تھا۔اسے اتنا پریشان دیکھ کر ڈاکٹر وہاج بھی دکھی ہوگئے ۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سردار فلک بلوچ کی ڈیڈ باڈی پولیس والوں نے ہاسپٹل سے پوسٹ مارٹم کروانے کے بعد حویلی پہنچا دی ۔۔۔۔

حویلی میں اس وقت آہ و بکا کا طوفان برپا تھا ۔۔۔۔

آتش بلوچ جو شہر کے ہاسپٹل میں موجود تھا ،اسے یکلخت خیال آیا کہ وہ گھر کال کر کہ اطلاع کردے کہ آج وہ کسی وجہ سے گھر واپس نہیں اپنائے گا ۔۔۔

اس نے اپنی جینز کی پاکٹ میں سے ٹٹول کر اپنا موبائل نکال لیا ۔۔۔

لیکن جیسے ہی اسے آن کیا ۔۔۔۔

وہ بالکل ڈیڈ ہوچکا تھا بارش کا پانی اس میں پڑنے کی وجہ سے ۔۔۔۔

وہ ریسیپشن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

"Excuse me...."

پلیز مجھے ایک کال کرنی ہے "

اس نے ریسیپشن پہ موجود ریسیپشنسٹ سے کہا ۔۔۔۔

"جی کر لیں "

اس نے فون کا رخ اسکی طرف کیا ۔۔۔

آتش بلوچ نے ڈائل پیڈ سے یارم بلوچ کا نمبر ملایا ۔۔۔۔

بیل جا رہی تھیں مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔

"یہ بھائی سا کو کیا ہوا ۔۔۔کال کیوں ریسیو نہیں کر رہے ۔۔۔؟پہلے تو ایسا کبھی نہیں کیا ....اس نے خودکلامی کی۔۔۔

اس نے ھاد بلوچ کا نمبر ملایا ۔۔۔

تیسری بیل پہ کال ریسیو کر لی گئی ۔۔۔۔

"بھائی سا ۔۔۔!!!

"آج میں کسی وجہ سے حویلی نہیں آ پاؤں گا ",

آتش بلوچ نے چھوٹتے ہی کہا ۔۔۔

"تمہیں آج واپس آنا ہی ہوگا آتش ۔۔۔۔۔!!! 

"اگر آج واپس نہیں آئے تو ان کا آخری دیدار کرنے سے محروم رہ جاؤ گے ۔۔۔۔!!! 

ھاد بلوچ کی غم میں ڈوبی ہوئی نم آواز سن کر آتش بلوچ دہل کر رہ گیا ۔۔۔۔

"کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟؟"

"اگر اپنے بابا کی میت کو کاندھا دینا چاہتے ہو تو لوٹ آو جہاں بھی ہو '

وہ پھر سے غمزدہ لجہے میں بولا۔۔۔۔

آتش بلوچ کو لگا کہ اس موسم میں یا تو اسے ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہا سگنلز پرابلم کی وجہ سے یا پھر۔ ھاد سے بولنے میں کچھ غلطی ہورہی ہے ۔۔۔اس اپنی سماعت پہ یقین کرنا دوبھر ہوا ۔۔۔۔

"مجھے ٹھیک سے بتائیں بھائی سا ۔۔۔۔"اس بار آتش بلوچ اونچی آواز میں چلایا ۔۔۔

"آتش ہمارے بابا ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں ۔۔۔۔اتنی دور کہ انہیں وہاں سے کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔۔۔۔۔آتش ۔۔۔۔!!! وہ اللّٰہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔

ھاد فون پہ دوسری طرف شدت کرب سے بلبلاتے ہوئے چیخا ۔۔۔۔۔

حیرت کے مارے آتش بلوچ کے ہاتھوں سے کریڈل چھوٹ کر ریسیپشن کے ٹیبل پہ ٹھاہ کی آواز سے گرا ۔۔۔۔

ریسیپشنسٹ نے چونک کر اسے دیکھا جو ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل نارمل تھا اور اب شکستہ وجود لیے الٹے قدموں سے چلتا ہوا دیوار سے جا لگا ۔۔۔

اس کے سر پہ تو ایک ساتھ غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔۔

 اس نے فلک بلوچ کے ہوتے ہوئے زندگی میں کبھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کیا تھا ،وہ اسکے کہنے سے پہلے کی اس کی ہر خواہش پوری کردیتے تھے ۔۔۔۔اس نے آسودہ زندگی گزاری تھی ۔۔۔۔

آج پہلی بار اسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔۔۔۔اور وہ بھی اتنے بڑے مصائب کے اسے اپنا آپ ٹوٹتا ہوا لگا ۔۔۔۔

ابھی تو پہلی محبت کا پہلا میٹھا سرور بھی اس نے اچھے سے محسوس نہیں کیا تھا کہ پہلے قدم پہ ہی اسے ایسا دھچکا لگا  کہ وہ خود کو سنبھال نہیں پایا تھا کہ ایک اور باپ کی موت کی خبر تو اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا کر گئے ۔۔۔

دل کر رہا تھا کسی خالی جگہ جا کر ایسے دھاڑیں مار مار کر روئے کے زمین و آسمان بھی کانپ جائیں ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

زبیدہ رات گئے تک سسی کے گھر آنے کا انتظار کرتی رہی ۔۔۔۔

بالآخر وہ کھانسی سے ہانپتے کانپتے ہوئے حویلی کی دہلیز پہ پہنچی ۔۔۔

مگر وہاں تو لوگوں تانتا بندھا تھا۔۔۔

اندر سے ماتم کی صدائیں آرہی تھیں ۔۔۔۔زبیدہ پہلے ہی سسی کو لے کر پریشان تھی ۔

مگر جہاں تو کچھ انہونا دیکھ کر اور بھی الجھ گئی۔۔۔

وہ ہمت کیے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔

تو پتہ چلا کہ فلک بلوچ کو ناگہانی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔۔۔

وہ بہت رنجیدہ ہوئی ان کی موت کا سن کر ۔۔۔۔

سردار فلک بلوچ۔ کا اپنے ملازمین کے ساتھ کیا ہر فرد کے ساتھ رویہ بہت اچھا تھا ۔اس لیے سب دکھی تھے ۔۔۔

"بی بی جی !!! 

آپ کو پتہ ہے سسی کہاں ہے ؟

"کب یہاں سے نکلی ؟؟؟

"ابھی تک وہ گھر نہیں پہنچی "

زبیدہ نے سہمی ہوئی چاہت سے پوچھا ۔اس نے بھیگی آنکھوں سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

تو زبیدہ دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔۔

وہ حویلی سے نکل کر واپس محلے کی طرف آئی ۔۔۔۔

اس کی سہیلیوں کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔۔

سب سے اس کے بارے میں پوچھا ۔

مگر کہیں سے اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملا ۔۔۔۔

وہ ساری رات یونہی گلیوں میں ماری ماری پھرتی رہی اسے ڈھونڈھنے کے لیے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ڈاکٹر زارا ۔۔۔!!!!

کیا میں سسی کو یہاں رکھ سکتا۔۔۔! میری مجبوری تھی انہیں یہاں لانا کیونکہ اُن کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ' ڈاکٹر کیا آپ میری واپسی تک سسی کی ذمہ داری قبول کریں گی ",

آتش بلوچ نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

",کیا ہوا آتش ۔۔۔۔؟؟؟

"کوئی مسلہ ہے تو بتاؤ ۔۔۔مجھے اپنی بہنوں کی طرح ہی سمجھو ۔۔۔۔",

ڈاکٹر زارا نے یارم بلوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے آتش سے بھی پیار بھرے انداز میں بات کی ۔۔۔۔

"ڈاکٹر زارا میرے بابا سائیں اس دنیا میں نہیں رہے ",

وہ رنجیدہ لہجے میں بولا۔۔۔۔

ڈاکٹر زارا نے اس کی سرخی مائل آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔ایسے لگ رہا تھا کہ وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔۔۔۔کبھی بھی رو پڑے گا ۔۔۔۔

ڈاکٹر زارا کو اس کی خبر پہ جھٹکا لگا ۔۔۔۔

",بہت افسوس ہوا۔۔۔۔یہ سن کر ۔۔۔۔آتش آپ سسی کی طرف سے بے فکر ہوکر جاؤ ۔۔۔۔تم جب تک واپس نہیں آتے یہ میری ذمہ داری ہے "

انہوں نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔

تو آتش نے ڈبڈبائی ہوئی ممنون نگاہوں سے انہیں دیکھا ۔۔۔۔۔

"شکریہ "

وہ بوجھل آواز میں کہتے ہوئے تیز قدموں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔اور جیپ میں بیٹھ کر واپسی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"اصل سردار وہی کہلاتا ہے جو دو قبیلوں میں پھوٹ برقرار رکھے ۔۔۔۔منشی صاحب ۔۔۔!!!

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

"مگر سردار ۔۔۔۔منشی نے بولنے کی کوشش کی ۔۔۔

"تم ہماری چالوں کو کبھی سمجھ نہیں پاؤ گے منشی !!!

"ہمارے جال جال میں جو بھی پھنستا ہے وہ ساری زندگی تڑپتا رہتا ہے مگر کبھی اس سے نکل نہیں پاتا ۔۔۔۔

وہ خباثت سے مسکرایا ۔۔۔۔

"مجھے پتہ تھا کہ فلک بلوچ اپنے بیٹے کے لیے سردار دلاور سے اسکی بیٹی کا ہاتھ مانگنے جائے گا ۔۔۔۔

جیسے سالوں پہلے میں نے ان دونوں قبیلوں کے بیچ دشمنی کی کبھی نا مٹنے والی دیواریں کھڑی کردیں تھیں ۔تو آج وہ اتنی آسانی سے اپنے بچوں کا رشتہ طے کر کہ میری ان بنائی گئی دیواروں کو کیسے توڑ دیتے ۔۔۔۔ایسا کبھی گل بلوچ ہونے نہیں دیتا ۔۔۔۔

وہ رعونت آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔

"میری نظر تھی عنایا پہ ۔۔۔۔

"میں فلک بلوچ سے رشتہ مانگا تھا اس کا ۔۔۔۔۔

"مگر وہ کمینہ دلاور بلوچ اسے بھگا کر لے گیا ۔۔۔۔۔مجھے لگا تھا کہ فلک بلوچ غیرت میں آکر اس دلاور کو قتل کردے گا ۔۔۔۔مگر وہ ٹہرا امن کا حامی ۔۔۔۔۔وہ تو اپنی بہن کو خوش دیکھ کر مطمئن ہوگیا تھا ۔۔۔۔مگر میرے سینے کی آگ کیسے ٹھنڈی ہوتی اپنی محبت کو دلاور بلوچ کے پہلو میں دیکھ کر ۔۔۔۔میں نے فساد کی جڑ اپنی محبت عنایا کو ہی ختم کردیا ۔۔۔۔۔اپنے ان ہاتھوں سے ۔۔۔۔

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر کرب سے بولا ۔۔۔۔

پھر اچانک قہقہ لگا کر ہنس دیا ۔۔۔۔

منشی کو وہ اس وقت کوئی پاگل ہی لگا تھا ایسے کرتے۔ ہوئے ۔۔۔۔

" دلاور کا بہنوئی میرے راستے میں کھڑا تھا ۔۔۔۔عنایا پہ نشانہ لگنے نہیں دے رہا تھا تو پہلے میں نے اس کا کام تمام کیا پھر  عنایا پہ بھی گولی میں نے چلائی ۔۔۔۔

اور دلاور بلوچ نے سوچا کہ گولی فلک بلوچ نے چلائی اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کردیا ۔۔۔۔

"ہا۔۔۔ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔۔وہ استہزایہ انداذ سے قہقہ لگاتے ہوئے ہنسا ۔۔۔۔۔

"میں نے سردار فلک بلوچ کو قتل کرکہ جو اک نئی آگ بھڑکائی ہے نا ان دونوں قبیلوں 

کے بیچ دیکھنا وہ آگ کیسے بھڑک کر آتش فشاں کا روپ دھارتی ہے "

"تم ہمارے خاص بندے ہو جو ہمیشہ ہمیں دونوں قبیلوں کی خبریں دیتے رہے ۔۔۔۔اور ہم اپنے دشمنوں کو مٹاتے رہے ۔۔۔۔یہ لو تمہارا انعام "

گل بلوچ نے نیلے کڑکتے ہوئے نوٹوں کی گڈی اس کی طرف پھینکی ۔۔۔۔

"شکریہ سردار ...!!!

وہ نوٹوں کی گڈی کو چوم کر جیب میں ڈالتے ہوئے کمینگی سے مسکرایا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سردار فلک بلوچ کی موت کی خبر نے گوٹھ میں اِک قیامت برپا کر دی تھی۔۔۔۔۔۔!

زرش بلوچ اپنے شوہر کی  موت کا غم سہہ نہیں پائی تھیں۔ اور گہرے صدمے میں چلی گئیں تھیں ۔یارم بلوچ اور ھاد اور آتش تینوں انکی موت کی وجہ سے غم سے نڈھال تھے مگر بدلے اور غصے کی شدید لہر ان کے تن بدن میں دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔

حویلی میں بھی تعزیت کے لیے گاؤں کے لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔!

ہر آنکھ ان کی بے گناہ اور اچانک موت پر اشک بار تھی ۔

___________

۔سردار فلک بلوچ کی موت کو آٹھ روز ہو گئے تھے۔۔۔۔پنچائیت بیٹھ چکی تھی۔اس میں سب سر کردہ افراد شامل تھے۔۔۔۔!

پچھلے دس منٹ سے جرگے میں جمع سب لوگ یارم بلوچ  کا انتظار کر رہے تھے۔ 

امریکہ سے واپس آتے ہی اُسکی دستار بندی کی محفل سجائی گئی اور اسے سردار بنایا گیا۔سردار فلک بلوچ نے اس کی  رگ رگ میں سرداری بھر دی  تھی۔

ایک دھول اڑاتی ہوئی کئی گاڑیاں اور جیپیں گاؤں کے پنڈال میں آکر رکی۔۔۔۔

پہلے تمام مسلح گارڈز اترے۔ پھر دروازہ کھولا۔

تو اس میں سے  تیس سالہ نوجوان  ،یارم بلوچ ۔لٹھے کے سفید کڑکڑاتے شلوار قمیض میں ملبوس،شانوں پہ سیاہ شال اوڑھے ،سر پہ دستار باندھے ۔۔۔۔پورے جاہ جلال  باہر نکلا ۔۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر بلا کے سرد تاثرات تھے گھنی مونچھوں تلے عنابی لب باہم پیوست تھے۔باپ کی جدائی کے حزن و ملال کے تاثرات اس کے چہرے سے چھلک رہے تھے ۔۔۔دوسری طرف کا دروازہ کھول کر ھاد بلوچ اور آتش بلوچ بھی اس کی تقلید میں باہر نکلے ۔۔۔۔

یارم بلوچ ایک ایک قدم ایسے اٹھاتا ہوا چل کر انکی طرف آ رہا تھا جیسے زمین پر احسان کر رہا تھا ۔۔۔۔سب اس کی زیر کردینے والی بارعب شخصیت سے مرعوب دکھائی دے رہے تھے ۔۔یہ کوئی ان تینوں بھائیوں سے پوچھتا کہ وہ کیسے دن رات  بدلے کی آگ میں جل رہے تھے ۔۔۔۔ وہ طاقتور تھے ،

لیکن مقابل گروہ بھی کوئی کم طاقتور نہیں تھا۔

مقابلہ ٹکر کا تھا۔

سب اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے ۔۔۔

یارم بلوچ جاہ جلال سمیت وہاں براجمان ہوا ۔قمیض کے کف فولڈ کیے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے وہ سب پہ چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔

سب کی نظریں اس سے ہوتے ہوئے  سر پنچ کی طرف گئی تھیں ۔۔۔۔

"سردار دلاور بلوچ اور سردار یارم بلوچ  ، یہاں ہم سب سرپنچ صلح کی کوئی صورت نکالنے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں ۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کے مزید کوئی خون خرابہ ہو ۔۔۔اس بات کو صلح صفائی سے ختم کیا جائے۔۔۔۔وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولے ۔۔۔۔

"یہ سالوں پرانی دشمنی کو یہیں ختم کردو"

"ہماری طرف سے دشمنی ختم تھی ۔۔۔۔میرے بابا سائیں کی جان لے کر اس نے پھر سے دشمنی کی شروعات کی ہے ۔۔۔۔میں قطعا اسے معاف نہیں کروں گا ۔۔۔۔

"میرا دل تو کرتا ہے بھرے مجمعے میں اس کی جان لے لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔تبھی میرے کلیجے میں لگی آگ بجھے گی "

ھاد بلوچ اپنے سامنے دلاور بلوچ کو دیکھ کر طیش میں آکر کھڑے ہوتے ہوئے غرایا ۔۔۔۔

"سردار اسے خاموش کروائیں یہ پنچائیت کے فیصلے میں مت بولے ۔۔۔۔"پنچایت کے ایک معزز ادھیڑ عمر شخص نے تیکھے لہجے میں کہا۔۔۔

"ھاد ...!!!

یارم بلوچ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔

ھاد بلوچ خود کے غصے کو ضبط کرنے کے لیے اپنی مٹھی کو زور سے بھینچ لیا۔۔۔۔

"میرا دل بھی یہی کر رہا ہے اس کمینے کو شوٹ کردوں ۔۔۔زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا سزائے موت ہوجائے گی ۔۔۔۔مگر مرنے سے پہلے اس قاتل کو اپنے ہاتھوں سے مار کر اپنے بابا کی تڑپتی ہوئی روح کو سکون تو پہنچا سکوں گا ۔۔۔۔آتش بلوچ کی پیشانی کی رگیں پھولیں لگیں ۔۔۔۔وہ ایک ایک لفظ چبا کر ھاد کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

دونوں سامنے بیٹھے دلاور بلوچ کو تیکھے چتونوں سے گھور رہے تھے ۔۔۔۔۔

"دلاور بلوچ کا کہنا ہے کہ اس نے فلک بلوچ کا قتل نہیں کیا ۔۔۔۔لیکن وہاں قبیلے کے لوگوں نے شمشیر اور دلاور کو فلک بلوچ پہ گولی چلاتے دیکھا ہے ۔۔۔۔سب گواہان نے اس کے خلاف گواہی دی ہے تو قاعدے سے سردار دلاور کو ہی گنہگار مانا جائے گا ۔۔۔۔سردار دلاور تمہیں فلک بلوچ کے قتل کے بدلے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہے۔ "

جرگے کے سردار نے یارم بلوچ سے کہا۔

رات کو ہی فلک بلوچ کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آئی تھی ۔۔۔۔ایک گولی ان کے سینے پہ لگی تھی جو شمشیر بلوچ کی بندوق سے نکلی تھی ۔مگر دوسری گولی جو انکی کنپٹی میں لگی جس سے ان کی آنکھ بھی ضائع ہوگئی تھی اور انہوں نے موقع پہ دم توڑ دیا تھا وہ گولی سامنے سے نہیں دائیں طرف سے چلائی گئی تھی ۔۔۔۔جبکہ موقع پہ موجود قبائل کے لوگوں نے بتایا کہ جائے حادثہ پہ شمشیر بلوچ اور دلاور بلوچ سامنے کھڑے تھے ۔۔۔سوچنے والی بات یہ تھی کہ سائیڈ سے گولی کس نے چلائی ۔۔۔۔رات سے یہی سوچ سوچ کر یارم بلوچ غصے سے آگ بگولہ ہوا جا رہا تھا اسے کسی طور چین نہیں مل رہا تھا ۔آخر کون تھا اسکے والد کی موت کا اصل ذمہ دار ۔۔۔۔؟

وہ جان چکا تھا کہ سردار دلاور بلوچ نے وہ دوسری گولی نہیں چلائی ۔۔۔۔

لیکن اس کے اندر بھی سرداروں کا خون دوڑتا تھا ۔موقع سے فایدہ کیسے اٹھایا جائے وہ بخوبی جانتا تھا ۔اس کے ماسٹر مائنڈ میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا ۔۔۔۔اور اس نے اس خیال پہ عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔

"مجھے خون بہا میں دلاور بلوچ کی بیٹی چاہیے۔" 

 اچانک سے یارم بلوچ  نے کہا تو مقابل کے قبیلے سے سردار دلاور بلوچ طیش میں آکر کھڑا ہوگیا۔

ھاد بلوچ اور آتش بلوچ نے حیرت انگیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا کہ آخر کار وہ ایسا فیصلہ کر کیسے سکتا ہے ۔۔۔۔

" بکواس بند کر بڑا آیا نیا سردار ۔۔۔۔ تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی کا نام بھی  لینے کی؟" 

سردار دلاور بلوچ غصیلے انداز میں یارم بلوچ  پر حملے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا،ھاد اور آتش اسکے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ۔۔۔۔

سردار دلاور بلوچ کے آدمیوں نے بھی بندوقیں تان لیں ان پر ۔۔۔۔۔

" سب لوگ اپنی اپنی جگہ پہ بیٹھ جاؤ ۔۔۔ہم یہاں قتل و غارتگری کے لیے اکٹھا نہیں ہوئے ۔ " 

جرگے کے سرپنچ نے بارعب آواز میں کہا۔۔۔۔

تو سب تلملاتے ہوئے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔۔۔

یارم بلوچ اپنے خوبرو چہرے پر بلا کے پتھریلے تاثرات  سجائے اطمینان سے بیٹھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دلاور بلوچ کے لیے اُن کی بہن بیٹی کا ذکر کرنا کیسے اُن کے تن بدن میں آگ لگانے کے مترادف تھا۔

" قتل میرے بابا سائیں کا ہوا ہے ،تو آپشن رکھنے کا حق بھی میں رکھتا ہوں ۔۔۔ تمہارے پاس دو ہی آپشن ہیں دلاور ۔۔۔۔۔۔!!!!

یارم بلوچ نے برفیلے لہجے میں کہا ۔۔۔۔

 یا تو مجھے اجازت دی جائے کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو اپنے ہاتھوں سے اس جرگے کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالوں ۔ یا پھر یہ اپنی بیٹی مجھے خون بہا میں دے ۔ "

" دلاور بلوچ کی خون بہا میں دی جانے والی پیسوں کی آفر کو ٹھکراتا ہوں میں  ۔۔۔۔۔!!!!" 

اس کا جو بھی فیصلہ ہو وہ جرگہ مجھ تک پہنچا دے"

یارم بلوچ دو ٹوک انداز میں کہتے ہوئے کھڑا ہوا۔

اس کی بات سن کر جرگے میں ایسی خاموشی چھائی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔

 اُس کے ساتھ ھاد بلوچ اور آتش بلوچ بھی اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔اپنی جیپ اور گاڑیوں میں بیٹھ کر اس پیاسے ریگستان کی دھول اڑاتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔۔۔۔۔

اس کے فیصلے نے سردار دلاور بلوچ کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی ۔۔۔وہ ماھی بے آب کی طرح تڑپ اٹھا اپنی جان سے پیاری بیٹی کے بارے میں سوچ کر ۔۔۔۔جس بیٹی کو اس نے ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا اور اسے ہلکی سی خراش تک نہ آنے دی ،آج وہ کیسے اسے اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی  دشمنوں کو سونپ دیتا ۔۔۔۔نجانے وہ بدلے میں اس کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے یہی سوچ سوچ کر اس کی دماغ کی شریانیں پھٹنے لگیں ۔۔۔۔۔

"یہ غلط کیا آپ نے ۔۔۔! ۔۔آپ نے مجھے آپ سے یہ قطعاً یہ امید نہیں تھی ۔"

"آپ کیسے ہمارے بابا سائیں کے مجرم کو ایسے چھوڑ سکتے ہیں ۔۔۔۔"ھاد بلوچ حویلی واپس آتے ہی غصے سے بھپر کر یارم بلوچ سے بولا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔اس واقعے کے بعد تو وہ  ضدی ' غصیل اور خود سر ہو چکا تھا۔۔۔۔!

"میری بات دھیان سے سنو ھاد۔۔۔ ! یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔۔ہر بار ایسی باتوں کا فیصلہ جرگہ ہی کرتا ہے " اس کو سمجھاتے ہوئے یارم بلوچ کا لہجہ قدرے نارمل تھا۔

"لیکن میں بے غیرت نہیں بن سکتا ۔۔ ' لوگ کیا کہیں گے کہ ہم  نے اپنے بابا سائیں کے قتل کے بدلے دلاور سے ونی لے لی ۔۔۔۔مجھے یہ فیصلہ قطعی نا منظور ہے ۔۔۔"وہ زخمی شیر کی طرح دھاڑ ا۔۔

ھاد بلوچ غصے سے سر جھٹک کر تن فن کرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

"بھائی سا ۔۔۔۔!!!

"میں بھی ھاد بھائی سا کی بات سے متفق ہوں آپ نے غلط فیصلہ لیا ہے ۔۔۔۔",

آتش بلوچ نے بھی خفگی بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔

"تم لوگ نا جوش سے کام لیتے ہو ہوش سے نہیں ۔۔۔

ہر بار دل سے کام لیا جائے ضروری نہیں کبھی کبھار انسان کو دماغ سے بھی کام لینا چاہیے ",

یارم بلوچ نے آتش کی طرف دیکھ کر سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔

تو آتش بلوچ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا ۔۔۔

"مطلب ۔۔۔۔!...؟؟

یارم بلوچ نے سیگریٹ نکال کر اپنی گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں میں دبائی اور اسے سلگا کر دھواں ہوا میں اچھال دیا۔۔۔۔

وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے قدرے سکون دہ انداز میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا تھا ۔۔۔۔

اس کی سرمئی آنکھوں میں سرخ ڈورے نمایاں تھے،وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا پھر آتش کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

"میری رات ڈی _ایس_صاحب سے بات ہوئی تھی ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے ٹہرے ہوئے انداز میں بات کی شروعات کی ۔۔۔

آتش محویت سے سننے لگا ۔۔۔

"انہوں نے بتایا کہ ایک گولی شمشیر بلوچ کی بندوق سے لگی اور دوسری گولی کسی اور گن کی تھی ،دلاور نے گولی  نہیں چلائی ۔۔۔۔۔

بابا سائیں کو کنپٹی پر گولی دائیں جانب سے لگی ۔۔۔۔مطلب وہاں دلاور اور شمشیر کے علاؤہ کوئی تیسرا بھی موجود تھا ۔۔۔۔ڈی _ایس_پی اور بابا سائیں کے کافی اچھے تعلقات رہے ہیں جن کی بنا پہ انہوں نے ساری معلومات سے مجھے آگاہ کیا تھا ۔میں نے انہیں فی الحال کاروائی جاری رکھنے کے لیے کہا ہے ،کہ اصل قاتل کا خفیہ طور پہ سراغ لگائیں ،سب یہی مان رہے ہیں کہ دلاور نے قتل کیا ہے تو یہی صحیح ،،ویسے تو وہ مر کر بھی اپنی بیٹی ھاد کو نہیں دیتا ۔میرے بابا سائیں جو کام کرنے گئے تھے ۔۔۔۔۔

اب ان کی وہ ادھوری خواہش وہ کام میں پورا کروں گا ۔۔۔۔"

یارم بلوچ کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے اپنے بابا سائیں کے ذکر پہ ۔۔۔۔مگر اس نے خود پہ ضبط کیا ۔۔۔۔

"اصل قاتل کو تو میں ڈھونڈھ کر ہی رہوں گا ،اور اسے اسکے عبرت ناک انجام تک بھی پہنچاؤں گا ۔لیکن ابھی لوہا گرم تھا تو میں نے چوٹ کردی اس دلاور پہ ۔۔۔۔اب اسے جرگے کا فیصلہ مان کر اپنی بیٹی ونی کرنی ہی ہوگی ۔۔۔۔

"وہ خون کا بدلہ خون دینے سے تو رہے ۔۔۔وہ لوگ یا تو رقم دیتے یا ونی  ۔۔۔۔! تو میں نے ھاد کے لیے خوشیاں خرید لیں ۔۔۔۔" 

"بتاؤ کیا گھاٹے کا سودا کیا ؟

وہ گہرا کش لیتے ہوئے اطمینان سے بولا ۔

"یہ میں نے کب کہا ۔۔! آپ نے گھاٹے کا سودا کیا ؟۔" 

"مجھے نہیں لگتا کہ ھاد بھائی سا  نکاح کے لیے مانے گے "

آتش نے اپنا خیال ظاہر کیا ۔۔۔

"کیسے نہیں مانے گا ۔۔۔اسی کے لیے تو بات کرنے گئے ہوں گے بابا سائیں اس دلاور کے پاس ۔۔۔۔اسے اس فیصلے کو قبول کرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔

"کیا وہ دلاور کی بیٹی سے اس واقعے کے بعد پہلے جیسا رویہ رکھ پائے گا ؟؟؟

"وہ اس سے محبت کرتا ہے آہستہ آہستہ خودی سنبھل جائے گا ۔اب اتنا بھی بے وقوف نہیں جتنا تم اسے سمجھ رہے ہو ۔۔۔۔۔

اُس نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

"کل اسکا اور دلاور کی بیٹی کا نکاح ہوگا ۔۔۔۔۔",

یارم نے رسان سے کہا ۔۔۔۔

ھاد بلوچ کو کمرے میں جانے کے بعد بھی سکون نہیں ملا وہ غصے سے ادھر ادھر چکر لگا رہا تھا ۔۔۔۔

تبھی اسے موبائل پہ ایک میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی۔۔۔۔۔

اس نے کھول کر دیکھا ۔۔۔۔

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر 

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں 

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو 

وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم 

گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی 

تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی 

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا 

سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی 

تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا 

وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا 

میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

اس نے ھادیہ کی بھیجی گئی غزل کو دیکھ کر اپنا موبائل اشتعال انگیزی سے زمین پر پوری قوت سے دے مارا ۔۔۔۔

"آج کتنے دن ہوگئے ہیں ھاد نے نا تو مجھے میسج کیا ہے اور نا بتایا کہ اس کے بابا میرے بابا سے ملے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔"

ھادیہ نے خود کلامی کی ۔۔۔۔

اس نے اپنے جذبات سے لبریز غزل اسے سینڈ کی مگر آگے سے ھاد کا کوئی ریپلائے نہیں آیا ۔۔۔۔اس نے کچھ سوچتے ہوئے اسے کال ملائی ۔۔۔۔

مگر فون ان ریچ ایبل آ رہا تھا۔

اس نے دل مسوس کر فون بستر پہ ڈال دیا ۔۔۔۔

اور چلتی ہوئی کھڑکی میں آئی ۔۔۔۔۔

"ایک تو یہ امینہ بھی نہیں آئی کتنے دنوں سے ۔۔۔۔

اس نے جل کر کہا ۔۔۔۔

ھاد کو کسی طور چین نہیں تھا وہ واپس کمرے سے باہر آیا تو یارم بلوچ کی آخری بات اسے سنائی دی ۔۔۔۔

وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئے ان دونوں کے پاس آیا ۔۔۔۔

"ونی لینے اور نکاح کرنے کی حامی آپ بھر کر آئے ہیں نا تو شوق سے لائیے ۔۔۔۔

"لیکن میں وہ نہیں کر سکتا جو آپ چاہتے ہیں ۔۔۔! میں تو اس دلاور بلوچ  کا سارا خاندان ختم کرنا چاہتا ہوں ' بہت غلط کیا اس نے ہمارے ساتھ۔میں اس کو چھوڑوں گا نہیں۔۔۔" وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے چیخا۔ اِس وقت وہ کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں تھا اس کے سر پر تو انتقام کا بھوت سوار تھا۔

"لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی تمہیں یہ بات ماننی پڑے گی ھاد  ۔۔۔!خون بہا تو میں لے کر رہوں گا ۔۔۔۔اس وقت تمہیں یہ حکم تمہارا بھائی نہیں اس علاقے کا سردار دے رہا ہے ۔۔۔۔"سردار یارم بلوچ نے اسے غصّے میں دیکھ کر رسانیت سے کہا ۔ 

"دلاور کے لیے اس کی اکلوتی  بیٹی کیا ہے یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اس میں دلاور کی جان بستی ہے اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے اپنے دشمنوں کو سونپنا اپنے آپ ہی اس کے لیے موت کے مترادف ہے ۔۔۔! وہ ہمیں اپنی بیٹی دے کر ِتل ِتل مرے گا ۔۔۔" سردار آتش بلوچ نے بھی لقمہ دیا۔۔۔

"مجھے کوئی بھی مجبور نہیں کر سکتا اس نکاح کے لیے  "

ھاد بلوچ ضدی اور اکھڑ لہجے میں بولا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تم ھادیہ کو اپنی دشمن کی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے نفرت میں اپنے پیار کو بھلا سکتے ہوگے ۔۔۔۔اپنی نظروں کے سامنے اسے کسی اور کا ہوتے دیکھنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہوگے ۔۔۔۔۔

"میں تو جرگے میں زبان دے چکا ہوں ،اور کسی بھی صورت اپنی زبان سے پِھروں گا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تھوڑا رکا پھر بولا ۔۔۔

"مجبورا تمہاری محبت کو مجھے اپنانا پڑے گا "

وہ سیگریٹ کا مرغولہ بناتے ہوئے لاپرواہی سے ہوا میں اچھال کر بولا ۔۔۔۔

"مگر بھائی سا ۔۔۔۔!!!! ؟؟؟؟

آتش بلوچ کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔

اس نے کچھ کہنے کے لیے لب واہ کیے ہی تھے کہ یارم بلوچ نے اسے اپنی سرمئی پراسرار آنکھوں سے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔

وہ دم سادھے کھڑا تھا ۔۔۔۔یہی سوچ رہا تھا کہ ھاد اپنی محبت سے ایسے کیسے دستبردار ہو سکتا تھا ۔۔۔۔

"اس لڑکی کے لیے نا سہی ۔۔۔۔لیکن مجھے لگتا کہ اسے اپنی بھابھی سے تو ہمدردی ہوگی ہی اسے ۔۔۔۔جس کے سر پہ سوتن آجائے گی ۔۔۔۔۔۔کیا یہ اپنی بھابھی کو دکھی دیکھ سکتا ہے ؟؟؟"

یارم بلوچ نے مبہم انداز میں اپنی بات کہی ۔۔۔۔

ھاد اپنی جگہ پہ ساکت سا کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ 

جبکہ آتش بلوچ دل میں اپنے  یارم بھائی سا کے دماغ کی داد دئیے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔۔

"آتش ۔۔۔۔!!!  اسے کہہ دو کل وقت سے نکاح کے لیے پہنچ جائے ۔۔۔۔۔ورنہ نکاح تو کل ہوکر رہے گا ۔۔۔۔

"اس سے نہیں تو تم سے "۔۔۔!!! 

وہ سیگریٹ کو سنگ مرمر کے فرش پہ پھینک کر اس کو اپنی کھیڑی سے بے دردی سے کچلتے ہوئے اچٹتی ہوئی نظر ھاد پہ ڈال کر چلا گیا ۔۔۔۔

اور جاتے جاتے آتش بلوچ کو بھی حیرتوں کے سمندر میں ڈُبا گیا ۔۔۔۔۔

"اُف۔۔۔۔!!  یہ بھائی سا بھی نا ۔۔۔۔وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا ۔۔۔۔۔

__________________

دوسری طرف سردار دلاور بلوچ کی حویلی میں بھی اک طرح سے صف ماتم بچھا ہوا تھا۔جب سے سردار فلک بلوچ کے قتل کا الزام اس پر لگا تھا تب سے ہی وہ سخت پریشان تھے ۔۔پنچائیت میں جب خون بہا کی بات ہوئی تھی تب سے ہی سردار دلاور بلوچ کے اندر ڈر بیٹھ گیا تھا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ۔ سردار یارم  کبھی بھی خون بہا کے بدلے پیسے نہیں لے گا ، بلکہ وہ خون بہا میں اُن سے انکی بیٹی ہی مانگے گے  'اسی نہج پہ سوچ سوچ کر انہیں اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔ھادیہ کو کھو دینے کا غم الگ سے اُنہیں اندر ہی اندر کھائے جا ہے تھا۔جسے ہر وقت نظروں کے سامنے رکھا بے پناہ پیار کیا آج کیسے وہ اسے اپنے دشمنوں کے حوالے کردیتے ۔۔۔۔

انہیں اپنے ہی بولے گئے الفاظ اپنے کانوں میں سنائی دینے لگے۔۔۔۔

"ہم اپنی بیٹی کی شادی پہ سارے علاقے  کو اتنے چراغوں سے روشن کردیں گے کہ زمین کی طرف دیکھ کر آسمان کے ستارے بھی آپس میں پوچھیں گے کہ زمین پہ آج کونسی رات ہے ۔جو زمین آسمان کے ستاروں کی طرح جگمگا رہی ہے ۔ہم رات کو چراغوں سے اتنا روشن کردیں گے کہ وہ دن میں بدل جائے گی ۔۔۔۔۔میری بیٹی ۔۔کی شادی اس علاقے کی ایسی بے مثال شادی ہوگی کہ جسے آس پاس کے قبیلے اور انکے سردار کبھی بھلا نہیں پائیں گے ۔

وہ رعونت آمیز انداز میں آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔

ٹھیک کہتے ہیں اتنا تکبر کرنا بھی انسان کو لے ڈوبتا ہے ،

کیا کیا خواب سجائے تھے انہوں نے ھادیہ کی شادی کے لیے کہ وہ شان و شوکت سے اس کا بیاہ کریں گے مگر یہاں تو سب بکھر گیا تھا ۔۔۔۔وہ سوچتے ہوئے یاسیت سے اپنے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ گئے ۔۔۔۔

__________________

سردار فلک بلوچ کے قُل کے بعد آتش بلوچ زبیدہ کے گھر گیا اور انہیں بتایا کہ سسی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی 

"وہ ہسپتال میں تھی اسی لیے گھر نہیں آئی ۔۔۔۔آپ میرے ساتھ چلیے ۔۔۔۔"

اس نے سنجیدہ انداز میں کہا۔۔

مگر زبیدہ بری طرح سے کھانسنے لگی ۔۔۔۔

آتش ان کی کھانسی کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو گیا ۔۔۔۔

وہ انہیں اپنے ساتھ شہر کے ہاسپٹل میں لے آیا پہلے اس نے زبیدہ کا چیک اپ کروانے کے لیے لے چیسٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس لے گیا ۔۔۔۔

"سردار مجھے سسی کو دیکھنا ہے ۔۔۔۔ایک بار اسے سلامت دیکھ لوں پھر چاہے مر بھی جاؤں تو کوئی غم نہیں "۔وہ یاسیت سے گھلے لہجے میں بولی ۔۔۔۔

"ابھی وہ دوائیوں کی وجہ سے سوئی ہوگی ۔۔۔۔آپ کو میں یہاں اس سے ملانے کی لایا ہوں ۔۔۔۔مل لیجیے گا اس سے بھی ۔۔۔۔پہلے اپنے ٹیسٹ کروائیں یہ لازمی ہیں ۔۔۔۔

اگر ڈاکٹر نے آپ کو سسی کے پاس بیٹھے یوں زوروں سے کھانستے ہوئے دیکھا تو وہ آپ کو اس کے کمرے سے باہر نکال دیں گے ۔۔۔۔۔اس نے اپنے تئیں اسے سمجھایا ۔۔۔۔ان کے ٹیسٹ کروائے پھر انہیں سسی کے پاس انہیں چھوڑ کر خود واپس چلا گیا کیونکہ ابھی اس کی وہاں بھی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔ 

اس نے سسی کو ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں شفٹ کروالیا تھا۔۔۔۔

وہ صرف کچھ دیر کے لیے ہوش میں آتی۔۔وہ خالی نظروں سے چھت کو گھورتی رہتی ۔۔۔۔ ۔۔۔یا تو چیخنے چلانے لگتی یا پھر ڈاکٹر اسے سکون کا انجیکشن لگادیتے ۔۔۔۔آتش نے ابھی تک اس کا سامنا نہیں کیا تھا ۔۔۔۔وہ باہر شیشے سے دیکھ کر کی چلا گیا ۔۔۔۔

"اپنی بیٹی کو سامنے پاکر زبیدہ کی اس کی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی گردش تیز ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔اسے اپنی آنکھوں سے ذندہ سلامت دیکھ کر ان کی تحیر میں ڈوبی آنکھیں خداوند متعال کے آگے سر بسجود ہوئیں ۔۔۔۔

وہ بے قراری سے اسے دیکھنے کے لیے اس کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔

مگر یہ کیا ؟؟؟؟

اس کی درگوں حالت پہ وہ بھونچکا رہ گئی۔۔۔۔

اس کی گردن اور چہرے پہ جابجا دانتوں کے نشان خراشیں تھیں ،یہ سب تو کسی اور ہی چیز کی نشاندھی کر رہی تھیں ۔۔۔

صدیوں کی تھکن ،تڑپ ساری اذیتیں ،اور تکالیف جیسے اسی کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی ۔۔۔۔وہ ٹوٹ کر بکھر گئیں اپنی بیٹی کی اس حالت کو دیکھ کر وہ نم بیہوشی کہ حالت میں تھی ،

زبیدہ  سسی کا بے جان ہاتھ تھام کر دھاڑیں مارتے ہوئے رونے لگی ۔۔۔۔

اس کا سینہ غم کے بوجھ سے چھلنی ہوگیا ۔۔۔۔۔

اس کی برداشت سے باہر ہوگیا اسے ایسی حالت میں اسے دیکھنا ۔۔۔۔دل چاہ رہا تھا اسے ساری دنیا کی نظروں سے چھپا کر کہیں دور لے جائے ۔۔۔

مگر وہ بے بس تھی ۔۔۔۔کیسے سنبھالے گی وہ ُاسے ۔۔۔۔۔یہی سوچ کر وہ نڈھال ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔ان کے دل سے ہوک سی اٹھی۔۔۔۔

اور اس انسان کی موت کے لیے شدت سے بدعائیں نکل رہی تھیں جس نے ان کی پھول سے نازک بچی کو کچل دیا تھا ۔۔۔۔

__________________

سیلی سیلی ہواؤں میں نمی کا ظہور ہوا جاتا تھا ۔۔۔۔۔وہ کمرے میں اکیلی بیٹھی آدم کے بارے میں سوچ رہی تھی ،

"یہاں آئے ہوئے مجھے کتنے دن ہوچکے ہیں ،ایک بار بھی آدم برو کا فون نہیں آیا تھا اور نا ہی انہوں نے میری برو سے فون پہ بات کروائی ہے ",

وہ زیر لب بڑبڑائی ۔۔۔

وہ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھلا ۔۔۔۔

چاہت نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔

"تم یہاں اکیلی بیٹھی کیا کر رہی ہو ؟

وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔

"ک۔۔۔کچھ نہیں "

وہ یارم بلوچ کے سرد روئیے پہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔

"تم اس گھر کی بہو ہو ۔۔۔اپنی ذمہ داریاں سمجھو ۔۔۔۔

چاہت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔

"ماں سا ادھر اکیلی کمرے میں ہوں گی ۔۔۔جا کر انہیں تسلی دو ۔۔۔ان کے ساتھ وقت گزارا اکیلی ہیں وہ ۔۔۔۔۔ان کا خیال کرنا تمہاری ذمہ داری میں شامل ہے "

وہ کھردرے پن سے بولا ۔۔۔تو چاہت کے چہرے پہ حیرانیاں بکھریں ۔۔۔۔

"انہوں نے اپنا شوہر کھو دیا ہے ۔۔۔۔سوچو زرا تم پہ کیا بیتے گی اگر تم کسی اپنے کو کھو دو گی تو ۔۔۔ خود پہ وہی کیفیت محسوس کرو گی تو ہی دوسروں کا دکھ سمجھو گی ۔۔۔۔۔

"یہ آپ ۔۔۔کیا ۔۔۔۔کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔میں ۔۔۔ان کا ۔۔۔خیال ۔۔۔۔

"سوچو اگر تم اپنے عزیز بھائی کو کھو دو تو ؟؟؟

وہ تند نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

چاہت کی برداشت کی حد یہیں ختم ہوئی ۔۔۔۔وہ جو چلتی ہوئی ڈریسر کے پاس آ چکی تھی ۔۔۔۔اس کہ ہاتھ مارتے ہوئے اس پہ موجود ساری چیزوں کو جھٹکے سے زمین پہ گرا دیا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔۔نے میرے برو کے بارے میں ایسا کہا بھی کیسے ۔۔۔۔میں اپنی جان لے لوں گی اگر ان کو کچھ ہوا ۔۔۔۔میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔اور ایسا کہنے پہ میں آپکی بھی جان لے لوں گی ۔۔۔

وہ روتے ہوئے چلا کر بولی ۔۔۔

بھیگی شکوہ کناں آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے  سرعت سےکمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔

یارم نے شانوں پہ موجود شال اتار کر صوفے پہ پٹخ دی ۔۔۔۔

اور پھر خود شکستہ سا چلتا ہوا خود بھی صوفے پہ ڈھیر ہوگیا ۔۔۔۔

"دیکھو رب کا انصاف ۔۔۔۔!!!!

"میں نے تم سے تمہارا عزیز  بھائی چھینا ۔۔۔۔۔!!! 

"اس نے مجھ سے میرے پیارے بابا سائیں چھین لیے ۔۔۔۔۔!! 

"یہ تھا مکافات عمل۔۔۔۔!!!

"جو میں نے کیا اس کا بدلہ مجھے یہیں مل گیا ۔۔۔۔"

"مجھے معاف کردو چاہت ۔۔۔

"میں نے بہت غلط کیا ۔۔۔

"آج ایک بار پھر پریشانی میں تمہیں نجانے کیا کیا کہہ گیا ۔۔۔۔

"بابا سائیں آپ کیوں مجھے ان بڑی بڑی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے چھوڑ گئے ۔۔۔۔؟؟؟

"واپس آجائیں ۔۔۔۔!!! 

اس کے لبوں نے ہلکی سی جنبش کی ۔۔۔۔پھر لب باہم پیوست ہو گئے ۔۔۔ 

باہر سے ہر وقت مضبوط نظر آنے والا انسان تنہائی میں بے پناہ کرب سے گزر رہا تھا ۔۔۔۔

__________________

"ماموں جان ھادیہ میری منگیتر ہے ،آپ اسے یوں ان لوگوں کو ونی میں نہیں دے سکتے ۔۔۔۔

شمشیر بلوچ نے غصیل انداز سے ان کے سامنے آتے ہوئے تن کر کہا ۔۔۔۔

"گولی تم نے چلائی ،اور بھگتان میری بیٹی کو بھگتنا پڑے گا"

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کڑک دار آواز میں بولے ۔۔۔۔

"ایسے کیسے چھوڑ دیتا میں اس فلک بلوچ کو ؟؟..

"سالوں سے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے تڑپ رہا تھا ۔۔۔۔اس قاتل کو سامنے دیکھ کر میرا خون ُکھول اٹھا تھا ۔۔۔۔"

وہ قہر زدہ آواز میں بولا۔

"صبر نام کی تو کوئی چیز نہیں تم میں شمشیر ۔۔۔۔لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا جرگے کے فیصلے کے خلاف۔۔۔

مجھے ماننا ہی ہوگا ۔۔۔۔

وہ شکستہ لہجے میں بولے ۔۔۔۔

"جس نے ھادیہ کا نام بھی لیا میں اسکی جان میں اپنے ان ہاتھوں سے لوں گا ",

وہ بلند آواز میں غرایا ۔۔۔۔

"اپنے ان غلیظ ہاتھوں کو میری بیٹی سے دور رکھنا شمشیر ۔۔۔۔۔

دلاور بلوچ کے صبر کی حد یہیں تک تھی ۔۔۔

وہ اسکا گریبان پکڑ کر دھاڑے ۔۔۔ 

دلاور بلوچ نے اچانک سے ان کا رویہ بدلہ دیکھا تو چونک گیا۔

اور ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔

"تم جیسے زانی مرد کو اپنی بیٹی سونپنے سے بہتر میں اسے اپنے دشمنوں کے حوالے کردوں ۔۔۔۔جو دشمنی بھلا کر میری بیٹی کی چاہ میں میرے پاس آئے تھے ۔۔۔ "

وہ اس کا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولے ۔۔۔۔۔

شمشیر بلوچ کے تو سر پہ لگی تلوں پہ بجھی۔۔۔وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا ۔۔۔۔

"تمہیں کیا لگا مجھے کچھ پتہ نہیں چلے گا ؟؟؟؟

"میرے بھی سورسز ہیں تم کیا کرتے پھر رہے تھے سب پتہ چل چکا ہے مجھے ۔۔۔۔ اپنی بیٹی دے رہا تھا تمہیں کوئی عام سی بات نہیں تھی ۔۔۔۔تمہارے ایک ایک لمحے کی رپورٹ ملتی تھی مجھے ۔۔۔۔۔ 

"اب دفعہ ہوجاو اپنا چہرہ لے کر میرے سامنے سے ۔۔۔۔

وہ کرخت لہجے میں کہتے ہوئے واپس صوفے پہ ڈھ سے گئے ۔۔۔

شمشیر بلوچ غصے سے تلملاتے ہوئے دانت کچکچا کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

__________________

زردی مائل چہرہ ،آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے،اور اندر کو دھنسی ہوئیں ۔۔۔چند دنوں میں وہ کملا کر رہ گئی تھی ،یوں مانو صدیوں کی بیمار ہو ،،،،

وہ بخار میں تپ رہی تھی۔ زبیدہ اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کے ماتھے پر  ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتی جا رہی تھی۔بائیس سالہ سسی  بے یقینی سے چھت کو گھورے جا رہی تھی۔اپنی ماں کا سہارا ملتے ہی وہ ٹوٹ کر بکھر گئی ۔۔۔

اور دھاڑیں مارتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا بتاتی گئی ۔۔۔۔

" اماں میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا ؟ اتنی نا انصافی؟ اتنا ظلم کیوں ؟ کیا آپ نے اسی لیے بچپن سے مجھے پھولوں کی طرح سنبھال کر رکھا تھا کہ ایک دن کوئی وحشی آکر میرے وجود کو پتیوں کی طرح نوچ نوچ کر  روند ڈالے؟" وہ زبیدہ کے سینے سے لگے بلک بلک کر رونے لگی ۔۔۔۔۔

"اماں ۔۔۔!!!!میرے پاس اور تھا ہی کیا سوائے عزت کے ،،،آج وہ بھی کھو ۔۔۔۔میں مر کیوں نہیں گئی ۔۔۔۔"

"اماں مجھ پہ اک احسان کر ۔۔۔نا ۔۔۔۔!!! 

"اپنے ہاتھوں سے میرا گلا گھونٹ دے ۔۔۔۔"

وہ زبیدہ کا ہاتھ اپنی گردن پہ رکھے ہذیانی انداز میں  چّلائی ۔۔۔۔۔

"زبیدہ اس کی حالت پہ تڑپ اٹھی ۔۔۔۔۔

" نا سسی ۔۔۔۔!!! 

"ناکر ۔۔۔۔!!!  تجھے ایسے دیکھ کر تیری ماں وقت سے پہلے ہی مر جائے گی ...."

وہ اسے اپنے سینے میں بھینچ کر بولیں ۔۔۔۔

"بیٹی وہ نعمت ہے ،جب حضرت فاطمتہ الزہرہ تشریف لائیں تھیں ،تو اللہ کے محبوبٌ

بھی استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ،کہ میری بیٹی آئی ہے ،

اور آج کے انسانوں نے اپنی حوس میں حیوانوں کو بھی مات دے دی ہے ،"وہ کرب زدہ آواز میں بولی ۔۔۔۔

ان کا کلیجہ اپنی بیٹی کے درد پہ پھٹ رہا تھا ۔۔۔۔

"اماں ۔۔۔۔!!!

"عورت بڑے سے بڑا درد برداشت کر لیتی ہے ۔مگر اپنی عزت کی توہین نہیں سہہ سکتی ۔۔۔۔ماں اس نے میرے وجود میرے وجود کی توہین کی ہے ۔۔۔۔۔

وہ جنونی انداز میں چلانے لگی ۔۔۔۔۔

زبیدہ کو اس کے آنسو اتنی تکلیف نہیں دے رہے تھے جتنے اس کے درد میں ڈوبے الفاظ دے رہے تھے ۔اسکے لفظوں کے زخم جھیلنے انہیں دوبھر لگے ۔۔۔۔

"ک۔۔۔کون ۔۔۔تھا وہ درندہ ؟"۔ان کی آواز کپکپائی ۔۔۔۔اس سے پوچھتے ہوئے ۔۔۔۔

"میں نہیں جانتی ُاسے۔۔۔۔!!!

اس کے اشک تواتر اسکے گالوں کو بھگو رہے تھے ۔۔۔۔ 

"کاش میں تیرا نام سسی نا رکھتی ۔۔۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا ایک اور سسی صحراؤں میں رُل جائے گی ۔۔۔۔

وہ آبدیدہ لہجے میں بولی۔۔۔

دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگے سسک سسک کر رونے لگی ۔۔۔۔ہاسپٹل کہ کمرے میں بہت دیر تک انکی سسکیوں کی آوازیں گونجتی رہی۔۔۔۔۔

__________________

"بیٹا آج تمہارا اور ھاد بلوچ کا نکاح ہے "اماں بی نے گویا اس کے سر پہ بم پھوڑا۔۔۔۔

"کیا اماں بی ؟؟؟

وہ انکی بات سن کر حیرت سے گنگ ہو گئی ۔۔۔۔۔

اور انکے شانوں پہ ہاتھ رکھے انکے ساتھ خوشی کے مارے گول گول گھومنے لگی ۔۔۔۔

"اس کا مطلب ھاد کے بابا نے میرے بابا سے بات کرلی ۔۔۔۔اور بابا مان بھی گئے ؟؟..

وہ پر مسرت لہجے میں گویا ہوئی ۔۔۔۔

اس نے خود ہی سارے سوال جواب کر ڈالے ۔۔۔۔

اماں بی خاموش رہیں۔۔۔۔

ان کی ایک تو طبیعت ٹھیک نہیں تھی دوسرا ان میں حوصلہ نہیں تھا ،، ھادیہ کو سارا سچ بتانے کا کہ وہ ونی ہونے جا رہی ہے ۔۔۔جیسے وہ سمجھ رہی ہے ویسے  دھوم دھام سے اس کی شادی نہیں ہونے جا رہی ۔۔۔۔

وہ تو ابھی تک سردار فلک بلوچ کی موت کی خبر سے بھی لاعلم تھی ۔۔۔۔

"اماں بی اتنی جلدی میں شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔۔"؟

"کچھ وقت تو دیتے نا ہمیں تیاری کرنے کے لیے ۔۔۔۔ابھی تو میرے پاس کوئی ڈھنگ کا ڈریس بھی نہیں شادی کے حساب سے ۔۔۔۔

"بیٹا کوئی بھی پہن لو ۔۔۔۔ایسے کرو سیاہ رنگ کا لباس پہن لو "

ؤہ آہستگی سے بولی۔

انہیں پتہ تھا کہ ونی میں جانے والی لڑکیاں سیاہ لباس میں جاتی ہیں ۔۔۔۔وہ اسی حساب سے بولیں ۔۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہی ہیں اماں بی ۔۔۔؟؟؟

"میں تو آپ کو بڑی سمجھدار سمجھتی تھی ،مگر آپ نے تو آج یہ بات کر کہ مجھے مایوس کیا ہے ۔۔۔۔بھلا اپنی شادی پہ بھی کوئی سیاہ جوڑا پہنتا ہے ۔۔۔۔۔؟"

وہ کہتے ہوئے سرعت سے اپنی کبرڈ کی طرف بڑھی ۔۔۔۔

اور اس کے پٹ کھول کر ہینگ کیے گئے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"اماں بی یہ امینہ کیوں نہیں آرہی ۔۔۔؟

"اسے پتہ ہے میری شادی کا "؟

"کیسے دعوے کرتی تھی تمہاری شادی پہ یہ کروں گی وہ کروں گی ۔اور اب دیکھیں ایسے غائب ہوئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ "

وہ ہاتھ چلاتے ہوئے پٹر پٹر بولتے چلی جا رہی تھی ۔اس کے ہر انداز سے اسکی خوشی چھلک رہی تھی۔۔۔۔اماں بی نے اس کی خوشی کے چند لمحات کو قائم رہنے دیا ۔۔۔ آگے تو نجانے اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا ۔۔۔۔اماں بی نے سردار دلاور بلوچ کا پیغام ھادیہ کو دے دیا تھا ۔۔۔۔

وہ ھادیہ کے خوشی سے تمتماتے ہوئے چہرے کی نظروں ہی نظروں سے نظر اتارنے لگیں ۔۔۔۔۔

"اللہ پاک !

"میری ھادیہ کو سدا یونہی ہنستے مسکراتے رکھنا ...!!!!

انہوں نے دل میں دعا کی ۔۔۔۔

"امینہ کو شمشیر بلوچ نے یہاں  آنے سے روک دیا ہے ۔۔۔۔۔

اماں بی نے اسے بتانا مناسب سمجھا کہ وہ امینہ کا انتظار نا کرے اور جلدی سے تیار ہوکر نیچے آ جائے۔۔۔۔

"مل جائے تو پوچھوں گی اسے ۔۔۔دو تھپڑ لگاتی اس موالی شمشیر بلوچ کو اور آ جاتی یہاں "

وہ بڑابڑاتی ہوئی کبرڈ سے  سرخ رنگ کی کامدار لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامہ منتخب کرتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

__________________

"ھادیہ ولد دلاور بلوچ ، کیا آپ کو ھاد بلوچ ولد فلک بلوچ اپنے نکاح میں قبول ہے؟" 

نکاح خواں کے الفاظ ھادیہ کی سماعتوں سے ٹکرائے۔

" قبول ہے" 

وہ چہک کر بولی ۔۔۔۔

یہ دنیا کی واحد دلہن تھی جس کی تینوں دفعہ کی قبولیت میں چہکار تھی ۔

" ھاد بلوچ ، کیا آپ کو ھادیہ بلوچ اپنے نکاح میں قبول ہے؟" 

 وہ چہرے پہ پتھریلے تاثرات سجائے بیٹھا تھا جب اس سے پوچھا گیا۔

" قبول ہے۔" 

ھاد بلوچ کی قبولیت کی سند پاتے ہی ھادیہ کو اپنے دل میں گویا ڈھیروں ڈھیر سکون اترتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

جبکہ نکاح مکمل ہوتے ہی ھاد بلوچ فورا وہاں سے اٹھا ۔۔۔۔

اور بنا کسی کی طرف دیکھے جاکر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔

"آئیے بھابھی !

آتش بلوچ نے یارم کے اشارہ کرنے پہ ھادیہ سے کہا جو گھونگھٹ میں محسوس کر چکی تھی ھاد کا یوں لا تعلقی سے جانا ۔۔۔۔

وہ آتش بلوچ کے ساتھ ساتھ اسکی جیپ کی طرف آئی ۔۔۔جبکہ ھاد بلوچ اپنی گاڑی میں وہاں سے نکل چکا تھا ۔۔۔۔

یارم بلوچ بھی شاہانہ انداز میں چلتے ہوئے اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

دلاور بلوچ تو ھادیہ کو رخصت کرتے ہوئے غم سے نڈھال اپنے سینے میں اٹھتے ہوئے درد کو برداشت کرتے وہیں ڈھ سے گئے ۔۔۔۔۔۔

لمحوں میں انکی بیٹی انکی نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔۔

انہیں لگا کہ آج انہوں نے اپنی سب سے قیمتی متاع کھو دی تھی ۔۔۔وہ تہی داماں رہ گئے تھے ۔۔۔۔۔

جیپ حویلی کے گیٹ کے اندر داخل ہوٸی  تو وہاں ھاد کی گاڑی پہلے سے کھڑی تھی وہ ان سے پہلے آچکا تھا،آتش بلوچ  نے بھی جیپ روک دی اور نیچے اتر کر اس کا دروازہ کھولا ۔پہلے یارم بلوچ گاڑی سے نکلا۔۔۔۔

آتش نے پچھلی طرف کا دروازہ کھولا تو ھادیہ بھی اپنی چادر سمھبالتی ہوئی نیچے اتر آئی  ۔ یارم بلوچ نے قدم اندر کی طرف بڑھاٸے ۔۔۔۔تو آتش نے ھادیہ کو ساتھ لیے اس کی تقلید کی ۔۔۔۔ھادیہ بھی سر جھکاۓ ان کے پیچھے چل پڑی ۔۔۔۔۔ہال میں پہنچ کر انہوں نے ادھر اُدھر دیکھا وہاں کوٸی نہیں تھا،بس ہال میں لاٸٹس روشن تھیں لیکن ھاد بلوچ وہاں کہیں بھی نہیں تھا،کچن میں سے کھٹر پٹر کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔۔۔

یارم بلوچ سیدھا زرش بلوچ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

”بھابھی آپ صوفے پہ بیٹھ جائیں میں ھاد بھائی سا کو دیکھتا ہوں کدھر ہیں ۔۔“

”جی ٹھیک ہے ۔“ھادیہ نے آہستگی سے کہا ۔۔۔۔

زرش بلوچ نماز پڑھ کر فارغ ہو ہوئے بیڈ پر بیٹھی ہی تھیں کہ  جب یارم بلوچ آہستہ سے دروازہ ناک کر کے اندر آگیا۔

جس جائے نماز پہ زرش بلوچ نے نماز ادا کی تھی اب چاہت اسی جائے نماز پہ نماز ادا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

”السلام علیکم ماں سا !۔۔۔۔۔“اس نے زرش بلوچ کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ سلام کیا۔

”و علیکم السلام۔۔! آ گیا میرا بیٹا ؟کہاں گئے تھے ۔۔۔؟“ زرش بلوچ نے جواب دے کر پیار سے اس کا حال پوچھا۔وہ یارم بلوچ کےچہرے پر پژمردگی اور تھکن کے آثار دیکھ چکی تھیں ۔۔۔۔وہ ایک ماں تھیں ۔۔۔وہ جانتی تھیں کہ فلک بلوچ کی ناگہانی موت پہ جسطرح وہ رنجیدہ ہیں ویسے ہی ان کے بچے بھی غمزدہ ہوں گے ۔۔۔۔۔فلک بلوچ ان کے جیون ساتھی انکے سکھ دکھ بانٹنے والے محبتیں بکھیرنے والے انسان تھے ۔ہر بندہ ان کے کردار کا رطب اللسان تھا ۔۔۔۔

ان کے جانے کا بے حد  افسوس تھا انہیں ،لیکن اپنے بچوں کے لیے تو انہیں جینا تھا ۔۔۔۔اسی لیے وہ آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگیں تھیں  ۔۔۔۔

”جی ماں سا ۔۔! میں ابھی آیا ہوں ۔“اس نے آہستہ سے کہا۔

”تو یارم آرام کرلیتے۔۔!مجھے بہت تھکے تھکے سے  لگ رہے ہو تم ۔۔۔“ انہوں نے بہت غور سے یارم بلوچ کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔

”ماں سا ۔۔۔! آپ میری فکر  چھوڑیں اور یہ بتاٸیں کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے اب  ؟ آپ کی بہو نے آپ کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔؟“اس نے چاہت پہ ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر پھر زرش بلوچ کی طرف دیکھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔ 

”ارے بیٹا !کچھ نہیں ہوا مجھے۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔اور اپنی بہو سے چھوٹی چھوٹی باتیں کر کہ تو میں ذیادہ بہتر محسوس کر رہی ہوں ۔“ انہوں نے یارم کی بات پر نا چاہتے ہوئے بھی  مسکرا کر کہا ۔۔۔وہ اسے اپنی طرف سے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں اسی لیے زبردستی مسکرائیں ۔

”ماں سا مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“وہ سنجیدگی سے گویا ہوا ۔۔۔

”بات یہ ہے کہ اپنا ھاد نا دلاور بلوچ کی بیٹی ھادیہ کو پسند کرتا تھا اس سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔بابا سائیں اسکے لیے دلاور بلوچ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے گئے تھے ۔مگر وہاں بابا سائیں کسی ان دیکھے دشمن کی دشمنی کا نشانہ بن گئے۔۔۔۔مین بات یہ ہے کہ جرگے کے فیصلے کے مطابق قصاص میں ونی لے کر آئیں ہیں ،ھاد کا دلاور کی بیٹی ھادیہ سے نکاح کروا کر  “ 

”ونی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟“وہ ساری بات رسان سے سن کر آخر میں حیرانگی سے بولیں ۔۔۔ان کے ۔چہرے پر سختی در آٸی ۔۔اس کے چہرے پر سختی دیکھ کر یارم بلوچ کا ماتھا ٹھنکا۔

”کیا ہوا ماں سا ؟“اس نے پریشانی سے پوچھا۔

”کہیں آپ بھی تو ھادیہ کو قاتل کی بیٹی سمجھ کر اس سے نفرت نا پال لیجیے گا خدارا ۔۔۔۔!!!!! ۔۔۔“ اس کے اپنے چہرے کے زوائیے یکلخت تن گئے ۔۔۔۔

”بیٹا مجھے تمہارے بابا سائیں کی وفات کے بعد اندازہ ہوگیا ہے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔اس چھوٹی سی زندگی میں لوگوں کے خلاف دل میں بغض و نفرت پالنے کی بجائے جتنی زندگی رہ گئی ہے اس میں پیار سے رہیں   ۔۔“انہوں نے ٹہرے ہوئے انداز سے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔

یارم نے ڈی _ایس _پی سے ہوئی ساری بات ان کے گوش گزار کر دی ۔۔۔۔

وہ سن کے کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئیں ۔۔۔۔

پھر خود کو سنبھالتے ہوئے بولیں ۔۔۔

”بیٹا چاہت بہت اچھی لڑکی ہے کچھ ہی دیر میں اپنی معصوم باتوں سے وہ مجھے زندگی کی طرف لے آئی ۔۔“

یارم نے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔چاہت کے چہرے پر بہت سنجیدگی تھی ۔۔۔یقینا وہ کل کہ ڈانٹ پر ناراض تھی ۔۔۔

”ماں سا آپ آرام کریں۔پھر کھانے پر ملاقات ہوگی۔“ اس نےکہا اور اٹھ کر کمرے سے باہرنکل گیا۔زرش بلوچ اس کو جاتے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔انہوں نے جب سارا دن چاہت کے ساتھ گزارا تو انہیں اس بات کا اچھے سے علم ہوگیا تھا کہ چاہت واقعی بہت معصوم ہے اسے دنیا داری کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا ۔۔۔انہوں نے دل میں مصمم ارادہ کیا اسے اونچ نیچ سکھانے کا ۔۔۔۔۔ اب انہوں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب وہ اپنے بیٹے کو ضرور زندگی کی طرف لائے گی ۔۔۔۔اور اس کی بے رنگ زندگی چاہت کی توجہ سے رنگ بھریں گی ۔

"چاہت بیٹا ۔۔۔!!!

"جی ممی ۔۔!!!!...

وہ جائے نماز تہہ کر کہ ایک طرف رکھتے ہوئے انکے پاس آئی تھی۔

نماز ادا کرنا بھی اسے زرش بلوچ نے سکھائی تھی ۔۔۔۔۔

"بیٹا شوہر جب شام کو تھکا ہارا گھر آئے تو اس سے پانی کا کھانے کا پوچھتے ہیں ۔اس سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔۔۔۔

ٹھیک ہے نا ۔۔۔؟"

انہوں نے چاہت کی طرف دیکھ کر نرمی سے پوچھا ۔۔۔

"جی ۔۔۔۔!!

اس نے ہلکی سی آواز میں جوابا کہا ۔۔۔۔سر ہنوز جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔

"بیٹا میں آپ پہ ایسا کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہی ۔۔۔۔یہ مت سمجھنا کہ میں آپ کو زبردستی یارم کی خدمت کرنے کے لیے کہوں گی ۔۔۔۔

آپ اپنے دل سے پوچھو ۔۔۔۔کیا آپ کو اچھا نہیں لگے گا اپنے شوہر کا خیال رکھنا .؟؟؟

"بیٹا چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنے سے آپسی محبت بڑھتی ہے،

آپ کے اس طرح کرنے سے اسے بھی احساس ہوگا کہ میری بیوی کو میرا کتنا خیال ہے ،دیکھنا تم جلد ہی اس کی زندگی میں اپنا مقام بنا لو گی ۔۔۔۔میری تو بس یہی خواہش ہے تم سب خوش رہو ۔۔۔۔وہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولی۔ 

"جاؤں ممی ؟؟؟اس نے اجازت طلب کی۔۔۔

"ہاں جاؤ ۔۔۔شاباش ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ حویلی میں آتے ہی چھت پہ چلا گیا تھا پھر وہاں سے اتر کر کمرے میں جانے کی بجائے پچھلی سیڑھیوں سے اتر کر  باہر لان میں آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔!

آج اس کے چہرے پر عجب سی وحشت اور آنکھوں میں ویرانی چھاٸی ہوٸی تھی۔وہ بڑا مضطرب سا سوچوں میں گم بیٹھا تھا۔زرش بلوچ نے اس کے کندھے پر آہستہ سے ہاتھ رکھ کر اس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

”ھاد۔۔۔!تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔؟ “ وہ کب آئی تھیں اس کے پاس ، اس کو پتہ ہی نہیں چلا تھا۔۔

”کک کچھ نہیں ماں سا ۔“ وہ اک دم چونک کر سیدھا ہوا اور جلدی سے بولا۔

”تو بیٹا۔!اپنے کمرے میں جاٶ۔آپکی بیوی  آپ کا انتظار کر رہی ہوگی۔اس کے لیے یہ جگہ اور لوگ نٸے ہیں وہ پریشان ہو رہی ہوگی۔“انہوں نے اس کے سامنے والی چٸیر پر بیٹھتے ہوٸے فکر مند انداز میں کہا۔وہ ان کی بات سن کر اس کے چہرے کے تاثرات یکدم تن گئے۔

”ماں سا ۔۔! آپ ادھر ادھر کی فکر مت کریں ۔آپ کی طبیعت پھر خراب ہو جاۓ گی۔“ اس نے ان کی بات تو سن لی تھی پر کوٸی جواب نہیں دیا اور دوسری بات شروع کر دی۔

”ھاد۔۔! ھادیہ کی اس میں کوئی غلطی نہیں ، اس کو کبھی دکھ مت دینا پلیز یہ اک ماں کی التجا ہے۔“ انہوں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر اس کو رسان سے سمجھایا،وہ نہیں چاہتی تھی۔ کہ کسی اور کے گناہوں کی سزا ھادیہ کو ملے ۔

زرش بلوچ نے یارم کی بتائیں گئی ساری باتیں تفصیل سے ھاد کو بتا دیں کہ ھادیہ کے باپ نے نہیں مارا فلک بلوچ کو ۔۔۔۔۔وہ پہلے تو حیران ہوا پھر خاموش رہا۔۔۔۔

"میری التجا پہ غور کرو گے ؟

انہوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”جی ماں سا۔۔! ۔۔۔۔“ اس نے آہستہ سے کہا اور سرجھکا لیا۔ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے بس وہ خاموش ہوگیا تھا۔

”چلو جاٶ اندراور ہاں یہ کنگن ہیں آپ کے بابا سائیں نے اپنی تینوں بہوؤں کے لیے بنواۓ تھے ۔“ انہوں نے ایک ایک مخملیں کیس اس کے آگے میز پہ رکھ دیا اس نے خاموش نگاہوں سے زرش بلوچ خالی خالی نظروں سے دیکھا اور وہ ڈبہ اٹھا کر کھڑا ہوگیا۔

”ماں سا ۔۔۔!چلیں آپ بھی اندر آٸیں، بہت رات ہوگٸی ہے۔۔۔۔آپ بھی آرام کریں “ زرش بلوچ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑی ہوگٸیں ۔۔۔ پھر دونوں نے اک ساتھ ہی قدم اندر کی طرف بڑھاۓ۔زرش بلوچ کو پوری امید تھی کہ اب جو بھی ہوگا اچھا ہوگا۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ کمرے میں آکر ایک ہی زاویے میں بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی لیکن  وہ اس کے انتظار سے بےخبر اور لاپرواہ سا پتا نہیں کہاں گم تھا اس کو اپنے کمرے میں آنے تک کا ہوش نہیں تھا، لیکن ھادیہ نے بھی یہ تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اپنا ہار سنگھار اس کو دکھاۓ بنا نہ تو  سوۓ گی اور نہ ہی چینج کرے گی۔کچھ دیر پہلے ہی آتش بلوچ نے شازیہ سے کہہ کر ھادیہ کو ھاد کے کمرے میں بھجوا دیا تھا ۔۔۔۔

اس نے کمرے میں ارد گرد کا جائزہ لیا۔۔۔۔

کافی کھلا ہوا دار کمرہ تھا ،کمرے میں کنگ سائز بیڈ ،ڈریسر ،اور ایک طرف صوفہ لگا ہوا تھا ۔۔۔۔کمرے کی تھیم وائٹ اور سکائی کلر کی تھی ،ایک طرف بک شیلف اور کمپیوٹر ٹیبل سیٹ کیا گیا تھا ،دیوار پہ ھاد بلوچ کی انلارج تصویر اور ساتھ ہی سروز لٹک رہا تھا ،

وہ سروز کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی ۔۔۔۔

وہ اب کافی تھک گٸی تھی اس نے اتنا ہیوی ڈریس پہنا تھا اس لیے اب اس کو الجھن ہونے لگ گٸی تھی۔اس کے سر میں بھی درد ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھاری ہوگٸی تھیں وہ بڑی مشکل سے ان کو کھول کر بیٹھی تھی پھر بھی آنکھیں بار بار بند ہو رہی تھیں۔اس نے وال کلاک پر ٹاٸم دیکھا سوا ایک بج ہوگیا تھا ۔ اور ابھی تک ھاد کے آنے کے کوٸی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔اس کو پریشانی نے گھیر لیا،عجیب عجیب سی سوچیں اس کے ذہن میں آ رہی تھیں۔اس نے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے تکیے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگ گٸی لیکن پھر بھی وہ کو خود جگانے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔

”پتا نہیں ھاد نے کمرے میں آنا بھی تھا کہ نہیں ۔۔“ اس نے سوتے ذہن کے ساتھ سوچا اور پھر اپنے تھکے ہوۓ اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ کر سیدھی ہوکر لیٹنے ہی لگی تھی کہ کمرے کا دروازہ اک جھٹکے سے کھلا اور پھر بند ہوگیا۔۔

ھاد بلوچ آگیا تھا۔۔۔!

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بیڈ کی طرف بڑھ رہا تھا، اُس کے تھکے تھکے اعصاب پر پنجے جماتی نیند ہوا ہوگٸی اور اس کی ڈھرکنیں بے ربط ہوگٸی تھی۔وہ فوراً اٹھ کر سیدھی ہوکر بیٹھ گٸی۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

جسم میں تکلیف اس قدر شدید تھی کہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آج وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر جائے گی ۔۔۔۔۔ایکدم نجانے سے کیا ہوا کہ وہ تکیے  میں چہرہ چھپائے بلک بلک کر رودی۔۔

زبیدہ بھاگ کر ڈاکٹر زارا کو بلا لائی ۔۔۔۔سسی اس کے قابو نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔

ڈاکٹر زارا نے اسے دیکھا ۔۔۔۔سسی کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا ۔آنسو گالوں پہ جمے ہوئے تھے ۔وہ زور زور سے چیخنے لگی ۔۔۔ 

آنسو لڑیوں کی صورت میں زارو زار بہہ رہے تھے ۔۔۔سسی کے چہرے پہ تکلیف کے آثار نمایاں تھے ، بکھرے بال روئی روئی آنکھیں۔چہرے اور گردن  پہ حوس کے نشانات ابھی بھی موجود تھے ۔ وہ اندرونی ذہنی  تکلیف سے بری طرح لرز رہی تھی ۔

"مجھے چھوڑ دو خدا کے لیے مجھے جانے دو ۔"

وہ آنکھیں میچتے وحشت ذدہ لہجے میں چلائی تو ڈاکٹر زارا کا دل بھی ایک بار ڈوب کر ابھرا ۔۔۔۔انہوں نے مشکل سے اپنے بکھرتے ہوئے اعصاب پہ قابو پایا ورنہ اس کی حالت دیکھتے ان کی خود کی حالت غیر ہورہی تھی۔۔۔۔

"دور ہو جاؤ مجھ سے مجھے مت ہاتھ لگانا ۔۔۔۔مجھے درد ہوتی ہے۔"

اس کے لفظوں ڈاکٹر زارا کو اپنے دل پہ برچھی کی طرح گڑھتے ہوئے لگے ۔۔۔۔۔۔

زبیدہ بھی بھیگی آنکھوں سے اپنی بیٹی کی حالت پہ آبدیدہ ہو گئی۔۔۔۔۔

وہ ابھی بھی گزرے واقع کے خوف کے زیرَاثر تھی ۔

"سسی ۔۔۔۔!!!!.....میری بات سنو یہ میں ہوں۔۔۔ ڈاکٹر زارا ۔۔۔۔آپکی دوست ۔۔۔۔۔اپنے آپ کو سنبھالو ۔۔۔۔تمہیں کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا ۔"

ڈاکٹر زارا نے نرس کو اشارہ کیا تو اس نے فورا نیند کا انجیکشن تیار کرتے اسکی بازو میں لگادیا ۔۔۔۔

آہستہ آہستہ وہ غنودگی میں جانے لگی تو تھوڑا پر سکون ہوئی ۔۔۔۔

۔وہ غنودگی میں بھی منہ میں  وہی الفاظ بڑبڑا رہی تھی ۔نیند میں بھی وہ اسی واقعے کو لے کر خوف زدہ تھی ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر زارا نے آتش بلوچ کو کال کر کہ سسی کی کنڈیشن بتائی ۔۔۔۔اور اسے جلد سے جلد وہاں آنے کے لیے کہا تو آتش بلوچ رات گئے اپنی جیپ پہ شہر کے لیے روانہ ہوگیا ۔۔۔۔

وہ ایک ہاتھ سٹیرنگ پہ رکھے دوسرے سے بےبسی سے سر کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ گیا۔

ہسپتال پہنچتے ہی وہ تیز تیز  قدموں سے ڈاکٹر زارا  کے کیبن میں داخل ہوا تو وہ سنجیدگی سے کسی کی فائل کا ملاحظہ کرنے میں مصروف تھیں ۔۔۔ اس کے اندر آتے ہی فائل ایک جانب رکھتے اس کی سمت متوجہ ہوئی۔۔۔ جس کے چہرے سے پریشانی واضح تھی۔

"آتش ۔۔۔سسی کی حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑ رہی ہے ،اس کی ذہنی حالت بہت ابتر ہے ۔اسے اس صدمے سے نکالنے کے لیے مورل سپورٹ کی ضرورت ہے،وہ اپنے ساتھ بیتا واقعہ بھلا نہیں پا رہی ۔۔۔۔بے شک اس کی مدر اسکے پاس ہیں ۔مگر ۔۔۔۔!!!۔"

انہوں نے گلے سے اپنا سٹیتھو سکوپ اتارتے ہوئے گہرا سانس ہوا میں چھوڑا ۔۔۔۔

آتش بلوچ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اس کا کمرہ آج اس کی من پسند ہستی کے وجود سے آباد ہوچکا تھا۔اس نے خواب دیکھا تھا دلہن کے روپ میں سجے اسے اپنے بستر پہ دیکھنے کا آج اس کی وہ خواہش پوری ہوچکی تھی ۔۔۔۔مگر دل میں کوئی جذبہ نہیں محسوس ہوا  تھا ۔۔۔۔

اس کے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی ھادیہ نے دوپٹے کا ۔گھونگھٹ اوڑھ لیا ۔۔۔۔

جیسے جیسے وہ قریب آرہا تھا ھادیہ کا دل پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب ہوا۔۔

وہ رخ بدلتے ہوئے صوفے کی جانب بڑھ گیا اور اسکی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔

اس نے اپنی شدت گریہ سے سرخی مائل آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔اور اس کا جائزہ لیا اسے سرخ کامدار جوڑے میں دیکھ کر تو ھاد بلوچ کے تن بدن میں آگ لگ ۔۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے اسکی طرف آیا ۔۔۔۔

"تمہیں شرم نہیں آئی میرے باپ کی موت پر سرخ جوڑا پہن کر آتے ہوئے ؟؟؟

وہ اسکے جبڑے کو اپنے ہاتھ کی مٹھی میں جکڑ کر غرایا ۔۔۔

"میں انسان ہوں مجھے فرشتہ سمجھنے کی بھول مت کرنا ،اپنی خیریت چاہتی ہو تو دفعان ہوجاو میری نظروں کے سامنے سے ۔۔۔۔ھاد بلوچ نے جھٹکے سے چھوڑا تو اس افتاد پہ ھادیہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکی اور لہراتی ہوئی زمیں بوس ہوئی ۔۔۔اس نے گھونگھٹ پلٹ کر حیرت زدہ آنکھوں سے اس سنگدل کی جانب دیکھا جس کے بھوری کانچ سی آنکھوں میں اس کیلیے ایک نفرت کے سوا کوئی جذبہ نہیں تھا 

"کیوں تمہاری آنکھوں میں میرے لیے پیار باقی نہیں رہا ؟؟؟۔ 

وہ چبھتی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولی ۔۔۔

"میں تمہارے کسی بھی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں۔۔۔"وہ تنفر زدہ آواز میں بولا۔۔۔۔

"تو پھر کیوں کی مجھ سے شادی ۔۔۔؟؟؟؟۔میں تمہارے پاؤں تو نہیں پکڑے تھے ۔۔۔۔صرف اپنی محبت کی دہائی دی تھی تمہارے آگے ۔۔۔

وہ اس کی بھوری آنکھوں میں نظریں گاڑھے دبے دبے سرسراتے لہجے میں بولی۔۔۔

کیسے کیسے شکوے تھے اس کی آنکھوں میں ھاد کو بےساختہ نگاہیں چرانی پڑی۔وہ مزید اس کی.صورت دیکھتے کمزور نہیں پڑسکتا تھا تبھی تمسخر اڑاتی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔

"رو کیوں رہی ہو ۔۔۔تمہیں توخوش ہونا چاہیے ۔۔۔ہوگئی نا تمہاری دلی مراد پوری ۔۔۔ہو گیا ہمارا نکاح ۔۔۔۔اس سے زیادہ کی مجھ سے توقع مت رکھنا  ۔"

وہ لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھتے زہرخند لہجے میں دھیمی آواز میں غرایا تو ھادیہ  نے اس کے نفرت آمیز لہجے پہ بےیقینی سے اس کی سمت دیکھا ایسے کیسے وہ اس کی ذات کے پرخچے اڑا گیا تھا ۔۔۔۔۔اس نے کرب زدہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو تم ھاد ۔۔۔۔تم نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں ۔وہ پیار جتانا ،وہ تعریف۔۔۔۔وہ وعدے وعید کیا سب فریب تھا ۔۔۔۔۔"؟؟؟

وہ رندھی ہوئی آواز میں کراہی ۔۔۔۔۔

ھاد نے اسکی غزالی نم آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔اسے ایسا لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا ۔۔۔۔

کہاں برداشت کرسکتا تھا اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے ۔۔۔۔

اس کا گلاب سا شاداب چہرہ ،ملکوتی حسن پہ ڈارک ریڈ میک اپ اسکے نقوش کو سحر انگیز بنا رہا تھا  وہ مبہوت سا اسے ہی دیکھے گیا۔اس کی دھڑکنوں نے الگ ہی شور برپا کیا ہوا تھا دل اسے یونہی دیکھنے پہ مائل تھا ۔۔۔جبکہ دماغ کوئی اور کی کہانی سنا رہا تھا ۔۔۔۔  آج وہ اسکے نام لکھی جا چکی تھی وہ اس پہ پورا حق رکھتا تھا ۔۔۔۔اسے قریب سے دیکھ سکتا تھا چھو سکتا تھا ۔۔۔۔دل اسے گستاخیوں پہ اکسا رہا تھا ۔۔مگر وہ سر جھٹک کر ان پنپتے ہوئے جذبات کا گلا گھونٹ گیا ۔۔۔۔۔

"مجھے زبان چلانے والی لڑکیاں قطعا پسند نہیں آئندہ سے اس بات کا دھیان رکھنا۔۔۔۔

وہ اس کے وجود کی رعنائیوں سے نظریں چراتا اسے شانے سے جھنجھوڑ کر طیش کے عالم میں بولا تو اس نے تڑپ کر اس کی سمت دیکھا لیکن اس کی گرفت میں بھی نرمی تھی ۔۔۔جو ھادیہ نے بخوبی محسوس کی ۔۔۔۔

"کیا ہوا تمہارے بابا سائیں کو ؟؟؟؟اسے ھاد کا پہلا بولا گیا جملہ یاد آگیا ۔۔۔۔

ھاد نے اسکے سوال پہ استہزایہ انداذ سے ہنس کر اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔ھادیہ کی آنکھوں میں ایک درد ہلکورے لے رہا تھا۔ مقابل نے حیرت سے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھی جو کسی کو بھی زیر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔مگر وہ مسکراہٹ اس وقت زہریلی لگی اسے ۔۔۔۔

"ہنہہ ۔۔۔۔۔وہ ہنکارا بھر کر بولا ۔۔۔۔

"میرے بابا سائیں اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔۔۔۔پتہ ہے کیوں ؟؟؟.

"میری وجہ سے ۔۔۔۔۔!!  

"ہاں میری وجہ سے ۔۔۔۔!!! 

وہ اونچی آواز میں چلایا ۔۔۔

"میں نے انہیں مجبور کیا ۔۔۔۔

"صرف تمہارے لیے ۔۔۔۔

"تمہیں پانے کے لیے ۔۔۔۔۔وہ اسکی طرف انگلی اٹھا کر تمہیں پہ زور دیتے ہوئے غرایا ۔۔۔۔۔

"اگر میں انہیں وہاں نا بھیجتا تو شاید آج وہ زندہ ہوتے میرے پاس ہوتے ۔۔۔۔

"میں ذمہ دار ہوں انکی موت کا ۔۔۔۔۔

" ٹھیک کہتے ہیں ،کسی بھی چیز کی خواہش شدت سے مت کرو خدا کے کن کہنے سے وہ خواہش پوری تو ہو جاتی ہے, مگر زندگی کا ایسا سرمایہ بہا کر لےجاتی ہے کہ وہ پوری ہوئی خواہش بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے ،

"آج میں نے تمہیں پا تو لیا ھادیہ،، مگر اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ کھو دیا ۔۔۔"

ھاد بلوچ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے  شکست خوردہ سا بڑبڑایا ۔۔۔

"- A hug from the right person can remove all the pain ! ✨🖤"

ھادیہ نے شرم و حیا میں سمٹتے ہوئے آہستگی سے کہا پھر آگے بڑھ کر اسے خود میں سمیٹ لیا اب وہ اس کا محرم تھا ،اور دکھی تھا ،دکھوں کا مداوا کرنا تو نصف بہتر کا فرض ہوتا ہے ،

ھاد تو ششدر رہ گیا تھا ۔۔۔

وہ چونک کر اس کا نرم گرم حصار توڑتے ہوئے پیچھے ہوا ۔۔۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے قریب آنے کی ۔۔۔۔"

اس کے لہجے میں اژدھوں کی سی پھنکار تھی ۔۔۔۔

"اتنے لوگوں کے سامنے نکاح پڑھوا کر لائے ہو ۔۔۔جیسے تمہارا حق ہے مجھ پہ ویسے ہی میرا حق بھی ہے تم پہ "

وہ دوبدو بولی ۔۔۔۔

فلک بلوچ کی وفات کا سن کر اسے دلی طور پہ بہت دکھ ہوا تھا ۔۔۔۔لیکن اگر وہ ھاد کے سامنے افسردہ اور کمزور پڑ جاتی تو اسے اس اتنے بڑے دکھ سے کیسے باہر نکالتی ۔۔۔۔اسی لیے اس نے خود کو بظاہر نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔

"کوئی حق نہیں تمہارا مجھ پہ ۔۔۔سمجھی تم "

وہ انگلی اٹھا کر وارننگ دینے کے انداز میں دھاڑا ۔۔۔۔

"اس تو اچھا تھا میں اس موالی شمشیر سے کی شادی کرلیتی ۔۔۔۔کم ازکم میری قدر تو کرتا "

وہ جان بوجھ کر اسے جلانے کے لیے بولی ۔۔۔۔

ھاد بلوچ کو تو اس کی بات سر پہ لگی تلوں پہ بجھی۔۔۔

ھادیہ کا حربہ کام کرگیا تھا ۔۔۔۔

"شٹ اپ۔۔۔۔!!!!!

" جسٹ شٹ اپ۔۔۔!!!!!

" تمہاری زبان پہ کسی غیر مرد کا نام بھی آیا نا تو پھر تم میرا وہ وحشی روپ دیکھو گی جس کا تم کبھی سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔تمہارے نام کے ساتھ ھاد بلوچ کا نام جڑ چکا ہے ۔۔۔۔اور ھاد بلوچ اپنی ملکیت میں آئی ہوئی چیزوں میں شراکت داری کا قائل نہیں ۔۔۔اور تم جو جیتی جاگتی ھاد بلوچ کی محبت ہو ۔۔۔۔میں تو تمہارے ہونٹوں سے ان سانسوں 

کی شراکت داری بھی برداشت نہیں کر پا رہا ۔۔۔۔میرا پہلا جنون اور آخری عشق ہوتم ",

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے اسے کمر سے جکڑتے قریب کر گیا ۔۔۔۔

ھادیہ کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی مانند گرنے لگے اور اسکے نرم گالوں کو بھگونے لگے۔۔۔۔۔اس کی شدت بھری محبت کو محسوس کرکہ ۔۔۔

وہ تھوڑا سا جھکا اور اسکی  صبیح پیشانی پہ اپنا دہکتا لمس چھوڑا ۔۔۔۔

ویسے تو بڑے بڑے دعوے کر رہی تھی مگر مقابل کی ایک جسارت کی بھی تاب نا لاسکی ۔۔۔۔۔اس کی طلسم زدہ قربت پہ اسکے دل کی دھڑکنیں زیر و زبر ہوئیں ۔۔۔۔۔

وہ اسکی صراحی دار گردن میں چہرہ چھپائے اپنے لمس سے روشناس کراتے ہوئے اسے شدت سے خود میں بھینچ گیا ۔۔۔۔

ھادیہ تو بوکھلا کر رہ گئی ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ اسکی قربت پہ اپنے حواس کھو دیتا ۔۔۔۔

اچانک ہی اسے احساس ہوا کہ وہ تو یہ سب نہیں چاہتا تھا پھر کیسے وہ بہک گیا ۔۔۔

اس نے جھٹکے سے اسے پیچھے کیا ۔۔۔اور کبرڈ سے اپنے آرام دہ کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

ھادیہ فق نگاہوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی ۔۔۔۔وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھی اس کے پل میں تولہ پل میں ماشہ جیسے روئیے پہ وہ اضطراب کے عالم میں انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔اس نے ایک کونے میں رکھا ہوا بیگ دیکھا جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لائی تھی ۔۔۔۔دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھتی ہوئی اس نے بیگ کھول کر اس میں سے قدرے سادہ سا سوٹ نکالا ۔۔اور اسکے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔اسے ھادیہ کو اس کا لمس اپنی گردن پہ محسوس ہورہا تھا اسکے انداز کو سوچ کر اس نے جھرجھری لی ۔۔۔ھاد باہر نکل کر اس پہ نظر ڈالے بنا جاکر اپنی جگہ پہ لیٹ گیا اور آنکھوں پہ بازو رکھے سوتا بن گیا ۔۔۔۔ھادیہ دل مسوس کر واش روم کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔کچھ لمحوں کے توقف کے بعد وہ جوں ہی سادہ سے پرپل اور گرے امتزاج کے فراک اور پلازو پہنے باہر نکلی۔۔۔۔کمرے کی لائٹس آف تھیں ۔۔۔۔نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔اور وہ کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ ھادیہ کو اسکا چہرہ دکھائی نا دیا ۔۔۔

اس کے بدلے تیور دیکھ کر ھادیہ کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔۔۔۔۔

"میں نے بھی انہیں دوبارہ سے خود سے محبت کرنے پہ مجبور نا کردیا تو میرا نام بھی ھادیہ نہیں "۔۔۔!

اسکے چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ ابھری ۔۔۔۔۔

اس پتہ چل گیا تھا کہ ھاد کو اگنور ہونا بالکل بھی پسند نہیں۔ تبھی وہ جان بوجھ کر اپنی طرف کا تکیہ لے کر صوفے پہ آگئی ۔۔۔۔

وہ جو آنکھیں موندے سونے کا ڈرامہ کر رہا تھا ۔۔۔لیکن اسکی ہر حرکت کو بخوبی محسوس کر رہا تھا۔۔۔اس کے صوفے پہ جاکر لیٹنے سے ایک بار پھر سے اسکا غصہ عود کر آیا ۔۔۔۔

اس نے اپنی سرخی مائل آنکھیں کھول کر اسے تیکھے جتونوں سے گھورا ۔۔۔۔

ھادیہ نے فورا چہرے پہ سنجیدہ تاثرات سجائے۔۔۔۔

"وہاں صوفے پہ سو کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو ۔۔۔؟؟؟

"کہ بڑا ظلم کیا ہے تم پہ ۔۔۔!! ایک منٹ لگاؤ اور جیسے یہاں سے اپنے پاؤں سے چل کر اس صوفے تک گئی ہو ویسے ہی آرام سے یہاں آکر بیڈ پہ سوجاو ۔ورنہ دوبارہ چلنے کے قابل نہیں رہو گی "۔۔۔۔!!!

"اف میں نے تو سوچا تھا یہ کہیں گے ۔۔۔کہ میں تمہیں خود وہاں لے کر آؤں گا ۔۔۔۔وہ خودی اپنی سوچ پہ دل میں ہنسی ۔۔۔۔

"ھادیہ چل اٹھا تکیہ اور شرافت سے چل واپس ۔۔۔۔دیکھ تو کیسے خونخوار نظروں سے تجھے دیکھ رہا ہے جیسے سالم نگل جائے گا ۔۔۔۔باقی کے حربے کسی اور وقت آزما لینا ۔۔۔۔وہ زیر لب بڑبڑائی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"سنیں ۔۔!!!! "اس نے کمرے میں آکر اسے مدھم آواز میں پکارا تو یارم بلوچ جو کمرے کی کھڑکی کے باہر سے نظر آتے مناظر پہ نظریں جمائے کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔۔۔اس چونک کر پیچھے مڑے دیکھا۔ 

اسے خبر ہی نا ہوئی کہ کب سیگریٹ جلتے ہوئے اسکی پوروں کو بھی جلا گیا تھا ۔۔۔وہ آہنی سوچوں کے سمندر میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا ۔کہ اسے جلن کا احساس تک نا ہوا ۔۔۔۔۔ 

"ہمممم۔۔۔"وہ سرد مہری سے بولا۔۔۔۔۔چاہت تیزی سے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئی۔اور سیگریٹ اسکے ہاتھوں چھین کر زمین پہ پھینکا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔بتائیں مجھے ۔"اسنے مدھم آواز میں پوچھا ۔۔۔۔

جب وہ دکھی ہوتی تھی تو یارم بھی اسے تسلی دیتا تھا ۔۔۔آج چاہت نے اسے تسلی دینے کا سوچ کر اس سے اسکی ناراضگی کی وجہ پوچھنی چاہی ۔۔۔۔

"بابا سائیں کے جانے سے کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔"وہ شرمندہ سے سر جھکا گیا ۔۔۔۔بات یہ نہ تھی وہ دونوں اچھے سے جانتے تھے۔

"اتنا بوجھ ہے کہ آپ اپنا کیا ہوا وعدہ بھول گئے۔"اس نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"کون سا وعدہ ؟"

یارم بلوچ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

"یہی کہ آپ میرا خیال رکھیں گے ۔"

"آپکو پتہ ہے،آدم برو سے بات بھی نہیں کی میں نے کب سے ۔۔۔مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے ۔ میں خود کو کتنا تنہا محسوس کرتی ہوں ان کے بغیر ۔پہلے آپ مجھ سے اچھے سے بات کرتے تھے ۔میری چیزوں کا خیال رکھتے تھے ۔اب تو میری طرف دیکھتے بھی نہیں اور پیار بھی نہیں کرتے ۔"اسنے دکھ سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے معصومانہ انداز میں شکوہ کیا ۔۔۔۔۔

"ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟....!!!!!

"ایسا کب ہوا ۔۔۔۔؟؟؟؟

"میں نے کب پیار ۔۔۔؟..!!!

وہ خودی سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔

"اف میں بھی کیا سوچنے لگا ۔۔۔۔

"اب آپ مجھے بات بات پہ ڈانٹتے ہیں ،مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتے ۔۔۔آپ کو پتہ ہے مجھے کتنا برا لگتا ہے آپ کا اگنور کرنا ۔۔۔۔"چاہت کے نم آواز میں کہے گئے الفاظ پر یارم بلوچ کا دل بند ہونے لگا۔اس نے آگے بڑھ کر نرمی سے چاہت کا مخملیں نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔۔۔

"آئم سوری چاہت ۔۔۔ رئیلی سوری۔بس بابا سائیں کی جدائی سے کچھ ٹینشن میں تھا ۔۔۔"وہ اسکے ہاتھ کی پشت اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے گھمبیر آواز میں بول رہا تھا ۔اس کے محبت بھرے لمس پر چاہت کے آنسو نکل آئے ۔۔۔کتنے دنوں بعد اسے کسی کا محبت بھرا لمس محسوس ہوا تھا ۔۔۔

"پلیز مجھے آدم برو سے ملادیں ۔۔۔۔میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ میں مر جاؤں گی ۔۔۔۔اگر انہیں نا دیکھا تو ۔۔۔۔

"ایسی دل دہلا دینے والی باتیں مت کرو چاہت ۔۔۔تمہیں کچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا ۔۔۔میرے جینے کی وجہ بن گئی ہوتم ۔۔۔۔۔۔۔

"چاہت میں تمہارا مجرم ہوں تم سے نظریں نہیں ملا سکتا ۔۔۔۔اگر تمہیں سچ پتہ چل گیا تو ۔۔۔کہیں تم مجھے چھوڑ نا جاو ۔۔۔۔یہی سوچ کر خاموش ہوں ۔ناتو تمہیں سچ بتانے کی ہمت کر پا رہا ہوں اور نا تمہیں کھو دینے کی ۔۔۔ خود کو سزا دینے کےلئے تم سے دوری کو چن لیا ہے ۔۔"

وہ دل میں بولا ۔۔۔۔

چاہت اسکے بولنے کی منتظر تھی ۔۔۔۔۔مگر وہ خاموشی سے چلتا ہوا اپنی جگہ پہ جا کر لیٹ گیا ۔۔۔۔

اور ائیر کنڈیشنڈ کی سپیڈ بڑھا کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔

چاہت اسکے جواب کی منتظر!!!!

 جہاں تھی وہاں کتنی دیر کھڑی یہی سوچتی رہی کہ وہ اس سے جب بھی آدم سے ملنے کی بات کرتی ہے وہ ہمیشہ یونہی خاموش ہوجاتا ہے ۔۔۔۔

ایسا کیوں ....؟؟؟؟

وہ کچھ دیر اپنے ننھے سے ذہن پہ زور ڈالتے ہوئے وہیں کھڑی سوچتی رہی پھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ پر آکر لیٹ گئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"آپ کی رپورٹس آگئی ہیں "...

ایک نرس نے زبیدہ کو بتایا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ زبیدہ ڈاکٹر کے کمرے میں قدم رکھتی ان سے کچھ پوچھنے کے لیے اس کے قدم ڈاکٹر وہاج اور آتش بلوچ کی آواز نے وہیں جکڑ لیے ۔۔۔۔

"ڈاکٹر آپ یہ رپورٹس دیکھ کر بتائیں کہ کیا پرابلم کے انہیں "

آتش بلوچ نے رپورٹس ڈاکٹر وہاج کی طرف بڑھائیں ۔۔۔۔

وہ رپورٹس کا جائزہ لینے لگے ۔۔۔

"آتش ان رپورٹس کے مطابق پیشنٹ پھپھڑوں کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں ۔۔۔۔

انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں کہا۔

"کیا ۔۔۔؟؟"

"مگر۔۔۔۔ !!!   آتش بلوچ ان کی بات سن کر حیران ہوا ۔۔۔

"جی ان کا بروقت علاج نہیں کیا گیا اسی لیے اب مرض آخری سٹیج پہ ہے ۔۔۔اس میں 

ہمارے خلیے ایک سیٹ مدت کیلئے سیل سائیکل میں داخل ہوتے جہاں ان کی گروتھ ہوتی ہے اور پھر وہ اس سائیکل سے نکل جاتے ہیں مگر یہ عمل اگر بے ربط اور بے ہنگم ہو جائے تو خلیوں کی گروتھ بے قابو ہو جاتی ہے جو کینسر کا باعث بنتی ہے۔ 

پھیپڑوں کے کینسر میں پھیپڑوں کے خلیے بے لگام ہو کر تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ خلیے ہمارے خون میں آکسیجن فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر ان حالات میں ہماری سانس لینے کی صلاحیت خاصی خراب ہو جاتی ہے۔ ویسے تو کوئی بھی شخص کینسر کا شکار ہو سکتا ہے۔وہ کینسر جو پھیپھڑوں میں شروع ہوتے ہیں انہیں پرائمری پھیپھڑوں کا کینسر کہا جاتا ہے اور وہ کینسر جو جسم میں کسی مختلف جگہ سے پھیپھڑوں میں پھیلتے ہیں انہیں سیکنڈری پھیپھڑوں کے کینسر کہتے ہیں۔ اس قسم کے خلیوں کی بنیاد پر جس میں کینسر بڑھنا شروع ہوتا ہے ،

باہر کھڑی زبیدہ کے سر پہ تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔۔

اسے ان کی باتوں سے بس اتنا اندازہ ہوا کہ اسے کوئی بڑی خطرناک بیماری ہوگئی ہے ۔وہ وہیں دیوار کے ساتھ لگی رونے لگی ۔۔۔۔اسے اپنی زندگی کی فکر نہیں تھی ۔۔۔فکر تھی تو سسی کی ۔۔۔۔اس کے جانے کے بعد اس کی بیٹی کا کیا ہوگا ۔۔۔۔ابھی وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ آتش بلوچ ڈاکڑا وہاج سے بات ختم کیے باہر نکلا اور زبیدہ کو باہر دیکھ کر ٹھٹھک کر وہیں رکا ۔۔۔

زبیدہ کی بھیگی آنکھوں کو دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ زبیدہ نے سب سن لیا ہے ۔۔۔

"آپ فکر مت کریں آپ کا علاج ہوگا تو آپ ٹھیک ہو جائیں گی ۔۔۔۔"آتش بلوچ نے ٹہرے ہوئے انداز میں انہیں تسلی دی ۔۔۔۔

"چھوٹے سردار ۔۔۔!!!

"مجھے اپنی نہیں سسی کی فکر ہے ۔۔۔۔اس نے رندھے لہجے میں کہا۔

"آپ اس کی فکر مت کریں ۔۔۔میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں "اس نے بات کا آغاز کیا۔

"جی جی چھوٹے سردار!  زبیدہ نے مؤدب انداز میں کہا۔

"اگر آپکی اجازت ہو تو میں سسی سے نکاح کر کہ اسے اپنی زوجیت میں لینا چاہتا ہوں "

"یہ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔ سردار ۔۔۔ ؟

وہ حیرت زدہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں نے کیا کہا ہے ۔۔۔۔

وہ رسان سے بولا ۔

"پر سردار ۔۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے ۔۔۔

"آ۔۔۔۔آ۔۔۔پ ۔۔۔سب جانتے ہوئے بھی کہ اس کے ساتھ ۔۔۔کیا ۔۔۔ہوا ۔۔۔۔

وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"جی ۔۔۔۔اس نے فقط اتنا ہی کہا ۔۔۔۔

"آپ کا ہم غریبوں پہ اتنا بڑا احسان ۔۔۔۔زبیدہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس کے پیروں میں گر پڑی ۔۔۔۔

اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اونچے شملے والا شہزادہ ان کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لے گا ۔۔۔۔

"اٹھیے پلیز ۔۔۔۔ایسامت کریں ۔۔۔۔تعلیم ہم سب کو برابری کا درس دیتی ہے ۔کیا فایدہ پڑھنے لکھنے کا جو ہم وہی دقیانوسی خیالات کے پیروکار بنے رہیں ۔آپ میرے لیے میری ماں سا جیسی ہیں ۔۔۔۔اب دوبارہ میں آپ کو میرے سامنے ایسا کرتے نا دیکھوں "اس نے ان کے شانوں سے تھام کر انہیں اٹھاتے ہوئے شائستگی سے کہا ۔۔۔۔

زبیدہ تو اپنی بیٹی کے مقدر لکھنے والے پہ سو سو بار قربان جا رہی تھی ۔۔۔۔خوشی سے اسکی آنکھیں جھملانے لگیں ۔۔۔

"آپ بس میرے بعد میری بیٹی سسی کا خیال رکھیے گا۔"ان کی بات پر آتش بلوچ کی مسکراہٹ مانند پڑی۔چہرے کا رنگ اڑا تھا۔دل میں انجانے سے خوف نے جنم لیا۔ 

"آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں ۔آپ کو ابھی بہت سا جینا ہے ۔مجھے اور سسی کو دعائیں دینی ہیں ۔"۔ اس نے نرمی سے کہا ۔۔۔

"زندگی کا کیا بھروسا ہے چھوٹے سردار ۔آج ہوں کل نہ ہوئی تو میری بچی تنہا نہ رہ جائے۔آپ کبھی میری سسی کا ساتھ مت چھوڑیے گا۔"نم آنکھیں آتش بلوچ کے خوبرو چہرے پر تھیں۔

"میرا وعدہ ہے ،میں ہمیشہ اس کا خیال رکھوں گا اور آپ کا بھی  "

آتش بلوچ نے عقیدت سے ان کا جھریوں زدہ ہاتھ ہاتھ تھام کر انہیں تسلی آمیز انداز میں کہا ہتھیلی پر لب رکھے۔

"سسی کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی "

وہ درد بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔

"میں سب ٹھیک کر دونگا۔

"آج ہی مولوی صاحب کا انتظام کرتا ہوں ۔

وہ کہہ کر وہاں سےجانے لگا ۔۔۔مگر پھر رکا اور واپس آیا ۔۔۔

"آپ سسی کو مت بتائیے گا کہ اس کا نکاح مجھ سے ہو رہا ہے ۔۔۔۔بس اسے اس نکاح کے لیے منانے کا کام آپ کے ذمے ہے ۔۔۔۔وہ کہہ کر رکا نہیں چلا گیا ۔۔۔۔

جبکہ زبیدہ اس کی باتوں پہ غور کرنے لگی کہ اس نے ایسا کیوں کہا ۔۔۔۔لیکن اس کی بات بھی تو ماننی تھی ۔۔۔۔

وہ سسی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

سسی آنکھیں کھولے ایک ہی زاوئیے میں چھت کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔زبیدہ اسکے سرہانے کی طرف بیٹھ کر اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی ۔۔۔۔

"سسی ایک بات کہوں ؟"

کچھ دیر گزرنے کے بعد زبیدہ نے اپنی بات کا آغاز کیا ۔۔۔

"جی اماں ...!!!!

"وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"میری ایک بات مانے گی ۔۔۔۔؟

انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا۔

"آگے کبھی تیری کوئی بات ٹالی ہے ؟؟؟

وہ نظروں کا رخ زبیدہ کی طرف کیے بولی ۔۔۔۔

"تو ٹھیک ہے پھر میں نے تیرا نکاح طے کردیا ہے ۔ابھی کچھ دیر میں مولوی آتا ہی ہوگا "

انہوں نے گویا اپنے الفاظ سے سسی کے سر پہ دھماکہ کیا 

"یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔کیا کہہ رہی ہے تو ...ماں سا ؛!!!

وہ ان کا اپنے بالوں پہ موجود ہاتھ اپنے ہاتھ میں سختی سے پکڑ کر حیرت زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔۔اسے ابھی بھی یقین نہیں آیا تھا ۔۔۔

"دیکھ سسی انکار مت کرنا ۔۔۔ابھی تو نے کہا تھا کہ تو میری بات مانے گی ۔۔۔۔

انہوں نے اسے تھوڑی دیر پہلے کی گئی اسی کی بات یاد دلائی ۔۔۔۔

"پر ۔۔۔ماں ۔۔۔سا ۔۔۔۔

اس کے حلق میں جیسے کانٹے اگ آئے۔۔۔۔اس کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

آنکھوں کے کناروں سے آنسو باندھ توڑ کر بہنے لگے اور اس کے رخساروں کو بھگونے لگے۔۔۔۔

کیسے سینچ کر رکھا تھا اس نے خود کو اپنے شہزادے کے لیے ۔۔۔۔اب میں شہزادے کو کیا منہ دکھاؤں گی ۔۔۔۔کیا کہوں گی کہ میں اس کے لیے اپنی حفاظت بھی نا کر سکی ۔۔۔۔

اس کا سامنا کرنے سے بہتر تو میں مر جاتی ۔۔۔۔۔

"اے اللّٰہ مجھ پہ اک کرم کرنا ۔۔۔۔بس میرا اس سے دوبارہ کبھی سامنا نا کرنا ۔۔۔ورنہ میں تو اس سے نظریں بھی نہ ملا پاؤں گی ۔۔۔

"نہیں ماں سا ۔۔۔۔میں کسی کے قابل نہیں۔۔۔۔کون اپنائے گا مجھے اس داغدار وجود کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ کرب زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔۔

"وہ نا پوچھ مجھ سے کون اپنائے گا تجھے بس اتنا یاد رکھ وہ اک فرشتہ صفت انسان ہے ۔۔۔۔اور تجھے اس کی ہر بات ماننی ہے ۔۔۔۔یہ تیری ماں سا حکم ہے ۔۔۔۔وہ پیار سے کہتی ہوئی آخر میں حاکمانہ انداز میں پیش آئیں ۔۔۔۔

"نہیں۔ ماں سا ۔۔۔!!!!

"مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔۔میں کسی کا بھی سامنا نہیں کر سکتی ۔۔۔۔"

"سسی ۔۔۔!!! تجھے تیری ماں سا کی قسم ۔۔۔!! انکار مت کرنا ۔۔۔۔۔تیرے بھلے کے لیے ہی ہے سب ۔۔۔۔

انہوں نے اس کا ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پہ رکھتے ہوئے قسم دی ۔۔۔۔

سسی کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

اس نے کرب سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔

اسے سہارا دے کر اٹھا کر بیٹھایا اور اس کے سر پہ دوپٹے کا گھونگھٹ اوڑھا دیا ۔۔۔۔

کچھ دیر میں مولانا صاحب اندر آئے اور ان کے ساتھ ڈاکٹر زارا اور ڈاکٹر وہاج بھی تھے آتش نے اپنے یونیورسٹی کے دو دوستوں کو بھی بھی بلا لیا تھا ۔۔۔۔

سسی کو کچھ خبر نا ہوئی کب اور کیسے نکاح ہوا وہ بس کسی روبوٹ کی طرح ان کی ہاں میں ہاں ملاتی گئی ۔۔۔۔

اور پھر واپس شکستہ وجود لیے ہاسپٹل کے بستر پر ڈھ سی گئی۔۔۔۔اور آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔ 

کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔یہی سوچ سوچ کر وہ نڈھال ہوچکی تھی۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سورج کی روشنی چہار سو اپنے پر پھیلائے پارے آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔۔۔۔دھوپ کی سنہری کرنیں کھڑکی کے راستے اس کے چہرے پہ پڑیں تو ھادیہ نے اپنی نیند سے بوجھل  آنکھیں مسل کر کھولیں ۔۔۔۔اور اپنے ساتھ سوئے ہوئے اپنے شریک حیات کی طرف دیکھا ۔۔۔جو دنیا و مافیہا سے بے خبر میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا ۔۔۔۔

اسے صبح ہی صبح شرارت سوجھی ۔۔۔۔۔اس نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا ۔۔۔۔اور کمفرٹر اتار کر ایک طرف کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اتر کر کبرڈ کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔

پھر ٹاول اور اپنے کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

واپس باہر آئی تو ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے بھیگے بالوں میں برش پھیرنے لگی اور شیشے میں سے ھاد بلوچ کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھی ۔۔۔۔

اپنا دوپٹہ اٹھا کر شانوں پہ ڈالا ۔۔۔۔

پھر آہستہ آہستہ دبے پاؤں چلتے ہوئے ھاد بلوچ کے سرہانے کی طرف آئی ۔۔۔۔الارم کلاک سے ٹھیک ایک منٹ بعد کا الارم سیٹ کرتے ہوئے کلاک ھاد بلوچ کے بالکل کان کے پاس لگا کر رکھ دیا ۔۔۔جیسے دبے قدموں سے اسکے پاس گئی تھی ویسے ہی واپس دروازے کے پاس آگئی ۔۔۔۔

اس کی پوری تیاری تھی ۔باہر بھاگنے کی ۔۔۔۔

تبھی ایک منٹ کا وقت پورا ہوتے ہی پورے زوروں شوروں سے الارم ھاد بلوچ کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگا ۔۔۔۔

وہ ہڑبڑا کر گہری نیند سے جاگا ۔۔۔۔اور غصے سے جھنجھلاتے ہوئے الارم کلاک کو اٹھا کر زمین پہ دے مارا ۔۔۔

"کس نے لگایا یہ ؟؟؟"

تبھی اس الارم کلاک کہ آواز کے ساتھ ھادیہ کی کھکھلاہٹیں کمرے میں گونجنے لگیں۔۔۔۔

ھاد بلوچ نے اپنی نیند سے بوجھل سرخی مائل آنکھوں سے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔

"شادی کی پہلی صبح مبارک !!!!

"تمہیں بھی تو پتہ چلے کس بلا کو لے آئے ہو "

وہ چہک کر بولی ۔۔۔۔

"جلدی تیار ہوجاو ۔۔۔سسرال میں میرا پہلا دن ہے ۔۔۔۔اپنے گھر والوں سے میرا تعارف نہیں کرواو گے ۔۔۔۔

وہ ہنستے ہوئے لہک لہک کر بولی ۔۔۔۔

"ھادیہ ۔۔۔۔!! 

وہ دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔

"اچھا چلو تم تیار ہوجاو ۔۔ میں خودی مل لیتی ہوں ۔۔۔

اور ہاں اچھے سے تیار ہونا ۔۔۔۔

وہ شرارت سے کہتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔۔

وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔۔

اور کبرڈ سے اپنے کپڑے نکالنے لگا ۔۔۔۔

پہلا سوٹ نکال تو اس نے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا ۔۔۔قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس نے جھنجھلا کر اسے واپس پھینکا اور ہینگر سے دوسرا جوڑا نکالا ۔۔۔۔

اس کا بھی یہی حال تھا ۔۔۔

ھاد نے سارے سوٹوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔سب کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس نے سارے سوٹوں کا گولہ بنا کر غصے سے زمین پہ دے مارا ۔۔۔۔

"تم چاہتی تھی کہ میں تمہیں بلوا کر اپنی قمیض کے بٹن لگواوں ۔۔۔۔ہنہہ۔۔۔۔

سوچنا بھی مت ۔۔۔۔

میڈم ھادیہ آپکا یہ حربہ ناکام ہوا ۔۔۔۔

اس نے آج معمول سے ہٹ کر شلوار قمیض پہننے کی بجائے نچلے خانے سے اپنی  ٹراؤزر شرٹ نکال جو وہ کبھی کبھار پہن لیتا تھا ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ اس نے واش روم میں قدم رکھا ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ پھسل جاتا ۔۔۔اس نے اپنا ہاتھ دیوار پہ رکھ کر خود کو گرنے سے روکا ۔۔۔۔۔

واش روم کا فرش شیمپو سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔

"یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے ۔۔۔۔!!!!وہ دانت کچکچا کر بولا۔۔۔۔

پھر شاور کھول کر شیمپو بہانے لگا ۔۔۔۔۔

باتھ لے کر فارغ ہوتے جیسے کی اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹاول اتارنا چاہا تو وہ بھاری سا محسوس ہوا ۔۔۔۔

دیکھا تو ٹاول پورا کا پورا گیلا تھا ۔۔۔۔جیسے کچھ دیر پہلے دھو کر لٹکایا گیا ہو اس میں سے پانی کی بوندیں ٹپ ٹپ گر رہی تھیں ۔۔۔۔

وہ غصے سے تلملاتے ہوئے بنا ٹاول کا استعمال کیے ہی باہر نکل آیا ۔۔۔۔

بالوں میں برش کیا ۔۔۔شیشے میں بھی اس کے تیکھے نقوش تنے ہوئے تھے ۔۔۔۔

اس نے جوتے پہنے تو وہ بھی گیلے ۔۔۔۔۔

اب تو اس کے صبر کا پیمانہ اصل میں لبریز ہوا ۔۔۔۔۔

اپنے شوز ریک کے پاس گیا وہاں سے دوسرے پہن کر وہ دھاڑ سے دروازہ کھول کر باہر نکلا ۔۔۔۔

تمہاری صبح تو اب میں گڈ مارننگ بناتا ہوں ۔۔۔۔ایسا جھٹکا دوں گا ۔دوبارہ میری صبح اس طرح کی گڈ مارننگ بنانا بھول جاؤ گی ۔۔۔۔

ھادیہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو سامنے ہی بڑا سا کچن نظر آیا ۔۔۔۔جہاں سے مدھم سی باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔۔۔

وہ آہستہ سے چلتی ہوئی اندر آئی تو دیکھا ۔۔۔۔۔

شازیہ آملیٹ بنا رہی تھی ۔۔۔اور زرش بلوچ پراٹھے ۔۔۔۔ جبکہ چاہت وہیں قریب کھڑی تھی ۔۔۔۔۔یارم بلوچ جاگنگ کے لیے باہر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم ۔!!!

ھادیہ نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔

تو سب نے پلٹ کر اسے دروازے میں کھڑی دیکھا ۔۔۔۔

"وعلیکم السلام !!!

"آؤ اندر ۔۔۔۔زرش بلوچ نے شفیق انداز میں کہا۔۔۔۔۔

"رات کو ملاقات نہیں ہوسکی ۔۔۔۔ہماری ۔۔۔ویسے تم نے پہچانا مجھے میں کون ہوں ؟

"نہیں ۔۔۔۔ھادیہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

"میں ھاد کی ماں ہوں ۔۔۔"

اور یہ تمہاری جیٹھانی ۔۔۔چایت ۔۔۔۔۔

ھادیہ کے چہرے پہ ان کی ساس ہونے کے بارے میں سوچ کر مسکراہٹ آئی ۔۔۔۔مگر جیٹھانی اور وہ بھی اتنی چھوٹی عمر ۔۔۔نازک سی نیلی آنکھوں والی گڑیا جیسی لڑکی کو دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور خوش بھی ۔۔۔۔

"آپ بہت کیوٹ ہیں "

ھادیہ نے کھلے دل سے اسکے منہ پہ ہی اسکی تعریف کی اور دوستانہ انداز میں ہاتھ آگے بڑھایا  ۔۔۔۔

"تھینک یو ۔۔۔آپ بھی بہت پیاری ہیں "

چاہت نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا اور اس سے ہاتھ ملایا  ۔

"لائیں ماں سا میں بھی آپ کی مدد کراؤں "

ھادیہ نے زرش بلوچ کے پاس جاتے ہوئے اپنے پن سے پیشکش کی ۔۔۔اب اس نے یہیں رہنا تھا ۔یہی مستقل ٹھکانہ تھا تو کیوں نا گھل مل کر رہتی ۔۔۔تو اس نے خودی اجنبیت کی دیواریں گرا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔

"ارے نہیں ۔۔۔پہلے ہی دن اپنی بہو سے کام کراؤں گی ۔۔۔۔سب سنیں گے تو مجھے ظالم ساس کہیں گے ۔۔۔۔تم بیٹھو ۔۔۔۔میں بنا رہی ہوں نا ۔۔۔۔۔

"ویسے بھی کافی دنوں سے اپنے کمرے میں ہی تھی ۔۔۔یہ چاہت ہی لے کر آئی ہے ضد کر کہ آج مجھے میرے کمرے سے ۔۔۔ کہہ رہی تھی میرے ہاتھ کے پراٹھے کھانے ہیں ۔

ھادیہ کو بہت اچھا لگا زرش بلوچ اور چاہت کا آپسی پیار،،،انہیں دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ساس بہو ہیں ایسا لگا جیسے ماں اور بیٹی آپس میں بات کر رہی تھیں ۔۔۔۔

فلک بلوچ کی جدائی کے بعد چاہت نے ان کے ساتھ وقت گزارنا شروع کیا تو ان دونوں میں کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہوچکی تھی ۔۔۔۔

"سچ کہوں مجھے نا جلن ہو رہی ہے آپ کا پیار دیکھ کر ۔۔۔۔میں نے بھی کبھی اپنی ماں سا کو نہیں دیکھا ۔۔۔مجھے اماں بی نے پالا ہے ۔۔۔۔۔اگر میری ماں سا زندہ ہوتی تو وہ بھی یونہی پیار کرتی جیسے آپ کرتی ہیں ۔"

وہ بھرائے لہجے میں بولی ۔۔۔۔

تم بھی تو ہماری اپنی ہی ہو ،تمہاری ماں عنایا میری نند اور ھاد کی پھپھو تھی ۔۔۔ 

"اللہ تعالیٰ نے مجھے تین بیٹے دئیے مگر بیٹیاں نہیں ۔۔۔۔۔آج تم دونوں کے روپ میں میری بیٹوں والی حسرت بھی پوری ہوگئی ۔۔۔۔۔

"تمہیں بھی میں ایسا ہی پیار دوں گی جیسے چاہت سے کرتی ہوں ۔تم میرے لیے اس سے کم نہیں ہو ۔۔۔جیسے مجھے میرے بیٹے پیارے ہیں ،ویسے تم دونوں بھی ۔۔۔۔

وہ مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

تم میرے بیٹیوں کی خوشی ہو ۔۔۔۔تو اس حساب سے میری بھی ۔۔۔

انہوں نے کہتے ہوئے پراٹھے کو گھی لگایا ۔۔۔۔

"میں جوس بناؤں "؟

ھادیہ نے پوچھا ۔۔۔

"یعنی کہ تم آرام نہیں کرو گی ۔۔۔۔چلو اگر اسی میں تمہاری خوشی کے تو بنا لو ۔۔۔

زرش بلوچ نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔تو ھادیہ جوس بنانے لگی ۔۔۔۔

"ممی ۔۔۔۔!!!ایک بار پوچھوں "؟

چاہت نے انہیں پراٹھا توے سے اتار کر ہاٹ پاٹ میں رکھتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

"ہاں پوچھو نا ۔۔۔!!!

"ممی یہ فرش کس سے بنا ہے ؟؟؟چاہت جو کب سے خانوش فرش پہ نظریں جمائے ہوئے تھی ۔۔۔اس نے چکمتے ہوئے فرش کو دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔

"چاہت یہ سنگ مرمر کے پتھر سے بنا ہے "

انہوں نے جواب دیا ۔۔۔۔

"ممی اس پتھر میں سے کچھ گزر سکتا ہے ؟؟؟

وہ پھر سے کچھ گہرا سوچ کر اگلا سوال کر گئی ۔۔۔۔

"بیٹا سنگ مرمر میں سے صرف زیتون کی جڑیں گزر کر اسے پھاڑ سکتی ہیں ۔۔۔۔

اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔

"ممی تو کیا وہ زیتون کی جڑیں میں بن سکتی ہوں "؟

"یہ کیسا سوال ہے چاہت "؟

وہ چونک کر مڑیں  پھر بولیں ۔

"بتائیں نا ممی ۔۔۔۔؟

وہ بضد ہوئی ۔۔۔۔

"اچھا پہلے بتاؤ مجھے یہ پتھر کون ہے ۔۔۔۔جس میں سے تم زیتون کی جڑ بن کر اس میں سے گزرنا چاہتی ہو ۔۔۔

انہوں نے اسکی تھوڑی کو چھو کر پوچھا ۔۔۔۔

"آپکے بیٹے ۔۔۔۔"

وہ بنا لگے لپٹے معصومیت سے منہ پھلا کر بولی ۔۔۔۔

زرش بلوچ پہلے تو حیران ہوئیں پھر ہنسنے لگیں ۔۔۔۔

"شازیہ دیکھو میری بہو میرے ہی سامنے میرے بیٹے کی برائی کر رہی ہے ۔۔۔یہ وقت بھی آنا تھا ۔۔۔۔

شازیہ کے ساتھ ساتھ ھادیہ کا قہقہ بھی شامل ہوا ۔۔۔۔

"ہاں تو میں نے غلط کیا کہا ۔۔۔۔؟؟.

"وہ ہر وقت اس سنگ مرمر کے پتھر کی طرح سٹون مین بنے رہتے ہیں ۔مجھ سے بات بھی نہیں کرتے "

وہ سادگی سے بولی ۔۔۔۔

"لو بھلا اتنی پیاری بیوی ملی ہے ان کو اور ہمارے جیٹھ صاحب اس سے بات بھی نہیں کرتے یہ تو ٹھیک بات نہیں نا ماں سا ۔۔۔۔

ھادیہ نے زرش بلوچ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

"ویسے آج میری بیٹی بڑی سمجھداری کی باتیں کر رہی ہے صبح صبح ۔۔۔۔

زرش بلوچ مسکرائیں ۔۔۔

"تم نے ناراض کر دیا ہوگا ۔۔۔اسے تبھی وہ بات نہیں کرتا ہوگا ۔۔۔۔تم اسے پیار سے منالو وہ مان جائے گا "

انہوں نے اسے مشورہ دیا۔۔۔۔

"ممی پیار سے کیسے مناؤں "؟

اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"یہ بھی میں بتاؤں گی اب ؟؟؟

ھادیہ تم ہی اپنی جٹھانی کی مدد کرو اس سلسلے میں ۔۔۔۔انہوں نے پہلے چاہت کی طرف دیکھا پھر ھادیہ سے کہا ۔۔۔

"میں ۔۔۔پر ۔۔۔میں ۔۔۔کیسے ؟؟؟

ھادیہ بوکھلا کر بولی ۔۔۔۔

"آپ کو پتہ ہے میری ایک دوست ہے سسی ۔۔۔وہ بہت اچھی ہے ۔۔۔ممی ۔۔۔!!!

اتنے دن ہوگئے سسی کیوں نہیں آرہی ۔۔۔۔؟؟؟اس نے زرش بلوچ سے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔

"شازیہ ۔۔۔۔!!!

تمہیں کچھ پتہ ہے زبیدہ اور سسی کا ؟؟؟انہوں نے اس سے پوچھا 

"وڈی سردارنی جی۔۔۔میں گئی تھی تھی ۔۔۔۔اس کے گھر میں تالا لگا تھا ۔ساتھ والے بتا رہے تھے کہ زبیدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لگتا ہے وہ کسی رشتے دار کے پاس شہر گئی ہے علاج کروانے ۔۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔۔مجھے بتا دیتی جانے سے پہلے ۔۔۔۔اسے علاج کے لیے کچھ رقم دے دیتی ۔۔۔۔چلو اچھا ہوا چلی گئی وقت رہتے علاج کروا لے ۔۔۔۔

"اچھا چلو ناشتہ بن گیا ہے باہر ڈائننگ ٹیبل پہ لگاؤ ۔۔۔باقی باتیں بعد میں کریں گے ۔۔۔۔

زرش بلوچ نے انہیں ہدایات دیں اور خود باہر نکل گئیں۔ ۔۔۔

"آگئے تم ؟؟؟

انہوں نے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے یارم بلوچ کی طرف دیکھ کر استفسار کیا۔۔۔

"جی ماں سا ۔۔۔!!!

"کافی دن ہوگئے تھے جاگنگ پہ گئے ۔۔۔آج جاگنگ کرتے ہوئے کچھ دور نکل گیا اسی لیے دیر ہوگئی ۔۔۔۔

چاہت اسکے لیے ٹاول لے کر اسکے پاس گئی تاکہ وہ اپنا پسینہ پونچھ لے۔۔۔۔

"It's ok..."

یارم بلوچ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایک شاپر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور چاہت کو ایک ہاتھ اٹھا کر روکتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا فریش ہونے ۔۔۔۔

ھاد بلوچ جو سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا ۔۔۔۔چاہت کو افسردہ چہرہ لیے یارم بلوچ کی پشت کو گھورتے دیکھا تو اس نے تاسف سے سر ہلایا ۔۔۔

پھر ڈائننگ ٹیبل کی طرف آیا اور چئیر گھسیٹ کر اس پہ بیٹھ گیا ۔۔۔۔ناشتہ لگ چکا تھا 

کچھ ہی دیر میں یارم بلوچ بھی تیار ہوئے گرے کلف لگی شلوار قمیض میں ملبوس کف موڑتے ہوئے نیچے اتر آیا ۔۔۔

"ماں سا جوس دیجیے گا "

اس نے زرش بلوچ کو مخاطب کیے کہا ۔۔۔۔کیونکہ جوس ان کے قریب پڑا ہوا تھا ۔۔۔

"یارم بیٹا پراٹھا کھاؤ بعد میں جوس بھی پی لینا ۔۔۔۔

"نہیں ماں سا ۔۔۔پراٹھا بہت آئلی ہے ۔آپکو پتہ بھی ہے اس میں کتنی کیلیوریز ہیں ؟؟؟

"ابھی جو کیلوریز برن کر کہ آیا ہوں ۔۔۔اس سے ڈبل لے لیں تو کیا فایدہ ایسی جاگنگ کا ۔۔۔؟.آپ جوس دے دیں ۔۔۔۔

"بیٹا یہ اصلی گھی کا پراٹھا ہے اس سے وزن نہیں بڑھتا ۔۔۔ماں سا صدقے جائے ۔۔۔۔سارے کام کی ذمہ داری ہے تجھ پہ اپنی صحت کا خیال رکھا کر ۔۔۔۔کھا پی ۔۔۔۔چھوڑ اس ۔۔۔۔کلوری (کیلوریز )کے چکر ۔۔۔۔

"ایک تو وہ سڑی ہوئی کالی کافی پی کر اپنا خون جلاتا رہتا ہے اوپر سے روٹی بھی چھوڑ دے گا تو کیا بنے گا تمہارا ۔۔۔۔وہ پریشانی سے اسے ڈپٹنے کے انداز میں بولیں ۔۔۔

"ماں سا ۔۔۔۔!!!!

صبح صبح ہی علاقے کے سردار کی اس کی ماں ہاتھوں بیعزتی ہوتے کوئی دیکھ لے تو کیا کہے گا ؟یارم بلوچ نے ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر کہا اور جوس کا گلاس لبوں سے لگایا ۔۔۔۔

"ارے وہ ٹیبل پہ شاپر میں کیا ہے ۔۔۔۔؟

ھاد بلوچ جو پراٹھا کھا رہا تھا اسکی نظر سامنے موجود شاپر پہ پڑی تو اس نے پوچھا ۔۔۔

"وہ اس میں گجرے ہیں ..."

یارم بلوچ نے گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا۔

"اوہ تو بھابھی سا کے لیے لائے ہیں ",

وہ شرارت سے اسے چھیڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔!!!وہ تو جاگنگ کرکہ واپس آرہا تھا تو ایک عورت نے مجبور کر دیا لینے کے لیے "اس نے صفائی پیش کی ۔۔۔

"ڈئیریسٹ مغربی بھائی !!!

ھاد چاہت سے مخاطب ہوا ۔۔۔

جو یارم کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھی۔۔۔

وہ چونک کر ھاد کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔

"آپ ذرا خود پہ توجہ دیں ۔۔۔کوئی سجا سنورا کریں ۔۔۔۔تاکہ آپکے سردار کی توجہ آپ کی طرف ہو ۔۔۔۔نجانے کیسے ہزبینڈ ہیں آپکے ۔۔۔نا آپ کو کہیں گھمانے لے کر گئے اور نا کوئی گفٹ شفٹ دیا ۔۔۔۔

"بھئی شازیہ جاؤ وہ گجرے والا شاپر اٹھا کر اپنے بڑے سردار کا دو آج وہ ہمارے سامنے اپنی وائف کو گجرے پہنائیں گے ۔"

زرش بلوچ نے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اپنے بیٹوں کو آج کتنے دنوں بعد ہنستے دیکھا تو دل میں ان کے لیے دائمی خوشیوں کی دعا مانگنے لگیں ۔۔۔کاش آج آپ بھی ہمارے ساتھ ہوتے "دل میں اک ہوک سی اٹھی فلک بلوچ کو یاد کر کہ آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا ۔۔۔وہ اپنے بچوں کی خوشیوں کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔خوشی کے جتنے بھی لمحات ملتے انہیں کشید کرلینا چاہتی تھیں ۔

"کیسے ہیں بھابھی سا ؟

ھاد نے چاہت سے پوچھا ۔۔۔

اس نے یارم کے چہرے کی طرف دیکھا جو بنا اسکی طرف دیکھے گجرے نکال رہا تھا ۔۔۔۔

"Really very beautiful...

اس نے تازہ موتیے اور گلاب سے بنے گجروں کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

"بھائی سا اب دیکھتے ہی رہے گے کیا پہنا بھی دیں "اس نے شرارتی انداز میں کہا۔۔۔

"پہنا بھی دیں بھائی سا آپکے پاس ان کا ہاتھ پکڑنے کے سارے حقوق محفوظ ہیں۔اگر شرم آرہی ہے تو ہم منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں ۔۔۔۔

ھادیہ اسکا اپنی فیملی کے لیے وہی ازلی نرم رویہ دیکھ کر خوش ہوئی ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے سامنے بیٹھی ہوئی چاہت کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔

سب کے سامنے اسکے ہاتھ تھامنے سے چاہت کا دل عجب تال پہ دھڑکنے لگا۔۔۔۔نجانے کیوں چہرے پہ بدن کا سارا خون سمٹ آیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ پر سکون انداز میں اسکے ہاتھوں میں گجرے پہنا رہا تھا ۔اسکے پرتپش ہاتھوں کا لمس چاہت کے جسم میں سنسنی دوڑا گیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے گجرے پہنا کر اسکے مرمریں ہاتھوں کا بغور جائزہ لیا ۔۔۔۔

"بیوٹیفل نا بھائی سا ؟؟؟

اس نے ابرو اچکا کر شرارتی انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

آپ نے بھابھی سا کی دلی خواہش کو پورا کردیا '

"ھاد صاحب آپ میری مسسز کے دل کی بات جاننے کی بجائے اپنی نئی نویلی مسسز کی طرف توجہ دیں ۔۔۔ان سے پوچھیں انکا دل اس وقت کیا چاہ رہا ہے ۔۔۔

یارم نے ھادیہ کو مسلسل ھاد کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو اس نے ھاد کی توجہ ھادیہ پہ دلائی ۔۔۔۔

ھادیہ نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔۔

"ھادیہ تمہاری کلائیاں سونی کیوں ہیں "؟

"ھاد نے تمہیں کنگن نہیں دئیے ۔۔۔۔؟

ھادیہ نے جواب دینے سے پہلے ھاد کی طرف دیکھا ۔۔۔

"وہ ۔۔۔ماں سا ۔۔۔!!!

ھادیہ مزید بول نا سکی ۔۔۔۔

"ھاد پہلے بہت محبت کے دعوے دار بنے پھرتے تھے اب محبت ایک ہی رات میں ختم ہوگئی "

یارم بلوچ نے ھاد کی طرف دیکھ کر چبھتے ہوئے لہجے میں سوال کیا ۔۔۔

"نہیں بھائی ایسی بات نہیں ۔۔۔۔ہم دنیا دکھاوے کی محبت نہیں کرتے ۔۔۔ھادیہ نے رات میں اتار کر ڈریسر پہ رکھے تھے ۔۔۔شاید اسے پہننا یاد نہیں رہا ہو ۔۔۔۔"ھاد نے فورا بات بنائی ۔۔۔

"جاؤ ھاد کے کر آؤ ۔۔۔تم بھی ہماری بہو کو ہمارے سامنے کنگن پہناؤ ۔۔۔۔

"لیکن ماں ۔۔۔!!!اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ۔۔۔

"جاؤ ۔۔۔!! انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا ۔۔۔

ھاد بلوچ بادل ناخواستہ اٹھا اور جاکر کمرے سے وہ مخملیں کیس کے آیا جس میں کنگن تھے ۔۔۔۔

وہیں کھڑے کھڑے ھادیہ کا ہاتھ پکڑ کر اس میں کنگن پہنائے۔۔۔۔۔

ھادیہ مسکرائی تو ھاد نے سلگتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پھر زرش بلوچ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"ماں سا مجھے آپ سے اور بھائی سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔۔

وہ سپاٹ انداز میں بولا تو یارم بلوچ اور زرش بلوچ نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"اب بھائی یہاں ہیں۔وہ سب سنبھال رہے ہیں ۔تو میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے شہر جانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔بلکہ آج جا رہا ہوں آپ کو بتانا تھا ۔۔۔۔"

ھادیہ نے اسکے اچانک فیصلے پہ فق نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔اسکا رنگ یکلخت پھیکا پڑا ۔۔۔۔

"یہ کون سی عمر ہے پڑھائی مکمل کرنے کی ۔۔۔۔یہاں رہ بچے پیدا کر اب انہیں پڑھا ۔۔۔۔

زرش بلوچ کرخت آواز میں بولی۔۔۔۔

"خبردار جو گھر سے ایک قدم بھی باہر نکالا ۔۔۔۔

ھادیہ کے دل کو تھوڑا سکون ملا ۔۔۔۔مگر بچوں والی بات سن کر اسکے گال گلابی ہوگئے ۔۔۔

"ماں سا ۔۔۔!!!

تعلیم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ۔۔۔۔میں فیصلہ کر چکا ہوں "

وہ اٹل انداز میں کہتے ہوئے واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

"جاؤ بچے جا کر اسے روک لو "

زرش بلوچ نےھادیہ کی ڈبڈبائی ہوئی نظروں میں دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں آگیا ۔۔۔اور بے چینی سے ادھر سے ادھر چکر کاٹنے لگا ۔۔۔۔

"میں شاید ڈیپریشن میں کل اس کے ساتھ زیادہ ہی برا سلوک کیا ۔۔۔مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔

"جب تک میں اپنے آپ کو اس صدمے سے نکال نہیں لیتا ۔۔۔مجھے نہیں لگتا میں نارمل ہوپاوں گا ۔۔۔۔اپنی زہنی کلفت یونہی اس پہ نکالتا رہوں گا ۔۔۔۔انسان اپنی بھڑاس اسی پہ نکالتا ہے جسے وہ اپنا سمجھتا ہے ۔۔۔۔مجھے لگتا ہے جب تک میں یہاں رہوں گا ہمارے بیچ ۔۔۔۔۔وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ھادیہ دروازہ کھول کر اسکی طرف آئی ۔۔۔

"میں تمہیں یہاں سے بزدلوں کی طرح منہ چھپا کر کہیں جانے نہیں دوں گی ۔۔۔۔

وہ اسکے قریب آتے ہی درشت آواز میں بولی

"تم میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے روک پاؤ ۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولا۔

"آپ شاید میرے ارادوں کی پختگی کو جانتے نہیں "

وہ جگر جگر کرتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکی بئیرڈ پہ ہاتھ رکھ کر بولی ۔

"جیسا تم چاہتی ہو ایسا قیامت تک نہیں ہوگا،،سوچنا بھی مت  "

وہ سپاٹ انداز میں اس کا ہاتھ پیچھے جھٹک کر بولا۔

"جناب ۔۔۔!!!ہم باتیں کرنے والوں میں سے نہیں عمل کرکہ دکھانے والوں میں سے ہیں ،

وہ غصہ بھلائے اس بار مسکراتے ہوئے چہک کر بولی ۔۔۔۔

"اتنا غرور اچھا نہیں ،،،لے ڈوبتا ہے "وہ تنفر زدہ آواز میں بولا۔۔۔۔

"غرور نہیں بلوچ سائیں ۔۔۔۔!!!

"خود پہ اور خود کی محبت پہ اعتماد ہے "اس نے برجستگی سے کہا ۔۔۔

"زیادہ اوور سمارٹ بننے کی کوشش مت کرو ،منہ کے بل گرو گی "

وہ طنزیہ انداز میں ہنکارا بھر کر گویا ہوا۔۔۔۔

"میں گر جاؤں ایسا تم ہونے نہیں دو گے ۔۔۔۔مجھے پتہ ہے گرنے سے پہلے تم سنبھال لو گے ۔۔۔۔"

وہ اسکے طنز کو جام شیریں  سمجھ کرپی گئی ۔۔۔۔

"بھول ہے تمہاری "

وہ ابرو اچکا کر استہزایہ انداز سے بولا۔۔۔۔

"کیا سچ کہا ہے خلیل جبران نے واہ!

"اگر تم کسی سے محبت کرتے ہو تو اُسے آزاد چھوڑ دو۔ اگر وہ واپس نہ آئے تو سمجھ لو کہ وہ کبھی تمہارا ہوا ہی نہ تھا اور اگر واپس آجائے تو پھر اُس کی پرستش کرو۔

ھاد بلوچ کے چہرے کا رنگ یکلخت بدلا ۔۔۔آنکھیں لہو رنگ ہوگئیں ۔۔۔۔۔

"اور مجھے پوری امید ہے تم کہیں بھی چلے جاو لوٹ کر میرے پاس ہی آؤ گے ۔۔۔۔!!!

"تم جا تو رہے ہو مجھے چھوڑ کر مگر اتنا یاد رکھنا ۔۔۔۔

کوئی شدت سے تمہارا انتظار کر رہا ۔۔۔۔۔میں تاعمر تمہاری واپسی کی منتظر رہوں گی ۔۔۔۔

 "ھاد بلوچ ۔۔۔۔!!! 

"واپسی میں اتنی بھی دیر مت کرنا کہ آخر میں معافی کا موقع کھو دو ۔۔۔۔۔

پھر گڑگڑاو گے بھی تو معافی نہیں ملے گی تمہارے اس زہریلے روئیے کی ۔۔۔۔"

یکدم ھادیہ کا لب و لہجہ بھی تلخ ہوگیا ۔۔۔۔

"مت بھولو کہ اس وقت کس سے مخاطب ہو ۔۔۔۔!!!

"میری نظروں میں اپنا اصل مقام جانتی نہیں شاید !!!

وہ دو قدم چل کر مزید اسکے قریب آیا۔۔۔۔

"جانتی ہوں ھاد بلوچ کی منظور نظر ہوں "

وہ پختہ لہجے میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے بولی ۔۔۔۔

محبت مانگنی پڑے اس دکھ کو سمجھتے ہو ؟

یہ مانگ کر نا ملے اس دکھ کو سمجھتے ہو ؟

صبح معمول کے مطابق جلد ہی اس کی آنکھ کھل گٸی تھی۔۔۔!وہ بستر سے نکل کر کھڑکی کے پاس آگیا اور کھڑکی سے پردے ہٹا کر اس کو کھول دیا، اک دم سے سرد ہوا کا جھونکا اس سے ٹکرایا تو اک خنکی بھری لہر اس کے اندر دوڑ گٸی۔اس نے باہر کا جاٸیزہ لیا ، باہر ہر چیز غیر واضح تھی ۔۔۔ابھی تک باہر ہر طرف گہری خاموشی کا دور دورہ تھا بلکل ایسے ہی جیسے اسکے اندر گہری خاموشی ، اور اک جمود چھایا ہوا تھا جس کو وہ چاہ کر بھی توڑ نہیں سکا تھا، کچھ دیر وہ ایسے ہی باہر نظریں جماۓ کھڑا سوچتا رہا کہ سسی کی جب جاگ کھلے گی تو اس کا کہا ری ایکشن ہوگا ۔۔۔ڈاکٹر زارا نے اسے رات نیند کا انجیکشن لگادیا تھا ۔۔۔آتش نے زبیدہ کو علاج کے لیے اسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروادیا تھا اور اسے  بتایا کہ وہ سسی کو اپنے ساتھ اپنے فلیٹ میں لے جا رہا ہے ۔۔۔۔جہاں وہ اپنی پڑھائی کے دوران رہتا تھا ۔۔۔۔۔ وہ گھر کال کر کہ بتا چکا تھا کہ کسی دوست کی مدد کے لیے وہ شہر میں رکا ہوا ہے ،اسی لیے وہاں سب مطمئن تھے ۔۔۔۔

وہ پردے برابر کر کے پلٹ آیا۔

دور کہیں آذانوں کی آواز آرہی تھی اس نے بھی شاور لیا اور وضو کر کے نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا، نماز پڑھ کر وہ بستر کے قریب آیا جہاں سسی ابھی بھی گہری نیند میں تھی ۔

آتش نے اسکے دھان پان سے وجود کا سر تا پا جائزہ لیا۔۔۔

صاف میدے جیسی رنگت،بھرے بھرے گلابی لب ،ستواں ناک میں باریک سی تار ،بڑی بڑی آنکھیں جو اس وقت بند تھیں ۔اسکے بھورے لمبے بال تکیے پہ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے ،اس کی گردن کے علاؤہ کچھ اور جگہ پہ بھی ابھی تک دانت سے دئیے گئے نشانات موجود تھے ،جس میں خون جم چکا تھا ۔۔۔۔اس کی حالت دیکھ کر آتش بلوچ نے اپنی مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا۔۔۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔اس کا دل تو کر رہا تھا ۔۔۔۔اس درندے کو کہیں سے بھی ڈھونڈھ کر اسے عبرتناک انجام تک پہنچا دے ۔۔۔۔

وہ دھیرے سے چلتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔۔۔۔۔

اور اسکی گردن پہ موجود نشان کو چھوا تو سسی نے کسی کا لمس محسوس کیے جھٹ آنکھیں کھول دیں ۔۔۔۔اب تو وہ خواب میں بھی ڈرنے لگی تھی کسی کے چھونے سے ۔۔۔۔۔

سامنے آتش بلوچ کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکنوں میں تیزی آئی ۔۔۔۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گال پہ رکھا ۔۔۔۔

مگر یہ کیا ۔۔۔۔؟؟؟.

"وہ خواب نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ وہ شہزادہ تو حقیقت میں اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔

اس نے سرعت سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ۔۔۔۔

ایسے جیسے اسے کرنٹ لگا ہو ۔۔۔۔

"آ....آ....آپ ۔۔۔۔"وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں حیرانگی سے بولی ۔۔۔۔۔

"ا۔۔و۔۔ر ۔۔میں۔۔ یہ۔۔ کہاں۔۔ ہوں؟"

اس نے اردگرد دیکھا وہ پر آسائش اور انجان جگہ تھی ۔۔۔۔

 "تم میرے فلیٹ میں ہو ۔۔۔۔"

وہ سادہ سے انداز میں بولا۔۔۔

"مگر ۔۔۔آ۔۔پ مجھے یہاں کیوں لائے ؟

اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے ٹانگیں سمیٹ لیں ۔۔۔۔گھٹنے گردن سے لگائے ۔۔۔۔

کیونکہ اس کے سامنے بنا دوپٹے کے اسے عجیب گھبراہٹ محسوس ہوئی ۔۔۔۔اس نے اردگرد اپنا دوپٹہ ڈھونڈھنے کے لیے نظریں دوڑائیں۔۔۔۔مگر اسے کچھ نظر نہیں آیا ۔۔۔۔

"بیوی نکاح کے بعد اپنے شوہر کے گھر ہی آتی ہے "

وہ سنجیدہ انداز میں بولا۔

"کیا ؟؟؟"

وہ تو اس کے سر پہ دھماکا کر چکا تھا ۔۔۔ 

سسی کا دماغ تو زلزلوں کی زد میں تھا۔۔۔۔۔ذہن میں جیسے جھکڑ چلنے لگے ۔۔۔۔اس نے دھندھلائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔

اسے اس نکاح کی سچائی کو تسلیم کرنا مشکل لگا ۔۔۔

سسی بستر سے نیچے اتر آئی ۔۔۔

اس وقت وہ ہاسپٹل کے ہی گھٹنوں تک آتے گاؤن میں تھی اس کے پنڈلیوں پہ بھی خراشیں نمایاں تھیں ۔۔۔آتش نظریں چرا گیا ۔۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ نے غلط کیا ہے ۔۔۔۔"وہ زار زار روتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں ،جب انسان کسی چیز کے لیے دل سے دعا کرتا ہے شدت سے اصرار کرتا ہے کہ وہ بات پوری ہوجائے،اس کے لیے منتیں مرادیں مانی جاتی ہیں ،مگر تقدیر اپنا وار کرجاتی ہے ،اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جاتا ہے ،

اور بعض اوقات کچھ ایسا وقوع پذیر ہو جاتا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔

اس کے چہرے پہ ملال کی کیفیت طاری تھی ،

"میں نے کچھ غلط نہیں کیا ،سب جائز طریقے سے اور تمہاری والدہ کی رضامندی سے ہوا ہے ۔

وہ اسکی سسکیوں کے جواب میں جھنجھلا کر گویا ہوا ۔۔۔

مگر سسی کی آنکھوں سے نا تو بہتے ہوئے آنسو تھمے اور نا ہی اسکی ہچکیوں میں کمی آئی ۔۔۔۔

"بس ۔۔۔۔!!!خاموش ۔۔۔۔!!!!

"ایک نکاح ہی تو کیا ۔۔۔ایسا کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے جو رو رو کر ندیاں بہا دیں ہیں ۔۔۔۔"؟

"اور اسے میری ہمدردی سمجھنے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔۔!!!!!

"ہر انسان کو اسکا من پسند ہمسفر چننے کا پورا حق ہوتا ہے اور ہم نے ایک دوسرے کو چن کر کچھ غلط نہیں کیا ۔۔۔

"میں آپ سے نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔آپ نے غلط کیا ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔

وہ اسکی سمت دیکھتے ہوئے چلا کر بولی ۔۔۔۔

"شاید آپ جانتے نہیں ۔۔۔۔۔میرے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔۔؟؟؟

"میں آپ کے قابل تو پہلے بھی نہیں تھی ۔۔۔اب تو نظریں ملانے کے قابل بھی نا رہی تھی ۔۔۔۔تو کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا ۔۔۔۔

آنسوؤں کا گولا حلق میں آپھنسا۔۔۔۔وہ بمشکل رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔

"میں کسی کی بھی نگاہوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی ۔۔۔

کس کس کے طعنوں سہوں گی ۔۔۔۔کس کس کو اپنا یقین دلاؤں گی ۔۔۔۔

اور کون میرے بے گناہ ہونے کا یقین کرے گا ۔۔۔۔

"میں زمین کے خاک اور آپ آسمان پہ چکمتے ستارے ہیں ،

میری عزت کو روند کر میرے وجود کو پامال کردیا گیا ہے ۔۔۔۔میرا غرور میرا مان سب کچل دیا گیا ہے ۔۔۔۔

وہ شکستہ لہجے میں بولی۔اور فرش پہ بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔

آتش بلوچ کتنے کی لمحے اسے روتے ہوئے دیکھتا رہا پھر آہستگی سے چلتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔۔۔۔

وہ اسکے جھکے ہوئے سر اور سسکیوں کے باعث لرزتے ہوئے وجود کو دیکھتا اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔۔

وہ سوں سوں کرتی ناک سے آنسو بہائے چلی جا رہی تھی ۔۔۔

آتش بلوچ نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ پہ رکھا۔۔۔

سسی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور کھڑی ہوکر دیوار کے ساتھ جا لگی ۔۔۔۔

وہ چلتے ہوئے عین اس کے سامنے آ رکا ۔۔۔۔

کچھ دیر اسکے آنسوؤں سے تر چہرے کو یونہی دیکھتا رہا ۔۔۔

پھر اپنے دونوں کو اسکے دائیں بائیں دیوار پہ یوں ٹکا دئیے کہ سسی کے فرار کے راستے مسدود ہوگئے ۔۔۔۔

کوئی اور موقع ہوتا تو شاید آج آتش بلوچ کے اس عمل پہ سسی کے بدن کا سارا خون سمٹ کرچہرے پہ آن رکتا ۔۔۔۔

دل شاید شدتوں سے دھڑکتا ۔۔۔وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتی ۔۔۔۔

وہ تھوڑا سا اس کے چہرے پہ جھکا ۔۔۔۔قربت مزید بڑھ گئی ۔۔۔

لیکن آج اس لمحے اس کی کیفیت یکسر مختلف تھی ،،،

نا تو دل زوروں سے دھڑکا ،،،

نا ہی آج اس کی قربت نے سسی کے حواس سلب کیے ۔۔۔۔

اس گرم بھاپ اڑاتی ہوئی سانسیں بھی اسے پگھلا نا سکیں ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے اپنا مضبوط ہاتھ اسکے شانے پہ دھرا ۔۔۔۔

وہ چونکی،،،،

پھر اک دم اس پہ جھپٹ پڑی ۔۔۔۔

اپنے نازک سے ہاتھوں کے مکے بنا کر وہ اس کے چوڑے سینے پر مارتی چلی گئی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے کوئی مزاحمت نہیں کی ۔۔۔۔وہ اس کے سامنے یونہی مضبوطی سے کھڑا رہا ۔۔۔۔وہ آخر کار نقاہت کے باعث تھک کر خودی رک گئی ۔۔۔۔

اس کے سینے پہ سر رکھے پھر سے نئے سرے سے رونے لگی ۔۔۔

آتش نے اسکے گرد اپنی بانہوں کا حصار باندھ دیا ۔۔۔۔

دونوں طرف عالم مدھوشی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔

"کیوں کیا آپ نے ایسا "یکدم وہ آتش بلوچ سے جدا ہوئی ۔۔وہ عالم ہوش میں واپس آکر درشت لہجے میں بولی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے ہاتھ بڑھا کر اسکے گالوں سے آنسو پونچھنے چاہے تو سسی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔۔

"تھوڑا تھوڑا پیار ہوگیا تھا تم سے اسی لیے ۔۔۔۔۔"

وہ مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

سسی کا دماغ تو تھوڑا تھوڑا سا پہ اٹک گیا تھا ۔۔۔۔

اس نے دھندھلائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

"ابھی تھوڑا تھوڑا سا ہوا ہے ۔۔۔تمہارے ساتھ رہتے ہوئے زیادہ بھی ہو جائے گا ۔۔۔۔

"مجھے لگتا ہے جو پیار جتنا جلدی ہو ،اس کا بھوت سر سے اتنا ہی جلدی اتر جاتا ہے ،لیکن جو پیار ،،،،ہر روز اپنی محرم کی ہر نئی ادا کو دیکھ کر ہو وہ تاعمر قائم رہتا ہے ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے ہاتھ بڑھا کر اسکی بازو سے پکڑ کر اسے نرمی سے اپنی طرف کھینچا وہ اس افتاد پہ سنبھل نا پائی اور کٹی ہوئی ڈال کے مانند اسکے کشادہ سینے سے آن لگی ۔۔۔۔

آتش بلوچ کی گرم سانسیں اسکے چہرے کو جھلسانے لگیں۔۔۔ 

"سسی ۔۔!!!

"تمہاری جھلک کی نرم کرنیں میرے سلگتے دل کو تمہاری محبت کے احساس سے سرد کر رہی ہیں ۔۔۔"

"میں اپنی تمام  زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ،

میں تمہارا سچ ہوں جو تاعمر قائم رہے گا ۔۔۔۔

جو بیت گیا اسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھول جاؤ ۔۔۔۔

"جس نے تمہارے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیا ہے ،اس کی سانسیں چھین لوں گا "یہ بات اس نے آخری بات خود سے دل میں کہی ۔

محبت پھول ہوتی ہے،

کہو تو پھول بن جاؤں ،

تمہاری زندگی کا اک حسین ، اصول بن جاؤں ،

سنا ہے ریت پہ چل کر تم ،

اکثر مہک جاتے ہو،

کہو تو اب کی بار میں ،

زمیں کی دھول بن جاؤں ،

بہت نایاب ہوتے ہیں ،

جنہیں تم اپنا کہتے ہو ،

اجازت دو کہ میں بھی ،

اس قدر انمول بن جاؤں ،

اس کی مدھم سرگوشیاں سسی کو اپنے کانوں میں سنائی دیں تو وہ ایک بار پھر اپنے ہوش گنوا کر اسکی بانہوں میں جھول گئی ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے اسے بازووں میں اٹھا کر بستر پہ ڈال دیا  ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آج ھاد بلوچ کو شہر گئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا ،

ھادیہ ساری حویلی میں بولائی بولائی گھوم رہی تھی ،

کبھی کچھ وقت زرش بلوچ کے ساتھ گزارتی تو کبھی کچھ وقت چاہت کے ساتھ ،وقت سست روی سے گزر رہا تھا ۔۔۔۔

"اداس کیوں ہیں جیٹھانی صاحبہ  ؟"

ھادیہ نے چاہت کا اکیلے لاونج کے صوفے پہ بیٹھا دیکھا تو اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی اور کشن اٹھا کر گود میں رکھتے ہوئے تفکر بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"آپ مجھ سے بڑی ہیں مجھے ایسے نا بلایا کریں ۔۔۔۔

اور یہ لفظ جیٹھانی مجھے بالکل بھی پسند نہیں۔ ۔۔۔اس نے منہ بسور کر کہا۔۔۔۔

"عمر میں بڑی ہوں میں مگر رتبے میں تو آپ بڑی ہیں نا ۔۔۔

ھادیہ نے جواز پیش کیا۔۔۔

"نہیں ۔۔۔نا ۔۔۔جو بھی ہے ۔۔۔۔آپ مجھے چاہت کہہ کر ہی بلایا کریں یا تم ۔۔۔۔

"اور آپ کو میں نے بتایا تو تھا "

وہ نچلا لب دانتوں تلے کچلتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"کیا؟؟؟ میں تو بھول گئی ۔۔۔

ھادیہ نے نظریں اس کے چہرے پر جمائے پوچھا ۔۔۔۔

"وہ مجھ سے بات نہیں کر رہے نا ٹھیک سے ۔۔۔۔صبح میرے اٹھنے سے پہلے چلے جاتے ہیں اور رات کو بھی دیر سے آتے ہیں ۔۔۔ان کا انتظار کر کہ میں سوجاتی ہوں ۔۔۔۔

"تو اس میں پریشانی والی کیا بات ہے ۔تم ایک رات اپنی نیند کی قربانی دو اور ان کی واپسی کا انتظار کرو ۔۔۔ جب بھی ہاتھ آئیں پوچھ لینا ان کی ناراضگی کا سبب"

ھادیہ نے چٹکیوں میں مشورہ دیا۔۔۔۔

"اور اگر وہ پھر بھی کچھ نہیں بولے تو "؟

"تو پھر دوسرا حربہ آزما لینا ۔۔۔ھادیہ نے مسکراتے ہوئے کہا

"وہ کون سا ؟"

"یہ تم جو اتنا روکھا پھیکا سا چہرہ لیے گھومتی ہو ،اس پہ توجہ دو زرا سا میک اپ کرو اتنے پیارے بال ہیں انہیں کھلا چھوڑو ۔۔۔۔پتہ ہے میری دوست نے بتایا تھا کہ شوہر حضرت کو کھلے بال بہت اٹریکٹ کرتے ہیں ،اور کچھ ڈفرنٹ ڈریسنگ کرو ۔۔۔۔جس سے وہ چونک جائیں ۔۔۔اور تمہیں دیکھنے پہ مجبور ہو جائیں ۔۔۔۔چاہ کر بھی اپنی چاہ سے نظریں نا چرا سکیں "

ھادیہ شرارت سے مسکراتی ہوئی اسے چھڑنے لگی ۔۔۔۔

مگر اتنا سب کچھ کرنے کا سن کر ہی اس کے اوسان خطا ہوگئے ۔۔۔۔

"اچھا میں کوشش کروں گی ۔۔۔۔

"مگر پہنوں کیا ۔۔۔۔"؟

"میرے پاس تو بس جینز اور سکرٹس ہی ہیں ۔

اس نے ایک اور پریشانی بتائی ۔۔۔۔

"ویسے جیٹھ صاحب کی کیا کوالیفکیشن ہے ؟

"وہ نا ایم _بی_بی_ایس ہیں اور امریکہ سے سپیشلائزیشن کیا ہے ۔۔۔۔ایک بار انہوں نے بتایا تھا مجھے ۔۔۔۔

"واؤ ۔۔۔۔ڈیٹس گریٹ ۔۔۔۔

وہ توصیفی انداز میں بولی ۔

"اممممم۔۔۔۔۔۔وہ گال پہ انگلی رکھ کر سوچنے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"اگر تم انہیں اپنے ان مغربی کپڑوں سے اٹریکٹ نہیں کرسکی تو کچھ گاؤں والا ٹرائی کرو ۔۔۔۔مینز لہنگا چولی جیسے یہاں کی سب عورتیں پہنتی ہیں ۔

"وہ کہاں سے لوں "؟

"ماں سے کہو نا وہ تمہیں منگوا دیں گی ۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔تھینک یو ۔۔۔۔اس نے مشکور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

"نو نیڈ ٹو سے تھینکس "

وہ چاہت کے گلابی پھولے ہوئے گال پہ پیار سے چٹکی بھر کر بولی ۔۔۔۔

"آہ ۔۔۔!!!

چاہت نے چیخ ماری اسکے چٹکی کاٹنے پہ ۔۔۔۔

پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگیں ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ دائیں سے بائیں سر کو زور زور سے ہلاتی پسینہ میں شرابور ہو رہی تھی۔۔ جسم ٹھنڈا پڑھ رہا تھا۔۔۔

وہ سفاک بھیڑیا اسکے وجود کو نوچ نوچ کر روند رہا تھا ۔۔۔

اسکے منہ پر ہاتھ رکھے اسکی چیخوں کا گلہ گھونٹ رہا تھا۔۔۔وہ اپنی مدد کے لیےچلا بھی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔

وہ دونوں ہاتھ پیر چلاتی خود کو اس درندے کی قید سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

آتش بلوچ جو عشاء کی نماز ادا کیے آئنٹمینٹ لیے اس کے زخموں پہ لگانے آیا تھا ۔۔۔ اس کے چھونے سے ہی وہ گہری نیند میں  بھی ہوش کھو رہی تھی ۔۔۔اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔

"سسی ۔۔۔۔!!!!!.....!!! 

نرمی سے اسکا نام پکارتے وہ اسکے قریب آیا تھا۔۔  

۔

"ننن نہیں۔۔ مجھے ۔۔۔ن۔۔ننن۔۔۔نہیں"!!!!

اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔۔ وہ بری طرح لرزتی سسک رہی تھی۔۔ 

"سسی ۔۔ کیا ہوا۔۔ آنکھیں کھولو۔۔ مجھے بتاو کیا ہوا"_

وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔۔ وہ اسکی پکڑ میں نہیں آ رہی تھی۔۔ وہ شاید بھاگنا چاہ رہی تھی لیکن رات کے لیے لی گئی پر سکون میڈیسن کا اثر تھا کہ بھاگنا تو دور کی بات وہ تو آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہی تھی۔۔

۔

"ننن نہیں۔۔ میرے پاس نہیں۔۔ مجھے نہیں۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے۔۔

وہ بری طرح چیخ رہی تھی۔۔ آتش کے لئے یہ صورت حال سنبھالنا مشکل نا تھا ۔۔۔کیونکہ پچھلے ایک ہفتے سے وہ روزانہ رات کو نیند میں یونہی ڈر جاتی تھی ،اور آپے سے باہر ہوجاتی تھی ۔۔۔

"ممم مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔۔ م۔۔۔ماں ۔۔۔ا۔۔۔اماں ۔۔۔۔ "_

وہ تکلیف سے بلبلاتی اپنی ماں  کو پکار رہی تھی۔۔ 

"سسی کہاں درد ہو رہا ہے۔۔ 

" بتاو مجھے "_

اس نے سسی کے ہاتھ کو تھام کر نرمی سے پوچھا ۔۔۔

"اماں ۔۔ ماں سا  ۔۔ مجھے بچا لو۔۔ مما۔۔۔ماں  ممم مجھے درد۔۔۔!!!!!

وہ خواب میں بھی دھاڑیں مار کر رو رہی تھی ۔۔۔۔ 

"سسی ۔۔ آنکھیں کھولو ۔۔۔ 

"۔۔ آنکھیں کھولو دیکھو ۔۔مجھے ۔۔۔۔  یہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے۔۔۔میں آپ کا محافظ آپ کا شوہر ہوں ۔۔۔"

"ننن نہیں۔۔ قق قریب نہیں آؤ۔۔خدا کا واسطہ ہے قریب نہیں آؤ۔۔۔۔مجھے جانے دو ۔۔۔چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔!!!"

وہ آنکھیں میچے تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔ نازک سراپا ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔

اسکا جسم زخموں سے چور تھا۔۔

آتش بلوچ نے فی الوقت اسے ہوش دلانے کا سسب کیا ۔۔۔اس نے سائیڈ ٹیبل پہ موجود جگ اٹھا کر اس میں سے پانی مٹھی میں بھرا اور چھینٹے اس کے چہرے پہ مارے ۔۔۔۔

سسی نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں اور حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ 

"میں ہوں پہچانو مجھے ۔۔۔!!!!

 اس چہرے کو وہ کیسے بھول سکتی تھی یہی تو تھا اس کے خوابوں کا شہزادہ۔۔۔۔

"چ۔۔۔چھوٹے سرکار ۔۔۔!!!!!

اسکے لبوں سے اپنا نام مخصوص نام سن کر آتش بلوچ کو کچھ حوصلہ ہوا۔۔

"دیکھو کیا میں تمہارے ساتھ کبھی کچھ برا کر سکتا ہوں "؟

آتش بلوچ نے وہیں کھڑے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔

ہاں ...!

وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا اس شہزادے نے تو کبھی سسی کو میلی آنکھ سے تو کیا نظر بھر کر بھی دیکھا تک نا تھا ۔۔۔۔

"م۔۔۔۔میرا دل بند ہو رہا ہے ۔۔۔۔"

وہ اسے دیکھتی اپنی کیفیت  بتانے لگی۔۔ آتش بلوچ نے دیکھا اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔۔۔

"ڈرو نہیں میں تمہارے پاس ہوں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا "

وہ نرمی سے بولا تھا۔۔۔۔

"میں تو صرف تمہارے زخموں پہ مرہم لگانا چاہتا تھا ۔۔۔۔"

اسکی آنکھوں میں خوف کچھ کم ہوتے دیکھ وہ احتیاط سے اس سے کچھ دوری پر بیڈ پر بیٹھا تھا۔۔

وہ ُاٹھ کر بیٹھی درزیدہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ آتش بلوچ نے فاصلہ سمیٹنا چاہا ۔۔۔۔۔۔ وہ پیچھے کھسکتی ہوئی بیڈ کراؤن سے جا لگی ۔۔۔۔۔

اور کمفرٹر کو کھینچ کر خود کو ڈھانپ لیا ۔۔۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔مجھے ۔۔۔نہیں ۔۔۔لگوانی ۔۔۔۔۔!!!!

وہ سہمی ہوئی ہرنی کے مانند لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔

"سسی میں تمہارا محرم ہوں ،اور تم پہ حق رکھتا ہوں ،تمہاری اجازت کے بغیر تمہیں ہاتھ لگانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔

"کچھ غلط نہیں کر رہا میں مجھے اجازت دو صرف مرہم لگانے کی ۔"

وہ نہایت رسان سے اسے سمجھا رہا تھا ۔۔۔۔

سسی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔جیسے جیسے مرہم لیے وہ قریب ہو رہا تھا  اتنی ہی اسکی گرفت اپنے اوپر لیے ہوئے کمفرٹر پر سخت ہو رہی تھی۔۔ 

 "دو اجازت ۔۔۔۔!!!!!

آتش بلوچ نے اپنا ہاتھ اس کے آگے کیا۔۔۔۔

اسکی بات پر وہ کچھ لمحے سانسیں روکے  اسے دیکھتی رہی تھی۔۔ پھر دھیرے سے اپنا ہاتھ  اسکے ہاتھ پہ رکھ دیا ۔۔۔۔ آتش بلوچ اس کے یخ بستہ ہاتھ کی لرزش واضح محسوس کر سکتا تھا۔۔ اسکے لبوں کو مبہم سی مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔

اس نے آگے بڑھ کر اسکے بال شانوں سے ہٹا کر انہیں کیچر میں مقید کیا ۔۔۔۔

کل ہی تو وہ سسی کے لیے باہر سے کچھ ضرورت کا سامان لے کر آیا تھا جس میں اس کے لیے کپڑے جوتے اور مزید کچھ سامان تھا۔۔۔۔

اس نے گردن کے زخموں پہ مرہم لگائی ۔۔۔۔۔تو

سسی نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں ۔۔۔۔۔

"مجھ پہ یقین ہے نا "؟

آتش بلوچ نے سرگوشی نما آواز میں کہا تو سسی نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

اس کی بلوریں نیناں چھم چھم برسنے لگے ۔۔۔۔۔

جواب میں خواب کی سی کیفیت میں وہ مسکرائی ۔۔۔۔

مگر اس کی مسکراہٹ میں بھی درد ہلکورے لے رہا تھا۔۔۔

مسکراہٹ ادھار دینا ذرا ،

کچھ ستارے خریدنے ہیں مجھے ،،

ایک آنسو کا مول کیا لو گے ؟،،

آج سارے خریدنے ہیں مجھے ،،

بول تتلی کے دام کتنے ہیں ؟،،

رنگ پیارے خریدنے ہیں مجھے ،،

میں خوشی میں جو بیچ آیا تھا ،،،

غم وہ سارے خریدنے ہیں مجھے،،،

زندگی کے جوار بھاٹے سے ،،،

کچھ شرارے خریدنے ہیں مجھے ،،،

میں سمندر خرید بیٹھا ہوں ،،،

اب کنارے خریدنے ہیں مجھے ،،

اس نے دھیمے سے آنچ دیتے لہجے میں کہا۔۔۔۔

"کمفرٹر ہٹاؤ "_

نرمی سے کہتا وہ اسکے قریب ہوا تھا۔۔ 

"چھوٹے سرکار۔۔۔۔!!!! یہ نا کریں آپ کو خدا کا واسطہ"_

اسکے ہاتھ کمفرٹر پر دیکھ کر وہ نئے سرے سے سسک اٹھی ۔۔۔ 

"تمہیں اپنی محرم بنانے کا مقصد یہی تھا کے تمہارے ہر زخم پر مرہم میں خود لگانا چاہتا تھا ،تمہارے پاس مجھے روکنے کا کوئی جواز نہیں"

جیسے ہی آتش نے اس پہ سے کمفرٹر پیچھے ہٹایا اس نے۔ ٹانگیں سمیٹ لیں۔۔۔۔

اور کرب زدہ آواز میں رونے لگی ۔۔۔۔۔

"مت کریں سرکار ایسا ۔۔۔۔

"میرا زخموں سے چور وجود اس قابل نہیں رہا کہ آپ کی پاکیزہ نظریں اسے دیکھیں ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ یک ٹک اسے دیکھے خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا ۔۔۔۔

"سرکار مجھ جیسی داغدار کو آپ نے اپنا نام دے دیا ۔۔۔اس کے لیے پہلے ہی بہت احسان مند ہوں ۔۔۔مجھ سے یوں برتاؤ نا کریں ورنہ میں شرمندگی سے ہی مر جاوں گی ۔۔۔۔میرے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچا "

وہ اسکی نرمی پر تڑپ رہی تھی۔۔ وہ تو سب جانتا تھا کے اسکے ساتھ کیا ہوا پھر وہ کیسے اتنا پرسکون تھا۔۔ کیسے قبول رہا تھا اسکے داغ دار وجود کو۔۔

"تم کس قابل ہو اپنا نام دے کر یہ ثابت کر چکا ہوں میں ۔۔میں ہی تمہیں وہاں سے یہاں کے ہسپتال لایا تھا ۔۔۔۔ تمہارے بارے میں سب تفصیلات معلوم ہیں مجھے ۔۔۔۔اب دوبارہ سے تمہارے منہ سے ایسی باتیں نہیں سننا چاہوں گا ۔۔۔۔

اب کی بار آتش بلوچ کے انداز میں تھوڑی سختی در آئی  تھی۔۔ جس پر وہ چونکتے ہوئے نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

"مجھ سے محبت کی دعوے دار تھی نا ۔۔۔۔؟؟؟؟۔۔۔!!!!

آتش بلوچ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

سسی ہچکیوں سے روتے ہوئے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"تو محبت میں تو آپ اپنے محبوب کو اپنی ذات کے تاریک پہلو سے روشناس کرواؤ تاکہ وہ ان تاریک پہلو میں ستاروں سی روشنی بھر دے ۔۔۔۔

"آپ اسے اپنا درد بیان کرو تاکہ وہ آپ کو پھر سے مسکرانا سکھا دے آپکو زندگی کے طرف کھینچ لائے ۔۔۔۔!!!

"میرے نزدیک تو محبت یہ ہے کہ آپ بن کہے بن سنے اپنے محبوب کا درد جان لیں  ، اس کی خاموشیاں بھی سن لینے کا ہنر رکھیں  ،،،،

"سرکار ۔۔۔۔ اس نے میرے ساتھ بہت برا ۔۔۔۔"

وہ مزید کچھ بولتی وہ اس سے پہلے ہی اسے خاموش کروا چکا تھا۔۔

"بس یہیں رک جاؤ ۔۔ میں نہیں چاہتا وہی باتیں تم بار بار دہرا کر خود کو اذیت دو ۔۔۔اب ری لیکس ہو جاؤ "

وہ نرمی سے اس سے مخاطب تھا۔۔ اسکے بلکنے، پھڑپھڑانے اور مزاحمت کرنے کے باوجود بھی اسکے تمام زخموں پر مرہم لگا رہا تھا۔۔ 

آتش بلوچ کے عنابی لب سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔۔ اس سفاک درندے نے کس حد تک اسے اپنے وحشیانہ پن کا نشانہ بنایا تھا۔۔ ضبط سے پیشانی کی رگیں پھولیں لگیں ۔وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔۔۔۔

اس کے وجود پہ جابجا نشانات دیکھ کر ہی اسکی تکلیف کا اندازه لگا سکتا تھا جو اس نازک سی لڑکی نے اٹھائے تھے۔۔۔

"اب سو جاو ۔۔میڈیسن میں سکون کی ٹیبلٹ تھی ۔اگر ٹھیک سے نیند نہیں لی تو سر بھاری رہے گا ۔میں تمہارے پاس ہی ہوں ، اب ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔میری بیوی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والی آنکھوں کو آتش بلوچ اُکھیڑ کر آتش میں جھونک دے گا "!

اسے اپنے بہت قریب سے آتش بلوچ کی گھمبیر آواز سنائی دی ۔۔۔۔

اس نے لائٹ آف کی اور دوسری طرف سے آکر اس کے ساتھ لیٹ گیا اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا ۔۔۔۔سسی نے آنکھیں موندیں ہی تھیں کہ آتش بلوچ کا بھاری ہاتھ اس کی کمر کے گرد مضبوط حصار باندھ گیا ۔۔۔۔

اصل معنوں میں تو اب اسے سانس لینا مشکل ہوا تھا ۔۔۔۔

وہ اسکی گرفت میں مچلنے  لگی ۔۔۔۔

"یہ صرف اس لیے کہ تمہیں  میرے اپنے قریب ہونے کا احساس رہے ۔اور خود کو محفوظ سمجھو ۔۔۔۔"

وہ سرگوشی نما آواز میں اسکے کان کے قریب چہرہ کیے بولا تو سسی نے تڑپ کر اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔ بھوری آنکھوں میں نیند کے باعث گلابی ڈورے مدہوش کن منظر پیش کر رہے تھے ۔۔

"اور ہاں !!!!

"خود کو کبھی کم تر مت سمجھنا ۔۔۔۔

"تم میری روح کی آواز ہو ،

تم بہت خاص ہو،

جستجو میں تھی تیری تمنا کب سے ،

اک خوشبو میں لپٹا راز ہو ،،،

تم بہت خاص ہو،،،

تیری ہر بات پہ دل دھڑک جاتا ہے ،،،

تم میری ذات کا آغاز ہو،،،

تم بہت خاص ہو،،،

تمہارے لفظ میری سوچ میں سمائے ہیں ،،،،

تم بہت خاص ہو،،،

روح کا دلفریب ساز ہو،،،

تم بہت خاص ہو،،،،

اک حقیقت بھرا مجاز ہو،،،

تم بہت خاص ہو ،،،،

"سو جاؤ اب  "

اسکا سر اپنے بازو پہ رکھتا  اسے سرزنش کرتے انداز میں بولا۔۔

اس میں اتنی ہمّت نہیں تھی کے اس کے آگے مزاحمت کرپاتی ۔۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دوائیوں کے زیر اثر نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔۔

نیند میں بھی وہ اس کی پرتپش نظریں اپنے چہرے پہ محسوس کرتے ہوئے شرما کر  اسکے ہی سینے میں چہرہ چھپا گئی ۔ وہ اسکی حرکت پر حیران ہوتا مسکرایا تھا۔۔ وہ یقیناً نیند میں تھی۔۔تبھی خود سے اس کے قریب آئی تھی ۔۔۔ 

"آپ تو دل کا قرار بن گئیں ہیں ۔۔۔"

وہ زیر لب دھیرے سے بڑبڑایا تھا۔۔

"اے ملکہ ِ دل !!!

تم اپنی مسکراہٹ کو یونہی میرے لیے مہربان رکھنا 

تمہیں دیکھتے ہی میرے دل نے خواہش کی ہے ،تمہارے معصوم سے چہرے پہ سجے نینوں سے چھلکتے سب آنسو چُرا کر تمہارے ہونٹوں پہ محبتوں کے گلاب رکھ دوں "

وہ دھیرے سے جھک کر اسکی بےداغ پیشانی پر شدت بھرا محبت کا پہلا لمس نوازتے ہوئے پیچھے ہوا ۔۔۔

اسکا سر نرمی سے تھپکتا وہ خود گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔۔ وہ نیند کی دوا کے زیر اثر لمحوں میں محو خواب ہوئی تھی۔۔ جب کے وہ اسکی حالت کے متعلق سوچتا اسے نجانے کتنی دیر تک دیکھتا رہا تھا۔۔پھر خود بھی نجانے کب سو گیا تھا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سورج غروب ہوا تو رات کے سائے گہرے ہوئے ۔۔۔چاند نے اپنی چاندنی بکھیر دی ۔۔۔آسمان پہ چکمتے ہوئے ستارے آج ضرورت سے زیادہ جگمگ کرتے نظروں کو خیرہ کیے دے رہے تھے ۔۔۔۔

آج دوپہر میں ہی تو زرش بلوچ سے کہہ کہ چاہت نے گھاگرا چولی منگوائی تھی ۔۔۔

وہ باتھ لے کر گھاگھرا چولی پہنے شیشے کے سامنے کھڑی اپنی چولی کی پشت پہ لگیں  ڈوریاں باندھ رہی تھی ،

پھر اپنے کمر تک آتے سنہری بالوں میں برش پھیر کر انہیں پشت پہ کھلا چھوڑ دیا ،،،،میک اپ کے نام پہ ڈیپ ریڈ لپسٹک لگائی ، اور اپنے نیلے نینوں میں کاجل ڈالے،وہ اپنی تیاری کے آخری مراحل میں تھی ۔۔۔

پھر بستر پہ پڑا چنری دوپٹہ اٹھا کر شانے پہ رکھا ۔۔۔۔

وہ خودی کو شیشے میں دیکھ کر گلنار ہوئی ۔۔۔۔

دل عجب تال پہ دھڑکنے لگا۔۔۔

اس نے وال کلاک پہ نظر ڈالی جو رات کے ساڑھے بارہ بجے کا وقت دکھا رہا تھا ۔۔۔۔

اسے جو نیند آئی بھی تھی شاور لینے سے بھک سے اڑا گئی تھی وہ ایک بار پھر سے تازہ دم ہوچکی تھی ۔۔۔۔

حویلی میں اس وقت چاروں طرف  خاموشی کا راج تھا،

باہر یارم بلوچ کی جیپ رکنے کی آواز آئی تو چاہت کا دل اچھل کر حلق میں آپھنسا۔۔۔

"کچھ زیادہ ہی نہیں تیار ہوگئی میں ",

اس نے شیشے میں خود کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

"یہ لپسٹک مٹا دیتی ہوں بہت اوور لگ رہی ہے ۔۔۔۔

اس نے روہانسی آواز میں خود کلامی کی شیشے میں دیکھ کر ۔۔۔۔ 

اس نے ٹشو پیپر نکالا تاکہ لپسٹک صاف کر سکے ۔۔۔۔تبھی کمرے کا دروذہ آہستگی سے کھلا اور یارم بلوچ اندر داخل ہوا ۔۔۔۔

اس نے تو اس لیے دروازہ آہستگی سے کھولا تھا تاکہ چاہت کی نیند نا خراب ہو ،اسے لگا کہ اب وہ سو چکی ہوگی اسی لیے حویلی واپس آیا تھا ۔۔۔

اس نے کمرے میں قدم رکھتے ہی سامنے کھڑی چاہت کو دیکھا تو وہیں ٹھٹھک کر رکا ۔۔۔

وہ کم سن کلی آج سارے کیل کانٹوں سے لیس اس کا امتحان لینے کے در پہ تھی ۔۔۔۔۔

یارم بلوچ میسمرایز سا اسے دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔

چاہت نے ٹشو پیپر والا ہاتھ پشت کے پیچھے چھپا لیا ۔۔۔۔

"آپ پانی پئیں گے ؟"

اس نے ھادیہ کی سکھائی گئی (اچھی بیوی بننے کے لیے اس کی ضرورت کی چیزوں کا دھیان رکھنا )باتوں میں سے ایک پہ عمل کرتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ مضبوط اعصاب کا مالک انسان تھا جلدی خود کو سنبھال کر سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔۔

"پھر کھانا کھائیں گے "؟

وہ دو قدم چلتے ہوئے اس کے قریب آئی ۔۔۔۔

"نہیں میں کھا چکا ہوں کھانا ۔۔۔۔۔بس شاور لوں گا آپ سو جائیں بہت وقت ہوگیا ہے ۔۔۔۔"

یارم بلوچ نے اپنے شانوں سے شال اتار کر صوفے پہ پھینکی ۔۔۔ پھر موبائل اور جیپ کی کیز نکال کر ڈریسر پہ رکھیں ۔۔۔۔

وہ اس کے نوخیز حسن سے نظریں چرا کر اپنے آرام دہ کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔

چاہت وہیں کھڑی اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔

"انہوں نے کوئی تعریف ہی نہیں کی ۔۔۔۔وہ منہ پھلا کر خود سے بولی۔۔۔

تبھی اس کی نظر یارم بلوچ کے موبائل پہ گئیں تو اس نے فون اٹھا کر دیکھا اس پہ لاک نہیں تھا ۔اس نے گوگل نکالا اور سرچ آپشن میں لکھا ۔۔۔ناراض ہزبینڈ کو منانے کا طریقہ ۔۔۔۔

تبھی ڈھیر سارے طریقے اس کی نظروں کے سامنے آگئے ۔۔۔۔

شوہر کا رویہ آپ کے ساتھ غیر متوقع ہوسکتا ہے اور وہ  بغیر کسی وجہ کے ناراض ہوسکتا ہے، اور جب آپ ان کی ناراضگی کا سبب جاننے کے لیے ان سے بات کرنے کی کوشش کریں گے، تو وہ آپ سے بچیں گے اور آپ کے ارادوں کو نظرانداز کر دیں گے ۔ اگر آپ کے شوہر ایسے ہیں ، تو آپ کو اسے منانے اور خوش کرنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا  تاکہ آپ سے جو بھی غلطی ہوئی ہے اس کے لیے وہ آپ کو معاف کر دیں ۔

اگر آپ کا شوہر ناراض ہے کیونکہ آپ نے اس کا دل توڑا ہے تو اس کے ٹوٹے ہوئے دل کو ٹھیک ہونے دیں اور اسے خوش کر کے اسے دوبارہ خوش کردیں۔ اسے پھول دیں،، 

"او۔۔۔۔و۔۔۔۔اب پھول گارڈن سے توڑ کر لاؤں ؟

اس نے سوچنے کے انداز میں ہمکلامی کی۔

"نہیں۔۔۔ ممی نے اس دن بتایا تھا کہ رات کو پھول نہیں توڑتے "

یہ پھول والا طریقہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔

اممممم۔۔۔۔۔کچھ اور دیکھتی ہوں ۔۔۔۔

اسے محبت کا خط بھیجیں،

"میں کیسے خط لکھوں ۔۔۔؟؟؟

مجھے نہیں آتا خط لکھنا ۔۔۔

یہ بھی کینسل "

 "اسے کے لیے رومانوی ڈنر کا پلان بنائیں شوہر کے دل کا راستہ معدے سے ہوکر جاتا ہے ۔اسکی پسندیدہ ڈشز بناکر اسے سرپرائز دیں ۔۔۔۔

"یہ کھانا بنانا تو بہت مشکل کام ہے ۔۔۔نو۔۔۔نو ۔۔۔میں نہیں کر سکتی ۔۔۔۔مجھے تو ممی کو کام کرتے دیکھ کر ہی پسینہ آجاتاہے۔۔۔۔وہ گھبرا کر بولی۔

آگے دیکھتی ہوں شاید کچھ لکھا ہو ۔۔۔اس نے سکرول ڈاؤن کیا ۔۔۔

 اپنے شوہر کا دل دوبارہ سے جیتنے کے لیے وہی سب کچھ کریں  بالکل اسی طرح جیسے آپ نے کیا تھا جب اسے پہلی بار آپ سے محبت ہوئی تھی۔

"لو اب میں کیا کروں ۔۔۔؟؟؟

میں تو پہلے کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔۔وہ خودی مجھ سے اچھے سے بات کرتے تھے سنگ مرمر۔۔۔

وہ ناک سکوڑ کر بولی ۔۔۔

یہاں تو کچھ ایسا نہیں ۔۔۔میں نا امیج اور ویڈیو میں دیکھتی ہوں شاید کچھ اچھا مل جائے ۔۔۔۔

جیسے ہی اس نے ان آپشن پہ پریس کیا ۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی ۔۔۔

اور چہرے پہ قوس قزح کے رنگ پھیلے۔۔۔

تبھی واش روم کا دروازہ کھلا اور یارم شرٹ اور ٹراؤزر پہننے بالوں کو ٹاول سے رگڑتا ہوا باہر آیا ۔۔۔

چاہت نے فون والا ہاتھ چھپانے کے لیے دوپٹے کے نیچے کیا ۔۔۔

"What's the matter"?

"Any problem???"

وہ ٹاول ایک طرف رکھتے ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔۔

چاہت کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔

اس نے یارم کے سوال پہ بولنے کی بجائے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

"Yes tell me"

وہ چل کر اس کے تھوڑا سا  قریب آیا ۔۔۔

چاہت کو اپنی سانسیں خشک ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

وہ ڈریسر سے برش اٹھا کر بالوں میں پھیرنے لگا ۔۔۔مگر دیکھ چاہت کو ہی رہا تھا ۔۔۔

اس کے جواب کے انتظار میں۔

"Plz come here"

وہ ڈرتے ہوئے کپکپاتی ہوئی آواز میں بمشکل بولی۔۔۔۔

وہ برش رکھے تھوڑا اس کے قریب آیا ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔وہ سوالیہ انداز میں بولا۔

"تھوڑا اور پاس نا ۔۔۔",

اس بار وہ جھنجھلاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

وہ سارا فاصلہ سمیٹ کر بالکل اس کے قریب ہوا ۔۔۔

"تھوڑا نیچے جھکیں نا میں اتنی اوپر کیسے آؤں "

وہ ناراضگی سے منہ پھلا کر  بولی 

وہ بمشکل اسکے شانے تک پہنچتی تھی۔تبھی اسے جھکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

اب کی بار یارم بلوچ بیزاری سے تھوڑا سا نیچے جھکا ۔۔۔۔

چاہت اک استحقاق بھری جسارت کر کہ اپنا رخ دوسری طرف موڑ گئی ۔۔۔۔

جبکہ یارم بلوچ تو حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے وہیں ساکت رہ گیا تھا۔۔اس کی جسارت پہ ابھی تک اسے یقین نہیں آیا تھا  ۔۔۔۔

"What is this nonsense"?

وہ عالم ہوش میں آتے ہی دھاڑا ۔۔۔۔

"سب بکواس لکھا ہے یہاں ۔۔۔

"انہوں نے تو کہا تھا ایسا کرنا آپ کو سویٹ لگے اور آپ اسے نانسینس بول رہے ہیں "

وہ تلملاتے ہوئے دانت پیس کر بولی۔۔۔۔

"کہاں سے سیکھ رہی ہو یہ سب خرافات ؟؟؟

"کہاں لکھا ہے ؟؟؟

وہ تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے بھاری آواز میں بولا۔۔۔

اس نے موبائل یارم بلوچ کی طرف بڑھایا ۔۔۔

"اس میں "

یارم نے فون آن کیا تو گوگل سرچ آن تھا ۔۔۔۔

شوہر کی ناراضگی دور کرنے کے طریقے ۔۔۔۔

اس نے لائنز پڑھیں تو مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

جب سرچ ہسٹری میں گیا تو وہاں پہلے بھی ہزبینڈ اینڈ وائف ریلیشن شپ کو سرچ کیا گیا تھا ۔۔۔۔

وہ رخ بدل گیا اور چہرہ دوسری طرف موڑے اس کی بے وقوفی پہ بے آواز دل کھول کر ہنسا ۔۔۔۔تھوڑی دیر میں خود کو بظاہر سنجیدہ ظاہر کیے اس کی طرف پلٹ کر سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔

 "اس کے علاؤہ کون سکھا رہا ہے تمہیں ۔۔۔۔یہ سب ۔۔۔۔وہ اس کی تیاری پہ سر تا پا جائزہ لیے بولا ۔۔۔۔

"م۔۔۔میں ۔۔۔نہیں بتاؤں گی ۔۔۔

"ویسے بھی ناراض ہوں آپ سے ۔۔۔۔ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں ۔۔۔۔تعریف بھی نہیں کرتے کرنی محنت سے تیار ہوئی تھی ۔۔۔۔۔وہ پاؤں پٹخ کر بستر کی طرف بڑھ رہی تھی کہ یارم بلوچ نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔

"اسے صاف کرو ",

وہ اسکے شانے سے ڈھلکا ہوا پلو ہی اسے تھماتے اپنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کیے بولا ۔۔۔جہاں اسکی سرخ رنگ کی لپسٹک کے نشان تھے ۔۔۔۔

اتنا ڈر تو اسے یہ سب کرتے ہوئے نہیں لگا تھا جتنا ڈر اسے یارم بلوچ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے صاف کرنے پہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ گہری سرمئی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت نے اس کے ہاتھ سے اپنا پلو پکڑا ۔۔۔۔

اور اسکے بھاری مونچھوں تلے عنابی لبوں کو دیکھا تو دل بند ہونے لگا ۔۔۔۔

اس نے پلو سے نشان صاف کردئیے ۔۔۔۔

وہ کسی بھی طرح اس کی گرفت سے نکل جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔

وہ سرعت سے جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کہ یارم نے اسے جانے سے روک دیا ۔۔۔۔

"آپ کیوں چاہتی ہیں کہ میں آپ کی تعریف کروں "

"آپ کے پاس رہوں "؟

وہ سرگوشی نما سرسراتی ہوئی آواز میں اسکے کان کے قریب چہرہ کیے بولا ۔۔۔۔

تو چاہت کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

"مجھے اس سوال کا جواب چاہیے ۔۔۔۔؟؟؟

"ہے آپ کے پاس ؟؟؟

وہ ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پا رہی تھی ۔۔۔۔

بس دھیرے سے سر کو نفی میں دائیں سے بائیں جانب جنبش دی ۔۔۔۔

"تو جائیں پھر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈھ کر لائیں ۔۔۔۔

"رات بہت ہوگئی ہے میرے خیال میں اب سو جانا چاہیے ۔۔۔۔۔

وہ اسے وہیں مجسمہ بنی چھوڑ کر  لائٹ آف کیے اپنے بستر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

چاہت کتنی دیر وہیں کھڑی سوچتی رہی پھر کچھ بھی سمجھ نا آنے پہ آکر اپنی جگہ لیٹ گئی ۔۔۔۔

یارم آج کافی تھک گیا تھا بستر پہ لیٹتے ساتھ ہی وہ سو گیا ۔۔۔۔جبکہ چاہت کتنی دیر اسکی چوڑی پشت کو دیکھتے ہوئے اس کے سوالوں کے جواب سوچتی رہی ۔۔۔۔پھر نجانے اس کی کب آنکھ لگی اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی۔۔۔۔۔

وقت کبھی نہیں رکتا، چلتا رہتا ہے، رخ ہمیشہ آگے کی طرف اور سڑک بھی ایسی سیدھی کہ جس پر کوئی گول چکرہے نہ کسی سمت مڑنے کا اشارہ، تھکتا بھی نہیں کہ چند لمحے سستا ہی ہے۔ جس کے ہاتھ میں اس کا ریموٹ ہے یہ اس کا اتنا تابع ہے کہ اک پل فرض سے کوتاہی ممکن نہیں۔

وقت کے ہاتھ پر بندھی گھڑی کے سیل میعاد پوری کرلیں تو وہ وقت کے بارے میں اطلاعات دینا بند کردیتی ہے مگر وقت کی نبض نہیں رکتی۔ یہ اپنی طے شدہ مخصوص رفتار کے مطابق چلتا جا رہا ہے ،اور آج سسی کے ساتھ گزرے ہوئے واقع کو ایک سال بیت چکا تھا ،آتش بلوچ اسے اپنی چاہت اور توجہ سے اس غم کی کیفیت سے باہر نکال کر کافی حد تک نارمل کر چکا تھا ،

سورج کی چکمتی کرنیں کھڑکی کے زریعے اندر داخل ہوئے کمرے کو روشن کر رہی تھیں ،اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھول کر دیکھا ، روشنی کی کرنوں کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا بھی اندر داخل ہورہی تھی ۔ کھڑکی کے باہر لگی پھولوں بیل سے محسور کن مہک اس ہوا میں شامل ہوئے اسکی سانسوں کو مہکانے لگی ۔۔۔۔

اس نے اپنے ساتھ والے تکیے پہ سر رکھے بے خبر ہوئے اپنے شہزادے کو دیکھا ،

سرخ و سفید رنگت،کھڑی مغرور ناک ، مونچھوں تلے عنابی لبوں پہ سوئے ہوئے بھی دلکش مسکراہٹ احاطہ کیے ہوئے تھی جو اس کی نرم مزاج شخصیت کا خاصہ تھی،

وہ خود بھی ہر دم مسکراتا اور اسے بھی مسکرانے پہ مجبور کردیا کرتا ،اور جب مسکراتا تو اسے ایسے لگتا کہ وہ اس شہزادے کے گالوں میں پڑنے والے گڑھوں میں ڈوب جائے گی ،اس نے نکاح سے پہلے کبھی اسے مسکراتے نہیں دیکھا تھا ،جب ُاس کی اِس خاصیت کا پتہ چلا تو وہ اور بھی حیران ہوئی ۔۔۔۔

کتنے لمحے ہی وہ اس کے وجیہہ چہرے پہ نظریں جمائے اسے اپنی آنکھوں میں سمانے لگی ،،،،

سسی نے دیکھا اس کا ہاتھ آتش بلوچ کے بھاری مضبوط ہاتھ کے نیچے تھا ،وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر سوتا تھا ،تاکہ سسی کو ڈر نا لگے ،

جیسے کی اس نے بستر سے اٹھنے کے لیے ہلکی سی جنبش کی آتش بلوچ کی خمار زدہ آنکھیں ُکھلیں ۔۔۔۔

"Good morning"

وہ گھمبیر آواز میں مسکراتے ہوئے اسکی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

"گڈ مار ۔۔۔ن۔۔۔وہ جواباً کہتے کہتے اٹک گئی ۔۔۔۔

"گڈ مارننگ ۔۔۔۔!!!کہتے ہیں ...

آتش نے بتایا ۔۔۔۔

"جی۔۔۔جی ۔۔۔گڈ مارننگ "وہ دھیرے سے مسکراتی ہوئی بول کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکال کر اٹھ بیٹھی  ۔۔۔۔

"تم نے میرا حال تو پوچھا نہیں ۔۔۔۔

وہ بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تکیہ پیچھے لگائے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا ،اور ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے اسے کہا ۔۔۔

"ابھی تو آپ اٹھے ہیں ۔۔۔۔اس میں حال کیا پوچھنا ،،،؟"

وہ حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔

"اب تم مجھ سے دور ہوتو حال پوچھنا تو بنتا ہے نا ،"

وہ شرارتی انداز میں بولا۔

"مگر ویسے ہی پوچھو جیسے میں نے سکھایا تھا ۔

کہو۔ 

I love you....

مطلب آپ کیسے ہیں ۔

"اچھا ٹھیک ہے ۔

"آئی لو یو ۔۔۔

وہ تیزی سے بولی اور بستر سے اترنے لگی ۔۔۔۔

"ارے مجھے بتانے تو دو ۔۔۔

اس نے سسی کی کلائی پکڑ کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔۔

"I love you too....

تمہیں دیکھ لیا تو اچھا ہوگیا ہوں ۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا ۔۔۔۔

"میری بھی ہر صبح اپنے شہزادے کو دیکھ کر روشن ہوجاتی ۔۔۔ جس نے میری اندھیری رات جیسی زندگی میں آکر اسے اپنے رنگوں سے روشن کردیا ۔۔۔۔۔"

وہ پلکیں جھکائے بولی ۔۔۔۔

"شہزادی آپ ہمیں مغرور بنا دیتی ہیں شہزادہ بول کر ۔۔۔۔۔

وہ اسکے گردن کے گردن بازو باندھ کر بولا ۔۔۔۔

سسی کی گھنی مژگانیں رخساروں پر گریں لرزنے لگیں ۔۔۔

"شہزادے کو شہزادہ نا کہوں تو اور کیا کہوں ؟؟"

"اگر میں زندگی میں  آپ کو ایک چیز دے سکتی تو آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت دے دیتی ،تب آپ کو پتہ چلتا کہ آپ میرے لیے کتنے خاص ہیں ،۔۔۔۔۔"

وہ مدھم لہجے میں محبت سے چور آواز میں بولی۔

"لوگ کہتے ہیں ایک ہی چیز کو بار بار دیکھنے سے انسان اوب جاتا ہے ،مگر میں تمہیں جتنی بار بھی دیکھتا ہوں ،مجھے پہلے سے بھی زیادہ پیار آتا ہے ،،،،

وہ جذبات سے لبریز لہجے میں آنچ دیتے لہجے میں بولا۔۔۔۔

"مگر مجھ میں تو دیکھنے کے قابل ایسا کچھ ۔۔۔ن۔۔۔۔"

"ششششش۔۔۔۔۔۔!!!!

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی آتش بلوچ نے اسکے لبوں پہ انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روک دیا ۔۔۔۔

"تم سے آخری عشق ہے،

جو پہلی بار ہوا مجھے ،

وہ اسکی پیشانی سے پیشانی لگائے فسوں خیز آواز میں بولا۔۔

سسی نے چہرہ پھیر لیا ۔۔۔۔۔

اسکی سانسوں کی تپش سے گھبراتے ہوئے ۔۔۔۔

"شہزادی ۔۔۔۔!!!! 

اگر میرے اختیار میں ہوتو میں تمہیں بانہوں میں بھر کر ہمارے چاروں طرف ایک محبت کی لکیر کھینچ دوں ،تاکہ کوئی غم تم تک نہ پہنچ سکے،تمہارے سارے خوابوں کی تکمیل کروں ،تمہارے ساتھ گزرتا ہر لمحہ اپنی محبتوں سے سجا دوں ،اس سے پہلے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ جاتا اس نے سسی اپنی گرفت سے آزاد کیا اور اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد فریش ہوکر باہر آیا ۔۔۔۔۔

"تم فریش ہوجاو میں آتا ہوں۔۔۔ "

سسی نے اسکی بات پہ اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

وہ بستر سے نیچے اتری ۔۔۔۔اس وقت وہ پنک کلر کے ٹراؤزر اور ڈھیلی ڈھالی شرٹ میں ملبوس تھی ۔۔۔۔وہ اپنے کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

آتش کچن کی طرف آیا ۔فریج سے فروزن پراٹھے نکال کر سینک لیے ،پھر چائے کیٹل میں بننے رکھی ،اور تیزی سے آملیٹ بنانے لگا ،وہ جب پہلے تعلیم کے سلسلے میں یہاں رہتا تھا تو ایسے کی اپنا ناشتہ خود بناتا تھا وہ عادی تھا ان کاموں کا ،اس لیے اس نے پھرتی سے سارا ناشتہ تیار کیا پھر واپس کمرے کا رخ کیا ۔۔۔۔

سسسی ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے گیلے لمبے بالوں کو تولیے سے خشک کر رہی تھی ۔۔۔۔اس کی نظر اپنی گردن پہ پڑی جس پہ آج بھی ہلکے ہلکے نشان نمایاں تھے ۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں پھر سے نم ہوئیں 

آتش بلوچ کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو سرعت سے بستر پہ پڑا دوپٹہ اٹھا کر اپنے شانوں پہ پھیلایا خصوصا گردن کے گرد ۔۔۔۔

آتش بلوچ اس کی نم آنکھیں اور اسکی گھبراہٹ میں کی گئی کاروائی دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔

اس نے سسی کو نارمل دیکھ کر کئی بار اس درندے کے بارے میں پوچھا تھا ،مگر ہر بار سسی کا یہی جواب تھا کہ وہ اسے نہیں جانتی وہ ان کے گاؤں کا رہنے والا نہیں تھا ۔

"تمہیں مجھ سے یہ سب چھپانے کی ضرورت نہیں ،"

آتش بلوچ نے آگے بڑھ کر اسکے شانوں کو تھام کر کہا ۔۔۔۔

"کتنی بار کہا ہے ،ان آنسوؤں کو مت بہایا کرو ، 

"چلو اب جلدی سے تیار ہوجاو ناشتہ ٹھنڈا ہوجائے گا "

اس نے کہتے ہی ہڑبڑی مچائی ۔۔۔۔

"آپ نے کیوں بنایا ۔۔۔۔میں آکر بنادیتی نا ۔۔۔۔

"اپنی پیاری سی بیوی سے کام کروانا مجھے پسند نہیں "

وہ اسکے گال کو تھپتھپاکر کر مسکراتے ہوئے بولا۔

"لاؤ میں تمہاری مدد کروں سست لڑکی "

وہ ڈریسر سے برش اٹھا کر اسکے لمبے بالوں کو سلجھانے لگا ۔۔۔۔

"نہیں تم اتنی دیر اپنی پیاری سی آنکھوں میں میں جس میں صرف میں دکھائی دیتا ہوں اس میں کاجل لگاؤ ۔۔۔۔

Hurry up....

مطلب جلدی ۔۔۔۔۔

وہ اب اسکے بالوں میں کیچر لگا چکا تھا ۔۔۔ساتھ ساتھ اسے ہر روز انگلش کے کچھ نئے ورڈز سکھاتا رہتا ۔جس سے سسی کے گفتگو کے انداز میں خاصی تبدیلی آچکی تھی ۔۔۔۔

"پتہ ہے اماں بھی مجھے سست کہتی تھیں "

وہ یاد آنے پہ اسے بتانے لگی ۔۔۔

"یہاں پاؤں رکھو "

آتش گھٹنے کے بل بیٹھا اور اپنا ایک گھٹنا بینڈ کیے بولا ۔۔۔

تو سسی نے اپنا پاؤں اس پہ رکھا ۔۔۔آتش نے اسکے پاوں میں باری باری پائل پہنائی۔۔۔۔

پھر اٹھ کر ڈریسر مسکارا اٹھایا ۔۔۔۔

سسی اتنی دیر لبوں پہ لائٹ پنک کلر کی لپسٹک لگا چکی تھی ۔۔۔۔

"لاسٹ ٹچ ۔۔۔۔پھر چلتے ہیں "

آتش نے مسکارے کا برش نکالا ۔۔۔۔

"نا ۔۔۔یہ نہیں ۔۔۔۔اسے لگانے سے میری پلکیں بہت بھاری ہوجاتی ہیں ۔۔۔۔۔اس نے منہ بسور کر کہا ۔۔۔۔

"یار ایک تو کتنی مشکل سے سیکھا ہے یو ٹیوب پہ دیکھ کر اسے لگانا اب تم نخرے دکھا رہی ہو ۔۔۔۔اپنے شہزادے کی بات نہیں مانو گی ۔۔۔۔۔؟؟؟

"مجھے بہت اچھا لگتا ہے ،جب میں پیار بھری نظروں سے تمہیں دیکھتا ہوں اور تم شرما کر اپنی مسکارے سے سجی  گھنی پلکیں رخساروں پہ گرا لیتی ہو ،تو بہت کیوٹ لگتی ہو ۔۔۔۔"

",اچھا چلیں لگائیں "سسی اس کے سامنے کھڑی ہوگئی تو وہ اسکی پلکوں پہ مسکارا لگانے لگا ۔۔۔

مسکارا لگانے کے بعد آتش سسی کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور سسی کے شانے پہ تھوڑی رکھ دی ۔۔۔ دونوں اب شیشے میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔

"آپ نے تو کہا تھا کہ ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا "

سسی نے چونک کر یاد دلایا ۔۔۔۔

"اوہ ۔۔۔۔شٹ ۔۔۔۔!!!

"تمہارے سامنے ہوش ہی کہاں رہتا ہے ۔۔۔ وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

تو سسی کا چہرہ اناری ہوا ۔۔۔

Let's go...

وہ اسکا ہاتھ تھامے تیزی سے باہر نکلا ۔۔۔۔۔ٹیبل پہ ناشتہ لگا تھا ۔۔۔۔

دونوں بیٹھ کر کھانے لگے ۔۔۔۔

"آج شام یونیورسٹی میں ری یونین پارٹی ہے ، نئے اور پرانے سب سٹوڈنٹس اکٹھے ہو رہے ہیں ایک سپیشل فنکشن پہ سب انوائیٹڈ ہیں ۔۔۔اس نے باتوں میں اسے بتایا ۔۔۔۔

شام کو تیار رہنا پہلے تمہاری اماں سے ملنے ہاسپٹل چلیں گے پھر وہاں سے پارٹی میں "

"جی "اس نے کہتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔ 

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

خواہش ایک ایسے دریا کی مانند جو سوکھنے کے قریب ہے سمٹ کر محض ضرورت بن جاتی ہے تو کبھی کسی بپھرے ہوئے سمندر کی شکل اختیار کرکے جنون اور دیوانگی میں بدل جاتی ہے۔ خواہش کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا؟ یہ حدیں شاید ہر انسان کیلئے مختلف ہیں۔ حقیقت یہ کہ انسان کا خواہش کے ساتھ تعلق تب سے ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے اور یہ سلسلہ اس کے اس دنیا سے کوچ کرجانے تک چلتا رہتا ہے،،،،

چاہت اس کی خواہشات میں سے اولین درجے پہ پورے طمطراق سے براجمان تھی ،

جب سے چاہت نے اسے اگنور کرنا شروع کیا تھا ،تب سے اسے اپنے دل کی زمین بنجر لگنے لگی تھی ،وہ زرش بلوچ اور ھادیہ کی نگرانی میں رہ کر اب کافی حد تک سمجھدار ہوچکے تھی ، ان کے ساتھ مل کر کھانا بنانا بھی سیکھ رہی تھی ۔زرش بلوچ نے اسے آہستہ آہستہ اپنے تجربات اور مشاہدات سے آگاہ کیا اسے بہت سی ایسی باتیں سکھائیں جس سے وہ پہلے نا بلد تھی ،

"سردار پانی !

یارم بلوچ آج رات کی بجائے شام پانچ بجے کے قریب حویلی واپس آیا تو شازیہ پانی کا گلاس ٹرے میں رکھے اس کے پاس لاکر  ادب سے بولی ۔

"چاہت کہاں ہے "؟

اس نے نظریں اسکی تلاش میں ادھر ادھر دوڑائیں وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی تو اس نے پوچھا ۔۔۔۔

"سردار ۔۔۔!

وہ وڈی سردارنی جی کے پاس ہیں ۔۔۔۔

 "اسے کہو کمرے میں آئے "

کہتے ہی وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

"چاہت ۔۔۔بی ۔بی ۔۔۔سردار سا آگئے ہیں ۔مجھے تو بڑے غصے میں لگ رہے ہیں ۔۔۔جائیں جی آپ کو کمرے میں بلا رہے ہیں ۔

شازیہ نے کمرے کے دروازے میں جھانک کر عجیب و غریب انداز میں اطلاع دی ۔۔۔۔

"جاؤ بیٹا جا کر دیکھو اسے ۔۔۔۔میں زرا تھوڑی دیر اب آرام کروں گی ۔۔۔۔۔"زرش بلوچ نے اسے کہا اور زرا سی دیر کو سستانے کے لیے لیٹ گئیں تو چاہت سپاٹ انداز میں وہاں سے نکل کر چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف آئی اور دروزی کھولا تو سامنے یارم بلوچ اپنی چھا جانے والی شخصیت سمیت سینے پہ ہاتھ باندھے اسی کے انتظار میں کھڑا تھا ۔۔۔۔اس نے چاہت کا سر تا پا جائزہ لیا جو اس وقت بالکل گاؤں کی گوری جیسا روپ لیے لہنگا چولی میں ملبوس تھی ،زرش بلوچ کی پسندیدگی کی وجہ سے اس نے ایسے کپڑے پہننے شروع کردئیے تھے ۔۔۔۔

"کل کیا تاریخ ہے "؟

وہ گھمبیر آواز میں بولا تو چاہت نے چونک کر اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔

"کل ۔۔۔۔؟؟؟

"سات ۔۔۔۔!!! ہے شاید ۔۔۔۔

"کل کی تاریخ میں کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"پتہ نہیں "

وہ سنجیدہ انداز میں شانے اچکا کر بولی ۔۔۔۔

"آج موسم بہت اچھا تھا اسی لیے سارے کام نپٹا کر جلدی واپس آگیا ۔۔۔۔

اس بار وہ تھوڑی نرمی سے پیش آیا ۔۔۔۔

چاہت بنا جواب دئیے ڈریسر پہ موجود ترتیب سے لگی چیزوں کو واپس ایک جیسا کر کہ رکھنے میں اپنے آپ کو مصروف ظاہر کر رہی تھی ۔۔۔۔

اگر وہ سنگ مرمر بن چکا تھا تو وہ بھی سرد انداز اپنا چکی تھی ۔۔۔بقول ھادیہ کے تم بھی انہیں نظر انداز کرو ۔۔۔ خودی تمہارے پیچھے آئیں گے ۔۔۔۔

چاہت کا دل تو نہیں کرتا تھا اسے سامنے دیکھ کر نظر انداز کرنے پہ ۔اسے سامنے دیکھ کر ھادیہ سے کیے وعدے توڑنے کا دل کرتا ۔۔۔۔

"آج کا دن تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔چلو کہیں باہر چلتے ہیں ،جلدی سے تیار ہوجاو "

آج وہ سردار نہیں پہلے والے یارم بلوچ کی طرح بن گیا تھا ۔

وہ اسے انکار کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔کب سے وہ اسے نظر انداز کیے اپنی کی دنیا میں مگن تھا ۔آج اتنے عرصے بعد اسے کیسے یاد آگئی کہ باہر گھومنا پھرنا بھی کوئی چیز ہے ۔۔۔۔وہ شکوہ کرنا چاہتی تو تھی لیکن زبان نے اس کا ساتھ نہیں دیا ۔۔۔۔

چاہت نے بنا اسکی طرف دیکھے اپنا رخ کبرڈ کی طرف کیا اس کی سلائیڈ کھول کر اندر سے لٹکے ہوئے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی کہ اپنے چہرے پہ اسکی گرم سانسیں محسوس ہوئی تو بدن میں بجلی سی کوند گئی۔۔۔۔

وہ وہیں ساکت سی کھڑی تھی ۔۔۔ ہلنے کی ہمت نا تھی ۔۔۔

"جس ڈریس میں تم کمفرٹیبل فیل کرتی ہو وہی پہنو آج ،کسی کے لیے خود کو مت بدلو ،مجھے جیسے تم پہلے تھی ویسے ہی اچھی لگتی ہوں۔۔۔۔

یارم بلوچ کے لب اسے اپنے کان کی لو سے مس ہوتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔۔۔

وہ بدک کر پیچھے ہوئی ۔۔۔

اور گہری سانس کھینچ کر خود کو نارمل کرنے لگی۔۔۔

پھر اس کے کہے کہ مطابق آج کافی عرصے بعد جینز اور شرٹ،اس پہ لانگ کوٹ نکالا سرد موسم کے حساب سے ،،،

پھر چینج کرنے چلی گئی ۔۔۔۔

اسکے جاتے ہی یارم بلوچ نے شال اتار کر صوفے پر اچھال دی ۔قمیض اور کف پہ لگے بٹن کھولے ۔۔۔

آج اس نے تیسری سلائیڈ کھولی جہاں اسکے ایک سال پہلے استعمال کے کپڑے موجود تھے ۔۔۔۔

اس نے بلیو جینز اور بلیک شرٹ نکالی ساتھ بلیک جیکٹ نکالی اور ڈریسنگ روم کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔۔

جب وہ دونوں تیار ہوکر حویلی سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکے نے ان کا استقبال کیا۔۔۔۔

چاہت نے ٹھٹھرا کر سینے پہ ہاتھ باندھ لیے ۔۔۔۔

یارم بلوچ اسے اپنے ساتھ لیے جیپ میں بیٹھ گیا اور اگنیشن میں چابی گھما کر اسے سٹارٹ کیا ۔۔۔۔وہ گاؤں کے احاطے سے باہر نکل رہے تھے ،جب کی چاہت یہاں آئی تھی آج پہلی بار یوں باہر نکلی تھی ،اور موسم بھی انتہائی خوبصورت ہو رہا تھا ،شام ڈھلنے والی تھی،دن اور رات کا امتزاج پیش کرتا یہ پرکشش منظر اس کی آنکھوں کو بہت بھا رہا تھا ۔

وہ ونڈو سے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی ،تبھی ایک شخص سائیکل پہ گزرا ۔۔۔۔

"واؤ ۔۔۔!!!!سائیکل ۔۔۔۔!!! 

وہ وہ دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر ایکدم خوشی سے چلائی ۔۔۔

جتنی مرضی اس پہ محنت کی گئی تھی اسے سنجیدہ مزاج بنانے کی اس کے اندر ابھی بھی تھوڑا بہت بچپنا موجود تھا ۔۔۔

یارم نے فورا جیپ روک دی ۔۔۔

"آپ کو پتہ ہے مجھے نا سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا ۔جب میں امریکہ میں تھی نا ۔۔۔وہاں کبھی کبھی باہر پارک میں برو کے ساتھ جاتی تھی ،وہاں سب بچے سائیکل چلاتے تھے ۔میں نے برو کو کہا کہ مجھے بھی سائیکل دلا دیں ۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔!!! 

وہ بات بتاتے بتاتے ایک دم چپ ہوگئی ۔۔۔۔اور سر جھکا لیا 

"مگر کیا ؟"

اس نے چاہت کی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر نرمی سےاوپر اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔

"انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پیسے نہیں مجھے سائیکل لے کر دینے کے ۔۔۔۔۔

وہ افسردہ لہجے میں بولی۔

"آپ کو سائیکل چلانی ہے ؟"

"نہیں ۔۔۔۔ممی کہتی ہیں کہ اب تو میں بڑی ہوگئی ہوں نا ۔۔۔

وہ اپنے تئیں سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔

یارم کے باہم پیوست لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔۔

"آئیں باہر ۔۔۔!!!!"

وہ اپنی سائیڈ کا ڈور کھول کر نیچے اترا ۔۔۔۔

اور دوسری طرف سے آکر اسکی طرف کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکلنے کو کہا ۔۔۔۔

چاہت حیران کن نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے نیچے اتر آئی ۔۔۔۔

"رکیے ۔۔۔۔!!! سائیکل سوار ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا یارم نے اپنی بھاری آواز میں کہا ۔۔۔۔

تو اس نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔

اور سائیکل سے اتر کر سائیکل سمیت فورا اس کی آیا ۔۔۔۔

"جی سردار !

اس نے مؤدب انداز میں سر جھکائے کہا ۔۔۔۔

"ہمیں آپ کی سائیکل چاہیے کل واپس دے دیں گے ",

"جی سرکار ۔۔۔!!!

اس نے پہلے تو حیرانگی سے اپنے سردار کو دیکھا کہ جس کے پاس جیپ موجود ہے اس نے سائیکل کا کیا کرنا ہے ۔مگر اس سے سوال کرنے کی جراءت نہیں تھی۔تبھی سائیکل اس کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

"سردار سب آپ کا ہی دیا ہوا ہے ۔۔۔۔"

"شکریہ ۔۔۔!!! 

یارم نے اس سے سائیکل لے لی ۔۔۔۔تو وہ اپنے راستے پہ  چلا گیا ۔۔۔۔ 

"آئیں ..."

"م۔۔۔۔م۔۔۔۔مگر مجھے تو یہ چلانی ہی نہیں آتی "

وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی ۔۔۔

"آپ بیٹھیں میں سکھاتا ہوں "

چاہت اس پہ بیٹھی اور ہینڈلز پہ دونوں ہاتھ مضبوطی سے جمائے ۔۔۔۔مگر توازن برقرار نا رکھ سکی ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ گر جاتی یارم نے اسکی پشت سے ہاتھ لے جا کر اسے گرنے سے روکا ۔۔۔۔اور دونوں ہینڈلز پہ رکھے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ دئیے ۔۔۔۔

"اب چلائیں "

وہ پیچھے سے سہارا دئیے ہوئے تھا ۔۔۔چاہت نے آہستہ آہستہ ڈرتے ہوئے پیڈل چلانے ،شروع کیے ۔۔۔۔کہیں کہیں دل ڈر بھی رہا تھا ۔۔ لیکن خوشی بھی ہو رہی تھی اپنی خواہش پوری ہونے پہ ۔۔۔۔

وہ لوگ سائیکل چلاتے ہوئے  کافی دور نکل آئے تھے ۔۔۔۔۔

ایک بار پھر توازن بگڑا ۔۔۔۔

"ب۔۔۔بس۔۔۔مجھ سے نہیں ہوگا 

اور ۔۔۔۔اس نے پلٹ کر یارم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔

"اوکے آئیں اب آپ کو اسی سائیکل پہ وہاں لے کر جاتے ہیں جہاں آپکو لے کر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔وہ مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

چاہت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور سائیکل سے اتر آئی ۔۔۔یارم خود سائیکل کی سیٹ پہ بیٹھ گیا ۔اور چاہت  آگے بیٹھ گئی ۔۔۔۔ایسے بیٹھنے سے چاہت کو یارم کی گرم سانسیں اپنے چہرے پہ پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔اس کے مخصوص پرفیوم کی محسور کن مہک اسے اپنی سانسوں میں گھلتی ہوئی لگی ۔۔۔۔۔

تبھی بوندا باندی شروع ہوگئی ۔۔۔۔ہوا میں ٹھنڈ کی لہر دوڑی  ۔۔۔۔جو اسے کپکپانے پہ مجبور کر گئی ۔۔۔۔

ہلکی ہلکی پھوار ان پہ ِاسم عشق پھونک کر انہیں اپنے سحر میں جکڑ رہی تھی ،،،،

مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو انہیں اپنے ساتھ باندھ رہی تھی ،،،،

ہوائیں جیسے ان کے ساتھ پہ گنگنانے لگیں۔۔۔۔۔،،،،

"آگے کا راستہ سائیکل پہ طے نہیں ہوگا ۔۔۔ہمیں پیدل چلنا ہوگا "

یارم نے کہا تو دونوں سائیکل سے اتر آئے اور اسے ایک طرف کھڑی کرتے ایک ساتھ چلنے لگے ۔۔۔۔ 

"کتنا حیسن ہے نا یہ سب ۔۔۔۔!!!!

"دل چاہتا ہے یہیں رہ جاؤں "....چاہت فرط مسرت سے لبریز لہجے میں بولی۔۔۔۔

"مجھے تو اس موسم سے بھی زیادہ حسین کوئی اور لگ رہا ہے ۔۔۔۔"وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے رک کر بولا ۔۔۔

تو چاہت اسکے بدلے تیور دیکھ کر ٹھٹھکی ۔۔۔۔

مگر چہرے پہ ابھی بھی نا سمجھی کے آثار نمایاں تھے۔۔۔

"دل چاہتا ہے تمہیں یہاں سے کہیں دور لے چلوں جہاں چاہتوں کی بارش ،اور محبتوں کا نزول ہو "

وہ مدھم سا مسکرا کر بولا۔۔۔

چاہت کے چہرے پہ بارش کی بوندیں گریں تو خوشی سے جھوم اٹھی ۔۔۔۔اور آسمان کی طرف دیکھ کر کھکھلانے لگی ۔۔۔۔

یہ موسم کا جادو تھا یا اس کی نسوں میں چھایا سرور ،،،

وہ دلربا ،من موہنی سی لڑکی  گرے لانگ کوٹ میں اس شام  سرمئی شام کا حصہ ہی لگی ۔۔۔وہ مبہوت سا اسے گول گول گھومتے دیکھے گیا ۔۔۔۔

"تمہیں بارش پسند ہے "؟

"بہت بہت بہت زیادہ "۔۔۔۔!!!!

"اتنی زیادہ ۔۔۔۔۔!!!!

وہ دونوں ہاتھ پھیلائے بولی ۔۔۔

آج ان دو دلوں میں چھائی کثافتیں ،،،کلفتیں ،غلط فہمیاں یہ بارش اپنے ساتھ بہا لے جانے کے لیے آئی تھی ۔۔۔۔

"برو کبھی مجھے بیمار ہونے کے ڈر سے بارش میں جانے نہیں دیتے تھے ۔۔۔۔۔آج دیکھیں میں بارش کو محسوس کر پا رہی ہوں ۔۔۔۔

وہ ابھی بھی آسمان کی طرف چہرہ کیے بند آنکھوں سے سرشارانہ انداز میں بولی ۔۔۔۔

یارم بلوچ اس مجسمہ حسن کو بس دیکھے گیا ۔۔۔۔

اس کا حسین شاداب چہرہ،،،

یاقوتی لبوں پر بارش کی بوندیں ،،،،

رعنائیاں بکھیرتا وجود جس پہ اسے پورا حق حاصل تھا ۔۔۔۔بارش کی بوندیں اس کے روشن چہرے پہ تواتر گر رہی تھیں ،،،،،چہرہ مزید نکھر سا گیا تھا ۔۔۔وہ ہمت مجتمع کیے۔۔۔۔اسکے گیلے سراپے سےنظریں چرا گیا ۔۔۔

"آؤ چاہت بارش سے ادھر واقعی بیمار ہوجاو گی ۔۔۔۔

وہ ایک جگہ پہ رک کر اسے آواز دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"پلیز تھوڑی دیر اور ۔۔۔۔!!!!

وہ بضد ہوئی ۔۔۔۔

"آجاؤ نا چاہت ابھی ہمیں تھوڑا اور آگے جانا ہے "

چاہت اسکی بات سن کر اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔۔۔۔

"آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں ۔۔۔۔؟

اس نے چہرے پہ گری بوندوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کیے پوچھا ۔۔۔۔

"وہ سرپرائز ہے جب پہنچ جاؤ گی تو دیکھ لینا خود ہی "

"آگے کا راستہ کچا ہے ،پھسلن ہورہی ہے ،روڈ سے آتے تو ٹھیک تھا اس راستے سے سنبھل کر چلنا پڑے گا "

یارم بلوچ نے دھیمے لہجے میں کہا اور پھر اسکا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔۔۔۔چاہت نے اسکی طرف چونک کر دیکھا پھر راستے پہ نظریں جمادیں۔۔۔۔

وہ سنبھل سنبھل کر چلتے بالآخر مخصوص منزل تک پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔اس نے سامنے کا منظر دیکھا اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیل گئی وہ بےیقینی کی کیفیت میں دونوں ہاتھ منہ پہ جماتے جیسے سامنے دکھائی دیتے منظر کو یقین میں بدلنے کی کوششوں میں تھی۔دور دور تک صرف ریت دکھائی دے رہی اور اس کے درمیان میں ایک سفید پردوں سے سجائی گئی جگہ تھی ۔۔۔۔۔ 

اس کی پتوں اور پھولوں سےچھت بنا کر چاروں اطراف میں سفید پردے لگائے گئے تھے ،جو تیز ہوا کے جھونکوں اور بارش میں گیلے ہوکر پھپھڑا رہے تھے ۔۔۔۔۔

اس تک پہنچنے کے لیے ساری روش کی اطراف کو پھولوں کی باڑ سے سجایا گیا تھا ۔۔۔۔

چاہت نے غور کیا تو سرخ گلابوں سے

"Yaram loves Chahat"

لکھا گیا تھا اس کی آنکھیں پہلے تو حیرت سے دوچند ہوئیں پھر ان میں نمی سی گھلنے لگی ۔۔۔۔

اس نے بے یقینی سے یارم بلوچ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"تم نے تو جواب نہیں دیا تھا میرے سوالوں کا مگر میں جان چکا ہوں تمہارا جواب "

"چاہت ۔۔۔!!!!!

"میں چاہتا ہوں چاہت آج سب بھلا دوں صرف تمہیں یاد رکھوں "

"تم بھی سب بھول جاؤ اور مجھ میں کھو جاؤ "

وہ عالم جذب سے کہتے اس اس کا ہاتھ تھام کر نرم ریت سے گزرتے ہوئے مخصوص جگہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔

دونوں اسکے قریب پہنچ کر رکے ۔۔۔۔

یارم اس کی آنکھوں میں چھپی تحریر پڑھنا چاہتا تھا ۔۔۔

اسکی نگاہوں کی تپش سے چاہت کو اپنا وجود جھلستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا،وہ اس کی تاب نا لاتے ہوئے نظریں جھکا گئی ۔۔۔۔

دل سینے میں دھڑک کر اپنے ہونے کا یقین دلانے لگا ۔۔۔۔

"یکطرفہ محبت کا سفر بہت کٹھن ہے چاہت ،،،،مجھے یقین ہے محبت کے اس سفر میں تم میری ہمقدم بن چکی ہو "

یارم کی بھاپ اڑاتی ہوئی سانسیں اس کے چہرے کو جھلسا رہی تھیں ،اس کا وجود کانپنے لگا ،،،،

وہ اس کی نظروں سے فرار پانے کے لیے بھاگی ۔۔۔۔اور پھر سے دور جا کر بارش میں بھیگنے لگی ۔۔۔۔

یکخلت دلی جذبات نے کروٹ لی ،اور من میں پوشیدہ احساسات ابھر کر سامنے آنے لگے ۔۔۔۔۔

وہ اس کے دھیمی چال چلتے ہوئے اسکے نزدیک آیا ۔۔۔پھرشانوں سے تھام کر اس کا معصوم چہرہ نگاہوں میں بساتے اس کے نزدیک جھکا۔۔

"چہرے میں تیرے ،،،

خود کو میں ڈھونڈوں ۔۔۔

آنکھوں کے درمیان ،،،

تو اب ہے اسطرح ،،،

خوابوں کو بھی جگہ نا ملے ،،،

یہ موسم کی بارش ،،،

یہ بارش کا پانی،،،

یہ پانی بوندیں،،،

 تجھے ہی تو ڈھونڈھیں ۔۔۔

یہ ملنے کی خواہش،،

یہ خواہش پرانی ،،،،

ہو پوری تجھی سے یہ میری کہانی ،،،،،

یارم ایک ہاتھ سے اس کا تھام تھام کر دوسرا اسکی کمر میں ڈالا ۔۔۔۔

بوندا باندی نے بوچھاڑ کا روپ دھار لیا تھا ۔۔۔۔

دونوں ہمقدم بارش کی مدھر  تال پہ مدھوش ہوئے رقص کر رہے تھے ۔۔۔

کبھی تجھ میں اتروں تو

 جو سانسوں میں گزروں 

تو آئے دل میں راحت ،،،

میں ہوں بے ٹھکانہ ،،،

فنا مجھ کو پانا ہے تجھ میں 

دے اجازت ۔۔۔۔!!! 

دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو رہے تھے ۔۔۔

اس کی سحر انگیز آواز نے ماحول میں جادو جگایا۔۔۔اس نے اپنی دلی جذبات کو الفاظ کا پیراہن گانے کی صورت میں دیا ۔۔۔۔

"کیسی بے خودی طاری تھی آج اس پر ؟؟؟

آسماں پر بادل زور سے گرجے ۔۔۔

لمحوں نے اس پر اپنا سحر پھونکا ۔۔۔دونوں دل ایک ہی لے پہ دھڑک رہے تھے۔

دونوں کا دل آج پہلی بار ایک ساتھ دھڑکا،

کیسی محبوبانہ گرفت تھی اس کی !!!

کیسی دیوانگی تھی اسکی فسوں خیز قربت میں !!!!۔

وہ اس وقت خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکیوں میں شمار کر رہی تھی ۔۔۔۔

دونوں کے وجود میں طلاطم برپا تھا۔۔۔

وہ اس کے گال سے اپنے گال لگا کر اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔

"نا کوئی درمیاں ،،،

ہم دونوں ہیں یہاں ،،،

پھر تو ہی بتا ؟؟؟

ہیں کیوں فاصلے ؟؟؟

یہ موسم کی بارش ،،،

یہ بارش کا پانی،،،

یہ پانی بوندیں،،،

 تجھے ہی تو ڈھونڈھیں ۔۔۔

یہ ملنے کی خواہش،،

یہ خواہش پرانی ،،،،

ہو پوری تجھی سے یہ میری کہانی ،،،،،

وہ اسے اپنے قریب دیکھ آج اپنے حواس کھو رہا تھا ۔۔۔

چاہت کو اس کی قربت میں اپنا وجود شعلوں سا دہکتا محسوس ہوا ۔۔۔

اپنی گردن پر جا بجا اس کا پرحدت لمس اسے خاکستر کیے دے رہا تھا ۔۔۔۔

اس کی سانسوں کی رفتار بتا رہی تھی اس کے اندر کی حالت ٹہرے ہوئے پانیوں میں طوفان کی آمد ہوئی چاہتی تھی ۔۔۔

اس کے لرزتی بھیگی پلکیں،دہکتے سرخ عارض ،گداز کپکپاتے ہوئے لب،

طلاطم خیز تھے ۔۔۔۔

چاہت نے بارش کے پانی سے  مٹھی بھر کر اسکی طرف اچھالا ۔۔۔

پرندوں کی طرح ،،،

یہ دل ہے سفر میں 

تو ملادے زندگی سے 

بس اتنی التجا ۔۔۔

تو آکر اک دفعہ 

جو دل نے نا کہا 

جان لے !!

یہ موسم کی بارش ،،،

یہ بارش کا پانی،،،

یہ پانی بوندیں،،،

 تجھے ہی تو ڈھونڈھیں ۔۔۔

یہ ملنے کی خواہش،،

یہ خواہش پرانی ،،،،

ہو پوری تجھی سے یہ میری کہانی ،،،،،

اونچا لمبا ،اپنی وجاہت سے مقابل کو زیر کرلیتے والا ساحر اپنی سرمئی آنکھوں میں اس کے لیے عشق لیے بنا پلکیں جھپکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا ،

وہ بار ِحیا سے پلٹنے کو تھی 

"پہلے اپنے ہزبینڈ کے قریب آنے کے لیے ہزار جتن کرتی تھیں اب یہ دوری کیوں ؟؟؟ 

یارم بلوچ نے اس کی کلائی تھام کر واپس کھینچا۔۔۔

وہ اس کے سوالیہ نظروں سے گھبراتے ہوئے لب کچلنے لگی ۔

آج یارم بلوچ کا روپ بہت مختلف تھا ،،،،شدید جنونی اور شدت انگیز ۔۔۔۔!!!  

"مجھے محبت کی زیادہ طلب نہیں ،،،،

تمہاری تھوڑی سی ہنسی ،،،

تمہاری تھوڑی سی شرارت ،،،

تمہاری تھوڑی سی پیار کی نظر میرے وجود کو سراپا محبت بنا سکتی ہیں ۔۔۔

اس نے عقب سے آکر اسے اپنے حصار میں لیا۔یارم بلوچ کی سرسراتی ہوئی انگلیاں اپنی کمر سے ہوتے ہوئے پیٹ پہ محسوس کرتے چاہت کا رواں رواں کپکپا اٹھا  ،کچھ بولنے کی تو ہمت ہی نہیں تھی ،دھیان تو سارا اسکے  سرسراتے ہوئے ہاتھ پہ تھا ۔۔۔۔۔

اسے اپنی دھڑکنیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔

"کیا مجھے میرے روئیے کے لیے معافی نہیں مل سکتی ۔"

وہ اس کے گال پہ لب رکھتے خمار ذدہ لہجے میں بولا تو چاہت  نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لی۔

"تمہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ،دل چاہتا ہے اپنے رب کا ڈھیر سارا شکر ادا کروں جس نے مجھے تم جیسی نعمت سے نوازا ،،،،تمہیں دیکھ کر مجھے اپنی زندگی بھی حسین لگنے لگتی ہے۔اُس خدا نے جس قدر تمہاری محبت میرے دل میں ڈال دی ،اسقدر الفاظ بھی عطا کردے تاکہ ہر روز میں نئے الفاظ اور نئے انداز میں تمہاری محبت کا شکرانہ ادا کروں ۔۔۔

وہ فسوں خیز آواز میں کہتے ہوئے اسے خود سے بیگانہ بنا رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت نے کچھ یاد آنے پہ اسکی طرف دیکھا۔۔۔

"سنو نا سنگ مرمر ۔"

"آپ میلٹ کیسے ہوئے "؟

یارم اسکے سوال اور اپنے نام پہ پہلے حیران ہوا پھر اس نے جاندار قہقہ لگایا۔۔۔۔

"ان نیلے نینوں کے سمندر میں ڈوب گیا ،،،آج زیتون کی جڑیں سنگ مرمر کو توڑ کر اس سٹون مین کے دل پہ اپنی حکمرانی قائم کر چکیں ہیں  ۔۔۔۔"

وہ اس کے سامنے آیا اور اس کی دونوں لرزتی ہوئی پلکوں پہ باری باری اپنے لب رکھتا ہوا بوجھل لہجے میں بولا تو چاہت اس کے سلگتے لمس پہ تڑپ اٹھی  ۔انتہائی قربت پہ اس کا تنفس بگڑنے لگا۔

"چاہت ،،،،گلاب پتیوں سے نرم و ملائم ہونٹوں سے یوں مسکرانا تمہارا ،،، دل میں قہر برپا کیے میری دھڑکنیں بڑھا جاتا ہے "

وہ اسکی تھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر خمار آلود لہجے میں بولا۔۔۔۔

"میں آپ سے ناراض ہوں "

وہ ناراض لہجے میں بولی لیکن اسے اپنی طرف ذومعنی نظروں سے دیکھتے ہوئے خود ہی سٹپٹاگئی۔

"کیا ہوا ڈر کیوں گئی،،،،؟ابھی تو تمہارے سارے شکوے شکایات دور کرنے کا وقت ہے ،آج جی بھر کر تمہاری تعریف بھی کروں گا اور ۔۔۔۔۔"

وہ شرارت سے مسکرا کر بات ادھوری چھوڑ گیا اور اسے اپنی آہنی بانہوں میں بھر کر اس مخصوص جگہ پہ آیا ۔۔۔

نرمی سے چاہت کو نیچے اتارا ۔۔۔۔۔ 

"اور ؟؟؟؟

اس نے منہ میں آیا لفظ بالآخر بول ہی دیا ۔۔۔

"سب پتہ چل جائے گا ابھی تو بہت وقت باقی ہے ،اس نے گیلی جیکٹ اتار کر ایک طرف رکھی ۔۔۔۔ 

چاہت نے بھی گیلا کوٹ اتار کر رکھ دیا جس میں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا ۔۔۔۔

سامنے ایک میٹریس پہ نرم بستر لگا تھا ۔جس پہ بے داغ مخملیں چادر بچھی تھی ۔۔۔۔

 اس نے سارے پردے برابر کردئیے ۔۔۔۔اور پلٹ کر چاہت کی طرف دیکھا جس کے ہونٹ سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے ۔۔۔وہ سہمی ہوئی ہرنی کے جیسی اسے درزیدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔

وہ اس کا ہاتھ تھام کر بستر پہ لے گیا ۔۔۔۔چاہت بیٹھی تو وہ اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔اور چاہت کا ہاتھ اپنے بالوں پہ رکھ دیا ۔۔۔۔

"چاہت !کبھی کبھی ہم دماغی ،جسمانی ،اور نفسیاتی لحاظ سے اتنا تھک جاتے ہیں کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ،جو ہمیں سہارا دے ،ہماری بات سمجھے ،اپنا کاندھا دے ہمارا غم بانٹنے کے لیے ۔۔۔۔

بہت تھک چکا ہوں خود سے لڑتے لڑتے ۔۔۔۔اب میں ہار گیا ہوں ،،،،میرا دل چاہ رہا ہے میں اپنے بازؤں کو تمہارے گرد حمائل کردوں ،تمہیں اپنے سینے سے لگا کر اپنے سارے غم ،تھکن ،اداسی ،خاموشی ،

تم سے بانٹ لوں ،

تمہارے ان نرم بازوؤں کے حصار ،تمہاری قربت میں سکون کی نیند سو جاؤں "

وہ اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ خود پہ جھکاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

چاہت نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔

یارم نے اسکی مرمریں کلائی میں دیدہ زیب نفیس سا بریسلٹ پہنایا ،جس پہ ہارٹ  بنا تھااور اس پہ یارم لکھا تھا ،،،،اور اس پہ محبت بھرا بوسہ لیا ۔۔۔تو چاہت کی دھڑکنیں اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگیں ۔۔۔ 

"میرے پیار کرنے کا طریقہ زرا سا الگ قسم کا ہے ،سہہ پاؤ گی ۔۔۔۔۔وہ اسکے لبوں کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے مدھم آنچ دیتے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت نے اناری چہرے سے اثبات میں سر ہلاتے ہی آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔

یارم بلوچ کے چہرے پہ دلکش مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کیا ۔۔۔۔

"مگر آپ نے برو کا نہیں بت۔۔۔یا۔۔۔۔"چاہت کے باقی الفاظ کو وہ اپنی شدت بھری جسارت میں مدغم کرچکا تھا ۔۔۔۔۔

اس کادل تو اچھل کر حلق میں اٹک گیا۔۔۔۔اور سانسیں تھم گئیں ۔۔۔۔

رہائی پاتے ہی وہ زرورں سے دھڑکتے دل پہ ہاتھ رکھے گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔۔

سارے سوالات تو وہ بھول چکی تھی ۔۔۔۔

اپنے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے وہ اسے بھی اپنے ساتھ کسی اور دنیا میں لے جارہا تھا۔چاہت کے تو اعصاب سلب ہونا شروع ہوگئے۔وہ اب اس کو چہرے پہ اپنے شدت بھرے لمس سے پھولوں کی طرح مہکانے لگا  ۔۔۔۔اس کا چہرہ اس کی التفات پہ لہو چھلکا رہا تھا۔۔۔

اس کی پناہوں میں وہ خود کو بہت محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہی تھی،محبتوں کی بارش میں بھیگتی شب دھیرے دھیرے سرک رہی تھی ،،،،

میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں ،،،،

وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں،،،،،۔

وہ ہاسٹل کے کمرے میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے کتاب لے کر نیم دراز سا تھا ،

پچھلے ایک سال سے یہی کیفیت تھی ،جب کبھی وقت ملتا زرش بلوچ سے ویڈیو کال پہ بات کرلیتا مگر ،اُسے ایک بار بھی کال نہیں کی ،اسی کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے کھلی ہوئی کتاب پلٹ کر بستر پہ رکھ دی ،اور پاس پڑا موبائل اٹھایا ۔۔۔۔

تیرے عشق نے بخشی ہے ،

یہ سوغات مسلسل ،،،

تیرا ذکر ہمیشہ ،،،

تیری بات مسلسل،،،

میں محبت میں ،،،

اس مقام پہ ہوں جہاں ،،،

میری ذات میں رہتی ہے ،،،

تیری ذات مسلسل ،،،،

اس نے میسج پہ ٹائپ کیا ۔۔۔۔پھر ھادیہ کے نمبر پہ سینڈ کرنے لگا تھا ۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔

اپنے لکھے گئے الفاظ کو ریمو کردیا ۔۔۔۔۔

موبائل بستر پہ رکھتے ہی ،اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ۔۔۔۔۔

دماغ پھٹا جا رہا تھا ،،،

پھر اس نے کچھ سوچ کر واپس موبائل اٹھایا ۔۔۔۔

اس میں دوسری سم ایکٹو کی   جو اس کے پاس ایکسٹرا تھی ۔۔۔۔وہ کبھی کبھار اسے استعمال کرتا تھا ۔یہ نمبر اسکا زیادہ لوگوں کے پاس نہیں تھا ۔۔۔۔

ھادیہ کے نمبر پہ صرف 

؟؟؟؟؟؟؟؟

سوالیہ نشان بنا کر واٹس ایپ کر دئیے ۔۔۔۔

اور اس کے ری ایکشن کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔

بے آس کھڑکیاں ہیں ستارے اداس ہیں،،،

آنکھوں میں آج نیند کا کوسوں پتا نہیں،،،،

وہ تنہا کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تاروں بھرے آسمان کو تاک رہی تھی ،،،،

اپنے ھاد بلوچ کی پرانی خوشگوار یادوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔۔تبھی موبائل پہ میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی۔۔۔۔۔تو وہ چونک کر مڑی ۔۔۔۔اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے بے دلی سے بیڈ پہ آکر بیٹھی اور موبائل اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔

کوئی انجان نمبر سے میسج آیا تھا ۔۔۔کوئی ڈی پی بھی نہیں لگی تھی جس سے وہ کچھ اندازہ لگا پاتی ۔۔۔۔

اس نے اوپن کیا تو وہاں سوالیہ نشان کے علاؤہ کچھ بھی نہیں لکھا تھا ۔۔۔

اس نے نخوت سے سر جھٹک کر موبائل پٹخ دیا ۔۔۔

اچانک اس کے زہن میں اک خیال بجلی کی طرح کوندا ۔۔۔۔

میرے پیار سے انکاری تو نہیں تھا وہ کبھی جسطرح مجھے اس کی یاد آتی ہے ،وہ بھی مجھے یاد تو کرتا ہوگا ۔۔۔۔کہیں یہ ھاد ۔۔۔۔؟؟؟"

اس نے واپس موبائل اٹھایا اور مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کرکہ سینڈ کردیا ۔۔۔۔

ھاد بلوچ جو موبائل ہاتھ میں لیے اسی کے رپلائی کے انتظار میں تھا۔

"ھاد بلوچ کے علاؤہ کسی میں اتنی جراءت نہیں کہ اس کی بلوچن سائیں کو میسج کرے "

نیچے ہنسی والے ری ایکٹ تھے ۔۔۔۔

پہلے الفاظ پڑھ کر تو وہ چونکا پھر ری ایکٹس دیکھ کر اسکی پیشانی پہ بل پڑے ۔۔۔۔

اس نے موبائل آف کیے بستر پہ اچھالا ۔۔۔۔اور منہ پہ تکیہ رکھ کر آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔

دوسری طرف ھادیہ نے دیکھا اس کا میسج سین ہوچکا تھا ،مگر میسج دیکھ کر وہ آف لائن ہوگیا ۔۔۔۔

"جتنا مرضی مجھ سے بے خبری اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کر لو ۔۔۔۔مجھے پتہ ہے ،میرے بغیر تم بھی خوش نہیں ،اس نے زخمی ہنسی ہنستے ہوئے ھاد کا تکیہ اٹھا کر سینے سے لگایا اور اسے زور سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔

آج بھی اس کے تکیے میں سے اسکی مہک آتی تھی ۔۔۔۔

"کیا ہوا باسط ؟

ھاد نے اپنے روم میٹ کو اداس دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

"کچھ نہیں یار زویا اپنے گھر گئی تھی ،ابھی تک ہاسٹل واپس نہیں آئی اور ناہی کال اٹینڈ کر رہی ہے ۔وہاں سب خیریت ہی ہو "

اس نے تفکر بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔

"فکر نا کر یار سب ٹھیک ہی ہوگا ۔۔۔ھاد نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"سسی آٹھ بج گئے ۔اور کتنی دیر لگے گی ؟"

آتش بلوچ بلیو جینز پہ چاکلیٹ براؤن شرٹ پہ بلیزر پہنے بہت ہینڈسم دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔سسی جو حجاب سیٹ کرنے میں آدھی ہوئی جا رہی تھی ،اسکی آواز پہ چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔تو دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔سرخ و سفید چہرے پہ تازہ شیو کی نیلاہٹیں نمایاں تھیں،وجیہہ چہرے پہ ہمیشہ کی طرح نرمی بھرے تاثرات ،وہ سسی کو اپنی طرف یک ٹک دیکھتے ہوئے دل کھول کر مسکرایا ۔۔۔۔جس سے اس کے ڈمپل نمایاں ہوئے ۔۔۔

"آ۔۔۔ہم ۔۔۔۔آہم ۔۔۔۔اس نے گلا کھنگھار کر اسے ہوش دلایا۔۔۔

سسی ہڑبڑا کر نظروں کا زاویہ بدل گئی ۔۔۔۔

"گھر واپس آئیں گے نا تو پوری رات ہوگی آپکے پاس آرام سے اپنے شوہر کے نظارے کیجیے گا ابھی چلیں ",

وہ شرارت سے بولا ۔۔۔

"ایسی بات نہیں ۔۔۔۔غلطی آپ کی ہی ہے ،،،آپ ہر بار پہلے سے بھی زیادہ اچھے لگنے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔اور پلیز اسے پہنا دیں نا مجھ سے یہ لیا کی نہیں جا رہا ۔۔۔۔۔اس نے حجاب کی طرف اشارہ کیے کہا ۔۔۔۔

تو آتش بلوچ نے آگے بڑھ کر سکارف اس کے سر پر رکھ کر گول گھماتے ہوئے اچھے سے سیٹ کرکہ پن اپ کردیا ۔۔۔۔

اس نے ایک تفصیلی نگاہ سسی کی تیاری پہ ڈالی ۔۔۔

ڈارک بلیو کلر کی لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہنے پاؤں میں کھسہ ،شانوں پہ ہم رنگ دوپٹہ پھیلائے بالوں اور گردن کو اچھے سے سکارف میں کور کیے لائٹ پنک لپسٹک اور مسکارے میں وہ بالکل نازک سی کھلی ہوئی کلی کی مانند لگی ۔۔۔۔۔

"کیسی لگ رہی ہوں "؟

اس نے آتش کو اپنا جائزہ لیتے دیکھا تو پوچھے بنا رہ نا سکی ۔۔۔۔۔

تبھی آتش بلوچ اسکے قریب آیا تو سسی نے نا سمجھی سے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔

پھر تھوڑا سا جھک کر اسکے گلابی رخسار پہ نرمی سے اپنے لب رکھ دئیے ۔۔۔۔

"ایسی ۔۔۔۔!!!!  

سسی تو شرم سے پانی پانی ہو گئی۔اس نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔۔

"Let's go yaar ...

It's too much late .....

وہ اسے مزید شرمانے کا موقع دئیے بغیر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لیے یونیورسٹی کی ری یونین فنکشن میں  گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ حویلی کی سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ اچانک ھادیہ سامنے آگئی ۔۔۔۔

ہر پل دل کو تمہاری کمی ستاتی ہے ۔

کئی راتوں سے سو نہیں پائی ۔۔۔۔

دیکھو تمہارے بنا کیا سے کیا ہوگئی ہوں ؟؟؟

ھاد نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔۔تو آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے ،چہرہ بھی کملایا ہوا تھا ۔۔۔۔

مگر وہ نظر انداز کیے جانے کہ لیے مڑا ۔۔۔۔

تبھی ھادیہ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے جانے سے روک دیا ۔۔۔

"تمہارے فراق میں اتنے تارے گنے ہیں اب تو تارے گنتے گنتے میرے ہاتھوں کی انگلیاں بھی جلنے لگیں ہیں ۔۔۔ 

میں تمہارے آسرے پہ ہوں ھاد بلوچ۔۔۔۔

مجھے فاصلوں کی مار مت مارو ۔۔۔۔مر جاؤں گی میں ......!!!

ھادیہ اسکے بئیرڈ زدہ گال کو اپنی پوروں سے چھو کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے دھیمے سے بولی ۔۔۔۔

"مجھے جانے دو ۔۔۔!!!!

ھاد نے اس کا ہاتھ اپنے بازو سے پیچھے جھٹک دیا ۔۔۔

"دل تو تم چھین ہی چکے ہو اک جاں رہ گئی ہے وہ بھی لینا چاہتے ہو ؟؟؟

"ایک بار کہہ کر دیکھو ہنستے ہنستے جان بھی وار دوں گی تم پہ "

مگر ھاد بلوچ سنگدل بنا بے تاثر کھڑا رہا ۔۔۔۔۔

ھادیہ اس کے سپاٹ انداز دیکھ کر غمزدہ ہوئی ۔۔۔۔

 "تم کیا چاہتے ہو میں چلی جاؤں یہاں سے ؟؟؟؟

"کہو ؟؟؟.

"کہو تمہیں کوئی فرق پڑتا ہے میرے ہونے یا نا ہونے سے ؟؟؟

"میں ہنسوں یا روؤں ؟؟؟

تم تو مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہو تو کیا تمہیں فرق پڑتا ہے میرے پاس نا ہونے سے ؟؟؟

جیسے میرا ضبط ٹوٹ رہا ہے تمہارا انتظار کرتے کرتے کیا تمہارا ضبط سلامت ہے ؟؟؟

وہ اسکی شرٹ کا کالر دبوچ کر غرائی ۔۔۔

جسطرح تمہاری یادیں دن رات میرے دل و دماغ میں بھونچال مچائے رکھتی ہیں کیا میری یادیں بھی تمہارے دل میں مچلتی ہیں ،،،،؟؟؟؟

"تمہاری جدائی اور یادوں میں جب میں روتی ہوں تو کیا میرے اشک تمہارے دل پہ گرتے ہیں ؟؟؟؟

"تمہارا عکس تمہارا تصور ہمہ وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا ہے ۔۔۔کیا تمہارے تصور کے پردوں پہ میرا عکس بھی ابھرتا ہے ؟؟؟؟"

"تمہارے سنگ بیتے پل جب یاد آتے ہیں ،تو ان سے نکلنا میرے لیے عذاب بن جاتا ہے ،کیا تمہاری نظر کبھی میری یاد پہ ٹہرتی ہے ؟؟؟

"جسطرح مجھے تمہارے کپڑوں میں سے تمہارے تکیے تمہاری ہر ہر شے سے تمہاری مہک آتی ہے ۔۔۔۔کیا میری خوشبو بھی تم تک پہنچتی ہے ؟؟؟؟

میرے خوابوں کو پلکوں میں ٹوٹنے سے پہلے لوٹ آؤ۔۔۔۔

"لوٹ آو ۔۔۔۔!!!

"لوٹ آو ۔۔۔!!!! 

اس کی آواز ہتھوڑے کے مانند اسکے دل و دماغ پہ کاری وار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

ھاد بلوچ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔۔اور اردگرد نظریں دوڑائیں۔۔۔۔وہ ہاسٹل کے روم میں تھا ۔وہ شاید اسکے بارے میں سوچتے سوچتے سو چکا تھا ۔۔۔۔تبھی وہ خواب میں آکر اسے جھنجھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔

ھاد نے پیشانی پر ہاتھ لگایا جو پسینے سے تر تھی ۔۔۔۔

"تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی ،میں نے تم سے دوری بنا کر خود کو سزا دینے کی کوشش کی تھی ، 

خود کو سزا دینے کے چکروں میں تمہیں ہی سزا دے بیٹھا ۔۔۔

اس نے گہری سانس لی اور خود کو نارمل کرتے ہوئے ایک فیصلہ لیا اور اس پہ عملدرآمد کرنے کے لیے بستر سے اٹھ گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آتش بلوچ اور سسی دونوں فنکشن میں پہنچ چکے تھے ،ہر طرف گہما گہمی کا ماحول تھا ۔۔۔۔سب لڑکے اور لڑکیاں جدید طرز کے کپڑوں میں ملبوس چہک رہے تھے ۔۔۔۔

سسی نے اس نئے ماحول سے ڈرتے ہوئے آتش بلوچ کو دیکھا ۔۔۔۔تو اس نے سسی کی گھبراہٹ کو سمجھتے ہوئے اسکے نازک سے ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں لیے رش کو چیرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا ۔۔۔

اس نے قدرے پرسکون جگہ پہ لاکر اسکا ہاتھ چھوڑا وہاں چئیرز اور گول میز لگے تھے ۔۔۔آتش نے اسے ان میں سے ایک پہ بٹھا دیا ۔۔۔۔

دور سے اسکے کچھ دوستوں نے اسے وہاں دیکھا تو ہاتھ ہلا کر اسکی طرف آنے لگے ۔۔۔

"تم یہیں بیٹھو ۔۔۔۔اور پریشان نہیں ہونا میں یہیں ہوں ۔اہنے دوستوں سے ملکر آتا ہوں "

اس نے تھوڑا سا جھک کر سسی کو کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"How are you buddy"

ایک دوست نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔۔۔

"Fine yaar "

اس نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔

"تمہارے ساتھ کون ہے "

فاریہ اور سارہ نے آتش کو ایک لڑکی سے بات کرتے دیکھا تھا مگر اس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھیں ۔کیونکہ سسی  کی پشت تھی ان کی طرف ۔۔۔۔

"My wife...."

"Whaaaaat .....???

سارہ حیرت زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔۔وہ تو شاکڈ ہوگئی تھی۔۔۔۔اس خبر سے ۔۔۔۔

تبھی کچھ لمحوں میں خود کو سنبھال گئی ۔۔۔۔

"ملواو مجھے اس سے ،،،زرا میں بھی تو دیکھوں تمہاری چوائس ۔۔۔۔۔!!!

"مجھے اور ساری یونی کی لڑکیوں کا دل توڑ کر تم نے کسے چُنا ہے ۔۔۔۔"

وہ حقارت زدہ آواز میں بولی۔۔۔

Don't Aatish ....!!! 

یہ چڑیل نظر لگائے گی تمہارے کپل کو ",فاریہ نے سارہ کی طرف گھور کر دیکھتے ہیں تیکھے لہجے میں کہا۔۔۔۔

"انہیں چھوڑو ۔۔۔آتش مجھے تو ملواو بھابھی سے ۔۔۔۔

صائم اور واحد اس کی طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔۔

"ہممم ۔۔۔۔

وہ اثبات میں سر ہلا کر انکے ساتھ سسی کے ساتھ آیا ۔۔۔۔

"Meet my wife Sasi ....

سسی نے سب کو اپنے پاس کھڑے دیکھا تو اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔۔

آتش نے فورا اسکے پاس آکر اسکا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے دبا کر اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا۔۔۔۔تبھی گھبرائی ہوئی سسی کے پھولے ہوئے سانس بحال ہوئے ۔۔۔۔

"ہیلو بھابھی ۔۔۔۔احد نے خوش دلی سے ہاتھ آگے کیا ۔۔۔۔

"How old fashioned...."

نام سے کی گاؤں کی لگ رہی ہے ۔۔۔۔آتش تم نکلے نا آخر وہ دقیانوسی سوچ کے بلوچ ۔۔۔پڑھنا شہر میں ہے مگر شادی اپنے گاؤں کی گوری سے "

سارہ استہزایہ انداذ سے ہنسی۔۔۔۔

"ہیلو !!!

سسی نے بنا ہاتھ بڑھائے اس کا جواب دیا ۔۔۔۔

تو سارہ نے قہقہہ لگایا احد کا سسی کے آگے بڑھایا ہوا ہاتھ دیکھ کر ۔۔۔۔

احد نے خجالت سے سر کھجکاتے ہوئے ہاتھ پیچھے کر لیا ۔۔۔۔

"ہاں تم نے ٹھیک کہا میں دقیانوسی ہوں ،مجھے پسند نہیں کہ میری محرم پہ کوئی نامحرم ہاتھ لگائے،یہاں تک کہ دیکھے بھی ۔میں اس کا محافظ ہوں ،آخرت میں ،میں جواب دہ ہوں گا ،اس خدا کو حاضر ناظر جان کر ،،،نکاح کرکہ اسے اپنی عزت بنایا ہے ،اس کی عزت کرنا اور کروانا دونوں اچھے سے آتا ہے مجھے ۔۔۔۔جس کو میری بیوی سے اس کے گاؤں سے ہونے سے مسلہ ہے ،میری طرف سے اسے ایک مشورہ ہے دوبارہ میرے سامنے آنے کی اسے کوئی ضرورت نہیں "

اب کی بار اس نے کرخت آواز میں کہا تو سارہ کے تو سر پہ لگی تلوں پہ بجھی۔۔۔وہ اسے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئےتن فن کرتی دوسری طرف چلی گئی ۔۔۔۔

سسی تو حیرت کا مجسمہ بنی ان سب کے درمیان میں کھڑی تھی ،،اس نے میری خاطر اپنے دوستوں کو ناراض کردیا ۔۔۔۔

You are great Atish ...

مجھے بہت خوشی ہے کہ تم جیسا انسان میرا دوست ہے "

احد نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو آتش ہلکا سا مسکرایا۔۔۔

سب ایک ہی ٹیبل پہ بیٹھ گئے اور یونیورسٹی کے یادگار قصے دہرانے لگے ۔۔۔۔

سسی خاموشی سے ان سب کی باتیں سن رہی تھی ۔۔۔۔

فنکشن اپنے عروج پہ تھا۔۔۔۔

"آج ہمارے اس ری یونین فنکشن میں ہمارے پاس ہیں ہماری یونی کے پچھلے سال کے سنگنگ کمپیٹیشن کے ونر آتش بلوچ ۔۔۔تو کیوں نا آج ایک بار پھر سے ان کی آواز کا جادو جگایا جائے ۔۔۔۔۔

سٹیج پہ موجود آتش کے کی ایک کلاس فیلو نے مائیک پہ اناونس کیا تو آتش نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا اسکی شرارت پہ ۔۔۔۔

"جاؤ آتش آج کا سونگ بھابھی کو سوچ کر گانا ۔۔۔۔آخر ہم بھی تو دیکھیں ہماری کیوٹ سی بھابھی کے لیے تمہارے دل میں کیا فیلنگز ہیں ۔۔۔۔۔فاریہ نے مسکراتے ہوئے آتش بلوچ سے کہا تو وہ سسی کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر آنکھوں کے اشارے سے پرسکون رہنے کا کہتے ہوئے سٹیج کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

سب کی نظریں سٹیج پر موجود ہینڈسم آتش بلوچ پہ جمیں تھیں ۔۔۔۔اس نے ہیڈ مائیک اٹھائے کان سے لگایا اور ہونٹوں کے پاس سیٹ کیا ۔۔۔  سسی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔جو محویت سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔۔

  تیری دوریاں مجھ پہ گناہ ہیں ۔۔

میری چاہت اس کی گواہ ہے ،

میری دنیا تیری پناہ ہیں ،

یہ کی عشق نے مجھ سے کہا ہے ،

کچھ مجھ میں تو ایسے بسا ہے ۔۔۔

مجھ میں نا میری جگہ ہے ۔

کچھ دیکھوں تو ،تو دکھتا ہے ،

میری آنکھوں میں تیری نگاہ ہے ۔

تجھ سے بچھڑ کر باخدا میں یہاں 

جی نا سکوں گا اک لمحہ ۔۔۔

آرام آتا ہے دیدار سے تیرے ،،

مٹ جاتے ہیں سارے غم ،،،

ہے یہ دعا ،کہ تجھے دیکھتے دیکھتے ہی نکل جائے دم ،

شکرانہ چاہے میں جتنا بھی کرلوں ،پھر بھی رہے گا وہ کم 

تیرا تصور مجھے دے کہ مولا ۔۔۔مجھ پہ کیا ہے کرم ،،،

اس نے اپنی فسوں خیز آواز میں سارے ماحول کو طلسم زدہ بناڈالا ۔۔۔۔

دل سنورتا ہے تیرے خیالوں سے 

جگمگاتا ہے تیرے اجالوں سے 

رقص کرتا ہے دل 

تجھ پہ مرتا ہوا ۔

پاگلوں سا تیرا ذکر کرتا ہے ۔

میرے چین و سکون تیری راہ ہے ۔۔۔

تو روح کی خواب گاہ ہے ،

آرام آتا ہے دیدار سے تیرے ،،

مٹ جاتے ہیں سارے غم ،،،

اس نے سر ترچھا کیے سسی کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں مبتلا سحر زدہ سی اس کے ایک اشارے پہ اٹھ کر اسکی اوڑھ کھنچتی چلی گئی ۔۔۔۔

ہے دعا کہ تجھے دیکھتے دیکھتے نکل جائے دم ۔۔۔

آخری الفاظ اس نے سسی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ادا کیے ۔۔۔۔

دونوں کی آنکھیں ملیں ۔۔۔۔وہ دنیا جہاں سے بیگانہ ایک دوسرے میں مدغم ہو چکے تھے ۔۔۔۔تبھی تالیوں کی گونج نے اس فسوں خیز منظر میں خلل ڈالا۔۔۔اور وہ چونک کر ہوش میں آئے ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے مائیک پہ سسی کا تعارف اپنی بیوی کی حثیت سے کروایا تو سبھی انہیں وشز دینے کے لیے آرہے تھے ۔۔۔۔

سسی کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔۔

ایک ایسا وقت تھا جب وہ  صحرا کی دھول میں بے آسرا ،بے آبرو  بے لباس پڑی تھی ،

آج اس شہزادے نے اسے دنیا کے سامنے اپنے نام سے متعارف کروا کر اسے عزت بھرا مقام دلوا کر  اسکی ذات کو سرخرو کردیا تھا ۔۔۔۔

آج کسی کی نگاہوں میں اس کے لیے حقارت یا نفرت کا جذبہ نہیں تھا ۔سب اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔وہ اپنے خدا کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا ، شہزادے کے لیے اسکے دل میں پیار تو پہلے سے ہی تھا،لیکن  آج اس کی عزت اور قدر ومنزلت میں بھی مزید اضافہ ہوگیا تھا  ۔۔"

"کیسے آپ نے صحرا کی دھول کو اٹھا کر ماتھے کی زینت بنا لیا ۔۔۔۔"وہ دل میں اس فرشتہ صفت انسان کہ بارے میں سوچ کر رہ گئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ جب حویلی میں پہنچا تو دیکھا سامنے کوئی بھی نہیں تھا ۔وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔تقریبا سب کمروں کی لائیٹس آف ہو چکیں تھیں ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا تو۔۔۔۔دیکھا ھادیہ اسکے تکیے کو اپنے سینے سے لگائے میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی ۔۔۔

چہرے پہ آج کتنے عرصے بعد مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔۔۔۔۔ وہ  کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ لاک کیا نائٹ بلب میں اپنے بیڈ پر مزے سے سوئی ھادیہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پہ شرارتی تاثرات نمایاں ہوئے ۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے بے آواز قدم اٹھاتے ہوئے اپنی مخصوص چال چلتا وہ عین اس کے سامنے آ رکا ۔۔۔۔اور سینے پہ ہاتھ باندھے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیا ۔۔۔۔۔

" بلوچن سائیں آپ کی نیندیں اڑانے کا وقت ہوا چاہتا ہے  ۔۔ آج آپ کے ہوش اڑانے کامزہ آئے گا ۔۔"

اس کا ری ایکشن سوچ کر  بے اختیار ھاد بلوچ کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی تھی

 مدھم روشنی میں وہ اس کے حسین سراپے سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا وہ آج انجانے میں ڈھیلا سا اس کا پسندیدہ سیاہ رنگ کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھی دوپٹہ ایک طرف پڑا تھا وجود کمفرٹر سے بے نیاز تھا ۔۔۔وہ اس کے مرمریں وجود کو اپنے نظروں کے حصار میں رکھے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کبھی اس نے ھادیہ کو اتنے غور سے یا بغیر دوپٹے کے نہیں دیکھا تھا ۔وہ تھوڑا سا جھکا ۔۔۔۔اور اسکے وجود سے اٹھتی صندلی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا۔۔۔پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر بکھرے بالوں کو نرمی سے کان کے پیچھے کیا اب وہ بغور اس کے چاند سے روشن چہرے کا بغور جائزہ لینے لگا پھر جھک کر اس کے مخملیں گال کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے سہلانے لگا۔۔۔تبھی اس کی نظر ھادیہ کی شہ رگ پہ بنے تل پہ گئیں ۔۔۔

ھاد بلوچ کے دل نے اک بیٹ مس کی ۔۔۔۔ وہ اس پہ اختیار رکھتا ہے ،دل نے آواز لگائی ۔۔۔وہ دل کی آواز پہ لبیک کہتا ہوا مزید جھکا اور اپنے لب اسکی شہ رگ پہ رکھ دیے چند لمحے وہ اسی سحر انگیز لمحوں کی قید میں رہا اور پھر ہوش آنے پر لب ہٹا لیے  مگر اسے حیرت ہوئی کہ وہ زرا سا بھی نہیں کسمسائی ۔۔۔۔

" یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی بلوچن سائیں  ۔۔!!!!"

"آپ کا بلوچ اتنی دور سے آپ کو چونکانے آیا ہے اور آپ ہیں کہ نا ہل کر اُسے ہی چونکائے دے رہی ہیں "

وہ اس کی یاقوتی لبوں کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے

جذبات سے چور بہکے بہکے انداز میں اس کے کان کے قریب چہرہ کیے بولا ۔۔۔مگر اس نے پھر بھی حرکت نہیں کی ۔۔۔۔وہ بہت گہری نیند میں سوتی تھی ۔۔۔تبھی اسے اس کاروائی کا علم نہیں ہورہا تھا ۔۔۔۔

وہ اس پہ اپنا تسلط قائم کیے  اس کے گلاب ہونٹوں کو قید کر گیا شدت اس قدر تھی کہ بے خبر سوئی ہوئی ھادیہ پہلے تو نیند میں کسمائی پھر سانس رکنے پر ہڑبڑا کر بیدار ہوئی اور دونوں ہاتھوں سے زور لگا کر اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے خود سے دور کیا اور گہرے گہرے سانس لینے لگی سانسیں ہموار کرتی وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے ھاد بلوچ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

وہ اسے اس طرح بے وقت  سامنے دیکھ کر اک خواب ہی سمجھتی مگر جو کاروائی اس نے ابھی کی تھی وہ اسے حقیقیت سے روشناس کرا گئی کہ وہ واقعی واپس آچکا تھا ۔۔۔

وہ جو ھاد بلوچ کو میسج کرکہ اس کے جواب کا انتظار کرتے کرتے ویسے ہی نائٹ بلب آن کر کے سو گئی مگر ابھی اسے بمشکل دو۔تین گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ اچانک اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا جب بیدار ہوئی تو بے اختیار اپنے پر جھکے ہوئے ھاد بلوچ کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے دور کیا اور اب وہ بیٹھی گہرے گہرے سانس لینے کے ساتھ کھانس بھی رہی تھی آنکھوں میں پانی بھر گیا تھا 

" کیا بد تمیزی ہے یہ ۔۔؟؟"

اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی تھی نیند سے بوجھل  آنکھیں بے تحاشہ سرخ ہو رہیں تھیں اب ھاد بلوچ بیڈ پر اس کے قریب  بیٹھ چکا تھا

" بلوچن سائیں کیسا لگا میرا سرپرائز؟؟؟؟۔۔"

معنی خیزی سے کہتا وہ اس کے ہوش اڑا چکا تھا اب مکمل نیند اتر چکی تھی ھادیہ کی اور حواس بیدار ہو چکے تھے وہ اس کے بدلے تیور دیکھ کر اندر ہی اندر بل کھا کر رہ گئی ۔۔۔مگر کچھ دیر پہلے کی گئی جسارت پہ اسکا رنگ اناری ہوا۔۔۔۔ ھاد بلوچ اس کا اڑا رنگ دیکھ کر خاصا محظوظ ہوا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر اسے واپس تکیے سے لگاتے اس پہ جھکا ۔۔۔۔

" تت تم دور رہو مجھ سے ۔۔ "

وہ اس کی آنکھوں میں جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد دیکھ کر اس کی گرفت میں مچلتی بولی تھی

" بہت ہوچکا دور دور رہنے کا کھیل ۔اب تو ملن کی گھڑیاں ہیں محترمہ !!! ۔۔"

" تت تم سمجھتے کیا ہوخود کو ؟؟؟جب جی چاہا چھوڑ کر چلے گئے پلٹ کر خبر نہیں لی ۔۔۔اب اپنا دل کیا تو آگئے منہ اٹھا کر  ۔۔۔۔اور اپنے یہ دانت اندر رکھو ورنہ توڑ دوں گی ۔۔۔سخت زہر لگ رہے ہو اس وقت تم مجھے یوں ہنستے ہوئے  ۔۔ "

اس کی سرخ آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑے وہ غصے سے بولی تھی جبکہ اب ھاد نے اسے بیڈ پر لٹایا اور  اس کے دونوں بازو اوپر کرکے مزید جھک کر اس کی راہ فرار کے راستے بند کر چکا تھا ھادیہ بری طرح اس کی گرفت میں پھڑپھڑاتی بے حال ہو رہی تھی

" جھوٹ بولتی ہو ۔۔۔میں جانتا ہوں ہر حال میں تمہیں میں اچھا لگتا ہوں ۔ چاہے دانت توڑو یا سب کچھ توڑ دو آج تو میں اپنا پینڈنگ کام پورا کر کہ ہی رہوں گا ۔۔"

وہ جس پختہ اور ذومعنی  انداز میں بول رہا تھا ھادیہ  کی جان ہوا ہونے لگی مزید اس کی قربت اسے بے حال کر رہی تھی 

" ھاد تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ۔۔ "

"اگر ایسا ویسا کچھ کیا نا تو ۔۔۔۔

" تو کیا بلوچن سائیں؟؟؟!!!! ۔۔ 

وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔

"تو۔۔۔تو ۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آئی  کہ ایسے میں وہ کیا بولے اسے اپنے لبوں پہ میٹھی سی درد محسوس ہوئی تو اس نے انگلی رکھ کر دیکھا تو خون کی ننھی سی بوند تھی نظر آئی ۔۔۔

"تو۔۔۔۔تو میں تمہارا خون پی جاؤں گی ۔۔۔۔"وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے

 دبی دبی آواز میں غرائی۔۔۔ 

"تو پی لو نا روکا کس نے ہے ؟؟؟

لیکن بالکل میری طرح ۔۔۔۔بلکہ آؤ نا مل کر ایک دوسرے کا خون پی لیتے ہیں ۔

وہ اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر شرارت آمیز انداز میں بولا ۔۔۔

چند لمحے بھی نہیں گزرے تھے جب موبائل کی رنگ ٹون نے ان دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ھاد بلوچ خاصا  بد مزہ ہوا تھا۔۔۔

 آرام سے وہ ھادیہ کو چھوڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔بیڈ سے اترا پاکٹ سے موبائل نکال کر کان سے لگا لیا ۔

"ہممم بولو !

اس نے مقابل سے کہا ۔۔۔

"ھاد تمہارے روم میٹ باسط نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی ۔۔۔۔اور تم روم میں موجود نہیں تھے انویسٹیگیشن کے لیے تمہیں ڈھونڈھ رہے ہیں جہاں بھی ہو جلدی واپس آؤ ۔۔۔۔

"اوکے آتا ہوں  "اس نے فون بند کرتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر ھادیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔

وہ اپنا دوپٹہ اوڑھ رہی تھی ساتھ ساتھ اسے تیکھی نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔۔

وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔۔۔۔۔

" جلدی دوبارہ رومینٹک سی ملاقات ہوگی ۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔",

وہ پھر سے اس پہ جھکتے ہی اک بے باک جسارت کرتے ہوئے پیچھے ہوا اور شرارت سے آنکھ ونگ کیے دورازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

ھادیہ تو بت بنی وہیں کی وہیں ساکت رہ گئی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

رات بارش ہونے کے باعث مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اس کی سانسوں میں اترنے لگی تو اس نے اپنی نیند سے بوجھل سرمئی آنکھیں مسل کر کھولیں ۔۔۔

سرد ہوا کے دوش پہ پردے پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔۔

جیسے ہی اس نے نظریں اپنے ساتھ والے تکیے کی طرف گئیں ۔۔۔تو آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئیں۔۔۔۔

خالی بستر اس کا منہ چڑا رہا تھا ۔۔۔۔

وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھا ۔۔۔۔

اپنی شرٹ پہن کر اسے بٹن بند کرتے ہوئے وہ  ہاتھوں سے پردوں کو پیچھے کرتے باہر نکلا ۔۔۔۔اسے ڈھونڈھنے ۔۔۔۔

مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دی ۔۔۔۔دور دور تک صرف ریت ہی ریت تھی ۔۔۔۔۔

اور وہ اس صحرا کے بیچ و بیچ تنہا کھڑا تھا ۔۔۔۔

کیا آج اس نے سب کچھ پا کر بھی سب کچھ کھو دیا تھا ۔۔۔

اس بات کا فیصلہ تو آنے والے وقت کو طے کرنا تھا ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم !

"کیسی ہے تو "؟

امینہ چھوٹتے ہی بولی ۔

"وعلیکم السلام آج اتنے عرصے بعد تجھے میری یاد کیسے آگئی ۔۔۔۔احسان فراموش ،وعدہ فراموش ،۔۔۔۔۔

ھادیہ نے تیکھے طنز کے تیر پھینکے ۔۔۔۔

"ارے ۔۔۔ارے ۔۔۔ارے ۔۔۔۔!!!!

"پہلے میری تو سن لے ۔۔۔!

"اپنی ہی بولے چلی جا رہی ہے۔۔۔۔۔"

امینہ نے ھادیہ کے یوں لتے لینے پہ اسے ٹوک کو کہا ۔۔۔

"اچھا بول ۔۔۔۔"

اسکے لہجے میں ابھی بھی  خفگی کا عنصر نمایاں تھا ۔۔۔۔

جسے امینہ نے بخوبی محسوس کیا۔۔۔۔

"دیکھ ھادیہ تو اپنی جگہ رائیٹ ہے ،مجھے پتہ ہے ،تو مجھ سے شدید قسم کی ناراض ہے ،کہ میں اپنی سب سے پیاری دوست کی شادی میں شرکت نہیں کر سکی ۔۔۔ 

مگر میں بھی کیا کرسکتی تھی ۔۔۔۔شمشیر بھائی نے مجھے تیری شادی میں آنے سے منع کردیا ،اور جب میں نے چھپ کر آنے کی کوشش کی تو ان کی عقابی نظروں نے مجھے دیکھ لیا ۔۔۔تو انہوں نے میرا موبائل لے کر مجھے کمرے میں بند کردیا ۔۔۔۔تب سے اس نے میری گھر سے نکلنے پہ پابندی لگا رکھی ہے ۔

اور اماں بھی شمشیر بھائی کا کہا نہیں ٹالتی ۔بھئی آخر کو وہ ان کے لاڈلے بیٹے جو ہیں ۔

روازنہ صفائی کرنے شمشیر بھائی کے کمرے میں جاتی رہی کہ کسی طرح میرا موبائل مل جائے تو تجھے اپنی آپ بیتی سنا سکوں ۔۔۔وہ افسردگی سے بولی۔۔۔۔  

" آج شمشیر بھائی کے کمرے کی صفائی کے دوران دیکھا کہ وہ اپنی الماری کو لاک لگانا بھول گئے تھے ۔۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔ تیری سہیلی نے اپنا کام دکھا دیا ۔۔۔۔

اپنا موبائل نکالا اور چارج کرتے ہی سب سے پہلا کام تجھے فون لگانے کا ہی کیا ہے ۔۔۔۔

اب کی بار وہ تھوڑا پرجوش آواز میں بولی۔۔۔۔ 

"چل بتا اب تو کیسی ہے ؟

"اور تیرا ھاد بلوچ وہ کیسا ہے  ؟؟؟

"میں بھی ٹھیک ہوں اور وہ بھی ۔۔۔۔

"میں تو بہت ایکسائیٹڈ تھی تجھ سے پوچھنے کے لیے ۔۔۔۔بتا کوئی گڈ نیوز آئی ؟

"شٹ اپ امینہ "

پہلے تو چند لمحے اسے امینہ کے سوال کی سمجھ نہیں آئی اور جب آئی تو فون پہ غصیلی نگاہ ڈال کر دیکھا پھر فون واپس کان سے لگاتے اس پیار بھری ڈانٹ پلائی۔۔۔۔

"ہی ۔۔۔ہی ۔۔۔۔ہی ۔۔۔۔وہ دانت نکالنے لگی ۔۔۔۔

"چلو اللہ جلد وہ دن بھی دکھائے ۔۔۔۔امینہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے شرارتی انداز میں بولی ۔۔۔۔

"ہائے میرے خوابوں کا شہزادہ گھوڑے پہ بیٹھ کر آنے کی بجائے شاید کچھوے پہ بیٹھ گیا ہے ۔۔۔۔جو اتنی دیر لگا رہا ہے ۔۔۔۔میں بیچاری اس کے انتظار میں بیٹھ بیٹھ کر سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہوں "

وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولی ۔۔۔۔

"جو تجھے لے کر جائے گا اس کی قسمت کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔۔۔۔ھادیہ مسکرا کر بولی ۔۔۔۔

"ایویں ہی اللہ حافظ ۔۔۔!!!

"اپنی قسمت پہ رشک کرے گا مجھ جیسی ٹیلنٹڈ بیوی پاکر ۔۔  وہ فرضی کالر اچکا کر ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"اچھا بتا بابا سائیں کیسے ہیں ؟؟؟؟

"حویلی چکر لگا تیرا "؟

ھادیہ نے اس سے اپنے بابا دلاور بلوچ کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔۔جب سے اس کی رخصتی ہوئی تھی ایک بار بھی دلاور بلوچ سے اسکی نا تو ملاقات ہوئی تھی اور نا ہی کال پہ بات ہوئی ۔۔۔۔

اگر سسرال میں اس سے اچھا سلوک کیا گیا تھا ۔

تو اس نے اس بات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا تھا ،کسی سے پوچھے بنا اس نے بھی اپنے بابا سائیں کو کال نہیں کی ۔

حالانکہ اسے روزانہ ان کی یاد ستاتی تھی ،مگر وہ دل پہ پتھر رکھ لیتی ۔۔۔۔اور خود کو سمجھالیتی ۔۔۔۔

"میں اماں کے ساتھ پچھلے ہفتے گئی تھی حویلی ۔۔۔۔ماموں جان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ۔۔۔۔۔زیادہ تر حویلی میں ہی رہتے ہیں ،باہر آنا جانا بہت کم کردیا ہے ۔۔۔۔سارے کام شمشیر بھائی ہی سنبھالتے ہیں ۔۔۔۔امینہ نے سنجیدگی سے ساری صورت حال بتلائی ۔۔۔

"اب بابا سائیں سے ملے گی تو انہیں میرا سلام دینا ۔۔۔میری طرف سے ان کا حال پوچھنا ۔۔۔۔۔اور انہیں بتانا کہ میں یہاں بہت خوش ہوں ،وہ میری طرف سے پریشان نا ہوں ،بس اپنا خیال رکھیں "

ھادیہ نے نم آواز میں کہا ۔۔۔دوسری طرف امینہ بھی اسکی آواز میں نمی محسوس کر گئی تھی تبھی بات بدلنے کو بولی ۔۔۔۔

"ویسے سوچنے کی بات ہے تیرا ھاد بلوچ تو بڑا رومینٹک تھا ،،،نا پھر اتنی دیری کیوں ؟

وہ لہجے میں شرارت سموئے بولی ۔۔۔۔

"بہت بے شرم ہوگئی ہے امینہ تو ۔۔۔۔ھادیہ مسکرا کر بولی ۔۔۔

چند ادھر ادھر کی باتیں کیے اس نے ابھی کال رکھی ہی تھی کہ ھاد بلوچ کی کال آنے لگی ۔۔۔

ھادیہ نے غصے سے کال کاٹ دی ۔۔۔

وہ جس رات یہاں سے ہوکر بجائے کے اپنے کیے کی معافی مانگے ۔۔۔وہ اپنی من مانیاں کرکہ یہاں سے گیا تھا ۔۔۔۔اس دن سے وہ شدید حیرت و غم و غصے کی حالت میں تھی ۔۔۔۔

ھاد نے پھر سے کال ملائی ۔۔۔

ھادیہ نے پھر سے کال کاٹ دی۔۔۔ 

کچھ دیر بعد اسے ۔۔۔ 

 واٹس ایپ پہ میسج نوٹیفکیشن موصول ہوئی ۔۔۔۔

"ایف _ایم۔۔۔۔ آن کرو "

ھادیہ نے موبائل پہ ہی ایف ایم آن کیا ۔۔۔۔

"آج ھاد بلوچ کی فرمائش پہ انکی مسسز جو ان سے بہت دور ہیں اور ان سے کچھ روٹھی ہوئی بھی ہیں انہیں منانے کے لیے ، انہوں نے ایک سپیشل سونگ ڈیڈیکیٹ کیا ہے ۔۔۔۔۔

آر _جے نے سونگ کلیکشن میں سے ھاد کا بتایا گیا سانگ پلے کیا ۔۔۔۔۔

کچی ڈوریوں ڈوریوں ،ڈوریوں سے ،مینوں تو باندھ لے،

پکی یاریوں یاریوں ،یاریوں میں ہندے نا فاصلے ،،،

ایہہ ناراضگی ،کاغذی ساری تیری ،

میرے سوھنیا سن لے میری ،

دل دئیاں گلاں ،،،

کراں گے نال نال بہہ کہ 

اکھ نال اکھ نونہہ ملا کہ ۔۔۔

گانے کے الفاظ سنتے ہی ھادیہ کے چہرہ پہ مسکراہٹ پھیلی۔۔۔

وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے گانا سننے لگی ۔۔۔

گانا ختم ہوا تو اب کی بار واٹس ایپ پہ ھاد بلوچ کی ویڈیو کال آنے لگی ۔۔۔

رنگنگ ہورہی تھی مگر وہ جان بوجھ کر کال اٹھا نہیں رہی تھی ۔۔۔۔مگر دوسری طرف موجود شخصیت بھی بلا کی ڈھیٹ ثابت ہوئی تھی ،وہ مسلسل اسے کال کیے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔

تبھی ھادیہ نے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ کو دبا کر تاثرات کو سنجیدہ بنایا اور کال اٹینڈ کی ۔۔۔۔

اپنی من پسند شخصیت کو سامنے دیکھ کر دونوں کی زبانوں پہ قفل لگ چکے تھے ،صرف ِتشنہ نظریں اپنے محبوب کے دیدار سے سیراب ہو رہی تھیں ۔۔۔۔

جانے کتنے لمحے یونہی خاموشی کی نظر ہوگئے ۔۔۔۔

"بہت ہی بے وفا نکلیں آپ تو ؟اتنی دیر تک کال نا اٹھانے پر 

ھاد بلوچ کے لبوں سے شکوہ پھسلا ۔۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔۔

"تم بتاؤ ؟؟؟

"کیا تمہارا مسکرانا بنتا ہے ؟؟؟

"تم جو کہتے ہو ہر بے وفا پہ لعنت ....

"یوں تو پھر تمہارا بھی منہ چھپانا بنتا ہے نا ؟؟؟؟

وہ استہزایہ انداذ کہتے ہوئے  ہنسی۔۔۔

ھاد بلوچ کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔اس نے خود کو فورا سنبھال لیا ۔۔۔۔

اسے جدائی کا درد بھی تو اسی نے دیا تھا ۔کیا تھا گر اسی کے دئیے درد کو اسی سے بانٹ رہی تھی تو کچھ غلط بھی نہیں تھا ۔وہ اسکے تریاق  میں ڈوبے الفاظ کو جام شیریں سمجھ کر پی گیا ۔۔۔۔۔

"دور بیٹھ کر یوں سردرد لگا رہے ہو ،،،آکر بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس درد کو کم نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔

وہ ہمت دکھانا چاہتی تھی مگر ہر بار کی طرح آج بھی اسے سامنے دیکھ کر ساری ناراضگی بھلا بیٹھی ۔۔۔۔اور بھیگی ہوئی آنکھوں سے نم لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔

"کاش آپ کے پاس آسکتے تو اپنے ہاتھوں سے آپکا سر دبا دیتے "

وہ اس کے چہرے پہ چھائی افسردگی کو دور کرنے کے لیے ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں پیش آیا ۔۔۔۔

"اور میں تمہارا گلا "

وہ اپنے ازلی ہنسی مزاح والے روپ میں لوٹ آئی۔۔۔۔تبھی مسکرا کر بولی ۔۔۔۔۔

"ھاد اتنا آسان ہے محبت بھلا دینا ۔۔۔۔؟؟؟؟

"کیا سچ میں تم بھول گئے وہ سب ؟؟؟

نا چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے اندر کی تلخی چھپا نہیں سکی ۔۔۔۔

اور من میں پنپتا ہوا سوال زبان پہ لے آئی۔۔۔۔۔

"میں کچھ بھی نہیں بھولا ھادیہ ۔۔۔۔

مجھے اب بھی محبت ہے ،

تمہاری آنکھوں کے جادو سے،

تمہاری دلکش اداؤں سے ،

تمہاری قاتل جفاوں سے ،

مجھے اب بھی محبت ہے ،

تمہاری راہوں میں رکنے سے ،

تمہاری پلکوں کے جھکنے سے،

مجھے اب بھی محبت ہے ،

تیرے قدموں کی آہٹ سے،

تیری ہر مسکراہٹ سے ،

تیری باتوں کی خوشبو سے ،،،

وہ ایک بار بولا تو پھر رکا نہیں بس بولتا ہی چلا گیا۔۔۔۔۔

"بلوچن سائیں شاعرہ ..!

 اب آپ کی باری ۔۔۔۔۔وہ دلکشی سے مسکرا کر بولا ۔۔۔۔

ھادیہ نے گہرا سانس لیا اور اسکی سحر زدہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔۔۔

"مجھے اب بھی محبت سے 

تمہارے طیش و عداوت سے،

تمہاری بے جا شکایت سے ،

سحر و شام ہاتھوں پہ مہندی سے تیرا نام لکھنے سے ،

یہاں تک کے صنم میرے ،

تیری ہر اک عادت سے ،

مجھے اب بھی محبت ہے۔

"ھاد ۔۔۔!!!!

کبھی کبھی محبت آپکو ایسے درد سے نواز دیتی ہے کہ آپکے سامنے آپکے جسم کے ٹکڑے بھی کردئیے جائیں تو آپکو درد کی وہ شدت محسوس نہیں ہوگی ۔جو آپکو چاہنے والے کے لہجہ بدلنے سے آپکو محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔

وہ کرب زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔

"تم نے مجھے یہ گھر دیا ،سونا پیسہ جائیداد سب کچھ دے کر سمجھتے ہو تم نے اپنا فرض نبھا دیا ؟؟؟

"بیوی کی خوشی شوہر کے ساتھ میں ہے ،اس سے چاہے جانے میں ہے ،

"روو تو مت یار ۔۔۔!!!

بہت بے بس ہوں میں یہاں ۔۔۔۔

میرے روم میٹ باسط نے اپنی گرل فرینڈ کے چکر میں خودکشی کر لی ۔۔۔۔

اب جب تک انویسٹیگیشن کمپلیٹ نہیں ہوجاتی مجھے شہر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ۔۔۔۔ورنہ اسی لمحے اڑ کر پہنچ جاتا تمہارے پاس ۔۔۔۔

مجھے سزا مل رہی ہے ۔۔۔۔تمہیں جدائی دینے کی ۔۔۔۔

اب میں چاہ کر بھی تمہارے پاس نہیں آ پا رہا ۔۔۔۔

وہ دن دور نہیں ۔۔۔جب تم رات کے پہر آنکھ کھولو گی اور اپنے بلوچ کو کروٹ بدلتے اپنی نظروں کے سامنے پاؤ گی ۔

تب میرے بازو پہ تمہارا سر ہوگا اور میرے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ ۔۔۔۔

میری سانسوں کی تپش تمہارے چہرے کو دہکائے گی ،جب میں تمہارے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو کر اپنے ہونے کا احساس کرواؤں گا ۔۔۔اور تمہیں اپنے سینے میں مقید کئیے سکون کی نیند سو جاؤں گا ۔۔۔۔ایسی ایک نہیں ہزاروں یادگار راتیں آئیں گی ہمارے درمیان ،

مجھے اپنی شدتوں اور اوپر والے دونوں پہ پورا بھروسہ ہے ۔۔۔۔۔وہ شدت جذبات سے لبریز انداز میں بولا ۔۔۔۔

تبھی اسے شرارت سوجھی ۔۔۔

"My lips are missing your lips bloachan Saien "

"بہت ہی واہیات قسم کے ہزبینڈ ہوتم ۔۔۔۔۔

وہ شرم سے دوہری ہوئے ۔۔۔مصنوعی خفگی چہرے پہ لائے بولی 

"نا یارا ۔۔۔۔سب ہزبینڈ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔

 وہ ہنسا ۔۔۔۔

"اب اتنی دور بیٹھے ہیں یار ایک چھوٹی سی فلائنگ کس ہی کردو ۔۔۔۔اسی سے گزارا کر لوں گا ۔۔۔۔

وہ چہرے پہ مصنوعی معصومیت سجائے بولا۔۔۔۔

"میں تمہاری کوئی فضول بات نہیں مانوں گی ۔۔۔۔وہ انکاری ہوئی ۔۔۔

"وہ کیوں بھلا؟

ھاد بلوچ نے تکیہ پیچھے سے نکال کر گود میں رکھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔

میرے دل کی آرزو ہے کہ تم میری ہر بات مانو ۔۔۔

اور میں تمہاری ایک بھی نہیں ،،،

وہ مزاح سے کہتے ہوئے کھکھلا اٹھی۔۔۔۔۔

کبھی نظر نا لگے آپکی مسکان کو،

دنیا کی ہر خوشی ملے میری جان کو "

وہ اسے چہکتے ہوئے دیکھ کر شاعرانہ انداز میں بولا۔۔۔

"چلو اب شاباش جلدی سے جو ڈیمانڈ کی اسے پورا کرو ۔۔۔

وہ مصنوعی رعب دار آواز میں بولا۔۔۔۔

"میں اپنی ساس ،دیور سب کی لاڈلی ہوں ۔تم نے یوں مجھے زرا سا گھور کہ بھی دیکھا تو قسم سے رولا پڑ جائے گا ۔۔۔۔آنکھیں نکال دیں گے تمہاری ۔۔۔۔۔

وہ اکڑ کر بولی ۔۔۔۔

"ہائے صدقے ۔۔۔۔اتنے بڑے بڑے خواب ۔۔۔۔!

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔

"نا جی نکے نکے سپنے۔۔۔۔"

وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر شرارت سے مسکرائی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا صرف کھڑکی سے روشنی چھن کے اندر آرہی تھی۔۔۔۔وہ راکنگ چئیر پہ بیٹھا جھول رہا تھا ہاتھوں میں سگریٹ پکڑے  گہرے کش لیتا دھوئیں کے مرغولے بنا کر فضا میں تحلیل کیے جا رہا تھا جس سے کمرے کی گُھٹن میں اضافہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔

"جی ڈی_ایس _پی صاحب!!!

"کچھ پتہ چلا ؟؟؟؟

اس کے خوبرو چہرے پر بلا کے پتھریلے تاثرات تھے ،وہ سپاٹ انداز میں پیشانی پر شکنوں کا جال بچھائے فون کان سے لگائے بولا ۔۔۔۔

مگر دوسری طرف سے مایوس کن جواب سن کر اس نے فون بستر پہ اچھال دیا ۔۔۔۔

کہاں کہاں نہیں ڈھونڈھا تھا اس نے چاہت کو ،دن رات کی پرواہ کیے سارا علاقہ ،،،ریگستان کا چپہ چپہ، چھان مارا ،،،،مگر اس کا کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں چلا۔۔۔۔

مضطرب انداز میں چلتا ہوا وہ کمرے میں موجود واحد ونڈو کے پاس آیا۔۔۔۔

کمرے میں دھواں بھرا تھا اور دھویں کی وجہ گلاس وال پہ بھی اس کے اثرات نمایاں تھے ۔۔۔۔ سیاہ شلوار قمیض میں اپنے عام سے حلیے میں وہ ماحول پر چھایا ہوا تھا گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں میں دبا سیگریٹ،،،، گہری سرمئی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ساتھ سوچ کی پرچھائیاں واضح تھیں ،،،،پیشانی پر بکھرے بال ایک ہاتھ گلاس وال پر ٹکائے،،،نظریں ایک ہی زاوئیے پہ مرکوز ،،،وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا آنکھوں میں موجود ڈورے ان گنت راتوں کی رت جگے کے گواہ تھے ۔۔۔۔۔آنکھوں کے پردوں پر  سراپا روشن ہو جس کی نیلی سمندر جیسی آنکھیں اس کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتی تھیں۔

 اسی عالم اضطراب  میں اس نے جلتا سیگریٹ مٹھی میں دبوچ لیا ۔۔۔

ہتھیلی پہ جلن کا احساس تک نا تھا ۔۔دل کے درد کے آگے ۔۔۔۔

اس نے مٹھی کھول کر بجھا سیگریٹ نیچے پھینکا۔۔۔۔

 نیا سیگریٹ سلگا کر اپنی عنابی لبوں میں دبایا ۔۔۔۔۔۔

"تمہیں کول لگتا تھا نا میرا سیگریٹ پینا ۔۔۔۔تو آؤ دیکھو ۔۔۔۔۔سیگریٹ پھونک پھونک کر میں نے یہ کمرہ تمہاری یادوں کے دھوئیں سے بھر دیا ہے ،جو تمہیں اٹریکٹ کرتا تھا ۔۔۔۔

وہ مدھم آواز میں بولا مگر لہجے میں بلا کی جنوں خیزیاں اور کرب کی جھلک دکھائی دے رہی تھی  ۔۔۔۔

"یارم تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟؟

 میں تمہیں پورے گھر میں تلاش کر رہی تھی پھر شازیہ نے بتایا کہ تم یہاں ہو "..

"یہ کیا حال بنا رکھا ہے کمرے کا ؟"

"توبہ ہے ،،،،یہاں تو سانس بھی نہیں لی جارہی "

زرش بلوچ نے اندر آکر کہتے ہوئے چہرے کے آگے ہاتھ لہراتے ہوئے دھوئیں کو ہٹایا پھر کمرے کا دروازہ کھول دیا اور جاکر کمرے کی کھڑکی کو کھولا تاکہ سارا دھواں باہر نکل جائے ۔۔۔۔

"تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ؟؟؟؟

"یارم !!!!؟؟؟؟

"چاہت کہاں ہے ؟؟؟؟

"مجھے بتاتے کیوں نہیں ؟؟؟

"تم ساتھ لے کر گئے تھے نا اسے ۔۔۔۔تو بتاؤ کہاں چھوڑ آئے اسے """

"جواب دو "

وہ تند نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے سوالوں کی بوچھاڑ کر گئیں۔۔۔۔

"ماں ۔۔۔۔۔!!!!!!

"وہ ۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔۔!!!!!

"جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا ۔۔۔۔وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح شکستہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

اتنے مضبوط مرد کو یوں ٹوٹتے دیکھ زرش بلوچ کے دل کو بھی کچھ ہوا ۔۔۔۔۔

انہوں نے اسکا ہاتھ تھام کر اسکو اپنے برابر ہی بستر پر بیٹھا دیا اور مسکراتے ہوئے اسکا چہرہ دیکھنے لگی انکی آنکھوں میں اسکے لیے پیار ہی پیار تھا..

"وہ جہاں بھی گئی ہے لوٹ آئے گی ۔۔۔تم سے پیار جو کرتی ہے ،دیکھنا زیادہ دن تم سے دور نہیں رہ پائے گی ۔۔۔۔

"تم اسے ڈھونڈھنے کی کوشش جاری رکھو ،میں بھی اللّٰہ پاک سے دعا مانگوں گی اس کی خیر و عافیت سے گھر واپسی کی ۔دل سے مانگی گئی دعا خدا کبھی رد نہیں کرتا ،

وہ میری لیے میری بیٹی جیسی ہے ،اللہ تعالیٰ اسکی حفاظت فرمائے ،اگر وہ راستہ بھٹک گئی ہے تو اسے واپسی کی راہ دکھلائے ۔۔۔۔

وہ دعائیہ انداز میں بولی اور یارم کو تسلی دینے لگی۔۔۔۔

لیکن کوئی تسلی کوئی دعا ،اس کے بے چین دل کو قرار نا بخش سکی ۔۔۔۔۔

وہ جدا ہوگیا دیکھتے دیکھتے،

کیا سے کیا ہو گیا،دیکھتے دیکھتے ،

دل کی نگری اجڑ سی گئی ،

حادثہ ہوگیا دیکھتے دیکھتے،

عشق کرنے کا سوچا نا تھا ،

باخدا ! ہوگیا دیکھتے دیکھتے ،

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آتش بلوچ نے اپنے دوست احد کے ساتھ ملکر شہر میں ہی اپنا نیا بزنس سٹارٹ کیا تھا ۔

وہ ہر ماہ حویلی کا چکر لگا لیتا تھا ۔سب سے مل آتا تھا ۔اس بار بھی وہ سب سے ملنے ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔مگر راستے میں ہی یارم بلوچ کی جیپ کھڑی دیکھی تو سوچا کہ وہ کسی مشکل میں نا ہو تبھی اسے ڈھونڈھنے لگا ۔۔۔۔۔مگر وہاں اس کا سامنا یارم کی بجائے بری حالت میں چاہت سے ہوگیا ۔اور وہ اس کے کہنے کے مطابق حویلی کے جانے کی بجائے اپنے ساتھ واپس شہر لے آیا تھا ۔۔۔۔

آتش بلوچ آفس سے تھک کر واپس آیا تو دیکھا وہ اپنے کمرے میں آیا تو دیکھا وہ اپنے بستر پہ بہت گہری نیند کی آغوش میں تھی ،چھوٹی چھوٹی گلاب کی کلیوں والا اور ہاف سلیوز کی شرٹ اور ٹراؤزر میں اس کا معصومیت بھرا نوخیز سراپا مدھم اندھیرے میں بھی جگمگا رہا تھا ۔دراذ گھنی مژگانوں کی جھالر شہابی گالوں پہ ساکن تھیں ۔۔۔۔لمبے گھنے سیاہ نم بال تکیے پہ دور تلک پھیلے تھے کچھ لاپرواہی سے بستر سے نیچے میٹریس کو چھو رہے تھے ۔۔۔۔وہ تو ایک غلط نگاہ ڈال کر پچھتایا ۔۔۔۔کہ نگاہیں اس کے سحر انگیز دلکش  سراپے میں الجھ کر رہ گئیں تھیں ۔تبھی سسی کو نیند میں بھی اپنے شہزادے کی آمد کی آہٹ اور اس کے مخصوص کلون کی مہک محسوس ہوئی 

اس نے پٹ سے اپنی غزالی آنکھیں کھول دیں اور دروازے میں ایستادہ اپنے شہزادے کو دیکھا ۔۔۔۔۔

سوری ۔۔۔وہ میں نے شاور لیا تھا۔آپ کا انتظار کر رہی تھی  بستر پہ لیٹی تو پتہ نہیں چلا کب آنکھ لگ گئی ۔۔۔

"آپ کب آئے  "؟

وہ جھٹ بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔اور پاؤں نیچے لٹکائے اس کے پاس آئی ۔۔۔۔

""جب آپ ہمیں اپنے خوابوں میں دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔"

اس نے گردن ترچھی کیے دھیمے سے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ ۔۔۔کو کیسے پتہ چلا؟

اس نے نم کھلے بالوں کو سمیٹتے ہوئے اسے جوڑے کی شکل دیتے یوئے حیرانگی سے پوچھا ۔۔۔۔

"رہنے دیں ایسے ہی اچھے لگتے ہیں "

وہ اس منظر میں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا تبھی خمار زدہ آواز میں بولا۔۔۔۔

"اگر اجازت تو تو ان کی ٹھنڈک اور مہک محسوس کرنا چاہتا ہوں "

وہ ایک ہاتھ کی انگلیاں اس کے نم بالوں میں پھنسائے ان کی نرمائی محسوس کرتے ہوئے اس کی صراحی دار نازک سی گردن پر جھکا اور اسی مدھم سے زخم کے نشان کو اپنے لمس سے مہکانے لگا ۔۔۔۔

وہ جو ابھی تک نیند کے حصار میں تھی ۔پوری طرح بیدار ہوچکی تھی ۔۔۔۔اسکے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

"شہ۔۔۔شز۔۔۔شہزادے ۔۔۔!!!!

اس کے گلے میں سے گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل بولی ۔۔۔

"چاہ کو دیکھ کر آتی ہوں ۔"

وہ دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔

اور سر جھکائے انگلیاں مڑوڑنے لگی ۔۔۔۔

دل زوروں سے دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔۔پہلی بار کی گئی اس کی بے باک جسارت پہ ۔۔۔۔

اتنی دیر سے وہ ساتھ تھے دوستی بھی ہوچکی تھی ،مگر آتش بلوچ نے کبھی اس طرح اس پہ حق نہیں جتایا تھا ۔۔۔

لمحوں میں چھایا فسوں ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔۔

"I am sorry"

وہ اسے نظریں چراتے دیکھ کر 

فورا بولا ۔۔۔

اور کوٹ اتار کر صوفے پہ اچھالتے ہوئے کبرڈ سے اپنے کپڑے لے کر واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

کسی کے ہاتھوں کے نرم گرم اپنائیت بھرے لمس نے اسے آنکھیں کھولنے پہ مجبور کردیا ۔۔۔۔۔

چاہت نے اپنی نیلی آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کی پہلی دوست سسی اس کے بالکل پاس موجود تھی ۔اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے نرمی سے اسے جگا رہی تھی ۔۔۔۔

"چاہ اٹھو نا تم نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا ۔۔۔

"آپ دونوں کھالیں ۔۔میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا کچھ بھی کھانے کو ۔۔۔۔

اس نے بیزاری سے کہا ۔۔۔۔

"وہ آگئے ہیں باہر کھانے کی میز پہ انتظار کر رہے ہیں ۔ہم سب ساتھ میں مل کر کھانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ہمیں اچھا لگے گا تمہارے ساتھ کھانا ۔۔۔۔آو نا ۔۔۔

سسی نے اسے باہر آنے پہ زور دیا ۔۔۔۔

تو چاہت بادل ناخواستہ اٹھ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس کی تقلید میں باہر آگئی ۔۔۔۔

"بھابھی آپ نے جو کہا میں نے آپ کی بات مانی ہے ۔۔۔میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا آپ کے بارے میں کہ آپ یہاں میرے ساتھ ہیں ۔

"یہ آپ دونوں میاں بیوی کا آپسی مسلہ ہے ۔

آتش بلوچ سنجیدہ انداز میں بول رہا تھا چاہت نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔

"مجھے پتہ ہے آپ ان کے تو کیا ان سے جڑے کسی بھی رشتے سے تعلق رکھنا نہیں چاہتی تھیں ۔۔۔

"آپ میرے لیے قابل عزت ہیں ۔میری بہنوں جیسی ۔۔۔میں نے یہاں آپ کو اپنی بھابھی نہیں اپنی بہن بنا کر رکھا ہے ۔

اور آتش بلوچ کو اپنے سے جڑے ہر رشتے کا خیال رکھنا آتا ہے ۔۔۔۔میں آپ کے کھانے پینے میں زرا سی بھی بے توجہی اور لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا ۔۔۔۔

چاہت نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔۔۔۔

"چلیں شروع کریں ۔۔۔۔

اس نے کہا تو چاہت نے پلیٹ مزید اپنے آگے کھسکائی ۔۔۔۔

سسی ان دونوں کے آگے رکھی پلیٹ میں کھانا سرو کر رہی تھی ۔۔۔۔

"تم بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے اس سے چمچ لے کر خود اپنی پلیٹ میں سالن نکالا ۔۔۔۔

اور روٹی نکال کر پلیٹ میں رکھی ۔۔۔۔

چاہت سر جھکائے بریانی کی پلیٹ میں چمچ چلا رہی تھی ۔۔۔۔

آتش نے پہلا نوالا بنا کر سسی کے منہ کی طرف بڑھایا ۔۔۔

سسی نے چاہت کی موجودگی کی وجہ سے آتش کو دیکھ کر نا محسوس انداز سےنفی میں سر ہلایا  ۔۔۔۔

مگر آتش نے چاہت کی نظریں نیچے دیکھ کر اسکے منہ میں نوالہ ڈال دیا ۔۔۔

اور اب آنکھ کے اشارے سے اسے بھی ویسا ہی کرنے کے لیے کہا ۔۔۔۔

سسی کا چہرہ دہک کر اناری ہوا۔۔۔۔

"م۔۔۔میں ۔۔۔پانی لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔وہ آتش بلوچ کی ذومعنی نظروں سے فرار حاصل کرنے کے لیے کچن کی طرف بھاگی ۔۔۔

"جب تک آپ نہیں چاہیں گی میں کسی کو آپ کے بارے میں نہیں بتاؤں گا ۔۔۔۔اگر آپ کے کہنے کہ مطابق بھائی قصوروار ہیں تو ہوسکتا ہے ۔۔۔۔میں جب تک کوئی بات آنکھوں سے ہوتے نا دیکھ لوں اس پہ رائے قائم نہیں کرتا ۔۔۔۔

اور آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گا ۔۔۔۔بنا پوری بات جانے اتنا بڑا فیصلہ لینا میرا نہیں خیال کہ ٹھیک ہوگا ۔۔۔۔

لیکن میں آپ پہ کوئی برڈن نہیں ڈالوں گا ۔۔۔ ان سے رابطہ کرنے کے لیے ۔۔۔۔

"کہیں آپ یہ مت سمجھیے گا کہ وہ میرے بھائی ہیں اس لیے میں ان کا ساتھ دے رہا ہوں ۔۔۔۔

"اگر میں ساری عمر ان کے پاس واپس نا جانا چاہوں تو ۔۔۔۔؟؟؟

"کیا آپ تب بھی مجھے اپنے پاس رکھیں گے "؟

اتنے دنوں سے دماغ میں کلبلاتا ہوا سوال بالآخر وہ لبوں پہ لے ہی آئی ۔۔۔۔

"میں آپ پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی ۔۔۔میں کہیں اور چلی جاؤں گی ۔۔۔۔

اس نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔

"یاد رکھیے گا بہنیں کبھی بھائیوں پہ بوجھ نہیں ہوتی ۔انہیں کے دم سے تو بھائیوں کی زندگی میں رونق ہوتی ہیں ۔۔۔۔"

",ایک ماہ سے اوپر ہو چکا ہے آپ کو یہاں آئے ہوئے ،اپنی صحت کا خیال رکھیں ،جس چیز کی ضرورت ہو بلا جھجھک مجھے نہیں تو سسی کو بتا دیجیئے گا ۔۔۔میں لے آؤں گا "

سسی پانی کا جگ لے کر واپس آئی تو آتش کی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی تھی ۔معا وہ کہیں پھر سے وہی فرمائش نا کردے ۔۔۔۔

اس نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا ہی تھا کہ اپنی کمر کے گرد اس کا سرسراتا ہوا ہاتھ محسوس ہوا ۔۔۔

گلاس سے پانی چھلک کر اسکے کپڑے بھگو گیا ۔۔۔

اس نے سانس روکے آتش بلوچ کی طرف جو دائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا اور بائیں ہاتھ سے  اسکی کمر کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا تھا ۔۔۔۔

سسی کی تو بھوک ہی اڑ گئی تھی اس کے بدلے بدلے تیور دیکھ کر ۔۔۔۔

If you are not comfortable .....

Then it's ok....

وہ اسکی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر اپنا ہاتھ واپس کھینچ چکا تھا ۔۔۔۔

نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے وہ خفگی بھرا چہرہ لیے وہاں سے اٹھ کر ٹیرس کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔۔

سسی اس کی ناراضگی کے خیال سے ہی خوفزدہ ہو کر رہ گئی ۔۔۔۔۔

اس کا دل تو بند ہونے کی کاگار پہ تھا،بھلا اپنے شہزادے کو ناراض کرکہ اسے دوسرا سانس بھی آتا ۔۔۔۔

وہ اسکے پیچھے پیچھے چلی گئی ۔۔۔۔

جب چاہت آتش بلوچ کے ساتھ یہاں آئی تھی تب سسی کو یہاں آتش بلوچ کی بیوی کے روپ میں پہلے تو بہت حیران ہوئی ۔۔۔۔مگر بعد میں مطمئن ہوگئی ۔۔۔۔وہ اس کے لیے خوش تھی کہ سسسی کو اس کا پیار مل گیا ۔۔۔۔اور اسے اس کی بچھڑی ہوئی دوست ۔۔۔

آتش نے سسسی کو کچھ بھی چاہت کو بتانے سے منع کردیا تھا ۔۔۔۔

کھانا کھاتے ہوئے چاہت کی آنکھوں کے سامنے آج بھی اس دن کا منظر لہرا رہا تھا۔۔۔۔

وہ اسکی قربت کے نشے میں مدھوش اسے بنا سوچے سمجھے نجانے کب اسے سارا سچ بتا گیا تھا اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔جبکہ چاہت کے دل و دماغ پہ تو اپنے بھائی آدم کے بارے میں سب سن کر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے ۔۔۔۔وہ بے یقینی سے اسے دیکھتی الٹے قدم لیتی ہوئے بنا آواز دھواں دھار روتی ہوئی نکلتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔وہ کب سے بس ڈورتی ہی جا رہی رہی تھی اور بھاگتے بھاگتے اسکے پیر بھی دکھنے لگے تھے اسکی سمجھ نہی آ رہا تھا کی وہ کہاں جاۓ  یہ ایک سنسان جگہ تھی دور دور تک کوئی گھر یا سڑک نہیں دکھائی دے رہی تھی  وہ بس کسی طرح اس کی پہنچ سے دور جانا چاہتی تھی ۔جو اذیت ناک سچ سن کر آئی تھی ۔۔۔۔ یہ بس وہی جانتی تھی اب بھاگتے  بھاگتے اسکی سانسیں بھی پھولنے لگی تھیں پر اسکو بھاگنا تھا وہ جیسے ہی تھوڑا سانس لینے کے لیے رکی ۔۔۔ اسکی سمجھ نہیں آ رہا تھا کی کیا کرے کہاں جایے بس وہ بھاگتی ہی چلی جا رہی تھی اسکے ننگے پاوں سے خون بھی نکلنے لگا تھا پھر اچانک  بھاگتے بھاگتے اسکو سڑک نظر آ ہی گئی وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی اسکو یقین تھا یہاں سے کچھ مدد ضرور ملے گی وہ سڑک پر آتے ہی زور زور سے بھاگنے لگی اور پیچھے دیکھنے کی اسنے ہمت بھی نہی کی تھی اور وہ اپنی دھن میں بھاگتی ہی جا رہی تھی کی سامنے سے آتی کار سے وہ بری طرح ٹکرا گئی اور ٹکرا کر زمین پر گر گئی اسکی کنپٹی  سے خون نکل رہا تھا کچھ تو پاوں کے زخم کا درد اور کچھ سر کی چوٹ کا درد اس میں اب ہمّت نہیں بچی تھی کی وہ خود کو ہوش میں رکھ سکے اسکی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہوتی چلی جا رہی تھیں ۔۔۔ ایک آخری احساس جو ہوا  تھا اسکو دو ہاتھوں کے اٹھانے کا تھا۔۔۔۔

"مجھے جانے دیں ۔۔۔۔!!!!

"مجھے واپس اس کے پاس نہیں جانا ۔۔۔۔۔

"وہ قاتل ہیں میرے برو کے "

"اور ۔۔۔۔۔!!!!!

"میں اپنے برو کے قاتل کے ساتھ ایک پل نہیں گزار سکتی ۔۔۔۔۔

"ان کے ساتھ رہنا تو دور کی بات ۔۔۔۔میں زندگی میں کبھی دوبارہ ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔۔۔

"جانے دیں مجھے ۔۔۔۔!!!!

"آپ جیسا چاہتی ہیں ویسا ہی ہوگا ۔۔۔۔

I swear" ۔۔۔۔۔!

اس نے تسلی بخش انداز میں کہا۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ شکستہ وجود لیے وہیں گر جاتی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے سہارا دیا ۔۔۔۔

"آپ آئیں میرے ساتھ "

وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ اپنے کے لیے کپڑے نکال رہی تھی۔۔۔جب اسے چکر آیا تھا۔۔۔الماری کا سہارا لیے وہ وہی بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔

"کیا ہوا چاہ تم ٹھیک ہو۔۔"؟

سسی جو  اس  کے اور اپنے لیے چائے لے کر آئی تھی کہ ساتھ ملکر پئیں گے ۔۔۔۔تبھی اسے سر پہ ہاتھ رکھے دیکھا تو تفکر بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"پتہ نہیں آج صبح سسے چکر محسوس ہو رہے ہیں۔۔۔اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔۔

"کمزوری ہو گی چاہ کچھ کھایا پیا کرو۔۔ایک تو تم کچھ ٹھیک سے کھاتی بھی نہیں نا "...۔

ابھی وہ اس کو کہہ ہی رہی تھی کہ چاہت کو وومٹ فیل ہوئی تھی اور وہ واش روم کی طرف بھاگی تھی۔۔۔

"تم ۔۔۔ٹھیک تو ہو چاہ ۔۔۔ !!!!

 وہ بھی پریشانی سے اس کے پیچھے واش روم کی طرف بھاگی ۔۔ اس کی آنکھوں میں وومٹ کی وجہ سے ائے آنسو دیکھ کر اسے اس کی  فکر ہوئی تھی۔۔۔

نل کھول کر اس نے چاہت کا چہرہ خود اپنے ہاتھوں سے دھلوایا تھا۔۔۔اور اس کا ہاتھ تھام کر سہارا دیتے ہوئے  واش روم سے باہر لے آئی ۔۔۔

"چاہ میں انہیں کہتی ہوں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں ۔تم یہ چادر لے لو ۔اس نے الماری سے شال نکال کر اس کی طرف بڑھائی تھی۔۔۔

"ن۔۔۔نہیں ۔۔۔سسی اس کی ضرورت نہیں میں ٹھیک ہوں اس نے نڈھال سی بستر پہ گرنے کے انداز میں تکیے پر سر گراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

"بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔اٹھو نا چلو۔۔۔

اس نے اسے اٹھا کر بٹھاتے ہوئے کہا۔۔ 

"مجھ سے چلا نہیں جائے گا چکر آرہے ہیں ۔

"پلیز۔۔۔اس نے دوبارہ تکیے پر سر گرا لیا تھا۔۔۔

"چاہ پتہ نہیں یہ الٹیاں کیوں آرہی ہیں ۔۔۔۔مجھے پریشانی ہو رہی ہے ۔۔۔۔

"پتہ ہے وہ کہہ رہے تھے کہ اماں کا وقت رہتے علاج نہیں کروایا تھا اسی لیے ان کا مرض بگڑ گیا تھا ۔۔۔۔اب تم لاپرواہی مت کرو ۔۔۔۔آو نا کچھ ہی دیر کی بات ہے ۔۔۔پھر واپس آکر آرام کرلینا ۔ہمت کرو ۔

اس نے اسے اٹھا کر بٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔اب وہ اس کے کاندھوں پر شال پھیلا رہی تھی ۔۔۔۔پھر اس کے پاؤں کے پاس چپل کی جسے اس نے پہن لیا تھا۔۔۔

سسی نے آتش بلوچ کو بتایا جو باہر لاونج میں بیٹھا ایل ای ڈی پہ نیوز دیکھ رہا تھا ۔۔۔

سسی سے چاہت کی طبیعت کا سن کر گاڑی کی چابی لیے باہر نکل گیا ۔۔۔۔سسی بھی چادر لیے چاہ کو تھامے گاڑی تک لے آئی تھی ۔ ان دونوں کو گاڑی میں بٹھا کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔۔۔

اب وہ اسے ڈاکٹر کے سامنے لیے بیٹھے تھے ۔۔

"کب سے ہے آپ کی یہ کنڈیشن؟؟؟۔۔۔۔٫

ڈاکٹر نے تفصیلی چیک اپ کے بعد پوچھا تھا۔۔۔

کل ایک دو بار چکر آئے تھے ۔مگر آج تو بار بار سر چکرا رہا ہے ۔۔۔ اور صبح سے وومٹ بھی ہو رہی ہے۔۔۔چاہت نے بتایا تھا۔۔۔

"یہ آپ کے ہسبینڈ ہیں۔۔؟

انہوں نے چاہت سے آتش بلوچ کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں یہ میری سسٹر ہیں ۔ہمارے پاس رہنے کے لیے آئیں ہیں۔ تو انکی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اسی لیے آپکے پاس لے کر آئے ہیں ۔یہ ٹھیک تو ہیں ؟

"کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ۔۔۔۔۔

آتش ڈاکٹر زارا کے پاس لے جانے کی بجائے چاہت کو قریبی اسپتال میں لے آیا تھا ۔۔۔کیونکہ ڈاکٹر زارا ۔۔۔یارم کی کولیگ اور فرینڈ تھیں ۔وہ ضرور یارم کو چاہت کے بارے میں بتا سکتی تھیں ۔اگر چاہت اس پہ بھروسہ کر کہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی تو وہ اس کا بھروسہ توڑنا نہیں چاہتا تھا کوئی بھی غلط کام کر کہ ۔۔۔۔

"جی سب ٹھیک ہے۔پریشانی والی کوئی بات نہیں ۔۔۔بلکہ خوشی والی بات ہے ۔۔۔ایکچوئلی آپ ماموں بننے والے ہیں ۔۔۔

Congratulations! 

وہ پیشہ ورانہ انداز میں ہلکا سا مسکرا کر بولیں ۔۔۔

چاہت کے چہرے کا رنگ مزید پھیکا پڑ گیا۔۔۔۔

جبکہ سسی اور آتش ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔۔۔۔

 "لیکن یہ بہت زیادہ ویک ہیں۔۔۔میں کچھ ٹیسٹ لکھ کر دے رہی ہوں۔۔۔وہ آپ لازمی کروا لیں اور یہ وٹامنز  ریگولری یوز کروائیں۔۔۔اور فریش جوسز اور فریش فروٹس کا زیادہ استعمال کریں یہ انٹرنلی بہت ویک ہیں۔۔۔

"جی ٹھیک ہے ڈاکٹر  "۔۔۔ سسی کی خوشی کی تو کوئی انتہا ہی نہیں تھی۔۔۔۔

وہ چاہت کا ہاتھ پکڑ کر وہاں  سے باہر نکل آئی ۔۔۔آتش میڈیسن لینے چلا گیا تو وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔۔۔

وقت پر لگا کر اُڑتا ہوا جا رہا تھا ۔

"گزرتا ہوا ہر دن زندگی کی کتاب سے کسی بوسیدہ ورق کی طرح پھٹتا جا رہا تھا ۔ ہر گزرتا لمحہ اپنے ساتھ کچھ بہا کر لے گیا تھا تو وہیں اپنے ساتھ بہت سی یادیں بھی بنا گیا تھا ۔۔۔۔کل حویلی میں ھاد بلوچ کے ولیمے کی تقریب رکھی گئی تھی ،جس طرح سے ھاد بلوچ اور ھادیہ کی شادی ہوئی تھی ،فلک بلوچ کی موت کے بعد سب بکھر گیا تھا ،پھر ھاد پڑھائی کے دوران اس کے روم میٹ باسط کے کیس کے سلسلے میں وہیں رکا رہا ۔۔۔

باسط جس سے محبت کرتا تھا ۔

جب وہ اپنے گھر گئی تو اس کے والدین نے زبردستی اسکی لڑکی کی شادی کرنا چاہی ۔۔۔اس لڑکی نے عین نکاح سے قبل نیند کی گولیوں کی اوور ڈوز لے کر اپنی جان دے دی ۔۔۔

باسط کو جب یہ خبر ملی تو اس نے بھی اسکے بنا رہنے کی بجائے بنا سوچے سمجھے حرام موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی ۔۔۔۔سارا کیس کھل کر سامنے آگیا تو ھاد بلوچ بھی آزاد ہوگیا تھا وہ حویلی آنے جانے لگا تھا اپنی پڑھائی کے دوران ۔۔۔

حویلی میں دو جڑواں ننھی پریوں کی آمد ہوئی تو ویران حویلی میں ان کی قلقاریوں سے رونق لگ گئی ۔۔۔ذرش بلوچ پھولے نہیں سما رہی تھیں ۔

ھاد بلوچ ،اپنی پریوں کے ساتھ ھادیہ کو ہسپتال سے حویلی لا چکا تھا ۔۔۔ 

انہیں ننھی پریوں کی آمد پہ زرش بلوچ نے ایک چھوٹی سی تقریب رکھی تھی ،آتش بلوچ اور سسی کو پتہ چلا تو ان کی بھی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔۔۔۔آتش حویلی میں جا کر ھاد کو مبارکباد دینا چاہتا تھا ۔تبھی زرش بلوچ نے تقریب پہ اسے حویلی آنے کے لیے کہا ۔۔۔

آتش بلوچ نے ابھی تک اپنی شادی کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا ۔

اس بار وہ حویلی جا کر سب کو اپنی اور سسی کی شادی کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔۔۔

وہ سائیٹ پہ تھا وہاں سے ریش ڈراٸیونگ کر کے آفس پہنچا تھا اور سیدھا اپنے کیبن میں گیا۔جہاں احد  پہلے سے ہی فاٸلزکا ڈھیر لے کر بیٹھا تھا۔دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے چونک کر دیکھا۔آتش  کو دیکھ کر احد اٹھ کر اس کے پاس آ گیا۔

”شکر ہے یار تم آ گٸے۔۔۔۔۔۔! میں نے تمہیں اتنی کالز کی تم نے ایک بھی پک نہیں کی۔۔۔“ 

”ہاں یار میں کال سن نہیں سکا۔تم بتاٶ کون سی فاٸل نہیں مل رہی۔۔۔۔۔۔؟“اس نے سوالیہ نظروں سے احد کی طرف دیکھا۔۔۔

”یار وہ کانڑیکٹ فاٸل نہیں مل رہی جو دوبٸی والے ڈیلیگیشن کے ساتھ دو دن پہلے ہوا ہے۔جس پر تمہارے ساٸن چاہیٸے تھے۔وہ فاٸل مجھے لگتا ہے میں نے تمہیں دی تھی۔“ احد نے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ تشویش سے کہا۔۔

آتش بلوچ کو بھی فوراً یاد آیا کہ وہ فاٸل احد نے اس کو پکڑاٸی تھی۔۔اس نے وہ فاٸل کہاں رکھی تھی یہ اس کو نہیں یاد آرہا تھا۔۔۔

”ہاں یار وہ فاٸل تم نے مجھے دی تھی۔وہ میں نے گھر میں ہی رکھی تھی شاید ۔میں لے کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔“وہ پریشانی سے بولا اور یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ اس نے فاٸل کہاں رکھی تھی۔پہلی بار اس نے اس طرح کی لاپرواٸی کی تھی۔۔۔

”آتش اس پر تمہارے ساٸن بھی نہیں تھے تم نے کہا تھا کہ میں گھر جاکر کر دوں گا۔ آج ہم نے اسکی کاپی مسٹر الطاف کو دینی تھی۔“ احد نے اِدھر اُدھر پریشانی سے چکر لگاتے ہوۓ کہا۔۔

”ہممم ۔۔۔۔۔۔! تم ٹیشن نہ لو میں گھر جاکر دیکھتا ہوں۔“ اس نے احد کو تسلی دی اور آفس سے باہر آگیا ۔۔۔

پریشانی تو اس کو بھی بہت تھی لیکن اس نے ظاہر نہیں کی تھی۔۔یہ ان کے لیے کافی بڑا کنڑیکٹ تھا اور ایک چیلنج بھی۔۔۔۔۔لیکن اگر ان کو وہ فاٸل نہ ملی تو یقیناً یہ کانٹریکٹ کسی اور کو مل جانا تھا۔۔۔۔۔۔!

وہ چاہت کے ساتھ لاٶنج میں بیٹھی تھی۔۔۔۔جب باہر آتش کی گاڑی کے ہارن کی آواز آٸی۔۔۔وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کون آیا ہوگا ۔۔ اس نے آتش کو تیزی سے اندر آتے ہوۓ دیکھا۔جو ادھر اُدھر دیکھے بغیر تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔۔۔

چاہت اور سسی نے حیرانگی سے اک دوسرے کو دیکھا۔۔۔

”ارے ۔۔۔۔ یہ آتش برو کو کیا ہوا اتنی جلدی میں آئے ہیں اور پریشان بھی لگ رہے تھے۔۔۔۔۔“ انہوں نے پریشانی سے اس کو کہا۔۔

”شاید کچھ چاہیے ہوگا ۔۔۔“ اس نے شانے اچکا کر بتایا ۔۔

”سسی ۔! سسی ۔!!! ۔۔۔“ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہی تھی کہ آتش کی آواز ان کو نیچے لاٶنج میں سناٸی دی ۔

”ہو ۔۔۔۔آج برو  اتنے غصے میں کیوں ہے۔میں نے پہلے تو اس کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا۔۔۔

"سسی تم جا کر دیکھو تو سہی ۔۔۔۔۔۔“ زبیدہ جو پاس بیٹھی مٹر چھیل رہی تھیں انہوں نے سسی کو اوپر جانے کو کہا اور خود بھی تفکر سے  کھڑی ہو گٸیں۔۔

”مم میں دیکھتی ہوں آپ  دونوں اسے سنبھالیں ۔۔۔“ اس نے چاہت اور زبیدہ کو بیٹھنےکا کہا اور اٹھ کر سیڑھیاں چڑھ گٸی۔۔۔۔۔وہ بھی پریشان ہو گٸی تھی۔اس نے بھی آتش بلوچ کی آج ہی اتنی اونچی آواز سنی تھی۔

”سسی....!روم کی صفاٸی کس نے کی ہے؟ یہاں میں نے بہت امپورٹنٹ فاٸل رکھی تھی جو اب نہیں مل رہی..“ اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا تو اس کے کانوں میں آتش بلوچ کی جھنجھلاہٹ سے بھری آواز آٸی....

جب اس نے کمرے کا ڈور آہستہ سے کھول کر اندر دیکھا تو ٹھٹھک گٸی..چیزیں ادھر اُدھر ہو چکی تھیں۔۔بیڈ کی ساٸیڈ والے ڈراور کھلے تھے ڈریسنگ کے ڈرا بھی کھلے تھے۔کمرے کا حشر نشر ہو چکا تھا اور آتش واڈروب میں گھسا فاٸل ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔

سسی تیزی سے اندر آ گٸی۔۔!

آتش نے اس کے آنے کا کوٸی نوٹس نہیں لیا۔اور اپنے کام میں لگا رہا۔۔۔۔۔۔وہ چلتی ہوٸی اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گٸی۔

”کون سی فاٸل ڈھونڈ رہے ہیں آپ؟اور اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں سب ٹھیک تو ہے ۔؟“آتش بلوچ نے اپنے قریب سسی کی آواز سن کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔

”میں وہ فاٸل ڈھونڈ رہا ہوں۔۔جو دو دن پہلے میں لے کر آیا تھا۔جس رات میں میٹنگ سے لیٹ آیا تھا۔بلیو کلر کی  فاٸل تھی۔“ اس نے کہا اور پھر سے واڈروب دیکھنے لگ گیا۔۔۔

”بلیو فاٸل ۔۔۔؟“اس نے زیرِ لب دہرایا۔۔۔

”ہمممممم بلیو مطلب نیلی فاٸل۔۔۔۔! روم کی ڈسٹنگ کس نے کی ہے سسی۔ "آتش نے واڈروب کو بند کیا اور اس کی طرف مڑا۔۔۔۔

”میرے علاؤہ ہمارے کمرے میں اور کون آئے گا ۔۔۔۔وہ نیلی فاٸل تو میں نے رکھی ہے۔وہ ٹیبل کے پاس گری ہوٸی تھی مجھے لگا کہ اس کی ضرورت نہیں میں نے اٹھا کر رکھ دی۔۔۔۔۔“اس نے ہاتھوں کو مسلتے ہوۓ بہت آہستہ سے اسکو بتایا کیوں کہ وہ اس وقت بہت غصے میں تھا۔آتش نے سسی کی طرف دیکھا۔۔

”تم نے رکھی ہے فاٸل سسی ۔۔۔۔۔؟“اس نے حیرانگی سے پوچھا۔اس نے نارمل لب و لہجے میں پوچھا ۔

”جی  ۔۔۔۔۔!“سسی  نے سر جھکاۓ ہوئے کہا ۔

”آپ نے ایسے ہی وہ فاٸل پھینکی ہوٸی تھی مجھے لگا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔میں نے اٹھا کر آپ کی کتابوں والے روم کے خانے میں جاکر رکھ دی۔“اس نے وضاحت دی۔ آتش بلوچ چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔۔۔

”شکر ہے تم نے سٹڈی روم میں رکھ دی۔کوڑا سمجھ کے کہیں اور نہیں پھینک دی۔۔۔“اس نے سسی کی طرف شرارت سے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔

”افففففف میں اتنی پاگل بھی نہیں کہ آپ کے کام کی چیز آپ سے بنا پوچھے پھینک دوں گی کہیں اور جا کر۔“اس نے برا مناتے ہوۓ کہا اور باہر جانے کے لیے مڑی ۔۔۔

”اب کدھر جا رہی ہو تم۔۔؟“ اس نے سسی کو باہر جاتے دیکھ کر پوچھا۔۔

”فاٸل لینے جا رہی ہوں۔۔۔۔! اور ہاں اک بات کہنی ہے آپ سے اگر آپ غصہ کرنے کی بجاۓ صبر سے پوچھ لیتے تو اب روم کی یہ حالت نہ ہوتی ۔۔صبر بھی کسی چیز کا نام ہے۔۔ “اس نے منہ بسور کر تیکھے لہجے میں کمرے کی ابتر حالت کی طرف اشارہ کر کے کہا اور کمرے سے باہر نکل گٸی۔۔۔

آتش بلوچ کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھری اس کے بیوی کی طرح ڈانٹنے والے انداز پہ ۔۔۔۔

کچھ دیر بعد سسی  نے اس کو فاٸل لا کر دی۔

"سوری شہزادی ۔۔۔!!!!

بس کچھ ٹینشن میں تھا ۔۔۔۔

اس نے گہری سانس کھینچ کر کہا ۔۔۔

"آج تیار ہوجانا ہمیں حویلی کے لیے نکلنا ہے .

اس نے سادہ انداز میں کہتے ہوئے گویا سسی کے سر پہ دھماکہ کیا ۔۔۔

"کیا ؟"

وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"یہ۔۔۔یہ ۔۔۔کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟"

"ممم۔۔۔۔میں کیسے ۔۔۔وہاں ۔۔۔؟

وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"سسی ہماری شادی کو کافی عرصہ ہوچکا ہے ،بہت چھپا چکا ہوں میں اپنے گھر والوں سے اتنی بڑی بات ،میں مزید انہیں دھوکے میں نہیں رکھ سکتا ۔۔۔۔"

"میں صرف تمہارے نارمل ہونے کے انتظار میں تھا ۔تاکہ تم سب کو فیس کر سکو۔۔۔۔

وہ اس کے شانوں پہ اپنے دونوں بھاری ہاتھوں سے ہلکا سا وزن ڈال کر اسے اپنے ساتھ کا احساس دلا رہا تھا ۔۔۔۔

"اور پریشان اسی لیے ہوں ،کہ نجانے ماں سا کا کیا ری ایکشن ہو ۔۔۔مطلب وہ تمہیں بہو کے روپ میں قبول کریں گی بھی یا نہیں ۔۔۔مجھے اسی بات کا ڈر ہے ۔۔۔۔

سسی جو واپس گاؤں اسی جگہ جانے کا سن کر حواس باختہ ہو گئی تھی ۔جہاں اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا ۔زرش بلوچ کے ردعمل کے بارے میں سوچ کر مزید پریشان ہوگئی ۔۔۔اور خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔

"م۔۔۔مجھے وہاں نہیں جانا ۔۔۔شہزادے ۔۔۔میری اس نا فرمانی اس گستاخی کے لیے معافی چاہتی ہوں "

آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے ۔۔۔۔آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر اسکے رخساروں کو بھگونے لگے۔۔۔۔

"سسی آپ میری زندگی کا سب سے حسین حصہ ہے ۔آپ کو مجھ پہ یقین نہیں ۔۔۔

 میرے ہوتے ہوئے کوئی آپ کو چھونا تو دور آپ پہ بری نظر بھی نہیں ڈال سکتا ۔۔۔۔آپ پہ اٹھنے والی بری نظر کی بصارت چھین لوں گا "

وہ اٹل انداز میں کہتے ہوئے اسکے آنسو اپنی پوروں پہ چننے لگا ۔۔۔۔

"میرے ساتھ رہتے ہوئے اب تک تو آپ کو با اعتماد ہوجانا چاہیے تھا ۔۔۔۔

وہ اسے اپنے شانے سے لگاتے ہوئے اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔۔۔۔

"مجھے پھر بھی ڈر لگ رہا ہے وہاں جانے سے "

وہ ابھی تک گھبرائی ہوئی تھی وہاں جانے کا سوچ کر ہی ۔

"اگر بات ماں سے ڈرنے کی ہے تو مجھے امید ہے ۔وہ ضرور تمہیں اپنی بہو کے روپ میں اپنائیں گی ۔۔۔۔آتش بلوچ نے اس کی ہمت بندھائی ۔۔۔۔

اپنی اور میری پیکنگ کر لینا۔مبارکباد دے کر ایک دو دن رہ کر واپس آجائیں گے ۔مجھے آفس کا بھی کام کرنا ہے ۔ذیادہ دن وہاں نہیں رکیں گے ،واپسی پہ نیو بورن بے بیز کے لیے گفٹس بھی لیتا آؤں گا تم بس تیار رہنا "

"جی ٹھیک ہے "

"مگر اماں اور چاہت "؟

اس نے زبیدہ اور چاہت کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔

تبھی باہر سے کچھ گرنے کی آواز سن کر چونکتے ہوئے وہ دونوں باہر کی طرف آئے ۔۔۔۔

"او۔۔۔ میرا لٹل ماسٹر !

آتش بلوچ نے براق کو گود میں اٹھا کر چٹاچٹ اسکے پھولے پھولے سرخ و سفید گالوں کو چوم ڈالا ۔۔۔۔

"بھائی اسے بھیجیں میری طرف ابھی سیدھا کرتی ہوں اسے ۔۔۔۔چاہت جو کچن میں اس کے لیے دودھ گرم کرنے گئی تھی ۔۔۔۔

فرش پہ واز گرا ہوا دیکھا ۔۔۔جس کی کرچیاں پھیلیں ہوئیں تھیں ۔۔۔۔

"توڑ دیا نا اس نے پھر سے کچھ ۔۔۔۔اس نواب کا روز کا کام ہے کچھ نا کچھ توڑنا ۔۔۔۔

وہ براق کو گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔۔جبکہ وہ آتش بلوچ کی سپورٹ ملتے ہی اپنی ماں کے غصے کو خاطر میں لائے بنا آتش کے ساتھ لپٹا رہا ۔۔۔۔اور آتش کے گال پہ اسی کے انداز میں چوم رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے آتش نے چوما تھا ۔۔۔

دونوں کی آپس میں خوب بنتی تھی ۔۔۔۔۔آفس سے آتے ہی آتش بلوچ بھی زیادہ وقت براق کے ساتھ گزارتا تھا ۔اس کی شرارتیں دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آجاتا تھا ۔۔۔۔

"ایک تو اس نے قسم کھائی ہوئی ہے شوز تو پہننے ہی نہیں ۔۔۔۔نیا نیا چلنا سیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔

ہاتھ پاؤں اس کے ضرورت سے زیادہ چلنے لگے ہیں ۔۔۔۔کبھی چیزوں کو پکڑ کر چلتا ہے تو کبھی ہاتھ مار کر سب گرا دیتا ہے ۔۔۔اگر کچھ پاؤں میں لگ جائے تو توبہ ہے رو رو کر سارا گھر سر پہ اٹھا لیتا ہے ۔۔۔۔سچ کہوں تو آپ نے اسے بگاڑ دیا ہے ۔۔۔لائیں دیں  اسے تو میں سیدھا کرتی ہوں ابھی  ۔۔۔

وہ آتش سے کہتی ہوئی براق کی طرف غصے سے بڑھی ۔۔۔

"بس بھابھی ۔۔۔میرے لٹل ماسٹر سے دور رہیے گا ۔۔۔

"لائیے اس کا دودھ مجھے دیں میں اسے پلاتا ہوں ۔کوئی دشمن میرے لٹل ماسٹر کے پاس پھٹکنا بھی نہیں چاہیے "

وہ مسکرا کر بولا ۔۔۔۔کیونکہ براق چاہت کو جارہانہ تیوروں سے اپنی طرف بڑھتا دیکھ آتش بلوچ کے سینے میں منہ چھپا چکا تھا ۔۔۔۔

"م۔۔۔۔ما ۔۔۔"براق ابھی بولنا سیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

"جی میری جان "

آتش نے اس کے گال کو پیار سے چھو کر پوچھا ۔۔۔

وہ چاہت ،کو مما کی بجائے  "ما "کہتا تھا ۔

ابھی دوسرا کوئی لفظ نہیں بولتا تھا تبھی آتش کو بھی ما ہی کہہ کر مخاطب کرتا تھا ۔۔۔

"میرے لٹل ماسٹر کو چاکلیٹ کھانی ہے "

چاکلیٹ سنتے ہی براق کے چہرے پہ ہنسی آئی ۔۔۔۔

"آپ نے تو آفس واپس جانا تھا فائل لے کر "سسی نے اسے یاد دلایا ۔۔۔

"او شٹ "اس نے یاد آتے ہی کہا ۔۔۔

"سسی یہ پکڑو براق کو ،،،

ابھی بھابھی غصے میں ہیں ۔یہ نا ہو ہمارے لٹل ماسڑ ان کے غصے کا شکار بن جائیں ۔۔۔۔"

آتش نے مسکرا کر کہا تو چاہت جو غصے میں کھڑی تھی۔وہ بھی مسکرانے لگی۔۔۔

"آپ کے لیے میں واپسی پہ چاکلیٹ لاؤں گا اتننننننی زیادہ ۔۔۔اس نے دونوں بازوں کھول کر پیار سے کہا ۔۔۔۔

تو براق کے معصوم چہرے کی چمک میں اضافہ ہوا۔۔۔۔وہ اسکے گال پہ بوسہ دیتے ہوئے 

 فائل لیے باہر نکل گیا ۔

"براق آؤ ما۔۔۔پاس ۔۔۔!

چاہت نے دودھ ایک طرف رکھ کر دونوں ہاتھ پھیلائے اسے سسی کی گود سے پکڑنے کے لیے ۔۔۔۔

مگر وہ سسی کے شانے سے چپکا رہا ۔۔۔۔

سسی بھی براق کی شرارت پہ ہنسنے لگی ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے اب رہو خالہ کے پاس ہی ۔اب میرے پیچھے آئے نا تو بتاؤں گی ۔۔۔۔

وہ ناراضگی سے کہتے ہوئے جانے لگی ۔تبھی پلٹی ۔۔۔

"اور ہاں اور کیٹو ہے نا اسے اپنا بے بی بناؤں گی ۔۔۔اسی کے ساتھ ہگ کر کہ سوؤں گی ۔۔۔

اب کوئی بھی نا آئے میرے پاس ِکسی کرنے یا ہگ کرنے "

وہ اونچی آواز میں اسے باور کروائے بولی اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے جاتی ۔۔۔۔

"م"ما ۔۔۔"اسے اپنے پیچھے سے براق کی آواز سنائی دی تو وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔

پلٹی تو وہ دونوں بازوں پھیلائے اسی کا منتظر تھا ۔۔۔۔

چاہت نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں بھر لیا۔۔۔۔

"I love you...

میری جان ۔۔۔اس نے براق کے گال پہ پیار کیا ۔۔۔

"لیکن آپ مما کو تنگ کرتے ہو نا ۔۔۔بالکل بات نہیں مانتے ۔۔۔اب کچھ بھی توڑنا نہیں ۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے ؟"

وہ براق کو سمجھا رہی تھی ۔

اس نے اپنی ما کی ناراضگی کے خیال سے جھٹ اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سوال یہ نہیں کہ،تاروں میں روشنی کیوں ہے۔

سوال یہ ہے کہ ،تاریک زندگی کیوں ہے ؟

سوال یہ نہیں کہ،کیوں دکھ کے سلسلے ہیں دراز ۔۔۔

سوال یہ ہے کہ ،اتنی سی خوشی کیوں ہے ؟

سوال یہ نہیں درپیش مسلے ہیں بہت ۔۔۔

سوال یہ ہے کہ،مجھے ان کی آگہی کیوں ہے ؟

سوال یہ نہیں کہ ،کس کو پکارتا ہوں میں ۔۔۔

سوال یہ ہے کہ ،آواز گونجتی کیوں ہے ۔۔۔۔

شب و روز کس گزر رہے تھے اسے کچھ ہوش نہیں تھا ،کب دن چڑھا کب رات ڈھلی ،وقت جیسے اس کے لیے بے معنی سا ہوگیا تھا۔حسیات جیسے منجمد سی ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔۔اک عجب کیفیت طاری تھی ،عجب عالم اضطراب تھا جس نے اسکے پورے وجود کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔کمرے کی ایک ایک شے کو چھو کر وہ محسوس کر رہا تھا کہ ان چیزوں پہ آج بھی اسکا احساس موجود تھا ۔

جانے کتنے عرصے سے وہ ٹھیک سے سویا بھی نا تھا ،اس کی زندگی کی طرح نیند بھی اس سے روٹھ چکی تھی ۔۔۔

اس دشمن جاں کے بارے میں پہروں سوچتا رہتا ،کتنی بار وہ اسی جگہ پہ جا چکا تھا جہاں آخری بار اسنے اسے کھویا تھا ۔۔۔

"اس سے ایک بار ملنے کی خواہش ،،،باقی خواہشوں کی طرح دل میں دب کر رہ گئی ۔۔۔

آنکھوں میں ویرانیوں کی وحشت ٹپک رہی تھی ۔۔۔

اس نے اپنے موبائل کو دیکھا ۔۔۔

وہ اب بھی اس کی مخروطی انگلیوں کا لمس اپنے بے جان فون پہ محسوس کر رہا تھا،

کتنی بار چھوا ہوگا اس کی پوروں نے اسے ۔۔۔۔

کتنی بار اسکی پرحدت انگلیوں کی گرفت اس پہ رہی ہوگی ۔۔۔مجھ سے زیادہ تو یہ اس کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔۔۔

مجھے تو خود پہ بہت اختیار تھا ،مگر نجانے کیسے اسکی محبت زیتون کی جڑیں بن کر مجھ میں پیوست ہوگئی ۔۔۔ہنہہہ۔۔۔!

محبت پہ بھلا کس کا اختیار ہوا ہے ۔!!!

دور کھڑی محبت اس پہ مسکرائی ۔۔۔۔

اس نے کبرڈ کے ساتھ ہی پشت لگا کر گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا ۔۔۔

کتنا درد تھا دل میں ...

"کس قدر کرب میں مبتلا تھا وہ ۔۔۔۔کس سے کہتا ۔۔۔۔؟؟؟

کس سے بانٹتا ؟؟؟؟

وہ تو سردار تھا علاقے کا اسے سب کے سامنے مضبوط رہنا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ ایک نہیں ہزاروں زندگیاں جڑ چکی تھیں ۔جو اسے اس کے بارے میں سوچنے کا موقع فراہم نہیں کر رہی تھیں ۔لیکن تنہائی میں وہ ٹوٹ جاتا ۔۔۔پھر خودی کو سنھبال کر مضبوط بنے باہر نکل جاتا ۔۔۔۔اس نے کبھی کسی پہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ اندر سے کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔۔۔۔

اچانک ہی پورا کمرہ جیسے خوشبوؤں سے بھر گیا تھا ،

اسے سامنے دیکھ کر اسکی دھڑکنوں کا ارتعاش بڑھنے لگا ۔۔۔

یارم تذبذب کا شکار تھا خواہ وہ خواب ہے یا حقیقت۔۔۔۔!!!!

اس کی سرمئی آنکھوں میں یکلخت تحیر سمٹ آیا ۔۔۔۔

وہ نگاہیں جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔۔پھر رخ موڑ گئی ۔۔۔

"تم کہاں ملو گی مجھے "۔۔۔!!!

وہ اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اسے پلٹنے والا ہی تھا کہ اس کی شبیہہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔۔۔۔

ایک بار وہ نئے سرے سے ٹوٹا ۔۔۔

"میری سانسیں چل رہی ہیں اس کا مطلب تم بھی ہو ۔۔۔۔

بس دور ہو میری پہنچ سے ۔۔۔

اس نے سیگریٹ سلگا کر اس کا گہرا کش لیتے ہوئے ہوا میں اچھال دیا ۔۔۔۔

"برسوں ہوگئے ہیں ہمیں جدا  ہوئے ،،،

اب تو تم میرے ساتھ نہیں ہو ۔۔۔

پھر بھی ایسا کیوں لگتا ہے جب بھی دھواں اچھالتا ہوں تو اس میں تمہارا چہرہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔

اس نے کرب زدہ آواز میں خود کلامی کی۔۔۔۔

آنکھیں بند کیے گہرا سانس لیتے ہوئے وہ رائیڈنگ کے لیے تیار ہونے چلا گیا تھا ۔۔۔۔

اس نے گاؤں کے امور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے گاؤں میں اعلی نسل کے گھوڑے منگوائے تھے ۔۔۔۔

گھوڑوں کی خرید وفروخت کے لیے پاکستان بھر سے لوگ یہاں آنے لگے تھے ۔پچھلے سال تو یہاں گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ بھی کیا گیا تھا ۔۔۔۔

وہ تیار ہوئے باہر نکل آیا ۔۔۔۔

اور اصطبل کی طرف بڑھا ۔۔۔

اسے دیکھتے ہی وہاں کے ملازم نے اس کا سفید بالوں والا اعلی نسل کا گھوڑا نکال دیا 

"سردار ۔۔۔!!!!

وہ بلیک رائیڈنگ سوٹ میں ملبوس اپنی سرمئی آنکھوں پہ سیاہ گاگلز لگاتے۔چھلانگ لگا کر اس پہ بیٹھا ہی تھا کہ اس کے نئے ملازم نے اس کے قریب کر  اسے مخاطب کیا۔۔۔

یارم بلوچ نے گردن ترچھی کیے اسے دیکھا ۔۔۔۔

جیسے بولنے کی اجازت دی ہو ۔۔۔۔

بولتا تو وہ پہلے بھی ناپ تول کر ہی تھا ۔اب تو وہ یونانی دیوتا اپنی مغرور طبیعت کے ساتھ مزید سحر انگیز لگنے لگا تھا ۔۔۔

”سردار وہ میں نے منشی صاحب کو گل خان کے پاس جاتے دیکھا ہے۔۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔۔

”واٹ یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔!وہ تو گاٶں میں نہیں تھے،وہ تو مجھ سے چھٹی لے کر   کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ایک ہفتے سے  وہ وہاں کیسے جا سکتے ہیں۔تمہیں کوٸی غلط فہمی ہوٸی ہو گی وارث ۔۔“ اس کی بات سن کر یارم بلوچ کو حیرت کا جھٹکا لگا ، گھوڑے کی لگام تھامے ہاتھ بھی ٹھٹھک کر رک گٸے تھے۔۔ 

”سردار وارث کو کوٸی غلط فہمی نہیں ہوٸی ، میں نے بھی صبح تڑکے ویلے اپنی ان گہنگار آنکھوں سے دیکھا تھا منشی صاحب کو اسی گوٹھ میں ۔“اس کے دوسرے بندے نے بھی تصدیق کی۔دونوں کی بات سن کر اسکا ماتھا بھی ٹھنکا ۔۔۔اسکی پیشانی پر شکنوں کا جال بچھا۔۔۔۔

”کوٸی نہ کوٸی گڑبڑ تو ضرور ہے  ' مجھے اب خود اس بات کی تہہ تک پہنچنا ہوگا ۔"

اس نے دل میں سوچا۔۔۔

"تم لوگ خاموش رہنا کہ مجھے ان کے یہاں ہونے کا پتہ چل چکا ہے ۔۔۔۔،اگر وہ واقعی ہی یہاں ہے تو اس سے الجھنا مت۔سمجھ گٸے ہو نہ میری بات۔“

”جی سردار ۔۔!!!!  جیسے آپ کا حکم۔۔۔“ ان دونوں نے مودب لہجے میں کہا۔اس نے سب کو ہدایت تو کر دی،لیکن خود وہ بہت گہری سوچ میں تھا 

”منشی صاحب یہاں کیسے ہو سکتے ہیں ؟اس کا شمار  بابا سائیں کے خاص آدمیوں میں سے ہوتا تھا ۔وہ بابا سائیں کا بہت پرانا اور مخلص شخص ہے وہ گل خان سے ملنے کیوں گیا ہوگا ۔۔۔جبکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ گل خان ہمارا خیر خواہ نہیں ۔“ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔۔۔

”سردار ہم اس پر نظر رکھتے ہیں۔۔“ وارث دھیرے سے بولا۔ 

”ہوں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔اچھا ۔۔۔  جاٶ تم لوگ۔۔۔! لیکن اگر اب وہ کہیں نظر آۓ تو مجھے بتانا۔“

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

 ان کی گاڑی سفر طے کرتے ہوئے بس اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن تھی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنے گاؤں کی حدود میں داخل ہوتے انکی گاڑی میں روڈ پہ تھی وہ سے دو راستے الگ الگ سمتوں میں مڑ جاتے تھے ۔۔۔۔ایک راستہ دلاور بلوچ کے گاؤں کی طرف جاتا تھا تو دوسرا فلک بلوچ کے گاؤں کی طرف ۔۔۔۔

تبھی دوسری طرف سے ایک تیز رفتار جیپ اچانک نکل آئی اور اپنے گاؤں کے راستے کی طرف مڑتی ہوئی آتش بلوچ کی گاڑی سے اس جیپ کی زور دار ٹکر ہوئی ۔۔۔

دونوں نے بروقت بریکس لگائیں۔۔۔۔

گاڑیوں کے ٹائرز کی چڑاچڑاہٹ کی آواز دور دور تک پھیلی ۔۔۔

آتش بلوچ کی نیو ہنڈا سوک کا فرنٹ ڈیمیج ہوگیا تھا ۔۔۔۔

وہ عالم طیش سے اس مقابل اندھے ڈرائیور کو سخت سست سنانے کے لیے باہر نکلا اور دھاڑ سے دور بند کیا تو سسی جو اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی تھی ہل کر رہ گئی ۔۔۔۔

”دیکھ کر نہیں چلا سکتے  تم ؟ آنکھیں کہاں ہے تمہاری۔۔؟“ اک تو وہ پہلے ہی ٹینشن میں تھا دوسرا اس شخص کی جیپ سے ہونے والے ٹکراؤ نے اس کا اور بھی زیادہ موڈ خراب کر دیا۔اس کی غصے بھری آواز سن کر شمشیر بلوچ جیپ سے باہر نکلا ۔

”آنکھیں تو تمہارے  پاس بھی ہیں شہری بابو  ، تم دیکھ کر چلا لیتے ۔“ وہ بھی بغیر ڈرے دو بدو اکڑ کر بولا ۔۔۔۔ 

”پلیز شمشیر بھائی سا آپ ہی چپ ہو جائیں ،،،، ورنہ بات زیادہ بڑھ جاۓ گی۔۔“امینہ نے جیپ سے نکل کر شمشیر کو چپ کروانا چاہا ۔۔

”زبان بند رکھو اپنی اور کس نے کہا تمہیں گاڑی سے باہر نکلنے کو ۔۔۔ ۔۔۔! تمہیں کتنی دفعہ کہا میرے کام کے بیچ میں اپنی ٹانگ مت اڑایا کرو' لیکن تمہیں اک بار کی کہی ہوئی  بات سمجھ ہی نہیں آتی۔۔۔“ وہ اسے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوۓ بولا۔

امینہ اسکے غصے سے خائف ہوتے ہوئے واپس جیپ میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔

سسی جو دیکھ رہی تھی کہ کون تھا جس نے انکی گاڑی کو ٹکر ماری تھی ۔۔۔۔جیسے ہی اس نے باہر دیکھا اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے ساکت رہ گئیں ۔۔۔۔

جسم اس شخص کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔۔۔۔

اسی درندے کو سامنے دیکھ کر اس کا دل بند ہونے کی کاگار پہ تھا ۔۔۔۔چند لمحوں میں اس کا پورا بدن پسینے سے شرابور ہو گیا۔۔۔۔۔

"نظروں کے ساتھ ساتھ لگتا دماغ بھی کام نہیں کرتا تمہارا ۔۔۔۔۔۔آتش بلوچ ایک لڑکی کے ساتھ اسکا برا برتاؤ دیکھ کر تلملاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"کیا سارے موڈ کا ستیا ناس مار دیا ۔۔۔چل ہٹ سامنے سے ۔۔۔۔۔میرے منہ نا لگ نہیں تو ۔۔۔۔۔"

شمشیر بلوچ رعونت آمیز انداز میں بولا ۔۔۔

”تم آۓ ہو  میرے سامنے میں نہیں۔۔۔۔۔! ویسے بھی مجھے کوٸی شوق نہیں تم جیسے بد لحاظ ۔کے منہ لگنے کا۔۔۔“وہ اس کے عین مقابل آ کر نڈر لہجے میں بولا ۔۔

” گو ٹو ہیل نان سینس۔۔۔۔“ وہ اس کو نفرت بھری نظروں سے دیکھتا واپس گاڑی کی طرف آیا ۔۔۔۔

شمشیر بلوچ بھی سر جھٹک کر ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا اسکی نظر ابھی تک سسی پہ نہیں پڑی تھی ۔۔۔۔

وہ جیپ میں بیٹھتے امینہ کو ایک بار پھر بری طرح ڈانٹنے لگا ۔۔۔۔

جیسے ہی آتش بلوچ اندر بیٹھا اور اسکی نظر بری طرح کپکپاتی ہوئی سسی پہ پڑی اس نے حیرانگی سے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا جیسے ہی آتش بلوچ نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھنا چاہا وہ جھولتی ہوئی اسکے بازو پہ گری ۔۔۔۔اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔۔

”دیکھو واصف گل ہمارے سردار یارم بلوچ کی تمہارے ساتھ کوٸی دشمنی نہیں،نہ ہی انہیں ایسی چھوٹی موٹی گھٹیاں حرکتیں کرنے کی کوٸی ضرورت ہے۔۔تم خود بھی دیکھ سکتے ہو ہماری زمینوں  میں پانی انہوں نے حکومت سے کہہ کر کل کا لگوا لیا ہے،ہمیں یا ہمارے گوٹھ کے بندوں کو کوئی ضرورت نہیں ہے تمہارے طرف سے آتے پانی کاٹنے کی اور نہ ہی ہمارے گوٹھ کے بندوں نے ایسا کیا ہے۔۔، میں نے تمہیں پہلے بھی اک دو بار کہا تھا کہ سردار یارم بلوچ سے پنگا مت لینا ، لیکن پھر بھی تم باز نہیں آۓ اور اب یہاں پہنچ گٸے ، تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے۔۔۔“ یارم بلوچ کا رکھا گیا وفادار آدمی وارث  ابھی زمینوں پہ پہنچا تھا اور غصے سے تیز تیز بولتا۔ گل خان کے بیٹے واصف گل  کے عین مقابل آ گیا۔۔

”اور میں نے بھی تمہیں کہا تھا کہ یارم بلوچ کو کہنا مجھ سے بچ کر رہے ۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوٸی نہیں ہوگا۔۔۔“ وہ کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا وہ بھی غصے سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غرایا۔۔۔

”اگر میرے سردار یارم بلوچ کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا تو پھر مجھ سے برا بھی کوٸی نہیں ہوگا یہ بھی اب یاد رکھنا واصف گل خان۔۔۔دوبارہ میرے سردار یارم بلوچ سے پنگا لینے کی جرات مت کرنا یہ میں آخری بار کہہ رہا ہوں تمہیں، اگر دوبارہ ایسا ہوا تو زمہ دار تم خود ہو گے۔۔ان تک پہنچنے کے لیے تمہیں میری لاش سے ہوکر گزرنا پڑے گا “ اس کا غصہ بھی کسی طور پر کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔اپنے سردار کے بارے میں ایسی باتیں سن کر ۔۔۔

” ہننہہ میں بھی تمہیں دیکھ لوں گا اور تمہارے سردار یارم بلوچ کو بھی ۔۔۔“ واصف گل خان نے بھی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کر غصے سے اُسے دھمکی دی۔آگے سے وہ بھی تن کر کھڑا رہا ۔۔۔۔

”تو پھر ٹھیک ہے واصف گل خان ، اب بچ کے رہنا مجھ سے۔۔۔“ وارث نے بھی اسے یارم بلوچ کی شہ پہ غصے سے گھورتے ہوۓ دھمکی دی۔

تبھی واصف گل کے اشارے پہ اس کے بندوں نے وارث پہ دھاوا بول دیا ۔۔۔۔وارث کے ساتھ بھی کچھ آدمی تھے جو سردار یارم کے گوٹھ کے تھے ۔۔۔۔

ہاتھا پائی میں بہت سے آدمی زخمی ہوگئے ۔۔۔۔

”وارث کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔؟“ وہ دونوں ہی غصے سے اکڑے اک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے تھے،اور کچھ لوگ آپس میں مار پیٹ کر رہے تھے ۔ جب گھوڑے پہ موجود سردار یارم بلوچ نے اپنی رعب دار آواز میں پوچھا۔۔۔۔ان دونوں نے اک جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

”سردار  آپ یہاں ۔۔؟“ اُس کو وہاں دیکھ کر وہ حیران و پریشان ہوگیا تھا کیونکہ وہ گاؤں میں ہونے والے جھگڑوں کے بارے میں حویلی میں یا اُسے بہت کم ہی بتاتا تھا۔۔۔۔کیونکہ وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔

”اس بات کو چھوڑو اور جو پوچھا ہے وہ بتاٶ کیا چل رہا ہے یہاں۔۔؟ اور یہ سب اتنے زخمی کیوں ہیں ۔۔۔“ اس نے وہاں پڑے بندوں کی طرف دیکھ کر درشتی سے پوچھا۔۔۔ کیونکہ وہ کافی زخمی حالت میں سامنے ہی کھڑے تھے۔

یارم بلوچ زیادہ تر لڑاٸی جھگڑں سے دور ہی رہتا تھا اور انہیں جھگڑوں کی وجہ سے ہی اسے زمین داری میں کوٸی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی، کیونکہ اس میں تو آۓ روز ہی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔لیکن اب وہ جب اپنا بابا سائیں اور گاؤں کے سردار ہونے کی سیٹ سنبھال چکا تھا تو یہ سب اسے ہی سنبھالنا تھا ۔۔۔

”میں بتاتا ہوں یارم بلوچ۔۔۔!

تمہارے اس چمچے  کے بندوں نے بلاوجہ ہی میرے بندوں کو مارا ہے اور اپنے بندوں پر بلاوجہ کا ظلم میں برداشت نہیں کروں گا سمجھا لو اس کو۔۔“ وارث کے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ غصے سے بول پڑا۔۔۔۔یارم بلوچ نے دوبارہ سے واصف گل خان کے بندوں کی طرف دیکھا۔اور پھر غصے سے وارث کی طرف مڑا

”کیا یہ سب سچ ہے۔۔۔۔؟“ 

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔

”سردار یہ سراسر جھوٹھ بول رہا ہے ۔لڑائی اس نے پہلے شروع کی تھی پانی کی وجہ سے ۔۔“ وہ اکڑ کے بولا۔

”یہ پانی میں نے لگوایا ہے ۔جس کو بھی اس سے مسلہ ہے میں سامنے ہوں ہمت ہے تو بات کرو  ۔۔“

اس نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے کیا۔

"چلیں یہاں سے اگر آپ کے بابا سائیں گل خان کو پتہ چل گیا کہ آپ یارم بلوچ سے الجھ پڑیں ہیں تو بہت ناراض ہوں گے "واصف گل خان کے ایک آدمی نے سرگوشی نما آواز میں اس کے کان کے قریب آتے ہی کہا ۔۔۔۔

وہ یارم بلوچ کی کسی بھی بات کا جواب دئیے بنا سر جھٹک کر وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔

تم کہاں تھے یارم صبح سے گھر سے غائب تھے ۔۔؟“ تقریبا گیارہ بجنے والے تھے۔ جب وہ تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا، لاونج  میں ہی اسے زرش بلوچ مل گٸی ، جو پریشانی سے ادھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔اس کو دیکھتے ہی فوراً ہی پریشانی سے اس کی طرف آٸی۔

"جب سے چاہت اچانک سے ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔تب سے مجھے ڈر لگنے لگا ہے کہیں کسی دن تم بھی مجھے چھوڑ کر کہیں چلے نا جاو ۔۔۔۔"

وہ اپنے دل کا خوف اسے بتا رہی تھیں ۔

"ماں سا ۔۔۔۔!!! 

"کہاں جانا ہے میں ۔۔۔۔جہاں بھی جاؤں گا لوٹ کر آپ کے پاس ہی آؤں گا ۔

"اور مجھے پوری امید ہے ایک نا ایک دن چاہت کو بھی ڈھونڈھ لوں گا ۔۔۔۔

"نجانے کہاں چلی گئی ہے ؟؟؟

"کیوں چلی گئی ؟؟؟

"جانے سے پہلے وجہ تو بتا جاتی مجھے .۔۔۔!!! 

"کہاں کہاں نہیں ڈھونڈھا اسے میں نے ۔۔۔۔نجانے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی ۔۔۔۔جو مجھے ابھی تک اسکی کوئی خبر نہیں مل سکی ۔۔۔۔۔

ملک سے باہر تو وہ جا نہیں سکتی ۔کیونکہ اس کے ساتھ کاغذات تو میرے پاس ہیں ۔وہ یہیں کہیں ہے ۔۔۔۔لیکن کہیں ایسی جگہ چھپی ہوئی ہے ۔۔۔۔جہاں سے اس کا سایہ بھی مجھ تک نہیں پہنچ پا رہا ۔۔۔۔

ماں سا اب میں تھکنے لگا ہوں ۔۔۔۔۔وہ شکستہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

"یارم چاہت مجھے بھی بیٹیوں کی طرح عزیز تھی ۔اس نے مجھے تب سہارا دیا جب تمہارے بابا سائیں کے چلے جانے کہ بعد میں اکیلی ہوگئی تھی ۔مجھے بھی اس کی بہت یاد آتی ہے ۔۔۔ 

"یارم میں تم سے کچھ کہوں "؟

"ماں سا کہیے نا آپ ۔۔۔بھلا مجھ سے بات کرنے سے پہلے آپ کو اجازت لینے کی ضرورت کیونکر پڑ گئی ۔۔۔۔؟"

"یارم بے شک ھادیہ اور ھادیہ کی دو بیٹیاں رحمت بن کر اس حویلی میں آئیں ہیں ۔۔۔۔مگر مجھے اور تمہارے بابا سائیں کی یہی خواہش تھی کہ ایک وارث ہو ہمارا ۔۔۔۔۔اب چاہت نہیں ہے تو ایسا کرو ۔۔۔۔تم دوسری شا۔۔۔د۔۔۔ی۔۔۔

"بس ماں سا ۔۔۔۔اس سے آگے ایک لفظ بھی مت کہیے گا ۔۔۔۔

وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔۔۔۔

",چاہت کہ علاؤہ میری زندگی میں کسی کی جگہ نہیں ۔۔۔۔وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں "

ھاد نے کون سا بچے پیدا کرنے بند کردئیے ہیں ان بچیوں کے بعد ۔۔۔دوبارہ پیدا کر لیں گے ۔۔۔

اور آتش بھی تو ہے ۔۔۔۔اس کی شادی کروادیں ۔۔۔اس سے امید لگائیں پوتے اور وارث کی ۔۔۔۔"

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔

وہ دل مسوس کر رہ گئی اسکے سیدھے جواب پہ ۔۔۔۔

"اچھا یہ بتاؤ کہاں تھے ؟

انہوں نے اس کا خراب موڈ دیکھ کر بات بدل دی ۔۔۔۔

”زمینوں پر گیا تھا وہاں کچھ جھگڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔“ اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوٸے بتایا۔اور اپنے دکھتے سر کو ہلکے سے دبایا جو غصے میں اونچا بولنے کی وجہ سے اب درد سے پھٹ رہا تھا۔۔ 

”جھگڑا ۔۔؟“ وہ پریشان ہو کر بولتی تیزی سے اس کے پاس بیٹھ گئیں۔۔

”جی گل خان کے بیٹے واصف نے پانی چوری کا الزام لگا کر ہمارے بندوں کو مارا ہے،مجھے بھی کسی نے فون کر کے بتایا۔کہ وہاں وارث کا جھگڑا ہو رہا ہے ۔ اس لیے میں وہاں گیا تھا۔۔"

اس نے ساری بات تفصیل سے بتاٸی۔

”اوہ یہ گل خان وہی ہے نا جس نے آپ کے  پھپھی عنقیا کے لیے رشتہ بھیجا تھا ۔۔۔اور عنایا نے جاکر دلاور بلوچ سے شادی کرلی تھی ۔۔۔۔۔“ ان کو گل خان کا نام سن کر یاد آیا تو انہوں نے کہا ۔ 

”جی ہاں وہی ہے ۔۔۔! وہ مجھ سے جان بوجھ کر جھگڑے مول لے رہا پتا نہیں کیا ملتا ہے ایسے لوگوں کو جھگڑ کر ۔“ وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر بولا۔۔ 

”اچھا کچھ نہیں ہوا ہوتا اتنا پریشان نہ ہوا کرو۔۔۔! 

انہوں نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔

بس میرے سر میں ہلکا سا درد ہے۔۔۔“ماں سا 

”اوہ تو پھر میں چاۓ بنوا  دیتی ہوں تمہیں ۔۔۔“ انہوں نے فکر مندی سے کہا۔۔ ۔

”نہیں ماں سا آپ سو جائیں صبح ڈھیروں کام آپ کے منتظر ہوں گے تقریب کی وجہ سے  ۔۔“ وہ وہاں سے کھڑا ہوگیا۔

تبھی آتش بلوچ کسی لڑکی کو اپنی بانہوں میں بھر کر اندر داخل ہوا تو زرش بلوچ اور یارم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم ماں سا !

اس نے انہیں دیکھ کر سلام کیا ۔۔۔۔مگر زرش بلوچ تو اپنی جگہ ساکت رہ گئیں ۔۔۔۔

آتش بلوچ کی بازوؤں میں کسی لڑکی کو دیکھ کر۔۔۔۔

جیسے ہی وہ چلتے ہوئے انکے قریب آیا ۔۔۔پہلے تو وہ اس لڑکی کو دیکھ کر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں مبتلا ہو گئیں پھر چونکیں ۔۔۔۔

اس کا روپ رنگ بدلا ہوا تھا پہننے اوڑھنے کا ڈھنگ بھی مگر چہرہ تو وہی تھا ۔۔۔

وہ اسے فورا سے بیشتر پہچان چکی تھیں ۔۔۔۔

"مجھے معاف کردیں ماں سا میں نے آپ سے پوچھے بنا اتنا بڑا قدم اٹھایا ۔۔۔۔

"میں سسی سے شادی کر چکا ہوں "

اس نے گویا سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے ان کے سر پہ دھماکہ کیا ۔۔۔۔

"آتش ۔۔۔۔۔!!!!

وہ گرجدار آواز میں بولیں ۔۔۔

یارم بلوچ نے ان کے شانے پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔

"ماں سا اگر اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر کی اٹھایا ہوگا ۔۔۔۔

"تم تو چپ ہی رہو ۔۔۔۔

یہ تمہارے والے کام ہی دہرا رہا ہے جیسے تم نے چپ چاپ نکاح کر لیا تھا اور بیوی لاکر ہمیں پکڑا دی تھی ۔۔۔۔

ویسے ہی تمہارے نقش قدم پر چل رہا ہے یہ بھی ۔۔۔۔تم تو دو گے اسکا ساتھ "

وہ یارم بلوچ کو بھی کھری کھری سناتے ہوئے آنکھیں دکھا کر غصیلے انداز میں بولیں ۔۔۔

"اور تمہیں ۔۔۔۔زرا شرم نہیں آئی ۔۔۔۔اپنے باپ دادا کا نام ڈبو دیا ایک کام کرنے والی کی بیٹی سے شادی کر کہ ۔۔۔۔

بس یہی دن دیکھنا ہی باقی تھا ۔۔۔۔یا خدا ۔۔۔۔اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے ؟؟؟؟

وہ دونوں ہاتھوں کو بلند کرتے دہائی دینے کے انداز میں بولیں ۔۔۔۔۔

"مگر ماں ۔۔۔۔آتش بلوچ نے بولنے کی کوشش کی۔۔۔۔

",خاموش رہ نا ہنجار۔۔۔!!!

"ایک عورت ہماری نسل کی امین ہوتی ہے ۔۔۔۔اور تو نے کم ذات عورت سے شادی کر کہ ہماری نسل کی خراب کردی ۔۔۔

مجھ سے قطع یہ امید نا رکھنا کہ میں اسے اپنی بہو کے طور پہ اپناوں گی ۔۔۔۔

"خبردار جو صبح سب گاؤں والوں کے سامنے اسے لایا ۔۔۔۔

صبح منہ اندھیرے اسے وہیں لے جا جہاں سے اسے لے کر آیا ہے ۔۔۔۔۔

وہ اٹل انداز میں کہتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

جبکہ یارم بلوچ نے آتش کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی ۔۔۔۔

I am with you....

Don't worry...

تازہ تازہ دھچکا لگا ہے ۔۔۔۔

آہستہ آہستہ نارمل ہو جائیں گی ۔۔۔۔میں مناؤں گا انہیں صبح ۔۔۔۔ابھی تم جاکر آرام کرو ۔۔۔۔۔

آتش نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھا پھر بیہوش سسی کو اپنے ساتھ لیے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔

یارم بلوچ اس سے پہلے کہ اپنے کمرے کی طرف جاتا اس کے موبائل پہ کال آنے لگی۔۔۔

اس نے موبائل کی روشن سکرین کو ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں دیکھا پھر کال اٹھا کر کان سے لگائی ۔۔۔

دوسری طرف سے نجانے کیا کہا گیا تھا ۔وہ انہیں قدموں سے چلتے ہوئے حویلی سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

آتش نے اپنے کمرے میں آکر سسی کو آرام سے  بستر لیٹا دیا اور اس ہی کمفرٹر اوڑھا دیا ۔۔۔ 

اس نے دیکھا سسی ابھی بھی ہوش میں نہیں تھی ۔۔۔۔

کچھ دیر کمرے میں ٹہلتا رہا پھر آہستگی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"بہت شکریہ بلوچن سائیں میری زندگی میں آنے کے لیے اور اسے مکمل کرنے کے لیے  ۔۔ ھادیہ کے پاس بیٹھتے ہوئے ھاد نے کہا۔۔

"اس میں شکریہ کی کیا بات ہے بلوچ سائیں ۔۔۔یہ تو ہماری محبت کی دو پیاری سی نشانیاں ہیں ۔ ھادیہ نے مسکرا کے جواب دیا۔۔

"تم نے دیکھا ہماری پریاں بالکل مجھ پہ گئیں ۔ھاد نے اپنی ایک بیٹی کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کے کہا۔۔

"بالکل بھی نہیں یہ تو اپنی کیوٹ سی مما پہ گئیں ہیں ۔۔ ھادیہ نے اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔۔

"دیکھ لو بے شک بالکل مجھ پہ ہیں ، وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور ننھی پری کو اسکی گود میں دیا۔۔دوسری بے بی کارٹ میں سو رہی تھی ۔۔۔

"یہ واقعی چالاک ہے ،اپنے بابا پہ گئی ہے جو یوں ابھی آدھی رات کو بھی جاگ رہی ہے ۔وہ میری طرح ہے معصوم سی جو سو رہی ہے آرام سے ۔۔۔۔

"واہ جی تم اور معصوم ؟؟؟

"یہ تو الزام ہوا نا پری تمہارے بابا پر ۔۔۔۔تمہاری مما نے راضی ہونے کے لیے تمہارے بابا کے ناکوں چنے چبوا دیئے ۔۔۔۔اور بڑی معصوم بن رہی ہیں "

وہ جوابا بولا ۔۔۔

اپنی اولاد کو گود میں لے کر ھادیہ کے دل کو ڈھیروں سکون ملا۔۔ اور ساتھ میں آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔۔

ھاد نے اس کی نم آنکھیں دیکھ کر پیار سے اس کی پیشانی کو چوما۔۔ نام کیا رکھنا ہے  ان کا ۔ ھاد نے پیار سے ھادیہ  کو کہا۔۔

"نہیں میں نہیں رکھوں گی ۔۔۔ میں چاہتی ہوں ،ماں سا بڑی ہیں وہیں ان کا نام رکھیں کیونکہ آپ کا نام بھی انہوں نے رکھا تھا میں چاہتی ہوں میری بیٹیوں کا نام بھی وہی رکھیں ۔۔۔

ھادیہ نے اپنے بیٹی کا نرم سا ہاتھ اپنی انگلی سے پکڑ کے اسے چوم کے کہا۔۔

ٹھیک ہے۔۔ ھاد نے ھادیہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

"چلیں پکڑیں اسے میں بہت تھک گئی ہوں "

اس نے ننھی پری کو ھاد کو واپس تھمایا ۔۔۔۔

"ابھی تو پکڑا تھا ۔ایک منٹ میں ہی تھک گئی ۔۔۔کیا آگے کیا بنے گا تمہارا ۔۔۔۔"؟

وہ لہجے میں حیرانگی سموئے بولا ۔

"میرا جو بننا تھا بن گیا ۔۔۔کتنی مشکلوں سے پیدا کیا میں نے انہیں ۔۔۔اب آپ کا بھی تو تھوڑا کام بنتا ہے نا انہیں سنبھالنے کا ۔۔۔۔

"خودی سمبھالیے گا انہیں ۔۔۔۔

"لو میں کیسے سنبھالوں گا ۔۔۔۔

"میری پیاری سس بلوچن سائیں یہ آپ کا کام ہے ۔۔۔۔انہیں سنبھالنا ۔۔۔

"نا جی میرا کام مکمل ۔۔۔اب آپ کا شروع ۔۔۔ 

"منتیں تو مت کراؤ ۔۔۔میں کیسے کروں گا سب ",

وہ جھنجھلا کر بولا ۔۔۔

او ۔۔۔میرے بلوچ ۔۔۔۔جی !!!!

یہ حق صرف بلوچن سائیں کے پاس ہے کہ میں غلطی نا ہونے پہ بھی منتیں کرواسکتی ہوں ۔۔۔۔۔

وہ فرضی کالر اچکا کر مسکراتے ہوئے بولی ۔

"کیا چیز ہو تم ؟

ھاد نے قہقہہ لگایا اسکی بات پہ ۔۔۔۔

"مجھ سے شرارتی کوئی نہیں ملے گی ۔۔۔

جی بھر کر دیکھ لو بے مثال ہوں میں "

"میں بھی ضدی وہ بھی ضدی ۔۔۔۔

ہمارے بچے بھی ڈھیٹ ہی ہوں گے "

ھاد نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔

اب کی بار قہقہ لگانے کی باری ھادیہ کی تھی ۔۔۔۔

"بلوچن میں سوچ رہا تھا ،تم سے نہیں سنبھالے جائیں گے ۔دو دو بچے کیوں نا ایک اور شادی کرلوں ۔۔۔جو تمہارا اور بچوں دونوں کا خیال رکھے ۔۔۔۔

وہ شرارت آمیز انداز میں بولا۔

ھادیہ کے تو سر پہ لگی تلوں پہ بجھی ۔۔۔۔

"جان لے لوں گی اپنی جو دوسری کے بارے میں سوچا بھی تو ۔۔۔۔۔

"یار جب تم مر ہی جاؤ گی تو واپس آکر کیسے پوچھو گی مجھ سے ۔۔۔۔؟

اس نے گال پہ انگلی رکھ کر سوچنے کے انداز میں کہا۔

مرنے کے بعد چڑیل بن کر بھٹکنا چاہتی ہوں ۔

میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتی ہوں "!

وہ ابرو اچکا کر بولی ۔۔۔۔

ھاد سمجھ گیا کہ وہ مرنے کے بعد چڑیل بن کر اسے ستانے والی ہے ۔۔۔۔

وہ ننھی پری کو کارٹ میں ڈال آیا کیونکہ وہ سو چکی تھی ۔۔۔پھر ھادیہ کی گود میں سر رکھے وہیں لیٹ گیا ۔۔۔

اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب نیند اس پہ مہرباں ہو گئی ۔۔۔

"مرشد ۔۔!!!

وہ ہمیں غصہ دلاتا ہے ۔۔۔۔!!!!

"مجھ سے باتیں کرتے کرتے سو جاتا ہے ۔۔۔!!!!

ھادیہ نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔

ھاد جو کچی نیند میں تھا جھٹ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔

"ہاتھ میں دیا لے کر ڈھونڈھو گے نا تب بھی میرے جیسی معصوم بیوی نہیں ملے گی تمہیں ۔۔۔۔

ھاد نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھوں سے اسکے بولتے لبوں پہ فوکس کیا ۔۔۔اور اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف جھکایا ۔۔۔

"ہونے دو مخاطب مجھے ان ہونٹوں سے جاناں ۔!!!

"بات اگر میری نا مانی تو خیر نہیں ان کی ۔۔!!!

ھادیہ نے اسکے سینے پہ مکا مارا ۔۔۔

"آہ ۔۔۔وہ کراہ کر اٹھا ۔۔۔

"ظالم لڑکی ۔۔۔ 

"اب تو تم گئی ۔۔۔ 

وہ جارہانہ تیوروں سے اس کی طرف آیا  ۔۔۔

 ھادیہ نے کھکھلاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

مگر ھاد بلوچ اسے اپنی محبوبانہ گرفت میں پھڑپھڑانے پہ مجبور کرگیا ۔۔۔۔

اپنا بدلہ لیتے ہوئے اٹھا تو ھادیہ نے حیرت سے اسے بال سیٹ کرتے دیکھا ۔۔۔

"رات کے اس وقت کہاں جا رہے ہو "؟

اس نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"آجاؤں گا تھوڑی دیر تک تم آرام کرو ۔۔۔میری پریاں بھوک کی وجہ سے کبھی بھی اٹھ سکتی ہیں ۔کچھ دیر نیند پوری کر لو ۔۔۔

کہتے ہوئے وہ برش ڈریسر پہ رکھے آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر سے بند کرتے چلا گیا ۔۔۔۔

ھادیہ تکیہ ٹھیک کیے لیٹ گئی ۔۔۔۔ اور سوچنے لگی کہ وہ رات کے اس پہر کہاں جا سکتا ہے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

رات کے اندھیرے جہاں کسی زی روح کے نا ہونے کے آثار نمایاں تھے ۔وہاں ایک سایہ نما وجود بے خوف سا چل رہا تھا۔وہ ہیولہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا ۔۔۔اس کی پر اسرار آنکھوں میں وحشت رقص کر رہی تھی،

اس دیو ہیکل وجود کے بھاری بوٹوں سے چلنے کہ باعث ریت دب جاتی ۔۔۔

چلتے چلتے وہ  ایک عمدہ گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔  اندھیری رات میں وہ واقعی خوفناک ہیولہ  معلوم ہورہا تھا۔ وحشت زدہ  آنکھوں کے علاوہ پورا وجود چھپا ہوا تھا۔ آہستہ سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا۔۔۔چند لمحوں میں وہ اپنے شکار تک پہنچ چکا تھا , ہاتھ میں چمکتا تیز دھار آلہ پکڑے ۔ برفیلے تاثرات سجائے مقابل موجود سوئی ہوئی شخصیت کو حد درجہ قہر بار نگاہوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

انگلی پہ مخصوص انداز پہ وہ تیز دھار چمکیلا آلہ گھماتے ہوئے ،،،ایک لمحے کے لیے بھی اس نے پلکیں نہیں جھپکائیں ۔۔۔۔

مقابل موجود شخصیت نے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا ،وہ اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی پہ پٹ سے آنکھیں کھول گیا ۔۔۔۔ 

اسکی یہاں موجودگی ایک بار تو اس کی رگوں میں دوڑتا  خون منجمد کر گئی۔ اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس سے بدلہ لینے یہاں تک بھی آ سکتا ہے۔ 

"میں تمہیں ایسی بھیانک موت دوں گا کہ دنیا بھی کانپ کر رہ جائے گی۔۔۔۔

تمہارے انجام سے۔۔۔۔

غصے میں اس کے ناک کے نتھنے پھول کر پھڑپھڑا رہے تھے۔۔۔۔۔وہ غضبناک سرسراتی ہوئی آواز میں غرایا ۔۔۔۔

"Go to hell"....!!!!

اسے مدد کے لیے چیخنے کا موقع دئیے بغیر اس دیو ہیکل وجود نے اس کا سر دھڑ سے الگ کر دیا ۔۔۔۔خون کے کچھ چھینٹے اسکے چہرے پہ گرے جسے اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے یوں نخوت سےصاف کیا جیسے کسی حرام چیز کو  

ہٹایا۔۔۔۔

وہ تیز دھار آلے سے اسے اذیت ناک موت دینے کے بعد اس کے بازوں اور ٹانگوں کو دھڑ سے الگ کرتے باقی اعضا کو بھی جسم سے کاٹ کر علیحدہ کر رہاتھا  ۔۔۔

رات کے اس پہر وہاں کے بڑے بازار میں بھی ہو کا عالم تھا۔۔۔دور دور سے جانوروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔

اس دیو ہیکل وجود نے اس کے جسم کے اعضاء کو رسی باندھ کر بازار کے چوک پہ لٹکا دئیے۔ ۔۔۔

تاکہ ہر زی روح اس کے خوفناک انجام سے عبرت حاصل کر سکے ۔۔۔۔۔

وہ جس شان و شوکت سے آیا تھا ،ویسے ہی بھاری بوٹوں سے قدم اٹھاتا ہوا اندھیرے میں ہی غائب ہوگیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋 

وہ کمرے میں واپس آیا تو 

سسی بےہوشی میں دهیمی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی۔۔ 

اسکے چہرے پر خوف کے گہرے سائے تھے۔۔

"شہزادے "__

اسکے قریب آنے پر وہ دھیرے سے بولی تھی۔۔ آتش کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔ ۔۔

"جی ملکہ دل ۔۔ !!!!"_

اسکے ماتھے پر لب رکھ کر اس نے نرمی سے پیار کیا۔۔

"ووو وہ مجھے نہیں چھوڑے گا ۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے آگیا ہے ۔۔۔۔۔"_

"اس نے مجھے آپ کے قابل نہیں چھوڑا ۔۔۔۔شہزادے ۔۔۔!!! 

وہ تڑپتی ہوئی بول رہی تھی۔۔ آتش بلوچ نے اسکی جانب دیکھا۔۔ ۔ 

"میں آپ کے پاس ہوں ،کچھ نہیں ہوگا آپ کو "_وہ 

نرمی سے اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا ۔۔۔جو بستر پہ بکھرے ہوئے تھے ۔۔

"وہ بہہت برا ہے ۔۔اس نے مجھے ۔۔۔۔"_

وہ درد سے بلبلاتے ہوئے تکیہ پہ سر پٹخ رہی تھی۔۔

"سسی ہوش میں آؤ میں کہہ رہا ہوں نا کوئی تمہیں چھو بھی نہیں پائے گا ۔۔۔آج میں تمہارے اتنے قریب آجاؤں گا کہ تمہیں اپنی سانسوں سے بھی میری مہک آئے گی ۔سب بھلا دوں گی آج کے بعد یاد رکھو گی تو صرف میری محبت کی شدتیں۔۔۔۔!!!!!"

آتش بلوچ کی شدت سے چور آواز پر سسی نے اس نے درزیدہ نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔

اسکا سسکنا پل بھر کے لئے تھم سا گیا تھا۔۔

خوف وحشت کچھ کچھ ہونے والے احساسات جاگتے اس کی سیاہ گہری آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھرگئیں۔آتش نے افسوس سے اسے ڈرتے سہمے وجود جو دیکھا۔اسے اندازہ تھا کہاں وہ نازک جان اس کی سلگتی جان لیوا قربت برداشت کرسکتی تھی۔

"آج مجھے سکون محسوس کرلینے دو خود میں کھو جانے دو ملکہ دل ۔!!!!"

اس کی پیشانی پہ مہر ثبت کرتے وہ اسے پیار بھرے انداز میں اپنا حق جتا رہا تھا۔

"آج میں تمہاری سانسوں میں میری سانسیں اتار کر انہیں یکجان کرنا چاہتا ۔۔۔

 تمہاری دھڑکنوں کو  اپنی دھڑکنوں میں مدغم کرلینا چاہتا ہوں ،،تمہارے پور پور کو اپنے لمس سے مہکا دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔

"شہزادے !!!" اسکی گھمبیر بھاری تپش زدہ بوجھل آواز میں بےباک باتیں اسکی دھڑکنیں میں انتشار پربا کر  گئیں۔۔ وہ بکھرے تنفس سے مزید سننے کی ہمت نا پاکر اپنی آنکھیں میچ گئی ۔۔ 

آتش بلوچ نے اس کے گلنار چہرے کو نظروں کے حصار میں لیا ۔۔۔۔اور اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی لگا دی ۔۔۔۔سسی کو اپنی سانسوں میں اسکی سانسیں شامل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔جیسے وہ اسکی سانسیں اپنے اندر منتقل کررہا تھا ۔اور سسی اسکی ۔۔۔۔۔ اگلے ہی پل وہ سانس لینا روک گئی ۔۔۔۔ 

 اس نے سسی کی گردن میں ہاتھ ڈال کر سر کو تھوڑا پیچھے کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے کھلے بال  سمیٹ کر ایک طرف کیے ۔

اس کی انگلیاں سسی کے بالوں میں حرکت کررہی تھی اور اسے خود میں ایک سرور سا اترتا محسوس ہورہا تھا۔

اس کی سانسیں مدھم پڑیں۔۔۔۔

تبھی وہ پوری شدت سے اسکی صراحی دار نازک سی گردن پر جھکا سسی نے اسکی شرٹ کو مٹھی میں دبوچ لیا ۔۔ 

اسکا نازک وجود اسکی شدت سے کپکپا اٹھا۔۔  جبکہ وہ اسکی گردن کو جابجا  اپنے ہونٹوں کے لمس سے روشناس کراتا ہوا اسکا حلق خشک تک  کرگیا۔۔

"نہیں شہزادے بس ۔۔۔" وہ اسکے بانہوں میں مچل اٹھی ۔۔۔۔ 

"ری لیکس ملکہ دل میں آپ کا محرم ہوں ۔۔کچھ وقت لے لیں۔۔۔ " وہ گھمبیر لہجے میں اسکے چہرے کو دیکھ کر بولا۔۔ سسی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔  

وہ اسکی حد درجہ قربت پہ پگھلتے ہوئے زوروں سے دھڑکتے  دل پہ ہاتھ رکھے  گہرے سانس لینے لگی ۔۔ 

آتش بلوچ  نے گہری نظر اس پہ ڈال کر شرٹ اتار کر ایک طرف رکھی ۔۔۔۔ 

سسی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔

وہ آنے والے وقت سے خوفزدہ ہونے لگی۔۔ اس نے لرزتے وجود سے اسکی سمت دیکھا 

دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں ۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں بڑھتی خماری دیکھ کر وہ سٹپٹا کر نظریں جھکا گئیں۔۔   

"آج سب بھول جائیں بس یاد رکھیں کہ آپ اپنے شہزادے کی آغوش میں ہیں ۔جو آپکو سب سے زیادہ چاہتا ہے ۔۔۔۔جسے آپ سب سے زیادہ چاہتی ہیں ۔۔۔۔یہی بات ہے نا ؟"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولا اسکا دوپٹہ گردن سے نکال کر ایک طرف رکھتے پھر انگوٹھے سے اسکی شہ رگ سہلانے لگا ۔۔۔۔

سسی کی تو جان لبوں پہ آئی اس کے رومانوی انداز پہ ۔۔۔

اس نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا شہزادہ اس قدر بے باکی کا مظاہرہ دکھائے گا ۔۔۔۔

"اپنی دوری سے بہت تڑپا چکی ہیں آپ ۔۔۔آج آپ کو بھی تو پتہ چلے دوری کے بعد جب ملن ہوتا ہے تو کیسا جان لیوا احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔"وہ بھاری لہجے میں کہتا اسکی مخروطی انگلیوں سے اپنی انگلیاں الجھانے لگا۔۔ 

اسنے نظریں اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا۔۔ 

"میری روح آپکی روح کی طلبگار ہے سب تلخیوں کو بھلا کر نئی محبت بھری پرسکون یادیں بنا لیتے ہیں ۔جن کا اثر تا عمر قائم رہے ۔۔۔ ۔۔" وہ حیا بھری نگاہوں سے اسکے چوڑے سینے کو دیکھتی بےساختہ آنکھیں میچ گئی ۔۔

اس نے پہلی بار اسے یوں شرٹ لیس دیکھا تھا تبھی ۔۔۔۔بار حیا سے اسکی گھنی مژگانیں رخساروں پر لرز رہی تھیں ۔۔۔

آتش اسکے رعنائیاں بکھیرتا وجود اور اسکی پلکوں کا دلکش رقص دیکھ کر مبہم سا مسکرایا۔۔ "

"دل کر رہا ہے آپ کو آپ سے چرا کر خود میں سمو لوں ۔۔۔ 

"آپ کچھ نہیں کہیں گی اس بارے میں "؟

وہ اس کی مخروطی انگلیوں کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر فسوں خیز آواز میں بولا 

اس کے معصوم چہرے پہ بکھرے قوس قزح کے رنگ اسے بہت دلکش لگے ۔۔۔۔

"اپنے ہونٹوں سے چوم لوں آنکھیں تیری ،

بے چین کردوں میں سب راتیں تیری ،،،

لہو بن کہ تیرے جسم میں سما جاؤں ،

بن جاؤں دل ،اور محسوس کروں سانسیں تیری ،،،،

وہ فسوں خیز آواز میں اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا اور اسکے کان کی لو کو نرمی سے دانتوں تلے دبایا۔۔۔

سسی کے تن بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔

اس نے اسے چند پل کے لیے خاموش دیکھا تو آنکھیں کھولیں اس بار وہ اپنے شہزادے کو ناراض نہیں کر سکتی تھی ۔مگر اسکی پیش قدمی سے دل بھی سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔۔۔

"مجھ یہ اعتبار ہے نا۔۔۔۔؟" اسکے سراسراتی انگلیوں نے اس کے مرمریں وجود کو چھوا تو وہ خود میں سمٹنے لگی ۔۔۔

"خ۔۔۔۔۔خ ۔ود سے ۔۔۔بھی زیادہ ۔۔" وہ شرم سے دوہری ہوتے ہوئے بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز  میں بولی۔۔اور چہرے کا رخ تکیے کی طرف موڑ گئی ۔۔۔

"تو کیا اجازت ہے؟" آتش بلوچ نے اسکے چہرے کو پوروں سے چھو کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔۔ سسی کی دھڑکنوں نے سینے میں بھونچال مچا دیا ۔۔۔  

"م۔۔۔۔مجھے ۔۔ن۔۔۔نہیں پتہ ۔۔" وہ جھجھک کر بولی ۔ 

"محبت کرتی ہو نا اپنے شہزادے سے "؟

وہ تھوڑی سے چھو کر اسکا چہرہ اوپر کیے بولا ۔۔۔

"عشق کرتی ہوں "

وہ نیم وا آنکھوں سے بولی ۔۔۔

"چلو ہم بھی مر جاتے ہیں تم پہ ،،،،

بولو دفن کرو گی سینے میں ؟؟؟

وہ خمار زدہ بوجھل آواز میں بولا تو سسی اسکے گردن میں دونوں بازو ڈال دئیے ۔۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے اسکی فرار کی راہیں مسدود کیے وہ اس پہ جھکا ۔۔۔۔۔

وہ تڑپ کر مچل اٹھی۔۔ مگر اس نے مسکراتے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی جنون بھری گرفت میں قید کرلیا اور اسکے لبوں پر گرفت مضبوط کرلی۔۔۔

اس کی جنون بھری قید میں بھی نرمی تھی وہ بری طرح کانپنے لگی۔۔۔۔۔ اسکی شدت بھری جسارتوں پر اسکا سانس رکنے لگا۔۔۔ 

آتش نے مسکراتے اسے اپنی محبت بھری قید سے رہائی دی ۔۔۔۔ وہ گہرے سانس لینے لگی۔ 

"ش۔۔۔شہزادے ۔۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔" وہ اسکے تیور دیکھ کر ایکدم سے رونے لگی۔۔۔۔

آتش بلوچ کے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

"پہلی بار تھا نا پھر اتنے عرصے کی پیاس ۔۔۔کچھ زیادہ ہی بہک گیا تھا ۔۔۔آئیندہ شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔۔۔۔۔

 I promise."

" وہ اپنی انگلی اسکی پیشانی سے پھیرتا پھر ناک اور لبوں تک لایا ۔۔ وہ شرم سے آنکھیں سختی سے میچ گئی۔۔ 

جب آتش نے اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے اسے اپنے قریب کیے اسکے وجود سے اٹھتی صندلی مہک کو اپنی سانسوں سے مہکانے لگا تو اس کا مرمریں وجود اب اسکی قربت کی آگ سے جھسلنے لگا تھا۔۔ 

اسکی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی  جسارتوں اور بےباکیوں سے  اسکے وجود میں پسینہ پھوٹنے لگا ۔ جب وہ اسکی غیر ہوتی حالت کو دیکھ کر اسکے چہرے پر جھکا۔۔ 

خمار و قرب کی باتیں تو آپ رہنے دیں ۔۔۔

کسی کی گردن کا پسینہ بھی مہ کا جام لگا مجھے ،،،

اسکا رواں رواں اسکے لمس سے کانپ رہا تھا۔۔ ماحول پر فسوں پھیلا ہوا تھا۔۔ اسکی بکھری سانسوں کی آواز،،،بے حال دھڑکنوں کا انتشار ۔۔۔ بکھرا تنفس۔۔ آتش کو مزید بہکا رہا تھا۔۔ وہ جو خود پر مزید ضبط کے بندھ نا باندھ سکا ۔۔۔۔آج ساری حدود و قیود ٹوٹنے کی کاگار پہ تھیں ۔۔۔۔۔ 

وہ اپنے لرزتے وجود سے اسکے جذبات سے لبریز انداز پہ سہم کر اسی کے سینے میں چہرہ چھپانے لگی ۔ 

آتش  نے اسکی بند آنکھوں کو دیکھا۔۔ مسکراتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر نائٹ بلب آف کردیا۔۔

بڑے ہی ہوش میں رہتے تھے ،

پھر اک دن ،

تیرے بدن کی خوشبو نے بد حواس کیا ،،،

 اسے خود میں قید کرلیا ۔۔۔ وہ اسکے دہکتی قربت اور نرم گرم لمس پر آنکھیں موند گئی۔۔اس نے کمفرٹر اوڑھ کر دونوں کو اس میں چھپا لیا ۔۔۔۔

وہ شدتِ جذبات سے اسے اپنے سینے میں بھینچتا ہوا اسے اس کی حیثیت بتارہا تھا سسی  کے رکے ہوئے آنسو اناری دہکتے ہوتے نرم و نازک عارض پہ بہہ نکلے جسے آتش بلوچ نے محبت سے اپنے لبوں سے چنا۔سسی کے وجود میں پھریری سی دوڑ گئی۔وہ خود کیلیے اس کا جنون دیکھتی رہ گئی کیا یہ سچ میں وہی نرم خو سنجیدہ سا آتش بلوچ تھا۔اس نے نم ہوتی آنکھوں سے آتش  کی جانب دیکھا۔آتش نے آہستہ سے اسے تکیے پہ لٹایا اور اس کے سرخی مائل رخسار  پہ لب رکھے۔

آج وہ اور اس کا شہزادہ ایک دوسرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پا چکے تھے ۔۔اسی شہزادے نے تو اسے محبت کرنا سیکھایا تھا ۔۔۔وہ اسے نرمی سے چھو رہا تھا ۔۔۔اور وہ موم کی طرح  اسکی جسارتوں پہ پگھلتی چلی جارہی تھی ۔۔۔۔

وہ ہمیشہ سے شہزادے کی محبت کی طلبگار تھی اور آج وہ شہزادہ اپنی خمار زدہ سرگوشیوں میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا ۔اپنی محبتوں کی بارش کیے ۔۔ 

اسکے پور پور کو سیراب کر رہا تھا ۔۔۔اس کے ہر لمس میں نرمی اور ملائمت تھی وہ اسے نازک پھولوں کے مانند اپنے لمس سے مہکا رہا تھا ۔۔

یہ گُل خان کے ڈیرے کا منظر تھا ۔۔۔جہاں رات کے اس پہر بھی دن کا سماں تھا ۔تیز بے ہنگم آواز میں میوزک چل رہا تھا ۔۔۔ادھ برہنہ لباس میں موجود حسینائیں اپنے حسن کے جلوے بکھیر رہی تھیں۔۔۔واصف گل ایک انتہائی شوقین مزاج انسان تھا ۔وہ یونہی اپنی راتیں رنگین بناتا تھا ۔۔ایک طرف بڑی سی بار تھی ۔۔۔جہاں بیش بہا شراب کی بوتلیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔۔۔۔جن میں دیسی اور امپورٹڈ دونوں اقسام کی شراب موجود تھی ۔۔۔ بار کے نزدیک میز اور چند کرسیاں اس کے اردگرد رکھی ہوئی تھی۔ کرسیوں پہ دو ہٹے کٹے آدمی بیٹھے تاش کھیلنے کا کام سر انجام دے رہے تھے۔۔۔۔۔

ڈیرے میں موجود واصف گل ہاتھ میں مہ کا جام لیے لبوں سے لگائے مدھوش کن نگاہوں سے ان رقص کرتی حسیناؤں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

" سردار ...لے آئے ہیں اسے ۔۔۔۔"

"جس کو آپ نے اٹھا کر لانے کا کہا تھا "

"اب وقت آگیا ہے صبح کا ُاس سے اپنا بدلہ چکانے کا"واصف گل کے خاص آدمی نے آکر بتایا ۔۔۔۔۔

"بڑی زبان چل رہی تھی نا صبح اسکی ۔۔۔اپنے سردار کے لیے اب بتاؤں گا زبان چلانے کا انجام  "وہ تمسخرانہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

"جی سردار بڑا اچھل رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ۔۔۔۔

"اوئے ۔۔۔۔(گالی )بند کرو یہ سب "واصف گل کی اونچی آواز سن کر ۔ ۔۔۔۔

ماحول میں یکدم خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔میوزک بھی بند ہوگیا ۔۔۔۔۔

اس کے آدمیوں نے وارث کو لاکر واصف گل کے قدموں میں پھینکا ۔۔۔۔۔وہ ان آدمیوں سے مار کھا کر نڈھال ہوچکا تھا ۔۔۔وہ اکیلا تھا اتنے آدمیوں کا مقابلہ نہیں کرسکا ۔۔۔۔وہ بےدم ہوکر فرش پہ گر پڑا تھا ۔۔۔

وہاں موجود سب کی نظریں اس وارث کے وجود پر ٹکیں ہوئیں تھیں ۔۔۔نجانے واصف گل  اسے کیا سزا دینے والا تھا ۔۔۔

واصف  نے وارث  کے سینے پر زوردار  لات ماری ۔۔۔۔وہ تڑپ کر رہ گیا۔۔۔

واصف گل آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لیے مکروہ قہقہہ لگاکر ہنس دیا۔۔۔۔۔

جبکہ وارث درد کی شدت سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھے درد سے کراہ رہا تھا۔۔۔

وہاں موجود سب لوگ ایک  دوسرے کو دیکھتے خباثت سے مسکرادئیے ۔۔۔۔۔۔۔

"تو ہماری زمینوں کا پانی بند کروائے گا ۔۔۔اس سردار یارم کا ساتھ دے گا ۔۔۔۔؟؟؟

"اسکی وجہ سے مجھ سے زبان لڑائے گا ۔۔۔۔

واصف گل کی آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا وہ گردن پیچھے کو گرائے مکروہ قہقہہ لگاکر ہنس پڑا ۔۔۔۔

جبکہ اپنی موت کو سامنے دیکھ کر وارث  کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہا تھا۔۔۔

"آج تیری باری اور کل تیرے سردار کی ۔۔۔۔۔

وہ تند نگاہوں سے اسے  گھورتے ہوئے چنگھاڑ ا اور وارث کے سر کے بال مٹھی میں جکڑتے ۔۔۔جھٹکے سے چھوڑ کر گن نکالی ۔۔۔۔

واصف گل کے ہاتھ میں موجود گن دیکھ کر وارث  کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے والی ہوگئی۔

وہ جب حویلی سے نکلا تو جیپ پہ آنے کی بجائے اصطبل سے اپنا گھوڑا نکال کر اس پہ آنے کو ترجیح دی۔کیونکہ رات کے اس پہر جیپ کی ہیڈ لائٹس اس کے آنے سے پہلے ہی اسکی آمد کی اطلاع دشمنی عناصر تک پہنچا دیتیں ۔۔۔۔

وہ گھوڑا تھوڑا دور کھڑا کیے اندر آیا ۔۔۔۔

"سردار یارم بلوچ کی ڈکشنری میں بے گناہوں کو سزا دینے والوں کا انجام بہت برا ہے ۔۔۔۔"اس کی گھمیبر آواز گونجی ۔۔

واصف گل کے تنفر زدہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔

تبھی وہاں ٹھاہ !!!!کی آواز گونجی اور واصف کی گن سے گولی چلی ۔۔۔۔۔

واصف گل نے جو گولی سردار یارم کے سینے پہ چلائی تھی وہ گولی وارث نے آگے بڑھ کر اپنے سینے پہ لے لی ۔۔۔۔

"وارث ۔۔۔۔!!!!!!

سردار یارم نے لہرا کر گرتے ہوئے وارث کو آگے بڑھ کر اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔۔۔

 "سردار اسے مت چھوڑنا اس نے اور اس کے باپ نے ملکر آ۔۔۔۔آ۔۔   پ ۔۔۔۔۔کے ۔۔۔خلاف ۔۔۔ب۔۔۔بہ۔۔بہت ۔۔۔بڑی ۔۔۔ساز۔۔۔ش۔۔۔رچی تھی ۔۔۔۔

وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل بولا ۔۔۔۔

"بتاؤ مجھے وارث ۔۔۔؟؟؟

"تمہیں کیا پتہ چلا ہے ان کے بارے میں ؟؟؟

وہ واصف گل کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے وارث کا گال تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔

"باندھ دو اس سردار کو بھی ۔۔۔۔

واصف گل نے بارعب آواز میں اپنے آدمیوں کوحکم جاری کیا۔۔۔۔

 یارم بلوچ خون آشام نگاہوں سے گھورتے ہوئے وارث کو چھوڑ کر اس کی طرف بڑھا اور ایک جاندار پنچ اسکے منہ پہ مارا ۔۔۔۔

پہلے ہی وار میں واصف گل کے ناک اور منہ سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔۔۔۔

اب کی بار اس نے ہاتھ کی بجائے لات سے کام لیتے ہوئے ایک زوردار کک اس کے سینے پہ ایسے ماری کے گن واصف کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گری ۔۔۔۔۔

وارث جو زمین پہ درد سے بلبلا رہا تھا ۔۔۔۔اس نے رینگتے ہوئے گن پکڑی ۔۔۔۔

رقاصائیں  تو ڈر کے مارے بوتل کے جن کی طرح منٹوں میں غائب ہوگئیں ۔۔۔۔

واصف نے سینے پہ ہاتھ رکھے اسے مسلتے ہوئے پھرتی سے آگے بڑھ کر بار سے ایک شراب کی بوتل اٹھا کر اسے دیوار سے مارا ۔۔۔

وہ چھناکے کی آواز سے ٹوٹ گئی ۔۔۔۔

اب وہ آدھی ٹوٹی ہوئی کانچ کی بوتل سے یارم بلوچ کی جان لینے کے در پہ تھا ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اس بوتل سے یارم بلوچ پہ وار کرتا ۔۔۔

زندگی کے آخری سانس لیتا ہوا وارث جاتے جاتے اپنے سردار کے لیے کچھ کر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔اس نے گن سے واصف گل کی طرف نشانہ بنایا ۔۔

تبھی ٹھاہ کی آواز سے گولی چلی اور سیدھا واصف گل کی کنپٹی کو چیرتے ہوئے نکل گئی ۔۔۔۔۔

پل پھر میں وہاں سناٹا چھا گیا ۔۔۔۔۔واصف گل کے ڈر پوک آدمی دم دبا کر بھاگے ۔۔۔۔۔۔

یارم بلوچ سرعت سے وارث کے پاس آیا ۔۔۔۔مگر تب تک اس کی روح قفس عنصری پہ پرواز کر چکی تھی۔۔۔۔

اس نے وارث کی کھلی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر اسے بند کردیا ۔۔۔۔۔

اس وفادار دوست کی موت سے یارم بلوچ کو گہرا دکھ پہنچا تھا ۔۔۔۔۔

"اس سے پہلے کہ واصف گل کے آدمی سردار گل خان کو اس کے بیٹے کی موت کی خبر دیں مجھے وہاں پہنچنا ہوگا ۔۔۔۔"وہ خود کلامی کرتے ہوئے تیز رفتار قدموں سے وہاں سے نکلا ۔۔۔۔۔

"یہ سردار گل خان تو میری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک نکلا۔تمہیں ضرورت ہی کیا تھی وارث کو اکیلا چھوڑنے کی۔یہ سب تمہاری عقلمندی کا نتیجہ ہے۔جو آج وارث ہم میں نہیں ۔۔۔" سردار یارم بلوچ بھڑک اٹھا  اپنے آدمی پہ ۔۔۔

"سردار اس نے منشی کو سردار گل سے فون پہ کچھ بات کرتے سنا تھا ۔۔۔ہم نے پوچھا بھی تھا وارث سے مگر اس نے ہمیں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کو ہی بتائے گا ۔۔۔

واپسی پہ وہ اکیلا تھا ۔۔۔

واصف گل کے آدمی اسے اکیلا دیکھ کر اسے لے گئے ۔۔۔

ہمیں جیسے ہی اسکے بارے میں اطلاع ملی ہم نے آپکو فون پہ بتادیا ۔۔۔۔

اس نے تفصیل سے بتایا ۔۔۔

"میں کیسے ڈھونڈوں اسے؟

"کہاں ملے گا سردار گل خان ؟؟؟؟

وہ عالم اضطراب میں مبتلا تھا۔۔۔۔۔اپنی بئیرڈ کو سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"سردار وہ اپنی حویلی یا مردان خانے میں ہی ہوگا اور اس نے کہاں جانا ہے ۔"

"ٹھیک ہے مجھے راستہ بتاؤ وہاں کا "

"انہوں نے سردار گل خان کی حویلی کا راستہ اسے بتایا تو وہ ایک ہی جست میں چھلانگ لگا کر اپنے باہر کھڑے گھوڑے پہ سوار ہوا ۔۔۔۔

"لیکن سردار وہ بہت خطرناک  ہے۔مشکل ہے ہمارے قابو میں آئے اور اگر ہم اسے پکڑ بھی لیں تو وہ ہمارا نقصان بھی کر سکتا ہے۔"انہوں نے اسے مشورہ دیا ۔

یارم بلوچ نے ہاتھ لگا کر چیک کیا اس کی شرٹ کے اندر گن ہولڈر میں گولیوں سے لوڈڈ گن موجود تھی ۔۔۔

وہ گھوڑے کی لگام تھامے اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

"مالک مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔کتنے دنوں سے یہاں کے چکر لگا رہا ہوں آج تو کچھ بندوبست کردیجیے "

منشی صاحب نے شرمندگی سے سر کھجاتے ہوئے کہا ۔۔۔

"منشی تو بڑا کمینہ نکلا ۔۔۔۔!!!

"کتنے پیسے تیرے اس پیٹ میں بھر چکا ہوں ،مگر تیرا پیٹ اندھے کنوئیں کی طرح اب بھی خالی ہے ۔۔۔۔

سردار گل خان نے نخوت زدہ آواز میں کہا

"مالک ہر بار آپ کا کام کرتا ہوں تبھی تو مانگتا ہوں ۔۔۔۔

یاد کریں ۔۔۔۔آج سے برسوں پہلے ۔۔۔۔۔

جب سردار فلک بلوچ کے گھر آپ نے عنایا کا رشتہ بھیجا تھا ۔۔۔۔تب میں ہی تھا جس نے آپ کو بتایا تھا کہ عنایا اس کمینے دلاور بلوچ کے ساتھ بھاگ گئی ہے ۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ فلک بلوچ اسے دلاور کو معاف کردیتا اور  ان دونوں قبیلوں میں دوستی ہوتی ۔۔۔۔ہم دونوں نے ملکر ایک منصوبہ بنایا ۔۔۔۔

اور جان بوجھ کر فلک بلوچ اور دلاور کا آمنا سامنا کروایا ۔۔۔۔۔

"ہاں یاد ہے سب ۔۔۔۔!!!! میں نے ہی عنایا کو اس کی بے وفائی کے لیے موت کی سزا دی۔۔۔

وہ دلاور کا بہنوئی بھی میرے ہاتھوں مرا ۔۔۔۔اور الزام اس فلک بلوچ پہ لگا ۔۔۔۔۔

اس دن بھی میں نے ہی سردار فلک بلوچ کی جان لی اپنے ان ہاتھوں سے ۔۔۔۔سچ سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ۔۔۔۔اس کی جان لے کر ۔۔۔۔۔

"ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔سردار گل خان کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔۔

یارم بلوچ جو وہاں پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔

مردان خانے کے باہر کھڑا تھا اس نے حرف پہ حرف سب سنا تو اسکے ماتھے کی رگیں پھولنے لگیں۔اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ۔۔۔۔مگر وہ اپنی مٹھی کو زور سے بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔۔اور خود پہ قابو کیا ۔۔۔

اس نے اپنے ماسٹر مائنڈ کا استمعال کرتے ہوئے ان دونوں کی باتوں کی اپنے موبائل میں ریکارڈنگ کرلی تھی۔۔۔۔۔

تبھی سردار گل خان کے موبائل پہ کال آنے لگی تو اس نے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا ۔۔۔۔

آگے سے اسے جو روح فرسا خبر سننے کو ملی۔ ۔۔۔۔۔اس کے خون میں ابال سا اٹھا ۔۔۔۔

"کیا ؟؟؟....یہ کیسے ہو سکتا ہے"وہ بے یقینی سے بولتا ہوا  صوفے سے اٹھا۔پاس کھڑے منشی صاحب نے بے چینی سے اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کیا ہوا ہے۔

"اور میرے لخت جگر واصف گل کو قتل کر دیا اس نے۔" وہ غمزدہ لجہے میں چیخا ۔۔۔۔

"کیا؟.....قتل کر دیا۔مگر کس نے؟؟؟

"کس نے مارا میرے واصف کو ؟؟؟؟؟"۔۔۔!!!!! 

ان کی کرب زدہ آواز مردان خانے میں گونجی ۔۔۔۔۔

اور ان کے در و دیوار ہلا گئی ۔۔

 ان کی چیخ سننے کے بعد وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا ۔۔۔۔اس جا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ بھی آج اس کے پاس نہیں رہا تھا اس کے سر پہ تو غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے وہ برداشت نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔سب ملازم  کھڑے اس کا رونا پیٹنا دیکھ رہے تھے اور سردار گل خان کے بیٹے کو مارنے والے  کی جرات پر ورطہ حیرت میں ڈوبتے جا رہے تھے۔کچھ دیر واویلے کے بعد اسے ارد گرد کا احساس ہوا ۔

"دوسروں کی جان لینے سے پہلے اس نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا تھا ۔اور جب خود پہ پڑی تو چیخیں نکل گئیں۔۔۔؟؟؟؟

منشی نے دل میں سوچا ،مگر گل خان کے سامنے زبان کھولنے کی جراءت نہیں تھی اس میں ۔۔۔۔ 

"میں خون کی ندیاں بہا دوں گا ۔۔۔۔!!!!

"کون ہے وہ درندہ ؟؟؟

"کون ہے وہ ظالم ؟؟؟؟

"جس نے اک باپ پہ یہ ظلم کیا ؟؟؟؟

"جس نے اک باپ کا سینہ چھلنی کردیا ۔۔۔۔

"کون ہے وہ ؟؟؟

سردار گل خان نے ہاتھ میں موجود گن سے آسمان کی طرف رخ کیے اندھا دھند فائر نکالے ۔۔۔۔

گولیوں کی ترتڑاہٹ سے سب سہم کر دیواروں سے لگ گئے ۔۔۔

گولیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے ماحول میں عجب سے بدبو پیدا کردی تھی ۔۔۔

"میں ۔۔۔۔۔!!!!

"سردار یارم بلوچ نے کیا ہے تمہارے بیٹے کا خون ۔۔۔!!!!

یارم بلوچ عقب سے نکل کر شاہانہ انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے مقابل آیا ۔۔۔۔اور گرجدار آواز میں تن کر بلا خوف بولا 

"میں نے کیا ہے تمہارا سینہ چھلنی ۔۔۔۔!!!!

"کسی دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار کر خدا وقت کے فرعون بنے کیوں بھول جاتے ہو کہ ہم سب سے اوپر بھی ایک ایسی ہستی موجود ہے ،جسے ہم سب پہ اختیار ہے۔!!!!

وہ سردار گل خان کی طرف دیکھ کر غرایا ۔۔۔۔ 

"تم نے میرے بابا سائیں کی جان لی ۔۔۔۔اور میں نے تمہارے بیٹے کی تو حساب برابر ۔۔۔۔۔

"اوہ ۔۔۔ویٹ آ منٹ ۔۔۔۔۔

وہ جو تم نے میری پھپھو عنایا کی جان لی ۔۔۔اور کئی بے گناہوں کی ابھی ان کی موت کا بدلہ تو چکانا پڑے گا نا "

سردار یارم استہزایہ انداذ سے ہنس کر بولا۔۔۔۔۔

سردار گل خان کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ منشی نظر بچا کر بھاگتا ۔۔۔۔۔

"سالے حرام خور ،،،،تیری تو ۔۔۔۔ 

سردار گل خان نے دبے پاؤں بھاگتے ہوئے منشی کی پشت پہ فائر کھول دیا ۔۔۔۔

اس وقت وہ اپنے بیٹے کی موت سے پاگل ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔

تم لوگ کیا منہ اٹھا کر مجھے دیکھ رہے ہو۔کہیں تم لوگ بھی اس منشی کی طرح بھاگنے کا ارادہ تو نہیں کر رہے۔یاد رکھنا ابھی بھی مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ تم لوگوں کو اس حرام خور کی طرح اڑا ڈالوں  ۔۔۔اٹھاو اس نمک حرام منشی کی لاش کو اور پھنکوا دو کسی گندے نالے میں ۔۔۔۔۔۔"وہ رعونت آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔

یارم بلوچ نے اس کے جارحانہ انداز دیکھے تو اس کے تن بدن میں اشتعال کی شدید لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔

اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ یارم بلوچ سردار گل خان کی طرف بڑھتا اسکے ایک اشارے پہ وہاں موجود اس کے آدمیوں نے یارم بلوچ پہ اپنی اپنی بندوقیں تان لیں ۔۔۔اور اسے اپنے گھیرے میں لے لیا ۔۔۔۔۔۔

"مرنے سے پہلے کان کھول کر سن یارم ۔۔۔!!! 

"میں نے ہی تیرے باپ کو مارا ۔۔۔۔!!!!!

"اور ۔۔۔۔!!!! میں ہی تجھے بھی قتل کروں گا ۔۔۔۔

اور سن !

"میں یونہی قتل کرتا رہوں گا اور قبیلوں میں پھوٹ ڈالتا رہوں گا ۔۔۔۔۔اور اکیلا سردار بن کر شان سے جیتا بھی رہوں گا ۔۔۔۔"

"مریں گے تجھ جیسے بیوقوف ۔۔۔۔!!!!

سردار گل خان تحقیر آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔

یارم بلوچ نے دونوں ہاتھوں سے سارے آدمیوں کو پیچھا دھکا دیا ۔۔۔۔اور پھرتی سے ایک ٹانگ رسید کرتے ہوئے سردار گل خان کے ہاتھ میں موجود بندوق نیچے گرا دی ۔۔۔۔

اور گن ہولڈر سے گن نکالتے ہوئے سب آدمیوں پہ فائر کھول دیا ۔۔۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے وہ مردان خانہ جنگ کا میدان بن گیا تھا ۔۔۔۔۔ہر طرف تڑپتی ہوئی لاشوں کے ڈھیر تھے ۔۔۔۔

جو جو اسکے راستے میں آرہا تھا وہ سب کو اندھا دھند فائر کیےمٹائے جارہا تھا ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے سردار گل خان کی دونوں ٹانگوں میں دو فائر کیے جس سے وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا ۔۔۔۔۔

"سردار گل خان میں تجھے اتنی آسان موت نہیں دوں گا ۔۔۔۔۔

تیری موت ساری دنیا دیکھے گی ۔۔۔۔تیرا اصل چہرہ میں سب کو دکھاؤں گا "

یارم بلوچ نے گن اسکی کنپٹی پہ رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔

وہ درد سے بلبلاتے ہوئے اسکے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا ۔۔۔۔

پل بھر میں ساری رعونت ہوا ہوئی موت کے ڈر سے ۔۔۔۔

اس ساری کاروائی میں رات سے دن چڑھ چکا تھا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

حویلی میں آج رونقیں عروج پہ تھیں۔ہر جانب خوشیوں اور قلقاریوں کا سماں تھا۔اس کئی کنال پہ مبنی محل نما سنگ مرمر سے بنی حویلی کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ہر طرف غبارے اور ربنز لگے خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے ۔۔۔۔

صبح آتش بلوچ نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولیں تو سامنے دیوار گیر کلاک پر نظر گئی جو صبح کے چھ بجا رہی تھی۔اس نے سرعت سے اٹھنا چاہا معاً سسی کا ہاتھ اپنے سینے کے اوپر محسوس کرتے ذہن بیدار ہوتے ہی ٹھٹھک کر اپنے پہلو میں دیکھا جہاں اس کی ملکہ دل اسکے حصار میں پرسکون نیند سو رہی تھی۔ اس نے ایک نگاہ ِمختصر اسکے من موہنے چہرے پہ ڈالی ۔۔پھر اس نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے، اس کے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں دھیمے سےکہا

"ملکہ دل ۔۔۔!!!!!"

 اس نے اس کا گال تھپتھپاتے پیار سے پکارا پر دوسری جانب سے جواب ندارد ۔۔۔

وہ اسے تھوڑی دیر اور سونے دے کر خود اسکا سر آہستگی سے تکیے پہ رکھ کر کبرڈ کی طرف بڑھا۔۔اس میں سے بلیو جینز اور ڈارک بلیو شرٹ نکال کر وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

تقریباً دس ،پندرہ منٹ بعد وہ فریش ہو کر باہر آیا اور نظر بیڈ پر ڈالی تو وہ ہنوز ویسے ہی تکیے پہ سر رکھے بے سدھ سوئی ہوئی تھی جیسے وہ اسے کچھ دیر پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ ڈریسر کے سامنے کھڑا ہوتے اپنے بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کرنے لگا۔بالوں کو برش کی مدد سیٹ کرتے،،، خود پہ بے دریغ پرفیوم کا استعمال کرنے کے بعد اس نے بیڈ کی جانب قدم بڑھائے جہاں اسکی ملکہ اسکے دل کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی ۔۔۔۔

"اٹھیے ملکہ دل !!!

ابھی تو ماں سا کا سامنا کرنا ہے ۔۔۔۔آپ کو ۔"

اس نے سسی کے چہرے پہ بکھری لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے اس کے گلابی ہوتے گال پہ لب رکھے۔وہ اس کی مونچھوں کی چبھن سے کسمسائی۔

"کیسے اٹھوں ؟؟؟ابھی تو آپ کا سامنا ہی نہیں کیا جا رہا وہ بند آنکھوں سے بولی ۔"

"کیوں ایسا کیا ہوا ۔"

وہ مبہم سا مسکرایا مگر سادہ انداز میں بولا ۔۔۔۔

"مجھے نہیں پتہ "

وہ شرم سے دوہری ہوتے ہوئے دونوں ہاتھ رکھے چہرہ چھپا گئی ۔۔۔۔

آتش نے اسکا ہاتھ چہرے سے ہٹاتے اسکی ہتھیلی پہ ہولے سے اپنے لب رکھے ۔۔۔۔۔ 

سسی اپنی جگہ سے اٹھی اور  اس نے آتش کے شانے پر سر رکھ دیا ۔۔۔تو اس نے سسی کے گرد ایک مضبوط حصار باندھتے اپنا چہرا اس کی گردن میں چھپا کر چھوٹی سی جسارت کرڈالی ۔۔۔۔

 سسی کاچہرہ سرعت سے سرخ رنگ میں ڈھلنے لگا۔۔۔۔ وہ اسکے قوس قزح کے رنگوں میں ڈوبے چہرے کو والہانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسکے چہرے پہ جھکا تو سسی سرعت سے پیچھے ہوئی اور درزیدہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔وہ اسے دوبارہ رات والی حالت میں آتا دیکھ سٹپٹا کر پریشانی سے لب دانتوں تلے دباگئی۔

"میں جا کر آتی ہوں ۔۔۔۔"

اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے کہا۔اور تیزی سے اٹھ کر  وہ بھاگنے کے انداز میں واشروم میں بند ہو گئی تھی ۔۔۔ اس کی شرمیلی مسکان اور جلدبازی پر وہ قہقہہ لگا اٹھا۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"ھادیہ ۔۔!!!

"بیٹا تیار ہوئے کے نہیں سب ؟؟؟

زرش بلوچ نے لاونج میں کھڑے ہوئے چہرہ اوپر کی طرف کیے اسے آواز لگا کر پوچھا ۔۔۔۔

"آئی ماں سا ۔۔۔۔ان دونوں کو تیار کر دیا ہے ۔۔۔۔

بس میں چینج کر لوں ۔۔۔۔ویسے ماں سا کہاں جانا ہے ؟

ھادیہ نے کمرے سے نکل کر ٹیرس میں سے ہی ان سے پوچھا ۔۔۔

"ھادیہ یہ ہماری خاندانی رسم ہے چلے کے بعد بچوں اور بہو دونوں شاہ جی کے مزار پہ جاتے ہیں اور وہاں اپنے ہاتھوں سے صدقہ خیرات کرتے ہیں ،دیا جلاتے ہیں ۔۔۔۔

اور ہاں ھاد تیار ہوا کہ نہیں ؟؟؟

انہوں نے دوسرا سوال پوچھا ۔۔۔۔

"میں توآپ کے پاس ہوں ماں سا "

ھاد جو تیار ہوکر کچھ دیر پہلے ہی نیچے اترا تھا ان کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔تو زرش بلوچ نے پلٹ کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"ماں سا ویسے میرا وہاں کیا کام ؟؟؟؟

ھادیہ اور بچیوں کا ہاتھ لگوا کر تو صدقہ خیرات کروانی ہے ۔۔۔۔میں بھلا کیا کروں گا وہاں ۔۔۔۔؟

اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"لو بھلا تم ان سے الگ تھوڑی ہو ....

"یہ تمہارے ہیں سب "انہوں نے پیار بھری چپت اسکے شانے پہ رسید کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"جو حکم ہے آپکا ۔۔۔ماں سا"

اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔

ساتھ ہی زرش بلوچ کے گلے میں بانہیں حمائل کردیں ۔۔۔۔

"آئی لو یو ماں سا "!!!!

اسے ٹوٹ کر پیار آیا ان پہ ۔۔۔۔

تبھی آتش بلوچ کے ساتھ ساتھ سسی کو سیڑھیوں سے ایک ساتھ نیچے اترتے ہوئے دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ۔۔۔۔حیرت زدہ تو ھادیہ بھی ہوئی ۔۔۔۔

"میں نے کہا تھا کہ تم سے لے کر یہاں سے چلے جاؤ پھر گئے کیوں نہیں ابھی تک "؟

وہ تیکھے لہجے میں بولیں۔

"ماں سا پلیز ناراض مت ہوئیے نا ۔۔۔۔اپنے لاڈلے کو معاف نہیں کریں گی "؟

میری پیاری ماں سا ۔۔۔!!!!

آتش انکے قریب آتے ہی ان کا ہاتھ تھام کر پیار بھرے انداز میں بولا۔۔۔۔

"چل زیادہ مکھن نا لگا ۔۔۔۔!!!

"ہٹ پیچھے ۔۔۔۔نکاح کرتے وقت ماں کی یاد نہیں آئی اس پہ پیار نہیں آیا ۔۔۔۔اپنی منمانیاں کرنے کے بعد چلا آیا منہ اٹھا کر ۔۔۔۔ماں سا کا بچہ "

وہ غصیلی آواز میں کٹیلی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

"کتنی خواہش تھی میری اپنے بیٹوں کی شادی کی ۔۔۔۔

بڑا خودی کر آیا ۔۔۔۔

دوسرے کی باہر سے ہی نپٹا کر بہو میرے متھے مار دی ۔۔۔

سوچا تھا تیری شادی پہ سارے ارمان نکالوں گی ۔۔۔۔

میرے سارے ارمانوں پہ پانی پھیر کر معافی مانگنے آگیا ۔۔۔۔

ان کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔

آتش بلوچ چپ چاپ سنتا رہا ۔۔۔۔اسے پتہ تھا کہ وہ دل کی بہت اچھی ہیں مان جائیں گی مگر کچھ وقت لگے گا ۔۔۔۔

"ماں سا آپ کی خواہش میں پوری کردیتا ہوں "

ھاد بلوچ عقب سے سامنے آکر مسکراتے ہوئے اوپر کھڑی ھادیہ کی طرف دیکھ کر شرارت آمیز انداز میں بولا۔۔۔

"وہ کیسے ؟

انہوں نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ماں سا میری دھوم دھام سے دوبارہ شادی کروادیں ۔۔۔۔

وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"ماں سا ۔۔۔!!! 

"اپنے بیٹے کو سمجھا لیں ۔۔۔۔اگر اس نے دوبارہ ایسا کچھ تو میں اس کی اور اپنی جان لے لوں گی "

وہ غصیلی کرخت آواز میں دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔

"تو فکر نا کر ۔۔۔۔میرے سبھی بیٹے بیویوں کے غلام ہیں ۔۔۔چوبیس گھنٹے ان کے پلو سے لٹکے رہتے ہیں ۔۔۔۔بھلا ان میں اتنی ہمت کہاں دوسری لے آئیں ۔۔۔۔۔"

زرش بلوچ کی بات پہ ھادیہ کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے۔۔۔۔

"ہم اپنے بابا سائیں پہ گئے ہیں جورو کے غلام"

ھاد نے شرارتی انداز میں کہا۔۔۔

تو زرش بلوچ نے اسے گھوری ڈالی۔۔۔۔

"ھادیہ بچے جلدی آو ۔۔۔دربار سے واپس آنے کے بعد آج کی  تقریب کی تیاری بھی کرنی ہے ۔۔۔۔۔

ھادیہ ۔۔۔۔،،، ھاد کی طرف کاٹ دار نگاہوں سے دیکھ کر سر جھٹکتے ہوئے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔جہاں اسکی ننھی پریوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔۔

"ماں سا اپنی نئی بہو کو پیار اور اپنی دعائیں نہیں دیں گی ۔۔۔۔۔"؟

آتش بلوچ نے زرش بلوچ سے کہا ۔۔۔تو انہوں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر آتش بلوچ کی اوٹ میں چھپی ہوئی سسی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

فیروزی اور پرپل امتزاج کا فراک اور چوڑی دار پاجامے پہنے سر پہ شیفون کا ڈبل شیڈڈ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھے ،نظریں جھکائے انگلیوں کو مڑوڑتے ہوئے انہوں وہ پہلے سے بہت بدلی بدلی اور اچھی لگی ۔۔۔مگر ابھی ان کا اسے اتنی جلدی اپنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔۔۔

"ادھر آؤ "

انہوں نے سپاٹ انداز میں کہا تو سسی ہنوز سر جھکائے لرزتی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے ان کے قریب گئی ۔۔۔

"میرے بیٹے کو خوش رکھنا اور خود بھی "

وہ نروٹھے پن سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولیں ۔۔۔۔

انکی دعا میں بھی اپنے بیٹے کے لیے پیار چھلک رہا تھا ۔۔۔

کہ اگر وہ اسے اپنا رہی ہیں تو صرف اپنے بیٹے آتش کی وجہ سے ۔۔۔۔ 

"چلو تم لوگ بھی دربار دیا جلاؤ ۔۔۔چل کر ۔۔۔۔

وہ آتش کی طرف دیکھ کر بولیں ۔۔۔۔۔

تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

وہ سب تیار ہوئے ملکر حویلی سے مزار کی طرف روانہ ہوئے ۔۔۔۔آتش بلوچ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا تب اسکے موبائل پہ رنگ ہوئی ۔۔۔

"جی بھائی "؟

اس نے سٹئیرنگ پہ ایک ہاتھ جمائے دوسرے سے کال ریسیو کی ۔۔۔۔

"مزار پہ پہنچو سب "

دوسری طرف سے یارم بلوچ کی گھمبیر آواز سنائی دی ۔۔۔

"جی بھائی ہم سب وہیں کے لیے نکل آئیں ہیں بس پہنچنے والے ہیں "

کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔۔۔

"کس کا فون تھا ۔۔۔۔؟ھاد بلوچ نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔۔۔

"بھائی سا کا تھا مزار پہ بلا رہے ہیں ۔۔۔۔

"وہ کیوں ؟

ھاد بلوچ زیر لب بڑبڑایا۔۔۔

آتش بلوچ بھی ڈرائیونگ کے دوران سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔پھر سپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔

 🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ تپتے ہوئے صحرا میں اس کے ہاتھوں کو رسیوں سے باندھے ۔۔۔۔گھوڑے پہ بیٹھے اسے گھسیٹتے ہوئے لے آرہا تھا ۔۔۔۔۔

سردار گل خان اسکے ہاتھ میں پکڑی رسی کی وجہ سے گھسٹتا چلا جا رہا تھا ۔۔۔ 

اسکا جسم زخموں سے چور تھا ۔۔۔۔وہ گرم ریت پہ گھسٹتے ہوئے تڑپ رہا تھا ۔۔۔۔۔

مگر یارم بلوچ اس کی آہ و بکا کو خاطر میں لائے بنا گھوڑے کی رفتار مزید بڑھا چکا تھا ۔۔۔۔

اس نے شاہ صاحب کے دربار کے پاس لاکر گھوڑے کی لگام کھینچ لی تو گھوڑا وہیں رک گیا ۔۔۔۔۔

اس نے راستے میں ھاد بلوچ اور آتش بلوچ کو کال کردی تھی ۔۔۔۔

دربار کے سامنے ہی شاہ صاحب ،ھاد بلوچ،آتش بلوچ ،زرش بلوچ ،ھادیہ ، سسی ،اور سردار دلاور بلوچ کے ساتھ ساتھ گوٹھ کے سبھی لوگ موجود تھے جو آج عرس کی وجہ سے اکٹھا ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

انہوں نے حیرت زدہ نظروں سے سردار یارم بلوچ کو سردار گل خان کو گھسیٹ کر یہاں لاتے دیکھا ۔۔۔۔

اور چہ میگوئیوں میں ایک دوسرے سے معاملے کی بابت پوچھنے لگے ۔۔۔مگر سبھی نے نا جانتے ہوئے شانے اچکائے ۔۔۔۔

"شاہ صاحب ۔۔۔!!!!

"دلاور بلوچ ۔۔۔!!!!

"یہ دیکھو ۔۔۔سردار یارم بلوچ تمہارے سرپنچوں میں سے ایک ۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔!!! 

"مجھے کیسے لے کر آیا ہے یہاں ۔۔۔۔۔اس نے میرے بیٹے کو مار دیا ۔۔۔۔۔

اور دیکھو میرے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے "

وہ سارے مجمعے کو دیکھ کر شاطرانہ انداز میں چال چلتے ہوئے پانسہ پلٹ گیا ۔۔۔۔ 

اور نظر چرا کر یارم بلوچ کی طرف ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔۔

"تمہارے اس سردار نے اپنے ہی منشی کا قتل کردیا ۔۔۔۔

میری ان گہنگار آنکھوں کے سامنے ۔۔۔۔۔

وہ غمزدہ لجہے میں سب سے  گویا ہوا۔۔۔۔

"یہ تم لوگوں کے سامنے مجھے ذلیل کرنے لایا تھا ۔۔۔۔مگر میں نے تم سب کو اس کی اصلیت برا دی ہے ۔۔۔۔۔

"دلاور بلوچ۔۔۔!!!!!نکالو بندوق اور ختم کردو اس خونی بھیڑیے سردار یارم بلوچ کو ۔۔۔۔ورنہ یہ خونی وحشی درندہ نجانے اور کتنی بے قصور لاشیں گرا دے گا "

وہ دلاور بلوچ کو اشتعال دلانے لگا ۔۔۔۔

تبھی یارم بلوچ نے تیکھے چتونوں سے اسے گھورتے ہوئے اپنے موبائل سے ریکارڈنگ نکالی اور اونچی آواز میں لگائی ۔۔۔۔۔۔جس میں 

منشی اور سردار گل خان اپنے اپنے جرم کا اعتراف کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

سب گاؤں والوں کے ساتھ سب گھر والے بھی بھونچکا رہ گئے اتنے سارے انکشافات سے پردہ اٹھتے دیکھ کر ۔۔۔۔۔

سب فق نگاہوں سے سردار گل خان کو دیکھ رہے تھے جس کے چہرے پہ زرا بھی شرمندگی کا نام و نشان تک نا تھا ۔۔۔۔

"یہ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔۔نجانے کس کی آواز ہے ۔۔۔۔یہ میں نہیں ہوں دلاور بلوچ ۔۔۔۔۔!!!

وہ اپنی زخمی ٹانگوں سے گھسٹتے ہوئے دلاور بلوچ تک پہنچ کر بولا ۔۔۔۔

"بکواس بند کر گل خان ۔۔۔!!!

دلاور بلوچ نیچے جھک کر اس کا کالر جھنجھوڑ کر پھنکارا ۔۔۔

"تو نے جان لی میری بیوی عنایا کی ؟؟؟

میرے بہنوئی کی ؟؟؟؟

"میں تجھے جان سے مار دوں گا ۔۔۔۔۔

سردار دلاور بلوچ نے ایک جاندار گھونسہ اسکے منہ پہ جڑ دیا ۔۔۔۔

آتش بلوچ اور ھاد بلوچ جو کب سے اپنے آپ کو قابو میں کیے ہوئے تھے انکے بھی صبر کا پیمانہ چھلکا اور وہ دونوں بھی سرعت جارہانہ تیوروں سمیت سردار گل خان کی طرف بڑھے ۔۔۔۔

"تو نے مارا میرے بابا سائیں کو بول ؟؟؟؟

وہ غرایا ۔۔۔۔

"ہ۔۔۔ہاں ۔۔۔میں ۔۔۔نے ۔۔۔مجھے ۔۔۔معاف ۔۔۔۔

وہ تڑپتے ہوئے چیخا۔۔۔

آتش بلوچ نے اسکے پاس پہنچتے ہی ایک جاندار لات اسکے سینے پہ رسید کی وہ بل کھا کر لہراتا ہوا دور جا گرا ۔۔۔۔

ھاد بلوچ نے دوسری طرف سے آکر اس کا جبڑا دبوچ لیا ۔۔۔

پھر اسکی کنپٹی پہ اتنی زور دار طریقے سے پنچ مارا کہ اس کا دماغ سنسنا اٹھا ۔۔۔۔

زرش بلوچ کی آنکھوں میں پہلے حیرت تھی مگر اب آنسوں جاری ہوگئے ۔۔۔۔

آج ان کے شریک حیات کے قاتل کا پتہ چل گیا تھا ۔۔۔۔

"شاہ صاحب ۔۔۔!!!

مجھے بچا لیں ان سے ۔۔۔۔

"میں مانتا ہوں ۔۔۔

"میں قاتل ہوں خونی ہوں درندہ ہوں ۔۔۔

میں نے تمام قبیلوں پہ حکومت کرنے کے لیے سب کیا ۔۔۔۔

خدا کے لیے مجھے معاف کردیں ۔۔۔۔مجھے بچا لیں ان سے ۔۔۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں بولا۔۔۔۔

"اللہ اکبر ۔!!!

انہوں نے کہتے ہوئے اپنا رخ پھیر لیا ۔۔۔۔

"سردار گل خان ۔۔۔۔سمجھ تیرا آخری وقت آن پہنچا ہے ۔۔۔۔شاہ صاحب جیسے نیک انسان کے دل میں بھی تیرے گناہوں کی کوئی معافی نہیں ۔۔۔۔

"انہوں نے تجھ سے منہ موڑ لیا تو سمجھ آج زندگی نے بھی تجھ سے منہ موڑ لیا "

یارم بلوچ نے گرجدار آواز میں کہا۔۔۔۔۔

ھاد اور آتش بلوچ سے مار کھا کھا کر وہ ادھ موا سا ہو کر تپتی ہوئی ریت پہ پھڑپھڑا رہا تھا ۔۔۔۔موت کے لیے بھیک مانگ رہا تھا ۔۔۔۔کیونکہ اسے پتہ چل چکا تھا کہ زندہ تو وہ اسے اب کسی صورت رہنے نہیں دیں گے ۔۔۔۔۔

تبھی اس کی آخری خواہش سمجھ کر یارم بلوچ نے اس پہ رحم کیا ۔۔۔۔

اور اپنے گھوڑے کا رخ اسکی طرف کیا ۔۔۔۔

اس کا گھوڑا بھی اس کی طرح ماسٹر مائنڈ تھا جو اپنے مالک کا ہر انداز بخوبی سمجھتا تھا ۔۔۔۔

سردار یارم بلوچ گھوڑے کو تیزی سے دوڑاتے ہوئے  اس کے قریب آیا اور گھوڑے نے اپنے پاؤں پوری قوت سے سردار گل خان کے سینے پہ مارے ۔۔۔۔کہ اس کا رکا ہوا آخری دم بھی نکل گیا ۔۔۔۔

اور اسکی آنکھوں کی پتلیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساکت رہ گئیں۔۔۔۔ 

یارم بلوچ اپنے گھوڑے کی پیٹھ کو پیار سے سہلاتے ہوئے چھلانگ لگا کر نیچے اترا ۔۔۔۔

سب جہاں کھڑے تھے وہیں ساکت کھڑے رہ گئے ۔۔۔۔

"شاہ صاحب!!!

"آج کے بعد ہمارے قبیلوں میں کبھی گولی نہیں چلے گی ۔

آج سے چاروں طرف صرف امن اور محبت کے پھول کھلیں گے"یارم بلوچ نے آگے بڑھ کر کہا ۔۔۔۔

 شاہ صاحب بھی ہلکا سا سر اثبات میں ہلایا اور دھیما سا مسکرائے ۔۔۔۔!!!

"آمین "۔۔!!!!

شاہ صاحب نے دعائیہ انداز میں ہاتھ بلند کر کے کہا ۔۔۔۔

تو دربار کے احاطے میں موجود تمام لوگوں نے ان کی تقلید میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے ۔"ثم آمین "کہہ کر ہاتھ منہ پہ پھیرے ۔۔۔

"بھابھی سا ۔۔۔!!!!

"مجھے معاف کردیں میری کوتاہیوں کے لیے ۔۔۔۔

دلاور بلوچ نے آگے بڑھ کر زرش بلوچ کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے منت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔

"میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔۔۔۔ساری زندگی فلک بلوچ کو قصور وار ٹہراتا رہا کسی اور کے جرم کا ۔۔۔۔"

"بہت دکھ ہے مجھے فلک بلوچ کی موت کا ۔۔۔۔"

"ہم کیا کر سکتے ہیں ،،سوائے افسوس کہ ۔۔۔۔اللہ کو یہی منظور تھا شاید ۔!

وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں ۔۔۔

"اگر ہم آپس میں بیٹھ کر دلی عداوت اور غلط فہمیاں دور کرلیتے تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی ۔۔۔۔ "

زرش بلوچ نے ٹہرے ہوئے انداز میں رسان سے کہا ۔۔۔۔

"آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں بھابھی سا ۔۔۔!!!!

"دشمن نے ہماری اسی بات کا فایدہ اٹھایا ۔۔۔۔۔"

"جو ہوا اسے تو بدلا نہیں جا سکتا مگر میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ میرے کیے کی سزا میری بیٹی کو مت دیجیے گا ۔۔۔

دلاور بلوچ کا لہجہ رندھا ہوا تھا ۔۔۔۔

"یہ ہماری بہو نہیں بیٹی ہے ،اسے پہلے دن سے کی حویلی میں ایک بیٹی کا رتبہ دیا گیا ہے ۔۔۔۔تمہارے سامنے ہے ھادیہ پوچھ لو اس سے بیشک ۔۔۔"

"اسلام وعلیکم بابا جان  ۔۔!

وہ آگے بڑھ کر انہیں سلام کرتے ہوئے ان کے گلے لگی ۔۔۔

آج کتنے عرصے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے آپس میں مل رہے تھے ۔۔۔۔۔

"وعلیکم السلام میری جان ۔۔۔!

"کیسی ہو ؟

انہوں نے اسکے سر پہ بوسہ لیتے ہوئے پیار بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"میں ٹھیک ہوں ",

"اور آپ کیسے ہیں ؟

"بس تمہیں دیکھ لیا تو اب ٹھیک ہوں ۔۔۔۔

"بہت بہت شکریہ داماد سا آپ کا ۔۔۔ "

دلاور بلوچ نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

"اس میں شکریہ کی کیا بات ہے ۔۔۔؟"

وہ مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

سب نے سوالیہ نظروں سے ھاد بلوچ کی طرف دیکھا کہ آخر دلاور بلوچ،،،، ھاد کا شکریہ کیوں ادا کر رہے ہیں "

"دراصل ۔۔۔۔کل رات ھاد میری حویلی میں آیا تھا مجھے ملنے ۔۔۔ 

"اس نے مجھے کہا کہ وہ ہمارے درمیان ساری رنجشیں ختم کرنا چاہتا ہے ۔کیونکہ یہ فلک بلوچ کی بھی اولین خواہش تھی ۔اس کی ادھوری خواہش کی تکمیل کرنا چاہتا تھا یہ ۔۔۔۔

"اور اس نے مجھے کہا کہ وہ یہ سب اپنے بابا سائیں کے ساتھ ساتھ ھادیہ کے لیے بھی کر رہا ہے ۔۔۔۔

ھادیہ نے اس کی زندگی میں آکر اسے مکمل کردیا ۔۔۔۔اسے دو پیاری پیاری بیٹیوں سے نوازا۔

لیکن ھادیہ کی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے والد سے بھی ملے ۔۔۔۔کسی بھی بیٹی کی زندگی اسکے والدین کے بنا خوش اور مکمل نہیں ہوتی ۔

بے شک ھادیہ نے کبھی اسے کچھ نہیں کہا کہ اسے مجھ سے ملنا ہے ۔۔۔مگر ھاد نے اس کے دل کی خواہش اس کے بنا کہے جان لی ۔۔۔۔مجھے فخر ہے کہ اس جیسی عظیم سوچ رکھنے والا انسان میری بیٹی کا ہمسفر ہے ۔۔۔۔۔

انہوں نے ھاد کا شانہ تھپتھپاکر کر کہا۔۔۔۔

"تم بہت خوش قسمت ہو ھادیہ جو تمہیں اتنا مان دینے والا انسان ملا ۔۔۔ میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا ۔کہ مجھ سے بڑھ کر پیار میری بیٹی کو اور کوئی نہیں دے سکتا ۔۔۔۔

مگر آج ھاد نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ وہ مجھ سے بھی زیادہ تمہیں پیار کرتا ہے "

انہوں نے ھادیہ کے سر پہ ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر آئیں ہمارے ساتھ مزار میں صدقہ خیرات کریں پھر گھر چلیں آج بچیوں کے نام بھی رکھنے ہیں ۔اسی سلسلے میں چھوٹی سی تقریب ہے ۔۔۔۔۔"زرش بلوچ نے انہیں دعوت دی ۔۔۔

"بہت شکریہ بھابھی آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔۔۔۔

جی میں ضرور آؤں گا آپ کے ساتھ ۔۔۔۔۔

دلاور بلوچ ان سب کے ساتھ مزار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

ھادیہ اور ھاد نے وہاں چادر چڑھائی اور پھر صدقہ خیرات کرنے لگے ۔۔۔۔۔

جبکہ آتش اور سسی دونوں دیا جلا رہے تھے۔ ۔۔۔

انہوں نے فاتحہ خوانی کی پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔۔۔۔

دونوں دعا مانگ کر فارغ ہوئے تو ۔۔۔۔

"کیا مانگا "؟

آتش بلوچ نے دلکش مسکراہٹ سجائے شوخ و شنگ لہجے میں اس سے پوچھا ۔۔۔

"مانگی ہوئی دعا بتادی جائے تو سنا ہے وہ پوری نہیں ہوتی ۔۔۔"

وہ اسکی شرارتی نظروں کی تپش سے گھبراتے ہوئے سر جھکائے مدھم آواز میں بولی 

"مجھے مانگا ہے دعاؤں میں ؟؟؟

وہ شرارت آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔

"بالکل بھی نہیں "

وہ صاف مکر گئی ۔۔۔۔

"تم جھوٹ نہیں بول سکتی ۔۔۔سچ تمہارے چہرے پہ نظر آتا ہے ۔۔۔ملکہ دل "

وہ اسے چھیڑنے لگا ۔۔۔۔

"تم دونوں ملکر دعا مانگو اللہ تعالیٰ جلد از جلد مجھے تمہارے توسط سے اپنے پوتے کا منہ دکھلادے "

زرش بلوچ جو ھاد اور ھادیہ کی طرف سے فراغت پاتے دیا جلانے ان کے پیچھے آئی تھیں ۔ان کے پاس آتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

سسی نے پہلے حیرت انگیز نظروں سے ان کی جانب دیکھا پھر بات سمجھ میں آتے ہی فورا سے بیشتر نظریں چرا گئی۔۔۔۔چہرے پہ دلکش رنگ بکھرے ۔۔۔۔جسے آتش بلوچ نے دل سے محسوس کیا ۔۔۔

آسمانی دوپٹے کے ہالے میں اس کا پاکیزہ ،،،شاداب سا کھلا کھلا چہرہ بہت پیارا لگا اسے ۔۔۔۔

سسی نے زرا کی زرا نظر اٹھا کر آتش کی طرف دیکھا تو اس کی ذو معنی مسکراہٹ قیامت خیز لگی اسے ۔۔۔اس نے سٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔۔

"بس پوتے کو گود میں کھلانے کی خواہش دل میں لیے ہی نا چلی جاؤں "

"کیسی باتیں کرتی ہیں آپ ماں سا ۔۔۔؟"

"ان شاءاللہ آپ کی یہ خواہش آپکی بہو بہت جلد پوری کرے گی "

وہ ان کے شانے کے گرد بازو پھیلائے مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔

سسی کے لب تو گویا سل چکے تھے ۔۔۔۔اس میں بولنے کی سکت باقی نا رہی ۔۔۔۔

وہ عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔

"ماں سا میں زرا آپ کی بہو کو چوڑیاں دلوا دوں ؟۔

"اگر آپکی اجازت ہو تو ؟

وہ جان بوجھ کر شرارتی انداز میں پیش آیا۔

"نا ۔۔۔باقی کام میری اجازت سے کیے ہیں ۔۔۔۔

یہ بھی کر لے "

وہ گھور کر بولیں اور دیا جلانے لگیں ۔۔۔۔

تو آتش بلوچ نے سسی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ بازار کی طرف لے گیا ۔۔۔۔۔

جیسے ہی وہ دونوں بازار میں داخل ہوئے وہاں لوگوں کی بھیڑ جمع تھی ۔۔۔۔

سسی اور آتش نے وہاں موجود لوگوں کو حیرت سے دیکھا ۔۔۔

ابھی کسی ایک مخصوص جگہ پہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

سسی اور آتش بلوچ نے ان سب لوگوں کی تقلید میں دیکھا ۔۔۔۔

بازار کے چوک میں رسی پہ انسانی اعضاء لٹک رہے تھے ۔۔۔

سسی نے تو خوف کے مارے اپنی آنکھوں پہ دونوں ہاتھ رکھ لیے ۔۔۔۔

دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا تھا ۔۔۔۔

اس نے ہمت کیے دوبارہ گہرا سانس لیتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور واپس دیکھا ۔۔۔

یہ تو وہی تھا جس نے اس کی ۔۔۔۔۔۔عزت کی دھیجیاں بکھیر دیں تھیں ۔۔۔۔۔

آج خدا نے کیسا انصاف کیا تھا ۔۔۔۔ اسکی عزت نیلام کرنے والا آج خود بھرے بازار میں نیلام ہوکر رہ گیا تھا۔۔۔۔

کچھ اس کے اعضاء کو دیکھ کر دکھ کا اظہار کر رہے تھے تو کچھ مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

"کچھ نا کچھ تو غلط کیا ہوگا اس نے جو کسی نے اسے اتنی بھیانک موت دی ہے ۔۔۔ "

مجمے میں سے کسی ایک آدمی نے کہا ۔۔۔۔

"ہاں ہوسکتا ہے "!

دوسرا بولا ۔۔۔۔

بھانت بھانت کے لوگ اور بھانت بھانت کی بولیاں۔۔۔۔

"شہ۔۔۔شہزادے ۔۔ا۔۔۔اس  ۔۔۔کو جانتے ۔۔ہیں ۔۔۔آپ ؟؟؟

"یہ ۔۔۔وہ۔۔۔ہی۔۔۔۔در۔۔۔۔

وہ خوفزدہ آنکھوں سے اس کے اعضاء کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی کہ آتش نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسے بولنے سے روک دیا ۔۔۔۔

"بس ایک لفظ بھی مت بولنا ۔۔۔۔!!!!

"جو روح سے محبت کرتے ہیں ،نا ،،،وہ بنا سنے ہی اپنے محبوب کی ہر بات جان لینے کا ہنر رکھتے ہیں ،تم تو پلک بھی جھپک لو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے ،کہ تم نے کیا سوچ کر پلکیں جھپکائیں ۔۔۔۔یہ تو بات ہی الگ تھی ،پھر مجھے کیسے نا پتہ چلتا ؟؟؟۔۔۔!!!!

"ہمممم۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔ا۔۔اسے کس نے مارا ہوگا ۔۔۔۔"؟

سسی اپنے خشک لبوں پر زبان پھیر کر انہیں تر کیا پھر بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔۔

"ہوگا کوئی جس نے دھرتی کو غلاظت کے بوجھ سے آزاد کردیا ہوگا "۔

"کس نے بدلہ لیا اس سے میرا ۔۔۔۔۔۔"؟؟؟؟

وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

"چھوڑو سب ۔۔۔۔فضولیات ۔۔۔۔آؤ تم میرے ساتھ ۔۔۔۔بتاو کون سے رنگ کی چوڑیاں لینی ہیں ۔۔۔۔۔

وہ اسے چوڑیوں والی دکان پہ لے گیا ۔۔۔۔

"جو آپ کو پسند ہوں "

اس نے وہاں ڈھیر ساری رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں دیکھیں تو اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کون سے رنگ کی لے ۔۔۔۔وہ آتش بلوچ کی قربت میں جلد ہی سنبھل گئی۔۔۔۔۔اور خود کو نارمل کرتے ہوئے اسکی بات کا جواب دینے لگی ۔۔۔۔

"مجھے تو تمہارے ہاتھوں میں سب رنگوں کی چوڑیاں اچھی لگتی ہیں ۔۔۔۔

"بھائی آپ کے پاس جتنے بھی رنگ کی چوڑیاں ہیں سب دے دیں ۔۔۔۔

آتش نے دکاندار سے ابھی رنگ کی چوڑیاں لیں اور سسی کا نازک سا ہاتھ تھام کر اس میں چوڑیاں پہنانے لگا ۔۔۔۔

آج اس درندے کا انجام دیکھ کر سسی کے دل میں جو آخری پھانس تھی وہ بھی نکل گئی تھی ۔۔۔۔وہ مطمئن تھی اسے انصاف مل گیا تھا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”ہیلو یارم! کہاں گم ہو یار آج کل ؟ تم تو بات بھی نہیں کرتے، نا ہی شہر کا چکر لگاتے ہو؟بھول تو نہیں گٸے تم ہمیں؟“وہ جیسے ہی مزار کے احاطے سے نکلا اس کا سیل بجنا شروع ہوگیا وہ جانتا تھا کال کس کی ہوگی،اس نے بغیر نمبر دیکھے ہی سیل کان سے لگایا تو دوسری جانب سے ڈاکٹر وہاج نے نان سٹاپ بولنا شروع کردیا ، وہ اس کی بات سن کر تلخی سے مسکرا کر بولا

”میں بھولا تو نہیں کچھ بھی۔۔بس تھوڑا بزی تھا شہر تو آتا ہوں لیکن جلدی میں ۔ تم لوگ آ جاٶ گاٶں کسی دن۔“  اس کی بات سن کر دوسری طرف سے اک پل کے لیے خاموشی چھاگٸی لیکن کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر وہاج کی آواز آٸی ۔۔

”یارم تم بہت بدل گٸے ہو یار۔تم ایسے تو نہیں تھے جب ہم کال کرتے تھے تم کتنا چہکتے تھے اور اب ہم دس سوال کرتے ہیں تم ایک جواب دیتے ہو۔۔۔۔۔“ اس نے وہاج کی بات سنی تو کسی خیال میں کھو کر خاموش ہوگیا۔

”کیا ہوا۔۔۔۔؟“ اس نے پریشانی سے  پوچھا۔

”کک کچھ نہیں! میں بدلا نہیں بس وقت بدل گیا ہے اور بدلا ہوا وقت انسان پر بھی ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔۔“اس نے چونک کر سنجیدگی سے کہا،

”ہممممم ! تم ٹھیک کہتے ہو۔ اب ہم تمہاری شادی پر ہی گاٶں آٸیں گے، ۔“ اس نے سنجیدہ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لیے  کہا۔لیکن یارم بلوچ کے ماتھے پر بل پڑگٸے۔

”وہاج ! میں شادی کر چکا ہوں تین سال پہلے ۔“اس نے غصے سے کہا اور کال بند کرکے سیل واپس پاکٹ میں ڈال دیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

صبح بھی معمول کے مطابق اس کی آنکھ جلد ہی کھل گٸی تھی۔۔۔۔لیکن پھر بھی وہ کسل مندی سے لیٹی رہی۔پھر کچھ دیر کے بعد اس نے اٹھ کرنماز پڑھ کر  تلاوت کی اور اپنے کمرے سے نکل کر ڈراٸینگ روم میں آگٸی، اور باہر جانے کی بجاۓ ڈراٸینگ روم کی جالی سے پردہ ہٹا کر باہر جھانکا، اک بہت ہی سرد ہوا کا جھونکا اس کے جسم سے ٹکرایا اور اسکے پورے جسم میں اک سرد لہر دوڑ گٸی،اس نے اک دم سے جھجھرلی ۔

کل کی نسبت آج دھند بہت کم تھی لیکن سردی بہت ذیادہ تھی کیونکہ باہر سرد ہواٸیں چل رہی تھیں۔اور ہوا کی وجہ سے دھند آسمان پر چڑھ کر بادلوں کا روپ دھار چکی تھی۔پرندے بھی سردی کی وجہ سے گھونسلوں میں ہی چھپے بیٹھے تھے۔براق بھی اٹھ چکا تھا اس نے براق کو تیار کیا پھر اسے دودھ بنا کردیا ۔۔۔۔

خالہ زبیدہ کچن میں دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔

آتش بلوچ نے شہر کے  پوش ایریا میں ایک خوبصورت سا گھر لیا تھا وہ سب اسی میں رہ رہے تھے ۔

چاہت نے براق کو چئیر پہ بٹھا دیا ۔۔۔۔اور خود باہر لان میں لگے شیڈ کے نیچے کھڑی تھی ۔۔۔۔تبھی بارش برسنے لگی ۔۔۔۔۔

بارش برستے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے وہی یادگار منظر لہرانے لگے ۔جن سے وہ چاہ کر بھی کبھی پیچھا نہیں چھڑوا سکی ۔۔۔۔

آج پھر وہیں جان لیوا یادیں اس پہ حملہ آور ہوئیں ۔۔۔

۔۔۔

وہ اس کے گال سے اپنے گال لگا کر اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔

"نا کوئی درمیاں ،،،

ہم دونوں ہیں یہاں ،،،

پھر تو ہی بتا ؟؟؟

ہیں کیوں فاصلے ؟؟؟

یہ موسم کی بارش ،،،

یہ بارش کا پانی،،،

یہ پانی بوندیں،،،

 تجھے ہی تو ڈھونڈھیں ۔۔۔

یہ ملنے کی خواہش،،

یہ خواہش پرانی ،،،،

ہو پوری تجھی سے یہ میری کہانی ،،،،،"ان نیلے نینوں کے سمندر میں ڈوب گیا ،،،آج زیتون کی جڑیں سنگ مرمر کو توڑ کر اس سٹون مین کے دل پہ اپنی حکمرانی قائم کر چکیں ہیں  ۔۔۔۔"

وہ اس کے سامنے آیا اور اس کی دونوں لرزتی ہوئی پلکوں پہ باری باری اپنے لب رکھتا ہوا بوجھل لہجے میں بولا تو چاہت اس کے سلگتے لمس پہ تڑپ اٹھی  ۔انتہائی قربت پہ اس کا تنفس بگڑنے لگا۔

اس نے اپنا ہاتھ آگے پھیلایا ۔۔۔۔اور بارش کی بوندوں کو اس میں بھر لیا ۔۔۔۔

"مگر آپ نے جو کیا اس کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔۔۔مجھے میرے بھائی سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔۔۔۔میرا پیار بھی نہیں ۔۔۔۔"اس نے دھیمی آواز میں خود کلامی کی۔۔۔۔۔

تبھی اس کی نظر اچانک براق پہ پڑی۔۔۔

جو نجانے کب آنکھ بچا کر لان میں پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔

اور اب گھاس پہ بیٹھے بارش کے جمع شدہ پانی میں ہاتھ پاؤں مار کر چھینٹے اڑا رہا تھا ۔۔۔۔اور ہنستے ہوئے کھیل رہا تھا ۔۔۔۔۔

چاہت کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری اس کی شرارتیں دیکھ کر وہ بھی بالکل اسی پہ گیا تھا۔۔۔۔اسے بھی چاہت کی طرح بارش پسند تھی ۔۔۔۔ سرخ و سفید رنگت، نیلی آنکھیں چاہت جیسی بڑی بڑی ،مگر ناک ستواں مغرور ناک بالکل یارم بلوچ جیسا ، 

اچانک اس کی ذہن میں جھماکا سا ہوا۔۔۔۔

اور وہ بھاگی خراب موسم کو دیکھ کر ۔۔۔۔

اتنی ٹھنڈ میں اس کا یوں بارش میں بھیگنا اس کی طبیعت خراب کر سکتا تھا ۔۔۔

"براق ۔۔۔!!!!

چاہت نے جاکر اسے گود میں اٹھایا ۔۔۔۔اور خفگی سے اسے گھورا ۔۔۔۔

"کیوں آئے آپ یہاں "؟اور غصیلے انداز میں پوچھا ۔۔۔

"ما ۔۔۔",

وہ اپنے دونوں ٹھنڈے گیلے  ننھے ننھے نرم  ہاتھ چاہت کے گالوں پہ رکھ کر معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔تو چاہت کی ناراضگی پل بھر میں ہرن ہو گئی ۔۔۔۔

اس کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔

"آپ بہت بیڈ بوائے ہیں براق ۔۔۔۔پہلے غلط کام کرتے ہیں پھر ہنس کر دکھاتے ہیں ۔",

وہ اسے اپنے ساتھ لیے اندر کی طرف آئی ۔۔۔۔اسے چینج کروانے کی غرض سے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

آسمان کو دیکھتے ہی دیکھتے گہرے، کالے بادلوں نے ڈھک لیا ۔۔۔۔ اور سرد موسم میں وہ اسی جگہ پہنچ چکا تھا جہاں وہ دونوں بچھڑے تھے ۔۔۔۔آج وہ تنہا سا کھڑا یارم بلوچ اس تاریکی اور وحشت زدہ ماحول کا اک حصہ لگ رہا تھا۔اس کے چہرے پر عجب سی وحشت، لبوں پر اک جامد سی خاموشی ، اور اسکے اندر سناٹوں کا راج تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے اس کے اندر بھی کوٸی گہرا بھید ، کوٸی گہرا زخم دفن تھا جو وہ سب لوگوں سے چھپاۓ پھر رہا تھا۔

اس کے چہرے پر افسردگی چھاٸی ہوٸی تھی وہ بس اک ہی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے بیٹھا تھا ،اتنے سرد ماحول سے بھی اس کو کوٸی فرق نہیں پڑ رہا تھا، وہ بس کسی عمیق یاد میں گم تھا،

میرا نام تک جو نا لے سکا ،

جو مجھے قرار نا دے سکا ،

جسے اختیار تو تھا مگر ،

مجھے اپنا پیار نا دے سکا ،

وہی شخص میری تلاش ہے۔

وہی درد میری حیات ہے،

جو چلا گیا مجھے چھوڑ کر ،

وہی آج تک میرے ساتھ ،

"کیا صرف میں ہی تمہارے لیے پاگل ہوں ۔۔۔یا ۔۔۔۔۔تم بھی میرے لیے کبھی پاگل تھی ؟؟؟"وہ شدت پسندی سے چلایا ۔۔۔۔

اسکی آواز بارش کی بوچھاڑ کی اواز میں دب کر رہ گئی ۔۔۔۔

وہ ساکت سا کھڑا بارش میں نجانے کتنی دیر یونہی بھیگتا رہا ۔۔۔۔۔۔مجروح سی مسکان اسکے لبوں پہ رینگی اس بارش کو محسوس کیے ،وہ تنہا تھا اس آبلہ پائی کے سفر میں ،ہجر کی اذیت جھیلنا دوبھر ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔نارسائی کا دکھ حد سے سوا تھا ۔وہ راستے پہ پلکیں بچھائے اسکی واپسی کا منتظر تھا ۔۔۔۔نجانے کب یہ فاصلوں کا سفر تمام ہونا تھا ۔۔یا عمر بھر یہ دکھ اٹھانا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا ؟؟؟؟

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سارے مہمان حویلی میں پہنچ چکے تھے ۔۔۔انہوں نے دونوں ننھی پریوں کو تحائف اور دعائیں دیں۔کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔سب نے کھانا کھایا اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے ۔۔۔دلاور بلوچ نے بھی سب کے جانے کے بعد خود بھی جانے کا قصد کیا۔۔۔۔

"اچھا بھابھی سا مجھے بھی اجازت دیجیے ",

انہوں نے الوداعیہ کلمات ادا کیے ۔۔۔۔

"جی بھائی سا "

انہوں نے خوشدلی سے کہا ۔

"بھابھی سا اگر برا نا مانیں تو ایک چھوٹی سی خواہش کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔لیکن اگر آپ کو میری بات کا برا لگے تو پیشگی معذرت "

"نہیں نہیں ایسی بات نہیں ۔۔ مجھے کیوں برا لگے گا ۔آپ کہیے نا کہا کہنا چاہتے ہیں ۔بات دل میں نہیں رکھنی چاہیے ۔"

"میں چاہتا تھا کہ ہوسکے تو کچھ دنوں کے لیے اگر میں ھادیہ اور بچیوں کو کچھ دنوں کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤں تو میرا دل بھی بہل جائے گا ۔۔۔ھادیہ کے جانے کے بعد بہت اداس ہوگیا ہے گھر "

وہ یاسیت گھلے لہجے میں بولے ۔۔۔۔

"اس میں بھلا ہمیں کیا اعتراض ہے ،جتنا حق ہمارا ہے ھادیہ اور بچیوں پہ اتنا ہی آپ کا بھی ہے ۔آپ لے جائیے انہیں اپنے ساتھ ۔۔۔مگر زیادہ دنوں کے لیے نہیں ۔۔۔۔اب ہمارا بھی ان کے بنا دل نہیں لگے گا ۔۔۔ 

وہ ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔۔

مگر ھاد کا رنگ پھیکا پڑ گیا ھادیہ کا جانے کا سن کر ۔۔۔۔

اس نے خفگی سے زرش بلوچ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"مگر ماں سا ؟

اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے۔۔۔۔مگر زرش بلوچ کی گھوری نے اسے چپ کروادیا ۔۔۔

"لے بھئی ھاد بلوچ ۔۔۔۔تو نے خودی اس کے بابا سائیں کو اس سے ملوا کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے ۔۔۔اب بھگت ۔۔!

وہ منہ میں بڑبڑایا ۔۔۔۔

ھاد بلوچ نے ترچھی نگاہوں سے ھادیہ کو دیکھا جو اسے انگوٹھا نیچے کیے ٹھینگے کا نشان دکھا رہی تھی ۔۔۔

ھاد بلوچ دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔۔

جبکہ ھادیہ نظریں نیچے کیے شرارت سے مسکرانے لگی ۔۔۔

"جاؤ بچے جا کر پیکنگ کرلو اپنی اور بچیوں کی "

زرش بلوچ نے اسے جانے کی اجازت دی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اندر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

جبکہ ھاد بلوچ وہیں بیٹھا اپنی دونوں ننھی پریوں ،آس اور آویزہ سے پیار کرنے لگا ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ھادیہ اپنے بابا سائیں دلاور بلوچ کے ساتھ آس اور آویزہ کو لیے روانہ ہوگئی ۔۔۔۔ان کے جانے پہ ھاد بلوچ دل مسوس کر رہ گیا۔۔۔۔

مگر خوش بھی تھا ۔کہ ھادیہ بھی اپنے بابا کے ساتھ کچھ دن گزار کر خوش ہوجائے گی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

”السلام علیکم!۔۔۔۔۔“ وہ رات گئے گھر آیا تو ڈنر کے لیے زرش بلوچ،کے ساتھ ھاد ،آتش اور سسی ڈاٸننگ ٹیبل پر موجود تھے ۔۔۔۔اس نے حویلی میں داخل ہوتے ہی انہیں مشترکہ طور پر سلام کیا ۔۔ 

"وعلیکم السلام!

"آؤ یارم آکر کھانا کھاؤ بچے ۔۔۔

"آج کہاں چلے گئے تھے مزار سے ۔۔۔؟

"سب مہمان پوچھ رہے تھے تمہارا "....

انہوں نے اسکی طرف دیکھے ایک ساتھ سارے سوال کر ڈالے ۔۔۔ 

"ادھر ہی تھا ماں سا ۔۔۔"اس نے فقط اتنا ہی کہا اور زرش بلوچ کے ساتھ والی چٸیر کھینچ کر بیٹھ گیا۔

”آج تمہاری پسند کا کھانا بنوایا ہے ۔۔۔۔“ انہوں مسکراتے ہوۓ بتایا ۔

 سب خوشگوار ماحول میں کھانا کھارہے تھے کہ آتش بلوچ کے موبائل پہ آتی ہوئی کال نے خلل ڈالا۔۔۔۔

اس نے موبائل کی روشن سکرین پر نظریں جمائیں۔۔۔۔

"جی ۔۔۔!!!!

اس نے فون اٹھا کر کان سے لگایا ۔۔۔۔

"ایکسکیوز می ۔۔!!!

وہ چئیر پیچھے گھسیٹ کر وہاں سے اٹھا ۔۔۔

اور دوسری طرف چلا گیا ۔۔۔۔

ھاد اور یارم دونوں نے اسے ایک طرف جاتے دیکھا تو حیران کن نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔۔

ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ آتش بلوچ یوں تنہائی میں جا کر کال اٹینڈ کرے ۔۔۔ہمیشہ وہ تینوں بھائی ایک دوسرے کے سامنے بے دھڑک ہوکر کال پہ بات کرتے تھے ۔۔۔پھر آج اچانک ایسی کس کی کال تھی جو اسے یوں مقابل موجود شخصیت سے بات کرنے کے لیے تنہائی درکار تھی ۔۔۔۔

ھاد نے لاپرواہی سے شانے اچکائے اور کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے  زرش بلوچ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔

اور سوچ رہی تھیں کہ ھاد اور آتش کی زندگی تو خوش باش ہوگئی ہے مگر یارم ۔۔۔۔!!!

"کیا ہوا ماں سا ؟

"کیا سوچ رہی ہیں ؟؟؟

اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہمممم۔۔۔ن۔۔۔نہیں کچھ نہیں ۔۔۔وہ سوچ جھٹکتے ہوئے  چونک کر بولیں ۔۔۔

"تم یہ پلاؤ بھی کھاؤ نا "

انہوں نے یارم کی پلیٹ میں پلاؤ سرو کیا ۔۔۔۔

"بس ماں سا ۔۔۔۔میں چاول نہیں کھاتا رات کے وقت "

اس نے انہیں مزید ڈالنے سے روکا ۔۔۔۔

",کتنی بار کہا ہے یہ کلوری(کیلوریز) کے چکر میں مت پڑ ۔۔۔آگے دیکھ کتنا سا منہ نکل آیا ہے میرے بچے کا "

انہوں نے یارم کے گال پہ ہاتھ کر کر محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔

"ماں سا میں کیا سوتیلا ہوں ۔۔۔مجھے بھی کبھی اپنے ہاتھوں سے کھلا دیا کریں "

ھاد بلوچ نے مصنوعی ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"لے تو بھی کھا لے "

انہوں نے پلاؤ کا چمچ بھر کر ھاد بلوچ کے منہ میں ڈالا ۔۔۔۔

سسی اپنی ساس زرش بلوچ کا اپنے بیٹوں کے لیے پیار دیکھ کر دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہی تھی ۔۔۔۔

"بھائی وہ براق کو بہت تیز ٹمپریچر ہوگیا ہے "

چاہت کی تڑپ زدہ رنجیدہ سی آواز فون کے سپیکر سے سنائی دی ۔

”کیوں ۔۔۔!کیسے ہوا اسے بخار ۔۔۔۔؟؟؟ کیسی طبیعت ہے اس کی  ۔؟“آتش بلوچ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

”بھائی ۔۔!غلطی میری ہی ہے ، میں ہی اس کا اچھے سے خیال نہیں رکھ پائی ۔۔۔نجانے کیسے اور کب وہ اتنی ٹھنڈ میں بارش میں چلا گیا اور بھیگتا رہا ۔۔۔۔اب اسے بہت تیز ٹمپریچر ہے ۔۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں "؟

زبیدہ خالہ تو دوائی لے کر سو چکی ہیں ۔۔۔۔"

 "اچھا تم فکر مت کرو کچھ نہیں ہوگا ۔میں ابھی واپسی کے لیے نکلتا ہوں ۔پھر آکر اسے ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں آپ ایسا کریں اتنی دیر اسے بخار کا سیرپ دیں ۔۔۔۔کال پول یا پیناڈول کوئی بھی جو اسوقت گھر میں موجود ہو ۔لاونج میں موجود کبرڈ میں چیک کریں وہاں ہوں گے سیرپ  ۔اور اگر بخار تیز ہو تو اسے پانی کی پٹیاں کریں ۔میں راستے میں بھی کال کر کہ آپ سے رابطے میں رہوں گا  “ آتش بلوچ نے اسے تسلی آمیز انداز میں کہا تو چاہت اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے لگی ۔

"سسی اٹھو جلدی اور پیکنگ کرو ہمیں ابھی نکلنا ہوگا ۔۔۔"

وہ کال کٹ کر کہ ان سب کی طرف آیا اور سسی سے مخاطب ہوا ۔۔۔

"جی اچھا "

وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھ گئی اور کمرے کی طرف چلی گئی

"آتش میں اتنی جلدی تمہیں واپس جانے نہیں دوں گی ۔"

زرش بلوچ نے خفگی سے کہا ۔۔۔

"اب ایسی بھی کیا جلدی ہے جو تم رات و رات نکلنے لگے ہو ۔۔۔۔؟

"ماں سا ۔۔۔!!!

",دراصل ۔۔۔وہ میری ایک امپورٹینٹ میٹنگ ہے کل صبح بس اسی لیے ۔۔۔۔پہلی بار

جھوٹ بولتے ہوئے اسکی زبان لڑکھڑا گئی۔۔۔۔

"میں جلد ہی واپس آؤں گا حویلی ۔۔۔ابھی جانا ضروری ہے ۔۔۔۔پلیز ماں سا سمجھیے گا ۔۔۔"

”لیکن ماں سا۔۔! میڈیسن سے لاپرواہی نہیں کرنی آپ نے۔“ اس نے ان کی باتیں سن کر ازلی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔

”ٹھیک ہے !کبھی تو ان دواٸیوں کا ذکر چھوڑ دیا کرو۔۔۔مجھ سے نہیں کھائی جاتی دل کے مرض کی دوائیاں ۔۔۔۔“ انہوں نے برا سا منہ بنا کر کہا۔آتش بلوچ کے چہرے پر اک مدھم سے مسکراہٹ آکر معدوم ہوگٸی۔

”بھائی جانے سے پہلے آپ سے بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کے چھوٹے بھائی سے کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردیجیے گا ۔کردیں گے نا ؟“

"ہمممم۔۔۔۔کردوں گا ۔۔۔

"مگر تم نے ایسا کیا کام کیا ہے جو تم مجھ سے پیشگی معافی مانگ رہے ہو ؟

یارم بلوچ نے کھڑے ہوکر اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے استفسار کیا ۔۔۔

 "ابھی وقت نہیں بھائی ۔۔۔۔

ہمیں نکلنا ہوگا جلدی  "

وہ سب سے ملتے ہوئے سسی کو ساتھ لیے تیزی سے باہر نکل گیا اور گاڑی کا لاک کھول کر  ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ۔۔۔۔

وہ صبح صبح ہی بیدار ہو گئی  تھی۔۔حالت کچھ عجیب سی ہورہی تھی ۔تبھی صبح جلدی جاگ کھل گئی تھی ۔ آنکھیں کھولتے ہی  اپنے بلکل ساتھ لیٹے ہوئے آتش بلوچ کو سوتے دیکھ کر اس کے لب اپنے آپ مسکرائے تھے۔۔۔۔  

چہرے پہ الوہی مسکراہٹ سجائے  ۔۔۔سسی نے اپنی کمر کے گرد لپٹے ہوئے اس کا ہاتھ ہٹاکر واش روم میں جانا چاہا کیونکہ اس کا دل گھبرانے لگا تھا ۔۔۔سر بھی بھاری سا لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جسم میں سستی اور طبیعت میں نقاہت محسوس ہوئی تو اٹھنے کی بجائے اپنے شہزادے کے خوبرو چہرے کو محویت سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

ویسٹ میں اس کا کسرتی وجود نمایاں ہو رہا تھا ،،،صبیح پیشانی پہ پر سیاہ سلکی بال لاپرواہی سے بکھرے ہوئے تھے،نیند میں بھی اس کے وجیہہ چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔۔

وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

 بے اختیار سسی نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کی داڑھی پر بے حد نرمی سے پھیرا ۔۔۔۔

"مجھے آپکے چہرے پہ آپکی یہ داڑھی بہت اچھی لگتی ہے ۔۔۔۔وہ اسکی ہلکی بئیرڈ کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے دھیمے سے بولی ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ کی عادت تھی جب وہ کچھ سوچتا تو اپنی انگلیوں سے اپنی بئیرڈ کو ہلکے سے سہلاتا ۔۔۔۔اور سسی اس کے سٹائل پہ دل و جان سے فدا ہوجاتی ۔۔۔۔مگر آتش بلوچ کو تو اس بات کا اندازہ تک نا تھا کہ اسکی شہزادی اسکی اس ادا پہ بھی دل و جان سے فریفتہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔

"ہائے اللہ اگر یہ جاگ گئے اور مجھے یوں کرتے دیکھا تو کیا سمجھیں گے ۔۔۔؟؟؟میں کتنی ۔۔۔۔!!!

اس نے سوچ کر شرم سے  جھرجھری لی ۔۔۔۔

  اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں تھیں بے اختیار اس نے اپنا ہاتھ آتش بلوچ کے چہرے سے پیچھے کیھنچ  کر اپنے تیز دھڑکتے دل پر رکھ لیا ۔۔۔۔

" اے میرے پروردگار۔۔!!!میں آپ کا جتنا شکر ادا کرو اتنا ہی کم ہے آپ نے میرے خوابوں کی تکمیل کرکہ مجھے میرا من پسند ہمسفر عطا کردیا ۔"

وہ دل میں اپنے خدا سے مخاطب تھی ایک آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر بالوں میں جذب ہو گیا کئی پل وہ آتش بلوچ کو محبت پاش اور تشکرانہ انداز میں دیکھتی رہی تھی پھر بے اختیار جھک کر آتش کے بئیرڈ والے گال پر محبت کی مہر ثبت کی اور پھر سرخ چہرے کے ساتھ اٹھ کر آہستہ سے بیڈ سے اترنے لگی جب آتش بلوچ نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنے ساتھ لٹایا اور خود اس کے اوپر جھک گیا 

" اتنے پیارے انداز میں گڈ مارننگ کرنا کہاں سے سیکھا ؟میں نے تو نہیں سکھایا ؟ ۔۔ !!"

وہ سسی کی شہ رگ پہ اپنے لب رکھتا بوجھل آواز میں گویا ہوا تھا جبکہ سسی کی تو جان لبوں کو آ گئی تھی اس کی یہ سوچ جان لے رہی تھی کہ آتش جاگا ہوا تھا اور اس سے آگے سوچتے ہی شرم و حیا کے مارے سسی  نے اپنا چہرہ آتش بلوچ کے چوڑے سینے میں چھپا لیا ۔۔۔ زبان اس کی ایسی تالو سے چپک گئی تھی کہ کچھ بھی بولنے کی قوت سلب  ہو گئی تھی

" تم نے واقعی دن بنا دیا ۔۔۔ ۔۔ ویسے آج  اتنا پیار کیوں آ رہا تھا تمہیں مجھ پر؟؟ کوئی خاص بات ۔۔ ؟"

وہ سسی کے بالوں کی مہک اپنی سانسوں میں اتارتے ہوئے وہ ذومعنی سے گویا ہوا تو سسی نے خفت کے مارے اپنے چہرے کا رخ موڑ لیا اس کی اس حرکت پر آتش بلوچ نے زور سے قہقہہ لگایا

" اچھا بتاؤ میری ملکہ دل کی طبیعت کیسی ہے اب ۔۔؟؟"

اب وہ اس کے ساتھ لیٹ کر لہجے میں بے حد نرمی لیے پوچھ رہا تھا ۔ایک دو دنوں سے وہ سسی کو زرا سست سا محسوس کر رہا تھا تبھی پوچھا ۔۔۔۔

" جج جی ٹھیک ۔۔ "

وہ بمشکل ہی بول پائی تھی ۔ 

" ملکہ دل   ۔۔ !"

اس کے ساتھ لیٹے ہوئے آتش بلوچ نے سرگوشی کی صورت میں اسے پکارا

"میں ابھی آئی ۔۔۔۔"

وہ کہتی ہوئی بستر سے نکل کر تیزی سے واش روم کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ 

اس کا سر چکرایا تھا اگر بروقت دیوار کا سہارا نہ لیتی تو وہ یقیناً  زمین بوس ہو جاتی ایک ہاتھ سے اپنے سر کو تھام کر اور دوسرے ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیے ہوئے کھڑی رہی ۔۔۔

"کیا ہوا سسی "

آتش بلوچ سرعت سے اسکے قریب پہنچا ۔۔۔۔کر تشویش بھرے انداز میں بولا۔

"پتہ نہیں کل رات کو بھی اس طرح  ہی عجیب طبیعت ہو رہی تھی مگر اب اچانک مسلسل چکر آ رہے ہیں ۔۔۔

" طبیعت بوجھل سی ہو رہی ہے ۔۔۔۔

"آؤ یہاں بیٹھو "اس نے سسی کو واپس بستر پہ بٹھایا ۔۔۔۔

اور سائیڈ ٹیبل پر موجود جگ میں سے پانی گلاس میں ڈال کر اسکی طرف بڑھایا ۔۔۔

سسی نے گلاس لبوں سے لگایا  مگر چند گھونٹ بھرنے کے بعد ہی اس کا جی متلانے لگا لیکن صد شکر کہ متلی نہیں آئی ۔۔۔

"آؤ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں "

وہ سب سمجھ تو چکا تھا مگر قبل از وقت کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا ڈاکٹر سے تصدیق کے بعد ہی وہ سسی کو بتانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

وہ ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر سسی کو گھر چھوڑے اپنی ایک امپورٹینٹ میٹنگ کے لیے نکل گیا ۔۔۔رپورٹس واپسی پہ کلیکٹ کرنی تھیں ۔۔۔۔

ایک ماہ پہلے جب وہ حویلی سے واپس آیا تھا ۔وہ فورا ہی براق کو لیے شہر کے ایک اچھے پرائیویٹ ہاسپٹل لے گیا تھا ساری رات وہ اور سسی چاہت اور براق کو ساتھ لیے ہسپتال میں رہے صبح براق کا بخار ٹھیک ہوا تو وہ اسے اپنے ساتھ لیے واپس گھر آگئے ۔۔۔۔

ایک دو دن میں وہ بہتر ہوچکا تھا ۔۔۔۔تب سے چاہت اس کا مزید اچھے سے خیال رکھنے لگی تھی ۔ایک منٹ بھی کوتاہی نہیں کرتی ہو وقت اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھتی تھی ۔۔۔آتش بلوچ اور سسی ،،،براق پہ اپنی جان وارتے تھے ۔۔۔۔سسی کو تو ویسے ہی بچوں سے بہت پیار تھا ۔چاہت سے زیادہ وہ اس کے ساتھ کھیلتی اور اسکا دھیان رکھتی تھی ۔۔۔۔ان کا چھوٹا سا گھر خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔۔براق کی شرارتوں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔اس کی پیاری پیاری میٹھی نا سمجھ آنے والی باتوں سے سارا گھر چہکتا رہتا ۔۔۔۔کہ دن گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔

شام کو جب آتش بلوچ واپس آیا تو ہاتھ میں تازہ گلابوں کا گلدستہ اور مٹھائی لیے گھر میں داخل ہوا ۔۔۔دروازہ سسی نے ہی کھولا ۔۔۔ 

"ملکہ دل تم نہیں جانتی آج میں کتنا خوش ہوں ۔۔۔ سسی کو سامنے دیکھ کر وہ اپنے جذبات پہ قابو نہیں رکھ سکا اور اسے بازووں میں اٹھا کر گول گول گھماتے ہوئے محبت بھرے انداز میں بول رہا تھا ۔۔۔

"مجھے ۔۔۔نیچے ۔۔۔اتاریں ۔۔۔

اس نے آتش بلوچ کی شرٹ کو زور سے مٹھی میں جکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔

اور دبے دبے لفظوں میں احتجاج کر رہی تھی ۔۔۔۔

"I love you soooo much "

اس کا بس نہیں چل رہا تھا خوشی سے نجانے کیا کچھ کر ڈالے 

آتش بلوچ نے سسی کے گال پہ جسارت کی تو سسی نے لاونج میں موجود چاہت اور زبیدہ کی طرف سر گھما کر دیکھا جو سر نیچے جھکا کر ہنس رہی تھیں ۔۔۔

آتش بلوچ نے سسی کی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو سامنے موجود چاہت اور زبیدہ کو دیکھ کر فورا سسی کو بانہوں کی قید سے آزاد کرتے ہوئے احتیاط سے زمین پہ اتارا ۔۔۔۔ 

پھر شرمندگی سے سر کھجانے لگا ۔۔۔۔

سسی بھی شرم کر باعث سر نہیں اٹھا پا رہی تھی۔۔۔

"آپ نانی بننے والی ہیں اور آپ تائی ماں کے ساتھ خالہ بھی "

آتش بلوچ نے سر جھٹک کر ان دونوں کو خوشخبری سنائی۔۔۔۔

"بیٹا اپنے گھر میں بھی بتادو "

زبیدہ نے مسکراتے ہوئے سادگی سے کہا ۔۔۔

"جی ۔۔۔!!!!

"ماں سا کو میں فون پہ اطلاع دے چکا ہوں۔

چاہت اور زبیدہ دونوں سسی کو مبارکباد اور دعائیں دینے لگیں ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"یارم ۔۔۔۔!!!!

"میں بہت خوش ہوں ،آتش کے گھر رونق آنے والی ہے ۔۔۔تم مجھے شہر لے چلو ۔۔۔میں وہاں جاکر انہیں حیران کردوں گی ۔اور اپنی بہو کو اپنے پاس لے کر آؤں گی ۔۔۔۔جب تک میرا پوتا نہیں آجاتا اسے میں اپنے پاس رکھوں گی،اسکا خیال رکھوں گی  "

یارم بلوچ کے چہرے پہ بھولی بسری مسکراہٹ آن ٹہری ۔۔۔

"مبارک ہو آپ کو ماں سا "

"ہاں ۔۔۔خیر مبارک"

"چل جلدی تیاری کھینچ ہمیں آج ہی نکلنا ہوگا "

"ماں سا اتنی جلدی بھی کیا ہے ۔۔۔؟

"تجھے نہیں پتہ جب سے یہ خبر سنی ہے میرے پاوں تو زمین پر نہیں پڑ رہے ۔۔۔۔دل چاہ رہا ہے آنکھیں بند کروں تو اسکے پاس پہنچ جاؤں "

"آس اور آویزہ بھی اپنے ننھیال ایسا گئیں ہیں واپس نہیں آئیں ابھی تک ۔۔۔میرا تو دل پہلے ہی بڑا اداس تھا ان کی غیر موجودگی سے ۔۔۔۔یہ خبر سن کر تو مجھ سے اب رہا نہیں جا رہا ۔۔۔۔

"اچھا ماں سا بس ایک ضروری کام ہے اسے نبٹا لوں پھر نکلتے ہیں ۔

ڈاکٹر وہاج اور ڈاکٹر زارا سے بھی مل لوں گا ۔بہت اصرار کر رہے تھے کہ میں نے شہر کا چکر نہیں لگایا ۔۔۔۔

"ہاں ٹھیک ہے مگر جلدی آنا دیر مت کرنا "

انہوں نے پیچھے سے ہانک لگائی۔۔۔۔

"جی ماں سا ۔۔۔۔۔!!!

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

شام کے سائے چاروں اطراف میں پھیلنے لگے تھے ،،،

جب ان کی گاڑی آتش بلوچ کے نئے گھر کے سامنے آن رکی ۔۔۔۔

یارم نے ھاد سے آتش کے نئے گھر کا ایڈریس معلوم کرلیا تھا ۔۔۔۔۔کیونکہ آتش نے ھاد کو بتا رکھا تھا۔۔۔

زبیدہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر سے باہر نکلی تھی ،شام کے کھانے کے لیے کچھ سودا سلف لانے کے لیے ۔۔۔۔

اسی لیے دروازے پہ لاک نہیں تھا ۔بس ویسے ہی بند تھا ۔وہ جاتے ہوئے چاہت کو کہہ کر گئیں تھیں کہ دروازہ بند کر لے تو اس نے کہا تھا کہ وہ دھلے سوکھے ہوئے کپڑے صحن میں سے اتار رہی ہے ۔وہ یہیں ہے ۔اور آپ بے فکر ہوکر جائیں ۔تو وہ باہر نکل گئیں تھیں ۔۔۔۔

یارم نے گاڑی روکی تو زرش بلوچ اس میں سے باہر نکل آئیں ۔۔۔۔

"ماں سا آپ چلیں اندر میں گاڑی کو لاکڈ کر کہ آتا ہوں ۔

"اچھا ٹھیک ہے وہ کہتی ہوئیں اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔

لان بالکل خالی تھا ۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئیں اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔

یارم بلوچ جو گاڑی لاکڈ کیے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔۔

تبھی صحن کی پچھلی طرف سے ایک چھوٹا سا پیارا سا بچہ چھوٹے چھوٹے لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا ،مسکراتا ہوا لان کی طرف آرہا تھا ۔۔۔

یارم نے اسے غور سے دیکھا 

نیلی آنکھوں والا کیوٹ سا گولو مولو سا بچہ ۔۔۔۔اسکی آنکھوں کے رنگ کو دیکھ کر کسی کی یاد شدت سے اس پہ حملہ آور ہوئی ۔۔۔۔

وہ دل مسوس کر رہ گیا ۔۔۔

پھر سوچنے لگا ۔۔۔

"یہ بچہ کون ہے اور آتش کے گھر کیا کر رہا ہے ؟"

"ما "

وہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بچہ اب چلتے ہوئے اس کے قریب آ چکا تھا اور اسکی پینٹ کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں جکڑ کر کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا ۔۔۔

"ما "سن کر یارم کے بھینچے ہوئے لب مسکراہٹ میں ڈھلے ۔۔۔۔

اس نے بلا اختیار ہی جھک کر اسے گود میں اٹھا لیا ۔۔۔۔

"بہت کیوٹ ہیں آپ تو "

وہ اسکے گال کو چوم کر مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

براق نے اپنی گال پہ اسکی مونچھوں کی چبھن محسوس کی تو ناگواری سے منہ بنایا ۔۔۔

یارم اس بار کُھل کر مسکرایا ۔۔۔۔۔اسکے منہ بسورنے پہ ۔۔۔۔

تبھی براق کی نظریں اپنی رنگین بال پہ پڑیں جس کے ساتھ وہ کھیل رہا تھا اور وہ اسے ڈھونڈھتے ہوئے صحن کی پچھلی طرف سے ادھر لان کی طرف آیا تھا ۔۔۔

بال دیکھ کر وہ اسکی طرف جانے کو مچلا ۔۔۔۔

یارم نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو بال دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ وہ بچہ بال لینا چاہتا ہے ۔۔۔۔یارم نے اسے گود سے نیچے اتار دیا ۔۔۔

تو وہ بال کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

اور اسکے پاس جاتے ہی بال کو ہاتھ میں اٹھائے کھکھلانے لگا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ یارم بلوچ اندر کی طرف بڑھتا ۔۔۔۔چاہت جو صحن کے پچھلی طرف بنے کمرے میں دھلے ہوئے کپڑے رکھ کر براق کو دیکھنے لان کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔سامنے کھڑے ہوئے یارم بلوچ کو دیکھ کر اس کے قدم وہیں تھم گئے ۔۔۔۔

چاہت کو یوں اچانک سامنے دیکھ کر یارم بلوچ کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا ۔۔۔۔

وقت جیسے وہیں تھم گیا تھا ۔

وہ دونوں جیسے سانس لینا بھول گئے ۔۔۔۔

ان دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوں ان کا آمنا سامنا ہوگا ۔۔۔۔

چاہت کے قدم تو وہیں جامد ہوگئے جیسے زمین نے جکڑ لیے ہوں ۔۔۔۔

یارم بلوچ اس فاصلے کا مٹاتے ہوئے سرعت سے اس کی جانب بڑھا ۔۔۔۔

"چاہت ۔۔۔۔۔!!!"

اس آنکھوں میں ایک الگ ہی جنون تھا۔۔۔۔وہ اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر دیوانہ وار بنا رکے،،،اسکے نقش نقش پہ اپنے ہونٹوں کا احساس دلاتے ہوئے اسے کپکپانے پہ مجبور کرگیا ۔۔۔۔

وہ تو اسے یوں اتنے عرصے بعد سامنے پاکر حیرت زدہ رہ گئی اوپر اسے اسکی جنونیت آمیز جسارتیں اسکے بدن کا سارا خون سمٹ کر چہرے پر آن ٹہرا ۔۔۔۔۔

"دور ہٹیں مجھ سے "

وہ اسے خود سے پیچھے دھکیل کر ہوش میں آتے ہی  چلائی ۔۔۔۔اور الٹے قدم لیے ۔۔نفی میں سر ہلاتے وہ الٹے قدم لیتی ہوئی بیرونی دروازے کی پشت سے جا لگی ۔۔۔۔

عجیب سی شعاعیں اسکے مرمریں وجود سے پھوٹ رہی تھیں جو دیکھنے والے کو میسمرایز کر رہی تھی ،

یارم بلوچ جیسے بہکے بہکے قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس آرہا تھا ۔۔۔اس کے دل کی دھڑکنیں سست پڑنے لگیں ۔۔۔سانسوں کا زیر و بم اعتدال سے ہٹ گیا  ۔۔۔۔یارم بلوچ  نے دونوں سائیڈ پر ہاتھ رکھ کر اسے دروازے سے پن کردیا تھا۔۔۔۔

"تمہیں پھر سے دیکھنے کے بعد تو یہ عالم ہے کہ اب  "

"بِنا تیرے نا اک پل ہو ۔۔"

"نہ ِبن تیرے کبھی کل ہو۔۔"

"یہ دل بن جائے پتھر کا ۔۔"

"نا اس میں کوئی ہلچل ہو۔۔!"

"صنم پہ ہاں ،عشق پہ ہاں ،لٹا دوں ،مٹا دوں ،میں اپنی خودی ،

وہ جذبات سے چور آواز میں کہتے اسکے چہرے پہ جھکا تو چاہت اسکی نظروں کا ارتکاز اپنے ہونٹوں پہ دیکھ کر زخمی ناگن کی طرح پھنکاری ۔۔۔ 

"یارم ۔۔۔۔۔!!!"

"واؤ۔۔۔!!!!

"پہلی بار ان لبوں نے ہمارا نام پکارا ہے ،خراج تحسین پیش نا کیا تو نا انصافی ہوگی "

وہ اسکے لہجے کی پرواہ کیے بنا ذومعنی انداز میں بولا۔۔۔۔

اس کے چہرہ پہ یارم بلوچ کی نظروں کی تپش نے اپنا حصار باندھ رکھا تھا ۔۔۔۔

اسکے دہکتے ہوئے چہرے سے پھوٹتی تپش کا اندازہ یارم بلوچ کو بخوبی ہو رہا تھا ۔۔۔

اسکی پہلے کی گئی جسارتوں کے سلگتے ہوئے لمس کا احساس اس کے چہرے پہ ابھی تک تازہ تھا ۔۔۔

"اتنے عرصے بعد آپکو سامنے دیکھ کر میں اپنے حواس کھو رہا ہوں چاہت "

وہ اس کی جانب جھک کر بالوں کو کندھے سے پیچھے سرکاتے ہوئے فسوں خیز آواز میں بولا اسکے تشنہ لب چاہت  کے کان کی لو کو جیسے ہی چھوے تھے چاہت کی گرفت مٹھی میں دبوچے اپنے دوپٹے  پر اور بھی  مضبوط ہوگئی تھی۔۔۔۔

وہ اس کے لیے اپنے دل میں پنپتے ہوئے جذبات کو بہت پہلے مار چکی تھی

مگر اب دھڑکنیں اتنی تیز ہوگئیں تھیں  یارم  کو اپنے اتنے پاس دیکھ کر وہ جیسے سانس لینا بھول گئی تھی ۔۔۔۔۔

"You are my love " 

 "I love you Deeply ,Madly , Unconditionaly , Forever and Ever,,,,, 

نظریں ہنوز اسکے کٹاؤ دار یاقوتی لبوں پر مرکوز تھیں 

مضبوط بانہوں کا ہالہ اسکے گرد قائم تھا ۔۔۔

اسکے شانوں اور گردن کے گرد اسکی جھلساتی ہوئی سانسوں کی تپش تھی ۔۔۔

پورا وجود جیسے جلنے لگا تھا ۔۔۔۔بدن میں سنسناہٹ دوڑی ۔۔۔ 

کاٹوں تو جیسے بدن میں لہو نہ ہو والی کیفیت کے مصداق وہ اس پل اس دیو قامت شخص کے حصار میں مقید تھی ۔۔۔۔بہت مشکل سے اس نے مزاحمت کی ۔۔۔اور خود کو اس کے گھیرے سے باہر نکالنا چاہا ۔۔۔۔

مگر وہ تو جیسے ان لمحوں کو امر کردینے کا خواہاں ہوا چاہتا تھا۔۔۔۔

چاہت کا وجود تو جیسے شعلوں کی لپیٹ میں تھا ۔۔۔ 

"یارم ۔۔۔!!!"

وہ اسکی قربت پہ آنکھیں زور سے میچ گئی ۔۔۔۔یارم بلوچ اسکے پھڑپھڑاتے ہوئے گلاب کی پتیوں جیسے لبوں کو چھونے کے لیے جھکا ہی تھا ۔۔

"ما "

اسکے کانوں میں وہی معصوم سی آواز سنائی دی ۔۔۔۔تو یارم بلوچ نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔

وہی نیلی آنکھوں والا پھولے پھولے گالوں والا کیوٹ سا بچہ چاہت کی طرف دیکھ کر دونوں بانہیں پھیلائے کھڑا ۔۔۔اسے وہیں سے گود میں اٹھا لینے کا اشارہ کر رہا تھا ۔۔۔

"چاہت یہ ؟؟؟

اس نے سوالیہ نظروں سے چاہت کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"یہ۔۔۔یہ ہمارا ؟؟؟.

وہ کیسے اندازہ نہیں لگا پایا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔؟؟؟؟

وہ اپنی عقل پہ ماتم کناں ہوا ۔۔۔۔آج پہلی بار اس کے ماسٹر مائنڈ نے کام کیوں نہیں کیا ۔۔۔۔۔

اب اس نے غور کیا تھا ۔۔۔۔اس کی نیلی آنکھیں ہو بہو چاہت جیسی تھیں ۔مگر ستواں ناک بالکل یارم بلوچ جیسی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ چاہت اس تک پہنچتی ۔۔۔۔یارم بلوچ دس قدموں کا فاصلہ لمبے لمبے پانچ ہی ڈگ بھرتے عبور کرکہ اس تک پہنچ چکا تھا ۔۔۔

اور سرعت سے اسے اپنی بانہوں میں بھینچے چٹاچٹ اسکے نرم روئی جیسے گالوں پہ پیار کرنے لگا ۔۔۔۔

"ادھر دیں اسے ۔۔۔۔"

اس نے یارم بلوچ سے براق کو واپس لینا چاہا ۔۔۔ 

تبھی براق کی بازو سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔۔

"یہ میرا بیٹا ہے "

وہ تیکھے لہجے میں چلا کر بولی۔۔۔۔

"تم بیٹا جہیز میں نہیں لائی تھی ۔۔۔۔یہ میرا خون ہے ،

"اور خبردار جو اس پہ اپنا تسلط جمایا ۔۔۔۔"

یارم بلوچ جو اس وقت کا اسے ڈھیل دے رہا تھا ۔۔۔۔۔براق کو دیکھ کر سب لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کو کھری کھری سنانے کا قصد باندھ گیا ۔۔۔۔اور انگلی اٹھا کر دھمکی آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔

"تم مجھے سنگ مرمر کہتی تھی ۔۔۔۔اصل میں سنگ مرمر  میں نہیں تم خود ثابت ہوئی ہو ۔۔۔۔

"کیسا پتھر جیسا دل ہے تمہارا ۔۔۔۔ ؟؟؟؟

"اس سنگ مرمر کو کیسے توڑنا ہے ۔۔۔!!!!!   آتا ہے مجھے "

وہ چند لمحوں کے لیے رکا پھر بولا۔۔۔۔

"اچھی طرح جانتی تھی نا تم ۔۔۔ میں نہیں رہ پاؤں گا تمہارے بناء ۔۔۔۔تبھی مجھ سے بدلہ لینے کے لیے اپنی جدائی کی سزا دے گئی ۔۔۔۔"

"مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے محروم رکھا تم نے مجھے میری اولاد کے بارے میں نا بتا کر ۔۔۔۔"

وہ تند نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا۔۔۔۔۔

" میرا نہیں تو۔۔۔۔!!! کچھ اس معصوم کا ہی خیال کر لیتی جس پہ تم نے ظلم کیا اسے اس کے باپ کے پیار و شفقت سے محروم رکھ کر ۔۔۔ 

"میرا بدلہ تم نے اس معصوم سے لیا ۔۔۔۔۔!! 

"میں چاہوں تو میں بھی تمہیں ویسے ہی تڑپا سکتا ہوں ۔۔۔۔

وہ گرجدار آواز میں بولا۔۔۔۔تو چاہت نے چونک کر اسکی جانب حیرت انگیز نظروں سے دیکھا۔۔۔۔

"جس طرح تم نے مجھے میری اولاد سے دور رکھا ۔۔۔میں بھی اسے اپنے ساتھ لے جاؤں اور تمہیں اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے تڑپاوں ۔۔۔۔

وہ غصیلی کرخت آواز میں بولا۔۔۔۔۔

اس کی آخری بات پہ چاہت نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا۔۔۔

اسکی نیلی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔۔۔۔

"مگر میں ایسا کروں گا نہیں ۔۔۔۔کیوں کہ میں تمہاری طرح خود غرض نہیں ۔۔۔۔جسے اپنی انا عزیز سے اور کچھ نہیں  ۔۔۔۔

"تم نے اپنے انا کے پرچم کو سربلند کرنے کے لیے اپنے جذبات کی قربانی دی ،اپنے بیٹے کے احساسات کو کچل دیا ۔۔۔۔

"مگر میں یارم بلوچ ہوں جسے اپنی محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں ،

"سمجھی تم ؟؟؟۔۔۔!!!!!

"ٹھیک کہا ۔۔۔ 

"ہاں میں بدل گئی ہوں ۔۔۔!

"کیونکہ مجھے اب کسی سے بھیک میں محبت نہیں چاہیے ۔۔۔ 

"نا توجہ حاصل کر کہ اس کی بھیک میں ملے چند لمحوں کے سِکّے ۔۔۔۔ 

"سچ کہا ۔۔۔!!!

"میں پتھر کی ہوچکی ہوں ۔۔۔

"مگر مجھے پتھر بنانے میں بھی آپ کا کمال ہے ۔۔۔۔"

وہ زخمی سا مسکرائی ۔۔۔۔

"میں اکیلے گُھٹ گُھٹ کر روتے ہوئے تھک گئی ہوں ۔دل کرتا ہے چیخ چیخ کر روؤں۔۔۔ 

"اتنا چیخ کر رووں کے آواز تمہارے کانوں کے پردے پھاڑ دے ۔۔۔۔

"جیسے تم نے میرے بھائی کو مجھ سے چھین کر مجھ پہ ظلم کیا ہے ۔۔  

"میری چیخیں تمہیں کبھی چین نا لینے دیں ۔۔  

تمہارا دل بھی اسی طرح روئے جس طرح میں روتی ہوں "

وہ کرب زدہ آواز میں غرائی۔۔۔۔۔

"اوہ تو اسکو سچ پتہ چل چکا تھا تبھی اس نے یہ قدم اٹھایا"

یارم بلوچ کے دماغ میں جھماکا سا ہوا وہ حیرت میں مبتلا ہوا ۔۔۔مگر جلد ہی ساری سچوئیشن کا سامنا کرنے کے لیے خود کو سنبھال چکا تھا ۔۔۔۔۔

"ہاں ۔۔۔!!!!  میں مانتا ہوں ،

"مجھ سے غلطی ہوئی ،میں نے وہ سب ارادتاً نہیں کیا تھا ،

انجانے میں سب ہوا ۔۔ 

میں ہوش میں نہیں تھا ،وہ صرف ایک حادثہ تھا ۔

اور حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا ۔۔۔

میں گر چاہتا تو اسے وہیں چھوڑ کر جا سکتا تھا ،مگر میرے ضمیر نے مجھے ایسا نہیں کرنے دیا ۔۔۔

اسے اسکی آخری آرام گاہ پہنچایا اسکی ذمہ داریوں کو نبھایا ۔۔۔۔۔

خدا سے اپنے کیے کی سچے دل سے معافی مانگی ۔۔۔۔

"اب یہ معاملہ میرے اور میرے خدا کے درمیان کا معاملہ ہے ۔۔

"وہ چاہے مجھے میرے کیے کی سزا دے یا نہ دے ۔۔۔ 

"تم کون ہوتی ہو میری سزا کا تعین کرنے والی ۔۔۔۔"؟

وہ دو قدم اسکے قریب ہوا ۔۔۔

اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے کرخت آواز میں بولا۔۔۔

چاہت اسکے انداز و اطوار پہ سہم کر رہ گئی ۔۔۔۔

براق ان دونوں کو اونچی آواز میں ایک دوسرے سے بات کرتے دیکھ رونا شروع ہوگیا تو یارم نے اسے گود سے نیچے اتار دیا ۔۔۔۔

وہ روتے ہوئے اندر کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔

دونوں نے اسے جاتا ہوا دیکھا ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ چاہت اسکے پیچھے اندر بڑھ جاتی یارم نے اسکی کلائی پر گرفت جمائے اسے واپس کھینچ لیا ۔۔۔۔

"تم مجھے اپنا دیوانہ بناکر وہاں تنہائیوں کا عذاب جھیلنے کے لیے چھوڑ آئی ۔۔۔۔

"تم نے مجھے ہلکے میں لیا مسسز چاہت یارم بلوچ ۔۔۔۔۔

وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اسکے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے ہوئے شدت پسند انداز میں بولا ۔۔۔

"تم نے صرف میرا پیار دیکھا ہے ۔۔۔جب اپنے لیے جنون اور شدت دیکھو گی تو سمجھو گی ۔۔۔کیسے میں نے تمہارے بنا راتیں جاگ کر گزاریں ہیں ۔۔۔کیسے نارسائی کا عذاب جھیلا ہے ۔۔۔۔؟

ابھی یارم بلوچ کے احمریں لب اسکے ہونٹوں سے ہلکا سا مس ہوئے تو گویا اسکے وجود میں کرنٹ سا لگا ۔۔۔۔

"دور ہٹیں مجھ سے "

چاہت جو اچانک پھر سے اسکی جسارت پہ حیران ہوئی تھی ۔۔۔خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔

"مسسز دور رہتے رہتے تھکی نہیں آپ ۔۔۔؟؟؟

"جو پھر سے دوریوں کی باتیں ۔۔۔۔!!!

یارم بلوچ اسکے خوفزدہ چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔

"کیونکہ اب میں ان دوریوں کو سمیٹنا نہیں چاہتی ۔۔۔

"زہر لگتے ہیں آپ مجھے "

وہ تلخ انداز میں کہتے ہوئے چہرے کا رخ موڑ گئی ۔۔ 

اسکے انداز پہ یارم بلوچ کے لبوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔

"یہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر کہیں۔۔۔۔وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔۔

تو چاہت کا دل یکبارگی سے دھڑکا ۔۔۔ مگر وہ گستاخ دل کو ڈپٹ کر سلانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔۔۔

"چلیں آپکی مشکل میں آسان کردیتا ہوں ۔۔۔۔میں بتاتا ہوں کہ اب ایک لمحہ بھی آپ کے بغیر گزارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔ 

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا ۔۔۔ 

"چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر ۔۔۔ خدا کے لیے !!

وہ سخت گلوگیر لہجے میں گویا ہوئی اور دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ کر بولی ۔۔ 

"چھوڑ ہی تو نہیں سکتا مسسز یہی تو مسلہ ہے "

یارم بلوچ کی بات پہ چاہت نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا ،کھڑے مغرور تیکھے نقوش کا حامل ،صبیح پیشانی پہ بکھرے بال،ہمہ وقت سرد تاثرات والی سرمئی غضب ناک  آنکھوں میں سے اس وقت  پھوٹتے شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔بلاشبہ وہ شخص کسی کو بھی اپنا اسیر بنانے کا ہنر رکھتا تھا ،

چاہت نے اسے خود کی طرف تکتا پا کر فورا نظریں جھکائیں ۔۔۔۔اسکا دل زوروں سے دھڑکنے لگا۔۔۔

چاہت کو ابھی بھی اس پر بہت غصہ تھا. اُس کا استحقاق بھرا انداز اور قریب آنا اُس کی دھڑکنیں بے ترتیب کرنے کے ساتھ ساتھ مزید طیش دلا گیا تھا. اُس نے یارم بلوچ کے سینے پر ہاتھ رکھتے پیچھے کی جانب دھکیلنا چاہا تھا.

" یارم بلوچ مجھے اب وہ پہلے والی بزدل اور معصوم لڑکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا. جو تمہاری پرسنالٹی سے امپریس ہوکر تم پر فدا ہو جائے گی ۔۔۔.  

"مجھے میرے بھائی آتش نے اپنے حق کے لیے لڑنا اچھے سے سکھا دیا ہے ۔۔۔۔ اب کوئی مجھ سے زبردستی نہیں کرسکتا."

چاہت  اُس کی گہری تپش ذدہ نظروں سے گھائل نہیں ہونا چاہتی تھی. اِس لیے چیختے چلاتے اُسے خود سے دور رکھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی.

"اوہ تمہارا بھائی آتش ؟؟؟

وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔

"تو مس بہادر ۔۔۔!!!! آنے دو اپنے اس جانباز بھائی کو ۔۔۔۔۔!!!!

"آج تو سمجھو تمہارا بھائی "آتش بلوچ "تو گیا میرے ہاتھوں سے ۔۔۔!!!

وہ برفیلے لہجے میں بولا تو چاہت نے پلکیں جھپکائے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔۔

"ن۔۔۔ن۔۔۔نہیں۔ ایسا  ۔۔۔۔کچھ نہیں کہیں گے آپ انہیں ۔۔۔۔۔"

وہ اسے آتش بلوچ کے ساتھ اسکی وجہ سے جھگڑا کرتے دیکھنا کبھی برداشت نہیں کرسکتی تھی تبھی بولی ۔۔۔

"اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اسے ایسا کچھ نہیں کہوں گا "

وہ بھی تمہارے کہنے پر "؟

 یارم بلوچ اُس کے اردگرد بازو جمائے آرام سکون سے کھڑا اُس اسکے خفگی بھرے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیے ہوئے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں بولا تھا ۔۔

اس کے غصے کی شدت سے دہکتے گلابی رخسار دیکھ کر یارم بلوچ کے دل میں اک خواہش جاگی ۔۔۔

اس نے دل کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئےزرا سا جھک کر باری باری اسکے گلابی گالوں پر ہونٹ رکھتے چاہت کو ٹھٹھرنے پہ مجبور کردیا تھا ۔۔۔۔

"کس حق سے آپ میرے قریب آئے ہیں ۔۔۔۔!۔۔۔؟

"نہیں رکھنا مجھے کوئی بھی تعلق آپ سے ۔۔۔۔

"Don't touch me again"

"Understand۔۔۔۔!!!!

وہ دانت کچکچا کر وارننگ دینے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

" حق کی تو بات ہی مت کریں مسسز ۔۔۔۔حق لینے پہ آیا تو یہاں کھڑے کھڑے ایسا حق وصول لوں گا کہ دوبارہ حق کا نعرہ لگانے کی بجائے چہرہ چھپاتی پھریں گی ۔۔۔۔۔جب آپ میری دسترس میں تھیں ،توپہلے بھی کبھی زبرستی  نہیں کی تھی میں نے ۔۔۔۔لیکن اس بار آپ خود مجھے اپنے ساتھ زبردستی کرنے پہ مجبور کر رہی ہیں  "

وہ چاہت کے گالوں کی نرمائی اپنی پوروں سے چھوتا اس کے اشتعال کو مزید ہوا دے گیا ۔۔۔۔

"لگتا ہے ان سالوں میں بالکل پاگل ہوچکے ہیں . میں نے جب کہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی تو تمہیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آتی. مجھے ابھی اور اِسی وقت تم سے طلاق چاہئے."

وہ اس کے حقوق و فرائض کے لیکچر سے تنگ آکر غصے سے چیختے ہوئے بولی. 

یارم جو کب سے اسے اپنی محبت سے رام کرنا چاہتا تھا ،اس کی آخری مانگ سن کر تو جیسے اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔۔۔آنکھوں میں سے شرارے پھوٹنے لگے ۔۔۔

اس نے چاہت کی کمر میں بازو حمائل کرتے اُسے ایک جھٹکے سے اپنے قریب کیا تھا. اتنا کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پہ محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔۔

چاہت کے جسم میں بجلی سی کوندی ۔۔۔۔

یارم بلوچ کی سرمئی آنکھوں میں سرخ ڈورے اسکے غصے کی نشاندھی کر رہے تھے ۔۔۔۔۔

 اُس کی شدت بھری گرفت پہ چاہت کا دل اچھل کر حلق میں اٹک گیا۔۔۔۔

وہ رہا سہا فاصلہ سمیٹ کر اسکی سانسوں کو الجھا گیا ۔۔۔۔۔وہ تو اسکی جنونیت پہ پھڑپھڑا کر رہ گئی ۔۔۔۔چند لمحے یونہی خاموشی سے سِرک گئے ۔۔۔۔

" یہ لفظ پہلی اور آخری بار اِن ہونٹوں سے نکلا ہے. اگر دوبارہ ان الفاظ نے تمہارے ہونٹوں سے نکلنے کی جسارت کی تو میری جسارتوں کو سہنا تمہارے بس کی بات نہیں رہے گی."

"Got it????

"Mrs, Chahat Yaram  Bloach."

 اس نے سخت لہجے میں کہتے ہوئے چاہت کو اپنے بازوؤں میں اُٹھا لیا تھا. اور اندر کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔چاہت کا دل اُس کی اِس حرکت پر اُچھل کر حلق میں آن پہنچا تھا. 

"چھوڑو مجھے ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔اندر سب ہیں "

وہ اسے بعض رکھ رہی تھی سب کی موجودگی کے خیال سے ۔۔۔۔۔

"تمہاری ساسو ماں اپنے پوتے کی تڑپ میں ادھر آئیں ۔۔۔۔انہیں کیا پتہ کہ ان کی بڑی بہو ان کی یہ خواہش پہلے ہی پوری کیے اِس بِل میں چھپی بیٹھی ہے ۔۔۔۔انکی بہو کا سپیشل طریقے سے دیدار کروانے جا رہا ہوں انہیں "

وہ کہتے ہوئے مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔۔

چاہت  کا دماغ بالکل گھوم چکا تھا.یارم بلوچ جیسے اپنی مرضی کرنے والے اُلٹی کھوپڑی کے مالک شخص کو سنبھالنا اور سمجھنا واقعی اس کے بس سے باہر تھا.

" میں کہہ رہی ہوں ۔۔۔چھوڑو مجھے یہ بیہودہ انسان ."

چاہت دانت پیستے چلائی تھی. مگر دوسری جانب اثر کس کو تھا. وہ بھی ڈھیٹ ابن ڈھیٹ ثابت ہوا تھا۔

" ابھی بیہودگی دیکھی کہاں ہے آپ نے ہماری ! مسسز ۔۔۔۔رات کو دکھاؤں گا اکیلے میں ۔۔۔یا پھر سیدھا روم میں ہی لے چلوں ؟."

یارم بلوچ نے اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب کیے سرگوشی نما آواز میں کہتے جھک کر اسکے کان کی لو پہ دانت گاڑھے ۔۔۔۔۔

 وہ سسک کر اُس کی ایک اور گستاخی پر جی جان سے سُلگ اُٹھی تھی.

وہ بھی اپنی بات کا پکا تھا جو کہتا تھا کر کہ رہتا تھا ۔اور آج بھی اس نے وہی کیا ۔۔۔۔

اسے اٹھائے ہوئے جیسے ہی اندر داخل ہوا ۔۔۔۔

زرش بلوچ۔۔۔۔اپنی جگہ سے اٹھی چاہت کو اچانک سامنے دیکھ کر ۔۔۔۔۔

زرش بلوچ جو سامنے صوفے پہ سسی کے ساتھ بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ چاہت کو یارم کے بازوؤں میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔۔

یارم نے چاہت کو زرش بلوچ کے پاس لے جا کر کھڑا کردیا ۔۔۔۔

"لیجیے ماں سا اپنی بہو سے ملیے "

وہ مسکرا کر بولا۔۔۔

اس کی مسکراہٹ پہ چاہت نے دانت کچکچا کر اسے گھوری سے نوازا۔۔۔۔

وہ نارمل انداز میں جاکر خالی صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے اپنے شاہانہ انداز میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔

اور سیگریٹ نکال کر لبوں میں دبائی ۔۔۔۔۔

پھر اسے جلا کر ایک لمبا کش لے کر ہوا میں اچھال دیا ۔۔۔۔

"اسلام وعلیکم ممی "!

اس نے نظریں ملائے بنا انہیں سامنے دیکھ کر سلام کیا ۔۔۔۔

"مت بولو مجھے اپنی ممی ۔۔۔۔اگر تم مجھے اپنی ممی سمجھتی تو بنا بتائے مجھے یوں چھوڑ جاتی ۔۔۔۔

انہوں نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

وہ دونوں کی حالت کا حذ اٹھا کر سیگریٹ کا مرغولہ بناتے ہوئے انہیں ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت نا چاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔

"جان بوجھ کر میرے سامنے سیگریٹ پیتے ہیں ۔۔۔پتہ ہے نا میری کمزوری ہے انہیں ایسے کرتے دیکھنا ۔۔۔۔

وہ چور نگاہوں سے اسے دیکھتے منہ میں بڑبڑائی ۔۔

یارم بلوچ کے لبوں پہ مسلسل مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔

آتش بلوچ جو احد سے ایک میٹنگ کے کچھ پوائنٹس ڈسکس کرنے گیا تھا راستے میں زبیدہ کو آتے دیکھا تو اپنے ساتھ گاڑی میں لے آیا ۔۔۔اب وہ دونوں ایک ساتھ گھر داخل ہوئے ۔۔۔۔

سامنے صوفے پہ بیٹھے یارم بلوچ کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پوری کی پوری کھل گئیں۔۔۔۔

براق پردے کے پیچھے بال چھپائے کھڑا تھا ۔وہ اپنی طرف سے چاہت کے ساتھ ہائیڈ اینڈ سیک کھیل رہا تھا ۔

یارم بلوچ نے اسے اندر داخل ہوتے دیکھا تو اپنی جگہ سے اٹھ کر جارہانہ انداز میں تیزی سے اسکی طرف بڑھا ۔۔۔۔

"میری بیوی کو مجھ سے دور رکھنے کی سزا "

یارم بلوچ نے اسکے پاس پہنچ کر غراتے ہوئے ایک زوردار پنچ اسکے جبڑے پہ مارا ۔۔۔

آتش کا چہرہ اس اچانک پڑی افتاد پہ جھنجھجنا اٹھا ۔۔۔۔

پل بھر کے لیے تو وہ کچھ سمجھ نہیں سکا ۔۔۔مگر جلد ہی حواسوں میں لوٹ کر معذرت خواہانہ انداز میں بولا 

"Sorry Bhai "

"وہ میں نے اپنی بہن سے وعدہ کیا تھا نا بتانے کا "

وہ جبڑے کو اپنی انگلیوں سے مسلتے ہوئے بولا ۔۔۔

"تین سال پہلے بنی بہن کا وعدہ نبھانا یاد رہا تھا ؟؟؟

"تیرا تڑپتا ہوا بھائی تیرے لیے کچھ نہیں ؟؟؟

یارم بلوچ کو تاؤ چڑھا۔اب وہ اس کے ہاتھ سے نہیں بچ سکتا تھا۔اس نے مٹھی زور سے بھینچی اور اپنا پورا زور لگا کر پھر سےاس کے ناک پر مکا دے مارا۔۔آتش بلوچ جانتا تھا وہ اپنے بھائی کا قصوروار تھا تبھی مار کھا رہا تھا ۔تاکہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے ۔۔۔۔

زبیدہ اور سسی کے ساتھ ساتھ چاہت بھی ہونق بنی فق نگاہوں سے یارم بلوچ سے اس کو مار کھاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔مگر آگے بڑھ کر اسے کچھ کہنے کی کسی میں بھی ہمت نہیں تھی ۔۔۔۔۔ 

"اور یہ میری بیوی کو مجھ سے اتنے سالوں چھپا کر رکھنے کے لیے ۔۔۔۔"

ابھی وہ ہاتھ ناک پر رکھ کر کراہا ہی تھا کہ ۔۔۔۔

پیٹ میں پڑنے والے مکے نے اسے مزید کراہنے پر مجبور کر دیا تھا۔

"معافی مانگ تو رہا ہوں "

وہ مسکرا کر بولا تو یارم بلوچ کے غصے کا گراف مزید ہائی ہوا ۔۔۔۔۔

"مار ِاس میسنے کو میری طرف سے بھی ایک ۔۔۔اپنی ماں سے بھی چھپایا اس نے "

زرش بلوچ بھی کاٹ دار نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔

اب کے بار یارم بلوچ کا پنچ آتش بلوچ نے اپنی کلائی پر روکا جو اس کے پیٹ پر پڑنے والا تھا۔

لیکن اگلے ہی پل یارم بلوچ نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کے اسے پشت سے اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔۔

"ما "۔۔۔۔!!!!!

براق جو پردے کے پیچھے چھپا ہوا تھا آتش بلوچ کو مار پڑتے دیکھ کر فورا پردے کی اوٹ سے باہر نکلا ۔۔۔۔اور ہاتھ میں موجود بال اٹھا کر یارم بلوچ کو مارنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔

اس ننھے میاں کے غصیلے تیوروں سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ اگر یارم نے آتش بلوچ کو اب مارا تو براق اسے بال مار دے گا ۔۔۔۔

وہ یارم بلوچ کو غصے سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

"اور یہ میری ہی اولاد کو میرے خلاف بھڑکانے کے لیے "

یارم بلوچ نے آخری مکا اسکی پسلیوں میں دے مارا ۔۔۔۔

آتش درد سے بلبلاتے ہوئے اسکی گرفت سے آزاد ہوا ۔۔۔اور نیچے جھک کر ننھے براق کو اپنی گود میں لے کر چٹاچٹ چوم ڈالا ۔۔۔۔

"قربان جائے چاچو پلس ماموں اپنی جان پہ ۔۔۔۔۔

"کیا شاندار اینٹری ماری ہے ۔۔۔ میرے شہزادے نے "

آتش بلوچ نے ہنستے ہوئے سامنے کھڑے تلملاتے ہوئے یارم بلوچ کو دیکھا ۔۔۔۔۔اور ابرو اچکا کر شرارتی انداز میں آنکھ ونگ کرتے ہوئے اسے چڑایا ۔۔۔۔۔

"ادھر دے میرا بیٹا "

یارم بلوچ نے براق کو آتش کی گود سے لے کر اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔۔اسے سینے سے لگاتے ہی یارم بلوچ کے جسم میں طمانیت بھری لہر دوڑ گئی ۔۔۔۔

مگر براق صاحب نے یارم کے سینے پہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے مکے برسانے شروع کر دئیے ۔۔۔۔اور رونے لگا 

جس کا یارم بلوچ جیسے مضبوط مرد کے جسم پہ کوئی خاص اثر نہیں ہوا ۔۔۔

"بڑا شوق ہے نا تجھے سالا بننے کا ۔۔۔تو بتاو ۔۔۔سالے صاحب ۔۔۔۔!!!!

"میرا بیٹا چپ کیسے کرے گا ؟

اس نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے آتش سے پوچھا ۔

"یہ لیں ،آپکے لٹل ماسٹر کی ٹیپ ریکارڈر کا سٹاپ بٹن "

آتش بلوچ نے اپنی پاکٹ میں سے ڈیری ملک نکال کر یارم بلوچ کی طرف اچھالی ۔۔۔۔وہ ہمہ وقت اپنی پاکٹ میں اسکے لیے رکھتا تھا ۔۔۔۔

جسے یارم بلوچ نے مہارت سے کیچ کرلیا ۔۔۔اور کھول کر براق کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔

"یہ لو میری جان "!

چاکلیٹ دیکھ کر براق کی آنکھوں میں آنسووں کے ساتھ ساتھ اب چمک ابھر آئی ۔۔۔

براق کا رونا پل بھر میں تھم گیا ۔۔۔۔وہ رونا بھول کر چاکلیٹ کی طرف متوجہ ہوگیا ۔۔۔۔۔

"سالے صاحب ۔۔!!!

جیسے آپ نے میری بیوی کو مجھ سے دور رکھا اب میں اور ماں سا تیری بیوی کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے تو سنبھالتا رہنا یہاں اکیلے اپنا بزنس ۔۔۔۔۔"

یارم بلوچ نے اسے تپانے کے لیے کہا ۔۔۔۔۔

"بھاڑ میں جھونک دوں گا ایسا بزنس جو مجھے میری شہزادی سے دور کرےگا ۔۔۔۔

"جہاں میری ملکہ دل میں بھی اسکے پیچھے پیچھے "

وہ یارم بلوچ کی بات پہ جلنے کڑھنے کی بجائے ۔۔۔۔ہنستے ہوئے آسان سا حل پیش کرکہ اسے لاجواب کر گیا ۔۔۔۔۔

"دیکھ کیسے بیویوں کے پیارے ہیں میرے بیٹے ۔۔۔۔پھر بھی ذرا سا بھی خیال نہیں ان کی بیویوں کا ان کا "

زرش بلوچ نے ماتھے پر بل ڈالے خفگی بھرے انداز میں کہا ۔۔۔۔

چاہت ان کے پاس سر جھکائے خاموش کھڑی تھی ۔۔۔

"یہ لیں ماں سا آپ کا پوتا جس کے لیے آپ کب سے تمنا کر رہی تھیں ۔آپ کی بہو اسے چھپائے بیٹھیں تھی۔۔۔۔یارم نے براق کو زرش بلوچ کی گود میں دیا ۔۔۔۔

اس  سرخ و سفید رنگت والے نیلی آنکھوں،اور ستواں ناک والے پیارے سے بچے کو زرش بلوچ نے جاں نثار نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ان کی انھیں فرط مسرت سے بھیگنے لگیں ۔۔۔۔

انہوں نے ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اس کے پھولے ہوئے گال کو چھو کر جی بھر کر دیکھا ۔۔۔۔

پھر اسکی پیشانی پہ بکھرے سیاہ بالوں کو پوروں سے پیچھے کیے اس پہ محبت بھرا بوسہ دیا ۔۔۔۔۔

اور اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔۔

براق بہت خوش مزاج بچہ تھا ،ہر کسی سے جلدی گھل مل جاتا تھا ۔اس لیے اس نے زرش بلوچ کو دیکھ کر زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کیا۔۔۔۔

"لائیں اسے مجھے بھی دیں "

یارم اسے اپنی گود میں لے کر ابھی صوفے پہ بیٹھا ہی تھا کہ ۔۔۔۔۔اسے کچھ گرم گرم اور کچھ گیلا سا محسوس ہوا ۔۔۔۔

اس نے تشویش بھرے انداز میں نیچے دیکھا ۔۔۔۔جہاں اسکے سارے کپڑے گیلے ہوچکے تھے ۔۔۔۔

"ہا۔۔۔ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔

آتش بلوچ نے جاندار قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔

جبکہ یارم بلوچ تو ابھی تک سکتے کی حالت میں تھا ۔۔۔۔اسے امید نہیں تھی کہ کبھی اس طرح کا حادثہ بھی پیش آسکتا تھا اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔

"سوری ۔۔۔۔وہ میں نے آج براق کو ڈائیپر نہیں لگایا ۔۔۔۔

اسے زیادہ ڈائیپر لگانے سے ریشز ہوجاتی ہیں ",

چاہت نے نچلا ہونٹ دانتوں سے چباتے ہوئے پشیمانی سے کہا ۔۔۔۔ 

"بڑا شوق تھا نا بابا بننے کا ۔۔۔اب پہلی سیڑھی پہ چڑھنے سے پہلے ہی پھسل گئے ۔۔۔۔تمہارے جیٹھ سا "۔۔۔!!!!

آتش بلوچ کے پاس سسی پہنچ چکی تھی اور اپنے دوپٹے کے پلو سے اسکا چہرہ صاف کر رہی تھی ۔۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اسے مزید اپنا چہرہ صاف کرنے سے روک گیا ۔۔۔۔

"بھائی آپ میرے روم سے چینج کر لیں "

آتش بلوچ نے یارم سے کہا تو وہ بھی اٹھ کر اسکے بتائے گئے کمرے کی طرف دیکھنے لگا ۔۔

"جاؤ کھانے کا انتظام کرو۔۔۔یا رکو سسی میں بھی تمہاری ہیلپ کرواتا ہوں  "۔

"نہیں داماد سا آپ بیٹھیں میں سسی کے ساتھ کھانا بناتی ہوں ۔۔۔۔

"نہیں آپ تھک گئی ہوں گی آپ کچھ دیر آرام کرلیں دوائی لے کر "

آتش نے انہیں شگفتگی سے کہا 

۔۔۔۔کیونکہ وہاں  چاہت ، اور زرش بلوچ تھے ۔۔۔۔ان کے ساتھ بیٹھنا زبیدہ کو ٹھیک نہیں لگا ۔۔۔۔اس کے لیے اتنا ہی بہت تھا کہ زرش بلوچ نے ان کی بیٹی کو بہو کا رتبہ دیا تھا ۔۔۔اب ان اعلی نسب والوں کے ساتھ بیٹھنا زبیدہ کو ٹھیک نہیں لگا ۔۔۔۔

"لائیں اسے مجھے دیں میں اسے کپڑے بدلوا دوں ۔۔۔۔زبیدہ نے براق کو یارم کی گود سے لے لیا اور اس کے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔تو یارم بھی آتش کے بتائے ہوئے کمرے میں چینج کرنے کے لیے بڑھ گیا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

رات کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا ساری حویلی اس وقت نیند میں ڈوبی ہوئی تھی چاروں پہر اندھیرے اور سناٹے کا راج تھا ۔۔۔۔ اسی وقت کسی کی پراسرار آنکھیں چاروں طرف گھوم کر اس گھر کا جائزہ لے رہی تھیں۔

وہ جو بھی تھا سیاہ لباس میں ملبوس تھا ۔۔۔۔ اس نے نیچے کھڑے ہوکر ایک نظر فرسٹ فلور کی کھلی ہوئی کھڑکی پہ ڈالی اور اگلے ہی پل بنا آواز پیدا کیے اس نے لکڑی کی سیڑھی اٹھائی اور کھڑکی کے ساتھ جانے والی دیوار کے ساتھ لگائی ۔۔۔۔

اب وہ آہستگی سے مضبوط قدم جماتے ہوئے لکڑی کی  سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔۔۔۔

کھڑکی کے پاس جاکر وہ بنا کسی بھی قسم کی آہٹ پیدا کئے کمرے میں کود گیا۔

وہ چند لمحوں میں اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔۔۔

کمرہ موسم کے مطابق کافی گرم تھا ہیٹر کی وجہ سے ورنہ باہر تو ہر طرف ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔اس نے دیکھا اس کی دونوں ننھی پریاں  سامنے ہی بے بی کاٹ میں گلابی کمبل سینے تک اوڑھے دنیا جہان سے بے خبر محو استراحت تھیں۔

جبکہ ھادیہ جو ابھی آس اور آویزہ کو سلا کر اپنی جگہ پہ لیٹی ہی تھی ۔۔۔۔اور سونے کی کوشش کر رہی تھی ۔کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔مگر ڈر کے باعث آنکھیں نہیں کھول پا رہی تھی ۔۔۔۔

ھاد نے دیکھا ۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔

نائٹ بلب کی روشنی میں اس کا چہرہ واضح نظر آرہا  تھا

پلکیں ہولے ہولے لرز رہی تھیں ۔

وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آ رکا ، وہ بلکل اس کی آنکھوں کے سامنے تھی جس کے لئے وہ آیا تھا ۔۔۔۔

"آپ کب آئے "؟

ھادیہ نے اسکے مخصوص کلون کی مہک کو محسوس کیا تو جھٹ آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔

"اور یہاں کیسے پہنچے "؟

اس نے اندر سے بند دروازے کو دیکھ کر حیرانگی سے اس سے پوچھا ۔۔۔۔

"آپ تو میکے آ کر اپنے معصوم سے شوہر کو بھول ہی گئیں ۔۔۔۔تو میں نے سوچا کیوں نا ۔۔۔۔زرا شادی سے پہلے چھپ چھپ کر ملنے والا رومینس ۔۔۔۔کرنے کی حسرت دل میں لیے ہی نا رہ جائیں ۔۔۔۔تبھی چلے آئے ۔۔۔۔اپنی گرل فرینڈ سے چھپ چھپ کر ملنے "

وہ اپنی پوروں سے اسکی ستواں ناک دبا کر شرارت سے بولا ۔۔۔۔۔

"اوہ ۔۔۔۔!!! تو میرا بوائے فرینڈ ملنے آیا ہے مجھ سے "؟

وہ مسکرائی۔ ۔۔۔۔

"جی بالکل ۔۔۔۔"

وہ اسکی شہ رگ سہلانے لگا۔۔۔

"میرا شوہر نا بڑا ظالم ہے ۔۔۔۔اس نے مجھے آپکے ساتھ دیکھ لیا تو نجانے کیا کر ڈالے ۔۔۔۔

ھادیہ چہرے پہ پریشان کن تاثرات سجائے بولی ۔۔۔۔

"بھول جاؤ شوہر کو بس یہ یاد رکھو تمہارا دیوانہ تمہیں کھڑکی سے کود کو ملنے آیا ہے اس کی کوئی خاطر مدارت کرو سویٹ ہارٹ "

وہ لبوں کو فوکس کیے بولا ۔۔۔۔

"کہیے کیسی خاطر کروں "؟

ھادیہ مسکراتی ہوئی اس کی  آنکھوں میں دیکھتی دھیمی آواز میں آہستگی سے بول رہی تھی اور ساتھ ساتھ ھاد بلوچ کے چہرے پر اپنی نرم و نازک انگلیاں پھیر رہی تھی

" ہائے ۔۔۔بلوچن سائیں سنا ہے سسرال کے کمبل میں ٹھنڈ نہیں لگتی ۔۔۔اتنی سردی میں ملنے آیا ہوں ۔۔۔تھوڑی سی جگہ چاہیے اس کمبل میں  ۔۔ "

"انگلی کیا پکڑائی آپ تو بازو کھینچ کر  واقعی کمبل ہوتے جا رہے ہیں" 

ھاد بلوچ ۔۔۔ھادیہ کا نازک سا  ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگاتا ہوا لہجے میں بےحد محبت لیے بول رہا تھا ۔۔۔ اپنے چہرے  پر اس کی انگلیوں کا نرم لمس اسے بہکا رہا تھا ھادیہ کے یوں چھونے کی یہ عادت اسے بہت بھاتی تھی

"اگر بیوی خوبصورت ہونے کے ساتھ شرارتی بھی ہو تو اس سے محبت نہیں عشق ہوجاتا ہے ۔۔۔بلوچن سائیں ۔۔۔!!!!

اپنی نگاہیں ہنوز ھاد کی آنکھوں میں گاڑھے  وہ ابھی بھی ھاد بلوچ کے چہرے  پر ہاتھ پھیر رہی تھی جبکہ ھاد اس کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتا محبت بھرے انداز میں بول رہا تھا ۔

پھر بے اختیار اس کے گلابی لبوں پر جھکا کئی لمحے یوں ہی سرکے تھے اب وہ اپنے لب ھادیہ کی گردن پر رکھ چکا تھا جبکہ ھادیہ اس کے والہانہ انداز پر سختی سے اپنی آنکھیں بند چکی تھی۔۔ دونوں کی ہی دھڑکنوں میں ارتعاش برپا تھا

موج نسیم ،خوشبوئے گل ،مستی بہار ،

ہر چیز ملتی ہے تیری گردن کے آس پاس،

وہ اسکی گردن پہ جھکا اسے اپنے لمس اے مہکانے لگا ۔۔۔۔

"کتنی سردی ہے نا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں تو آؤ ایک دوسرے کو اوڑھ لیں ہم "

پے در پے وہ جسارتیں کرتا ہوا اسے اپنے حصار میں لے گیا اور خمار آلود آواز میں اسکے کان کے قریب سرگوشیاں کر رہا تھا ۔۔۔۔ جبکہ ھادیہ اس کی باتیں سن کر مزید خود میں سمٹ گئی تھی آنکھیں ہنوز اس نے میچی ہوئی تھی ۔ 

" پپ پلیز ۔۔۔ !!"

آنکھیں موندے وہ منمنائی تھی جب کہ ھاد بلوچ اس کے سرخ چہرے کو ایک نظر دیکھتا اپنے امڈتے جذبات پر قابو نہیں پا سکا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سسی اور آتش بلوچ دونوں کچن میں تھے ۔۔۔۔

"ایسا کرتا ہوں باہر سے کچھ آرڈر کردیتا ہوں "

اس نے پاکٹ سے موبائل نکال کر کہا ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔۔پہلی بار ماں سا ہمارے گھر آئیں ہیں باہر کا کھانا منگوائیں گے تو انہیں اچھا نہیں لگے گا ۔۔۔میں بناتی ہوں نا جلدی سے ۔۔۔۔"

اس نے جلدی سے چاول نکال کر انہیں بھگوتے ہوئے کہا ۔۔۔

"ڈاکٹر نے کہا تھا کہ تمہیں اپنا خیال رکھنا ہے ۔ریسٹ کرنا ہے ۔اور ۔۔۔۔۔

"بس۔۔۔ بس ۔۔۔کر لوں گی ریسٹ بھی ۔۔۔۔آپ اتنی فکر مت کریں "

وہ فریج میں سےچکن نکال کر سلیب پہ رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔

آتش بلوچ جو شرٹ کے کف فولڈ کیے اسکی طرف آرہا تھا ۔۔۔۔اسے پشت سے اپنی بانہوں میں بھر کر اسکے شانے پہ اپنی تھوڑی ٹکائے سرگوشی نما آواز میں بولا

"آپ کی فکر نہیں کریں گے تو اور کس کی کریں گے "

سسی کا چہرہ کچھ چولہے کی تمازت سے اور کچھ اسکی قربت پہ دہک کر اناری ہوا ۔۔۔۔

آتش نے نرمی سے اسکے مخملیں رخساروں کو اپنے لمس سے مہکایا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔یہ میری مدد کروا رہے ہیں ؟"

سسی چہرہ موڑ کر روہانسی آواز میں بولی ۔۔۔۔ایسا کرتے ہوئے اسکے لب اپنے آپ آتش بلوچ کی بئیرڈ کو ہلکا سا چھو گئے ۔۔۔۔۔

وہ شرم سے پانی پانی ہوئی اور نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

"اب آپ خود ہی ایسا کریں گی تو کیسے کام چلے گا "

وہ شرارتی نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے ذومعنی انداز میں بولا۔۔۔۔

"آپ یہاں سے جائیں گے تو سارا کام ہو جائے گا "

اس نے آتش بلوچ کی طرف دیکھے بنا اسے باہر کی طرف دھکیلا ۔۔۔۔

"بیٹھو یہاں "

زرش بلوچ نے چپ چاپ کھڑی ہوئی چاہت کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ والے صوفے ہی بٹھایا ۔۔۔۔۔

"چاہت بیٹا کیوں کیا تم نے ایسا ۔۔۔۔؟؟؟

"ایک بار مجھے بتایا تو ہوتا کہ بات کیا تھی ؟

"کس وجہ سے تم نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔۔۔۔اپنے اس شوہر کو چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔۔جس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تم نے کتنی کوششیں کیں تھیں ۔

"آپ کو پتہ نہیں ممی ۔۔۔!!!

"انہوں نے مجھ سے میرے بھائی کو چھین لیا تھا ۔۔۔اس بھائی کو جو میری زندگی تھا ۔۔۔جس نے میرے لیے کیا کیا کچھ نہیں کیا تھا ۔۔۔۔اس نے اپنے منہ سے کھانا نکال کر مجھے کھلایا ۔خود بھوکے رہے مگر میری ہر ضرورت پوری کی ۔۔۔۔مجھے ماں باپ کی کمی کبھی محسوس ہونے نہیں دی ۔۔۔۔ہماری ایک چھوٹی سی دنیا تھی ۔۔۔۔آپ کے بیٹے نے اسے اجاڑ دیا ۔۔۔۔۔ممی ۔۔۔!!!!

"آپ بتائیں اپنے بھائی کے قاتل کے ساتھ میں ایک ہی چھت تلے رہ سکتی تھی ؟؟؟؟

"کیسے معاف کردیتی میرے بھائی کا قتل انہیں "؟؟؟

"مجھے میرے بھائی سے عزیز کچھ بھی نہیں اپنا پیار بھی نہیں ۔۔۔۔۔

"کیا آپ میری جگہ ہوتیں تو معاف کر دیتی انہیں "؟

وہ انتہائی کرب زدہ آواز میں بولی اور ساتھ ساتھ زار و زار آنسو بہائے چلی جا رہی تھی ۔۔۔۔ اک مہرباں ہستی کا سہارا ملتے ہی وہ اک بار پھر سے ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔۔

اتنا بڑا انکشاف سن کر زرش بلوچ بھونچکا رہ گئیں ۔۔۔۔ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔۔۔۔۔انکی بگڑتی ہوئی صورت دیکھ کر چاہت ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

”کیا بات ہے ممی بتاٸیں نا“؟ اس نے سوالیہ نگاہوں سے زرش بلوچ کی طرف دیکھا۔

”چاہت بچے ۔! میری بات سنو ۔اسے معاف کردو “انہوں بہت سوچ بیچار کے بعد اک ہی سانس میں اپنی بات کہہ دی۔انکی بات سن کر چاہت کو بہت بڑا جھٹکا لگا تھا۔ وہ اک دم سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے دماغ کی رگیں تن گٸیں اور چہرے پر وحشت طاری ہوگٸی تھی۔

”۔میں اس کی گھر کی رونقیں واپس لانا چاہتی ہوں۔اور تمہیں پہلے کی طرح خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔اپنے گھر واپس چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔ “

انہوں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا وہ جانتی تھیں کہ وہ حق پہ تھی ۔۔۔مگر یوں اسے اس کے حال پہ تو نہیں چھوڑ دینا تھا ۔اب وہ ایک بچے کی ماں تھی ۔اپنے بچے کے لیے اور اسکی خوشیوں کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا اسے ۔۔۔۔وہ اسے یہی سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔

”لیکن ممی ! آپ بھی جانتی ہیں کہ اب میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، نفرت کرتی  ہوں میں ان سے ۔میں کیسے ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں ۔۔۔۔اپن بھائی کے موت کے ذمہ دار انسان کا نام سنتے ہی میرا خون کھولنے لگ جاتا ہے۔آپ جانتی نہیں کہ کیا کیا تھا انہوں  نے میرے بھائی کے ساتھ ۔میں نہیں بھول سکتی  وہ اذیت وہ درد پلیز ۔“ وہ بہت دکھ اور کرب سے بول رہی تھی اس کی آنکھیں سرخ ہوگٸی تھیں اس کے پرانے زخم تازہ ہوگٸے تھے جس کا درد اسکی آواز اور لہجے سے جھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔

”جانتی ہوں بیٹا۔۔! لیکن اللہ تعالیٰ بھی تو اپنے بندوں کے گناہ معاف کردیتا ہے ۔تم بھی اسے معاف کردو ۔اپنے بیٹے کے لیے ہی سہی ۔“ انہوں نے دکھی سے لہجے میں کہا۔

”سوری ممی!میں آپ کی یہ بات نہیں مان سکتی ۔آپ مجھ سے اور جو کچھ مرضی مانگ لیں ،میں دینے کو تیار ہوں۔لیکن یہ حامی نہیں بھر سکتی  میں۔“زرش بلوچ اس کے  ضدی انداز پر گنگ رہ گئی تھیں ۔۔۔ وہ تو سوچ رہی تھی کہ چاہت ان کی بات مان جاۓ گی ۔لیکن وہ غلط تھیں ۔۔۔

اچانک انکے سینے میں شدید قسم کا درد اٹھا ۔۔۔۔

وہ اپنے بازو پہ ہاتھ رکھ کر اس درد کو برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگیں ۔۔۔۔

مگر درد حد سے سوا تھا ۔۔۔۔

ان کے چہرے کی رنگت زرد پڑنے لگی ۔۔۔۔تو چاہت کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے انکی حالت دیکھ کر ۔۔۔۔۔

"بھائی ۔۔۔۔سسی ۔۔۔۔!!!!

اس نے لہرا کر صوفے پہ گرتی ہوئے زرش بلوچ کے سر کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے آتش بلوچ اور سسی کو آواز لگائی ۔۔۔۔۔

چاہت کی جھنجھلائی ہوئی پریشان کن آواز سن کر سسی اور آتش کے ساتھ ساتھ یارم بلوچ بھی کمرے سے باہر بھاگا آیا ۔۔۔۔۔

"کیا ہوا ماں سا ؟"

آتش بلوچ نے ان کا گال تھپتھپاکر کر پوچھا ۔۔۔۔

"ماں سا ؟"

یارم نے دیکھا زرش بلوچ کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں ۔۔۔۔

اس نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر انہیں اپنی مضبوط بازووں میں بھر کر باہر کی طرف دوڑ لگائی ۔۔۔۔

آتش بلوچ بھی ان کے پیچھے باہر نکالا ۔۔۔۔اور جاکر گاڑی میں بیٹھا پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔

یارم نے انہیں پچھلی سیٹ پہ لیٹاتے ہوئے ان کا سر اپنی گود میں رکھ لیا ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ ہسپتال پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔

ڈاکٹر وہاج اور ڈاکٹر زارا  کے ساتھ ساتھ رات کی ڈیوٹی والے  تمام ڈاکٹرز وہاں  موجود تھے وہ سب کے سب حرکت میں آگٸے انہوں نے زرش بلوچ کو ایمرجنسی میں لے جا کر ان کا چیک اپ شروع کردیا۔

یارم بلوچ اور آتش بلوچ دونوں  کوریڈور میں کھڑے تھے وہ دونوں ہی اپنی ماں کی حالت پہ بہت پریشان تھے۔ان دونوں  کو تو اپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔دونوں کا روم روم اپنی ماں کی صحت یابی کیلئے دعا گو تھا۔

یارم بلوچ خود بھی پریشان تھا۔۔۔ اور سامنے کھڑے آتش بلوچ کی بے چینی اور بے قراری بھی دیکھ رہا تھا ۔وہ چلتا ہوا ۔۔اس کے پاس آیا  اور اس کو تسلی دینے لگا ۔

”آتش ۔۔۔! حوصلہ رکھو کچھ نہیں ہوگا ہماری ماں سا کو۔“

”بھائی آپ دعا کریں کہ انہیں کچھ نا ہو  ۔“ اس نے یارم  کے ہاتھوں کوتھام کر اس سے التجاٸیہ انداز میں غمگین سی آواز میں کہا درد کی شدت سے اس کا اپنا سر بھی پھٹنے والا تھا اور اس کی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں لیکن پھر بھی وہ بڑے ضبط سے کھڑا تھا۔

یارم بلوچ نے آتش کو اپنے گلے سے لگایا تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لگے اپنا غم بانٹنے لگے ۔۔۔۔۔

وہاج نے یارم کو بھی اپنے ساتھ آئی سی یو میں آنے کا کہا ۔۔۔۔۔

وہ چاہے خود سپیشلسٹ تھا ،مگر اپنی ماں کو ٹریٹ کو کرنا اسکے بس سے باہر تھا ۔۔۔۔اس نے ڈاکٹر وہاج کو منع کردیا تھا ۔۔۔۔

وہ دونوں کافی دیر سے کوریڈور میں ٹہلتے ہوۓ ڈاکٹرز کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ تب ہی ایمرجنسی کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر وہاج  باہر آۓ۔۔اتش بلوچ دوڑ کر ان کے پاس گیا اور بڑی بے تابی سے ان سے استفسار کیا۔

”ڈاکٹر میری ماں سا ؟ اب کیسی طبیعت ہے ان کی،پلیز بتاٸیں۔؟“ 

”آپ کی مدر کو مائنر ہارٹ اٹیک آیا ہے  ۔مگر اب وہ ٹھیک ہیں  “ انہوں نے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں اس کو بتایا۔اور اس کے کندھے کو تھپتھپا کر اس کو تسلی بھی دی۔

”کیا میں اپنے ماں سا سے مل سکتا ہوں۔؟“اس نے بڑی بےتابی سے پو چھا۔

”نہیں ابھی نہیں۔کچھ دیر کے بعد۔“ انہوں نے اس کی بے تابی دیکھ کر کہا۔

”لیکن کیوں ابھی کیوں نہیں۔؟“اس نے غصے سے جھنجلا کر پوچھا۔اور سوالیہ انداز میں ڈاکٹر وہاج  کی طرف دیکھا۔

”ابھی وہ انڈرابزرویشن ہیں۔ اور ہاں نیکسٹ ٹاٸم خیال رکھیے گا۔ان کو کسی بھی قسم کی کوٸی پریشانی نہ ہو اور نہ ہی وہ کوٸی  سٹریس لیں پلیز ،ورنہ ان کے لیے خطرہ بڑھ جاۓ گا، پہلے ہی کوئی سٹریس لینے کی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا ہے۔“ انہوں نے تفصیل سے آتش کو زرش بلوچ کی کنڈیشن بتاٸی اور یارم بلوچ کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہاں سے وارڈ میں موجود پیشنٹ کو دیکھنے چلے گئے ۔۔۔۔۔

کچھ گھنٹوں بعد :

”آو آتش میرے ساتھ ۔۔! ماں سا کو پرائیویٹ روم میں منتقل کر دیا گیا ہے وہاں چل کر ان سے ملتے ہیں “ وہ یارم  کی بات سن کر جلدی سے روم کی طرف دوڑا۔مگر وہ ابھی بھی ہوش میں نہیں تھیں ۔

چاہت سے گھر میں رکا نہیں گیا ۔تو زبیدہ اسکی بے چینی دیکھ کر اسے اپنے ساتھ ہسپتال لے آئیں ۔۔۔۔

آتش اور یارم باہر کوریڈور میں تھے ۔زبیدہ وہیں رک گئی ان کے پاس ۔۔۔۔چاہت زرش بلوچ کے روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی ۔ سامنے زرش بلوچ بستر پر بے سدھ سے پڑی ہوئی تھیں ۔وہ چند گھنٹوں  میں ہی صدیوں کے بیمار لگ رہی تھیں ۔وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ان کے پاس آگئی۔۔۔۔ اور ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ہاتھوں کو پکڑ کر چومنے لگ گئی ۔۔۔اور ساتھ میں ان سے باتیں بھی کرنے لگی ۔۔۔۔

”ممی !آپ جلد سے جلد ٹھیک ہوجاٸیں میں آپ کی ہر بات مانوں گی۔ پلیز آپ بس جلدی سے ٹھیک ہو جاٸیں۔آپ نے ہی مجھے ماں نامی رشتے کا احساس کروایا ۔۔۔۔مجھے زمانے کی اونچ نیچ سکھائی ۔۔۔مجھے بے غرض پیار دیا ۔میں آپ کے لیے کچھ بھی کروں گی ۔۔۔کچھ بھی ۔۔۔۔ ۔“ اپنے ہاتھوں پر آنسوٶں کی نمی محسوس کر کے زرش بلوچ کی آنکھوں میں جنبش ہوٸی.

"چاہ ۔۔۔!!!!!

 انہوں نے آہستہ سے چاہت کو پکارا۔

"چاہت ۔۔۔۔۔۔“چاہت نے ان کی آواز سن کر جلدی سے ان کی طرف ڈبڈباٸی آنکھوں سے دیکھا۔

”ایم سوری ممی ! پلیز مجھے معاف کر دیں۔آپ کو دکھ دینے کے لیے ۔میں آپ کی ہر بات مانوں گی ۔۔“ اس نے بھراٸی ہوٸی آواز میں کہا۔

”چاہ ! اب میں ٹھیک ہوں،بس تم میرے ساتھ گھر چلو ۔ “ انہوں نے بس اتنا ہی کہا اور خاموش ہوگئیں۔

”لیکن ممی ! میری ایک بات تو ۔۔۔۔۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا تو زرش بلوچ نے اس کو اشارے سے مزید بولنے سے منع کر دیا اور گھر چلنے کو کہا۔

”میں ٹھیک ہوں چاہت ،تم نے گھر جانے کے لیے ہاں کر دی ، اب میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں ۔۔“ وہ ہلکا سا مسکرا کر بولیں ۔

”ٹھیک ہے ممی ۔",اس نے ہاں تو کر دی تھی مگر اپنے دکھوں اور تکالیف کو اپنے اندر ہی دفن کر دیا تھا اور اب وہ وہی کر رہی تھی جو زرش بلوچ اس سے چاہتی تھیں ۔۔۔۔دوسری طرف اسے یارم بلوچ کے ارادوں سے بھی ڈر لگنے لگا تھا کہیں وہ واقعی براق کو اس سے چھین نا لے ۔۔۔۔۔

زرش بلوچ ہاسپٹل سے گھر آچکی تھیں اب وہ سب حویلی  جا رہے تھے ۔۔۔۔!!

زرش بلوچ کی خوشی کا کوٸی ٹھکانہ نہیں تھا۔سب کچھ بدل گیا تھا ، جس گھر میں وہ پوتے کی امید لیے آئیں تھیں وہاں سے انہیں بیٹی کے روپ میں چاہت اور پوتے کی خواہش میں براق مل گیا تھا خوشی کے مارے ان کے پاس زمین پہ نہیں پڑ رہے تھے ۔چاہت کی گھر واپسی کے مان جانے پہ وہ بہت پر امید تھیں کہ اب ان کے بیٹے یارم بلوچ کی زندگی میں بھی روٹھی ہوئی خوشیاں واپس لوٹ آئیں گی ۔وہ دل میں  ان دونوں کی خوشگوار زندگی کے لیے دعا گو تھیں ۔۔۔وہ بہت مطمئن تھیں۔۔

چاہت اور سسی دونوں ان کے ساتھ پچھلی سیٹ پہ بیٹھی تھیں ۔ وہ چاہت کے سپاٹ چہرے کی طرف دیکھ رھی تھی ۔۔۔۔پھر سسی کے چہرے کی طرف دیکھا اس  کے چہرے پر بہت خوشی اور چمک تھی ۔۔۔۔

آتش گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ یارم  ساتھ والی سیٹ پہ براق کو اپنی گود میں لیے بیٹھا کبھی اس کے ساتھ کھیلتا تو کبھی اسے فیڈر سے دودھ پلاتا ۔۔۔۔اسے یہ سب بہت نیا اور اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔اسے اب تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کا ایک پیارا سا بیٹا بھی اس دنیا میں آچکا ہے ۔۔۔۔وہ بار بار اسکے سر پہ بوسہ لیتا ۔۔۔۔

براق بھی کچھ ہی وقت میں اس سے کافی مانوس ہوچکا تھا ۔۔۔۔وہ یارم کا موبائل پکڑ کر اسی کی شرٹ کی فرنٹ پاکٹ میں ڈالتا اور کبھی نکالتا ہوا اس کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔۔۔۔۔چاہت براق کو یارم کے ساتھ فری ہوتے دیکھ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گئی ۔۔۔۔۔

راستے کی طوالت کی وجہ سے براق اب تھک کر یارم کی گود میں ہی سو چکا تھا ۔۔۔۔

زرش بلوچ بھی سیٹ کی پشت سے سر لگائے آنکھیں موند گئیں ۔۔۔۔

آتش نے فرنٹ مرر پیچھے بیٹھی سسی پہ سیٹ کیا ۔۔۔

اور ڈرائیونگ کے دوران گاہے بگاہے اس پہ بھی نظر ڈال لیتا ۔۔۔۔۔ سسی اس کی خود اٹھتی ہوئی نظریں بخوبی محسوس کر رہی تھی ۔۔۔مگر سب کی موجودگی میں چپ رہی ۔۔۔۔اتفاقًا آتش اور سسی کی نظر ایک ساتھ ایک دوسرے پہ پڑی ۔۔۔۔

تو آتش نے  اسے دیکھتے ہوئے شرارت سے آنکھ ونگ کی ۔۔۔تو سسی نے اسے گھوری ڈالی۔۔۔۔

ساتھ ہی مسکرادی ۔۔۔۔

"شرم کرو کچھ اور ڈرائیونگ پہ دھیان دو ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے آہستہ آواز میں دانت پیس کر آتش سے کہا ۔۔۔۔

اور فرنٹ مرر کو ترچھا کیے چاہت پہ سیٹ کیا ۔۔۔۔اب اسے مرر سے چاہت بالکل ٹھیک دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔۔

"اصل میں آپ یہ کہنا چاہتے تھے مجھے بھی موقع دو ۔۔۔"

کیوں بھائی ؟"

"میں نے ٹھیک کہا نا "؟

آتش بلوچ بظاہر تو سٹئیرنگ پہ ہاتھ رکھے ڈرائیونگ کر رہا تھا ساتھ ہی ساتھ یارم بلوچ کو ٹونٹ بھی مار گیا ۔۔۔۔

"تو بھی رہ نا اپنی بیوی کے بغیر اتنے سال ۔۔۔۔پھر دیکھوں گا تیری بھی  حالت",

یارم نے کٹیلی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جوابا کہا۔۔۔۔

چاہت نے اسے خود کو تکتا پایا تو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے چہرے کا رخ پھیر لیا ۔۔۔ 

یارم بلوچ کے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

سفر تمام ہوا اور وہ لوگ حویلی میں پہنچ گٸے تھے۔۔۔

یارم بلوچ اپنے روم میں اکیلا تھا۔۔۔۔۔۔!

اس کو چاہت اور براق کے بغیر روم خالی خالی لگ رہا تھا۔وہ ابھی تک کمرے میں نہیں آئے تھے ۔وہ شاور لے کر آیا اور بیڈ پر چت لیٹ گیا اور چاہت اور اس کے روئیے کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔۔۔

چاہت زرش بلوچ کے ساتھ ان کے کمرے میں آگئی تھی کیونکہ وہ صرف ان کے کہنے پہ ان کے ساتھ آئی تھی ۔۔۔۔۔! 

زرش بلوچ کے کہنے پہ اس نے تھکان اتارنے کے لیے فریش ہونے کے لیے شاور لیا اور بلیک کلر کا علاقائی کڑھائی والا رنگین دھاگوں سے بنا سوٹ پہنا تھا جو اسے زرش بلوچ نے دیا تھا ۔۔وہ جانتی تھی یہ کلر تو یارم بلوچ کا فیورٹ تھا ۔مفر انہیں انکار نہیں کر سکی ۔اس نے زرش بلوچ کی خوشی کے لیے ان کے دئیے ہوئے گولڈ کے کنگن اور ہلکی سی چین  بھی پہن لی تھی۔۔وہ پہلے بھی ذیادہ تیار نہیں ہوتی تھی اور اب بھی نہیں ہوٸی تھی۔۔لیکن آج وہ دل سے تیار نہیں ہوٸی تھی بس اس کی مجبوری تھی۔۔۔

 سسی اس کی طرف بہت غور سےدیکھ رہی تھی۔۔

”کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔۔۔؟“اس نے سسی کو اپنی طرف غور سےدیکھتے پا کر پوچھا۔۔

”کچھ بھی نہیں تم بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ۔۔“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔ 

”چاہ ۔۔۔۔۔!یارم بھاٸی سا کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ؟“ سسی کے سوال پر وہ یکدم چپ ہو گٸی۔۔

”کیا ہوا۔۔؟تم چپ کیوں ہو۔؟“ اس کو خاموش دیکھ کر وہ پریشان سی ہوگٸی....

”سسی !اس کا رویہ بہت اچھا ہے میرے ساتھ۔۔لیکن مجھے اس کے اس روئیے سے کوٸی فرق نہیں پڑتا۔اس کے پیار سے میری نفرت ختم نہیں ہو سکتی اور میں کبھی نہ میں وہ سب بھول سکتی جو ظلم اس نے مجھ پہ کیا۔“ وہ اک دم پھٹ پڑی۔۔اس کا ضبط ختم ہو گیا تھا۔۔۔۔

”لیکن چاہ اب اگر تم واپس اس گھر میں آگئی ہو تو کیسے چلے گا یہ سب اور کتنی دیر ۔۔۔۔۔تم ان سے نفرت کرو یا محبت۔رہنا تو یہیں ہے نا ؟؟؟؟“ سسی  جانتی تھی کہ یارم بلوچ نے اچھا نہیں کیا لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ اب اسکا بچے کا باپ بن چکا تھا.اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہے .اور اس نے ساری زندگی گزارنی ہی اس کے ساتھ تھی تو پھر یہ اعتراض کیوں ؟

”جانتی ہو ں یہیں رہنا ہے لیکن صرف ان کے بچے کی ماں بن کر۔ممی کی بہو اور بیٹی بن کر  ۔ان کی بیوی بن کر نہیں ۔۔!  کیونکہ میرا دل نہیں مانتا انہیں معاف کرنے کو ۔“اس نے رنجیدگی سے کہا وہ بھی جانتی تھی کہ اب اس کا یہی گھر ہے مجبوری ہی سہی رہنا تو ادھر ہے ہی لیکن اپنی شرطوں پہ  ۔۔۔

”تم یارم  بھاٸی سا کو یہ احساس دلاؤ کہ۔۔انہوں نے بہت ذیادہ غلط کیا ہے تمہارے ساتھ ۔۔مگر تمہارے اور ان کے درمیان جڑا رشتہ بہت قیمتی ہے ۔۔۔اسے خراب مت کرنا ۔۔۔ورنہ تمہارا بیٹا رُل جائے گا ماں باپ کی لڑائی کے درمیان “سسی  اس کو آہستہ آہستہ  سمجھا رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ چاہ خوش رہے..وہ چاہتی تھی چاہت  نفرت بھول کر نٸی زندگی کا آغاز کرے۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

صبح بہت دیر سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔۔۔۔۔!

وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آٸی تو اماں بی ناشتہ وغیرہ بنا چکی تھی۔وہ بھی کچن میں آگٸی اس کو حویلی میں دلاور بلوچ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔۔۔

”اماں بی۔۔۔۔!آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔۔“ اس نے ان سے پوچھا۔۔۔

”تم گہری نیند میں تھی اس لیے میں نے تمہیں جگایا نہیں ۔۔ویسے بھی بچیوں کے لیے دودھ بنانے رات میں بار بار اٹھتی ہو ۔تو میں نے سوچا اچھے سے نیند پوری کر لو “ انہوں نے آہستہ سےجواب دیا اور کام میں مصروف ہوگٸیں۔ کیسے ان لوگوں کو اس نے  پرایا کر دیا تھا۔اس کو بہت دکھ ہو رہا تھا۔۔کہ وہ یہاں سے جاکر انہیں بھول گئی تھی ۔اس لیے اب وہ یہاں رہ کر وہ کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔

”اماں بی آپ لوگوں نے تو مجھے بلکل پرایا کر دیا ہے۔۔میں بیٹی ہوں آپ کی۔۔“اس نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔

”ایسی بات نہیں ھادیہ۔۔۔! بیٹی ہو تم ہماری اور تم یہ جانتی ہو تمہارے بابا اور میں تم سے ناراض نہیں ہوسکتے کبھی بھی ۔۔تم فکر نہ کرو بس اپنے گھر پہ دھیان دو ۔شادی کے بعد لڑکیوں کو اپنے شوہر کا گھر دیکھنا پڑتا ہے ۔وہاں کے ماحول کے تحفظ اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے ۔میں جانتی ہوں کہ وہاں کا ماحول کی ایسا نہیں ہوگا جو تم نے اتنا عرصہ ہم سے رابطہ نہیں کیا ۔ہمیں بالکل بھی برا نہیں لگا ۔بلکہ اچھا لگا ہے کہ تم نے سمجھداری دکھائی “ انہوں نے پیار سے کہا۔۔۔ ان کی آواز میں نمی گھل گٸی تھی اور گلا رندھ گیا تھا وہ بھی دکھی تھیں۔انہوں نے آگے بڑھ کر ھادیہ کو گلے لگا لیا تھا۔

ھادیہ بھی روتے ہوۓ ان کے گلے لگ گٸی۔۔وہ ایسے ہی دونوں کھڑی تھی جب دلاور بلوچ حویلی میں آۓ اور انہوں نے اماں بی سے کھانا لگوانے  کو کہا۔

کھانا کھانے کے بعد اماں بی اور دلاور بلوچ  باتوں میں مصروف تھے، جب ملازم نے ان نے کو ھاد بلوچ کے آنے کی اطلاح دی۔دلاور بلوچ اور ھادیہ  دونوں آگے پیچھے ہی ڈراٸنگ روم میں داخل ہوٸے  ۔۔

ان دونوں نے سلام کیا۔ھاد بلوچ کو ڈرائینگ روم کے صوفے پہ براجمان تھا اس نے سر اٹھا کر ھادیہ کو دیکھا۔۔وہ بہت پیاری لگ رہی تھی لیکن وہ ذیادہ دیر اس کو یوں ٹکٹکی باندھے دیکھ نہیں سکتا تھا۔کیونکہ دلاور بلوچ بھی ڈراٸنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔

انہوں نے ھاد بلوچ سے بہت اچھے اور خوشگوار انداز میں سلام لیا اور احوال دریافت۔۔۔ اماں بی چائے کے ساتھ لوازمات لے آئیں تو سب نے ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران چائے سے لطف اٹھایا ۔۔۔۔

”چلیں ھادیہ۔۔۔؟“ اس نے ھادیہ کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھا ۔۔۔

”جی ۔۔۔“ اس نے بس اتنا کہا۔۔۔۔

”بیٹا۔۔۔۔۔! آپ نے کھانا تو کھایا ہی نہیں شام کا کھانا بن رہا ہے کھا کر جانا ۔۔“اماں بی نے فکر مندی سے کہا۔وہ بہت عجیب سی کشمکش میں تھی ان کو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اس کی ٹھیک سے خاطر مدارت نہیں کر پائیں ۔۔۔

”ارے اماں بی  آپ پریشان نہ ہوں۔میں کون سا آج آخری بار آیا ہوں اس گھر میں اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا ۔۔“ وہ اماں بی کی پریشانی سمجھ چکا تھا اس لیے وہ چل کر ان کے پاس آیا اور ان کو پیار سے کہا دلاور  بلوچ اور ھادیہ دیکھ رہے تھے وہ کیسے پیار سے بات کر رہا تھا ۔۔۔۔

"آپ سے کچھ پوچھنا تھا "

ھادیہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ھاد کے ساتھ والے صوفے پہ آکر بیٹھ گئی اور سوالیہ انداز میں بولی 

"ہممم کہو ۔۔۔"

وہ اسکی طرف متوجہ ہوا ۔

"شمشیر بلوچ کو کسی نے بہت بیدردی سے قتل کردیا تھا ۔اسی دن جس دن میں بابا جان کے ساتھ یہاں آئی ۔اس دن اسکے لاش ٹکڑوں کی صورت بازار میں لٹکی ہوئی ملی تھی ۔ممانی جان اور امینہ دونوں تو خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھیں اسکی یہ حالت دیکھ کر ۔۔۔۔وہ جو بھی تھا جیسا بھی تھا ۔۔۔تھا تو ان کا بیٹا اور بھائی ہی ۔۔۔۔اس کی موت کا کافی گہرا صدمہ پہنچا تھا انہیں ۔۔۔۔میں نے اسی لیے یہاں اتنا وقت گزارا تاکہ ان کی ڈھارس بندھا سکوں ۔۔۔۔اب امینہ پہلے سے کافی بہتر ہے ۔

"ہمممم ۔۔۔افسوس ہوا اس کے بارے میں سن کر ",

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔

"دراصل میں وہ ۔۔۔۔وہ کہنے میں تھوڑا سا ہچکچائی ۔۔۔۔

"کیا کہنا چاہتی ہو کھل کر کہو ۔۔۔۔"

وہ دلاور بلوچ اور اماں بی کی موجودگی کے باعث دھیمی آواز میں بولا۔

"میں چاہتی تھی کہ کچھ دن اگر امینہ کو اپنے ساتھ حویلی میں لے چلوں تو اس کا ماحول بدل جائے گا تو مزید اچھا اثر پڑے گا ۔۔۔میں آپ کو فورس نہیں کر رہی ۔۔۔اگر آپ کو مناسب نہیں لگی میری تجویز تو بے شک مجھے بتادیجیے گا ۔۔۔کوئی مجبوری نہیں "

اس نے ڈرتے ہوئے اپنی بات اسکے سامنے رکھی ۔

"کوئی مسلہ نہیں ۔ٹھیک ہے تم بلا لو اسے مہمان خانے میں اسکے لیے جگہ بن جائے گی "

جس میں میری بلوچن کی خوشی اس میں کی میری خوشی "

آخری الفاظ کہتے ہوئے وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔

"تھینک یو سو مچ۔"اس نے کھکھلا کر کہا ۔۔۔اور اٹھ کر باہر نکل گئی تاکہ امینہ کو کال کر کہ اپنے ساتھ جانے کا بتا سکے ۔۔۔ 

واپس ”حویلی “ آتے ہوۓ ان کا پورا راستہ ھاد اور ھادیہ کا چھوٹی چھوٹی باتوں سے کٹا تھا۔۔۔!۔

جبکہ امینہ چپ چاپ سی گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی، اس نے اپنے آنسو مشکل سے روکے ہوۓ تھے وہ ھاد  کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔

حویلی آ چکی تھی ۔۔۔ھاد بلوچ نے ہارن دیا۔گیٹ کے پاس موجود گارڈ نے جلدی سے گیٹ کھول دیا۔ھاد بلوچ زن سے گاڑی اندر لےگیا اور پورچ  میں جا کر گاڑی کو بریک لگاۓ۔امینہ ابھی بھی ویسے ہی چپ اور سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔ھاد نے گاڑی سے اتر کر ھادیہ کی ساٸیڈ والا دروازہ کھولا۔۔۔

”آٶ۔۔۔۔۔۔ھادیہ ۔۔آویزہ کو مجھے دو “ امینہ اس کی آواز  سن کر یکدم چونکی اور جلدی سے نیچے اتر آٸی اور آس کو گود میں اٹھا کر ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔

ھاد نے آویزہ کو اٹھایا ہوا تھا ۔۔

ھادیہ نے لاٶنج میں قدم رکھا تو دور سے ہی اس کو زرش بلوچ لاٶنج میں بیٹھی نظر آ گٸیں ۔۔وہ چلتی ہوٸی ان کے پاس پہنچ گٸی۔اس نے خوشگوار لہجے میں ان کو سلام کیا۔

”السلام علیکم !ماں سا۔۔۔۔کیسی ہیں آپ۔“وہ سلام کرکے ان کے آگے جھکی تا کہ وہ ان سے سر پر پیار لے سکے۔۔

”و علیکم السلام۔۔ارے میری بیٹی آگٸی۔۔“ انہوں نے اٹھ کر اس کو گلے لگا لیا۔وہ بھی ان کے گلے لگ گٸی۔۔۔

”ماما !بیٹی کے ساتھ آپ کا ہینڈسم  سا بیٹا بھی آگیا ہے ۔۔ تھوڑی اس پہ بھی توجہ دیں ۔۔“ ھاد  بھی اس کے پیچھے آیا تھا اور شرارت سے بولا۔۔ھادیہ  نے اس کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہا تھا ۔

”میں اپنے بچوں کو کیسے بھول سکتی ہوں آج تو تم لوگوں کے لیے ایک حیران کن خبر بھی ہے ۔“وہ فرط جذبات سے لبریز لہجے میں بولی۔۔۔۔

”وہ کیا ماں سا ۔۔۔!!!!۔“وہ بھی ایکسائیٹڈ ہو گیا تھا۔۔۔اس نے ھادیہ کو دیکھا جو اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔دونوں کی نظریں ملی تو دونوں نے ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھا ۔۔

"چاہت مل گئی ہے ۔اور سب سے بڑی خوشی کی خبر ۔۔۔۔میرا پوتا براق ۔۔۔۔بھی ۔۔۔۔

"کیا سچ ۔۔۔!!!؟؟؟

"چاہت مل گئی ۔۔۔؟؟؟

ھادیہ کی خوشی دیدنی تھی ۔۔۔۔

"ماں سا براق ؟؟؟

ھاد بلوچ نے اچنبھے سے انہیں دیکھ کر کہا۔۔۔

"یارم اور چاہت کا بیٹا ۔۔۔"اور اس خاندان کا پہلا وارث ۔۔۔۔میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ میں کتنی خوش ہوں "

ان سے اپنی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی ۔۔۔۔ان کا چہرہ ہی انکی خوشی کا اظہار کر رہا تھا ۔۔۔۔

”اب تم لوگ اپنے روم میں جاٶ اور فریش ہو کر آٶ پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں۔اور کھانے کی میز پہ ہی سب سے مل لینا ۔ابھی باقی سب بھی فریش ہو رہے ہیں “ انہوں نے مسکرا کر ان سے کہا ۔۔۔

”جی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔“ھادیہ نے فرمابرداری سے کہا 

"یہ ۔۔۔؟؟؟

زرش بلوچ اپنی خوشی میں امینہ کے بارے میں پوچھنا تو بھول ہی گئیں تھیں ۔۔۔جو کافی دیر سے آس کو گود میں اٹھائے چپ چاپ کھڑی تھی ۔

"ماں سا ۔۔۔!!!

"یہ میری دوست ہے امینہ ۔۔۔۔اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں کچھ دن امینہ کو یہاں اپنے ساتھ رکھ سکتی ہوں "؟

اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"کیوں نہیں ۔۔۔بیٹا ۔۔۔!

"تمہاری مہمان ہماری مہمان ۔۔۔اور مہمان تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتے ہیں ۔۔۔۔"

وہ خوش دلی سے بولیں تو ھادیہ کے دل و دماغ پہ چھایا کافی بڑا بوجھ ہٹ گیا ۔۔۔وہ مسکرا کر انکے گلے لگی ۔۔۔

تھینک یو سو مچ ماں سا ۔۔۔!

تو ذرش بلوچ مسکرانے لگیں۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

رات کے کھانے پہ زرش بلوچ نے خاص اہتمام کروایا تھا ۔۔۔۔سب  ڈائننگ ٹیبل پہ موجود تھے اور ایک دوسرے سے ملنے کے بعد سب خوشگوار ماحول میں ایک ساتھ کھانا کھا رہے تھے ۔براق کو چاہت نے اپنی گود میں لے رکھا تھا اور اپنے ساتھ کھانا کھلا رہی تھی ۔اس نے براق کو دودھ کے ساتھ ساتھ کھانا کھانے کی بھی وفات ڈال دی تھی تبھی اس کی صحت بہت اچھی تھی ۔

وہ زرش بلوچ کی ساتھ والی چئیر پہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔جبکہ یارم بلوچ کی چئیر اس سے کافی فاصلے پہ تھی ۔

"لگتا ہے شادی مجھ سے نہیں ماں سا سے کی ہے موصوفہ نے ۔۔۔۔"وہ منہ میں بڑبڑایا ۔۔۔۔کھانا کھاتے ہوئے اس کی نظریں مسلسل چاہت کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔مگر چاہت نے ایک بار بھی اسکی طرف دیکھنا گوارا نہیں کیا ۔۔۔۔

آتش خود سسی کے پلیٹ میں کھانا ڈال کر اسے زیادہ سے زیادہ کھانے پہ مجبور کر رہا تھا ۔۔۔۔

ھاد اور ھادیہ بھی ایک ساتھ بیٹھے دھیمی آواز میں آپس میں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔۔۔۔

جبکہ آس اور آویزہ دونوں اپنی پریم میں سو رہی تھیں ۔

سسی اور ھادیہ اٹھ کر برتن سمیٹ کر کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔

"ممی براق کے سونے کا وقت ہے ۔میں اسے سلانے جا رہی ہوں "

سب چائے پینے کی غرض سے لاونج میں صوفے پر بیٹھے تھے کہ چاہت وہاں سے اٹھ کر ذرش بلوچ کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے اسے ایک بار پھر براق کو لیے زرش بلوچ کے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھا تو دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔

اور اپنا اگلا لائحہ عمل سوچنے لگا ۔۔۔۔

چاہت نے کچھ ہی دیر میں براق کو تھپک کر سلا دیا ۔۔۔اسے سلاتے ہوئے اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی کہ کب وہ بھی نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد اچانک اس کی جاگ کھلی تو اس نے اپنے ارد گرد دیکھا ۔۔۔۔براق کہیں بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔

اس کے زہن میں جھماکا سا ہوا۔۔۔۔۔کہیں یارم بلوچ تو نہیں ۔۔۔۔ 

اس کے دل میں پہلے ہی براق جو لے کر ڈر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔تبھی فورا اپنی جگہ سے اٹھی اور باہر نکل گئی ۔۔۔۔

سب ابھی بھی لاونج میں موجود تھے آپس میں باتیں کر رہے تھے مگر ان میں یارم بلوچ کہیں نہیں تھا ۔۔۔۔۔وہ چاہتی تو نہیں تھی رات کو اس وقت اس کے کمرے میں جانا مگر براق کے لیے اس نے دل پہ پتھر رکھ کر حوصلہ کیا ۔۔۔اور قدم بڑھائے ۔۔۔۔۔

اس نے آہستگی سے پینڈل گھما کر اس کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔۔۔تو دیکھا ۔۔۔۔

کمرے میں نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی بکھری ہوئی تھی ۔یارم بلوچ ویسٹ اور ٹراؤزر پہنے،براق کو اپنے ساتھ لیٹاتے اس کے گرد بازو پھیلائے آنکھیں موندے سو رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی یہ منظر دیکھ کر ۔۔۔کیسے وہ اس کے بیٹے کو اس سے چھین کر اپنے ساتھ لگائے سو سکتا تھا ۔۔۔۔

وہ پاؤں پٹختی ہوئی اس کے قریب آئی ۔۔۔۔اور دونوں بازؤں سے براق کو اس کے پاس سے اٹھانے ہی لگی تھی کہ یارم بلوچ نے اسکی بازو سے کھینچ کر اپنے اوپر گرالیا ۔۔۔۔

وہ اس افتاد کے لیے قطعا تیار نہیں تھی ۔۔۔تبھی لچکیلی ڈال کے مانند اس پہ آن گری ۔۔۔۔

اس دیو ہیکل وجود کی مضبوط گرفت میں وہ پھڑپھڑا کر رہ گئی ۔۔۔اس کا فولادی بازو اس کی نازک کمر پر قفل جمائے ہوئے تھا ۔۔۔جبکہ ایک ہاتھ سے اسکا گلال گال سہلا رہا تھا ۔۔۔۔

 اس نے خود کو آزاد کروانے کی کوشش کی تھی مگر سب بے سود تھا وہ دیو تھا  اور وہ نازک پری اس کی قید میں مچل رہی تھی ۔۔۔

”کیا ہوا مجھے اور اس روم کو مس کر رہی تھی ۔۔؟“

”مجھے کیا ضرورت ہے کسی کو بھی مس کرنے کی ۔“اس نے تنک کر کہا۔۔۔

”تمہارے منہ سے جھوٹ اچھا نہیں لگتا چاہت ۔“ اس نے اس کی طرف غور سے دیکھا ۔۔

”بالکل ٹھیک کہا ،، میرے منہ سے جھوٹ اچھا نہیں لگتا لیکن تم پر دھوکہ دینا  اور جھوٹ بولنا ،کسی کی جان لینا اچھا لگتا ہے ۔۔“وہ غصے میں بولی تو پھر بولتی ہی چلی گٸی۔۔۔۔ 

یارم بلوچ کے چہرے پر اک سایہ سا آ کر گزر گیا اس کی باتیں سن کر۔۔

”کیا جھوٹ بولا ہے میں نے بتاٶ۔۔۔؟صرف سچ چھپایا وہ بھی تمہاری جدائی کے ڈر سے ۔۔۔“ وہ اس کے قریب آکر غرایا۔۔۔

”میں قاتل اور دھوکے باز انسان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی ۔۔۔اپنے گناہوں کو میری محبت کی آڑ میں مت چھپاو  ۔۔۔“ وہ زہر میں بجھے  الفاظ استعمال کر رہی تھی۔۔

یارم بلوچ اس کے منہ سے یہ سب سن کر بہت دکھی ہوا تھا وہ تو چاہت کو واپس  پاکر بہت خوش تھا لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی کہ چاہت پھر سے پہلے جیسی بن جائے گی ۔

"تمہیں پتا بھی ہے کہ تم کیا بول رہی ہو۔اور وہ بھی میرے بارے میں ۔۔آج تک کسی کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی جرات نہیں ہوٸی۔۔“اس نے غصےسے کہا اور اس کو بازوں کو اسکی پشت سے لگایا ۔۔۔۔۔۔۔

”چھوڑو میرے بازو۔۔۔۔۔۔۔۔“چاہت نے اس سے اپنے بازو چھڑوانے کی ناکام کوشش کی۔۔

”نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔!ویسے بھی میں نے تمہیں چھوڑنے کے لیے نہیں پکڑا۔۔۔۔“  اس نے گرفت اور مضبوط کر لی۔۔۔۔۔۔بے بسی سے چاہت کی آنکھوں میں آنسو آگٸے تھے۔۔۔

”یارم پلیز چھوڑیں دیں میرا بازو۔۔۔بہت دردہو رہا ہے۔۔۔“ وہ روتے ہوۓ بےبسی سے بولی۔۔۔۔یارم بلوچ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا وہ پل بھر میں سب بھول گیا تھا اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔۔لیکن وہ اس کی آنکھوں کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔اس کے نیلی سمندر جیسی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو اس کی کمزوری تھے وہ اس کو روتے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔

”چاہت  پلیز تم روٶ مت۔۔۔۔۔! میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔تمہیں روتے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے مجھے۔“ وہ گمبھیر لہجے میں بولتا ، اپنی انگلیوں کے پوروں سے اس کے آنسو بھی صاف کر رہا تھا۔۔

وہ کچھ بھی نہیں بولی تھی۔۔چپ چاپ اس کی پل پل بدلتی فطرت کو دیکھ رہی تھی کچھ دیر پہلے وہ غصے سے برس رہا تھا اور اب وہ بہت پیار سے بات کر رھا تھا۔۔۔

”چاہت میں مانتا ہوں میں مجھ سے غلطی ہوگئی ۔مگر میں اپنی غلطی کے لیے تم سے معافی مانگ رہا ہوں اور کہو گی تو تاعمر معافی مانگتا رہوں گا ۔مگر مجھے پھر چھوڑ کر مت جانا ورنہ اس بار تمہارے بنا زندہ نہیں رہ پاؤں گا ۔۔۔۔میری غلطی کی سزا دینا چاہتی ہو تو لو ۔۔۔۔۔

اس نے ایک ہاتھ سے تکیے کے نیچے سے لوڈڈ گن نکالی ۔۔۔جو وہ سردار بننے کے بعد سے ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا ۔۔۔اس نے گن نکال کر چاہت کے ہاتھ میں دی ۔۔۔۔

"اپنے ہاتھوں سے میری جان لے لو تاکہ تمہارا بدلہ پورا ہوجائے ۔۔۔۔مجھے مار کر اگر تمہارے دل میں لگی بدلے کی آگ بجھ سکتی ہے تو لو میری جان اور بجھا لو اپنی آگ "

چاہت تو حق دق رہ گئی۔۔۔اس کے ہاتھ سے گن چھوٹ کر بستر پہ گری ۔۔۔۔

وہ اسکے سینے پہ تھی ۔۔۔وہ اتنے قریب تھے کہ دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے کے چہرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔۔

 تم وہ واحد لڑکی ہو جس سے میں خود سے بھی ذیادہ پیار کرتا ہوں۔تم مان کیوں نہیں جاتی ہمارے درمیان رشتے کی سچائی کو اور میرے پیار کو۔۔۔“وہ گھمبیر آواز میں کہہ رہا تھا۔ اس کے ایک ایک لفظ میں سچاٸی تھی۔ اس کی گرم  سانسیں چاہت کو پگھلا رہی تھی ۔۔۔جبکہ وہ ایسا بالکل نہیں چاہتی تھی وہ اسکی قربت میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔وہ ساکت سی اس کو ہی سن رہی تھی۔ایک عجیب سا طلسم چھایا ہوا تھا اس وقت کمرے میں۔اندر مکمل خاموشی کا پہرہ تھا۔۔۔

"اور پاس آجاؤ دل چاہ رہا تھا تمہیں قریب سے دیکھنے کا "

"آہ ۔۔۔۔!!!!! آنکھوں کو ٹھنڈک ملی " 

وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا اور اسکے چہرے پہ جھولتی ہوئی لٹ کو پھونک ماری تو چاہت سٹپٹا کر نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

"ملن رت کو شبِ فرقت میں مت بدلو ۔۔۔۔۔

وہ اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیے اسکی سانسوں پہ حکمرانی قائم کر گیا ۔۔۔۔۔

چاہت نے جھٹپٹاتے ہوئے اسکے سینے پہ مکوں کی برسات کردی ۔۔۔۔

مگر اس کی حرکت پر یارم پہ ذرا برابر بھی اثر نہیں ہوا تھا چاہت کو اپنا قیمتی ہتھیار یاد آیا تو۔۔  دل کیا تھا اس کے شرٹ سے جھانکتے بائیسپس والے بازو پر اپنے لمبے ناخن گاڑھے مگر افسوس وہ ایک بار پھر سے پوری کی پوری اس وقت بے بس اور اسکے رحم وکرم پہ اسکی آہنی گرفت میں مقید ہوچکی تھی ۔

  چاہت کی نیلی آنکھیں اس وقت غصے اور آنسوؤں سے لبریز تھیں یارم بلوچ حذ اٹھاتے ہوئے رسان سے اس کے جھٹپٹانے کی ساری کاروائی دیکھ ریا تھا۔۔۔

۔۔۔۔

I hate you "

Yaram ".....

وہ زہر خند نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے غرائی ۔۔۔۔۔

"مرد اور عورت میں برابری کا قائل ہوں ۔تبھی تمہیں اپنا نام لینے سے روکا نہیں ۔۔۔میرا نام اگر پیار سے عزت سے لو گی تو یارم بلوچ اپنی جان قربان کردے گا ۔۔۔۔لیکن بدتمیزی برداشت قطعا نہیں کروں گا ۔۔۔۔

Do you understand that.... "

اس نے عجیب ہتک زدہ انداز میں اسے اپنی قید سے آزاد کیا تھا ۔۔

   اس کی حرکت پر چاہت نے ششدر ہوتے اس کی جانب دیکھا ۔۔۔۔

تبھی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو چاہت نے چونک کر دیکھا اور دوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کرتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔

"چاہت تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا "؟

ھادیہ نے پوچھا ۔

"نہیں نہیں ایسی بات نہیں "وہ خود کو سنبھالنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔مگر چہرہ انتہائی سرخ ہورہا تھا ضبط کی وجہ سے اور آنکھوں کے سوجے ہوئے پپوٹے بھی رونے کی چغلی کھا رہے تھے ۔

"کیا ہوا چاہت ۔۔۔؟کوئی مسلہ ہے "؟

ھادیہ نے اسکے سُتے ہوئے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے تشویش بھرے انداز میں استفسار کیا۔۔۔۔

"نہیں ۔۔نہیں کوئی بات نہیں بس آنکھوں میں شاید کوئی الرجی ہوگئی ہے ۔مسلسل پانی نکل رہا ہے "چاہت نے بروقت بہانہ بنایا ۔۔۔۔

"جی کچھ کہنا تھا آپ نے "؟

"ھاں میں نے سوچا امینہ آئی ہوئی ہے تو کیوں نا آج رات ہم سب ملکر اس کے ساتھ اپنی اچھی اچھی یادیں شئیر کریں تو اس کا دل بھی بہل جائے گا ۔۔۔۔۔میں سسی کو بھی بلانے کا رہی ہوں تم بھی آجاؤ ۔سب میرے کمرے میں ملکر باتیں کریں گے "

"جی ٹھیک ہے ۔میں براق کو بھی لے کر آتی ہوں رات کو جاگ گیا تو مجھے ساتھ نا پاکر روئے گا ۔۔۔۔۔"

"چلو ٹھیک ہے پھر آجاؤ ۔

ھادیہ کے جاتے ہی چاہت دروازہ بند کر کہ اندر آئی اور یارم بلوچ کے چہرے کی طرف دیکھے بنا براق کو اپنی بازوؤں میں اٹھا لیا اس سے پہلے کہ وہ براق کو لیے کمرے کی دہلیز پار کرتی یارم بلوچ کی کاٹ دار آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔۔

"اگر آج تم مجھے اور اس کمرے کو چھوڑ کر گئی نا چاہت تو دو دوبارہ تمہیں میرے دل اور اس کمرے دونوں میں جگہ نہیں ملے گی ۔۔۔۔

"بہت بڑی غلط فہمی اور بھول میں ہیں کہ میں دوبارہ یہاں قدم بھی رکھوں گی وہ بھی اپنی مرضی سے "

وہ دوبدو تلخی سے گویا ہوئی۔۔۔۔۔

مگر وہ اسے سراسر نظر انداز کرتا ٹھاہ کی زوردار آواز پہ سے اسکے منہ پہ دروازہ بند کرتے ہوئے واش روم میں چلا گیا تھا ۔۔۔

چاہت سوئے ہوئے براق کو اپنے شانے سے لگائے تھپکتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

کچی کھٹی کیری کو مرچ مسالہ لگائے وہ چٹخارے لے کر کھا رہی تھی ۔۔۔۔

"آ۔۔۔۔ہممممممم۔۔۔۔۔

تبھی آتش بلوچ کے گلا گھنگارنے کی آواز سن کر اس نے پلو میں کچی کیری چھپائی ۔۔۔۔۔۔

"بہت غلط بات ہے ملکہ دل ہم آپ کے لیے یہاں 

"Healthy diet chart "

بنا رہا ہوں اور آپ اس قسم کی چیزیں کھا رہی ہیں "

وہ اس کے سر پہ پہنچ کر اس کے ہاتھ میں سے کچی کیری نکال کر اسکے سامنے کرتے ہوئے خفگی بھرے انداز میں بولا تو سسی سر جھکائے شرمندگی سے لب کچلنے لگی ۔۔۔۔

"کیا کروں میرا یہ کھانے کا ہی من ہو رہا تھا ۔"

وہ بے بسی سے بولی ۔۔۔

"آج سے آپ رات کو سونے سے پہلے گرم دودھ پئیں گی ایسی چیزوں کا استعمال بالکل بھی نہیں کریں گی ۔۔۔بلکہ دن سے شروعات کرتے ہیں اس ڈائٹ پلان کے مطابق اس نے ہاتھ میں موجود ڈائیری کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

اور کھول کر پڑھنے لگا ۔۔۔۔

صبح اٹھتے ہی اورنج کا فریش جوس ۔۔۔وہ آپکا شہزادہ آپ کو اپنے ہاتھوں سے بناکر پلائے گا ۔۔۔۔اس کے بعد بریک فاسٹ میں ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید اسے ڈائٹ چارٹ سناتا ۔۔۔۔

"شہزادے ۔۔۔۔آپ سے ایک بات پوچھوں ؟"

اسے بات تب سے ایک بات دل میں کھٹک رہی تھی تو وہ اس بات کو زبان پہ لائی۔۔۔۔

"پوچھیں "

اس نے ابرو اچکا کر اجازت دی ۔۔۔۔

"آپ نے اس دن جیٹھ سا سے مار کیوں کھائی "؟

اس نے منہ بسور کر کہا۔

"اوہ تو ۔۔۔!!!

میری شہزادی کو برا لگا اسکے شہزادے پہ کسی نے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔۔وہ شرارتی انداز میں مسکرایا ۔۔۔۔

"وہ میرے بڑے بھائی ہیں ۔میں ان کی عزت کرتا ہوں ،جب کوئی بڑا ہمیں مارے تو ہم اس کے جواب میں اسے مارتے رو نہیں نا ۔بالکل ان کا ادب کرتے ہوئے انکی بات کو سمجھتے ہیں ۔میرے دل میں بھی ان کے لیے عزت و احترام ہے ۔اسی لیے چپ چاپ مار کھالی ۔۔۔۔

ویسے ان کی مار میں بھی میرے لیے پیار چھپا تھا ۔۔۔۔وہ ہمارے بھائیوں کا آپسی مسلہ ہے ۔۔۔۔آپ ٹینشن نا لیں آپکی صحت کے لیے مضر ہے "

وہ اسکی لمبی چٹیا کو ہاتھ میں لپیٹ رہا تھا ۔۔۔۔

"میرے بڑے بھائیوں کے علاؤہ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ آتش بلوچ کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر دیکھے ۔اپنی طرف اٹھنے والے ہاتھ کو آتش بلوچ آتش میں ہی بھسم کردینے کی ہمت رکھتا ہے "

وہ ہلکی آواز میں زیر لب بڑبڑایا۔۔۔۔

"کیا کہا آپ نے "؟

سسی کو اسکی آخری بات سمجھ میں نہیں آئی تو اس نے پوچھا ۔۔۔۔

"کچھ نہیں آگے کا سنو ۔۔۔"اس سے پہلے وہ اسے پھر سے وہ روکھا پھیکا ڈائیٹ پلان سناتا ۔۔۔۔۔

"ماں سا کا آپ نے بتایا نہیں "؟

وہ اگلا سوال پوچھنے لگی ۔۔۔

"وہ احد نے انہیں یہاں واپس ان کے پرانے گھر چھوڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔میں انہیں کہا بھی تھا کہ آپ اب ہمارے ساتھ حویلی میں رہیں ۔مگر وہ بضد تھیں کہ بیٹیوں کے گھر رہنا معیوب لگتا ہے ۔شہر کی بات اور تھی ۔۔۔یہاں گاؤں والے باتیں بنائیں گے ۔۔۔۔انہوں نے منع کردیا یہاں رہنے سے تو میں نے انہیں کہا کہ جیسی آپ کی خوشی ۔۔۔۔۔

اب وہ اپنے پرانے گھر میں ہیں ۔تم جب بھی چاہو میں تمہیں لے جاؤں گا ان سے ملوانے ۔۔۔۔۔

دروازے پہ دستک کی آواز سن کر سسی نے اٹھ کر دروازے پر دیکھا تو ھادیہ تھی ۔۔۔وہ آتش کو اپنے ھادیہ کے ساتھ جانے کا بتا کر اسکے ساتھ باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ اضطراب میں مبتلا ٹیرس میں کھڑا سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہا تھا ۔۔۔۔

"Hey big bro .....

What's happened?

ھاد بلوچ نے پیچھے سے آکر اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر استفسار کیا ۔۔۔۔

"Nothing۔۔۔۔"

وہ پلٹے بنا گھمبیر آواز میں فقط اتنا ہی بولا ۔۔۔۔

Let's party tonight brothers....

پیچھے سے آتش بلوچ کی شرارتی آواز پہ ھاد اور یارم دونوں نے بیک وقت پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔

"کیوں نا آج بیچلرز پارٹی منائیں "

وہ آنکھ ونگ کیے بولا ۔۔۔۔

"یہ ہماری عمر نہیں بیچلرز پارٹی منانے کی ۔۔۔۔۔

ھاد نے منہ بنا کر کہا ۔۔۔۔۔

"کیا ہوا عمر کو دل جوان ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔

"بھائی اب ہم بچوں کے باپ بن گئے ہیں ۔بیلچر کہاں سے ہیں ۔۔۔۔ھاد نے افسردہ آواز میں کہا ۔۔۔۔

"اوئے شودے ۔۔۔۔!!!!ترسی ہوئی عوام ۔۔۔!!!!!   بیویاں پاس نہیں تو بیچلر ہی ہوئے نا ۔۔۔۔

چلو اپنے پرانے بیچلر سیکریٹ روم میں چلیں بہت وقت ہوگیا ایک ساتھ انجوائے کیے ہوئے ۔۔۔۔۔

"چل ۔۔۔!!!

یارم نے آتش بلوچ کے شانے پہ بازو رکھ کر کہا ۔۔۔۔

"لو بھئی ہم بھی چلتے ہیں پھر ۔۔۔۔۔"

ھاد بھی ان کی پاس آکر بولا ۔۔۔۔تو تینوں حویلی کی پچھلی طرف بنے ایک کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔جب وہ سکول و کالج میں تھے تب چھٹیوں میں یہاں ملکر کر انجوائے کرتے تھے ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ نے دروازہ کھولا تو یارم جاکر پہلے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے شاہانہ انداز میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔

کمرے میں ٹو سیٹر صوفہ ہی تھا ۔۔۔۔

ھاد بھی خالی سیٹ پہ جاکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ نے دونوں کی طرف ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں دیکھا ۔۔۔۔پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"کوئی اچھی سی ہالی وڈ مووی دیکھیں ۔۔۔۔؟

اس نے مشورہ دیا ۔۔۔۔

"اوکے لگا یار ٫ھاد نے اسے اجازت دی ۔۔۔۔

آتش بلوچ ایک نئی مووی لگائی اور ریموٹ اٹھا کر دھپ کر کہ صوفے پہ گرنے کے انداز میں لیٹا ۔۔۔۔سر یارم بلوچ کی گود میں جبکہ ٹانگیں ھاد پہ تھیں ۔۔۔۔۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے "؟

ھاد نے اسکے ٹانگوں کو پیچھے دھکیل کر غصیلی کرخت آواز میں کہا۔۔۔۔

"واہ جی آپ لوگ بڑے ہونے کا رعب جماؤ اور مجھ بیچارے کو جگہ بھی نا دو بیٹھنے کی ۔۔۔۔

وہ منہ پھلا کر بولا ۔۔۔۔

"چل شاباش اٹھ یہاں سے۔۔۔اقر پہنچ اپنی پرانی جگہ ۔۔۔۔۔یارم بلوچ نے اسے نیچے بچھے ہوئے کارپٹ کی طرف جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

 "اور میں تیری بیوی نہیں ۔۔۔۔جو پیار سے اپنی گود میں لٹا کر تیرے بال سہلاوں گا ۔۔۔۔"

اب کی بار یارم بلوچ مسکرا کر بولا ۔۔۔۔

"آپ کی بیوی بھی آپ کے ان رومینٹک ہونے پہ ہی  آپکو چھوڑ گئی ہوگی ۔۔۔۔

وہ ان دونوں سے اٹھتا ہوا کشن کمر کے پیچھے لگا کر کارپٹ پہ بیٹھا ۔۔۔۔۔

"چھوٹے جا زرا کچھ کھانے پینے کو تو لے کے آ۔۔۔۔ابھی مووی چلتے ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ھاد نے سکرین کی طرف  دیکھتے ہوئے آتش سے کہا ۔۔۔۔

"تھوڑی دیر پہلے تو کھانا کھایا تھا ۔۔۔پیٹ ہے یا اندھا کنواں جو بھرا نہیں تھا ۔۔۔۔"

وہ جل کر بولا ۔۔۔۔۔

اور سر جھٹک کر مووی وہیں پوز کرتے ہوئے ۔باہر سے جاکر چپس اور جوس کے ساتھ کوک بھی لے آیا ۔۔۔۔۔

"لیں بھائی "

اس نے کوک یارم کی طرف بڑھائی ۔۔۔  

"جوس دو یار ۔۔۔۔کوک انسانی جسم کے لیے اچھی نہیں ۔۔۔۔"

اس نے کوک چھوڑ کر جوس پکڑا ۔۔۔۔

"۔یار ایک تو ڈاکٹر ہونا بھی نرا عذاب ہے۔اس عمر میں بھی بچوں کی طرح جوس  "

ھاد نے کوک پکڑ کر منہ سے لگاتے ہوئے بڑے بڑے گھونٹ بھرے ۔۔۔۔۔اور یارم کو ٹونٹ ماری جوس پینے پہ ۔۔۔۔

 "تو یہاں بیٹھے گا آرام سے یا چپس کی جگہ گھوسہ کھائے گا ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"اوئے تیری ۔۔۔۔تو ہٹ پیچھے چھوٹے ۔۔۔۔

"کیا یار پوری مووی میں اب پہلی بار ایک کام کا سین آیا تھا اور تو نے سارا مزہ کرکرا کردیا ۔۔۔۔چل ریوائنڈ کر سین "

ھاد نے آتش بلوچ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"بندہ گلی کا کتا بن جائے مگر چھوٹا نہ بنے ۔۔۔۔قسم سے کوئی زندگی نہیں چھوٹے کی ۔۔۔۔۔چھوٹے یہ کر وہ کر ۔۔۔۔

وہ غصیلی آواز میں بڑبڑایا ۔۔۔ 

"نہیں کروں گا ریوائینڈ کیا کر لے گا ۔۔۔۔

وہ اپنی جگہ پہ بیٹھ کر چپس کا پیکٹ کھول کر منہ میں چپس ڈالتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"ھاد اس سے ریموٹ لے کر مجھے دے "اور ۔۔۔۔!!! 

یارم نے ھاد کو آنکھ ونگ کیے اشارہ کیا تو وہ پراسرار سا مسکرایا ۔۔۔۔۔

اور آتش سے ریموٹ کھینچا ۔۔۔۔

مگر آتش کی ریموٹ پہ پکڑ مضبوط تھی ۔۔۔۔

ھاد کے ہاتھ میں ریموٹ نہیں آیا تو اس نے آتش سے چپس کا پیکٹ کھینچ کر اسی کے سر پہ الٹ دیا ۔۔۔۔

آتش نے کمر کے پیچھے سے کشن نکال کر ھاد کی طرف اچھالا ۔۔۔۔

ھاد نے بھی جوابی کارروائی کے لیے دوسرا کشن اس کی طرف اچھالا ۔۔۔۔

اتنی دیر میں یارم اس سے ریموٹ کھینچ کر سین ریوائنڈ کر چکا تھا ۔۔۔۔

"اوئے رکو یار پہلے سین چیک کرو "

وہ دونوں لڑائی روک کر ایل ای ڈی کی سکرین کی طرف متوجہ ہوئے تینوں کھڑے ہوئے پارے انہماک سے وہ ۔۔۔۔۔سین دیکھنے لگے ۔۔۔۔جیسے ہی سین شروع ہوا ۔۔۔۔۔اچانک لائٹ چلی گئی ۔۔۔۔۔

"اوہ شِٹ ۔۔۔۔"!!!!

تینوں بیک وقت بولے ۔۔۔۔

"یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔

وہ تینوں کشن ایک دوسرے کی طرف اچھالنے لگے ۔۔۔۔

تینوں کے قہقہے اور کھکھلاہٹیں کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

اوہ ۔۔۔۔!!! یہ لائٹ کو بھی ابھی جانا تھا ۔۔۔۔

ھادیہ خفگی بھرے انداز میں بولی ۔۔۔۔

"اچھا میں ماچس لے کر آتی ہوں پھر کینڈل جلاتے ہیں ۔

جرنیٹر خراب ہے ۔۔۔۔ھاد سے کہوں گی کل ہی ٹھیک کروانے کے لیے ۔۔۔۔

"رکو ھادیہ تم آس اور آویزہ کے پاس رہو میں لے کر آتی ہوں تم مجھے بتاؤ کہاں رکھی ہے ۔۔۔۔

"میں لے آتی ہوں سسی نے کہا ۔۔۔۔

"نہیں اندھیرا ہے باہر تم کہیں خدا نخواستہ سیڑھیوں سے گر نا جاو ۔۔۔

چاہت نے کہا ۔۔۔۔

جاؤ امینہ آپ ہی لے آؤ "چاہت نے کہا تو امینہ کمرے سے باہر نکل گئی اور سیڑھیاں اتر کر جیسے ہی کچن کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔عین اسی وقت کسی آہنی وجود سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔۔

اس کے پاس سے مردانہ پرفیوم کی مہک اٹھ رہی تھی۔۔۔۔

اس کی سانسیں جیسے رکنے لگیں تھیں ۔۔۔۔

اپنی دھڑکنیں اپنے ہی کانوں میں سنائی دینے لگیں ۔۔۔۔وہ اس وقت دو مضبوط بانہوں کے حصار میں تھی ۔۔۔

پورا وجود جیسے اسکی گرم سانسوں سے جلنے لگا تھا ۔بدن میں سنسناہٹ دوڑی۔۔۔۔

اردگرد اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔۔۔

"آ۔۔۔۔آپ ۔۔۔کون ۔۔۔؟

وہ بمشکل اپنا حلق تر کرتی گھٹی گھٹی آواز میں بولی ۔۔۔

تبھی مقابل نے لیٹر جلایا اور اس میں سے نکلتا آگ کا شعلہ اندھیرے کو چیرتا ہوا مدھم سی روشنی پھیلا گیا ۔۔۔۔

امینہ نے لرزتی ہوئی پلکیں اٹھا کر سامنے دیکھا ۔۔۔۔وہ کوئی انجان تھا ۔۔۔جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں زرا بھی شناسائی کی رمق نہیں تھی ۔۔۔۔

اس نے حویلی کے سب افراد کو دیکھ لیا تھا وہ شخص ان میں سے نہیں تھا ۔۔۔۔

امینہ نے حیران کن نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"آدم ۔۔۔۔!!!!

مقابل موجود شخص گھمبیر آواز میں بولا ۔۔۔۔

امینہ نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔

اپنی کمر کے گرد اسکے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کر اس سے دوری بنانی چاہی۔۔۔۔۔

ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﮑﯿﺮ ﺑﻦ

، ﺟﺎﺅﮞ

ﺻﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﻘﺪﺭ ،ﺗﯿﺮﯼ

 ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﻦ ﺟﺎﺅﮞ

ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ

 ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﮨﺮ ﺭﺷﺘﮧ

ﺻﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺮ ﺭﺷﺘﮯ 

، ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻦ ﺟﺎﺅﮞ

ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮫ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﺁﺅﮞ ﻣﯿﮟ

، ﮨﯽ ﻧﻈﺮ

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏ

ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﻦ ﺟﺎﺅں۔

لبوں پہ مبہم سا تبسم لیے اسنے مدھم سی سرگوشی نما آواز میں کہا ۔۔۔۔

امینہ کا جسم کپکپانے لگا اس اجنبی کے لہجے پہ۔اس نے کسمسا کر خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروانا چاہا ۔۔۔۔

"کبھی کبھی اک پہلی نظر  انسان کو ایسے آکٹوپس میں جکڑ جاتی کہ وہ تاعمر اس کے حصار سے نکل نہیں پاتا "

اس نے امینہ کی ہرنی کے مانند خوفزدہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے فسوں خیز آواز میں کہا ۔۔۔۔

اس کی انگلیاں اسکے شانوں سے پھسلتی چلی گئی ۔۔۔۔

مگر وہ ابھی بھی خود کو اسکے حصار میں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔

خوف کے باعث کچھ موتی ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے نکلے ۔۔۔۔۔

جنہیں آدم نے اپنی پوروں پہ چُنا ۔۔۔۔

"میرا وعدہ ہے ،ان آنکھوں سے آنسو چرا کر ان میں اپنے لیے محبت بھرے رنگ بھر دوں گا ۔۔۔۔ 

وہ جیسے کسی طلسم کے زیر اثر بنا سوچے سمجھے جو بھی منہ میں آیا تھا بولے چلا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔امینہ کی حالت تو یوں تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔۔۔

تبھی اچانک سے لائٹ آگئی اور حویلی میں لائیٹیں جل اٹھیں بتاؤں طرف روشنی پھیلی جو آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔۔۔

امینہ دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔

"امینہ تمہیں ماچس لینے بھیجا تھا اور تم ۔۔۔۔

ھادیہ کے پیچھے پیچھے سسی اور چاہت بھی باہر نکلیں ۔۔۔۔

امینہ بنا جواب دئیے ۔۔۔۔تیزی سے سیڑھیاں پھیلانگتے ہوئے اوپر چڑھ گئی اور جاکر کمرے کے دروازے کے ساتھ پشت لگائے گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔۔

اس اجنبی کی بازگشت ابھی بھی اسکے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔

وہ دل پہ ہاتھ رکھے اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

آدم کو سامنے دیکھ کر چاہت پہ تو گویا حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔۔

اس نے اپنی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے مسلتے ہوئے دوبارہ پورا کھول کر دیکھا ۔۔۔آیا کہ جو اس کی آنکھوں نے دیکھا وہ سچ تھا یا محض اس کا وہم ۔۔۔۔۔

مگر وہ اسے سامنے کھڑا مسکراتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔۔

آدم نے دونوں بانہیں واہ کیں تو چاہت تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے قریب پہنچی ۔۔۔۔ 

"میں نے آپ کو بہت یاد کیا برو "۔۔۔!!!!!!

آنسو اسکی پلکوں کی باڑ توڑے گالوں پر پھسلنے لگے ۔۔۔۔

وہ خود کو بہت ٹوٹا ہوا محسوس کر رہی تھی۔

اسے تو یہی لگا تھا کہ اب کبھی وہ دوبارہ اپنے بھائی کو کبھی ذندہ دیکھ نہیں پائے گی ۔۔۔۔

"میں نے بھی تمہیں بہت یاد کیا "

اس کے لہجے میں بھی برادرانہ شفقت نمایاں تھی ۔۔۔۔۔

اس کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی ۔

اتنے سالوں بعد آدم کو سامنے دیکھ کر چاہت کے ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا اور وہ بھاگتے ہوئے اس کے گلے لگ کر زار و زار رونے لگ گٸی۔ آدم بھی اسے اپنا ساتھ  لگا کر بہت رویا ۔

آج بہت عرصے بعد اس کو یوں محسوس ہوا تھا جیسے  وہ ایک گھنے ساۓ میں آ گٸی ہے اور اب اس کو کوٸی نقصان نہیں پہنچاسکتا تھا۔

”برو۔۔! پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔؟“ 

”ارے چاہ میری گڑیا۔۔۔۔! ایسے نہ کہوں بیٹا۔معافی تو مجھے مانگنی چاہٸیے تم سے تمہارا خیال نہیں رکھ سکا ۔۔" اس نے اسے پھر اس کو گلے لگا لیا۔ وہ پھر اس کے گلے لگ کر رونے لگ گٸی۔

”چاہ !تم ایسے روؤ مت ۔۔ بس اب چپ کر جاؤ ۔تمہارا بھائی آگیا ہے ، اب تمہیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔جو ہونا تھا ہوگیا وہ میری قسمت میں لکھا تھا شاید اور اللہ نے مجھے آزمایا ہے کہ میں اس کے دٸیے دکھوں کو برداشت کر سکتا تھا یا نہیں اور دیکھو اللہ نے مجھے اس صبر کے بدلے پھر سے تم سے ملا دیا۔۔۔“ وہ بہت آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر 

"مگر برو آپ کے بنا میں کچھ بھی نہیں ۔۔۔کتنی اذیت ناک زندگی گزاری ہے میں نے ۔۔۔۔پل پل آپ کو یاد کیا میں نے ۔۔۔۔

وہ سوں سوں کرتی ناک سے بولی ۔۔۔۔

آدم بہت حیران ہو کر سن رہا تھا کہ اس کی چھوٹی سی گڑیا اب بڑی ہو گٸی تھی اور بہ بہت سمجھدار بھی۔۔۔

”میری پرنسس کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگ گٸی ہے۔ اور بہت سمجھدار بھی ہوگٸی ہے۔۔۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔۔

”برو ۔! میں کوٸی بڑی نہیں ہوٸی آپ کی وہی چھوٹی سی پرنسس ہی ہوں اب بھی ۔“اس نے جھینپ کر کہا اور پھر سے اس کے گلے لگ گٸی۔آدم  بھی ہنسنے لگ گیا ۔

یارم بلوچ جو ابھی آتش بلوچ اور ھاد بلوچ کے ساتھ لاونج  میں آیا تھا وہ چاہت  کو اتنا خوش دیکھ کر حیران سا وہی رک گیا اس نے آج شادی کے بعد پہلی بار چاہت کو اتنا خوش دیکھا تھا۔اس کا دل مطمٸین ہوگیا ۔۔۔۔مگر آدم کو ذندہ دیکھ کر وہ بہت حیران تھا ۔۔۔۔۔۔

 یارم ،آتش اور ھاد چپ چاپ کھڑے بہن بھائی کو روتے دیکھ رہے تھے۔ بہت سا رونے کے بعد جب دونوں الگ ہوٸے تب چاہت بی کی نظر سنجیدہ چہرہ لیے یارم بلوچ پر پڑی ۔ وہ بہت شرمندہ ہوئی  ۔۔۔۔اور شرمندگی کے باعث چہرہ جھکا گئی ۔۔۔۔

”معاف کرنا بیٹا ۔۔۔! میں نے آپ کو پہچانا نہیں ۔۔۔“ زرش بلوچ بھی لاونج میں ہی کھڑی تھیں۔۔۔انہوں نے چاہت کو ایک انجان لڑکے کے گلے لگ کر روتے دیکھا تو آدم کی طرف سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔

”معذرت کی کوٸی بات نہیں ۔آپ مجھے جب جانتی ہی نہیں تو پہچانیں گی کیسے ؟۔“ اس نے ان کی شرمندگی بھانپ کر کہا ۔۔۔

”ممی یہ میرے برو ہیں۔ایڈم ۔۔۔میرا مطلب ہے "آدم" ۔۔۔۔“چاہت نے بڑی بے تابی اور پر شوق انداز سے بتایا ۔۔

”دراصل مجھے صوفی آنٹی نے یارم بلوچ کا یہ کارڈ دیا تھا ۔اور بتایا تھا کہ انہوں نے صوفی آنٹی کو کہا تھا کہ یہ میرے فادر کے رشتے دار ہیں ۔اور میری بہن چاہت سے نکاح کر کہ اسے اپنے ساتھ پاکستان لے آئے ہیں ۔بس انہیں کے کارڈ پہ درج معلومات کے زریعے یہاں تک پہنچا ہوں اپنی بہن چاہ سے ملنے ۔“اس نے تفصیلی جواب دیا۔۔۔

”مگر تمہارے فادر کا یارم سے کیا تعلق ؟۔۔۔۔۔۔۔۔"زرش بلوچ نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے رسان سے آدم سے پوچھا ۔۔۔

"اب تعلق یارم بلوچ نے بتایا ہے تو پتہ بھی انہیں ہی ہوگا ۔۔۔۔

"میں تو یہ بھی نہیں جانتا آپ میں سے یارم بلوچ ہے کون ؟

اس نے جانچتی ہوئی نظروں سے سب کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔

"میں ہوں سردار یارم بلوچ"

وہ بھاری آواز میں بولا۔۔۔

اس وقت آتش بلوچ جینز اور  شرٹ پہنے ۔ھاد شلوار قمیض میں ملبوس،جبکہ یارم ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہنے جس میں سے اس کے بائیسیپس والے نیلی رگوں والے سفید بازوں نمایاں ہو رہے تھے ،پیشانی پہ لاپرواہی سے بکھرے ہوئے سیاہ بال ،گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں میں دبا سیگریٹ جس میں سے وہ دھوئیں کا مرغولہ بناتے ہوئے ہوا میں اچھال رہا تھا۔۔۔۔صبیح پیشانی پہ شکنوں کا جال بچھا ہوا تھا۔وہ تیکھے نقوش کا حامل شخص آدم کو پہلی نظر میں ہی بہت مغرور لگا ۔۔۔۔۔اس کی زیر کر دینے والی پرسنالٹی تھی ،مگر کہاں وہ ایک مکمل سردار ٹائپ دیوہیکل مرد اور کہاں اسکی پانچ فٹ دو انچ کی نازک سی گڑیا جیسی بہن ،اسے کہیں سے بھی ان کا جوڑ برابر کا نا لگا ۔۔۔۔۔اس نے لب بھینچ لیے ۔۔۔۔

"پہلے تم میرے سوال کا جواب دو پھر تمہارے سوال کا جواب اپنے آپ مل جائے گا۔۔۔۔"

یارم بلوچ صوفے پہ بیٹھ کے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنے مخصوص انداز میں گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔۔

آدم نے چاہت کے شانے کے گرد اپنا بازو رکھا ۔۔۔۔

یارم بلوچ کے چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ ساتھ تاثرات اب کی بار مزید پتھریلے ہوگئے ۔۔۔۔اسکی حیات کو کوئی اس کے سامنے ہاتھ بھی لگائے اسے کہاں گوارا تھا وہ چاہے اسکا بھائی ہی کیوں نا ہو ۔۔۔مگر اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر خود پہ ضبط 

کے کڑے پہرے لگائے ۔۔۔۔

"جی پوچھیں "؟

"آؤ بیٹا بیٹھ کر بات کرو "

زرش بلوچ نے آداب میزبانی نبھاتے ہوئے سادہ انداز میں اسے پیشکش کی ۔۔۔۔

آدم اور چاہت سامنے لگے ٹو سیٹر صوفے پہ بیٹھ گئے ۔۔۔۔

جبکہ آتش بلوچ سینے پہ ہاتھ باندھے انہماک سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔

ھاد بلوچ بھی ایک خالی صوفے پہ بیٹھ گیا ۔۔۔۔

سسی ،ھادیہ بھی زرش بلوچ کے صوفے کی پشت پہ کھڑی تھیں ۔۔۔۔

"امریکہ میں میرے دوستوں نے مجھے ایک رات جان بوجھ کر ڈرنک کروادی تھی ۔نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کے دوران مجھ سے تمہارا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا ۔میں نے اپنے ان ہاتھوں سے تمہاری تدفین کے تمام معاملات نبٹائے تھے پھر ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ تم واپس ۔۔۔۔؟؟؟؟

ایسی کیا مسڑی تھی جو یارم بلوچ جیسا ماسٹر مائنڈ بھی سلجھا نہیں پا رہا تھا ۔تبھی اس نے دماغ میں آیا پہلا سوال اس سے پوچھا ۔۔۔۔

"میں آپ کو بات شروع سے بتاتا ہوں "

آدم نے سنجیدگی سے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔۔

سب اس کی طرف ہی متوجہ تھے ۔۔۔۔۔

واشنگٹن :   ہم آج تک ایک بات سنتے ہی آئے ہیں کہ دنیا میں ہرکسی کا ایک ہم شکل ہوتا ہے، آج تک یہ بات محض افسانوی حیثیت ہی رکھتی تھی لیکن اس خبر کو پڑھنے کے بعد اس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

آئرلینڈ کی 26سالہ خاتون نیامہ گینے نے اپنی دو دوستوں کے ساتھ مل کر ایک  (ٹوئن اسٹرینجرز) کے نام سے ایک ویب سائٹ لانچ کی، جس کے ذریعے دنیا بھر کے لوگ اپنے ہم شکل تلاش کر سکتے ہیں۔

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سپرنگ میں رہنے والی 33سالہ جینیفر نے اس ویب سائٹ پر اپنا ہم شکل تلاش کرنے کی کوشش کی، ویب سائٹ کے نتائج سے اسے معلوم ہوا کہ نارتھ کیلیفورنیا کے شہر فیٹوائل میں امبرا نام کی23سالہ لڑکی رہتی ہے جو اس کی ہم شکل ہے۔

جینیفر اور امبرا نے اسی ویب سائٹ پر ایک دوسرے سے رابطہ کیا اور ملنے کا پروگرام بنایا تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ان کی شکل کتنی آپس میں ملتی ہے، امبرا نے جینیفر سے وعدہ کیا کہ وہ اسے ملنے آئے گی،  پھر ایک روز امبرا جینیفر کے پاس پہنچ گئی اور جب وہ دونوں آمنے سامنے آئیں تو حیران رہ گئیں۔ ان دونوں کی شکلوں میں اس قدر مماثلت تھی کہ جیسے وہ دونوں جڑواں بہنیں ہوں۔

امبرا سے ملنے کے بعد جینیفر کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے امبرا کو دیکھا تو ایسے لگا جیسے میں آئینے میں اپنا ہی عکس دیکھ رہی ہوں، مجھے یہ سب دیکھ کر ایک جھٹکا لگا ،یہ بہت خوفناک احساس تھا، بالکل ایسے جیسے انسان اپنا ہی بھوت دیکھ رہا ہو۔‘‘ ان دونوں کی شکلیں اس قدر ملتی تھیں کہ جب امبرا جینیفر کے گھر پہنچی تو پاس کھڑی جینیفر کی والدہ بھی حیرت سے دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔

اور یہ بالکل سچا واقع تھا ۔

میرے ساتھ بھی بالکل ایسا ہوا۔ ۔۔مجھے بھی مائیکل نامی ایک شخص نے اسی ایپ کے تھرو ملنے کے لیے بلایا اور مجھے پرکشش جاب کی آفر  کی ۔۔۔۔میں جیسے ہی اس سے ملنے گیا۔۔۔۔۔

اس نے اپنی دو آدمیوں کے ساتھ ملکر مجھے بیہوش کردیا ۔۔۔۔اس کے آگے میرے ساتھ کیا ہوا مجھے کچھ پتہ نہیں چلا ۔۔۔۔جب مجھے ہوش آئی تو میں امریکہ کے ایک مشہور ہوٹل کے شاندار کمرے میں تھا ۔میرے وجود پہ قیمتی لباس تھا ۔وہاں کہ ہر چیز اعلی اور شاہانہ تھی ۔

جبکہ میرے پرانے کپڑے ۔میرا والٹ ،آئی ڈی کارڈ ۔سب غائب تھا ۔۔۔۔

میں نے پاکٹ میں ٹٹول کر دیکھا وہاں ایک لیدر کا والٹ تھا ۔جس میں مائیکل نامی شخص کا آئی ڈی کارڈ نکلا ۔۔۔

اس آئی ڈی کارڈ پہ ہو بہو میری تصویر تھی مگر نام اور ایڈریس مختلف تھا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچ پاتا اور وہاں سے نکل جاتا ۔۔۔۔پولیس کے اہلکاروں نے مجھے اریسٹ کرلیا ۔۔۔۔

انہوں نے مجھے دو سال تک جیل میں رکھا ۔۔۔۔مائیکل نامی شخص غیر قانونی کاموں میں ملوث تھا ۔۔۔۔مجھے اس سب کی آہستہ آہستہ بعد میں سمجھ آئی کہ وہ مجھے اپنی جگہ پھنسا کر خود میری زندگی جینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

مگر خدا کی قدرت تو دیکھیں کہ برائی کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔

اس نے مجھے پھنسانا چاہا تھا۔۔۔۔

مگر اسے کیا پتہ تھا کہ اس نے خود کو میری جگہ رکھ کر میری موت کو گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بجائے اس کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ۔۔۔۔

جب میری سچائی ثابت ہوئی تو مجھے پولیس نے رہا کردیا ۔۔۔۔۔

مگر میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی اپنے شہر واپس آنے کی ۔۔۔۔میں نے دن رات محنت کی ۔اور صوفی آنٹی کے پاس پہنچا اور سب سے پہلے چاہت کے بارے میں پوچھا ۔۔۔تو انہوں نے مجھے یارم بلوچ کا کارڈ دے کر ساری بات بتائی ۔۔۔۔۔

"آپ جو بھی ہیں میں آپ کو نہیں جانتا ۔لیکن آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری بہن کی حفاظت کی ۔اسے اپنا نام اور تحفظ دیا ۔۔۔۔

وہ ممنون نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔

آدم کے نقوش زرش بلوچ کو کچھ جانے پہچانے لگ رہے تھے ۔وہ کافی حد تک اپنے والد کی طرح دکھائی دیتا تھا ۔

زرش بلوچ کب سے اسے غور سے دیکھ کر اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں اچانک ان کے دماغ میں جھماکا سا ہوا۔۔۔

"ھادیہ زرا میرے کمرے کی الماری کے آخری خانے سے میرے اور تمہارے بابا سائیں کی شادی کی پرانی البم تو نکال کر لاؤ "

انہوں نے ھادیہ سے کہا تو ھادیہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔کچھ دیر میں ہی وہ البم لیے زرش بلوچ کے پاس آئی اور لاکر انہیں تھمائی ۔۔۔تو انہوں نے کچھ تصاویر الٹ پلٹ کردیکھیں ۔۔۔۔

"ادھر آؤ بیٹا ۔۔۔اسے دیکھو ۔۔۔جانتے ہو اسے ؟

انہوں نے ایک مخصوص تصویر پہ انگلی رکھ کر کہا ۔۔۔

آدم اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے پاس چلا آیا ۔۔۔

جیسے ہی اس کی نظریں اس تصویر پہ پڑیں تو وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔۔۔۔

"ی۔۔۔یہ ۔۔۔تو میرے فادر کی تصویر ہے ۔۔آ۔۔آپ ۔۔۔۔کے پاس کیسے آئی ۔۔۔۔؟

اس نے حیران کن نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

چاہت جو کب سے یارم بلوچ کی طرف دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے سر جھکائے ہوئے تھی ۔اپنے والد کے بارے میں سن کر فورا اپنی جگہ سے اٹھی اور زرش بلوچ کے پاس جاکر تصویر دیکھنے لگی ۔اس کی آنکھیں ایک بار پھر سے بھر آئیں ۔۔۔۔

"میں بھی کہوں مجھے کیوں چاہت سے اتنا اپنا پن محسوس ہوتا ہے ۔اور تمہیں دیکھ کر کیوں مجھے عجیب سا لگا۔۔۔"؟

اب پتہ چلا یہ تو خون کی کشش تھی "

آدم اور چاہت کے علاؤہ بھی سب  نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا ۔۔۔۔آخر ایسا کون سا راز تھا جس سے پردہ اٹھنے والا تھا ۔۔۔

"یہ میرے بھائی مصطفیٰ کی تصویر ہے ۔جو امریکہ گیا تھا اور وہیں اس نے شادی کرلی تھی ۔جب یہاں ہمارے والدین کو پتہ چلا تو انہوں نے اس سے رشتہ ختم کردیا ۔۔۔۔

میری شادی کے بعد وہ امریکہ گیا تھا ۔۔۔اور ایسا گیا کہ کبھی وہاں سے پلٹ کر نہیں آسکا ۔۔۔

ہمیں بس اس کے حادثے میں ہلاک ہونے کی خبر ملی ۔۔۔اسکے بچے بھی تھے اورکہاں تھے ہم نہیں جانتے تھے ۔۔۔۔

آج خدا نے مجھے میرے بچھڑے ہوئے بھائی کی اولاد سے ملا کر اسکی کمی کو پورا کر دیا ۔۔۔۔

میں اپنے خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہوگا ۔۔۔

وہ رندھی ہوئی آواز میں بولیں۔۔۔۔اور آدم اور چاہت کو فرط جذبات سے لبریز انداز میں اپنے ساتھ لگایا ۔۔۔۔

برسوں بعد کسی اپنے خون کے رشتے دار سے اپنی سگی پھپھو سے ملکر وہ دونوں بھی آبدیدہ ہو گئے۔۔۔۔۔

باقی سب خاموش تھے ۔۔۔۔

"چاہت ۔۔۔یہ براق اٹھ گیا تھا تمہیں کمرے میں نا پاکر رو رہا ہے ۔۔۔۔"

امینہ براق کو گود میں لیے نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔

"لائیں اسے مجھے دے دیں "

اس نے ہاتھ آگے کیے براق کو گود میں لیا ۔۔۔

آدم نے شش و پنج کی ادھیڑ بن میں مبتلا چاہت کی طرف دیکھا ۔۔۔جو براق کو گود میں اٹھا کر اسے پیار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

تبھی یارم نے براق کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور پاکٹ سے چاکلیٹ نکال کر اسکی طرف لہرائی تو براق جو بھوک کی وجہ سے اٹھا تھا ۔یارم کے ہاتھ میں اس کی فیورٹ چاکلیٹ دیکھ کر اسکی بھوک چمک اٹھی ۔۔۔۔وہ چاہت کی گود سے نکل کر نیچے اترا اور چھوٹے چھوٹے ڈگمگاتے ہوئے قدم اٹھاتے ہوئے یارم بلوچ کے پاس چلا گیا ۔۔۔۔

اس نے یارم کی طرف دیکھ کر پیاری سی مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔پھر یارم نے چاکلیٹ کھول کر اسکے منہ کی طرف بڑھائی تو براق اسکی تھائی پہ بیٹھ کر مزے سے چاکلیٹ کھانے لگا ۔۔۔۔

"یہ بچہ ؟؟؟؟

آدم جو ابھی بھی گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھا ۔۔۔حیرانگی سے چاہت کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا ۔

"یہ میرا بیٹا ہے برو ۔۔۔۔"براق "

اس عمر میں ہی اس کا بیٹا "؟

وہ کتنی ہی دیر کچھ بول نا سکا چاہت کے بتانے پہ ۔۔۔۔۔

اس عرصے میں کیا سے کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔

"کافی رات ہوگئی ہے ۔۔تم سب آرام کرو ۔۔۔صبح ملاقات ہوگی ۔۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے میں پھر صبح حاضر ہوتا ہوں ۔"

آدم نے وہاں سے جانے کے لیے اجازت چاہی ۔۔۔۔

"اسے بھی اپنا گھر ہی سمجھو ۔۔۔۔ فی الحال تو تمہیں کہیں جانے نہیں دوں گی ۔ابھی تو تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں ۔۔۔۔بعد کی بعد میں سوچیں گے ۔ابھی تم کہیں نہیں جا رہے ۔۔۔۔یہ میرا حکم سمجھو ۔۔۔۔

انہوں نے متانت سے کہا۔۔۔

تو آدم ہلکا سا مسکرا دیا۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے جیسے آپ چاہیں "

چاہت بچے تم ایسا کرو براق کو اپنے ساتھ لے کر اپنے شوہر کے کمرے میں چلی جاؤ اور امینہ کو میں اپنے کمرے میں سلا لیتی ہوں ۔۔۔۔تاکہ مہمان خانے میں امینہ کی جگہ اب آدم کو جگہ دے دیں ۔۔۔۔"

کل دوسرا کمرہ کھلوا کر اسکی صاف صفائی کروالوں گی پھر آدم کو وہیں منتقل کر دیں گے ۔۔۔۔۔

"امینہ تم مہمان خانے سے اپنا سامان لے کر میرے کمرے میں آجاؤ "

انہوں نے سب سے کہا تو سب اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ گئے ۔۔۔۔

ھادیہ آس کے رونے کی آواز سن کر اپنے کمرے کی طرف گئی تھی ھاد بھی اسکے پیچھے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔۔

"آؤ سسی تم بھی روم میں چلو اتنی دیر تک جاگنا صحت کے لیے ٹھیک نہیں ۔۔۔۔آتش بلوچ نے سسی کا ہاتھ پکڑا اور اسے احتیاط سے اپنے لے جانے کے لیے آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

"ما "

چاہت نے آدم کو مہمان خانے کا راستہ دکھانا چاہا تو براق نے اس کے سامنے سے اٹھ کر جانے کی وجہ سے پیچھے سے ہانک لگائی ۔۔۔۔

"چاہت تم براق کو دیکھ لو یہ مہمان خانے سے اپنا سامان لینے جا رہی ہیں میں انکے پیچھے چلا جاتا ہوں تو دیکھ لوں گا کمرہ "

وہ مگن سی اپنا سامان پیک کر رہی تھی کہ دروازے پر ہونے والی زوردار دستک پر اچھل پڑی... دستک دینے والا کوئی ڈھیٹ ہی تھا جو دروازے کو متواتر پیٹے ہی جا رہا تھا..

"کون ڈھیٹ انسان ہے بھئی صبر نہیں ہورہا ..؟" دروازہ کھولتے ہوئے وہ زور سے بڑبڑائی پر سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وہ لمحوں میں چپ ہوکر دروازے کی اوٹ میں ہو گئی...

"مجھے اس کمرے میں رہنے کے لیے بھیجا گیا تھا بس اسی لیے .."اس نے وضاحت دی دروازہ بجانے کی  .. 

"میں بس چیزیں ہی سمیٹ رہی تھی یہاں سے جانے کے لیے ۔۔۔۔وہ دھیرے سے کہتے ہوئے اندر کی طرف آ گئی تو وہ بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہو گیا...

"تم جا رہی ہو..؟" اس کے سوال پر کپڑے تہہ کرتے اس کے ہاتھ لمحے بھر کو رکے پھر اپنا کام کرنے لگے... 

"میں نے تم سے کچھ پوچھا امینہ.." اس کے جواب نہ دینے پر اس نے غصے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف موڑا..

"ہاں میں جارہی ہوں..کیونکہ آپ کو جو یہاں رہنے کی جگہ دی گئی ہے " امینہ نے تحمل سے جواب دیا اور اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرنے لگی..

"کہاں...؟" بے چینی سے پوچھا گیا..

"آنٹی نے بتایا تو تھا .. میں انہیں کے پاس جا رہی ہوں..ان کے کمرے میں " ہنوز اسی انداز میں جواب دیا گیا..

"تم نہیں جا سکتی.." بےچینی اس کے لہجے کے ساتھ اس کے انداز سے بھی عیاں تھی...

"آپ مجھے روکنے والے کون ہیں ؟؟؟؟اور کس حثیت سے میں اس کمرے میں رکوں ۔۔۔۔؟؟؟ میں جا رہی ہوں.. آپ میرا ہاتھ چھوڑیں.." اس بلند آواز میں سختی تھی..

"میں نے کہا نا تم نہیں جا رہی یہاں سے بس.." غصے سے اسے دیوار سے لگا کر وہ سختی سے بولا.. اس کے انداز میں جنونیت تھی.. پھر بھی وہ نڈر بنی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی...

"دیکھئے آپ اس وقت ہوش میں نہیں ہیں.. بہتر یہی ہوگا کہ آپ مجھے جانے دیں یہاں سے..." انداز اب سمجھانے والا تھا..

" میں بالکل اپنے ہوش و حواس ہوں میں.. بس تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم آج اس کمرے سے تو جاؤ گی ۔مگر ہمیشہ کے لیے میرے کمرے میں واپس آنے کا وعدہ کیے .." اس کی آنکھوں میں دیوانگی تھی..

"کیوں ؟؟؟یہ کس قسم کا وعدہ ہے ..؟"

نا ہی میں آج سے پہلے آپ کو جانتی تھی اور نا اب بھی جانتی ہوں ۔پھر یہ پہلی ہی ملاقات میں زندگی بھر کے وعدے وعید ؟؟؟؟

 اس کی ایک ہی ضد سے تنگ آکر وہ چیخ اٹھی..

"لو نا جان نا پہچان میں تیرا مہمان والا حساب ہے "

وہ تنک کر بولی ۔۔۔۔

"مہمان تو بننا چاہتے ہیں مگر آپکے دل کے "

"مجھے تمہاری ان آنکھوں میں وہی تنہائی کا احساس ہوا ہے جس تنہائی کا شکار میرے دل  ہے "

"دو تنہا دل ملکر ایک خوشنما احساس جگائیں گے "

وہ تڑپ زدہ آواز میں بولا۔۔۔

 امینہ کی آنکھوں میں تھمے آنسو چہرے پر پھسل گئے.. اس کا ضبط بھی جواب دے گیا..

 وہ اپنا بازو اس کی گرفت سے آزاد کرکے آنسو پونچھتی بیڈ پر آکر بیٹھ گئی اور اپنے کپڑے بیگ میں رکھنے لگی.. لاکھ کوششوں کے باوجود بھی آنسو بہتے ہے جا رہے تھے جنہیں وہ بیدردی سے پونچھتی اپنا کام کئے جا رہی تھی...

بیگ اٹھائے وہ اس کمرے سے نکل گئی ۔۔۔آدم اسکی پشت کو گھورتے ہوئے تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ اسکی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

یارم براق جو اپنے ساتھ کمرے میں لے کر آگیا ۔۔۔۔

چاہت نا چاہتے ہوئے بھی مرے مرے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پیچھے آئی مگر کمرے کے دروازے کے پاس آکر وہیں رک گئی ۔۔۔۔

اندر جانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔

"اگر آج تم مجھے اور اس کمرے کو چھوڑ کر گئی نا چاہت تو دو دوبارہ تمہیں میرے دل اور اس کمرے دونوں میں جگہ نہیں ملے گی ۔۔۔۔

"بہت بڑی غلط فہمی اور بھول میں ہیں کہ میں دوبارہ یہاں قدم بھی رکھوں گی وہ بھی اپنی مرضی سے۔۔

وہ وہیں دروازے کے ساتھ ملحقہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہی ۔۔۔۔۔

اندر سے براق اور یارم کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔۔۔براق بے وقت اٹھ گیا تھا اب اتنی جلدی اسے کہاں نیند آنی تھی ۔۔۔۔

یارم اسے کوئی کہانی سنا رہا تھا اور براق ما ۔۔۔ما ۔۔۔کرتا اسکی بئیرڈ کو چھو کر ہنستے جا رہا تھا ۔۔۔۔

اسے گدگدی ہورہی تھی اسکی بئیرڈ کو سہلاتے ہوئے ۔۔۔۔

دونوں ملکر کافی دیر تک مستیاں کرتے رہے ۔۔۔۔

اب دوبارہ براق کو نیند آنے لگی تھی مگر سوتے وقت اسے چاہت کے ساتھ لیٹ کر سونے کی عادت تھی ۔۔۔۔

یارم نے اپنی بازو پہ اسکا سر رکھے اسکے گال کو سہلایا ۔۔۔۔

"آپ سو جاؤ ۔۔۔۔بابا آپکے پاس ہیں "

اس نے براق کی طرف دیکھ کر اسے اپنے ساتھ کی تسلی دی ۔۔۔۔۔

"ما ۔۔۔!!!!

مگر براق کے منہ پہ بس ایک ہی دھن سوار ہوچکی تھی ۔

"بیٹا مما ابھی آجائیں گی "آپ سو جاؤ "

اس نے دروازے کی طرف دیکھا جو ہنوز بند تھا ۔۔۔

براق پاؤں نیچے اتار کر بیڈ سے پھسل کر نیچے اترا ۔۔۔اور باہر کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔یارم سمجھ گیا کہ وہ چاہت کو ڈھونڈھ رہا ہے اس کے پاس جانا چاہتا ہے تبھی اس نے اٹھ کر دروازے کی ناب پہ ہاتھ رکھ کر اسے کھولا براق باہر نکلا ۔۔  

تو اس کی نظر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی چاہت پہ پڑی ۔۔۔۔جو قریبا ایک گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے  سے وہیں کھڑی تھی ۔۔۔ایک ہی جگہ پہ کھڑے ہو ہو کر اس کے پاؤں شل ہو چکے تھے ۔۔۔۔

"ما ۔۔۔۔!!!!

وہ چاہت کی انگلی پکڑ کر اسے کمرے کے اندر بلا رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت اس کے ساتھ کمرے کے دروازے پر آگئی مگر وہیں رک گئی ۔۔۔۔اس نے کمرے کے اندر ایک بھی قدم نہیں رکھا۔۔۔۔۔

اور نظریں اٹھا کر یارم کی طرف دیکھا ۔۔۔

جو تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے جاکر بیڈ پہ لیٹ گیا ۔۔۔۔۔

اس نے سرعت سے نظریں چرا لیں ۔۔۔۔اور وہیں بت بنی کھڑی رہی ۔۔۔۔۔براق اس کے اندر نا آنے پہ اب جھجھنجلا کر رونے لگا تھا ۔۔۔اور بار بار اس کی انگلی کو کھینچ کر اندر آنے کے لیے زور لگا رہا تھا ۔۔۔۔

"براق کو نیند آئی ہے سلاؤ اس کو "

بالآخر یارم نے ہی براق کو روتے دیکھ کر سپاٹ لہجے میں  اسے کہا ۔۔۔۔

"وہ ۔۔۔آ۔۔۔آپ ۔۔۔نے منع کیا تھا اس کمرے میں آنے سے "

وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں اٹک اٹک کر بولی ۔۔۔۔۔

"کہا تو میں نے اور بھی بہت کچھ تھا ۔مگر تم وہی سنتی ہو جو تم سننا چاہتی ہو "

وہ کٹیلی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کرخت آواز میں بولا ۔۔۔۔۔

چاہت براق کو گود میں اٹھائے ہوئے بستر تک آئی اور درمیان میں براق کو لٹا کر خود دوسری طرف لیٹ گئی ۔۔۔۔

اور براق کے آنسو صاف کیے ۔۔۔۔

تھوڑی دیر میں براق چپ ہوگیا ۔۔۔۔اب اس کے پاس اس کے مما اور بابا دونوں تھے تو وہ مطمئن ہو گیا تھا ۔۔۔ 

یارم جو آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹ چکا تھا براق کا ننھا سا ہاتھ اپنی بازو پہ محسوس کر کہ اس نے آنکھوں سے اپنا بازو ہٹایا اور اسے دیکھا ۔۔۔۔

"کیا ہوا میرے چھوٹے سردار کو ۔۔۔۔؟

اس نے یارم کا بازو اپنے تکیے پہ رکھا پھر اپنا سر ویسے ہی اس کے بازو پہ رکھ دیا جیسے کچھ دیر پہلے یارم نے رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

یارم کو اس کے عمل پہ ہنسی آئی ۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔اور تھوڑا سا اٹھ کر براق کے چہرے پہ جھک کر اسکے پھولے ہوئے گال پہ چوم لیا ۔۔۔۔

تو براق بھی ہنسنے لگا ۔۔۔۔

اس نے چاہت کے گال پہ بھی انگلی رکھ دی ۔۔۔۔اور یارم کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔

وہ بہت ہوشیار بچہ تھا ۔۔۔اس عمر میں بھی اس کا دماغ اسکے بابا یارم بلوچ کی طرح ضرورت سے زیادہ چلتا تھا ۔۔۔۔

یارم اس کی بات سمجھ چکا تھا کہ براق چاہتا تھا جیسے یارم  نے اسے کس کیا تھا ویسے ہی چاہت کو بھی کرے ۔۔۔۔۔

آنکھیں اس کے متورم چہرے پر گئیں ۔۔۔

جیسے ہی یارم کی نظر ساتھ لیٹی ہوئی چاہت پہ پڑی اس کے چہرے پہ سختی اتر آئی ۔۔۔۔۔

خلاف معمول آج وہ بہت پرسکون تھا... شاید کسی بڑے طوفان کے آنے کا اعلان تھا..

وہ تب سے یارم کا نظر انداز کرنے کا رویہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔۔۔

"بیٹا آپکی مما قاتل کو منہ لگانا پسند نہیں کرتیں"

وہ براق کی طرف دیکھ کر ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔

کتنا سفاک تھا اسکا لہجہ ؛

چاہت خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

"جس آگ میں مجھے جھسلایا ہے اس آگ کی ہلکی سی لپٹیں تم تک پہنچیں تو کیسے چیخیں نکل گئیں ۔۔۔۔؟

وہ کھردرے پن سے کہتے ہوئے رخ پلٹ گیا ۔۔۔۔

"ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں میں نے انہیں بہت ہرٹ کردیا ہے ۔۔۔۔کیسے مناؤں اب انہیں ؟؟؟

اپنی سوچوں سے الجھتے ہوئے نہ جانے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہو گئی اسے پتہ بھی نہ چلا.. رات کے پہر جب وہ ماں بیٹا سوچکے تھے ۔۔۔مگر یارم بلوچ ابھی تک جاگ رہا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور براق سے ہوتے ہوئے اس کے چہرے پر جھکا نرم ہاتھوں سے اس کے چہرے پر آئی کچھ آوارہ لٹوں کو دھیرے سے ہٹاکر اپنے نرم گرم انگوٹھے سے اس کے گلابی ہونٹوں کو نرمی سے سہلانے لگا...

"چاہت یارم بلوچ میں تمہیں اتنا مجبور کر دوں گا کہ اس بار تم خود چل کر میرے پاس آؤگی ۔اپنی مرضی سے .." پرعزم لہجے میں بولتا وہ تھوڑا سا اور جھکا اور اس کے گلابی ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے...

جاگنگ سے آنے کے بعد وہ نہاکر نکلا تو چاہت براق کو بھی تیار کر چکی تھی اور خود بھی  پوری طرح تیار تھی نیچے ناشتے کی میز پر جانے کے لئے... ایک نظر اسے دیکھتا وہ ٹاول سے بال سکھاتا وارڈروب کی طرف آیا اور سفید کھدر کی شلوار قمیض نکال کر اس کا جائزہ لیتا وہ مڑا.....

تو چاہت نے سٹپٹا کر نظریں پھیر لیں اور براق کے ساتھ باتوں میں لگ گئی ۔۔۔۔یارم ڈریسنگ روم سے چینج کیے باہر آیا اور شانوں پہ شال پھیلائی ۔۔۔۔یقینا وہ ناشتے کے بعد مردان خانے میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔۔۔۔

 دو تین دنوں سے ان دونوں میں بول چال بند تھی.. چاہت میں تو کچھ  بولنے کی ہمت ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔جبکہ یارم بلوچ بھی اسے پوری طرح نظر انداز کئے ہوۓ تھا... وہ ایسے بیہیو کر رہا تھا جیسے اس کے اور براق کے علاؤہ اس کمرے میں کوئی تیسرا فرد موجود ہی نہیں ہو ۔۔۔۔چاہت کی نیلی  آنکھیں یارم بلوچ کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں... وہ اس سے ناراض تھا اور اسے اس بات کا بہت افسوس تھا.. اس کی نظریں اس کے سنجیدہ چہرے سے ہوتی ہوئی اس کے بائیں ہاتھ پر گئی جس کی کلائی پر بندھی گھڑی بہت جچ رہی تھی.. 

قمیض کے بٹن لگاتا وہ آئینے کے سامنے کھڑا خود کا جائزہ لے رہا تھا.. آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں.. وہ پرفیوم کی بوتل اٹھائے خود پہ سپرے کیے پلٹا ۔۔۔۔

"براق بیٹا قاتلوں کو اتنے غور سے نہیں دیکھا کرتے ۔۔۔کہیں ان پہ دل آگیا اور محبت ہوگئی تو بہت مشکل ہوگی " اس نظروں کی تپش سے محضوظ ہوتا وہ براق کی طرف دیکھ کر بولا ... 

"محبت نہیں ڈائریکٹ عشق ہوچکا ہے .." اپنے احساسات پر قابو نا پاکر وہ اس کی طرف دیکھ کر بلا اختیار بولی .

" اس کے لہجے میں یقین تھا اس نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا...

"میں خوشفہمیوں میں جینے والا انسان نہیں رہا .تم بھی میری زندگی میں اپنا وہی مقام حاصل کرنے کی خوش فہمیاں پالنا چھوڑ دو " طنزیہ کہتا وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا ..

"دیکھتے ہیں میری خوشفہمیاں جیتتی ہیں یا آپ کی بے اعتنائی..." اس کا چیلنجنگ لہجہ کمرے سے باہر نکلتے ہی اس کی سماعت سے ٹکرایا پھر بھی وہ سر جھٹکتا سیڑھیاں اتر گیا ..

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

" آجاؤں برو ؟۔۔۔۔"

وہ دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوئی تو آدم بیڈ پر لیپ ٹاپ لیے  بیٹھا اپنے لیے کوئی جاب ڈھونڈھنے  میں مصروف تھا ۔اب اگر چاہت یہیں پاکستان میں تھی تو اس نے بھی پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کرلیاتھا ۔۔۔۔۔۔

" ہاں آؤ پرنسس ۔۔۔۔۔یہاں  بیٹھو ۔۔۔۔۔"

لیپ ٹاپ ایک طرف رکھتا وہ اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔چاہت اس کے پاس آکر بیڈ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔

" اچھا ہوا تم خودی یہاں آگئی مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی  ۔۔۔۔۔ تم یارم کے ساتھ خوش تو ہو ؟"

چاہت نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو دام  نے  بنا لگے لپٹے ۔۔۔۔سیدھے سیدھے یارم بلوچ اور اسکے رشتے کی حقیقت جاننے کے لیے بات کر دی 

" برو وہ بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔میں بہت خوش ہوں ان کے ساتھ "

چاہت نے بھی صاف صاف بتا دیا تھا۔۔۔۔ اس کا بھائی ہی تو تھا جس سے وہ بے دھڑک اپنے دل کی ہر بات کر لیتی تھی 

اب وہ اپنے سامنے بیٹھے آدم  کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی بات سن کر اس کے بھائی کا کیا ردعمل ہوگا۔۔۔کیا وہ اسے یارم کے ساتھ دیکھ کر خوش نہیں تھا ۔۔۔۔

" ہممم اچھا  ۔۔۔۔۔۔تم واقعی خوش ہو نا ؟؟۔۔۔مجھے ایسے کیوں لگ رہا ہے کہ تم دونوں میں کوئی مسلہ ہے ؟؟؟"

"برو چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہر میاں بیوی میں ہوجاتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے نا خوش ہوں ۔۔۔۔۔

"میری بہن تو بہت سمجھدار ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا۔

"ممی نے سکھائی ہیں سب باتیں "

وہ اسے زرش بلوچ کے بارے میں بتانے لگی ۔۔۔۔

" مگر وہ عمر میں تم سے بڑا ہے کافی  ۔۔۔۔۔"

آدم  نے جان بوجھ کر اس کے خیالات جاننے کے لیے کمزور سا جواز پیش کیا

" زیادہ تو نہیں ہیں برو ۔۔۔۔ ممی کہتی ہیں کہ شوہر کو میچور ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی مجھے لگتا ہے عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔آپکی زہنی ہم آہنگی زیادہ امپورٹنیٹ ہے ۔۔۔۔ " 

چاہت کی معصومیت پر آدم  کھل کر مسکرایا لیکن پھر سنجیدہ ہو گیا اور اس کو دیکھنے لگا

" کیوں آپ کو وہ اچھے نہیں لگے ؟ ۔۔۔۔"

" اچھا ہے ،بس تھوڑا مغرور سا لگا  ۔۔۔۔۔ "

آدم نے جو بات محسوس کی وہ اس نے بلاجھجک کہہ دی ۔

" اگر میری بہن کو اس سے مسلہ ہے تو کسی کی جرآءت نہیں ہے کہ وہ آدم کی بہن کے ساتھ کچھ غلط کرسکے ۔۔

"لیکن اگر میری بہن اس کے ساتھ خوش ہے تو اپنی بہن کی خوشی میں ،میں بھی خوش ہوں ۔۔۔۔۔

"برو اب آپ مجھے چھوڑ کر کہیں بھی مت جائیے گا "

"سلی گرل ۔۔۔۔!!!

"شادی کہ بعد سب لڑکیاں اپنے گھر رہتی ہیں نا کہ بھائی کے گھر اب تم شادی شدہ ہو تو یہیں اپنے شوہر کے گھر رہو ۔۔۔

"مگر برو آپ بھی یہیں رہیں نا پلیز ۔۔۔۔

"چاہ ۔۔۔۔بچے ۔۔۔۔!!!

"بھائی بہنوں کے گھر رہتے اچھے نہیں لگتے میں جاب ڈھونڈھ رہا ہوں ۔تم سے دور تو میں خود بھی نہیں رہ سکتا ۔۔۔یہیں پاکستان میں رہنے کا سوچ لیا ہے ۔تمہارے قریب ہی رہوں گا زیادہ دور نہیں جاؤں گا ۔۔۔۔تاکہ با آسانی تم سے ملنے کے لیے آسکوں ۔۔۔۔۔

"سچی برو "

وہ خوشی سے چہک کر بولی ۔۔۔

"ہمممم۔۔۔۔۔آدم نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

"برو آپ بھی شادی کرلیں۔۔۔۔کتنا مزہ آئے گا ۔۔۔۔"

"میں بھی اسی بارے میں سوچ رہا ہوں ۔اکیلا رہ کر تھک گیا ہوں ۔اب جلد سے جلد اپنی زندگی میں کوئی رنگ بھرنے والی ہستی لانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔"

"تو پھر ڈھونڈھ لی کوئی "؟

چاہت نے عالم اشتیاق سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔۔

"ہممممم۔۔۔۔۔سمجھو ڈھونڈھ لی ۔۔۔۔۔",

وہ مبہم سا مسکرایا۔۔۔۔

"کیا واقعی ڈھونڈھ بھی لی ۔۔۔۔۔؟

وہ حیرت زدہ آواز میں بولی۔۔۔

"برو وہیں امریکہ میں ہے کوئی ۔۔۔۔؟؟؟

"نہیں ۔۔۔یہاں پاکستان میں "

"ہیں۔ ۔۔۔۔۔!!!!!؟؟؟؟

"وہ کون "؟

وہ نا سمجھی سے بولی ۔۔۔

"تم جانتی ہو اسے ۔۔۔۔

"بتائیں بھی برو ۔۔۔کون ہے جسے میں جانتی ہوں "

"تمہیں نہیں بتاؤں گا تو کس کو بتاؤں گا ۔۔۔۔چلو اتنی ہنٹ دیتا ہوں ابھی اسی گھر میں ہی وہ ۔۔۔۔

"اس گھر میں ۔۔۔۔؟؟؟

چاہت نے اپنے ذہن پہ زور ڈالا ۔۔۔۔۔سسی ۔نہیں ۔۔ھادیہ ۔۔نہیں ۔میں ،ممی ۔۔۔اور امینہ ۔۔۔۔

"بھیو ۔۔۔کیا امینہ ۔۔۔۔؟؟؟؟

وہ جھجھکتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔

"واؤ برو ۔۔۔۔۔

آدم کے مسکرا کر اثبات میں سر ہلانے پہ وہ اسکے شانے کے ساتھ لگی ۔۔۔۔

"آپ نے اس سے بات کی ؟

کچھ دیر بعد وہ سر اٹھا کر بولی ۔۔۔۔

"آج کروں گا ۔۔۔۔ویسے بھی میں چاہتا تھا کہ پہلے جاب مل جائے پھر زرش پھپھو سے کہہ کر امینہ کے گھر رشتہ بھیجوں گا ۔۔۔۔"

"ابھی دیکھو وہ محترمہ بھی مانتی ہیں یا نہیں ۔۔۔۔جب بھی دیکھو ۔۔۔۔مجھے دیکھ کر یوں غائب ہو جاتی ہے جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔

وہ خیال میں اسکا چہرہ سوچ کر مسکراتے ہوئے بولا

"ایسے ہی جن ۔۔۔...!

"اتنے ہینڈسم تو ہیں میرے برو ۔۔۔۔"

چاہت منہ بسور کر بولی ۔۔۔۔

تو آدم کھل کر ہنسنے لگا۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

صبح سے رات ہو چکی تھی  وہ براق کو سلا کرچہل قدمی کی غرض سے کمرے سے باہر نکل آئی... صبح ہونے والی بدمزگی کے بعد سے وہ ابھی تک حویلی واپس نہیں آیا تھا . نہ جانے اس نے سارا دن کہاں گزارا تھا.. سیڑھیاں اتر کر اب وہ باہر لان کی طرف آر رہی تھی ۔۔ اس کا ذہن اب بھی یارم بلوچ میں الجھا ہوا تھا.. وہ اس شخص کو سمجھنے سے اب بھی قاصر تھی جبکہ ان دونوں کے بیچ اب ایک اٹوٹ بندھن تھا..   حویلی میں  پوری طرح خاموشی کا راج تھا.. صرف کچن سے شازیہ کی باقی ملازمین  کے ساتھ بولنے اور کام کرنے کی آوازیں آرہی تھیں..

 وہ دھیرے چلتی کیاریوں کی طرف آگئی جہاں رات کے اس پہر عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا .. اسے حویلی کا یہ حصہ بہت پسند تھا.. یہاں آکر اس کے دل کو سکون ملتا تھا.. قدرتی ہوا اس کی الجھنوں کو اڑا ل لے جاتی تھی.. اس کا دل کرتا کہ پورا دن پوری رات وہ اسی جگہ پر بیٹھ کر گزار دے.. ننگے پاؤں گیلی گھاس پر دھیرے چلتی راستے میں آنے والے ہر پھول کو دیکھ رہی تھی مگر زرش بلوچ نے اسے رات کے وقت پھولوں کو توڑنے سے منع کیا تھا .. حویلی کے لان میں بیچ و بیچ لگے فوارے کے کنارے پر بیٹھ کر پانی میں اپنا ہاتھ ڈال کر وہ اس چھوٹے سے تالاب میں تیرتی ہوئی بطخوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ وہ اس منظر اس ماحول میں اتنا محو ہو گئی تھی کہ آس پاس کی کوئی خبر ہی نہ رہی...

تبھی سامنے سے یارم بلوچ پراڈو میں سے نکل کر اسی طرف آیا تو وہ چونک کر اٹھی ۔۔۔۔اور اس کی طرف عجلت سے بڑھی ۔۔۔۔۔

زرد رنگ کا سادہ سا مگر پیارا سوٹ پہنے دوپٹہ سر پر سلیقے سے اوڑھے گورا شفاف و شاداب چہرہ ، گلابی ہونٹ اور  اس کی ناک میں جو موتی کی نوز پن تھی ۔کچھ دنوں پہلے ہی زرش بلوچ نے اس کا ناک چھدوا کر اسے وہ نوز بن لے کر دی تھی ۔۔۔۔یارم بلوچ کو اسکے چہرے پہ یہ تبدیلی بہت پیاری لگی تھی ۔۔۔۔ اس نوز پن اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔

" میری بات تو سنیں .."

چاہت نے آگے بڑھ کر دونوں بازو پھیلاتے ہوئے اس کا راستہ روکا ۔۔۔

"کیا مسلہ ہے "؟

وہ پیشانی پہ شکنوں کا جال بچھا کر کٹیلی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کرخت آواز میں بولا۔۔۔۔۔۔

 "آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟

وہ انگلیاں مڑوڑتے ہوئے سر جھکائے بولی ۔۔۔۔

"قاتلوں کو کہاں حق ہوتا ہے  ناراض ہونے کا..؟

وہ بھی آپ جیسے اعلی حسب نسب رکھنے والوں کے سامنے  " وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا چاہت کو اس کے لب و لہجے میں طنز کا عنصر نمایاں لگا ۔۔.

چاہت نے سر اٹھا کر دیکھا اسکا چہرہ سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر یارم کے بئیرڈ والے گال پہ رکھا تو اسے حدت کا اندازہ ہوا ۔۔۔۔

"کہیں آپ کو سردی سے بخار تو نہیں ہوگیا ۔۔۔۔

چاہت نے فکرمندی سے پوچھا ۔

"نہیں میں تو لوہے سے بنا ہوں ۔۔۔۔ نا میرا دل دُکھتا ہے کسی کے روئیے سے نا احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔مجھے کیسے سردی لگے گی..یا بخار ہوگا " ؟

"میں کون سا انسان ہوں ؟

وہ لمحہ بہ لمحہ اس پہ طنز کے تیز اچھال رہا تھا ۔۔۔ 

چاہت تو بے زبان ہوکر رہ گئی تھی ۔۔۔کوئی بھی جواب نہیں بن پا رہا تھا اس سے ۔۔۔۔

"کافی دنوں سے آپ کو ٹچ کر کہ نہیں دیکھا مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ آپ لوہے کے ہیں یا ۔۔۔۔۔ نہیں .." 

یارم بلوچ نے اسکو غصے سے  گھورا جس کی آنکھوں میں اسوقت شرارت ناچ رہی تھی..

"قاتل کو ٹچ کریں گی تو آپ بھی گنہگار ہو جائیں گی ۔۔۔آپکے لیے یہی بہتر سے مجھ سے دور رہیں ۔۔۔۔اب مجھے کسی کو ٹچ کرنے یا کروانے کا شوق نہیں رہا ۔۔۔۔۔"

وہ کاٹ دار نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا

"جھوٹ بولنا تو کوئی آپ سے سیکھے.. 

چاہت نے اس کے برفیلے روئیے کو نظر انداز کرتے ہوئے  کھنکھتی آواز میں کہا ۔۔۔۔

"پیچھے ہٹیں میرے سامنے سے.." اس کا بازو جھٹکتے وہ غصے سے بولا .

"ہٹ رہی ہو میرے سامنے سے یا نہیں.." 

"نہیں.." لہجہ ضدی تھا..

"اگر آپ یہاں مجھے اکیلا چھوڑ کر گئے تو ۔۔۔تو ۔۔۔میں چیخوں گی.." اس نے دھمکی دی..

"میری طرف سے اجازت ہے.." وہ جیسے اس کا ظرف آزما رہا تھا..

"آپ کو کوئی کام ہے مجھ سے..تو بتائیے یوں میرا دماغ مت خراب کیجیے" خود پر ضبط کرکے وہ اس بار تحمل سے بولا ..

"جی .."

وہ اسکی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔

"کیا کام ہے.." وہ جیسے ہمہ تن گوش ہوا ..

"محبت کرنی ہے آپ سے.." اس کے شرارتی لہجے پر یارم  نے اپنی بڑی بڑی سرمئ آنکھوں سے اسے گھور کر اسے دیکھا..

"محبت ،عشق سب کہانیوں میں ہی اچھے لگتے ہیں حقیقیت میں ان کا کوئی وجود نہیں ..جب محبوب اعتبار کرنے کے وقت پتھر کے بن جائیں تو محب کا دل بھی اپنے محبوب سے اٹھ جاتا ہے " وہ جانے کے لیے بڑھا تو وہ دوبارہ اس کے سامنے راستہ روکے کھڑی تھی ..

"ہٹا لیں اگر ہٹا سکتے ہیں تو.." وہ سمجھ رہی تھی کہ اسے منانا بہت آسان ہدف ہوگا .

"میری زندگی سے تو اسی رات ہٹ چکی ہو ۔۔۔۔تمہیں راستے سے ہٹانا میرے لیے کچھ مشکل نہیں ہوگا ۔۔۔۔"

 وہ اس کے دونوں بازووں کو کلائیوں سے پکڑ کر پشت پر کرکے اسے خود سے قریب کیے برفیلے تاثرات سجائے بولا.

چاہت کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔۔

"اب آپ کا دل نہیں کرتا مجھ سے محبت کرنے کا .." چاہت نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میٹھے لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔۔۔

"اتنا کھلے عام رومینس اس حویلی میں یہ تو شہر سے بھی زیادہ ایڈوانس کام  ہے کیوں وہاج "؟

اس سے پہلے کہ وہ اسکے دلکش انداز پہ اپنا ضبط کھو بیٹھتا عقب سے آنے والی آواز پہ دونوں نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔۔تو ڈاکٹر زارا اور ڈاکٹر وہاج کے ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی وہ تینوں  ایک ساتھ اندر داخل ہوئے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ کر بول رہے تھے ۔۔۔۔۔

"بھابھی جی ایسی ڈیمانڈز کمرے میں کرتے ہیں "

وہاج شرارت آمیز انداز میں بولا۔۔۔۔۔..

"شٹ اپ یار ۔۔۔۔بہت ہی فضول بولتے ہو .." 

یارم نے اسے مڑ کر گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

"شکریہ.. مجھے بخوبی علم ہے..اپنی اس خوبی کا " اس کی ڈھٹائی پر زارا نے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا..

"ہنس لو کوئی ٹیکس نہیں لگتا  ہے..ہنسنے پہ سارے راستے تو تمہارا ایسا منہ بنا تھا جیسے تمہیں اغواء کر کہ لے جا رہا ہوں یہاں آتے ہی یارم کو دیکھ کر کیسے دانت نکل رہے ہیں تمہارے ۔۔۔۔" وہاج نے گردن ترچھی کرکے اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہا تو زارا کھل کر ہنسنے لگی ۔۔۔۔

"یارم میرا دوست ہے اتنے عرصے بعد مل رہے ہیں مل کر خوشی ہی ہوگی نا ۔۔۔۔تم کیوں حسد سے لال پیلے ہو رہے ہو ؟؟؟؟وہ کھنکتی ہوئی آواز میں بولی اور پھر ۔۔۔۔

"ہیلو یارم !!! 

ڈاکٹر زارا نے اپنا نازک سا ہاتھ بڑھایا جسے یارم بلوچ نے اپنے مضبوط ہاتھ میں دبا کر چھوڑا ۔۔۔۔ 

چاہت نے یہ منظر جلتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔نجانے اسے کیوں جلن محسوس ہوئی یارم کا ڈاکٹر زارا سے اتنی خوش دلی سے ملنا اس کے تن بدن میں آگ سا لگا گیا ۔۔۔

"کیسے آنا ہوا تم لوگوں ؟

یارم نے موڈ بدلتے پوچھا ۔۔۔

"کہتے ہو تو ابھی یہیں سے واپس نکل لیتے ہیں ۔۔۔۔

حد ہے یار اتنا لمبا سفر کر کہ تمہیں سر پرائز دینے کے چکر میں یہاں آئے ہیں اور موصوف پوچھ رہے ہیں ۔خیر سے آئے ہو ۔۔۔۔۔

وہاج شرارت سے بولا ۔۔۔۔

"بکواس کرنا تیرا خاندانی مسلہ لگتا ہے ۔۔۔۔"

یارم ڈاکٹر وہاج کے شانے پہ مکا مار کر بولا ۔۔۔۔

"اور ہمشہ سڑا رہنا تیرا ۔۔۔۔"

وہاج بھی کہاں باز آنے والا تھا وہ بھی دوبدو بولا ۔۔۔۔۔

"آؤ باقی باتیں اندر چل کر کرتے ہیں ۔۔۔۔

یارم بلوچ ان تینوں کو اپنے ساتھ اندر لے کر آیا تو چاہت بھی ان کے پیچھے پیچھے اندر آگئی ۔۔۔۔

"تم نے دودھ نہیں پیا نا ۔۔۔سسی ۔۔۔۔"

آتش کو یکدم یاد آیا تو وہ کمفرٹر ہٹائے بولا ۔۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔

"میرا دل نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔سسی منہ پھلا کر بولی ۔۔۔۔

"دودھ کا دل سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔۔۔اسے دوائی سمجھ کر پی لو ۔۔۔یہ تمہاری صحت کے لیے ضروری ہے ۔۔۔۔رکو میں ابھی لے کر آتا ہوں '

"آپ رہنے دیں میں لے آتی ہوں ۔۔۔۔"سسی نے اسے روکنا چاہا ۔۔۔۔

"نہیں تم رکو میں لے آتا ہوں "

کہتے ہی وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔

سسی کی نظر سائیڈ ٹیبل پر موجود خالی جگہ پہ پڑی ۔۔۔۔

"اوہ آج تو پانی رکھنا بھی بھول گئی ۔۔۔۔

"سنیں ۔۔۔۔!!!

"اس جگ میں پانی بھی لیتے آئیے گا "

اس نے آتش کو پیچھے سے ہانک لگائی مگر وہ اتنی دیر میں سیڑھیاں اتر چکا تھا تبھی اس کی آواز نہیں سن پایا ۔۔۔۔

آتش جیسے ہی لاونج میں پہنچا ۔۔۔۔۔

"ارے آتش یہ تمہارا گھر ہے ؟

"ہیلو ۔۔۔!!!!کیسے ہو,تم ؟؟؟...

سارہ بنا ہچکچاہٹ اس کی طرف بڑھی اور اسکے گلے لگ گئی ۔۔۔۔

"ہیلو ۔۔۔!!!

آتش نے دو قدم پیچھے لیے ۔۔۔

اور اسے فورا سے بیشتر خود سے الگ کیا ۔۔۔۔

مگر سسی جو ٹیرس میں خالی جگہ لیے کھڑی تھی ۔۔۔۔

یہ منظر دیکھ کر اسکی بھوری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔۔

اور وہ غصے سے واپس پلٹ گئی ۔۔۔۔جبکہ سارہ کے چہرے پہ سسی کے یوں غصے سے پلٹ کر جانے پہ شیطانی مسکراہٹ پھیلی ۔۔۔۔۔

"تم جانتے ہو سارہ کو "؟

یارم بلوچ جو وہاج کے ساتھ صوفے پہ بیٹھا تھا اس نے آتش بلوچ سے پوچھا ۔۔۔۔

"جی بھائی یونیورسٹی فیلو تھی  ۔۔۔۔۔وہ روکھے لہجے میں بولا۔۔۔۔

"سارہ ڈاکٹر زارا کی چھوٹی بہن ہیں ۔۔۔۔۔

باقی کی تفصیل یارم نے اسے بتائی ۔۔۔

"جی ۔۔۔"وہ فقط اتنا ہی بولا اور کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

"کھانے کا انتظام کراؤں "؟

یارم نے آداب میزبانی نبھانے کی غرض سے پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں یارم ۔۔۔کھانے کی بالکل بھی تمنا نہیں ۔۔۔راستے میں وہاج نے بہت کچھ کھلایا ہے ۔اب بس ریسٹ کریں گے "

ڈاکٹر زارا نے کہا ۔۔۔۔۔

"باقی کے معاملات کل طے کریں گے "

ڈاکٹر زارا جوں جوں مسکراتے ہوئے یارم سے مخاطب ہوتی چاہت کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔۔۔۔

وہ غصے سے بھری کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔

"صبح ہی ماں سا نے اوپر کے دو کمرے ٹھیک کروائے تھے ۔وہیں ان کے سونے کا انتظام کرو ۔۔۔۔۔"

یارم بلوچ سپاٹ انداز میں بولا تو چاہت کڑے تیوروں سے اس کو گھورتے ہوئے پاؤں پٹخ کر اوپر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋 

”ایسے کیوں بیٹھی ہو چاہت ؟؟؟کیا ہوا تم کچھ پریشان ہو۔۔۔۔۔؟“ سسی اور ھادیہ نے بہت غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔

”نن نہیں میں تو نہیں پریشان۔۔“اس نے آہستہ سے مسکرا کر کہا۔۔لیکن اس کی ہنسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا

”چاہت  ! ہم دو تین دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تم اداس ہو اور پریشان بھی۔یارم جیٹھ سا  سے کوٸی جھگڑا ہوا ہے کیا تمہارا۔۔“ سسی نے اس کے گال کو چھو کر اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔۔

” وہ تو مجھ سے بات ہی نہیں کرتے تو ان سے جھگڑا کیا ہونا۔۔۔۔۔بس وہ ناراض ہیں مجھ سے اس رات میں نے انہیں ناراض کردیا تھا ۔۔۔اس رات کیا کافی بار کیا ہے اور اس بات کو بھی کافی دن ہوگئے ہیں  “ وہ پتا نہیں کس خیال میں تھی اور سب کچھ بولتی گٸی۔۔۔

”یہ کیا کہہ رہی ہو تم چاہت ۔“ وہ دونوں ہی پریشان ہوگٸیں ۔

”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔اب وہ مجھ سے پہلے جیسا پیار نہیں کرتے اور اس کی وجہ بھی میں خود کی ہوں ۔میں انہیں اپنے بھائی کا قاتل سمجھتی رہی اور انہیں نجانے کیا کیا کہتی رہی ۔اب وہ  بات بات پہ خود کو قاتل قاتل کہہ کر مجھے جلاتے رہتے ہیں “ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔۔۔

”چاہت جو بھی ہوا وہ سب ہونا قسمت میں لکھا تھا لیکن  اب  یہی تمہارا گھر ہے اور تم نے ادھر ہی رہنا ہے اور اگر جیٹھ سا نے پہل نہیں کی تو تم کر لو اس بار پہل انہیں منانے میں۔۔۔یہ کون سا بڑی بات ہے۔۔پیار میں جھک جانا کوئی بری بات نہیں “سسی  نے اس کو رسان سے سمجھاتے ہوۓ کہا۔ وہ جانتی تھی کہ چاہت نے جو دیکھا سنا ویسے ہی کیا ۔۔۔وہ بھی غلطی پہ نہیں تھی ۔مگر اس رشتے کو نبھانا بھی تو تھا ۔۔اور ایک دوست ہونے کے ناطے  اس کا فرض بنتا تھا چاہت کو سمجھانا۔

”ٹھیک ہے اب جب وہ مجھ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے تو پھر میں کیوں کروں بات ۔۔۔“ اس نے روٹھے پن سے کہا اور اٹھ کر جانے لگی۔۔جب سسی  نے اس کو بازو سے پکڑ کر پاس بیٹھا لیا۔۔

”چاہت میری بات تو سن لو ۔تم یارم جیٹھ سا  کو اپنا شوہر مانتی ہو نا وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں ۔انہوں نے تمہیں اس گھر میں عزت دلوائی تمہیں بہو کو مقام دلوایا سب کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے ۔۔۔تمہارے جانے کے بعد تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ۔۔۔کیسے تڑپتے رہے تمہارے بنا ۔۔۔وہ چاہتے تو تمہاری غیر موجودگی میں کسی اور کو بھی اپنی زندگی میں جگہ دے سکتے تھے مگر انہوں نے تمہارے ملنے کا  انتظار کیا ۔۔وہ اب بھی تم سے محبت کرتے ہیں ۔بس تھوڑا سا وقت لگے گا ۔وہ مان جائیں گے اس کے لیے تمہیں تھوڑی سی محنت کرنی پڑے گی “ سسی نے چاہت کو رسان سے کہا ۔۔

"واقعی سسی ٹھیک کہہ رہی ہے ۔۔۔تم مناؤ انہیں ۔۔۔ھادیہ بھی سنجیدگی سے گویا ہوئی

”تم سچ کہہ رہی ہو وہ مان جائیں گے ۔۔۔مگر کیسے ؟؟؟؟..“اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔

”میں جو بھی کہہ رہی ہوں اس کو سمجھو۔اور سوچنا ضرور کہ اگر یارم جیٹھ سا نے تمہارے ساتھ غلط کیا ہے تو تم اس سے بھی ذیادہ غلط کر رہی ہو ۔وقت رہتے ہی انہیں منا لو ۔۔۔۔۔“

”تم پیار کرتی ہو نا ان سے "؟

”ہممم۔۔۔وہ مجھے اچھے لگتے  اور اب مجھے ان کی کمی بہت محسوس ہوتی ہی ہے اس لیے تو مجھے ان کی اگنورنس نہیں برداشت نہیں ہو رہی اور اوپر سے وہ ڈاکٹر زارا۔۔۔۔!!!!جب سے آئیں ہیں سارا دن چپکی رہتی ہیں ان سے نجانے کون سی ایسی باتیں ہیں جو ختم نہیں ہو رہی ۔۔۔اور وہ بھی میری طرف دیکھتے بھی نہیں اور ان سے کیسے ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔“وہ جو دو تین دن سے اداس تھی سسی اور ھادیہ کے گلے لگ کر رونے لگ گٸی انہوں نے بھی اس کو رونے دیا۔۔۔تاکہ اسکے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاۓ۔

”چاہت ہم تینوں ہی  بہت خوش قسمت ہیں ۔جو ہمہیں اتنے پیار کرنے والے ہزبینڈ ملے ۔۔ لیکن کبھی کبھار کسی ایک کو تو جھکنا پڑتا ہے اور پیار میں انا ،غرور کام بگاڑ دیتی ہے ۔۔“ انہوں نے اس کو خود سے الگ کر کے اس کے آنسو صاف کر کے اس کو اچھے سے سمجھایا ۔۔۔

”تم کوئی اچھا سا حربہ آزماؤ اور منا لو اپنے ہزبینڈ کو ۔“

"آپ بتائیں نا مجھے ۔۔۔۔میں کیسے مناؤں انہیں "

وہ ان دونوں کی طرف دیکھ کر معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔۔۔

"دیکھو سسی ۔۔۔۔!!! 

"ویسے تو جیٹھانی سکھاتی ہیں۔اپنی دیورانیوں کو ۔۔۔یہاں الٹا ہی سسٹم ہے ۔۔۔۔دیورانیاں سکھا رہی ہیں جیٹھانی صاحبہ کو ۔۔۔۔ ھادیہ شرارتی انداز میں بولی ۔۔۔۔

"میں نے کتنی بار کہا ہے مجھے مت کہا کریں ۔۔ یہ جیٹھانی ویٹھانی ۔۔۔۔مجھے پسند نہیں ۔۔۔۔۔۔

چاہت منہ پھلا کر خفگی بھرے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔

"لو بھئی ہمیں کونسا گول گپے چٹخارے لے کر کھانے جیسا مزہ آتا ہے تمہیں جیٹھانی بول کر ۔۔۔۔

چاہت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ھادیہ کا مذاق زرا بھی اسکے پلے نہیں پڑا ۔۔۔۔

سسی بھی ہنسی ۔۔۔۔ 

"ہم میں رشتہ ہی نہیں دیورانی جیٹھانی والا ۔۔۔۔ہم دوست ہیں اور ہمیشہ دوست ہی رہیں گی ۔۔۔۔

ھادیہ نے کہا ۔۔۔

"ہممم ۔۔۔بالکل ۔۔۔۔"سسی نے  تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ ۔۔۔

"اچھا چلیں مشورہ دیں کیا کروں۔  "

"تم نا اچھا سا ڈریس پہن کر انہیں چونکا دو اچھا تیار شیار ہو کچھ یونیک سٹائل میں کہ جیٹھ سا پھڑک جائیں ۔۔۔۔"وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ 

"ہیں۔ ؟؟؟یہ پھڑک جانا کیا ہوتا ہے ؟

چاہت نے سوالیہ لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔

 "میری معصوم سی سہیلی ۔۔۔۔یعنی کہ تمہیں دیکھ کر ہی وہ  خود پہ قابو نا رکھ سکیں ۔۔۔ 

 اس نے مسکرا کر آنکھیں صاف کیں ۔۔۔ وہ آج اتنے دن بعد دل سے مسکراٸی تھی۔

پھر اٹھ کر چاہت کے کمرے میں آگئیں ۔۔۔۔

میں کیا پہنوں..؟ میرے پاس کچھ بھی ڈھنگ کا پہننے کو نہیں ہے.." وارڈروب کھولے وہ ایک کے بعد ایک کپڑا رد کرتی بیڈ پر اچھال رہی تھی.. تھوڑی دیر بعد پوری وارڈروب خالی ہو گئی لیکن اسے ایک بھی کپڑا پسند نہیں آیا جو وہ شام کو اس کو منانے کے لیے پہن سکے ..

"کیا..؟ تمہاری پوری وارڈروب کپڑوں سے بھری پڑی ہے اور پھر بھی تم کہہ رہی ہو کہ کچھ بھی پہننے کو نہیں ہے تمہارے پاس..؟"ھادیہ نے حیرانی سے بیڈ کے کونے پر آکر ٹک گئی اور ایک ایک کپڑے کو بغور دیکھ رہی تھی..

"کیا پہنوں میں تم ہی کچھ بتاؤ سسی .." وہ تھک کر بیڈ پر ان دونوں کے ساتھ آبیٹھی..

"اتنا پریشان  کیوں ہو رہی ہو.. تم پر تو سب کچھ سوٹ کرتا ہے.. کچھ بھی پہن لو..."

"ایسا کرو ساڑھی پہن لو زرا ۔۔۔۔۔"آہم۔۔۔۔آہم ۔۔۔۔اُس قسم کی ۔۔۔۔

ھادیہ شرارتی انداز سے گلا کھنگارتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"اب یہ اُس قسم کون سی ہے "؟

چاہت نے ماتھے پر بل ڈالے کہا ۔۔۔۔۔

"ادھر آؤ "

ھادیہ نے اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں کچھ کہا تو چاہت کا چہرہ سرخی مائل دکھائی دینے لگا ۔۔۔۔

"ھادیہ تم بھی نا ۔۔۔۔

"مجھے نہیں پہننی آتی ساڑھی ۔۔۔۔کچھ اور بتاؤ نا ۔۔۔

"چاہ ایسا کرو اچھا سا فراک پہن لو ۔۔۔سسی نے اسے ڈیسینٹ سا مشورہ دیا ۔۔۔۔

"لو اس پہ نا جانا ۔۔۔بھلا رومینٹک نائٹ پہ فراک کون پہنتا ہے "

"تم میری بات مانو ۔۔۔ایسا کرو اچھا سا سلک کا نائٹ گاؤن پہن لو ۔۔۔۔

ھادیہ نے اسکا رخ اپنی طرف پھیر کر مشورہ دیا ۔۔۔۔

"چاہت تم ایسا کرو شاٹ سی نائٹی پہن لو ۔۔۔۔سسی نے مسکراتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔

"اوئے ہوئے تجربہ بول رہا ہے ۔۔۔۔۔ھادیہ نے سسی کو چھیڑا ۔۔۔ 

"ھادیہ ۔۔۔۔!!  سسی نے ھادیہ کو تند نگاہوں سے گھورا تو تینوں ہنسنے لگیں ۔۔۔۔

اور ہاں روم کو بھی زرا رومینٹک سا بنالینا ۔۔۔۔

"وہ کیسے ۔۔۔۔؟

چاہت پھر سے بوکھلائی نئے آرڈر پہ ۔۔۔۔

"لو بھلا سارا کچھ ہم ہی بتائیں گے تھوڑا سا اپنے اس ننھے سے دماغ کو بھی کام میں لے آؤ ۔۔۔۔شاباش ۔۔۔ "

اور ہاں ۔۔۔۔اس بار کوئی گڑبڑ مت کرنا ۔۔۔۔یہ نا ہو ڈاکٹر زارا اڑا کر لے جائے جیٹھ سا کو ۔۔۔

ھادیہ نے جان بوجھ کر اسے غصہ دلایا ۔۔۔تاکہ وہ اپنے مقصد سے پیچھے نا ہٹے ۔۔۔۔

سسی اور ھادیہ باہر نکل گئیں ۔۔۔۔۔

اور زرش بلوچ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔۔

"ویسے یہ دونوں بہنیں مجھے بھی ایک آنکھ نہیں بھاتیں ۔۔۔ سسی نے بھی تنہائی میں ھادیہ سے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔۔۔۔

"اوہ تو آگ یہاں بھی برابر لگی ہوئی ہے "

ھادیہ جو راہداری سے گزر رہی تھی سسی کے شانے سے شانہ مارتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔۔۔

"میں نہیں بولتی تم سے ۔۔۔بجائے کہ میرا دکھ سمجھو تم ۔۔۔۔"!

وہ مصنوعی خفگی سے چہرہ پھیر گئی ۔۔۔۔

"اچھا رک نا مجھے بات تو بتاؤ کیا ہوا ۔۔۔۔

وہ دونوں راستے میں ہی کھڑی ہوئی تھیں ۔۔۔۔

"وہ سارہ فضول مکھی کی طرح میرے شہزادے کے گرد بھنبھناتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔

وہ جل کر بولی۔۔۔۔

"تو تم اسے چائے میں سے مکھی کی طرح نکال کر مسلتے ہوئے باہر پھینک دو ۔۔۔۔

"وہ کیسے ۔۔۔۔"

سسی نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔

"اف اللہ کیا سب کو مشورے دینے کے لیے میں ہی رہ گئی کیوں بنایا مجھے اتنی سیانی ۔۔۔۔۔!

وہ آسمان کی طرف چہرہ کیے دہائی دینے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

تو سسی نے ایک زوردار دھموکہ اسکی شانے پہ جڑ دیا ۔۔۔۔۔۔

"آؤ پہلے ماں سا سے مل لیں پھر بات کرتے ہیں ۔۔۔۔

دونوں انکے کمرے میں داخل ہوگئیں ۔۔۔۔۔

اور آپس میں باتیں کرنے لگیں ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سردیوں کے موسم میں دھوپ ایک نعمت سے کم نہیں ہوتی آج سورج اس ٹھنڈے موسم میں پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔۔اور اپنی سنہری روشنی چاروں اطراف پھیلائے ہوئے تھا ۔سسی کا سنگترے کھانے کا من تھا ،امینہ آتش بلوچ سے چھپ کر اس کے لیے سنگترے لینے کے لیے حویلی سےشازیہ کے ساتھ باہر نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔

وہ واپس آرہی تھی کہ اسے کوئی شخص اپنی طرف آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔ جوں جوں وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آرہا تھا شناسائی سے اگلے ہی پل اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں اسے اپنی بصارت پہ یقین کرنا دوبھر ہوا۔۔۔۔.

"یہ بندہ کچھ جانا پہچانا نہیں لگ رہا ہے نا امینہ بی بی ..؟" شازیہ کی آواز پر وہ چونک کر اپنے حیرت کے سمندر سے باہر نکلی.. پھر آنکھیں پٹپٹا کر دوبارہ اس شخص کو دیکھا جو یقینا آدم ہی تھا.. اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ وہ دھیرے سے شازیہ کے پیچھے ہو گئی..

"اسلام وعلیکم.." ان کے عین سامنے آکر اس نے نرمی سے سلام کیا..آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ۔۔۔۔

"وعلیکم السلام...سائیں ۔۔۔۔

جواب امینہ کی بجائے شازیہ نے دیا ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔..یہ پوچھنے والے کون ہوتے ہیں ۔۔۔۔"

امینہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔

"یہ کیسا جواب ہے..؟" امینہ کے گھبرائے ہوئے انداز سے وہ حذ اٹھاتے ہوئے اپنے لبوں پہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو پیچھے دھکیل کر بظاہر سنجیدہ انداز میں بولا ..

"ہاں..یاد آیا .. یہ.. یہ وہ.چاہت بی بی کے بھائی ہیں .." شازیہ یاد آنے پہ بولیں ..

"جی وہی ہوں .." 

وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولا

"سائیں ہم بس حویلی واپس ہی جا رہے تھے "

شازیہ اسے پہچان کر مؤدب انداز میں بولی ۔۔۔۔

"جی میں دراصل ان سے کچھ بات کرنی ہے  .." 

"کس خوشی میں.." امینہ نے چونک کر پوچھا ۔۔۔۔!

"آپ یہ لے جائیے ہم آتے ہیں." اس نے مہارت سے بات بنائی تھی..اور امینہ کے ہاتھ سے سنگترے لے کر شازیہ کو پکڑائے ۔۔۔۔

"جی ٹھیک ہے "شازیہ حویلی والے راستے پہ آگے بڑھ گئی۔۔۔۔

" آپ کو کیا بات کرنی ہے مجھ سے ..میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی آپ بار بار میرا راستہ کیوں روکتے ہیں " اتنی دیر سے چپ سادھے ہوئے بالآخر وہ سرد مہری سے تنک کر بولی .

"کیونکہ میں آپ سے ایسا تعلق بنانا چاہتا ہوں جو میرے علاؤہ آپ کا کسی اور کے ساتھ نا ہو اور نا ہی میں کبھی ہونے دوں گا ۔۔۔۔.." انداز سخت تھا..

"کیا مطلب ہے آپکی بات "؟

وہ تلخ انداز میں بولی ..

"مطلب تو بہت صاف ہے اگر آپ سمجھنا چاہیں تو ۔۔۔۔۔.."آدم کی نظریں ہنوز اسکے چہرے پہ ٹکیں تھیں ۔۔۔۔

"آپ کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی "؟

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا

"نہیں.." اس کے یک لفظی جواب پر اس نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا..

سمجھ تو وہ بخوبی چکی تھی مگر اس کی زبان سے سننا چاہتی تھی ۔وہ خوشفہمی کے سمندر میں ڈوبنے سے پہلے کی احتیاط کر رہی تھی۔۔۔۔

"کیا مطلب..؟"

"مطلب صاف ہے میں تم سے شادی کرنا چاہتا .." وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے بڑے  آرام سے بولا..

" کس کے کہنے پر..؟" وہ اب بھی حیران تھی..

"اپنے دل کے کہنے پر.." وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل کے مقام پہ رکھتے ہوئے جذب سے بولا ..

"آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی میرے ساتھ ایسے بیہودگی کرنے کی  ۔۔۔ " غصے سے اسکا چہرہ لہو چھلکانے لگا ۔۔۔وہ اپنا ہاتھ کھینچ کر تیز آواز میں بولی۔۔۔۔

"ہمت تو میری بہت کچھ کرنے کی ہے مسسز ٹو بی . کہو تو عملی ثبوت دوں.." اس کی طرف دیکھتا معنی خیزی سے بولا تو کچھ دیر وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھتی رہی پھر مطلب سمجھ آنے پر نظریں جھکا کر رخ پھیر گئی.. آدم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا پھر دو قدم بڑھا ..

"آئیے ساتھ ملکر کر واپسی کا سفر طے کرتے ہیں ۔ایک نئی منزل پر پہنچنے کے لیے۔۔۔۔۔"

وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔

امینہ سر جھکائے سوچوں میں گم اس کے ساتھ ساتھ قدم اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

وہ کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔اس نے کھانا بھی بڑی بے دلی سے کھایا تھا یارم آج خلاف معمول تھری پیس سوٹ پہنے ٹائی لگائے فل سوٹڈ بوٹڈ ہوکر سارہ ڈاکٹر زارا وہاج کے ساتھ نجانے کہاں چلا گیا تھا آتش بھی ان کے ساتھ تھا ۔۔۔وہاں سسی جلے پیر کے بلی کی مانند سارے گھر میں گھوم رہی تھی ۔۔۔۔یہاں چاہت کب سے براق کو سلا چکی تھی ۔۔۔۔۔سسی براق کو اپنے کمرے میں لے گئی تھی چاہت کے خیال سے کہ آج وہ آرام سے اپنے شوہر سے صلح کرلے وہ براق کا خیال رکھ لے گی ۔۔۔۔چاہت براق کو دینا تو نہیں چاہتی تھی کیونکہ اسے خود بھی براق کے بغیر نیند نہیں آتی تھی ۔مگر آج کے لیے اس نے دل پہ پتھر رکھ کر ایسا کر لیا ۔۔۔۔

اسے رہ رہ کر صبح کا وہ منظر یاد آرہا تھا جب ناشتے کے دوران ڈاکٹر زارا اور یارم دونوں نے ہاتھوں میں موبائل پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔اور اس نے ہی شاید یارم کو کوئی میسج سینڈ کیا تھا جسے پڑھ پڑھ کر یارم ہنس رہا تھا ۔۔۔۔

اور چاہت دور کھڑی یہ نظارہ دیکھ کر خاکستر ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔جب یارم ڈریسنگ روم میں چینج کرنے گیا تو چاہت نے یارم کا موبائل اٹھا کر اس میں سے میسجز کھولے ۔۔۔۔

ایک چیز اس کے لیے فائدہ مند تھا کہ اسکے موبائل پہ لاک نہیں لگا ہوتا تھا ۔۔۔۔

‏سنو یہ چند لمحے ہیں.! 

محبت سے بسر کر لو.! 

عین ممکن ہے...!

ہوا کہ دوش پہ ایک دن..! 

تمہیں یہ پیغام آۓ..! 

وہ جن کی جان تھے نا تم.!

وہ جان سے ہار بیٹھے ہیں..!

وہ لفظ ابھی تک اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہے تھے ۔۔۔۔۔

اسے شدید قسم کا غصہ آرہا تھا ڈاکٹر زارا کی شاعری بھیجنے پہ ۔۔۔

اس نے یارم کے باہر نکلنے سے پہلے موبائل واپس رکھ دیا تھا اور خود کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔

آج اس نے عہد کیا تھا کہ وہ آج کسی بھی طرح یارم کی ناراضگی دور کر کہ ہی رہے گی ۔۔۔۔۔۔

اسی لیے وہ آج پوری طرح سے تیار تھی ۔۔۔۔

اس نے ایک تفصیلی جانچتی ہوئی نگاہ خود پہ ڈریسر کے شیشے میں ڈالی ۔۔۔۔

پھر مطمئن ہوکر روم کو دیکھا ۔۔۔۔

تبھی باہر سے جیپ رکنے کی آواز آئی ۔۔۔۔

چاہت کمرے کی کھڑکی طرف گئی ۔۔۔۔۔

اس نے دیکھا ۔۔۔۔یارم بلوچ جیپ سے باہر نکل کر ڈاکٹر زارا سے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملا رہا تھا ۔۔۔۔

جبکہ آتش جیپ کھڑی کیے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

یارم کے ساتھ ساتھ سب اندر آئے۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں کمرے کا دروازہ کلک کی آواز سے کھلا تو چاہت کے بدن میں پھریری سی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔

جبکہ اندر داخل ہوتے ہوئے یارم بلوچ کی سانسیں مہکتے ہوئے گلابوں کی محسور کن مہک سے معطر ہو گئیں ۔۔۔۔

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی یارم بلوچ کو حیرت انگیز جھٹکا لگا تھا۔۔۔پورا روم گلاب کے پھولوں سے مہک رہا تھا۔۔۔بیڈ پر گلاب کی پتیوں سے ہارٹ بنایا گیا تھا۔۔۔۔۔

ٹوسیٹر صوفے کے آگے موجود شیشے کے ٹیبل پر دو مگ تھے ،مگر ان میں کیا تھا ۔وہ ٹھیک سے جان نہیں پایا ان مگ کی سائیڈز پر بھی گلاب کی پتیاں اور کینڈلز سٹینڈز میں کینڈلز ڈیکوریٹ کی گئیں تھیں۔۔۔۔کمرے میں نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں بھی سب واضح دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔۔وہ دروازہ بند کرتے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا جو آج اس کا پسندیدہ ڈریس پہنے اس کے ہوش اڑا رہی تھی ۔۔

یارم بلوچ نے اپنے جذبات پہ قابو کرتے ہوئے خود کو بہکنے سے روکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی ۔۔پھر نظروں کا زاویہ بدل کر کوٹ اتارتے ہوئے صوفے پہ اچھال دیا ۔۔۔۔اور صوفے پہ بیٹھ گیا اور جھک کر ۔۔۔شوز اتارنے لگا ۔۔۔۔۔۔

چاہت کے قدم من من بھر کے ہورہے تھے ۔۔۔اس کی طرف بڑھتے ہوئے ۔۔۔۔

ابھی وہ بمشکل دو قدم ہی چلی ہوگی کہ پاؤں میں موجود ہائی ہیلز کی وجہ سے اس کے قدم ڈگمگائے ۔۔۔۔اور نیٹ کی ڈیپ ریڈ ساڑھی کی فال میں اس کا پاؤں اٹکا اور وہ لڑکھڑا کے گرنے ہی لگی کہ یارم بلوچ نے بر وقت اس کو کمر سے تھامتے گرنے سے بچایا تھا۔۔۔۔۔اس ٹکراؤ کے نتیجے پہ چاہت کے سنہری سٹریٹ بال یارم کے چہرے پر آئے تھے۔۔اسکے سنہری گیسوؤں سے پھوٹتی شیمپو کی مہک اس کے حواس مختل کر گئی ۔۔۔مگر وہ اپنے جذبات پہ قابو پانا بخوبی جانتا تھا ۔۔اس نے اپنے  چہرے سے چاہت کے بال ہٹاتے کٹیلی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اپنی سانسیں ہموار  کرتی اسکی پناہوں میں اپنے حلیہ سے سخت جھنجھلا سی گئی تھی ۔۔۔۔

"ان سب خرافات کا مطلب "؟

وہ کرخت آواز میں بولا۔۔۔۔چاہت کو اسکے لہجے میں سرد سا تاثر محسوس ہوا تو اسے اپنی ساری تیاری بے معنی سی لگی۔۔۔۔۔

"پتہ نہیں کونسی لڑکیاں ہیں جنکے محبوب چاند کی مانند ہوتے ہیں ،؟میرا کھڑوس تو سورج کی طرح تپا ہوا ہی رہتا ہے ،،،،۔وہ زہر لب بڑبڑائی۔۔۔۔

"آپ کو منانے کے لیے کیا سب "

وہ اسکی پناہوں سے نکلتی اپنے سہارے کھڑی ہوکر معصومیت سے مسکارے کے بوجھ تلے دبی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی۔۔۔جن پہ ریڈ ہی آئی شیڈوز کا استمعال کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔ گورے گالوں پہ ریڈ بلش آن،یاقوتی لبوں پہ ڈیپ ریڈ لپسٹک ،کانوں میں جھولتے ہوئے آویزے ،جو اسکی صراحی دار نازک سی گردن کو بار بار چوم کر گستاخی کر رہے تھے ۔۔۔۔اور گردن میں باریک سی چین ،مرمریں کلائی میں وہی بریسلٹ جو اس رات یارم بلوچ نے اسکی کلائی میں پہنایا تھا ۔۔۔۔ڈیپ ریڈ ساڑھی کو پہننے کی بجائے یوں لگ رہا تھا لپیٹا گیا ہے ۔ساڑھی پہننے کی ناکام کوشش کی گئی تھی ۔۔۔ اس ساڑھی میں اس کا جسم عام لحاظ سے کچھ بھرا بھرا لگا ۔۔۔۔اسے کچھ عجیب سا لگا ۔۔۔۔

"اوہ تو مجھے منانے کے لیے سب کیا گیا ہے ۔۔۔۔تو پھر منائیں ۔۔۔۔۔"

وہ سپاٹ انداز میں کہتے ہوئے ۔۔۔۔صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھا اور سیگریٹ نکال کر لبوں میں دبائی اور اسے سلگا کر دھواں ہوا میں اچھال دیا۔۔۔۔۔

گہرے کش لیتے ہوئے وہ اس کی اگلی کاروائی کا منتظر تھا۔۔۔۔۔

"ھادیہ تمہارے بتائے گئے ڈریس کا کوئی فایدہ نہیں ہوا ۔۔۔۔ 

وہ منہ میں بڑبڑائی ۔۔۔۔

اور خود پہ لپیٹی ہوئی ساڑھی کھولنے لگی ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے چونک کر دیکھا اسکے یوں اسی کے سامنے ساڑھی کھولنے پہ ۔۔۔۔

وہ دل ہی دل میں اسکی ہمت پہ عش عش کر اٹھا ۔۔۔۔

یعنی کہ آج محترمہ صحیح معنوں میں اسکے ہوش اڑانے کے در پہ تھیں ۔۔۔۔

لیکن اس نے چہرے کے تاثرات سنجیدہ رکھے ۔۔۔۔

جیسے ہی ساڑھی اتری نیچے سے اس نے نائٹ گاؤن پہن رکھا تھا ۔۔۔۔

"اوہ تو اسی لیے "

یارم بلوچ نے دیکھا وہ اسی کے چہرے کے تاثرات نوٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

اس نے بنا کوئی تاثر دئیے صوفے کی پشت سے سر لگایا اور آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔

"اف یہ آئیڈیا بھی انہیں پسند نہیں آیا ۔۔۔۔۔

"اب ؟"

وہ مخمصے میں پھنسے انگلیاں چٹخاتے ہوئے سوچنے لگی ۔۔۔۔

"آخری آپشن ہی بچا ہے ۔۔۔مگر میں کیسے ان کے سامنے ایسے ۔۔۔۔۔؟

اسے خود ہی شرم آئی ۔۔۔۔

"سسی کا آئیڈیا ہے اگر یہ بھی کام نا کیا تو میں صبح ان دونوں کی جان لے لوں گی ایسے گھٹیا آئیڈیاز دینے پہ ۔۔۔۔۔۔

وہ ہائی ہیلز اتارپھر گاؤن سے پیچھا چھڑوا کر شارٹ نائیٹی پہ شانوں پہ شال اوڑھے بنا آواز کیے آرام سے چلتی ہوئے جا کر اپنی مخصوص پسندیدہ جگہ اس کی تھائی پہ بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

یارم بلوچ نے فورا اپنی سرمئی آنکھیں کھول کر اسے یوں اپنی تھائی پہ بیٹھے دیکھا تو سیدھا ہوا ۔۔۔۔اور اسکے مہکتے ہوئے محسور کن سراپے سے نظریں چرانا چاہیں جو اس کے لیے مشکل ترین امر تھا ۔۔۔۔ 

"آپ مجھے معاف نہیں کریں گے ۔۔۔۔؟

وہ اسکی شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے بولی 

"جب کوئی معافی مانگے تب ہی اسے معاف کیا جاتا ہے "

وہ گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔

"I am sorry."

مجھے معاف کردیں پلیز ۔"

وہ اس کے سینے پہ سر رکھے  دھیمی آواز میں منمنائی ۔۔۔

ایسا کرنے سے اس کا پورا وجود کپکپا رہا تھا ۔۔

یارم بلوچ اسکو اپنے سینے سے لگا دیکھنے لگا۔۔۔وہ واقعی ہی بڑی محنت سے تیار ہوئی تھی۔۔۔اور اسکی ناراضگی کے ڈر سے کیسے ہمت دکھا رہی تھی ۔۔۔۔وہ سب کچھ اسکی پسند کے مطابق کئے اسکی ایک پیار بھری نظر کی منتظر تھی۔

آج چاہت کی تیاری اور اس  کی عنایتیں،خود سپردگی کے انداز دیکھ کر اسکا سارا غصہ۔۔ساری ناراضگی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔

مگر ابھی اتنی جلدی اسے معافی کا پروانہ جاری کرنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔

"آپ کو رحم نہیں آرہا مجھ پہ کیسے دن رات آپ کے آگے پیچھے گھوم رہی ہوں اور اتنی محنت سے تیار بھی ہوئی خاص آپکے لیے ۔۔وہ سر اٹھا کر یارم بلوچ کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے خفگی بھرے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔

معاف کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا مسسز چاہت یارم بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔کیا آپ نے مجھے میرے پہلی بار معافی مانگنے پہ معاف کردیا تھا ؟؟؟؟۔۔۔۔۔اسکی مہکتی قربت کا ذرا سا بھی اثر لیے بغیر وہ صاف گوئی سے بولا اور سیگریٹ کا مرغولہ بناتے ہوئے ہوا میں اچھالا ۔۔۔۔

تمہارے بغیر میری زندگی کے تمام اجزاء منتشر ہیں ،

میں مقدر کے اس تشدد سے مر جاؤں گی ،

"آپ۔ ۔بتائیں ۔۔۔ایسا کیا کروں کہ آپ مان جائیں ۔۔۔وہ شکست خوردہ آواز  میں بولی ۔۔۔۔۔۔

"آپ کو اپنی محبت کا ایک چھوٹا سا امتحان دینا ہوگا ۔۔۔۔

وہ پراسرار سا مسکرا کر اسکے کان کے قریب سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔۔۔اور اسکے شانے سے شال کھسکا دی ۔۔۔جو اس کے مرمریں وجود سے پھسل کر نیچے جا گری ۔۔۔اب اسکے میدے جیسے بازو چاند کی دودھیا رنگت کی طرح نمایاں ہو رہے تھے ۔۔۔۔وہ اسے انگوٹھے سے سہلاتے لگا ۔۔۔اس کا بدن سنسنا اٹھا  ۔۔ وہ جتنا مرضی اسکے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرتا دل تو اسکی توجہ کا طلبگار ہی تھا  ۔۔۔۔۔

"میں۔۔۔میں  سب امتحان دینے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔۔۔۔بس آپکی ناراضگی ۔بے رخی اور بے اعتنائی برداشت نہیں کرسکتی ۔۔۔آپ مجھ سے جو مرضی مانگ لیں ۔۔۔۔۔

"مسسز ایک وقت تھا جب میرا دل آپ کے لیے دھڑکتا تھا ۔یہ نظریں آپ کی ایک جھلک کے لیے ترستی تھیں ۔۔۔میرا دل جو آپ پر مر مٹتا تھا ۔۔۔آپ کی  محبت کا دم بھرتا تھا ۔میری سانسیں ہمہ وقت آپ کے نام کا ودر کرتی تھیں   ۔۔۔میرے اس دل کو ان سانسوں کو آپ نے چیھن لیا ۔۔۔اب جو آپ کے سامنے ہے نہ وہ ایک بے حس باپ ہے ۔جو اپنے بیٹے کے لیے اسکی ماں کو اپنے کمرے میں برداشت کر رہا ہے ۔۔۔وہ تھوڑا سا رکا پھر بولا۔۔۔

"اگر آپ اپنے اسی محبوب کو واپس حاصل کرنا چاہتی ہیں تو جگائیں اسکے مردہ احساسات اور کھینچ لائیں اسے اُس اندھیر نگری سے واپس جہاں آپ اسے اکیلا تڑپتا ہوا اپنے الفاظ کے تازیانے لگا کر چھوڑ آئیں تھیں۔۔۔۔

چاہت نے غور  سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔۔۔۔

وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کیا چاہتا تھا ۔۔۔۔مگر جو وہ چاہتا تھا ویسا کرنا چاہت کے لیے واقعی ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔

اس نے اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھ اسکی شرٹ کی طرف بڑھائے  ۔۔۔۔۔اور اسکے باقی بند بٹن کھولنے لگی ۔۔۔۔

دل ذوروں سے دھڑکتے ہوئے سینے سے نکلنے کو بیتاب تھا ۔۔۔۔اسکے کشادہ سینے پہ نظر پڑتے اس نے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔۔

"انسان کو اتنے ہی بڑے بڑے دعوے کرنے چاہیے جن کو وہ پورا کر سکے ۔۔۔۔رہنے دیں ۔۔۔۔آپ سے نہیں ہو پائے گا ۔۔۔۔

اس نے چاہت کے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کو بے دردی سے پیچھے جھٹک دیا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اسے اپنی تھائی سے اٹھا کر خود بھی اٹھ جاتا ۔۔۔۔چاہت نے اسکی آنکھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ دئیے اور تھوڑا سا جھک کر اسکے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے تو یارم بلوچ کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔۔۔

اس نے تو پہلے ہی وار میں اسے چاروں شانے چت کردیا تھا ۔۔۔۔۔

یارم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسکی مخروطی انگلیوں کو اپنے لبوں سے چھوا ۔۔۔۔۔

چاہت کی گھنی مژگانیں رخساروں پر لرز رہی تھیں۔۔۔۔گال دہک کر اناری ہوئے ۔۔۔۔

وہ ایک ہاتھ سے اپنے بال کان کے پیچھے اڑس رہی تھی ۔۔۔

اور اپنے عمل کو سوچتے ہوئے خود میں سمٹ کر شرم سے دوہری ہوئے جا رہی تھی ۔۔۔۔

یارم بلوچ کو اس کا شرمیلا انداز بہت بھایا ۔۔۔۔

اس کی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔۔

وہ اسکی گردن میں ہاتھ ڈالے اسکا سر اونچا کرتے اسکی پیشانی سے پیشانی لگا گیا ۔۔۔۔دونوں کی بھاپ اڑاتی ہوئی سانسیں ایک دوسرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔۔۔

  " اب کہیں ۔۔۔۔

 چاہت تو اسکی دلکش قربت میں مجسمہ بن گئی تھی  ۔۔۔۔ اس نے زرا سی بھی مزاحمت نہ کی۔۔۔اسکی حالت تو یوں تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔۔

 " وہ ۔۔۔۔میں ۔۔۔نے 

"آپکے دل کے جذبات کو جگایا  تھا ۔۔۔۔۔

"اچھا آگے کے مراحل ۔۔۔؟؟؟

وہ اسکی سنہری بالوں میں انگلیاں پھنسائے اب کی بار اپنی ستواں ناک اسکی چھوٹی سی تیکھی ناک سے جوڑ کر بولا ۔۔۔۔۔

اس کے قاتلانہ انداز پہ چاہت کی جان لبوں پہ آئی ۔۔۔۔

"میں آپ کا پیار واپس پانا چاہتی ہوں ۔

بمشکل ہمت کرتے مزید بولی ۔۔

"اب کیا کریں گی میرا پیار واپس پانے کے لیے ؟؟؟؟۔۔

چاہت کی زبان تو یوں گنگ ہوئی جیسے اسے قفل لگ چکے تھے ۔۔۔۔۔مزید کچھ بھی بولنے کی سکت اس نے خود میں مفقود پائی ۔۔۔۔

 "میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے مسسز ۔۔!

یارم کا سوالیہ برفیلا لہجہ  ابھی بھی اس کی جان نکال رہا تھا ۔۔۔عین ممکن تھا کہ وہ مزید کچھ دیر اور اسکی سانسوں کو خود میں اتارتی تو بیہوش ہوجاتی ۔

 "اب آپ ناراض تو نہیں ؟ ۔۔۔۔

"میں ۔۔۔۔

  چاہت کہ بات پوری کرنے سے پہلے ہی اسکے لرزتے کپکپاتے لبوں پر انگلی رکھتا وہ اسے ٹھٹھکنے پہ مجبور کرگیا  ۔۔۔

 یارم نے اسکے گال پر لب جمائے تو اسکا دل اچھل کر حلق میں آپھنسا ۔۔

  اسکے جان لیوا  لمس پر وہ ادھ موئی سی ہوگئی۔۔

 اسنے سختی سے اسکے دوسرے گلابی گال پر کاٹا کہ وہ سسک اٹھی ۔

  وہ حیا کے باعث اس سےنظریں چرانے لگی ۔

  ابھی بھی آپ کو آپ کے سوال کا جواب نہیں ملا۔۔کہ میری ناراضگی آپ ختم کر چکی ہیں یا نہیں ؟؟؟

   وہ بھاری بوجھل آواز میں کہتے ہوئے اسکے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کرگیا۔۔

"آ۔۔۔۔آپ کیسے مانیں گے ؟؟؟۔۔۔

"اپنی ناراضگی ختم کردیں پلیز  ۔۔۔

 اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو سنبھالتی مدھم آواز میں بالآخر منتوں  پر اتر آئی۔۔۔۔

"چلیں پھر ایسا کریں مجھے منانے کے لیے سودے بازی کرلیتے ہیں "

وہ مبہم سا مسکرا کر بولا۔

"کیسی سودے بازی ؟.چاہت نے ناسمجھی سے اسے دیکھ کر نیلی آنکھوں کو پٹپٹاتے ہوئے حیرانگی سے استفسار کیا۔۔۔۔

"آج سے آپ کی ساری نیندیں چرا لوں گا ۔۔۔۔

بدلے میں آپکے خوابوں کی تعبیر ملے گی ۔"

وہ اسکی کان کی لو کو دانتوں تلے دبا کر آنچ دیتے مدھم لہجے میں بولا۔۔۔۔

چاہت کی ریڑھ کی ہڈی بھی جھنجھنا اٹھی ۔۔۔۔

"مطلب ؟

وہ بلا اختیار ہی پوچھ گئی ۔۔۔

"آج سے آپ کی ساری نیندیں ختم ۔۔۔۔آپ کھلی آنکھوں سے دیکھیں گی کیسے میں آپکو اپنی محبتوں ، چاہتوں اور شدتوں کی بارش میں ِبھیگا  دوں گا ۔۔۔وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔۔

"سب کہتے ہیں میں بےبیوقوف   ہوں ۔۔

وہ منہ بسور کر بولی ۔۔۔۔

  اسکی بے سروپا بات پر اسکے لب مسکائے۔۔۔

"آپ کو کس نے کہا کہ آپ بے وقوف ہیں ۔۔آج اتنا دماغ لگا کر مجھے منایا ہے ۔۔۔۔آپ نے ۔۔"

وہ سنگ مرمر آج پھر اسکی قربت میں ملیں عنایتوں پہ پگھل گیا تھا ۔۔۔

"واقعی میں بےبیوقوف نہیں ؟؟؟ 

"بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔

 وہ سادگی سے بولا۔۔اور سیگریٹ کو شوز کے نیچے مسلتے ہوئے نیا سیگریٹ اٹھا کر لبوں میں دبایا۔۔۔۔اور لائیٹر سے اسے سلگایا ۔۔۔۔

"مجھ سے زیادہ تو خوش قسمت یہ ایڈیٹ سیگریٹ ہے ۔۔۔۔جو آپکے پاس رہتی ہے "

وہ جل کر بولی ۔۔۔۔

"اتنی جلن وہ بھی اس بے جان سیگریٹ سے "

وہ ابرو اچکا کر بولا۔۔۔۔

"دیں ادھر مجھے بھی میں بھی تو اسے دیکھوں کیسا سکون دیتی ہے یہ  آپ کو جو آپ سے بار بار  ۔۔۔۔

اس نے جلتی ہوئی 

سگریٹ کو لبوں میں لے کر پہلا کش لگایا ہی تھا کہ ۔۔۔۔چاہت کا دماغ جھنجھجنا اٹھا۔۔۔۔اور سانسیں رکنے لگیں ۔۔۔۔وہ سینے پہ دوسرا ہاتھ رکھے بری طرح کھانسنے لگی ۔۔۔۔۔

یارم بلوچ نے اسکی پشت کو اپنے ہاتھوں سے سہلایا ۔۔۔۔

"اُف ۔۔۔۔!!  

"کتنی گندی ہے یہ ۔۔۔۔اس نے تو میری سانسیں الٹ پلٹ کر کہ رکھ دیں ۔۔۔۔بہت جان لیوا ہے ۔۔۔۔وہ ابھی ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہی تھی ۔۔۔۔

گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے وہ اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی۔۔۔۔۔

"ہم یہ تو ٹھیک کہا جان لیوا ہے ۔۔۔۔مگر آپکے اس جان لیوا ہوش ربا سراپے سے کم ۔۔۔۔"

وہ اسکے وجود کی رعنائیوں پہ تفصیلی نگاہ ڈالتے ہوئے ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے خمار آلود لہجے میں بولا۔۔۔۔۔

چاہت نے سیگریٹ کے پیکٹ کو پکڑ کر اسے پڑھا ۔۔۔۔

جہاں جلی حروف میں لکھا تھا کہ سیگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے ۔۔۔۔

اس نے جھٹ سے جلتا سگریٹ ہی اسکے ہاتھ سے چھینا تھا۔۔

 "دوبارہ اس زہر کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے ۔۔۔۔آپ سمجھے ۔۔۔۔۔؟؟؟وہ انگلی اٹھا کر دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔۔

"اس زہر کی کاٹ تو آپکے ان  مہ سے بھرے جام شیریں میں ہے"

وہ اسکی سرخ لپسٹک سے سجے یاقوتی لبوں کو فوکس کیے انگوٹھے سے اسے سہلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔

"صبح و شام یہ مہ پلانے کی حامی بھریں گی تو اس زہر کو کون منہ لگائے گا "

اسکی بات پر اسکی پلکیں لرزیں تھیں ۔۔ہاتھ کپکپائے تھے،دل بند ہونے کی کاگار پہ تھا ۔۔

وہ سارے فاصلے سمیٹتے ہوئے اپنی سانسیں اس میں منتقل کرنے لگا ۔۔۔۔۔آج سے پہلے تو کبھی اس کے عمل میں اتنی شدت نہیں تھی ۔۔۔۔پھر آج اتنا جنونی انداز کیوں ؟؟؟؟اس کی شدت کو سہہ کر چاہت کی سانسوں کے ساتھ ساتھ اسکے ہاتھ پاؤں بھی پھولنے لگے ۔۔۔۔

"پیار کرنے پہ کون روتا ہے ؟؟؟؟مسسز ۔۔۔۔!!!!دور رہنے کی غلطی بھی کرتی ہیں ،مجھے منانے کے لیے سارے امتحان پار کرنے کے بلند و بانگ دعوے بھی کرتی ہیں اور  پھر یوں رو کر میرے ساتھ ان نازک آنکھوں پر ظلم بھی کرتی ہیں۔۔۔۔۔نرم سا لہجہ اپناتے وہ اسکے گال کے ساتھ اپنا گال مس کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔

کہاں جارہی ہیں۔۔۔۔۔۔آپ !!!! اچھا چلیں نہیں لیتا مزید امتحان۔۔۔۔۔پر آپ کی اطلاع کے لیے بتا دوں کہ آج آپ میرے سوئے ہوئے جذبات کو جگا کر خود کو خطرے میں ڈال چکی ہیں ۔۔وہ اسکی شہ رگ پہ اپنے لب رکھے اسے اپنے ارادوں سے روشناس کرواگیا ۔۔۔۔

"وہ میں نے آپ کے لیے چاکلیٹ۔ کیک بنانے کا سوچا تھا ۔۔۔پھر یاد آیا کہ میٹھا تو آپ کھاتے نہیں اسی لیے میں نے کولڈ کافی بنائی تھی ۔۔۔۔یہ دیکھیں ۔۔۔۔

اس نے جھک کر ٹیبل سے کافی کا ایک مگ اٹھا کر یارم کے سامنے کیا ۔۔۔۔

جس پہ جھاگ بنی تھی اور کریم سے سمائلنگ ایموجی بنا کر اس پہ سوری لکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔

"یہ دیکھیں یہ بھی آپکو سوری کہہ رہا ہے "

"آپ کو کس نے کہا مسسز کہ مجھے میٹھا پسند نہیں ۔۔۔۔

وہ اسکی تھوڑی کو اپنی انگلی سے تھوڑا اونچا اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"مجھے میٹھے میں یہ پنک رس گلے پسند ہیں ۔۔۔۔دوبارہ ٹیسٹ کر سکتا ہوں انہیں "؟

وہ اسکے دہکتے ہوئے گالوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔

"نہیں ۔۔۔۔!!!'

چاہت نے جھٹ سے ہاتھ اپنے دونوں گالوں پہ رکھ دئیے جن پہ ابھی بھی یارم کے دانتوں کے نشان نے پھول کھلائے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلا کر بولی ۔۔۔۔

وہ اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بستر تک لایا ۔۔۔۔۔

"میں چینج کر کہ آتی ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید بولتی یارم بلوچ نے اسکی لبوں پہ انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روک دیا ۔۔۔۔

"یہ سب تیاری مجھے دکھانے کے لیے کی تھی ناں!!!تاکہ میں تمہیں اس روپ میں سراہوں !!!! تو پھر اب کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

اسکے دلکش وجود کو اپنے حصار میں لیے اسے اپنی نرم  گرم سانسوں سے اسکے وجود کو جھلسایا تو وہ اسکی جان لیوا قربت سے موم کی مانند پگھلنے لگی تھی۔۔۔۔

"آپکے یہ نیلے نین میری کمزوری ،،،،

وہ اسکی آنکھوں کو چھو کر مدھم آنچ دیتے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

"آپکی یہ ناک میرے غصے کو زائل کردیتی ہے "

وہ اسکی چھوٹی سی ناک پہ لب رکھے فسوں خیز لہجے  بولا ۔۔۔۔

"آپکے یہ مخملیں گال میرے لہجے میں نرمی پیدا کردیتے ہیں "

وہ اسکے گالوں کو چھو کر محسوس کرتے ہوئے خمار آلود انداز میں بولا ۔۔۔

"آپکے یہ سنہری بال میرے دل میں روشنی بھر دیتے ہیں ۔۔۔۔"

وہ اسکے سنہری ریشمی گیسووں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بوجھل آواز میں بولا ۔۔۔۔

"آپکے ہونٹ میرا جنون "

وہ اسکے لبوں کو اپنے لمس سے مہکاکر بولا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی پیش رفت کرتا باہر سے کسی کی ہڑبڑاہٹ میں بلند آوازیں سنائی دیں تو وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھا اور شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

براق نیند سے جاگا تو دودھ کے لیے رونے لگا ۔۔۔۔سسی کمرے سے نکل کر اسکے لیے دودھ لینے کے لیے جیسے ہی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی تبھی اس کا پاؤں بے دھیانی سے کسی چکنی چیز سے پھسلا اور وہ سیڑھیوں سے بل کھاتی ہوئے نیچے کی طرف پھسلنے لگی۔آتش جو براق کو سنبھال رہا تھا سسی کی دلخراش چیخ اس کی سماعت سے ٹکرائی ہڑبڑا کر وہ براق کو بیڈ پہ لیٹا کر ایک ہی جست میں کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیاں اترنے لگا.. سیڑھیاں اترتے اس خوفناک منظر کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ جم سا گیا پھر ہوش آتے ہی وہ سیڑھیاں پھلانگ کر وہ نیچے آیا..

"سسی !!!!!.."اسے سیڑھیوں کے پاس گرے دیکھ کر سرعت سے نیچے اترا 

"ڈاکٹر زارا اور ڈاکٹر وہاج بھی کمروں سے باہر نکل آئے ۔۔۔۔

." ڈاکٹر زارا آپ دیکھیں اسے ۔۔۔۔۔اس کے اوپر جھکا۔۔۔اسے اٹھا کر بولا ۔۔۔۔.. 

"آتش اسے کسی قریبی کلینک میں لے چلو بنا کسی چیز کے میں کیسے ٹریٹمنٹ کروں گی ۔۔۔۔۔

سب کمروں سے باہر نکلے سسی کو اس حالت میں دیکھ کر فق نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔۔

 ایسے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا.. یہ کیسے ہوا تھا کسی کو سمجھ ہی میں نہ آیا.. اس کے بیہوش جسم کو اپنی بانہوں میں اٹھاتا وہ باہر کی طرف نکلا جہاں یارم بلوچ پہلے ہی گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا.. آتش اسے لے کر گاڑی کی طرف آیا .. اس وقت اسے بس سسی کی فکر تھی.. اس کی بیہوشی  اسے تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی.. سسی کو گاڑی میں لِٹا کر وہ بھی اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا.. اس کے بیٹھتے ہی یارم بلوچ نے تیزی سے گاڑی باہر نکالی ڈاکٹر زارا بھی اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔وہ  کلینک کی طرف روانہ ہو گئے .

آتش بلوچ منہ ہی منہ میں قرآنی آیات کا ورد کرتا بار بار سسی کے بیہوش وجود پر پھونک مارتا .. اس کے چہرے سے پریشانی اور خوف صاف ظاہر ہو رہا تھا... یارم بلوچ بھی ڈرائیونگ کے دوران گاہے بگاہے بیک ویو مرر میں آتش بلوچ کے پریشان چہرے کو دیکھتا تو کبھی ونڈ سکرین پر نظریں گاڑھ دیتا .. اس نے زندگی میں پہلی بار اسے کسی کے لئے اتنا پریشان دیکھا تھا.. اس کی آنکھوں میں موجود ہلکی سی نمی صاف ظاہر کر رہی تھی کہ سسی اس کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے .

آج تو تم گئی سارہ "

 ھاد بلوچ نے ایک سرد نگاہ اس کی شیطانیت بھری آنکھوں میں ڈالی  اور اس کی کلائی کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑتے سختی سے جھٹکا دیا کہ وہ اپنی کلائی پہ دباؤ محسوس کرتے سسک اٹھی۔

بہت درد محسوس ہورہا ہے کیا۔؟؟؟

"اس سے زیادہ درد تم نے سسی کو دیا ہے ۔۔۔۔۔"

اس نے کٹیلے لہجے میں استسفار کیا اس کی سرخ و سرد آنکھوں کو دیکھ سارہ کو اس سے بے حد خوف سا محسوس ہوا ۔اس نے کسمساتے ہوئے اپنی کلائی اس کے مضبوط ہاتھ سے چھڑوانی  چاہی لیکن شاید مقابل فلحال ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

"How dare you .Leave my hand."

وہ تنک کر آنکھوں میں واضح وارننگ لیے بولی تو ھاد بلوچ نے افسوس سے سرد تاثرات سجائے اس کی سمت دیکھا اور ایک زیرک نگاہ اس کے پورے وجود پہ ڈالی۔

" ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوئی نا ایسی اوچھی حرکتیں کرتے ہوئے تمہیں ۔یاد رکھنا اگر سسی کو کچھ ہوگیا تو آتش سے پہلے میں انہیں ہاتھوں سے تمہاری جان لے لوں گا ۔۔۔۔ ایک مرد کی توجہ حاصل کرنے کیلیے۔اس کا بسا بسایا گھر اجاڑ دینا ۔۔یہ ہے تم آج کل کی لڑکیوں کی محبت ؟؟؟۔۔تف ہے تم پہ ۔۔۔تمہیں سامنے دیکھ کر  شدت سے چاہ رہا ہے کہ تمہارے اس گندے دماغ کا بھرتہ بنا دوں ۔ اپنی زندگی  چاہتی تو سسی کی خیریت کی دعا مانگو ۔۔۔اگر  تمہاری اس سیڑھیوں پہ تیل گرانے والی حرکت سے اسے کچھ ہوا  تو آئی سوئیر مس سارہ آئی تو اپنے ان پاؤں پہ چل کر ہو مگر واپس ان پہ چل کر نہیں جا سکو گی ۔۔۔۔۔تمہیں کیا لگا اپنی ان چیپ حرکتوں سے آتش کے دل میں جگہ بنا لو ۔۔۔میرا بھائی ذہنی مریض نہیں جو تم جیسی آوارہ لڑکیوں کے جال میں پھنس جائے گا ۔۔۔میں چاہوں تو تمہاری اس حرکت کے لیے ابھی اسی وقت تمہیں گھر سے باہر پھینکوا دوں ۔مگر عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا میری ماں نے مجھے سکھایا نہیں ورنہ اس وقت تمہیں یوں اپنے سامنے کھڑا نا ہونے دیتا ۔۔۔۔جلد سے جلد اپنا بوریا بستر گول کرو اور اپنی شکل گم کرو ۔۔۔۔میری اس بات سے تمہیں اپنی اوقات تو واضح ہو ہی گئی ہوگی۔اور ہاں ایک آخری بات .۔۔۔۔!!!!!

"تمہاری اصلیت میں نے دیکھ کر تو تمہیں چھوڑ دیا ۔۔۔۔اگر آتش کو تمہاری کرتوتوں کا پتہ چل گیا تو تمہاری خیر نہیں ۔"

وہ قہر آلود نگاہوں سے اسے گھورتا ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولا۔اس کی باتوں پہ سارہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔وہ گہرے گہرے سانس بھرتی جیسے اپنے اعصابوں کو پرسکون کرنے کی تگ و دو میں تھی۔ایک لمحے کے لیے تو دل میں آیا کہ اپنے سامنے کھڑے وجود کو تہس نہس کردے ۔۔

"بعض اوقات لہجے اور انداز کی گونج مارے ہوئے تھپڑ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے "

سارہ کے ہاتھ میں تیل والی شیشی دیکھ کر ھاد بلوچ سرعت سے اسکے پاس پہنچا ۔اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے غائب ہوجاتی ھاد نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا ،اور اب سارہ کی درگت بنا رہا تھا ۔۔۔۔

 جیسے ہی سارہ کی نظر عقب سے آتی ہوئی ھادیہ پہ پڑی تو وہ آنکھیں گھماتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے شاطرانہ چال چلنے کا سوچنے لگی ۔۔۔۔ھاد کے فولادی ہاتھ میں ابھی بھی اسکی کلائی موجود تھی ۔۔۔۔اس نے ایسا ظاہر کیا کہ ھاد نے اسے اپنی طرف کھینچا ہو ۔۔۔۔

"میں بھی تم سے بہت پیار کرتی ہوں "

وہ ھاد بلوچ کے سینے پہ سر رکھے زرا اونچی آواز میں بولی کہ ھادیہ سن لے ۔۔۔۔۔

جیسے ہی اسکے الفاظ ھادیہ کی بصارتوں تک پہنچے ۔۔۔

وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح سرعت سے اسکے قریب پہنچی ۔۔۔۔

ھاد تو بھونچکا رہ گیا اس شاطر سارہ کی چالاکی پہ ۔۔

سارہ نے چہرہ اٹھا کر ھاد کی طرف مسکرا کر دیکھا ۔۔۔۔

اس کا جی چاہا اس کے چہرے کی یہ طنزیہ مسکراہٹ نوچ ڈالے ۔۔۔۔سارہ جیسی مکار لڑکیاں اسے زہر لگتی تھیں جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اپنی عزت داؤ پہ لگانے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتی ۔۔۔۔۔اسے سارہ کا مکروہ چہرہ دیکھتے ہوئے ِگھن سی آئی۔

ھاد بلوچ نے لہو چھلکاتے چہرے سمیت اس کا ہاتھ کھینچ کر اسکی پشت سے لگایا تو سارہ کے منہ سے درد کے باعث کراہ نکلی۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ناگن میرے بلوچ پہ اپنی زہریلی نظریں ڈالتے ہوئے ۔۔۔تمہاری یہ آنکھیں نکال کر گلی کے کتوں کے آگے ڈال دوں گی ۔۔۔۔منحوس ۔۔۔۔"

ھادیہ سے برداشت نا ہوا ھاد بلوچ کو سارہ کا یوں چھونا ۔۔۔

وہ تو آتے ہی اس پہ ابل پڑی ۔۔۔۔

اور ایک زوردار تھپڑ اسکے گال پہ رسید کیا ۔۔۔۔وہ لڑکھڑا کر رہ گئی ۔۔۔۔۔

اور سنسناتے ہوئے گال پہ ہاتھ رکھ کر بے یقین نظروں سے ھاد اور ھادیہ کو دیکھنے لگی جو دونوں اسے جارہانہ تیوروں سے گھور رہے تھے ۔۔۔۔

"آئندہ اس قسم کا چیپ ڈرامہ کرنے سے پہلے یہ ایک بات ذہن میں رکھنا کہ تمہارے مقابل کون ہے ۔"

وہ سرد انداز میں ایک جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑ کر کٹیلی نظر اس کے بت بنے وجود پہ ڈالتے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ھادیہ کا تو بس نہیں چل رہا کہ اس کا قیمہ بنا دے ۔۔۔۔اس نے خون آشام نظروں سے اسے گھورتے ہوئے سر جھٹکا ۔۔وہ یارم کی مہمان تھی تبھی اسکا خیال کرتے ہوئے ان دونوں نے اسے بخش دیا تھا ۔۔۔۔

ھادیہ نے بھی ھاد کی تقلید کی ۔سارہ کو محسوس ہورہا تھا کہ اتنے ہتک آمیز الفاظ اور انداز سے دماغ کی رگیں پھٹ جائے گی۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

چاہت بھی یارم کے کمرے سے نکل جانے کے بعد اپنے سادہ سے کپڑے لے کر واش روم میں چلی گئی تیزی سے منہ ہاتھ دھوتے ہوئے چینج کیا اور تولیے سے چہرہ رگڑ کر صاف کرتے ہوئے سرعت سے باہر نکلی ۔۔۔۔۔بقہر نکل کر اسے جو خبر ملی اسے سن کر چاہت کے ہوش بھی اڑ گئے ۔۔۔۔

وہ دل کی دل میں سسی کی خیریت کی دعا کرنے لگی ۔۔۔۔

زرش بلوچ لاونج میں پریشانی سے ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھیں ۔۔۔سارھ ساتھ ہاتھ میں تسبیح پکڑے ورد کر رہی تھیں ۔۔۔۔

چاہت بھاگ کر سسی کے کمرے میں گئی اور وہاں جا کر روتے ہوئے براق کو گود میں لیا ۔۔۔۔وہ بھوک کی وجہ سے رو رہا تھا ۔۔۔۔چاہت اسے گود میں اٹھائے چپ کرواتے ہوئے نیچے لے آئی ۔اور اسے زرش بلوچ کو پکڑاتے ہوئے خود اس کا فیڈر بنانے چل دی ۔۔۔ 

کچھ ہی دیر میں اس کے دودھ کا فیڈر لیے واپس آئی تو براق کا رونا بند ہوگیا ۔۔۔۔۔

چاہت پریشانی سے زرش بلوچ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

"ممی آپ کال کریں نا اور پوچھیں ان سے کہ سسی کیسی ہے "

وہ بے چینی سے بولی ۔۔۔۔

ھاد اور ھادیہ دونوں بھی وہیں ان کے پاس آگئے ۔۔۔۔امینہ اور آدم بھی وہیں موجود تھے اور اس کے لیے پریشان تھے ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"کیسی ہے سسی اب "؟

"وہ ٹھیک تو ہے نا ؟؟؟

ڈاکٹر زارا باہر آئیں تو آتش بے چینی سے ان کی طرف آکر سوالیہ انداز میں استفسار کرنےلگا ۔۔۔۔۔

"ڈونٹ وری آتش وہ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔اسے بس کچھ بیرونی خراشیں آئیں ہیں ۔کچھ ویکنیس کی وجہ بھی تھی اور کچھ گرنے کے خوف سے وہ بیہوش ہوگئی تھی ۔لیکن وہ خدائے متعال کی ذات بہت بے نیاز ہے ۔میں تو خود سسی کو دیکھ کر بہت ڈر گئی تھی مگر اس ذات سے کہ معجزے کی امید تھی ۔ضرور تم دونوں نے کوئی نیکی کی ہوگی جو آج تمہارے بچہ محفوظ ہے ۔انہوں نے تسلی بخش جواب دیا تو آتش نے گہرا سانس لیتے ہوئے کچھ سکون محسوس کیا ۔۔۔۔

"میں گھر میں کال کر کہ سب کو سسی کی خیریت کی اطلاع کردیتا ہوں "

یارم بلوچ شرٹ کے بازو فولڈ کرتے پاکٹ سے موبائل نکال کر باہر کہ طرف نکل گیا کیونکہ یہاں سگنلز ٹھیک نہیں آرہے تھے ۔۔۔۔

"ڈاکٹر زارا آپ سے ایک فیور چاہیے تھی ۔۔۔۔"

آتش نے سسی سے ملنے کے لیے جانے سے پہلے اسے اکیلے دیکھ کر سنجیدہ انداز میں مخاطب کیا ۔۔۔۔

"ہممم۔۔۔۔کہو نا ۔۔۔۔

وہ اسکی طرف متوجہ ہوئیں ۔۔۔۔

"میں چاہتا تھا کہ آپ ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات مزید کرتا ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر زارا اسکی پریشانی سمجھ چکی تھیں ۔۔۔۔تبھی اس کی بات کاٹ کر بولی ۔۔۔۔

"آتش یہ بات میں حویلی میں کسی کو نہیں بتاؤں گی کہ سسی ایک ریپڈ وکٹم ہے ۔میں بھی ایک عورت ہوں اور ایک عورت کا دکھ محسوس کر سکتی ہوں ۔۔۔۔آج اگر میں کسی کی پردہ پوشی کروں گی تو کل خدا میری بھی پردہ پوشی کرے گا ۔۔۔۔۔"

وہ اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز انداز میں بولی۔۔۔

"بہت شکریہ آپ کا "

 آتش بلوچ نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔

"میں مل سکتا ہوں سسی سے ۔۔۔۔۔؟؟؟وہ بیتابی سے بولا ۔۔۔۔

"ہم ۔۔۔تھوڑی دیر بعد تم اس سے مل سکتے ہو . الحمدللہ سب بہتر ہے.." ڈاکٹر زارا کے کہنے پر سکون کی سانس اس کے ہونٹوں سے آزاد ہوئی تھی..کچھ دیر بعد  ڈاکٹر زارا  کی اجازت ملتے ہی وہ پہلی فرصت میں اس کے پاس آیا جو کلینک کے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی..

"کیسی ہو..؟" اس کے اوپر جھکا وہ نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا .

"بالکل ٹھیک.." مسکرا کر اس کے ہاتھ پر اپنا ڈرپ لگا ہاتھ رکھ کر اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اس کے لئے فکرمندی اور محبت تھی..اسے کمزوری کی وجہ سے ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔

"یہاں درد ہو رہا ہے نا.." وہ اسکے کینولہ لگے ہاتھ کی پشت پہ اپنی انگلی سے سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ جیسے اس کے درد کو خود میں محسوس کر رہا تھا..

"نہیں بالکل بھی نہیں.." اس نے نفی میں سر ہلایا..

"تم بالکل بھی اپنا دھیان نہیں رکھتی ملکہ دل .." لہجے میں خفگی تھی..

"کب نہیں رکھا ۔۔۔؟؟؟رکھتی تو ہوں ۔آپکی سب باتیں بھی مانتی ہوں .." آنکھوں میں حیرانی تھی..

"اپنی حالت کو اچھے سے جانتی بھی ہو پھر آرام سے دیکھ کر نہیں چلتی کیوں ایسے ہڑبڑی میں بنا دیکھے چلی کہ یہ حادثہ پیش آیا .." افسردگی اس کے چہرے سے عیاں تھی..

"واقعی مجھ سے غلطی ہوئی میں نیچے دیکھ کر نہیں چل رہی تھی ۔پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں گر گئی ۔مجھے خود بھی سمجھ نہیں آئی ۔۔.." 

"اگر آئیندہ سے تم نے اپنا خیال نہیں رکھا تو میں تم سے ناراض ہوجاوں گا "

وہ مصنوعی خفگی سے منہ پھلا کر بولا ۔۔۔

"آپ بہت برے ہیں شہزادے .."

"آپ کو پتہ بھی ہے کہ میں ایک لمحہ بھی آپکی ناراضگی برداشت نہیں کر پاؤں گی پھر بھی آپ مجھے اتنی بھیانک سزا سناتے ہیں ناراض ہونے کی ۔۔۔۔"

"میں واقعی بہت برا ہوں ۔اپنی ملکہ دل کا خیال جو نہیں رکھ پایا ۔۔۔۔" لمحوں میں اس کا لہجہ بدلا تھا..اور برفیلا ہوگیا ۔۔۔۔۔چہرے پہ بلا کے پتھریلے تاثرات امڈ آئے ۔۔۔۔

سسی نے حیرت زدہ نظروں سے اس کا پل پل بدلتا انداز دیکھا ۔۔۔۔۔

"یہ بس ایک حادثہ تھا شہزادے جو ہونا شاید ہماری قسمت میں لکھا تھا اور ہوگیا ۔۔۔." کمزور سے لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی..وہ اس کی آنکھوں میں غصے کی لہر اٹھتی بخوبی دیکھ رہی تھی.. 

"تمہیں ہلکی سی خراش بھی آئے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ۔۔۔ان چند لمحوں میں تمہیں نہیں پتہ کیسی قیامت گزری ہے مجھ پہ ۔۔۔۔ایسے لگ رہا تھا آتش بلوچ کو کسی نے آتش میں جھونک دیا تھا ۔۔۔۔وہ اسکے پریشان چہرے پہ جھکا ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادوں پہ عمل کرتا ۔۔۔۔کسی کے کھنکھارنے پر ان دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا ..

"معذرت خواہ ہوں آپ کے رومینس ۔مطلب کباب میں ہڈی بننے کے لیے ..لیکن مجبوری تھی آنا پڑا ۔۔۔۔"یارم بلوچ کا لہجہ تو سپاٹ تھا لیکن آنکھوں میں شرارت تھی..

آتش بلوچ اپنی بڑے بھائی کو دیکھ کر خفیف سا مسکرایا اور بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا ۔۔۔۔  جبکہ سسی نے نرم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

"اب کیسی طبیعت ہے ؟." 

اس نے سسی کا حال دریافت کیا۔۔۔

"میں ٹھیک ہوں"اس نے جوابا نرمی سے کہا ۔۔۔۔

" میں نے حویلی میں یہ خبر کردی ہے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں ۔۔۔ اور کچھ دیر تک ہم واپس آجائیں گے ۔مگر ماں سا پھر بھی آپ سے بات کرنے پہ بضد ہیں ۔ان سے بات کریں .."

یارم بلوچ نے نمبر ملا کر موبائل سسی کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔۔تو سسی کان سے لگا کر ذرش بلوچ سے بات کرنے لگی ۔۔۔۔ 

اسے بات کرتے دیکھ یارم بلوچ اور آتش دونوں چلتے ہوئے وہاں سے باہر نکل آئے ۔۔۔۔

"کیا یہ صرف حادثہ تھا..؟" کوریڈور میں رک کر آتش بلوچ نے سوچنے کے انداز میں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

"یہ سب ایک چال تھی سسی کو نقصان پہنچانے کی.. شکر ہے..کہ کوئی نقصان نہیں ہوا" ..یارم بلوچ گھمبیر آواز میں بولا تو آتش نے چونک کر استہفامیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔

"کس کی چال تھی "؟

"جس کی بھی تھی تم پریشان مت ہو ۔۔۔بس اپنی بیوی  پہ دھیان دو اسے تمہاری توجہ کی زیادہ ضرورت ہے "

یارم بلوچ نے اسکے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔

"مجھے ایسے چین نہیں آئے گا بھائی ۔۔۔۔!!!!

"پلیز بتائیں ۔۔۔!!!!!

"ھاد نے مجھے ابھی کال پہ بتایا ہے کہ سارہ کا کیا دھرا تھا سب کچھ ۔۔۔۔

سارہ کا نام سنتے ہی آتش بلوچ کی پیشانی کی رگیں پھولنے لگیں۔۔۔۔اسے اپنے ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔اس نے اپنی مٹھیوں کو زور سے بھینچ لیا۔۔۔۔

"But Don't worry...."

ھاد نے اسے سمجھا دیا ہے ۔۔۔

اور وہ ہمارے حویلی پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکی ہے ۔۔۔۔۔

"غلطی میری ہی ہے جو میں نے اسے حویلی میں رکھنے کی غلطی کی ۔۔۔۔اسے زارا کی بہن سمجھ کر اس پہ بھروسہ کیا ۔۔۔۔مگر ضروری نہیں کہ بہنیں ہوکر بھی دونوں ایک جیسی سوچ کی حامل ہوں ۔

وہ زارا سے متضاد شخصیت کی مالک تھی ۔۔۔۔اچھا ہوا خودی چلی گئی ۔۔۔۔

آتش اسکی بات پہ دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔اور خود کے غیض و غضب پہ قابو کرنےلگا ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

سسی کو ٹھیک ہو کرحویلی واپس آئے تین دن گزر چکے تھے ۔۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا ۔گھر کا ماحول پھر سے خوشگوار ہوگیا تھا ۔۔۔ 

سسی ،امینہ ،چاہت اور ھادیہ سب لاونج میں موجود تھیں آج امینہ نے واپس چلے جانا تھا۔۔۔۔اسی لیے سب ملکر باتیں کر رہی تھیں ۔۔۔

"مجھے آپ کی حویلی بہت پسند آئی ہے ۔۔۔میں بہت مس کروں گی یہاں گزارا ہوا ہر پل .." امینہ بڑے چاؤ سے حویلی کے اندرونی منظر پہ نظریں دوڑاتی ہر ایک چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی..اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بہت خوش ہے..

"کچھ لوگ کافی خوش نظر آرہے ہیں..خیر تو ہے نا "  چاہت نے سسی کے شانے سےشانہ لگا کر سامنے بیٹھی  امینہ کی طرف معنی خیزی سے دیکھ کر کہا ..

"کیوں ؟

ھادیہ نے ٹھٹھک کر چاہت کو دیکھا اور ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"نہیں نہیں ایسی کوئی بات ہے.."امینہ سٹپٹا کر بولی ۔۔۔۔

"جس کے دل میں چور ہو وہی نظریں ملا کر بات نہیں کرتا ۔۔۔۔بتا امینہ اب اپنی پکی سہیلی سے بھی چھپائے گی ۔۔۔۔؟؟؟

ھادیہ امینہ کو نظروں میں لیے استفسار کرنےلگی ۔۔۔۔

"لگتا ہے آپکی سہیلی کو اسکے خوابوں کا شہزادہ مل گیا ہے "

سسی مسکرا کر بولی ۔۔۔۔کیونکہ چاہت اسے امینہ اور آدم کے بارے میں تھوڑا بہت برا چکی تھی ۔۔۔۔

"میرا بھائی کیسا لگتا ہے تمہیں..؟" اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ نظریں جھکا گئی..

"ٹھیک ہیں ..مگر تم مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو ؟"

امینہ گڑبڑا کر بولی ۔۔۔

"ٹھیک یا اچھا .."؟

چاہت نے اپنے ہونٹوں پہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روک کر سوال کیا ۔۔۔۔

"ہائے امینہ مجھے پتہ بھی نا چلا اور میری ناک کے نیچے میری سہیلی نے ۔۔۔۔۔ھادیہ تاسف سے سر ہلا کر بولی مگر لہجے میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔۔

"پاگل ہے تو ھادیہ ایسا کچھ نہیں۔ "

امینہ ہنسنے لگی ۔۔۔۔۔"

"ہنس کر بات کو ٹالو مت یار مجھے سچ سچ بتاؤ میرا بھائی تمہیں کیسا لگتا ہے ؟"

"کیا تمہیں لگتا ہے کہ میرے برو ہی وہ انسان ہیں جس کے ساتھ تم اپنی پوری زندگی ہنسی خوشی  گزار سکتی ہوں.." اس بار چاہت سنجیدگی سے گویا ہوئی ۔۔۔۔

 "تم سب لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟

امینہ سب کو اپنی طرف تکتا پا کر کنفیوز ہوتے ہوئے جھنجھلا کر بولی ۔۔۔

"ارے یار دے بھی دو جواب ۔۔۔۔اب تمہیں اتنی ہی ہماری حویلی پسند آگئی ہے تو کیوں نا تمہیں اس حویلی میں پکا پکا رہنے کا بندوست کرلیں ۔۔۔۔۔ھادیہ کھکھلا کر بولی ۔۔۔۔۔

"آپ سب کو نہیں لگتا کہ یہ سب کچھ بہت جلدی جلدی ہورہا ہے "

امینہ استہفامیہ نظروں سے ان سب کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ۔۔۔۔

"اتنا بھی مت سوچو امینہ ۔۔۔زیادہ سوچنے سے بندہ زیادہ الجھ جاتا ہے۔۔۔۔

سسی نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔۔

" پھر کل ہی ہم سب ممی کو لے کر تمہارے گھر آدم برو کا رشتہ لے کر آتے ہیں ۔۔۔تو پھر کیا خیال ہے تمہارا ۔۔۔۔۔"؟

چاہت نے امینہ سے پوچھا ۔۔۔

"اب میں کیا بتاؤں ۔۔۔۔وہ سر جھکا کر مسکرانے لگی ۔۔۔۔

"اوئے کڑی ہنسی تو سمجھو پھنسی ۔۔۔۔۔ھادیہ کھکھلا کر ہنستے ہوئے شرارت سے بولی ۔۔۔۔

ھادیہ کے قہقہے میں سسی اور چاہت کا قہقہ بھی شامل ہوگیا ۔۔۔۔۔

جبکہ امینہ وہاں سے اٹھ کر ان کی معنی خیز نظروں سے بچنے کے لیے نو دو گیارہ ہوگئی ۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

"تھینکس یارم "

ڈاکٹر زارا نے مشکور نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

"دوستوں کو تھینکس نہیں کہتے ۔۔۔۔"

وہ چہرے پہ نرم مسکراہٹ سجائے ڈاکٹر زارا کی طرف دیکھ کر سادہ سے انداز ۔یں بولا ۔۔۔۔

"تم نا ہوتے تو لگتا ہے ہم نے یوں اپنا اپنا پیار دل میں لیے ہی رہ جانا تھا اور بڈھے ہوجانا تھا پھر بھی ہمت نہیں کر پاتے ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اظہار کرنے میں ۔۔۔۔ڈاکٹر وہاج نے یارم کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔۔

"مجھے لگا نہیں تھا یہ تیکھی مرچ بھی مجھے پسند کرتی ہوگی ۔۔۔۔مجھے لگا کہ اگر میں نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا تو یہ بلی میرے جو چار بال رہ گئے ہیں سر پہ وہ بھی نوچ لے گی ۔۔۔۔۔"

"حد ہے وہاج ۔۔۔۔!!!!

"کبھی تیکھی مرچ اور کبھی بلی ۔۔۔۔اور بھی بتاؤ میرے کون کون سے نام رکھ چکے ہو تم اب تک ۔۔۔۔"

وہ طیش میں آتے ہی کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں کڑے تیوروں سے اس گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"نام تو بہت رکھے ہیں مگر کیا ہے نا تنہائی میں بتانے والے ہیں ۔۔۔۔وہ شوخ نظروں سے اسکے سراپے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے مزے سے بولا ۔۔۔۔

جبکہ یارم کے سامنے اسکے یوں پہلی بار بے سروپا بات کرنے پہ زارا سٹپٹا کر رہ گئی ۔۔۔۔۔

"کنٹرول یار ۔۔۔۔تنہائی کے لیے تمیز سے زارا کے والدین کے گھر جاؤ اس کا رشتہ مانگنے ۔۔۔۔"

یارم بلوچ نے اسکی بات کا اثر کم کرنے کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔۔۔۔

"ویسے شاعری بڑی اوسم بھیجی تھی ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر وہاج سینے پہ ہاتھ باندھ کر ابرو اچکا کر شرارت سے بولا ۔۔۔۔

"وہ اس نے مجھے بھیجی تھی میں نے ہی اپروول دیا تھا ۔۔۔۔

پھر ہی زارا نے تجھے سینڈ کی ۔۔۔۔تجھ جیسے گھامڑ سے تو اتنے سالوں کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔سوچا میں ہی تم دونوں کو ملوا دوں "

یارم بلوچ مسکرایا ۔۔۔۔

"تھینکس یار ۔۔۔۔ہماری بیچ بھنور میں ہچکولے کھاتی ہوئی  نیا کو پار لگانے کا ۔۔۔۔

جلد ہی تجھے تکلیف دیں گے شہر آکر ہماری شادی میں شرکت کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔بھابھی اور براق کو ضرور لے کر آنا ۔۔۔بلکہ سب کو لانا ۔۔۔۔

ڈاکٹر وہاج نے کہا ۔۔۔۔

"ہتھیلی پہ سرسوں مت جما ۔۔۔ابھی دیکھ تجھے رشتہ بھی ملتا ہے یا نہیں ۔۔۔۔

"اب اتنا بھی گیا گزارا نہیں ہوں ۔۔۔۔جو مجھے انکار کردیں "

وہاج منہ پھلا کر بولا ۔۔۔۔

وہ تینوں ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

رات کا گہرا پہر تھا چہار سو خاموشی کا راج تھا،

مگر دور نہیں سے جنگلی جانوروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ سیاہ  ہیولہ ایک گلی سے گزارا اسے کسی صنف نازک کی چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔

وہ ان آوازوں کے تعاقب میں اپنے بھاری بوٹوں سے قدم بڑھانے لگا ۔۔۔۔

دروازے کو کھولنا چاہا مگر وہ شاید اندر سے بند تھا ۔۔۔

اس نے ایک ہی جست لگائی اور قدرے کم اونچائی کی دیوار کو پھلانگ کر اندر گیا ۔۔۔۔کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

اس نے اس درندے کو گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا ۔۔۔

اور اسے ایک ہی جھٹکے سے چھوڑا تو وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکا اور لہرا کر کچے فرش پہ گرا ۔۔۔۔

اس ہیولے نے دیکھا اسکی درندگی جھیلتے ہوئے وہ کم سن صنف نازک آخری سانسیں لے رہی تھی ۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔۔۔وہ سرخ ڈورے لیے غصیلے جنونی تیور لیے اس شخص کی طرف بڑھا اور تیز دھار آلے سے اسکی سانسیں چھین لیں ۔۔۔۔۔

اس کے ہاتھوں اور چہرے پہ خون کے چھینٹے پڑے ۔

اس نے ایک بار مڑ کر اس لڑکی کو دیکھا جسکی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہو چکیں تھیں ۔۔۔۔

وہ چادر اسکے وجود پہ ڈال کر باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋 

رات گئے سسی کی جاگ کھلی تو آتش بلوچ کو بستر پہ نا پایا ۔۔۔۔اس کے چہرے پہ تفکر بھرے تاثرات ابھرے ۔۔۔۔

اس نے خالی بستر پہ ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔

"رات کے اس وقت کہاں گئے ہوں گے ۔۔۔۔۔؟

پھر اٹھ کر بیٹھ گئی اور تشویش بھرے انداز میں اس کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔

جیسے کی آتش نے کمرے میں قدم رکھا کمرہ یکدم روشنی سے نہا گیا ۔۔۔۔

تیز بلب کی روشنی اسکی آنکھوں میں چبھنے لگی ۔۔۔۔

اس نے روشنی سے بچنے کے لیے آنکھوں کے آگے بازو رکھ دیا ۔

وہ تو سمجھا تھا کہ وہ سوئی ہوگی ۔۔۔۔مگر سسی کو اپنے مقابل کھڑے دیکھ کر وہ چونک گیا ۔۔۔۔

جبکہ سسی اسکے ہاتھوں اور چہرے پہ لگے خون کے چھینٹے دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی ۔۔۔۔۔

"ش۔۔۔شہ۔۔زادے "آپ ۔ ۔۔ ٹوٹے ہوئے الفاظ اسکے لبوں سے برآمد ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

"یہ خون آ۔۔۔آپ کے ہاتھوں اور چہرے پہ ۔۔۔۔اس نے آتش کو چھونا چاہا ۔۔۔۔۔

"سسی جاکر لیٹ جاؤ "

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔اور واش روم میں چلا گیا ۔۔۔۔

سسی بت بنی وہیں کھڑی رہی ۔۔۔۔۔۔جب تک وہ باتھ لے کر واپس نہیں آیا ۔۔۔۔

وہ باتھ گاؤن پہنے باہر آیا اور ٹاول سے بال رگڑتے ہوئے ٹاول ڈریسر پہ اچھال دیا ۔۔۔۔

ہیر برش اٹھا کر بالوں میں پھیرا پھر اسے بھی اچھالتے ہوئے سسی کا ہاتھ پکڑ کر اسے آرام سے بستر پہ لایا ۔۔۔۔

سسی نے اسکا ہاتھ نخوت سے جھٹک دیا ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ نے اسکے بدلتے ہوئے تاثرات کو بخوبی محسوس کیا ۔۔۔۔۔

سسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس لمحے کیسے ریکٹ کرے کیونکہ اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ضرور کوئی نا کوئی غلط کام کر کہ آیا ہے ۔۔۔

وہ تب سے اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ کہیں اس درندے کی موت کا ذمہ دار بھی تو آتش بلوچ ہی نہیں ۔۔۔۔؟؟؟؟

اور اگر وہ سب آتش نے کیا تھا تو کیسے اور کیوں ؟؟؟؟

"کیا اس شخص کے دو روپ تھے ۔۔۔۔؟؟؟؟

"جس سے وہ واقف تھی وہ تو بہت دھیما مزاج انسان اور پیار سے پیش آنے والا ۔رحم دل شخص تھا ۔۔۔۔

تو پھر یہ اس کے شہزادے کا کون سا روپ کونسا پہلو تھا جس سے وہ واقف نہیں تھی ۔

اور آج وہ کس کی جان لے کر آیا تھا ۔۔۔۔  ؟؟؟؟

ایک قاتل سے کم ازکم وہ بھی کوئی ہمدردی نہیں رکھتی تھی  ۔۔۔۔۔۔

"ادھر میری طرف دیکھو ملکہ دل ۔۔ ۔۔نرم لہجے میں کہا گیا  تھا۔۔۔۔

مگر سسی کی حالت تو یوں تھی جیسے کاٹوں تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔۔۔

"کیا تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا شہزادہ کوئی غلط کام کر سکتا ہے "؟

اسے سسی کی آنکھوں میں نظر آتی بے اعتباری نے بری طرح توڑ دیا تھا وہ اک جہاں کی نفرت سہہ سکتا تھا مگر اپنی ملکہ کی نہیں۔۔۔۔

"مجھے سچ سچ بتائیں کیا تھا وہ سب جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔۔وہ سب واقعی سچ تھا ؟؟.

"مجھے تو لگ رہا ہے جیسے میں کوئی بھیانک خواب دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔میرا شہزادہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا "

وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

آپکے ہاتھوں اور چہرے پہ لگا کسی کا خون دیکھ کر مجھے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں ایک قاتل کی بیوی ہوں ۔۔۔۔

مجھے نفرت ہونے لگی ہے ۔۔۔۔وہ زار و زار رونے لگی ۔۔۔۔

"تم اتنی آسانی سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ تمہیں مجھ سے نفرت ہورہی ہے ۔۔۔۔

"مجھے آپ سے نہیں خود سے نفرت ہورہی ہے ۔۔۔۔۔

اسکے الفاظ پتھر بن کر اسے سنگسار کرنے لگے ۔۔۔۔۔

سسی نے اسکا ہاتھ جھٹکنا چاہا مگر جیسے ہی نظر اسکی زخمی انگلی پہ پڑی اس نے سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھا وہ کسی تیز ترین آلے سے لگا گہرا کٹ تھا ۔۔۔۔جس میں سے خون بہنا ایک بار پھر سے شروع ہوچکا تھا ۔۔۔۔

اپنے شہزادے کی انگلی سے رستا ہوا خون دیکھ کر سسی نے جھرجھری سی لی وہ خاموش بیٹھا۔۔۔سسی کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔۔

سسی اٹھی اور میڈیکل باکس الماری میں سے نکال کر لائی ساتھ ساتھ وہ روئے چلی جا رہی تھی ساتھ ساتھ پائیوڈین لگا رہی تھی ۔آتش بلوچ اسکے نازک سے ہاتھوں کی لرزش کو انہماک سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

"جب سے تم مجھے ملی ہو ملکہ دل میرے دل کو کسی کی خواہش ہی نہیں رہی ،تم نے مجھ سے پوچھا تھا نا ایک بار کہ مجھے تم سے پیار ہے یا نہیں ؟؟؟

وہ سوالیہ انداز میں بول رہا تھا جبکہ سسی ڈںڈبائی آنکھوں سے اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

"میں نے کہا تھا کہ تھوڑا سا پیار ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ چلا کہ کب اس تھوڑے سے پیار نے مجھ پہ ایسا قبضہ کیا کہ میرا پیار جنون کی حدوں کو چھونے لگا ۔۔۔۔۔

تم میری وفاؤں کا عروج ہو شہزادی ۔۔۔۔!!!!

"میرے پیار کا آغاز اور انجام تم ہو ۔۔۔۔"

"ہاں میں نے شمشیر بلوچ کو مارا ۔۔۔۔

وہ گھمبیر آواز میں سپاٹ انداز میں بولا ۔۔۔۔

اسکے تنے نقوش کو دیکھ کر سسی کا چڑیا جیسا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔

وہ اس کے دلدوز انکشاف پہ فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

اسے شمشیر کا وہ ٹکڑوں میں کٹا پھٹا وجود یاد آیا تو اس نے ڈر سے جھرجھری سی لی۔۔۔۔

کیا اس کا شہزادہ اتنا بے رحم تھا ؟؟؟؟

اس سے پہلے کہ پھر  سے اسکے دماغ میں ان گنت  سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ۔۔۔۔

"وہ تمہارا مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی کاموں میں ملوث تھا۔۔۔۔میں کافی دیر سے اُس پہ نظر رکھے ہوئے تھا ۔۔۔۔

اسی مشن کے سلسلے میں ہی میں یہاں آیا تھا ۔۔۔۔

سسی نے لفظ "مشن "پہ چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔۔

"میں کیپٹن آتش بلوچ ،ہوں سیکرٹ فورسز آئی -ایس- آئی, میں کام کرتا ہوں اور جو میری جاب ہے ,اس کے بارے میں ہمیں اپنے گھر والوں کو بھی بتانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے ،میں اور احد ایک ساتھ کام کرتے ہیں ،ایک دن جو فائل میں گھر سے لینے آیا تھا ۔اس فائل میں انہیں ملکی  ناسوروں کی ڈیٹیل تھی جنہیں ہمیں ُچن ُچن کر ختم کرنا تھا ۔۔۔۔میں اپنے ملک سے برائی کو ختم کرتا ہوں اور ملکی غداروں کو ایسے ہی ختم کرتا رہوں گا جب تک اس جسم میں جان ہے ۔وہ پر عزم اٹل انداز میں بولا ۔اسکے چہرے کے تاثرات ان دشمنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے یکدم برفیلے ہوچکے تھے ۔۔۔۔

سسی نے گہرا سانس لیتے ہیں اپنے اعصابوں کو پرسکون کیا ۔۔۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ میرے ساتھ ساتھ اس ملک کے بھی محافظ ہیں ۔۔۔میں نے کتنا غلط سوچا آپ کے بارے میں ۔۔۔۔مجھے معاف کردیں شہزادے ۔۔۔۔۔مگر میری اس بے اعتباری کے لیے مجھے ناراضگی کی سزا مت دیجیے گا ۔۔۔۔"وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔

"اپنی ملکہ دل سے ناراض ہوکر میں بھی کہاں سکوں سے رہ پاؤں گا ۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں سے پھسلتے ہوئے قیمتی  موتیوں کو اپنے لبوں سے چُنتے ہوئے مدھم لہجے میں بولا  

آتش بلوچ نے اک بھرپور نظر اسکے سراپے پہ ڈالی جو ڈھیلے ڈھالے نائٹ سوٹ میں دوپٹے سے لاپرواہ سی اسکے بے حد قریب بیٹھی اس کیلئے اک امتحان ثابت ہورہی تھی۔۔۔۔

آتش بلوچ نے ہاتھ بڑھا کر اسکی کمر میں ڈالا اور اسے تکیے پہ لیٹاتے ہوئے اس پہ جھکا اور اسے اپنے حصار میں لیا ۔

"کیا کر رہے ہیں ۔۔شہزادے۔۔۔؟

وہ یکلخت اسکے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر گھبرائی ۔۔۔

آتش کے گیلے بالوں میں سے بوندیں ٹپک کر سسی کی گردن پہ گریں ۔۔۔۔۔

"پیار ۔۔۔۔"وہ خمار زدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش کرا گیا تھا ۔۔...

"ڈونٹ وری ملکہ میں تو اپنے آنے والے بے بی سے پیار کرنے لگا تھا ۔۔۔۔

وہ شرارت سے نچلا لب دانتوں تلے دبا کر آنکھ ونگ کیے بولا اور اسکے پیٹ پہ جھکا اور اپنے ہونٹ اس پہ دھیرے سے رکھ دئیے ۔۔۔۔

سسی نے سکون کا سانس لیا۔۔۔

"اب بے بی کی مما سے پیار کرنے کا موڈ ہے ۔۔۔کیا اجازت ہے ۔۔۔۔؟"

اس نے اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں پھنسائے اسکے بال اپنی ستواں ناک سے اسکے  کان کے پیچھےکرتے پھر اپنی ناک اسکی ناک سے رگڑتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

"آپ میری ایک بات مانیں گے ؟۔۔۔۔ وہ اپنے چہرے پہ اس کی سلگتی ہوئی سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ہممم کہیں ...

"آپ یہ سب چھوڑ دیں ۔اس میں آپ کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ اس نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پرہشان لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔ 

"ملکہ دل ۔۔۔ آتش بلوچ کو خدا کے سوا کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔آپ ایک ایماندار محب وطن کی بیوی ہیں ۔میری طرح نڈر بنیں ۔۔۔۔ملکی دشمنوں کو ہم نہیں مٹائیں گے تو وہ مظلوموں کی جان لے لیں گے ۔اپنے وطن کی مٹی پہ میرے خون کا ایک ایک قطرہ بھی قربان ۔۔اور آج بھی میں نے کسی مظلوم نہیں بلکہ ایک ظالم ملکی ناسور کو اسکے کیفر کردار تک پہنچایا ہے ۔۔۔وہ میری جاب کا حصہ ہے ۔اب ڈیوٹی ٹائم ختم اور رومینس ٹائم شروع ہوا چاہتا ہے ۔۔۔ اس نے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

"اللہ تعالیٰ آپ کو آپکے مقصد میں کامیاب کرے اور جب تک میرا دل دھڑکتا رہے تب تک آپ میرے سامنے میرے پاس رہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آتش بلوچ کی ستواں ناک پر لب رکھتے کہا تھا۔۔۔۔

"کتنے پاس رہنا ہے ؟۔۔۔ اس نے اس کی گردن میں منہ چھپاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

"پتہ نہیں "

وہ شرما کر آنکھیں موندے گلنار چہرے کو تکیے میں چھپانے لگی ۔۔۔۔ 

" My eyes never get tired to see you"

" You are my comfort zone"

 جذبات  سے چور آواز نے اسکے جسم میں سنسنی سی پیدا کردی تھی ۔ 

"The best part of my entire day is taking to you"

وہ بھٹکے جذبات کی رو میں ابھی اور بھی کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔

" I promise to hold you forever in my heart ❤️

وہ فسوں خیز آواز میں اسکے کانوں میں رس گھول رہا تھا ۔۔۔۔اور اسکے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیے پیاسی نگاہیں اس پہ گاڑھیں  تھیں۔۔

سسی اسکی بڑھتی جسارتوں پہ خود کو کمزور پڑتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔آتش بلوچ اسے خود میں شدت سے بھینچے اسے اپنی بے پناہ محبت کا احساس کروانے لگا ۔اور وہ خود میں سمٹتی چلی گئی۔۔۔۔

🦋

"ھاد آج سے میری ساری ذمہ داریاں تم سنبھالو گے ۔"یارم بلوچ نے شام کی چائے پہ جب سب اکٹھا تھے تب اسے مخاطب کیے کہا ۔۔۔۔

"کیوں بھائی سا آپ کہیں جا رہے ہیں ؟

اس نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔

"ہاں یار میں بھی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ وقت اکیلے گزارنا چاہتا ہوں جب تک یہاں رہوں گا کچھ کر نہیں پاؤں گا۔۔۔ "

"مطلب "؟

اس نے خشمگیں نگاہوں سے یارم کو دیکھا۔۔۔۔

"یار بس سمجھو چھوٹا سا ہنی مون ٹرپ پلان کیا ہے "

وہ کافی کا گھونٹ بھر کر سامنے پڑی ٹیبل پہ رکھ کر بولا ۔۔۔۔ھاد بھی چائے کا خالی کپ میز پہ رکھ چکا تھا ۔

"ایک بچے کے ساتھ کون ہنی مون مناتا ہے "؟

ھاد نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا۔۔۔۔

"اس بچے کا تو پتہ نہیں چلا کیسے جھٹکے میں آگیا اب مزید کے لیے پری پلاننگ کر رہا ہوں "

یارم بلوچ بھی ہلکا سے مسکرا کر بولا۔۔۔

اس وقت دونوں بھائی اکیلے باہر لان میں بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے ۔۔۔۔

"میں چاہتا ہوں کہ اب سے تم اس گاؤں کی ساری ذمہ داریاں سنبھال لو میں تمہارا ساتھ دوں گا جہاں بھی تمہیں ضرورت پڑے گی ۔میں نے ڈاکٹر وہاج اورڈاکٹر  زارا سے بات کی ہے ۔

ہم یہاں گاؤں میں ایک ہاسپٹل تعمیر کر رہے ہیں ۔میں اپنی ڈگری کو گاؤں والوں کے لیے کام میں لانا چاہتا ہوں ۔وہ دونوں بھی میرا ساتھ دینے کو تیار ہیں ۔ہم ملکر اس ہاسپٹل کو چلائیں گے ۔۔۔"

جب تک ہاسٹل کی تعمیر مکمل ہوتی ہے ۔تب تک زرا میں اپنی بیوی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنا چاہتا ہوں "

یارم بلوچ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔۔۔۔

"بہت اچھا سوچا بھائی سا آپ نے ۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔جیسے آپ کہیں ۔۔۔۔"

ھاد بلوچ نے حامی بھر لی ۔۔۔۔

",آتش کہاں ہے "؟

یارم نے اسے کل سے حویلی میں نہیں نہیں دیکھا تو ھاد سے پوچھا ۔۔۔۔

"وہ شہر گیا ہے کہہ رہا تھا کوئی ضروری کام ہے "

ھاد نے اپنی معلومات کے مطابق اسے بتایا ۔۔۔۔۔

آتش بلوچ سب کے سامنے یہی ظاہر کرتا کہ وہ شہر میں اپنا بزنس کرتا ہے تبھی وقتا فوقتاً وہاں جانا پڑتا ہے ۔جبکہ حقیقت میں وہ اپنے فرائض کے انجام دہی میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔

🦋

"سو گئیں میری دونوں پریاں ؟؟؟؟

ھاد بلوچ نے کمرے میں آتے آس اور آویزہ کے کارٹ میں دیکھا جہاں وہ دونوں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔

"آپ کو کیا ؟؟؟

"آپ غائب رہیں سارا دن حویلی سے ۔۔۔وہ تنک کر بولی

"ھاد مجھے سچ سچ بتاؤ کہیں واقعی تم نے باہر کسی دوسری سے ۔۔۔۔۔

ھادیہ لڑاکا انداز میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی ۔

"جب گھر والی ہی اپنے شوہر کو وقت نا دے اسے توجہ نا دے تو پھر شوہر بیچارے کو باہر ہی کوئی انتظام کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔"

وہ سینے پہ ہاتھ باندھے سنجیدگی سے گویا ہوا تو ھادیہ کے تو مانو پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔

آنکھیں یکلخت آنسوؤں سے بھر گئیں ۔۔۔۔اس نے ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔

"ھاد یہ ہماری بیٹیاں ہیں ۔سارا دن اور رات اتنا تنگ کرتی ہیں مجھے ۔۔۔دونوں کو ایک ہی وقت میں بھوک لگتی دونوں ایک ہی وقت میں روتی ہیں ۔کتنا مشکل ہے ایک وقت میں دونوں کو سنبھالنا میرے لیے ۔۔۔۔یہ نہیں کہ اپنی بیٹیوں کو سنبھالنے میں تم میری مدد کرو ۔۔۔الٹا تم اپنی طرف مجھے میری بے توجہی کو بنیاد بنا کر 

مجھے ہی قصور وار ٹہرا رہے ہو ۔۔۔۔ھاد میں ہمارے درمیان کسی کو برداشت نہیں کرسکتی ۔۔۔۔مجھ پہ ایسا ظلم مت کرنا میں جیتے جی مر جاؤں گی "

"میں نہیں کہتی مجھے اول ہی رکھو ،چاہے تو مجھے آخر ہی رکھو ،لیکن جہاں مجھے رکھو وہاں کسی اور کو نہیں رکھو ۔۔۔۔"

وہ تڑپ کر بولی ۔۔۔۔جبکہ ھاد خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھے وہ لمحوں میں پگھل گیا اور اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کر گیا ۔۔۔۔

"بلوچن سائیں جب تک میری سانسیں چل رہیں تب تک ممکن نہیں۔۔۔۔ کہ میرے دل میں آپ کے سوا کسی کی محبت پیدا ہو ۔۔۔۔مذاق کر رہا تھا ۔۔۔۔بس بھائی سا کے جانے سے پہلے سب کچھ ان سے تفصیلی طور پہ پوچھ رہا تھا ،تاکہ ان کے جانے کے بعد کوئی مسلہ پیش نا آئے ۔۔۔یار میں بھی بندہ بشر ہوں ،تمہیں اور اپنی پریوں کو وقت دینے میں کبھی کوتاہی ہو جاتی ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سب کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف متوجہ ہوگیا ہوں ۔۔۔۔اپنے گاؤں والوں کے فرض کو نبھاتے ہوئے تمہارے حق میں گر کوئی غلطی ہو جائے تو مجھے معاف کر دینا جیسے تم ہمیشہ سے کرتی آئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

"تم سو جاؤ میں ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتا ۔۔۔۔

 "نہیں سونا مجھے ۔۔۔۔اور تم اگر آج کہیں گئے نا تو ۔۔۔۔

"تمہارے بارے میں الٹا سیدھا سوچ کر میری سانسیں حلق میں ہی اٹک  گئیں تھیں ۔۔۔تمہیں کھو دینے کا تصور ہی سوہان روح بن گیا تھا میرے لیے ۔۔۔۔ 

یہ سوچتے ہوئے ہر پل میں سو سو بار مری ہوں میں کہ کہیں تم مجھ سے بیزار نا ہوگئے ہو  ۔۔۔۔ھاد مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا ۔۔۔"

 وہ اس کے سینے کے ساتھ لگی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔۔۔

"دل چاہتا ہے ہمیشہ یونہی تمہیں خود میں سمو کرِ ان دھڑکنوں میں نام اپنا سنتا رہوں ۔۔۔۔

"میں نے اپنی زندگی تمہارے نام  لکھ دی ہے ۔بس تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے اب تو،،

دل کی ہر اک آس تمہیں سے منسوب ہے جب تک یہ سانسیں جڑیں ہیں ۔۔۔۔

تم سے ایک پل کی بھی دوری اب گوارا نہیں میری بلوچن '"

وہ خمار زدہ آواز میں بول کر اسے اپنے جذبات سے آگاہ کروا رہا تھا ۔۔۔

"آج سے میں تم پہ اتنی ہی توجہ دوں گی جتنی پہلے دیتی تھی ۔۔۔ مگر مجھے نظر انداز مت کرنا کبھی مجھ سے بیزار مت ہونا ۔۔۔کسی کو میری جگہ دینے سے پہلے میری جان لے لینا ۔۔۔ کیونکہ ذندہ رہتے میں تمہیں کسی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر آج میں تمہاری جان نکال دیتا ہوں ۔منظور ہے "؟

وہ ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں بولا

"لے لو ۔۔۔یہ جان تم پہ قربان ہو جائے تو کوئی غم نہیں "

وہ پختہ لہجے میں بولی۔۔۔

"ایک بار پھر سوچ لو میں جس انداز میں جان نکالوں گا سہہ پاؤ گی ُاسے ؟؟؟"

ھاد بلوچ اس کو اپنے مقابل کھڑا کیے اس کے بالوں میں سے کیچر نکال کر کارپٹ پہ اچھالتے ہوئے اپنی انگلیاں اسکے بالوں میں بیدردی سے پھنساتے اس کی شہہ رگ پر اپنے لب رگڑ کر کہا تھا۔۔۔۔ 

"مجھے منظور ہے " اس نے لرزتی پلکوں کی باڑ لیے نظریں  اوپر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

" پھر حواس مت کھو دینا میرے جان نکالنے کے طریقے  پہ ۔۔۔ اس نے معنی خیزی سے کہا تھا۔۔۔ 

اور ھادیہ کے ہاتھوں کو اسکی پشت پہ جکڑا ۔۔۔۔

"نہیں کھووں گی تمہارے لیے کچھ بھی ۔۔۔!!!!!

 اس کے آنسو اسکی پلکوں کی باڑ توڑے گالوں پر بکھرنے لگے ۔۔۔۔ اس کی سرخ ناک اور تھرتھراتے لب دیکھ کر ھاد کواپنے من میں امڈتے ہوئے جذبات کو قابو کرنا مشکل لگا ۔۔۔وہ اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیےاسکے لبوں پہ جھکا تھا پوری شدت سے اور وہ اس اچانک افتاد پر ھادیہ بری طرح کپکپا کر رہ گئی ۔۔۔۔اس کی شدتیں اس کے لبوں پر بڑھتی جا رہیں تھیں۔۔۔وہ واقعی اسکی جان لینے کے در پہ تھا وہ وعدہ کرنے کے بعد  مزاحمت بھی نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔اسکی شدتوں کے سامنے  بے حال ہونے لگی ۔۔۔ اسکی مدھم پڑتی سانسوں پہ وہ بڑی نرمی سے اس سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔

وہ اس سے نظریں ملائے بنا سر جھکائے اپنی بکھری سانسوں کو ہموار کر رہی تھی ۔۔۔۔

"نظریں میری نظر سے میری جاں زرا ملاؤ ۔

کوئی گیت میں بنا لوں ۔

دھن ایسی گنگناؤ ۔۔۔۔!!! "

وہ دیوار پہ لگے اپنے سروز کی تاروں کو چھیڑ کر مدھم آنچ دیتے لہجے میں بولا۔۔۔تو سروز کی تاروں نے خوبصورت سا ساز چھیڑا ۔۔۔۔۔

میری طرف دیکھو۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اس کے شانوں پہ ہلکا سا دباؤ ڈالے اس کی جھکی پلکوں پر باری باری لب رکھتے کہہ رہا تھا۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔ اس نے اپنی پلکیں جھکائے شرم سے لال ہوتے چہرے کو نفی میں ہلایا تھا۔۔۔۔

"ابھی کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کے اس کی جان لے لوں ۔۔۔۔اور ابھی ایک ہی وار میں جان نکل گئی ۔۔۔۔۔ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں آگے بلوچن سائیں ۔۔۔۔۔تب کیا بنے گا ۔۔۔۔۔؟

"ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔۔ہا ۔۔۔۔

اس نے فلق شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنی پوروں سے چھو کر اوپر کرتے اس کی لرزتی ہوئی پلکوں کو چھو کر بولا ۔۔۔۔

"آپ تو ہمیں مزید بہکا رہی ہیں بلوچن سائیں اپنی ان جان لیوا دلکش اداؤں سے ۔۔۔۔"

ایسے مت کریں ۔۔۔آپ کو ہی مشکل پیش آئے گی اور قصور وار ہم معصوم ٹہرائے جائیں گے ۔۔۔۔ھاد بلوچ نے اس کو زور سے اپنے سینے میں بھینچتے ہوئے عالم جذب سےکہا تھا۔۔۔

تو ھادیہ نے بھی اتنی ہی شدت سے اسکے گرد اپنے بازو باندھ دئیے ۔۔۔۔۔

🦋

یارم چاہت اور براق کو لے کر بلوچستان کے برفانی علاقوں کی طرف آچکا تھا ۔۔۔۔جن میں کان ہنر زئی،ژوب ،مسلم باغ میں سب سے معروف اسٹیشن زیارت کا تھا،یہ جنگلات کے درمیان اونچے نیچے راستوں، پرسکون ریسٹ ہاوس اور جنگلوں سے آراستہ ہے، صنوبر کے درختوں سے پھوٹتی خوشبو برف کے دنوں میں اور تیز ہو جاتی ہے۔یہاں شفاف چشمے ، اور گنگناتی ہوائیں سیاحوں کو بلاوے بھیجتی ہیں۔ یارم بلوچ نے راستے میں رک کر وہاں کے موسم کے حساب سے اپنے چاہت اور براق کے لیے ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کی ۔۔۔۔اب وہ ایک معروف ہوٹل میں آچکے تھے ۔۔۔۔۔

ہوٹل میں لنچ کیے اب وہ باہر نکلے ۔۔۔۔

یارم بلوچ نے بلیو جینز پہ بلیک ہائی نیک اور اوپر بلیک لیدر جیکٹ پہن رکھی تھی ۔

جبکہ چاہت نے فراک اور کیپری  کے ساتھ لانگ کوٹ اور گلے میں مفلر ڈال رکھا تھا ۔۔۔۔

براق بلیک جینز اور ریڈ شرٹ کے ساتھ گرم اونی سوئیٹر پہنے ۔سر پہ گرم ٹوپی پہنے بہت کیوٹ لگ رہا تھا ۔۔۔۔

اب وہ بالکل ٹھیک چلنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ 

"ما۔۔۔با ۔۔۔۔۔"

اس کے ما لفظ کے ساتھ با کا بھی اضافہ ہوچکا تھا ۔۔۔۔

بابا کی جگہ با ۔۔۔۔۔

وہ اچانک ہونے والی برف باری کو دیکھ کر پرجوش ہوا اور خوشی سے تالیاں بجانے لگا ۔لیکن ہاتھوں پہ گلوز ہونے کیا وجہ سے اسکی تالیوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔

یارم اور چاہت اسے خوشی سے اچھلتے تالیاں بجاتے دیکھ کر  مسکرانے لگے ۔۔۔۔

"واؤ برف۔۔۔۔ یار یہ تو روئی کے گالوں کی طرح ہے اف میں نے ہمیشہ سے ایسے موسم میں باہر جانا چاہا تھا اور اسے اپنے ہاتھوں پہ محسوس کرنا چاہا تھا مگر برو نے کبھی باہر جانے نہیں دیا ۔۔۔ براق نے بھی اپنی لائف میں فرسٹ ٹائم ایسا منظر دیکھا ہے۔۔۔۔ وہ دیکھیں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ  مجھے قریب جا کر دیکھنا ہے انہیں ان کو محسوس کرنا ہے ۔۔۔ اف کتنا خوبصورت منظر ہے ۔۔۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔ براق بھی کچھ زیادہ ایکسائیٹڈ ہو گیا تھا۔۔۔ 

"چاہت براق کوسردی لگ جائے گی ۔۔۔۔ اور ویسے بھی شام ہونے والی ہے کل صبح پکا لے جاؤں گا ۔ابھی یہیں قریب ہی انجوائے کرلیتے ہیں ۔۔۔۔۔

چاہت نا چاہتے ہوئے بھی یارم کی بات مان گئی وہ بھی صرف براق کے خیال سے واقعی اس وقت  اوپر پہاڑ پہ جانا ان کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا تھا ۔۔۔۔

"پر ایک شرط پہ "وہ یارم کی طرف پلٹ کر بولی ۔۔۔

"وہ کیا "؟

اممممم۔۔ اس نے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر سوچتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

"مجھے نا اس جیپ پہ نہیں جانا ۔۔۔۔۔۔

وہ منہ بسورے بولی ۔۔۔۔

"ویٹ ۔۔۔ویٹ ۔۔۔۔چاہت پلیز پچھلی بار کی طرح کوئی انوکھی فرمائش مت کردینا سائیکل پہ جانے کی ۔۔۔۔

وہ وارننگ دینے کے انداز میں بولا۔۔۔۔۔

"نہیں۔ نہیں۔۔۔۔اس بار سائیکل سے تھوڑا ہٹ کر ہے ۔۔۔مجھے نا بائیک پہ جانا ہے ۔۔۔پلیز وہ کسی سے لے لیں نا ۔۔۔۔۔

"Are you serious...?

"جی بالکل۔۔ یہ ہی ٹھیک رہے گا۔۔۔۔۔

اس سنو فال میں مجھے بائیک کہاں سے ملے گی ۔۔۔۔۔

"پلیز سمجھو نا یارو ۔۔و۔ و۔!!!!!

چاہت ایڑی کے بل اونچی ہوئی اور یارم کی تھوڑی پہ لب رکھتے ہوئے پیار بھرے انداز میں فرمائش کرنے لگی ۔۔۔۔۔

چاہت کی اتنی پیار بھری پیش رفت پہ وہ انکار کیسے کرے یہی سوچتے ہوئے جوابا بولا 

"پلیز سمجھو نا چاہو ۔۔۔و۔۔و۔۔!!

""میں نہیں بولتی "

وہ ناک سکوڑ کر خفگی سے رخ موڑ گئی۔۔۔۔۔

"ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔

 یارم نے قہقہہ لگاتے اسکا رخ اپنی طرف پلٹ کر اسکی  پیشانی پر اپنےہونٹوں سے مہر ثبت کی۔۔۔۔

"آؤ ۔۔۔۔ملکر پیدل ہی چلتے ہیں وہاں انجوائے بھی ہو جائے گا ۔۔۔۔یارم نے براق کو گود میں اٹھا لیا کیونکہ وہ یارم چلتے ہوئے بار بار برف کی وجہ سے پھسل رہا تھا ۔۔۔۔یارم نے ایک ہاتھ سے براق کو اٹھا ہوا تھا تو دوسرے سے چاہت کی پشت سے گزار کر اسے اپنا محفوظ پناہگاہ میں لے رکھا تھا ۔۔۔

تینوں ایک مکمل فیملی کی طرح خوش باش چلتے ہوئے ایک خالی بڑے سے میدان میں آگئے جہاں چہار سو دور دور تک صرف برف ہی برف دکھائی دے رہی ڈھلتی شام کے وقت کا یہ منظر بہت ہی بھلا معلوم ہورہا تھا ۔۔۔۔

بادلوں نے دور سے نظر آتے سورج کو چھپا رکھا تھا ۔بس کسی بھی وقت  یہ ہلکا نیلا اور سرمئی  آسمان رات کے سیاہ بادلوں میں ڈھلنے والا تھا ۔۔۔۔

چاہت برف پہ بیٹھی سنو مین بنانے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ بن کر نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔

بالآخر اس نے تنگ آکر برف کا گولا بنایا اور یارم کی طرف آئی جو براق کے ساتھ برف سے کھیل رہا تھا ۔۔۔۔

چاہت نے آکر یارم کی جیکٹ کے کالر کو اسکی گردن کی پچھلی جانب سے کھینچا اور اسکے اندر بعد کا گولہ ڈال دیا ۔۔۔

یارم نے مڑ کر دیکھا اس سے پہلے کہ چاہت شرارت کیے وہاں سے بھاگ جاتی اس نے چاہت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا وہ اس افتاد پہ خود کو سنبھال نہیں پائی اور کچی ڈال کے مانند اس پہ گری ۔۔۔۔

یارم اسے اپنے ساتھ لیے برف پہ لڑھکنے لگا ۔۔۔کبھی یارم اوپر تو کبھی چاہت ۔۔۔وہ گول گول گھومتے ایک جگہ پہ رکے ۔۔۔۔۔

براق ان کو یوں دیکھتے ہوئے انکے پیچھے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے چلتا آیا ۔۔۔۔

"اب بتاتا ہوں مسز ۔۔۔!!!!سنو فال میں کیسی شرارت کرتے ہیں ۔۔۔۔"کہتے ہی وہ اسکی گردن پہ جھکا ہی تھا کہ اپنی پشت پہ کچھ ہلکا سا محسوس ہوا ۔۔۔یارم نے گردن ترچھی کیے دیکھا ۔۔۔۔

براق اسے اپنے ننھے گلوز والے ہاتھوں سے مار رہا تھا ۔۔۔۔وہ سمجھ رہا تھا کہ یارم اسکی مما کو مار ہے ۔۔۔۔تبھی وہ یارم کو چاہت کے اوپر سے ہٹانے کے لیے اسے مار رہا تھا ۔۔۔۔

"ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔

"ما کے چمچے ۔۔۔۔۔تو بھی لے ۔۔۔۔یارم نے پیچھے کھڑے براق کو بھی برف پہ لیٹایا ۔۔۔۔اور چاہت کے ساتھ ساتھ براق پہ بھی برف پھینکی ۔۔۔۔

"یارو ۔۔۔مت کریں نا ۔۔۔۔

چاہت ہنستے ہوئے اسے منع کرنے لگی ۔۔۔۔

براق کو بھی اس برف کے کھیل میں مزہ آرہا تھا ۔۔۔۔وہ بھی کھکھلا رہا تھا ۔۔۔۔

"اب آیا مزہ ما اور اس کے چمچے کو ",

یارم ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ آگے کیا تو چاہت بھی اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دئیے اٹھ کھڑی ہوئی پھر یارم نے براق کو بھی اٹھایا اور وہ تینوں آگے بڑھنے لگے جبکہ براق صاحب کا رونا شروع ہوچکا تھا ۔۔۔۔

وہ بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر کیونکہ اسے ابھی اور برف میں کھیلنا تھا ۔۔۔۔مگر یارم نے اسکی طبیعت کے خیال سے واپسی کی راہ لی ۔۔۔۔ہوٹل میں آکر انہوں نے ڈنر کیا براق وہیں چاہت کی گود میں تھکن کے باعث سو چکا تھا ۔۔۔۔

یارم نے اسے چاہت کی گود سے لے کر اپنے شانے سے لگایا پھر وہ دونوں اپنے روم کی طرف آگئے ۔۔۔۔۔

یارم نے آہستگی سے اندر آکر روم کے دروازے کو لاک کیا اور براق کو نرمی سے بستر پہ لٹا دیا تاکہ اسکی نیند خراب نا ہوجائے ۔۔۔۔

چاہت اپنا لانگ کوٹ اتارے ایک طرف رکھے بیگز میں سے اپنے دوسرے کپڑے نکال رہی تھی ۔۔۔۔۔

تبھی یارم نے ان شاپنگ بیگز میں سے ایک بیگ اسکی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

"یہ پہن لو "

چاہت شاپنگ بیگ کھولا تو اس میں بلیک کلر کی خوبصورت نائٹی تھی۔۔۔۔

" میں ۔۔۔ایسے ڈریس نہیں پہنتی ۔۔۔۔وہ نظریں پھیر کر بیگ میں سے کچھ اور ڈھونڈھنے لگی پہننے کے لیے ۔۔۔

"میرے سامنے ڈارمے مت کرو یار جاؤ پہن کر آؤ جلدی ۔ورنہ میں خود یہ کام اپنے ہاتھوں سے کروں گا ۔۔ اس نے باقاعدہ دھمکی دی تھی ۔۔۔

"میں نے کہانا مجھے یہ سب پسند نہیں ۔۔۔نہیں پہنی مجھے یہ ۔۔۔۔"اس نے نائیٹی کو ہاتھ میں لپیٹ کر دور پھینک دیا۔۔۔۔

یارم نے اسکی ہٹ دھرمی پہ اسے غور سے دیکھا پھر جیکٹ اتار کر ہائی نیک اتارا پھر شوز ۔۔۔وہ صرف جینز میں تھا ۔۔۔۔۔چاہت نے اسے غصے میں دیکھا تو اپنی ضد پر خودی پچھتانے لگی ۔۔۔۔

مگر اس قسم کی نائٹی پہن کر اسکے سامنے جانے سے بھی تو بہت شرم آرہی تھی تبھی اس نے ضد باندھی تھی ۔۔۔۔

وہ اپنی جیکٹ کی پاکٹ میں سے سگریٹ اور لائیٹر نکال کر ٹیرس کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔

اور روم سے ملحقہ ٹیرس میں آگیا تھا ۔۔۔۔

" اب اسے اس کی مرضی کے بغیر چھووں گا بھی نہیں ۔۔۔ 

کتنا وقت دیا تھا اسے کہ وہ اپنا مائنڈ بنا چکی ہوگی ۔مگر شاید وہ میرا ساتھ نہیں چاہتی ۔۔۔ یہی سوچ اسے اندر تک جھنجوڑ رہی تھی۔۔

سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹ رہا تھا جسم میں اتنی ٹھنڈ میں سے بھی شرارے پھوٹ رہے تھے۔۔۔   

اور سگریٹ سلگا کر وہیں کھڑے کھڑے اس کے دھواں کے مرغولے بنا کر ہوا میں اچھالنے لگا ۔۔۔۔اس نے سیگریٹ نوشی کافی حد تک کم کردی تھی مگر آج اتنے دنوں بعد اسے پھر سے وہی دورہ پڑا تھا ۔۔۔۔

وہ سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونکے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔

 وہ چاہت کو اپنی محرم بنانے کے بعد پہلی بار اپنی زندگی مکمل کرنے کا خواہش مند ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ساری خواہشات وہ اپنی سنگ باندھ گئی تھی ۔۔۔۔جب وہ لوٹ آئی تو بھی اسکی خواہشات کو پیروں تلے روند گئی ۔۔۔۔پھر خود پیش قدمی کر کہ مجھے واپس اسی جگہ لاکھڑا اور پھر یہ اعتنائی ۔۔۔۔۔

وہ اتنی ٹھنڈ میں بغیر شرٹ کے کھڑا اپنے خیالات کے ساتھ ہی جنگ لڑنے میں مگن تھا۔۔۔۔۔ اس نے سگریٹ کا گہرا کش بھرتے ہوئے سنو فال کی طرف دیکھا جس میں مزید روانی آگئی تھی ۔۔۔۔۔

شیڈ کی وجہ سے سنو فال ٹیرس میں نہیں گر رہی تھی۔

چاہت اسکی ناراضگی کے ڈر سے نائٹی اٹھا کر واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔اسکے شولڈر پہ ڈوریاں لگی ہوئیں تھیں جنہیں اس نے کپکپاتے ہوئے پہنا تھا ۔۔۔

گلا کافی گہرا تھا۔۔۔۔ اس نے باہر آکر شال اٹھا کر اپنے شانوں کے گرد لپیٹی ۔۔۔۔

اور چلتے ہوئے اس کے پیچھے ٹیرس میں آئی ۔۔۔۔سلائیڈنگ ڈور کھولتے ہی ایک سرد ہوا کو ٹھٹھرا دینے والا جھونکا آیا اور اسکے تن بدن کو کپکپانے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔

اس نے اپنے بازوؤں کو سینے کے گرد لپیٹا ۔۔۔۔

"اندر چلیں پلیز ۔۔۔چاہت نے اسے پھر سے سیگریٹ پیتے دیکھ کر برا سا منہ بنایا۔۔۔۔

"تم جاؤ جب آنا ہوگا تب آجاؤں گا ۔۔۔۔ اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر سیگریٹ کا گہرا کش لیا اور دھواں اچھالا ۔۔۔۔۔اس منہ اور ناک دونوں میں سے دھوئیں کی زیادتی دیکھ کر چاہت کو اپنی بیوقوفی پہ رونا آنے لگا ۔۔۔۔

اس کے منع کرنے کی وجہ سے وہ غصے میں پھر سے سیگریٹ نوشی پہ شروع ہوچکا تھا ۔۔۔۔

"باہر بہت ٹھنڈ ہے آپکو سردی لگ جائے ۔۔۔۔۔

وہ فکر مندی سے بولی ۔۔۔میں تو پھر بھی شال اوڑھے ہوئے ہوں اور یہ بنا شرٹ کے ہیں "

اس نے ٹھنڈ کی شدت سوچ کر ہی جھرجھری لی ۔۔۔۔

"تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے ۔۔۔ اس نے پھر سے اسے دیکھنے سے گریز کیا تھا ۔۔ ۔۔

چاہت نے اسکے بائیسپس والے مضبوط بازو دیکھے ۔تو غش کھانے والی ہوگئی ۔۔۔

"چاہت تجھے ان کا ایک تھپڑ پڑا نا تو نے سیدھا ٹیرس سے نیچے گرنا ہے ۔۔غصے میں ہیں تھوڑا سنبھل کر ۔وہ ہلکی آواز میں بڑبڑائی پھر ہمت مجتمع کیے بولی ۔۔۔۔

"بہت فرق پڑتا ہے مجھے چلیں آپ یہاں سے ۔۔۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔

"میں نے کہا نا جاؤ یہاں سے "

یارم نے اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوئے درشت آواز میں کہا تو چاہت کی آنکھوں میں کب سے رکے ہوئے آنسو پھسلنے لگے ۔

"دیں اسے مجھے ۔۔۔۔اس کے دھوئیں نے آپکا دماغ خراب کردیا ہے ۔۔۔۔۔

وہ اسکے ہاتھ میں سے سیگریٹ کھینچ کر ٹیرس سے نیچے پھینکتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔

ایسا کرنے سے چاہت کے شانوں پہ جھولتی ہوئی شال زمین پر گر گئی ۔۔۔۔

اور اسکے شانے ٹھنڈ سے ٹھٹھرنے لگے ۔۔۔۔

"آپکے بنا نہیں رہ پاؤں گی ۔"

وہ روتے ہوئے اسکے سینے سے لگی ۔۔۔۔تو اتنی ٹھنڈ میں اسکے گرم سینے سے لگے حرارت ملی ۔۔۔۔وہ خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

"اندر چلیں آپ کو سردی لگ جائے گی "

وہ چہرہ اٹھا کر اسکی سرمئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولی ۔۔۔۔

مگر اسے سپاٹ کھڑے دیکھ کر سر جھکائے انگلیاں چٹخانے  لگی ۔۔۔۔

پھر کچھ سوچ کر ہمت مجتمع کی اور ایڑیوں کے بل اونچا ہوتے ہوئے اسکی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر اپنے لب رکھے۔۔۔تو دونوں کے دلوں کی دھڑکنوں نے رفتار پکڑی ۔۔۔۔

یارم نے اسکا تفصیلی جائزہ لیا جو اسکی پسندیدہ نائیٹی میں حسن کے جلوے بکھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ مسمرائز ہوا ۔۔۔۔اور پل بھر میں سارا غضہ اڑن چھو ہوگیا ۔۔۔

"اتنی ہاٹ مسز پا کر مجھے تو اور بھی گرمی لگ رہی ہے تم ٹھنڈ کی بات کر رہی ہو ۔۔۔

وہ اسکے اناری ہوئے گال پہ دانت گاڑھے بولا ۔۔۔

"آہ ۔۔۔ہ۔۔۔چاہت سسک کر پیچھے ہونے کو تھی کہ یارم نے اسے اپنے بانہوں میں بھر کر دوسرے گال پر بھی دانت گاڑھے ۔۔۔۔آج تو یہ ٹھنڈے اور میٹھے رس گلے کھانے کا الگ ہی مزہ آیا۔۔۔

وہ ذومعنی انداز میں بولا تو چاہت نے اسکے سینے پہ چہرہ چھپایا ۔۔۔۔ 

"سب پہنتی ہیں ایسا ڈریس اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے ۔۔۔۔تمہیں اچھا نہیں لگے گا کہ تمہاری وجہ سے تمہارا شوہر خوش ہو ؟

اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو چاہت نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

"مسز گستاخیاں کرنے سے پہلے اسکے انجام سے باخبر ہونا اچھا ہوتا ہے  ۔۔۔۔ اس نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ اسکے کان کی لو کو چوم لیا ۔۔۔۔

چاہت کے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔

" آپ کو پھر سے ایک بار محسوس کرنا چاہتا ہوں،آپکی دھڑکنوں کو قریب سے سننا چاہتا ہوں اس نے گھمبیر لہجے میں اس کی گردن پر جا بجا لمس چھوڑتے ہوئے کہا تھا اور اس نے شدت سے آنکھیں بند کیں تھی۔۔۔۔

اس کے ہر لمس پر وہ لرز رہی تھی کانپ رہی تھی اس کی جان فنا ہو رہی تھی۔۔۔۔ 

وہ اپنے نچلے ہونٹ کو دانت تلے کچلنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اس کے شانوں کو جکڑے اس کے دئیے میٹھے درد پر سسکی لیتے تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔۔یارم پوروں سے اس کے بال اس کی گردن سے ہٹاتے اسکی شہ رگ پہ لب رکھے اسے کپکپانے پہ مجبور کرگیا۔۔۔

"ری لیکس مسسز !!! ۔۔۔۔۔

 وہ اس کے چہرے پہ سرخ ناک تھرتھراتے ہوئے لب، لرزتی نم پلکوں کو خمار زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔تبھی اسکے شانے سے ایک جھٹکے سے بندھی ڈوریوں کو کھول کر اپنے لمس سے روشناس کروانے لگا ۔۔۔۔۔چاہت کی روح تو اسکی شدتوں پہ فنا ہونے کو تھی ۔۔۔۔

 اس کی جان ہلکان ہو رہی تھی شدت سے ٹانگیں کانپ رہیں تھیں۔۔۔۔۔

" میں مانتا ہوں کے جس طرح ہمارا نکاح ہوا یہ سب قبول کرنا تمہارے لیے مشکل تھا ۔۔۔مگر مسسز اب تو ہمارا بیٹا بھی آچکا ہے تو پھر اب ڈر کیسا ۔؟ہر بار مجھ سے دور جاکر تم نے جو مجھ پہ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں ۔ان سب کا سود سمیت بدلہ لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔۔۔۔ اس نے آخر میں شریر لہجہ اپناتے اس کو پورے زور سے خود میں بھینچا تھا۔۔۔۔۔

"آہ ۔۔۔۔ چاہت کے لبوں سے سسکی نکلی تھی۔۔۔۔

"ابھی سے آہ نکل گئی مسسز ۔۔۔۔ابھی تو جو آپ اپنی  جدائی کا زہر میری نس نس میں بھر گئی تھیں اسے آپ کی رگ رگ میں اتارنا باقی ہے ۔۔۔۔وہ اسکے یاقوتی لبوں پر نگاہیں جمائے فسوں خیز آواز میں بولا تو چاہت کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔

وہ اس کی کپکپاتی ہوئی ٹانگوں پر اپنی ٹانگیں رکھ کر اس کے چہرے پر جھک کر اسکے چہرے کے ہر ہر نقش پر اپنا لمس چھوڑنے لگا تھا۔۔۔۔ اور وہ اس کی سانسوں کی تپش سے جھلستی ہوئی اسکی قربت میں لرز رہی تھی ۔۔۔وہ اسکے گلابی تھرھراتے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کرگیا۔۔۔۔

چاہت خود سپردگی کے انداز پہ اپنے ہاتھ اسکی پشت پر رکھے۔۔ اور اسکی دہکتی آغوش نرم گرم لمس پر آنکھیں موند گئی۔۔ وہ اسکی بھاری گھمبیر سرگوشیوں میں خود کیلئے بےانتہا محبت بھی سن رہی تھی۔۔ 

اسکے لمس لمس میں شدت تھی جنون تھا ۔۔

آج وہ اسے اپنی چاہتوں کے رنگ میں رنگے اسکا پور پور مہکا رہاتھا۔۔۔ 

"یارو ۔۔۔۔!!!

وہ کچھ سوچتے ہوئے اسکی سرگوشیوں میں خلل ڈال گئی ۔۔۔

"ہمممم ۔۔۔۔وہ وہ اسکے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔

"مجھے بھی ڈاکٹر بننا ہے ؟

اسکی انوکھی فرمائش پہ یارم نے چونک کر دیکھا۔۔۔

"وہ کیوں جانم ۔۔۔؟

"مجھے بھی یہ سب سیکھنا ؟

پہلے تو وہ چند لمحوں کے لیے خاموش رہا مگر جلد ہی اسکا ماسٹر مائنڈ اسکی معصوم مسسز کی خواہش کی نہج تک پہنچ گیا ۔۔۔۔

"مسز یہ سب ڈاکٹری کی کتابوں میں نہیں ملے گا ۔۔۔۔یہ نصاب تو بس یارم بلوچ کے عشق کی کتاب میں ملے گا ۔۔۔

اور میری عشق کی کہانی میری جانم سے شروع اور اسی پہ ختم ۔۔۔۔"

"مگر ۔۔۔!!!

چاہت نے پھر سے بولنے کی کوشش کی۔۔۔

"ششش۔۔۔۔۔بالکل خاموش ۔۔۔اس سے پہلے کہ تمہارا چمچہ اٹھے مجھے میری کیوٹ سی ڈول لانے کا بندوست کرنے دو ۔۔۔۔۔"

اسنے اسکے نچلے ہونٹ کو چھو کر شرارت سی کردی۔۔ وہ "سی" کرتی رہ گئی۔۔ جب وہ ہنستا ہوا اسکے لبوں کو قید کرگیا۔۔ 

لمحہ بہ لمحہ گہری ہوتی رات کے ساتھ جہاں ٹھنڈ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا،وہیں یارم بلوچ کی شدتوں میں بھی جنونیت چھلکتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔

🦋

شہرخاموشاں میں 

زرش بلوچ فلک بلوچ کی قبر کے پاس کھڑے اس پہ پھولوں کی چادر چڑھائے فاتحہ پڑھ رہی تھیں ۔اور انکی مغفرت کی دعا کر رہی تھیں ۔یہاں اکیلے وہ اکثر آتیں اور ان سے اپنے دل کی باتیں بانٹتی رہیں ۔۔۔۔

🦋

وہ ڈریسر کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش پھیر کر انہیں سلجھا رہی تھی۔۔۔مگر نظریں پیچھے کھڑے ٹائی باندھتے ہوئے آدم پہ تھیں ۔وہ نظروں ہی نظروں میں اسکی بلائیں لے رہی تھی۔

"اپنی چیزوں کو یوں چھپ چھپ کر نہیں دیکھتے امینہ جی دھڑلے سے سامنے آکر دیکھتے ہیں ۔"

وہ پیچھے سے آکراسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے بوجھل آواز میں بولا ۔۔۔

""آپ نے آکر میری زندگی گلابوں کے جیسے مہکا دی "

اسکے گالوں پہ پیار کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

"میں بھی خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتی ہوں ۔کبھی سوچا نہیں تھا انتظار کا پھل اتنا میٹھا ہوگا ۔۔۔۔

"وہ پلٹ کر اسکی گردن میں دونوں بازوں ڈالے مسکرا کر بولی ۔۔۔۔

شادی کے بعد آدم نے اسے اپنی محبت کے رنگ میں اس طرح سے رنگ دیا تھا کہ دونوں کا ایک پل بھی ایک دوسرے کو دیکھے بنا گزارہ نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔

"تو پھر اس میٹھے پھل میں سے کچھ حصہ ہمیں بھی دیں۔۔۔۔ "

وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ڈریسر کے اطراف میں ہاتھ رکھے اس پہ جھکا۔۔۔

اسطرح کہ امینہ اس کے حصار میں مقید ہوگئی ۔۔۔۔

"آ۔۔۔آپ ۔۔۔دن بہ دن بہت بے شرم ہوتے جارہے ہیں "

وہ اسکی بات سمجھ کر بوکھلاتے ہوئے بولی ۔۔۔

"کیونکہ آپ دن بدن اتنی دلکش ہوتی جا رہی ہیں ۔آپکو دیکھتے ہی بے شرمی امڈ پڑتی ہے ۔۔۔۔"

وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا ۔۔۔

وہ جانے لگی تو آدم نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی بانہوں کی زنجیر میں جکڑ لیا ۔۔۔۔

"آپ ہمیں تڑپا کر یوں بھاگ نہیں سکتی "

"میں اور کہیں جانا بھی نہیں چاہتی "اسکی پناہوں میں اسکی مزاحمت دم توڑ چکی تھی ۔۔۔۔ان دونوں کے چہروں پہ مسرور اورسرشار سی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔

🦋

"گڈ مارننگ۔۔!! یار اب اٹھ جاؤ آٹھ بج گئے ہیں ۔ہاسپٹل بھی نکلنا ہے ۔۔۔۔

اس نے شیشے کے سامنے کھڑے ہوئے خود کی تیاری سے مطمئن ہوتے ہوئے پرفیوم کیا پھر زارا کے پاس آکر اسکے چہرے سے کمفرٹر ہٹا کر بولا ۔۔۔

"سونے دو نا ۔۔۔۔رات کو بھی سونے نہیں دیتے صبح بھی ۔۔آج مجھے چھٹی کرنی ہے ۔اور نیند پوری کرنی تم جاؤ "

وہ بند آنکھوں سے ہی بولی ۔

"او ۔۔۔اچھا ۔۔۔!!!

"تو پھر ایسا کرتا ہوں میں بھی چھٹی کر لیتا ہوں ۔بھئی تمہیں کمپنی دینے کے لیے بھی تو کوئی ہونا چاہیے نا "وہ شرارت سے شوز پہنے ہوئے ہی بستر میں اسکے ساتھ گھسا ۔۔۔۔

"ی۔۔۔یہ۔۔۔۔کیا کر رہے ہیں ۔۔۔

زارا سٹپٹا کر جھٹ اٹھی ۔۔۔اور کمفرٹر اتار کر زمین پہ اتری ۔۔۔اسکی آنکھیں اس افتاد پہ پوری کھل چکی تھی۔

"کتنی مشکل سے رات کو آپکے کپڑے پریس کیے تھے ۔چلیں اٹھیں ۔چلتی ہوں ۔میں بھی آپ کے ساتھ ورنہ آپ نے پھر شروع ہوجانا ہے ۔۔۔ایسی نیند سے تو اچھا ہاسپٹل ہی چلی جاؤں ۔۔۔

"زارا جی آئیں نا چھٹی کرتے ہیں ۔۔۔۔وہ اسکی کلائی سے کھینچ کر شرارت سےبولا ۔

"ہر وقت شودہ پن نا دکھایا کرو ۔۔۔بڑے شریف بنتے تھے مجھے کیا پتہ تھا اندر اتنے ٹھرکیوں والی روح ہے ۔۔۔

وہ اسکے ہاتھ پہ دانت گاڑھے تنک کر بولی ۔۔۔

"آہ جنگلی عورت "

وہاج نے ہاتھ پیچھے کھینچ کر کہا ۔۔۔

"دوبارہ مجھے عورت کہا تو اچھا نہیں ہوگا ڈاکٹر وہاج ۔۔۔وہ وارننگ دینے کے انداز میں بولی ۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہاج اس تک پہنچتا وہ واش روم کا دروازہ کھول کر اس میں تیزی سے بند ہوگئی ۔۔۔اندر سے اسکی کھکھلاہٹوں کی آواز ا رہی تھی ۔۔۔۔جسے سن کر وہاج مسکرانے لگا ۔۔۔۔

🦋

آج یارم بلوچ اور چاہت کی سلور جوبلی سیلیبریشن تھی ۔ساتھ ساتھ براق یارم بلوچ کی جگہ آج فلک ہاسپٹل کا چارج سنبھالنے جا رہا تھا ۔حویلی میں سب مدعو تھے ۔گھر میں خوب گہما گہمی کا ماحول تھا۔سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے ۔چاہت ڈارک بلیو ساڑھی پہنے تیار کھڑی تھی جب یارم بلوچ نے اس کا رخ اپنی طرف کیے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیا ۔۔۔

"آج تو غضب ڈھا رہی ہیں "

وہ فسوں خیز آواز میں بولا ۔

چاہت نے اسے دیکھا جو اس عمر میں بھی بہت شاندار لگ رہا تھا بس کنپٹیوں پہ زرا سی چاندی اتر آئی تھی مگر وہ بھی اسے بہت سوٹ کر رہی تھی ۔۔

"اب آپ بڈھے ہوگئے ہیں تو رہنے دیجیے  "

"یہ بڈھا کس کو کہا ۔آپ کے وہ دو باڈی گارڈ پلس چمچے آجاتے ہیں ہمیشہ میرے رومینس میں خلل ڈالنے ورنہ میری ڈول لینے والی حسرت ابھی بھی پوری کرسکتا ہوں ۔

وہ اسکی کمر سے جکڑتے اسے اپنے قریب کیے بولا اس سے پہلے کہ وہ اپنی محبت کا کوئی ثبوت دیتا ۔

براق اور زمیل بلوچ دونوں کمرے میں آگئے ۔۔۔

"لو نام لیا اور ماں کے چمچے  حاضر "یارم بلوچ سلگتے لہجے میں بولا ۔۔۔۔

"میں جاؤں اپنے بیٹوں کے ساتھ یا آپ نے آنا ہے "چاہت مسکرا کر بولی تو یارم سر جھٹک کر ان کے ساتھ نیچے اتر گیا ۔۔۔۔

"آج اس اہم موقع پہ ہمیں کچھ بات کرنی تھی تم سے "

وہاج اور زارا نے یارم اور چاہت سے  تقریب کے دوران کہا 

 "ہمممم کہو ۔۔۔

"میں دراصل ھاد سے آویزہ کے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ مانگنا چاہتا تھا ۔تم زرا ھاد سے میرے طرف سے بات کرو ۔۔۔

اور میں بھی آس کے لیے بات کرنا چاہتا تھا ۔آدم نے بھی اسے آگاہ کیا ۔۔۔۔

یارم بلوچ سوچ میں پڑگیا ۔

اچانک آویزہ کسی نے بازو سے کھینچ کر ایک روم میں بند کر لیا۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ چیختی ۔۔۔مقابل موجود شخصیت نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی چیخ کا گلہ اندر ہی گھونٹ دیا۔۔اپنے چہرے پر آرش آتش بلوچ کی گرم سانسیں محسوس کرتے اس کا دل ایک سو بیس کی سپیڈ سےبھاگ رہا تھا۔

"آویزہ اپنے بابا کو اس رشتے کے لیے انکار کردو ۔کیونکہ تم صرف میری ہو ۔۔۔وہ جنونیت آمیز انداز میں بولا۔

آویزہ کے دھان پان سے وجود میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔۔۔ خوف سے اس کا گلابی رنگ رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا۔۔۔

"م۔۔میں تم سے بڑی ہوں آرش تمہاری بہنوں کی طرح ۔۔تم ۔۔کیسے سوچ سکتے ہو میرے بارے میں اسطرح ۔۔۔۔

دوسری طرف اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتے آرش  کا دھیان اس کے سرخ ہونٹوں پہ آ کر رکا تھا۔۔۔

"بات مانو گی نا ؟؟؟؟اسکا سوالیہ لہجہ آویزہ کی دھڑکنوں کو مزید بڑھا گیا۔

🦋

وہ کمرے میں نک سک تیار کھڑا کف لنکس لگا رہا تھا کہ آس دھڑام سے دروازہ کھولا کر اندر داخل ہوئی ۔۔۔

"باہر میرے رشتے کی بات چل رہی ہے براق ۔۔۔۔!

"تو ۔۔۔؟

وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔

"میں تمہارے علاؤہ کسی اور سے شادی نہیں کروں گی تم باہر جا کر بات کرو نا ہمارے لیے "

"تمہاری یہ آس۔۔۔آس ہی رہ جائے آس میڈم ۔۔۔تم ایسا چاہتی ہو میں نہیں ۔۔۔۔

وہ کھردرے انداز میں کہتے ہوئے دروازہ کھول باہر نکل گیا ۔۔۔۔

اسکی بے اعتنائی کے باعث آس کا آنسو ٹوٹ کر گال پر آر رکا ۔۔۔۔

اس نے براق کو پیچھے سے آواز لگائی ۔۔۔۔

"سنو نا سنگ مرمر۔۔۔۔!!!!"

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Suno Na Sangemarmar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Suno Na Sangemarmar written by Hina Asad.Suno Na Sangemarmar  by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages