Pages

Saturday 13 July 2024

Sitamgar Mehboob Mera By Zanoor Writes New Complete Romantic Novel

Sitamgar Mehboob Mera By Zanoor Writes  New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sitamgar Mehboob Mera By Zanoor Writes Complete Romantic Novel 




Novel Name:Sitamgar Mehboob Mera 

Writer Name: Zanoor Writes 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ لڑکھڑاتا ہوا رات کے دو بجے گھر میں داخل ہوا  تو سامنے ہی اس کا باپ بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا وہ اپنے باپ کو دیکھ کر آہستہ آہستہ اپنے قدم جما کر چلنے لگا تاکہ انھیں پتا نہ چل سکے کہ اس نے شراب پی ہے اور اپنی آنکھیں کھولی رکھنے کی کوشش کرنے لگا جو نیند کی کمی کی وجہ سے سرخ انگارا ہوئی پڑی تھیں 

اس کا باپ جو ٹی وی پر میچ دیکھ کر اس کا انتظار کر رہا تھا اسے آتا دیکھ کر میچ کی آواز ہلکی کی اور اس کی جانب دیکھا جو اپنے قدم زمین پر جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا مگر ہلکا ہلکا لڑکھڑا رہا تھا 

آئیے شاہزین صاحب زرا اپنے باپ کے آگے حاضری تو لگوائیں ورنہ تو تمہیں گھر والوں سے ملنے کی اب فرصت ہی نہیں ملتی صبح کو تم سوئے ہوتے ہو اور رات کو شراب پی کر سڑکوں کی خاک چھان کر آجاتے ہو  

گھر کی خاموش فضا میں تیمور صاحب کی آواز گونجی 

ڈیڈ صبح بات کریں گے میں اب تھک گیا ہوں سونا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

شاہزین نے اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا 

کل صبح آٹھ بجے تم مجھے سٹڈی روم میں ملو گے اگر تم نہ آئے تو یاد رکھنا تمہارا بینک اکاونٹ دس بجے تمھیں بند ملے گا 

تیمور صاحب اپنی کرخت آواز میں بولے 

ٹھیک ہے ڈیڈ پھر صبح کو ملتے ہیں ابھی مجھے بہت نیند آرہی ہے  

شاہزین اپنے کمرے کی طرف جاتا ہوا بولا  اور اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر ڈھیر ہو گیا جبکہ اس کے اس طرح جانے پر تیمور صاحب بھی غصے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے 

یہ ایک چھوٹی سی گلی کا منظر تھا ہر طرف پانی اور کچرا  جگہ جگہ اکٹھا تھا اسی گلی کے ایک چھوٹے مکان میں ایک لڑکی اپنے بھائی کو اپنی آغوش میں لیے اپنی ناختم ہونے والی سوچوں میں گم تھی رات کے تیسرے پہر بھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اس معصوم نے تو خود ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا جب اسے اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ گھر سے نکال دیا گیا

وہ محلوں میں رہنے والی لڑکی بنا کسی قصور کے اس چھوٹے سے مکان میں رہنے پر مجبور تھی ابھی تو اس نے خواب دیکھنا شروع کیے تھے وہ اپنی سوچوں  میں ہی گم تھی کہ کب اس پر نیند مہربان ہوئی اسے پتا ہی نہ چلا اور وہ خوابوں کی دنیا میں سیر کرنے چلی گئ 

صبح اس کی آنکھ کسی کے بلانے پر کھلی اس نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کا بھائی اسے بولا رہا تھا 

کیا ہوا ہادی کیوں بلا رہے ہو تھوڑی دیر اور سونے دو مجھے رات کو لیٹ سوئی تھی میں۔۔۔۔۔ 

اس نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا

عینی اپی اٹھو مجھے بھوک لگ رہی ہے کچھ بنا کر دو پھر سوجانا اور آپنے آج میرا ایڈمیشن بھی کروانا تھا اور نوکری کے کیے بھی جانا تھا 

ہادی کی معصوم آواز اس کے کانوں میں گونجی تو اس کی بات سن کر اس کی نیند بھک سے اڑ گئی وہ تو بھول ہی گئی تھی کہ آج اسے ہادی کا ایڈمیشن کسی سرکاری سکول میں کروانا ہے مگر سرکاری سکول کا سوچ کر ہی اس کا دل ٹوٹ سا گیا وہ تو پہلے شہر کے مشہور اور مہنگے ترین سکول میں پڑھتا تھا مگر اپنوں کی ستم ظریفی کے وہ آج ایسے حالات میں تھے 

اچھا ہادی میں اٹھ گئ ہوں منہ ہاتھ دھو کر تمھارے لیے کچھ بناتی ہو تب تک تم کونے والی دکان سے دودھ لے آؤ میرے سر میں درد ہے میں چائے پی لوں گی اور تمھیں چائے کے ساتھ پراٹھا بنا دوں گی اور پیسے میرے پرس سے لے لو۔۔۔۔ 

عینی نے اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل دیتے ہوئے ہادی سے کہا اور منہ ہاتھ دوھنے چلے گئ 

وہ جب فریش ہو کر آئی تب تک ہادی دودھ لے کر آچکا تھا اس نے جلدی سے چائے بنائی اور آٹا گوندھ کر اپنے اور ہادی کے لیے پراٹھے بنانے لگی دو ہوتے پہلے کی بات ہے کہ اسے آٹا گوندھنا بھی صحیح سے نہیں آتا تھا اور روٹیاں بھی عجیب شکل کی بناتی تھی مگر اب روٹیاں گزارے لائق بنا لیتی تھی 

ناشتہ کرنے کے بعد وہ ہادی کو لے کر اس کا ایڈمیشن گھر سے دور ایک سرکاری سکول میں کروانے چلے گئ

وہ دروازے پہ ہونے والی مسلسل دستک سے اٹھا اور خونخوار نظروں سے دروازے کو گھورا جیسے دروازے کے پار شخص کو اپنی نظروں سے سالم نگلنے کا ارادہ ہو 

وہ اپنے دکھتے سر سے اٹھا اور دروازہ کھولا جہاں ان کے گھر کا ملازم کھڑا تھا ملازم نے اسے دروازہ کھولتے دیکھ جلدی سے کہا

وہ سر تیمور نے کہا تھا کہ آپ کو یاد دلا دوں کہ آٹھ بجے آپ سٹڈی روم میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔

یاد ہے مجھے اور آئندہ کے بعد ایسے دروازہ بجایا تو تمھارا ہاتھ توڑ دوں گا اور میرے لیے فورا سے لیموں پانی لے کر آؤ اور دروازہ بجانے کی بجائے ٹیبل پر گلاس رکھ جانا ۔۔۔۔۔

شاہزین نے غصے سے اسے کہا اور اپنے درد سے پھٹتے سر کے ساتھ شاور لینے چلا گیا جب وہ شاور لے کر آگیا تو میز پر موجود لیموں پانی کا گلاس اٹھا کر ایک ہی سانس میں ختم کر گیا 

اس نے اپنے بال سکھائے اور اپنے باپ سے ملنے سٹڈی روم میں چلا گیا اس نے دروازہ ناک کیا اور اجازت ملتے ہی اندر داخل ہوگیا 

تیمور صاحب کرسی پر بیٹھے اپنے سامنے موجود میز پر رکھی کسی فائل کا مطالعہ کر رہے تھے شاہزین کو آتا دیکھ کر انھوں نے اپنی فائل بند کی اور میز کے دوسری طرف موجود کرسی پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا 

میں سیدھی بات کروں گا شاہزین مجھے تمھارا یہ نیا لائف سٹائل بلکل بھی پسند نہیں پہلے تم صرف رات دیر تک باہر رہتے تھے مگر اب تو حد ہی ہوگئ تم شراب بھی پینے لگے مجھے لگا تھا کہ تم چاہے جو مرضی کرو گے مگر شراب جیسی گھٹیا چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گے۔۔۔۔

مجھے دیکھ لو کتنے عرصے سے بزنس مین ہوں کبھی جو کسی پارٹی میں تم نے مجھے شراب پیتے تو کیا ہاتھ لگاتے بھی دیکھا ہے مجھے تو تمہیں بیٹا کہتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے ایک شرابی کیسے میرا بیٹا ہوسکتا ہے ؟ ہاں بولو اب مجھے تمھارا جواب چاہیے ابھی۔۔۔۔

شاہزین کے بیٹھتے ہی تیمور صاحب اس پر برس پڑے وہ چاہے جتنے بھی موڈرن ہوں مگر انہیں شراب سے سخت نفرت تھی 

ڈیڈ ایم ریئلی سوری پتا نہیں کیوں دوستوں کی باتوں میں آکر پی گیا۔۔۔۔۔ اب میں بلکل بھی نہیں پیوں گا ڈیڈ آپ پلیز مجھ سے ناراض مت ہوں

اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے شرمندگی سے کہا وہ پہلے تو شراب نہیں پیتا تھا مگر کچھ دنوں سے اس کے دوست کسی نہ کسی بہانے سے اسے پینے پر مجبور کر دیتے تھے مگر وہ جانتا تھا کہ اس کا اپنا بھی قصور ہے وہ کیوں ان کی باتوں میں آجاتا ہے 

ہاں تم تو بچے ہو ابھی تمھیں کچھ بھی نہیں پتا میں یہ تمھیں پہلی اور آخری وارننگ دے رہا ہوں شاہزین اس کے بعد جو کروں گا وہ تمہیں بلکل پسند نہیں آئے گا اور تمھیں ہوش بھی ہے تمھاری جان سے پیاری بہن کی ٹانگ دو دن پہلے ٹوٹ چکی ہے 

تیمور صاحب غصے سے اسے بولے 

کیا شفق کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور مجھے کسی نے بتانا بھی گوارا نہیں کیا کیسی ہے اب ؟ وہ اور کہاں ہے وہ؟ اور اس کی ٹانگ ٹوٹی کیسے ؟

اپنی جان سی پیاری بہن کے بارے میں سن کر وہ بھی غصے سے بولا

سڑھیوں سے اپنی دائیں ٹانگ کے بل گری ہے وہی ٹانگ ٹوٹی ہے  کل شام کو ہی ہوسپٹل سے واپس آئی ہے اپنے کمرے میں موجود ہے ابھی صرف ایک نظر اسے دیکھ لو سو رہی ہو گی وہ اپنی یونیورسٹی سے واپس آکر اسے مل لینا۔۔۔

تیمور صاحب اپنی فائل کو دوبارہ کھولتے ہوئے بولے

اچھا ٹھیک ہے میں اسے ایک نظر دیکھ لوں پھر واپس آکر اس سے بات کروں گا 

شاہزین اٹھتے ہوئے گویا ہوا اور شفق کو دیکھنے اس کے کمرے کی جانب چلا گیا وہ اس کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھول کر داخل ہوا 

شفق کا کمرہ پرپل اور سفید رنگ کا امتزاج تھا کیونکہ اسے یہ دونوں رنگ بہت پسند تھے  کمرے کے درمیان میں کوئین سائز بیڈ اور اس کے دائیں طرف کھڑکی موجود تھی جبکہ کھڑکی کے قریب ایک سٹڈی ٹیبل موجود تھا بیڈ کے سامنے دو چھوٹے صوفے اور ان کے سامنے شیشے کا میز جبکہ اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک بڑی سی الماری کمرے میں بنی ہوئی تھی کمرے کے بائیں طرف واشروم کا دروازہ تھا مکمل طور یہ کمرا بہت خوبصورت لگتا تھا 

شاہزین شفق کے قریب گیا اور اس کا چہرہ دیکھا جو نائٹ بلب کی ہلکی روشنی میں زرد لگ رہا تھا جبکہ ٹانگ اس کی کمفرٹر میں چھپی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اس کی ٹانگ نہ دیکھ سکا اس نے اپنی معصوم گڑیا کے ماتھے پر ہلکا سا بوسہ دیا اور اس پر کمفرٹر صحیح کر کے کمرے سے باہر چلا گیا 

تم چاہتے ہو میں یہ ڈیل چھوڑ دو ۔۔۔۔۔ ایک ایسی وجہ بتاؤ جس کے بدلے میں تمھیں یہ ڈیل دے دوں


ہاشم نے ٹانگ پر ٹانگ جمائے اپنی کرسی پر بیٹھا سگریٹ پیتے ہوئے اپنے سامنے موجود احمر زمان سے پوچھا


تم جانتے تھے کہ ہمیں لوس ہو رہا ہے اور ہمارے لیے یہ ڈیل کتنی ضروری ہے مگر پھر بھی تم نے یہ ڈیل لی کم از کم یہ ہی لحاظ کر لیتے کے کبھی ہم دوست بھی تھے اور شاید تم بھول گئے ہو تمھارے مشکل وقت میں میں نے تمھارا کتنا ساتھ دیا تھا اسی احسان کا بدلہ چکانے کے لیے وہ ڈیل ہماری کمپنی کو دے دو


احمر نے ہاشم کو دیکھتے ہوئے کہا جو کبھی اس کا جگری دوست ہوا کرتا تھا مگر جب دوستی میں اعتبار ختم ہو جائے تو غلط فہمیاں جنم لینے میں دیر نہیں لگتیں ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا اور مگر اب وہ اسے اپنے سامنے ایک ڈیل کی بھیک مانگنے پر مجبور کر رہا تھا اگر اپنے گھر والوں کی فکر نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی یہاں موجود نہ ہوتا مگر وہ پھر بھی اپنی ڈوبتی کمپنی کو بچانے کے لیے پوری کوشش کرنا چاہتا تھا


مجھے پوری امید تھی کہ تم مجھ سے ضرور ملنے آؤ گے آخر کو یہ ڈیل تمھاری کمپنی کو بچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے میں کبھی بھی یہ ڈیل تمہیں نہ دیتا مگر تم جیسے کم ظرف انسان نے اپنا احسان یاد دلا دیا ہے تو اس کے بدلے میں یہ ڈیل تمھاری ہوئی مگر آئندہ کے بعد مجھے اپنی شکل بھی مت دکھانا اب دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔


ہاشم کی سرد آواز اس کے کانوں میں پڑی تو اس کی ڈیل والی بات سن کر جہاں اسے خوشی محسوس ہوئی وہاں اس کی اگلی بات اسے دکھی کر گئ


کرسی سے اٹھ کر اپنا سر نفی میں ہلا کر وہ ہاشم کی طرف دیکھتا ہوا بولا


تم جو مرضی کہہ لو مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر زندگی کے کسی بھی موڑ پر تمھیں کسی سہارے کی ضرورت ہو تو یاد رکھنا تمھارا یہ دوست تب بھی تمھارے ساتھ ہوگا اور مجھے یقین ہے جب تمھیں حقیقت کا اندازہ ہوگا تو تم ضرور میرے پاس آؤ گے یہ میرا وعدہ ہے تم سے اللہ حافظ


اپنی بات مکمل کر کے احمر اس کا جواب سنے بغیر باہر چلا گیا


ہاشم نے اس کی بات سن کر غصے سے اپنے ہاتھ میں موجود پیپر ویٹ زمین پر دے مارا مگر غصہ تھا کہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا اس نے جان بوجھ کر یہ ڈیل لی تھی تاکہ وہ اس کے پاس آکر ڈیل لینے کے لیے منتیں کرے اور اس کی آنا کو سکون ملے مگر وہ تو اس کو اور بے چین کر گیا تھا


وہ کھڑکی میں کھڑی ہلکی ہلکی بارش ہوتی دیکھ رہی تھی اور ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے کھڑی تھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھولی کھڑکی سے اس کے وجود سے ٹکڑا رہے تھے اب بارش تیز ہونا شروع ہوگئی تھی اور بارش اسے بھی بگھو رہی تھی بارش کے مسلسل پڑتے قطروں کے وجہ سے وہ کھڑکی کو بند کرکے اپنے بیڈ پر بیٹھ کر ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی


اسے آج پھر اس ستمگر کی یاد آگئی تھی جس نے اس کے وجود کی نفی کرنے میں زرا بھی دیر نہ لگائی تھی اور اس ستمگر کی بیوی نے جو اسے بھرے مجمے میں زلیل کیا اس کی وجہ سے کوئی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ سب کے مطابق وہ لڑکوں پرڈورے ڈالتی تھی اس نے تو کبھی اس ستمگر سے اپنی محبت کا اعتراف بھی نہ کیا تھا ابھی وہ کچھ اور سوچتی کوئی دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں آیا


عالی (علیشبہ) میری جان کیا کر رہی ہو؟


رمنا بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی


امی جان کچھ بھی نہیں کر رہی میں بس بارش انجوائے کر رہی تھی پھر بارش تیز ہوگئی تو سوچا اب تھوڑی دیر آرام کر لوں آپ کو کوئی کام تھا


علیشبہ رمنا بیگم سے بولی جو اب اس کے قریب بیٹھ گئ تھیں


میں نے تمھارے بابا سے بات کی تھی وہ چاہتے ہیں تم اپنی سٹڈی دوبارہ شروع کرو آخر کب تک یوں ہی اس کمرے میں بند رہو گی جو ہوگیا ہے اسے بھول جاؤ عالی اپنی زندگی میں آگے بڑھو بیٹا۔۔۔


اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے تم حویلی سے کبھی باہر بھی نہیں گئ اور کمرے سے بھی جب بہت ضروری کام ہوتا ہے تب نکلتی ہو میں اور تمھارے بابا تمھارے لیے بہت پریشان ہیں عالی اور تمھارا بھائی ارقم بھی تمھارے لیے فکر مند رہتا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ تم ان سب سے باہر آجاؤ اور اپنی زندگی میں آگے بڑھو۔۔۔۔


رمنا بیگم علیشبہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں


ٹھیک ہے امی بھائی کو کہیں میرا ایڈمیشن کروا دیں میں بھی دوبارہ اپنی سٹڈیز شروع کرنا چاہتی ہوں اور آپ لوگ میری فکر مت کیا کریں وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔


علیشبہ رمنا بیگم کی گود میں سر رکھتے ہوئے بولی


شاباش میری جان میں بہت خوش ہوں تمھارے اس فیصلے سے اور تمھارے بابا اور بھائی بھی سن کر بہت خوش ہوں گے


رمنا بیگم اس کے ماتھے پر بوسہ دیتی خوشی سے بولی


عینی ہادی کا ایڈمیشن کروا کر ابھی واپس آئی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اس نے اپنے سر پر دوپٹہ ٹھیک کیا اور دروزہ کھولنے چلی گئی دروازہ کھولا تو سامنے ساتھ والے گھر سے اماں جنت کھڑی تھی


اسلام علیکم بیٹا کیسی ہو ؟ ۔۔۔۔۔


اماں جنت گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولیں


الحمداللہ اماں میں ٹھیک ہو آپ کیسی ہیں ؟


عینی نے جواب دیتے ہی ان سے بھی حال پوچھ ڈالا اور ساتھ ہی ہادی کو اشارے سے جوس لینے بھیجا


میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا ادھر آ میرے ساتھ بیٹھ مجھے تجھ سے ایک بات کرنی ہے


اماں کی بات سن کر عینی ان کے ساتھ بیٹھ گئی تو اماں بولی


تم نے بتایا تھا کہ تمھیں پیسوں کے لیے کام کی ضرورت ہے تو میں تمہارا لیے ایک کام لائی ہوں میری ایک جاننے والی ایک بڑے گھر میں کام کرتی ہے ان کے گھر کی چھوٹی بیٹی کی ٹانگ ٹوٹ گئ ہے اس کے کام کے لیے انھیں ایک لڑکی کی ضرورت ہے جواس کے سارے کام کر سکے اور دیکھ بھال کر سکے میں نے تیرا بتایا تھا تو وہ کہہ رہی تھی کہ صبح وہ آئے گی اگر تم نے کام کرنا ہوا تو وہ تجھے ساتھ لے جائے گی اب تو بتا تو کام کرنا چاہتی ہے ؟ کام ستھرا ہے اور پیسے بھی بہت اچھے ملیں گے ۔۔۔۔۔۔

عینی ان کی بات سن کر سوچ میں پڑگئ اسے یہ کام اچھا لگا تھا س لیے اماں کو فورا بولی

اماں ٹھیک ہے کل جب وہ آئے گی تو مجھے اپنے ساتھ لے جائے

اس کے جواب دینے کے بعد ہی ہادی اماں کے لیے جوس لے آیا

خوش رہ بیٹا اماں جوس پیتی ہوئی بولی وہ کچھ دن پہلے ان سے ملی تھی تب عینی نے انھیں کسی کام کے لیے کہا تھا تعلیم تو اس کی ابھی پوری تھی نہیں جو اسے کوئی نوکری دیتا اسی وجہ سے وہ لوگوں کے گھر کام کرکے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنا چاہتی تھی اس نے اسی سال بی ایس میں ایڈمیشن لیا تھا مگر اب پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ پرائیوٹ پڑھنے کا سوچ رہی تھی۔۔۔۔

اور سب سے بڑی ٹینشن تو اسے ہادی کی تھی پہلے ہفتے تو وہ یہاں رہ کر بیمار پڑگیا تھا مگر اس نے ایک دفعہ بھی اس سے شکایت نہ کی ابھی وہ ساتویں میں پڑھتا تھا مگر اتنا سمجھدار ضرور تھا کہ کسی بھی چیز کی شکایت نہ کرتا وہ جیسی بھی روٹی بنا کر دے دیتی آرام سے کھا لیتا۔۔۔۔۔ ہادی میں اس کی جان تھی وہ دوجسم اور ایک جاں تھے عمر میں فرق ہونے کے باوجود بھی دونوں کی خوب بنتی تھی

شاہزین جو ابھی یونیورسٹی سے آکر شفق کے کمرے میں آیا تھا اسے روتا دیکھ فورا اس کے قریب آیا

کیا ہوا ہے شفی کیوں رو رہی ہو ؟ درد ہو رہا ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔۔۔

وہ پریشان سا شفق کو روتا دیکھ بولا قریب ہی ملازمہ دوائی ہاتھ میں لیے کھڑی تھی اس سے دوائی پکڑ کر اسے جانے کا کہا

بھائی درد ہو رہا ہے میری ٹانگ میں اور میں آپ سے ناراض ہوں آپ اب آئے ہیں مجھ سے ملنے میں پورے ایک دن ہوسپٹل رہ کر آئی ہوں مگر آپ مجھے دیکھنے نہ آئے

شفق روتی ہوئی سوں سوں کرتی بولی۔۔۔۔۔۔

بھائی کی جان آج ہی بھائی کو پتا چلا ہے اور میں آپ سے ملنے صبح آیا بھی تھا مگر آپ سوئی ہوئیں تھیں اسی وجہ سے واپس چلا گیا سوچا آکر مل لوں گا اور فورا سے یہ دوائی کھاؤ تاکہ درد کم ہو اور مجھے بتاؤ ڈاکٹر نے کیا کہا

شاہزین اسے اپنے ساتھ لگاتے اس کے آنسوں صاف کرتے بولا ہوئے بولا اور اس کے آگے دوائی اور پانی کیا

شفق نے برا سا منہ بنا کر دوائی کھائی اور اسے تفصیل بتانے لگی

ڈاکٹر نے کہا ہے ٹانگ ٹوٹی نہیں مگر گرنے کی وجہ سے زور زیادہ پڑ گیا ہے اور دو جگہ فریکچر بھی آیا ہے اس لیے دو مہینے چلنے پھرنے سے احتیاط کرنے کا کہا اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ بابا نے آپ سے میری ٹانگ ٹوٹنے کا کیوں کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے ہی بابا سے آپ کو ایسا کہنے کا کہا تھا

وہ جو اس کی بات سن کر تیمور صاحب کی بات کا سوچ رہا تھا کہ انھوں نے شفق کی ٹانگ ٹوٹنے کا کیوں کہا تو اس کا جواب بھی شفق نے دے دیا اس نے شفق سے مصنوئی غصہ سے کہا

آپ کو پتا ہے کہ میں یونیورسٹی میں آپ کی وجہ سے پورا دن پریشان رہا ہوں

ہاں تو آپ بھی تو مجھ سے ملنے نہیں آئے حساب برابر ۔۔۔۔

شفق بولی تو اس کی بات سن کر شاہزین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا جیسے کہہ رہا ہو تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔

تیمور صاحب شہر کے جانے مانے بزنس مین ہیں ان کی شادی ان کی پسند کی لڑکی سحر بیگم سے ہوئی ان کے دو بچے ہیں پہلا شاہزین اور اس سے پانچ سالہ چھوٹی شفق ۔۔۔۔۔۔

شاہزین کا گورا رنگ ' براؤن آنکھیں اور کالے بال تھے وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا اور شفق گورے رنگ ، کانچ سی سنہری آنکھیں اور شہد رنگ بالوں کے ساتھ کوئی گڑیا ہی لگتی تھی ساتھ

سفید شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ پہنے کالی آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ ایک شان سے اپنی کار سے باہر نکلا اور حویلی میں داخل ہوا تو سامنے ہی رمنا بیگم بیٹھی تسبیح کر رہی تھیں اس نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا اس کی آواز سن کر رمنا بیگم نے فورا اس کی طرف دیکھا اور تسبیح سامنے میز پر رکھے خوشی سی اسے اپنے گلے لگایا


ارقم میرے بچے کیسے ہو ؟ اور آج حویلی کی یاد کیسے آگئ ؟ ویسے تو تمہیں یونیورسٹی سے فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔


اس کے ماتھے پر بوسہ دینے کے بعد رمنا بیگم اس سے بولیں اور ساتھ ہی آخر میں شکوہ بھی کر ڈالا


امی آپ کے سامنے ہی ہوں دیکھ لیں کیسا لگ رہا ہوں اور میں پہلے آنا چاہ رہا تھا مگر ایک کام کی وجہ سے آ نہ سکا اور پھر میرے پیپر شروع ہو گئے تھے اس وجہ اب آیا ہوں۔۔۔


ارقم ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا


اچھا ٹھیک ہے یہ بتاؤ کھانا کھا کر آئے ہو یا لگواؤں ؟


رمنا بیگم نے ارقم سے پوچھا جسے ملازمہ ابھی پانی کا گلاس دے کر گئی تھی


کھانا میں کھا کر آیا ہوں امی بس تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے میں عالی سے ملنا چاہتا ہوں


ارقم نے پانی پی کر گلاس میز پر رکھتے رمنا بیگم کو جواب دیا


اچھا ٹھیک ہے مل لو اپنے کمرے میں ہی ہے اور پھر آرام کر لینا رات کو کھانے پر بات ہو گی ۔۔۔۔۔


رمنا بیگم بولی تو ارقم اٹھ کر علیشبہ کے کمرے کی طرف چلا گیا اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا تو عالی بیڈ پر بیٹھی کوئی کتاب پڑنے میں مصروف تھی


دروازہ کھلنے کی آواز پر علیشبہ نے سامنے دیکھا تو ارقم کو دیکھ کر جلدی سے کتاب سائیڈ پر رکھی اور اس کے گلے جا لگی


عالی کیسی ہو ؟ اور کبھی کمرے سے بھی باہر نکل آیا کرو جب حویلی آتا ہوں تو تم سے ملنے کمرے میں ہی آنا پڑتا ہے ۔۔۔۔


ارقم نے علیشبہ سے کہا تو وہ اس سے الگ ہو کر اس کی بات سن کر ہلکا سا مسکرائی اور بولی


اگلی دفعہ آپ آئیں گے تو میں دروازے میں کھڑی ہو کر پھولوں کا ہار ہاتھوں میں لیے آپ کا انتظار کروں گی تاکہ آپ دوبارہ شکایت نہ کریں


واہ کیا دن ہو گا جب تم ایسا کرو گی ۔۔۔۔۔۔ ورنہ اب تو تم مجھے اپنی عالی کم اور کھنڈروں میں رہنے والی چوڑیل لگ رہی ہو اپنی آنکھوں کو تو دیکھو کیا حال کیا ہوا ہے تم نے لگتا ہے سوتی بھی نہیں ہو تم۔۔۔۔۔۔


اس کی بات سن کر وہ بھی مسکرا اٹھا مگر اس کی آنکھوں کے نیچے موجود ہلکے جو اس کے رتجگے کا بتا رہے تھے انھیں دیکھ کر وہ بولا


یہ سب چھوڑیں یہ بتائیں میرے لیے شہر سے کیا لائے ہیں


عالی نے اس کی چوڑیل والی بات کو نظرانداز کر کے کہا


تم نے بتایا ہی نہیں اور مجھے بھی تمھارے لیے کچھ لانا یاد نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔


اس نے عالی کی بات سن کر پریشانی سے کہا


مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی جب میں نہیں کہتی تھی تب بھی تو لاتے تھے نہ میرے لیے کچھ نہ کچھ۔۔۔۔۔۔


عالی نے معصوم منہ بنا کر کہا اس کے ایسا کرنے پر ارقم کو اس پر بے اختیار پیار آیا


مزاق کر رہا ہوں لایا ہوں تمھارا فیورٹ کیک ملازم نے فریج میں رکھ بھی دیا ہوگا کھالینا میں اب تھوڑی دیر آرام کرنے لگا ہوں تن سے بعد میں ملوں گا اور وہ بھی تمھارے کمرے سے باہر۔۔۔


ارقم اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے بولا


ٹھیک ہے بھائی آپ آرام کرلیں بعد میں بات ہوگی ۔۔۔۔۔


علیشبہ نے کہا تو ارقم اس کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں چلا گیا


سلیولیس شارٹ اور تنگ شرٹ پہنے ساتھ تنگ پاجامہ پہنے وہ بنا دوپٹے کے ایک کٹی پارٹی سے واپس آئی ہی تھی کہ اپنے کمرے میں موجود صوفے پہ بیٹھے اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی طرف آئی اور اس کے گال پر بوسہ دے کر بولی


ہاشم آج اتنی جلدی آگئے تم مجھے پتا ہوتا کہ تم نے جلدی آنا ہے تو میں جاتی ہی نہ۔۔۔۔


ہاشم نے اس کی بات سن کر ایک ناگوار نظر اس کے کپڑوں پر ڈالی اسے بلکل بھی پسند نہ تھا وہ ایسے کپڑے پہن کر لوگوں کے لیے دعوتِ نظارا بنے مگر ہاشم کو اس سے محبت تھی تبھی کبھی اسے ڈریسنگ بدلنے کا نہ کہا وہ جو پہنتی اسے پہن لینے دیتا۔۔۔۔۔


فکر مت کرو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آیا ہوں تم بتاؤ تمھارا دن کیسا گزرا ۔۔۔۔۔۔۔


ہاشم نے حمنا کے گرد اپنے بازؤں کا حصار ڈالتے ہوئے محبت سے پوچھا


صحیح تھا مسز حمدانی ملی تھی آج ان سے بات ہوئی تھی بتا رہی تھیں کہ ان کی بیٹی تمھارے آفس کام کرتی ہے انٹرن شپ پر ۔۔۔۔۔ مگر تم نے مجھے بتانا بھی پسند نہ کیا


اس نے اپنی نقلی پلکوں کی جھالر کو اٹھاتے اور گراتے ہوئے معصومیت سے پوچھا جبکہ اس کے لہجے میں موجود زہر کو ہاشم محسوس نہ کرسکا


ڈارلنگ یاد نہیں رہا بتانے کا اور ویسے بھی وہ سیکنڈ فلور پر رہتی ہے اور میرا آفس فورتھ فلور پر ہے ۔۔۔۔۔


اس نے پیار سے حمنا سے کہا


حمنا کو بہت غصہ آیا تھا جب مسز حمدانی نے اسے اپنی بیٹی کا بتایا کیونکہ ہاشم نے جو نہ بتایا تھا مگر اس نے مسز حمدانی کو یہ ہی شو کروایا کہ اسے پتا تھا اس کا دل کیا تھا کہ وہ ان کی بیٹی کو ہاشم کے آفس سے فورا باہر پھنکوا دے مگر ہاشم کی نظروں میں بری نہیں بنبا چاہتی تھی حمنا نے ہاشم کے گال پر اپنے سرخ رنگے ہونٹوں سے دوبارہ بوسہ لیا اور بولی

مجھے لگ ہی رہا تھا کہ تمھیں یاد نہیں ہوگا ورنہ تم مجھے بتانا کبھی نہ بھولتے اور چھوڑو اس بات کو میں شاور لے کر آتی ہوں پھر ساتھ ڈنر کرتے ہیں

اپنی بات مکمل کر کے وہ شاور لینے چلی گئی اور ہاشم اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا

شاہزین تمھارے طبیعت تو ٹھیک ہیں ؟؟


سحر بیگم نے شاہزین سے پوچھا جو آج صبح صبح ناشتے کے لیے ان کے ساتھ بیٹھا تھا


جی موم میں بلکل فٹ فیٹ ہوں مجھے کیا ہونا ہے ؟


اس نے بریڈ پر بٹر لگاتے ہوئے پوچھا


میں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ آج تم ٹائم پر ناشتے کے لیے موجود ہو ورنہ نو دس بجے اٹھتے ہو


سحر بیگم بولی تو شاہزین جو ان کو جواب دینے لگا تھا اس سے پہلے ہی تیمور صاحب بول پڑے


سحر آپ نے بتایا تھا کہ کسی لڑکی نے آنا ہے آج شفق کی دیکھ بھال کے لیے ۔۔۔۔۔ اگر وہ آپ کو اچھی لگی تو رکھ لیجیے گا میں نہیں چاہتا میری بیٹی کو کوئی مشکل پیش آئے


جی شائستہ بتا تو رہی تھی کہ اچھی لڑکی ہی لائے گی میں دیکھ لوں گی آپ فکر مت کریں

سحر بیگم نے تیمور صاحب کو جواب دیا تو تیمور صاحب ان کی بات سن کر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولے

ٹھیک ہے آپ دیکھ لیجیے گا میں اب آفس چلتا ہوں ۔۔۔۔۔

تیمور صاحب جب چلے گئے تو شاہزین جو ان کی باتیں سن رہا تھا سحر بیگم سے بولا

موم آپ نے بتایا نہیں کہ کوئی لڑکی رکھ رہی ہیں شفی کے لیے ۔۔۔۔۔

یاد نہیں رہا تمہیں بتانے کا اور تم یونیورسٹی جاؤ جب آؤ گے تب پوچھنا ۔۔۔۔۔

سحر بیگم اسے بولتے ہوئے اٹھیں۔۔۔۔۔اور اپنے کمرے کی طرف چلے گئیں

عینی ہادی کو اماں جنت کے گھر چھوڑ کر اماں جنت کی بتائی گئی عورت شائستہ کے ساتھ کام کے لیے چلی گئی

شائستہ اسے ایک بڑے سے گھر میں لے کر آئی وہ شائستہ کے پیچھے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوئی اور شائستہ اسے لے کر ایک کمرے کی طرف گئی اور دروزہ ناک کیا اندر سے اجازت ملتے ہی عینی شائستہ کے ساتھ اندر داخل ہوئی

سحر بیگم نے شائستہ اور اس کے ساتھ موجود لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کے بعد شائستہ کو جانے کا کہا اور عینی کو اپنے سامنے کھڑا ہونے کا کہا عینی چپ چاپ ان کے سامنے کھڑی ہوگئ جبکہ نظریں اس کی نیچی ہی تھیں

کیا نام ہے تمھارا لڑکی۔۔۔۔۔ سحر بیگم نے کرخت لہجے میں پوچھا

حورالعین ہے میم ۔۔۔۔۔ عینی نے دھیمی آواز میں جوب دیا

کیا کرتی ہو گھر میں کون کون ہے اور کہاں رہتی ہو سب بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔۔

سحر بیگم نے اس کا نام سن کر اس سے مزید پوچھا

پرائیویٹ پڑھتی ہوں اورمیں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی ہوں ماں باپ کا کچھ دیر پہلے انتقال ہو گیا تھا اور شائستہ باجی کے گھر کے قریب ہی رہتی ہوں

عینی نے جواب دیا تو سحر بیگم نے ایک نظر اس کو دوبارہ دیکھا جو سرخ و سفید رنگت کی مالک خوبصورت لڑکی تھی اور یہی خوبصورتی انھیں کھٹکی تھی

ویسے تو مجھے تمھیں رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں مگر تمھیں اپنا یہ سفید رنگ چھپانا ہوگا میں نہیں چاہتی تم اپنی خوبصورتی کا استعمال کر کے میرے جوان بیٹے کو اپنی اداؤں کے جال میں پھنساؤ۔۔۔

سحر بیگم کرخت لہجے میں بولی تو ان کی آخری بات سن کر اس کا مرنے کو دل کیا اتنی زلت ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسے اس کام کی ضرورت تھی اپنی آنا کو ایک طرف رکھ کر وہ مضبوط لہجے میں بولی

اگر میری خوبصورتی کی وجہ سے آپ مجھے یہ کہہ رہی ہیں تو آپ فکر مت کریں میں میک اپ سے اسے چھپا دو گی مگر مجھے اس کام کی بہت ضرورت ہے میم ۔۔۔۔۔

بس ٹھیک ہے سب سے پہلے تو اپنا یہ رنگ کالا کرنا اور اپنی یہ سبز آنکھوں پر بھی لینز لگا کر کل آنا پھر میں تمہیں دیکھ کر بتاؤ گی کہ تم یہ کام کرسکتی ہو یا نہیں اب جاؤں یہاں سے

سحر بیگم اسے دیکھتے ہوئے بولی ان کی بات سن کر عینی ان کے کمرے سے باہر چلی گئیں

عینی گھر واپس آکر ہادی کو لے کر بازار سے میک اپ کا کچھ سستہ سامان لے کر اور ساتھ ہی سستے سے لینز لے کر واپس گھر آگئی اور گھر واپسی پر گلی کی کونے والی دکان سے چاول اور کچھ سامان لے لیا تاکہ کچھ کھانے کو بنا سکے جو پیسے اس کے پاس تھے وہ انھیں احتیاط سے استعمال کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔

گھر آکر عینی نے پانی پیا اور منہ ہاتھ دوھ کر تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئ ساتھ ہی ہادی بھی لیٹ گیا وہ ہادی کے بالوں میں ہلکا ہلکا ہاتھ چلانے لگی 

ہادی کے سوتے ہی وہ اٹھی اور میک اپ نکال کر اپنے منہ کا میک اپ کیا اور لینز لگانے کی کوشش کرنے لگی لینز لگانے کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا تھا اس نے اپنی آنکھیں جھپک کر لینز کے ایڈجسٹ ہونے کے بعد خود کو شیشے میں دیکھا تو اس کا سفید رنگ اور آنکھوں کا رنگ بدلنے کی وجہ سے وہ کوئی اور ہی لگ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

ہادی جو واشروم جانے کے لیے اٹھا تھا عینی کو دیکھ کر پہچان نہ سکا تو چیخ اٹھا اور عینی کو آوازیں دینے لگا اسے ایسا کرتے دیکھ عینی جلدی سے بولی 

ارے چپ ہو جاؤ ہادی یہ میں ہی ہوں میک اپ کیا ہے میں نے ۔۔۔۔۔۔ دیکھو ابھی میں تمہیں منہ دھو کر دکھاتی ہوں 

اس کی بات سن کر ہادی خاموش ہو گیا اور عینی کو منہ دھوتا ہوا دیکھنے لگا جب عینی نے لینز اتار کر اپنا منہ دھویا تو ہادی نے سکون کا سانس لیا اور اس کے گلے لگ گیا اور معصومیت سے بولا

اپی آپ نے ایسا میک اپ کیوں کیا تھا آپ میک اپ کے زیادہ اچھی لگتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

ہادی ادھر آؤ میرے ساتھ بیٹھو میں تمہیں بتاتی ہوں تمہیں پتا ہے نہ میں صبح شائستہ باجی کے ساتھ کام کے لیے گئ تھی انھوں نے مجھے کہا ہے کہ میک اپ کرو گی تو ہی وہ کام دیں گی اور صبح میں ایسے ہی میک اپ کر کے جاؤں گی تاکہ مجھے کام مل جائے پھر میں اپنے ہادی کو ایک اچھے سکول میں داخل کرواؤں گی

عینی اسے اپنے ساتھ لے کر بیٹھتی ہوئی بولی اور آخر میں محبت سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا وہ ہادی سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی اسی وجہ سے اس نے اسے بتا دیا۔۔۔۔۔۔

آپی اپ کام مت کرو میں کچھ کام کر لوں گا مجھے پتا ہے آپ کو میری وجہ سے مشکل ہو رہی ہے نہ ۔۔۔۔۔

ہادی نے معصومیت سے کہا تو اس کی بات سن کر عینی کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے دوبارہ اس کا ماتھے کو چومتی ہوئی بولی

ایسی بات نہیں ہے ہادی تم تو میری چھوٹی سی جان ہو اور تم کوئی کام نہیں کرو گے جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور وہ کام بلکل بھی مشکل نہیں ہے بس ایک لڑکی کی دیکھ بھال ہی کرنی ہے اور پھر میں بھی ساتھ ساتھ پڑھوں گی پھر جب میری تعلیم مکمل ہوجائے گی ہم یہاں سے چلے جائیں گے اور میں اچھی سی جگہ نوکری ڈھونڈ لوں گی 

اپی انہوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جب کہ ہماری غلطی بھی نہ تھی۔۔۔۔۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہم ابھی اپنے گھر ہوتے اور ہم دونوں آرام سے پڑھ رہے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔

ہادی اس کی بات سن کر دکھی سا بولا

تمھیں پتا ہے ہادی اللہ نہ ہمیں مشکل حالات دے کر آزماتا ہے اور اگر ہم صبر کریں گے تو وہ رب ہمیں اس کا اجر دے گا اور یہ ہماری قسمت میں تھا اور قسمت سے جو لڑنے کی کوشش کرتا ہے اس کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا  ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مہرماہ بولی تو ہادی نے اس کے جواب  میں پوچھا

تو اس کا مطلب ہم صبر کریں گے تو پھر ہمیں بھی انعام ملے گا ۔۔۔۔

ہاں بلکل اور یاد رکھنا انسان ساتھ چھوڑ جاتے ہیں مگر اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے اور اب اچھے بچوں کی طرح اٹھو اور منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا بنانے لگی ہوں

عینی نے جواب دیا تو ہادی اٹھتا ہوا بولا

ٹھیک ہے آپی میں یاد رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔

ہادی کو جاتے دیکھ کر وہ اٹھی اور کھانا بنانے لگی۔۔۔۔۔۔۔

ارقم کتنے دنوں کے لیے روک رہے ہو حویلی ؟ ۔۔۔۔۔۔

ارقم کے والد حدید صاحب نے چائے پیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔

بابا ایک ہفتے کے لیے آیا ہوں اس کے بعد واپس چلا جاؤں گا اور پھر ایڈمیشن بھی تو شروع ہوگئے ہیں عالی کا ایڈمیشن بھی کروانا ہے 

ارقم نے جواب دیا ۔۔۔۔

ہمم۔۔۔ صحیح میری بیٹی سے پوچھ لینا تھا کہ اس نے کس میں ایڈمیشن لینا ہے وہ جس میں چاہے گی لے دینا ۔۔۔۔۔

حدید صاحب محبت سے عالی کا سوچتے ہوئے بولے 

بابا جانی آپ فکر مت کریں میں نے بھائی کو بتا دیا ہے ۔۔۔۔۔

ارقم کی بجائے جواب عالی کی طرف سے آیا جو حدید کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔

تو پھر مجھے بھی بتاؤ عالی کہ کس میں آپ نے ایڈمیشن لینا ہے ۔۔۔۔۔۔

حدید صاحب نے مسکراتے ہوئے عالی سے پوچھا 

بابا جانی میں نے سوچا ہے بی ایس انگلش میں کر لیتی ہوں میرے انگلش کے مارکس بھی اچھے تھے 

عالی نے حدید صاحب کو جواب دیا اور اپنے ہاتھ میں موجود چاکلیٹ کھول کر کھانے لگی

ٹھیک ہے عالی کو پھر اس میں ہی ایڈمیشن لے دینا ارقم اور اپنی ہی یونیورسٹی میں لے دینا وہ کافی اچھی ہے ۔۔۔۔

جی بابا عالی کو بھی میں نے اپنی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے دینا ہے ۔۔۔۔۔ 

ارقم نے مسکراتے ہوئے عالی کو دیکھتے ہوئے جواب دیا عالی کو دوبارہ ایک سال بعد اس نے کمرے سے نکل کر  حدید صاحب سے بات کرتے اور چاکلیٹ کھاتے ہوئے دیکھا تھا وہ آہستہ آہستہ پہلے کی طرح ہو رہی تھی بے فکر اور پگلی ۔۔۔۔۔۔

 ورنہ تو ایک سال پہلے ہونے والے واقعہ نے اسے خود کو مارنے پر مجبور کر دیا تھا وہ وقت ان کے لیے سب مشکل وقت تھا پھر اس کے بعد عالی تو خاموش ہوگئی ۔۔۔۔۔

اس کی بات سن کر حدید صاحب نے اپنا سر ہلایا اور عالی کو محبت سے دیکھنے لگے 

بھائی آپ نہ اگلی دفعہ چاکلیٹ پیسٹری لائیے گا میں اب وہ کھاؤ گی ۔۔۔۔۔۔

چاکلیٹ منہ میں ڈال کر وہ ارقم سے بولی 

عالی بچے پہلے چاکلیٹ تو کھالو پھر بول لینا ۔۔۔۔۔۔۔۔

رمنا بیگم کیچن سے نکلتے ہوئے عالی کو ایسے بولتے دیکھ کر بولیں

کچھ نہیں ہوتا امی بولنے دے جیسے بولتی ہے اور عالی اگلی دفعہ کیا میں تھوڑی دیر تک تمھیں پیسٹریز منگوا دیتا ہوں

ارقم پہلے رمنا بیگم اور پھر عالی سے بولا۔۔۔۔۔

سچی بھائی۔۔۔۔۔۔ منگوا دیں میرا کھانے کا بہت دل کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔

عالی خوش ہوتے ہوئے چاکلیٹ منہ میں ڈالتی ہوئے بولی 

اس کے دوبارہ منہ میں چاکلیٹ ڈال کر بولنے پر رمنا بیگم نے اپنا سر نفی میں ہلایا کہ اس کا کچھ نہیں ہوسکتا جبکہ عالی کو پہلے کی طرح دیکھ کر وہ بھی بہت خوش تھیں

ابھی منگوا کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ عالی کو دیکھتا اٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔

شکریہ بھائی ۔۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولی۔۔۔۔۔

حدید صاحب اپنے گاؤں کے سردار ہیں اور ان کی شادی رمنا بیگم سے ہوئی ان کا بڑا بیٹا ارقم ہے جو سنہری رنگت اور کالی آنکھوں سے مقابل کو چت کر جاتا ہے۔۔۔۔ اس سے تین سال چھوٹی علیشبہ۔۔۔ جو سفید رنگ اور کالی آنکھوں سے مقابل کو اپنے سحر میں جکڑ لے۔۔۔۔

سحر کیا بنا اس لڑکی کا جو آج آئی تھی ۔۔۔۔

تیمور صاحب نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے سحر بیگم سے پوچھا۔۔۔۔

جی لڑکی تو مجھے اچھی لگی ہے کل سے آئے گی وہ ۔۔۔۔۔

سحر بیگم نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا

ہمم  ٹھیک ہے اور یہ شاہزین کہاں ہے؟ 

تیمور صاحب نے ان کا جواب سن کر پوچھا۔۔۔۔۔

کہہ رہا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا ہے اور جلدی آجائے گا ۔۔۔۔۔۔

سحر بیگم نے جواب دیا 

ہمم پتا ہے مجھے وہ کتنا جلدی آجاتا ہے دن بہ دن یہ لڑکا بگڑتا جا رہا ہے یہ ساری آپ کے بے جا پیار کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔

تیمور صاحب برہم سے بولے۔۔۔

اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ اور ویسے بھی آپ بھول رہے ہیں وہ جو کر رہا ہے وہ ہماری سوسائٹی میں یہ عام سی بات ہے۔۔۔۔۔

سحر بیگم بھی برہم سی بولیں۔۔۔۔۔

تیمور صاحب نے ان کی بات سن کر اپنا سر نفی میں ہلایا کہ ان کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔

ڈیڑھ مہینے بعد :


عینی کو شفق کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ڈیڑھ مہینہ ہو گیا تھا اس کے پاس جو پیسے پڑے ہوئے تھے اس سے اس نے ہادی کا ایڈمیشن ایک بورڈنگ سکول میں کروا دیا تھا کیونکہ اسے چوبیس گھنٹے شفق کے ساتھ ہی رہنا ہوتا تھا وہ اتوار کو جا کر ہادی سے مل آتی تھی مگر اسے ہادی کی بہت یاد آتی تھی ہادی بھی اسے بہت یاد کرتا تھا مگر اس کے بورڈنگ سکول میں نئے دوست بن گئے تھے اس وجہ سے وہ عینی کو یاد کر کے دکھی نہ ہوتا ۔۔۔۔۔


اس ڈیڑھ مہینے میں سحر بیگم نے اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی تھی عینی کی شفق سے اچھی بات چیت ہوجاتی تھی اور جو سب سے اچھی بات ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ عینی کا سامنا شاہزین سے نہ ہوا تھا کیونکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا ہوا تھا مگر پھر بھی سحر بیگم اسے اکثر بولتی تھیں کہ جب میرا بیٹا واپس آجائے اس سے دور ہی رہنا اور وہ بچاری جس نے ان کے بگڑے سپوت کو دیکھا بھی نہ تھا ان کی بات سن کر اپنا سر خاموشی سے ہلا دیتی ۔۔۔۔۔۔


وہ شفق کے لیے دودھ لینے کچن میں آئی تھی جب اسے رزیہ (کھانا بنانے والی ) ملی وہ بھی اسی کے ساتھ ہی اس گھر میں کام کرتی تھی شائستہ صفائی کر کے چلی جاتی تھی جبکہ رزیہ گاؤں سے تعلق رکھتی تھی اور گھر کے پیچھے بنی انیکسی میں رہتی تھی عینی نے اس سے کافی کچھ بنانا بھی سیکھ لیا تھا اکثر جب سحر بیگم شفق کے پاس ہوتی تو اسے رزیہ کے ساتھ کام کروانے کے لیے کچن میں بھیج دیتی تھیں۔۔۔۔۔۔


عینی نے شفق کے لیے دودھ گرم کیا اور اس کے کمرے میں لے گئی شفق بیڈ پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھی سامنے موجود ایک آی ڈی پر مووی دیکھ رہی تھی اس نے دودھ کا گلاس سائیڈ پر رکھا اور شفق کی دوائی نکالنے لگی عینی نے شفق کو بلایا تو شفق نے ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا اور برا سا منہ بنا کر اس کےہاتھ سے دوائی لے کر اور پانی کے ساتھ کھا لی تو عینی نے شفق کو دودھ پکڑایا اور پوچھا۔۔۔۔


میم آپ کو اور کوئی کام تو نہیں یا میں کچن میں چلی جاؤں ۔۔۔۔۔


نہیں تم چلی جاؤ میں بس مووی دیکھ کر تھوڑی دیر بعد سو جاؤں گی اور ہاں میرے لیے رات کے کھانے میں کچھ اچھا سا بنانا اپنے ہاتھوں سے بنانا رزیہ کے ہاتھوں کا کھانا مجھے بلکل بھی نہیں پسند ۔۔۔۔۔۔۔۔


شفق عینی کو دیکھتے ہوئے بولی اور دودھ جلدی سے ختم کر کے گلاس اسے پکڑا دیا اب شفق کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی اور جلد ہی اس نے اپنی یونیورسٹی سٹارٹ کرنی تھی۔۔۔۔۔


عینی گلاس پکڑ کر خاموشی سے کمرے سے نکل آئی اور کچن میں شفق کے لیے کچھ بنانے چلی گئ شفق کے لیے رزیہ کی مدد سے کھانا بنانے کے بعد وہ ایک نظر شفق کو اس کے کمرے میں دیکھنے کے بعد انیکسی میں موجود اپنے کمرے میں گئی اور جلدی سے شاور لے کر اپنا حولیہ بدل کر وہ باہر نکلی اور شفق کے کپڑے جو استری کرنے والے رہتے تھے وہ کرنے چلی گئ


حالانکہ اس کا کام صرف شفق کا خیال رکھنا ہی تھا مگر سحر بیگم نے آہستہ آہستہ شفق کے سارے کام اس کے سپرد کر دیے اس نے دیکھا تھا کہ سحر بیگم شفق کے اور تیمور صاحب کے سامنے اسے پیار سے پیش آتی مگر ان کی غیر موجودگی میں اس سے برا سلوک کرتی تھیں۔۔۔۔۔


تھوڑے دنوں پہلے کی بات تھی کہ عینی سے ان کے ایک مہنگے برتنوں کے سیٹ کی ایک پلیٹ غلطی سے ٹوٹ گئ تھی جس کی وجہ سے سحر بیگم نے اس کو دو تھپڑ مارے تھے


وہ جان گئی تھی کہ سحر بیگم کتنی دوغلی عورت ہیں جو اپنے گھر والوں کے سامنے تو نیک دل اور دوسروں کا خیال رکھنے والی ہیں مگر اصلیت میں وہ کیسی ہیں یہ صرف عینی اور اس گھر میں کام کرنے والے ملازم ہی جانتے تھے


عالی کی آواز اب ہر وقت حویلی میں سنائی دیتی تھی وہ واپس اپنی زندگی جینے لگی تھی اسے نئے پرندے دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ ہر ہفتے دو خوبصورت سے پرندے منگواتی اور انھیں آزاد کر دیتی اس کے خیال میں پرندے آزاد ہی اچھے لگتے تھے

وہ رمنا بیگم کے ساتھ بیٹھی ان سے اپنے بالوں میں تیل لگواتے ہوئے ان سے مسلسل باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

ابھی وہ لوگ بات ہی کر رہے تھے کہ پریشان سے حدید صاحب حویلی میں داخل ہوئے اور آکر حال میں موجود صوفے پر بیٹھے

انھیں پریشان دیکھتے ہوئے رمنا بیگم نے ان سے پوچھا۔۔۔۔۔۔


کیا ہوا کچھ پریشان دکھ رہے ہیں سب خیریت تو ہے ؟


گاؤں میں بس کچھ مسئلہ چل رہے ہیں اسی کی وجہ سے تھوڑا پریشان ہوں ۔۔۔۔۔ اور ایک کپ چائے بنوا دیں میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں


حدید صاحب نے جواب دیا اور اٹھتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چل دیے۔۔۔۔۔۔


رمنا بیگم نے جلدی سے عالی کے بال سمیٹے اور اپنے ہاتھ دھو کر حدید صاحب کے لیے چائے بنا کر کمرے میں لے گئ جہاں وہ بیڈ پر بیٹھے ان کا ہی انتظار کر رہے تھے رمنا بیگن نے انھیں چائے پکڑائی اور ان کے پاس ہی بیٹھ گئ۔۔۔۔۔


حدید صاحب نے رمنا کو پاس بیٹھے دیکھ کر اپنی بات کا آغاز کیا


مجھے پتا چلا ہے کہ ہاشم نے حورالعین اور حیدر کو دو مہینوں پہلے گھر سے نکال دیا تھا اور وہ اب پتا نہیں کہاں ہیں اور کس حال میں ہے کسی کو نہیں پتا ۔۔۔۔۔۔۔💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


💞 شاہزین اور عینی سپیشل 💞


شاہزین اپنے دوستوں کے ساتھ ڈیڑھ مہینے گھومنے کے بعد واپس آچکا تھا وہ گھر میں داخل ہوا تو اسے سامنے حال میں سحر بیگم میگزین دیکھتی ملیں

ہیلو مام۔۔۔۔۔

وہ سحر بیگم کے قریب آکر بولا وہ جو اپنے ہی دھیان میں بیٹھی میگزین دیکھ رہی تھیں شاہزین کو آتے نہ دیکھ سکی جب اسں کی آواز سنائی دی تو وہ ڈر گئی مگر جلد ہی خود پر قابو کر خوشی سے شاہزین کو گلے لگا کر بولیں

شکر ہے تم واپس تو آئے ورنہ تمھارے ڈیڈ نے تو روز مجھے تمہارے بارے پوچھ پوچھ کر کہ تنگ کر دیا تھا

اف موم پلیز ڈیڈ کو سمجھایں ابھی تو میں نے اپنی زندگی جینا شروع کی ہے مجھے سکون سے اینجوائے کرنے دیں میں بچہ نہیں رہا اب تو میری ڈگری بھی مکمل ہوگئ ہے تو میں کھل کر اپنے دوستوں کے ساتھ جینا چاہتا ہوں موج مستیاں کرنا چاہتا ہوں اور ڈیڈ سے کہیں کہ مجھے اپنے اچھے اور برے کا اچھی طرح پتا ہے اس لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں


وہ ان سے الگ ہوتا چڑتا ہوا بولا


اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے میں کہہ دوں گی اب جاؤں فریش ہو جاؤ میں تمھارے لیے کچھ کھانے پینے کو بجھواتی ہوں۔۔۔


سحر بیگم شاہزین کاموڈ بگڑتا دیکھ کر جلدی سے بولیں شاہزین ان کی بات سن کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل دیا


سحر بیگم کچن میں داخل ہوئی تو رزیہ کی جگہ عینی کو کام کرتے دیکھا تو اس کے قریب جاکر بولیں۔۔۔۔


بات سنو لڑکی ۔۔۔۔


جی ۔۔۔۔میم


عینی نے ان کی بات سن کر دھیمی آواز میں بولی


یہ رزیہ کہاں ہے اور تم یہاں کیا کر رہی ہو شفق کے سارے کام مکمل کر دیے جو رزیہ کے کر رہی ہو۔۔۔۔


سحر بیگم نے کرخت لہجے میں پوچھا


و۔۔۔وہ ان کی طبیعت خراب تھی ت۔۔۔تو میں نے سوچا ک۔۔۔۔کہ میں آج کھانا بنا دیتی ہوں وہ آرام ک۔۔کر لیں


عینی ان کی کرخت آواز سن کر اٹکتے ہوئے بولی


اگر سب کو آرام ہی کرنا ہے تو اپنے گھر چلی جائیں کام کیوں کرنے آتی ہیں اور تم اپنی اوقات میں رہو نوکرانی ہو نوکرانی ہی بن کر رہو مالکن بننے کی کوشش بھی مت کرنا اور ایک گلاس جوس اور ساتھ کچھ کھانے کو لے کر میرے بیٹے کو دے کر آؤ اور یاد رکھنا ٹرے اس کے کمرے میں رکھ کر فورا نکل آنا اس سے بات کرنے کی کوشش بھی مت کرنا اب میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو جلدی سے ٹرے میں کھانا رکھو اور دفع ہو جاؤ اور آکر رزیہ کو بلانا وہ یہ کام کرے اور تم میرے سارے کپڑے استری کرنا بڑا شوق ہے نہ تمھیں دوسروں کے کام کرنے کا ہنہ۔۔۔۔


سحر بیگم نے غصے سے دھیمی آواز میں دھاڑتے ہوئے کہا تاکہ ان کی آواز شاہزین نہ سن لے


عینی ان کی بات سن کر جلدی سے اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے ٹرے میں جوس اور سینڈوچ جو اسنے تھوڑی دیر پہلے شفق کے لیے بنائے تھے وہ رکھے اور ہلکی آواز میں منمناتے ہوئے پوچھا


م۔۔۔۔میم س۔۔سر کا کمرہ کونسا ہے۔۔۔۔

اوپر والے فلور پر دائیں طرف دوسرا کمرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

سحر بیگم نخوت سے جواب دیتی اپنے کمرے میں چلی گئیں

وہ مردہ قدموں سے چلتے ہوئے اوپری منزل پر گئی اور دائیں طرف موجود دوسرے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑی ہو کر ایک گہرا سانس لیا اور ایک ہاتھ سے ٹرے پکڑتے دوسرے ہاتھ سے اپنا دوپٹہ سر پر ٹھیک کیا اور دروازہ ناک کیا

شاہزین جو ابھی فریش ہو کر بیڈ پر لیٹا اپنے دوست سے بات کر رہا تھا دروازہ بجنے کی آواز پر دروازے کی طرف ایک نظر دیکھا اور اندر آنے کی اجازت دی

عینی اجازت ملتے ہی اندر داخل ہوئی اور ٹرے میز پر رکھ کر جلدی سے واپس پلٹنے لگی کہ شاہزین جس نے پہلے اسے گھر میں کبھی نہ دیکھا تھا اسے روکا

روکو لڑکی ۔۔۔۔۔

عینی اس کی آواز سن کر اس کی طرف مڑی اور کانپتی آواز میں بولی جبکہ نظریں جھکی ہوئیں تھی

ج۔۔۔جی سر

نئی آئی ہو ؟ کیا نام ہے تمھارا ؟ ۔۔۔۔۔


شاہزین نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جو سوٹ میں اور سنولی سی رنگت میں ڈری ہوئی لگ رہی تھی


ح۔۔۔۔۔حورالعین نام ہے اور شفق میم کا خ۔۔۔خیال رکھتی ہوں


عینی نے نظریں جھکا کر ڈرتے ہوئے دھیمی آواز میں جواب دیا جبکہ شاہزین نے اس کو ڈرتے دیکھا تو عجیب سا سکون محسوس کیا اور اس کا نام سن کر طنزیہ بولا


ہمم۔۔۔ ویسے شکل تمھاری حوروں جیسی تو بلکل بھی نہیں ہے مگر نام حورالعین واہ ۔۔۔۔


عینی نے اس کی بات سن کر ایک نظر اٹھا کر شاہزین کی طرف دیکھا شاہزین کی شکل دیکھ اسے کچھ یاد آیا تھا جسے سوچ کر اس کا رنگ ہی اڑ گیا تھا جبکہ اس کے چہرے کا رنگ اڑتے دیکھ کر شاہزین کو لگا کہ یہ اس کی بات کا اثر ہےمگر اصل بات تو صرف عینی ہی جانتی تھی لیکن شاہزین کے چہرے پر کوئی شناسائی کی رمق نہ دیکھ کر وہ جلدی سے خود پر قابو پاتی بولی


س۔۔۔سوری سر م۔۔۔میم کو مجھ سے ک۔۔۔کام تھا اس لیے مجھے ج۔۔۔۔جانے دیں۔۔۔پ۔۔۔۔پلیز


اس کی بات سن کر اس نے اپنا سر ہلایا اور اسے جانے کا کہا جب کے اس کا جواب سن کر عینی فورا کمرے سے باہر نکل گئ اور تیزی سے سڑھیوں کی جانب بڑھ گئی

اس نے انیکسی میں موجود اپنے کمرے میں آکر گہرا سانس لیا اور چار مہینے پہلے ہوئے واقعہ کو سوچنے لگی

چار مہینے پہلے :

عینی ایک ریسٹورینٹ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ لنچ کرنے آئی تھی وہ اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی

جب چار لڑکوں کا ایک گروپ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا ان میں سے ایک شاہزین تھا وہ لوگ ان کے ساتھ والے ٹیبل پر آکر بیٹھے اور سگریٹ پیتے ہوئے باتیں کرنے لگی


جب شاہزین اور اس کے دوستوں نے اپنے ساتھ والے ٹیبل پر عینی کے گروپ کو دیکھا اور ان پر کومینٹس پاس کرنے لگے

تب شاہزین کی نظر بلیک جینز کے ساتھ سفید کرتا پہنے عینی پر پڑی دوپٹہ اس نے گلے میں مفلر سٹائل میں لیا ہوا تھا اور اپنے بالوں کی اونچی پونی کی ہوئی تھی ساتھ ہلکے ہلکے میک اپ سے وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی

عینی اور اس کی دوستوں نے بھی اپنے ساتھ بیٹھے ان کے گروپ کو خود پر کومینٹس پاس کرتے دیکھا تو انھیں غصہ تو بہت آرہا تھا مگر وہ انھیں کچھ کہہ کر خود کو مشکل میں نہ ڈالنا چاہتی تھیں اس وجہ سے انھوں نے اہنے ارد گرد موجود کسی خالی ٹیبل کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن سب ٹیبلز تقریبا فل ہی تھے مجبورا وہ انھوں نے مشورہ کر کے یہاں سے قریبی دوسرے ریسٹورنٹ میں جانے کا سوچا اور چونکہ انھوں نے ابھی تک کھانا آرڈر نہیں کیا تھا اس لیے وہ اپنے بیگز اٹھا کر اپنے ٹیبل سے اٹھیں اور ریسٹورنٹ سے باہر جانے لگیں

شاہزین نے عینی کو اہنی جگہ سے اٹھتے دیکھ کر اپنے قریب کھڑے ایک ویٹر سے پین پکڑا اور ٹیشو پیپر پر اپنا نمبر لکھا جبکہ اس کے دوست لڑکیوں کو اٹھ کر جاتے دیکھ سخت بدمزا ہوئے اور اب وہ شاہزین کو نمبر لکھ کر اپنی سیٹ سے اٹھتا دیکھ رہے تھے

شاہزین اٹھا اور عینی اور اس کی دوستوں کے پیچھے جلدی سے گیا وہ ابھی پارکنگ لاٹ میں ہی موجود تھی جب شاہزین تیزی سے عینی کے قریب گیا اور س ک ہاتھ پکڑ کر اس پر ٹیشو پیپر رکھا

جبکہ عینی جو اپنے دھیان میں کھڑی دوستوں کی باتیں سن رہی تھی اچانک شاہزین کے ہاتھ پکڑنے اور ٹیشو پیپر رکھنے پر ڈر گئ اور اس کی دوستیں بھی شاہزین کو دیکھ کر اس کی جانب متوجہ ہوئیں

شاہزین نے جب ہاتھ چھوڑا تو اس نے ٹیشو پیپر کھول کر دیکھ اور اس میں موجود اس لوفر کا نمبر دیکھ کر عینی نے ایک زور دار تھپڑ اس کے جڑ دیا اسے بلکل بھی اس کاچھونا اور ایسی چھچھوری حرکت کرنا پسند نہ آیا تھا اس لیے جلدی سے اسے تھپڑ مارنے کے بعد وہ اپنی دوستوں کے ساتھ شاہزین کے کچھ بھی بولنے سے پہلے بیٹھ گئ تھی

شاہزین جسے تھپڑ کی بلکل توقع نہ تھی تھپڑ کھا کر وہ دومنٹ ساکت رہ گیا اور جب تک وہ سنبھلا تب تک عینی اپنی دوستوں کے ساتھ گاڑی میں تھی

میں تمہیں چھوڑو گا نہیں ایک بار تم دوبارہ ملو مجھے تمہارے ساتھ وہ کروں گاکہ دوبارہ کسی لڑکے کو تھپڑ مارنے کی کوشش بھی نہیں کرو گی

شاہزین نے غصے سے چیختے ہوئے عینی سے کہا جو اپنی دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی پارکنگ لاٹ سے نکل رہی تھی اس کی بات سن کر عینی ڈر گئی تھی اور دوبارہ اس سے کبھی نہ ملنے کی اس نے بہت سہ دعائیں کیں تھی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ آج چار مہینے بعد اسی کے گھر موجود تھی وہ بھی ایک نوکرانی کی حیثیت سے ۔۔۔۔۔۔

اپنی بری قسمت پر اسے بے حد رونا آیا اگر ممکن ہوتا تو وہ وقت میں واپس جاکر کبھی اپنی دوستوں کے ساتھ ریسٹورنٹ میں نہ جاتی اور نہ ہی شاہزین سے کبھی ملتی

رمنا بیگم ان کی بات سن کر اپنا دل تھام گئی وہ بھی تو ان کے بچے ہی تھے ہاشم کی وجہ سے ہی وہ لوگ حورالعین اور حیدر سے دور ہوئے تھے اور اس کم بخت نے بھی انہیں دربدر کر دیا

اب کیا ہو گا آپ پتا لگوائیں کے وہ کہاں ہے میں اپنی مرحوم بہن کو کیا جواب دوں گی کہ ان کے بچوں کی حفاظت بھی نہ کر سکی اور وہ دونوں تو ابھی خود بچے خدا جانے کس حال میں ہوں گے ہم نے اچھا نہیں کیا ناراضگی تو ہاشم سے تھی ہماری اور ہم لوگوں نے حورالعین اور ہادی کو بھی نہ پوچھا

وہ اپنے آنسوؤں کو روکتی دکھ سے بولیں

میں پتا لگوا رہا ہوں کچھ دنوں تک انشاءاللہ پتا چل جائے گا آخر میرے بھی تو بھائی کے بچے ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔

حدید صاحب نے رمنا بیگم کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا جو اب آنسو بہانا شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔

حمنا تیار ہو کر ہاشم کا انتظار کر رہی تھی ہاشم کے ساتھ آج اس نے ڈنر پر جانا تھا اپنے ہونٹوں کو رنگ کر ابھی وہ بیٹھی ہی تھی کہ اس کے موبائل پر کال آنے لگی اس نے کال دیکھی تو اس کے کزن جہانزیب کی تھی کسی زمانے میں وہ اس کو پسند کرتی تھی مگر پھر وہ یو ایس چلا گیا اور اس کی پسند ہاشم بن گیا

وہ کال اٹینڈ کر کے اپنی آواز میں شیرینی گھول کر بولی

ہیلو زیبی کیا بات ہے آج آپ کو اتنے دنوں بعد ہماری یاد کیسے آگئی۔۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔۔ بس تمھاری یاد آرہی تھی تو سوچا بات کر لوں ویسے میں پاکستان آیا ہوا ہوں کہیں باہر ملتے ہیں پلین بنا کر پھر تفصیلی بات ہو گی

فون کی دوسری جانب سے زیبی کی آواز سنائی دی

بلکل جناب ضرور کسی دن ملتے ہیں مگر آج میں ہاشم کے ساتھ باہر ڈنر پر جا رہی ہوں پھر کل کا پلین بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔

حمنا اس کی بات سن کر بولی

واہ ویسے تم بور نہیں ہوئی ابھی تک ہاشم جے ساتھ رہتے ہوئے میں نے تو سنا تھا تم ایک چیز سے جلدی بور ہو جاتی ہو۔۔۔۔۔۔

زیبی بولا تو حمنا قہقہہ لگا کر بولی

ہاہاہا۔۔۔۔۔بلکل میں جلد ہی ایک چیز سے بور ہوجاتی ہوں مگر ہاشم چیز نہیں میرا شوہر ہے ۔۔۔۔

حمنا ابھی اور کچھ بولتی اسے ہاشم کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور زیبی کو بعد میں بات کرنے کا کہہ کر کال کاٹ دی اور دوبارہ لپ سٹک نکال کر اپنے ہونٹ رنگنے لگی ۔۔۔۔

ہاشم کمرے میں داخل ہوا تو اسے حمنا شیشے کے سامنے کھڑی مکمل تیار نظر آئی اپنا بیگ صوفے پر رکھ کر وہ حمنا کے پاس آیا اور اسے پیچھے سے اپنے حصار میںلیا اور اس کی گال کو چومتا ہوا بولا

بہت خوبصورت لگ رہی ہو کہ تمھیں باہر لے جانے کا دل ہی نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔۔۔

ہاہا۔۔۔۔ میں تو ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہوں اور جلدی تیار ہوجاؤ کیونکہ میرا ڈنر پر جانے کا ارادہ ہے

وہ اپنی تعریف سن کر قہقہہ لگاتے ہوئے بولی اور اسے تیار ہونے کے لیے زبردستی پکڑ کر الماری کے پاس چھوڑ کر آئی وہ برا سا منہ بناتا ہوا اپنے کپڑے لے کر شاور لینے چلا گیا ۔۔۔۔۔

ڈیڑھ ہفتے بعد :


عینی شفق کے ساتھ لان میں واک کر رہی تھی اب شفق بلکل ٹھیک ہو گئی تھی اور کل ہی اپنی یونیورسٹی سٹارٹ کرنے والی تھی


جبکہ عینی کو شاہزین نے نا پہچانہ تو وہ کافی حد تک پر سکون ہو گئی تھی ویسے بھی اس کا سامنا شاہزین ست کم ہی ہوتا تھا


ابھی شفق واک کر کے کرسی پر بیٹھی تھی جب شاہزین اپنی انگلی پر گاڑی کی چابی گھماتے ہوئے شفق کے پاس آیا اور اس کے سر پر بوسہ لے کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا جبکہ عینی شفق کے قریب ہی کھڑی تھی شاہزین کو آتا دیکھ اس نے اپنی نظریں جھکا لی تھیں اوراپنے چہرے کے آگے ہلکا سا دوپٹہ کر لیا تھا


کیا کر رہی تھی شفی ؟؟

شاہزین نے ایک نظر عینی کو دیکھ کر شفق سے پوچھا جو کرسی پر بیٹھی اپنا موبائل استعمال کر رہی تھی

بس بھائی ابھی واک کر کے بیٹھی تھی۔۔۔اور آپ کہاں سے آرہے ہیں گھر میں تو آپ اب کم ہی پائے جاتے ہیں

شفق اپنا موبائل میز پر رکھ کر شاہزین کی طرف متوجہ ہوتی بولی ۔۔۔

بس دوستوں کے ساتھ گیا تھا ایک ضروری کام تھا ۔۔۔۔اور تم حورررر میرے لیے جوس لے کر آؤ بعد میں یہاں کھڑی ہو کر زمین کو گھورتے ہوئے ہماری باتیں سن لینا ۔۔۔۔۔

شاہزین پہلے شفق کو جواب دیتے ہوئے بعد میں عینی کے نام پر زور دے کر عینی سے بولا


عینی اس کی بات سن کر جلدی سے جوس لینے چلی گئ اس کا دل کر ریا تھا کہ وہ شاہزین کا منہ توڑ دے اور ہادی جو لے کر یہاں سے دور چلی جائے ۔۔۔۔۔

وہ کچن میں جانے لگی تو راستے میں سحر بیگم رزیہ سے کوئی بات کر رہی تھیں چہرے کے تاثرات سے صاف پتا چل رہا تھا کہ انھیں رزیہ نے جو بات ان سے کہی ہے وہ انھیں بلکل پسند نہ آئی تھی

لڑکی کدھر جا رہی ہو۔۔۔۔۔ سارا دن گھر میں گھومتی پھرتی رہتی ہو کوئی کام بھی کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔

سحر بیگم نے عینی کو گزرتے دیکھ نخوت سے کہا

وہ ش۔۔۔۔۔شاہزین سر نے جوس مانگا تھا وہی کچن سے لینے جارہی تھی

عینی نے ان کی آواز سن کر دھیمی آواز میں جواب دیا


تم شاہزین کے پاس کیا کر رہی تھی۔۔۔۔ خبر دار جو میرے بیٹے پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔


سحر بیگم اس کی بات سن کر غصے سے بولیں


و۔۔۔وہ شفق میم کے ساتھ باہر تھی میں جب سر باہر سے آئے اور مجھے جوس لانے کا کہا۔۔


ان کی بات سن کر عینی کو جی بھر کر رونا آیا اور آنسوؤں کا ایک گولہ اس کے حلق میں پھس گیا وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی


ہنہ۔۔۔۔ ٹھیک ہے مگر اس سے دور ہی رہا کرو اب جاؤ اپنا کام کرو ۔۔۔۔


سحر بیگم نخوت سے بولیں اور دوبارہ پاس کھڑی رزیہ سے بات کرنے لگیں


عینی نے رزیہ کے سامنے یہ بات سن کر بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھا جو اسے آنکھوں سے تسلی دے رہی تھیں عینی ان کی بات سن کر خاموشی سے کچن کی طرف چلی گئی اسے اس دنیا میں سب سے زیادہ نفرت سحر بیگم سے محسوس ہوئی جو جب دیکھو اس کے کردار پر الزام لگاتیں تھیں اگر اس کا بس چلتا تو وہ انھیں ان کے ہر الزام کا قرارا سا جواب دیتی۔۔۔۔۔


وہ جلدی سے جوس لے کر باہر لان میں گئی جہاں شاہزین اور شفق کسی بات پر ہنس رہے تھے اس نے خاموشی سے گلاس اس کے قریب کیا


شاہزین نے گلاس پکڑ کر چھوڑ دیا جس سے سارا جوس اس کے جوتوں پر گرا یہ اس نے جان بوجھ کر کیا تھا اب وہ عینی کی آنکھیں دیکھ رہا تھا جو جوس کو گرتے دیکھ پھیل گئیں تھیں


تمہیں زرا سی بھی عقل نہیں کیسے جوس پکڑا رہی تھی ابھی میں نے گلاس اٹھایا بھی نہ تھا اور تم نے ٹرے ہٹا لی ۔۔۔۔۔۔


وہ آنکھوں میں شیطانی چمک لیے مصنوعی غصے سے بولا


س۔۔۔۔سوری سر پتا نہیں کیسے ہو گیا م۔۔۔میں نیا جوس لا دیتی ہوں


عینی ہلکی آواز میں منمنائی حالانکہ وہ جانتی تھی غلطی شاہزین کی تھی


عینی زرا ہوش میں رہ کر کام کیا کرو دیکھو تم نے بھائی کے کتنے مہنگے شوز خراب کر دیے ہیں


شفق جو شاہزین کے مصنوعی غصے کو محسوس نہ کر سکی تھی عینی کو دیکھتے ہوئے بولی


اب میرا منہ کیا دیکھ رہی جاؤ اور جا کر کوئی چیز لاؤ اور میرے جوتے صاف کرو ۔۔۔۔


شاہزین اس کا ڈر محسوس کرتا ہوا پرسکون سا بولا جبکہ عینی کا سبکی سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ اسے ڈھیروں سکون محسوس ہوا


ج۔۔۔۔جی ک۔۔۔کیا ؟


عینی اس کی بات سن کر بولی


بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ بعد میں شوزدے دیجیے گا وہ صاف کر دے گی اور عینی جلدی سے بھائی سے معافی مانگو اور جاکر اپنا دوسرا کام کرو۔۔۔۔۔


شفق کو شاہزین کی بات سخت ناگوار گزری تھی جو بھی تھا اگر عینی سے غلطی ہوگئ تھی پھر بھی یہ کام کروا کر اس کی عزت کو مجروح کرنا اسے بلکل پسند نہ آیا تبھی وہ پہلے شاہزین سے اور پھر عینی سے بولی


س۔۔۔۔سوری سر آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں ہو گی ۔۔۔۔


عینی اپنی جان بچتی دیکھ جلدی سے شاہزین سے بولی


جبکہ شاہزین جو عینی سے کام کروانا چاہتا تھا شفق کی بات سن کر اس نے عینی کی طرف دیکھا جو شفق کی بات سن کر پرسکون ہوگئ تھی اور جلدی سے اس سے معافی مانگی چکی تھی اسے بعد میں تنگ کرنے کا سوچ کر شاہزین نے اس کی معافی سن کر اپنا سر ہلایا اور جسے دیکھ کر عینی جلدی سے گھر کے اندر چلی گئی اور وہ بھی شاور لینے چلا گیا


حمنا اس وقت شاہزیب کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی وہ تقریبا چار سال بعد اس سے مل رہی تھی


اور زیبی تم ویسے اتنے سالوں بعد واپس کیسے آگئے تم نے تو جاتے ہوئے کہا تھا کہ اب واپس نہیں آؤ گے ۔۔۔۔

حمنا ایک ادا سے شاہزیب کو دیکھتے ہوئے بولی

شاہزیب تو بس حمنا کو ہی دیکھ رہا تھا وہ چار سالوں میں گرو کر کے خوبصورت ہوگئ تھی پہلے وہ اتنی خوبصورت نہیں لگتی تھی لیکن اب تو اس سے آنکھیں ہٹھانے کو بھی اس کا دل نہ کر رہا تھا

ہمم۔۔۔۔ بس دل کیا تو واپس آگیا سوچا یہاں پر بزنس سٹارٹ کروں ویسے بھی جو بات پاکستان میں ہے وہ دوسرے ملکوں میں کہاں ۔۔۔۔

شاہزیب حمنا کی بات سن کر اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا

صحیح اور زیبی کوئی لڑکی تمھیں ابھی تک پسند نہیں آئی۔۔۔۔۔

حمنا نے شاہزیب سے پوچھا

ابھی تک کوئی ایسی لگی نہیں جو میرے لیے بنی ہو ویسے لگتا ہے اب جلد ہی مل جائے گی

شاہزیب حمنا کو دیکھتا ہوا معنی خیز بولا

جبکہ حمنا نے اس کی بات سن کر اس کی طرف دیکھا پتا نہیں کیوں شاہزیب کی بات سن کر اسے جلن محسوس ہوئی حالانکہ شاہزیب کے جانے کے بعد وہ موو اون کر گئی تھی لیکن اس کی وجاہت دیکھ کر اب دوبارہ وہ مرعوب ہوگئ تھی جبکہ ہاشم بھی شاہزیب جیسا ہی خوبصورت تھا

اچھا مجھے بھی اپنی پسند سے ملوانا ۔۔۔۔۔

وہ اپنے ہونٹوں پر نقلی مسکراہٹ سجا کر بولی

بلکل سب سے پہلے تم سے ہی ملواؤ گا ۔۔۔۔۔

وہ حمنا کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا اور کھانا کھانے لگا۔۔۔

حدید آپ کو پتا چلا کہ حورالعین اور ہادی کہاں ہیں ؟

رمنا بیگم نے حدید صاحب کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا

نہیں میں نے اصغر کو بھیجا ہوا ہے ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا کسی کو نہیں پتا وہ گھر سے کدھر چلے گئے میں تو خود بہت پریشان ہوں کہ حور پتا نہیں کس حال میں حیدر کے ساتھ کہاں ہو گی بس اللہ اسے اپنی امان میں رکھے اور آپ فکر نہ کریں ہم جلد ہی انھیں ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔۔۔

حدید صاحب جو خود بہت پریشان تھے مگر رمنا بیگم کو تسلی دیتے ہوئے بولے

کب تک آپ انھیں ڈھونڈے گے اگر خدانخواستہ وہ کسی غلط ہاتھوں میں چلے گئے تو کیا ہوگا

رمنا بیگم پریشان سی بولیں ۔۔۔۔

آپ ہم پر یقین رکھیں وہ جلد ہی حویلی میں ہوں گے اور ارقم کو بھی میں نے بتایا ہوا ہے وہ بھی پوری کوشش کر رہا ہے اور عالی کو ابھی اس بارے میں کچھ مت بتائیے گا

حدید صاحب رمنا بیگم کو دیکھتے ہوئے بولے اور اٹھ کر حویلی سے باہر نکل گئے۔۔۔

شفق کا آج یونیورسٹی میں پہلا دن تھا وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہی تھی جب اس کی ہیل کی وجہ سے پیر مڑا اور وہ دائیں طرف اپنے برابر سے گزرتے لڑکے پر گری


ارقم جو عالی کو اس کے ڈیپارٹمنٹ میں چھوڑ کر واپس اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جارہا تھا کہ شفق کے قریب سے گزرتے ہوئے شفق کے خود پر گرنے کے لیے بلکل تیار نہ تھا اس وجہ سے سیدھا اسنے گر کر زمین کو سلامی دی


شفق نے خود کو لڑکے پر گرا دیکھا تو جلدی سے اس پر سے کھڑی ہوگئ جبکہ شرمندگی سے اس کے گال سرخ ہو چکے تھے

سوری ۔۔۔۔۔

شفق جلدی سے ارقم کو کھڑے ہوتے دیکھ کر بولی

شٹ اپ۔۔ نان سنس۔۔۔۔۔ اگر چلنا نہیں آتا تو ہیل مت پہنا کرو ۔۔۔۔۔۔

ارقم اس کی ہیل کو دیکھتے ہوئے غصے سے اس سے بولا اور شفق کی بات سنے بغیر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا

جبکہ اس کی باتیں سن کر شفق کو انتہا سے زیادہ سبکی ہوئی اور وہ بھی جلدی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل دی اس کا پہلا دن ہی خراب شروع ہوا تھا اب آگے کیسا دن گزرتا ہے یہ تو بعد میں پتا چلے گا


وہ کلاس میں داخل ہوئی تو فرنٹ پر موجود ایک لڑکی کے ساتھ بیٹھ گئی اس لڑکی نے پرپل اور سفید رنگ کا ٹراؤزر اور شرٹ پہنی ہوئی تھی اور سفید دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا جس میں اس کا گورا رنگ دمک رہا تھا


ہائے میں شفق اور آپ ؟


شفق نے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی سے پوچھا


علیشبہ نام ہے میرا ۔۔۔۔


عالی نے شفق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس نے جینز کے ساتھ بلیک کرتا پہنا ہوا تھا اور دوپٹہ گلے میں سکارف کی صورت میں ڈالا ہوا تھا

نائیس نیم آپ کی پرسنیلٹی پر سوٹ کرتا ہے اور آپ مجھے شفی پکار سکتی ہیں مجھے پیار سے سب یہی بلاتے ہیں۔۔۔۔

شفق علیشبہ کا نام سن کر بولی۔۔۔۔

شکریہ شفی اور آپ مجھے عالی پکار سکتی ہیں ۔۔۔۔

عالی شفق کی بات سن کر مسکرا کر بولی

اوکے عالی کیا آپ میری دوست بنو گی ۔۔۔۔۔


شفق اپنا ہاتھ عالی کے سامنے بڑھاتے ہوئے بولی جسے عالی نے فورا تھام لیا اور مسکرا کر بولی


ضرور بنو گی ۔۔۔۔۔


ابھی وہ دونوں کوئی اور بات کرتی کہ کلاس میں سر داخل ہوئے تو وہ دونوں خاموش ہوگئیں


عینی برتن دھو رہی تھی جب شاہزین کچن میں داخل ہوا اور فریج سے بوتل نکال کر پانی گلاس میں ڈال کر پینے لگا جبکی نظریں عینی ہر جمی تھیں


عینی جو اپنے دھیان سے کام کر رہی تھی اور اسے شاہزین کے کچن میں داخل ہونے کی خبر نہ ہوئی تھی خود پر کسی کی نظریں محسوس کر کے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شاہزین اسے ہی دیکھ رہا تھا


عینی کے دیکھنے پر شاہزین نے اسے آنکھ ماری جبکہ عینی کو اس کی حرکت پر جی بھر کر غصہ آیا اور اس کا دل کیا اس کی آنکھیں نوچ لے مگر بےبسی کے احساس کے ساتھ وہ شاہزین کو نظرانداز کر کے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی جبکہ دل اس کا زور سے دھڑک رہا تھا


شاہزین نے اس کا نظرانداز کرنا محسوس کیا تو غصے سے گلاس عینی کو پکڑانے آگے بڑھا اور عینی کے آگے گلاس کیا


اسے اپنے قریب کھڑے دیکھ کر عینی تھوڑے فاصلے ہر کھڑی ہوئی اور اس سے گلاس پکڑنے لگی کہ شاہزین نے اس کے پکڑنے سے پہلے گلاس نیچے گرا دیا


جلدی نہیں پکڑ سکتی تھی تمھاری وجہ سے میرا ہاتھ تھک گیا تھا اور یہ گلاس چھوٹ کر گر گیا


شاہزین نے غصے سے اس کا ہاتھ زور سے پکڑتے ہوئے کہا اور مزید بولا


آئندہ مجھے اگنور کرنے کی کوشش بھی مت کرنا تمھاری اتنی اوقات نہیں کہ مجھے شاہزین تیمور کو اگنور کرو سمجھی تم


عینی نے اپنے ہاتھ پر شاہزین کی وحشی گرفت محسوس کرکے جلدی سے اپنا سر ہلایا جبکہ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں جمع ہوگئے تھے


کسی کے قدموں کی آواز سن کر شاہزین اس کا ہاتھ چھوڑ کر جلدی سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا ہوا اور جلدی سے کشن سے باہر نکل گیا اسے عینی کو تنگ کر کے سکون ملتا تھا تبھی اس نے عینی کو تنگ کرنا شروع کیا تھا


شاہزین کے کچن سے جاتے ہی دو آنسو عینی کی آنکھوں سے ٹوٹ کر بے مول ہوئے تھے رزیہ کو کچن میں داخل ہوتے دیکھ وہ جلدی سے اپنا رخ موڑ کر بازو سے اپنی آنکھوں کو صاف کرکے نیچے گرے کانچ کو چننے لگی


ہاشم جو اس وقت ایک میٹنگ میں مصروف تھا اپنے موبائل پر میسج آتے دیکھا تو اسے بعد میں کھولنے کا سوچا مگر میسج پر احمر زمان کا نام دیکھ کر اس نے میسج کھولا تو اس میں حمنا اور شاہزیب کی تصویر موجود تھی جس میں شاہزیب نے حمنا کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور حمنا اس کی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔


تصویر دیکھ کر ہاشم نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی جبکہ آنکھیں اس کی ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہوگئ تھیں


ہاشم میٹنگ کے ختم ہوتے ہی لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اپنے آفس میں گیا مگر جاتے ہوئے اپنی سیکرٹری سے ڈسٹرب نہ کرنے کا کہنا نہیں بھولا

اسے سخت نفرت تھی حمنا کا دوسرے مردوں کے ساتھ گھومنا پھرنا اور حمنا نے بھی اس کی ناپسندیدگی دیکھتے ہوئے ایسا کرنا چھوڑ دیا تھا مگر آج پھر اس کو شاہزیب کے ساتھ دیکھ کر اسے بے حد غصہ آیا

اس نے سگریٹ سلگاتے ہوئے اپنے موبائل سے حمنا کا نمبر ملایا جو چوتھی بیل پر اٹھا لیا گیا

ہیلو ہاشم کوئی کام تھا تمھیں یا میری یاد آرہی تھی ؟

حمنا فون اٹھاتے ہی بولی ۔۔۔۔

تم بھولتی ہی نہیں تو یاد کیا کروں گا اور ایک کام تھا کیا تم سٹڈی روم میں دیکھو گی کہ میری بلیک فائل پڑی ہے ؟

ہاشم حمنا سے بولا۔۔۔۔


سوری ہاشم میں اس وقت گھر نہیں ہوں تم گھر کسی ملازم کو فون کر کے پوچھ لو۔۔۔۔


حمنا ہاشم کی بات سن کر بولی


اچھا ٹھیک ہے ویسے کہاں ہوں تم اس وقت ؟



ہاشم نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پوچھا


میں اپنی ایک کالج کی دوست کے ساتھ لنچ پر آئی ہوئی ہوں کیوں کوئی پروبلم ہے ؟


نہیں کوئی پروبلم نہیں ہے سوئٹ ہارٹ میں بعد میں بات کرتا ہوں تم سے


ہاشم نے اس کا جھوٹ سن کر اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا اور فون بند کر دیا وہ فلحال دیکھنا چاہتا تھا کہ اور کونسے جھوٹ حمنا بولتی ہے ۔۔۔۔۔

ہاشم نے ایک آدمی کو کال ملائی اور اس سے بولا

میں چاہتا ہوں تم حمنا ہاشم میری بیوی پر نظر رکھو وہ کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے کس سے ملتی ہے مجھے ساری رپورٹ چاہیے اور اسے خبر بلکل بھی نہیں ہونی چاہیے

دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جس کے جواب میں ہاشم بولا

تم پیسوں کی فکر مت کرو منہ مانگی قیمت دوں گا

ہاشم نے جواب دے کر فون بند کیا اور کرسی پر بیٹھ گیا وہ حمنا سے محبت ضرور کرتا تھا مگر اتنی بھی نہیں کہ اس کے جھوٹ بولنے پر اندھا اعتماد ہی کرتا رہتا ۔۔۔۔۔۔ اگر وہ اسے دھوکا دے رہی ہوئی تو وہ حمنا کے ساتھ جو کرے گا وہ حمنا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ۔۔۔۔

حمنا نے ہاشم کی کال بند کر کے اپنے سامنے بیٹھے شاہزیب کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا

لگتا ہے تم ہاشم سے بہت ڈرتی ہو تبھی اس سے جھوٹ بولا ہے تم نے ۔۔۔۔۔۔

زیبی نے حمنا سے پوچھا جس کے جواب میں حمنا منہ بگاڑتے ہوئے بولی

بلکل بھی نہیں میں ہاشم سے بلکل بھی نہیں ڈرتی اسے پسند نہیں کہ دوسرے مردوں کے ساتھ گھوموں پھروں اور میرا اس وقت بلکل بھی موڈ نہ تھا اس کی دقیانوسی لیکچر سننے کا یہ بات چھوڑو تم بتاؤ کیا کہہ رہے تھے

میں کہہ رہا تھا کہ میں کل ایک ہفتے کے لیے اپنے بزنس کے سلسلے میں اسلام آباد جا رہا ہوں۔۔۔۔۔

شاہزیب اس کی بات سن کر بولا

اچھا۔۔۔۔ مگر ایک ہفتے بعد آجانا تمھارے ساتھ ٹائم گزار کر اچھا لگتا ہے

حمنا اداس سی بولی

ہاں ضرور ایک ہفتے بعد یہاں ہوں گا ۔۔۔۔۔

شاہزیب نے جواب دیا تو حمنا نے اپنا سر ہلایا اور وہ اپنی دوسری باتوں میں مصروف ہوگئے

ماضی :

دورید اور حدید دو بھائی تھے ان کے والدین کی وفات ایک ایکسڈینٹ میں ہوگئی تھی ان کے بعد دورید گاؤں کا سردار بنا اور اپنے بھائی حدید کو سنبھالا اور اس کو پڑھایا بھی خود وہ بھی پڑھنا چاہتا تھا مگر گاؤں کی ذمےداری کی وجہ سے پڑھ نہ سکے دورید صاحب بڑے تھے اور ان کی شادی ان کی کزن زارا سے ہوئی اور شادی کے ایک سال بعد ان کے ایک بیٹا ہوا جس کا نام حدید نے ہاشم دورید بخت رکھا

ہاشم جب دو سال کا ہوا تو حدید صاحب نے اپنی پسند کی شادی رمنا بیگم سے کر لی

ان کی شادی کے دو سال بعد ارقم پیدا ہوا ہاشم ارقم سے بے حد پیار کرتا تھا اور اس کے ساتھ ہی سوتا کھیلتا تھا

وقت کام گزرنا ہے وہ گزر جاتا ہے جب ہاشم چھ سال کا ہوا تو ایک رات زارا بیگم سوئی تو پھر نہ اٹھ سکیں یہ سب کے لیے صدمے کی بات تھی اپنی ماں کی وفات کے بعد ہاشم خاموش رہنے لگا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


آج کا اتوار کا دن تھا تو عینی سحر بیگم سے چھوٹی لے کر ہادی سے ملنے جارہی تھی وہ ہر دو ہفتوں بعد اس سے ملنے جاتی تھی اس نے اپنا منہ دھویا اور نقاب کرکے گھر سے نکلی جبکہ اپنا میک اپ بیگ میں رکھنا نہیں بھولی تھی

اس نے شکر ادا کیا تھا کہ شاہزین اس وقت گھر نہ تھا ورنہ مجبورا اسے میک اپ کرکے جانا پڑتا وہ ہادی سے ملنے ہاسٹل گئی اور ہادی کو اپنے ساتھ لیا اور قریبی پارک میں لے کر گئ ایک بینچ پر بیٹھ کر اس نے ہادی کو بھی اپنے ساتھ بٹھایا اور اس کا ماتھا چوم کر بولی ۔۔۔۔

ہادی سکول میں کوئی پریشانی تو نہیں تمھیں یا کوئی لڑکا تمھیں تنگ تو نہیں کرتا۔۔۔۔۔


نہیں عینی آپی میرے تو دو دوست بھی بن گئے ہیں آپ کو پتا ہے وہ میرے کلاس میں ہی ہیں اور ہاسٹل میں بھی میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔۔۔۔ بس آپ کی یاد آتی ہے آپی۔۔۔۔


ہادی نے جواب دیا اور آخر میں اداسی سے بولا


بس تھوڑی دن پھر ہم جلدی دوبارہ ساتھ ہوں گے میں فلحال تمھیں وہاں رکھ نہیں سکتی نہ اور میں آپ کی ٹیچر سے بات کروں گی وہ آپ کی مجھ سے فون پر بات کروادیا کریں گی


عینی اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولی


اچھا ٹھیک ہے لیکن آپ روز بات کیا کریں گی نہ ؟


ہادی نے خوش ہوتے ہوئے ایک امید سے پوچھا


ہاں بلکل روز کیا کروں گی اور چھوڑو یہ سب باتیں آؤ ہم لنچ کرنے چلتے ہیں ۔۔۔۔۔


عینی ہادی کو اپنے ساتھ کھڑا کرتی ہوئی بولی اور قریب ہی ایک سستے سے ریسٹورنٹ کی طرف ہادی کو لیے چل دی

عینی اور ہادی نے جب لنچ کر لیا تو عینی اسے ساتھ لیے ریسٹورنٹ سے نکل گئ جبکہ دو آنکھوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا

شاہزین اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا تھا جبکہ ان کا ایک دوست ایک دوکان سے سگریٹ کا پیکٹ لینے گیا تھا شاہزین جو کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا شیشے سے باہر اس کی نظر اچانک سامنے چھوٹے سے ریسٹورنٹ سے نکلتی عینی پر پڑئ

عینی نے چونکہ صرف دوپٹہ لیا ہوا تھا اور اس کا رخ بھی ان کی گاڑی کی طرف تھا تو شاہزین نے اسے غور سے دیکھا تو اسے یہ کہیں دیکھی ہوئی لگی مگر کہاں دیکھا تھا یاد نہیں آرہا تھا تب تک اس کا دوست واپس گاڑی میں آکر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر لی مگر عینی کا چہرہ یاد کرنے کی پوری کوشش کی تھی کہ اسے کہاں دیکھا


اپنے دوست علی کی بات سن کر اس کی سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا اور اپنے دوستوں سے باتیں کرنے لگا۔۔۔


عینی ہادی کو چھوڑ کر اماں جنت سے ملنے گئ تھی ان سے مل کر اس نے انکے گھر میں ہی میک اپ دوبارہ کیا اور واپس چل دی


وہ گھر میں داخل ہو کر جلدی سے انیکسی میں گئی اور وہاں پر جاکر جلدی سے شاور لیا اور اپنا حولیہ ٹھیک کر کے گھر کے اندر کام کرنے گئ جہاں سحر بیگم نے اس کے لیے سارے گھر کے کپڑے دھلوانے کے لیے رکھے ہوئے تھے


عینی اپنا کام کرنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں گئی تھی اسے کام کرتے ہوئے شام ہی ہوگئی تھی آرام کرنے کے بعد وہ کچن میں رزیہ کے ہاس گئی


وہ رزیہ کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر کھانا رکھ رہی تھی جب شاہزین گھر میں سیٹی بجاتے ہوئے داخل ہوا اور سیدھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اسے جاتے دیکھ کر عینی نے پر سکون سی سانس خارج کی اور جلدی جلدی اپنے ہاتھ چلانے لگی


شاہزین ٹیبل پر آکر شفق کے ساتھ بیٹھا ہی تھا کہ تیمور صاحب طنزیہ بولے


ٹائم مل گیا آپ کو گھر میں موجود رہنے کا برخوردار ؟

ڈیڈ کم از کم کھانا تو مجھے سکون سے کھالینے دیں بعد میں بات کریں گے

شاہزین ان کی بات سن کر بولا

ہاں ضرور کھاؤ میں نے کونسا تمھارا ہاتھ تھاما ہوا ہے جو تم کھا نہیں سکتے ۔۔۔۔

تیمور صاحب کی بات سن کر اس نے ایک نظر سحر بیگم کو دیکھا تو سحر بیگم نے تیمور صاحب کو بولیں

تیمور آپ بعد میں بات کر لیجیے گا فلحال اسے کھانا کھانے دیں۔۔۔

تیمور صاحب نے ان کی بات سن کر ایک غصیلی نظر ان پر ڈالی جو اپنے بیٹے کو سدھارنے کی بجائے بگاڑ رہی تھیں اور غصے سے دھاڑے


کیا بعد میں بات کروں اس سے گھر میں یہ موجود نہیں ہوتا ابھی ملا ہے تو ابھی بولو گا نہ آپ کا یہ نواب زادہ یونیورسٹی سے پاس ہو کر بھی اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ پھرتا رہتا ہے جبکہ میرے سارے دوستوں کے بیٹے اب بزنس سنبھال رہے ہیں ایک میری اولاد ہی نالائق اور نکمی ہے جو میری مدد کرنے کی بجائے عیاشیاں کر رہا ہے


یہ میری زندگی ہے ڈیڈ میں اسے اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتا ہوں اور اگر آپ کو اتنا ہی دوسرے لوگوں کے بیٹوں سے پیار ہیں انھیں لے آئیں


شاہزین بھی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے غصے سے بولا اور اپنے کمرے کی جانب چلا گیا


جبکہ تیمور صاحب نے ایک ناگوار نظر شاہزین کی پشت پر ڈالی اور وہ بھی اپنے کمرے کی جانب اٹھ کر چلے گئے


جبکہ اس سب کے دوران شفق خاموش ہی رہی تھی وہ خود بھی شاہزین کی عادتیں پسند نہیں کرتی تھی اور تیمور صاحب کی باتوں سے متفق تھی وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی


سحر بیگم نے رزیہ کو برتن سمیٹنے کا کہتے ہوئے خود بھی اپنے کمرے میں چلی گئیں


شاہزین نے اپنے کمرے میں آکر اپنا غصہ کم کرنے کے لیے سگریٹ سلگایا اور بالکونی میں جاکر پینے لگا تھوڑی دیر بعد اسے عینی انیکسی کی طرف جاتے ہوئے دکھی

وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا جب اسے دوپہر والی لڑکی یاد آئی کہ اس کے ذہن میں اچانک جھماکہ ہوا اس یاد آیا کہ اس لڑکی نے اسے چار مہینے پہلے تھپڑ مارا تھا

وہ جب بھی عینی کو دیکھتا تھا تو اسے وہ پہلے سے کہیں دیکھی ہوئی لگتی تھی مگر اس نے جب دونوں کا موازنہ کیا تو اس لڑکی اور عینی میں اسے صرف رنگ کا فرق لگا

اس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے عینی کے بارے میں پتا کرنے کا سوچا

ماضی :


زارا بیگم کی وفات کے ایک سال بعد حدید صاحب اور رمنا بیگم کے ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انھوں نے علیشبہ رکھا


علیشبہ کے پیدا ہونے کے دو سال بعد رمنا بیگم کی بیوہ بہن ردا اپنی چند ماہ کی بیٹی حورالعین کے ساتھ حویلی رہنے آئی تو ہاشم ان کے ساتھ اٹیچ ہونے لگا اور ان کے ساتھ ساتھ ہی رہتا اور پہلے کی طرح ہونے لگا جبکہ وہ اب دوبار ہ سے ارقم سے بھی گھلنے ملنے لگا تھا

ہاشم کی ردا بیگم کو لے کر پسندیدگی دیکھتے ہوئے حدید صاحب نے دورید صاحب کو ردا بیگم سے شادی کرنے کا مشورہ دیا تو انہوں نے ردا بیگم سے شادی کرلی وہ ہاشم کو اپنے بیٹے کی طرح ہی پیار کرتی تھیں ہاشم نو سال کا تھا جب ردا بیگم اور دورید صاحب کی شادی ہوئی ہاشم حورالعین کو اپنی بہنوں کی طرح چاہنے لگا تھا اور اس کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کا خیال رکھتا تھا

چھ سال بعد ردا بیگم اور دورید بخت کا ایک بیٹا پیدا ہوا جن کا نام انھوں نے حیدر رکھا جب ہاشم اٹھارہ سال کا ہوا تو دورید صاحب نے اسے پڑھنے شہر بھیج دیا تھا

ہاشم جب بائیس سال کا ہوا تو ہاشم سے ملنے شہر آتے ہوئے دورید صاحب اور ردا بیگم جس گاڑی میں آرہے تھے وہ گاڑی حادثے کا شکار ہوگئ تھی اور وہ دونوں موقع پر ہی دم توڑ گئے اس وقت حیدر صرف سات سال کا تھا جبکہ حورالعین تیرہ سال کی

حال :

ہاشم بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا جب بیڈ کی دوسری طرف حمنا بیٹھی اور اپنے ہاتھوں پر لوشن لگاتے ہوئے ہاشم سے بولی

ہاشم کیا تم مجھ سے ناراض ہو ؟

نہیں تو تمھیں ایسا کیوں لگا ۔۔۔۔

اس کی بات سن کر ہاشم نے پوچھا جب کہ نظریں ہنوز لیپ ٹاپ کی سکرین پر ہی جمی ہوئیں تھیں

مجھ ایسا محسوس ہوا کہ تم مجھ سے ناراض ہو بات بھی مجھ سے سہی سے نہیں کر رہے اور اب بھی لیپ ٹاپ پر لگیے ہو میری بات نہیں سن رہے تم۔۔۔۔۔

وہ ہاشم کی طرف اپنا رخ موڑتی ہوئی معصومیت سے بولی

نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس آج کل کام کا سٹریس زیادہ ہے تو ٹائم نہیں مل رہا اور ابھی ایک ای میل چیک کر رہا تھا ۔۔۔۔

ہاشم اس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے میں تمھاری بات مان لیتی ہوں ۔۔۔۔

وہ اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے بولی

تم سوجاؤ ابھی مجھے تھوڑا کام ہے میں سٹڈی روم میں جا رہا ہوں ۔۔۔۔

ہاشم حمنا کو بولتا ہوا اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر سٹڈی روم میں چلا گیا۔۔۔۔

ہاشم نے میز پر اپنا لیپ ٹاپ رکھا تو اس کا فون بجنے لگا اس نے کال اٹھائی تو دوسری جانب سے آواز گونجی

سر میں پچھلے ایک ہفتے سے میم کا پیچھا کر رہا ہوں وہ کس سے ملیں اور کہاں گئیں سب کی میں نے رپورٹ تیار کر لی اگر آپ چاہیں تو صبح آپ کے آفس میں آکر دکھا دو گا

ٹھیک ہے تم صبح مجھے میرے آفس میں ملنے آنا اور اپنا نام میری سیکرٹری کو بتانا میں اسے تمھارا بتا دوں گا وہ تمھیں مجھ سے ملنے دے گی۔۔۔۔

ہاشم نے اس کی بات سن کر کہا اور فون بند کر کے اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے دوبارہ اپنا کام کرنے لگا۔۔۔۔

عالی کل کہیں گھومنے پھرنے کا پلان بناؤ میں گھر میں رہ کر بور ہوچکی ہوں کیوں نہ ہم شوپنگ پر چلیں۔۔۔۔


شفق علیشبہ کے سامنے کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔


ہممم۔۔۔۔ آئیڈیا تو اچھا ہے تمھارا لیکن بھائی سے پوچھنا پڑے گا۔۔۔۔


علیشبہ نے جواب دیا تو شفق کے سامنے مغرور سے ارقم کا چہرہ نمودار ہوا اس سے دوسری بار ملاقات علیشبہ نے کروائی تھی جس دن ان کا لیکچر فری تھا تب ارقم عالی سے بات کرنے آیا تھا جب شفق کو پتا چلا کہ وہ علیشبہ کا بھائی ہے تو اس کو اپنی پہلی ملاقات ارقم کے ساتھ یاد کرکے شرمندگی محسوس ہوئی مگر جب اسے خود کو اگنور کرتے دیکھا تو پھر اس نے بھی اسے دوبارہ نہیں بلایا تھا اور ساری شرمندگی بھی وہ بھول گئی تھی

ہمم ۔۔۔۔ تمھارا وہ سڑو بھائی ہمیں کبھی بھی نہیں جانے دے گا عالی یہ بات تم مجھ سے لکھوا لو۔۔۔۔۔

شفق پانی پیتے ہوئے بولی اس کی بات سن کر علیشبہ نے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا وہ اچھے سے جانتی تھی کہ شفق ارقم کو بلکل بھی نہیں پسند کرتی اور اس کی وجہ شفق نے اسے اپنی پہلی ملاقات راقم کے ساتھ بتا کر بیان کی تھی

ایسی بھی کوئی بات نہیں شفی بھائی بس تھوڑا سریس رہتے ہیں ویسے بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔


علیشبہ نے شفق سے کہا تو اس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا


ہاں جانتی ہوں تمھارے ارقم بھائی بہت اچھے ہیں لوگوں کی مشکل میں مدد کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔


شفق نے بات کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں موجود بوتل سے پانی کا گھونٹ منہ میں بھرا کہ اپنے پیچھے کسی کہ گلا کھنگارنے پر مڑی اور ارقم کو دیکھتے ہی اس کے منہ میں موجود پانی فورے کی صورت میں ارقم کی شرٹ اور گردن پر گرا لمبا قد ہونے کی وجہ سے ارقم کا منہ بچ گیا تھا


ارقم نے اپنی گیلی شرٹ اور گردن پر پانی کے چھینٹے محسوس کرکے اسے خونخوار نظروں سے گھورا جب کہ عالی کا یہ سب دیکھ کر قہقہہ گونجا۔۔۔۔۔


شفق خود پر اس کی نظریں محسوس کرکے الٹا اس پر ہی الزام ڈالتے ہوئے گویا ہوئی


یہ آپ کی غلطی ہے آپ کو کسی کے پیچھے کھڑے نہیں ہونا چاہیئے مجھے کیا پتا تھا پیچھے آپ کھڑے ہیں ورنہ میں پانی پی کر مڑتی ۔۔۔۔۔۔

تم ایسا کیوں نہیں کرتی اپنے اردگرد ایک چار دیواری بنا کر پھیرا کرو تاکہ تمہیں کوئی مسئلہ نہ ہو کبھی تمھارے قدم لڑکھڑا رہے ہوتے ہیں تو کبھی تمھارا منہ لیک کر رہا ہوتا ایک دفعہ گھر جا کر اپنی مرمت کروا لینا ۔۔۔

ارقم اس کی بات سن کر بکواس باتیں سن کر بولا

آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں اپنی مرمت کروائیں آپ کے دماغ کے نٹ بولٹ سب ڈھیلے ہوئے پڑے ہیں اور اپنے منہ کی بھی جب دیکھو سڑے ہوئے کریلے جیسی اس سے بو آتی ہے ہنہ۔۔۔۔۔

شفق اس کی بات سن کر اپنا منہ بگاڑتے ہوئے

تمھیں بڑا پتا ہے خود کہ منہ سے تو تمھارے جیسے پھول جھڑتے ہیں سڑی ہوئی مرچی کہیں کی اور آئندہ میرے ساتھ تمھیں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور عالی میرا آخری لیکچر فری ہے میں گاڑی میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں آج جانا۔۔۔۔۔

ارقم پہلے غصے سے شفق اور پھر عالی سے بولو جو اپنی ہنسی روکنے کے چکر میں سرخ ہوئی پڑی تھی علیشبہ نے ارقم کی بات سن کر اپنا سر ہلایا تو ارقم تن فن کرتا اپنی گاڑی کی جانب چل دیا


تمھارا سڑا ہوا بھائی مجھے سڑی ہوئی مرچی بول کر گیا


شفق عالی کی طرف اپنا رخ کرکے غصے سے بولی جبکہ اس کی بات سن کر عالی جو کب سے اپنی ہنسی روک رہی تھی ایک بار جو ہنسنا شروع ہوئی تو ہنستی چلی گئی


مجھ سے بات مت کرنا عالی جا رہی ہو میں ۔۔۔۔۔


شفق نے اسے ہنستا ہوا دیکھ کر دھمکی دی


اچھا اچھا سوری ویسے تم دونوں کی لڑائی دیکھ کر مجھے بڑا مزا آیا اور میں تم سے کل بات کروں گی بھائی میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔۔۔ اور تم سڑی ہوئی نہیں میٹھی مرچ ہو


عالی شفق کو گلے لگا کر جلدی سے بولی اور دور جاتے ہوئے آخری بات بولی تو شفق جھنجھلا کر بولی


میں مرچ نہیں ہو ہنہ۔۔۔۔۔


اپنے ڈرائیور کو آتا دیکھ وہ بھی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئ اور اپنے دل میں ارقم کو برا بھلا کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھی ۔۔۔۔۔


شاہزین اپنے کمرے میں موجود تھا جب رزیہ اس کے کمرے میں ناشتہ لے کر داخل ہوئی ناشتہ ٹیبل پر رکھ کر رضیہ جانے لگی تو شاہزین نے اسے روکتے ہوئے پوچھا


رزیہ کل کیا حور نے چھوٹی کی تھا ؟


جی سر وہ اپنے بھائی سے ملنے گئی تھی ۔۔۔۔۔


رزیہ نے شاہزین کو جواب دیا


اچھا اس کا بھائی بھی ہے ۔۔۔۔۔ ویسے کہاں رہتا ہے وہ۔۔۔۔


شاہزین نے اس کا جواب سن کر پوچھا تو رزیہ نے اس کو ایک مشکوک نظر سے دیکھا تو شاہزین نے اس کے آگے کچھ پیسے بڑھائے جسے پکڑتے ہوئے وہ جلدی سے بولی


اس کا چھوٹا بھائی ہوسٹل میں رہتا ہے سر اس سے ہر دو ہفتے بعد حور ملنے جاتی ہے ۔۔۔۔


شاہزین نے اس کی بات سن کر مزید پوچھا


کیا اس کے ماں باپ نہیں ہے ؟


نہیں سر وہ اور اس کا چھوٹا بھائی ہی ہیں اور رشتے داروں میں کوئی نہیں ہے

رزیہ نے جواب دیا تو شاہزین نے اسے جانے کا شارہ کیا تو رزیہ کمرے سے چلی گئی

شاہزین نے سگریٹ سلگائی اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے حور کے بارے میں سوچنے لگا تھا اب صرف ایک چیز رہ گئی تھی وہ تھا حور کا رنگ جو اس نے دیکھنا تھا۔۔۔۔

ماضی :


ہاشم اپنے ماں باپ کی وفات پر حویلی واپس آیا تو حورالعین اور حیدر کو ضد کر کے واپس اپنے ساتھ شہر والے گھر میں لے گیا وہ ان دونوں کو بے حد چاہتا تھا اور اب انہیں کھونا نہیں چاہتا تھا

احد صاحب تو حورالعین اور حیدر کو اپنے ساتھ ہی حویلی رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے مطابق رمنا بیگم ان دونوں کی اچھی تربیت کر سکتی تھیں جبکہ ہاشم کے پاس اتنا وقت نہ تھا کیونکہ اس نے اپنا نیا بزنس بھی شروع کیا تھا ہاشم خود گرز ہو کر اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے حورالعین اور حیدر کو اپنے ساتھ شہر لے گیا جبکہ وہاں جاکر تو اس کے پاس ان کے ساتھ گزارنے کے لیے بلکل بھی وقت نہ ہوتا تھا

ارقم اور علیشبہ حور اور حیدر کے جانے کے بعد اداس ہوگئے تھے مگر وہ بھی کیا کرسکتے تھے۔۔۔ اور تب علیشبہ دل ہی دل میں ہاشم کی پرسنیلٹی سے مرعوب تھی شاید محبت کی پہلی کونپل اس کے دل کی سرزمین پر اگنے والی تھی

ہاشم کی دوستی احمر زمان سے یونیورسٹی میں آکر ہوئی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے جگری یار تھے احمر ہاشم کے ہر مشکل وقت میں ساتھ تھا

حورالعین نے جب ہاشم کو حیدر اور خود پر توجہ دیتے نہ دیکھا تو وہ حیدر کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتی اس کا ہر کام خود کرتی تھی دونوں ایک دوسرے کی جان تھے

ہاشم ان سے صرف ڈنر پر یا پھر ناشتے پر ہی بات کرتا تھا وہ بھی اگر کبھی گھر ہوتا۔۔۔۔۔

اس کے رویہ سے وہ دلبرداشتہ ہوکر ایک دن حورالعین نے ہاشم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا ہاشم اس وقت اپنے کمرے میں تھا جب وہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی

بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔ حور ہاشم کے پاس جاکر بولی جو بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ کر رہا تھا اسے دیکھ کر ہاشم نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا

ہاں کیا بات کرنی ہے عینی سب ٹھیک تو کوئی پریشانی تو نہیں بچے ۔۔۔۔۔

جی ۔۔۔ بھائی سب ٹھیک ہے میں ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ہادی (حیدر) اور میں واپس ح۔۔۔۔۔حویلی جانا چاہتے ہیں ہمارا یہاں دل نہیں لگتا ۔۔۔۔۔

حورالعین ڈرتے ڈرتے بولی تو اس کی بات سن کر ہاشم غصے سے بولا

کبھی بھی نہیں اب تم لوگ میرے ساتھ یہاں ہی رہو گے اور تم لوگوں کو یہاں کسی چیز کی کبھی کمی نہیں ہوئی تو واپس کیوں جانا چاہتے ہو ؟

بھائی جو چیزیں یہاں ہمیں ملتی ہیں وہ حویلی میں بھی مل جاتی ہیں مگر بات چیزوں کی نہیں بات محبت اور توجہ کی ہے جو ہمیں حویلی میں ملتی ہے آپ کے پاس تو ہمارے ساتھ وقت گزارنے کا ٹائم بھی نہیں ہے یہاں تک کہ ڈنر بھی آپ کبھی کبھار ہی ہمارے ساتھ کرتے ہیں

حور کی بات سن کر ہاشم کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور وہ اس سے بولا

بچے میں تھوڑا مصروف تھا اس وجہ سے آپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا لیکن اب سے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہی وقت گزاروں گا اور موم اور ڈیڈ کے جانے کے بعد میں تم دونوں کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتا بچے اس وجہ سے مجھے ایک موقع دو تم لوگوں کو مجھ سے اب بلکل بھی شکایت نہ ہوگی

ہاشم کی بات سن کر حور بولی

ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد ہاشم حور اور حیدر کے ساتھ وقت گزارنے لگا تھا ان کا ہر طرح کا خیال خود رکھتا تھا۔۔۔۔

حال :

ڈنر کے بعد شاہزین نے عینی کو اپنے کمرے میں موجود پانی کا جگ بھر کر لانے کا کہا اور اپنے کمرے میں جا کر اس کا انتظار کرنے لگا

عینی پانی کا جگ اس کے کمرے میں رکھنے آئی اور جگ کو اس کی جگہ پر رکھنے لگی کہ شاہزین نے آگے بڑھ کر اس سے جگ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہلکا سا پانی گرایا تو عینی نے اپنے ہاتھ پر پانی گرتے ہوئے محسوس کر کے بوکھلا گئی اور جلدی اپنا ہاتھ اپنے دوپٹے کے پیچھے کر لیا

جبکہ شاہزین کی تیز نظروں نے اس کے ہاتھ کی رنگت کو ویسے ہی دیکھا مگر اس کا گھبرانا وہ صاف محسوس کر چکا تھا جس سے اس کو کچھ گڑبڑ لگی مگر اس نے ایسے ظاہر کروایا کہ جیسے غلطی سے پانی گرا ہو

عینی اس کی بات سنے بغیر جلدی سے کمرے سے باہر چلی گئی اس نے شکر ادا کیا کہ اس نے واٹر پروف فاؤنڈیشن استعمال کیا تھا ورنہ اس کا راز آج شاہزین کو پتا چل جانا تھا

ہاشم اپنے آفس میں بیٹھا تھا جب ایک شخص اس کے آفس میں داخل ہوا اور ہاشم کے اشارے پر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے ایک فائل اس نے ہاشم کی طرف بڑھائی جسے ہاشم نے پکڑا اور اس میں موجود حمنا کی مختلف جگہ لوگوں کے ساتھ لی گئیں تصویریں تھیں


ایک تصویر پر تو اس کا خون ہی کھول اٹھا جس میں حمنا تنگ سا لباس پہنے کلب میں موجود تھی ۔۔۔۔۔


ایک تصویر میں وہ شاہزیب کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔


ایک تصویر اس کی اپنی دوستوں کے ساتھ تھی ایسی کئی بہت سی تصویریں اس فائل میں موجود تھی


ہاشم نے فائل بند کرکے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا اور چیک لکھ کر اسے دیا اور اسے مزید حمنا پر نظر رکھنے کا کہ کر اسے جانے کا اشارہ کیا اور اپنی کرسی کو موڑتے ہوئے سگریٹ سلگا کر حمنا کے بارے میں سوچنے لگا


وہ جب اس سے ملا تھا تو وہ اسے بےحد معصوم لگی تھی مگر اب اسے احساس ہو رہا تھا وہ اس کے سامنے کچھ اور ہے اور اس کا اصل چہرہ کچھ اور ہے


اس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کی تو اسے حورالعین اور ہادی کا معصوم چہرہ دکھا اور ان کی آوازیں اس کے کانوں میں گونجنے لگیں


بھائی پلیز ۔۔۔ہمیں گھر سے مت نکالیں ہم کہاں جائیں گے ۔۔۔۔


بھائی میں نے ایسا نہیں کیا ۔۔۔۔۔


بھائی حیدر کو رکھ لیں اپنے ساتھ میں چلی جاؤں گی ۔۔۔۔


بھائی اپی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔


اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور غصے سے اپنے میز پر موجود چیزیں ہاتھ مار کر نیچے گرادیں وہ ان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا تھا حمنا کی بات پر اندھا یقین کر کے اس نے اپنے ہی بہن بھائیوں کو گھر سے نکال دیا


اب اتنے مہینوں بعد اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنے ہی بہن اور بھائی کو گھر سے نکال دیا ہے کیوں ؟! کس کی باتوں میں آکر ؟! وہ اتنا بچا تو نہ تھا کہ سچ جھوٹ کا پتا نہ لگا سکے ۔۔۔۔۔۔


وہ اضطراب کی کیفیت میں اپنی کرسی سے اٹھا اور آفس سے باہر نکل کر سڑکوں کی خاک چھاننے چلا گیا وہ بھی اپنے مطلب یعنی اپنے سکون کے لیے ۔۔۔۔۔۔


علیشبہ اور شفق اس وقت مال میں موجود شاپنگ کر رہے تھے شاپنگ کم اور آوازہ گردی وہ دونوں زیادہ کر رہی تھی


شفق نے عالی کو کچھ نئے ڈیزائن کے کپڑے لے کر دیے جبکہ خود کے لیے اس نے جینز اور شرٹس خریدیں۔۔۔۔


اب وہ دونوں تھک کر بھوک سے نڈھال ہو کر کچھ کھانے کے لیے پیزا شاپ میں گئے


چونکہ عالی کو ارقم نے اسی جگہ میں ملنا تھا تو وہ دونوں پیزا کھا کر آرام سے بیٹھی اب آئس کریم کھا رہی تھیں جب ارقم انھیں ڈھونڈ کر ان کے ساتھ بیٹھا اور عالی سے پوچھا


عالی اگر شاپنگ کر لی ہے تو چلیں مجھے ایک ضروری لام سے جانا ہے ۔۔۔۔۔۔


ہاں بھائی کر لی ہے بس یہ آئس کریم کھالوں پھر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔


علیشبہ نے منہ میں آئس کریم ڈالتے ہوئے کہا جبکہ ارقم کے آنے سے شفق خاموش ہی بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ ویسے بھی وہ ارقم سے بول کر اپنی بےعزتی نہیں کروانا چاہتی تھی ۔۔۔


عالی تھوڑی دیر اور رک جاؤ میرے ڈرائیور نے تھوڑا لیٹ آنا ہے اس نے راستے میں سے ڈیڈ کی کوئی میڈسن لینی ہے۔۔۔۔


شفق نے علیشبہ سے کہا تو عالی جھٹ سے بولی ۔۔۔۔۔


تم فکر مت کرو بھائی اور میں تمھیں گھر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔کیوں بھائی آپ چھوڑ دیں گے نہ۔۔۔۔۔


ہممم چھوڑ دو گا لیکن پھر تھوڑا جلدی کرو ۔۔۔۔


ارقم اپنے موبائل پر میسج لکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔


لیکن تم لوگوں کو دیر ہوجائے گی تم چلی جاؤ میں انتظار کر لوں گی


شفق علیشبہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اور تو جواب ارقم کی طرف سے آیا۔۔۔


جب میں نے کہہ دیا ہے کہ چھوڑ دوں گا پھر اتنے نخرے کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔۔


عالی میں پارکنگ لاٹ میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں اگر تمھاری دوست کے نخرے ختم ہوجائیں تو اسے لے آنا ۔۔۔۔


ارقم اپنی کرسی سے اٹھتا ہوا بولا ۔۔۔


شفق نے اس کی بات سن کر اسے جاتے ہوئے دیکھ ایک گھوری سے نوازا اور کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔۔


عالی چلو میں تم لوگوں کے ساتھ ہی جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔ آخر کو تمھارے بھائی کو ابھی نخرے بھی دکھانے ہیں ۔۔۔۔۔


عالی نے اس کی بات سن کر ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا تو شفق نے اسے چلنے کا اشارہ کیا تو اس کی بات کو نظر انداز کر کے عالی اس کے پیچھے چل پڑی ۔۔۔۔


چونکہ پہلے علیشبہ اور ارقم کا گھر آتا تھا اس وجہ ارقم نے پہلے علیشبہ کو گھر چھوڑنے کا سوچا چونکہ اس گھر میں گاؤں کے ملازم کام کرتے تھے اور وہ سب وفادار تھے اس وجہ سے اسے علیشبہ کو گھر اکیلے چھوڑنے کی فکر نہیں تھی


گھر کے سامنے آکر ارقم نے گاڑی روکی تو علیشبہ شفق سے مل کر گاڑی سے نکل گئی چونکہ عالی ارقم کے کہنے پر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی اب عالی کے جانے کے بعد فرنٹ سیٹ خالی ہوئی تو ارقم نے شفق کو آگے آکر بیٹھنے کا یہ کہہ کر کہا کہ وہ اس کا ڈرائیور نہیں اس لیے چپ چاپ آگے آکر بیٹھ جائے وہ بھی خاموشی سے اگلی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔


ارقم نے اسے ایڈریس دوبارہ پوچھا تو شفق نے اپنی شرارت سے چمکتی آنکھوں سے اسے جواب دیا


جو ایڈریس شفق نے دیا تھا وہ ان کے گھر سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا مگر وہ یہ سوچ کر پرسکون تھا کہ اس نے وہاں ہی جانا تھا شفق کے بتائے گئے ایڈریس پر ارقم نے گاڑی روکی تو شفق جلدی سے معصوم صورت بنا کر بولی۔۔۔۔


یہ آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں میرے گھر یہ تو نہیں بلکہ یہ علاقہ بھی نہیں ہے میرے گھر کا ۔۔۔۔۔


یہ ایڈریس تم نے ہی بتایا تھا اب چلو اترو اور نکلو گاڑی سے باہر


اس کی بات سن کر ارقم نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔


یہ جگہ تم نے ہی بتائی تھی اب شرافت سے باہرنکلو اور اپنے گھر جاؤ۔۔۔۔


ارقم کی بات سن کر وہ تھوڑا پریشان ہوگئی کہ اب گھر کیسے جائے گی وہ ارقم کی طرف دیکھ کر معصومیت سے بولی۔۔۔۔


میرا گھر پچھلے بلاک میں ہے پلیزززز۔۔۔۔ مجھے وہاں چھوڑ آئیں ۔۔۔۔۔


پلیز لفظ پر تو خاصا زور دیا شفق نے ۔۔۔۔۔۔


اس کی بات سن کر ارقم نے ایک نظر اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھا اور اس سے غصے سے بولا


اب مجھے صحیح ایڈریس دو اس سے پہلے کہ میں تمھیں گاڑی سے باہر پھینک دوں۔۔۔۔۔۔


شفق نے اس کی غصے سے بھری آواز سن کر اسے جلدی سے اپنے گھر کا صحیح پتا بتایا وہ اسے بس تنگ کرنا چاہتی تھی اور وہ کربھی چکی تھی


اس کو گھر چھوڑ کر ارقم اپنے ایک دوست زوریز سے ملنے گیا جسے اس نے حور اور حیدر کو ڈھونڈنے کا کہا تھا


ارقم زوریز سے ہاتھ ملا کر اس کے سامنے کرسی پر بیٹھا اور اس سے حور اور حیدر کے متعلق پوچھا۔۔۔۔۔


میں ان کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں مگر کسی دارالامان میں بھی ان کا نام و نشان نہیں اور سب سے بڑی بات وہ اپنے کسی دوست کے گھر بھی نہیں گئے اور نہ ہی کسی ہوٹل میں ان کے نام کی اینٹری ہے ۔۔۔۔۔


زوریز بولتا ہوا رکا اور پھر مزید بولا۔۔۔۔


ارقم مجھے ڈر ہے کہ کہیں کسی گینگ وغیرہ نے نہ انھیں پکڑ لیا ہو تم جانتے ہو نہ آج کل کتنا یہ سب کچھ عام ہے اور وہ تھی بھی اکیلی حیدر کے ساتھ۔۔۔


بس ۔۔۔۔ میں یہ فضول باتیں سننا بھی نہیں چاہتا تم ان کو ڈھونڈنے کی کوشش جاری رکھو مجھے امید ہے تم کامیاب ہو جاؤ گے ۔۔۔۔۔


ارقم زوریز کی بات سن کر ضبط سے بولا ورنہ اس کا دل کر رہا تھا کہ ہاشم کو جاکر شوٹ کردے جس نے ایک بھی مرتبہ انھیں گھر ست نکالتے یہ نہ سوچا کہ وہ کہاں جائیں گے ۔۔۔۔۔


تم فکر مت کرو میں نے اپنے جاننے والے لوگوں سے کہا ہوا ہے جیسے ہی ان کی خبر ملے گی میں سب سے پہلے تمھیں ہی بتاؤ گا۔۔۔۔


زوریز اس کا سرخ چہرہ دیکھتے ہوئے بولا


ہممم ۔۔۔ ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں بعد میں ملاقات ہوتی ہے جیسے ہی ان کے بارے میں کوئی بھی خبر ملے تم فورا مجھے بتاؤ گے


ارقم کرسی سے اٹھتا ہوا بولا تو زوریز نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا سر ہلایا ۔۔۔۔۔


ماضی :


ہاشم حورالعین اور حیدر کے ساتھ تین ماہ بعد ایک چکر حویلی لگا آتا تھا اس کی ملاقات وہاں علیشبہ اور ارقم سے ہوتی تو ان کے ساتھ بھی وہ اچھا وقت گزار لیتا تھا


علیشبہ آہستہ آہستہ ہاشم کو پسند کرنے لگی اور اپنے احساسات کے بارے میں وہ اپنی ایک ڈائری میں لکھنے لگی مگر ہاشم تو اسے بس اپنی کزن سمجھ کر ہی تھوڑی بات کر لیتا تھا جس سے وہ خوش ہو جایا کرتی تھی


اسی طرح تین سال گزر گئے تھے ہاشم ایک دفعہ ایک پارٹی میں گیا تو وہاں اس کی ملاقات حمنا سے ہوئی حمنا کونے میں کھڑی تھی جب ہاشم نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تھا اسے وہ پہلی ہی نظر میں پسند آگئی تھی


اس ملاقات کے بعد اکثر جگہوں پر اس کا ٹکراؤ حمنا سے ہونے لگا پہلے دوستی ہوئی اور اس کے بعد کب محبت ہوئی اسے پتا نہ چلا


پھر اس نے چھ ماہ بعد حمنا کو شادی کے لیے پرپوز کیا جو اس نے اسی وقت قبول کر لیا تھا


ہاشم نے سب سے پہلے فون کر کے حویلی میں احد صاحب کو اطلاع دی اس بارے میں اور پھر حور کو بتایا کہ وہ جلد ہی شادی کرنے لگا۔۔۔۔

احد صاحب ہاشم کی بات سن کر تھوڑا افسردہ ہوگئے انھوں نے علیشبہ کے لیے ہاشم کو ہی سوچ رکھا تھا

جب احد صاحب کمرے میں بیٹھے رمنا بیگم کو یہ بتا رہے تو کمرے کے باہر سے گزرتی علیشبہ نے ساری بات سن لی

ان گزرے ماہ و سال میں وہ ہاشم سے محبت کرنے لگی تھی مگر اسے کیا پتا تھا کہ وہ اس کا نصیب نہیں تھا اس دن وہ اپنے کمرے میں رہ کر بے حد روئی اور اس نے اپنی ڈائری کے آخری صفحے پر اس محبت کا اختتام لکھ کر ڈائری اپنی الماری میں موجود ایک ڈبے کے اندر رکھ دی۔۔۔۔۔

ہاشم نے احد صاحب سے کہہ کر حمنا کے والدین سے بات کر کے دو ماہ کے دوران ہی شادی کر لی

ہاشم شادی کے بعد بے حد خوش رہنے لگا اور اب اپنا زیادہ سے زیادہ وقت بھی وہ حمنا کے ساتھ گزارتا حور اور حیدر کو تو وہ جیسے بھول ہی گیا تھا جب وقت ملتا تو ان سے بات کر لیتا ورنہ ہاشم نے انھیں ان کے حال پر چھوڑ رکھا تھا

علیشبہ ہاشم کی شادی کے بعد خاموش ہی رہنے لگی لیکن کیوں یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔

ہاشم کی شادی کے ایک سال بعد جب علیشبہ نے انٹر پاس کر لیا تو اگے پڑھائی کرنے سے انکار کر دیا انھی دنوں میں اس کے لیے دوسرے گاؤں کے سرادار کے بیٹے کا رشتہ آیا جو ان سب کو پسند آیا اور علیشبہ کی رضامندی سے اس کی شادی عمر سے طے پا گئ

احد صاحب کے کہنے پر ہاشم نے حور اور حیدر کو پہلے ہی گاؤں بھجوا دیا تھا اور خود شادی سے ایک دن پہلے حمنا کے ساتھ گاؤں آیا

علیشبہ کی مہندی تھی جب رمنا بیگم نے حمنا سے علیشبہ کے کمرے میں موجود الماری سے سرخ دوپٹہ لانے کا کہا جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی

حمنا نے الماری کھول کر جیسے ہی دوپٹہ نکالا تو اس کے نیچے موجود کپڑوں میں سے ایک ڈائری گری اس نے ویسے ہی وہ اٹھا کر کھولی اور پہلا صفحہ ہی پڑھا تو اس کے تن بدن میں شرارے سے دوڑنے لگے علیشبہ کی ہاشم کے بارے میں محبت جان کر وہ اس سے بلا شبہ زیادہ خوبصورت تھی مگر حمنا نے خود کو زیادہ مینٹین کیا ہوا تھا جس سے وہ خوبصورت دکھتی تھی

اس نے غصے میں جا کر سب کے سامنے علیشبہ کے کردار پر الزام لگانا شروع کیے اور اسے بدکردار اور پتا نہیں کیا کہنے لگی ارد گرد لوگوں کو اکٹھے ہوتے دیکھ ہاشم حمنا کے پاس آیا اور اس سے وجہ پوچھی تو اس نے سب کے سامنے علیشبہ کے سامنے اس کی ڈائری پھینکی جبکہ ڈائری دیکھ کر ہاشم نے ایک ناگورا نظر علیشبہ پر ڈالی جو مہندی کی دلہن بنی آنسو بہارہی تھی اس نے تو کبھی ایسا نہ سوچا تھا

حمنا اسے برا بھلا کہہ کر جب خاموش ہوئی تو دوسرے گاؤں سے شگن کی چیزیں دینے آیا لڑکے کے بھائی نے سب سن کر اپنے گھر والوں کو اطلاع دی تو انھوں نے ساتھ ہی رشتہ ختم کرنے کا کہا

احد صاحب نے غصے میں ہاشم اور حمنا کو حویلی سے بے دخل کر دیا جبکہ ساتھ ہی حور اور حیدر کو بھی ہاشم کے ساتھ بھیج دیا

یہ بات پورے گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی ارقم کو بھی ہاشم اور اس کی بیوی سے بے حد نفرت محسوس ہوئی وہ تو موقع پر ہی حمنا کو قتل کر دیتا جس نے اس کی بہن پر گھٹیا الزام لگائے تھے مگر اسے احد صاحب نے روک دیا تھا

اس واقعہ کے بعد علیشبہ اپنے کمرے میں بند ہوگئی۔۔۔۔۔

حال :

شاہزین نے اپنے کمرے سے انیکسی میں حور کے کمرے کی لائٹ جلتی دیکھی تو اسے دیکھنے کے لیے انیکسی کی طرف جانے لگا۔۔۔

اس نے حور کے کمرے کے قریب جا کر آہستہ سے کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکا تو اسے حور کہیں دکھائی نہ دی وہ واپس جانے کے لیے مڑنے لگا کہ اسے حور واشروم سے نکلتے ہوئے دکھائی دی

وہ اسے دیکھ کر اپنی جگہ ساکت رہ گیا وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی میک اپ دھونے کے بعد اس کا اصل سفید رنگ دکھائی دے رہا تھا شاہزین نے اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا تو سبز رنگ کی آنکھیں دیکھ کر اس کا دل زور سے دھڑکا

اس کا شک یقین میں بدل گیا تھا اسے تنگ کرنے کا ارادہ اب اس کا اور پختہ ہوگیا تھا جسے سوچ کر اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ آہستہ سے کھڑکی سے ہٹ کر گھر کے اندر چلا گیا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


عینی کچن میں کھڑی ناشتہ کر رہی تھی جب رزیہ کچن میں داخل ہوئی اور اسے آکر بولی۔۔۔


عینی شاہزین سر کہہ رہے تھے کہ تمھیں کہوں کہ ان کے کمرے میں کافی بنا کر دے جاؤ۔۔۔۔


عینی جو نوالہ منہ میں ڈال رہی تھی وہ رزیہ کی بات سن کر حلق میں ہی پھنس گیا اور وہ زور زور سے کھانسنا شروع ہوگئی


عینی نے جلدی سے اپنے سامنے پڑے گلاس کو اٹھا کر منہ سے لگایا جب کھانسی روکی تو رزیہ کو خود کو دیکھتے پا کر وہ سنبھل کر بولی۔۔۔


ٹھیک ہے میں بنا دیتی آپ پلیز سر کے کمرے میں دے آئیے گا۔۔


بلکل بھی نہیں شاہزین سر نے کہا ہے کہ اسے کہنا وہ خود دے کر جائے۔۔۔۔


رزیہ اس کی بات سن کر جھٹ سے بولی تو عینی نے گہرا سانس لے کر اپنا سر ہلایا اور جلدی سے ناشتہ ختم کرکے شاہزین کے لیے کافی بنانے لگی۔۔۔۔۔


وہ ہمت کرتے ہوئے شاہزین کے کمرے کا دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی اور اسے نہ پاکر جلدی سے کافی میز پر رکھ کر جانے لگی جب اسے شاہزین کی آواز بالکنی سے سنائی دی


حور مجھے ادھر کافی پکڑا کر جاؤ۔۔۔۔۔


وہ شاہزین کو کافی پکڑانے کے لیے بالکونی میں گئی اور اسے کافی پکڑانے کے لیے اپنا کافی والا ہاتھ آگے کیا تو شاہزین نے پہلے عینی کو ایک نظر اوپر سے نیچے تک دیکھا تو عینی کو اس پر شدید غصہ آیا


شاہزین نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کافی کا مگ پکڑنے کی بجائے اس کا ہاتھ پکڑلیا جب کہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ موجود تھی


عینی نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت میں دیکھا تو اپنے ہاتھ میں موجود کافی کا مگ چھوڑ دیا جس سے گرم کافی شاہزین کے چپل میں موجود پیروں پر گری اور ساتھ ہی تھوڑی کافی عینی کے پاؤں پر بھی گری


آہ۔۔۔۔


شاہزین نے اپنے پیروں پر کافی گرنے کی وجہ سے جلن محسوس کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت ہلکی کی تو عینی نے اس کو دھکا دے کر اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالا اور جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔


اب دیکھنا میں تمھارا کیا حشر کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ رہتی تو تم میرے ہی گھر میں ہونا اب مجھ سے تم بچ کر دکھانا


جبکہ اپنے پیچھے شاہزین کی غصے سے بھرپور آواز سن کر وہ ڈر گئی تھی۔۔۔۔


شاہزین جلدی سے واشروم میں گیا اور اپنے پیروں پر پانی گرایا جو سرخ ہوچکے تھے۔۔۔اور اب تو جیسے اس پر عینی کی زندگی حرام کرنا فرض ہو گیا تھا۔۔۔۔۔


علیشبہ بیڈ پر بیٹھی آج پھر اپنی سوچوں میں گم تھی گھر والوں کے سامنے تو وہ بلکل ٹھیک تھی مگر وہ اس واقعہ کے بعد اندر سے ٹوٹ چکی تھی


جب ہاشم اس کے حق میں لفظ بھی نہ بولا تو اسے اس وقت ہاشم سے محبت پر خود سے بے حد نفرت محسوس ہوئی جو اپنی بیوی کو چپ نہیں کروا سکا


کتنی سبکی محسوس ہوئی تھی اس کے باپ کو مگر انھوں نے اسے کچھ بھی نہیں لیکن اسے چپ ہوئے کہ عالی سے کم ہی بات کرتے اور وہ خود بھی کمرے میں بند رہتی تھی تاکہ اپنے باپ کی نظروں میں خود کے لیے نفرت نہ دیکھ سکے


مگر احد صاحب نے تو کبھی اس سے نفرت کی ہی نہیں تھی وہ تو بس اس واقعہ کے بعد عالی کا سوچ کر خاموش ہوگئے تھے رمنا بیگم اور ارقم نے اس عرصے کے دوران اس کا بہت ساتھ دیا تھا اور سب سے بڑی بات اسے کسی چیز کا طعنہ نہیں دیا تھا


اس واقعہ کے بعد اس نے وہ ڈائری کا ایک ایک صفحہ خود اپنے ہاتھوں سے جلایا تھا تاکہ ہاشم کے لیے اپنے دل میں موجود محبت ختم کرسکے مگر ضروری تو نہیں جیسا ہم چاہیں ویسے ہو جائے


وہ خود بھی جانتی تھی کہ کچی عمر کی محبت جلدی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اور اس کی محبت تو تھی بھی بے لوث و خالص۔۔۔۔۔۔


عینی شاہزین کے کمرے سے نکل کر سیدھا کچن میں آئی ابھی وہ اپنے پیر کو دیکھ رہی تھی جہاں اسے جلن ہورہی تھی کہ اسے شاہزین کی آواز سنائی دی جس سے اس کے دل کی دھڑکن ڈر سے تیز ہوگئی تھی


شاہزین اپنے پیروں پر پانی گرا کر اپنے کمرے سے باہر نکل کر ریلنگ پر کھڑے ہو کر نیچے والے فلور پر جھانکتے ہوئے اونچی اونچی آواز میں سحر بیگم کو پکارنے لگا۔۔۔۔۔۔


موم ۔۔۔۔


موم۔۔۔۔


اس کی آواز سن کر سحر بیگم اپنے کمرے سے باہر آئیں اور شاہزین کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔


کیا ہوا ہے شاہزین کیوں پکار رہے ہو ؟


آپ کو پتا ہے وہ مہارانی حور میرے کمرے میں کافی گرا کر غائب ہوگئی ہے آپ جانتی ہے مجھے گندے کمرے سے سخت نفرت ہے اسے میرا کمرہ صاف کرنے کے لیے فوری بھیجیں۔۔۔۔۔


شاہزین کی بات سن کر سحر بیگم بولیں ۔۔۔۔


تو تم سیدھا اسے ہی بولا لیتے مجھے بلانا ضروری تھا ۔۔۔۔


جی کیونکہ میں چاہتا ہوں آپ اسے سبق سکھا کر میرے کمرے میں بھیجیں تاکہ آئندہ وہ غلطی نہ کرے ۔۔۔۔


شاہزین کی بات سن کر سحر بیگم عینی کو آوازیں دینے لگی


حور ۔۔۔۔فورا باہر آؤ


عینی جو کچن میں کھڑی ان کی باتیں سن کر ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی سحر بیگم کی غصے سے بھری آواز سن کر اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کانپتے ہوئے باہر آئی


ادھر میرے سامنے آکر کھڑی ہو۔۔۔۔۔


سحر بیگم نے اسے اپنے سامنے کھڑے ہونے کا کہا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے پاس گئی


چٹاخ۔۔۔۔۔


عینی جیسے ہی سحر بیگم کے سامنے کھڑی ہوئی سحر بیگم نے اسے زور سے تھپڑ مارا ۔۔۔۔۔۔جس سے اس کا دماغ ایک پل کو سن ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا عینی نے اپنے سرخ گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھندلی نظروں سے سحر بیگم کو دیکھا جو غصے سے بول رہی تھی۔۔۔


ایک کام تم سے ڈھنگ سے نہیں ہوتا کیا کر کے آئی ہو شاہزین کے کمرے میں اور پھر بجائے اس کا کمرہ صاف کرنے کے تم یہاں آرام فرما رہی ہو اس سے پہلے میں تمھارا منہ تھپڑوں سے سرخ کرو فورا شاہزین کے کمرے کی صفائی کرو جا کر دفعہ ہوجاؤ اب


عینی ان کی بات سن کر جلدی سے صفائی کا سامان لینے چلے گئی جبکہ شاہزین اوپر کھڑا اس کو تھپڑ پڑتے دیکھ نجانے کیوں بے چین ہوگیا تھا جبکہ اس نے تو اسی وجہ سے سحر بیگم سے کہا تھا وہ اپنا سر جھٹک کر حور کی سزا کے بارے میں سوچنے لگا


شاہزین نے کمرے میں آکر بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ کی ڈبی اٹھائی اور اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر ڈبی کو واپس رکھا اور لائٹر سے اسے سلگا کر وہ بیڈ پر بیٹھ کر سیگریٹ پینے لگا


عینی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے سڑھیاں چڑھ کر شاہزین کے کمرے کی طرف گئی اور اس کے کمرے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے ڈرتے ڈرتے ہوئے دروازہ ناک کیا اسے اندر سے شاہزین کی آواز سنائی دی تو وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور شاہزین کو دیکھے بغیر بالکونی کی طرف بڑھ گئی


شاہزین کی نظروں نے اس کا بالکونی تک پیچھا کیا وہ سگریٹ کے کش لیتا ہوا مسلسل عینی کو ہی گھور رہا تھا جو صفائی کر رہی تھی


عینی اس کی نظریں محسوس کرتی اپنے ہاتھ جلدی جلدی چلانے لگی جبکہ شاہزین کے ساتھ اکیلے میں سوچ کر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس نے جلدی سے ٹوٹے ہوئے مگ کے ٹکرے اٹھا کر فرش صاف کیا اور باہر جانے لگی تو شاہزین نے اسے چپ چاپ جانے دیا یہ سوچ کر کے وہ بعد میں اس سے بدلہ لے گا۔۔۔۔


ہاشم گھر آفس سے گھر واپس آیا تو حمنا کو تیار دیکھا تو اس کے ماتھے کی تیوری چڑھ گئ۔۔۔۔


اس نے اپنی ٹائی ڈھیلی کرکے حمنا سے پوچھا جو اب جیولری پہن رہی تھی


کہاں جارہی ہو ؟۔۔۔۔


میری ایک دوست کی برتھ ڈے پارٹی ہے وہاں جا رہی ہوں تم اس وقت تھکے یوئے ہوتے ہو اس وجہ سے میں نے پوچھا نہیں اگر پوچھ بھی لیتی تو تم نے انکار ہی کرنا تھا۔۔۔۔

حمنا اس کا سوال سن کر جلدی سے تفصیل سے بولی

اس کی بات سن کر ہاشم کے ماتھے پر مزید لکریں نمودار ہوئی اور وہ حمنا سے سرد آواز میں بولا

تم اس وقت کہیں نہیں جارہی جاکر اپنے کپڑے بدلو اور میرے لیے ڈنر لگواؤ

میں میڈ سے کہہ دیتی ہو وہ ڈنر لگا دیتی ہو اور میں ضرور جاؤ گی اتنی محنت سے میں تیار ہوئی ہوں اور تمھارے خراب موڈ کی وجہ سے میں اپنی نائٹ کم از کم سپوئل نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔

حمنا جواباً ہاشم سے بولی تو وہ جو صوفے ہر بیٹھا تھا غصے سے اٹھ کر اس کے پاس آیا اور اس کے بازو سے پکڑ کر اس رخ اپنی طرف کیا اور غصے سے دھاڑا۔۔۔۔

میری بات مزاق میں لینے کی کوشش بھی مت کرنا اور چپ چاپ جا کر کپڑے بدلو اگر آئندہ کے بعد میری بات نہ مانی تو میں تمھارا جو حال کروں گا وہ تم سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔ اور سب سے ضروری بات آئندہ تم میری اجازت کے بغیر گھر سے نکلنے کی کوشش بھی مت کرنا ابھی صرف تم نے میری اچھائی دیکھی مجھے تم پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوگی اور اب واشروم میں دفعہ ہو جاؤ اس سے پہلے کے میں مزید تمھیں کچھ کردوں۔۔۔۔

حمنا اس کے غصے سے بھری آواز اور اس کی فولادی گرفت اپنے بازو ہر محسوس کرکے اس سے ڈر گئی جب ہاشم نے بات مکمل کرکے اسے واشروم کی جانب دکھا دیا تو وہ جلدی سے واشروم میں چلی گئی

شام کے وقت شاہزین اپنے دوستوں کے ساتھ چلا گیا تو عینی پرسکون ہوگئی وہ رزیہ کے ساتھ کام کروانے کے بعد انیکسی میں اپنے کمرے میں چلی گئی اس نے اپنی آنکھوں سے لینز اتارے اور شاور لینے چلی گئی

وہ شاور لے کر آئی اور اپنے بالوں کو سکھانے لگی اس نے خود کو شیشے میں دیکھا تو اس کی آنکھیں رونے اور لینز کی وجہ سے سرخ ہوئی پڑی تھیں

اس نے اپنے ہاتھ سے اس گال کو چھوا جو سحر بیگم کے تھپڑ کی وجہ سے ہلکا سا سوجا ہوا تھا

وہ آج کے دن کے بارے میں سوچتے ہوئے سونے کے لیے لیٹ گئی

شاہزین اپنے دوستوں کے ساتھ گھوم پھر کر واپس گھر آیا تو اس کا دھیان انیکسی کی طرف گیا کچھ سوچ کر وہ عینی کے کمرے کی طرف چل دیا

چونکہ کمرے کا دروازہ بند تھا وہ کمرے کی کھڑکی کی طرف گیا اور اسے کھولنے کے لیے کوشش کرنے لگا تو کھڑکی کا لاک کھولا ہوا ہی تھا بس کھڑکی ویسے ہی بند تھی

کھڑکی کو کھول کر وہ اندر داخل ہوا تو حور کو سوتے پاکر وہ آہستہ سے بیڈ کی جانب بڑھ گیا اور اپنے موبائل کی لائٹ جلا کر سامنے دیوار کی طرف اس کا رخ کیا تو کمرے میں تھوڑا اندھیرا کم ہوا اور اسے عینی کی صورت دکھائی دی

اس نے عینی کو دیکھتے ہوئے بےخودی کی کیفیت میں ہاتھ اس کے چہرے کی طرف بڑھایا اور اس کے چہرے کے نقوش کو ہلکا ہلکا چھونے لگا

عینی گہری نیند میں تھی جب اسے لگا کہ کوئی اسے چھو رہا ہے ۔۔۔۔۔

شاہزین نے جب عینی کو ہلتے دیکھا تو جلدی سے اپنا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹالیا اور اس کے کان کے قریب جھک کر دھیمی آواز میں بولا۔۔۔۔۔

تم بہت خوبصورت ہو۔۔۔اور جلد ہی تم میری بیوی بنوگی پھر میں تمھارا جینا حرام کروں گا ۔۔۔۔۔

وہ شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر ایسے بولا جیسے عینی سب سن رہی ہو مگر وہ تو خوابوں کی دنیا میں گم تھی

وہ اہستہ سے اس کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔۔

شفق کینٹین میں عیشبہ کے ساتھ بیٹھی چپس کھا رہی تھی جب اسے سامنے سے ارقم کسی لڑکی سے مسکرا کر بات کرتا ہوا نظر آیا وہ جو بڑے مزے سے چپس کھا رہی تھی اسے لڑکی کے ساتھ دیکھ کر اس حلق تر کڑوا ہو گیا


اس نے اپنی نظروں کا رخ اپنے سامنے بیٹھی علیشبہ کی طرف کیا جو اس سے کچھ کہہ رہی تھی


سوری۔۔۔۔ عالی میں نے سنا نہیں تم کیا کہہ رہی تھی


میں کہہ رہی تھی کہ کل جو اسائنمنٹ جمع کروانی ہے تم نے وہ بنا لی یا ابھی بنانی ہے۔۔۔۔


علیشبہ نے جوس پیتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔۔


ہاں میں نے بنالی ہے بس آخر سے تھوڑی رہتی ہے۔۔۔۔۔


شفق نے ایک نظر ارقم کو دیکھ کر عالی سے کہا جو اب اس لڑکی کے ساتھ اس سے کچھ دور ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا


پیچھے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔۔


عالی پیچھے دیکھتے ہوئے بولی تو شفق ایک پل کو گڑبڑا گئی اور عالی کے پیچھے دیکھنے سے پہلے ہی بول پڑی ۔۔۔


کچھ نہیں ویسے ہی دیکھ رہی تھی تم بتاؤ تم نے اسائنمنٹ بنا لی۔۔۔۔۔


شفی ابھی بتایا تو ہے بنالی ہے۔۔۔۔۔


عالی کی بات سن کر وہ کچھ بولنے لگی کہ ارقم کو اپنے ٹیبل کی طرف آتا دیکھ اس نے اپنا بیگ کندھے پر ڈالا اور ارقم کے علیشبہ کے پاس پہنچتے ہی وہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔


عالی مجھے یاد آیا سر معظم نے مجھے بلایا تھا میں ان کی بات سن کر آتی ہوں۔۔۔۔


عالی نے حیران نظروں سے شفق کو دیکھا کیونکہ وہ پورا وقت شفق کے ساتھ ہی تھی اسے نہیں پتا چلا کہ کسی سر نے اسے بلایا بھی تھا مگر اپنے پیچھے ارقم کو دیکھ کر وہ کچھ کچھ بات سمجھ چکی تھی


ارقم جو عالی سے بات کرنے آیا تھا اس کے اچانک اٹھنے پر اس نے شفق کو ایک نظر دیکھا جو اپنی بات کرکے جاچکی تھی


عالی میں اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ میں جارہا ہوں میرے اگلے لیکچر فری ہیں جب تم فری ہوگی مجھے میسج کر دینا میں تمھیں لینے آجاؤں گا۔۔۔۔۔


اوکے بھائی میں میسج کردوں گی ۔۔۔۔ عالی بھی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی


ارقم اسے بتا کر اپنے دوستوں سے ملنے کینٹین سے باہر چلا گیا جہاں اس کے دوست کھڑے انتظار کر رہے تھے۔۔۔


عینی آج سحر بیگم سے اجازت لے کر ہادی سے ملنے جارہی تھی اس کی ٹیچر کا فون آیا تھا کہ اسے بخار ہے وہ پریشان سی گھر سے نکلی اور ہادی کے ہاسٹل اس سے ملنے چلی گئی جبکہ ہادی کی فکر سے اس کی خود کی حالت بھی خراب ہو رہی تھی


وہ ایسی ہی تھی ہادی جب بھی بیمار ہوتا تو اس کی فکر سے اس کی خود کی بھی حالت خراب ہوجاتی تھی وہ ہادی سے بے پناہ محبت کرتی آخر کیوں نہ کرتی وہ محبت ہادی نے سارا بچپن اس کے ساتھ ہی گزارا تھا اس نے اسے بہن نہیں ماں بن کر پالا تھا وہ چھوٹا سا تھا جب ان کے والدین کی وفات ہوئی شاید اسے وہ لوگ یاد بھی سہی طرح نہیں رہتے اگر عینی اسے دورید صاحب اور ردا بیگم کی تصویریں نہ دکھاتی رہتی ۔۔۔۔


ہاسٹل کے باہر پہنچ کر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور اندر داخل ہوئی اور ہادی کے کمرے میں گئی وہ نڈھال سابیڈ پر لیٹا ہوا تھا اس کا رنگ بھی سرخ ہوا پڑا تھا


وہ تیزی سے اس کے قریب گئی اور اس کے سر کو چوما پھر ہاتھ سے اس کا بخار چیک کیا اس کا ماتھا بخار کی شدت سے جل رہا تھا۔۔۔۔


ہادی نے اپنی تھوڑی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔


عینی اپی میں اپ کو ہی یاد کر رہا تھا۔۔۔۔


اس کی کمزور سی آواز سن کر اس کی آنکھ سے ایک آنسو گرا ۔۔۔۔۔


ہادی میری جان آپی بھی تمھیں بہت یاد کر رہی تھی اور چلو شاباش اٹھو ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔۔۔


اپی۔۔۔۔۔ میری اٹھنے میں مدد کریں۔۔۔۔۔


ہادی نے اپنی باہیں پھیلا کر کہا تو اس نے جلدی سے اسے اپنے ساتھ لگاتے سہارا دے کر کھڑا کیا اور باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔


رکشے میں بیٹھ کر اس نے قریبی کسی ہوسپٹل یا کلینک میں اسے لے جانے کا کہا جبکہ ہادی اس کے کندھے پر سر رکھے آنکھیں موندے بیٹھا تھا اور عینی نے اس کے گرد اپنا بازو پھیلایا ہوا تھا


قریبی سرکاری ہسپتال کے قریب رک کر اس نے ہادی کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے رکشے سے اتارا اور اسے اندر لے گئی


ڈاکٹر سے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ ہادی کو ایک سو سے اوپر بخار تھا وہ جانتی تھی کہ ہادی کو اتنا ہی بخار ہو گا اس کا ماتھا جو تپ رہا تھا


ڈاکٹر نے اسے دوائیں لکھ کر دیں تو اس نے ایک نرس سے کو پیسے دے کر دوائیں منگوائی اور اس کے ہاسٹل کال کرکے بتایا کہ وہ ہادی کو اپنے ساتھ لے جارہی ہے۔۔۔۔۔


وہ ہادی کو اپنے ساتھ گھر لے گئی اور اسے انیکسی میں موجود اپنے کمرے میں لے گئی عینی مے اسے لیٹنے کا کہا اور جلد سے کچن سے جا کر ہادی کے لیے جو راستے سے بیسکٹ اور دودھ وغیرہ لائی تھی اسے برتنوں میں ڈال کر نیم گرم کیا جبکہ رزیہ بھی کچن میں ہی تھی


عینی دودھ گرم کر کے ہادی کے پاس لائی اور اسے اٹھاتے ہوئے بیسکٹ دودھ میں ڈبو کر کھلانے لگی بیسکٹ کھلانے کے بعد اس نے ہادی کو دوائی دی اور باقی دودھ پلا کر برتن سائیڈ پر رکھ کر اسے لیٹا کر اس کے چہرے سے بال ہٹا کر سر پر بوسہ دیا اور جلدی سے کچن سے ٹھنڈا پانی لے کر آئی اور تھوڑی دیر اس کی پٹیاں کی جب اسے لگا کہ ہادی کا بخار ہلکا ہوگیا ہے تو وہ اس کے قریب سے اٹھی جو سویا ہوا تھا اور باہر سحر بیگم کے کپڑے استری کرنے چلی گئی جو انھوں نے اسے شام تک کر کے دینے کو کہا تھا۔۔۔۔۔


وہ کپڑے استری کر کے دو گھنٹے بعد فارغ ہوئی اور ہادی کو ایک نظر کمرے میں دیکھنے گئی وہ ہر آدھے گھنٹے بعد ہادی کو ایک نظر دیکھنے جاتی تھی کہ کہیں وہ اٹھ نہ گیا ہو یا اسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہو۔۔۔۔


ہادی کو دیکھ کر وہ رزیہ کے پاس گئی جس نے اسے شاہزین کے کمرے میں کباب اور کافی دینے جانے کا کہا تو وہ پہلے انکار کرنے لگی مگر رزیہ کو خود کو گھورتے پا کر وہ جلدی سے ٹرے پکڑ کر شاہزین کے کمرے کی جانب چل دی جب کہ صبح کی بھاگ دوڑ سے اب اسے تھکاوٹ ہونے لگی تھی


وہ دل میں بس یہی دعا کر رہی تھی کہ شاہزین کمرے میں نہ ہو ۔۔۔۔وہ کمرے کا دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوئی تو شاہزین کو صوفے پر بیٹھا دیکھ کر اس کا دل حلق کو آگیا وہ اپنے خشک ہونٹوں کو زبان سے تر کرتی اندر داخل ہوئی اور ٹرے اس کے سامنے ٹیبل پر رکھی


شاہزین نے اسے آتا دیکھ اپنے دوست کو میسج کر کے موبائل میز پر رکھا اور اس کی طرف دیکھا جو نظریں زمین پر جھکا کر اس کی طرف دیکھے بنا ٹرے رکھے واپس جانے کے لیے مڑنے لگی کہ شاہزین نے تیزی سے اٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔


اسے ہاتھ پکڑتا دیکھ عینی ڈر گئی اور اس سے ہاتھ چھوڑا نے کے لیے دوسرے ہاتھ سے اس کے کندھے پر مکے مارنے لگی


شاہزین نےاس کی ناکام کوشش دیکھی تو ہلکا سا قہقہہ لگایا


تم کبھی بھی میری گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتی۔۔۔۔جلد ہی میں تمھیں اپنے پاس قید کرلوں گا اور تمھیں کہیں نہیں جانے دو گا سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔


شاہزین کی بات سن کر عینی نے اپنی خوف سے پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھا اور رندھی ہوئی آواز میں منمنائی۔۔۔


پ۔۔۔پلیز ج۔۔۔۔جانے دیں۔۔۔۔۔م۔۔۔میرا ہ۔۔۔ہاتھ چھوڑ دیں۔۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ۔۔۔۔۔م۔۔۔میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ۔۔۔۔


شاہزین نے اس کی کانپتی آواز سن کر اس کا ہاتھ چھوڑنے کی بجائے اس پر گرفت اور مضبوط کر دی۔۔۔۔۔


کبھی سوچنا بھی مت کہ شاہزین تمھیں جانے دے گا اور یہ ہاتھ میں جلد ہی ہمیشہ کے لیے تھام لوں گا


اس کے ہاتھ کو آخری بار دبا کر چھوڑتا وہ واپس صوفے پر آکر بیٹھا۔۔۔۔


عینی اس کی بات کا مطلب سمجھے بنا اس کی گرفت سے رہائی پاتے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔


شفق یونیورسٹی سے آئی تو اس کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا بار بار سامنے ارقم اور اس لڑکی کی تصویر آرہی تھی جس کے ساتھ ارقم مسکرا رہا تھا


پتا نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے میرے سامنے تو کبھی ہلکا سا بھی نہیں مسکرایا بس ہر وقت منہ میں انگارے ہی چبائے پھیرتا ہے ۔۔۔۔۔اور دوسروں کے ساتھ کیسے مسکرا مسکرا کر بات کر رہا تھا ۔۔۔۔۔


شفق اپنے سامنے نوٹس رکھے ارقم کو برا بھلا کہہ رہی تھی وہ ارقم کے خیالات کو جھٹک کر دوبارہ اپنے نوٹس کی طرف متوجہ ہونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی آخر تھک ہار کر وہ نوٹس بند کرکے اٹھی اور باہر لان میں چلے گئی مگر جاتے ہوئے رزیہ سے چائے کا کہنا نہیں بھولی۔۔۔۔


ہادی کب سے جاگ کر عینی کا انتظار کر رہا تھا اس کا بخار اب تقریباً اتر ہی گیا تھا آخر انتظار کرنے کے بعد تنگ آکر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور انیکسی کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا کہ اسی وقت عینی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور اسے اٹھتے دیکھ کر اس کے قریب آئی۔۔۔۔


ہادی میری جان اب کیسا محسوس کر رہے ہو۔۔۔۔


عینی اپی اب میں ٹھیک ہوں بس تھوڑی دیر کے لیے باہر گارڈن میں جانا چاہتا ہوں


وہ معصومیت سے بولا تو عینی نے اسے بےبسی سے جواب دیا


ہادی آپ کو بخار ہے نہ آپ شاباش لیٹ کر آرام کرو۔۔۔۔


نہیں اپی مجھے باہر جانا۔۔۔۔۔


ہادی ضد سے بولا

اچھا ٹھیک ہے لیکن تم انیکسی کے سامنے ہی رہو گے پورے گارڈن میں نہیں گھومو گے اور اگر کوئی کچھ کہے تو فورا واپس کمرے میں آجانا میں بس تمھیں دیکھنے آئی تھی مجھے ابھی واپس کام کرنے اندر جانا ہے۔۔۔۔

عینی ہادی کے بال اس کے ماتھے سے پیچھے کر کے اپنے ہاتھ سے اس کا درجہ حرارت چیک کیا اور ہلکے سے اس کے ماتھے کو چوم کر بولی۔۔۔۔

اوکی اپی میں جلد ہی واپس آجاؤں گا ۔۔۔۔۔

ہادی بولتے ہی عینی کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر کی طرف سے کھنچتے ہوئے بولا عینی اس کے ساتھ چلتی ہوئی باہر آئی اور اسے لان میں چھوڑ کر واپس گھر کے اندر چلی گئی

شفق جو گھر کے گرد موجود سارے لان میں واک کر رہی تھی انیکسی کے سامنے ایک چھوٹے بچے کو بیٹھا دیکھ کر اس کے قریب آئی

ہادی گھاس پر بیٹھا اسے اپنے انگھوٹے سے ہلکا ہلکا خرچ رہا تھا کہ اپنے سامنے کسی لڑکی کو کھڑے دیکھ کر اس نے اپنی متجسس آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔

کون ہو تم ؟۔۔۔۔

شفق اس کے قریب بیٹھتے یوئے بولی ویسے بھی وہ اپنا دھیان ارقم سے ہٹانا چاہتی تھی اسی وجہ سے اس نے ہادی کا انٹرویو لینے کا سوچا۔۔۔۔۔

میں ۔۔۔۔۔اممم۔۔۔ میں ایک انسان ہوں۔۔۔۔

ہادی پہلے اپنی طرف اشارہ کر کے پھر سوچتے ہوئے شرارت سے بولا تو شفق نے اس کی بات سن کر ہلکا سا مسکرائی اور بولی۔۔۔۔

میرا مطلب تھا کہ نام کیا ہے تمھارا اور یہ پیارا بچہ ہمارے گھر کیا کر رہا ہے ؟

میرا نام حیدر یے لیکن پیار سے سب ہادی کہتے ہیں اور میں عینی اپی کے ساتھ آیا ہوں۔۔۔۔

ہادی نے اسے جواب دیا تو شفق نے حیرت سے اس گورے چٹے بچے کو دیکھا اور پھر ذہن میں سنولی سی حور کا چہرا آیا۔۔۔۔

کیا تم اس کے بھائی ہو ؟!۔۔۔۔

او ہو ابھی تو بتایا نہ کہ وہ میری اپی ہے اس کا مطلب یہی ہوا کہ میں ان کا بھائی ہوں

شفق کی بات سن کر اس نے ماتھے پر ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے سیانوں کی طرح بولا تو شفق اس کی یہ ادا دیکھ کر مسکرا اٹھی۔۔۔۔

اچھا تو تم یہ بتاؤ کہ آج تم یہاں کیا کر رہے ہو ہادی پہلے کہاں رہتے تھے؟!

میں پہلے ہوسٹل میں رہتا ہوں آج مجھے بخار تھا تو اپی اپنے ساتھ یہاں لے آئی اور آپ مجھ سے سوال پوچھے جا رہی ہیں اپنے بارے میں نہیں بتا رہیں کہ آپ کا کیا نام ہے۔۔۔۔۔

اچھا سہی تبھی تم آج یہاں موجود ہو اور میرا نام شفق ہے اور یہ میرا ہی گھر ہے۔۔۔۔

شفق نے مسکرا کر جواب دیا اور ہادی کے ساتھ بیٹھ کر مزید باتیں کرنے لگی پھر مغرب کی اذان پر اس کے قریب سے اٹھی اور اسے بھی واپس کمرے میں بھیج کر خود نماز ادا کرنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔

حمنا ہاشم کی پابندی سے تنگ آگئی تھی وہ گھومنے پھرنے کی عادی تھی گھر میں تو اس کا رہنے کو دل ہی نہیں کرتا تھا اس نے اپنی دوستوں کو نہ ملنے کا یہ بہانہ بنایا تھا کہ اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی


آج تیسرے دن مسلسل گھر رہنے کے بعد آخر وہ ہاشم کی غیر موجودگی میں اپنی ایک دوست سے ملنے چلے گئی


ہاشم جو اپنے آفس میں بیٹھا کوئی فائل دیکھ رہا تھا کہ اسے گھر کے نمبر سے کال آئی اس نے کال اٹھائی تو دوسری جانب سے ملازمہ نے اسے حمنا کہ گھر سے نکلنے کی خبر دی جسے سن کر اس نے غصے سے اپنے لب بھینچے اور اس کی بات سن کر کال بند کر دی ۔۔۔۔۔


اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے حمنا کو کال کی تو اس نے پہلے کال اٹھائی نہیں اور دوسری بار تو اس نے کال کاٹ کر فون ہی بند کر دیا تھا


ہاشم نے غصے سے پیپر ویٹ اٹھا کر پھینکا اور ابھی وہ اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جب اس کی سیکرٹری نے آکر اسے پندرہ منٹ بعد شروع ہونے والی میٹنگ کے بارے میں بتایا تو وہ غصہ کنٹرول کرتا فائل اٹھا کر میٹنگ روم کی جانب چل دیا


مگر دل ہی دل میں ہاشم حمنا کو سزا دینے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا۔۔۔۔۔


ہادی کی چونکہ طبیعت اب ٹھیک ہو چکی تھی تو عینی اسے دوبارہ ہاسٹل چھوڑ آئی تھی پہلے تو ہادی نہ جانے کی ضد کر رہا تھا مگر عینی اسے سمجھا کر چھوڑ ہی آئی


وہ ہادی کو چھوڑ کر آکر پر سکون سی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی تھی وہ کچن میں سبزی بنارہی تھی جب اسے سحر بیگم نے اپنے کمرے میں بلایا۔۔۔۔۔


وہ جلدی سے ان کے کمرے میں ناک کر کے داخل ہوئی اور سحر بیگم سے پوچھا


ج۔۔۔جی میم آپ نے بلایا۔۔


ہاں میں نے بلایا ہے یہ میرا سوٹ لو اور اسے اچھے سے استری کرکے لاؤ اور دھیان سے کرنا شام میں ایک پارٹی میں جانا ہے میں نے اگر کچھ بھی ڈریس کو ہوا تو تمھارا منہ توڑ دوں گی ۔۔۔۔


سحر بیگم اسے ایک سوٹ نکال کر پکڑاتی ہوئیں کرخت آواز میں بولیں۔۔۔۔


میم آپ فکر مت کریں میں احتیاط سے استری کر دوں گی۔۔۔۔


عینی نے سوٹ پکڑ کر کہا تو سحر بیگم نے ہنکار بھرا۔۔۔۔


عینی سوٹ پکڑ کر استری کرنے چلی گئی اور احتیاط سے استری کر کے واپس سحر بیگم کے کمرے میں رکھ آئی۔۔۔۔


شام کو شفق سحر بیگم اور تیمور صاحب ایک پارٹی میں چلے گئے وہ تیمور صاحب کے دوست کے بیٹے کی کامیابی میں دی گئی پارٹی تھی جس کی وجہ سے شاہزین ان کے ساتھ نہ گیا تھا کیونکہ وہ وہاں جاکر سب کی باتیں نہیں سننا نہیں چاہتا تھا


چونکہ شام کو کوئی کام نہ تھا تو عینی اپنے جو تھوڑے بہت کام تھے اسے کر کے اپنے کمرے میں آگئی جبکہ آج رزیہ بھی اپنے گاؤں گئی ہوئی تھی اور اس نے صبح واپس آنا تھا اس لیے وہ رزیہ کے کام کر کے بھی اب صرف آرام کرنے والی تھی۔۔۔۔


وہ اپنے کمرے کو لاک لگا کر شاور لینے گئی جب وہ شاور لے کر واپس کمرے میں آئی اور اپنے بالوں کو تولیے سے خشک کر رہی تھی تب اچانک سے دروازے پر دستک ہوئی تو وہ ڈر گئی لیکن اصل خوف تو اسے تب محسوس ہوا جب باہر سے شاہزین کی آواز سنائی دی۔۔۔۔


حور دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔


عینی نے جلدی سے خود پر دوپٹہ اوڑھا اور جلدی سے واشروم کے اندر جا کر دروازہ بند کر کے اس سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھ گئی جبکہ اپنی عزت و ناموس کو خطرہ میں پا کر وہ ڈر سے کانپ رہی تھی اسے مسلسل باہر سے شاہزین کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔۔۔


حور اگر تم باہر نہ آئی تو یاد رکھنا وہ تمھارا بھائی کیا نام ہے اس کا ہاں ۔۔۔۔ہادی وہ کس ہوسٹل میں ہے اور اب کیا کر رہا ہے مجھے سب پتا ہےاگر تم نہیں چاہتی کہ اسے کوئی نقصان پہنچے تو میرے دس گننے سے پہلے باہر آجاؤ۔۔۔


دس۔۔۔۔


نو۔۔۔۔


شاہزین سے ہادی کا ذکر سن کر وہ تڑپ کر اٹھتی اپنے آنسوؤں کو صاف کر کے کانپتے ہوئے باہر نکلی لیکن کمرے کا دروازہ ابھی بھی اس نے نہ کھولا تھا


پانچ ۔۔۔۔۔


چار ۔۔۔۔۔


یاد رکھنا اگر تم باہر نہ آئی تو اپنے بھائی کو کبھی دیکھ نہیں سکو گی۔۔۔۔۔


وہ ہادی کا ذکر سن کر کانپتی ٹانگوں سے دروازے کی جانب بڑھی جبکہ اس کی آنکھوں سے روانی سے آنسو بہہ رہے تھے


دو۔۔۔۔


عینی نے آہستہ سے دروازے کا لاک کھولا تو سامنے ہی شاہزین اپنی جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔۔۔


تمھیں خدا کا واسطہ ہے پلیز میرا پیچھا چھوڑ دو میں نے کیا بگاڑا ہے تمھارا جو تم مجھے یوں پر یشان کر دہے ہو۔۔۔


وہ روتے ہوئے شاہزین سے بولی تو شاہزین اس کی بات کو نظر انداز کر کے بولا۔۔۔۔


جاؤ جا کر ایک چادر سے خود کو ڈھک کر آؤ اور چادر سے اپنا منہ بھی چھپا کر آؤ۔۔۔۔


عینی نے اس کی بات سن کر نا سمجھی سے اسے دیکھا تو شاہزین مزید بولا۔۔۔۔


ہمارا نکاح ہے ابھی مولوی صاحب اور میرے کچھ دوست اندر موجو ہیں اور مجھے امید ہے تم انکار کرنے کی کوشش بھی نہیں کرو گی ورنہ۔۔۔۔


شاہزین کی بات سن کر وہ جو منع کرنے والی تھی آخر پر شاہزین کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے خاموشی سے اپنے آنسو صاف کر کے کمرے میں اپنے سامان سے چادر نکال کر اسے اچھی طرح اوڑھ کر اپنا منہ چھپا کر باہر نکلی جبکہ اس سب میں وہ یہ تو بھول ہی گئی تھی کہ وہ اپنے اصل رنگ و روپ میں اس کے سامنے موجود ہے۔۔۔


شاہزین عینی کو لے کر گھر کے اندر داخل ہوا جہاں اس کے کچھ دوست اور مولوی موجود تھا عینی کو اپنے ساتھ والے صوفے پر بیٹھا کر اس نے مولوی سے نکاح پڑھانے کا کہا تو عینی بے آواز رونے لگی کتنے ارمان تھے اس کے جو اس ستمگر نے نوچ ڈالے تھے۔۔۔۔۔۔


جب عینی سے نکاح پوچھا گیا تو اپنی بےبسی پر اس نے ماتم کناں ہوتے ہوئے کانپتی آواز میں " قبول ہے " کہا


نکاح کے ہوتے ہی شاہزین اپنے دوستوں سےگلے ملا اور انھیں چھوڑنے گیٹ تک گیا تو عینی جو کب سے خود پر قابو کرتے ہوئے بے آواز رو رہی تھی ہچکیوں سے رو پڑی۔۔۔


شاہزین واپس آیا تو اسے صوفے ہر بیٹھے روتے دیکھ کر وہ سگریٹ سلگا کر بولا۔۔۔۔۔۔


کوئی مرا نہیں جو تم یوں رو رہی ہو ۔۔۔۔ اور رونا بند کرو مجھے الجھن ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔ ویسے ایک بات بتاؤ کیسا لگ رہا ہے میری بیگم بن کر حورر۔۔۔۔۔


عینی اس کی بات سن خاموشی سے اپنے کام یعنی رونے میں مصروف رہی تو اس پر اپنی بات کا اثر ہوتے نہ دیکھ وہ اس کے قریب گیا اور چادر میں سے ہی اس کے بالوں کو پکڑ کر اس کا منہ اونچا کیا جس سے چادر اس کے منہ سے کھسک کر پیچھے ہوگئی تو اس کےچہرے کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔۔


میں نے ابھی شاید تم سے کچھ کہا تھا وہ سمجھ نہیں آیا تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔


شاہزین کی گرفت میں اپنے بالوں کو پاکر اور اس کی سنجیدہ آواز سن کر اس نے اپنی بھیگی آنکھوں سے شاہزین کو دیکھا اور اپنے آنسو روکے


شاہزین نے اپنی سگریٹ زمین پر گرا کر اسے بجھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اس کی گال پر موجود آنسو کو صاف کیا تو اس کی حرکت پر عینی اس کی گرفت میں کسمسا کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔ اور اٹکتے ہوئے اس سے بولی



پ۔۔۔پلیز م۔۔۔مجھے اب جانے د۔۔۔دو


اب تم کبھی بھی مجھ سے دور نہیں جاسکتی سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔۔


وہ اس کے چہرے پر جھک کر اس کے گال کو ہلکا سا اپنے لبوں سے چھو کر بولا تو اس کا لمس محسوس کر کے عینی کی دوبارہ آنکھیں بھیگنے لگیں۔۔۔۔۔


تمھیں یاد ہے نہ تم نے کچھ مہینے پہلے مجھے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔۔۔


وہ اس کے بالوں پر اپنی پکڑ مضبوط کرتا ہوا سرد آواز میں بولا تو عینی کو یاد آیا کہ وہ تو اپنے اصل حولیے میں موجود ہے مگر اس کی بات نے اس کو یہ بتا دیا کہ وہ کب سے اسے پہچان چکا تھا۔۔۔۔


س۔۔۔سوری م۔۔۔میں نے غلطی سے تھپڑ مار دیا تھا م۔۔۔میرا پ۔۔پہلے کبھی کسی لڑکے نے ہ۔۔۔ہاتھ نہیں پکڑا ت۔۔تھا ت۔۔۔تو جب تم نے پکڑا تو م۔۔۔میں ڈر گئی تھی پ۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دو اور مجھے چھوڑ دو میں ہم۔۔۔ہمیشہ ک۔۔کے لیے یہاں سے چلی جاؤں گ۔۔۔گی۔۔۔۔


اس کو پہلے کسی لڑکے نے نہ چھوا تھا یہ سن کر شاہزین کو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی لیکن آخری بات سن کر وہ غصے سے اس کے کان کے قریب جھک کر غرایا


یہ تمھاری سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ کبھی تم مجھ سے دور بھی جاسکو گی تم ہمیشہ میری قید میں رہو گی اور یاد رکھنا اگر تم نے مجھ سے دور جانے کی کوشش بھی کی تو تم دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہوئی تو تمھیں ڈھونڈ نکالوں گا


اپنی بات مکمل کر کے اس نے اس کے کان کی لو کو اپنے دانتوں سے زور سے کاٹا


آہ۔۔۔۔


وہ اپنے کان کی لو پر درد محسوس کر کے کراہ اٹھی اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ ستمگر اس کا جینا اجیرن کر دے گا۔۔۔۔۔۔

شاہزین اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹا اور ٹائم دیکھتے ہوئے اسے جانے کا کہا کیونکہ کہ جلد ہی تیمور صاحب واپس آنے والے تھے

عینی اس کی اجازت ملتے ہی تیزی سے انیکسی کی طرف گئی اور دروازہ بند کرکے اس سے ٹیک لگا کر نیچے بیٹھتے ہوئے رونے لگی۔۔۔۔۔

اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر روتی رہی مگر روتے ہوئے ہی وہ سو گئی تھی

ہاشم جب کام سے واپس گھر آیا تب تک حمنا بھی گھوم پھر کر واپس آچکی تھی

ہاشم اپنی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے حمنا کے قریب گیا جو صوفے پر بیٹھی موبائل چلا رہی تھی

میں نے تمہیں کال کی تھی حمنا تم نے اٹھائی نہیں۔۔۔۔

وہ دراصل ہاشم آج میں خود میڈ کے ساتھ مل کر تمھارے لیے کھانا بنا رہی تھی اس وجہ سے فون اٹھا نہ سکی اور تمھاری کال اس وجہ سے کاٹی تھی کہ میں چاہتی کہ پورے دھیان سے اور پیار سے تمھارے لیے کھانا بناؤ۔۔۔۔

ہاشم کی بات سن کر وہ اپنا موبائل سائیڈ پر رکھتی مکاری سے معصوم بنتے ہوئے بولی تو ہاشم جو اپنا غصہ ضبط کر رہا تھا اس کے صفائی سے جھوٹ بولنے پر اس کی طرف بڑھا

چٹاخ۔۔۔۔۔

ہاشم نے ایک زوردار تھپڑ حمنا کے جڑا اور اس کے منہ کو دبوچتے ہوئے اپنے سامنے کرتے ہوئے غصے سے دھاڑا

مکار عورت تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے جھوٹ بولنے کی ۔۔۔۔اور میری اجازت کے بغیر تم نے گھر سے باہر قدم کیسے رکھا۔۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔

حمنا جو تھپڑ کھا کر سن ہو گئی تھی ہاشم کے منہ دبوچنے اور غصے سے بولنے پر وہ خوف زدہ ہو گئی۔۔۔۔

مگر یہ سوچ کر کے ہاشم نے اسے تھپڑ مارا ہے خوف کی جگہ غصے نے لے لی اور وہ بھی غصے سے چیختے ہوئے بولی۔۔۔

تم جاہل انسان تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھت تھپڑ مارنے کی گاؤں کے جاہل گنوار کہیں کہ۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔

ابھی وہ مزید بولتی کے دوسرے پڑنے والے تھپڑ نے اس کا منہ بند کر وا دیا۔۔۔۔

ہاشم اسے غصے سے دوبارہ تھپڑ مارنے کے بعد اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹ کر ایک کمرے میں لایا اور اس میں دھکا دے کر غصے سے بولا

یہاں سڑتی رہو جب تک تمھارا دماغ ٹھکانے پر نہیں آجاتا اور میں جاہل گنوار نہیں بلکہ تم خود ایک پڑھی لکھی فحاشہ ہو پتا نہیں کیسے میں نے تم سے شادی کر لی تم میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو۔۔۔۔ اب مڑو یہاں پر بھوکی پیاسی۔۔۔

وہ اپنی بات مکمل کر کے کمرے سے نکل گیا اور کمرے کو باہر سے لاک کر کے ملازمہ کو بلا کر سختی سے کہا کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی دروازہ نہیں کھولے گا

ہاشم کے جانے کے بعد وہ اس کی باتیں سن کر اور تھۂڑ کھا کر ابھی تک بے یقین تھی اس نے اس وجہ سے بھی ہاشم سے شادی کی تھی کہ وہ ساری عمر اس کے اشاروں پر چلے گا مگر وہ تو اسے ہی مارنے لگا تھا

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


شفق یونیورسٹی میں اپنی کلاس لے کر اپنے کلاس فیلو لڑکے اسامہ سے بات کر رہی تھی چونکہ عالی آج نہیں آئی تھی تو وہ اکیلی ہی تھی اسامہ اس سے کوئی نوٹس مانگ رہا تھا جب دور سے ارقم نے یہ منظر دیکھا جو اسے شدید ناگوار گزرا


وہ کافی دنوں سے نوٹ کر رہا تھا کہ شفق اسے اگنور کر رہی ہے مگر یہ سوچ کر کہ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ بھی شفق کو اگنور کر دیتا مگر آج اسے کسی لڑکے سے بات کرتے دیکھ اس کو شدید غصہ آیا اور وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا شفق کے قریب گیا


شفق مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔


شفق جو اسامہ کو نوٹس کل دینا کا بتا رہی تھی اپنے پیچھے اچانک ارقم کی آواز سن کر وہ ڈر گئی


اسامہ جس کی بات شفق سے ہوگئی تھی وہ جانے والا تھا کہ ارقم کو دیکھ کر اپنی جگہ پر جم گیا جبکہ ارقم مسلسل اسامہ کو گھور رہا تھا۔۔۔۔


ج۔۔۔جی کیا بات کرنی ہے آپ نے ۔۔۔۔۔۔


شفق نے ارقم سے پوچھا


یہاں نہیں پرسنل بات کرنی ہے اس وجہ سے اکیلے میں بات کرنی اگر تم فارغ ہوگئی ہو تو میرے ساتھ چلو۔۔۔۔


ارقم کی بات سن کر شفق نے ناسمجھی سے اسے دیکھا


آپ نے جو بات کرنی ہے یہاں ہی کر لیں ۔۔۔


شفق کی بات سن کر اسے شدید غصہ آیا مگر ضبط کر کے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھیچنے کے انداز میں لے جانے لگا شفق جو اس سب کے لیے تیار نہ تھی مجبوراً اس کے کھیچنے پر منہ بگاڑتے ہوئے ساتھ چلنے لگی۔۔۔۔۔


ارقم نے اسے تھوڑی دور ایک جگہ جہاں رش کم تھا لا کر اس کا ہاتھ چھوڑا تو شفق نے اس سے جھٹ پوچھا۔۔۔


کیا " پرسنل " بات آپ نے کرنی ہے ؟


وہ پرسنل پر خاصہ زور دیے بولی۔۔۔۔


علیشبہ نے کہا تھا کہ تم سے نوٹس لیتا آؤ آج کے کام کے۔۔۔۔


ارقم نے جواب دیا ۔۔۔


تو اس میں " پرسنل " بات کیا ہوئی آپ مجھ سے اسامہ کے سامنے بھی تو لے سکتے تھے یہاں ہیرو کی طرح میرا ہاتھ کھینچ کر لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔


ارقم نے اسے غصے سے گھورا تو اس کی گھوری کو نظر انداز کیے وہ ویسے ہی اس کے سامنے سراپاِ سوال بنی کھڑی رہی ۔۔۔۔۔


پرسنل بات یہ ہے کہ مجھے قطعاً پسند نہیں کہ میری بہن کی جس سے دوستی ہو وہ لڑکوں سے بات کرتی پھرے


اس کی بات سن کر شفق نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی اور دھیمی آواز میں غرائی۔۔۔


اپنی حد میں رہیں اگر آپ سے تمیز سے بات کرتی ہوں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ میرے کردار پر انگلی اٹھائیں مجھے قطعاً ان لڑکیوں کی طرح مت سمجھیں جو اپنے کر دار پر بات سن کر خاموش رہتی ہیں میں ہر اس شخص کا منہ توڑ دوں گی جو میرے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرے گا اور یہ مت سوچیے گا کہ میں علیشبہ کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہوں گی مجھے اس وقت آپ سے شدید نفرت محسوس ہو رہی ہے اور آئندہ کے بعد مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا ۔۔۔۔


وہ اپنی بات مکمل کر کے اس کا کوئی بھی جواب سنے بغیر وہ اس سے دور چلی گئی جبکہ ارقم اب بھی اپنی جگہ کھڑا اسے دور جاتا دیکھ رہا تھا اس کی بات کا یہ مطلب تو نہیں تھا اس نے بس جلدی جلدی میں جو سوچا وہی اسے بول دیا تھا مگر اب شفق کی بات سن کر اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔


عینی کی صبح آنکھ کھولی تو خود کو زمین پر سویا پا کر وہ اٹھی رات کے مناظر کسی فلم کی طرح اس کے سامنے چل رہے تھے جبکہ زمین پر سونے کی وجہ سے اس کی کمر اکڑ گئی تھی اور رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھی درد کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔


وہ فریش ہو کر اور اپنا حولیہ صحیح کر کے گھر کے اندر گئی چونکہ رزیہ ابھی نہیں آئی تھی تو اس نے ہی ناشتہ تیار کرنا تھا


اس نے سب کو سوائے شاہزین کے ناشتہ کروایا تو شفق یونیورسٹی چلی گئی اور تیمور صاحب آفس اور سحر بیگم اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں مگر جاتے جاتے اسے سارے کام کرنے کا بول کر گئی تھی


وہ اب دوپہر کے لیے سبزی بنا رہی تھی جب کچن میں شاہزین داخل ہوا اس کے حولیے سے ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ابھی نیند سے جاگا ہو۔۔۔۔۔


اس نے شاہزین کو کچن میں داخل ہوتے دیکھ کر اپنے سر پر دوپٹہ صحیح کیا شاہزین اس کے قریب آکر حکم دینے والے انداز میں بولا۔۔۔۔۔


میرے لیے ایک اچھی سی کافی بناؤ اور ساتھ کچھ بنا کر دو۔۔۔۔۔


عینی اس کی بات سن کر جلدی سے اس کے لیے کافی بنانے لگی جبکہ شاہزین اس کے قریب کاؤنٹر سے ٹیک لگائے کھڑا تھا عینی اس پر دھیان دیے بغیر اپنا کام کر رہی تھی۔۔۔۔۔


اس نے کافی بنا کر شاہزین کے قریب کاؤنٹر پر رکھی تو شاہزین نے کافی اٹھا کر اچانک سے اس کے بائیں ہاتھ کو پکڑ کر اس کی دو انگلیوں کو کافی میں ڈبویا تو عینی جو اس آفت کے لیے تیار نہ تھی اس نے اپنے دوسرے ہاتھ کو اپنی چیخ روکنے کے لیے منہ پر رکھا


شاہزین اس کی انگلیاں کافی سے نکال کر پانی کے نیچے کر کے اسے سرد لہجے میں بولا۔۔۔


پہلے بھی تمھیں کہا تھا کہ مجھے نظر انداز کرنے کی کوشش بھی مت کرنا لگتا ہے تم بھول گئی تھی مجھے امید ہے اس کے بعد بھولنے کی کوشش بھی نہیں کرو گی۔۔۔۔۔


اب مجھے اگنور کرنے کی کوشش کرو گی۔۔۔۔ جواب دو مجھے۔۔


عینی اس کی بات سن کر کانپتی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔


ن۔۔۔نہیں۔۔۔۔

شاباش آئندہ کے بعد میری بات کو یا مجھے اگنور کیا تو ایسے ہی سزا دوں گا

وہ اس کا ہاتھ چھوڑتا اس کے کانپتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے درندگی کا نشانہ بنا کر بولا ۔۔۔۔۔

میرے لیے دوبارہ کافی بناؤ اور میرے کمرے میں دے کر جاؤ وہ بھی پندرہ منٹ کے اندر اندر۔۔۔۔۔

عینی نے اس کی بات سن کر جلدی سے سر ہلایا اور اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی اسے آج اپنی زندگی سے بھی نفرت محسوس ہو رہی تھی وہ تو یہ سوچ رہی تھی کہ وہ زندہ ہی کیوں ہے ؟

شاہزین اسے چھوڑ کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا تو عینی اپنے آنسو صاف کرتی اس کے لیے دوبارہ کافی بنانے لگی جبکہ اسے اپنی انگلیوں پر جلن صاف محسوس ہو رہی تھی لیکن وہ تکلیف برداشت کرتی لب بھینچے اپنے کام میں مگن ہوگئ۔۔۔

حمنا کو ہاشم نے دو دن سے کمرے میں بند کیا ہوا تھا بس اسے ملازمہ کھانا دے کر چلی جاتی ۔۔۔۔۔۔

اس نے ہاشم سے معافی مانگنے کا سوچا اور ملازمہ سے کہا کہ ہاشم کو کہنا کہ مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔۔

ہاشم تک جب حمنا کا پیغام پہنچا تو وہ آفس سے واپس آیا تھا ملازمہ کی بات سن کر اس نے آرام سے ڈنر کیا اور ڈنر کے بعد کچھ سوچتے ہوئے حمنا کی بات سننے چل دیا۔۔۔۔

ہاشم کمرے میں داخل ہوا تو حمنا کو بیڈ پر لیٹا دیکھا ۔۔۔

حمنا نے دروازہ کھولنے کی آواز پر دروازے کی جانب دیکھا تو ہاشم کو دیکھ کر اٹھی

کیا بات کرنی ہے تم نے جو بھی بات ہے جلدی جلدی کرو۔۔۔۔۔۔ ویسے مجھے یقین ہے اب تک تمھارا دماغ ٹھکانے پر آگیا ہو گا

ہاشم کی بات سن کر وہ دھیمی آواز میں بولی ۔۔۔۔

ایم سوری میری غلطی تھی مجھے تمہیں برا بھلا نہیں کہنا چاہیے تھا اور نہ ہی جھوٹ بولنا چاہیے تھا پلیز اب مجھے یہاں سے باہر نکلنے دو اس کمرے میں رہ کر اب میرا دم گھٹنے لگا ہے۔۔۔۔

کیا گارنٹی ہے کہ تم اب مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گی یا فضول بکواس نہیں کرو گی۔۔۔۔

ہاشم نے اس سے کرخت لہجے میں پوچھا۔۔۔۔

ہاشم پ۔۔۔پلیز مجھے ایک موقع دے دو میں تمھیں مایوس نہیں کرو گی پلیز۔۔۔۔۔

حمنا کی فریاد سن کر ہاشم کچھ سوچتے ہوئے بولا

میں تمھیں یہاں سے نکال دوں گا اور دوسرا موقع بھی دے دوں گا مگر یاد رکھنا مجھ سے گیم کھیلنے یا چالاکی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔

ہاشم کی بات سن کر اس نے اپنا سر ہاں میں ہلایا تو ہاشم حمنا کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔

حمنا نے اس کمرے سے نکلنے کا سوچ کر پر سکون سانس لی اور جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔

ہاشم اپنے کمرے میں بیٹھا اپنا موبائل استعمال کر رہا تھا جب آٹھ سالہ ہادی اس کے کمرے میں بھاگتے ہوئے داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔


بھیا۔۔۔۔۔


ہاں بولو ہادی ۔۔۔۔۔


ہاشم اسے اپنے ساتھ بٹھاتا ہوا لاڈ سے بولا


مجھے آج سکول میں ایک لڑکے نے مارنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔۔


ہادی نے معصومیت سے اسے بتایا۔۔۔۔


کیا مطلب کس نے مارا ہے ہادی کو بتاؤ مجھے بلکہ تمھیں بھی اسے مارنا چاہیے تھا۔۔۔۔


بھیا میں نے بھی یہی کیا تھا میں نے اسے زور سے دھکا دیا تو وہ نیچے گر گیا تھا اور پھر ٹیچر نے میری شکایت عینی اپی کو لگا دی اب وہ مجھ سے بول نہیں رہی آپ انھیں کہیں مجھ سے بات کریں اب میں کبھی کسی کو دھکا نہیں دوں گا۔۔۔۔۔


اوہ یہ تو بڑا مسئلہ ہے بھئ ویسے تم اس سے معافی کیوں نہیں مانگتے۔۔۔۔


بھیا میں نے معافی مانگی ہے مگر وہ مان نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔ لیکن میں دوبارہ آپ کی بات مان کر عینی اپی کو سوری بول کر آتا ہوں وہ اس کے قریب سے اٹھ کر دروازے کی جانب بھاگا۔۔۔۔۔


اچانک وہ ہاشم کو خود سے دور جاتا ہوا لگا اس نے ہادی کو پکارنے کی کوشش کی مگر وہ اس کی بات نہیں سن رہا تھا


اچانک اسے ہادی کی آواز دور سے سنائی دی


بھیا آپ بہت برے ہیں ۔۔۔۔۔ عینی اپی سچ بول رہی ہیں ۔۔۔۔


اس نے ایک تھپڑ کھینچ کر ہادی کے گال پر مارا


اب اسے عینی کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔


آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے بھائی کے تھپڑ مارنے کی آپ نے کہہ دیا ہے تو ہم جا رہے ہیں لیکن یاد رکھیے گا روزِمحشر آپ اس سب کے جواب دہ ہوں گے۔۔۔۔۔


ہاشم اچانک گھبرا کر اپنی نیند سے بیدار ہوا اسے لگا اس کا سانس بند ہو رہا ہے اس نے اپنی سائیڈ سے پانی کا گلاس اٹھا کر منہ کو لگایا تو تھوڑا اسے سکون ملا اس نے ایک نظر اپنے ساتھ سکون سے سوئی حمنا پر ڈالی اور بیڈ سے اٹھ کر اپنا سگریٹ کا پیکٹ اٹھا کر وہ بالکونی میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔


سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اس کے ذہن میں دوبارہ ہادی اور عینی کی باتیں گوجنے لگیں اور وہ واقعہ یاد کرکے اسے ہادی کی یاد آئی وہ تب کا واقع تھا جب عینی نے اسے احساس دلایا کہ انھیں اس کے پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔


اس نے صبح حویلی فون کر کے ہادی اور عینی سے بات کرنے کا سوچ کر سگریٹ کا کش لیا کیونکہ اس کے خیال میں ہادی اور عینی حویلی میں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔


ارقم اپنے بیڈپر چت لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے شفق کے بارے میں سوچ رہا تھا


اسے بس یہ افسوس ہورہا تھا کہ اس نے شفق سے بات ہی کیوں کی لیکن چونکہ اب وہ اس سے بات کر چکا تھا تو اس نے اسے اب اگنور کرنے کا سوچا بے شک وہ اپنی غلطی مان چکا تھا مگر معافی مانگنا اس کی شان کے خلاف تھا ۔۔۔۔۔


اور ویسے بھی جاگیرداروں کا خون اس کی رگوں میں دوڑتا تھا وہ اسے کبھی بھی جھکنے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔۔


اسے لگتا تھا کہ وہ صرف شفق کی پرسنیلٹی اور سٹائل وغیرہ کی وجہ سے اسے اچھی لگتی ہے مگر اسے کیا پتا یہ تو آغازِ محبت ہے۔۔۔۔۔


اس کی سوچوں کا اچانک رخ حورالعین کی طرف گیا احد صاحب اس کی شادی حورالعین سے کروانا چاہتے تھے وہ اس کی منگ تھی مگر جب ہاشم اور اس کی بیوی نے علیشہ پر الزام لگائے تو اس نے بھی حورالعین کو ٹھکرا دیا ۔۔۔۔


حورالعین بلاشبہ شفق سے زیادہ خوبصورت تھی مگر اس میں کنفیڈنس شفق جتنا نہ تھا۔۔۔۔۔وہ اب صرف اس وجہ سے حیدر اور حورالعین کو ڈھونڈ رہا تھا کیونکہ وہ گلٹ کا شکار تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اب ہاشم کے کیے کی سزا وہ حور کو دے مگر یہ بات تو وہ خود جانتا تھا اگر وہ اس دن حور پر غصہ نہ کرتا تو آج حور اور ہادی حویلی میں ہوتے۔۔۔۔۔


سحر بیگم شاہزین کے ساتھ لان میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔


شاہزین میرے خیال میں اب تمھیں آفس جوائن کر لینا چاہیے۔۔۔۔


موم اب آپ بھی ڈیڈ کی طرح ایک ہی بات بار بار مت کریں میں نے پہلے بھی کہا تھا اب دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ میں آفس اپنی مرضی سے جاؤ گا ۔۔۔۔۔۔


شاہزین بےزاریت سے بولا ۔۔۔۔۔


میرے ساتھ تمیز سے بات کرو شاہزین میں نے کچھ برا بھی نہیں کہا اور دوسری بات تمھاری خالہ بار بار فون کر کے عشا کا تمھارے ساتھ رشتہ پکا کرنے پربضد ہے مگر تمھارے خالو چاہتے ہیں کہ تم پہلے بزنس سنبھالو اسی وجہ سے وہ بھی مجھ پر زور دے رہی کہ میں تمھیں بزنس جوائن کروا دوں اب۔۔۔۔


سحر بیگم نے اسے پہلے تھوڑا سخت اور پھر تھوڑا آرام سے کہا۔۔۔۔۔


موم آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اس پلاسٹک کے منہ والی جس نے پتا نہیں کتنی سرجریاں کروائیں ہوئی ہیں سے شادی کروں گا ۔۔۔۔۔


شاہزین ماتھے پر بل ڈالے بولا جب کہ اس کی نظریں چائے لاتی عینی پر تھیں جسے سحر بیگم کی تیز نظروں نے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔


شاہزین یہ بکواس میرے ساتھ مت کرو تمھاری شادی عشا سے ہی ہوگی اور یہ فائنل ہے۔۔۔۔۔


سحر بیگم عینی کے ٹیبل پر چائے رکھتی ہوئیں بولی۔۔۔۔۔


جبکہ نے عینی ان کی بات پر دھیان دیے بغیر چائے سحر بیگم کو پکڑائی تو شاہزین اسے ہی دیکھ رہا تھا جو اس کی شادی کا ذکر سن کر کیسے پر سکون تھی اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر شاہزین کو نہ دیکھا تھا جس سے اچانک ہی شاہزین کو غصہ آیا اور وہ سحر بیگم سے بولا۔۔۔۔

اس بارے میں بعد میں بات کریں گے موم اور تم میرے کمرے میں کافی دے کر جاؤ۔۔۔۔۔

وہ آخر میں عینی کی طرف اشارہ کر کے بولا۔۔۔۔۔اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔

جبکہ سحر بیگم اب اپنے سامنے کھڑی عینی کو گھور رہی تھیں۔۔۔۔۔

اپنی اوقات میں رہنا لڑکی اور میرے بیٹے پر تم نے ایسا کیا جادوں کیا جو وہ کافی دنوں سے تم سے ہی کام کرواتا ہے ۔۔۔۔۔ یاد رکھنا اگر میرے بیٹے کو پھسانے کی کوشش کی تو تمھارے ساتھ جو ہوگا وہ تمھاری سوچ میں بھی نہیں ہوگا اور یہ مت بھولو میں تو تمھیں کب سے کام سے فارغ کر چکی ہوتی اگر تم نے میری منتیں نہ کی ہوتی ورنہ تمہیں کام سے فارغ کرتے مجھے دیر نہ لگتی ۔۔۔۔ میری ان باتوں کو یاد رکھنا اور جاؤ اسے کافی دے کر آؤ ۔۔۔۔۔

وہ چائے پیتے ہوئے نخوت سے بولیں تو عینی سبکی محسوس کر کے جلدی سے کافی اٹھا کر شاہزین کے کمرے کی طرف لے جانے لگی مگر اس کا دل سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا یہ سوچ کر کہ اگر شاہزین نے اسے کچھ کہا یا پھر اس کا ہاتھ جلانے کی کوشش کی تو وہ کیا کرے گی ۔۔۔۔

وہ یہاں سے دور چلی جانا چاہتی تھی مگر جاتی کہاں ؟ یہ سوال اسے اس زلت بھرے کام کرنے پر مجبور کرتا تھا اور اب تو وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ شاہزین اسے کبھی بھی اپنی قید سے آزاد نہ کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی شاہزین کے کمرے میں داخل ہوئی تو شاہزین کو کمرے میں نہ پا کر وہ کافی رکھ کر جانے ہی والی تھی جب شاہزین واشروم سے نکل کر اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔۔

اسے اپنے قریب آتا دیکھ وہ اپنے قدم پیچھے کو اٹھانے لگی پیچھے ہوتے ہوئے وہ دیوار سے جا لگی تو شاہزین نے اس کے قریب آکر دونوں اطراف بازو رکھ کر جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔

تم نے مجھے پھر نظرانداز کیا اور میرے کمرے سے بغیر میری اجازت کے جانے لگی تھی ۔۔۔۔۔ رات کو یہ میک اپ دھو کر اپنے اصلی حولیے میں میرا انتظار کرنا آخر تمھیں سزا بھی تو دینی ہے ۔۔۔۔۔۔

شاہزین کے قریب آنے پر وہ سانس روکے اس کی بات سن رہی تھی مگر اس کی آخری بات سن کر اس نے بے اختیار اس کی جانب نظر اٹھائی تو وہ بھی سیدھا ہو کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

عینی نے ہمت کر کے اسے زور سے دھکا دے کر دور کرنے کی کوشش کی شاہزین اس کی کوشش کو دیکھ کر اسے چھوڑ کر پیچھے ہوا تو عینی کی غصے سے کانپتی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔۔۔۔

مجھ سے دور رہیں اور ہاں میں نے آپ کو اگنور کیا جانتے ہیں کیوں تاکہ آپ کی والدہ مجھے بدکردار نہ کہیں یہ نہ کہیں کہ میں نے ان کے عظیم بیٹے کو پھنسا رہی ہوں جانتے ہیں وہ کہہ رہیں تھی میں اپنی اوقات میں رہوں مگر میں اتنی بھی گری پڑی ہر گز نہیں ہوں کہ آپ مجھے اپنی حوس کا نشانہ بنائیں مجھے شدید نفرت ہے پ سے سنا آپ نے مجھے شدید نفرت ہے ۔۔۔۔۔۔

جب جب آپ مجھے چھوتے ہیں تو میرا مرنے کو دل کرتا ہے سنا آپ نے گھن آتی ہے خود سے یہ نکاح جو ہے نہ صرف اپنے بدلہ کے لیے آپ نے کیا ہے نہ مجھے تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں نہ آپ ۔۔۔۔۔

وہ ہزیانی انداز میے بولتی ہوئی شاہزین کے قریب سے گزر کر گرم کافی اٹھا کر اپنے ہاتھ اور بازو پر گرانے لگی کہ شاہزین جو کب سے اپنا غصہ ضبط کر رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر اس سے کافی پکڑ کر ایک تھپڑ کھنچ کر اسے مارا ۔۔۔۔۔۔

ہاں تمھیں تکلیف پہچانا چاہتا ہوں میں مگر وہ بھی خود پہنچاؤ گا یاد رکھنا اور تمھاری اوقات تمھیں بہت جلد پتا چل جائے گی اور تمھیں میرے چھونے سے گھن آتی یے نہ رات کو دیکھو گا کہ تم خود کو کیسے میرے لمس سے آزاد کرواتی ہو اگر دروازہ کو لاک لگانے کا سوچا بھی تو یاد رکھنا کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر دروازہ توڑ کر تمھیں باہر نکالوں گا ۔۔۔۔۔۔

وہ ساکن کھڑی عینی کو جھنجوڑ کر بولا۔۔۔۔

پ۔۔۔پلیز س۔۔۔سوری می۔۔۔میرا ایسا م۔۔۔مطلب نہ ت۔۔تھا و۔۔وہ ب۔۔۔بس غصے میں غ۔۔غلطی سے بول گئی۔۔۔

عینی اس کی بات سن کر ہوش میں آتے بولی۔۔۔۔

بلکل بھی نہیں یہ سوری اپنے پاس رکھو اور جاؤ جا کر اپنا کام کرو ۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے دروازے کی جانب دھکا دیتا ہوا بولا تو عینی مردہ قدموں سے اس کے کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔

حمنا آج کافی دنوں بعد گھر سے نکل کر اپنی دوستوں سے ملنے جارہی تھی ہاشم سے اس نے بس ایک بار پوچھ لیا تھا جس نے اسے اجازت دے دی تھی ۔۔۔۔۔


وہ پہلے اپنی دوستوں سے ملنے ریسٹورنٹ گئی جہاں پر اس نے اپنی دوستوں کے ساتھ تصویریں کھینچ کر ہاشم کو بھیجیں اور اپنی دوستوں کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھ کر ایمرجنسی کام بول کر وہاں سے نکل گئی۔۔۔۔۔


دراصل آج وہ شاہزیب سے ملنے جا رہی تھی وہ واپس آچکا تھا مگر ہاشم کی وجہ سے وہ اس سے ملنے نہ جاسکی ۔۔۔۔۔


شاہزیب نے اسے ہوٹل کے ایک کمرے میں بولایا تھا وہ بھی حمنا کے کہنے پر وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی جاننے والا اسے شاہزیب کے ساتھ دیکھ کر ہاشم کو بتائے۔۔۔۔۔


اس نے کالی چست شرٹ کے ساتھ تنگ سا پجامہ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ ہوٹل میں داخل ہوئی اور شاہزیب کے بتائے گئے کمرے کے باہر آکر اس نے دروازہ ناک کیا تو باتھ روب پہنے شاہزیب نے دروازہ کھولا۔۔۔۔


شاہزیب نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی اور حمنا کے چہرہ کی طرف دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔


اس نے حمناکو اندر داخل ہونے دیا تو حمنا مزے سےجاکر بیڈ پر بیٹھ گئی جبکہ چہرے سے مسکراہٹ اس کے ایک منٹ کے لیے بھی غائب نہیں ہورہی تھی۔۔۔۔


کچھ کھانے کے لیے منگواؤ تمھارے لیے حمنا ۔۔۔۔۔۔


شاہزیب نے بالوں میں پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔


نہیں فلحال میں صرف تم سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔۔اور زیبی تم وہاں کیوں کھڑے ہو یہاں آکر میرے ساتھ بیٹھو ۔۔۔۔۔میں نے تمہیں ان دنوں بہت یاد کیا۔۔۔۔۔۔۔


وہ اپنے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی پر لپیٹ کر مسکرا کر بولی تو شاہزیب بھی مسکرا کر اس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔


ہاں بولو حمنا تم نے کیا بات کرنی تھی۔۔۔۔۔۔


وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔۔۔۔


میں بس یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ تم نے بتایا تھا کہ تمھیں کوئی لڑکی پسند آگئی ہے اگر تم کہو تو میں اس سے بات کرتی ہوں ۔۔۔۔۔


وہ مسکرا کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیکھ کر بولی۔۔۔۔


آہاں ۔۔۔۔ تم جانتی ہو اسے جسے میں پسند کرتا ہوں۔۔۔۔


شاہزیب نے جب حمنا کو اپنا ہاتھ کھینچتے نہ دیکھا تو اسے اور شہ مل گئی اور اس نے اس کے ہاتھ لو اپنے لبوں سے ہلکا سا چھوا۔۔۔۔


کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟۔۔۔۔ کیا وہ لڑکی میں ہوں ؟۔۔۔۔۔


اس نے اپنی مسکارے سے بھری پلکیں اٹھاتے گراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔


ہاں بلکل ۔۔۔۔ وہ تمہی ہو مگر پتا نہیں تمہیں آخر کیا جلدی تھی جو تم نے اتنی جلدی ہاشم سے شادی کروا لی۔۔۔۔؟ تھوڑے سال میرا انتظار کیا ہوتا تو آج ہم ساتھ ہوتے ؟۔۔۔


تم خود ہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے ورنہ میں کیوں اس جاہل گوار سے شادی کرتی ہنہ۔۔۔۔ اتنا بڑا بزنس مین وہ بن چکا ہے مگر پھر بھی اس کی سوچ میڈل کلاسوں والی ہے ۔۔۔ میرا بس چلے تو میں ایک منٹ نہ لگاؤں اس سے الگ ہونے سے۔۔۔۔۔


وہ نخوت سے ہاشم کے بارے میں بولی حالانکہ وہ خود جانتی تھی کہ ہاشم کو اس نے خود اپنی خوبصورتی کے جال میں پھنسایا تھا مگر اب وہ پابندیاں لگانے لگا ہے تو پہلے جو وہ اسے بے حد پسند تھا اب اس سے ہی نفرت کرنے لگی تھی


کیا واقعی تم اسے علیحدگی لے لو گی ؟؟۔۔۔۔


ہاں بلکل اگر تم میرا ساتھ دو تو میں اس سے علیحدگی لے لوں گی مگر یاد رکھنا میرا ہاتھ پھر تمہیں تھامنا پڑے گا۔۔۔۔۔


حمنا کی بات سن کر اس نے اپنے ہاتھ سے اس کے چہرے پر آئے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔


کیوں نہیں میں تمھارا ہاتھ کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اور تمھیں میرے ساتھ مکمل آزادی بھی حاصل ہوگی۔۔۔۔


سچی ۔۔۔۔۔ واہ پھر تو میں جلد ہی کوئی بہانہ بنا کر اس سے علیحدہ ہو جاؤ گی۔۔۔۔۔


وہ پاگل اس کی مکروہ مسکراہٹ دیکھے بغیر بولی۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہاشم اپنے آفس میں بیٹھا صبح سے حویلی فون کر کے ہادی اور حورالعین سے ایک بار بات کرنا چاہتا تھا مگر اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی وہ دو بار فون ملا کر کاٹ چکا تھا ۔۔۔۔


علیشبہ جو آج حویلی رمنا بیگم اور حدید صاحب سے ملنے آئی تھی اور حال میں موجود صوفے پر بیٹھی تھی کونے میں پڑے ٹیلی فون کو دو بار بجتے دیکھ اپنی جگہ سے اٹھی مگر جب بھی وہ قریب جاتی فون بند ہو جاتا۔۔۔۔


آخر تنگ آکر اب وہ فون کے پاس ہی کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔احد صاحب حویلی میں داخل ہوئے تو عالی کو فون کے پاس کھڑے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔


عالی بیٹا کسی کا فون آنا ہے جو آپ یہاں کھڑی ہو ؟؟؟؟۔۔۔


نہیں بابا وہ کسی کا دو بار فون آچکا ہے جب بھی اٹھ کر ریسور اٹھانے لگتی ہوں تو بند ہوجاتا ہے اور آپ کو پتا ہے اس فون پر بہت کم ہی لوگ کال کرتے ہیں تو میں نے سوچا کسی کی ضروری کال نہ ہو۔۔۔۔


ابھی وہ بات کر رہی تھی کہ فون دوبارہ بج اٹھا ۔۔۔۔ عالی نے فون فورا اٹھا کر بولی۔۔۔۔


اسلام و علیکم !۔۔۔۔۔


کون بات کر رہا ہے ؟؟؟ اور آپ کو کس سے بات کرنی ہے ؟؟؟


عالی کو دوسری جانب سے جواب نہ ملا تو وہ مزید بولی تو دوسری طرف ہاشم جس نے کال اٹھانے کے بعد کسی کی خوبصورت دھیمی آواز سنی تو اسے پہچاننے میں تھوڑی دیر لگی کہ یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ علیشبہ کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔


ع۔۔علیشبہ ۔۔۔۔


وہ ہمت کرتا بولا تو دوسری جانب سے جانی پہچانی آواز میں اپنا نام سن کر اسے فورا پتا چل گیا تھا کہ اس ستمگر کا فون ہے اس نے بغیر کچھ بولے احد صاحب جو قریب ہی بیٹھے تھے انھیں ریسور پکڑایا اور جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔


کیا کچھ یاد نہ آیا تھا اسے اس ستمگر کی وجہ سے اس کے زخم اور درد بھری یادیں جنہیں بھولنے کی وہ روزانہ کوشیش کرتی تھی مگر اس کی آواز سن کر دوبارہ وہ سب کچھ اسے یاد آگیا تھا۔۔۔۔


احد صاحب نے ریسور پکڑ کر کان سے لگایا اور اپنی روعب دار آواز میں سلام کرتے ہوئے کون بات کر رہا ہے پوچھا۔۔۔۔۔


تو ہاشم نے ان کی آواز سن کر اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا۔۔۔۔۔


وعلیکم السلام چچا جان ہاشم بات کر رہا ہوں ؟؟؟


کون ہاشم ؟؟! میں کسی ہاشم کو نہیں جانتا جسے جانتا تھا وہ ڈیڑھ سال پہلے ہی مر چکا ہے ۔۔۔۔


وہ انجان بنتے ہوئے بولے تو ہاشم کو ان کے انجان بننے پر تکلیف محسوس ہوئی۔۔۔۔۔


چچا جان ایک منٹ میری بات سنیں فون مت رکھیے گا پلیز ایک دفعہ میری بات ہادی اور حور سے کروادیں ۔۔۔۔


وہ جو فون رکھنے لگے تھے ہاشمکی بات سن کر ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔۔ اور آخری بات جان کر بولی


کیامطلب تمھارا ؟؟ حور اور ہادی حویلی میں موجود نہیں ہے وہ تو تمھارے ساتھ تھے نہ ؟؟


چچا جان آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں مجھے خود حمنا نے بتایا تھا کہ حور اور ہادی حویلی میں آپ کے پاس ہیں ؟؟؟


کیا بکواس کر رہے ہو تم کیا انھیں حویلی کا راستہ پتا تھا جو وہ یہاں آتے ہاشم ؟؟ اور ایک بات میں تمھیں بتا دوں دو مہینے پہلے مجھے پتا چلا تھا کہ تم نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے اور تب سے میں اور ارقم انھیں ڈھونڈ رہے ہیں مگر ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا اگر انھیں کچھ بھی ہوا تو اس سب کے تم زمہ دار ہو گے اور اپنی بیوی پر جتنا تم نے اندھا اعتماد کیا تھا نہ اس نے تمہیں اتنا ہی برباد کر دیا ہے اور اب دوبارہ یہاں فون کرنے کی ہمت بھی مت کرنا۔۔۔


اللہ نگہبان !


احد صاحب نے اپنی بات مکمل کر کے کال بند کر دی جبکہ دوسری جانب حور اور ہادی کے حویلی نہ موجود ہونے کے انکشاف نے اور احد صاحب کے الفاظ نے اسے جھنجوڑ دیا تھا وہ بے اختیار اپنی کرسی سے اٹھا اور اپنے آفس سے نکل گیا اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر گاڑی میں بیٹھ کر شہر کی خاک چھانتا رہا بس اس کے کانوں میں باربار احد صاحب کے الفاظ گونج رہے تھے کہ وہ حویلی میں نہیں ہیں ۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عینی جب سے شاہزین کے کمرے سے واپس آئی تھی اسے بس ایک ہی فکر ستا رہی تھی کہ شاہزین اسے آج نہیں چھوڑے گا وہ جانتی تھی اگر اس نے کہا ہے کہ وہ رات کو اس کے کمرے میں آئے گا تو وہ ضرور آئے گا ۔۔۔۔۔


وہ چاہتی تھی کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ شاہزین اس کے کمرے میں نہ آسکے وہ بس یہی دعا کر رہی تھی کہ وہ آج رات کسی ضروری کام سے کہیں چلا جائے ۔۔۔۔۔


اس نے رزیہ کے ساتھ سب کو ڈنر کروایا تو شاہزین بھی آج سب کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور شفق کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو بھی کر رہا تھا ۔۔۔۔


جب کھانے کے بعد سب اپنے کمرے میں چلے گئے تو وہ بھی مردہ قدموں سے انیکسی کی جانب اپنے کمرے میں چلی گئی اس نے جلدی سے دروازہ بند کر کے شاور لیا اور اپنے بال تولیے سے ہلکے سے سکھا کر دروازے کو لاک لگا کر جلدی سے سونے کے لیے لیٹ گئی کہ جب شاہزین اس کے کمرے میں آنے کی کوشش کرے اور شاید آ بھی جائے تو وہ اسے سوئی ہوئی ملے ۔۔۔۔۔


وہ اپنی آنکھیں بند کر کے سونے کی ناکام کوشش کر رہی تھی مگر اسے نیند نہیں آرہی تھی اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا تو گیارہ بج کر دس منٹ ہو رہے تھے اس نے اپنی آنکھیں دوبارہ بند کر کے سونے کی کوشش کی مگر نیند تو جیسے آج اس سے روٹھ گئی تھی


تھوڑی دیر بعد اسے دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دی تو اس نے اپنی آنکھیں اور زور سے میچ لیں


شاہزین جو سب کے سونے کے بعد انیکسی کی طرف عینی کے کمرے میں آیا تھا دروازے کو لاک لگا دیکھ کر ہلکا سا بجایا مگر اندر سے جب کوئی جواب نہ سنائی دیا تو وہ اس کمرے کی دوسری جانب موجود کھڑکی کی طرف گیا اور اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا ہی تھا کہ وہ اسے کھولی ہوئی ملی۔۔۔۔

بڑی آئی دروازہ لاک کرنے والی ایک کھڑکی کو بند نہ کرسکی ۔۔۔۔ وہ مسکرا کر منہ ہی منہ میں بڑبڑایا

جب عینی کو دوبارہ دروازہ بجنے کی آواز سنائی نہ دی تو اس نے پر سکون سانس خارج کیا اور اپنی آنکھیں کھول کر بیٹھنے لگی کہ اپنے سامنے شاہزین کو کھڑے دیکھ کر وہ ڈر سے چیخ مارنے لگی کہ شاہزین نے اگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں کو اپنی قید میں لیتے ہوئے اس کی چیخ کو روک دیا ۔۔۔۔

جبکہ عینی اس کی جسارت پر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی اور سمجھ آنے پر کہ کیا ہو رہا ہے اسے جلدی سے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ شاہزین پہلے ہی پیچھے ہٹ گیا اور مسکرا کر اس کے سرخ چہرے کو دیکھا جو اس کے چھوڑنے پر گہرے گہرے سانس لے رہی تھی

افسوس تم کھڑکی بند کرنا بھول گئی تھی ویسے تم کیا سمجھی میں واپس چلا گیا ہوں۔۔۔۔۔

وہ بیڈ پر گھٹنہ ٹیکے اس پر جھکا ہوا تھا جبکہ وہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

عینی کادل اس کی بات سن کر خود کو ایک تھپڑ لگانے کا کیا جو کھڑکی بند کرنا بھول گئی تھی

ویسے چاند کی روشنی میں اور بھی خوبصورت لگتی ہو مسز۔۔۔۔

وہ اس پر جھکا اس کے گال کو لب سے چھو کر بولا تو عینی نے فورا اپنے ہاتھ سے دونوں گالوں کو اس کے لمس سے محفوظ رکھنے کے لیے چھپانے کی ناکام کوشش کی تو شاہزین اس کی معصوم حرکت دیکھ کر مسکرایا اور بے ساختہ اس کے ماتھے کو چوما۔۔۔۔۔

اس بار عینی نے شاہزین کے پیچھے ہٹتے ہی دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا تو شاہزین مسکراتا ہوا بیڈ پر چڑھ کر اس کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا ۔۔۔۔۔

عینی کا دل اس کا نرم گرم لمس محسوس کرکے زوروں سے دھڑک رہا تھا وہ ستمگر تو اس وقت کوئی اور ہی معلوم ہو رہا تھا ۔۔۔۔

اپنی گو میں وزن محسوس کر کے اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کی نظریں سیدھی اس کے گود میں سر رکھے شاہزین سے ٹکرائیں جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ی۔۔۔یہ آ۔۔۔آپ ؟؟۔؟

میرا سر دباؤ درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔

شاہزین اس کی بات کاٹ کر بولا تو وہ اس کے سر کو ہلکا ہلکا دبانے لگی۔۔۔۔۔ جبکہ شاہزین نے اس کے ہاتھ کا لمس اپنے سر پر محسوس کر کے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔

تم اپنا چہرہ کالا کیوں کرتی ہو حور ؟؟؟

شاہزین نے اچانک آنکھیں کھول کر اس سے پوچھا ۔۔۔۔

و۔۔وہ س۔۔سحر میم نے بولا تھا کہ ایسا کروں گی تو ہی وہ نوکری دیں گی۔۔۔۔۔

اس نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔

شاہزین نے اس کی بات سن کر اس کا چہرہ دیکھا جہاں جھوٹ کا کوئی آثار نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔

اس کی بات سن کر وہ خاموشی سے دوبارہ آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔

عینی کی آنکھ رات تین بجے کھولی تو شاہزین کو اپنی گود میں سر رکھے دیکھ اور اپنا ہاتھ اس کے بالوں میں دیکھ کر اس نے ایک نظر ٹائم دیکھا اور شاہزین کو اٹھانے کا سوچا مگر اسے سمجھ نہ آئے وہ کیسے اسے اٹھائے ۔۔۔۔۔


عینی نے آہستہ سے اس کے بازو کو پکڑ کر ہلایا تو شاہزین نے دوسرے ہاتھ سے اس کا بازو پکڑا اور اپنی آنکھیں کھول کر اسے نیچے کی طرف کھینچا تو اب عینی اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی


عینی نے پیچھے ہونا چاہا تو شاہزین نے اس کا ایک ہاتھ سے بازو پکڑا اور دوسرا ہاتھ عینی کے سر کے پیچھے لے جا کر اس کا چہرہ اپنے قریب لیا اور مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔۔۔۔۔


عینی نے جب تھوڑی اور مزاحمت کی تو شاہزین نے مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے اتنا قریب کرلیا کہ عینی کا سر اس کے ہونٹوں سے تھوڑے سے فاصلے پر رہ گیا تھا عینی آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی


شاہزین نے اس کا سر تھوڑا اور نیچے کر کے اس کے سر کو چوما تو عینی کی دھیمی آواز اس کو سنائی دی۔۔۔۔


پ۔۔پلیز اب چلے جائے ورنہ کسی نے آپ کو یہاں دیکھ لیا تو میرے لیے اک نئی مشکل کھڑی ہوجائے گی او۔۔۔۔۔۔۔


باقی کے الفاظ شاہزین نے اپنے لبوں سے قید کر لیے۔۔۔۔۔


عینی آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی اور خود کو اس سے دور کرنے کی کوششیں کرنے لگی تو شاہزین نے اس کے لبوں کو آزاد کرتے ہوئے اسے دیکھا جو سرخ چہرے کے ساتھ اب گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔۔


وہ اسے اپنی گرفت سے آزاد کر کے اٹھا اور اپنا موبائل جیب سے نکال کر ٹائم دیکھا اور بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولا۔۔۔۔


آئندہ کے بعد مجھے جانے کا مت کہنا ورنہ اب تو کچھ نہیں کہا اگلی بار جو کروں گا وہ تم سوچ بھی نہیں سکوں گی سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔


وہ اپنی شرٹ ٹھیک کرتا عینی سے بولا جس نے اپنا سر ہلا کر اس کو جواب دیا تو وہ ایک نظر سر جھکائے بیڈ پر بیٹھی عینی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کھڑکی سے باہر کود گیا اور اپنے اردگرد ایک نظر دیکھ کر کہ کسی نے دیکھا تو نہیں اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔


ہاشم رات کے ایک بجے سڑکوں کی خاک چھان کر گھر واپس آیا اور اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور لان کی طرف دیکھا تو اسے ایک آواز سنائی دی۔۔۔


بھیا آپ بھی ہمارے ساتھ کھیلیں نہ ۔۔۔۔۔۔۔


بھائی آپ کو پتا ہے آج پھر ہادی نے مجھے ہرا دیا ۔۔۔۔۔۔۔


بھیا آپ صرف آج ہمارے ساتھ کھیل لیں۔۔۔۔۔۔


اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر ان آوازوں کو روکنے کی کوشش کی


وہ اپنا سر جھٹک کر اندر داخل ہوا اور اپنی ڈھیلی ہوئی ٹائی کو اتار کر ہاتھ میں پکڑتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔


حمنا کو سکون سے سوتے دیکھ کر اس کے تن بدن میں شرارت سے بھرنے لگے کیونکہ حمنا نے اسے بتایا تھا کہ وہ حویلی سہی سلامت جاچکے ہیں ۔۔۔۔۔


ہاشم اپنے کمرے سے نکل کر کچن میں گیا اور وہاں سے ٹھنڈے پانی کا ایک جگ بھر کر اس میں برف کے کیوبز ڈال کر کمرے میں آیا اور حمنا کے چہرے پر ٹھنڈا پانی گرایا ۔۔۔۔۔


حمنا جو سکون سے سو رہی تھی خود پر ٹھنڈا پانی گرتے دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور ہاشم کو خود پر ٹھنڈا پانی گراتے دیکھ وہ چیخی۔۔۔۔


ہاشم پاگل ہوگئے ہو تم یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔


ہاشم نے سارا پانی اس پر گرایا اور حمنا سے غصے سے دھاڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔


کہاں ہیں ہادی اور عینی مجھے فورا جواب چاہیے اگر تم نے جھوٹ بولا تو یاد رکھنا بہت برا انجام ہوگا تمھارا۔۔۔۔


ک۔۔۔کیا بکواس کر رہے ہو ہاشم مجھے اٹھا کر تم نے یہ پوچھنا تھا اور وہ دونوں اس وقت حویلی میں آرام سے سوئے ہوں گے مگر تم نے میری نیند ضرور خراب کرنی تھی۔۔۔۔


ہاشم نے اس کے جھوٹ پر آگ بگولہ ہوتے ہوئے اس کے بالوں کو اپنی مضبوط گرفت میں لیتا ہوا دھاڑا۔۔۔۔


مجھے پتا ہے وہ حویلی نہیں گئے اب مجھے سچ سچ بتا دوں ان دونوں کو تم نے کہا بھیجا ہے اس سے پہلے کہ میرا ضبط ختم ہوجائے۔۔۔۔


مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو تم شاید بھول گئے ہو میں یاد دلا دوں تم نے انھیں گھر سے نکالا تھا اور جب تم نے مجھ سے پوچھا تو مجھے لگا وہ حویلی چلے گئے ہوں گے اب مجھے کیا پتا تمھاری بہن اور بھائی کہاں ہیں ؟؟ ہاں شاید تمھاری بہن اپنے کسی عاشق کے پاس چلی گئی ۔۔۔۔۔


چٹاخ۔۔۔۔۔


تم گھٹیا عورت تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں گندے الفاظ استعمال کرنے کی وہ تمھاری طرح نہیں جو شوہر کے ہوتے ہوئے بے حیا عورتوں کی طرح چھوٹے کپڑے پہنے کلب میں مردوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔۔۔۔۔


جاہل انسان اب بڑی تمھیں اپنی بہن یاد آرہی جب تم اسے گھر سے نکال رہے تھے تب کیوں نہ اس کا احساس ہوا اور میں بے حیا ہوں تو یہ جان لو تم نے بھی مجھے ان چھوٹے چھوٹے کپڑوں میں دیکھ کر ہی پسند کیا تھا اور اب تمھیں میں بے حیا لگنے لگی ہوں بلکہ میں بتاتی ہوں تم جتنے مرضی بڑے بزنس مین بن جاؤ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمھاری سوچ وہی دقیانوسی جاہل گنواروں جیسی ہے۔۔۔۔۔


وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے ہزیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔۔۔۔


چٹاخ۔۔۔۔۔


ہا۔۔۔ہا۔۔ہا تمھیں کیا لگتا ہے تم بہت موڈرن ہو اور تمھاری سوچ بہت اچھی تو میں تمھیں بتا دوں کہ لوگ جب تمھیں دیکھتے ہیں نہ تو ان کے ذہن میں تمھیں دیکھ کر وہ تمہیں پڑھی لکھی فحاشہ بولتے ہوں گے اور تم نے ہی مجھے پھنسایا تھا اپنے اس مکار چہرے پر معصومیت دکھا کر اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم ایسی ہوگی تو کبھی تمھارے طرف دیکھتا بھی نہ ۔۔۔۔


وہ دوسرا تھپڑ حمنا کو مارتے وہ طنزیہ ہنستے ہوئے بولا


چھوڑو مجھے جاہل انسان نہیں رہنا اب مجھے تمھارے ساتھ بلکہ مجھے تم سے طلاق چاہیے سنا تم نے مجھے تم سے طلاق چاہیے وہ بھی ابھی اور اسی وقت کیونکہ میں تمھارے جیسے گنوار کے ساتھ مزید اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتی۔۔۔۔


وہ غصے سے بولی ویسے بھی اسے موقع چاہیے تھا ہاشم سے الگ ہونے کا۔۔۔


کبھی سوچنا بھی مت کہ میں تمھیں آزاد کروں گا تم اسی گھر میں ساری عمر سڑتی رہو گی ۔۔۔۔۔


وہ اس کے بال چھوڑ کر اس کے بازو کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا اسے کمرے سے گھسیٹ کر ساتھ والے کمرے میں لایا جبکہ حمنا مسلسل اس سے اپنا بازوں چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ہاشم نے اسے کمرے ہر لا کر زمین پر پھینکا اور جلدی سے کمرے سے نکل دروازے کو لاک لگا کر اپنے کمرے میں آیا اور شاور لینے چلا گیا۔۔۔۔۔


شفق علیشبہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔


عالی کیسا ٹائم گزرا تمھارا حویلی میں مزا آیا اپنے موم ڈیڈ سے مل کر تمھیں ؟


ہاں بہت مزا آیا کافی دنوں بعد ملی تھی امی اور بابا سے ۔۔۔۔امی اور بابا کے ساتھ میں نے ڈھیروں باتیں کیں۔۔۔۔۔


علیشبہ نے چاکلیٹ کھول کر کھاتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔


ایک بات بتاؤ شفی تمھارے اور بھائی کی کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا ؟ پہلے تو پھر تم لوگ ایک دوسرے سے لڑ لیتے تھے اب تو بلکل اگنور کرنے لگے ہو۔۔۔۔


نہیں ایسا کچھ نہیں جیسا تم سمجھ رہی ہو مجھے بس اچھا نہیں لگتا تمہارے بھائی سے لڑنا تو بس اسی وجہ سے بات نہیں کرتی۔۔۔۔


شفق نے مسکرا کر جواب دیا مگر علیشبہ اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوسکی۔۔۔۔ لیکن پھر بھی وہ چپ ہوگئی۔۔۔


ارقم اپنی کلاس سے نکلا تو اسے دور شفق اور عالی بیٹھی ہوئیں نظر آئیں ۔۔۔ شفق کے چہرے پر ہلکی ہلکی سورج کی روشنی پڑ رہی تھی جس سے اس کا چہرہ دور سے بے حد خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔۔۔


ارقم نے بہت سوچنے کے بعد شفق سے معافی مانگنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے لیے وہ شفق کے ساتھ اکیلے بات کرنا چاہتا تھا مگر عالی کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا اپنے دوست کی آواز سن کر اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور اپنے دوست سے بات کرنے لگا۔۔۔۔


شفق کی نظر کچھ دور کھڑے کالے شلوار قمیض پہنے ارقم پر گئی تو ایک بھرپور نظر اس پر ڈال کر وہ اپنی نظروں کا رخ موڑنے لگی کہ اسی وقت ارقم نے دوبارہ مڑ کر شفق کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔۔


دونوں کی نظریں ٹکرائیں تھیں ایک کی نظروں میں شکوے تھے تو دوسرے کی نظریں معذرت خواہ تھیں ۔۔۔۔


شفق نے اسے خود کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی نظروں کا رخ موڑا اور عالی کی بات سننے لگی جو کوئی بات کر رہی تھی۔۔۔۔


ارقم نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اپنے دوست کے ساتھ اپنی دوسری کلاس میں چلا گیا۔۔۔۔


عینی کچن میں سبزی بنا رہی تھی کیونکہ رزیہ کی اماں کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی اور وہ ایک ہفتے کی چھٹیاں لے کر اپنے گاؤں چلی گئی تھی جس وجہ سے عینی ہی صبح سے سارے کام کر رہی تھی۔۔۔۔


سحر بیگم اسے کام سونپ کر اپنی دوست سے ملنے گئی ہوئیں تھیں۔۔۔۔


وہ پوری توجہ سے کاونٹر کے قریب کھڑی اپنا کام کر رہی تھی جب کسی نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے پیچھے کی طرف کھینچا۔۔۔۔


عینی جو اپنے کام میں مگن تھی اس اچانک افتاد پر اس کی چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔

جب اس نے پیچھے دیکھا تو شاہزین اسے اپنے سینے کے ساتھ لگائے مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ی۔۔۔یہ آپ کیا کر رہے ہیں کوئی آگیا ت۔۔۔تو وہ کیا س۔۔سوچے گا ۔۔۔ آپ پ۔۔۔پلیز تھوڑے فاصلے پر ہوجائیں

وہ اپنے لب کاٹتی سوچ کر بولی۔۔

اس کی بات سن کر شاہزین نے اس پر اپنی گرفت اور مضبوط کی تو عینی کو اپنا سانس روکتا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔۔

میں تمھیں کتنی بار کہو مجھے دور جانے کا مت بولا کرو نکاح کیا ہے میں نے جب میرا دل کیا میں تمھارے قریب آؤں گا سنا تم نے۔۔۔۔

وہ غصے سے غرایا ۔۔۔۔

شروع سے ہی غصے میں وہ کچھ بھی کرجاتا تھا تبھی جب وہ اسے غصہ دلاتی تھی تو وہ اسے ضرور تکلیف پہنچاتا تھا

عینی اس کے غصے سے بھری آواز سن کر ہلکا ہلکا کانپنے لگی۔۔۔

س۔۔۔سوری۔۔۔۔

وہ اتنی ہلکی آواز میں منمنائی کہ اگر شاہزین اس کے قریب نہ ہوتا تو اسے کبھی سنائی نہ دیتا ۔۔۔۔۔

مجھے غصہ مت دلایا کرو سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔

وہ اسے کانپتے ہوئے محسوس کر کے اس کی گال پر لب رکھتا بولا تو اس نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔۔۔۔

چلو اب یہ سب چھوڑو اور میرے لیے کچھ اچھا سا بنا دو مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔۔۔۔

عینی نے اس کی بات سن کر اپنا ہلکا سا سرخ چہرہ اٹھا کر اسے بے بسی سے دیکھا جس نے اسے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا۔۔۔۔

بلکل بھی نہیں تم نے جو بنانا ہے وہ ایسے ہی بناؤ۔۔۔

وہ مسکرا کر اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر بولا تو عینی بے بسی سے اپنے لب کاٹتی اس کے ساتھ لگے ہی ساری چیزیں کیبن اور فریج سے نکال کر کاؤنٹر پر ایک جگہ رکھتی اس کے لیے ٹوسٹ اور املیٹ بنانے لگی ۔۔۔۔

وہ اپنے دونوں بازؤں سے اس کے گرد حصار بنا کر کھڑا تھا۔۔۔۔

عینی نے جلدی سے ناشتہ بنا کر پلیٹ میں رکھا اور اس کی طرف پھر دیکھا تو شاہزین اس کے گال کو چھو کر کچن میں موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔

عینی نے اس کے سامنے ناشتے رکھا اور اس کے پاس ہی کھڑی ہوگئی تاکہ پھر نہ شاہزین کو غصہ آجائے ۔۔۔۔

شاہزین اسے پاس کھڑا دیکھ کر مسکراتے ہوئے ناشتہ کرنے لگا اور ناشتہ کرکے وہ عینی کے سر کو چومتا یوا کچن سے چلا گیا تو عینی نے سکون کا سانس لیتے ہوئے برتن دھوئے اور جلدی سے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔۔۔

ہاشم صبح اٹھ کر آفس کے لیے تیار ہوا اور جاتے ہوئے میڈ سے حمنا کے کمرے کا دروازہ کھولنے سے سختی سے منع کرتے ہوئے اسے کچھ بھی کھانے پینے کے لیے نہ دینے کا کہا اور آفس چلا گیا اس نے آفس جا کر سب سے پہلے اپنے ایک دوست کو فون کرلے کسی بھی طرح حور اور حیدر کے بارے میں اسے معلوم کرنے کا کہا۔۔۔۔


اس کے بعد وہ پورا دن اپنے کام میں مصروف ہو گیا لیکن اس کو باربار ہادی اور حور کی باتیں یاد آرہی تھیں۔۔۔۔


شفق یونیورسٹی سے گھر آکر تھوڑی دیر لان میں واک کرنے کے بعد تھوڑی دیر لیٹ گئی


اسے امید تھی کہ آج شاید ارقم اس سے معافی مانگ لے مگر اس کے کچھ نہ کہنے کی بجائے اگنور کرنے پر وہ من ہی من میں کلس کر رہ گئی تھی۔۔۔۔


وہ شام میں سب کے ساتھ ڈنر کرکے واپس اپنے کمرے میں آکر تھوڑی دیر اپنی کوئی اسائنمنٹ جو نامکمل تھی اسے مکمل کرنے لگی


تھوڑی دیر وہ اپنا کام کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔۔۔


وہ نیند میں تھی جب اسے لگا کوئی اس کے کمرے میں موجود ہے کسی نے اس کے قریب آکر اس کو ہلکا سا ہلایا اس نے اپنی تھوڑی سی آنکھیں کھول کر شاہزین کو دیکھا اور پھر سونے لگی کہ اس کے کانوں میں شاہزین موم اور ڈیڈ کی آواز گونجی۔۔۔۔


ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ڈئیر شفق ۔۔۔۔۔


ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔۔۔


وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھی اور سب کو حیرت اور خوشی سے دیکھا کیونکہ وہ اپنا برتھ ڈے بھول گئی تھی۔۔۔۔


شفق نے سامنے ٹیبل پر کیک پڑا دیکھا تو اٹھ کر اس کے پاس آئی اور سب کے ساتھ کیک کاٹا اس کے بعد سب سے پہلے تیمور صاحب نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا اور سر ہر پیار دے کر اس کا گفٹ دیا اس کے بعد سحر بیگم اور پھر آخر میں شاہزین نے شفق کو گفٹ دیا ۔۔۔۔۔


وہ تھوڑی دیر سب کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہی پھر سب اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔۔۔۔۔


وہ بھی خوش ہوتی لیٹ گئی۔۔۔۔


صبح ناشتے کے وقت تیمور صاحب نے اسے بتایا تھا کہ رات کو اس کے برتھ ڈے کی خوشی میں اور ایک نیا پروجیکٹ ملنے کی وجہ سے ہوٹل میں پارٹی ارینج کی گئی ہے اور اس کے انتظامات وہ پہلے ہی کرواچکے ہیں۔۔۔۔۔ جانتے تھے کہ ان کا نکامہ بیٹا کسی کام کا نہیں۔۔۔۔۔


وہ ان کی بات سن کر بے حد خوش تھی اسے شروع سے ہی اپنی برتھ ڈے پارٹی کو اینجوائے کرنے کا بڑا مزا آتا تھا۔۔۔


شاہزین ٹی وی لاؤنچ میں سحر بیگم کے پاس آکر بیٹھا تو سحر بیگم نے عینی کو تھوڑی دیر بعد آواز دے کر بلایا۔۔۔


عینی میری بات سنو باہر آکر۔۔۔۔


عینی ان کی آواز سن کر جلدی سے باہر آئی اور ان کے ساتھ بیٹھے شاہزین کو دیکھ کر اس نے اپنے لب کاٹتے ہوئے سحر بیگم سے پوچھا۔۔۔۔


جی میم ؟؟


ہاں ادھر آؤ میرے قریب ۔۔۔۔۔ سحر بیگم نے اسے دور کھڑے دیکھ کر اپنے پاس بلایا۔۔۔۔


وہ ڈرتے ڈرتے ان کے پاس گئی تو سحر بیگم نے ٹیبل پر سائیڈ پر پڑے کچھ پیسے اٹھا کر عینی کی طرف بڑھائے تو وہ ناسمجھی سے سحر بیگم کی طرف دیکھنے لگی جبکہ شاہزین بھی ان کی طرف ہی متوجہ تھا


آج شفق کی سالگرہ تھی تو ہم اس کا صدقہ وغیرہ نکال کر مستحق لوگوں کو دیتے ہیں پہلے تو یہاں رزیہ ہوتی ہے اب وہ نہیں یے تو تم رکھ لو۔۔۔۔


سحر بیگم نے اسے شاہزین کے سامنے اس کی حیثیت دکھانے کے لیے پیسے اس کو دینے کا سوچا تھا ۔۔۔۔


عینی نے ان کی بات سن کر ایک شکوہ کن نظر شاہزین پر ڈال کر پیسے ان کے بڑھائے ہوئے ہاتھ سے پکڑ لیے اور واپس کچن میں چلی گئی پیسوں کو اس نے اپنی بند مٹھی میں جکڑا ہوا تھا جبکہ اس کا دل کیا ہاشم کو مار دے جاکر جس کی وجہ سے لوگ اب اسے مستحق سمجھتے ہیں یہ تو وہی جانتی تھی کہ پیسے پکڑتے ہوئے اسے کتنی تکلیف ہوئی تھی۔۔۔۔


شاہزین ابھی تک حیران تھا کہ سحر بیگم نے ایسا کیوں کیا کیونکہ اسے نہیں یاد کے سحر بیگم نے کبھی صدقہ بھی دیا ہو اسے عینی کی شکوہ کن نظر یاد آئی تو وہ ناگواری سے سحر بیگم سے بولا۔۔۔۔


موم آپ کو اسے دینے کی ضرورت نہیں تھی کسی اور ضرورت مند کو دے دیتی۔۔۔۔۔


تم فکر مت کرو وہ ضرورت مند ہی تھی ۔۔۔۔۔


وہ ناگواریت سے ان کی بات سن کر ان کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سائیڈ ٹیبل سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا اور عینی کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔


کچھ سوچتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر سے نکل گیا۔۔۔۔


شفق سفید پیروں کو چھوتی فراک پہنے تیار کھڑی خود کو شیشے میں دیکھ رہی تھی لائٹ میک اپ کے ساتھ ہلکی پھلکی جیولری پہنے وہ کسی کا بھی دل دھڑکا سکتی تھی۔۔۔۔۔


وہ خود پر ایک تنقیدی نظر ڈالے کمرے سے نکل کر باہر چلی گئی جہاں سحر بیگم نفیس سی نیلے رنگ کی ساڑھی پہنے اس کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔۔۔


شفق کو دیکھ کر سحر بیگم نے مسکرائی اور اسے اپنے ساتھ لیے باہر چلی گئی جہاں ڈرائیور گاڑی کے ساتھ اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔


شاہزین سحر بیگم کے جانے کے بعد گھر داخل ہوا اور تیزی سے اپنے کمرے میں جاکر فریش ہونے چلا گیا وہ بیس منٹ بعد تیار ہوچکا تھا وہ جلدی سے اپنے ساتھ لیا ہوا شاپنگ بیگ اٹھا کر انیکسی کی جانب چلا گیا ۔۔۔۔


عینی نہا کر نکلی اور اپنے بال کو کنگھی کرکے وہ بیڈ پر بیٹھی جلدی سونے کی تیاری میں تھی کیونکہ سب لوگ تو چلے گئے تھے اس وجہ سے گھر میں کوئی کام نہ تھا۔۔۔۔


حور۔۔۔ جلدی سے دروازہ کھولو۔۔۔۔


شاہزین نے عینی کے کمرے کے دروازے پر زوردار دستک دی اور عینی کو پکارا تو وہ جو سونے کی تیاری میں تھی اس کی آواز سن کر اپنی جگہ سے اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر وہ دروازے کی جانب گئی اور دروازہ کھولا تو شاہزین جلد سے اسے سائیڈ کرتا کمرے میں داخل ہو کر عینی سے بولا۔۔۔۔


مجھے وہ پیسے دو جو موم نے تمہیں دیے تھے اور کوئی فضول بکواس سننے کے موڈ میں میں بلکل بھی نہیں ہوں۔۔۔


وہ عینی کو منہ کھولتا دیکھ کر آخری بات بولا۔۔۔تو عینی اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر جلدی سے پیسے نکال کر لائی اور اسے پکڑا دیے۔۔۔۔۔


شاہزین نے وہ پیسے پکڑ کر اپنی جیب میں ڈالے اور اپنے ہاتھ میں موجود شاپنگ بیگ اس کی طرف بڑھایا تو عینی نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔


اس میں تمھارے لیے ڈریس موجود ہے میں چاہتا ہوں تم یہ ڈریس پہن کر ایک گھنٹہ تک تیار ہوجانا میں ایک گھنٹے کے بعد تمھیں لینے آؤں گا۔۔۔۔


شاہزین نے بیڈ پر بیگ رکھا اور اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر کمرے سے نکل گیا تو عینی منہ بناتے ہوئے شاپنگ بیگ کے اندر موجود ڈریس نکال کر دیکھنے لگی۔۔۔


شفق کو سحر بیگم اپنے ساتھ لیے ہی کھڑی تھیں جب شفق کو دور سے علیشبہ ہال میں داخل ہوتے دکھائی دی


وہ سحر بیگم کو بتا کر علیشبہ کے قریب گئی جس نے کالے رنگ کی نفیس سی شورٹ فراک اور ساتھ پجامہ پہنا ہوا تھا وہ لائٹ سے میک اپ کیے بے حد حسین لگ رہی تھی اس نے دوپٹہ اپنے ایک کندھے پر پھیلا کر لیا ہوا تھا۔۔۔۔


علیشبہ شفق کے پاس آتے ہی اس کے گلے لگی اور اس سے دور ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔


شفی تم بے حد حسین لگ رہی ہو اس فراک میں یار اگر میں لڑکا ہوتی تو ضرور تم سے شادی کرتی ۔۔۔۔۔


ہاہا۔۔۔


اس کی بات سن کر وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔


جھوٹ کم بولو مجھے تو لگتا ہے آج پارٹی میں سب نے تمہیں ہی دیکھنا ہے ۔۔۔۔


اس کی نظریں ہال میں داخل ہوتے ارقم پر پڑی جو سفید شلوار قمیض پہنے بے حد وجیہ لگ رہا تھا تو وہ علیشبہ سے بولی۔۔۔


عالی تمھارا بھائی ارقم شاید تمھیں ڈھونڈ رہا ہے ۔۔۔۔۔


اس کی بات سن کر اس نے پیچھے دیکھا تو ارقم اسے دیکھے اس کے قریب ہی آرہا تھا ارقم نے اس کے قریب آکر عالی کو ایک چھوٹا گفٹ پیک پکڑایا ۔۔۔۔۔


جبکہ نظروں کا رخ اپنے سامنے کھڑی پری پیکر پر تھا شفق نے اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے پہلو بدل کر رہ گئی۔۔۔


عالی یہ تم گاڑی میں ہی بھول گئی تھی۔۔۔۔۔


وہ اسے پکڑاتا بولا تو عالی جو شفق کا گفٹ کار میں بھول گئی تھی ارقم کو شکریہ کہتے وہ گفٹ اس نے شفق کی طرف بڑھا دیا تھا۔۔۔۔


عالی میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسی ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں موجود ہوں جب فارغ ہوجاؤ گی تو بتا دینا میں لینے آجاؤ گا ۔۔۔۔


وہ جانے یہ بات عالی کو سنا رہا تھا یا شفق کو وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔


اوکے بھائی آپ کو بتا دوں گی۔۔۔۔


وہ علیشبہ کا جواب سن کر ایک بھر پور نظر شفق پر ڈال کر چلا گیا۔۔۔۔


شفق نے ارقم کے جاتے ہی ایک گہرا سانس لیا اور علیشبہ کے ساتھ پارٹی اینجوائے کرنے لگی۔۔۔


شفق نے شاہزین کے آتے ہی سب کے ساتھ کیک کاٹا اور سب کو کھلانے کے بعد وہ علیشبہ کے ساتھ باتیں کرنے لگی جبکہ سحر بیگم اپنی دوستوں کے ساتھ مصروف تھی اور شاہزین ایک گھنٹہ رک کر واپس چلا گیا تھا جبکہ تیمور صاحب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مصروف تھے ۔۔۔۔۔


شفق عالی کو بتا کر واشروم استعمال کرنے گئی مگر یہ واشروم فل ہونے کی وجہ سے وہ دوسری طرف موجود واشروم میں چلی گئی وہ شیشے میں اپنا میک اپ دیکھ کر باہر نکلی تو اسے ایک لڑکا دیوار کے ساتھ ٹیک لگائت کھڑا ملا وہ لڑکا اسے پارٹی میں بھی دو تین بار اپنی طرف دیکھتا ہوا ملا تھا۔۔۔۔۔


وہ اسے نظر انداز کیے اس کے قریب سے گزر کر جانے لگی کہ اس نے شفق کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔


شفق جو اس اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھی اچانک سے اس کے ہاتھ پکڑنے پر گھبرا گئی اور اپنے ارد گرد دیکھا جہاں کوئی بھی موجود نہ تھا ۔۔۔اور اپنا ہاتھ اس سے چھڑانے لگی مگر اس لڑکے نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت اور مضبوط کر لی۔۔۔۔۔۔۔


یہ کیا بتمیزی ہے ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔۔


ابھی تو میں نے پکڑا ہے ابھی کیسے چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔میں کب سے انتظار کر رہا تھا کہ تم مجھے کہیں اکیلی مل جاؤ۔۔۔۔۔


وہ لڑکا شیطانی مسکراہٹ سے بولا تو شفق کو اس سے خوف محسوس ہوا


لیکن خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے اپنے دوسرے ہاتھ سے انگلیاں اس کی آنکھوں میں مارنے کی ناکام کوشش کی مگر اس نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا


شفق نے اب کی بار غصے سے اپنا پاؤں اٹھا کر سیدھا اسے مارا ۔۔۔۔۔ شفق نے جو ہیل پہنی تھی وہ سیدھی اس کی ٹانگ کی ہڈی میں بجی جس کی وجہ سے اس کی گرفت ڈھیلی ہو تو شفق نے جلدی سے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور تیزی سے دوسری جانب جانے لگی وہ جو بھاگ رہی تھی اس کا فراک پاؤں کے نیچے آگیا جس سے وہ اوندھے منہ نیچے گرنے لگی کہ کسی نے اس کے گرد اپنا حصار بناتے ہوئے اسے نیچے گرنے سے بچایا۔۔۔۔۔


شفق نے جلدی سے اس کا چہرہ دیکھا تو ارقم کو دیکھ کر وہ تھوڑا پر سکون ہوئی مگر اپنی پوزیشن کا خیال کرتے ہوئے وہ جلدی سے اس سے دور ہوئی


کیا ہوا ہے تمھیں اور یہ اتنی تیزی سے کہاں بھاگ رہی تھی اور سب سے بڑی بات تم اس حصے میں کیا کر رہی ہو پارٹی تو ہوٹل کے دوسری سائیڈ پر ہے۔۔۔۔۔


ارقم نے اسے گھبرایا ہوا دیکھ کر پوچھا


و۔۔وہ میں اس طرف واشروم میں آئی تھی و۔۔۔وہ وہاں ایک لڑکے نے زبردستی میرا ہاتھ پکڑا تو میں اسے اپنا ہاتھ چھڑوا کر اس طرف بھاگ آئی۔۔۔۔


اس نے ارقم کو ساری بات سچ سچ بتا دی تو ارقم نے غصہ سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر اس سے پوچھا۔۔۔۔۔


کہاں ہے وہ لڑکا آؤ میرے ساتھ مجھے بتاؤ۔۔۔۔۔


وہ اس کا ہاتھ پکڑے اس طرف لے جانے لگا تو اس نے فورا ارقم کو روک کر بولا۔۔۔۔

ن۔۔نہیں میں اپنا تماشہ نہیں بنانا چاہتی آپ مجھے دوسری طرف چھوڑ آئیں مجھے بس واپس پارٹی میں جانا ہے۔۔۔۔۔

ارقم نے اپنے غصے پر قابو کیا اور اسے دوسری طرف ہال میں لے جانے لگا وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔۔۔۔

سوری ۔۔۔۔۔ وہ اس دن مجھے تمہیں وہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی مگر میری بات کا وہ مطلب نہیں تھا جو تم سمجھ رہی تھی۔۔۔۔

وہ جلدی سے بولا مگر شفق کے ناسمجھ والے تاثرات دیکھ کر اس نے وضاحت کی تو شفق نے بس اپنا سر ہلانے پر اکتفا کیا فلحال اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ ارقم نے اس سے معافی مانگ لی۔۔۔۔

ہاشم تیمور صاحب کے ساتھ کھڑا بات کر رہا تھا وہ دراصل پارٹی میں لیٹ ہو گیا تھا اور ابھی پہنچا تھا مگر وہ دیر سے آنے کی معزرت وہ تیمور صاحب سے کر چکا تھا۔۔۔۔

وہ ام سے بات کر رہا تھا جب اس کی نظریں ایک کونے میں اکیلی کھڑی لڑکی پر پڑی اس نے اس پر ایک نظر ڈال کر اپنی نظروں کا زاویہ بدلہ ہی تھا کہ شناسائی کی رمق کی وجہ سے اس نے دوبارہ اس سمت دیکھا ۔۔۔۔۔۔

کالے نفیس سے فراک میں کھڑی علیشبہ کو پہچاننے میں اسے ایک منٹ لگا تھا وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی یا شاید کبھی وہ اتنا تیار نہ ہوئی تھی یا شاید اس نے کبھی اسے غور سے نہ دیکھا تھا

تیمور صاحب اس سے اکسکیوز کر کے کسی اور سے ملنے گئے تو اس نے ایک تفصیلی نظر پھر علیشبہ پر ڈالی جو اس کا ایک بار دل دھڑکا گئی تھی ۔۔۔۔۔

علیشبہ جو شفق کے جانے کے بعد اکیلی کھڑی تھی خود پر مسلسل کسی کی نظریں محسوس کر کے اس نے اپنی نظریں اٹھا کر ارد گرد دیکھا تو اس کی نظریں خود کو گھورتے ہوئے ہاشم سے ٹکرائیں جو بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس اس کی دھڑکن کو روک گیا۔۔۔۔۔

ہاشم نے علیشبہ کو اپنی جانب دیکھتے ہوئے بھی س سے اپنی نظریں نہ ہٹائیں تھیں۔۔۔۔۔۔

علیشبہ نے اس پر ایک شکوہ کن نظر ڈال کر اپنی نظروں کا رخ بدلا وہ کیسے بھول گئی تھی یہ شخص تو پہلے ہی کسی اور کا ہو گیا تھا اب وہ اس کا کچھ نہیں لگتا تھا وہ ستمگر اس کا کبھی اس کا محبوب ہوا کرتا تھا جسے دیکھنے کے لیے وہ دن گنتی تھی اس کے حویلی آنی کی دعائیں کرتیں تھی۔۔۔

مگر اب وہ بس اس کی محبت اپنے دل سے ختم ہو جانے کی دعا کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔

ہاشم نے اس کی ایک آخری نظر میں ہزاورں شکوے محسوس کر کے اپنے لب بھینچے اور اس پر ایک آخری نظر ڈال کر اپنے قریب کھڑے لوگوں سے بات کرنے لگا۔۔۔۔۔۔

شاہزین پارٹی اٹینڈ کر کے ایک گھنٹے بعد ہی تیمور صاحب سے ضروری کام کا کہہ کر گھر واپس چلا گیا ۔۔۔۔۔

وہ گاڑی باہر کھڑی کر کے انیکسی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

اس نے دروازہ ہلکا سا بجا کر عینی کو پکارا تو اس کی آواز سن کر اس نے تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولا تو شاہزین کا منہ اسے تیار دیکھ کر کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔

وہ بے حد حسین لگ رہی تھی نیلے رنگ کے پاؤں کو چھوتی فراک پہن کر وہ کھلے بالوں اور ہلکے سے میک اپ میں اس کے لیے سراپا امتحان بنی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔

و۔۔۔وہ بس بال باندھنے رہ گئے پ۔۔۔۔پھر میں بس تیار ہوں۔۔۔۔۔۔

نہیں کھلے ہی رہنے دو بال اور آجاؤ چلے لیکن ساتھ اپنی ایک شال لے لو ہمارے پاس صرف دو گھنٹے ہیں اس کے بعد ہم نے واپس بھی آنا ہے۔۔۔

وہ بمشکل اس کے خوبصورت سراپے سے نظریں چرا کر اس کا سر چومتا بولا تو عینی چادر لینے چلی گئی۔۔۔۔۔

وہ عینی کو اپنے ساتھ لیے گاڑی تک آیا اور اس کو اندر بیٹھاتے ہوئے دوسری طرف کا دروازہ کھول کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرکے وہ اسے اپنی منزل کی جانب لے جانے لگا۔۔۔۔۔


اس کا نازک سا دل پکڑے جانے کے ڈر سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ ڈر اسے اپنے ساتھ بیٹھے شاہزین کے غصے سے لگنا تھا اگر وہ اس کے ساتھ آنے سے منع کر دیتی وہ خاموشی سے اپنی گود میں رکھے ہاتھوں سے کھیلنے لگی۔۔۔۔۔


ہم ک۔۔۔کہاں جارہے ہیں۔۔۔


کانپتی آواز میں پو چھا گیا ۔۔۔۔


تمہیں جلد ہی پتا چل جائے گا


شاہزین نے اسے ایک نظر دیکھ کر دوبارہ اپنا رخ سامنے کی جانب کیا۔۔۔۔


اس کے جواب کے بعد عینی نے اپنا منہ بند ہی رکھا تھا ۔۔۔۔


شاہزین نے گاڑی ایک جگہ روکتے ہوئے اسے اپنا ہاتھ دے کر باہر نکالا۔۔۔۔


عینی نے اپنے سامنے ایک ریسٹورنٹ دیکھا تو اس کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا ۔۔۔۔۔


مگر اندر داخل ہوتے ہی اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اسے لگا تھا یہ ایک عام سا ڈنر ہوگا مگر۔۔۔


سارے ریسٹورنٹ کو سجایا گیا تھا اور ہلکی لائٹنگ کی گئی تھی جبکہ پورا ریسٹورنٹ خالی تھا اس کی نظر ریسٹورنٹ کے درمیان میں موجود ٹیبل پر گئی اس پر چھوٹی چھوٹی کینڈلز اور پھول کو رکھے سجایا گیا تھا ۔۔۔۔۔


اس نے مسکراتے ہوئے شاہزین کو دیکھا جو اسے مسکراتے دیکھ خود بھی مسکرا رہا تھا وہ عینی کی مسکراہٹ دیکھ کر جان گیا تھا کہ اسے یہ سب بہت اچھا لگا ہے ۔۔۔۔۔


شاہزین اس کا ہاتھ پکڑے اسے آہستہ آہستہ ٹیبل کی جانب لے جانے لگا ٹیبل کے قریب جاکر عینی کو ٹیبل پر چھوٹا سا کیک پڑا دکھا وہ قریب گئی تو اس پر سوری لکھا ہوا تھا۔۔۔۔


وہ اسے دیکھ رہی تھی جب شاہزین اس کے کان کے قریب جھک کر آہستہ سے بولا۔۔۔۔۔


سوری ہر اس اذیت کے لیے جو تمھیں میری طرف سے ملی ہو لیکن اب میں تمھارے ہر لمحے کو حسین بنانا چاہتا ہوں تمھیں زندگی کے خوبصورت رنگ دکھانا چاہتا ہوں لیکن کچھ وقت درکار ہے امید ہے تم بس تھوڑی دیر اور صبر کر لو گی۔۔۔۔۔


اس نے ہلکا سا اس کی کان کی لو کو چوما اور پیچھے ہو کر عینی کا چہرہ دیکھا جو مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔


شاہزین کی بات سن کر اسے امید تھی شاید اس کی آنے والی زندگی اب سکون سے گزرے مگر جیسی امید کی جائے ضروری تو نہیں ویسا ہو جائے۔۔۔۔


شاہزین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹ کر تھوڑا سا اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا منہ کھولا تاکہ عینی اس کے منہ میں کیک ڈال سکے مگر وہ تو چمچ سے کیک اپنے منہ میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔۔


اس نے اپنا منہ بند کر کے اس کو بٹھانے کے لیے چیئر کھیچنے لگا کہ عینی نے کیک کا چھوٹا سا ٹکرا اس کی جانب بڑھایا جو اس نے فورا ہی منہ کھول کر کھا لیا عینی کو بٹھانے کے بعد وہ خود بھی بیٹھ گیا۔۔۔۔۔


شاہزین اور عینی نے کھانا آرڈر کیا خوشگوار ماحول میں باتیں کرتے ہوئے کھایا۔۔۔۔کھانا کھانے کے بعد شاہزین نے ٹائم دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے اس نے عینی کو اپنے ساتھ لیا اور گھر چلا گیا کیونکہ وہ جانتا تھا تھوڑی دیر بعد سب نے واپس گھر آجانا ہے اور وہ ابھی کسی کو کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔


اس نے گاڑی گھر میں روکی تو شاہزین نے عینی کے گال پر بوسہ دیا تو وہ جلدی سے گاڑی سے نکل کر تیز تہز انیکسی کی جانب چل دی


وہ اپنے کپڑے چینج کرنے گئی جبکہ سوچوں کا مرکز شاہزین تھا اسے اپنی کہانی بلکل سنڈریلا جیسی لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔


شفق واپس پارٹی میں آئی تو ارقم بھی اس کے پیچھے ہال میں آگیا تاکہ علیشبہ سے واپس جانے کا پوچھ لے ۔۔۔۔۔

اسے علیشبہ ایک کونے میں کھڑی نظر آئی تو وہ شفق کے پیچھے اس طرف چل دیا اس کے چہرے سے ہاشم کو وہ کچھ پریشان لگی تو وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا شفق سے پہلے علیشبہ کے پاس پہنچا ۔۔۔۔

کیا ہوا ہے ؟ عالی پریشان لگ رہی ہو ؟ کیا کسی نے کچھ کہا ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمھاری ؟

اسے یہاں دیکھ وہ تھوڑا گھبرا گئی حالانکہ اس نے تو کچھ غلط نہ کیا تھا لیکن وہ اسے ہاشم کو دیکھنے سے پہلے یہاں سے لے جانا چاہتی تھی۔۔۔۔

جی بھائی تھوڑی طبیعت نہیں ٹھیک میری سر میں درد ہو رہا ہے گھر جانا چاہتی ہوں آپ کو ہی میسج کرنے والی تھی بس شفق کا انتظار کر رہی تھی کہ اسے ایک بار بتا دوں پھر چلتے ہیں۔۔۔۔


تم بتا دو پھر چلتے ہیں گھر جا کر میڈسن لینا اور سو جانا پھر صبح تک ٹھیک ہو جاؤ گی۔۔۔۔


شفق کے قریب پہنچنے پر اس نے شفق کو اپنے جانے کا بتایا جبکہ نظریں ارقم پر تھیں کہ وہ کہیں ہاشم کو نہ دیکھ لے شفق سے مل کر وہ ارقم کو اپنے ساتھ لیے باہر کی جانب چل دی


مگر ارقم کے اچانک رک جانے پر وہ بھی رک گئی اور اس کی جانب دیکھا جو اپنے دائیں طرف موجود ہاشم کو دیکھ رہا تھا ارقم کی اچانک ہی نظر ہاشم پر پڑی تھی۔۔۔۔


ہاشم کو دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا تھا اس نے اپنے لُب غصے سے بھینچ لیے۔۔۔۔


کیا اس نے تمہیں کچھ کہا ہے علیشبہ ؟؟؟ اور یہ یہاں موجود تھا تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ورنہ میں تمھیں ایک پل کے لیے بھی اس پارٹی میں رکنے نہ دیتا۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں غرایا تو علیشبہ کانپتی آواز میں بولی۔۔۔۔


بھائی پ۔۔پلیز چلے یہاں سے اور اس نے مجھے کچھ نہیں کہا میں بس یہاں سے جانا چاہتی ہوں ابھی اور اسی وقت ۔۔۔ میری ذات کا تماشہ بھرے مجمعے میں مت بنائے گا بھائی۔۔۔


وہ آخر میں رندھی ہوئی آواز میں بولی تو اس نے اپنی آنکھیں ایک پل کو بند کر کے خود پر ضبط کیا اور اسے اپنے ساتھ لیے تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔۔


ہاشم نے بھی ارقم کو دیکھ لیا تھا مگر ظاہر نہ کیا وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے ارقم کی طرف دیکھ بھی لیا تو وہ اسے بھرے مجمعے میں اس سے لڑنے پر گریز نہ کرے گا۔۔۔۔


وہ بھی پارٹی اٹینڈ کر کے گھر واپس آیا تو اسے اس گھر سے ناجانے کیوں وحشت سی محسوس ہوئی اس نے اپنے دوست سے عینی اور ہادی کو ڈھونڈنے کا بول تو دیا تھا مگر پھر بھی اسے بار بار عینی اور ہادی کی آوازیں اس گھر میں سنائی دیتی تھیں ۔۔۔۔۔


وہ اپنا سر جھٹک کر کمرے میں گیا اور فریش ہو کر سونے کے لیے لیٹ گیا وہ صبج اٹھا اور بھاری دل کے ساتھ شاور لے کر آفس کے لیے تیار ہو کر نیچے آیا تو میڈ نے اسے ناشتہ لگا کر دیا ۔۔۔۔۔۔


سر یہ پارسل کل آپ کے لیے آیا تھا ۔۔۔۔۔


اس نے ایک پارسل اس کے آگے بڑھایا جو ناشتہ کرکے بس جانے ہی والا تھا۔۔۔۔


اس نے پارسل پکڑ کر دیکھا تو بھیجنے والے کا نام نہیں لکھا تھا بس دو انگریزی حروف اے اور زی لکھے ہوئے تھے۔۔۔


اس نے پارسل کھولا تو اس میں سے کچھ تصویریں نکلیں اور ایک لفافہ نکلا پہلے اس نے تصویروں کو دیکھا تو غصہ کی زیادتی سے اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا


وہ تصویریں حمنا کی شاہزیب کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں لی گئیں تھیں وہ مختلف تصویریں تھیں جن میں کبھی حمنا نے شاہزیب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا تو کبھی شاہزیب اس کا ہاتھ چوم رہا تھا۔۔۔۔

اسنے غصے سے تصویریں رکھتے لفافہ کھولا تو اس میں سے کوئی رپورٹ نکلی رپورٹ پر حمنا کا نام لکھا ہوا تھا

اس نے جلدی سے رپورٹ کھولی تو اسے پڑھ کر اسے لگا کہ وہ آج حمنا کو جان سے مار دے گا ۔۔۔۔۔

وہ غصے سے اپنی کرسی سے اٹھا تو اس کے زور سے اٹھنے پر کرسی زمین پر جا گری ۔۔۔۔

وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا حمنا کے کمرے کے قریب گیا اور باہر پڑے ٹیبل سے چابی اٹھا کر اس نے دروازہ دھاڑ سے کھولا اور اندر داخل ہوا تو اسے حمنا بیڈ پر سوئی ہوئی ملی

وہ اس کے قریب گیا اور اسے دونوں بازؤں سے جھنجوڑ کر اٹھایا جبکہ تصویریں اور رپورٹ اس کے ہاتھ میں ہی موجود تھیں۔۔۔۔۔

حمنا ہاشم کے جھنجھوڑنے پر ہڑبڑا کر اٹھی تو ہاشم کا سرخ چہرہ اور آنکھوں کو دیکھ کر اسے بے ساختہ ہاشم سے خوف محسوس ہوا۔۔۔۔۔

تم اتنی گھٹیا عورت ہو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے بچے کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ختم کرنے کی کس سے پوچھ کر تم نے ابورشن کروایا اور تم نے میرے بچے کے قتل کا الزام اس معصوم عینی پر لگایا میں کیسے نہ سمجھ سکا تم تو ایک سپولن ہو جو اپنے بچے کو بھی نگل گئی ۔۔۔۔

وہ اس کے منہ پر رپورٹ پھنکتے ہوئے بولا

ہاں میں نے اس پر الزام لگایا اس لیے کیونکہ مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے تھا سنا تم نے میں فلحال اس ذمےداری کے لیے تیار نہیں تھی میں جانتی تھی کہ تمہیں جب پتا چلے گا تو تم مجھے کبھی بھی ابورشن نہیں کروانے دو گے اس لیے میں نے یہ سب کیا ۔۔۔۔۔

ہاشم نے اس کے گھٹیا باتیں سن کر اس کا منہ تھپڑوں سے لال کر دیا تھا

تم جتنی غلاظت سے بھری ہو مجھے سب پتا چل گیا ہے اب میں ایک پل بھی تم جیسی عورت کے ساتھ نہیں گزار سکتا تمہیں مجھ سے طلاق چاہیے تھی نہ تو لو ابھی میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔

میں ہاشم دروید اپنے پورے ہوش و حواس میں حمنا کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔

طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔۔

طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔

حمنا جو اپنے منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی اس کے طلاق دینے پر وہ بلکل بھی دکھی نہ ہوئی کیونکہ وہ بھی تو یہی چاہتی تھی۔۔۔

ہاشم نے طلاق دینے کے بعد اسے بازو سے پکڑا اور کمرے سے باہر دھکا دیتے ہوئے بولا۔۔۔

دس منٹ کے اندر اپنا گندا وجود میرے گھر سے باہر لے جاؤ۔۔۔۔

حمنا اس کی بات سن کر جلدی سے اپنے کمرے میں گئی اور اپنے کپڑے بدل کر اپنے سوٹ کیس میں اپنی چیزیں رکھیں اور اس کے گھر سے چلی گئی۔۔۔

حمنا کے جانے کے بعد وہ فرش پر گھٹنوں کے بال بیٹھا اپنے بالوں کو ہاتھوں میں لیے اپنا غصے کم کرنے لگا جبکہ عینی اور ہادی کے بارے میں سوچ کر اور اپنے بچے کے بارے میں سوچ کر بہت ضبط کرنے کے باوجود بھی ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر زمین پر گرا۔۔۔۔۔

وہ ضبط کی انتہا پر تھا محبت جس عورت سے اسے کبھی تھی وہ سانپ کی طرح ڈس کر جا چکی تھی اپنے بہن بھائی کو اس نے خود اپنے سے دور کردیا تھا علیشبہ کا وہ مجرم تھا حویلی میں کوئی اس کی شکل دیکھنا پر تو کیا اس سے بات کرنے پر بھی راضی نہ تھا۔۔۔۔

وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا ہوا تھا جب اسے عینی اور ہادی کے ساتھ کی گئی زیادتی یاد آئی۔۔۔۔۔


ماضی :


حمنہ شروع سے ہی عینی اور ہادی سے بات چیت کم ہی کرتی تھی اسے عینی تو بلکل بھی پسند نہ تھی ۔۔۔۔۔


عینی اس کی ناپسندیدگی دیکھتے ہوئے خود بھی حمنا سے دور ہی رہتی تھی اور ہادی کو بھی دور ہی رکھتی تھی ان کی صرف ڈنر پر کبھی کبھار ہاشم سے بات ہوتی تھی وہ بھی زیادہ تر حمنا کے ساتھ یا تو پارٹی میں گیا ہوتا یا پھر کسی ہوٹل میں۔۔۔۔۔۔


حمنا کو ایک سال ہو گیا تھا ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے مگر پھر بھی عینی یا ہادی کو بلانا پسند نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔۔


ایک دن اس کی طبیعت خراب ہونے پر اس نے اپنا چیک اپ کروایا تو اسے اپنی پریگنسی کا معلوم ہوا ۔۔۔۔۔


وہ ابھی فلحال کوئی بچہ نہیں چاہتی تھی وہ جانتی تھی کہ ہاشم کبھی بھی اسے ابورشن نہیں کروانے دے گا ۔۔۔۔۔


اس نے عینی اور ہادی سے پیچھا چھڑانے کے ساتھ ساتھ خود کو مظلوم ظاہر کرنے کے لیے ایک پلین بنایا اور اس پر عمل کرنے کے لیے اس نے پہلے ہی ڈاکٹر کو پیسے کا لالچ دے کر ابورشن کروالیا ۔۔۔۔۔۔۔


وہ اتوار کا دن تھا جب ہاشم اپنے کمرے میں شاور لے رہا تھا اس نے ہاشم کو واشروم سے باہر نکلتے دیکھا تو جلدی سے ٹی وی لاؤنچ میں صوفے کے قریب گئی جہاں عینی ہادی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔


وہ اس کے قریب گئی اور ایسے گری کے ہاشم جو اس طرف آرہا تھا اسے لگا عینی نے اپنا پاؤں آگے کر کے حمنا کو جان بوجھ کر گرانے کی کوشش کی ہے وہ حمنا کے نیچے گرتے اور اس کی چیخ سن کر جلدی سے اس کے پاس گیا۔۔۔۔


جبکہ عینی اسے گرتے دیکھ پریشانی سے اپنی جگہ سے اٹھی۔۔۔۔


آہ۔۔۔۔ ہاشم مجھے بہت درد ہو رہی پیٹ میں پلیز ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔


وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے نکلی آنسو بہاتے بولی تو ہاشم جلدی سے اسے اٹھا کر باہر کی جانب بھاگا اور ڈرائور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا کہا۔۔۔۔۔


ڈرائیور اسے ایک قریبی پرائیویٹ ہوسپٹل لے آیا جہاں پہلی ہی ایک ڈاکٹر موجود تھی جس نے پہلے ہی اس کا ابورشن کیا تھا۔۔۔۔


اس نے ہاشم کو بتایا کہ حمنا ون ویک پریگیننٹ تھی مگر پیٹ کے بل نیچے گرنے سے بچہ بچ نہ سکا۔۔۔۔۔۔


وہ تو یہ سن کر ہی صدمہ میں چلا گیا ۔۔۔۔


یہ سب تمھاری بہن کی وجہ سے ہوا ہے پتا نہیں اس کی کیا دشمنی تھی جو اس نے مجھے نیچے گرایا جب سے میری شادی ہوئی یے وہ تو مجھے سیدھے منہ بلاتی بھی نہ تھی اور اب تو اس نے میرے بچے کو بھی مار دیا ہے۔۔۔۔۔۔


ہاشم اگر تم چاہتے ہو کہ میں واپس گھر جاؤں تو تمہیں انھیں گھر سے نکالنا ہو گا میں بلکل بھی ایسی جگہ پر نہیں رہ سکتی جہاں میری جان کو خطرہ ہو ابھی تو اس نے تمھاری موجودگی میں میرا یہ حال کیا تم خود سوچو اگر تم موجود نہ ہوئے کبھی وہ تو مجھے مار ہی دے گی ۔۔۔۔۔


حمنا نے ہاشم کے سامنے بڑا واویلا مچایا ۔۔۔۔۔


اور تمھاری بہن بھائی بس شکل سے ہی معصوم لگتے ہیں پہلے بھی ایک دو بار عینی نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی مگر میں تم لوگوں میں لڑائی نہیں کروانا چاہتی تھی اسی وجہ سے نہیں بتایا مگر اب میں خاموش نہیں رہو گی تمھیں ان دونوں کا یا پھر مجھے چننا پڑے گا۔۔۔۔۔


ہاشم جو پہلے ہی غمگین تھا اس کی بات سن کر اسے شدید غصہ آیا اور وہ حمنا کو ان دونوں کو گھر سے نکالنے کا بول کر واپس گھر لے گیا جہاں ہادی اور عینی پر یشان بیٹھے تھے۔۔۔۔۔


وہ ہادی کے ساتھ پریشان سی بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب ہاشم آندھی طوفان بنے حمنا کو ساتھ لے کر گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔


انھیں آتا دیکھ عینی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تو ہاشم نے حمنا کو صوفے پر سائیڈ پر بیٹھایا اور غصے سے عینی کے پاس گیا جبکہ ہاشم کو غصے میں دیکھ کر ہادی بھی کھڑا ہو کر ڈر کر تھوڑا عینی کے پیچھے چھپ گیا۔۔۔۔۔


تم اپنا سامان باندھو اور نکلو یہاں سے فورا ۔۔۔۔۔


ی۔۔یہ کیا کہہ رہے بھائی میں نے کیا کیا ہے ؟؟


تم نے میرے بچے کو مار دیا اور تم پوچھ رہی ہو کہ تم نے کیا کیا ؟؟ تمھارے اس معصوم چہرے کے پیچھے چھپا مکار چہرہ میری نظروں کے سامنے آگیا ہے ۔۔۔۔۔


بھائی میں نے کچھ نہیں کیا آپ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں میں کیوں آپ کے بچے کو ماروں گی ؟؟


وہ ناسمجھی سے بولی۔۔۔۔۔


بکواس بند کرو اپنی اور فورا میرے گھر سے نکلو مجھے تمھارا کوئی جھوٹ نہیں سننا ۔۔۔۔۔


بھیا آپ بہت برے ہیں ۔۔۔۔۔۔ عینی اپی سچ بول رہی ہیں۔۔۔


ہادی عینی کے پیچھے سے نکل کر بولا


چٹاخ۔۔۔۔۔


تم بھی اس کے جیسے ہو اس کو بھی لو اور یہاں سے دفعہ ہو جاؤں ۔۔۔


آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے بھائی کے تھپڑ مارنے کی آپ نے کہہ دیا ہے تو ہم جا رہے ہیں لیکن یاد رکھیے گا روزِمحشر آپ اس سب کے جواب دہ ہوں گے۔۔۔۔۔


اور سچ اور جھوٹ کیا ہے جلد ہی آپ کو پتا چل جائے گا مگر یاد رکھیے گا بھائی آپ کے پاس دولت شہرت سب کچھ ہوگا لیکن سکون آپ کو کبھی بھی میسر نہ ہوگا۔۔۔۔


عینی اپنے کمرے میں گئی اور سب سے پہلے اس نے ایک ڈائری میں لکھا ارقم کا نمبر ڈھونڈا اور اسے کال ملانے لگی جب چار بار مسلسل فون کرنے کے بعد ارقم نے کال اٹھائی تو عینی کی آواز سن کر اس کی بات سننے سے پہلے ہی کال کاٹ دی۔۔۔۔


عینی نے پریشانی سے جلدی سے اپنے پاس موجود پیسے نکالے جو ہاشم نے اسے اور ہادی کو نئے کپڑے لینے کے لیے دیے تھا مگر وہ لینی نہ جا سکی تھی اس نے وہ پیسے اپنے بیگ میں ڈال کر اپنے کچھ جوڑے بیگ میں رکھے اور ساتھ ہی ہادی کا بھی چھوٹا سا بیگ پکڑ کر اس میں اس کے کپڑے رکھے۔۔۔۔


وہ گھر سے ہادی کے ساتھ نکلی تو اسے نہیں پتا تھا کہ وہ اب کہاں جائے گی چلتے چلتے تو اب وہ دونوں تھک گئے تھے اور وہ لوگ گھر سے بھی کافی دور آچکے تھے ۔۔۔۔۔


عینی کو لگا تھا شاید ہاشم اسے روک لے مگر نہیں وہ تو بے حس بنا اپنی بیوی کے پہلو میں بیٹھا ان دونوں کو جاتے دیکھ کر بھی خاموش ہی رہا تھا ۔۔۔۔۔۔


وہ ایک پارک میں تھوڑی دیر رکے تھے وہاں پر ہی انھیں اماں جنت ملی جو انھیں اپنے ساتھ لے گئی اور عینی سے پوچھ کر ساتھ والا گھر کرائے پر دلوا دیا۔۔۔۔


حال :


وہ خود کو سنبھالتا ہوا اٹھا اور اپنے آفس چلا گیا اور خود کو آفس کے کام میں مصروف کرنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگا


وہ خوشی سے کھڑی اپنے ڈیپارٹمنٹ کے باہر کھڑی علیشبہ کا انتظار کر رہی تھی جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی دراصل وہ ایک نظر ارقم کو بھی دیکھنا چاہتی تھی ورنہ اس کا انتظار وہ کلاس کے باہر ہو کر بھی کر سکتی تھی۔۔۔۔۔


جب تھوڑی دیر تک علیشبہ نہ آئی تو وہ اس کا انتظار کرکے تھکتی اپنا لیکچر لینے چلی گئی مگر علیشبہ نہ آئی اسے پتا چل گیا تھا کہ آج علیشبہ یونیورسٹی نہیں آئی ورنہ اب تک اس نے کلاس میں موجود ہونا تھا۔۔۔۔


وہ منہ بسورتے ہوئے کلاس لے کر اٹھی اور کینٹن میں چلی گئی اس نے صبح ناشتہ صحیح سے نہیں کیا تھا جس وجہ سے اب اسے بھوک لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔


وہ کینٹین سے برگر اور چیپس لے کر آئی اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے لگی ۔۔۔۔۔


اپنے سامنے چئیر پر کسی کو بیٹھتے دیکھ وہ جو بڑے مزے سے منہ نیچے کیے جلدی جلدی کھا رہی تھی اس نے نظریں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے شخص کا چہرہ دیکھا تو ارقم کو دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنے منہ میں موجود نوالہ نگلا اور تھوڑا سا پانی پی کر تہزیب سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔


اسے اپنی جانب دیکھتا پاکر شفق نے خود ہی بات کا آغاز کیا ۔۔۔۔۔


علیشبہ کیوں نہیں آئی آج میں کافی دیر ڈیپارٹمنٹ کے باہر کھڑی اس کا انتظار کرتی رہی تھی۔۔۔۔۔


اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس وجہ سے وہ آج آ نہ سکی۔۔۔۔ ویسے تم مجھ سے پوچھ لیتی ایک بار تو تمہیں میں بتا دیتا ۔۔۔۔۔۔۔


میرے پاس آپ کا نمبر نہیں ہے اور ڈیپارٹمنٹ آپ کا دوسری طرف ہے اگر آپ کے ڈیپارٹمنٹ جاکر پوچھتی تو بھی اتنا ہی وقت لگنا تھا۔۔۔۔


ہمم۔۔۔ تم ایسا کرو میرا نمبر سیو کر لو اور مجھے اپنا نمبر دے دو اس طرح تم کبھی بھی مجھ سے رابطہ کر سکو گی ۔۔


وہ خوشگوار لہجے میں بولا تو شفق نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اسے اپنا نمبر دے ہی دیا اور اس کا بھی اپنے موبائل میں سیو کر لیا۔۔۔۔۔


تم پارٹی میں تھکی نہیں تھی جو آج بھی یونیورسٹی آگئ ہو۔۔۔۔۔


وہ مزے سے اس کی پلیٹ سے چیپس اٹھا کر کھاتا ہوا بولا


نہیں تھک تو گئی تھی میں لیکن عالی کی وجہ سے آگئی میں نے سوچا اگر میں نہیں گئی تو وہ اکیلی پورا دن بور ہوگی۔۔۔۔


وہ اسے اپنی چیپس کھاتے دیکھ بولی اور خود بھی کھانے لگی۔۔۔۔


آہاں۔۔۔۔ لگتا ہے کچھ زیادہ ہی عالی کی فکر ہے تمھیں مجھے تمھاری بات بہت پسند آئی۔۔۔۔


وہ مسکراتا ہوا چیپس کھا کر بولا اسے واقعی اس کی بات پسند آئی تھی۔۔۔


کیا آپ کے آج کوئی دوست نہیں آیا جو آپ اکیلے یہاں بیٹھے ہیں ؟؟


کیا میرے یہاں بیٹھنے سے تمھیں کوئی اعتراض ہے ؟؟ اگر تمہیں برا لگ رہا ہے تو میں چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔


وہ سنجیدگی سے بولا تو شفق جلدی سے بولی۔۔۔۔۔


ن۔۔۔نہیں میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا میں تو و۔۔۔ویسے ہی پوچھ رہی تھی ۔۔


وہ لیکچر لے رہے ہیں میرا دل نہیں کر رہا تھا آج لیکچر لینے کو تو اس وجہ سے میں یہاں موجود ہوں۔۔۔۔۔لیکن اب لیکچر ختم ہو گیا ہوگا تو میں چلتا ہوں اور اسی اؤلی چیزیں کم کھایا کرو ورنہ شادی تک تم نے موٹی ہو جانا ہے۔۔۔۔


وہ اس کی ساری چیپس کھا کر اس سے بولا اور آخری بات معنی خیزی میں کرتا اپنی جگہ سے اٹھا اور چلا گیا۔۔۔۔۔


موٹا کہیں کا ساری چیپس خود کھا گیا ہے اور بول مجھے رہا تھا۔۔۔۔


میں کہں سے بھی موٹا نہیں ہوں۔۔۔۔۔ اور تم موٹی نہ ہو جاؤ اسی وجہ سے میں نے چیپس کھالی ۔۔۔۔ ایک تو آج کل کے لوگ بہت احسان فراموش ہوگئے ہیں۔۔۔۔


شفق جو اس کے جانے کے بعد خود سے بولی رہی تھی تو ارقم جو ابھی اس کے پیچھے ہی کھڑا تھا فورا بول اٹھا تو شفق نے اپنی آنکھوں کو پھیلا کر پیچھے دیکھا جو اسے احسان فراموش کہہ کر جا چکا تھا۔۔۔۔ وہ بھی منہ بسورتی اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنی کلاس میں چلی گئی۔۔۔۔


سحر بیگم اس وقت سو رہی تھیں اور اپنی کل کی تھکن اتار رہی تھیں جبکہ عینی اپنے معمول کے مطابق کام کر رہی تھی۔۔۔۔


شاہزین نیند سے بیدار ہوا اور رات کے بارے میں سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور مسکراتے ہوئے فریش ہونے چلا گیا ۔۔۔۔


وہ فریش ہو کر نیچے آیا تو ہال میں کوئی موجود نہ تھا وہ آرام سے سحر بیگم کے کمرے میں گیا اور آہستہ سے دروازہ کھول کر دیکھا تو سحر بیگم کو سوتے پا کر وہ بنا آواز پیدا کیے دروازہ بند کر کے کچن کی طرف گیا ۔۔۔۔۔


وہ جانتا تھا کہ عینی زیادہ تر کچن میں ہی پائی جاتی اور آج کل رزیہ بھی یہاں نہیں ہے جس کا وہ بھر پور فائدہ اٹھا کر عینی کو تنگ کرنے کچن میں چلا گیا ۔۔۔۔۔


وہ معمول کے مطابق دوپہر کے کھانے کا انتظام کر رہی تھی۔۔۔۔


اسے پورا دن کام کرتا دیکھ اسے بہت برا لگتا تھا وہ جلد ہی اپنے نکاح کے بارے میں تیمور صاحب کو بتانا چاہتا تھا مگر وہ جب بھی ان سے بات کرنے جاتا تو وہ اسے دوسری باتوں اور بزنس جوائن نہ کرنے کا طعنہ دینے لگتے تو وہ بات کیے بغیر ہی آجاتا۔۔۔


وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے قریب گیا اور پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا تو عینی اچانک ڈر گئی مگر پیچھے مڑ کر شاہزین کو دیکھ کر جہاں وہ پر سکون ہونے لگی تھی وہی سحر بیگم کا سوچ کر اس کے پسینے چھوٹنے لگے تھے

پ۔۔پلیز سحر میم آجائیں گی شاہ ۔۔۔۔

کس نام سے تم نے ابھی مجھے پکارا ؟؟ زرا دوبارا پکارنا ۔۔۔

وہ اس کے منہ سے اپنے لیے شاہ سن کر اپنی مسکراہٹ دبا کر بولا جبکہ دوسری بات تو سرے سے ہی نظر انداز کر گیا تھا۔۔۔۔

و۔۔۔وہ غ۔۔غلطی سے نکل گ۔۔۔۔۔

ششش۔۔۔۔ صرف جو کہا ہے وہ کرو مجھے دوبارہ اسی نام سے پکارو ۔۔۔۔۔

وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھے بولا تو اس کا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کر کے ہلکا سا کپکپانے لگی۔۔۔۔ اور اپنی دھیمی میٹھی آواز میں اسے پکارا۔۔۔۔

ش۔۔۔شاہ۔۔۔

شاہزین کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوئی اس کے منہ سے اپنا نام سن کر ۔۔۔۔ اس نے بے ساختہ اس کا رخ اپنی جانب موڑا اور اس کے ماتھے کو چوما۔۔۔۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟؟

وہ ابھی عینی کو اپنے حصار میں لیے اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھے کھڑا تھا جب سحر بیگم کی غصے سے بھری آواز دونوں کو سنی تو شاہزین فورا عینی کو چھوڑ کر پیچھے ہوا اور سحر بیگم کو دیکھا جن کا چہرہ غصے سے سرخ تھا جبکہ عینی تو سحر بیگم کو دیکھ کر خوف سے کانپنے لگ پڑی تھی۔۔۔۔۔

موم۔۔۔۔۔

تم لڑکی تمھیں زرا شرم نہ آئی میرے بیٹے کو پھنساتے ہوئے اور ہماری پیٹ پیچھے یہ سب کرتی ہو اپنی اوقات بھول گئی تم اور تم شاہزین نکلو یہاں سے اس کو تو آج میں چھوڑوں گی نہیں ۔۔۔۔۔

وہ شاہزین کو نظر انداز کر کے عینی کی طرف بولتے ہوئے بڑھیں اور آخر میں شاہزین کو جانے کا بول کر عینی کو تھپڑ مارنے لگی تو شاہزین نے فورا آگے بڑھ کر سحر بیگم کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔۔

اس کی اوقات کیا ہے یہ میں آپ کو بتاتا ہوں ۔۔۔۔ آپ جاننا چاہتی ہیں اس کی حیثیت کیا ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں بیوی ہے یہ میری نکاح کیا ہے میں نے اس اور میں ہر گز برداشت نہیں کروں گا کہ آپ اس کے کردار پر الزام لگا کر اس پر ہاتھ اٹھائیں۔۔۔

اس کی باتیں سن کر سحر بیگم کے کانوں سے غصے سے دھواں نکلنے لگا۔۔۔۔۔

بکواس کر رہے ہو تم میں کبھی بھی اس کو اپنی بہو نہیں مانو گی بلکہ یہ ابھی اس گھر سے جائے گی ۔۔۔۔ اپنا بوریا بسترا اٹھاؤ اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔۔۔

آپ مانے یا نہ مانیں وہ بیوی ہے میری اور وہ کہیں نہیں جائے گی اور تم حور کمرے میں جاؤ میرے ابھی۔۔۔۔۔

وہ سحر بیگم سے بول کر عینی کو کانپتے دیکھ اسے فورا کمرے میں بھیجا۔۔۔۔

میں ابھی تیمور کو فون کرتی ہوں وہ آکر تمھاری عقل ٹھکانے لگاتے ہیں اور اسے بھی نکالتے ہیں یہاں سے۔۔۔۔۔

وہ غصے سے تن فن کرتی تیمور صاحب کو فون کرنے چلی گئی

تیمور صاحب جو میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے سحر بیگم کی کال آتے دیکھ پہلے تو انہوں نے اگنور کرنے کا سوچا پھر کچھ ضروری کام نہ ہو اس وجہ سے ایکسکیوز کر کے باہر آکر انھوں نے کال اٹھائی تو دوسری جانب سے سحر بیگم کی غصے سے بھری آواز انھیں سنائی دی۔۔۔۔


تیمور آپ فوری گھر آئیں آپ کے لاڈلے بیٹے نے گھر کی کام والی سے شادی کر لی ہے۔۔۔۔


تیمور صاحب جو شاہزین کو اپنا لاڈلہ بیٹا کہے جانے پر ابھی حیران تھے کہ ان کی اگلی بات پر تو صدمے میں ہی چلے گئے۔۔۔۔


کیا مطلب شاہزین نے رزیہ سے شادی کرلی یے ؟؟


ان کی بات سن کر سحر بیگم جو اپنا غصہ کم کرنے کے لیے پانی پی رہی تھیں ان کو پانی پیتے اچھو لگ گیا۔۔۔۔۔


افف۔۔۔۔ تیمور اس نے عینی سے نکاح کر لیا ہے وہ تو ہمیں کبھی نہ بتاتا میں نے ہی اسے آج رنگے ہوتھوں پکڑا ہے۔۔۔۔ اور آپ باقی باتیں گھر آکر کریں نواب زادہ میرے کنٹرول میں بلکل بھی نہیں آرہا۔۔۔۔۔


یہ تمھاری ڈھیل کا ہی نتیجہ ہے اب بھگتو ویسے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔۔۔


تیمور ۔۔۔۔ آپ فورا گھر آئیں مجھے فون پر اب مزید کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔


وہ غصے سے تیمور صاحب کو جواب دے کر فون بند کر گئی۔۔۔۔


جبکہ تیمور صاحب کے چہرے پر فکر کے کوئی تاثرات نہ تھے بلکہ وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہے تھے وہ واپس میٹنگ روم میں گئے اور میٹنگ ختم کرتے ہوئے گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔۔۔۔


شاہزین کمرے میں داخل ہوا تو عینی کمرے میں بے چینی سے چکر لگا رہی تھی جبکہ اس کے چہرے پر خوف صاف نظر آرہا تھا۔۔۔۔۔


وہ شاہزین کو دیکھ کر ایک جبگہ رک گئی اور اپنا منہ جھکائے انگلیاں مڑوڑنے لگی۔۔۔۔۔


تو شاہزین اس کے قریب آیا اور اس کو پکڑ کر اپنے حصار میں لیا جو ہلکا ہلکا خوف سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔


میں تمھیں تمھارے کمرے سے ایک ڈریس لاکر دیتا ہوں تب تک تم شاور لے کر اپنا میک اپ وغیرہ صاف کر لو ڈیڈ بس تھوڑی دیر تک آجائیں گے اور تم فکر مت کرو میں تم پر کوئی الزام نہیں لگنے دوں گا ویسے بھی یہی حقیقت ہے کہ میں نے ہی تم سے زبردستی شادی کی تھی۔۔۔۔


وہ اسے خود سے الگ کرتا اس کے ماتھے کو چھوتا بولا ۔۔۔۔۔۔


تو عینی نے معصومیت سے اس کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور شاور لینے چلی گئی۔۔۔۔۔


تیمور صاحب گھر میں داخل ہوئے تو سحر بیگم غصے سے سرخ چہرے کے ساتھ ہال میں صوفے پر بیٹھی اپنا پاؤں جھلا رہی تھی جو ان کی عادت تھی۔۔۔۔


تیمور صاحب کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور جلدی سے ان کو اپنے قریب آتے دیکھ وہ فورا بولی۔۔۔۔


میں آپ کو بتا رہی ہوں تیمور فورا اس لڑکی کو اپنے اس گھر سے دفعہ کرنا ہے مجھے وہ ہر گز اپنی بہو کے روپ میں منظور نہیں۔۔۔۔


ہممم ۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے آپ شاہزین کو اور اس کی بیوی کو میرے سٹڈی روم میں بھیجیں میں ان سے اکیلے بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔


نہیں جو بھی بات آپ کرنا چاہتے ہیں میرے سامنے کریں ۔۔۔۔۔


بسس۔۔۔میں نے ایک بار کہہ دیا ہے فورا دونوں کو سٹڈی میں بھیجو ۔۔۔


شاہزین جو اپنے کمرے سے باہر نکل کر گرل پر کھڑا نیچے تیمور صاحب کی باتیں سن رہا تھا ان کی بات مکمل کرنے کے بعد وہ روم میں گیا جہاں عینی پیلا سوٹ پہنے کھلتا ہوا پھول لگ رہی تھی اس نے دوپٹہ نفاست سے اوڑھا ہوا تھا


وہ سحر بیگم کے بتانے سے پہلے ہی عینی کو حوصلہ دیتا اپنے ساتھ لے کر سڑھیاں اتر کر تیمور صاحب کے سٹڈی روم میں لے جانے لگا تو ہال میں بیٹھی سحر بیگم نے حقارت بھری نظروں سے عینی کو دیکھا جو سر جھکائے شاہزین کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی جبکہ اس کا ایک ہاتھ شاہزین نے پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔


وہ سحر بیگم کی نظروں کو نظر انداز کیے عینی کے ساتھ سٹڈی روم میں ناک کر کے داخل ہوا ۔۔۔۔


تیمور صاحب جو کرسی پر بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے ان دونوں کو اندر آتے دیکھ وہ تھوڑا سیدھا ہو کر بیٹھے شاہزین کے ساتھ لڑکی کو دیکھ کر انھوں نے ناسمجھی سے شاہزین کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔


وہ ڈیڈ یہ حورالعین ہی ہے بس پہلے اپنی رنگت کو چھپانے کے لیے میک اپ کرتی تھی اور وہ بھی موم کے کہنے پر ۔۔۔۔۔


ان کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر وہ بولا تو تیمور صاحب نے اب کی بار غور سے عینی کو دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی۔۔۔۔۔


غور سے دیکھنے پر انھیں صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ عینی ہی ہے۔۔۔۔۔


ہاں جی ۔۔۔۔ بقول میری بیگم کے میرے لاڈلے بیٹے اس سب کی وضاحت دو ۔۔۔۔۔

مجھے حور پسند تھی میں جانتا تھا کہ موم اسے کبھی قبول نہیں کریں گی اسی وجہ سے آپ سب لوگوںسے چھپ کر میں نے اس سے (زبردستی ) نکاح کر لیا۔۔۔۔۔

وہ " زبردستی" لفظ منہ میں ہی دبا کر بولا۔۔۔۔۔

تو تم پہلے سے عینی کو جانتے تھے ؟؟ اور اس کی اصل رنگ و روپ سے بھی واقف تھے۔۔۔۔

جی ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ ایک بار ریسٹورنٹ میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ ( اور وہاں حور کا ہاتھ پکڑا تھا جس کے بدلے میں مجھے تمغہ تھپڑ سے نوازا گیا )

وہ تھوڑا ہچکچاتے ہوئے بولا اور آخری باتیں دل میں سوچیں کیونکہ اونچا بول کر وہ تیمور صاحب سے جوتے نہیں کھانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔

تو عینی بچے آپ بھی راضی تھے نکاح کے لیے یا میرے " لاڈلے بیٹے " نے زبردستی نکاح کیا آپ کو اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں جو سچ بات ہے وہ بتا دو کیونکہ میں اپنے لاڈلے بیٹے سے اس چیز کی توقع بھی کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔

تیمور صاحب نے اس کی بات سن کر سیدھا سوال عینی سے کیا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی مگر ان کی بات سن کر اس نے اپنی سہمی معصوم آنکھوں سے انھیں دیکھا اسے لگ رہا تھا کہ وہ بھی سحر بیگم کی طرح اسے برا بھلا کہیں گے۔۔۔۔۔

جبکہ ان کے اچانک عینی سے پوچھنے پر شاہزین گڑبڑا گیا اور عینی کی طرف دیکھ کر اس کی جگہ جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ تیمور صاحب کی زبردست گھوری سے فورا اس نے اپنا منہ بند کر کے اپنے لب بھینچ لیے۔۔۔۔

و۔۔وہ سر ش۔۔شاہ نے مجھ سے ز۔۔۔زبردستی نکاح نہیں کیا تھا شاہ نے مجھ سے سیدھا نکاح کے لیے پ۔۔۔۔پوچھا تھا ت۔۔۔تو میں نے ہاں میں جواب دے دیا تھا۔۔۔۔

اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ جواب دیا وہ بلکل نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے شاہزین اور ان کے درمیان کسی بھی طرح کی لڑائی ہو اس لیے اس نے صفائی سے جھوٹ بولنے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔۔۔

اس کی شاہزین کو بچانے کی کوشش پر تیمور صاحب نے ہلکا سا مسکرائے جو شاہزین کے دیکھنے سے پہلے ہی ان کے چہرے سے غائب ہو چکی تھی۔۔۔۔۔

جبکہ شاہزین نے عینی کا جواب سن کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اس کا دل کر رہا تھا کہ عینی کا منہ چوم ڈالے یہ بات سن کر۔۔۔۔۔

ہممم۔۔۔۔ شاہزین اگر تم عینی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہو میری ایک شرط ہے۔۔۔۔۔

تیمور صاحب نے ایک نظر شاہزین کو دیکھ کر مزید کہا۔۔۔

میں چاہتا ہوں کہ تم اب میرے ساتھ بزنس جوائن کرو اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ویسے مجھے عینی پوری طرح قبول ہے مگر اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔

انھوں نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہزین کو لگام ڈالنے کا سوچا ۔۔۔۔۔

اوکے ڈیڈ میں آفس جوائن کر لوں گا مگر اگلے ہفتے سے۔۔۔۔

وہ ان کی بات سن کر جلدی سے بولا ۔۔۔۔

چلو ٹھیک ہے پھر اگلے ہفتے سے تم میرے ساتھ آفس جاؤ گے۔۔۔۔ اور سحر کی فکر مت کرو میں اسے سمجھا دو گا۔۔۔۔

وہ شاہزین سے بولے تو شاہزین مسکراتا ہوا عینی کو لے کر چلا گیا۔۔۔۔۔

سحر بیگم بے چینی سے ان کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی وہ بس عینی کو اس گھر سے باہر نکال کر اپنے بیٹے سے دور کرنا چاہتی تھیں کیونکہ ان کے مطابق شاہزین کی بیوی بننے کا حق صرف عشا ( ان کی بہن کی بیٹی ) کا ہی تھا۔۔۔۔۔


شاہزین اور عینی کو مسکراتے باہر آتے اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دیکھ ان کی تو آنکھوں میں مرچیں چھبنے لگیں وہ غصے سے قریب آتی عینی پر جھپٹی اور اسے برا بھلا کہنے لگیں مگر شاہزین نے انھیں عینی کے قریب بھی نہیں جانے نہیں دیا تھا ۔۔۔۔


تم چالاک لڑکی مجھے پہلے ہی تمھیں دیکھ کر سمجھ جانا چاہیے تھا تم جیسے لڑکیاں بس امیر لڑکوں کو پھسانے کے لیے ہی بڑے گھروں میں میں کام کرتیں ہیں چھوڑو مجھے شاہزین۔۔۔۔


وہ اپنا آپ شاہزین سے چھڑاتی ہوئی بولیں جو ان کو پکڑ کر کھڑا تھا جبکہ عینی اپنی جگہ کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی ۔۔۔۔


بس کریں ۔۔۔۔ موم اس نے کچھ بھی نہیں کیا میں نے اسے پسند کر کے نکاح کیا تھا ۔۔۔۔۔۔


سحر بیگم اس کی بات کو مظر انداز کر کے اسے دور دھکیل کر عینی کی طرف بڑھی۔۔۔۔


چٹاخ۔۔۔۔۔


وہ عینی کو کھینچ کر تھپڑ مارنے لگیں کہ شاہزین فورا اس کے سامنے آگیا جس سے تھپڑ سیدھا اس کے گال پر لگ کر اسے سرخ کر چکا تھا۔۔۔


گھر میں داخل ہوتی شفق نے یہ منظر دیکھا تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر شاہزین کے سرخ چہرے اور ایک لڑکی کو اس کے پیچھے کھڑا ناسمجھی سے دیکھا۔۔۔۔


جبکہ سحر بیگم نے شاہزین کا سرخ گال دیکھ کر کچھ کہنا چاہا تو شاہزین ان کی بات کاٹتا سرخ آنکھوں سے بولا۔۔۔۔


آئندہ کے بعد حور پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش بھی مت کیجیے گا موم اب وہ اس گھر میں کام نہیں کرتی بلکہ اب وہ میری بیوی کی حیثیت رکھتی ہے اور مجھے بلکل گوارا نہیں کہ کوئی اسے ہلکی سی بھی تکلیف پہنچائے۔۔۔۔


تیمور صاحب جو شور سن کر باہر آئے تھے شاہزین کی بات سن کر قریب آئے تو اس کے چہرے پر سرخ نشان دیکھ کر انھیں ساری بات سمجھ آگئی۔۔۔۔


تیمور صاحب نے ایک نظر سحر بیگم کو دیکھا جو شاہزین کی بات پر کان دھرے بغیر اس کا سرخ گال دیکھ رہی تھیں


سحر فوری سے پہلے کمرے میں چلی جاؤ میں تو تمہیں پڑھی لکھی اور سمجھدار عورت سمجھتا تھا تم کب جاہل لوگوں کی طرح دوسروں پر ہاتھ اٹھانے لگی یا شاید میں نے تمھیں آج یہ سب کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔


عینی بچے کیا انھوں نے پہلے آپ کو کبھی مارا ہے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں یہاں موجود ہوں یہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گی۔۔۔۔

انھوں نے شاہزین کے پیچھے چھپی کانپتی اور آنسو بہاتی عینی سے پوچھا جو شاہزین کی شرٹ پیچھے سے اپنے دونوں ہاتھوں میں دبوچے کھڑی تھی۔۔۔۔

عینی نے ان کی بات سن کر ڈرتے ڈرتے اپنا سر ہاں میں ہلایا تو تیمور صاحب غصے سے سحر بیگم کی طرف مڑے تیمور صاحب نے اپنے باپ کو بچپن میں اپنی ماں کو مارتے پیٹتے دیکھا تھا مگر کبھی کچھ نہ کر پاتے تھے اسی وجہ سے انہیں مار پیٹ بلکل پسند نہیں تھی ۔۔۔ انھوں نے سحر بیگم کو دیکھا جو اب انہی کو ڈرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔

ت۔۔تیمور۔۔۔

اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا کہ تم اس کو یا دوسروں کو مارتی پھرتی ہو تو یقین مانو اسی دن تم پر بھی ہاتھ اٹھانے سے میں گریز نہ کرتا تم نے ان کو خریدا نہیں ہوا کہ جب دل کیا کسی کو بھی مارنا شروع کر دیا اور ابھی میری نظروں سے دور ہوجاؤ اس سے پہلے میں تمھیں کچھ کر دوں۔۔۔۔۔

سحر بیگم ان کی آخری بات سن کر جلدی سے اپنے کمرے کی جانب چل دی۔۔۔۔۔

شفق کو اب کچھ کچھ سمجھ آگیا تھا شاہزین عینی کو کمرے میں لے کر جاچکا تھا وہ اندر آئی اور تیمور صاحب کے پاس صوفے پر بیٹھ گئ ۔۔۔۔

شاہزین کانپتی ہوئی عینی کو اپنے حصار میں لیے کمرے میں لے کر آیا اور اسے بیڈ پر بیٹھا کر پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھایا جو اس نے پکڑ کر آدھا پی لیا تھا ۔۔۔۔

تم فکر مت کرو ڈیڈ اب خود ہی موم کو سمجھا دیں گے وہ اب کبھی بھی تمہیں کچھ بھی نہیں کہیں گی اور چلو شاباش اب چپ ہو جاؤ ویسے تھپڑ مجھے پڑا ہے اور رو تم رہی ہو۔۔۔۔

عینی نے اپنے آنسو روکتے ہوئے شاہزین کو دیکھا جس کا ایک گال سرخ تھا

س۔۔سوری میری وجہ سے آپ کو تھپڑ لگا ۔۔۔۔

وہ اپنی آنسوؤں سے تر پلکوں کی جھالر کو اٹھاتے گراتے ہوئے معصومیت سے بولی تو شاہزین نے مسکراتے ہوئے بے اختیار اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر کر اپنی جانب کیا اور اس کی آنکھوں کو جھک کر اپنے لبوں سے چھوا جب کے اس کا لمس محسوس کر کے عینی کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا تھا

مجھے تمھاری ان آنکھوں میں آنسو بلکل اچھے نہیں لگتے ۔۔۔

وہ اب اس کے چہرے پر جھک کر اس کے دونوں سرخ گالوں کو چومنے لگا۔۔۔۔

مجھے تمھارے یہ سرخ گال بت حد پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔

وہ بول کر اب اس کے ناک کو چوم کر ٹھوڑی کو چوما ۔۔۔۔

تمھارے چہرے کی معصومیت میرے دل کی دھڑکنیں منتشر کر دیتیں ہیں۔۔۔۔

وہ جو اس کے چہرے کو اپنے لمس سے معتبر کر رہا تھا اس کا چہرہ شرم سے پورا سرخ ٹماٹر بن گیا تھا اس کی باتیں عینی کی دھڑکنیں بھی بڑھا رہیں تھی وہ شروع سے محبت اور توجہ کی عادی تھی جو اسے ہمیشہ اپنے والدین سے ملی مگر ان کے جانے کے بعد تو کبھی اس نے وہ محبت محسوس نہ کی ۔۔۔۔۔

شاہزین نے اب اس کے چہرے پر جھک کر اس کے لبوں کو ہلکا سا چھوا ۔۔۔۔

مجھے تمھاری مسکراہٹ سب چیزوں کے آگے ماند لگتی ہے۔۔۔۔

وہ مسکراتے ہوئے اس کا سرخ چہرہ دیکھ کر بولا اور اسے دوبارہ اپنے حصار میں لیا جو شرم و حیا سے سرخ پڑتی اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپا رہی تھی جبکہ کچھ دیر پہلے کا واقعہ اس کو شاہزین نے بھلا دیا تھا۔۔۔

وہ اپنے کام میں مصروف ہو کر اپنی پریشانیوں سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا مگر پھر بھی اسے سکون نہیں ملا تھا وہ جھنجھلا کر اپنے بالوں میں انگلیاں پھساتے ہوئے کرسی سے اپنا کوٹ اٹھا کر اپنالیپ ٹاپ بند کرتا کچھ سوچتا ہوا اٹھا اور اپنے آفس سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔


وہ گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دوست احمر زمان سے ملنے چلا گیا حمنا کی وجہ سے ان کی دوستی ختم ہوگئی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہاشم نے اس سے دوستی ختم کردی یہاں تک کہ اس کی کمپنی کو ڈبونے کی بھی کوشش کی تھی مگر پھر بھی وہ اسے اپنی دوستی کا احساس دلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔


اب وہ صرف اس کے پاس جاکر ہی اپنے دل کی ساری باتیں کرنا چاہتا تھا حور اور ہادی کا کچھ بھی پتا نہیں چل رہا تھا وہ ایک بار اس سے بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ شاید اسے پتا ہو۔۔۔۔


اس نے احمر کے آفس کے سامنے گاڑی روکی اور اندر داخل ہوا تو اس کی سیکرٹری جو اس کے آفس کے باہر بیٹھی تھی اسے احمر کے آفس میں موجودگی کا پوچھا ۔۔۔۔۔۔


وہ اس کے آفس کا دروازہ ہلکا سا ناک کرتا اندر داخل ہوا جہاں احمر اپنی کرسی پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے بیٹھا تھا کسی کے اندر آنے پر اس نے اپنی آنکھیں اٹھائی تو ہاشم کو بکھری حالت میں دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔۔۔


ہاشم شرمندگی کے ساتھ اس کے قریب گیا اور اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا تو احمر بھی بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا جو کچھ بولنے کی بجائے مسلسل ٹیبل کو گھور رہا تھا جیسے اسی کام کے لیے آیا ہو۔۔۔۔۔


و۔۔۔۔وہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔۔۔ اس نے میرے بچے کو مار دیا۔۔۔۔ میں نے حور اور ہادی کو کھو دیا حویلی میں کوئی میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا م۔۔مجھے بہت گھٹن ہو رہی احمر مجھے سکون نہیں مل رہا۔۔۔۔۔


وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا کھوئے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔۔


تم نے حمنا کو چھوڑ دیا ؟؟ کب اور کیسے ہوا یہ سب ؟؟ اور ہادی اور حور کہاں ہیں ؟؟


وہ حویلی والی بات جانتا تھا اسی وجہ سے باقی باتیں کچھ ناسمجھ آنے والے انداز میں پوچھیں۔۔۔۔۔


میں نے اسے کچھ دن پہلے طلاق دے دی وہ بھی یہی چاہتی تھی اس کے مطابق میں گاؤں کا جاہل گنوار ہوں جس کے ساتھ اب وہ مزید نہیں رہنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔


اور حور اور ہادی کو میں نے کچھ ماہ پہلے گھر سے نکال دیا حمنا نے چھوٹا گرنے کا ناٹک کیا اور میرے بچے کو مارنے کا جھوٹا الزام عینی پر لگایا تھا اور اسی کی وجہ سے میں نے انہیں گھر سے نکال دیا ۔۔۔۔۔۔


وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔۔


تو تم نے اپنی رضامندی سے اسے طلاق دی تھی تو اب کیوں مجنو بنے پھر رہے ہو ؟ اور حور اور ہادی سے ہم حویلی جاکر مل آئیں گے اور میں ان دونوں کو تمھاری خاطر منا بھی لوں گا ۔۔۔۔۔۔


وہ اسے آخر میں حوصلہ دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔


وہ حویلی میں موجود نہیں ہے وہ کہیں چلے گئے ہیں کسی کو نہیں پتا کہ وہ کہاں گئے ہیں میں نے جب انھیں نکالا تھا تو مجھے لگا کہ وہ حویلی چلے گئے ہوں گے اس وجہ سے میں نے کبھی ان کی خبر ہی نہ لی ۔۔۔۔۔۔


وہ بولتا ہوا آخر میں اذیت سے مسکرایا۔۔۔۔۔


تم پاگل تھے وہ تمھارے بہن بھائی تھے تم ان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو جانتے ہو نہ کہ حور اور ہادی ابھی خود چھوٹے ہیں وہ کہاں جائیں گے اگر ان کے ساتھ کچھ غلط ہوگیا تو تم ہی ذمہ دار ہو گے مگر مجھے امید ہے وہ ٹھیک ہوں گے میں انھیں ڈھونڈنے میں تمھاری مدد کروں گا۔۔۔۔۔


وہ پہلے تو اس کی بات سن کر تھوڑا غصے سے بولا مگر پھر اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے حوصلہ دیتا ہوا بولا۔۔۔۔


تم اتنے اچھےکیوں ہو ؟؟ تم بھی باقی لوگوں کی طرح مجھ سے نفرت کیوں نہیں کر رہے ؟؟


کیونکہ میں کوئی اور نہیں تمھارا دوست ہوں اور میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ میں ہر مشکل وقت میں تمھارے ساتھ ہوں گا اس وجہ سے اب اپنی حالت درست کرو اور رات کو میرے گھر ڈنر پر آؤ۔۔۔۔


وہ اس کا موڈ درست کرنے کے لیے ہلکے پھلکے لہجے میں بولا۔۔۔۔


وہ اس کی بات سن کر ہلکا سا مسکرایا یقینا وہ ایک بہترین دوست تھا جو ہر مشکل وقت میں اس کے ساتھ تھا اور اب بھی وہ اس کے ساتھ تھا جب ہر کوئی اس سے دور تھا ۔۔۔


شفق تیمور صاحب کی بات سن کر کمرے میں آئی اور فریش ہونے چلی گئی وہ اب تک حیران تھی کہ عینی اتنی خوبصورت ہے اور شاہزین اسے پسند کرتا ہے بہرحال اسے عینی سے کوئی مسئلہ تھا اور شاہزین کی بیوی بننے کے بعد اس کا مقام بھی اس گھر میں بدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔


فریش ہو کر وہ واپس کمرے میں آئی تو اس کا فون بج رہا تھا اس نے نمبر دیکھا تو ارقم کا نام کالر آئی ڈی پر دیکھ کر اس نے کچھ سوچتے ہوئے فون اٹھایا۔۔۔۔۔


ہیلو شفق ؟؟


جی ؟ کوئی کام تھا آپ کو ؟؟؟


اس نے ارقم کی آواز سن کر پوچھا۔۔۔


ہاں وہ ایک کام تھا اگر تم بزی نہ ہو تو کیا تم وہ کام کرسکتی ہو ؟؟


آپ کام بتائیں اگر کرنے والا ہوا تو ضرور کروں گی۔۔۔۔۔


علیشبہ کو بخار ہو گیا ہے وہ اب مزید دو دن یونیورسٹی نہیں آ پائے گی تو کیا تم اس کے لیے نوٹس بنا دو گی ؟؟! اور آج والے اگر ابھی بنا کر دے دو ورنہ کل بنا دینا کوئی پروبلم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔


وہ دراصل اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر پھر علیشبہ کی طبیعت کو بہانہ بناتے ہوئے اس نے اس سے بات کرنے کا سوچا اور جو منہ میں آتا گیا وہ اس سے بول گیا ۔۔۔۔۔


ہمم ٹھیک ہے میں آج رات کو بنا کر کل آپ کو دے دوں گی اور کوئی بات کرنی ہے آپ کو ؟؟


میں علیشبہ کو بتا دوں گا اور تم کیا کر رہی تھی ؟؟


وہ اس سے مزید بات کرنے کے لیے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔


میں بس فریش ہو کر تھوڑی دیر آرام کرنے لگی تھی اور آپ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟


وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔


میں اس وقت بالکونی میں کھڑا چائے پی رہا ہوں پھر مجھے تمھاری یاد آئی تو تم سے بات کرنے کا سوچا۔۔۔۔۔


وہ آخری بات بنا دھیان دیے بول گیا پتا اسے بعد میں چلا۔۔۔۔۔


اس کی بات پر شفق کے دل کی دھڑکن اچانک ہی تیز ہوگئی اور وہ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔۔۔


اگر آپ کو کوئی کام نہیں تو م۔۔۔میں آپ سے پھر بعد میں بات کرتی ہوں ۔۔۔۔۔


کیا تمھیں میرا فون کرنا اچھا نہیں لگا تو مجھے بتا دو آئندہ میں نہیں کروں گا۔۔۔


وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔


ن۔۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ تو میں بس ایسے ہی کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔


وہ جلدی سے بولی۔۔۔۔


اچھا ٹھیک ہے پھر تم آرام کرلو میں صبح بات کروں گا۔۔۔۔


وہ اس کی بات سن کر جواب دیتا بولا ۔۔۔۔


ج۔۔جی صحیح ہے مگر آپ نے برا تو نہیں مانا ؟؟

نہیں کل بات کریں گے اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔

وہ اس کو بول کر کال کاٹ گیا تو شفق نے اس کی بات سن کر پرسکون سانس خارج کرتے ہوئے اپنا موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔۔

وہ اس وقت اپنے ماں باپ کے گھر موجود تھی حمنا مے خود کو مظلوم ظاہر کرتے یوئے من گھڑت کہانی اپنے والدین کو سنائی جن پر یقین انھیں حمنا کے منہ پر تھپڑ مارنے کو وجہ سے سوجن دیکھ کر ہو گیا۔۔۔۔۔

وہ ہاشم پر کیس کرنے لگے تھے مگر حمنا نے انھیں بڑی مشکل سے منا کر روک دیا ۔۔۔۔۔

اس کے والدین اپنی بیٹی کا گھر اجڑنے پر جہاں ہریشان تھے وہاں حمنا کی بتائی گئی باتوں کو سوچ کر مطمئن ہوگئے تھے کیونکہ حمنا نے کہا تھا کہ اب وہ اسے آئے دن مارنا شروع ہو گیا تھا اس وجہ سے انہیں ہاشم کا اسے چھوڑنا زیادہ پریشان نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔

وہ اب مجبورا اپنے گھر والوں کی وجہ سے عدت میں تھی مگر شاہزیب سے فون پربات روزانہ کرتی تھی اور شاہزیب نے اسے عدت کے ختم ہوتے ہی شادی کا بولا تھا کہ وہ اس کی عدت ختم ہوتے ہی اس سے شادی کر لے گا۔۔۔جس پر حمنا بھی خوش تھی

وہ صوفے پر بیٹھی شاہزین کا انتظار کر رہی تھی جو کھانا لینے باہر گیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔

شاہزین آدھا کھانا شفق کو دے گیا اور آدھا اپنے کمرے میں لے گیا وہ باہر سے کھانا لایا تھا کیونکہ آج کوئی بنانے والا جو نہ تھا۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں کھانے کی ٹرے لے کر داخل ہوا اور عینی کے سامنے میز ٹرے رکھتے وہ واپس کچن میں گیا اور پانی کا جگ لے کر واپس آیا تو عینی کو ویسے ہی بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

حور تم نے کھانا کیوں نہیں کھانا شروع کیا ابھی تک ؟؟؟

وہ اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا تھا کہ عینی اپنی جگہ سے زرا بھی ہل نہیں سکتی تھی چونکہ وہ صوفے کے کونے میں بیٹھی تھی

و۔۔۔وہ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی۔۔

وہ نظریہ جھکاے دھیمی آواز میں بولا تو شاہزین کے لب مسکرا اٹھے۔۔۔۔

ایسی بات ہے تو پھر اب تم میرے ساتھ ہی میری پلیٹ میں کھاؤ گی ۔۔۔۔۔

وہ پلیٹ میں چاول ڈالتا بولا اور اس میں دو چمچ رکھ کر عینی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔

جو اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر جھجھکتے ہوئے اس کے ساتھ کھانے لگی تھی

وہ کھانا کھانے کے بعد برتن اٹھا کر ٹرے میں رکھ کر باہر جانے لگا تو عینی اسے روکتے ہوئے بولی۔۔۔۔

آپ رہنے دیں میں برتن رکھ آتی ہوں۔۔۔۔۔

نہیں تم آرام کرو مجھے ایک کام بھی ہے۔۔۔

وہ جھک کر اس کا گال چوم کر بولا اور اس کے چہرے پر سرخی دیکھتے ہوئے مسکرا کر سیٹی بجاتے ہوئے ٹرے اٹھا کر باہر چلا گیا۔۔۔

علیشبہ بالکونی میں ایک کونے میں بیٹھی ہلکی ہلکی بارش ہوتے دیکھ رہی تھی برشکے کچھ قطرے اس پر بھی گر رہے تھے وہ اس وقت اکیلی گھر پر تھی ساتھ اس کےایک ملازمہ تھی جو اپنا کام کر رہی تھی ارقم یونیورسٹی گیا ہوا تھا۔۔۔۔


وہ دو دن سے بخار سے نڈھال رہنے کےبعد وہ آج بیڈ سے اٹھی تھی اور تھوڑی دیر بارش میں اینجوائے کرنے کا سوچتے ہوئے بالکونی میں آگئی۔۔۔۔


ہاشم کو پارٹی میں دیکھنے کے بعد سب پرانی یادیں تازہ ہوگئیں تھیں وہ جتنا اسے بھولا جانا چاہتی تھی وہ اتنی ہی اس کی سوچوں پر قابض ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔


وہ ابھی تک وہ اذیت بھرا واقعہ نہ بھول سکی تھی مگر دل کا کیا کرتی جو صرف اس کے لیے ہی دھڑکتا تھا اس کے خیال میں تو وہ اسے اسی دن چاہنا چھوڑ چکی تھی جس دن اس نے حمنا سے شادی کی مگر سوچنے سے کیا ہوتا ہے اس کے جزبات ہاشم کے لیے کبھی ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اس کی بچپن کی خالص محبت تھا۔۔۔۔


ہاشم کی سوچوں کو جھٹلا کر اس نے کل رات کے بارے میں سوچا وہ پانی پینے اپنے کمرے سے نکلی تھی جب ارقم کے کمرے کا دروازہ کھولا ہونے کی وجہ سے اسے ارقم کی کسی سے باتیں کرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی وہ بنا دھیان دیے گزرنے لگی کہ اس کے نے حور اور ہادی کا نام سنا تو دروازے کے باہر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔


وہ بس ارقم کی باتوں سے اتنا ہی سمجھ پائی تھی کہ ہاشم نے انھیں گھر سے نکال دیا ہے اور اب وہ کہیں نہیں مل رہے ۔۔۔۔۔


وہ اس کی باتیں سن کر خاموشی سے کچن میں آگئی اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ہاشم نے حور اور ہادی کو گھر سے نکال دیا۔۔۔۔۔


اسے پتا تھا کہ وہ سنگ دل ہے مگر اتنا کہ اپنے بہن بھائی کو ہی گھر سے نکال دے یہ نہیں پتا تھا ۔۔۔۔۔۔


وہ اس کی سوچوں کو جھٹک کر اپنے کمرے میں واپس آئی اب بس اسے حور اور ہادی کی فکر ہی تھی۔۔۔۔


وہ تھوڑی دیر بالکونی میں بیٹھنے کے بعد اٹھی اور کمرے میں جا کر شاور لینے کے بعد فریش ہو کر کچن میں گئی جہاں نوری (ملازمہ ) کھانا بما رہی تھی وہ اس سے اپنے لیے چائے بنانے کا بول کر کچن میں ہی موجود کر سی پر بیٹھ گئی اور نوری کے چائے بنا کر دینے پر وہ چائے لے کر واپس اپنے کمرے میں آگئی اور دوبارہ بالکونی میں کھڑی ہو کر چائے پینے لگی۔۔۔۔۔


عینی شاہزین کا انتظار کرتے ہوئے رات کو کب سوئی اسے پتا ہی نہ چلا وہ خود پر کسی چیز کا وزن محسوس کرکے اٹھی تو شاہزین کا ایک بازو اپنے پیٹ پر پڑا دیکھا جب کہ اس کی ایک ٹانگ عینی کی ٹانگوں کے اوپر پری ہوئی تھی گویا شاہزین اسے اپنا سلیپنگ پیلو سمجھ کر سویا ہوا تھا۔۔۔۔


اس نے اس کا بازو ہٹانے کی ایک بار ناکام کوشش کی مگر شاہزین اس پر مزید پھیل گیا ۔۔۔۔۔


شاہزین۔۔۔۔۔


شاہزین چھوڑیں مجھے نماز پڑھنی ہیں ٹائم بہت کم رہ گیا ہے۔۔۔۔۔


وہ اسے زور سے ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔


شاہزین نے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسے گھورا تو عینی جلدی سے بولی۔۔۔۔


سوری پ۔۔۔پلیز کیا آپ اپنا بازو اٹھائیں گے شاہزین۔۔۔


شاہزین نےمنہ بگاڑتے ہوئے اس پر سے اپنا بازو اور ٹانگ ہٹائی اور دوسری طرف کروٹ لے کر دوبارہ سو گیا تو عینی جلدی سے اٹھ کر فریش ہو کر نماز پڑھنے لگی ۔۔۔۔


نماز پڑھنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے انیکسی سے لانے کا سوچا کیونکہ ابھی تک وہ کل والے کپڑوں میں ہی ملبوس تھی۔۔۔۔۔


وہ شاہزین کو ایکنظر دیکھ کر کمرے سے نکلی اور سڑھیاں اتر کر انیکسی کی طرف جانے لگی کہ کسی کو ہال میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ ڈر گئی۔۔۔۔


عینی بچے آپ کہیں جا رہے ہو ؟؟؟


تیمور صاحب نماز پڑھ کر ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے کہ عینی کو ہال میں دیکھ کر پوچھا


ج۔۔جی وہ میں انیکسی سے اپنے کپڑے لینے جا رہی تھی سر۔۔۔۔


عینی تم بھی اب مجھے شاہزین کی طرح ڈیڈ بلایا کرو اور آؤ تھوڑی دیر لان میں واک کرتے ہیں مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔


ج۔۔جی ڈ۔۔ڈیڈ ۔۔۔۔


وہ ہچکچاتے ہوئے بولی اور ان کے پیچھے لان میں چلی گئی۔۔۔۔۔


شاہزین کے بارے میں میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں عینی ۔۔۔۔میں جانتا ہوں یقینا شاہزین نے تم سے زبردستی شادی کی ہے ۔۔۔تم شاہزین کو برا مت سمجھنا وہ پہلے ایسا نہیں تھا یہ اسی سال اس کے کچھ نئے دوست بنے اور یہ آوارہ بن گیا میں نے اسے کئی بار سمجھایا کہ وہ اپنے نئے اور اچھے دوست بنائے مگر اس کے دماغ میں تو بھوسہ بھرا ہوا ہے زرا عقل نہیں اس لڑکے کو مگر اب وہ مجھے لگتا ہے تمھاری وجہ سے پہلے جیسا ہو جائے گا تمھیں بس میری تھوڑی مدد کرنی ہوگی۔۔۔۔


اور ایک تو اس کا غصہ وہ شروع سے ہی غصے کا تھوڑا تیز ہے اور غصے میں کیا کرجائے اسےخود نہیں پتا چلتا دوسری بات اسے اگنور کبھی مت کرنا پتا نہیں اسے کیا مسئلہ ہے جب بھی کوئی اسے اگنور کرتا ہے وہ اسے تکلیف پہنچاتا ہے شفق کے پیدا ہونے کے بعد سحر بیگم نے اس پر توجہ دینا کم کردی تو اس نے سارا گھر سر پر اٹھا لیا تھا عجیب ہی کوئی سائیکو بیٹا ہے میرا مجھے خود اس کی سمجھ نہیں آتی کبھی تو میرا حد سے زیادہ فرمانبردار بیٹا بن جاتا ہے تو کبھی حد سے زیادہ نافرمان ۔۔۔۔۔


بس دو چیزیں کبھی مت کرنا ایک تو اسے اگنور کبھی مت کرنا اور دوسرا اسے غصہ کبھی مت دلانا۔۔۔۔


جی ڈ۔۔ڈیڈ میں آپ کی باتوں کو یاد رکھوں گی اور آپ کی م۔۔مدد بھی ضرور کروں گی۔۔۔


عینی ان کی بات سن کر بولی وہ ویسے بھی اسے کبھی دوبارہ اگنور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اس نے پہلے ہی دو بار اسے اگنور کرنے پر سزا دے دی تھی اور غصے میں اس نے سحر بیگم سے اسے تھپڑ پڑوایا تھا واقعہ وہ ایک سائیکو ہی تھا


یہ تو اچھی بات ہے کہ تم میری مدد کرو گی پہلے تواسے باقاعدہ میرے ساتھ آفس بھیجنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنا اور پھر اسے اس کے دوستوں کے ساتھ باہر کم ہی جانے دینا تاکہ اس کی بری عادتیں بھی ختم ہوں۔۔۔۔


اور عینی سحر تمہیں کچھ بھی کہے پہلے تم نے مجھے بتانا ہے اور اس کی باتوں پر زیادہ دھیان مت دینا اور تمھیں اب گھر کا کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں میں نے سحر سے کہہ دیا ہے آج ہی نئی کام والی آجائے گی کیونکہ رزیہ نے ابھی واپس نہیں آنا ۔۔۔۔۔


عینی بس یہ ہی باتیں میں نے تم سے کرنی تھیں اب تم جا کر اپنا کام کرسکتی ہو اور اگر کوئی بھی پریشانی اس گھر میں آپ کو ہو تو مجھے سب سے پہلے بتانا ٹھیک ہے ؟


جی ڈیڈ ٹھیک ہے میں آپکو ہی بتاؤں گی۔۔۔۔۔


وہ ان کی بات سن کر اور جواب دے کر تیمور صاحب سے اجازت لے کر انیکسی میں چلی گئی


وہ جلدی سے پہلے اپنے سارے جوڑے اٹھائے اور اپنے بیگ میں رکھتی کمرے میں آئی اور ایک سائیڈ پر بیگ رکھ کر شاہزین کو دیکھا جو ابھی تک سو رہا تھا وہ جلدی سے شاور لے کر کپڑے بدل کر کمرے میں آئی اور اپنے بال سکھا کر صوفے پر بیٹھ گئی پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھی اور شاہزین کو ایک نظر دیکھ کر کمرے سے نکل گئی


وہ چونکہ فری تھی اس وجہ سے اس نے سب کے لیے ناشتہ بنانے کا سوچا وہ نیچے آئی اور ناشتہ تیار کرنے لگی اس کی نظر اچانک کھڑکی سے باہر پڑی باہر بارش ہوتے دیکھ کر وہ اپنے ہاتھ جلدی جلدی چلانے لگی تاکہ تھوڑی دیر بارش اینجوائے کر لے پہلے وہ ہادی کے ساتھ اپنے گھر میں کرتی تھی مگر جب سے ہاشم نے انھیں نکالا تھا وہ ایک بار بھی بارش میں نہیں نہائی تھی بلکہ یہ تو ان کے لیے عزاب بن گئی تھی کیونکہ وہ کس جگہ رہتے تھے وہاں بارش ہونے پر گٹروں کا سارا پانی باہر گلی میں جمع ہو جاتا تھا۔۔۔۔


اب ناشتہ بناتے اس کی سوچوں کا رخ ہادی کی طرف گیا وہ کافی دنوں سے اس نہ تو مل سکی تھی اور نہ ہی فون پر بات کر سکی تھی اس نے شاہزین سے اجازت لے کر کل ہادی سے ملنے کا سوچا ۔۔۔۔۔


وہ ناشتہ تیار کرچکی تھی اور ڈائننگ ٹیبل پر لگا رہی تھی جب شفق نے ڈائننگ ہال میں داخل ہو کر اسے سلام کیا۔۔۔۔


اسلام و علیکم۔۔۔۔ بھابھی !


شفق نے مسکراتے ہوئے عینی کو دیکھا جو اس بھابھی کہنے پر آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی پھر خود کو سنبھالتے یوئے جلدی سے عینی نے شفق کو جواب دیا۔۔۔۔


وعلیکم السلام۔۔۔۔امم۔۔


شفق آپ مجھے میرے نام سے پکار سکتیں ہیں وہ اس کی ہچکچاہٹ محسوس کر کے بولی۔۔۔۔


اوکے شفق تو ک۔۔کیا آپ ایک کام کرو گی م۔۔۔میں شاہزین کو اٹھا کر لاتی ہوں آپ ڈیڈ اور سحمر میم کو بلا لو۔۔۔۔


بھابھی مجھ سے فارمل ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ مجھے ' تم ' کہہ کر بھی بات کر سکتی ہیں۔۔۔ اور آپ جائیں شاہزین بھائی کو بلا لائیں میں ڈیڈ اور موم کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔۔


وہ کمرے میں داخل ہوئی تو بیڈ خالی تھا اس نے چاروں طرف نظر گھمائی تو واشروم کا بند دروازہ دیکھ کر اسے پتا چلا کہ وہ واشروم میں ہے۔۔۔۔


وہ صوفے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے واشروم کی طرف دیکھا تو شاہزین کو شرٹ لیس دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور چہرہ سرخ ہو گیا اس نے شاہزین کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ اسے خود کی طرف دیکھتا پاکر مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔


وہ جلدی سے اپنی نظریں اس سے ہٹا کر اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔


و۔۔۔وہ نیچے سب ناشتے پر انتظار کر رہے ہیں آپ جلدی سے تیار ہو کر آجائیں ۔۔۔۔۔


وہیں رک جاؤ حور اور میرے تیار ہونے تک تم کمرے میں ہی موجود رہو گی۔۔۔۔


وہ اسے جاتے دیکھ کر سنجیدہ آواز میں بولا تو عینی اپنی جگہ رک گئی شاہزین اپنے بال تولیہ سے صاف کرتا ہوا اس سے مزید بولا۔۔۔۔۔


حور مجھے الماری سے شرٹ نکال کر دو ۔۔۔۔۔


حور اس کی بات سن کر ہچکچاتے ہوئے الماری کی طرف گئی اور اسے کھول کر کالے رنگ کی ایک ٹی شرٹ اسے نکال کر اپنی نظریں جھکا کر اس کے قریب جا کر اس کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔


عینی کیا تم نے ناشتہ بنایا ہے ؟؟


وہ شرٹ پہن کر اس کی طرف مڑتا ہوا بولا۔۔۔۔۔


ج۔۔۔جی میں نے ناشتہ بنایا ہے وہ م۔۔میں فارغ تھی تو سوچا سب کے لیے ناشتہ بنا دوں۔۔۔۔۔


اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔۔۔۔


تمہیں کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن تم صرف میرے کام کرسکتی ہو اس کے علاوہ کسی کے نہیں اور اب چلو یہاں سے ناشتہ ٹھنڈا بھی ہو گیا ہوگا۔۔۔۔


وہ اس کے سر کو چوم کر بولا اور بات ختم کرکے عینی کا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے لے گیا۔۔۔۔


سحر بیگم کے علاوہ باقی سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے۔۔۔۔


خوشگوار ماحول میں ناشتہ کرکے تیمور صاحب اپنے آفس چلے گئے اور شفق اپنی یونیورسٹی۔۔۔۔

عینی جو ناشتے کے برتن دھونے کا سوچ رہی تھی مگر شاہزین اسے اپنے ساتھ کھینچ کر کمرے میں لے آیا ۔۔۔۔

آج ہم باہر گھومنے پھرنے جائیں گے اور تمھارے بھائی سے بھی مل کر آئیں گے اگر تم کہو گی تو اسے بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے اور آج کا دن بھرپور طریقے سے اینجوائے کریں گے کیونکہ پھر تو میں نے اگلے ہفتے سے مصروف ہو جانا ہے۔۔۔۔

عینی کی آنکھیں اس کا پلان سن کر چمک اٹھی زیادہ چمک ہادی سے ملنے اور اس کے ساتھ گھومنے پھرنے کی تھی۔۔۔۔۔

سچی۔۔۔۔ ہم ہادی کو بھی پھر اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔۔

وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔۔

ہاں اس لیے اب جلدی سے تیار ہو جاؤ میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔

وہ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر خود بھی مسکراتے ہوئے بولا تو عینی اس کی بات سن کر جلدی سے تیار ہونے لگی۔۔۔۔

وہ اپنے لیکچر لینے کے بعد کینٹین میں گئی تو ارقم کو کینٹین میں اکیلے بیٹھے دیکھ کر وہ اس کے پاس گئی۔۔۔

وہ شوراما کھا رہا تھا جبکہ اس کے سامنے چیپس پڑی ہوئی تھی اور سامنے کسی چیز کے نوٹس بھی پڑے ہوئے تھے وہ اس کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔

ارقم نے کسی کو اپنے ساتھ بیٹھتے دیکھ کر اپنی نظریں اٹھائیں تو شفق کو بیٹھا دیکھ کر وہ مسکرایا۔۔۔

یہ لیں عالی کے نوٹس میںنے بنا دیے ہیں ۔۔۔

وہ اپنے بیگ میں سے نوٹس نکالتی اسے پکڑا کر بولی۔۔۔۔

واہ اتنی مجھے امید نہیں تھی کہ تم بنا دو گی مجھےلگا تھا کہ شاید تم کل بنا کر دو ۔۔۔۔

وہ نوٹس کو دیکھ کر بولا تو شفق اس کی چیپس کھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔

آپ کو تو ویسے بھی مجھ سے کسی چیز کی بھی امید نہیں ہوتی۔۔۔۔

نہیں میری بات کا یہ مطلب نہیں تھا غلط سمجھ رہی ہو۔۔۔۔۔

آپ کی بات کا یہی مطلب تھا اب جا رہی ہوں میں آج کل دوبارہ نوٹس بنا کر دے دوں گی۔۔۔

وہ منہ بگاڑتے ہوئے اس کی چیپس کی پلیٹ اٹھا کر بولی اور چیپس کھاتے ہوئے اس سے دور چلی گئی۔۔۔۔

افف ایک تو یہ لڑکی بھی نہ کبھی جو میری بات کا غلط مطلب نہ نکالے۔۔۔۔۔

وہ منہ میں بڑبڑاتا ہوا اٹھا اور اسے اپنی چیپس لے جانے کا سوچ کر ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔

شاہزین عینی کو اپنے ساتھ لے کر اس وقت ہادی کے سکول میں موجود تھا عینی ہادی کو لے کر آئی تو ہادی نے شاہزین کو دیکھ کر عینی کو ناسمجھی سے دیکھا۔۔۔


ہادی یہ م۔۔۔میرے ہسبنڈ ہیں کچھ دن پہلے ہی ان سے میرا نکاح ہوا ہے ۔۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں ہادی کے کان کے قریب بولی۔۔۔


لیکن مجھے تو آپ نے اپنی شادی پر بلایا نہیں عینی آپی میں آپ سے ناراض ہوں۔۔۔۔۔


وہ اس کی بات سن کر ناراضی سے اونچی آواز میں بولا۔۔۔۔


اس کی اونچی آواز سن کر عینی نے آنکھیں پھیلا کر شاہزین کو دیکھا جو ان کی باتیں سن کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔


ہادی سادگی سے سب کچھ ہوا تھا اس وجہ سے نہیں بلایا اور دیکھو میں اور شاہزین تمہیں نہ بلانے کے بدلے گھمانے لے کر جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔


وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کار کے قریب لائی تو شاہزین نے پچھلا دروازہ ہادی کے لیے کھولا۔۔۔۔


ہادی عینی کی بات سن کر خاموشی سے کار میں بیٹھ گیا۔۔۔۔


شاہزین نے عینی کے لیے اگلا دروازہ کھولا تو عینی آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔


شاہزین ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا اور کار سٹارٹ کر کے پہلے ہادی کو لنچ کروانے کے لیے کسی ریسٹورنٹ کی طرف لے گیا۔۔۔۔۔


آپ کا نام کیا ہے ؟؟


کار کی خاموشی میں اچانک ہادی کی ناراض سی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔


میرا نام شاہزین ہے اور تمھارا ؟؟؟


میرا نام حیدر دورید ہے اور میں عینی اپی کا چھوٹا بھائی ہوں


وہ معصوم سی آواز میں بولا


اور میں تمھاری اپی کا ہسبینڈ ہوں ہادی۔۔۔۔۔


وہ مسکرا کر بولا


اگر آپ نے عینی اپی کو کچھ بھی کہا تو میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔۔


وہ شاہزین کو دھمکی دے کر بولا تو گاڑی کی فضا میں شاہزین کا قہقہہ کا گونجا جبکہ عینی بھی ہادی کی بات سن کر مسکرا رہی تھی


بلکل چھوٹے سالے صاحب میں عینی کو کچھ بھی کہنے کی کوشش نہیں کروں گا۔۔۔۔۔


وہ مسکراتا ہوا بولا تو ہادی نے جہاں اس کے قہقہہ لگانے پر منہ بگاڑا تھا وہاں ہی شاہزین کی بات سن کر وہ بھی مسکرا اٹھا۔۔۔۔۔


وہ انھیں قریبی موجود ریسٹورنٹ میں لے کر آیا تھا شاہزین اور عینی نے تو پہلے ہی ناشتہ کیا ہوا تھا اس وجہ سے عینی نے صرف جوس پیا اور شاہزین نے کافی جبکہ ہادی بھر پور ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔۔


وہ کھانا کھانے کے بعد مال گئے تھے جہاں شاہزین نے عینی اور ہادی کو شاپنگ کروائی پہلے تو عینی شاہزین کو باربار منع کرتی جارہی تھی مگر شاہزین کی ایک غصے سے بھری گھوری سے عینی کا منہ فورا بند ہو گیا اور وہ ہچکچاتے ہوئے شاہزین کے ساتھ شاپنگ کرنے لگی۔۔۔۔۔


شاہزین بس کریں میں اتنے ڈریسز کا کیا کروں گی ؟؟؟


وہ شاہزین کے ہاتھ میں لاتعداد شاپنگ بیگز دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔


یہ کونسا صرف تمھارے ہیں ان میں ہادی کے بھی تو ہیں اور ویسے بھی میں چاہتا ہوں تم میرے آفس جانے سے پہلے ایک سوٹ پہنو اور جب میں گھر واپس آؤں تو بدل کر دوسرا سوٹ پہنو۔۔۔۔


تو آپ کیا چاہتے ہیں میں سارا دن کپڑے ہی بدلتی رہوں۔۔۔


وہ اس کی بات سن کر منہ بناتے ہوئے بولی اور ہادی کا ہاتھ پکڑ کر شاہزین کو دوبارہ دوسری کپڑے والی دکان میں جاتے ہوئے آگے جانے لگی تو شاہزین جلدی سے بولا۔۔۔۔


رکو اب کپڑے نہیں خریدتے کم از کم جیولری تو خرید لو ۔۔۔۔۔


اس کے معصومیت سے بولنے پر ہادی اور حور دونوں نے اپنی آنکھیں گھمائیں اور اس کے ساتھ جیولری شاپ میں چلے گئے ۔۔۔۔۔


وہ سارا دن گھومنے پھرنے کے بعد اب واپس گھر جا رہے تھے چونکہ رات ہو چکی تھی اس وجہ سے ہادی کو بھی شاہزین نے اپنے گھر لے جانے کا سوچا اور عینی سے ایک بار پوچھا تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔۔۔


تھکن کی وجہ سے ہادی نیند میں جھول رہا تھا جب وہ گھر میں داخل ہوئے ہادی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اپنی آنکھوں کو ہاتھوں سے مسلتا ہوا کھولنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔۔


شاہزین اسے اوپر اپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں لے گیا اور وہاں اسے لیٹا دیا اس کے سونے کے بعد عینی کمرے میں آئی تو ملازم سارے شاپنگ بیگ کمرے میں رکھ کر جا چکا تھا اور واشروم سے پانی کی گرنے کی آواز سن کر اسے پتا چلا کہ شاہزین واشروم میں ہے تو وہ جوتے سے اپنے پاؤں آزاد کرتی بیڈ سے پاؤں نیچے لٹکا کر بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند گئ اور شاہزین کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔


شاہزین شاور لے کر آیا اور عینی کو آواز دینے لگا تو اسے سوتا دیکھ کر اپنے بال صاف کر کے اس کی ٹانگیں بیڈ پر کرکے اسے کمفرٹیبل طریقے سے بیڈ پر لیٹا دیا اور اس کا سر چوم کر خود بھی دوسری طرف سے آکر بیڈ پر لیٹ گیا


چونکہ آج ہفتہ تھا تو ارقم اور علیشبہ کو یونیورسٹی سے چھوٹی تھی تو اس وجہ سے وہ آج حویلی آ گئے تھے اور اس وقت حویلی میں ہال میں رمنا بیگم اور حدید صاحب کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔


عالی بیٹا تم کتنی کمزور ہوگئی ہو اگر تم بیمار ہوگئی تھی تو تمہیں حویلی آجانا چاہیے تھا میں تمھارا اچھے سے خیال رکھتی وہاں تو کوئی خیال رکھنے والا بھی نہیں ہے۔۔۔۔


رمنا بیگم عالی کو دیکھتے ہوئے بولیں وہ پہلے سے کمزور لگ رہی تھی ۔۔۔۔


امی بھائی نے میرا بہت خیال رکھا تھا اور کوئی کمزور نہیں ہوئی میں بلکل فٹ ہوں میں آپ کو ویسے ہی فیل ہو رہا ہے۔۔۔۔


امی کیا آپ کو لگتا ہے میں عالی کا خیال نہیں رکھتا یہ میری اکلوتی بہن ہے میں اس کا ہی تو سب سے زیادہ خیال رکھتا ہوں۔۔۔۔


ارقم پہلے رمنا بیگم اور پھر عالی کی بات سن کر بولا۔۔۔۔


ارقم مجھے پتا ہے تم عالی کا اپنے سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہو۔۔۔۔وہ تو کمزور لگ رہی تھی صرف اس لیے میں نے کہا اور اب تم دونوں یہاں آگئے ہو تو دو دن میں میں نے تم لوگوں کو کھلا پلا کر صحت مند کر دینا ہے۔۔۔۔


اللہ امی آپ نے تو ہم دونوں کو موٹا کرنے کا پورا پلان بنایا ہوا ہے۔۔۔۔


ارقم ان کی آخری بات سن کر مسکرا کر بولا۔۔جبکہ باوی سب بھی ارقم کی بات سن کر مسکرا اٹھے۔۔۔۔


ہاشم احمر کے ساتھ کار میں موجود تھا احمر کے کہنے پر وہ اس کے ساتھ حویلی جاکر اب حدید صاحب سے معافی مانگنا چاہتا تھا چہرے سے تو وہ پر سکون ہی لگ رہا تھا مگر اندر سے ڈرا ہوا تھا۔۔۔۔


حویلی کے آگے گاڑی رکی تو اس نے احمر کو ایک نظر دیکھا جو ہاشم کو حوصلہ دینے کے لیے بولا۔۔۔۔


ہاشم یار تم فکر مت کرو وہ چاچو ہیں تمھارے بس ایک بار دل سے معافی مانگ لو وہ تمھیں معاف کر دیں گے اور میں تمھارے ساتھ اندر نہیں جاؤں گا ورنہ وہ سمجھیں گے کہ میں تمھیں فورس کر کے لایا ہوں اور دوسری بات کہ یہ تمھاری فیملی کا مسئلہ ہے تمھیں خود ہی حل کرنا ہوگا۔۔۔۔


وہ گاڑی حویلی سے باہر ہی کھڑی کر کے پیدل اندر داخل ہونے لگا کہ اسے ملازم نے روک دیا۔۔۔۔


سردار صاحب نے کہا تھا جب بھی آپ آئیں آپ کو دروازے سے ہی لوٹا دیا جائے ۔۔۔۔۔


تم شاید بھول رہے ہو کس سے بات کر رہے ہو اس وجہ سے مجھ سے زیادہ فضول بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔


وہ ملازم کی بات سن کر تھوڑا غصے سے بولا تو ملازم فورا پیچھے ہٹ گیا آخر کو دوردید بخت کا بیٹا تھا وہ۔۔۔


وہ لمبے لمبے ڈھگ بڑھتا اندر داخل ہوا مگر ہال میں داخل ہونے سے پہلے وہ رک کر گہرا سانس لیتے ہوئے خود کو پرسکون کر کے اپنی ہمت بڑھانے لگا


اسے ہال سے قہقہوں اور باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔۔۔۔ وہ ہمت کرتا اندر داخل ہوا اور اونچی آواز میں حدید صاحب سے سلام لے کر سب کو اپنی جانب متوجہ کر گیا


اسلام و علیکم چچا جان !

حدید صاحب ہاشم کی آواز سن کر اس کی جانب متوجہ ہوئے جبکہ باقی سب بھی اس کی جانب ہی دیکھ رہے تھے

تمھیں اندر کس نے داخل ہونے دیا ہاشم تم بھول گئے ہو تو میں یاد دلا دوں کہ حویلی کے دروازے تم پر بندھ کردیے گئے تھے اسی وجہ سے شرافت سے یہاں سے واپس چلے جاؤ اس سے پہلے کے کوئی بدمزگی ہو۔۔۔۔

حدید صاحب کرخت لہجے میں ہاشم سے بولے تو ہاشم اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا مضطرب سا بولا۔۔۔۔

چچا جان بس کچھ دیر کے لیے میری بات سن لیں میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں میں بہت بے سکون ہوں گھر جانے کا سوچ کر ہی میرا دم گھٹنے لگتا ہے و۔۔وہ حمنا نے اس نے میرے بچے کو قتل کر دیا و۔۔۔وہ مجھے برباد کر چکی ہے اس نے مجھ سے طلاق لے لی اور حور اور ہادی کا کچھ پتا نہیں چل رہا میرا دل بند ہو رہا ہے مجھے لگتا ہے میں اندھیرے کا مسافر بن جاؤ گا اگر میں نے آپ سے بات نہ کی خدارا میری مدد کریں چچا جان ۔۔۔۔

اس کے درد بھرے لہجے میں کہی گئی بات پر حدید صاحب کا دل تھوڑا نرم ہوا وہ واقعی قابلِ رحم لگ رہا تھا۔۔۔۔

ارقم نے اس کی بات سن کر صرف ہنکار بھرا اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھا کہ وہ تکلیف میں ہے یا نہیں وہ جتنے لوگوں کے ساتھ غلط کر چکا تھا یہ سب اس کا مکافات عمل ہی تھا جو اج وہ بے سکون تھا رمنا بیگم کا دل بھی ہاشم کی ایسی حالت دیکھ کر نرم پڑ گیا تھا جبکہ علیشبہ کو ہاشم کی تکلیف اپنی تکلیف محسوس ہوئی وہ کمرے میں بھاگ جانا چاہتی تھی خود کو کہیں بند کر لینا چاہتی تھی تاکہ اس ستمگر کی یہ ٹوٹی بکھری حالت نہ دیکھ سکے مگر وہ لب کاٹتی پھر بھی ہال میں سب کے ساتھ کھڑی رہی ۔۔۔۔

خود کو سنبھالو ہاشم اور یہاں آکر بیٹھو ۔۔۔۔

حدید صاحب ہاشم کو اپنے پاس بلاتے ہوئے بولے۔۔۔۔

ہاشم ان کی بات سن کر تیزی سے ان کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے ان کے گلے لگ گیا ۔۔۔۔

چچا جان پلیز مجھے معاف کر دیں میں بہت برا ہوں میں نے سب کے ساتھ غلط کیا اب یہ زندگی مجھ پر تنگ ہو رہی ہے مجھے آپ کی ضرورت ہے چچا جان مجھے معاف کر دیں پلیز چچا جان ۔۔۔۔۔۔

ہاشم صبر سے کام لو سب ٹھیک ہو جائے گا اور جہاں تک بات معاف کرنی کی ہے تو میں صرف تم سے ناراض تھا کہ تم اپنی بیوی کا منہ بند نہ کرواسکے جب وہ ہمارے خاندان کی عزت کی دھجیاں اڑا رہی تھی۔۔۔۔

وہ اس کے گرد اپنے بازو پھیلاتے ہوئے تحمل سے بولے۔۔۔۔۔

وہ میری بیوی نہیں رہی چچا جان اس کے خیال میں میرے جیسے جاہل گنوار کے ساتھ وہ اب زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ان کی بات سن کر علیحدہ ہو کر سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔۔

مگر وہ تو تم سے محبت کرتی تھی پھر اس نے ایسا کیوں کہا تم سے۔۔۔۔۔

رمنا بیگم نے ہاشم سے پوچھا۔۔۔۔۔

وہ اب اپنے کزن کو پسند کرنے لگ پڑی تھی اور مزید میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔

وہ رمنا بیگم کی طرف مڑ کر بولا۔۔۔۔

بیگم ہاشم کے لیے کچھ کھانے پینے کو منگواؤ ہم یہ باتیں بیٹھ کر تفصیل سے کرتے ہیں اور ہاشم تم بیٹھ جاؤ اور ساری باتیں تفصیل سے بتاؤ۔۔۔۔

حدید صاحب پہلے رمنا بیگم سے بولے اور پھر ہاشم سے کہا تو وہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور انھیں ساری تفصیل بتانے لگا جبکہ ارقم اور عالی اس دوران خاموش ہی رہے تھے۔۔۔۔۔

ہاشم تھوڑی دیر حویلی رک کر حدید صاحب سے بات کر کے واپس آچکا تھا اور کسی نے اس سے بات نہیں کی تھی رمنا بیگم نے بھی بس تھوڑی بہت بات ہی کی تھی ۔۔۔۔۔


وہ واپس آکر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا لیکن اب اسے حدید صاحب کی وجہ سے تھوڑا سکون ہو گیا تھا۔۔۔۔


صبح عینی اپنے معمول کے مطابق اٹھی اور نماز پڑھ کر ہادی کے کمرے میں اسے ایک نظر دیکھنے گئی اسے سوتا دیکھ کر وہ واپس اپنے کمرے میں آگئی اور شاہزین کو سوتا دیکھ شاپنگ بیگز اٹھا کر ان میں سے چیزیں نکال کر الماری میں رکھنے لگی ہادی کی چیزیں وہ پہلے ہی الگ کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔


ساری چیزیں رکھنے کے بعد اس نے ایک اچھا سا ڈریس نکالا اور شاور لے کر چینج کر کے کانوں میں بالیاں پہن کر اور ہلکا سا میک اپ کر کے وہ تیار ہو کر اب شاہزین کو اٹھا رہی تھی ۔۔۔۔۔


شاہزین اٹھ جائیں نو بج گئے ہیں۔۔۔۔۔


افف ۔۔۔۔ حور یار تھوڑی دیر سونے دو بس آج کا دن ہی ہے پھر کل سے تو مجھے آفس جانا ہے اور پھر جلدی اٹھنا پڑنا ہے۔۔۔۔۔


وہ بنا اپنی آنکھیں کھولے حور سے بولا اور دوسری طرف کروٹ لے کر دوبارہ سونے لگا کہ اس کے کانوں میں دوبارہ حور کی آواز پڑی۔۔۔۔


شاہ پ۔۔۔پلیز اٹھ جائیں نہ ۔۔۔۔۔۔


اس کی منت بھری آواز سن کر آخر وہ اٹھ ہی گیا


وہ اٹھ کر بیٹھا اور آنکھیں کھول کر عینی کو گھورنے لگا تھا کہ اسے تیار ہوا دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کھل گئیں اور پھر اس نے مسکراتے ہوئے عینی کو اوپر سے نیچے تک دیکھا وہ سفید شارٹ فراک اور پجامے میں ملبوس شاہزین کا صبح صبح ہی دل دھڑکا گئی تھی۔۔۔۔


ش۔۔۔شاہزین ایسے مت دیکھیں ا۔۔۔اور جلدی تیار ہو جائیں ۔۔۔۔


وہ شاہزین کو مسلسل خود کو دیکھتے پا کر سرخ ہوتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔


سویٹ ہارٹ تم تو بہت ہی شرمیلی ہو ۔۔۔۔۔


تو شاہزین قہقہہ لگاتا ہوا بولا


و۔۔وہ آپ تیار ہو جائیں میں ہادی کو جگا کر آتی ہوں۔۔۔۔


وہ سرخ پڑتی جلدی سے کمرے سے جانے کے لیے پرتولتی بولی تو شاہزین نے جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر عینی کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا جو دروازے کی طرف رخ کیے باہر جانے لگی تھی۔۔۔۔


ارے یار اتنی پیاری تیار ہوئی اپنی تعریف سنے بغیر ہی چلی جاؤ گی ۔۔۔۔۔


وہ اس کی گال چوم کر شرارت سے بولا۔۔۔۔


و۔۔۔وہ میں آ۔۔۔۔پ۔۔۔۔


وہ کنفیوز ہوتی اسے کوئی جواب نہیں دے پارہی تھی


آج تم میرے لیے تیار ہوئی ہو نہ تو مجھے بے حد اچھا لگا ہے ایسے ہی روز اچھا سا تیار ہو کر مجھے اٹھایا کرو اور میں روز تمھاری ڈھیر ساری تعریف کیا کروں گا۔۔۔۔


وہ اس کا دوسرا گال چوم کر بولا۔۔۔۔۔


ش۔۔شاہ آپ بہت بدتمیز ہیں ۔۔۔۔۔۔


وہ اپنا سرخ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر بولی تو شاہزین نے قہقہہ لگایا


لو اس میں کیا بدتمیزی والی بات ہے میں تو صرف اپنی خوبصورت بیوی کی تعریف کر رہا تھا تم ایویں مجھ معصوم پر الزام لگا رہی ہو۔۔۔۔۔۔


وہ اس کا رخ اپنی جانب کیے اس کے منہ پر رکھے ہاتھوں پر بوسہ دے کر بولا۔۔۔۔


ابھی عینی اسے کوئی جواب دیتی کہ کسی کہ دروازہ بجانے کی آواز پر اس نے جلدی سے اپنے منہ سے ہاتھ ہٹائے اور شاہزین سے تھوڑا سا فاصلے پر کھڑی ہو کر دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے ہادی اندر داخل ہوا تھا۔۔۔


چھوٹے سالے صاحب سوئے تو ٹھیک تھے رات کو ؟؟؟


شاہزین نے ہادی سے مسکراتے ہوئے واشروم کی طرف جاتے ہوئے پوچھا


بھائی مجھے بہت اچھی نیند آئی ورنہ ہوسٹل میں تو مجھ سے صحیح سے سویا ہی نہیں جاتا۔۔۔۔


شاہزین اس کی بات سن کر اپنی جگہ پر رک گیا اور عینی کی طرف دیکھا جس کی مسکراہٹ ہادی کی آخری بات سن کر سمٹ گئی تھی۔۔۔۔


تم فکر مت کرو اب سے تم نے یہاں ہی عینی اور میرے ساتھ رہنا ہے کل ہم تمھارا ایڈمیشن کسی دوسرے سکول میں کروا دیں گے۔۔۔۔۔


اس کی بات سن کر ہادی نے عینی کی طرف دیکھا جو خود حیرانی سے شاہزین کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


عینی اپی کیا شاہزین بھائی سچ بول رہے ہیں ؟؟ کیا اب میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔۔۔۔۔


ہاں بلکل ابھی تو شاہزین نے تمھیں بتایا ہے۔۔۔۔


وہ نم آنکھوں سے مسکرا کر ہادی کا سر چوم کر بولی تو وہ خوش ہوتا ہوا اس کے گلے لگ گیا۔۔۔۔


عینی نےباس سے الگ ہو کر اسے صوفے پر پڑے اس کے شاپنگ بیگز میں سے اسے ایک سوٹ نکال کر دیا اور اسے جلدی سے فریش ہونے بھیجا جب ہادی چلا گیا تو عینی شاہزین کا انتظار کرنے کے لیے بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کے شاور لے کر آنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔۔


شاہزین شاور لے کر آیا اور عینی کو ایک نظر بیڈ پر بیٹھے دیکھ کر جلدی سے اپنے بال ڈرائے کرکے بال سیٹ کیے اور عینی کی طرف دیکھا جو اس سے کچھ پوچھنے کو پرتول رہی تھی وہ جانتا تھا یقینا جو اس نے ہادی سے کہا ہے وہ ہی عینی نے پو چھنا ہے۔۔۔۔۔


ک۔۔کیا واقعی ہادی اب ہمارے ساتھ رہے گا۔۔۔۔


عینی نے دھیمی آواز میں پوچھا ۔۔۔۔۔


سویٹ ہارٹ کیا تمھیں لگ رہا تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔۔ وہ اب یہیں رہے گا رزیہ سے ساتھ والا کمرہ ہادی کے لیے سیٹ کروا لینا بلکہ میں اسے خود کہہ دوں گا اور اب اٹھو ہادی کو کمرے سے لے کر نیچے ناشتہ کرنے چلتے ہیں۔۔۔۔۔


وہ عینی سے بولا اور آخر میں عینی کے سامنے ہاتھ پھیلایا جسے عینی نے مسکراتے ہوئے تھام لیا تھا۔۔۔۔


وہ ہادی اور عینی کے ساتھ نیچے گیا جہاں آج سحر بیگم بھی تیمور صاحب اور شفق کے ساتھ ہی موجود تھیں۔۔۔۔


انھیں ڈائننگ ہال میں داخل ہوتے دیکھ سحر بیگم نے نخوت سے اپنا رخ موڑا


جبکہ تیمور صاحب اور شفق نے عینی کے سلام کا جواب دیا جس نے آتے ہی سلام لیا تھا۔۔۔۔


ڈیڈ یہ عینی کا بھائی ہادی ہے اور اب ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔۔۔۔۔


شاہزین نے ہادی کو عینی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا کر تیمور صاحب سے خود بھی بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔


یہ کوئی یتیم خانہ نہیں جو تم ہر کسی کو اٹھا کر میرے گھر لا رہے ہو نکالو اسے فورا میرے گھر سے باہر۔۔۔۔


سحر بیگم کو تو شاہزین کی بات سن کر پتنگیں لگ گئی اور تیمور صاحب کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بول پڑیں جبکہ شفق جو ہادی سے بات کرنے لگی تھی سحر بیگم کی بات اسے سخت ناگوار گزری جبکہ شاہزین اور تیمور صاحب نے بھی سحر بیگم کی بات سن کر انھیں ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا اور عینی تو خاموشی سے بیٹھی اپنے لب کاٹ رہی تھی اور ہادی سحر بیگم کی طرف دیکھ رہا تھا وہ اتنا بھی بچہ نہیں تھا کہ ان کی بات نہ سمجھ پاتا ۔۔۔۔۔


سحر یہ گھر تمھاری اکیلی کا نہیں ہے اور ابھی میں زندہ ہوں کہ فیصلہ کرسکوں کہ کون یہاں رہے گا اور کون نہیں اور مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔۔


تیمور صاحب سخت لہجے میں بولے ۔۔۔۔۔


بلکل نہیں تیمور ایک کام والی کو تو آپ پہلے ہی شاہزین کی بیوی بنا رہے ہیں اب اس کا بھکاری بھائی یہاں میں بلکل بھی برداشت نہیں کروں گی۔۔۔۔۔


حور ہادی کو لے کر کمرے میں جاؤ ۔۔۔۔۔


شاہزین نے سحر بیگم کی بات سن کر ضبط سے سرخ پڑتے چہرے سے عینی سے کہا جو سحر بیگم کی بات سن کر اسے ساتھ لگائے بیٹھی تھی شاہزین کی بات سن کر وہ فورا ہادی کو لے کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔


اب تم حد سے بڑھ رہی ہو سحر۔۔۔۔۔


ایک منٹ ڈیڈ میں موم سے بات کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ آپ کیا چاہتی ہیں چلا جاؤ یہاں سے چھوڑ دو یہ گھر تا کہ آپ اپنے گھر میں سکون سے رہ سکیں۔۔۔۔۔


مجھے قطعی منظور نہیں کہ آپ حور کی اور ہادی کو ہر وقت بے عزت کرتی رہیں وہ اب یہی حور کے ساتھ اس گھر میں رہے گا اگر آپ کو مسئلہ ہے تو ابھی بتا دیں میں حور کو اپنے ساتھ یہاں سے لے جاؤ گا۔۔۔۔۔


شاہزین تیمور صاحب کو روکتا ہوا خود سحر بیگم سے بولا جن کا غصہ اس کے گھر چھوڑنے کی بات پر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔


تمھیں یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں ہے ایک ہی تو تم میرے بیٹے ہو اور اسے بھی میں کسی غیر کے پیچھے نہیں چھوڑ سکتی ۔۔۔۔۔


وہ بول کر اپنے کمرے میں چلی گئی تو تیمور صاحب بھی اسے حوصلہ دیتے ہوئے باہر چلے گئے جبکہ شاہزین کے جانے کے بعد شفق بھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔


شاہزین رزیہ کو ناشتہ کمرے میں لانے کا بول کر اپنے کمرے میں چلا آیا تھا۔۔۔۔


وہ کمرے میں داخل ہوا تو کمرے کا منظر دیکھ کر اس کا دل میں درد سا اٹھا۔۔۔۔۔


عینی ہادی کو ساتھ لگائے رو رہی تھی جبکہ ہادی بھی رو رہا تھا ۔۔۔۔۔


شاہزین نے عینی کے قریب جا کر ہادی کو عینی سے الگ کر کے اس کے آنسو صاف کیے اور اسے اپنے ساتھ بیٹھا کر بولا۔۔۔۔


چھوٹے سالے صاحب مرد رویا نہیں کرتے ایسی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ تمہیں تو اپنی آپی کو بھی رونے نہیں دینے چاہیےِ تھا ۔۔۔۔


وہ ہادی کو سمجھا کر بولا جو اب چپ کر گیا تھا جبکہ اس نے آخری بات پر عینی کی طرف دیکھا جو اپنے آنسو صاف کرکے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔


تھوڑی دیر دونوں کو سمجھانے کے بعد اس نے ہادی اور حور دونوں کو فریش ہونے بھیجا رزیہ ناشتہ بنا کر کمرے میں دے گئی تھی ۔۔۔۔۔


حور اور ہادی کے آنے کے بعد انھوں نے ناشتہ کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔


علیزے ہال میں بیٹھی بظاہر تو رمنا بیگم کی باتیں سن رہی تھی جبکہ وہ خود تو سوچوں میں گم تھی اس کے ذہن میں ہاشم کے جانے کے بعد کل سے صرف ایک خیال آرہا تھا کہ کیا اب ہاشم حمنا کے چھوڑنے کے بعد کیا اس کے نصیب میں ہوگا ۔۔۔۔۔


اسے لگتا تھا کہ ہاشم کبھی بھی اسے پسند نہیں کرے گا اور اگر وہ کر بھی لیں تو ارقم کبھی بھی اس کی ہاشم سے شادی نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔۔


عالی۔۔۔۔


وہ رمنا بیگم کے ہلانے سے اپنی سوچوں سے باہر آئی۔۔۔


تم میری بات سن بھی رہی تھی عالی یا نہیں ؟؟؟


وہ سوری امی سن نہیں سکی آپ کیا کہہ رہی تھیں۔۔۔۔


علیشبہ نے جواب دیا تو رمنا بیگم نفی میں سر ہلاتی دوبارہ بولیں۔۔۔۔


میں کہہ رہی تھی کہ میں نے کچھ کھانے لا سامان بھی پیک کر دیا یے وہ بھی ساتھ لے جانا اور ارقم کے کچھ نئے کپڑے میں نے سلوائے تھے وہ بھی یاد سے رکھ لینا ارقم تو پتا نہیں کہاں گم ہے۔۔۔۔


میں رکھ لوں گی امی۔۔۔ بھائی نے مجھے تین بجے تک تیار ہونے کا کہا تھا اور دو تیس بھی ہوگئے ہیں امی آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا اتنا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔


اس کی اچانک گھڑی پر نظر پڑی تو جلدی سے اٹھتی رمنا بیگم سے بولی۔۔۔۔


تمھیں ہی ہوش نہیں تھا پتا نہیں کیا کیا سوچے جا رہی تھی ورنہ میں نے تو دو تین مرتبہ تمھیں بتایا بھی تھا


وہ رمنا بیگم کی بات سن کر جلدی سے اپنے کمرے میں تیار ہونے بھاگی۔۔۔۔


شفق اپنے کمرے میں بور ہو رہی تھی ارقم سے اس کی دو دن سے بات نہیں ہوئی تھی تو اس نے ارقم کو کال کرنے کا سوچا۔۔۔۔۔


ارقم اس وقت زمینوں پر موجود حدید صاحب کے کہنے پر حساب کتاب کرنے آیا تھا اور اب واپس جا رہا تھا جب اسے شفق کی کال آئی وہ چونکہ پیدل ہی آیا تھا اس وجہ سے وہ کال اٹھا کر حویلی کی طرف جاتا ہوا شفق سے بات کرنے لگا۔۔۔۔۔


اسلام و علیکم۔۔۔۔۔۔ارقم !


وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ شفق خیریت جو کال کی ؟؟؟


اسے تنگ کرنے کے لیے اس نے پوچھا تو شفق گڑبڑا گئی۔۔۔۔


و۔۔وہ میں و۔۔وہ آپ نے کہا تھا کہ عالی کے نوٹس تیار کر دو میں نے باقی بھی تیار کر دیے ہیں ۔۔۔۔


وہ اس کا گھبرانا محسوس کر کے مسکرایا


ہمم۔۔۔ مجھے لگا شاید تم مجھے یاد کر رہی تھی اسی وجہ سے تم نے کال کی تھی مگر تم نے یہ بات کر کے میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔۔

تو آپ نے بھی تو مجھے کال نہیں کی میں دو دن سے انتظار کر رہی تھی اب میں نے کی ہے تو آپ مجھے تنگ کر رہے ہیں۔۔۔۔

وہ روانی میں کیا بول گئی اسے پتا ہی نہیں چلا بات تو اسے تب سمجھ آئی جب اسے ارقم کا ہلکا سا قہقہہ سنائی دیا اور اپنی بات پر غور کیا۔۔۔۔۔

و۔۔۔وہ میرا و۔۔وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔

وہ جلدی سے بولی۔۔۔۔

تو کیا مطلب تھا پھر مجھے بتا دو ۔۔۔۔ ویسے میں نے اس لیے کال نہیں کی تھی میں تھوڑا مصروف تھا اور اب نہیں تنگ کروں گا کیا تم نے واقعی میرے فون کا انتظار کیا ؟؟

وہ واقع دو دن مصروف تھا حدید صاحب کے ساتھ اسی وجہ سے اسے کال نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔

و۔۔۔وہ ہاں میں نے کیا تھا مگر آپ نے کال ہی نہیں کی ۔۔۔۔۔

اس نے دو دن کافی دیر ارقم کی کال کا انتظار کیا تھا مگر ارقم کے کال نہ کرنے پر تنگ آکر اس نے خود ہی کال کر لی اس کا دل اب ارقم سے بات کرنے کو کرتا تھا اس کے ساتھ وقت گزارنے کو کرتا تھا مگر وہ اپنے دل کی حالت سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔

اچھا تو کیا کر رہی تھی کیسے گزرے دو دن بتاؤ۔۔۔۔

وہ اس کا جواب سن کر مسکراتا ہوا بولا تو شفق بیڈ پر لیٹ کر اسے اپنے دو دن کی تفصیل بتانے لگی ۔۔۔۔۔

حمنا رات کے وقت گھر میں اکیلی تھی اس کے موم ڈیڈ ایک پارٹی میں گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں تھی جب نیچے سے اسے آوازیں سنائی دیں گھر میں بس ملازمہ تھی وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ہال میں جانے لگی کہ دیکھ سکے کہیں ملازمہ نے تو کوئی چیز نہیں توڑ دی ۔۔۔۔

وہ باہر آئی تو ہال میں ملازمہ ڈر کر ایک کونے میں دبکے کھڑی تھی جبکہ اس کے سامنے کوئی نقاب پوش گن لیے کھڑا تھے۔۔۔۔

حمنا کی اسے دیکھ کر چیخ نکل گئی تو دو اور نقاب پوش جو گھر کے کمرے چیک کرنے والے تھے ان میں سے ایک نے آے بڑھ کر جلدی سے حمنا کو پکڑا جو بھاگنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔

حمنا مسلسل خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ نقاب پوش جس کے ہاتھ میں گن موجود تھی اسے پتا نہ چلا کہ کب گن کا ٹریگر دبا اور حمنا کے پیٹ میں گولی لگی۔۔۔۔۔

گولی کی آواز سن کر ملازمہ نے چیخ مار کر حمنا کی طرف دیکھا جس کے پیٹ سے خون نکل رہا تھا جبکہ تینوں نقاب پوش جو صرف چوری کرنے آئے تھے اور ان کا کسی کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا حمنا کے گولی لگتے ہی وہ گھر سے فرار ہوگئے ۔۔۔۔۔

ملازمہ نے جلدی سے نقاب پوشوں کے جاتے ہی ایمبولنس کو کال کی اور ساتھ ہی حمنا کے والدین کو بھی کال کی۔۔۔۔

جبکی حمنا فرش پر گری تکلیف سے دوہری ہو رہی تھی۔۔۔۔

حمنا کو ہاسپٹل لے جایا گیا جہاں پر اس کے والدین بھی پہنچ گئے تھے اور ملازمہ سے انھیں ساری بات پتا چل گئی تھی وہ پریشانی میں بیٹھے تھے جب ڈاکٹر باہر آئی انھیں پتا چلا تھا کہ اسے اس جگہ پیٹ میں گولی لگی تھی کہ اب وہ مشکل سے ہی کنسیو کر سکتی ہے جب کہ اب اس کی حالت بہتر تھی۔۔۔۔۔

اس کے والدین یہ سن کر ہی سکتے میں چلے گئے تھے لیکن اس کے ٹھیک ہونے کی خبر نے انھیں راحت بخشی تھی۔۔۔

شاہزین آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب عینی ہادی کو تیار کروا کر کمرے میں داخل ہوئی شاہزین آفس جانے سے پہلے ہادی کا ایڈمیشن کروانے جا رہا تھا اس وجہ سے ہادی کو اپنے ساتھ لے جا رہا تھا جبکہ عینی ان کے ساتھ نہیں جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔


حور یار ایک کام تو کرو میرا کوٹ تو مجھے پہنا دو۔۔۔۔۔۔


اس نے عینی سے کہا تو عینی نے بیڈ پر پڑا کوٹ اٹھایا اور شاہزین کو کوٹ پہنانے میں مدد کی۔۔۔۔۔۔


میں ہادی کا ایڈمیشن کروا کر اسے واپس چھوڑ جاؤں گا فکر مت کرنا اور اگر موم کچھ کہیں تو ان کی باتوں کو نظر انداز کر دینا دل پر لینے کی ضرورت نہیں ہے اور ہاں میرے آنے سے پہلے اچھا سا تیار ہو جانا ۔۔۔۔۔۔


وہ مسکرا کر بولتا اس کا سر چوم کر ہادی کو اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔۔


****************


حمنا کو جب ہوش آیا تو اس کے ماں باپ نے اس سے کینسیو نہ کرنے والی بات چھپا لی ۔۔۔۔ مگر آخر کب تک یہ بات چھپی رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔


وہ آنکھیں موندے لیٹی تھی جب نرس اور اس کو اپنی موم کی آوازیں سنائی دیں جب اس نے نرس کو کہتے سنا کہ اب وہ کینسیو نہیں کر سکتی تو فورا اس نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنی ان لوگوں کی طرف دیکھا جبکہ اس کی موم نرس کو خاموش کروا رہی تھیں۔۔۔۔۔


م۔۔۔۔موم ک۔۔کیا یہ سچ کہہ رہی ؟؟؟ ۔۔۔۔۔ آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں ؟؟؟؟


حمنا میری جان ابھی تم آرام کرو ورنہ تمھاری طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔


موم میں آپ سے پوچھ رہی ہوں کیا یہ سچ کہہ رہی ہے ؟؟؟ ہاں یا نہیں میں جواب دیں۔۔۔۔۔


اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔۔


ہاں یہ سچ بول رہی ہے ۔۔۔۔یہ سب ہماری غلطی ہے ہمیں تمہیں اکیلے گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا۔۔۔۔۔


وہ آخر روتے ہوئے سچ بول ہی پڑیں۔۔۔۔۔


ج۔۔۔۔۔۔جھوٹ بول رہی ہیں نہ آپ یہ کیسے ہو سکتا ہے ن۔۔۔۔نہیں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے ن۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔


وہ مسلسل سر نفی میں ہلاتی بول رہی تھی یہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا تھا اس نے تو ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا اسے ایک دم خود سے وحشت سی محسوس ہوئی اس نے بھی تو اپنی پہلی اولاد کو ناحق قتل کیا تھا یہ اس کا ہی مکافات عمل تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تھی اس نے تو حور اور ہادی کے ساتھ بھی تو برا کیا تھا پھر اس کے ساتھ کیسے برا نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔


آنسو اب اس کی آنکھوں سے روانی سے بہنے لگے تھے نرس نے اس کی حالت دیکھ کر جلدی سے اسے بے ہوشی کا انجیکشن لگا دیا تھا تاکہ وہ پر سکون ہو سکے۔۔۔۔۔


••••••••••••••••••••


ہاشم کو صبح ہی احمر سے حمنا کے ساتھ ہوئے واقعہ کا پتا چلا تھا حمنا کے ماں باپ کا گھر چونکہ احمر کے گھر سے دو گھر آگے تھا تو وہاں کی ملازمہ سے تقریبا سب کو اس کے ساتھ ہوئے واقعہ کا پتا چلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔


اسے حمنا کے بارے میں سن کر دکھ بلکل نہ ہوا ہاں ۔۔۔۔ مگر افسوس ضرور ہوا تھا۔۔۔۔۔


اسے اپنے دوست سے پتا چلا تھا کہ آخری دفعہ ہادی اور حور کئی مہنے پہلے ایک پارک میں دیکھے گئے تھے اس کے بعد کہاں گئے کسی کو نہیں پتا تھا اس نے یہاں تک کہ ہر یتیم خانہ میں بھی چیک کر والیا تھا مگر ناکامی ہی اس کی قسمت میں تھی ۔۔۔۔۔۔


وہ ہر روز بے سکونی کی نیند ہی سوتا تھا وہ جانتا تھا وہ سکون سے تب ہی جی سکے گا جب وہ ہادی اور حور کو ڈھونڈ لے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔


اسے رہ رہ کر اپنا ہادی کو تھپڑ مارنا یاد آتا تھا وہ سوچتا تھا کہ کاش وہ وقت پیچھلے لے جاسکتا تو کبھی ہادی کو تھپڑ نہ مارتا اور نہ ہی ان دونوں کو گھر سے نکالتا۔۔۔۔۔۔


******************


وقت اپنی پوری رفتار سے گزر رہا تھا شاہزین کو آفس جاتے ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا ہادی بھی باقاعدگی سے سکول جارہا تھا عینی بھی شاہزین کے کہنے پر اپنے امتحانات کی تیاری کر رہی تھی اس نے جو پرائیویٹ ایڈمیشن لیا تھا اب اس کے پیپر ہونے والے تھے سحر بیگم وقفے وقفے سے اسے باتیں سنا کر تکلیف پہنچانا نہ بھولتیں تھیں۔۔۔۔


شفق اور ارقم بھی ایک دوسرے کو چاہنے لگے تھے وہ دونوں اپنے احساسات کے بارے میں جانتے تھے مگر ایک دوسرے کو ابھی دونوں نے ہی نہیں بتایا تھا لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کے احساسات اور جزبات سے بھی بخوبی واقف تھے علیشبہ تو پہلے ہی جان گئی تھی کہ ان دونوں میں ضرور کوئی کونیکشن ہے اور ویسے بھی اسے ارقم کی پسند اور اپنی دوست سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔۔۔۔


مگر اس وقت کے دوران کچھ لوگوں کی زندگی رک گئی تھی جیسے ہاشم صبح آفس جاتا تو رات کو گھر آتا اسے تو اب اپنے ہی گھر سے وحشت ہوتی تھی اس گھر میں اکیلے رہنے سے اسے خاموشی کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی وہ چار پانچ دفعہ حویلی بھی ہو کر آگیا تھا اس کی علیشبہ سے اس دوران صرف ایک بار ہی ملاقات ہوئی تھی لیکن اس کے بعد اس کی سوچوں میں اب علیشبہ بھی شامل ہوگئی تھی وہ جانتا تھا کہ حدید صاحب اور ارقم کبھی بھی اس کا رشتہ علیشبہ سے طے نہیں کریں گے وہ جتنا اس کی سوچوں کو جھٹکتا اتنا ہی وہ اس کی سوچوں پر قابض تھی یہاں تک کہ وہ مجبور ہوتا ایک دن ارقم اور علیشبہ جس جگہ رہ رہے تھے اس علاقے میں گیا مگر گھر میں داخل ہونے کی بجائے وہ باہر ہی گاڑی میں بیٹھا رہا پھر تھوڑی دیر بعد اسے ارقم علیشبہ کو گیٹ کے باہر چھوڑتا دکھائی دیا اس وقت ارقم نہ پہچان لے اس لیے وہ فوری سیٹ میں نیچے کی طرف جھک گیا تھا جس کی وجہ سے وہ علیشبہ کا چہرہ صحیح سے دیکھ نہ سکا۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ علیشبہ کو دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔۔۔۔


علیشبہ کی زندگی بھی بے کیف گزر رہی تھی بس ایک بار اس ستمگر کو دوبارہ حویلی دیکھ لیا تھا اس کے بعد اس سے مل نہیں پائی تھی جس وجہ سے اس کا دل ہاشم سے دوبارہ ملنے کو بے قرار تھا اسے پتا تھا کہ وہ یہ غلط کر رہی ہے مگر اس کے دل کو کون سمجھتا جو اسے دوبارہ دیکھنے پر بضد تھا۔۔۔۔۔۔


حمنا کی حالت بھی اب کافی بہتر تھی وہ ٹھیک ہوکر گھر آچکی تھی جبکہ شاہزیب تو اس کے دوبارہ ماں نہ بننے کی خبر سن کر اس سے رخ موڑ گیا تھا اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس میں اور ہاشم میں کیا فرق ہے اگر ہاشم کی موجودگی میں یہ سب ہوتا تو وہ اسے اپنے ہاتھوں کا چھالہ بنا کر رکھتا مگر اب وہ کیا کرسکتی تھی اس نے خود شاہزیب کے بہکاوے میں آکر ہی ہاشم سے طلاق لی تھی۔۔۔۔۔۔


وہ دن بہ دن ڈیپریشن میں جا رہی تھی جس کی وجہ سے اس کے والدین اس کے لیے بے حد پریشان رہنے لگے تھے لیکن وہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی اور اب تو اس نے پروپر دوائی لینا شروع کر دی تھی جس کی وجہ سے اس کی حالت کافی بہتر ہوگئی تھی


آج اتوار کا دن تھا اور شاہزین ، عینی ، ہادی اور شفق ہال میں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے اور ساتھ باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔


شفق آپی آپ چیٹنگ کر رہی ہیں میں نے ابھی خود دیکھا دو نمبر آئے اور آپ نے تین نمبر چلائے ۔۔۔۔۔


ہادی نے شفق مس چیٹنگ کرتے دیکھا تو فورا بول پڑا پہلے والی گیم بھی وہی جیتی تھی اس وجہ سے وہ اس پر خاص نظر رکھ رہا تھا۔۔۔۔۔


ہادی جھوٹ مت بولو میں نے بھی دو ہی چلائے ہیں ۔۔۔۔۔


وہ اسے آنکھیں دکھاتی بولی۔۔۔۔


ہائے اللہ آپی آپ مجھے ڈرانے کی کوشش بلکل مت کریں میں اتنا بھی ڈرپوک نہیں ہوں کہ آپ کو چپ چاپ چیٹنگ کرتے دیکھوں تو چپ رہوں۔۔۔۔۔


وہ سیانوں کی طرح بولا تو عینی اور شاہزین اس کی بات سن کر مسکرا اٹھے جبکہ شفق نے اس کی بات پر منہ بگاڑا۔۔۔۔


ابھی وہ مزید ہادی سے لڑتی کہ تیمور صاحب ہال میں داخل ہوتے شاہزین سے بولے۔۔۔۔۔


شاہزین کل اسلام آباد ایک کلائنٹ سے میٹنگ ہے میں چلا جاتا مگر یہاں بھی ایک ضروری میٹنگ ہے جس میں میرا ہونا بہت ضروری ہے تو میری جگہ تم چلے جاؤ گے۔۔۔۔۔


جی ڈیڈ میں چلا جاؤں گا آپ فکر مت کریں میں وہاں سب کچھ سنبھال لوں گا۔۔۔۔۔


اگر تم چاہو تو عینی کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ جب سے تم دونوں کی شادی ہوئی ہے تم لوگ تو گھومنے بھی نہیں گئے۔۔۔۔


ڈیڈ میں اسے اپنے ساتھ ضرور لے جاتا مگر اس کا پرسوں پیپر ہے اس وجہ سے اس بار تو یہ میرے ساتھ نہیں جا پائے گی مگر حور کے پیپر ہوتے ہی ہم ضرور کہیں گھومنے جائیں گے۔۔۔۔۔


وہ تیمور صاحب کی بات ضرور مان لیتا مگر جانتا تھا کہ حور کا پرسوں پیپر ہے اسی وجہ سے فورا انھیں انکار کر دیا جبکہ حور اس کے جانے کا سن کر اداس ہوگئی تھی اسے شاہزین کے ساتھ رہنے کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ اب تو اس کا شاہزین کو دوسرے شہرے بھیجنے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔


•••••••••••••••••••••••••


شاہزین کہ آج صبح آٹھ بجے کی فلائٹ تھی اور وہ اب تیار ہوچکا تھا عینی نے اس کی ساری پیکنگ رات کو ہی کر دی تھی اسی وجہ سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اب وہ عینی کو اپنے ساتھ لگائے کھڑا تھا جو اس کے جانے پر اداس تھی۔۔۔۔


شا۔۔۔شاہ پتا نہیں کیوں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آپ پ۔۔پلیز اپنا دھیان رکھیے گا اور وہاں پہنچتے ہی کال کر دیجیے گا۔۔۔۔۔


پتا نہیں کیوں آج صبح سے ہی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہے اس وجہ سے وہ کافی پریشان تھی


تم فکر مت کرو میں تمھیں وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے کال کروں گا اور اپنا دھیان رکھنا میں نے ویسے بھی دو دنوں تک واپس آہی جانا ہے۔۔۔۔


وہ اس کا سر چوم کر بولا تو عینی نے اپنا سر ہلایا ۔۔۔۔

عینی اسے دروازے تک چھوڑنے گئی تھی جہاں ڈرائیور پہلے ہی شاہزین کو ائرپورٹ لے جانے کے لیے کھڑا تھا شاہزین آخری بار عینی کا سر چومتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا اور گھر سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔

وہ معمول کے مطابق سب کے ساتھ ناشتہ کرکے اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے پیپر کی تیاری کر رہی تھی تیمور صاحب اپنے آفس جاچکے تھے جبکہ شفق اپنی یونیورسٹی چلی گئی تھی اور ہادی اپنے سکول چلا گیا تھا۔۔۔۔

ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب اسے ہادی کے سکول سے کال آئی ان کے مطابق ہادی سکول کی سڑھیوں سے گر گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا سر بری طرح پھٹ چکا تھا سکول انتظامیہ اسے ہوسپٹل لے کر جا رہی تھی اور اسے بھی فورا پہنچنے کا کہا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ جلدی سے اپنی رزیہ کو بتا کر اپنی چادر لے کر گھر سے نکلی جبکہ وہ ساتھ اپنا بیگ لینا نہیں بھولی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ہاسپٹل پہنچ کر ہادی کے بارے میں ریسیپشن سے پوچھ کر آئی سیو کی طرف گئی جہاں اس کے سکول کی ٹیچر موجود تھیں اس نے عینی کو بتایا تھا کہ اس کے اتنی شدید چوٹ لگی ہے کہ وہ بار بار ہوش میں آر بے ہوش ہو رہا ہے اس کے سر کے مخصوص حصے میں خون جمنے کا خطرہ ہے جس وجہ سے وہ لوگ اس کا سٹی سکین کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔

اس نے اپنا موبائل نکال کر شاہزین کو کال ملائی مگر اس کا فون مسلسل بند جا رہا تھا اس نے تیمور صاحب کو کال ملائی تو وہ بھی فون نہیں اٹھا رہے تھے کیونکہ آج ان کی سارے سٹاف کے ساتھ ایک بہت ضروری میٹنگ تھی اور اس کے بعد ان کی ایک کلائنٹ سے میٹنگ تھی اس نے آخر مایوس ہو کر کال ملانا چھوڑ دی اور ہادی کے لیے دعا کرنے لگی بے شک اللہ کبھی بھی اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔۔۔۔۔

ڈاکٹر تھوڑی دیر بعد باہر آیا اور عینی کو بتایا کہ ہادی کا آپریشن کرنا پڑے گا اس کے لیے پیسے جمع کر وا دے اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ دے سکتی شاہزین اور تیمور صاحب اس کا فون نہیں اٹھا رہے تھے اس نے پھر کچھ سوچتے ہوئے گھر فون کیا رزیہ نے فون اٹھایا تو اس نے رزیہ کو سحر بیگم کو فون دینے کا بولا۔۔۔۔

کیا بات ہے لڑکی کیوں فون کر رہی ہو۔۔۔۔

م۔۔۔میم مجھے پیسو کی ضرورت ہے ہادی کے آپریشن ہونا ہے کوئی میرا فون نہیں اٹھا رہا پ۔۔۔پلیز آپ دے دیں۔۔۔۔

وہ پہلے عینی کو انکار کرنے لگی تھیں کہ پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔۔۔۔

میں تمھیں پیسے ابھی بھجوا دوں گی مگر میری ایک شرط ہے جو تمھیں ماننی پڑے گی ۔۔۔۔

ج۔۔۔جی جو بھی شرط ہے میں ماننے کو تیار ہوں۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میں پیسے لے کر ہوسپٹل پہنچ رہی ہوں وہاں ہی بات ہوگی۔۔۔۔

عینی نے پیسے کو انتظام ہوتے ہی تھوڑا سکون کا سانس لیا اور دور شریف پڑھنے لگی۔۔۔۔

سحر بیگم تھوڑی دیر بعد ہوسپٹل پہنچ چکی تھیں اور انھوں نے پیسے بھی جمع کر وا دیے تھے ۔۔۔۔۔

اب چونکہ میں نے پیسے جمع کروا دیے ہیں تو تمہیں میری شرط ماننی پڑے گی ۔۔۔۔

ج۔۔۔جی کیا شرط ہے۔۔۔۔

وہ لب کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔۔

اب تم گھر میں واپس قدم رکھنے کی کوشش بھی مت کرنا میں چاہتی ہوں کہ تم آپریشن کے فورا بعد ہادی کو لے کر یہاں سے چلی جاؤ اور یہ رہے مزید پچاس ہزار روپے میں اب تمھیں اپنے گھر اور برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔

اور نہ کرنے کی جرت بھی مت کرنا اگر تمھارے بھائی کا آپریشن کروا سکتی ہوں تو اسے رکوانے میں بھی دیر نہیں لگاؤں گی۔۔۔۔۔

عینی کو مجبورا ان کی بات ماننے پڑی اور اس نے سحر بیگم سے ہادی کو یہاں سے لے جانے کا وعدہ کر دیا تو سحر بیگم واپس گھر چلی گئیں۔۔۔۔

تیمور صاحب نے شام کو میٹنگ اٹینڈ کرکے اپنا موبائل چیک کیا تو عینی کی مس کالز دیکھ کر اسے کال بیک کی مگر دوسری طرف سے عینی کا موبائل مسلسل بند جا رہا تھا انھوں نے گھر والے نمبر پر کال ملائی تو پھر بھی کسی نے کال اٹھائی وہ میٹنگ میں جانے سے پہلے اپنا موبائل سائلنٹ پر لگا کر اپنے آفس ہی چھوڑ گئے تھے جس وجہ سے انہیں عینی کی کالز کے بارے میں پتا نہیں چلا تھا ۔۔۔۔۔


وہ پریشانی سے عینی کے بارے میں سوچ کر گھر کی طرف روانا ہوئے ابھی وہ واپس ہی جا رہے تھے کہ شاہزین کی کال ان کے موبائل پر آئی۔۔۔۔۔


ڈیڈ اگر آپ گھر پر ہیں تو میری بات عینی سے کروادیں میرے موبائل کی چارجنگ ختم ہوگئی تھی اس وجہ سے حور کی کال اٹینڈ نہیں کر پایا مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے ناراض ہوگئی اسی وجہ سے اس نے اپنا فون بند کر دیا ہے۔۔۔۔۔


وہ پریشان سا بولتا ہوا تیمور صاحب کو مزید پریشان کر گیا ۔۔۔۔۔


تم فکر مت کرو میں گھر پہنچتے ہی تمھاری بات کروا دوں گا ۔۔۔۔۔


وہ اسے مطمئن کرتے بولے تو شاہزین نے ان کی بات سن کر گہرا سانس لیا اور ان سے مزید دو چار باتیں میٹنگ کے متعلق کر کے کال بند کر دی۔۔۔۔۔


وہ گھر میں داخل ہوئے تو معمول کے خلاف پورے گھر میں سناٹا چھایا ہوا ورنہ جب بھی وہ گھر میں داخل ہوتے تو انھیں ہادی لان میں کھیلتا ہوا ملتا یا پھر عینی کے ساتھ ہال میں موجود ہوتا۔۔۔۔


حور بچے ۔۔۔۔۔


ہادی۔۔۔۔۔


حور اور ہادی تو ان کی بات سن کر نہ آئے مگر رزیہ ضرور کچن سے باہر آگئی۔۔۔۔


رزیہ سب لوگ کہاں ہیں ؟؟؟


سر وہ سحر میم تو اپنی دوستوں کی طرف گئیں ہیں اور شفق میم آج اپنی دوست کے ساتھ لنچ پر گئی ہیں اس وجہ سے وہ تھوڑی دیر سے آئیں گی۔۔۔۔


رزیہ نے جلدی سے جواب دیا تو تیمور صاحب کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔۔۔


ہادی اور حور کہاں ہیں ؟؟؟ گھر میں دکھائی کیوں نہیں دے رہے ؟؟؟


سر وہ تو صبح ہی آپ سب لوگوں کے جاتے کہیں چلی گئیں تھیں پھر ابھی تک واپس نہیں آئیں اور ہادی بھی سکول سے واپس نہیں آیا ڈرائیور لینے گیا تھا مگر انھوں نے کہا کہ اس کی بہن پہلے ہی اسے کے گئی ہے۔۔۔۔۔


کیا بکواس کر رہی ہو کہاں گئی ہے وہ اور یہ بات پہلے فون کر کے نہیں بتا سکتی پانچ بج چکے ہیں شام کے اور تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔۔


سر م۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتا اور میں تھوڑی دیر پہلے انیکسی گئی تھی اس وجہ سے کال نہیں اٹھا پائی۔۔۔۔


اب جاؤ یہاں سے منہ کیا میرا دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔۔ رکو ایک منٹ سحر کو فورا فون کر کے گھر بلاؤ۔۔۔۔


وہ بولتے ہوئے اپنی جیب سے فون نکال کر کسی کو ملانے لگے۔۔۔۔۔


عظیم مجھے تمھاری ہیلپ چاہیے میری بہو صبح سے مل نہیں رہی اور اس کا بھائی ہادی بھی سکول سے غائب ہے کیا تم پتا لگوا سکتے ہو وہ اس وقت کہاں ہیں کیونکہ ان کا فون بھی بندھ جا رہا ہے اور شاہزین بھی یہاں پر نہیں ہے اگر اسے پتا چل گیا تو وہ جانے کیا کرے گا۔۔۔۔


سر آپ فکر مت کریں میں ان کے نمبر سے ٹریس کرنے کی کوشش کرتا ہوں آپ مجھے ان کا نمبر سینڈ کریں ۔۔۔۔۔


اچھا ٹھیک ہے میں تمھیں ابھی سینڈ کرتا ہوں۔۔۔۔


انھوں نے اسے نمبر سینڈ کر کے دوبارہ عینی کو کال ملائی مگر مایوسی کے سوا آنھیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا تھا اب انہیں یہ ہی فکر تھی کہ کہیں ان کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو گیا ہو۔۔۔۔۔۔


•••••••••••••••••••••


شفق آج علیشبہ اور ارقم کے ساتھ باہر لنچ کرنے آئی ہوئی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔


میں واشروم سے ہوکر آئی آپ لوگ تب تک بات کریں۔۔۔۔۔۔۔


علیشبہ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔


شفق ایک بات بتاؤ تم اتنا کھاتی ہو موٹی کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟


ارقم نے اچانک شفق سے پوچھا تو وہ منہ بگاڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔


بس اب آپ نے نظر لگا دی ہے تو میں جو تھوڑی موٹی ہونے والی تھی دوبارہ پتلی ہو جاؤ گی آپ فکر مت کریں۔۔۔۔۔


اللہ اللہ لڑکی میں نے کب تمھارے کھانے کو نظر لگائی خدا کو مانو میں نے تو وہسے ہی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔۔کیا تمھیں لگتا ہے کہ میری نظر تمھیں کبھی لگ سکتی ہے۔۔۔۔۔


وہ آخری بات سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔


نہیں مجھے یقین یے آپ کبھی مجھے نظر نہیں لگا سکتے کیونکہ آپ تو نظر ووٹو ہیں میرے ۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔ہا۔۔۔ہا


وہ پہلے سنجیدگی سے اور پھر آخری بات شرارت سے بول کر ارقم کے تاثرات دیکھ کر ہنس پڑی۔۔۔۔


ارقم نے اپنی مسکراہٹ دبا کر اسے گھورا تو شفق کی ہنسی کو بریک لگی ۔۔۔۔۔لیکن دور بیٹھے کسی وجود نے ان دونوں کو ہنستے دیکھ نفرت سے اپنا رخ پھیرا۔۔۔۔


شفق میں نے تمھارے لیے کچھ خریدا یے مجھے یقین ہے تمھیں یہ پسند آئے گا۔۔۔۔۔


وہ اپنی پاکٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکال کر بولا اور شفق کی طرف بڑھا دی ۔۔۔۔


ل۔۔۔لیکن میں یہ کیسے رکھ سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں بولی تو ارقم کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔۔


تم کیوں نہیں رکھ سکتی یہ گفٹ پہلے اسے کھولو کر تو دیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہیں زیادہ مسئلہ ہے تو تم مجھے اس کے بدلے کچھ گفٹ کر دینا چلو اب اسے جلدی سے کھولو۔۔۔۔


شفق نے اس کی بات سن کر گفٹ باکس کھولا تو اس میں بریسلیٹ تھی جسے چھوٹے چھوٹے دلوں سے بنایا گیا تھا وہ ایک نفیس سی بریلیسٹ تھی جو شفق کو بے حد پسند آئی تھی۔۔۔۔


واؤ ارقم یہ بہت خوبصورت یے تھینک یو سو مچ۔۔۔۔


وہ خوشی سے چہکتے بولی تو ارقم نے مسکرا کر اس سے پوچھا۔۔۔۔۔


اگر اجازت ہو تو میں پہنا دوں ؟؟


شفق نے جھجھکتے ہوئے اپنی نازک کلائی اس کے آگے بڑھائی جسے ارقم نے تھامتے ہوئے محبت سے اس میں بریسلیٹ پہنائی۔۔۔۔۔۔


*****************


وہ واشروم سے نکل کر جانے لگی تھی جب کسی نے اس کا راستہ روکا اس نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جو اس کے آگے دیوار بنا کھڑا تھا۔۔۔۔


اپنے سامنے اس ستمگر کو دیکھ کر اچانک ہی اس کے دل کی دھڑکن نے اپنی پوری رفتار پکڑی تھی ۔۔۔۔۔۔


ہاشم جو اسی ریسٹورنٹ میں اپنے ایک کلائنٹ سے مل کر جانے والا تھا اس کی نظر جب ایک ٹیبل سے اٹھتی علیشبہ پر پڑی تو وہ علیشبہ سے بات کرنے کے لیے اس کے پیچھے آیا اسے واشروم جاتا دیکھ وہ باہر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔


علیشبہ مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔


پ۔۔۔۔۔پیچھے ہٹیے بھائی میرا ا۔۔۔۔انتظار کر رہے ہوں گے م۔۔۔۔۔مجھے جانے دیں۔۔۔۔۔


وہ کانپتے لہجے کے ساتھ دھڑکتے دل سے بولی۔۔۔۔۔


تمھیں میری بات سننے پڑے گی۔۔۔۔۔اور تم سنو گی بھی ۔۔۔۔


عج۔۔۔۔عجیب زبردستی ہے مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سننی راستہ چھوڑیے۔۔۔۔


وہ اپنا لہجہ مضبوط بناتے بولی۔۔۔۔۔


پلیز علیشبہ ایک بار میری بات سن لو مجھے پتا ہے میں نے تمھارا بہت دل دکھایا مگر مجھے ایک موقع دو میں تمھارے سارے گلے شکوے دور کر دوں گا۔۔۔۔۔


کیا آپ میرا مقام و عزت مجھے لوٹا سکتے ہیں جو آپ کی وجہ سے میں نے کھو دیا آپ کیا مجھے اس زلت سے بچاسکتے ہیں جو آپ کی وجہ سے مجھے سہنی پڑی یا پھر آپ مجھے وہ وقت لوٹا سکتے ہیں جو میں نے دنیا سے خود کو چھپانے کے لیے ایک کمرے میں بند ہو کر گزار دیا۔۔۔۔۔۔


وہ طنزیہ مسکراہٹ سے سرخ چہرے کے ساتھ ضبط سے بولی تو ہاشم نے اس کی بات سن کر اپنے لب بھینچے۔۔۔۔۔


مجھے ایک موقع تو دو ۔۔۔۔۔میں تمھارے ہر دکھ کا مداوا کر دوں گا ۔۔۔۔۔


میں تو شاید آپ کو اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر موقع دے ہی دو مگر بھائی اور بابا کبھی بھی آپ جیسے کانوں کے کچوں والے شخص کے ہاتھ میں میرا ہاتھ کبھی نہیں دیں گے ۔۔۔۔۔


اس نے گہری سانس لیتے خود کو پرسکون کرتے ہاشم سے کہا ۔۔۔۔۔


پہلے تم تو مجھے موقع دو میں انھیں خود ہی منا لوں گا۔۔۔۔۔


وہ اسکی بات سن کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا مضطرب سا بولا۔۔۔۔۔


میں یہ آپ کو آخری موقع دے رہی ہوں اب اپ نے جو بات کرنی ہوئی وہ بابا اور بھائی سے ہی کریے گا دوبارہ میرا رستہ روکنے کی کوشش بھی مت کریے گا مجھے آپ کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری ہے۔۔۔۔۔

وہ بولا کر ہاشم کے سائیڈ سے گزر کر چلی گئی۔۔۔۔۔جبکہ ارقم اس کی بات سن کر مسکرا اٹھا اتنے عرصے بعد اب اسے تھوڑا سکون ملا تھا۔۔۔۔۔

•••••••••••••••••••••••••

وہ مسلسل تیمور صاحب کو فون کر رہا تھا جو فون اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ان تو اسے عینی کے بارے میں سوچ کر پریشانی ہونے لگی تھی اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ابھی واپس عینی کے پاس چلا جائے مگر اس کی فلائٹ کا ٹائم رات دو بجے کا تھا وہ مضطرب سا بے چین دل کے ساتھ بیڈ پر ڈھیر ہو گیا اور گھر جا کر اسے منانے کا سوچا۔۔۔۔۔

وہ تھوڑی دیر سونے کے بعد اٹھا اور فریش ہو کر اپنی پیکنگ کر کے ائیرپورٹ کے لیے نکل گیا وہ خوشی سے پلین میں بیٹھا عینی کو سرپرائز کرنے کا سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

فلائٹ کے لینڈ ہوتے ہی وہ ائیرپورٹ سے باہر نکلا جہاں پہلے ہی اس نے کال کرکے ڈرائیور کو بلالیا تھا وہ گاڑی میں داخل ہوا اور گھر کی جانب چل دیا۔۔۔۔۔

وہ خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا اور خاموشی سے سڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔

اس نے دروازہ کھولا تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا اس نے لائٹ اون کر کے بیڈ کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا مگر زیادہ دیر اس کی مسکراہٹ قائم نہ رہ سکی خالی بیڈ کو دیکھ کر اس کا سارا موڈ خراب ہو گیا اسے لگا کہ وہ ہادی کے کمرے میں ہوگی اس وجہ سے وہ اپنے کمرے سے نکل کر ہادی کے کمرے میں گیا اور اس کمرے کی لائٹ جلائی تو خالی کمرے کو دیکھ کر ناجانے کیوں اسے کسی انہونی کا احساس ہوا ۔۔۔۔۔

اس نے جلدی سے ارد گرد کے کمرے بھی چیک کیے کہ شاید اسے تنگ کرنے کے لیے حور ہادی کو لے کر کسی دوسرے کمرے میں نہ چلی گئی ہو مگر انہیں کہیں موجود نہ دیکھ کر وہ جلدی سے دو دو سڑھیاں پھلانگتا ہوا تیمور صاحب کے کمرے کے باہر پہنچ کر اس کا دروازہ زور زور سے بجانے لگا۔۔۔۔۔۔

تیمور صاحب جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی حور اور ہادی کو ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سوئے ہی تھے کہ کل صبح وہ اسے دوبارہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے مگر اپنے کمرے کا دروازہ بجتا دیکھ کر وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھے انھیں جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا شاہزین جلدی واپس آگیا تھا انھوں نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی مضطرب سا شاہزین کھڑا دکھائی دیا سحر بیگم بھی شاہزین کے دروازے بجانے سے اٹھ گئیں تھیں اور اب اسے ہی دیکھ رہی تھیں جو تیمور صاحب سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔

ڈیڈ حور اور ہادی کہاں ہیں وہ اپنے کمرے میں موجود نہیں ہیں ۔۔۔۔

شاہزین بیٹھ کر میری بات تحمل سے سنو۔۔۔۔

کیا بات کرنی ہے ڈیڈ مجھے کچھ نہیں سننا فلحال صرف آپ یہ بتائیں کہ حور کہاں ہے۔۔۔۔۔

وہ ضبط سے بولا جبکہ اسے تیمور صاحب کی بات سے کسی انہونی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔

تیمور صاحب اس کا بازو پکڑ کر اسے ہال میں لے کر آئے اور صوفے پر بیٹھا کر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اسے ساری بات بتا دی۔۔۔۔۔

وہ آپ کی زمہ داری تھی میں انھیں آپ کے حوالے کر کے گیا تھا ڈیڈ مگر آپ تو ان کی حفاظت بھی نہ کر سکے۔۔۔۔۔

وہ غصے سے اٹھ کر بولا اور قریب پڑے شو پیس کو اٹھا کر دیوار میں زور سے مارا۔۔۔۔۔۔

مجھے وہ ہر حال میں صبح تک چاہیے ڈیڈ وہ جہاں بھی چھپی ہوئی ہے میں اسے ڈھونڈ لوں گا اور آپ اس میں میری مدد کریں گے۔۔۔۔۔۔

شاہزین اپنے غصے کو قابو کرو میں بھی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔۔۔وہ مل جائیں گے۔۔۔۔

شور کی آواز سن کر شفق بھی اپنے کمرے سے باہر آچکی تھی وہ جب واپس آئی تھی تب اسے حور اور ہادی کا پتا چلا تھا۔۔۔۔۔

شاہزین ان کی بات سن کر پاس پڑے شیشے کے ٹیبل کو زور سے ٹانگ مارتا ہوا باہر کی جانب چلا گیا اور باہر موجود ڈرائیور سے گاڑی کی چابی لے کر گھر سے ہی نکل گیا۔۔۔۔۔

عینی کو غائب ہوئے دو دن ہوگئے تھے اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا شاہزین نے ہر اس جگہ عینی کو ڈھونڈ لیا تھا جہاں اس کے ہونے کا امکان تھا مگر ناکامی کے علاوہ اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔۔۔۔۔


وہ تھکا ہارا بکھرے حولیہ میں رات کے بارہ بجے گھر واپس آیا تو تیمور صاحب اسی کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔


وہ بکھری حالت میں ان کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔


ڈیڈ پلیز اسے ڈھونڈ کر لادیں مجھے اس مے بغیر م۔۔۔۔۔میرا سانس بند ہو رہا ہے پلیز ڈیڈ وہ خود تو چلی گئی ہے ساتھ میرا سکون ، چین اور خوشیاں سب کچھ لے گئی ہے ۔۔۔۔۔


میں ک۔۔کیا کروں اسے کہاں ڈھونڈوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔۔ وہ بہت معصوم ہے ڈیڈ میں نے اس کے ساتھ بہت برا کیا و۔۔۔۔وہ پتا نہیں کس حال میں ہوگی مجھے اپنا موبائل چارج رکھنا چاہیے تھا پتا نہیں اس نے آخری بار مجھ سے کیا بات کرنی تھی یہ ساری میری غلطی ہے مجھے اسے چھوڑ کر جانا ہی نہیں چاہیے تھا ۔۔۔۔۔


شاہزین سنبھالو خود کو ہم انھیں جلد ہی ڈھونڈ لیں گے۔۔۔۔۔


اس کی درد بھری آواز سن کر انھوں نے ضبط سے شاہزین کو ٹوکا۔۔۔۔۔


م۔۔۔۔میں نے تو ابھی اسے یہ بھی نہیں بتایا تھا ڈیڈ کہ میں اس سے م۔۔۔۔۔محبت کرتا ہوں۔۔۔۔۔ ایسے کیسے وہ مجھے چھوڑ کر جا سکتی ہے میں اسے ڈھونڈوں گا اور تب تک ڈھونڈتا رہوں گا جب تک وہ مجھے مل نہیں جاتی اور پھر میں اسے قید کر لوں گا کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گا۔۔۔۔۔


وہ اپنے بالوں کو ہاتھوں میں جکڑتا ہوا نم آنکھوں کے ساتھ ضبط کی انتہا پر تھا۔۔۔۔۔۔وہ بول کر اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا


جبکہ پیچھے سے تیمور صاحب اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے


••••••••••••••••••••••••••


حمنا کو دن بدن ڈپریشن میں جاتے دیکھ کر اس کے والدین نے اس کے لیے شہر کا سب سے مشہور ماہر نفسیات حمزہ ابراہیم سے اسے ریگولر سیشن دلوانے کا سوچا۔۔۔۔


وہ آج ڈاکٹر حمزہ کے پاس موجود تھی وہ یہاں آنا نہیں چاہتی تھی مگر اپنے موم ڈیڈ کی درخواست سن کر آہی گئی ۔۔۔۔۔


وہ ویٹنگ ایریا میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی جب اسے ایک پانچ سال کے قریب بچی اپنی طرف آتے دکھائی دی وہ کہیں سے بھاگتی ہوئی آرہی تھی وہ بچی آکر اس کے قریب بیٹھ گئی تھی حمنا نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا کاش وہ اپنے بچے کو نہ مارتی تو آج خود ایک بچے کی ماں ہوتی۔۔۔۔۔


آنٹی میری مدد کریں چھپنے میں ۔۔۔۔۔


وہ حمنا سے بولی تو حمنا نے اسے کو دیکھا


بیٹا آپ کی مما کہاں اور آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟؟


میری مما تو اللہ جی کے پاس ہیں آنٹی۔۔۔۔


وہ اداسی سے بولی


تو پھر آپ یہاں کس کے ساتھ آئی ہو ؟؟


حمنا کو اس کی اداسی پسند نہیں آئی اس وجہ سے بات بدل کر پوچھا۔۔۔۔


وہ میں اپنے بابا کے ساتھ آئی ہوں اور میرا نام عنایہ ہے اور آپ کا نام کیا ہے آنٹی۔۔۔۔


وہ معصوم آواز میں بولی جبکہ اس کا چہرہ بھاگ کر آنے کی وجہ سے سرخ ہوچکا تھا


حمنا نے بے ساختہ جھک کر اس کے چہرے کو چوما۔۔۔۔


واہ عنایہ آپ کا نام تو بہت پیارا ہے میرا نام حمنا ہے۔۔۔۔


آپ کا نام بھی بہت اچھا ہے ۔۔۔۔۔


وہ معصومیت سے بولی حمنا ابھی مزید اسے کچھ کہتی کہ پیچھے سے کسی کو عنایہ کو آواز دیتے سنا تو اس نے رخ پھیر کر آنے والی کو دیکھا


عنایہ میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی ہوں اگر سر کو پتا چل گیا کہ آپ ایسے بھاگ رہی ہیں تو وہ آپ کے ساتھ مجھے بھی ڈانٹیں گے۔۔۔۔


عنایہ کی کئیر ٹیکر بولی تو عنایہ برا سا منہ بناتی حمنا کے گال پر بوسہ لے کر اٹھی اور دھیمی آواز میں اس سے بولی۔۔۔۔


آنٹی میں کل آپ سے ملوں گی۔۔۔۔۔


وہ بول کر اپنی کئیر ٹیکر کا ہاتھ تھام کر چلی گئی


عنایہ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد نرس نے اسے اندر جانے کا کہا تو وہ خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی


اسلام و علیکم مس حمنا تشریف رکھیے۔۔۔۔


وہ سر کے خم سے سلام کا جواب دے کر بیٹھ گئی۔۔۔۔


اگر آپ سلام کا جواب اونچی آواز میں دیتی تو زیادہ اچھا ہوتا۔۔۔۔۔


ڈاکٹر حمزہ ابراہیم نے پرسکون لہجے میں کہا تو حمنا جو ان کی طرف دیکھے بغیر کرسی پر بیٹھ گئی تھی اپنی نظریں اٹھا کر انھیں دیکھا۔۔۔۔اور دھیمی آواز میں انھیں جواب دیا


وعلیکم السلام !


میں چاہتا ہوں آپ مجھے اپنا ایک اچھا دوست سمجھ کر اپنی باتیں مجھ سے شیئر کریں ایسی باتیں جو آپ دوسروں کو نہیں بتا سکتیں آپ بے فکر ہو کر مجھے کچھ بھی بتا سکتی ہیں آپ کے اور میرے درمیان ہونے والی باتیں اس کمرے سے باہر کسی کو نہیں پتا چلیں گیں۔۔۔۔۔


ڈاکٹر حمزہ نے شائستہ لہجے میں کہا تو حمنا اپنے انگلیوں سے کھیلتی ہوئی بولنے لگی۔۔۔۔۔


م۔۔میں جب بھی اپنی ماضی میں کی گئی غلطیوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرا دم گھٹتا ہے م۔۔۔مجھے نیند نہیں آتی ساری ساری رات میں بس یہ ہی سوچتی رہتی کہ اگر میں سہی وقت پر سنبھل جاتی تو آج میں پر سکون زندگی جی رہی ہوتی ۔۔۔اب میں اپنی زندگی سے بے زار ہوچکی ہوں مجھے بھوک نہیں لگتی کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا میں کسی سے بات بھی نہیں کرتی مجھے خود سے عجیب بزاریت اور وحشت سی ہوتی ہے


کیا آپ نماز پڑھتی ہیں ؟؟؟ اللہ کا ذکر کرتی ہیں ؟؟


ن۔۔نہیں ۔۔۔۔


وہ شرمندگی سے بولی ۔۔۔۔۔


آپ کو پتا ہے اللہ کو یاد کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے آپ کی سب پریشانیاں دور ہو جاتیں ہیں۔۔۔۔ آپ باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کریں قرآن پاک پڑھیں اللہ کا ذکر کثرت سے کریں اور فارغ مت رہا کریں کوئی نیا مشغلہ تلاش کریں جیسے کوکنگ ہوگئی سلائی وغیرہ کچھ بھی جو بھی آپ کو پسند ہو وہ کریں اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور کم سے کم اپنے ماضی کو یاد کریں کیونکہ گزرا وقت واپس نہیں آسکتا مگر جو وقت اب آپ کے پاس موجود ہے آپ اسے بہترین طریقے سے استعمال کر سکتیں ہیں۔۔۔۔۔


وہ شائستگی سے بولے تو حمنا ان کے لہجے اور باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔۔۔۔۔


میں نے خود اپنے ب۔۔۔۔بچے کو مار دیا اور اب اللہ نے جب مجھ سے یہ نعمت ہمیشہ کے لیے چھین لی ہے تو مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے کتنا بڑا گناہ کر دیا ہے۔۔۔۔۔


میں بہت گناہگار ہوں میں نے بہت سے لوگوں کے ساتھ برا کیا اور سب سے زیادہ تو خود کے ساتھ برا کیا۔۔۔۔


اب اس نے اصل بات کھل کر بتائی تھی جو اسے جینے نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔۔


انسان خطا کا پتلا ہے ہر کسی سے گناہ سر زد ہوجاتا ہے مگر آپ کو علم ہے کہ ہمارا رب کتنا عظیم ہے کتنا رحمان اور رحیم ہے وہ انسان کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اگر آپ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گی تو یہ جان لیں وہ اپنے بندے کو معاف کر دیتا ہے انسان جلدی معاف نہیں کرتا مگر وہ رب بہت جلدی معاف کر دیتا ہے۔۔۔۔


آپ اپنا تعلق رب سے جوڑ لیں یقین مانیں آپ کی ساری بے سکونی دور ہوجائے گی اور اپ کو اپنی زندگی سے بھی پیار ہوجائے گا ۔۔۔۔۔


آپ جانتی ہیں دنیا میں معجزے ہوتے ہیں کیا پتا اللہ کو آپ کی کونسی نئی ادا پسند آجائے اور وہ آپ کو دوبارہ اس نعمت سے نواز کر معجزہ کر دے۔۔۔۔۔


آپ اللہ سے مانگیں وہ آپ کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا اور نہ ہی کبھی مایوس کرے گا آپ اپنا ایمان مضبوط کریں اور اللہ سے تعلق جوڑیں۔۔۔۔


فلحال آپ کا ٹائم ختم ہوا اگلے ہفتے آپ سے دوبارہ ملاقات ہوگی میری باتوں پر غور کریں اور عمل بھی ضرور کریں پھر میں سے اگلے ہفتے کو پوچھوں گا۔۔۔۔


حمنا جو ابھی تک ڈاکٹر کی باتوں کے سحر میں جکڑی ہوئی تھی ہلکا سا اپنا سر ہلایا اور اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔


************************


علیشبہ کل سے صرف ہاشم کی باتوں کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی اس کا دل کا ایک کونہ خوش تھا تو دوسرا کونے میں عجیب سا ڈر بیٹھا ہوا تھا جیسے اگر ارقم اور حدید صاحب نہ مانے تو۔۔۔۔۔

وہ اس سے آگے سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی وہ خود غرض ہونا چاہتی تھی اپنی محبت کو پا لینا چاہتی تھی مگر وہ یہ کبھی بھول نہیں سکتی تھی کہ اس کے مشکل وقت میں ارقم اور حدید صاحب نے اس کا کتنا ساتھ دیا۔۔۔۔۔

اور صرف ان کی خاطر وہ دوبارہ اپنی محبت کو چھوڑ سکتی تھی ویسے بھی ہاشم سے زیادہ بڑا مقام اور مرتبہ اس کے دل میں حدید صاحب اور ارقم کا تھا۔۔۔۔۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ جو فیصلہ اس کے بابا کریں گے وہ خاموشی سے اس پر اپنا سر خم کر دے گی ۔۔۔۔۔اور کبھی ان کے فیصلے کے خلاف نہیں جائے گی۔۔۔۔

اس نے آج پھر یونیورسٹی سے چھوٹی کی ہوئی تھی کیونکہ دو راتوں سے وہ سہی سے سو نہیں سکی تھی اس وجہ سے صبح اس کے سر میں شدید درد تھا ۔۔۔۔

اپنے فون پر کسی کی کال آتے دیکھ اس نے کالر آئی ڈی چیک کی اور حویلی سے کال آتے دیکھ اس نے کال اٹھائی اور رمنا بیگم سے بات کرنے لگی۔۔۔۔

••••••••••••••••••••••••••

ہاشم علیشبہ سے بات کر کے اور اس کا جواب سن کر کافی مطمئن ہوگیا تھا۔۔۔۔

اب صرف ایک مسئلہ تھا اور وہ تھا ارقم کو پہلے منانا اور پھر حدید صاحب سے بات کرنا اس سلسلے میں اس نے کسی دن ارقم کے گھر جا کر اس سے ملنے کا سوچا۔۔۔۔

اندر سے وہ ڈر بھی رہا تھا مگر پھر بھی اس نے ہمت کرکے اس سے بات کرنے کا سوچا وہ جانتا تھا کہ علیشبہ اس کی زندگی کو خوبصورت بنا دے گی اور سب سے بڑی بات وہ علیشبہ کی محبت چاہتا تھا جو وہ اس سے کرتی تھی تاکہ اس کی محبت سے اس کے سلگتے دل کو راحت پہنچ سکے۔۔۔۔۔

***********************

شفق اپنی کلاس سے باہر نکلی تو ارقم باہر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا اس کا ہی انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

شفق اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی ارقم بھی سیدھا ہوتا مسکرایا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔۔۔۔۔

شفق لائبریری کی طرف جا رہی تھی ارقم بھی اس کے ساتھ ہی لائبریری میں آگیا شفق نے اپنی اسائنمنٹ کے لیے کچھ کتابیں یہاں سے ڈھونڈ کر اس کا میٹریل کاپی کرنا تھا وہ جیسے جیسے کتابیں اٹھا رہی تھی ارقم ویسے ویسے اس سے کتابیں لے کر خود پکڑ رہا تھا۔۔۔۔

شفق نے مسکراتے ہوئے جلدی سے باقی مطلوبہ کتابیں ڈھونڈ کر ارقم کو پکڑائیں اور لائبریری کے کونے میں موجود ٹیبل پر ارقم کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔

اس نے اپنا کام شروع کیا تو ارقم نے بور ہوتے یوئے اسے دیکھا پھر کچھ سوچتے ہوئے اپنے بیگ سے پین اور رجسٹر نکال کر اس پر عجیب و غریب چہرے بنانے لگا اور شفق مو دکھانے لگا جسے دیکھ کر شفق نے مشکل سے اپنی ہنسی روکتے ہوئے اسے آنکھیں دکھائیں کہ اسے اس کا کام کرنے دے مگر ارقم بھی خاصا ڈھیٹ ثابت ہوا اور ایک مرچ بنا کر اس پر شفق کا نام لکھا تو شفق نے تلملاتے ہوئے وہ کاغذ رجسٹر سے پھاڑ کر اس کی طرف پھینکا اور ٹیبل کے نیچے سے زور سے اپنا پاؤں اس کو مارا تو ارقم نے بمشکل اپنی چیخ روک کر اسے گھورا۔۔۔۔

شفق نے اپنا کام چھوڑ کر کاغذ پر بینگن بنایا اور اس پر ارقم کا نام لکھا تو ارقم نے اسے گھورتے ہوئے کاغذ کو پھاڑ دیا ۔۔۔۔

اب وہ دونوں سبزیاں بنا کر ایک دوسرے کا نام لکھ رہے تھے اور کاغذ پھاڑ رہے تھے کہ لائبریرین جو کب سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی آخر تنگ اکر انھیں لائبریری سے نکال دیا۔۔۔۔۔

تم دونوں فورا لائبریری سے باہر نکلو۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں لائبریرین کی آواز سن کر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھے اور لائبریری سے باہر آگئے۔۔۔۔

لائبریری سے باہر آکر دونوں ہنسنے لگے۔۔۔۔۔

وہ آج ایک ہفتے بعد سب کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا ورنہ تو منہ اندھیرے آفس کے لیے نکل جاتا اور رات کو واپس آتا جب سب سو جاتے تھے۔۔۔۔۔


شاہزین اب تو وہ چلی گئی ہے چھوڑ دو اس کی جان اپنی حالت دیکھو تم نے کیا بنا لی ہے وہ بھی کس کی خاطر ایک معمولی سی کام والی کی خاطر جو پتا نہیں اب کہا گل کھلا رہی ہو گی۔۔۔۔۔


بسس۔۔۔۔۔ موم وہ میری بیوی ہے وہ جہاں بھی ہے میں اسے ڈھونڈ لوں گا آپ کو میری خاطر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ کو میری اتنی ہی فکر ہوتی تو حور کو میری بیوی ہونے کی خاطر کم از کم عزت ہی دے دیتیں۔۔۔۔۔


سحر بیگم کے حور کے خلاف بات کرنے پر بھڑک ہی اٹھا۔۔۔۔


مجھے تمھاری فکر ہے اسی لیے تو میں چاہتی ہوں کہ تم عشا سے شادی کرلو خوش ہوجاو گے اور بھول جاؤ اسے۔۔۔۔


وہ شیریں لہجے میں بولیں۔۔۔۔


میں پہلے سے ہی شادی کر چکا ہوں اور اب میری زندگی میں مزید کسی اور کی گنجائش نہیں ہے یہ آپ جتنی جلدی سمجھ جائیں اتنا اچھا ہے۔۔۔۔۔


وہ ان کی بات سن کر طنزیہ مسکرا کر بولا ۔۔۔۔۔۔۔


سحر اب اس پر مزید کوئی بات نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔


تیمور صاحب کرخت لہجے میں بولے تو سحر بیگم نے غصے سے اپنے لب بھینچے۔۔۔۔۔


ٹھیک ہے اگر آپ کو اس پر بات نہیں کرنی تو پھر مجھے آپ سب سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔


کل مجھے مسز حاشر کی کال آئی تھی وہ اپنے بیٹے حزیفہ کے لیے شفق کا رشتہ لانا چاہتی ہیں مجھے ان کا بیٹا بھی کافی اچھا لگا تھا میں ملی تھی ان سے شفق کی برتھ ڈے پارٹی پر اس وجہ سے میں نے انہیں ہاں کر دیا ہے وہ اتوار کو رشتہ لے کر آئیں گی۔۔۔۔۔۔


سحر بیگم بولیں تو ان کے ساتھ بیٹھی شفق کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔۔۔۔۔


سحر تمہیں پہلے مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا اور سب سے بڑی بات تمھیں شفق سے بھی رائے لینی چاہیے تھا۔۔۔۔۔


وہ شفق کا اڑا رنگ دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولے۔۔۔۔


ڈیڈ بکل ٹھیک کہہ رہے ہیں موم اگر آپ شفق سے پوچھ لیتی تو اچھا ہوتا۔۔۔۔۔


وہ شفق کو خاموشی سے اٹھ کر کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر بولا ۔۔۔۔۔


بلکل نہیں تم نے تو اپنی مرضی کر لی ہے لیکن شفق کا رشتہ میں اپنی مرضی سے کروں گی۔۔۔۔۔


موم جہاں میری بہن کہے گی اس کی وہیں شادی ہوگی میں بلکل برداشت نہیں کروں گا کہ شفی کو زبردستی کسی رشتے سے باندھا جائے۔۔۔۔۔


وہ سنجیدگی سے بولتا ہوا اٹھا اور شفق سے بعد سے بات کرنے کا سوچ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔


وہ میری بیٹی ہے اس کی شادی میں اپنی پسند سے ہی کروں گی۔۔۔۔۔


وہ نخوت سے بولیں۔۔۔۔


میں تمھاری ضد کی وجہ سے اپنی بیٹی کی زندگی نہیں خراب کرسکتا اس لیے انھیں فورا فون کر کے منع کر دو ویسے بھی ان کا بیٹا مجھے بلکل بھی پسند نہیں ہے اور جو چیز مجھے نہیں پسند وہ میری بیٹی کو کیسے ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔


تیمور صاحب کرخت لہجے میں بولتے ہوئے اٹھ کر اندر چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔


****************


ہاشم آج ہمت کر کے ارقم سے بات کرنے اس کے گھر آیا تھا وہ تقریبا ایک گھنٹے سے باہر کھڑا اندر جاکر کیا کہنا ہے وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔


پھر آخر ہمت کرکے اس نے دروازے کی بیل بجائی تو گارڈ نے دروازہ کھولا وہ گارڈ اسے جانتا تھا جب وہ شہر آیا تھا تب اسی گھر میں رہتا تھا۔۔۔۔۔۔


گارڈ نے اسے اندر آنے دیا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اندر کی جانب بڑھنے لگا وہ ہال میں داخل ہوا تو اسے کام والی دکھائی دی اس نے اسے ارقم کو بلانے کہا اور خود ہال میں موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔


ارقم جو ابھی اپنی اسائنمنٹ بنا کر فارغ ہوا تھا کہ کمرے کا دروازہ ناک کر کام والی اندر داخل ہوئی اور اسے نیچے ہاشم کے آنے کا بتایا تو وہ غصے سے اپنی جگہ سے اٹھا اوہ تنی ہوئی رگوں کے ساتھ نیچے کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔


تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟ فورا نکلو یہاں سے بابا نے صرف تمہیں معاف کیا ہے مگر ہم نے نہیں اس سے پہلے کے میں تمھارا منہ توڑ دوں فورا نکل جاؤ یہاں سے۔۔۔۔


وہ ہال میں داخل ہوتا غصے سے دھاڑتا ہوا بولا۔۔۔۔


ارقم مجھے تم سے بات کرنی پہلے میری بات تحمل سے سن لو ۔۔۔۔۔۔


وہ اطمینان سے بولا تھا اسے ایسے ہی رد عمل کی امید تھی۔۔۔۔۔


مجھے تمھاری کوئی بکواس نہیں سننی تم جیسے مطلب پرست انسان کو میں اچھے سے جانتا ہوں جو صرف اپنے سکون کی خاطر بابا سے معافی مانگنے آیا تھا۔۔۔۔


وہ اس کے مطمئن انداز پر تپ ہی تو گیا تھا۔۔۔۔


انسان اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے اور میں نے سیکھ لیا کے اسی وجہ سے چچا جان سے معافی مانگی تھی ۔۔۔۔۔


ہاشم نے کہا تو ارقم نے صرف ہنکار بھرا۔۔۔۔۔


ارقم دیکھو میری بات سنو ۔۔۔۔ وہ علیشبہ مجھے پسند ہے میں اس سے۔۔۔۔


اس کے منہ سے علیشبہ کا نام سن کر ارقم نے غصے سے اس کا گریبان پکڑا۔۔۔۔


اپنی گندی زبان سے میری بہن کا نام بھی مت لو سنا تم نے اب تمھاری بیوی چھوڑ گئی تو تمہیں میری بہن یاد آگئی وہ کوئی گری پڑی چیز نہیں ہے جو تمھیں پسند آگئی ہے تو ہم تمہیں دے دیں۔۔۔۔۔


میری وجہ سے ہی اس کے کردار پر الزام لگا تھا اب میں ہی وہ مٹانا چاہتا ہوں اور تم ابھی غصے میں ہو اس وجہ سے تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی ۔۔۔۔


وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے گریبان سے جھٹک کر بولا


علیشبہ جو ہال سے آوازیں سن کر باہر آئی تو ارقم اور ہاشم کو ایک دوسرے کے روبرو دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر ہی جم گئی وہ اچھے سے جانتی تھی کہ ہاشم یہاں کس وجہ سے موجود ہے۔۔۔۔۔


میں اس کی کسی بھی شخص سے شادی کروا دوں گا مگر تم سے نہیں۔۔۔۔


ارقم غصے سے بولا۔۔۔۔


تم دوبارہ اپنی بہن کی زندگی برباد کر رہے ہو ایک بار اس سے تو پوچھ لو یقین مانو وہ میرے لیے کبھی بھی انکار نہیں کرے گی ۔۔۔۔۔۔


ہاشم علیشبہ کو ارقم کے پیچھے کھڑا دیکھ کر بولا ۔۔۔۔


میں اچھے سے جانتا ہوں کہ میری بہن کے لیے کیا بہتر ہے اس لیے فورا یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔۔


میں دوبارہ آؤں گا جب تمھارا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔۔۔


ارقم کا جواب سن کر وہ نفی میں سر ہلاتا بولا اور چلا گیا۔۔۔۔۔


ارقم نے غصے سے اس کی پیٹھ کو گھورا اور پیچھے مڑا تو علیشبہ کو دیکھ کر اس کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا جو پر امید نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔لیکن وہ اس کی نظروں کے معنی کو نظر انداز کر کے کمرے میں چلا گیا فلحال وہ سکون سے سوچنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔


•••••••••••••••••••••••••


وہ کمرے میں آئی تو سحر بیگم کی بات یاد کر کے آنسو اس کی آنکھوں سے روانی سے بہنے لگے۔۔۔۔۔


اس کے خیال میں اس نے مزید پڑھنا تھا پھر شادی کے بارے میں سوچنا تھا مگر جان تو اس کی اس وجہ سے جا رہی تھی کہ ارقم کو جب پتا چلا تو وہ کیا کرے گا ۔۔۔۔۔


اس کے دل میں عجیب سا درد اٹھ رہا تھا یہ سوچ کر وہ جانتی تھی کہ تیمور صاحب اس کی رائے ضرور ایک بار پوچھیں گے مگر پھر بھی اسے ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


اس نے اپنے آنسو صاف کر کے ارقم کو فون کرنے کا سوچا


اس نے فون کیا تو ارقم نے پہلے تو فون اٹھایا ہی نہیں لیکن وہ بھی ڈھیٹ بنی فون پر فون کیے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔


دوسری طرف ارقم جو ہاشم کے جانے کے بعد اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ فون بجنے پر پہلے تو اس نے اگنور کیا لیکن پھر مسلسل کال آنے پر اس نے چڑتے ہوئے بنا کالر آئی ڈی دیکھے کال اٹھا ہی لی۔۔۔۔۔


کون بات کر رہا ہے ؟؟؟


اس نے تھوڑا غصے میں پوچھا کہ دوسری طرف سے شفق اس کی غصے سے بھری آواز سن کر سہم گئی اور جلدی سے بنا کچھ کہے کال کاٹ دی اور فون بند کر کے دوبارہ بیڈ پر لیٹ کر اپنی آنکھیں موند لی جبکہ آنسو اس کی آنکھوں سے دوبارہ بہنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔


ارقم نے کال اچانک کٹ جانے پر کالر آئی ڈی دیکھی تو شفق کا نام دیکھ کر اس کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس نے ایک پر سکون سانس خارج کرتے ہوئے شفق کو دوبارہ کال ملائی جو اب کال اٹھا ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔


ارقم جس کا غصہ ابھی ختم ہی ہوا تھا شفق کے فون دوبارہ نہ اٹھانے پر اس نے فون غصے سے بیڈ پر پھینکا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر سے ہی نکل گیا۔۔۔۔۔۔


•••••••••••••••••••••••••

حمنا نے ڈاکٹر حمزہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مصروف رہنا شروع کیا اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے لگی اور نماز بھی باقاعدگی سے ادا کرنے لگی تھی جس کی وجہ سے اب وہ پہلے سے تھوڑی پرسکون تھی مگر نیند اور کھانے پینے کا مسئلہ اسے اب بھی تھا۔۔۔۔۔۔

وہ آج پھر سیشن لینے ڈاکٹر حمزہ کے پاس آئی تھی لیکن اپنے ٹائم سے ایک گھنٹہ پہلے ہی آگئی تھی تاکہ وہ عنایہ سے دوبارہ مل سکے مگر اسے عنایہ کہیں دکھ نہیں رہی تھی پھر آخر مایوس ہوکر وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

ابھی اسے بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ عنایہ اسے بھاگ کر اپنی طرف آتے یوئے دکھائی دی۔۔۔۔

حمنا آنٹی ۔۔۔۔۔میں نے آپ کا پورا ہفتہ انتظار کیا مگر آپ آئی نہیں۔۔۔۔

وہ پھولی سانسو کے ساتھ اپنے موٹے موٹے گالوں کو پھولاتی ناراض سی بولی کہ حمنا اسے دیکھ کر مسکرا اٹھی اور جھک کر اس کے دونوں گالوں کو چوم کر بولی۔۔۔۔

اگر مجھے پتا ہوتا کہ میرا یہ چھوٹا سا بےبی فرینڈ میرا انتظار کر رہی ہے تو میں روز پ سے ملنے آتی اب آپ نے بتا دیا ہے تو میں روز اپ سے ملنے آیا کروں گی۔۔۔۔۔

سچی۔۔۔۔ میں آپ کا انتظار کروں گی۔۔۔۔

وہ خوش ہوتی اس کی طرف جھکی ہوئی حمنا کے گردن میں باہیں ڈال کر بولی تو حمنا نے ہلکا سا قہقہہ لگا کر اپنا سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔۔

عنایہ کی کئیر ٹیکر بھی اس کے ساتھ ہی حمنا کے قریب بیٹھ کر مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔

حمنا اسے کئیر ٹیکر کے ساتھ ہاسپٹل کے گارڈن میں لے آئی تھی جہاں اس نے عنایہ کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہوئے ایک اچھا وقت گزارا اور پھر اپنا سیشن لے کر عنایہ سے آخری بار مل کر گھر چلی گئی۔۔۔۔۔

لیکن عنایہ کے ساتھ وقت گزار کے اس کے دل کو سکون میں مل گیا تھا یا یہ کہا جائے کہ اس کی پیاسی ممتا کو راحت مل گئی

••••••••••••••••••••••••••••••

شاہزین شام کو اپنے کمرے سے گاڑی کی چابی لے کر نکالا تو راستے میں اسے سحر بیگم نے اسے روک لیا۔۔۔۔۔

کہاں جارہے ہو اس وقت ؟؟؟

جہاں پہلے جاتا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں اور رات ان کے ساتھ ہی گزاروں گا ویسے بھی اپ ہی چاہتی تھی کہ حور چلی جائے اب وہ چلی گئی ہے تو میرا گھر میں روکنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔

وہ سحر بیگم کو جواب دیتا اپنی گاڑی لے کر نکل گیا۔۔۔۔

ایک گھنٹے بعد وہ ایک اپارٹمنٹ کے باہر موجود تھا اس نے آہستہ سے اپنی جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔

اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی اس لزیز کھانوں کی خوشبو سے اس کے منہ میں پانی آگیا ۔۔۔۔۔

شاہزین آہستہ آہستہ اپنے قدم اٹھاتا کیچن کی طرف گیا جہاں ایک وجود دوپٹے سے بے نیاز کھانا بنانے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔

وہ اس کے قریب جاکر اسے ڈرانے ہی لگا تھا کہ اسی وقت وہ وجود اس کی طرف مڑا۔۔۔۔۔

شاہزین آپ آج پھر مجھے ڈرانے لگے تھے۔۔۔۔۔۔

حور اس کی طرف مڑتی خفگی سے بولی تو شاہزین قہقہہ لگاتا اس کے قریب آیا اور پیچھے سے اسے اپنی باہوں میں بھرتے اس کے گال کو شدت سے چوما۔۔۔۔۔

سویٹ ہارٹ تمھیں ڈرانے میں مجھے بہت مزا آتا ہے۔۔۔۔۔

وہ حور کا دوسرا گال بھی چوم کر بولا ۔۔۔۔۔

آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا بلکل بچے ہیں آپ۔۔۔

وہ میٹھی مسکان لبوں پر سجائے گلنار چہرے کے ساتھ نفی میں ست ہلاتی بولی۔۔۔۔۔

اور یہ بچا اس سویٹ ہارٹ کا دیوانہ ہے۔۔۔۔ ویسے ہادی کہاں ہے دکھائی نہیں دے رہا؟

وہ سو رہا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اسے دوائی دی ہے اس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

اس نے شاہزین کو جواب دیا۔۔۔۔

سویٹ ہارٹ پریشان نہ ہو کل اس کو ڈاکٹر کے پاس دوبارہ لے کر جائیں گے وہ بلکل ٹھیک ہو جائے گا بلکہ اب تو وہ کافی زیادہ ٹھیک ہو گیا ہے۔۔۔۔۔

وہ اس کی پریشان آواز سن کر اس کا رخ اپنی جانب موڑتا اس کے سر کو عقیدت سے چوم کر بولا تو حور نے بھی سکون کا سانس لیا وہ جانتی تھی جب تک شاہزین اس کے ساتھ ہے اسے کوئی مشکل نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


شاہزین اور حور ڈنر کرنے کے بعد ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے مووی دیکھ رہے تھے جب عینی کو کچھ دن پہلے کا واقعہ یاد آیا ۔۔۔۔۔


کچھ دن پہلے :


وہ پریشانی کی حالت میں ہاسپٹل میں تھی جب اسے ہاشم کا دوست احمر زمان اپنی بیوی کے ساتھ ملا وہ اپنی بیوی کا چیک اپ کروا کر واپس جانے لگا تھا جب اسے عینی ملی تھی ۔۔۔۔۔


عینی جب اس سے ملی تو احمر نے اس سے پوچھا کہ وہ ہاسپٹل کیوں ہے تو اس نے ساری بات احمر کو بتا دی جس نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے اسے اور ہادی کو اپنے ساتھ گھر لے گیا تھا ۔۔۔۔۔


عینی نے اسے سختی سے ہاشم کو اپنے بارے میں بتانے سے منا کیا تھا ورنہ اس نے احمر کو دھمکی دی تھی کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی اسی وجہ سے احمر نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔۔۔۔


شاہزین نے دو دن بعد خود سکون سے اور تفصیل سے عینی کو ڈھونڈنے کا سوچا اور سب سے پہلے ہادی کے سکول گیا جہاں سے اس نے اس دن کے کیمرے کی ویڈیو نکلوائی ۔۔۔۔


اس نے ویڈیو میں ہادی کے سر سے خون نکلتے دیکھا تھا پھر جو اس نے ہاسپٹل انتظامیہ کی جھوٹ بولنے پر بےعزتی کی وہ تو الگ مگر اس ٹیچر کو بھی اچھا خاصا سنایا جس نے اس سے جھوٹ بولا تھا پھر اسے پتا چلا تھا کہ سحر بیگم نے انہیں جھوٹ بولنے کا کہا تھا اور اس ٹیچر سے ہی اسے ہادی کے ہاسپٹل کا پتا چلا تھا ۔۔۔۔


اس نے گھر میں اس بارے میں کسی کو نہیں بتایا تھا پھر اس نے ہاسپٹل کے کیمرے وغیرہ چیک کروائے اور ہادی کی ساری ڈٹیل لی اس نے جب عینی کو احمر کے ساتھ جاتے دیکھا تو وہ احمر کو پہچان گیا تھا اس کی احمر سے ملاقات چند روز پہلے ہی ہوئی تھی۔۔۔۔


پھر شاہزین نے احمر کے گھر جاکر عینی کے بارے میں احمر سے پوچھا تو صاف مکر گیا مگر جب اس نے احمر کو ساری بات بتائی تو پھر احمر نے عینی کو اس سے ملنے دیا تھا۔۔۔۔۔


عینی کو دیکھتے ہی اس نے عینی کو خود میں بھینچا تھا جبکہ عینی کو اس کی بکھری حالت دیکھ کر بہت برا لگا لیکن شاہزین تو بے حد خوش تھا کہ عینی اسے دوبارہ واپس مل گئی تھی عینی سے اسے سب کچھ پتا چل گیا تھا اور عینی نے ہی اسے سحر بیگم کو کچھ بھی کہنے سے منع کرتے ہوئے اس نے اس کے ساتھ واپس گھر جانے پر بھی منع کر دیا تھا پھر شاہزین نے اسے اپارٹمنٹ میں رہنے کا بتایا تو وہ مان گئی تھی۔۔۔۔


لیکن اس نے گھر میں کسی کو نہیں بتایا تھا وہ صبح جلدی گھر سے نکل کر عینی پاس آتا تھا اور ناشتہ کرکے آفس چلا جاتا تھا اسی طرح ہی وہ رات کو آتا تھا اور عینی کے پاس تھوڑی دیر رک کر چلا جاتا تھا۔۔۔۔۔


حال :


حور کیا سوچ رہی ہو تم ؟؟؟


شاہزین اس کی کنپٹی کو اپنے لبوں سے چھوکر بولا۔۔۔۔۔


میں یہ سوچ رہی تھی اگر میں آپ کو نہ ملتی تو آپ کیا کرتے ؟؟؟؟


وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔۔۔۔


میں تمھیں تب تک ڈھونڈتا جب تک تم مجھے مل نہیں جاتی وہ دو دن میری زندگی کے سب سے برے دن تھے تمھارے بغیر مجھے لگ رہا تھا کہ میری سانسیں بند ہو جائیں گی۔۔۔۔


وہ اس کے سر کو عقیدت سے چوم کر بولا۔۔۔۔۔


کیا آپ اتنی محبت مجھ سے کرتے ہیں ؟؟؟


وہ اس کی طرف دیکھتی ٹرانس کی کیفیت میں پوچھنے لگی۔۔۔۔


مجھے تم سے جتنی محبت ہے اس کا اندازہ تم کبھی نہیں لگا سکتی ہاں مگر میری سانسوں کی ضمانت اب تمھاری سانسوں کے ساتھ چلنے پر ہے۔۔۔۔۔۔


وہ اس کے بالوں کی ایک لٹ کو پکڑ کر زرا سا کھنچتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔


عینی نے ایک ہاتھ اس کے چہرے پر رکھ کر مسکرا کر شاہزین کو دیکھا یہ وہ شخص تھا جس نے کبھی اس کی راتوں کی نیندوں اور دن کے سکون و چین سب برباد کر دیا تھا مگر اب وہی شخص اس کے سکھ و چین کا مرکز بن گیا تھا اگر شاہزین نے کچھ دن اس کے بغیر بے آرامی سے گزارے تھے تو اس کے دن بھی شاہزین کے بغیر اداس ہی گزرے تھے۔۔۔۔


آپ سچ کہہ رہے ہیں نہ ؟؟ مجھے کبھی چھوڑیے گا مت آپ میرے ساتھ ہیں تو مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا آپ کے ساتھ مجھے میری زندگی بہت خوبصورت لگتی ہے مجھے لگتا ہے اللہ نے میرے صبر کا انعام مجھے آپ کی محبت کی صورت میں عطا کیا ہے۔۔۔۔


وہ اس کے ماتھے سے بالوں کو پیچھے کرتی جھک کر اس کا ماتھا محبت ، عقیدت اور احترام سے چھو کر بولی تو شاہزین کو اپنے اندر ڈھیروں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔


یہ سوچنا بھی مت کہ میں کبھی تمھیں خود سے دور جانے دو گا یا تمہیں چھوڑ دوں گا تم میری زندگی کا وہ سکون ہو جسے میں نے دوسری چیزوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔


وہ اسے اپنے حصار میں لیتا اس کے بالوں پر لب رکھتا بولا تو عینی نے سکون سے اپنا سر اس کے سینے کر رکھتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔۔۔۔۔


********************


ارقم نے ہاشم کے جانے کے بعد علیشبہ سے اب تک کوئی بات نہیں کی تھی وہ اب یونیورسٹی جانے سے پہلے علیشبہ سے بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔


وہ علیشبہ کے کمرے میں داخل ہوا جو یونیورسٹی کے لیے تیار ہو کر اپنا بیگ اٹھا رہی تھی۔۔۔


علیشبہ نے ارقم کو اپنے کمرے میں دیکھا تو اس کی جانب اپنا رخ کیے پوچھا۔۔۔۔


اسلام و علیکم! بھائی کوئی کام تھا آپ کو ؟؟؟


ہاں مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔


وہ علیشبہ کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا بولا تو علیشبہ نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جبکہ اس کے دل کی دھڑکن معمول سے تیز رفتار پر چل رہی تھیں اسے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ ارقم ہاشم کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے اسی وجہ سے وہ تھوڑا ڈر رہی تھی۔۔۔۔۔


دیکھو علیشبہ مجھے پتا ہے کہ تم ہاشم سے پہلے محبت کرتی تھی مگر میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا تم اب بھی اس سے محبت کرتی ہو ؟؟ جھوٹ مت بولنا سچ سچ بتا دینا میں نے پوری رات اس بارے میں سوچا ہے یہ تمھاری زندگی ہے اور اس کا فیصلہ بھی تمھیں ہی کرنا اگر تمھارا جواب ہاشم کے لیے مثبت ہوا تو میں خود بابا سے بات کروں گا تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔


ارقم نے سنجیدگی سے پوچھا تو علیشبہ نے اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔


جو آپ کا فیصلہ ہوگا وہی مجھے منظور ہے بھائی۔۔۔۔


بلکل نہیں زندگی تمھیں گزارنی ہے مجھے نہیں یہ فیصلہ تم کرو گی یہ تم پر منحصر کرتا ہے کہ تم اپنے حق میں فیصلہ کرتی ہو یا نہیں اور یہ فیصلہ تمھیں ابھی کرنا ہوگا ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔


ارقم اس کی بات سن کر سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔


ب۔۔۔بھائی میں و۔۔۔وہ ہاشم نے مجھ سے بات کی تھی اور م۔۔۔مجھے ان سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر میں بابا اور آپ کی رضامندی سے کرنا چاہتی ہوں میں چاہتی ہوں میری زندگی کے سب سے بڑے فیصلے میں آپ لوگ کی بھی خوشی شامل ہو۔۔۔۔۔


وہ تھوڑا ہچکچاتے ہوئے بولی۔۔۔۔


ہم سب کو تمھاری خوشیاں بہت عزیز ہے عالی تم نے جو مشکل وقت گزارا ہے اب اس سب کے بعد تمھیں بھی خوش رہنے کا حق ہے میں ایک بار دوبارہ ہاشم سے بات کر کے بابا سے بات کرتا ہوں ۔۔۔۔


وہ محبت سے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا جس نے سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔۔


**********************


شفق رات دیر سے سونے کی وجہ سے صبح لیٹ اٹھی تھی تو اس وجہ سے وہ اپنی یونیورسٹی کے لیے لیٹ ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔


وہ جلدی جلدی تیار ہو کر یونیورسٹی روانہ ہوگئی تھی گاڑی میں اس نے اپنے موبائل سے ایک بار اپنی آنکھوں کو دیکھا جو رات کافی دیر رونے کی وجہ سے ہلکی ہلکی سوجی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔


یونیورسٹی پہنچ کر چونکہ وہ اپنے پہلے لیکچر کے لیے لیٹ ہوگئی تھی اس وجہ سے اس نے لیکچر نہ لینے کا سوچتے ہوئے کینٹین جانے کا سوچا کیونکہ وہ جلدی میں ناشتہ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔


ارقم جو کب سے شفق کے آنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اس سے پوچھ سکے کہ وہ کل کیوں نہیں آئی اب اس کے ڈپارٹمنٹ سے اپنے ڈپارٹمنٹ میں جا رہا تھا مگر جب اس نے شفق کو کینٹین کی طرف جاتے دیکھا تو فورا اس کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔


شفق ۔۔۔۔۔


شفق۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔۔


ارقم نے اس کے قریب جاکر اسے پکارا جو نظریں جھکائے اپنی سوچوں میں غلطاں چل رہی تھی۔۔۔۔۔


شفق نے اچانک اپنے ساتھ کسی کو چلتے محسوس کر کے نظریں اٹھا کر دیکھا تو ارقم کو اپنی جانب ہی دیکھتے پایا۔۔۔۔


کیا ہوا ہے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ؟؟؟ اور یہ تمھاری آنکھیں کیوں سوجی ہوئی ہیں ؟؟؟


وہ اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر پریشان سا بولا۔۔۔۔


آپ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ میں ٹھیک ہو یا نہیں بہتر ہے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ۔۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں غراتی بولی تو ارقم کے ماتھے پر سلوٹیں نمودار ہوئیں اور زبردستی شفق کا ہاتھ پکڑ کر کینٹین سے دوسری طرف تھوڑی سنسان جگہ پر لے گیا۔۔۔۔


یہ کیا بدتمیزی ہے فورا میرا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں اس سے بولی تاکہ اردگرد موجود لوگ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں


ارقم نے اس کا ہاتھ ایک جگہ جاکر چھوڑا جہاں اردگرد بس دو تین ہی لوگ موجود تھے۔۔۔۔۔


شفق کیا بات ہے تم ایسے بات کیوں کر رہی ہو ؟؟ اگر رات کو میرے غصے سے فون پر بولنے کی وجہ سے ایسا کر رہی ہو تو میں تمھیں بتا دوں کہ میں نے کالر آئی ڈی نہیں دیکھی تھی اس وجہ سے غصے میں بول گیا تھا۔۔۔۔


اس نے سنجیدگی سے شفق سے کہا جو مسلسل زمین کو گھور رہی تھی


مجھے فلحال آپ سے کوئی بات نہیں کرنی اس لیے مجھے جانے دیں۔۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔۔


جب تک تم بتاؤ گی نہیں کہ کیا بات ہے جو تم ایسے کر رہی ہو تب تک میں تمھیں یہاں سے ہلنے بھی نہیں دوں گا۔۔۔۔۔


وہ اس کی طرف دیکھتے بولا۔۔۔۔


کیا جاننا چاہتے ہیں آپ ؟؟ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اتوار کو میرے لیے رشتہ آرہا ہے اور جلد ہی میری شادی کردی جائے گی اور آپ صرف مجھ پر غصہ ہی نکالتے رہ جائیں گے۔۔۔۔ پتا ہے آپ جیسے مردوں کا یہی کام ہوتا ہے غصے کسی اور پر اور اتارتے کسی اور پر ہیں آپ اپنے غصے کا شغل فرمائیں میں تب تک آپ کو اپنی شادی کا کارڈ بھیج دوں گی پھر اسے دیکھتے ہوئے غصے کرتے رہیے گا ۔۔۔۔۔


غصے سے بولنا شروع ہوئی تو بولتی چلی گئی۔۔۔۔


میرے ساتھ یہ فضول گوئی کرنے کی ضرورت نہیں ہے شفق اور تم خود جانتی ہو کہ تم نے پہلے کبھی اپنی شادی کی بات نہیں کی اور مجھے بھی لگ رہا تھا کہ کم از کم تم اپنی پڑھائی مکمل کر لو تو پھر میں اپنے والدین سے تمھارے لیے بات کروں گا مگر اب تم نے بتا دیا ہے تو جمعہ کو امی بابا تمھارے گھر ہوں گے اور اب یہ رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بتاؤ کیا تم نے صبح ناشتہ کیا ہے ؟؟؟


وہ سنجیدگی سے شفق سے بولا جو اس کی بات سن کر تھوڑی پرسکون ہوگئی تھی۔۔۔۔


ن۔۔۔نہیں وہ میں لیٹ ہوگئی تھی اس وجہ سے ناشتہ نہیں کر پائی۔۔۔۔

شفق دھیمی آواز میں بولی تو ارقم اسے اپنے ساتھ کینٹین میں لے گیا۔۔۔۔۔

******************

وہ تیمور صاحب کے ساتھ مجبورا آج جلدی گھر آگیا تھا اور ان کے ساتھ ان کے کمرے میں جا رہا تھا کیونکہ تیمور صاحب نے اسے کوئی فائل دینی تھی ۔۔۔۔۔

ابھی تیمور صاحب دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے لگے تھے کہ سحر بیگم کی اندر سے آتی آواز نے انھیں دروازے میں ہی منجمد کر دیا۔۔۔۔

افف ۔۔۔ میں کیا کرو شمائلا ( سحر بیگم کی بہن ) میں نے تو اس لڑکی کو گھر سے بھی نکال دیا ہے پھر بھی شاہزین اس کے پیچھے مجنوں بنا پھر رہا ہے کہتا ہے اب شادی نہیں کروں گا اس سے اچھا تھا کہ وہ کسی حادثے میں ہی مر جاتی پتا نہیں کونسی منحوس گھڑی تھی جو میں نے اسے اپنے گھر کام کے لیے رکھ لیا۔۔۔۔

ہاں ہاں اس کے بھائی کے ہی چوٹ لگی تھی اور اسے پیسوں کی ضرورت نہیں تھی اسی وجہ سے میں نے اسے پیسے دے کر موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اسے شاہزین کی زندگی سے دودھ میں مکھی کی طرح نکال دیا ۔۔۔۔۔

سحر بیگم ابھی مزید بولتیں کہ تیمور صاحب نے غصے سے کمرے میں داخل ہو کر ایک زوردار تھپڑ سحر بیگم کو مارا جو اس افتاد پر بوکھلا گئیں تھیں۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔

تمہیں زرا بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ معصوم کہاں گئی ہو گی مجھے پتا ہوتا کہ تمھاری سوچ اتنی دقیانوسی اور پست ہے تو میں ایک پل کو بھی اس دن عینی کو یہاں اکیلا نہ چوڑتا تمھیں کوئی فکر بھی ہے کہ تمھارے بیٹے کی کیا حالت ہے لیکن نہیں تمھیں تو صرف اپنی پرواہ ہے اور اپنے سٹیٹس کی مگر یہ مت بھولو جہ جس سٹیٹس پر تم اتنا اترا رہی ہو یہ صرف میری وجہ سے ہے ایک منٹ بھی نہیں لگے گا مجھے تمھیں آسمان سے زمین پر پٹھکنے کے لیے۔۔۔۔

تیمور صاحب دھاڑتے ہوئے بولے جبکہ شاہزین خاموش سا ان کے پیچھے کھڑا تھا وہ چپ چاپ ان کے کمرے سے تو کیا گھر سے ہی نکل کر عینی کے پاس اپارٹمنٹ میں چلا گیا

اس کا تو دل ہی بند ہونے کو تھا عینی کے بارے میں سحر بیگم کی باتیں سن کر اسے یہ تو پتا تھا کہ وہ عینی کو پسند نہیں کرتیں مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس سے اتنی نفرت کرتی ہیں کہ اس کے مرنے کی دعائیں مانگتی ہیں۔۔۔۔۔۔

اس نے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے عینی کو خود میں زور سے بھینچا جبکہ مختلف احساس اور جزبات کی وجہ سے وہ ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔۔۔۔

شاہزین آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔۔

وہ پریشان سی اس کی کمر پر ہاتھ پھیر کر اسے پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

ہاں میں ٹھیک ہوں اور آج رات میں یہاں ہی رکوں گا اور ہادی کہاں ہے ؟؟؟

وہ تھوڑی دیر بعد خود پر قابو پاتے ہوئے اس کے سر کو چوم کر بولا۔۔۔۔۔

ہادی کیچن میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے صبح سے اپ کا ہی پوچھ رہا تھا کہہ رہا تھا کہ بور ہو رہا ہوں بھائی کے ساتھ گیم کھیلنی ہے۔۔۔۔۔

وہ مسکراتی ہوئی اسے بتاتی اپنے ساتھ کیچن میں لے گئی جہاں ہادی کھانا کھا رہا تھا وہ شاہزین کو دیکھ کر خوش ہوتا اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے گلے لگا ۔۔۔۔

بھائی میں نے آپ کو بہت مس کیا آج میں آپ کے ساتھ ڈھیر ساری گیمز کھیلوں گا۔۔۔۔

اس نے معصومیت سے کہا تو شاہزین اور عینی دونوں ہی ہنس پڑے اور پھر شاہزین نے باقی کا وقت ہادی کے ساتھ واقع گیم کھیلتے ہوئے گزارا جبکہ عینی دونوں کو بیچ بیچ میں لڑتے دیکھ کر خوب لطف اندوز ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


ارقم آج اپنے اور علیشبہ کے بارے میں حدید صاحب سے رمنا بیگم سے بات کرنے آیا تھا اس نے ہاشم سے ایک بار حدید صاحب سے بات کرنے کے بعد بات کرنے کا سوچا تھا ۔۔۔۔


وہ اس وقت ان دونوں کے کمرے میں خاموش بیٹھا ہوا تھا جبکہ رمنا بیگم اور حدید صاحب اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔


ارقم بچے کوئی بات کرنی ہے ؟؟؟


رمنا بیگم نے پوچھا۔۔۔۔۔


جی امی مجھے آپ سے اور بابا سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔


وہ نظریں جھکا کر بولا


ہاں تو بولو ہچکچا کیوں رہے ہو ؟؟؟،


حدید صاحب سنجیدگی سے بولے۔۔۔


بابا میری بات تحمل سے سنیے گا۔۔۔۔۔ کچھ دن پہلے ہاشم مجھ سے ملنے آیا تھا وہ علیشبہ کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ میں پہلے تو راضی نہیں تھا پھر میں نے سکون سے سوچا بابا وہ عالی کی محبت ہے میری عالی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں مجھے امید ہے آپ بھی عالی کی خوشی کو دیکھتے ہوئے ہاشم سے اس کی شادی پر راضی ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔


وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔۔۔۔


ہممم۔۔۔ مجھے پتا ہے ہاشم شرمندہ ہے اور اب کافی سدھر بھی گیا لیکن میں کیو اس کی شادی اپنی بیٹی سے کراؤں ؟؟؟


بابا وہ عالی کی محبت ہے اور اگر اس نے عالی کو کوئی بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں اس کی حالت بگاڑ دوں گا۔۔۔۔۔


وہ حیدید صاحب کی بات سن کر بولا۔۔۔۔


بے شک وہ محبت کرتی ہے مگر وہ اپنی یک طرفہ محبت کے سہارے تو ساری زندگی نہیں سکتی کم از کم ان میں اعتماد کا رشتہ بھی ہونا چاہیے اور ہاشم تو ویسے بھی کانوں کا کچا ہے بقول تمھارے۔۔۔۔۔


وہ آخری والی اسی کی بات اس کو یاد دلاتے بولے جو اس نے پہلی دفعہ کہی تھی جب ہاشم ان سے معافی مانگنے آیا تھا۔۔۔۔۔۔


بابا عالی اسے خود ہی سنبھال لے گی اور ابھی آپ نے ہی تو کہا ہے کہ وہ سدھر گیا ہے پھر آپ ہی یہ بات کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔


برخودار تم سمجھ نہیں رہے انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی !!!


بابا وہ بھی آپ کے ہی بھائی کا خون ہے وہ بس راہ بھٹک گئے تھے اب انھیں سہی راہ دکھی یے مجھے یقین ہے عالی ہاشم کے ساتھ خوش رہے گی۔۔۔۔۔


وہ ان کو یقین دلانے والے انداز میں بولا تو حدید صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔۔۔


ہاشم مجھ سے اور رمنا سے پہلے ہی بات کر چکا تھا اور میں نے ہی اسے کہا تھا کہ وہ تم سے ایک بار بات کر لے اگر تم نے مجھے راضی کر لیا تو میں مان جاؤ گا اور دیکھو تم نے مجھے ہاشم کے لیے منا ہی لیا مگر میں ایک بات تم سے کہنا چاہتا ہوں اب عالی کی تو شادی ہم اس سے کر دیں گے۔۔۔۔۔۔


اب تم بھی اپنا غصہ ہاشم سے ختم کر دو اور وہ تم سے بڑا ہے اس کو تمیز سے بلایا کرو غلطیاں ہر انسان سے ہوتی ہے اس نے اپنی غلطیوں کو سدھارا ہے اور ابھی تک حور اور ہادی کو بھی ڈھونڈ رہا ہے اگر اللہ نے چاہا تو وہ دونوں بھی جلد ہی مل جائیں گے۔۔۔۔۔۔


رمنا بیگم بھی بولیں


جی ماما میں ہاشم بھائی سے بات کر لوں گا۔۔۔۔۔


وہ بات کم اور اسے دھمکانے وغیرہ کا زیادہ سوچ رہا تھا


ہمم۔۔۔۔۔ بہت اچھے۔۔۔۔۔۔کیا تم نے کچھ اور بھی کہنا ہے۔۔۔؟؟؟؟


حدید صاحب نے اس سے پوچھا جو بار بار کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا اور بند کر رہا تھا۔۔۔۔۔


امی بابا وہ مجھے ایک اور بات کرنی تھی ۔۔۔۔۔وہ نروس سا مسکرا کر بولا عالی کی بات تو اس نے آرام سے کر لی تھی مگر اپنی بات کرتے ہوئے وہ ڈر رہا تھا


ہاں بولو ہم سن رہے ہیں ۔۔۔۔۔ رمنا بیگم نے اس سے کہا


مجھے ایک لڑکی پسند ہے وہ عالی کی دوست ہے اور میں چاہتا ہوں آپ لوگ پلیز اس کے گھر میرا رشتہ لے کر جائیں ۔۔۔۔۔۔


وہ پہلے تو جلدی سے بولا پھر آخر میں منت کرنے والے انداز میں بولا۔۔۔۔۔


کون ؟؟ کہیں تم وہ کیا نام ہے۔۔۔۔۔ ہاں شفق کی بات کر رہے ہو نہ ۔۔۔۔


رمنا بیگم سوچتے ہوئے بولیں علیشبہ نے ایک بار ان کی بات شفق سے کروائی تھی


جی امی وہ ہی ہے ۔۔۔۔ مجھے پسند ہے آپ لوگ پلیز اس جمعہ کو میرا رشتہ لے کر جائیں۔۔۔۔۔


وہ مضبوط لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔


ٹھیک ہے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے تم اپنے بابا سے پوچھ لو۔۔۔۔۔


رمنا بیگم مسکرا کر اپنے بیٹے کی آدھی پریشانی دور کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔

بابا آپ ؟؟؟

اگر وہ اچھے لوگ ہیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔۔۔

حدید صاحب نے اب کی بار اس کی ساری پریشانی ختم کر دی تھی۔۔۔۔۔

شکریہ امی اور بابا۔۔۔

وہ خوشی سے اٹھ کر ان کے پاس جاتا ہوا بولا اور پہلے حدید صاحب کے گلے لگا پھر رمنا بیگم سے پیار لیا وہ بے حد خوش تھا کیونکہ اس کے دونوں کام ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔

******************

تیمور صاحب نے آج شاہزین کو آفس سے جانے سے پہلے ہی روک لیا۔۔۔۔

کہاں جا رہے ہو شاہزین ؟؟؟

ڈیڈ میں اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا رہا ہوں۔۔۔۔۔

وہ صفائی سے جھوٹ بولا

آہاں۔۔۔۔ مجھے دراصل فلیٹ کی تم سے چابی چاہیے تھی میرے ایک دوست کو اپارٹمنٹ کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔

بابا وہ اپارٹمنٹ تو میں نے پہلے سے ہی اپنے ایک دوست جو دیا ہوا ہے۔۔۔۔۔

وہ ان کی بات سن کر پہلے تو گڑبڑا گیا مگر پھر سنبھل کر سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔

ہممم۔۔۔ مجھے بھی پتا چلا ہے کہ تمھارے دو دوست اتنے اچھے ہیں کہ تم روز صبح وہاں سے ناشتہ کرتے ہو اور پھر ڈنر بھی وہاں سے ہی کر کے آتے ہو ۔۔۔۔واہ ایسے دوست اللہ سب کو دے۔۔۔۔۔

تیمور صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا تو شاہزین شرمندگی سے نظریں جھکا کر بولا۔۔۔۔

ڈیڈ وہ واپس نہیں آنا چاہتی گھر میں اور نہ ہی موم سے ملنے چاہتی تھی اسی وجہ سے آپ کو بھی نہیں بتایا۔۔۔۔

تم کم از کم مجھے تو بتا ہی سکتے تھے نہ پتا ہے میں کتنا پریشان تھا تمھارے لیے

تیمور صاحب سنجیدگی سے بولے انھیں کبھی بھی حور اور ہادی کے بارے میں پتا نہیں چلتا اگر وہ اپنے ایک بندے کو اس کے پیچھے نہ لگاتے ۔۔۔۔۔

سوری ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔

وہ شرمندگی سے بولا۔۔۔۔۔

اب جاؤ صبح آفس میں ہی تم سے تفصیل سے بات کروں گا۔۔۔۔۔

وہ اسے جانے کا بولا کر خود بھی اس کے آفس سے چلے گئے ۔۔۔۔

شاہزین ان کی بات سن کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا یوا باہر چلا گیا تھا اب اس کی صبح تیمور صاحب نے سہی معنوں میں بینڈ بجانی تھی۔۔۔۔۔

آج اس کا ارادہ حور اور ہادی کو باہر ڈنر کروانے کا تھا اس لیے وہ جلدی جلدی آفس سے نکل رہا تھا ہادی اب تقریبا کافی ٹھیک ہو چکا تھا جس سے حور اور شاہزین دونوں ہی پر سکون ہوگئے تھے ورنہ ان کو ڈر تھا کہ کوئی میجر پروبلم نہ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔

******************

تیمور صاحب گھر آئے تو سحر بیگم ان کا انتظار کر رہی تھیں وہ چار دنوں سے ان سے بلکل بھی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ سحر بیگم اگر بات کرتی بھی تو تیمور صاحب صرف ہوں ہاں میں ہی جواب دیے رہے تھے

تیمور میں نے آپ سے معافی مانگ تو لی ہے اب غصہ ختم کر کے مجھ سے بات کر لیں ۔۔۔۔۔

وہ منت بھرے انداز میں بولیں ۔۔۔۔

میں نے تو صرف تم سے دو دن بات نہیں کی تو تمھارا یہ حال کیا تم نے سوچا ہے کہ شاہزین اور حور کی کیا حلات ہوئی ہوگی جب تم نے اپنی خود غرضی کے لیے انھیں الگ کیا اور میں نے خود عشا سے بات کی ہے وہ شاہزین سے شادی نہیں کرنا چاہتی وہ کسی اور کو چاہتی ہے لیکن تمھاری بہن اسے مجبور کر رہی ہے اس لیے بہتر ہے کہ اگر تم چاہتی ہو کہ میں تم سے بات کرؤں تو سب سے پہلے تو تم اپنی بہن کو کال کر کے صاف انکار کرو کہ شاہزین کا رشتہ ہم کبھی نہیں کریں گے پھر میرے پاس آنا۔۔۔۔۔۔

وہ سنجیدگی سے بول کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔۔

جبکہ سحر بیگم صرف غصے سے اپنے لب ہی بھینچ سکیں انھیں بلکل امید نہیں تھی کہ عشا تیمور صاحب کو صاف انکار کرے گی حالانکہ وہ جب بھی عشا سے بات کرتی تو وہ خوشی سے اس سے بات کرتی اب انہیں لگ رہا تھا عشا جو ان سے خوشی سے بات کرتی تھی تو وہ بھی صرف شمائلا کی وجہ سے۔۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖


عینی پیچ رنگ کے چھوٹےفراک کے ساتھ پجامہ پہنے ہادی کو اپنے ساتھ ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھائے شاہزین کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔


اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولنے پر عینی ہادی کے ساتھ اٹھی اور شاہزین کو دیکھ کر مسکرائی۔۔۔۔۔


شاہزین نے ان کے قریب آکر پہلے جھک کر ہادی کا سر چوما اور پھر عینی کا سر چوما۔۔۔۔۔


چلیں ؟؟؟


اس نے عینی سے پوچھا تو اس نے جلدی سے سر ہلا کر اپنے سر پر دوپٹہ لیا اور ہادی کا ہاتھ پکڑے شاہزین کے ساتھ چل دی۔۔۔۔۔


شاہزین انھیں ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں لے کر آیا تھا اس نے ایک پرائیویٹ کیبن بک کروایا تھا کیونکہ وہ عینی کے ساتھ پبلک میں نہیں بیٹھنا چاہتا تھا وہ بلکل بھی نہیں چاہتا تھا کہ کسی کی گندی نظر عینی پر پڑے۔۔۔۔۔


ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے انھوں نے ہلکی پھلکی گفتگو کی تھی اور ہادی کو دوبارہ کسی سکول میں ایڈمیشن کے بارے میں بھی انھوں نے بات کی تھی۔۔۔۔۔


وہ لوگ بہترین ٹائم گزار کر واپس آچکے تھے عینی ہادی کو دوسرے کمرے میں دوائی دے کر سلا چکی تھی اور اب اپنے کمرے میں آئی تھی جہاں شاہزین بیڈ پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھا عینی کا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔


عینی کے کمرے میں آتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کی طرف بڑھا جو شاہزین کو مسکرا کر دیکھتی اب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی بالیاں اتار رہی تھی۔۔۔۔۔


شاہزین نے اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں بڑھتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے اس کی کنپٹی کو ہلکا سا چھوا اور شیشے میں اپنے اور عینی کے عکس کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔


وہ ایک دوسرے کے ساتھ بلکل مکمل لگ رہے تھے جیسے چاند اور سورج کی جوڑی ہو شاہزین نے آہستہ سے اپنے ایک ہاتھ سے اس کے بالوں کو اس کی گردن سے پیچھے کیا اور اس پر پھونک ماری تو عینی کانپ کر رہ گئی جسے محسوس کر کے شاہزین کے چہرے پر مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔۔۔۔


پھر شاہزین نے جھک کر اس کی گردن پر ہلکا سا بوسہ لیا اور اس کا رخ اپنی جانب کر کے اس کے چہرے پر جابجا اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔


ش۔۔۔۔شاہزین۔۔۔۔


ششش۔۔۔۔حور آج میں تمھیں محسوس کرنا چاہتا ہوں پلیز۔۔۔۔۔


وہ جزبات سے بوجھل لہجے میں بولا اور آکر میں جان بوجھ کر پلیز بولا تو عینی صرف اپنے لب کاٹ کر ہی رہ گئی ۔۔۔۔۔


شاہزین نے اس کے کندھے سے دوپٹہ سرکایا اور وہاں پر اپنا دہکتا لمس چھوڑا اور پھر عینی کی مزحمت نہ دیکھ کر اس نے عینی کو اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا مگر عینی کا ہلکا ہلکا کانپنا وہ اچھی طرح محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔


مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے حور کیا تمہیں لگتا ہے میں اپنی جان کو تکلیف پہنچا سکتا ہوں۔۔۔۔۔


وہ اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھکتے ہوئے بولا تو عینی نے اپنی کانپتی پلکوں کی اوٹ سے شاہزین کو دیکھ کر اپنا سر ہاں میں ہلا کر اپنی رضا مندی دی۔۔۔۔۔


شاہزین نے جھکتے ہوئے اس کے سر کو دوبارہ چوما اور پھر آہستہ اس کے ایک ایک نقوش کو چھو کر اسے محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔


*************************


ارقم آج یونیورسٹی لیٹ جانے کا سوچ کر ہاشم سے ملنے اس کے آفس آیا تھا وہ گاڑی پارک کر کے گاڑی سے اترا اور ہاشم کے آفس کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔۔۔


اس نے ہاشم کی سیکرٹری سے اس کے آفس میں موجودگی کے بارے میں پوچھا اور دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوا جہاں ہاشم اپنے مینجر سے کچھ ڈسکس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔


ارقم کو اپنے آفس میں دیکھ کر ہاشم نے اپنے مینجر کو بعد میں آنے کا بولا کر جانے کا کہا تو وہ خاموشی سے چلا گیا۔۔۔۔


آؤ ارقم بیٹھو ۔۔۔۔ کیسے آنا ہوا ۔۔۔۔۔


ہاشم ارقم کو اپنے سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا شارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔


ارقم خاموشی سے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔


ہاشم ۔۔۔۔ بھائی میں نے بابا سے بات کر لی ہے وہ راضی ہیں مگر یہ یاد رکھیے گا کہ میں نے صرف اس وجہ سے بابا کو منایا ہے کیونکہ مجھے اپنی بہن کی خوشی بہت عزیز ہے اگر آپ نے اسے کچھ بھی کہا یا اس کے ساتھ برا سلوک کیا تو میں آپ کا حشر بگاڑ دوں گا۔۔۔۔۔


وہ تمیز کے دائرے میں رہتا ہوا ہاشم کو دھمکا رہا تھا۔۔۔۔۔


تمہیں لگتا ہے کہ تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو۔۔۔۔۔۔


ہاشم نے پیپر ویٹ گھماتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ سے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔


ہا۔۔۔۔ہا۔۔۔ہا تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں پھر عالی کی شادی اپنے دوست سے کروا دوں اس نے بھی کل مجھ سے بات کی ہے اور وہ تو کنوارا بھی ہے اور اسے عالی کے ماضی سے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔


وہ طنزیہ ہنستے ہوئے ہاشم کا سکون برباد کر گیا۔۔۔۔۔


اب کچھ نہیں ہو سکتا تم نے چچا جان سے بات کر لی ہے۔۔۔۔


کبھی بھی ایسا مت سمجھیے گا کہ بابا نے ایک بار کہہ دیا ہے تو وہ منع نہیں کر سکتے میں اگر آپ کے لیے منا سکتا ہو تو آپ کے لیے انکار کروانا میرا لیے بلکل بھی مشکل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔


وہ سنجیدگی سے ہاشم کی طرف دیکھ کر بولا


علیشبہ کو میں کچھ نہیں کہو گا اور نہ ہی اس کے ساتھ برا سلوک کروں گا میں جاہل نہیں ہوں جو اسے مارتا پیٹتا پھروں۔۔۔۔۔


وہ بھی اب کی بار سنجیدگی سے بولا


مجھے امید ہے کہ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے اور ۔۔۔۔۔اس دن کی بتمیزی کے لیے میں معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔۔


وہ معافی مانگتے ہوئے بلکل بھی شرمندہ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔


آہاں ویسے میری بھی غلطی ہے مجھے تم لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔


ہاشم سنجیدگی سے بولا۔۔۔تو ارقم نے اس کی طرف دیکھا


آپ نے اچھا نہیں کیا تھا جب تایا تائی کی ڈیتھ ہوئی تھی تو بابا بھی بے حد پریشان اور بیمار ہو گئے تھے مگر جب بابا کو آپ کی ضرورت تھی تو آپ اپنی خودغرضی کے لیے ہمیں چھوڑ کر شہر چلے آئے اور اسی خودغرضی کے لیے آپ نے حور اور ہادی کا بچپن بھی برباد کر دیا تھا۔۔۔۔۔


ارقم سنجیدگی سے بولتا اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔۔۔


ارقم وہ وقت میرے لیے بہت مشکل تھا ۔۔۔۔۔


وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا مضطرب سا بولا تو ارقم اس کی بات سن کر خاموشی سے آفس سے نکل گیا ارقم کو جاتے دیکھ ہاشم صرف گہری سانس بھر کر ہی رہ گیا۔۔۔۔۔


*******************


شفق رات سے ہی بے حد خوش تھی ارقم نے اسے کال کر کے بتا دیا تھا کہ اس کے پیرنٹس جمعہ کو آئیں گے جس وجہ سے اب وہ پرسکون سی یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بنے ایک درخت کے نیچے بیٹھی عالی سے بات کر رہی تھی علیشبہ بھی بے حد خوش تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب وہ جلد ہی اپنی محبت کو پالے گی۔۔۔۔۔۔


عالی کسی دن شاپنگ کا پلان بنائیں ؟؟


شفق عالی سے بولتی ہوئی اپنے موبائل کو دیکھنے لگی تو کسی نے پیچھے سے آکر اس کا ہاتھ پکڑ لیا شفق نے جلدی سے اپنا ہاتھ پکڑنے والے کی طرف دیکھا تو اسے وہ لڑکا دکھا جس نے اس کی برتھڈے پارٹی پر اس سے بدتمیزی کی تھی۔۔۔۔


ہاتھ چھوڑو میرا ورنہ ابھی چیخ چیخ کر سب کو اکٹھا کر لوں گی۔۔۔۔


شفق کھڑی ہوتی ہوئی غصے سے بولی اور مسلسل اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔

مجھے تمھارے ساتھ اکیلے میں بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔

وہ لڑکا شفق کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔

میری دوست تمھارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی ہاتھ چھوڑو اس کا ابھی ورنہ تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔

شفق کی بجائے عالی نے غصے سے کہا

بکواس بند کرو اپنی تم سے کسی نے بات نہیں کی اور تم فورا چلو میرے ساتھ ورنہ گھسیٹ کر لے جاؤں گا۔۔۔۔۔

وہ لڑکا غصے سے بولا۔۔۔۔

تمہیں جو بات کرنی ہے یہاں ہی کرو اور میرا ہاتھ چھوڑو تم نے منہ سے بات کرنی ہے یا ہاتھ سے ۔۔۔۔۔

شفق سنجیدگی سے بولی تو اس نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔

میرے موم ڈیڈ کل تمھارے لیے رشتہ لے کر آئیں گے اور تم ہاں میں جواب دو گی۔۔۔۔۔

تم ہو کون اور میں کیوں تم جیسے گھٹیا شخص سے شادی کروں گی ۔۔۔۔۔

بکواس بند کرو اپنی جانتی ہو تم مجھے حزیفہ نام ہے میرا تمھاری موم سے میری موم نے بات کی تھی رشتے کی اور شادی تو تمھاری مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔

آہ۔۔۔۔

ابھی وہ مزید بولتا کہ ارقم جو ابھی یونیورسٹی آیا ہی تھا اور عالی نے اسے میسج کیا تھا جسے پڑھ کر وہ فورا اس طرف آیا تھا مگر اس کی بات سن کر غصے میں ارقم نے ایک زوردار مکا اس کے منہ پر جڑ دیا۔۔۔۔۔

اور پھر یکے بعد دیگر کئی مکے اس کے منہ پر مارے۔۔۔۔

وہ صرف میری محبت ہے اور میں ہی اس سے شادی کروں گا تم جیسے لوفر اور آوارہ شخص اس کے نزدیک بھی آئے گا تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔

وہ مسلسل اسے مارتا بول رہا تھا اسے مارتے دیکھ اردگرد سٹوڈنٹ بھی ان کی جانب متوجہ ہوگئے تھے شفق اور علیشبہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر ارقم کو حزیفہ سے دور کرنے کی کوشش کی مگر وہ تو اسے چھوڑ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔

ارقم پلیز اسے چھوڑ دیں وہ مر جائے گا۔۔۔۔

شفق نے کانپتی آواز میں ارقم سے کہا تو اس نے گہرا سانس لے کر اپنا غصہ قابو کرتے ہوئے حزیفہ کے ایک زوردار ٹانگ ماری اور وہاں سے شفق اور عالی کے ساتھ وہاں سے چلا گیا بلکہ ان دونوں کو وہ یونیورسٹی سے ہی لے آیا تھا۔۔۔۔۔

پورے راستے ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی ارقم خاموشی سے شفق کو اس کے گھر چھوڑ کر عالی کے ساتھ اپنے گھر آگیا تھا اور خاموشی سے اپنے کمرے میں اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔

**********************

عینی صبح اٹھی تو خود کو شاہزین کے حصار میں پاکر رات کے سارے واقعات یاد کرتی سرخ چہرے کے ساتھ جلدی سے شاہزین کے پاس اٹھی اور الماری سے اپنا سوٹ نکال کر شاور لینے چلی گئی۔۔۔۔۔

وہ شاور لے کر آئی تو شاہزین کو بیڈ سے ٹیک لگائے دیکھ کر وہ سرخ چہرے کے ساتھ جلدی سے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاکر اپنے بالوں کو تولیے سے آزاد کر کے انھیں کنگی کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔

جبکہ اسے دیکھ کر شاہزین کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر عینی کی طرف آنے لگا تو وہ جلدی سے دروازے کی طرف بڑھ گئی مگر شاہزین نے جلدی سے اسے پکڑ کر اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔۔

سویٹ ہارٹ کہاں جارہی ہو۔۔۔۔۔

وہ اس کے گال پر اپنے لب رکھتا بولا تو عینی سرخ چہرے کے ساتھ بولی۔۔۔۔

و۔۔وہ ہادی کو اٹھانا ہے۔۔۔۔۔

آہاں مجھ سے بھاگ رہی ہو ؟؟؟

وہ اس کی دوسری گال پر لب رکھتا بولا

ش۔۔۔۔شاہزین پلیز جانے دیں۔۔۔۔

وہ ہلکی آواز میں منمنائی ۔۔۔۔۔۔

تو شاہزین نے اس کا سر چوم کر اس پر رحم کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دیا تو عینی بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی جبکہ پیچھے سے شاہزین کا قہقہہ اسے ضرور سنائی دیا تھا۔۔۔۔۔

حدید صاحب رمنا بیگم اور علیشبہ کے ساتھ اس وقت شفق کے گھر موجود تھے وہ اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے ہی سحر بیگم بیٹھی ہوئیں تھی اور ساتھ تیمور صاحب بیٹھے ہوئے تھے شاہزین اس وقت گھر نہیں تھے مگر تیمور صاحب نے اسے کال کر دی تھی جس وجہ سے اس نے بھی تھوڑی دیر میں آجانا تھا۔۔۔۔۔


آج ہم ایک اہم کام کی وجہ سے آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔۔


رمنا بیگم نے سحر بیگم سے کہا تو وہ مسکراتی ہوئی ان کی جانب متوجہ ہوئیں


ہم اپنے بیٹے ارقم کے لیے آپ کی بیٹی شفق کا رشتہ لے کر آئے ہیں ہمیں امید ہے آپ ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔۔۔۔


رمنا بیگم نے شائستہ لہجے میں بات مکمل کی۔۔۔۔۔۔


ہمیں تھوڑا وقت چاہیے سوچنے کے لیے پھر ہم آپ کو جواب دیں گے۔۔۔۔۔


سحر بیگم نے تیمور صاحب کو ایک نظر دیکھ کر رمنا بیگم سے کہا۔۔۔۔


جی جی آپ نے جتنا وقت لینا ہے لے لیں ۔۔۔۔۔۔ اور اگر آپ شفق کو ایک بار بلا دیں میں اسے ایک بار ملنا چاہتی ہوں


رمنا بیگم نے کہا ۔۔۔۔۔


بلکل ابھی میں بلاتی ہوں اسے۔۔۔۔۔


سحر بیگم اٹھتے ہوئے بولی اور باہر جاکر رزیہ سے شفق کو ڈرائنگ روم میں بھیجنے کا کہا۔۔۔۔


شفق جو بے چینی سے اپنے کمرے میں چکر لگا رہی تھی کہ رزیہ دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی تو اس نے لب کاٹتے ہوئے رزیہ کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔


میم نے آپ کو ڈرائنگ روم میں بلوایا ہے۔۔۔۔۔


رزیہ کی بات سن کر وہ سر ہلاتی ہوئی باہر نکلی اور روم کی طرف جانے لگی کہ راستے میں ہی اسے شاہزین مل گیا جو خود ڈرائنگ روم کی طرف جا رہا ہے۔۔۔۔۔


کون آیا ہوا ہے شفی ؟؟


شاہزین نے شفق کو تنگ کرنے کے لیے پوچھا تو وہ جواب دینے کی بجائے بس منہ بسور کر رہ گئی۔۔۔۔


ارے شفی تم نے جواب نہیں دیا ؟؟


اللہ بھائی جب ہم اندر داخل ہوں گے تو آپ کو پتا چل جائے گا۔۔۔۔۔


وہ جھنجھلا کر بولی کہ شاہزین کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔


وہ دونوں ڈرائنگ روم میں اکٹھے داخل ہوئے تو سب ان کی جانب متوجہ ہوگئے ۔۔۔۔۔


اسلام و علیکم !


شاہزین اور شفق نے یک زبان سلام کیا۔۔۔۔


یہ میرا بڑا بیٹا شاہزین ہے اور یہ میری بیٹی شفق ہے۔۔۔۔۔


سحر بیگم نے ان دونوں کا تعارف کروایا تو شاہزین حدید صاحب سے گلے مل کر ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا جبکہ شفق مسکراتی ہوئی رمنا بیگم اور علیشبہ سے ملنے لگی۔۔۔۔۔


ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو شفق۔۔۔۔۔


علیشبہ نے شفق سے کہا تو وہ صرف مسکرا ہی سکی۔۔۔۔


وہ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی تھوڑی دیر شفق اور باقی سب سے بات کر کے حدید صاحب رمنا بیگم اور علیشبہ واپس چلے گئے تھے۔۔۔۔۔۔


اب تیمور صاحب شاہزین اور سحر بیگم کے ساتھ ہال میں بیٹھے تھے جبکہ شفق اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔۔۔۔۔


شاہزین میں چاہتا ہوں کہ تم ان کے بارے میں ساری معلومات نکالو ان کے بیٹے کے بارے میں بھی سب کچھ پتا کرواؤ اور اپنی ماں سے کہو کہ شفق سے ایک بار پوچھ لے اسے اس رشتے سے کوئی اعتراض تو نہیں پھر ہی ہم بات آگے بڑھائیں گے ویسے مجھے وہ لوگ کافی پسند آئے ہیں۔۔۔۔


تیمور صاحب پہلے شاہزین سے بولے اور پھر سحر بیگم کو بلانے کی بجائے شاہزین کو ہی سحر بیگم سے بولنے کا کہا وہ اب تک سحر بیگم سے سہی سے بات نہیں کر رہے تھے حالانکہ وہ ان سے دو تین بار معافی مانگ چکی تھیں۔۔۔۔۔


سحر بیگم نے برہمی سے تیمور صاحب کی طرف دیکھا جو ان کی طرف بلکل متوجہ نہیں تھے۔۔۔۔۔


ڈیڈ میں ان کے بارے میں آپ کو پتا کروا دوں گا آپ فکر مت کریں۔۔۔۔۔


شاہزین نے جواب دیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا فلحال وہ خود بھی سحر بیگم سے بات نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔


تیمور میں آپ سے کتنی بار معافی مانگ چکی ہوں اب آپ ناراضگی ختم کر دیں اور آپ کہ کہے کے مطابق میں نے شمائلا کو بھی رشتے کے لیے منع کردیا ہے۔۔۔۔۔۔


وہ منت بھرے انداز میں بولیں تو تیمور صاحب نے انہیں دیکھ کر ایک گہرا سانس خارج کیا اور پھر بولے۔۔۔۔۔


سحر بات معافی کی نہیں بات تمھیں اپنے کیے پر شرمندگی کی ہے تم نے جو کیا اس پر تم زرا سی بھی پشیماں نظر نہیں آرہی ہو ۔۔۔۔۔۔


تیمور میں واقع پچھتا رہی ہو آپ پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔۔۔


سحر بیگم نے کہا تو تیمور صاحب ہنکار بھرتے ہوئے بولے۔۔۔۔


ٹھیک ہے مان لیا تو شرمندہ ہو اور پچھتا رہی ہو لیکن جب بھی حور اور ہادی ملیں گے تمھیں ان سے بھی معافی مانگنی ہو گی ۔۔۔۔۔


تیمور صاحب کی بات سن کر وہ کشمکش کا شکار ہوگئیں وہ تو ان سے مشکل سے معافی مانگ رہی تھی کجا کہ حور سے معافی مانگنا ۔۔۔۔ پھر اچانک سحر بیگم کہ ذہن میں خیال آیا کہ حور کونسا ابھی ملی ہے جب ملے گی تب وہ سوچیں گی اس بارے میں۔۔۔۔۔


ٹھیک ہے تیمور آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کروں گی بس اب آپ ناراضگی ختم کریں۔۔۔۔


وہ تیمور صاحب سے بولیں تو تیمور صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلایا۔۔۔۔


************************


شاہزین نے ان کے بارے میں سب کچھ پتا کروالیا تھا اور ایک بار وہ سحر بیگم اور تیمور صاحب کے ساتھ حویلی بھی ہو آئے تھے اور ارقم سے بھی مل آئے تھے انھیں یہ رشتہ پسند آیا تھا اور سب سے بڑی بات شفق اس کے لیے راضی تھی تو اس وجہ سے انھوں نے رشتے کے لیے ہامی بھر لی تھی۔۔۔۔


حدید صاحب نے انھیں بتایا تھا کہ وہ علیشبہ کا نکاح اگلے مہینے کر رہے ہیں اور اس سے اگلے دن وہ لوگ ارقم کا نکاح بھی کرنا چاہتے ہیں جس پر پہلے تو تیمور صاحب اتنی جلدی شادی کے لیے تیار نہیں تھے مگر صرف نکاح کا سوچ کر وہ بھی راضی ہو گئے تھے۔۔۔۔


ایک مہینہ کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا آج علیشبہ کا نکاح تھا اور اس وقت علیشبہ کو پالر والی لڑکی تیار کر رہی تھی۔۔۔۔۔


اس نے سفید شارٹ کرتی کے ساتھ سفید ہی شرارہ پہنا ہوا تھا اور ساتھ سرخ دوپٹہ تھا جو فلحال ابھی پالر والی اس کا میک اپ اور بال بنانے کے بعد سیٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔


ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی اس نے خود ہی ڈارک میک اپ نہیں کروایا تھا کیونکہ اسے پسند نہیں تھا۔۔۔۔۔۔


علیشبہ کی بڑی خواہش تھی کہ شفق بھی آج کے دن اس کے ساتھ ہوتی مگر شفق کا چونکہ کل نکاح تھا اس وجہ سے وہ نہیں آئی تھی مگر اس کے گھر سے باقی سب لوگ آئے تھے۔۔۔۔


وہ مکمل تیار ہوچکی تھی جب رمنا بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔


ماشااللہ میری بیٹی کتنی خوبصورت لگ رہی ہے اللہ نظر بد سے بچائے۔۔۔۔۔


رمنا بیگم علیشبہ کو ساتھ لگاتی اس کا سر چوم کر بولیں تو علیشبہ نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔


رمنا بیگم نے اپنی بیٹی کے چہرے پر زندگی سے بڑپور مسکراہٹ دیکھ کر دل میں اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اس کی بیٹی کی زندگی میں دوبارہ خوشیاں شامل کردیں تھیں۔۔۔۔۔


امی آپ بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔۔۔۔


علیشبہ رمنا بیگم کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر بات بدلنے کے لیے بولی تو رمنا بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔


رمنا بیگم علیشبہ سے تھوڑی دیر بات کر کے دوبارہ باہر مہمانوں کے پاس چلی گئیں۔۔۔۔۔


ہاشم اس وقت حویلی باہر موجود لان میں بیٹھا تھا جہاں سارے انتظامات کیے گئے تھے اس کے ساتھ احمر بھی موجود تھا مگر پتا نہیں کیوں ہاشم کو بڑی گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔


یار تم اتنا گھبرا کیوں رہے ہو فکر مت کرو ارقم تمھارا کم از کم نکاح والے دن منہ نہیں توڑے گا۔۔۔۔۔


احمر نے ہاشم کو تسلی دی تو ہاشم اس کے الفاظ سن کر صرف اسے گھور ہی سکا۔۔۔۔۔


تجھ جیسا کمینہ دوست اللہ کسی کو نہ دے۔۔۔۔


ہاشم کے غصے بھری آواز سن کر اس نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے مزید کہا۔۔۔۔


لو بھئی بھلائی کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں ہے ایک تو تم لڑکی کی طرح گھبرا رہے ہو میں نے تو تمھیں تسلی دی مگر نہیں تم تو مجھ پر ہی غصہ کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔


بکواس نہ کرو احمر میں نے تمھارے دانت توڑ دینے ہیں۔۔۔۔


اچھا اچھا اپنا منہ بند کر لے ارقم اس طرف ہی آرہا تھا۔۔۔۔۔


احمر ارقم کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بولا تو ہاشم نے منہ بندھ کر کے اسے گھورا۔۔۔۔


احمر بھائی کیا آپ دومنٹ ہمیں اکیلا وقت دے سکتے ہیں مجھے ہاشم بھائی سے بات کرنی ہے۔۔۔۔۔


ہاں ہاں ضرور ۔۔۔۔


ارقم کی بات سن کر احمر فورا بولا اور ان سے تھوڑی دوع چلا گیا۔۔۔۔۔


ہاشم بھائی نکاح بس شروع ہونے والا ہے میں بس آپ کو یاد دلانے آیا تھا کہ اگر آپ نے عالی کے ساتھ کچھ بھی غلط کیا تو آپ جانتے ہیں نہ میں آپ کیا کروں گا۔۔۔۔۔


وہ مسکراتے ہوئے بول رہا تھا تاکہ ارد گرد موجود لوگوں کو لگے کہ وہ کوئی اچھی بات ہی کر رہا ہے۔۔۔۔۔


بلکل میرے ہونے والے سالے صاحب مجھے یاد ہے اور اب میرا بی پی لو کرنے کی بجائے جاکر نکاح شروع کروا دو اس کے بعد مجھے دھمکیاں دیتے رہنا۔۔۔۔۔


ہاشم بھی مسکرا کر بولا تو ارقم صرف ہنکار بھرتا مولوی صاحب کو لینے چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔


تھوڑی دیر میں ہی ہاشم اور علیشبہ کا نکاح ہوچکا تھا نکاح نامے پر سائین کرتے ہوئے علیشبہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے مگر پھر اپنے سر پر حدید صاحب کا شفقت بھرا ہاتھ محسوس کر کے اس نے سائین کیے تھے وہ اتنا جانتی تھی کہ اس کے گھر والے کبھی بھی اس کے مشکل وقت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔۔


شاہزین تیمور صاحب کے ساتھ ابھی ہاشم اور ارقم کو مبارک باد دے کر پیچھے ہٹا ہی تھا کہ اس کے فون پر عینی کی کال آئی جسے دیکھ کر وہ فورا ایک سائیڈ پر جاکر کال سننے لگا۔۔۔۔


فون کے دوسری جانب سے ہادی کی روتی ہوئے آواز سن کر اس کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔


بھائی۔۔۔ آ۔۔۔آپی کو پ۔۔پتا نہیں کیا ہوا ہے وہ اٹھ نہیں رہیں۔۔۔۔۔


کیا مطلب ہے ہادی ٹھیک سے بتاؤ۔۔۔۔


وہ آپی کی صبح سے طبیعت نہ ٹھیک تھی ابھی میں تھوڑی دیر پہلے ان کے کمرے میں آیا ہوں تو وہ زمین پر بے ہوش پڑی ہیں اٹھ نہیں رہیں۔۔۔۔۔


ہادی نے اسے ساری بات بتائی تو شاہزین نے پریشانی سے اپنے بالوں کو ایک ہاتھ سے جکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔


ہادی حور کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارو جلدی سے۔۔۔۔۔


ہادی شاہزین کی بات سن کر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور بیڈ کے پاس پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر اس میں سے تھوڑا پانی عینی کے چہرے پر گرایا تو عینی کو ہلکا ہلکا ہوش آنے لگا ہادی نے جلدی سے پانی کے اور چھینٹے عینی کے چہرے پر مارے تو وہ ہوش میں آچکی تھی۔۔۔


ہ۔۔۔ہادی مجھے پانی لا کر دو ۔۔۔۔۔۔


عینی نے آنکھیں بمشکل کھول کر ہادی سے کہا تو ہادی فون عینی کے پاس رکھتا فورا کچن میں پانی لینے بھاگا۔۔۔۔۔


حور۔۔۔حور تم ٹھیک تو ہو ؟؟؟


عینی نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے موبائل کو پکڑا کر اپنے کان سے لگایا اور نقاہت بھری آواز میں بولی۔۔۔۔


ج۔۔جی ٹھیک ہوں۔۔۔۔


تم نے مجھے صبح کیوں نہیں بتایا کہ تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کا جواب تو میں بعد میں تم سے لوں گا فلحال تم پانی پی کر اور کچھ کھا کر ریسٹ کرو میں ایک گھنٹے تک تمھارے پاس پہنچ جاؤں گا اور فون بند مت کرنا۔۔۔۔


ہادی عینی کے لیے پانی لے کر آیا تو عینی نے پانی پی کر شاہزین کو جواب دیا۔۔۔۔۔


آپ ابھی رہنے دیں میں اب بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔


بلکل نہیں حور مجھے ابھی کوئی فضول بحث نہیں کرنی میں جلد ہی تمھارے پاس پہنچ رہا ہوں ۔۔۔۔


عینی نے اس کی بات سن کر صرف ہوں میں ہی جواب دیا اور ہادی کو اپنے ساتھ لگا کر اس کے چہرے سے آنسو صاف کیے اور اپنی آنکھیں موند لیں


شاہزین تیمور صاحب سے بات کر کے انھیں سب کچھ بتا کر جلدی سے یہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ وہ بس جلد از جلد عینی کے ہاس پہنچنا چاہت تھا۔۔۔۔۔۔


********************


ہاشم نکاح کے بعد سب لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا وہ ایک بار علیشبہ سے ملنا چاہتا تھا مگر ارقم کسی ناگ کی طرح اس کے راستے میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔


اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اسے پہلے ہی ارقم سے صلح کر لینی چاہیے تھی چونکہ رخصتی ایک مہینے بعد علیشبہ کے امتحانات کے بعد تھی اس وجہ سے وہ صرف ایک بار اس سے ملنا چاہتا تھا۔۔۔۔


اس نے ارقم کے جگہ رمنا بیگم سے بات کرنے کا سوچا۔۔۔۔۔


اب تقریبا بہت سے مہمان جاچکے تھے صرف قریبی لوگ ہی موجود تھے وہ ایکسکیوز کر کے سب کے درمیان سے اٹھ کر حویلی کے اندر داخل ہوا تو پیچھے ہی ارقم بھی اس کے ساتھ ہی حویلی میں داخل ہوا۔۔۔۔


خیریت بھائی۔۔۔۔ کہیں جانا ہے آپ کو۔۔۔۔۔

ارقم نے ہاشم سے طنزیہ مسکرہٹ سے پوچھا۔۔۔۔۔

مجھے چچی جان سے بات کرنی ہے۔۔۔۔۔

وہ ارقم سے بولا۔۔۔۔۔

ہمم آپ تو بڑے چالاک ہیں امی سے بات کرکے عالی سے ملنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو بتا دوں امی کبھی بھی آپ کو ملنے نہیں دے گیں۔۔۔۔۔

ارقم ہاشم کی چالاکی سمجھ کر بولا۔۔۔۔

تمھارا بھی کل نکاح ہے نہ ۔۔۔۔ اگر تم نے مجھے آج علیشبہ سے ملنے نہ دیا تو یاد رکھنا کل تمہیں میں کسی بھی حال میں شفق سے ملنے نہیں دوں گا۔۔۔۔۔۔

ہاشم کی بات سن کر اس نے منہ بسورا۔۔۔۔۔۔

ہم ایک ڈیل کرتے ہیں آپ کو میں علیشبہ سے آج ملنے دوں گا مگر کل کو آپ میری ملاقات شفق سے کروائیں گے ۔۔۔۔۔۔

ارقم کی بات سن کر ہاشم کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔

ضرور ۔۔۔۔۔ اب چلو جلدی سےمجھے علیشبہ سے ملوا دو مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔

ہاشم کی بےچین آواز سن کر ارقم نے اپنی آنکھیں گھمائیں اور علیشبہ کے کمرے میں جا کر وہاں موجود دو تین لڑکیوں کو پہلے تو باتوں میں الجھا کر باہر نکالا اور پھر عالی کے قریب جاکر بولا۔۔۔۔۔

ہاشم تم سے بات کرنا چاہتا ہے عالی وہ بس ابھی میرے جاتے ہی تم سے بات کرنے آئے گا گھبرانا مت میں کمرے کے باہر ہی موجود ہوں۔۔۔۔۔

وہ عالی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے سر ہلانے پر باہرچلا گیا اور ہاشم کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔۔

عالی نے ایک نظر سفید شلوار قمیض اور براؤن شال میں ملبوس ہاشم کو دیکھا لیکن اسے اپنی جانب متوجہ پاکر فورا اپنی نظریں جھکا لی۔۔۔۔۔

ہاشم دھیمی چال چلتا اس کے قریب آیا ۔۔۔۔۔

میں نے ماضی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں جنہیں میں ٹھیک کرنے کی ابھی تک کوشش کر رہا ہوں لیکن کبھی یہ مت سمجھنا کہ میں نے کسی پچھتاوے میں آکر تم سے شادی کی ہے یا اپنے کسی مطلب کے لیے تم سے شادی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔

مجھے تم اچھی لگتی ہو اسی وجہ سے میں نے تم سے شادی کی ہے مجھے ابھی تم سے محبت نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ تم آہستہ آہستہ مجھے تم سے محبت کرنے پر مجبور کر دو گی۔۔۔۔۔

اور میں تمھیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا بس تم میرا ساتھ ضرور دینا ۔۔۔۔۔۔

ہاشم نے اپنی بات مکمل کر کے علیشبہ کے قریب آکر جک کر عقیدت سے اس کے سر کو چوما۔۔۔۔۔۔

تو علیشبہ نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس ستمگر کا پہلا عقیدت بھرا لمس محسوس کیا تھا اسے یقین تھا کہ وہ ہاشم کو خود سے محبت کروا دے گی بس اسے تھوڑا صبر سے کام لینا تھا۔۔۔۔۔

ہاشم کا سر چوم کر ایک نظر اس پر ڈال کر کمرے سے چلا گیا

شاہزین اس وقت عینی کے ساتھ ہوسپٹل میں موجود تھا عینی کا چیک اپ ہو رہا تھا جبکہ شاہزین ہادی کے ساتھ بے چین سا بیٹھا تھا۔۔۔۔۔


وہ جب گھر پہنچا تو عینی سے نقاہت اور کمزوری کی وجہ سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا عینی کا زرد چہرہ دیکھ کر تو اسے ویسے ہی گھبراہٹ اور پریشانی ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔


کیسی ہے میری وائف ؟؟


ڈاکٹر کے باہر آتے ہی شاہزین نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔۔


ابھی ہم نے کچھ ٹیسٹ کیے ہیں اس کے رزلٹ آتے ہیں تو پھر آپ کو بتائیں گے وہ ابھی ریسٹ کر رہی ہیں آپ مل لیں ۔۔۔۔


ڈاکٹر کی بات سن کر شاہزین نے اپنے سر کو ہلکا سا خم دیا اور ہادی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا جہاں عینی کمزوری کے باعث آنکھیں موندے لیٹی تھی۔۔۔۔


سویٹ ہارٹ !!


شاہزین نے قریب جا کر عینی کو پکارا اور اس کے سر کو ہلکا سا چوما۔۔۔۔


عینی نے اپنی آنکھیں آہستہ سے کھولیں ۔۔۔۔۔ شاہزین اور ہادی کو دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔۔


آپی اب آپ ٹھیک ہیں ؟؟؟


ہادی نے عینی سے پوچھا


ہاں میں اب بلکل ٹھیک ہوں ہادی ۔۔۔۔۔


وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولی اور تھوڑی سی جگہ بنا کر ہادی کو اپنے ساتھ بیٹھایا جبکہ شاہزین ان کے قریب ہی کھڑا تھا عینی کو ٹھیک دیکھ کر وہ اب کافی پرسکون تھا


عینی نے مسکرا کر ایک نظر شاہزین کو دیکھا جو خشمگی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔


سوری ۔۔۔۔۔


عینی نے ہلکی آواز میں کہا تو شاہزین سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔


آئندہ اگر تمھاری طبیعت خراب ہوگی تو تم مجھے فورا بتاؤ گی حور مجھے قطعاً منظور نہیں کہ تم مجھے خود سے بے خبر رکھو۔۔۔۔۔


عینی نے معصوم شکل بناتے ہوئے اپنا سر ہلایا تو شاہزین کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔۔۔۔۔


تھوڑی دیر بعد ہادی حور سے باتیں کرتے ہوئے اس کے ساتھ ہی سو گیا تھا جب ڈاکٹر ناک کر کے کمرے میں داخل ہوئی


اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں ؟؟


شاہزین نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا جو مسکرا کر عینی کی طرف دیکھ رہی تھی


اب کافی بہتر ہوں۔۔۔


عینی نے دھیمی آواز میں جواب دیا اب وہ پہلے سے کافی اچھا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔


کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے ڈاکٹر ؟؟؟


شاہزین نے بے چینی سے پوچھا۔۔۔۔۔


نہیں بلکہ خوشخبری ہے آپ کی وائف ٹو ویکس پریگننٹ ہیں مبارک ہو آپ دونوں کو ۔۔۔۔۔


ڈاکٹر نے مسکرا کر بتایا تو شاہزین نے پہلے آنکھیں پھیلا کر ڈاکٹر کو دیکھا پھر عینی کو دیکھا جو مسکرا کر نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔


شاہزین کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جھک کر عقیدت سے عینی کا سر چوما۔۔۔۔۔


انھیں کچھ ویکنس ہے میں آپ کو کچھ ویٹامنز لکھ دوں گی اور کچھ میڈسنز جس سے یہ کافی بہتر محسوس کریں گی۔۔۔۔۔


ڈاکٹر نے شاہزین کو بتایا اور کمرے سے چلی گئی۔۔۔۔


ایک خوشی کا آنسو تھا جو ٹوٹ کر شاہزین کی آنکھ سے گرا تھا جسے عینی نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا تھا


حور میں تمھیں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا خوش ہوں۔۔۔۔


وہ مسکرا کر حور کا سر دوبارہ چوم کر بولا۔۔۔۔


میں بھی بہت خوش ہوں شاہزین۔۔۔۔۔


عینی نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔


*******************


شفق نروس سی ہال کے برائیڈل روم میں تیار بیٹھی تھی آج اس کا اور ارقم کا نکاح تھا اس کی خوشی کی انتہا تھی کہ اس کا نکاح اس شخص سے ہو رہا تھا جسے اس نے چاہا تھا۔۔۔۔۔۔


وہ سرخ جوڑے میں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی کہ دیکھنے والا ایک بار دیکھ لے تو نظر نہیں ہٹا پائے گا۔۔۔۔


گھبراہٹ سے اسے ٹھنڈے پسینے آرہے تھے دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے دروازے کی جانب دیکھا تو سحر بیگم نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔


سحر بیگم نے قریب آکر اس کا سر چوما۔۔۔۔


مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میری شفی اتنی بڑی ہوگئی ہے کہ آج اس کا نکاح بھی ہونے والا ہے۔۔۔۔


وہ نم لہجے میں بولیں۔۔۔۔تو شفق کو اپنی آنکھوں میں نمی تیرتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔


موم ابھی تو میں یہاں ہی ہوں آج تو صرف نکاح ہی ہے۔۔۔۔


ہاں بلکل میری جان ۔۔۔۔۔


وہ اس کے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتی بولیں۔۔۔۔


****************


اور سالے صاحب کیسا محسوس ہو رہا ہے۔۔۔۔۔


ہاشم ارقم کے پاس جا کر مسکراتا ہوا بولا۔۔۔۔


بہت اچھا جیجا جی ۔۔۔۔۔


وہ بھی مسکراتا ہوا بولا۔۔۔۔


میری بیگم نظر نہیں آرہی کہیں سالے صاحب۔۔۔۔۔


ہاشم نے نے اپنی نظریں ہر جگہ گھماتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔


جیجا جی وہ اس وقت میری بیگم کے پاس موجود ہے ۔۔۔۔اور آپ نے میرا کام کر دیا جو میں نے آپ سے کہا تھا۔۔۔۔۔


پہلے تو وہ بھی مسکراتے بولا لیکن آخری بات سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔


آہاں ۔۔۔۔۔ تھوڑے دنوں پہلے مجھے پتا چلا تھا کہ دو لڑکیوں کو وہ ہراس کر رہا تھا پھر میں نے اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کروا کر اسے جیل بھجوا دیا ہے اب چکی پیس رہا ہوگا۔۔۔۔تم فکر مت کرو وہ اب کافی عرصہ جیل میں ہی گزارے گا۔۔۔۔۔


ہاشم نے ارقم کو مسکراتے ہوئے بتایا تو اس نے سکون کا سانس لیا ارقم نے اسے کچھ دن پہلے حزیفہ کے بارے میں بتا کر اس کا کچھ کرنے کا بولا تھا وہ جانتا تھا کہ اس جیسے لڑکے جلد ہی کسی لڑکی کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے ۔۔۔۔۔


*****************


تھوڑی دیر میں سب کی موجودگی میں شفق اور ارقم کا نکاح ہوگیا تھا۔۔۔۔۔


شفی تم خوش ہو نہ ؟؟؟


شاہزین نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے شفقت سے پوچھا


جی بھائی میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔


وہ مسکرا کر شاہزین سے بولی ۔۔۔۔۔


اگر تمہیں کبھی بھی کوئی بھی مشکل ہو تو تم نے سب سے پہلے اپنے بھائی کو بتانا ہے۔۔۔۔ میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں یہ مت سمجھنا کہ تمھارا نکاح ہوگیا ہے تو تم پرائی ہوگئی ہو۔۔۔۔


وہ مسکرا کر شفق سے بولا اور اپنی فون پر میسج کی بل سن کر اسے دیکھا


بھائی ابھی میں یہاں ہی ہو اور جب بھی مجھے کوئی مشکل ہوئی میں آپ کو ضرور بتاؤں گی۔۔۔۔


اچھا شفی مجھے ایک ضروری کام ہے تم تب تک اپنی دوست سے بات کرو۔۔۔۔


وہ بولتا ہوا روم سے چلا گیا۔۔۔۔۔


نکاح مبارک ہو بھابھی جی۔۔۔۔


علیشبہ نے مسکراتے ہوئے شفق کو چھیڑا جس نے سرخ چہرے کے ساتھ اسے گھورا۔۔۔۔


شفی یار اپنی ان قاتل آنکھوں کا جادو مجھ پر مت چلاؤ بھائی پر چلانا ۔۔۔۔۔


علیشبہ نے اسے مزید چھیڑا۔۔۔


تم بہت بدتمیز ہو عالی۔۔۔۔


شفق منہ بناتی بولی تو علیشبہ نے قہقہہ لگایا۔۔۔

اچھا اچھا سوری ۔۔۔۔۔

وہ شفق کو گلے لگاتے بولی۔۔۔ تو شفق بھی مسکرا اٹھی۔۔۔۔

******************

سحر بیگم کے کہنے پر عالی شفق کو باہر لے آئی تھی جہاں سٹیج پر اسے ارقم کے ساتھ بیٹھایا گیا تھا۔۔۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو شفق۔۔۔۔۔

وہ دھیمی آواز میں شفق سے بولا جس نے صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کیا کیونکہ ان کی توجہ اب تیمور صاحب کی طرف تھی جو مائک میں کچھ بول رہے تھے۔۔۔۔

لیڈیز ایندڈ جینٹل مین آج صرف میری بیٹی کا نکاح ہی نہیں بلکہ میرے بیٹے کا ریسپشن بھی ہے ۔۔۔۔ میرے بیٹے کا نکاح کچھ عرصے پہلے ہوا تھا مگر کچھ وجوہات کی بنا پر فنکشن ارینج نہیں کرپائے تھے ۔۔۔۔۔۔

ایوری ون ویلک مائی سن شاہزین اینڈ مائی ڈاٹر ان لا حورالعین۔۔۔۔۔

تیمور صاحب کے بولتے ہی سپوٹ لائٹ اینٹریس کی طرف سب متوجہ ہوئے جہاں حورالعین گولڈن میکسی پہنے شاہزین کے بازو میں اپنا بازو ڈالے کھڑی تھی جبکہ شاہزین ڈارک بلیو پینٹ کوٹ پہنے اپنے دوسری طرف ہادی کو لیے کھڑا تھا جس نے شاہزین کے جیسا ہی سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔۔

سب کی توجہ اپنی جانب پاکر حور ہلکا ہلکا کانپنے لگ پڑی تھی۔۔۔۔۔

حور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نہ تمھارے ساتھ۔۔۔ بس تم گہرا سانس لو اور میرے ساتھ چلنا شروع کرو۔۔۔۔۔

شاہزین نے دھیمی آواز میں مسکراتے ہوئے حور سے کہا جو اس کے کہے پر عمل کر رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ دوسری طرف سٹیج پر بیٹھے ارقم نے حیرت سے حور اور ہادی کو شاہزین کے ساتھ دیکھا جبکہ ہاشم بھی حور اور ہادی کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

رمنا بیگم ، علیشبہ اور حدید صاحب بھی حیرت سے حور اور ہادی کو شاہزین کے ساتھ دیکھ رہے تھے مگر وہ یہ سوچ کر تھوڑا پرسکون ہوگئے تھے کہ دونوں ٹھیک ہیں۔۔۔۔

حور نے گہرا سانس لے کر سامنے سٹیج کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہاشم ارقم علیشبہ اور رمنا بیگم کو دیکھ کر اسطکے چہرے پر ایک سایہ لہرایا تھا مگر اس نے جلد ہی اپنے چہرے کے تاثرات ایسے کر لیے جیسے انھیں جانتی ہی نہ ہو بلکہ اس نے ایک نظر شاہزین کو دیکھا جس نے ہلکا سا اس کا ہاتھ دبا کر اسے تسلی دی تھی۔۔۔۔۔

اس نے پہلے ہی اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ شاہزین کو بتا دیا تھا اور شاہزین بھی ان سب کے بارے میں جانتا تھا۔۔۔۔۔۔

عینی نے ایک گہرا سانس خارج کر کے اپنے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ قائم کر کے سامنے کی طرف دیکھا جہاں سب اس کی طرف ہی متوجہ تھے اور ہھر اس نے ہادی کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے آنکھوں سے ہادی کو تسلی دی جو مسکراتے ہوئے ہی شاہزین کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔۔۔

سحر بیگم اور شفق بھی حیران تھیں کہ شاہزین کو عینی کب ملی اور اس نے انھیں کیوں نہیں بتایا تھا۔۔۔۔۔

حور کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر وہاں موجود سب لوگوں کو پتا چل گیا تھا کہ اس کی مسکراہٹ کیا کہہ رہی ہے وہ انھیں بتا رہی تھی کہ دیکھ لیں آپ لوگوں کے چھوڑنے کے بعد بھی میں الحمداللہ بہتر حالت میں ہوں۔۔۔۔۔

شفق اور ارقم کے ساتھ ہی سٹیج پر ایک سائیڈ پر ان کے لیے سیٹ اپ کیا گیا تھا جو پہلے انہیں نہیں پتا تھا کہ کس لیے ہے لیکن اب سب کو پتا چل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔

شاہزین نے پہلے ہادی کو سٹیج پر بھیج کر پھر خود چڑھ کر عینی کو ہاتھ دے کر اوپر سٹیج پر چڑھایا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اسے اپنے ساتھ بیٹھایا۔۔۔۔۔

ان کے بیٹھتے ہی بہت سے لوگ ان کو مبارک باد دینے آنے لگے جسے حور اور شاہزین مسکراتے ہوئے وصول کر رہے تھے۔۔۔۔۔

جب سٹیج پر تھوڑا رش کم ہوا تو رمنا بیگم عینی کے قریب آئیں اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کا سر چومنے لگیں کہ عینی نے فورا اپنا رخ موڑ لیا۔۔۔۔۔

حور چندا کیسی ہو تم ؟؟؟ ہم تمھارے لیے بہت فکر مند تھے

رمنا بیگم نے آہستہ سے عینی سے پوچھا۔۔۔۔

معذرت کے ساتھ آنٹی کیا میں آپ کو جانتی ہوں ؟؟؟؟

عینی نے انجان بن کر پوچھا تو رمنا بیگم کے چہرے پر ایک سایہ لہرایا ۔۔۔۔۔ عینی اب تک بھولی نہیں تھی کہ کیسے ان لوگوں نے اسے اور ہادی کو ہاشم کے ساتھ ہمیشہ کے لیے حویلی سے نکال دیا تھا۔۔۔۔

آنٹی کیا کوئی مسئلہ ہے ؟؟

شاہزین نے رمنا بیگم سے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاتی بولی

نہیں بیٹا آپ لوگوں کو بہت مبارک ہو اللہ آپ لوگوں کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔۔

وہ دعا دیتی اداسی سے عینی کے پاس سے اٹھ گئی جس نے ایک نگاہ غلط بھی ان میں سے کسی پر دوبارہ نہیں ڈالی تھی۔۔۔۔۔

ہاشم حور اور ہادی کے پاس جا کر ان سے بات کرنا چاہتا تھا مگر رمنا بیگم نے آکر اسے منع کر دیا اور اسے گھر جا کر بات کرنے کا کہا تو وہ بس گہری سانس ہی بھر کر رہ گیا رمنا بیگم کے چہرے سے اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔۔۔۔۔


حور تم ٹھیک ہو ؟؟ اگر ویکنس ہورہی ہے تو میں ڈیڈ سے بات کرتا ہوں پھر گھر چلتے ہیں۔۔۔۔۔


شاہزین نے حور سے کہا جو تھکی ہوئی لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔


نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں شاہزین۔۔۔۔۔


وہ مسکرا کر شاہزین سے بولی تو شاہزین نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔۔


تم دو منٹ انتظار کرو میں تمھارے اور ہادی کے لیے کھانا ٹیبل پر لگواتا ہوں ۔۔۔۔۔


وہ حور کا ہاتھ دبا کر اپنی جگہ سے اٹھا تو حور بس سر ہی ہلکا سکی۔۔۔۔۔


وہ اور ہادی اکیلے بیٹھے تھے کیونکہ کھانا کھل چکا تھا تو اس وقت سب کھانے میں مصروف تھے۔۔۔۔


علیشبہ حور کو اکیلا دیکھ کر اس کے پاس آکر بیٹھی ۔۔۔۔۔


عینی کیسی ہو تم ؟؟ ماشااللہ بہت خوبصورت لگ رہی ہو تم ۔۔۔۔۔


شکریہ۔۔۔۔


ایک لفظ میں جواب دیا گیا ۔۔۔۔


اور ہادی تم کیسے ہو چھوٹو۔۔۔۔


وہ جیسا بھی آپ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔


حور نے سنجیدگی سے علیشبہ کو جواب دیا جو اپنی جگہ شرمندہ سی ہوگئی۔۔۔۔


حور تم ایسا کیوں کر رہی ہو یار ہم سب تمھارے لیے بہت پریشان تھے۔۔۔۔۔۔


علیشبہ کی بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا شاہزین کے واپس آتے ہی علیشبہ مایوسی سے حور کے قریب سے اٹھ گئی۔۔۔۔۔


کھانا کھانے کے بعد رمنا بیگم نے سحر بیگم سے بات کی کہ وہ لوگ ان کے گھر جانا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ضروری بات کرنی ہے سحر بیگم ان کی بات سن کر اپنی رضامندی دی اور سٹیج پر پہلی بار حور کے قریب گئیں ورنہ وہ تب کی بس ادھر ادھر ہی مصروف تھیں۔۔۔۔


وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب بیٹھی تو حور نے ایک نظر انھیں دیکھ کر دوبارہ اپنی نظریں جھکا لیں۔۔۔۔


شاہزین تم نے مجھے بتایا نہیں کہ حور تمہیں کب ملی ؟؟؟


سحر بیگم نے دھیمی آواز میں شاہزین سے پوچھا۔۔۔۔۔


آپ فکر مت کریں موم حور میرے ساتھ اپارٹمنٹ میں جائے گی آپ کے گھر نہیں۔۔۔۔


شاہزین نے سحر بیگم کو جواب دیا۔۔۔۔


شاہزین میرا یہ مطلب نہیں تھا اور اب حور اور ہادی ہمارے ساتھ گھر جائیں گے بس اب مزید کوئی بحث نہیں ہوگی۔۔۔۔۔


سحر بیگم کی بات سن کر شاہزین نے ان کی طرف دیکھا جو اسے گھور رہی تھیں۔۔۔۔


شاہزین نے سر جھٹک کر حور کو دیکھا جو خاموش بیٹھی تھی وہ اس کی خاموشی کی وجہ اچھے سے جانتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ ایک بار وہ اپنے گھر والوں سے مل لے۔۔۔۔


****************


سب لوگ اس وقت گھر کے لاؤنچ میں بیٹھے تھے عینی نے شاہزین سے کہہ کر ہادی کو کمرے میں بھجوا دیا تھا کیونکہ وہ تھک گیا تھا اور اسے نیند آرہی تھی۔۔۔۔


اس وقت لاؤنچ میں سب لوگ موجود تھے سوائے ہادی کے۔۔۔۔۔


حورالعین بچے ہمیں تم سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔


اچانک حدید صاحب نے عینی سے کہا تو سب اس کی جانب متوجہ ہوگئے جبکہ سحر بیگم ، شفق اور تیمور صاحب نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا ۔۔۔۔


یہ میری بہن کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔اور حدید کے بھائی کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔


رمنا بیگم نے ان کی سوالیہ نظروں کا جواب دیا تو سحر بیگم ، شفق اور تیمور صاحب نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔


نہیں۔۔۔۔۔ اور میں آپ کو نہیں جانتی ؟؟؟ کون ہیں آپ کوگ ؟؟؟


عینی نے مضبوط آواز میں ان سے پوچھا جبکہ شاہزین اس کا ہاتھ پکڑے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔۔۔۔


حور ہماری بات تو سن لو ایک بار۔۔۔۔۔


ہاشم نے اس بار حور سے کہا۔۔۔۔۔۔


کونسی بات ؟؟ مجھے آپ لوگوں کی کوئی بات نہیں سننی ؟؟


عینی نے کہا۔۔۔۔۔ سب لوگ اس کی طرف ہی متوجہ تھے جو اپنے لبوں کو بھینچے انھیں جواب دے رہی تھی۔۔۔۔


میں مانتا ہوں حور میری غلطی ہے تم میری غلطی کی سزا چچا چچی کو مت دو ۔۔۔۔۔


ہاشم نے حور سے کہا۔۔۔۔۔۔۔


کونسے چچا چچی ؟؟ وہ جنہوں نے مجھے اور ہادی کو آپ کی بیوی کی غلطی کی وجہ سے حویلی سے بے دخل کر دیا یا وہ میرا چچا زاد بھائی جسے میں نے مشکل وقت میں مدد کے لیے پکارا تو مجھے صاف انکار کر گیا۔۔۔۔۔


وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی بولی پہلے تو سب نے نظریں جھکائی پھر سب کی نگاہیں ارقم کی جانب اٹھیں۔۔۔۔۔


ارقم کیا حور کا تمھیں فون آیا تھا ؟؟


رمنا بیگم نے ارقم سے پوچھا


امی میری بات سنیں۔۔۔۔۔


ہاں یا نہ میں جواب دو ۔۔۔۔


رمنا بیگم نے ارقم سے پوچھا جو مضطرب سا کھڑا تھا۔۔۔۔۔


ہاں۔۔۔۔


مجھے بلکل امید نہیں تھی کہ تم بھی ہاشم جیسے ہو گے آخر کیسی بھول گئی تم دونوں تو ایک دوسرے کا عکس ہو بدلہ ضرور لیتے ہو۔۔۔۔


رمنا بیگم نے اسے غصے سے کہا جو اب شرمندگی سے لب بھینچے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔۔جبکہ سب انھیں کی جانب متوجہ تھے


حور چندا ہمیں اس بارے میں بلکل نہیں پتا تھا ورنہ میں کبھی تمھیں ایسے بھٹکنے نہ دیتی ۔۔۔۔۔ بس ہمیں ایک موقع دو ہم تمھیں اور ہادیکو کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گے۔۔۔


رمنا بیگم نے کہا


حور بچے پلیز مجھے بھی ایک موقع دو میں تمھاری اور ہادی کی ہر تکلیف کا مداوا کر دوں گا۔۔۔۔۔


ہاشم نے عینی سے کہا جو خاموشی سے انھیں دیکھ رہی تھی مگر ہاشم کی بات سن کر وہ تیزی سے اس کی جانب آئی اور چیختے ہوئے بولی۔۔۔۔


کیا آپ در بدر کی ٹھوکریں کھاسکتے ہیں ؟؟ جب آپ لوگ اپنے گھروں مزے سے آرام کر رہے تھے تب میں نے لوگوں کے گھروں میں کام کیا ان کی مار کھائی ہے کیا آپ میری جگہ یہ سب کریں گے ؟؟؟ کیا آپ میری جگہ رہ سکتے ہیں جہاں مسلسل میں اپنی عزت کے خطرے میں رہتی تھی ؟؟ کیا آپ سوکھی روٹی کھا سکتے ہیں ؟؟ کیا آپ ہماری جگہ بھوکے رہ سکتے ہیں ؟؟؟ کیا آپ ہادی کی جگہ سڑھیوں سے گر سکتے ہیں ؟؟ جب آپ اپنی دوسری شادی کی تیاری میں تھے تب میں ہوسپٹل میں ہادی کے ساتھ تھی جانتے ہیں کیسا لگتا ہے جب اپنا کوئی مر رہا ہو اور آپ کے پاس کوئی مدد کا وسیلہ نہ ہو اور آپ کے جان سے پیارے بھائی کی سانسیں لمحہ بہ لمحہ ختم ہو رہی ہوں کہاں تھے آپ جب مجھے اور ہادی کو آپ کی ضرورت تھی جواب دیں ۔۔۔۔۔


وہ بولتی ہوئی سحر بیگم ، شاہزین اور وہاں موجود ہر شخص کو شرمندہ کر گئی تھی


میں آپ کو بتاتی ہوں جب میں اور ہادی گرم تپتی ہوا میں دن رات گزارتے تھے تب آپ اے سی والے کمرے میں ہوتے تھے ۔۔۔۔۔ جب ہم مشکل میں تھے تب آپ اپنی پارٹیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔


اس کی آنکھوں میں نمی جمع ہونے لگ پڑی تھی ۔۔۔۔


میں جانتی ہوں اس وقت مجھ سے آپ ایک موقع کیوں چاہتے ہیں ؟؟؟ چلیں میں آپ کو بتاتی ہوں آپ بے سکون ہیں آپ کو سکون نہیں ملتا راتوں کو جاگتے ہوں گیں کیونکہ آپ کا ضمیر آپ کو سونے نہیں دیتا ہو گا لیکن یہ جو آپ میرے سامنے کھڑے میری فضول باتوں کو سن رہے ہیں یہ بھی اپنے مطلب کے لیے ۔۔۔۔۔


وہ بولتی ہوئی اب ہانپنے لگی تھی شاہزین نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے تھاما اور جلدی سے ملازمہ سے پانی کا گلاس منگوایا۔۔۔۔۔


اس نے عینی کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگایا۔۔۔۔۔


ششش۔۔۔۔ خود کو سنبھالو حور۔۔۔۔۔


عینی نے تھوڑا سا پانی پینے کے بعد اپنا چہرہ شاہزین کے سینے میں چھپا لیا اور زور و شور سے رونے لگی۔۔۔۔۔۔


ہاشم نے پشیمانی اور دکھ سے حور کو دیکھا جبکہ اسے روتے دیکھ سب کی آنکھیں ہی نم ہوگئی تھیں۔۔۔۔۔


ش۔۔۔۔شاہزین یہ س۔۔۔سب اپنے م۔۔۔مطلب کے لیے آئے ہیں انھیں مجھ سے اور ہادی سے کوئی واسطہ ن۔۔۔۔نہیں ہے ی۔۔۔یہ سب مطلب پ۔۔۔پرست ہیں۔۔۔۔


وہ روتے ہوئے شاہزین کو بتا رہی تھی جس نے مضبوطی سے اسے خود میں بھینچا یوا تھا جبکہ ضبط سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا عینی کے آنسو دیکھ کر اسے شدت اپنے دل میں درد اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔


اچانک عینی شاہزین کے باہوں میں بے ہوش ہو کر جھول گئی تھی۔۔۔۔


حور ۔۔۔۔حور۔۔۔۔


شاہزین نے اس کا گال تھپتھپا کراسے اٹھانا چاہا۔۔۔


کسی لیڈی ڈاکٹر کو بلائیں ڈیڈ ۔۔۔۔


وہ پریشانی سے حور کو اٹھاتا چیختے ہوئے بولا جبکہ سب حور کو بےہوش دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے۔۔۔۔۔


*****************


میری بیوی اب کیسی ہے ڈاکٹر ؟؟


ڈاکٹر چیک کر کے باہر آئی تو شاہزین نے فورا پوچھا


آپ کو پتا ہے ان کو ایسی کنڈیشن میں سٹریس لینا ان کے اور بےبی کے لیے کتنا خطرناک ہے میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ ان کو کافی ویکنس ہے اس لیے انھیں کسی بھی طرح کی پریشانی سے دور رکھیے گا۔۔۔


ڈاکٹر برہمی سے بولی۔۔۔۔


آپ پلیز یہ بتائیں اب وہ کیسی ہے ؟؟


شاہزین نے پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پوچھا جبکہ سب حیرانی سے شاہزین کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔کیونکہ اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا۔۔۔۔


میں نے انھیں انجیکشن لگا دیا ہے وہ اب کافی بہتر ہیں تھوڑی دیر انھیں آرام کرنے دیں اور انہیں ہر طرح کی پریشانی سے دور رکھیں اور یہ کچھ میڈسنز میں نے لکھ دی ہیں یہ انھیں ٹائم پر دے دیجیے گا۔۔۔۔


ڈاکٹر نے بتایا تو شاہزین نے جلدی سے ملازمہ کو گارڈ سے بول کر دوائیاں منگوانے کا کہا اور تیزی سے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔


عینی کے قریب جاکر اس نے محبت سے اس کا ماتھا چوما اس کی آنکھوں پر آنسوؤں کے میٹے میٹے نشان دیکھ کر اس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی اور اس کی آنکھوں کو چوما۔۔۔۔۔

وہ پیچھے ہٹا اور عینی کے اوپر کمفرٹر صحیح کرکے باہر چلا گیا جہاں سب اس کا انتظار کر رہ تھے۔۔۔۔

شاہزین تم بتانا پسند کرو گے ڈاکٹر کیا کہہ رہی تھی۔۔۔۔

تیمور صاحب نے شاہزین کے باہر آتے ہی اس سے پوچھا ۔۔۔

ڈیڈ مجھے خود کل پتا چلا تھا میں آپ کو صحیح وقت پر بتانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اور آپ لوگ پلیز اب حور سے مت ملیے گا جب اس کا دل کرے گا میں آپ لوگوں کو اس سے ملنے کے لیے بلا لوں گا ابھی اسے تھوڑا وقت دیں وہ ٹھیک ہوجائے گی ابھی وہ غصے میں ہے اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے دیں اس نے بہت مشکلات برداشت کی ہیں۔۔۔۔۔

شاہزین پہلے تیمور صاحب سے پھر خاموش کھڑے ہاشم اور دوسرے لوگوں سے بولا کو پشیمانی سے نظریں جھکائے کھڑے تھے۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر ہم چلتے ہیں دوبارہ ملنے آئیں گے۔۔۔۔

رمنا بیگم بولی اور پھر سب سے مل کر وہ لوگ واپس چلے گئے۔۔۔

شاہزین اتنی بڑی خوشی کی خبر تم نے ہم سے کیوں چھپائی۔۔۔۔

سحر بیگم نے خوشی سے شاہزین کی طرف دیکھ کر پوچھا

اگر بتا دیتا تو کیا آپ میری بیوی کو قبول کر لیتی موم ؟؟ یا پھر اسے تھپڑ مارتیں ؟؟ یا پھر اسے زلیل کرتیں ؟؟؟

اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو سحر بیگم شرمندہ سی ہوگئی۔۔۔۔

شاہزین میں اسے کبھی نہیں کروں گی مجھے لگتا تھا کہ وہ تمھیں مجھ سے چھین رہی ہے اسی وجہ سے میں اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتی تھی۔۔۔۔۔

موم آپ کو وہ شروع سے ہی پسند نہیں تھی جبکہ اس نے کبھی آپ کو کچھ نہیں کہا تھا آپ نے ایک مظلوم پر ظلم کیا ہے ۔۔۔۔۔

موم فلحال ابھی میں مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔ صبح بات کریں گے۔۔۔۔

سحر بیگم کی بات سن کر وہ سنجیدگی سے بولا اور واپس اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ سحر بیگم بھی شرمندہ سی تیمور صاحب کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔

شاہزین نے کمرے میں آکر فریش ہوکر عینی کا سارا زیور اتار کر سائیڈ پر رکھا اور اسے اپنے حصار میں لیے لیٹ گیا۔۔۔۔

*****************

ایک ہفتے بعد :

موم میں بور ہو رہی ہوں میں آپ کی مدد کروا دوں ۔۔۔۔

عینی لجاجت سے سحر بیگم سے بولی۔۔۔۔

بلکل نہیں حور فورا جاکر آرام سے لاؤنچ میں بیٹھو۔۔۔۔۔ میں جوس بھیجتی ہوں تم ہ پیو۔۔۔۔

سحر بیگم نے اس سے کہا۔۔۔۔

لیکن میں فارغ ہوں آپ مجھے کوئی کام دے دیں میں وہ کر لوں۔۔۔۔

عینی نے پھر سے سحر بیگم سے کہا تو انھوں نے اسے ایک گھوری سے نوازا ۔۔۔۔۔

جاؤ شاباش باہر جاکر بیٹھو اگر شاہزین نے تمھیں اسے گرمی میں کیچن میں کھڑے دیکھ لیا تو گھر آسمان پر اٹھا لے گا۔۔۔۔۔

اوکے موم جانی۔۔۔۔

وہ باہر آکر پھر بور ہونے لگ پڑی تھی۔۔۔۔۔

اس ایک ہفتے میں اس نے خود کو سنبھال لیا تھا سحر بیگم نے اس کے ریسپشن کے اگلے دن ہی اس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی جب اس نے اپنا دل بڑا کر کے انھیں معاف کر دیا تھا وہ تب سے ہی اس کا ہر طرح سے خیال رکھ رہی تھیں اس نے ابھی تک اپنے گھر والوں سے بات نہیں کی تھی اور نہ ہی دوبارہ ملی تھی مگر پھر آج اس نے دوبارہ سب سے ملنے کا سوچا تھا ۔۔۔۔

اسی وجہ سے سحر بیگم کچن میں مصروف دعوت کا انتظام کروا رہی تھیں کیونکہ آج سب نے ان کے گھر آنا تھا۔۔۔۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ سب کو معاف کر دے گی مگر ہادی کو اپنے ساتھ ہی رکھے گی اسے کسی کے پاس نہیں بھیجے گی جس میں اس کا ساتھ شاہزین بھی دے رہا تھا

سحر بیگم کے کہنے پر وہ اس وقت تیار ہونے اپنے روم میں آئی تھی کیونکہ تھوڑی دیر تک سب نے آجانا تھا وہ اپنا سوٹ الماری سے نکال کر فریش ہونے چلی گئی تھی۔۔۔۔


وہ فریش ہوکر آئی تو اس نے جلدی سے اپنے بال سکھا کر انھیں خوبصورت سے انداز میں بنایا اور شاہزین کے آنے کا سوچ کر اس کے کپڑے الماری سے نکال کر بیڈ پر رکھے اور خود ہادی کو اٹھانے دوسرے کمرے میں چلی گئی جو سکول سے آکر سو گیا تھا۔۔۔۔۔


ہادی ہادی۔۔۔۔شاباش اٹھو اور فریش ہو کر کپڑے بدلو مہمان آنے والے ہیں۔۔۔۔


عینی نے ہادی کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے جگایا۔۔۔۔۔


آپی پلیز تھوڑی دیر اور سونے دیں۔۔۔۔


ہادی نے بند آنکھوں سے ہی معصومیت سے کہا


بلکل نہیں ہادی جلدی سے اٹھو اور فریش ہو اگر تم نے میری بات نہ مانی تو شاہزین کو تمھاری شکایت لگاؤں گی پھر وہ جب تمہیں ایک ہفتے تک کرکٹ کھیلنے اور ٹی وی دیکھنے نہیں دے گا تو پھر مجھے مت کہنا۔۔۔۔۔


عینی نے اسے دھمکایا تو وہ فورا ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔


عینی آپی آپ بہت ظالم ہیں ۔۔۔۔۔


ہادی نے بیڈ سے اترتے ہوئے عینی کو کہا جو اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔۔۔۔


*****************


تھوڑی دیر بعد رمنا بیگم حدید صاحب ارقم ہاشم اور علیشبہ سب ان کے گھر موجود تھے حور اور ہادی سے وہ لوگ مل چکے تھے حور سلام دعا کے علاوہ کچھ نہیں بولی تھی ۔۔۔۔۔


لیکن وہ کم از کم آج ان سے مسکرا کر بات کر رہی تھی۔۔۔۔۔


حور چندا کیسی طبیعت ہے اب تمھاری۔۔۔۔۔۔۔۔


رمنا بیگم نے حور کو مسکراتے دیکھ پوچھا۔۔۔۔۔


الحمداللہ چچی جان اب میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔اور علیشبہ آپی آپ کو نکاح کی بہت مبارک ہو ۔۔۔۔۔


حور نے مسکراتے ہوئے جواب دیا وہ مزید بدمزگی نہیں چاہتی تھی اب وہ سکون سے شاہزین کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی جس میں کوئی پچھتاوا نہ ہو۔۔۔۔۔


شکریہ حور تمھیں بھی مبارک ہو ۔۔۔۔۔


علیشبہ نے حور سے کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلایا ۔۔۔۔۔


آپ لوگ بیٹھے میں زرا ہادی کو دیکھ کر آتی ہوں کب سے اسے میں نے کہا تھا فریش ہو جاؤ لگتا ہے دوبارہ سوگیا ہے۔۔۔۔


***************


شفق علیشبہ کے ساتھ بیٹھی تھی جب اسے خود پر کسی کی نظریں محسوس ہوئیں اس نے دیکھا تو ارقم اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔


نکاح کے بعد وہ ایک بار بھی مل نہیں سکے تھے لیکن فون پر بات ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔


ارقم نے سب کو ایک نظر دیکھا جو باتوں میں مصروف تھے اور ایک نظر شفق کو دیکھ کر جلدی سے آنکھ ماری جو آنکھیں پھیلائے اس کی حرکت پر جلدی سے اپنا رخ موڑ گئی تھی۔۔۔۔


بس کرو ارقم اسے نظروں سے مارنے کا ارادہ ہے دیکھو بیچاری کیسے ڈر رہی ہے۔۔۔۔ اور اپنی یہ نظریں تھوڑی قابو میں رکھو یہ نہ کہ کوئی دیکھ لے اور پھر تمھاری خوب عزت افزائی ہو۔۔۔۔


ہاشم نے اس کی حرکت دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔


اللہ کا نام لیں بھائی میں کب دیکھ رہا ہوں اور آپ بھی تو اپنی منکوحہ کو تب سے گھور ہی رہے ہیں یہ مت سوچیے گا کہ کوئی دیکھ نہیں رہا اور میں نے آپ کی نکاح والے دن عالی سے ملاقات کروائی تھی آج آپ میری ملاقات شفق زے کروائیں ۔۔۔۔۔۔


ارقم نے ہاشم سے کہا ۔۔۔۔۔


لو بھئی یہ کام تو تمھاری بہن ہی کر سکتی ہے پہلے حور سے بات کرلیں پھر جانے سے پہلے ایک بار تمھیں شفق سے ملوا دیں گے ۔۔۔۔۔


ہاشم نے اسے کہا تو وہ صرف منہ بنا کر ہی رہ گیا۔۔۔۔


اگر آپ نے مجھے آج شفق سے نہیں ملوایا تو پھر عالی کی رخصتی تین ماہ بعد کرواؤں گا۔۔۔۔۔


تم جیسا کمینہ سالا میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ارقم۔۔۔۔۔


ہاشم ارقم کی بات سن کر اسے گھورتے ہوئے بولا۔۔۔۔


آپ کو مجھ جیسا سالہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنا تھا۔۔۔۔۔


وہ بتیسی دکھاتا ہوا بولا۔۔۔۔تو ہاشم نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے اپنا رخ شاہزین کی طرف کیا جو کوئی بات کر رہا تھا


******************


خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے کے بعد سب اس وقت لان میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔۔۔۔


حور ہم نے تمھارے ساتھ اور ہادی کے ساتھ جو کیا ہم اس پر شرمندہ ہیں ہم نے تمھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی تھی مگر ناکامی کے علاوہ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوسکا مجھے امید ہے کہ تم ہمیں اپنی ساتھ کی گئی زیادتیوں کے لیے معاف کر دو گی۔۔۔۔۔۔


رمنا بیگم نے اچانک حور سے کہا تو سب ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔۔۔۔۔


چچی جان سب کچھ بھولنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن پھر بھی میں نے آپ سب لوگوں کو دل سے معاف کر دیا ہے۔۔۔۔


وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔۔۔


حور بچے مجھے معاف کر دو یقین کرو مجھے اس وقت سچائی کا علم نہیں تھا مجھے بس اتنا ہی پتا تھا کہ تم لوگ حویلی چلے گئے ہو میں جانتا ہو کہ میں ایک اچھا بھائی نہیں بن سکا مگر تم نے پھر بھی ہمیشہ میرا خیال رکھا اور میں نے ہی تمھیں دربدر کر دیا۔۔۔۔۔


ہاشم شرمندگی سے عینی کے پاس آکر بولا جس نے اپنے لب کاٹتے ہوئے اسے دیکھا اور بولی۔۔۔۔۔


میں نے آپ کو معاف کیا ہاشم۔۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔


بہت شکریہ بچے تمھارا دل بہت بڑا ہے کاش میں بھی اپنا دل اتنا بڑا کر لیتا تو تم لوگ کے ساتھ کبھی ایسا نہ ہوتا اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ ہادی کو اب تم ہمارے پاس بھیج دو۔۔۔۔۔


ہاشم بولا تو حور غصے سے بولی۔۔۔۔


میں نے بے شک آپ کو معاف کر دیا ہے لیکن ہادی کو کبھی بھی میں آپ لوگوں کے حوالے نہیں کروں گی اور جو شخص ایک بار ہمیں گھر سے نکال سکتا ہے وہ دوسری بار پھر ہادی کو گھر سے نکال سکتا ہے مجھے آپ پر بلکل بھی بھروسہ نہیں ہے اور میں نے صرف اس وجہ سے آپ کو معاف کیا ہے تاکہ میں خود سکون سے رہ سکوں۔۔۔۔


ٹھیک ہے حور جیسا تم چاہتی ہو ویسا ہی ہوگا ہادی تمھارے پاس ہی رہے گا۔۔۔۔۔


ہاشم نے حور کی بات سن کر مایوسی سے کہا۔۔۔۔۔


ہاشم بھائی میں نے اسے بہن کم ماں زیادہ بن کر پالا میں اسے خود سے دور نہیں کر سکتی۔۔۔۔


حور نے دھیمی آواز میں کہا تو ہاشم نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔


تم بلکل سہی کہہ رہی ہو ہادی کو تم ہی اپنے پاس رکھنے کی حق دار ہو ۔۔۔۔


اس کے بعد سب ہی خوش ہو گئے تھے کیونکہ سارا ماحول ہی بدل گیا تھا پہلے پھر بھی سب میں تھوڑا تناؤ تھا مگر اب وہ بھی ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔


************


مجھے پانی پینا ہے آنٹی کیا آ بتائیں گی کچن کس طرف ہے۔۔۔۔


ارقم نے عالی اور شفق کے کچن میں جانے کے تھوڑی دیر بعد پوچھا


رکو بیٹا اگر میں پانی منگوا دیتی ہوں ۔۔۔۔


سحر بیگم نے کہا۔۔۔۔


ارے نہیں آنٹی کوئی بات نہیں آپ بتا دیں میں چلا جاتا ہوں۔۔۔۔


سحر بیگم نے اسے کچن کا راستہ بتایا جو وہ پہلے ہی کھاتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔ وہ آرام سے ہاشم کو دانت دکھاتا اٹھا اور اندر چلا گیا۔۔۔۔۔


اہم اہم۔۔۔۔


ارقم نے کچن میں آکر ہلکا سا کھانسا تو عالی اور شفق دونوں اس کی جانب متوجہ ہوئیں ۔۔۔۔


علیشبہ ارقم کا اشارہ دیکھتے ہی کچن سے چلی گئی ۔۔۔۔


نکاح مبارک ہو شفی ۔۔۔۔۔


وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر بولا۔۔۔۔


جانتا ہوں تھوڑا لیٹ بولا ہے مگر میں تمھیں خود مل کر کہنا چاہتا تھا۔۔۔۔


اس کے بولنے پر شفق کے چہرہ پر حسین مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔۔۔۔


ارقم حدید بخت آپ کو بھی نکاح کی بہت مبارک ہو۔۔۔۔


وہ نظریں جھکا کر بولی۔۔۔۔تو ارقم نے مسکراتے ہوئے جھک کر اس کا گال چوما جو سرخ ہوچکا تھا۔۔۔۔


شفق نے اپنی گال پر رکھتے ہوئے آنکھیں جھپک جھپک کر اسے دیکھا تو ارقم نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر کر اس کے دوسرے گال پر بھی مسکراتے ہوئے لب رکھے۔۔۔۔


تم اس وقت اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ دل کر رہا ہے کہ ابھی اپنے ساتھ لے جاؤں ۔۔۔۔۔


وہ اس کے کان کے قریب جھک کر بولا اور اس کی کان کی لو پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔


ارقم جائیں کوئی اندر آجائے گا۔۔۔۔


شفق اس کا لمس محسوس کر کے ساری کی ساری سرخ ہوچکی تھی


جا رہا ہوں مسز ارقم حدید بخت ۔۔۔۔


وہ اس کے سر کو چوم کر بولا اور ایک نظر اس کے سرخ چہرے پر ڈالتے ہوئے سیٹی بجاتے ہوئے باہر چلا گیا۔۔۔۔۔


**************


ایک مہینے بعد :


وہ دولہن بنی سجی سنوری اس وقت ہاشم کے کمرے میں بیٹھی تھی آخر وہ وقت آ ہی گیا جس کا اس نے سالوں انتظار کیا تھا ۔۔۔۔۔


آج وہ اپنی محبت پاچکی تھی اس کا ستمحر محبوب آج اس کا محرم بن چکا تھا اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی محبت کو منزل مل گئی ہے کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنی محبت مل جائے ۔۔۔۔۔


ہاشم کمرے میں داخل ہوا تو علیشبہ نظریں جھکائے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے مضبوط قدم اٹھتا عالی کے پاس آیا جو اس کی موجودگی محسوس کر کے گھبراہٹ سے اپنے لب کاٹ رہی تھی۔۔۔۔


وہ عالی کے قریب بیٹھتا ہوا اپنی جیب سے ڈبی نکال کر جس میں انگوٹھی موجود تھی اسے باہر نکالا اور اپنا ہاتھ عالی کے سامنے بڑھایا جس نے بنا جھجھک کے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تھا۔۔۔۔


ہاشم نے انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنائی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے اسے چوما۔۔۔۔۔


ہاشم کا لمس محسوس کر کے اس نے ہاشم کی طرف دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا


وہ دونوں ہی خاموش تھے ان کے پاس کچھ کہنے کو تھا ہی نہیں۔۔۔۔ کمرے کی خاموشی میں بس دونوں کی دھڑکنیں رقص کر رہی تھیں۔۔۔۔


ہاشم نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوما اور گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔۔


تم میری پہلے نہیں مگر آخری محبت ضرور بنو گی اور یاد رکھنا محبت سے کئی زیادہ میں تمھارا احترام کرتا ہوں۔۔۔۔


ہاشم نے اس کا دوپٹہ پنوں سے آزاد کروا کر اس کی گردن پر اپنے دہکتے لب رکھے تو وہ کانپ کر رہی گئی۔۔۔۔


ہ۔۔۔۔ہاش


ابھی وہ ہاشم کو پکارتی کہ ہاشم نے اس کے باقی لفظ اس کے گداز ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے کر روک دیے ۔۔۔۔


تھوڑی دیر بعد وہ اس سے دور ہوا اور اس کے چہرے پر جابجا اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔


عالی نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کر کے ہاشم کا لمس محسوس کر کے خود کو اس کے حوالے کر دیا۔۔۔۔


****************


ارقم بمشکل اپنے دوستوں سے جان چھڑوا کر کمرے میں داخل ہوا جہاں شفق اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔


کمرے میں موجود بھینی بھینی گلابوں کے پھولوں کی خوشبو ماحول کو خوابناک بنا رہی تھی۔۔۔۔


وہ مضبوط قدم اٹھاتا شفق کے پاس گیا جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔


اس نے مسکراتے ہوئے پہلے جھک کر شفق کا سر چوما۔۔۔۔۔


یار یہ کہیں میں دوسرے کمرے میں تو نہیں آگیا یہ میری بیوی اتنی خوبصورت کب سے ہوگئی۔۔۔۔


ارقم نے شفق کے پاس لیٹنے کے انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔


شفق نے اسے خشمگی نظروں سے دیکھا تو ارقم نے ہنستے ہوئے اس کا دوپٹہ پکڑ کر اسے آہستہ آہستہ کھیچتے ہوئےکہا۔۔۔۔


یار ایسی نظروں سے نہ دیکھو نکاح والے دن تم نے دیکھا تھا تو پھر تم سے ملاقات بھی نہیں ہو پائی تھی۔۔۔۔


وہ مسکین صورت بنا کر اسے مزید تنگ کرتے بولا۔۔۔۔


ارقم اگر آپ نے مجھے تنگ ہی کرنا ہے تو بتا دیں میں کپڑے بدل کر سوجاؤ۔۔۔۔


وہ اس سے دور ہونے کی کوشش کرتی بیڈ سے اترنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی


نہ میری جان مجھ پر ایسا ظلم مت کرنا ابھی تو میں نے تمھیں سہی سے دیکھا بھی نہیں ہے۔۔۔۔


وہ جلدی سے اس کا دوپٹہ چھوڑ کر اسے اپنی طرف کھینچتا ہوا بولا جو سیدھا اس کے اوپر آکر گرگئی تھی۔۔۔۔


ارقم نے جلدی سے شفق کی کمر کے گرد بازو ڈال کر اس کی دور ہونے کی کوشش ناکام بنا دی۔۔۔۔


ا۔ ۔ارقم چھوڑیں۔۔۔آپ بس یہاں ۔۔۔۔۔


ارقم نے جھک کر اس کے ہونٹوں کو ہلکا سا چھوا تو شفق کی زبان کو بریک لگی۔۔۔۔۔


ارقم نے مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھ کر جھک کر شدت سے اس کے دونوں گال چومے۔۔۔۔


اور اپنا ایک ہاتھ اہنی جیب سے نکال کر اس میں سے سونے کی چین نکالی اور شفق کی گردن میں چین ڈال کر اس کی گردن کو چوما۔۔۔۔۔


شفق نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ اس کے سینے میں چھپالیا جبکہ ارقم اب آہستہ آہستہ اس پر اپنا حصار تنگ کرتا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔


****************


عینی اس وقت چھت پر جارہی تھی کیونکہ شاہزین نے اسے چھت پر بلایا تھا۔۔۔۔۔


وہ اپنی ساڑھی سنبھالتی آہستہ آہستہ سڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی اور ٹیرس کا دروازہ کھول کر اوپر آئی تو ٹھنڈی ہوا اس کے جسم سے ٹکرائی جس سے وہ ہلکا سا کپکپا گئی تھی۔۔۔۔


وہ ٹیرس پر آگے بڑھی جہاں اندھیرا تھا وہ تھوڑا آگے بڑھی کہ اچانک چھوٹی چھوٹی لائٹوں سے راستہ بنا ہوا تھا وہ مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ کر آگے بڑھ رہی تھی کہ آگے جاکر اسے شاہزین پھول پکڑے کھڑا ملا۔۔۔۔۔


شاہزین نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور اسے ٹیبل کے پاس لایا جو پھولوں کی پتیوں سے سجایا ہوا تھا اس کے اوپر ایک کیک پڑا ہوا تھا جس پر ہیپی برتھ ڈے حورالعین لکھا ہوا تھا۔۔۔۔


عینی نے خوشی سے کیک کو دیکھا اور اپنے پنجوں کے بل اٹھتے ہوئے شاہزین کی گال پر لب رکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔


مجھے تو بھول ہی گیا تھا کہ آج میری سالگرہ ہے آپ کا بہت شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے اور اسے اتنا حسین بنانے کے لیے۔۔۔۔


وہ مسکرا کر بولتی کیک کی طرف مڑی اور شاہزین کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹا۔۔۔۔


ہیپی برتھ ڈے سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔


شاہزین نے اس کے منہ میں کیک ڈال کر اس کے گال پر لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔


عینی نے مسکراتے ہوئے کیک اس کے منہ میں ڈالا اور تھوڑا سا کیک اس کی ناک پڑ لگا کر ہنس پڑی۔۔۔۔


ایسے اچھے لگ رہے ہیں آپ۔۔۔۔


شاہزین نے اپنی ناک اس کی گال پر پھیر کر کیک صاف کیا تو عینی نے اس کی حرکت پر منہ بسورا لیکن شاہزین کو مسکراتے دیکھ خود بھی مسکرا پڑی


شاہزین نے عینی کو کمر سے تھام کر اپنے ساتھ لگایا اور اپنے قریب پڑے ریموٹ سے ہلکا ہلکامیوزک چلایا اور عینی کے بازوں اپنی گردن میں ڈال کر ڈانس کرنے لگا۔۔۔۔


شاہزین نے جھک کر اس کی خوبصورت معصومیت سے بھری آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھوا۔۔۔۔


تمھارے ساتھ میں زندگی گزار نہیں جی رہا ہو جب سے تم میری زندگی میں آئی ہو میری زندگی کا ایک نیا مقصد مجھے مل گیا ہے ۔۔۔۔ میں تم سے بے حد اور بے انتہا محبت کرتا ہوا۔۔۔۔۔


وہ جھک کر ہلکے سے اس کے لبوں کو چھو کر بولا اور جھک کر اس کی گردن پر بوسہ لے کر اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے ہلکا ڈانس کرنے لگا۔۔۔۔


****************


آٹھ سال بعد :


زیان فورا ادھر آؤ تم نے بیا ( علیشبہ اور ہاشم کی بیٹی ) کو کیوں مارا ہے۔۔۔۔


شفق نے چیخ کر اپنے بیٹے کو بلاتے ہوئے پوچھا


مما اس نے مجھے دھکا دیا تھا میں نے بھی اسے دھکا دے دیا۔۔۔۔۔


زیان نے آرام سے شفق کو بتایا۔۔۔۔

یار شفی جانے دو بچہ ہے اور بیا کو تم معصوم مت سمجھو ضرور اس نے ہی پہلے کچھ کہا ہوگا۔۔۔۔۔

علیشبہ نے شفق سے کہا۔۔۔۔

عالی تم نہیں جانتی یہ دن با دن بتمیز ہوتا جارہا ہے۔۔۔۔

شفق نے تپ کر اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہا جو بیا کو منہ چڑھا رہا تھا۔۔۔۔

پھوپھو میرے دوست کو مت ڈانٹیں ایسی شرارتیں تو سب کرتے ہیں۔۔۔۔

عاشر ( شاہزین اور عینی کا بیٹا ) نے شفق سے کہا۔۔۔

عاشر تم تو چپ ہی رہو پتا نہیں کیوں ہر وقت سب کے ابا بنے پھرتے ہوئے۔۔۔۔۔

عینی نے اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا

موم میں ایک عقلمند بچہ ہوں اسی وجہ سے سہی کا ساتھ دیتا ہوں۔۔۔۔

وہ مسکراتا ہوا بولا۔۔۔۔

افف بس کرو اور جاکر اپنی ایمان کو دیکھو کہاں ہے ؟؟

عینی نے کہا تو وہ ہنستے ہوئے بولا

موم آپ جانتی ہے وہ زیادہ تر نعمان ( علیشبہ اور ہاشم کا بڑا بیٹا ) کے پاس ہی پائی جاتی ہے۔۔۔

پھوپھو ایمان کو بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو دے دیں۔۔۔۔

ابھی عینی اسے کہتی کہ کمرے سے نعمان کی آواز اسے سنائی دی۔۔۔۔

نعمان جب بھی ایمان سے ملتا تھا تو اسے اپنے ساتھ ساتھ ہی رکھتا تھا

عاشر جا کر دیکھو ہادی کو کچھ چاہیے تو نہیں ابھی بچارا تھکا ہوا یونیورسٹی سے آیا۔۔۔

عینی نے کچن میں جاتے ہوئے عاشر سے کہا تو وہ ہادی کے پاس چلا گیا جبکہ شفق اور عالی اپنے اپنے بچوں کو سنبھالنے لگی تھیں جو اب تقریبا ایک دوسرے کے منہ نوچنے تک آگئے تھے۔۔۔۔۔

وہ لوگ اس وقت حویلی موجود تھے تبھی سب بچے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل اور لڑ رہے تھے۔۔۔۔

*******************

چار سال پہلے ہی حمنا کی شادی ڈاکٹر حمزہ سے ہوگئی تھی وہ اپنی زندگی میں بے حد خوش اور مطمئن تھی۔۔۔۔۔

مما مما۔۔۔۔ دیکھیں بابا نے میرے سارے بال خراب کر دیے ہیں۔۔۔۔۔

عنایہ اپنے بال حمنا کو دیکھاتے ہوئے بولی جو ابھی واشروم سے باہر آئی تھی۔۔۔۔۔

حمنا نے اس کے بالوں کو دیکھ کر اپنی مسکراہٹ چھپائی اور حمزہ کو مصنوعی گھورا۔۔۔۔

کوئی بات نہیں تم ادھر آؤ میں جلدی سے بال بنا دیتی ہوں اور تم نے ناشتہ کرلیا ہے۔۔۔۔

حمنا نے جلدی سے ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر اس کے بالوں میں پھرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

جی مما بابا نے ناشتہ کروا دیا ہے۔۔۔۔

حمنا نے جلدی سے عنایہ کے بال بنائے تو وہ اپنا بیگ لیتی باہر چلی گئی جہاں ڈرائیور اسے سکول لیجانے کے لیے کھڑا تھا۔۔۔۔

جان دن بہ دن حسین ہوتے جارہی ہو۔۔۔۔

حمزہ حمنا کے قریب آکر اس کا بھرا بھرا وجود اپنی باہوں میں بھر کر اس کے گال پر لب رکھتا بولا۔۔۔۔

وہ سات مہینے کی پریگننٹ تھی چار سال بعد آخر اللہ نے اسے اولاد سے نواز ہی دیا تھا وہ شکر کرتے نہیں تھکتی تھی کہ اس کی زندگی میں حمزہ جیسا ہمسفر آیا جس نے اسے قبول کر کے اس کی زندگی کو سنوار دیا تھا۔۔۔۔۔

حمزہ مجھے نہ بہت بھوک لگی ہے پلیز کیا ہم ناشتہ کرنے چلیں۔۔۔۔

وہ حمزہ کی طرف مڑتی مسکرا کر بولی جس نے اب اس کے دوسرے گال پر لب رکھے تھے۔۔۔۔

اچھا تو میرے بےبی کی اماں اور بےبی کو بھوک لگ گئی ہے ۔۔۔۔چلو پھر جلدی سے ناشتہ کریں پھر تمھیں ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر جانا ہے۔۔۔۔۔

وہ اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھے مسکرا کر بولا اور اسے اپنے ساتھ باہر لے کر چلاگیا۔۔۔۔۔

**************

وہ سب لوگ اس وقت ایک ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے جبکہ بچے کھیل رہے تھے۔۔۔۔

شاہزین میں بہت خوش ہوں کہ میں نے آپ کی بات مان کر سب کو معاف کر دیا ۔۔۔۔

عینی سب کو ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ کر دھیمی آواز میں اپنے ساتھ بیٹھے شاہزین سے بولی جو محبت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے غلطیاں سب سے ہوتی ہیں جو انسان وقت پر اپنی غلطیاں سدھار لے اس کی زندگی آسان ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sitamgar Mehboob Mera Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sitamgar Mehboob Mera written by Zanoor Writes .Sitamgar Mehboob Mera  by Zanoor Writes is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDFnd does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment