Sulagti Rahen By Areeba Amjad Complete Romantic New Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday 9 July 2024

Sulagti Rahen By Areeba Amjad Complete Romantic New Novel

Sulagti Rahen By Areeba Amjad Complete Romantic New Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sulagti Rahen By Areeba Amjad Complete Romantic Novel

Novel Name: Sulagti Rahen

Writer Name: Areeba Amjad

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

شام کے پانچ بج رہے تھے ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔۔

غزل کچھ دیر پہلے ہی یونیورسٹی سے گھر آٸی تھی آج وہ بہت زیادہ تھک گٸی تھی۔۔شاور لے کر جب وہ واش رُوم سے باہر آٸی تو ٹیبل پر رکھی کافی پر جب اُس کی نظر پڑی تو وہ مُسکرانے لگی۔۔

میرا پیارا بھاٸی۔۔کتنا خیال رکھتا ہے نہ میرا۔۔

الله سلامت رکھے میرے تینوں بھاٸیوں کو۔۔

وہ بالوں پر تولیا باندھے کھڑی شیشے کے سامنے کھڑی تھی۔۔

آج کا دن بہت ہیکٹک تھا ابھی اساٸنمنٹ بھی بنانی ہے اور نیند بھی بہت شدید والی آٸی ہوٸی ہے۔۔

بڑبڑاتے ہوۓ اُس نے سر سے تولیا ہٹایا تو بھیگے گھنے بال ایک ساٸڈ پر کر کے وہ تولیے سے ڈراۓ کرنے لگی۔۔

”بڑی بڑی آنکھیں گھنی پلکیں چکمتا ہوا سفید رنگ چھوٹی سی ناک گلابی ہونٹ۔۔ بالکل اپنے نام کی طرح خوبصورت تھی ”غزل“۔۔۔

کیوں نہ ہوتی خوبصورت آخر تین بھاٸیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن تھی۔۔

باپ اور بھاٸی جان چھڑکتے تھے اُس پر۔۔

بہت چھوٹی تھی وہ جب اُس کی امی اس دنیا سے رُخصت ہوگٸی تھی۔۔

اُس کے بھاٸیوں نے ہمیشہ پوری کوشش کی کہ غزل کبھی خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔۔

کبھی اپنی بہن کے لیے ماں بنے تو کبھی اُس کی خوشی کے لیے اُس کے ساتھ بہن بن کر کھیلے۔۔


ایک کام کرتی ہوں کیوں نہ ہنی کے پاس جاٶں میں اور اُس کو دو چار مسکے لگاتی ہوں اور اپنا کام نکلواتی ہوں۔۔

ہاں یہ بالکل ٹھیک رہے گا لیکن پہلے اپنی کافی پیتی ہوں اُس کے بعد جاتی ہوں اُس کے پاس۔۔

اُس نے جلدی سے گرما گرم کافی کا کپ اُٹھایا اور اپنی سٹڈی چٸیر پر جا کر بیٹھ گٸی۔۔

مزے سے اُس نے اپنی کافی پی اور لیپ ٹاپ اُٹھا کر ہنی کے کمرے میں گٸی۔۔

دروازہ ناک کیا اور اندر داخل ہوٸی۔۔

ہاۓ ہنی کیا ہو رہا ہے ؟؟

ایان کہاں ہے ؟؟

غزل نے کمرے میں یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ کہا،

وہ کام سے باہر گیا ہے تم بتاٶ ضرور کسی کام سے آٸی ہوگی یہاں۔۔

مجھ سے کام ہے یا ایان سے ؟؟

وہ موباٸل میں گیم میں مگن تھا۔۔

ہنی اور ایان غزل کے دو ٹونز بھاٸی تھے اور یہ دونوں غزل سے بڑے تھے۔۔

ہاں ہنی وہ مجھے نہ تم سے ایک بہت ضروری کام ہے کیا تم مجھے اساٸنمنٹ بنا دو گے پلیز۔۔

تم تو میرے سب سے اچھے بھاٸی ہو نہ۔۔

پتہ ہے اُس دن جب تم اپنے دوست کی برتھ ڈے پارٹی میں گۓ تھے کتنے ہینڈسم لگ رہے تھے اُس کے اگلے دن میں نے اپنی دوستوں کو بتایا وہ کہتی ہیں ہمیں فوٹو سینڈ کرنا اپنے بھاٸی کی ہمیں بھی دیکھنا ہے اُسے۔۔

”غزل نے فلم سُنانا شروع کی“۔۔

اوہ اچھا واٶ۔۔اور کیا کیا کہا تمہاری دوستوں نے ؟؟

ہنی بولا،

انہوں نے تو بہت کچھ کہا تھا مگر اب میں تمہیں بافی سب تب ہی بتاٶں گی جب تم مجھے اساٸنمنٹ بنا کر دو گے۔۔

غزل نے منھ بناتے ہوۓ کہا،

میرے پاس اتنا فالتو ٹاٸم نہیں ہے جاٶ یہاں سے مجھے گیم کھیلنے دو سکون سے۔۔

غزل ہنی کو گُھورنے لگی۔۔

تُم کتنے وہ ہو نا ہنی۔۔

میں اب کبھی تُمہارا کوٸی بھی کام نہیں کروں گی یاد رکھنا۔۔

اور میری دوستیں کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھیں تمہارے بارے میں۔۔

اُس نے لیپ ٹاپ اُٹھایا اور ہنی کو گھورتی ہوٸی کمرے سے باہر جا رہی تھی کہ اتنے میں ایان آگیا۔۔

کیا ہوا غزل کیوں تم اور ہنی لڑ رہے ہو ؟؟

ایان نے کہا،

ہنی سے میں کہہ رہی تھی میری اساٸنمنٹ بنا دو مگر اُس نے صاف منع کردیا۔۔

لاٶ مجھے بتاٶ میں بنا کر دیتا ہوں۔۔

وہ کمرے میں گۓ تو ہنی غزل کو گھورنے لگا۔۔

”پھر سے آگٸی تم ہاں۔۔۔

ہاں آگٸی ہوں مجھے ایان بنا کر دے رہا ہے اساٸنمنٹ اور یہی میرا سب سے اچھا بھاٸی ہے۔۔

غزل ٹاپک بتاٶ جلدی سے مجھے اپنی بھی پریزنٹشن تیار کرنی ہے ابھی۔۔

ایان نے کہا،

غزل نے اُسے اساٸنمنٹ ٹاپک بتایا۔۔

میں تمہاری اساٸنمنٹ بناتا ہوں تم نیچے جاٶ وقاص ماموں آۓ ہیں ابو کے پاس بیٹھے ہیں اُن سے کھانے پینے کا پُوچھ لو۔۔

کیاااا واقع ہی ماموں آگۓ ہیں ؟؟

اب رونق لگے گی گھر میں جب رات بھر بیٹھ کر سب گپے ماریں گے لُڈو کھیلیں گے مزے مزے کے کھانے کھاٸیں گے۔۔

غزل یہ کہتی ہوٸی جلدی سے اُٹھی اور نیچے بھاگ گٸی۔۔

ماموں۔۔۔

وہ جھٹ سے اپنے ماموں سے لپٹ گٸی۔۔

”کیسے ہیں آپ“ ؟؟

شُکر ہے آپ آگۓ بہت مس کیا میں نے آپ کو اور اب میں آپ کو بالکل بھی واپس جانے نہیں دوں گی۔۔

”میں بالکل ٹھیک تم کیسی ہو“ ؟؟ میری جان میں نے بھی تمہیں بہت مس کیا۔۔

ہاں بھٸی میری لاڈلی بہت یاد کرتی تھی تمہیں جب بھی کھانے پر بیٹھتے تھے تب ہی یہ تمہارا ذکر ضرور کرتی تھی۔۔

چوہدری اکبر نے کہا،

غزل کے ماموں کی ان چاروں بہن بھاٸیوں کے ساتھ بہت سٹرونگ بانڈنگ تھی۔۔وقاص غزل کے سب سے چھوٹے ماموں تھے جن کی شادی نہیں ہوٸی تھی۔۔زیادہ عمر بھی نہیں تھی یہی بس کوٸی تیس سال کے تھے۔۔

چاۓ بنواٶں آپ کے لیے ؟؟

غزل نے کہا،

نہیں ابھی میں فریش ہوں گا اُس کے بعد پیوں گا۔۔

ٹھیک ہے ماموں جاٸیں آپ فریش ہو جاٸیں جلدی سے پھر سب بیٹھ کر کھانا بھی کھاٸیں گے اور خُوب ساری گپے بھی ماریں گے۔۔۔

********

مغرب کا وقت قریب ہی تھا وہ باتیں کرتے ہوۓ ٹیوب ویل کی طرف آر رہے تھے۔۔

تیرے چہرے پر مجھے صاف نظر آ رہی ہے تھکان۔۔

ایسے کیسے مینیج کرے گا یار۔۔

شہروز نے کہا،

سب کچھ ہو جاۓ گا وہ رب ہے نا میری مدد ضرور کرے گا۔۔

تُو اچھے سے جانتا ہے مجھے پڑھاٸی کا بےحد شوق ہے ابا نہیں دے سکتے میری اتنی زیادہ فیس اس لیے مجھے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔۔

یہ موباٸل پکڑ میرا۔۔

ابان شاہ نے ٹیوب ویل کے ٹھنڈے پانی سے اپنا منھ دھویا اور بالوں کو گیلے ہاتھوں سے سیٹ کرنے لگا۔۔

بڑی بڑی مُڑی ہوٸی مونچھیں۔۔

گندمی رنگ گھنی پلکیں تیکھی ناک ہونٹوں کے پاس ایک خوبصورت سا تل کیا جچتا تھا اُس کے مُکھڑے پر۔۔

ابا سے اب زیادہ کام نہیں ہوتا ایک یہ بھی وجہ ہے پڑھاٸی کے ساتھ ساتھ نوکری کرنے کی۔۔

ابان شاہ نے شرٹ کے بازو نیچے کیے اور بٹن بند کرکے اپنی مونچھیں سیٹ کرنے لگا۔۔

چل یار فکر نہ کر الله بہتر کرے گا بس اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کر ایک تُو ہی واحد سہارا ہے اپنے ماں باپ کا۔۔

شہروز نے ابان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،


کہاں گیا ابان آیا کیوں نہیں ابھی تک ؟؟حویلی میں مجھے یہ کچھ پیسے بھیجنے ہیں۔۔

مجھے لگتا ہے وہ اپنی مرضی سے ہی آۓ گا مجھے خود ہی لگانا پڑے گا حویلی چکر۔۔

ابان کے ابا صداقت شاہ نے کہا،

ابان شاہ کی ایک چھوٹی سی فیملی تھی جس میں اُس کے اماں ابا اور ایک چودہ سالہ چھوٹی بہن تھی جو آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی۔۔

ابان کا باپ صداقت شاہ۔۔ ”چوہدری اکبر کی حویلی میں بہت پُرانا مُنشی تھا“۔۔ گاٶں کے سبھی لوگ اُسے مُنشی صداقت کے نام سے جانتے تھے۔۔

ابان کو شروع سے ہی پڑھاٸی کا بہت زیادہ شوق تھا اُس نے ابھی کچھ دن پہلے ہی ایم اے کے امتحان دیے تھے اور ابھی بھی مزید آگے پڑھاٸی کرنا چاہتا تھا۔۔ مُنشی صاحب نے اب فیس دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ مہنگاٸی کے اس دور میں گھر کا گُزارا بہت مشکل سے ہوتا تھا۔۔

اس لیے ابان نے فیصلہ کیا کہ وہ نوکری بھی کرے گا اور ساتھ ساتھ پڑھاٸی بھی۔۔

ابا بھاٸی آنے ہی والے ہیں بس تھوڑا سا انتظار اور کرلیں۔۔

اتنے میں ابان شاہ گھر میں داخل ہوا۔۔

السلام عليكم ابا۔۔

اُس نے سب سے پہلے اپنے ابا سے سلام کیا۔۔

وعليكم السلام۔۔

آگۓ تم۔۔اپنی مرضی سے گُھوم پھر کر۔۔

کب سے یہاں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں مگر تُم ہو کہ باہر جاتے ہو واپس گھر آنا ہی بھول جاتے ہو۔۔

آۓ ہاۓ کیا ہوگیا ہے مُنشی صاحب کوٸی تو موقع جانے دے دیا کریں ہر وقت بس میرے بیٹے کو ذلیل کرتے رہتے ہیں۔۔

آسیہ بیگم کمرے سے نکل کر باہر آٸی اور ابان کو پیار کرنے لگی۔۔

بس یہ لاڈ پیار کر کر کے ہی تُم نے انہیں سر پر چڑھا رکھا ہے۔۔

ابان ہنسنے لگا۔۔

ابا بتاٸیں کیوں بُلا رہے تھے مجھے ؟؟

کیا کام ہے ؟؟

یہ کچھ پیسے ہیں حویلی دے کر آٶ چوہدری اکبر صاحب کو۔۔

مُنشی صاحب نے تکیے کے نیچے سے پیسے نکالے اور گننے لگا۔۔

ابا میں تو پہلے کبھی گیا بھی نہیں حویلی یہی نہ ہو مجھے اندر ہی نہ جانے دیں۔۔

ابان نے کہا،

اُنہیں بتانا کہ تم مُنشی صداقت شاہ کے بیٹے ہو دیکھنا تمہیں اُٹھا کر اندر لے جاٸیں گے۔۔

یہ کہہ کر مُنشی صاحب ہنسنے لگے۔۔

دھیان سے یہ پیسے اُن تک پہنچا دو۔۔

ابان نے پیسے لیے اپنی باٸیک باہر نکالی اور حویلی کی طرف نکل گیا۔۔

جب وہ پہنچا تو اُس نے باٸیک حویلی کے باہر ہی ایک طرف کھڑی کر دی۔۔۔

جی بھاٸی کس سے ملنا ہے تمہیں ؟؟

سیکیورٹی گارڈ نے کہا،

مجھے مُنشی صداقت شاہ نے بھیجا ہے یہاں۔۔

میں چوہدری صاحب سے ملنے آیا ہوں۔۔

اچھا اچھا تو تُو مُنشی صداقت کا لڑکا ہے۔۔

گبرُو جوان۔۔

سکیورٹی گارڈ نے اُس کے سینے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

جی میں اُنہی کا بیٹا ہوں۔۔

بہت اچھا بندہ ہے تیرا باپ بہت یاری دوستی بھی ہے میری اور اُس کی۔۔

جاٶ جاٶ چلے جاٶ اندر۔۔

ابان شاہ اُس کی بات پر ذرا سا مُسکرایا اور اندر چلاگیا۔۔

کتنی اعلی شان حویلی ہے یار۔۔۔

وہ یہاں وہاں دیکھتا ہوا بڑبڑا رہا تھا۔۔

غزل لان میں چہل قدمی کر رہی تھی اچانک اُس کی نظر ابان شاہ پر پڑی۔۔

غزل نے ڈارک بلیو کلر کی لانگ فراک پہنی تھی اور بال کُھلے تھے۔۔

یہ کون ہے جو سیدھا اندر آ رہا ہے ؟؟

غزل اُسکی طرف حیرانگی سے دیکھتی ہوٸی بولی،

ہیلو کون ہو تم ہاں ؟؟ اور اس طرح ہماری حویلی میں گُھسنے کی اجازت کس نے دی ہے تمہیں ؟؟

غزل اُس کی جانب بڑھتی ہوٸی بولی،

ابان شاہ نے جب اُس کی طرف دیکھا تو وہ اُسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔اُس کے بالوں کی مہک نے ابان شاہ کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔۔

اوۓ ہیلو ؟؟

سُناٸی نہیں دیتا کیا تمہیں ؟؟

غزل اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ ہلانے لگی۔۔

یہ مجھے کیا ہوگیا ہے میں کیوں اس لڑکی کو دیکھ رہا ہوں بھلا۔۔

وہ اپنی آنکھوں کو میچتا ہوا بولا،

میڈم آپ نے مجھے بہرہ کہا ہے اور ہاتھ میری آنکھوں کے سامنے ہلا رہی ہیں۔۔

ابان شاہ نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا،

کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟

یہ تم میری انسلٹ کر رہے ہو ہاں ؟؟

وہ غصے سے اُس کے سامنے کھڑی اپنی قمر پر ہاتھ رکھتی ہوٸی بولی،

جی۔۔میں کون ہوتا ہوں آپ کی انسلٹ کرنے والا ؟؟

وہی تو میں تم سے پوچھ رہی ہوں اس حویلی میں تم کیا کررہے ہو ؟؟ کس سے پوچھ کر اندر آۓ ہو ہاں بتاٶ مجھے بُلاٶں اپنے ابو جان کو اور اپنے بھاٸیوں کو ؟؟

جی جی بُلاٸیے۔۔

ابان شاہ ہنستا ہوا بولا،

وہ اُسے شدید غصے سے دیکھنے لگی۔۔

کسی کا ڈر نہیں تمہیں مجھے تو لگتا ہے تم ایک ڈھیٹ بہت بڑے چور ہو۔۔

ابو جان۔۔

ہنی۔۔

ایان۔۔

رامش بھاٸی۔۔

وقاص ماموں۔۔ سب لوگ جلدی سے باہر آٶ ہماری حویلی میں چور گُھس آیا ہے۔۔

چوہدری اکبر اور غزل کے ماموں وقاص بھاگتے ہوۓ باہر آۓ۔۔

کیا ہوا غزل ؟؟

کون آگیا ہے؟؟

چوہدری چیختا ہوا باہر آیا۔۔

ابو جان دیکھیں یہ لڑکا ہماری حویلی میں گُھس آیا ہے مجھے تو لگتا ہے یہ بہت بڑا چور ہے ہماری حویلی میں چوری کرنے آیا ہے۔۔

اوۓ لڑکے کون ہو تم ؟؟

چوہدری اکبر نے ابان شاہ کے قریب ہوتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا،

”جی وہ میں مُنشی صداقت شاہ کا بیٹا ہوں ابان شاہ۔۔

ابان نے بتایا۔۔

اوہ اچھا اچھا آٶ اندر آٶ۔۔

بس وہ بچی سے غلطی ہوگٸی معلوم جو نہیں تھا ہمیں اصل میں تمہیں پہلے کبھی دیکھا نہیں میں نے اس لیے۔۔

چوہدری اکبر اُسے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔۔

مُنشی صاحب تو اتنے اچھے ہیں اور بیٹا دیکھو بالکل بھی تمیز نہیں ہے۔۔

غزل باہر کھڑی بڑبڑانے لگی۔۔

میں بیٹھوں گا نہیں چوہدری صاحب وہ یہ ابا نے پیسے دیے ہیں۔۔

ابان نے جیب سے پیسے نکال کر چوہدری صاحب کو دے دیے۔۔

گِن لیں پیسے چوہدری صاحب۔۔

ابان نے کہا،

ہمیں پورا یقین ہے مُنشی صاحب پر بھی اور آپ پر بھی۔۔۔

کیا کرتے ہو کوٸی نوکری کرتے ہو کیا ؟؟؟

جی میں نے ابھی ایم اے کے امتحان دیے ہیں اور اب ایک چھوٹی سی نوکری بھی کر رہا ہوں سکول میں۔۔

ابان شاہ نے جواب دیا۔۔

”ارے واہ لڑکا تو پڑھا لکھا ہے شاہ صاحب کا“۔۔

چوہدری صاحب نے ابان شاہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا،

جی چوہدری صاحب۔۔

ابان ذرا سا مسکرایا۔۔

کیا کھاٶ پیو گے ابان شاہ ؟؟

چوہدری صاحب نے کہا،

کچھ بھی نہیں۔۔میں اب چلتا ہوں ابا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔

ارے کچھ کھا کر تو جاٶ پہلی بار حویلی آۓ ہو۔۔

بہت شکریہ چوہدری صاحب پھر کبھی آٶں گا تو ضرور کھاٶں گا ابھی اجازت دیں۔۔

ٹھیک ہے۔۔جب بھی کبھی ہماری ضرورت پڑے تو ضرور بتانا۔۔

ابان شاہ کے باپ کو اس حویلی میں کام کرتے عرصہ گُزر گیا تھا بہت ہی ایمانداری سے اُس نے ہمیشہ کام کیا تھا یہاں پر اسی لیے سب لوگ اتنی عزت کرتے تھے مُنشی صاحب کی اور اسی لیے آج ابان کو بھی چوہدری صاحب نے بہت عزت دی۔۔

ابان جب جانے لگا تو غزل لان میں ابھی تک چہل قدمی کر رہی تھی اُس نے ابان کو جاتے ہوۓ نہیں دیکھا تھا۔۔

اُس نے داٸیں طرف ایک نظر دیکھا اور مُسکرا کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔

********

میں نے کہا باہر نکلو یہاں سے۔۔

اب ویسے بھی تم اور تمہاری پوری گینگ رنگے ہاتھوں پکڑے گۓ ہیں اس لیے شرافت سے یہاں سے باہر نکلو۔۔

یشما نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا تھا۔۔

اگر میں یہاں سے باہر نہ نکلی تو کیا کرلو گے تم ؟؟

یشما باتھ روم کے اندر سے بولی،

”میں دروازہ توڑ کر تمہیں یہاں سے باہر نکالوں گا اور لے جاٶں گا اپنے ساتھ تھانے“۔۔

رامش ابھی بہت پیار سے اُسے کہہ رہا تھا مگر وہ بھاریوں میں چڑ رہی تھی۔۔

رامش کو بہت غصہ آ رہا تھا مگر وہ اس لیے پیار سے بول رہا تھا تاکہ یشما خُود ہی شرافت سے باتھ روم سے باہر آ جاۓ۔۔

سر بہت ہوگیا کب سے یہ عورت تماشا کر رہی ہے آپ مجھے اجازت دیں میں دروازہ توڑتا ہوں۔۔

انسپیکٹر حسن نے کہا،

بس تھوڑا سا صبر کرو دیکھنا خود نکل کر آۓ گی باہر۔۔

رامش نے کہا،

رامش اٹھاٸیس سال کا تھا جو دکھنے میں کافی ہینڈسم تھا لمبا چوڑا گبرو جوان اسی لیے تو سب کہتے تھے اُسے ڈی ایس پی چوہدری رامش۔۔

گاٶں تو گاٶں شہر کے لوگ بھی اُس سے بہت ڈرتے تھے مجرم کو وہ ہر صورت سزا دے کر رہتا تھا اور سب کے ساتھ انصاف کرتا تھا۔۔

کیا بڑبڑا رہے ہو ذرا اونچی بولو،

وہ واش روم سے بولی۔۔

اگر میں نے یہ دروازہ توڑا تو تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے بار بار تُم سے کہہ رہا ہوں باہر آ جاٶ۔۔

رامش نے سرد لہجے میں کہا،

چل یشما بڑے بڑے پولیس افسر دیکھیں ہیں آج اسے بھی دیکھ ہی لیتے ہیں کیا اُکھاڑ لے گا یہ تیرا۔۔

یمشا نے دروازہ کھولا تو انسپکیٹر حسن فوراً دروازے کے آگے کھڑا ہوگیا۔۔

یشما نے بلیک جینز بلیک ہُوڈی پہنی تھی بال کُھلے تھے اور چہرے پر ماسک تھا۔۔

ہاں بولو اب ؟؟

وہ باتھ روم سے نکل کر بولی،

اُس کی بڑی بڑی آنکھیں جن میں کاجل کیا جچ رہا تھا رامش دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

اوہ تو تُم ہو جو بڑی بڑی چوریاں کرتی ہو اور کرواتی بھی ہو۔۔

واٶ ویری ناٸس۔۔

حسن نے اُسے گھورتے ہوۓ کہا تو اُس نے حسن کے سینے پر بہت ہی پیار سے ہاتھ رکھا اور جھٹ سے اُسے پیچھے کی طرف دھکا دے کر بھاگنے لگی تو رامش نے اُسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔

کہاں جا رہی ہو ؟؟

تمہیں اور تمہاری گینگ کو پکڑنے کے لیے ہم کہاں کہاں نہیں گۓ۔۔

آخر کار آج تم اور تمہاری پوری گینگ ہمارے حوالے ہے۔۔

وہ بنا کچھ بولے سامنے کھڑی اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔

حسن جلدی سے ہتھکڑی پہناٶ اسے اور گاڑی میں بیٹھاٶ میں بس دو منٹ میں آرہا ہوں باقی باتیں تھانے جا کر ہوں گی اس سے۔۔

حسن یشما کو ہتھکڑی پہنا رہا تھا اور یشما کی نظریں رامش پر تھیں۔۔

*********

دن کے دو بج رہے تھے ابان شاہ ابھی سکول سے نکلا ہی تھا گھر واپس جانے کے لیے کہ اچانک اُس کا فون بجنے لگا۔۔

اُس نے جیب سے موباٸل نکالا تو دیکھا گھر سے کال آ رہی تھی۔۔

ُہیلو ؟؟

بھاٸی جلدی سے گھر آجاٶ ابو کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہوگٸی ہے اُن سے سانس بھی نہیں لیا جا رہا ٹھیک سے۔۔

ابان شاہ کی چھوٹی بہن حرم نے کہا،

ک۔۔کیا ہوا ابو کو ؟؟

میں آ رہا ہوں تم فکر نہ کرو۔۔

وہ فوراً باٸیک پر بیٹھا اور گھر کے لیے نکل گیا۔۔

آدھے گھنٹے کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا صداقت شاہ باہر ہال میں لیٹا تڑپ رہا تھا۔۔

ابو۔۔

اُس نے اپنا بیگ سامنے کُرسی پر پھینکتے ہوۓ کہا،

شُکر ہے تم آگۓ ابان دیکھو تمہارے ابا کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔۔

امی رُکیں میں حمزہ کو کال کرتا ہوں وہ ڈاکٹر کو لے کر آتا ہے۔۔

ابان نے حمزہ کو کال کی اور فوراً ڈاکٹر لے کر آنے کا کہا،

ابان اپنے ابا کے ہاتھ ملنے لگا۔۔

ہمت کریں ابو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔

امی ایسے اچانک طبعیت کیسے بگڑ گٸی صبح میں بالکل ٹھیک چھوڑ کر گیا تھا ابو کو۔۔

بالکل ٹھیک بیٹھے تھے اچانک ہی ان کا سانس بند ہونے لگا میں تو بہت زیادہ ڈر گٸی تھی اور حرم سے کہا کہ فوراً تمہیں کال کر کے بُلاۓ۔۔

آسیہ بیگم بولی،

اتنے میں حمزہ ڈاکٹر کو لے کر پہنچ گیا۔۔

پانچ دس منٹ تک ڈاکٹر معاٸنہ کرتا رہا۔۔

ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور دوا لکھ کر دی۔۔

ابا اب آپ بالکل بھی حویلی نہیں جاٸیں گے اور اماں اگر حویلی سے کوٸی بُلانے بھی آۓ تو صاف منع کر دینا۔۔

ابان نے سرد لہجے میں کہا،

*****

نہیں جانا نہیں جانا کیسے سمجھاٶں میں تمہیں نہیں جانا حالات بہت زیادہ خراب ہیں اور تم اچھے سے جانتی ہو کتنی گہری کھاٸی ہوتی ہیں پہاڑی علاقوں کی طرف اس لیے میں کسی قسم کا کوٸی رسک نہیں لینا چاہتا۔۔۔

چوہدری صداقت نے غزل کو ٹوور پر بھیجنے سے صاف منع کر دیا۔۔

مگر میں تو اپنی دوستوں سے بھی کہہ آٸی ہوں کہ میں جا رہی ہوں اور وہ شام میں گھر بھی آ رہی ہیں ہمیں شاپنگ پر جانا ہے۔۔

غزل ضد نہ کرو ابو بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں چُپ چاپ گھر میں بیٹھی رہو۔۔ جب رامش بھاٸی کو چھٹی ملے گی تب ہم کہیں گھومنے جانے کا پلان بناٸیں گے۔۔

ہنی نے کہا،

ایان اور تم بھی تو گۓ تھے نہ تمہیں تو کسی نے منع نہیں کیا تھا میری بار سب منع کر دیتے ہیں۔۔

آنے دو رامش بھاٸی کو میں خود اُن سے بات کرکے انہیں منا لوں گی۔۔

غزل منھ بنا کر وہاں سے اُٹھ کر چلی گٸی۔۔

بہت ضدی ہے یہ لڑکی۔۔

ہنی نے کہا،

چوہدری صاحب خبر آٸی ہے آج مُنشی صاحب کی بہت زیادہ طبعیت بگڑ گٸی تھی بہت مشکل سے سنمبھلے ہیں وہ۔۔

گارڈ نے آ کر بتایا۔۔

کیااااا ؟؟

کیا ہوا صداقت کو ؟؟

وہ جھٹ سے بولا۔۔

پتا نہیں چوہدری صاحب بس یہی خبر آٸی ہے سوچا آپ تک پہنچا دوں۔۔

گارڈ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔

ابو آپ کو جانا چاہٸیے مُنشی صاحب کی عیادت کے لیے۔۔

ہنی نے کہا،

ہاں ہاں میں ضرور جاٶں گا شام میں۔۔

اتنے میں رامش بھی آگیا۔۔

السلام عليكم۔۔

رامش نے حال میں اینٹر ہوتے ہی سلام کیا۔۔

وعليكم السلام میرے جگرے۔۔۔

وہ اپنے ابو کے سینے سے لگ گیا۔۔

کیسے ہیں بھاٸی ؟؟

ہنی بولا،

میں بالکل ٹھیک تم سُناٶ۔۔

میں بھی ٹھیک ہوں بھاٸی ہمیں بھی تھوڑا وقت دے دیا کریں۔۔

ہنی نے کہا،

ٹاٸم ہی نہیں ہے جناب صاحب کے پاس ہر وقت بس اپنی ڈیوٹی میں مصروف رہتا ہے۔۔

چوہدری صاحب نے اُس کے کندھے پر زور سے تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

بس ابو جی کیا کروں کیسز ہی اتنے ہیں کبھی کہیں تو کبھی کہیں جانا پڑتا ہے ابھی بھی ایک پوری گینگ کو پکڑ کر لاۓ ہیں میں نے سوچا پہلے گھر ایک چکر بھی لگا لوں اور کھانا بھی کھا آٶں بہت زور سے بھوک لگی ہے۔۔۔

بہت اچھا کیا ہم نے بھی ابھی کھانا نہیں کھایا سب ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں فریش ہو کر آٶ جلدی سے۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

جی میں بس آیا فریش ہو کر پانچ منٹ میں۔۔

رامش جب فریش ہوکر آیا تو اُس نے دیکھا کہیں بھی غزل نظر نہیں آ رہی ہے۔۔

غزل کہاں ہے نہ اُس کی آواز آرہی ہے نہ وہ مجھے نظر آٸی ہے ؟؟

رامش نے کہا،

وہ میڈم صاحبہ ناراض ہیں ہم سے۔۔

ہنی نے کہا،

ارے کیوں ناراض کیوں ہے ؟؟

کس نے ناراض کیا ہے میری غزل کو ؟؟

رامش اُٹھا اور اُس کے کمرے کی طرف بھاگتا ہوا گیا۔۔

غزل۔۔

غزل کہاں ہو ؟؟

رامش کی آواز سُن کر غزل بھاگتی ہوٸی کمرے سے باہر آٸی۔۔

جی بھاٸی میں یہاں ہوں۔۔

وہ فوراً رامش کے گلے لگ گٸی۔۔

کیا ہوا ناراض کیوں ہو ؟؟

میرا ٹوور جا رہا ہے یونیورسٹی کا اور میری سب دوستیں جا رہی ہیں لیکن ابو مجھے جانے نہیں دے رہے ہیں رامش بھاٸی سمجھاٸیں نہ ابو کو آپ۔۔۔

امممممم۔۔۔ تو یہ بات ہے۔۔

ہماری ایک ہی تو بہن ہے دل تھوڑا سا ڈرتا اُسے کہیں بھی اکیلے بھیجنے سے۔۔

بھاٸی آپ تو جانتے ہو نہ مجھے کتنا شوق ہے نٸی نٸی جگہ ایکسپلور کرنے کا پلیز جانے دیں مجھے۔۔

وہ بیچاری منھ بناتی ہوٸی بولی،

اچھا ٹھیک ہے چلی جانا چلی جانا۔۔

بس خوش ؟؟

پکا نہ دل سے کہہ رہے ہو نہ ؟؟

اب دل نکال کر دیکھاٶں کیا پھر یقین کرو گی ؟؟؟

نہیں نہیں مجھے آپ پر پورا یقین ہے دل نکالنے کی ضرورت نہیں اس پر آپ کی بیگم کا حق ہے جو ابھی تک لاپتہ ہے۔۔

رامش مسکرانے لگا۔۔

اُس نے رہنا بھی لاپتہ ہی ہے۔۔

چلو کھانا کھاتے ہیں ابو اور ہنی ویٹ کر رہے ہیں ہمارا۔۔

اب کیوں آٸی ہو پہلے دیکھا کیسے منھ بنا کر گٸی تھی۔۔

ہنی نے غزل کو چھیڑتے ہوۓ کہا،

ابھی میں اس لیے آٸی ہوں کیونکہ رامش بھاٸی مجھے لے کر آۓ ہیں اور انہوں نے کہا ہے میں ٹوور پر بھی جا سکتی ہوں اب تم بیٹھ کر جلو۔۔

غزل نے ہنی کو گھورتے ہوۓ تمسخرانہ انداز میں کہا،

کیااااا ؟؟

رامش بھاٸی آپ نے اس کو اجازت دے دی جانے کی ؟؟

ابو دیکھ لیں آپ رامش بھاٸی نے اس کو بہت بگاڑ دیا ہے۔۔

ہنی نے کہا،

کوٸی بات نہیں جانے دو اُسے شوق ہے گھومنے پھرنے کا اور ہمارا فرض بھی ہے اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کا ایک ہی تو لاڈلی ہے ہماری۔۔

رامش جتنا محبتی تھا اُس سے کٸی زیادہ غصے والا اور نفرت کرنے والا بھی تھا۔۔

اُس نے بس ایک ہی بات سیکھاٸی تھی اپنی بہن کو کہ کبھی بھی ہماری عزت پر آنچ آنے مت دینا ہم تمہاری ہر خواہش پوری کریں گے وہ ہمیں چاہے کیسے بھی کرنی پڑے۔۔

اب بھاٸی بہن کے معاملے میں کیا کہہ سکتا ہوں میں بھلا ؟؟

چوہدری صاحب نے ہنی کو دیکھتے ہوۓ کہا،

تھوڑی دیر تک میری دوستیں بھی آنے والی ہیں مجھے اُن کے ساتھ مارکیٹ بھی جانا ہے شاپنگ کرنے۔۔۔

ٹھیک ہے چلی جانا مگر ڈراٸیور کے ساتھ جانا ہے مُنشی صاحب کو بھی ساتھ لے جانا پھر ہم سب بےفکر ہو جاٸیں گے۔۔

بھاٸی پلیز۔۔

اب میں چھوٹی نہیں ہوں مُنشی صاحب کہاں جاٸیں گے تھک جاٸیں گے وہ۔۔

غزل بولی،

ارے ارے مُنشی صاحب کی طبعیت بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے ابھی مجھے نعیم گارڈ بتا کر گیا ہے۔۔

کیاااا ؟؟

انہیں کیا ہوا ہے ؟؟

غزل جھٹ سے بولی،

پتہ نہیں میں جاٶں گا اُس کے پاس عیادت کے لیے تو معلوم ہوگا کیا ہوا ہے۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

میری طرف سے بھی حال پوچھ لیجٸیے گا اگر مجھے وقت ملا تو میں ضرور چکر لگاٶں گا ان کی طرف۔۔

رامش نے کہا،

ابو مجھے بھی جانا ہے آپ کے ساتھ اُن کے گھر منشی صاحب کی عیادت کے لیے۔۔

غزل نے کہا،

تم کیا کرو گی تمہیں ہر جگہ جانا ہوتا ہے۔۔۔

ہنی نے سرد لہجے میں کہا،

ہنی میرے معاملات میں مت بولا کرو سمجھے تم۔۔

ابو مجھے لے کر جاٸیے گا اپنے ساتھ جب بھی جاٸیں گے۔۔

غزل یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گٸی۔۔

نہ تنگ کیا کرو بیچاری کو۔۔

رامش نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا،

رامش نے کھانا کھایا کچھ دیر آرام کیا اور پھر وہ اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا۔۔

******

یار ہمیں روز روز اس جگہ پر نہیں آنا چاہٸیے یہ جگہ مجھے سیف نہیں لگتی ہے۔۔

اتنے سارے ریسٹورنٹ چھوڑ کر تم لوگ یہاں چلے آتے ہو۔۔۔

ایان اپنے دوستوں کے ساتھ کھانے پینے باہر نکلا ہوا تھا۔۔ وہ لوگ ایک ایسی جگہ پر کھانا کھانے گۓ تھے جو جگہ بالکل سُنسان تھی جس کے پیچھے صرف بیابان جنگل تھا۔۔

وہ لوگ بیٹھے گپے مار رہے تھے اچانک وہاں سے ایک لڑکی گُزر کر گٸی جس نے کالے رنگ کی بڑی سی چادر اوڑھی تھی۔۔

وہ بہت تیزی سے گُزر کر وہاں سے گٸی۔۔

ایان نے اُسے سامنے سے آتا ہوا دیکھ لیا تھا۔۔۔

جس نے نظریں جُھکاٸی ہوٸی تھی۔۔

ایک ہی جھلک ایان کے دل کی دھڑکنوں کی رفتار کو بڑھا گٸی تھی۔۔

اُس سے رہا نہ گیا وہ اُٹھا اور بھاگتا ہوا اُس لڑکی کے پیچھے گیا۔۔

سُنو۔۔

سُنو۔۔

اُس لڑکی نے ایک بار بھی اُس کی آواز پر پلٹ کر نہ دیکھا وہ اپنے راہ چلتی رہی۔۔

میں نے کہا سُنو۔۔

وہ اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔۔

اتنے میں ایان کے موباٸل پر بیل بجنے لگی تو اُس نے فوراً جیب سے موباٸل نکالا اور کان کو لگایا۔۔۔

ہیلو ؟؟

ہیلو؟؟

لگتا ہے یہاں سگنل نہیں آر ہے ہیں۔۔

اُس نے کال کاٹی اور جب دوبارہ دیکھا تو وہ لڑکی وہاں پر موجود نہیں تھی۔۔

وہ لڑکی کہاں گٸی ؟؟

اُس نے حیرانگی سے یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ کہا،

یاررر۔۔۔۔

اس فون کو بھی ابھی آنا تھا اب کہاں ڈھونڈوں اُسے میں ؟؟؟

وہ منھ لٹکاۓ واپس اپنے دوستوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔

وہ کافی دیر تک یہاں وہاں دیکھتا رہا کہ شاید وہ لڑکی واپس آجاۓ مگر اُس کا انتظار۔۔انتظار ہی رہ گیا تھا۔۔

کتنا اچھا موسم ہے ٹھنڈی ہواٸیں دل کو سکون دے رہی ہیں۔۔

چوہدری صاحب اور غزل مُنشی صداقت شاہ کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔۔

جب وہ وہاں پہنچے تو مُنشی صاحب کے گھر اور بھی لوگ عیادت کے لیے آۓ ہوۓ تھے۔۔

ارے دیکھو تو سہی چوہدری صاحب آۓ ہیں تمہارے ابا کی عیادت کے لیے اور ساتھ میں اُن کی بیٹی بھی ہے۔۔

آسیہ بیگم نے حرم سے کہا،

امی جاٸیں انہیں کُرسی دیں بیٹھنے کے لیے۔۔

ہاں ہاں جا رہی ہوں تم جلدی سے ابان کو کال کرو اور کہو جلدی سے گھر آۓ۔۔

غزل بیٹا تم اندر چلی جاٶ۔۔۔

چوہدری صاحب کو دیکھ کر سب لوگ کھڑے ہوگۓ۔۔

آٸیں چوہدری صاحب آٸیں آٸیں بیٹھیں۔۔

مُنشی صاحب انہیں دیکھ کر اُٹھ کر بیٹھنے لگے تو چوہدری صاحب جھٹ سے بولے۔۔

کوٸی ضرورت نہیں ہے اُٹھنے کی لیٹے رہو آرام سے۔۔

مُنشی صاحب مسکرانے لگے۔۔

بہت شکریہ آنے کا چوہدری صاحب۔۔۔

خاموشی سے لیٹے رہو زیادہ بولنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور جلدی سے ٹھیک ہو جاٶ بہت حساب کتاب پڑا ہے کرنے والا۔۔۔

چوہدری صاحب یہ کہہ کر ہنسنے لگے۔۔

آٶ آٶ بیٹا اندر آٶ۔۔

حرم باجی کو جگہ دو بیٹھنے کے لیے۔۔

آسیہ بیگم بولی،

بہت شکریہ۔۔منشی صاحب کا معلوم ہوا تو مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے ابا سے کہا میں بھی ساتھ میں چلوں گی آپ کے ساتھ منشی صاحب کی عیادت کے لیے۔۔

غزل نے کہا،

ارے چوہدری صاحب آۓ ہیں۔۔

ابان نے حال میں داخل ہوتے ہی کہا،

چوہدری صاحب ابان سے ملے اور اُس کی تعریف کرنے لگے منشی صاحب کے سامنے کہ تمہارا بیٹا تو بڑا پڑھا لکھا ہے سمجھدار اور سُلجھا ہوا بھی ہے۔۔

ابان بیٹھا مسکرا رہا تھا۔۔

چوہدری صاحب ابا کبھی بھی میری تعریف نہیں کریں گے چاہے میں سرکاری افسر کیوں نہ لگ جاٶں۔۔

ابان یہ کہہ کر ہنسنے لگا۔۔

کیوں بھٸی مُنشی صاحب اتنے سالوں سے آپ نے اپنے بیٹے کو ہم سے چھپا کر رکھا کبھی سامنا نہیں کروایا اس سے ہمارا۔۔

باہر نکالا ہے تو ہیرا بنا کر ہی نکالا ہے۔۔

ارے چودھری صاحب کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔۔۔

ہیرا کہاں ہے ابھی۔۔ہیرا تو تب ہو گانا جب لاکھوں روپے کما کر گھر لائے گا۔۔

مُنشی صاحب نے دھیمے لہجے میں کہا،

ابان بیٹا بات سُنو۔۔

میں ابھی آیا اماں آواز دے رہی ہیں آپ لوگوں کے لئے چائے بھی بنواتا ہوں۔۔

آسیہ بیگم نے اسے آواز دی تو وہ جھٹ سے اُٹھا اور اندر گیا۔۔

جی امی کیا ہوا ؟؟

وہ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے غزل بیٹھی تھی۔۔

وہ ایک دم چونک گیا۔۔

تُم ؟؟

تم ؟؟

دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر حیرانگی سے کہا۔۔

جی میں۔۔

ابان شاہ نے آٸی برو اچکاتے ہوۓ کہا،

وہ میں اپنے ابو جی کے ساتھ آئی تھی منشی صاحب کی عیادت کرنے باہر کافی آدمی بیٹھے ہوئے تھے تو ابو نے کہا کہ اندر چلی جاؤ۔۔۔

غزل نے منھ بناتے ہوۓ کہا،

اوہ اچھا مگر میں نے تم سے نہیں پوچھا۔۔

کیا تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو ابان ؟؟

آسیہ بیگم نے کہا،

جی امی کل جب میں پیسے دینے گیا تھا چوہدری صاحب کو تو اس نے مجھے چور بنا دیا تھا۔۔

”سب کو چیخ چیخ کر بُلا رہی تھی کہ چور آ گیا ہے چور آ گیا ہے“۔۔

آنٹی وہ اصل میں مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ کون ہے اس لئے میں نے ایسا بولا تھا۔۔

غزل جھٹ سے بولی،

ارے بیٹا کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے۔۔۔

آسیہ بیگم نے پیار بھرے لہجے میں کہا،

کیا مطلب امی ہو جاتا ہے میں چور تھوڑی ہوں۔۔

جائیں اب چائے بنائیں جا کر چوہدری صاحب اور اُن کی بیٹی کے لیے۔۔

ن۔۔نہیں آنٹی میں نہیں پیوں گی میں بس ابھی کھانا کھا کر ہی آئی ہوں گھر سے۔۔۔

ارے کوئی بات نہیں بیٹا تھوڑی سی پی لینا پہلی بار آئی ہو تم ہمارے گھر۔۔

حرم جاٶ امی کی مدد کرو جا کر کچن میں۔۔

حرم دونوں کو دیکھ کر مسکراتی ہوٸی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔

”شکل سے تو تم بڑی معصوم لگتی ہو مگر اُتنی ہی چالاک ہو۔۔ کیسے بُلا رہی تھی اپنے بھائی کو اپنے ابو کو اور اپنے ماموں کو چور آ گیا ہے چور آ گیا تمہیں کیا شکل سے میں چور دکھائی دیتا ہوں ؟؟

تم ایک بات کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو ؟؟

وہ اپنی جگہ سے ایک دم کھڑی ہوتی ہوٸی بولی،

ابان شاہ بھی کھڑا ہوگیا۔۔

ہاں تو جواب دو کیا میں تمہیں شکل سے چور دکھائی دیتا ہوں ؟؟

ہاں چور دکھاٸی دیتے ہو کرلو کیا کرو گے ؟؟

وہ سرد لہجے میں اُسے گھورتی ہوٸی بولی،

وہ اس کے قریب ہوا اور اُس کا بازو پکڑ کر مڑوڑ دیا۔۔

اب بتاٶ کیا میں شکل سے تمہیں چور نظر آتا ہوں ؟؟

وہ پھر سے بولا،

آہ۔۔۔مجھے درد ہو رہا ہے چھوڑو میرا بازو۔۔

یہاں پر زیادہ چیخنا چلانا تو بالکل بھی مت کیونکہ یہ میرا گھر ہے۔۔

جتنا تم نے چیخنا چلانا تھا وہ کل تم چیخ لی تھی اپنے گھر میں مجھے چور بنا کر۔۔۔

”تُم کچھ کہو تم کچھ بھی کہو تم چور ہو چور ہو چور ہو“۔۔۔

اُس نے اُسے گردن سے پکڑ کر اُس کا چہرہ اپنے نزدیک کیا تو وہ ایک دم چونک گٸی اور نظریں جُھکالی۔۔

اب بولو کیا بول رہی تھی ؟؟

اُس نے اس کے لبوں کی طرف دیکھتے ہوۓ دھیمی آواز میں کہا،

دونوں کے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ بچا تھا مگر چوہدری صاحب نے غزل کو آواز دی تو دونوں ایک دوسرے سے یک دم علیحدہ ہوگۓ۔۔۔

جاٶ بھٸی تمہارے ابا کا بُلاوا آگیا ہے۔۔

جی ابو آ رہی ہوں۔۔

وہ ابان کو دیکھتی ہوٸی باہر چلی گٸی۔۔

کیسے ہیں آپ مُنشی صاحب ؟؟

غزل نے منشی صاحب سے پیار لیا اور بیٹھ گٸی۔۔

میں بالکل ٹھیک ہوں بہت شکریہ آنے کے لئے۔۔

ہنی کا فون آیا ہے تمہاری دوستیں آگٸی ہیں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔۔

چودھری صاحب نے کہا،

ارے ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں تھا چلیں ابو چلتے ہیں مجھے مارکیٹ بھی جانا ہے۔۔

ارے ایسے نہیں جانا پہلی بار آپ لوگ آۓ ہو ہمارے گھر چاۓ بن گٸی ہے میں لے کر آ رہی ہوں۔۔

کوٸی بات نہیں پھر آٸیں گے تو پی لیں گے۔۔

چوہدری صاحب بولے۔۔

اب آپ ایسے چاۓ چھوڑ کر جاٸیں گے چوہدری صاحب ؟؟

مانا کہ میں اتنا امیر کبیر نہیں ہو مگر آپ کو چاۓ تو پلا ہی سکتا ہوں۔۔

وہ باپ بیٹی ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔۔

ایسی باتیں نہ کیا کر یار صداقت تجھے کتنی بار بولا ہے۔۔لاٶ بھٸی چاۓ لاٶ میں چاۓ پی کر ہی جاٶں گا اور کھانے میں کیا بنا ہے کھانا بھی کھاٶں گا۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں ابھی لے کر آٸی۔۔

آسیہ بیگم یہ کہہ کر کچن میں چلی گٸی۔۔

تمہیں جانا ہے تو چلی جاٶ میں تھوڑی دیر میں آ جاٶں گا۔۔

کہاں گیا ہے ابان شاہ ؟؟

بُلاٶ ذرا اُسے غزل کو حویلی چھوڑ آۓ گا۔۔۔

لو جی پھر سے اُس منہوس کی شکل دیکھنی پڑے گی۔۔

جی وہ اندر بیٹھا ہے۔۔

آسیہ بیگم کچن سے بولی،

جی جی چوہدری صاحب حُکم کریں۔۔

ابان شاہ نے کمرے سے باہر آ کر کہا،

اگر وقت ہے تمہارے پاس تو غزل کو حویلی چھوڑ آٶ اس کی دوستیں اس کا انتظار کر رہی ہیں۔۔

جی چوہدری صاحب میں چھوڑ آتا ہوں۔۔

آٸیں محترمہ۔۔

ابان شاہ نے تمسخرانہ انداز میں غزل کو دیکھتے ہوۓ کہا،

غزل نے منھ بنایا اور اُس کے ساتھ چلی گٸی۔۔

وہ دونوں پیدل چل کر جا رہے تھے۔۔

ہر طرف اندھیرا تھا کہیں کہیں دور دراز بتیاں جلی ہوٸی تھی۔۔

جس کو تم نے چور بنایا تھا آج وہی تمہارے کام آ رہا ہے۔۔

تُم میرے اتنا قریب کیوں آۓ تھے ؟؟

اُس نے سفاک لہجے میں کہا،


میں کب آیا تھا تمہارے قریب ؟؟ تم ہی آگے بڑھی تھی میں بھی تھوڑا سا بڑھ گیا۔۔

ابان شاہ نے ہاتھ میں لیے سگار سے اُس کا چہرہ اونچا کرتے ہوۓ سلگتے ہوۓ لہجے میں بولا۔۔۔

"دور ہٹو مجھ سے فلرٹی انسان آج تک میرے اتنے قریب آنے کی اجازت کسی کو نہیں دی اور تم نے مجھے چھوا تو چھوا کیسے ؟؟

دوسری بار ابھی ہم ملے تھے اور تم میرے اتنا قریب آگۓ۔۔

وہ اسکی سخت سلگتی ہوئی انگاروں کی مانند گرفت کو جھٹکتے ہوئے بولی۔۔

”میں بس یہ جانتا ہوں لڑکی کہ آج تک میرے نزدیک میرے سانسوں کے قریب آنے کی جرات بھی کسی لڑکی نے نہیں کی مگر تمہاری ہمت کیسے ہوئی“۔۔۔

کتنے جھوٹے ہو نہ تم غلطی کر کے مان بھی نہیں رہے ہو اُلٹا مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔۔

میں تو ایک قدم بھی تمہاری طرف نہیں بڑھی جھوٹا انسان۔۔

بس کر دو بس کر دو میں ہی آیا تھا تمہارے قریب بس خوش ؟؟

"خیر چھوڑو یہ سب یہ بتاٶ کیا کرتی ہو پڑھتی ہو ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

میں بالکل بھی تمہارے قریب نہیں آئی تھی تم نے میرا بازو پکڑ کر مجھے اپنے قریب کیا تھا سمجھے تم ؟؟

اُفففففف۔۔کیا ایک ہی بات کو جونک کی طرح چپک گئی ہو"۔

ابان شاہ نے شڑ کے کہا

"تو اور کیا تمہیں چپک جاؤں "

وہ بھی تنک کر بولی۔۔۔

"اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے"

وہ اسے جھٹکے سے اپنے قریب کرتے بولا کہ وہ اندر تک ڈر گئی۔۔

اچانک ایک کُتا زور زور سے بھونکنے لگا تو غزل جھٹ سے ابان شاہ کو لپٹ گٸی۔۔

وہ ایک دم ڈر گیا اس اچانک افتاد پر۔۔

لڑکی دور رہو مجھ سے ؟؟

ابان شاہ کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں جسم جزاب کی شدت سے سرخ پڑ چکا تھا۔۔۔

کیا تمہیں آواز سنائی نہیں دی ؟؟

وہ دھیمے لہجے میں بولی،

کیسی آواز ؟؟

مجھے تو کوئی آواز سنائی نہیں دی۔۔

ابھی کُتا اتنی زور زور سے بھونک تو رہا تھا۔۔

"اووو تو ڈر گئی تم تو کیا مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا"۔۔

وہ ایک دم اسکی کمر کو جھٹکے سے قریب کرتا اسکی کان میں نرم گرم سی سرگوشی کرتے بولا تو وہ کتے کا ڈر بھلائے اب اس سے ڈرنے لگی تھی۔۔۔

"ک ک کیا کہ رہے ہو ت تم"

وہ اٹک اٹک کر بولی اسکے لہجے پر۔۔

"کتا ہی تو بھونک رہا تھا کون سا یہاں پر کوئی شیر آگیا تھا جو تم میرے ساتھ ایسے لپٹ گئی"۔۔۔

وہ اپنی بات کا اثر زائل کرتے بولا تو

وہ جھٹ سے اُس سے دُود ہوگٸی۔۔

پتا نہیں کیا ہو تم۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولی،

شرم کرو میں اگر کوئی نکل کر آ گیا نہ اپنے گھر سے اور کسی نے ایسے دیکھ لیا تمہیں میرے اتنا قریب تو فورا چوہدری صاحب کو خبر پہنچ جائے گی سمجھی۔۔

بس بھی کرو اور جلدی چلو دس منٹ کا راستہ تم نے ایک گھنٹے کا بنا دیا ہے میری دوستیں میرا ویٹ کر رہی ہوں گی۔۔

وہ تیز تیز چلنے لگی۔۔

یہ کوٸی وقت ہے کیا دوستوں کے آنے کا لگتا ہے وہ بھی منھ اُٹھا کر کسی بھی وقت کہیں بھی پہنچ جاتی ہیں۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا ہاں ؟؟

میری دوستوں کے خلاف ایک لفظ بھی مت کہنا سمجھے۔۔۔

وہ غصے سے بولی،

ارے مجھے کیا ضرورت ہے میری کیا لگتی ہیں جو میں کچھ کہوں گا اُنہیں۔۔

اپنا موباٸل نمبر دے سکتی ہو ؟؟

اُس نے باتوں باتوں میں کہا،

تمہیں کیوں چاہٸیے ہے میرا نمبر ؟؟

وہ حیرانگی سے بولی،

جب کبھی دماغ خراب کرنے کا دل کرے گا تو تم سے بات کر لوں گا۔۔۔

وہ اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتا ہوا بولا تو وہ اُسے گھورنے لگی۔۔

********

ایان پچھلے دو گھنٹے سے اُس لڑکی کا ویٹ کر رہا تھا جسے وہ جانتا تک نہیں تھا۔۔

دو گھنٹے ویٹ کرنے کے بعد وہ گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔۔

آۓ گی وہ ضرور آۓ گی اور اُسے آنا ہوگا۔۔

وہ گاڑی میں بیٹھا بھی بار بار شیشے سے باہر دیکھے جا رہا تھا۔۔

کافی دیر ویٹ کرنے بعد وہ گاڑی سے ابھی باہر نکلا ہی تھا کہ سامنے سے دو لڑکیاں بڑی بڑی چادر اوڑھے آ رہی تھی۔۔

کل تو یہ اکیلی تھی مگر آج اس کے ساتھ کوٸی اور بھی ہے۔۔

اُس نے ایک بار بھی پلکیں نہ جھپکاٸی بےساختہ اُسے دیکھتا رہا۔۔

جب وہ اُس کے پاس سے گُزری تو اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

وہ ابھی تھوڑی آگے گٸی تھی کہ ایان اُس کے پیچھے چلنے لگا۔۔

وہ عجیب راستے سے گزر کر جا رہی تھی اور ایان مسلسل اُن کا پیچھا کر رہا تھا۔۔

اُن دونوں کو ایسا لگا کہ جیسے اُن کے پیچھے کوٸی ہے مگر پیچھے مُڑ کر دیکھے بغیر وہ چلتی گٸی اور ایک پُرانے سے گھر میں چلی گٸی۔۔

جب وہ اندر چل گٸی تو ایان نے اُس پُرانے اور بوسیدہ گھر کے دروازے پر دستک دی۔۔

کچھ دیر کے بعد ایک نوجوان لڑکی نے دروازہ کھولا۔۔

جی کس سے ملنا ہے ؟؟

ایان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ پہلی بار کسی لڑکی کے پیچھے اس طرح سے گیا تھا۔۔

وہ ابھی دو لڑکیاں گٸی ہیں اندر اُن میں سے جس نے کالی چادر اوڑھی تھی مجھے اُس سے ملنا ہے۔۔۔

اوہ تو تمہیں روشنی سے ملنا ہے۔۔

آجاٶ اندر۔۔

اچھا تو اُس حسینہ کا نام روشنی ہے۔۔

وہ اندر گیا اور اُس پُرانے گھر کو یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔

کتنی عجیب جگہ ہے یہ۔۔۔

وہ بڑبڑایا۔۔

روشنی تم سے ایک لڑکا ملنے آیا ہے کیا اُسے اندر بھیج دوں ؟؟

زُمر نے کمرے کا دروازہ بجاتے ہوۓ کہا۔۔

میں بہت تھک گٸی ہوں اس وقت کسی سے ملنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں زُمر۔۔

اچھا چلو میں کہہ دیتی ہوں اُس لڑکے کو کہ واپس چلا جاۓ۔۔

ر۔۔رُکو زُمر۔۔

وہ جھٹ سے بولی،

ہاں کیا ہوا ؟؟

بھیج دوں کیا اُسے اندر ؟؟

زُمر نے کہا،

ہاں بھیج دو۔۔

جاٶ مل لو جلدی سے جا کر اور یہ بتاٶ کتنے پیسے دو گے ؟؟

پ۔۔پیسے ؟؟

کس چیز کے پیسے کیا کہہ رہی ہو یہ ؟؟

وہ حیرانگی سے بولا،

کیا تمہیں نہیں پتا کہ روشنی جس سے بھی ملتی ہے مفت میں نہیں ملتی پیسے لیتی ہے وہ۔۔

کیا تمہیں معلوم نہیں تھا اس جگہ پر آنے سے پہلے۔۔۔

میں کچھ سمجھا نہیں کیا کہہ رہی ہو تم ؟؟

لڑکے چلے جاؤ یہاں سے واپس یہی بہتر ہوگا تمہارے لیے۔۔

زُمر تم اندر بھیج دو اسے۔۔

روشنی نے اونچی آواز میں کہا تو ایان سیدھا اُس کمرے میں چلا گیا۔۔

اتنی دلکش آوازز۔۔

ایان نے دل ہی دل میں کہا،

روشنی شیشے کے سامنے کھڑی اپنے ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی۔۔

ایان اُس کا چہرہ دیکھنے کے لیے بےقرار تھا۔۔

روشنی جس کے لمبے گھنے بال تھے بالوں میں اس نے چُٹیا کر رکھی تھی آنکھوں میں بےحد کاجل تھا جو ہیرے کی طرح چمک رہی تھیں۔۔

جب روشنی نے پلٹ کر ایان کی طرف دیکھا تو اُس نے ایک جھلک اسے دیکھ کر آنکھیں میچ لی۔۔

گہرا سانس لیتے ہوۓ وہ اُس کی جانب بڑھا۔۔

کوٸی اتنا حسین کیسے ہوسکتا ہے اور پھر سارا کا سارا کیسے ہوسکتا ہے۔۔

تو آپ ہیں جو بہت ہی معصوم ہیں۔۔

آٸیے بیٹھیے۔۔

ن۔۔نہیں میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا میں تو صرف یہاں آپ کو دیکھنے آیا ہوں۔۔

کل جب میں نے آپ کو دیکھا تھا ہوٹل کے پاس سے گزرتے ہوئے تو مجھے لگا تھا میں نے شاید دنیا میں حور دیکھ لی ہو۔۔

وہ ذرا سا مُسکراٸی۔۔

مجھے دیکھنے والا ہر شخص ایسے ہی کہتا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہر کوئی اس خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر چلتا بنتا ہے۔۔۔

یہ درندے محض نوچنا جانتے ہیں انہیں لڑکی کے احساسات کی کیا پرواہ میں کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ اس خوبصورتی سے کبھی کسی کو محبت کیوں نہیں ہوئی۔۔

وہ دکھ بھرے لہجے میں بولی تو وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

بیوقوف لوگ ہیں جو اس خوبصورتی اور خوبصورت انسان کی قدر نہیں کرتے۔۔

ایک بات پوچھوں آپ سے ؟؟

ایان نے اُسے دیکھتے ہوۓ کہا،

جی پوچھیں۔۔

روشنی نے کہا،

کیا آپ کو کبھی کسی سے محبت ہوٸی ہے ؟؟

اگر ہوئی ہے تو محبت ہونے کا احساس کیسا ہوتا ہے ؟؟؟

ہم جیسی عورتیں کسی سے محبت کر بھی لے تو ہمیں وہ محبت نہیں ملا کرتی۔۔۔ یہ معاشرہ ہمیں اس معاشرے کی بدترین عورتیں سمجھتا ہے۔۔

اور ہاں تھا ایک ظالم ستمگر جس کی اس کمبخت دل نے چاہ کی تھی مگر اُس ستمگر کو کسی اور سے محبت تھی۔۔۔

ایان نے اُس کی اس بات پر اپنی نظریں جُھکالی۔۔

کیا آپ کو دوبارہ محبت نہیں ہو سکتی کسی ایسے انسان سے جو آپ کو چاہتا ہو آپ سے محبت کرتا ہو ؟؟

ایان نے کہا تو وہ پھر سے مُسکرا دی۔۔

سچ کہوں تو مجھے محبت پر اعتبار نہیں رہا اب وجہ آپ کو بتا چُکی ہوں۔۔

پہلے شخص ہیں آپ جس نے مجھ سے اتنی دیر بیٹھ کر بات کی ورنہ ہر کوٸی یہاں اپنے مطلب کے لیے آتا ہے۔۔۔

ان سب باتوں کے پیچھے کہیں آپ کا بھی کوٸی مطلب تو نہیں ؟؟

آپ مجھے باقی مردوں جیسا نہ سمجھیں محترمہ۔۔

پہلی بار میرے دل کو کوٸی لڑکی اس قدر اچھی لگی ہے کہ میں کل آپ کو دیکھنے کے بعد سو نہیں پایا۔۔

بہت سے مردوں کا یہی کہنا ہے کہ مجھے باقی مردوں جیسا نہ سمجھیں۔۔

وہ منھ موڑتی ہوٸی بولی،

مطلب آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہاں نہ ؟؟

ایان جھٹ سے بولا،

نہیں ایسا کب بولا میں نے۔۔

مجھ سے محبت کسے ہوسکتی ہے بھلا ؟؟

جو عورت ہر روز نۓ نۓ مردوں کے سامنے رقص کرتی ہو اُن سے ملتی ہے اُس سے تو کسی کو جھوٹی محبت بھی نہ ہو۔۔

روشنی ہنستی ہوٸی بولی،

آپ یہ سب پیٹ کے لیے کرتی ہیں روزی روٹی کے لیے تو آج سے آپ کے سارے اخراجات میری ذمہ داری ہے بس اب آپ کسی بھی مرد سے نہیں ملیں گی۔۔

وہ اُس کی محبت میں دیوانہ ہو چُکا تھا۔۔

آپ ایسا کیوں کریں گے ؟؟

مجھے آپ کی باتوں کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی پلیز آپ جاٸیں یہاں سے۔۔

میرے لیے کوٸی مرد اتنی ہمدردی کیوں کرے گا بھلا اس کے پیچھے آپ کا بھی ضرور کوٸی مقصد ہوگا۔۔

وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر شیشے کے سامنے جا کر کھڑی ہوگٸی۔۔

ایان اُٹھ کر اُس کے پاس گیا۔۔

”مجھے آپ سے محبت ہوگٸی ہے پہلی بار دیکھتے ہی میں آپ کا دیوانہ ہوگیا تھا“۔۔

”میں نے اتنی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی اپنی ذندگی میں“۔۔

میں پھر آٶں گا بلکہ ہر روز آٶں گا آپ سے ملنے آپ کو اپنی محبت کا یقین دلانے کہ یہ دل جو اب دھڑک رہا ہے صرف آپ کے لیے آپ کی محبت میں دھڑک رہا ہے۔۔

یہ کہہ کر ایان وہاں سے چلاگیا۔۔ 

میرا دم گُھٹ رہا ہے نکالو مجھے یہاں سے ورنہ یہ سلاخیں توڑ کر باہر آگٸی نہ میں تو یاد رکھنا ایک ایک کو بجا دوں گی۔۔

یشما نے غصے سے کہا تو سامنے کُرسی پر بیٹھے انسپیکٹر حسن نے اُس کی طرف ایک نظر دیکھا اور اپنے کام میں مگن ہوگیا۔۔

تمہاری آنکھیں نوچ لوں گی اگر ایک اور نظر بھی مجھے اس طرح دیکھا تو۔۔

یشما نے اُسے گھورتے ہوۓ کہا،

انسپیکٹر حسن کام کرتا ہوا مسکرانے لگا۔۔

میری اک نظر تمہیں اتنی چُبھ رہی ہے مس یشما اک نظر ذرا خود پر ڈال کر دیکھو تم کر کیا رہی ہو۔۔

جیسے تمہیں میری ایک نظر اتنی بُری لگی ہے ویسے ہی تم لوگوں کو بھی بہت بری لگتی ہو۔۔

اتنی چوریاں کر کے اتنا مال اکٹھا کر کے اپنی پوری گینگ کے ساتھ کہاں جاؤ گی تم ؟؟

تمہیں کیا لگتا ہے تم کچھ بھی کرتی رہو گی اور کسی کو پتہ نہیں چلے گا ہاں نہ ؟؟

تم جانتی نہیں ہو ابھی ڈی ایس پی رامش کو۔۔

اپنی خیر مناؤ جس کے ہاتھ تم لگ گئی ہو نا وہ تمہاری جان نہیں چھوڑنے والا اب۔۔

انسپیکٹر حسن نے تمسخرانہ انداز میں کہا،

بڑے آئے بڑے گئے دیکھ لوں گی میں اس ڈی ایس پی رامش کو بھی۔۔

میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے شاید ابھی تم جانتے نہیں ہو مجھے میں کون ہوں۔۔

یشما ہوں میں یشما۔۔

کوٸی بھی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔۔

یہ ساری باتیں ڈی ایس پی کے سامنے کرنا وہ تمہیں اس کا جواب زیادہ اچھے سے دیں گے مس یشما۔۔

تم اور تمہاری پوری گینگ کا جو حال ہونے والا ہے بس انتظار کرو تھوڑا سا اور دیکھو ہوتا ہے کیا اب۔۔

یشما کو حسن کی باتوں پر بہت غصہ آ رہا تھا مگر وہ کنٹرول کررہی تھی اور نارمل رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

کچھ دیر کے بعد ڈی ایس پی رامش بھی وہاں پہنچ گۓ۔۔

انسپیکٹر حسن اُٹھا اور فوراً اُن کے پاس گیا۔۔

سلام سر۔۔

اُس نے روم میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا،

وعليكم السلام۔۔ آٶ بیٹھو۔۔

ڈی ایس پی رامش نے کُرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا،

سر وہ ہم نے جو پوری گینگ پکڑی ہے اُن سے تو جا کر مل لیں۔۔ وہ لڑکی یشما کافی دیر سے چیخ رہی تھی کہ مجھے نکالو یہاں سے باہر ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔

سر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے اور بھی بہت سارے لوگ ہیں جو اس کام میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔

پریشان مت ہو سارا کچھ میں اگلوا لوں گا اس لڑکی سے میرا بس تھوڑا سا کام ہے پھر میں آ رہا ہوں اُس طرف ہی۔۔

او کے سر۔۔

یہ کہہ کر انسپیکٹر حسن باہر چلاگیا۔۔

مس یشما ہوش میں آجائیں ڈی ایس پی رمش آ چکے ہیں۔۔

یشما ایک کونے میں بیٹھی تھی حسن کو دیکھ کر فورا وہ سلاخوں کی جانب بڑھی۔۔

باہر نکنے دو مجھے ایک بار یہاں سے سب سے پہلے تو مجھے تم سے نمٹنا ہے تم جو بڑے بن رہے ہو نا حد میں رہو۔۔

وہ سلاخوں کو زور سے پکڑتی ہوئی بولی،

انسپیکٹر حسن قہقہ لگا کر ہنستا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔

**********

سوری یار لیٹ ہوگٸی ابان کی باتیں اور مستیاں ہی ختم نہیں ہو رہی تھی پورے راستے۔۔

میں نے تو اسے بہت بار کہا کہ جلدی چلو میری دوستیں میرا ویٹ کر رہی ہیں۔۔

غزل نے کہا تو اُس کی دونوں دوستیں اُس کا منھ تکنے لگی۔۔

کیاااا ؟؟

کون ابان ؟؟

و۔۔وہ کوٸی نہیں دیر ہو رہی ہے چلو جلدی سے ڈراٸیور باہر ویٹ کر رہا ہوگا۔۔

یہ میں نے کیا بول دیا میں پاگل ہوگٸی ہوں اس جب سے اس ابان سے ملی ہوں۔۔

وہ کمرے سے باہر نکل کر بڑبڑانے لگی۔۔

آپی آپ یہاں ہی رُکیں ہم ابھی آ جاٸیں گے۔۔

غزل کی دوست نوشین نے اپنی بہن سے کہا جو اُس کے ساتھ آٸی تھی۔۔

ارے کیوں آپی بھی جاٸیں گی ہمارے ساتھ ہماری ہیلپ کریں گی شاپنگ میں۔۔

ویسے بھی یہاں کوٸی نہیں ہے جس سے آپی بیٹھ کر گپ شپ کر سکیں۔۔

ہاں غزل بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔

بسمہ نے کہا،

بسمہ اور نوشین غزل کی بیسٹ فرینڈز تھیں۔۔

غزل جب گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اُس نے دیکھا گاڑی میں ڈراٸیور نہیں بلکہ اُس کے ماموں وقاص بیٹھے تھے۔۔

ارے ماموں آپ ؟؟

وہ حیرانگی سے بولی،

جی جناب میں جلدی سے بیٹھ جاٶ ٹاٸم نہیں ہے زیادہ۔۔

ماموں نے کہا،

ڈراٸیور کہاں ہے ؟؟

آپ آج ہی تو آئے ہیں تھک گۓ ہوں گے آرام کریں نہ آپ ماموں۔۔

نہیں میری گڑیا میں تم لوگوں کے ساتھ جاؤں گا میں نے خود ہی ڈرائیور کو واپس بھیجا ہے۔۔

ٹھیک ہے ماموں۔۔

غزل نے کہا،

چلیں پھر کوٸی رہ تو نہیں گیا۔۔

یہ کہتے ہوۓ غزل کے ماموں وقاص نے شیشے میں سے پیچھے دیکھا تو اُن کی نظر نوشین کی بڑی بہن افرا پر پڑی جو نظریں جھکاۓ اپنے دھیان بیٹھی تھی۔۔

کیا ہوا ماموں چلیں بھی اب ایسے شیشے میں کسے دیکھ رہے ہیں ؟؟

غزل نے اپنے ماموں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا تو وہ یہاں وہاں دیکھنے لگے۔۔

وہ میں پیچھے دیکھ رہا تھا کوٸی گاڑی تو نہیں آ رہی ہے۔۔

اُسے دیکھنے کے بعد وقاص صاحب کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگی تھی۔۔

پہلی بار اُن کے دل کو کوٸی لڑکی اتنی اچھی لگی تھی۔۔


آپ لوگ آرام سے شاپنگ کرو میں یہاں گاڑی میں ہی بیٹھا ہوں۔۔

کیوں ماموں آپ بھی ساتھ چلیں نہ ہمارے۔۔

نہیں غزل میں کیا کروں گا تم لڑکیوں میں۔۔ تم لوگ جاٶ آرام سکون سے شاپنگ کر کے آٶ کسی بھی قسم کی کوٸی بھی ضرورت ہو مجھے ایک کال کردینا میں پہنچ جاٶں گا۔۔

جی ٹھیک ہے ماموں۔۔

وہ چاروں شاپنگ کرنے مال میں چلی گٸی۔۔

وقاص صاحب تو افرا کو دیکھنے کے بعد نہ جانے کونسی دنیا میں پہنچ گۓ تھے۔۔

شاپنگ کرنے کے دوران اچانک افرا کا دل گھبرانے لگا۔۔

نوشین مجھے بہت گُھٹن ہو رہی ہے چلو یہاں سے باہر۔۔

کیا ہوا آپی ؟؟

وہ تینوں پریشان ہوگٸی۔۔

چلو چلو باہر چلو جلدی سے کُھلی ہوا میں جا کر بیٹھتے ہیں۔۔

بسمہ نے کہا،

ہاں چلو۔۔ میں ماموں کو بھی کال کرتی ہوں انہیں بُلا لیتی ہوں وہ افرا آپی کو ڈاکٹر کے پاس لے جاٸیں گے۔۔

نہیں غزل انہیں پریشان مت کرنا میں ٹھیک ہوں بس اندر مجھے گُھٹن ہو رہی تھی۔۔

میری وجہ سے تم لوگوں کی شاپنگ رہ گٸی ہے جاٶ جا کر اپنی شاپنگ مکمل کرو میں یہاں پر ہی بیٹھی ہوں میری فکر نہ کرو۔۔

افرا نے کہا،

نہیں آپی ہم آپ کو یہاں ایسے اکیلی چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہیں۔۔

نوشین نے بیچارہ منھ بناتے ہوۓ کہا،

ارے پریشان کیوں ہوتی ہو میں ماموں سے کہتی ہوں وہ آپی کے پاس آ کر بیٹھ جائیں گے۔۔

غزل نے فوراً اپنے ماموں کو کال کی اور وہاں پر بُلا لیا۔۔

ماموں آپ افرا آپی کا دھیان رکھیں ان کے پاس بیٹھیں گپے شپے ماریں ہم بس ابھی آۓ۔۔

غزل نے کہا،

غ۔۔غزل سُنو تو سہی۔۔

ماموں آ کر سنتی ہوں پہلے ہی بہت زیادہ ٹاٸم ہوگیا ہے۔۔

یہ کہہ کر وہ تینوں پھر سے مال چلی گٸی۔۔

وقاص صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ افرا سے کیا بات کرے۔۔

آ۔۔ وہ جوس لے کر آٶں آپ کے لیے ؟؟

لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں اُس نے افرا سے کہا تو افرا نے منع کر دیا۔۔

نہیں پلیز آپ بیٹھ جاٸیں میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔۔

کافی دیر تک وہ دونوں خاموشی سے بیٹھے رہے۔۔

یہ تو کچھ بول ہی نہیں رہی۔۔

بندہ کچھ تو بولتا ہے پوچھتا ہے چُپ کر کے بیٹھی ہے تب سے۔۔

وقاص دل ہی دل میں کہہ رہا تھا۔۔

کیا کرتی ہیں آپ ؟؟ میرا مطلب پڑھتی ہیں جاب کرتی ہیں ؟؟

وقاص نے آخر خود ہی پوچھ لیا۔۔

جی میں سکول میں پڑھاتی ہوں۔۔

آپ بتاٸیں آپ کیا کرتے ہیں ؟؟

افرا نے کہا،

میرا اپنا بزنس ہے لاہور میں۔۔

اوہ ناٸس۔۔

افرا نے کہا،

شادی ہوگٸی آپ کی ؟؟

نہ جانے وقاص کے منھ سے یہ بات کیسے نکل گٸی۔۔

وہ یہ کہہ کر یہاں وہاں دیکھنے لگا۔۔

افرا بھی اُس کی اس بات پر حیران رہ گٸی۔۔

ن۔۔نہیں میری شادی نہیں ہوٸی ابھی۔۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟؟

افرا جھٹ سے بولی،

ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔ میری بھی نہیں ہوٸی ابھی شادی۔۔

وہ اُس کی طرف دیکھتا ہوا بولا تو افرا ذرا سا مسکراٸی اور منھ دوسری طرف کر کے بیٹھ گٸی۔۔

کہیں اسے میری باتیں بُری تو نہیں لگ گٸی۔۔

مجھے یہ سوال نہیں کرنا چاہٸیے تھا۔۔

سوری اگر آپ کو میری کوٸی بات بُری لگی ہو تو۔۔

وقاص نے کہا،

نہیں ایسا نہیں ہے مجھے آپ کی کوئی بھی بات بری نہیں لگی۔۔ قسمت کی بات ہوتی ہے میرے رشتے ہی نہیں آتے شاید میرے نصیب میں کوٸی لڑکا ہے ہی نہیں اس لیے شادی بھی نہیں ہوئی ابھی تک۔۔

افرا نے سرد لہجے میں جواب دیا۔۔

ارے ایسے تو نہ کہیں۔۔

مجھے دیکھ لیں انتیس سال سال کا ہونے والا ہوں آج تک کسی لڑکی نے مجھے لفٹ تک نہیں کرواٸی۔۔

وقاص نے اُس کے پاس بینچ پر بیٹھتے ہوۓ کہا،

مطلب آپ کی اور میری قسمت ایک ہی جیسی ہے۔۔

وہ مسکراتی ہوئی بولی،

ہاں بالکل ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔۔

وہ یہ کہہ کر ہنسنے لگا،

کیوں نہیں کی آپ کے گھر والوں نے اب تک اپ کی شادی ؟؟

آپ تو بزنس مین ہیں اتنے امیر انسان ہیں پھر بھی کیوں ؟؟

ایسا کچھ نہیں ہے یہ امیر ہونا کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔

اصل بات تو قسمت کی ہوتی ہے نصیبوں کی ہوتی ہے۔۔

میری ماں کا انتقال ہوگیا تھا جب میں بہت چھوٹا تھا میری بڑی آپا نے ہی مجھے پال پوس کر بڑا کیا میری تربیت کی مجھے پڑھایا لکھایا پھر ایک دن وہ بھی مجھے چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گٸی۔۔

اُس کے بعد بس میرا دل بہت ویران سا ہوگیا تھا دل ہی نہیں چاہتا شادی کے بارے میں سوچنے کو بھی۔۔

اکثر غزل ایان ہنی رامش مجھے بولتے ہیں کہ ماموں اب آپ شادی کرلیں میں انہیں ہمیشہ یہی کہہ کر ٹال دیتا ہوں کہ ہاں کر لوں گا کر لوں گا۔۔

جب میری آپا کا انتقال ہوا تھا صرف میں ہی نہیں یہ بچے بھی بچھڑ گئے تھے۔۔

ایک لمحے کے لیے ایسا لگا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔۔ پہلے امی چھوڑ کر چلی گئی پھر آپا چھوڑ کر چلی گئیں۔۔

انسان کی زندگی میں بہاریں خوشیاں صرف پیسوں سے نہیں آتی بلکہ سچے رشتوں سے آتی ہیں۔۔

ارے آپ تو بہت اچھی باتیں کرتے ہیں۔۔

بہت افسوس ہوا مجھے اپ کی امی کے بارے میں اور اپا کے بارے میں سن کر۔۔

بالکل ٹھیک کہا اپ نے زندگی میں سچے رشتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔

ہمارے چچا ہمارے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں لیکن وہ محبت ان کی صرف ہمارے سامنے ہوتی ہے پیٹھ پیچھے وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔۔

میرے ابو کی خواہش تھی کہ میری شادی میرے چچا کے بڑے بیٹے کے ساتھ ہو مگر میرے چچا بہت لالچی ہیں۔۔

جب تک ہمارے باپ کا سایہ ہمارے سر پر تھا ہم بیٹیاں عیش کرتی تھیں۔۔

اوہ سو سیڈ۔۔

بہت افسوس ہوا آپ کے ابو کا سن کر۔۔

کیوں نہیں کی آپ کے چچا نے اپنے بیٹے کی شادی آپ کو ساتھ ؟؟

وقاص نے کہا،

نہیں میں نے آپ کو بتایا تو ہے میرے چچا بہت لالچی ہیں وہ بہت سارا جہیز مانگتے تھے ہماری اتنی اوقات نہیں ہے کہ ہم اتنا جہیز دے سکیں۔۔

ابو زندہ ہوتے تو شاید اب تک میری شادی ہو چکی ہوتی مگر خیر چھوڑیں کیا باتیں لے کر بیٹھ گۓ ہیں ہم۔۔

ہاۓ تھک گۓ آج تو۔۔

جیسے ہی وقاص نے بسمہ غزل اور نوشین کو اپنی جانب آتا دیکھا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔۔

لو جی آگئی ہیں تینوں شاپنگ کر کے۔۔

سوری ماموں سوری افرا آپی۔۔

غزل کو سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔۔

لاٶ دو مجھے یہ سارا سامان میں گاڑی میں رکھ دوں۔۔

آپی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا اب ؟؟

غزل نے کہا،

ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں اب اگر تم لوگوں کی شاپنگ مکمل ہو گئی ہو تو کیا ہم گھر چل سکتے ہیں ؟؟

افرا نے کہا،

ہاں ہاں چلیں بہت بھوک بھی لگ رہی ہے۔۔

نوشین نے کہا،

اب کھانا ہم گھر جا کر ہی کھائیں گے اب ہم کہیں بھی سٹاپ کیے بغیر گھر جائیں گے۔۔

افرا نے سرد لہجے میں کہا،

وہ تینوں چپ چاپ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔

بھائی جان کی دو بار کال ائی ہے بار بار پوچھ رہے تھے تمہارا۔۔

وقاص نے غزل سے کہا،

اُففففف۔۔۔

بس میں کہیں چلی تو کیا جاؤں ابو کو چین نہیں پڑتا۔۔

فکر رہتی ہے نا ہم سب کو تمہاری اس لیے بار بار پوچھتے ہیں میری جان تمہارا۔۔

وقاص نے غزل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

ویسے افرا آپی میرے ماموں نے آپ کو بور تو نہیں ہونے دیا ہوگا ہاں نہ ؟؟

غزل نے پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہوۓ کہا،

ن۔۔نہیں کافی باتیں کی ہم دونوں نے۔۔

اچھے ہیں تمہارے ماموں۔۔

افرا نے جواب دیا۔۔

ہاں میرے ماموں بہت اچھے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔۔

غزل نے اپنے ماموں کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

بس اب کوٸی اچھی سی مامی مل جاۓ ہمیں۔۔

بس اسے تو ہر وقت مامی کی پڑی رہتی ہے۔۔

وقاص جھٹ سے بولا،

********

میسج کرتا ہوں اسے پوچھتا ہوں شاپنگ سے واپس آگٸی ہے یا نہیں ؟؟

ابان کافی دیر تک سوچتا رہا کہ میسج کروں یا نہ کروں ؟؟

میسج ٹاٸپ تو اُس نے کرلیا تھا مگر سینڈ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔

اچانک اُس نے سینڈ پر کلک کردیا۔۔

یہ میں نے کیا کیا ؟؟

مجھے ابھی میسج نہیں کرنا چاہٸیے تھا۔۔

یارررر۔۔۔

وہ بےچینی سے اُٹھ کر باہر صحن میں آ کر بیٹھ گیا۔۔

کہیں وہ بُرا نہ مان لے اور میرے ساتھ لڑنا ہی نہ شروع کر دے۔۔

کیا کروں کیا کروں ؟؟

نہیں یار اگر اس نے برا ہی ماننا ہوتا تو وہ مجھے اپنا نمبر کیوں دیتی۔۔

میں فضول میں ٹینشن لے رہا ہوں ایسا ویسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا میں سوچ رہا ہوں۔۔

وہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔۔


اُنہیں کھانا کھا کر جانا چاہٸیے تھا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے وہ کھانا کھاۓ بغیر ہی چلے گۓ۔۔

ماموں میں نے تو انہیں بہت بار کہا تھا ٹاٸم زیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے نہیں کھایا ورنہ اور کوٸی بات نہیں ہے۔۔

غزل نے کہا،

آگۓ آپ لوگ ؟؟

ہنی نے ٹی وہ لاٶنج میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا،

نہیں ابھی راستے میں ہیں بس پہنچنے ہی والے ہیں۔۔ نظر نہیں آ رہا کیا تمہیں جو پوچھ رہے ہو ؟؟

غزل نے منھ بناتے ہوۓ کہا،

ہر وقت سڑتی رہتی ہے چڑیل۔۔

غزل ہنی کو شاپنگ بیگ مار کر اپنے کمرے میں بھاگ گٸی۔۔

تمہیں بتاتا ہوں ابھی میں آ کر۔۔

ہنی بولا،


آہ۔۔۔سکون۔۔۔

جو سکون اپنے گھر میں ہے وہ دنیا کے کسی کونے میں نہیں۔۔

اُس نے سارے شاپنگ بیگ صوفہ پر رکھے اور بیڈ پر لیٹ گٸی۔۔

موباٸل فون کہاں ہے میرا ؟؟

اُس نے یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ کہا،

وہ اُٹھی اور ساٸڈ ٹیبل پر سے موباٸل فون پکڑ کر صوفہ پر بیٹھ گٸی۔۔

یہ ان ناٶن نمبر سے کس کا میسج آیا ہوا ہے ؟؟

وہ بڑبڑاٸی اور دیکھنے لگی۔۔

”شاپنگ سے واپس آگٸی ہو کیا“ ؟؟

وہ میسج پڑھ کر حیران رہ گٸی۔۔

یہ کون ہے جو جانتا ہے کہ میں آج شاپنگ پر گٸی تھی۔۔

غزل نے فوراً میسج کیا۔۔

کون ؟؟

تمہیں کیسے معلوم میں شاپنگ پر گٸی تھی ؟؟

کون ہو تم ؟؟

جلدی بتاٶ ورنہ بہت بُرا پیش آٶں گی۔۔

اُس نے ایک ساتھ اتنے سارے میسجز کر دیے۔۔

ابان شاہ تو میسج کے ہی انتظار میں بیٹھے تھے۔۔

میسجز پڑھ کر وہ مسکرانے لگا۔۔

کیا لڑکی ہے یہ میسجز پر بھی لڑ رہی ہے۔۔

کیا آپ نہیں جانتی مجھے محترمہ ؟؟

ابان نے جواب دیا۔۔

اُففففف۔۔ کون ہے یہ ؟؟

نہیں میں نہیں جانتی اسی لیے تو پوچھ رہی ہوں کون ہو تم ؟؟

غزل نے میسج کیا۔۔

کیسی لڑکی ہے اسے یاد ہی نہیں کہ شاید ابان ہوسکتا ہے جس کو اس نے نمبر دیا تھا آج شام میں۔۔

بندہ تھوڑا سا تو دماغ کا استعمال کر ہی لیتا ہے۔۔

محترمہ تھوڑا ذہن پر زور ڈالیں آپ کو یاد آ جاۓ گا۔۔

ابان شاہ کا یہ میسج پڑھ کر غزل غصے میں آگٸی۔۔

مجھے ذہن پر زور ڈالنے کا بول رہا ہے خود نہیں بتا سکتا کون ہے ؟؟

غزل نے فوراً کال ملاٸی۔۔

میں دیکھوں تو سہی کہیں میری کوٸی دوست تو مجھے تنگ نہیں کر رہی۔۔

الله یہ تو کال کر رہی ہے۔۔

وہ اُٹھ کر پھر سے باہر صحن میں چلا گیا۔۔

ہیلو ؟؟

کون ہو تم ؟؟

جواب دو ؟؟

آواز تو میری پہنچ ہی رہی ہوگی تم تک۔۔

غزل سرد لہجے میں بولی،

جی۔۔

ابان نے سیریس انداز میں کہا،

جی ؟؟

کیا جی ؟؟

میں نے پوچھا ہے کون ہو تم ؟؟

یہ جی جی نہ کرو اور بتاٶ کون ہو تم ؟؟

میں ابان شاہ ہوں۔۔ پہچانا ؟؟

یہ سُن کر غزل کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگٸی۔۔

کیا ہوا اب کیوں خاموش ہوگٸی تم ؟؟

تمہیں شرم نہیں آتی ؟؟

پتا بھی ہے میں کتنی ڈر گٸی تھی کہ نہ جانے کون ہے جو جانتا ہے کہ میں آج شاپنگ کرنے گٸی تھی۔۔

کیوں میسج کیا ہے مجھے ؟؟

نہیں کوٸی کام نہیں ہے۔۔ مجھے بھلا تم سے کیا کام ہوگا ؟؟

بتایا تو تھا میں نے تمہیں کہ جب دماغ خراب کرنا ہوگا میں نے اپنا تو تم سے بات کر لوں گا۔۔

ابان شاہ یہ کہہ کر ہنسنے لگا۔۔

ویری فنی۔۔ بالکل بھی مزہ نہیں آیا۔۔

غزل نے سرد لہجے میں منھ بناتے ہوۓ کہا،

اچھا یہ بتاٶ شاپنگ کر آٸی ؟؟

دوستیں چلی گٸی تمہاری ؟؟

ابان نے کہا،

ہاں ابھی واپس آٸی ہوں کچھ دیر پہلے ہی شاپنگ کر کے۔۔

تمہیں اتنا انٹرسٹ کیوں ہو رہا ہے میری شاپنگ اور میری دوستوں میں ؟؟

وہ جھٹ سے بولی،

ارے مجھے کیوں ہونے لگا تمہاری دوستوں میں انٹرسٹ۔۔

اچھا تو پھر کس میں ہو رہا ہے انٹرسٹ بتا دو مجھے ؟؟

کسی میں بھی نہیں ہو رہا۔۔

ابان نے کہا،

ویسے ہم بات کیوں کر رہے ہیں ؟؟

ہم نہ دوست ہیں نہ ہی کچھ اور تو پھر بات کرنے کا کیا مقصد ہے ؟؟

غزل نے کہا،

اگر تم چاہو تو دوست بھی بن سکتے ہیں اور کچھ اور بھی ہاہاہا۔۔

مزاق کررہا ہوں لڑنے مت لگ جانا اب۔۔

شرم کرو ابان شاہ۔۔

یہ بتاٶ ٹوور کب جا رہا ہے تمہارا ؟؟

کل شام میں ہم نکل جاٸیں گے جانے کے لیے۔۔

آٸی ایم سو اکساٸٹڈ۔۔

غزل نے خوش ہوتے ہوۓ کہا،

اوہ اچھا جی۔۔

جی ابان شاہ۔۔

غزل بولی،

ایسے اتنے پیار سے میرا نام کیوں لیتی ہو۔۔

یہ شاید تیسری چوتھی بار تم نے میرا نام لیا ہے میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ہے۔۔

اُففففف۔۔۔ کیوں دھڑکنے لگا ہے ؟؟

کوٸی وجہ ؟؟

ظاہر ہے جب اتنی حسین لڑکی اتنے پیار سے میرا نام لے گی تو دل ہی دھڑکے گا نہ۔۔

وہ پیار بھرے لہجے میں بولا تو غزل مسکرانے لگی۔۔

ویسے تم نے اچھا نہیں کیا تھا آج میرے ساتھ۔۔

بس کر دو چھوڑ دو بھول جاٶ خود میرے قریب آٸی تھی اور اب سارا کا سارا الزام محترمہ مجھ پر مسلط کر رہی ہے۔۔

جیسا میرے نام لینے پر تمہارا دل دھڑکتا ہے نہ ویسے ہی جب تم میرے قریب آۓ تھے میرا دل بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔

یہ سُن کر ابان شاہ ہنسنے لگا۔۔

اس کا کیا مطلب ہوا ؟؟

ابان نے کہا،

کیا مطلب ہوا کوٸی مطلب نہیں ہوا۔۔

غزل جھٹ سے بولی،

یہ ک۔۔کون ہے صحن میں ؟؟

کس کی آواز آ رہی ہے ؟؟

مُنشی صاحب بولے،

ابا اُٹھ گۓ۔۔

ج۔۔جی ابا میں ہوں وہ دوست کی کال آٸی تھی بس وہی سُن رہا ہوں آپ سو جاٸیں۔۔

غزل زور زور سے ہنسنے لگی۔۔

تم کیوں ہنس رہی ہو چلو سو جاٶ ٹاٸم بہت ہوگیا ہے میں بھی کمرے میں جا رہا ہوں۔۔

یہ کہہ کر ابان نے کال بند کر دی اور فوراً کمرے میں چلاگیا۔۔

ابھی تو اصل بات شروع ہوٸی تھی ابا نے تو ڈرا ہی دیا۔۔

وہ منھ بنا کر لیٹ گیا۔۔


ویسا اتنا بھی بُرا نہیں ہے جتنا میں اسے سمجھ رہی تھی۔۔

پہلی بار کسی لڑکے سے بات کی ہے میں نے اور اتنا اچھا لگ رہا ہے اس سے بات کر کے۔۔

ہینڈسم بھی ہے پڑھا لکھا بھی ہے۔۔

دو بار ملی ہوں ایک ہی دن میں اُس سے بات بھی ہونے لگ گٸی۔۔

وہ یہ سوچ کر مسکرانے لگی۔۔

********

وہ سامنے کُرسی پر بیٹھی رامش کو نشیلی نظروں سے گُھور رہی ہے۔۔

ویسے کتنے حوصلے والی ہو تم لڑکی اتنا سب کرنے کے بعد بھی تمہاری آنکھوں میں ذرا شرم نہیں ذرا خوف نہیں۔۔

رامش کی نظریں اپنے لیپ ٹاپ پر تھی۔۔

تم تو مجھے دیکھ ہی نہیں رہے پھر کیسے کہہ سکتے ہو کہ میری آنکھوں میں ذرا شرم نہیں ذرا خوف نہیں ہے۔۔

دیکھ لیا تھا میں نے تمہاری آنکھوں میں جب تم واش روم سے باہر آٸی تھی۔۔

وہ طنزیہ مسکرایا۔۔

جو بھی مجھ سے پوچھنا ہے جلدی پوچھو اور مجھے یہاں سے باہر نکالو زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔

وہ تلخ لہجے میں بولی،

کیوں جا کر چوریاں کرنی ہے کیا تم نے ؟؟

کیا کرتی ہو تم اتنے پیسوں کا ؟؟

جتنی تم چوریاں کر چکی ہو میرے خیال سے چار پانچ بنگلے دو چار گاڑیاں نوکر چاکر سب ہوں گے تمہارے پاس۔۔

اور تم چھوٹا ہاتھ تو کبھی مارتی ہی نہیں بڑے بڑے بنگلوں میں چوریاں کرنے جاتی ہو۔۔

ایک عورت ہو کر تم کیسے اس طرح کی حرکتیں کر سکتی ہو میں تو حیران ہوں تم پر۔۔

اچھی خاصی ہو کوئی اچھی جاب کر کے حلال کماؤ کیا وجہ ہے بہت لالچ ہے کیا پیسے کی ؟؟

وہ بیٹھی بس اسے گھور رہی تھی۔۔

ذرا یہ اپنا نقاب نیچے کرو میں تمہارا حسین چہرہ تو دیکھوں۔۔

سوچنا بھی مت میں ہرگز اپنے چہرے سے نقاب نہیں ہٹاؤں گی۔۔

وہ غصے سے بولی،

مس یشما میں نے بولا ہے اپنے چہرے سے نقاب ہٹاؤ۔۔

میں نہیں ہٹاؤں گی تم نے جو کرنا ہے کر لو۔۔

رامش نے غصے سے اُس کے چہرے سے نقاب ہٹایا تو وہ اس حسین چہرے کو تکتا ہی رہ گیا۔۔

کیا دیکھ رہے ہو مجھے ایسے ہاں ؟؟

تمہاری ہمت کیسے ہوٸی میرا نقاب اُتارنے کی ہاں تم میں ذرا شرم نہیں ہے۔۔

پہلے صرف وہ اُس کی آنکھوں پر مر مٹا تھا مگر چہرہ دیکھنے کے بعد اُسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا بولے۔۔

اُس نے اُس کا وہ رومال ٹیبل پر رکھا جس سے اُس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اور باہر چلا گیا۔۔

کتنا بدتمیز ہے یہ۔۔

عجیب انسان۔۔

وہ بڑبڑاٸی۔۔

مجھے یہاں کیوں بیٹھایا ہے نکالو مجھے یہاں سے۔۔

اُس کی آواز سُن کر انسپیکٹر حسن اندر آیا۔۔

کیوں چیخ رہی ہو ؟؟

وہ بھی یشما کا چہرہ دیکھ کر اُسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔

تم یشما ہی ہو نہ ؟؟

وہ حیرانگی سے بولا،

پاگل ہو کیا تم ؟؟

جاٶ اپنے اُس ڈی ایس پی کو بُلاٶ جا کر۔۔

اتنے میں رامش دوبارہ اندر آیا۔۔

باہر جاٸیں آپ۔۔

اُس نے انسپیکٹر حسن سے کہا،

کون ہو تم لڑکی ؟؟

کس کے لیے یہ سب کررہی ہو ؟؟

کہاں رہتی ہو ؟؟

فیملی میں کون کون ہے تمہاری ؟؟

یشما خاموش بیٹھی تھی۔۔

میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں جواب دو مجھے۔۔

وہ چیخا۔۔

میں تمہیں کسی بھی بات کا جواب نہیں دوں گی۔۔

وہ اُسے گھورتی ہوٸی بولی،

ڈی ایس پی رامش نے اُس کا چہرہ پکڑ کر اپنی جانب کیا۔۔

مجھے سچ سچ بتاٶ کون ہو تم کس کے لیے کام کرتی ہو ؟؟

چھوڑو مجھے۔۔

اُس نے اپنا چہرہ پیچھے جھٹکتے ہوۓ کہا،

اپنے لیے کرتی ہوں میں یہ سب کچھ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے۔۔

اور یہ جو میری پوری گینگ ہے نا یہ بھی مجبوری میں یہ سب کرتی ہے۔۔

کون دیتا ہے یہاں جاب ؟؟

کسی کمپنی میں چلے جاٶ تو وہاں کا آنر ہمیں اپنی سیکٹری رکھنے کے لیے تو تیار ہو جاتا ہے مگر اپنی ہی کمپنی میں کوٸی دوسری جاب نہیں دیتا۔۔

رات بھر اُس آنر کے ساتھ رہو تو ٹھیک ورنہ یُو آر فاٸر۔۔

ہمارے سر پر باپ بھاٸی کا سایہ نہیں تو کیا کریں ہم بھوکے کر جاٸیں ؟؟

جب یہ بنگلوں والے ہمارا صرف استعمال کرنا جانتے ہیں تو کیا ہمارا اتنا سا بھی حق نہیں ہم ان کا مال چُرا لیں ؟؟

میری نظر میں چوری کرنا بالکل بھی غلط نہیں ہے ڈی ایس پی رامش۔۔

تم ہم جیسے چوروں کو تو پکڑ لیتے ہو کبھی اُن درندوں کو بھی جا کر پکڑو جو خُدا بنے بیٹھے ہیں۔۔

جا کر دیکھو کپمنیوں میں فیکٹریوں میں کیسے کیسے لوگ ہیں وہاں پر۔۔

بہت سی لڑکیاں ان درندوں کا نشانہ بن جاتی ہیں مگر میں ایسی نہیں جو دوسروں کی غلامی کروں میرے ساتھ بیس سے پچیس لڑکیاں ہیں جو اپنی عزت بچاتی بچاتی بچ گٸی ہیں نہ جانے اور کتنی مجبور لڑکیاں ہیں جو صرف دو وقت کی روٹی کے لیے خود کے ساتھ سب برداشت کر جاتی ہیں۔۔

میری ماں اتنی بیمار ہوگٸی تھی میرے پاس ایک روپیہ نہیں تھا ان کے علاج کے لیے ایک دو جگہ پر گٸی پیسے مانگنے مگر انہیں پہلے میری عزت چاہٸیے تھی پھر وہ مجھے پیسے دے رہے تھے میری عزت کو یہ بات گوارا نہیں کی پھر میں نے سوچا ایسے تو پھر ایسے ہی سہی۔۔

ڈی ایس پی رامش اُس کی باتیں سُن کر حیران رہ گیا اور اُس سے دُور ہو کر بیٹھ گیا۔۔

بس یا کچھ اور بھی سننا ہے تمہیں ابھی ؟؟

میرے خیال سے اتنا کافی ہے ہاں نہ ؟؟

وہ اُسے دیکھتی ہوٸی بولی،

لے جاٶ اسے واپس جیل میں ڈال دو۔۔

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔ 

یاالله کہاں پھنس گٸی ہوں میں اماں میری راہ تکتی ہوگی کہ کہاں چلی گٸی ہے یشما آٸی کیوں نہیں اب تک گھر لوٹ کر۔۔

پریشانی میں کہیں اماں بیمار ہی نہ ہو جاۓ۔۔

کچھ تو کرنا پڑے گا مجھے۔۔ کسی نہ کسی طرح مجھے یہاں سے نکلنا ہی ہوگا۔۔

وہ اُٹھی اور سلاخوں کے پاس جا کر کھڑی ہوگٸی۔۔

کہاں ہے وہ ڈی ایس پی بُلاٶ اُسے۔۔

صرف نام کا ڈی ایس پی ہے وہ کچھ نہیں کر سکتا وہ سواۓ باتوں کے۔۔

تیار ہو کر بس یہاں وہاں گھومتا رہتا ہے۔۔

بُلاٶ اُسے جلدی۔۔

یشما چیخی۔۔

آخر مسٸلہ کیا ہے تمہارے ساتھ لڑکی منٹ بعد چیخنا شروع کر دیتی ہو۔۔

آواز نہ آۓ اب تمہاری سمجھی۔۔

انسپیکٹر نے کہا،

تو کیا کروں یہاں فالتو میں بیٹھ کر اپنا وقت ضاٸع کروں ؟؟

جلدی سے بُلاٶ اُسے مجھے بات کرنی ہے اُس سے۔۔

یشما نے کہا،

کچھ دیر کے بعد ڈی ایس پی رامش وہاں پہنچ گیا۔۔

سر اس لڑکی کو بہت مسٸلہ ہو رہا ہے کب سے چیخ رہی تھی ڈی ایس پی رامش کو بُلاٶ۔۔

اسے اندر لے کر آٶ۔۔

وہ یہ کہہ کر چلاگیا۔۔

انسپیکٹر یشما کو ایک بند کمرے میں لے گیا جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ایک چھوٹا سا دیوار میں سوراخ تھا جہاں سے ہلکی سی روشنی آ رہی تھی۔۔

تم نے جو کل باتیں کہیں میں ساری رات وہ باتیں سوچتا رہا۔۔

تمہاری تقریباً سب ہی باتیں ٹھیک تھیں مگر ایک عورت چوری کرتی ہوٸی اچھی نہیں لگتی یشما۔۔

آپ امیر کے گھر میں چوری کر رہے ہو اپنی بھوک مٹانے کے لیے آپ کو کیا لگتا خُدا نہیں دیکھ رہا ؟؟

آپ کو کیا لگتا ہے آپ کو گناہ نہیں ہو رہا ؟؟

میں زیادہ بات نہیں کروں گا مگر ہاں اب تمہاری اور تمہاری پوری گینگ کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔۔

تم لوگوں کی جو بھی ضروریات ہوں گی ڈی ایس پی رامش پوری کرے گا مگر۔۔۔

مگر کیاااا ؟؟

یشما نے حیرانگی سے کہا،

مگر تم لوگوں کی سزا یہ ہے جہاں میں کہوں گا ساتھ ساتھ تم سب وہاں جاب بھی کرو گی۔۔

عورت ضرورت پڑنے پر جاب کر سکتی ہے مگر چوری نہیں۔۔

اپنی پوری گینگ کو یہ بات بتا دینا اچھے سے۔۔

اور ہاں یاد رہے میری کڑی نظر ہے تم پر۔۔

تمہارے ایک ایک قدم ایک ایک حرکت پر میری نظر رہے گی اب۔۔

یہ جو تم گُرو بنی پھرتی ہو نہ اپنی گینگ کی تمہیں میں خود تمہارے گھر تک چھوڑ کر آٶں گا اور تمہاری اماں کو بتا آ کر آٶں گا کہ اپنی بیٹی کو اپنے کنٹرول میں رکھو۔۔

اگر تم ایسے سڑکوں پر گھومو گی سرعام تو اُن لوگوں کو تو موقع ملے گا ہی۔۔

یار رکھنا میں موقع صرف ایک بار دیتا ہوں سمجھی۔۔

مجھے جانے دو پلیز میری ماں میرا انتظار کررہی ہوگی۔۔

اُس کے منھ سے یہ الفاظ سُن کر وہ پیچھے مُڑا اور اُسے دیکھنے لگا۔۔

یہ الفاظ اُس کے دل کو جا لگے تھے۔۔

ماں کا لفظ سُن کر شاید رامش کو اپنی ماں کی یاد آگٸی تھی۔۔

رامش دیکھنے میں بہت پتھر دل انسان لگتا تھا مگر وہ بہت نرم دل انسان تھا۔۔

یشما کو جلدی سے گاڑی میں بیٹھاٶ۔۔

میری گاڑی میں بیٹھانا اُسے۔۔

یہ سُن کر انسپیکٹر حسن حیران ہوگیا۔۔

سر آپ کی گاڑی میں کیوں ؟؟

حسن جو کہا ہے وہ کریں آپ اور جلدی کریں۔۔

رامش نے کہا،

**********

ابان کون ہے کل تم سے پوچھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔۔

بتاٶ اب کون ہے وہ ؟؟

نوشین نے کہا،

ک۔۔کوٸی نہیں وہ ویسے ہی بس میرے منھ سے نکل گیا تھا۔۔ تم یہ بتاٶ پیکنگ کرلی تم نے ؟؟

غزل بات نہ پلٹو میری جان چُپ چاپ بتاٶ مجھے کون ہے یہ ابان۔۔

اب تم مجھ سے بھی چھپاٶ گی ؟؟

اُفففف یار۔۔ ابھی نہیں بتا سکتی جب ملو گی تب بتاٶں گی۔۔

افرا آپی کی طبعیت کیسی ہے ؟؟

غزل نے کہا،

آپی ٹھیک ہیں وہ کل بس ویسے ہی اُن کا دل گھبرا گیا تھا۔۔

اچھا چلو ٹھیک ہے ملتے ہیں پھر شام میں۔۔

یہ کہہ کر غزل نے کال بند کر دی۔۔


دیکھیں ماموں اس کو کیسے شوخی ہو رہی ہے یہ۔۔

ہنی نے غزل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

تم کیوں ہر وقت سے جلتے رہتے ہو میرے پیارے بھاٸی ؟؟

میری جوتی بھی نہیں جلتی تم سے آٸی بڑی۔۔

رامش بھاٸی نے جانے کی اجازت کیا دے دی ہے اس کو اس کا تو اترانہ ہی ختم نہیں ہو رہا۔۔

غزل پیکنگ کر لی تم نے ساری بیٹا ؟؟

وقاص ماموں نے کہا،

جی مامو میں نے ساری پیکنگ کر لی ہے ہر چیز ریڈی ہے بس تھوڑی دیر میں آپ مجھے یونیورسٹی چھوڑ ائیے گا۔۔

غزل نے کہا،

تمہاری دوستیں کیسے جائیں گی یونیورسٹی تمہارے ساتھ ہی جائیں گی کیا ؟؟

نہیں ماموں وہ بھی اپنے گھر سے ہی کسی کے ساتھ آٸیں گی۔۔

اگر وہ چاہیں تو ہمارے ساتھ جا سکتی ہیں ہم انہیں پک کر لیں گے راستے سے۔۔

نہیں ماموں چلی جاٸیں گی وہ خود۔۔

بسمہ اور نوشین بہت ٹائم لگاتی ہیں تیار ہونے میں اس لیے وہ خود چلی جاٸیں گی۔۔

چلو ٹھیک ہے جیسا تم کہو۔۔

ویسے ماموں آپ کو کیوں اُن کی اتنی فکر ہو رہی ہے خیر تو ہے نہ ؟؟

غزل نے تمسخرانہ انداز میں کہا،

لو بھٸی مجھے بھلا کیوں فکر ہونے لگی میں تو بس ویسے ہی بول رہا تھا۔۔

کہیں ماموں کو تمہاری کوٸی دوست پسند تو نہیں آگٸی ؟؟

ہنی نے ماموں کو تنگ کرتے ہوۓ کہا،

ہنی کچھ تو شرم کر ایسا کچھ نہیں ہے۔۔

اگر ایسا ہو بھی جاۓ ماموں تو اس میں کوٸی بُراٸی نہیں ہے۔۔

ہنی پھر سے بولا،

بس کر دے ہنی بس کر دے۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

ہاۓ ماموں کیا واقع ہی جو ہنی کہہ رہا ہے کہیں وہ سچ تو نہیں ؟؟

غزل جھٹ سے بولی،

مجھے یہاں سے چلے ہی جانا چاہٸیے یہ دونوں مجھے یہاں نہیں بیٹھنے دیں گے سکون سے۔۔

مزاق کر رہے ہیں یار ماموں کیا ہوگیا ہے بیٹھے رہیں یہاں پر ہی۔۔

ہنی نے کہا،

جا رہی ہوں نا میں اب تو آپ کے لیے لڑکی ڈھونڈ کر ہی آٶں گی ماموں میں۔۔

ہاں ہاں ڈھونڈ لینا اور کہہ بھی کیا سکتا ہوں میں اب۔۔

وہ بیچارہ منھ بنا کر بولا،

اتنے میں ایان بھی وہاں آگیا۔۔

تم کہاں ہوتے ہو بھٸی ؟؟

نہ تمہارے آنے کا پتہ ہے نہ تمہارے جانے کا پتہ ہے نہ تم بولتے ہو کیا چل رہا ہے کوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ ؟؟

وقاص ماموں نے کہا،

مامو یہ پہلے کون سا بولتا ہے جو آپ اسے کہہ رہے ہیں۔۔

ہنی بولا،

ہاں تم بول تو لیتے ہو میرے حصے کا مجھے کیا ضرورت ہے بولنے کی۔۔

یہ کہہ کر ایان وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔۔

پتہ نہیں کیا ہے یہ ہنی کسی کو تو بخش دیا کرو۔۔

غزل نے سرد لہجے میں کہا اور اُٹھ کر وہ بھی اپنے کمرے میں چلی گٸی۔۔


کوٸی میسج ہی نہیں آیا آج تو اس کا۔۔

غزل نے موباٸل چیک کرتے ہوۓ کہا،

ٹاٸم بھی ہو ہی گیا ہے میں تیار ہی ہو جاتی ہوں کچھ کرنے کو تو ہے نہیں۔۔

وہ شاور لے کر جب واش روم سے باہر آٸی تھی سب سے پہلے اُس نے موباٸل چیک کیا کہ کہیں ابان کا میسج تو نہیں آیا مگر اس بار بھی وہ مایوس ہوگٸی۔۔۔

ویسے میں کیوں اُس کے میسج کا ویٹ کررہی ہوں ؟؟

کیا ہوگیا ہے مجھے ؟؟

اُس نے موباٸل رکھا اور بال کنگھی کرنے لگی۔۔

اُس کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی۔۔

اُس نے موباٸل پکڑا اور ابان کو میسج کیا۔۔

میں تھوڑی دیر تک ٹوور پر جانے کے لیے نکلنے لگی ہوں سوچا جانے سے پہلے تمہیں بتا دوں۔۔

میسج کر کے اُس نے موباٸل ساٸڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔

ابان شاہ ابھی گھر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ غزل کا میسج پڑھ کر مسکرانے لگا۔۔

بھاٸی کیا ہوا ایسے مسکرا کیوں رہے ہو خیر تو ہے نہ ؟؟

ابان کی بہن حرم نے کہا،

ک۔۔کچھ نہیں جاٶ پانی لے کر آٶ میرے لیے۔۔

ابان شاہ جھٹ سے بولا،

پانی بھی لے کر آ رہی ہوں اور کھانا بھی کیونکہ بھاٸی مجھے اب اپنے پیپر کی تیاری کرنی ہے سکون سے بیٹھ کر اس لیے ابھی کھانا کھا لو بعد میں مجھے مت کہنا ہے کھانا لے کر آٶ۔۔

کتنی کام چور ہوگٸی ہو نہ حرم تم۔۔

ابان شاہ نے کہا،

کام چور نہیں ہوگٸی میں تھک جاتی ہوں اب میری بھابھی لے آٶ جو آپ کے سارے کام کرے۔۔

بس بس بھابھی لے آٶ پہلے میں اپنے پاٶں پر سٹینڈ تو ہو جاٶں سہی سے کمانے تو لگ جاٶں پھر بھابھی بھی لے آٸیں گے۔۔

ابان شاہ نے گلاس کچن میں رکھا اور باہر چلا گیا۔۔


کتنا وہ ہے ابھی تک میسج کا جواب نہیں دیا۔۔

آج کے لڑکے ہوتے ہی ایسے ہیں اسی لیے مجھے ان لڑکوں پر اعتبار نہیں۔۔

میں نے کیوں میسج کر دیا ہے پاگل ہوگٸی ہوں میں۔۔

بلاک کرتی ہوں اسے۔۔

غزل نے جیسے ہی موباٸل پکڑا ابان کو بلاک کرنے کے لیے تو فوراً اُس کی کال آگٸی۔۔

ہمممممم اب کال کر رہا ہے۔۔

میں بھی اٹینڈ نہیں کروں گی اب اس کی کال۔۔

کہاں ہو ؟؟

کال اٹینڈ کیوں نہیں کر رہی ؟؟

ابان نے غزل کو میسج کیا۔۔

مجھے نہیں کرنی تم سے بات۔۔

غزل نے میسج کا جواب دیا تو ابان نے پھر سے کال کی۔۔

ہیلو ؟؟

کیا ہوا بات کیوں نہیں کرنی میں نے کیا کیا ؟؟

ابان نے کہا،

تمہیں میں نے کتنی دیر پہلے میسج کیا تھا تم نے رپلاۓ کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا۔۔

کیا ہوگیا ہے محترمہ ابھی چھ سات منٹ پہلے ہی تو کیا تھا میسج۔۔ میں ابھی آیا ہی تھا گھر چینج بھی نہیں کیا پانی پیا اور تم سے بات کرنے کے لیے باہر آگیا۔۔

جا رہی ہو ؟؟

ویسے تم نے مجھے کیوں بتایا کہ جا رہی ہو ؟؟

ابان نے کہا،

مطلب مجھے نہیں بتانا چاہٸیے تھا تمہیں ہاں نہ ؟؟

غزل نے سرد لہجے میں کہا،

غلطی ہوگٸی مجھ سے بتانا ہی نہیں چاہٸیے تھا مجھے تمہیں۔۔

نہیں ایسا نہیں کہا میں نے۔۔ اگر دل میں کچھ ہے میرے لیے تو بتا دو جانے سے پہلے۔۔

ایک تو جناب کو خوش فہمی بہت ہے۔۔

غزل نے طنزیہ لہجے میں کہا،

وہاں پر دھیان سے رہنا اور زیادہ گہری کھاٸیوں کے پاس مت جانا۔۔

تم مجھے یہ سب کیوں کہہ رہے ہو ؟؟

اگر دل میں کچھ ہے تو بتا دو ابان شاہ۔۔

وہ جھٹ سے بولی،

ہاۓ دل چیر دیتی ہو مت لیا کرو ایسے نام۔۔

یہ میری بات کا جواب نہیں ہے ابان شاہ۔۔

غزل نے کہا،

میں اگر اظہار کر بھی دوں تو کونسا تم نے مان لینا ہے تم تو لڑنے لگ جاٶ گی میرے ساتھ۔۔

ہمممممم۔۔۔ جب دونوں کے درمیان کچھ ہے ہی نہیں تو بات کرنے کا فاٸدہ نہیں ہے۔۔

غزل نے منھ بناتے ہوۓ کہا،

ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو اس لیے اپنے دل میں میرے لیے کچھ تو لاٶ کوٸی پیار محبت والی بات۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ ہنسنے لگا۔۔

پیار محبت کا تو پتہ نہیں لیکن چلو دوستی کر لیتے ہیں۔۔

غزل نے کہا،

سوچ لو محترمہ دوستی ہو یا محبت نبھانا بہت مشکل ہے۔۔

میری فکر نہ کرو تم اپنا سوچو میں رشتے نبھانے والی لڑکی ہوں۔۔

غزل نے کہا تو ابان مسکرانے لگا۔۔

اوہ اچھا جی۔۔

جی ہاں۔۔ چلو اب میں بس نکلنے لگی ہوں پھر بات ہوگی۔۔

اچھا سُنو۔۔

ابان نے فوراً کہا،

ہاں بولو۔۔

اپنا خیال رکھنا اور رابطے میں رہنا مجھے تمہاری فکر رہے گی۔۔

ابان نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو غزل مسکرانے لگی۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔

یہ کہہ کر غزل نے کال بند کردی اور شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔

ہاۓ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے کتنا اچھا لگتا ہے اس سے بات کر کے۔۔ بیچارے کو میں بس سُناتی ہی رہتی ہوں۔۔

وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر خود سے باتیں کررہی تھی۔۔

********

تم یہ سب کیوں کر رہے ہو ؟؟

میری پوری گینگ کو پکڑا تھا تم نے صرف مجھے ہی کیوں میرے گھر چھوڑنے جا رہے ہو ؟؟

انہیں کیوں نہیں خود چھوڑنے گۓ۔۔

ویسے پہلی بار دیکھا ہے میں نے کہ پولیس آفیسرز خود مجرموں کو گھر چھوڑنے جا رہے ہیں۔۔۔

یشما نے ہنستے ہوۓ کہا،

ہاں کیونکہ ہمیں عورت کی عزت کرنا آتی ہے۔۔

ڈی ایس پی رامش نے کہا،

یشما اُسے گھورنے لگی۔۔

ویسے تمہارے اندر بہت اکڑ ہے ایک نمبر کے اکڑُو ہو تم۔۔

آج تک میرے ساتھ کسی نے اس لہجے میں بات نہیں کی پتہ نہیں کیوں میں تمہیں برداشت کر رہا ہوں۔۔

ڈی ایس پی رامش نے کہا،

اوہ اچھا۔۔

کیوں کر رہے ہو برداشت مجھے ؟؟

کوٸی وجہ ؟؟

اُس نے آٸی برو اچکاتے ہوۓ کہا،

مجھے خود بھی نہیں پتہ میں تمہیں کیوں برداشت کررہا ہوں۔۔

وہ اُسے اک نظر دیکھتا ہوا بولا،

بس بس روک دو یہاں ہی۔۔

وہ یہ کہہ کر فوراً گاڑی سے اُتری اور اپنے گھر کا دروازہ ناک کیا۔۔

رامش بھی اُس کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو مجھے ؟؟

رامش نے کہا،

تم اب کیا مجھے گھر کے اندر تک چھوڑ کر جاٶ گے ؟؟

یشما نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا تو رامش نے ہاں میں سر ہلایا۔۔

مگر کیوں ؟؟

یشما نے کہا،

دیکھنا چاہتا ہوں کتنا خزانہ چھپا رکھا ہے تم نے اندر۔۔

تمہیں میرا گھر دیکھ کر اندازہ نہیں ہوا کیا اس بات کا ؟؟

وہی دیکھ رہا ہوں اتنی بڑی بڑی چوریاں کرتی ہو مگر گھر تو پُرانا سا ہے تمہارا دیکھو دروازہ بھی جگہ جگہ سے ٹُوٹا ہوا ہے کہیں تمہیں ہی نہ چور لُوٹ کر لے جاٸیں۔۔

رامش نے طنزیہ لہجے میں کہا تو یشما کو آگ لگ گٸی۔۔

اوہ۔۔

باتیں کرنا بہت آسان ہے ڈی ایس پی رامش۔۔

میں چوری کر کے سب اپنے گھر ہی نہیں لے آتی تھی اور بھی بہت لوگوں کا پیٹ بھرتی تھی اُن کی مدد کرتی تھی۔۔

وہ نظر آ رہا ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہی حقیقت ہو۔۔

یہ کہہ کر یشما اپنے گھر کا دروازہ زور زور سے بجانے لگی۔۔۔

مجھے نہیں لگتا اندر کوٸی ہے۔۔

مت پیٹو اتنی زور زور سے دروازہ۔۔

وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا،

رامش بس اُس کی آنکھوں میں کھو گیا تھا۔۔

یشما کی آنکھوں نے رامش کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا۔۔

اتنے میں رامش کا موباٸل بجنے لگا۔۔

اُس نے فوراً کال اٹینڈ کی اور یشما کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔

ضرورت کی ہر چیز رکھ لینا اور دھیان سے رہنا زیادہ گہری کھاٸیوں کے پاس جانے کی بالکل بھی جرأت نہ کرنا۔۔

کوٸی بھی مسٸلہ ہو یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو فوراً مجھے کال کر دینا۔۔

میں پھر سے کہہ رہا ہوں غزل زیادہ گہری جگہوں کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی زیادہ اونچاٸی پر جانا ہے۔۔

میرا دل نہیں چاہ رہا تمہیں بھیجنے کو مگر میں تمہاری خواہش کے آگے مجبور ہوں۔۔

رامش غزل کو سمجھا رہا تھا۔۔

بھاٸی آپ فکر نہ کریں میں اپنا خیال رکھوں گی اور جیسا آپ نے کہا بالکل ویسا ہی کروں گی۔۔

ٹھیک ہے ماموں سے کہو تمہیں یونیورسٹی چھوڑ آٸیں۔۔

جی بھاٸی ٹھیک ہے۔۔

یشما سامنے کھڑی اُسے گھور رہی تھی۔۔

یہ کسے اتنا لیکچر دے رہے ہو ؟؟

کون ہے یہ غزل ؟؟

بہن ہے میری۔۔

رامش نے جواب دیا۔۔

اوہ بہن کی اتنی فکر۔۔

یشما نے ہنستے ہوۓ کہا،

ظاہر ہے ایک ہی تو بہن ہے میری اُس کی فکر نہیں ہوگی تو کس کی ہوگی۔۔

رامش نے سیریس انداز میں کہا،

ہمممممم۔۔۔ کٸیرنگ بندہ ہے بھٸی۔۔

یشما بڑبڑاٸی۔۔

کچھ کہا تم نے ؟؟

رامش بولا،

ن۔۔نہیں کچھ نہیں کہا میں نے۔۔

ساتھ والے گھر سے ایک لڑکا باہر آیا اور یشما کو دیکھ کر اُس کی جانب بڑھا۔۔

یشما تمہاری امی کل رات سے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہیں تم کہاں تھی ؟؟

وہ تمہاری ٹینشن میں کل یہاں باہر گر گٸی تھی انہیں شاید چکر آگیا تھا۔۔

ک۔۔کیاااا ؟؟

کہاں ہیں اماں کس ہاسپٹل میںں ہیں ؟؟

ک۔۔کون لے کر گیا تھا انہیں ہاسپٹل ؟؟

محلے کے ایک دو لوگ اور تمہارے وہ چاچو بھی آگۓ تھے۔۔ وہ غلط بول رہے تھے تمہارے بارے میں وہ۔۔

یشما کے من میں آگ لگ گٸی اپنے چاچو کا سُن کر۔۔

الله کیا ہوگیا ہے اماں کو میں ہاسپٹل جا رہی ہوں۔۔

رُکو یشما۔۔

رامش نے کہا،

اب رُکنے کا وقت نہیں ہے یہ سب کچھ تمہاری وجہ ہوا ہے۔۔

اگر تم مجھے نہ بند کرتے جیل میں تو میری اماں اس وقت ہاسپٹل میں نہ ہوتی۔۔

اچھا تو اب تم ہر چیز کا الزام مجھے دے رہی ہو ؟؟

چُپ کر کے گاڑی میں بیٹھو میں تمہارے ساتھ جاٶں گا ہاسپٹل۔۔

مجھے اب تمہارے کسی احسان کی ضرورت نہیں ہے سمجھے تم۔۔

میں نے کہا گاڑی میں جا کر بیٹھو سمجھ نہیں آ رہی تمہیں میری بات ؟؟

یشما غصے سے گاڑی میں جا کر بیٹھ گٸی کیونکہ اُس کے پاس اس وقت کوٸی دوسرا چارا نہیں تھا۔۔ 

وہ نہیں ملنا چاہتی کسی سے بھی پلیز تم چلے جاٶ۔۔

میں اُن سے ملاقات کیے بغیر نہیں جاٶں گا یہاں سے جا کر انہیں بتا دیں کہ ایان ہے۔۔

اُفففف الله کتنا ڈھیٹ لڑکا ہے یہ۔۔

وہ سرد لہجے میں بولی،

جاٶ جا کر بتاٶ انہیں جلدی سے۔۔

ایان نے کہا،

تمہاری وجہ سے روشنی اُس دن کے بعد کسی سے ملاقات نہیں کر رہی۔۔

نہ جانے اُس دن تم کیا بول کر گۓ ہو اُسے۔۔

وہ ہم سب کے لیے کماتی ہے اگر وہ کماۓ گی نہیں تو ہم کھاٸیں گے کہاں سے ؟؟

ایان اُس کا منھ تکتا رہ گیا۔۔

تم لوگوں نے اُس معصوم کو کمانے کے لیے رکھا ہوا ہے وہ بھی اتنے غلط طریقے سے ؟؟

شرم آنی چاہٸیے تمہیں کیسی لڑکی ہو تم ؟؟

ایک عورت ہی دوسری عورت کی دشمن ہے یہاں۔۔

اوۓ ہیلو۔۔

صرف وہ اکیلی ہی نہیں یہاں یہ کام کر کے کماتی اور بھی بہت ہیں اور میں خود بھی اتنا تو کما ہی لیتی ہوں کہ دو وقت کی روٹی مل جاۓ۔۔

ایان کو اُس کی باتوں سے اُلجھن ہو رہی تھی۔۔

پیٹ بھرنے کے لیے اتنا غلط راستہ اپنایا تم نے ؟؟

اُس خُدا سے مانگو وہ سب دینے والا ہے۔۔

ایسے اس طرح مردوں کے سامنے ناچ گانے سے انہیں اپنا جسم دینے سے پیٹ بھرنے سے اچھا ہے تم مر جاٶ سچ میں۔۔

میں یہ الفاظ بالکل بھی کہنا نہیں چاہتا تھا مگر تمہاری باتوں نے مجھے یہ الفاظ منھ سے نکالنے پر مجبور کیے ہیں۔۔

روشنی کو بھی تم جیسی نے ہی مجبور کر رکھا ہے مگر اب وہ مزید اس مجبوری کا شکار نہیں ہوگی میں لے جاٶں گا اُسے یہاں سے۔۔

ایان نے تلخ لہجے میں کہا،

تم ایسا نہیں کر سکتے سمجھے ؟؟

تم اُسے کہیں نہیں لے جا سکتے۔۔ اُسے لوگوں میں لے جا کر تم اپنی ہی عزت کم کرو گے۔۔

عزت کی بات تم مت کرو تمہارے منھ سے عزت کا لفظ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔۔

ایان نے اُسے گھورتے ہوۓ کہا،

یہ شور کیوں مچا رکھا ہے تم لوگوں نے سکون سے ریڈیو بھی سننے نہیں دیتے۔۔

اُس اڈے کی مشہور عورت ببن جس کے انڈر میں ساری لڑکیاں اس کھنڈر میں رہ کر کام کرتی تھیں۔۔

تُھو۔۔ اُس نے پان کو ایک طرف تھوکا اور ایان کے پاس آ کر بیٹھ گٸی۔۔

کس سے ملنا ہے لڑکے ؟؟

شکل و صورت سے تو بہت ہی شریف گھرانے کے لگ رہے اور امیر ترین بھی۔۔

وہ ایان کو سر سے پاٶں تک گھورتی ہوٸی بولی،

ببن جی یہ روشنی سے ملنے آتا ہے پہلے بھی آیا تھا پیسے دیے بغیر ہی چلا گیا تھا اب آپ خود نمنٹ لیں اس سے۔۔

زُمر نے ایان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

تو تمہیں ہمارے اڈے کی سب سے خوبصورت لڑکی پسند ہے ہمممم۔۔۔

جانتے بھی ہو اُس سے ملنے والا شخص ہمیں کتنے روپے دے کر جاتا ہے ؟؟

میں تمہیں اُس سے ملنے کا ایک روپیہ بھی نہیں دوں گا سمجھی۔۔

اگر تمہیں پیسے چاہٸیے ہیں تم ویسے ہی لے لو مجھ سے لیکن روشنی کو اس کام کے لیے استعمال کرنا بند کرو۔۔

وہ اُسے سر سے پاٶں تک گھور رہی تھی۔۔

لگتا ہے تمہیں روشنی سے محبت ہو گئی ہے ہاہاہاہا۔۔

وہ یہ کہہ کر زور زور سے ہنسنے لگی۔۔

پہلا شخص دیکھا ہے جسے اڈے کی لڑکی سے محبت ہو رہی ہے۔۔

وہ تمسخرانہ انداز میں بولی،

مجھے روشنی سے ملنا ہے کہاں ہے وہ ؟؟

وہ چیخا۔۔۔

شی۔۔۔

یہاں پر تمہارے علاوہ اور بھی مرد موجود ہیں جو اپنی پیاس بجھا رہے ہیں رقص دیکھ رہے ہیں اُن کی ملاقات میں رکاوٹ مت پیدا کرو۔۔

اُس ببن کی عجیب باتوں پر ایان کو شدید غصہ آ رہا تھا۔۔

کہیں روشنی سے کوٸی ملاقات نہیں کرنے نہیں آیا ؟؟

وہ یہ کہتا ہوا روشنی کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔

دروازہ ناک کر کے وہ اندر داخل ہوا۔۔

روشنی ؟؟

یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ ایان نے کہا،

وہ زمین پر ایک کونے میں پڑی تھی۔۔

روشنی کیا ہوا ؟؟

وہ اُس کی جانب بڑھا اور اُسے اُٹھا کر بیڈ پر بیٹھایا تو اُس نے دیکھا اُس کے پیروں میں گھنگرو بندھے تھے۔۔

وہ گھنگرو دیکھ کر اُسے ایسا لگا کہ جیسے روشنی نے کسی کے لیے رقص کیا ہے۔۔

کیا ہوا ہے طبعیت تو ٹھیک ہے نہ آپ کی؟؟

تم کیوں آۓ ہو یہاں ؟؟

جاٶ یہاں سے چلے جاٶ اور آٸندہ کبھی مت آنا۔۔

وہ سرد لہجے میں بولی،

ہ۔۔ہوا کیا ہے کچھ کہیں تو سہی ؟؟

میری یہ حالت صرف اور صرف تمہاری وجہ سے ہوٸی ہے۔۔

ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آپ روشنی ؟؟

کیا میں نے کچھ غلط کیا ہے ؟؟

تم نے اُس دن میرے پچھلے سارے غموں کو کُھرید کر رکھ دیا تھا۔۔ وہ باتیں جو میں کبھی یاد بھی نہیں کرنا چاہتی تھی تم نے وہ سب کھول کر میرے سامنے رکھ دی۔۔

اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔

مجھے معاف کر دیں میرا ایسا کوٸی مقصد نہیں تھا۔۔

میں نہیں جانتی تم یہاں کس مقصد کے لیے آۓ ہو اگر تمہیں میرا جسم چاہٸیے ہے تو لے لو مگر پلیز بار بار اس در پر آ کر میرے زخموں کو تازہ مت کرنا۔۔

روشنی کو بہت شدید محبت ہوٸی تھی اک بےوفا سے روشنی نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا اُس کے لیے مگر اُس نے دھوکہ کے سوا روشنی کو کچھ نہیں دیا تھا بس تب سے اُس کا اعتبار محبت پر سے اُٹھ چکا تھا۔۔

وہ دوبارہ ایسی غلطی ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

میں آپ سے محبت کرتا ہوں میں آپ کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔۔

یہاں سب لوگ آپ کو صرف استعمال کر رہے ہیں آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں ؟؟

آپ میرے ساتھ چلیں۔۔

ایان نے کہا،

کیوں ایسی باتیں کر کے میرا دل دُکھا رہے ہو ؟؟

میں آپ کو دنیا جہاں کی ساری خوشیاں دوں گا بس آپ یہاں سے چلیں میرے ساتھ۔۔

وہ اُٹھ کر بیٹھی تو ایان نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر فوراً اُسے ٹشو دیا۔۔

آپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟

اگر آپ میری باتوں سے ہرٹ ہو رہی ہیں تو ٹھیک ہے پھر میں چلا جاتا ہوں اور آٸندہ کبھی نہیں آٶں گا یہاں۔۔

روشنی نے اپنے آنسو صاف کیے اور گھنگرو اپنے پیر سے اُتارنے لگی۔۔

کیا میں آپ کی مدد کر دوں یہ اُتارنے میں ؟؟

مدد کرنے کے بہانے مجھے ٹچ کرو گے پھر آہستہ آہستہ میرے بدن میں سمانے کی کوشش کرو گے ہاں نہ ؟؟

وہ ایک دم سے اُس سے دور ہوگیا۔۔

آپ غلط سوچ رہی ہیں۔۔

ہاں میں غلط سوچتی ہوں کیونکہ میں دنیا کی نظر میں ایک غلط عورت ہوں۔۔

سوچنے کی بات ہے نہ کہ امیر ترین خوبصورت شخص کو بھلا مجھ طواٸف سے محبت کیوں ہوگی ؟؟

اس کے پیچھے ضرور کوٸی مقصد ہے۔۔

مرد کبھی بھی ایسی عورت سے محبت نہیں کر سکتا جس کے بارے میں وہ سب کچھ جانتا ہو اور ایسی عورت جو دن میں نہ جانے کتنے مردوں کے لیے رقص کرتی ہو اُن کا دل لبھاتی ہو اُس سے محبت ہو مرد کو ناممکن ہے یہ۔۔

اس لیے بہتر ہے چلے جاٶ یہاں سے اور آٸندہ کبھی بھی اس طرف آنے کی کوشش مت کرنا یہ جگہ تم جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔۔

ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں مگر یاد رکھیے گا آپ سے محبت ہے مجھے۔۔

آپ کو بھی تو محبت ہوٸی تھی نہ ایک وقت میں۔۔

آپ تو اچھے سے جانتی ہوں گی اس احساس کو ہاں نہ ؟؟

پھر آپ کیسے ایک محبت کرنے والے شخص کے احساسات کی تذلیل کر سکتی ہیں۔۔

جب کوٸی میری محبت کی قدر نہیں کر سکا تو میں کیوں کسی کی محبت کی قدر کروں ؟؟

نفرت ہے مجھے اس محبت سے اب۔۔ یہ محبت ہی تو ہے جس نے مجھے ایک باغی عورت بنا دیا ہے ایک طواٸف بنا دیا ہے۔۔

میرے پاس جتنی محبت تھی میں کر چکی ہوں ایک بےوفا سے۔۔ اب میرے پاس نفرت کے سوا کچھ نہیں بچا۔۔

ٹھیک ہے روشنی اگر آپ کو میری وجہ سے تکلیف ملتی ہے تو میں اب یہاں کبھی نہیں آٶں گا۔۔

نہ جانے کیوں میں نے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا افسردہ ہو کر چلا گیا۔۔

اُس کے جانے کے بعد روشنی نے خود کو کمرے میں قید کر لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔

*****

م۔۔میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں ٹاٸم کافی زیادہ ہوگیا ہے کیسے پہنچیں گی آپ گھر ؟؟

وقاص نے افرا سے کہا،

ن۔۔نہیں یہاں سے میں ٹیکسی لے کر چلی جاٶں گی گاٶں آپ لیے پریشان نہ ہوں۔۔

افرا نے کہا،

کیسے پریشان نہ ہوں میں رات کے اس وقت آپ کو ایسے اکیلی کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔۔

وہ وقاص کی بات پر مسکراٸی۔۔

آپ کو کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے میری ؟؟

بس ہو رہی ہے آپ گاڑی میں بیٹھے میں اپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔

افرا جا کر گاڑی میں بیٹھ گٸی۔۔

اتنی گرمی تو نہیں ہے پھر آپ کو یہ اتنا پسینہ کیوں آ رہا ہے ؟؟

افرا نے وقاص کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

و۔۔وہ پتہ نہیں مجھے خود نہیں پتہ کیوں اتنا پسینہ آ رہا ہے۔۔

وقاص نے لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں کہا،

کافی دیر تک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔۔

ف۔۔فون نمبر مل سکتا ہے آپ کا ؟؟

پلیز ماٸنڈ نہ کیجۓ گا اگر آپ نہیں دینا چاہتی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔

نہیں مجھے کوٸی مسٸلہ نہیں ہے آپ لے لیں نمبر۔۔

وقاص نے اپنا موباٸل افرا کو دیا۔۔

اس میں اپنا نمبر سیو کر دیں۔۔

کس نام سے سیو کروں ؟؟

افرا نے پوچھا۔۔

امممم۔۔ جو آپ کو بہتر لگے۔۔

وقاص نے کہا،

افرا نے اپنے نام سے ہی نمبر سیو کر کے موباٸل وقاص کو دے دیا۔۔

بس یہاں ہی اُتار دیں مجھے گھر کے پاس چچا یا کوٸی اور نہ دیکھ لے ورنہ بہت ہنگامہ کھڑا ہو جاۓ گا۔۔

ارے آپ ڈر کیوں رہی ہیں کوٸی پوچھے تو بتا دیجٸے گا۔۔

ن۔۔نہیں پلیز آپ مجھے یہاں بس یہاں ہی اتار دیں تھوڑا سا آگے میں چلی جاٶں گی۔۔

ٹھیک ہے جی جیسا آپ کہیں۔۔

وقاص نے گاڑی وہاں ہی روک دی۔۔

بہت شکریہ آپ مجھے یہاں تک چھوڑنے آۓ وہ بھی رات کے اس وقت۔۔

شکریہ کی کوٸی بات نہیں۔۔

وقاص نے افرا کی طرف دیکھتے ہوۓ پیار بھرے لہجے میں کہا،

الله حافظ۔۔

افرا نے مسکراتے ہوۓ کہا اور چلی گٸی۔۔

الله حافظ جی الله حافظ۔۔


گھر اتنا ویران ہوگیا ہے۔۔

اس گھر میں رونقیں صرف اور صرف غزل کے ہونے سے ہیں۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

جی بھاٸی صاحب یہ بات تو ہے گھر بالکل سُنسان ہوگیا ہے۔۔

وقاص نے کہا،

مطلب میرے گھر میں ہونے سے کوٸی رونق نہیں ٹھیک ہے جی ٹھیک ہے۔۔

ایان جھٹ سے بولا،

او شداٸی بیٹیوں کی بات ہی الگ ہوتی ہے تُو سارا دن یہاں بیٹھ کر موباٸل میں مگن رہتا ہے۔۔

چوہدری صاحب بولے۔۔

ہنی منھ بنا کر بیٹھ گیا۔۔

ابو اب رامش بھاٸی اور ماموں کے لیے لڑکیاں دیکھیں اچھی اچھی اور شادی کریں ان کی۔۔

لڑکیاں ؟؟

کیا مطلب ہے تیرا ؟؟

وقاص ماموں نے حیرانگی سے کہا،

میرا مطلب ہے ایک لڑکی آپ کے لیے اور ایک رامش بھاٸی کے لیے۔۔

ہنی نے کہا،

ہاں اب ویسے ان دونوں کی شادی کر دینی چاہٸیے گھر میں رونق شونق لگے۔۔ کرتا ہوں میں بات اپنے ایک دوست سے اس بارے میں وہ ڈھونڈے گا اچھے اچھے رشتے۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

وقاص ماموں کے ذہن میں فوراً سے افرا کا خیال آگیا۔۔

******

کیسے گزریں گے یہ تین دن ؟؟

ابان شاہ باہر ہال میں یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا۔۔

میسج کر کے پوچھتا ہوں پہنچ گٸی ہے یا نہیں ؟؟

محترمہ پہنچ گٸی ہو کیا اپنی منزل پر ؟؟

ابان نے غزل کو میسج کیا۔۔

میسج کر کے وہ کافی دیر تک باہر بیٹھا رپلاۓ کا ویٹ کرتا رہا۔۔

منھ بنا کر ابان شاہ اندر کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔۔

کچھ دیر کے بعد ابان شاہ کا موباٸل واٸبریٹ ہونے لگا۔۔

اُس نے دیکھا تو غزل کی کال تھی۔۔

وہ فوراً اُٹھا اور باہر جا کر کال اٹینڈ کی۔۔

سوگۓ تھے کیا ؟؟

غزل نے کہا،

ہاں سوگیا تھا لیکن نیند میں بھی تمہارے ہی میسج کا ویٹ ہو رہا تھا۔۔

ابان نے مسکراتے ہوۓ کہا،

خیریت ؟؟

کیوں ویٹ ہو رہا تھا کوٸی خاص وجہ ؟؟

غزل جھٹ سے بولی،

وجہ کیا ہونی ہے۔۔ تم خود ہی بتا دیتی پہنچ کر۔۔

ہم ابھی کچھ دیر پہلے ہی پہنچے ہیں میں گھر کال کرنے ہی والی تھی کہ تمہارا میسج دیکھا تو پہلے تمہیں کال کر لی۔۔

میں خیر خیریت سے پہنچ گئی ہوں ابان شاہ۔۔

آرام سے سو جاؤ اب تم۔۔

اچھا سنو تو صحیح۔۔۔

ہاں بولو کیا بات ہے جلدی جلدی بولو کہیں میری دوست ہیں نہ آ جائیں پیچھے سے۔۔

غزل نے کہا،

تم وہاں پر بالکل اکیلی ہو مطلب گھر والوں میں سے تو کوئی نہیں ہے نا تمہارے ساتھ تو اپنا بہت بہت خیال رکھنا۔۔

اچھا ٹھیک ہے تم بھی اپنا خیال رکھنا۔۔

اب میں جلدی سے گھر کال کر کے بتا دیتی ہوں وہ لوگ پریشان نہ ہو رہے ہوں۔۔

یہ کہہ کر اس نے کال بند کر دی۔۔

یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ؟؟

اس سے بات کیے بنا مجھے چین کیوں نہیں آ رہا تھا ؟؟

ابان شاہ ہوش کر۔۔

وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔۔

********

اماں میں تیرے پاس ہوں اب میں تجھے چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جاٶں گی۔۔

یشما اپنی اماں کا ہاتھ چومتی ہوٸی بولی،

کہاں چلی گٸی تھی تُو ؟؟

میری تو جان ہی نکل گٸی تھی۔۔

تُو اچھے سے جانتی ہے تو مجھے کچھ دیر نظر نہ آئے تو میرا دل بےچین پڑ جاتا ہے۔۔

اماں میں وعدہ کرتی ہوں اب کہیں نہیں جاٶں گی۔۔

رامش ایک ساٸڈ پر کھڑا تھا۔۔

کچھ دیر کے بعد اُس نے یشما کو باہر کی طرف اشارہ کیا اور باہر جا کر کھڑا ہوگیا۔۔

یشما باہر گٸی۔۔

ہاں بولو۔۔

مجھ سے کیوں خفا ہو ؟؟

تمہیں تو خود سے خفا ہونا چاہٸیے تمہاری ماں کی یہ حالت صرف اور صرف تمہاری وجہ سے ہوٸی ہے۔۔۔

شرم کرلو اب تو میڈم یشما اور چھوڑ دو یہ سارے کام۔۔

قدر کرو اپنی ماں کی جن کے پاس نہیں ہے اُن کا دُکھ پوچھ کر دیکھو کس قدر ویران ہے یہ دنیا ماں کے بغیر۔۔

یشما بیچارہ منھ بنا کر اُسے دیکھنے لگی۔۔

کیا تمہاری امی نہیں ہیں ؟؟

اُس نے دھیمے لہجے میں کہا تو رامش نے نظریں جھکا لی۔۔

نہیں میری امی کا انتقال ہوگیا ہے وہ بہت دیر پہلے کی ہمیں چھوڑ کر جا چکی ہیں اس دنیا سے۔۔

رامش نے افسردہ لہجے میں کہا،

اوہ سوری۔۔ سُن کر افسوس ہوا۔۔

الله انہیں جنت میں جگہ دے۔۔

آمین۔۔

آمین۔۔

کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کال کر دینا۔۔

تم پہلے ہی بہت زیادہ کر چکے ہو میرے لیے رامش۔۔

وہ بولی،

میں نے کہا ہے اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہوگی تو مجھے کال کر دینا۔۔

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔

یشما اُسے جاتے ہوۓ دیکھتی رہی۔۔

واہ یشما تُو تو بڑی لکی ہے ڈی ایس پی تیرے آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔۔

ویسے جو بھی ہے چاہے کھڑوس ہے ضدی ہے مگر بندہ بڑا ہینڈسم ہے۔۔

وہ وہاں کھڑی سوچ کر مسکرانے لگی۔۔

چوہدری صاحب اور وقاص باہر ٹی وی لاٶنج میں بیٹھے چاۓ پی رہے تھے۔۔

ہنی باہر سے آیا تو بہت اُداس دکھاٸی دے رہا تھا۔۔ہنی کہاں تھے اتنی دیر سے ؟؟

تم نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھایا اتنے دنوں سے کہاں ہوتے ہو ؟؟

سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

چوہدری صاحب نے کہا،

یہاں ہی دوستوں کے ساتھ تھا ابو جی۔۔

بس ویسے ہی پیپرز ہونے والے ہیں بہت برڈن ہے اس لیے زیادہ ٹاٸم یونیورسٹی ہی ہوتا ہوں۔۔

میں چینج کر کے آتا ہوں۔۔

یہ کہہ کر ایان کمرے میں چلا گیا۔۔

جاٶ اس سے پوچھو کیا مسٸلہ ہے کیوں اتنا بجھا بجھا سا ہے یہ۔۔

ماں ہوتی ان کی تو مجھے اتنی پریشانی نہ ہوتی ہر وقت ان بچوں کا خیال رہتا ہے مجھے۔۔

آپ پریشان نہ ہوں بھاٸی صاحب میں پوچھتا ہوں اس سے۔۔

وقاص نے کہا،


دروازہ ناک کیا اور وقاص اندر کمرے میں داخل ہوا۔۔

ایان صوفے پر بیٹھا نہ جانے کس سوچ میں گُم تھا۔۔

ایان ؟؟

ایان ؟؟

ج۔۔جی ماموں آٸیں بیٹھیں۔۔

کن سوچوں میں گُم ہو ؟؟

ک۔۔کہیں نہیں۔۔

ایان جھٹ سے بولا،

کیا ہوا ایان نہ تم کسی کے ساتھ بولتے ہو نہ بیٹھتے ہو کیا بات ہے بتاٶ مجھے۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

نہیں ماموں کچھ بھی نہیں بس دل نہیں چاہتا بولنے کو اور تو کوٸی بات نہیں ہے۔۔

ایان نے کہا،

ایان دیکھو کوٸی بھی کیسی بھی بات ہو ہم سےچھپانا مت۔۔

اگر کوٸی پریشانی ہے تو ڈسکس کرو میرے ساتھ تم ایسے اُداس اچھے نہیں لگتے۔۔

ماموں کیا کبھی آپ کو کسی سے محبت ہوٸی ہے ؟؟

ایان نے کہا،

محبت۔۔

نہیں کیوں ؟؟

تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟؟

کیا تمہیں کسی سے محبت ہوٸی ہے ؟؟

وقاص نے حیرانگی سے کہا،

جی ہوٸی ہے مجھے محبت ایک لڑکی سے۔۔ ماموں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے اظہار محبت میں بہت جلدی کر دی۔۔

مجھے کچھ وقت لینا چاہٸیے تھا اگلے کے دل کا حال جاننا چاہٸیے تھا اُس کے بعد اظہار کرنا چاہٸیے تھا۔۔

وہ اُداس لہجے میں بولا تو وقاص ماموں نے اُس کے کندھے پر تھپکی دی۔۔

کون ہے وہ لڑکی ؟؟

کہاں ملے تم اُس سے کیا کہا اُس نے تم سے ؟؟

مت پوچھیں کیا کہا اُس نے۔۔ جو بھی کہا ہے بس اچھا نہیں کہا ہے۔۔

ماموں میرا دم گھٹنے لگتا ہے جب اُس کے وہ دل چیر دینے الفاظ میرے ذہن میں آتے ہیں۔۔

وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے ماموں ؟؟

وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔

کیا ہوگیا ہے یار تجھے حوصلہ کر۔۔

وقاص ماموں نے فوراً اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔

بہت ہی بدقسمت ہے جس نے تمہاری محبت کو ٹھکرایا ہے۔۔

تم تو بہادر بیٹے ہو ہمارے۔۔

اتنے پیارے ہو کیا کمی ہے تم میں ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں تم پر۔۔

مگر ماموں مجھے اُن ہزاروں سے مطلب نہیں۔۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے اُس سے اپنی محبت کا اظہار کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔

الله سے دعا مانگو وہ تمہیں صبر دے گا اور تمہارے حق میں بہتر کرے گا۔۔

اپنی محبت اپنے سارے معاملات اللہ کے سپرد کر دو دیکھنا وہ بہت اچھا کرے گا تمہارے ساتھ۔۔

اللہ تعالی ہم سے وہ چیز دور کر دیتا ہے جو ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی۔۔

وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔۔ ہو سکتا ہے یہ اللہ تعالی کی طرف سے تم پر آزمائش ہو تم صرف اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھ کر اس سے مدد مانگو اگر یہ محبت تمہارے حق میں بہتر ہوئی تو وہ ضرور تمہیں عطا کرے گا جیسے بھی کرے گا وہ اس رب کا مسئلہ ہے ہمارا کام صرف اس سے مدد مانگنا ہوتا ہے دعا کرنا ہوتا ہے۔۔

پسندیدہ چیز پر تو وہ رب ویسے بھی آزماتا ہے وہ تمہاری تڑپ دیکھتا ہے تمہاری لگن دیکھتا ہے۔۔

بہت خاص ہو تم ایان۔۔

یہ محبت نصیب والوں کو ہوتی ہے۔۔

اس کے ماموں نے اسے سمجھایا۔۔

********

کہاں رہی پرسوں پوری رات تم ہاں ؟؟

میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ اب گھر سے مت نکلنا شاید تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آتی۔۔

تمہاری ماں تمہارے لیے پوری رات تڑپتی رہی تم نے اس محلے میں اس شہر میں ہمارا رہنا مشکل کر دیا ہے۔۔

کون تھا وہ جس کے ساتھ تم گھر آٸی تھی ؟؟

پورے محلے نے تمہیں اس کے ساتھ دیکھا ہے۔۔

یشما کے چچا نے اُسے گھورتے ہوۓ کہا،

وہ جو بھی تھا چچا تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے اور میں جہاں بھی جاؤں تمہیں اس سے کیا ؟؟

یہ میری زندگی ہے اس پر حکمرانی بھی صرف میری ہی چلے گی۔۔

جاؤ جا کر اپنی بیٹی پر دھیان دو کہیں کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ نہ جائے ابھی پچھلے دنوں بھی میں نے اس کو ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا ایک ریسٹورنٹ میں۔۔

یشما نے اپنے چچا کے سینے میں آگ لگاتے ہوۓ کہا،

یشما کا چچا جو ایک نمبر کا فلرٹی اور گھٹیا انسان تھا۔۔

یشما کے ساتھ بھی اُس نے کافی بار زبردستی کرنے کی کوشش کی مگر یشما کسی کے ہاتھ آنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔

اُس کا چچا بہت ہی لالچی تھا یشما کے باپ کی وفات کے بعد وہ اُن کا پُرانا سا گھر بھی اُن سے چھیننا چاہتا تھا۔۔

بکواس بند کرو میری بیٹی تمہارے جیسی اوارہ نہیں ہے سمجھی تم ؟؟

یشما قہقہ لگا کر زور زور سے ہنسنے لگی۔۔

میرے پیارے چچا یہ غصہ تم صرف ہم پر ہی کر سکتے ہو کیونکہ تمہاری اولاد تو تمہیں منھ لگاتی نہیں۔۔

بیوی تمہاری پورے محلے کی رپورٹ رکھتی ہے ایک لڑکی تو اُس سے سنمبھالی جاتی نہیں کس کام کی ہے وہ بس باتیں کرنا آتی ہیں اُسے یا سج سنور کر چھت پر جا کر لفنڈروں کو تاڑ لیتی ہے۔۔

تھوڑا سا دھیان اپنے گھر پر بھی دے لو چچا۔۔ کیا ہر وقت ہمارے ہی سیکیورٹی گارڈ بنے پھرتے ہو۔۔

تم خود کو سمجھتی کیا ہو ہاں ؟؟

میری بیوی بیٹی کے بارے میں ایک لفظ بھی منھ سے مت نکالنا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔

تم سے میں پوچھ رہا ہوں وہ لڑکا کون تھا جس کے ساتھ تم کل آٸی تھی بڑی سی گاڑی میں ؟؟

سارا محلہ باتیں بنا رہا ہے۔۔

جس نے بتایا ہے اُسی سے پوچھ لو جا کر میرے پاس تمہاری فالتو باتوں کا جواب نہیں ہے۔۔

یشما نے اپنا بیگ پکڑا اور بال سیٹ کرنے لگی۔۔

یہاں ہی بیٹھو گے اگر تو مجھے بتا دو تاکہ میں باہر کا تالا لگا کر ہاسپٹل کے لیے نکل جاؤں کیونکہ میری ماں وہاں پر میرا انتظار کر رہی ہے۔۔

یشما نے سرد لہجے میں کہا،

تم جو کچھ بھی کر رہی ہو نا اچھا نہیں کر رہی لڑکی۔۔ اس لڑکے کا تو میں پتہ لگا کر ہی رہوں گا کون ہے وہ اور ایسی مار ماروں گا اُسے کہ کبھی تمہاری طرف نہیں آئے گا۔۔

وہ یشما کی جانے بڑھتا ہوا بولا،

دُور ہٹو مجھ سے۔۔

یشما نے اُسے دھکا دیتے ہوۓ کہا،

کبھی نہ کبھی تو تم میرے ہاتھ لگ ہی جاٶ گی دیکھنا اُس دن کروں گا کیا میں تمہارے ساتھ۔۔

وہ قہقہ لگا کر زور زور سے ہنسنے لگا۔۔

*****

پورا دن گزر گیا محترمہ کی کوٸی خبر ہی نہیں۔۔

ابان نے موباٸل چیک کرتے ہوۓ کہا،

میں ہی میسج کر کے پوچھ لیتا ہوں اس نے خود تو کچھ بتانا نہیں ہوتا۔۔

ابان نے غزل کو دو تین میسجز کر دیے۔۔

میسجز کرنے کے بعد وہ کافی بےچینی سے اُس کے رپلاۓ کا ویٹ کرنے لگا۔۔

ابان کیا ہوا اتنے چُپ چُپ کیوں بیٹھے ہو ؟؟

اُس کی امی نے کہا،

کچھ نہیں امی بس ویسے ہی۔۔

آٶ باہر آ کر بیٹھو تازہ ہوا میں۔۔

ابان اُٹھا اور باہر جا کر بیٹھ گیا۔۔

موباٸل ہاتھ میں لیے وہ یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا اور بار بار وہ موباٸل آن کر کے چیک کر رہا تھا۔۔

بھاٸی کیا بات ہے کس کے میسج کا انتظار ہو رہا ہے جو منٹ بعد موباٸل آن کر کے دیکھتے ہو ؟؟

حرم نے ابان کو تنگ کرتے ہوۓ کہا،

اُفففف بھلا میں نے کس کے میسج کا ویٹ کرنا ہے ہاں ؟؟

وہ جھٹ سے بولا،

بھاٸی جس دن سے چوہدری صاحب کی بیٹی ہمارے گھر سے ہو کر گٸی ہے آپ کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے اُس دن کے بعد سے۔۔

حرم نے ہنستے ہوۓ کہا تو ابان بھی مسکرانے لگ گیا۔۔

بہت تیز ہو رہی ہو حرم تم۔۔

ان سب باتوں پر دھیان دینے سے اچھا ہے پڑھاٸی پر دھیان دو۔۔ نمبر اچھے نہ آۓ تو بہت پٹو گی مجھ سے۔۔

ابان شاہ نے کہا،

بھاٸی آپ میرے نمبروں کی فکر چھوڑو اپنا سوچو آپ نے کیسے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہے اُس سے۔۔

رُکو ذرا امی کو بُلاتا ہوں میں کیسی باتیں کررہی ہے یہ لڑکی۔۔ کہاں سے سیکھی تم نے یہ باتیں ہاں ؟؟

امی ؟؟

بات سنیں میری۔۔

بلا لو امی کو بلا لو کوئی مسئلہ نہیں میں بھی سب کچھ بتا دوں گی امی کو۔۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے بھاگ گٸی۔۔

بہت تیز ہو گئی ہے یہ لڑکی پتہ نہیں کیسی کیسی باتیں کرنے لگ گئی ہے۔۔

ابان شاہ سرد لہجے میں بولا،


غزل کی کال نہیں آٸی کیا ؟؟

میرا دل بہت بےچین ہو رہا ہے اُس کی کسی دوست کا نمبر ہے کیا ہنی تمہارے پاس ؟؟

ابو جی میرے پاس کیوں ہوں گے اُس کی دوستوں کے نمبر۔۔

ہنی جھٹ سے بولا،

او پُتر میں کہا شاید رکھا ہو تُو نے اُس کی کسی دوست کا نمبر۔۔

نہیں ابو جی میں بڑا شریف بچہ ہوں آپ کا۔۔

ہنی چوہدری صاحب کی طرف دیکھتا ہوا بولا،

ہاں ہاں بڑا شریف پُتر ہے تُو میرا۔۔

چوہدری صاحب نے ہنستے ہوۓ کہا،

بھائی صاحب میرے پاس ہے غزل کی دوست کی بہن کا نمبر اگر اپ کہیں گے تو میں اس سے کال کر کے پوچھ لیتا ہوں۔۔

ہنی اور چوہدری صاحب حیرانگی سے وقاص کو دیکھنے لگے۔۔

ماموں آپ کے پاس کہاں سے آیا وہ بھی اُس کی دوست کی بہن کا نمبر ؟؟؟

ہنی جھٹ سے بولا،

و۔۔وہ اُس دن جب شاپنگ پر گۓ تھے نہ تو تب اُس کی دوست کی بہن نے اپنا نمبر دیا تھا۔۔ نہیں نہیں مجھے یاد آیا وہ اُس کا موباٸل نہیں مل رہا تھا اس لیے کال کی تھی اُس نے میرے موباٸل سے بس اسی وجہ سے نمبر ایکسچینج ہوگیا تھا۔۔

وہ گھبراتا ہوا بولا تو ہنی اور چوہدری صاحب ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔۔

ہم نے تو کچھ کہا ہی نہیں پھر تُو اتنی صفاٸیاں کیوں دے رہا ہے ؟؟

چوہدری صاحب نے ہنستے ہوۓ کہا،

ماموں آپ کے چہرے کا رنگ کیوں اُڑ گیا ہے ؟؟

پانی لاٶں آپ کے لیے ؟؟

ہنی اپنے ماموں کو تنگ کر رہا تھا۔۔

بس کر دے ہنی کیوں بیچارے کو تنگ کر رہا ہے۔۔ جاٶ کال کرو اُسے اور پوچھو جا کر غزل کی خبر لو تاکہ پھر میں سکون سے سو سکوں ورنہ پوری رات اٰسی کا خیال رہے گا میرے ذہن میں۔۔

چلیں ماموں نمبر ملاٸیں ذرا اُن کا۔۔

ہنی نے اپنے ماموں کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا،

وقاص ماموں کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔

وہ پہلی بار افرا کو کال کرنے لگے تھے۔۔

ہیلو ؟؟

ہیلو وہ میں نے آپ سے پوچھنا تھا کہ آپ کا رابطہ ہوا ہے غزل بسمہ نوشین کے ساتھ ؟؟

غزل کی کوٸی کال نہیں آٸی صبح اُس کا میسج آیا تھا مگر اُس کے بعد کوٸی خبر نہیں۔۔

آپ وقاص بات کر رہے ہیں ؟؟

افرا نے فوراً کہا،

ہنی اپنے ماموں کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔

جی میں وقاص بات کر رہا ہوں۔۔

مجھے بھی صبح ہی میسج آیا تھا نوشین کا اُس کے بعد شاید اُن کے سگنل چلے گۓ ہیں اس لیے رابطہ نہیں کر پاٸی وہ لوگ۔۔

افرا نے کہا،

اوہ ہاں سگنل پرابلم بھی تو ہوتی ہے وہاں جا کر ہم بھی فالتو میں اتنا پریشان ہو رہے تھے۔۔

وقاص نے کہا،

پریشان نہ ہوں جیسے ہی میرا رابطہ ہوگا میں آپ کو اطلاع کر دوں گی۔۔

جی ٹھیک ہے افرا۔۔

یہ کہہ کر وقاص نے کال بند کر دی۔۔

اوہ افرا۔۔

تو ہماری ہونے والی مامی کا نام افرا ہے۔۔

ہنی یہ کہہ کر اونچی اونچی ہنسنے لگا۔۔

بس کر دے ہنی اب تجھے مار پڑے گی مجھ سے۔۔

چلیں ماموں ابو کو بتا دیتے ہیں جا کر وہ پریشان ہو رہے ہیں مامی کو ذرا بعد میں ڈسکس کرتے ہیں۔۔


یہ مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی ؟؟

کیا ہوگیا ہے مجھے میرا دل کیوں اتنا پریشان سا ہوگیا ہے ؟؟

ابان شاہ اُٹھا اور پھر سے باہر صحن میں جا کر بیٹھ گیا۔۔

ابھی تک کوٸی جواب نہیں آیا غزل کا۔۔

کال کرتا ہوں اُسے۔۔

جیسے ہی ابان شاہ نے نمبر ڈاٸل کیا تو نمبر بند جا رہا تھا۔۔

اُس کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگی تھی۔۔

نمبر بند ؟؟

نمبر کیوں بند جا رہا ہے ؟؟

اُس کے ذہن میں عجیب طرح کے خیالات جنم لینے لگے پھر اُس کے ذہن میں اچانک سے خیال آیا ”سگنل پرابلم“ کا۔۔

اوہ ہاں ہو سکتا ہے سگنل نہ آ رہے ہوں۔۔

میں بھی پتہ نہیں کیا کیا سوچنے لگ گیا تھا۔۔

الله کرے وہ جہاں بھی خیریت سے ہو اور جلدی سے واپس آ جاۓ۔۔

وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے میں چلا گیا۔۔

******

مہرون شلوار قمیز اور بالوں میں بنے میسی جُوڑے میں وہ یشما کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔

وہ اُسے دیوانوں کی طرح دیکھے جا رہا تھا۔۔

کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟؟

یشما اُس کی جانب بڑھتی ہوٸی بولی،

تم یشما ہو نا ؟؟

وہ اُس کی کاجل سے سجی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا،

ارے کیا ہوگیا ہے کہیں پاگل واگل تو نہیں ہوگۓ تم ؟؟

یشما ہی ہوں نظر نہیں آ رہا کیا تمہیں ؟؟

یشما نے حیرانگی سے کہا،

و۔۔وہ تمہیں دو دن سے عجیب گیٹ اپ میں دیکھ رہا تھا نا اور آج ایک دم سے اتنے اچھے گیٹ اپ میں دیکھ کر میں حیران ہوگیا پہچان میں ہی نہیں آٸی اس لیے سوچا کنفرم کر لوں تم یشما ہی ہو نا ؟؟

یہ تم میری بےعزتی کر رہے ہو ہاں ؟؟

یشما نے سرد لہجے میں کہا،

بےعزتی نہیں کر رہا بس یہ کہنا چاہ رہا ہوں ان کپڑوں میں زیادہ حسین لگ رہی ہو۔۔

یہ بتاٶ امی کیسی ہیں اب تمہاری ؟؟

ساتھ ہی رامش نے بات پلٹ دی۔۔

یشما کھڑی اُسے گھور رہی تھی۔۔

میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں پہلے میری بات کا جواب دو بعد میں مجھے دیکھتی رہنا۔۔

امی ٹھیک ہیں بس کچھ ہی دیر میں چھٹی بھی مل جاۓ گی۔۔

وہ منھ بنا کر کمرے کی جانب بڑھی۔۔

آٶ تمہیں امی سے ملوا دوں۔۔

یشما نے کہا،

کیا کہو گی اپنی امی سے میرے بارے میں کہ کون ہوں میں ؟؟

تم آٶ تو سہی انہیں کیا بتانا ہے کیا نہیں وہ میرا مسٸلہ ہے۔۔

یشما جھٹ سے سرد لہجے میں بولی،

اماں یہ دیکھیں کون آیا ہے۔۔

اس سے ملیں یہ ہے ڈی ایس پی رامش۔۔

ی۔۔یہ کون ہے ؟؟

اماں یہ میرا دوست ہے بہت اچھا۔۔

یہ سُن کر رامش نے مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا۔۔

ڈی ایس پی ؟؟؟

جی امی ڈی ایس پی ہے یہ بہت اکڑو ہے۔۔

یشما نے رامش کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

کیسی ہیں آپ آنٹی ؟؟

رامش نے کہا،

میں ٹھیک ہوں بیٹا اگر اس نے تمہیں فضول کی باتیں سُناٸی ہیں تو میں تم سے معافی مانگتی ہوں یہ ایسے ہی کچھ بھی بول دیتی ہے۔۔

ارے آنٹی کیسی باتیں کررہی ہیں آپ۔۔

اماں بس کر دو تم کیوں معافی مانگ رہی ہو اس سے بلاوجہ ہی۔۔

یشما غصے سے بولی،

کچھ تو شرم کر لے ڈی ایس پی ہے یہ تمیز سے بات کر اس سے۔۔

ڈی ایس پی ہوگا اپنے لیے۔۔

یشما بولی،

یہ تمہارا دوست کیسے بنا یشما ؟؟

اُس کی اماں بولی تو اتنے میں اندر نرس اینٹر ہوٸی۔۔

میم یہ بل آپ کا رہتا ہے ہالف پلیز یہ جمع کروا دیں۔۔

رامش سلپ پکڑے لگا تو یشما نے جھٹ سے پکڑ لی۔۔

ٹھیک ہے میں کروا دیتی ہوں۔۔

یشما کمرے سے باہر گٸی تو رامش بھی اُس کے پیچھے گیا۔۔

یہ ہالف بل تم نے کہاں سے جمع کروایا ؟؟

اور اب ہالف بل کہاں سے جمع کرواٶ گی ؟؟

رامش نے حیرانگی سے اُس کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

تھوڑے بہت پیسے میرے پاس تھے اور باقی میں نے کسی سے اُدھار لیے ہیں۔۔

اوہ اچھا تھوڑے سے چوری کے پیسے تمہارے پاس رکھے تھے اور باقی تم نے اُدھار پکڑ لیے کسی سے اور اب بڑی سی چوری کر کے تم وہ اُدھار لوٹا دو گی اُسے ہاں نہ ؟؟

یہ چوری کا مال اپنی ماں پر لگانا بند کرو سمجھی۔۔

رامش نے اُس سے سلپ کھینچی اور ریسیپشن کی طرف چلا گیا۔۔

بہت ہی وہ ہے کیسے منٹ کے اندر اندر مجھے باتیں سُنا کر چلا گیا ہے کھڑوس اکڑو کہیں کا۔۔

وہ وہاں کھڑی بڑبڑانے لگی۔۔ 

چوہدری صاحب جب سے سو کر اُٹھے تھے اُن کا دل بہت پریشان تھا۔۔

ہنی اپنے روم سے باہر نکل کر جب ٹی وی لاٶنج میں آیا تو دیکھا اُس کے ابو نہ جانے کس سوچ میں گُم پریشان بیٹھے تھے۔۔

کیا ہوا ابو جی اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں سب خیر تو ہے نہ ؟؟

ہنی رامش کو کال کرو اُسے بولو گھر آۓ جلدی میں صبح سے غزل کو کال کر رہا ہوں اُس کا نمبر بند جا رہا ہے میرے دل کو بالکل بھی چین نہیں آ رہا ہے۔۔

ابو پریشان نہ ہوں میں کرتا ہوں کال رامش بھاٸی کو۔۔

اُس نے فوراً رامش کا نمبر ملایا۔۔

ہیلو رامش بھاٸی ؟؟

بھاٸی غزل سے کل کا کوٸی رابطہ نہیں ہوا ہمارا ابو بہت پریشان ہیں آپ گھر آ جاٸیں جلدی سے۔۔

کیاااا ؟؟

کل اُس کا میسج آیا تھا مجھے اُس نے بتایا وہ خیریت سے وہاں پہنچ گٸی ہیں۔۔

بھاٸی کل تو ہمارا بھی رابطہ ہوا تھا اُس سے مگر رات سے اُس کا نمبر بند جا رہا ہے پلیز آپ کسی سے رابطہ کریں وہاں پر۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں گھر آ رہا ہوں ابو سے کہو ٹینشن نہ لیں ورنہ طبعیت بگڑ جاۓ گی اُن کی۔۔

جی ٹھیک ہے بھاٸی۔۔۔

ابو بھاٸی آ رہے ہیں آپ زیادہ سوچیں مت۔۔


دوسری طرف ابان شاہ کو کہیں چین نہیں آ رہا تھا وہ کلاس روم سے بار بار باہر آ کر غزل کو کال کر رہا تھا۔۔

غزل غزل کہاں ہو تم ؟؟

کیوں نمبر بند جا رہا ہے تمہارا ؟؟

رابطہ کرو مجھ سے میں بہت بےچین ہوں۔۔

وہ آسمان کی طرف دیکھ کر منمنایا۔۔

یاالله مجھے سکون دے بس ایک بار میری بات ہو جاۓ غزل سے مجھے چین آ جاۓ گا۔۔

کیسے معلوم کروں گا میں اُس کی خیریت ؟؟

مجھے گاٶں ہی جانا ہوگا وہاں جا کر شاید کچھ معلوم ہو سکے۔۔

وہ فوراً آفس کی طرف چھٹی لینے چلا گیا۔۔


کیا ہوا پریشان لگ رہے ہو ؟؟

یشما نے کہا،

ہاں وہ مجھے ابھی اور اسی وقت گھر کے لیے نکلنا ہے تم ایسا کرو اپنی امی کو لے کر گھر چلی جاٶ میں پھر چکر لگاٶں گا جب وقت ملے گا اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کال کر دینا۔۔

وہ پریشان لہجے میں بولا،

کیا ہوا ہے کچھ بتاٶ تو صحیح ؟؟

ابھی زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس میں تمہیں بعد میں سب بتاتا ہوں ڈراٸیور آ رہا ہے اُس کے ساتھ اپنی امی کو لے کر گھر چلی جانا۔۔

یہ کہہ کر رامش فوراً وہاں سے نکل گیا۔۔

رُکو یارر میری بات تو سُنو۔۔

اُس نے ایک نہ سُنی اور وہ وہاں سے چلا گیا۔۔

پتہ نہیں اچانک سے کیا ہوگیا ہے جو ایسے بھاگ گیا ہے یہ۔۔

وہ بڑبڑاتی ہوٸی اپنی اماں کے پاس چلی گٸی۔۔

*******

روشنی اُٹھو دن کے دو بج رہے ہیں اور تم اب تک سو رہی ہو۔۔

زُمر نے کمرے میں داخل ہو کر کھڑکی کے آگے سے پردے ہٹاتے ہوۓ کہا،

سونے دو مجھے پلیز جاٶ یہاں سے۔۔

روشنی نے آنکھیں میچتے ہوۓ کہا،

کیا چلی جاٶ یہاں سے ہاں ؟؟؟

یہ آخر ہو کیا گیا ہے تمہیں ؟؟

کل تم اُس لڑکے کو بھی بار بار بول رہی تھی جاٶ یہاں سے جاٶ یہاں سے۔۔

اُس کا نام مت لو زُمر۔۔

وہ میرے زخموں پر نمک چھڑکنے آیا تھا۔۔

بس کر دو روشنی کون سے زخم ہیں اب تمہارے ؟؟

عرصہ ہوگیا اُس بات کو اب تو وہ بےوفا تین بچوں کا باپ ہے بھول جاٶ اُسے۔۔

زمر نے کہا،

چاہے کچھ بھی ہو جاۓ ”پہلی محبت کبھی بُھلاٸی نہیں جاتی“۔۔ اور پھر میں نے تو اُس سے سچا عشق کیا تھا۔۔

روشنی نے دھیمی آواز میں کہا تو زُمر تھوڑا اُس کے قریب ہو کر بیٹھی۔۔

ویسے جو بھی ہے نہ وہ لڑکا ہے بہت ہینڈسم۔۔ شکل سے بھی اتنا معصوم لگتا ہے نہ۔۔ ہے تھوڑا اکڑو مگر ہے بہت فٹ۔۔

پاگل ہوگٸی ہو تم میرے سامنے مت کرو ایسی باتیں۔۔

تمہیں پتہ ہے ببن بی بی اُس سے پیسوں کا مطالبہ کر رہی تھی اُس نے بولا میں روشنی سے ملاقات کا ایک روپیہ نہیں دوں گا اُس کا استعمال کرنا بند کرو جس چاہٸیے مجھ سے لے لو مگر روشنی اب کسی سے ملاقات نہیں کرے گی۔۔

کیااااا ؟؟؟

پیسوں کا مطالبہ ؟؟

ببن بی بی کو تو ہر وقت صرف پیسے چاہیے ہیں۔۔

وہ مجھ سے بھی یہی کہتا تھا کہ کسی سے ملاقات مت کیا کرو۔۔ وہ ایسا آخر کیوں کہتا تھا ؟؟

کیونکہ روشنی وہ تم سے محبت کرنے لگا ورنہ ہم جیسی عورتوں کو بھلا ایسا کیوں کہنے لگا کوٸی ؟؟

سوچو روشنی سوچو۔۔

تمہیں کیسے پتہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے ؟؟

روشنی نے حیرانگی سے کہا،

میں نے اُس کی اور تمہاری بہت سی باتیں سُن لی تھی یہاں سے گزرتے ہوۓ۔۔ تم بہت بڑی بےوقوف ہو اتنی چاہت کرنے والا کہاں ملے گا تمہیں پاگل ؟؟

تمہارا دماغ ٹھیک ہے کیوں سُنی تم نے اُس کی اور میری باتیں۔۔

پاگل ہو جاؤں گی میں یہاں پر رہ کر۔۔

ایک وہ ببن بی بی ہے جسے پیسوں کے علاوہ کچھ اور خیال ہی نہیں آتا ہے۔۔

روشنی جو میں بات کر رہی ہوں اس پر توجہ دو۔۔۔

زُمر سخت لہجے میں بولی،

کیا بولوں میں ؟؟

اسے انکار کر چکی ہوں میں اب اور وہ کہہ کر گیا ہے آٸندہ یہاں پر کبھی بھی نہیں آۓ گا۔۔

روشنی نے منھ پھیرتے ہوۓ زُمر سے کہا،

وہ بول رہا تھا مجھے کہ میں روشنی کو یہاں سے لے جاؤں گا۔۔

میں نے اسے کہا تم پاگل تو نہیں ہو گئے وہ چلی جائے گی تو ہمیں کما کر کون دے گی اس نے کہا وہ تم لوگوں کے کمانے کا ذریعہ نہیں ہے وہ تو غصے میں ہی اگیا تھا بھٸی۔۔

کہنے لگا تم لوگوں کو جتنا پیسہ چاہیے ہے مجھ سے لے لو مگر اُس کی ملاقات اب تم لوگ کسی مرد سے نہیں کرواؤ گی۔۔

میں نے اسے کہا تم پہلے بھی آئے تھے روشنی سے ملاقات کی مگر ایک روپیہ بھی نہیں دیا تم نے۔۔

ببن بی بی سے میں نے کہا اب آپ خود ہی نمٹ لیں اس سے تو ببن بی بی کو جاتے ہوۓ وہ بہت سارے پیسے دے کر گیا ہے اور بول کر گیا ہے روشنی کا خاص خیال رکھنا۔۔

بھلا کوئی مرد ایسا کیوں کرنے لگا روشنی خود سوچو تم ؟؟

تم نے ایک ہیرے کو ٹھکرایا ہے جو خود دروازے پر چل کر تمہارے لیے آیا تھا۔۔

میں نے کبھی کسی مرد میں تمہارے لیے اتنی دلچسپی نہیں دیکھی اس کی انکھوں میں صاف محبت نظر آتی تھی مجھے تمہارے لیے۔۔

میرے لیے اگر کوئی اتنا کرتا میں تو سب چھوڑ چھاڑ کر یہاں سے اس کے ساتھ چلی جاتی۔۔

یہ سب باتیں سُن کر روشنی سوچ میں پڑ گٸی اور سوچنے لگی کہ کہیں اُس نے ایان کو ایسے اتنی باتیں سُنا کر اُس کی محبت اُس کے منھ پر مار کر غلطی تو نہیں کر دی ؟؟

سوچ لو روشنی ابھی بھی کچھ بگڑا نہیں ہے۔۔

زُمر بولی،

ابھی تم جاٶ یہاں سے مجھے اکیلی چھوڑ دو۔۔

تمہاری الجھی ہوٸی باتوں نے مجھے اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں تمہارے پاس کل تک کا وقت ہے سوچ لو کہیں وہ انمول ہیرا کسی اور چاندی کے ہاتھ نہ لگ جاۓ۔۔

یہ کہہ کر زُمر کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔

پاگل نہ جانے کیا کیا بولتی رہتی ہے۔۔

روشنی بڑبڑاٸی۔۔

*******

ابو فکر نہ کریں میں رابطہ کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔۔

رامش ہمیں یونیورسٹی چلنا چاہٸیے وہاں جا کر شاید کچھ معلوم ہو جاۓ۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

ہاں یہ بیسٹ ہے رامش بھاٸی۔۔

ہنی جھٹ سے بولا،

چلو پھر یونیورسٹی چلتے ہیں دیر نہیں کرنی چاہٸیے۔۔

وہ یونیورسٹی کے لیے ابھی نکلے ہی تھے کہ راستے میں وقاص ماموں کو افرا کی آگٸی۔۔

افرا کی کال ؟؟

اُس نے سکریں پر دیکھتے ہوۓ حیرانگی سے کہا،

کس کی کال ہے ماموں ؟؟

رامش نے کہا،

غزل کی دوست کی بہن افرا کی کال ہے۔۔

ماموں جلدی سے کال اٹینڈ کریں ہوسکتا ہے ان کا رابطہ ہوا ہو۔۔

ہنی جھٹ سے بولا،

ہ۔۔ہیلو ؟؟

ج۔۔جی افرا بولیں ؟؟

افرا کی سسکیوں کی آواز سُن کر وقاص کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

آپ رو رہی ہیں ؟؟

کچھ تو بولیں میرا دل پھٹ رہا ہے۔۔

یہ سُن کر ہنی اور رامش بھی حیران ہوگۓ۔۔

ماموں مجھے فون دیں۔۔

رامش نے وقاص ماموں نے موباٸل پکڑا۔۔

ہیلو ؟؟

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

پلیز کچھ تو کہیں ؟؟

رامش پریشان لہجے میں بولا،

رامش کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔

وہ غزل۔۔

یہ کہہ کر افرا پھر سے رونے لگی۔۔

غزل ؟؟ کیا ہوا غزل کو ؟؟

جلدی بتاٸیں کیا ہوا میری بہن کو ؟؟

وہ ایک دم بولا،

ابھی نوشین سے رابطہ ہوا ہے میرا اُس نے بتایا ہے غزل کا پیر سلپ ہوگیا اور وہ گہری کھاٸی میں جا گری ہے۔۔

یہ سُن کر رامش کے ہاتھ سے موباٸل گر گیا۔۔

رامش ایسے ہوگیا جیسے وہ مر چکا ہے اُس کا دل جیسے بند ہوگیا ہو۔۔

کیا ہوا بھاٸی ؟؟

ہنی نے حیرانگی سے کہا،

ہیلو ؟؟

ہیلو ؟؟

کال کٹ گٸی۔۔

وقاص نے کہا،

سب کچھ ختم ہوگیا سب کچھ۔۔

ہماری جان سے پیاری بہن۔۔

یہ۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بھاٸی ؟؟

یہ سب کیا ہو رہا ہے مجھے کوئی کچھ بتائے گا ؟؟

ہنی چیخا۔۔

غزل کھاٸی میں گر گٸی ہے ہنی۔۔

یہ کہتے ہوۓ رامش کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔

یہ سن کر وقاص اور ہنی کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہوگۓ۔۔

بھاٸی ایسا نہیں ہو سکتا یہ جھوٹ ہے۔۔

بھاٸی ہو سکتا ہے انہیں کوٸی غلط فہمی ہوٸی ہو ؟؟

ہنی جھٹ سے بولا،

وقاص نے کچھ بھی بولے بغیر فوراً افرا کا نمبر ملایا۔۔

ہیلو ؟؟

مجھے صحیح طرح سے پوری بات بتاؤ افرا۔۔۔

وقاص نے کہا،

مجھے ابھی کچھ دیر پہلے ہی نوشین کی کال آٸی تھی اس نے بتایا کہ ہم لوگ گھومنے پھرنے کے لیے ہوٹل سے نکلے ہی تھے آگے جا کر غزل کا نہ جانے پاؤں سلپ ہوا کیا ہوا اس نے ایک دم چیخ ماری جیسے ہی بسمہ اُسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھی تو وہ پیچھے جو جا گری۔۔

اُس نے بتایا کہ یونیورسٹی والوں نے یہاں پر ٹیم بُلواٸی ہے وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔۔

میرے الله یہ کیا ہوگیا ہے ہماری بچی کی حفاظت کرنا۔۔

اپ ایسا کرو مجھے نوشین کا نمبر سینڈ کرو میں خود اس سے بات کرتا ہوں۔۔

جی ٹھیک ہے میں اپ کو اس کا نمبر سینڈ کرتی ہوں۔۔

رامش تو جیسے کسی گہرے صدمے میں چلا گیا تھا۔۔

ہمیں فورا کے لیے نکلنا چاہیے بھاٸی آپ لوکیشن منگواٸیں جلدی سے۔۔

ہنی نے کہا،

مجھے دو منٹ دو میں نوشین کو کال کر کے پوچھتا ہوں سارا معاملہ۔۔

بھائی گھر چلیں کیا سوچ رہے ہیں آپ ؟؟

گھر جا کر کیا کریں گے ہنی ؟؟

اگر ہماری بہن کو کچھ ہو گیا تو میں مر جاٶں گا۔۔

یہ سوچو ابو کو کیا بتائیں گے جا کر جو ہمارا انتظار کر رہے ہیں اچھی خبر سننے کے لیے۔۔

رامش نے روتے ہوۓ کہا تو ہنی نے فوراً رامش کو گلے سے لگالیا۔۔

بھائی کچھ بھی نہیں ہوگا ہماری غزل کو۔۔

اللہ سے اچھے کا گمان کریں دیکھیے گا بہت بہتر ہوگا۔۔


کیا ہوا ماموں بیل جا رہی ہے ؟؟

ہنی نے کہا،

بیل تو جا رہی ہے مگر وہ کال ہی اٹینڈ نہیں کر رہی۔۔

مامو اپ ایسا کریں آپ ایک میسج کریں اسے بتائیں کہ میں وقاص ہوں غزل کا ماموں شاید ان ناٶن نمبر سمجھ کر کال اٹینڈ نہ کر رہی ہو۔۔

ہاں ٹھیک ہے میں پہلے میسج کرتا ہوں۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

میں نے اپنے سارے ڈیپارٹمنٹس میں کال کر کے بتا دیا ہے۔۔ ہر طرح کی ٹیم وہاں پر پہنچ رہی ہے اور ہمیں بھی اب جلد ہی نکلنا ہوگا۔۔

رامش نے کہا،

ایان کو کال کرو اُسے بولو اگر وہ باہر ہے تو جلدی گھر پہنچے۔۔

ہنی نے فوراً رامش کا نمبر ڈاٸل کیا۔۔

ہیلو ؟؟

ایان کہاں ہو ؟؟

میں باہر ہوں کیوں کیا ہوا ؟؟

ایان نے کہا،

جلدی گھر پہنچو بس۔۔۔

یہ کہہ کر ہنی نے کال بند کر دی۔۔

ارے ایسا کیا ہوگیا ہے جو اچانک گھر پہنچنے کا بول رہا ہے۔۔

ایان لاٸبریری سے باہر آیا اور گھر جانے کے لیے نکل گیا۔۔

جب وہ گھر پہنچا تو اُسی وقت رامش ہنی اور وقاص ماموں بھی پہنچ گۓ۔۔

اُن کے چہروں کے رنگ اُڑے دیکھ کر ایان گھبرا گیا۔۔

کیا ہوا ہے؟؟

اُس نے تینوں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

ایان غزل کھاٸی میں گر گٸی ہے اُس کی دوست کی کال آٸی تھی۔۔

ہنی نے کہا تو یہ سُن کر جیسے ایان کے پیروں تلے سے زمین نکل گٸی ہو۔۔

پاگل ہوگۓ ہو تم ہنی یہ کیا بول رہے ہو ؟؟

ہوش میں تو ہو نہ تم ؟؟

یہ ٹھیک کہہ رہا ہے ہم بھی وہاں جانے کے لیے بس نکلنے لگے ہیں مگر تمہیں یہاں ہی رہنا ہوگا ابو کے پاس اور ابھی انہیں کسی بات کی بھنک بھی نہ ہو۔۔

ابو پہلے ہی بہت پریشان بیٹھے ہیں تم نے ابو کو بس یہی تسلی دینی ہے کہ ہماری بات ہوگٸی ہے غزل سے اُس کا موباٸل کہیں گُم ہوگیا ہے اس لیے وہ کال نہیں کر سکتی اپنی دوست کے موباٸل سے وہ اپنا حال چال بتاتی رہتی ہے۔۔۔

ایان میں تم سے بات کر رہا ہوں۔۔

رامش نے ایان کے سینے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

بھاٸی پہلے ہم نے اپنی ماں کو کھو دیا اور اب۔۔۔

یہ کہہ کر وہ رامش کے سینے سے لگ گیا۔۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا وہاں پر ساری ٹیمز پہنچ چکی ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں تم لوگ بس دعا کرو۔۔

بھاٸی مجھے بھی جانا ہے آپ کے ساتھ۔۔

نہیں ایان تم یہاں ابو کے پاس رہو گے ہم انہیں ایسے اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتے ہیں۔۔

اور اگر ہم ایک ساتھ ایسے چلے گۓ تو اُن کا خیال کون رکھے گا ؟؟

رامش بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ایسے تو انہیں شک بھی ہوسکتا ہے کہ اچانک یہ سب کہاں چلے گۓ۔۔

وقاص ماموں نے ایان کو سمجھاتے ہوۓ کہا،

ٹھیک ہے آپ لوگ جاٸیں اور میری بہن کو واپس لے کر آٸیں میں یہاں ہی ہوں ابو کا خیال رکھنا کے لیے۔۔۔

ایان نے کہا،


کیا ہوا بھاٸی ایسے پریشان کیوں بیٹھے ہو ؟؟

آج اتنی جلدی کیوں آگۓ سب خیریت ؟؟

حرم نے ابان شاہ سے کہا،

حرم میں بہت پریشان ہوں غزل اپنی یونیورسٹی کے ساتھ ٹوور پر گٸی ہوٸی ہے آج پورا ایک دن ہوگیا ہے کوٸی خبر نہیں اُس کی۔۔

کل سے اب تک اس کا ایک بھی میسج نہیں آیا۔۔

اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا ہے۔۔

ارے یہ تو واقع ہی پریشانی کی بات ہے۔۔ آپ بھائی ایسا کریں حویلی جائیں وہاں سے کچھ معلوم ہو سکتا ہے اپ کو۔۔

حرم نے کہا،

میں کیسے جاؤں حویلی ؟؟

وہ کہیں گے پہلے تو کبھی آیا نہیں نہ جانے آج کیوں آگیا ہے اور میں وہاں جا کر کہوں گا کیا ؟؟

ابان شاہ نے پریشان لہجے میں کہا،

بھاٸی جاٶ باہر جاٶ کہیں سے کچھ تو معلوم ہوگا ہی۔۔

چلو میں باہر جاتا ہوں حویلی کی طرف الله کرے سب ٹھیک ہو۔۔

سب ٹھیک ہی ہوگا بھاٸی پریشان نہ ہوں۔۔

ابان شاہ منھ بنا کر گھر سے باہر چلا گیا۔۔ 

یاالله میری مدد کر مجھے کچھ تو معلوم ہو غزل کے بارے میں۔۔

میرے دل کو قرار دے میرے مولا۔۔

وہ باہر کی طرف جا ہی رہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی ابان شاہ کے گھر کے قریب آ کر رُکی۔۔

ابان شاہ نے حیرانگی سے پلٹ کر اُس گاڑی کی طرف دیکھا تو رامش گاڑی سے باہر نکلا۔۔

یہ کون ہے ؟؟

وہ بھاگتا ہوا اپنے گھر کی جانب بڑھا۔۔

رامش نے دروازے پر دستک دی۔۔

مُنشی صاحب۔۔

یہ تو غزل کا بھاٸی ڈی ایس پی رامش ہے۔۔

یہ یہاں کیا کرنے آیا ہے ؟؟

جی۔۔ ابا اسو رہے ہیں کوٸی ضروری کام تھا کیا ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

تم بیٹے ہو مُنشی صاحب کے ؟؟

رامش نے کہا،

جی میں بیٹا ہوں اُن کا۔۔

اوہ اچھا۔۔ میں رامش چوہدری صاحب کا بڑا بیٹا رامش۔۔۔ وہ مجھے یہ کہنا تھا منشی صاحب سے کہ وہ ابا کے پاس گھر چکر لگا لیں۔۔ میں میرا چھوٹا بھاٸی ہنی اور میرے ماموں ہم تینوں ذرا کام سے جا رہے ہیں۔۔۔

ابا کی طبعیت کچھ بہتر نہیں ہے مگر شام کو میں کوشش کروں گا انہیں حویلی چھوڑ آٶں۔۔

الله صحت دے منشی صاحب کو۔۔

بہت مہربانی ہوگی اگر تم منشی صاحب کو ابو کے پاس حویلی لے جاٶ گے تو دونوں کا وقت ساتھ میں اچھا گزر جاۓ گا۔۔

رامش نے ابان شاہ کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

بھاٸی کال آ رہی ہے جلدی آٸیں۔۔

ہنی نے رامش کو آواز دیتے ہوۓ کہا،

ٹھیک ہے پھر ملاقات ہوگی ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔

یہ کہہ کر رامش گاڑی میں بیٹھا اور وہ لوگ اپنی منزل پر جانے کے لیے نکل گۓ۔۔۔


کہاں گۓ ہیں آخر یہ تینوں اتنی جلدی میں ؟؟

رامش چہرے سے پریشان بھی دکھاٸی دے رہا تھا۔۔

ویسے یہ اچھا موقع ہے حویلی جانے کا ابا کو لے کر جاٶں گا تو شاید وہاں سے کچھ معلومات مل جاٸیں۔۔

وہ باہر کھڑا یہ سب باتیں سوچ رہا تھا۔۔

ابان باہر کیوں کھڑے ہو بیٹا ؟؟

اندر آٶ میری بات سنو۔۔

ابان شاہ کی امی نے کہا،

جی امی۔۔

وہ گھر کے اندر داخل ہوتا ہوا بولا،

میں نے تمہارے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے میں چاہتی ہوں وہاں رشتہ تہہ کر دوں تمہارا۔۔

مجھے وہ لڑکی بہت اچھی لگی ہے سوچا ایک بار تم سے پوچھ لوں۔۔

امی کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟؟

میں پہلے اپنی پڑھاٸی مکمل کروں گا پرماننٹ کوٸی اچھی سی جاب ڈھونڈوں گا سیٹل ہونے کے بعد ہی میں رشتے کی طرف آٶں گا ابھی اس بارے میں آپ نہ سوچیں یہی بہتر ہے۔۔

ابان شاہ پہلے ہی بہت پریشان وہ اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔

امی بھاٸی ٹھیک تو کہہ رہے ہیں ابھی انہیں اچھی نوکری تو مل جاۓ پھر شادی بھی کر لیں گے۔۔

حرم نے ابان شاہ کی طرفداری کرتے ہوۓ کہا،

ارے میں نے تو شادی کی بات ہی نہیں کی میں نے کہا ہے لڑکی اچھی ہے رشتہ تہہ کر دیتے ہیں جب ابان کی نوکری لگے گی تب شادی کر دیں گے۔۔۔

امی رہنے دیں بھاٸی کا جب دل ہی نہیں ابھی رشتہ بھی تہہ کروانے کو تو زبردستی یہ سب چیزیں کرنے کا فاٸدہ ہی نہیں۔۔

حرم نے کہا،

*******

زُمر کی باتیں مجھے بےچین کر گٸی ہیں۔۔

روشنی کھڑکی کے پاس کھڑی چاۓ کا کپ لیے یہ سب باتیں سوچ رہی تھی۔۔

کیا میں نے اُس لڑکے کے ساتھ غلط کیا ہے ؟؟

نہ ہی میں اُسے جانتی تھی نہ ہی وہ مجھے جانتا تھا اک نظر میں محبت کیسے ہو سکتی ہے ؟؟

وہ اچھے سے جانتا ہے میں ہر روز نہ جانے کتنے مردوں سے ملاقات کرتی ہوں پھر بھی اُسے مجھ سے محبت ہوگٸی ؟؟

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا یہ سب کچھ صرف اور صرف جھوٹ اور دھوکہ ہے۔۔

اگر یہ سب جھوٹ ہے تو پھر وہ ببن جان اور زُمر سے یہ کیوں کہہ کر گیا کہ روشنی کی ملاقات مت کروانا اب کسی بھی مرد سے جتنے پیسے چاہٸیے ہوں مجھ سے لے لینا۔۔

یہ سب کچھ کیا ہے ؟؟

وہ بھلا میرے لیے اتنے پیسے کیوں دے کر گیا ہے ؟؟

یاررر یہ سب میں کیا سوچ رہی ہوں ؟؟

کوٸی کیسے اتنا سب جاننے کے بعد مجھ سے محبت کر سکتا ہے اس قدر ؟؟

وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔۔

محبت حاصل ہو جاۓ اُس کا تو کچھ معلوم نہیں کیسا محسوس ہوتا ہے مگر جب محبت بچھڑ جاۓ تو انسان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اس بات کا مجھے اچھے طریقے سے اندازہ ہے۔۔

تو کیا وہ بھی میری طرح۔۔۔ ؟؟؟

یاالله میرے دل کو سکون دے یہ سب میرے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔

یہ سب زُمر کی وجہ سے میرے دماغ میں باتیں آ رہی ہیں۔۔


ابو وہ رامش آیا تھا کچھ دیر پہلے آپ سے ملنے مگر اس وقت آپ سو رہے تھے میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جو بھی بات کرنی ہے ابو سے مجھے بتا دیں جب ابو اٹھیں گے تو میں انہیں بتا دوں گا۔۔۔

ارے رامش آیا تھا اندر کیوں نہیں بُلایا اُسے ؟؟

مجھے اٹھا دیتے تم۔۔

پہلی بار وہ ہمارے گھر آیا تھا ایسے اچھا تو نہیں لگتا نا۔۔

مُنشی صاحب نے کہا،

ابو وہ لوگ کہیں پر جا رہے تھے شاید اور جلدی میں بھی تھے۔۔

اچھا وہ کیا کہہ کر گیا ہے یہ تو بتاؤ مجھے ؟؟

وہ کہہ کر گیا ہے کہ ابو کو شام ہوتے ہی حویلی لے جانا چودری صاحب کے پاس۔۔

کہہ کر گیا ہے منشی صاحب چوہدری صاحب کے پاس بیٹھ کر گپ شپ مار لیں گے تھوڑی دونوں کا دل بہل جائے گا۔۔

یہ سن کر منشی صاحب ہنسنے لگے۔۔

اچھا چلو میں بھی سوچ ہی رہا تھا جانے کے لیے حویلی۔۔

یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔۔

ابان شاہ بڑبڑایا۔۔

کس وقت جانا ہے ابو ؟؟

ابان شاہ جھٹ سے بولا،

بس میں کپڑے بدل لوں ذرا پھر چلتے ہیں تم باہر جا کر بیٹھو میں پانچ منٹ میں آتا ہوں۔۔

ابان شاہ حویلی جانے کے لیے بہت زیادہ ایکسائٹڈ تھا کیونکہ اب اسے غزل کی خیر خیریت معلوم ہونے والی تھی۔۔

وہ باہر جا کے اپنے بال سیٹ کرنے لگا۔۔

ہاں ہاں پتہ ہے بھائی حویلی جا رہے ہو مگر کیا فائدہ وہ خود تو گھومنے گئی ہوئی ہے۔۔ خیریت معلوم کرنے پر بھی اتنا تیار ہو کر جا رہے ہو تو جب اسے ملنے جاؤ گے تب تو لگتا ہے کسی سیلون سے تیار ہو کر جاؤ گے بھائی۔۔

ارے نہیں نہیں سمجھا کرو نا۔۔

ابان شاہ نے تمسخرانہ انداز میں مسکراتے ہوۓ کہا،

ہاں ہاں سب سمجھ رہی ہوں میں اتنے شریف آپ ہو نہیں جتنے شکل سے لگتے ہو۔۔

حرم نے منھ بناتے ہوۓ کہا،

ابان شاہ کہاں ہو بھٸی ؟؟

منشی صاحب نے کمرے سے باہر نکلتے ہوۓ کہا،

جی جی ابو میں یہاں ہوں۔۔

آج دیکھو ذرا کیسے تیار ہو کر جا رہے ہیں یہ اتنے دنوں کے بعد حویلی۔۔

ابان کی امی بولی،

نہ جانے ابو نے اتنے دن کیسے گزار لیے حویلی جائے بغیر۔۔ ابو کا تو دل ہی نہیں کرتا تھا وہاں سے واپس آنے کو۔۔

حرم نے کہا،

ہاں بیٹا شروع سے وہاں پر کام کیا ہے اچھے لوگ ہیں اور پھر چوہدری صاحب سے بھی میری اچھی بات چیت ہے۔۔

چلیں ابو دیر ہو رہی ہے چلتے ہیں جلدی سے باہر آ جاٸیں میں باٸیک اسٹارٹ کرتا ہوں۔۔

ارے میں نہیں جاؤں گا تمہاری بائک پر میں تو پیدل ہی چل کر جاٶں گا۔۔

ابو آپ سے نہیں چلا جائے گا حویلی پیدل جانے میں کم از کم پندرہ منٹ تو لگتے ہیں آپ تھک جاٸیں گے۔۔

ہاں ابو بھاٸی بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے آپ باٸیک پر ہی جاٸیں۔۔

حرم جھٹ سے بولی،

اچھا چلو بہت ضدی ہو تم بچے لوگ۔۔

منشی صاحب الله الله کر کے باٸیک پر بیٹھ ہی گۓ۔۔

دھیان سے جانا اور جلدی واپس آنا اچھی خبر کے ساتھ۔۔

حرم نے کہا تو ابان مُڑ کر اُسے گھورنے لگا۔۔

ایک تو یہ لڑکی نا مجھے ابا سے مار پڑھوا کر نہیں رہے گی۔۔

ابان شاہ بڑبڑایا۔۔


جب وہ لوگ حویلی پہنچے تو ایان اور چوہدری صاحب باہر لان میں بیٹھے چاۓ پی رہے تھے۔۔

ایان اپنے ابو کو سمجھا رہا تھا کہ رامش بھاٸی ہنی اور وقاص ماموں غزل کو لینے چلے گۓ ہیں اُس کا موباٸل بھی گُم ہوگیا ہے اور بیگ بھی۔۔

ایسے باتیں کر کے ایان انہیں بہلانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔

السلام عليكم جی۔۔

مُنشی صاحب نے لان میں قدم رکھتے ہی سب سے پہلے سلام کی۔۔

ابان شاہ اور منشی صاحب کو دیکھ کر ایان کی جان میں جان آگئی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے ابو منشی صاحب سے باتیں کر کے اُن کو اپنے دل کا حال سُنا کر اچھا محسوس کریں گے اور کچھ وقت بھی گزر جاۓ گا۔۔

آٸیں منشی صاحب۔۔

آٶ تم بھی بیٹھو۔۔۔

مُنشی صاحب کے بیٹے ہو نہ ؟؟

ایان نے ابان سے ملتے ہوۓ کہا،

جی میں منشی صاحب کا بیٹا ہوں۔۔

چوہدری صاحب اور منشی صاحب ایک دوسرے سے گلے ملے۔۔

شکر یہ تُو آگیا میں پہلے ایان سے کہنے والا تھا کہ تجھے بلا لے پھر میں نے سوچا شاید تیری طبیعت ٹھیک نہ ہو۔۔

ابان بیٹا آپ سُناٶ ٹھیک ہو ؟؟

چوہدری صاحب نے ابان شاہ کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

جی چوہری صاحب میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔

مجھے تو کچھ دیر پہلے ہی ابان نے بتایا ہے کہ رامش آیا تھا بول کر گیا ہے منشی صاحب کو حویلی لے جانا۔۔

اچھا رامش بول کر گیا تھا ؟؟

ہاں ابان ہی ملا تھا اُس سے میں تو سو رہا تھا میں نے ابان سے کہا بھی کہ تم مجھے اُٹھا دیتے پہلی بار رامش میرے گھر تک آیا تھا اندر بھی نہیں آیا مجھے بالکل اچھی نہیں لگی یہ بات۔۔

ارے کوٸی بات نہیں پھر کبھی آ جاۓ گا ابھی وہ لوگ غزل کو لینے گۓ ہیں۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

غزل کو لینے ؟؟

کہاں گٸی ہے غزل بیٹی ؟؟

منشی صاحب نے حیرانگی سے کہا تو ابان شاہ نے اپنا دھیان اس طرف کیا۔۔

یونیورسٹی کا ٹرپ گیا ہے میڈم صاحبہ دوستوں کے ساتھ چلی تو گٸی ہے اب وہاں جا کر اس کا موبائل بھی گُم ہوگیا ہے اور بیگ بھی۔۔

ایک پورا دن ہمارا اُس سے کوٸی رابطہ نہیں ہوسکا پھر اُس نے اپنی دوست کے موباٸل سے کال کر کے رامش کو خیریت بتاٸی۔۔

آپ کو نہیں بھیجنا چاہٸے تھا اتنی دور غزل بیٹی کو۔۔

منشی صاحب نے کہا،

بس جی ضد کر رہی تھی وہ میں نے بہت منع کیا مگر پھر رامش نے کہا نہیں ہم نے اس کی ہر خواہش پوری کرنی ہے پھر میں بھی خاموش ہوگیا۔۔۔

اچھا تو وہ لوگ غزل کو لینے گئے ہیں۔۔

منشی صاحب بولے،

میڈم کا موباٸل گُم ہوگیا ہے ہمممم اسی لیے نمبر بند جا رہا ہے میں خوامخواہ اتنا پریشان ہو رہا تھا۔۔

ابان شاہ نے دل ہی دل میں کہا،

آٶ ابان وہاں میرے پاس آ کر بیٹھو گپے شپے بھی مارتے ہیں اور میں کار بھی واش کر لوں گا ساتھ ساتھ۔۔

ایان نے کہا،

ہاں ہاں کیوں نہیں چلو۔۔

وہ دونوں گیراج کی طرف چلے گۓ۔۔

تم کچھ بتاٶ اپنے بارے میں ؟؟

ایان نے ابان شاہ سے کہا،

میں پڑھتا بھی ہوں اور ایک چھوٹے سے سکول میں پڑھاتا بھی ہوں۔۔

ارے واہ۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے ایک وقت میں دو دو کام ہممممم تم تو کافی محنتی ہو ورنہ آج کل کے دور میں پڑھاٸی کے ساتھ ساتھ نوکری کرنا اتنا آسان کہاں ہے۔۔۔

بس یار کرنا پڑتا ہے۔۔ ابو کی بھی اب طبعیت ٹھیک نہیں کرتی گھر کا خرچ چلانے کے لیے میں یہ چھوٹی سی نوکری کر رہا ہوں۔۔

ارے یار منشی صاحب بہت اچھے انسان ہیں ہمارا سارا بچپن انہی کے اردگرد گزرا ہے کبھی بھی کسی بھی چیز کی ضرورت پڑے بلاجھجک کہہ دینا ہمیں بھاٸی سمجھ کر۔۔

اچانک ایان کا موباٸل بجنے لگا۔۔

اُس نے فوراً جیب سے موباٸل نکالا۔۔

ہنی کی کال ؟؟

یہ کہہ کر اُس نے کال اٹینڈ کی۔۔

ہیلو ؟؟

ہاں ہنی بولو ؟؟

ایان ابو ٹھیک ہیں نہ ؟؟

ہم یہاں پر ابھی کچھ دیر پہلے ہی پہنچے ہیں جس کھاٸی میں غزل گری ہے وہ بہت ہی گہری کھائی ہے ایان۔۔

یہ کہہ کر ہنی رونے لگا۔۔

رامش بھائی تو بالکل ہی ہمت ہار گئے ہیں وہ کھائی دیکھ کر رامش بھاٸی زمین پر گر گۓ بہت مشکل سے ہم نے انہیں سنمبھالا ہے۔۔

ک۔۔کیااا ؟؟

یہ تم کیا کہہ رہے ہو ہنی ؟؟

آس پاس کی ریسکیوز پولیس کو کال کرو انہیں بولو کہ ہماری بہن کو نکالے وہاں سے جلد از جلد۔۔

ہر کام ہو سکتا ہے بھائی سے بولو اپنا ریفرنس یوز کریں وہاں پر۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی منشی صاحب ائے ہیں تو ابو کا دھیان غزل پر سے ہٹا ہے ورنہ وہ مجھ سے بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ میری بات کرواؤ۔۔

یہ سب سُن کر ابان شاہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

یہ کیا باتیں کر رہا ہے ؟؟

بہن مطلب غزل کی بات ہو رہی ہے ؟؟

کال بند ہوٸی تو ایان ایک طرف جا کر بیٹھ گیا۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ کس کی کال تھی جو سننے کے بعد تم ایسے پریشان بیٹھ گۓ ہو ؟؟

ابان شاہ نے اُس کے پاس جا کر کہا،

کیا بتاٶں یار تمہیں۔۔ ہماری چھوٹی بہن غزل جو یونیورسٹی ٹوور کے ساتھ گٸی تھی پہاڑی علاقے کی طرف کل وہ کھاٸی میں گر گٸی ہے۔۔

یہ کہہ کر ایان کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔

یہ سننے کے بعد ابان شاہ کی جیسے سانسیں بند ہوگٸی ہوں۔۔

ک۔۔کیاااا یہ کیا کہہ رہے ہو ؟؟

یہ کب ہوا اور کیسے ؟؟

ابان شاہ نے نہ جانے خود کو کیسے کنٹرول کر رکھا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اونچی اونچی رو دے۔۔

تم یہ بات کسی سے بھی نہیں کرو گے ابھی۔۔ ہم نے ابوکو کچھ بھی نہیں بتا رکھا اگر انہیں ذرا سی بھی بھنک ہو گئی تو بہت تماشہ ہوگا ان کی بہت طبیعت بھی کر جائے گی۔۔۔

نہیں تم بے فکر رہو میں کسی سے کوئی بات نہیں کروں گا۔۔

یہ بتاؤ کال کس کی تھی کیا کہہ رہے تھے وہ لوگ ؟؟

ہنی کی کال تھی وہ بتا رہا تھا کہ جس کھائی میں غزل گر گئی ہے وہ بہت زیادہ گہری کھائی ہے۔۔

یہ سُن کر ابان شاہ بھی اُس کے پاس سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔

کیا ہم چلیں وہاں پر ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

میں بھی جانا چاہتا ہوں مگر پیچھے ابو کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا میں۔۔

ایان ؟؟

ایان ؟؟

تم یہاں ہی بیٹھو میں ابو کی بات سن کر ایا بس۔۔

ایان یہ کہہ کر چلا گیا۔۔

ابان شاہ کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔

یاالله غزل کو کچھ بھی نہ ہو وہ صحیح سلامت گھر واپس آ جاۓ۔۔

مجھے اتنی بےچینی اسی لیے ہو رہی تھی بیچاری نہ جانے کہاں ہوگی کس حال میں ہوگی۔۔

میرے الله تُو بڑا غفور رحیم ہے اُس کی مدد کر میرے مولا۔۔

ایان کے آنے سے پہلے پہلے اُس نے منھ دھویا اپنے آنسو صاف کیے۔۔

پہلی بار ان آنکھوں سے کسی کے لیے آنسو نکلے ہیں میرے لیے بہت خاص ہو تم جلدی سے واپس آ جاٶ ابان شاہ انتظار کر رہا ہے تمہارا۔۔ 

ابان کہاں گیا ہے اُسے بُلاٶ گھر جاٸیں بہت زیادہ ٹاٸم ہوگیا ہے۔۔

باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے منشی صاحب کیسے جاٸیں گے آپ گھر ؟؟

ارے بارش ہو رہی ہے ؟؟

جی اور بہت تیز بارش ہو رہی ہے یہاں ہی رُک جاٸیں آج رات آپ۔۔

ایان نے کہا،

نہیں گھر پر وہ دونوں ماں بیٹی اکیلی ہوں گی ابان بھی یہاں ہی ہے۔۔

کچھ نہیں ہوتا منشی صاحب ابان شاہ گھر فون کر کے بتا دیتا ہے آپ فکر نہ کریں۔۔ اگر ڈرائیور ہوتا تو میں آپ کو ان کے ساتھ بھیج دیتا میری گاڑی میں بھی تھوڑا سا مسٸلہ ہوگیا ہے کل سے۔۔

ہو سکتا ہے کچھ دیر تک بارش رک جائے پھر چلے جاٸیں گے ابو۔۔

ابان شاہ نے ٹی وہ لاٶنج میں داخل ہوتے ہوۓ کہا،

بیٹھو ابان میں کھانا لگواتا ہوں اور ابو کو بھی بُلا کر لاتا ہوں پھر سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاٸیں گے۔۔

ہاں جاٶ چوہدری صاحب کو دیکھو کافی دیر پہلے بول کر گۓ تھے کہ واش روم جا رہا ہوں اب تک نہیں آۓ۔۔

ایان فوراً اپنے ابو کے کمرے کی طرف گیا۔۔

ایان جب کمرے میں داخل ہوا تو چوہدری صاحب بیڈ پر لیٹے لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔۔

ابو جی ؟؟

کیا ہوا طبعیت تو ٹھیک ہے نہ آپ کی ؟؟

ایان اُن کی جانب بڑھا اور اُن کے پاس بیٹھ کر اُن کے ہاتھ مسلنے لگا۔۔

ایان میری غزل سے بات کروا دو ایک بار میرے دل کو سکون مل جاۓ گا۔۔

یہ سُن کر ایان مزید پریشان ہوگیا۔۔

ابو میں کروا دیتا ہوں آپ کی بات اس سے مگر پہلے میں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا آپ کو۔۔۔

نہیں مجھے کہیں نہیں جانا مجھے صرف اور صرف اپنی بیٹی سے بات کرنی ہے میں اس سے بات کر کے ٹھیک ہو جاؤں گا۔۔۔

ایان فوراً باہر کو بھاگا اور ابان کو اس طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

ابان شاہ حیرانگی سے بولا،

کچھ ٹھیک نہیں ہے ابو کی طبیعت خراب ہو رہی ہے کہہ رہے ہیں غزل سے میری بات کرواٶ بتاٶ اب میں کیا کروں ؟؟

میں نے ابو سے کہا ہے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں وہ وہاں جانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔۔

پھر اب کیا کریں ؟؟

وہ دونوں وہاں کھڑے سوچنے لگے۔۔

ایسا کرتے ہیں ڈاکٹر کو گھر بلا لیتے ہیں ڈاکٹر چوہدری صاحب کو دوا دے دے گا اور کوئی نیند کی دوا بھی جس سے وہ آرام سے کچھ گھنٹے سو جاٸیں۔۔

اور ویسے بھی کافی بارش ہو رہی ہے ہم کیسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں گے چودری صاحب کو گاڑی بھی ٹھیک نہیں ہے تمہاری۔۔

ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔ میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں۔۔

ایان نے اُسی وقت ڈاکٹر کا نمبر ملایا۔۔۔


ارے کیا ہوا کہاں رہ گۓ ہیں چوہدری صاحب ؟؟

منشی صاحب باہر ٹی وہ لاٶنج میں بیٹھے بولے۔۔

ابو کو بتا دوں اُن کی طبعیت کا ؟؟

ابان شاہ نے ایان کو دھیمی آواز میں کہا،

ایان نے ہاں میں سر ہلایا۔۔

ابو وہ چوہدری صاحب کی طبعیت نہیں ٹھیک لگ رہی اسی لیے وہ اندر کمرے میں ہی ہیں آرام کر رہے ہیں۔۔

کیا ہوا انہیں ؟؟

منشی صاحب فوراً اُٹھے اور کمرے کی طرف گۓ۔۔

چوہدری جی کیا ہوا آپ کو ابھی تو ٹھیک تھے آپ پھر یہ اچانک سے طبعیت کیوں بگڑ گٸی ؟؟

کچھ نہیں بس میری بیٹی مجھ سے دور ہے نہ اس لیے مجھے بس ہر وقت اُسکی طرف سے بےچینی لگی رہتی ہے۔۔

ارے ایان اپنے ابو کی بات کروا دو نا غزل سے اور رامش کو کال کرو اس کو پوچھو کب تک واپس آٸیں گے وہ لوگ غزل کو لے کر۔۔

منشی صاحب نے کہا،

جی جی میں کرتا ہوں انہیں کال۔۔

ایان جھٹ سے بولا،

کیا کریں اب ابان ؟؟ میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا ہے۔۔

پریشان نہ ہو سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا کچھ دیر کے بعد تم اندر جانا اور کہنا کہ میری بات ہوٸی ہے رامش بھاٸی سے وہ لوگ ابھی وہاں پہنچے ہیں ٹھیک سےسگنل نہیں آ رہے تھے وہ کچھ دیر میں خود کال کریں گے پھر میں آپ کی بات غزل سے کروا دوں گا۔۔

ابان شاہ جو اندر سے ٹوٹ چکا تھا مگر پھر بھی سب کے سامنے نارمل رہنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔

جس کو اس وقت خود حوصلہ کی ضرورت تھی وہ ایان کو تسلی دے رہا تھا۔۔

کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر آیا اور چوہدری صاحب کا چیک اپ کیا۔۔

اُن کا بی پی بہت بڑھ چکا تھا۔۔

ایان نے ڈاکٹر سے کہا کہ ایسی دوا دیں انہیں جسے کھا کر یہ کچھ گھنٹے اچھی نیند لے سکیں۔۔

ڈاکٹر نے کہا کہ ان کا خاص خیال رکھیں یہ اپنے ذہن پر زیادہ دباٶ ڈال رہے ہیں کسی بات کو لے کر۔۔۔

ابو دیکھ لیں یہ بات اچھی نہیں ہے آپ کیوں اتنا سوچ رہے ہیں سب کچھ ٹھیک ہے وہ لوگ غزل کے پاس پہنچ گۓ ہیں اور اُسے لے کر وہ کل تک گھر واپس بھی پہنچ جاٸیں گے بھاٸی کہہ رہے تھے سگنل ٹھیک سے نہیں آ رہے اسی لیے وہ بات نہیں کروا رہے آپ سے غزل کی۔۔

اچھا وہ لوگ پہنچ گۓ ہیں نا میری بیٹی کے پاس ؟؟

چوہدری صاحب بولے،

جی ابو پہنچ گۓ ہیں وہ اب آپ نے کسی بھی بات کی ٹینشن نہیں لینی۔۔

آج رات منشی صاحب بھی ہمارے پاس ہی ہیں ہاں نہ منشی صاحب ؟؟

ہاں آج رات حویلی میں ہی رہو تم دونوں۔۔

اچھا اچھا ہم یہاں ہی ہے چوہدری جی بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جاٶ پھر ایک زبردست والا لُڈو کا میچ بھی لگانا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔

منشی صاحب کی یہ بات سُن کر سب ہنسنے لگے۔۔

میں آپ دونوں کے لیے کھانا یہاں پر ہی بھجوا رہا ہوں دونوں یہاں ہی بیٹھ کر کھانا کھا لیں۔۔

ایان یہ کہہ کر کچن کی طرف چلاگیا۔۔


ابان تم تھک گۓ ہوگے جاٶ میرے کمرے میں جا کر آرام کر لو کچھ دیر۔۔

نہیں یار میں یہاں تمہارے پاس ہی بیٹھوں گا۔۔

ارے مجھے تھوڑا ٹاٸم لگے گا گاڑی میں کچھ زیادہ ہی مسٸلہ ہوگیا ہے تم جا کر آرام کرلو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔

چلو ٹھیک ہے میں پھر جا کر تمہارا ویٹ کرتا ہوں۔۔

ابان شاہ اُٹھ کر چلاگیا۔۔

اتنی خوبصورت حویلی میں اس وقت ویرانی کا سماں تھا۔۔

جب وہ اوپر گیا تو اتنے سارے کمرے دیکھ کر وہ سوچنے لگا ایان کا کمرہ کونسا ہوگا ان میں سے ؟؟؟؟

وہ ایک کمرے کی جانب بڑھا تو وہ رامش کا کمرہ تھا اُس نے فوراً دروازہ بند کیا اور دوسرے کمرے کی جانب بڑھا۔۔

جب اُس نے دروازہ کھولا تو سامنے دیوار پر بڑی سی تصویر دیکھ کر اُس کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہوگٸیں۔۔

وہ اُس تصویر کی جانب بڑھا۔۔

یہ خوبصورت آنکھیں۔۔

یہ چمکتی ہوٸی آنکھیں۔۔

گلاب جیسے ہونٹ۔۔

معصوم چہرہ۔۔۔

کہاں چلی گٸی ہو غزل ؟؟

تمہارے ساتھ اتنا وقت نہیں گزارا میں نے مگر جتنا بھی گزارا ہے کیا کمال کا وقت تھا وہ۔۔

واپس آ جاٶ مجھے محبت ہوگٸی ہے تم سے۔۔

میں اپنے دل کا حال اُس خُدا کے علاوہ کسی کو سُنا بھی نہیں سکتا غزل واپس آ جاٶ۔۔

مجھے تمہاری یاد آتی ہے غزل۔۔

وہ یہ کہہ کر گڑگڑا کر رونے لگا۔۔

ساٸڈ ٹیبل پر پڑے غزل کے جھمکے ابان شاہ نے اپنے ہاتھ میں لیے اور انہیں اپنے سینے سے لگالیا۔۔

اُس نے ایک جھمکا واپس رکھ دیا اور ایک جھمکہ اپنی جیب میں ڈال لیا۔۔

بیڈ پر غزل کا ڈوپٹہ پڑا تھا۔۔

ابان شاہ اُس ڈوپٹہ کو پکڑ کر سونگھنے لگا۔۔

اُس ڈوپٹہ کی خوشبو سے وہ غزل کو محسوس کر رہا تھا۔۔

غزل کی مہک ہے اس ڈوپٹہ میں اُس نے اک بار اُس نے ڈوپٹہ کو اپنے سینے سے لگایا اور چوم کر اُسے اپنی جگہ پر رکھ دیا۔۔

الماری میں رکھی کتابوں کو وہ غور سے دیکھنے لگا۔۔

اتنے میں اُسے ایسا لگا جیسے نیچے سے کوٸی اوپر آ رہا ہے وہ فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

ایان کے کمرے میں جا کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔

جھمکا جیب سے نکال کر وہ اُسے دیکھنے لگا۔۔

جلدی سے آ جاٶ پھر میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کروں گا۔۔

میں جانتا ہوں میری محبت کا اظہار کرنے کے بعد تمہیں بھی مجھ سے محبت ہو جاۓ گی۔۔

وہ جھمکا کی طرف دیکھ کر باتیں کر رہا تھا۔۔

ایان فون پر بات کرتا ہوا اوپر آ رہا تھا۔۔

اس کی اواز سنتے ہی ابان شاہ نے وہ جھمکا فوراً سے جیب میں ڈال لیا۔۔

ارے تم صوفے پر کیوں لیٹے ہوئے ہو بیڈ پر لیٹ جاٶ نہ ریلیکس ہو کر۔۔

ایان نے کہا،

نہیں میں یہاں ہی ٹھیک ہوں تم بتاؤ کوئی کال آٸی وہاں سے ؟؟

نہیں یار کوئی کال نہیں آٸی ابھی تک وہاں سے ابو کے سامنے اور کتنے جھوٹ بولنے پڑیں گے مجھے اب۔۔

دل اتنا پریشان ہے کہ میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتا دل چاہ رہا ہے اڑ کر وہاں چلا جاٶں۔۔۔

ہماری ایک ہی بہن ہے اور وہ ہماری جان ہے اس کے بنا ہمارا گھر ایک ویران قبرستان کی طرح ہے۔۔۔

تم نے خود بھی محسوس کیا ہوگا کہ اتنی خاموشی اتنی ویرانی ہے اس حویلی میں۔۔ یقین جانو جب غزل یہاں پر ہوتی ہے تو اتنی چہل پہل ہوتی ہے کبھی میرے کمرے میں کبھی ہنی کے کمرے میں کبھی رامش بھائی کے کمرے میں کبھی وہ مامو کے پاس جا کر بیٹھ جاتی ہے تو کبھی ابو کے کمرے میں چلی جاتی ہے ایسے ہی گھومتی پھرتی رہتی ہے۔۔۔

ذرا سی دیر کے لیے وہ یونیورسٹی جاتی ہے اور ہمارا گھر ایسے ہو جاتا ہے جیسے یہاں پر کوئی رہتا ہی نہیں ہے۔۔

ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ کبھی اسے امی کی کمی میں محسوس نہ ہونے دیں ہم۔۔

ہم سب اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہم ماں جیسا پیار تو نہیں دے سکتے اسے لیکن ہم کوشش پوری کرتے ہیں۔۔

ہماری زندگیاں ویران ہیں اس لڑکی کے بغیر۔۔

یہ کہہ کر ایان سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔۔

میری بھی ایک ہی بہن ہے ایان۔۔ میں تمہارا دکھ اچھے سے سمجھ سکتا ہوں اور تمہاری فیلنگز کو اچھے سے محسوس کر سکتا ہوں انشاءاللہ اسے کچھ بھی نہیں ہوگا وہ صحیح سلامت ہم سب میں واپس آ جائے گی۔۔

ابان شاہ نے اُس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،


کافی دیر تک وہ دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔۔

یہ کتاب تم پڑھتے ہو ؟؟

ابان شاہ نے ساٸڈ ٹیبل پر پڑی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا،

ہاں میری ہی ہے یار۔۔ میں ہی پڑھتا ہوں ابھی کچھ دن پہلے ہی لے کر آیا تھا۔۔

دل ٹوٹ گیا ہے کیا تمہارا جو تم اتنی دُکھی کتاب پڑھ رہے ہو۔۔

ابان شاہ نے کہا،

بس مت پوچھو دل ٹُوٹا ہے اور بہت بُری طرح ٹُوٹا ہے۔۔

ایان نے دھیمے لہجے میں کہا،

ارے تم تو کافی زخمی لگ رہے ہو مجھے کس نے توڑا دل تمہارا ؟؟

ہے ایک شہزادی جس نے میرا دل توڑا ہے میرے اظہار محبت کرنے کے بعد۔۔

یہ سُن کر ابان شاہ حیران ہوا۔۔

کیا واقع ہی ؟؟

تم نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اس سے ؟؟

ابان شاہ نے حیرانگی سے کہا،

ہاں میں نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا اس سے اور شاید میں نے بہت جلدی کر دی تھی اظہار کرنے میں۔۔۔

ابان تمہیں پتہ ہے آج کل کے کچھ مرد عورتوں کو دھوکہ دے کر چلے جاتے ہیں اور عورتیں ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں اور پھر عورت سمجھتی ہے کہ شاید ہر مرد ہی دھوکے باز ہے۔۔۔

جب ہم جیسے مردوں کی باری آتی ہے اظہار محبت کی یا محبت کرنے کی تو وہی عورتیں ہماری محبت ہمارے منہ پر دے مارتی ہیں اور اُس نے بھی یہی کیا میرے ساتھ۔۔

اس کی باتوں سے اس کے لہجے سے میں بہت ہرٹ ہوا ہوں مگر پھر بھی میں اسے اچھے لفظوں میں ہی یاد کرتا ہوں اس کے لیے اچھے کی ہی دعا کرتا ہوں۔۔۔ وہ ایک بار پُکارے مجھے میں بھاگتا ہوا جاٶں گا اُس کی دہلیز پر مگر وہ مجھے پکارے تو صحیح۔۔۔

ابان شاہ تو یہ یہ سب کچھ سن کر سوچ میں ہی پڑ گیا کہ کہیں غزل اس کی محبت اس کے منہ پر نہ مار دے۔۔

تم کیا سوچنے لگ گۓ ؟؟

ایان نے ابان کا بازو ہلاتے ہوۓ کہا،

ک۔۔کچھ نہیں میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں دل ٹوٹنے کے بعد اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد تم نے خود کو کیسے سنبھالا ہوگا یار۔۔۔

بس یار اللہ ہے نا سنبھالنے والا بس اُسی کا کرم ہے۔۔

ہاں یار بالکل اس میں کوٸی شک نہیں۔۔

*******

دو دن ہوگۓ ہیں وہ تو واپس ہی نہیں آیا مجھ سے ملنے۔۔

نہ جانے کہاں چلا گیا ہے ؟؟؟

کہیں فرار تو نہیں ہوگیا وہ ؟؟

ویسے جب وہ ہاسپٹل سے اُس دن گیا تھا کافی پریشان لگ رہا تھا اُس کے بعد نہ وہ آیا نہ کوٸی رابطہ کیا آخر کیا بات ہوئی ہوگی اس دن جو ہے وہ ایسے چلا گیا تھا ؟؟

کیسے معلوم کروں میں اس کا ؟؟

یشما باہر صحن میں بیٹھی یہ سب باتیں سوچ رہی تھی۔۔

اب تو میرا گھر سے نکلنا بھی مشکل ہو گیا ہے چچا ہر وقت گھر کے باہر چوکیدار بن کر بیٹھا رہتا ہے۔۔

ویسے اتنا تو میں بھی جانتی ہوں دھوکہ دے کر تو نہیں گیا اچھا اچھا انسان ہے ویسے۔۔

یشما مسکرانے لگی۔۔

ایسا کرتی ہوں میں خود اسے کال کرتی ہوں۔۔

یشما نے فوراً رامش کا نمبر ڈاٸل کیا تو اُس کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔

نمبر بند ؟؟

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟

اخر اتنی بڑی پوسٹ پر ہے یہ انسان اس کا تو نمبر بند ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔

پتہ نہیں کیا بات ہے ؟؟

میں تو اس کے کسی دوست کو بھی نہیں جانتی کیسے پتہ کروں گی اس کا ؟؟

ایک ہی حل ہے مجھے پولیس اسٹیشن ہی جانا پڑے گا وہاں جا کر ہی کچھ معلومات مل سکتی ہیں۔۔۔

ٹھیک ہے پھر صبح ہوتے ہی میں پولیس اسٹیشن جاؤں گی وہاں جا کر سب معلوم کروں گی اُس انسپیکٹر حسن سے۔۔

یشما کہاں ہو ؟؟

یشما ؟؟

جی جی اماں آٸی۔۔

مجھے پانی دو یشما۔۔

جی اماں ابھی لاٸی پانی۔۔

یہ کہہ کر یشما کچن میں بھاگی اور اپنی اماں کا پانی دیا۔۔ 

یشما کو رامش سے ملنے اور اُس کی خیر خبر جاننے کی بےچینی لگی ہوٸی تھی۔۔

اس نے اپنی امی کو ناشتہ کروایا دوا دی اور فورا پولیس اسٹیشن جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔۔۔

ایسا کرتی ہوں عبایا پہن کر چلی جاتی ہوں ایسے تو میں نظروں میں ا جاؤں گی پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے۔۔

ہاں یہ بیسٹ رہے گا۔۔ اس نے عبایا پہنا اور جانے کے لیے گھر سے نکلی۔۔

رکشہ میں بیٹھنے لگی تو اس کا چچا سامنے سے آ رہا تھا اور اس نے یشما کو رکشہ میں بیٹھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔۔

یشما نے بھی اپنے چچا کو دیکھ لیا تھا مگر اس نے ایسے شو کیا جیسے اس نے اپنے چچا کو دیکھا ہی نہیں ہے وہ انجان بن گئی۔۔

تھوڑا آگے جا کر یشما نے رکشہ والے کو رکشہ روکنے کو کہا اور وہاں ہی اُتر گٸی۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو تم سے کہا تھا گھر سے باہر پاٶں بھی مت رکھنا تمہیں شاید میری بات کی سمجھ نہیں آتی۔۔

چچا نے باٸیک ساٸڈ پر کھڑی کی اور یشما کے پاس آ کر کھڑا ہوگیا۔۔

میں تو ضروری کام سے آٸی ہوں تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟

مجھے تو لگتا ہے تم میرا پیچھا کر رہے تھے۔۔

ہاں میں تمہارا پیچھا کر رہا تھا چلو باٸیک پر بیٹھو جلدی۔۔

میں تمہارے ساتھ نہیں جاٶں گی بہتر ہے یہاں سے چلے جاٶ ورنہ اچھا نہیں ہوگا تمہارے ساتھ۔۔

وہ یشما کے قریب ہوا۔۔

میں نے کہا باٸیک پر بیٹھو ورنہ میں جو تمہارے ساتھ کروں گا نہ تم ساری ذندگی بیٹھ کر رو گی کسی کو منہ دکھانے لاٸق نہیں چھوڑوں گا تمہیں سمجھی۔۔

دُور ہٹو مجھ سے بےشرم انسان۔۔

جو تمہارے گندے ارادے ہیں نہ میں سب اچھے سے جانتی ہوں۔۔

یشما نے اُسے گھورتے ہوۓ پیچھے کو دھکا دیا۔۔

پیار کی زبان تمہیں کہاں سمجھ میں آتی ہے۔۔

اُس نے یشما کا بازو زور سے پکڑتے ہوۓ کہا تو یشمانے شور مچانا شروع کیا۔۔

بچاٶ مجھے یہ بےشرم آدمی مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔۔

مدد کرو میری۔۔۔

یشما کی آواز سُن کر آس پاس دکانوں سے لوگ باہر نکل کر آۓ اور چچا کو پکڑلیا۔۔

بےغیرت آدمی کچھ تو شرم کر لڑکی کو زبردستی ساتھ لے جانا چاہتا ہے ہاں ؟؟

دو آدمیوں نے چچا کو پکڑا اور تین چار آدمی مل کر اس کو مارنے لگے۔۔

جاؤ بہن جاؤ آپ یہاں سے چلی جاؤ۔۔

ایک آدمی نے یشما سے کہا تو یشما فوراً رکشہ میں بیٹھی اور پولیس اسٹیشن جانے کے لیے نکل گٸی۔۔

اب آۓ گا اس کو مزہ میری جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے۔۔ پتہ نہیں آخر چاہتا کیا ہے عجیب آدمی۔۔

یشما بڑبڑاٸی۔۔۔

پولیس اسٹیشن جب وہ پہنچی تو انسپیکٹر حسن اپنی گاڑی سے نکل کر رہا تھا۔۔

شکر ہے یہ مجھے باہر ہی مل گیا ہے یہاں ہی اس سے پوچھ لیتی ہوں رامش کے بارے میں۔۔

اوۓ حسن۔۔

یشما کی آواز سن کر حسن حیرانگی سے یہاں وہاں دیکھنے لگا کہ آخر کس نے اُسے اس بُرے انداز میں آواز دی ہے۔۔

اوۓ یہاں وہاں کیا دیکھ رہے ہو ؟؟

یشما نے اُس کے پاس جا کر کہا تو وہ اُسے حیرانگی سے دیکھنے لگا۔۔

تم ؟؟

تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟

انسپیکٹر حسن نے اُسے حیرانگی سے دیکھتے ہوۓ کہا،

ارے کیا بات ہے اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو ؟؟؟

تم یشما ہو نہ جس کی پوری گینگ کو ہم نے پکڑا تھا ؟؟

وہی ہو نہ تم ؟؟

ہاں میں وہی ہوں اتنے انجان کیوں بن رہے ہو ؟؟

میں تو تمہارا گیٹ اپ دیکھ کر اتنا حیران ہو رہا ہوں ویسٹرن سے ایک دم دیسی لُک واہ کیا بات ہے۔۔۔۔

زیادہ بڑ بڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ٹھیک ہے مجھے یہ بتاؤ رامش کہاں پر ہے ؟؟

وہ میری کال بھی اٹینڈ نہیں کر رہا اس کا نمبر بند جا رہا ہے مجھے بتاؤ وہ کہاں پر ہے ؟؟

خیر تو ہے نا تمہیں سر سے کیا کام ہے ؟؟

مجھے جو بھی کام ہے اس سے وہ چھوڑو تم مجھے یہ بتاؤ کہاں پر ہے وہ ؟؟

سر دو دن سے یہاں پر نہیں ہیں وہ ضروری کام سے شہر سے باہر گۓ ہیں اور واپس کب آٸیں کچھ پتہ نہیں۔۔

کیا مطلب کہاں گیا ہے وہ ؟؟

تمہیں تو بتا کر ہی گیا ہوگا۔۔

جو کچھ مجھے پتہ تھا میں نے تمہیں بتا دیا ہے اب مجھ سے زیادہ سوال جواب نہیں کرو۔۔

اکڑو۔۔

دوبارہ پھر آٶں گی میں اور تم سے ہی پوچھوں گی سب کچھ۔۔۔

اس لیے معلوم کرلو اُس کے بارے میں۔۔

یشما نے منھ بناتے ہوۓ کہا اور وہاں سے چلی گٸی۔۔

میں تو حیران ہوں اس لڑکی سے جب ہم نے اسے اور اسکی گینگ کو پکڑا تھا اس کی ڈریسنگ ایسی تھی جیسے میں کیا کہوں۔۔

انسپیکٹر حسن بھی بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔۔

*******

کیا سوچا میڈم تم نے ؟؟

اُمید کرتی ہوں کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا۔۔

زُمر نے روشنی کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا جو اپنے بال کنگھی کر رہی تھی۔۔

تمہارے یہ لمبے خوبصورت بال دیکھ کر تو کوٸی بھی تم پر فدا ہوسکتا ہے۔۔

بس کر دیا کرو زُمر ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تم سوچتی رہتی ہو۔۔

یہ جو مرد ہم سے ملاقات کرنے آتے ہیں یہ بس اپنا دل بہلانے آتے ہیں یہاں ان کو کوٸی دلچسپی نہیں ہم میں۔۔

میرے بالوں میں یہ آٸل لگاٶ بہت خراب ہوگۓ ہیں۔۔

اچھا لاٶ لگا دیتی ہوں اور اچھی سی مالش بھی کر دیتی ہوں تمہیں سکون ملے گا۔۔

اچھا بتاٶ تم نے اُس لڑکے کے بارے میں کیا سوچا ؟؟؟

ارے کیا سوچنا تھا میں نے اب اتنی باتیں سنانے کے بعد اُس کے بارے میں۔۔ نہ جانے کہاں سے آیا تھا کہاں چلا گیا ہے کچھ پتہ نہیں اس لیے اس بارے میں سوچنے کا اب فاٸدہ نہیں۔۔

میری جان تم سوچو گی تو وہ واپس بھی آ جاۓ گا ویسے بھی بہت کھڑوس ہو تم روشنی۔۔

کھڑوس میں بالکل بھی نہںں ہوں بس حالات آپ کا لہجہ ایسا کر دیتے ہیں کہ ہر کسی کو ہم تلخ ہی لگتے ہیں۔۔ مجھے بھی لگتا ہے شاید اُسے مجھ سے محبت تھی مجھے ایسا محسوس ہوا ہے۔۔

روشنی نے کہا،

اگر تم کہو گی تو میں اُس لڑکے کا پتہ لگوا لوں گی سچ بتاٶں تو میرے دل کو بہت اچھا لگا ہے وہ لڑکا اسی لیے تم سے بار بار کہہ رہی ہوں سوچ لو ابھی بھی وقت ہے کہیں میں نہ چُرا لوں اُس لڑکے کو۔۔

زُمر یہ کہہ کر ہنسنے لگی۔۔

مجھے تو لگتا ہے تم اپنے لیے یہ سب کر رہی ہو۔۔

اگر ایسا ہے تو یہ غلط ہے میری پیاری۔۔

روشنی اُٹھی اور شیشے کے آگے جا کر کھڑی ہو کر اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔۔

نہیں روشنی میں ایسا کیوں سوچوں گی جب اُس کے دل میں محبت ہی تمہارے لیے ہے اور مجھے لگ رہا ہے تمہارے دل میں بھی اُس کے لیے کہیں نہ کہیں محبت ضرور ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں تم اس بات کو مانو گی نہیں۔۔

ارے اگر میرے دل میں محبت ہوگی بھی تو کونسا وہ مجھے مل جاۓ گا ہم جیسوں کو کہاں ملتے ہیں اچھے اور چاہنے والے لوگ۔۔

بس کر دو تم بس تیار رہو میں جلد از جلد اُس لڑکے کا پتہ لگواتی ہوں اپنا خیال رکھو اگر باہر بھی ملاقات کرنی پڑی تو میں تم دونوں کو ملوا دوں گی۔۔

روشنی ذرا سا مسکراٸی اور پھر سے اپنا کام کرنے لگی۔۔

**********

میں نہیں کھاٶں گا یہ دواٸی لے جاٶ یہ کھانا بھی اور دواٸی بھی۔۔

جب تک میری بات نہیں کرواٶ گے تم غزل سے میں نہیں کھاٶں گا کھانا بس بہت ہوگیا ہے مجھے لگتا ہے تم لوگ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو۔۔

ابو آپ غلط سوچ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے میری ابھی کچھ دیر پہلے ہی وقاص ماموں سے بات ہوٸی ہے وہ لوگ آنے کے لیے نکل گۓ ہیں۔۔

ایان نے کہا،

تم جھوٹ بول رہے ہو جب تک میری بات غزل سے نہیں ہو جاۓ گی مجھے سکون نہیں ملے گا۔۔

ایان اٹھ کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں ارہی تھی کہ اب وہ اپنے ابو سے کیا کہے۔۔ پہلے ہی وہ بہت زیادہ جھوٹ بول چکا تھا۔۔

دیکھا ضرور کوئی بات ہے جو یہ لوگ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔۔

اخر ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ایک بار بھی تم نے میری بات غزل سے نہیں کروائی۔۔

کہاں ہے وہ کیا ہوا ہے اسے کیوں وہ بات نہیں کر رہی مجھ سے ؟؟؟

کیا کروں میں کیسے سمجھاٶں ابو کو ؟؟

یاالله میری مدد کر۔۔

اتنے میں ایان کا موباٸل بجنے لگا۔۔

ہنی کی کال ؟؟

یاالله سب خیر ہو۔۔

ہیلو ؟؟

ہنی ؟؟

سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

ن۔۔نہیں ہنی غزل کا کچھ پتہ نہیں ہے یہاں ہم ہر طرح کی کوشش کر چکے ہیں رات اتنی زیادہ ہوگٸی ہے پہاڑوں میں بڑے بڑے خوفناک درختوں میں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو ہنی ؟؟؟

ابو کی کل رات کو بھی طبعیت بگڑ گٸی تھی اور ابھی بھی میرے پیچھے پڑے ہیں میری بات کرواٶ غزل سے۔۔

ابو نے صبح سے نہ ہی کھایا ہے اور دواٸی بھی نہیں کھا رہے ہیں بس انہیں اب غزل سے بات کرنی ہے بتاٶ میں کیا کروں ؟؟

کہہ رہے ہیں جب تک میری غزل سے بات نہیں کرواٶ گے میرے دل کو چین نہیں آۓ گا اور نہ ہی میں کچھ کھاٶں گا۔۔

میری سمجھ سے سب کچھ باہر ہوگیا ہے ابو کو اب سنمبھالنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ انہیں شک ہوگیا ہے کہ ہم اُن سے کچھ چھپا رہے ہیں۔۔

یاررر یہ سب کیا ہوگیا ہے ہمارے ساتھ ہم تینوں یہاں اتنے پریشان ہیں تم ابو کے ساتھ وہاں پریشان ہو کریں تو کیا کریں ؟؟

ہنی نے افسردہ لہجے میں کہا،

ہنی کسی بھی طرح کچھ بھی کر کے غزل کو ڈھونڈو اُسے اپنے ساتھ لے کر آٶ۔۔

گھر دیکھو کیسے ویران پڑا ہے غزل کے بغیر اُسے لے کر آٶ ڈھونڈو اُسے۔۔

ایان نے پریشان لہجے میں کہا،

دعا کرو بس تم کہ وہ جلد از جلد مل جاۓ اور ہم اپنے ساتھ اُسے صحیح سلامت گھر لے آٸیں۔۔

ہنی نے کہا،

*******

ایسے منہ لٹکاۓ کیوں بیٹھے ہو بھاٸی ؟؟

کچھ معلوم ہوا غزل کا ؟؟

کچھ بولو بھی ؟؟

کہاں گُم ہو ؟؟

مجھے تنگ نہ کرو اکیلا چھوڑ دو مجھے کچھ دیر کے لیے پلیز۔۔

ابان شاہ کمرے میں اُداس بیٹھا تھا۔۔

بتاٶ تو سہی سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

ابو بتا رہے تھے چوہدری صاحب کی بھی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے کیا ہوا ہے انہیں ؟؟

جب سے حویلی سے آۓ ہو کمرے میں قید ہو۔۔

ابان شاہ نے چہرہ دوسری جانب کر لیا۔۔

غزل نہ جانے کہاں کھو گٸی ہے۔۔

میں نے تمہیں بتایا تھا نا وہ اپنی یونیورسٹی ٹرپ کے ساتھ گئی ہے اور میرا اس سے رابطہ نہیں ہوا دو دن سے مجھے لگا تھا شاید وہاں پر سگنل پرابلم ہے اس لیے وہ رابطہ نہیں کر سکی مگر حقیقت کچھ اور ہی ہے حرم۔۔

وہ افسردہ لہجے میں بولا،

کیا حقیقت ہے ؟؟

اُس نے حیرانگی سے کہا،

غزل کھاٸی میں گر گٸی ہے اُس کا پیر سلپ ہوگیا تھا۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ نے اپنے گُٹنوں پر اپنا سر رکھ لیا۔۔۔

یہ سُن کر غزل حیران پریشان ہوگٸی۔۔

یہ کیا کہہ رہے ہو بھاٸی ؟؟؟

ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟

ابو نے تو ایسا کچھ بھی نہیں بتایا آ کر۔۔

یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا یہاں پر سوائے غزل کے بھائیوں کے اور اس کے ماموں کے۔۔

مجھے ایان نے بتایا تھا اور تم بھی یہ بات ابھی کسی سے نہیں کرو گی۔۔۔

حرم ابان شاہ کے پاس جا کر بیٹھ گٸی۔۔

پریشان نہ ہو انشاالله وہ جلد آ جاۓ گی۔۔

حرم نے اپنے بھاٸی کو حوصلہ دیتے ہوۓ کہا،

یقین کرو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی جب یہ میں نے سنا تھا۔۔

تم سوچ بھی نہیں سکتی میں کس حالت میں ہوں۔۔۔

ایک منٹ بھی مجھے سکون نہیں ملا۔۔

وہاں اس کے بھائیوں کی اتنی بری حالت ہے اس کے ابو کی اتنی بُری حالت ہے یہاں میں تڑپ رہا ہوں دعا کرو حرم وہ مل جاۓ اور یہاں واپس آ جاۓ۔۔

ابان شاہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ 

شام کا وقت تھا چوہدری صاحب باہر لان میں بیٹھے تھے۔۔ انہوں نے ملازم کو بھیجا کہ ایان کو کمرے سے بُلا کر لاٶ۔۔

ملازم ایان کو بُلا کر لے آیا۔۔

جی ابو آپ نے بُلایا مجھے ؟؟

ایان میری بات سُنو بیٹا۔۔

جی ابو کہیں میں سُن رہا ہوں۔۔

ایان اپنے ابو کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔

دیکھو بیٹا میں بہت پیار سے تمہیں کہہ رہا ہوں کہ جو بھی بات ہے مجھے بتا دو مجھ سے کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔

اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے تو مجھے بتاؤ ایسے میرا دل پریشان ہوتا رہے گا مجھے سکون نہیں آۓ گا مجھے کچھ تو بتاٶ۔۔

اب ایان مجبور ہوگیا تھا۔۔

ابو دیکھیں جو میں آپ کو بات بتانے جا رہا ہوں دل تھام کر آپ کو میری وہ بات سننی ہوگی اور آپ مجھ سے وعدہ کریں وہ بات سننے کے بعد آپ بالکل بھی پریشان نہیں ہوں گے۔۔

اچھا ٹھیک ہے تم مجھے بتاٶ کہاں ہے غزل وہ ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

جلدی بتاٶ مجھے ایان۔۔

ابو غزل کھاٸی میں گر گٸی ہے۔۔

یہ بولنے کی دیر تھی کہ چوہدری صاحب کی سانسیں جیسے بند ہوگٸی ہوں۔۔

ک۔۔کیا کہہ رہے ہو یہ تم ؟؟

ایسا نہیں ہوسکتا میری غزل کو لے کر آٶ۔۔ کب ہوا یہ سب تم لوگوں نے مجھ سے کیوں چھپاٸی یہ بات ؟؟؟

کیوں چھپاٸی آخر کیوں ؟؟

ابو سنمبھالیں خود کو کیا ہوگیا ہے۔۔

ایان نے کہا،

اسی لیے وہ تینوں پرسوں سے گۓ ہوۓ ہیں مجھے بتانا تک اچھا نہیں سمجھا تم سب نے۔۔

مجھے ابھی کے ابھی لے کر جاٶ غزل کے پاس وہ کیسے گر گٸی ہے کھاٸی میں ؟؟؟

یہ کہتے ہوۓ چوہدری صاحب کا سانس اُکھڑنے لگا اور وہ وہاں ہی گر گۓ۔۔

ابو ؟؟

ابو ؟؟

اُٹھیں ابو کیا ہوگیا ہے ؟؟

اسی لیے نہیں بتا رہا تھا میں آپ کو یہ سب۔۔ میں جانتا تھا یہ سُن کر آپ کی طبعیت بگڑ جاۓ گی اسی لیے چھپا رکھی تھی آپ سے یہ بات۔۔

وہ اپنے ابو کے ہاتھ ملنے لگا۔۔

پانی لے کر آٶ ارشد۔۔

جلدی سے لے کر آٶ ابو کی طبعیت بگڑ گٸی ہے۔۔

غزل۔۔

غزل۔۔

چوہدری صاحب دھیمی آواز میں غزل کو پکار رہے تھے۔۔

********

رامش بھاٸی وقاص ماموں جلدی سے باہر آٸیں۔۔

ابھی رامش اور وقاص ماموں کمرے میں گۓ ہی تھے کہ ہنی بھاگتا ہوا انہیں بُلانے کمرے کی طرف بھاگا۔۔

کیا ہوا سب خیریت ؟؟

وقاص ماموں نے کہا،

جی جلدی سے باہر ائیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں۔۔

ہنی جھٹ سے بولا،

کیا بات ہے ہنی اگر کوئی پریشانی والی بات ہے تو ہمیں یہاں ہی بتا دو باہر لے جا کر کیا کرنا ہے ؟؟

رامش نے کہا،

نہیں بھائی پریشانی والی بات نہیں ہے جلدی سے آپ دونوں باہر آ جائیں۔۔

یہ کہہ کر ہنی باہر بھاگ گیا۔۔ رامش اور وقاص بھی اُس کے پیچھے بھاگے۔۔

لے آٶ اوپر لے آٶ جلدی سے۔۔

کیا لے آٶ کیا کہہ رہے ہو یہ تم ہنی ؟؟

رامش نے کہا،

بھاٸی انہیں کوٸی باڈی ملی ہے مگر چہرہ ٹھیک سے دکھاٸی نہیں دے رہا ہے۔۔

جو بھی ہے بس لے آٶ اوپر جلدی سے۔۔

اگر مدد کی ضرورت پڑے تو آواز دو ہمیں۔۔

رامش چیخا۔۔

کچھ ہی دیر میں بہت سی کوششوں کے بعد ریسکیو کی ٹیم اسے اوپر لے آٸی تھی۔۔

چہرہ بالکل بھی کلٸیر نظر نہیں آر رہا تھا اُس کا۔۔

ہٹ جاٶ سب پیچھے۔۔

اس کا چہرہ صاف کرتے ہوئے رامش کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔

یاالله یہ غزل ہی ہو۔۔

ماموں پانی لے کر آٸیں جلدی سے درختوں نوکدار پہاڑوں کی وجہ سے اس کے چہرے اور جسم پر بہت بُری طرح سے خراشے آ چکی تھی۔۔

اس کا چہرہ پہچاننا اس وقت بہت مشکل تھا۔۔

رامش نے تھوڑا تھوڑا پانی اُس کے چہرے پر ڈالا تو چہرہ کچھ دیکھنے کے قابل ہوا۔۔

م۔۔میری غزل۔۔

غزل۔۔

رامش خوشی سے چیخا۔۔

ک۔کیاااا غزل ؟؟

وقاص ماموں فوراً بولے،

یاالله تیرا شُکر۔۔

اب آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیے فورا ہاسپٹل کے لیے نکل جائیں رامش صاحب۔۔

ج۔۔جی جی جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کرو ہنی۔۔

رامش نے فورا غزل کو اٹھایا اور گاڑی کی طرف لے گیا۔۔

بات سنیں سر ایک منٹ دیکھیں ان کی سانسیں تو چل رہی ہیں نا ؟؟

ریسکیو کی ٹیم میں سے ایک بندے نے کہا۔۔

یہ سن کر رامش کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

رامش نے اُس کی بات کا کوٸی جواب نہیں دیا۔۔ جلدی چلو اب ڈاکٹر ہی چیک کرے گا چل کر۔۔

وہ لوگ فورا ہاسپٹل جانے کے لیے نکل گئے۔۔


ببن جی کیا ہوا آپ کو ابھی تو آپ باہر بیٹھی ہنس رہی تھی۔۔

زُمر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا،

کب سے میں آواز دے رہی ہوں تم سب کو مجال ہے کسی ایک نے بھی میرے کمرے میں آ کرجھانکا ہو سب کی سب مطلبی ہیں میں یہاں تم لوگوں کے لیے بیٹھی ہوں اتنے عرصے سے ہر ضرورت پوری کر رہی ہوں تم سب کی اور تم سب میرا حال تک نہیں پوچھتی آ کر۔۔

سب اپنے اپنے کمرے میں مصروف ہیں مردوں کو دل بہلانے میں۔۔

زُمر بولی،

میرا دل گھبرا رہا ہے مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے میری سانسیں بند ہو جاٸیں گی مجھے ہاسپٹل لے جاٶ۔۔

ارے ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو ببن جی ابھی ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔۔

مجھے ہاسپٹل لے جاٶ زُمر میں مر جاٶں گی۔۔

زُمر فوراً کمرے سے باہر گٸی اور ہال میں جا کر اونچی اونچی بولنے لگی۔۔

کہاں ہیں سب کی سب رانیاں ؟؟

ببن جی کی طبعیت کچھ اچھی نہیں ہے انہیں ہاسپٹل لے کر جانا ہے مدد کرو اُن کو ہاسپٹل لے جانے میں۔۔

زُمر کافی دیر تک چیختی رہی مگر کمرے سے کوٸی بھی باہر نہیں آیا۔۔

پھر ایک حسین لڑکی کمرے سے آنکھیں ملتی ہوٸی باہر آٸی وہ کوٸی اور نہیں بلکہ روشنی ہی تھی۔۔

کیا ہوا ہے زُمر کیوں چیخ رہی ہو ؟؟

ببن جی کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے وہ کہہ رہی ہیں مجھے ہاسپٹل لے جاٶ بتاٶ میں کیسے لے کر جاٶں انہیں۔۔

روشنی فوراً ببن جی کے کمرے میں گٸی۔۔

کیا ہوا ببن جی ؟؟

زیادہ طبعیت خراب ہوگٸی ہے کیا ؟؟

زُمر آٶ یہاں میری مدد کرو ہم ببن جی کو لے جاتے ہیں ہاسپٹل۔۔

زُمر اور روشنی ببن جی کو ایک لوکل گاڑی میں بیٹھا کر ہاسپٹل لے گٸی۔۔

ہاسپٹل جانے تک ببن جی کی طبعیت بہت زیادہ بگڑ گٸی تھی۔۔

انہیں ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کرنا ہوگا۔۔

ڈاکٹر نے کہا،

ٹھیک ہے جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کریں دیکھیں کیسے تڑپ رہی ہیں یہ۔۔

روشنی نے پریشان لہجے میں ببن جی کو دیکھتے ہوۓ کہا،

آپ لوگ ویٹ کریں یہاں پر ہم آپ کو اپڈیٹ کرتے رہیں گے۔۔

روشنی ہم ببن جی کو یہاں لے تو آۓ ہیں مگر پیسے تو ہمارے پاس ہیں نہیں۔۔

ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں زُمر مگر تم پریشان نہ ہو الله کوٸی نہ کوٸی وصیلہ ضرور بناۓ گا۔۔

وہ دونوں باہر ویٹنگ روم میں بیٹھی ببن جی کے ٹھیک ہونے کی دعاٸیں مانگ رہی تھی۔۔


جلدی سے ڈاکٹر کو بُلاٸیں۔۔

کہاں ہیں سب ڈاکٹرز ؟؟

ایان ہاسپٹل میں اینٹر ہوتا ہوا چیخا۔۔

یہ کون ہے جو ایسے چیخ رہا ہے۔۔

زُمر جھٹ سے بولی،

جو بھی ہے ہمیں کیا تم آرام سے یہاں ہی بیٹھی رہو۔۔

ایان اپنے ابو کو ہاسپٹل لے کر آیا تھا غزل کی خبر سُن کر اُن کی طبعیت بہت زیادہ بگڑ گٸی تھی۔۔

ڈاکٹرز چوہدری صاحب کو رُوم میں لے گۓ اور اُن کا چیک اپ کرنے لگا۔۔

سر ہمیں اپنا کام کرنے دیں آپ ویٹنگ روم میں جا کر ویٹ کریں۔۔

ایان کا ٹینشن سے بُرا حال تھا وہاں غزل اور یہاں چوہدری صاحب۔۔

اُس نے جیب سے موباٸل نکالا اور ویٹنگ روم کی طرف ہنی کا کال کرتا ہوا چلاگیا۔۔

وہ نظریں جھکاۓ کان پر فون لگاۓ ویٹنگ روم میں جا کر بیٹھ گیا۔۔

ابھی تک اُس کی نظر روشنی پر نہیں پڑی تھی مگر روشنی اور زُمر اُسے دیکھ کر حیران رہ گٸی۔۔

یہ یہاں کیا کر رہا ہے ؟؟؟

مجھے لگتا ہے ابھی باہر یہی چیخ رہا تھا۔۔

زمر نے کہا،

اُٹھو چلو یہاں سے اس سے پہلے کہ یہ ہمیں دیکھ لے۔۔

نہیں ہم کہیں نہیں جاٸیں گے بہت اچھا موقع ہے آج میں تمہارے اور اس کے درمیان سب کچھ ٹھیک کر دوں گی۔۔

تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نہ یہ ہاسپٹل ہے کچھ تو شرم کرو۔۔

روشنی نے کہا،

وہ اپنی پریشانی میں تھا اُسے آس پاس کی بالکل بھی خبر نہیں تھی۔۔

ہیلو ؟؟

ہیلو ہنی آواز نہیں آ رہی کیا ؟؟

کچھ پتہ چلا غزل کا ؟؟

ابو کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہوگٸی تھی میں انہیں ابھی ہاسپٹل لے کر آیا ہوں۔۔

وہ بات کرتا ہوا ویٹنگ روم سے اُٹھ کر باہر چلا گیا۔۔

اُسے دیکھ کر روشنی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

کتنا کھڑوس ہے یارررر دیکھنا تک پسند نہیں کیا میری طرف اس لڑکے نے۔۔

روشنی کو نے دل ہی دل میں کہا،

تمہیں کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں اتنے پسینے آ رہے ہیں ؟؟

ک۔۔کچھ نہیں۔۔

اتنے میں لیڈی ڈاکٹر اندر آٸی۔۔

یہ کچھ میڈیسنز ہیں اور کچھ ہاسپٹل کے چارجز جو آپ کو ابھی ریسیپشن پر دینے ہوں گے اُس کے بعد ہی ہم آگے کا ٹریٹمنٹ اسٹارٹ کر سکیں گے۔۔

روشنی نے وہ سلپ پکڑی اور ریسیپشن کی طرف گٸی۔۔ زُمر بھی اُس کے پیچھے چلی گٸی۔۔

جب وہ ریسپشن پر گٸی تو ہزاروں میں بل بن گیا تھا۔۔ روشنی پریشان ہوگٸی اُس کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے۔۔

ابھی میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں مگر میں کچھ ہی دیر میں سارے پیسوں کا انتظام کر دوں گی آپ پلیز پیشنٹ کا ٹریٹمنٹ اسٹارٹ کر دیں۔۔

نہیں میڈم ایسا نہیں ہوتا پہلے آپ بل پے کریں اُس کے بعد ہی ٹریٹمنٹ اسٹارٹ ہوگا یہ ہاسپٹل کا رُول ہے۔۔

جس کے پاس نہ ہوں پیسے وہ کیا کرے ؟؟

آپ سے وقت مانگا ہے میں نے انکار تو نہیں کیا دینے سے انسانیت بھی کوٸی چیز ہوتی ہے۔۔

میڈم پلیز جاٸیں یہاں سے بحث مت کریں ہمارے پاس فالتو کا وقت نہیں ہے اس بحث میں پڑنے کے لیے۔۔

میں پولیس میں رپورٹ کر دوں گی آپ کی آپ کو تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے۔۔

روشنی غصے سے بولی تو سامنے سے ایان آ کر اُس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔۔

میڈم جاٸیں آپ یہاں سے پیچھے سر کھڑے ہیں انہیں اپنا بل پے کرنے دیں۔۔

ریسپشنسٹ نے کہا تو روشنی آگ بگولہ ہوگٸی۔۔

پیسہ لینے ہی تو بیٹھے ہو تم لوگ یہاں اور بیٹھے ہی کس لیے ہو غریب انسان کی تو کوٸی اہمیت نہیں ہے۔۔

یہ کہہ کر جب روشنی جانے کے لیے مُڑی تو وہ ایان کے ساتھ جا کر زور سے ٹکراٸی۔۔

وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران رہ گۓ۔۔

آپ ؟؟

تم ؟؟

آ۔۔آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟؟

ہاسپٹل میں ؟؟

سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

ایان نے فوراً کہا تو روشنی نے منھ موڑ لیا۔۔

تمہیں اس سے کیا ؟؟

سر آٸیں آپ ان سے بحث نہ کریں یہ تو شاید آج بحث کے مُوڈ میں ہی ہیں۔۔

ریسپشنسٹ نے کہا تو روشنی اُسے گھورنے لگی۔۔

کیسے بات کر رہے ہو تم ان سے ہاں ؟؟

ایان نے غصے سے کہا،

سر ان کا پیشنٹ ایمرجنسی میں ہے اور ان کے پاس پے کرنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں اور مجھ سے کافی دیر سے بحث کیے جا رہی ہیں۔۔

کتنے پیسے دینے ہیں انہوں نے ؟؟

ایان تمہیں کوٸی ضرورت نہیں ہے یہاں ہیرو بننے کی میں پیسوں کا ارینج کر لوں گی کچھ ہی دیر تک اور پے کر دوں گی۔۔

ایک منٹ دیں گی آپ مجھے ؟؟

ایان نے روشنی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا دھیمے لہجے میں کہا تو روشنی بالکل خاموش کھڑی ہوگٸی۔۔

سر انہوں نے پچاس ہزار روپے پے کرنے ہیں میڈیسنز ہاسپٹل کے چارجز اور ٹریٹمنٹ وغیرہ کے۔۔

ٹھیک ہے میں ان کا بل پے کر دیتا ہوں مگر آپ سے ان سے معافی مانگیں اپنے تلخ لہجے کی۔۔

ایان پلیز تم ایسا مت کرو میں پے کر دوں گی تم یہ سب کیوں کر رہے ہو ؟؟

روشنی بولی،

یہ سلپ دیں آپ مجھے۔۔

ایان نے اُس کے ہاتھ سے سلپ پکڑی اور بل پے کیا۔۔

سوری میڈم۔۔

ریسپشنسٹ نے روشنی سے کہا،

کوٸی بات نہیں۔۔

روشنی نے منہ بناتے ہوۓ کہا تو ایان اُسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔

آپ ویٹنگ روم میں جا کر بیٹھیں میں بھی اپنا بل پے کر کے آتا ہوں۔۔

تم نے نہیں بتایا تم یہاں کیوں آۓ ہو ؟؟

کس چیز کا بل پے کرنے لگے ہو ؟؟

روشنی نے حیرانگی سے کہا،

میرے ابو کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے انہی کو لے کر آیا ہوں وہ بھی ایمرجنسی میں ہیں۔۔

ایان نے فوراً بل پے کیا اور وہ دونوں ویٹنگ روم کی طرف چلے گۓ۔۔

ویسے مجھے اُمید نہیں تھی کبھی تمہارا سامنا ہوگا مگر۔۔۔

یہ کہہ کر روشنی چُپ ہوگٸی۔۔

الله کی مرضی ہے وہ چاہتا تھا ہم ملیں اور دیکھو کسی نہ کسی بہانے سے ہوگٸی ملاقات۔۔

کون ہے ایمرجنسی میں ویسے کس کے ساتھ آٸی ہیں آپ ؟؟

ببن جی ہیں ایمرجنسی میں کوٸی بھی انہیں ہاسپٹل لے جانے کے لیے تیار نہیں تھا میں اور زُمر لے آۓ انہیں یہاں۔۔

اوہ اچھا ببن جی۔۔

ایان نے گردن ہلاتے ہوۓ کہا،

تم انہیں پیسے کیوں دے کر گۓ تھے اُس دن ؟؟

روشنی نے کہا،

تمہیں کا نے بتایا ؟؟

مجھے سب کچھ معلوم ہے اُس دن کے بعد انہوں نے مجھے کسی بھی مرد سے ملاقات کرنے نہیں دی پھر مجھے زُمر نے بتایا کہ تم انہیں پیسے دے کر گۓ ہو اور بول کر گۓ ہو کہ روشنی اب کسی سے ملاقات نہیں کرے گی ایسا کرنے کی وجہ جان سکتی ہوں میں ؟؟

وجہ آپ جانتی ہیں روشنی۔۔ میں نہیں چاہتا آپ کسی سے بھی ملاقات کریں کسی کے لیے بھی رقص کریں۔۔

اگر اتنا ہی تھا تو اُس دن کے بعد سے تم نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا میری دہلیز کی طرف۔۔

اصل میں کافی دنوں سے ہم بہت پریشانیوں سے گزر رہے ہیں میری بہن اپنی یونیورسٹی کے ساتھ ٹوور پر گٸی تھی وہاں وہ کھاٸی میں گر گٸی ہے بات تھوڑی عجیب ہے مگر حقیقت ہے اُس کی دوستوں نے تو یہی بتایا ہے کہ اُس کا پیر سلپ ہوگیا تھا مگر اب جب وہ ملے گی حقیقت تو تج ہی معلوم ہوگی۔۔

یہ سُن کر روشنی کے ہوش اُڑ گۓ۔۔

الله وہ جلدی سے تم سب میں واپس آ جاۓ۔۔

ہاں انشاالله میرے بھاٸی اور ماموں گۓ ہیں امید ہے وہ جلد ہی اسے اپنے ساتھ واپس لے کر ائیں گے آپ بھی دعا کرنا میری بہن کے لیے۔۔

ہاں ضرور کیوں نہیں۔۔

ارے واہ بھٸی واہ کیا بات ہے مجنو صاحب آۓ ہیں اپنی روشنی سے ملنے۔۔

ویسے کتنی چالاک ہو نا تم روشنی جب میں کہہ رہی تھی کہ آؤ اس سے ملنے چلتے ہیں تب تو بڑا کہہ رہی تھی نہیں نہیں یہاں ہی بیٹھی رہو اب اُس کے پاس ایسے بیٹھی ہو جیسے وہ تمہارا شوہر ہو۔۔

کیا ہو گیا ہے کیسی باتیں کر رہی ہو ؟؟

میں تو ریسپشن پر گٸی تھی بل پے کرنے جب تم واش روم میں بھاگ گئی تھی تو کافی بدتمیزی کی میرے ساتھ اُس لڑکے نے جو ریسپشن پر بیٹھا ہوا ہے میں نے اسے کہا کہ میں پیسوں کا ارینج کر کے کچھ ہی دیر میں پے کر دوں گی مگر اس نے صاف انکار کر دیا تو ایان نے آ کر بل پے کیا ہے۔۔

اللہ نے معجزہ کر دیا ہے ہم پر ایان کی صورت میں۔۔

اب جلدی سے پیسوں کا ارینج کرکے ایان کو واپس کرنے ہیں۔۔

مجھے ایک روپے کی بھی ضرورت نہیں ہے روشنی اور پلیز اب یہ پیسوں کی بار بار بات کر کے مجھے شرمندہ مت کرو۔۔۔

اتنے میں نرس ویٹنگ روم میں آٸی۔۔

ایان چوہدری کون ہے یہاں پر ؟؟

جی میں ہوں۔۔

روشی میں ابھی آتا ہوں ٹھیک ہے۔۔

ایان نے کہا اور وہ نرس کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔۔

ایان چوہدری ہمممم۔۔۔

زُمر نے روشنی کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا، 

رامش ایمرجنسی کے باہر پریشان کھڑا تھا۔۔

کیا ہوا بھاٸی ڈاکٹر نے کچھ بتایا ؟؟

ہنی نے کہا تو رامش نے ایمرجنسی روم کی طرف اشارہ کیا ہنی نے فوراً شیشے سے اندر دیکھا غزل کو نہ جانے کونسی کونسی مشین ڈاکٹرز نے لگاٸی ہوٸی تھی۔۔

اک نظر دیکھتے ہی ہنی نے آنکھیں بند کرلی اور دور جا کر کھڑا ہوگیا۔۔

یاالله میری بہن پر اپنا رحم کر بیچاری اتنی تکلیف میں ہے۔۔

بھاٸی کیا کہا ہے ڈاکٹرز نے کچھ تو بتاٸیں ایسے خاموش کیوں کھڑے ہیں ؟؟

ڈاکٹرز صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ دعا کریں بہت نازک حالت ہے غزل کی۔۔۔

اُس کے دماغ پر چوٹ لگی ہے سارا جسم زخمی ہے چہرہ بھی سارا چھیل گیا ہے نہ جانے کیسے تکلیف برداشت کررہی ہے۔۔

یہ کہتے ہوۓ رامش کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔

رامش کو دیکھ کر ہنی بھی رونے لگا۔۔

کیا ہوا تم دونوں رو کیوں رہے ہو سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟؟

وقاص ماموں بھی وہاں آگۓ۔۔

بہت نازک حالت ہے غزل کی پہلے ہی ہم اپنی ماں کو کھو چکے ہیں اب ہمارے اندر کسی کو بھی کھونے کی ہمت نہیں ہے ماموں۔۔

وقاص ماموں نے فوراً رامش اور ہنی کو گلے سے لگالیا۔۔

ایسا مت سوچو بالکل بھی۔۔ دیکھنا غزل ٹھیک ہو جاۓ گی بس الله پر بھروسہ رکھو اور دعا کرو۔۔


بھاٸی ابھی ایان کی کال آٸی تھی صبح اُس وقت ٹھیک سے سگنل نہیں ارہے تھے اس لیے بات نہیں ہو سکی مگر اب اس کی دوبارہ کال آئی تھی اس نے بتایا کہ ابو کی بہت زیادہ طبیعت بگڑ گئی ہے وہ ابو کو لے کر ہاسپٹل میں ہی ہے صبح سے ابو کو ایمرجنسی وارڈ میں رکھا ہوا ہے ڈاکٹرز نے۔۔۔

کیااا ؟؟

کیا ہوا ہے ابو کو کیوں ان کی ایسے اچانک طبیعت بگڑ گئی ہے ؟؟

رامش نے فوراً کہا،

ایان نے ابو کو بتا دیا ہے غزل کے بارے میں۔۔

مگر کیوں ؟؟

اسے کہا بھی تھا کہ ابو سے یہ بات چھپا کر رکھنی ہوگی جب تک ہم غزل کو واپس گھر نہیں لے جاتے۔۔۔

مگر بھائی وہ بتا رہا تھا کہ ابو دن میں نہ جانے کتنی بار اس سے پوچھتے تھے کہ کہاں گئے ہیں وہ لوگ کہاں گئی ہے غزل ؟؟

ابو بار بار کہتے تھے کہ میری بات کرواؤ غزل سے وہ کہہ رہا تھا کہ میں کتنے جھوٹ بولوں ابو سے ؟؟

ابو کو شک بھی ہو گیا تھا کہ ضرور کوئی بات ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہیں یہ لوگ۔۔

میں ایسا کرتا ہوں میں وہاں پر چلا جاتا ہوں بھائی صاحب کے پاس بھی کسی کو ہونا ضروری ہے ایان بیچارہ اکیلا پریشان ہو رہا ہوگا وہاں پر۔۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

ہاں ٹھیک ہے ماموں آپ ابھی واپس جانے کے لیے نکل جاٸیں ہم دونوں یہاں غزل کے پاس ہیں آپ اور ایان ابو کی دیکھ بھال کریں۔۔

رامش نے کہا،

*******

ابان شاہ کی امی کمرے میں آٸی اور دیکھا ابان بھی تک سو رہا تھا۔۔

ابان ؟؟

آج تم نے جانا نہیں سکول ؟؟

ٹاٸم دیکھو نو بج رہے ہیں مجھے لگا شاید تم آج ناشتہ کیے بغیر ہی چلے گۓ ہو۔۔

امی نہیں آج نہیں جاٶں گا میں۔۔

ابان نے دھیمے لہجے میں آنکھیں ملتے ہوۓ کہا،

کیوں تم تو کبھی چھٹی کرتے ہی نہیں پھر آج ایسا کیا ہوگیا جو تمہیں نہیں جانا ؟؟

طبعیت تو ٹھیک ہے تمہاری ؟؟

ابان شاہ کی امی اُس کے سرہانے آ کر بیٹھ گٸی۔۔

امی پتہ نہیں کیوں ذندگی بہت عجیب لگنے لگی ہے اب۔۔

ابان شاہ بولا،

کیسی باتیں کررہے ہو ابان کیوں عجیب لگنے لگی ہے ذندگی ہاں ؟؟

کیا ہوگیا ایسا ؟؟

یہ کہتے ہوۓ انہوں نے ابان شاہ کے ماتھے پر سے بال ہٹاۓ تو اُس کا ماتھا تپ رہا تھا۔۔

ابان تمہیں تو بخار ہے بیٹا۔۔

کیا ہوا ہے کوٸی پریشانی ہے کیا ؟؟

ن۔۔نہیں امی کچھ نہیں وہ میں اپنے منہ پر ایسے تکیہ رکھا ہوا تھا اسی لیے گرم ہوگیا ہے سر۔۔

ابان شاہ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گیا۔۔

نہیں ابان تمہیں بخار ہے تم بچپن سے اپنی بیماری چھپاتے آۓ ہو اور ابھی تک یہ عادت نہیں گٸی تمہارے اندر سے۔۔

اُٹھو شاباش منہ ہاتھ دھو جا کر میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لے کر آتی ہوں پھر تم جا کر دواٸی لے آنا۔۔

یہ کہہ کر اُس کی امی کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔

امی آپ کو کیسے بتاٶں میں اپنے اندر کا حال۔۔۔

اُس کی یاد میں اُس کی ٹینشن میں ابان شاہ ختم ہو رہا ہے۔۔

کیسے دن آگۓ ہیں میری ذندگی میں اپنا درد اپنے دل کا حال میں کسی کو سُنا بھی نہیں سکتا ہوں۔۔

میرا بس نہیں چل رہا میں تمہارے پاس پہنچ جاٶں غزل۔۔

اک بار مجھے آواز تو دو ابان شاہ حاضر ہو جاۓ گا۔۔

دل چاہتا ہے میں بھی وہاں چلا جاٶ مگر پھر سوچتا ہوں کوٸی غلط مطلب نہ نکال لے میرے وہاں جانے کا کہ ابان شاہ کا وہاں کیا کام ہے ؟؟

مجھے اپنی نہیں تمہاری عزت کی پرواہ ہے غزل۔۔

وہ اپنے بستر میں لیٹا یہ سب باتیں سوچ رہا تھا۔۔

اتنے میں ابان شاہ کا موباٸل بجنے لگا۔۔

وہ اُٹھا اور چارجنگ سے اپنا موباٸل اُتارا۔۔

ایان کی کال ؟؟

اُس نے فوراً کال اٹینڈ کی۔۔

ہیلو ؟؟

ہیلو ابان کہاں ہو ؟؟

فری ہو ؟؟

ہاں میں گھر پر ہی ہوں کیوں کیا ہوا سب خیریت ؟؟؟

صبح میں نے ابو کو غزل کے بارے میں بتا دیا تھا ابو کی بہت زیادہ طبعیت خراب ہوگٸی تھی میں انہیں ہاسپٹل لے آیا تھا اگر تم فری ہو تو یہاں آ جاٶ میرے پاس۔۔

ارے تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔چلو میں بس آدھے گھنٹے تک تمہارے پاس پہنچتا ہوں۔۔

ابان شاہ نے کال بند کی اور فوراً شاوور لینے کے لیے چلا گیا۔۔

ریڈی ہو کر جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو اُس کی امی اُس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔۔

ابان ناشتہ بس تیار ہے باہر مت جانا۔۔

امی مجھے جلدی ہے میں بعد میں کرلوں گا ناشتہ ابھی مجھے جانا ہے۔۔

ابان تم ناشتہ کیے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھو گے تمہاری طبعیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔

اُس کی امی سخت لہجے میں بولی تو ابان شاہ چُپ چاپ کچن میں چلا گیا۔۔

امی آپ ایسا کریں مجھے یہ پیک کر دیں میرا دوست ہاسپٹل میں ہے وہ بھی کھا لے گا میرے ساتھ میں اُسی کے پاس جا رہا ہوں۔۔

کونسا دوست ہاسپٹل میں ہے ؟؟؟

اور کیوں ہے وہ ہاسپٹل میں ؟؟

امی وہ اُس کے ابو ٹھیک نہیں ہیں ایڈمٹ ہیں ہاسپٹل میں۔۔

اچھا ٹھیک ہے تم بھی اُسی ہاسپٹل سے دواٸی لے لینا یاد سے اور یہ ناشتہ بھی کر لینا۔۔

ٹھیک ہے میری پیاری امی۔۔

ابان شاہ نے اپنی امی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا،


مجھے بہت خوشی ہوٸی سُن کر کہ تمہاری بہن مل گٸی ہے۔۔ اور اپنے ابو کا بتاٶ اُن کی کیسی طبعیت ہے اب ؟؟

ابو پہلے سے بہتر ہیں میں انہیں بھی بتا کر آیا ہوں کہ غزل مل گٸی ہے اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

الله تمہارے ابو کو صحت دے۔۔

ہاں آمین۔۔ امی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمارے پاس صرف غزل ہی ہے اور وہ ہم سب کی جان ہے ہمارے گھر کی رونق ہے۔۔

آپ یقین کریں اس وقت ہمارا گھر کسی قبرستان سے کم نہیں ہے اُس کے ہونے سے ہی ہمارے گھر میں ہماری ذندگیوں میں رونق ہے۔۔۔

اتنا پیار کرتے ہو اپنی بہن سے ؟؟

روشنی ایان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوٸی بولی،

ہاں بےحد پیار ہے مجھے غزل سے۔۔

وہ نظریں جھکاۓ بولا،

نہ جانے کیوں آج ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے تمہیں ٹھکرا کر غلطی کی ہے مگر میری حقیقت تمہاری ذندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوسکتی ہے۔۔

مجھے اس بات سے بالکل فرق نہیں پڑتا سچ میں۔۔۔

ایان نے فوراً کہا،

کیوں ہو تم ایسے ؟؟

روشنی بولی،

صرف آپ کے لیے قسم سے۔۔

ایان اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔۔

تمہیں مجھ سے اچھی لڑکی مل سکتی ہے مجھ سے زیادہ خوبصورت۔۔۔

مگر مجھے آپ ہی چاہٸیے ہیں مجھے آپ سے محبت ہے۔۔

سسسس۔۔ بس کر دو ایان جاٶ اپنے ابو کو دیکھو جا کر کیا باتیں کر رہے ہیں ہم یہاں ہاسپٹل میں بیٹھ کر۔۔

اتنے میں ایان کا موباٸل بجنے لگا۔۔

دوست ایا ہے میں ابھی آتا ہوں آپ کے پاس۔۔

مت آنا میرے پاس پلیز۔۔۔

روشنی جھٹ سے بولی،

آٶں گا آپ ہی کے پاس آٶں گا روک سکتی ہیں تو روک لیجئے گا۔۔

ایان ہنستا ہوا ویٹنگ روم سے باہر گیا اور ابان شاہ کی کال اٹینڈ کی۔۔

ہاں ابان ؟؟

میں آگیا ہوں کہاں ہو تم ایان ؟؟

میں اوپر ویٹنگ روم کے باہر ہوں تم وہاں پر ہی آ جاؤ۔۔

ٹھیک ہے۔۔

ابان شاہ اوپر گیا اور ایان سے ملا۔۔

ناشتہ کیا تم نے ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

نہیں یارر کچھ بھی نہیں کھایا کل رات سے بھوکا ہوں ٹینشن میں کہاں کچھ کھایا پیا جاتا ہے۔۔

اچھا چلو آٶ امی نے یہ ناشتہ دیا ہے تم کھاٶ میں چوہدری صاحب سے مل کر آتا ہوں۔۔

ارے واہ بھٸی لاٶ دو میں تو کھاٶں۔۔ میں نے تمہیں کچھ بتانا بھی ہے ابان۔۔

ہاں بولو ؟؟

ابھی کچھ دیر پہلے ہنی کی کال آئی تھی وہ بتا رہا تھا کہ غزل مل گئی ہے۔۔ زیادہ بات نہیں ہوئی بس اس نے اتنا ہی بتایا کہ غزل مل گئی ہے میرے دل کو سکون مل گیا ہے اور میں نے ابو کو بھی بتا دیا ہے۔۔

دو منٹ مشکل سے بات ہوئی ہے اس کی اور میری۔۔۔ میں نے اسے بتایا کہ ابو کی طبیعت بگڑ گئی تھی میں انہیں ہاسپٹل لے کر آیا ہوں وہ بیچارے وہاں پر پریشان ہیں میں یہاں پر مگر اب غزل مل گئی ہے اب ہمیں تسلی ہو گئی ہے سکون مل گیا ہے دل کو۔۔

یہ سن کر ابان شاہ حیران رہ گیا۔۔۔

کیا واقع ہی ؟؟

یاالله تیرا کڑوڑ بار شکر۔۔

ہاں یاررر بہت کرم ہے الله کا۔۔

تم ناشتہ کرو میں ابھی آیا دو منٹ میں۔۔

ابان شاہ فورن ہاسپٹل کی مسجد میں گیا اور دو نفل ادا کیے۔۔

اے میرے الله تیرا بہت بہت شکریہ اب وہ جلدی سے بس یہاں واپس آ جاۓ اور ہم سب کی زندگیاں پہلے جیسی خوشحال ہو جائیں۔۔

وہ نفل ادا کر کے فوراً چوہدری صاحب کے پاس گیا۔۔

کیسی طبعیت ہے اب آپ کی چوہدری صاحب ؟؟

ارے واہ جی ابان بیٹا آیا ہے۔۔

ابان آگے بڑھا تو چوہدری صاحب نے اُس کے کندھے پر تھپکی دی۔۔

مُنشی جی کیسے ہیں انہیں بھی لے آنا تھا یہاں۔۔

ابو کو تو پتہ ہی نہیں ہے اپ کی طبیعت کے بارے میں۔۔ مجھے تو ایان نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی کال کر کے بتایا تو میں فورا یہاں پر چلا آیا۔۔

ہاں میری صبح ہی طبیعت خراب ہوئی تھی تو یہ ایان مجھے ہاسپٹل لے آیا۔۔ انہوں نے مجھ سے اتنے دن تک چھپائے رکھا غزل کے بارے میں۔۔ میں تو اُسے وہاں پر بھیجنے کے حق میں تھا ہی نہیں بس غزل کی ضد اور پھر رامش نے کہہ دیا کہ نہیں جو یہ چاہے گی ہم اس کی ہر بات مانیں گے۔۔ پھر تم ہی بتاؤ بہن بھائی کے معاملے میں میں کیا کہتا۔۔

آپ پریشان نہ ہوں مجھے ایان نے ابھی بتایا ہے کہ غزل مل گئی ہے جلد ہی رامش بھائی لوگ اسے لے کر یہاں پر واپس آ جائیں گے۔۔

ہاں ہاں ایان نے مجھے جب سے بتایا ہے کہ وہ مل گئی ہے تب سے ہی میرے دل کو کچھ سکون ہے مگر مکمل سکون تو تب آۓ گا جب وہ میری انکھوں کے سامنے آ جائے گی۔۔۔

میں نے اسے کہا ہے کہ میری ایک بار بات کروا دو غزل سے مجھے یہ بات بڑی عجیب لگ رہی ہے کہ وہ کھائی میں گری ہے اب تم خود سوچو اگر وہ کھائی میں گری ہے تو کتنی بری حالت ہوگی اس کی ہاں نہ ؟؟؟

کیا میں غلط سوچ رہا ہوں تم ہی بتا دو ابان شاہ ؟؟؟

چوہدری صاحب کی یہ بات سن کر ابان شاہ بھی سوچ میں پڑ گیا۔۔

کھائی اتنی گہری ہوتی ہے اتنے پتھر اتنے پہاڑ اتنے درخت اتنے کانٹے۔۔

میں نے تو سوچا ہی نہیں اس بارے میں کہ غزل کی کس حالت میں ہوگی بس یہ سن کر کے وہ مل گئی ہے دل کو سکون مل گیا تھا۔۔

ابان شاہ اب پہلے سے زیادہ پریشان ہوگیا تھا۔۔

کہاں گُم ہوگۓ ہو لڑکے ؟؟

تم تو ایک دم سے چُپ ہوگۓ ہو۔۔

آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔

ابان شاہ جھٹ سے بولا،


تم یہاں ؟؟

کافی عرصے کے بعد دیکھا ہے تمہیں تم تو پہلے سے بھی زیادہ حسین ہوگٸی ہو کیا بات ہے۔۔

کون ہو تم ؟؟

روشنی نے تلخ لہجے میں کہا،

بھول گٸی تمہارے اڈے پر کٸی بار آ چکا ہوں تمہیں بس دور سے دیکھا تھا میں نے اور سوچا ایک دن اس سے بھی ضرور اکیلے میں ملاقات کروں گا مگر کا کریں وقت ہی نہیں ملتا اب تو۔۔

وہ روشنی کے پاس بیٹھ گیا تو وہ ایک دم پیچھے ہوگٸی۔۔

اس وقت ویٹنگ روم میں صرف وہی دونوں موجود تھے۔۔

دُور دُور کیوں ہو رہی ہو پاس آٶ نہ۔۔

وہ جیسے ہی اُس کی جانب بڑھا تو سامنے ایان ویٹنگ روم میں اینٹر ہوا۔۔۔

ایان نے جب اُس بےحیا آدمی کو روشنی کے قریب جاتے ہوۓ دیکھا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔۔ اُس نے فوراً اُسے گریبان سے پکڑ کر دُور پرے دھکا دیا۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوٸی روشنی کے قریب جانے کی ہاں ؟؟

کیا کہہ رہا تھا یہ آپ سے ؟؟

ایان نے روشنی سے کہا،

ک۔۔کچھ نہیں بس بدتمیزی کر رہا تھا میرے قریب آنے کی کوشش کررہا تھا۔۔

ایک دم سے وہ لڑکا اُٹھا اور اُس نے ایان کو گریبان سے پکڑ لیا۔۔

ایان یہ تمہیں مار دے گا تم چلے جاٶ یہاں سے۔۔

روشنی چیخی تو کافی لوگ ویٹنگ روم میں جمع ہوگۓ۔۔

آپ لوگ تماشا دیکھنے آۓ ہیں یہاں ؟؟

میری شکل کیا دیکھ رہے ہیں چھڑواٸیں دونوں کو۔۔۔

سب لوگ کھڑے بس تماشا دیکھ رہے تھے ایان نے مار مار کر اُس لڑکے کا بُرا حشر کر دیا تھا۔۔

آٸندہ اگر تم نے میری روشنی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھا تو یاد رکھنا میں تمہاری آنکھیں نوچ لوں گا۔۔

ایان نے اُسے بالوں سے پکڑتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا،

ایان بس کر دو۔۔

ایان۔۔۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟؟

کیوں لڑ رہے ہو تم ؟؟

چھوڑو اُسے چلو باہر یہاں سے۔۔

آپ سب لوگ کھڑے کیسے مزے سے تماشے کو انجواۓ کر رہے ہیں کچھ تو شرم کریں ذرا سی بھی انسانیت باقی نہیں رہی آج کل کے لوگوں میں۔۔

ابان شاہ یہ سارا تماشا دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا اور فوراً ایان کو پکڑ کر ویٹنگ روم سے باہر لے گیا۔۔

کیا ہوا کیوں لڑ رہے تھے تم اُس کے ساتھ ؟؟

کوٸی بات ہوٸی تھی کیا ؟؟

روشنی ؟؟

کون روشنی ؟؟

ابان شاہ نے حیرانگی سے کہا،

یار روشنی ابھی تک وہاں ہی ہے۔۔

وہ اپنا بازو چھڑوا کر پھر سے ویٹنگ روم کی طرف بھاگا۔۔ ابان شاہ بھی اُس کے پیچھے بھاگا۔۔

روشنی ایک طرف بیٹھی رو رہی تھی۔۔

ایان اُس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔

سوری روشنی میری وجہ سے آپ کو یہ سب برداشت کرنا پڑا۔۔

ارے تم کیوں سوری بول رہے ہو ؟؟

سوری تو مجھے بولنا چاہٸیے ہے تم سے۔۔ میری وجہ سے تم اُس لڑکے کے ساتھ لڑ پڑے دیکھو تمہارے چہرے پر بھی چوٹ لگ گٸی ہے میری وجہ سے۔۔

جیسے ہی روشنی نے ایان کے چہرے پر اپنی اُنگلیاں لگاٸی تو اُس نے فوراً آنکھیں بند کرلی۔۔

درد ہو رہا ہے ؟؟

روشنی نے کہا،

نہیں تو بالکل بھی نہیں بس ایسے ہی یہ دوا میرے زخموں پر لگی رہے تو مجھے کبھی درد نہیں ہوگا۔۔

اہمم اہمممم۔۔

جیسے ہی ابان شاہ اندر اینٹر ہوا تو روشنی ایان سے دُور ہوگٸی۔۔

آ۔۔آجاٶ ابان۔۔

ایان بھی روشنی سے دُور ہو کر بیٹھ گیا۔۔

کیا میں پوچھ سکتا ہوں کون ہے یہ لڑکی ؟؟

اسی کے پیچھے تم لڑ رہے تھے نا اس لڑکے سے ؟؟

ہاں میں اسی کے پیچھے اس لڑکے سے لڑ رہا تھا میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اُسے نوچ لوں۔۔

یہ روشی ہے۔۔ ”میری اور آخری محبت“۔۔

ارے تم نے تو مجھے اس دن کہا تھا کہ تمہاری محبت تمہیں چھوڑ گئی ہے۔۔

ہاں میں نے تمہیں بتایا تھا اور اسی کے بارے میں بتایا تھا مگر مجھے میری محبت واپس مل گئی ہے آج۔۔

ایان قسم سے تم بالکل بچے بن گئے ہو اس محبت میں۔۔

ابان شاہ نے کہا،

ہاں نہ ؟؟ مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے میں بہت زیادہ پوزیسو ہو گیا ہوں روشی کو لے کر شاید۔۔


میڈم ؟؟

ببن اپ کی پیشنٹ ہیں ؟؟

نرس نے ویٹنگ روم میں انٹر ہوتے ہوئے کہا،

جی جی وہ میری ہی پیشنٹ ہیں کیا ہوا انہیں ؟؟

ان کی بہت زیادہ حالت بگڑ گئی ہے پلیز اپ میرے ساتھ آٸیں۔۔

یہ سن کر روشنی پریشان ہو گئی اور فورا اس کے ساتھ چلی گئی۔۔

میں بھی آٶں ؟؟

ایان جھٹ سے بولا،

نہیں تم یہاں ہی رہو جب تمہاری ضرورت پڑے گی تمہیں بلا لوں گی۔۔

ٹھیک ہے میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔


میں حیران ہوں تجھ پر یارر۔۔

کیسے لڑ رہا تھا تُو اس لڑکے سے۔۔

کیا کرتا یار نہیں برداشت ہوا تھا مجھ سے کہ اُسے کوٸی اور دیکھے بھی۔۔

ماننا پڑے بھائی تیری محبت کو۔۔

یہ بتاؤ وہاں سے کوئی کال آئی غزل کے بارے میں کچھ معلوم ہوا ؟؟

نہیں میں نے ابھی کچھ دیر پہلے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر کسی نے کال ہی اٹینڈ نہیں کی۔۔

اگر چوہدری صاحب کی طبیعت ٹج رات کو بالکل ٹھیک ہو گئی تو میں اور تم چلتے ہیں وہاں پر کیا خیال ہے ؟؟

ہاں یار سوچ تو میں بھی یہی رہا تھا مگر ابو کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا میں۔۔

میں ابھی کال کرتا ہوں بھائی کو اور پوچھتا ہوں۔۔

ایان نے اُسی وقت رامش کا نمبر ملایا تو ہنی نے کال اٹینڈ کی۔۔

ہیلو ؟؟

ہیلو ہنی غزل کیسی ہے اور تم لوگ واپس کب آ رہے ہو ؟؟

غ۔۔غزل ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹرز نے چوبیس گھنٹے کا ٹاٸم دیا ہے ہوش آگٸی تو ٹھیک ورنہ۔۔۔۔

یہ کہہ کر ہنی خاموش ہوگیا۔۔

کیا مطلب ہے ہنی ؟؟

بولو کیا بات ہے ہوش کیوں نہیں آٸی اُسے ابھی تک ؟؟

ایان نے پریشان لہجے میں کہا،

ایان وہ بہت زیادہ اونچاٸی سے گری ہے اُس کا چہرہ پہچاننا بھی مشکل ہے اُس کا پورا جسم زخمی ہے۔۔۔

ہنی یہ تم کیا کہہ رہے ہو میرا دل پھٹ رہا ہے یہ سب سُن کر کس کی نظر لگ گٸی ہماری بہن کو۔۔

کیا ہوا مجھے بھی کچھ بتاٶ ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

غزل کو ہوش نہیں آٸی ایک بار بھی ڈاکٹرز نے چوبیس گھنٹے کا ٹاٸم دیا ہے۔۔

یہ سُن کر ابان شاہ کی ہواٸیاں اُڑ گٸی۔۔

ابان شاہ خاموشی سے اُٹھ کر وہاں سے چلاگیا۔۔

وہ زیادہ بول بھی نہیں سکتا تھا اس بارے میں کہ کہیں کوٸی غلط نہ سمجھ لے۔۔

وہ ڈرتا تھا کہ کہیں اُس کی وجہ سے غزل کی عزت پر آنچ نہ آ جاۓ۔۔ 

مجھے تو کچھ بھی معلوم نہیں ہے اس بارے میں آپ بیٹھیں میں وقاص صاحب کو بُلا کر لاتی ہوں وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس آۓ ہیں۔۔

انعم جو بہت سالوں سے اس حویلی میں کام کر رہی تھی وقاص صاحب کے کمرے میں انہیں بُلانے گٸی۔۔

صاحب جی۔۔

اُس نے دروازہ ناک کیا۔۔

جی انعم باجی کیا بات ہے ؟؟

وقاص صاحب اندر سے بولے،

غزل صاحبہ کی کچھ دوستیں آئی ہیں اُن کے بارے میں پوچھ رہی ہیں ہم نے ان سے کہا ہے ہمیں تو کچھ معلوم نہیں ہے مگر ہم وقاص صاحب کو بلا لاتے ہیں آپ ان سے پوچھ لیجئے۔۔

انعم نے کہا،

دوستیں ؟؟

کہیں وہ نوشین اور افرا تو نہیں ؟؟

ہاں وہی ہوں گی۔۔

وقاص بڑبڑایا۔۔

انہیں بٹھاؤ کھانے پینے کو پوچھو میں دو منٹ میں آ رہا ہوں۔۔

وقاص نے جلدی سے چینج کیا اور نیچے گیا۔۔

بسمہ نوشین اور اُس کی بہن افرا نیچے ٹی وہ لاٶنج میں بیٹھی تھی۔۔

وقاص صاحب کو نیچے آتا دیکھ کر وہ تینوں کھڑی ہوگٸی۔۔

کیسے ہیں آپ وقاص ماموں ؟؟

غزل کیسی ہے ؟؟

وہ مل تو گٸی ہے نہ ؟؟

آپ اُسے اپنے ساتھ لاۓ نہیں ہیں ؟؟

کہاں ہے وہ ؟؟

بسمہ اور نوشین نے سوال پر سوال کیے۔۔

آرام سے آرام سے۔۔

بیٹھیں آپ لوگ۔۔

یہ کہہ کر وقاص صاحب بھی سامنے صوفے پر بیٹھ گۓ۔۔

غزل مل گٸی ہے مگر اُس کی حالت بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے ڈاکٹرز نے چوبیس گھنٹے کا ٹاٸم دیا ہے دعا کریں آپ لوگ اُسے ہوش آ جاۓ۔۔

اب کون ہے غزل کے پاس ؟؟

رامش بھاٸی وہاں پر ہی ہیں کیا ؟؟

افرا نے دھیمے لہجے میں کہا تو وقاص نے فوراً اُس کی طرف دیکھا۔۔

جی رامش اور ہنی غزل کے پاس ہی ہیں۔۔ کل یہاں سے ایان کا فون گیا تھا اس نے بتایا کہ چوہدری صاحب کی طبیعت بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے انہیں ہاسپٹل میں ایڈمٹ کر لیا گیا ہے تو میں فورا یہاں پر آنے کے لیے نکل گیا کہ ایان بیچارہ اکیلا ہے کیسے سنبھالے گا انہیں۔۔

وقاص صاحب نے کہا،

کاش ہم جاتی ہی نہ اور یہ سب بھی نہ ہوتا۔۔

نوشین دھیمے لہجے میں بولی،

ایسے کہنے سے کیا ہوگا بیٹا ؟؟ جو قسمت میں ہو وہ ہونا ہی ہوتا ہے قسمت کا لکھا کوئی بھی نہیں ڈال سکتا اس لیے اپنے آپ کو قصوروار مت ٹھہراؤ۔۔۔

کیسے گر گٸی تھی غزل آپ دونوں تو پاس ہی تھی نا اس کے ؟؟

وقاص ماموں اُس کا پاٶں سلپ نہیں ہوا تھا رات کو ہم ایسے ہی باہر ٹہلنے گئے تھے تو دو لڑکیاں پیچھے سے بھاگتی ہوئی آٸی اور انہوں نے غزل کو دھکا دیا۔۔۔

کیااا دھکا دیا ؟؟

وقاص نے حیرانگی سے کہا،

جی اس وقت یونیورسٹی والوں نے ہمیں سختی سے منع کیا تھا کہ آپ ایسا کچھ بھی نہیں بولیں گے ان کے گھر والوں کے سامنے۔۔

ہم نے سوچا یہاں تو نہیں مگر گھر جا کر ہم سب کچھ سچ بتا دیں گے۔۔

بسمہ بولی،

ان لڑکیوں نے غزل کو کیوں دھکا دیا کوئی لڑاٸی جھگڑا تھا کیا غزل کا اُن کے ساتھ۔۔

بسمہ اور نوشین ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگی کہ اب کیا بولیں۔۔

بتاٶ جو بھی بات ہے مجھے کُھل کر بتاٶ ڈرنے کی کوٸی ضرورت نہیں ہے۔۔

وقاص ماموں ہماری یونیورسٹی کا ایک لڑکا غزل کو بہت تنگ کرتا تھا کسی بھی وقت ہماری کلاس میں آ کر بیٹھ جاتا تھا غزل کو گھورتا تھا عجیب نظروں سے دیکھتا تھا ایک دن ہم تینوں گراٶنڈ میں بیٹھے تھے وہ لڑکا اور اُس کے ساتھ دو لڑکے وہاں آۓ غزل کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگے۔۔ غزل نے سب کے سامنے اُسے زور دار تھپڑ مارا شاید اُس نے اُسی بات کا بدلہ لیا ہے جن دو لڑکیوں نے غزل کو دھکا دیا تھا وہ اُس لڑکے کی دوستیں تھیں۔۔

یہ سُن کر وقاص ماموں اور افرا حیران رہ گۓ۔۔

تم لوگوں نے پہلے کیوں نہیں بتایا یہ سب ؟؟

کسی اور کو نہ صحیح مجھے ہی بتا دیا ہوتا نوشین۔۔

غزل نے منع کیا تھا ہمیں وہ نہیں چاہتی تھی کوٸی بھی اُس کے بارے میں غلط سوچے۔۔

بسمہ بولی،

ایسی باتیں نہیں چھپایا کرتے دیکھ لو انجام آپ کے سامنے ہے۔۔

ہم سے غلطی ہوگٸی ہے اور بہت بڑی غلطی ہوگٸی ہے۔۔

انکل کو کیا ہوا ہے ؟؟

اب کیسی ہے اُن کی طبعیت ؟؟

افرا نے کہا،

میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا ہوں واپس بس جانے ہی والا تھا ہاسپٹل۔۔ اب جا کر ہی معلوم ہوگا اُن کی طبعیت کے بارے میں۔۔

وقاص صاحب نے کہا،

الله اُنہیں صحت دے۔۔

افرا نے کہا،

ٹھیک ہے پھر جیسے ہی غزل گھر آ جاۓ آپ ہمیں فوراً اطلاع کر دیجٸے گا۔۔

بسمہ نے کہا،

اُن کے چلے جانے کے بعد وقاص صاحب جب گاڑی لے کر ہاسپٹل جانے کے لیے حویلہ سے نکلے تو وہ تینوں ابھی تک حویلی کے باہر ہی کھڑی تھی۔۔

ارے یہ ابھی تک یہاں ہی ہیں ؟؟

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ آپ لوگ ابھی تک یہاں ہی ہیں ؟؟

جی وہ کوٸی رکشہ ہی نہیں مل رہا کافی دیر سے انتظار کر رہے ہیں ہم یہاں کھڑے۔۔

نوشین جھٹ سے بولی،

او ہو۔۔ تو آپ لوگ مجھے بول دیتے میں اپنی گاڑی میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا اس ٹاٸم تو کوٸی بھی رکشہ آپ کو نہیں ملے گا یہاں سے۔۔

نہیں کوٸی بات نہیں ہم چلے جاٸیں گے آپ کو دیر ہو رہی ہوگی ہاسپٹل جانا ہوگا آپ نے۔۔

افرا نے کہا،

آپ گاڑی میں چل کر بیٹھیں میں نے بھی اُسی روڈ سے ہاسپٹل جانا ہے جہاں پر آپ کا گھر ہے۔۔

بسمہ اور نوشین فوراً گاڑی میں پیچھے جا کر بیٹھ گٸی۔۔

آپی آپ آگے بیٹھ جاٸیں۔۔

نوشین نے کہا تو افرا اُسے گھورنے لگی۔۔

کیا ہوا بیٹھ جاٸیں۔۔

وقاص نے افرا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

افرا منہ بناتی ہوٸی بیٹھ گٸی۔۔

آپی وہ میں بسمہ کے گھر ہی جاٶں گی اس کے ساتھ آپ گھر چلی جانا مجھے ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے پلیززز آپی منع مت کرنا۔۔

نوشین بیچارہ منہ بنا کر بولی،

پلیزز آپی ہم دونوں نے ساتھ میں ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہے غزل ہوتی تو تینوں اُسی کے گھر پر تیاری کرتی مگر کوٸی بات نہیں جلد ہی وہ آ جاۓ گی واپس ٹھیک ہو کر پھر دوبارہ سے ہماری مستیاں شروع۔۔۔

بسمہ نے کہا،

ٹھیک ہے لیکن ٹاٸم سے ہی گھر واپس آ جانا تمہیں پتہ ہے نہ ابو ڈانٹتے ہیں ورنہ۔۔

جی ٹھیک ہے بہت شکریہ آپی۔۔

نوشین نے مسکراتے ہوۓ کہا،

وقاص صاحب نے پہلے بسمہ اور نوشین کو بسمہ کے گھر ڈراپ کیا اور پھر افرا کو چھوڑنے گۓ۔۔

اب گاڑی میں وقاص اور افرا موجود تھے۔۔


کافی پریشان دکھاٸی دے رہے ہیں آپ۔۔

افرا نے وقاص کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

کیا کروں پریشانی ہے ہہ بہت زیادہ۔۔ وہاں غزل کو ہوش نہیں ہے یہاں بھاٸی صاحب ہاسپٹل میں پڑے ہیں لاٸف ایک دم ایسے رُخ موڑ گٸی کہ سب کچھ سمجھ سے باہر ہے۔۔

پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔

افرا نے کہا،

آپ بتاٸیں کیا کررہی ہیں آج کل ؟؟

میں کچھ خاص نہیں سکول میں ہی پڑھا رہی ہوں دو تین دن پہلے ایک رشتہ آیا تھا میرا بس اُسی پر بات چیت چل رہی ہے گھر میں۔۔۔

وقاص نے جھٹ سے اُس کی طرف حیران کن نظروں سے دیکھا۔۔

رشتہ ؟؟؟

تو کیا سوچا یے آپ نے اور آپ کے گھر والوں نے ؟؟

میں نے تو کچھ بھی نہیں سوچا۔۔

اُس نے منہ بناتے ہوۓ کہا،

تم منع کر دو اس رشتے سے۔۔

وقاص صاحب نے کہا،

وہ کیوں ؟؟

انکار کیوں کروں ؟؟

افرا جھٹ سے بولی،

کیونکہ میں کہہ رہا ہوں اس لیے آپ گھر جاتے ہی صاف منع کر دیں۔۔

اچھا میں منع کر بھی دوں اگر تو کیا ہوگا ؟؟

بعد میں اگر میرا کہیں سے رشتہ آیا ہی نہ تو ؟؟؟

جیسے ہی ہمارے گھر کے حالات بہتر ہوں گے سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا تو میں رشتہ بھیجوں گا آپ کے گھر۔۔

ارے واہ کیا بات ہے آپ کی وقاص صاحب۔۔

آپ کیوں رشتہ بھیجیں گے ؟؟؟

یہ ہماری دوسری ملاقات ہے ہاں نہ ؟؟

ہاں دوسری ملاقات ہو یا پہلی مجھے آپ سے محبت ہوگٸی تھی پہلی نظر میں ہی اس لیے میں جلد ہی رشتہ بھیجوں گا آپ کے گھر اپنے گھر والوں کو منا لیں۔۔

چلیں سوچوں گی اس بارے میں اگر مجھے مناسب لگا تو میں آپ کو بتا دوں گی۔۔

وقاص نے جیسے ہی گاڑی کو بریک لگاٸی افرا مسکراتی ہوٸی گاڑی سے اُتری۔۔

سوچ سمجھ لیجٸے گا اچھے سے کسی کی پوری ذندگی کا سوال ہے۔۔

یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور افرا مسکراتی ہوٸی گھر کے اندر چلی گٸی۔۔

*********

نہ جانے کہاں چلا گیا ہے کچھ معلوم نہیں۔۔

یشما سیڑھیوں میں اُداس بیٹھی رامش کو مس کررہی تھی۔۔

اتنے میں دروازہ ناک ہوا۔۔

اب کون آگیا ہے دو گھڑی سکون ہی نہیں لینا دیتا کوٸی۔۔ جو بھی ہے خود دروازہ پیٹ پیٹ کر چلا جاۓ گا میں تو بالکل نہیں اُٹھوں گی کھولنے کے لیے۔۔

دروازہ کھول جلدی ورنہ پھلانگ کر آ جاٶں گا اور بہر بُرا کروں گا تیرے ساتھ۔۔

یہ تو چچا ہے۔۔ لگتا ہے مار کھا کر بھی اسے سکون نہیں ملا ڈھیٹ انسان پتہ نہیں کس مٹی کا بنا ہے۔۔

یشما اُٹھی اور دروازے کے پاس جا کر کھڑی ہوگٸی۔۔۔

کیا مسٸلہ ہے تمہیں کیوں آۓ ہو اب یہاں ؟؟

چُپ چاپ دروازہ کھول مجھے تیرے سے ضروری بات کرنی ہے۔۔

کیا ضروری بات کرنی ہے ایسے ہی بتا دو۔۔

تُو نہیں مانے گی میں دروازہ پھلانگ کر ہی آ رہا ہوں۔۔

فضول میں یہاں تماشا لگاۓ گا یہ بدبخت انسان۔۔

یشما نے بڑبڑاتے ہوۓ دروازہ کھولا تو وہ فوراً اندر گُھس گیا اور دروازے کو کُنڈی لگا دی۔۔

کیا ہے دروازے کو کُنڈی کیوں لگاٸی ہے تم نے کھولو دروازہ۔۔

وہ یشما کا بازو پکڑ کر اُسے سیڑھیوں کی طرف لے گیا۔۔

چھوڑو میرا ہاتھ پاگل ہو کیا تم ؟؟

تم نے جو آج میرے ساتھ کیا ہے بہت ہی غلط کیا ہے مجھے مار پڑوا کر تم وہاں سے بھاگ نکلی ہاں ؟؟

بس اُسی بات کا بدلہ لینے آیا ہوں آج کی پوری رات تم میری بانہوں میں گزارو گی۔۔

اپنی بکواس بند رکھو بےشرم انسان اپنی عمر دیکھ اور اپنے کام دیکھ۔۔

یشما نے اُسے دُور پرے دھکا دیا مگر وہ شیطان کہاں باز آنے والا تھا۔۔ اُس نے یشما کا بازو پکڑ کر اُسے ایک جھٹکے سے اپنے قریب کیا اُس کی گندی نظریں یشما کے بدن پر تھی۔۔

اماں۔۔

ام۔۔ماں۔۔

اُس درندے نے یشما کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔

یشما کی اماں اُس کی آواز سُن کر فوراً کمرے سے باہر آٸی۔۔

اُس کی اماں نے واٸپر کا ڈنڈا چچا کے سر میں زور سے دے مارا۔۔ یشما فوراً اُس سے دُور ہوٸی اور اپنی اماں کی طرف بھاگی۔۔

آہ۔۔ میرا دماغ۔۔

وہ تڑپ اُٹھا۔۔

یشما نے واٸپر کا ڈنڈا اُٹھا کر دو تین بار اُس کے سر میں زور زور سے دے کر مارا۔۔

بےشرم بےحیا انسان جب سے اس کا باپ مرا ہے تُو نے ہمارا جینا مشکل کردیا ہے۔۔

م۔۔میں چھوڑوں گا نہیں تم ماں بیٹی کو یاد رکھنا۔۔۔

نکل میرے گھر سے ورنہ پولیس کو فون کر دوں گی۔۔۔

وہ اپنا سر پکڑ کر تڑپتا ہوا وہاں سے چلاگیا۔۔

جب وہ گھر سے نکلا تو گھر کے باہر کافی لوگ جمع تھے۔۔

کیا ہوا اندر سے چیخنے کی آوازیں کیوں آ رہی تھی ؟؟؟

تم کیوں ان ماں بیٹی کی جان نہیں چھوڑتے؟؟

پولیس کو کال کرو ابھی کے ابھی کیسا بےشرم انسان ہے کسی بھی وقت گھر میں گُھس جاتا ہے۔۔۔

اس کو اس محلے سے ہی نکال دینا چاہٸیے اپنی اولاد کا اس کو پتہ نہیں کیا کچھ کرتی پھر رہی ہے دوسروں کے گھروں کی عزت خراب کرتا پھر رہا ہے۔۔۔

باہر موجود لوگوں نے کہا،

اماں تم تو سو گٸی تھی نہ پھر تمہیں میری آواز کیسے سُناٸی دی ؟؟

یشما نے اپنی اماں سے کہا،

سوٸی تھی میں مر نہیں گٸی تھی ویسے بھی بیٹیوں کی آواز تو ماٶں کو بے ہوشی میں بھی سُن جاتی ہیں۔۔

اماں کب ہم سکون سے ذندگی گزاریں گے ہر وقت کوٸی نہ کوٸی مصیبت آٸی رہتی ہے ہم پر۔۔

ہم یہاں پر محفوظ نہیں ہوں اماں ہر کسی کی گندی نظر ہے مجھ پر۔۔

ہم صبح ہوتے ہی یہاں سے چلے جاٸیں گے۔۔

مگر اماں کہاں ؟؟؟

کہاں جاٸیں گے ہم ہمارے پاس تو اس گھر کے علاوہ کوٸی جگہ نہیں ہے رہنے کو۔۔

الله مدد کرے گا ہماری بس اب ہم اس محلے میں مزید نہیں رہیں گے۔۔

یشما اپنی اماں کے سینے سے لگ گٸی۔۔

دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔

*****

جیسے ہی وقاص صاحب ہاسپٹل پہنچے تو انہوں نے دیکھا ایان کی گاڑی میں دو لیڈیز بیٹھی تھی اور وہ پارکنگ سے گاڑی نکال رہا تھا۔۔

یہ کون ہیں اس کے ساتھ گاڑی میں ؟؟؟

جب تک وقاص صاحب نے اپنی گاڑی پارک کی تب تک ایان وہاں سے چلاگیا۔۔

وقاص صاحب ہاسپٹل کے اندر گۓ اور ریسپشن پر چوہدری صاحب اور ایان کا نام لے کر رُوم نمبر پوچھا۔۔

جب وہ رُوم میں اینٹر ہوۓ تو ابان شاہ چوہدری صاحب کو کھانا کھلا رہا تھا۔۔

وقاص صاحب مسکراتے ہوۓ اندر گۓ اور دونوں سے ملے۔۔

اب طبعیت آپ کی بہتر لگ رہی ہے ہم تو بہت زیادہ پریشان ہوگۓ تھے اس لیے میں فوراً واپس آگیا۔۔

میری چھوڑو یہ بتاٶ غزل کیسی ہے ؟؟

کب واپس آۓ گی وہ ؟؟

میرے دونوں بچے ہنی رامش وہ کیسے ہیں ؟؟؟

سب ٹھیک ہیں سب ٹھیک ہیں آپ فکر نہ کریں بہت جلد وہ واپس بھی آ جاٸیں یہاں۔۔

ابان شاہ جانتا تھا کہ یہ سب چوہدری صاحب کو تسلی دے رہے ہیں۔۔

ابان شاہ ایان کہاں ہے وہ نظر نہیں آ رہا ؟؟؟

پتہ نہیں کہہ رہا تھا کوٸی ضروری کام ہے وہاں جا رہا ہوں کچھ دیر میں واپس آ جاٶں گا۔۔

ابان شاہ جانتا تھا کہ وہ روشنی اور اس کی ببن جی کو گھر چھوڑنے گیا ہے۔۔

ویسے حد ہے وہ ایسے کیسے جا سکتا ہے کہیں بھی بھاٸی صاحب کو چھوڑ کر۔۔

اتنا لاپراہ کیسے ہو سکتا ہے وہ ؟؟

ابان شاہ خاموش بیٹھا تھا۔۔


ارے آ جاۓ گا تم کیوں غصہ کر رہے ہو ؟؟

تم میری بات کروا دو رامش سے ایک بار یا مجھے بھی وہاں لے چلو میں غزل کو دیکھنا چاہتا ہوں ایک بار۔۔

جی وہ میرا موباٸل گاڑی میں ہے میں ابھی لے کر آتا ہوں پھر آپ کی بات کروا دوں گا رامش اور ہنی سے۔۔۔

******

ہنی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔

وہ رامش کو آوازیں دیتا ہوا ہاسپٹل کے گراٶنڈ فلور کی طرف بڑھا۔۔

بھاٸی ؟؟

بھاٸی ؟؟

رامش نے جب ہنی کو سامنے سے آتا دیکھا تو وہ پریشان ہوگیا۔۔۔

کیا ہوا کیوں رہے ہو ؟؟

غزل ٹھیک ہے نہ ؟؟

ہنی رامش کے سینے سے لپک گیا۔۔

ہنی کیا بات ہے کچھ تو کہو ؟؟

ہنی بس روۓ جا رہا تھا۔۔

ہنی میرا دل پھٹ جاۓ گا مجھے بتاٶ کیا ہوا ہے ابو کی طبعیت تو ٹھیک ہے نہ ؟؟

ایان کی کال آٸی ہے کیا ؟؟؟

ہنی بولو کیوں رہے ہو ؟؟

رامش چیخا۔۔

بھاٸی غزل ہمیں چھوڑ کر چلی گٸی ہے۔۔

وہ ہمیں اور اس دنیا کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔۔

سب ختم ہوگیا بھاٸی سب ختم ہوگیا۔۔

ابو کو کیسے بتاٸیں گے بھاٸی ؟؟

رامش وہاں ہی بیٹھ اور زور زور سے رونے لگا چیخنے لگا۔۔ 

رامش ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔۔

غ۔۔غزل۔۔

غزل۔۔

وہ فوراً غزل آٸی سی یُو روم کی طرف بھاگا اور دروازہ ناک کرنے لگا۔۔

سر کیا ہوگیا ہے آپ کو پیشنٹ سو رہے ہیں آپ ایسے دروازہ ناک نہیں کر سکتے ہیں۔۔

رامش پسینے سے تر تھا اُسے اس وقت کسی چیز کی ہوش نہیں تھی۔۔

اندر سے ایک ڈاکٹر نکل کر آیا۔۔

رامش صاحب کیا ہوا آپ کو اتنے گھبراۓ ہوۓ کیوں ہیں آپ ؟؟

ایوری تھنگ از او کے ؟؟

ڈاکٹر غزل ٹھیک ہے نہ ؟؟

وہ جھٹ سے بولا،

جی غزل کو رات میں ہوش آگیا تھا ٹریٹمنٹ چل رہا ہے بہت جلد آپ اُن سے ملاقات بھی کر سکیں گے۔۔

یاالله تیرا شُکر ہے۔۔

پانی لے کر آٸیں۔۔

ڈاکٹر نے نرس سے کہا،

وہ پانی لے کر آٸی تو ڈاکٹر نے پانی کی بوتل رامش کو دی۔۔

پانی پٸیں آپ بہت گھبراۓ ہوۓ لگ رہے ہیں کہیں کوٸی بُرا خواب تو نہیں دیکھ لیا ؟؟

بُرا نہیں میری ذندگی کا سب زیادہ بُرا خواب تھا یہ۔۔۔

اُس نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا،

آپ جاٸیں جا کر فریش ہو جاٸیں اب زیادہ فکر کی بات نہیں ہے۔۔

ڈاکٹر نے کہا،

رامش حال سے بےحال ہوگیا تھا اُسے اپنی بالکل ببی ہوش نہیں تھی ایک دم سے اُن کی ذندگیوں میں طوفان آگیا تھا۔۔

******

ارے واہ جی واہ آج تو ہمارے روشنی کے صنم آۓ ہیں ہمارے اڈے پر۔۔

شرم کرلو اور مدد کرو میری ببن جی کو اُن کے کمرے میں لے جانے تک۔۔

روشنی نے اُسے گھورتے ہوۓ دھیمے لہجے میں کہا،

ببن جی ٹھیک نہیں ہوٸی کیا ؟؟

نہیں ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے کہا ہے گھر لے جاٸیں انہیں اور خدمت کریں ان کی۔۔۔

ارے وہاں ہی چھوڑ آتی ہم کیسے سنمبھالیں گے انہیں۔۔ روشنی تمہیں بھی عقل بس پوری پوری ہی ہے۔۔

زُمر منہ بنا کر بولی،

آگٸی ببن جی کیسی طبعیت ہے اب ان کی ؟؟

سامنے سے آتی ہوٸی سُندری نے کہا جو اس وقت فُل تیار شیار ہوٸی تھی۔۔

نہیں ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے۔۔

ہاۓ ہاۓ جواب کیوں دے دیا ڈاکٹرز نے ایسا بھی کی ہوگیا ہے انہیں ؟؟

یہ گاڑی کس کی ہے ؟؟

سُندری نے گاڑی کے اندر جھانکتے ہوۓ کہا،

اندر تو کوٸی بھی نہیں ہے۔۔

یہ گاڑی ایان چوہدری کی ہے روشنی کے وہ۔۔۔۔۔

یہ کہہ کر زُمر مسکرانے لگی۔۔

اگر تم لوگوں کی باتیں ختم ہوگٸی ہوں تو ببن جی کو اندر لے چلیں ؟؟

سامنے سے ایان بھی آگیا۔۔

کیا میں کچھ مدد کروں روشنی ؟؟

نہیں ہم لے جاٸیں گی انہیں اندر۔۔

ہاۓ کتنا ہینڈسم ہے یہ لڑکا۔۔

سُندری ایان کی جانب بڑھی اور ایان چوہدری کی نظریں روشنی پر تھیں۔۔

روشنی کو سُندری اور زُمر پر سخت غصہ آ رہا تھا مگر وہ خاموش تھی۔۔

کبھی ہم سے ملاقات کرنے تو نہیں آۓ تم یہاں اور نہ ہی ہم نے کبھی تمہیں یہاں دیکھا۔۔

وہ ایان کی جانب بہت زیادہ بڑھ گٸی تھی۔۔

روشنی ایان کو گھور رہی تھی اور وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔۔

ببن جی ببن جی آپ ٹھیک تو ہیں نہ ؟؟

روشنی نے اونچی آواز میں کہا تاکہ سب اُس کی طرف متوجہ ہو جاٸیں۔۔

سُندری نے روشنی کی بات کو اگنور کیا وہ ایان میں کھو گٸی تھی۔۔

میں آپ جیسی عورتوں سے ملاقات کرنا اپنی توہین سمجھتا ہوں سُندری جی اس لیے بہتر ہے جا کر ببن جی کی خدمت کریں آپ کے گناہ معاف ہوں گے ہوسکتا ہے اسی صدقے آپ جنت میں چلی جاٸیں ویسے تو کوٸی چانس نہیں ہے جیسی آپ کی حرکتیں ہیں۔۔

ایان نے تلخ لہجے میں کہا تو سُندری کو یہ بات سُن کر آگ لگ گٸی۔۔

روشنی بھی وہی کام کرتی ہے جو ہم کرتے ہیں وہ کوٸی دودھ کی دُھلی نہیں ہے ہم سے زیادہ تو لوگ اس سے ملاقات کرنے آتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اُس کو اپنے آپ پر بہت گھمنڈ ہے اور یہ ملاقات سے انکار کر دیتی ہے۔۔

مجھے کچھ کہنے سے پہلے یہ دیکھو تمہاری روشنی کیا ہے پھر مجھے بات کرنا سمجھے۔۔۔ لگتا ہے تمہیں بھی اپنی سوہنے پن پر غرور ہے۔۔

منہ بند رکھو اپنا روشنی جیسی بھی ہے میری ہے مجھے اُس کے ماضی سے کوٸی مطلب نہیں اور تم اُس کے خلاف اب ایک لفظ بھی اپنے منہ سے مت نکالنا سمجھی۔۔۔

ایان نے غصے سے کہا،

ایان جاٶ یہاں سے۔۔

روشنی نے سخت لہجے میں کہا،

جا رہا ہوں مگر کچھ دیر میں واپس آٶں گا تم سے ملنے تمہارے پاس بیٹھنے تمہیں اپنے دل کا حال سُنانے۔۔۔

یہ کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔

میری شکل کیا دیکھ رہی ہو مدد کرو روشنی کی اور لے کر جاٶ اسے اندر۔۔

زُمر نے روشنی کی مدد کی اور وہ دونوں ببن جی اندر لے گٸی۔۔

ایان بھی ہاسپٹل جانے کے لیے نکل گیا۔۔

******

رامش آ جاٸیں اپنی بہن سے ملاقات کرلیں انہیں ہوش آگیا ہے۔۔

ڈاکٹر نے جب یہ کہا تو رامش کے اندر جیسے ایک خوشی کی لہر آگٸی ہو۔۔

وہ مسکراتا ہوا آٸی سی یو کی جانب بڑھا۔۔

غزل کو دیکھتے ہی اُس نے خُدا کا شُکر ادا کیا اور اُس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔

غزل کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے اُس نے غزل کا ماتھا چُوما۔۔

ہم نے ساری امیدیں کھو دیں تھی سچ میں مگر الله کی ذات بہت بڑی ہے اُس نے ہمیں مایوس ہونے نہیں دیا ہمیں ہماری بہن سے واپس ملا دیا۔۔

غزل کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آۓ۔۔

جلدی سے ٹھیک ہو جاٶ ابو تمہیں دیکھنے کے لیے بےتاب بیٹھے ہیں۔۔

میں جانتا ہوں تم بہت تکلیف میں ہو جس الله نے تمہیں ایک نٸی ذندگی دی دیکھنا وہ جلد ہی تمہارے سارے زخم بھی بھر دے گا۔۔

ابھی تک غزل نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا وہ بس روٸی جا رہی تھی۔۔

سر اب آپ باہر چلے جاٸیں پیشنٹ کے دماغ پر پہلے ہی کافی گہرا زخم ہے ایسے وہ اگر زیادو روٸیں گی یا کسی بات کو سوچیں گی تو یہ اُن کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔

رامش نے اُس کے ہاتھ چومے اور آٸی سی یو روم سے باہر نکلتے ہی وہ مسجد کی جانب گیا اور وہاں جا کر شکرانے کے دو نفل ادا کیے۔۔

یاالله تیرا شُکر ہے کڑوڑوں بار تُو نے ہماری بہن کو ایک نٸی ذندگی بخشی ہمیں ایک نٸی خوشی دی۔۔


یہاں تو کوٸی اور پیشنٹ ہے ابو کہاں گۓ ؟؟

وہ فوراً ریسپشن کی طرف بھاگا اور وہاں جا کر سارا پوچھا تو معلوم ہوا چوہدری صاحب کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔۔

ابان کیسے لے کر گیا ہوگا ابو کو گھر ؟؟

مجھے فوراً گھر جانا ہوگا۔۔

وہ فوراً گاڑی میں بیٹھا اور گھر کی جانب نکل گیا۔۔۔۔۔

جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا وقاص ماموں کی گاڑی حویلی کے باہر ہی کھڑی تھی۔۔

اوہ شٹ۔۔۔ لگتا ہے ماموں آگۓ ہیں اور ابو کو ہاسپٹل سے بھی وہی لے کر آۓ ہیں۔۔

وہ اندر گیا تو دیکھا اُس کی تاٸی اور اُن کی بیٹی باہر ٹی وی لاٶنج میں بیٹھی تھی۔۔

ارے ایان میرا بچہ اتنی دیر سے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں کہاں رہ گۓ تھے ؟؟

کہیں نہیں یہاں ہی تھا آپ لوگ بتاٸیں کیسے آنا ہوا ؟؟؟

ایان نے یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ کہا،

کیا مطلب کیسے آنا ہوا ؟؟

تم لوگوں نے تو بتانا بھی گوارا نہیں سمجھا اتنا کچھ ہوگیا چچا جان ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے غزل وہاں کھاٸی میں گر گٸی تم لوگ تو ہمیں اپنا سمجھتے ہی نہیں ہو۔۔

رمشا نے کہا جو ایان کے تایا کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔

ایان کے تایا جمشید چوہدری کچھ سال پہلے اس دبیا سے رُخصت ہوگۓ تھے۔۔ تاٸی جان عشرت نہایت ہی چالاک عورت تھی جو ہر وقت سب کے سامنے اچھی بنی پھرتی تھی اور اُس کی نظریں رامش چوہدری پر تھی وہ اپنی بیٹی رمشا کی شادی رامش سے کرنا چاہتی تھی مگر رامش نے کبھی رمشا میں انٹرسٹ ہی نہیں لیا تھا۔۔

ارے کیا ہوگیا ہے اتنا پریشان تھے کہ کسی کو کچھ بتانے کی کہاں پرواہ تھی۔۔

ایان۔۔۔

جلدی سے اندر آ کر میری بات سُنو۔۔

وقاص صاحب نے سخت لہجے میں کہا تو ایان ایک دم ڈر سا گیا۔۔

لو جی میری تو بینڈ بجے گی آج ماموں سے۔۔

ہنی فوراً وقاص ماموں کے پاس گیا۔۔

مامو آپ کب آۓ ؟؟

وہ مامو سے ملا۔۔

بتائیں وہاں سب ٹھیک تو ہے نا غزل کیسی ہے اب اس کی طبیعت ٹھیک ہے ؟؟

واپس کب تک آ رہے ہیں وہ لوگ ؟؟؟

ابو کو آپ لے کر آۓ ہیں ہاسپٹل سے میں بس لے کر آنے ہی والا تھا انہیں۔۔ میں ہاسپٹل گیا تو دیکھا وہاں پر کوئی تھا ہی نہیں پھر پتہ چلا ابو کو چھٹی مل گئی اور آپ انہیں گھر لے آۓ ہیں میں بھی فوراٗ گھر آگیا۔۔۔

مجھے بتا سکتے ہو تم کہ کہاں تھے تم ؟؟

وقاص صاحب نے سخت لہجے میں اسے گھورتے ہوئے کہا،

وہ ماموں میں ضروری کام سے گیا تھا وہ دوست نے کال کی تھی تو مجھے جانا پڑا میں جب گیا تھا تو ابان شاہ وہاں پر ہی تھا۔۔

میں جانتا ہوں کہ ابان شاہ وہاں پر ہی تھا اور میں نے شکریہ ادا کیا ابان شاہ کا کہ وہ وہاں پر اس وقت موجود تھا۔۔۔

کیا تم نہیں جانتے کہ ایسے اکیلا چھوڑ کر مریض کون نہیں جایا کرتے کہاں چلی گئی ہے تمہاری عقل ؟؟؟

اس طرح کہ تم تھے تو نہیں جو تم نے اج حرکت کی ہے مجھے تو بہت ہی افسوس ہو رہا ہے تم پر۔۔

مامو اپ اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں ؟؟

غصہ میں اس لیے کر رہا ہوں جب میں ہاسپٹل کے پارکنگ ایریا میں اینٹر ہوا تو تم نہ جانے اپنی گاڑی میں کن دو لیڈیز کو بیٹھا کر لے جا رہے تھے میں نے دیکھ لیا تھا تمہیں۔۔۔

یہ سنتے ہی ایان کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

لو بھٸی ہوگیا کام تمام۔۔

و۔۔وہ ماموں میرے دوست کی بہن اور امی تھی اس نے مجھے کہا تھا کہ چھوڑ آؤ تو میں چلا گیا تھا چھوڑنے۔۔

ایان بس کر دو بس کر دو کتنا جھوٹ بولو گے اور ہاں ؟؟؟

کون تھی وہ دونوں ؟؟

وقاص صاحب نے ایان کو طیش نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا،

ماموں بتایا تو ہے دوست کی امی اور بہن تھیں وہ۔۔۔۔

یہ کہہ کر ایان وہاں سے اُٹھ کر چلاگیا۔۔

ماموں بھی نہ بات کی تہہ تک جاٸیں گے مجھے معلوم ہوتا نہ کہ ماموں ہاسپٹل ہی پہنچ جاٸیں گے میں کبھی بھی نہ جاتا ابان کے ساتھ بھیجوا دیتا روشنی اور اُس ببن کو۔۔

وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے ابو کے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔

کہاں چلے گۓ تھے تم ہاسپٹل سے ؟؟

چوہدری صاحب نے ایان سے کہا،

میں دوست کے پاس گیا تھا کام سے۔۔۔ ابان شاہ آپ کے پاس ہی تو تھا جب میں گیا تھا۔۔

ہاں وہ میرے پاس ہی تھا بڑا اچھا بچہ ہے وقاص اور ابان ہی مجھے گھر لے کر آۓ ہیں۔۔

جی میں اُسے کال کرتا ہوں مُنشی صاحب کو یہاں لے آۓ گا آپ دونوں کا وقت اچھا گزر جاۓ گا۔۔۔

ایان نے فوراً ابان شاہ کا نمبر ملایا۔۔۔


دیکھ لیں کوٸی لفٹ ہی نہیں ہے ہر کوٸی اپنے کام میں مگن ہے کوٸی تو پوچھے گھر آۓ مہمان کو۔۔۔

رمشا نے اپنی امی سے کہا،

میں کیا کہہ سکتی ہوں سب کچھ تمہارے سامنے ہی ہے۔۔

وہ منھ بنا کر بولی،

رامش یہاں نہ ہو تو اتنی عجیب لگتی ہے یہ حویلی مجھے۔۔ نہ جانے کب واپس آۓ گا کب میں اُسے دیکھوں گی۔۔

رمشا بولی،

چلو آٶ تمہارے چچا کے پاس جا کر بیٹھتے ہیں اُنہیں دو چار باتیں سُنا کر تھوڑے پیسے ہی نکلوا لیتے ہیں۔۔

عشرت نے رمشا کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا تو وہ بھی مسکرانے لگی۔۔

ہاں ہاں کیوں نہیں چلیں۔۔۔

ارے واہ ایان تو بڑی خدمتیں کر رہا ہے اپنے ابو کی۔۔۔۔

جی ہم تو قدر کرتے ہیں اپنے باپ کی اب رمشا کی طرح تھوڑی ہیں ہم باپ ہاسپٹل میں پڑا ہے اور رمشا دوستوں کے ساتھ پارٹی کرنے گٸی ہوٸی ہے۔۔

ایان نے تمسخرانہ انداز میں کہا تو رمشا کے بدن میں آگ لگ گٸی۔۔

چچا جامن دیکھ لیں کیسے باتیں کر رہا ہے یہ مجھے۔۔۔

ایان نہ کہو میری بیٹی کو کچھ بھی۔۔

چوہدری صاحب رمشا سے بھی بالکل ایسے ہی پیار کرتے تھے جیسے غزل سے۔۔

آپ لوگ بیٹھو جس مقصد کے لیے آۓ ہو کرو بات ابو سے مگر زیادہ پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کی طبعیت کسی بھی وقت خراب ہو جاتی ہے کہیں آپ پر الزام نہ آ جاۓ۔۔۔

ایان نے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ دونوں ماں بیٹی اُسے گھورنے لگی۔۔

*********

سب مرد تم اپنے پیچھے لگا لو ہمارے لیے کچھ مت چھوڑنا ٹھیک ہے۔۔

سُندری روشنی کے کمرے میں داخل ہوتی ہوٸی غصے سے بولی،

پاگل ہوکیا تم کیسی فضول باتیں کر رہی ہو۔۔ جاٶ یہاں سے اور آٸندہ میرے کمرے میں بغیر دستک دیے مت آنا۔۔

نہ ہی میں نے کسی مرد کو اپنے پیچھے لگایا ہے اور نہ ہی مجھے لگانے کی ضرورت ہے سمجھی۔۔۔

اچھا ؟؟ تو پھر وہ جو لڑکا آیا تھا ایان وہ کون ہے ؟؟؟

تمہاری اتنی طرفداری کس خوشی میں کر رہا تھا وہ ؟؟؟

سندری نے تلخ لہجے میں کہا،

کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے“۔۔

روشنی نے فورا جواب دیا۔۔

اوہ اچھا ؟؟؟

وہ تم سے محبت کرتا ہے مان لیا۔۔ کیا تم بھی اس سے محبت کرتی ہو روشنی ؟؟؟

تمہیں اس بات سے کیا میں اس سے محبت کرتی ہوں یا نہیں کرتی تمہارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں سمجھی۔۔۔

اگر تم اس لڑکے سے محبت نہیں کرتی تو اس سے دور ہی رہو۔۔

کیوں ؟؟ تمہیں کرنی ہے کیا اس سے محبت جو تم مجھ سے کہہ رہی ہو۔۔

ہاں مجھے کرنی ہے اُس سے محبت میرے دل کو اچھا لگا ہے وہ لڑکا۔۔

سندری تمہیں تو نہ جانے کون کون اچھا لگتا ہے کس کس کو اپنا بناؤ گی ؟؟

روشنی نے آئی بروز اچکاتے ہوئے کہا،

روشنی منہ سنبھال کر بات کرو ٹھیک ہے اگر تم اُس لڑکے سے واقع ہی محبت نہیں کرتی تو اُس کے قریب جانے کی ہرگز کوشش مت کرنا۔۔۔

ٹھیک ہے میں نہیں جاٶں گی اُس کے قریب مگر دیکھتے ہیں وہ تمہارے قریب آتا ہے یا نہیں۔۔۔

یاد رکھنا تمہیں منہ بھی لگانا پسند نہیں کرے گا وہ اُسے اچھے سے جانتی ہوں میں۔۔

یہ تمہارا مسٸلہ نہیں ہے اُسے کیسے اپنے قریب کرنا ہے یا کیسے اُس کے قریب جانا ہے وہ میں دیکھ لوں گی۔۔

ہاں ہاں جاٶ جاٶ ان کاموں میں تو تم ویسے بھی ماہر ہو۔۔

غزل بیٹا کچھ تو بولو میری جان بھاٸی بےقرار ہے اپنی جان کی آواز سننے کے لیے۔۔

غزل رامش کو بس دیکھی جا رہی تھی۔۔

غزل کچھ بولو میری جان۔۔

ب۔۔بھاٸی۔۔

وہ بالکل دھیمے لہجے میں بولی تھی۔۔

جی میری جان بھائی قربان جائیں آپ پہ بولو حکم کرو۔۔۔

بھاٸی ابو۔۔

ابو کہاں ہیں ؟؟

ابو گھر ہیں ہم بہت جلد ابو کے پاس چلے جاٸیں گے فکر نہ کرو۔۔

اُس نے غزل کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوۓ کہا،

سر آپ باہر چلے جاٸیں ڈاکٹر آ رہی ہیں چیک اپ کے لیے۔۔

نرس نے رامش سے کہا،

رامش باہر گیا اور فوراً اس نے وقاص مامو کو کال کی۔۔

ہیلو ؟؟

ماموں ؟؟

ابو کی طبیعت کیسی ہے اب ؟؟

اب ان کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے پہلے سے میں انہیں ہاسپٹل سے گھر بھی لے آیا ہوں۔۔

ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے کال کی ہے کہ غزل کو ہوش آگیا ہے وہ ٹھیک ہے اب میں اسی سے مل کر ا رہا ہوں ابھی۔۔

ارے ماشاءاللہ ماشاءاللہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے اب میں بھائی صاحب کو بھی بتا دوں گا ان کے دل کو بھی سکون مل جائے گا۔۔۔

وقاس مامو نے کہا،

اچھا مامو سنیں میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں غزل کو یہاں پر واپس لے کر آنا چاہتا ہوں۔۔

ہم اپنے گاؤں کے قریب ہی کسی بڑے سے شہر کے ہاسپٹل میں غزل کا ٹریٹمنٹ کروا لیں گے کیونکہ اب جب میں اس سے ملنے گیا تھا تو وہ مجھ سے ابو کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔

اپ تو جانتے ہی ہیں کہ ابو بھی غزل کے بغیر نہیں رہ سکتے تو میں نے سوچا ہے کہ میں اسے وہاں لے آتا ہوں۔۔

ٹھیک ہے مگر ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں اس بارے میں ؟؟

ماموں ابھی میں نے یہ بات سوچی اور آپ سے کہہ دی ۔۔ ابھی میں نے ڈاکٹرز سے کوئی بات نہیں کی اس بارے میں۔۔۔

ٹھیک ہے رامش تم ڈاکٹرز سے بات کر لو اگر وہ کہتے ہیں تو تم لے آؤ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔

ٹھیک ہے ماموں میں ڈاکٹر سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہوں۔۔

یہ کہہ کر رامش نے کال بند کر دی۔۔

*****

کیا ہوا کھانا تو کھا لو۔۔

ابان شاہ کی امی نے کہا،

نہیں امی مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے یہ بتائیں ابو کہاں ہیں ؟؟؟

تمہارے ابو اندر لیٹے ہوئے ہیں کیا بات ہے بتاؤ تو سہی ؟؟؟

ایان کی کال ائی ہے ابو کو حویلی لے کر جانا ہے ابھی۔۔۔

کیوں سب ٹھیک تو ہے نا ؟؟

ایسے اچانک ؟؟

چوہدری صاحب کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے آج کل اس لیے ایان کہہ رہا ہے کہ منشی صاحب کو لے آٶ دونوں بیٹھ کر بات چیت کریں گے تو اچھا وقت گزر جائے گا۔۔۔

اس دن بھی ان کا بیٹا کہہ کر گیا تھا کہ منشی صاحب کو حویلی لے جانا ایسا کیا ہو گیا ہے چوہدری صاحب کو ؟؟؟

امی اصل میں نا وہ۔۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ خاموش ہو گیا اور نظریں جھکا کر بیٹھ گیا۔۔۔

کیا وہ ؟؟

تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو ؟؟

نہیں امی۔۔

اُس نے دھیمے لہجے میں کہا،

تو پھر ؟؟

بتاٶ نا کیا بات ہے ؟؟؟

امی پچھلے کٸی دنوں سے حویلی میں طوفان آیا ہوا ہے مگر یہ بات کوٸی بھی نہیں جانتا ہے۔۔

کیا مطلب ہے اس بات کا؟؟؟

اُس کی امی نے حیرانگی سے کہا،

امی چوہدری سب کی لاڈلی بیٹی غزل جو ہمارے گھر بھی آٸی تھی چوہدری صاحب کے ساتھ۔۔

ہاں ہاں مجھے یاد ہے بڑی پیاری بچی ہے سُلجھی ہوٸی۔۔

جی امی وہ اپنی یونیورسٹی کے ساتھ ٹوور پر گٸی تھی پہاڑی علاقے کی طرف وہاں اُس کا پیر سلپ ہوگیا یا کیا ہوا کیا نہیں وہ کھاٸی میں گر گٸی تھی۔۔۔

یہ سُن کر اُس کی امی کے ہوش اُڑ گۓ۔۔۔

کیااااا ؟؟؟

یہ کیا کہہ رہے ہو ابان ؟؟

وہ تو اتنی پیاری معصوم سی بچی ہے ایسا کیا ہوگیا کہ وہ کھاٸی میں ہی گر گٸی ؟؟

اُسے کسی نے بچایا نہیں کیا ؟؟

امی وہ مل گٸی ہے مگر اُس کی حالت اچھی نہیں ہے آپ دعا کریں وہ ٹھیک ہو جاۓ جلدی سے اور یہاں واپس آ جاۓ۔۔۔

ابان شاہ نے معصومانہ انداز میں کہا،

یاالله تیرا شُکر ہے وہ مل گٸی باقی الله ہے نہ جس نے اُسے مصیبت سے نکال کر نٸی ذندگی دی وہ اُسے صحت یاب بھی ضرور کرے گا۔۔۔

آمین آمین۔۔

آسیہ بیگم۔۔۔

آسیہ بیگم کہاں چلی گٸی ہو مجھے میری دواٸی دو کب سے کھانسی کر رہا ہوں کسی کو کوٸی پرواہ ہی نہیں ہے میری اس گھر میں۔۔

امی امی ابا سے کچھ مت کہنا ابھی اگر بتانا ہوا تو چوہدری صاحب خود ابا کو بتا دیں گے۔۔

ابان اپنے ابو کی آواز سُن کر جھٹ سے بولا،

ٹھیک ہے میں کچھ نہیں بتاٶں گی تم بےفکر رہو۔۔

ارے آسیہ بیگم۔۔۔

حرم۔۔۔

جی جی آگٸی۔۔۔

آسیہ بیگم بھاگتی ہوٸی کچن سے باہر گٸی۔۔

بس دو منٹ میں لے کر آ رہی ہوں آپ کی دواٸی اور تیار ہو جاٸیں چوہدری صاحب کا پیغام آیا ہے آپ کو حویلی بُلا رہے ہیں وہ۔۔۔

جب تک میں مر نہیں جاٶں گا وہ میری جان نہیں چھوڑیں گے۔۔

یہ کہہ کر منشی صاحب ہنسنے لگے۔۔

بس کر دیں کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔۔

آسیہ بیگم کیا ہوگیا ہے مرنا تو سب نے ہی ہے ایک دن۔۔۔

جی جانتی ہوں مگر آپ منہ سے ایسی باتیں نہ نکالا کریں مہربانی کر کے۔۔

جلدی سے یہ دوا کھاٸیں ابان شاہ اندر بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا ہے اُس کے ساتھ حویلی چلے جاٸیں۔۔۔۔

آسیہ بیگم بولی،

********

یشما کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ بالکل بےبس تھی آج وہ ماں بیٹی یہ گھر چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور ہوگٸی تھی۔۔۔

آپ لوگ کیوں جا رہے ہیں یہاں سے ؟؟

مت جاٸیں پلیز۔۔۔

کہاں جاٸیں گی آپ ماں بیٹی اکیلی ؟؟

جانا تو اُس بدبخت انسان کو چاہیے ہے آپ لوگ کیوں جا رہے ہیں ؟؟

محلے کے سب لوگ انہیں جانے سے روک رہے تھے۔۔

میں نے اپنا سارا بچپن یہاں گزارا ہے اپنی جوانی یہاں گزاری ہے آپ سب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ہے ہمارا مگر شاید سفر یہاں تک ہی تھا آپ سب کے ساتھ میرا اور میری ماں کا۔۔۔

یشما نے انسو صاف کیے بیگ پکڑا اور اپنی ماں کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔

بس اسٹیشن کے پاس جا کر وہ ماں بیٹی بیٹھ گٸی۔۔۔

اماں کہاں جانا ہے کس بس میں بیٹھنا ہے ؟؟

یشما نے اپنی امی سے اُداس لہجے میں کہا،

شہر کی بس میں بیٹھو ہم شہر جاٸیں گے۔۔

شہر ؟؟

مگر کہاں ؟؟

میرے بھاٸیوں کے گھر جاٸیں گے ہم۔۔

اماں ؟؟؟

کیا ہوگیا ہے جنہوں نے کبھی ہمارا حال تک نہیں پوچھا وہاں جاٸیں گے ہم ؟؟؟

میں تو ہرگز نہیں جاٶں گی وہاں اور نہ ہی تمہیں جانے دوں گی۔۔۔

یشما نے سرد لہجے میں کہا،

یشما خاموش ہو جاٶ بس کر دو ہم وہاں ہی جاٸیں سمجھی تم۔۔

وہ دونوں ماں بیٹی گاڑی میں بیٹھی اور شہر کے لیے روانہ ہوگٸی۔۔۔

پورے سفر میں یشما کی آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔۔

کیا کیا نہیں برداشت کررہی تھی وہ اتنے سالوں سے۔۔۔

وہ بہت اُداس تھی اُس نے رامش کا نمبر ڈاٸل کیا کہ اُسے بتا دیتی ہوں کہ میں وہ گھر چھوڑ کر آگٸی ہوں۔۔۔

نمبر ڈاٸل کرنے کے بعد جیسے ہی اُس نے موباٸل کان پر لگایا تو نمبر مصروف جا رہا تھا۔۔۔

رامش کا نمبر آن ہے اب ؟؟

مصروف کیوں ہے اس کا نمبر ؟؟

یعنی کہ یہ واپس آگیا ہے مگر اس نے مجھ سے رابطہ تک نہیں کیا۔۔

اُس نے پھر سے نمبر ڈاٸل کیا مگر نمبر مصروف جا رہا تھا۔۔

میں اب اس سے کبھی بات نہیں کروں گی جب جب میں نے اسے کال کی اس کا نمبر بند ہوتا تھا اور آج نمبر مصروف ہے مطلب کہ سہی ہے۔۔۔

ہر کوٸی دھوکہ ہی دیتا ہے مجھے تو اب کبھی بھی میں اس رامش کے بچے سے بات نہیں کروں گی۔۔۔

یشما نے اُسی وقت اپنا موباٸل بند کر کے بیگ میں ڈال لیا۔۔۔

میں ہی پاگل تھی جو اُسے کال کرتی تھی اُسے یاد کرتی تھی۔۔

وہ غصے سے بڑبڑاٸی۔۔۔


باہر نکل بےغیرت آدمی۔۔

محلے سے سارے لوگ یشما کے چچا کے گھر کے باہر جا کر اکٹھے ہوگۓ۔۔

باہر نکل۔۔

اُس کے دروازے پر ڈنڈے مارتے ہوۓ لڑکوں نے کہا،

کون ہے اتنی صبح صبح تمہارے گھر کے دروازے پر ؟؟؟

کیسے دروازہ پیٹ کر رکھا ہوا ہے۔۔۔

ارے میری جان تم سو جاٶ آرام سے میں دیکھتی ہوأ کون ہے۔۔

مت جاٶ نہ یہاں ہی رہو۔۔

سلمان نے ماریہ کو اپنی جانب کھینچتے ہوۓ کہا تو وہ اُس کے سینے سے جا لگی۔۔

کل رات سے تمہاری بانہوں میں سو رہی ہوں ابھی بھی تمہارا دل نہیں بھرا کیا ؟؟؟

وہ اُس کے لبوں پر جھکتی ہوٸی بولی،

نہیں نہ اس لیے تو کہہ رہا ہوں مت جاٶ۔۔

اتنے میں پھر سے زور زور سے دروازہ بجنے لگا۔۔۔

میں دیکھ کر آتی ہوں بس دو منٹ میری جان۔۔۔

وہ اُٹھی اور بڑی سی چادر اوڑھ کر دروازے کے پاس جا کر بولی،

کون ہے ایسے دروازہ کیوں پیٹ رہے ہو ؟؟

اس نے جب دروازہ کھولا تو دیکھا باہر محلے کے سارے لوگ کھڑے تھے۔۔

وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گئی اور فورا سے دروازہ بند کر دیا۔۔

اے لڑکی درازہ کھول اور اپنے باپ کو باہر بھیج ورنہ ہم دروازہ توڑ کر اندر آ جاٸیں گے۔۔

ک۔۔کیا چاہٸیے ہے تم لوگوں کو اور ابو گھر پر نہیں ہیں جاٶ چلے جاٶ سب یہاں سے۔۔۔

وہ گھبراتی ہوٸی بولی،

جھوٹ مت بول اندر ہی چھپ کر بیٹھا ہے وہ بےشرم آدمی۔۔

ک۔۔کیا کروں میں اب ؟؟

ماریہ بہت زیادہ گھبرا گٸی تھی اُسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔۔

وہ بھاگتی ہوٸی سلمان کے پاس گٸی۔۔

س۔۔سلمان۔۔

کیا ہوا کون ہے اب آ بھی آ جاٶ۔۔۔

سلمان باہر محلے کے لوگ جمع ہوۓ ہیں اور میرے ابو کو بُلا رہے ہیں۔۔ نہ جانے کیا بات ہوٸی ہے وہ لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے کھڑے ہیں۔۔

کیااااا ؟؟؟

بس اسی کی کمی تھی۔۔

سلمان اُٹھا اور اپنی شرٹ پہنی۔۔

سلمان اب کیا ہوگا مجھے تو بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔

کیا کوئی پیچھے سے راستہ ہے باہر جانے کا ؟؟؟

ر۔۔راستہ ؟؟

ہاں ہاں راستہ تو ہے۔۔

چلو پھر جلدی سے یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔۔

ایسا کرو کچھ سامان لے لو جلدی سے۔۔ جلدی کرو زیادہ ٹاٸم نہیں ہے۔۔

اُس نے فوراً ایک بیگ لیا اور الماری میں سے سارے کپڑے اس بیگ میں ڈالے۔۔۔ کپڑوں کے علاوہ کچھ قیمتی اشیاء بھی اس نے اپنے بیگ میں ڈال لی۔۔۔

تم یہ بیک پکڑو اور چلو میں بس دو منٹ میں آرہی ہوں۔۔۔

وہ دونوں گھر کے پچھلے دروازے سے بھاگ گئے۔۔۔

اتنے میں چچا اور اُس کی بیگم بھی وہاں پہنچ گۓ۔۔

گھر کے سامنے لوگوں کو اکٹھا دیکھ کر وہ دونوں پریشان ہو گئے۔۔

یہ اتنے لوگ کیوں ہمارے گھر کے اگے جمع ہوئے ہیں؟؟

اس کی بیگم نے کہا،

مجھے کیا پتہ کیوں جمع ہے میں تو تمہارے ساتھ ہی تھا نا۔۔۔

چلو جلدی سے چل کر پوچھو ان سے کیا چاہیے انہیں ؟؟؟

تم سب لوگ یہاں پر کیوں کھڑے ہو کیا مسئلہ ہے ؟؟؟

مطلب تمہاری بیٹی سچ کہہ رہی تھی تم گھر سے باہر ہی ہو اچھا ہوا تم ہمیں مل گئے گھر کے باہر ہی۔۔۔۔

محلے والوں نے اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔

ارے رکو کوئی تو بچاؤ کیوں مار رہے ہو میرے شوہر کو ؟؟؟

کیا کیا ہے انہیں ہٹو یہاں سے دور ہٹو۔۔۔

اس کی بیگم چیخی چلائی مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔۔۔

وہ فورا گھر کے پاس گئی اور دروازہ بجانے لگی۔۔۔

دروازہ کھولو ماریہ۔۔۔

دروازہ کھولو کہاں ہو تم ؟؟

میں تمہاری امی ہوں دروازہ کھولو۔۔

جلدی کرو کہاں رہ گئی ہو دیکھو وہ لوگ تمہارے ابو کو مار رہے ہیں۔۔۔

وہ اندر ہوگی تو دروازہ کھولے گی نا۔۔۔

وہ کافی دیر تک دروازہ بجاتی رہی مگر دروازے پر کوئی بھی نہ آیا۔۔

دیکھ لو تم دونوں اپنی عزت تمہاری بیٹی دروازہ بھی نہیں کھول رہی۔۔۔

تم لوگوں کو اج ہی اس محلے سے جانا ہوگا۔۔

تمہارے شوہر نے اپنے بھائی کی بیٹی اور بیوی کا یہاں رہنا مشکل کر دیا تھا۔۔۔

بار بار ان کے گھر جا کر انہیں پریشان کرتا تھا۔۔۔

کیا کام تھا اس کا جوان بیٹی کے گھر جانے کا ؟؟؟

کم از کم یہ بات ہی سوچ لیتا کہ اس کے گھر میں بھی ایک بیٹی ہے۔۔۔

اپنی ایک بیٹی تو اس سے سنبھالی نہیں جاتی اور دوسروں کی بیٹیوں پر گندی نظریں رکھتا ہے۔۔۔

ک۔۔کیا بول رہے ہو تم لوگ یہ سب ہاں ؟؟

یہ ایسا نہیں کر سکتا تم لوگوں کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔

اُس کی بیگم جھٹ سے بولی،

وہ ماں بیٹی اج گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔۔ ان کا تو اس دنیا میں کوئی ہے بھی نہیں نہ جانے کہاں بھٹک رہی ہوں گی دونوں ماں بیٹی۔۔۔

وہ ماں بیٹی خود ہی ایسی تھی اور الزام میرے شوہر پر لگا کر چلی گٸی ہیں۔۔

ارے بس بس تم جو بڑی طرفداری کر رہی ہو اپنے شوہر کی تم کونسا کم ہو تمہارے سارے کارنامے بھی ہم جاتے ہیں تم لوگوں کو اب ہم نے اس محلے میں رہنے ہی نہیں دینا ہے۔۔

اُٹھاٶ اپنا سامان اور نکلو یہاں سے۔۔

آج تو محلے والے چچا کے گھر کے سارے پول کھول رہے تھے۔۔

یہ لوگ کیوں جمع ہیں ؟؟؟

چچا کا بڑا بیٹا زوبیر وہاں پر پہنچ گیا۔۔

اپنے ابو کو زمین پر پڑا دیکھ کر وہ حیران پریشان ہوگیا۔۔۔

ابو کیا ہوا آپ کو ؟؟

امی کیا ہوا ہے ابو کو ؟؟؟

نہ جانے یہ محلے والے کیا کیا بک کر رہے ہیں تمہارے ابو کے بارے میں۔۔۔

ک۔۔کیا کہہ رہے ہیں یہ ؟؟؟

زوبیر کم از کم تم ہی ان ماں بیٹے کا خیال کر لیتے تمہارے باپ نے تو کیا نہیں۔۔۔

ارے مجھے کچھ بتاؤ تو صحیح کیا کیا ہے انہوں نے ؟؟؟

تمہارے باپ کی وجہ سے تمہاری تائی اور ان کی بیٹی یشما گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں آج۔۔

کیاااا ؟؟

گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں ؟؟

مگر کیوں ؟؟؟

کیونکہ تمہارے باپ کا جب دل چاہتا تھا جا کر انہیں تنگ کرتا تھا۔۔

ان کا جینا مشکل کر دیا تھا اس نے۔۔۔

یشما کے ساتھ نہ جانے کتنی بار زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے تمہارے باپ نے وہ تو اللہ کا کرم ہے کہ ہر بار الله نے کو بچا لیا۔۔۔

ابو آپ نے ایسا کرنے کی ہمت بھی کیسے کی ؟؟؟

یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں ؟؟؟

اس نے اپنے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا۔۔۔

بیٹا یہ تمہیں کہاں سچ بتائیں گا ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یشما نے جانے سے پہلے سب کچھ بتایا ہے۔۔

میرا آپ لوگوں سے آج کے بعد کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔

مر گۓ ہیں آپ دونوں میرے لیے۔۔

امی آپ کے بارے میں بھی نہ جانے میں نے کیا کیا سنا ہے اس محلے والوں سے پہلے مگر میں خاموش رہا ہر بار۔۔۔

کچھ تو خدا کا خوف کریں کچھ تو خدا کا خوف کریں۔۔۔

آج کے بعد اپ دونوں میری شکل دیکھنے کو بھی ترسیں گے۔۔

یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔

رُکو۔۔

رُکو زوبیر بیٹا۔۔

میری بات تو سُنو۔۔

اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔۔


اُٹھو اندر چلو۔۔

آہ مجھے بہت درد ہو رہا ہے میں نہیں اُٹھ سکتا۔۔۔

ہمت کرو اُٹھنا تو پڑے گا ایسے کیا سڑک پر پڑے رہو گے۔۔

آج ان دونوں کے راز کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آگئے تھے۔۔۔

وہ اُسے اُٹھا کر گھر کے پچھلے دروازے کی طرف لے جانے لگی تو وہ وہاں ہی رُک گیا۔۔

کہاں جا رہی ہو ہمارا گھر وہ ہے۔۔۔

اُس نے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،

ماریہ دروازہ نہیں کھول رہی شاید وہ ڈر گٸی ہے اس لیے ہم پچھلے دروازے سے چلے جاتے ہیں وہاں کا شاید وہ دروازہ کھول دے۔۔۔

جب وہ دونوں وہاں گئے تو وہ دروازہ کھلا پڑا تھا۔۔۔

ایسے کھلا دروازہ دیکھ کر وہ دونوں پریشان ہو گئے۔۔۔

یہ دروازہ کیوں ایسے کھلا ہوا ہے ؟؟؟

پتہ نہیں اندر جا کر دیکھتی ہوں۔۔۔

اندر جاتے ہی اس نے اپنے شوہر کو بیڈ پر لٹا دیا۔۔

تم یہاں لیٹو میں دیکھتی ہوں ماریہ کہاں ہے ؟؟

وہ اسے آواز دیتی ہوٸی اس کے کمرے تک گئی۔۔۔

جب وہ اس کے کمرے میں انٹر ہوئی تو دیکھا ہر چیز یہاں وہاں بکری پڑی تھی۔۔

الماری سے سارے کپڑے باہر نکلے ہوئے تھے۔۔۔ بیڈ شیٹ کی چادر آدھی بیڈ پر تھی اور آدھی زمین پر۔۔۔

یہ سارا کچھ دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔

ک۔۔کہیں وہ اُس لڑکے کے ساتھ تو نہیں چلی گٸی ہماری غیر موجودگی میں۔۔

وہ اپنی بیٹی کی حرکتوں کے بارے میں سب کچھ جانتی تھی۔۔۔

ن۔۔نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔

ایسا نہیں کر سکتی وہ۔۔

اگر ایسا ہوا تو محلے والے تو ہمیں اس محلے سے نکال کر چھوڑیں گے اور ہمارے پاس تو کوئی دوسرا ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔۔۔

وہ بھاگتی ہوٸی اپنے شوہر کے پاس گٸی۔۔

و۔۔وہ وہ کمرے میں نہیں ہے۔۔

اس نے گھبراتے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ بھی پریشان ہو گیا۔۔۔

کون ؟؟؟

ماریہ کمرے میں نہیں ہے۔۔۔ اس کے کمرے میں ہر چیز بکھری پڑی ہے۔۔۔

دھیان سے دیکھو گھر میں ہی ہوگی وہ اس نے کہا جانا ہے بھلا ؟؟؟

مجھے لگتا ہے وہ اُس لڑکے کے ساتھ چلی گٸی ہے۔۔۔

یہ کہتے ہوۓ وہ رونے لگی۔۔

کس لڑکے کے ساتھ ؟؟

یہ تم کیا بول رہی ہو ؟؟؟

وہ اس کے کالج کا ایک لڑکا ہے سلمان۔۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔ ماریہ نے مجھ سے ایک دن کہا تھا کہ امی میں اس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہوں میں نے اسے سمجھایا تھا کہ تمہارے ابو نہیں مانیں گے چھوڑ دو یہ سب مگر اس نے نہیں چھوڑا۔۔۔

کیا کہہ رہی ہو تم یہ سب ہاں مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے؟؟؟

وہ بیڈ سے اٹھنے لگا مگر اس سے اٹھا نہ گیا۔۔۔

آہ۔۔۔ کتنا مجبور ہو کر رہ گیا ہوں میں۔۔۔

جاؤ جاؤ اور جا کر تنگ کرو دوسروں کی بیٹیوں کو دیکھ لیا نا اپنی بیٹی بھاگ گئی گھر سے۔۔ یہ سب کچھ تمہارا کیا اگے آیا ہے۔۔

اپنا موڈ بند رکھو سمجھی۔۔ اپنی حرکتیں نہیں دیکھی تم نے پورا محلہ جانتا ہے تم دو نمبر عورت ہو۔۔۔ نہ جانے میری غیر موجودگی میں دونوں ماں بیٹی گھر میں کیا کرتی رہتی تھی۔۔۔

نہ جانے کتنے عاشق ہیں تم دونوں کے۔۔۔

وہ اسے ڈھونڈتا ہوا فلک لہجے میں بولا تو وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئ۔۔ 

ابان شاہ اور منشی صاحب جب حویلی میں انٹر ہوئے تو ایان باہر حال میں بیٹھا تھا۔۔

آٸیں آٸیں مُنشی صاحب۔۔۔

ابو تو کب سے آپ ہی کا انتظار کر رہے ہیں۔۔

ہاں ہاں انہی کے لیے تو آیا ہوں میں۔۔ آج کل کچھ زیادہ ہی یاد آنے لگی ہے انہیں میری۔۔

یہ کہہ کر چوہدری صاحب ہنسنے لگے۔۔

ابان تم یہاں آؤ میرے پاس آ کر بیٹھو۔۔۔

ایان نے کہا،

ہاں ہاں تمہارے پاس ہی آنے لگا ہوں میں فکر نہ کرو تم سے ایک ضروری بات بھی کرنی ہے میں نے۔۔۔

آؤ آؤ مجھے بھی تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔

ابان شاہ بولا،

وہ دونوں باہر حال میں ہی بیٹھ گئے۔۔۔

تمہیں پتہ ہے جب تم اس لڑکی کو چھوڑنے گئے تھے تو پیچھے سے وقاص ماموں آگئے تھے۔۔۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ ایان کہاں پر ہے ؟؟؟

پھر تم نے کہا اُن سے ؟؟؟

ایان بولا،

ارے میں تو گھبرا ہی گیا تھا کہ کیا جواب دوں اب انہیں۔۔۔

میں نے ان سے کہا میں نہیں جانتا وہ کہاں پر گیا ہے شاید وہ کسی کام سے گیا ہوگا باہر۔۔۔

میں نے بہانہ تو بنا دیا تھا مگر انہوں نے بہت غصہ کیا تھا۔۔

ارے ہاں یہی بات تو میں نے تمہیں بتانی تھی اس دن ماموں کب آئے مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں چلا اور انہوں نے مجھے ہاسپٹل سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔

کیااا ؟؟؟

ہاسپٹل سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا ؟؟؟

ہاں یار کم از کم تم مجھے کال ہی کر دیتے بتا دیتے کہ ماموں آگئے ہیں تم اور ماموں ابو کو گھر بھی لے آۓ اور مجھے خبر تک نہیں کی میں جب واپس ہاسپٹل آیا تو دیکھا ابو کی جگہ کوئی اور پیشنٹ لیٹا ہوا تھا۔۔۔ میں تو پریشان ہی ہو گیا پھر اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ رسپشنسٹ کے پاس جاتا ہوں اس سے جا کر پوچھتا ہوں تو اس نے مجھے بتایا کہ ابو کو تو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔۔

کال کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تمہارے وقاص ماموں کو اتنا غصہ آگیا تھا کہ میں خود ڈر گیا تھا۔۔

پھر کیا کہا تمہارے ماموں نے تم سے اس بارے میں ؟؟؟

ابان شاہ نے کہا،

انہوں نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ تمہارے ساتھ گاڑی میں وہ دو لیڈیز کون تھی ؟؟

میں نے تمہیں ہاسپٹل میں انٹر ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا پارکنگ ایریا میں۔۔۔

پھر میں نے بہانہ بنایا کہ ماموں میں اپنے دوست کی بہن اور امی کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔۔۔

ماموں تو یقین ہی نہیں کرنا چاہ رہے تھے اور میں جانتا ہوں انہوں نے یقین کیا بھی نہیں ہے میری بات پر وہ تو بہانہ بنا کر میں خود ہی باہر آگیا تھا کمرے سے۔۔۔

ویسے کون ہے وہ محترمہ جن کے پیچھے آپ کو جھوٹ بولنا پڑا ؟؟؟

یار وہ محترمہ میری ذندگی ہے۔۔

پہلی نظر میں ہی مجھے اس سے محبت ہو گئی تھی۔۔۔

یہ بات آج میں صرف تم سے شیئر کر رہا ہوں۔۔۔

ایان نے کہا،

کہاں ملی وہ تمہیں ؟؟؟

مطلب پہلی بار کب ملاقات ہوئی تم دونوں کی ؟؟

یہ جو ہمارے گاؤں کے ساتھ شہر ہے نا وہاں پر ایک ریسٹورنٹ ہے اور اس ریسٹورنٹ کے پیچھے بالکل درخت ہیں خالی جگہ ہے ویران سمجھو کہ جنگل ہی ہے ایک طرح سے۔۔۔

اس ریسٹورنٹ کے باہر ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کافی اچھا موسم تھا یہ لڑکی وہاں سے گزر کر گئی پتہ نہیں کیوں یار میں اٹھا اور میں نے اس لڑکی کا پیچھا کیا۔۔ کافی دور تک میں اس کے پیچھے گیا مگر اچانک میرے موبائل بجنے لگا میں نے جیسے ہی موبائل اپنی جیب سے نکالا کال اٹینڈ کی اور سامنے دیکھا وہ تھی ہی نہیں۔۔۔ مجھے اتنا غصہ آیا کہ میں بتا بھی نہیں سکتا تمہیں۔۔۔

اچھا پھر کیا ہوا ؟؟؟

اگلے دن پھر میں اسی جگہ پر گیا۔۔

اگلے دن وہاں پر اس کے ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی۔۔

میں نے پھر سے دونوں کا پیچھا کرنا شروع کیا۔۔۔

پیچھا کرتا کرتا میں آخر منزل تک پہنچ ہی گیا۔۔

کیا اُس لڑکی کا گھر ویران جنگل میں ہے ؟؟

ابان شاہ نے پوچھا۔۔

ہاں یار وہ لڑکی وہاں پر ہی رہتی ہے مگر بہت جلد میں اُسے اُس فالتو سی جگہ سے نکال کر یہاں لے آٶں گا اس حویلی میں۔۔

فالتو سی جگہ مطلب ؟؟؟

میں کچھ سمجھا نہیں۔۔

ابان شاہ نے حیرانگی سے کہا،

وہ جگہ اُس کے لیے سیف نہیں ہے وہ اڈا ہے جہاں مرد اپنا چسکا پورا کرنے آتے ہیں بہت صاف الفاظ میں بتایا ہے میں نے تمہیں سمجھ تو گئے ہو گے نا تم۔۔۔

یہ سننے کے بعد ابان شاہ ایان کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔۔۔

کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہا ہے مجھے ؟؟؟

کیا واقعی جو تو نے بتایا ہے وہ سچ ہے ؟؟؟

ہاں بالکل سچ ہے۔۔ کیا ایسی مجبور لڑکی سے محبت کرنا گناہ ہے ؟؟؟

وہ بہت مختلف ہے باقی لڑکیوں جیسی نہیں ہے۔۔۔ ہاں اس سے مرد ملنے آتے تھے مگر وہ صرف رقص کرتی تھی اُن کے لیے اس سے آگے کچھ بھی نہیں اُس نے بتایا تھا مجھے اور مجھے یقین ہے اُس پر۔۔۔

مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تم کیا کہہ رہے ہو تم کیا کر رہے ہو ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

مجھے بھی نہیں پتا میں کیا کر رہا ہوں اور میں کیا کہہ رہا ہوں مگر میں صرف اتنا جانتا ہوں مجھے اس لڑکی سے محبت ہے۔۔۔

یار ابان مجھے نہیں لگتا کہ محبت صرف پاک صاف لڑکی سے ہی ہوتی ہے یا محبت صرف پاک صاف لڑکی سے ہی ہونی چاہیے ہے۔۔۔

محبت تو محبت ہے نا کسی سے بھی ہو سکتی ہے کبھی بھی ہو سکتی ہے۔۔

نہیں ایان بالکل بھی نہیں۔۔۔ محبت کسی سے بھی یا کہیں بھی نہیں ہو سکتی۔۔۔

محبت تو ایک خاص کرم ہے بندوں پر اپنے خُدا کا۔۔۔

محبت میں پاک ناپاک کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔۔

ابان شاہ ایان کو سمجھا رہا تھا۔۔

شاید دونوں ہی اپنی جگہ ٹھیک تھے۔۔ جب آپ کو کسی سے سچی محبت ہو جاتی ہے تو پھر کہاں اُس انسان کے عیب دیکھاٸی دیتے ہیں۔۔

دنیا میں کچھ مرد ایسے بھی ہیں جنہیں ایک مخلص اور پاک صاف عورت چاہیے ہے ہر صورت۔۔۔ اور کچھ مرد ایسے بھی ہیں جنہیں عورت کے ماضی سے کوئی غرض نہیں ہوتا اس طرح کے مرد ویسے بہت ہی کم ملتے ہیں۔۔

عورت قربانی دے دیتی ہے وہ کمپرومائز کر لیتی ہے صرف اس لیے کہ اس کا گھر بس جائے۔۔۔


میں تو تمہیں بتانا ہی بھول گیا کہ رامش بھائی غزل کو واپس لے کر آ رہے ہیں۔۔ ہم غزل کا باقی کا ٹریٹمنٹ یہاں شہر ہی کروائیں گے۔۔۔

یہ سن کر ابان شاہ حیران رہ گیا۔۔

کیا واقع ہی ؟؟

یہ تو اچھی بات ہے ایسے تم سب بھی اُس سے ملاقات کر سکو گے اور سب سے بڑی بات چوہدری صاحب کو سکون مل جاۓ گا۔۔

ہاں غزل ابو کو بہت زیادہ یاد کرتی ہے اس لیے رامش بھائی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسے واپس لے کر آ جائیں گے اور وہ لوگ بس کچھ ہی دیر میں پہنچنے والے ہیں۔۔۔

ایان کی باتوں سے ابان شاہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ غزل اب پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہوگٸی ہے۔۔ اب اُس کے دل کو تسلی ہوگٸی تھی۔۔

ہاۓ ایان۔۔۔

رمشا نے ٹی وہ لاٶنج میں انٹر ہوتے ہوۓ کہا،

ہاۓ۔۔۔

ابھی رات کو تو تم واپس گئی تھی اب کیا لینے ائی ہو ؟؟؟

ایان نے کہا،

تمہیں کیا مسئلہ ہے میں جب مرضی یہاں آٶں جب مرضی واپس جاؤں۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولی،

ارے کیا ہو گیا ہے تم تو غصہ ہی کرنے لگ گئی ہو میں تو بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔۔

مجھے چچا جان نے کال کی تھی کہ غزل آج واپس آرہی ہے تو تم یہاں آ جاٶ تو میں آگٸی۔۔۔

یہ لڑکا کون ہے ؟؟

رمشا نے ابان شاہ کو سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے کہا،

یہ میرا دوست ہے ابان شاہ۔۔

ہمممم۔۔ ابان شاہ۔۔ نام تو بڑا یونیک سا ہے اور لڑکا بھی کافی ہینڈسم ہے۔۔۔

وہ اُسے گھورتی ہوٸی بولی تو ابان شاہ کے پسینے چُھوٹ رہے تھے۔۔

م۔۔میں ابھی آیا۔۔

ابان شاہ یہ یہ کہہ کر وہاں سے باہر چلا گیا۔۔۔

شرم نہیں آتی تمہیں پاگل کہیں کی۔۔

کیا سوچ رہا ہوگا وہ۔۔

ایان نے غصے سے کہا،

کیا ہو گیا ہے میں نے کیا کہا ہے ؟؟

جاٶ یہاں سے دماغ خراب مت کرو عجیب لڑکی۔۔

ایان غصے سے باہر چلا گیا۔۔

ایسے ری ایکٹ کر رہا ہے جیسے میں تو اس کے دوست کو کھانے لگی تھی پاگل کہیں کا۔۔۔

وہ بڑبڑاتی ہوئی اندر چلی گئی۔۔

*********

اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے نا اماں اب تم نے کیسے تمہاری بھابھی اور ان کی بیٹی ہم سے منہ چڑھا رہی ہیں اس سے اچھا تھا ہم کسی یتیم خانے میں چلے جاتے۔۔۔

یشما کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اپنی اماں کو لے کر یہاں سے کہیں دور چلی جائے۔۔

بس کر دو یتیم خانہ یتیم خانہ۔۔ میں تمہاری باتوں سے تنگ ا گئی ہوں۔۔

تم اچھے سے جانتی ہو اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔۔۔

میرے بھائیوں نے تو تمہیں کچھ نہیں کہا نا وہ تو ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے ہیں نا۔۔

میں تمہیں اپنے بھائیوں کے گھر لے کر آئی ہوں ان بھابھیوں کے گھر نہیں۔۔۔

یشما اُٹھ کر باہر چلی گٸی۔۔

کیا کروں میں کیسے اماں کو سمجھاٶں کہ یہاں سب کا منہ بنا ہوا ہے جب سے ہم آۓ ہیں۔۔

میں نہیں کسی کا احسان لینا چاہتی میں آج ہی باہر نکلوں گی کوٸی اچھی سی نوکری ڈھونڈوں گی اور جلد ہی اماں کو لے کر یہاں سے چلی جاٶں گی۔۔

وہ ٹیرس میں کھڑی یہ سب باتیں سوچ رہی تھی۔۔۔

چاۓ پیو گی ؟؟

احمد نے ٹیرس میں انٹر ہوتے ہوۓ کہا تو یشما نے کوٸی اُس کی بات کا کوٸی جواب نہیں دیا۔۔

بہت کھڑوس لگ رہی ہیں ویسے تو آپ مجھے۔۔۔

وہ اُس کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔۔

ہاں بہت کھڑوس ہوں میں اس لیے مجھ سے زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔

ارے ارے کیا ہو گیا ہے ؟؟؟

چلیں اپنے بارے میں کچھ بتائیں کیا کرتی ہیں آپ ؟؟؟

کچھ بھی نہیں کرتی میں میری قسمت میں کچھ ہے ہی نہیں کرنا صرف در بدر ٹھوکریں کھانا لکھا ہے میرے اور میری ماں کے نصیب میں۔۔۔

ارے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟؟

ایسا نہیں بولتے کیا آپ کوئی جاب نہیں کرتی ؟؟

نہیں میں کوئی جاب نہیں کرتی تم جانتے تو ہو ہم ایک چھوٹے سے گاٶں میں رہتے تھے وہاں پر کہاں جابز ملتی ہیں۔۔۔

اوہ ہاں واقع ہی گاٶں میں جابز نہیں ملتی۔۔۔

کتنا پڑھی ہوٸی ہیں آپ ؟؟

احمد نے کہا،

میں نے بی اے کیا ہوا ہے۔۔آج سے دو سال پہلے کیا تھا جسے اب کوٸی پوچھتا بھی نہیں۔۔

یشما نے منھ بناتے ہوۓ کہا،

ارے کیوں نہیں پوچھتا کوٸی ؟؟ مارکیٹ میں نکل کر دیکھیں بہت ڈیمانڈ ہے بی اے کی بھی۔۔۔

ویسے ماشاءاللہ سے آپ کی ہائٹ بھی اچھی ہے آپ کو دیکھ کر مجھے ایسا لگتا ہے اپ کو پولیس فیلڈ میں ہونا چاہیے۔۔۔

پولیس کا نام سنتے ہی یشما کے ذہن میں رامش آگیا۔۔۔

یشما ذرا سا مسکراٸی۔۔

مجھ جیسی کو کون رکھے گا اس فیلڈ میں ؟؟

وہ تمسخرانہ انداز میں بولی،

اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی ہیلپ کر سکتا ہوں۔۔۔

احمد بولا،

کیا واقع ہی ؟؟؟

یشما نے حیرانگی سے کہا،

ہاں میں آپ کی سی وی بناٶں گا بس آپ کو ایک دو پیپر کلیئر کرنے ہوں گے میں آپ کو اس کی تیاری بھی کروا دوں گا۔۔۔

ہاں ہاں ٹھیک ہے میں تیار ہوں یہ سب کرنے کے لیے۔۔۔تم کتنے اچھے ہو سوری میں تم سے تھوڑے سخت لہجے میں بولی،

ارے کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے۔۔۔

احمد نے یشما کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا، 

کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہیں آپ مُنشی صاحب بس کر دیں۔۔ الله اُس بچی کو صحت یاب کرے وہ جلدی سے اپنوں میں آ جاۓ۔۔

ایسے پریشان ہونے سے کچھ بھی نہیں ہوگا بلکہ اُس بچی کے لیے دعا کرنی چاہٸے ہم سب کو۔۔

ان لوگوں نے اتنے دنوں سے مجھ سے یہ بات چھپائے رکھی۔۔

چار سال کی تھی جب وہ سکول جانے لگی تھی میں اُس کو ہنی اور ایان کو سکول چھوڑنے جایا کرتا تھا ڈراٸیور کے ساتھ۔۔۔ اپنے دونوں بھاٸیوں کے ساتھ لڑتی تھی مگر وہ ہمیشہ اُس سے پیار ہی کرتے آۓ ہیں۔۔

آپ پریشان نہ ہوں آپ کی طبعیت بگڑ جاۓ گی آٸیں کھانا کھا لیں آ کر۔۔

آسیہ بیگم نے کہا،

نہیں مجھے بھوک نہیں ہے میں کھانا نہیں کھاؤں گا تم لوگ کھا لو۔۔۔

یہ کہہ کر مُنشی صاحب اپنے کمرے میں چلے گۓ۔۔

پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے انہیں جب سے حویلی سے آٸیں ہیں۔۔

ابان بھی پتہ نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔

حرم بیٹا بھاٸی کو فون کرو اُسے بولو فوراً گھر آۓ امی بُلا رہی ہیں۔۔۔

امی کیا ہوگیا ہے صبر کرلیں آ جاۓ گا بھاٸی تھوڑی دیر تک۔۔

حرم بولی،

میں تو اس لیے بول رہی ہوں تمہارے ابا فضول میں نہ جانے کس بات کی اتنی ٹینشن لے رہے ہیں جبکہ اب معلوم ہوگیا ہے کہ غزل بالکل ٹھیک ہے اور جلد ہی گھر بھی واپس آ جاۓ گی۔۔

ظاہر ہے امی ابو اتنے سالوں سے اس حویلی میں کام کر رہے ہیں غزل چھوٹی سی تھی تب۔۔ ابو کے سامنے پلی بڑی ہے تو ابو کو دکھ تو ہوگا نا اور اپ یہ بھی اچھے سے جانتی ہیں کہ ابو کی کتنی دوستی ہے چوہدری صاحب کے ساتھ۔۔

ہاں بات تو ٹھیک ہے تمہاری مگر میں زیادہ اس لیے بول رہی ہوں کہ کہیں ان کی طبیعت نہ بگڑ جائے۔۔۔

آپ ٹینشن نہ لیں جائیں جا کر کھانا کھائیں۔۔۔


غزل میری جان دیکھو ابو تمہارے پاس ہیں آنکھیں کھولو میری بچی۔۔

چوہدری صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ غزل کے ہاتھ چومے جا رہے تھے۔۔

غزل۔۔

دیکھو کون آیا ہے بھاٸی آۓ ہیں ابو آۓ ہیں آنکھیں کھولو ایک بار۔۔

ایان اُس کے سرہانے بیٹھا اُس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔

کب ٹھیک ہوگی میری بچی دیکھو تو سہی اُس کا چہرہ کتنا خراب ہوگیا ہے کیسے ٹھیک ہوں گی یہ چوٹیں ؟؟

ابو بہت جلد ٹھیک ہو جاۓ گی آپ بس دعا کریں۔۔۔

غزل نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولنا شروع کی۔۔۔

ابو۔۔

ابو۔۔۔

اُس نے دھیمی آواز میں کہا تو چوہدری صاحب نے اُس کا ماتھا چوما۔۔

چوہدری صاحب نے اُسی وقت اپنی بیٹی پر سے صدقہ اُتارا۔۔

ابو اب میں کبھی ضد نہیں کروں گی کہیں بھی جانے کی جیسا آپ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی۔۔۔

میں اب کبھی بھی آپ سب سے دور نہیں جاٶں گی۔۔۔ میں نے بہت تکلیف دی ہے آپ سب کو مجھے معاف کر دیں۔۔

رامش بھاٸی مجھے معاف کر دیں اب میں کبھی ضد نہیں کروں گی۔۔

وہ تینوں بھاٸی اور چوہدری صاحب غزل کے ارد گرد کھڑے تھے۔۔۔

کیسی باتیں کر رہی ہو میری جان ایسے نہ کہو۔۔ تم تو ہم سب کی جان ہو ہمارے گھر کی رونق ہو تمہاری کوٸی غلطی نہیں ہے بس نصیب میں لکھا تھا یہ سب اور ہوگیا۔۔

یہ سب سوچنا بند کر دو خوش خوش رہو تاکہ جلدی سے ٹھیک ہو جاٶ۔۔۔

رامش نے محبت بھرے لہجے میں کہا،

*******

تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟

حریم اچانک کمرے میں انٹر ہوتی ہوٸی سرد لہجے میں بولی،

کیا کر رہے ہیں نظر نہیں آرہا کام کر رہے ہیں۔۔

یشما نے بھی سخت لہجے میں اُسے سخت لہجے میں جواب دیا۔۔۔

کام کر رہے ہو یا۔۔۔۔۔۔

وہ ہاتھ باندھے کھڑی یشما کو سر سے پیر تک گھورتی ہوٸی بولی،

یہ تمہاری بہن پاگل ہے کیا ؟؟

تم بول کیوں نہیں رہے کہ ہم کام کر رہے ہیں۔۔۔

حریم جاٶ یہاں سے ہمیں ڈسٹرب نہ کرو میں یشما کی سی وی بنا رہا ہوں۔۔

وہ یہ سُن کر ہنسنے لگی۔۔

سی وی ؟؟

اس ان پڑھ کی کیا سی وی بنا رہے ہو تم ذرا مجھے بھی تو دیکھاٶ۔۔۔

وہ قہقہ لگا کر ہنستی ہوٸی بولی تو یشما غصے سے آگ بگولہ ہوگٸی۔۔

ان پڑھ کسے بولا تم نے ؟؟

ان پڑھ کسے بولا ؟؟

یشما نے اُسے پیچھے کو دھکا دیتے ہوۓ کہا،

تمہیں ان پڑھ بولا ہے میں نے تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے دھکا دینے کی ہاں ؟؟؟

ہو کیا تم ؟؟

یہاں ہمارے ٹکڑوں پہ پلنے آگئی ہو تم ماں بیٹی۔۔۔

شٹ اپ۔۔

احمد نے غصے سے حریم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

احمد تم اس دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے مجھے ذلیل کرو گے ؟؟

آٸی سیڈ شٹ اپ۔۔

میں کب سے دیکھ رہا ہوں کہ تم یہاں سے چلی جاؤ گی یا خاموش ہو جاؤ گی مگر تمہاری زبان ہی منہ میں نہیں جا رہی۔۔۔

میں اور یشما یہاں پر بیٹھ کر سی وی بنا رہے ہیں وہ جاب کرنا چاہتی ہے میں جسٹ اُس کی ہیلپ کر رہا ہوں۔۔۔

مت کرو اس کی ہیلپ۔۔۔ تم نہیں جانتے اسے یہ تمہیں اپنے جال میں پھنسانے کے چکروں میں ہے تمہیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔

سٹاپ اٹ یارررر۔۔۔

یشما وہاں سے نکل کر باہر چلی گٸی۔۔

تم پاگل ہو کیا حریم ؟؟

آۓ انہیں کتنے دن ہوۓ ہیں جو تم ایسے اُسے بتا سُنا رہی ہو ؟؟ وہ اگر اس گھر میں رہ بھی رہے ہیں تو یہ اُن کے ماموں کا گھر ہے تمہارا نہیں سمجھی۔۔۔

بیچاری کتنا ہارٹ ہوٸی ہوگی۔۔

احمد یہ کہہ کر غصے سے نکل کر کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

کیوں اس احمد کو سمجھ نہیں آ رہی میری باتیں ؟؟؟

یہ لڑکی اسے اپنے جال میں پھنسا کر کہیں اس سے شادی ہی نہ کر لے۔۔ مجھے جا کر امی کو بتانا ہوگا یہ سب کچھ ورنہ معاملہ بہت آگے تک چلا جائے گا۔۔۔

حریم بڑھاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔

********

بھائی صاحب میں آپ سے اتنے دنوں سے ایک بہت ضروری بات کرنا چاہ رہی ہوں مگر موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔۔

عشرت بیگم نے چوہدری صاحب سے کہا،

ہاں بولو کیا بات ہے ؟؟؟

بھائی صاحب میں نے آپ سے پہلے بھی ایک بار کہا تھا کہ اب ہمیں بچوں کا رشتہ کر دینا چاہیے۔۔ میں چاہتی ہوں جلد از جلد رمشا کی شادی ہو جائے میرا فرض ادا ہو جاۓ۔۔

ارے یہ تو دیکھو تم غزل وہاں ہاسپٹل میں پڑی ہے میں کیسے رشتہ کر دوں ایسے ٹائم میں ؟؟؟

موقع دیکھو اور یہ دیکھو تم بات کیسی کر رہی ہو ؟؟؟

غزل ٹھیک ہو جائے گی تو میں رامش سے بات کروں گا اس بارے میں۔۔۔

چوہدری صاحب نے سرد لہجے میں کہا،

آپ فکر کیوں کرتے ہیں غزل بھی ٹھیک ہو جائے گی اپ بات تو کر کے دیکھیں رامش سے۔۔

آج سے چھ ماہ پہلے آپ نے کہا تھا کہ میں رامش سے بات کروں گا کیا ابھی تک بات ہی نہیں کی آپ نے ؟؟؟

تم جانتی تو ہو عشرت وہ زیادہ وقت اپنے کام میں ہی مصروف رہتا ہے اور آج کل وہ صرف غزل کے پیچھے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔۔۔

ٹھیک ہے مگر اب زیادہ وقت نہیں ہے آپ اس سے بات کریں بات کر کے مجھے بتائیں تاکہ ہم رسم کریں منگنی کی۔۔۔

عشرت بیگم بولی،

میں اس سے بات کروں گا مگر کچھ دن بعد۔۔۔

بہتر ہے ابھی تم بھی یہ بات منہ سے نہ نکالو بار بار۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

عشرت بیگم کا منہ بن گیا۔۔۔


رامش جب کمرے میں انٹر ہوا تو اس نے دیکھا رمشا اس کے بٹ پر بیٹھی کتاب میں مشغول تھی۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو میرے روم میں ؟؟

رامش نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا،

میرے الله تیرا لاکھ لاکھ شُکر میں تو اس انسان کی شکل دیکھنے کو ترس رہی تھی۔۔

شُکر ہے تم آگۓ اور اب کبھی اتنی دُور مت جانا میرا دل اُداس رہتا ہے تمہیں دیکھے بنا۔۔۔

اُس نے کتاب ایک طرف رکھی اور رامش کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو گئی۔۔۔

تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں تم سے روز ملاقات کرتا ہوں۔۔۔

رامش نے اپنی شرٹ کے بازو کھولتے ہوۓ کہا،

میں تو چاہتی ہوں ہم ہر روز ملاقات کیا کریں مگر تم جناب مصروف ہی بہت رہتے ہو۔۔

پلیز جاؤ مجھے فریش ہونا ہے اور فریش ہو کر ریسٹ کرنا ہے بہت تھک گیا ہوں میں۔۔

تو نہیں اتنا پھرنا تھا نہ اُس غزل کے لیے۔۔ دیکھو تو صحیح کتنے کمزور ہو گئے ہو تم۔۔۔

ویسے سوچنے کی بات ہے کھاٸی میں جو گر جاۓ وہ بھلا کیسے بچ سکتا ہے ؟؟؟

شٹ یور ماٶتھ۔۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری غزل کے بارے میں ایسا بولنے کی۔۔

آج تو تم نے اپنے منہ سے یہ الفاظ نکال لیے مگر آٸندہ سوچ سمجھ کر نکالنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا یاد رکھنا میری یہ بات۔۔۔

یہ کہہ کر رامش غصے سے واش روم کی طرف چلا گیا۔۔

ارے کیا ہو گیا ہے سنو تو صحیح تم تو غصہ ہی کرنے لگ گئے ہو۔۔

ایک تو اتنا کھڑوس ہے نا یہ بات کو پتہ نہیں کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔۔۔

بس ایک بار میری شادی ہو جائے اس سے دیکھنا کیسے تیر سیدھا کر دوں گی۔۔۔

وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔

****

کیا ہوا آپ ناراض ہیں مجھ سے ؟؟؟

یہاں تو دیکھیں میری طرف۔۔۔

روشنی ایان سے منہ موڑے بیٹھی تھی۔۔

جاٶ سُندری تمہارا ویٹ کر رہی ہوگی اُس کے پاس جاٶ وہ تمہیں اچھا سا رقص بھی کر کے دکھاۓ گی تمہیں اچھا لگے گا۔۔

یہ کہہ کر جب وہ اُٹھ کر جانے لگی تو ایان سے اُسے کلاٸی سے پکڑ لیا۔۔۔

کیوں ایسی فضول باتیں سوچ کر آپ اپنا دل دکھا رہی ہیں ؟؟

میں صرف آپ سے ہی محبت کرتا ہوں یہ بات میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں اور اب بار بار نہیں بتاؤں گا۔۔۔

ایان نے روشنی کو اپنی جانب کھینچتے ہوۓ کہا،

مگر ایان صاحب وہ آپ کو چاہتی ہے کل وہ میرے کمرے میں آٸی تھی اور مجھے بہت باتیں سنا کر گئی ہے اس کی ایسی فضول اور گھٹیا باتیں میں روز روز نہیں سن سکتی اور آپ کے بارے میں تو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔

ہممممم۔۔۔ کیا کہا اُس نے میرے بارے میں ؟؟؟

مجھے نہیں پتا تم اسی سے جا کر پوچھ لو۔۔۔

روشنی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں کہا تو وہ مسکرانے لگا۔۔

کیوں کر رہی ہیں آپ ایسا میرے ساتھ ؟؟؟

میری جان میں صرف آپ سے محبت کرتا ہوں میرے لیے آپ کے علاوہ اس دنیا میں کوئی لڑکی بنی ہی نہیں ہے۔۔۔ آپ یہ بات اچھے سے سمجھ لیں کہ ایان چوہدری کو صرف روشنی سے محبت ہے۔۔۔

روشنی مسلسل ایان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔۔

روشنی۔۔

روشنی کہاں ہو جلدی سے باہر آٶ۔۔

وہ دونوں جٹ سے ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔۔

الله خیر کرے کیا ہو گیا ہے ؟؟؟

روشنی بھاگتی ہوئی دروازے کی جانب بڑی اور دروازہ کھول کر باہر بھاگی۔۔۔

کیا ہوا زُمر ؟؟؟

و۔۔وہ ب۔۔ببن جی۔۔۔

کیا ہوا ببن جی کو ؟؟

ب۔۔ببن جی کی سانسیں بند ہوگٸی ہیں جلدی سے کسی ڈاکٹر کو بُلاٶ۔۔۔

یہ سنتے ہی روشنی ببن جی کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔

ببن جی۔۔

ببن جی۔۔۔

کیا ہوا ببن جی آنکھیں کھولیں۔۔۔

روشنی ببن جی کے ہاتھ مسلنے لگی۔۔

ایان بھی وہاں ہی آ کر روشنی کے پاس کھڑا ہوگیا۔۔۔

ایان ڈاکٹر کو کال کرو جلدی سے پلیز۔۔۔

روشنی نے کہا تو اس نے فورا ڈاکٹر کا نمبر ملایا۔۔۔

جب تک ڈاکٹر وہاں پر پہنچا تو ببن جی کی سانسیں بند ہو چکی تھی۔۔۔

روشنی اور زُمر چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔

روشنی حوصلہ کرو۔۔۔

ایان روشنی کے پاس بیٹھا اُسے حوصلہ دے رہا تھا۔۔۔۔

کچھ تو خیال کرو تم دونوں فوتگی والا گھر ہے کیسے جُڑ کر بیٹھے ہو۔۔۔

سُندری نے اُن دونوں کی طرف دیکھ کر گھورتے ہوۓ کہا،

بس کر دو سُندری۔۔ اپنا بتاؤ تمہیں وقت مل گیا یہاں آنے کا کب سے تم اپنے کمرے میں گُھسی ہوئی تھی۔۔۔

سب مطلبی ہو تم اپنا مفاد سوچتی ہو بس۔۔

زُمر نے غصے سے کہا،

میں کیا کرتی ہوں میری جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔۔

سُندری نے مسکراتے ہوۓ کہا،

سب کو خبردار کر دو اب یہاں پر کوئی بھی نہیں آۓ گا اور جسے ملنا ہے وہ باہر جا کر ملے سمجھی سب کی سب۔۔۔

روشنی نے تلخ لہجے میں وہاں پر رہنے والی سب لڑکیوں سے کہہ دیا۔۔۔

ہمیں باتیں سنا رہی ہو اپنے عاشق کو تو تم اپنے قدموں میں لے کر بیٹھی ہو۔۔۔

سُندری بھڑک پڑی۔۔

سندری میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی اس وقت سمجھی۔۔

یہی ببن جی کو ہاسپٹل لے کر جاتا رہا ہے اسی نے سارے پیسے لگائے ہیں ببن جی پر اس کے بارے میں ایک لفظ بھی اپنے منہ سے مت نکالنا۔۔۔

روشنی نے غصے سے جواب دیا۔۔۔

یہ خوبصورت لڑکے اکثر قدموں میں بیٹھے ہی دیکھے ہیں میں نے رن مرید کہیں کا۔۔

سنبھال کر رکھو اپنے عاشق کو ورنہ رو گی بیٹھ کر سمجھی مجھے دھمکیاں دے رہی ہے۔۔۔

روشنی بیٹھ جاٶ اس کے منہ لگنا بالکل بیکار ہے۔۔۔

ایان نے روشنی کا بازو پکڑ کر اُسے بیٹھا دیا۔۔

*****

کیا کروں کیا کروں ایان نے بھی نہیں بولا کہ ہاسپٹل چلتے ہیں۔۔

میں غزل کو دیکھنے کے لیے بےچین ہوں۔۔

پتہ نہیں اسے میں یاد بھی ہوں گا یا نہیں۔۔۔

کیا ہوا بھاٸی کیا سوچ رہے ہو ؟؟؟

سوۓ کیوں نہیں اب تک ؟؟

حرم بھی باہر ہال میں آ کر ابان شاہ کے پاس بیٹھ گٸی۔۔۔

کچھ نہیں بس ویسے ہی نیند ہی نہیں آرہی نہ جانے میری نیند کہاں چلی گئی ہے اتنے دنوں سے۔۔۔

ابان شاہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا،

کیا غزل کے لیے پریشان ہو ؟؟

حرم نے کہا،

ہاں یار میں اسی کے لیے پریشان ہوں۔۔۔

میں اس کے لیے اتنا پریشان ہو رہا ہوں اور چاہے وہ مجھے بھول گئی ہو اب تک ہاں نہ ؟؟؟

ارے نہیں بھائی بھول کیوں گئی ہوگی بھلا وہ آپ کو ؟؟؟

اگر اس نے بھی اپپ سے محبت کی ہوگی تو وہ کبھی بھی نہیں بھولی ہوگی آپ کو۔۔۔

حرم نے جواب دیا۔۔۔

الله کرے ایسا ہی ہو جیسا تم کہہ رہی ہو۔۔۔

میں چاہ رہا ہوں ایک نظر میں اسے دیکھ لوں شاید میرے دل کو تسلی ہو جائے میرے دل کو قرار مل جائے۔۔۔

فکر نہ کرو بھاٸی تم اسے دیکھو گے کیا اس سے بات بھی کرو گے اور بہت جلد کرو گے۔۔۔

ابان شاہ کے کندھے پر تھپکی دے کر وہ اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔۔۔ 

خوش آمدید میری بیٹی خوش آمدید۔۔

یہ گھر ویران پڑا تھا تمہارے بغیر۔۔ دیکھو تو صحیح تمہارے گھر میں داخل ہوتے ہی ہم سب کے چہروں پر مسکراہٹیں آگٸی ہیں۔۔

تم ہی اس گھر کی رونق ہو میری بیٹی۔۔۔

آج غزل کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔۔۔

تینوں بھائی مل کر غزل کو اس کے بیڈ روم میں لے گئے۔۔۔

بیڈ روم کو ہنی اور ایان نے مل کر ڈیکوریٹ کیا تھا۔۔۔

کمرے میں اینٹر ہوتے ہی غزل اپنا کمرہ دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔

غزل کی پسند کی کتابیں اس کے بک شیلف میں لا کر رکھی ہوٸی تھیں۔۔

آپ سب کتنے اچھے ہو نا بھاٸی۔۔۔

اس نے اپنے تینوں بھائیوں کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا،

ہاں ہم بہت اچھے ہیں کیونکہ تم ہماری بہن ہو اس لیے۔۔۔

رامش نے غزل کا ماتھا چومتے ہوئے کہا،


رمشا کو بُلاٶ اُسے بول دو جب تک غزل مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہو جاتی وہ غزل کے پاس ہی رہے گی دن رات۔۔۔

چوہدری صاحب نے ایان سے کہا،

اُفففففف۔۔۔اس کو اس گھر میں لانے سے اچھا ہے ہم کوئی کیئر ٹیکر لے آٸیں۔۔

وہ بڑبڑاتا ہوا رمشا کے گھر اُسے لینے کے لیے چلاگیا۔۔۔۔


رامش بیٹا کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے ؟؟

ابو میں اب اپنی جاب پر جا رہا ہوں بہت چھٹیاں ہوگٸ ہیں میری۔۔ اب ذرا کام پر توجہ دے لوں میں۔۔۔۔

اچھا چلو بیٹا جیسا تمہیں ٹھیک لگے مگر رات کو کھانا ہمارے ساتھ ہی کھانا۔۔۔

جی ابو ٹھیک ہے میں جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا۔۔۔

رامش بیٹا میرا ایک کام تو کر دو جاتے جاتے۔۔۔

جی ابو کہیں۔۔

ذرا منشی صاحب کو کہنا کہ حویلی چکر لگائیں اور آج ہی لگاٸیں۔۔ اس دن میں نے انہیں غزل کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ بہت پریشان ہو گئے تھے۔۔۔

جی ٹھیک ہے ابو میں جاتے ہوۓ کہہ دیتا ہوں انہیں۔۔۔

رامش بھی جاب پر جانے کے لیے نکل گیا۔۔۔

اب چوہدری صاحب کو کوٸی فکر نہیں تھی اُن کے سب بچے اُن کی نظروں کے سامنے تھے۔۔۔


تمہارے اندر بالکل بھی صبر نہیں ہے کیا ؟؟؟

ایک بار ہارن بجایا دو بار بجایا تم تو مسلسل بجا رہے ہو محلے والے بھی پریشان ہو رہے ہوں گے۔۔۔

جلدی بیٹھو گاڑی میں زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔

ایان نے سرد لہجے میں کہا،

آخر مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ہر وقت تم سڑے ہی رہتے ہو۔۔ ایک وہ تمہارا بڑا بھائی ہے رامش وہ بھی ہر وقت سڑتا ہی رہتا ہے سڑنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے کیا تم لوگوں کو۔۔

چپ کر کے بیٹھ جاؤ میرا دماغ کھانے کی ضرورت نہیں ہے پہلے ہی تم پورا گھنٹہ اس فضول میک اپ میں لگا کر آئی ہو جو تمہارے منہ پر بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا چڑیل لگ رہی ہو تم۔۔۔

یہ سُن کر رمشا کے من میں آگ لگ گٸی۔۔

تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چڑیل کہنے کی ہاں ؟؟؟

یہاں دیکھو میری طرف اور بتاٶ آج سے پہلے تم نے اتنی حسین لڑکی کہیں پر دیکھی ہے ؟؟؟

تمہاری پوری یونیورسٹی میں اتنی خوبصورت لڑکی نہیں ملے گی تمہیں۔۔۔

اُس کی یہ بات سُن کر ایان زور زور سے ہنسنے لگا۔۔۔

خوش فہمی اچھی پال رکھی ہے ویسے تم نے۔۔۔

کیا ہے تم میں ایسا جو تم اتنی بنی پھرتی ہو ؟؟؟

میری طرف دیکھ لو تمہیں سب کچھ نظر آ جائے گا بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیا ہے میرے اندر ایسا۔۔۔

وہ تمسخرانہ انداز میں بولی،

ایان اپنی ہنسی کو نہ جانے کیسے کنٹرول کر رہا تھا۔۔۔

تمہیں دیکھنے سے اچھا ہے میں کسی مانگنے والی کو دیکھ لوں تم سے زیادہ پیاری ہیں وہ کم از کم تمہاری طرح اتنا میک اپ تو نہیں تھوپتی نہ۔۔

تمہیں آخر میرے میک اپ سے مسئلہ کیا ہے ؟؟؟

جب تمہاری بیوی آٸے گی نا میں بھی دیکھ لوں گی کتنی حسن کی پری ہوگی وہ۔۔۔ میک اپ ہی کرنا ہے اس نے بھی اور بےحد کا کرنا ہے۔۔۔

نہ جی نہ وہ تو حُور کی پری ہوگی سب سے پیاری سب سے ڈیسنٹ۔۔ اور مجھے اتنا یقین ہے تم نے اس کو دیکھ دیکھ کے ویسے ہی سڑ جانا ہے۔۔۔

ایان بات بات پر اس کی بےعزتی کر رہا تھا۔۔

رمشا کو ایان کی باتوں پر غصہ آ رہا تھا مگر وہ پھر بھی مسکرا رہی تھی کہ ایان کو محسوس نہ ہو کہ وہ بےعزتی محسوس کر رہی ہے۔۔

*******

بہت ہی پیارا لگتا ہے چوہدری صاحب کا بڑا بیٹا پولیس نونیفارم میں۔۔

آسیہ بیگم نے کہا،

ہاں امی لگتا تو ہے محنتی بھی بہت ہے رامش۔۔

ابان شاہ شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا۔۔۔

امی آپ سب کچھ چھوڑیں بس بھاٸی کی خوشی چیک کریں ذرا کیسے غزل سے ملنے کے لیے بےتاب ہو رہا ہے۔۔۔

ہاں ہاں دیکھ رہی ہوں میں اسے۔۔

آسیہ بیگم بولی،

ابان آ بھی جاٶ اب اور کتنا وقت لگاٶ گے ؟؟؟

ٹاٸم دیکھو شام ہو رہی۔۔

مُنشی صاحب باہر سے بولے،

آ رہا ہوں ابو جی آ رہا ہوں۔۔

وہ بھاگتا ہوا باہر کی جانب بڑھا۔۔

چلیں ابو۔۔

مُنشی صاحب کو باٸیک پر بیٹھایا اور دونوں باپ بیٹا حویلی کی طرف نکل گۓ۔۔۔

جب وہ لوگ حویلی پہنچے تو چوہدری صاحب فوراً مُنشی صاحب اور ابان شاہ کو غزل کے پاس لے گۓ۔۔۔۔

غزل بیٹا یہ دیکھو کون آیا ہے۔۔

ابان شاہ ہی نظر جب غزل پر پڑی تو اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

غ۔۔غزل کے چہرے پر کافی زیادہ چوٹیں لگنے کی وجہ سے اُس کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔۔۔

غزل بیٹا۔۔۔

رہنے دیں چوہدری صاحب ہماری بچی نیند میں ہے مت خراب کریں اس کی نیند۔۔

اُٹھ جاۓ گی اُٹھ جاۓ گی میں چاہتا ہوں اس کی آنکھیں کُھلی رہیں یہ مجھے دیکھتی رہے میں اسے دیکھتا رہوں بس یہ کبھی بھی اب میری نظروں سے دُور نہ ہو۔۔۔

غزل نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولی،

وہ مُنشی صاحب کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔

کیسی ہو میری بچی ؟؟

مُنشی صاحب نے اُس کے سے پر پیار دیا۔۔

غزل کی آواز سُن کر ابان شاہ کو قرار آیا۔۔

اُس کے کان یہ آواز سننے کو ترس گۓ تھے۔۔۔

تم کیوں یہاں کھڑے ہو آٶ یہاں بیٹھو صوفے پر۔۔۔

جتنے تم حسین ہو اُتنے ہی اکڑو بھی ہو۔۔

ن۔۔نہیں میں یہاں ہی ٹھیک ہوں۔۔

ابان شاہ نے جواب دیا۔۔۔

ابان شاہ بیٹا آ جاٶ یہاں آ کر بیٹھو۔۔۔

ابان شاہ کا نام سُن کر غزل یہاں وہاں نظریں گُھمانے لگی۔۔۔

ابان شاہ ؟؟؟

اُس کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگی تھی۔۔

جب ایان شاہ سامنے صوفے پر آ کر بیٹھا تو غزل اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔۔

اس کے ذہن میں وہ سب باتیں آ رہی تھی جو ابان شاہ اور غزل کے بیچ میں ہوئی تھی۔۔

ابان شاہ کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ وہ نظریں اٹھا کر غزل کی طرف دیکھے۔۔۔

غزل کی نظریں جیسے ابان شاہ پر ٹھہر گئی ہوں۔۔

رمشا کی نظر اچانک غزل پر پڑی تو وہ ابان شاہ کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔

رمشا تو ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتی تھی کہ غزل کے بارے میں کچھ معلوم ہو اور وہ ہر طرف ڈھنڈورا پیٹ دے۔۔۔۔

ایک نظر وہ غزل کو دیکھ رہی تھی اور دوسری نظر ابان شاہ کو جو نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔

دیکھو تو ذرا اس غزل کو کیسے اسے گھور گھور کر دیکھ رہی ہے ذرا شرم نہیں ہے اس میں۔۔۔

رمشا نے دل ہی دل میں کہا،

*********

ایان اپنے دوستوں میں بیٹھا تھا مگر اس کا دھیان صرف روشنی کی طرف تھا۔۔

وہ یہ باتیں سوچ رہا تھا کہ ببن جی بھی اس دنیا سے جا چکی ہیں اب اس جگہ پر کوئی بڑا نہیں رہا اُن لڑکیوں کے سر پر۔۔

وہاں پر مردوں کا اتنا آنا جانا ہے روشنی کیسے رہے گی اب وہاں ؟؟؟

میں اسے وہاں پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔

مجھے کچھ نہ کچھ کر کے اسے وہاں سے کہیں اور لے جانا ہوگا۔۔

وہاں پر زمر کے علاوہ کوئی بھی روشنی کا ساتھ دینے والی لڑکی موجود نہیں ہے۔۔

ٹھیک ہے یار میں پھر رات میں اپؤں گا ابھی مجھے ضروری کام ہے مجھے جانا ہوگا۔۔۔

یار ایان کیا ہو گیا ہے تمہیں تم تو ہمارے پاس بیٹھتے ہی نہیں ہو۔۔

جانتے تو ہو تم سب پچھلے کٸی دنوں سے میں گھر پر ہی تھا ابو کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی بہن ٹھیک نہیں تھی مگر اب فکر نہ کرو اب ہر روز آیا کروں گا تم لوگوں کے پاس چاہے تھوڑی دیر کے لیے کیوں نہ آیا کروں۔۔۔

یہ کہہ کر ایان وہاں سے سیدھا روشنی کے پاس جانے کے لیے نکل گیا۔۔

جب وہ وہاں پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کافی آنا جانا لگا ہوا تھا۔۔

پہلے ہر مرد صرف ببن جی کی اجازت سے ہی اندر آتا تھا مگر اب ہر کوئی اپنی مرضی سے آ جا رہا تھا۔۔۔

وہ فوراً اندر گیا۔۔

جب روشنی کے کمرے کا دروازہ وہ کھولنے لگا تو کمرہ اندر سے لاک تھا۔۔

ایان ایک دم گھبرا گیا۔۔۔

روشنی۔۔۔

دروازہ کھولو روشنی۔۔۔

اس نے زور زور سے دروازہ بجایا۔۔

ایان کی آواز سنتے ہی روشنی جھٹ سے اٹھی اور دروازہ کھول کر فورا ایان کے سینے سے لپک گئی۔۔۔۔

ایان شکر ہے کہ تم آگئے۔۔۔

وہ روتی ہوٸی بولی،

کیا ہوا روشنی آپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟؟

ایان نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔

ایان صبح سے نہ جانے کون کون یہاں آ چکا ہے دو تین لڑکوں نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے میرے کمرے میں گُھس گۓ تھے نہ جانے میں نے کیسے خود کو اُن سے بچایا ہے۔۔۔

وہ سسکیاں بھرتے ہوۓ بولی تو ایان غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔۔۔

میں آپ کو اب یہاں ایک منٹ اور نہیں رکنے دوں گا روشنی۔۔۔ اب آپ میرے ساتھ جائیں گی۔۔

ایان نے سخت لہجے میں کہا اور اُس کا بازو پکڑ کر اُسے وہاں سے باہر لے گیا۔۔۔

ایان رُکو۔۔۔

رُکو ایان میں یہاں سے کہاں جاٶں گی میرا اور کوٸی ٹھکانہ نہیں ہے۔۔

اس وقت آپ خاموش ہو جائیں پلیز۔۔۔

گاڑی میں بیٹھیں فوراً۔۔۔

ایان میں کہیں نہیں جاؤں گی تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ؟؟؟

میں کچھ دیر پہلے اپنے دوستوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور میرے ذہن میں صرف یہی خیال آ رہے تھے کہ روشنی اب وہاں پر اکیلی ہے میں اسے وہاں پر اکیلا ہرگز نہیں چھوڑ سکتا پہلے تو چلو ببن جی تھی تھوڑا اسرا تھا ان کا۔۔۔ شکر ہے کہ میں وقت پر یہاں پہنچ گیا۔۔۔

اس نے روشنی کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔

*******

یشما ٹیرس میں بیٹھی نہ جانے کن سوچوں میں گُم تھی۔۔۔

احمد بھی وہاں اُس کے پاس جا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔۔۔

حریم نے جو کچھ بھی کہا آپ سے بہت غلط کہا میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔

ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ۔۔۔ دو ٹکے کی لڑکی کے لیے تم اتنا سب کر رہے ہو کوٸی فاٸدہ نہیں ہے مت کرو۔۔

یشما نے دھیمے لہجے میں کہا،

کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ یہ دیکھیں آپ کی سی وی بالکل ریڈی ہے۔۔۔

کیا کروں میں اسی وی کا میں جانتی ہوں مجھے کوئی جاب نہیں دے گا۔۔۔

آپ نے اتنی جلدی ہار مان لی ؟؟

میں نے تو سوچا تھا آپ بہت آگے تک جاٸیں گی بہت بڑا نام بناٸیں گی۔۔۔

میں نے اپنے ایک دوست سے بھی بات کر لی ہے آپ کی پولیس فیلڈ میں جاب کے لیے صبح آپ کو میرے ساتھ جانا ہوگا۔۔۔

میں تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جا سکتی احمد۔۔۔

جتنا تمہاری بہن نے مجھے ذلیل کیا ہے نا اگر میں گھر سے تمہارے ساتھ چلی گئی تو بہت بڑا طوفان آ جائے گا۔۔۔

اب کوئی کچھ نہیں کہے گا آپ کو۔۔۔ کبھی بھی کسی کے پیچھے خود کو اتنا اُداس نہیں کرنا چاہٸیے اور نہ ہی زیادہ پریشان ہونا چاہیے اُس کا تو کچھ بھی نہیں جائے گا بلکہ ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔

ٹھیک کہہ رہے ہو تم احمد مگر کبھی کبھی حالات ہمیں مجبور کر دیتے ہیں اُداس ہونے پر سوچنے پر۔۔۔۔

میں نے اور میری ماں نے صرف غریبی ہی دیکھی ہے بہت سوچتی تھی کہیں اچھی جاب کروں پیسہ کماٶں اچھا سا گھر لوں اپنی ماں کو دنیا کی ہر آساٸش دوں مگر قسمت نے بھی ساتھ نہیں دیا میرا۔۔۔

یشما نے اُداس لہجے میں کہا،

اب وہ وقت آگیا ہے آپ اچھی جاب بھی کریں گی اچھا اور بڑا سا گھر بھی لیں گی اور اپنی ماں کو دنیا کی ہر آساٸش بھی دیں گی۔۔۔ بس آپ کو تھوڑی سی محنت کرنی ہے میرے ساتھ تھوڑا سا کوپریٹ کرنا ہے دیکھنا سب کچھ ٹھیک ہوتا چلا آۓ گا۔۔۔ 

یہ تم مجھے کہاں لے آۓ ہو ایان ؟؟

مجھے واپس چھوڑ آٶ پلیز۔۔۔ مجھے واپس چھوڑ آٶ میں وہاں ہی رہ لوں گی میں اپنی حفاظت خود کر لوں گی پلیز تم مجھے واپس چھوڑ آٶ۔۔۔

وہ روتی ہوٸی بولی،

کیسی عجیب باتیں کر رہی ہیں آپ ہاں ؟؟؟

آپ اب یہاں ہی رہیں گی اور یہاں سے کہیں نہیں جائیں گی۔۔۔

”جلد از جلد ہم نکاح بھی کر لیں گے“۔۔۔

یہ بات سن کر روشنی ایان کی طرف حیرانگی سے دیکھنے لگی۔۔۔

ک۔۔کیا ن۔۔نکاح ؟؟

کیسی باتیں کر رہے ہو ایان ؟؟

وہ ایک دم اپنے آنسوؤں کو صاف کرتی ہوٸی بولی،

میں اپ سے پہلے بھی بہت بار کہہ چکا ہوں کہ میں اپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں میں کوئی آپ کے ساتھ وقت گزاری نہیں کر رہا روشنی۔۔۔

”محبت کی منزل نکاح ہے تو ہم نکاح ہی کریں گے“۔۔۔

تم مجھ سے کون سا بدلہ لے رہے ہو ایان ؟؟؟

آخر میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ؟؟

ایک عورت مرد کے ماضی میں ہونے ہر ایک چیز کے بارے میں جانتے ہوئے بھی اس سے نکاح کیسے کر سکتا ہے ؟؟؟

میں تم پر کیسے یقین کر لوں کہ نکاح کے بعد تم مجھے وہی عزت دو گے جو ایک پاک صاف عورت کا حق ہوتا ہے۔۔۔

کیا اب بھی آپ کو میری محبت پر یقین نہیں آیا کیا اب بھی آپ کو کوئی ثبوت چاہیے میری محبت کا ؟؟

وہ اس کی بات سن کر فورا بولا،

ہاں مجھے چاہٸے ہے تمہاری محبت کا ثبوت۔۔۔

وہ جھٹ سے سرد لہجے میں بولی،

میری محبت کا ثبوت نکاح ہوگا جو میں آپ سے بہت جلد کرنے والا ہوں۔۔

روشنی ایک طرف بیٹھ جا کر خاموشی سے بیٹھ گٸی۔۔

میری زندگی میں صرف قید ہونا ہی لکھا ہے۔۔۔

ساری زندگی میں نے ایک پرندے کی طرح گزار دی۔۔۔

پہلے ببن جی کی قید میں اور اب تمہاری۔۔۔

چلو کوئی نہیں شاید یہی میری قسمت ہے۔۔۔

یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ روشنی ؟؟؟

آپ میرے پاس بالکل بھی قید نہیں ہیں۔۔

اب آپ ایک آزاد پرندے کی طرح ہیں جو جی چاہے کریں مگر صرف اتنا یاد رکھیے گا آپ ایان چوہدری کی امانت ہیں۔۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے باہر چلا گیا۔۔

*****

اگر آپ تیار ہیں تو ہم چلیں ؟؟

احمد نے دروازہ ناک کرتے ہوۓ کہا،

ہاں ہاں احمد چلو تم جا کر گاڑی میں بیٹھو میں بس دو منٹ میں آ رہی ہوں۔۔

ہاں ٹھیک ہے میں گاڑی میں بیٹھا آپ کا ویٹ کر رہا ہوں۔۔

یہ کہہ کر احمد وہاں سے چلاگیا۔۔

یشما ریڈی ہوٸی اپنا بیگ پکڑا۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلی تو اُس کی مامی اور حریم کمرے کے باہر ہی کھڑی تھی۔۔

کہاں جا رہی ہے میڈم اتنی صبح صبح وہ بھی میرے بیٹے احمد کے ساتھ ؟؟؟

تم نے تو نہ جانے کونسا جادو کر دیا ہے میرے بیٹے پر۔۔۔

وہ یشما کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی اُسے سر سے پاٶں تک گھورتی ہوٸی بولی،

مامی ہوش میں تو ہیں آپ ؟؟

کیا دنیا میں آپ کا بیٹا ہی رہ گیا تھا جس پر میں نے جادو کرنا تھا ؟؟

یشما اُن دونوں ماں بیٹی کو دیکھتی ہوٸی تلخ لہجے میں بولی،

میرے بیٹے میں ایسا کیا ہے یا ایسا کیا نہیں ہے یہ تم مجھ سے مت پوچھو سمجھی۔۔۔

میں بس تمہیں اتنا کہوں گی میرے بیٹے سے دور رہو اور اپنی ماں کو لے کر یہاں سے چلی جاٶ۔۔۔ کیوں ہماری اچھی خاصی زندگیوں میں مداخلت کرنے آگئی ہو تم ماں بیٹی۔۔۔۔

یشما کی مامی نے تلخ لہجے میں کہا تو یشما کا دماغ خراب ہو رہا تھا۔۔۔

بس بہت ہوا۔۔۔

پہلی بات یہ ہے میں اپ کے گھر نہیں اپنے مامو کے گھر آٸی ہوں۔۔۔ یہ میرے نانا نانی کا گھر ہے آپ اپنے ساتھ جہیز میں نہیں لے کر آٸی تھی یہ گھر سمجھی مامی جان ؟؟؟

اور بات رہی آپ کے بیٹے کی تو وہ آپ دونوں ماں بیٹی سے بہت مختلف ہے۔۔

اتنے میں گاڑی کا ہارن بجا۔۔

ٹھیک ہے پھر ملتے ہیں باقی کی باتیں بعد میں کریں گے ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے احمد ہارن دے رہا ہے۔۔۔۔

وہ تمسخرانہ انداز میں ان دونوں ماں بیٹی کی طرف دیکھتی ہوئی وہاں سے فورا فرار ہو گئی اور وہ دونوں ماں بیٹی اسے تکتی رہ گئی۔۔

********

رمشا غزل کے پاس آ کر بیٹھ گٸی۔۔

تم اُس لڑکے کو پہلے سے جانتی تھی کیا ؟؟

کس لڑکے کو ؟؟

کس کی بات کر رہی ہو تم ؟؟

غزل نے حیرانگی سے کہا،

تم تو ایسے انجان بن رہی ہو جیسے کچھ جانتی ہی نہیں ہو۔۔۔

وہ منھ بنا کر بولی،

ہاں نہیں جانتی بتاٶ گی تو معلوم ہوگا نہ۔۔۔

غزل نے کہا،

میں ابان شاہ کی بات کر رہی ہوں۔۔

اُس کا نام سُن کر غزل نے نظریں جھکاٸی۔۔

ہاں میں اُسے جانتی ہوں وہ مُنشی صاحب کا بیٹا ہے حویلی میں پہلے آ بھی چکا ہے ایک دو بار۔۔۔

وہ اچھا اسی لیے تم اسے ایسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

رمشا نے تمسخرانہ انداز میں کہا،

کیسے دیکھ رہی تھی میں اسے ؟؟؟

غزل نے سرد لہجے میں رمشا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،

تم اچھے سے جانتی ہو میڈم تم مجھے کیسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اگر وہ تمہیں پسند ہے تو مجھے بتاؤ۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہو اور سمجھ رہی ہو۔۔۔

ارے کیا ہو گیا ہے غزل تم نے تو غصہ ہی کر لیا میری بات کا۔۔۔ میں نے تو بس جو دیکھا اسی پر بات کر دی ورنہ مجھے کیا ضرورت تھی یہ بات کرنے کی۔۔۔

غزل نے منہ پر کمبل اوڑھا اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔۔۔۔

کیا فائدہ میرا یہاں رہنے کا جب تم نے مجھ سے بات ہی نہیں کرنی ہمیشہ سے تم میرے ساتھ یہی کرتی آئی ہو منہ بنا کر بیٹھ جاتی ہو۔۔۔

جانتی بھی ہو اب میں تمہاری بھابھی بننے والی ہوں بہت جلد۔۔

اپنی عادتیں ٹھیک کرو اگر میری بھابھی بننا ہے تم نے تو۔۔۔ کیونکہ میرے بھائی اور میرے ابو کو ایک سلجھی ہوئی بہو چاہیے ہے جو اس گھر کو اپنا گھر سمجھے اور اس گھر کی رونق بنے اُن کی عزت کرے۔۔۔

بس بس بس۔۔۔ پلیز غزل یہ لیکچر مجھے مت دینا کیونکہ تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں اور رامش ایک دوسرے کو کتنا پسند کرتے ہیں۔۔۔

رمشا نے فوراً اُس کی بات کا جواب دیتے ہوۓ کہا،

ہاں ہاں اچھے سے جانتی ہوں بھائی تو تمہیں منہ بھی نہیں لگاتے۔۔۔

ویسے میں جانتی ہوں تم جلتی تو بہت ہو میری اور رامش کی اتنی سٹرانگ بانڈنگ سے۔۔

ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ رامش نے دروازہ نہ کیا۔۔۔

کون ہے آ جاٶ اندر۔۔

غزل اٹھی ہوئی ہے کیا ؟؟؟

رامش کی اواز سنتے ہی رمشا اپنے بال سیٹ کرنے لگی۔۔

ہاں اٹھی ہوئی ہے آ جاؤ اندر۔۔۔

رمشا نے کہا،

طبیعت کیسی ہے میری پیاری سی بہن کی ؟؟؟

بھائی میں اب بالکل ٹھیک ہوں آ جائیں بیٹھیں۔۔۔

ویسے لمبی عمر ہے تمہاری ابھی ہم تمہاری ہی بات کر رہے تھے۔۔۔

میری بات ؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،

ہاں میں اسے بتا رہی تھی کہ جلد ہی میں تمہاری بھابھی بننے والی ہوں اور یہ بہت خوش ہو رہی تھی۔۔۔

غزل اسے گھور گھور کر حیرانگی سے دیکھنے لگی۔۔۔

مجھے اور غزل کو کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دو جاؤ نیچے تمہاری امی آٸی ہوئی ہیں ان کے پاس جا کر بیٹھ جاؤ۔۔۔

یہ سن کر رمشا غصے میں آگٸی۔۔۔

مسئلہ کیا ہے رامش تمہارے ساتھ ؟؟

جب بھی میں اپنی اور تمہاری کوئی بات کرتی ہوں تم کوئی رسپانس ہی نہیں دیتے کوٸی۔۔

وہ بھڑک اٹھی۔۔

ارے کیا ہو گیا ہے کیوں چیخ رہی ہو ؟؟؟

میں چچا جان سے بات کروں گی آج اور انہیں بتاؤں گی کہ تم مجھے اتنا اگنور کرتے ہو میری باتوں کو بالکل بھی سیریس نہیں لیتے ہو۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے جاؤ بتا دو جا کر بلکہ ابھی بتا دو۔۔۔

رامش اس سے بہت تنگ آیا ہوا تھا۔۔

وہ غصے سے کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔


کیا ہو گیا ہے بھائی آپ کو کیوں اس کو آپ نے ڈانٹا ایسے ۔۔۔

وہ آپ سے اتنا پیار کرتی ہے اور آپ۔۔۔ ؟؟؟

میں اس سے یہی سمجھا رہی تھی کہ اگر تم نے میرے بھائی کی دُلہن بننا ہے تو اپنی عادتیں ٹھیک کرو کیونکہ میرے بھائی کو اور میرے ابو کو اس گھر میں ایک سلجھی ہوئی بہو چاہیے ہے جو اس گھر کو سنبھال سکے جو سب کی عزت کرے۔۔۔

غزل نے کہا،

چھوڑو ان سب باتوں کو مجھے یہ بتاؤ اب کہیں پر درد تو نہیں ہے نا ؟؟؟

اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ ہم ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔۔۔

نہیں بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ اب اپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

ویسے بھی کل ڈاکٹر کے پاس جانا تو ہے اگر کوئی بھی مسئلہ ہو کہیں پر بھی پین ہو یا کوئی زخم درد کرے تو تم نے ڈاکٹر کو بتانا ہے سب کچھ۔۔۔


******

نیند نہیں آ رہی کیا بھاٸی ؟؟

اب تو ویسے آپ کی بےچینی ختم ہو جانی چاہیے اب تو آپ اپنی محبوبہ کو بھی دیکھ آۓ ہیں۔۔۔

حرم نے ابان شاہ کو تنگ کرتے ہوۓ کہا،

اس کو دیکھنے کے بعد میں زیادہ بے چین ہو گیا ہوں۔۔

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے وہ مجھے جانتے ہی نہیں ہیں۔۔۔

وہ مجھے بالکل اجنبیوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

ارے بھائی ایسا کچھ نہیں ہے کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟؟؟

ظاہر ہے وہ بیمار ہے اتنی دیر کے بعد آپ کو دیکھ کر حیران ہو گئی ہوگی اور کچھ بھی نہیں آپ فضول میں اتنا سوچ رہے ہیں۔۔۔

حرم بولی،

میں کل پھر جاؤں گا حویلی کسی نہ کسی بہانے سے اس سے ملاقات کرنے۔۔۔

ابان شاہ نے اُداس لہجے میں کہا،

اُفففف بھاٸی آپ تو مجنوں ہی بن گئے ہیں۔۔۔

یا تو آپ کو کوئی لڑکی پسند نہیں آتی تھی اب پسند آگئی ہے تو پکے عاشق بن گئے ہو اس کے۔۔۔

جاؤ میری ماں جا کر سو جاؤ نہ مجھے پریشان کرو ایسی باتیں کر کے۔۔ 

رات کے کھانے کے بعد وہ سب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے۔۔۔

ایان بے چین تھا کہ وہ کس طرح اپنے دل کی بات اپنے بھائی اور ابو سے کرے۔۔

کافی بے چینی کے بعد آخر وہ ایک دم بول ہی پڑا۔۔۔

بھائی مجھے آپ سے اور ابو سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

ہاں بولو کیا بات ہے ؟؟؟

رامش نے کہا،

بھائی دراصل بات کچھ یہ ہے کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

یہ سن کر چوہدری صاحب اور رامش ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔

کیا مطلب ؟؟

ایسے اچانک ؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،

ایسے اچانک تمہیں شادی کا خیال کہاں سے آگیا ایان ؟؟؟

کہیں کوئی لڑکی پسند آگٸی ہے کیا ؟؟؟

پاس بیٹھا ہنی بولا۔۔۔

ہاں مجھے ایک لڑکی پسند آگئی ہے اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

ایان نے جواب دیا۔۔۔

کون ہے لڑکی کہاں رہتی ہے ؟؟؟

ہمیں ملواٶ اس کے گھر والوں سے۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

ابو وہ۔۔ وہ اس لڑکی کے گھر والے نہیں ہیں وہ اکیلی ہے۔۔۔

کیااااا ؟؟؟

کیا مطلب اس کے گھر میں سے کوئی تو ہوگا اس کا کوئی بہن بھائی امی ابو کوئی چچا کوئی تایا کوئی تو رشتہ دار ہوگا نا اس کا ؟؟؟

چوہدری صاحب نے سرد لہجے میں کہا،

اگر اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اس کے گھر والے نہیں ہیں تو وہ کہاں رہتی ہے کس کے ساتھ رہتی ہے اور تمہیں کہاں ملی وہ ؟؟

رامش بھی بول پڑا۔۔۔

نہیں کوٸی بھی نہیں ہے وہ اکیلی ہے بالکل اس لیے میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اُسے اس گھر میں لے کر آنا چاہتا ہوں۔۔۔

ایان بےوقوف مت بنو۔۔۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی بھی رشتہ دار نہ ہو۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے مان لیا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اُس کا یہ بتاٶ وہ رہتی کہاں ہے کس کے ساتھ رہتی ہے اور تمہیں کہاں ملی وہ ؟؟

بھاٸی کچھ کافی سال پہلے اُس کے ماں باپ کا انتقال ہوگیا تھا اُس کے دو بھاٸی جنہوں نے اُسے اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا تھا وہ پھر در بدر ہوتی ہوٸی ایک ایسی جگہ پر پہنچا گٸی جہاں۔۔۔۔۔

یہ کہہ کر ایان چُپ ہوگیا۔۔۔

جہاں۔۔۔ ؟؟؟

کیسی جگہ پر پہنچ گٸی ؟؟؟

بولو ایان ؟؟

یہ تم کن چکروں میں پھر رہے ہو آج کل ہاں ؟؟

جواب دو مجھے۔۔۔

رامش نے سخت لہجے میں کہا کیونکہ وہ ایان کی بات کو سمجھ گیا تھا وہ کس جگہ کی بات کر رہا ہے۔۔۔

بھاٸی میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں اس لڑکی سے محبت کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

ایان نے رعب دار لہجے میں کہا،

چلے جاؤ یہاں سے ایان میں کہہ رہا ہوں چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ میری سمجھ سے باہر ہے نہ جانے تم کن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو۔۔۔

میں اس لڑکی کو مزید اپ اس جگہ پر رہنے نہیں دوں گا کیونکہ وہ جگہ اس کے لیے نہیں بنی وہ ایک اچھی لڑکی ہے اسے ایک اچھے گھر میں رہنے کا حق ہے اور میں اسے یہ حق دے کر رہوں گا۔۔۔

مطلب وہ ایک طواٸف ہے ہاں نہ ؟؟؟

چوہدری صاحب نے کہا،

ابو آج آپ نے اس کے بارے میں یہ کہہ دیا مگر آٸندہ مت کہیے گا۔۔۔

ایان نے سرد لہجے میں چوہدری صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا،

رامش اسے کہو چلا جائے یہاں سے ورنہ میں مار دوں گا اسے۔۔۔ اسے ابھی معلوم نہیں ہے کہ دنیا ہم پر کتنی تھو تھو کرے گی اگر اس نے ایسی کوئی بھی حرکت کی تو۔۔۔

ایان اپنے کمرے میں جاٶ اور اب تم اپنے کمرے باہر قدم نہیں رکھو گے سمجھ آٸی۔۔

رامش نے غصے سے کہا،

آپ لوگ کچھ بھی کہیں میں اس سے نکاح کر کے رہوں گا۔۔۔

وہ یہ کہہ کر اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔

******

مجھے تو بس اس بات کی خوشی ہے کہ آپ خوش ہیں۔۔ آپ نے تو میری سوچ سے بھی زیادہ اچھا انٹرویو دیا ہے اب بس رزلٹ انے کی دیر ہے پھر آپ کی جاب ہو جاۓ گی یہاں پر ہی۔۔۔

احمد نے کہا،

ہاں بس دعا کرنا کہ ان میری اچھی پوسٹ پر جاب ہو جاۓ اور اگر میری جاب ہوگٸی نہ تو میں تمہارا یہ احسان ذندگی بھر نہیں بھول پاٶں گی۔۔۔

مجھے لگتا ہے تمہارے پورے گھر میں ایک ماموں اور تم ہی اچھے ہو تمہاری امی اور بہن تو ہر وقت لڑنے کے مُوڈ میں رہتی ہیں۔۔۔

یشما نے کہا،

یشما منہ پر بات کرنے والوں میں سے تھی جو بھی بات ہوتی اگلے سے کہہ دیتی۔۔

ہاں بس امی کو یہ ہے کہ گھر میں کوٸی آۓ نہ حریم کو بھی امی نے خودغرض بنا دیا ہے اپنے آپ میں رہنے والی مغرور لڑکی۔۔

میں تو صبح جاتا ہوں نکل کر اپنی جاب پر رات کو دس بجے واپس گھر جاتا ہوں کھانا کھا کر فریش ہو کر میں نے چاۓ پینی ہوتی ہے کچھ دیر ٹیرس میں اپنے ساتھ وقت گزارتا ہوں یا کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ باہر چلا جاتا ہوں بس یہ رُوٹین ہے میری تو مجھے نہیں معلوم گھر میں کیا ہوتا ہے کیا نہیں۔۔۔۔

میں ان سب چیزوں سے دُور ہوں اور دُور ہی رہنا چاہتا ہوں کیونکہ میں پُرسکون ذندگی گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔

احمد یشما کو بتا رہا تھا جو بڑے غور سے اُس کی باتوں کو سُن رہی تھی۔۔۔

ہمممم۔۔۔ تم تو واقع ہی بہت پُر سُکون ذندگی جی رہے ہو۔۔

یشما نے اُسے دیکھتے ہوۓ کہا،

فکر نہ کرو آپ کی ذندگی بھی اب پُر سکون ہونے والی ہے بس آپ ہر کسی کی بات کو اگنور کر دیا کریں۔۔ جب ہم کسی کی بات پر دھیان ہی نہیں دیں گے بات کو زیادہ بڑھاٸیں گے نہیں سوچیں گے نہیں تو اس میں ہمارا ہی فاٸدہ ہوگا۔۔۔

ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم احمد۔۔۔

اب سے میں ہر کسی کی بات کو اگنور ہی کروں گی۔۔۔

یشما نے مسکراتے ہوۓ کہا،

***********

اتنا دل چاہ رہا تھا تم سے ملنے کا میں نے نوشین سے کہا کہ مجھے آج ہی جانا ہے غزل سے ملنے۔۔۔

ہاں بہت اچھا کیا تم دونوں نے یہاں آ کر میں بھی سارا دن بور ہی ہوتی رہتی ہوں۔۔

افرا آپی نہیں آٸی کیا ؟؟

انہیں بھی لے آنا تھا اپنے ساتھ۔۔۔

آپی سکول گٸی ہوٸی تھی پڑھانے میں نے اُنہیں کال کر کے بتایا تھا کہ ہم جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ چلو میں واپسی پر آ جاٶں گی۔۔۔

نوشین نے کہا،

اوہ تو تمہاری فرینڈز آٸی ہوٸی ہیں۔۔۔۔

رمشا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا،

اس سے ملو یہ میری کزن ہے رمشا میرے تایا جان کی بیٹی۔۔۔ یہ آج کل یہاں میرے پاس ہی ہوتی ہے۔۔۔

غزل نے نوشین اور بسمہ سے کہا،

ہاں میں یہاں ہی ہوتی ہوں اور اب بہت جلد اسی گھر میں میری شادی بھی ہونے والی ہے۔۔۔

رمشا نے شرماتے ہوۓ کہا تو غزل اُسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

پاگل کہیں کی ہر وقت اسے بس شادی کی پڑی رہتی ہے۔۔

غزل بڑبڑاٸی۔۔۔

شادی ؟؟

ّکس کے ساتھ ہے رامش بھاٸی کے ساتھ ؟؟؟

بسمہ جھٹ سے بولی،

ہاں رامش کے ساتھ۔۔۔

رمشا نے کہا،

ارے واہ مگر غزل نے تو ہمیں کبھی نہیں بتاٸی یہ بات۔۔۔ لگتا ہے سب اچانک ہی ہوا ہے۔۔۔

نوشین نے کہا،

ارے نہیں نہیں رامش تو مجھے بچپن سے ہی پسند کرتا تھا اور گھر والے بھی ہمارا رشتہ تہہ کرنا چاہتے ہیں اب۔۔

میری امی نے تو کہا ہے ہم ڈائریکٹ نکاح ہی کریں گے۔۔۔

رمشا بولی،

ارے یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔

بسمہ بولی،

رمشا جاٶ نیچے ان کے لیے کچھ کھانے کو بھجوا دو اچھا سا۔۔۔

غزل جھٹ سے بولی،

اچھا ٹھیک ہے میں جا کر کہتی ہوں نیچے تم لوگ باتیں کرو۔۔۔

یہ کہہ کر وہ چلی گٸی۔۔


غزل تم نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں کبھی اس بارے میں۔۔۔

بسمہ نے غزل سے کہا،

یہ تم لوگوں کو گپے سنا کر گئی ہے رامش بھائی سے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے شادی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔

یہ اور تائی جان ہر وقت بس ابو سے پیسے ہڑپنے کی سوچتی ہیں۔۔۔ بھائی جان اس کی شادی رامش بھائی سے اسی لیے کرنا چاہتی ہیں تاکہ دونوں ماں بیٹی کا پیر اس گھر میں اونچا ہو جاۓ اور آنا جانا لگا رہے۔۔۔۔

وہ دونوں غزل کا منہ تکنے لگی۔۔۔

اچھا چھوڑو یہ سب اور ہمیں یہ بتاؤ تمہاری بات ہوئی واپس آ کر سے ابان شاہ سے ؟؟؟

وہاں ٹور پر تو تم اسے بہت مس کر رہی تھی نا۔۔۔

نوشین نے کہا،

وہ کل منشی صاحب کے ساتھ یہاں آیا تھا۔۔

چوری چوری مجھے دیکھ بھی رہا تھا مگر اسے دیکھتے ہی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگ گیا تھا مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا مجھے بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا۔۔

ارے ایسا کیوں ؟؟؟

تمہیں اُس سے بات کرنی چاہٸے تھی۔۔۔

بسمہ نے کہا،

پاگل ہو گئی ہو میں کیسے اس سے بات کرتی ابو اور منشی صاحب بھی پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔۔

غزل بولی،


اتنے میں افرا بھی وہاں پر پہنچ گٸی۔۔

جیسے ہی افرا حویلی میں انٹر ہونے لگی تو اک دم ہارن بجا۔۔۔

افرا نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو گاڑی میں وقاص صاحب بیٹھے تھے۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔۔۔

وہ فوراً گاڑی سے اُترا اور افرا کی جانب بڑھا۔۔

کیسا اتفاق ہے ویسے میں آج یہاں دو دن کے بعد آیا ہوں اور آتے ہی آپ کا دیدار نصیب ہو گیا مجھے۔۔۔

وہ اس کی اس بات پر مسکرانے لگی۔۔۔

کہاں تھے آپ دو دن سے ؟؟؟

افرا نے سوال کیا۔۔۔۔

میں شہر گیا ہوا تھا ضروری کام سے آفس کے۔۔۔

وہ دونوں باتیں کرتے ہوۓ حویلی کے اندر چلے گۓ۔۔۔

افرا فوراً غزل کے کمرے میں چلی گٸی۔۔۔


شُکر ہے ماموں آپ آگۓ۔۔۔

ہنی نے اپنے ماموں سے ملتے ہوۓ کہا،

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا ؟؟؟

کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ابو اور بھاٸی بہت پریشان ہیں رات سے۔۔۔

کیوں کیا ہوا ؟؟؟

پریشان کیوں ہیں غزل تو ٹھیک ہے نہ ؟؟؟

جی ماموں جی وہ تو بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ آپ فریش ہو کر جلدی سے نیچے آ جائیں میں رامش بھائی کو بتا دیتا ہوں کہ آپ آگئے ہیں وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔

ہاں ٹھیک ہے بتا دو اُسے میں بس پانچ منٹ میں آ رہا ہوں چینج کر کے۔۔۔

*********

مجھے تمہاری ہیلپ چاہٸے کہاں ہو تم ؟؟

ایان نے ابان شاہ کو میسج کیا۔۔۔

ابان سے ہی بات کرنی پڑے گی مجھے اس بارے میں اُس کے علاوہ کوٸی میری مدد نہیں کر سکتا۔۔۔

روشنی کال بھی اٹینڈ نہیں کر رہی کیا کروں میں ؟؟؟؟

وہ اپنے کمرے میں یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا۔۔۔

اتنے میں ابان شاہ کا میسج بھی آگیا۔۔۔

میں گھر پر ہوں۔۔۔ تم بتاٶ کیا ہوا ہے ؟؟

ایان نے فوراً ابان شاہ کا نمبر ملایا۔۔۔

ہاں ایان کیا بات ہے ؟؟؟

ابان میں نے گھر والوں کو روشنی اور اپنے بارے میں بتا دیا ہے مگر یہاں تو سب بہت غصے میں ہیں۔۔

یار میں تو روشنی کو وہاں سے لے بھی آیا ہوں۔۔۔۔

کیااااا ؟؟؟

کہاں سے لے آۓ ہو ؟؟؟

گھر والوں نے کیا کہا ؟؟؟

ابان شاہ جھٹ سے بولا،

رامش بھائی اور ابو یہ سب باتیں سن کر بہت غصے میں آگۓ تھے اور رامش بھائی نے مجھے بولا ہے کہ میں کمرے سے باہر بھی نہیں نکلوں گا۔۔۔

مگر جیسے ہی مجھے موقع ملتا ہے میں حویلی سے باہر آؤں گا اور تمہیں مجھے لینے کے لیے آنا ہوگا۔۔۔

میں روشنی کو اپنے ایک فارم ہاؤس میں چھوڑ کر آیا تھا آج دن میں وہ وہاں پر ہی ہے مجھے اُس کے پاس جانا ہوگا وہ وہاں پر اکیلی ہے۔۔۔

یارررر ایان یہ کیا کیا تُو نے ؟؟؟

تجھے ابھی اس لڑکی کو وہاں سے نہیں لے کر آنا چاہیے تھا۔۔۔

مگر یار اب وہاں پر اس کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں تھا وہاں پر بہت مردوں کا آنا جانا ہو گیا تھا اور میں اس سے وہاں پر اکیلی کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔۔

یہ بتاؤ اب کرنا کیا ہے ؟؟؟

ابان شاہ نے کہا،

تم تھوڑی دیر تک حویلی کے باہر آ جانا بائیک لے کر جیسے ہی مجھے موقع ملے گا میں باہر آ جاؤں گا اور ہم دونوں یہاں سے نکل جائیں گے۔۔۔

ٹھیک ہے مگر جو بھی کرنا ہے دھیان سے کرنا ہے کسی کو شک نہ ہو۔۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ نے کال بند کر دی۔۔۔


ایان نے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی ہے ماموں ہمارے لیے۔۔۔

نہ جانے کس لڑکی کے پیچھے لگ گیا ہے اور کہہ رہا ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

اس لڑکی کا نہ کوئی گھر والا ہے نہ جانے وہ کہاں رہتی ہے اس کی باتوں سے جو مجھے اندازہ ہوا ہے وہ لڑکی کسی غلط اڈے پر رہتی ہے۔۔۔

پتہ نہیں وہ اسے کہاں مل گئی تھی جو یہ اُس سے شادی کرنے کے چکروں میں پھر رہا ہے۔۔۔

رامش نے پریشان لہجے میں کہا،

جب بھائی صاحب ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھے اور میں وہاں سے واپس آیا میں فریش ہوا اور ہاسپٹل جانے کے لیے نکل گیا۔۔۔ جب میں ہاسپٹل کی پارکنگ میں گاڑی پارک کرنے کے لیے گیا تو ایان صاحب دو لیڈیز کو اپنی گاڑی میں بیٹھا کر لے جا رہے تھے۔۔۔

جب یہ گھر آیا تو میں نے اسے پوچھا تم کہاں پر گئے تھے اور وہ دو عورتیں کون تھیں تو اس نے کہا وہ میرے دوست کی امی اور بہن تھی۔۔

مجھے معلوم تھا کہ یہ جھوٹ کہہ رہا ہے۔۔۔

میں نے اسے بولا بھی کہ اگر ایسا کچھ بھی ہے تو سدھر جاؤ مگر آج سب کچھ سامنے آگیا ہے۔۔

تم پریشان نہ ہو میں اس سے بات کروں گا۔۔۔

غزل کو چیک اپ کے لیے کب لے کر جانا ہے ؟؟؟

وقاص صاحب نے کہا،

ابھی تو اس کی دوستیں آئی ہوئی ہیں جیسے ہی وہ جائیں گی ہم اسے لے کر چلے جائیں گے ہاسپٹل۔۔۔۔

ہاں ٹھیک ہے مگر مجھے اس بارے میں بھی تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔

کس بارے میں ؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،

غزل کی دوستیں نے پہلے بھی آئی تھی ایک بار جب تم لوگ ہاسپٹل میں تھے۔۔۔

میں نے ان سے کہا کہ بیٹا اگر کوئی بھی بات ہے کیسے ایکسیڈنٹ ہوا کیا ہوا وہاں پر آپ مجھے بتاؤ۔۔۔

کافی دیر تک تو وہ بات کو ٹالتی رہی کچھ نہیں بتایا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ بول پڑی۔۔۔

کیا بتایا انہوں نے ؟؟

رامش جھٹ سے بولا،

غزل کو کھاٸی میں دھکا دو لڑکیوں نے دیا تھا۔۔۔

دو لڑکیوں نے ؟؟

کون ہیں وہ لڑکیاں اور انہوں نے غزل کو کیوں دھکا دیا ؟؟؟

غزل کی دوستوں نے بتایا کہ اس کی یونیورسٹی میں ایک لڑکا اسے تنگ کرتا تھا غزل نے ایک دن سب کے سامنے اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا تھا اس تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے اس نے ان دو لڑکیوں کا استعمال کیا اور غزل کو کھائی میں دھکا دیا۔۔۔

یہ سن کر رامش آگ بگولا ہو گیا۔۔۔

آخر کون ہے وہ لڑکا ؟؟

میں آج ہی اس کی یونیورسٹی جاؤں گا اور اس لڑکے کا پتہ کروں گا اور اُسے ذندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

رامش جو بھی کرنا ہے آرام سے کرنا ہے غصے میں آ کر جذباتی ہو کر کوئی بھی قدم نہیں اٹھانا ہے۔۔۔۔

ماموں آپ نے مجھے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی ؟؟؟

وہ سخت غصے میں بولا،

میں نے سوچا پہلے ہی بہت ٹینشن ہیں۔۔۔ سب کچھ تھوڑا ٹھیک ہو جائے اس کے بعد میں تم سے یہ بات ڈسکس کروں گا آج موقع ملا تو میں نے یہ بات تم سے ڈسکس کر لی۔۔۔

اور یونیورسٹی تم مجھے اپنے ساتھ لے کر جاؤ گے میں بھی جاؤں گا تمہارے ساتھ میں بھی دیکھوں گا آخر کون ہے وہ جس نے ہم سے پنگا لیا ہے۔۔۔

وقاص صاحب نے کہا،

میں تو اس لڑکے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ 

جیسے ہی غزل کی دوستیں گٸی تو رامش اور وقاص صاحب غزل کے کمرے میں گئے۔۔۔

چلو غزل بیٹا آج چیک اپ کے لیے جانا ہے ہاسپٹل۔۔۔

ماموں میں ٹھیک ہوں اب۔۔۔میرا نہیں دل چاہتا ہاسپٹلز میں جانے کو۔۔۔

میرا دل گھبراتا ہے ہاسپٹل کا نام سُن کر۔۔۔

غزل میری جان چیک اپ تو کروانا ہے نا۔۔۔

رامش نے پیار سے کہا،

اُٹھو بیٹا ہمت کرو خُود اُٹھنے کی کوشش کرو۔۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

میں بہت کوشش کرتی ہوں اٹھ کر چلنے کی مگر مجھ سے نہیں اٹھا جاتا۔۔۔

ایسے جیسے میری ٹانگوں میں جان ہی نہیں ہے۔۔

رامش نے غزل کو ویل چٸیر پر بیٹھایا اور لے گیا۔۔۔

آج ہم ڈاکٹر کو سب کچھ بتاٸیں گے اور جو بھی ٹریٹمنٹ ہے اُس کے بارے میں معلوم کر کے اسٹارٹ کرواٸیں گے۔۔۔

رامش بولا،

غزل کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اب کبھی چل نہیں پاۓ گی۔۔


جب وہ لوگ ہاسپٹل پہنچے تو ڈاکٹر کو چیک اپ کروانے کے بعد بہت ہی بُری خبر سننے کو ملی جسے سُن کر غزل رامش اور وقاص ماموں کچھ لمحے کے لیے بالکل خاموش ہوگۓ۔۔۔۔

اس کا کوٸی تو حل ہوگا نہ ؟؟؟

ایسا کیسے ہوسکتا ہے آپ کوٸی ٹریٹمنٹ اسٹارٹ کریں جس سے یہ جلد از جلد چلنے لگے۔۔۔

اس نے مجھے بتایا تھا کہ میں چل نہیں پا رہی میرے ذہن میں یہی تھا شاید کمزوری اور گہری چوٹیں آٸی ہیں اس لیے چل نہیں پا رہی مگر یہاں تو معاملہ کچھ اور ہی ہے۔۔۔

غزل بالکل خاموش بیٹھی نہ جانے کن سوچوں میں گُم تھی۔۔۔

آپ فکر نہ کریں ہم اپنی پوری کوشش کریں گے باقی جو رب کی مرضی۔۔۔

کافی دیر تک رامش اور وقاص ماموں غزل کے لیے کوٸی اچھا ڈاکٹر تلاش کرتے رہے۔۔۔

ماموں آپ غزل کو گھر لے جاٸیں میں یہاں سے سیدھا اس کی یونیورسٹی کی طرف جاٶں گا۔۔۔

رامش نے سرد لہجے میں کہا،

رامش میں تمہیں اکیلے نہیں جانے دوں گا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔۔۔

ماموں ایک بار مجھے جانے دیں پلیز میں بالکل بھی جذباتی نہیں ہوں گا وہاں آپ بےفکر رہیں آپ بس غزل کو گھر لے جاٸیں میرا دماغ سوچ سوچ کر پھٹ رہا ہے پلیز آپ جاٸیں اسے لے جاٸیں گھر اور ابو سے کسی بھی قسم کی اس بارے میں بات مت کیجۓ گا۔۔۔

یہ کہہ کر رامش وہاں سے یونیورسٹی جانے کے لیے روانہ ہو گیا۔۔۔

یونیورسٹی وہ بہت غصے میں گیا تھا۔۔۔

یونیورسٹی والے نہیں جانتے تھے کہ وہ کون لڑکا تھا جو غزل کو تنگ کرتا تھا اور غزل نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔۔۔

رامش نے فورا اپنے وقاص ماموں کو کال کی۔۔۔

مامو مجھے اس لڑکے کا نام بتائیں جو غزل کو تنگ کرتا تھا یونیورسٹی میں۔۔۔

مجھے اس لڑکے کا نام تو نہیں یاد اور میرے خیال سے انہوں نے بتایا بھی نہیں تھا مجھے اس کا نام۔۔۔میں کال کرتا ہوں افرا کو اس سے پوچھتا ہوں وہ اپنی بہن نوشین سے پوچھ کر بتا دے گی پھر میں تمہیں کال بیک کرتا ہوں دو منٹ تک۔۔۔

وقاص صاحب نے فوراً افرا کا نمبر ملایا۔۔۔

آپی یہ کس کا نمبر ہے کال آ رہی ہے۔۔

دیکھاٶ مجھے کس کی کال ہے۔۔۔

افرا نے کتاب بند کر کے ایک طرف رکھتے ہوۓ کہا،

افرا نے جیسے ہی موباٸل پکڑا اس نے دیکھا وقاص کی کال تھی۔۔۔

وہ فورا اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔

ہیلو ؟؟؟

اُس نے محبت بھرے لہجے میں کہا،

ہیلو افرا وہ مجھے ضروری بات کرنی تھی وہ ذرا اپنی بہن سے پوچھ کر مجھے بتانا اُس لڑکے کا اور اُن دو لڑکیوں کا نام کیا ہے جنہوں نے غزل کو دھکا دیا تھا۔۔۔

رامش یونیورسٹی میں بیٹھا ہے میں نے اسے بتانا ہے اس لیے پلیز تھوڑا جلدی پوچھ کر مجھے بتا دو۔۔۔

بس ایک منٹ میں ابھی پوچھ کر بتاتی ہوں نوشین سے۔۔۔

نوشین۔۔

نوشین بات سُنو جلدی۔۔۔

وہ اسے آواز دیتی ہوٸی کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔

کیا ہوا افرا آپی ؟؟

نوشین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا،

وہ وقاص کی کال آٸی ہے پوچھ رہے ہیں اُس لڑکے کا نام جو غزل کو یونیورسٹی میں تنگ کرتا تھا اور اُن لڑکیوں کے نام بھی جنہوں نے غزل کو دھکا دیا تھا۔۔۔۔

وقاص ؟؟؟

نوشین جھٹ سے بولی،

ہاں غزل کے ماموں۔۔۔ اُن کی کال ہے وہ پوچھ رہے ہیں جلدی بتاٶ نہ۔۔۔

الله خیر کرے اُس دن اُنہیں سب کچھ تو بتایا تھا اب وہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔

غزل کے بھائی رامش اس وقت یونیورسٹی میں بیٹھے ہوئے ہیں انہیں معلوم کرنا ہے اس لڑکے کا نام تاکہ وہ تحقیق تک پہنچ سکیں آخر اس لڑکے نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔۔۔

آپی مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ اُس لڑکے کا نام بلال ہے اور وہ ایک نمبر کا پاگل انسان ہے۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں وقاص کو بتا دیتی ہوں۔۔

ہیلو۔۔ اُس لڑکے کا نام بلال ہے۔۔

بلال۔۔ اچھا میں رامش کو بتا دوں وہ ویٹ کر رہا ہے۔۔۔

یہ کہہ کر وقاص صاحب نے کال بند کر دی۔۔

اپنے کام کے لیے کال کی مجھ سے تو بات بھی نہیں کی۔۔

وہ منھ بنا کر کمرے میں چلی گٸی۔۔۔

آپی ایک بات پوچھوں ؟؟؟

نوشین نے کہا،

ہاں پوچھو کیا ہوا ؟؟؟

یہ غزل کے ماموں نے آپ کو کیوں کال کی ؟؟؟ ان کے پاس آپ کا نمبر کیسے گیا ؟؟

نوشین نے افرا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

و۔۔وہ اُس دن جب ہم شاپنگ کرنے گۓ تھے نا تو تب نمبر لیا تھا انہوں نے میرا۔۔۔

افرا گھبرا گٸی۔۔

کیوں لیا تھا نمبر ؟؟

نوشین نے پھر سے سوال کیا۔۔۔

آ۔۔وہ مجھے نہیں پتہ کیوں لیا تھا وہ مجھے یاد نہیں۔۔۔ اچھا وہ مجھے ایک کام یاد آگیا ہے میں ذرا وہ کر کے آٸی۔۔۔

افرا لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں بولی اور اُٹھ کر کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔

کچھ تو ہے دونوں کے بیچ۔۔۔

میں اب پتہ لگوا کر رہوں گی دونوں کے بیچ چل کیا رہا ہے جب ہم ٹور پر گۓ تھے تب بھی آپی غزل کے ماموں کے ساتھ ہی گھر واپس گٸی تھی ضرور کوٸی سین چل رہا ہے دونوں کے بیچ۔۔۔

نوشین بیڈ پر بیٹھی یہ سب باتیں سوچ رہی تھی۔۔۔

******

ابان شاہ باہر چارپاٸی پر لیٹا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔

ٹھنڈی ہوا اُس کے دل کو سکون تو دے رہی تھی مگر اُس کے باوجود بھی وہ بےچین تھا۔۔۔

نہ جانے کب میرے دل کو چین آۓ گا۔۔

ہر وقت بےچین رہتا ہے۔۔۔۔

آج میں غزل سے مل کر رہوں گا اُس سے پوچھوں گا کہ کیا اُسے وہ دن یاد ہیں جب ہماری اچھی بات چیت ہوتی تھی۔۔۔

میں اپنی محبت کا اظہار کر دوں گا اب مجھ سے نہیں رہا جاتا اس بےچین دل کے ساتھ۔۔۔

وہ اُٹھ کر اپنے ابو کے کمرے میں گیا۔۔۔

ابو آپ حویلی جاٸیں گے کیا ؟؟

اگر آپ نے جانا ہے تو آ جاٸیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔۔۔

جانا تو ہے میں نے مگر تھوڑی دیر تک جاٶں گا ابھی نہیں۔۔۔

کب تک جانا ہے مجھے بتا دیں ؟؟

کیوں تم نے بھی جانا ہے کیا حویلی ؟؟؟

کوٸی کام ہے کیا تمہیں ؟؟؟

ن۔۔نہیں میں نے سوچا میں بھی ایان سے مل لوں گا اور آپ بھی چوہدری صاحب کے پاس کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ کر لیجیے گا۔۔۔

چلو پھر میں کپڑے بدل کر آتا ہوں تم باٸیک نکالو باہر۔۔۔

یہ سُن کر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گٸی۔۔۔

وہ بھاگتا ہوا گیا اور باٸیک باہر نکال کر صاف کرنے لگا۔۔۔


آٶ جی آٶ مُنشی جی۔۔

کبھی وہ وقت بھی تھا جب اس گھر میں ہر وقت تیری آواز گونجا کرتی تھی اب تو ہم تجھے دیکھنے کے لیے ہی ترستے رہتے ہیں۔۔

مُنشی صاحب کو دیکھتے ہی چوہدری صاحب نے کہا،

ارے چوہدری صاحب جی بس کر دیا کریں۔۔۔

آٶ ابان بیٹا بیٹھو۔۔

وہ لوگ ٹی وی لاٶنج میں بیٹھ گۓ۔۔۔

کافی دیر تک بیٹھے وہ لوگ گپے مارتے رہے مگر ابان شاہ کو بےچینی لگی تھی کہ کسی طرح وہ غزل سے مل کر اُس سے اپنے دل کی بات کہے۔۔۔

و۔۔۔وہ چوہدری صاحب ایان کہاں پر ہے ؟؟

آخر ابان بول پڑا۔۔۔

وہ شاید اپنے کمرے میں ہے جاٶ اوپر جا کر دیکھ لو اُس کے کمرے میں۔۔۔

جی میس دیکھتا ہوں۔۔

ابان کو تو اوپر جانے کا موقع چاہیۓ تھا۔۔۔

وہ مسکراتا ہوا اوپر کی جانب بڑھا مگر اُس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

ابان شاہ جانتا تھا کہ ایان فارم ہاٶس میں ہے اُسے بس اوپر جانے کا اور غزل سے ملاقات کرنے کا بہانہ چاہیۓ تھا۔۔۔

جب اس نے دیکھا وہاں پر کوئی بھی نہیں ہے تو اُس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے غزل کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔۔۔

پہلی بار دستک دینے پر کوئی جواب نہیں آیا تو اُس نے دوسری بار تھوڑی زور سے دروازہ بجایا۔۔

کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟؟؟

ابان شاہ کی آواز سُن کر غزل ایک دم چونک گٸی۔۔۔

ک۔۔کون ہے ؟؟

وہ جھٹ سے بولی،

میں ابان شاہ۔۔۔

کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟؟

ہ۔۔ہاں آ جاٶ۔۔

اُس نے فورا موبائل سائیڈ پر رکھ دیا اور سر پر دوپٹہ لیا۔۔

میرا یہاں آنا آپ کو بُرا تو نہیں لگا نا ؟؟؟

اس نے دھیمے لہجے میں نظریں جھکاۓ کہا،

ن۔۔نہیں بُرا کیوں لگنا ہے مجھے۔۔۔ کوئی کام ہے کیا کسی کام سے آئے ہیں آپ یہاں ؟؟؟

غزل نے کہا،

نہیں تو۔۔۔ کسی کام سے نہیں ایا بس آپ سے ایک ضروری بات کہنے آیا ہوں۔۔۔

ضروری بات ؟؟؟

کیا ہے وہ ضروری بات ؟؟

کہیں میں سُن رہی ہوں۔۔

اب طبیعت کیسی ہے آپ کی ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے اللہ کا شکر ہے ہر حال میں۔۔۔

یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔

جانتی ہیں جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ گر گٸی ہیں تو میں کتنے گہرے صدمے میں چلا گیا تھا میری راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھی میں بے چین رہتا تھا ہر وقت آپ کو یاد کرتا تھا۔۔ میں نے آپ کے ساتھ زیادہ وقت تو نہیں گزارا مگر جتنا گزارا ہے بہت کمال گزارا ہے اُس وقت کو میں کبھی چاہ کر بھی بھول نہیں سکتا۔۔

جانتی ہیں جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ کو ہوش آگیا ہے آپ مل گئی ہیں میں نے دو نفل ادا کیے اور رب تعالی کا شکریہ ادا کیا کہ آپ کو ایک نٸی ذندگی دی اُس نے۔۔۔

مگر مجھے لگتا ہے آپ کچھ بھی یاد نہیں ہے ہمارے درمیان جو کچھ بھی تھا۔۔۔

ابان شاہ نے کہا،

مجھے سب کچھ یاد ہے ابان شاہ۔۔۔

وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوٸی بولی،

اگر اپ جانتے ہوتی تو اپ مجھ سے اجنبیوں کی طرح بات نہ کرتی۔۔۔

ابان شاہ نے افسردہ لہجے میں کہا،

حقیقت معلوم ہونے کے بعد شاید اپ مجھ سے کبھی بات نہیں کریں گے۔۔

وہ سنجیدگی سے بولی،

حقیقت ؟؟

کیسی حقیقت ؟؟

کہنا کیا چاہ رہی ہیں آپ ؟؟؟

آپ اب وہ غزل نہیں ہیں جس سے میں نے محبت کی تھی آپ بہت بدل گٸی ہیں۔۔

میری غزل تو بہت ہنس مُکھ تھی لڑنے والی۔۔۔

ابان شاہ سامنے کھڑا اُس سے یہ سب کہہ رہا تھا۔۔۔

چھوڑیں یہ سب۔۔۔

اچھا اب وہ بات کریں جو کرنے آۓ ہیں وقت ضائع مت کریں۔۔۔

آپ تو جانتی ہی ہیں شاید کہ میں آپ سے۔۔۔

یہ بول کر وہ خاموش ہو گیا۔۔۔

کیااا ؟؟

محبت ہے آپ کو مجھ سے ہاں ؟؟

جواب دیں ؟؟

جی ہاں۔۔۔ مجھے محبت ہے آپ سے۔۔۔

یہ کہتا ہوا وہ غزل کی جانب بڑھا۔۔

ہاں مجھے بہت محبت ہے آپ سے۔۔۔

کیا آپ کو بھی مجھ سے محبت ہے غزل ؟؟؟

وہ اُس کے بالکل قریب جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

کیا کر رہے ہو ابان کوئی ا جائے گا پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔

نہیں آج نہیں پیچھے ہٹنے والا ابان شاہ۔۔۔ آج کوٸی بھی آ جاۓ مجھے کوٸی پرواہ نہیں۔۔

ایک جھٹکے سے اُس نے غزل کو اپنی جانب کیا تو غزل اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

چاہتے کیا ہو ؟؟

اُس نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا،

میں غزل چوہدری کو چاہتا ہوں حسین ہنسنے والی بات بات پر لڑنے والی جو اب ایک تلخ مزاج لڑکی بن چکی ہے۔۔۔

وہ اُس کے لبوں کی طرف دیکھتا ہوا بولا،

میں ابھی بھی وہی غزل ہوں۔۔

میں تمہیں جو بات بتاؤں گی اب میرا نہیں خیال اس کے بعد تم کبھی میرے نہ قریب بھی آٶ گے۔۔۔

وہ تمستخرانہ انداز میں بولی،

مجھے بتاؤ کیا بات بتانی ہے؟؟

کس حقیقت کی بات کر رہی تھی پہلے بھی تم ؟؟ جاننا چاہتا ہے ابان شاہ۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی میں ڈاکٹر کے پاس سے ائی ہوں اور ڈاکٹر نے ایک بہت ہی بڑی نیوز سُناٸی ہے۔۔۔ وہ نیوز کچھ اس طرح ہے کہ غزل چوہدری اب کبھی بھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکتی۔۔۔

کیااا ؟؟

کیا کہا ؟؟

وہ قہقہ لگا کر ہنسا۔۔

جانتی تھی تم مذاق بناؤ گے میرا مگر خیر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔

وہ نظریں پھیرتی ہوئی بولی،

غزل چوہدری مذاق اچھا کر لیتی ہیں ویسے آپ ہاں نہ ؟؟؟

میری محبت کا مذاق اڑا رہی ہو نا ؟؟

اچھا بہانہ ہے ویسے جان چھڑوانے کا۔۔ اس کے علاوہ تمہیں اور کوئی بات نہیں ملی تھی ؟؟؟

مجھ سے ویسے ہی بول دیتی کہ نہیں کرنا چاہتی تم مجھ سے بات نہیں رہنا چاہتی میرے ساتھ نہیں کوئی تعلق بنانا چاہتی۔۔۔

وہ سرد لہجے میں غزل کی طرف دیکھتا ہوا بولا

ابان شاہ تمہیں کیوں سمجھ نہیں آرہی میری بات کیا میں اتنی بڑی بات مذاق میں کر دوں گی ؟؟

میں اتنی پریشان ہوں کہ تمہاری سوچ ہے یہاں میری زندگی برباد ہو گئی ہے اور تمہیں یہ سب باتیں مذاق لگ رہی ہیں ابھی بھی ؟؟؟

چھوڑ دو مجھ سے محبت کرنا میں نہیں ہوں کسی کے بھی قابل۔۔

میں چل نہیں سکتی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی کون کرے گا مجھ سے محبت کون کرے گا مجھ سے شادی ہاں ؟؟

بتاٶ اگر شادی کرنا پڑی تو بتاؤ کر لو بھی مجھ سے شادی ؟؟؟

ایک پیرالائز لڑکی سے شادی کر لو گے تم جواب تو مجھے ؟؟؟

وہ سخت لہجے میں بولی تو ابان شاہ اس کے قریب ہوا۔۔

ابان شاہ نے اس کے چہرے پر اپنی انگلیاں رکھی اور بولا۔۔۔

”ہاں میں تم سے محبت بھی کروں گا میں تم سے شادی بھی کروں گا تم میری پہلی اور آخری محبت ہو سمجھی۔۔۔

تمہیں کچھ نہیں ہوگا تم بہت جلد چلنے لگو گی بہت جلد ٹھیک ہو جاٶ گی۔۔۔

ڈاکٹرز کا کیا ہے وہ تو کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔۔۔

اتنی گہری چوٹیں تمہیں آٸی ہیں ہو سکتا ہے ویکنس کی وجہ سے تم نہ چل پا رہی ہو۔۔۔ تم ڈاکٹر کی باتوں کو اپنے ذہن پر سوار کر سکتی ہو مگر میں نہیں غزل کیونکہ میں اچھے سے جانتا ہوں ایسا کچھ بھی نہیں ہے تم بہت جلد پہلے کی طرح چلنے لگو گی۔۔۔

اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو مجھے اس چیز سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔

یہ کہتے ہوئے اس نے غزل کو اپنے سینے سے لگا لیا جس کی آنکھوں سے انسو بہہ رہے تھے۔۔۔

رو کیوں رہی ہو ؟؟

فضول میں رو رہی ہو تم۔۔۔ کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے نا رونے کی مگر تم تو بے وجہ رو رہی ہو۔۔۔

ابان شاہ میں چل نہیں سکتی تم کیوں میری بات کو نہیں سمجھ رہے مجھ سے محبت کرنا بند کر دو چھوڑ دو مجھے چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ میں اپنی وجہ سے کسی کو اذیت نہیں دے سکتی میں اپنی وجہ سے کسی کو پریشان نہیں کر سکتی۔۔۔

میں نہیں چاہتی تم مجھ سے کسی بھی قسم کی کوئی امید لگا لو اور وہ امید اگر کبھی ٹوٹ گئی تو تم بھی ٹوٹ جاؤ گے اور میں بھی ٹوٹ جاؤں گی اس لیے بہتر یہی ہے کہ چلے جاؤ یہاں سے اور آئندہ کبھی مت آنا۔۔

غزل میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔ تم چاہے کچھ بھی کہو مگر میں تم سے محبت کرنا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

”محبت ایک ایسا احساس ہے جو ہمیں کبھی بھی بتا کر نہیں ہوتا یہ بس ہوتا ہے اور ہو جاتا ہے“۔۔۔

ابان شاہ نے کہا،

وہ اس سے دور ہوگٸی۔۔۔

پلیز تم جاٶ یہاں سے۔۔

ٹھیک ہے ابھی تو میں جا رہا ہوں مگر یہ مت سوچنا کہ ابان شاہ تمہیں ایسے تنہا چھوڑ دے گا۔۔۔


کیسا انسان ہے اس کو میری کسی بات سے فرق ہی نہیں پڑا۔۔۔

اسے کیسے یقین ہے کہ میں دوبارہ سے چل پھر سکوں گی ؟؟

یہ مرد نٸی نٸی محبت میں ایسے ہی بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔۔۔

میں اب ابان شاہ کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دوں گی کیونکہ میں اپنی وجہ سے کسی دوسرے کی زندگی برباد نہیں کر سکتی۔۔۔

محبت ہی ہے نہ۔۔ کوئی نہیں جلد ہی ختم ہو جائے گی میرے دل سے اس کے لیے۔۔

اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا،


جیسے ہی ابان شاہ غزل کے کمرے سے باہر نکلا اُس نے آس پاس دیکھا کوٸی بھی نہیں تھا۔۔ وہ فوراً نیچے کی جانب بڑھا مگر اُسے غزل کے کمرے سے نکلتے ہوۓ رمشا نے دیکھ لیا تھا۔۔

وہ سامنے گیسٹ روم میں صوفے پر بیٹھی تھی جیسے ہی دروازہ کُھلا اُس نے کھڑکی سے ابان شاہ کو دیکھ لیا۔۔۔

یہ یہاں غزل کے کمرے میں کیا کر رہا تھا ؟؟

وہ اپنے دماغ پر زور ڈالنے لگی۔۔

کچھ تو ہے دونوں کے بیچ اسی لیے تو غزل اُسے پاگلوں کی طرح دیکھی جا رہی تھی۔۔

جلد ہی لگواتی ہوں پتہ اس بات کا بھی کہ آخر معاملہ کیا چل رہا ہے۔۔۔

یہ غزل بہت میسنی لڑکی ہے ایسے اُس دن باتوں پر پردہ ڈال دیا جیسے اس نے کورس کیا ہوا ہے مگر اب میں پتہ لگوا کر ہی رہوں گی۔۔۔ 

شام کا وقت تھا غزل کتاب میں مشغول تھی۔۔

رمشا کمرے میں آٸی اور غزل کے پاس آ کر بیٹھ گٸی۔۔۔

رمشا شام میں نوشین آ رہی ہے کچھ اچھا سا بنوا لو کھانے میں۔۔

غزل نے کہا،

اچھا بن جاۓ گا کچھ اچھا سا فکر نہ کرو۔۔۔ یہ بتاٶ آج دن میں ابان شاہ کیا کر رہا تھا تمہارے کمرے میں ؟؟؟

غزل اس کی بات سن کر تھوڑا سا گھبرا گٸی۔۔۔

تمہیں کیسے پتہ کہ وہ میرے کمرے میں آیا تھا تم تو یہاں پر تھی ہی نہیں دن میں۔۔۔

غزل نے سرد لہجے میں کہا،

میں دن میں آگئی تھی واپس اور میں گیسٹ روم میں بیٹھی ہوئی تھی جب میں نے اسے تمہارے کمرے سے نکلتا ہوا دیکھا تھا۔۔۔ تم مجھ سے شیئر کر سکتی ہو یہ سب باتیں میں کسی سے نہیں کہوں گی۔۔۔

رمشا بولی،

اسے ابو نے بھیجا تھا دواٸی کے بارے میں پوچھنے کے لیے۔۔۔

غزل نے منھ پھیرتے ہوۓ کہا،

دیکھو غزل بچی تو میں ہوں نہیں۔۔۔ اچھے سے جانتی ہو تم مجھے۔۔۔ اُس دن بھی جب وہ تمہارے کمرے میں آیا تھا اپنے ابو اور چوہدری صاحب کے ساتھ تو تم اسے دیوانوں کی طرح دیکھی جا رہی تھی۔۔۔

میں نے تمہاری آنکھوں میں اس کے لیے کچھ نہ کچھ تو دیکھا ہے اسی لیے تم سے بار بار پوچھ رہی ہوں اگر کچھ ہے تو مجھے بتا دو۔۔۔ اگر تم ابان شاہ سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ پا رہی تو مجھے بتاؤ میں اسے کہہ دیتی ہوں۔۔۔

رمشا تم پاگل ہوگٸی ہو اور مجھے بھی پاگل کر رہی ہو اس لیے بہتر ہے جاؤ نیچے جاؤ اور کچن میں جا کر کھانا بنواؤ۔۔۔

غزل نے سرد لہجے میں کہا،

ٹھیک ہے تمہاری مرضی ہے مت بتاؤ بعد میں مت کہنا مجھے۔۔۔

یہ کہہ کر رمشا کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔

پتہ نہیں کیا بھائی نے اسے میرے سر پر لا کر سوار کر دیا ہے ہر وقت میری جاسوسی کرتی رہتی ہے۔۔۔

غزل کو اب رمشا پر غصہ آ رہا تھا۔۔

******

میں بہت خوش ہوں آج۔۔۔

تمہیں بتا بھی نہیں سکتی اپنی فیلنگز کے بارے میں میں کیا فیل کر رہی ہوں۔۔۔

آج سے پہلے میں نے کبھی اتنا اچھا محسوس نہیں کیا احمد۔۔۔ آج اگر میں اس پوسٹ پر سلیکٹ ہوٸی ہوں تو صرف اور صرف تمہاری وجہ سے۔۔۔

ارے ایسے بار بار کہہ کر مجھے شرمندہ تو نہ کرو۔۔

احمد نے مسکراتے ہوۓ یشما کی طرف دیکھ کر کہا،

وہ دونوں ٹیرس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ حریم نے اُن کی باتیں سُن لی۔۔۔

اوہ اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔ میں بھی کہوں اتنا اُچھل کیوں رہی ہے یہ لڑکی اب معلوم ہوا کہ نوکری مل گٸی ہے۔۔۔ چلو اچھا ہے کم از کم جان تو چھوٹے گی نا تم ماں بیٹی سے ہماری۔۔۔

وہ تلخ لہجے میں بولی،

یشما نے اپنا چاۓ کا کپ اُٹھایا اور دوسری طرف جا کر مزے سے چاۓ پینے لگی۔۔۔ اُسے احمد کی بات یاد آگٸی تھی کہ کوٸی چاہے کچھ بھی بولتا رہے آپ نے بس اُس کو اگنور کرنا ہے اُس کی بات پر دھیان ہی نہیں دینا ہے اور یشما نے بالکل ایسا ہی کیا۔۔۔

میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ اس طرح کی لینگویج یوز کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے یشما کے ساتھ تمہیں میری بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی حریم ؟؟؟

احمد اس چالاک لڑکی نے تمہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے تم ہماری کوئی بھی بات نہیں سنتے ہو اب۔۔۔ بہت بدل گئے ہو تم اب احمد۔۔۔

تم بالکل غلط سوچ رہی ہو میں جیسے پہلے تھا اب بھی بالکل ویسا ہی ہوں۔۔۔

وہ دونوں بہن بھائی آپس میں بات کر رہے تھے کہ یشما احمد کے پاس آٸی۔۔۔

ٹھیک ہے احمد میں سونے جا رہی ہوں صبح ملتے ہیں۔۔ یہ کپ پلیز کچن میں رکھ دینا۔۔

یشما نے جب احمد کو کپ پکڑایا تو حریم کے بدن میں آگ لگ گٸی۔۔۔

یہ کیا احمد ؟؟؟

تم نوکر تو نہیں اس کے اسے واپس دو یہ کپ خود کچن میں رکھ کے آۓ گی۔۔۔

ایک نمبر کی ملازمہ لگتی ہے اور حرکتیں دیکھو مہرانیوں والی ہیں۔۔۔

بس خاموش حریم۔۔

یہ دونوں کپ پکڑو اور کچن میں رکھ کر آٶ۔۔۔

حریم احمد کو گھورنے لگی۔۔

حریم ایسے کیا دیکھ رہی ہو پکڑو یہ کپ اور کچن میں رکھو جا کر۔۔۔

حریم میری جان ذرا دھیان سے رکھنا کہیں ٹُوٹ نہ جاٸیں یہ کپ مامی جان کے جہیز کے کپ ہیں یہ۔۔۔

یہ کہہ کر یشما ہنستی ہوٸی وہاں سے چلی گٸی۔۔۔

حریم کا بس نہیں چل رہا تھا یشما کو نوچ لیتی۔۔۔

احمد نے اُسے کپ پکڑاۓ اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔

اس لڑکی کی اتنی ہمت۔۔۔ اس نے میرے بھاٸی کو پاگل کر کے رکھ دیا ہے میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔۔۔ احمد کو کیسے کپ پکڑا کر گٸی ہے جیسے وہ اس کا ملازم ہو اور احمد اُس کے سامنے مجھے بول کر گیا ہے کہ کپ کچن میں رکھ کر آٶ جیسے میں اس گھر کی نوکرانی ہوں۔۔۔ عجیب۔۔۔

کپ لے کر وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن کی جانب چلی گئی۔۔۔

********

کب سے کال کر رہا ہوں اٹینڈ کیوں نہیں کر رہی ؟؟؟

ابان شاہ کافی دیر سے غزل کو کال کر رہا تھا مگر وہ اُس کی کال کو مسلسل مصروف کر رہی تھی۔۔۔

کافی دیر کے بعد جب اس نے کال اٹینڈ کی تو ابان شاہ غصے میں بولا۔۔۔

کب سے کال کر رہا ہوں کال کیوں نہیں اٹینڈ کر رہی تھی ؟؟؟

کہاں مصروف تھی ؟؟

وہ سرد لہجے میں بولا،

کیا ہوگیا ہے آرام سے بات کرو میری دوست مجھ سے ملنے آٸی ہے میں اُس کے ساتھ بزی ہوں۔۔۔

تم مجھے بار بار کالز کیوں کر رہے ہو ؟؟؟

غزل بولی،

میری مرضی میرا جب دل چاہے گا میں کال کروں گا۔۔۔۔

ابان شاہ نے رعب دار لہجے میں کہا،

اچھا ؟؟؟

تمہاری مرضی ؟؟

غزل آٸی برو اچکاتے ہوۓ بولی،

جی بالکل میری مرضی۔۔ کوٸی مسٸلہ ہے کیا ؟؟

جی بالکل مجھے مسٸلہ ہے۔۔۔ تم ایسے بار بار کال نہیں کر سکتے مجھے سمجھے۔۔۔

غزل نے تھوڑے غصے سے کہا،

تم کچھ بھی کہو میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا اور میرا جب دل چاہے گا میں کال کروں گا اور تم اٹینڈ بھی کرو گی۔۔۔

دوست جیسے ہی جاتی ہے مجھے کال کرو فری ہو کر مجھے ضروری بات کرنی ہے تم سے۔۔۔

کیا ضروری بات کرنی ہے ابھی کرو جو بھی بات کرنی ہے۔۔۔

غزل نے کہا،

میں نے کہا نا جیسے ہی تمہاری دوست جاتی ہے فری ہو کر مجھے کال کرو ٹھیک ہے میں ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ نے کال بند کر دی۔۔۔

کھڑوس کہیں کا۔۔۔ پہلے بالکل بھی ایسا نہیں تھا اب تو جیسے رعب ہی جھاڑنے لگ گیا ہے مجھ پر۔۔۔

بڑبڑاتے ہوۓ اُس نے موباٸل ایک طرف رکھ دیا۔۔۔

نوشین سامنے بیٹھی اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی۔۔۔

تمہارے کس خوشی میں دانت نکل رہے ہیں ؟؟؟

غزل غصے سے اُسے گھورتی ہوٸی بولی،

کتنی اچھی لگ رہی تھی تم اُس سے ایسے لڑتے ہوئے۔۔۔

بس بس۔۔۔ ابھی میں لڑ کہاں رہی تھی ابھی تو میں صرف اُسے یہ بتا رہی تھی کہ مجھے ایسے بار بار کالز کر کے تنگ مت کرو۔۔

میری ذندگی میں شاید اب محبت کرنا نہیں لکھا ہے اُسے ابھی نٸی نٸی محبت ہوٸی مجھ سے اس لیے اُس کو میری کوٸی خامی نظر نہیں آۓ گی۔۔۔

میں اب اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔۔۔ آج کے دور میں ہر لڑکے کو ایک پرفیکٹ لڑکی چاہٸے ہے مجھ جیسی وہیل چٸیر پر بیٹھی لڑکی نہیں۔۔

وہ افسردہ لہجے میں بولی،

کیا ہوگیا ہے تمہیں ہاں ؟؟

تم بہت جلد ٹھیک ہو جاٶ گی اور اپنے پیروں پر چلنے لگو گی۔۔ بات رہی ابان شاہ کی تو اُس کی محبت تمہارے لیے سچی ہے۔۔

اگر وہ تمہیں بات بڑھانے کو کہہ رہا ہے تو تمہیں مان جانا چاہیۓ۔۔۔

نوشین نے کہا،

کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟؟ جب سب کو معلوم ہوگا تو سب کیا سوچیں گے ؟؟ اور ویسے بھی جہاں میرے ابو اور بھاٸی چاہیں گے میں وہاں ہی شادی کروں گی میں اُن کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتی۔۔۔

اوہ ناٸس غزل۔۔۔ ابھی تو تم کہہ رہی تھی مجھ سے کون شادی کرے گا ساتھ ہی جہاں ابو اور بھاٸی چاہیں گے۔۔۔۔

حقیقت تو یہ ہے تم ابان شاہ سے جان چھڑوا رہی ہو۔۔۔ وہ امیر ترین نہیں کہیں اس لیے تو تم یہ سب نہیں کر رہی ؟؟؟

نوشین نے سرد لہجے میں کہا،

لڑکی کیا ہوگیا ہے تمہیں کیسی عجیب باتیں کر رہی ہو تم ؟؟ میں بھلا ایسا کیوں سوچوں گی ؟؟

میں نہیں چاہتی میری وجہ سے کسی کی بھی ذندگی برباد ہو میری وجہ سے۔۔۔

غزل تم کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہو۔۔۔

میں تمہیں یہی کہوں گی کہ اُس لڑکے کی محبت کو ٹھکرانا مت آگے تمہاری مرضی۔۔۔

نوشین نے اُسے سمجھاتے ہوۓ کہا،


غزل اگر باتیں ہوگٸی ہوں تم دونوں کی تو کیا میں کھانا لگوا دوں ؟؟

رمشا نے غزل کے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کھڑوس لہجے میں کہا،

باتیں تو کبھی ختم نہیں ہوں گی اس لیے تم لگوا دو کھانا۔۔۔

غزل نے ہنستے ہوۓ کہا تو رمشا سڑ بُھن کر چلی گٸی۔۔۔

کھانا کھا کر مجھے تمہیں ایک بہت اہم بات بتانی ہے غزل۔۔۔

کیا بات کرنی ہے ابھی بتاؤ مجھ سے انتظار نہیں ہوگا اتنی دیر تک۔۔۔

ابھی تمہاری وہ سڑیل کزن کہہ کر گئی ہے کھانا کھا لو۔۔۔ارے کہنے دو اس کا تو کام ہی سڑنا ہے تم مجھے بات بتاٶ کیا بات ہے ؟؟

میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے۔۔۔

نوشین دھیمے لہجے میں کہا،

کیا چیز ؟؟

غزل نے حیرانگی سے کہا،

مجھے لگتا ہے تمہارے ماموں اور افرا اپی کے بیچ کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔۔۔

یہ سن کر غزل زور زور سے ہنسنے لگی تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا نوشین کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟؟؟

غزل میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔۔

ابھی کل ہی تمہارے ماموں نے افرا آپی کو کال بھی کی تھی۔۔۔

کال کی تھی ؟؟

کیوں کال کی تھی ماموں نے افرا آپی کو ؟؟

غزل جھٹ سے بولی،

ارے میں تو تمہیں بتانا ہی بھول گئی جب ہم پہلے تمہارے گھر آئے تھے جب تم ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھی تو تمہارے ماموں ہم سے پوچھ رہے تھے غزل کو کیا ہوا تھا کیسے وہ کھائی میں گری تو میں نے اور بسمہ نے انہیں سب کچھ بتا دیا تھا۔۔۔

سچ بتا دیا تھا کیا بتایا تھا ؟؟

یہی کہ بلال تمہیں یونیورسٹی میں تنگ کرتا تھا اور اُسی نے تمہیں کھاٸی میں گرانے کی سازش کی تھی۔۔

اُففففف الله۔۔۔

تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے تم نے کیوں بتایا تھا انہیں یہ سب ؟؟؟

غزل غصے سے بولی،

ارے میں کیا کرتی وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے تو میں نے بتا دیا بسمہ بھی میرے ساتھ ہی تھی اس نے بھی سب کچھ بتا دیا تھا اور غزل شاید بتانا ہی بہتر تھا کم از کم اس سے اس چیز کی سزا تو ملے گی نا ائندہ کسی اور کے ساتھ کرنے سے پہلے وہ سو بار سوچے گا اس بارے میں۔۔۔

کل تمہارے ماموں نے کال کی تھی اس لڑکے کا نام پوچھنے کے لیے۔۔۔ شاید رامش بھائی پوچھ رہے تھے وہ یونیورسٹی میں بیٹھے تھے جب انہوں نے کال کی تھی نام پوچھنے کے لیے۔۔۔

کیاااا ؟؟؟

رامش بھائی پوچھ رہے تھے ؟؟؟

اب تو بہت بڑا طوفان آنے والا ہے نوشین۔۔۔

تم نہیں جانتی رامش بھائی اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔

غزل اپنے سر پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔۔۔

ہاں تو تم کیوں ٹینشن لے رہی ہو اچھی بات ہے اسے یہ سزا ملنی ہی چاہیے جو اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔۔۔

نوشین نے کہا،

میری سمجھ سے سب کچھ باہر ہے۔۔۔

ماموں اور افرا آپی کا بھی مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا مجھے لگتا ہے تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔

اور بات رہی رامش بھائی کی وہ تو اب بہت ہی بڑا طوفان کھڑا کریں گے دیکھنا تم۔۔۔

نہیں غزل مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی میں نے تمہیں یہ بات بتانی تھی اور بتا دی ہے باقی تم پتہ کرو گی کہ دونوں کے بیچ کیا چل رہا ہے ؟؟؟

نوشین نے کہا،

**********

کہاں ہو تم ؟؟

جلدی سے فارم ہاؤس آ جاٶ کچھ ہی دیر میں مولوی صاحب بھی پہنچنے والے ہیں۔۔۔

مولوی صاحب ؟؟

کیا روشنی مان گٸی ہے نکاح کے لیے ؟؟؟

ابان شاہ جھٹ سے بولا،

وہ تو کبھی بھی نہیں مانے گی مگر مجھے یہ نکاح ہر حال میں کرنا ہے اور آج ہی کرنا ہے۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں بس کچھ ہی دیر تک تمہارے پاس پہنچتا ہوں۔۔۔

یہ کہ کر ابان شاہ نے کال بند کی اور جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔۔۔

حرم یہ میرے کپڑے پریس کرو جلدی سے مجھے ضروری کام سے کہیں جانا ہے۔۔

کہاں جانا ہے آپ نے ؟؟ اتنی جلدی کس بات کی ہے ؟؟؟

بس کہیں جانا ہے زیادہ سوال جواب نہ کرو کپڑے پریس کرو۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ شاور لینے واش روم میں چلا گیا۔۔

پتہ نہیں بھاٸی کیا کرتا پھر رہا ہے آج کل۔۔۔

وہ بڑبڑاٸی۔۔۔


ابان کہاں کی تیاریاں ہو رہی ہیں ؟؟

آج میں تمہارے لیے لڑکی دیکھنے جاٶں گی شام میں اگر مجھے لڑکی پسند آگٸی تو میں بات پکی کر آٶں گی۔۔۔

امی کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟؟؟

میں نہیں کرنا چاہتا ابھی شادی اور آپ کہیں نہیں جاٸیں گی۔۔

میں دوست کے ہاں جا رہا ہوں ضروری کام سے شام کو بات کریں گے اس پر۔۔

حرم امی کو کہیں مت جانے دینا۔۔

یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے نکل گیا۔۔۔


نہ جانے یہ لڑکا آخر کیا چاہتا ہے۔۔ میری تو سمجھ سے باہر ہوگیا ہے یہ اب نہیں کرے گا شادی تو کب کرے گا ؟؟

آسیہ بیگم بیٹھی بڑبڑانے لگی۔۔۔

امی کیا ہوگیا ہے کرلیں گے بھاٸی شادی۔۔ آپ جانتی تو ہیں کہ وہ غزل کو پسند کرتے ہیں اور انہوں نے وہاں ہی کروانی ہے شادی کیونکہ بھاٸی بہت زیادہ چاہنے لگے ہیں اُسے۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے چوہدری صاحب اپنی لاڈلی بیٹی ابان شاہ کو دیں گے جس کے پاس جاب تک نہیں ہے۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک امیر ترین لڑکے کے ساتھ کریں گے۔۔۔ ہمارے پاس ہے ہی کیا ایک یہ مکان۔۔

اتنی بڑی حویلی میں رہنے والی لڑکی کیا یہاں پر رہ لے گی آ کر ؟؟؟

بات تو اپ کی بالکل ٹھیک ہے امی مگر غزل بھی بھائی سے محبت کرتی ہے وہ بھی بھائی کو بہت چاہتی ہے۔۔۔ اگر وہ چاہے گی تو یہ رشتہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔

حرم نے اپنی امی سے کہا،

غزل دیکھو ہوگا تو وہی جو چوہدری صاحب کا فیصلہ ہوگا اس لیے میں اس آس میں بالکل بھی نہیں بیٹھوں گی کہ شاید چوہدری صاحب مان جائیں اس رشتے کے لیے۔۔۔

میں آج شام میں لڑکی دیکھنے جاٶں گی اگر مجھے لڑکی پسند آگئی تو میں بات پکی کر کے ہی واپس آٶں گی۔۔ اب مجھے اس گھر میں ایک بہو چاہیے ہے بچے چاہیے ہیں نہ جانے کتنے دن کی زندگی ہے ہماری ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھیں۔۔۔

ٹھیک ہے امی اگر آپ کو رشتہ دیکھنے جانا ہے تو چلی جائیں مگر میں آپ کو اتنا بتا دوں کہ بھائی نہیں کرے گا کسی اور کے ساتھ کبھی بھی غزل کے علاوہ۔۔۔

حرم یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔۔

********

ایان اگر کسی کو معلوم ہو گیا نا ہم یہاں پر یہ سب کر رہے ہیں تو یقین کرو ہمارا کچھ باقی نہیں رہے گا۔۔۔۔

ابھی بھی ٹائم ہے سوچ لو سمجھ لو۔۔۔

ابان شاہ نے کہا،

اب سوچنے سمجھنے کا بالکل بھی وقت نہیں ہے۔۔۔

میں نے روشنی کو بہت خوبصورت جوڑا لا کر دیا تھا مگر اس نے وہ پہنا ہی نہیں۔۔ میں جانتا ہوں وہ خوش نہیں ہے مگر یار میں اسے بالکل بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا وہ کہاں پر جائے گی کہاں پر رہے گی۔۔۔

”اور میری محبت“۔۔۔ میری محبت کا کیا یار ؟؟

میں کیسے رہوں گا اُس کے بغیر ؟؟؟

اس لیے میں اُس سے نکاح کر کے رہوں گا چاہے اُس کی رضا مندی ہو یا نہ ہو۔۔

وہ اُٹھا اور کمرے میں گیا۔۔

روشنی ؟؟؟

آپ رو رہی ہیں ؟؟

وہ اُس کی جانب بڑھا جو گُٹنوں پر سر رکھے بیٹھی تھی۔۔

روشنی کیا آپ مجھ سے خفا ہیں ؟؟؟

کیا آپ یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ؟؟؟

وہ اس کے پاس بیٹھ کر تھی میں لہجے میں بولا،

میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوگا اب جب تم سارے فیصلے کر ہی چکے ہو تو۔۔۔۔

وہ اداس لہجے میں بولی،

دیکھیں روشنی میں اچھے طریقے سے جانتا ہوں کہ آپ کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں پھر یہ جانتے ہوئے میں کیسے آپ کو تنہا چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔ میری محبت کا تو آپ کو بالکل بھی یقین نہیں ہے یہ بات میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔

ایک بار صرف ایک بار مجھ پر یقین کر لیں۔۔ میری محبت میرا دل یہ اجازت نہیں دیتا کہ میں آپ کو ایسے تنہا چھوڑ دوں اس بےرحم دنیا کے بھروسے پر۔۔۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔۔

ایان مولوی صاحب آگئے ہیں باہر آ جاؤ روشنی کو لے کر جلدی سے۔۔۔

ابان شاہ نے کہا،

ٹھیک ہے ہم بس دو منٹ میں آ رہے ہیں تم مولوی صاحب کو بٹھاٶ۔۔۔

چلیں اب اپ اپنے آنسو صاف کریں۔۔۔اگر اپ یہ جوڑا پہن لیتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا مگر کوئی بات نہیں اپ کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔۔۔

ایان نے اپنا ہاتھ اگے بڑھایا۔۔

روشنی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔۔۔

تم جاٶ میں دو منٹ میں یہ جوڑا پہن کر اتی ہوں۔۔۔

یہ سن کر ایان اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔۔

کیا واقع ہی ؟؟؟

ایان نے خوشی سے کہا،

روشنی نے وہ جوڑا اٹھایا اور واش روم کی جانب بڑھی۔۔

ایان چوہدری مسکراتا ہوا کمرے سے باہر جا کر کھڑا ہوگیا اور روشنی کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ 

وہ نظریں جھکاۓ بیٹھی تھی۔۔


کیا آپ کو ایان چوہدری ولد چوہدری اکبر سے سکہ رائج الوقت پانچ لاکھ نکاح قبول


ہے مولوی صاحب کے سوال پر ایان چوہدری کی دھڑکنیں بےتاب ہوئی تھیں۔۔۔۔

"قبول ہے"


یہ دو بول سننے تھے کہ ایان چوہدری کی رگ رگ ٹھنڈک اترتی چلی گئی۔۔۔

کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔ "جی قبول ہے"

روشنی نے آنکھیں میچتے خود کو پرسکون کرتے

کہا۔۔۔

"کیا آپ کو قبول ہے"

"قبول ہے"۔۔۔


تا عمر قبول ہے آخری سانس تک با خوشی


قبول ہے ۔۔۔ یہ اس نے اپنے دل میں کہا تھا۔۔۔


جیسے ہی نکاح ہوگیا روشنی اُٹھ کر کمرے میں چلی گٸی۔۔۔

کمرے میں جاتے ہی اُس نے وہ ستاروں سے بھرا بھاری ڈوپٹہ اپنے سر سے اُتار پھینکا۔۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ؟؟

اگر اب میرے ساتھ کچھ بھی غلط ہوا تو میں ذندہ نہیں رہوں گی خود کو مار ڈالوں گی کیونکہ ذرا سی بھی اذیت برداشت کرنے کی اب ہمت باقی نہیں رہی مجھ میں۔۔۔

وہ روتی ہوٸی ایک کونے میں جا کر بیٹھ گٸی۔۔۔

کاش آج امی ذندہ ہوتی تو وہ بھی میرے نکاح میں شامل ہوتی۔۔۔

شاید میرے نصیب میں یہی کچھ لکھا تھا۔۔۔

وہ سسکیاں بھرتی ہوٸی بولی،


میں جا رہا ہوں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا۔۔

نہیں بس اگر کوٸی تم سے میرا پوچھے تو کہنا وہ دوستوں کے ساتھ گیا شہر ایک دو دن میں واپس آۓ گا کیونکہ میرا نمبر بھی بند ہے۔۔۔ بھاٸی یا ماموں تم سے پوچھیں گے تو ضرور۔۔۔


وہ تو ٹھیک ہے مگر تم کب تک ایسے چپ کر یہاں رہو گے ؟؟؟

ابان شاہ نے کہا،

میں یہاں جاتا ہوں رکنے والا نہیں ہوں جیسے ہی روشنی کا تھوڑا موڈ صحیح بہتر ہوگا میں اسے حویلی لے آٶں گا۔۔۔

جو بھی کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا پلیز۔۔

اپنے اور بھابھی کے لیے کوٸی مشکل کھڑی نہ کرلینا۔۔

تم بس دعا کرنا کہ جب میں روشنی کو گھر لے کر جاؤں تو زیادہ تماشہ کھڑا نہ ہو۔۔

ایان نے دُکھی لہجے میں کہا،

تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہی ہوگا۔۔

ابان شاہ نے اُس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،

*********

میں تمہیں جان سے مار دوں گا تم نے میری بہن کی جان لینے کی کوشش کی ہے تمہارا تو میں وہ حال کروں گا تم ساری ذندگی یاد رکھو گے۔۔۔


رامش اُس لڑکے کے گھر پہنچ گیا تھا جس نے غزل کو کھاٸی میں دھکا دینے کی سازش کی تھی۔۔۔

م۔۔میں نے کچھ نہیں کیا چھوڑو مجھے۔۔۔

تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔

وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا مگر رامش کی ذات پر اُس کے کسی بھی لفظ کا کوٸی اثر نہیں تھا۔۔۔

انسپکٹر حسن نے اُس لڑکے بلال کو گاڑی میں دھکا دیا۔۔۔

اب تمہارے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلے گا۔۔۔

وہ اسے لے کر پولیس اسٹیشن کی جانب نکل گئے۔۔۔


ماموں بھاٸی کہاں ہیں ؟؟

اتنا ٹائم ہو گیا ہے وہ گھر کیوں نہیں آئے ابھی تک کال بھی نہیں اٹینڈ کر رہے۔۔۔

غزل نے اپنے ماموں سے کہا،

ہاں میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں کافی دیر ہو گئی ہے آیا کیوں نہیں اب تک۔۔۔

فکر نہ کرو میں کال کرتا ہوں اُسے۔۔


موقع اچھا ہے مجھے ماموں سے بات کرنی چاہیۓ۔۔۔

ماموں نوشین بتا رہی تھی کہ آپ نے اُس کی بہن افرا کو کال کی تھی کل۔۔۔

غزل نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔


و۔۔وہ ہاں میں نے کال کی تھی اُسے وہ کچھ پوچھنا تھا تو بس اسی لیے کال کی تھی۔۔۔

وقاص صاحب نے لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں جواب دیا۔۔۔

کیا پوچھنا تھا آپ نے ؟؟

افرا کا نمبر آپ کے پاس کہاں سے آیا ؟؟؟


وہ جب میں آپ لوگوں کے ساتھ شاپنگ مال گیا تھا تب نمبر ایکسچینج ہوا تھا وہ شاید ان کا موبائل نہیں مل رہا تھا اس لیے۔۔۔


ٹھیک ہے مامو مان لیتے ہیں مگر آپ مجھے یہ بتائیں آپ نے کل انہیں کیوں کال کی تھی ؟؟؟

خیریت تو تھی نہ ؟؟

غزل بولی،


جب تمہیں سب کچھ معلوم ہے تو کیوں پوچھ رہی ہو ؟؟

وقاص صاحب نے فوراً جواب دیا۔۔۔


مجھے تو کچھ معلوم نہیں ہے آپ مجھے بتاٸیں کیا بات ہے ؟؟؟


تمہاری دوست آٸی تھی تمہیں کچھ نہ کچھ تو بتا کر گٸی ہی ہوگی۔۔۔

جی بتا کر گٸی ہے مگر مجھے یقین نہیں آیا آپ بتاٸیں کیا یہ سب کچھ سچ ہے ؟؟

کیا واقع ہی آپ افرا کو پسند کرتے ہیں ؟؟


ہاں مجھے وہ پسند ہے اچھی لگنے لگی ہے وہ۔۔۔ جانتی ہو پہلی بار کوٸی لڑکی میرے دل کو اچھی لگی ہے۔۔۔

وقاص صاحب نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو غزل مسکرانے لگی۔۔

بس بس ماموں جان حوصلہ کریں۔۔۔


اور کچھ نہیں بتایا اُس نے تمہیں ؟؟


اور کچھ کیا ؟؟

کس بارے میں بات کر رہے ہیں آپ ماموں ؟؟

رامش اُس لڑکے کو پکڑنے گیا ہے اُس کے گھر اور اب تک تو میرے خیال سے رامش اور اُس کی پوری ٹیم نے اُسے پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے بند بھی کر دیا ہوگا۔۔۔۔

یہ سُن کر غزل ایک دم ڈر گٸی اور سمجھ گٸی کہ ماموں بلال کی بات کر رہے ہیں۔۔۔


کس کو پکڑ لیا ہوگا ماموں کس کی بات کر رہے ہیں آپ بتاٸیں نہ ؟؟؟

وہ جھٹ سے بولی،


میں بلال کی بات کر رہا ہوں جو تمہیں یونیورسٹی میں تنگ کرتا تھا جس کے منھ پر تم نے تھپڑ بھی مارا تھا۔۔ جس نے تمہیں کھاٸی میں دھکا دینے کی سازش کی تھی۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے اگر تم ہمیں نہ بتاتی تو ہمیں کبھی معلوم ہی نہ ہوتا اس بارے میں ؟؟؟

کیوں چھپاتی رہی تم سے یہ سب کچھ ؟؟؟

وقاص صاحب نے کہا،


مامو وہ ایک نمبر کا پاگل اور جاہل انسان ہے جس کی بات کرنا بھی میں پسند نہیں کرتی۔۔ وہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کی بہت سی لڑکیوں کو تنگ کرتا ہے۔۔۔ اور میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے کھائی میں دھکا کس نے دیا ہے کس نے نہیں۔۔۔۔

مجھے تو آج نوشین نے سب کچھ بتایا ہے۔۔۔۔

آپ پلیز بھائی کو کال کریں اور انہیں کہیں کہ گھر واپس آ جاٸیں وہ بلال بالکل بھی اچھا لڑکا نہیں ہے میں نہیں چاہتی وہ بھائی کو بالکل بھی نقصان پہنچائے۔۔۔۔

غزل نے پریشان لہجے میں کہا،


اس لڑکے کی اتنی اوقات ہی نہیں ہے کہ وہ رامش کو نہ پسند پہنچائے گا۔۔ آٸندہ کوٸی بھی کیسی بھی بات ہو سب سے پہلے تم ہمیں بتاٶ گی ہم سے ڈسکس کرو گی۔۔۔


جی ماموں ٹھیک ہے۔۔۔

غزل نے کہا،

***********

تم ؟؟؟

تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ بھی ایک پولیس یونیفارم میں ؟؟؟

تم یشما ہی ہو نہ ؟؟

وہی یشما جس کی پوری گینگ کو ہم نے پکڑا تھا ہاں نہ ؟؟

انسپکٹر حسن نے حیرانگی سے کہا،


اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو ؟؟

اور ہاں میں وہی ہوں جس کی پوری گینگ کو تم نے اور تمہارے اُس رامش نے پکڑا تھا۔۔۔

دیکھ لو آج میں تم لوگوں کی جگہ پر آگٸی ہوں۔۔۔

محنت اتنی کرو کہ چار لوگ چار دن تک صرف تمہارے بارے میں ہی سوچتے رہیں۔۔

وہ تمسخرانہ انداز میں ہنستی ہوٸی بولی،


تمہیں اس پوسٹ پر لایا کون ہے میں تو اس بات پر حیران ہوں۔۔۔

جو بھی لے کر ایا ہے نا مجھے لگتا ہے اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ تم پہلے کتنی بڑی چور تھی۔۔۔


مسٹر حسن مجھے اپنا ماضی اچھے سے یاد ہے تمہیں کو بار بار یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے۔۔۔۔

اپنے کام سے کام رکھو یہی بہتر ہوگا تمہارے لیے۔۔۔

میری یہاں تک آنے کے لیے محنت ، ہمت ، کامیابی شاید تم سے برداشت نہیں ہو رہی ہے ہاں نہ ؟؟؟

یشما نے سخت لہجے میں کہا،


انسپکٹر حسن کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یشما اب اُن کے ساتھ کام کرے گی۔۔

اس کے لیے یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ ایک لڑکی جو خود بہت بڑی بڑی چوریاں کرتی رہی ہے جس کی پوری گینگ تھی چوروں کی وہ کیسے ایک پویس کے شعبے میں اُن سب کے درمیان کام کرے گی۔۔۔


گُڈ مارننگ سر۔۔۔

ڈی ایس پی رامش نے اندر اینٹر ہوتے ہی سب کھڑے ہوگۓ مگر مس یشما اپنی جگہ سے نہ اُٹھی۔۔۔

سب لوگ یشما کو دیکھنے لگے اور باتیں کرنے لگے۔۔۔

رامش اس وقت بہت غصے میں تھا اُس نے ابھی تک یشما کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔

آتے ہی وہ اپنے آفس میں چلا گیا تھا۔۔


جب سر اندر اینٹر ہوئے تھے تو تم کھڑی کیوں نہیں ہوئی ان کے لیے ؟؟

انسپیکٹر حسن نے یشما کے پاس جا کر دھیمی آواز میں کہا،

میں تمہاری بات کا جواب دینا پسند نہیں کرتی بہتر ہے میرے معاملات میں ٹانگ نہ ہی اڑاؤ۔۔۔

یشما نے سخت لہجے میں کہا،


یہ جو تم بڑی بنی بیٹھی ہو نا اچھا نہیں کر رہی ہو۔۔

وہ یہ کہہ کر چلا گیا۔۔

******

میں رات سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں کہاں تھے آپ رات سے ؟؟؟

یشما باہر ٹی وی لاٶنج میں وھیل چٸیر پر بیٹھی تھی۔۔۔


کیسی ہو اب ؟؟

طبعیت کیسی ہے ؟؟

رامش نے کہا،

بھائی یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔۔۔

میں آپ سے پوچھ رہی ہوں کہاں تھے آپ رات سے ؟؟

کتنا پریشان تھی میں بار بار سب سے پوچھ رہی تھی آپ کے بارے میں۔۔

سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

اگر آپ کو کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتائیں بھائی ؟؟؟


وہ صوفے پر بیٹھا پر غزل کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔

تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں تھا کہ وہ لڑکا تمہیں یونیورسٹی میں تنگ کرتا ہے۔۔۔

کیوں نہیں بتایا تم نے مجھے غزل آخر کیوں ؟؟؟

میں نے اُس لڑکے کو گرفتار کر لیا ہے میرا بس نہیں چل رہا میں نوچ لوں اسے۔۔۔

اُس نے میری بہن کو نقصان پہنچایا ہے میں اُسے نہیس بخشنے والا میں اُسے برباد کر دوں گا۔۔۔

تمہیں میں نے ہمیشہ ایک بات سمجھائی ہے کہ غزل چاہے چھوٹی سی چھوٹی بات ہو تم سب سے پہلے آ کر ہمیں بتاؤ گی۔۔۔


بھاٸی ریلیکس ریلیکس کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟؟

وہ اپنی وھیل چٸیر کو چلاتے ہوۓ اپنے بھاٸی کے پاس لے گٸی۔۔۔

اس نے رامش کو دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں زور سے تھام لیے۔۔۔

بھائی میں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی بس اسی لیے نہیں بتایا میں نے آپ سب کو ورنہ اور کوٸی بات نہیں تھی۔۔۔

اگر میں آپ کو بتا دیتی آپ یونیورسٹی میں آتے تماشہ لگتا اس لیے میں نے اس معاملے کو اگنور کیا تھا جتنا مجھ سے ہوسکتا تھا مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ لڑکا اس حد تک چلا جاۓ گا بدلہ لینے کے لیے۔۔۔

رامش ابھی تک غصے میں تھا۔۔

وہ اپنے ہاتھ چھڑوا کر وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔۔۔


دو دن ہوگۓ ہیں میں نے ایان کو نہیں دیکھا پتہ کرو کہاں ہے وہ ؟؟؟


چوہدری صاحب نے رامش سے کہا جو آج کل آل ریڈی بہت پریشان تھا اور غصے میں تھا۔۔

کیا مطلب کہاں ہے وہ دو دن سے ؟؟

کیا وہ دو دن سے گھر نہیں آیا ؟؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،


نہیں دو دن سے وہ گھر نہیں آیا معلوم کرو کہاں ہے وہ ؟؟؟

اُس لڑکی کے پیچھے وہ پاگل ہوگیا ہے۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،


آپ فکر نہ کریں جلد ہی پتہ کرتا ہوں میں اور اب جتنا جلدی ہوسکے اسے کسی بیرون ملک بھیجنا ہے یہاں رہ کر اس نے اُس لڑکی کے عشق میں ہی پاگل رہنا ہے۔۔۔

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔

********

آپ نے ڈریس کیوں چینج کیا ابھی تو میں نے جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا آپ کو۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی تھیں آپ نکاح کے جوڑے میں۔۔

وہ ایان سے منھ موڑے بیٹھی تھی۔۔۔

کیا ہوا ناراض ہیں ؟؟؟

اب تو آپ میری بیوی ہیں۔۔۔ ہر طرح سے حق ہے میرا آپ پر۔۔

وہ اُٹھا اور اُس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔

میری اتنی پیاری بیوی پر نکھرے بھی خوب جچتے ہیں بھٸی۔۔۔

اُس نے روشنی کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوۓ کہا،


ایان مت کرو اس وقت میرا کوٸی موڈ نہیں ہے کسی بھی بات کا۔۔۔

وہ سخت لہجے میں بولی،


غصہ کرنا آپ کا حق ہے میری جان میں جانتا ہوں آپ اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔۔

وہ اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا تحفہ نکالتا ہوا بولا،


جب جانتے ہو کہ میں خوش نہیں ہوں تو پھر کیوں کیا یہ نکاح ؟؟

میرا تو کوٸی نہیں ہے اس دنیا میں میری بات تو مانی سمجھی جاتی ہے مگر تمہارے گھر والے ؟؟

وہ کہاں ہیں وہ اس نکاح میں شامل کیوں نہیں تھے ہاں ؟؟

جواب دو مجھے۔۔۔

وہ غصے سے بولی،


وقت آنے پر میں سب کچھ بتاٶں گا آپ کو۔۔۔

کون سا وقت آنے پر ہاں ؟؟

کونسا وقت آنا ہے اب ایان ؟؟

حقیقت تو یہ ہے تم نے یہ نکاح چُھپ کر کیا ہے مجھ سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف جا کر کیا ہے تم نے مجھ سے یہ نکاح۔۔۔

جانتی ہوں تم بھی بہت جلد مجھے استعمال کر کے کوڑے میں پھینک دو گے جانتی ہوں اچھے سے جانتی ہوں میں۔۔۔

آج کل کے لوگوں کے لیے ”نکاح“ مزاق بن چکا ہے۔۔۔۔


بس روشنی بس۔۔۔

کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟؟

میں کیسے آپ کو اپنی محبت کا یقین دلاٶں ؟؟

مجھے لگا تھا نکاح میری محبت کا ثبوت ہوگا مگر آپ کو ابھی بھی یہ سب جھوٹ اور مزاق لگ رہا ہے۔۔۔

ایان بول پڑا۔۔۔


ہاں مجھے ابھی بھی یہ سب جھوٹ اور مذاق ہی لگ رہا ہے کیونکہ یہ نکاح تم نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کیا ہے جیسے ہی انہیں معلوم ہوگا وہ تم سے کہیں گے اس نکاح کو ختم کر دو تو تم ان کی باتوں میں آ کر اس نکاح کو ختم کر دو گے۔۔۔


روشنی یہ آپ سوچ رہی ہیں یہ آپ کی اپنی سوچ ہیں مگر حقیقت یہ ہے ایان ایسا نہیں ہے جو اپنی محبت کو کسی کے کہنے پر چھوڑ دے گا۔۔۔

وقت آپ کو ساری حقیقت سے آشنا کر دے گا۔۔۔

اتنے اچھے موڈ میں تھا اتنا خوش تھا سارا موڈ خراب کر دیا ہے۔۔۔

وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔

کبھی اس کو اتنا نہیں ہوتا کہ ابان کال کا ویٹ کر رہا ہوگا میں اُسے کال ہی کر لوں۔۔

مجھے ہی کرنا پڑے گی اب بھی کال۔۔

اُس نے بڑبڑاتے ہوۓ غزل کا نمبر ملایا جو اس وقت بند جا رہا تھا۔۔۔

نمبر بند ؟؟؟

اُس نے حیرانگی سے کال کاٹ کر دوبارہ سے نمبر ڈاٸل کرتے ہوۓ کہا،

اب نمبر کیوں بند کر دیا ہے اس نے۔۔۔

وہ غصے میں بڑبڑایا۔۔

اب میں وہاں جا بھی نہیں سکتا پہلے تو ایان سے ملنے کے بہانے چلا جاتا تھا۔۔۔

کیا کروں کیا کروں ؟؟؟


وہ اپنے ابا کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔

ابو طبیعت ٹھیک ہے نہ آپ کی ؟؟


ہاں ٹھیک ہے میری طبیعت مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔

ابان شاہ اپنے ابو کی ٹانگیں دبانے لگا۔۔۔

خیر تو ہے نا ابان شاہ آج اتنے دنوں کے بعد تمہیں کیسے یاد آگیا کہ ابا کی ٹانگیں بھی دبانی ہیں۔۔۔


ابو کیا ہوگیا ہے وہ بس تھوڑی مصروفیت کی وجہ سے نہیں بیٹھ پاتا تھا آپ کے پاس مگر اب سے میں ہر روز آپ کی ٹانگیں دبایا کروں گا۔۔۔

ابان شاہ نے کہا،


ہاں ہاں دیکھ لیں گے کتنے دن دباتے ہو تم میری ٹانگیں۔۔

مُنشی صاحب منمناۓ۔۔۔


ابا حویلی چکر نہیں لگا کیا آپ کا ؟؟

ابان شاہ بولا،


نہیں کافی دن ہو گئے ہیں کوئی چکر نہیں لگا میرا حویلی میں۔۔۔

کوٸی لے کر ہی نہیں جاتا مجھے۔۔


ابو آپ نے مجھے کہنا تھا نہ میں آپ کو لے جاتا حویلی۔۔۔

آپ تیار ہو جاٸیں میں آپ کو ابھی چھوڑ آتا ہوں۔۔


کہیں نہیں جاٸیں گے تمہارے ابو سمجھے تم۔۔

سب جانتی ہوں میں کیوں تم اپنے ابو کو حویلی لے کر جاتے ہو۔۔۔

اچانک آسیہ بیگم کمرے میں آ کر بھڑک پڑی۔۔۔


کیا ہوگیا ہے امی کیسی باتیں کررہی ہیں آپ ؟؟

ابان شاہ اپنی امی کو خاموش رہنے کے اشارے کر رہا تھا۔۔۔


یہ تم کیا کہہ رہی ہو آسیہ بیگم ؟؟؟

کیوں جاتا ہے یہ مجھے حویلی لے کر ؟؟

مُنشی صاحب نے کہا،


او ہو ابو کیا ہوگیا ہے امی تو بس ویسے ہی کہہ رہی ہیں آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی ہے اس لیے امی چاہتی ہیں آپ گھر پر ہی رہیں آرام کریں۔۔۔

آسیہ بیگم غصے سے وہاں سے اُٹھ کر چلی گٸی۔۔۔

ابو آپ جلدی سے تیار ہو جاٸیں میں باٸیک باہر نکالتا ہوں اُتنی دیر تک۔۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ اپنی امی کے پاس چلا گیا۔۔۔


امی کیوں وہ سب بول کر آٸی ہیں آپ ابو کے سامنے ؟؟؟

کیو کر رہی ہیں آخر آپ ایسا ؟؟

اپنے بیٹے کی خوشی نہیں چاہتی کیا آپ ؟؟


خوشی چاہتی ہوں اسی لیے تمہیں منع کر رہی ہوں اسی لیے وہ سب بول کر آٸی ہوں اندر۔۔

تمہیں میری باتوں کی سمجھ نہیں آ رہی شاید۔۔۔

تمہارے پاس تو کوئی جاب بھی نہیں ہے کیسے چوہدری صاحب تمہیں اپنی لڑکی دے دیں گے ؟؟؟

اتنی بڑی حویلی میں رہنے والی لڑکی اس چھوٹے سے مکان میں کیسے رہے گی سوچا ہے تم نے اس بارے میں ؟؟

اپنی امی کی باتیں سننے کے بعد وہ ایک دم سوچ میں پڑ گیا۔۔

ام۔۔۔امی ایسا کچھ نہیں ہے وہ ایک اچھی لڑکی ہے وہ رہ لے گی اس گھر میں آپ فکر نہ کریں اگر اُس کی یا اُس کہ گھر والوں کی ڈیمانڈز بھی ہوئی تو میں پوری کرنے کے لیے تیار ہوں میں اس کے لیے اچھی جاب کروں گا کماٶں گا اچھا سا گھر بنا لوں گا مگر میں کسی بھی قیمت پر اسے نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔

””میں محبت کرتا ہوں اسے امی““۔۔

ابان شاہ نے دھیمے لہجے میں کہا،


ابان میں جانتی ہوں تم ُس سے محبت کرتے ہو مگر تمہیں صرف اپنی محبت کو ہی نہیں دیکھنا ہوگا۔۔۔


ابان چلو میں تیار ہوں باٸیک نکال لی باہر یا نہیں ؟؟

اتنے میں مُنشی صاحب بھی اپنے کمرے سے باہر آگۓ۔۔۔


جی جی ابا آ جاٸیں۔۔۔

امی اب اپ اس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کریں گی کسی سے بھی اور پریشان بھی نہیں ہوں گی باقی میں آ کر آپ سے اس بارے میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔

وہ یہ کہہ کر مُنشی صاحب کو لے کر حویلی کی جانب نکل گیا۔۔

*********

تم کچن میں کیا کر رہے ہو ؟؟

کچھ بنانا ہے تو مجھے بتاٶ میں بنا دیتی ہوں۔۔۔


وہ اُسے کچن میں آتا دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔

آٸیں مل کر بناتے ہیں بلکہ آج میں آپ کے لیے کچھ اچھا سا کھانے کو بناتا ہوں آپ یہاں بیٹھیں۔۔

وہ بھاگتا ہوا ٹی وہ لاٶنج سے کُرسی کچن میں لے آیا۔۔

بیٹھیں یہاں۔۔

آپ نے بس مجھ سے اچھی اچھی باتیں کرنی ہیں تاکہ میں اچھا سا کھانا بنا سکوں۔۔

وہ خاموشی سے اُس کُرسی پر بیٹھ گٸی۔۔

آپ کچھ بول کیوں نہیں رہی ؟؟

چلیں یہ ہی بتا دیں آپ کو کھانا بنانا آتا ہے ؟؟

وہ آملیٹ بنانے کے لیے پیاز کاٹ رہا تھا۔۔ مسلسل اُس کی آنکھوں سے پانی آ رہا تھا۔۔۔

مجھے بہت کچھ آتا ہے میں سب کچھ بنا لیتی ہوں۔۔۔

یہ کہتی ہوٸی وہ اُٹھی اور اُس کے ہاتھ سے پیاز لے کر سلیپ پر رکھا۔۔

جاٶ منہ دھو لو جا کر آنکھوں میں ٹھنڈا پانی ڈالو۔۔۔


نہیں نہیں میں کرلوں گا آپ وہاں جا کر بیٹھیں۔۔

وہ بولا،


ایان میں کیا کہہ رہی ہوں تم سے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی میری بات۔۔۔

روشنی غصے سے بولی تو وہ چُپ کر کے کچن سے باہر چلا گیا۔۔۔


اُفففففف میری آنکھیں۔۔۔

یہ کھانا بنانا کتنا مشکل ہے یار۔۔۔

وہ اپنی آنکھوں میں ٹھنڈا پانی ڈالتا ہوا بولا،


روشنی اندر کھڑی اُس کی باتیں سُن کر ہنس رہی تھی۔۔۔

کچھ دیر کے بعد کھانا بالکل ریڈی تھا۔۔

روشنی نے ڈاٸیننگ ٹیبل پر برتن رکھے اور کھانا لگایا۔۔۔


آ جاٶ کھانا ریڈی ہے۔۔۔

اُس کی آواز سُن کر ایان فوراً آ کر بیٹھ گیا۔۔

خوشبو تو بہت اچھی آ رہی ہے اور مجھے پتہ ہے کھانا خوشبو سے بھی زیادہ مزیدار ہوگا۔۔۔

وہ فوراً پلیٹ میں پلاٶ ڈالتا ہوا بولا،


پتہ نہیں کھا کر دیکھ لو۔۔

روشنی نے کہا،


ہممممممم بہت مزیدار۔۔۔

میری پیاری بیوی کے ہاتھوں میں تو بڑا ذاٸقہ ہے بھٸی۔۔۔

اتنا اچھا پلاؤ تو ہمارے گھر کے ملازم بھی نہیں بناتے۔۔۔


کیا مطلب ؟؟

تمہارے گھر ملازم کھانا بناتے ہیں کیا ؟؟؟

وہ حیرانگی سے بولی،


ہاں میرے گھر تو بہت عرصے سے ملازم کھانا بناتے ہیں۔۔ میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ امی بہت پہلے اس دنیا سے چلی گئی تھیں۔۔۔

ہماری ایک ہی بہن ہے اور وہ چھوٹی ہے اسے گھر کا کوئی کام نہیں آتا اور نہ ہی ہم اُسے کوئی کام کرنے دیتے ہیں۔۔۔۔


اوہ اچھا مطلب تمہارے سارے کام ملازم ہی کرتے ہیں۔۔۔

روشنی نے کہا،


ہاں بہت جلد آپ کو بھی میں اپنے گھر لے جاٶں گا وہاں آپ بس آرام کریں گی سکون کی ذندگی گزاریں گی۔۔۔


اتنے میں گیٹ پر بیل بجی۔۔

بیل کی آواز سُن کر ایان کا رنگ اُڑ گیا۔۔۔

اس وقت کون آگیا ہے ؟؟؟


کیا ہوا تم اتنے گھبرا کیوں گۓ ہو ؟؟

روشنی نے اُس کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،


و۔۔وہ میرے گھر والوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم یہاں پر ہیں تو پھر کون آیا ہوگا ؟؟

مسلسل بیل بج رہی تھی۔۔


جا کر دیکھو گے تو معلوم ہوگا نا کون آیا ہے ایسے یہاں بیٹھ کر تو نہیں پتہ چلے گا جاٶ جا کر دیکھو۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولی،


ایان کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے ؟؟؟

ابان شاہ کو کال کرتا ہوں۔۔

اُس نے فوراً ابان شاہ کا نمبر ڈاٸل کیا۔۔۔

ہیلو ؟؟


ہ۔۔ہیلو ابان کہاں ہو تم ؟؟؟

گھر کے گھر کے باہر نہ جانے کون ہے مسلسل بیل بجی جا رہی ہے۔۔۔


میں اس وقت حویلی ہوں تم کیمرے میں دیکھو کون ہے۔۔۔

زیادہ پریشان مت ہو یہاں تو ایسی کوٸی بات نہیں سننے کو ملی مجھے۔۔

کہیں بھاٸی نے اپنی پولیس ٹیم کو تو نہیں بھیج دیا یہاں۔۔۔

ایان یہ کہتا ہوا فوراً کیمرے کی ایل سی ڈی کی جانب بڑھا تو دیکھا باہر فارم ہاؤس کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیرا ہوا تھا۔۔۔


اوہ شٹ۔۔۔

جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔۔۔

باہر تو ہر طرف پولیس ہی پولیس ہے۔۔۔

ایان سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔


اوہ اب کیا ہوگا ؟؟؟

ہیلو ؟؟

ہیلو ؟؟

ایان ؟؟

اتنے میں فون کٹ گیا۔۔۔


پولیس فارم ہاٶس کے اندر آ چکی تھی۔۔۔

کہاں ہے وہ لڑکی ؟؟

گرفتار کر لو دونوں کو۔۔۔

اُسے ہاتھ بھی مت لگانا سمجھے۔۔۔

ایان سخت لہجے میں چیخا۔۔۔

تم لوگوں کو یہاں بھیجا کس نے ہے ؟؟

بھاٸی نے بھیجا ہے ؟؟

جی بالکل ہمیں ڈی ایس پی رامش نے یہاں بھیجا ہے آپ کو ہمارے ساتھ ہی جانا ہے۔۔۔


ایان فوراً کمرے کی طرف بھاگا اور روشنی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے باہر لے آیا۔۔۔

گھبرانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔


یہ پولیس یہاں کیسے ؟؟

پولیس کو ایسے اندر دیکھ کر روشنی حیران رہ گٸی۔۔۔


سر آپ کو ہم گھر چھوڑیں گے مگر انہیں ہم اپنے ساتھ تھانے لے کر جاٸیں گے۔۔۔


شٹ اپ۔۔۔

سوچنا بھی مت۔۔

یہ بھی میرے ساتھ گھر ہی جاٸیں گی۔۔۔

دُور ہٹو سب۔۔۔


سر ہمیں آرڈر دیا ہے ڈی ایس پی رامش نے پلیز آپ ہمارے کام میں مداخلت نہ کریں۔۔


یہ میری بیوی ہے میری عزت ہے میں انہیں بالکل بھی تمہارے حوالے نہیں کروں گا جاٶ بتا دو اپنے ڈی ایس پی کو جا کر۔۔۔

اگر اسے کسی نے بھی ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا جان سے مار دوں گا۔۔


انہوں نے اُن دونوں کو گاڑی میں بیٹھایا اور گھر کی طرف لے گۓ۔۔۔

**********

ابان شاہ یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا۔۔

اتنے میں غزل اپنی وھیل چٸیر کو چلاتی ہوٸی باہر آگٸی۔۔۔

تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟

تمہیں سکون کیوں نہیں ہے ؟؟


اُس نے پلٹ کر غصے سے غزل کی طرف دیکھا۔۔۔


ایسے کیا دیکھ رہے ہو ہاں ؟؟؟

وہ اُس کی جانب اپنی وھیل چٸیر لے جاتی ہوٸی بولی،


تمہیں بالکل شرم نہیں آتی ہے کیا ؟؟

میں صبح سے تمہیں کالز کر رہا ہوں مجال ہے تمہارا نمبر اب تک آن ہوگیا ہو۔۔۔

نمبر کیوں بند کر رکھا ہے تم نے کوئی خاص وجہ ؟؟؟؟

وہ سرد لہجے میں بولا،


میرا نمبر ہے میں بند رکھوں یا آن رکھوں تمہیں اس سے کیا ؟؟؟

اور تم بتاؤ مجھے تم کیوں کالز پہ کالز کر رہے تھے مجھے وجہ جان سکتی ہوں ؟؟؟


کیونکہ مجھے تم سے بات کرنی تھی اسی لیے میں تمہیں کالز پہ کالز کر رہا تھا مگر تم نے اپنا نمبر آن کرنے کی زحمت نہیں کی تو میں یہاں چلا آیا۔۔۔


میں تم سے بات کرنا نہیں چاہتی میں تمہیں پہلے بھی بول چکی ہوں۔۔۔

غزل نے کہا،


کیوں بات نہیں کرنا چاہتی ہاں ؟؟

پھر کیوں آٸی تھی میری ذندگی میں ہاں ؟؟؟

وہ اُس کی وھیل چٸیر کو گارڈن کے ایک کونے میں لے جاتا ہوا بولا،


ابان شاہ یہ کیا کر رہے ہو پاگل ہوگۓ ہو کیا تم ؟؟

چھوڑو میری وھیل چٸیر ورنہ میں شور مچا دوں گی۔۔۔

وہ غصے سے بولی مگر ابان شاہ اُس کی بات کو اگنور کر رہا تھا۔۔۔


تم چیخو چلاؤ جو مرضی کرو جس کو مرضی بلاؤ۔۔۔

یہاں دیکھو میری طرف۔۔

وہ اُس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔۔۔

اُس نے اپنے دونوں ہاتھ غزل کے گُٹنوں پر رکھے۔۔۔

میں تمہیں ایک لاسٹ بار یہ بات بتا رہا ہوں کہ ”میں تم سے محبت کرتا ہوں“۔۔۔

”تم میری محبت کی قدر کرو گی اور مجھ سے بالکل ویسے ہی محبت کرو گی جیسے میں تم سے محبت کروں گا“۔۔۔

وہ اُس کے قریب ہوتا ہوا بولا،


غزل کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔

ایک جھٹکے سے اُس نے وھیل چٸیر کو دیوار کے ساتھ لگایا اور اپنے بازو دونوں طرف ٹکا گیا جبکہ وہ اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔


تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے ابان شاہ۔۔۔

وہ آنسو ٹپکاتی بولی،


ڈونٹ وری میں تمہیں بالکل بھی نقصان نہیں پہنچاٶں گا میری جان۔۔۔

وہ یہ کہہ کر ایک جھٹکے سے اُس کے لبوں پر جُھکا تو غزل نے فوراً آنکھیں بند کرلی۔۔۔

ابان شاہ نے اُس کی گردن پر انگلیاں پھیرتے مزید اُس کو خود میں سمٹنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔

وہ چاہنے کے باوجود اس سے دور نہ ہوسکی۔۔۔ 

غزل ابھی اپنے کمرے میں گٸی ہی تھی کہ اچانک باہر سے شور کی آوازیں اُسے سُناٸی دی۔۔۔

یہ باہر کیسا شور ہے ؟؟

وہ مُشکل سے اپن وھیل چٸیر پر بیٹھی اور باہر کی جانب بڑھی۔۔۔

وہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی تو سامنے سے ابان شاہ آ رہا تھا۔۔۔

کہاں جا رہی ہو ؟؟

وہ اُس کی جانب بڑھتا ہوا بولا،


مجھے نیچے جانا ہے یہ شور کیسا ہے کیا ہوا ہے نیچے ؟؟؟

وہ حیرانگی سے بولی،


کچھ نہیں ہوا اندر کمرے میں چلو۔۔۔

وہ اُس کی وھیل چٸیر کو کمرے میں لے گیا۔۔۔


مجھے نیچے جانا ہے تم کیوں آۓ ہو یہاں ؟؟؟

چھوڑو میری وھیل چٸیر کو۔۔۔

وہ چیختی رہی مگر ابان شاہ اُسے کمرے میں لے گیا اور کمرہ اندر سے لاک کر لیا۔۔۔


مجھے یہاں تمہارے پاس چوہدری صاحب نے بھیجا ہے کہ غزل کے پاس جاٶ اُسے نیچے ہرگز مت آنے دینا۔۔۔

دیکھ لو ویسے قسمت جب ساتھ دینے پر آتی ہے تو محبوب کا دیدار دن میں کٸی بار کروا دیتی ہے۔۔۔


ابان شاہ فضول باتیں مت کرو اور مجھے یہ بتاٶ نیچے کیا چل رہا ہے اتنا شور کیوں ہے ؟؟؟

وہ سرد لہجے میں بولی،


ایان اور اُس کی بیوی روشنی آۓ ہیں نیچے بس اسی بات پر بہت تماشا لگا ہے نیچے۔۔۔

ابان شاہ نے جواب دیا۔۔۔


کیاااااا ؟؟؟

ایان اور اُس کی بیوی ؟؟؟

یہ کیا بول رہے ہو تم مجھے صحیح بات بتاٶ پلیز ابان۔۔۔

وہ پریشان لہجے میں بولی،


صحیح بات جاننا چاہتی ہو ؟؟

وہ اُس کی جانب بڑھا۔۔


ہاں صحیح بات جاننا چاہتی ہوں میں مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے پلیز بتاٶ مجھے۔۔۔

وہ دھیمے لہجے میں بولی،


ابان شاہ نے اُسے وھیل چٸیر سے اُٹھا کر بیڈ پر بیٹھا دیا۔۔۔

پہلے مجھے کس کرو یہاں پھر سب کچھ بتاٶں گا اور تمہیں نیچے بھی لے جاٶں گا۔۔۔


ابان یہ سب کیا ہے پاگل ہو کیا تم ؟؟

وہ غصے سے بولی،


میں نے کہا کس کرو مجھے۔۔

ابان شاہ نے اپنے لبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا،


تم پاگل ہو گئے ہو میں ابھی پاگل نہیں ہوئی سمجھے۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی تم نے یہ حرکت کی ہے تمہارا من نہیں بھرا کیا ؟؟؟

اگر کوئی آ گیا اور کسی نے دروازہ ناک کیا اور اس نے دیکھا کہ دروازہ تو لاک ہے لو جی پھر تم نہیں بچ سکتے ابان شاہ۔۔۔

وہ بول رہی تھی کہ ابان شاہ جھٹ سے اُس کے لبوں پر جھکا۔۔

وہ اٰسے خود سے دور کر رہی تھی مگر وہ کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا۔۔۔

وہ اُس کی گردن پر اپنا لمس شدت سے چھوڑنے لگا جس پر وہ تڑپ اُٹھی۔۔۔

ابان شاہ پلیز ایسا مت کرو۔۔۔

اُس نے دبی آواز میں التجا کی۔۔۔


بتاٶ مجھ سے محبت کرتی ہو نا ؟؟

وہ اُس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا،


ابان شاہ پہلے پیچھے ہٹو پھر تمہاری بات کا جواب دیتی ہوں میں۔۔۔

اُس نے ابان شاہ سے پیچھے ہوتے ہوۓ کہا،


نہیں پہلے مجھے میری بات کا جواب چاہٸے ہے بس ایک بار کہہ دو کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو پھر میں نکاح کر کے ہی تمہارے قریب آٶں گا اُس سے پہلے نہیں۔۔۔


”دیکھو ابان ایسے زبردستی ہم کسی کو محبت کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے ہیں تم کیوں نہیں سمجھتے ہو میری بات کو“۔۔۔


”یعنی کے تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے“۔۔۔

یہی کہنا چاہ رہی ہو نا تم ؟؟

بولو جواب دو یہی کہنا چاہ رہی ہو نا تم ؟؟؟

وہ اُس کا چہری غصے سے اپنی جانب کرتا ہوا بولا،


”نہیں ہے مجھے تم سے محبت“۔۔۔

بس سُن لیا ہے نا جواب۔۔۔

وہ منھ موڑتی بولی،


ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔

مگر میری ایک بات یاد رکھنا اس کی سزا تمہیں ہر روز دوں گا میں پھر ایک دن ایسا آۓ گا یا تو تمہیں مجھ سے محبت ہو جاۓ گی یا پھر سخت نفرت۔۔۔

یہ کہہ کر وہ غصے سے کمرے سے باہر نکل کر چلا گیا۔۔۔۔


غزل زور زور سے رونے لگی۔۔۔

یہ لڑکا کیوں نہیں سمجھتا میری بات۔۔۔

ایک ایسی لڑکی جو ویل چیئر پر بیٹھی ہو اس سے کون محبت کر سکتا ہے اس سے کون شادی کر سکتا ہے۔۔۔

مانتی ہوں یہ مجھ سے محبت کرتا ہے مگر میں اس کی زندگی برباد ہونے نہیں دینا چاہتی یہ ایک پرفیکٹ لڑکی ڈیزرو کرتا ہے۔۔۔

میں بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں جتنی یہ مجھ سے کرتا ہے مگر میں کبھی بھی اب اظہار نہیں کرنا چاہتی اپنی محبت کا کیونکہ میں چاہتی ہوں اس کی ذندگی میں ایک اچھی اور پرفیکٹ لڑکی آۓ۔۔۔۔

وہ روتی ہوٸی بڑبڑا رہی تھی۔۔۔


یہ لڑکی کون ہے ؟؟

چوہدری صاحب نے سخت لہجے میں کہا،


بیوی ہے یہ میری۔۔۔

ایان نے فوراً جواب دیا۔۔


مُنشی صاحب نے تمام پولیس والوں کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔

چوہدری صاحب اندر چل کر آرام سے بات کریں ایسے آپ کی طبعیت بگڑ جاۓ گی۔۔۔

مُنشی صاحب نے کہا،


اسے کہو یہاں سے چلا جاۓ ورنہ میں اس کے ساتھ بہت بُرا پیش آٶں گا۔۔

چوہدری صاحب نے ایان کو گھورتے ہوۓ کہا،


میں یہاں سے کہیں نہیں جاٶں گا ابو ہم دونوں اب اسی حویلی میں رہیں گے اور آپ کو اسے اپنی بہو تسلیم کرنا ہوگا۔۔۔

ایان نے کہا،


یہ نکاح تم نے ہماری مرضی کے خلاف کیا ہے۔۔

ہم نے تمہیں منع کیا تھا تم نے ہماری مرضی کے خلاف جا کر اچھا نہیں کیا۔۔۔

بہتر یہی ہے اس لڑکی کو جہاں سے لے کر ائے ہو وہاں ہی چھوڑ آٶ۔۔۔ اس طرح کی لڑکیاں ہماری حویلی میں نہیں رہا کرتی۔۔۔

زمانے والوں کو جب معلوم ہوگا کہ تم ایک ایسی عورت کو گھر لے آٶ ہو نکاح کر کے جو پہلے کٸی مردوں کی حوس کا نشانہ بن چکی ہے تو وہ لوگ ہم پر تھوکیں گے۔۔


ابو بس۔۔۔

اک لفظ بھی اور مت نکالیے گا اپنے منہ سے میری بیگم کے بارے میں۔۔

یہ سب باتیں سن کر ایان کے پیچھے کھڑی روشنی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے مگر وہ خاموش تھی۔۔۔

میری بیوی ایک پاک لڑکی ہے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی غلط نہیں سنوں گا میں۔۔۔

وہ اپنے ابو کی طرف دیکھتا ہوا رعب دار لہجے میں بولا،


نکل جاٶ میری حویلی سے۔۔۔

تم جیسی نکمی اولاد کے لیے اس حویلی میں کوٸی جگہ نہیں ہے۔۔۔

اس لڑکی کے پیچھے تم اپنے باپ کو ذلیل کر رہے ہو شرم آنی چاہٸے تمہیں۔۔۔


اتنے میں ہنی اور وقاص ماموں بھی حویلی پہنچ گۓ۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟؟

کون ہے یہ لڑکی ؟؟

وقاص صاحب نے حیرانگی سے اُن دونوں کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،


مُنشی صاحب چوہدری صاحب کو اندر لے گۓ۔۔۔

بیوی ہے یہ میری اور اب کوٸی بھی میرے ساتھ فضول بات نہیں کرے گا۔۔

ایان نے روشنی کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اپنے کمرے کی طرف لے گیا۔۔۔


کیا بدتمیزی ہے یہ ؟؟

اس نے نکاح کر لیا ہے اس لڑکی سے ؟؟

اُفففف الله۔۔۔ رامش کو جب معلوم ہوگا تو بہت بڑا طوفان آ جاۓ گا اس گھر میں۔۔۔

اس لڑکے کی عقل نہ جانے کہاں چلی گٸی ہے جو نکاح کر کے اس لڑکی کو اس حویلی میں لے آیا ہے۔۔۔۔

وقاص ماموں نے سخت لہجے میں کہا،


پتہ نہیں کیا کیا ہونا باقی ہے ابھی اس گھر میں۔۔۔

ہنستے بستے گھر کو نظر لگ گٸی ہے۔۔۔

ہنی بولا،


میں جانتی ہوں اپنی قسمت کو ہمیشہ سے بُرا ہی ہوتا آیا ہے میرے ساتھ۔۔

وہ سسکیاں بھر بھر کر رونے لگی۔۔۔

ایان نے روشنی کو اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔


مجھے معاف کر دیں روشنی۔۔۔

مجھے معاف کر دیں آپ کو میری وجہ سے یہ سب برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔

ایان نے دھیمے لہجے میں کہا،


تم کیوں معافی مانگ رہے ہو میرے تو قسمت ہی ایسے ہیں اور میں ان سب چیزوں کی عادی ہوں مجھے اب زیادہ فرق نہیں پڑتا۔۔۔

وہ روتی ہوٸی بولی،


ایان نے اُس کے آنسو صاف کیے اور اُس کا ماتھا چوما۔۔۔

آپ ایک اچھی لڑکی ہیں اور آپ کے قسمت بہت جلد اچھے ہونے والے ہیں۔۔

اگر میرے گھر والوں کا رویہ درست نہ ہوا آپ کے ساتھ تو ہم کوٸی اور چلے جاٸیں گے یہاں سے۔۔۔

اتنی دُور چلے جاٸیں گے جہاں ہمیں پہچاننے والا اور دُکھ دینے والا کوٸی بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔


دُکھ ہماری ذندگی کا حصہ ہوتے ہیں ایان تم نے ابھی ذندگی میں دُکھ دیکھے نہیں ہیں۔۔۔

ان دُکھوں کو سہہ کر ہی تو انسان صبر کرنا سیکھتا ہے انسان میں عاجزی پیدا ہوجاتی ہے۔۔


وہ ایان کا ہاتھ پکڑے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہی تھی۔۔۔


میں آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا میری جان اور ہمیشہ آپ کو دُکھوں سے دُور اور خوشی دینے کی کوشش کرتا رہا ہوں گا۔۔۔


******

کیسی جا رہی ہے میڈم آپ کی جاب ؟؟

احمد نے یشما کے رُوم میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا جہاں یشما کی امی بھی موجود تھی۔۔۔


آٶ احمد بیٹا۔۔۔

اُس کی پھپھو نے کہا،


کیسی ہیں آپ پھپھو ؟؟

طبعیت کیسی ہے اب آپ کی ؟؟؟

مجھے لگتا ہے سارا دن آپ بس کمرے میں ہی رہتی ہیں۔۔

احمد بولا،


ہاں بس سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے میں زیادہ وقت کمرے میں ہی رہتی ہوں کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔۔۔

یشما کی امی نے کہا،


میری امی لاکھوں میں ایک ہیں ان کی وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچ ہی نہیں سکتی ہے۔۔۔ امی نے ساری اپنی ساری ذندگی نہایت سادگی سے گزاری ہے اب وہ وقت آگیا ہے جب میں امی کی ہر خواہش کو پورا کروں گی۔۔۔

یشما نے اپنی امی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا،


ارے واہ یشما بہت اچھی سوچ ہے آپ کی۔۔

میری دعا ہے الله آپ کو مزید ترقی دے۔۔۔

احمد نے کہا،


احمد بیٹا یہ سب کچھ آپ کے بغیر ناممکن تھا آپ نے ہی یشما کی مدد کی اُسے ہمت دی تب ہی تو وہ آگے بڑھی اور اس مقام تک پہنچی ہے۔۔۔

احمد کی پھپھو نے اُس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،


احمد تمہیں پتہ ہے میں نے ایک گھر دیکھا ہے مجھے بہت پسند آیا ہے اور میری کوشش ہے میں اُس گھر کو جلد از جلد خرید لوں۔۔۔

یشما نے کہا،


کیااا ؟؟

مگر کیوں یہاں کیا مسٸلہ ہے آپ کو ؟؟

کیا کسی نے کچھ کہا ہے آپ سے؟؟

احمد نے حیرانگی سے کہا،


نہیں احمد کسی نے کچھ نہیں کہا مگر کب تک ہم ایسے تم پر ماموں جان پر بوجھ بن کر یہاں پڑے رہیں گے۔۔۔

اس لیے میں اب یہی کوشش کر رہی ہوں گھر لے کر امی کے ساتھ وہاں شفٹ ہو جاٶں۔۔۔


بس کر دیں یارر۔۔

سوچنا بھی مت میں آپ دونوں کو اکیلے ہرگز وہاں پر شفٹ نہیں ہونے دوں گا آپ یہاں ہی رہیں گی دونوں ٹھیک ہے نہ پھپھو۔۔۔

احمد نے سرد لہجے میں کہا،

اتنے میں احمد کی امی اچانک کمرے میں داخل ہوٸی جو باہر کھڑی کافی دیر سے ان کی باتیں کان لگا کر سُن رہی تھی۔۔۔


دونوں ماں بیٹیاں میرے بیٹے کو جھوٹی باتیں سُنا کر اسے اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے ہیں ہاں۔۔

وہ اُن ماں بیٹی کو گھورتی ہوٸی بولی،


بس اسی کی کمی تھی۔۔۔

ہمیں کوٸی ضرورت نہیں ہے مامی آپ کے بیٹے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی اُس میں اتنی عقل سمجھ تو ہے ہی کہ اُسے کس سے بات کرنی کس سے نہیں۔۔

میں تو خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ یہ آپ پر نہیں گیا ورنہ کیا بنتا اس کا۔۔۔

اس کی ساری عادتیں ماموں جان پر گٸی ہیں اور آپ کی اُس بیٹی کی ساری کی ساری عادتیں آپ پر گئی ہیں۔۔۔

یشما نے اپنی مامی کو ایک بات کے کٸی جواب دیے۔۔۔


بس بس لڑکی بہت زبان چلتی ہے تمہاری۔۔۔

کیا سیکھایا یے تمہاری ماں نے تمہیں کہ بڑوں سے ایسے بات کرتے ہیں ایسے زبان چلاتے ہیں ہاں ؟؟؟

تم ماں بیٹی یہاں پر رہ بھی رہی ہو اور ہمیں باتیں بھی سنا رہی ہو ؟؟؟

جانا ہے تو جاؤ ہم کون سا تمہیں روک رہے ہیں یہاں پر رہنے کے لیے۔۔۔۔


بس کر دیں آپ لوگ۔۔۔

پلیز سٹاپ اٹ۔۔۔

کیا ہوگیا ہے آپ کو امی ؟؟؟

میں نے سوچا چلیں آپ بھی یہاں آگٸی ہیں تو میں اپنے دل کی بات ہی کہہ دیتا ہوں آپ سب سے مگر توبہ ہے آپ کی تو ایک دوسرے کو باتیں سُنانا ہی ختم نہیں ہو رہی ہیں۔۔۔

احمد نے اونچی آواز میں کہا تو سب خاموش ہوگۓ۔۔۔


کیااا بات ؟؟

ایسی کیا بات ہے جو تم نے میرے ساتھ ان دونوں کے سامنے کرنی ہے ؟؟؟

بولو ؟؟؟

احمد کی امی سخت لہجے میں اُسے گھورتی ہوٸی بولی،


میں یشما کو پسند کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

یہ بولنے کی دیر تھی کہ اُس کی امی نے اُس کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا۔۔۔

دماغ تو ٹھیک ہے نہ تمہارا ؟؟؟

یہ بات کرنے سے پہلے تمہیں لاکھ بار سوچنا چاہٸے تھا۔۔۔

لڑکے اپنے ذہن سے یہ بات نکال دو تمہارے لیے یہی بہتر ہوگا میں اس لڑکی کو ہرگز اپنے گھر میں اب مزید رہنے نہیں دوں گی۔۔۔۔

چلے جاٶ میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔۔

وہ تلخ لہجے میں بولی،


وہ غصے سے اُٹھ کر وہاں سے چلاگیا۔۔۔


واہ بھٸی واہ تالیاں۔۔۔

جس نے اپنے بیٹے کو نہیں بخشا وہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کرے گی امی۔۔۔

پتہ نہیں آپ لوگوں نے یہ کیا بلا ڈھونڈی تھی ماموں جان کے لیے۔۔۔

اتنی بھی شرم نہیں کی کہ اپنے جوان جہان بیٹے کو کیسے تھپڑ مار رہی ہوں وہ بھی اُس کی پھپھو اور کزن کے سامنے جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔


لڑکی اپنی بکواس بند رکھو سمجھ آٸی۔۔۔

اپنا سامان لو اور میرے گھر سے نکلو ابھی اور اسی وقت۔۔۔

تم نے یہاں رہ کر میرے بیٹے کو اپنے جال میں پھنسایا ہے ورنہ وہ بالکل بھی ایسا نہ تھا۔۔۔


اوہ میری معصوم سی مامی جان دیکھیں تو سہی آپ کے بیٹے نے پسند بھی کیا تو یشما کو کیا ہاہاہا۔۔۔

یہ کہہ کر یشما اونچی اونچی ہنسنے لگی۔۔۔


یشما بس کر دو کیا ہوگیا ہے۔۔۔

یشما کی امی نے اُسے گھورتے ہوۓ دھیمے لہجے میں کہا،


تمہیں شاید میری بات کی سمجھ نہیں آٸی اپنا سامان لو اور نکلو میرے گھر سے عجیب لڑکی۔۔۔۔

وہ غصے سے بولی،

********

مجھے تو جیسے ہی معلوم ہوا میں تو دوڑتی ہوٸی چلی آٸی۔۔۔

کہاں ہے وہ لڑکی کہاں ہے ایان مجھے ملنا ہے ان سے۔۔۔۔

رمشا بولی،


ہاں ایسی خبریں سُن کر تم سے کہا رہا جاتا ہے تم تو انتظار میں ہوتی ہو ایسا کچھ ہو اور تم جاٸزہ لینے پہنچ جاٶ۔۔۔

ہمارے گھر میں اتنی ٹینشن ہے اور تمہیں بس اپنی پڑی ہے۔۔۔

غزل نے سرد لہجے میں کہا،


ٹینشن کس بات کی ہے کیا تم خوش نہیں ہو اپنی بھابھی کو دیکھ کر ؟؟؟

اُفففف میں یہ سوال کر کس سے رہی ہوں جو کبھی مجھے دیکھ کر خوش نہیں ہوٸی وہ کسی پراٸی کو دیکھ کر کیسے خوش ہوگی بھلا۔۔۔

میں جا رہی ہوں ایان کے کمرے میں اگر تم نے جانا یے تو بتاٶ۔۔۔


نہیں مجھے نہیں جانا تم جاٶ۔۔

یہ کہہ کر غزل اپنے موباٸل میں مگن ہوگٸی۔۔۔


ٹھیک ہے بھٸی مرضی ہے تمہاری میں ذرا اپنی دیورانی سے مل لوں۔۔۔

تمسخرانہ انداز میں بولتی ہوٸی وہ کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔


کہاں ہے ایان ؟؟

آج نہیں بچ پاۓ گا یہ مجھ سے۔۔

اس کی ہمت کیسے ہوٸی اس طرح سے ہماری اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی۔۔۔

رامش بہت غصے میں گھر آیا تھا۔۔۔


رامش آٶ یہاں بیٹھو پہلے۔۔۔

وقاص ماموں نے اُس کا بازو پکڑ کر اُسے صوفے پر بیٹھایا۔۔۔

دیکھو جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا ہے اب ایسے اتنا بھڑکنے کا فاٸدہ نہیں ہے۔۔۔

میں جانتا ہوں سب کو معلوم ہوگیا ہے ایان کی اس حرکت کے بارے میں مگر اب کیا کرسکتے ہیں ہم ؟؟؟؟

اس لیے زیادہ تماشا نہی کرنا لوگ تو آس میں بیٹھے کب اس حویلی سے کوٸی بات باہر آۓ اور وہ اُس بات کو بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کے ساتھ کریں۔۔۔

وقاص ماموں رامش کو سمجھا رہے تھے۔۔۔۔


ٹھیک ہے ماموں مگر ہمارا ایان سے کوٸی تعلق نہیں ہے وہ اُس لڑکی کو لے کر وہاں فارم ہاٶں چلا جاۓ وہاں جا کر رہے مجھے کوٸی مسٸلہ نہیں ہے مگر وہ دونوں مجھے اس گھر میں نظر نہیں آنے چاہٸے ہیں۔۔۔۔

یہ کہہ کر رامش وہاں سے چلاگیا۔۔۔ 

رمشا نے اپنے بال وال سیٹ کیے اور مسکراتے ہوۓ دروازے پر دستک دی۔۔۔

نہ جانے اُسے کس بات کی خوشی تھی۔۔


کون ؟؟

ایان نے کہا،


میں رمشا۔۔۔

کیا میں اندر آ سکتی ہوں۔۔۔

وہ جھٹ سے بولی،


ایان نے دروازہ کھولا۔۔۔

کیا ہوا کوٸی کام ہے کیا ؟؟؟

وہ اس وقت بہت اُداس اور پریشان تھا۔۔۔


نہیں کام تو کوٸی بھی نہیں ہے بس میں تم سے اور تمہاری بیگم سے ملنے آٸی ہوں۔۔۔


اس وقت ہم کسی سے ملنا نہیں چاہتے چلی جاٶ یہاں سے پلیز۔۔۔

یہ کہہ کر ایان دروازہ بند کرنے لگا تو پیچھے سے روشنی بول پڑی۔۔۔

آنے دو ایان اسے اندر۔۔۔


روشنی کی آواز سنتے ہی رمشا نے ایان کو دروازے سے پیچھے کیا اور کمرے میں چلی گٸی۔۔۔


ہیلو کیسی ہو ؟؟

رمشا یہ کہتے ہوۓ روشنی کی جانب بڑھی اور دونوں ایک دوسرے سے ملی۔۔۔


میں بالکل ٹھیک تم سُناٶ ؟؟؟

روشنی بولی،


میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔۔

مجھے تو جیسے ہی معلوم ہوا میں تو فوراً چلی آٸی مجھ سے تو انتظار ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

ایان تمہارا کیوں چہرہ اُترا ہوا ہے ؟؟؟

تم خوش نہیں ہو کیا ؟؟؟

رمشا ایان کی طرف دیکھ کر بولی،


مجھ سے زیادہ اور کون خوش ہو سکتا ہے بھلا ؟؟

تم نہیں جانتی کیا رامش بھاٸی نے فارم ہاٶس میں پولیس کی پوری ٹیم کو بھیج دیا تھا یہاں آ کر ابو سے وقاص ماموں سے الگ ذلیل ہوا ہوں میں۔۔۔

مجھے اپنی کوٸی پرواہ نہیں مگر روشنی کو کوٸی بات بھی کرے تو میرے من میں آگ لگ جاتی ہے۔۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولا،


ارے رامش کا تو ہر وقت دماغ ہی گھوما رہتا ہے تم فکر نہ کرو میں اس سے بات کروں گی سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔۔

بہت خوشی ہوٸی مجھے تم سے مل کر۔۔۔

میں ایان کی کزن ہوں رمشا۔۔۔ تمہارا کیا نام ہے ؟؟


میرا نام روشنی ہے۔۔

روشنی نے کہا،


ارے نام تو بہت اچھا ہے تمہارا۔۔۔

کب کی شادی تم دونوں نے ؟؟

کیسے ملاقات ہوٸی دونوں کی ؟؟

سب کچھ جاننے کے باوجود بھی رمشا اُس سے یہ سارے سوال کر رہی تھی۔۔۔


یہ تو تم ایان سے ہی پوچھو وہ زیادہ اچھے سے بتاۓ گا تمہیں۔۔

یہ کہہ کر روشنی اُٹھ کر واش روم میں چلی گٸی۔۔


ایان تم ہی بتا دو مجھے اپنی محبت کی اصل کہانی۔۔۔

میں تو بےتاب ہوں سننے کے لیے۔۔۔

رمشا ایان کے پاس جا کر بیٹھ گٸی۔۔۔


رمشا اس وقت کوٸی مُوڈ نہیں ہے ان باتوں کا پلیز ہمیں اکیلا چھوڑ دو جب وقت آۓ گا پھر سب کچھ بتا دیں گے۔۔۔

ایان سے سرد لہجے میں کہا،


ٹھیک ہے جا رہی ہوں میں۔۔

اتنے مان سے آٸی تھی میں یہاں مگر اکڑو ہیں یہاں پر سب کے سب۔۔۔

وہ بڑبڑاتی ہوٸی اُٹھ کر وہاں سے چلی گٸی۔۔۔


جب وہ کمرے سے باہر آٸی اُس کی نظر رامش کے کمرے پر پڑی۔۔۔

تھوڑا سا دروازہ کُھلا تھا اور لاٸٹ بھی آن تھی۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے اُس کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔


ہاۓ رامش۔۔۔

کیسے ہو ؟؟

وہ کمرے میں انیٹر ہوٸی۔۔۔


جہاں سے آٸی ہو وہاں ہی چلی جاٶ یہاں آنے کی اور اچھی بننے کی ضرورت نہیں ہے سمجھی۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولا،


کیا ہوگیا ہے ڈارلنگ اب تم ایسے کرو گے ؟؟

کیا تم نے اپنی بھابھی نہیں دیکھی ؟؟

ویسے آپس کی بات ہے بہت خوبصورت ہے وہ مگر مجھ سے کم۔۔۔

اب تو ایان نے بھی کرلی ہے شادی تم بتاٶ ہماری باری کب ہے ؟؟

وہ اُس کی جانب بڑھتی ہوٸی بولی،


یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے میں پہلے ہی بہت سٹریس میں ہوں پلیز جاٶ یہاں سے مجھے سکون چاہٸے ہے کچھ پل کے لیے۔۔۔

وہ سخت لہجے میں بولا،


میری جان کب تک ایسے مجھ سے دُور بھاگتے رہو گے آخر کب تک ؟؟

یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔

اب تم ایان کے نکاح کو تماشا مت بناٶ بلکہ اپنی اور میری شادی کی بات کرو چچا جان سے۔۔۔

وہ اُس کے بہت قریب جا چکی تھی۔۔۔

سب سے پہلے تو تم مجھ سے دُور ہو کر کھڑی ہو جاٶ۔۔۔

رامش نے اُسے خود سے کرتے ہوۓ کہا،

تم چاہے کتنی بھی جان چھڑوا لو مجھ سے مگر یاد رکھنا میں ہی تمہاری بیوی بنوں گی۔۔۔

”محبت کرتی ہوں میں تم سے سمجھے“۔۔۔

وہ اُسے گھورتی ہوٸی سخت لہجے میں بولی،


”مگر میرے دل میں تمہارے لیے اتنی سی بھی فیلنگز نہیں ہے محبت تو بہت دور کی بات ہے“۔۔۔۔

رامش اُس کی جانب بڑھا اور ایک جھٹکے سے اُس کی بازو پکڑ کر اُسے دیکھتے ہوۓ تلخ لہجے میں کہا،


تم کچھ بھی کہتے رہو رامش مگر میں تمہارا دل میں اپنی جگہ بنا کر رہوں گی اور تمہاری زندگی میں بھی آ کر رہوں گی۔۔۔

یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔

*****


آخر مسٸلہ کیا ہے تمہارے ساتھ کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑ دیتے تم ہاں ؟؟

اگر میں کال اٹینڈ نہیں کر رہی تو اس کا مطلب ہے میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی مگر تم تو اس قدر ڈھیٹ ہو کال پر کال کیے جاتے ہو۔۔۔

وہ کال اُٹھاتے ہی غصے سے بولی،


”کیا کروں رہا ہی نہیں جاتا تمہارے بغیر“۔۔۔

”پل پل تمہاری یاد مجھے تڑپاتی ہے میرے دل کو تمہاری طرف متوجہ کرتی ہے میں عشق کا مارا رہ نہیں سکتا اب تمہارے بغیر“۔۔۔

وہ دیھمے لہجے میں بولا،


پاگل ہوگۓ ہو تم کونسی وہ گھڑی تھی جب میری ملاقات تم سے ہوگٸی تھی۔۔

مجھے معلوم ہوتا اگر کہ تم تو میرے پیچھے ہاتھ دھو کر ہی پڑ جاؤ گے میں تو کبھی تم سے بات ہی نہ کرتی۔۔۔

میری زندگی میں اور بھی سو ٹینشن ہیں مگر تم اُففففف۔۔۔

تنگ آگٸی ہوں میں تم سے۔۔۔

وہ بھڑکی۔۔۔


کتنی اچھی باتیں کرتی ہو نہ تم۔۔۔

دل چاہتا ہے تم بولتی جاؤ اور میں سنتا رہوں۔۔۔

وہ پیار بھرے لہجے میں بولا،


اُففففف اگر میں نے تم سے دو منٹ بھی اور بات کی تو میں پاگل ہو جاؤں گی۔۔۔

اس لیے بہتر ہے فون بند کرو اور جا کر سو جاؤ۔۔۔

یہ کہہ کر غزل نے کال بند کر دی۔۔۔


کال بند کر کے اُس نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور سکون کا سانس لیا۔۔

پیچھے ہی پڑگیا ہے۔۔۔

پھر سے موباٸل بجنے لگا۔۔۔۔

الله جی اب کس کی کال ہے ؟؟؟

یہ کہتے ہوۓ اُس نے جب موباٸل کی طرف دیکھا تو ابان شاہ کی ہی کال تھی۔۔۔

اب تو میں اسے بلاک کروں گی اس نے میرا جینا مشکل کر دیا ہے۔۔۔

اگر میں نے اسے بلاک کر دیا تو یہ یہاں آ کر پھر سے ہی سب حرکتیں کرے گا۔۔۔

نہیں نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔

بڑبڑاتے ہوۓ غزل نے کال اٹینڈ کی۔۔۔

ہیلو ؟؟

بولو اب کیا مسٸلہ ہے تمہارے ساتھ ؟؟

ابان شاہ میں تمہیں بلاک کر دوں گی یاد رکھنا۔۔ مجھے نہیں کرنی تم سے بات مت کرو مجھے کال۔۔۔

وہ غصے سے بولی،


مگر مجھے تو کرنی ہے نہ تم سے بات۔۔۔

اور یہ بلاک بلاک کرنے کی دھمکی مجھے مت دیا کرو سمجھی ورنہ میں حویلی آ جاٶں گا یاد رکھنا تم بھی۔۔۔


اباد شاہ بتا دو کیوں مجھے تم تنگ کر رہے ہو کب تک ایسا کرتے رہو گے میرے ساتھ ؟؟

وہ دھیمے لہجے میں بولی تو وہ مسکرانے لگا۔۔۔


جب تک تم مجھ سے اظہار محبت نہ کر لوں میں ایسا ہی کرتا رہوں گا تمہارے۔۔۔

ابان شاہ نے کہا،


اظہار محبت ؟؟

کیسے کروں میں تم سے اظہار محبت ؟؟؟

غزل نے جیسے ہی یہ کہا اچانک رمشا کمرے میں اینٹر ہوٸی۔۔۔


ہمممم اظہار محبت۔۔۔

کس سے اظہار محبت کی باتیں ہو رہی ہیں بھٸی ؟؟؟

ہمیں بھی تو بتاؤ کون ہے وہ خوش نصیب جس سے تم اظہار محبت کی باتیں کر رہی ہو۔۔۔


غزل نے اُسی ٹاٸم کال بند کر دی اور وہ بہت زیادہ گھبرا گٸی تھی۔۔۔

ک۔۔کوٸی نہیں۔۔

ت۔۔تم بتاٶ مل آٸی ہو ایان اور اُس کی بیگم سے۔۔۔

وہ لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں بولی،


ہاں میں تو بل ائی ہوں دو دو سے اچھی لڑکی ہے وہ اور اُس کا نام پتہ کیا ہے اُس کا نام روشنی ہے۔۔۔

خیر یہ چھوڑو مجھے تو یہ بتاؤ اظہار محبت کس سے کر رہی تھی تم ؟؟؟

اور پلیز جھوٹ مت بولنا۔۔۔


کیا ہوگیا ہے تمہیں کسی سے نہیں کر رہی تھی وہ نوشین کی کال تھی بس اُسی سے بات کر رہی تھی۔۔۔۔

غزل جھٹ سے بولی،


بس بس میرے ساتھ زیادہ جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے اچھے سے پتہ ہے تم کسی لڑکے سے ہی بات کر رہی تھی اور اب معصوم بننے کی بھرپور کوشش کر رہی ہو۔۔


کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں ہر وقت تم دوسروں کی جاسوسی کرتی رہتی ہو ؟؟؟

جب میں نے کہا ہے کہ کوئی نہیں ہے پھر کیوں بار بار مجھ سے پوچھ رہی ہو ؟؟؟

غزل نے سرد لہجے میں کہا،


ٹھیک ہے نہیں بتانا تو تمہاری مرضی ہے غزل میں اب رامش کو جا کر بتاٶں گی کہ تمہاری بہن نہ جانے کس لڑکے کے ساتھ اظہار محبت کی باتیں کر رہی تھی وہ تم سے خود پوچھ لے گا۔۔۔

وہ تمسخرانہ انداز میں بولی،


تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہاں۔۔۔

کیسی فضول باتیں کر رہی ہو تم۔۔۔

تم میرے بھائی کو میرے خلاف کرنا چاہتی ہو اور کوئی بات نہیں ہے۔۔۔

غزل غصے سے بولی،


اگر تم چاہتی ہو کہ میں یہ بات کسی سے نہ کروں تو تمہیں وہ کرنا ہوگا جو میں تم سے کہوں گی۔۔۔۔

تو اب یہ مت سمجھتا کہ میں کچھ نہیں جانتی میں سب کچھ جانتی ہوں تمہارے اور ابان شاہ کے بارے میں۔۔۔۔

رمشا اُس کے پاس بیٹھتی ہوٸی سخت لہجے میں بولی،


بس کر دو میرے اور اُس کے درمیان ایسا کچھ بھی نہیں ہے تمہیں ضرور کوٸی غلط فہمی ہوٸی ہے۔۔۔

تم بس میرے اور میرے بھاٸیوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتی ہو۔۔۔

غزل بولی،


بس بس بس بہت ہوگیا تمہارا۔۔۔

اب میں تمہیں بتاٶں گی میں کیا چیز ہوں۔۔

میرا فاٸدہ تو تم سارے اُٹھا رہے ہو جب جی چاہتا ہے وہ تمہارا بھاٸی میری بےعزتی کر دیتا ہے میں صرف اس لیے خاموش رہتی ہوں کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

رمشا سخت لہجے میں بولی،


تم اگر میرے بھاٸی سے محبت کرتی ہو تو جا کر اُن سے کہو مجھ سے کیا کہہ رہی ہو میں تمہاری اس معاملے میں کوئی مدد نہیں کر سکتی۔۔۔

غزل نے منع تو کر دیا مگر وہ ڈر رہی تھی کہ اگر اس بے وقوف نے رامش کو بتا دیا تو کیا ہوگا۔۔۔


غزل تمہارے پاس صرف اور صرف اج رات کا وقت ہے سوچ لو اور سمجھ لو۔۔

اگر تم نے میری بات ماننے سے انکار کیا تو میں سب گھر والوں کو جا کر تمہارے اور اس ابان شاہ کے بارے میں سب کچھ بتا دوں گی۔۔۔

میں اچھے طریقے سے جانتی ہوں مجھے پورا یقین ہے کہ تم دونوں کے درمیان کچھ نہ کچھ تو چل رہا ہے اور اگر نہیں بھی چل رہا میں تب بھی بتا دوں گی مجھے تم سے کوئی غرض نہیں ہے اب اور نہ ہی کوئی ہمدردی ہے مجھے اب صرف رامش کو پانا ہے صرف اور صرف رامش کو۔۔۔۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گٸی۔۔۔۔


اُس کے کمرے سے چلے جانے کے بعد غزل اونچی اونچی رونے لگی۔۔۔

یاالله میری مدد کر یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ؟؟؟

یہ بے وقوف لڑکی میرے بھائیوں کی نظر میں مجھے گرانا چاہتی ہے میری بنی بنائی عزت کو خراب کرنا چاہتی ہے۔۔۔

ابان شاہ نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا منع بھی کر رہی ہوں میں کہ مت کرو کال مت کرو کال مگر شاید اسے میری باتیں سمجھ میں ہی نہیں آتی ہیں۔۔


اُس نے فوراً موباٸل آن کیا تو دیکھا ابان شاہ کی چھ کالز اور بیس میسجز آۓ ہوۓ تھے۔۔۔

غزل نے فوراً اُس کا نمبر ملایا۔۔۔

کافی دیر تک وہ اسے کال کرتی رہی مگر ابان شاہ نے کال اٹینڈ نہیں کی کیونکہ وہ سو چکا تھا۔۔۔

غزل نے اُسے کافی سارے میجسز سینڈ کر دیے۔۔۔

آج کے بعد مجھے کبھی کال مت کرنا تمہاری وجہ سے میری ذندگی مشکل میں پڑ گٸی ہے۔۔

جب میں تم سے کال پر بات کر رہی تھی تو رمشاہ اچانک کمرے میں اگئی تھی اور اس نے ساری باتیں سن لی ہیں اور وہ اب مجھ سے کہہ رہی ہے میں سب کچھ جا کر رامش کو بتا دوں گی۔۔۔

کہہ رہی تھی نا میں تم سے کہ مت کرو مجھے کال تمہیں شاید میری باتیں سمجھ میں ہی نہیں آتی ہیں۔۔۔

مت کرنا آٸندہ مجھے کال مت کرنا آٸندہ مجھے میسج اور مت آنا آئندہ میرے سامنے۔۔۔

یہ کہہ کر اُس نے موباٸل ساٸڈ پر رکھا اور رونے لگی۔۔۔

******

کیا ہوا ہے پریشان لگ رہے ہیں آپ سب ٹھیک ہے نہ ؟؟؟

رامش نے اپنے ماموں وقاص سے کہا،

کیا ٹھیک ہونا ہے یار سب اتنی تو ٹینشنز ہیں۔۔۔

ایان کی وجہ سے بہت پریشان ہوں میں۔۔۔

سوچا تھا پہلے اپنی شادی کروں گا پھر اپنے بھانجوں کی شادی دھوم دھام سے کروں گا مگر بھانجے صاحب اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے لگے ہیں۔۔۔۔


کیا کہہ سکتا ہوں ماموں میں اس بارے میں اس نے جو کرنا تھا وہ کر چکا ہے۔۔۔

آپ بتاٸیں آپ کا کیا پلان ہے شادی کا ؟؟

ڈھونڈ لیں آپ اپنے لیے کوئی لڑکی اب۔۔۔

رامش نے کہا،


ڈھونڈ لی ہے یار۔۔۔

ابھی صرف تمہیں بتا رہا ہوں یہ بات ابھی تک میں نے گھر میں کسی سے بھی نہیں کی ہے۔۔۔

میں آج کل میں بات کرنے ہی والا تھا چوہدری صاحب سے مگر ایان صاحب نے اتنا اچھا سرپراٸز دے دیا اُس کے بعد کچھ کہنے اور کرنے کی ہمت ہی نہیں رہی۔۔۔


اوہ اچھا تو فائنلی آپ نے ڈھونڈ ہی لی اپنے لیے لڑکی۔۔۔

کون ہے وہ کہاں رہتی ہے کیسی ہے ؟؟

کچھ بتاٸیں اُس کے بارے میں اور زیادہ دیر نہ کریں ابو سے بات کریں اس بارے میں اور اپنی شادی کریں اب آپ کی عمر ہو گئی ہے۔۔۔

رامش نے مسکراتے ہوۓ کہا،


ہاں ہاں میں تو اسی سال کا بوڑھا بابا ہوگیا ہوں نا۔۔۔۔

بس اب کل ہی بات کروں گا بھاٸی صاحب سے تاکہ آپ لوگ اُن کے گھر جا کر بات پکی کر آٶ اور شادی کی تاریخ بھی طے کر آٶ۔۔


ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر یہ تو بتائیں وہ ہے کون کہاں رہتی ہے ؟؟

رامش نے کہا،


تم جانتے ہو اس لڑکی کو اور تم نے اسے دیکھا بھی ہوا ہے وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ غزل کی دوست نوشین کی بہن ہے۔۔۔


یہ سُن کر رامش حیران رہ گیا اور ہنسنے لگا۔۔۔

واہ ماموں کیا بات ہے آپ کی۔۔۔

میں نے دیکھا ہے وہ کافی بار یہاں آٸی ہے لگتا ہے اس کے آنے اور جانے میں ہی آپ نے اسے پھنسا لیا ہے۔۔۔

رامش جھٹ سے بولا،


ارے نہیں ایسا نہیں ہے میں نے اُسے نہیں پھنسایا بس دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بس پسند کرنے لگ گئے۔۔۔

میں تو بس یہ سوچ رہا ہوں جب غزل کو پتہ چلے گا اس کا پتہ نہیں کیا ری ایکشن ہوگا۔۔۔

وقاص صاحب نے کہا،


فکر نہ کریں میری جان کا اچھا ہی ری ایکشن ہوگا وہ تو بلکہ خوش ہوگی کہ اس کی دوست کا یہاں پر آنا جانا زیادہ ہو جائے گا۔۔۔

رامش نے کہا،


ہاں سہی کہا تم نے۔۔۔

اچھا یہ بتاٶ اُس لڑکے کا کیا بنا ؟؟

کیا وہ ابھی تک جیل میں ہی ہے ؟؟


جی وہ ابھی تک جیل میں ہی ہے اور وہ ابھی کٸی سال جیل میں ہی سڑنے والا ہے۔۔

میرا تو بس نہیں چلتا کہ اُسے نوچ لوں مگر اُس کے بوڑھے ماں باپ دیکھ کر مجھے ترس آ جاتا ہے۔۔۔

وہ لڑکا اس قدر اوارہ ہے کہ اپنے ماں باپ کی اتنے محنت سے کمائی ہوئی جائیداد کو ایسے لٹا رہا ہے جیسے پتہ نہیں کیا آگیا ہو۔۔۔

غزل کے علاوہ وہ اور بھی بہت سی لڑکیوں کو یونیورسٹی میں تنگ کرتا تھا اب اس کا علاج میں اچھے سے کروں گا سُدھر کر ہی باہر نکلے گا۔۔۔

رامش نے سرد لہجے میں کہا،

*******

آیا کیوں نہیں اب تک یہ ڈی ایس پی ؟؟

ہر روز میں اتنے اچھے سے تیار ہو کر آتی ہوں مگر منہوس کہیں کا میرے آفس کی طرف آتا ہی نہیں ہے۔۔۔

میں تو بس اس دن کے انتظار میں ہوں جب وہ مجھے دیکھے گا اور نہ جانے کیا ری ایکشن دے گا۔۔۔۔

خیر مجھے کیا ؟؟

بھلا میں اس کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہوں۔۔۔

یشما بے بی جسٹ فوکس اون یور ورک۔۔۔

جیسے اس نے مجھے اپنی زندگی میں اگنور کیا ہے اب میں اسے بتاؤں گی اچھے طریقے سے۔۔۔

نہایت مطلبی انسان نکلا۔۔۔

چلو مان لیا کہ اس نے میری مدد کی تھی مگر مجھے اتنا ضرور محسوس ہوا تھا کہ اسے کہیں نہ کہیں میں پسند بھی آگٸی تھی۔۔۔۔

اُففففف میں یہ سب کچھ کیوں سوچ رہی ہوں۔۔

نو یشما نو ایسے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچنا۔۔۔

مجھے صرف اپنے کام پر دھیان دینا ہے۔۔۔

وہ اپنے آفس میں اکیلی بیٹھی بڑبڑا رہی تھی۔۔۔

جب ابان شاہ صبح اُٹھا تو سب سے پہلے اُس نے غزل کو گُڈ مارننگ کا میسج کرنے کے لیے موباٸل ہاتھ میں پکڑا۔۔۔

جب اُس نے میسج پڑھے تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔۔۔

یہ رمشا تو مجھے پہلے دن سے ہی فساد ڈالنے والی لگتی ہے عجیب لڑکی۔۔۔

وہ غصے سے بڑبڑایا اور اس نے فوراً غزل کو میسج سینڈ کیے۔۔

تمہیں پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے میں حویلی آٶں گا اور تم سے ملوں گا ہم بیٹھ کر آرام سے بات کریں گے اور تمہیں اس رمشاہ سے ڈرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔۔۔


ابان شاہ۔۔۔

ابان شاہ اُٹھ جاٶ اور یہ کچھ چیزیں لا کر دو مجھے بازار سے۔۔۔

آسیہ بیگم کمرے میں داخل ہوٸی۔۔

جی امی اُٹھ گیا ہوں میں۔۔۔

کیا چیزیں لانی ہیں ؟؟

وہ اپنے بستر سے اُٹھا اور شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر بال سیٹ کرنے لگا۔۔۔


بعد میں سیٹ کر لینا یہ بال پہلے جا کر مجھے چیزیں لا دو۔۔۔

آسیہ بیگم تھوڑے سنجیدہ لہجے میں بولی،


کیا ہو گیا ہے امی جانے لگا ہوں۔۔۔

ابان شاہ نے جب اپنی امی کے ہاتھ سے پیسے اور پرچی پکڑی تو اُس پرچی پر کافی زیادہ کھانے پینے کا سامان لکھا ہوا تھا۔۔۔

پر جی پڑھنے کے بعد وہ اپنی امی کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔

خیریت امی کوئی آ رہا ہے کیا گھر پر ؟؟

ابان شاہ نے اپنی امی کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا،


ہاں آج کچھ لوگ آ رہے ہیں تمہیں دیکھنے کے لیے اس لیے یہ سب چیزیں منگوا رہی ہوں جا کر لے آٶ جلدی سے۔۔۔

آسیہ بیگم نے جواب دیا۔۔۔


اپنی امی کی یہ بات سن کر ابان شاخ کو غصہ آگیا۔۔۔۔

کیا مطلب ہے اس بات کا مجھے کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں ؟؟

آپ کو میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں ابھی کسی بھی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولا،


اچھا ؟؟

چوہدری صاحب کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو تم ؟؟؟

وہ جھٹ سے بولی،


امی آپ کیوں بات کو نہیں سمجھ رہی ہیں۔۔

میں پہلے بھی آپ سے یہ بات کر چکا ہوں کہ میں غزل کو پسند کرتا ہوں اس سے محبت کرتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔

پھر آپ کیوں بار بار کہیں اور جاتی ہیں لڑکی دیکھنے ؟؟؟

ابان شاہ نے کہا،


چوہدری صاحب اور اُن کے بیٹے کبھی بھی اس رشتے کے لیے نہیں مانیں گے میں اچھے سے جانتی ہوں اور یہ بات میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں شاید تمہاری سمجھ میں میری باتیں نہیں آ رہی۔۔۔

تم صرف اپنے باپ کے تعلقات خراب کرنا چاہتے ہو ان لوگوں کے ساتھ اور کچھ بھی نہیں۔۔۔


ابان شاہ نے وہ سامان کی پرچی پھاڑ کر پھنک دی۔۔۔

نہ ہی میں کوئی سامان لے کر آٶں گا اور نہ ہی میں ان لوگوں کے سامنے آؤں گا آپ کا جس کو دل کرتا ہے گھر میں بلائیں مجھے کوئی غرض نہیں کسی سے۔۔۔

یہ کہہ کر غصے سے وہ کمرے سے نکل کر چلا گیا۔۔۔۔


اس لڑکے نے مجھے پاگل کر دیا ہے کیوں سمجھ نہیں رہا ہے یہ۔۔۔

ابان شاہ۔۔۔

ابان شاہ۔۔۔

وہ اپنا سر پکڑ کر رونے لگی۔۔۔


ابان شاہ سیدھا حویلی کی طرف نکل گیا۔۔

********

روشنی باہر ٹریس میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی۔۔۔

ٹیرس رامش کے کمرے کے بالکل سامنے تھا۔۔۔

جیسے ہی وہ صبح سات بجے آفس جانے کے لیے تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلا تو اُس نے دیکھا ٹیرس کا دروازہ کُھلا ہے۔۔۔

وہ بند کرنے کے لیے ٹیرس کی جانب بڑھا۔۔۔

جیسے ہی وہ دروازہ بند کرنے لگا تو اُس کی نظر روشنی پر پڑی جس کا چہرہ دوسری جانب تھا۔۔۔

کون بیٹھا ہے ؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا تو روشنی نے فوراً پلٹ کر دیکھا۔۔۔

جی میں بیٹھی ہوں۔۔۔

اُسے دیکھتے ہی رامش کو غصہ آگیا۔۔۔

اپنے کمرے میں ہی رہا کریں آپ۔۔۔

کمرے سے باہر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔۔۔


رامش کی بات سے روشنی بہت ہرٹ ہوٸی اور روتی ہوٸی کمرے میں چلی گٸی۔۔۔

ایان چوہدری مزے سے سویا ہوا تھا اور وہ ایک ساٸڈ پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔


مجھے چلے جانا چاہٸے یہاں سے مجھے مر جانا چاہٸے اذیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے میری ذندگی میں۔۔۔

بس آج موقع ملتے ہی میں یہاں سے چلی جاٶں گی مجھ سے ایسے کسی کا تلخ لہجہ برداشت نہیں ہوتا مجھے دُکھ ہوتا ہے اب۔۔۔۔

کیا یہ سارے تلخ لہجے ساری اذیتیں میرے لیے ہی ہیں ؟؟

وہ سسکیاں بھرتی ہوٸی رو رہی تھی۔۔


اچانک ایان کی آنکھ کھلی تو وہ اسے ایسے روتی ہوٸی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔۔۔

وہ فورا سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔

کیا ہوا ہے روشنی ؟؟

رو کیوں رہی ہیں آپ ؟؟

کسی نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟

وہ اُس کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔


تم مجھے آزاد کر دو ایان۔۔

پلیز مجھے آزاد کر دو مجھے جانے دو مجھے چھوڑ دو میں نہیں رہنا چاہتی یہاں جانے دو مجھے۔۔۔۔


روشنی کیا ہوگیا ہے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟؟؟؟

کسی نے کچھ کہا ہے کیا مجھے بتاٸیں پلیز۔۔

اُس نے روشنی کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا،


نہیں کسی نے کچھ نہیں کہا بس مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔

تم بھی میری وجہ سے اپنے گھر والوں سے دُور ہوگۓ ہیں وہ تم سے بات تک کرنا اچھا نہیں سمجھتے مجھے یہ سب چیزیں دیکھ کر اچھا محسوس نہیں ہو رہا ہے۔۔۔۔


چُپ ہو جاٸیں اور یہ سوچنا بند کر دیں کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔۔

ایسا بالکل بھی نہیں ہے سمجھی آپ۔۔۔

میری فکر چھوڑ دو مجھے کون بُلاتا ہے کون نہیں مجھے کوٸی فرق نہیں پڑتا میں نے آپ کو حاصل کرنا تھا بس وہ میں کر چکا ہوں اب مجھے کسی سے کوٸی فرق نہیں پڑتا۔۔۔

اب آپ بالکل بھی نہیں روٸیں گی۔۔۔

ایان نے روشنی کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔


اب آپ کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہ دیکھوں میں۔۔۔

اب اُٹھ ہی گۓ ہیں تو ناشتہ بھی کر لیتے ہیں ٹاٸم سے۔۔۔

میں نیچے جا کر اچھا سا ناشتہ بنواتا ہوں دونوں کے لیے۔۔۔

ایان یہ کہہ کر کمرے سے باہر گیا۔۔۔

جب وہ نیچے گیا تو رامش اور چوہدری صاحب ٹی وہ لاٶنج میں بیٹھے صبح کی چاۓ پی رہے تھے۔۔۔


اپنی بیوی سے کہہ دو کمرے سے باہر آنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

رامش نے سرد لہجے میں کہا تو ایان صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔


اچھا تو مجھے اب سمجھ میں آیا وہ کیوں رو رہی تھی۔۔۔

آپ ہی نے اُسے کچھ کہا ہے ہاں نہ ؟؟

ایان نے ذرا سے غصے میں کہا،


ہاں میں نے ہی اُسے کہا ہے وہ ٹیرس میں بیٹھی تھی۔۔

کمرے سے باہر نہیں آۓ گی وہ کمرے میں ہی رہے گی میں نے اس گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا اس لیے بہتر ہے اُسے اپنی زبان میں سمجھا دو تم۔۔۔


بس رامش بھاٸی بس۔۔۔

حد ہوتی ہے کسی بات کی ویسے۔۔

ابو کیا ہوگیا ہے آپ کو کچھ بولتے کیوں نہیں ہیں آپ ؟؟

اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرنا کوئی گناہ تو نہیں ہے۔۔۔

اگر وہ ٹیرس میں بیٹھی ہوئی تھی تو بھائی کا کیا مقصد بنتا تھا اسے جا کر یہ کہنے کا کہ کمرے سے باہر نظر مت آنا مجھے۔۔۔

یہ گھر ہم سب کا ہے آپ ایسے کسی پر پابندی مسلط نہیں کر سکتے۔۔۔

ایان نے سخت لہجے میں کہا،


بس بس۔۔۔

تم پہلے ہی اپنی مرضی کر کے ہماری بہت بےعزتی کروا چکے ہو اب مزید تمہاری ایک بھی بات نہیں سُنوں گا میں۔۔۔

رامش یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔


کوٸی بات نہیں ابو آپ نے جتنا بُرا کرنا ہے میرے ساتھ کرلیں کوٸی مسٸلہ نہیں مگر یاد رہے میری بیوی کو اگر کسی نے ایک لفظ بھی بولا تو میں اُسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔

چوہدری صاحب نے ایان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا وہ اخبار پڑھنے میں مگن تھے۔۔۔۔

*****

جیسے ہی رامش اپنی گاڑی سے اُترا تو اُس کی نظر سامنے یشما پر پڑی جو گاڑی سے اُتر رہی تھی۔۔۔

وہ اُسے ایسے اچانک دیکھ کر حیران ہوگیا۔۔


یہ یہاں ؟؟؟

وہ بڑبڑایا۔۔۔

اُسے جاب کرتے ہوۓ آلموسٹ ایک ہفتہ ہوگیا تھا مگر رامش نے اُسے ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا۔۔


یشما نے بھی رامش کو دیکھ لیا تھا مگر وہ جان بوجھ کر اُسے اگنور کر کے سیدھا اندر چلی گٸی۔۔۔

رامش اُس کے پیچھے پیچھے گیا۔۔۔

یشما ؟؟

تم یہاں کیسے ؟؟

رامش نے کہا،


میرے پیچھے مت آٶ جاٶ یہاں سے سب عجیب نظروں سے گھور رہے ہیں ہمیں۔۔

یشما نے سرد لہجے میں کہا تو اُس نے یشما کا بازو پکڑا اور اُسے اپنے آفس کی طرف لے گیا۔۔۔


چھوڑو مجھے۔۔۔

پاگل ہو گئے ہو کیا کر رہے ہو ؟؟

وہ غصے سے اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوٸی بولی،


کہاں تھی تم اتنے عرصے سے ؟؟

اور مجھے یہ بتاؤ یہاں پر کیا کر رہی ہو ؟؟

کیسے آٸی یہاں تک ؟؟

ابھی کل کی بات ہے میں نے تمہیں پوری گینگ کے ساتھ پکڑا تھا اور آج تم یہ پولیس والا یونیفارم پہن کر پولیس اسٹیشن میں ڈیوٹی کر رہی ہو واہ بھٸی واہ۔۔


تم مجھ سے دُور رہو دھوکہ باز انسان۔۔

میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی اب۔۔۔

وہ تلخ لہجے میں بولی،


ظاہر ہے اب تم یہاں جاب کرتی ہو میری شکل تو تمہیں دن رات دیکھنی پڑے گی۔۔۔

کیا میں پوچھ سکتا ہوں تم مجھ سے اتنی نفرت کیوں کر رہی ہو ؟؟

آخر وجہ کیا ہے ؟؟؟

وہ اُس کی جانب بڑھتا ہوا بولا،


واہ رامش واہ۔۔

تم ابھی بھی مجھ سے ہی پوچھ رہے ہو کہ میں تم سے نفرت کیوں کر رہی ہوں میں تمہیں اگنور کیوں کر رہی ہوں۔۔۔

مجھے افسوس ہے اس بات کا کہ میں نے تم جیسے انسان سے امید لگائی۔۔۔

میں مانتی ہوں تم نے مشکل وقت میں میرا بہت ساتھ دیا ہے مگر تم جیسے مجھے چھوڑ کر گئے کبھی پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔۔

تمہیں دن میں دس دس بار کالز کرتی تھی تم میری کال اٹینڈ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ نفرت کیوں کر رہی ہوں۔۔۔

تمہارا بہت شکریہ جو کچھ تم نے میرے لیے کیا میری ماں کے لیے کیا مگر پلیز اب میرے راستے میں مت آنا کیونکہ دوبارہ ٹوٹنا نہیں چاہتی میں۔۔۔

یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل کر چلی گٸی اور رامش اُس کی باتوں کو سوچنے لگا۔۔۔

*******

رمشا اچانک غزل کے کمرے میں آٸی۔۔۔

اپنے بھاٸی سے آج ہی تم بات کرو گی اور اُسے ہر صورت نکاح کے لیے مناٶ گی سمجھی۔۔

اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہارا بہت برا حشر کروں گی یاد رکھنا۔۔

رمشا نے اُسے گھورتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا،


تم کیوں میری جان کی دشمن بنی ہو ؟؟؟

اگر بھائی سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو جا کر خود بات کرو میں کیوں بات کروں ان سے بات ؟؟؟

غزل نے کہا،


زیادہ زبان چلائی تم نے تو میں تمہاری زبان کاٹ دوں گی۔۔۔

میں تمہاری ایک ایک بات جا کر رامش کو بتا دوں گی وہ تمہیں زندہ زمین میں گاڑ دے گا۔۔۔

بڑی اکڑ ہے نہ تم میں۔۔

بڑا غرور ہے تمہیں کہ تم تین بھاٸیوں کی لاڈلی اور اکلوتی بہن ہو تمہارا تو یہ غرور میں توڑ کر رہوں گی اب۔۔۔

اُس نے غزل کو بالوں سے پکڑتے ہوۓ کہا تو غزل چیخی۔۔۔

آہ۔۔۔

چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔


اس سے بھی بُرا حال کر دوں گی میں تمہارا اگر تم نے آج رامش سے بات نہ کی تو۔۔۔


اچھ۔۔اچھا ٹھیک ہے میں کروں گی بھاٸی سے بات پلیز چھوڑ دو میرے بال مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔

غزل کے چیخنے کی آوازیں کمرے سے باہر جا رہی تھی۔۔۔

غزل کی چیخوں کی آوازیں روشنی کے کمرے تک بھی پہنچ گٸی تھی۔۔

یہ آوازیں کیسی ہیں کون چیخ رہا ہے ؟؟

وہ ابھی کمرے سے باہر جانے کے لیے اٹھی ہی تھی کہ اسے اچانک رامش کی بات یاد آگئی کہ اسے کمرے سے باہر نہیں نکلنا ہے۔۔ یہ سوچ کر وہ وہاں ہی رک گئی۔۔۔ 

میں نے آپ سے کتنی بار پوچھا تھا کہ کیا ہوا ہے کسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتائیں۔۔۔

ایان نے کمرے میں انٹر ہوتے ہوئے کہا،


بس چھوڑ بھی دو اب اس بات کو۔۔۔

کسی نے کچھ نہیں کہا مجھے۔۔۔

وہ سرد لہجے میں بولی،


مجھے معلوم ہو گیا ہے رامش بھائی نے آپ سے کہا تھا کہ کمرے سے باہر مت نکلنا ہاں نہ ؟؟

چھپانے سے بھلا کیا ہوگا ؟؟

اپنے شوہر کو ہر بات بتایا کرتے ہیں چھپایا نہیں کرتے میری جان۔۔۔

ایان نے روشنی کے پاس بیٹھتے ہوۓ پیار سے کہا،


اب تمہیں معلوم ہو تو گیا ہے اب چھوڑ دو اس بات کو مجھے بار بار ایک بات کو کرنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔


اچھا ٹھیک ہے اب آپ کا جہاں دل کرے وہاں جا کر بیٹھیں باہر ٹیرس میں نیچے ٹی وہ لاٶنج میں باہر لان میں۔۔۔ جہاں دل چاہے جا کر بیٹھ جاٸیں ہمارے بیڈ روم کے بالکل ساتھ غزل کا بیڈ روم ہے آپ جب دل چاہے اُس کے پاس چلی جاٸیں گپ شپ کریں اب کوٸی روک ٹوک نہیں کرے گا۔۔۔

وہ روشنی کو سمجھا رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوٸی۔۔

ناشتہ آگیا ہے۔۔۔

آ جاٶ اندر۔۔۔

ایان نے کہا،


یہ اتنا کچھ کون کھاۓ گا ؟؟

روشنی نے ناشتہ ٹرے کو دیکھتے ہوۓ کہا،


نٸی دلہن جی آپ اور ایان صاحب کھاٸیں گے یہ سب کچھ۔۔۔

اس کے علاوہ بھی اگ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیجۓ گا۔۔۔

زُبیدہ نے کہا،


ارے نہیں پہلے ہی آپ بہت اہتمام کر چکی ہیں آپ کا بہت شکریہ۔۔

روشنی نے کہا،


روشنی یہ ہماری بہت پُرانی ملازمہ ہیں بلکہ ہماری ماں ہیں میں پانچ سال کا تھا جب یہ ہمارے گھر آٸی تھیں میری امی کو ان سے بہت لگاٶ تھا اور ہمیں بھی ان سے بہت لگاٶ ہے بہت اچھی ہیں یہ۔۔۔۔

ایان نے کہا،


روشنی زبیدہ کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔


ایان صاحب اب نٸی دلہن کا خیال رکھنا میرا کام ہے آپ بےفکر ہو جاٸیں۔۔۔

زبیدہ۔۔۔

زبیدہ کہاں ہو تم ابھی تک میرے کمرے میں میری چاۓ کیوں نہیں آٸی ؟؟؟

رمشا چیخی۔۔۔


ہاۓ الله میں تو بھول ہی گٸی تھی کہ رمشا بی بی کو بھی چاۓ دینی ہے۔۔۔

زبیدہ بولی،


اسے تو الله ہی معاف کرے پتہ نہیں کیا ہے یہ۔۔۔

اسے بولو ناشتہ کرے اور اپنے گھر جاۓ زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

ایان بولا،


جی صاحب جی میں کہہ دیتی ہوں۔۔

زبیدہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گٸی۔۔۔


آٸیں ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔

وہ دونوں صوفے پر بیٹھ کر ناشتے کرنے لگے۔۔


ایان مجھے چیخنے کی آواز آ رہی تھی کچھ دیر پہلے باہر سے۔۔۔ پہلے میں نے سوچا کہ اٹھ کر جاؤ مگر پھر میں نہیں گئی۔۔۔


چیخنے کی آواز ؟؟

یہاں کس نے چیخنا ہے یہ رمشا ہی چیخ رہی ہوگی اس کے علاوہ تو ہمارا گھر پُرسکون رہتا ہے ہر وقت۔۔۔۔


نہیں ایان تم سمجھ نہیں رہے ایسے جیسے کوٸی مشکل میں تھا کسی لڑکی کی آواز تھی کہ مجھے چھوڑ دو چھوڑ دو۔۔۔


اچھا ٹھیک ہے ناشتہ کریں میں دیکھتا ہوں باہر جا کر کیا ہوا تھا۔۔۔

********

میرے ساتھ جاٶ گی تم۔۔۔

کام مکمل کر کے باہر آٶ میں گاڑی میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔

رامش یہ کہہ کر گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔۔


اس منہوس کے ساتھ تو میں ہرگز نہیں جاٶں گی زیادہ ہی رعب جھاڑ رہا ہے مجھ پر۔۔۔

وہ بڑبڑاٸی۔۔۔


دس منٹ گزرنے کے بعد رامش ہارن بجانے لگا۔۔۔


اُففففف الله۔۔۔

کتنا وہ ہے یہ ابھی تک باہر کھڑا ہے جان ہی نہیں چھوڑ رہا ڈھیٹ کہیں کا۔۔۔


میڈم سر باہر گاڑی میں بیٹھے کافی دیر سے آپ کا ویٹ کر رہے ہیں پلیز چلی جاٸیں آپ۔۔۔

ملازم نے آفس میں آ کر کہا،


انہیں جا کر بول دو کہ میں نہیں آٶں گی وہ مزید یہاں کھڑا ہو کر میرا ویٹ نہ کریں۔۔۔

روشنی نے سخت لہجے میں کہا تو ملازم نے فورا رامش سے جا کر کہہ دیا۔۔۔


رامش فوراً گاڑی سے اترا اور غصے سے اندر آیا۔۔۔

آخر مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ہاں ؟؟؟

آدھے گھنٹے سے باہر گاڑی پہ بیٹھا میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں مگر تمہارے ڈکرے ہی ختم نہیں ہو رہے۔۔۔

وہ غصے سے بولا،


تو کتنا رعب کیوں جھاڑ رہے ہو مجھ پر یہ اتنا غصہ اس بات کا ہے ؟؟

کیوں جاؤں میں تمہارے ؟؟؟

شاید تم سب کچھ بھول گئے ہو میں ابھی تک کچھ نہیں بھولی جی اور یہ میرے کام کی جگہ ہے پلیز یہاں پر تماشہ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔

اتنے میں یشما کا موباٸل بجنے لگا۔۔۔


ہیلو ؟؟

ہاں میں بس دو منٹ میں آ رہی ہوں۔۔۔

یہ کہہ کر اُس نے کال بند کی اپنا بیگ پکڑا اور باہر کی جانب بڑھی تو رامش نے اُس کا بازو پکڑ کر اُسے اندر کی طرف دھکیلا۔۔۔۔


میری اجازت کے بغیر تم یہاں سے اب باہر پاٶں بھی نہیں رکھ سکتی سمجھی۔۔۔

میں کافی دیر سے تمہارا یہ رویہ برداشت کر رہا تھا مگر اب نہیں۔۔۔


رامش مجھے جانے دو میرا کزن باہر ویٹ کر رہا ہے میرا۔۔

وہ اُسے گھورتی ہوٸی سخت لہجے میں بولی،


کونسا کزن ہاں کونسا کزن ؟؟

مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی تھی مگر تمہارے نکھرے تمہاری اندر موجود انا تمہیں مجھ سے بات ہی کرنے نہیں دے رہی۔۔۔

وہ چیخا۔۔۔


رامش آہستہ بولو یہاں سب کیا سوچ رہے ہوں گے ہمارے بارے میں۔۔۔

تھوڑا سا تو خیال کرو۔۔۔

وہ دھیمے لہجے میں بولی،


تم نے خیال کیا جو مجھے خیال کرنے کا بول رہی ہو۔۔۔

ہاں بتاٶ جواب دو اب۔۔۔

تم نے خیال کیا کہ رامش کب سے باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں دو بار ملازم کو بھی بھیجا مگر تم اُٹھ کر باہر نہیں آٸی۔۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے نکل کر چلا گیا۔۔۔


کیسے غصہ کر کے گیا ہے یہ مجھ پر۔۔۔

خیر میں اس کی ہر بات کو صرف اور صرف اگنور کروں گی۔۔۔

وہ بھی بڑبڑاتی ہوٸی وہاں سے چلی گٸی۔۔


جب وہ باہر گٸی تو احمد گاڑی میں بیٹھا اُسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔

مجھے خوشی ہوٸی کہ آپ آج میرے ایک بار کہنے پر باہر آ گٸی ہیں۔۔

وہ رامش کی گاڑی کو دیکھتی ہوٸی احمد کی گاڑی میں بیٹھ گٸی۔۔


یہ جو بھی ہے اسے تو میں کل بتاٶں گا۔۔۔

اس کی اتنی جرأت یہ مجھے چھوڑ کر اُس کی گاڑی میں جا کر بیٹھ گٸی۔۔۔

گاڑی اسٹارٹ کرو۔۔

اُس نے ڈراٸیور سے کہا،


کیسا رہا آج کا دن ؟؟

کچھ سوچا آپ نے اُس بارے میں ؟؟

احمد نے یشما سے کہا،


کس بارے میں سوچنا تھا ؟؟

یشما جھٹ سے بولی،


ہماری شادی کے بارے میں کیا ہوگیا ہے بھول گٸی ہیں کیا آپ ؟؟

احمد نے کہا،


احمد میں اپنا جواب دے چکی ہوں پہلے بھی اس لیے بہتر ہے بار بار یہ سوال تم مجھ سے نہ ہی کرو تو اچھا ہے۔۔۔

یشما نے سرد لہجے میں جواب دیا۔۔


یشما میرا یقین کریں میں آپ کو بہت خوش رکھوں گا اگر آپ کہیں گی تو میں ایک الگ گھر بھی لے لوں گا شادی کے بعد ہم اُس میں رہ لیں گے۔۔۔


احمد تم چاہ رہے ہو میں یہاں ہی اُتر جاٶں گاڑی سے ہاں نہ ؟؟

میں نہیں کرنا چاہتی ابھی شادی پلیز یہ بات بار بار مت کرو۔۔۔

*******

ت۔۔تم کیوں آۓ ہو یہاں میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا پلیز جاٶ یہاں سے پلیز۔۔۔

ابان شاہ کو یوں کمرے میں اچانک دیکھ کر غزل کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور وہ اُسے وہاں سے جانے کا کہہ رہی تھی۔۔


خاموش ہو جاٶ بس میرے سوالوں کا جواب دو گی تم مجھے۔۔۔۔

کیا کہا ہے رمشا چڑیل نے تم سے ؟؟

اُس نے تمہیں کوٸی دھمکی دی ہے کیا ؟؟


ہاں اُس نے مجھے کہا ہے اگر میں نے رامش بھاٸی سے اُس کے اور رامش بھاٸی کے نکاح کی بات نہ کی تو وہ تمہارے اور میرے بارے میں بھاٸی کو بتا دے گی۔۔۔

میں تم سے کہتی تھی نہ کہ مت آٶ یہاں شاید تمہیں میری باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی اب دیکھو کتنا مسٸلہ بن گیا ہے۔۔


تمہیں فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے غزل۔۔

تم مجھے یہ بتاٶ محبت کہاں تک پہنچی ہے تمہاری میرے لیے ؟؟؟

وہ اُس کے قریب ہوتا ہوا بولا،


ابان شاہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسی فضول باتیں کر رہے ہو یہاں میری جان پر بنی ہے اور تمہیں ابھی بھی ان سب باتوں کی پڑی ہے کچھ تو خیال کرو۔۔۔

وہ غصے سے بولی،


مجھے اس دنیا میں تمہارے اور میرے علاوہ کسی سے کوئی غرض نہیں ہے اس لیے میں تم سے بار بار کہہ رہا ہوں مجھ سے محبت کر لو تم بھی۔۔۔

یاد رکھنا تمہارے اور میرے درمیان کوئی بھی آیا تو کاٹ ڈالوں گا میں اسے اور باز رہی اسے رمشاہ کی تو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں اُس سے میں خود نمنٹ لوں گا۔۔۔


ابان شاہ میں تمہارے سامنے دو ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز میری زندگی سے چلے جاؤ میری زندگی کو مزید مشکل نہ بناؤ۔۔۔

میرے بھائیوں کو مجھ پر بہت بھروسہ ہے میں ان کا مان ان کا بھروسہ نہیں توڑنا چاہتی پلیز میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں تم ایک معذور لڑکی کا کیا کرو گے ؟؟؟

تم اس وقت جنون میں ہو جب تمہارا یہ عشق کا محبت کا جنون اتر جائے گا تب میں تمہیں زہر لگوں گی۔۔۔


اپنا منہ بند رکھو تم مجھے اچھی لگتی ہو اور ہمیشہ لگتی رہو گی۔۔۔

وہ اُس کے لبوں پر جُھکا۔۔


ابان پیچھے ہٹو۔۔

وہ اُسے خود سے پیچھے کرتی ہوٸی بولی،


کیا مسٸلہ ہے تمہارے ساتھ ہاں ؟؟

ہر بات سے ہر چیز سے مسٸلہ ہے تمہیں۔۔۔

اور یہ معذور والی بات آٸندہ میرے سامنے بالکل مت کرنا سمجھی۔۔۔

بالکل ٹھیک ہو تم کچھ بھی نہیں ہوا تمہیں جان بوجھ کر ایکٹنگ کر رہی ہو بس۔۔۔

یہ کہتا ہوا وہ کمرے سے نکل کر چلا گیا۔۔


بہت ہی بدتمیز ہے یہ اسے یہ سب میری ایکٹنگ لگتی ہے۔۔۔

یہ کبھی باز آنے والا نہیں ہے اپنی حرکتوں سے۔۔۔۔

اسے تو میرے بھائیوں کا بھی کوئی ڈر خوف نہیں ہے جب دل چاہتا ہے موقع دیکھ کر میرے کمرے میں آ جاتا ہے۔۔۔

وہ بڑبڑاٸی۔۔۔

************

یشما بالکنی میں بیٹھی خود سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔

شاید میں نے رامش کے ساتھ غلط کیا ہے مجھے اُس کے ساتھ اتنے بُرے طریقے سے پیش نہیں آیا چاہیۓ تھا اور اُس کی بات سُن لینی چاہیۓ تھی۔۔۔

مجھے غصہ تھا جو کچھ اُس نے میرے ساتھ کیا اُن سب باتوں پر۔۔۔

کل میں اُس سے بات کروں گی اور دل کیا تو سوری بھی بول دوں گی۔۔

ارے نہیں میں کیوں سوری بولوں اُسے ؟؟

سوری تو اُسے بولنا چاہیۓ ہے مجھے اُس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا میں نے تو اُسے کچھ بھی نہیں کہا۔۔۔


مجھے تو شروع سے ہی تم سر پھری لگتی تھی اور آج اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہی سوچتی تھی۔۔۔

اکیلی بیٹھی خود سے نہ جانے کیا کیا پلانز بنا رہی ہو ہمیں ذلیل کرنے کے۔۔۔


ارے ارے بس بس۔۔

تم مجھے اتنا اہم سمجھتی ہو میرے بارے میں اتنا سوچتی ہو واٶ سو ناٸس۔۔۔

آٶ بیٹھو میرے پاس آ کر بیٹھو نا اور مجھے بتاٶ کس لڑکے سے ملاقات کے لیے گٸی تھی۔۔۔

یشما نے تمسخرانہ انداز میں کہا،


ک۔۔کیا بکواس کر رہی ہو یہ تم ہاں۔۔۔

کو۔۔کونسے لڑکے کی بات کر رہی ہو ؟؟

میں تو کل گھر پر ہی تھی تمہیں ضرور کوٸی غلط فہمی ہوٸی ہے۔۔۔

وہ لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں بولی،


ہمممم۔۔۔۔

بلیک کار میں بیٹھا لڑکا جس کے ساتھ تم ہنس ہنس کے باتیں کر رہی تھی تمہاری خوشی کا تو کوٸی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔۔۔

یشما صبح آفس جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔۔۔

حریم اُس سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔

کیا ہوا ہے کیوں صبح صبح میرے آگے پیچھے دندناتی پھر رہی ہو کوٸی کام ہے کیا ؟؟

یشما نے اُسے دیکھتے ہوۓ کہا،


تم میری جاسوسی کر رہی ہو نہ۔۔

یاد رکھنا تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لیے بہتر ہے میرے راستے سے ہٹ جاؤ ورنہ تمہارے ساتھ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔

وہ تلخ لہجے میں بولی،


اوہ لگتا ہے لڑکی ڈر گٸی ہے۔۔۔

یشما یہ کہہ کر زور زور سے ہنسنے لگی۔۔


ڈرتی ہے میری جوتی۔۔

تمہارا علاج میں کر لوں گی ٹینشن نہ لو۔۔۔

وہ سڑتی ہوٸی وہاں سے چلی گٸی۔۔۔


میرے علاج کرے گی یہ بھوتنی کہیں کہیں کی اسے تو اب میں بتاٶں گی جو کچھ اس نے میرے ساتھ کیا ہے ایک ایک بات کا بدلہ لوں گی۔۔۔

اس کی اکڑ توڑنے کا وقت آگیا ہے اب۔۔

یشما نے اپنا بیگ لیا اور آفس جانے کے لیے نکل گٸی۔۔۔۔


جب وہ آفس کے پاس پہنچی اور جیسے ہی رکشہ سے اُتری تو رامش بھی گاڑی سے اُتر رہا تھا۔۔

وہ اُسے گھورتا ہوا آفس میں چلا گیا۔۔


اوہ اچھا تو اب یہ مجھے ایسے ندیدوں کی طرح گھور کر جاۓ گا ہمممم۔۔۔۔

اس نے مجھے بُلایا کیوں نہیں یہ میرے پاس آیا کیوں نہیں ؟؟؟

وہ بھی بڑبڑاتی ہوٸی اندر چلی گٸی۔۔۔

**********

میں تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑوں گی اگر تم نے آج رامش سے بات نہ کی تو۔۔۔

آج بھی شاید وہ ابان شاہ تم سے ہی ملنے آیا تھا مگر شاید اُسے موقع نہیں ملا تم تک آنے کا۔۔۔

وہ غزل کو گھورتی ہوٸی تلخ لہجے میں بولی،


تم چاہتی کیا ہو ہاں ؟؟؟

ابان شاہ آیا تھا مجھ سے مل کر گیا ہے بات کر کے گیا ہے تمہیں شاید معلوم نہیں ہے۔۔۔

وہ آتا رہے گا یہاں اور مجھ سے ملاقات کرتا رہے گا تمہیں جو کرنا ہے کرلو میں تمہاری دھمکی میں آنے والی نہیں اب۔۔۔

غزل نے بھی اُسے سخت لہجے میں جواب دیا۔۔


کیا کہا تم نے ہاں کیا کہا۔۔ ؟؟

تمہاری اتنی جرأت تم میرے سامنے بکواس کرو گی۔۔

اُس نے غزل کے منھ پر زور دار تھپڑ مارتے ہوۓ کہا،


آٸندہ میرے سامنے اگر تم نے زبان چلانے کی ہمت بھی کی تو یاد رکھنا تمہاری زبان کھینچ لوں گی میں۔۔

بڑا تمہیں لاڈوں میں رکھا ہوا ہے نہ تمہارے باپ بھاٸیوں نے اب میں اُنہیں بتاٶں گی تمہاری اصلیت۔۔۔۔


تم کچھ بھی کر لو عزت اور ذلت دینے والی ذات صرف اور صرف میرے اللہ کی ہے۔۔۔

تمہارا جو جی چاہے تم کرو میں اپنے بھائی کی زندگی برباد نہیں کر سکتی۔۔۔

مجھے اپنی کوئی پرواہ نہیں ہے اب اگر تم چاہو تو جا کر بتا سکتی ہو بھائی کو میں سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں مگر میں اپنے بھائی کو اس مشکل میں نہیں ڈال سکتی۔۔۔


کونسی مشکل ؟؟

کونسی مشکل ہاں جواب دو مجھے۔۔۔

وہ پھر سے اس کے قریب ہوتی ہوئی بولی،


تم سے شادی کر کے میرے بھائی کی زندگی ہی مشکل ہوگی اور کیا ہوگا ؟؟

تمہیں جو کرنا ہے کرو میں اب تمہاری باتوں سے ڈرنے والی نہیں ہوں۔۔

اپنی وھیل چٸیر کو چلاتے ہوۓ وہ کمرے سے باہر نکل گٸی۔۔۔


یہ لڑکی میرے بس کی نہیں رہی مجھے کچھ اور کرنا پڑے گا اب۔۔۔

اسے تو میری باتوں سے کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ہے کیسی ڈھیٹ اور مکار لڑکی ہے یہ۔۔۔

وہ وہاں بیٹھ کر پلاننگ کرنے لگی۔۔۔

*******

اندر چلو جلدی اور جا کر تیار ہو جاٶ وہ لوگ کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں کہاں رہ گۓ تھے تم ہاں۔۔


امی کیا ہوگیا ہے آپ کو میں آپ کو بول کر گیا تھا کہ میں کسی سے نہیں ملوں گا پھر یہ سب کیا ہے ؟؟؟

کیوں بُلایا ہے آپ نے انہیں ؟؟

اپنی مرضی کی لڑکی سے شادی کر کے آپ کیا کریں گی میرے ساتھ میری زندگی برباد کریں گی نا ؟؟

ابان شاہ نے سرد لہجے میں کہا،


اس میں زندگی برباد ہونے والی بات کہاں سے آگئی ہے ابان شاہ ؟؟

آسیہ بیگم فوراً بولی،


ظاہر ہے امی جب مجھے لڑکی پسند ہی نہیں ہوگی تو کیسے رہوں گا میں اُس کے ساتھ خوش ؟؟

سوچا ہے آپ نے اس بارے میں کہ جب ابان شاہ کے دل و دماغ میں ہر وقت غزل کا خیال رہے گا تو وہ کیسے کسی دوسری لڑکی کو خوش رکھ سکے گا۔۔۔


ابان شاہ اس وقت میں کچھ نہیں سنوں گی چُپ چاپ اندر چلو سمجھے تم۔۔۔

آسیہ بیگم ابان شاہ کا بازو پکڑ کر اُسے اندر لے گٸی۔۔۔

اتنا شرما رہا ہے کب سے کہہ رہی ہوں اندر چلو اندر چلو مگر جناب کا شرمانا ہی ختم نہیں ہو رہا ہے۔۔۔


ارے واہ ماشاالله آپ کا لڑکا تو بہت پیارا ہے۔۔

لڑکی کی ماں نے ابان شاہ کے سر پر پیار دیا۔۔۔

ابان شاہ کا بس نہیں چل رہا تھا اپنی ماں کا ہاتھ چھڑوا کر وہاں سے بھاگ جاۓ۔۔


آٶ بیٹا یہاں بیٹھو ہمارے پاس آ کر۔۔۔


نہیں وہ مجھے ایک ضروری کام ہے مجھے وہاں پر جانا ہے۔۔۔

ابان شاہ جھٹ سے بولا،


بیٹھ جاٶ ابان شاہ کام بعد میں بھی ہو جاۓ گا۔۔

آسیہ بیگم ابان شاہ کو گھورتی ہوٸی بولی،


ابان شاہ وہاں پر دو منٹ مشکل سے بیٹھا اور پھر اٹھ کر وہاں سے باہر چلا گیا۔۔۔

بھاٸی کیا ہوا اتنے غصے میں کیوں ہو ؟؟

حرم نے کہا،


حرم تم تو اچھے سے جانتی ہو نا سب کچھ اُس کے باوجود بھی امی کو منع نہیں کر سکی ان کو گھر بُلا لیا۔۔

کم از کم مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی۔۔

وہ یہ کہہ کر غصے سے گھر سے نکل کر چلاگیا۔۔۔

******

میڈم یہ کافی آپ کے لیے۔۔۔

ملازم نے یشما کے آفس میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا،


کافی ؟؟

مگر میں نے تو کوئی کافی نہیں منگوائی تھی۔۔

یشما نے حیرانگی سے کہا،


یہ رامش سر نے بھیجی ہے آپ کے لیے۔۔

ملازم کافی ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔۔۔

یشما کافی کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔

اس کا مطلب ہے وہ مجھ سے خفا نہیں ہے اور بات کرنا چاہتا ہے۔۔۔

مسکراتے ہوۓ یشما نے کافی کا مگ پکڑا اور اور مزے سے ایک سپ لیا۔۔۔

سو یمی۔۔۔

وہ مگ ٹیبل پر رکھتی ہوٸی بولی،

کچھ دیر کے بعد ملازم پھر سے آفس میں اینٹر ہوا۔۔۔

میڈم سر آپ کو بُلا رہے ہیں کھانے پر پلیز جلدی سے آ جاٸیں۔۔


اپنے سر کو جا کر بول دو کہ میڈم کہہ رہی ہیں وہ نہیں آئیں گی جب تک وہ مجھے خود بلانے نہیں آٸیں گے۔۔۔

یشما نے رعب دار لہجے میں کہا،


ملازم رامش کے پاس گیا اور جا کر اسے یہ سب بتا دیا۔۔۔

اوہ اچھا تو اب یہ مجھے ایسے نکھرے دیکھاۓ گی۔۔۔

وہ تسمخرانہ انداز میں بڑبڑایا اور اُٹھ کر یشما کے آفس کی طرف چلا گیا۔۔۔

اس نے دروازہ ناک کیا اور اندر کی جانب بڑھا۔۔۔

جی محترمہ یہی چاہتی تھی نا آپ کے میں آپ کو لینے آٶں تو یہ لو آگیا ہوں اب جلدی سے آ جاٶ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔۔


اگر میں نہ آٶں تو ؟؟؟

یشما بولی،


کل رات جو کچھ ہوا وہ تو میں برداشت کر گیا جیسے تیسے کر کے مگر یاد رکھنا اب کچھ بھی برداشت نہیں ہوگا مجھ سے اس لیے شرافت سے اٹھو اور باہر آ کر کھانا کھاؤ میرے ساتھ۔۔۔


یشما پورے ایٹیٹیوڈ کے ساتھ اٹھی اور رامش کے آگے آگے چلنے لگی۔۔

وہاں پر موجود سب لوگ حیران تھے کہ پہلی بار وہ یہ سب دیکھ رہے تھے کہ کوٸی رامش کے آگے اتنے رعب سے چل رہا ہے۔۔۔


کیا ہے کھانے میں ؟؟

وہ کُرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی،


سب کچھ میری پسند سے ہے۔۔

رامش نے کہا،


مگر ضروری تو نہیں کہ وہ مجھے بھی پسند ہوگا ڈی ایس پی رامش چوہدری۔۔۔

اُس نے فوراً جواب دیا تو رامش اُس کی طرف دیکھنے لگا۔۔


ویسے اتنی ہو نہیں جتنی بن رہی ہو یشما۔۔

رامش تسمخرانہ انداز میں بولا،


مجھے بریانی کھانی ہے اپنے ملازم سے کہو مجھے لا کر دے جلدی۔۔۔

یشما نے منھ بناتے ہوۓ کہا،


آ جاتی ہے بریانی تب تک یہ بتاٶ کل کس کے ساتھ کار میں گٸی تھی تم گھر ؟؟

یہاں شہر میں تم کیسے آٸی گھر کہاں ہے تمہارا ؟؟؟

اور جاب کس نے دی تمہیں اس فیلڈ میں ؟؟؟

سب کچھ جاننا چاہتا ہوں میں۔۔


پہلے میں بریانی کھاؤں گی اس کے بعد ہی تمہارے سارے سوالوں کا جواب دوں گی۔۔۔

یشما نے کہا،


یشما میں تم سے کہہ رہا ہوں نا بریانی آ جاتی ہے تب تک میرے سوالوں کا جواب چاہیے ہے مجھے تمہیں کیوں سمجھ نہیں آرہی۔۔۔

وہ غصے سے بولا،


ٹھیک ہے ٹھیک ہے زیادہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بتا رہی ہوں سب کچھ۔۔

یشما منھ بنا کر بولی اور رامش کو سب کچھ ڈیٹیل میں بتا دیا۔۔۔


تم اب اُس اپنے کزن کے گھر نہیں رہو گی سمجھی تم۔۔۔

میں تمہیں کل ہی ایک نئے گھر کا ارینج کر کے دے رہا ہوں تم اپنی امی کے ساتھ اس گھر میں شفٹ ہو جاؤ گی کل ٹھیک ہے۔۔

رامش سرد لہجے میں بولا،


میں بھی بہت دیر سے نئے گھر کا سوچ رہی ہوں

اور بہت سے گھر میں نے دیکھے بھی ہیں مگر یہاں پر مجھے کوئی بھی مناسب ریٹ پر گھر نہیں مل رہا اس لیے میں اب تک وہاں پر ہی رہ رہی ہوں۔۔۔۔


مگر اب تم اُس گھر میں نہیں رہو گی۔۔۔

رامش نے یشما کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،


ہاں جیسے پہلے تم نے مجھے اُمید دلاٸی تھی اور پھر چھوڑ کر چلے گۓ تھے اب بھی بالکل ویسا ہی کرنے جا رہے ہو نا ؟؟؟

اگر ایسی بات ہے تو مجھے پہلے ہی بتا دو۔۔۔ خیر اب مجھے کوٸی فکر نہیں اب میرے پاس اچھی جا ہے میں اپنا سب کچھ خود کر سکتی ہوں۔۔

یشما نے طنزیہ انداز میں کہا،


کیا تم مجھے یاد کرتی تھی ؟؟؟

رامش جھٹ سے بولا،


آ۔۔۔ن۔۔نہیں میں نے کیوں یاد کرنا تھا تمہیں بھلا ؟؟؟

تمہارے ساتھ کونسا میرا کوٸی گہرا رشتہ تھا جو میں تمہیں یاد کرتی۔۔۔


گہرا رشتہ اب بن جاۓ گا۔۔۔

رامش نے آنکھ ونک کرتے ہوۓ کہا تو یشما نے نظریں جھکا لی۔۔۔

بریانی نہیں آٸی اب تک اتنی سلو سروس۔۔۔

ابھی یشما نے بولا ہی تھا کہ ملازم بریانی لے آیا۔۔۔

سر بریانی ریڈی ہے۔۔۔


اس وقت تم ڈی ایس پی رامش کے ہاں کھانا کھانے بیٹھی ہو یہاں کی سروس بہت فاسٹ ہے ہر کام میں۔۔

اُس نے تمسخرانہ انداز میں کہا،


اوہ اچھا ہر کام میں۔۔۔ ؟؟؟

وہ ہنستی ہوٸی بولی،


جی بالکل ہر کام میں۔۔۔

اور ہاں یاد آیا مجھے وہ تمہارا چچا وہ نہیں بچ پاۓ گا اب میرے ہاتھوں۔۔


بس کر دو اُس کا نام بھی مت لینا اب۔۔۔

دوسروں کے ساتھ بُرا کرنے والے کونسا خود سکون میں رہتے ہیں اُس کی بیٹی بھی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گٸی ہے محلے سے نکال دیا ہے لوگوں نے اُسے اس سے بُرا اور کیا ہوگا اُس کے ساتھ۔۔۔

یشما نے کہا،

*********

کیا میں اندر آ سکتی ہوں ؟؟؟

روشنی نے دروازہ ناک کرتے ہوۓ کہا،


جی آ جاٸیں۔۔

غزل ابھی نہا کر واش روم سے باہر ہی آٸی تھی۔۔۔


کیا کر رہی ہو ؟؟

وہ کمرے میں اینٹر ہوتی ہوٸی بولی،


آپ۔۔

کچھ چاہیۓ ہے کیا ؟؟؟

غزل جھٹ سے بولی،


نہیں میں وہ بس بور ہو رہی تھی سوچا آپ کے پاس آ کر بیٹھ جاٶں ایان کہہ رہا تھا غزل کے پاس چلی جایا کرو اُس سے باتیں کر لیا کرو۔۔


ہاں جب دل چاہے آپ آ سکتی ہیں میرے بیڈ روم میں۔۔۔

اپنے بارے میں کچھ بتاٸیں کیا نام ہے آپ کا ؟؟

غزل نے کہا،


میرا نام روشنی ہے اور کچھ خاص ہے ہی نہیں جو میں اپنے بارے میں بتا سکوں۔۔

غزل نے دھیمے لہجے میں کہا،


ارے وہ کیوں ؟؟

وہ نہیں ہے کچھ خاص۔۔

اچھا چھوڑیں یہ بتاٸیں کیسا لگا آپ کو ایان کی ذندگی میں آ کر اس حویلی میں آ کر۔۔۔

میں جانتی ہوں ابھی تھوڑا سا خفا ہیں سب آپ سے اور ایان سے مگر جلد ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔


سٹارٹ میں تھوڑا مشکل تھا مگر اب عادت ہو گئی ہے۔۔۔

تم بتاؤ کیا کرتی رہتی ہو سارا دن کمرے میں بور نہیں ہوتی کیا ؟؟؟

روشنی نے کہا،


نہیں مجھے بھی اب کمرے میں بند رہنے کی عادت ہو گئی ہے کتابیں پڑھتی رہتی ہوں فون یوز کر لیتی ہوں بس ایسے ہی سارا دن گزر جاتا ہے۔۔۔

لاؤ نا میں کر دیتی ہوں تمہارے بالوں میں کنگھی تمہیں مشکل ہو رہی ہے۔۔۔

روشنی نے غزل سے کنگھا لیا اور اس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔۔۔


ہماری بہت پرانی ملازمہ ہیں وہی میرے سارے کام کرتی ہے شاید مصروف ہے اسی وجہ سے نہیں ائی ابھی تک اوپر۔۔۔


ہاں میں جانتی ہوں اُنہیں بہت اچھی ہیں وہ۔۔

وہی میرے کمرے میں کھانا لے کر آتی ہیں ہر روز کافی باتیں بتاتی ہیں تمہاری امی کے بارے میں کہ بہت اچھی خاتون تھیں وہ۔۔۔


وہ دونوں باتیں کر رہی تھی کہ اچانک کمرے میں رنگ شاہ انٹر ہوئی۔۔۔

وہ روشنی اور غزل کو ایسے ساتھ بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گٸی۔۔۔

ارے واہ جی کیا بات ہے نند بھابھی میں لگتا ہے کافی زیادہ دوستی ہو گئی ہے۔۔۔


ہاں بہت زیادہ دوستی ہوگٸی ہے اس میں کوٸی شک نہیں بس اللہ ہماری دوستی کو بُرے لوگوں کی نظر سے بچائے۔۔۔۔

غزل نے کہا،


آٶ تم بھی بیٹھ جاٶ یہاں۔۔

روشنی نے کہا،


نہیں بھٸی مجھے اور بھی بہت کام ہیں آپ دونوں کریں باتیں۔۔

جلد ہی جب میں بھی اس گھر کی بہو بن جاٶں گی پھر بیٹھا کروں گی آپ دونوں کے ساتھ۔۔۔

رمشا نے کہا تو غزل نے منھ موڑ لیا۔۔۔


اگر تم نیچے جا رہی ہو تو پلیز زبیدہ باجی سے کہنا کہ میرے اور بھابھی کے لیے کچھ کھانے کو دے جاٸیں۔۔۔

رمشا جب کمرے سے چلی گئی تو روشنی نے غزل سے پوچھا کہ یہ رمشا کیا کہہ رہی تھی اس گھر کی بہو۔۔۔

میں کچھ سمجھی نہیں یہ کیا کہنا چاہ رہی تھی ؟؟؟


یہ رامش بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہے مگر وہ اسے بالکل بھی پسند نہیں کرتے ہیں زبردستی میرے بھائی کی زندگی پر مسلط ہونا چاہتی ہے یہ۔۔۔۔

غزل سرد لہجے میں بولی،


اوہ اچھا۔۔

ویسے ایک بات پوچھوں میں تم سے غزل اگر تم برا نہ مانو تو۔۔۔


جی بھابھی پوچھیں بُرا کیوں ماننا ہے میں نے۔۔


میں نے دو بار تمہارے کمرے سے چیخنے کی آوازیں آتی سنی ہیں کیا تم مجھے بتاٶ گی کہ کیوں اور کس کی چیخنے کی آوازیں آتی تھی ؟؟؟


یہ سُن کر غزل کا رنگ اُڑ گیا۔۔۔ 

روشنی یہاں دیکھو میری طرف۔۔

اُس نے روشنی کا چہرہ اپنی جانب کیا اور پیار بھری نگاہوں سے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔

جو بھی بات ہے مجھ سے کر سکتی ہو۔۔۔ تم مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو غزل۔۔۔

اگر کوئی مسئلہ ہے تو تم مجھ سے ڈسکس کر سکتی ہو وہ آوازیں وہ چیخیں سُن کر میرا تو دل پھٹ رہا تھا میں نے کمرے میں آنا چاہا مگر پھر وہ مجھے رامش بھاٸی کی بات یاد آگٸی۔۔


رامش بھاٸی بات ؟؟

کیسی بات کیا کہا تھا انہوں نے ؟؟؟

غزل نے کہا،


انہوں نے مجھے کہا تھا کہ آپ کمرے سے باہر نہیں آ سکتی بس میں اسی لیے نہیں آئی ورنہ میں تو اُسی وقت تمہارے کمرے میں آ رہی تھی۔۔


و۔۔وہ نہیں بھابھی آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

وہ لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں بولی،


ٹھیک ہے غزل جیسی تمہاری مرضی میں تمہیں فورس نہیں کروں گی۔۔۔

روشنی نے کہا،


اگر میں انہیں بتا دوں گی تو ہو سکتا ہے یہ جا کر ایان کو بتا دیں۔۔

نہیں نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔

*****

کہاں مصروف تھی کال کیوں نہیں اٹینڈ کر رہی تھی ؟؟

وہ سرد لہجے میں بولا کیونکہ وہ اسے کافی دیر سے کال کر رہا تھا۔۔۔

کیا ہو گیا ہے انسان مصروف بھی ہوتا ہے۔۔

یشما نے جواب دیا۔۔

کہیں تم اپنے اس کزن کے ساتھ تو نہیں۔۔۔۔

یہ کہہ کر رامش چپ ہو گیا۔۔۔

کیا ہو گیا ہے تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا رامش کیسی باتیں کر رہے ہو تم ؟؟؟

میں اس گھر میں اتنے مہینوں سے رہ رہی ہوں کبھی بھی اس نے مجھے اس نگاہ سے نہیں دیکھا یا کبھی بھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔۔

ہاں اس نے شادی کے بارے میں تو کہا تھا مگر میں نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔


کیاااا ؟؟؟

شادی کے بارے میں۔۔ ؟؟

یہ تم کیا کہہ رہی ہو اور مجھے کیوں نہیں بتایا تم نے ؟؟

وہ غصے میں بولا،


ارے کیا ہو گیا ہے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں ہماری ملاقات کو۔۔۔

ویسے بھی یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے میں انکار کر چکی ہوں۔۔۔

یشما نے کہا،


بس اس گھر میں تمہاری آخری رات ہے اپنا سارا سامان پیک کرلو کل صبح تم اور تمہاری امی نۓ گھر میں شفٹ ہو جاٶ گی سمجھی۔۔۔ کیونکہ مجھے تمہارے کزن پر بالکل بھی اعتبار نہیں ہے۔۔۔


بس کر دو رامش بس کر دو پلیز بس کر دو۔۔۔

تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے کیا ؟؟؟


کتنی بار بتاٶں یار تم پر اعتبار ہے مگر لوگوں پر نہیں۔۔۔

اب سو جاٶ آرام سے صبح بات کرتے ہیں۔۔

اور ہاں سُنو۔۔


ہاں بولو کیا ہے اب ؟؟

صبح آفس بلیک ڈریس پہن کر آنا جو اس دن پہن کر آئی تھی بہن حسین لگ رہی تھی۔۔۔

وہ محبت بھرے لہجے میں بولا تو یشما مسکرانے لگی۔۔۔


اوکے بائے۔۔۔

یہ کہہ کر یشما نے مسکراتے ہوئے کال بند کر دی۔۔۔


ہائے۔۔۔یہ کیوں مجھے اتنی اچھی لگنے لگی ہے۔۔۔

وہ گہرا سانس لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔

******

رات کے گیارہ بج رہے ہیں ابان شاہ آیا کیوں نہیں اب تک گھر ؟؟؟

کہاں ہے وہ حرم بیٹا تم کال کیوں نہیں کرتی اُسے۔۔۔

وہ کبھی بھی اتنی دیر گھر سے باہر نہیں رہتا پھر آج کیوں وہ اب تک گھر نہیں آیا ؟؟؟

مُنشی صاحب بولے،


امی میں کیا کہوں اب ابو سے وہ بار بار بھاٸی کا پوچھ رہے ہیں۔۔۔

میں نے کوٸی پچاس کالز کرلی ہیں بھاٸی کو وہ نہیں اٹینڈ کر رہے کال۔۔۔۔

حرم نے پریشان لہجے میں کہا،


کرتی رہو اُسے کال جب تک وہ اٹینڈ نہ کر لے۔۔۔

آسیہ بیگم سرد لہجے میں بولی،


امی کیا ہوگیا ہے آپ کو کیوں کر رہی ہیں آپ ایسا ؟؟؟

کیوں ضد لگا کر بیٹھ گٸی ہیں بھاٸی کی ذندگی ہے انہیں جی لینے دیں اپنی مرضی سے۔۔۔

کر لینے دیں اُنہیں اپنی مرضی سے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی۔۔

حرم بول پڑی۔۔


حرم بس کر دو اس وقت میں اس ٹاپک پر کوٸی بھی بات نہیں کرنا چاہتی ہوں پہلے ہی اس نے اُن سب کے سامنے میری ناک کٹوا دی ہے۔۔

آسیہ بیگم نے کہا،


کیا ہوگیا ہے امی بھاٸی گۓ تو تھے اُن لوگوں کے سامنے۔۔۔


ہاں گیا تھا زبردستی گیا تھا اور اُن لوگوں نے ابان شاہ سے ایک دو سوال کیے وہ جواب دیے بغیر وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا یہ میری بےعزتی ہی تو تھی اور کیا تھا۔۔۔


امی پلیز بس۔۔۔

جہاں وہ کرنا چاہتے ہیں شادی آپ چُپ چاپ اُن کی وہاں کریں وہاں رشتہ لے کر جاٸیں۔۔

حرم نے سرد لہجے میں کہا،

**********

لڑکے یہاں کیوں بیٹھے ہو اس وقت گھر جاٶ تمہاری بیگم تمہاری ماں اتنظار کر رہی ہوں گی تمہارا۔۔۔

بابا جی نے کہا،


نہیں کوٸی بھی میرا اتنظار نہیں کررہا ہوگا سب خوش ہو رہے ہوں گے کہ شُکر ہے گیا جان چُھوٹی۔۔۔۔

بیگم نہیں ہے میری بابا جی اور ماں شاید یہی چاہتی ہے میں گھر نہ جاٶں۔۔۔۔

ابان شاہ اُداس لہجے میں بولا،


اندر آٶ بیٹا اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔

بابا جی یہ کہہ کر اپنے چھوٹے سے مٹی کے کمرے میں چلے گۓ جہاں صرف ایک چٹاٸی بچھی ہوٸی تھی اور ایک مٹی کا چولہا اور چند برتن رکھے تھے۔۔۔۔

ابان شاہ اُٹھا اور اندر گیا۔۔

یہاں میرے پاس آ کر بیٹھو۔۔

نام کیا ہے تمہارا لڑکے ؟؟


میرا نام ابان شاہ ہے بابا جی۔۔۔

وہ اداس لہجے میں بولا۔۔


ارے نام تو بڑا اچھا ہے تمہارا۔۔۔ یہ بتاؤ یہاں کیسے آنا ہوا کہیں تم بھی تو کسی کے عشق میں مبتلا نہیں ہوگئے ؟؟؟


بابا جی عشق میں ہی تو مبتلا ہوں میں۔۔۔ مگر میں اپنی ماں کو کیسے سمجھاؤں ؟؟؟


بابا جی مسکرانے لگے کیا کہتی ہے تمہاری ماں ؟؟


یہی کہ میری پسند کی لڑکی سے شادی کرو۔۔

آج کچھ لوگ دیکھنے بھی آۓ تھے مجھے بابا جی میری ماں مجھے زبردستی اُن کے سامنے لے کر گٸی میں بالکل بھی دھوکہ نہیں دینا چاہتا ہوں اپنی محبت کو اس لیے میں نے سوچ لیا ہے میں اب گھر ہی نہیں جاٶں گا۔۔۔۔


اوہ اچھا تو یہ معاملہ ہے۔۔

بیٹا جی اگر گھر نہیں جاٶ گے تو پھر کیسے اپنی محبت کو حاصل کرو گے ؟؟؟


بابا جی محبت کو حاصل کرنے کے لیے گھر جانا ضروری ہے کیا ؟؟؟

اور محبت کا کیا تعلق ہے گھر جانے سے ؟؟؟

گھر گیا تو تین تین ذندگیاں برباد ہوں گی آپ نہیں جانتے۔۔۔


ارے بیٹا گھر جاٶ گے ماں باپ کو مناٶ گے نکاح کے لیے تب ہی تو تمہیں محبت ملے گی نہ۔۔۔

محبت کا اصل معنی نکاح ہے۔۔۔

جس سے تم محبت کرتے ہو اُس سے نکاح کرلو ایسے کوتاہیوں سے بھی بچ جاٶ گے۔۔۔


بابا جی آپ کا ایک ایک حرف درست ہے مگر میری ماں اپنی ضد پر اڑی بیٹھی ہے مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں۔۔


تم نے اپنی ماں سے بات کی اپنی محبت کے بارے میں ؟؟؟

کیا کہا تمہاری ماں نے ؟؟؟


بابا جی میری امی کہتی ہیں وہ لڑکی ایک امیر باپ کی بیٹی ہے وہ کبھی بھی ہمارے ساتھ رشتہ نہیں کریں گے۔۔۔

اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں ؟؟؟

بابا جی آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟؟


بیٹا دیکھو رشتوں کا امیری اور غریبی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے رشتے دل سے بناۓ اور نبھاۓ جاتے ہیں اُن کا اس چیز سے کوٸی تعلق نہیں ہوتا اور اگر الله نے اُس لڑکی کو تمہارے نصیب میں لکھ رکھا ہے تو وہ ہر صورت تمہیں مل کر رہے گی ہم دنیا والوں کا اس میں کوٸی اختیار نہیں۔۔۔

بابا جی نے کہا،

*******

میرے آفس میں آٶ میں تمہیں دیکھنے کے لیے بےچین ہوں۔۔۔

رامش نے یشما کو میسج کیا۔۔۔


میسج پڑھ کر یشما مسکرانے لگی۔۔۔

کیا بات ہے تمہاری تم مجھے دیکھنے کے لیے بےچین ہو مگر کیوں ؟؟؟

یشما نے رپلاۓ کیا۔۔۔


زیادہ سوال جواب نہیں کرو جلدی سے آ جاٶ۔۔

رامش نے میسج کیا۔۔۔


وہ اپنے بال سیٹ کرنے لگی۔۔۔

پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے اسے۔۔۔

وہ بڑبڑاتی ہوٸی اُس کے آفس کی جانب بڑھی۔۔۔


دروازہ ناک کر کے وہ اندر گٸی۔۔۔


جی سر آپ نے بُلایا مجھے ؟؟؟

وہ مسکراتی ہوٸی بولی تو رامش اپنی جگہ سے اُٹھا اور یشما کا بازو پکڑ کر اُسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔

رامش کیا کر رہے ہو چھوڑو کوٸی آ جاۓ گا۔۔۔

وہ جھٹ سے بولی،


شی۔۔۔

کوٸی بھی نہیں آۓ گا۔۔

بہت پیاری لگ رہی ہو اس کالے جوڑے میں۔۔۔

ویسے مجھے خوشی ہوٸی اچھا لگا کہ تم میرے ایک بار کہنے پر یہ جوڑا پہن کر آٸی۔۔۔


تمہارے کہنے پر تو نہیں پہن کر آٸی میں نے تو ویسے بھی یہ پہن کر آنا تھا آج۔۔۔

یشما نے خود کو چھڑواتے ہوۓ کہا مگر رامش کہاں چھوڑنے والا تھا اُسے۔۔۔


رامش پلیز مت کرو ایسا چھوڑ دو مجھے اگر کسی نے ہمیں ایسے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے سب ؟؟؟

فضول میں باتیں بنے گی چھوڑ دو یہ آفس ہے سمجھ کیوں نہیں رہے۔۔


میں تم سے کہہ رہا ہوں خاموش ہو جاؤ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کون آئے گا کون نہیں آئے گا۔۔۔


وہ یہ کہتا ہوا اُس کے لبوں پر جھکا مگر اُس نے اپنا منھ موڑ لیا۔۔۔

نہیں رامش تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔


مگر کیوں ؟؟؟

کیا مسٸلہ ہے ؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،


یہ کام شادی کے بعد ہی اچھے لگتے ہیں ٹھیک ہے اگر تم میرے ساتھ یہ سب کرنا چاہتے ہو تو تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہوگا۔۔۔

یشما نے صاف الفاظ میں کہہ دیا۔۔۔


اوہ اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔

مطلب تم مجھے پروپوز کر رہی ہو شادی کے لیے ہاں۔۔۔

چلو میں سوچوں گا تمہارے پروپوزل کے بارے میں۔۔۔

اُس نے یشما کو خود سے پیچھے کرتے ہوۓ کہا کیونکہ یشما کا یوں منہ موڑ لینا اُسے اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔


پروپوزل سمجھو یا کچھ بھی مگر میں نے جو کہنا تھا کہہ چکی ہوں۔۔

وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گٸی۔۔۔

*******

کیا ہوا بڑی خوش دیکھاٸی دے رہی ہیں آپ۔۔

ایان نے روشنی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا،


ہاں خوش تو میں ہوں آج میں غزل کے کمرے میں گئی تھی اور ڈھیروں باتیں کی میں نے اس کے ساتھ بیٹھ کر۔۔۔

تم ٹھیک کہتے تھے بہت اچھی ہے وہ اُس نے بہت اچھے سے مجھ سے بات کی مجھے بہت اچھی لگی وہ۔۔۔


آخر بہن کس کی ہے ؟؟؟

ایان جھٹ سے بولا۔۔


ہاں ہاں پتہ ہے تمہاری ہی بہن ہے۔۔

روشنی بولی،


مجھے بھی بہت خوشی ہوٸی اور سکون بھی مل گیا ہے کہ اب کم از کم آپ کمرے میں بور تو نہیں ہوں گی نہ جب دل چاہے غزل کے پاس چلی جاٶ یا اُسے اپنے کمرے میں لے آنا۔۔


ویسے نہ ایان مجھے تمہاری یہ کزن کچھ خاص اچھی نہیں لگی بہت بُرے طریقے سے بات کرتی ہے غزل سے اور بہت طنزیہ لہجے میں۔۔


کون سی کزن ؟؟

رمشا کی بات کر رہی ہیں کیا ؟؟

ایان نے کہا،


ہاں اُسی کی بات کر رہی ہوں۔۔۔


ارے وہ ایسی ہے آپ زیادہ اُس کے منہ مت لگنا مجھے تو خود بھی وہ اچھی نہیں لگتی۔۔۔

ایان بولا،


ویسے وہ کہہ رہی تھی کہ دعا کرنا میں بھی جلد ہی اس گھر میں دلہن بن کر آ جاٶں پھر تم لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں گی میں نے غزل سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ رامش بھائی کو پسند کرتی ہے اور ان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔۔۔

یہ سن کر ایان حیران رہ گیا۔۔۔


کیااا ؟؟؟

رامش بھائی کو پسند کرتی ہے یہ رمشا ؟؟

الله وہ کبھی بھی اس سے شادی نہیں کریں گے جیسی اس کی حرکتیں ہیں۔۔۔

یہ جو کچھ بھی کہتی ہے اسے کہنے دیا کریں ایک ان سے سُن کر دوسرے سے اسی وقت نکال دیا کریں۔۔۔


کیا ہوگیا ہے کزن ہے تمہاری کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔

یہ کہہ کر روشنی ہنسنے لگی۔۔


کزن ہے تو کیا ہوا سر پر بٹھا لوں کیا اب ؟؟

یہ کہہ کر ایان بھی ہنسنے لگا اور پھر وہ دونوں ہی ہنسنے لگے۔۔۔

************

کہاں چلا گیا ہے وہ کہاں چلا گیا ہے ؟؟؟

اسے بالکل بھی خیال نہیں ہے کہ میرے ماں باپ میرے لیے پریشان ہو رہے ہوں گے۔۔۔

آسیہ بیگم غصے سے بولی،


امی میں کیا کروں میں تو بھائی کو کال کر کر کے تھک گئی ہوں میری بس ہو گئی ہے اب اور ابو کے ساتھ بھی میں کتنے جھوٹ بولوں ؟؟

یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے امی نہ آپ اُن رشتے والوں کو بلاتی اور نہ یہ سب ہوتا۔۔۔۔

حرم نے کہا،


میرے ذہن میں تو بہت ہی برے برے خیالات آرہے ہیں میں کیا کروں میرے اللہ۔۔۔۔

اُس چوہدری صاحب کی بیٹی غزل کی وجہ سے ہمیں یہ سب سہنا پڑ رہا ہے۔۔۔

وہ اپنا سر پکڑے بولی،

امی امی بس کریں پلیز بس کریں کیوں آپ اُس پر الزام لگا رہی ہیں اُس کا کیا قصور یے بیچاری کا۔۔۔

حرم نےسرد لہجے میں کہا، 

غزل کتاب میں مشغول تھی کہ اچانک اس کا موبائل بجنے لگا۔۔۔

جب بھی میں کتاب پڑھنے لگتی ہوں تب ہی اس فون کو بجنا ہوتا ہے۔۔

اُس نے کال کو اگنور کرتے ہوۓ کہا،

مسلسل موباٸل بجنے پر آخر اُس نے موباٸل ہاتھ میں پکڑ ہی لیا۔۔

یہ کس کا نمبر ہے ؟؟؟

کال اٹینڈ کی اور موباٸل کان پر لگا کر وہ دوسری طرف سے آنے والی آواز کا انتظار کرنے لگی۔۔

ہیلو ؟؟

ہیلو آپ غزل بات کر رہی ہے نا ؟؟

حرم نے پریشان لہجے میں کہا،

جی بالکل میں غزل ہی بات کر رہی ہوں مگر آپ کون ؟؟

غزل جھٹ سے بولی،

میں حرم بات کر رہی ہوں مُنشی صاحب کی چھوٹی بیٹی اور ابان شاہ کی چھوٹی بہن۔۔۔

پہچان تو لیا ہوگا اب آپ نے مجھے ؟؟

جی جی کیا ہوا ہے بولیں۔۔۔

سب خیریت تو ہے نا کال کی سلسلے میں کی ہے آپ نے مجھے ؟؟؟

وہ مجھے بھائی کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ آپ چاہتی ہے وہ کہاں پر ہیں ؟؟؟

ارے کیا ہو گیا ہے بھلا میں کیسے جانتی ہوں گی کہ وہ کہاں پر ہے۔۔۔

غزل نے کہا،

اصل میں بھائی شام سے گھر واپس نہیں آۓ ہم سب بہت پریشان ہیں میں ان کو بہت کالز کر چکی ہوں مگر وہ میری کال بھی اٹینڈ نہیں کر رہے ہیں میں نے سوچا آپ سے پوچھ لوں شاید آپ کو کچھ معلوم ہو ان کے بارے میں۔۔۔

نہیں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور نہ ہی میری اس سے بات ہوئی ہے مگر آپ پریشان نہ ہو میں اُسے کال کرتی ہوں۔۔

یہ کہہ کر غزل نے کال بند کر دی۔۔۔

کہاں چلا گیا ہے یہ ابان شاہ ؟؟؟

یہ کہتے ہوۓ اُس نے ابان شاہ کا نمبر ملایا۔۔۔

ابان شاہ پک اپ دا کال۔۔۔

پلیزززز ابان شاہ کال اٹینڈ کرو تمہارے گھر والے پریشان ہیں تم کہاں چلے گۓ ہو ؟؟

ہ۔۔ہیلو ابان ؟؟

ہاں بولو کیا بات ہے ؟؟؟

کیوں کال کر رہی ہو ؟؟

کہاں ہو تم ہاں جانتے بھی ہو تمہارے گھر والے کتن پریشان ہیں کال کیوں اٹینڈ نہیں کر رہے اپنے گھر والوں کی ؟؟؟

کیا تم پریشان نہیں ہو ؟؟

ابان شاہ نے فوراً کہا،

ابان یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے کیوں ایسا کر رہے ہو تم کیوں گھر سے گۓ ہو کیوں اپنے بوڑھے ماں باپ کو پریشان کر رہے ہو ؟؟

غزل سرد لہجے میں بولی،

تمہیں کس نے بتایا ہے میرے ماں باپ پریشان ہیں اور میں گھر سے باہر ہوں ؟؟

مجھے تمہاری بہن کی کال آٸی تھی بیچاری بہت پریشان تھی پلیز تم گھر چلے جاٶ۔۔۔

سوچنا بھی مت میں گھر تب تک نہیں جاٶں گا جب تک تم اپنے گھر والوں کو ہماری شادی کے لیے نہیں منا لیتی اور جب تک میرے گھر والے تمہارے گھر رشتہ نہیں لے کر آٸیں گے میں گھر نہیں آٶں گا۔۔۔

ابان شاہ یہ کیسی ضد ہے ہاں ؟؟

ابھی تم گھر جاٶ اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں۔۔

اب صرف اور صرف یہی بات ہوگی باقی سب کچھ بعد میں اب صرف ابان شاہ اور غزل کے رشتے کی بات ہوگی۔۔۔

اگر تم اپنے گھر والوں کو منا لو گی تو مجھے بتا دینا میں چلا جاٶں گا گھر اور ہاں سُنو۔۔۔

میرے گھر والوں کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچا دو کہ جب تک وہ لوگ تمہارے گھر رشتہ لے کر نہیں جاٸیں گے میں گھر واپس نہیں آؤں گا اب میری بس یہی بات ہے۔۔۔

ابان شاہ ابان شاہ بس کر دو کیوں بچوں کی طرح ضد کر رہے ہو کیوں فضول باتیں کر رہے ہو۔۔۔

تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا ہوں۔۔۔

یہ کہہ کر ابان شاہ نے کال بند کر دی۔۔۔

ابان۔۔

ابان میری بس تو سنو یاررر۔۔۔

کتنا پاگل ہے یہ لڑکا فضول میں سب کو پریشان کررہا ہے۔۔۔

وہ غصے میں بڑبڑائی۔۔۔

*********

ایسے ملاقات کرنا وہ بھی باہر مجھے مناسب نہیں لگتا آپ اپنے گھر بات کیوں نہیں کرتے ؟؟

افرا نے کہا،

اب گھر کا ماحول کافی حد تک بہتر ہونا شروع ہوگیا ہے اور میں بہت جلد اچھا موقع دیکھ کر بھاٸی صاحب اور رامش سے بات کرنے والا ہوں کیونکہ آپ کے گھر بھاٸی صاحب نے ہی آنا ہے رشتے کی بات کرنے اس لیے سب سے پہلے میں اُس سے ہی ڈسکس کروں گا۔۔۔

وقاص صاحب نے کہا،

میرے ابو امی بہت پریشان ہیں میرے رشتے کے لیے میرے چچا یاتا لوگ میرا رشتہ کہیں ہونے نہیں دیتے جو بھی مجھے دیکھنے آتے ہیں چچا یا تایا کوٸی نہ کوٸی ایسی بات کر دیتے ہیں جس سے انکار ہو جاتا ہے۔۔۔

وقاص میں ایک اور چیز پہلے ہی آپ کو بتا دیتی ہوں تاکہ کل کو کوٸی مسٸلہ کھڑا نہ ہو یا کوٸی بھی ایسی بات نہ ہو جس سے میں اور میرے گھر والے ہرٹ ہوں۔۔

کیا بات ہے بولو میں سُن رہا ہوں۔۔۔

میرے ابو بہت زیادہ جہیز نہیں دے سکتے وہ مجھے ضرورت کی ہر چیز دینے کی پوری کوشش کریں مگر ہم لوگ بہت زیادہ نہیں دے سکتے ہمارے مالی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں۔۔۔

آپ تو بڑے سے بزنس کے مالک ہیں بڑی سی حویلی میں رہتے ہیں ہماری آپ کے مقابل آنے کی اوقات نہیں ہے۔۔۔

وہ بولی جا رہی تھی اور وقاص سامنے بیٹھا اُسے دیکھ کر مسلسل مسکراۓ جا رہا تھا۔۔۔

کیا ہوگیا ہے کیسی باتیں کررہی ہیں آپ ؟؟

ہمیں کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے مجھے صرف آپ چاہٸے ہیں افرا صرف آپ۔۔۔

وقاص نے افرا کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا،

نہیں وقاص آپ کو مجھ سے بہتر امیر لڑکی بھی مل سکتی ہے ابھی آپ کے پاس وقت ہے سوچ لیں سمجھ لیں اگر آپ مجھے انکار کر بھی دیں گے تو کوٸی بات نہیں مجھے بالکل بُرا نہیں لگے گا۔۔۔

اچھا اور آپ کی محبت کا کیا جو آپ مجھ سے کرتی ہیں اور میری محبت کا کیا جو میں آپ سے بےپناہ کرتا ہوں ؟؟؟

ہاں جواب دیں اب مجھے ؟؟؟

وہ محبت کا لفظ سُن کر وقاص کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔

آپ سے کس نے کہا میں آپ سے محبت کرتی ہوں ؟؟؟

وہ جھٹ سے بولی،

کیا نہیں کرتی مجھ سے محبت ؟؟؟

وقاص بولا۔۔

آ۔۔ وہ مجھے نہیں پتہ۔۔۔

آپ مجھ سے محبت کیوں کرتے ہیں اور کیسے ہوٸی آپ کو مجھ سے محبت ؟؟؟

افرا نے کہا،

جب آپ کو پہلی بار دیکھا اُس پہلی نظر میں ہی مجھے آپ سے محبت ہوگٸی تھی اور محبت تو ایک احساس ہے بہت خوبصورت احساس ہے جو بس ہوجاتا ہے اس کے لیے وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔

وقاص صاحب نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔۔۔

اچھا جی ٹھیک ہے مان لیتے ہیں۔۔۔

افرا نے ہنستے ہوۓ کہا،

جی ماننا تو پڑے گا مگر آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔۔

کونسے سوال کا جواب ؟؟

افرا نے حیرانگی سے کہا،

یہی کہ آپ کو بھی مجھ سے محبت ہے نہ ؟؟؟

کیا آپ نہیں جانتے مجھے آپ سے محبت ہے یا نہیں ؟؟؟ اچھا آپ بتاٸیں آپ کو کیا لگتا ہے مجھے آپ سے محبت بھی یا نہیں ؟؟؟

مجھے تو لگتا ہے آپ کو مجھ سے بےتحاشہ محبت ہے بس آپ سے اظہار نہیں ہوتا ہے ہاں نہ ؟؟؟

جب آپ جانتے ہیں سب تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں ؟؟

افرا نے کہا تو وقاص اُس کی اس بات پر مسکرانے لگا۔۔۔

سر آپ کا آرڈر۔۔۔

ویٹر نے کہا،

*********

کہیں میں نے رامش کے ساتھ غلط تو نہیں کیا ؟؟؟

میرا یہ کہنا کہ پہلے مجھ سے نکاح کرو بعد میں یہ سب کرنا کہیں اس نے بُرا تو نہیں منا لیا ؟؟

پتہ نہیں یہ میں نے ٹھیک کیا ہے یا غلط۔۔۔

کال کرتی ہوں اسے پوچھتی ہوں کہ ناراض تو نہیں وہ مجھ سے۔۔۔

یشما نے رامش کا نمبر ملایا۔۔۔

دو تین بار یشما نے کال کی مگر رامش نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔۔

کال اٹینڈ کیوں نہیں کر رہا یہ اب۔۔۔

یشما کو غصہ آ رہا تھا اور وہ بار بار اُسے کال کر رہی تھی جب تک یہ کال اٹینڈ نہیں کرے گا میں بھی کال کرتی رہوں گی۔۔۔

وہ اُسے مسلسل کال کیے جا رہی تھی۔۔۔

جان بوجھ کر یہ ایسا کر رہا ہے میرے ساتھ اسے چھوڑوں گی نہیں میں۔۔

کچھ دیر کے بعد رامش نے کال اٹینڈ کرلی۔۔۔

کیا ہوگیا ہے تمہیں کیوں کالز پر کالز کیے جا رہی ہو سکون سے سونے بھی نہیں دیتی۔۔

وہ آنکھیں ملتا سرد لہجے میں بولا،

تم یہاں مزے سے سو رہے ہو اور میں پریشان ہورہی ہوں کہ شاید تم مجھ سے ناراض ہو۔۔۔

مگر تم جناب مزے سے ریسٹ کر رہے ہو واہ بھٸی میں ہی پاگل ہوں جو تمہیں گھنٹے سے کالز پر کالز کر رہی ہوں۔۔۔

ارے کیا ہوگیا ہے کیا ہوگیا ہے بس بھی کر دو تم تو شروع ہی ہوگٸی ہو۔۔۔

ہاں تو شروع نہ ہوں ے

وہ سخت لہجے میں برس پڑی۔۔

مجھے نیند آٸی ہے یشما مجھے سونے دو پلیز اس بارے میں صبح بات کریں گے۔۔۔

رامش نے کہا،

مجھے معلوم ہوگیا ہے تم نے ابھی تک اس بات پر منہ بنایا ہوا ہے تو ٹھیک ہے منہ بناۓ رکھو مجھے بھی کوٸی فرق نہیں پڑتا۔۔۔

یہ کہہ کر یشما نے کال بند کر دی اور منہ بنا کر بیٹھ گٸی۔۔۔

اس میں زیاہ ہی اکڑ ہے اکڑو کہیں کا۔۔

وہ بڑبڑاٸی۔۔۔

*******

تم یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو ٹاٸم دیکھو جاٶ جا کر سو جاٶ۔۔

رمشا ٹیرس میں کھڑی نہ جانے کن سوچوں میں گُم تھی۔۔۔

میری مرضی میرا دل چاہ رہا ہے یہاں کھڑے ہونے کو سکون لینے کو اس لیے بہتر یہی ہے تم چلے جاٶ یہاں سے اور مجھے سکون لینے دو۔۔۔

رمشا نے سرد لہجے میں کہا،

کیوں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ کہیں رامش بھاٸی نے تو تمہیں باتیں نہیں سُنا دی۔۔

ویسے بھی میں نے سنا ہے کہ تم رامش بھائی کو پسند کرتی ہو ان سے شادی کرنا چاہتی ہو اس گھر کی بہو بننا چاہتی ہو۔۔۔

ایان نے اُس کی طرف دیکھتے ہوۓ تمسخرانہ انداز میں کہا،

یہ سب کچھ تم سے کس نے کہا ؟؟

یہ سب باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی ہیں کیا تم مجھے بتا سکتے ہو ایان چوہدری ؟؟؟


یہ مت پوچھو کہاں سے معلوم ہوئی ہے یہ بتاٶ یہ سب سچ ہے نہ ؟؟

تم رامش بھائی کو پسند کرتی ہو نا ان سے شادی کرنا چاہتی ہو نا ؟؟؟

مجھے لگتا ہے یہ سب کچھ تو میں تمہاری بیوی نے بتایا ہے۔۔۔

یعنی کہ اُس سے جو بھی بات ہوگی وہ جا کر تمہیں بتائے گی سب کچھ ہاں نہ ؟؟

بہت چالاک ہے ویسے تمہاری بیوی۔۔۔

وہ ایان کو گھورتی ہوٸی بولی،

اوۓ ہیلو ایک منٹ۔۔ میری بیوی کے بارے میں ایک لفظ بھی غلط نہیں سنوں گا میں ٹھیک ہے۔۔۔

اپنی بات کرو کرنی ہے تو۔۔

ایان نے سخت لہجے میں کہا،

فکر مت کرو ایان چوہدری بہت جلد میں اس گھر کی بہو بن جاؤں گی اور پورے گھر پہ صرف اور صرف رمشاہ کا راج ہوگا۔۔

اوہ اچھا واٶ سو ناٸس۔۔۔

پہلے جا کر رامش بھائی سے تو پوچھ لو وہ تمہیں پسند کرتے بھی ہیں یا نہیں تم سے شادی کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں کہیں تمہارے خواب خواب ہی نہ رہ جاٸیں۔۔۔

یہ کہہ کر ایان چوہدری وہاں سے چلا گیا اور رمشا کھڑی سڑتی رہی۔۔۔

سمجھتا کیا ہے یہ خود کو۔۔

خود تو اپنی پسند کی شادی کر کے بیٹھ گیا ہے بس دو دن ہی سب نے غصہ کرنا تھا اس پر پہلے تو بڑی باتیں کر رہے تھے چچا یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا اور ہوا اُن سے کچھ بھی نہیں۔۔۔

وہ بڑبڑانے لگی۔۔۔

*************

کہاں رہ گۓ تھے کب سے تمہارا ویٹ کر رہی ہوں میں۔۔۔

ایان کے کمرے پہ ایٹر ہوتے ہی روشنی نے کہا،

وہ روشنی کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔

ارے واہ جی آپ میرا انتظار کر رہی تھی مجھے تو یقین ہی رہی آ رہا۔۔۔

کیوں جی یقین کیوں نہیں آ رہا ؟؟؟

وہ جھٹ سے بولی،

کیونکہ آپ تو بس مجھ سے جان چھڑواتی ہیں تو بھلا مجھے کیسے یقین آۓ گا کہ آپ میرا ویٹ کر رہی ہیں۔۔۔ خیر بتاٸیں کیوں ویٹ کر رہی تھی ؟؟؟؟

میں پوری کوشش کررہی ہوں اپنے آپ کو یہاں ایڈجسٹ کرنے کی خوش رہنے کی تم سے اپنے دل کی ہر بات شٸیر کرنے کی۔۔۔

ظاہر ہے اب میں نے یہاں ہی رہنا ہے تمہارے ساتھ تمہارے گھر میں پھر یہ نفرت بےرُخی میرے خیال سے کسی کام کی نہیں۔۔۔

ایان بیٹھا مست اُس کی باتوں میں کہیں کھو گیا تھا۔۔۔

ایان میں کچھ کہہ رہی ہوں تم سُن تو رہے ہو نہ ؟؟؟

اُس نے ایان کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوۓ کہا،

ہاں ہاں آپ کو ہی تو سُن رہا ہوں اور میں نے کس کو سننا ہے بھلا میری جان۔۔۔

یہ کہتا ہوا وہ روشنی کی جانب بڑھا۔۔۔

کیا کر رہے ہو میرے قریب کیوں آ رہے ہو ؟؟

وہ شرماتی ہوٸی بولی،

کیوں نہ آٶں قریب ؟؟

آج نہیں روک سکتی آپ مجھے آج ایان چوہدری اپنی مرضی کرے گا اور ایان چوہدری کی بیگم اُسے بالکل بھی منع نہیں کرے گی۔۔۔۔

وہ یہ کہتا ہوا اُس کے لبوں پر جھکتا چلا گیا۔۔۔۔

ایان۔۔۔

مت کرو پلیز۔۔۔

روشنی آج آپ مجھے نہیں روکیں گی۔۔

ایان نے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔۔

ایان نے اُس کی گردن پر اپنی انگلیاں پھیرتے مزید روشنی کو خود میں سمٹنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔

روشنی نے پیچھے ہونا چاہا مگر ایان نے اپنی دونوں بازوں سے اُسے گھیر لیا۔۔۔

ذرا سا بھی دُور نہیں ہونے دوں گا آج میں آپ کو خود سے۔۔۔

روشنی کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگی تھی وہ اپنے ہوش کھونے لگی تھی۔۔

مدہوشی کا خمار بڑھتا دونوں کو دنیا سے بےخبر کر رہا تھا۔۔۔

شادی کے بعد آج وہ پہلی بار ایک دوسرے کے اتنا قریب آۓ تھے کہ ایک دوسرے میں سما گۓ تھے۔۔۔

*****

اب بس کر دو فضول میں منہ بنا رہی ہو جبکہ منہ بنانا میرا بنتا ہے۔۔۔

رامش نے یشما کی بازو پر اپنا بازو زور سے مارتے ہوۓ کہا،

رامش کیا ہے تمہیں اتنی زور سے مار رہے ہو مجھے نہ بُلاٶ تم جاٶ۔۔

وہ اپنا بازو ملتی ہوٸی غصے سے بولی،

توبہ توبہ پتہ نہیں کیا ہو تم اچھا چھوڑو یہ تو بتاٶ۔۔

کیسا لگا گھر ؟؟

آنٹی کو کیسا لگا گھر ؟؟

رامش نے کہا،

گھر تو بہت خوبصورت ہے رامش مگر میں اتنا زیادہ رینٹ افورڈ نہیں کر سکتی۔۔

تم چُپ کرو تم سے کس نے کہا رینٹ دینے کے لیے یہ گھر میں تمہیں خرید کر دے رہا ہوں سمجھی اب زیادہ اوور مت ہو اور شفٹ ہونے والی بات کرو۔۔۔

ہاں آج تم مجھے یہ گھر خرید کر دے رہے ہو اور کل کو مجھے طعنہ بھی مار دو گے۔۔۔

یشما منہ بناتی ہوٸی بولی،

اے بس کر دو بس کر دو فضول باتیں نہ کرو میں یشما نہیں ہوں رامش ہوں اور یہ گھر میں تمہیں اپنی خوشی سے لے کر دے رہا ہوں۔۔۔

جیسے ہی مجھے سیلری ملے گی میں تمہیں پیسے واپس کر دوں گی۔۔

یشما بولی،

اوہ اچھا سیلری تو جیسے کڑوڑ روپے ہیں نہ تمہاری جو تم مجھے واپس کردو گی اتنی بڑی بڑی باتیں نہ کیا کرو۔۔۔

اچھا چلو ٹھیک ہے میں تھوڑے تھوڑے کر کے دے دوں گی تمہیں مگر دے ضرور دوں گی۔۔۔

معاف کرو مجھے جاٶ چلی جاٶ یہاں سے کہاں سے آگٸی ہو میرا سر کھانے۔۔۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بچے بن جاتے تھے۔۔۔

ٹھیک ہے ٹھیک ہے اگر تم ہے میرے بولنے سے اتنا ہی مسئلہ ہے تو میں اب بالکل خاموش رہوں گی۔۔۔

وہ منہ بنا کر بیٹھ گٸی۔۔

یاررر کیا ہو تم ہر بات کا الٹ مطلب لے لیتی ہوں۔۔۔

رامش اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔ 

کیا آپ کی بات ہوٸی ابان سے ؟؟

کیا آپ کا رابطہ ہوا بھاٸی سے ؟؟

اگر آپ کی اُن کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات ہوٸی ہے تو پلیز مجھے بتاٸیں۔۔۔

حرم نے پھر سے غزل کو کال کی۔۔۔

جی میری بات ہوٸی ہے ابان شاہ سے آپ لوگ فکر نہ کرو وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔

غزل نے کہا،

یاالله تیرا شکر ہے کم از کم آپ کا رابطہ تو ہوا اُن سے۔۔۔

ویسے وہ کہاں ہیں اس وقت کیا انہوں نے کچھ بتایا نہیں ؟؟؟

حرم نے پوچھا۔۔۔

میں اب سے کیا بتاٶں کہ وہ کہاں ہے اُس نے تو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے ؟؟

غزل نے سوچنے لگی۔۔۔

ہیلو آواز نہیں آ رہی کیا ؟؟؟

حرم بولی،

جی جی آواز آ رہی ہے وہ اُس نے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوست کے گھر ہے۔۔۔

یاالله مجھے معاف کر دینا مجھے مجبوراً جھوٹ بولنا پڑ رہا ہے تاکہ یہ لوگ زیادہ پریشان نہ ہوں اُس کھڑوس کی وجہ سے۔۔۔

ویسے حرم میں ایک بات پوچھوں ؟؟

جی پوچھیں۔۔

کیا ہوا تھا ایسا جو ابان شاہ گھر سے چلا گیا ناراض ہو کر ؟؟؟

غزل نے کہا،

وہ اصل میں بات کچھ اس طرح ہے بھاٸی کو دیکھنے کچھ لوگ آۓ تھے بس یہی بات بھاٸی کو ناگوار گزری اور وہ شام کو غصے سے نکل کر گۓ تھے گھر سے اور اب تک واپس نہیں آۓ۔۔۔

اوہ اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔

تو کیا وہ لوگ ابان شاہ کو پسند کر گۓ ہیں ؟؟

ویسے اس میں گھر سے جانے والی کیا بات تھی ؟؟؟

وہ آپ تو جانتی ہی ہیں نہ بھاٸی آپ کو پسند کرتے ہیں اور آپ سے شادی کرنا چاہتے ہیں انہوں نے امی سے بولا بھی تھا کہ وہ آپ کے علاوہ کسی سے رشتہ نہیں جوڑیں گے۔۔۔

یعنی کہ ابان شاہ نے آپ سب کو بتا دیا ہے یہ سب ؟؟؟

اُفففففف کیا بنے گا اس لڑکے کا۔۔۔

حرم میری بات سنو ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ لڑکا بالکل پاگل ہوگیا ہے۔۔۔

غزل نے سرد لہجے میں کہا،

کیا واقع ہی ایسا نہیں ہے ؟؟؟

مگر وہ تو کہتے ہیں کہ آپ دونوں ہی ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور شادی بھی کرنا چاہتے ہیں۔۔

ویسے حرم آپ کے گھر والے کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟؟؟

کیا مُنشی صاحب نے کوٸی بات کی اس بارے میں ؟؟؟

نہیں ابو نہیں جانتے ابھی تک اس بارے میں کچھ بھی اور امی ابان بھاٸی سے بس یہی کہتی ہیں کہ چوہدری صاحب کبھی بھی ہمارے ساتھ رشتہ نہیں جوڑیں گے اُن کی لاڈلی بیٹی اتنی بڑی حویلی میں رہتی ہے وہ کیسے ہمارے اس چھوٹے سے گھر میں رہے گی۔۔۔

یہ تو آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہو حرم ایسی باتیں کر کے۔۔۔

غزل نے منہ بناتے ہوۓ کہا،

مگر میں آپ کو وہی سب بتا رہی ہوں جو ہمارے گھر میں باتیں ہوٸی تھی۔۔ اسی وجہ سے تو ابان بھاٸی گھر سے گۓ ہیں۔۔۔

میں تو بھاٸی سے کہتی ہوں کہ اچھی سی جاب کریں بڑا سا گھر بناٸیں چوہدری صاحب جھٹ سے آپ کے ہاتھ میں غزل کا ہاتھ رکھ دیں گے۔۔۔۔

اُفففففف الله یہ ابان شاہ کیا کرتا پھر رہا ہے کیا کیا باتیں ہوٸی ہیں اس کے گھر میں میری اس نے کبھی بتایا تک نہیں کیا سوچتے ہوں گے اس کے گھر والے میرے بارے میں۔۔۔

اگر آپ بھاٸی کو پسند کرتی ہیں تو پلیز اُنہیں کہیں نہ کہ واپس آ جاٸیں گھر۔۔۔۔

حرم نے کہا،

اُس نے کہا ہے کہ میرے گھر یہ میرا پیغام پہنچا دو کہ غزل کے گھر رشتہ لے کر جاٸیں اور اُس کے گھر والوں کو مناٸیں۔۔۔ اور اُس نے مجھے بھی کہا ہے اپنے ابو اپنے بھاٸیوں سے رشتے کی بات کرو اور جب بات کرلو تو مجھے بتا دینا میں آ جاٶں گا۔۔۔۔

اب آپ ہی بتاٶ حرم میں کیا کروں کیسے بات کروں میں ابو اپنے بھاٸیوں سے ؟؟

ایک لڑکی ایسے اپنے ہی رشتے کی بات کرتی ہوٸی اچھی تو نہیں لگتی نہ۔۔۔

میری سمجھ سے باہر سب کچھ۔۔۔

بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ مگر آپ کوشش کریں نہ پلیز۔۔۔

میرا بھاٸی اتنا چاہتا ہے آپ کو آپ اتنا تو کر ہی سکتی ہیں نہ اُس کے لیے اور میں یہ بھی جانتی ہوں آپ بھی اُسے بہت پسند کرتی ہیں بس آپ اظہار نہیں کرتی مجھے ابان بھاٸی نے بتایا تھا۔۔۔

یہ ابان مل جاۓ اک بار مجھے دیکھنا اس کو بہت ماروں گی میں۔۔

غزل بڑبڑاٸی۔۔۔

*********

آج رات کا کھانا تم ہمارے ساتھ کھاٶ گے بس میں نے کہہ دیا ہے۔۔

یشما نے کہا،

نہیں میں نہیں آ سکتا تمہارے گھر سوری۔۔۔

رامش بولا،

مگر وہ کیوں ؟؟؟

کیا مسٸلہ ہے کیوں نہیں آ سکتے ؟؟

وہ حیرانگی سے بولی،

جب تک میں تم سے نکاح نہیں کر لیتا تب تک تمہارے گھر نہیں آٶں گا۔۔۔

اوہ اچھا جی تو اب تم میری کہی ہوئی بات مجھے ہی سناؤ گے۔۔۔

واہ رامش واہ کیا بات ہے۔۔

ہاں ظاہر ہے تمہیں ہی سناؤں گا نہ۔۔۔ اب بتاؤ بری لگی ہے نہ یہ بات تمہیں مجھے بھی بالکل ایسا ہی محسوس ہوا تھا جیسا اس وقت تم کر رہی ہو۔۔۔

جان گئی ہوں میں تمہیں ہر بات کا بدلہ لینا جانتے ہو تم۔۔۔

ہاں تمہارے ساتھ رہتے رہتے تمہارے جیسا ہی بن گیا ہوں۔۔۔

یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔۔

میڈم مجھ سے پنگا نہ لینا ہر بات کا جواب ہے میرے پاس۔۔۔

میں تمہیں بہت ماروں گی رامش باز آ جاؤ میں تم سے کہہ رہی ہوں۔۔۔

اچھا چلو بعد میں بات کرتا ہوں ایک امپورٹنٹ میٹنگ پر جا رہا ہوں خود تو تم چھٹی کر کے بیٹھ گئی ہو۔۔

اچھا سنو رامش رات میں لازمی آ جانا میں تمہارا انتظار کروں گی۔۔

یہ کہہ کر یشما نے کال بند کر دی اور رامش کے لیے کھانے کی تیاری کرنے لگی۔۔۔۔

آؤں گا میری جان میں تمہارے گھر مگر پہلے تمہیں ترپاؤں گا۔۔

وہ تمسخرانہ انداز میں بولا۔

°°°°°°°°°

گھر چلے جاؤ بیٹا کب تک ایسے یہاں بیٹھے رہو گے تمہارے ماں باپ پریشان ہو رہے ہوں گے یہاں بیٹھنا تمہارے مسئلہ کا حل نہیں ہے۔۔۔

صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ابان شاہ اس چھوٹے سے کمرے سے باہر آ کر بیٹھ گیا۔۔

نہیں میں نہیں جاؤں گا اگر انہیں میری فکر ہوتی تو وہ میرے ساتھ ایسا کرتے ہی کیوں ؟؟؟

ماں باپ بہت انمول ہوتے ہیں میرے بچے ہم ان کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے تم جاؤ گھر اور پیار سے بات کرو اپنے ماں باپ سے وہ ضرور مان جائیں گے۔۔۔

بابا جی میں چلا جاؤں گا مگر ابھی نہیں پلیز بار بار مجھ سے جانے کا نہ کہیں۔۔۔

وہ منھ موڑ کر اداس ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔

میری دعا ہے تمہاری ہر جائز خواہش پوری ہو۔۔۔

بابا جی یہ کہہ کر اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔۔۔

یاالله تُو ہی ہے جو میری اس مراد کو پوری کرے گا۔۔

تجھ سے بہتر کوئی بھی نہیں جانتا کہ میں غزل کو کتنا چاہتا ہوں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

میرے رب میری مدد فرما کچھ ایسا معاملہ فرما دے کہ اُس کے گھر والے بھی مان جائیں اور میرے گھر والے بھی اس کے گھر رشتہ لے کر چلے جائیں۔۔۔

میرے رب میں کسی اور لڑکی کی زندگی برباد نہیں کر سکتا اپنی زندگی میں لا کر۔۔۔

جب میں جانتا ہوں کہ میں غزل سے محبت کرتا ہوں تو میں کیسے کسی اور لڑکی کو اپنی زندگی میں لے آؤں اس کی زندگی برباد کر دوں۔۔۔

میں نہیں دے پاؤں گا کسی اور کو محبت نہیں کر پاؤں گا کسی اور کی فکر۔۔

مجھے چاہیے ہے تو صرف اور صرف غزل چاہیے ہے۔۔۔

وہ آسمان کی طرف منہ کیے یہ سب کہہ رہا تھا۔۔۔

******

بھاٸی صاحب میں آج آپ سے بہت ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔۔

ہاں ہاں آٶ کیا بات ہے بیٹھو۔۔۔

وہ بھاٸی صاحب بات کچھ اس طرح ہے کہ اب میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔

ارے واہ بھٸی کیا واقع ہی ؟؟؟

یہ تو بہت اچھی بات ہے بہت اچھا فیصلہ لیا ہے تم نے۔۔۔

کیا کوٸی لڑکی پسند آگٸی ہے ؟؟؟

چوہدری صاحب نے کہا،

جی بھاٸی صاحب مجھے ایک لڑکی پسند آگئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کے گھر رشتہ لے کر جائیں شادی کی بات کریں جا کر۔۔۔

وقاص نے کہا،

ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں تم ہمیں بتاؤ کون ہے وہ لڑکی کہاں رہتی ہے ہم ضرور جائیں گے اس کے گھر اس کے ماں باپ سے بات کریں گے جا کر۔۔۔

بھائی صاحب لڑکی وہ غزل کی دوست کی بہن ہے افرا جو یہاں بہت بار بھی چکی ہے شاید آپ نے دیکھا بھی ہوگا اُسے۔۔۔

غزل کی دوست کی بہن ؟؟؟

غزل کی تو کافی ساری دوستیں ہیں کس دوست کی بہن ہے وہ افرا ؟؟؟

چوہدری صاحب نے حیرانگی سے کہا،

بھائی صاحب وہ جو نوشین ہے اُس کی بہن ہے افرا۔۔

کیا غزل کو اس بارے میں معلوم ہے ؟؟؟

میں نہیں جانتا جہاں تک میرا خیال ہے غزل کو نہیں معلوم کچھ بھی اس بارے میں۔۔۔

وقاص نے کہا،

غزل کی ساری دوستیں ہی بہت اچھی ہیں مجھے امید ہے کہ یہ بھی بہت اچھے خاندان سے ہوں گی باقی تم ہمیں اس کے گھر کا بتاؤ ہم جائیں گے تمہارا رشتہ لے کر۔۔۔

اصل میں اس کی دو چار دوستیں آتی رہتی ہیں تو اب میرے ذہن میں نہیں ہے کہ وہ بچی کون سی ہوگی شاید دیکھوں گا تو پتہ چل جائے۔۔۔

میں رامش سے بات کرتا ہوں پھر ہم دونوں اس کے گھر جائیں گے تم فکر نہ کرو بس تم شادی کی تیاری کرو۔۔۔

وقاص کے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔۔۔

واہ بھٸی بھاٸی صاحب تو بڑی آسانی سے مان گۓ ہیں مجھے لگا تھا کہ جب میں اپنی پسند کا بتاٶں گا تو شاید انہیں اچھا نہ لگے مگر واہ جی واہ میر تو کام بڑی آسانی سے ہوگیا۔۔۔

وہ خوشی سے بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔۔۔

*********

غزل میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام لو۔۔

نہیں بھابھی مجھ سے نہیں کھڑا ہوا جائے گا پلیز ایسا مت کریں میں گر جاٶں گی۔۔۔

غزل نے کہا،

غزل تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا ؟؟؟

بھابھی مجھے آپ پر پورا یقین ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید اب میں کبھی چل نہیں پاؤں گی۔۔۔۔

ایسا سوچتی رہو گی تو کبھی بھی چل نہیں سکو گی اس لیے ہاتھ تھام لو میرا۔۔

غزل نے روشنی کی بات مان کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔

بھابھی مجھے ڈر لگ رہا ہے بہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے بھابھی۔۔

میرا ہاتھ نہ چھوڑیے گا پلیز بھابھی۔۔۔

غزل کوشش کرو قدم اٹھانے کی تم کر سکتی ہو کوشش کرو میری پیاری۔۔۔

بھابھی نہیں ہو رہا مجھ سے۔۔۔

روشنی کافی دیر تک غزل کے ساتھ لگی رہی اور آخر اُس نے ایک قدم آگے کو بڑھا ہی لیا۔۔۔۔

جیسے ہی اُس نے ایک قدم بڑھایا وہ وھیل چٸیر پر پیچھے کو جا گری۔۔۔

بھابھی میں نے ایک قدم اُٹھا لیا۔۔

غزل خوش ہوتی ہوٸی بولی،

اب ہم دن میں دو بار کوشش کیا کریں گے اور دیکھنا چند ہی دنوں میں تم چلنے لگ جاٶ گی بالکل پہلے کی طرح۔۔۔

غزل نے روشنی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گال کے ساتھ لگا لیا۔۔۔

بہت اچھی ہیں آپ بھابھی آپ نے میری مدد کی میرے لیے اتنا سوچا۔۔۔

غزل نے پیار بھرے لہجے میں کہا،

ارے تم بس چلنے لگ جاٶ تاکہ تم مجھے اس پوری حویلی کا وزٹ کروا سکو۔۔۔

اتنے میں رمشا بھی ٹیرس میں آگٸی۔۔۔

واہ بھٸی کیا بات ہے یہ بھابھی نند کی دوستی تو دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔۔۔

ہاں شکر ہے الله کا بس نظر نہ لگے اس دوستی اور اس رشتے کو۔۔۔

روشنی جھٹ سے بولی،

بات سنو غزل۔۔۔

رمشا غزل کے قریب ہوتی ہوٸی بولی،

ہاں کہو کیا ہے ؟؟؟

غزل نے سرد لہجے میں کہا،

تم نے میرا کام کیا یا نہیں ؟؟

رمشا نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔ روشنی پاس بیٹھی سب دیکھ رہی تھی۔۔۔

ن۔۔نہیں وہ رامش بھاٸی آفس سے لیٹ آتے ہیں تب تک میں سو چکی ہوتی ہوں تو اس لیے بات نہیں کر پاٸی میں اُن سے۔۔۔

جلدی بات کرو بہت دن ہوگۓ ہیں میں یہ بہانے سُن رہی ہوں تمہارے سمجھی۔۔۔

وہ یہ کہہ کر غزل سے پیچھے ہوٸی۔۔

بھابھی مجھے میرے کمرے میں چھوڑ دیں پلیز۔۔۔۔

غزل کا موڈ خراب ہوگیا تھا۔۔

روشنی اُس کی وھیل چٸیر کو چلاتے ہوۓ اُسے اُس کے کمرے میں لے گٸی۔۔۔

کیا کہہ رہی تھی یہ رمشا ؟؟؟

سچ بتاٶں تو بالکل بھی اچھی نہیں لگتی یہ مجھے اور ایان کو بھی یہ ذرا پسند نہیں ہے۔۔۔

بھابھی یہ کسی کو بھی پسند نہیں ہے پتہ نہیں میں نے کونسا گناہ کر دیا تھا جس کی سزا مجھے مل رہی ہے۔۔۔۔

غزل سرد لہجے میں بولی،

کیا ہوا کوٸی بات ہے تو تم میرے ساتھ شٸیر کر سکتی ہو غزل۔۔۔۔

بھابھی میں بہت پریشان ہوں اپنی پریشانی میں کسی سے بھی شٸیر نہیں کر سکتی ہر کوٸی مجھے دھمکی ہی دیتا ہے بعد میں۔۔

غزل رونے والی ہوگٸی تھی۔۔۔

تم یہ سمجھ رہی ہو کہ اگر تم مجھ سے بات شٸیر کرو گی تو میں جا کر ایان کو بتا دوں گی ہاں نہ ؟؟؟؟

غزل تم میری نند نہیں بہن ہو مجھ پر بھروسہ رکھو میرے اور تمہارے درمیان جو بھی بات ہوگی وہ صرف ہم دونوں میں ہی رہے گی میں وہ نہیں ہوں جو یہاں سے سُن کر جا کر اپنے شوہر کو بڑھا چڑھا کر لگا دی۔۔۔۔

بھابھی میں بہت پریشان ہوں یہ رمشا میرا پیچھا نہ جانے کیسے چھوڑے گی۔۔۔

ہماری حویلی میں مُنشی صاحب کام کرتے تھے ابھی چند ہی مہینے ہوۓ ہیں انہوں نے کام چھوڑا ہے اُن کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں رہتی اس لیے۔۔۔۔۔

اُن کا بیٹا ابان شاہ ایک دو بار حویلی آیا ہے اور ایک بار میں بھی ابو کے ساتھ گٸی تھی اُن کے گھر منشی صاحب کی عیادت کے لیے۔۔

وہ مجھے پسند کرتا ہے ایکسڈنٹ کے بعد وہ ایک دو بار میرے کمرے بھی آیا تھا اور اس رمشا نے اُسے میرے کمرے میں آتا دیکھ لیا تھا اور اب یہ مجھے بلیک میل کرتی ہے کہ میں رامش بھاٸی سے اس کی اور اُن کی شادی کی بات کروں اگر میں نے بات نہ کی تو یہ بھاٸی کو بتا دے گی میرے ابان شاہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔۔۔

اب آپ ہی بتاٸیں میں کیا کروں ؟؟؟

اوہ اچھا تو یہ معاملہ ہے۔۔۔

کیا رمشا نے تمہیں نقصان بھی پہنچایا ہے ؟؟؟

روشنی بولی،

ہ۔۔ہاں پہلے یہ مجھے بالوں سے پکڑ لیتی تھی تھپڑ مارتی تھی ایک بار جب آپ نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تمہارے کمرے سے چیخوں کی آواز آ رہی تھی تو ہاں وہ میرے کمرے سے ہی آ رہی تھی۔۔۔

بہت ہی بُری اور عجیب لڑکی ہے یہ پریشان نہ ہو اس کا بھی کوٸی حل سوچ لیتے ہیں۔۔

آٸندہ اب کبھی ہاتھ بھی نہیں لگاۓ گی یہ تمہیں۔۔۔۔

تم بتاٶ کیا تم بھی ابان شاہ کو پسند کرتی ہو ؟؟

روشنی نے کہا،

آ۔۔وہ نہیں میں نہیں کرتی پسند اُسے۔۔

غزل نے منہ موڑتے ہوۓ کہا،

ہمممممم۔۔۔ سوچ لو کرتی ہو یا نہیں ؟؟

روشنی نے غزل کو تنگ کرتے ہوۓ کہا،

بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔۔

غزل ذرا سا مسکراتی ہوٸی بولی،

کرتی ہو پسند تم بھی اُسے ہاں نہ ؟؟؟

روشنی نے غزل کا چہرہ اپنی جانب کرتے ہوۓ دھیمے لہجے میں کہا تو غزل مسکرانے لگی اور ہاں میں سر ہلایا۔۔۔

*****

آۓ کیوں نہیں تم ابھی تک ؟؟

کب سے انتظار کر رہی ہوں میں تمہارا جلدی سے آ جاٶ کھانا بالکل تیار ہے۔۔۔

یشما نے رامش کو کال کی۔۔۔

میں نہیں آ سکتا میں ایک ضروری میٹنگ میں جا رہا ہوں۔۔۔

رامش کیا مطلب ہے تمہارا ہاں میں نے اتنی محبت سے کھانا بنایا ہے جلدی سے آٶ۔۔۔۔

ارے تمہیں کیسے بتاؤں میں میری ایک ضروری میٹنگ ہے میں نہیں آ سکتا۔۔

رامش مجھے غصہ آ رہا ہے میٹنگ تھی تو پہلے بتا دیتے کون کھاۓ گا اب یہ کھانا ہاں ؟؟؟

کیا ہوگیا ہے ایسا کرنا صبح آفس میں لے آنا وہاں آرام سے بیٹھ کر کھا لیں گے دونوں۔۔۔

رامش مجھ سے اب کبھی بات مت کرنا سمجھے۔۔۔۔

جاٶ چلے جاٶ میری ذندگی سے مجھ سے بات مت کرنا اب کبھی بھی۔۔

یشما نے غصے سے کال بند کر دی۔۔

دیکھا بس میں یہی چاہتا تھا کہ یہ بھی بالکل ویسے ہی تڑپے جیسے اس نے اس دن مجھے تڑپایا تھا۔۔ 

شام کے پانچ بج رہے تھے مُنشی صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابان شاہ کو آواز دی۔۔۔

ابان شاہ یہ میری دوا لا دو بیٹا۔۔

منشی صاحب نے ابان شاہ کو آواز دی۔۔

امی اب آپ ہی جواب دیں گی ابو کو سب آپ کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔۔۔

حرم سرد لہجے میں بولی۔۔

ابان شاہ نہیں آیا رات سے گھر ابھی تک نہ جانے کہاں چلا گیا ہے۔۔

ساری عمر ماں باپ اولاد کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں اُن کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اولاد یہ صلح دیتی ہے نافرمانی کرتی ہے یعنی کہ اُن کی ذندگی میں ماں باپ کی تو کوٸی اہمیت ہی نہیں ہوتی ہے۔۔

ابان شاہ کہاں ہے کیوں نہیں آیا وہ رات بھر گھر کیا وجہ ہے کیوں نہیں بتاتے تم لوگ مجھے۔۔

مُنشی صاحب بھڑک اٹھے۔۔

امی میں آج ابو کو سچ بتا کر ہی رہوں گی چاہے کچھ بھی ہو جاۓ بس بہت ہوگیا ہے میں تنگ آگٸی ہوں زور زور کے تماشے سے۔۔۔

حرم رُکو تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گی سمجھی۔۔۔

آسیہ بیگم اُسے روکتی ہوٸی بولی ،

کیوں نہ کروں میں ایسا امی کب تک اپ ایسے ہی کرتی رہیں گی ابو سے یہ سب باتیں چھپاتی رہیں گی ؟؟؟

حرم سخت لہجے میں بولی،

میں تمہیں اس لیے منع کر رہی ہوں کیونکہ یہ سب جاننے کے بعد تمہارے ابو کی طبیعت بھی کر بھی سکتی ہے۔۔۔

امی اپ کو کیا لگتا ہے کیا ایسے ابو کی طبیعت نہیں بگڑے گی ؟؟؟

وہ بار بار ہم سے ابان بھائی کا پوچھیں گے ہم بار بار جھوٹ بولیں گے ؟؟؟

کب تک ہم ان سے جھوٹ بولتے رہیں گے آخر کار ہمیں ایک دن تو بتانا ہی ہے نا ان کو یہ سب کیوں نہ ابھی بتا دیا جائے۔۔۔

ایسے جب وہ ابان بھائی کو گھر میں نہیں دیکھیں گے تو زیادہ ٹینشن لیں گے۔۔۔

حرم اُٹھی اور اپنے ابو کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔۔

ابو مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

ابو آپ کو پتہ ہے ابان بھاٸی کل رات سے گھر کیوں واپس نہیں آۓ کیونکہ امی ان کا زبردستی رشتہ کر دینا چاہتی ہیں۔۔۔

زبردستی رشتہ مگر کیوں ؟؟

ابو بھائی کسی اور لڑکی کو پسند کرتے ہیں۔۔

حرم جھٹ سے بولی،

کس کو پسند کرتا ہے وہ اور اس نے بتایا کیوں نہیں مجھے ؟؟؟

اور تمہاری ماں نے مجھے کیوں نہیں بتایا کیوں چھپایا اس نے مجھ سے یہ سب کچھ ؟؟

منشی صاحب نے غصے سے کہا،

کیونکہ امی بھائی کا رشتہ اپنی پسند کی لڑکی سے کرنا چاہتی ہیں۔۔۔

کیا مطلب اپنی پسند کی لڑکی کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں ؟؟

زندگی اُس نے گزارنی ہے یا تمہاری ماں نے ؟؟

تم ابھی کے ابھی ابان شاہ کو کال کرو اور اسے کہو کہ جلدی سے گھر آئے وہ جہاں کہے گا ہم اس کا رشتہ وہاں ہی کریں گے۔۔۔

منشی صاحب نے کہا،

دماغ خراب ہو گیا ہے تم باپ بیٹی کا۔۔۔

آسیہ بیگم غصے سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر آٸی۔۔۔

اپنی ماں سے بول دو کہ اپنے منہ سے ایک بھی لفظ نہ نکالے یہ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔

منشی صاحب نے تلخ لہجے میں کہا تو آسیہ بیگم بالکل خاموش ہو گئی۔۔۔

*****

پورے گاٶں میں میٹھا بانٹو آج۔۔

رامش نے غزل کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا،

جانتے بھی ہیں میں صرف اور صرف روشنی بھابھی کی وجہ سے اپنے آج اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہوگٸی ہوں اصل شکریہ تو ہمیں ان کا ادا کرنا چاہیے ہے بھائی۔۔۔

اب آپ کو چاہیے کہ اپ ان کے ساتھ اچھے سے رہیں وہ اس گھر کی بڑی بہو ہے۔۔۔

کیا واقع ہی روشنی کی وجہ سے ہوا ہے یہ ؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،

جی بالکل بھاٸی وہ ہر روز میرے کمرے میں آتی تھیں مجھے سہارا دیتی تھیں میرا بازو پکڑتی تھی مجھے کہتی تھی کہ چلنے کی کوشش کرو تم کر سکتی ہو تم کر سکتی ہو بہت دنوں سے کر رہی تھی وہ یہ میرے ساتھ میرے پروں کی مالش کرتی تھیں اور میں نے دیکھا کہ کل سے میں صحیح سے چلنے لگی ہوں۔۔۔

بُلا کر لاٶ ہنی روشنی بھابھی کو جلدی سے۔۔۔

رامش کے منہ سے روشنی بھابھی کا نام سن کر غزل کو بہت خوشی ہوئی۔۔۔

جی بھائی میں بھی بلا کر لاتا ہوں بھابھی کو۔۔۔

وہ فوراً روشنی کے کمرے کی طرف گیا اور دروازہ ناک کیا۔۔

بھابھی؟؟؟

بھابھی“ کا لفظ سن کر وہ ایک دم حیران رہ گئی۔۔۔

کون ہے ؟؟

یہ کہتے ہوۓ روشنی بیڈ پر سے اُٹھی اور دروازہ کھولا۔۔۔

بھابھی رامش بھاٸی آپ کو بُلا رہے ہیں نیچے آ جاٸیں جلدی سے۔۔۔

ہنی نے کہا،

رامش بھاٸی ؟؟؟

وہ مجھے کیوں بلا رہے ہیں ؟؟

اب تو کمرے سے باہر بھی نہیں آٸی سچ میں۔۔

روشنی نے پریشان لہجے میں کہا،

ارے بھابھی کیا ہوگیا ہے ایسی کوٸی بات نہیں ہے آپ نیچے آٸیں آپ کو معلوم ہو جاۓ گا سب۔۔

یہ کہہ کر ہنی نیچے چلا گیا۔۔۔

یاالله یہ کیوں مجھے نیچے بُلا رہے ہیں۔۔

اُس نے بڑبڑاتے ہوۓ سر پر ڈوپٹہ لیا اور اپنا موباٸل ڈھونڈنے لگی۔۔

م۔۔موباٸل کہاں گیا ایان کو کال کرتی ہوں اُسے کہتی ہوں کہ جلدی گھر آۓ نہ جانے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔

ایان۔۔

ایان کال تو اٹینڈ کرو یار۔۔۔

اُس نئے کمرے میں یہاں وہاں چکر لگاتے ہوئے کہا،

ایان نے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔

روشنی نے ہمت کی اور کمرے سے باہر گٸی۔۔

کیسے جاٶں میں نیچے مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے نہ جانے کیا ہوگا میرے ساتھ۔۔۔

وہ نیچے گٸی تو سب باہر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔

ج۔۔جی آپ نے مجھے بُلایا ؟؟

روشنی نے گھبراتے ہوئے کہا،

آٸیں بھابھی یہاں میرے پاس آ کر بیٹھ جائیں۔۔۔

غزل نے روشنی سے کہا،

آٸی ایم ریلی سوری بھابھی میں اس دن آپ کے ساتھ بہت بُرے لہجے میں بولا۔۔

آج اگر غزل اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہے تو صرف اور صرف آپ کی وجہ سے۔۔۔

میں اپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہماری بہن کو ہمت دی۔۔۔

رامش نے روشنی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،

چوہدری صاحب اُٹھے اور روشنی کے سر پر پیار دیا۔۔۔

مجھے معاف کر دو بہو میں نے تمہیں غلط سمجھا اور تمہارے ساتھ برا رویہ اختیار کیا۔۔۔

تمہاری وجہ سے میری بیٹی کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔۔۔

روشنی حیران تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اُسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔

غزل اُٹھی اور روشنی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے پاس صوفے پر بٹھایا۔۔۔

بھابھی دیکھیں سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے۔۔

آپ نے میری مدد کی مجھے ٹھیک کیا اور دیکھیں آپ کے ساتھ بھی سب ٹھیک ہوگیا۔۔

غزل نے مسکراتے ہوۓ کہا،

یہ سب الله تعالی نے ٹھیک کیا ہے غزل اور آپ سب لوگ میرا نہیں بلکہ الله کا شکریہ ادا کریں اُس نے مجھے صرف وسیلہ بنا کر بھیجا۔۔

اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے سب کچھ اللہ تعالی نے کیا ہے۔۔

روشنی بولی،

ہاں بالکل بیٹا بالکل ٹھیک کہا تم نے۔۔۔

چوہدری صاحب بولے،

بھابھی مجھے معاف کر دیں پلیز اور اب یہ گھر آپ کا ہے آپ جہاں چاہیں حویلی میں جا سکتی ہیں۔۔۔

کچن میں جائیں اپنی پسند کا کھانا بنائیں اور ہمیں بھی کھلائیں اب یہ آپ کا اپنا گھر ہے آپ نے ہی اسے سنوارنا ہے۔۔۔

رامش نے کہا،

آٸیں بھابھی میں آپ کو حویلی وزٹ کرواتی ہوں۔۔۔

غزل روشنی کو اپنے ساتھ لے گٸی۔۔


میں سوچ رہا ہوں ہم روشنی کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں وقاص کا رشتہ دیکھنے۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

ہاں ابو ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں۔۔۔

مجھے ایک ضروری کام ہے میں وہاں سے ہو کر آتا ہوں پھر ہم وہاں پر چلے جاٸیں گے۔۔۔

یہ کہہ کر رامش فورا یشما کے گھر کی جانب نکل گیا۔۔۔

وہ میرا انتظار کر رہی ہوگی اگر میں نہ گیا تو اتنا بڑا منہ بنا کر بیٹھ جائے گی۔۔۔

رامش جب اس کے گھر پہنچا اُس نے دیکھا کہ یشما کے گھر کے باہر ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

یہ گاڑی کس کی کھڑی ہے اس کے گھر کے باہر۔۔۔

وہ فوراً اندر گیا۔۔۔

یشما ؟؟

یشما کہاں ہو ؟؟

رامش کی آواز سُن کر وہ باہر کی جانب بھاگی۔۔۔

ہاں آگۓ تم ؟؟

مل گیا تمہیں وقت یہاں آنے کا ؟؟

یہ بتاٶ باہر گاڑی کس کی کھڑی ہے ؟؟

کوٸی آیا ہے کیا ؟؟

ہاں کزن آیا ہے میرا۔۔۔

یشما جھٹ سے بولی،

کزن کونسا کزن اور کیوں آیا ہے ؟؟

وہ سرد لہجے میں بولا،

کیا مطلب کیوں آیا ہے ؟؟

میرا کزن ہے جب مرضی آ سکتا ہے یہاں۔۔

یہ سنتے ہی رامش آگ بگولہ ہوگیا۔۔۔

کیوں آۓ گا وہ یہاں ہاں کیوں آۓ گا ؟؟

رامش نے یشما کا بازو پکڑتے ہوۓ اُسے زور سے جھنجھوڑتے ہوۓ کہا،

رامش چھوڑو مجھے کیا بدتمیزی ہے یہ ہاں ؟؟

تم ایسا نہیں کرسکتے میرے ساتھ۔۔۔

وہ اپنا بازو چھڑواتے ہوۓ بولی،

میں سب کچھ کر سکتا ہوں سمجھی تم اور تمہاری ہمت کیسے ہوٸی اپنے کزن کو یہاں کا راستہ دینے کی ؟؟؟

یہ وہی کزن ہے نہ تمہارا جو تمہیں پسند کرتا ہے اور تم سے شادی بھی کرنا چاہتا ہے ہاں نہ ؟؟؟

ہاں یہ وہی ہے مگر وہ میرے لیے بڑے بھاٸیوں کی طرح ہے تم غلط سوچ رہے ہو۔۔۔

یشما بولی،

اُسے بولو جاۓ یہاں سے۔۔

رامش نے سخت لہجے میں کہا،

کیوں جاۓ وہ ؟؟

تم تو آۓ نہیں کھانے کے ٹاٸم پر میں نے سوچا کیوں نہ میں اُسے بُلا لوں میرا نیا گھر بھی دیکھ لے گا وہ اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لے گا۔۔۔

اچھا تو مطلب تم نے اُسے دعوت دی ہے یہاں آنے کی اوہ بہت خوب۔۔۔

ہاں میں نے اُسے دعوت دی ہے۔۔۔

یشما میں تم سے پہلی اور آخری بار کہہ رہا ہوں آٸندہ وہ اس گھر کے آس پاس بھی مجھے نظر نہ آۓ ورنہ بہت بُرا ہوگا اور اُسے جا کر بولو جاۓ یہاں سے۔۔۔

ان دونوں کی اونچی آوازیں سُن کر احمد وہاں آگیا۔۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے یہاں اور یہ لڑکا کون ہے یشما ؟؟؟

احمد نے رامش کی طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوۓ کہا،

میں یشما کا ہونے والا شوہر ہوں تم بتاٶ تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟

رامش نے احمد کا گریبان پکڑتے ہوۓ کہا،

کیا کر رہے ہو پیچھے ہٹو۔۔

احمد غصے سے بولا،

چھوڑو رامش احمد کو پاگل ہوگۓ ہو کیا تم ؟؟؟

یشما نے رامش کو احمد سے پیچھے کرتے ہوۓ کہا،

یشما تم بیچ میں مت آٶ۔۔

رامش اُسے گھورتا ہوا سخت لہجے میں بولا،

یشما تم مجھے بتا کیوں نہیں رہی کون ہے یہ لڑکا ؟؟؟

احمد چیخا۔۔۔

بتایا تو ہے میں نے تمہیں میں اس کا ہونے والا شوہر ہوں سمجھ نہیں آئی کیا تمہیں ؟؟؟

یشما بتاؤ اسے کہ میں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں بولو بتاؤ اسے جلدی۔۔۔

رامش پلیز جاٶ یہاں سے پلیز۔۔۔

یشما عزت ہے ہمارے گھر کی اور تم ہمارے گھر کی عزت کو ایسے گھر میں گھس کے ذلیل نہیں کر سکتے۔۔۔

احمد نے رامش کے قریب جاتے ہوۓ کہا،

اوہ اچھا۔۔۔

جل رہے ہو تم کہ اس نے تمہارے ساتھ شادی کیوں نہیں کی ہاں نہ ؟؟؟

رامش نے جواب دیا۔۔

پلیز بس کر دو پلیز پلیز پلیز۔۔ جاٶ چلے جاٶ تم دونوں میرے گھر سے۔۔۔

یشما نے چیختے ہوۓ کہا تو رامش فوراً وہاں سے چلا گیا۔۔۔

احمد کچن سے پانی لے کر آیا۔۔

یشما پانی پیو شاباش۔۔

ریلیکس ہو جاؤ ریلیکس ہو جاؤ اور مجھے بتاؤ کون تھا وہ ؟؟

ابھی میں اس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی پلیز احمد چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔

یشما نے پانی کا گلاس پکڑا اور اپنے کمرے میں چلی گٸی۔۔۔

احمد بہت زیادہ پریشان ہوگیا تھا۔۔

*******

اتنا خوش میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا آپ کو جتنا آج دیکھ رہا ہوں۔۔۔

ایان بولا،

کیا یہ سب سن کر تمہیں خوشی نہیں ہوئی ایان ؟؟؟

روشنی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا،

مجھ سے زیادہ بھلا کس کو خوشی ہو سکتی ہے اس بات کی بتاٸیں۔۔

میں تو اب بالکل ٹینشن فری ہو گیا ہوں کہ سب لوگ میری بیوی کے ساتھ بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں میں تو بہت خوش ہوں اب آپ پوری حویلی میں جہاں مرضی آ جا سکتی ہیں کچن میں جا کر میرے لیے مزے مزے کے کھانے بنا سکتی ہیں میری فیملی کے ساتھ گُھل مل کر بیٹھ سکتی ہیں۔۔

ایان نے روشنی کی طرف دیکھتے ہوۓ محبت بھرے لہجے میں کہا،

روشنی کی طرف دیکھ کر محبت بھرے لہجے میں کہا،

ایان تمہیں پتہ ہے جب ہنی مجھے بلانے آیا کہ رامش بھاٸی نیچے بُلا رہے ہیں میں تو بہت زیادہ ڈر گئی تھی کہ نہ جانے اب کیا ہوگا میرے ساتھ مگر جب میں نیچے گئی تو سب لوگ میرے ساتھ اتنے اچھے طریقے سے بولے کہ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔۔

میں واقع ہی بہت خوش ہوں ایان۔۔۔

میری جان آپ بہت اچھی ہیں ہم آپ کا جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے آپ کی وجہ سے ہماری بہن چلنے لگی ہے جس کی ٹینشن ہمیں ہر وقت لگی رہتی تھی۔۔۔

ایان نے روشنی کے ماتھے کو چوما اور اُسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا لگا۔۔

مجھے یقین تھا میرے گھر والے ایک دن ضرور آپ کو اپنا لیں گے اور دیکھ لیں آج سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے الله کا بہت شکر ہے۔۔۔

ایان نے کہا، 

ٹھیک ہے پھر بھابھی ملاقات ہوتی ہے یونیورسٹی سے واپس آ کر۔۔۔

ہاں ہاں ٹھیک ہے دھیان سے جاؤ۔۔۔

غزل آج ایک عرصے کے بعد یونیورسٹی جا رہی تھی۔۔۔

روشنی اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ اُس کے سسر چوہدری صاحب نے اُسے آواز دی۔۔۔

روشنی بیٹا بات سُنو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

روشنی فوراً ٹی وی لاٶنج کی جانب بڑھی۔۔۔

جی جی آپ کہیے میں سُن رہی ہوں۔۔

بیٹھ جاٶ بیٹھ جاٶ۔۔۔

روشنی صوفے پر نظرے جھکاۓ بیٹھ گٸی۔۔

وہ وقاص کا رشتہ دیکھنے جانا ہے میں اور رامش جاٸیں گے میں نے سوچا ہے تم بھی ہمارے ساتھ جاٶ گی ظاہر ہے ساتھ ایک لڑکی کا ہونا بھی تو لازمی ہے نہ غزل کی ماں ہوتی تو وہ چلی جاتی اب کیا کریں بھٸی۔۔ اس لیے تم ہمارے ساتھ جاٶ گی تیار ہو جانا وقت پر۔۔۔

ج۔۔جی جی میں تیار ہو جاٶں گی۔۔۔

ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ جاٶ کمرے میں جا کر آرام کرو کیوں اُٹھ گٸی ہو اتنی صبح صبح۔۔۔

وہ مجھے عادت نہیں ہے زیادہ دہر تک سونے کی بس اسی لیے نیچے آگٸی تھی۔۔۔

اچھا اچھا بیٹا تمہارا جب دل چاہے تم نیچے آٶ اوپر جاٶ ہمیں کوٸی مسٸلہ نہیں ہے مجھے تو اچھا لگتا ہے گھر میں رونق ہو۔۔۔


آپ کے لیے ناشتہ بنا دوں ؟؟

روشنی نے کہا،

ہاں میں تو جلدی کر لیتا ہوں ناشتہ بنا دوں مجھے بھوک بھی لگی ہے۔۔۔

روشنی فوراً کچن میں گٸی اور چوہدری صاحب کے لیے مزیدار سا ناشتہ بنا کر لاٸی۔۔۔

اُسے ڈر تھا کہ اگر چوہدری صاحب کو اُس کے ہاتھ سے بنا ہوا ناشتہ پسند نہ آیا تو اُس کی بہت بےعزتی ہوگی۔۔۔

بی بی جی اب آپ کمرے میں جا کر آرام کریں کافی دیر سے اُٹھی ہوٸی ہیں آپ۔۔

زبیدہ نے کہا،

روشنی اپنے کمرے میں چلی گٸی۔۔۔

کمرے میں جا کر وہ یا وہاں چکر لگانے لگی۔۔۔

ایان کی اچانک آنکھ کھلی تو اس نے روشنی کو ایسے چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو حیران ہو گیا۔۔۔

کیا ہوا ایسے اتنی صبح صبح تم کیوں ٹہل رہی ہو کمرے میں ؟؟

شکر ہے تم اٹھ گئے ایان ورنہ ٹینشن سے میں تو مر ہی جاتی۔۔۔

ارے الللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔۔

مجھے بتائیں کیا ہوا ہے رات کو تو سب ٹھیک تھا پھر اچانک سے کیا ہوگیا ہے ؟؟

ایان میں تمہارے ابو کو ناشتہ بنا کر دے کر آئی ہوں پتہ نہیں انہیں پسند آیا ہے یا نہیں جاؤ تم پوچھ کر آؤ ان سے ایان پلیز جلدی کرو اٹھو۔۔۔

اففففف میرے الللہ کیا ہوگیا ہے آپ کو یہ کوئی ٹینشن لینے والی بات ہے کیا۔۔۔

ہاں نہ ٹینشن کی ہی تو بات ہے میں چاہتی ہوں اب سب لوگ میرے ساتھ بالکل ٹھیک طرح سے رہیں۔۔۔۔۔

روشنی نے پریشان لہجے میں کہا،

میری معصوم سی بیوی۔۔۔

ایان نے روشنی کا بازو پکڑا اور اُسے بیڈ پر اپنی جانب کھینچا۔۔۔

میں جانتا ہوں آپ نے بہت مزے دار ناشتہ بنا کر دیا ہوگا ابو کو اور انہیں بہت زیادہ پسند بھی آیا ہوگا اور ہاں اب سب لوگ آپ کے ساتھ ٹھیک ہی رہیں گے اس بات کی فکر اب آپ چھوڑ دیں۔۔

تھوڑی سی فکر تھوڑی سی اپنی محبت اپنے شوہر کو بھی دے دیں یہ بھی آپ کا کچھ لگتا ہے۔۔۔

ایان نے روشنی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا،

ایان کرتی تو ہوں میں تم سے محبت اور کیا کروں اب ؟؟؟

روشنی جھٹ سے بولی،

نہیں کرتی نہیں کرتی آپ مجھ سے محبت آپ کو بس دوسروں کی فکر رہتی ہے ہر وقت۔۔۔

ایان کیا مطلب دوسروں کی فکر ؟؟

وہ دوسرے نہیں ہیں وہ تمہارے گھر والے ہیں۔۔۔

روشنی سرد لہجے میں بولی،

اچھا نہ یہاں دیکھیں میری طرف۔۔۔

ایان نے روشنی کا چہرہ اپنی جانب کیا اور دوسرے بازو سے اسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔

بہت سکون ملتا ہے مجھے اپنی بیگم کی بانہوں میں مگر بیگم صاحبہ تو میرے پاس بھی نہیں آنا چاہتی ہیں۔۔۔

میں نے دیکھا ہے بہت ناشکرے ہو تم قسم سے۔۔۔

روشنی نے دھیمے لہجے میں کہا،

آپ میری بات مانیں گی تو میں ناشکری کرنا چھوڑ دوں گا نہ۔۔۔

یہ کہتے ہوئے وہ روشنی کے لبوں پر جھکا۔۔

ایان پلیز یہ حرکتیں مت کرنا صبح صبح۔۔۔

وہ اس سے ذرا سا دور ہوتی ہوئی بولی۔۔

کیا مطلب یہ حرکتیں مت کرنا ایسا کیوں کہتی ہیں آپ ؟؟؟ شوہر ہوں میں آپ کا اچھے سے جانتی ہیں آپ یہ بات۔۔۔

وہ ذرا سا غصے میں بولا تو روشنی اُس کے ساتھ چپک کر لیٹ گٸی۔۔۔

نہیں کرن مجھے اب کچھ بھی جا سکتی ہیں آپ۔۔۔

وہ غصے سے اُٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔۔۔

ہاۓ الله کہیں یہ ناراض تو نہیں ہوگیا مجھ سے ؟؟؟

نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اس کے ساتھ۔۔۔

وہ واش روم کے باہر جا کر کھڑی ہو کر اس کا انتظار کرنے لگی۔۔۔

********

بھابھی کہاں ہیں ؟؟

بھابھی ؟؟

غزل نے ٹی وہ لاٶنج میں داخل ہوتے ہوۓ زبیدہ سے کہا،

وہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہی ہیں۔۔

کیسا رہا آپ کا آج کا دن یونیورسٹی میں غزل بیٹا ؟؟؟

بہت اچھا رہا اور بہت مزہ آیا دوستوں سے دوبارہ مل کر۔۔ یہ بتاٸیں بھابھی تیار کیوں ہو رہی ہیں کہیں جا رہی ہیں کیا وہ ؟؟؟

غزل نے اپنا بیگ ٹیبل پر رکھا اور صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔

زبیدہ کچن سے پانی کا گلاس لے کر آٸی اور غزل کو دیا۔۔۔

جی وہ آپ کے وقاص ماموں کے لیے لڑکی دیکھنے جا رہی ہے چوہدری صاحب اور رامش صاحب کے ساتھ۔۔۔

ارے یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟؟

وہ جھٹ سے اُٹھی اور روشنی کے کمرے کی جانب بھاگی۔۔

سنبھل کر غزل بی بی۔۔۔

زبیدہ بولی،

بھابھی آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ آپ وقاص ماموں کے لیے لڑکی دیکھنے جا رہی ہیں ؟؟

غزل مجھے بھی صبح ہی معلوم ہوا ہے جب تم یونیورسٹی کے لیے نکل گٸی تھی اُس وقت چوہدری صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ آج لڑکی دیکھنے جانا ہے۔۔۔

اوہ اچھا جہاں آپ لوگ جا رہے ہیں نہ لڑکی دیکھنے وہ میری دوست کا گھر ہے۔۔۔

غزل بولی،

کیا مطلب دوست کا گھر ؟؟؟

روشنی نے حیرانگی سے کہا،

میری دوست کی بہن افرا کو پسند کرتے ہیں وقاص ماموں۔۔۔

ارے کیا واقع ہی ؟؟؟

روشنی نے ہنستے ہوۓ کہا،

جی بھابھی اور دیکھ لیں ماموں نے خبر تک نہ ہونے دی مگر مجھے پھر بھی معلوم ہوگیا۔۔۔

چلو جی میں بھی دیکھ لوں گی آج وقاص ماموں کی پسند کو۔۔۔

روشنی نے آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوۓ کہا،

بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ بھابھی۔۔۔

اتنے میں ایان کمرے میں آیا۔۔

ایان تم بھی جا رہے ہو کیا ؟؟

غزل بولی،

نہیں میں نہیں جا رہا۔۔۔

ایان نے اپنا موباٸل پکڑا اور کمرے سے نکل کر چلاگیا۔۔

یہ کیا ؟؟

ایان نے تو آپ ک تعریف بھی نہیں کی۔۔۔

کوٸی ناراضگی ہے کیا دونوں میں ؟؟

بس کیا بتاٶں میں تمہیں غزل بہت نکھرے ہیں تمہارے بھاٸی کے۔۔

آج صبح سے ناراض ہے مجھ سے۔۔۔

روشنی نے کہا،

اوہ اچھا تو ناراضگی چل رہی ہے دونوں میں۔۔

آپ کو چاہٸے تھا آپ بھاٸی کو مناٶ۔۔۔

اگر وہ بات نہیں کر رہے تو آپ پر لازم ہے ان کو منانا۔۔

منا لوں گی منا لوں گی کیا ہو گیا ہے بڑی سائیڈ لے رہی ہو اپنے بھائی کی۔۔

ظاہر ہے بھاٸی ہے میرا۔۔

ہر بات مانا کریں آپ اُس کی۔۔۔

یہ کہہ کر غزل کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔


کچھ دیر کے بعد جیسے ہی وہ لوگ جانے کے لیے نکلنے لگے رمشا حویلی پہنچ گٸی۔۔۔

کہاں کی تیاری ہے بھابھی ؟؟

اُس نے روشنی کو سر سے پاٶں تک دیکھتے ہوۓ کہا،

ہم وقاص ماموں کے لیے لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں۔۔۔

ارے واہ آج تو میرا کام آسانی سے ہو جاۓ گا۔۔

رمشا نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوۓ کہا،

آج نہ جانے وہ کونسا بڑا کارنامہ سرانجام دینے جا رہی تھی۔۔۔

اتنے میں رامش اندر سے آیا۔۔

ارے تم آگٸی میں ہنی کو بھیجنے لگا تھا تمہارے گھر تمہیں یہاں لے کر آنے کے لیے۔۔۔

رامش نے اپنے بال سیٹ کرتے ہوۓ کہا،

کیوں جی خیریت جو تم مجھے بُلا رہے تھے ڈی ایس پی رامش۔۔۔

وہ رامش کے قریب ہوتی ہوٸی بولی،

رامش فوراً پیچھے ہٹ گیا۔۔۔

ہم لوگ جا رہے ہیں غزل گھر پر ہی میں نےسوچا تم آ جاٶ گی تو اُس کا دل لگ جاۓ گا۔۔

اُس کے پاس رہو جب تک ہم واپس نہیں آ جاتے اُس کا خیال رکھنا ٹھیک ہے۔۔۔

رعب دار لہجے میں وہ یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔

روشنی بھی گاڑی میں جا کر بیٹھ گٸی۔۔

بہت ہی تیز لڑکا ہے یاد بھی کیا تو اپنے مطلب کے لیے۔۔۔

ہر وقت غزل غزل غزل۔۔۔

وہ کھڑی بڑبڑا رہی تھی۔۔

********

ہماری طرف سے ”ہاں“ ہے۔۔۔بس وہ میرا بیٹا ذرا شہر سے باہر گیا ہے ضروری کام سے جس دن وہ واپس آگیا اُسی دن ہم نکاح کی تاریخ مقرر کردیں گے۔۔۔

حرم۔۔

حرم بیٹا چاۓ بنا کر لاٶ اور ساتھ میں میٹھاٸی بھی لے آنا۔۔

آسیہ بیگم نے حرم کو آواز دی۔۔۔

میٹھاٸی کا نام سُن کر حرم چونک اُٹھی۔۔۔

کون آیا ہے جو امی میٹھاٸی لانے کا بول رہی ہیں۔۔۔

حرم نے اُسی ٹاٸم کتاب ساٸڈ پر رکھی اور کمرے سے باہر گٸی۔۔۔

باہر ہال میں کھڑی وہ چھپ چھپ کر اُن کی باتیں سننے لگی۔۔۔

یہ لوگ پھر سے آگۓ یہاں۔۔

ابو کہاں ہیں میں ابو کو جا کر بتاتی ہوں۔۔

بھاٸی گھر آیا نہیں اور امی کو رشتے کی پڑی ہے بیٹے کی کوٸی فکر ہی نہیں۔۔

وہ بڑبڑاتی ہوٸی اپنے ابو کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔

ابو تو سو رہے ہیں۔۔۔

کیا کروں کیا کروں ؟؟

وہ اپنے ابو کے پاس جا کر دھیرے سے بیٹھ گٸی۔۔

ابو جی اُٹھیں مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔

اُس نے اپنے ابو کے کان میں کہا،

ک۔۔۔کیا ہوا حرم بیٹا۔۔

کیا بات ہے ابان شاہ آگیا ہے کیا ؟؟؟

نہیں ابو وہ تو نہیں آیا مگر وہ رشتے والے دوبارہ آگۓ ہیں اور امی اُنہیں نکاح کی تاریخ دینے کی باتیں کر رہی ہیں۔۔

کیاااا ؟؟

یہ تمہاری ماں کیا کرتی پھر رہی ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی اس کی۔۔۔

ابو اٹھے ہمت کریں اور جا کر اُن سے کہہ دیں کہ ہمیں نہیں کرنا یہ رشتہ۔۔۔

اس رشتے کی وجہ سے ہی تو بھائی گھر سے چلے گئے ہیں۔۔۔

حرم اپنے ابو سے یہ سب کہہ رہی تھی۔۔۔

تم فکر نہ کرو میں کرتا ہوں بات اُن سے میرے جوتے لاٶ کہاں ہیں ؟؟

منشی صاحب نے کہا،

حرم فورا باہر سے اپنے ابو کے جوتے اٹھا کر لائی اور ان کے پاؤں کے سامنے رکھ دیے۔۔۔

منشی صاحب ہی مت کر کے اُٹھے اور دوسرے کمرے کی جانب بڑھے۔۔۔

آسیہ بیگم یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟؟؟

سارے فیصلے میرے بغیر ہی کر لو گی کیا تم ؟؟؟

وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔۔

آٸیں منشی صاحب آٸیں۔۔۔

آپ سو رہے تھے اسی لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا آپ کو جگانا میں نے سوچا میں خود ہی بات کر لیتی ہوں ان سے۔۔

آسیہ بیگم جھٹ سے بولی،

اچھا تو کیا اب تم میرے بیٹے کی ذندگی کا فیصلہ اکیلی ہی کرو گی آسیہ بیگم ؟؟؟

کیا میرا کوٸی حق نہیں ہے ؟؟

مجھے بھی تو بتاٶ کیا فیصلہ کیا ہے تم نے۔۔۔

منشی صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا،

میں نے انہیں کہا ہے ہم منگنی کی رسم نہیں بلکہ ڈاٸریکٹ نکاح ہی کریں گے۔۔

کس کی اجازت سے تم نے یہ کہا ہے انہیں آسیہ بیگم ؟؟؟

مشنی صاحب نے سرد لہجے میں کہا،

کیا ہو گیا ہے منشی صاحب آپ کو ؟؟؟

کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟؟

آسیہ بیگم بولی،

ہم ابھی اپنے بیٹے کا رشتہ نہیں کرنا چاہتے۔۔۔

پہلے وہ کوئی اچھی سی نوکری کرے گا اس کے بعد وہ شادی کرے گا اس لیے معذرت ہے۔۔۔

منشی صاحب یہ کہہ کر وہاں سے اُٹھ کر چلے گۓ۔۔۔۔

آسیہ بیگم غصے سے آگ بگولہ ہوگٸی۔۔۔

وہ لوگ آسیہ بیگم کو طرح طرح کی باتیں سُنا کر چلے گۓ۔۔۔

حرم مجھے بتاٶ ابان شاہ کس لڑکی کو پسند کرتا ہے کہاں رہتی ہے وہ لڑکی میں رشتہ لے کر جاٶں اُس کے گھر۔۔۔

ابو آج میں آپ کو سب کچھ سچ بتاٶں گی۔۔۔

بھاٸی غزل کو پسند کرتے ہیں۔۔۔

غزل ؟؟؟

منشی صاحب نے حیرانگی سے کہا،

جی ابو چوہدری صاحب کی بیٹی غزل۔۔۔

ابو آپ چوہدری صاحب سے بات کریں نا ہوسکتا ہے وہ مان جاٸیں۔۔۔

حرم نے کہا،

آسیہ بیگم غصے سے بھری کمرے میں داخل ہوٸی۔۔۔

ہاں تو بتاٸیں اب منشی صاحب کر لیں گے بات آپ چوہدری صاحب سے ؟؟؟

اتنی ہمت آپ کے اندر ؟؟؟

یہ سب چھوڑیں یہ سوچیں کیا وہ کریں گے آپ کے بیٹے سے اپنی شہزادی بیٹی کا رشتہ ؟؟؟

آسیہ بیگم چلی جاٶ یہاں سے جاٶ چلی جاٶ مجھے پریشان مت کرو۔۔۔

منشی صاحب سخت لہجے میں بولے۔۔

*******

میں غزل کو بس کچھ ہی دیر میں کسی بھی طرح کر کے باہر لے آٶں گی تم بالکل تیار رہنا۔۔

رمشا نے بلال کو میسج کیا جو ابھی دو دن پہلے ہی جیل سے واپس آیا تھا جس کے بدن میں صرف غزل اور اُس کے بھاٸیوں سے انتقام لینے کی آگ بھڑک رہی تھی۔۔۔


آٶ غزل باہر چلتے ہیں حویلی سے۔۔۔

کیا ہر وقت تم کمرے میں گُھسی رہتی ہو۔۔۔

نہیں مجھے نہیں جانا مجھے ایک بہت امپورٹنٹ اساٸنمنٹ ملی ہوئی ہے مجھے وہ کمپلیٹ کرنی ہے تمہیں جانا ہے تو تم چلی جاؤ۔۔۔

غزل نے صاف انکار کر دیا۔۔۔

کیا ہو گیا ہے میں کون سا روز آتی ہوں بعد میں کر لینا یہ اسائنمنٹ۔۔۔

چلو اُٹھو۔۔۔

رمشا نے غزل کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتے ہوئے کہا،

ویسے بہت ضدی ہو تم رمشا۔۔

غزل منہ بناتے ہوئے اٹھی اور دونوں حویلی سے باہر گٸی۔۔

غزل بی بی آپ کو اس وقت باہر نہیں پنا چاہیے تھا۔۔۔

حویلی کے سیکیورٹی گارڈ نے کہا،

آپ کو ہماری زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنی ڈیوٹی کریں جا کر۔۔۔

رمشا نے سیکیورٹی گارڈ کو سخت لہجے میں کہا اور غزل کا ہاتھ پکڑ کر آگے کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔

ویسے وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے ہمیں اس وقت گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔۔۔

بھائی ابو اور بھابھی بھی گھر پر نہیں ہیں۔۔۔

غزل نے کہا،

چپ ہو جاؤ میں ہوں نہ تمہارے ساتھ زیادہ مت بولو موسم انجوائے کرو بس۔۔۔

وہ غزل کو ایک بڑی مشکل کی طرف لے جا رہی تھی۔۔۔ 

کافی ٹاٸم لگ گیا ہے مجھے ایک ضروری میٹنگ پر بھی جانا تھا مگر خیر کوئی بات نہیں ماموں کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں اب میں۔۔۔

رامش نے ہنستے ہوئے کہا،

اپ مجھے بتا بھی دو ان لوگوں نے کیا جواب دیا ہے میں بے تاب ہوں سننے کے لیے۔۔

وقاص ماموں نے کہا،

جیسے آپ ہمیں یہاں لینے چلے آۓ ہیں میں سمجھ گیا ہوں آپ کی بے چینی۔۔۔

ہاں تو پھر کیوں اتنا انتظار کر رہے ہو بتا بھی دو اب۔۔۔

ماموں انہوں نے کہا ہے آپ کے لڑکے کی بہت زیادہ عمر ہو گئی ہے ہماری بچی کی اتنی عمر نہیں ہے اس لیے انہوں نے منع کر دیا ہے۔۔

رامش اپنے ماموں کو تنگ کر رہا تھا۔۔۔


روشنی مجھے اس کی کسی بات پر یقین نہیں آپ مجھے بتاٶ کیا کہا انہوں نے ؟؟

آپ کو کیسی لگی افرا ؟؟

وقاص نے کہا،


اوہ افرا۔۔

واہ جی واہ۔۔

ابو جی دیکھ لیں کیسے ابھی سے افرا افرا ہو رہی ہے۔۔۔

رامش نے چوہدری صاحب کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوۓ کہا،

بیٹا میں تو چاہتا ہوں اپنی ذندگی میں تم سب کی شادیاں کر دوں میں بھی تھوڑی سی خوشیاں دیکھ لوں اپنے بچوں کی۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

جی بھاٸی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔ اب رامش کے لیے بھی کوٸی اچھی سی لڑکی دیکھ کر میرے ساتھ ہی اس کے بھی نکاح کی تاریخ مقرر کر دیں۔۔۔

یہ بات سنتے ہی رامش کے ذہن میں یشما کا خیال آیا۔۔۔

نہیں ابھی نہیں کرنی مجھے شادی۔۔

رامش نے افسردہ لہجے میں کہا،

کیوں نہیں کرنی شادی اور کونسی عمر میں کرنی ہے تم نے شادی ہاں ؟؟

بھاٸی صاحب اب آپ اس کی ایک بھی نہیں سنیں گے بس جلد از جلد اس کے لیے لڑکی ڈھونڈیں گے۔۔۔۔

وقاص نے کہا،

رامش بھائی اگر آپ کو کوئی لڑکی پسند ہے تو آپ بتا دیں ابو کو ہم رشتہ لے کر چلے جائیں گے ان کے گھر۔۔۔

روشنی کی بات پر رامش مسکرایا۔۔۔

ہممممم۔۔۔ لگتا ہے یہی بات ہے۔۔۔

وقاص ہنستے ہوۓ بولا،

جب کوئی ایسی بات ہوگی تو میں سب کو بتا دوں گا فی الحال ابھی میرا کوئی موڈ نہیں ہے شادی کا۔۔۔۔

رامش نے جواب دیا۔۔۔

**********

میں چوہدری صاحب سے بات کروں گا اس بارے میں مجھے امید ہے وہ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔۔۔

جب دونوں بچے آپس میں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں پھر تو کسی کو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہیے ہے۔۔۔

وہ پہلے کے دور تھے جب ماں باپ اپنی پسند سے اپنی اولاد کی شادی کر دیا کرتے تھے مگر اب یہ دور ایسا آگیا ہے بچے ماں باپ کی پسند کو تسلیم نہیں کرتے وہ شادی کے معاملے میں اپنی مرضی کرتے ہیں اور میرے خیال سے یہ غلط تو نہیں ہے اولاد کو پورا حق ہے اپنی پسند سے شادی کرنے کا۔۔۔

کل کو ہم نے تو مر جانا ہے زندگی تو انہوں نے ہی گزارنی ہے نا۔۔۔

ہم نے تو جیسے تیسے کر کے اپنی زندگی گزار لی ہے اپنے دور اپنے حالات کے مطابق مگر آج کل کے بچے ہمارے دور کی پُرانے وقتوں کی ذندگیاں گزرانا نہیں چاہتے ہیں۔۔۔

اس لیے ابان شاہ جہاں کہے گا میں اس کی شادی وہاں ہی کرواؤں گا آسیہ بیگم سن لو تم کان کھول کر۔۔۔

مُنشی صاحب نے سخت لہجے میں آسیہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

ابا بہت اچھی باتیں کی ہیں آج آپ نے میرا تو دل ہی خوش ہو گیا ہے۔۔

حرم نے اپنے ابو کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

آسیہ بیگم غصے سےوہاں سے اُٹھ کر کچن میں چلی گٸی۔۔۔

حرم بیٹا ابان شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کرو اور اسے بولو کہ گھر آ جائے اب بہت ہو گیا ہے۔۔۔

منشی صاحب نے کہا،

جی ابو میں پوری کوشش کرتی ہوں بھائی سے رابطہ کرنے کی۔۔۔

حرم نے کہا،

********

چھوڑو مجھے چھوڑو۔۔۔

کون ہو تم چھوڑو مجھے۔۔۔

رمشا۔۔۔

رمشا میری مدد کرو پلیز رمشا اسے کہو مجھے چھوڑ دے۔۔۔

رمشا تم کچھ بولتی کیوں نہیں رمشا پلیز کچھ تو بولو۔۔۔

میری مدد کرو۔۔۔

کوٸی ہے ؟؟؟

کوٸی ہے ؟؟ مدد کرو میری۔۔

بچاٶ مجھے۔۔۔

غزل بولتی بولتی اچانک سے بےہوش ہوگٸی۔۔

رمشا وہاں کھڑی ہنستی ہوٸی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔۔۔

لے جاٶ اسے اور ایسی جگہ پھینک دینا کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔۔۔

ختم کر دو اسے۔۔

اب پتہ چلے گا اس کے بھاٸی رامش کو جو ہر وقت اپنی بہن کو پوجتا تھا۔۔۔

رمشا سخت لہجے میں بولی۔۔

یہ سب اُسی کی چال تھی۔۔۔

اب میں کیا کروں سب کو کیا بتاٶں گی کہ کہاں گٸی غزل ؟؟

وہ یہ سوچتی ہوٸی حویلی کی جانب بڑھی۔۔۔

رمشا باجی غزل صاحبہ کہاں ہیں ؟؟

انہیں کہاں چھوڑ آٸی ہیں آپ وہ تو آپ کے ساتھ گٸی تھی نا ؟؟

کہاں ہیں وہ ؟؟

دونوں گارڈ رمشا کے ارد گرد کھڑے ہوگۓ۔۔۔

و۔۔وہ مجھے نہیں پتہ وہ کہاں گٸی ہے۔۔۔

اتنے میں گاڑی کا ہارن بجا۔۔۔

ایک گارڈ بھاگتا ہوا حویلی کے گیٹ کی جانب بڑھا۔۔

اوہ شٹ۔۔۔

ان لوگوں کو بھی ابھی آنا تھا۔۔۔

رمشا تیرا دماغ کام کیوں نہیں کیا تجھے باہر سے ہی گھر بھاگ جانا چاہیۓ تھا۔۔۔

شٹ شٹ۔۔۔

یہ میں نے کیا کیا اب اس رامش کو میں کیا جواب دوں گی ؟؟؟

وہ وہاں کھڑی بڑبڑا رہی تھی۔۔۔

شکر ہے آپ لوگ آگۓ۔۔۔

گارڈ نے اونچی آواز میں کہا تو رامش فوراً گاڑی سے اُترا۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

ص۔۔صاحب کچھ دیر پہلے رمشا باجی اور غزل صاحبہ حویلی سے باہر گٸی تھیں رمشا باجی تو واپس آگٸی ہے مگر غزل۔۔۔

یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔۔۔

بتاٶ کیا ہوا غزل کو کہاں ہے غزل ؟؟

رامش چیخا۔۔

کیا ہوا ہے رامش کیوں چیخ رہے ہو بیٹا ؟؟؟

چوہدری صاحب نے گاڑی سے اترتے ہوۓ کہا،

الله کیا ہوگیا ہے کہاں ہے غزل ؟؟

روشنی نے حیرانگی سے کہا،

رامش بھاگتا ہوا رمشا کے پاس گیا۔۔

یہ گارڈ کیا کہہ رہا ہے کہاں ہے غزل ؟؟

سچ سچ بتا دو مجھے ورنہ بہت بُرا پیش آٶں گا یاد رکھنا۔۔۔

وہ رمشا کو گھورتا ہوا تلخ لہجے میں بولا۔۔

م۔۔مجھے نہیں پتہ وہ کہاں گٸی ہے۔۔

ایک۔۔ایک لڑکا آیا تھا وہ اُس کے ساتھ چلی گٸی میں نے اُسے بہت روکا مگر اُس نے میری ایک نہیں سُنی۔۔۔

بکواس بند۔۔۔

ایک لفظ بھی منہ سے مت نکالنا میری غزل کے بارے میں سمجھی تم۔۔۔

رامش میری بات تو سُن لو۔۔۔

رمشا بولی،

ابو۔۔

وقاص ماموں اس سے آرام سے پوچھ لیں غزل کہاں ہے ورنہ اگر میں نے اس سے اپنی زبان میں پوچھ لیا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔

یہ کہہ کر رامش گارڈ کو لے کر باہر چلاگیا۔۔۔

ماموں میں سچ کہہ رہی ہوں وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گٸی ہے اور وہ لڑکا کوٸی اور نہیں بلکہ منشی صاحب کا بیٹا ابان شاہ ہے۔۔۔

بس کر دو رمشا یہ تم کیا بول رہی ہو ہاں ؟؟

روشنی غصے سے بولی،

روشنی بھابھی آپ تو غزل کی بیسٹ فرینڈ ہے نا آپ تو سب کچھ جانتی ہوں گی ہاں نہ۔۔۔

بتاٸیں سب کو کہ وہ ابان شاہ کو پسند کرتی تھی ایک دو بار وہ اُس سے ملنے بھی آیا تھا حویلی۔۔۔

سارا دن تو آپ بھابھی نند ایک کمرے میں بند رہ کر باتیں کرتی تھی غزل نے آپ کو سب کچھ بتایا ہی ہوگا۔۔۔

چوہدری صاحب کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا اور وہ وہاں ہی کھڑے کھڑے گر گۓ۔۔

بھاٸی صاحب۔۔۔

ہنی۔۔

ایان۔۔

رامش۔۔۔کہاں ہو جلدی آٶ باہر۔۔۔

گھر پر کوٸی بھی نہیں ہے وقاص صاحب۔۔

دوسرا گارڈ بھاگتا ہوا آیا۔۔۔ وقاص اور گارڈ دونوں نے چوہدری صاحب کو اُٹھایا اور اندر لے گۓ۔۔۔


تم بھی اندر چلو رمشا۔۔

بہت غلط کر رہی ہو تم مجھ پر الزام لگا کر اور بات رہی غزل کی رامش بھاٸی اُسے ڈھونڈ لاٸیں گے مگر یاد رکھنا تم کبھی خوش نہیں رہ پاٶ گی۔۔۔

ایک بات اور سُن لو اب تم رامش بھاٸی کا خیال اپنے ذہن سے نکال دو سمجھی۔۔۔


رامش کہاں ہو جلدی سے گھر پہنچو بھاٸی صاحب کی طبعیت خراب ہوگٸی ہے۔۔۔

وقاص نے رامش کو فون کیا جو گارڈ کے ساتھ آس پاس پورے گاٶں میں غزل کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔۔۔

اتنے میں ایان اور ہنی بھی حویلی پہنچے۔۔

یہ آپ لوگ اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہیں ؟؟

سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

آپ لوگ تو آج مامو کا رشتہ دیکھنے گئے تھے نا ؟؟؟

ایان نے حیرانگی سے کہا،

ایان وہ غزل اور میں حویلی سے باہر گۓ تھے چکر لگانے ہم حویلی سے تھوڑا آگے گۓ تو ایک لڑکا آیا غزل اُس کے ساتھ چلی گٸی اور اب تک واپس نہیں آٸی ہے۔۔۔

بہت پیار کرتے تھے نا تم اپنی بہن سے دیکھو تم سب کو دھوکہ دے کر بھاگ گئی ہے وہ ایان۔۔۔

رمشا کے منہ سے یہ بات سن کر ایان آگ بگولا ہو گیا اور اس کے منہ پر زوردار تھپڑ مارا۔۔۔

کیا بکواس کر رہی ہو تم ہاں ؟؟

ہوش میں تو ہو ؟؟

میری بہن ایسی نہیں ہے سمجھ آٸی۔۔۔


ک۔۔کیا ہوا ابو کو ؟؟

رامش نے ٹی وی لاٶنج میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا،

ڈاکٹر کو بُلایا ہے بھاٸی صاحب کا چیک اپ ہو رہا ہے۔۔۔

وقاص نے کہا،


پانی لے کر آٸیں زبیدہ باجی۔۔

رامش بھاٸی بیٹھ جاٸیں ریلیکس ہو جاٸیں ایسے غصہ کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔

روشنی نے کہا،

یہ پانی بیگم صاحبہ۔۔

زبیدہ نے پانی کا گلاس لا کر روشنی کو دیا۔۔

یہ لیں پانی پیٸے آپ اور پُرسکون ہو جاٸیں۔۔۔

کیسے پُر سکون ہو جاٶں ؟؟

میری بہن نہ جانے کہاں ہے کس حال میں ہے ؟؟

یاالله ہماری بہن ہی کیوں ؟؟؟

یہ کہتے ہوۓ رامش کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔۔

تینوں بھاٸیوں کی آنکھوں نم ہوگٸی اور ایک دوسرے کے گلے لگ گۓ۔۔۔


کیوں رو رہے ہو تم لوگ ؟؟

اس روشنی سے پوچھو کہاں گٸی ہے غزل اسے سب معلوم ہوگا آخر غزل اس کی پکی دوست جو ہے۔۔۔

اس سے پہلے کہ رمشا سے کوٸی کیا جاتا وہ خود ہی بول پڑی۔۔۔

بُلاٶ منشی صاحب کو اور پوچھوں اُن سے کہاں لے گیا ہے اُن کا بیٹا غزل کو۔۔۔


اپنی بکواس بند رکھو ابان شاہ کیوں لے کر جاۓ گا بھلا اُسے ؟؟

اُس کا کیا تعلق ہے غزل کے ساتھ ؟؟

یہ سب کچھ تمہارا کیا دھرا ہے۔۔۔

میں نے دو تین بار غزل کے رونے اور تڑپنے کی آوازیں سُنی ہیں۔۔۔

جب جب میں نے اُس کے کمرے سے رونے کی آوازیں سُنی ہیں تب تب میں نے تمہیں اس کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔

تم اسے کیا کہتی تھی ہاں بتاٶ جواب دو۔۔۔

روشنی بھڑک اُٹھی۔۔۔


تم مجھ پر الزام لگاؤ گی ہاں تم ہوتی کون ہو مجھ پر الزام لگانے والی تم ہم سب میں غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہو۔۔۔

تم ہم سب کو دور کرنا چاہتی ہو۔۔۔

رمشا بولی،


روشنی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے اس نے مجھے بھی ایک بار کہا تھا کہ غزل کے کمرے سے رونے کی آوازیں آتی ہیں پر میں نے اگنور کیا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا وہ کیوں روئے گی بھلا شاید روشنی کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو مگر روشنی بالکل ٹھیک تھی۔۔۔

ایان بولا،


بس کر دو ایان تمہاری آنکھوں پر اپنی بیوی کی محبت کی پٹی بندھی ہوئی ہے اس لیے تمہیں اس کی ہر بات ٹھیک لگ رہی ہے۔۔۔

رمشا بولی،


میں اپنی پوری ٹیم کو آرڈر کرنے لگا ہوں مجھے امید ہے غزل صبح ہونے سے پہلے ہی ہمیں مل جائے گی۔۔۔

یہ رمشا اس گھر سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالے گی جب تک غزل واپس نہیں آجائے گی۔۔۔

رامش نے سخت لہجے میں کہا،


ایان تو مجھ پر شک کر رہے ہو تم ایک بار اپنے اس بھابھی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔۔۔


میں کیوں پوچھوں ان سے ؟؟

میں جانتا ہوں کہ میری بہن کبھی کوئی غلط حرکت کر ہی نہیں سکتی۔۔۔

جب وہ غلط حرکت ہی نہیں کر سکتی تو اس نے بھابھی سے کیا بات کی ہوگی ہاں بولو جواب دو ؟؟؟

یہ کہہ کر رامش اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔

رمشا کی باتیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔۔۔

نہیں غزل ابان شاہ کے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔

میں دو تین بار ملا ہوں ابان شاہ سے وہ ایسا لڑکا نہیں ہے۔۔۔

یہ میرے دل کو سکون کیوں نہیں آ رہا۔۔۔

میں منشی صاحب نے پاس جاتا ہوں اُن سے بات کرتا ہوں شاید میرے دل کو تسلی مل جاۓ۔۔۔


رامش فوراً حویلی سے نکلا اور منشی صاحب کے گھر کی جانب نکل گیا۔۔۔

منشی صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔۔

رامش نے دروازہ ناک کیا۔۔۔

اس وقت کون آگیا ؟؟

حرم بیٹا دیکھو کون آیا ہے مجھے لگتا ہے ابان شاہ آیا ہے۔۔۔

منشی صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے بولے،

جی ابو جا رہی ہوں دیکھنے۔۔۔

حرم اٹھی اور دروازے کی جانب بھاگی۔۔۔

کون ہے ؟؟

حرم نے کہا،

میں ہوں رامش۔۔ چوہدری صاحب کا بیٹا۔۔۔

یہ سنتے ہی حرم نے دروازہ کھول دیا۔۔

جی اندر آ جاٸیں۔۔۔

کیا منشی صاحب گھر پر ہے مجھے ان سے ملنا ہے۔۔۔

رامش نے کہا،

جی ابو گھر پر ہی ہیں آپ اندر آ جائیں۔۔۔

ابو چوہدری صاحب کے بڑے بیٹے رامش آٸے ہیں آپ سے ملنے۔۔۔

حرم نے اپنے ابو کے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے کہا رامش بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔۔۔

ارے رامش آیا ہے۔۔۔

آٶ رامش اندر آ جاٶ۔۔۔


کیسے ہیں آپ منشی صاحب ؟؟

رامش منشی صاحب سے ملا۔۔

حرم چاۓ بنا کر لاٶ رامش کے لیے۔۔۔

نہیں نہیں میں نہیں پیوں گا چاۓ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

حرم باہر جاٶ بیٹا۔۔۔

منشی صاحب نے حرم کو اشارہ کیا۔۔۔

حرم فوراً کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔


منشی صاحب ہم آج وقاص ماموں کا رشتہ دیکھنے گئے تھے۔۔

رمشا کو غزل کے پاس چھوڑ کر گئے تھے ہم۔۔ نہ جانے ہمارے پیچھے سے کیا ہوا کیا نہیں۔۔

گارڈ نے بتایا کہ رمشا غزل کو حویلی سے باہر لے گٸی تھی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد رمشا واپس آگٸی مگر غزل۔۔۔۔

یہ کہہ کر رامش خاموش ہوگیا۔۔۔

کیا غزل ؟؟

کیا ہوا غزل کو کہاں ہے وہ ؟؟

منشی صاحب نے حیرانگی سے کہا،


رمشا نے تو یہی بتایا ہے غزل کو ابان شاہ اپنے ساتھ لے گیا ہے۔۔۔

منشی صاحب مجھے یہ بات چین لینے نہیں دے رہی تھی اس لیے میں آپ کے پاس دوڑا چلا آیا مجھے بتاٸیں کہاں ہے ابان شاہ ؟؟

یہ سب تم کیا کہہ رہے ہو رامش ؟؟

ابان شاہ ؟؟

غزل ؟؟

منشی صاحب کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔

رامش کی بات سُن کر وہ ایک دم گھبرا گۓ کہ کہیں واقع ہی ابان شاہ غزل کو لے تو نہیں گیا۔۔۔

وہ سوچ میں پڑ گۓ کہ رامش کو ابان شاہ اور غزل کا ایک دوسرے کو پسند کرنا کے بارے میں بتاٶں یا نہیں ؟؟

بولیں منشی صاحب کہاں ہے ابان شاہ ؟؟

دیکھو بیٹا میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا ابان شاہ دو دن سے گھر سے باہر ہے۔۔

نہ جانے وہ کہاں ہے اس کا فون بھی بند ہے وہ ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا تھا اور آج دو دن ہوگۓ ہیں وہ گھر واپس نہیں آیا۔۔۔

یہ سُن کر رامش کا شک کافی حد تک یقین میں بدل گیا۔۔۔

کیاااا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟

وہ کیوں نہیں آیا دو دن سے گھر کیا بات ہے منشی صاحب ؟؟

آپ مجھے کچھ تو بتاٸیں وہ کہاں ہے میں پتہ کر لوں گا اس کا۔۔۔

مجھے تو اب رمشا کی باتیں سہی لگنے لگی ہیں۔

بیٹا وہ اُس کا رشتہ آیا تھا ایک جگہ سے اُس کی ماں نے وہاں ہاں کر دی تھی مگر ابان شاہ کو نہیں کرنا ابھی کہیں بھی رشتہ اس لیے وہ ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا۔۔۔

منشی صاحب آپ مجھے ابان شاہ کا فون نمبر دیں میں اُس کا نمبر ٹریس کروا لوں گا اور معلوم کروا لوں گا وہ کہاں ہے۔۔۔

منشی صاحب کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اگر غزل کو ابان شاہ ہی لے کر گیا ہے تو منشی صاحب کی بہت بےعزتی ہو جاۓ گی چوہدری صاحب کے سامنے۔۔۔ 

اب کیوں پریشان ہو رہے ہیں منشی صاحب اب تو آپ کا بیٹا آپ کی عزت کا جنازہ نکال چکا ہے بس اعلان ہونا باقی ہے وہ بھی کچھ دیر تک ہو ہی جاۓ گا۔۔۔

آسیہ بیگم تمسخرانہ انداز میں بولی،

بس کر دو آسیہ بس کر دو میں تمہارے پاٶس پڑتا ہوں بس کر دو۔۔

امی کیا ہوگیا ہے آپ کو ابو پہلے ہی اتنا پریشان ہیں انہیں حوصلہ دینے کی بجاۓ آپ انہیں مزید ٹینشن دے رہی ہیں کچھ تو خیال کریں۔۔

حرم غصے سے بولی،

حرم میری دوا لے کر میں دوا کھا کر حویلی جانے کے لیے نکلتا ہوں معلوم کرتا ہوں وہاں جا کر آخر معاملہ کہاں تک پہنچا ہے۔۔۔۔

جی ابو میں ابھی لے کر آتی ہوں۔۔

حرم نے اپنے ابو کو دوا لا کر دی۔۔۔

ابو مجھے بھاٸی پر پورا یقین ہے وہ ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتے ہیں۔۔

دل تو میرا بھی یہی کہتا ہے مگر پھر بھی مجھے سکون نہیں آۓ گا جب تک سب کچھ سامنے نہیں آ جاتا۔۔۔

منشی صاحب اُٹھے اور حویلی جانے کے لیے نکل گۓ۔۔۔


رامش نے ابان شاہ کا نمبر ٹریس کروایا اور لوکیشن معلوم ہوتے ہی وہ ہنی کو لے کر وہاں جانے کے لیے نکل گیا۔۔۔

جب وہ اُس ویران جگہ پر پہنچا جہاں چھوٹی سے مسجد اور ایک کچا کمرہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔

بھاٸی یہ جگہ کتنی ویران ہے مجھے لگتا ہے لوکیشن ٹھیک نہیں ہے بھلا اس جگہ پر وہ کیوں آۓ گا ؟؟؟

ہنی نے کہا،

واقع ہی جگہ تو بہت ویران ہے مگر ہمیں غزل کو ڈھونڈنا ہے اُس کے لیے ہمیں جنگلوں میں بھی جانا پڑے ہم جاٸیں گے۔۔۔

وہ دونوں گاڑی سے اُترے اور مسجد کی جانب بڑھے جہاں ایک بزرگ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے۔۔۔۔

وہ دونوں مسجد کے اندر داخل ہوۓ اور بزرگ کے پاس جا کر بیٹھ گۓ۔۔۔

کیا ہوا بیٹا کسے ڈھونڈ رہے ہو ؟؟

بزرگ نے کہا،

بابا جی ہم ایک لڑکے کو ڈھونڈ رہے ہیں کیا آپ کے علاوہ یہاں پر کوٸی نہیں رہتا ؟؟

رامش نے کہا،

ابان شاہ کی بات کر رہے ہو ؟؟

اُسی کو ڈھونڈ رہے ہو نہ تم لوگ ؟؟

بزرگ کی یہ بات سُن کر وہ دونوں حیران رہ گۓ۔۔

جی جی ہم ابان شاہ کی ہی بات کر رہے ہیں کیا آپ جانتے ہیں اُسے ؟؟

کہاں ہے وہ ؟؟

بتاٸیں نہ بابا جی کہاں ہے وہ ؟؟

رامش جھٹ سے بولا،

وہ تمہارے آنے سے دس منٹ پہلے ہی گیا ہے یہاں سے۔۔

اُسے ایک کال آٸی تھی اُس کی محبوبہ کو نہ جانے کس نے اغوا کر لیا ہے وہ اُسی کو ڈھونڈنے نکلا ہے اور تم لوگ اُسے ڈھونڈنے نکلے ہو۔۔۔

بابا جی نے ہنستے ہوۓ کہا،

کیا مطلب کون ہے اُس کی محبوبہ ؟؟

کیا آپ جانتے ہیں وہ کس کو پسند کرتا ہے ؟؟

یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟؟

بابا جی ہمیں سب کچھ بتاٸیں پلیز ہم بہت مشکل میں ہیں ہماری بہن کو نہ جانے کس نے اغوا کر لیا ہے اور نام صرف ابان شاہ کا آ رہا ہے۔۔۔


بیٹا اس جگہ پر جو بھی آتا ہے وہ ٹوٹا ہوا دل ہی لے کر آتا ہے وہ بھی اپنا دل بہلانے آیا تھا یہاں۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی بابا جی آپ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں ؟؟

اگر ابان شاہ یہاں نہیں ہے تو پھر لوکیشن یہاں کی کیوں شو رہی تھی ؟؟؟

رامش پریشان لہجے میں بولا،


یہ رہا اُس کا موباٸل۔۔

یہاں ہی بھول گیا ہے وہ اور یہ کیا پڑا ہے یہ بھی اُسی کا ہی ہے جب وہ مل جاۓ تو اُسے دے دینا۔۔۔

بابا جی نے ابان شاہ کا موباٸل اور غزل کا جھمکا جو ہر وقت ابان شاہ کی جیب میں ہوتا تھا رامش کو پکڑا دیا۔۔۔

وہ تمہاری بہن کو ہی ڈھونڈنے گیا ہے۔۔

اچھا لڑکا ہے ابان شاہ۔۔

سچی محبت کرتا ہے تمہاری بہن سے اگر تمہاری سمجھ میں آۓ تو رشتہ کر دینا دونوں کا۔۔۔

یہ کہہ کر بابا جی اُٹھے اور مسجد سے نکل کر سامنے اپنے کچے کمرے میں چلے گۓ۔۔۔


بھاٸی چلیں چلتے ہیں جا کر دیکھتے ہیں آخر یہ سب چل کیا رہا ہے ؟؟

ہنی مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔

ابان شاہ اگر غزل کو نہیں لے کر گیا تو کون لے کر گیا ہے غزل کو ؟؟

رامش کا یہ سب سوچ سوچ کر دماغ پھٹ رہا تھا۔۔۔

بھاٸی نہ جانے کیوں میرا دل تو یہی کہتا ہے رمشا نے ہی کچھ کیا ہے یہ ساری اُسی کی لگاٸی گٸی آگ ہے۔۔

فکر نہ کرو ہنی میں سب کچھ پتہ لگوا لوں گا بس تھوڑا سا وقت چاہٸے مجھے۔۔۔

بس میں یہ سوچ رہا ہوں ابان شاہ کو کیسے معلوم ہوا کہ غزل اغوا ہوگٸی ہے آخر اُسے کس نے بتایا ؟؟؟

رامش نے سخت لہجے میں کہا،

بھاٸی یہ رہا اُس کا موباٸل مگر اس پر لاک لگا ہے۔۔۔۔

ہنی نے کہا،

بس ابھی گاڑی گھر کی جانب لے چلو تم۔۔۔


ابان شاہ جانتا تھا کہ رمشا نے ہی کچھ نہ کچھ کیا ہوگا کیونکہ غزل نے اُسے سب کچھ بتایا تھا۔۔۔

ابان شاہ سب سے پہلے حویلی گیا۔۔۔

حویلی میں جاتے ہی وہ ایان سے ملا۔۔

ایان رمشا کہاں ہے مجھے ابھی اور اسی وقت اُس سے ملنا ہے۔۔۔

ریلیکس ابان شاہ ریلیکس۔۔

زبیدہ پانی لے کر آٶ جلدی سے۔۔۔

میں جانتا تھا تم غزل کو چاہتے ہو مگر میں خاموش تھا کہ جب وقت آۓ گا میں خود اس بارے میں تم سے اور غزل سے بات کرلوں گا مگر آج جب رمشا نے تمہارا نام لیا تو میں حیران رہ گیا اور فوراً سے پہلے تمہارا نمبر ملایا۔۔۔

ایان نے کہا،

ایان نہ جانے غزل کہاں ہوگی کس حال میں ہوگی تم بس رمشا کو بُلاٶ وہ سب کچھ جانتی ہے۔۔۔

ابان شاہ کو سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔۔۔

ایان جب رمشا کو بُلانے گیا تو وہ کمرے میں موجود ہی نہیں تھی۔۔۔

وہ ہکا بکا رہ گیا۔۔۔

روشنی رمشا کہاں ہے ؟؟

وہ روشنی کے پاس کمرے میں گیا۔۔

رمشا غزل کے کمرے میں بیٹھی تھی ابھی پانچ منٹ پہلے ہی میں آٸی ہوں اُس کے پاس سے اُٹھ کر کپڑے چینج کرنے۔۔

مگر وہ کمرے میں نہیں ہے۔۔

ایان سرد لہجے میں بولا،

کیا مطلب کمرے میں نہیں ہے۔۔۔

روشنی نے فوراً اپنے بال باندھے اور جوتا پہن کر کمرے سے باہر بھاگی۔۔۔

رمشا۔۔

رمشا۔۔۔

روشنی چیخی۔۔۔

وہ دونوں اُسے پوری حویلی میں ڈھونڈنے لگے مگر وہ حویلی کے پچھلے گیٹ سے فرار ہوچکی تھی۔۔۔۔

میں اب ابان شاہ سے جا کر کیا کہوں ؟؟

ایان نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا،

کیا مطلب ابان شاہ یہاں آیا ہے کیا ؟؟

روشنی نے حیرانگی سے کہا،

ہاں جی ابان شاہ نیچے بیٹھا ہے غزل نے ایک بار اسے بتایا تھا کہ رمشا اسے ٹارچر کرتی ہے۔۔۔

مجھے بھی پورا یقین ہے کہ رمشا نہیں یہ سب کیا ہے۔۔۔

ایان فورا نیچے گیا اور جا کر ابان شاہ کو بتایا کہ رمشا تو فرار ہو چکی ہے۔۔۔

اوہ شٹ۔۔

ایان جہاں تک مجھے لگتا ہے نہ غزل کو وہ جاہل بلال لے کر گیا ہے۔۔۔

ابان شاہ سخت لہجے میں بولا،

ہاں یار مجھے بھی یہی لگتا ہے۔۔

ایان نے کہا،

میں جا رہا ہوں ایان اور اب میں غزل کو واپس لے کر ہی آٶں گا چاہے کچھ بھی ہو جاۓ۔۔

ابان شاہ میری بات سُنو۔۔۔

ابان شاہ۔۔۔

ابان شاہ نے ایک نہ سُنی اور وہ فوراً غزل کو ڈھونڈنے کے لیے نکل گیا۔۔۔

وہ حویلی سے باہر گیا اور یہاں وہاں سراغ ڈھونڈنے لگا۔۔

اُس نے دیکھا زمین پر بڑی جیپ ( گاڑی) کے نشانات موجود تھے۔۔

ابھی تک وہ زیادہ دُور نہیں گۓ ہوں گے ان نشانات کو دیکھتے ہوۓ میں غزل تک پہنچ سکتا ہوں۔۔

ابان شاہ نے دیکھا آگے جا کر وہ نشانات موجود نہیں تھے۔۔۔

کہاں جاٶں کہاں ڈھونڈوں میں غزل کو ؟؟

وہ اپنا سر پکڑ کر چیخا۔۔

اچانک اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ اُسے سب سے پہلے بلال کے گھر جانا چاہیۓ۔۔

اُس نے کچھ نہیں دیکھا اُسی وقت لوگوں سے پوچھتا ہوا اُس کے گھر کی جانب نکل پڑا۔۔

آ رہا ہوں میں غزل آ رہا ہوں تمہارے پاس تمہیں لینے میری جان فکر نہ کرو بس آ رہا ہوں۔۔

ڈھونڈ لوں گا میں تمہیں۔۔

اُس نے بلال کے گھر کا دروازہ ناک کیا۔۔

بار بار وہ بیل بجا رہا تھا۔۔

ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔۔

جی کون ہو تم اور رات کے اس وقت کیا چاہیے ہے تمہیں ؟؟

وہ لڑکا تلخ لہجے میں بولا،

یہ بلال کا گھر ہے ؟؟

ابان شاہ نے اُس لڑکے کو گھورتے ہوۓ کہا،

ہاں بلال کا گھر ہے مگر تم کون ہو ؟؟؟

میں اُس کا دوست ہوں اُس نے مجھے اپنے گھر پر بُلایا ہے۔۔

وہ لڑکا جیسے ہی بلال کو آواز دینے کے لیے مُڑا تو ابان شاہ نے پیچھے سے اُسے پکڑ لیا اور گھسیٹتا ہوا اندر لے کر گیا۔۔

جب ابان شاہ اندر ٹی وہ لاٶنج میں داخل ہوا اور اپنے دوست کو ابان شاہ کے ہاتھوں میں بےدردی سے پکڑا ہوا دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گیا۔۔۔

تم ؟؟

تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟

تم ابان شاہ ہو نہ منشی کا بیٹا ؟؟

ہاں بالکل ٹھیک پہچانا تم نے۔۔

اب یہ بتاٶ غزل کہاں ہے ؟؟

ابان شاہ نے اُسے حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ کہا،

چلے جاٶ یہاں سے ورنہ پولیس کو بُلا لوں گا۔۔۔

بلال نے تلخ لہجے میں کہا تو ابان شاہ نے ٹیبل پر پڑی فروٹس کی پلیٹ میں سے چھر۔۔۔ اُٹھاٸی اور اُس کے دوست کی گردن کے پاس رکھ دی۔۔۔

میں نے تم سے پوچھا ہے غزل کہاں ہے ؟؟

غ۔۔غزل مجھے نہیں پتہ وہ کہاں ہے۔۔

بھلا میں کیسے جانتا ہوں گا وہ کہاں پر ہے ؟؟

تم بتاٶ غزل کہاں ہے تم تو سب کچھ جانتے ہو گے نہ ؟؟

ابان شاہ نے چھر۔۔ بالکل اُس کی گردن کے قریب رکھ دی تھی۔۔۔

م۔۔میں بتاتا ہوں پہلے اسے پیچھے کرو میری گردن سے۔۔۔

جیسے ہی تم مجھے سچ بتاٶ گے میں تمہیں چھوڑ دوں گا مگر پہلے مجھے بتاٶ غزل کہاں ہے اس بےغیرت سے غزل کو کہاں چھپا رکھا ہے ؟؟

ابان شاہ دھاڑا تو وہ دونوں ڈر گۓ۔۔۔

اس۔۔اس نے غزل کو باہر گیراج میں جو گاڑی کھڑی ہے اُس میں باندھ کر رکھا ہے اور اُسے بےہوشی کی دوا دے رکھی ہے تاکہ وہ اُٹھے نہ۔۔۔

یہ سنتے ہی ابان شاہ نے اُسے دور پرے دھکا دیا اور بلال کو گریبان سے پکڑ لیا اور گھسیٹتا ہوا باہر گیراج میں لے گیا۔۔۔

اُس نے بلال کو گاڑی کی طرف زور سے دھکا دیا۔۔۔

کہاں ہے غزل نکال اُسے سیکنڈ سے پہلے۔۔۔

بلال کا سر کار پر زور سے جا لگا اور وہ تڑپ اُٹھا۔۔۔۔۔

میں نے کہا غزل کو نکال جلدی۔۔

ابان شاہ یہ کہتا ہوا گاڑی کی جانب بڑھا اور گاڑی کا دروازہ کھولا تو دیکھا پچھلی سیٹ پر غزل بےہوش پڑی تھی۔۔

اُس کے ہاتھ اس کمبخت نے رسی سے باندھے ہوۓ تھے۔۔

غزل کو اس حالت میں پڑا دیکھ کر وہ اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔

غزل۔۔۔

غزل ہوش کرو دیکھو ابان شاہ تم تک پہنچ گیا ہے۔۔

لینے آیا ہے تمہیں ابان شاہ آنکھیں کھولو غزل۔۔۔

ابان شاہ کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔

چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں دکھ دینے والوں کو۔۔۔۔

اتنے میں وہاں رامش ایان اور ہنی بھی پہنچ گۓ۔۔۔

بلال کو زمین پر پڑا دیکھ کر رامش نے اُسے گریبان سے پکڑ لیا۔۔۔

میں یہاں ہوں گاڑی میں۔۔۔ غزل بھی گاڑی میں ہے بےہوش ہے یہ۔۔۔

ابان شاہ چیخا تو ایان اور ہنی فوراً گاڑی کی جانب بھاگے۔۔

اس بار تُو ذندہ نہیں بچے گا جس کے ساتھ مل کر تُو نے یہ سب کیا ہے میں تم دونوں کو آگ لگا دوں گا یاد رکھنا۔۔۔

رامش نے بلال کو مارتے ہوۓ سخت لہجے میں کہا،

ابھی اور اسی وقت غزل کو اُٹھا کر گاڑی میں لے کر جاٶ اور فوراً سے پہلے ہسپتال پہنچو۔۔۔

رامش نے سرد لہجے میں کہا،

ٹھیک ہے بھاٸی۔۔۔

وہ تینوں غزل کو ہسپتال لے گۓ۔۔

رامش نے اُسی وقت پولیس اسٹیشن کال کی اور اپنی ٹیم کو بلال کے گھر کا اڈریس دیا۔۔۔

اس بار بلال کا بہت بُرا حشر ہونے والا تھا۔۔ 

غزل آنکھیں کھولو میری جان۔۔

ایان اور ہنی دونوں بھاٸی غزل کے ہاتھ مل رہے تھے۔۔

ڈاکٹر کچھ تو بتاٸیں کیا ہوا ہے غزل کو ہوش کیوں نہیں آ رہا ؟؟

ابان شاہ نے پریشان لہجے میں ڈاکٹر سے کہا،

انہیں دو سے تین بار بےہوشی کی دوا دی گٸی ہے جس کی وجہ سے انہیں ہوش نہیں آ رہا۔۔۔

آپ فکر نہ کریں ہم نے انہیں ڈرپس لگا دی ہیں صبح تک ہوش آ جاۓ گی۔۔۔

ابان شاہ کی عجیب حالت ہوگٸی تھی۔۔

بڑے بڑے بال بڑی بڑی مونچھیں کالی چادر میں لپٹا وہ کسی مجنوں کی طرح لگتا تھا۔۔

ابان شاہ تم گھر چلے جاٶ جا کر نہاٶ فریش ہو اور کچھ دیر آرام کرو۔۔

ایان نے کہا،

نہیں جب تک غزل میں ہوش نہیں آتی میں یہاں سے کہیں نہیں جاٶں گا۔۔

ابان شاہ نے فوراً کہا،

یاررر۔۔۔

منشی صاحب بھی تمہیں لے کر بہت پریشان تھے جاٶ ایک بار جا کر مل لو اُن سے۔۔

اتنے میں رامش بھی ہسپتال پہنچ گیا۔۔۔

کیا کہا ڈاکٹرز نے ؟؟

اُس نے کمرے میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا،

ڈاکٹر نے کہا ہے صبح تک ہوش میں آ جاۓ گی غزل۔۔۔

آپ بتاٸیں پہنچا دیا اُس بدبخت کو جیل تک ؟؟

ایان نے سرد لہجے میں کہا،

ہاں اُسے تو میں نے پہنچا دیا ہے جیل میں اب باری ہے رمشا کی۔۔ یہ سب اُسی نے اس بلال کے ساتھ مل کر کیا ہے میں چھوڑوں گا نہیں دونوں کو۔۔۔

رامش نے سخت لہجے میں کہا،

رامش ابان شاہ کے پاس گیا اور اُس کے سینے پر تھپکی دی۔۔

اگر آج تم نہ ہوتے تو ہم غزل کو نہ بچا پاتے۔۔۔

بہت شکریہ تمہارا۔۔۔

یہ کہہ کر رامش نے ابان شاہ کے گلے سے لگا لیا تو ابان شاہ مسکرانے لگا۔۔۔

جاٶ شاباش گھر جاٶ کپڑے چینج کرو ریسٹ کرو منشی صاحب تمہاری راہ دیکھ رہے ہوں گے۔۔۔

م۔۔میں نہیں جانا چاہتا ابھی گھر۔۔۔

ابان شاہ نے غزل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

ہم سب یہاں پر ہیں غزل کے پاس تم فکر نہ کرو جاٶ آرام سے گھر جاٶ ڈراٸیور کے ساتھ۔۔۔

ابان شاہ کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ غزل کو ایسے چھوڑ کر جاۓ مگر اُسے جانا پڑا۔۔۔۔

جب ابان شاہ گھر پہنچا تو اُسے دیکھ کر منشی صاحب کی جان میں جان آٸی اور انہوں نے فوراً ابان شاہ کو سینے سے لگا لیا۔۔۔

شکر ہے تم آگۓ میرے بیٹے شکر ہے رب کا تم آگۓ۔۔۔

آسیہ بیگم۔۔

حرم باہر آٶ جلدی سے دیکھو ابان شاہ آگیا ہے۔۔۔

منشی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔


بھاٸی۔۔۔

شکر ہے آپ آگۓ۔۔

حرم جھٹ سے ابان شاہ کے سینے سے لپک گٸی۔۔۔

امی کہاں ہیں ؟؟

ابان شاہ نے یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ کہا،

امی سو رہی ہیں بھاٸی میں ابھی اُٹھا دیتی ہوں انہیں۔۔۔

ہاں ہاں جاٶ اُٹھاٶ اپنی اماں کو بتاٶ ابان شاہ آیا ہے۔۔۔

نہیں نہیں رہنے دیں سونے دیں انہیں۔۔

ابو آپ کیوں جاگ رہے تھے اب تک ؟؟

ابان شاہ بیٹا میری نیندیں تو اُسی وقت اُڑ گٸی تھی جب مجھے معلوم پڑا کہ غزل کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔۔

یہاں پر سب کو تم پر شک تھا بیٹا۔۔۔

منشی صاحب نے ابان شاہ کی طرف دیکھتے ہوۓ دُکھی لہجے میں کہا،

ابو آپ کو اپنے بیٹے پر یقین ہونا چاہٸے وہ چاہ کر بھی ایسا قدم نہیں اُٹھاۓ گا بےفکر رہیں۔۔۔

ابان شاہ ایک بار پھر سے اپنے ابو کے سینے سے لگا۔۔۔۔

غزل کو کون لے گیا ہے پھر ؟؟

ابو جو بھی لے گیا تھا ہم اُس سے غزل کو واپس لے آۓ ہیں ابھی وہ ہسپتال میں ہے ڈاکٹرز نے کہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے صبح تک ہوش میں آ جاۓ گی۔۔۔۔

یہ سُن کر منشی صاحب کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گٸی۔۔۔

یاالله تیرا شکر ہے۔۔۔

اُس بیچاری نے نہ جانے کتنے دُکھ دیتے ہیں الله اُس کو صحت دے ہمت دے۔۔

منشی صاحب نے افسردہ لہجے میں کہا،

آمین آمین۔۔

فجر کی اذان میں کچھ ہی وقت بچا ہے حرم ایسا کرو میرے کپڑے نکال دو الماری سے میں فریش ہو جاتا ہوں میرے کپڑے کافی گندے ہوگۓ ہیں پھر نماز کے بعد میں نے ہسپتال بھی جانا ہے۔۔۔

جی بھاٸی میں ابھی نکال دیتی ہوں آپ کے کپڑے۔۔۔

********

یہ لڑکی بچ کیسے گٸی اس بار ؟؟؟

کہیں وہ کم بخت رامش کے سامنے اپنا منہ نہ کھول دے۔۔۔ اگر تو اُس نے میرا نام لے دیا تو سب ختم ہو جاۓ گا رامش میرے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔۔

میں بیوی بنوں گی تو صرف اور صرف ڈی ایس پی رامش کی۔۔۔

میں سب سے چھین لوں گی اُسے۔۔۔

رامش صرف میرا ہے صرف میرا۔۔۔

اُس غزل کو میں نے راستے سے اس لیے ہٹایا تھا کہ جو وہ رامش ہر وقت غزل غزل کرتا ہر وقت اُسے صرف اُسی کی فکر لگی رہتی ہے جیسے وہ کوٸی چھوٹی بچی ہو جس سے مجھے سخت اُلجھن اور جلن محسوس ہوتی ہے۔۔۔

وہ نفرت بھرے لہجے میں بولی،

کیا ہوا رمشا تم کل رات سے اس کمرے میں بند ہو باہر آؤ ناشتہ کرو میرے ساتھ آ کر۔۔۔

رمشا کی ماں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا،

ایک بہت بڑا کام سر انجام دینے جا رہی تھی میں امی مگر سارا کام دھرا کا دھرا رہ گیا۔۔۔

کیا مطلب کیا کہہ رہی ہو تم میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔

امی میں نے اس بلال کے ساتھ غزل کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور میں اس منصوبے میں آدھے سے زیادہ کامیاب بھی ہو گئی تھی مگر اس ابان شاہ نے غزل کو رات ہی رات میں ڈھونڈ نکالا۔۔۔

اب مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ میرا نام نہ لے دے ان سب کے آگے۔۔۔

امی اگر غزل نے یا بلال نے میرا نام لے دیا ان سب کے سامنے تو سارا کھیل ختم ہو جائے گا میں رامش کو کھو دوں گی اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی۔۔۔

رمشا کی ماں نے یہ سب سننے کے بعد اُس کے منہ پر زوردار تھپڑ مارا۔۔۔

تم پاگل ہو کیا ہاں ؟؟

تمہارے اندر اتنی ہمت آٸی کہاں سے ؟؟؟

میں نے اُس بچی کے بارے میں آج تک غلط سوچ نہیں رکھی۔۔

ہمیں اُن لوگوں سے صرف پیسہ چاہٸے تھا نہ کہ اُن کی جان۔۔

اب تم خود سوچ لو کہ رامش کو اگر زرا سی بھی بھنک پڑ گٸی کہ اس کام میں تمہارا بھی ہاتھ ہے وہ تمہارا کیا حشر کرے گا۔۔۔

اسی لیے تو آپ کو بتایا ہے سب کچھ کہ میری مدد کریں اب میں کیا کروں ؟؟

میں تمہاری کوٸی مدد نہیں کروں گی سمجھی تم۔۔۔

یہ کہہ کر اُس کی ماں غصے سے کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔

یاالله میری مدد کر مجھے بچا لے۔۔۔

وہ دعاٸیں مانگنے لگی۔۔۔

اتنے میں گیٹ پر بیل بجی۔۔۔

بیل کی آواز سنتے ہی غزل چونک گٸی۔۔

اس وقت کون آگیا ہے کہیں رامش تو نہیں آگیا ؟؟؟

اُس نے فوراً کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔۔

رمشا کی ماں نے دروازہ کھولا تو وہ بھی ایک دم چونک گٸی۔۔۔

جی ؟؟

کس سے ملنا ہے آپ کو ؟؟

رمشا کہاں ہے ؟؟

اسی گھر میں رہتی ہے نہ وہ ؟؟

پولیس آفیسر نے کہا،

ج۔۔جی اسی گھر میں رہتی ہے مگر آپ یہاں کیسے ؟؟

اُسے فوراً ہمارے حوالے کر دیں اُنہوں سے ہمارے ڈی ایس پی رامش چوہدری کی بہن کی جان لینے کی کوشش کی ہے۔۔

ر۔۔رامش تو ہمارا اپنا بچہ ہے اگر اُسے معلوم ہوگیا نہ کہ آپ رمشا کو لے گۓ ہیں تو وہ بہت سختی سے پیش آۓ گا آپ سب کے ساتھ۔۔۔

میڈم ہمیں یہاں انہوں نے ہی بھیجا ہے۔۔۔

پورے گھر کی تلاشی لو اور اُس لڑکی کو اریسٹ بھی کرلو۔۔۔

آفیسر نے کہا،

ر۔۔رکو میری بیٹی کو نہ لے کر جاٶ میں جانتی ہوں اُس نے غلطی کی ہے مگر میں اسے سمجھا دوں گی وہ معافی مانگ لے گی رامش سے بھی غزل سے بھی اور اپنے چچا سے بھی۔۔۔

وہ چیخ رہی تھی مگر اُس کی سننے والا کوٸی بھی نہیں تھا۔۔

سر یہ دروازہ لاک ہے اندر سے۔۔

توڑ دو اس دروازے کو اسی کمرے میں چھپی ہے وہ لڑکی۔۔۔

پولیس والے نے دو تین بار دروازے کو دھکا مارا مگر وہ نہیں کُھلا۔۔۔

لڑکی شرافت سے دروازہ کھول دو ورنہ ہم اس دروازے کو توڑنے میں ایک منٹ نہیں لگاٸیں گے۔۔۔

رمشا کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔۔۔

کیا کروں میں کیا کروں ؟؟

لڑکی سناٸی نہیں دے رہا کیا دروازہ کھولو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔

کافی دیر تک پولیس رمشا سے کہتی رہی دروازہ کھولنے کے لیے مگر پھر انہیں دوسرا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑا۔۔

ٹھیک ہے اب توڑ ڈالو دروازہ اندازا ہوگیا ہے کتنی ڈھیر اور مکار لڑکی ہے۔۔۔

آفیسر نے کہا،

کمرے کا دروازہ جب توڑا تو رمشا ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔

ہمیں تم پر بالکل بھی ترس نہیں آ رہا۔۔۔

اریسٹ کرلو اسے فوراً۔۔

آفیسر نے سخت لہجے میں کہا،

م۔۔میں نے کچھ نہیں کیا چھوڑو مجھے۔۔۔

امی مجھے بچاٶ ان لوگوں سے میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔

اُس کی ماں کا رو رو کر بُرا حال ہوچکا تھا۔۔

میں تم لوگوں کے پاٶں پڑتی ہوں چھوڑ دو میری بیٹی کو اس سے غلطی ہوگٸی ہے۔۔

وہ روتی سسکتی رہ گٸی مگر وہ لوگ رمشا کو اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گۓ۔۔۔

فجر کا وقت تھا وہ فوراً رامش کے گھر جانے کے لیے نکل گٸی۔۔۔

*******

بھ۔۔بھاٸی۔۔

ابو۔۔۔

یہ میں کہاں ہوں ؟؟

غ۔۔غزل میری جان تمہیں ہوش آگٸی خدا کا شکر ہے کڑوڑ بار۔۔

ایان اور رامش فوراً غزل کی جانب بڑھے اور دونوں بھاٸیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ۔۔

دیکھو غزل ہم یہاں ہی ہیں تمہارے پاس۔۔۔

رامش اُس کے ہاتھ چومنے لگا۔۔

بھاٸی یہ میں کہاں ہوں مجھے گھر لے چلو جلدی۔۔۔

اچھا میری جان میں ڈاکٹر کو بُلاتا ہوں وہ تمہارا چیک اپ کرے گی اُس کے بعد ہم گھر ہی جاٸیں گے۔۔۔

رامش فوراً ڈاکٹرنی کو بُلا کر لایا۔۔

ڈاکٹرنی کمرے میں آٸی غزل کا چیک اپ کیا۔۔۔

ہماری غزل ٹھیک تو ہے نہ ڈاکٹر صاحبہ ؟؟

ایان جھٹ سے بولا،

جی الله کا شکر ہے بہت ہمت والی بچی ہے بہت جلدی خود کو سنبھالا ہے انہوں نے بس کچھ چوٹ ہیں ان کے جسم پر گہرے زخم ہیں کافی گھسیٹا گیا ہے انہیں میں نے دوا لکھ دی ہے روزانہ کے استعمال سے یہ بہت جلد مکمل صحت یاب ہو جاٸیں گی۔۔۔

یہ سُن کر رامش آگ بگولہ ہوگیا۔۔

چھوڑوں گا نہیں میں ان سب کچھ کو ختم کردوں گا اس بار۔۔۔

وہ غصے سے بڑبڑایا۔۔

بھاٸی مجھے گھر لے چلو پلیز مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔

غزل بس یہی ضد کیے جا رہی تھی۔۔

ٹھیک ہے آپ انہیں گھر لے جاٸیں مگر ہر وقت ان کا خیال رکھنے کے لیے کسی نہ کسی کو ان کے پاس رہنا ضروری ہے۔۔۔

ڈاکٹرنی نے کہا،

جی جی ڈاکٹرنی صاحبہ ہم خود سے بھی زیادہ اس کا خیال رکھیں گے۔۔۔

ایان نے فوراً جواب دیا۔۔۔


جب وہ لوگ غزل کو گھر لے کر گۓ تو سب نے غزل کا استقبال کیا۔۔ چوہدری صاحب غزل کے گلے کر خوب روۓ۔۔۔

میری بیٹی کی ذندگی میں نہ جانے اور کتنے دُکھ دیکھنے لکھے ہیں۔۔

ابو ایسے نہ کہیں اب اس کی ذندگی میں کوٸی دُکھ درد نہیں آۓ گا۔۔

روشنی نے یہ کہتے ہوۓ غزل کو اپنے ساتھ لگایا اور اُسے پیار کرنے لگی۔۔۔

تم نہیں جانتی ہماری تو جان مٹھی میں آگٸی تھی اگر ہمیں معلوم ہوتا ہم کبھی بھی تمہیں اُس رمشا کے ساتھ نہ چھوڑ کر جاتے۔۔

رمشا۔۔۔

رمشا۔۔۔۔ یہ سب اُسی نے کیا ہے اور اس وقت وہ جیل میں سڑ رہی ہوگی میں اُسے خوب تڑپاٶں گا دیکھنا اب۔۔۔

رامش نے نفرت بھرے لہجے میں کہا،

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی نکلے گی اتنا حسد کرتی تھی وہ غزل سے۔۔

ایان نے سرد لہجے میں کہا،

بس اب کھیل ختم ہوچکا ہے اُس کا بھی اور اُس بلال کا بھی۔۔

شام کو میں ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں آپ سب کے ساتھ تو پلیز میرے آفس سے آنے سے پہلے آپ سب لوگ مجھے ٹی وی لاٶنج میں اکٹھے چاہٸے ہیں۔۔

اور ایک بات اور۔۔۔

ڈاکٹرنی نے کہا ہے غزل کا خاص خیال رکھنا ہے اور ہر وقت کسی نہ کسی کو اس کے پاس لازمی رہنا ہے تو بھابھی اب آپ سب کچھ چھوڑ کر صرف غزل کے پاس رہیں گی اس کا خیال رکھیں گی۔۔۔۔

رامش نے کہا،

ٹھیک ہے رامش بھاٸی مجھے کوٸی مسٸلہ نہیں ہے میں غزل کا خیال خود رکھوں گی اچھے سے آپ بےفکر رہیں۔۔۔

ایان سامنے کھڑا روشنی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔ 

سر وہ لڑکی جب سے آٸی ہے چیخ رہی ہے کیا کرنا ہے اُس کا ؟؟

ایک بار آپ آ کر مل لیں اُس سے وہ بار بار بس یہی کہے جا رہی ہے رامش کو بُلاٶ۔۔۔

آپ جا کر اُس سے کہہ دیں کہ اگر اب اُس کے منہ سے ایک لفظ بھی اور نکلا تو اُس کا بہت بُرا حشر ہوگا کہ وہ ساری ذندگی یاد رکھے گی۔۔۔

رامش نے تلخ لہجے میں کہا،

جی سر۔۔

پولیس آفیسر عالیہ نے کہا،

عالیہ بات سُنیں۔۔

جی سر۔۔

یشما نظر نہیں آٸی مجھے کیا وہ آفس نہیں آٸی آج ؟؟؟

رامش نے لیپ ٹاپ کی سکرین کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا،

سر اُن کی والدہ کی طبعیت بالکل بھی اچھی نہیں اس لیے دو دن سے وہ آفس نہیں آ رہی ہیں۔۔۔

ویسے سر کافی دن سے وہ بہت اُداس تھیں چُپ چُپ رہتی تھیں زیادہ بات بھی نہیں کرتی تھیں۔۔۔

یہ سُن کر رامش چونک گیا۔۔۔

جی بہت شکریہ میں جاٶں گا اُن کی والدہ کی عیادت کے لیے۔۔

رامش یہ سُن کر پریشان ہوگیا تھا۔۔۔

وہ فوراً اُٹھا اور اپنے آفس سے باہر گی۔۔

وہ سیدھا جیل کی طرف گیا۔۔

رامش کو دیکھ کر رمشا فوراً سلاخوں کے پاس آ کر کھڑی ہوگٸی۔۔

رامش تم ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ رامش پلیز مجھے نکالو یہاں سے میں نے کچھ نہیں کیا پلیز مجھے معاف کر دو۔۔

وہ چیخی۔۔

اگر تم نے کچھ نہیں کیا تو معافی کیوں مانگ رہی ہو ؟؟

تم نے میری بہن کو اُس بےغیرت لڑکے کے ساتھ مل کر ذلیل کیا۔۔ مجھے تو لگتا ہے پہلے وہ جب کھاٸی میس گری تھی تب بھی تم ہی اُس لڑکے کے ساتھ ملوث تھی۔۔۔

تم اب اس جیل میں سڑتی رہو گی تڑپتی رہو گی تم نے میری معصوم بہن کے ساتھ بہت غلط کیا ہے شکر ہے خدا کا کہ وہ تمہاری اصلیت جلد ہی ہم سب کے سامنے لے آیا۔۔۔

تم ایک گھٹیا اور بےحس لڑکی ہو۔۔۔ بہت ظالم ہو تم۔۔

رامش نے تلخ لہجے میں کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

سر پلیز لسن ٹو می۔۔۔

آفیسر نے پیچھے سے رامش کے پاس آتے ہوۓ کہا تو وہ وہاں ہی رُک گیا۔۔

جی کہیں کیا بات ہے ؟؟

رامش نے کہا،

سر وہ رات سے اب تک تین بار بلال کی رہاٸی کے لیے آگۓ ہیں میں نے سوچا آپ کو بتا دوں اس بارے میں۔۔۔

چاہے ہزار بار کیوں نہ آ جاٸیں نہ اُس کی رہاٸی کے لیے اُسے ہرگز یہاں سے باہر نہیں نکالنا اُسے ابھی اور اسی وقت بڑی جیل میں شفٹ کرو۔۔۔

رامش یہ کہہ کر وہاں سے یشما کے گھر کی جانب نکل گیا۔۔۔


نہ جانے کیا ہوگیا ہے اُسے ایسا جو وہ آفس ہی نہیں آ رہی۔۔ ایک تو میری لاٸف میں اتنے کام ہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کروں ؟؟

خود کو وقت دیے بھی ایک عرصہ ہی ہوگیا ہے۔۔۔۔

وہ گاڑی ڈراٸیو کرتا ہوا یہ سب باتیں سوچ رہا تھا۔۔۔۔

جب وہ یشما کے گھر پہنچا تو یشما کی امی باہر ٹی وہ لاٶنج میں صوفے پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھی۔۔۔

کیسی ہیں آپ کی ماں جی؟؟

اُس نے یشما کی امی کے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا،

میں ٹھیک ہوں بیٹا مگر تم آج بہت دنوں کے بعد آۓ ہو۔۔۔ بہت یاد کرتی ہے تمہیں یشما طبعیت بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے اُس کی کافی دنوں سے۔۔۔

بس ماں جی کچھ مصروفیات کی وجہ سے میں آ نہیں سکا اور وہ تھوڑی سی ناراضگی بھی تھی میری یشما کے ساتھ اس لیے بھی نہیں آیا میں مگر اُس نے مجھے منانے کی قسم اس بار بھی نہیں توڑی۔۔۔۔ ویسے کہاں ہے وہ ؟؟

وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہے جاٶ چلے جاٶ تم اُس کے پاس۔۔۔

جی ماں جی میں دیکھتا ہوں اُسے اور پوچھتا ہوں کیا ہوا ہے اُس کی طبعیت کی۔۔

رامش نے دروازہ ناک کیا اور کہا کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔۔۔

رامش کی آواز پر یشما چونک گٸی۔۔۔

یہ کہاں سے آگیا ہے ؟؟؟

وہ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گٸی۔۔۔

میڈم یشما کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟؟

رامش نے پھر سے دروازہ ناک کرتے ہوۓ کہا،

نہیں بالکل بھی نہیں آ سکتے اندر۔۔ میں اس وقت کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔۔

اُس نے فوراً اپنا حلیہ درست کیا اور منہ بنا کر بیٹھ گٸی۔۔

رامش نے ایک دم دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔۔۔۔

آپ میرے انڈر کام کرتی ہیں میں آپ کا باس ہوں میں جب چاہے آپ سے مل سکتا ہوں آپ ہوتی کون ہیں مجھے روکنے والی ؟؟؟

رامش جاٶ یہاں سے مجھے تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی سمجھے تم۔۔۔

میں سب باتیں بُھلا کر یہاں آیا ہوں یشما سو پلیز اب میرے ساتھ اچھے طریقے سے بات کرو۔۔۔

کیا بُھلا کر آۓ ہو تم رامش تم نے مجھے کھلونا سمجھ کر رکھا ہوا ہے جب دل چاہتا ہے میری ذندگی میں چلے آتے ہو جب دل چاہتا ہے چھوڑ کر چلے جاتے ہو اور اس بار تو الزام بھی لگا کر گۓ تھے مجھ پر۔۔۔ نکاح ہوگیا ہے احمد کا اُس کی کزن کے ساتھ تمہیں مجھ پر شک تھا نہ کہ میرا اُس کے ساتھ کوٸی چکر ہے۔۔۔

رامش نے یشما کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔

بس اب ایک لفظ اور نہیں میری جان۔۔۔

یشما کی آنکھوں میں آنسو آگۓ تو رامش نے فوراً اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔

یشما میں نے تم سے کہا ہے میں سب کچھ بُھلا کر آیا ہوں تمہارے پاس۔۔ اب نہ مجھے تم سے کوٸی شکوہ ہے اور نہ ہی تمہیں مجھ سے کوٸی شکوہ ہونا چاہٸے ہے اب ہم بہت جلد نکاح کر کے ایک ساتھ پرسکون ذندگی گزاریں گے۔۔۔

شادی کرو گی نہ مجھ سے ؟؟

نہیں میں نہیں کروں گی تم سے شادی تم دھوکہ باز ہو کبھی بھی چھوڑ کر جاسکتے ہو۔۔۔

یشما نے سرد لہجے میں منہ بسور کر کہا،

میری پیاری جان میری محبت پر بھروسہ رکھو میں تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔۔۔ ہمارا ساتھ میں اتنا وقت نہیں گزرا مگر تم سے محبت بے حد ہے مجھے۔۔ میں جانتا ہوں میں نے اپنی محبت کا زیادہ اظہار بھی نہیں کیا تم سے۔۔ ضروری نہیں ہوتا کہ محبت کا اظہار کریں گے تو ہی معلوم ہوگا کہ اگلے کو آپ سے محبت ہے۔۔ ہر انسان ایکسپریسو نہیں ہوتا۔۔۔ جب سے ہماری ملاقات ہوئی ہے زیادہ ہمارے درمکان ناراضگی ہی رہی ہے ہاں نہ ؟؟؟

میں گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہوں مجھ پر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔۔۔ ایک بار غزل کھائی میں گر گئی اسے بچانا ناممکن تھا مگر ہم نے اپنی پوری کوشش کی اور اسے ہم واپس لے آٸے صحیح سلامت الله کے کرم سے۔۔۔ ابھی دو دن پہلے وہ بلال اسے دوبارہ اغوا کر کے لے گیا تھا رات کو ہی ہم اسے واپس لے کر آئے ہیں گھر۔۔۔ اب تم خود اندازہ لگا لو کہ کتنی مشکلات سے گزر رہے ہیں ہم پچھلے کئی دنوں سے۔۔

میں نے بھی بہت دُکھ دیکھے ہیں اپنی ذندگی رامش۔۔۔ اس لیے میں اب ایک خوشگوار پرسکون ذندگی چاہتی ہوں۔۔۔

رامش نے یشما کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔

وعدہ کرتا ہوں آج میں تم سے کہ ”جب تک یہ سانسیں چل رہی ہے یشما کو خوش رکھنا رامش کی ذمہ داری ہے“۔۔

یشما نے اُس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا اور اُسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔

*******

کیسی ہے اب میری گڑیا ؟؟

رامش نے غزل کا ماتھا چومتے ہوۓ کہا،

جی بھاٸی میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔

غزل نے رامش کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا،

روشنی بھابھی کہاں ہیں میں نے انہیں کہا بھی تھا کہ ہر وقت تمہارے پاس رہیں وہ۔۔۔

بھاٸی وہ ابھی کمرے میں گٸی ہیں سارا دن میرے پاس ہی رہتی ہیں۔۔۔ بھاٸی آپ سب کو میری وجہ سے کتنی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے نہ۔۔۔

غزل نے اُداس لہجے میں کہا،

ارے یہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔ ہم کوٸی مشکل سے نہیں گزرے میری جان تم ہی ہمارے لیے ہمارا سب کچھ ہو تمہارے لیے تو ہم سب کی جان بھی قربان ہے۔۔۔

آٸندہ ایسی کوٸی بات نہیں سوچو گی تم ٹھیک ہے نہ۔۔

غزل کی آنکھوں میں آنسو آگۓ۔۔۔

ٹھیک ہے میرے بھاٸی۔۔۔

غزل نے رامش کے ہاتھوں کو چومتے ہوۓ کہا،


اب تو ختم کر دو ناراضگی ایان۔۔

ایان منہ بناۓ بیٹھا تھا اور روشنی اُسے منا رہی تھی۔۔۔

آپ کی نظر میں میری اور میری فیلگنز کی کوٸی اہمیت ہی نہیں ہے تو ٹھیک ہے نہ میں ناراض ہی رہتا ہوں تاکہ میری وجہ سے آپ کو بھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔۔

ایان پلیز۔۔ میں تھک گٸی ہوں تمہیں منا منا کر اب مان جاٶ نا چھوڑ دو یہ فضول کی ضد۔۔۔ نہیں رہا جاتا مجھ سے تم سے بات کیے بغیر۔۔۔ نہیں سہی جاتی تمہاری یہ بےرُخی۔۔۔

وہ اُس کے قریب ہوتی ہوٸی بولی،

یہ سُن کر ایان ذرا سا مسکرایا۔۔ روشنی نے پہلی بار کوٸی ایسی بات کی تھی جس سے ایان کے دل کو کچھ حد تک تسلی ہوٸی کہ روشنی کے دل میں بھی اُس کے لیے محبت پیدا ہو رہی ہے۔۔۔

ایان نے موباٸل ساٸڈ پر رکھا اور روشنی کو اپنی جانب کھینچا۔۔۔

نہیں رہا جاتا تو کیوں ایسا کرتی ہیں آپ ؟؟ کیوں مجھے میرے من کی پوری نہیں کر دیتی ہاں ؟؟

کتنے دن کے بعد محسوس کرنے جا رہا ہوں آپ کا یہ نرم گرم لمس۔۔۔

ایک جھٹکے سے وہ اُس کی گردن پر اپنا لمس شدت سے چھوڑنے لگا۔۔ آپ کی بانہوں میں آ کر میری دن بھر کی تھکن اُتر جاتی ہے۔۔

ایان نے اُس کے لبوں کو اپنے لبوں میں دبوچتے ہوۓ کہا،


رامش بیٹا مجھے تو جیسے ہی پیغام ملا میں تو فوراً چلا آیا ابان شاہ کے ساتھ۔۔ سب خیریت تو ہے نہ کیا بات کرنی ہے تم نے ؟؟ کہیں ابان شاہ نے کوٸی حرکت تو نہیں کی ؟؟ اگر اس نے کچھ کیا ہے تو میں تم سے معافی مانگتا ہوں بیٹا۔۔۔


کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ منشی صاحب کیا ہوگیا ہے آپ کو ایسی کوٸی بات نہیں ہے کچھ نہیں کیا ابان شاہ نے۔۔۔۔ آپ اندر چلیں میں بس ابھی آیا۔۔۔

رامش نے منشی صاحب سے کہا،

ابان شاہ اور منشی صاحب اندر جا کر بیٹھ گۓ۔۔۔

سب کو بُلاٶ مجھے ضروری بات کرنی ہے ابھی اور اسی وقت۔۔۔

زبیدہ سب کو بُلا کر لاٸی۔۔۔

کیا بات ہے بھاٸی سب ٹھیک تو ہے نہ ؟؟

ہنی نے حیرانگی سے کہا،

ہاں سب خیریت ہی ہے ذرا سب آ جاٸیں پھر بتاتا ہوں کیا بات ہے۔۔۔

ایان کہاں ہے بھابھی وہ آیا کیوں نہیں اب تک ؟؟

و۔۔وہ بھاٸی وہ ایان نہا رہا ہے بس ابھی آ جاتا ہے پانچ منٹ تک۔۔۔

روشنی نے لڑکھڑاتے ہوۓ لہجے میں کہا،

ایان کو پتہ ہی نہیں چلتا اسے بھی ابھی نہانا تھا سب کیا سوچ رہے ہوں گے۔۔۔ اسے بس ہر وقت اپنے رومینس کی پڑی رہتی ہے۔۔۔

روشنی نے دل ہی دل میں غصے سے کہا،

ابو آج جو بات میں غزل کے بارے میں کہنے جا رہا ہوں جو فیصلہ میں نے اُس کی ذندگی کے لیے کیا ہے مجھے امید ہے آپ بھی اُس فیصلے کو قبول کریں گے۔۔۔

رامش نے کہا،

ہاں بیٹا مجھے معلوم ہے تم نے اپنی بہن کے بارے میں بہت اچھا ہی سوچا ہوگا۔۔۔

اتنے میں ایان بھی آ کر بیٹھ گیا۔۔۔

میں چاہتا ہوں”” ہم غزل کا نکاح ابان شاہ سے کر دیں کیونکہ ابان شاہ اور غزل ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ““۔۔۔ پسند کرنا محبت کرنا کوٸی غلط بات تو نہیں ہے۔۔۔ ہم بچپن سے اب تک اپنی بہن کی ہر خواہش کو پورا کرتے آۓ ہیں اور اب بھی ہم اُس کی خواہش کو پورا خیال رکھیں گے کیونکہ یہ اُس کی ذندگی کا معاملہ ہے اُس نے رہنا ہے اُس نے اپنا گھر بسانا ہے اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم اس جمعہ کو ان دونوں کا نکاح کر دیں۔۔۔

یہ سُن کر ابان شاہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور باقی سب چونک گۓ۔۔۔

ابان شاہ تمہیں میرے اس فیصلے سے کوٸی مسٸلہ تو نہیں ؟؟؟ منشی صاحب آپ کو میرے اس فیصلے سے اگر ذرا سا بھی کوٸی مسٸلہ ہے تو ابھی بتا دیں۔۔۔

بیٹا ہم غریب لوگ۔۔۔۔ غزل کیسے رہے گی ہمارے چھوٹے سے گھر میں ؟؟ مجھے بس غزل کی فکر ہے تم اُس سے پوچھ لو اُسے کوٸی مسٸلہ نہ ہو۔۔۔

منشی صاحب ہمیں دل سے چاہنے والے لوگوں کی ضرورت ہے ہماری بہن کو چھوٹے بڑے گھر سے کوٸی غزض نہیں۔۔۔ ”جہاں محبت ہو نہ وہاں جھونپڑی بھی سہانی لگتی ہے اور کٸی مرتبہ تو محل اور بڑے گھر بھی کھنڈر لگتے ہیں“۔۔ الله نے آپ کو جس حال میں رکھا ہے خوش رہیں ورنہ ایسی عوام بیٹھی ہے جس کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت تک نہیں ہے۔۔۔

رامش بھاٸی آپ نے میری ذندگی کی سب سے بڑی مُراد پوری کر دی ہے سمجھ نہیں آ رہا کیسے آپ کا شکریہ ادا کروں۔۔۔ مجھے یہ سب ناممکن لگتا تھا مگر میں نے اپنے رب سے بہت دعاٸیں مانگی اور آخر میری دعاٸیں رنگ لے ہی آٸی۔۔۔

یہ کہتے ہوۓ ابان شاہ کی آنکھیں نم ہوگٸی تو رامش نے اُسے گلے سے لگا لیا۔۔۔

تمہیں بس ہماری بہن کو خوش رکھنا ہے اُس نے بہت دیکھے ہیں اب اُس کی آنکھوں میں ایک آنسو کا قطرہ بھی نہیں آنا چاہٸے۔۔۔۔

روشنی بیٹا جاٶ مٹھاٸی لے کر آٶ جلدی سے اور سب کا منہ میٹھا کرواٶ۔۔۔

چوہدری صاحب نے خوشی سے کہا،

ایان نے بھی ابان شاہ کو سینے سے لگایا۔۔۔

مبارک ہو بھاٸی صاحب۔۔ ویسے میں جانتا تھا کہ تم دونوں کے بیچ کچھ چل رہا تھا۔۔۔

ایان نے اُسے زور سے گلے لگاتے ہوۓ کہا،


بھابھی باہر کیا بات ہو رہی تھی ویسے ؟؟ مجھے بھی تو کچھ بتاٸیں نہ اور یہ مٹھاٸی کیوں لے کر آٸی ہیں آپ یہاں ؟؟

غزل نے بےتاب ہوتے ہوۓ پوچھا۔۔

میڈم آپ کا رشتہ پکا ہوگیا ہے بہت ہی ہینڈسم انسان کے ساتھ۔۔۔

روشنی نے غزل کو مٹھاٸی کھلاتے ہوۓ کہا،

غزل چونک گٸی۔۔۔

کیاااا ؟؟؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ بھابھی ایسا کیسے ہوسکتا ہے مجھ سے پوچھا بھی نہیں کسی نے ؟؟

بس دیکھ لو یہ تو ہوگیا۔۔ ارے تم منہ تو میٹھا کرو نہ۔۔

نہیں کرنا مجھے منہ میٹھا لے جاٸیں یہ مٹھاٸی یہاں سے۔۔۔

اپنی بھابھی سے جب باتیں چھپاٶ گی تو یہی سب ہوگا نہ۔۔ مجھے بتا دیتی اپنی پسند کے بارے میں تم میں ایان سے رامش بھاٸی سے بات کرتی ہوسکتا ہے وہ مان جاتے مگر خیر مرضی ہے بھٸی تمہاری۔۔۔۔

غزل نے مٹھاٸی کی پلیٹ ساٸڈ ٹیبل پر رکھ دی۔۔۔۔

بھابھی میں آپ کو سب کچھ بتاٶں گی مگر پلیز اس رشتے کو ختم کرواٸیں مجھے نہیں کرنا یہ رشتہ۔۔۔

ارے کیسی باتیں کر رہی ہو کیسے ختم کروا دوں میں یہ رشتہ۔۔۔ تم نہیں جانتی لڑکا بہت خوش نظر آ رہا تھا میں کسی کی خوشی کو خراب نہیں کر سکتی پلیز سوری غزل۔۔۔

بھابھی آپ میری بھابھی ہیں یا اُس کی ؟؟؟

غزل نے غصے سے کہا تو روشنی اونچی اونچی ہنسنے لگی۔۔۔

ابان شاہ کو پسند کرتی ہو نا تم ؟؟؟

بھابھی آپ کو کیسے معلوم ہوا یہ ؟؟

تمہیں بس یہی لگتا ہے تم مجھ سے سب کچھ چھپاۓ بیٹھی ہو ابھی تک ہاں نہ ؟؟ غزل میں سب کچھ جانتی ہوں۔۔۔

بھابھی یہ آپ مجھے اُلجھا کیوں رہی ہیں اپنی ان باتوں میں ؟؟ مجھے سب کچھ سچ بتاٸیں آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں اور میرا رشتہ کہاں اور کس لڑکے کے ساتھ ہوا ہے مجھے سب کچھ جاننا ہے مجھے بتاٸیں پلیز۔۔۔

غزل چیخی تو روشنی پھر سے ہنسنے لگی۔۔۔

ارے بس بس میری جان ہوگیا ہے فکر کیوں کر رہی ہو تمہاری بات پکی ہم نے ابان شاہ سے ہی کی ہے بس اب تیاری کرو بھٸی جمعہ کو نکاح ہے تم دونوں کا۔۔۔

یہ سُن کر غزل حیران رہ گٸی۔۔۔

ک۔۔کیا واقع ہی ؟؟؟ آپ سچ کہہ رہی ہیں یہ ؟؟ مطلب آپ تب سے مجھے تنگ کررہی تھیں ؟؟؟ یہ سب کیسے ہوا بھابھی ؟؟

خوشی کے مارے غزل کی آنکھیں نم ہوگٸی اور وہ فوراً روشنی کے گلے لگ گٸی۔۔۔

بھابھی یہ سب سچ ہے نہ ؟؟ آپ کوٸی مزاق تو نہیں کر رہی نہ میرے ساتھ ؟؟

نہیں میری جان میں بالکل بھی کوٸی مزاق نہیں کر رہی یہ سب سچ ہے۔۔ رامش بھاٸی نے سب کے سامنے یہ فیصلہ سنایا ہے۔۔۔ اب دیکھو نہ وہ تمہارے لیے اتنا مخلص ہے تمہیں اُس درندے سے بچا کر بھی وہی لایا ہے بس الله نے کسی نہ کسی بہانے سے تم دونوں کو ملوانا تھا اور دیکھو وہ وقت آگیا ہے اب۔۔۔

روشنی کے غزل کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا،


ایان ویسے تم نہ بھی نہ کبھی کبھار بچے ہی بن جاتے ہو جب میں نے تم سے بولا تھا کہ ابھی میرے ساتھ نیچے چلو بعد میں نہا لینا تو پھر تم کیوں واش روم میں گُھس گۓ تھے۔۔۔

روشنی نے سرد لہجے میں کہا،

یارررر اب کیا میں نہاۓ بغیر ہی نیچے چلا جاتا۔۔۔ ویسے بھی کچھ نہیں ہوتا آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو زیادہ سوچا نہ کریں سب جانتے ہیں نیا نیا کپل ہے۔۔

بس بس بس۔۔۔ پانچ ماہ ہونے والے ہیں شادی کو اب نیا کپل کہاں سے ہیں ہم ہاں ؟؟

او میری روشنی جان۔۔ چاہے پچاس سال ہی کیوں نہ ہو جاٸیں ہم نیا کپل ہی رہیں گے وہ روشنی کے قریب ہونے ہی لگا تھا کہ وہ جھٹ سے پیچھے ہوگٸی۔۔

ایان پلیز اب نہیں ابھی مجھے کچن میں بھی جانا ہے پلیز بس کر دو۔۔

ایان ہنسنے لگا۔۔۔

ٹھیک ہے ٹھیک ہے بخش دیا اس بار آپ کو جاٸیں کیا یاد کریں گی آپ۔۔۔ 

میں آپ کو بتا بھی نہیں سکتا کہ کتنا خوش ہوں میں آج۔۔۔ دنیا کی سب سے بڑی خوشی دی ہے آپ نے مجھے۔۔۔

ایان نے فوراً روشنی کو سینے سے لگا لیا۔۔۔

میں بھی بہت خوش ہوں ایان۔۔۔ آپ نے بھی تو میرے لیے اتنا کچھ کیا ہے مجھے رہنے کے لیے چھت دی مجھے اپنی عزت بنا کر اس گھر میں لے کر آۓ۔۔۔

ششش۔۔۔ یہ سب باتیں نہ کرو مجھے بس اس خوشی کو انجواۓ کرنے دو آج۔۔

اچھا نہ بس بھی کرو اب جا کر خود بتا دو سب گھر والوں کو۔۔۔

ہاں ضرور ہم دونوں بتاٸیں گے سب کو اور سب کا منہ بھی میٹھا کرواٸیں گے۔۔۔

ایان نے روشنی کے لبوں پر اپنے لب رکھتے ہوۓ کہا،

ایان چوہدری بس کر دو پیچھے ہٹ جاٶ اب۔۔۔

روشنی نے اُس کے سینے پر مُکے مارتے ہوۓ کہا،

یہ تو بنتا تھا نہ میری جان آخر آج اتنی بڑی خوشی کا دن ہے۔۔

اب ایسا کچھ نہیں ہوگا پورے نو ماہ تک سمجھے۔۔۔

روشنی نے مسکراتے ہوۓ کہا،

اچھا یہ بعد کی باتیں ہیں آٸیں پہلے سب کو بتا کر آتے ہیں۔۔۔

وہ دونوں فوراً خوشی سے جھومتے ہوئے نیچے گئے۔۔۔

ایان نے سب کو باہر ٹی وہ لاٶنج میں اکٹھا کیا۔۔۔

رامش بھاٸی کہاں ہیں انہیں بھی بُلاٶ نا۔۔۔

ابھی ایان یہ کہہ ہی رہا تھا کہ رامش کی گاڑی کا ہارن بجا۔۔۔

لو جی آگیا رامش بھی۔۔۔

ویسے سب خیریت تو ہے نا تم ہمیں یہاں پر کیوں اکٹھا کر رہے ہو سب کو ؟؟؟

چوہدری صاحب نے کہا،

بس دو منٹ ابو سب کو آ لینے دیں پھر میں آپ سب کو بتاتا ہوں کہ میں نے سب کو یہاں پر کیوں بلایا ہے۔۔۔

کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ سب یہاں کیوں ایسے بیٹھے ہیں ؟؟؟

رامش نے ٹی وہ لاٶنج میں اینٹر ہوتے ہوۓ کہا،

آٶ بیٹھو بھاٸی۔۔

غزل بھی آگٸی۔۔۔

ابو جی بہت بہت مبارک ہو آپ دادا بننے والے ہیں۔۔۔۔

یہ سن کر سب ایک دم چونک گئے اور خوشی سے جھوم اٹھے۔۔۔

کیا واقع ہی ؟؟؟

غزل فورا روشنی کے گلے سے لگ گئی۔۔۔

ایان نے اپنے دونوں بھائیوں اور اپنے ابو کو گلے سے لگا لیا۔۔۔

چوہدری صاحب یہ خبر سن کر بہت خوش ہو گئے تھے ان کی طبیعت تو جیسے بالکل ٹھیک ہو گئی ہو۔۔۔

منہ میٹھا کرواؤ جلدی سے سب کا۔۔۔

اس خوشی کے موقع پر میں بھی آپ لوگوں سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

رامش نے کہا تو سب خاموش ہو گئے اور اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔۔

میں اپنے آفس میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔

رامش نے یہ کہا تو سب اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔۔۔

شکر ہے میرے االله میرے بھائی کو بھی کوئی لڑکی پسند آٸی۔۔

غزل نے کہا،

تو بھاٸی دیر مت کریں جلدی سے رشتہ کرواٸیں پھر ہم آپ کی شادی کریں۔۔

ابو آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟؟؟

رامش نے اپنے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،

رامش بیٹا اگر تم خوش ہو تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے تم بتاؤ ہم ان کے گھر جائیں گے رشتہ لے کر۔۔۔

واہ جی واہ ابو میری بار میں کیا تھا بھائی کی دفعہ تو اپ بہت جلدی مان گئے ہیں۔۔

ایان نے منہ بناتے ہوئے کہا،

ایان بس کر دو پچھلی باتیں دہرانے کا کوٸی فاٸدہ نہیں ہے اب جو ہوگیا ہے اُسے بھول جاٶ اب۔۔۔

روشنی نے فوراً کہا،

روشنی بیٹا ایان مجھے معاف کر دو۔۔۔

چوہدری صاحب نے ایسے کہا تو ایان فورا اپنے ابو کے قدموں میں بیٹھ گیا پلیز ایسا مت کہیں ابو۔۔۔۔

چلو بھٸی سب پرانی باتوں کو بھلا کر اب ہم شادی کی تیاریاں کرتے ہیں۔۔۔

روشنی نے خوش ہوتے ہوئے کہا،

ہاں جی۔۔ الله تعالی نے ہمارے گھر میں اتنی ساری خوشیاں دے دی ہیں۔۔۔ ہمیں تو اس رب کا بہت بہت زیادہ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔۔۔

جی تو پھر فائنل یہ ہوا میری غزل کی اور مامو کی شادی اسی ہفتے میں ہوگی۔۔۔

آپ لوگوں کے پاس صرف اور صرف تین سے چار دن ہیں تیاریاں کر لیں۔۔۔

ابو اُس لڑکی کی صرف ماں ہے اس کے ساتھ اور کوئی بھی نہیں ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں ان دونوں ماں بیٹی کو اپنے ساتھ حویلی میں رکھوں۔۔۔۔

بیچاری اس کی بوڑھی ماں کہاں جائے گی۔۔۔

رامش نے کہا،

ٹھیک ہے بیٹا رامش تم بڑے ہو مجھے تمہارا ہر فیصلہ قبول ہے۔۔۔

مجھے بالکل مسئلہ نہیں ہے ہم کل ہی ان کے گھر جائیں گے رشتہ لے کر ٹھیک ہے اور نکاح کی تاریخ بھی فائنل کر آئیں گے۔۔۔

نہ جانے میری کتنے دن کی زندگی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں تم سب خوش رہو اپنے گھروں میں اور میں تم سے اپنی خوشیاں دیکھوں۔۔۔

آج چوہدری صاحب کی حویلی میں بہت عرصے کے بعد خوشیوں کا دن تھا۔۔۔


دوسری طرف ابان شاہ کی ماں کا منہ بنا تھا۔۔۔

وہ کہہ رہی تھی کہ ابان شاہ کی وہاں شادی کر کے ہم چوہدری صاحب کے غلام بن جائیں گے۔۔۔

ان کی بیٹی کی بڑی بڑی خواہشات کو ہم کیسے پورا کریں گے وہ بس بیٹھی یہی سب باتیں سوچ رہی تھی۔۔۔

تمہیں بالکل بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آسیہ بیگم۔۔ اور بات رہی غزل کی تو وہ ایسی لڑکی نہیں ہے جو بہت بڑی بڑی خواہشات رکھتی ہو۔۔۔

میرا بیٹا خوش ہے مجھے اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔۔

ویسے بھی اولاد کی شادی وہاں ہی کر دینی چاہیے جہاں اولاد چاہتی ہے۔۔اگر تم اس کی شادی اپنی پسند کی لڑکی سے کر دو گی کل کو ابان شاہ کو وہ لڑکی نہ اچھی لگی نہ دونوں کے دل ملے تو کیا کر لو گی تم رشتہ ہی خراب کرو گی ایک لڑکی کی زندگی تباہ کرو گی۔۔۔

وہ وقت ہے سمجھ لو ان سب باتوں کو آسیہ بیگم۔۔۔۔

اور میرا پہلا اور آخری فیصلہ یہی ہے کہ ابان شاہ کی شادی غزل سے ہوگی۔۔۔


حرم اپنی ماں کے ساتھ جا کر شادی کی تیاری کر لو۔۔۔ زیادہ وقت نہیں ہے چوہدری صاحب نے مجھے حویلی میں بلایا ہے ضرور شادی کی بات کرنے کے لیے ہی بلایا ہوگا۔۔۔

منشی صاحب یہ کہہ کر وہاں سے چلے گۓ۔۔۔

*******

میرے گھر والے کل تمہارے گھر آ رہے ہیں رشتہ کی بات کرنے بلکہ نکاح کی تعریف فاٸنل کرنے۔۔ کل تیار رہنا ٹھیک ہے اور آفس آنے کی کل کوٸی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

اوہ اچھا۔۔۔ پہلے مجھ سے تو پوچھ لو میں تم سے شادی کرنا بھی چاہتی ہوں یا نہیں۔۔۔

یشما جھٹ سے بولی،

کیا مطلب تم سے پوچھ لوں ؟؟ میرا فیصلہ تمہارا فیصلہ ایک ہی بات ہے نہ۔۔۔

رامش نے کہا تو یشما ہنسنے لگی۔۔۔

جی سر ٹھیک ہے جیسا اپ کہیں۔۔۔ ویسے بھی میری زندگی میں تو آپ کی ہی مرضیاں چلتی ہیں میری مرضی کبھی چلی ہے کیا ؟؟

بہت تھوڑے ہی وقت میں آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی ہا نا ؟؟؟

نہیں میڈم محبت نہیں ہوئی آپ مجھے اچھی لگتی ہیں محبت تو نکاح کے بعد ہوگی نا۔۔۔

اوہ اچھا۔۔کافی بڑی بڑی باتیں کرنے لگ گئے ہیں آپ۔۔۔

یشما نے کہکا لگا کر ہنستے ہوئے کہا،

بس دیکھ لیں کبھی غرور نہیں کیا ویسے بہت سمجھدار ہوں میں۔۔۔

ہاں ہاں بہت سمجھدار ہیں آپ میں جانتی ہوں کتنے سمجھدار ہیں آپ۔۔۔

اچھا چلو ٹھیک ہے اب زیادہ باتیں نہیں بناؤ تیاری کرو کل کے لیے۔۔

یہ کہہ کر رامش نے کال بند کر دی۔۔۔

وہ اپنے روم کی طرف جا رہا تھا کہ غزل نے اسے روک لیا۔۔

بھاٸی۔۔

ہاں غزل بولو کیا ہوا تم سوئے نہیں اب تک ؟؟

نہیں بھائی نیند نہیں آ رہی تھی میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں بلکہ آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔

شکریہ کس بات کا شکریہ ؟؟

بھائی اسی بات کا شکریہ کہ اپ نے میری پسند کا خیال رکھتے ہوئے میرا رشتہ ابان شاہ کے ساتھ طے کر دیا۔۔۔

ارے میری جان ویسے بھی میں نے جہاں بھی تمہارا رشتہ کرنا تھا تم سے پوچھ کر ہی کرنا تھا تمہاری رائے ضرور لینی تھی ہم سب نے۔۔۔

میں بس چاہتا ہوں کہ تم جہاں بھی رہو ہمیشہ خوش رہو۔۔

مجھے جیسے ہی معلوم ہوا تھا کہ تم اور ابان شاہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو تو میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں تمہارا رشتہ ابان شاہ کے ساتھ ہی طے کروں گا۔۔ تم راضی تو ہم سب راضی۔۔۔

غزل فورا اپنے بھائی کے سینے سے لگ گئی۔۔۔

بہت بہت شکریہ بھائی۔۔۔ دنیا کے بیسٹ بھائی ہیں آپ۔۔۔ آپ نے میرا ہمیشہ بہت خیال رکھا ہے۔۔۔

ایک بھائی اپنی بہن سے پیار نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا میری جان تمہارے لیے ہماری جان بھی قربان ہے۔۔۔

میں تمہیں جب جب دیکھتا ہوں مجھے تمہارے اندر امی نظر آتی ہیں۔۔۔۔

رامش نے اپنی بہن کا ماتھا چوما اور اُسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔

******

لو بھائی رامش کے لیے ہمیں انسپیکٹر صاحبہ مل گٸی ہیں۔۔

نکاح کی تاریخ ہم انہیں بتا آۓ ہیں۔۔۔

ہم خود سارے انتظامات کریں گے۔۔۔

وہ ماں بیٹی اکیلی کیا کیا کریں گی اس لیے ہم ان پر بوجھ بالکل بھی نہیں ڈالیں گے۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

جی ابو جیسا آپ کہیں۔۔۔

ایان نے کہا،

اپنے ماموں سے بھی بول دو جا کر شادی کی شاپنگ کر لے اس کا بھی نکاح ہے افرا کے ساتھ۔۔۔ اتنی عمر ہوگئی ہے اس کی اور کب کرنی ہے اس نے شادی۔۔۔

ابو ماموں تو تیار ہیں اب شادی کے لیے وہ تو چاہتے ہیں کل کی ہوتی آج ہو جائے ان کی شادی۔۔۔

ہنی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ 

مجھے بار بار کال کر کے تنگ نہ کرو اب میں تم سے تب ہی بات کروں گی جب تمہارے نکاح میں آ جاٶں گی۔۔۔

اچھا سا رُوم ڈیکوریٹ کروا لو کسی قسم کا کوٸی کمپروماٸز نہیں کروں گی میں۔۔۔

اوہ اچھا جی۔۔ تو اب تم آرڈر کرو گی ہاں۔۔۔

جی بالکل اپ صرف آرڈر ہی ہوں گے جو تمہیں کو ہر صورت پورے کرنے ہوں گے۔۔۔

جی ٹھیک ہے محترمہ آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔۔۔

چلو اب زیادہ شوق ہے مت ہو جا کر تیاری کرو کل ہمارا نکاح ہے۔۔۔۔


آج حویلی میں ہر طرف چہل پہل تھی۔۔۔

طرح طرح کے پکوان پک رہے تھے اور سب اپنی تیاریوں میں مگن تھے۔۔۔

روشنی کو غزل کوٸی بھی کام کرنے نہیں دے رہی تھی۔۔۔

بھابھی آپ بس ریسٹ کریں گی اب سے۔۔۔۔

آپ کو جو بھی چاہٸے ہو آپ نے مجھے آواز دینی ہے یا کسی ملازمہ سے کہہ دینا ہے۔۔۔

اچھا میری ماں۔۔۔

ایسے اگر میں کمرے میں پڑی رہی تو بیمار ہو جاؤں گی۔۔۔

نہیں ہوں گی بیمار آپ فکر نہ کریں میں آپ کے پاس ہی ہوں۔۔۔

میڈم کل آپ کا نکاح ہے کیسے آپ میرے پاس رہیں گی ؟؟

ابان شاہ نے کل آپ کو لے جانا ہے اپنے گھر۔۔۔

بھابھی میرا گھر کون سا دور ہے آ جایا کروں گی میں اپپ سے ملنے اور کبھی کبھی آپ آ جایا کرنا مجھ سے ملنا ہے۔۔۔

ہاں ہاں ضرور کیوں نہیں۔۔۔

روشنی نے کہا،

بھابھی ویسے اب آپ بور نہیں ہوں گی کیونکہ ہمارے گھر ایک اور بھابھی آ رہی ہیں۔۔۔

ہاں یار۔۔ میں تو بھول ہی گٸی تھی۔۔۔

ارے ارے ایک نہیں دو دو بہوئیں آ رہی ہیں اس گھر میں۔۔۔

ایک وقاص ماموں کی دلہن اور دوسری رامش بھاٸی کی دلہن۔۔۔

روشنی نے ہنستے ہوۓ کہا،

******

آج ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔۔

رامش چودری فائنلی اپنے نکاح کے لیے تیار ہو گئے تھے۔۔۔

ایک دلہن تو گھر میں آگئی ہے وقاص ماموں کی اب باری ہے رامش بھائی کی۔۔۔

گھر میں رونقیں ہی رونقیں آگئی ہیں۔۔۔

وقاص ماموں کو دیکھو جب سے دلہن آئی ہے کمرے سے باہر ہی نہیں آ رہے واہ بھائی واہ۔۔۔۔

ہنی نے ہنستے ہوئے کہا تو سب ہنسنے لگ گئے۔۔۔

رامش نے بلیک کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور اوپر بلیک کلر کا ہی کوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔

فائنلی فائنلی فائنلی ڈی ایس پی رامش چوہدری شادی کرنے جا رہے ہیں آج۔۔۔

ایان نے اپنے بھائی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے کہا۔۔۔

رامش بیٹا میری تم سے ایک درخواست ہے۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

جی ابو کہیں کیا بات ہے ؟؟؟

رامش نے حیرانگی سے کہا،

بیٹا میں نے تمہاری اج تک ہر بات مانی ہے جو تم نے کہا میں نے ویسا ہی کیا میرے کہنے پر اج تم رمشا کو رہا کروا دو جیل سے۔۔۔ ہمارا ان کے ساتھ اب کوئی تعلق نہیں ہے۔۔

بیٹا ہے تو وہ میرے بھائی کی بیٹی ہمارے گھر کی عزت اس لیے میں چاہتا ہوں وہ جیل میں ذلیل نہ ہو۔۔

ماں بیٹی ہی تو ہیں بس وہ اس لیے تم ابھی کال کرو تھانے اور کہو کہ اسے رہا کر دے۔۔۔

اپنے ابو کی بات سن کر رامش سوچ میں پڑ گیا۔۔۔

ابو آپ اچھے سے جانتے ہیں اس نے غزل کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس نے ہماری بہن کی عزت نیلام کرنے کی ہر کوشش کی۔۔۔

میرا دل تو نہیں چاہتا مگر پھر بھی آپ کے کہنے پر میں اسے جیل سے رہا کروا دیتا ہوں۔۔

لیکن ابو یاد رکھیے گا ہمارا ان دونوں ماں بیٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا کسی بھی قسم کا۔۔۔

میں اب چاہتا ہوں کہ ہم اپنے گھر میں خوش رہیں اور غزل اپنے گھر میں خوش رہے۔۔۔

ہماری زندگیوں میں کوئی مداخلت نہ کرے تو اچھا ہوگا۔۔۔

ٹھیک ہے بیٹا ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا بس تم اسے جیل سے رہا کروا دو۔۔۔

ٹھیک ہے ابو جیسا آپ کہیں۔۔۔


یشما اور اس کی ماں کے علاوہ ان کی سائیڈ سے کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔

یہ یشما کی آنکھوں میں صرف اور صرف آنسو تھے۔۔۔

یشم کی ماں خوش تھی کہ وہ آج اپنے گھر کی ہو جائے گی کیونکہ انہیں بہت ٹینشن تھی کہ وہ یشمہ کا کہاں اور کیسے رشتہ کریں گی۔۔۔

امی مجھے بہت ٹینشن تھی کہ آپ کیسے رہیں گی میرے بغیر مگر دیکھیں رامش اور اس کے گھر والے کتنے اچھے ہیں وہ میرے ساتھ ساتھ آپ کو بھی اپنا رہے ہیں۔۔۔ میری تو ساری پریشانی ہی ختم ہو گئی امی۔۔۔۔

یشما کی ماں نے اس کا ماتھا چوما۔۔۔

میری دعا ہے الله میری بیٹی کے نصیب بہت اچھے کرے۔۔۔

اب وہی تمہارا گھر ہے اور رامش کی تمہارا سب کچھ ہے۔۔۔ رامش اور اس کے گھر والوں کی عزت کرنی ہے تم نے ان کی ہاں میں ہاں کرنی ہے دیکھنا سب لوگ تمہیں بھی عزت دیں گے۔۔۔

میں آج ہوں کل نہیں اس لیے تمہارے لیے اب وہی سب کچھ ہیں تمہارا۔۔۔

امی ایسے نہ کہیں الله آپ کو لمبی عمر عطا کرے۔۔۔۔

یہ کہتے ہوۓ یشما نے اپنی امی کو سینے سے لگا لیا۔۔۔۔

میرے لیے آپ میرا سارا جہان ہے۔۔۔

وہ اپنی ماں کو دیکھ کر مسکراٸی۔۔۔۔

******

بارات آگٸی بارات آگٸی۔۔۔

ابان شاہ کا استقبال بہت ہی دھوم دھام سے کیا گیا۔۔۔

غزل لال جوڑے میں سجی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔

آگیا ہے تمہارا دُلہا چلو جلدی سے نیچے چلو مولوی صاحب انتظار میں ہیں۔۔۔

غزل کی آنکھیں نم تھیں۔۔۔

اُس کے تینوں بھاٸی اُس کا لہنگا پکڑے اُسے نیچے لے گۓ۔۔۔

غزل کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔

غزل کو دیکھ کر ابان شاہ مسکرانے لگا۔۔۔ اس کا تو بس ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ غزل پر سے نظریں ہی نہ ہٹاۓ۔۔۔


نکاح شروع کیجٸے مولوی صاحب۔۔۔

چوہدری صاحب نے کہا،

جیسے ہی اُن کا نکاح ہوا تو غزل کے بھاٸیوں نے اپنی بہن کا ہاتھ ابان شاہ کے ہاتھ میں دیا۔۔۔

آج سے یہ تمہاری ہے اس کا خیال رکھنا اب تمہارا فرض ہے۔۔۔

بہت لاڈوں سے پالا ہے ہم نے اسے۔۔۔ ہماری بہن کو کبھی کسی بھی طرح کا دُکھ مت پہنچانا۔۔۔

رامش نے ابان شاہ اور غزل کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا۔۔

تینوں بھاٸیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے آخر وہ وقت آ ہی گیا تھا جب انہیں اپنی بہن کو رخصت کرنا تھا۔۔۔ 

کیوں رو رہے ہیں آپ ابو جان۔۔۔

غزل اپنے ابو کے سینے سے لگتی ہوٸی بولی تو اُس نے تینوں بھاٸیوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگۓ۔۔۔


آج ہمارے گھر کی رونق اس گھر سے رخصت ہو کر جا رہی ہے تو ہمیں رونا نہیں آئے گا تو اور کیا ہوگا بیٹا۔۔۔۔

ابو بیٹیوں کو تو ایک دن جانا ہی ہوتا ہے نا اپنے گھر اور میں اچھے سے جانتی ہوں میرے ابو بہت ہی حوصلے والے ہیں میں آپ سے ملنے آیا کروں گی اور آپ کا بھی جب دل چاہے آپ بھی مجھ سے ملنے جب مرضی آ جایا کرنا۔۔۔

غزل نے اپنے ابو کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔۔۔۔


غزل۔۔

رامش نے دھیمے لہجے میں کہا تو غزل نے فوراً اپنے بھاٸی رامش کی طرف دیکھا۔۔۔

جی بھاٸی ؟؟

یہ چھوٹا سا تحفہ ہم تینوں بھائیوں کی طرف سے تمہارے اور ابان شاہ کے لیے ہے۔۔۔

یہ کیا ہے بھاٸی ؟؟؟

غزل حیرانگی سے اس تحفے کو دیکھتے ہوئے کہا،


کھول کر دیکھ لو کیا ہے اس میں۔۔۔

ایان جھٹ سے بولا،

غزل نے فورا وہ تحفہ جب کھولا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔

بھائی اتنا بڑا تحفہ۔۔۔۔

بھائی اس کی کیا ضرورت تھی ویسے ؟؟

ابان شاہ نے کہا،

ارے یہ تحفہ تم دونوں کے لیے ہے تاکہ تم دونوں خوش رہ سکو۔۔۔ منشی صاحب نے ساری زندگی ہمارے ہاں ملازمت کی ہے اب اتنا تو بنتا تھا نا۔۔۔

ہماری تم سے ایک ہی درخواست ہے کہ تم ہمیشہ ہماری بہن کو خوش رکھنا۔۔۔

اس نے بہت دکھ دیکھے ہیں اپنی زندگی میں اب ہم چاہتے ہیں یہ ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔

آنٹی پلیز کوشش کیجئے گا کہ غزل کو ماں جیسا پیار دے آپ۔۔۔

ہم بہت چھوٹے تھے جب ہماری والدہ ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی ہم نے اپنی ماں کا پیار نہیں دیکھا اب ہم جاتے ہیں اپ غزل کو ماں جیسا پیار دیں۔۔۔۔

آسیہ بیگم نے غزل کا ماتھا چوما۔۔۔

ہاں بیٹا ضرور۔۔ غزل میرے لیے بالکل حرم جیسی ہے میری بیٹی ہے غزل اب۔۔۔۔

غزل کے تینوں بھائیوں نے مل کر غزل کو ایک عالی شان گھر دیا تھا تحفہ میں۔۔۔۔

غزل کی رخصتی کے وقت اس کے تینوں بھائی دونوں بھابھیاں ابو مامی اور ماموں موجود تھے مگر آج اُسے اپنی ماں کی کمی سب سے زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔۔۔


روشنی اپنا بہت خیال رکھنا اور جلدی جلدی ہمیں ملنے آتی رہنا۔۔۔

بھابھی آپ بھی اپنا اور میرے ہونے والے بھتیجے کا بہت سارا خیال رکھیے گا۔۔۔

ہاں ہاں ضرور۔۔۔

ایسے رامش کی فیملی کو ایک ساتھ دیکھ کر اور اتنا پیار دیکھ کر یشما کا دل خوش ہو گیا تھا اور وہ شکر ادا کر رہی تھی خدا کا کہ اسے اتنا اچھا گھر نصیب ہوا ہے۔۔۔

*********

تم خوش تو ہو نا ؟؟؟

ویسے تو آج ہی ملی ہو تم میرے سب گھر والوں سے بتاؤ کیسے لگے سب تمہیں ؟؟؟

رامش نے اپنا کوٹ اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا،

میں اگر سچ بتاؤں تو مجھے تمہاری فیملی بہت اچھی لگی۔۔۔ تمہاری فیملی کہ سب لوگ بہت اچھے ہیں مجھے ویسے ہی فیملی ملی ہے جیسی میں چاہتی تھی بہت شکریہ رامش۔۔

ارے میری پیاری بیگم شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو تمہارا نصیب ہے۔۔۔۔

اب یہ تمہارا گھر ہے یہ سب کے ساتھ تم نے اچھے طریقے سے رہنا ہے انہیں ایک اچھی بہو ایک اچھی لڑکی بن کر دکھانا ہے۔۔۔۔

اوہ مسٹر ؟؟ کیا میں پہلے اچھی لڑکی نہیں ہوں ؟؟؟؟

وہ جھٹ سے صرف لہجے میں رامش کو گھورتی ہوئی بولی تو رامش کہکا لگا کر زور زور سے ہنسنے لگا۔۔۔۔

جانتی ہو تمہارے یہ اوہ مسٹر سے مجھے تم وہ والی یشما یاد اگئی جب میں تمہیں وہاں پر اریسٹ کرنے آیا تھا فرسٹ ٹائم۔۔۔۔

پلیز رامش میرے پاس کو یاد کر کے میرا دل مت دکھاؤ۔۔۔۔

یشما نے منہ بناتے ہوئے کہا تو رامش نے اسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔

چھوڑو یہ سب باتیں اج ہماری شادی کی پہلی رات ہے۔۔

اس رات کو ہمیں ایک یادگار رات بنانا ہے۔۔۔

یہ کہتا ہوا وہ اُس کے لبوں پر جھکا۔۔۔

رامش تھوڑا صبر ہی کر لو کم از کم مجھے چینج تو کرنے دو۔۔۔

نہیں یشما آج نہیں اب تم صبح ہی چینج کرنا۔۔۔۔

وہ اُسے اپنے سینے میں دبوچتا ہوا بولا۔۔۔

*******

کیا دیکھ رہے ہو ایسے ہاں ؟؟؟

کیا مطلب کیا دیکھ رہا ہوں اپنی بیگم کو دیکھ رہا ہوں اور اب تم مجھے منع نہیں کر سکتی اب تم میرے نکاح میں ہو۔۔۔

یہ کہتا ہوا وہ اُس کے قریب ہوا۔۔۔

ابان شاہ نہ کرو میں بہت تھک گٸی ہوں اب سونا چاہتی ہوں۔۔۔۔

چُپ ہو جاٶ آج کی رات نہیں سونے دوں گا میں تمہیں۔۔۔۔

ابان شاہ۔۔۔

کیا ابان شاہ ہاں کیا ابان شاہ۔۔۔

ایک جھٹکے سے اُس نے غزل کو اپنی جانب کھینچا اور اُس کی گردن پر جھک گیا۔۔۔

وہ اس کی گردن پر اپنا کمس شدت سے چھوڑنے لگا جس پر غزل تڑپ اُٹھی۔۔۔

اُس کے لب اپنے لبوں میں لیے اُس نے غزل کے جسم پر انگلیاں پھیرنا شروع کی۔۔۔ دونوں کے دل ایک ہی تال پر دھڑکنے لگے تھے دونوں ایک دوسرے میں سمٹ کر رہ گۓ تھے۔۔۔۔

*********

ماموں اور مامی ناشتہ لے کر ائے ہیں اب اٹھ جاؤ ابان شاہ رات کو تمہیں نیند نہیں آ رہی تھی اور اب دیکھو کیسے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہو۔۔۔۔

کیا ہے غزل پلیز سونے دو مجھے نہیں اُٹھنا ابھی جاٶ تم کر لو ناشتہ جا کر۔۔۔۔

وہ اپنے منہ پر کمبل اوڑھے یہ کہتا ہوا پھر سے سوگیا۔۔۔۔

اُففففف میرے الله۔۔۔۔ ٹھیک ہے تم سوتے رہو آرام سے میں جا رہی ہو۔۔۔

یہ کہہ کر غزل کمرے سے باہر چلی گٸی۔۔۔۔

کیا ہوا ماموں کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟

غزل کے ماموں اور مامی غزل کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔۔۔

بہت مبارک ہو تمہیں تم پھپھو بن گٸی ہو۔۔۔

وہ رامش کی کال آٸی ہے ایان کی بیٹی ہوٸی ہے ہمیں ہاسپٹل جانا ہے۔۔۔۔

یہ سنتے ہی غزل کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگۓ۔۔۔۔

یاالله تیرا شکر۔۔۔

ماموں جان مجھے بھی جانا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔۔

نہیں غزل میری جان تم ابان شاہ کے ساتھ انا ٹھیک ہے ایسے اسے اچھا نہیں لگے گا اگر تم ہمارے ساتھ چلی گئی تو۔۔۔۔

ٹھیک ہے مامو جان اپ جائیں اور جا کر مجھے فوٹو بھیجیں میری بھتیجی کی۔۔۔۔

غزل خوش ہوتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور جا کر ابان شاہ کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔۔۔۔

آج حویلی میں پھر سے بہت بڑا جشن ہونے والا تھا اتنے سالوں کے بعد اس گھر میں اتنی بڑی خوشی آٸی تھی۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sulagti Rahen Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sulagti Rahen written by Areeba Amjad. Sulagti Rahen by Areeba Amjad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages