Pages

Friday 12 July 2024

Dil E Marjan By Farishty Caudhary New Complete Romantic Novel

Dil E Marjan By Farishty Caudhary New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dil E Marjan By Farishty Caudhary Complete Romantic Novel

Novel Name: Dil E Marjan

Writer Name: Farishty Caudhary

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

بے شک جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک کام کیے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ہدایت کرے گا ان کے نیچے نعمت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی 

قرآن مجید _10:9

"۔۔۔اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں، وہ کسی بھی حالت میں اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا، چاہے وہ بندہ گناہ گار ہی کیوں نہ ہو،، کیونکہ وہ مالک اور خالق ہے اور وہ جانتا ہے کہ جو دنیا اس نے بنائی ہے وہ بڑی گمراہ کرنے والی ہے،، اسی لیے وہ اپنے غضب کے ساتھ ساتھ اپنا رحم بھی بیان کرتا ہے، اب یہ بندے پر ہے کہ وہ غلط اور ناجائز کام کر کے اسکے غضب کو آواز دیتا ہے یا اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر اسکا رحم اور بخشش طلب کرتا ہے، "

وہ اپنی بات کے آخر میں اسے دیکھتے تھے۔

اب بھی بات مکمل کر کے دیکھا تو اس نے پرسوچ انداز میں سر اٹھایا۔

" مگر ابا کبھی کبھی رحم طلب کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے،،ہمیں لگتا ہے جیسے اب معافی نہیں ملے گی ۔اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم انجانے میں اسکے غضب کو آواز دے بیٹھتے ہیں،، مگر ہمارا ارادہ بلکل نہیں ہوتا،، کیا پھر بھی اللہ غضب ناک ہوتا ہے؟؟" 

ابا اسکی بات سن کر خاموش رہے تھے پھر کافی دیر بعد بولے ۔

"اللہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو اور اسکے بعد اس پر نادم ہو کر اللہ سے بخشواو تو اسے بڑا رحم کرنے والا پاو گے" اس نے بے یقینی سے ابا کو دیکھا۔

(واقعی انسان اپنی جان پر بہت ظلم کرتا ہے،، اللہ کو ہر بات کا علم ہے وہ ہمارے ظاہر اور پوشیدہ اعمال کو نجانے کس طرح جان لیتا ہے)۔

" انسان کو چاہیے کہ خود پر توبہ کا دروازہ کبھی بند نہ کرے،، اللہ کو توبہ بڑی پسند ہے،، جب انسان توبہ کرتا ہے تو فرشتے بھی خوش ہوتے ہیں،، اور توبہ کرنا بھی بذات خود ایک نیک عمل ہے،، توبہ کرتے رہنا چاہیے کیا پتہ اللہ کو آپکی توبہ پسند آ جائے اور وہ دل کو ہدایت سے بھر دے "۔

" ابا کتنے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں نا جنکے دل ہدایت سے بھر دئیے جاتے ہیں"۔

اس نے حسرت سے کہا۔ 

" ہاں بے شک وہ بہت خوش قسمت اور چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں " ابا نے تائید بلکہ تصدیق کی ۔

وہ اب اپنے سامنے موجود تفسیر کی کتاب پر نظر دوڑا رہے تھے۔۔

" ابا کیسے پتہ چلے گا کہ میرا دل ہدایت پر ہے؟؟ مطلب دل تو پل پل بدلتا رہتا ہے، کبھی کیسا تو کبھی کیسا" 

اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا اسکے پاس تسلی بخش جواب نہیں تھا اسی لیے ابا سے پوچھا۔اور چپکے سے سوچا۔

(کیا ابا کے دل میں بھی  برے خیالات نہیں آتے ہونگے؟) 

"جب تمہارے دل میں اللہ کی مخلوق کے لیے کوئی کینہ، کوئی بغض نہ رہے اور تمہارا دل برائی سے پاک ہو جائے تو وہ ہدایت پر ہو گا۔جب کسی کے دل کو دکھاتے ہوئے تم خدا سے ڈرو اور اپنے سخت الفاظ یا عمل کو وہیں روک لو تو سمجھو کہ تم ہدایت پر ہو۔ میری بچی دلوں کو توڑنے سے ڈرو کیونکہ دلوں میں خدا خود بستا ہے۔

دل مرنجان 

کہ ز ھر دل بہ خدا راھی ھست"

ابا ٹھنڈی سی مسکراہٹ سجا کر بولے ۔

" ابا یہ تو مشکل کام ہے،، جب لوگ برا کرتے ہیں تو انکے بارے میں برا سوچنا پڑ ہی جاتا ہے"  وہ خفیف سا مسکرائی جیسے اپنے پرانے کام یاد آئے ہوں۔ 

" یہی تو مشکل کام ہے،، مشکل کام پر پابند رہنے والے ہی تو خاص لوگ ہوتے ہیں،، مراتب ایسے ہی تو نہیں مل جاتے "

انھوں نے اسکی کم عقلی پر جواب دیا، وہ ٹھنڈا سانس لے کر رہ گئی۔

(بھلا میں کیسے بری باتیں نہ سوچوں،، کچھ لوگ بلکل اس قابل نہیں ہوتے کہ انکے بارے میں کچھ اچھا سوچا جائے) 

اس نے جھرجھری لے کر ڈھٹائی سے سوچا۔

" ایک کام کرو لوگوں کو وہ دینا شروع کر دو جو تم اپنے لیے چاہتی ہو" 

ابا نے بات ختم کرنے والے انداز میں کہا تو اس نے ناسمجھی سے باپ کو دیکھا 

"کیا مطلب؟" 

مطلب یہ کہ جو تم اپنے لیے چاہتی ہو وہ دوسروں میں بانٹنا شروع کر دو،اگر تم چاہتی کہ کوئی تمہیں عزت دے تو اسے عزت دو ،اگر کسی کی محبت چاہتی ہو تو اسے محبت دو اور اگر کسی کی ہمدردی درکار ہے تو اس سے ہمدردی رکھو ،پھر تمہاری دی ہوئی چیزیں لوٹ کر تم تک خود ہی آ جائیں گی۔"

وہ اب کتاب ایک طرف رکھتے اٹھ کھڑے ہوئے عصر کی اذان ہو چکی تھی اور آج انھیں بہت سے کام کرنا تھے۔ حویلی میں شادی تھی اور تمام تر تخفظات اور اعتراضات کے باوجود انھیں شرکت تو کرنی ہی تھی۔ کہ وہ صلہ رحمی پر یقین رکھتے تھے۔

"ابا میں چاہتی ہوں کہ اللہ مجھ سے کبھی ناراض نہ ہو،، بس "وہ" مجھ سے راضی ہو جائے، مجھے اپنے راستے میں قبول کرے" 

اس نے پرجوش انداز میں کہا جیسے بمشکل اپنی اس چاہت تک پہنچ پائی ہو۔ابا رکے بغور اسکو سنا  پھر زیر لب مسکرائے۔ 

"میری بیٹی کی خواہشیں بہت بڑی ہیں،، یہ بڑا اوکھا کام ہے اللہ کو راضی کرنا اور راضی رکھنا دو مختلف کام ہیں،، راضی کر تو بہت سے لیتے ہیں مگر راضی رکھ پانا ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتا،، خیر اللہ میری بیٹی کو ہدایت بھرا دل دے" ۔

ابا نے جیسے اسکی اس معصوم خواہش کا مذاق سا اڑایا تھا یا شاید اسے ایسا محسوس  ہوا تھا۔

" دیکھ لیجیے گا ابا میں لوگوں کے ساتھ ناراض نہیں ہونگی،، میں اللہ کے لیے انکے برے رویے بھی برداشت کر لوں گی اور پھر میں اللہ کو بھی راضی کر لونگی "

اس نے عزم سے کہا جیسے خود سے وعدہ کر رہی ہو یا شاید ابا کو جتا رہی تھی۔

ابا نے شاید نہیں سنا تھا کیونکہ انھوں نے جواب نہیں دیا وہ باہر چلے گئے تھے۔

"اٹھ جاو عفی،، ٹیلر کپڑے دے گئی ہے اٹھ کر استری کر لو اور ہاں سلوا تو لیے ہیں تم نے یہ بے حیائی بھرے لباس مگر انھیں پہن کر اپنے  ابا جی کے سامنے ہرگز نہ آنا وہ گردن اتار دیں گی تیری" ۔

امی جی  نے مجازی خدا کے باہر نکلتے ہی بیٹی کو آواز دی 

خود وہ شام میں متوقع طور پر ہونے والے مہندی کے فنکشن کی تیاری کر رہی تھیں۔اس نے آج کی آیت ڈائری میں لکھی اور اسے شیلف میں رکھتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔

ابھی اسے اپنے کپڑے بھی پہن کر چیک کرنا تھے۔

___________________

"دو دن رہ گئے ہیں اور ابھی تک ولیمے کا مینیو ہی ڈیسائیڈ نہیں ہو رہا، ہمایوں بھی ابھی تک نہیں پہنچا،، نجانے یہ لڑکا کب سدھرے گا"

سب کو شام کے فنکشن کے لیے اپنی اپنی تیاریوں کی فکر تھی جبکہ امی کو دو دن بعد کے ولیمے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔

"تو کس نے کہا تھا آٹھ آٹھ ڈشز پکوانے کا "دلہے میاں بھی آ بیٹھے تھے اور سکون سے تبصرہ کیا۔

" او ہو دلہے میاں تو بڑے لشکارے مار رہے ہیں"۔

دانیہ نے بھائی کا فریش اور خلاف معمول مسکراتا چہرہ دیکھا تو تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔

"ابھی سیلون سے آیا ہوں" وہ کچھ شرمیلا سا مسکرائے ۔

" اففف بھائی خیر نہیں عروہ کی، پہلے دن ہی گھائل ہو جائے گی"

اسلام آباد میں رہائش نے اسے خاصہ بے باک اور بے تکلف بنا دیا تھا اب بھی وہ اسی انداز میں بولی تو حاطب نے اسے گھورا۔

"اچھا بھائی یاد آیا کہ منھ دکھائی کا تحفہ لے لیا آپ نے؟"

وہ صوفے پر انکے برابر آن بیٹھی۔

"اگر نہیں لیا تو چلیں کچھ لے آتے ہیں "وہ پر جوش تھی۔

"میں لے لوں گا" انھوں نے مختصر جواب دیا۔

"ارے بھائی آپ کو کیا پتہ آجکل لڑکیاں کیسی چیزیں پسند کرتی ہیں، آپ تو وہی کوئی کلاسک سے ڈیزائن کی رنگ اٹھا لاو گے"۔

وہ اس شادی کی ہر ہر رسم کے لیے اکسائیٹڈ تھی۔لاڈلے بڑے بھائی کی شادی کے خواب تو وہ بچپن سے دیکھ رہی تھیں 

"تو یہ کوئی ضروری تو نہیں، اسکے بغیر بھی شادی ہو سکتی ہے" ۔وہ سرسری انداز میں بولے۔ 

"توبہ ہے بھائی لاکھوں لگا رہے ہیں شادی پر تو کیا اب تحفے کی باری کنجوسی کریں گے،، اٹھیں لے کر آتے ہیں "۔

وہ فورا سے تیار ہو گئی تھی۔ جتنا حاطب سنجیدہ مزاج تھا اسے پورا شک بلکہ یقین تھا وہ ان چونچلوں میں نہیں پڑے گا۔ 

" بیٹھ جاو دانیہ بلکہ جاو اور ہمایوں کو کال کرو،، اس نے آنا بھی ہے شادی پر یا نہیں؟ "

ولیمے کا کھانا حویلی میں خود پکوانے کا آئڈیا ہمایوں کا ہی تھا اور اب خود وہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔

"بھائی پہلے رونمائی کا تحفہ تو لے آئیں نا" 

وہ منھ پھلا کر بولی ۔اسکی سوئی وہیں اٹکی تھی،یا شاید اس نے کچھ سوچ رکھا تھا۔

"پہلے جو کہا ہے وہ کرو "وہ مصنوعی سختی سے بولے تو اسے جاتے ہی بنی۔ 

مگر وہ مسلسل بھابھی کے لیے تحفے کے بارے سوچ رہی تھی اس بات سے انجان کہ ایک پیارا سا گولڈ کا پینڈنٹ دلہے صاحب لے چکے تھے۔

"مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہزاروں مہمان بلا لیے ہیں اور انھیں کھلانا کیا ہے ابھی تک ڈیسائیڈ ہی نہیں ہو رہا" 

امی کو بہت فکر تھی،، شادی میں کم از کم بھی ایک ہزار لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔

اور اتنے بڑے پیمانے پر ولیمے کے انتظامات ہمایوں کے بغیر ہرگز ممکن نہ تھے اور وہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔

" آگ لگے اس ہمایوں کی منحوس  نوکری کو "

امی کو رہ رہ کر اسکی نوکری پر غصہ آنے لگا۔اسکے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔

کیونکہ اس "ہمایوں" نے تو اپنا فون بند کر رکھا تھا۔اس لڑکے کا انکے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔

وہ لاعلاج تھا۔

_________________________

" مہندی کمبائن کر لیتے ہیں یار مزہ آئے گا"

دانیہ نے بنا کسی کو مخاطب کیے خیال ظاہر کیا۔

"ہاں مسئلہ تو کوئی نہیں،، مگر  تایا ابو نہیں مانیں گے"

آیت نے مایوسی سے  خیال ظاہر کیا۔

"تایا ابو بڑے ابا کی طرح کنزرویٹو نہیں ہیں،، وہ مان ہی جائیں گے،، امی آپ بات کریں نا" آپی فری نے عام سے انداز میں کہا تھا اور جو کہا تھا وہ کسی حد تک سچ تھا مگر عفی کو سخت برا لگا۔

اپنے ابا کے بارے میں وہ جانتی تھی کہ بڑے اور چھوٹے چاچو کے بچے اسکے ابا کو اور انکے نظریات کو پسند نہیں کرتے مگر پھر بھی اسے یہ سننا گوارا نہیں تھا۔

" دانیہ میں اب اپنے پورشن میں جا رہی ہوں،، گھر سے تیار ہو کر آوں گی" وہ بال سیدھے کرنے کے لیے آن کیا گیا سٹریٹنر اٹھا کر اچانک چل پڑی تھی۔

"ارے ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ یہیں سے تیار ہو جاو گی اور ابھی تو میرے بال بھی سیدھے کرنے ہیں تم نے"

وہ فکر مند سی اسکے پیچھے پیچھے بھاگی تھی مگر وہ نہیں رکی۔

" گھر سے تیار ہو کر آوں گی،، اور آکر تمہارے بال سیدھے کر دونگی" 

(ہوں میں اوپر چادر لے لونگی تا کہ ابا کو ساڑھی نظر نہ آئے، انکے پاس بیٹھ کر اپنے ابا کی برائیاں سننے سے تو یہ بہتر ہی ہے) 

اس نے خود کو تسلی دی۔وہ آج ابا جی کو سخت نا پسند لباس یعنی ساڑھی زیب تن کرنے والی تھی۔ دل بہت زور سے سینے میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔مگر ساتھ خوشی بھی تھی کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہونے جا رہی تھی۔ 

کچھ دیر بعد جبکہ ابا ابھی دانستہ اپنے پورشن میں تھے،، کسی نے انھیں آنے کا نہیں کہا تھا مگر سب جانتے تھے وہ پھر بھی جائیں گے وہ صلہ رحمی پر یقین رکھتے تھے۔

عفی بنا کپڑے تبدیل کیے صرف ابا کے جانے کی منتظر تھی 

تا کہ انھیں اسکے ساڑھی جیسے بے ہودہ لباس کے درشن کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

"بڑے ابا آپکو پاپا بلا رہے ہیں" یہ آیت تھی۔ 

جو کچھ پریشان کچھ سجی سنوری سی آئی اور کہہ کر انھی قدموں واپس چلی گئی۔ اماں بھی پیچھے ہی گئی تھیں۔ اگلے پندرہ سے بیس منٹوں میں وہ خوب جی جان سے تیار ہو کر اب جیولری چڑھا رہی تھی۔

آئینے میں خود کو دیکھا۔

تو ایک پل کو شرما گئی۔بے شک وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی۔بلکل کسی معصوم ننھی سی پری کے جیسی ۔

(اب اماں جیولری نہ اتروا دیں کہ اوور ہو گئی،) 

اس نے تنقیدی نگاہ سے اپنا جائزہ لیا۔مگر  پھر مطمئن ہو گئی۔ 

اسے ساڑھی زیب تن کرنے کا نہایت شوق واقع ہوا تھا مگر کبھی ابا کی وجہ سے اتنا موقع نہ ملا۔ 

اب بھی چھوٹے چاچو کے بڑے بیٹے کی شادی خانہ آبادی بھی تو اسکے بھائی کی شادی جیسی ہی تھی یہی کہہ کر اس نے اماں کو ساڑھی بنوانے پر آمادہ کر لیا تھا۔

سرخ اور سیاہ رنگوں کے امتزاج کی ساڑھی خوب جچ رہی تھی ۔

"اے ہے یہ تم کیا بنی ہوئی ہو" 

پریشان اور غائب دماغ سی امی ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھیں ۔تو اسے دیکھ کر انھیں جھٹکا لگا۔جو آئینے میں خود کو چاروں اطراف سے بار بار دیکھ رہی تھی۔

"توبہ ہے امی تعریف نہیں کر سکتیں آپ اپنی بیٹی کی؟" 

حال ہی کبھی امی جی کے منھ سے اسکی تعریف نکلی تھی۔

"اللہ جانے کیا کچھڑیاں پک رہی ہیں اور کیا باہر نکلیں گی"

وہ اس پر چار ان کہے حرف بھیجتیں بیٹھ گئیں ۔

"کیا ہوا،. کیوں بلایا تھا ابا کو؟" اسکی دلچسپی بھی قائم ہو چکی تھی۔

" کل نکاح ہونا تھا اور آج تو مہندی مایوں تھی،، اب بیٹھ کر نکاح کر رہے ہیں"۔ امی جی نے کچھ منھ بنا کر کہا۔ 

" لو بھلا کل نکاح نہیں ہو سکتا تھا کیا،، شام میں اور کل صبح میں کیا فرق ہے بھلا؟" 

ابا کے ساتھ رہ رہ کر امی کا مزاج بھی عجیب سا ہو چکا تھا یا شاید وہ تھیں ہی ایسی۔

" اماں کیا واقعی نکاح ہو گیا ہے؟ "

اسکی موٹی موٹی آنکھیں مزید پھیل گئی تھیں۔

آدھا گھنٹہ پہلے تک تو دلہے والوں کی طرف ایسا کوئی شور اسے سنائی نہ دیا تھا۔ 

" نہیں میں تیرے ساتھ مخول کر رہی ہوں" 

امی نے طنز کیا۔ 

تو وہ سر جھٹکتی ایک ہی جست میں کمرے سے نکلی اور بھاگم بھاگ چھوٹے چاچو کے پورشن کی طرف گئی۔ 

پوری کہانی تو وہیں سے پتہ چلنا تھی اماں تو اتنے وقفے لیتیں کہ سارا مزہ کرکرا ہو جاتا۔

ساڑھی کے اوپر چادر اوڑھنا بھی بھول گئی تھی۔

__________________

وہ ابھی ابھی کورٹ رول سے نکلی ۔اپنے موکل کے بوڑھے کمزور باپ کو تسلی دیتی وہ دل ہی دل میں پولیس والوں کو گالیاں دیتی سیدھا تھانے جانے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ 

باہر آ کر اس نے اپنی گاڑی نکالی، سامان ساتھ والی سیٹ پر رکھا اور گہرے سانس لیے۔

"چل شیریں اب ان کرپٹ پولیس والوں سے مغز ماری کر" 

اس نے خود کو تسلی دی تبھی اسے کچھ خطرے کا احساس ہوا۔ شدید خوف سے اس نے پیچھے دیکھا ۔

"کیسی ہو وکیلنی؟" 

اسکی آنکھیں پھٹیں۔

"تم کیا کر رہے ہو میری گاڑی میں، تم کیسے اندر بیٹھے۔؟" 

وہ ننھی ننھی آنکھیں سکیڑ کر غضبناک ہو چکی تھی۔

"ٹھنڈی ہو جاو وکیلنی صبر سے بات سنو میری" 

وہ بھی جواباََ غصے ہوا۔شیریں نے ضبط سے اسے دیکھا، 

"کیا کہنا ہے؟" 

"تمہیں شیریں فرہاد کے قصے سنانے ہیں" وہ بے شرمی سے ہنسا۔

" بکواس نہیں کرو، سیدھی بات کرو اس سے پہلے کہ میں تمہارا منھ توڑ دوں"۔ 

وہ ایسی ہی تھی، بدتمیز بد لحاظ اور اکھڑ۔

سیشن کورٹ کی سب سے زیادہ پاگل، نفسیاتی اور خطرناک سی وکیل۔

"سیدھی بات تجھے بھی پتہ ہے، یہ مولوی کے بیٹے والے کیس میں مت پڑ، میں انھیں راضی کر لونگا، تو اپنی وکالت نہ جھاڑ"۔

اسکی بات مکمل ہونے تک وہ اسے خشمگیں نظروں سے گھورتی رہی۔

"براوو،مسٹر عنصر چرسی براوو" 

عنصر چرسی نے کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"تمہیں لگتا ہے تم یوں جہالت سے میری گاڑی میں گھس کر مجھے یوں کہو گے تو میں ڈر جاوں گی؟ "

وہ طنزیہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہوئے بولی. گستاخ، مذاق اڑاتا انداز۔

"تجھے ڈرنا پڑے گا،، ورنہ عنصر چرسی کو ایسے ہی عنصر چرسی نہیں کہتے" وہ سخت دھمکی آمیز انداز میں بولا۔

" تمہیں چرسی کہیں یا افیمی مجھے فرق نہیں پڑتا اب اٹھو اور جاو یہاں سے"

وہ سیدھی ہو بیٹھی ۔خوف پر قابو پا لیا تھا۔

" اور ہاں آئندہ میرے ساتھ ایسی کوئی حرکت کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت، ورنہ اس دفعہ تم چھ سات سال سے پہلے جیل سے باہر نہیں آو گے" ۔

وہ کوئی پرانا حوالہ دیتے ہوئے بولی۔

عنصر چرسی کا فشار خون ایک پل میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔

او بی بی یہ دیکھ رہی ہے نا اس کی پینتیس روپے کی ایک گولی تجھے اگلے جہان پہنچا دے گی"

اس نے پستول کی نالی شیریں کے سر پر رکھی، ہلکے سے دباو نے اسکے دل کی دھڑکن منتشر کر دی تھی ۔

عنصر چرسی تم جیسے لوگ خود کو سمجھتے کیا ہو، تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم مجھے یوں ڈراو گے تو میں چپ کر جاوں گی"

وہ واپس اسکی طرف مڑی، اپنے اندرونی خوف پر قابو پانے میں اسے دو پل لگے تھے۔اب وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر دھاڑ رہی تھی۔

"تم اگر چپ نہیں کرو گی تو پھر تم مرو گی،، اور عنصر چرسی کو اپنی بات دہرانے کی عادت نہیں ہے"

وہ خوفناک حد تک سرد لہجے میں کہتا، پستول کی نالی سے اسکے سر کو جھٹکا دیتا گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔اس نفسیاتی اور پاگل وکیل کے لیے ناپسندیدگی کی ایک سخت تیز لہر عنصر چرسی کے دماغ میں اٹھی تھی ۔

شیریں نے اسے لمبے لمبے ڈگ بھرتے دور جاتے دیکھا، وہ گاڑیوں کی قطار میں گم ہو گیا۔

بمشکل اس نے اپنے بےقابو ہوتے تنفس پر قابو پایا۔

یہ سب نیا نہیں تھا، بدتمیزی، دھمکیاں حتی کہ گالیاں بھی ۔وہ یہ سب سننے کی عادی تھی مگر جان سے مارنے کی اتنی سخت دھمکی اور یوں عدالت کے باہر، یہ عنصر چرسی کے ارادے ظاہر کرتی تھی۔

اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام کر سرگوشی کی ۔

"ایں چیست شیریں خانم" 

( شیریں خانم، یہ کیا ہے؟) 

"اب دادا جان کو اگر پتہ چل گیا تو انکا دوسرا والو بھی بند ہو جائے گا" 

اسکی زندگی میں اس وقت جس  فرد واحد کی اہمیت تھی، وہ اسکے بارے میں سوچنے لگی۔

دادا شمشاد  خان اسے کبھی بھی یہ کیس لڑنے کی اجازت نہ دیتے، مگر وہ ان سے یہ بات چھپا بھی نہیں سکتی تھی، وہ ان سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتی تھی۔

اور کسی دوسرے کو وہ کچھ بھی نہیں بتا سکتی تھی ۔

پولیس سٹیشن جانے کا ارادہ ملتوی کرتی وہ اپنے چیمبر کی جانب گاڑی موڑ چکی تھی۔ 

__________________________

"دانیہ ،آیت؟" 

وہ بآواز بلند دانیہ اور آیت کو پکار رہی تھی ۔

مگر پورشن خالی پڑا تھا، وہاں سے وہ بڑے چچا کے پورشن کی طرف آ گئی ۔

اور وہاں جا کر اسکی آواز نہ نکل سکی، سب سامنے لاوئنج میں جمع تھے، نکاح کی رسمی کاروائی بس شروع ہوئے ہی چاہتی تھی۔

سب نے اسکی جانب  حیرت بھری عجیب سی نظروں سے دیکھا تب اسے احساس ہوا کہ وہ سرخ اور سیاہ ساڑھی میں معمول سے ہٹ کر اور شاید عجیب لگ رہی تھی اوپر سے اس نے کوئی چادر وادر بھی نہ اوڑھ رکھی تھی۔

بجلی کی سی تیزی سے وہ ایک طرف ہو گئی، صد شکر کہ ابا وہاں نہیں تھے۔

"دانیہ کیا ہو رہا ہے؟"

"تایا ابا کہتے ہیں کہ نکاح ابھی ہو گا اور کل رخصتی" اس نے مختصر بتایا۔

"مگر اس طرح اکیلے،  چھوٹی پھپھو اور بڑی پھپھو کو بھی نہیں بلایا اور مہمان سارے صحن میں بیٹھے ہیں تو اچانک ۔۔۔"

اسکے اندر کی عورت کا تجسس جاگ چکا تھا۔

اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔

" پتہ نہیں "وہ خود بھی خوش نہیں لگتی تھی اسی لیے کندھے اچکا دئیے، لڑکی کے ایجاب و قبولیت کے بعد اب دلہے صاحب کی باری تھی، وہ نارمل دکھتے تھے، بہت خوش بھی نہیں تھے مگر کم از کم پریشان اور  حیران بھی  نہیں تھے۔

وہ مطمئن تھے، بلکہ شاید وہ ہمیشہ سے جیسے رہتے تھے اب بھی ویسے ہی تھے۔

کچھ دیر بعد کاروائی مکمل ہو چکی تھی سب مبارک بادوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔

اس نے بھی خوش دلی سے مبارک باد دی۔

"حاطب بھائی بہت مبارک ہو آپکو" 

اس نے حاطب کو کچھ فارغ پایا تو حق قرابت نبھایا۔

وہ چونک کر متوجہ ہوئے ۔پھر فرصت سے مسکرائے۔

"بہت شکریہ گڑیا" 

انھوں نے عادتاً اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔

وہ لاشعوری طور پر سر جھکا کر آگے ہوئی۔

"آپ نے بتایا ہی نہیں، نکاح شام میں ہے مجھے لگا کہ ابھی صرف مہندی ہو گی" 

"ہاں بس اچانک ہی سے تایا ابو نے کہا کہ ابھی نکاح ہو جائے۔ کل بھی تو ہونا ہی تھا۔تو ابھی ہو گیا "

وہ بہت گریس فل تھے۔اسی لیے تایا ابو نے عروہ کے لیے تمام خاندان کو چھوڑ کر انکا انتخاب کیا تھا۔

براون ویز کوٹ، سفید شلوار سوٹ اور ہلکی ہلکی داڑھی، روشن چہرہ اور کشادہ پیشانی، وہ چھوٹے چچا کے بڑے بیٹے تھے، اس خاندان کا فخر، اور فوجی کپتان، اور اب سے خاندان کی سب سے ذہین اور طرہ دار لڑکی کے شوہر اور شریک سفر۔اب بھی وہ موبائل پہ مگن تھے، عفی وہیں کھڑی تھی۔تفصیل سے انکا جائزہ لیتی۔

"حاطب بھائی آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں،" 

وہ معصومیت اور خوش دلی  سے بولی۔وہ چونکے جیسے اسے ابھی بھی وہیں دیکھ کر حیران ہوں پھر انکساری سے سر جھکا کر مسکرائے۔

"تم بھی بہت پیاری لگ رہی وہ گڑیا" 

اسکے سر پر پھر سے ہاتھ رکھتے وہ دور ہو گئے، کتنی ہی دیر وہ وہاں کھڑی انکو مہمانوں میں مکس ہوتا دیکھتی رہی۔

(اگر ابا ذرا توجہ دیتے تو آج میرا بھی کوئی بھائی اسی طرح فوجی افسر ہوتا) ان کہی سی خواہش نے سر اٹھایا۔

"اے عفی، اللہ تجھے سمجھے جا کر چادر اوڑھ تیرے ابا نے دیکھا تو یہیں تیرے ساتھ مجھے بھی اگلے جہان پہنچا دیں گے" 

امی جی کی آواز نے اسے حقیقت میں کھینچا۔وہ برا سا منھ بناتی کوئی چادر اوڑھنے چلی گئی ۔

___________________

"چلو جی دلہن صاحبہ اب تو نکاح بھی ہو گیا، اب تو کمبائن مہندی لگاتے ہیں " دانیہ نے عروہ کو چھیڑا۔

" ہاں نا بھابھی چلیں نہ آپکو بھائی کے ساتھ ہی مہندی لگاتے ہیں"۔ 

آیت بھی اسی بات پر بضد تھی۔

"چلو جلدی کرو سب ریڈی ہے" ہمایوں نے دروازہ ناک کیا اور پیغام دیتا واپس ہو لیا۔اب سب عروہ کے اٹھنے کے منتظر تھے۔

" چلو بھئی ساڑھی والی ناری  دوپٹے کا ایک پلو آپ پکڑو"

سب اسے ساڑھی والی ناری کہہ کر چھیڑ رہے تھے۔

"چلو عروہ شاباش" دانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑا۔

" تم لوگ جاو مجھے نہیں جانا"وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔

"کیا مطلب کیوں نہیں جانا، ارے اتنا بھی کیا شرمانا اب تو آپ ایک دوسرے کے محرم ہیں "۔

" چلیں نا بھابھی اتنی پیاری لگ رہی ہیں" آیت کا جوش و خروش بہت بلند تھا۔

"فار گاڈ سیک آپ لوگ کس قسم کے لوگ ہو، میں کہہ رہی ہوں نا مجھے نہیں جانا"

وہ ایک دم اپنی جگہ پر کھڑی ہو کر چیخی تھی۔

سب کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

عروہ شروع دن سے کچھ مزاج دار تھی مگر کم از کم آج کے دن کسی کو اسکی امید نہ تھی۔

سب کتنے پرجوش تھے اس شادی کو لے کر۔

اور دلہن۔۔۔

ان سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

" وہ اصل میں عروہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، کل اسلام آباد سے آتے ہوئے اسے ٹھنڈ لگ گئی ۔

اور اب بھی وہ تیار ہونا نہیں چاہ رہی تھی مگر نکاح کے لیے ہونا پڑا" ۔

اسکی بھابھی نند کے دفاع میں میدان میں اتریں ۔

عفی نے سر ہلایا گویا سمجھ گئی ہو، آیت کا جوش ختم ہو گیا، البتہ دانیہ نے ایسی کوئی ضرورت محسوس نہ کی تھی اسکے چہرے کے تاثرات ویسے ہی رہے ۔

" خیر چلو تم لوگ پہلے دلہے میاں کو مہندی لگا آئیں پھر اسکی رسم کر لیں گے، رات دیر تک بیٹھیں گے" ۔

بھابھی ان سب کو وہاں سے لے گئیں ۔

کچھ دیر بعد وہ سب اس وقتی کلفت کو بھول بھال گئے، دلہے میاں کو مہندی لگائی گئی جو انھوں نے لاکھ نخروں کے بعد لگوا ہی لی۔ 

"کزن تم تو بہت خوبصورت ہو گئی ہو"

کسی نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی، وہ جو اپنے دھیان میں تھی اچھلی۔

"ڈر گئی تھیں؟" 

اسکے تاثرات سے لطف لیا گیا۔ 

"نن نہیں میں کچھ سوچ رہی تھی" 

وہ ڈھنگ سے وضاحت بھی نہ دے سکی۔

"اچھا سوچتی بھی ہو؟" 

"کیوں میں انسان نہیں؟ یا میں سوچ نہیں سکتی؟ "

" نہیں سوچ سکتی ہیں ایفا گل کو پورا حق ہے سوچنے کا مگر اس حویلی میں سوچ بچار کا رواج نہیں "

وہ بھی اب اسکے برابر کھڑا سامنے سٹیج پر دیکھ رہا تھا۔

" پتہ نہیں شاید" 

وہ اسکا اشارہ سمجھ چکی تھی۔اسی لیے مزید بحث نہیں کی۔

" بڑے ابا چلے گئے "

وہ سنجیدگی سے بولے۔پتہ نہیں پوچھا تھا یا بتایا تھا۔

عفی نے سر جھکا لیا۔وہ شرمندہ ہوئی تھی۔

" آپکو پتہ ہے ہمایوں بھائی ابا جی یہ سب پسند نہیں کرتے" 

عفی نے ابا کا دفاع کیا۔

"ہاں ٹھیک ہے، ہر شخص کو حق ہے اپنی پسند نا پسند اپنانے کا" 

"مجھے پتہ ہے وہ کیوں ناراض ہیں"

ہمایوں نے کچھ توقف کے بعد تبصرہ کیا۔

" بلکہ وہی نہیں بڑی امی بھی ناراض ہیں،

ایفا دیکھو ایسا تو نہیں ہو سکتا تھا کہ دانیہ نا مانے اور ہم ہاں کر دیں ،وہ ابھی شادی کے لیے راضی نہیں تھی اور ہم کسی بھی طرح اسکے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے "

بڑے ابا نے اپنے بیٹے کے لیے دانیہ کا ہاتھ مانگا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتے دانیہ نے صاف انکار کر دیا تھا ۔

تب سے لے کر اس خاندان میں فاصلے بڑھ گئے تھے۔وجہ انکار نہیں بلکہ انکار کی وجہ تھی۔

حتی کہ اب بڑے ابا کے بچے بھی ان سے بات نہ کرتے تھے ۔

وہ سب ہی شادی میں شرکت کے لیے نہ آئے تھے، انکا موقف تھا کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے انکار کر دیا گیا۔

 ابا جی کا کہنا تھا کہ انکے چھوٹے دونوں بھائیوں کو اپنی اور اولادوں کی کامیابیوں کا بہت مان تھا۔معاملہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا مگر بہت سی دوریاں پیدا کر گیا۔ یا شاید پہلے سے موجود دوریاں مزید بڑھا گیا۔

"ہمایوں بھائی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر ابا بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ خیر وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا" 

وہ ساڑھی کا پلو اپنی انگلی پر بار بار  لپیٹ رہی تھی۔

"تم بہت سمجھدار ہو ایفا گل" 

ہمایوں نے مسکرا کر ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے اسے بغور دیکھا۔وہ عام لڑکیوں جیسی نہیں تھی، وہ بہت مختلف تھی۔

نہ ضرورت سے زیادہ شوخ نا بے وقوف،اور نا ہی انتہا پسند۔بہت ٹھنڈے مزاج کی مالک ایفا گل ۔بڑے ابا کی سب سے چھوٹی لاڈلی بیٹی۔

وہ دونوں اس تقریب کی رنگینیوں سے بے نیاز اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے، ان دونوں کا خیال تھا کہ ایک دن انکے خاندانوں میں موجود فاصلے کم ہو جائیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ساری دنیا کے خیال میں ہمایوں خود پرست، ہیڈ سٹرونگ اور بے شرمی کی حد تک ڈھیٹ انسان تھا مگر یہاں وہ ایک مختلف شخص نظر آتا تھا اندرون خانہ وہ چاہتا تھا *سب ٹھیک* ہوجائے ۔

___________________________

رخصتی کا فنکشن بہت دھوم دھام سے وقوع پزیر ہوا پورے خاندان کی موجودگی میں رخصتی ہوئی ۔نکاح پہلے سے ہو چکا تھا اس خبر کی وضاحت دینا بھی ایک کٹھن مرحلہ تھا جسکی بظاہر کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی ۔

"کیا میرے بریگیڈیئر بھائی نے بیٹی کا کوئی لمبا چوڑا حق مہر لکھوانا تھا جو یوں سب سے چھپ کر نکاح کر دیا"

سب نے سن اورمان لیا مگر چھوٹی پھپھو کے بارے میں ایسی امید ناممکن تھی۔

"نہیں صفیہ گھر کے بچے ہیں بس پچاس ہزار روپے حق مہر ہے وہ تو بس ایسے ہی تمہارے بھائی صاحب نے کہا کہ صبح تو مہمان ہی اتنے آ جائیں گے کہ نکاح میں دیر ہی ہوتی رہے گی تو اچھا ہے شام کو ہی کر لیا جائے"

بڑی بھاوج نے کچھ ناگواری سے نند کو بتایا انھوں نے برا سامنھ بنایا مگر چپ رہیں ۔

دلہن کے لیے سرخ زرتار کی بجائے گولڈن رنگ کا لباس منتخب کیا گیا تھا۔

سب کو پسند نہیں تھا مگر کیپٹن صاحب کو پہلی نظر میں پسند آ گیا تو بس وہی بنوا لیا گیا۔

خود انھوں نے اپنے لیے سفید اور گولڈن شیروانی کا انتخاب کیا تھا۔

دونوں چاند سورج کی سی جوڑی لگ رہے تھے۔

عروہ گل بنت بریگیڈیئر ریٹائرڈ سجاد خان کے تمام جملہ حقوق کیپٹن حاطب جاوید خان کے نام لکھے جا چکے تھے۔

سب خوش تھے، اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کیا ہو سکتی تھی۔

وہ ماس کمیونیکیشن میں ایم ایس کر رہی تھی، ابھی اسکا کورس جاری تھا مگر کیپٹن صاحب انھی دنوں فارغ تھے تو مزید دیر لگانا دونوں طرف سے بے وقوفی ہی تھی۔

کیونکہ رشتوں کی تو کوئی کمی نہ تھی ۔

ہمارے معاشرے میں اچھا لڑکا ہاتھ سے نکلنے دینا جہالت سمجھا جاتا ہے۔

"بھائی کو ہرگز کمرے میں نہیں جانے دینا پہلے نیگ لینا"

فری آپی نے سب لڑکیوں کو الرٹ کیا جنھوں نے فورا ہی کمرے کا محاصرہ کر لیا۔

"ٹھہریے کیپٹن صاحب،"

یہ دانیہ تھی اور کسی کی ہمت نہ تھی اسے براہ راست روکنے کی۔۔

"آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں"

وہ شہد کی مکھیوں کی طرح چاروں کونوں سے نکلی تھیں۔ حاطب جو اپنے ہی دھیان میں تھا چونکا۔

"ہم نے آپکے کمرے کا محاصرہ کر رکھا تھا"

"کس سلسلے میں"

وہ رک گئے۔

""اب ایسے تو اداکاری نہ کریں کہ جیسے آپکو پتہ ہی نہیں "

" ویل ۔اچھا ہو گا آپ لوگ اس محاصرے کی وجہ بتائیں، بلکہ اپنے مطالبات بتائیں تا کہ انکا فوری سد باب کیا جائے "

وہ خوش تھا شوخی سے بولا۔

" اللہ اللہ جنگ نہیں کرنی ہم نے بس تھوڑا سا نیگ دیں اور آپ اپنی دلہن کے پاس جائیں "

عفی نے توبہ کی۔

" کونسا نیگ ابھی کل سے میں دئیے ہی جا رہا ہوں، کچھ میرا بھی حق بنتا ہے"

وہ الٹے ان پر چڑھ دوڑے ۔

" جی نہیں اس وقت بہنوں کا حق بنتا ہے اور آپکا فرض"

عفی نے اسے سمجھایا جیسے وہ واقعی انجان ہو۔

" یہ کیا بات ہوئی  صبح آپ میری دلہن کی بہن بن کر مجھ سے نیگ لے رہی تھیں اور اب آپ میری بہن بن کر پھر مجھ سے نیگ مانگ رہی ہیں "

وہ اس سیاست پر واضح حیران ہوئے۔

"میں اکیلی تو نہیں تھی حاطب بھائی، یہ سب بھی تھے"

اسے یوں خود کو نشانہ بنایا جانا دل پر لگا۔

"گڑیا آپکو ان سب کے بجائے اب میرا ساتھ دینا چاہیے تھا"

اور آیت آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی۔

جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"

انھوں نے آیت اور ایفا کو اپنی ٹیم میں ڈال کر جان چھڑانا چاہی وہ ویسے ہی قریباً کنگھال ہو چکے تھے ۔

"نہیں نا بھائی یہ تو رسم ہوتی ہے"آیت نرم پڑ گئی تھی۔

" خبردار تم چپ رہو، بھائی نیگ دیں ورنہ ہم ساری رات نہیں ہٹیں گے"

دانیہ نے ان دونوں کو چپ کرایا مبادا وہ حاطب کے ساتھ نہ مل جائیں ۔حاطب نے صاف انکار کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

"ٹائم دیکھ لیں، اگر زیادہ دیر ہو گئی تو عروہ نے پھر غصہ ہو جانا ہے" ۔

دانیہ نے انھیں اسکی ناراضی سے ڈرایا ۔

" نیور مائنڈ"

مگر وہ پر اعتماد رہے۔

" بیٹھ جاو"  دانیہ نے سب کو اشارہ کیا کیونکہ وہ مانتے دکھائی نہ دے رہے تھے۔ 

حاطب نے سب کو باری باری گھورا اور یہ گھورنا اتنا کارگر تھا کہ لشکر کے آدھے جنگجووں نے سپہ سالار کو اس نازک وقت میں اکیلا چھوڑ دیا ۔

عفی  اور دانیہ کے علاوہ کوئی نہ بیٹھا تھا۔

ان دونوں نے خود کو اور سب کو بے یقینی سے دیکھا۔سب نے کندھے اچکا دئیے۔

"اٹھو اب تم دونوں" 

انھوں نے ان دونوں کو مصنوعی سخت لہجے میں کہا۔

دانیہ اٹھ گئی تھی مگر ایفا ابھی تک حیران تھی کچھ دیر پہلے تک سب ایک دوسرے کو کس طرح سمجھا رہے تھے کہ حاطب بھائی سے ڈرنا نہیں اور اب۔۔۔

وہ سب اپنے مطالبات واپس لے کر ہٹ گئی تھیں صرف وہ ایک تنہا رہ جانے والے سپاہی کی طرح کھڑی تھی۔

"اب آپ ہٹیں گی یا ہٹانا ہو گا" وہ مشینی انداز میں فورا اٹھ گئی۔ 

"گڈ نائٹ" حاطب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے دروازے سے ہٹایا ان سب پر ایک مسکراہٹ اچھال کر کمرے کے دروازے کے پیچھے گم ہو گئے۔

اب سب ایفا پر ہنس رہے تھے۔جسکا چہرہ یکدم دہشت زدہ لگنے لگا تھا۔

اس نے بھی جواباً سب کو گھورا۔

"عفی تم اتنا کیوں ڈر گئی تھیں "

فری آپی نے اسکا چہرہ دیکھ کر مذاق اڑایا۔

"شرم کریں سب لوگ مجھے تو کہہ رہی تھیں کہ دروازے سے ہٹنا ہی نہیں اور آخر میں مجھے پھنسا کر سب گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب" 

اس نے منھ بسور کر کہا۔

"ہاں تو پلان بی تھا کہ اگر بھائی سئریس نہ لیں تو فورا بھاگ جانا،، انھیں غصہ بھی تو آجاتا ہے" 

دانیہ نے اس ناکامی پر منھ بنایا مگر ایفا کو ابھی تک خجالت محسوس ہو رہی تھی 

(کیسے انھوں نے ہاتھ پکڑ کر ہٹایا مجھے) 

اس وقت تک وہ لاعلم تھی کہ مستقبل میں اس کے ساتھ مزید بہت کچھ ہونے والا تھا۔

جسکے سامنے شاید یہ سب بہت معمولی تھا۔

_______________________

وہ جس لمحے کمرے میں آئے عروہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے  تھکی بیٹھی تھی۔

انھیں دیکھ کر چونکی پھر ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔

"السلام علیکم" 

 کوئی جواب نہیں آیا۔

"شادی مبارک، اور خوش آمدید" 

انھوں نے شیروانی کی اندرونی جیب سے ایک سرخ گلاب نکال کر اسکے حوالے کیا۔

"کمرہ اچھا ڈیکور ہوا ہے" 

ادھر ادھر دیکھ کر تبصرہ کیا "یا شاید آپ زیادہ اچھی لگ رہی ہیں" 

ایک خشک انداز زندگی کا عادی سولجر اس سے زیادہ رومانوی گفتگو کا آغاز نہ کر سکتا تھا۔اسی لیے خاموش ہو رہا۔

"حاطب میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں" 

عروہ نے سر اٹھایا، حاطب چونکے۔

" شیور(ضرور)"

وہ اسکے سامنے آ براجمان ہوئے۔

"میں اس سب سے خوش نہیں ہوں" 

وہ خفگی سے بولی۔حاطب کچھ الجھے۔ 

"کیوں، مطلب کس سب سے؟"  بغور اسکے صبیح چہرے کو دیکھا جہاں ناراضگی تھی۔

"مطلب یہ سب یوں ایک دم شادی کی تیاری اور پھر اٹھا کر جلدی جلدی میں نکاح، اس طرح کہیں نہیں ہوتا" 

وہ تمہید باندھتے ہوئے بولی۔

(تو سب سچ کہتے ہیں کہ عروہ میڈم ہایی مینٹیننس وومن ہیں، مطلب انھیں خوش کرنا واقعی مشکل ہو گا) 

اس نے نتیجہ اخذ کیا۔

"تم پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہے ہو گے مگر تمہیں علم ہونا چاہیے میں تمہیں دھوکا نہیں دینا چاہتی، حاطب میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں "

وہ شدید کشمکش کا شکار تھی۔اسی لیے اسے اپنا مدعا بیان کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ 

انھوں نے اچنبھے سے شیروانی کا اوپری بٹن کھولا۔

"کیا کہنا چاہتی ہو تم؟"

عروہ نے دوپٹے کو مزید کچھ پیچھے کرتے ہوئے حاطب کو دیکھا پھر فیصلہ کن انداز میں اپنی بات دہرائی۔

"یہی کہ میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی"

عروہ کی خود اعتمادی نے انھیں ایک لمحے کے لیے گڑبڑا دیا تھا۔

"یہ کیسا مذاق ہے،، اور ویسے بھی اب تو شادی ہو چکی ہے"

حاطب نے نارمل رہنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ورنہ انھیں یہ مذاق ناگوار گزرا تھا، آرمی کے ڈسپلن میں رہتے ہوئے وہ اتنے سخت تو ہو چکے تھے کہ فضول گوئی انھیں اچھی نہ لگتی تھی اور سب یہ بات جانتے تھے۔

مگر سامنے انکی بیوی اور نئی نویلی دلہن تھی۔شادی کی اول شب وہ کوئی ناخوشگوار بحث نہیں چاہتے تھے۔آنکھوں میں بہت سے خواب تھے ۔

"بے شک،، مگر میں پھر بھی یہ سب نہیں چاہتی. ،میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنا نہیں چاہتی"

 "تو پھر کس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہو تم"

وہ اب بھی اس سب کو مذاق یا عروہ کی کوئی شرارت سمجھ کر بولے۔

"یہ"

مگر عروہ نے انکی طرف دیکھے بغیر ایک گہری سانس لی۔اور موبائل فون انکی طرف بڑھا دیا۔

سامنے سکرین پہ کسی نوجوان کی تصویر تھی،، کیپٹن حاطب جاوید نے بے یقینی سے سامنے بیٹھی دلہن کو دیکھا جو چند گھنٹے پہلے انکے ساتھ عہد نکاح و وفا لے چکی تھی

"یہ بات کریں"

عروہ نے نظریں چراتے ہوئے موبائل انکی طرف بڑھایا ۔سامنے کال چل رہی تھی۔پچھلے پندرہ منٹ سے کال چل رہی تھی ۔

انکا دوران خون آسمان کو جا لگا تھا ، اور آنکھوں میں خون دوڑنے لگا تھا عروہ نے دوبارہ نگاہ اٹھا کر انھیں  نہیں دیکھا۔ہمت ہی نہیں ہوئی تھی۔

____________________

حاطب نے شاکڈ انداز میں موبائل کی سکرین اپنے سامنے کی۔کوئی دوسری جانب بول رہا تھا۔

"دیکھو ہم دونوں ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے ہیں، تمہارے ساتھ کبھی خوش نہیں رہ سکتی یہ۔ نہ ہی تم اسکے ساتھ خوش رہ سکتے ہو۔۔۔"

انکے سینے میں موجود دل بے قابو ہو رہا تھا ۔

"کون ہو تم؟"

بولے تو لہجے میں بلا کی سختی تھی، دوٹوک کاٹ دار انداز ۔

"میں سفیان مجید ہوں، عروہ اور میں تین سال سے ایک دوسرے سے پیار ۔۔۔"

شاید وہ مزید بھی کچھ بولتا مگر حاطب نے موبائل دیوار کے ساتھ دے مارا جو *ٹھاہ" کی ہلکی سی آواز کے ساتھ زمین بوس ہو کر کرچیوں میں بٹ گیا۔

کچھ ایسی ہی حالت اس وقت کیپٹن حاطب جاوید کے دل کی تھی۔

انکے بستر پر سجی سنوری وہ عورت کل ہی انکے نکاح میں آئی تھی، اسے پانے کے لیے کیپٹن  حاطب جاوید نے سالوں کی پلاننگ، ماں باپ بہن بھائیوں کے سپنوں اور اپنی تمام جمع پونجی لگا دی تھی۔

اور یہ عورت کسی دوسرے مرد سے پیار محبت کے قصے سنا رہی تھی۔

یہ سب ہونا تو انکے گمان میں بھی نہیں تھا۔یہ ایک مرد کے لیے موت کا لمحہ تھا ۔

(کیا میں،، کیا یہ میرے ساتھ ہو رہا ہے؟)

انکے اندر کوئی بے یقینی سے چیخنا چاہتا تھا مگر باہر منجمد خاموشی تھی۔

عروہ نے انجام کی پرواہ کیے بغیر یہ قدم اٹھایا تھا۔

وہ شاید اتنی بہادر تھی کہ اسے زندگی موت سے فرق نہیں پڑتا تھا یا پھر شاید اسے اپنی *محبت* پر کامل بھروسہ تھا۔

جو اس نے کسی کی سیج کو روندنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔

مگر حاطب کی سرخ ہوتی رنگت اور خاموشی نے پہلی بار اسے ڈرنے پر مجبور کیا تھا پہلی بار اسے احساس ہوا سامنے ایک جیتا جاگتا انسان تھا۔

 "دیکھو حاطب میں جانتی ہوں تم بھی مجھ سے پیار نہیں کرتے ہم دونوں کبھی ایک ساتھ خوش نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔"

وہ شاید مزید بھی کوئی وضاحت دیتی مگر وہ بجلی کی تیزی سے اسکی طرف پلٹے تھے، لہو ٹپکاتی نگاہیں اس پر ٹکائیں

"کیوں؟ اس وقت یہاں ۔۔اس جگہ پر کیوں؟؟"

اسکی جگہ اگر کوئی عام مرد ہوتا تو اس وقت تک آسمان سر پر اٹھا چکا ہوتا مگر وہ ضبط کر رہا تھا۔

مگر انکی دبی دبی دھاڑ پر عروہ سہم گئی، بمشکل تھوک نگلا۔

"دیکھو حاطب آئی ایم سوری"

"میں پوچھتا ہوں کیوں عروہ کیوں تم نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟ "

وہ اسکی بات کاٹ کر اب کی بار بلند آواز میں دھاڑے تو عروہ مزید سہم گئی، دو پل کو اسکا سانس حلق میں اٹکا۔

"دیکھو تم میری بات سنو"

وہ بستر پر گھٹنوں کے بل اٹھ بیٹھی، سانس بے ہنگم ہو رہی تھی۔

"دیکھو کام ڈاون،، میں تمہیں بتاتی ہوں سب"

وہ ہاتھ اٹھا کر اسے کام ڈاون رہنے کا کہہ رہی تھی ۔

درخواست کر رہی تھی ۔

مگر حاطب نے نفرت سے منھ موڑ لیا۔

"میں نے بابا کو پہلے بتایا تھا، میرے بھائی بھی جانتے ہیں"

وہ ایک پل کو ہمت جمع کرنے کو رکی تھی جیسے، حاطب نے بے یقینی سے اسے دیکھا ۔جیسے یقین نہ آیا ہو ۔

"میں قسم کھاتی ہوں میں نے گھر میں ایک ایک فرد کو بتایا تھا، میں نے چیخ چیخ کر کہا کہ میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔  میں تمہارے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی"

" تو میری زندگی کیوں تباہ کی تم نے اور تمہارے گھر والوں نے؟"

وہ چبا چبا کر اسکی بات کاٹ کر  بولے ۔انکی اندرونی حالت کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔

" کل نکاح سے پہلے بھی منع کر دیا تھا میں نے،، یہ دیکھو،، "

عروہ نے کچھ دکھانا چاہا مگر وہ نہیں مڑے۔ گہرے سانس لیتے ایک ہاتھ سے اپنی کنپٹی سہلا رہے تھے۔

" حاطب یہ دیکھو "

عروہ رو دینے کو تھی خوف سے وہ کانپ رہی تھی، ہمت کر کے کہہ تو دیا تھا مگر یہ گھڑیاں قیامت جیسی تھیں ۔گوکہ وہ انجام سے بے پرواہ تھی۔کسی کا عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا۔کمرے کی فضاء میں عجیب دہشت سی چھائی تھی۔ 

" پلیز ایک دفعہ دیکھو، تمہارے ساتھ میں نے دھوکہ نہیں کیا، میرے گھر والوں نے سب کیا"

وہ بمشکل اسکی طرف ایک نگاہ اٹھانے کے لیے خود کو قائل کر سکے

وہ جو کچھ دیر قبل تک انکی ہر شے حتی کہ دل ودماغ کی بھی مالک بنائی جانے والی تھی اب اس نے خود کو ایک نگاہ کے قابل نا چھوڑا تھا۔

" یہ پہلی دفعہ جب میں نے دو ہفتے پہلے انکار کیا تب بھائی نے کیا"

حاطب نے دیکھا اسکا کان سیاہی مائل نیلا تھا اور ویسا ہی ایک انگلیوں کا نشان اسکی گردن پر بھی تھا۔

"اور یہ، یہ کل رات نکاح کے بعد کا ہے"

میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اسکے کہ میں اس کاغذ کے ٹکڑے پر سائن کر دیتی، مگر حاطب میں تمہیں دھوکہ نہیں دے سکتی تھی، میں اپنے ساتھ یہ ظلم برداشت نہیں کر سکتی، میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں اور وہ بھی مجھ سے پیار کرتا ہے"

اسکی ناک کی نکیل نما نتھلی کے نیچے اسکا ہونٹ پھٹا ہوا تھا جیسے کسی نے مکا مارا ہو ۔بہت کچھ واضح ہو رہا تھا۔

" چپ،، خاموش ہو جاو"

مگر وہ اس وقت ایک روشن مستقبل کے خواب دیکھنا چاہتے تھے۔ کسی دوسرے کی محبت کے قصے نہ سننا چاہتے تھے۔

شیروانی کے بٹن  کھول دئیے مگر گھٹن کم نہ ہو رہی تھی،، چند پل وہ ادھر سے ادھر چکر کاٹتے رہے۔باہر سب مطمئن اور پر جوش سے بارات کا فنکشن وائنڈ اپ کر کے اب ولیمے کا سوچ رہے تھے۔اور حجلہ عروسی میں ایک قیامت بپا تھی۔

یہ تمام لمحات عروہ کی روح پر کسی ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے وہ امید اور خوف سے انکی جانب دیکھ رہی تھی۔

اگر وہ چاہتے تو  *کچھ بھی کر سکتے تھے۔

وہ حقوق رکھتے تھے۔

وہ با اختیار  تھے۔ اور سامنے موجود عورت کمزور بھی تھی اور معاشرے کی نظروں میں *بدکردار* بھی۔

وہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔پہلی بار عروہ کو اپنی کمزوری کا شدت سے احساس ہوا۔

حالات اسکی سوچ سے زیادہ گھمبیر تھے ۔

"میں سمجھ نہیں پا رہا مجھے اس وقت کیا کرنا چاہیے؟"

 بے بسی سے خود کلامی کی۔

اتنے سالوں کی فوجی ٹریننگ میں ان گنت ایسے لمحات گزرے تھے جب انکی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو آزمایا گیا مگر  خود کو کبھی اتنا شاکڈ اور بے بس محسوس نہ کیا تھا جتنا اس وقت کر رہے تھے ۔

"میرے پاس دو ہی راستے ہیں.،یا تو دل بڑا کروں اور تمہیں اسی وقت چھوڑ دوں اور یا پھر ۔۔"

وہ دانستہ خاموش ہو گئے۔

عروہ نے ڈر کر  دیکھا۔ تو کیا اب وہ اپنے باپ بھائیوں کے بجائے اسکے ہاتھوں مرنے والی تھی؟ "یا پھر ۔۔۔"

اس سے مزید سوچا نہیں گیا۔

"دیکھو میں جانتی ہوں تم غصے ہو، اس سب میں تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، "

اس نے ہمت جمع کی۔

" مگر میں تمہیں دھوکہ نہیں دینا چاہتی تھی"

حاطب نے سرد نگاہوں سے اسے گھورا، وہ ہارا ہوا شخص اس وقت کسی اور جہان میں تھا

"تم نے مجھے دھوکہ نہیں دیا، تم نے مجھے تباہ کر دیا ہے۔۔۔ "

حاطب نے دانستہ اسکا نام نہیں لیا، انکے دل نے یہ گوارا نہ کیا تھا۔

"تو اب تم کیا کرو گے میرے ساتھ؟ "

گوکہ اسے انجام کی پرواہ نہیں تھی، مگر سامنے ایک بااختیار مرد تھا۔

جو کچھ بھی کر سکتا تھا

"I wish I could do something better for U....."

 گہرا سانس لیا۔

"but...."

 "بٹ کیا؟ ،، حاطب پلیز try to understand"

وہ لجاجت سے بولی۔کل شام شدید احتجاج اور بالآخر نکاح کے بعد اس نے سوچا تھا کہ وہ حاطب جاوید کو سب بتا دے گی، وہ اپنی محبت کو قربان کر کے سمجھوتے کی زندگی گزارنے کو تیار نہ تھی۔اور اس نے بنا کسی کی پرواہ کیے اس پر عمل بھی کر دیا تھا مگر اب حاطب جاوید کا ردعمل اسے ڈرا رہا تھا۔

اس سب کے لیے وہ تیار نہیں تھی اسے یہی لگا تھا کہ وہ حاطب کو سب بتاۂے گی اور حاطب اسے چھوڑ دے گا ۔

"تم صرف ایک بات کا جواب دو مجھے، اگر تمہیں *اس کی محبت پر اتنا یقین تھا تو تم نے یہ شادی کیوں کی تم نے اسے کیوں نہ بلایا، تم نے آج سے پہلے، کل یا دو دن پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا"

وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر پوچھ رہے تھے۔

خوف نے اسکی آنکھوں پر موجود بند توڑ دئیے تھے یا شاید اتنے دنوں میں وہ پہلا تھا جو اسکی بات سن رہا تھا جو اسے بولنے کا موقع دے رہا تھا۔

" وہ ابھی شادی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا،، ہم نے سوچا تھا کہ ایم ایس کے بعد جب اسے کوئی جاب مل جائے گی تو ہم سب کلئر کر لیں گے مگرجب میں نے بتایا تو بابا اسکے لیے راضی نہیں تھے، اسی لیے انھوں نے سب جلدی جلدی کر دیا۔" 

حاطب نے افسوس سے اسے دیکھا جو اپنے جذبات کے زیر اثر اتنی بہادر ہو چکی تھی کہ اتنا بڑا قدم اٹھا چکی تھی۔

"پھر جب تمہیں پتہ چل چکا تھا کہ تایا ابو نہیں مان رہے اور شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں، تب بھی تم لوگوں نے کلئر نہیں کیا، ایسی سچویشن میں تمہیں اسے بلانا نہیں چاہیے تھا؟ کیا تمہیں اسکی ضرورت نہیں تھی؟"

عروہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا، پھر تھوک نگلا۔

"وہ ابھی شادی نہیں کر سکتا تھا، اسکے پاس کوئی سورس آف انکم نہیں ہے، اور بابا کبھی نہ مانتے"

آخر میں اسکا لہجہ کمزور ہو گیا تھا۔

" تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ نہ مانتے.، یقینا یہ تمہیں اس نے کہا تھا؟،، اور تم اسکی مجبوریوں کو اتنا انڈرسٹینڈ کرتی ہو کہ تم اکیلی اتنا بڑا سٹینڈ لے گئیں، تم نے کسی کا نہیں سوچا، اپنا، اپنی فیملی کا اور میرا بھی نہیں "

وہ اذیت اور استہزاء سے تبصرہ کر رہ تھا۔

عروہ کے اوپر ایک حقیقت اسی وقت آشکار ہوئی تھی۔

اور حاطب بولے جا رہا تھا 

"تم نے ایک پل بھی نہیں سوچا کہ جب تم اس طرح مجھے بتاؤ گی تو مجھ پر کیا گزرے گی۔

یا شاید تم نے اس نکاح کے رشتے کو محض ایک تماشہ،صرف ایک مذاق سمجھا؟"

مگر عروہ حاطب کو سن نہیں پا رہی تھی۔

(کیا میں بے وقوف بنائی گئی ہوں،، ہاں تو صحیح کہہ رہا ہے، ایسی سچویشن تو اینڈ تھی، ایکسٹریم پر تو اسے سب مجبوریاں بھول کر ایکشن لینا چاہیے تھا۔)

ایک پل کو اسکا ذہن تاریک ہوا تھا۔

دوسری جانب وہ نجانے کیا سوچ رہے تھے۔انکا ذہن شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا۔

عروہ نے جھرجھری لے کر خود کو اس کیفیت سے نکالا۔

(نہیں میرے ساتھ کوئی دھوکا نہیں ہوا، ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اگر وہ مجھ سے پیار نہ کرتا ہوتا تو پرسوں اپنی جان لینے کی کوشش کیوں کرتا،، اور کل رات سے وہ مسلسل مجھ سے رابطے میں کیوں رہتا، اسے میری مجھ سے بھی زیادہ فکر ہے اسی لیے تو اسے بھی چین نہیں آ رہا)

وہ پھر سے جوان حوصلوں کے ساتھ میدان میں آئی تھی۔جبکہ حاطب جان چکا تھا وہ بے وقوف ہے، یا شاید بے وقوف بنائی جا چکی ہے، اور اس بے وقوفی میں وہ کیا کچھ تباہ کر چکی تھی ابھی نقصان کا اندازہ لگانا ناممکن تھا۔

"حاطب میں تمہارے ساتھ کبھی خوش نہیں رہوں گی آج نہیں تو کل تمہیں مجھے چھوڑنا پڑے گا، یا پھر میی بھاگ جاوں گی اور ہم دونوں پھر سے ایک ہو جائیں گے"

وہ اپنے مصمم ارادوں سے اسے خبردار کر رہی تھی۔مبادا حاطب کچھ اور نہ سوچے۔اسکے عشق کو اسکی کوئی بے وقوفی سمجھ کر نظر انداز کرنے کا نہ سوچے۔

"اور اگر میں اس سے پہلے ہی تمہاری جان لے لوں تو؟ مجھے یقین ہے مجھ سے کوئی سوال نہیں کرے گا"

وہ کمزور نہیں تھےجو دب جاتے یا ڈر جاتے وہ اس وقت *وکٹم تھے۔

ظلم ان پر کیا گیا تھا،سزا انھیں سنائی گئی تھی۔ وہ بھی بنا کسی قصور کے۔ انکی آنکھوں میں خون تھا۔

" تم مجھے نہیں مار سکتے، یہ میرا حق ہے، مجھے میرا دین بھی حق دیتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکوں "انکی آنکھوں کی سرخی سے خوفزدہ ہو کر اس نے کمزور سا موقف دیا۔

"اور تمہیں لگتا ہے تم جاو گی تو وہ تمہیں اپنا لے گا"

یہ سوال تو اسے کل سے ستا رہا تھا مگر وہ اس سے نظریں چرا رہی تھی۔

وہ بستر کے کونے کا سہارا لیے کھڑی تھی حاطب چند قدم اسکی جانب بڑھےپھر دوقدم کے فاصلے پر رک گئے۔ چند پل نگاہیں اس پر جمائے رکھیں۔

ان نگاہوں میں کچھ دیر پہلے والے دبے دبے آنچ دیتے جذبوں کی چمک مفقود تھی۔اب وہاں اول شب سے منسوب کسی احساس کا گمان تک نہ تھا۔ سخت پتھریلی نگاہیں تھی۔ پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گئے۔

"ٹھیک ہے میں تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگا رہا، نا میں کبھی تمہاری اجازت کےبغیر ایسا کروں گا، مگر کیا وہ اس بات کا یقین کرے گا؟"

انھوں نے عروہ کی نگاہوں میں جھانکا،وہ نا سمجھی سے انھیں دیکھنے لگی۔

"میں زبان دے رہا ہوں کہ نہیں چھووں گا ،بالفرض تم یہاں سے چلی بھی جاتی ہو۔ ان ٹچ۔جیسے یہاں آیئ ہو ۔کیا وہ تمہارا یقین کرے گا؟"

وہ اب جیسے واقعی اس صورتحال کو قبول کر چکے تھے

"تمہارے نام کے ساتھ ساتھ، تمہارے وجود پر بھی میرے نام کا ٹیگ لگ چکا ہو گا، پھر تمہیں کون قبول کرے گا، اور تمہاری یہ محبت ردی کی ٹوکری میں ہوگی۔ بے کار اور بے وقعت۔"

عروہ انکی آنکھوں میں نہیں دیکھ پائی تھی، اس نے ہار مان لی، نگاہ جھکا لی۔انکی نگاہیں ہنوز اس پر جمی تھیں ۔

" ایسا نہیں ہو گا مجھے اس پر بھروسہ ہے "بہت دیر بعد وہ بولی تھی، یعنی وہ ابھی بھی اپنے سابقہ عزائم پر پکی تھی ۔

" ہمممممم"

رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی تھی دور کہیں بہت دور ایک امکان سا تھا کہ اگر اب بھی عروہ سب کچھ بھلا کر ایک نئے سفر کا آغاز کرنا چاہے تو شاید وہ دونوں یہ ممکن بنا سکیں مگر۔۔۔۔

یہ ممکن نظر نہ آتا تھا۔

"پھر میں نہیں چاہتا تمہیں اس تنہائی میں ایک سے زیادہ محاذوں پر لڑنا پڑے ۔میں نہیں چاہتا تمہارے وجود پر میرے نام کا ٹیگ لگے"

وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔

اپنی عزت نفس اور جذبات کا ماتم کرنے کو اک عمر پڑی تھی۔ ابھی انھیں صرف اسکے لیے کچھ کرنا تھا جسے اب بھی اپنی "محبت" پر پورا بھروسہ تھا۔

وہ نہیں چاہتے تھے اسکا بھروسہ ٹوٹے۔

خود تو شاید ساری زندگی اس لفظ پر بھروسہ نہیں ہونا تھا۔

________________________________


"بڑے ابا آپ بتائیے کیا میں غلط ہوں، کیا میرا دین مجھے اس بات کا حق نہیں دیتا کہ میری شادی میری مرضی سے ہو؟ "

وہ بڑے ابا کے قدموں میں بیٹھی تھی، سب جمع تھے مگر اسے علم تھا بڑے ابا قرآن کے امین ہیں وہ دنیا داری کو قرآن کے فیصلوں پر فوقیت نہیں دیں گے۔

انکے ہاتھ بھی کانپے تھے وہ تو شاک میں تھے، ولیمے کا کھانا تیار کراتے ہوئے انکے گمان میں بھی نہ تھا کہ رات کے بارہ بجے ایسی کوئی صورتحال درپیش آ سکتی یے۔

"آہم"

انھوں نے گلا کنکھار کر خود کو بولنے کے لیے رضا مند کیا، سب کی شعلے برساتی ناگوار نظریں عروہ پر جمی تھیں ۔سب اپنا ابتدائی غصہ نکال چکے تھے۔

"نبی دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا


دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

یہ حدیث صحیح ہے۔"


سب توجہ سے انھیں سن رہے تھے، بد کردار عورت کی سزا موت تھی، روایات کے مطابق اس وقت وہ دلہن بنی عورت جو پورے خاندان کے سامنے کسی غیر مرد سے اظہار التفات کر رہی تھی وہ موت کی حقدار تھی۔

مگر ابھی فیصلہ بڑے ابا کے ہاتھ میں تھا۔

" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

غیر کنواری عورت کا نکاح اس کی واضح اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری کا نکاح بھی اس سے اجازت لے کر کیا جائے، اور کنواری کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۔ (یعنی شرم سے نا بولے تو اسکی خاموشی اسکی اجازت سمجھی جائے گی)

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر_1871"

انھوں نے سب کو ایک نظر دیکھا ۔جو بمشکل اپنے آپ کو قابو کیے ہوئے تھے۔جیسے عروہ پر جھپٹنا چاہتے ہوں۔

"بڑے ابا میں بولی تھی میں نے چیخ چیخ کر اور بار بار انکار کیا تھا"

عروہ نے بلک کر کہا، اس وقت اسکی حالت قابل رحم تھی۔ وہ بڑے ابا جو ہمیشہ اسےاپنے مزاج کی سختی کے باعث ناپسند تھے آج انھی سے اسے رحم کی امید تھی۔

"ہاں اللہ کا دین سکھاتا ہے کہ

والدین کو قرآن کریم کے ان احکام کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور اپنی مرضی کو اولاد پر ٹھونسنا نہیں چاہیے۔

بلکہ لڑکی اور لڑکا دونوں سے پوچھنا چاہیے،"

"بھائی جان آپکو نہیں پتہ، میں باپ ہوں اسکا مجھے دنیا داری کا پتہ ہے، اس بے وقوف کو نہیں پتہ اسکے لیے کیا اچھا ہے کیا برا؟،یہ میں سمجھتا ہوں۔ اسلام پسند کی شادی کی. اجازت دیتا ہو گا مگر وہ بے حیائی کی اجازت نہیں دیتا وہ اس طرح سب کے سامنے والدین اور شوہر کا تماشہ بنانے کی اجازت بھی نہیں دیتا"

بریگیڈیئر ریٹائرڈ سجاد خان دھاڑے تھے، انکا بس نہیں چلتا تھا اپنی پستول کی ساری گولیاں لاڈلی بیٹی کے سر میں اتار دیں ۔

" میں نے کوئی گناہ نہیں کیا بابا، آپ نے مجھے مجبور کیا ہے یہ سب کرنے پر اگر آپ میری بات سن لیتے تو آج یہ سب نہ ہوتا"

اسکی محبت نے اسے اتنا دلیر بنا دیا تھا کہ وہ بیس لوگوں کے سامنے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی۔

بڑے ابا نے سب کو دیکھا پھر اپنی بات جاری رکھی۔

اس ظالم خاندان میں جہاں باپ بھی ظالم تھا اور بیٹی بھی۔بھائی بھی اور ماں بھی۔

انھیں اللہ کی حدود جاری کرنے کی بھاری ذمہ داری سونپی گئی تھی۔انھیں یہ پوری کرنا تھی۔

وہ اللہ کے سامنے سرخ رو ہونا چاہتے تھے گو کہ اس وقت انکے اندر کا روایتی مرد بھی سخت تکلیف میں تھا۔

ذلت اور شرمندگی کی اتھاہ گہرائیاں انکے بھائی کے ساتھ ساتھ انھیں بھی خود پر کھلتی محسوس ہو رہی تھیں

کیا عزت رہ جاتی کل ہزاروں مہمانوں کے سامنے۔؟

مگر انھیں اس وقت وہ کہنا تھا جو اللہ اور اسکے رسول کو پسند ہو نا کہ انکے بھائی کو۔


"پسند یعنی محبت کی شادی مختلف طرح سے ہوتی ہے ، اگر تو دونوں طرف کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگی،

کیونکہ یہ شادی دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائی ہے ۔

حدیث میں ہے.!


جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، تو انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری شادی اس لڑکی سے میرے ماموں قدامہ رضی اللہ عنہ نے کرا دی جو اس لڑکی کے چچا تھے، اور اس (لڑکی) سے مشورہ نہیں لیا، یہ اس وقت کا ذکر ہے جب اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس لڑکی نے یہ نکاح ناپسند کیا، اور اس نے چاہا کہ اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا جائے، آخر قدامہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نکاح مغیرہ ہی سے کر دیا،

(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1878)"

انھیں اس وقت جو جو یاد تھا وہ کہہ چکے تھے۔

اب وہ بلکل خاموش تھے، عروہ امید سے انھیں دیکھتی انکے قدموں میں بیٹھی تھی۔

" بڑے ابا یہ تو ٹھیک ہے مگر اب شادی ہو چکی ہے، ٹھیک ہے ہماری غلطی ہے ہم اپنی غلطی کو قبول کرتے ہیں، مگر کل جو ہزاروں لوگ آ رہے ہیں انکا تو سوچیں ہم کیا کہیں گے، جو بھی ہوا اب اسکو ختم کریں اور انھیں اپنے گھر روانہ کریں"

سجاد خان کا بڑا بیٹا سول انجینئر تھا اس نے رعب سے کہہ کر حاضرین محفل کا سکتہ توڑا۔

" میں کسی بھی فریق پر زبردستی نہیں کر سکتا، میں جو جانتا تھا وہ بتا چکا ہوں باقی اب دونوں بچوں کا کام ہے، وہ بالغ اور عاقل ہیں جو فیصلہ لیں گے ہم سب کو قبول کرنا ہو گا"

انھوں نے بھتیجے کو دیکھا جو اس ظلم کا سب سے زیادہ شکار ہوا تھا۔

اب گردن موڑے سب کی طرف پشت کیے اس وقت سے خاموش کھڑا تھا۔

انھیں اسکے لیے سخت دکھ ہوا ۔

(اللہ تمہیں مزید صبر دے میرے بچے)

عروہ نے اسے چونک کر دیکھا جسے تو وہ بھول ہی بیٹھی تھی

اب اسکی زندگی اور قسمت کا فیصلہ اس شخص کے ہاتھوں میں تھا۔ جو اسے اس پہر یہاں لایا تھا۔اس نے صاف کہا تھا۔


"میں تمہیں صرف ایک فیور دے سکتا ہوں کہ ابھی اور اسی وقت تمہیں تمہارے ماں باپ کے پاس چھوڑ آوں، اس سے زیادہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا"

" لیکن بابا وہ واقعی میں مجھے قتل کر دیں گے"

اسے اپنے باپ بھائیوں سے کسی اچھائی کی امید نہ تھی۔

"تم مجھے طلاق دے دو، اور میں اسے کال کرتی ہوں وہ مجھے لے جائے گا"

وہ اب اپنے گھر نہ جانا چاہتی تھی۔یہ قیامت صغریٰ تھی۔اس لڑکی کو باپ اور بھائی کے مقابلے ایک غیر مرد پر بھروسہ تھا۔

" میں اتنا اچھا نہیں ہوں عروہ بی بی نہ ہی میرا اتنا ظرف ہے کہ تمہیں تمہارے اس نامراد عاشق کے ہاتھ میں دے کر آوں، اٹھو اب مزید ایک پل بھی تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا، اور آئندہ کبھی میرے سامنے مت آنا"

وہ غصے کی ایک شدید لہر کو دباتا اسے یہاں لے آیا۔ راستے میں اسکے ساتھ گھسیٹتے ہوئے عروہ نے اپنے گناہوں کی معذرت کرنا چاہی۔

" خبردار، عروہ تمہارے سوری سے کچھ نہیں ہو گا، میری زندگی تباہ ہو چکی ہے میں نہیں چاہتا تم پر مزید کوئی عذاب میری وجہ سے اترے"

وہ جانتے تھے آج کی رات اگر وہ یہاں گزار گئی تو ساری زندگی بھی اپنی صاف دامنی کی وضاحت نہیں دے سکے گی۔

اور اب اسکے بعد وہ صرف چند جملے بولنے کے بعد سے بلکل چپ پشت کیے کھڑے تھے۔سب بول رہے تھے غصہ ہو رہے تھے صرف وہی کچھ نہیں بولے تھے۔

" جی تو عروہ بچے جو ہوا اپنے باپ کو معاف کر کے اب ایک نیا آغاز کرو، میرے دعا ہے اللہ تم دونوں کے دلوں میں محبت بھر دے بے شک وہ محبت بھرنے پر قادر ہے"

انھوں نے بمشکل ایک ہاتھ اسکے سر پر رکھا ۔

"بڑے ابا پلیز میں اسکے ساتھ خوش نہیں رہوں گی یہ میرے ہی نہیں اسکے ساتھ بھی زیادتی ہے، یہ ممکن نہیں "

اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اس نے *اسے بھی شامل کیا تھا۔

" ہممم "

انھوں نے گہری سانس بھرکر تھوک نگلا۔پھر خود کو حاطب سے گفتگو کے لیے رضا مند کیا۔

" حاطب بچے"

مگر انھوں نے جانا کہ یہ مشکل تھا۔اس وقت اس سے بات کرنا بہت دل گردے کا کام تھا۔

" آپ کیا چاہتے ہیں؟"

یہ وہ طویل ترین جملہ تھا جو ادا کرنا مشکل تھا۔

خاندان کے سب سے نفیس بچے کے ساتھ یہ حادثہ ہوا تھا۔

جو اپنے لیے ایک لفظ تک نہ بولا تھا۔

سکا صبر انھیں متاثر کر رہا تھا۔

"میں کیا چاہوں گا بڑے ابا، اس وقت اصولی طور پر مجھے کیا چاہنا چاہیے"

وہ سپاٹ انداز میں الٹا انھی سے پوچھ رہا تھا۔جسکا انکے پاس کوئی جواب نہیں تھا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

"میں سمجھ نہیں پا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، مگر یہ بات طے ہے کہ میں کسی کی مرضی کے خلاف اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ میں۔۔، کہ میں طلاق دے دوں "

بمشکل وہ یہ لفظ ادا کر پایا تھا۔سب کو سانپ سونگھ گیا۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم لوگوں کو کیا منھ دکھائیں گے، ہزاروں لوگ جو تمہاری یونٹ سے بابا کی یونٹ سے آ رہے ہیں انھیں کیا کہیں گے"

سجاد خان کا بڑا بیٹا ایک بار پھر رعب سے بولا تھا۔

" بھائی یہ آپکو پہلے سوچنا چاہیے تھا، کہ آپ مجھے کیا منھ دکھائیں گے اور باقی سب کو کیا منھ دکھائیں گے"وہ کاٹ دار لہجے میں جتا کر بولا۔

ممکن تھا ان دونوں میں بحث طویل ہو جاتی۔

جاوید خان بلکل خاموش تھے انکا شاک کم نہیں ہو رہا تھا۔ہمایوں سنجیدہ اور کسی حد تک غصے میں تھا لڑکیوں کو ویسے ہی بولنے کی اجازت نہیں تھی وہ سب خاموش تماشائی تھیں۔

آیت، عفی اور باقی چھوٹے بچے اس تماشے سے محروم رہ گئے تھے۔وہ سب سو رہے تھے۔

"ٹھیک ہے ایسے فیصلے یوں جلد بازی میں نہیں کیے جاتے، میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے تو اسکا بہتر حل نظر آ جائے گا چیزیں وقت کے ساتھ بہتر ہو جاتی ہیں ۔آپ لوگ بہتری کے بارے میں سوچیں، دوگھنٹے ہیں آپکے پاس ،فجر کے بعد ہم اس پر بات کرتے ہیں"فجر کی اذان میں محض سوا گھنٹے ہی رہ گیا تھا۔

وہ سب چپ چاپ وہاں سے ہٹ گئے،، سجاد خان نے بیٹی کو قہر آلود نظروں سے دیکھا۔

" اور بچی تم ادھر میرے کمرے میں انتظار کرو،، اور تم لوگوں میں سے کوئی اسکے پاس نہیں جائے گا، نہ ہی اسے کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے"

وہ پلٹے، عروہ کو اپنے کمرے میں جانے کا کہہ کر سب کو وارن کیا مبادا کوئی اسے تشدد کا نشانہ نہ بنائے وہ اکیلی ہی اٹھی اور انکے کمرے کی جانب چلی گئی۔

سب نے یوں اسے راستہ دیا جیسے وہ کوئی اچھوت یا گندگی کا ڈھیر ہو ۔

کمرے میں آ کر وہ کرسی پر ڈھے گئی۔فیصلہ کرنا مشکل تھا۔

ایک طرف محبت تھی ۔دوسری طرف یہ ان چاہی شادی۔

تیسری طرف حاطب کی طنز بھری باتیں

(کیا واقعی وہ مجھے بے وقوف بنا رہا ہے؟)

اور چوتھی جانب بڑے ابا کا حکم

کیا واقعی اب بہتری کی کوئی گنجائش تھی؟؟وہ سوچ سوچ کر تنگ آ گئی تھی۔

اس سارے معاملے میں پہلی بار کسی نے اسکی بات سنی تھی ۔اسی وجہ سے اسکا سابقہ انداز سوچ اپنی وقعت کھو چکا تھا۔

کیا وہ بہتری کی امید کر سکتی تھی؟

اسکا زہن اب اس نکتے پر بھی سوچ رہا تھا

____________________________

""بھائی آرام سے ایسے کیسے طلاق کی بات کر رہے ہیں؟"

اس نے حاطب کے کندھے پر ہاتھ رکھا مگر بے سود۔اس وقت سب وقتی طور پر اپنا اپنا منھ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب اپنے پورشن میں جمع تھے۔بڑے ابا شاید مسجد چلے گئے تھے، باہر ولیمے کا کھانا ہنوز پک رہا تھا 

اور اندر ایک قیامت صغری برپا تھی۔باہر والے نہ جانتے تھے اندر والوں پر کیا بیت رہی ہے۔

اور کل آنے والے ہزاروں مہمان لوگوں کی باتیں اور نجانے کیا کیا۔۔۔مگر اس وقت انھیں کچھ اور فکریں لاحق تھیں ۔

"میں فیصلہ کر چکا ہوں"

اسکا چہرہ جامد تھا۔

خوفناک سنجیدگی سب کا دل دہلائے جا رہی تھی نجانے کیا ہونا تھا کہ اب بھی رات کے تین بجے وہ سب ہونق بنے کھڑے تھے

"ایسے فیصلے نہیں ہوتے لوگ کیا کہیں گے"

یہ امی تھیں مگر وہ بنا سنے سپاٹ چہرے کے ساتھ اپنی جگہ کھڑے رہے۔

" بھائی سب سیٹ ہو جائے گا، لڑکیاں کر دیتی ہیں بے وقوفیاں،، مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ اتنا سنجیدہ ہو جاو"

یہ ہمایوں تھا۔جو ذاتی طور پر شدید برا منانے کے باوجود بھائی کو تسلی دے رہا تھا۔

وہ سب کیپٹن حاطب جاوید کے غصے سے واقف تھے، مگر اس وقت جس بات پر وہ ڈٹا ہوا تھا وہ ٹھیک نہیں تھی وہ ان سب کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی تھی۔

"حاطب لوگ کیا کہیں گے، شادی کی پہلی رات دلہن کو طلاق ہو گئی،، یہ ظلم ہے ہم بھی بچیوں والے ہیں "

ابو نے بھی دہائی دی۔

" میں ظالم نہیں بننا چاہتا مگر اب آپ لوگ مجھے ظالم بننے پر مجبور کر رہے ہیں"

امی نے سہم کر اسکو دیکھا ابھی چند گھنٹے پہلے تک وہ کتنا خوش تھا اور اب۔۔۔انکا دل کٹ کر رہ گیا۔

" فیصلہ ہو گیا، میں ایک دن بھی اپنا نام اسکے نام کے ساتھ رہنے نہیں دونگا،، میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا،،میں یہ زہر نہیں پیوں گا"

وہ فیصلہ کن انداز میں کہتا واک آؤٹ کر گیا۔کب سے وہ جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہا تھا وہ صبر اب شاید ٹوٹنے والا تھا۔

دلہن کو وہ لوگ پہلے ہی چھوڑ آئے تھے۔

اس وقت میں صبر کرنا بھی بہت کٹھن تھا۔

شاید اسی لیے صبر کا اجر اتنا عظیم ہے۔بہت کم تھے جو صبر کرنے والوں میں شمار ہوتے تھے، اس وقت تک وہ بھی انھی چند چنے ہوؤں میں سے تھا ۔

مگر ان سب کی جانیں سولی پر لٹکی تھیں ۔

نجانے غلطی کس کی تھی اور سزا کون بھگت رہا تھا۔

ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت تھا۔

______________________

"اے اللہ میں کیا کروں؟، اس وقت جبکہ اتنا تماشہ لگ چکا ہے اسکے بعد بھی کوئی بہتری ہو سکتی ہے؟"

سر اپنے ہاتھوں میں گرایا۔اسنے جو قدم اٹھایا تھا وہ انجام کی پرواہ کیے بغیر اٹھایا تھا۔مگر اب سب کچھ اسکی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔

"تو کیا میں اب سب ٹھیک کر سکوں گی؟ "

اس نے بے یقینی سے سوچا۔وہ سجاد خان کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی۔خاندان کی پہلی بچی جو ہاسٹلز میں رہی، جسے اعلیٰ تعلیم دلوائی گئی۔ہر چھوٹی بڑی خواہش بنا کہے پوری کی گئی مگر نجانے اب کیا ہوا تھا۔کہ اسکی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے پر آ کر اسکی ایک نہ سنی گئی ۔اسکی چوائس اور خوشی اسکی محبت سفیان کو ٹھکرا دیا گیا۔

اور شاید وہ کبھی سب اچھا ہو جانے کی امید پر رو دھو کر صبر کر جاتی مگر یہاں تو زندگی کسی رولر کوسٹر کی طرح یکدم گھومنا شروع ہو گئی تھی۔

سفیان سے شادی نہ ہونے کا دکھ اپنی جگہ مگر یوں خاندان میں زبردستی شادی کرنے کا صدمہ بہت بڑا تھا۔اتنا بڑا کہ وہ ماں باپ کے حقوق محبت اور عزت تک کی پرواہ نہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔

اور آج کی رات تو سونے پر سہاگہ تھی۔

"اور وہ کیپٹن اس وقت تو چپ ہے. مگر کیا وہ یہ سب بھول پائے گا؟"

اس نے کسی بہتری کے امکان پر غور کرتے ہوئے خود سے سوال کیا۔

"نہیں" جواب واضح تھا۔

"مرد اپنی بے عزتی کبھی نہیں بھولتا، اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں سوائے اسکے کہ میں اپنے اور سفی کے جذبات کی سچائی پر یقین رکھوں بلکل ویسے ہی جیسے آج تک رکھتی آئی ہوں " اس نے خود کو مضبوط کیا۔

دور اندر کہیں گہرائی میں حاطب کی باتوں نے وسوسے پیدا کر دئیے تھے ۔مگر وہ ان سے نظریں چرا گئی۔

" اگر سفیان کو مجھ سے سچی محبت نہ ہوتی تو وہ اپنی جان دینے کی کوشش کیوں کرتا، بھلا کوئی جھوٹے جذبوں کے لیے جان داو پر لگاتا ہے"

سفیان کی تین دن پہلے کی گئی خود کشی کی کوشش اسکی محبت کو سچا ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔

اس نے خود کومزید  ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار کیا۔

وہ اس دریا میں اتر چکی تھی۔جہاں سے واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن تھی۔

___________________________

فجر کی اذانوں کے بعد سب بے چینی سے نماز ادا کر کے واپس اسی جگہ جمع ہو چکے تھے جہاں سے دو گھنٹے پہلے اجلاس برخاست ہوا تھا۔

بلا واسطہ یا بالواسطہ ان سب کو کسی معجزے کی امید تھی۔

وہ عروہ اور حاطب دونوں کی طرف پر امید مگر ڈری ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ڈھلتی رات کی سیاہی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی تھی۔اگر آج کوئی مثبت فیصلہ نہ ہو پاتا تو انکی زندگیاں بدنامی کی تاریکی میں ڈوب جاتیں لوگ چوراہوں اور دکانوں پر بیٹھ کر اس خاندان کے قصے ایک دوسرے کو سناتے سو سو باتیں بنتیں۔

اور ان سب کی وجہ کیا بیان کی جاتی؟ 

اس سب کا جواب کیا تھا، کوئی؟ 

"رب شرحلی۔۔"

انھوں نے گھمبیر سنجیدہ آواز میں کلام پاک سے گفتگو کا آغاز کیا۔

پھر عروہ جو ڈری ہوئی سی سب کے پیچھے کھڑی تھی اسے اپنے قریب بلایا۔وہ سر جھکائے چلتی انکے قریب آ رکی۔

" بیٹھو میری بچی، سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہیں کسی سے ڈرنے یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔جو تم نے کیا وہ تمہارا حق تھا۔گو کہ طریقہ غلط ہے اگر تم کل یا پرسوں بھی میرے پاس آ جاتیں اور یہ سب کہتیں تو شاید میں تمہارے باپ کو تم پر یہ ظلم کرنے سے روک پاتا۔"

انھوں نے خود کو جیسے فیصلے کے لیے تیار کر لیا تھا۔

" میں جانتا ہوں جو سب ہوا اس میں ساری غلطی تمہارے ماں باپ کی ہے انھیں تمہارے ساتھ یوں زبردستی نہیں کرنی چاہیے تھی۔میں کسی پر طنز نہیں کر رہا مگر یہ تمہارا حق تھا کہ نکاح میں تمہاری مرضی یا پسندیدگی شامل ہوتی جسکو غصب کیا گیا اور نتائج ہم سب کے سامنے ہیں"

عروہ نے اپنے آنسو پئیے، اس بات کا ہی تو اسے دکھ تھا. اس معاملے میں اسکی ایک نہ سنی گئی ۔

" بڑے ابا میں نے سو بار کہا مجھے یہ سب نہیں کرنا، مگر انھوں نے زبردستی کی "

" کوئی بھی ماں باپ اولاد کا برا نہیں چاہتے ہم نے جو بھی فیصلہ کیا ہے تمہاری بہتری کے لیے کیا ہے، مگر تم کو اتنی عقل نہیں"

سجاد خان کا بڑا بیٹا اجمل کچھ غصے سے اسکی بات کاٹ کر بولا تھا۔

"بے شک، یہ فیصلہ بہتری کا تھا مگر پھر بھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے طے شدہ رشتے میں بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں، انکی مرضی دریافت کرتے ہیں تو تمہیں بھائی ہونے کے ناطے اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے تھا"

اسکو جواب بڑے ابا نے دیا تھا۔

پھر انھوں نے اسے چپ رہنے کا کہا اور عروہ کی طرف متوجہ ہوئے۔

" عروہ میں جانتا بھی ہوں اور مانتا بھی ہوں کہ تمہارے باپ نے زیادتی کی۔اور میں اس سب کے لیے تم سے معافی مانگتا ہوں "

انھوں نے اپنے ہاتھ یکلخت اسکے آگے جوڑ دئیے تھے۔حاطب کو ابھی تک کسی نے مخاطب نہیں کیا تھا۔

"بڑے ابا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟"

وہ کسی احساس کے تحت ڈر گئی تھی۔اسے تو بڑے ابا سے انصاف کی امید تھی۔مگر وہ تو شاید کچھ اور سوچ کر آئے تھے۔۔۔

""بچی میں چاہتا ہوں تم اپنے باپ کی زیادتی، اسکی کسی اچھائی کو یاد کر کے معاف کر دو، اور اللہ کا نام لے کر نبھا کرنے کی کوشش کرو، اللہ نے چاہا تو وہ تمہارے دلوں میں محبتیں ڈال دے گا"

وہ منت کر رہے تھے۔سفید ریش بزرگ خاندان کی عزت کے لیے اس بچی کے آگے ہاتھ پھیلا رہے تھے۔گو کہ سب جانتے تھے انکی سجاد خان یا جاوید خان کے گھروں میں کوئی قابل ذکر اہمیت نہیں تھی۔مگر اس وقت وہ کشادہ دلی اور بڑے کاپن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکے مسائل سلجھانے کے جتن کر رہے تھے۔

سب نے حیرت اور امید سے عروہ کو دیکھا ۔کسی کو امید نہیں تھی وہ یوں کریں گے۔

 "بڑے ابا یہ نہیں ہو سکتا، میں اُس سے پیار نہیں کرتی"

وہ چیخی تھی۔

"اللہ دلوں میں محبتیں ڈال دیتا ہے بچی"

انکے لیے یہ سخت مرحلہ تھا وہم و گمان سے بالاتر۔

"مگر بڑے ابا میں کسی اور سے پیار کرتی ہوں، اور اسکے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں"

وہ دیدہ دلیری سے اپنے پیار کا اظہار و اعتراف کر رہی تھی۔

اجمل شدید غصے میں اسکی جانب لپکا۔ممکن تھا وہ اسے دو تھپڑ جڑ دیتا  جو ایک ہی بات پہ اٹک گئی تھی۔مگر بڑے ابا نے اسے روک دیا۔

" تو یہ تمہارا حتمی فیصلہ ہے؟ "

وہ دکھ سے بولے، ایک بوڑھے کا یوں کمزور انداز تکلیف دینے والا تھا مگر اس وقت سب اپنا اپنا سوچ رہے تھے۔

سب کو اپنے اپنے مفادات کی فکر تھی۔

ہم اپنی زندگی میں اکثر خیر اس لیے بھی نہیں حاصل کر پاتے کہ اسے حاصل کرنے کے لمحات میں ہم مفاد پرستی میں مگن ہوتے ہیں ۔

"یہ۔، یہ میرا حتمی فیصلہ ہے، میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں۔ نا کبھی ہو سکتی ہوں، نا کبھی حاطب خوش ہو گا میرے ساتھ"

حاطب کا محض نام تھا۔اصل فکر اسے اپنی تھی۔

"عروہ میری بات سمجھو تم اپنے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہو"سجاد خان نے پہلی بار لاڈلی بیٹی کو مخاطب کیا تھا۔

"بابا آپ نے میرا مستقبل تباہ کیا ہے"

وہ  بدلحاظی سے بولتی باپ کو غصہ دلا گئی۔

" جی تو حاطب بچے تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ "

بہت دور کھڑے حاطب کوپہلی بار انھوں نے شامل بحث کیا تھا۔سجاد خان مزید کچھ نہ بول سکے۔

" میرا فیصلہ وہی ہے جو دو گھنٹے پہلے تھا، میں یہ سب ختم کرنا چاہتا ہوں، رشتے زبردستی نہیں بنتے۔بن جائیں تو چلتے نہیں، کل جو ہونا ہے وہ ابھی کیوں نہیں؟" 

وہ سپاٹ انداز میں بولا۔جذبات سے عاری انداز۔سب کے دل کٹے تھے۔

"تم نے سوچا نہیں کہ اگر یہ رشتہ بنا ہے تو یقینا ٹوٹنے کے لیے تو نہیں بنا ہو گا نا، اللہ کی طرف سے کوئی بہتری ہو گی اس میں "

دلیل مضبوط  تھی مگر انکا لہجہ کمزور تھا۔وہ جانتے تھے اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا مگر پھر بھی وہ کوشش کر رہے تھے۔

دو لوگوں میں، بلکہ دو گروہوں میں صلح کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔

صلح کرانے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔کیونکہ یہ ہمت والا کام ہے۔اپنے نفس کو مار کر کرنے والا کام ہے ۔اسکی کوشش کا بھی بے حد اجر ہے۔

مگر شاید یہ سب بے کار تھا۔

" اللہ کی طرف سے بہتری اسی میں ہے کہ اسے فورا ختم کر دیا جائے جو فیصلے اللہ کی مرضی کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں ان میں خیر کی امید کہاں سے لاوں میں؟"

وہ بے بسی سے بولا، وہ اندر سے جتنا ٹوٹ گیا تھا، کچھ دراڑیں تو باہر سے نظر آ ہی رہی تھیں ۔

اسکا مردانہ وقار، عزت نفس اور انا سب چکنا چور ہو چکے تھے۔اور یہ چوٹ بہت گہری تھی ۔

سب کے سجھانے منتیں کرنے کے باوجود اس وقت ہی یہ رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔وہ جسے بڑے مانوں سے جوڑا گیا محض ایک رات بھی قائم نہ رہ سکا۔

مگر شاید اسے ٹوٹنا ہی لکھا تھا۔اور جس رشتے کا ٹوٹنا مقدر ہو چکا ہو اسے لاکھ جتن کر کے بھی قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ایسے رشتوں پر Give upکر دینا ہی توکل ہے۔لیکن یہ بھی کہاں آسان ہوتا ہے۔

یہ قیامت صغری تھی ہر کوئی اپنی اپنی جگہ غم و غصے کا شکار تھا۔

مگر لاحاصل۔دل ٹوٹ گئے تھے امیدوں کا قتل ہوا تھا۔

پھر بھی قیامت ٹلی نہ تھی۔

ایک گزری تھی دوسری اس سے بڑی ابھی منتظر تھی۔

"ہم مہمانوں کو کیا جواب دیں گے اور خاندان والوں کو، کس کس کو کیا کیا کہیں گے،، پشتوں کی بنائی گئی عزت خاک میں مل جائے گی"

جاوید صاحب نے سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔وہ دل کے مریض تھے کئی گھنٹوں سے خود پر ضبط کیے بیٹھے تھے مگر اب ناممکن ہو رہا تھا۔ بہت دیر تک سب ایک دوسرے کے چہرے تکتے رہے۔ لوگوں کو فیس کرنے کا ہی تو ڈر تھا۔

لوگ جنکی زبانیں نوکیلے کانٹے اگلتی ہیں ۔

لوگ جو کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے ۔

لوگ جو کسی کے غم میں شریک نہیں ہو سکتے۔

لوگ جو اعتماد کا خون کرتے ہیں۔

لوگ جو شور کرنے والے تماشائی ہوتے ہیں۔

مگر انھیں کسی کے دل ٹوٹنے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

"بھائی جان اب اسکا ایک ہی حل ہے ۔"

بہت دیر بعد انھوں نے سر اٹھایا۔

"کیا حل ہے؟ "

سب نے حیرت سے انھیں دیکھا کیا اب بھی کچھ بچا تھا؟ 

"آپ چلیں میرے ساتھ"

وہ انھیں ایک گوشہ تنہائی میں لے گئے اور جو مطالبہ انھوں نے کیا تھا وہ ان کے لیے ایک مزید بڑا شاک تھا ۔

"ایسا نہیں ہو سکتا جاوید، یہ ممکن نہیں"

شاک میں بھی انھوں نے صاف انکار کیا تھا۔

" بھائی جان میں جانتا ہوں یہ سب اس طرح نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی ہوتا ہے مگر آپ اس خاندان کے بڑے ہیں، آپ نے ہمیشہ اسکی عزت کا پاس رکھا ہے،، اب بھی میرے ان بندھے ہاتھوں کو دیکھیے"

"جاوید پاگل مت بنو، جاو ٹھنڈے دماغ سے سوچو کہ لوگوں کو ہینڈل کیسے کرنا ہے، ایک غلطی سجاد نے کی دوسری غلطی میں نہیں دہراوں گا"

کوئی بھی ذی ہوش انسان اس پر یقین نہ کرتا۔ وہ بھی صاف انکاری تھے ۔

" بھائی میرا حاطب پاگل ہو جائے گا،، اس نے سینکڑوں مہمان بلا رکھے ہیں،، وہ ابھی تو صبر کر گیا ہے مگر جب لوگ باتیں کریں گے میرا بیٹا جیتے جی مر جائے گا، کوئی لڑکی میں غلطیاں نکالے گا تو کوئی لڑکے میں،، میرا بیٹا بے قصور ہے وہ تباہ ہو جائے گا"

وہ باقاعدہ رو دئیے تھے انکے ہاتھ کانپ رہے تھے، انکی بیوی نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں دلاسا دیا۔مگر بولی کچھ نہیں وہ تو خود سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھیں اوپر سے حاطب کا خاموش ویران چہرہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہ رہا تھا۔

" میں نے دیکھا ہے اس بچے کو،، میرا دل بھی دکھی ہے اور تم نے دیکھا کہ میں نے پوری کوشش کی،، مگر جاوید میں اپنی اکلوتی بچی کی قربانی نہیں دے سکتا۔میری بچی ابھی چھوٹی ہے ایک دو سال تک میرا اسکی شادی کا کوئی ارادہ نہیں"

وہ صاف انکاری تھے۔اندازہ ہوتا کہ صورتحال اتنی پیچیدہ ہو جائے گی وہ کبھی ایسی کوئی بات سنتے ہی نہ۔اب تو انھیں فیصلہ کرنے کے سزا دی جا رہی تھی جیسے۔

" بھائی جان  حالات ایسے نہ ہوتے تو ہم کبھی بھی یوں آپکا امتحان نہ لیتے مگر ابھی ہماری اس پھیلی جھولی کو دیکھیں،، آپ نے ہمیشہ جاوید کے باپ کی طرح ہم سے اچھا سلوک کیا ہے آج بھی ہمارے بچے کی زندگی بچا لیں۔ اسے اس ذلت سے بچا لیں"

یہ جاوید کی اہلیہ تھیں۔لجاجت سے انھیں دیکھتیں۔

گو کہ وہ جانتے تھے یوں مطلب کے لیے پاوں پڑ جانے والے لوگ سانپوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں ۔

لیکن اس وقت انکے سامنے اپنے باپ دادا کی عزت کا سوال تھا۔وہ دب رہے تھے۔وہ دباو میں آ رہے تھے۔انھیں اس بچے کا صبر دکھی کر رہا تھا۔ وہ اس وقت جانتے نہیں تھے اس صبر کی سزا انکی بیٹی کو مل سکتی تھی۔

کچھ بھی مزید کہے بناء  فیصلہ کے لیے سوچنے کا وقت مانگتے اٹھ گئے چند گھنٹوں میں وہ اچانک بہت بوڑھے ہو گئے تھے، پاوں گھسیٹتے بمشکل اپنے پورشن میں پہنچے۔

جس کے لیے وہ آئے تھے وہ ہر شے سے بے خبر جائے نماز پر اپنی کل رات والی تفسیر دہرانے میں مصروف تھی جو عصر کے وقت نہ پڑھنے کی وجہ سے ابا نے اسے سونے سے پہلے سزا کے طور پر پڑھائی تھی۔اور آج ولیمے کے بعد اسے سنانا تھی۔

جو امتحان اسکا لیا جانے والا تھا اسکا تو اسے اندازہ ہی نہیں تھا۔۔۔

مگر ٹھیک تین گھنٹوں بعد اپنے ایک بھائی کی موجودگی اور دو کی غیر موجودگی میں اس نے اقرار نکاح و وفا کیا تھا۔

جس لمحے اس نے نکاح نامے پر سائن کر کے اوپر دیکھا ابا  نے اسے بے تحاشہ دعائیں دی تھیں جو یقینا آنے والی زندگی میں اسکا اساسہ ہونے والی تھیں۔

اور جو دوسرا شخص اسکی نگاہوں میں آیا تھا، وہ غصیلے سپاٹ چہرے اور ملگجے کپڑوں والے حاطب جاوید تھے جو یوں کھڑے تھے جیسے بمشکل کھڑے کیے گئے ہوں ۔

انکے ساتھ کیا ہوا تھا اسے اندازہ نہیں تھا۔

ہاں آگے کیا ہونا تھا وہ اسکے بارے میں بھی لاعلم تھی۔

ابا نے کہا تھا وہ خوش قسمت ہے، اس نے ہمیشہ انکا سر فخر سے بلند کیا ہے اور وہ انکے دل کا سکون، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔اور وہ ہواوں میں اڑنے لگی۔اس نے سمجھا وہ کامیاب ہو گئی۔

ماں باپ کی دعائیں تو عرش ہلا دیتی ہیں ۔اسکے نصیب کا لکھا نہ بدلتا کیا؟ 

مگر ابھی بہت سے زلزلے آنے باقی تھے۔

 وہ اس وقت بس ہونق تھی ۔ہر چیز سے بے پرواہ ۔اپنی چھوٹی سے دنیا میں بولائی سی ادھر ادھر دیکھتی ۔

_______________

ابا کی بات ماننا اور انھیں خوش کرنا بذات خود اتنی بڑی بات تھی کہ ایفا گل کو اس معاملے کی سنگینی کا ادراک بھی نہ ہو سکا۔

وہ شاک میں تھی، ابا اسکے سامنے آئے تھے، انھوں نے اسکے سامنے ایک معاملہ رکھا، ایسا معاملہ جو آج سے پہلے کبھی اسکے سامنے نہ لایا گیا، پھر وہ اسی پل اسکی مرضی بھی جاننا چاہتے تھے۔

عفی کو لگا وہ فیصلہ کر چکے تھے، وہ ایسا ہی چاہتے تھے اگر نہ چاہتے ہوتے تو یہ معاملہ اس تک لے کر ہی کیوں آتے ۔وہ اتنی سمجھدار یا ہوشیار نہیں تھی کہ فوری طور پر معاملے کا ہر طرف سے جائزہ لے پاتی۔

اسکے لیے تو یہ بھی صدماتی خبر تھی کہ گزشتہ رات ہونے والی شادی اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی۔وہ ہونقوں کی طرح انھیں دیکھ رہی تھی۔

(عروہ اتنی بے وقوف تو نہیں تھی کہ اتنے اچھے طریقے سے ہونے والی شادی کو یوں،، یوں چند پل میں ختم کر دیا؟ اگر یہ سب ہونا تھا تو شادی ہوئی ہی کیوں؟) یہ سب وہ سوالات تھے جو اسکے ذہن میں آئے تھے، اسکے جوابات وہ امی جی سے جاننے کے ارادے کر رہی تھی ۔ہمیشہ کی طرح ہر بات اسے دیر سے اور امی جی کے ذریعے پتہ چلتی تھی اب بھی اسنے یہی سوچا کچھ دیر تک امی جی اسے اس حادثے بلکہ سانحے کی تفصیلات سے آگاہ کر دیں گی مگر شاید یہ جاننا اسکے نصیب میں نہیں تھا۔اس نے عروہ کی جگہ کے لیے معاہدے پر دستخط بھی کر دئیے تھے ۔

ساری زندگی ابا اسے بلاواسطہ، خاموش اور کبھی براہ راست بھی عروہ اور جاوید چچا کی بیٹیوں جیسا نہ بننے کی تلقین اور تاکید کرتے رہے آج خود انھوں نے ایفا گل کے لیے عروہ سجاد خان کی چھوڑی ہوئی جگہ قبول کر لی تھی۔

کیوں؟؟

یہ پوچھنے کی نہ ایفا گل کی ہمت تھی نہ تربیت ۔

پھر بھی انھوں نے کہا تھا۔

"ایفا گل تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے، جو تمہاری خواہش ہو گی وہی ہو گا، تمہارا باپ صرف تمہارے سامنے کسی اور کی خواہش رکھ رہا ہے اور تمہاری مرضی جاننا چاہتا ہے" ابا جی نرم مزاج یا دوستانہ طبیعت کے مالک کبھی بھی نہ تھے۔دیوان لالا سے کر ایفا گل تک اور باقی خاندان سے لے کر انکی اپنی بیوی تک سب ان سے خائف رہتے تھے۔

اور وہ سخت مزاج ہونے کے ساتھ مذہبی اور ضدی بھی تھے یہ سب باتیں انھیں ایک خوفناک شخصیت کے طور پر سامنے لاتی تھیں۔لیکن اس وقت وہ ایک کمزور اور بزرگ کے طور پر دریافت کر رہے تھے۔

"ابا مجھے نہیں پتہ، جو بھی آپکو درست لگے"

وہ شدید نروس تھی ۔انھوں بغور اپنی معصوم سی بیٹی کا چہرہ دیکھا ۔وہ واقعی ابھی بہت چھوٹی تھی۔

"جانتی ہو عفی ایک شادی تھی جس کی تیاری اور توثیق عرش پر ہوئی تھی،، ویسے تو ہر کسی کا جوڑ بنا ہوا ہوتا ہے مگر پھر بھی اس شادی میں اللہ کی بہت بہت خوشی اور رضا شامل تھی جانتی ہو وہ کس کی تھی؟"

انھوں نے اسکی طرف سے رخ موڑ لیا تھا۔

" جی ابا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی"

وہ جوش سے بولی ۔جیسے غیر متوقع طور پر اسے درست جواب کا پتہ ہو۔

" ہممم، مگر پھر بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رشتہ طے نہیں کر دیا بلکہ فاطمہ کی مرضی جانی، گوکہ وہ جانتے تھے فاطمہ کی مرضی وہی ہو گی جو فاطمہ کے باپ کی مرضی ہو،، اور فاطمہ کے باپ وہی چاہیں گے جس میں اللہ تعالیٰ راضی ہو،، مگر پھر بھی انھوں نے فاطمہ کا حق غصب نہیں کیا۔انھوں نے فاطمہ کواپنا ساتھی چننے کی آزادی دی"

انکے سامنے ایک بیٹی کا حق غصب کرنے کے باعث قیامت صغریٰ برپا ہوئی تھی وہ پھر سے وہی غلطی نہیں دہرانا چاہتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا 

" عقل مند وہ ہے جو دوسروں کی غلطیوں سے عبرت حاصل کرے نا کہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو"

" ابا اگر فاطمہ رضی اللہ عنہ اتنی عقل مند اور نیک ہو کر بھی اپنے باپ کے فیصلے پر راضی ہو سکتی ہیں تو ایفا گل تو کچھ بھی نہیں ہے"۔

اسکا سر جھک گیا تھا، کوئی اور بات ہوتی تو شاید وہ اپنے خیالات کا کھلم کھلا اظہار کرتی۔مگر اس معاملے میں تو وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی۔

شاید کوئی بھی لڑکی اس معاملے میں کچھ نہ کہہ سکتی تھی؟ 

(مگر عروہ نے کیا کیا اور کیوں کیا؟") 

اسکے اندر تجسس کی ماری عورت کو اپنے ساتھ ہونے والی متوقع سانحے سے زیادہ عروہ کے ساتھ ہو چکے سانحہ میں دلچسپی ہو رہی تھی۔یا شاید وہ ایک کم عقلی کی حد تک سادہ اور بے وقوف لڑکی تھی۔

وہ تو اسی میں خوش تھی دیوان لالا حویلی میں نہیں ہیں تو اسے شادی میں شرکت کا موقع ملے گا۔کس قدر پھرتیاں دکھائی تھیں اس نے حاطب بھائی اور عروہ کی شادی کی تیاریوں میں ۔اور اب خود ولیمے کی دلہن بنی بیٹھی تھی۔

وہ لباس جو کسی اور کے لیے بنوایا گیا تھا، اسے زیب تن کرنا کسی اور کے نصیب میں تھا۔

بس یہ نصیب نصیب کی بات تھی۔

مہمانوں کو تو اندرونی کاروائی کا علم بھی نہیں تھا بہت سے لوگ اسے بریگیڈیئر سجاد خان کی ہی صاحبزادی سمجھ رہے تھے۔صد شکر اس بیوٹی انڈسٹری اور نت نئی کاسمیٹکس کا کہ شادی کے روز دلہن پہچانی ہی نہیں جاتی۔

مگر خاندان کو سنبھالنا ایک عظیم امتحان تھا۔

عروہ کی حرکت سب کے لیے ناقابل یقین تھی۔

کوئی لڑکی اتنی خود غرض اور بے وقوف کیسے ہو سکتی ہے؟ 

یہ سوال کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے تھے کہ جب ماں باپ اولاد کے ساتھ بے جا ظلم کریں۔ جب وہ خود غرض ہو جائیں تو ایسے ماں باپ کی اولاد بھی ویسی ہی نکلتی ہے ۔

ولیمے کے فنکشن دوسرے الفاظ میں اپنی عزت کے جنازے میں شرکت انکی مجبوری تھی۔

مگر اندر سے وہ لاوے کی طرح پھٹنے کو تیار تھے۔

یہ انکے لیے یوم الخزن تھا۔

غم کا دن، حادثات کا دن۔

یہ یوم الفتح بھی ہو سکتا تھا۔مگر انکی باغی، بے وقوف اولاد نے اپنی کم عقلی سے اسے تباہ کر دیا۔

انکے خیال میں عروہ سے زیادہ اجمل قصور وار تھا جسکے فضول مشوروں پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے عروہ کے ساتھ پہلی بار ایسی زور زبردستی کی۔

اور اجمل سے زیادہ وہ خود کو قصور وار سمجھ رہے تھے جنھوں نے بیٹے کی جذباتی طبیعت سے واقف ہونے کے باوجود زندگی میں پہلی بار اسکی مان کر کوئی قدم اٹھایا تھا۔

یا شاید یہ انکے کسی گناہ کی سزا تھی۔

اللہ کے فیصلوں تک انسان نہیں پہنچ سکتا۔

اگر عروہ یہ سب نہ کرتی تو ایفا گل اگلے سات جنم میں بھی اس خاندان میں نہ بیاہی جاتی۔

بھلا اسکی قابلیت ہی کیا تھی۔

بڑے بھائی جان کے بچے تھے ہی کس قابل؟ 

____________________________

"میری بات سنو تم اے ایس آئی،، تم لوگ اسے یوں نہیں ڈرا سکتے،، اگر میرے موکل کو مزید تنگ کیا تو میں چھوڑوں گی نہیں تم لوگوں کو" 

انگلی اٹھا کر وارن کرتی وہ اے ایس آئی کا دماغ گھما رہی تھی۔

"بی بی ہم اسے ڈرا نہیں رہے بس تفتیش کر رہے ہیں،، اگر یہ بے گناہ ہے تو اسے ڈر کس بات کا ہے"

وہ اپنے پولیس والے مخصوص ٹون میں بولا۔جس سے لوگ گھبرا جاتے تھے۔

" یہ کونسی تفتیشیں ہیں جو تم لوگ ہر دوسرے روز اسے یہاں بلواتے ہو، کیا چالان کرنے سے پہلے تفتیش مکمل نہیں کی گئی تھی؟ "

وہ بال کی کھال اتار رہی تھی ۔

ہر دوسرے دن وہ اٹھ کر آ جاتی اور اسی طرح سب کو پکاتی تھی مگر بے بسی یہ تھی کہ وہ اب اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔

" بی بی آپکو پولیس کا طریقہ کار نہیں پتہ مجرم سے بہت کچھ پوچھنا پڑتا ہے،، نئے نئے پہلو نکلتے ہیں۔ اگر ہم مکمل تفتیش نہ کریں تو پھر بھی آپ لوگوں کو ہی اعتراض ہوتا ہے" 

اس نے اپنے سامنے کھلا رجسٹر بند کر کے براہ راست اسے دیکھا۔ 

"یہی تو طریقہ ہے تم لوگوں کا، کہ تم لوگوں کو یہی نہیں پتہ کہ وہ ملزم ہے مجرم نہیں، ابھی جرم ثابت نہیں ہوا۔ ابھی اسکا ٹرائل چل رہا ہے "

وہ ہاتھ ہوا میں نچا کر بولی۔

" او بی بی جرم ثابت ہوا سمجھیں بس یہ قبول نہیں کر رہا، خیر کر لے گا" 

آخر میں اس نے نظریں گھما کر اسے تسلی دی۔

مگر اسکے تو سر پر لگی تھی۔

" او ہیلو، خبردار، یہ ہارٹ پیشنٹ ہے، اور اگر تم لوگوں نے اسکو پریشرائز کیا یا اسے کچھ ہوا تو میں تمہارے اس پولیس سٹیشن کے ایک ایک بندے کو عدالت میں گھسیٹوں گی اور تم لوگ اس عنصر چرسی کے ساتھ مل کر اسکے بوڑھے باپ کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا سکتے ہو شیریں خانم کو نہیں "

وہ ایک ہی سانس میں بنا رکے بولی تھی۔

اے ایس آئی نے منھ بنا کر اسے دیکھا یہاں کوئی اور ہوتا تو وہ اسے ٹھیک ٹھیک دماغ درست کر کے گھر بھیجتا مگر یہ ایسی کوئی اعلیٰ پائے کی ڈھیٹ عورت تھی۔ اپنی مرضی سے آتی اور اپنی مرضی سے جاتی۔دوسرے وکیلوں کے برعکس وہ غالباً یہاں آتی ہی لڑنے کی نیت سے تھی۔

پچھلا اے ایس آئی بھی اسی کے سر چڑھا تھا۔اور اب بیچارہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں بیٹھا ہوا تھا ۔

اب انس اپنے ساتھ ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا۔

"میڈم اب جاو اور اس طرح وجہ بے وجہ پولیس سٹیشن مت آیا کرو،" 

انس نے بے،زار ہو کر کہا۔

"مجھے موقع مت دیا کرو، اور خبردار جو تم لوگوں نے تحائف ہضم کرنے کے لیے میرے موکل کو پریشرائز کیا۔تو میں دیکھ لونگی سب کو،، اور ہاں اس کو کہنا جو کرنا ہے عدالت میں کرے،، یہ تین نمبریاں نہ کرے،، اور تم لوگ بھی حلال کھایا کرو،، شکلیں دیکھو اپنی نحوست ٹپکتی ہے ان سے"

انس نے برا سا منھ بنایا ۔اور خود کو مصروف ظاہر کرنے کو پھر سے رجسٹر کھول لیا۔مگر اسکا کونسا کوئی اثر ہونے والا تھا۔

یہ سب وہ سنتے رہتے تھے، اور کانوں کے اوپر  سے گزرتا تھا مگر ایک خوبصورت جواں سال عورت کے منھ سے یہ سب سننا قطعی خوشگوار نہ تھا ۔

"بی بی اب کیا چاہتی ہو آپ؟ "

اس  نے سر اٹھا کر بھرپور بے زاری سے اسے دیکھا ۔جو ابھی وہیں براجمان تھی۔

"یہی کہ تم لوگ اس بیچارے لڑکے کو تنگ کرنا چھوڑ دو، اور ہاں اتنی گرمی بھی اسکے لیے ٹھیک نہیں ہے،، تو یہ پنکھا ونکھا لگاو اسکے لیے کوئی انسانیت جگاو،، مجھے یقین ہے ابھی بھی اندر کہیں سے تم لوگ انسان ہی ہو" 

آخر میں وہ اس پر طنز کر رہی تھی،، سامنے اس کمرے کی طرف اشارہ کیا جہاں بہت سے گناہ گار اور ان سے بھی زیادہ بے گناہ جانوروں کی طرح بند کیے گئے تھے

" اور یہ آپکو کیسے پتہ ہے کہ ہم *انسان *ہیں؟ "

اے ایس آئی نے باقی تمام باتیں نظر انداز کر کےطنز سے پوچھا۔

" من از قیاس حقیقت آدمی را می شناسم" ۔

وہ چڑانے والے انداز میں کہتی باہر نکل گئی۔

"پتہ نہیں کیا کہہ کر گئی ہے" 

دیر تک وہ سوچتا رہا۔ 

(پتہ نہیں یہ پولیس کے آفیسر تھانے کا بجٹ کہاں کرتے ہیں؟) ہمیشہ کی طرح وہ یہ سوچتی اے ایس آئی پر ایک زہریلی مسکراہٹ اچھالتی مولوی صاحب کے اس بزدل اور بے وقوف بیٹے کو تسلی دیتی باہر نکل آئی۔

"افف شیریں خانم کیا ہو گا اس ملک کا،، کیا ہو گا ہم لوگوں کا؟" 

اس نے گاڑی کا انجن آن کرتے ہوئے خود کو کہا ۔

اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔

___________________________

"میڈم پلیز آپ اس گھونگھٹ کو تھوڑی دیر کے لیے پیچھے کریں" 

فوٹو گرافر جو خود حیرت کا شکار تھا۔بے زار ہو رہا تھا۔

"دیکھیے مجھے آپکا چہرہ بلکل نظر نہیں آ رہا آپ اسکو تھوڑی دیر پیچھے کریں تا کہ ولیمہ کی سگنیچر فوٹو کیپچر کر سکوں" 

وہ کب سے اسکی گھونگھٹ میں ہی تصویریں لیے جا رہا تھا۔دلہا ایک منٹ کے لیے بھی اسکی طرف نہیں آیا تھا۔کل کے بارات کی فنکشن کے برعکس آج عورتوں اور مردوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا تھا۔

اور کل جو دانیہ نے پورے خاندان کی فوٹوز بنوائی تھیں آج وہ بھی دلچسپی نہ لے رہی تھی۔نجانے کیا ہوا تھا سب کے منھ لٹکے ہوئے تھے۔

"بھائی مجھے نہیں بنوانی فوٹوز" 

وہ ہڑبڑا کر رہ گئی ۔

گوکہ اس وقت نہ تو دیوان لالہ تھے نہ ہی فرحت لالہ بس سعد بھائی تھا ۔مگر پھر بھی ابا تو تھے نا ۔اور یوں فوٹوگرافی کروانا انکے ہاں ممنوع تھا۔اس نے کل اور پرسوں کے فنکشن میں بھی ایک تصویر تک نہ بنوائی تھی۔مسی نے زیادہ اسرار بھی نہیں کیا ۔مگر اب صورتحال برعکس تھی۔

" اگر فوٹوز نہیں بنوانا تو پھر مجھے کیوں بلایا ہے؟" 

وہ حیران سا بولا ۔عفی نے اس افتاد پر ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی اسکی طرف متوجہ نہیں تھا۔

"دیکھیں بھائی آپ کسی اور کی فوٹوز بنائیں جا کر،، مجھے نہیں بنوانی" 

وہ پہلی بار پریشان ہوئی تھی ۔

"کیوں؟" 

 وہ حیران تھا۔اور اتنا تو اسے کلئر ہو گیا دلہن بدل گئی یے۔ اسے یقین ہو چکا تھا۔

"میرے ابا بلکل پسند نہیں کرتے، وہ اسے گناہ سمجھتے ہیں آپکو میں نے نہیں وہ ان لوگوں نے بلایا ہے آپ انکی تصویریں بنوائیں "

اسکا بس نہیں چل رہا تھا ہاتھ جوڑ کر فوٹو گرافر سے معافی مانگے اور اسے چلتا کرے ۔

"وہ دانیہ سے پوچھ لیں جسکی بھی بنانی ہیں" 

یکدم اسے دانیہ نظر آئی تھی ۔

فوٹوگرافر منھ میں بڑبڑاتا اسکی طرف ہو لیا۔

" ایکسکیوزمی"

"یا؟ "

وہ چونک کر پلٹی۔

" کیپٹن صاحب نے کہا تھا وہ یونیفارم میں کل شوٹ کرائیں گے،، مگر ابھی تک انھوں نے ولیمے کی سگنیچر فوٹو تک نہیں بنوائی"

اس نے مناسب الفاظ میں مدعا بیان کیا۔دانیہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ 

"ہاں ،،ایسا کریں آپ صرف ایونٹ کو کور کر لیں مہمانوں کی فوٹوز بنا لیں" 

وہ یہی کہہ سکتی تھی۔

" تو کیپٹن صاحب کب فری ہوں گے،، مجھے آج واپس بھی جانا ہے "

وہ بھی مجبور تھا، کتنے دنوں سے یہیں رہ رہا تھا۔

"پتہ نہیں شاید اب وہ شوٹ نہ کروائیں" 

دانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

" سنیں ڈونٹ مائنڈ مگر وہ کل والی برائڈ کہاں ہیں یہ تو کل شادی میں شریک تھیں جو ابھی سٹیج پر بیٹھی ہیں" 

اسے پورا یقین تھا کوئی (فلم چل رہی ہے نقلی دلہن بٹھائی گئی ہے۔) 

"ایسی کوئی بات نہیں آپ ایونٹ کور کریں باقی ہمایوں بھائی سے پوچھ لیں "

دانیہ نے سختی سے ڈپٹ کر اسے ہمایوں کی طرف روانہ کیا۔

" پتہ نہیں اب کیا ہو گا؟؟ "

اس نے اپنی کنپٹی سہلائی۔سر دکھ رہا تھا مگر یہاں سب ٹھیک ہونے کی اداکاری کرنا بھی ضروری تھا۔

حاطب بمشکل چینج کر کے یہاں آنے پر رضا مند ہوئے تھے۔

صبح کے ملگجے لباس کی نسبت اب وہ سوٹ میں خاصے بہتر لگ رہے تھے۔

ابھی بھی وہ یونٹ سے آئے دوستوں اور کچھ اور لوگوں میں گھرے ہوئے تھے۔

سارے پلانز چوپٹ ہو کر رہ گئے۔

کل دیر ہو جانے کے باعث انھوں نے یونیفارم میں تصاویر بھی نہ بنوائی تھیں ۔کتنے اہتمام سے دانیہ نے انکا یونیفارم منگوا کر تیار کرایا تھا ۔

مگر اب وہ یہ سب بھول چکے تھے

وہ کچھ بھی یاد نہ کرنا چاہتے تھے

کسی نے کچھ یاد کرانے کی جرات بھی نہ کی۔

_______________________

یہ اسکے نکاح کی رات تھی۔کل رات اس نے ہاتھ پکڑ کر جسے اپنے حجلہ عروسی کے دروازے سے رخصت کیا تھا، بے دخل کیا تھا اور آج وہ اس کمرے سمیت اسکی زندگی کی بھی مالک بن چکی تھی۔

اور اب اسکے سجے سجائے کمرے میں اسکی منتظر تھی وہ کمرہ جو کسی اور کے لیے سجایا گیا تھا۔

سگریٹ کا دھواں اندھیرے میں بھی اسکا طواف کر رہا تھا۔یہ ستمبر کی نیم گرم راتیں تھیں مگر آج بادل ٹوٹ کر برسے تھے، ابھی بھی بجلیاں کڑکڑا رہی تھیں، زمین دہشت زدہ تھی۔

"پیٹر" کئی گھنٹوں کی طویل خاموشی کے بعد اسکی زبان سے جس ذی روح کا نام نکلا تھا وہ اسکا چہیتا طوطا تھا۔

"شکر ہے خدا کا سارا سامان سنبھل گیا، بارش نے چند گھنٹوں کی مہلت دی ہوتی تو سب مزید بہترین ہو جاتا"

نیم تاریکی میں کوئی اپنے گیلے کپڑے جھاڑتے ہوئے شکر ادا کر رہا تھا۔مگر اس نے دھیان نہیں دیا ویسے بھی اب کیا فرق پڑتا تھا کہ *بہتر ہوتا یا *بہترین؟

اب واقعی فرق نہیں پڑتا تھا ۔

اس نے گہری سرد سانس کھینچی ۔

" پیٹر کیا تم بھی تھک گئے ہو؟ "

اس نے طوطے کا پنجرہ ہلایا،جو اداس سا سر جھکائے بیٹھا تھا بلکل اسی کے جیسے۔

اس نے کچھ استعجاب سے پیٹر کی ساتھی جینیفر کو دیکھا جو اسکی بیوی تھی مگر اس وقت بے خبر اونگھ رہی تھی۔

"پیٹر،میرے دوست تم سو جاو، میں جاگ رہا ہوں"

اسکی آواز میں ویرانی تھی، جما دینے والی ٹھنڈک تھی۔

اسکی تو زندگی ہی ویران ہو گئی تھی۔

ایک دن فقط چوبیس گھنٹوں کے اندر اس نے ایک من چاہی عورت کو اپنا نام دیا اور پھر واپس بھی لیا تھا۔

اور دوسری ان چاہی عورت اب اسکی بیوی کے روپ میں کمرے میں موجود تھی،چند گھنٹے پہلے تک جسکا نام بھی اسے یاد نہیں تھا۔

اور وہ اسے "گڑیا" کہنے پر مجبور تھا۔

قسمت کے کھیل بھی کیا نرالے تھے۔

اس نے گہری سانس خارج کی ۔بادل پھر سے برسنے لگے تھے۔

مگر اسکا اندر ویران سائیں سائیں کر رہا تھا۔

کون کہتا تھا مرد حادثات سے لاپرواہ رہتا ہے ۔

اسکی تو دنیا ہی چوبیس گھنٹوں میں گھوم گئی تھی۔

"حاطب کمرے میں جاو، اپنا نہیں تو اس لڑکی کے جذبات کا خیال کرو" 

کچھ دور، برآمدے کے دوسرے سرے سے آواز سنائی دی 

"کون لڑکی؟"

وہ واقعتاً اتنا ہی انجان تھا۔

"وہی جو تمہاری بیوی اور تمہاری ذمہ داری ہے اب"

"ہوں"

اس نے طنزیہ ناک سکوڑی۔

بھلا وہ اسکی بیوی تھی جسکا نام ابھی بھی اسے یاد کرنا پڑرہا تھا؟

" حاطب اپنے کمرے میں جاو تمہیں اس وقت اسکے پاس ہونا چاہیے امید ہے تم صبح تک بہتر محسوس کرو گے" 

ہمایوں نے اسکا کندھا تھپکا ۔

اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا ۔حویلی کا بیرونی دروازہ بہت تیزی سے کھلا تھا۔

ایک فورچونر اور دوسری سفید کرولا گاڑی آگے پیچھے تیزی سے حویلی کے اندر داخل ہوئیں دروازے پر موجود گارڈ پریشانی سے گاڑی کی طرف لپکا۔اندر سے نکل کر دو تین بندوقیں اٹھائے لوگ گاڑی کو گھیر چکے تھے۔

---------------------------------

جس پل ہمایوں نے فورچونر فرنٹ سیٹ سے دیوان لالا کو نکلتے دیکھا اسی پل پچھلی گاڑی سے فرحت نکلا تھا۔

وہ دیوان کی طرف بڑھا۔

اور وہ دونوں آندھی طوفان کی طرح اپنے پورشن میں داخل ہوئے ۔

"السلام علیکم، شکر ہے تم دونوں خیریت سے پہنچ گئے"

امی جی انکی طرف لپکی تھیں ۔

مگر دیوان نے پورشن کا بڑا سا مرکزی دروازہ جھٹکے سے پٹخا جو اندوہناک سی چیخ کے ساتھ دیوار سے ٹکرایا تھا ۔

"ابا کدھر ہیں، یہ کیا کیا ہے انھوں نے؟"

"میری بات تو سنو میرے بچے"

امی جی نے اسکا بازو پکڑنا چاہا، ساتھ دوسری نگاہ فرحت پر ڈالی جو کم وبیش ویسے ہی تاثرات کے ساتھ آگے پیچھے دیکھ رہا تھا۔

"مجھے کوئی بات نہیں سننی ابا کو بلائیں، اور عفی کہاں ہے؟"

وہ باری باری کمروں کے دروازے پٹخ رہا تھا۔

سعد بھی اٹھ آیا تھا،، ابا بھی اپنے کمرے سے نکل آئے

"او تو یہ سب ظلم کر کے اب میرا باپ اللہ کو راضی کر رہا ہے"

باپ کے ہاتھ میں چلتی تسبیح کو دیکھ کر وہ طنز اور دکھ سے بولا۔

وہ بہت غصیلا تھا، اپنے باپ سے بھی دو ہاتھ آگے۔

اور اسکا ایسا ہی ردعمل متوقع تھا۔

"عفی کہاں ہے؟"

اس نے ماں کو دیکھ کر بنا کسی تخاطب کے پوچھا۔

" میری بات سنو دیوان آہستہ بولو عفی اپنے گھر رخصت ہو گئی"

امی کی حتی المقدور کوشش تھی ان دونوں باپ بیٹے کی کوئی بحث نہ ہو۔

"واہ رخصت ہو گئی،! کہاں لا وارثوں کی طرح رخصت کیا ہے اسے آپ نے؟؟"

وہ باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا یہ پہلی بار تھا،۔ورنہ وہ سب فرمانبردار اولاد مانے جاتے تھے۔

ہمایوں بھی وہیں آ چکا تھا۔

اور اب خاموشی سے پیچھے کھڑا سب دیکھ رہا تھا فرحت نے اسے ایک نظر دیکھا تھا البتہ دیوان کی نظر نہ پڑی تھی ۔

" اسے عزت سے شرعی طور پر رخصت کیا ہے، اور اسکا باپ اور بھائی موجود تھے اس وقت لاوارث نہیں تھی وہ" ابا نے تسبیح مکمل کر کے ہاتھ چہرے پر پھیرے پھر اطمینان سے بولے۔ وہ دیوان کے اس ردعمل کے لیے تیار تھے، شاید اسی لیے ابھی تک جاگ رہے تھے۔حقیقت میں وہ اسکی اسی طرح آندھی طوفان کی مانند آمد کے منتظر تھے۔

" ایسی بھی کیا افتاد پڑی کہ آپ نے، میرا اور فرحت کا انتظار تک نہ کیا، ہم دور تھے مر تو نہیں گئے تھے"

"دیوان ہوش کرو ابا جی ہیں تمہارے" امی نے اسے ہوش دلانا چاہا مگر وہ سننے کو تیار نہیں تھا۔

"تم چپ کرو،، میرا بیٹا اب قد میں مجھ سے بھی بڑا ہو گیا ہے،، اس بات کا احساس تو ہو لینے دو مجھے"

وہ ٹھنڈے لہجے میں بولے۔

" ابا میرا دماغ بلکل کام نہیں کر رہا، مجھے مجبور نہ کریں کہ میں سارا لحاظ اور عزت بالائے طاق رکھ دوں ۔مجھے صرف ایک بات کا جواب دیں، آپ نے میری بہن کو اس طرح رخصت کیوں کیا؟ "وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔

بعض اوقات حالات ایسا رخ اختیار کر لیتے ہیں کہ پھر انھیں قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔اس خاندان کی بھی یہی حالت تھی۔


" کیونکہ اسکا نکاح ہو چکا تھا اور میں اسکا باپ اور ولی ہوں تو رخصت کر دیا اور ہاں میری بیٹی کو اس نکاح پر کوئی اعتراض نہیں تھا" عادت کے برعکس وہ غصہ نہیں ہوئے۔

" ایسے ہوتے ہیں نکاح.، ایسے ہوتی ہیں شادیاں،؟ ، "وہ دھاڑا۔

" ابا کم ازکم آپ کچھ تو سوچتے، آپ نے کس کنویں؛ میں دھکیلا ہے اسے"

فرحت بھی ناپسندیدگی سے بولا۔مگر اسکا لہجہ اتنا گستاخ نہیں تھا۔

" ہاں سب جلدی میں ہوا مگر اس وقت شاید میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، میرے باپ دادا کی برسوں کی عزت داو پر لگی تھی"

سدید خان پہلی بار کچھ کمزور ہوئے۔

" جہنم میں گئی ایسی عزت جو خراب تو کوئی َاورکرے اور بھگتے میری معصوم بہن،، جنکی قابل پڑھی لکھی اولادوں نے اس عزت کا جنازہ نکالا ہے، انھیں ہی اس عزت کی فکر کرنی چاہیے تھی،، آپ کو کس نے کہا تھا اپنی بیٹی اٹھا کر قربان کر دیں،، کیا وہ بوجھ تھی آپ پر؟"

دیوان کا غصہ اتنی جلدی قابو میں آنے والا نہیں تھا۔

" بوجھ نہیں تھی نا ہی میں نے اسے قتل کیا ہے، شرعی طور پر نکاح کر کے رخصت کیا ہے، اللہ اسکے نصیب اچھے کرے"

ابا ایک ہی بات پر زور دے رہے تھے ۔

" جتنا آپ نے اسکے نصیبوں میں پھل ڈالا ہے، اتنا ہی اللہ بھی ڈال دے گا"وہ طنز سے بولا۔

اور ادھر سے ادھر چکر لگانے لگا پھر اسکی نظر خاموش کھڑے ہمایوں پر پڑی، تو طنز سے اسے دیکھا مگر غصے کی ایک زیادہ شدید لہر نے اسے جلد ہی اپنی لپیٹ میں لیا۔وہ تھما پھر ماں کو دیکھا۔

" جائیں امی عفی کو لے کر آئیں بہت ہو گئے تماشے،، بس اب اور نہیں۔ کرے کوئی بھرے کوئی،،"

آخر میں وہ طنز سے بولا ماں نے بے بسی سے شوہر کو دیکھا پھر بیٹے کو۔

"جائیں امی"

وہ دھاڑا

"دیوان میرے بچے ایسے نہیں تمہارے ابا جی نے خود رخصت کیا۔۔" انکی بات منھ میں ہی تھی ۔

" جو ابا نے کرنا تھا کر دیا،، ابا شاید بھول گئے ہیں کہ یہ انکے اسی بھائی کی اولاد ہے جسکے لیے ابا اور انکی اولاد جاہل اور اجڈ ،وحشی تھے،، کل تک ہمیں زمانے کے تقاضوں کا ہی علم نہیں تھا آج میری بہن انھیں دنیا کی سب سے اچھی لڑکی لگنا شروع ہو گئی ہے، لیکن

خود غرض لوگ کبھی کسی کے نہیں ہوتے "

وہ زہر آلود لہجے میں حقیقت دہرا رہا تھا۔ہمایوں نے ضبط کیا۔

" جاو فرحت عفی کو لے کر آو"

وہ خود تو انکے پورشن میں جانے کا بھی روادار نہ تھا۔

فرحت البتہ بنا سوچے نکل گیا۔

____________________________


" السلام علیکم محترم شمشاد خان"

اس نے گھر میں داخل ہو کر اپنا بیگ ایک طرف رکھا، فائلز ڈائننگ کے گول میز پر رکھیں ۔اور دادا جان کی گود میں سر رکھ کر دراز ہو گئی۔

"آہ شیریں خانم" وہ خوشی سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

"چہ شد؟"

(کیا ہوا؟)

اس نے خلاف توقع اور عادت انکی خاموشی کو محسوس کر کے کہا۔وہ چونکے پھر کندھے اچکائے۔

"کچھ نہیں،، خاص نہیں" انھوں نے جھک کر اسکا ماتھا چوما

"تم کہاں تھیں؟"

وہ سنبھل کر اب اس سے اسکی آج کی مصروفیات پوچھ رہے تھے نا بھی پوچھتے تو وہ ضرور بتاتی۔


"آہ!"

اس نے تھکاوٹ بھری گہری سانس لی۔

"بہت کام تھا آج،، ایک لڑکے کا کیس ہے،، اس کے سلسلے میں تھانے جانا پڑا، وہاں اتنا وقت برباد ہوا۔"

"اچھا کیوں کوئی بڑا کیس ہے؟ "

وہ دلچسپی سے بولے۔

"نہیں عام سا کیس ہے، بڑا کیس تو مجھے دیتے ہی نہیں، وہ لوگ"

وہ بے زاری سے بولی۔دادا نے کچھ کہنے کو لب واہ کیے پھر چپکے ہو رہے۔

" اصل میں کیس سادہ سا یے اگر میں ہار جاوں تو،، اور اگر نہ ہاروں تو ہمیشہ کی طرح پیچیدہ "

اس نے منھ بنا کر کہا اور سیدھی ہو بیٹھی، اسکی عادت تھی وہ کیس دادا جان کے ساتھ ڈسکس کرتی وہ ایک اچھے سامع تھے ۔چپ چاپ سنتے رہتے۔اور وہ بولتی رہتی۔مگر اس بولنے کے دوران کئی فائدے ہوتے۔

ایک تو اسکا ذہن فریش ہو جاتا، دوسرا اسکے بہت سے نکتے کلئیر ہو جاتے، اور تیسرا دادا جان کے سوالات اسے کوئی نا کوئی ایسا سرا پکڑا دیتے جو معاون ثابت ہوتا۔

"جی ہاں، تو قصہ پتہ کیا ہے، کہ وہ یو سی چیئرمین نہیں بڑی مونچھوں والا،، اسکے چھوٹے بھائی عنصر چرسی نے اپنے محلے کے مولوی کے بیٹے پر چوری کا مقدمہ کر رکھا ہے، اور پولیس اسے چور ثابت کرنے پر بھی تلی ہوئی ہے، آئے روز تفتیش کے لیے جیل سے اٹھا لاتے ہیں، اور پریشرائز کرتے ہیں "

" تو کیا وہ چور نہیں؟ "

دادا جان کا سوال بہت بنیادی تھا۔

" نہیں نا دادا جان یہی تو مسئلہ ہے،، پولیس والے ملے ہوئے ہیں جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، اور وہ لڑکا بھی بہت بزدل سا ہے۔تو وہ اپنے باپ کو دہائیاں دیتا ہے،، "

وہ بے زار نظر آتی تھی۔

" یہ کیس تو سادہ سا ہے، اگر وہ چور نہیں تو اسکی ضمانت ہو جائے گی"

انھوں نے تسلی دی۔

"او پیارے شمشاد خان،، اصل میں وہ چور ہے ہی نہیں،، مگر بے گناہ ثابت کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ جب پولیس والے اس سے پوچھ گچھ کرنے گئے تو وہ بھاگ نکلا اب پولیس والے بھی آپکو پتہ ہے ،ہمیشہ اسی کا ساتھ دیتے ہیں جو ظالم ہو،، "

" شیریں خانم تم پرانی باتوں پر اتنا زور کیوں دے رہی ہو،، یہ تو روز کے کیسز ہیں،، ہو جائے گا حل تم اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہو؟ "

" نیا یہ ہے کہ عنصر چرسی، مولوی صاحب کی بچی کا رشتہ مانگ رہا ہے، انکار پر اس نے یہ کیا ہے، یہ بھی پرانی بات ہے، نئی یہ ہے کہ مولوی صاحب اب اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے پریشان ہو کر ہاں کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ انکے بیٹے کو نقصان پہنچایا جائے گا"

اس نے دادا کو گھورا، وہ جو بولنا چاہتے تھے شیریں نے ہاتھ سے انھیں چپ رہنے کا اشارہ دیا۔

" چلیں اسکو بھی پرانی ہی بات سمجھیں، مگر نئی بات یہ ہے کہ وہ لڑکی قرآن حافظ اور بی اے پاس ٹیچر ہے اور وہ یہ شادی کرنا بھی نہیں چاہتی،، اور اس سے بھی نئی بات یہ کہ اسے امید ہے کہ میں اسکے بھائی کو اس جھوٹے مقدمے سے نکلوا دونگی،اور اگر میری بات کہ بھی آپکی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تو بتاتی چلو کہ چوری کا کیس اس طرح سے ہے کہ مسجد کو عطیہ کی گئی چیزیں چوری ہوئی ہیں اور مولوی صاحب شرمندہ ہیں کہ جس مسجد کی انھوں نے ساری زندگی بے لوث خدمت کی آج اسی میں چوری کا جھوٹا الزام انکے بیٹے کے سر لگایا جا رہا ہے "

اس نے ہاتھ خلا میں اٹھا کر مجبوری ظاہر کی۔

" او اچھا تو اس لیے۔لیکن تم کیا کر سکتی ہو؟ "

دادا نے اس سے پوچھا

" ہاں میں کیا کر سکتی ہوں؟ کچھ بھی نہیں میں تو خود ایک کمزور بے وقوف لڑکی ہوں میں کیا کر سکتی ہوں "

وہ اداس ہو رہی تھی یا غٓصہ سمجھ سے باہر تھا۔

"ایں چیست"

(یہ کیا ہے؟)

اس نے سامنے موجود پھلوں کے ٹوکروں کی طرف اشارہ کیا

" بیرسٹر صاحب آئے تھے"

انھوں نے محتاط انداز میں کہا۔

" تو کیا میں یہ مان لوں کہ میرے باپ نے یہ ہمیں بجھوایا ہے؟ "

وہ شاکڈ تھی۔

" نہیں وہ ادھر ہماری طرف ہی آئے تھے،، شاید ہمیں اب اس میں سے انکا حصہ بھجوانا ہو"

"ہماری طرف کیوں آئے؟"

اس نے اپنی عادت کے مطابق شک سے ان سب چیزوں کو دیکھا۔

"مجھے لگتا ہے وہ کچھ سوچ رہے ہیں، کچھ ایسا جو انھیں سوچنا نہیں چاہیے"

دادا نے اسے دیکھ کر کچھ تجسس بڑھانے والا انداز میں کہا۔


" زیادہ فلمی مت بنیں دادا، سیدھی اور صاف بات "

وہ انھیں گھورتے ہوئے بولی۔

" پتہ نہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ آجکل زیادہ ہی یہاں آنے لگے ہیں، پچھلی دفعہ بھی وہ وہاں جانے کی بجائے یہاں آئے، جبکہ آجکل وہ مصروف بھی رہتے ہیں مگر اسکے باوجود یوں تحائف دینے چلے آتے ہیں "

وہ دادا ہی کیا تو بغیر اٹھائے بات کر دیں۔

"تو ہم بھی بلکہ انکے بہنوئی بھی انھیں تحائف دیتے ہیں۔ حساب برابر "

شیریں کے لیے یہ معمول کا کام تھا ۔

" اگر کوئی یکدم اٹھ کر آپکے آگے پیچھے پھرنے لگے، ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگے اور تحائف دینے لگے تو چونک جانا چاہیے، رک جانا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اسکی کیا غرض اس سے یہ سب کرا رہی ہے"

انھوں نے سادگی سے پیچیدہ بات کی تھی۔

ایک اٹل حقیقت ۔

ایک نفسیاتی داؤ پیچ۔

شیریں نے کچھ سمجھنے، کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں انھیں دیکھا۔

" اپنے بیٹے کو بتا دیں،، میری زندگی کا ٹھیکیدار بن کر فیصلہ کرنے کا سوچیں بھی نا"

اور پھر وہ انکی توقع سے زیادہ سمجھ گئی تھی۔

سر پر ہاتھ رکھ کر دے مارا اور انھیں باپ کے متعلق دھمکی دیتی کچن میں چلی گئی ۔

وکیلوں کے مخصوص سفید لباس میں ملبوس وہ سستی سے کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگی۔جبکہ اسکا ذہن چستی سے چل رہا تھا۔

اس لمحے کا اسے پچھلے کئی برس سے انتظار تھا۔

آخر وہ آن پہنچا۔

کچھ دیر بعد وہ کسی فارسی گانے کی دھن گنگنا رہی تھی۔

"آئین جہاں گاہے، چناں گاہے چنیں"

(دنیا کا قانون ہے کبھی اس طرح اور کبھی اُس طرح)

"آئیں نا بابا جان،، آپکا تو مجھے کب سے انتظار ہے ۔"

اس نے خود کلامی کی۔

"من بغایت مشتاقِ دید ہستم"

(میں بہت ہی مشتاق دید ہوں) ۔

"دادا بابا جان کتنے دنوں بعد ہمارے پورشن میں آئیں گے؟ "

اس نے وہیں سے آواز دے کر دادا جان سے پوچھا۔

"پچیس دنوں بعد"

وہ بھی پوتی کی طرح حساب کے پکے تھے۔

" آخری دفعہ کب آئے تھے؟ "

شیریں نے اگلا سوال کیا

"پچیس دن پہلے،، تمہاری دادی کی برسی والے روز"

وہ جانتے تھے پوتی کیا سوچ رہی ہے۔

مگر وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

لیکن

اندر کہیں گہرائی میں خوفزدہ تھے۔

یہ جو زندگی میں سکوت تھا

وہ طوفان سے پہلے والا سکوت تھا۔

اور وہ یہ بات جانتے تھے۔

____________________________

سامنے اپنے برآمدے میں حاطب کھڑا تھا وہ سگریٹ پھونک رہا تھا۔ایک زہریلی نظر اس پر ڈال کر فرحت اندر کی جانب بڑھ گیا، پورشن قریب ہی تو تھے سب جاگ رہے تھے سب سن رہے تھے ۔

" عفی کہاں ہے؟ "

اس نے بنا کسی کو مخاطب کیے پوچھا

"اس طرف"

آیت کے منھ سے بے اختیار نکلا ساتھ ہی اس نے ہاتھ سے اشارہ دیا۔

"عفی!"

ایک دستک کے ساتھ اس نے دروازہ کھولا وہ جو تھک کر بستر کی پشت سے ٹیک لگائے اونگھ رہی تھی ہڑبڑا کر اٹھی۔

"لالا"

ایک پل تو وہ سنبھل ہی نہ سکی۔فرحت کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ ہو رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگایا ۔اور عفی تو جیسے برسوں بعد ملی تھی ۔

"عفی پاگل تم یہاں کیوں آئیں،، اور تم نے فون کیوں نہیں کیا مجھے یا دیوان کو؟

سعد نہ بتاتا تو شاید ہمیں تو علم ہی نہ ہوتا"

وہ نہیں جانتی تھی وہ کس خاص چیز کے بارے میں فون کرنے کا کہہ رہا تھا کیونکہ پچھلے چند دنوں میں بہت سی باتیں ہوئی تھیں جن سے وہ اور دیوان لالا لا علم تھے مگر پھر بھی وہ انکے ساتھ لگی آنسو بہا رہی تھی۔

" چلو، ،دیوان بھی آیا ہوا ہے ۔وہ بلا رہا ہے تمہیں "

کچھ دیر بعد وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے لیے باہر کو چلا۔ایفا گل بے دھیانی میں ننگے پاؤں ہی اسکے پیچھے چل دی۔

کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی

البتہ جاوید چچا انکے ساتھ ہی آئے تھے

اور حاطب اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں وہ سامنے لٹکتے طوطوں کے پنجرے کی طرف متوجہ تھا۔

ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ لاتعلق تھا۔جس جس نے یہ سب پھیلایا تھا سمیٹنا بھی اسی کا کام تھا۔

وہ اب مزید کچھ سہنے کا روادار نہ تھا۔

______________________

"چچا ہماری بہن کوئی بوجھ نہیں کہ ہم اسے یوں قربان کریں"

طویل بحث کے بعد بھی وہ اپنے بیان پر قائم تھا ۔ساری صورتحال سے اسے آگاہ کیا گیا۔آناََ فاناََ نکاح کیے جانے کی تمام وجوہات بتائی گئیں۔ مگر وہ باپ کی طرح نہیں تھا وہ دنیا دار تھا۔

اسے پتہ تھا ضرورت کے وقت پاوں پڑنے والے یہ چچا چچی آستین کے سانپ بھی ثابت ہو سکتے تھے۔

"دیوان بچے تم جانتے ہو ایسا کسی کا بھی ارادہ نہیں تھا۔بس اللہ نے شاید لوح محفوظ میں یہی لکھ رکھا تھا،، شاید ہمارے خاندان پر یہ آزمائش آنی ہی تھی"

جاوید چچا مسلسل اسے سمجھا رہے تھے منا،. رہے تھے۔"بات سنیں چچا ہمارے خاندان پر نہیں،، آپکے اور آپکے بریگیڈیئر بھائی کے خاندان پر،، ہم نے ایسا کچھ نہیں پھیلایا جسے سمیٹنے میں ہمیں بہن قربان کرنی پڑے"

یہ فرحت تھا۔

" فرحت تم صحیح کہتے ہو،، مگر ناخنوں سے ماس جدا نہیں ہوتا ہم سب بھی ایک ہی ہیں جدا نہیں ہو سکتے بدنامی تو سب کی ہوئی مزید بھی ہوتی شاید"

انکا لہجہ کمزور تھا۔

" میں اس بچی کی فرمانبرداری اور بھائی صاحب بلکہ تم سب کا احسان مند ہوں "

انکا سر جھک گیا۔جو حقائق تھے وہ اٹل تھے،ان سے انکار ناممکن تھا۔

"چچا میری بات سنیں، اگر آپکی بچیاں اس لیے ہمارے گھر نہیں آ سکتی کہ ہم جاہل اور قدیم سوچ کے مالک ہیں تو کس حق سے آپ ہماری بہن کا رشتہ مانگنے آئے،، ایسا کرتے ہوئے آپکو ایک بار بھی شرم نہ آئی"

دیوان تو ان سے بات بھی کرنے کا روادار نہ تھا اسکا سارا غصہ باپ پر تھا۔

البتہ فرحت انھیں جواب دے رہا تھا۔

" میری بات سنو فرحت جو بھی ہوا غلط ہوا، سجاد تایا نے سب غلط کیا، اگر عروہ راضی نہیں تھی تو اصولا انھیں یہ سب کرنا ہی نہیں چاہیے تھا،، مگر خیر اب اسکو رونے کا فائدہ نہیں،،

اس وقت جو بھی سمجھ آیا وہ سب نے کر دیا۔

آگے کے لیے ان شاء اللہ تم لوگوں کو ایفا گل کے متعلق شکایت نہیں ہو گی"

حاطب کونے میں خاموش کھڑا تھا۔

یہ ہمایوں تھا جو سب ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔یقین دہانیاں کرا رہا تھا۔

" آگے کی کیا بات کرتے ہو تم لوگ،، ہم کیسے مان لیں کہ تم لوگوں کے گھر ہماری بہن خوش رہے گی،، ہماری بہن اتنی تیز اور ہوشیار نہیں جو تم لوگوں کے ساتھ مقابلہ کر سکے، نہ ہی ہم کبھی اسے اس ماحول میں بھیجتے"

وہ ہمایوں کی بات کے جواب میں غصے سے بولا

"اسے مقابلہ نہیں کرنا،اسے گھر بنانا ہے، بلکہ وہ اب ہماری عزت ہے، ہمارے خاندان کا حصہ ہے اور جو بات تم کر رہے ہو کہ میری بہنیں نہ آئیں۔ یا جو بھی ماضی میں ہوا یہ ہم سب کے لیے باعث عبرت ہے"

" ہوں،، تم لوگ جتنا پڑھ لکھ جاتے ہو اتنے غیر انسانی اور مطلب پرست بن جاتے ہو اگر تم لوگ میری بہن کو اپنی عزت سمجھتے تو یوں نہ ہوتا، اسے کسی کی چھوڑی ہوئی جگہ نہ بٹھایا جاتا "

وہ بھائی متاثر نہ ہوئے۔

سعد چھوٹا تھا ابا نے کہا شادی کے لیے رک جاو، نا چاہتے ہوئے بھی وہ رک گیا گو کہ اس نے شادی میں شرکت نہ کی تھی۔

مگر فرحت اور دیوان خود مختار اور بڑے تھے وہ ایبٹ آباد چلے گئے ۔انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ انھیں ایسے رشتے داروں سے تعلق نہیں رکھنا جو انھیں اہمیت نہ دیں two way relationships پر یقین رکھنے والے وہ دونوں لڑکے گھر سے ہی چلے گئے۔ نا سامنا ہوتا نہ شرکت کرنا پڑتی ۔

جانتے نہ تھے پیچھے اتنی بڑی افتاد آن پڑے گی۔

فرحت کو بہن سے ایسی کوئی مثالی محبت بھی نہ تھی

مگر پھر بھی یہ سب اسے غلط اور عفی کے ساتھ زیادتی ہی لگا۔

دیوان تو عفی سے خاصی انسیت رکھتا تھا۔اسکا احتجاج تو بحق تھا۔

" ہاں میں سمجھتا ہوں اس میں سب کے لیے عبرت ہے، پڑھا لکھا اور مطلب پرست ہونا بھی درست ہے، مگر آج ثابت ہو گیا ہے ضرورت کے وقت اس خاندان کی عزت کو ہمیشہ کی طرح بڑے ابا نے بچایا"


ہمایوں تو پہلے بھی دانیہ کے لیے دیوان کے رشتے سے انکار کے حق میں نہیں تھا مگر جب دانیہ نے خود انکار کر دیا تو وہ چپ ہو رہا ۔

" اسکو تم اللہ کا انصاف سمجھو بیٹا،، وہ جسے چاہتا ہے جب چاہتا ہے اسی کے سامنے جھکا دیتا ہے،، جسکو ہم ٹھکرا کر جا چکے ہوتے ہیں " جاوید چچا مجرمانہ انداز میں بولے آج انھیں شدت سے یہ احساس ہوا تھا

انھیں اپنے اسی بھائی کے پیروں میں پڑنا پڑا جسے ساری زندگی انھوں نے لاشعوری طور پر خود سے کم تر خیال کیا۔

" مجھے اللہ کے انصاف پر شک نہیں بہر حال جو بھی ہوا فلحال آپ لوگ جائیں یہ ہمارے گھر کا مسئلہ ہے،،

عفی نہیں جائے گی"

دیوان نے انھیں باہر کا راستہ دکھایا ۔ساتھ ایفا گل کو بھی روک لیا۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ سب ایک دوسرے کے پیچھے ہو لیے۔ جاوید چچا نے کچھ کہنا چاہا مگر دیوان کا انداز اتنا سخت تھا وہ ایک لفظ نہ کہہ سکے ۔

" ٹھیک ہے جو بھی ہوا وہ غلط ہوا،، ابھی تم لوگ بیٹھ کر بات کر لو، ہم صبح بات کریں گے مگر عفی کو جانے دو"

"میں نے کہا نا چچا وہ نہیں جائے گی اس طرح"

دیوان نے انکی طرف دیکھے بنا کہا۔

" تم لوگ سوچ لو مگر بہتر یہی ہے کہ بچی اب اپنے شوہر کے ساتھ رہے"

وہ کہتے باہر نکل گئے ۔

حاطب ایک لفظ نہ بولا تھا ۔

وہ خاموش تماشائی کی حیثیت سے وہاں کھڑا رہا اور اب چپ چاپ واپس ہو لیا۔

امی بھی آ گئی تھیں مگر انھوں نے ڈرتے ہوئے اسے محاطب نہ کیا تھا۔

" حاطب تمہیں بولنا چاہیے تھا، وہ بہن ہے انکی اسکے متعلق تمہیں انھیں یقین دہانی کرنا چاہیے تھی یوں لاتعلقی اچھی نہیں تھی"

ہمایوں کو سخت مایوسی تھی ۔وہ عموما گھر کے معاملات میں نہ بولتا تھا یہ واحد مسئلہ تھا جس میں وہ اپنا ذہن کھپا رہا تھا۔حاطب نے کوئی جواب نہیں دیا

" جاو فلحال اسے لے آو جو بھی ہو گا صبح دیکھا جائے گا ورنہ بات پھر سے بڑھ جائے گی"

"مجھے ضرورت نہیں، جو اسے لائے تھے وہی پھر سے لے آئیں"

اس نے سپاٹ انداز میں کہا۔

"ہمایوں تم ہی سمجھاو اسے، دفعہ کرے سب بھول جائے اپنی بیوی کے پاس جائے،، جو ہونا تھا ہو گیا اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"

" چلو اب بس کرو بہت تماشہ ہو گیا آج کے لیے۔ لے آو اسے"

اس نے دبی آواز میں دوسرے کمرے میں موجود اسکی دلہن کی طرف اشارہ کیا مگر وہ ان سنا کر گیا

وہ گھر والوں کے سامنے سگریٹ نوشی سے پرہیز کرتے تھے مگر آج شام سے وہ چین سموکنگ کر رہے تھے،، ایک دن میں تین چار سگریٹ پینے والے کی شاید یہ تیسری ڈبی تھی ۔

آج تو وہ بڑے ابا کے ہاں بھی مسلسل سگریٹ پیتا رہا تھا۔


" جاو حاطب بچے دفعہ کرو سب کو،، تم چند دنوں میں سب بھول جاو گے"

پاپا نے بھی اسے یہی کہا تھا۔

"مجھے کچھ بھولنے کی ضرورت نہیں"

وہ پھر اسی سپاٹ انداز میں بولا

"کیا ضرورت نہیں؟ ضرورت ہے سب فضول باتیں بھولنے کی ضرورت ہے، اور مجھے امید ہے ایفا گل سمجھدار ہے وہ انڈرسٹینڈ کرے گی تمہیں اس وقت اسکے سامنے اپنا پرابلم رکھنا چاہیے،، وہ اب بیوی ہے تمہاری، اور تم اسی کی مدد سے اس سب سے نکل سکتے ہو، وہی اپنے بھائیوں کو بھی مطمئن کر سکتی ہے"

ہمایوں بھی اسے اس سے نکالنا چاہتا تھا۔جس سب میں وہ غیر ارادی طور پر پھنس گیا تھا۔

مگر جانتا تھا حاطب جیسے انا پرست کے لیے یہ بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

" آپ لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے اس وقت مجھے کسی بیوی کی نہیں ذہنی سکون کی ضرورت ہے،، پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں"

وہ واپس اپنے کمرے کی جانب جانے کی بجائے اپنے پورشن کے صحن سے ہوتا ہوا حویلی کے دروازے سے باہر نکل گیا ۔

اسے واقعی بیوی کی ضرورت نہیں تھی۔

اسے ذہنی سکون کی ضرورت تھی۔

مگر مسئلہ یہ تھا ذہنی سکون اسے کہیں اور مل بھی نہیں سکتا تھا۔اسے ذہنی سکون صرف ایک صورت میں ہی مل سکتا تھا وہ حقیقت کو قبول کر لے ۔

اور مسئلہ پھر وہیں تھا حقیقت کو قبول کرنے کے لیے اسے اسی کے سامنے ہی جانا تھا ۔

جسکا نام اسے ماضی میں یاد نہ رہتا تھا

مگر اب ماضی کو بھولنے کا وقت تھا ۔

تلخ حقائق کو قبولنے کا وقت تھا،

لیکن وہ ان سب سے بہت دور نکل گیا۔

زندگی میں بعض دفعہ ہمیں وہ ملتا ہے جو ہم ڈیزرو نہیں کرتے، عزت، شہرت اور کامیابی، مگر کبھی کبھی ایسے عذاب بھی مل جاتے ہیں جنکے ہم حقدار نہیں ہوتے۔

رجیکشن، بدنامی، دھوکا، اور سب سے بڑھ کر دل کا ٹوٹنا۔

یہ وہی جان سکتا ہے جو اس ٹرامہ سے گزرا ہو،

"کیا کوئی مجھے سمجھے گا؟؟؟"

صدیوں سے رکے آنسو اس ویران قطعہ زمین پر بہہ نکلے تھے اپنا سر ہاتھوں میں گرا کر وہ چیخا تھا ۔

اسکا صبر ٹوٹ چکا تھا۔

مگر جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔

ہمایوں اسکے پیچھے گیا تھا مگر وہ تھک ہار کر گھنٹے بھر بعد واپس آ گیاحاطب اسے کہیں نہیں ملا تھا۔یا شاید رات کی تاریکی میں موبائل ٹارچ کی روشنی میں وہ اسے نظر ہی نہیں آیا۔

ماما، پاپا فری باجی، دانیہ اور آیت سب اسکا انتظار کر کر کے پریشان ہوتے رہے ۔ہمایوں کچھ دیر انتظار کے بعد پھر سے نکل گیا تھا۔

فجر کی اذانوں سے چند منٹ بعد وہ حویلی کے دروازے سے داخل ہوئے۔

"حاطب کہاں تھے تم، ہم اتنے پریشان ہو گئے تھے،، بارش کی وجہ سے موسم بھی اتنا خراب تھا"

ماما تشویش سے اسکی جانب بڑھیں مگر وہ ان سنا کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔


"چلیں ٹھیک ہے اب آ تو گیا ہے ناآپ لوگ بھی آرام کریں جا کر"

ہمایوں نے انھیں وہاں سے ہٹایااس خاندان پر نا چاہتے ہوئے اور اچانک سے اتنی مصیبتیں پڑ گئی تھیں کہ سب کے حواس معطل ہو گئے۔

"ہاں لیکن چند گھنٹوں بعد اسے چیک کر لینا، بخار ہے اسے"

پھر وہ بنا کسی کو مخاطب کیے کہتا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔وہ سب کل رات بھی نہ سوئے تھے۔آج کی رات بھی یونہی گزر گئی۔

باقی تو کسی کو نیند بھی نہ آ رہی تھی البتہ ہمایوں اپنے کمرے میں جا کر سو گیا تھا۔(جو ہونا تھا ہو گیا، اب دیکھا جائے گا)

وہ اس ذہنی اذیت کا جلد ہی عادی ہو گیا تھا۔کچھ لوگ ہر قسم کی اذیت کے جلد ہی عادی ہو جاتے ہیں۔ وہ اس میں ممکنہ حد تک پرسکون رہنا بھی سیکھ جاتے ہیں۔

اور یہ کچھ لوگ غالبا دنیا کی نظروں میں بے حسی ترین سمجھے جاتے ہیں ۔

لیکن وہ ذہین ترین لوگ ہوتے ہیں۔

________________________


"ڈیڈ تو کیا اب آپ بس منھ دیکھتے رہیں گے سب کا"

اجمل نے باپ کے چپ رہنے کے اصرار پر چڑ کر کہا۔

"تو اور کیا کروں میں؟ تم بتاؤ، کتنی کوشش کی میں نے کہ سب ہمارے حق میں ہو،، تم سب لوگ سیٹ ہو جاو زندگی میں،،مگر میری بے وقوف اولاد کو کون سمجھائے؟"

سجاد خان چڑے بیٹھے تھے، جھنجھلا کر بیٹے کو دیکھا ۔

" تو کیا اب بیٹھے رہیں؟، ان لوگوں کا تو کام سیٹ ہو گیا ہے، وہ تو بہت خوش ہیں جشن منا رہے ہوں گے،، بڑے ابا کو قابل داماد مل گیا اور جاوید چچا کو بہو،، نقصان تو سارے کا سارا ہمارا ہوا نا"

اجمل تو نجانے کیسے کل کا دن نکال گیا تھا۔مگر اب اسکی برداشت جواب دے رہی تھی ۔

" تو کیا کروں،، یہ بھی تو تم سب کی بے وقوفی کی وجہ سے ہوا ہے"

سجاد خان کو اولاد کی نالائقی آج پہلی بار دکھ دے رہی تھی ۔خاندان بھر کے سامنے ہونے والی ہتک اور جگ ہنسائی تو ایک طرف انھیں عروہ کا مستقبل بھی نہایت تاریک نظر آ رہا تھا۔

"میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا.خوامخواہ میں بات طلاق تک لے کر گئے، ورنہ چند دنوں میں وہ بلکل نارمل ہو کر اپنی زندگی میں مگن ہو جاتی، تب سب بھول جاتا اسے"

وہ بہن کا نام لینے کا بھی روادار نہ تھا۔

ہوتا ہے نا ایسے کبھی کبھی کسی شخص کے لیے ہمارے دل میں اتنی ناپسیندگی جنم لے لیتی ہے کہ ہم زبان سے اسکا نام بھی پکارنا نہیں چاہتے۔اس شخص کا نام پکارنا بھی اذیت ناک ہوتا ہے۔

ایسا ہی اس وقت اجمل سجاد خان اپنی بہن کے لیے محسوس کر رہا تھا۔

"وہ سارے خاندان کے سامنے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اسے یہ شادی قبول نہیں ۔تو اور کیا کرتا وہ،، طلاق نہ دیتا تو کیا سر پر بٹھاتا؟"

سجاد خان کم غصہ کرتے تھے مگر جب کرتے تو تادیر کرتے۔

"تو اب کیا کریں گے آپ،، ساری بڑے ابا کی اور اسکی (عروہ) کی باتیں مانیں گے؟ وہ تو یہی چاہتی ہے،، طلاق لے کر یوں خوش بیٹھی ہے جیسے ہمارے نام سنہری حروف میں لکھوا کر آئی ہو"

اجمل نے اپنا ہاتھ غصے سے صوفے کی نشست پر مارا۔

"دیکھتا ہوں میں کیا ہو سکتا ہے، بلاتا ہوں ملتا ہوں اس سے پھر دیکھتے ہیں "

وہ پرسوچ انداز میں بیٹی کے انتخاب کو پرکھنے کا کہہ رہے تھے۔اب اسکے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔

" کیا مطلب ابھی ملنا باقی ہے کیا؟ آپکو لگتا ہے میں اس سے نہیں ملا تھا؟ڈیڈ میں مل چکا ہوں اس سے، وہ لڑکا بلکل ہی ایک ٹٹ پونجیا ہےنہ فیملی بیک گراؤنڈ، نا اچھا گھر نا کوئی سٹیٹس،، وہ تو زیرو سے بھی نیچے ہے،، آپ اسکو اپنا داماد بنائیں گے؟"

وہ شاکڈ تھا۔ باپ کے منھ سے نکلی بات پر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔

" فلحال تو اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے،، میں مزید بدنامی افورڈ نہیں کر سکتا،، تم چاہتے ہو کل کو وہ کوئی اور قدم اٹھائے اور ہماری ہند سے سندھ تک جگ ہنسائی ہو"

انھوں نے جذباتی بیٹے کو گھورا جو بال بچوں والا ہو کر بھی سمجھدار اور معاملہ فہم نہ ہوا تھا۔اب بھی نفی میں سر ہلا رہا تھا۔

"امپاسبل میں یہ نہیں ہونے دونگا،، اتنا سب ہونے کے بعد بھی آپ اسکی بات مانیں گے؟ "

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔یہ اسکے لیے ناقابل قبول تھا۔

" میری بات سنو اجمل پہلے بھی یہ سارا معاملہ تمہاری وجہ سے خراب ہوا۔زندگی میں پہلی بار میں نے کسی معاملے میں تمہاری مانی اور اسکا یہ نتیجہ نکلا۔دیکھو صرف تمہاری وجہ سے میں اس حال تک پہنچا ہوں کہ منھ چھپاتا پھر رہا ہوں"

انھوں نے پتھریلی آنکھوں سے گھورتے ہوئے اسکے کندھے پر دباو ڈال کر اسے واپس بٹھایا۔شیر بوڑھا ہو گیا تھا مگر تھا تو شیر نہ، اجمل ناک منھ چڑھاتا بیٹھ گیا۔

" مجھے کیا پتہ تھا آپکی لاڈلی اتنی جرات کر ڈالے گی۔مجھے لگا دو چار دن روئے دھوئے گی پھر سب ٹھیک ہو جائے گا،، میں نے سب کے ساتھ ساتھ اسی کا بھلا سوچا تھا"

وہ کچھ دفاعی پوزیشن میں آ چکا تھا۔

سجاد صاحب تو عروہ کے ساتھ کوئی زور زبردستی کرنے کے حق میں نہیں تھے خصوصاً اس وقت جب وہ ڈٹ گئی تھی کہ حاطب کے بجائے سفیان سے شادی کرے گی۔


مگر یہ اجمل تھا جسے سفیان بلکل پسند نہ آیا تھا۔

اور یہ اجمل ہی کا آئیڈیا تھا کہ مزید کسی نقصان سے بچنے کے لیے بہتر ہے عروہ کا جلد از جلد نکاح کر دیا جائے کیونکہ اگر اسکے معاشقے کی خبر خاندان میں پھیل جاتی تو یقینا حاطب اور جاوید چچا اس شادی کے لیے ہرگز نہ مانتے ۔

اور سجاد صاحب خود اس ساری صورتحال میں اتنے پریشان ہوئے کہ سارا معاملہ اجمل کے سپرد کر دیا۔وہ بھول گئے کہ انکی لاڈلی بیٹی کتنی ضدی اور ہٹ دھرم تھی۔

بہن بھائی کی ضد میں مزید تباہی اجمل کے اس پر ہاتھ اٹھانے نے کی۔یقینا وہ اسی وجہ سے باغی ہو کر یہ سب کر بیٹھی۔

حتی کہ اس نے انجام کی پرواہ بھی نہیں کی۔

"جو بھی کرنا تھا کر دیا ۔اب تم اس معاملے سے دو رہو،، مجھے دیکھنے دو"

وہ بیٹے کو وارن کرتے پھر سے گہری سوچ میں ڈوب گئے

(کہتا تو وہ ٹھیک ہی ہے،، بھائی جان اور جاوید تو خوش ہیں.. سارا نقصان تو میرا ہوا ہے)

اور سجاد خان کو اپنا نقصان ہرگز قابل قبول نہیں تھا۔انکا ذہن تیزی سے چل رہا تھا۔

__________________________


" حاطب مت جاو دیکھو ایک دن تو رک جاو،، تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں، تم دو دن سے سوئے بھی نہیں ہو"

اگلے دن صبح ہی صبح وہ گاڑی نکال کر واپس گھر جانے کے لیے تیار تھے۔

گو کہ وہ گاؤں شادی کی غرض سے ہی آئے تھے مگر پھر بھی سابقہ منصوبہ بندی کے مطابق انھیں ابھی تین چار روز یہیں رکنا تھا اسکے بعد وہ شیخوپورہ میں اپنے گھر واپس چلے جاتے۔

" میں ٹھیک ہوں "

وہ کہتے اپنا سامان گاڑی کی ڈگی میں بھرتے اب روانگی کے لیے تیار تھے۔دو دن پہلے پہنا گیا ملگجا لباس رات کیچڑ میں پھرنے کے باعث بہت خراب ہو گیا تھا۔

"بھائی ٹھیک ہے مگر چینج کر کے فریش تو ہو جائیں، اتنی لمبی ڈرائیو کیسے کریں گے آپ"دانیہ نے ہمت کر کے انھیں روکا۔

"آپ نہیں کر سکیں گے،، اس کنڈیشن میں اتنی ڈرائیو، پلیز رک جائیں یا پھر ہمایوں بھائی کو بھی ساتھ لے جائیں"

انھیں روکتے ہوئے احساس ہوا وہ نہیں رکے گا تبھی نیا خیال آیا، کم از کم ہمایوں انھیں بحفاظت پہنچا تو دیتا ۔

" ہمایوں کو یہاں بہت سے کام دیکھنے ہیں میں چلا جاوں گا"

وہ واپس ڈگی کی طرف پلٹے وہیں بیگ سیدھا کر کے اپنے کپڑوں کا ایک جوڑا نکالا اور لے کر واپس ہو لیے۔

"ہمایوں تم بھی چلے جاو اب اگر نہیں رک رہا یہ تو"

امی نے گزارشی انداز میں ہمایوں کو دیکھا جو اپنی مرضی کا مالک تھا ۔اور انکی کم ہی سنتا تھا۔

" پاپا کہاں ہیں؟"

اس نے انکی بات کا جواب دینے کی بجائے اپنا سوال کیا

"وہ تو ادھر بھائی صاحب کے پاس گئے تھے"

"ٹھیک ہے میں کوشش کرتا ہوں اگر بڑے ابا اور دیوان ایفا گل کو جانے دیں اسکے ساتھ"

وہ خود کلامی کرتا واپس ہو لیا۔گوکہ کسی کو بھی اس امر کا یقین نہیں تھا۔

گزشتہ رات دیوان کا ردعمل خاصہ خوفناک رہا تھا۔اتنی جلدی اس سے کسی بھلائی کی امید نہیں تھی۔وہ واش روم میں گھسا۔

شاور آن کیا۔پانی۔کے قطرے سر پر پڑے تو عجیبب

سا احساس ہوا گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں سے وہ جس کیفیت میں تھے وہ کچھ حد تک زائل ہوئی۔


بعض اوقات انسان اتنا تنہا ہو جاتا ہے کہ کوئی اپنا نظر نہیں آتا۔

صرف وحشت سی وحشت ہوتی ہے۔

انسان نا جینا چاہتا ہے نہ مرنا۔

________________

شدید بحث مباحثہ اور یقین دہانیوں کے بعد ہمایوں نے بڑے ابا کے بیٹوں کو کنونس کر لیا تھا کہ وہ فی الوقت کے لیے ایفا گل کو حاطب کے ساتھ جانے دیں ۔

وہ جو اس ساری صورتحال میں خاموش تماشائی کی حیثیت سے موجود تھی وہ اس وقت اپنے کمرے میں وقت گزاری کو پرسوں ابا کا پڑھایا گیا سبق دہرا رہی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ اس گھر سے رخصت ہونے کو تھی۔

یہ عام رخصتی نہیں تھی۔ اس بات کا ابھی کسی کو بھی مکمل اندازہ نہیں تھا۔

جاوید خان بعد از ریٹائرمنٹ ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی ملازمت کر رہے تھے۔اسی شہر میں ہمایوں کی جاب تھی اور حاطب کی یونٹ بھی قریب ہی تھی۔

اس سے پہلے وہ سب فیصل آباد رہائش پذیر تھے مگر ہمایوں کی پوسٹنگ وہاں ہوئی اور کچھ عرصہ بعد حاطب بھی قریب ہی چلا گیا تو دانیہ، آیت اور زوجہ کی فرمائش پر جاوید صاحب نے بھی وہیں منتقل ہونا مناسب سمجھا۔ دونوں بچے بھی قریب تھے اور گھر والے بھی یوں پرسکون تھے۔

حویلی وہ کبھی کبھار ہی آتے تھے۔

سجاد خان ابھی حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے اور ابھی کچھ عرصہ ریٹائرڈ زندگی کے مزے لوٹنے کو اہلیہ، ایک بہو کے ساتھ حویلی منتقل ہوئے تھے۔

بڑے بھائی جان اپنے اہل و عیال کے ساتھ شروع ہی سے حویلی میں مقیم تھے پہلے انھوں نے ایک سرکاری محکمے میں ملازمت کی تھی اب فارغ ہو کر زیادہ وقت یاد الہی میں مشغول رہتے یا گاوں کے مدرسے کے انتظام میں پیش پیش رہتے ۔

انکا جھکاو مذہب کی طرف شروع سے تھا اب تو سونے پر سہاگہ انھیں فرصت بھی میسر تھی۔

دیوان نے بھی کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی تھی ۔وہ سادہ بی اے پاس تھا. اور ملازمت اسکے بس کی بات بھی نہ تھی۔اسی لیے ملازمت چھوڑ کر اس نے اپنی خاندانی زمینوں کا انتظام سنبھال لیا۔

اور یہ کام اسکے لیے حد سے زیادہ سود مند ثابت ہوا ۔

اب خاندانی کے علاوہ اسکے پاس ذاتی ایک وسیع اراضی تھی۔

فرحت نے بھی اسی کو جوائن کیا تھا۔

اب وہ دونوں بھائی زمینداری کے علاوہ بڑے پیمانے پر زرعی اجناس کی خریدو فروحت کا کام کرتے تھے۔اسکے ساتھ ساتھ دیوان مقامی سیاست میں بھی بہت دلچسپی لیتا تھا۔

سعد البتہ ابھی پوری طرح ابا کے زیر اثر تھا ۔وہ اب پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ابا ہی کے محکمے میں ملازمت کر رہا تھا۔

ایفا سب سے چھوٹی اور اکلوتی لڑکی تھی مگر ابا کی سخت پابندیوں اور عتاب کا شکار رہتی۔

ایف اے کے بعد ابا نے اسے کالج جانے کی اجازت نہیں دی

بلکہ مقامی استانی کی مدد سے پرائیویٹ بی اے کرایا۔

جو ابھی حال ہی میں مکمل ہوا تھا۔

بلکہ ابھی اسکا نتیجہ بھی نہ نکلا تھا۔ساتھ ساتھ وہ خود اسے قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ساتھ فہم القرآن کا سبق بھی دیتے تھے۔ انکا طریقہ کار دلچسپ تھا۔

وہ سارا دن مدرسے میں گزارتے،، نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مولویوں کو بچوں کو پڑھاتا بغور دیکھتے اور پھر وہی سب گھر پر آ کر ایفا گل کو پڑھاتے ۔وہ ایک اچھی طالب علم تھی

نا بھی ہوتی ابا کے ڈر سے ہونا ہی پڑا۔

مگر انکے بڑے دونوں بیٹے اب خاصے بڑے ہو گئے تھے دیوان سدید خان لگ بھگ تیس سال کا تھا فرحت اس سے دو سال چھوٹا تھا ۔سعد اور ایفا البتہ ان سے کافی زیادہ چھوٹے تھے۔

ایفا گل بیس کی تھی جبکہ سعد اس سے سال بھر بڑا تھا۔

یوں وہ سب اپنی اپنی زندگی میں مگن تھے۔زلزلہ تب آیا جب سدید خان نے چھوٹے بھائی سے دیوان کے لیے دانیہ کا ہاتھ مانگا اور انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری بچیاں جدید انداز زندگی کی عادی ہیں وہ آپکے گھٹے ہوئے ماحول میں گزارا نہیں کر سکتیں ۔اسکے کچھ ہی عرصہ بعد حاطب اور عروہ کی بات پکی ہو گئی۔

یوں سدید خان تو بھائیوں کا یہ انداز برداشت کر گئے مگر انکی اولاد کے لیے چچاوں کا یہ طرز عمل قابل قبول نہیں تھا نتیجتاً دوریاں بڑھتی گئیں۔

رشتوں میں فاصلے آتے گئے ۔جو اب پاٹنا مشکل ہو گیا تھا۔

مگر ضرورت کے وقت سدید خان ہی بھائیوں کے کام آئے، یہ اور بات کہ اسکے لیے انھیں اپنی اکلوتی بیٹی قربان کرنا پڑی۔

کوئی اور ہوتا تو کبھی اپنی اولاد کو یوں قربان نہ کرتا۔

شاید سب ٹھیک کہتے تھے انھیں واقعی کسی سے محبت نہ تھی۔

________________


جس پل ہمایوں نے امی جی کا تیار کیا گیا کپڑوں کا بیگ حاطب کی گاڑی میں رکھا اسی پل وہ گاڑی کی طرف آئے تھے۔

ایفا گل گاڑی کے پاس ہونق بنی کھڑی تھی۔

ایک پل کو انھوں نے سوالیہ سب کو دیکھا۔

پھر سر جھٹک کر بنا کچھ کہے گاڑی میں جا بیٹھے۔

"چلو ایفا گل،،میری دعا ہے تمہارا سفر اچھا گزرے"

یہ ہمایوں تھا وہ سب کو اللہ حافظ کہتی گاڑی میں جا بیٹھی۔کچھ دیر بعد وہ حویلی، اپنی ماں، بھائیوں اور بڑے ابا سے بہت دور جا رہی تھی۔شاید بہت زیادہ دور۔

گاڑی میں جامد خاموشی تھی۔

اس کا یوں سفر کا یہ پہلا تجربہ تھا۔

حاطب بھی سامنے سڑک پر دیکھ رہے تھے۔

ایفا نے انکا چہرہ دیکھا ۔تنا ہوا چہرہ، جامد خاموش آنکھیں ۔سیاہ جینز.، سیاہ ہی کوٹ شوز، اور سیاہ ہی شرٹ۔

وہ مکمل سیاہ لباس میں ملبوس غالباً سوگ منا رہے تھے۔

اندر سے وہ بھی خوف زدہ ہو رہی تھی۔

"حاطب بھائی ہم کتنی دیر میں پہنچیں گے؟"

کچھ ہمت سے اس نے سوال کیا۔

"بہتر ہے اپنا منھ بند کر کے بیٹھو،، اسی میں تمہاری بہتری ہے"

وہ اسے سخت انداز میں گھورتا بولا۔گوکہ اسکی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔کم از کم عفی ہی نظر میں تو ہرگز نہیں ۔

"میں تو بس پوچھ ۔۔۔"


اسکے الفاظ منھ میں ہی رہ گئے ۔

"دیکھیں محترمہ میں بلکل بھی ایک اچھا سامع نہیں ہوں، اس لیے آپچپ کر کے بیٹھیں، بلکل چپ"

غلطی کہاں ہوئی تھی اسے واقعتاً اندازہ نہیں تھا۔مگر وہ اس لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنا نہیں چاہتا تھا ۔

دوسری جانب اسکا دل دہل گیا تھا۔

اس نے کونسی فضول بات کی تھی یہ اسے ابھی سوچنا تھا۔۔

"اچھا سوری"

بہت دیر کی سوچ بچار کے بعد جب وہ اپنا قصور ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئی تو اس نے حاطب کا سوجھا ہوا سنجیدہ چہرہ دیکھا ۔وہ واقعی غصے میں تھے۔اسی لیے عفی نے اپنی طرف سے معذرت کر لی۔

حاطب نے کچھ اچنبھے سے اسکی جانب دیکھا جو چہرے سے واقعی شرمندہ لگ رہی تھی۔

(کیا مصیبت ہے یار)

وہ جھنجھلا کر رہ گئے۔سارا راستہ عفی حاطب کے غصے کی وجوہات اور اور انکے جذبات کے بارے میں سوچتی رہی۔جس پل وہ فرنٹ سیٹ پر ایک طرف کو لڑھک کر سو رہی تھی آخری بات اس نے یہی سوچی تھی کہ فی الوقت زمین پر سب سے قابل ترس اور ہمدردی شخص کیپٹن حاطب جاوید تھے جس *بیچارے * پر بیٹھے بٹھائے اتنی بڑی مصیبت پڑ گئی ۔

اسی لیے وہ ایفا گل کی دلی ہمدردیوں کے حقدار ٹھہرائے گئے۔ انکا غصہ تو کیا سو خون معاف کیے جا سکتے تھے۔


دوسری جانب وہ جو خود کو اس اذیت سے نکالنے کے لیے وہاں سے نکل آئے تھے۔اب مزید اذیت کا شکار ہو رہے تھے۔

وہ چاہتے تھے ہر شے بس ختم ہو جائے، وہ سب بھول جائے ۔مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔

عفی سکون سے سو رہی تھی ۔ہر شے، ہر فکر سے لاتعلق اپنی نیند پوری کر رہی تھی۔

(میں نے یہ تو نہیں سوچا تھا۔کیا کچھ نہیں چاہا تھا میں نے؟ ،،)

انھوں نے سٹئرنگ پر زور دار مکا رسید کیا۔

"کیوں کیا عروہ تم نے یہ سب؟؟"

وہ زیر لب دہراتے ہوئے بڑبڑائے۔

(اگر وہ یہاں ہوتی تو یہ سب اتنا خوفناک اور اذیت ناک نہ ہوتا)

گاڑی سڑک کے کسی گھڑے سے ہوتی جھٹکا کھا کر آگے بڑھی تو وہ چونکے۔


انکے دل میں عروہ کو جو جگہ دی گئی تھی وہ کسی اورکو دینا ناممکن تھا ۔وہ بھی اس وقت جب سب کچھ اتنے انوکھے اور ڈرامائی انداز میں ہوا تھا ۔

عفی نے کچھ جھرجھری لی تھی شاید گاڑی کو لگنے والا جھٹکا اسے بھی جگا گیا تھا ۔

حاطب نے برقی رفتار سے اپنے چہرے کی نمی صاف کی۔مگر کچھ دیر بعد وہ پھر سے سو رہی تھی۔

اب حاطب کو اسکی اس بے خبری پر غُصہ آنے لگا تھا ۔

"سنیں،" جھٹکے سے اسکا بازو ہلایا۔

جسکا سر لڑھک کر اب حاطب کی سیٹ سے ٹکرانے لگا تھا۔

"کیا ہوا ہے؟"

وہ ہڑبڑا کر اٹھی ہونق انداز میں پوچھ رہی تھی۔

"سیدھی ہو کر بیٹھیں" وہ سخت بے زاری سے بولے۔


"اوکے" عفی نے سعادت مندی سے کہا۔اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔

(توبہ ڈرا دیا،،)

اسکی اس سعادت مندی نے حاطب کو انکے سابقہ رویے کے نامناسب ہونے کا احساس دلایا۔

فطری طور پر وہ ایک باادب اور باتہذیب انسان تھے۔مگر اس وقت حالات نے انھیں زہریلا بنا دیا تھا۔

یہ ایفا گل کی بدقسمتی تھی کہ وہ یہ زہر پینے والی تھی۔

"سیدھی ہو کر بیٹھیں،، میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں"

بناء دیکھے کہا۔ پتہ نہیں وہ یہ کیوں کہہ رہے تھے۔مگر پھر بھی یہ ایک طرح کے معذرت خواہانہ الفاظ تھے۔

"میں نے تو اب کچھ بھی نہیں کہا،، پھر اب آپ کیوں ڈسٹرب ہو رہے ہیں؟"

وہ شاکی انداز میں بولی۔بھلا اب تو کب سے چپ تھی بیچاری۔پہلے وہ اسکے بولنے سے غصہ ہو رہے تھے اب چپ رہنے پر ڈسٹرب ہو رہے تھے۔

حاطب کا پارہ ایک بار پھر چڑھا۔بمشکل وہ ضبط کر پائے۔

"پتہ نہیں تم کیسی لڑکی ہو، ہر بات تمہیں اتنی دیر سے کیوں سمجھ آتی ہے؟ "وہ جھنجھلا کر بولے۔

"اب میں نے کیا کہا ہے؟ ، ٹھیک ہے آپ غصہ ہیں مجھے پتہ ہے آپ پریشان ہیں مگر اب مجھ پر تو غصہ نہ کریں،، میں جانتی ہوں اس وقت آپ ڈسٹرب ہیں، لیکن عروہ کی وجہ سے ہیں"

وہ جو گھنٹوں سے انکے خاموش رہنے کا حکم بجا لا رہی تھی اب بولی تو بولتی ہی چلی گئی حتی کہ اس نے حاطب کی لال آنکھوں کو مزید لال ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھا ۔

" اب یہ تو نہ کہیے کہ آپ میری وجہ سے ڈسٹرب ہو رہے ہیں "

وہ باقاعدہ نم لہجے میں شکوہ کناں تھی۔

حاطب نے سختی سے دانتوں پر دانت جمائے اور گاڑی ایک طرف روکی۔

یہ سب اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ چند پل تو عفی سمجھ نہ پائی پھر جب سمجھ پائی تو حاطب؛ کا سرخ چہرہ دیکھا ۔

"چپ کیوں ہو گئی ہیں آپ،، بولیں مزید بولیں اتنا سا تو کافی نہیں،، یہ بھی کہیں کہ میرے ساتھ جو بھی ہوا.،

وہ سب میں ڈیزرو کرتا تھا۔اور جو میرا تماشہ لگا اور جو مزید لگے گا ۔میں ہوں ہی اسی قابل" وہ بہت غصے سے بول رہے تھے۔عفی کا دل دہل گیا۔

"یہ سب میں نے کب کہا،، میں تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ جو سب ہوا وہ غلط ہوا، اسی وجہ سے آپ پریشان ہیں "

اس نے گلو گئیر انداز میں اپنی وضاحت پیش کی۔حاطب نے اپنا منھ بند رکھنا مناسب سمجھا۔

گھمبیر خاموشی کے وقفے نے ماحول کو سرد بنا دیا تھا۔

" اچھا سوری اب میں کچھ نہیں کہوں گی، آپ جانیں اور عروہ، میرا کیا تعلق ہے اس سب سے"

کچھ دیر بعد وہ معذرت خواہ تھی۔یا شکوہ کناں سمجھ سے بالاتر تھا مگر وہ جو دونوں ہاتھ سٹئرنگ پر رکھے سر ان پر ٹکائے خود کو نارمل کرنا چاہ رہے تھے،مجبور ہو کر رہ گئے۔

"میری بات سنیں عفی، ایفا جو بھی ہے۔"وہ اسکا نام درست لینا چاہتے تھے مگر غصے میں کنفیوز ہو کر رہ گئے۔

"آئندہ اسکا نام بھی مت لینا میرے سامنے، ہرگز مت لینا۔

And take it as my last warning"


انگلی اٹھا کر وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے،وارن کر رہے تھے۔ایفا گل کی آنکھیں ایک پل کو پھیلی تھیں پھر اسنے تھوک نگلا۔

"سوری"

خوف سے اسکے منھ سے بے ساختہ نکلا تھا۔حاطب نے گہری سانس لی۔اب بھلا اس میں یوں سوری کہنے والی بات تھی کیا؟

وہ باہر نکل کرادھر سے ادھر چکر کاٹ کر اپنا غصہ قابو کرنے لگے۔مگر سکون ناپید تھا ۔جتنا وہ ریلیکس ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتنا ہی انکا دماغ خراب ہو رہا تھا۔

پھر جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی،، گاڑی کی ڈگی سے ٹیک لگائے وہ کش پر کش لگانے لگے۔

وہ جلد ایک چین سموکر بننے والے تھے۔

انکی پہلی بیوی نے دو سگریٹوں سے دو ڈبیوں تک کا سفر ایک رات میں کرا دیا تھا۔

دوسری غالبا انھیں دو بڑے ڈبوں تک لے جانے والی تھی۔

واللہ اعلم

______________________________

"دیوان تمہیں لگتا ہے مجھے اس سے یا، تم سے محبت نہیں ہے؟"

وہ عفی کے جانے کے بعد سے کمرہ بند تھا۔ابا جی خود ہی اسکے پاس چلے آئے۔اسکا کندھا ہلایا ۔مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا سر ہاتھوں میں گرائے وہ کسی گہری سوچ میں تھا۔

"تم جانتے ہو،، بیس سال پہلے میرے تین بیٹے تھے،، تمہاری ماں نے مجھے تین بچوں کا تحفہ دیا،، بڑا خوش تھا میں،، چھاتی چوڑی کر کے چلا کرتا تھا۔تین بیٹوں کا باپ بن جائے تو ویسے ہی بندے کو بڑا اعتماد ہو جاتا ہے خود پر"

وہ قصے سناتے ہوئے آخر میں کچھ ہنسے تھے۔ جیسے اپنی کسی سوچ پر ہنسے ہوں ۔مگر دیوان کا موڈ نہ بدلنا تھا نہ بدلا۔


" اپنی زندگی سے مطمئن تھا میں،، پھر ایک دن اچانک مجھے خبر ملی کہ اللہ مجھے ایک اور اولاد سے نوازنا چاہتا ہے.، سچ کہوں تو مجھے مزید کسی اولاد کی ضرورت نہیں تھی.، میں خوش تھا،، مگر پھر اللہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا.."

وہ چند پل کو رکے، دیوان نے پہلی بار سر اٹھا کر انھیں دیکھا ۔

" مگر اُس دفعہ پتہ ہے کیا ہوا؟

اللہ نے مجھے ایک اور بیٹا نہیں دیا بلکہ اس دفعہ اس نے مجھے نعمت کی بجائے رحمت سے نوازا۔کہتے ہیں بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں ۔

مگر سچ پوچھو تو زندگی میں پہلی بار میں اس ننھی بچی کو گود میں لے کر کانپ گیا تھا،، میں ڈر گیا تھا.، دیوان ایک بیٹی کا باپ ہونے نے مجھے ڈرا دیا"

وہ پھر سے انھیں نہیں دیکھ رہا تھا۔ابا جی نے گہرا سانس لیا۔

" ہک ہا.. مگر وہ بہت خوبصورت تھی تم سب سے مختلف بہت نازک اور معصوم.. جوں جوں وہ بڑی ہوتی رہی میری چوڑی ہوئی چھاتی سکڑتی چلی گئی ۔پھیلے، غرور سے اکڑے ہوئے کندھے جھکتے چلے گئے "

انھوں نے گہرا سانس لیا پھر اسکا کندھا سہلایا۔

"اس نے مجھے ایک اکڑے ہوئے حیوان نما انسان سے ایک سچا اور سیدھا انسان بنایا۔"

" ٹھیک ہے ابا مجھے کہانیاں نہ سنائیں جو کرنا تھا کر دیا آپ نے،، اب بس اسکے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیے "

وہ سخت عاجز آ چکا تھا ، ابا جی کی باتیں اسے متاثر نہیں کر رہی تھیں۔ابا جی نے اسے ایک نظر دیکھا پھر گہری سانس لی۔

" واہ رے اللہ

بس یہی فرق ہے تم میں اور میری بیٹی میں،، وہ واقعی رحمت ہے اور بے حساب رحمت ہے ۔

اب یہی دیکھ لو ساری زندگی میں نے اس پر سختیاں کیں، کبھی اونچی آواز میں بولنے نہیں دیا۔ کھل کر ہنسنے نہیں دیا ۔مگر آخری بار جب میں نے اسکی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے کے بارے اسکی منشاء پوچھی تو جانتے ہو اس نے کیا کہا؟ "

وہ نہیں چاہتا تھا مگر غیر دانستہ اس نے ابا کا چہرہ سوالیہ دیکھا۔اس سوال کا جواب اسے واقعی جاننا تھا۔

ایفا گل کے ساتھ اگر کوئی زبردستی ہوئی تھی تو دیوان سدید خان اس شخص کو معاف کرنے والا نہیں تھا چاہے تو وہ اسکا باپ ہی کیوں نہ ہو۔

" اس نے کہا ابا جی، جو آپ کو مناسب لگے وہی میرا فیصلہ ہے،

اس نے اتنی بڑی قربانی دیتے ہوئے بھی مجھے ویسے ہی پیار سے مخاطب کیا جیسے وہ کرتی ہوتی تھی. اور تم ۔۔۔

ایک فیصلہ کیا تمہاری غیر موجودگی میں ہو گیا تم نے مجھے ابا جی سے صرف ابا بنا دیا"

وہ آخر میں زخمی سی ہنسی ہنسے تھے۔دیوان نے بے یقینی سے انھیں دیکھا۔

" کل جب تم قریبا میرے سامنے کھڑے میرا گریبان پکڑ لینا چاہتے تھے،، تب مجھے برا نہیں لگا مگر جب تم نے مجھے ابا جی کی بجائے *ابا* کہا تو سیدھا میرے دل و دماغ میں لگا"

وہ ہنس رہے تھے مگر دیوان کے دماغ میں آندھی سی چھیڑ چکے تھے۔ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی تو وہ کوئی اہمیت ہی نہیں سمجھ رہا تھا۔

اسے خیال تک نہ آیا کہ جس طریقے سے اس نے ابا کے ساتھ بات کی تھی وہ قطعی غیر مناسب تھا۔

اسکے چہرے پر یکدم ملال چھا گیا۔


" دیوان شاید آنے والے وقت میں ایفا گل کے متعلق کیا گیا میرا فیصلہ درست ثابت نہ ہو.. تمہارے خدشات اپنی جگہ سو فیصد درست ہیں"

وہ اسکے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھ کر یکدم سنجیدہ ہو گئے ۔

"مگر میرے بچے اس وقت مجھے بس یہی مناسب لگا۔اور تم یہ بھی نہ سمجھو کہ میں نے بناء سوچے سمجھے یہ فیصلہ کر لیا۔بلکہ میں نے اس پر باقاعدہ سوچا

اور سچ پوچھو تو مجھے وہ لڑکا بہت اچھا لگا۔جس صبر سے اس نے یہ سب برداشت کیا۔اسکے صبر نے مجھے بہت متاثر کیا"

وہ شاید اسکی ذہنی تکلیف کم کرنے کے لیے اسے وضاحت دے رہے تھے۔

" ابا صبر یا جو بھی تھا مگر آپکو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ وہ لوگ ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں.. یا آگے وہ کیا رکھیں گے"

وہ پھر سے اسی طرح بولا تھا۔ ابا جی کی بات سے پہنچنے والے وقتی شاک سے نکل چکا تھا۔

" ہاں میں جانتا ہوں میرا بھائی ایک ناعاقبت اندیش اور کافی حد تک بیوی کے رحم و کرم پر رہنے والا انسان ہے.. جسکی اپنی کوئی سوچ یا نکتہ نظر نہیں "

وہ ایک پل کو رکے دیوان نے حیرت سے باپ کے منھ سے یہ سب سنا۔وہ اپنے بھائیوں کے رویے کا پہلی بار درست تجزیہ کر رہے تھے۔ورنہ انھوں نے تو اپنے بھائیوں کو برا اس وقت بھی نہ کہا تھا ۔جب رشتوں سے انکار کے بعد دیوان فرحت نے کھل کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور انکی بیوی سارا سارا دن بدعائیں دیتے گزارتی تھیں۔

" مگر مجھے یقین ہے وہ لڑکا عزت دار اور نفیس سوچ کا مالک ہے،، اور مجھے اپنی بیٹی کی تربیت پر بھی بھروسہ ہے.. ان شا اللہ خیر ہو گی"

وہ خود بھی اب دن رات یہی دعا کر رہے تھے،، انکا کیا گیا یہ فیصلہ عفی کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہو۔

"سوچ ہے آپکی.، مفت میں بناء کسی کوشش کے ملی ہوئی چیز کی کوئی قدر نہیں کرتا اور پھر آپکا بھائی اور اسکا خاندان.. ان سے تو ایسی کوئی امید رکھنا بے وقوفی ہے "

وہ فیصلہ کن انداز میں بولا ۔ابا جی کی تمام باتوں کے باوجود اسکی تشویش میں کمی نہ آئی تھی۔

"ہم نے بحکم اللہ انکی عزت اس وقت بچائی جب وہ زمانے بھر میں بدنام ہو رہے تھے، اگر وہ احسان فراموش نہ ہوئے تو تمام عمر اسکی قدر کریں گے"

ابا کو پورا یقین تھا یا شاید وہ خود کو بھی یہ امید لا رہے تھے

"اور سارا مسئلہ ہی تو یہی ہے کہ مجھے ان لوگوں سے ایسی کسی احسان مندی کی توقع نہیں "


اس نے اپنی درد کرتی کنپٹی مسلتے ہوئے کہا۔

___________________________

" بابا جان میں نے ہزار دفعہ کہا ہے یہ لڑکیوں کے کرنے کا کام نہیں، پتہ نہیں آپ لوگ میری بات سمجھتے کیوں نہیں "

آج بڑے دن بعد شمشاد خان کے بیٹے کو پھر سے یہی بات کرنے کا خیال آ گیا تھا۔

"تم تو شروع سے ہی بزدل ہو، ورنہ شیریں خانم تو اس سب کو دل و دماغ پر طاری نہیں کرتی "

انھوں نے پھر سے اس اعتراض کو قابل اعتناء نہ جانا۔

" آپکو نہیں پتہ وہ کتنے لوگوں کی مخالفت مول لے رہی ہے،، یہ سب خطرناک ہو گا۔آئے روز تو اتنے دہشت ناک واقعات ہوتے ہیں"

"ثمر مبارک میری بات سنو،، یہ وکالت بہت گندا تالاب ہے، اس میں کئی خونخوار مگر مچھ ہیں، مگر اسکا مطلب نہیں کہ اس میں داخلہ ممنوع ہے"

شمشاد خان نے بغور بیٹے کا سنجیدہ اور فکر مند چہرہ دیکھا۔


" بابا جان پتہ نہیں، آپ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں ۔اور پتہ نہیں آپ اس چھوٹی سی بچی کو کیا سمجھتے ہیں،، یاد رکھیں یہ چھوٹا سا شہر ہے، یہاں عورتیں صرف سکولوں کالجوں میں پڑھاتی ہیں عدالتوں میں دھکے نہیں کھاتیں"

وہ جھنجھلا کر رہ گئے.،بیٹی اور باپ کو کچھ سمجھانا انکے لیے مشکل ہی ہوتا تھا۔یا شاید وہ انھیں سمجھنا چاہتے ہی نا تھے۔

" ثمر مبارک جو بات کرنے آئے ہو سیدھی طرح کرو"

یقینا اس سب کے پیچھے کوئی وجہ تھی ۔

" کسی سیاست دان کے خلاف کیس لڑ رہی ہے وہ،، عدالت کے باہر اس نے روک کر دھمکیاں بھی دی ہیں شیریں کو مگر آپ لوگ مجھے تو کچھ بتا ہی نہیں سکتے تھے نا؟"

انکا غصہ اور جھنجھلاہٹ واضح تھی، شمشاد خان کے لیے بھی یہ سب باعث حیرت تھا۔شیریں نے انھیں ایسا کچھ نہ بتایا تھا۔

" اب یہ مت کہیے گا بابا جان کہ آپکو یہ معلوم ہی نہیں،،

آپکو تو سب کچھ بتاتی ہے وہ"

ثمر مبارک نے شکوہ دہرایا۔

"ثمر جو بھی تم جانتے ہو وہ سب مجھے بتاو ،تمہیں یہ سب کیسے علم ہوا؟"

"ابا کیا کہہ رہے ہیں آپ،، کسی عنصر مرزا کے خلاف اسکا یہ دوسرا کیس ہے، پچھلے سال بھی شیریں نے اسکے خلاف کیس لڑا، تین مہینے جیل میں رہ کر آیا وہ،، اور اب شیر زمان کے منع کرنے کے باوجود اس نے پھر اسکے خلاف کیس لے لیا ہے اور ہر جگہ ماری ماری پھر رہی ہے "

انکا غصہ بے قابو ہوا تھا۔

شمشاد کو شیریں نے یہ تو بتایا تھا کہ وہ عنصر چرسی کے خلاف کیس لڑ رہی ہے مگر عدالت کے باہر ہونے والے مبینہ واقعے کا اس نے ذکر کیوں نہ کیا؟


"ثمر میں سچ کہتا ہوں اس نے مجھے ایسا کچھ نہیں بتایا"

وہ حیران پریشان تھے، بیٹے نے بے اعتمادی سے باپ کو دیکھا۔

"بابا جان اسے آپکے حوالے کیا ہے میں نے، اور آپکی شہ پر وہ یہ سب کر رہی ہے مگر یاد رکھیے وہ ایک نازک سی لڑکی ہے، اسے جنگل کا شیر مت سمجھیے،،"

وہ باپ کے سامنے دھائی دے رہے تھے یا دھمکی سمجھ سے بالاتر تھا۔

"اگر اسے کچھ ہوا تو میں آپکو معاف نہیں کرونگا"

آخر میں انھوں نے باپ کو تنبہیہ کی۔

_____________________________________

"ثمر میں اسے جنگل کا شیر نہیں بنانا چاہتا مگر میں اسے اتنا نازک نہیں بننے دونگا کہ وہ تم لوگوں کی وجہ سے دکھی ہوتی پھرے،، میری پوتی ایک شیرنی ہے اور وہ بہادر بھی ہے،،

ہاں اس معاملے کے بارے میں میں لا علم تھا،، تم اگر کچھ جانتے تھے تو کیوں نہ حق اولاد ادا کیا؟

کیا تمہارا کوئی فرض نہیں؟ "

وہ پھر سے اسی پرانی بحث پر آ چکے تھے۔

" بابا جان مجھے یقین نہیں آ رہا،، آپ اب اس سب کا الزام بھی مجھ پر رکھیں گے؟کیا آپکو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے؟ "

" وہ آتی ہے تو میں پوچھتا ہوں اس سے،، مگر تم ہر بات کا الزام میرے سر رکھ کر خود بری الزمہ ہونا چھوڑ دو"

انھیں واقعتاً فکر لاحق ہو چکی تھی ۔اور وہ شیریں سے دل ہی دل میں ناراض بھی تھے۔

" بابا جان آپ اسے روکیں، آپکی مانتی ہے وہ، اس نے کہا وہ وکالت پڑھے گی میں نے کچھ نہ کہا ۔اس نے کہا وہ لائسنس لے گی، میں یہ بھی مان گیا مگر اب وہ شہر کے بڑے مگر مچھوں سے ٹکر لے کر خود کو نقصان پہنچائے، میں اسکی اجازت نہیں دونگا"

وہ جیسے سوچ کر آئے تھے۔

"تو روک لو تم اسے، اگر روک سکتے ہو تو"

شمشاد خان نے بیٹے پر چوٹ کی۔

" ہاں ٹھیک ہے میری نہیں سنتی مگر آپکی تو سنتی ہے نا،، آپ اسے سمجھائیں میرے پاس کھونے کو مزید کچھ نہیں "

وہ ہارے ہوئے لہجے میں بولے۔

شمشاد خان مزید کچھ نہ کہہ سکے مگر وہ شیریں سے بہت ناراض تھے۔وہ اسکی شدید سخت پوچھ گچھ کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔

______________________


"ہاں جی بابو کدھروں آندے پئے ہو؟"

سارے منحوس کام آج ہی ہونے تھے ۔جس پل وہ شہری حدود میں داخل ہوئے شام کی نارنجی روشنی رات کی سیاہ تاریکی میں ڈھل چکی تھی۔

پولیس والوں نے انھیں روک لیا تھا۔وجہ سے وہ لاعلم تھے۔

"شہر سے باہر سے"

حاطب نے مختصر جواب دیا

"اے تے سانوں وی دسدا پیا جے"

اس نے بات کو گھما کر لمبا کھینچا ۔

"اے کون جے؟"

باقاعدہ کھڑکی میں گھس کر وہ آنکھ کے اشارے سے ایفا گل کے متعلق پوچھ رہا تھا۔

"فیملی ہے"

حاطب نے اس فضول انسان کی حرکت کو بمشکل برداشت کیا۔

"فیملی کون جے،، بہن جے بیوی جے یا محبوبہ جے،، یا فر کوئی *کزن*؟ "

وہ کزن پر زور دیتے ہوئے بولا عموماً یوں رات کو پکڑے جانے والے لڑکے ساتھی لڑکی کو کزن ہی بتاتے تھے بعد میں وہ کچھ اور ہی نکلتی ۔

"بیوی ہے"

حاطب نے بمشکل گہری سانس لے کر یہ لفظ زبان سے نکالا تھادنیا کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ وہ اسکی بیوی کیسے بنی تھی؟ حقیقت تو یہی تھی کہ وہ انکی بیوی تھی۔

مگر پولیس والے کی تشفی نہیں ہوئی۔ایفا نے چادر سے چہرہ مزید ڈھک لیا تھا۔

"نکاح نامہ دکھاو" ان دونوں خصوصاً ایفا گل کو مشکوک نظروں سے گھورتا بولا۔

"دیکھو بھائی نکاح نامہ جیب میں لے کر نہیں پھرتا میں"

آج تو وہ کسی کی پیار بھری سننے کے روادار نہ تھے کجا کہ ایسی ویسی سنتے۔جھنجلا کر بولے۔

"او اونچی آواز میں بات کرتا ہے؟ "

پولیس والے نے کچھ حیرت سے مڑ کر اپنے ساتھی کو دیکھا پھر حاطب کی طرف کا دروازہ کھولا۔

"نکلو نا بابو ذرا،، رات کے اس پہر ایک تو تم سوالوں کے جواب نہیں دیتے اوپر سے اکڑتے بھی ہو"

اسکا انداز ڈرانے والا تھا۔کوئی اور وقت ہوتا تو حاطب بھی سنبھل جاتے۔ اس وقت تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔

"ہاں بولو کیا مسئلہ ہے؟"

وہ جھٹکے سے باہر نکل آئے۔

"مسئلہ تو ہے نا بابو"

اس نے سر سےپیر تک حاطب کا بغور جائزہ لیا۔

" لگتے تو کسی اچھے گھر کے ہو،، پر یہ تو اچھی بات نہیں نا رات کے اس پہر جوان جہان حسین لڑکی کو لے کر پھرتے ہو،، کچھ شرم کرو"

اہلکار نے پیچھے گاڑی میں موجود ہستی کی طرف اشارہ کر کے حاطب کو شرم دلانا چاہی۔

" دیکھو بھائی کیا نام ہے تمہارا؟ ہاں خالد میں تمہیں بتا چکا ہوں یہ بیوی ہے میری "

اس نے پہلی بار بات ختم کرنے کی خفیف سی کوشش کرنا چاہی تھی۔

" بیوی ہے تو نکاح نامہ کیوں نہیں تمہارے پاس؟

بابو آجکل شہر میں فحاشی بہت بڑھ گئی ہے تم جیسے سوہنے چھوکرے روز کسی نا کسی جوان جہان خوبصورت لڑکی کے ساتھ موج مستی کرتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں مسئلہ تو ہمیں بنتا ہے نا"

وہ پولیس والے شاید اس وقت ناکے پر فارغ تھے اور وقت گزاری کرنا چاہ رہے تھے یا کوئی اور مقصد تھا۔ورنہ آج تک انھیں کسی نے یوں نہ روکا تھا۔

" او بی بی نکلو نا باہر ذرا بتاو یہ کون ہے تمہارا؟ "

دوسرا اہلکار ایفا گل کی جانب متوجہ ہو گیا تھا جسکے لیے یہ صورت حال پہلے ہی شدید تشویش ناک تھی۔

اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

"نکلو نکلو بی بی دیکھتی کیا ہو"

وہ بے اختیار گاڑی کا دروازہ کھول بیٹھی اس سے پہلے قدم باہر نکالتی حاطب نے منع کر دیا۔

" اندر بیٹھی رہیں آپ،، اور میری بات سنو بھائی"

اسے وہیں بیٹھے رہنے کا حکم جاری کرتے وہ پولیس والے کی طرف متوجہ ہوئے جسکی نیم پلیٹ پر خالد لکھا تھا۔

" بات کیا سنیں بابو،، رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر تم لوگ ماں باپ کو دھوکا دیتے ہو اور پھر لوگ گالیاں ہمیں دیتے ہیں کہ پولیس کہاں ہوتی ہے،، ویسے کرتے کیا ہو تم؟ "


اس بے جا اور بے وقت بھاشن کو اس نے صبر سے سنا۔

"گورنمنٹ جاب ہے"

اس نے اپنی جاب کی اصلیت نہیں بتائی ورنہ شاید یہ سب اسے فیس ہی نہ کرنا پڑتا۔نہ بتانے کی مصلحت بھی تھی کہ یوں سر راہ ضروری نہیں تھا کہ پولیس والا نظر آنے والا کوئی بھی شخص واقعتا پولیس والا ہی ہو ۔پولیس کے بھیس میں چھپا کوئی دشمن بھی ہو سکتا ہے ۔

، گورنمنٹ کی جاب کا بھی کوئی محکمہ ہوتا ہے بابو، یا پھر ڈی سی لگے ہوئے ہو؟.. او نکلو بی بی باہر"

مذاق اڑانے کے ساتھ اس نے کچھ رعب سے ایفا کو دیکھا اور دو قدم اسکی جانب والے دروازے کی جانب بڑھا۔

اس سے پہلے ہی وہ بجلی کی تیزی سے ڈر کر باہر آ چکی تھی۔

" تمہیں سمجھ نہیں آ رہی؟ ،، میں کہہ رہا ہوں نا اندر بیٹھی رہو "

حاطب غصے میں اتنے زور سے دھاڑے کہ ایفا اسی تیزی سے واپس گاڑی میں چھلانگ لگا بیٹھی ۔اوپر سے انکا انداز۔

البتہ پولیس والے نے حاطب کے اس انداز پر دوبارہ ایفا کو باہر آنے کا نہیں کہا۔

"تو بابو اگر اتنا تمہارا خون کھول رہا ہے تو نکاح نامہ دکھاو کدھر ہے تمہارا نکاح نامہ"

وہ اب کچھ ڈیل بنانے والے انداز میں پوچھ گچھ کرنے لگا۔

ایفا گل کا دل البتہ دھک دھک کرتا سینے سے باہر آنے کو بے تاب تھا ۔

"میرا نکاح نامہ تمہارے چیف کے پاس ہے،، کل شام تک یا پرسوں صبح تمہیں مل جائے گا"

وہ طنزیہ بولے۔

"ہمارا چیف؟ کون پولیس چیف؟ "

" ایس پی ہمایوں جاوید خان.۔اور میں اسکا بھائی ہوں کیپٹن حاطب جاوید خان"

انھوں نے جینز کی جیب سے اپنی آئی ڈی نکالی مگر پھر کچھ سوچ کر اسے واپس رکھا اور موبائل پر کوئی نمبر ملانے لگے۔

" بلکہ رکو میں تمہاری ڈائریکٹ بات کرواتا ہوں"

دونوں پولیس والے اب ایک دوسرے کو کچھ سوالیہ انداز میں دیکھ رہے تھے۔


" ہاں حاطب صاحب پہنچ گئے؟ "

ہمایوں نے فون اٹھاتے ہی پوچھا تھا۔

" یہ تمہارے کچھ لوگوں کو شاید میں یا میری گاڑی مشکوک لگ رہی ہے،، یہ ذرا بات کرو ان سے اور میرا نکاح نامہ دکھاو انھیں"

فون اس بدتہذیب انسان کی طرف بڑھایا۔

"جی سر اوکے سر جی، سر جی بتایا نہیں انھوں نے ورنہ یہ سب نہ ہوتا"

وہ اب غائبانہ زور دار سلیوٹ جھاڑ کر وضاحتیں دے رہا تھا۔حاطب نے بے زاری سے اسے دیکھا۔ مگر اس وقت اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔جب اس نے اپنا نام عثمان بتایا تھا ۔

جبکہ اسکی نیم پلیٹ پر خالد لکھا تھا۔

پھر کچھ دیر وہ ہمایوں کی سنتا رہا اسکے بعد فون حاطب کی طرف بڑھایا۔

"ہاں ٹھیک ہے میں پہنچ کر کال کرتا ہوں"

حاطب نے فون بند کر دیا۔

"معذرت سر،، ایم سوری"

اب ان دونوں کے لہجے ہی نہیں انداز واطوار بھی بدل چکے تھے۔وہ شاید مزید وضاحتیں بھی دیتے مگر حاطب سر جھٹکتامے اپنی گاڑی میں آن بیٹھے۔

ایفا گل کی تو روح بھی کانپ گئی تھی یوں پولیس والوں کا روکنا اور سوال کرنا تو ایک طرف اصل خوف اسے حاطب کی ڈانٹ سے محسوس ہو رہا تھا ۔


مگر انھوں نے اس پر ایک نگاہ بھی نہیں ڈالی گاڑی اپنے رستے پر پھر سے رواں ہو چکی تھی ۔حاطب نے بیک ویو سے دیکھا وہ دیر تک پیچھے سے اسے سلام کرنے کو ہاتھ ماتھوں تک لے جا کھڑے رہے تھے۔

(افسوس ہی کیاجا سکتا ہے اس ملک کے سسٹم پر)

اگر کوئی پولیس والا حلقہ احباب میں نہ ہو تو اس ملک میں زندگی بھی ایک عذاب ہے ۔

ایفا گل نے شکر ادا کیا وہ بھول گئے تھے۔مزید اسے نہیں ڈانٹا ۔

(شکر ہے اللہ اففف کتنے غصے سے بولے تھے)

اسکے لیے حاطب کا یہ روپ ویسے ہی عجیب تھا۔کہ حاطب بہت ہی شاذ و نادر حویلی آتے مگر سالوں بعد جب بھی آتے وہ ہمہ وقت مسکراتے رہتے۔بات بھی بہت دھیمے لہجے میں کرتے کہ اگلا سننے پر مجبور ہو جائے۔

ابھی وہ شکر کر ہی رہی تھی جب یہ اسکی غلط فہمی ثابت ہوئی ۔

"کیا کوئی مسئلہ ہے،، کامن سینس نام کی چیز نہیں ہے آپکے اندر؟"

وہ بہت عجیب لہجے میں بیزاری سے بولے ۔

ایفا نے تھوک نگلا۔(ہائے اللہ نہیں بھولے)

وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔

"نظر نہیں آ رہا تھا کہ میں بات کر رہا ہوں،، پھر آپ کیوں منھ اٹھا کر باہر نکلیں؟ "

اسکا بس نہیں چلا اس بے وقوف لڑکی کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔

" وہ کہہ رہے تھے تو اس لیے۔۔۔"

ایک پل کو اس نے سر اٹھا کر حاطب کا ناگواری سے اٹا چہرہ دیکھا پھر فورا جھکا لیا۔

"سو واٹ اگر کہہ رہے تھے تو کیا ہوا،

آپکیا ہر کسی کی بات ہر یوں ہی عمل شروع کر دیتی ہو؟

کیا آپ پاگل ہو؟"

خلاف توقع وہ خاموش رہی۔۔۔۔

_________________

"دروازہ بند کر لیں"

کچھ دیر پہلے ہی وہ گھر پہنچے تھے، عفی تو پہلی مرتبہ آئی تھی اسی لیے بس جہاں حاطب بیٹھے وہیں بیٹھ گئی۔

وہ پہلی بار پریشانی کا شکار ہو رہی تھی۔کچھ دیر وہ جوتوں سمیت صوفےپر دراز رہے۔دائیں ہاتھ سے کنپٹی کو سہلا رہے تھے۔ایفا گل کو ہمدردی محسوس ہوئی۔

یکدم اٹھے اور باہر کی جانب چلے گئے۔وہ انکے پیچھے پیچھے آئی مگر وہ بولے بغیر باہر نکل گئے تو اس نے دروازہ بند کر لیا۔

(اب پتہ نہیں کہاں جا رہے ہیں؟)

ایفا گل نے محتاط نظروں سے آس پاس کا جائزہ لیا۔چھوٹا سا پورچ دوسری طرف لان۔سلک کے پرنٹڈ پردے۔بڑے بڑے دو صوفہ سیٹ۔سامنے چالیس بیالیس انچ کی ایل ای ڈی۔ایک طرف کو جھولا لٹک رہا تھا۔وہیں سے ایک چھوٹا دروازہ لان کی طرف کھلتا تھا، لاونج سے باہر راہداری کے دوسرے سرے پر ایک طرف کچن نظر آیا تھا اور باقی آگے پیچھے کے دروازے بند تھے۔

یہ ایک اچھا گھر تھا مگر حویلی کے مقابلے میں کافی چھوٹا تھا۔وہ چور قدموں سے چلتی کچن میں آ گئی، ایک ایک کر کے سب کیبن کھول کر جائزہ لیا۔اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ گھر کی حالت بس ٹھیک ہی تھی۔

درمیانے درجے کا گھر تھا نہ بہت پرانا نہ بہت نیا، مگر ایک اچھا گھر۔کمرے لاکڈ تھے، راستے میں پڑنے والا ایک دروازہ اس نے کھولنے کی کوشش کی مگر نہیں کھلا اور اوپر کی جانب جانے والی سیڑھیوں پر نیلے رنگ کا قالین بچھا تھا۔

"مجھے لگتا ہے مجھے بھوک لگ رہی ہے"

اس نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر جیسے بے یقینی سے نتیجہ اخذ کیا۔فرج میں ڈبل روٹیوں کے پیکٹ میں بچی ہوئی دو تین ڈبل روٹیاں رکھی تھیں اسکے علاوہ اوپر برف تھی تیسری کوئی کھانے لائق چیز نہ تھی۔وہ سخت مایوس ہوئی۔

احتیاط سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر گئی۔

وہاں کمرے گنے اوپر تین کمرے تھے۔ایک چھوٹا سا کچن بھی تھا اور وہاں شاید تیسری منزل کی طرف جانے والی سیڑھیاں بھی تھیں مگر مزید اوپر جانے پر ان کا دروازہ بند تھا شاید وہ چھت پر کھلتا تھا۔

وہ واپس دوسری منزل پر آ گئی ۔ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔

(گھر کھلا چھوڑ گئیں چچی)

اسے افسوس بھری حیرت نے گھیرا۔ساتھ وہ بڑی فرصت سے پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔

"دو سنگل بیڈ، ایک بستر پر دو استعمال شدہ شرٹس پڑی تھیں، ایک بستر کے سامنے جوتے رکھے تھے جیسے کچھ دیر پہلے ہی کسی نے اتارے ہوں"

یہ یقیناً ہمایوں کا کمرہ تھا جو وہ کھلا چھوڑ گیا۔

"اللہ کہیں اس گھر میں کوئی ہو نا؟؟"

یکدم اسے تنہائی کے خیال نے خوف دلایا۔اور اگلے ایک منٹ میں وہ سیڑھیوں پر بھاگتی دوڑتی نیچے اتر آئی تھی مڑ کر اوپر دیکھا،. کوئی نہیں تھا۔

پھر واپس وہیں آ گئی جہاں حاطب اسے بٹھا کر گئے تھے۔

بمشکل اس نے اپنا پھولا تنفس بحال کیا۔

تبھی دروازے پر ہونے والی بیل نے دوبارہ سے اسکا دل دہلا دیا۔بھاگتے ہوئے اس نے جا کر بنا پوچھے دروازہ کھول دیا۔

صد شکر سامنے حاطب ہی تھے۔

(اللہ تیرا شکر ہے یہی ہیں)

اس کا شکر مکمل نہ ہو سکا۔

"پوچھ تو لیتیں کہ کون ہے، فوراً سے دروازہ کھول دیا۔"

حاطب کی نظروں میں واضح ناگواری تھی۔

اسکے شکر کو وہیں بریک لگے اور شکر کی جگہ خجالت نے لے لی۔اسے یوں خاموش دیکھ کر وہ آگے بڑھ گئے۔

ایفا بھی پیچھے ہی آئی تھی۔

"اب دروَازہ بند تو کر دیں"

وہ پیچھے مڑ کر بے زاری سے بولے، وہ اسی گھبراہٹ سے پلٹی دروازہ بند کیا۔جب تک اس نے پوری طرح دروازہ بند نہیں کر دیا حاطب نگرانی کرتے رہے۔اسکے پلٹنے پر ہی وہ پلٹے۔

"سوری"

جس پل وہ ہاتھ میں پکڑا شاپر لاونج میں میز پر رکھتے صوفے پر بیٹھے۔ انھیں وہ سوری سنائی دیا جسکے اب وہ کچھ حد تک عادی ہو گئے تھے۔

بے بسی سے ایک پل کو آنکھیں بند کیں۔ سب ان چاہا تھا۔

بلکل ان چاہا۔

"یہ کھانا،، اندر لے جا کر کھالیں "

"کونسا؟"

ایک پل کا وقفہ دئیے بغیر وہ بولی۔

"یہ!. ،یہ جو سامنے پڑا ہے اسے لے جائیں اور اب مجھے نظر مت آئیں ،، آپکی بہت نوازش ہو گی"

پتہ نہیں کیا ہوا تھا وہ ایک دم طنزیہ بولے۔

عفی نے وہاں سے بھاگنے میں ایک پل بھی نہیں لگایا تھا۔

کچن میں جا کر کھانا نکالا،، چاول تھے۔اور کچھ سلاد۔پھر کچھ سوچ کر ایک بڑی پلیٹ ڈھونڈی ۔ کچھ چاول اور سلاد پوری تمیز سے اس میں لگایا بلکہ سجایا۔گلاس میں پانی ڈال کر دونوں چیزیں ٹرے میں رکھیں۔

اور چادر سر پر جماتی پھر سے واپس ہو لی۔

وہ کچھ دیر قبل ہی کی طرح آنکھیں بند کیے دراز اپنا سر دبا رہے تھے ۔

عفی نے کھانا میز پر رکھ دیا۔

"یہ کھانا آپ کھا لیں" پلٹنے سے پہلے وہ بولی تھی۔

حاطب نے سٹپٹا کر آنکھیں کھولیں،. ٹانگیں سیدھی کیں اور اٹھ بیٹھے۔

"میں نے آپ سے کہا ہے مجھے کھانا دیکر جائیں ؟"

انکی آواز ہلکی تھی مگر لہجہ سخت۔ایک پل کو وہ بول نہ سکی۔

"ن نہیں، مگر آپکو بھوک لگی ہو گی"

اس نے وضاحت دی۔

" نہیں ۔

مجھے بھوک نہیں لگی،، اسے لے جاو ایفا گل پلیز، لے جاو"

وہ پتہ نہیں کیوں اتنے بےزار تھے۔

عفی کو پتہ نہیں برا لگا تھا یا کیا مگر اسکا سر جھک گیا۔

(میں بھی پاگل ہوں،، بیچارے اتنے پریشان ہیں اسی لیے چڑچڑے ہو رہے ہیں)

اس نے فورا اس ناگواری پر خود کو ملامت کیا۔

اور حاطب کو ہمدردی سے دیکھتی واپس ہو لی۔

ابھی اسکا ایک قدم لاونج سے باہر پڑا تھا حاطب واپس اسی پوزیشن پر ڈھے گئے۔

جب وہ پلٹی تھی

" اچھا سوری."

پہلے اس نے ہاتھ اٹھا کر معافی نامہ پیش کیا۔حاطب کچھ نہ کہہ سکے۔

"مگر یہ تو بتا دیں سونا کہاں ہے؟"

وہ ایک لفظ کہے بغیر اٹھے،، لمبے لمبے ڈگ بھرتے آگے آگے چلتے ایک دروازے کے سامنے رکے، جیب سے چابیاں نکال کر دروازہ کھولا۔اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔

اس سے پہلے کہ وہ تشکرات پیش کر پاتی وہ دروازہ بند کرتے پلٹ چکے تھے۔

(توبہ بیچارے کتنے پریشان ہیں،، عروہ نے کتنا دل دکھایا ہے انکا،، کسی کا دل توڑنا کتنی بری بات ہے،.)

اسے افسوس ہوا۔

پھر وہ تھکن سے چادر ایک طرف رکھتی بستر پر ڈھے گئی۔

"لیکن عروہ نے یہ کیا کیوں؟"

اسکے اندر تجسس نے ایک بار پھر سر اٹھایا تھا۔

وہ بھول گئی اسکی اپنی زندگی میں آج اور کل کیا کچھ ہوا تھا ۔اور نجانے ابھی مزید کیا کچھ ہونے والا تھا۔

اسے ابھی تک عروہ والے مسئلے کی سمجھ نہ آ رہی تھی اسے سمجھ پاتی تو خود کے بارے میں سوچتی نا۔

"پتہ نہیں سب کیا کر رہے ہیں،، اور یہ کیسے ٹھیک ہو گا؟؟"

چند پل میں وہ اداس ہو چکی تھی۔

"عفی بی بی اُٹھ کر نمازیں پوری کرو اور سو جاو،، لوگوں کی فکریں بعد میں کرنا"

کسی نے اسے جھنجھوڑا تھا۔

اور اگلے دس سیکنڈ میں وہ اٹھ کر واش روم ڈھونڈنے کو پھر سے باہر آ چکی تھی،، اس دفعہ وہ چور قدموں سے چل رہی تھی۔

تا کہ حاطب کو مسئلہ نہ ہو۔

______________________


" دادا جان کیا ہوا؟ یہ خاموشی کس لیے بھلا؟ "


وہ جب سے آئی تھی دادا جان خلاف عادت بلکل خاموش تھے۔

"کیا کوئی بات ہوئی ہے یا اپنی مرحومہ بیوی کو یاد کر کے یوں چہرہ بنائے بیٹھے ہیں"

کچھ دیر مزید گزرنے کے بعد وہ سارے کام کاج چھوڑ کر اب انکے سامنے دو زانو بیٹھ چکی تھی۔شمشاد خان نے صرف سر نفی میں ہلایا منھ کا قفل اب بھی نہ ٹوٹا تھا۔

"اچھا پھر اداس کیوں ہیں،، اس طرح تو بلکل بھی ہینڈسم نہیں لگ رہے"

وہ انکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی۔

"میں شاید اب تمہیں کبھی کبھی ہینڈسم نہ لگوں،، تو تم میری یہ شکل دیکھنے کو تیار ہو جاو"

اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں سے چھڑا کر سرد لہجے میں بولے۔آنکھوں میں بھی اجنبیت محسوس کر کے شیریں نے پھر سے انکے ہاتھ تھام لیے۔

"شمشاد خان،، آپ ہینڈسم ہیں اور ہینڈسم رہیں گے ایون جب آپ مرو گے تو آخری دیدار کرنے کے لیے آنے والے بھی کہیں گے

واللہ کیا بندہ ہے ہینڈسم آدمی جیا اور ہینڈسم ہی مرا"

وہ ڈرامائی انداز میں وقفے دے کر بولی مگر اس دفعہ وہ ہنسے نہیں تھے۔

"ہاں تم دعا کرو کہ میں جلد مر جاوں تا کہ یہ جو تھوڑا بہت تمہیں پابندیوں کا سامنا ہے وہ بھی نہ رہے"

انکی آواز میں واضح شکوہ تھا ایک پل کو وہ الجھی پھر جیسے ایک لہر میں سمجھ گئی وہ دادا کی رگ رگ سے واقف تھی۔

"یہ لیٹ سیونٹیز کی فلمی عورتوں جیسے ڈائیلاگ کیوں مار رہے ہو،، اگر کوئی بات ہے تو سیدھی طرح بولو نا،، بلیک میل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟؟ "

وہ انھیں خشمگی نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولی۔کچھ پل وہ اسکی آنکھوں میں چھپے تجسس کو بغور دیکھتے رہے پھر زبان پر مدعا آ ہی گیا۔

وہ اتنی ڈھیٹ ضرور تھی کہ یوں ناراضگی کو مذاق میں اڑا کر انھیں ہنسا دیتی۔مگر اس دفعہ معاملہ سنگین تھا

وہ ہنسنا نہ چاہتے تھے ۔

" چئر مین یوسی والے معاملے کا تم نے کیوں نہ بتایا مجھے؟"

وہ سخت سرزنش کرنے کے موڈ میں تھے۔وہ الجھی پھر چند پل انھیں دیکھتی رہی۔آخر وہ کہانی جوڑنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔

"کونسا معاملہ اور کونسا چئرمین"

تجاہل عارفانہ سے کام لیا گیا۔

"وہی چئرمین جسکے بھائی نے تمہیں کورٹ کے باہر دھمکی دی تھی"

وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولے۔

(افف شیریں خانم،،چل گیا پتہ، مر گئیں تم.، پڑھ لو کلمہ)

"کس نے بتایا آپکو؟ جاسوسیاں کرتے ہیں نا آپ میری؟ یقینا شیر اسد نے بتایا ہو گا؟"

وہ انھیں مشکوک نگاہوں سے تک رہی تھی۔مگر انکا زاویہ نگاہ نہ بدلا۔

" آپکو یہ تو سوچنا چاہیے اب میں ایک انٹرنی نہیں ہوں،، بار میں اور چیمبر میں میری کچھ عزت ہے، وہ لوگ کیا سوچتے ہوں گے میرے بارے"

وہ شاید مزید بھی کچھ بولتی مگر شمشاد خان کی گرج دار آواز نے عرصے بعد اسے چپ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

"شیریں خانم، ،تم نے کیوں مجھے نہ بتایا،، کیوں تم الجھ رہی ہو ایسے خطرناک لوگوں سے؟ کیا تم خود کو کوئی سپر ہیرو سمجھتی ہو "

" توبہ ہے ملکہ جذبات،، ایسے شو کر رہے ہیں جیسے میں نے کچھ بتایا ہی نہ ہو،، میں نے سب بتایا تھا آپکو اس وقت عنصر چرسی والے کیس کا"

وہ انھیں یاد دلاتے ہوئے بولی چند پل میں انھیں سرسری سی باتیں یاد بھی آ گئی تھیں۔مگر پھر بھی دھمکی والی بات شیریں نے نہیں بتائی تھی۔

" تم نے مجھے نہیں بتایا کہ وہ کوئی سیاست دان ہے اور اسکا بھائی چئر مین یوسی ہے"

" دادا کوئی چئرمین نہیں ہے،، اب تونئے الیکشن ہونے والے ہیں، اب پرانے چئرمن ہٹا دئے ہیں، پھر سے الیکشن ہوں گے کون ہو گا کون نہیں،، اللہ جانے"

وہ ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے بولی۔

"شیریں خانم، ،میری باتوں کو تم اس طرح ایک پاگل بوڑھے کی باتیں سمجھ کر ہوا میں نہیں اڑا سکتیں..،پہلے وہ چئرمن یوسی تھا اس دفعہ ممبر صوبائی اسمبلی ہو گا،، تو تم یہ فضول مذاق بند کرو اور مجھے اس خود مختاری کا جواب دو،، کیونکہ تمہارا باپ مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر گیا یے ۔تمہاری وجہ سے ۔۔۔صرف اور صرف تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے میرا بیٹا اس عمر میں مجھ سے یوں بات کر کے گیا ہے کہ ۔۔۔"

آخر میں انھوں نے اپنے جذبات کو بمشکل قابو کیا۔

شیریں نے کچھ توقف کے بعد گہری سانس لی۔

" دادا بات سنیں، مجھے اس عنصر چرسی یا اسکے بھائی سے کوئی کنسرن نہیں،، مجھے آپکے بیٹے یا انکے مسائل سے بھی کوئی کنسرن نہیں ۔اس لیے آپ یہ بات نہ کریں مجھ سے"

وہ بھی جواباً سخت انداز میں بولی تھی۔

شمشاد خان جانتے تھے ۔وہ اسی طرح کرے گی ۔وہ اپنی غلطی کبھی تسلیم ہی نہیں کرے گی۔

" اور یہ آخری والا ڈائلاگ تو زیادہ ہی اوور ہو گیا تھا۔پہلے تو جیسے آپکا بیٹا شیریں بیان تھا "

پھر وہ انھیں مصنوعی غصے سے گھورتے ہوئے بولی۔


"اچھا چھوڑیں،، ایک بات تو بتائیں"

اس نے پیچھے سے آ کر دادا کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔

"شیریں خانم ،،میں بھی آپکو ایک بات بتانا چاہتا ہوں "

دادا بھی اسی انداز میں بولے۔

" چلیں پہلے آپ بتائیے "

وہ فراخ دلی سے بولی.

"آپ اپنا سامان پیک کریں اور اپنے بابا جان کے پورشن میں شفٹ ہو جائیں میرا جتنا وقت آپکے ساتھ گزرا اچھا گزرا اب میں مزید اس قیمتی وقت کو یوں ضائع نہیں کرنا چاہتا "


" ناقابل یقین"

اسکی ننھی ننھی آنکھوں میں سن کر استعجاب ابھرا تھا۔

"میں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں سنوں گی،، اور نا ہی آپ آئندہ میرے ساتھ ایسی کوئی بات مذاق میں بھی کیجیے گا"

اسکا انداز فیصلہ کن تھا۔

" لڑکی میں تمہاری ذمہ داری نہیں لے سکتا،، کل کو تمہیں اگر کوئی نقصان پہنچے گا تو میں اسکی ذمہ داری بھی نہیں لے سکتا۔بہتر ہے تم اپنے باپ کے زیر سایہ رہو وہ جوان آدمی ہے تمہاری حفاظت یقینی بنا سکتا ہے"

شیریں نے خود کو کچھ سخت کہنے سے باز رکھا کیونکہ جب بھی وہ ثمر مبارک کے بارے میں کچھ کڑوے کسیلے جملے بولتی دادا جان گھنٹوں دکھی رہتے۔وہ جیسے بھی تھے انکے لیے عزیز تھے کیونکہ ثمر مبارک شمشاد خان کی اکلوتی اولاد تھے۔

"تو پھر بہتر ہے تم کل ہی یہ نیک کام سر انجام دے ڈالو"

بہت دیر تک خاموشی چھائی رہی تو دادا جان کو بھی الجھن ہوئی تھی۔

شاید شیریں نے انکی بات کا برا منا لیا تھا۔جتنے ناراض سہی وہ اسے دکھی نہ دیکھ سکتے تھے۔

"میرے ساتھ فضول باتیں نہیں کریں یہ دیکھیں کیا بنا رہی ہوں آپکا فیورٹ میٹھا "

وہ خشاش بشاش سی باول میں کچھ مکس کرتی انکے سامنے آئ تو اندر ہی اندر انھوں نے سکون کا سانس لیا۔

"مجھے نہیں کھانا"

سرسری سا انکار کیا۔

(یہ اتنی مہربان کیوں ہو رہی ہے اصولا تو اس بات پر اسے یا تو گھر سے واک آؤٹ کر جانا چاہیے تھا یا کمرہ بند ہو جاتی یہ میٹھے کیوں بنا رہی ہے)

کسی سوال نے زور سے انکے ذہن میں سر اٹھایا۔

"کھا لیں،، کھا لیں،، ہمیں پیار ہے آپ سے"

وہ آنکھ دبا کر شرارت سے بولی۔



"مقصد کیا ہے اسکے پیچھے.، کیونکہ میں اپنی اولاد اور اپنی اولاد کی اولاد کو جانتا ہوں۔اتنے شیریں بیان وہ نہیں ہیں"

انھوں نے ایک ابرو اٹھا کر اسے نگاہوں ہی نگاہوں میں تولا۔

"کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی۔"

وہ لہجے کو خوامخواہ کا سرسری بناتے بولی۔

"اچھا دادا وہ آپکا ایک سٹوڈنٹ تھا نا،، لمبا سا وہ جو ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی میں تھا"

آخر وہ اپنے مطلب کی بات پر آ ہی گئی تھی۔

" کون عزیر؟"

انھوں نے ذہن پر زور دیا۔

کچھ دیر شیریں اسکے بارے میں سمجھاتی رہی آخر وہ لوگ اس کے شجرہ کو کنگھال کر اس تک پہنچ ہی گئے۔

" اسکو تو بلائیں نا کل گھر پر"

اس نے شاطر نظروں سے دادا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

" شیریں خانم، ،آج کے بعد نا میں اپنے کسی شاگرد کو گھر بلاوں گا نا تم جیسی شاطر وکیل کو انکا استعمال کرنے دونگا"

دادا آج کسی رشتے داری کو رکھنے کے روادار نہ تھے اسی لیے بدلحاظی سے بولے ۔شیریں کچھ دیر انھیں منھ بنائے گھورتی رہی۔

" کسی غریب کا کام کریں تا کہ جب آپ اس جہان فانی سے رخصت ہو جائیں تو لوگ دعائیں دیں آپکو، اچھے الفاظ میں یاد کریں نا کہ۔۔۔"

دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا

"مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں"

ہمیشہ وہ اسے کہتے تھے۔

"شیریں خانم کچھ ایسا کرو کہ دنیا تمہارا نام اچھے الفاظ میں لے۔تم نہ بھی رہو تمہارا نام رہے "

اور آج کیسے مکر گئے تھے اپنی کہی بات سے۔

" ٹھیک ہے پھر جب لوگ میرے سامنے کہیں گے نا کہ بڈھا بڑا بدمزاج تھا اور بلا بلا بلا۔۔۔تو میں ہرگز آپکے اچھے اخلاق کی گواہی نہیں دونگی،، ٹھیک ہے نا؟ "

اس نے کن انکھیوں سے دادا کا سپاٹ چہرہ دیکھاجو ہنوز لاتعلق رہے۔

(لگتا ہے میرا باپ اس دفعہ خوب تیل چھڑک کر گیا ہے)

وہ سوچتی ہی رہ گئی۔

" پھر کریں گے میرا کام یا نہیں؟ "

کھانا انکے سامنے رکھتے ہوئے شیریں نے پھر سے قسمت آزمائی کرنا چاہی۔

وہ چپ رہے

" جواب تو دیں"

شیریں نے انکے سامنے ہاتھ ہلا کر گویا انھیں متوجہ کیا۔

"آج کے بعد میرا تمہاری وکالت یا تمہارے کسی بھی عمل سے بلا واسطہ یا بالو واسطہ کوئی تعلق نہیں "

وہ بولے تو سن کر اسکے حواس جاتے رہے۔


" ایں فقرہ چہ معنی دارد؟ "

(اس بات کا کیا مطلب ہے؟")

" اسکا وہی مطلب ہے جو تم سمجھ چکی ہو،، اگر تمہیں اپنی من مانی کرنی ہے تو اپنے باپ کے ساتھ رہ کر کرو،مجھ میں ہمت نہیں کہ کسی دن مجھے کوئی پولیس کا افسر کال کرے کہ آ کر پوتی کی لاش وصول کریں،، میں مزید کسی کو قبر میں نہیں اتار سکتا "

(اففف، توبہ ہے،، اب دادا نجانے کتنے دن اس فیز میں رہیں گے.،

مجھے ثمر مبارک صاحب سے خود بات کرنی ہو گی،، وہ کیوں میرے معاملات میں دخل اندازی برت رہے ہیں)

وہ تیزی سے اس سب سے نکلنے کے بارے میں سوچ رہی تھی

اسکے لیے وہ باپ کے سامنے جانے کے لیے بھی تیار تھی۔اس باپ کے سامنے جس سے اس نے سالوں سے براہ راست بات نہ کی تھی۔

______________________


"حاطب بھائی جلدی سے آئیں وہ ادھر بلی کا بچہ ہے"

وہ ساری رات کے جاگے کافی دیر سے سوئے تھے۔

جب وہ بوکھلاہٹ میں اسے ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر گئی۔

"کیا ہوا ہے؟"

وہ کچھ خاموش خاموش تھے شاید یوں اٹھایا جانے انھیں اچھا نہیں لگا تھا۔

"وہ ادھر بلی کا بچہ ہے۔۔۔"

وہ ادھر لان کی طرف اشارہ کرتی پریشان تھی۔

" تو میں کیا کروں اسکا؟؟"

اب کی بار بے زاری سے بولے۔ساتھ ہی دونوں ہاتھوں کی پوروں سے آنکھیں مسلیں۔

"وہ بہت بیمار ہے،مجھے لگتا ہے مر رہا ہے"

اسے اپنے نامکمل بیان کا احساس ہوا۔

"تو کیا کروں؟ "

وہ شاید ابھی بھی نہیں سمجھے تھے۔

"کوئی مرنے والا ہو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں "

اب کی بار وہ کچھ خفا ہو کر بولی،، حاطب نے اسکی بات سنی پھر اسے بغور دیکھا۔

(ہاں سچ ہے کوئی مر رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش ہی کی جاتی ہے)

وہ سر ہلاتے اس طرف کو چل دیئے جس طرف وہ اشارہ کر رہی تھی۔

ایک چھوٹا سا بلی کا بچہ شاید کہیں پانی میں گرا ہوا تھا اور اب پوری طرح بھیگا کانپ رہا تھا۔

حاطب نے ہاتھ بڑھایا تو وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے ناکام ہوا۔

اسکے سر پر پیار اور نرمی سے ہاتھ رکھا پھر چند مرتبہ ہاتھ پھیرا تو وہ عجیب مدد طلب نظروں سے حاطب کو دیکھنے لگا تھا۔حاطب نے بے ساختہ اپنے پیچھے کھڑی ایفا گل کو دیکھا جو یوں دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جیسے سرکس میں کوئی دلچسپ کرتب دکھایا جا رہا ہو۔

پھر حاطب نے اسے پیار سے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔


"یہ تو بری طرح کانپ رہا ہے"

انھوں نے تشویش سے خود کلامی کی۔

"اب کیا کریں"

انھیں تو پالتو جانوروں یا ویسے بھی جانوروں کے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔

حتیٰ کہ کبھی کسی بلی کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا۔

"آپ اسکو پکڑو میں حبیب سے کوئی دوا وغیرہ لے کر آتا ہوں"

اس ننھی جان کو ایفا کی طرف بڑھایا مگر اسے تو شاک لگا تھا وہ دو فٹ دور جا کھڑی ہوئی ۔

"نہیں مجھے ڈر لگتا ہے"

"کم آن ایفا گل، یہ خود مر رہا ہے،، آپ کو کیا کہے گا"

وہ برا منا کر بولے؛ تو ایفا نے ہاتھ بڑھا کر اسے بہادری سے تھامنے کے لیے رضا مندی کا اظہار کر دیا۔

"لیکن مجھے ڈر لگتا ہے"

آخر وقت پر جب حاطب اسکی بانہوں میں وہ بلی کا بچہ دے رہے تھے وہ پیچھے ہٹ گئی۔بلی کا وہ گہرے سرمئی رنگ کا بچہ بھی اب ان دونوں کو سوالیہ دیکھ رہا تھا۔

جو نہایت کنفیوز لگ رہے تھے۔

"حد ہے،، آپ پاگل ہو کیا؟ ایک بلی کا قریب المرگ بچہ آپ کو کیا کہے گا؟ "

وہ برا منا چکے تھے۔ اسے وہیں چھوڑتے اندر آئے، کسی کمرے سے ایک تولیہ ڈھونڈا اس میں بلی کے بچے کو لپیٹا اور صوفے پر رکھ دیا۔ اس تمام کاروائی کے دوران وہ انکے پیچھے پیچھے تھی۔

"اچھا سوری، ،مگر مجھے ڈر لگتا ہے جانوروں سے"

وہ خجل سی اپنا دفاع کر رہی تھی۔

" اب اسکے پاس ہی رہنا میں آتا ہوں"

وہ نظر انداز کرتے باہر نکل گئے۔

"ایفا گل اب کم از کم دروازہ ہی بند کر لو"

دروازے پر جا کر اسے اپنے پیچھے نا پا کر وہیں رک کر ہانک لگائی۔وہ بھاگتی ہوئی آئی تھی۔

" وہ میں اسکے پاس کھڑی تھی نا"

اپنی اس بے پرواہی کی وجہ بتائی مگر وہ دور جا چکے تھے۔

کچھ دیر بعد وہ ایک سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے کے ساتھ آئے تجسکے پاس ایک گولیوں کا پتہ تھا۔اور غالبا وہ حبیب تھا۔

عفی تو حبیب کو کوئی ڈاکٹر سمجھ رہی تھی۔

"بلی شاید کہیں آپکی پانی کی ٹینکی میں گری رہی ہے۔اسے بخار ہے"

وہ تفصیلی جائزہ لے کر اب ان دونوں کو باری باری دیکھ رہا تھا۔

"مگر ہماری ٹینکی تو کور ہے، اور بہت بڑی ہے، اگر یہ وہاں گرا تھا تو باہر نکلنا ممکن نہیں تھا"

وہ اب آپس میں کوئی بحث مباحثہ کر رہے تھے۔

" بھابھی؟ "

جاتے ہوئے اس نے ایفا گل کی طرف اشارہ کر کے حاطب سے پوچھا تھا، وہ چونکے پھر ہونق پن سے سر ہلایا۔

وہ حقیقت جو وہ ابھی تک قبول نہیں کر پائے تھے،اسکا بار بار اقرار کرنا پڑ رہا تھا۔

"او، بیسٹ وشز"

لڑکے کے ہونٹوں پر شرارتی مسکان آ گئی تھی ۔وہ اسی انداز میں ہنستا باہر نکل گیا ۔

حاطب دروازہ بند کر کے واپس آئے تو وہ دو زانو بلی والے صوفے کے پاس بیٹھی تھی۔بلی بھی بغور اسے دیکھ رہی تھی۔

جو کہ ایفا گل کے لیے دلچسپ تجربہ تھا۔

"آپ اسکا دھیان رکھنا، میں کھانا لے کر آتا ہوں"

کلائی پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھا تو بھوک کا احساس ہوا

انھوں نے کل سے کچھ نہ کھایا تھا۔ آخر کتنی دیر بھوکا رہا جا سکتا تھا۔

جب وہ واپس آیے۔تو عفی ڈرتے ڈرتے انکے لیے کھانا نکال لائی تھی۔مگر خلاف توقع انھوں نے چپ چاپ چند نوالے کھا لیے۔تو وہ انکے لیے چائے بھی بنا لائی۔

کپ سامنے رکھنے پر حیران ہویے تھے مگر بولے کچھ نہیں ۔

وہ بچوں کی طرح کوئی کام کرنے کو اٹھتی پھر آ کر بلی کے بچے کے سامنے آ بیٹھتی ۔

کام کیا تھا دو دفعہ حاطب کے لیے وقفے وقفے سے چائے بنائی۔وہ بھی بنا انکے کہے ۔مگر انھوں نے پی لی تھی۔


عفی ہر ممکن طریقے سے انکا خیال رکھ رہی تھی۔بلکہ شاید انکا دل بہلانے کی ایک کوشش تھی مگر وہ پہلے بے مقصد ٹی وی دیکھتے رہے۔ پھر نہانے چلے گیئے۔

اسکے بعد لان میں لیفٹ رائٹ اور رائٹ لیفٹ کرتے رہے۔

پھر بلی کے بچے کے پاس آ گئے۔

سارا دن یونہی عجیب سی خاموشی میں کٹ گیا۔

مغرب اوپر والے کمرے میں پڑھ کر وہ واپس آئی تو حاطب اس ننھے بلی کے بچے کو گود میں لیے بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔

اور وہ بلی کا بچہ بھی بہت مطمئن نظر آتا تھا۔

عجیب بات تھی مگر وہ انکے بازوں میں سو رہا تھا۔

(کتنے معصوم لگ رہے ہیں بیچارے،،ویسے اچھے ہیں اسی لیے اس بے زبان جانور سے پیار کر رہے ہیں ۔۔

پتہ نہیں یہ عورتیں صبر اور شکر کیوں نہیں کرتیں،، بھلا عروہ کو کیا تکلیف دیتے یہ،، پتہ نہیں یہ عورتیں کیا چاہتی ہیں؟)

اس نے دبی آواز میں سر گوشی کی۔ گویا وہ خود کو *عورتوں * کے اس قبیلے سے لاتعلق خیال کرتی تھی۔

(او ہو عفی عروہ کا نام نہیں لینا،، ورنہ پھر غصہ ہو جائیں گے)

وہ انکے سامنے کھڑی سر گوشی میں خود کو سرزنش کر رہی تھی۔اس بات سے بے خبر کہ حاطب کچی نیند میں تھے اور اسکی بڑبڑاہٹیں سن سکتے تھے۔

قانون والوں کو قانون مت سکھاو"

وہ ہاتھ اٹھا کر نخوت سے بولتی اس ایس آئی کو سر جھکانے پر مجبور کر گئی۔

"او بی بی اللہ کا واسطہ ہے جاو ابھی، تمہارے مجرم کا چالان کل عدالت میں پیش کر دیا جائے گا"

وہ اس سے سراسر جان چھڑا رہا تھا ۔ایک تو اسکی قسمت بری تھی،، وہ لڑکی سارے اسی تھانے کے کیس لے رہی تھی۔

"ابھی کیوں نہیں، جب مقدمہ درج ہے، گرفتاری ہو چکی ہے تو چالان پیش کیوں نہیں کیا جا رہا،، کیونکہ اس میں آپکی بد دیانتی شامل ہے؟؟"

وہ شاید گھر سے سوچ کر آتی تھی کہ انھیں پوری طرح ذلیل کرنے کے بعد ہی جائے گی 

" او بی بی ۔، اللہ کا نام لیں۔۔،کہا نا مجرم پیش کر دیں گے.، جائیں اس وقت یہاں سے" 

نوجوان اے ایس آئی نے باقاعدہ ہاتھ باندھے تھے 

" اللہ کے واسطے دینے کے بجائے اپنا کام۔۔"

اسکی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی جب اے ایس آئی نے برقی رفتار سے اٹھ کر سلیوٹ جھاڑا کوئی سادہ جینز شرٹ میں اندر داخل ہوا تھا وہ ایک پل کو رکی پھر نظر انداز کرتی اپنی بات مکمل کی۔

"اپنا کام کرو اور ہاں جب تک اسکا ٹرائل ہو کر جرم ثابت نہیں ہو جاتا تب تک وہ ملزم ہے۔ملزم ۔ اگلی بار تم اسے مجرم کہنے کی غلطی مت کرنا" 

اے ایس آئی پر ان کہے تین حرف بھیجتی وہ شانِ استغناء سے اپنا بیگ کندھے پر ٹکاتی باہر نکل رہی تھی اس نے دوسری بار آنے والے اس آنے والے پر نگاہ تک نہ کی تھی جسکی آمد نے ایس آئی کا رنگ فق کر دیا تھا۔اور دفتر کے باہر کچھ دیر پہلے اطمینان سے کھڑے اہلکار بھی اب الرٹ تھے

" میڈم آپ بھی ایک سرکاری دفتر میں بیٹھ کر ایک ایمان دار اور فرض شناس سرکاری ملازم پر بد نیتی کا الزام نہیں لگا سکتیں۔، وہ بھی بناء کسی ٹرائل بناء کسی ثبوت کے" 

اس آنے والے نے اپنے جونئر کا دفاع کیا تھا یا کچھ اور۔ 

مگر وہ پلٹی اور استہزائیہ ہنسی 

"پولیس ملازم۔ ایمان دار اور فرض شناس،، گڈ جوک.. شکلیں دیکھو انکی"

سامنے والے کی آنکھوں میں ایک پل کو جھانک کر وہ طنزیہ بولی اور مزید رکی نہیں اسے اور بھی سو کام تھے۔

اے ایس آئی کا بس نہ چلتا تھا کہ زمین پٹھے اور وہ اس میں گڑ کر چھپ جائے کس طرح وہ اس عورت کے ہاتھوں بے عزت ہوا تھا۔

وہ بھی ایس پی صاحب کے سامنے ۔

" یہ کون ہے بدتمیز لڑکی ہے؟" 

وہ اسکی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔

"سر یہ وکیل ہے، ادھر بس عجیب سی ہے جان چھوڑتی ہی نہیں، ہم بھی لیڈیز سمجھ کر کچھ نہیں کہتے" 

اے ایس آئی خجالت سے اپنا دفاع کرتے ہوئے بولا

"اپنی رٹ کو چیلنج مت ہونے دیا کرو،، ایک تو تم. لوگوں کے پیٹ اتنے باہر کو نکلے ہوئے ہیں اوپر سے فٹنس دیکھو،، جسکا جی چاہتا ہے باتیں سنا جاتا ہے "

" سر جی، ایسا نہیں ہے بس حالات بلکل کنٹرول میں ہیں،، بس یہ لڑکی تھوڑی عجیب سی ہے،،"

وہ شاید مزید بھی بولتا مگر ہمایوں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا

" اچھا چھوڑو اس سب کو، کل رات شہر سے باہر والی چوکی پر ناکے کی ڈیوٹی کس کی تھی؟ ذرا ڈیوٹی چارٹ لے کر آو"

وہ سامنے پڑے ایف آئی آرز کے رجسٹر کو سرسری طور پر دیکھتا ہمیشہ کی طرح تیزی میں تھا ۔

وہ ہر دوسرے تیسرے روز پانچ منٹ کے لیے ہی سہی تھانوں کے چکر لگاتا رہتا تھا مگر ابھی تک ان اہلکاروں کو ان اچانک اور بنا پیشگی اطلاع کے لگنے والے چکروں کی عادت نہ ہوئی تھی وہ اچھے خاصے بوکھلا جاتے تھے۔

"اور اپنا امیج بہتر کرو،،لوگوں کو متاثر کرو اپنے پروفیشنلزم سے...ہاں وکیلوں کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں مگر اتنا سر پر سوار کرنے کی بھی ضرورت نہیں کسی کو،، اپنی اہمیت کو پہچانو" وہ سرسری انداز میں کر چیز کو دیکھ رہا تھا،، اور اتنی دیر میں ایس ایچ او بھی بیلٹ ٹائٹ کرتا وہیں پہنچ چکا تھا۔

__________________________

"آپ کچھ کھا لیں " 

وہ کھانا پھر باہر سے لایا تھا،، کیونکہ گھر میں کھانا پکانے کا سامان موجود نہیں تھا۔ایفا گل نے کھانا سامنے میز پر ہی لگا دیا تھا اور اب منتظر تھی کہ وہ ہاتھ دھو کر آتا اور کھانا شروع کرتا۔

اور بڑے تردد اور خاموشی کے ایک طویل وقفے کے بعد وہ بلی کو دودھ کا ڈبہ پلا کر وہیں نیچے چھوڑ آیا تھا۔جونہی وہ بیٹھا تو ڈور بیل چیخی تھی۔

"آپ بیٹھیں میں دیکھتی ہوں" 

وہ تیزی سے اٹھ کر باہر نکلی تھی۔مبادا وہ پھر سے کھانے سے انکار نہ کر دے۔

"ہمایوں بھائی" 

ہمایوں کو دیکھ کر اسکو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔

"ایفا گل دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھ تو لیتے ہیں" 

وہ مسکراتا ہوا اندار داخل ہوا تھا۔

"او سوری" 

اس نے سر پر ہاتھ مارا۔

(یہ دونوں بھائی بلکل ایک جیسے ہیں، اور میں پتہ نہیں کیوں بھول جاتی ہوں ) 

اسکے پیچھے چلتی وہ یہی سوچ رہی تھی۔

"آپ اکیلے آئے ہیں؟" 

باہر پولیس کی ایک گاڑی تھی. اور دانیہ، آیت اور جاوید چچا اور چچی نہیں تھے۔تو اس نے قیاس کیا۔

" کیوں میرے ساتھ کسی اور نے بھی آنا تھا کیا؟" وہ پلٹ کر اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا

"نہیں مطلب دانیہ، آیت؟" 

"دانیہ کل وہیں سے اسلام آباد چلی جائے گی اور ماما پاپا تم لوگوں کے بی ہاف پر ڈنرز اور لنچ کر رہے ہیں" 

وہ آنکھ دباتا شرارت سے بولا اور پھر سے چلنے لگا۔

" کون ہے ایفا گل؟ "

وہ اتنی دیر سے نجانے کس کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھی۔

"ناچیز کو ہمایوں۔۔۔ اوہو کھانا کھایا جا رہا ہے"

اسکی پہلی بات کھانے کو دیکھ کر نامکمل ہی رہ گئی۔

" او تم ہو،، آ جاو"

حاطب نے کشادہ دلی سے آفر کی۔

"کیا ہم ایفا گل کے بنائے کھانے کو کھانے کا شرف حاصل کر رہے ہیں؟" 

اس نے ایفا گل کو دیکھا جو اب بھی کھڑی تھی

"نن نہیں تو،، باہر سے لائے ہیں،، کچن میں سامان ہی نہیں" 

اس نے اپنی اس کاہلی کی وجہ بھی بتائی۔

"اوکے، ،میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم لوگ کہیں نکل گئے ہو گے،، "

وہ کھانا شروع کر چکا تھا۔

یوں بولا جیسے انھوں نے ہنی مون سویٹ بک کرا رکھا ہو۔

حاطب نے البتہ سامنے کھڑی ایفا گل کو دیکھا جو ابھی بھی کھڑی تھی 

"بیٹھ جاو" 

مجبوراً ہی سہی وہ اسے شامل ہونے کی آفر کر رہا تھا ۔یا شاید وہ خود کو اس سے نہ روک پایا تھا۔

"ہاں بیٹھ جاو"

ہمایوں نے بھی سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر فراخدلی سے بیٹھنے کا کہا۔

"نہیں آپ لوگ کھائیں" وہ کچھ نروس ہوئی پھر انکار کیا. 

انکے ہاں تو بس دیوان لالا، فرحت لالا اور اور سعد ہی اکٹھے بیٹھ کر کھاتے تھے،، وہ یا امی جی کم ہی شامل ہوتے تھے، بلکہ وہ انھیں ہر چیز بوقت سرو کرنے میں ہی بھاگتی رہتی۔

کبھی دیوان لالا اکیلے ہوتے تو اسے بھی ساتھ بٹھا لیتے۔

" آ جاو ایفا گل ،،تمہارے لیے تھوڑا سا بچا دونگا میں" 

ہمایوں جو کھانے پر ایک طرح سے بنا بلائے مہمان کی طرح ٹوٹ پڑا تھا شرارت سے بولا

"نہیں آپ دونوں کھائیں" 

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اتنی نروس کیوں ہو رہی ہے،، 

کیونکہ تھوڑی دیر پہلے وہ حاطب کے ساتھ بیٹھ کر تو کھانا کھانے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔

" میں چائے بنا لاتی ہوں" 

اس نے وہاں سے بھاگنے کو دوڑ لگا دی تھی۔

ہمایوں دیر تک ہنستا رہا۔

" اگر میں تم لوگوں کو ڈسٹرب نہیں کر رہا تو پھر ٹی وی ہی لگا دو" 

کھانے کے بعد وہ دونوں بھائی دیر تک باتیں کرتے رہے،،، ایفا گل کو پہلے تو اپنا وہاں بیٹھنا عجیب لگا،، پھر ان سب نے مل کر بلی کے بچے کا نام تجویز کرنے میں بھرپور مباحثہ کیا۔یوں وہ جو نروس ہو رہی تھی کسی حد تک آرام دہ محسوس کرنے لگی۔

ہمایوں ہر بات میں اسکی رائے لے رہا تھا یا شاید اسے شامل گفتگو کر رہا تھا۔حاطب بس ہوں ہاں ہی کر رہا تھا۔

"گرے وچ نام رکھ لو" 

حاطب نے بہت سوچ بچار کے بعد پہلی تجویز دی۔

"توبہ کرو،، اتنی ڈروانی سوچ کیوں چل رہی ہے تمہاری،، اچھی خاصی پیاری بلی ہے" 

ہمایوں نے جھرجھری لی۔

ایفا گل کو البتہ گرے وچ کے شجرے سے واقفیت نہیں تھی۔

"کوئی خوبصورت سا پیارا سا نام رکھو، کیوں ایفا گل آپ کیا تجویز کرتی ہیں؟" 

وہ کندھے اچکا کر رہ گئی تو ہمایوں کو مزید بولنا پڑا وہ ان دونوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کے جتن کر رہا تھا۔

"میرے خیال میں تو جینیفر، چارلوٹ ،ڈیکوٹا اس ٹائپ کے نام رکھنے چاہییں "

" مجھے تو نہیں پتہ،، میرے ابا تو کتے بلیاں بلکل گھر نہیں رکھنے دیتے تھے۔

دیوان لالہ کا کتا بھی انھوں نے نہیں رکھنے دیا" 

اسکے ذہن میں ان چیزوں کے لیے فطری سی نا پسندیدگی یا ڈر تھا جو شاید اسے باپ سے ورثے میں ملا تھا۔

" دیوان کے پاس تو جرمن شیفرڈ ہے،، خوامخواہ میں اس نے پالا ہوا ہے،، جبکہ وہ اس علاقے میں کمفرٹ ایبل نہیں ہوتے"

ہمایوں نے تبصرہ کیا۔

وہ ہمایوں کے ساتھ دوسری باتوں میں مگن ہو چکی تھی،، جب اچانک حاطب نے انھیں روکا۔

"اینابیل رکھ لو" 

ہمایوں نے باقاعدہ شاکی نظروں سے حاطب کو دیکھا۔

"حد ہے، میرے بھائی تم اتنی سوچ بچار کے بعد کیا نام تلاش کر کے لائے ہو،، یہ اتنی خوبصورت بلی تمہیں اینا بیل کی یاد دلا رہی ہے"

وہ اپنے بھائی کی ذہنی حالت پر افسوس ہی کر سکتا تھا۔

جسے گرے وچ،.اور اینابیل جیسے نام یار آ رہے تھے۔

"خیر اب میں تھک گیا ہوں تم لوگ بھی سو جاو، اور صبح تک کوئی اچھا سا نام سوچو ایفا گل "

آخر میں وہ ایفا گل کو تاکید کرنا نہ بھولا۔وہ مسکرا کر سر ہی ہلا سکی۔

_________________________

"میں سوچ رہا ہوں اگر سجاد چچا نے نہیں کچھ کرنا تو نہ کریں ہمیں تو جانا چاہیے اسلام آباد"

دیوان آج کافی دنوں بعد کچھ بہتر موڈ میں تھا۔اسی لیے اب حویلی کے بیرونی دروازے کے قریب بنے اسے کشادہ احاطے میں اپنے جرمن شیفرڈ عرف ایلسٹر کو نہلا رہا تھا۔

اچھی طرح شیمپو کرنے اور تولیے سے خشک کرنے کے باوجود کتے کی نسل کتی ہی رہی اور اس نے پوری قوت سے اپنا پورا جسم جھٹکے سے ہلایا کہ چھینٹے دور دور تک گئے۔حتی کہ بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ابا جی بھی مقدور بھر اس سے شرف یاب ہوئے۔اور پھر فرحت کی بات منھ میں ہی رہ گئی۔

ابا نے بھی مقدور بھر دیوان کو گالیوں اور ملامتوں سے نوازا تھا۔

"کچھ نہیں ہوتا ابا، جا کر نہا کر کپڑے تبدیل کر لیں" 

وہ اپنے ازلی بے پرواہ انداز میں تنگ آ کر  بولا۔

"کوئی مسلمان کے گھر میں ایسی جنسیں دیکھے تو کیا سوچے،، کیا تمہارا کوئی دین نہیں جسکی کوئی پابندی ہو تم پر؟ کیا تمہیں پاک ناپاک کا کوئی خیال ہے؟؟" 

ابا جی کا اپنا ہی بھاشن شروع ہو چکا تھا، فرحت نے تولیہ اٹھا کر ایلسٹر پر ڈال دیا تھا اور ایک ہاتھ اسکی گردن میں موجود بیلٹ پر رکھا۔مبادا ایلسٹر صاحب عادت سے مجبور ہو کر.، پھر سے وہی حرکت نہ کر ڈالیں۔

" ابا خدا کا خوف کریں،، اب کیا اس بے زبان کو نہلاوں بھی نہیں؟. ،کیا اسکو گندہ چھوڑ دوں، پھر آپ خوش ہوں گے؟" 

وہ یوں شاکی ہوا جیسے اگر وہ یہ کار خیر انجام نہ دے تو کوئی دوسرا فرد ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔

"میں اپنے گھر میں ان رحمت کے دشمنوں کو برداشت نہیں کر سکتا،.جانتے بھی ہو کہ انکی وجہ سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے "

سدید خان نے بیٹے کی لاپرواہی پر افسوس کیا۔پھر دیوان سے مایوس ہو کر رخ فرحت کی طرف موڑا۔

"اور فرحت تم کیوں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہو، جا کر اپنا کام کرو،، ساری دنیا کے لڑکوں کو دین سکھانے او نماز پر پابند کرنے والے کی اپنی اولاد کن خرافات میں پڑی ہوئی ہے" 

وہ سخت کبیدہ خاطر نظر آتے تھے۔

دیوان سامان ایک طرف کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"ابا اب ہم بالغ اور عاقل شہری ہیں،،کوئی چھوٹے بچے نہیں کہ آپ سے جواب طلبی ہو..، ہم اپنے کاموں کے لیے خود ذمہ دار ہیں،، آپ بے فکر ہو کر اپنی نمازوں میں مگن رہیں،، اپنے کاموں کا جواب ہم نے خود دینا ہے"

وہ شروع سے ہی منھ زور اور بے پرواہوں کا بادشاہ تھا۔

کہہ کر نکل گیا ابا افسوس سے سر ہلاتے رہ گئے فرحت نے ابا سے بچنے کے لیے باہر والے واش روم کی راہ لی۔

ان دونوں کا کمرہ اور واش روم ابا استعمال نہیں کرتے تھے اور انھیں اپنا واش روم استعمال کرنے نہیں دیتے تھے۔

بلکہ ان دونوں کے لیے وہاں جانا بھی ممنوع تھا۔

سعد البتہ ابھی انکے  زیر کنٹرول  تھا۔

فرحت کی بات وہیں رہ گئی تھی۔

دوسری جانب سجاد چچا کے پورشن میں تو گھمبیر خاموشی تھی نجانے وہ لوگ یکدم اتنے خاموش کیوں ہو گئے تھے؟ 

یا اندر ہی اندر کیا پک رہا تھا جس سے سب بے خبر تھے۔

___________________________

البتہ ہمایوں کے جانے کے بعد پھر سے انکے درمیان ایک طویل خاموشی کا وقفہ آ چکا تھا۔

حاطب کیا محسوس کر رہا تھا یہ سمجھ سے بالاتر تھا۔

البتہ ایفا گل کو پہلی بار نروسنیس نے گھیرا۔

کل تو بس وہ تھکی ہاری سو گئی تھی۔آج اسے احساس ہو رہا تھا وہ اپنے گھر سے باہر اور اپنے چچا کے دو بیٹوں کے ساتھ انکے گھر میں *اکیلی* آئی ہوئی تھی

یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ وہ جاوید چچا کے گھر آئی گو کہ دانیہ، آیت حاطب اور خصوصاً ہمایوں کے ساتھ ہونے والی وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کے بعد اسکی فطری سی خواہش تھی وہ بھی عام لوگوں ہی کی طرح اپنے چچا کے گھر جا کر رہے مگر اسکی یہ خواہش ابا کی سخت گیری کے باعث پوری ہونے کے امکانات ہمیشہ ناپید ہی رہے

مگر اب تو کچھ بھی عام نہیں تھا سب کچھ اتنا عجیب تھا کہ بیان سے بھی باہر۔

"آپکو نیند نہیں آ رہی؟"

اس نے پھر سے بلی کے ساتھ مگن حاطب کو کم انکھیوں سے دیکھا۔

"اوں؟ ہوں.، نہیں"

وہ چونکا پھر نفی میں سر ہلایا۔

ایفا گل پھر سے چپکی ہو رہی۔

اندرون خانہ وہ اسکی اس خاموشی سے خائف بھی ہو رہی تھی۔پھر وہ اٹھ کر کہیں چلا گیا۔

ایفا گل اندازے ہی لگاتی رہی۔

کچھ دیر بعد وہ چھوکٹ نما دروازے کے سرے کو تھامے کھڑا اسے عجیب گزارشی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"کیا آپ ایک کارٹن یا بڑی ٹوکری ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گی؟"

اسکے انداز میں بچوں کی سی معصومیت اور حد درجے کی تہذیب تھی۔

حاطب نے اسکے یوں ہونقوں کی طرح دیکھے جانے پر نا سمجھی سے سر ہلایا۔

جبکہ ایفا گل تو اس درجہ تمیز پر اندر ہی اندر صدقے واری ہو رہی تھی ۔

(اللہ کیا یہ دانیہ آیت سے اس طرح کام کرواتے ہوں گے؟ فرحت لالا، سعد تو شاہی فرمان جاری کرتے ہیں،، فلاں چیز حاضرررر کیییی جااااائے)

بس گالوں پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی ورنہ وہ حیرت زدہ تھی۔

"اٹس اوکے میں ڈھونڈ لوں گا"

وہ اسکی مسلسل خاموشی کو انکار سمجھ کر واپس ہو لیا ۔تو ایفا گل کو ہوش آیا

"نہیں میں ڈھونڈ دیتی ہوں"

اسے نہیں پتہ تھا وہ کیوں تیزی سے بھاگتی ہوئی اسکے آگے آگے کچن میں پہنچی تھی۔

مگر حاطب بھی اس پھرتی پر کچھ عجیب سے انداز میں کندھے اچکا کر رہ گیا۔

کچن، پھر سٹور اور آخر چھت پر تلاش کرنے کے بعد انھیں ایک گتے کا کارٹن مل ہی گیا جس میں کوئی کپڑا بچھا کر بلی کو سلایا جا سکے۔

وہ اسکے ساتھ ساتھ ہر جگہ گیا تھا۔وہ کوئی چیز پیش کرتی مگر وہ چند پل بغور دیکھ کر نفی میں سر ہلا کر رجیکٹ کر دیتا آخر یہ گتے کا ڈبہ خوش قسمت ٹھہرا جو قبول کر لیا گیا۔

پھر وہ جب تک اسے کاٹ کر ایک باقاعدہ شکل دے کر بلی کے بے نام بچے کے بستر کی شکل دینے میں کامیاب ہوا تب تک وہ وہیں کھڑی اسے بھرپور انہماک سے دیکھتی رہی۔

"اب آپ سو جائیں جا کر" فارغ ہو کر سر اٹھایا تو وہ پاگل لڑکی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔

"کدھر؟"

بے ساختہ منھ سے پھسلا۔حاطب ایک پل کو خاموش ہو گیا۔پھر اٹھا اور آگے چلتا ہوا اسے ایک کمرے تک لے گیا۔یہ کل والا کمرہ نہیں تھا 

"یہاں سو سکتی ہیں آپ" 

اس نے اسے اندر جانے کا اشارہ دیا

" یہ کس کا کمرہ ہے؟" 

یہ نسبتا بڑا اور صاف ستھرا کمرہ تھا ۔

"یہ میرا کمرہ ہے آپ یہاں سو جائیں"

وہ واپس پلٹ گیا تھا جب اسکی آواز نے رکنے پر مجبور کیا

"آپ کہاں سوئیں گے؟"

وہ تشویش سے بولی مگر حاطب کے گھورنے پر گڑبڑا کر رہ گئی

"میرا مطلب اگر میں آپکے کمرے میں سو گئی تو پھر آپ کہاں سوئیں گے؟"

سوال کو مناسب بنانے کی کوشش میں طویل کھینچا۔

حاطب کے چہرے کے تاثرات یکدم کھنچ گئے تھے 

"آپکو فکر کرنے کی ضرورت نہیں "

وہ واپس ہو لیا۔

(اب اس میں پتہ نہیں کیا برا لگا ہے انھیں؟)

وہ اسکے چہرے کے زاویے یاد کر کے دیر تک پریشان ہوتی رہی۔

پھر سر جھٹک کر نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئی۔

نیچے والے پورشن میں ایک ہی واش روم تھا۔

اٹیچ واش روم کی سہولت یہاں بھی میسر نہیں تھی۔

البتہ اسے یوں اس وقت گھر میں دندناتے دیکھنا حاطب کے لیے قطعی خوشگوار نہیں تھا۔

وہ یہاں اسے دیکھنے کا خواہش مند نہیں تھا۔

شاید وہ اس وقت کسی کو بھی دیکھنے کا خواہش مند نہیں تھا۔

"زندگی میں بعض دفعہ ہمیں ایسے مقامات سے مڑنا پڑتا ہے.. جہاں سے ہم مڑنا نہیں چاہتے۔۔مگر شاید یہی زندگی ہے۔ "وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہو گیا۔

سگریٹ کی طلب نے اسے باہر لان میں جانے پر مجبور کر دیا۔

ایک بار اس نے اپنے کمرے میں جانے کی کوشش کی،. خود کو نارمل زندگی کے لیے تیار کرنے کی کوشش بھی کی،، 

جس پل وہ کمرے میں داخل ہوا.، حسب توقع و توفیق ایفا گل نے دروازہ لاک نہیں کیا تھا۔

اور اب وہ بے سدھ سو رہی تھی۔

حاطب چوکھٹ سے اندر ایک قدم بھی نہ رکھ سکا۔

نیم اندھیرے میں ایفا گل کا نیند میں ڈوبا چہرہ دیکھا۔

کئی پل وہ بغور اسے دیکھتا رہا۔

(یہ اتنی پرسکون کیوں ہے؟؟ مجھے سمجھ نہیں آتی میں یہاں کیوں ہوں؟)

وہ یکدم الجھا تھا۔

(کیا مجھے *اُس* سے محبت تھی؟؟ 

کیا مجھے اب بھی اس سے محبت رکھتا ہوں ؟؟ 

کیا میری کوئی عزت ہے؟؟) 

اسکا فشار خون یکدم بہت بلند ہوا،. اور جو ساری مثبت سوچیں وہ کئی گھنٹوں سے اکٹھی کر کے لایا تھا وہ سب گھڑے میں گر گئی تھیں ۔

اور وہ پھر سے وحشت کا شکار ہونے لگا۔

وحشت اور غصے کی ایک شدید لہر کے زیر اثر اس نے دروازہ پٹخ کر بند کیا اور سامنے موجود کرسی کو ٹھوکر ماری۔

"جہنم میں جاو تم سب.، بھاڑ میں جاو،. مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے"

وہ اپنی کنپٹی دباتا اسی کرسی کو پاؤں سے سیدھا کرتا، بیٹھ گیا۔

ایفا گل کی آنکھ کسی غیر معمولی احساس کے تحت کھلی تھی۔

ہڑبڑا کر اٹھی،، ایک پل کو وہ ڈر گئی تھی، پھر نیم تاریکی میں سامنے موجود ہیولے کو پہچاننے میں کامیاب ہو گئی۔

" حاطب بھائی "

پہچان کر اس نے بے یقینی سے اسکا نام پکارا

حیرت کی کئی وجوہات تھیں

اول اسکی اس وقت یہاں موجودگی دوئم بیچ کمرے میں وہ کرسی پر بیٹھا تھا

۔

اور سوئم اسکی ظاہری حالت۔

ایفا گل نے بمشکل اپنا دوپٹہ ڈھونڈا۔

"کیا ہوا ہے آپکو؟"

وہ پھٹی آنکھوں کے ساتھ اسکے سامنے کھڑی تشویش سے پوچھ رہی تھی۔

"آپ ٹھیک ہیں،، آپکو کیا ہوا ہے؟"

وہ اس سے دانستہ کچھ فاصلے پر کھڑی تھی مگر پریشان تھی۔.

"حاطب بھائی"

اسکی جامد خاموشی پر ایفا گل نے اسکا نام پکارا،، مبادا وہ ہوش میں تھا یا کوئی اور بات تھی؟مگر وہ پھٹ پڑا تھا۔

"گیٹ لاسٹ"

اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے باہر کا راستہ دکھایا

" کیا ہوا ہے؟ "

حاطب کی بات اور الفاظ کی سختی کے برعکس وہ فکر مند سی وہیں کھڑی رہی۔

" تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی،، دفعہ ہو جاو"

وہ دہاڑا۔

"لیکن میں نے کیا کیا ہے؟ آپ ٹھیک نہیں لگ رہے"

اس نے شاید حاطب کی بات سنی ہی نہیں تھی۔

"کیا چیز ہو تم،، کیا تم مجھے پاگل کرنا چاہتی ہو،، آخر کیا چاہتی ہو تم،، دفعہ ہو جاو یہاں سے میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا"

وہ پتہ نہیں کیوں دھاڑ رہا تھا ۔بلا وجہ اونچی آواز میں چلا رہا تھا

"آپ خود یہاں آئے ہیں،، "

پہلی بار وہ روہانسی ہو کر بولی۔مگر گئی نہیں

حاطب یہاں اس طرح کیوں بیٹھا تھا؟ یہ اسکے لیے نا قابل فہم تھا۔

" ہاں میں خود آیا ہوں "وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا۔

" میری غلطی ہے یہ،، میں تمہیں اپنے کمرے میں لے کر آیا یہ میری غلطی ہے،، اٹھو نکلو یہاں سے"

وہ اسے بازو سے پکڑے باہر کی جانب لپکا۔

وہ اسکے لیے تیار نہیں تھی.، بستر کے کونے سے ٹکرائی اور اسکا بازو حاطب کے ہاتھ سے چھوٹ گیا

وہ منھ کے بل نیچے گری تھی۔

"تم پتہ نہیں کیا ہو،، کوئی مصیبت ہو یا کوئی پاگل ہو،، حاطب بھائی؟ مطلب

What the hell is this? "


ایفا گل کے منھ سے بد حواسی میں نکلنے والے الفاظ بھی وہ یاد رکھ کر بیٹھا تھا

اس سے پہلے جو وہ نہ سننے کا تاثر دیتا تھا

تو گویا وہ غلط تھا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے زندگی کوئی فلم ہے،، تمہیں اندازہ ہے تم یہاں کیوں ہو؟ تمہیں یہاں میرے ساتھ کس طرح رہنا ہو گا؟

تمہیں یہاں کس طرح رہنا چاہیے کیا تمہیں اس بات کا اندازہ ہے؟"

وہ اپنی اندر کے جھنجلاہٹ اس پر نکال رہا تھا۔

جبکہ ایفا گل گھٹنے پر چوٹ لگنے کے ساتھ ساتھ پاؤں مڑنے کی وجہ سے شدید درد کو بمشکل برداشت کرتی ابھی تک اٹھنے میں ناکام تھی۔

" اٹھو یہاں سے دفعہ ہو جاو یہاں سے،، یہ میری زندگی ہے کوئی ڈرامہ یا فلم نہیں کہ تم سب لوگ اس پر تجربات کرو"

پاگل پن نے اسکے حواس معطل کر دیے تھے اسی لیے اس نے اسے اٹھتے نا دیکھ کر بازو سے پکڑ کر زبردستی اسکے دونوں پاؤں پر کھڑا کر دیا

وہ کمزور سی لڑکی بھلا اسکے سامنے کیا وقعت رکھتی تھی

جھٹکے سے ہوا کے دوش پر اٹھتی بے یقینی سے اسے گھورنے لگی

" I don't want to see u, just go to hell all. Of u"

وہ جھنجھلا رہا تھا خود پر، سب پر۔

"پاگل ہو گئے ہو تم چھوڑو اسکو"

ہمایوں شور کی آواز سن کر بھاگا تھا۔

ان دونوں کو یوں الجھتے دیکھ کر اسے ساری صورتحال سمجھنے میں چند پل ہی لگے

سروس ریوالور پشت پر ٹراوزر میں اڑستا وہ بجلی کی تیزی سے حاطب کی جانب بڑھا۔اور ایفا گل کا بازو اسکے ہاتھ سے چھڑایا۔

"چلو ایفا گل ،،چلو شاباش، جاو جا کر سو جاو تم،، ڈونٹ وری،، سب ٹھیک ہے تم جاو"

ہمایوں نے اسکے چہرے سے نظریں چراتے ہوئے اسے آرام سے کمرے میں بھیج دیا۔

وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں چلتی پیچھے مڑ کر خوف زدہ نظروں سے حاطب کو دیکھ رہی تھی جسے ہمایوں نے دوسری جانب دھکیل دیا تھا۔

" جانے دو اسے،، مجھے ضرورت نہیں اسکی"

حاطب ہمایوں کو اسے روکنے سے منع کر رہا تھا۔

"پاگل ہو گئے ہو تم،؟ ، یہ کس کو بتا رہے ہو تم،، ٹھیک ہے نہیں ضرورت تو نہ ہو،، اسکے ساتھ مس بی ہیو کیوں کر رہے ہو؟"

وہ دبی دبی آواز میں دھاڑ رہا تھا۔

حاطب نا چاہتے ہوئے بھی نظریں چرا گیا۔

" میں نہیں دیکھنا چاہتا اسے"

وہ بے بسی سے بولا۔

"تو مت دیکھو، اگر تم ایک شیلو، فضول عورت کے لیے خود پر زندگی کی خوشیاں حرام کر لینا چاہتے ہو تو شوق سے کر لو، مگر دوسروں سے انکا سکون کیوں چھیننا چاہتے ہو؟"

خلاف توقع ہمایوں کو شدید غصے نے گھیرا تھا اور وہ اپنا غصہ کنٹرول بھی نہیں کر پا رہا تھا۔

"کیپٹن صاحب ،،وہ لڑکی جو اندر بیٹھی ہے،، آپکے ساتھ ہونے والی کسی بھی ٹریجڈی کی ذمہ دار نہیں ہے،،

وہ آپکو ایک نعمت کی طرح مفت میں مل گئی ہے،، بجائے قدر کرنے اور شکر گزار ہونے کے آپ اس پر اپنا فرسٹریشن نکال رہے ہیں" اسکا ایک ایک لفظ طنز کے زہر میں بجھا ہوا تھا


حاطب سر ہاتھوں میں گرا کر وہیں بیٹھتا چلا گیا۔

وہ تو نا چاہتے ہوئے بھی بس خودکو اذیت دے رہا تھا مگر شکار وہ لڑکی ہو گئی۔

وہ سب سمجھ رہے تھے وہ عروہ سے محبت کرتا ہے مگر وہ اس وقت ویسا کچھ محسوس نہ کر رہا تھا

اسے کسی سے محبت نہیں تھی

اس پل تو اسے خود سے بھی کوئی ہمدردی نہیں تھی

اس حالات میں وہ محبت کا رونا رو بھی نہیں سکتا تھا۔

بات جب عزت کی ہو تو محبت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔

پتہ نہیں اس نے یہ سب کیوں کیا تھا؟

ابھی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔

وہ ایفا گل سے نظریں چرا رہا تھا یا اپنی زندگی کی حقیقتوں کو قبول کرنے سے قاصر تھا؟

ابھی فیصلہ کر پانا مشکل تھا۔

____________________________


"دادا دیکھیں سمجھنے کی کوشش کریں نا یہ ضروری ہے،، اٹس ارجنٹ"

وہ کب سے دادا کے پیچھے پڑی تھی مگر وہ تھے کہ سنتے نہ تھے۔یہ پہلی بار ہو رہا تھا ورنہ وہ ہمیشہ اسکی طاقت بنتے تھے، اسکا ساتھ دیتے تھے۔

"شمشاد خان،، be a nice and handsome man pleaseee"

وہ اب رونی صورت بنائے انکے سامنے بیٹھی قابل رحم لگ رہی تھی۔

"دیکھیں مولوی صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ دل کا مریض ہے اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاوں گی کیونکہ انھوں نے یہ سب، یہ سٹینڈ میری وجہ سے لیا ہوا ہے"

اسکے چہرے پر چمک نہیں تھی وہاں فکر تھی اور بہت زیادہ تھی۔

"فکر نہ کرو وہ کوئی اور وکیل ڈھونڈ لیں گے،، اور زیادہ سے زیادہ اسے کچھ سزا ہو جائے گی پھر وہ واپس آجائے گا"

شمشاد خان سخت دلی سے بولتے بلکل پرسکون نظر آتے تھے۔

" دادا یہ اتنا آسان نہیں ہے،، اگر شیریں خانم انکا کیس نہیں لڑ سکی تو اس شہر میں کونسا اچھا وکیل ہے جو کیس لڑے گا،، کیونکہ انکے پاس اتنے وسائل بھی نہیں "

وہ شاکی ہوئی تھی

" دیکھیں دادا پرابلم یہ ہے کہ اگر اسے سزا ہو جائے تو یہ بڑی بات نہیں.، مگر وہ بہت بزدل لڑکا ہے وہ گھبرا جائے گا اور اپنے باپ کو مجبور کرے گا کہ وہ عنصر چرسی کے مطالبات مان لیں ۔" ہر دفعہ عنصر کے نام ساتھ چرسی لگانا فرض سمجھتی تھی۔

آخر میں وہ بے بسی سے رو دینے کو تھی دادا نے بغور اسکا چہرہ دیکھا جو انکے قدموں میں بیٹھی انکے دونوں ہاتھوں کو اپنی ہاتھوں میں لیے چوم رہی تھی۔

" شیریں خانم،،میں جانتا ہوں یہ سب آنسو اور یہ بے چارگی جو تم نے چہرے پر سجا رکھی ہے اسکا کیا مقصد ہے "

وہ دھیان سے اسکے چہرے کا تجزیہ کر کے بولے

تو شیریں کے تاثرات فوراً بدلے تھے جیسے اسے ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا ہو

"اور اگر مولوی نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی اس چرسی کے ساتھ اور اس لڑکی کی زندگی برباد ہو گئی تو کون ذمہ دار ہو گا؟ "

اب کی بار لہجے میں بے چارگی کی جگہ کاٹ کھانے والی سختی تھی۔وہ بہت چالاک لڑکی تھی۔

(چالاک لومڑی)

شمشاد خان نے اپنا تجزیہ درست ثابت ہونے پر دل میں اسے خطاب دیا۔ورنہ وہ اسکے ہاتھوں ایک بار پھر بے وقوف بن جاتے۔

" کچھ نہیں ہو گا،، ہر انسان اپنا نصیب ساتھ لے کر آتا ہے، اور ماں باپ غلط فیصلہ تو نہیں کرتے نا، یہی اس کے حق میں بہتر ہو گا"

انھوں نے صاف حقائق سے نظریں چراتے ہوئے خیالات کا اظہار کیا۔شیریں نے طنزیہ انھیں دیکھا

"اسکا مطلب ہے کل کو آپ بھی مجھے کسی چرسی افیمی کے ساتھ یہ کہہ کر رخصت کر دیں گے کہ یہ میرا نصیب ہے،؟؟ "

وہ تو جیسے مرنے کو تیار تھی۔

فورا نتیجہ نکالا

" ضروری نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ ایسا ہی ہو.، اب اس لڑکی کے ساتھ جو ہو گا وہ اسکی قسمت میں ہے۔اس میں میں کیا کر سکتا ہوں "

انھوں نے کندھے اچکائے گویامزید بحث میں نہ پڑنا چاہتے ہوں۔


" دادا آپ مدد کر سکتے ہیں اگر آپ اپنے اس شاگرد کو کال کریں اور وہ مجھے کالزکی ریکارڈنگ نکال دے تو یہ سارا معاملہ میں سنبھال لونگی""

وہ بے زاری سے بولی اگر اسکا اپنا کام نہ ہوتا تو کبھی وہ کسی کی اتنی منتیں نہ کرتی۔

چاہے وہ دادا ہی کیوں نہ ہوں ۔

"کال ریکارڈ عدالت میں ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں"

دادا بھی آج ڈھیٹ اعظم بننے کے موڈ میں تھے۔

"ہاں پتہ ہے مجھے..

مگر وہ کام آ سکتے ہیں،، آپ بس بحث نہ کریں اور میری نہیں تو اس بیچاری لڑکی کی مدد کر دیں جو اس امید پر بیٹھی ہے کہ کوئی اسے بچا لے گا،، اسکے لیے ہی ہیرو بن جائیں، کیا یہ بھی نہیں کر سکتے آپ؟؟ "

آخر میں وہ پھر سے ملتجی ہوتی جذباتی گلوگیر لہجے میں بولی

"ہاں کر سکتا ہوں مگر میں تمہاری زندگی اور سلامتی کے رسک پر کسی کے لیے ہیرو نہیں بننا چاہتا "

" شما چہ می گفتید؟ "

(آپ کیا کہتے ہیں؟)

" من ہیچ نمی گفتم"

(میں کچھ نہیں کہتا)

وہ بے رخی سے کہتے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں انکا سامان رکھا تھا ورنہ تو سارا دن وہ لاوئنج میں ہی پڑے رہتے۔

وہ جانتے تھے شیریں اپنے کام کے لیے کتنی پاگل تھی

اسے چیمبر میں ہمیشہ معمولی نوعیت اور یقینی طور پر ہارے ہوئے کیس دئیے جاتے تھے ۔مگر وہ شاذ ہی کوئی کیس ہارتی تھی۔معمولی سے معمولی کیس میں بھی وہ اتنی جان مارتی کہ شمشاد خان متاثر ہو کر رہ جاتے

اس لڑکی نے زمانے کا تاریک رخ خود پر سہا تھا

اب وہ زمانے سے ٹکر لیتے ہوئے ڈرتی نہیں تھی

وہ اسے ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے مگر اسکی زندگی کے رسک پر نہیں ۔

اسی لیے خاموش رہے مگر جانتے تھے وہ کچھ نہ کچھ کر لے گی۔

اب اس نے کیس لے لیا تھا تو اب وہ اس سے پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی چاہے سامنے باپ ہوتا یا دادا۔

یہ اب شیریں خانم کی عزت کا سوال بن چکا تھا۔

اور شیریں خانم کتنی انا پرست تھی یہ تو وہ اچھی طرح جانتے تھے۔

" شیریں خانم! من شمارا بہ خدا سپر دم،"

(میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں، شیریں خانم)

____________________________


"میری بات سنو حاطب، ادھر دیکھو"

وہ جس کیفیت میں تھا، اسے یوں دیکھنا کسی کے لیے بھی قابل قبول نہ ہوتا ۔

ہمایوں کے لیے بھی نہیں تھا اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔

"Humayoun I feel like broken from inside.

U can't understand..

But It really hurts"

وہ رو نہیں رہا تھا،، اسکی آواز بھی کمزور نہیں تھی مگر اسکی آنکھوں کے اندر کرچیاں تھیں ۔

دکھ اور اذیت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی وہ عیاں تھا۔ہمایوں نے لب دانتوں تلے کچلا۔

"it really hurts being so weak and helpless"

وہ الفاظ بمشکل ادا کر رہا تھا اسکا لہجہ اب کی بار نا ہموار تھا۔

"میری بات سنو، تم کمزور نہیں ہو،، یہ صرف ایک فیز ہے،، اور یہ ناقابل برداشت ہے کیونکہ ہم میں سے کسی کو بھی اسکی امید نہیں تھی،، نا ہی یہ چھوٹی بات تھی۔

مگر حاطب یہ فیز بھی گزر جائے گا۔

تم نے اسے بہت حد تک گزار دیا ہے،، بس چند دن اور لگیں گے اور تم اس سب سے نکل آو گے"

ہمایوں کی آنکھوں میں بھائی کے لیے اندھا یقین تھا۔

"نہیں، میں نہیں نکل سکوں گا،، میں بہت بے بس ہو چکا ہوں جو میں کر رہا ہوں وہ میں نہیں کرنا چاہتا،، تم نے دیکھا میں کس قدر weird تھا، تم نے دیکھا میں نے اس لڑکی کے ساتھ کس طرح بی ہیو کیا؟

Nothing is gonna change,, every thing will be over soon. She too will move back to Her brothers. I know she doesn't deserve this. She doesn't deserve a looser"

وہ بولتا ہی جا رہا تھا۔

"میری بات سنو،، لووزر نہیں ہو تم،، تم نے ثابت کیا ہے تم واقعی میں ایک ہیرو ہو،،

The way u behaved that night and afterwards,, it was not an easy job"


ہمایوں واقعی اس تمام معاملے میں حاطب کے سیلف کنٹرول اور ہمت سے متاثر ہوا تھا۔

"اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو میں اتنی آسانی سے عروہ کو کبھی نہ چھوڑتا،، اسی رات تو بلکل بھی نہیں.."

ہمایوں نے نفی میں سر ہلایا تھا.. ساتھ ہی عروہ کے لیے ناپسندیدگی کی ایک شدید لہر اسکے دماغ میں ابھری۔آخر اس سب کی ذمہ دار کہیں نا کہیں وہی تو تھی۔

"مجھے نہیں پتہ میں اسکے ساتھ کیا کرتا مگر میں اس سے بدلہ ضرور لیتا،، اس دن تم واقعی میری نظروں میں ہیرو بنے تھے،، پہلی بار میں تم سے جیلس نہیں ہوا بلکہ میں متاثر ہو گیا تھا،، حاطب تم جس فیز میں ہو اس سے بہت جلد نکل آو گے،، میرا یقین کرو"

ہمایوں اتنا نہیں بولتا تھا،، وہ مختصر اور خشک انداز بیان کا مالک تھا مگر اس وقت بات اسکے اکلوتے بھائی کی تھی

وہ بھائی جو اس گھر میں بچپن سے ایک ہیرو تھا،، اس گھر کے تمام بچوں سے بہتر بلکہ آئڈئیل۔

مگر کبھی ہوتا ہے نا آئیڈیل لوگوں کے ساتھ بھی اتنا برا ہو جاتا ہے کہ وہ سنبھل نہیں پاتے ۔

وہ جو کسی کے ساتھ برا نہیں کرتے وہ اپنے ساتھ اتنا کچھ بر اہوتا دیکھ کر شاکڈ ہی رہ جاتے ہیں۔

وہ اسکے گلے لگ گیا۔

کتنے عرصے بعد وہ قطعی ان فارمل انداز میں دل سے، پوری جان سے گلے لگے تھے۔

حاطب جذبات کے اظہار کا عادی نہیں تھا جبکہ ہمایوں جذبات نام کی کسی چیز سے آشنا ہی نا سمجھا جاتا تھا۔

مگر یہ اسکی زندگی میں تیسری بار تھا جب وہ خود دیوانہ وار بھائی کے گلے لگا تھا۔ورنہ تو حاطب ہی اس میں پہل کرتا۔

دوسری جانب حاطب واقعی اسکی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ہمایوں کے اس زور دار معانقے نے اسکے اندر کے توڑ پھوڑ کو فی الوقت واپس اپنی جگہ پر مضبوط کر دیا۔

"تم بہت جلد نارمل ہو جاو گے،، اور ایفا گل کی فکر نہیں کرو،، وہ میری توقع سے زیادہ سمجھدار ثابت ہوئی ہے،، وہ جلد تمہیں یہ احساس دلا دے گی کہ تم اس دنیا کے چند خوش قسمت ترین لوگوں میں سے ہو"

اسکی پیٹھ سہلاتا وہ یقین اور محبت سے اسے تسلی دے رہا تھا۔

جبکہ حاطب اس وقت آنکھیں بند کیے بس اسکی موجودگی کو محسوس کر رہا تھا۔

کبھی کبھی الفاظ کا ڈھیر وہ کام نہیں کر پاتا جو محبت بھرا ایک لمس لمحوں میں کر دیتا ہے۔

اسکے بعد وہ سکون سے سو گیا تھا۔

ہمایوں نے اسے سونے دیا، خود وہ باہر نکل آیا تھا۔

سوچوں کو جھٹک کر اس نے سروس ریوالور جو شور کی آواز کے باعث وہ اٹھا لایا تھا، اور پھر ٹراوزر میں اڑس دیا تھا، نکال کر باہر ایک طرف کو رکھا اور صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔

وہ پانچویں بہن بھائیوں میں سے کسی کے بھی قریب نہیں تھا۔

بقول ماما پاپا اور باقی سب کے وہ نفس کا بندہ تھا۔اسے کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا.، وہ خود بھی اپنے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتا تھا ۔اور یہی چیز اسے ایک کامیاب پولیس مین بننے میں بھی مدد دیتی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ پھر سے بے سدھ سو رہا تھا۔

جو لوگ اپنے فرائض وقت پر ادا کرتے ہیں وہ یوں ہی پرسکون سوتے ہیں۔

___________________________


"دیکھ لو،، دیکھ لو عروہ تمہاری بے وقوفیوں کی سزا ہم سب کو مل رہی ہے"

آج کتنے دنوں بعد وہ اپنے کمرے سے نکل کر کھانے کی میز پر آئی تھی،، بمشکل ایک نوالہ ہی منھ میں ڈالا تھا جب میز کے اردگرد بیٹھے افراد کے درمیان موجود گھمبیر خاموشی کو اکمل بھائی کی سٹپٹاہٹ نے ختم کیا۔

عروہ نے ایک سنجیدہ نظر ان پر اور دوسری خاموش بیٹھے باپ پر ڈالی جنکے بلانے پر وہ کھانے کی میز پر آئی تھی۔پھر سر جھکا کر دوبارہ سے کھانے لگی۔

"دیکھ لو آج وہ لوگ کتنے خوش ہیں، تمہاری وجہ سے بلکہ محض تمہاری ایک بے وقوفی کی وجہ سے کتنے لوگوں کی زندگیاں سیٹ ہو گئی ہیں"

اکمل سجاد خان کو نجانے کس بات پر پھر سے غصہ آ گیا تھا۔

"بھائی مجھے نہیں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں،، مگر جو بھی کہنا چاہتے ہیں ذرا واضح طور پر کہیے "

اس نے سر اٹھا کر پہلی مرتبہ براہراست ان سے بات کی۔

اسکے لہجے میں اعتماد تھا.. کسی قسم کی شرمندگی یا پچھتاوا ناپید تھا۔

"جہنم میں جاو تم،، اتنا سب کچھ کر کے بھی ابھی تمہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا،، دیکھو تم کیا کیا ہے تم نے خود کے ساتھ؟

دیکھو خود کو آج تم کہاں ہو اور وہ عفی.،کہاں پہنچ گئی"

انکا بس نہیں چلتا تھا تمام آداب آداب بالائے طاق رکھ کر پھٹ پڑے۔

وہ شروع سے ہی نہایت جذباتی واقعہ ہوئے تھے۔

" ہاں تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے،، بلکہ میں ان دونوں کے لیے خوش ہوں،، انکے خوش ہونے سے آپکو کیا مسئلہ ہے؟ "

وہ بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر استفسار کر رہی تھی۔

"ہاں مجھے مسئلہ ہے کیونکہ تمہاری صرف تمہاری وجہ سے میں پورے خاندان اور برادری میں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا.. اور دیوان کو دیکھا تم نے وہ سب کتنے مطمئن ہیں،، وہ تو چاہتے ہی یہی تھے اور دیکھ لو تمہاری وجہ سے انکی مرادیں بھر آئیں"

انھوں نے پلیٹ پرے کر کے میز پر بے بسی سے ہاتھ مارا

یہاں ہر کسی کے اپنے ہی مسائل تھے اور ہر کوئی اپنے ہی مسائل میں الجھا ہوا تھاکسی دوسرے کی مسائل میں کسی کو دلچسپی نہیں تھی۔

" میری وجہ سے نہیں آپکی اپنی وجہ سے.. میں نے کچھ غلط نہیں کیا.. میں نے اپنا حق استعمال کیا ہے،، اور مجھے کوئی گلٹ نہیں"

وہ ڈھٹائی اور باغی پن سے بولی

پچھلے چند دنوں میں جو بھی واقعات ہوئے تھے انکے درمیان تمام لحاظ اور وضع ختم کر گئے تھے۔

"اور مجھے یہ بتائیں کہ آپکو مسئلہ میری زندگی خراب ہونے سے ہے؟

اپنی بے عزتی ہونے پر؟

یا دیوان لالا کی کامیابیاں اور خوشیاں آپ سے دیکھی نہیں جاتیں؟"

سجاد خان ایک خاموش تماشائی کی طرح دونوں بچوں کو دوبدو مقابلہ کرتے دیکھ رہے تھے۔

"جہنم میں جائے دیوان، کونسے تیر مارے ہیں اس نے جو مجھے جلن ہو گی.. مجھے صرف اپنی اور اس گھر کی عزت خراب ہونے سے مسئلہ ہے،، اور ہاں اپنی زندگی کے بارے میں بھی تمہیں کوئی خوش فہمی رکھنے کی ضرورت نہیں،، وہ تو سمجھو اب برباد ہو گئی ہے.. وہ بھی تمہارے ہی کاموں کی وجہ سے"

وہ اٹھ کر وہاں سے جا چکے تھے۔

" کہا بھی تھا یہ کمرے میں ہی کھانا کھا لے گی، اجمل مائنڈ کرتا ہے،، آپ جانتے بھی ہیں وہ کتنا امپلسو ہے"

سجاد خان کی بیوی نے انھیں کچھ ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جو بضد تھے کہ عروہ کو کھانے کی میز پر ضرور لایا جائے ۔

" خیر آپ سب کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے،، اور سب میں اجمل بھی شامل ہے،، بہت ہو گئے تماشے اس گھر میں.. Now come back to. Normal "

وہ گہری سانس کھنچتے واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوئے۔اجمل کے ایسے کسی بھی ردعمل پر وہ حیران نہیں تھے

اور درحقیقت اسے ابھی تک یہیں روکنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اپنا غصہ گھر ہی نکال کرجائے۔


انکا ذہن تیزی سے اس اچانک پیدا ہو جانے والے خلا کو پُر کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

"کل تیار رہنا ہم لوگ اسکے گھر جائیں گے"

میز سے اٹھنے سے پہلے انھوں نے کہا۔

بنا نام لیے بھی سب جانتے تھے وہ عروہ سے کہہ رہے ہیں ۔

"واٹ کیا واقعی ڈیڈ؟"

اسے تو ایک جھٹکا لگا تھا

"ہاں صبح جلدی نکلیں گے"

وہ سر ہلاتے مڑنے لگے تو عروہ کی بات نے انھیں رکنے پر مجبور کر دیا۔

" لیکن گھر میں کیوں؟ ہم کہیں باہر کسی اچھی جگہ پر مل لیں گے،، میں کال کر دیتی ہوں وہ آ جائے گا"

"نہیں جب کہہ دیا تو تم بھی اپنے دماغ میں بٹھا لو،، اور اسے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں "

وہ سختی سے کہتے وہاں سے غائب ہو چکے تھے

جبکہ عروہ کو پھر سے نئی فکروں نے گھیر لیا

سفیان گھر پر ملنے کے لیے کبھی راضی نہ ہوتا۔وہ جانتی تھی وہ بہت مسئلہ بنائے گا۔

مگر اب اسکے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا

_-___-____

جس پل وہ صبح بیدار ہوا پہلا خیال اسے حاطب کا آیا تھا ہمایوں نے اپنے کمرے کی راہ لی، حاطب اسکے بستر پر سویا ہوا تھا۔

اپنا یونیفارم اور دوسری چیزیں لے کر وہ احتیاط سے باہر نکل آیا۔

دوسرے کمرے میں جا کر منھ ہاتھ دھویا،، شیو بڑھی ہوئی تھی، مگر اس غیر ضروری کام کو پھر کبھی پر ڈال کر یونیفارم پہنا اور تیار ہو کر باہر نکلا۔

جس پل وہ کچن میں پہنچا باہر اسکی گاڑی اسے لینے آ چکی تھی۔

(ایفا گل کے کمرے میں جاؤں یا نا جاؤں؟)

رات کے ناخوشگوار واقعے کو یاد کرتے اس نے خالی فرج کو پھر سے بند کیا۔

اتنا سگھڑ وہ نہیں تھا کہ اپنے لیے کچھ بنا پاتا ۔مگر اس سے پہلے کہ وہ ایفا گل کے کمرے کی طرف جاتا وہ خود ہی آن پہنچی۔

"السلام علیکم،، چائے بنا دوں آپکو،، ناشتے کا سامان تو نہیں ہے"

وہ اسے دیکھ کر چونکی پھر فوراً سے خدمت کو تیار تھی۔

"وعلیکم السلام،، صبح بخیر،، اللہ تمہارا دن اچھا گزارے"

وہ پر جوش انداز میں لمبی چوڑی سلام دعا کر رہا تھا۔

"تم ٹھیک ہو،، نیند تو آ گئی تھی؟ ویسے تم مجھ سے بہت چھوٹی ہو تو تم کہہ رہا ہوں اگر چاہو تو آپ بھی کہہ سکتا ہوں"

"جی میں ٹھیک ہوں"

وہ بمشکل مسکراتے ہوئے اتنا ہی بول پائی

ہمایوں نے بغور اسکا چہرہ دیکھا وہ ڈری سہمی سی لگتی تھی ۔یقینا رات حاطب کے رویے نے اسے ڈرا دیا تھا۔

(ہاں ظاہری بات ہے،، وہ اپنے باپ بھائیوں کے پاس ایک بلکل مختلف دنیا میں رہ رہی تھی،، اس بیچاری کو تو اندازہ بھی نہیں ہو گا ان سب حالات کا)

ہمایوں نے سنجیدگی سے اسکی حالت کا تجزیہ کیا ۔اسے واقعتاً اندازہ نہیں تھا نا اسکا اس طرز زندگی سے کوئی واسطہ رہا تھا

"ایفا گل، ،دیکھو وہ،، خیر مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کہوں"کسی کے ذاتی معاملات میں بولنا آسان نہیں تھا

اور ہمایوں کو اسکی عادت بھی نہیں تھی

ایفا گل نے بس اسے دیکھا بولی کچھ نہیں، وہ شکل ہی سے اداس لگ رہی تھی۔

ہمایوں نے جانا کہ اس وقت اسکا بولنا نا صرف ضروری تھا۔بلکہ اشد ضروری تھا۔

بعض دفعہ ہمارا بولنا.، وضاحت کرنا، کسی دوسرے کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔خاص طور پر جب سامنے موجود وہ دوسرا کوئی بہت اپنا ہو ۔


ہمایوں نے بھی اس معصوم سی لڑکی کو اس پریشانی سے آزاد کرنا چاہا جس میں یقینا وہ کل رات سے مبتلا تھی ۔بلکہ پچھلے تین روز سے۔

"دیکھو ایفا گل،، میں تمہارا کزن ہوں تم تھوڑا بہت جانتی ہو گی مجھے،، اسی طرح تم حاطب کو بھی تھوڑا تو جانتی ہی ہو گی"

اس نے تمہید باندھی وہ بنا بولے اسے بغور سن رہی تھی. حاطب کے ایک دفعہ کے نامناسب رویے نے اسکی زبان پر تالے لگا دئے تھے

یہ لڑکیاں واقعی بہت عجیب ہوتی ہیں ۔

بولتی ہیں تو بولتی ہی جاتی ہیں کہ بندہ سوچے یہ چپ کیوں نہیں کرتی؟ اور جب چپ ہو جائیں تو انکی خاموشی بھی انکے پیاروں کو جان لیوا لگتی ہے۔

"میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی،، جو سب ہوا وہ کسی ہے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا،، ایک ہفتہ پہلے جب میں یہاں سے گیا تھا،، میرے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ واپسی پر تم سے یہاں ملاقات ہو گی.. اسی طرح وہ* بھی پریشان ہے،، سمجھ نہیں پا رہا"

اس نے حاطب کا نام نہ لیا تھا مگر وہ دونوں جانتے تھے بات کس کے متعلق ہو رہی ہے

" میں جانتا ہوں یہ سب تمہارے لیے بھی قابل. قبول، نہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ تمہارا اس سب میں کوئی قصور نہیں،، مگر اسے سمجھنے کی کوشش کرو "

آخر میں وہ درخواست ہی کر سکتا تھا

جبکہ اصل میں وہ جو بات کہنا چاہتا تھا کہہ کہ پا رہا تھا

"تم رات کو ہونے والے اس سارے معاملے کی وجہ سے پریشان ہو؟،. میں نہیں جانتا وجہ کیا تھی، نہ ہی میں اسے ڈیفنڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں "

وہ بہت وضاحتیں دے رہا تھا جبکہ وہ جانتا نہ تھا کہ اسے اتنی وضاحتیں دینے کی ضرورت بھی نہ تھی

"مجھے لگتا تھا پورے خاندان میں صرف ابا جی اور اسکے بعد دیوان لالا ہی غصہ کرتے ہیں "

وہ کچھ حیرت بھری اداسی سے بولی

" مگر اب پتہ چلا یہاں تو سب ہی بھرے بیٹھے ہیں "

وہ حاطب کے غصے سے خائف ہو چکی تھی

"جبکہ میں سچ کہہ رہی ہوں ہمایوں بھائی میں نے کچھ نہیں کہا تھا انھیں "

آخر میں خود کو اس سب سے بری الزمہ قرار دینا وہ نہیں بھولی تھی ۔

" ہاں یہ تو ہے.. خاندان ایک ہے تو عادتیں مختلف کیسے ہو سکتی ہیں.. ویسے ایفا گل اپنے بھائی کے متعلق میں اتنا گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں وہ دل کا برا نہیں،، تم نے دیکھا وہ اس بلی کے بچے کے لیے کس طرح فکر مند ہو رہا تھا.. یہ سب ظاہر کرتا ہے وہ اب بھی دل کا ویسا ہی اچھا ہے، نرم ہے،، بس اسکی حالت سمجھنے کی ضرورت ہے "

وہ کسی صورت نہیں چاہتا تھا ایفا گل حاطب کے رویے سے گھبرا جائے ۔

یا مایوس ہو جائے۔

یہ سب فطری تھا

اسکی بھائی کے لیے محبت فطری تھی ۔ایفا گل. نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

جبکہ ہمایوں بغور دیکھنے پر بھی اسکی سوچ کو پڑھ نہیں پایا۔

(نجانے اب کیا سوچ رہی ہے،،بس تھوڑا صبر کر لے اگر ایفا گل تو سب ٹھیک ہو جائے گا،، اگر یہ بھی ناراض ہو گئی تو پھر مسئلہ ہو گا)

وہ دل ہی دل میں قیافے لگا رہا تھا

" مجھے امید ہے ایفا گل آہستہ آہستہ تم اسے سمجھ جاو گی، دیکھو میں جانتا ہوں ابھی تمہارے لیے یہ مشکل ہے، سب کچھ قبول کرنا.، مگر آہستہ آہستہ تمہیں ہمارے ماحول کی سمجھ آ جائے گی"

اس نے اسے تسلی دینے والے انداز میں کہا

"توبہ ہے ہمایوں بھائی اب اتنی بھی بے وقوف نہیں ہوں میں"

عفی باقاعدہ برا منا کر بولی تھی۔

ہمایوں ناچاہتے ہوئے بھی مسکرانے لگا

"اچھا تو اسکا مطلب ہے ایفا گل سمجھدار ہے؟"

وہ دلچسپی سے کاؤنٹر ٹاپ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔جبکہ اسے دیر ہو رہی تھی،. وہ پولیس سٹیشن سے لیٹ ہو رہا تھا۔

ایفا گل نے آخری کیبنٹ کھول کر پھر بند کر دیا، چائے اس نے دم پر لگائی تھی جبکہ باری باری سارے کیبنٹ چیک کر رہی تھی مبادا ہمایوں کے ناشتے کے لیے کچھ مل جائے ۔مگر ناکامی ہوئی ۔

"ہاں تو کیا آپکو میں پاگل لگتی ہوں،، کیا آپکو بھی لگتا ہے مجھے باتیں سمجھ نہیں آتیں؟ "

" نہیں،، میں نے ایسا کب کہا،، اچھا ویسے چھوڑو تم اس کو.، یہ بتاو پھر کیا سمجھی ہو؟"

ہمایوں کو اس سب کو جاننے میں واقعی دلچسپی تھی۔

"یہی کہ دروازہ بنا پوچھے نہیں کھولنا،، اور ہمیشہ بند کر کے واپس اندر آنا ہے، بات کو دھیان سے سننا ہے،، اور عروہ کا نام بھی نہیں لینا. اور۔۔۔"

وہ باقاعدہ گنواتے گنواتے یکدم رک گئی

ہمایوں کا سننے کا تسلسل ٹوٹا تو اچنبھے سے اسے دیکھا جو اب اسے ہی دیکھ رہی تھی

" اور کیا ایفا گل؟ "

" اور یہ کہ حاطب بھائی نہیں بولنا"

وہ کچھ ججھک کر کہہ گئی تھی.. ہمایوں البتہ چند پل کے لیے بے یقین سا رہا..

" حاطب بھائی نہیں بولنا"

وہ ہلکی آواز میں زیر لب دہرا رہا تھا

"اوکے جی ابھی آ کر دروازہ بند کر لو،، اور بنا پوچھے نے کھولنا"

وہ شرارت سے اسی کے انداز میں بولتا باہر کو چل دیا،، اسکے خیال میں اب اسے مزید وہاں رکنے کی ضرورت نہیں تھی..ایفا گل صاحبہ خود کافی سمجھدار تھیں ۔

" ایک منٹ چائے تو پی لیں اور اگر کچھ انڈے وغیرہ لے آئیں تو آپکو پراٹھا بھی بنا دونگی "

وہ اسکے پیچھے بھاگی۔

"چائے میں وہیں جا کر پی لونگا اور جو سامان چاہیے اسکی لسٹ بنا کر فریج پر چپکا دو،، کپتان صاحب اٹھ کر لے آئیں گے،،"

"اور ہاں" پھر کچھ یاد آنے پر وہ پلٹا مبادا یہ سمجدار لڑکی کچھ اور بلنڈر نہ مار بیٹھے۔

" اسے خود مت جگانا،، دیر سے سویا ہے،، دیر سے اٹھے گا،، اور جب اٹھے گا تو خود بات کرے تو تم بات کرنا ورنہ مت کرنا،،، "

اس نے ایفا گل کا متوجہ چہرہ دیکھا تو کچھ عجیب لگا

"مطلب تھوڑی ناراضگی دکھانا تو بنتا ہے تمہارا "

یہ بات صرف اس نے ایفا گل کی عزت نفس مجروح کرنے سے بچنے کے لیے کہی تھی۔جانتا تھا وہ بے وقوف لڑکی اسکی فکر میں گھل رہی ہے، ناراضگی دکھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہاں یہ ضرور تھا کہ ڈر کے مارے چپ رہے۔

"حاطب بھائی نہیں بولنا"

گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی وہ مسلسل مسکراتے ہوئے زیر لب دہرا رہا تھا۔

(بہت بے وقوف ہو تم ایفا گل)

____________________________


"خیریت ہے.، بہت خوش نظر آ رہی ہو جبکہ اصولاً تو تمہارا منھ اترا ہوا بلکہ لٹکا ہوا ہونا چاہیے تھا"

شیریں گل جب سے آئی تھی،، مسلسل کسی فارسی گانے کی دھن گنگنا رہی تھی۔جبکہ اسے گنگنانے کی عادت نہیں تھی۔ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔

"منھ لٹکے میرے دشمنوں کا"

فورا آستینیں چڑھا کر میدان میں اتری۔

" کیا بنا تمہارے کیس کا؟ "

شمشاد خان نے دشمنوں والی بات ہو وہیں چھوڑا، جانتے تھے وہ گھما کر انھیں ہی سنائے گی۔

" کونسے والے کا؟ "

جواب یوں آیا جیسے شہر کی مصروف ترین وکیل صاحبہ سے پوچھا گیا ہو۔

" پندرہ بیس کیس تو ہر وقت تمہاری میز پر پڑے رہتے ہیں"

دادا جان بھی کہاں طنز سے باز آنے والے تھے،،

"ایسا وقت بھی آئے گا، ان شاء اللہ"

زور ان شاء اللہ پر تھا۔

"اچھا اب مجھے سیدھی طرح بتاو کیس کا کیا کیا تم نے؟"

"چھوڑ دیا"

ڈرامائی وقفہ دیا گیا تو انھوں نے بے یقینی سے پوتی کو دیکھا

(ناممکن.. اتنی نیک خصلت نہیں ہو تم)

ایک پل بھی وہ اس پر یقین نہ کر سکے۔

"یہ آپ کبھی نہیں سن سکیں گے،، کہ شیریں خانم نے ڈر کر کیس چھوڑ دیا.. چاہے سامنے کسی کا باپ بھی کیوں نا ہو"

اس لمبی چوڑی ہانکنے کے پیچھے صرف دادا کو جتانا تھا کہ انھوں نے اسکا کام نہیں کیا۔تو کیا ہوا،، شیریں خود مینج کر سکتی ہے۔

"ہاں میں تم سے یہ امید رکھتا ہوں،، جسے باپ کے باپ کے ساتھ بحثیں کرتے جھجھک نہ ہو وہ کسی کے باپ سے کیوں ڈرے گی؟ "

" کر لیں طنز،، جو چاہے کہیں آج برا نہیں مناؤں گی، کیا یاد کریں گے شیریں خانم سے پالا پڑا تھا،، اور ہاں میرا کام ہو گیا جو مجھے چاہیے تھا وہ مجھے آج شام مل جائے گا،، آپکے ریفرنس کے علاوہ بھی شہر میں مجھے لوگ جانتے ہیں "

" شیریں خانم بس کر دو "

شمشاد خان اسکے اس انداز سے جلد ہی عاجز آ گئے۔

" اب کیا کیا ہے میں نے؟ "

وہ انجان بنی۔

" اپنا کام کر لیا میں نے،، آپ نہیں تو کوئی اور سہی، وہ نہیں تو کوئی اور،.اللہ کی زمین بہت وسیع ہے "

فلسفہ جھاڑا گیا مگر دادا کو پھر سے ٹینشن ہونے لگی تھی۔

" اور وہ جو میں نے تم سے کہا تھا کہ یہ کیس چیمبر میں کسی اور کو دے دو اسکا کیا ہوا؟ " اس بار اس نے صرف کندھے اچکائے تھے۔

"شیریں خانم پند بزرگاں بشنو "

(شیریں خانم بزرگوں کی نصیحت سنو)

شمشاد خان کی آواز میں تنبہیہ تھی

" دادا stay out of it "

یکدم وہ سنجیدگی سے بولی

"میں کوئی بچی نہیں ہوں جسے چوزے کی طرح آپ اپنے پروں میں لیے ساری زندگی بیٹھے رہیں گے،، میں اب بڑی ہو گئی ہوں دنیا کے ساتھ لڑ سکتی ہوں"

"یہ دنیا کیا ہے تمہیں اسکا اندازہ نہیں،، یہ دنیا بہت ظالم ہے شیریں خانم اور عورت کے لیے تو حد سے زیادہ ظالم.، یہ دو مونہے سانپ کی طرح ڈستی ہے ہر صورت، ہر گھڑی بس موقع دینے کی دیر ہے،، اپنے اپنے نہیں رہتے اور جاننے والے انجان بن جاتے ہیں اور تم یہ سب جانتی ہو"

انھوں نے اسے کچھ یاددہانی کرانا چاہی۔

" میں جانتی ہوں،، اور دادا یہ دنیا بے مروت اور ظالم ضرور ہو گی، مگر مجھے اس سے کیا لینا دینا.؟ . اگر میں اپنے باپ کی بے مروتی برداشت کر سکتی ہوں تو لوگوں کا کیا دکھ ہے مجھے "

اس نے ہر بات میں باپ کو ضرور ڈالنا ہوتا تھا اور یہی وہ موضوع تھا جس پر وہ حق پر ہوتی تھی.. شمشاد خان مزید بحث نہ کر سکے ۔وہ بھی اپنی متوقع کامیابی پر مطمئن تھی..انھوں نے اسے مزید نہیں چھیڑا ۔کبھی کبھی تو وہ خوش ہوتی تھی ۔

مگر خود وہ مسلسل فکر مند تھے۔

شام کو انھوں نے شیر زمان کو خود کال کی..،شیریں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ معاملے کی سنگینی کا احساس بھی دلایا.،اور پھر اسکی حفاظت یقینی بنانے کی درخواست بھی کر دی۔

شیرزمان نے ہمیشہ کی طرح انکا مان رکھا تھا ۔

یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ اس معاملے کو خود دیکھ لے گا۔

انھیں شیر زمان کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں تھا کہ وہ اس شہر کی سب سے بڑی لاء فرم کا مالک تھا ۔

مگر انھیں شیریں کی ڈھٹائی پر بھی یقین تھا۔

وہ اس سب کو صرف ایک کیس سمجھ کر نہ لڑتی تھی.. اس نے تو دنیا کی چال کے مخالف چلنے اور ہر طاقت ور دے ٹکر لینے کی جیسے قسم کھا رکھی تھی ۔

مگر انکے لیے وہ اہم تھی۔

"شیریں خانم!من شنارا بہ خدا سپر دم"

(میں تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں شیریں خانم)

اوپر سے ثمر مبارک بھی انھی کو نورد الزام ٹھہرا رہا تھا۔

اور اس سب سے بڑا ہنگامہ تو انھی ہونا تھا. وہ تلوار بھی ہنوز لٹک رہی تھی۔

وہ جانتے تھے شیریں کسی صورت باپ کا فیصلہ قبول نہیں کرے گی۔گوکہ انھیں اسد زمان میں بظاہر کوئی برائی نظر نہ آئی تھی۔مگر شیریں ہزاروں نہیں لاکھوں برائیاں انگلیوں پر گنوا سکتی تھی۔

وہ دونوں باپ بیٹی کی اس سرد جنگ میں پِس رہے تھے۔

______----_________

"ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی آپ چاہتے کیا ہیں دادا؟"

کورٹ سے آتے ساتھ اسکا پارہ ساتویں آسمان پر تھا.. اسی لیے بیگ اور سامان ایک جانب پھینک کر وہ انکے سامنے تھی۔

"میں صرف تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں"

وہ لاڈ سے بولےتو شیریں جھنجھلا کر رہ گئی ۔

"فار گاڈ سیک"

"دادا میری بات سن لیں،، اب اگر آپ نے میرے معاملات میں گھسنے کی کوشش کی تو قسم کھاتی ہوں میں چیمبر چھوڑ کر سڑک کے کنارے کرسی میز رکھ کر بیٹھ جاؤں گی میں"


وہ انگلی اٹھا کر بزور بولی.

" تم کیا کہنا چاہتی ہو،، ہوا کیا ہے؟"وہ لاعلم نظر آتے تھے

" سب جانتی ہوں میں، اس اسد زمان کی چوکیداری کی ضرورت نہیں مجھے،، جانتی ہوں آپ نے ہی اسکو کہا ہو گا کہ شیریں تو ننھی بچی ہے،، اسکا خیال رکھنا "

پتہ نہیں کیا ہوا تھا جو وہ بھڑوں کا چھتہ بنی ہوئی تھی۔

" میں نے ایسا کچھ نہیں کیا "

" ہاں تو آپکے فرشتے کر گئے ہوں گے"

وہ چمک کر بولی

تو انھوں نے بغور اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا۔

ننھی ننھی آنکھیں غصے کی شدت سے مزید چھوٹی ہو رہی تھیں ۔

"شاید تمہارے باپ نے کہا ہو" شمشاد خان نے اپنے الفاظ ٹھیک تول کر استعمال کیے تھے۔ساتھ بغور اسکے بدلتے تاثرات بھی دیکھے ۔

"کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے؟"

وہ اس تو بھری بیٹھی تھی

"آپ اپنے لاڈلے بیٹے سے کہہ دیں اپنی اولاد پالے،، میرے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی ضرورت نہیں.. مطلب مجھے بتائیں کیا غلطی ہے میری جو میرے گھر میں ہی میرے دشمن پیدا ہو گئے ہیں.. کیا مظلوم کا ساتھ دینا، ظالم کا ہاتھ پکڑنا غلط ہے؟"

نوجوان خون کی نشانی تھی.. اسکا جوش و خروش ہمیشہ عروج پر رہتا تھا دادا نے منھ کے برے برے زاویے بنائےجیسے یہ سب سننے میں دلچسپی نہ ہو بلکہ مجبوراً سن رہے ہیں

"دادا یہ کیسی دنیا ہے جہاں سب اللہ کے خوف سے نہیں بلکہ لوگوں کے خوف سے چپ چاپ ظلم سہتے رہتے ہیں... کیا آپکو بھی لوگوں سے ڈر لگتا ہے؟

دادا آپ تو ایسے نہیں ہو یار.. زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، جو لمحہ قبر میں ہے وہ باہر نہیں گزر سکتا چاہے چاہے انسان جتنا بھی چھپے موت اسے آ لیتی ہے.. "

" یہ تقریر اچھی اور پر اثر ہے "

انھوں نے سنجیدگی سے تبصرہ کیا

" حد ہے،، یہاں کوئی کچھ سمجھنے کو تیار کیوں نہیں،، مظلوم کا ساتھ دینا کتنی بڑی نیکی ہے کوئی اس بات کو نہیں سمجھتا،، سب اپنے اپنے مقاصد کے حصول میں مگن ہیں، سب کو اپنی فکر ہے"

وہ سخت مایوس ہوئی

"سچ کہتی ہو، سب مگن ہیں کسی کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ تم خوامخواہ میں اپنی بھی اور انکی جان بھی خطرے میں ڈالو.، اس لیے اپنا سوچو "

" مجھ سے بات نہ کریں آپ،، اور میری باتیں ذہن میں بٹھا لیں آئندہ آپ نے زمان صاحب کو کال کی یا میرے متعلق کچھ کہا تو میں سچ کہتی ہوں سڑک پر میز کرسی رکھ لونگی انکے چیمبر نہیں جاوں گی"

" میں تو اس سب سے لاتعلق ہو جانا چاہتا ہوں.، میں تو بس تنگ ہی آ چکا ہوں "

شمشاد خان نے کندھے اچکائے۔کچھ معاملات ایسے تھے جنکو وہ چاہ کر بھی قابو میں نہ رکھ سکتے ہیں ۔

اور اس وقت جبکہ انکے اپنے پاس اس سب کا کوئی حل بھی موجود نہیں تھا۔


___________-----------____________


جس پل وہ گاڑی سے نکل کر ڈیڈی کے پیچھے پیچھے اس گلی میں چلتی جا رہی تھی اسکا دل سینے کی دیوار توڑ کر باہر آنے کو بے قابو تھا۔یہ نروس نیس تھی،، یا اتنے دنوں بعد بھی مل پانے کی خوشی وہ سمجھنے سے قاصر تھی ۔

آگے گلی تنگ تھی،. اور انھیں گاڑی کچھ دور ہی روکنا پڑی تھی۔

"اب پتہ نہیں کونسا گھر ہے، یہاں تو سب ایک جیسے ہی خستہ حال ہیں"

سجاد خان نے کچھ نال چڑھا کر کہا۔

سن گلاسز اتار کر ہاتھ میں پکڑیں اور پیچھے مڑ کر عروہ کو دیکھا۔

"یہاں کسی سے پوچھ لیں"

"کیا تم نے اسے اطلاع نہیں کی تھی؟"

انکے ماتھے پر بل پڑ چکے تھے، محلے کی حالت سے انھیں کچھ زیادہ امید نہیں رہی تھی۔

اللہ جانے آگے کیا کچھ دیکھنے کو ملتا

"میں نے کر دی تھی.، لیکن وہ اسلام آباد میں تھا، شاید ابھی نہ پہنچا ہو"

وہ کچھ خجل ہو کر بولی

" کیا اس سے پہلے تم یہاں آئی ہو؟ "

وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس سے پوچھ رہے تھے. انکا ذہن تیزی سے چل رہا تھا۔

"نن نہیں میں یہاں کبھی نہیں آئی"

وہ واقعی یہاں کبھی نہیں آئی تھی، گھر کے متعلق جب بھی ذکر ہوتا وہ عروہ کو ڈراتا ہی تھا

" میرے گھر والوں کی بہت امیدیں ہیں مجھ سے"

" مجھے اپنے خاندان کے لیے بہت کچھ کرنا ہے"

"میری امی یوں شادی کے لیے کبھی نہیں مانیں گی.. کہ میں پڑھ لکھ کر شادی کر کے اپنی زندگی میں مگن ہو جاوں اور انھیں بھول جاوں"

گھر والوں کے ذکر پر وہ ہمیشہ ایسے ہی جوابات دیتا۔

مگر ایسی حالت کی تو اسے امید نہیں تھی.. وہ اتنے خستہ حال ماحول میں رہتا ہے، اس بات کا اسے اندازہ نہیں تھا۔

" رکیے، کیا سفیان صاحب کا گھر اسی محلے میں ہے؟ "

انھوں نے پاس سے گزرتے ایک لڑکے کو روکا

" کون سفیان صاحب؟"

اس نے صاحب پر زور دیا

"سفیان صاحب جو اسلام آباد میں رہتے ہیں"

پتہ نہیں انھیں کیا تعارف دینا چاہیے تھا، وہ تو زیادہ کچھ نہ جانتے تھے. اور لڑکا بھی شاید سمجھ نہ پایا تھا۔

"کیا تم اسکے باپ کے متعلق کچھ جانتی ہو "

انھوں نے پیچھے مڑ کر لاڈلی بیٹی سے پوچھا، جسکی وجہ سے آج انھیں خجل ہونا پڑ رہا تھا۔

"نہیں میں زیادہ نہیں جانتی بس نام.. "

اس سے پہلے کہ وہ کچھ بتاتی لڑکے کو شاید سمجھ آ گئی تھی۔

"او اچھا سفی کا پوچھ رہے ہیں.. میں سمجھا پتہ نہیں کون سفیان صاحب ہیں "

اس نے تضحیک آمیز انداز میں صاحب پر زور دیا

"جی شاید وہی،، آپ انکا گھر دکھا دیں"

سجاد خان نے اپنی حیرت دباتے ہوئے کہا

" یہ پیچھے والی گلی میں جو لکڑی کا دروازہ ہے وہاں اسکی ماں رہتی ہے، اور اگلے دو منزلہ گھر میں اسکے بھائی رہتے ہیں ". اس نے چند قدم آگے جا کر انھیں گھر دکھاتے ہوئے کہا

اور جس پل وہ لکڑی کے اس خستہ حال چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہو رہے تھے ان دونوں کی آنکھیں حیرت سے کچھ پھیل گئی تھیں ۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سجاد خان نے بے یقینی سے بیٹی کو دیکھا

" شاید یہ گھر نہ ہو؟ "

عروہ نے کسی خیال کے تحت کہا۔مگر یہ خیال غلط ہی ثابت ہوا

"السلام علیکم" گیلے بالوں اور استری شدہ سفید کپڑوں میں ملبوس سفیان اسی وقت دروازے سے نمودار ہوا تھا جیسے وہ بہت جلدی میں ہو۔

عروہ نے اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا

"وعلیکم السلام "

اسکا چہرہ کھل اٹھا تھا، ہر سوچ اور ہر پریشانی ایک پل کو وہ بھول چکی تھی۔

صرف اور صرف ایک جذبہ اس پر چھایا ہوا تھا اور وہ تھا بے تحاشا خوشی کا جذبہ۔

اتنے دنوں بعد اور اتنا سب کچھ ہونے کے بعد پھر سے سفیان کو دیکھنا یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہ تھی۔

یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی مر کر دوبار زندگی حاصل کر لے اور لوٹ آئے ۔

سفیان کی بھی ویسی ہی حالت تھی

مگر وہ سجاد خان کو دیکھ کر جلدی سنبھل گیا۔

"آئیے نا پلیز آپ لوگ اندر آئیے"

ایک طرف کو ہو کر وہ راستہ دے رہا تھا

"آئیے اندر بیٹھیے"

ایک بوڑھی عورت نے بنا سلام دعا کیے،. سپاٹ سنجیدہ انداز میں انھیں کمرے کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔

"کیا تم سوشل ورک کرنا چاہ رہی تھیں؟"

جس پل وہ دونوں ماں بیٹا چند پل کے لیے باہر گئے. سجاد خان نے چبا چبا کر کہا۔

وہ اپنی خوشی اور مدہوشی سے فورا باہر آ گئی۔

"کیا یہ ہے وہ سب جسکے لیے تم نے اتنی بڑی بڑی بے وقوفیاں کیں۔

" ڈیڈی مجھے نہیں پتہ تھا"

وہ ہکلا کر رہ گئی سجاد خان کی حالت انکے چہرے سے عیاں تھی۔

" جہنم میں جاو گی تم عروہ ،،کیا تمہاری پسند یہ تھی؟ مجھے یقین نہیں آ رہا تم نے اپنے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا ہے"

وہ چبا چبا کر بولے انکا بس نہیں چل رہا تھا عروہ کو گولی مار دیں ۔

صبح سے شام اور شام سے رات ہو گئی.، ہمایوں بھائی صبح کے نکلے واپس نہ لوٹے.، نجانے وہ کس وقت آتے تھے؟

نماز اور تلاوت قرآن پاک کے بعد جو تیسرا کام جو اسکے پاس موجود تھا وہ گھر کی صفائی کا تھا.

ہلکی پھلکی صفائی کرنے کے بعد جب وہ فارغ ہوئی تو دن کے دو بج گئے.، حاطب صبح جاگا اور اس وقت کا نکلا واپس نہ لوٹا تھا.، ابھی ابھی جب وہ واپس آیا تو لاونج کے اسی صوفے پر دراز ہو گیا جہاں وہ پچھلے تین روز سے پڑا رہتا تھا.، البتہ اب ایفا گل نے اسکی ہمدردی اور خدمت گزاری کا جذبہ قابو کر لیا تھا.،

"پتہ نہیں اب کب تک وہاں بیٹھے رہیں گے،، ہمایوں بھائی نے کہا تھا جب تک خود بات نہ کریں میں بھی انھیں مت مخاطب کروں"

اس نے دبے پاؤں اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور بلی کی سی چال چلتی لاونج میں جھاتی ماری، وہی چھوٹی سی بے نام بلی اسکے آگے پیچھے چکر کاٹ رہی تھی جبکہ وہ پرسکون سا ٹیلی ویژن پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔

ایفا گل انھی قدموں واپس کمرے میں آ گئی جبکہ اندرون خانہ وہ اب اس خود ساختہ قید سے رہائی پانا چاہتی تھی

(اب کیا کروں ﷲ جی میں تو یہاں اکیلے ہی کہیں مر کھپ جاوں گی،)

اسکا ذہین دماغ اب مختلف خیالات پیش کرنے لگا تھا

(ہائے اللہ میرے تو ابا کو بھی پتہ نہیں چلے گا،، اور وہ لوگ تو یہی سمجھتے رہیں گے میں زندہ ہوں) یکدم آنے والے اس خیال نے اسکے چہرے پر فکریں بکھیر دی تھیں۔

اور تب ہی اسے خیال آیا پچھلے دو تین روز سے بلکہ جب سے وہ گھر سے آئی تھی اسکی نہ کسی سے فون پر بات چیت ہو سکی تھی اور نا ہی ان لوگوں کے کال کی تھی۔

اور پھر اسے سخت اداسی نے اپنے حصار میں لے لیا۔

بہت سی دیر وہ خوامخواہ میں اور بہت شدید اداس بیٹھی اس اچانک پڑنے والی افتاد اور جدائی کے بارے میں الٹے سیدھے خیالات بنتی رہی پھر جلد ہی بیزار ہو گئی. نماز عصر کی ادائیگی تک وہ ایک بار پھر سے نارمل ہو چکی تھی

عادت کے مطابق ڈائری نکالی، اب ابا بھی نہیں تھے جو اسے اگلی آیات پڑھا دیتے اور خود تو وہ اتنا ہی یاد کرتی جتنا وہ سختی سے یاد کرنے کی تاکید کرتے.

بلکہ اب تو پچھلے دو تین روز میں وہ عروہ حاطب اور ان دونوں بلکہ سب کے درمیان ہونے والے عجیب و غریب واقعات پر اتنی پریشان رہی کہ اس نے اس طرف بلکل دھیان ہی نہ دیا۔

قرآن مجید سے ورنہ اسکی روز کی ملاقات رہتی تھی۔

مگر یہاں آ کر تو وہ بھی انھی لوگوں کی صف میں شامل ہو گئی جنکے قرآن مجید کے نسخے جزدانوں میں گرد کا شکار ہوتے ہوئے پڑے رہتے ہیں. اور انھیں مہینوں ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہو پاتا ۔

اپنے ہی آپ میں مگن وہ کبھی اداس ہو جاتی اور کبھی پھر سے مصروف پورا دن حاطب کی نظروں سے بچتی رہی۔

اگر کبھی وہ اپنے اندر ہمت جمع کر کے کمرے سے باہر جا کر کچھ کرنے کا سوچتی تو پھر اسکا گزشتہ رات والا خوفناک رویہ اسے جھرجھری لینے کر مجبور کر دیتا ۔

رات کو عشاء کی نماز تک وہ بہت بے صبری سے ہمایوں کا انتظار کر رہی تھی

یقینا ہمایوں کے آنے کے بعد اسکی یہ قید ختم ہو جاتی مگر اسکا انتظار انتظار ہی رہا۔

خالی پیٹ بھوک سے نڈھال ہوتی وہ بے ہوش ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی..،

اسکا تو روزہ بمشکل مغرب تک پہنچتا تھا.. اور اس دوران ابا اسکی دلجوئی اور اسکا دھیان بٹانے کو کیا کچھ نہ کرتے

سعد اسے یہ کہہ کر چھیڑتا تھا کہ یہ رمضان اسکا آخری رمضان ہے، اس سے زیادہ وہ زندہ نہ رہ سکے گی۔اور دیوان لالا

دیوان لالا تو جھنجھلا کر ابا کو کہتے تھے کہ ابھی وہ چھوٹی ہے اس سے سارے روزے مت رکھوایا کریں ۔

"وہ بڑی ہو چکی ہے،، مگر تمہارے لیے وہ چھوٹی ہی رہے گی چاہے چالیس سال کی ہی کیوں نہ ہو جائے"

ابا ہنس کر ٹال دیتے ۔

وہ نیم غنودگی میں سوچتے ہوئے اداسی سے ہنس دی۔

"دیوان لالا میں بڑی ہو گئی،، اور آپ نے بھی اس دفعہ کچھ نہ کیا"

بے بسی کے مارے دو آنسو اسکی آنکھوں سے لڑھک گئے تھے۔

، گھر سے دوری، گھر والوں سے جدائی،انجان جگہ، بھوک اور تنہائی نے اسے رلا دیا تھا۔

کل تک اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ یوں اس گھر کے ایک کمرے میں قید ہو کر رہ جائے گی..

یا یہ کہ اتنا اداس اور غمگین نظر آنے والا حاطب اس پر یوں بلاوجہ غصہ ہو گا۔

سب کچھ ہی یہاں ڈرانے والا اور انجان تھا.

ہمایوں کا ہی آسرا تھا اب وہ بھی نہیں آ رہا تھا۔

اور دوسری جانب انتے دنوں کی غیر حاضری کے بعد اپنے کاموں میں پھنسے ہمایوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کوئی کتنی جان سے اسکا انتظار کر رہا ہے۔

وہ واقعی لا علم تھا۔

کبھی کبھی ہمیں واقعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ہم کسی کی زندگی کی اکلوتی امید ہیں، واحد روشنی کی کرن ۔

بعض اوقات ہمارا وجود اور ہمارا ساتھ دوسروں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے، مگر ہم ان لمحات کو لاعلمی اور عدم آگاہی کی نظر کر دیتے ہیں ۔

ہلکا سا احساس اور خیال کسی انسان کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے۔

جب کسی کو ضرورت ہو تب اگر ہم اسکے ساتھ نہیں رہ سکتے تو پھر ہمارے اسکی زندگی میں ہونے کا کیا فائدہ؟

انسان ان سب باتوں کی طرف دھیان دے ہی نہیں پاتا. وہ صرف اپنے روز و شب کے مدار میں گردش کرتا رہتا ہے۔

ہمایوں بھی اپنے مدار میں مگن ہو چکا تھا،، حاطب اپنے مدار میں اپنی مرضی کی رفتار سے گردش کر رہا تھا۔

اگر کسی کا مدار کھو گیا تھا، بدل گیا تھا تو وہ ایفا گل تھی ۔

مگر وہ صابر تھی.. وہ ہمایوں کی طرح ہر بات کو فورا کہہ دینے والوں میں سے نہ تھی ۔

وہ حاطب کی طرح اپنے ساتھ لوئی زیادتی کا ادراک کروانے والوں میں سے بھی نہ تھی ۔

وہ ان چند لوگوں میں سے تھی جو احساس کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنے جذبات کو مجروح کر کے بھی دوسروں کو آسانیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور اس سب کے بعد جتاتے بھی نہیں ۔

اب بھی وہ خاموشی سے چند آنسو بہا کر سو گئی تھی. البتہ جب وہ سو رہی تھی اسکے چہرے پر ریا فکر یا پریشانی نہیں تھی۔

وہاں ایک سکون اور اطمینان تھا۔

بے پایاں معصومیت تھی..

اور یہی لوگوں کی نظروں میں اسکی کمزوری تھی..

مگر حقیقت یوں نہ تھی..

مگر لوگوں کو علم کہاں ہے؟

کوئی کس وقت کیا سوچ رہا ہے؟

ہمیں اس بات کا اندازہ لگانا کہاں آتا ہے،


______==________


چند دن کی غیر حاضری کا مطلب تھا کہ رینکرز (پولیس کے جونیئر افسران اور اہلکار) کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی۔اب بھی ہمایوں کو سب کی ٹھکائی کرنے اور پچھلے چند روز کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا تھا۔

پھر وہ رات کو خاصی دیر تک پولیس سٹیشن میں ہی بیٹھا رہا۔پھر گھر جانے کی بجائے پولیس لائنز کے ریسٹ ہاوس میں آ گیا جہاں وہ عموماً قیام پزیر ہوتا تھا۔

اور اچانک اسے یاد آیا اسے دانیہ کے لیے کسی سے ملنے جانا تھا۔

دانیہ اسلام آباد کی آفیسرز اکیڈمی میں سی ایس ایس کے امتحان کے لیے تیاری کر رہی تھی اور یہاں اس شہر کی اسسٹنٹ کمشنر نے حال ہی میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔

گو کہ خود ہمایوں نے بھی مقابلے کا امتحان پاس کر کے ہی پولیس فورس جوائن کی تھی مگر ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی اسکے گھر والوں کو اسکی قابلیت پر ٹھیک ٹھاک شکوک و شبہات تھے۔


"بھائی گئے تھے ملنے؟"

موبائل فون کو چیک کیا حسب توقع دانیہ کے کئی پیغامات پہنچے ہوئے تھے

"نہیں، صبح جاوں گا آج سارا دن بہت مصروف رہا"

اس نے جوابی پیغام ارسال کر کے موبائل ایک طرف رکھا اور کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔جب تک وہ واپس آیا اسکی نا اہلی، سستی اور لاپرواہی کو کوستی دانیہ کئی مزید پیغامات میں اس سے کسی بھی اچھائی کے متعلق نا امید ہونے کا اظہار کر رہی تھی۔

" بولا نا بزی تھا.،صبح چلا جاؤں گا"

وہ عاجز انداز میں مختصر ترین جواب دے رہا تھا۔

اسکا کھانا لگا دیا گیا تھا۔

اور اب باوردی اہلکار اسے دعوت طعام دے رہا تھا۔

"اچھا اب صبح یوں ہی مت اٹھ کر چلے جائیے گا، کچھ گفٹ وغیرہ لے جائیے گا کوئی پرفیوم یا اچھا سا پین یا کچھ اور "

وہ آخر میں تاکیدی انداز میں بولی

"میرے پاس بلکل بھی فالتو پیسے نہیں ہیں"

وہ نجانے کیوں ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ کنجوس تھا۔

پہلے جب وہ زمانہ طالب علمی میں تھا تب بھی اسے کم ترین معاشی وسائل کا گلہ رہتا تھا

اور اب جبکہ وہ اٹھارہ گریڈ کا افسر تھا تب بھی اسکی جیب خالی ہی رہتی تھی۔

واللہ اعلم اسکے پیچھے کیا وجہ تھی؟

" بھائی یہ پیسے بھی میرے اکاؤنٹ میں ڈال. دیجیے گا،، پہلی سیلری ملتے ہی لوٹا دونگی مگر خالی ہاتھ مت جائیے گا،، اچھا تاثر قائم نہیں ہو پاتا"

اسکے جواب پر دانیہ نے اب کال ملا لی تھی

اور نتیجتاً اسے کھانے کے بعد بازار کا چکر لگانا ہی پڑا۔

(چل ہمایوں رشتے داریوں کا بوجھ ہلکا کر)

وہ والٹ میں باقی ماندہ رقم چیک کرتا اب اس اسسٹنٹ کمشنر کے لیے نا چاہتے ہوئے بھی تحفہ لینے جا رہا تھا۔گو کہ وہ ذاتی طور پر ان تکلفات کو زخمت ہی سمجھتا تھا مگر اب مجبوری تھی

دانیہ کو ہر صورت کچھ نوٹس چاہیے تھے اور ہمایوں کے ریفرنس کے بغیر وہ حاصل کرنا ناممکن سا تھا۔

آخر گھوم گھما کر اسے ایک کتاب ہی مل سکی۔

جبکہ اندرون خانہ اسے یہ خاصہ خشک سا تحفہ لگ رہا تھا ۔بھلا آجکل کون کتابیں پڑھتا ہے؟

خود اس نے بھی امتحان کے بعد سے کتابوں کو کبھی غیر ضروری طور پر چھوا تک نہ تھا

اور نہ ارنا وقت میسر ہوتا تھا

"ہے تو فضول سا گفٹ مگر خیر جانے دو مجھے کونسا لیڈی کمشنر سے کوئی ریلیشن شپ بنانا ہے"

اس نے بے پرواہی سے خود کلامی کی۔

تبھی سامنے موجود اس ننھے سے ہجوم کے ساتھ وہ ٹکرایا۔

خاتون سے معذرت کرتا وہ اس بندر کے تماشے کے مرکز تک پہنچنے کے جتن کر رہا تھا۔

اور پھر جلد ہی اسے اس تماشے کی وجہ سمجھ آ گئی ۔

وہی بے وقوف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور انکی وقت گزاریاں۔

اس نے ملامتی انداز میں اس نو عمر لڑکے اور سامنے موجود لڑکی کو دیکھا جسکی اسکی طرف پشت تھی ۔

(کتنے فارغ ہیں آج کل کے نوجوان)

وہ سوچے بناء نہ رہ سکا۔

"کیا تماشہ ہو رہا ہے یہ؟ تمیز سے بات کریں آپ لوگ"

اسکی آواز میں اتنا تحکم تھا کہ سب لوگ فورا ہی اسکی طرف متوجہ ہوئے

"بس یہ باجی کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے،، میرے پیچھے ہی پڑ گئی ہے"

لڑکا عاجز نظر آتا تھا فوراً بدتمیزی سے بولا۔

مگر لڑکی نے اسے بات مکمل کرنے تک کا موقع نہ دیا۔

"او واو براوو، پہلے تو تم مجھ پر آوَازے کس رہے تھے اب باجی ہو گئی میں"

وہ چٹکی بجا کر استہزاء سے بولی۔

" میں تو تم سے بات ہی نہیں کر رہا تھا میں تو اپنے دوست سے بات کر رہا تھا پتہ نہیں تم پر جنات کا سایہ ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے"

وہ دونوں پھر سے ایک دوسرے کو دوبدو جواب دے رہے تھے ہجوم پھر سے واپس اسی تماشے کی طرف متوجہ تھا۔


"اے میں کہہ رہا ہوں نا پیچھے ہٹو اور تمیز سے بات کرو"

اس نے اب کی بار کچھ سخت لہجے میں اس لوفر سے لڑکے کا کندھا ہلا کر کہا جو سر عام ایک لڑکی کو چھیڑنے کے بعد اب بدتمیزی بھی کر رہا تھا مگر اس سے پہلے کہ کوئی نتیجہ برآمد ہوتا وہ لڑکی الٹا اسی پر چڑھ دوڑی

"تم کون ہو؟"

وہ اپنی ننھی ننھی آنکھوں سے اسے گھور کر بولی ایک پل کو وہ گڑبڑایا تو لڑکی نے اپنا سوال بدلا

" میرے باپ ہو؟ "

" نہیں "یک لفظی جواب اسکے منہ سے بے ساختہ پھسلا

"تو پھر میرے شوہر ہو؟"

اس لڑکی کا ٹون یک دم سرد ہو گیا تھا

"آف کورس نہیں"

وہ تو صرف مدد کرنے کی غرض سے گھس گیا تھا


" تو پھر اپنے کام سے کام رکھو اور ہٹو یہاں سے"

وہ اس پر ان کہے تین حرف بھیجتی اب پھر سے اس اوباش کی جانب متوجہ ہوئی.، جس نے انجانے میں اوکھلی میں سر دے دیا تھا

"اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا کرو کہ تمہارے گندے کرتوتوں کی بدبو نے تمہارا دماغ تک مفلوج کر دیا ہے۔۔۔ظلم خدا کا اب اس ملک میں لوگ پردہ دار عورتوں پر بھی آوازیں کستے ہیں ۔۔۔کیا تمہیں نظر نہیں آیا کہ میں ایک مسلمان عورت ہوں۔۔۔."

وہ پھر سے شروع ہو چکی تھی آس پاس اکٹھے ہونے والے لوگ ہمایوں کی عزت افزائی سے کافی سنبھل کر اب چند قدم پیچھے ہٹ چکے تھے

مگر لڑکی مسلسل بول رہی تھی اور زہریلا بول رہی تھی. ہمایوں نے اس بدتمیز لڑکی کو اسکے حال پر چھوڑنے میں ہی بہتری سمجھی اور بڑبڑایا

"بدتمیز لڑکی"


مگر نجانے کیوں وہ اسے دیکھی دیکھی لگ رہی تھی، اس نے ایک دفعہ مڑ کر اسے دیکھا، جو اب بھی زور و شور سے لگی ہوئی تھی


________-----__________


حاطب نے خود کو دانستہ اس سے دور کر لیا تھا.. کل جب وہ اسکے قریب گیا تھا تو اس کا انداز نہایت نامناسب تھا.. وہ بنیادی طور پر weird تھا۔

جد کے لیے وہ اپنے آپ سے بھی ایک حد تک ناراض تھا

اب وہ مزید یہ سب دہرانا نہیں چاہتا تھا۔

اور ایفا گل.، شاید وہ ناراض تھی کیونکہ وہ آج ایک مرتبہ بھی اسکے سامنے نہ آئی تھی، لاونج کے اس صوفے پر پڑے پڑے وہ بھی تنگ آ چکا تھا. گوکہ اسے ایفا گل سے بات چیت کا کوئی شوق یا خواہش نہیں تھی۔

مگر پھر بھی اسے یہ سب اچھا نہ لگ رہا تھا ۔اسکے خیال میں جو سب وہ کر رہا تھا وہ سب بلکل غلط نہیں تھا.. احتجاج اسکا حق تھا.، چاہے وہ احتجاج اتنا بے ضرر اور خاموش ہی کیوں نہ ہوتا۔

وہ اس صورتحال میں کسی بھی حد تک نامناسب رویہ اپنا سکتا تھا..

مگر جو بات اسے ڈسٹرب کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ اسے اپنی فرسٹریشن ایفا گل پر نکالنے کا کوئی حق نہیں تھا


کم از کم وہ کسی بھی واقعے کی ذمہ دار نہیں تھی..

وہ عروہ جیسی نہیں تھی۔

مگر وہ اسکی دوست بھی نہیں تھی۔

پھر وہ کیا تھی اور کیوں تھی؟

یہ سوال اپنا جواب مانگ رہا تھا مگر

اسکا مقام کیا تھا اس بات کا تعین کرنا ابھی باقی تھا۔

اور حاطب جاوید یہی نہیں کر پا رہا تھا۔

وہ کمزور اعصاب کا مالک نہیں تھا مگر اسکے خواب ٹوٹے تھے

اور خواب بھی وہ جو. ابھی وہ بُن رہا تھا۔

اور ان اَن دیکھنے خوابوں کی کرچیاں سمیٹنا بے حد مشکل کام تھا۔

اور ابھی تو بہت سے لوگ اس حقیقت سے لاعلم تھے،

وہ کس کس کو اور کیا کیا جواب دے گا؟

یہی خیال اسے مارے دے رہا تھا۔

انسان حیوان ناطق ہے وہ معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا

مگر معاشرے کے ساتھ جڑے رہنے کی کبھی کبھی بہت بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے. اور وہ اس قیمت کے لیے خود کو تیار نہ پاتا تھا۔

یا شاید اسکے اندر کوئی اور بات تھی جسکا وہ اپنے سامنے بھی اقرار نہ کر پا رہا تھا۔

مگر یہ تو طے تھا جو کچھ اسکے اندر چل رہا تھا اس تک رسائی کسی کو میسر نہ تھی

نا کسی اپنے کو نا پرائے کو

نہ ماں باپ کو نہ بہن بھائیوں کو

وہ کسی پر بھی کبھی نہ کھلا تھا

اور اب تو اسکا انسانوں پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا تھا ۔

وہ لوگوں سے، اس زندگی سے اندر ہی اندر ڈر گیا تھا ۔

یا شاید یہ کہ وہ اپنے آپ سے ڈر گیا تھا


کیڈٹ کالج کے زمانے میں پڑھی گئی ن م راشد کی ایک نظم اسے بہت یاد آ رہی تھی


زندگی سے ڈرتے ہو؟

!زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!

زندگی سے ڈرتے ہو؟

آدمی سے ڈرتے ہو؟

آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے

اس سے تم نہیں ڈرتے!

حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ

آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ

اس سے تم نہیں ڈرتے

''ان کہی'' سے ڈرتے ہو

جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو

اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو


_____===______


بمشکل پندرہ منٹ وہاں بیٹھنے کے بعد سجاد خان کی برداشت جواب دے گئی تھی

بیٹی سے کسی ایسے انتخاب کی امید تو ہر گز نہیں تھی۔

اسی لیے انھوں نے اپنے ذہن میں موجود ان بہت سے سوالوں کو زبان پر لانا قطعی فضول خیال کیا جن سوالوں کے جوابات لینے کے لیے وہ یہاں آئے تھے ۔

"ٹھیک ہے اب ہمیں چلنا چاہیے"

اپنے سامنے میز پر رکھے چائے کے کپ کو انھوں نے چکنا تک مناسب نہیں سمجھا تھا۔

البتہ انکا یوں تنا ہوا چہرہ دیکھ کر عروہ نے فورا سے کپ اٹھا لیا تھا مبادا سفیان یا اسکی امی کو یہ برا ہی نہ لگے۔

مگر ابھی بمشکل وہ دو گھونٹ پی اندر اتار سکی تھی جب ڈیڈی نے چشمہ آنکھوں پر لگاتے گاڑی کی چابیاں دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اسے اٹھنے کا حکم دیا

"کچھ دیر تو بیٹھتے، اتنی دور سے آئے بھی ہیں"

جس ہل وہ تین چار فٹ کا صحن عبور کر کے بیرونی دروازے پر پہنچے سفیان کی امی نے حق میزبانی نبھایا۔

انداز صاف مروت والا تھا

جیسے انھیں روکنے میں قطعی دلچسپی نہ ہو مگر فرض پورا کر رہی ہوں

"کافی ہو گیا بس ملنا تھا مل لیا اور دیکھ بھی لیا اب چلتے ہیں"

وہ سپاٹ سے انداز میں کہتے ڈیوڑھی عبور کر گئے ۔

سفیان کی امی بھی اسی پل اللہ حافظ جہتیں واپس ہو لیں۔

انکا انداز لیا دیا تھا۔

اب بس عروہ اور سفیان ہی بچے تھے۔

"عروہ تم سوچ نہیں سکتیں تمہیں یوں پھر سے اپنے سامنے دیکھنا کس قدر خوبصورت اور خوش کن احساس ہے "

خوشی سفیان کے ہر ہر انداز سے ظاہر ہو رہی تھی اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔

"میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا،، اللہ مجھ پر اتنا مہربان ہو گا،، ایک دفعہ تمہیں مجھ سے اتنا دور کر کے پھر مجھے واپس لوٹا دے گا"

ایک ہفتے کا یہ دور بہت غیر یقینی واقعات اور حادثات لایا تھا

ایک ہفتہ قبل جب وہ اس سے بظاہر آخری دفعہ مل رہی تھی. ان دونوں کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے اور اپنی محبت کے یوں برباد ہونے کا دکھ تھا

وہ دونوں اپنی محبت کی شکست تسلیم کرنے سے انکاری تھے

وہ ایک دوسرے سے دستبردار ہونے کے لیے بھی ہرگز تیار نہ تھے ۔

مگر سفیان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا عروہ اتنا کچھ کر جائے گی۔

وہ اپنے باپ بھائی سے مار کھائے گی.، ان سے بغاوت کرے گی

یا پھر شادی کی اول شب اپنے شوہر کے سامنے اپنی سابقہ محبت سے غیر مشروط وفا داری کا اقرار کرے گی۔

یہ سب نہایت عجیب و بے نظیر تھا

مگر اس پاگل لڑکی نے یہ ممکن کر دکھایا تھا ۔

وہ ان سب مصیبتوں سے لڑ کر واپس آ گئی تھی۔

"عروہ مجھے تمہاری محبت کی سچائی کا صحیح معنوں میں اب اندازہ ہوا ہے" اسکی مسلسل خاموشی پر سفیان نے انگلیاں چٹخاتے ہوئے کہا۔

مگر وہ نہیں جانتا تھا اس پاگل لڑکی کا دل اب کسی اور کے پر دھڑک رہا تھا۔

وہ اب پہلے جیسے نہیں رہی تھی

وہ اس پل ویسی بلکل نہیں رہی تھی جیسی ایک ہفتہ قبل تھی۔

عروہ کے دل میں اس وقت کیا چل رہا تھا

اس سے ابھی وہ سب لاعلم تھے۔

نجانے اب انکی زندگیوں میں مزید کتنے حادثات ہونے باقی تھے۔ 

"عروہ کیا تم نے خدمت خلق کا سوچا ہوا تھا یا تمہارا دماغ واقعی کام کرنا بند ہو چکا ہے؟"

سجاد خان بے صبرے نہیں تھے مگر اس وقت تو ان سے صبر بھی نہ ہو پا رہا تھا ۔

راستے میں ہی گاڑی روک کر انھوں نے لاڈلی صاحبزادی کا چہرہ دیکھا جو خاصی مطمئن نظر آتی تھی۔

"کم آن ڈیڈی کیا ہو گیا ہے آپکو کیا آپکو سفیان اچھا نہیں لگا؟ "

وہ جنجھلا کر بولی

" کیا عروہ تم واقعی یہ سمجھتی ہو کہ مجھے وہ اچھا لگنا چاہیے تھا؟ کیا اس میں کوئی ایک بھی خوبی ایسی ہے جو کسی کو متاثر کر سکے؟"

"کیا برائی ہے اس میں؟ پڑھا لکھا ہے، ویل مینرڈ ہے اور شکل صورت بھی اچھی ہے، اسکے علاوہ ایسا کیا ہے جو اس میں ہوتا تو آپ متاثر کو جاتے؟ "

وہ الٹا ان سے سوال کر رہی تھی

جو کچھ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کر چکے تھے اب کوئی شرم و حیاء یا ججھک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا

" کیا تم نے اسکا گھر دیکھا؟ کیا تم نے اسکی فیملی دیکھی؟ "

سجاد خان کی حالت اس وقت وہ تھی دنیا فتح کرنے والا اپنی ہی اولاد کے آگے ایک انچ کے جھگڑے پر بے بس ہو بیٹھا تھا

"ڈیڈی یہ سب سیکنڈری ہے میرے لیے صرف وہ میٹر کرتا ہے باقی سب چیزیں تو آنے جانے والی ہیں،.

Money does not matter 'cause it can't insure happiness"

وہ کندھے اچکا کر اعتماد سے بولی اسکی حالت سے لگتا تھا وہ فیصلہ کر چکی ہے ۔

"تو کیا تم ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم ہو، جو بلنڈرز تم نے مارے ہیں تمہیں اس پر کوئی گلٹ نہیں؟"

وہ واقعتاً بے یقین تھے

اس بچی پر آ کر انکا سارا علم فیل ہو جاتا تھا

اسکی نفسیات کو آج تک سمجھ نہ پائے تھا وہ کیا سوچتی تھی؟ کیسے سوچتی تھی؟

یہ سب ہمیشہ ایک معمہ ہی رہا۔

مگر کبھی حالات اتنے بے قابو نہ ہوئے تھے جتنے یکا یک ہو گئے تھے ۔

" تو تمہیں لگتا ہے تم اس کے ساتھ اس below the poverty line والی زندگی میں ہنسی خوشی گزارا کر لو گی؟"

وہ طنزیہ نتیجہ اخذ کر کے بولے ۔

"ہاں میں اس سے کمٹڈ ہوں اسکے فائننشل یا سوشل سٹیٹس سے نہیں،، میرے لیے یہ سب چیزیں ثانوی حیثیت کی ہیں،، صرف اسکا ساتھ اہم ہے "

اسکا اعتماد دیکھنے لائق تھا

سجاد خان نے ایک مکا سٹیرنگ پر رسید کیا

وہ ایسے نہیں تھے مگر ابھی تو شاید وہ عروہ کی حرکتوں سے پاگل ہونے والے تھے۔

یہ لڑکی شاید نہیں یقینا پاگل ہو چکی تھی

کاش انھوں نے اس پر پہلے کچھ توجہ دی ہوتی ۔

تو آج اسکی ذہنی حالت قدرے بہتر ہوتی۔

"میں تمہیں گھر جا کر پوچھتا ہوں،، کیا میرے لاڈ پیار یا آسائشات میں کوئی کمی رہ گئی تھی جو تم مجھے یوں تذلیل کا نشانہ بنانے پر تلی ہو"


وہ گاڑی کو ہوا میں اڑا رہے تھے۔عروہ واقعی پاگل ہو چکی تھی اور اس وقت وہ اسکے اس پاگل پن سے نجات چاہتے تھے

وہ لڑکا جسکے گھر اور خاندان

میں وہ آدھا گھنٹہ نہ گزار سکے تھے وہاں عروہ پوری زندگی بتانے کی خواہش پر اڑی ہوئی تھی

وہاں سے نکلتے ہوئے انھوں نے سوچا تھا کہ اب اسکا پیار محبت کا بخار اتر جائے گا

مگر یہ سب انکی غلط فہمی ثابت ہوئی

وہ! تو زور شور سے اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کو بیتاب تھی

(ہاں یہ ٹھیک ہے کہ وہ بہت غریب ہے اور بہت کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے مگر محبت میں ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے.. ہم دونوں مل کر سٹرگل کریں گے، اور اپنا فیوچر سیٹ کر لیں گے،. لوگ زیرو سے سٹارٹ کرتے ہیں اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں)

فوری طور پر سفیان کے گھر والوں کو دیکھ کر جو صدمہ اسے ہوا تھا.، وہ خاصی حد تک اب کم ہو چکا تھا۔

اسی لیے پرانی محبت پھر سے جوش مار رہی تھی۔

اور یہ تو سچ تھا اسکی محبت اتنی کمزور بھی نہیں تھی کہ یوں اتنی جلدی ختم ہو جاتی۔

اور اصل پریشانی ہی یہی تھی کہ سجاد خان اسکی ضدی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے۔

وہ بناء سوچے سمجھے نجانے کہاں تک جانے والی تھی۔

اور جب سب کو علم ہوتا کہ عروہ نے یہ سب خاندان کی تباہی اور بدنامی کا باعث بننے والے کام کس کے لیے کیے ہیں؟

تو وہ سب کو کیا منھ دکھاتے؟

کیا وہ اپنے سوشل سٹیٹس میں ایسا داماد افورڈ کر سکتے تھے؟

رشتے داریاں ہمیشہ برابر کے لوگوں میں ہی قائم کی جانی چاہیئے اور وہ اسی سوچ کے مالک تھے۔


__________----__________

صبح صادق میں جس پل وہ سب گھر آئے دروازہ حاطب نے کھولا تھا۔

خاموشی میں یکدم ہلچل سی مچ گئی تھی۔

تھکاوٹ سے حال برا ہو رہا تھا۔دانیہ وہیں سے اسلام آباد چلی گئی تھی۔جبکہ فری باجی تو دوسرے ہی روز اپنے خاوند کے ساتھ پنڈی واپس ہو لیں ۔انکی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔

آیت اور ماما پاپا رات کو نکلے اوراب یہاں پہنچ چکے تھے۔

"کیا بھائی آپ یہاں سو رہے ہیں؟"

لاؤنج کے صوفے پر چادر پڑی تھی جبکہ ملحقہ میز پر ایش ٹرے سگریٹ کے باقیات سے بھری پڑی تھی قریب ہی اسکا موبائل فون رکھا تھا۔

مطلب وہ یہیں رہائش پزیر تھا۔

"اوں؟ ہاں نہیں. ،یہیں سو گیا تھا" وہ چونکا پھر ملا جلا سا جواب دیا۔

"آپ لوگ بیٹھیں میں ایفا گل کو کہتا ہوں وہ چائے وغیرہ بنا دے"

اسے ایفا گل یاد آ ہی گئی تھی۔مزید کسی سوال جواب سے بچتا وہ وہاں سے مڑ گیا۔

دروازے پر ہلکی سی دستک دی پھر دوسری اور اسے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا وہ شاید جاگ رہی تھی۔

"کون ہے؟"

اتنا تو وہ سیکھ گئی تھی کہ دروازہ کبھی بھی بنا پوچھے نہیں کھولنا۔

" میں ہوں.، حاطب"

کچھ توقف کے بعد اس نے اپنا نام بتایا یکدم اسکا انداز بہت سنجیدہ ہو گیا تھا .،اپنا سابقہ رویہ یاد آیا تو ایک شرمندگی کی لہر دوڑ گئی۔

دوسری جانب مکمل خاموشی چھا گئی ۔

حتی کہ حاطب کو یقین ہو گیا وہ دروازہ نہیں کھولے گی مگر اسکے پلٹنے سے پہلے دروازہ کھل گیا تھا۔

"ایفا گل"

وہ وہیں کھڑا اپنا مدعا بیان کرنے سے پہلے رک گیا۔

اور دو قدم اندر آ گیا۔

"ایفا گل اصل میں جو سب ہوا اس کے لیے میں گلٹی ہوں.، دراصل میں نے نا حق تم پر اپنا غصہ نکال دیا"

براہ راست چائے بنوانا کچھ نامناسب خیال کیا تو پہلے اپنے رویے کی معذرت کرنا چاہی مگر یہ اتنا آسان بھی کہاں تھا

اپنی غلطیاں قبول کرنا اور پھر معافی مانگنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

اور وہ جو اپنی غلطیاں فورا مان لیتے ہیں وہ بہت خاص لوگ ہوتے ہیں کشادہ دل اور کھرے لوگ ۔

"مجھے کچھ نہیں کہنا"

ایفا گل نے جھکے سر کے ساتھ اپنی انگلیاں چٹخاتے کہا۔

"کیا مطلب؟"

حاطب کے لیے اسکا یہ جواب نا قابل فہم تھا۔

"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی.، کیونکہ پھر آپکو غصہ آ جائے گا اور آپ پھر سے عجیب سے ہو جائیں گے اور چاہے میری غلطی نا بھی ہو آپ غصہ پھر بھی مجھ پر ہی ہوں گے"

یہ گلہ تھا یا شکوہ مگر سیدھا حاطب کے دل پر لگا تھا۔

"ایفا گل تمہیں لگتا ہے.، میں ان ڈیو غصہ ہوتا ہوں؟ کیا تمہیں بھی یہی لگتا ہے *میں* غلط ہوں؟ "

وہ بے یقینی سے خود پر زور دیتے بولا۔اسکے لیے یہ الفاظ اپنے لیے سننا عجیب سا تجربہ تھا۔وہ تو نہایت ویل مینرڈ اور سلجھا ہوا انسان تھا ۔مگر یہاں تو کچھ اور ہی منظر تھا۔

"ہاں تو. ،آپ بھی عجیب ہی ہیں، ساری رات آپکی وجہ سے میں سو بھی نہیں سکی"

جبکہ دوسری جانب وہ خفگی سے بولی۔اس نے حاطب کا حیرت زدہ انداز نوٹ ہی نہ کیا تھا۔

" تو تمہیں لگتا ہے میں ایک اِل مینرڈ ،وحشی سا بندہ ہوں جو تمہارے ساتھ مس بی ہیو کرتا ہے اور کسی بھی وقت کر سکتا ہے"

وہ جیسے یقین کرنا چاہ رہا تھا یا پھر اسے اپنے بیان پر غور کرنے کا موقع دے رہا تھا مگر وہ کہاں اتنی ذہین تھی،

"پتہ نہیں آپکو کیا ہو جاتا ہے، مجھے لگتا تھا آپ بہت اچھے ہیں،، اور ہمیشہ میں یہی سوچتی تھی کہ کاش میرا بھی کوئی بھائی آپ جیسا ہو.، مگر اب میں سوچتی ہوں شکر وہ سب آپ جیسے نہیں، کم از کم وہ لوگ مجھ سے اس طرح بات تو نہیں کرتے اور مجھ سے پیار بھی کرتے ہیں"

وہ اس سے پیار نہ کرنے کا گلہ کر رہی تھی۔

مگر انداز ایسا تھا کہ بجائے یہ احساس ہونے کے حاطب کے اندر ایک شدید بے آرامی کی لہر دوڑ گئی ۔ایفا گل اپنے دھیان میں یہ دیکھ ہی نہ پائی وہ بہت زیادہ ہی کہہ گئی ہے۔وہ اسکا تجزیہ کر رہی تھی۔اور نہایت نا مناسب وقت پر اور نا مناسب انداز میں کر رہی تھی۔

"ٹھیک ہے تم ریسٹ کرو"

وہ کس لیے آیا تھا یہ بھول گیا۔لب بھینچتا

بجلی کی تیزی سے مڑاتھا ۔ جو کچھ ایفا گل نے کہا تھا وہ شاید اس نے ناراضگی میں کہہ دیا تھا مگر حاطب کے لیے یہ بہت اذیت ناک ثابت ہوا تھا ایسے وقت میں جب وہ پہلے ہی اپنی شخصیت کو لے کر کنفیوژن کا شکار تھا ۔وہ اپنے ہر ہر عمل کو تنقیدی نظر سے دیکھتا تھا

ایفا گل کے الفاظ نے اسکی خود اعتمادی اور شخصی غرور کو ٹھیس پہنچائی تھی۔


(________------_________)

نو بجے تیار ہو کر وہ اپنے پروٹول نے ہمراہ طے شدہ وقت کے مطابق بجائے پولیس سٹیشن جانے کے اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کے باہر پہنچ چکا تھا۔

دفتری عملہ جو ابھی کچھ سویا کچھ جاگا سا تھا یکدم ایس پی صاحب کا پروٹوکول دیکھ کر بوکھلا گیا تھا ۔

اس سے پہلے کہ وہ سب اپنی آنکھیں وانکھیں مل کر پوری طرح کھولتے وہ سیدھا اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں پہنچ چکا تھا چپراسی نے دروازہ تو کھول دیا مگر وہ سب شش وہ پنج کا شکار نظر آتے تھے ۔

"کیا بات ہے ابھی دفتری اوقات شروع نہیں ہوئے یہاں" سن گلاسز اتار کر اس نے ویران دفتر کا جائزہ لیا۔

"یس سر، اصل میں میڈم پچھلے لان میں بیٹھی ہیں ویسے تو وہ وقت پر آ جاتی ہیں مگر اس وقت انکے کوئی گیسٹ آئے ہوئے ہیں"

گو کہ وہ سب اسکے ماتحت نہیں تھے مگر وہ تھا تو ایک سرکاری محکمے کا سئنیر افسر نا اسی لیے انکی بوکھلاہٹ بجا تھی۔

"آپ تشریف رکھیے میں اطلاع کرتا ہوں "

اسے بصد احترام نشست پیش کی گئی تھی۔

" نہیں نہیں میں زیادہ وقت نہیں لونگا، بلکہ آپ مجھے بتائیں وہ کہاں بیٹھی ہیں مجھے؛ بس دو منٹ کا کام ہے" وہ کہتے ساتھ مزید بحث کا موقع دئیے بغیر دفتر سے باہر نکل چکا تھا اور اب اسکا اس دفتر کی عمارت کے عقب کی جانب تھاکیونکہ اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ بھی اسی. جانب گے جی یقینا وہ میڈم ابھی گھر سے نکلی ہی نا تھی۔

آجکل کے نوجوان امتحان پاس کر کے کرسی ملتے ہی خود کو شہنشاہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔افسر شاہی کے نرالے ہی انداز تھے ۔پبلک سروس کمیشن کا حصہ بننے والے پبلک سروس کے علاوہ ہر کام کرتے پائے جاتے تھے ۔

مگر وہاں پہنچ کر سامنے نظر آنے والا منظر اسکی توقع کے برعکس تھا۔

سر سبز لان کے بیچوں بیچ لکڑی کی کرسیوں کے درمیان ایک میز پر ناشتے کے شاہی لوازمات سجائے گئے تھے ۔جنکے ساتھ دو خواتین بھرپور انصاف کرنے میں مگن تھیں ۔

ایک ملازم بھاگتا دوڑتا ان سے پہلے پہنچ کر اطلاع دے چکا تھا اسی لیے ایک خاتون جو اسسٹنٹ کمشنر تھی وہ اٹھ کر حیرت زدہ سی اسکی جانب بڑھی تھی۔

"اسلام علیکم ویلکم"

وہ واقعی حیران تھی۔

شہر میں تعینات ایس پی کے بارے میں یقینا وہ بہت کچھ جانتی اور سن چکی تھی مگر وہ جانتی نہ تھی جو اسکی شہرت تھی وہ اس سے بڑھ کر تھا

"وعلیکم السلام.. سوری فار ڈسٹربنگ یو. ،وقت تو ہو چکا ہے مگر مجھے لگتا ہے میں زیادہ ہی جلدی آ گیا "

وہ گھڑی پر سرسری نگاہ دوڑاتا بظاہر مسکرا کر جتا رہا تھا۔وہ لڑکی بھی خجل سا مسکرائی

"نہیں نہیں،، بلکہ مجھے آپکا انتظار تھا پھر کچھ بہت اچھے دوست آ گئے تو یہاں بزی ہو گئی ۔"

اس نے ہمایوں کو نشست سنبھالنے کا اشارہ کیا اور اہلکاروں کو اسکی خاطر مدارت کا۔

" چلیے آپ لوگ کنٹینیو کیجیے میں زیادہ وقت نہیں لونگا،، یہ ایک چھوٹا ساتخفہ دانیہ نے بجھوایا ہے"

اس نے نفاست سے ویپ کی گئی کتاب اسکی طرف بڑھائی جو فورا سے پیچھے کھڑے اہلکار نے کمشنر صاحبہ سے لے لی تھی۔

"بہت شکریہ اسکی ضرورت نہیں تھی، ویسے میں تعارف کرانا تو بھول ہی گئی"

پھر وہ چونکی اپنی نہایت اچھی دوست گیسٹ کی طرف متوجہ ہوئی جو ایک نظر گردن موڑ کر گیسٹ کو دیکھنے کے بعد بے پرواہی سے پھر ناشتے میں مگن تھی ۔

"شیریں یہ ہمارے ایس پی صاحب ہمایوں جاوید خان ہیں.. ذکر تو بہت سنتے ہیں ہم سب نے آج مل بھی لو،. اور خان صاحب یہ شیریں خانم اس شہر کی سب سے ٹیلنٹڈ ینگ لائیر"

زوباریہ شریف (اسسٹنٹ کمشنر) نے ان دونوں کا تعارف کرایا ۔وہ لڑکی جو بقول شخصے شہر بھر میں سب سے زیادہ ٹیلنٹڈ تھی.. ایک سرسری سی مسکراہٹ اچھال کر پھر سے مگن ہو چکی تھی ۔

مگر ہمایوں کو اچھا خاصا جھٹکا لگا تھا ۔

ابھی کل ہی تو اس *بدتمیز لڑکی *سے ٹکراو ہوا تھا

اور وہ اتنا سرسری بھی نہیں تھا کہ وہ اسے ایک رات میں بھول جاتا۔

اور کل بھی وہ اسے دیکھی دیکھی لگ رہی تھی مطلب وہ پہلے بھی اس سے مل چکا تھا کہاں یہ یاد نہیں تھا۔


" گڈ ٹو یو مس شیریں صاحبہ"

چند پل میں وہ نارمل ہوکر بولا۔


"مجھے لگتا ہے تم پہلی بار مل رہی ہو خان صاحب سے؟"

زوباریہ نے ماحول کو کچھ بے تکلفانہ بنانا چاہا۔

"نہیں میرا تو روز کا آمنہ سامنہ ہوتا ہے ان پولیس تھانوں والوں سے"

وہ کندھے اچکا کر سرسری سے انداز میں بولی۔

" او ہاں یہ بھی ہے تم تو جاتی آتی رہتی ہو..خیر خان صاحب ناشتہ کریں گے یا چائے پئیں گے؟ "

" نہیں میں آپ لوگوں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا،، بس کئی دنوں سے سوچ رہا تھا آپ سے ملنے کا مگر مصروفیت کچھ ایسی رہیں.، اسی لیے نہیں آ سکا.، مگر دانیہ ناراض ہو رہی تھی اسی لیے میں نے آج اس کو ہر کام سے پہلے رکھا، میں نہیں چاہتا تھا مزید دن لگ جائیں "

وہ بھی کچھ ان فارمل انداز میں بیٹھتے ہوئے بولا۔

" مجھے امید ہے شیریں صاحبہ میرے دومنٹ بیٹھنے سے ڈسٹرب نہیں ہوں گی"

ہمایوں نے نوٹ کیا اب وہ ہاتھ روک کر کھا رہی تھی جبکہ پہلے وہ انہماک سے کھا رہی تھی۔

" اوکے زوباریہ میں اب نکلتی ہوں ابھی اور بھی نجانے کہاں کہاں کی خاک چھاننی ہو گی.. ایک حاضری تو میری روز کسی نا کسی تھانے کی لگنی ہوتی ہے..، پیشی سے پہلے ملزمان کو خود لینے جانا پڑتا ہے ورنہ پولیس والوں کی نیندیں ہی نہیں کھلتیں"

بظاہر سرسری انداز میں وہ بےزاری کا اظہار کر رہی تھی ۔مگر اسکا انداز اتنا عجیب سا تھا کہ ہمایوں کو وہ بدتمیز سی ہی لگی۔

(فضول لڑکیاں اللہ جانے کس دنیا میں رہتی ہیں)

وہ دل ہی دل میں مذاق اڑاتے ہوئے سوچ رہا تھا۔

" ہاں ٹھیک ہے پھر ملتے ہیں، جونہی کچھ ملا میں تمہیں کال کروں گی"

وہ دونوں اب الوداعی انداز میں سی آف کر رہی تھیں ۔پھر زوباریہ چند قدم اسکے ساتھ چل کر آگے گئی۔جب واپس آئی تو ہمایوں نے اپنی چائے ختم. کر دی تھی۔

"وکیلوں کو پولیس ڈیپارٹمنٹ سے شکایات ہی رہتی ہیں "

وہ شاید سچویشن کو نارمل کرنے کے لیے کہہ رہی تھی۔

" کوئی بات نہیں، ویسے ہماری تو یہی کوشش ہوتی ہے سارے سٹیک ہولڈرز کو لے کر چلیں اور کسی کو شکایت نہ ہو مگر یہ سب تو چلتا رہتا ہے،، خیر چھوڑیں"

وہ سرسری انداز میں بولا ویسے بھی وہ کوئی نیا نیا تو اس ڈیپارٹمنٹ میں نہیں تھا کہ بحث مباحثہ کرنے لگتا وہ اب اس تالاب میں تجربے کار ہو چکا تھا۔

اپنی اہمیت اور جگہ سے واقفیت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کے مقام سے بھی آگاہ تھا۔

اور دس منٹ بعد وہ جب اٹھ کر گیا. زوباریہ شریف واقعی اسکی شخصیت کی معترف ہو چکی تھی۔

اسکے بارے میں یہی سنا تھا کہ اس شہر میں پہلی دفعہ ایک ایسا پولیس افسر تعینات ہوا تھا جو محکمے کی شان تھا۔

اسکی ظاہری شخصیت اور رکھ رکھاو سے لے کر اسکا ڈسپلن.،فٹنس اور علاقے میں پولیس کی رٹ ان سب چیزوں میں نمایاں تبدیلی آئی تھی۔


اور آج اسکی وقت کی پابندی کی اضافی خوبی بھی ثابت ہوئی تھی۔

وہ غلط شہرت نہ رکھتا تھا ۔وہ یقینا اس سب کا حقدار تھا۔


_________-----__________


دن چڑھتے ہی وہ اپنا سامان پیک کر رہا تھا۔سب حیران تھے وہ جا کہاں رہا تھا۔

چچی نے پوچھا، جاوید چچا نے پوچھا، آیت بھی استفسار کر رہی تھی مگر وہ چپ رہا اپنے کپڑے بیگ میں ڈالے جوتے پہننے کے لیے پاس رکھے ۔موبائل فون اٹھایا اور اب وہ جانے کے لیے قریباً تیار تھا۔

ایفا گل تو ہونق بنی کھڑی تھی۔

"آپ جا کہاں رہے ہیں؟"

اسکے ذہن میں جو خدشات تھے وہ زبان پر نہ لا پا رہی تھی۔

اوپر سے حاطب کے سنجیدہ اور سرد تاثرات،، اسکا غصہ دوسروں کی طرح شعلہ جوالہ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت سرد تھا۔

اندر تک اتر جانے والی بے رخی لیے ہوئے ۔

"آپ لوگ فکر نہیں کریں،، میں کچھ دنوں کے لیے پنڈی جا رہا ہوں،، آپ لوگ بھی جا کر اپنا اپنا کام کریں،، اور تم بھی جاو "

آخر میں اس نے ایفا گل کا نام لیے بغیر اسے مخاطب کیا تھا ۔

"ٹھیک ہے عفی تم جاو. ،کچن میں جا کر دیکھو میں نے چائے رکھی تھی "چچی نے اسے منظر سے غائب کرنا چاہا۔

اتنا تو انھیں بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ حاطب اسکے ساتھ بلکل بھی خوش نہیں ہے

اور یقینا اسکے اس طرح سے گھر سے جانے کی وجہ بھی وہی تھی۔

وہ ڈرتی ڈرتی چپ چاپ باہر نکل آئی۔

" تو بیٹا عفی کو بھی لے جاو چند دن گھوم پھر آو، تھوڑا ذہن بھی بدل جائے گا تمہارا"

جاوید چچا نے اسے آئیڈیا دیا۔وہ کمرے سے جا چکی تھی۔مگر اسکے کان یہیں رہ گئے تھے وہ نجانے کیوں مگر حاطب کا جواب سننا چاہتی تھی

"نہیں میں بس اس سب سے نجات چاہتا ہوں، یونٹ سے چھٹی ہے جب تک تب تک وہیں رہوں گا"

وہ بہت بیزار نظر آتا تھا۔

جوتے چڑھائے۔

بیگ اٹھایا اور ماں باپ کو فکر مند وہیں چھوڑ کر باہر نکل آیا۔

جبکہ وہ جو اپنی جگہ ڈری ہوئی تھی اس اچانک افتاد پر مزید خوفزدہ ہو گئی۔

ناراض تو وہ اس سے بھی تھے۔اب نجانے کیوں جا رہے تھے۔اسکا دم گھٹنے لگا تھا ۔

بجائے کچن میں جانے کے وہ باہر لان میں نکل آئی۔

ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑتی وہ ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی جب وہ وہاں نمودار ہوا ۔اسے دیکھ کر جہاں عفی کو بریک لگے تھے وہیں وہ بھی چونکا پھر رک گیا۔

وہ بھی بے دھیانی میں آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

ہوش تب آیا جب وہ اسکے بلکل قریب آن رکا تھا۔

"فکر مت کرو"

بلکل غیر متوقع طور پر حاطب نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔

وہ اسکے لیے تیار نہیں تھی شاکڈ رہ گئی ۔آنکھیں باہر کو ابلیں۔

"تمہیں اب مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں.. یہ ال مینرڈ اور وحشی شخص اب مزید تمہیں ٹارچر نہیں کرے گا.. اور" پھر وہ کچھ کہتے کہتے رکا اسکا ہاتھ ہلکے سے دبا کر چھوڑ دیا ۔

جبکہ ایفا گل کی حالت تو مانو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی ہو رہی تھی۔

"اب تم رات کو سکون سے سو سکو گی.. "

آخر میں وہ کچھ دلگرفتگی سے بولتا واپس مڑ گیا تھا۔

_________--_________

"میری بات سنیں"

وہ شاک سے نکلی تو اسکے پیچھے بھاگی تھی اور اسے بیرونی دروازے پر جا لیا۔

"آپ کیا میری وجہ سے جا رہے ہیں؟"

وہ شکل سے ہی ہونق لگتی تھی۔حاطب نے کندھے اچکا کر اسے دیکھا۔

"لیکن کیوں اب میں نے کیا کیا ہے؟"

اسکی آنکھیں ویران نظر آتی تھیں ۔جو کہ حاطب پر جمی تھیں ۔

"نتھنگ،"

وہ بمشکل یہی کہہ سکا۔مگر ایفا گل کو یوں کہنا بھی اسکی ناراضی ہی محسوس ہوا۔

" حاطب آپ کا غصہ کم کیوں نہیں ہو رہا، اب تو جو ہونا تھا ہو گیا، چلی گئی وہ منحوس عر۔۔۔"

پھر اس نے اپنے الفاظ کو بریک لگائے۔

کتنی دفعہ تو وہ اسے سمجھا چکا تھا کہ عروہ کا نام نہیں لینا۔

"میرا غصہ ختم ہو چکا ہے.، اور تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں."

اس نے رخ پھیرتے ہوئے فارمل سے انداز میں کہا۔

" لیکن پھر آپ کیوں جا رہے ہیں؟ "

وہ پچگانہ انداز میں منھ بسور کر بولی۔

"کیا تم چاہتی ہو میں تمہارے ساتھ رکوں؟"

حاطب نے مڑ کر اسے دیکھا،، یہ سوال پوچھتے اسکا انداز سپاٹ تھا مگر ایفا گل چونکی تھی ۔

پھر سٹپٹا کر رہ گئی ۔

"نہیں نا. ،میں بس یہ چاہتی ہوں ۔۔۔"

" ٹھیک ہے اگر تم ایسا نہیں چاہتیں تو اندر جاو اور سکون سے رہو،،"

وہ اسکی بات کاٹتا خفا سے لہجے میں کہتا مڑ گیا تھا۔عفی کو پھر سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔


"اچھا سوری "

مگر وہ جا چکا تھا اس نے شاید سنا ہی نہیں ۔

وہ اس وقت جس مورل سپورٹ کی تلاش میں تھا وہ اسے یہاں سے کم از کم نہیں ملنے والی تھی۔اور اس بات کا اسے یقین سا ہو چلا تھا۔

اب اسے زندگی کو نارمل ڈگر پر چلانے کے لیے اپنے اندر ہی سے موٹیویشن نکالنی تھی۔

اور اسکے لیے بہتر بھی یہی تھا ۔

بعض اوقات برائیوں کے بعد اچھائی بھی اپنے اندر ہی سے مل پاتی ہے۔

جہاں انسان میں بے شمار برائیاں اور کمزوریاں ہیں وہیں اسی انسان میں بے شمار خوبیاں اور طاقت بھی موجود ہے۔بس ہمیں آگاہی نہیں ہوتی۔

نہ اپنی اچھائیوں کی نہ برائیوں کی۔

اور بہترین موٹیویشن وہی ہوتی ہے جو انسان کے اپنے اندر سے نکلتی ہے۔


پیچھے ایفا گل اسے خفگی سے دیکھتی رہ گئی.. مگر وہ اس بے وقعت انتظار میں اکیلی نہیں تھی،. وہ بے نام سی بلی بھی وہیں کھڑی تھی اور اب اداس نظر آتی تھی ۔

________----_________


"شیریں خانم،کیا آج تم کورٹ نہیں جاؤ گی؟"

وہ سستی سے بستر پر دراَز تھی جب دادا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسکے کمرے میں پہنچے ۔

"آوں؟. ،ہاں جاؤں گی"

وہ غنودگی میں تھی جبکہ عموما وہ صبح سویرے اٹھ جاتی تھی۔

"تو اٹھو ہاتھ منھ دھو کر ناشتہ بناو، مجھے تو بھوک لگ رہی ہے "انھوں نے کھڑکی سے پردے ہٹائے تا کہ سورج کی روشنی اندر آ سکے۔

"نا کریں نا،،"

سنہری دھوپ کی کرنیں چہرے پر پڑنا اسے ناگوار گزرا تھا۔

"اٹھ جاو لڑکی دن آدھا گزر گیا ہے، اٹھ کر کام کاج کرو، بزرگ کہتے ہیں دیر سے اٹھنے والے کے دن سے برکت ختم ہو جاتی ہے "

شمشاد خان کی اپنی ہی ایک سائنس تھی۔

"اچھا اٹھ گئی ہوں اب آپ بھی جائیں اور جا کر ناشتہ بنائیں."

وہ کچھ تنگ آ کر بولی۔

درحقیقت وہ. جانتی تھی دادا کو اسکا دن چڑھے تک سونا پسند نہیں اور اپنی ناپسندیدگی کو وہ بزرگوں کے فرمودات کی صورت میں حسب موقع و توفیق اس تک پہنچاتے رہتے تھے۔

"کیا میں ناشتہ بناؤں؟ "

شمشاد خان کو اچھا خاصہ جھٹکا لگا۔

" ہاں تو اور کون آپکی بہو بنا کر جائے گی کیا؟"

وہ طنزیہ بولی،

"بھئی خدا کا خوف کرو میری بھلا عمر ہے اب کام کاج کی، مجھ سے اس عمر میں چلا نہیں جاتا تم کام کاج کرنے کا کہہ رہی ہو"

شیریں کی خدمت گزاری نے انھیں آرام پسند بنا دیا تھا ورنہ ساری زندگی وہ صبح اپنے لیے خود چائے بناتے رہے تھے۔

اب بھی سہولت سے اسکی بکھری چیزیں سمیٹنے لگے۔

مجبوراً وہ بھی اٹھ گئی تھی۔

" کیا ہو گیا ہے دادا؟ وہ شہزادے فیلپ کو دیکھا ہے آپ نے بڈھا سو سال کا ہو گیا ہے مگر پھر بھی جوان جہان لگتا ہے، بلکہ پرنس چارلس سے تو زیادہ ہی جوان لگتا ہے،، آپ تو اسکے مقابلے میں ابھی بہت چھوٹے ہیں"

شیریں نے زیادہ عمر کا بہانہ قبول نہیں کیا تھا ۔

فورا انھیں بوڑھوں کی مثالیں دیں جیسے وہ شیریں کو دوسروں کے جوان بچوں کی مثالیں دے کر شرم دلانے کی کوشش کرتے تھے۔

" ہک ہاہ اسکی تو بیوی بھی زندہ ہے،، زندگی کا ساتھی ساتھ ہو تو انسان بوڑھا نہیں ہوتا۔تمہاری دادی بھی اگر زندہ ہوتی تو مجھے بوڑھا نہ ہونے دیتی"

انھوں نے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے مرحومہ بیوی کو یاد کیا۔شیریں جو واش روم میں جا چکی تھی وہیں سے واپس ہوئی۔

"خدا کا خوف کریں شمشاد خان، خوب جانتی ہوں آپکی مرحومہ بیوی کتنے لاڈ پیار اور نخرے اٹھاتی تھیں آپکے..، بلکہ چند ایک بار کی تو میں خود بھی گواہ ہوں،، شکر کریں وہ جلدی جہان فانی سے کوچ کر گئیں ورنہ اب تک انھوں نے بھلے چنگے ہونا تھا اور آپ بستر پر بے آدھ پڑے ہوتے اور ہمیں آپکی وہیل چئر دھکیلنی پڑتی"

کسی کا خوش فہمی میں رہنا تو اسے ہرگز گوارا نہیں تھا فورا انکی اچھی یادوں پر اپنی شیریں بیانی سے تیزاب پھینک دیا ۔لگی لپٹی رکھنا تو اسے آتا ہی نہ تھا شاید۔

،" آپ شیریں خانم کاش تم پر اپنے نام کا ذرا سا اثر ہوتا نام تمہارا شیریں ہے اور بولتی تم زہریلا ہو "


وہ مایوس ہوتے فورا وہاں سے نکل آئے مبادا وہ مزید انکی مرحومہ بیوی کی شان میں قصائد پڑھتی۔

(یہ لڑکی کسی کو جھوٹی ہی سہی خوشی محسوس کرتے دیکھ نہیں سکتی۔)

انھوں نے اپنی بیوی کے خیال سے سرگوشی کی اور دھوپ میں اخبار لے کر آ بیٹھے۔ناشتہ تو شیریں خانم کو ہی بنانا تھا۔

وہ تو ویسے بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے اور اب اس شیریں بیانی کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

"شیریں میرا دل حلوہ کھانے کو چاہتا ہے، ایسا کرو تھوڑا سا حلوہ بھی بنا دو"

انھوں نے غیر دانستہ طور پر شیریں کی باتوں کا بدلہ لیتے ہوئے اپنی فرمائشی لسٹ سامنے کی تھی۔

وہ بڑبڑاتے ہوئے حلوہ بنا رہی تھی۔

آج مولوی صاحب کے بیٹے کے کیس کی ہیرنگ بھی تھی اور اسے امید تھی وہ یا تو کیس جیت جائے گی یا پھر کیس ختم ہو جائے گا۔

عنصر چرسی کی جان جس طوطے میں بند تھی وہ طوطا اسکے ہاتھ لگ گیا تھا ۔جس میں وہ مولوی صاحب کے بیٹے اور گھر والوں کے متعلق اپنے قبیح خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔.

بس اب پولیس والوں کو ہینڈل کرنا تھا۔

اور اس میں وہ خاصی مہارت حاصل کر چکی تھی ۔

باقی دادا کے ساتھ اسکی یہ دلی لگی چلتی رہتی تھی۔

مگر اسے احساس نہ تھا وہ اسکے دادا تھے پیارے دادا ۔جنکی جان شیریں خانم میں بسی تھی وہ اسکی یہ زہر افشانی برداشت کر لیتے تھے۔

دوسروں کی ایسی کوئی مجبوری نہ تھی۔

بعض اوقات انسان کی زبان اسے برا پھنساتی ہے وہ بھی پھنس سکتی تھی مگر ابھی اسے اس بات کا ادراک نہیں تھا۔

___________---___________


"میں سوچ رہا تھا اسلام آباد کا چکر لگا لیں،"

فرحت نے آج کافی دنوں بعد فلور مل کا چکر لگایا تھا۔

نئی اور پرانی دونوں آٹا ملیں اسی کے زیر انتظام تھیں ۔دیوان کو بس نت نئے کام. شروع کرنے کا شوق تھا کچھ عرصہ بعد اسکا شوق پورا ہو جاتا اور اسکا پھیلایا گیا پھیلاو فرحت کو سمیٹنا پڑتا۔

تین سال پہلے اس نے اپنی فلور مل شروع کی تھی. جسکو وہ دونوں مل کر دیکھتے رہے تھے۔

اور چند ماہ پہلے اس نے ایک فلور مل خریدی بھی تھی۔

اب جبکہ دونوں ملیں چل پڑی تھیں تو دیوان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔اسکا سارا دھیان سیاست کی طرف تھا۔ساتھ ساتھ اس نے ایک دوست کے ساتھ گاڑیوں کے کاروبار میں بھی شراکت کر رکھی تھی۔

مگر پچھلے چند دنوں وہ لوگ شادی میں شرکت سے بچنے کے لیے اور بعد میں ایفا گل کی اچانک شادی وغیرہ کے معاملات میں اتنے الجھے تھے کہ اس سب سے نکل ہی نہ سکے۔اب سب کچھ قدرے معمول پر آ گیا تھا۔تو انکی کاروباری و سیاسی مصروفیات بھی جاگ گئی تھیں ۔

"اب کیا ہے اسلام آباد میں؟"

دیوان نے موبائل سے سر اٹھا کر مصروف انداز میں دریافت کیا۔

"کچھ خاص نہیں،، مگر سجاد چچا والی کہانی کا تو پتہ چلے.. آخر یہ سب چل کیا رہا ہے؟

" تمہیں کیا ٹینشن ہے وہ جانیں اور انکے کام، کیا انھوں نے تمہیں اس میں انوالو کیا ہے؟؟

ویسے بھی کل گئے ہوئے تو تھے وہ لوگ ، غالبا اسلام آباد میں ہی تھے۔کیونکہ ڈرائیور بتا رہا تھا کہ انھوں نے اسلام آباد جانے کا کہا تھا۔"

اسکا دھیان کہیں اور تھا اسی لیے وہ اس بات کو سرسری لے رہا تھا ۔

"کیا تم کسی عورت کے چکر میں پڑے ہوئے ہو؟ "

فرحت نے اسے مسلسل موبائل فون میں گم دیکھ کر مشکوک نظروں سے گھورتے پوچھا ایک پل کو وہ چونکا پھر قہقہہ لگایا ۔

" ارے نہیں،، بھائی کو بتائے بغیر کیسے پڑ سکتا ہوں"

وہ ڈھٹائی سے آنکھ دبا کر بولا۔

"پھر موبائل کی جان کیوں نہیں چھوڑ رہے تم"

وہ ایک دوسرے کو نا صرف جانتے تھے بلکہ اچھی طرح پہچانتے بھی تھے۔اور دیوان کی عادات سے فرحت سے زیادہ کوئی بھی واقفیت نہ رکھتا تھا۔

"یار ایک پرانا دوست ہے،، بہت عرصے بعد رابطہ ہوا"

اس نے فرحت کی ناپسندیدگی پر اب موبائل ایک طرف رکھ دیا تھا۔


" سجاد چچا بے غیرت بن کر بیٹھ سکتے ہیں مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم سب بے غیرت بن جائیں ۔بے شک وہ ہمیں انوالو نہیں کرتے مگر لوگ جب باتیں کریں گے تو سب کے لیے کریں گے "

اسکے ذہن میں جو چل رہا تھا وہ دیوان سمجھ سکتا تھا۔

وہ ایسا ہی تھا۔

"اچھا ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں، چلیں گے نیکسٹ ویک میں کبھی، ابھی تو میں شیخوپورہ جانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں "

وہ نادانستہ طور پر پھر سے موبائل فون میں مگن ہو گیا۔تو فرحت نے بھی اپنا کام نبٹھانے کی طرف دھیان دیا۔

" کس لیے؟ "

"ایسے ہی،، سوچ رہا ہوں عفی کو دیکھ آؤں پتہ نہیں اسکا دل بھی لگا ہو گا یا نہیں "

وہ سرسری انداز میں بولا۔کچھ دیر کے لیے وہاں خاموشی چھا گئی تھی۔

فرحت کو قلبی طور پر اس بات میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔

"کیا تم جاوید چچا کے گھر جاؤ گے؟"

بہت دیر بعد فرحت نے سوال کیا تھا۔

اسکا انداز محتاط تھا۔

" پتہ نہیں،، مگر جانا ضروری ہے. ابا جی تو نہیں جائیں گے،، کہ بیٹی کے گھر جانا انھیں مناسب نہیں لگتا،، مگر کسی کو تو جانا ہو گا نا"

وہ سنجیدگی سے بولا۔

فرحت نے مزید نہیں کریدا

جانتا تھا وہ اس موضوع پر گفتگو نہیں کرے گا۔

____________----___________


وہ اپنے ابا جی.، امی جی اور بھائیوں کو بے تحاشہ یاد کر رہی تھی۔مگر پھر بھی وہ اداس نہ ہوئی تھی مگر اس رات نجانے کیوں وہ بہت اداس تھی۔

ایک بے نام سی اداسی تھی۔

جسکی وجہ سمجھنے سے وہ قاصر تھی۔

آیت، چچا اور چچی کے ساتھ وہ بظاہر سارا دن بہت مصروف رہی تھی..، پھر بھی اداسی قائم تھی۔

عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وہ تسبیح ہاتھ میں لیے لان میں آ گئی.، سب تھکے ہوئے تھے سو چکے تھے

ہمایوں آج بھی گھر واپس نہ آیا تھا۔

ایفا گل کو لاشعوری طور پر اسکا بھی انتظار تھا مگر وہ جانتی نہ تھی وہ ایسا ہی تھا ایک ہی شہر میں ہونے کے باوجود وہ کئی کئی دن گھر نہ آتا تھا۔

اسکے لان میں آتے ہی نیم اندھیرے میں ہلچل ہوئی تھی اور یکدم اسکی چیخیں نکل گئیں ۔

کوئی چیز اسکے پیروں میں آ گری تھی۔

"افف میرے اللہ"

منھ پر ہاتھ رکھ کر اس نے اپنی خوف زدہ چیخوں کا گلا گھونٹا۔اور آگے پیچھے دیکھا ۔وہ چمکتی سرمئی آنکھیں کچھ فاصلے پر اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔

"او بلی یہ تم ہو،. تم نے مجھے ڈرا دیا تھا.. کیا تم مجھے مارنا چاہتی تھیں"

بے ساختہ سکون کا سانس خارج کیا۔

" کیا ہوا بچے؟"

جاوید چچا شاید اسکی چیخ سن کر آئے تھے۔

وہ چونکی۔

"جی نہیں کچھ نہیں یہ بلی مجھ پر گر گئی تھی.، میں ڈر گئی"

دوسری بات اسکے چہرے سے ظاہر تھی۔بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔

" تو تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟ "

وہ بھی مطمئن ہو گئے تھے۔

"کچھ نہیں میں تسبیح پڑھ رہی تھی تو سوچا کھلی ہوا میں بیٹھ جاؤں کچھ دیر"

گو کہ اندر ہی اندر اس نے یہ ارادہ منسوخ کر دیا تھا اور اب کمرے میں جانے کے پر تول رہی تھی۔

"او اچھا،، مگر اس وقت بہتر ہے تم کمرے میں جاؤ کیونکہ یہاں مچھر ہوتے ہیں اور یہ دروازہ اندر آ کر بند کر دینا"

وہ اسے ہدایت اور تاکید کرتے واپس ہو لیے۔تو عفی نے بھی ہوا خوری کے خیال پر مٹی ڈالتے ہوئے شکوہ کناں نظروں سے حاطب کی بلی کو دیکھا جس نے اسے ڈرا دیا تھا۔

پھر وہ کمرے میں آ گئی ۔البتہ اس سارے واقعے نے اسکی اداسی کو وقتی طور پر پس پشت ڈال دیا تھا۔وہ اطمیان سے سو گئی۔


اگلے دو تین دن بہت اداسی بھرے تھے. سب گھر والے بہت عجیب تھے انکی لگی بندھی روٹین تھی۔کسی کے پاس بھی فالتو وقت نہیں تھا۔اور شاید وہ سب اتنے مگن تھے کہ انھیں یہ بھی احساس نہیں تھا کہ انکے ساتھ ایک ہفتے کی دلہن بھی ہے جو اتنی اچانک اپنے ماں باپ سے دور ہو گئی ہے۔

عفی کے پاس اور تو کرنے کو کچھ نہیں تھا وہ بس ٹی وی دیکھتی رہتی۔کیونکہ یہاں ٹی وی دیکھنے کی آزادی تھی۔جبکہ گھر میں تو ابا شام سات سے نو بجے تک ٹی وی لگاتے تھے، انھیں زیادہ ٹیلی ویژن پر وقت ضائع کرنا پسند نہیں تھا نتیجتاً گھر میں کوئی بھی ٹی وی آن نہیں کرتا تھا۔


ہمایوں آیا تو اسے حاطب کی غیر موجودگی کا علم ہوا وہ بہت خفا ہوا تھا۔اس نے چچی کے ساتھ بحث بھی کی۔

عفی کچن میں اسکے لیے کھانا گرم کر رہی تھی لاؤنج میں وہ دونوں ماں بیٹا الجھ رہے تھے۔

"مجھے سمجھ نہیں آتی تم کیوں اتنا سر پر سوار کر رہے ہو اس بات کو"

چچی نے جھنجلا کر کہا۔

"ماما جب وہ جا ہی رہا تھا اور انکی پری بکنگز بھی تھیں تو ایفا گل کو بھی ساتھ لے جاتا.، اس طرح اکیلا جانے کا کیا تک ہے وہ بھی شادی کے چار روز بعد"

"میں بتا تو رہی ہوں اس نے ہمیں بھی کچھ نہیں بتایااور وہ کوئی گھومنے پھرنے تھوڑی گیا ہے فری کے پاس گیا ہے اور اچھا ہے اسکا ذہن بدلے گا"

ماما شاید مطمئن تھیں مگر ہمایوں کو کون مطمئن کر پاتا؟

" تو یہی تو میں کہہ رہا ہوں،، اسے بھی ساتھ لے جاتا تو اسکا ذہن بھی بدل جاتا اور وہ سب فضولیات بھی بھوک جاتا وہ،، اور آپ نے اٹھا کر اکیلے بھیج دیا اسے "

" ہمایوں دوسروں کی زندگیوں میں انٹر فئر کرنا چھوڑ دو جس طرح تم اپنے سارے فیصلے خود کرتے ہو اسے بھی حق ہے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے.، اور ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں وہ خوش نہیں اس سب سے بس وقت اور حالات سے مجبور ہو کر اس وقت وہ مان گیا تھا ورنہ وہ کبھی اس قسم کی شادی کے لیے نہ مانتا..، "وہ نجانے کیا سوچ کر. مطمئن سی بولیں

" کیا مطلب کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ،، کسی نے بھی ایسا سوچا نہیں تھا مگر اب جو ہونا تھا ہو گیا.. تو اسکو مزید ابنارمل کیوں بنایا جائے "

" ہمایوں میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اسکا کوئی فائدہ نہیں،، اگر میں تمہیں گھنٹہ بھر بھی سمجھاتی رہوں تو بھی بے ثمر ہے ایک گھنٹے بعد بھی تم وہی کہو گے جو اب کہہ رہے ہو.. مگر تم اس معاملے میں مت پڑو،. وہ عفی کو پسند نہیں کرتا، وہ بہت پریشان ہے اور اسکا دل بھی دکھا ہوا ہے میں نہیں چاہتی کہ ہم اس لڑکی کو اسکے سر پر اتنا سوار کر دیں کہ وہ خود سے اور ہم سب سے بھی بیزار ہو جائے "

بس ہاتھ جوڑنے کی کسر باقی تھی ورنہ تو وہ عاجز تھیں

" ماما کیا ہو گیا ہے، وہ جسے آپ لڑکی کہہ رہی ہیں اب بیوی ہے اسکی. ،اور یہ بات اب آپکو سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اسکی ذمہ داری ہے "

وہ چبا چبا کر بولا۔

" ہاں میں جانتی ہوں مگر وہ یہ سمجھنا نہیں چاہتا تو کیا کروں، وہ اسے بیوی کے طور کر قبول نہیں کرتا،، تم بھی کوئی بچے نہیں ہو،، جس وقت ہم آئے وہ یہاں لاؤنج میں سو رہا تھا.. اور ان باتوں کا کیا مطلب ہے تم جانتے ہو سب.."

اور یہ تو وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ایفا گل اور حاطب کا ریلیشن شپ کس پوائنٹ پر تھا۔مگر پھر بھی اسے اس امر میں کوئی بھلائی نظر نہ آ رہی تھی۔

" ہاں تو وقت لگتا ہے چیزیں نارمل ہونے میں،، مگر اسے اسکے فرائض کا احساس دلانا آپکا کام ہے،، آپکو چاہیے کہ اسے سمجھاتیں.. شادی کی ہے اس نے چاہے جیسے بھی سہی اور شادی کوئی مذاق نہیں"

وہ اپنے موقف پر ڈٹا ہوا تھا ۔

عفی چپ چاپ انکی آوازیں سن رہی تھی کچھ باتوں کی سمجھ آ رہی تھی جبکہ کچھ کی نہیں آ رہی تھی۔مگر وہ جانتی تھی موضوع گفتگو وہ اور حاطب ہی ہیں ۔

اور وہ اسی لیے سہمی ہوئی بھی تھی۔

" ایک بات بتاو ہمایوں ویسے تو کوئی مرے جئے تم نے کبھی پرواہ تک نہیں کی.. اس معاملے میں اتنا فکر مند کیوں ہو تم کہ تمہیں ہم سب ہی غلط لگ رہے ہیں؟"

انھوں نے سب باتوں کو بھول کر بغور ہمایوں کا بیزار سا چہرہ دیکھا تھا ۔

جو اب چونک کر انھیں حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ 

حاطب کو گئے پانچ روز ہو چکے تھے سب اپنی اپنی سابقہ مصروفیات میں مگن تھے، جاوید چچا کا دفتر اور شام میں وہ قریبی پارک چلے جاتے، دانیہ اسلام آباد میں کسی مقابلے کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھی۔چچی دکھنے میں بھلی چنگی تھیں مگر انھیں خرابی صحت کی شکایت رہتی تھی، وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں نیم دراز پڑی رہتیں یا باہر نکلتیں تو کچھ دیر ٹیلی ویژن دیکھنے میں گزارتیں، صفائی وغیرہ اور کپڑے وغیرہ دھلوانے کے لیے ایک جز وقتی کام والی رکھی تھی۔آیت ایف ایس سی میں تھی وہ کالج سے واپس آتی اور پھر ایک اکیڈمی چلی جاتی وہاں سے آتی تو دوسری اکیڈمی کی طرف بھاگتی اسکی یہی بھاگم بھاگ سی روٹین تھی ۔ہمایوں تو گھر بار سے لا پرواہ تھا

"ایفا گل کھانا تو لا دو"

ابھی بھی وہ آیا تو منہ ہاتھ دھو کر کھانے کی درخواست کی ۔وہ سعادت مندی سے سر ہلاتی باورچی خانے کو سدھاری ۔

"ارے واہ آج کوئی خصوصی اہتمام تھا کیا؟"

اپنے سامنے سجے سلاد، رائتہ کا چھوٹا سا باؤل، بریانی اور کسی سبزی کے سالن کی اشتہا انگیز خوشبو کو سونگھتے ہوئے وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

"نہیں تو"

عفی نے حیرت سے کندھے اچکائے،بھلا ہمایوں بھائی کو ایسا کیوں محسوس ہوا تھا۔

" پھر اتنے ادب و احترام کے ساتھ رائتہ سلاد کیوں سرو کیا گیا یے مجھے؟"

یہاں اس گھر میں کھانے کا اہتمام کوئی خاص نہ ہوتا تھا، سادہ سا کھانا بنتا جو بس زندہ رہنے کے لیے کھا لیا جاتا تھا، ہمایوں تو عموما پولیس لاینز میں ہی رہتا اور کھاتا پیتا تھا، گھر پر تو اسکی ٹائمنگ اتنی آڈ ہوتیں کہ اسے گرم کھانا بھی مل جانا ایک نعمت ہی تھی ۔

"آپ بیٹھیں کھانا کھائیں تب تک میں چائے لاتی ہوں"

وہ اپنے گھر کی روایت کے مطابق اسے ہر چیز پہنچانے کی فکر میں تھی ۔

اسکی ضرورت نہیں تم بیٹھ جاو"

اس نے منع کر دیا مگر وہ ایفا گل ہی کیا جو کسی کی بات سمجھ جائے"

وہ بضد تھی کہ چائے بنا کر دے گی۔

"حاطب کی کال آئی؟ "

جب وہ چائے لائی تو ہمایوں بھائی نے چھوٹتے ہی پوچھا

عفی کے لیے یہ سوال خاصہ غیر متوقع تھا اسے کیوں کال کرتے بھلا؟

"پتہ نہیں شاید جاوید چچا یا چچی کو کال کی ہو".

" میں ابھی چیک کرتا ہوں اسے"

وہ موبائل جیب سے نکالنے لگا ۔ایفا سے اسی بات کی امید تھی ۔

سلام دعا کے بعد اس نے سیل فون ایفا گل کی طرف بڑھا دیا وہ جو بہت دھیان سے ہمایوں کی بات اور اسکے تاثرات دیکھ رہی تھی چونکی ۔پھر ہونق پن سے ہمایوں کو دیکھا

" جب تک میں کھانا کھاتا ہوں تم بات کر لو" وہ بظاہر مصروف تھا ۔

دوسری جانب حاطب سٹپٹا کر رہ گیا وہ انکار کر رہا تھا مگر ہمایوں نے سنا ہی نہیں ۔

"سلام علیکم"

ایفا گل کی تو زبان ہی جھکڑی گئی تھی۔

مجبوراً حاطب نے ہی سلامتی بھیجی ۔

"وعلیکم سلام"

"کیسی ہو؟.، ایفا گل؟"

ان چاہی گفتگو کو گھسیٹنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے اس پل کوئی حاطب جاوید سے پوچھتا ۔


"جج.، جی میں اچھی ہوں"

وہ ہکلا کر رہ گئی ۔دل کی دھڑکن بے ہنگم ہوئی۔

"ہممم"

اب اس سے زیادہ اسکے پاس وضع نبھانے کو بھی کوئی بات نہیں تھی "آپ کیسے ہیں؟"

چند پل پر بعد اسکا دل نارمل ہو چکا تھا۔

"میں بھی اچھا ہوں"

وہ پتہ نہیں کس لہجے میں بولا تھا ۔چند پل کے لیے پھر سے خاموشی چھا گئی ۔ہمایوں کھانے کے خالی برتن اٹھا کر دبے پاؤں کچن کی جانب چلا گیا۔خاموشی کا وقفہ اس مرتبہ زیادہ طویل تھا مگر کسی نے بھی کال ڈس کنیکٹ نہیں کی۔

حاطب نے ہی تنگ آ کر اس وقفے کو ختم کرنے کو کال کاٹنے کا ارادہ کیا۔مگر اسکے الفاظ منھ میں ہی رہ گئے اسی پل ایفا گل بولی تھی ۔

"چلو ٹھیک۔۔۔۔"

"آپ واپس کب آئیں گے؟"

یہ استفسار اس بار حاطب کو لاجواب کر گیا۔

"کیوں؟ تمہیں کوئی کام ہے مجھ سے یا میری یاد ستا رہی تھی۔"

آخر میں وہ خفیف سا استہزائیہ ہنسا۔

"نن نہیں ایسی بات نہیں،. وہ آپکی بلی بھی آپکو ڈھونڈنے آتی ہے"

وہ بونگی سی وضاحت دیتے ہوئے بولی۔

" اچھا میری بلی کی وجہ سے تمہیں میری فکر ہو رہی تھی"

وہ طنزیہ بولا مگر ایفا گل محسوس نہ کر سکی ۔

" ہاں اصل میں اسکا نام بھی سوچ لیا ہے میں نے؟"

وہ کچھ جوش سے بات کر رہی تھی جیسے چاہتی ہو حاطب خود پوچھے ۔

گفتگو میں ایک اور خلا پیدا ہوا مگر اس دفعہ وہ زیادہ طویل نہیں تھا ایفا گل منتظر سی چپ تھی ۔

حاطب نے مجبور ہو کر اسکے انتظار کو ختم کیا۔

"کیانام سوچا؟"

" لنساء "

وہ سارے جہان کا جوش اپنی آواز میں بھرتے ہوئے بولی ۔

"اچھا ہے،. اوکے ایفا گل اپنا خیال رکھنا میں اب فون رکھ رہا ہوں"

"آپ بھی اپنا خیال رکھنا، اور میں آپکی بلی کا خیال رکھوں گی"

اسی پل کال ڈس کنیکٹ ہو گئی یقینا اس نے ایفا گل کے الوداعی الفاظ نہیں سنے تھے ۔

اگر سن لیتا تو بھی کچھ خاص فرق نہ پڑتا اس نے اب خود کو سنبھال لیا تھا، اب اسے کسی کی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔

مگر اسکا نقصان ایفا گل کو تھا وہ سب کے ساتھ ساتھ اس سے بھی دور چلا گیا تھا ۔

قریب ہونے سے قبل ہی فاصلے بڑھ گئے تھے ۔مگر وہ دونوں ہی اظہار سے قاصر تھے ۔

ایفا گل سمجھتی نہ تھی اور حاطب خود کو مزید سمجھا نہ سکتا تھا ۔

ہمایوں البتہ اسکی بلی کا خیال رکھنے والی بات سن کر سر پکڑ کر رہ گیا۔

تنہائی مسیر کرنے کا یہ مقصد تو قطعی نہیں تھا۔

خیر وہ اس سے زیادہ کچھ کرنے سے قاصر تھا ۔


________________


شیر زمان صاحب نے اسے اپنے آفس میں بلایا تھا،. وہ کچھ حیران ہوتی انکے سامنے حاضر تھی، مصروف سے شیر زمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو نظر کی عینک اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی۔

"آو آو شیریں خانم"

"السلام علیکم"

وہ سلام کرتی انکے عین سامنے کرسی پر نشست سنبھال چکی تھی۔انھوں نے سر کی جنبش سے جواب دیا

"شیریں خانم کیا تم جانتی ہو ایک اچھے اور پروفیشنل وکیل کی کیا نشانیاں ہوتی ہیں؟"

شیرزمان جو اسکے باپ کی دوسری بیوی کے بھائی تھے اس شہر کی سب سے بڑی لاء فرم کے مالک بھی تھے ۔

"جی جانتی ہوں،. مگر بہتر ہے آپ بتائیں "

وہ جانتی تھی یقینا اس سوال کے پس منظر میں کوئی خاص وجوہات تھیں۔

کچھ کچھ اسے اندازہ بھی تھا ۔یقینا دادا جان نے اسکی شکایت کی ہو گی؟

"اوکے ویسے تو آپکو پتہ ہو گا مگر میں دہرا دیتا ہوں

اول کہ وہ کبھی اپنے موکل سے چائے پانی نہیں پیتا، بلکہ وہ اپنی فیس پروفیشنل انداز میں لینا پسند کرتا ہے ۔

دوم وہ کبھی اپنے موکل کے ساتھ سفر نہیں کرتا بلکہ اپنی سواری پر سفر کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ گولیاں جب چلتی ہیں تو فرق نہیں کرتیں ۔"

انھوں نے وقفہ لیا۔

"آگے تم بتاو "

پھر شیریں خانم کو بتانے کا کہا۔

" ایک اچھا وکیل پوری محنت اور جا نفشانی سے اپنے موکل کا کیس لڑے تا کہ وہ ہار بھی جائے تو اسکا دل مطمئن ہو

اسکے علاوہ

وکیل کا کام محنت کرنا اور جج کے سامنے پوری ایمانداری سے اپنے موکل کی جنگ لڑنا ہے"

وہ چپ کر گئی شیر زمان نے نفی میں سر ہلایا ۔

" شیریں خانم تم

شاید اسکا دوسرا حصہ بھول رہی ہو

وہ محنت سے لڑتا ہے مگر کبھی مقدمہ کے نتائج کی پیش گوئی نہیں کرتا اور آخری اور سب سے اہم رول یہ ہوتا ہے کہ وکیل کا کام عدالتی جنگ لڑنا ہے وہ کبھی اپنے موکل کے کسی مسئلے کے لیے تھانے نہیں جاتا کیونکہ یہ اسکا کام نہیں ہوتا"

(او تو میرا خیال سچ تھا، شمشاد خان نے ان سے شکایت کی ہے")

اس نے منتقم مزاجی سے شمشاد خان کو دل ہی دل میں گھورا ۔

"میں کوئی لمبی بات نہیں کرونگا مجھے لگتا ہے تم ایک اچھی وکیل ہو مگر تم میں پروفیشنلزم کی کمی ہے" انھوں نے بے دردی سے مسکراتے ہوئے اسکا تجزیہ کیا ۔برا لگنا فطری تھا ۔شیریں کو بھی خوب غصہ آیا مگر وہ ضبط کر گئی۔

"میرے تمہارے بارے میں بہت اچھے تاثرات تھے مگر اب تم غلط ٹریک پر جا رہی ہو، وکیل کا کام عدالتی جنگ لڑنا ہے نا کہ لوگوں کے ساتھ ذاتی دشمنیاں پیدا کرنا، کبھی بھی پولیٹیکل سٹرکچر کو چیلنج نہیں کرتے خاص طور پر جب آپ اپنے کیریئر کے آغاز پر ہوں"

اسکی خاموشی پر انھوں نے اسے نصیحت کی ۔

وہ چپ چاپ سنتی رہی ۔

انھوں نے کہانی بتائی، کہ اسکا تھانے جانا اور کیس کو پروفیشنلزم سے ہٹ کر ڈیل کرنا انھیں پسند نہیں آیا ۔

" مجھے امید ہے اب تم زیادہ پروفیشنل انداز میں کام کرو گی کیونکہ اب تمہاری رپیوٹ ڈیجمج ہو سکتی ہے.، اس شہر کے لوگوں کی بہت سی امیدیں ہیں جو تم سے جڑی ہیں اس شہر کی فیمیل لاء سٹوڈنٹس کے لیے تم ایک مثال ہو"

"مجھے لگتا ہے مجھے وہی کرنا چاہیے جو میں کر رہی ہوں، خیر اب میں کوشش کرونگی کہ آپکو مسئلہ نہ ہو "

اندر ہی اندر اس نے ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا تھا گو کہ وہ جانتی تھی کہ غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہیے ۔

" ہاں ایسا ہی ہونا چاہیے، میں تمہارے متعلق بہت کچھ سوچ رہا ہوں، میں چاہتا ہوں تمہارا کیرئیر بہت اچھے سے شروع ہو ۔آخر کو کل کو تم نے شیر زمان کی بہو بننا ہے، اور تمہاری شہرت ایک پروفیشنل وکیل کی ہی ہونی چاہیے"

وہ اپنی ہی دھن میں بولتے جا رہے تھے یہ دیکھے بغیر کہ شیریں خانم پر کونسے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، گویا جو سب دھندلا سا نظر آ رہا تھا وہ اتنا دھندلا نہیں تھا ۔چند پل وہ شاکڈ رہی پھر سنبھل گئی ۔

" میرے لیے یہ اہم نہیں کہ لوگ مجھے کس طرح اور کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں.، میرے لیے یہ اہم ہے کہ میرا دل اور میرا ضمیر مطمئن ہو، ہو سکتا ہے میں ایک کامیاب وکیل نہ بن سکوں مگر میری کوشش ہو گی میں ایک اچھی وکیل ضرور بن جاؤں،، اور یہاں کالی بھیڑوں کا دور ہے ہر اچھا آدمی کامیاب ہو یہ ضروری نہیں ۔"

کرسی پیچھے دھکیلتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی، شیرزمان نے بغور اسے سنا ۔

" کامیاب ہونا ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کیا تم یہ نہیں چاہتیں ۔یقینا ایسا ہی چاہتی ہو، "اس نے کندھے اوپر کو اٹھائے پھر نیچے کر لیے ۔


" اور ہاں مجھے یہی کافی ہے کہ میں شیریں خانم ہوں، مجھے اپنی پہچان کے لیے کسی دوسرے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔"

ماتھے پر نہ نظر آنے والے بل سجائے، وہ چھوٹی آنکھوں کو مزید چنا کیے ہوئے باہر نکل گئی، پیچھے شیرزمان کے اندر ایک الرٹ سا جاری ہوا تھا ۔یقیناً کہیں نا کہیں کوئی گڑ بڑ تھی ۔

___________________


"ایفا گل پکا جنت میں جاؤ گی تم"

روٹی کا دوسرا نوالہ منھ میں رکھا اور یقین سے پیشن گوئی کی۔اداس سی ایفا گل چونکی تھی ۔

"وہ کیسے ہمایوں بھائی؟"

"بھئی ایک غریب کو اتنے اچھے طریقے سے کھانا سرو کیا ہے تم نے کہ میرے دل سے دعا نکلی

اے اللہ اس اچھی لڑکی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما"

وہ ہاتھ اٹھا کر ڈرامائی انداز میں دعا دینے لگے نتیجتاً ایفا گل کے منھ سے ہنسی پھوٹی تو ہمایوں نے اسے اطمینان سے دیکھا۔

"دیکھیں نا ہمایوں بھائی یہ بلی بھی اداس ہو گئی ہے "اس نے کچھ دور موجود بغور دیکھتی بلی کی طرف ہمایوں کو متوجہ کیا۔

درحقیقت وہ اپنی اداسی کا اظہار کر رہی تھی ۔

"ارے ہاں ایفا گل یہ بلی تو ابھی بھی یہیں موجود ہے"

ہمایوں نے توجہ دی

گو کہ وہ ایفا گل کے بلی کا خیال رکھے کے سید کو سن چکا تھا۔۔"ہاں نہ کب سے آ کر یہ ادھر ادھر دیکھ رہی ہے "

وہ کہہ نہ پائی کہ وہ حاطب جاوید کو مس کر رہی تھی۔سامنے بلی کو رکھ لیا۔کل تو ہمایوں نے فوج ہر بات بھی کرائی تھی مگر اداسی اپنی جگہ تھی ۔

"شاید یہ بھوکی ہو گی"اندازا لگایا گیا۔

"میں کھانا دے چکی ہوں اسے"

"پھر کیا مسئلہ ہے اسکو؟ نام کیا سوچا تم نے اسکا؟ "

" کوئی نام نہیں جب وہ آئیں گے تو نام رکھیں گے.،

یہ بھی اداس ہو رہی ہے"

حاطب نے نام زیادہ پسند نہیں کیا تھا، اسی لیے اب وہ بلی کے نام کے متعلق اتنی اکسائٹمنٹ کا شکار نہ تھی ۔

ہمایوں نے اسے گھورا "اب یہ نہ کہنا کہ یہ بھی تمہاری طرح حاطب صاحب کو مس کر رہی ہے"

"جی کیا مطلب؟،،،نہیں تو.،،میں تو نہیں "

وہ بوکھلا گئی جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔

بلی اسکے قریب آ کر بیٹھ گئی تھی ۔یہ ایفا گل اور لنساء کی دوستی کا آغاز تھا۔

وہ دونوں حاطب جاوید کی یاد میں بے چین تھیں مگر یہ سمجھ نا پا رہی تھیں ۔

البتہ اس گھر میں اور کوئی تبدیلی محسوس کرے یا نہ کرے ہمایوں نے شدید تبدیلی محسوس کی تھی۔اسے نہایت آ دب و احترام سے خوش آمدید کیا جاتا، کھانا چائے وقت بے وقت حاضر کی جاتی،. وارڈ روب میں موجود چند جوڑے اب سلیقے سے لگے ہوتے.، گھر کی مجموعی حالت بھی خاصی بہتر تھی جو کہ غالبا بلکہ یقینا ایفا گل ہی کی کوششوں کے مرہون منت تھا۔اب یہ گھر خاصہ خوشگوار تاثر دیتا تھا جسکے باعث یہ تبدیلی اس گھر میں آئ تھی وہ اس سب سے لا پرواہ تھا ۔

ہمایوں کی فکر بحق تھی ۔

جبکہ باقی کسی کو شاید کوئی فکر نہ تھی ۔

ماما کے خیال میں انھوں نے حاطب کو فری کی طرف بھیج کر اچھا کیا تھا ۔

فری نے بتایا تھا وہ اب خاصہ نارمل تھا ۔ گویا اس لڑکی سے دوری اس پر مثبت اثرات مرتب کر رہی تھی ۔

انھوں نے ارادہ کیا وہ ایفا گل کو حاطب سے دور ہی رکھیں گی.، کم از کم تب تک جب تک وہ خوش نہ ہو ۔

_____________


"او تو اب میرا باپ مجھے اپنے سالے کے اس ناکارہ بیٹے کے ساتھ باندھے گا.، اور اسے لگتا ہے میں برداشت کر لونگی.، ہر گز نہیں ایسا نہیں ہو گا ثمر مبارک اب شیریں خانم کوئی ننھی بچی نہیں کہ وہ آپکے سارے خود ساختہ فیصلے چپ چاپ برداشت کر لے ۔اب وہ ظلم میں خو در برداشت نہیں کرونگی جو آپ میری ماں پر کرتے رہے ہیں "

غصے اور جلال میں پاگل ہوتی وہ گاڑی لے کر نکلی تھی سڑکوں پر بے وجہ گاڑی گھماتے ہوئے وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی ۔

" مجھے تو اب ہی آپ سے بدلے لینے کا موقع ملا ہے ثمر مبارک،، اب دیکھیں شیریں خانم کیا کیا کرتی ہے آپکے ساتھ "

نفرت سے سوچتی وہ منصوبہ تیار کر رہی تھی ۔

سامنے موجود کاٹن کینڈی بیچتے اس بچے نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔

"لے لو باجی مزے کی ہے غریب کی دھیاڑی بن جائے گی آٹھ نو سال کا گول مٹول پٹھان بچا لجاجت سے بولا، موڈ خراب ہونے کے باوجود اس کا ہاتھ پرس میں گیا۔تپتی دوپہر میں دھیاڑی لگاتا وہ بچہ اسکی انسانیت کو جگا رہا تھا ۔

" کتنے کی ہیں یہ ساری؟ "

" کیا تم سارا لو گی باجی؟"

بچے نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پوچھا

"ہاں تم بتاؤ کتنے کی ہیں؟" وہ کچھ بے زار تھی

"ایک سو چالیس روپے کی"

اس نے انگلیوں پر گن کر فورا حساب کتاب کیا ۔. "اچھا ساری دے دو کسی شاپر میں ڈال دو"

اس نے پیسے نکال کر آخری دفعہ گنے

" پڑھتے کیوں نہیں ہو تم؟ "

ماتھے پر بل ڈالے پوچھا

"بس جی باجی پڑھ کر کیا کرے گا، ہم کونسا کوتوال یا تھانیدار بھر تی ہو جائے گا پڑھ لکھ گیا تو؟ "

"ایک مجھے دے دو.، کتنے کی ہے؟"

سامنے سے ایک خوبرو نوجوان نے ان دونوں کی گفتگو میں حلل ڈالا ۔

"باجی سارا لے چکی ہے"

اس نے معذرت خواہانہ انداز میں نوجوان کو دیکھا

"پڑھ لکھ کر بھی تم نے جہالت کا حصہ ہی بننا ہے، کیا یہ ضروری ہے؟ "


" باجی تھانیدار تو پڑھے لکھے ہوتے ہیں، اور کوتوال تو وہ بنتا ہے جو سب سے بڑا تھانیدار ہوتا ہے"

معصول صورت بچے کی آنکھیں شیریں کی بات سن کر باہر کو ابلی تھیں ۔

"اب زمانہ بدل گیا بچے اب تھانیدار وہ بنتا ہے جو اندر سے ظالم اور بے حس ہو اور کوتوال بننے کے لیے تو دل کا پتھر ہونا ضروری ہے اس لیے تم تعلیم حاصل کرو مگر تھانیدار بننے کے لیے نہیں "

باجی کیا بات کرتا ہے تم خدا کو مانو میری ماں کہتی ہے کوتوال سب سے بڑا تھانیدار ہوتا ہے، جو شہر میں سب کی حفاظت کرتا ہےوہ بہت طاقتور ہوتا ہے ۔"

بچہ اسکی بات سے اتفاق نہ کر پا رہا تھا ۔

"اچھا کیا واقعی؟ اگر اس وقت میں تک سے یہ کاٹن کینڈیز لے لوں اور یہ پیسے بھی تمہیں نہ دوں تو کون ہے جو تمہارے حقوق کی حفاظت کرے گا؟ "

کچھ لوگ بنا تجربہ کے سبق نہیں سیکھتے، اسی لیے شیریں نے اسے سمجھانے کو ایک چھوٹا سا کھیل کھیلنا چاہا، ۔

اس بچے کے دل میں یہ احساس دلانا مقصد تھا کہ طاقت ہر انسان کے پاس ہو سکتی ہے تعلیم ذہن کھولنے کے لیے ہے نا کہ طاقت کے حصول کے لیے۔

اسی لیے اسکی طرف بڑھائے گئے پیسے واپس کھینچ لیے، کاٹن کینڈیز وہ پہلے ہی پکڑ چکی تھی ۔

"لو بتاو اب تم کرے گا تمہاری حفاظت بجز تمہارے؟"

وہ اسکی آنکھوں دیکھتے ہوئے بولی ۔

بچہ ایک پل کو لاجواب ہو گیا ۔

"باجی تم ایسا نہ کرو ہم غریب ہے ہم کو ہمارا پیسہ دے دو یا پھر ہمارا کینڈی واپس کر دو"

بچہ لجاجت پر اتر آیا تھا

"دیکھا تم نے، اگر تم نے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے یے تو اسکے لیے تمہیں خود ہی کچھ کرنا ہو گا کوئی تمہاری مدد کو نہیں آتا، نہ پولیس نا کوئی تھانیدار،، اور کوتوال تو اپنے ٹھنڈے ٹھار آفس میں بیٹھ کر اے سی کے مزے لوٹ رہا ہو گا"

وہ جو بھری بیٹھی تھی اپنے اندر کے زہر کو اگل رہی تھی، ایک بچے کے خوابوں کے مینار کو چکنا چور کر رہی تھی ۔

" یہ لو پیسے اور پڑھائی کیا کرو،، انسان بننے کے لیے "

کینڈیز اس نے اپنے دوسرے ہاتھ میں منتقل کیں ایک الگ کر کے اسے دی ۔

" یہ میری طرف سے تم کھا لو "

جانتی تھی غریب بچہ خود کہاں کھا پاتا ہو گا؟

پیٹ بھرنے کے لالچ نے اسے بچپن میں ہی بڑا بنا دیا تھا جو یوں لجاجت سے بول کر اس سے پیسے مانگے تھے ۔

" نہیں باجی تم کھاو ہم نے پیسہ لے لیا" وہ انکاری تھا اسکی غیرت شاید اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی ۔

" میری طرف سے تحفہ سمجھ کر کھا لو؛"

کہتی وہ دور ہوتی چلی گئی ۔

چند پل اس بچے نے کینڈی کو گھورا پھر منھ کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ اس نوجوان پر نظر پڑی جس نے کچھ دیر پہلے کینڈی خریدنے کا کہا تھا اب پشت موڑے کھڑا تھا ۔

" یہ لو بابو تم کھا لو"

"کتنے کی ہے؟"

ہمایوں نے دوبارہ اپنا سابقہ سوال دہرایا

"وہ پاگل سی باجی نے ہم کو تحفہ دیا ہے، ہم تم کو تحفہ دے رہا ہے"

بچہ مسکرایا ۔

"ایسا تو نہیں ہوتا، تم اسکی قیمت بتاو میں ادا کرونگا"

"انھوں نے قیمت ادا کر دیا تھا ۔ہم پیسہ لے چکا ہے "

اس نے کینڈی ہنوز ہمایوں کی جانب بڑھا رکھی تھی ۔دوسرے ہاتھ سے جیب کی طرف اشارہ کیا جہاں پیسے ڈالے تھے ۔

" تو پھر یہ تم کھاو تمہارا تحفہ ہے یہ"

"کوئی نہیں، آپ کھا لو صاحب ہم گھر جا کر کھا لے گا"

" اچھا ایسا ہے کہ اگر تحفہ ہے تو میں پھر آدھا کھا لو گا باقی تم کھا لو"

ہمایوں نے گفتگو بڑھانے کو کہا ۔

"ویسے تم پڑھتے نہیں ہو کیا؟

" او بابو ابھی باجی بھی یہی پوچھتا تھا، ہم کہا کہ پڑھ کر ہم نے کونسا کوتوال بن جانا"

وہ اپنا ننھا سا ہاتھ سر پر مار کر بولا۔

"تو کوتوال بھی بن سکتے ہو تم اگر دل لگا کر پڑھو تو"

ہمایوں نے حوصلہ افزائی کی

" ہم کہاں بنے گا ہم تو غریب آدمی ہے،." وہ ہنسا

"تم آدمی نہیں بچے ہو اور اگر پڑھو گے تو کچھ بھی بن سکو گے "

ہمایوں نے یقین سے کہا تو وہ چپ ہو رہا

"پر باجی کہتا ہے کوتوال تو بہت ظالم ہوتا ہے، اور میری ماں کہتی ہے مسلمان کو ظالم نہیں ہونا چاہیے"

وہ فکر میں پڑ چکا تھا ۔

" ایسی بات نہیں کوتوال ظالم نہیں ہوتا، انسان ظالم ہو سکتا ہے،، کوتوالی ایک ذمہ داری ہے وہ ظالم نہیں ہو سکتی، اگر تم رحم دل ہو تو اچھے سے ذمہ داری نبھاو گے اگر ظالم ہوئےتو ذمہ داری میں ایمانداری نہیں کر سکو گے"

بچہ مزید کنفیوز ہو رہا تھا۔

"ہمارا تو دماغ کی الٹ گیا کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ کہتا ہے، اب پتہ نہیں کون ٹھیک کہتا ہے "

وہ سر پیٹ رہا تھا ہمایوں نے دور جاتی اس محترمہ کو دیکھا جسکا اسم گرامی شاید اسے یاد تھا۔

چند دن پہلے ہی تو ملاقات ہوئی تھی کوئی چار پانچ روز قبل ۔

"پاگل عورت" اس نے بڑبڑا کر کہا ۔

پھر واپس بچے کی جانب متوجہ ہوا۔

جسکے خواب وہ بے خبری میں کچل گئی تھی۔

روز وشب شاید اسی ڈھب پر گزرنے کی رفتار جاری رہتی مگر اس دن قسمت اس پر مہربان ہو ہی گئی ۔شام کو ہمایوں آیا تو ساتھ سعد بھی تھا، جسے دیکھ کر ایفا گل کے چہرے پر مسرت کی چاشنی پھیل گئی۔

"سعد بھائی"

وہ یوں دیوانہ وار سعد کہ طرف بڑھی کہ سب افراد خانہ نے کچھ حیرت کچھ اچنبھے سے اس حرکت کو ملاحظہ کیا ۔

وہ نارمل ہی رہ رہی تھی کبھی اس نے ماں باپ یا بھائیوں کے بغیر اداسی کا اظہار نہیں کیا تھا۔یا شاید وہ سب اس طرف سے لاپرواہ رہ گئے تھے۔

مگر اب وہ خاصی پرجوش نظر آتی تھی ۔

"آپ اکیلے آئے ہیں، ابا یا دیوان لالا نہیں آئے؟"

اسکی متلاشی نگاہیں پیچھے کسی نادیدہ ہستی کو تلاش کر رہی تھیں ۔

"نہیں میں اکیلا آیا ہوں دیوان لالا کو کچھ کام تھا انھوں نے کسی سے ملنا تھا تو میں نے کہا مجھے بھی عفی کی طرف چھوڑ دیجیے گا۔"

سعد نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا یکدم وہ پرائی پرائی سی ہو گئی تھی۔

"ارے بیٹا بیٹھنے تو دو".

جاوید چچا نے اس طرف توجہ دلائی ۔سب نے مقدور بھر حاطر مدارت کی، اور چند گھنٹوں بعد وہ چلا گیا ۔ایفا گل نے روکنے کی کوشش کی مگر جانتی تھی اگر دیوان لالا نہیں آئے تو اسکی کوئی وجہ ہو گی۔

اور وجہ سے وہ انجان کہ تھی۔

لیکن سعد کو چند باتیں عجیب بلکہ ناگوار گزری تھیں ۔


شہر سے باہر ایک چوکی تک اسے ہمایوں کا ڈرائیور چھوڑ گیا تھا جہاں دیوان پہلے سے موجود تھا ۔

"کیسی تھی عفی؟ اداس تو نہیں تھی"

وہ سوچوں کے چنگل سے خودکو باہر نکال لایا۔

"ہاں ٹھیک تھی، بہت خوش ہو گئی تھی، آپکا اور ابا کا پوچھ رہی تھی بار بار"

"تو تم ساتھ لے آتے اسے اگر اداس تھی تو"

دیوان کو ملال ہوا کیوں نہ سعد کو کہہ کر بھیجا، خود سے تو سعد کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔

وہ خود بھی بیس اکیس سال کا نوجوان ہی تھا ۔

"نہیں اداس تھی مگر زیادہ نہیں سب ساتھ تھے، لیکن ایک بات مجھے عجیب لگی"


وہ آخر میں پرسوچ انداز میں بولا

" کیا؟ "

دیوان کا یک لفظی استفسار سامنے آیا۔

" سب گھر تھے مگر حاطب بھائی نہیں تھے"

"ہو سکتا ہے وہ واپس جاب پہ چلا گیا ہو"

اب وہ متوجہ تھا۔

"نہیں. ،"

پھر اس نے الفاظ کو روک لیا، جو اسکے ذہن میں بار بار اسے کاٹ رہا تھا اسکا اظہار دیوان لالا کے سامنے کرنا مناسب نہ تھا ۔

"ہاں شاید"

بظاہر وہ اس سے متفق تھا مگر چچا نے کہا تھا وہ فری باجی کے اسلام آباد گیا ہوا ہے ۔

دیوان نے مزید نہیں کریدا وہ تو ویسے ہی مطمئن نہیں تھا سعد بھی چپکا ہو رہا ۔

"ویسے دیوان لالا آپکو نہیں لگتا ایفا گل یہاں ٹھیک نہیں رہ سکے گی۔"

اسے اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کا قرینہ نہ آ رہا تھا ۔ورنہ بحیثیت بھائی وہ ڈسٹرب ہوا تھا ۔چچی کا ہمیشہ والا لیا دیا انداز، آیت کی گھر میں غیر موجودگی اور پھر اسکا آنا اور سلام کر کے بے نیازی سے کھانا طلب کرنا۔

صرف ایک جاوید چچا اور ہمایوں تھے جنکا رویہ مناسب کے خانے میں رکھا جا سکتا تھا ۔

بعض دفعہ کچھ چیزیں بظاہر معمولی ہوتی نظر آتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بہت وسیع معنی رکھتی ہیں ۔

اس گھر کا ماحول سعد کے دل میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا ۔

اس نے دیوان لالا کے بجائے ابا سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔


____________


"دادا"

چیمبر سے آ کر اب وہ زیادہ تر خاموش ہی رہتی تھی، اپنے حالیہ کیس کے متعلق بھی اس نے بات کرنا چھوڑ دیا تھا، یقیناً اسکے کیس کا فیصلہ ہو چکا تھا یا شاید کوئی لمبی تاریخ پڑ گئی تھی۔

مگر اب وہ خاموش رہتی، ٹیلی ویژن دیکھتی، یا پھر کوئی نا کوئی کتاب پڑھتی رہتی ۔

شمشاد خان اپنی ناراضگی دکھانے کو خاموش ہی رہتے، شمشاد خان کی خاموشی کی دوسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ انھیں ثمر مبارک اور شیر زمان کے ارادے بھی صاف نظر آ رہے تھے ۔

ایسے میں شیریں کو سنبھالنا انکے لیے بہت مشکل ہو جاتا، وہ جو باپ کو پہلے ہی نام سے پکارنا بھی پسند نہ کرتی تھی، اب نجانے کیا کرتی ۔

وہ سنبھل گئے تھے، وہ نا تو ان اختلافات کو بڑھانا چاہتے تھے اور نہ ہی شیریں خانم کو مزید کوئی دکھ برداشت کرتا دیکھ سکتے تھے ۔

"میں ایک بات سوچتی ہوں،"

کافی کا کپ ہاتھ میں تھامے اس نے پرسوچ انداز میں انھیں مخاطب کیا۔

"دادا زندگی میں انسان اتنا بے بس کیوں ہو جاتا ہے، مطلب انسان کو اللہ نے اتنا کمزور نہیں بنایا مگر پھر بھی ہم بے بس ہو جاتے ہیں"

"شیریں خانم زندگی اسی کا نام ہے بعض اوقات ہمیں اسکے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، کبھی سر اٹھانا بھی پڑتا ہے، کبھی سر جھکانا بھی پڑتا ہے، جو بھی وقت کی ضرورت ہو اسکے مطابق بدلنا ہی زندگی کا توازن ہے،اور اللہ بھی اسی توازن کو قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔"


وہ اسکی الجھن سمجھتے ہوئے بولے۔

" دادا کیا اللہ انسان کو حکم دیتا ہے کہ اپنے فائدے کے لیے یا اپنی کامیابی کے لیے کسی مظلوم کے مفادات کو روندا جائے؟ ۔"

یہ سوال اسے اکثر تنگ کرتا تھا ۔صرف اسے ہی نہیں اس بیمار معاشرے کے ہر شخص کو یہ سوال زندگی میں کبھی نا کبھی، کہیں نا کہیں تنگ ضرور کرتا ہے ۔

وہ تو پھر ایک رحم دل اور حساس لڑکی تھی۔

" نہیں ایسا نہیں ہے، اللہ پاک تو قربانی کو پسند کرتا ہے، اپنی ضرورت ہونے کے باوجود دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنے کو احسن قرار دیتا ہے.، مگر انسان کمزور ہے، وہ بے بس نہیں اللہ نے اسکو عقل سلیم عطا فرمائی ہے،. لیکن وہ طاقتور مخلوق نہیں، اللہ نے اسے قابو میں رکھنے کو کمزور بنا دیا ہے، "

دادا اسکی بات کو ایک دوسرے پہلو کی طرف لے جا رہے تھے وہ اسے اس فوکسنگ الوژن(focusing illusion) سے نکالنا چاہتے تھے، وہ عمر کے جس حصے میں تھی، اس میں نوجوان ایسے ہی باغی خیالات کے مالک ہوتے ہیں وہ کیوں؟ کیسے؟ اور اس جیسے کئی سوالات اٹھاتے ہیں ۔

وہ شیریں خانم کے اندر اٹھتے سوالوں کو مارنا نہیں چاہتے تھے

لیکن وہ اسے ان بھول بھلیوں میں الجھتا بھی نہیں دیلج سکتے تھے ۔

"دادا بات تو پھر وہی ہوئی نا، جب بات کسی کے مفادات کی ہو ہم کمزور بن جاتے ہیں جب بات ہمارے مفادات کی ہو تو ہم انھیں محفوظ کرنے کو ہزاروں راستے نکال لیتے ہیں، دوسروں کے لیے درد محسوس کیوں نہیں کرتا ہمارا دل؟"

"ہر دفعہ بات ایسی نہیں ہوتی کہ ہمارا دل درد ہی محسوس نہیں کرتا، تم نے دیکھا ہو گا ہم کسی کو دکھی دیکھتے ہیں تو ہمیں برا لگتا ہے، ہم تکلیف محسوس کرتے ہیں "

انھوں نے صبح کے باسی اخبار کو ایک طرف ڈالا ۔

انکا ایک آرٹیکل رہ گیا تھا لیکن اب اس وقت شیریں کے فرسٹریشن کو راستہ دکھانا ضروری تھا، کتنے دنوں بعد تو وہ کوئی بات کرنے لگی تھی۔

" لیکن بعض اوقات دوسروں کے درد کی دوا کرتے کرتے انسان خود لاتعداد تکلیفوں اور پیچیدگیوں میں گر جاتا ہے، جو کہ ایک الگ تکلیف دہ بات ہے اسی لیے ہم دوسروں کے معاملات میں ایک حد سے زائد نہیں بڑھتے، کسی کی تکلیف دور کر کے خود کو تکلیف میں تو کوئی نہیں ڈالنا چاہتا نہ "

یہ انکا فلسفہ حیات نہ تھا، لیکن اب وہ اپنی لاڈلی پوتی کے لیے خود کو بدلنا چاہتے تھے ۔

شیریں خانم نے محسوس کر لیا تھا، دادا کی سوچوں کا رخ بدلتا بھانپ لیا تھا ۔

" اور خود کو تکلیفوں سے بچانے کے لیے، اپنے آرام کے لیے اگر آپکا ضمیر مارنا پڑے تو مار دیں؟ "

اس نے براہ رات اسکی آنکھوں میں دیکھا، ہاتھ میں موجود کافی کا مگ وہ فراموش کر چکی تھی ۔

شمشاد خان دیدہ دلیری سے اس بات سے اتفاق نہ کر سکے لیکن خاموش رہ کر اثبات میں کندھے ضرور اچکا دئیے ۔

(دادا کو کیا ہو گیا ہے، یہ تو ہمیشہ برائی کے خلاف جہاد کرنے کی ترغیب دیتے تھے مجھے) وہ چبد پل کو الجھ کر رہ گئی، پھر فیصلہ کن انداز میں بولی ۔


"دادا مجھے اپنے مفادات اتنے عزیز نہیں کہ میں انھیں حاصل کرنے کے لیے اپنے ضمیر کو مار دوں، جس دن شیریں خانم کا دل دوسروں کا درد محسوس نہیں کر سکے گا اس دن شیریں خانم اس پیشے کو خیر آباد کہہ دے گی "

اس نے وہی باغی انداز پھر سے اپنا لیا ۔

" اور پھر کبھی اس کالے کوٹ میں نظر نہیں آؤں گی آپکو "


شمشاد خان نے بغور اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا ۔یقیناً اس ارشاد کی شان نزول کوئی خاص تھی۔

"کیا پھر کچھ ہوا ہے شیریں خانم؟ "

انکے اس سوال پر ایک پل کو وہ جز بَز ہوئی پھر گلا کنکھار کر بم پھوڑا ۔

؛ "میرا اب شیر زمان کے ساتھ مزید کام کرنا ممکن نہیں رہا، مجھے لگتا ہے اب ہم مزید ایک ساتھ کام نہیں کر سکتے"

"لیکن ہوا کیا ہے، اتنا خیال تو رکھتا ہے وہ بچہ تمہارا، اوپر سے ایک نام ہے اسکے چیمبر کا"

یہ والا خیال آج پہلی بار آ یا تھا شیریں خانم کو ورنہ لاکھ اختلافات سہی اس نے انکا چیمبر چھوڑنے کا کبھی نہ کہا تھا۔

" نام بنے یا نا بنے لیکن میں نے انکا چیمبر چھوڑ دیا، میں اب مزید اس طرح کام نہیں کر سکتی "


"اگر تم اسکے پاس کام نہیں کرو گی تو اور کیا کرو گی تم؟ تمہیں تو اور کچھ آتا بھی نہیں؟ کیا تم وکالت چھوڑ دو گی۔"


"مجھے کچھ آئے یا نا آئے میں اب وہاں کبھی بھی نہیں جاؤں گی"

بنا دادا کی طرف دیکھے وہ فیصلہ کن انداز میں بولی ۔ساتھ کافی کا سپ لیا۔کافی ٹھنڈی برف ہو چکی تھی ۔اب کڑوا سیاہ سیال مادہ ہی تھا۔

"یہ کیا بات ہوئی؟"

وہ چونکے ۔راتوں رات یہ تبدیلی کیونکر رونما ہوئی، وہ اس سے بے خبر تھے۔

"بات سادہ سی ہے دادا، شیریں خانم اب ثمر مبارک کے سالے کے چیمبر میں نہیں جائے گی"

اسکا لہجہ زہر بھرا مگر انداز پرسکون تھا ۔

"شیریں خانم!"

تنبہی پکار پر اس نے براہ راست شمشاد خان کی آنکھوں میں دیکھا ۔

"شمشاد خان یہ سچ ہے میں اب وہاں نہیں جاؤں گی، میں اپنے معاملات خود دیکھ سکتی ہوں "

" تو کیا میں یہ سمجھوں کہ تمہارا وکالت کا شوق پورا ہو چکا؟ "

یہ ماننے والی بات تو نہ تھی لیکن اگر وہ کہہ رہی تھی تو بجز یقین کیے کوئی چارہ بھی نہ تھا ۔

"نہیں خیر سے میرا شوق کیوں ختم ہو گا۔ہاں یہ ضروری نہیں کہ میں شیر زمان کے پاس کام کروں تو ہی شوق پورا ہو سکتا ہے "

وہ مناسب ترین انداز میں بات کرنا چاہ رہی تھی ۔تا کہ دادا مزید بحث نہ کریں ۔

"تم کیا کہتی ہو؟"

وہ مزید پہیلیاں بوجھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

"میں انڈیپینڈنٹ پریکٹس کرونگی ،. شیریں خانم اپنا تاج خود بنائے گی، اور اسے اپنے ہاتھوں سے اپنے سر سجائے گی.، "

اس نے بم عین انکے سر پر پھوڑا اور بے نیازی سے واک آؤٹ کر گئی۔

اس نے اس آشیانے کو آگ لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔

اور جب فیصلہ ہو چکا تو پھر رکنا کیا؟


" شیریں خانم یہ کس راستے چل پڑی ہو تم؟؟"

یہ سب بہت چاکنگ اور تکلیف دہ تھا، گو کہ وہ اسے ایک نڈر اور باہمت لڑکی ہی بنانا چاہتے تھے لیکن وہ تو اس سب سے بہت آگے چلی گئی تھی وہ تو معاشرے کے اصولوں سے بغاوت کا سوچ رہی تھی ۔

اور باغیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا وہ یہ جانتے تھے ۔

________________


اس دن کا سورج اپنے ساتھ ساتھ

حاطب جاوید کو بھی گھر کی راہ دکھا گیا ۔

حاطب صاحب اور سورج ایک ساتھ اس گھر کے لان میں چمکے تو زندگی نے ایک نئے انداز سے انگڑائی لی۔

ہمایوں، جاوید چچا اور آیت اپنی اپنی مصروفیات کی جگہ سدھار چکے تھے چچی حسب معمول بستر پر دراز تھیں انھیں معدے کے درد کی شکایت محسوس ہو رہی تھی ۔

جز وقتی ملازمہ آ کر اپنا معمول کا کام نبٹھا رہی تھی ۔ایفا گل نے مشین لگا کر اسکا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا مگر جونہی اس نے لانڈری میں مشین میں پانی ڈال کر صرف ڈالنے کو پیکٹ میں ہاتھ ڈالا کسی تیسرے فرد کی موجودگی کا انکشاف ہوا ۔

پیچھے مڑ کر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی، حاطب جاوید صاحب سفر کی تکان کے باوجود خاصے فریش سے لگ رہے تھے ۔

"کیسی ہو ایفا گل؟" وہ کئی پل اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی

شاید اور بھی مزید کتنی ہی دیر دیکھتی رہتی اگر وہ اسے محاطب نہ کرتے تو ۔

شدت مسرت سے اسکی زبان مفلوج ہو کر رہ گئی ۔

یہ کیسا احساس تھا اسکی اسے خبر نہ تھی مگر یہ ایک بہت ہی انوکھا سا احساس تھا ۔

حاطب جاوید کو دیکھ کر اسے اتنی خوشی کیوں ہو رہی تھی وہ سمجھ نہ سکی، شاید یہ خوشی سے بھی بڑھ کر کوئی احساس تھا ۔

گردن ہلا کر اپنی خیریت سے آگاہ کیا ۔کتنے ہی پل وہ سر جھکائے اپنی حالت کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی اور مقابل اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں میں الجھا رہا ۔پھر حاطب ہی نے اس الوژن کو ختم کیا ۔

"لانڈری ہو رہی ہے؟"

ناسمجھی سے اسے دیکھا تو حاطب نے اسکی الھن سمجھ کر ہاتھ میں موجود صرف کے پیکٹ کی طرف اشارہ کیا ۔

"جی"


"ماما کہاں ہیں؟"

اس نے آگے پیچھے نگاہ گھمائی

"وہ اپنے کمرے میں ہیں، انکی طبیعت ٹھیک نہیں"


وہ سر ہلاتا ہوا اپنا سامان وہیں رکھتا ماں کے کمرے کی جانب بڑھا چند منٹ بعد وہ اپنے کمرے میں چکا گیا، عفی کے دل کی دھڑکن کتنی ہی دیر منتشر رہی ۔

اس پر یہ پاگل پن کیوں سوار ہو رہا تھا اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا ۔

" بی بی صاحب جی سے ناشتہ کھانا تو پوچھ لیں،"

کام والی چند پل بغور اسکے اندازو اطوار دیکھتی رہی پھر مایوس ہو کر خود ہی توجہ دلائی ۔

وہ چونکی پھر سر ہلاتی اپنے کپڑو‍ں کی سلوٹیں ہاتھ سے درست کرتی اسکے کمرے کے دروازے پر تھی، اسی کمرے کے دروازے پر جس پر ایفا گل کا قبضہ تھا.۔

دستک دینے سے پہلے ہی اسکا دل سینے میں اودھم مچانے لگا۔

تو ایفا گل کو اسے ڈپٹنا پڑا۔


"آ جائیں"

سلجھے ہوئے انداز میں اجازت مرحمت فرمائی گئی، لہجہ مضبوط مگر ٹھہراو لیے ہوئے تھا ۔

"آپ منہ ہاتھ دھو لیں میں آپکے لیے ناشتہ بنا دیتی ہوں"

وہ بستر پر نیم دراز موبائل فون پر مصروف تھے۔اسے دیکھ کر سیدھے ہو بیٹھے ۔

"نہیں ابھی رہنے دیں، میں نے راستے میں چائے پی لی تھی۔ابھی کچھ دیر تک ناشتہ کرونگا"

"اگر آپ کہیں تو آپکے کپڑے استری کر دوں؟"

چند پل کی خاموشی کے بعد اس نے نئی سروس پیش کی ۔

" نہیں اور آپ فکر نہ کریں اگر مجھے کچھ چاہیے ہو گا تو میں کہہ دونگا"

حاطب نے معمول کے سے انداز میں کہا اور پھر سے موبائل کی سکرین میں مگن ہو گیا ۔

" ایفا گل کیا بات ہے؟ "

پھر یکدم سر اٹھا کر اس سے براہ راست پوچھا تو سٹپٹا کر نظریں جھکا گئی۔

"کیا آپکو مجھ سے کوئی بات کرنی ہے؟ "

وہ اسکی مسلسل توجہ سے یہی نتیجہ اخذ کر پایا۔

"نہیں"

مگر وہ شرمندہ ہو کر سر جھکا گئی۔

نگاہیں بے اختیار ہو رہی تھیں، یہ اعتراف خود سے کرنے میں اس نے دیر نہیں لگائی، احساس جرم کے تحت نگاہ جھکا لی۔

حاطب چند پل اسے سر سے پاؤں تک بغور دیکھتا رہا، گلابی رنگ کے سادہ سے لباس میں، معصوم صورت، صاف رنگت، متناسب سراپا، اور نکلتا ہوا قد، وہ خوبصورت تو نہیں البتہ پرکشش کی تعریف پر پورا اترتی تھی۔

اپنے آپ سے بے نیاز، کم فہم اور غائب دماغ۔

"ایفا گل بیٹھ جاو"

وہ جو سوچ میں گم سر جھکائے کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی اس آفر پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

پھر دروازے کے قریب رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

"کیا کرتی رہتی ہو سارا دن، اور دل لگ گیا آپکا؟"

"آپ مجھے آپ کیوں کہتے ہیں؟"

حاطب کے سوال کے جواب میں اسکا سوال ایک پل کو حاطب جو الجھا گیا. پھر وہ مسکرایا ۔

"پھر کیا کہوں آپکو؟"

"تم کہہ لیا کریں جیسے ہمایوں بھائی تم کہتے ہیں،کیونکہ وہ مجھ سے بڑے ہیں،،"

اس نے کافی دیر بعد سر اٹھا کر انھیں دیکھا ۔

" آپ بھی تو ہمایوں بھائی کی طرح مجھ سے بڑے ہیں، تو آپ بھی تم کہہ لیا کریں"

اس نے باقاعدہ عقلمندی سے دلیل دی۔


حاطب نے بغور اسے دیکھا ۔جو سوالیہ انھیں دیکھ رہی تھی، پھر نگاہ موڑ لی۔

"ہاں میں تم سےکافی بڑا ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ تم ہمایوں *بھائی* کی طرح مجھے پھر سے بھائی کہو"

(اففف یہ ابھی تک نہیں بھولے)


" سوری، آپکو برا لگا"

اس نے فورا معذرت نامہ پیش کیا ۔

"بات میرے برا لگنے کی نہیں، بات یہ ہے کہ تمہیں اب ایسا کہنا نہیں چاہیے ۔"

وہ مزید شرمندہ ہوئی، گو کہ پہلے پہل اسے احساس نہیں تھا مگر اس رات اسے اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ حاطب کو یہ برا لگا ہے، اور اتنی سمجھدار تو وہ ضرور تھی کہ آئندہ ایسا نہ کہتی۔

اس وقت وہ مزید وہاں نہیں رکی اور وہاں سے بھاگ نکلی، سارا دن اسکا دل بلیوں اچھلتا رہا وہ اجنبی سے احساسات کا شکار رہی، حاطب کا رویہ پچھلے ہفتے کی بہ نسبت اب خاصہ بہتر تھا، پورا دن اسکو دیکھتے رہنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ پہلے جیسے (ان سب ہنگاموں سے پہلے جیسے) حاطب جیسا ہی ہو گیا تھا ۔اور وہ اس حاطب کو دیکھ کر تب بھی خوش ہی ہوا کرتی تھی اور اب بھی خوش ہی تھی

لیکن اب کی دفعہ خوشی کی وجہ اور اندازبدلے ہوئے تھے ۔

_______________


اصل مشکل رات کو پیش آئی تھی۔

معمول کے مطابق سب کام کر کے جب وہ فارغ ہوئی تو آج معمول کے برعکس جاوید چچا اور آیت بھی لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے، حاطب اور جاوید چچا ٹیلی ویژن پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھے، آیت کاؤچ پر بیٹھی کوئی اسائنمنٹ بنا رہی تھی عموما وہ اس وقت اپنے کمرے میں ہوتی تھی ۔

ابھی وہ بیٹھی کی تھی جب لاؤنج کی بیرونی طرف کھلنے والی کھڑکی سے لنساء کی آواز سنائی دی۔

"آج تو میں بھول ہی گئی تھی اسے"

وہ خود سے خفا ہوتی کچن میں واپس گئی جب تک وہ لنساء کے کھانے کو کچھ روٹی کے ٹکرے اور دودھ لے کر آئی حاطب اسے گود میں اٹھا چکا تھا ۔

جبکہ سہمی ہوئی سی لنساء پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی، عفی کو دیکھتے ہی وہ حاطب کی گود سے چھلانگ لگا کر باہر نکلی اور آ کر ایفا گل کے پاؤں میں لوٹنے لگی۔

"اسکو تو اپنا عادی بنا دیا ہے تم نے"

جاوید چچا نے بلی کی عفی سے قربت دیکھ کر تبصرہ کیا ۔

"کھانا، اور دودھ وقت پر دیں تو کوئی بھی عادی ہو جاتا ہے"

اس نے بلیوں سے متعلق حالیہ پڑھی گئی کتاب کی معلومات جھاڑیں۔

"ایسا تو نہیں ہوتا ہر بار،، یہ بلیاں کسی سے پیار نہیں کرتیں "

آیت نے انکار کیا ۔

"جب کسی کو وقت پر ہر ضرورت کی چیز مل رہی ہو تو اور کیا چاہیے، وہ اسی سے مانوس ہو جاتا ہے، اور جب مانوس ہو جائیں تو پیار بھی کرنے لگتی ہیں"

ایفا گل نے علمیت جھاڑی۔

"اچھا بھئ اب تم لوگ جا کر سو جاؤ"

جاوید چچا ملائی پر موجود گھڑی کو دیکھتے آٹھ گئے، آیت بھی بلی کے سر پر گدگدی کرتی اپنی کتابیں اور جرنل سمیٹتی اٹھ گئی۔

" گڈ نائٹ بھائی "

" گڈ نائٹ" مسکرا کر بہن کو جواب دیتے حاطب صاحب بھی ٹیلی ویژن کا بٹن آف کرتے روانہ ہوئے ۔

عفی کشمکش کا شکار وہیں بیٹھی رہی ۔

"اگر میں انکے کمرے میں گئی اور انھیں برا لگا اس دن کی طرح تو؟"

وہ ویسے بھی نروس تھی اوپر سے حاطب کا ممگزشتہ رویہ یاد کر کے خوفزدہ ہو رہی تھی ۔


کچھ دیر بعد شاید وہ کچن سے پانی لینے جا رہے تھے اسے اندھیرے میں لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر چونکے پھر پلٹے ۔

"یہاں کیوں بیٹھی ہیں آ"

اسے یاد آیا ایفا گل نے صبح اسے "تم"کہنے کی پیش کش کی تھی ۔

وہ بوکھلا گئی فورا کوئی جواب نہ بن پایا ۔

"وہ میں.،ایسے ہی"

وہ اتنی خود اعتماد نہیں تھی کہ اسے اسکے سابقہ رویت کاحوالہ دے کر کچھ کہہ سکتی ۔

"کیا یہاں سونے کا ارادہ ہے تمہارا ؟"

وہ بغور اسکے تاثرات دیکھتا سپاٹ لہجے میں پوچھ رہا تھا۔


"آپ کمرے میں ہیں تو مجھے لگا آپکو"

وہ جملہ نا مکمل چھوڑ گئی۔

"مجھے کیا؟"

وہ شاید قسم کھا چکا تھا کہ اسی سے سب کچھ اگلوائے گا ورنہ اسکی حالت سے اسکے جواب کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ خوفزدہ اور نروس تھی۔

"اگر آپ کمرے میں سوئیں گے تو مجھے لگا شاید مجھے یہیں رہنا چاہیے "

وہ بنا اسکی طرف دیکھے بول رہی تھی

جبکہ حاطب ایک مرتبہ پھر مایوس ہوا تھا ۔غصہ شدید آیا مگر ضبط کر گیا،، ایسی بھی کیا بے وقوفی۔

(الو کی پٹھی،، لائٹ اور ٹی وی اس لیے آف کر کے گیا تھا میں)

وہ سوچ کر رہ گیا۔مگر بولا تو انداز سپاٹ تھا ۔

" آپ کمرے میں آ سکتی ہیں،، ویسے بھی میں آج رات کے لیے ہی ہوں یہاں،، کل مجھے یونٹ واپس جانا ہے"

وہ تم سے واپس آپ پر آ گیا تھا۔

یہ دیوار پھلانگنے میں شاید ابھی وقت لگنا تھا۔

______________

کمرے میں آتے ہوئے اسکا خوف اور نروسنیس حد سے سوا تھی۔

پھر کچھ وقت بعد گھبراہٹ خوف پر غالب آ گئی ۔

" میں کہاں سوؤں؟ "

وہ صوفے اور بیڈ کو سوالیہ دیکھتے ہوئے جب کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہی تو بنا نام لیے اسے مخاطب کیا ۔جو سگریٹ سے دل بہلا رہا تھا۔چند پل تک وہ منتظر سی انتظار کی سولی پر لٹکتی رہی مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا، ایک طویل وقفے بعد اسکی آواز سنائی دی تھی۔

" جہاں آپ چاہیں"

وہ فیصلہ اس پر چھوڑ رہا تھا ۔

"میں صوفے پر سو جاتی ہوں آپ پورے نہیں آئیں گے"

اس نے اپنے نچلے ہونٹ کو کاٹتے ہوئے مشکل فیصلہ لیا۔گویا وہ اس وقت بھی اسی کا حساس کر رہی تھی ۔

پھر سے طویل خاموش چھا گئی۔

"لائٹ آف کر دیں۔"

وہ اپنی نشست سنبھال چکی تھی جب حکم صادر کیا گیا ۔اور وہ اٹھ کر حکم بجا لائی۔

"میں آپکے ساتھ کوئی سختی وغیرہ نہیں کرنا چاہتا، مگر چند باتیں اپنے ذہن میں بٹھا لیں آپ"

تاریکی میں انکی آواز دیواروں سے ٹکرا کر سنائی دی تھی۔وہ دم سادھے سننے لگی، کوئی اور موقع ہوتا تو ضرور بولتی لیکن اس وقت تو اسکی سانس اٹکی ہوئی تھی، حالات خود بخود پیچیدہ ہو گئے تھے۔

" میں زیادہ باتیں نہیں کر سکتا مگر ایک بات یاد رکھنا.، میں کبھی یہ برداشت نہیں کرونگا تم کبھی بھی کسی بھی حوالے سے میرے ساتھ بے وفائی کرو"

مطالبے کے ساتھ ساتھ انکا گھمبیر لہجہ ایفا گل کی گھبراہٹ میں اضافہ کر رہا تھا۔خاموشی کا وقفہ جان لیوا تھا۔

"میں اپنے بارے کوئی دعوے نہیں کرونگا لیکن زندگی میں جن تجربات سے میں گزرا ہوں ان سب نے مجھے سخت دل بنا دیا ہے، تو کبھی مجھ سے یہ امید نہ رکھنا کہ میں تمہاری کوئی غلطی معاف کرونگا"

وہ نام لیے بنا اسے سخت کٹھور انداز میں وارن کر رہے تھے۔

یہ عفی کی ججمنٹ کی غلطی تھی جو وہ اسے پرانے والا حاطب سمجھ رہی تھی۔

" محبت کا وعدہ بھی نہیں کر رہا، کہ اب میرے دل میں یہ لطیف جذبہ شاید ہی جنم لے مگر تمہاری تمام ضروریات پوری ہونگی،. نا ہی میں* تم *سے محبت کی بھیک مانگوں گا"

وہ پتھر دل ایک ایک کر کے شرائط گنوا رہا تھا اس بات سے بے خبر کہ مقابل کی جان لبوں پر آ گئی تھی۔

"میں کوئی بھی زبردستی کیے بغیر تمہیں وقت دے رہا ہوں کہ صورتحال کو سمجھ لو،لیکن بار بار اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا، کیونکہ تم کوئی بچی نہیں ہو، اس سب کا تمہیں اندازہ ہو جانا چاہیے،،"اس نے اپنا جملہ دانستہ نا مکمل چھوڑ دیا۔

کمرے کی تاریکی میں اب پھر سے سناٹا تھا وہ خاموش ہو چکے تھے ۔ایفا گل کی ہمت پہلے کہ تھوڑی سی تھی اب تو وہ ڈر بھی گئی تھی ۔تمام سوچیں غلط ثابت ہوئیں ۔اگر اسے لگ رہا تھا کہ حاطب عروہ گل کی وجہ سے دکھی تھا، اور جب سنبھل جائے گا تو سب ٹھیک ٹھیک ہو جائے گا، تو شاید یہ ایفا کی خوش گمانی تھی ۔آواز نہ ہونے کے باوجود وہ محسوس کر سکتی تھی کہ حاطب جاگ رہا ہے ۔

" کیا آپکو مجھ سے بے وفائی کا خدشہ ہے؟ "

بہت دیر بعد وہ بولی تو آواز میں نمی تھی۔مگر حاطب نے توجہ اسکے الفاظ پر کی۔

"کیا آپکو لگتا ہے میں آپ سے وفا نہیں کرونگی"

یہ بات اسے ہضم نہ ہو رہی تھی ۔کیا وہ اسے بھی عروہ جیسا سمجھ رہے تھے ۔مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔

"حاطب"وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی ۔

پھر سے اسکا نام پکارا ۔باقی سب باتیں اپنی جگہ، مگر بے وفائی والی بات غیر معمولی تھی ۔

پھر نجانے اتنی ہمت اور حوصلہ کہاں سے آ گیا تھا وہ اٹھ کر اسکے بستر کی طرف آ گئی ۔

"حاطب مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہے ہیں"

اسکا پاؤں ہلایا۔دوسری جانب وہ جو جواب دینے کو الفاظ اکٹھے کر رہا تھا، اسکے لیے ایفا گل کی یہ حرکت غیر متوقع تھی ۔اب وہ دانستہ خاموش رہ کر اسکا ردعمل دیکھ رہے تھے ۔

نجانے وہ اس لڑکی کو اتنا جج کیوں کرنے لگے تھے ۔

ورنہ وہ ججمنیٹل(judgemental) قسم کی شخصیت نہ رکھتے تھے ۔

مگر اب تو ایفا گل کی ایک چھوٹی سے چھوٹی حرکت کو بھی وہ جج کرتے تھے ۔

"آپکو لگتا ہے میں بھی وہی کرونگی جو سجاد چچا کی بیٹی نے کیا؟" اس نے دانستہ اسکی سابقہ بیوی کا نام نہ لیا ۔ویسے وہ تو بیوی کہلانے کے لائق بھی نہ تھی۔

مگر نام نہ لینے کے باوجود حاطب کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچا۔وہ اٹھ بیٹھا۔اور برقی رفتار سے اسکا بازو پکڑ کر جھٹکے سے اسے بستر پر پھینکا۔

" ایفا سدید خان سجاد خان کی بیٹی جیسا بننے کی کوشش بھی مت کرنا ،. سمجھ گئیں؟ "

انکی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے ۔

اس سخت اور غیر متوقع ردعمل پر ایفا گل کی سدھ بدھ ماری گئی تھی۔چند پل وہ یوں ہی خوفناک نظروں سے اسے گھورتے رہے ۔پھر ہاتھ سے اسے پرے کرتے سیدھے ہو بیٹھے۔

" اور نہ ہی کبھی خود کو اس کے ساتھ کمپئر کرنا کرنا کیونکہ میں تمہیں اس جیسا بننے کا موقع ہی نہیں دونگا،، اس سے بہتر میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لے لوں"

لٹھے کی طرح سفید پڑتی رنگت کے باوجود ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے ۔اسکا تو مقصد کچھ اور تھا۔اور نتیجہ ہمیشہ کی طرح کچھ اور ہی برآمد ہوا ۔


بہت دیر تک وہ سنبھل ہی نہ سکی ۔پھر اٹھ کر بمشکل واپس صوفے پر جا سکی، تب تک بستر کے دوسری جانب وہ چت لیٹے سو چکے تھے۔


زندگی نے اسے ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا تھا جسکی اس نے کوئی خاص تیاری تک نہ کی تھی۔


---------------


سجاد خان کی طرف سے تو کوئی بات نہ شروع کی گئی تھی۔انکی جانب خاموشی تھی، دیوان اور فرحت لاکھ ناراضگی کے باوجود اپنے اپنے کاموں کو سنھبال چکے تھے، وہ دونوں روز گھر نہیں آتے تھے، شہر میں انکی دو فلور ملز تھیں اور قریب ہی انھوں نے کوئی چھوٹا سا گھر لے رکھا تھا، دونوں بھائی وہیں رہتے، سعد ابا کے محکمے میں ہی سرکاری نوکری کر رہا تھا.، تو وہ روز صبح جاتا اور شام واپس آ جاتا، سدید خان کی وہی روٹین تھی بس اب عصر کے بعد والی جان سے عزیز سٹوڈنٹ ان سے دور ہو گئی تھی، پتہ نہیں انھیں اللہ ہر بہت بھروسہ تھا یا کوئی فکر ہی نہ تھی لیکن وہ مطمئن تھے۔


آج انھوں نے عروہ اور سجاد خان کو بلاوا بھیجا تھا۔اور وہ دونوں باپ بیٹی اب انکے سامنے تھے۔

"خیریت تھی بھائی صاحب؟"

سجاد خان دو منٹ بیٹھ چکے تو مدعے پر آئے"

" میں یہ پوچھ رہا تھا کہ اب کیا فیصلہ کیا ہے تم نے عروہ بچی کے متعلق"

انھوں نے اپنے مخصوس انداز میں گفتگو کا آغاز کیا۔

"کیا فیصلہ کرنا تھا بھائی صاحب فیصلہ تو آپ نے کر دیا تھا باقی جو رہتے تھے وہ یہ کر چکی ہے"

سجاد کے انداَز میں دونوں کے لیے ناراضگی تھی۔

سدید خان نے ہنکارا بھرا۔" عروہ بیٹی اب تم کیا چاہتی ہو؟ "

انھوں نے عروہ سے براہ راست بات کی ۔


"میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں اور پھر اسکے بعد جو ڈیڈ مناسب سمجھیں "

اس نے شادی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

" اگر سجاد تم مناسب سمجھو تو میرا مشورہ یہی ہے کہ بچی کا نکاح کر دو، یہی بہترین راہ ہے"

اس بات سے خبردار ہونے کے باوجود کہ سجاد خان کو انکے گھر کے معاملات میں دخل اندازی پسند نہ تھی وہ اپنا فرض نبھا رہے تھے۔

عروہ نے منتظر نظروں سے باپ کو دیکھا اگر سفیان مان جاتا تو اسکی اپنی بھی یہی خواہش تھی۔

" کہاں نکاح کروں اسکا؟ اور نکاح کر کے بھیجو کہاں اسے جہنم میں؟"

وہ بے زاری سے بولے ۔

"کیوں کیا تم اسلام آباد میں اس جوان سے مل کر نہیں آئے؟ اگر دونوں بچوں کی رضا مندی اسی میں ہے تو دیر مت کرو"

اب مزید تو کچھ ہونا باقی نہ بچا تھا جسکا انتظار کیا جاتا۔پھر بھی یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی تھا تو وقت ہر کیوں نہ پی لیا جاتا؟

" ملا ہوں اور یہ یقین کر لیں کہ کسی ٹٹ پونجیے سے زیادہ کی اوقات نہیں اسکی، نہ گھر نہ کوئی سہولت اور نا آسائش بلکہ وہاں تو ضروریات پوری ہونے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں"

وہ بے بس نہ ہوتے تو نجانے کیا کچھ کر گزرتے۔

"عروہ بیٹی کیا تم اس صورتحال ست واقف ہو؟"

"جی بڑے ابا "

وہ مجرمانہ انداز میں سر جھکائے بولی. اسے ابھی تک باپ کو مطمئن کرنے کو کوئی مناسب دلیل نہیں ملی تھی۔

" پھر کیا سوچا ہے آپ نے، ویسے تو صرف روپیہ پیسہ اہم نہیں ہوتا مگر کسی حد تک اسکی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا"

وہ اج اسے پھر سے سمجھا رہے تھے ۔شاید وہ سمجھ جاتی ۔جبکہ عروہ کا خیال تھا کوئی بھی ادے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔

" کیا آپ سمجھتی ہیں وہ جوان آپکی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کر لے گا؟ "

انکا سوال سیدھا سا تھا مگر عروہ گڑبڑا گئی۔اسے سفیان کی محبت پر کوئی شک و شبہ نہ تھا مسئلہ اسکی نوکری کا تھا

"بڑے ابا وہ جاب تلاش کر رہا یے جلد ہی اسے کوئی نا کوئی جاب مل جائے گی، پھر میں بھی کوئی نا کوئی جاب کر لونگی، گزاراہ ہو جائے گا"

وہ پر امید تھی۔

" یہ بہت اچھی بات ہے کہ تم ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو لیکن پھر بھی ایک بار سوچ لو،، کیونکہ اس طرح تم اپنے بہن بھائیوں سے اسی طرح پیچھے رہ جاؤ گی جیسے کسی زمانے میں میں رہ گیا تھا،، اور یہ بات تمہیں ان سے دور کر دے گی "وہ بڑی آسانی بلکہ سفاکیت سے اس حقیقت کا اعتراف کر گئے تھے جسکا اعتراف انھوں نے کبھی اپنی اولاد کے سامنے نہ کیا تھا۔

عروہ نے بے ساختہ باپ کا چہرہ دیکھا جہاں شرمندگی کی لہر دوڑ گئی تھی۔


" بڑے ابا اگر رشتے ناتے روپیے پیسے کو دیکھ کر بنتے ہیں تو ایسے رشتوں سے انسان تنہا ہی بہتر یے، میں سمجھتی ہوں کہ رشتوں کی بنیاد چاہت اور محبت پر ہونی چاہیے نا کہ روپیہ پیسہ یا معاشی فائدہ دیکھ کر رشتے جوڑے جائیں"

وہ بہت بڑا فلسفہ بیان کر گئی تھی. سدید خان نے حیرت سے اس کم عمر بھتیجی کو دیکھا جو اس عشق و وفا کے راستے پر اندھا دھند بھاگے چلی جا رہی تھی ۔اب شاید اسکی واپسی کی امید کرنا بیکار تھا۔

" اللہ تمہیں استقامت عطا کرے "

وہ چپ ہو رہے ۔


************


اگلی صبح جب وہ اٹھی تو حاطب ابھی تک سو رہے تھے، ذہنی اذیت، بے آرامی اور تھکاوٹ کا احساس نا پید تھا ۔پھر اس نے خود کو حاطب کے کہے الفاظ کے حصار سے نکالنے کی کوشش کی۔

یہ کیسی زندگی تھی جس میں ایک دن خوش فہمیوں میں گزر جاتا تھا ۔اور دوسرا تاریکیوں میں ۔وہ باتوں کو ذہن میں بٹھا کر نہ رکھتی تھی بلکہ بھول جاتی تھی لیکن یہ رویہ وہ شاید کبھی نہ بھول پاتی۔

حاطب صاحب البتہ نارمل تھے۔

ایفا گل کچھ ڈر سی گئی تھی۔اس نے لاشعوری طور پر خود کو اسکی نظروں سے اوجھل کرنا چاہا۔

"اگر آپکے پاس کچھ وقت ہے تو ناشتہ بنا دیں" وہ گھر کی صفائی سے فارغ ہو کر ابھی بیٹھی تھی ۔کام والی کپڑے استری کر رہی تھی ۔جب حاطب نے سلجھے ہوئے انداز میں اسے مخاطب کیا۔وہ چونکی۔

"ناشتہ بنا دیں"

وہ مسکرایا۔

"میں بنا دیتی ہوں"

وہ نگاہیں چراتے ہوئے بولی۔

کام والی نے کن انکھیوں سے دونوں کو دیکھا ۔وہ آگے آگے چلتی کچن میں گئی ۔حاطب پیچھے پیچھے تھے ۔

اس نے ناشتہ بنایا وہ پیچھے کرسی پر بیٹھے رہے ۔

" یہ لے لیجیے"

بنا دیکھے آملیٹ کی پلیٹ اسکے سامنے رکھی ۔

"بیٹھ جائیں "

حاطب بلکل نارمل تھا۔مگر ایفا کے لیے اسکا یہ رویہ ہضم کرنا مشکل تھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

"مجھے کام ہے"

وہ بس وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی۔

"بیٹھ جائیں"

اب کی بار اس نے زور دے کر کہا تو اسے بیٹھتے ہی بنی۔

"کیا بات ہے آپ کمفرٹیبل نہیں ہیں؟" اس نے بغور اسے دیکھا ۔ایفا گل نے بے یقینی سے اسے دیکھا ۔

"میں کمفرٹیبل ہوں"

بے ہنگم سی وضاحت دی۔

"ہممم" وہ ناشتہ کرتا رہا۔جونہی ختم کیا گویا ایفا گل کی قید ختم ہوئی ۔وہ برتن اٹھا کر فورا اٹھ گئی ۔

"میں نہیں چاہتا کہ گھر والے میرے اور آپکے ریلیشن شپ کو لے کر باتیں کریں"

وہ شاید ابھی مزید حکم سنانے کے موڈ میں تھا۔

"بہتر ہے آپ ایک اچھی بیوی کی طرح اور میں ایک اچھے شوہر کی طرح بی ہیو کروں"

" سوری .، میں آئندہ شکایت کا موقع نہیں دونگی"

آج تک اس نے کونسے موقعے دئے تھے یہ تو علم نہیں تھا مگر وہ معذرت خواہ تھی۔اور اسکی معذرت نے حاطب کو لاجواب کر دیا تھا۔

اس نے ہاتھ سے اسکا دایاں گال تھپتھپایا۔

وہ پٹھی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہ گئ

کیسا دھوپ چھاؤں سا آدمی تھا۔


************


شیریں خانم نے شمشاد خان کے سمجھانے کے باوجود شیر زمان کے چیمبر جانا بند کر دیا تھا۔

انھوں نے شمشاد خان کو کال کر کے اسکی غیر حاضری کے متعلق پوچھا بھی تھا وہ اسکی طبیعت خرابی کا بہانہ بنا گئے کیونکہ اس وقت تک انھیں امید تھی کہ وہ اسے منا لیں گے۔جو بعد میں خوش فہمی ہی ثابت ہوئی۔

"دادا میں بتا چکی ہوں کہ میں اب وہاں نہیں جاؤنگی، تو یہ میرا فائنل ڈسیژن ہے اسے آپ بدل نہیں سکتے"

وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔

"تم کیا چاہتی ہو؟"

وہ پہلی بار خود کو بوڑھا اور کمزور محسوس کر رہے تھے۔

"میں بس انڈیپینڈنٹ پریکٹس کرنا چاہتی ہوں"

اس نے گھر کو تین چار روز میں چمکا دیا تھا۔

کام والی کے ساتھ مل کر پورا گھر صاف کیا تھا اب ٹیلی ویژن آن کیے بیٹھی تھی۔

" تو پھر تم نے شیر زمان کو استعفیٰ کیوں نہیں دیا ابھی تک، وہ بچہ پریشان ہو رہا تھا۔"

"دے دونگی میں اپنے لیے کسی مناسب جگہ پر دفتر تلاش کر رہی ہوں ظاہری بات ہے اس میں کچھ وقت لگے گا، میں چاہتی ہوں میں انھیں استعفیٰ دوں اور دوسرے دن اپنے دفتر میں جا کر بیٹھوں"

اس نے یقینا کچھ سوچ رکھا تھا۔

" اور تمہیں اس دفتر میں کون اپنے کیسز دے گا؟ "

وہ طنزاً بولے۔

" ہر وہ شخص جسے اپنے لیے ایک ایماندار اور محنتی وکیل کی تلاش ہو گی۔"

وہ فورا جواب دے رہی تھی۔جیسے ہر شے سوچے بیٹھی ہو۔

" یہ سب اتنا آسان نہ ہو گا"

" آپ میری ہمت نہیں بڑھا سکتے، ہمت اور حوصلہ پست کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، مگر بڑھانے والا ایک ہی ہے شمشاد خان کم از کم اسے تو زندہ رہنے دیں "

وہ انکے پاس آن بیٹھی۔

پھر انکے کندھے پر سر ٹکا دیا۔


" شیریں میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، کسی مشکل کا شکار نہیں دیکھ سکتا"

" دادا میری قسمت میں اگر کوئی خوشی ہے تو وہ مل جائے گی اگر نہیں تو بس دعا کیا کریں باقی اذیتیں سہنے کی عادت پڑ گئی ہے، کیا کوئی ایسا شخص بھی ہو گا اس دنیا میں جسکو اپنے باپ کی نفرت اور بے زاری برداشت کرنا پڑی ہو؟ "

وہ انلی طرف سوالیہ دیکھنے لگی۔

پھر خود ہی بولی۔

" نہیں نا، ایسا کوئی نہیں ہوگا سوائے شیریں خانم کے تو اگر میں وہ برداشت کر گئی ہوں تو باقی سب بھی برداشت کر لونگی ۔"

اس نے دادا کا کندھا دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا۔اسی پل پورشن کے مرکزی دروازے سے چند لوگ پھولوں اور پھلوں کی ٹوکریاں لیے داخل ہوئے تھے۔

پیچھے پیچھے شیر زمان انکی بیوی اور ثمر مبارک اپنی چہیتی بیوی کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔

" بیٹا تم نے بتایا بھی نہیں ہم کوئی انتظام کر لیتے"

شمشاد خان حق میزبانی نبھاتے ہوئے بولے ۔

"ہے تو بری بات لیکن میں نے دلہن کو کہا کہ چلیے شیریں کی خیریت بطی دریافت کر لیں گے اور دامن سوال بھی دراز کر آئیں"

وہ اپنی بیوی کو ابھی بھی دلہن کہتے تھے۔

چائے کے کپ ٹرے میں سجا کر لاتی شیریں ٹھٹھک کر رکی تھی۔

" شیر زمان بھائی ضرور آئیں ہمیں تو خوشی ہوئی ہے آپکے آنے کی ۔"

یہ ثمر مبارک تھے۔

شیریں خانم نے شیر زمان اور انکی اہلیہ کو چائے کے کپ پیش کیے باقی دو کپ وہیں ٹرے میں رکھے تھے، ثمر مبارک کی چہیتی بیوی نے شوہر کو گھورا تھا، پھر انکے اشارے پر ایک کپ خود تھام لیا دوسرا ثمر کے سامنے رکھا تھا۔

" ہم شیر اسد کے لیے شیریں کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں"

شیرزمان کے چہرے پر حقیقی خوشی دیکھی جا سکتی تھی۔

"دلہن تو اسد کو بھی لا رہی تھیں مگر میں نے کہا کہ آج ہمیں جانے دو جب انگوٹھی پہنائیں گے تو تم بھی چلنا"

انھوں نے حاضرین کے چہروں پر نگاہ دوڑائی، وہاں مختلف تاثرات تھے ۔دادا کا چہرہ کنفیوز سا تھا

ثمر مبارک محتاط ہو گئے تھے، انکی بیوی سب کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔اور شیریں کا چہرہ سپاٹ تھا۔

وہ حیران نہیں تھی، وہ تو منتظر تھی۔

"بھئی میں کہہ رہا تھا شیر اسد سے کہ شہر بھر میں بحث تم بہترین کرتے ہو، اور شیریں سے زیادہ سٹرانگ کیس کوئی نہیں بنا سکتا۔تو دونوں مل کر ایک نئی ہی تاریخ رقم کرو گے"

وہ جونہی بیٹھی تھی۔شیر زمان نے مسکرا کر کہا۔وہ خاصے خوش تھے۔یہ انکی ایک پرانی خواہش تھی، جب سے شیریں نے لاء کالج جوائن کیا اور پھر اسکے بعد بھی.، دادا کے ماننے کی ایک بڑی وجہ شیر زمان ہی تھے۔

" سچ کہتے ہیں آپ، اسد ما شا اللہ بہت اچھا اور ذہین بچہ ہے"

ثمر مبارک نے انکے کہے کی تصدیق کر تے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا۔شیریں نے اپنے مخصوص سپاٹ انداز میں باپ اور اسکی دل عزیز بیوی کو دیکھا۔

"چلیں بس اب آپ ہاں کر دیں تو ہمارے بھی گھر میں کچھ رونق ہو، شیر حسن تو ابھی شادی نہیں کرنا چاہتے، اور بیٹی ہماری کوئی ہے نہیں ایسے میں ساری رونق شیریں کے ہی دم سے ہو گی، ورنہ دونوں لڑکے اور انکے بابا تو بس مشین بنے ہوئے ہیں"

شیر زمان کی "دلہن" نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

(ہوں خوش ایسے ہو رہے ہیں جیسے میں تو اٹھ کر جا رہی ہوں نا ابھی انکے ساتھ )

وہ سر جھٹک کر رہ گئی۔" تو پھر کیا آپکی اجازت ہے کہ ہم اگلے ہفتے میں کسی دن آ کر انگوٹھی پہنا جائیں "

کچھ دیر مزید گفتگو کے بعد وہ مدعے پر آئے، فالتو کا وقت کہاں تھا انکے پاس کہ یہاں بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے۔

"ثمر بھائی آپ کیا کہتے ہیں؛"

سب کو خاموش بیٹھے دیکھ کر انھوں نے ثمر مبارک سے پوچھا ۔وہ ہونقوں کی طرح بیٹی اور باپ کو دیکھے جا رہے تھے۔

" مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے اگر ایسا ہو جائے باقی بابا ہی فیصلہ کریں گے"

وہ اپنے سر سے تلوار ہٹا کر باپ کے سر رکھ رہے تھے۔ساتھ اپنی رضا مندی بھی دی۔

شیریں چپ رہی،دادا جانتے تھے انھیں کیا جواب دینا ہے۔

"بلکل بات تو یہی ہے دونوں بچے ما شا اللہ پڑھے لکھے خود مختار ہیں؛، "

زور خود مختار پر تھا۔

" اپنا برا بھلا سمجھتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں جلدی نہیں برتنی چاہیے"

وہ بنا کسی کی طرف دیکھے تمہید باندھ رہے تھے۔

"ابھی اس بات کو چھیڑنے کا مناسب وقت نہیں، شیریں وکالت میں کچھ کرنا چاہتی ہے، ابھی وہ شادی اور سسرال کی ذمہ داری کے لیے تیار نہیں "

چاہت کے باوجود وہ انکار نہیں کر سکے تھے۔شیر اسد میں کوئی کمی نہیں تھی۔لیکن مسئلہ شیریں کا تھا۔

"شیریں ہماری اپنی بچی ہے اور وہ گھر بھی ایسا ہی ہے جیسا یہ گھر، تو سسرال وغیرہ کی ذمہ داری کی فکر تو ناجائز ہے"

وہ کچھ اچنبھے کا شکار تھے لیکن خود پر قابو رکھتے ہوئے بولے۔

"اور وکالت کوئی چھڑوا تونہیں رہا، جب تک انکا جی چاہے جاری رکھیں"

"اصل میں شیریں نے کچھ فیصلے کیے ہیں"

انھوں نے شیریں کو دیکھا جو انجان بنی اخروٹ کے کیک کے ساتھ انصاف کر رہی تھی۔جیسے بات کسی اور کی ہو رہی ہو۔

(چالاک لومڑی) دادا سوچے بنا نہ رہ سکے۔

"شیریں انڈیپینڈنٹ پریکٹس کرنا چاہتی ہے، اصل میں وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتی ہے"

انھوں نے یہ خشک نوالا اگل ہی دیا تھا جسے نگلنا بھی ممکن نہیں تھا ۔شیرزمان شاکڈ تھے، سوالیہ سب کو دیکھا۔

"میں سمجھا نہیں کیا کوئی بات ہوئی ہے؟ لوگ چیمبرز جوائن کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں تا کہ سالوں اسسٹنٹ بننے سے جان چھوٹ جائے، انڈیپینڈنٹ میں تو نام بناتے ہوئے سالوں لگ جاتے ہیں"

دادا کے پاس مزید کوئی جواب نہیں تھا وہ چپ ہو رہے۔اب شیریں جانتی اور اسکے کام، ویسے بھی وہ کونسا ہر کام ان سے پوچھ کر کر رہی تھی۔

" مجھے لگتا ہے میرے اور چیمبرز کے انٹرسٹ سیم نہیں ہیں، اور نام بنے یا نہ بنے لیکن ابھی میرا یہی ارادہ ہے "

وہ بولی تو لہجہ مضبوط تھا۔شیر زمان تو لاجواب ہی ہو کر رہ گئے، وہ گھر سے کیا سوچ کر آئے تھے اور جواب انکی توقع کے برعکس تھا۔

"لیکن یہ سب شادی کے بعد بھی چلتا رہے گا، شادی کو کیوں کھٹائی میں ڈالا جائے "

انکی بیوی کو البتہ شادی کی جلدی تھی۔شیریں اب کی بار چپ رہی۔خاموشی کا طویل وقفہ جان لیوا تھا۔

" بھائی شیریں امانت ہے آپکی جب چاہیں لے جائیں بس کچھ وقت دیں ہمیں"

اسکی خاموشی کو ثمر مبارک اقرار سمجھ رہے تھے، اسی لیے اگے بڑھ کر تسلی دی۔شیر زمان کی بیوی نے شوہر لی طرف سوالیہ دیکھا تو انھوں نے چند ثانیے توقف کے بعد ہلکا سا سر ہلا دیا۔

"ٹھیک ہے پھر ہم رسم کر دیتے ہیں منگنی وغیرہ چند ماہ بعد ہو جائے گی، "

انھوں نے میز سے اپنا بیگ اٹھا کر ہزار ہزار کے چند نوٹ نکالے۔اور آگے بڑھ کر شیریں کی گود میں رکھ کر اسے دعا دی۔اور ماتھا چوما۔

وہ متحیر نگاہوں سے دادا کو تکے جا رہی تھی جو خاموش بیٹھے تھے۔اس سے پہلے کی مبارک سلامت کا سلسلہ طویل ہو جاتا شیریں نے اپنی گود میں دھرے وہ چند نوٹ اٹھائے۔اور انھیں واپس میز پر رکھ دیا۔سب کی زبانیں گنگ اور نگاہیں اس پر جمی تھیں ۔

"اس سب کی ضرورت نہیں اگر مجھے لگے گا کہ میں اسد کے ساتھ ََزندگی اچھے طریقے سے گزار سکتی ہوں تو میں *خود* بتاؤں گی آپکو" خود پر زور دیتی وہ سب پر ایک اطمینان بھری نظر ڈالتی وہاں سے چلی گئی ۔ثمر مبارک اور انکی بیوی کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر اسکے اطمینان میں بت تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔

وہ برسوں سے ایسے ہی کسی لمحے کی منتظر تھی۔قدرت نے یہ دن دکھایا تھا۔

صد شکر ۔

وہ سرشار سی اپنے کمرے میں چلی گئی، جب تک وہ لوگ چلے نہیں گئے وہ باہر نہیں نکلی۔اور وہ لوگ بھی زیادہ دیر نہیں رکے تھے۔فورا واپس روانہ ہو گئے ۔

آئین جہاں گاہے، چناں گاہے چنیں "

(دنیا کا قانون ہے کبھی اس طرح اور کبھی اُس طرح) وہ مکمل سرشار تھی۔

کچھ دیر بعد اس نے انکے لائے ہوئے پھلوں اور پھولوں کے ٹوکرے بھی اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ ثمر مبارک کے پورشن میں بجھوا دئیے تھے،

" اپنے بابا سے کہنا ہمیں انکی ضرورت نہیں "

اس نے جلتی پر تیل پھینکتے ہوئے پیغام بھیجا۔

"میں کچھ نہیں کہوں گا بس رکھ دونگا وہ پہلے ہی بہت غصے ہیں"

پندرہ سولا سالہ لڑکا اس کا پیغام پہنچانے سے معذوری کا اظہار کر رہا تھا۔

"براوو مسٹر عثمان"

وہ طنزیہ بولی۔پھر دبی دبی مسکان سجائے کسی فارسی گانے کو گنگنانے لگی۔

********


جس پل وہ اپنا سامان لے کر کمرے سے باہر نکلا، ایفا گل کچن سے نکل رہی تھی۔

" ہمایوں نہیں آیا ابھی؟"

اس نے بناء مخاطب کیے ایفا گل سے استفسار کیا۔

"نہیں" نفی میں سر ہلا کر جواب دے پائی۔وہ وہاں سے واپس کھسکنے کے لیے پرتول رہی تھی۔

"میری بات سنیں"

وہ واپس کمرے میں چلا گیا اسے بھی آنے کا اشارہ کیا۔ایفا گل کی روح لبوں تک آ گئی ۔

"یا اللہ میری مدد فرما، مجھے صبر اور ہمت دے، اور اپنی رضا کے لیے لوگوں کے ساتھ اچجا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرما"

دل ہی دل میں دعا کرتی وہ قدم قدم چلتی وہ کمرے میں آئی۔بات یہ نہیں تھی کہ وہ حاطب سے لڑ نہیں سکتی تھی بات یہ تھی وہ مزید اسکا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی۔جسکا دل پہلے سے دکھا ہوا تھا۔

"جی؟ "

ہاتھوں کی انگلیاں چٹخاتی وہ سر جھکائے کھڑی تھی۔

" بیٹھ جاؤ"

وہ سامان ایک طرف رکھ کر اب اسکے سامنے دائیں بائیں کرنے لگا۔

وہ ایک ایک سانس گن رہی تھی۔

"میں جا رہا ہوں"

پھر گلا کنکھار کر بولا۔اس نے نا سمجھی سے حاطب صاحب کو دیکھا ۔

؛ "دیکھو ایفا گل، میں تمہیں غلط نہیں کہہ رہا، بلکہ تم اچھی لڑکی ہو،"

وہ اقرار کیے بناء نہیں رہ سکا تھا۔

"لیکن اس سب کے، مطلب میرڈ لائف کے کچھ تقاضے ہیں،جنھیں پورا کرنا انسان کی مجبوری ہے"

وہ انتہائی مناسب الفاظ میں بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

"میں جانتا ہوں کہ بہت سی چیزیں ہیں جو تم نہیں جانتیں یا پھر یہ کہنا چاہیے کہ تمہیں انکا احساس نہیں ہے"

ایفا گل نے تھوک نگل کر کن انکھیوں سے اسے دیکھا۔وہ دکھنے میں تواچھے لگ رہے تھے پتہ نہیں باتیں مشکل کیوں کرتے تھے۔

"معصومیت اچھی چیز ہے ایفا گل لیکن"

وہ چپ ہو رہا پھر آہستہ آہستہ چلتا اسکے سامنے آ کھڑا ہوا۔

" اس سٹیج پر معصومیت خطرناک ہو سکتی ہے"

وہ ایک لاشعوری فورس کے تحت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اب تمہاری زندگی پہلے جیسی نہیں ہے اب تم، ایک نئے فیز میں داخل ہو چکی ہو"

وہ بہت قریب تھے، انکی سانسیں عفی کو اپنی پیشانی پر محسوس ہو رہی تھیں۔اور اسکے دل کی دھڑکن منتشر ہو رہی تھی۔حاطب نے اسکی آنکھوں میں خوف دیکھا تھا۔وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔

"میں کنفیوز ہو جاتا ہوں جب تمہیں دیکھتا ہوں تو"

" حاطب میں نے کیا کیا ہے جو آپکو برا لگا"

وہ کہہ گئی تھی۔چاہے جیسے بھی سہی۔

"تم کچھ بھی نہیں کر رہی ہو اور یہی سب سے بڑا پرابلم ہے" وہ بے ساختہ اور بے بسی بھری ہنسی ہنسا۔

اس لڑکی کو سمجھانا مشکل ہی تھا۔

"اچھا خیر نیکسٹ ٹائم آؤں تو تمہیں کچھ بھی سمجھانا نہ پڑے، اب معصومیت سے نکل آؤ تو ہی بہتر ہے"وہ بے بس ہو کر رہ گیا۔

پھر اسے مزید حیران کرتے ہوئے اسکی پیشانی پر لب ٹکا دئیے اسکے بعد وہ رکا نہیں تھا سامان اٹھایا اور باہر نکل گیا۔

ایفا گل اس حرکت پر عجیب سے احساسات کا شکار وہیں کھڑی رہ گئی ۔


********


دادا کے لاکھ کہے کے باوجود اس نے ایک بہترین دفتر کرائے پر حاصل کر لیا تھا۔چند دن وہ اسکی بہترین قسم کی ڈیکوریشن میں لگی رہی ۔پھر اسکے جذبوں کو تازہ خون تب میسر ہوا جب اسے دوکیس بھی مل گئے تھے۔

ایک ملزم جھیل میں تھا۔جبکہ دوسرا قتل کے مقدمہ میں پولیس کسٹڈی میں تھا۔

اس کا بھائی روز اس سے ملنے آتا تھا۔اور بضد تھا کہ تھانے میں اس کے بھائی کا خیال رکھا جائے کہیں پولیس والے اس سے کچھ الٹا سیدھا بیان نہ دلوا لیں۔اور پولیس اہلکاروں نے شیریں کو ایک دفعہ بھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی، وہ کبھی کوئی بہانہ گھڑتے کبھی کوئی،

کبھی کہتے کہ ملزم کو آلہ قتل برآمد کرنے کے لیے کہیں لے کر گئے ہیں، کبھی کہتے اسکے ساتھیوں کی تلاش میں اسکی بتائی گئی جگہ پر ریڈ کرنے گئے ہیں "

" ایس ایچ او کہاں ہے تمہارا، مجھے ملواؤاس سے، بھئی میں تین دن سے مسلسل یہاں آ رہی ہوں اور آپ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ ہی نہیں رہے۔"

وہ جھنجھلا کر رہ گئی۔

" ایس ایچ او صاحب ابھی تھانہ میں نہیں ہیں، آپ فکر نہ کریں کل ملزم کو عدالت میں پیش کر دیا جائے گا"

اے ایس آئی نے اسے تسلی دی۔

" یہ تو مجھے کل بھی کہا تھا آپ نے اور پرسوں بھی، لیکن آج تیسرا دن ہے اور آپ نے اسے عدالت میں پیش کرنا تو دور مجھے دکھایا تک نہیں"

" میڈم عدالت میں پیش کریں گے تو جی بھر کے دیکھ لیجیے گا، ابھی وہ تھانے میں نہیں ہے "

اس نے بات ہی ختم کر دی۔البتہ آج وہ تہذیب یافتہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا۔ورنہ تو جان چھڑاتے تھے۔

" تھانے میں نہیں تو کہاں ہے، کیا آپ نے اسے کسی پرائیویٹ ٹارچر سیل میں شفٹ کر دیا ہے؟ کیونکہ آجکل آپکی دوران حراست قتل کی وارداتوں میں بھی کافی اضافہ ہو چکا ہے"

وہ طنزیہ انداز میں بولی۔

"میڈم جائیں آپ، میں عزت سے سمجھا رہا ہوں آپکو تو بات سمجھ جائیں نا" وہ دبے دبے لہجے میں ناگواری کا اظہار کر رہا تھا لیکن شیریں کا غصہ آسمانوں کو چھونے لگا۔

" میں ادھر تم لوگوں کی فضول باتیں سمجھنے نہیں آئی، جب گرفتاری ہو چکی ہے تو پھر ملزم کو سامنے لائیں ٹرائل عدالت میں ہو گا، نہ کہ کسی ٹارچر سیل میں "

وہ بلند آواز میں جھنجھلا کر بولی۔

(یا اللہ اس عورت کو اٹھا لے یا مجھے کہیں اور کسی دور کے پولیس اسٹیشن میں لگا دے)

اے ایس آئی انس نے دل ہی دل میں دعا کی۔

مگر دعا ابھی قبول نہ ہوئی تھی جب ایس ایچ او کے دفتر سے نکلتے ایس پی صاحب شور کی آواز پر اس طرف مڑے تھے۔

"کیا بات ہے؟ اے ایس آئی کیا مسئلہ ہے خاتون آپکو بیٹھ کر بتائیے"

وہ اپنے مخصوص انداز میں ہمدردی سے بولا البتہ خاتون کی شکل دیکھ کر آدھی ہمدردی جاتی رہی۔

وہ خاتون قابل ہمدردی نہیں لگتی تھی کم از کم۔

*******


"ڈیڈ میں واپس یونی جانا چاہتی ہوں، جو سمیسٹر میرا رہ گیا ہے اسے کمپلیٹ کرنا ہے مجھے"وہ دو ٹوک بولی تھی۔وہ کسی سے مخاطب نہ ہوتی تھی البتہ کوئی طنز بھی برداشت نہیں کرتی تھی، اس نے اپنی زبان کو چھری جیسا تیز کر رکھا تھا۔

جو قریب جاتا وہی کٹ کر رہ جاتا۔

"ابھی اسکی ضرورت نہیں بات کو کچھ ٹھنڈا پڑ جانے دو" بریگیڈئر ریٹائرڈ سجاد خان نے بھی سادہ سا جواب دیا۔

"ڈیڈ اچھا خاصہ سمسٹر جب چل رہا ہے تو ڈراپ کیوں کروں، ویسے بھی گھر پر فری بیٹھ کر بور ہو گئی ہوں میں"

سفیان سے بھی ملاقات تبھی ممکن تھی جب وہ اسلام آباد میں ہوتی، اور کافی دنوں سے ملاقات نہ ہو پانے کے باعث وہ اس سے اداس ہو رہی تھی۔اور وہ بھی بے قرار تھا۔

"پہلے بھی تو یہی ڈیساییڈ ہوا تھا کہ دو ہفتے بعد میں واپس چلی جاؤں گی اب دو ہفتے ہو تو گئے ہیں "

وہ انکی خاموشی پر چڑ گئی تھی۔

"عروہ بحث مت کرو جیسا ڈیساییڈ ہوا تھا اب ویسا کچھ نہیں ہو گا"

" کیوں؛؟"

انداز خاصہ بے ادب تھا۔

"کیونکہ تم نے بہت سے دروازے خود پر بند کر لیے ہیں، پہلے میں نے سوچا تھا کہ جو بھی ہے جیسا بھی ہے نکاح کر کے اسکے ساتھ روانہ کرونگا تمہیں تا کہ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو تمہیں "وہ آنکھوں پر سے نظر کا چشمہ اتارتے ہوئے بولے۔

"لیکن اب اسکی حالت دیکھ کر میں خود کو اس ظلم کے لیے راضی نہیں کر پا رہا۔

تم خود پر ظلم کر سکتی ہو میں نہیں اس لیے چپ چاپ گھر بیٹھی رہو"

" ڈیڈ مجھے ڈگری مکمل کرنی ہے، میں نے محنت کی ہوئی ہے اب آخری سال ہے میرا تو کیا سب ضائع کر دوں؟"

وہ سٹپٹا کر بولی۔

"ہاں جہاں تم نے میری اتنے سالوں کی محنت ضائع کر دی وہیں اپنی محنت کو بھی جھونک دو"

وہ غصے سے بولے۔

" میں نے اکمل (چھوٹے بیٹے) سے بات کی ہے اس لڑکے کو کہو کہ اپنی سی وی اور باقی کی ڈیٹلز بھیجے، اکمل کوشش کر رہا ہے کہ کہیں اسکا بندو بست کر دے"

وہ بہت کچھ سوچ چکے تھے۔عروہ نے حیرت سے انھیں سنا۔

"ورنہ یہاں تم ساری زندگی بھی نوکریاں کرو گی تو بھی اسے اس غربت سے نہیں نکال سکو گی"

انھوں نے طنز کا آئینہ اسکے سامنے کیا۔

وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ۔

جو بھی تھا اب آگے بہت سی مشکلات انکے سامنے تھیں ۔جنھیں پار کر کے ہی وہ اپنی محبت کو پا سکتی تھی۔


********

ہمایوں نے اسے آرام سے بات کرنے اور متعلقہ پولیس اہلکار کو اسکا مسئلہ حل کرنے کا کہہ کر وہاں سے غائب ہونا ہی مناسب سمجھا۔بدتمیز لڑکیاں اسے بلکل پسند نہیں تھیں ۔مگر وہ اسے بھی ساتھ ہی لپیٹ رہی تھی ۔بات یکبارگی بڑھ گئی تھی۔

"دیکھیں خاتون آپ ہمارے لیے معزز ہیں لیکن یہاں آکر پولیس کے ان بیچارے اہلکاروں کے ساتھ بحث کا کوئی فائدہ نہیں،. آپ اپنا کیس تیار کیجیے ہم ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کریں گے زآپ جیسے چاہیں دفاع کیجیے گا۔"

"دیکھو مسٹر کوتوال بحث کے موڈ میں میں بھی بلکل نہیں ہوں، بس سیدھی سی بات ہے مجھے یہ بتا دیں کہ ٹرائل کے دوران آپ نے میرے مؤکل کو کہاں رکھا ہوا ہے؟"

وہ جو پہلے گھر ہی سے تپی ہوئی آئی تھی، یہاں مزید تپ گئی۔

پہلے تو ہمایوں یوں ایس پی کی بجائے کوتوال کہے جانے پر ہی اچنبھے کا شکار ہوا اوپر سے اسکا لٹھ مار انداز دیکھ کر اسکے ابرو سوالیہ سکڑ گئے تھے۔

" میں بھی سیدھی بات ہی بتا رہا ہوں بی بی آپکو"

ناچاہتے ہوئے بھی اسکا انداز سخت اور بیزاری بھرا تھا۔

"آپ سیدھی بات نہیں بتا رہے آپ اور آپکے یہ اہلکار میرے ساتھ کوئی اشاروں کی گیم کھیل رہے ہیں، مگر مجھے اپنی بات کا جواب چاہیے نا کہ فضول کی وضاحتیں"

سامنے دادا نہیں تھے جو اسکی ہر بات برداشت کر لیتے۔اور وہ یہی بات اکثر بھول جاتی تھی۔

"بی بی ہم آپکو وضاحتیں دینے کے پابند بھی نہیں، اور جو کرنا ہے جو پوچھنا ہے عدالت میں پوچھیے گا۔ہم یہاں آپکو جواب دینے یا کسی قسم کی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے"

ہمایوں نے اسے گھورتے ہوئے باہر عدالت کا راستہ دکھایا۔شیریں نے بمشکل خود کو موٹی سی گالی دینے سے باز رکھا۔

ہمایوں اسے بغور دیکھ رہا تھا۔

" میں تم سب کو دیکھ لونگی،، تم سب ملے ہوئے ہو"

چہرے کے بگڑے زاویے غصے کی شدت کے غماز تھے۔

"میں تم سب کو دیکھ لونگی"

" ہاں ہاں دیکھ لیجیے، آرام سے دیکھ لیجیے ہم بھی تو دیکھیں وکیل صاحبہ ہمیں کیا دکھاتی ہیں"

وہ استہزاء سے بول کر اسے چڑا رہا تھا۔

(تمہاری تو ایسی کی تیسی ایس پی"

غصے میں تھانے کے آدھ کھلے گیٹ سے اسکا سر ٹکرایا تھا۔دفتر سے نکلتا ہمایوں بے ساختہ مسکرایا۔

(پاگل عورت)

جبکہ وہ سر سہلاتی اپنی گاڑی کی طرف چلی گئی تھی۔

**********

لوہے کے گیٹ سے ٹکرانا کوئی اچھا تجربہ نہیں تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں ماتھے پر ایک گھومڑ سا نمودار ہو چکا تھا، اور جو الجھن ہوئی تھی وہ الگ۔

(کب جان چھوٹے گی ان فضول پولیس والوں سے تمہاری شیریں)

بیک ویو کو خود پر فوکس کرتے ہوئے اس نے اپنا عکس دیکھا جہاں چوٹ کا نشان اب واضع ہونے لگا تھا۔یقیناً دادا تفتیش کرتے اسکے متعلق۔

اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ سے ڈسکس کیا تو اس نے کہا ایس ایچ کے خلاف رٹ (writ) کرا دو۔ایک دفعہ کراؤ گی تو جان چھوٹ جائے گی روز کے مباحثوں سے۔اس نے شاید یہ بات مذاقاً کہی تھی لیکن شیریں کو تو گویا ہنٹ مل گیا تھا۔

"ٹھیک ہے شیریں خانم اگر یہ لوگ بلف مار سکتے ہیں تو انکا علاج بھی کرنا چاہیے"

وہ سیدھی گھر آئی تھی، پھر وہ کتابوں کا ڈھیر لگا کر بیٹھ گئی۔دادا اسکی ان مصروفیات پر حیران رہ گئے، مطالعہ کسی وکیل کے کیریئر میں جان ڈالتا ہے اور آجکل وہ ویسے بھی زیادہ پڑھ رہی تھی۔لیکن اگلے دو دن تو اس نے سر ہی نہیں اٹھایا تھا۔کورٹ بھی لیٹ گئی، پھر شام کو آئی عثمان کو بلایا اور کہیں چلی گئی ۔دادا کا صبر جواب دے گیا۔

"کر کیا رہی ہو تم شیریں خانم"

وہ اسے بغور گھورتے ہوئے بولے۔

"میں ایس ایچ او کے خلاف رِٹ فائل کرنے لگی ہوں، وطیرہ بنایا ہوا ہے ان لوگوں نے، ملزمان کو غیر قانونی حراست میں رکھنا۔"

اسکے ماتھے پر بیزاری کے بل تھے۔

"اور اس سے کیا ہو گا؛؟"دادا نے ٹھنڈی سانس بھر کر اس بات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا۔

"کچھ نہ کچھ تو ہو گا" کھانا پکا کر ڈش میں نکالا، اور روٹیاں بنانے لگی۔اسکے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔

" سیشن کورٹ میں رٹ کرنے کے کتنے فائدے ہوتے ہیں، شیریں سارے بیوقوفانہ کام تم نے کرنے کا تہیہ کر لیا ہے شاید"

وہ مایوس ہو کر وہیل چئیر دھکیلتے باہر نکل گئے ۔اب وہ زیادہ وقت وہیل چئر پر گزارتے تھے۔عمر بھی تو کافی ہو گئی تھی۔

"اگر یہاں کچھ نہ ہوا تو میں لاہور ہائی کورٹ جاؤں گی"اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔

شمشاد خان اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اس وقت اسے سمجھانا بیکار تھا، خود ہی ناکامی کے بعد سمجھ جاتی۔

عدالتیں اور پولیس کوئی الگ الگ تھوڑی تھے، اور اگر تھے تو صرف قانون کی کتابوں میں ۔اور کتابیں تو کتابیں ہی ہوتی ہیں ۔

********

سجاد خان نے اسلام آباد کا ایک مزید چکر لگایا تھا۔

سفیان مجید سے دوسری ملاقات بھی کوئی خاص حوصلہ افزا ثابت نہیں ہوئی تھی۔سوائے محبت کے بلند و بانگ دعوؤں کے اسکے پاس عروہ کے لیے مزید کچھ نہیں تھا۔

"دیکھو لڑکے تمہارے بلکہ تمہارے اور میری بیٹی دونوں کی وجہ سے میری بہت جگ ہنسائی ہوئی ہے، میں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا" انھوں نے پیشانی پر بل سجائے سفیان کو دیکھا جو الرٹ سا انھیں سن رہا تھا۔آج انھوں نے اسے ایک ہوٹل میں بلایا تھا۔اسکے گھر جا کر ڈپریشن کا شکار نہ ہونا چاہتے تھے۔

" اتنا تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ انسان کو اپنی حیثیت سے بڑے خواب نہیں دیکھنا چاہیں "

وہ طنز کے تیر برسا کر شاید اپنا غم غلط کر رہے تھے۔سفیان نے بے چینی سے پہلو بدلا۔اور نظر اپنی کلائی کے زخم پر ڈالی جو اب بھر چکا تھا۔بس نشان باقی تھے۔

"تم نے زمین پر کھڑے ہو کر چاند کے خواب سجائے ہیں مگر مجھے تم میں ایسی کوئی خوبی نظر نہیں آ رہی کہ تم چاند تک پہنچنے کے قابل ہو جاؤ گے، بد قسمتی سے مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے" اس نے پھر سے پہلو بدلا۔

"میں جاب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں" وضاحت بیکار تھی۔سجاد خان استہزاء سے ہنسے۔

"ہاں تم جیسے لوگ آدھی زندگی جابز ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ نوکریاں کر کے کوئی چاند تک نہیں پہنچا یہ یاد رکھو "

(شاید انھوں نے مجھے ذلیل کرنے کے لیے بلایا ہے)

وہ صرف سوچ ہی سکا۔ابھی احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔

"اپنا سی وی اور باقی کی معلومات دے دو مجھے، میں کوشش کرونگا اگر تم کسی یورپ کے ملک میں نکل جاؤ، تو ہی ممکن ہے کہ تمہارا یہ فقراء جیسا سٹینڈرڈ آف لونگ(standard of living) ریز ہو سکے"

انھوں نے حقارت سے اسے دیکھا ۔ابھی اسی شخص کے ساتھ انکی بیٹی زندگی بِتانے پر بضد تھی۔اور وہ مکمل بے بس تھے۔

" میں کر لونگا کچھ نہ کچھ"وہ حیرت سے انکار کر رہا تھا۔" جتنا تم کر رہے ہو اس میں تو تم جس کرسی پر بیٹھے ہو اور جس جگہ بیٹھے ہو وہاں مہینے میں ایک بار چائے پینا بھی افورڈ نہیں کر سکو گے"

بریگیڈیئر صاحب کسی لگی لپٹی کو رکھنے کے موڈ میں نہیں تھے۔

"مگر میری بیٹی کا ایک سٹینڈرڈ آف لونگ ہے، وہ اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتی، اور تمہیں اسکے معیار تک خود کو لانا ہو گا۔"

وہ حکم جاری کر رہے تھے۔پھر جیب سے چند نوٹ نکال کر کپ کے نیچے رکھے۔

" اپنی ڈیٹیلز بھیج دو اور ہاں جب تک کسی قابل نہ ہو جاؤ میری بیٹی کے قریب بھی نظر مت آنا"

انکے چہرے پر پتھریلے تاثرات تھے ۔

سفیان نے سپاٹ چہرے کے ساتھ انھیں دیکھا جو اسکا مصافحہ کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ نظر انداز کر گئے تھے۔چند منٹ بعد وہ عروہ کو کال ملا چکا تھا۔

"ہوئی ملاقات ڈیڈ سے؟ "

اس نے چھوٹتے ہی پوچھا ۔

" ہاں تسلی سے ذلیل کر کے گئے ہیں "اسکے لہجے میں سخت بیزاری تھی۔عروہ کو اسی کی توقع تھی

"اچھا اب یہ تو برداشت کرنا ہو گا، میں بھی نجانے کیا کچھ برداشت کر رہی ہوں"

اس نے اسے تسلی دی۔سفیان "ہوں" کر کے رہ گیا۔

"اچھا یہ بتاؤ انھوں نے ہماری یورپ میں سیٹلمنٹ کی بات کی تم سے؟ "وہ پرجوش تھی۔

" ہاں مگر میں انکا یہ حقارت بھرا لہجہ برداشت نہیں کر سکتا انھیں سمجھا دو تم "

وہ اسے جتاتے ہوئے بولا۔بریگیڈیئر سجاد خان پر بس نہیں چلتا تھا انکی بیٹی تو مکمل بس میں تھی۔

"اچھا بس کر دو سفیان، میں بھی تو کتنا کچھ برداشت کر رہی ہوں صرف تمہارے لیے، تم کیا میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے"وہ حیران تھی۔

" میں نہیں کر سکتا،اور ملنے کیوں نہیں آئیں تم؟"

وہ رعب سے بولا تھا۔ساتھ ہی محبت بھری خفگی دکھائی ۔وہ بھی سب بھول کر اسی بات پر آ گئی ۔

" یار ڈیڈ ادھر ہی ہیں دو دن یہیں رہیں گے، ہاسٹل بھی نہیں رہنے دے رہے۔اپنے کسی فرینڈ کی طرف رکے ہوئے ہیں، اجمل بھائی کو یہاں پوسٹ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں، اب انھی کے ساتھ رہنا ہو گا مجھے، تو روز روز نہیں مل سکیں گے"

اس نے تفصیلات سے آگاہ کیا۔

"میں یہ سب نہیں جانتا، مجھے ملنا ہے تم سے، جیسے بھی مگر مجھ سے ملو، ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو رہا ہے"وہ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔اور عروہ اس پیار پر سرشار تھی۔

یقیناً کل وہ اس سے ملنے جانے والی تھی، اسے باپ کی ناراضگی کی خاص پرواہ نہ تھی۔محبت سے بڑھ کر کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔محبت بھی وہ جو ہاتھ سے نکلتے نکلتے رہ گئی ۔کتنی بڑی قربانی دی تھی اس نے۔


*******


ایس ایچ او کے خلاف رٹ فائل کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تھا۔ ہاں بس ہر دو روز بعد جج ایس ایچ او اور شیریں کو طلب کر لیتا۔اس ملزم کو پیش کر کے سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا تھا۔شیریں کی کوئی خاص سنوائی نہ ہوئی تھی۔بجز اسکے کہ اب ایس ایچ او تھانے جانے پر اس سے ادب سے بات کرتا تھا۔

مگر نہ تو عدالت نے اسے معطل کرنے کے آرڈر جاری کیے اور نہ ہی کچھ اور ہو سکا۔

اور جس دن اسکی رٹ نبٹائی گئی، پولیس کے اہلکاروں نے اسے چڑانے کو مزید دس روزہ جسمانی ریمانڈ لے لیا۔

وہ غصے میں کھولتی رہ گئی لاکھ حساس اور نرم دل تھی، انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا لیکن ابھی تک جذبات کو قابو کرنا نہیں آیا تھا۔

یہی اسکی کمزوری تھی۔


******

"نہیں بھائی صاحب فکر نہ کیجیے وہ بلکل ٹھیک ہے، بلکہ میں آپکی بات کرائے دیتی ہوں"

چچی نے موبائل-فون کان سے لگائے ایفا گل کو یہاں وہاں تلاشا۔

"میں کہہ رہا تھا کہ جاوید کو کہوں وہ اسے لے آئے، چند دن رہ کر چلی جائے گی، کافی دن ہو گئے اور دل بھی اداس ہو رہا تھا"

انکا لہجہ صلح جو اور گزارشانہ تھا۔کسی قسم کا استحقاق ناپید تھا۔

" نہیں نہیں جب چی چاہے جائے، لیکن شادی کے بعد پہلی دفعہ جانا یے تو، اسی لیے نہیں بھیجا کہ حاطب کے ساتھ ہی آئے گی"

انھوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔اب بھلا کون تھا جو اسے چھوڑنے لینے کے تکلفات پورا کرتا، سب مصروف تھے۔

"حاطب میاں گھر پر ہی ہیں ابھی؟" سدید خان نے دوسرا سوال کیا ۔

" چلا گیا ہے وہ، لیکن جلد ہی جانے سے پہلے چکر لگائے گا"

وہ ابھی پھر سے حویلی سے کوئی تعلق استوار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھیں ۔جتنی اذیت انھیں وہاں سے ملی تھی وہ دوبارہ لینے کا ارادہ نہ تھا۔

"چلیں میں تو کہہ رہا تھا کہ سعد کو بھیجتا وہ لے آتا، جیسے آپ کی مرضی "

یہ شرافت تھی یا کیا لیکن وہ مزید اصرار نہیں کر سکے۔

پتہ نہیں وہ بیٹی کا گھر بسا رہے تھے یا اس پر ظلم میں حصہ دار بن رہے تھے۔"

چچی نے شام کو جاوید چچا سے ذکر کیا تھا۔ساتھ ہی اپنا فیصلہ بھی سنا دیا۔

"میں نے تو حاطب سے سرسری سا پوچھا تھا وہ ہتھے سے اکھڑ گیا۔کوئی ضرورت نہیں ابھی کچھ عرصہ اسکے زخم کریدنے کی"

" لیکن عفی تو جا سکتی ہے، اگر بھائی صاحب سعد کو بھیج رہے تھے تو بھیج دیتے، کم از کم بچی تو اپنے ماں باپ سے مل آتی"

انکا لہجہ کمزور سا تھا، اسکے گھر کے فیصلے وہ پہلے بھی تن تنہا نہیں کرتے تھے اب بھی چچی ہی کے پاس آخری فیصلہ کی طاقت تھی۔

ایفا گل نے سنا تو دل مسوس کر رہ گئ ۔

کتنا دل اداس تھا اس جگہ رہنا، اوپر سے سب کے رویے اسے یہ سب کسی سزا جیسا ہی لگنے لگا تھا۔ جیسے یکدم کسی ایسے پنجرے میں قید کر دی گئ ہو جہاں سے رہائی کے کوئی امکانات بھی نظر نہ آ ریے ہوں ۔اور پنجرے کے مالکان بھی اسکے وجود سے لاپرواہ نظر آتے تھے ۔

نجانے اور کتنی قربانیاں تھیں جو ابھی دینا تھیں ۔

**********


وہ عدالت کے باہر ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی، مسلسل بارشوں کے باعثِ شہر دھلا دھلایا لگ رہا تھا، آج دھوپ کافی دنوں بعد نکلی تھی۔

وہ بنچ پر بیٹھی دھوپ کامزہ لینے لگی۔کچھ دیر بعد ایک سینئر ایڈووکیٹ سے ملنا تھا، تو تب تک وہیں بیٹھی رہی۔

(دھوپ لگوا لو شیریں خانم)

وہ ننھی ننھی چکمدار آنکھوں سے آس پاس کا جائَزہ لے رہی تھی۔معمول کی سی ہلچل تھی۔وکیل، انکے منشی اور پولیس کے اہلکار فائلیں اٹھائے یہاں سے وہاں آ جا رہے تھے۔یہاں چھٹی کے دن کے علاوہ یوں ہی چہل پہل رہتی تھی۔ہاں جب کبھی کسی وکیل یا موکل پر عدالت کے باہر حملہ ہوتا تب کچھ دن رش کم ہو جاتا۔عام عوام سے زیادہ پولیس اہلکار نظر آتے۔مجرموں میں مشہور تھا کہ اگر کسی کو قتل کرنا ہو تو بہترین جگہ عدالت کا صحن ہے قانون کی عمارت میں غیر قانونی کام کرنا آسان سمجھا جاتا تھا۔

"السلام علیکم، ایس پی صاحب سامنے اپنے دفتر میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں"

اس نے اچنبھے سے سامنے اس دفتر کی طرف دیکھا جہاں ہفتے کے دو دن ایس پی صاحب کھلی کچہری منعقد کرتے تھے۔آجکل کافی شہرت حاصل کر چکے تھے۔

"انھیں واپس جا کر پیغام دو کہ مجھے ان سے نہیں ملنا،"

وہ بے نیاز سی دکھتی تھی۔

"ہاں اگر وہ ملنا چاہیں تو آ سکتے ہیں "

وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے اعتماد سے بولی۔

اہلکار نے ڈرتے ڈرتے جا کر جواب دے دیا تھا۔

(پاگل لڑکی، کیسی کیسی خواتین اب وکالت کے شعبے میں آ گئی ہیں)

وہ صرف سوچ سکا۔باقی دھیان سامنے سائل کہ طرف تھا جو اپنی دکھ بھری داستان سنا رہا تھا۔انکو نبٹھا کر اس نے درخت کے نیچے دیکھا جہاں وہ ہنوز ٹانگ جھلا رہی تھی۔


"کیسی ہیں آپ ایڈووکیٹ صاحبہ"

وہ عوامی کچہری سے فارغ ہو کر واپس تھانے جا رہے تھے جب اچانک سینئر ترین افسر اور چند اہلکار اسکی جانب مڑے، اس نے دیکھا مگر ان دیکھا کر دیا۔اور اپنی جگہ بیٹھی رہی۔

"آپ سے ملاقات کی خواہش تھی اور آج ملاقات ہو ہو ہی گئی۔"

ایس پی ہمایوں جاوید خان نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔

"ہمم اچھا ہوا پھر تو آج کا دن مبارک ہے آپکے لیے"

لیا دیا سا انداز تھا۔وہ اٹھ کر کھڑی تک نہ ہوئی

(، شہر کے سینئر ترین پولیس افسر کے ساتھ ایسا رویہ رکھ کر یہ خاتون کامیاب وکیل بننا چاہتی ہیں)

ہمایوں سوچ ہی سکا۔

" آپ کےبارے میں کافی تعریف سنی ہے میں نے، کمزوروں اور مظلوموں کا ساتھ دیتی ہیں آپ، جسکے لیے ہم آپکے مشکور ہیں"

وہ اب سر اٹھا کر اسے دیکھ رہی تھی ۔عجیب بے نیازی تھی۔

(ہوں مشکور. .،جیسے شہر کے سب بڑے ہمدرد یہی ہیں،)

"جو میرا کام ہے وہی کر رہی ہوں"

اس نے کندھے اچکا کر کہا۔ہمایوں مسکرایا

"یہی بہترین جذبہ ہے ہم اسکی قدر کرتے ہیں۔ بتائیں اگر کوئی ہیلپ چاہیے ہو تو، پولیس ڈپارٹمنٹ آپکے لیے کچھ بھی کرے گا"اس نے خوشدلی سے آفر کی تھی۔امید تھی وہ پولیس والوں کے رویے کی شکایت کرے گی۔

اسی لیے وہ منتظر تھا ۔


" آگے سے ہٹ جائیں دھوپ آنے دیں، اسکے علاوہ تو آپ کچھ نہیں کر سکتے"

وہ شان استغناء سے بولی۔

ہمایوں نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا ۔اور واپس مڑا۔

" بہتر"

(بدتمیز لڑکی)

"اسکے جو بھی کیسز ہیں انکو اتنا لٹکاؤ جتنا ہو سکتا ہے اسکو بھی پتہ چلے پولیس ڈپارٹمنٹ کیا کچھ کر سکتا ہے۔۔اور بلکل کسی پریشر میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں، جو بھی ہو گا میں ہینڈل کر لونگا"

وہ اپنے خاص اسسٹنٹ کو ہدایات دیتے ہوئے بولا۔

"سر جی پاگل سی عورت ہے سرپھری، پہلے بھی ایک ایس ایچ او اور ایس آئی کو معطل کروا چکی ہے۔"

پولیس کے پرانے اہلکار اسکی حرکتوں سے جیسے بخوبی واقف تھے اسی لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

" پاگل نہیں بدتمیز ہے یہ، اسکو اچھے سے سبق سکھاؤ باقی کہا تو ہے میں دیکھ لونگا"

وہ گہری براؤن گلاسز کے شیشوں کے پیچھے سے اسے دیکھ رہا تھا۔جو ہنوز دھوپ کا مزہ لے رہی تھی۔

ثمر مبارک کا قالینوں کی تجارت کا بہت وسیع کاروبار تھا ۔حتی کہ شہر کی ہر بڑی عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے قالین وہیں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ایرانی، افغانی، وسط ایشیائی غرض ہر قسم اور ہر ڈیزائن کے اعلیٰ پائے کے قالین یہاں سے میسر تھے۔لیکن اس وقت انکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب شہر کے ایک تھانے کے ایس ایچ او نے انکے گودام میں قدم رکھا۔ملازم لڑکے نے بتایا کہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ایک پل کو وہ چونکے تھے، پھر حساب کتاب کی فائل لڑکے کو پکڑاتے کاؤنٹر پر آ گئے۔

"امید ہے آپ زیادہ مصروف نہیں تھے"

عجیب بے رونق سی شکل والا ایس ایچ او مودب نظر آنے کی کوشش میں مزید بے ہنگم شخصیت کا مالک لگ رہا تھا۔

"جی معمول کی سی مصروفیت ہے آپ بتائیے، کیا چاہیے آپکو ہم کیا خدمت کر سکتے ہیں آپکی"

وہ محتاط انداز میں بولے۔

"نہیں نہیں خدمت گزار تو ہم ہیں آپکے میں بس گزر رہا تھا تو سوچا سلام کرتا چلوں، بہت تعریف سنی ہے آپکے قالینوں کی"

وہ اپنی ہوشیار نگاہوں سے ادھر اُدھر کا جائزہ لے رہا تھا۔

ثمر مبارک نے ناگواری سے پہلو بدلا۔دکان کے لڑکے بھی کچھ حیرت سے اس سب کاروائی کو دیکھ رہے تھے۔پہلے تو کبھی یہاں پولیس اس طرح نہیں آئی تھی۔چند مزید لایعنی باتوں کے بعد آخر اس نے اپنا مدعا بیان کر ہی دیا۔

" بچی آپکی کچھ ناراض ہے ہم سے، ویسے تو وکیل اور پولیس والے بہن بھائی کی طرح ہی ہوتے ہیں، جب ایک ہی پرات پر کھانا ہو تو لڑائی جھگڑے کی کوئی وجہ نہیں بنتی"

اس نے لمبی تمہید باندھی۔

؛" آپ کیا بات کرتے ہیں کھل کر کہیے"

وہ مزید پہیلیاں بوجھنے کا ارادہ نہ رکھتے تھے۔

"ایڈووکیٹ شیریں خانم، آپکی ہی صاحبزادی ہیں نا، انھوں نے پولیس ڈپارٹمنٹ کے خلاف رٹ دائر کی ہیں کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر،. پھر انھوں نے تحریری درخواست بھی جمع کرائی ہے مجسٹریٹ صاحب کے پاس پولیس کے سینئر افسران کے بارے میں،"

وہ ایک پل کو رکا۔

"دیکھیں ہم بھی نوکری پیشہ لوگ ہیں، سسٹم کا ایک طریقہ کار ہے، جو سست ہے لیکن ہم سب مجبور ہیں "

اسکی دلیل بہت لمبی ہوتی جارہی تھی۔اور ثمر مبارک کا چہرہ بلکل سخت، پتھریلا ہو چکا تھا۔

" دیکھیں آپ بچی کو سمجھائیں اگر کوئی بات ہے تو مل بیٹھ کر حل ہو سکتی ہے، ہمارے پاس آئیں ہم انھیں مطمئن کریں گے، لیکن یوں کسی غریب کی رزق روٹی کے پیچھے پڑ جانا کوئی اچھی بات نہیں"

"آپ فکر نہ کریں، میں پوچھوں گا اس سے"

انھوں نے اپنے چہرے کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔

" بہت شکریہ آپ عزت دار آدمی ہے، شہر میں آپکا ایک مقام ہے میں نہیں چاہتا کچھ ایسا ہو جائے جس سے آپکی یا ہماری عزت پر فرق پڑے، ایس پی صاحب بڑے سخت آدمی ہیں، اصولوں کے اٹل ہیں ۔انکوسمجھانا مشکل ہو جائے گا میرے لیے، اس لیے آپ بچی کو سمجھائیں"

وہ اشارتاََ دھمکیاں دیتا وہاں سے رخصت ہوا۔

ایس پی صاحب کہتے تھے، اس لڑکی کو تنگ کرو۔

لڑکی اتنی پاگل تھی کی عدالت پہنچ جاتی۔

اگر وہ ایس پی کی مانتا تو لڑکی کے ہاتھوں عدالت سے معطل ہوتا،

اور اگر اپنی کرتا تو ایس پی کے ہاتھوں معطل ہوتا وہ تو پھنس گیا تھا۔اسی لیے اس نے شیریں خانم کے باپ تک رسائی حاصل کی تھی۔

نتائج کے بارے وہ کافی پر امید تھا۔جبکہ ثمر مبارک نے دکان میں موجود ملازمین کی معنی خیز نگاہوں سے کترا کر وہاں سے جانا پسند کیا۔


:::::٪::::::::

ڈیڈ آج صبح ہی اسے ایک دوست کی طرف چھوڑ کر جی ایچ کیو گئے، پھر وہاں سے نجانے کس کس کو ملنا تھا، انجینئرنگ کور سے اجمل بھائی کا ٹرانسفر کروانا تھا۔اور یہ آسان کام نہیں تھا۔

اور عروہ نے موقع غنیمت جان کر سفیان کو کال کی تھی۔

ایک کافی شاپ میں وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔سفیان پرشوق نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، جبکہ وہ مطمئن تھی۔

"ایک دفعہ تو مجھے لگا میں نے تمہیں کھو دیا ہے"

وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔

وہ فخریہ مسکرائی ۔

"ثابت کیا ہے میں نے، کہ محبت سچ تھی میری"

اسکی آنکھوں میں چمک تھی۔

"ہاں تمہاری محبت پر ہمیشہ سے بھروسہ تھا لیکن اس کم بخت قسمت پر نہیں تھا"

اس نے میز کے درمیان میں رکھے اسکے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے۔

وہ جواباً مسکرائی اسکے کسی انداز سے بے آرامی نہ چھلکتی تھی حالانکہ اسے یوں غیر محرم کی قربت میں پر سکون نہیں ہونا چاہیے تھا۔

" اور اسی لیے تم نے یہ بے وقوفی کر دی"

وہ اسکی کلائی پر نظر آنے والی لکیر کو چھوتے ہوئے بولی۔انداز میں بہت زیادہ خفگی تھی۔

"اگر میں یہ نہ کرتا تو کیا تم وہ کرتیں جو تم نے کیا؟ اور دیکھ لو آج اسی وجہ سے تم یوں میرے سامنے بیٹھی ہو"

وہ شوخی سے جتا رہا تھا۔عروہ نے یکدم جھرجھری لی۔

" توبہ کرو سفی بہت خوفناک رات تھی وہ، اففف، افف"

وہ سوچ کر ہی کانپ اٹھی تھی۔

"میری جان یوں ہتھیلی پر تھی، عین ممکن تھا اجمل بھائی مجھے گولی مار دیتے "

اس واقعے کی دہشت اسکی آنکھوں کے آئینوں سے عیاں تھی ۔

" تو تم نے وہ سب کیسے فیس کیا وہ بھی اکیلے؟"

سفیان اسکی ہمت کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔

" مت پوچھو سفی جب میں نے اسے تم سے بات کرنے کے لیے سیل فون دیا تھا۔کتنی نفرت اور شاک تھا اسکے انداز میں "

وہ خلاء میں دیکھتے ہوئے یہ سب کہہ رہی تھی۔جیسے اس واقعہ کی فلم اسکے ذہن کی سکرین پر چل رہی ہو۔

"ہاں میں سن رہا تھا۔یقیناً اسے شاک ہی لگنا تھا۔کوئی بھی ہوتا پاگل ہی ہو جاتا"

سفیان نے اسے جتایا۔وہ کندھے اچکا کر رہ گئی ۔

"خیر اسکا تو کچھ نہیں گیا۔اگلے دن دوسرا نکاح کر لیا اس نے، اور اب گھر بسا کر بیٹھا ہے، بدنام تو میں ہوئی ہوں، اسکا تو کوئی نقصان نہیں ہوا، میری فیملی نے میری زندگی جہنم بنا دی ہے نا کسی سے مل سکتی ہوں نا کوئی ڈھنگ سے بات کرتا ہے"

حاطب سے شروع میں جو تھوڑی بہت ہمدردی تھی وہ اب ختم ہو چکی تھی۔

اب اسے صرف خود سے ہمدردی تھی۔

" ہاں لیکن وہ ایک اچھا آدمی ہے مجھے امید نہیں تھی وہ اسی دن جان چھوڑ دے گا میری، مجھے لگا وہ روینج لے گااس سب کا بٹ تھینک گاڈ وہ ایسا نہیں نکلا۔"

وہ بولتی جا رہی تھی یہ دیکھے بغیر کہ سفیان غیر معمولی طور پر سنجیدہ اور خاموش ہو گیا تھا۔

اسکا ذہن ایک ہی بات میں اٹک گیا تھا۔

" اسکا کیا گیا بدنام تو میں ہوئی ہوں ۔کوئی مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا"

واقعی بدنام تو وہ ہو چکی تھی۔اسکی ماں نے بہت محنت سے پالا تھا اسے کیا وہ عروہ کے ساتھ سفیان کی شادی پر رضا مند ہوتی؟

اور کیا وہ ماں کی رضامندی کے بغیر یہ شادی کرنے کی جرات کر سکتا تھا؟ وہ پریشان ہو گیا تھا۔


_____

وہ کسی آندھی طوفان کی مانند انکے پورشن میں داخل ہوئے تھے، شیریں عثمان کو کچھ پڑھا یا سمجھا رہی تھی۔

"عثمان تم جاؤ یہاں سے مجھے کچھ بات کرنی ہے"

انکا چہرہ غصے کی تمازت سے لال ہو رہا تھا۔

"بابا مجھے سمجھنا ہے یہ آپا سے"

وہ منہ بنا کر بولا۔اسے اپنے ٹیسٹ کی فکر تھی۔

"میں کہہ رہا ہوں نا جاؤ یہاں سے کوئی ضرورت نہیں کچھ بھی سمجھنے کی"

وہ کھا جانے والے انداز میں بولے۔شیریں نے انکا یہ انداز اچنبھے سے دیکھا۔مگر لاعلمی کے باعث خاموش رہی۔

"ہاں تم بتاو کیا چاہتی ہو تم، کیا سارے شہر میں تم اکیلی وکالت کر رہی ہو یا کوئی دوسرے وکلاء بھی ہیں؟ "

حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا تھا، جب انھوں نے اسے براہ راست مخاطب کیا۔

"کیا ہوا ہے ثمر"

دادا بھی بادلوں کے گرجنے کی آواز پر وہیں چلے آئے تھے۔

"مجھے صرفِ ایک بات کا جواب چاہیے اس سے، کس گناہ کا بدلہ لے رہی ہے یہ مجھ سے"

وہ چیخے۔

" کیا تم سیدھی بات بھی بتاؤ گے یا یوں ہی شور کرتے رہو گے؟"

"اس سے پوچھیں وکیل کا کام عدالت میں کیس لڑنا ہے یا پولیس والوں کے ساتھ بیر ڈالنا۔کیوں یہ سارے شہر کے ساتھ دشمنیاں مول لے کر مجھے بے عزت کر رہی ہے"

پھر انھوں نے ایس ایچ او کی آمد اور دھمکیوں سمیت تمام کہانی گوش گزار کر دی۔

(او تو اس لیے لاڈلے بیٹے کو بھیج دیا تا کہ کوئی ناگوار شے اسے نہ دیکھنی پڑے)

اسکا چہرہ البتہ سپاٹ تھا وہاں اب نفرت بھی نظر نہ آتی تھی ۔اسے ہنوز خانوش دیکھ کر وہ بولے۔پھر اسکی تمام نافرمانیاں اور خود مختاری کے واقعات ایک بار دہرائے۔

دادا روکتے رہ گئے۔مگر بے سود۔

" شیریں قدر کرو زندگی میں آنے والی نعمتوں کی، اگر بے قدری کرو گی تو ایک دن پچھتاو گی"

ثمر مبارک آج اپنا غصہ پوری طرح نکالنے کے موڈ میں تھے۔

"ثمر بس کر دو، میں سمجھاؤں گا اسے"

شمشاد خان نے اکلوتے صاحبزادے کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔شیریں ہنوز خاموش تھی۔مگر اسکے چہرے کے تاثرات پتھریلے ہو رہے تھے۔

"بابا سمجھا لیں اسکو ورنہ جس طرح یہ مجھے شہر بھر میں بے عزت کر رہی ہے میں اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دونگا۔؛"

انکا اندرونی خلفشار الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔شیریں ہنوز خاموش تھی۔ادب میں نہیں بلکہ وہ ان سے مخاطب ہی نہیں ہوتی تھی۔

"بس بہت ہو گئی وکالت، میں کہہ رہا ہوں شیر زمان بھائی سے چند لوگ لائیں اور نکاح کر کے لے جائیں، ہزاروں لوگوں کی ضرورت نہیں ہے"

(شیر زمان شہر بھر کو شادی پر مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔مگر پھر شادی ہی کھٹائی میں پڑ گئی۔)

"ثمر صبر کرو، سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہو گا، اس طرح جلد بازی نہ کیا کرو"

" بابا بس گھر بٹھائیں اسے، جیسے اس جیسی سب لڑکیاں گھر بیٹھی ہوئی ہیں "

شمشاد خان نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔

" اور میں کہتا ہوں زمان بھائی کو کریں انتظامات جو بھی کرنا ہے ، اور یہ فرض بھی پورا ہو، اسکو سمجھائیں اتنی عزت قسمت والوں کو ملتی ہے، شہزادیوں جیسا سلوک کرتے ہیں وہ اسکے ساتھ اور اب بھی شہر بھر دیکھے گا کس طرح بیاہ کر لے کر جاتے ہیں"وہ اپنی بات کہہ کر پورشن سے نکل گئے تھے۔


"میری بات سنیں، جب مجھے شادی کرنا ہو گی۔تو مسجد میں جا کر چٹائی پر نکاح کر لونگی، جیسے میری ماں سے کیا تھا آپ نے، نہ میں شہزادی ہوں اور نا مجھے شہزادی بننے کا شوق ہے"

اسکا لہجہ زہر خند تھا۔

" اور مجھے شیر اسد سے کوئی مسئلہ نہیں ۔مجھے مسئلہ آپکے اور اسکے تعلق پر ہے، کسی بھی ایسے شخص سے شادی نہیں کرونگی جسکا تعلق آپ سے ہو "

اسکے چہرے پر بے نیازی تھی۔اور نفرت تھی۔آج سالوں بعد اس نے باپ کو مخاطب کیا تھا۔ثمر مبارک ایک پل کو ششدر رہ گئے، پھر چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکے۔ورنہ جی چاہتا تھا شیریں جیسی بدزبان کو زندہ زمین میں گاڑ دیں ۔


______________

" کیا ہوا ہے ایفا گل؟ "

اسے آرٹس کونسل کے ایک فنکشن میں شرکت کو جانا تھا، اور اب وہ حاطب کا کوئی شلوار سوٹ مانگنے کے خیال سے دروازہ ناک کرتا فوراً اندر آیا تو ایفا گل کو بستر کے کنارے بیٹھے سسکتے دیکھ کر چونکا۔

"کچھ نہیں" وہ بولی نہیں بس نفی میں سر ہلایا تھا" عفی اوکے جسٹ سٹاپ کرائنگ"

اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے چپ ہونے کا کہا۔بہت کوشش کے بعد اسکی سسکیاں رکیں اور چہرہ ہتھیلی کی پشت سے صاف کرتی وہ چپ ہوئی۔

"کیا مسئلہ ہے؟"

"کچھ نہیں بابا اور لالا یاد آ ریے تھے"اس نے اپنے لہجے کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔

"اور امی جی بھی"

" او ہو تو رونے والی کونسی بات ہے، بلکہ رکو میں تمہاری بات کرائے دیتا ہوں"

اس نے جیب ٹٹول کر موبائل نکالا۔

"رہنے دیں ہمایوں بھائی میری بات ہو گئی ہے"اسکے لہجے میں سادگی اور نمی تھی۔"

" تو پھر ایسا کرتے ہیں تم کچھ دنوں کے لیے گاؤں چلی جاؤ"

اس نے نیا آئیڈیا دیا، ساتھ شرمندگی بھی ہوئی، کہ اسے از خود یہ خیال کیوں نہ آیا۔

"نہیں جا سکتی "اسکی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگی تھیں جنکی نمی وہ ہمایوں سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔

" کیوں نہیں جا سکتیں؟ میں چھوڑ آؤں گا یا پاپا چھوڑ آئیں گے"

اسے وجہ کی سمجھ نہیں آئی تھی۔

"چچی نے کہا.، حاطب کے ساتھ جانا ہے"

اسکا نام زبان پر لانے سے پہلے وہ ایک ساعت کو رکی تھی۔

"تو کیا مسئلہ ہے، ویسے بھی وہ کچھ دن میں آ رہا یے تو چلے جانا تم لوگ"

"حاطب نے منع کر دیا ہے، وہ نہیں جائیں گے وہاں اب کبھی بھی"

اسکی آنکھیں پھر سے برسنے کو تیار تھیں۔جبکہ ہمایوں کو ایک شدید غصے کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لیا۔

"تو کیا اب حاطب صاحب ساری زندگی وہاں نہیں جائیں گے؟ اور بالفرض اگر وہ نہیں جائیں تو کیا تم بھی نہیں جاؤ گی"

اسکے لہجے میں واضح ناگواری تھی۔ایفا گل نے ڈر کر ہمایوں کا چہرہ دیکھا۔

(تو کیا اب میں کبھی بھی اپنے ماں باپ سے نہیں مل پاؤں گی؟)

اس سوال نے اسکا دل مٹھی میں بھر لیا تھا۔لیکن شاید ہمایوں نے اسکی سوچ پڑھ لی تھی۔

" فکر نہیں کرو تم میں خود لے کر جاؤں گا تمہیں،. یہ عجیب پاگل پن یے ویسے"

اسے تسلی دیتا وہ باہر ہو لیا، اب اسکا رخ اپنی ماں کے کمرے کی جانب تھا۔اور انداز جارحانہ تھا۔

ایفا گل سہم سی گئی تھی۔

"دادا میں نے کسی کے خلاف کوئی پٹیشن دائر نہیں کی۔"

ثمر مبارک کے بعد شمشاد خان نے اسے کٹھہرے میں کھڑا کیا۔باقی باتیں چھوڑ انھوں نے پولیس افسران کے متعلق سوال کیا تھا۔

"تو پھر کیا کہہ رہا تھا تمہارا باپ"

انکا چہرہ سپاٹ تھا۔

"دادا وہ میرے کچھ نہیں لگتے، اور نہ میں نے ایسا کچھ کیا ہے پٹیشن انھوں نے کی جنکے گھر والوں کو غیر قانونی کسٹڈی میں رکھا ہوا تھا، میں وکیل ہوں اور میں کسی کا کیس لڑنے کی پیمنٹ لیتی ہوں"

اسکے انداز میں شدید سرکشی کا عنصر تھا۔

" شیریں خانم"

انھوں نے اسے تنبہی انداز میں دیکھا۔

" یہ میری جاب ہے دادا، "

وہ جواباً کندھے اچکا کر انکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔

وہ لا علاج ہوتی جا رہی تھی۔

" شیریں خانم ،یہ اب نہیں چلے گا، میں بھی اسکی اجازت نہیں دونگا، مجھے لوگوں پر کوئی بھروسہ نہیں، نا میں کوئی رسک لینا چاہتا ہوں نا تمہارا باپ"

یہ باتیں نئی نہیں تھی، مگر بے اثر ضرور ہوتی جا رہی تھیں ۔

(پہلے تو کچھ نہیں کیا اب کرونگی، میں تمہیں ہائی کورٹ میں لے کر جاؤں گی، یو بلڈی باسٹرڈ)

اسکی اندرونی کیفیت کا اندازہ چہرے سے لگایا جا سکتا تھا۔غصے کی شدت (rage) سے اسکے فیچرز تن گئے تھے۔

"میرے باپ کو ویسے تو کبھی یاد نہیں آیا کہ انکی کوئی بیٹی بھی ہے، جب کوئی تماشہ لگانا ہو تو آ جاتے ہیں"

اسکی آنکھیں لہو رنگت ہو رہی تھیں ۔

وہاں سے اٹھ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔سر درد کی شدت سے پھٹنے والا تھا۔

"مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں، ایک زندگی کا ہی رولا ہے نا، مجھے اس زندگی کی بھی پرواہ نہیں "

ہتھلی کی پشت سے رگڑ کر اس نے چہرے کی نمی صاف کی۔

" اب میں بتاؤں گی آپکو، شہر بھر میں تماشا لگانا کسے کہتے ہیں، ثمر مبارک آپ کبھی بھی میرے باپ نہیں تھے، نا کبھی آپ نے مجھے بیٹی سمجھا، "

اسکا چہرہ اور آنکھیں سوج کر پھول گئی تھی۔ضبط کے باعث سانس بند ہونے لگی تھی۔یہ وہ آنسو تھے جو اس نے کبھی کسی کے سامنے نہیں بہائے تھے۔باپ کی کمی اس نے ہمیشہ محسوس کی تھی، وہ دس سال کی تھی، جب اسکی ماں مری تھی، باپ تو اس سے بھی پہلے ہی مر چکا تھا ۔بس دادا تھے جنکے لیے اس نے اپنے اندر کا زہر چھپا لیا تھا۔

اور شمشاد خان کی فکر تو حد سے سوا ہو رہی تھی دل بے چین تھا جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو۔

بہت سے دل ماضی میں ٹوٹ چکے تھےاور مزید نجانے کتنے ٹوٹنے والے تھے۔

اور انھیں بس اب دلوں کے ٹوٹنے سے ہی ڈر لگتا تھا۔

شیریں کا دل ٹوٹا تھا اور اس میں کس قدر زہر بھر گیا تھاکہ وہ سالوں کی تربیت کے باوجود اس زہر کا تریاق نہ نکال سکے ۔اب نجانے کیا کچھ ہوتا۔

"اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے فرمایا روئے زمین پر سب سے بڑی نیکی ٹوٹے دل پر مرحم رکھنا ہے۔

تو کیا کسی کا دل توڑ دینا، اور اللہ کی حدود سے نکلنا خیر کا باعث ہو سکتا تھا؟

جواب نفی میں تھا، انکا دل اس گھر کو ٹوٹتا دیکھ رہا تھا۔"

~~~~~~

"ماما اب یہ کیا چکر ہے، ایفا گل کیوں نہیں جا سکتی؟ "

اس نے بناء تمہید کے پوچھا تھا، ماتھے پر بیزاری کے بل واضح تھے۔ماں نے بیٹے کو ناپسیندگی سے دیکھا جو آجکل زیادہ ہی سوال کرنے لگا تھا۔

" تو بتا دیا تمہاری چہیتی نے تمہیں؟ "

انکا انداز بس نارمل تھا۔جیسے کوئی فرق پڑنے والی بات نہ ہو۔

""فار گاڈ سیک یہ کیا اس گھر میں روز تماشے لگنا معمول بن گیا ہے؟ اگر وہ جانا چاہتی ہے تو پاپا چھوڑ آئیں اسے، کیا مسئلہ ہے اس میں؟ "

وہ بیٹھا نہیں تھا، کھڑا رہا جیسے صرف سوال کرنے آیا ہو۔

" اسکے شوہر اور اسکا آپسی معاملہ ہے یہ، وہ نہیں جانا چاہتا اور یہ بات اسے بتا دی ہے میں نے، "

انھوں نے جان چھڑائی۔

"اور تم کیوں اتنے پریشان ہو رہے ہو، پہلے تو تمہیں کبھی انٹرسٹ نہیں ہوا کہ گھر میں کیا چل رہا ہے اور کیا نہیں اب اچانک سے تمہاری فکر کی وجہ کیا ہے، وہ بیوی ہے حاطب کی اور اسے حاطب ہی کے رنگ میں رنگنا ہو گا"

انکی بے نیازی اب جھنجھلاہٹ میں بدل گئی تھی۔

"یہ کیا بات ہوئی وہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے کوئی بے جان شے یا پراپرٹی نہیں اور یہ بات حاطب کو سمجھنی چاہیے، اپنے ماں باپ سے ملنا اس لڑکی کا حق ہے، "

ماما نے ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول اٹھا کر پاور آف کر دیا۔ہمایوں نے اب دیکھنے تو دینا نہیں تھا۔

" ہمایوں خدا کے لیے میرا بلڈ پریشر پہلے ہی ہائی ہے اس معاملے کو چھوڑ دو اور نہ پڑو اس معاملے میں تم بھی نا میں پڑونگی، میں نہیں چاہتی میرا بچہ وہاں جائے اور مزید ڈسٹرب ہو، کیا تم چاہتے ہو تمہارا بھائی اس واقعے کو بھول کر آگے بڑھنے کی بجائے اسی میں الجھا رہے اور اپنا دل جلاتا رہے"

انھوں نے بچے کو ڈسٹربنس سے بچانے کا عجب طریقہ نکالا تھا۔

" ماما اگر وہ نہیں سمجھ پایا یا پا رہا تو یہ آپکا کام ہے، پاپا کا کام ہے کہ اسے اسکے فرائض کا احساس دلائیں نا کہ اسکے غصے میں کیے گئے کسی فیصلے کا ساتھ دینے لگ جائیں آپ"

اسکا لہجہ مضبوط اور انداز سخت تھا۔

"تمہیں کیا مسئلہ ہے اس سب سے، اور میں تو کہتی ہوں تم بھی شادی کرو اور اپنی بیوی بچوں کو سنبھالو دوسروں کی زندگیوں میں انٹر فئر کرنا کہاں سے سیکھ لیا ہے تم نے؟ اور یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے، ان دونوں میاں بیوی کا مسئلہ ہے"

انکا یہ بچہ کبھی بھی انکے کہے میں نہیں تھا۔بس یہ قدرت کہ طرف سے عنایت ہوا تھا اور اب اسے ساتھ رکھنا انکا ایک پدری و مادری فرض ہی تھا ورنہ ہمایوں اس گھر کے کسی فرد کے ساتھ میچ نہیں کرتا تھا۔

" اچھا بتاؤ اب کیا کرنا ہے تم نے، میں نے تو کہا ہے تمہارے پاپا سے اپنی جس بھی بہن سے رشتہ مانگنا یے مانگیں اور تمہیں بھی فارغ کریں"

وہ وہاں سے جا رہی تھیں ۔یہی یر بحث کا نتیجہ ہوتا تھا۔

"وہ کوئی نہیں ہے، وہ میرا بھائی ہے، اسے اپنی زندگی تباہ کرتے نہیں دیکھ سکتا اور یہ مت بھولیں کس سچویشن میں ایفا گل یہاں آئی تھی، ہم بڑے ابا کی فیملی کے قرض دار ہیں میں یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا، نہ ہی ایسے تماشے ہونے دونگا یہاں"

"کسی نے کہا تھا تمہیں کہ بڑے بھائی صاحب کے پاس جاؤ، اس وقت بھی تم ہی گئے تھے، اور تمہارے ابا تھے جنھوں نے مل کر میرے بچے کو باندھ دیا اس بے وقوف لڑکی کے ساتھ"

انکی آنکھیں مکمل پھر چکی تھیں ہمایوں نے تاسف سے سر ہلایا۔

" آہ سے بحث کرنا بیکار ہے ماما، مگر میں اس نکاح کا گواہ ہوں میں نے اس رشتے کی گواہی دی تھی اور اب میرے سامنے یہ سب نہیں ہو گا، دیکھ لونگا آپکے لاڈلے بیٹے کو بھی میں ذرا آ تو لے"

بڑے بھائی کی سرزنش کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے غائب ہو گیا پیچھے ماں کو سکتے میں چھوڑ گیا تھا۔

"ایں؟ نکاح کا گواہ ہونے پر اتنی تکلیف ہو رہی ہے اسے،؟ "

بے ساختہ انکا ہاتھ انکے منہ تک چلا گیا تھا۔

" تو تمہارے پاپا تو نجانے کتنے لوگوں کے نکاح میں گواہ تھے؟ کیا گواہی دینے کے بعد اگلے کے لیے جا کر لڑائی جھگڑا بھی کرے گا یہ لڑکا"

وہ چاہ کر بھی اس بات کو ذہن سے نہیں جھٹک پا رہی تھیں، شام میں انھوں نے جاوید صاحب کو آخر بتا ہی دیا تھا۔وہ بھی بے ساختہ قہقہہ لگا کر رہ گئے، ایسا خیال انھیں کبھی نہیں آیا تھا۔

جب بات انسانی حقوق کی تھی تو مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا بھی جہاد ہے۔اور ایسے وقت میں خاموشی جرم ۔

وہ تق مجرموں لو کیفر کردار تک پہنچانے کا ذمہ دار تھا پھر اپنے گھر یہ سب کیسے دیکھ لیتا۔بدلاؤ پہلے اپنے گھر میں نظر آنا چاہیے پھر ہی باہر آ سکتا ہے۔اور یہی مشکل کام تھا ۔

لیکن ہمایوں مشکلات سے گھبرانے والا نہیں تھا۔

___________


"بہت پیسہ لگے گا اگر ہم ہائی کورٹ میں جا کر رٹ دائر کرتے ہیں تو"

شیریں خانم نے دو تین مزید نوجوان وکلاء کو ملا کر ایس پی کے خلاف کیس لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔اب مسئلہ یہ تھا وہ سب کیرئر کے آغاز پر تھے، جوش و جذبہ تو بہت تھا مگر جیب میں دھیلا نہیں تھا۔

"ہاں یہی ایک مسئلہ ہے، جس پر میں بھی سوچ رہی ہوں، لیکن کیا اس بنیاد پر ہم چپ چاپ بیٹھے رہ کر سب برداشت کرتے رہیں"

اس نے اس ایک لڑکی اور دونوں لڑکوں کو بغور دیکھا، انکو شاید کسی اچھے چیمبر میں انٹرنشپ کا موقع نہیں ملا تھا اب نتیجتاً سب انڈیپینڈنٹ پریکٹس کر رہے تھے۔سب کو کسی نا کسی کک کی ضرورت تھی۔

" سوچو اگر ہم لوگ کیس جیت جاتے ہیں تو کم از کم اس شہر میں ہماری عزت ضرور ہو گی پھر کوئی بھی رینکر(چھوٹے رینکس سے براہ راست بھرتی ہونے والے پولیس اہلکار جو آہستہ آہستہ سنیارٹی کی بیناد پر ترقی کرتے ہیں) کم از کم اپنے کسی افسر کا نام لے کر ہمارے ساتھ مس بی ہیو نہیں کر سکے گا"

اس نے انکو کنونس کرنے کی بھرپور کوشش کر ڈالی تھی۔

"ہاں بڑے چیمبرز والوں کی فون کالز پر چالان پیش کر کے ملزم کو عدالت میں پیش کر دیتے ہیں اور ہماری کوئی سنتا ہی نہیں یہی سلسلہ رہا تو کون ہمیں وکیل کرے گا، کون ہم پر اعتبار کرے گا"

ایڈووکیٹ شہزاد نے بھی اسکی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں ایک دفعہ پریشر لیں گے تو بعد میں حالات بدلیں گے، جب ہر ہفتے کام کاج چھوڑ کر لاہور جانا پڑے گا تو خود ہی دماغ سے ہوا نکل جائے گی" سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

" پھر سوچ لیں آپ سب، اگر تیار ہیں تو نیکسٹ ویک تک تیاری کر کے رٹ پٹیشن دائر کر دیتے ہیں"

اس نے محتاط انداَز میں کہتے بات کو مکمل کیا۔

اسے بہت سے لوگوں سے بدلہ لینا تھا۔بہت سے لوگوں کے ساتھ حساب کتاب تھے جو بیباک کرنا لازمی تھا۔

(شیریں خانم کو مضبوط پاؤ گے تم لوگ)

اس نے عزم سے کہا۔

گزشتہ کل جب وہ پولیس سٹیشن گئی تھی تو اسے پھر اسے پرانے لیے دئے انداز میں ٹرخایا گیا تھا۔اے ایس آئی نے اسے ذیلی دفتر میں انتظار کرنے کا کہہ کر اہلکاروں کو ملزم کو لانے کا کہا تھا مگر تبھی ایس ایچ او آیا اور اسے نے کہا جا کر حوالات میں ہی ملاقات کریں، ہمیں ملزم باہر لانے کی کی اجازت نہیں ۔وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔

کچھ کچھ کہانی سمجھ آ گئی تھی ۔یقیناً یہ کوتوال ہی کا حکم ہو گا۔اس نے جو مدد کی آفر ٹھکرا دی تھی۔

(جہنم میں جاؤ تم سب لوگ، دیکھ لونگی سب کو) وہ انھیں جہنم کے سپرد کرتی وہاں سے آ گئی مگر اس واقعے نے اسکے ارادے کو طاقت بخشی تھی ۔

__________

"حاطب آئیں گے تو پھر ہی جاؤں گی"

ہمایوں نے ایفا کو حویلی چھوڑنے کی آفر کی تھی جسے اس نے قبول نہیں کیا۔

وہ اداس رہتی تھی سب اپنی اپنی زندگی میں مگن تھے۔بس ایک لنساء ہی تھی جو اسکی تنہائی کی ساتھی تھی اسکی راز دار اور دوست تھی۔جونہی عفی فارغ ہو کر بیٹھتی وہ کہیں سے وارد ہوتی اور اسکی گود میں چڑھ جاتی، شروع میں اسے گود میں لیتے ہوئے ایفا کو گھن آتی تھی، اسے یہ بلیاں ناپاک لگتی تھیں ۔

مگر پھر اس نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ بلیاں تو پاک تھیں، انھیں گھر میں رکھنا معیوب نہیں تھا۔

بلکہ مشہور صَحابی حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام شاید ہی کسی کو معلوم ہوگا ! ’’ ابو ہُریرہ ‘‘ نام نہیں بلکہ کُنْیَت ہے جوبارگاہِ رسالت سے عنایت ہوئی تھی ۔ اور ابوہُریرہ کے معنی ہے : (بلّی والا ، یا)بلّی کا باپ۔کیونکہ وہ بلیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔انھوں نے کئی بلیوں کی دیکھ بھال کی اور انھیں پالا تھا۔اگر یہ امر ناپسند کیا جاتا تو انھیں ایسی کنیت کیوں عنایت ہوتی۔

پھر اسکا انتظار رنگ لے آیا۔اور حاطب واپس آ گئے۔انھیں دیکھ کر اسکا جوش و خروش کچھ ایسا بلند تھا کہ حاطب بھی محسوس کیے بناء نہ رہ سکا۔

"لگتا ہے بہت انتظار ہو رہا تھا میرا"

وہ کچھ دیر بعد چائے کا کپ کچن میں رکھنے کے بہانے اسکے پیچھے آیا تھا، اور وہ حسب توقع انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔

انکی بات سن کر وہ جھینپ گئی۔

"مطلب اب میں یہ امید رکھوں آپ خوش ہیں یہاں اور دل لگ گیا ہے"

وہ اندازہ لگاتے ہوئے بولے۔ایفا گل کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی وہ سر جھکا گئی۔حاطب کتنے ہی پل اسے بغور دیکھتا رہا۔پھر واپس ہو لیا۔

"مجھے ایک بات کرنی ہے آپ سے"

ایفا گل نے عقب سے پکارا تھا۔

وہ کچھ حیران ہو کر وہیں کھڑا رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔

" ہمم، بولیں"

وہ سننے کو تیار تھا۔

"ابھی نہیں آپکے لیے کھانا بنا لوں پھر"

وہ براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی ۔

"میرے لیے کچھ خاص بنایا جا رہا ہے؟ "

ایفا گل نے اثبات میں سر ہلایا ۔اسکے چہرے سے ایک پل کو بھی مسکراہٹ غائب نہ ہوئی تھی۔

"that's an honor Madam"

اس نے سر جھکا کر دایاں ہاتھ سینے تک لے جا کر شکریہ ادا کیا ۔

وہ بے ساختہ ہنسی، ایک جھنکار نما ہنسی تھی، حاطب نے اطمینان سے اسے دیکھا۔

وہ یہی چاہتا تھا ۔بس سب نارمل ہو جائے اور حالات اطمیان بخش ہوتے نظر آ رہے تھے۔

آخر ایک دن شاد کرو گے

میرا گھر آباد کرو گے

پیار کی باتیں وصل کی راتیں

یاد کرو گے یاد کرو گے

کس دل سے آباد کیا تھا

کس دل سے برباد کرو گے

زر کے بندو عقل کے اندھو

تم کیا مجھ کو شاد کرو گے

وہ حفیظ جالندھری کی مشہور غزل زیر لب دہراتا آیت کے پاس جا بیٹھا۔

لنساء دور دور سے اسے دیکھ رہی تھی۔

اب وہ ایفا گل کی دوست تھی، اسکے پاس نہیں آتی تھی ۔

اسے نئے چاہنے والے جو مل گئے تھے، پرانی چاہتیں بھول گئی تھیں ۔

یہی قانون قدرت ہے۔

__________

رات کو جس وقت وہ کمرے میں آئے ایفا گل نماز پڑھ رہی تھی جبکہ لنساء بستر پر پھیل کر پڑی تھی۔اور کبھی آنکھیں بند کرتی پھر ادا سے انھیں کھول کر آگے پیچھے دیکھتی۔وہ ہنسے بناء نہیں رہ سکے۔پھر آہستہ سے بستر کے کنارے پر ٹک گئے۔

لنساء نے بغور انھیں دیکھا، پھر اچھل کر نیچے اتری اور ایفا گل کے آس پاس چکر کاٹنے لگی ۔جتنی دیر عفی نماز پڑھتی رہی وہ وہیں اسکے آگے پیچھے پھرتی رہی، حاطب کو کمرے میں دیکھ کر وہ کچھ بے چین تھی۔پہلے تو ایفا اور لنساء ہی کمرے میں ہوتی تھیں ۔چچی نے صاف کہا تھا کہ اگر تمہیں شوق پورا کرنا ہے یہ بلیاں پالنے کا تو، اسکو اپنے کمرے میں رکھا کرو جہاں بیٹھتی ہے بال پھیلا دیتی ہے۔اسی ہدایت کے پیش نظر وہ اسے کمرے میں ہی رکھتی تھی۔اور لنساء بھی چند ہی دن میں اسکی عادی ہو گئی تھی۔

ہمایوں کی چھوٹی سی لائبریری سے اسے پیٹس(پالتو جانوروں) کے متعلق ایک کتاب بھی مل گئی تھی یوں وہ اسکی تربیت بھی کر رہی تھی۔آوارہ بلی کو گھریلو بلی میں تبدیل کرنا آسان نہیں تھا۔مگر اسکے پاس یہی ایک ذہنی مصروفیت تھی۔

جائے نماز تہہ کر کے رکھا اور حاطب کی طرف نگاہ اٹھی وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔وہ بے ساختہ مسکرائی۔جواباً وہ بھی مسکرائے تھے ۔یہ تبادلہ بڑا خوبصورت تھا۔

"آپ کتنے دنوں کے لیے آئے ہیں؟"

پہلا سوال ہی سوا لاکھ کا تھا۔حاطب نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا ۔

"واپس بھیجنے کا خیال بھی آنے لگا ہے؟"

"نن نہیں، چچا کہہ رہے تھے ایک دو دن کے لیے ہی آئیں گے"

اس نے وضاحت دی۔

"ہاں بس دو تین دن ہی رہوں گا، کچھ شاپنگ کرنی ہے، اور سوچا سب سے مل آؤں"

وہ یو ایس کی کسی ملٹری اکیڈمی میں سنائپنگ کورس کے لیے سلیکٹ کیے گئے تھے، کیونکہ وہ اپنی یونٹ ہی نہیں پاکستان آرمی کے چند بہترین شوٹرز میں سے تھے۔ اب انکا سلیکشن ہوا تھا اور کورس مکمل کرنےکے لیے جا رہے تھے۔پہلے بھی یہی ڈیساییڈ ہوا تھا، شادی ہو گی اور وہ چلے جائیں گے جب تک وہ واپس آتے عروہ کا سمسٹر بھی پورا ہو جاتا۔مگر اللہ کو یقیناً وہ منظور نہیں تھا۔مگر انھیں تو جانا ہی تھا۔اور وہاں تین سے چار ماہ تک رکنا بھی تھا۔

"اور ویسے بھی اب تو بہت مہینوں تک نہیں آ سکوں گا گھر، تو سوچا کچھ وقت گھر گزار آؤں"

وہ بازو تکیے کی صورت سر کے نیچے ٹکائے اسے دیکھ رہے تھے جو بستر کے دوسرے کونے پر ٹکی ہوئی تھی۔

انکے درمیان یکدم سب کچھ نارمل سا دکھنے لگا تھا۔

"شکر ہے آپ نے چکر لگا لیا ورنہ نجانے مجھے کتنے دن انتظار کرنا پڑتا"

وہ اپنی ہی دھن میں تھی۔حاطب حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔

(مطلب لڑکی سمجھدار ہے، میں ویسے ہی پریشان ہو رہا تھا)

"اتنی فکر، مطلب بیگم ہماری بدل گئی ہیں"

ایفا گل نے اس بات پر سر اٹھا کر اسے دیکھا، پھر فوراً ہی جھکا لیا۔اس ادا پر وہ دل ہی دل میں محظوظ ہوئے۔

"ادھر آ جائیں، اس طرف"

ٹانگیں سمیٹ کر اپنے سامنے اسکے لیے جگہ بنائی ایک پل کو وہ الجھی پھر سٹپٹا کر رہ گئی۔

"نہیں ٹھیک ہوں میں "

ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانے لگی تھی ۔

(حد ہے مطلب حد ہی ہے)

وہ سوچ ہی سکا ۔خاموشی کا ایک وقفہ سا آ گیا تھا۔وہ دونوں کچھ نروس نیس کا شکار تھے۔

~~~~~~~~~


ہمایوں معمول کے مطابق اپنے دفتر کے معاملات نبٹھا رہا تھا۔اے ایس آئی انس کو وہ اپنے دفتر میں لے آیا تھا، وہ اسکے ایک پرانے دوست کا بھائی تھا۔کچھ عرصہ پہلے ہی کہیں بھی جاب نہ ملنے پر پولیس میں بھرتی ہو گیا تھا۔اور آتے ساتھ ہی کچھ زیادہ تیزیاں دکھانے پر معطل بھی ہو چکا تھا۔اور اب دو ماہ بعد جب بحال ہوا تو تبادلہ اس شہر میں ہو گیا۔

اوپر سے ہمایوں یہاں تھا تو کچھ مزید بچت ہو گئی ۔

ہمایوں نے سط کو ہدایت کر رکھی تھی کسی قسم کا کوئی سیاسی دباؤ برداشت نہیں کرنا۔نہ ہی وہ خود کسی کیس میں سیاسی سفارشات قبول کرتا تھا۔اچھوں کے ساتھ اچھا اور بروں کے ساتھ برا تھا۔اور اب اسکی وجہ شہرت بھی یہی تھی۔ایک نوجوان اور ہوشیار پولیس افسر کی۔محنت بھی وہ خوب کر رہا تھا۔بس اب مزید ایک آدھ سال میں اسکا رینک بڑھ جاتا۔اور وہ اسی لیے جان مار رہا تھا۔

"سر آپکے نام عدالت سے سمن آیا ہے" انس نے کچھ اچنبھے سے لفافہ دیکھتے اسے بتایا ۔

"اب کیا ہو گیا ہے" اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔

"یہ سیشن کورٹ والوں کو زیادہ ہی پیار ہو گیا ہے ہم سے"

اس نے ہاتھ بڑھا کر لفافہ پکڑا ۔

"سر ہائی کورٹ سے ہے بنام ایس پی صاحب "

"اچھا؟ "

اسکے ماتھے پر بل پڑے۔

" سر معاف کیجیے گا مگر کیا ہے یہ؟"

وہ اسکے بدلتے تاثرات کے باعث چپ نہ رہ سکا۔جو جوں جوں پڑھتا جا رہا تھا چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے ۔

" رٹ کی ہے میرے خلاف ہائی کورٹ میں مینڈمس کی۔"

"یہ کیا ہوتا ہے سر "

" اختیارات سے تجاوز کے خلاف رٹ کی ہے وکلاء نے"

"کونسے وکلاء ہیں آجکل تو کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں تھا کوئی ایسا کیس بھی نہیں تھا پھر ۔۔۔؟"

انس کے ساتھ ہمایوں کا رویہ فرینڈلی ہوتا تھا اسی لیے وہ تبصرہ کیے بناء نہیں رہ سکا۔

" ایڈووکیٹ شہزاد خان، ایڈووکیٹ ثناء جیلانی،ایڈووکیٹ شیریں خانم خان اور ایڈووکیٹ ۔۔۔"آخری نام وہ نہیں پڑھ سکا۔ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا۔

" شیریں خانم خان"اس نے زیر لب دہرایا ۔

"سر جی یہ تو وہی نہیں ہے جسکا آپ نے کہا تھا کہ اسکی بات نہیں ۔۔۔"

سننی کا لفظ اسکے منہ میں ہی رہ گیا۔

ہمایوں کے تاثرات تن گئے تھے۔کچھ واقعات ذہن کی سکرین پر لہرا گئے تو منہ کا ذائقہ کڑوا ہو گیا۔


" بدتمیز لڑکی"


"سر جی اب تو پھر سے نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے"

" کوئی نہیں دیکھ لیتے ہیں، کرتا ہوں کچھ"

وہ پر سوچ انداز میں پھر سے عدالتی لیٹر پڑھ رہا تھا۔

"پتہ نہیں کیسی کیسی عورتیں اب ان فضول کاموں میں پڑ گئی ہیں ۔خود تو پاگل ہیں باقیوں کو بھی فارغ سمجھا ہوا ہے"

اس نے جیب سے موبائل-فون نکال کر ایک نمبر ملایا۔کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔اپنا ریکارڈ تو خراب نہیں کر سکتا تھا۔


~~~~~~~~~


"اچھا کچھ بات کرنی تھی آپ نے "

کمرے میں خامشی چھائی تھی بہت دیر بعد وہ بولا۔

وہ چونکی، جیسے کچھ بھولا ہوا یاد آیا ہو ۔

"ہاں میں تو بھول ہی گئی"

"چلیں اب کر لیں، اب کونسا وقت گزر گیا ہے"

اس فاصلے کو پار کرنا مشکل نہیں تھا مگر مشکل خود ان دونوں نے بنا دیا تھا ۔جو ان دونوں کا رشتہ تھا اس میں انھیں بات کرنے کو بہانوں کی ضرورت نہ تھی مگر اب وہ تلاش کرنے پر مجبور تھے۔

"مجھے حویلی جانا ہے، ابا جی اور امی جی بہت یاد آ رہے ہیں، مگر چچی نے کہا جب آپ آئیں گے تو پھر لے کر جائیں گے"

لاشعوری طور پر وہ اداسی سے بولی۔مہینے سے اوپر ہو چلا تھاکہ پہلی مرتبہ اپنے ماں باپ سے جدا ہوئی اور ایک بار بھی واپس جا کر انکی شکل نہ دیکھ سکی، اسکی اداسی وہی جانتی تھی یا اسکا رب جانتا تھا۔یا پھر جس پر یہ گزری ہو۔حاطب چند پل کو کچھ نہ بول سکا۔

"میں کیا کروں گا وہاں جا کر؛"

یہ سوال نہیں تھا بس جواب تھا۔سپاٹ سا تبصرہ۔

"کیا مطلب ابا سے ملنے جائیں گے، آپ بے شک واپس آ جائیے گا مجھے چھوڑ کر، لیکن چھوڑ تو آئیے"

وہ یکدم بولی تھی گویا وہ اسکی درخواست کو روول آؤٹ ہی نہ کر دے۔

"میرا کوئی ارادہ نہیں اب دوبارہ وہاں جانے کا"

اسکے چہرے کے تاثرات پتھریلے ہو رہے تھے۔اعضاء تن چکے تھے۔

صبیح چہرے پر اب ناگواری جھلکنے لگی تھی۔

" یہ کیا بات ہوئی حاطب، کیا میں اپنے اماں ابا سے بھی نہیں مل سکتی؟ " وہ شاک میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ایسا لگتا تھا ابھی حاطب کا سر پھاڑ دے گی۔

" تمہیں کسی نے منع نہیں کیا.، وہ آ سکتے ہیں، تم سے مل سکتے ہیں،. مگر میرا وہاں جانے کا کوئی ارادہ نہیں نا ہی مستقبل قریب میں میرا ارادہ ہو گا"

وہ صاف انکاری تھا۔یہی چچی نے کہا تھا، اور اسی بات کا اسے خدشہ بھی تھا۔

"لیکن کیوں؟ کیا عروہ کی وجہ سے، وہ تو اب ہوتی بھی نہیں ہے وہاں "

وہ بے ساختہ بولی تھی۔چہرے پر خفگی اور آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔حاطب جو کچھ کہنے لگا تھا، یکدم خاموش ہو گیا۔

"کیا مسئلہ ہے تمہیں میں تم سے اپنی بات کر رہا ہوں تمہاری بات کر رہا ہوں،مگر تم جب، جسکو چاہتی ہو اٹھا کر لے آتی ہو بیچ میں "

انکے لہجے میں محسوس کی جانے والی ناگواری اتر آئی تھی۔

"تو پھر کیوں نہیں لے کر جائیں گے آپ؟ میں نے ایسا کیا کیا ہے؟ آپ ہمیشہ مجھ پر ہی غصہ نکالتے ہیں "آخر وہ شکوہ کناں تھی۔


اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے فراز۔


" ایفا گل فار گاڈ سیک، میں نے تمہیں منع نہیں کیا تمہارے ماں باپ سے ملنے سے"

اس الزام پرتو وہ جھنجھلا اٹھا تھا۔ہر دفعہ اسی طرح یہ لڑکی اسکا دماغ خراب کرتی تھی۔

" مجھے سمجھ نہیں آتا میں اپنا سر دیوار پر ماروں یا تمہارا"

وہ غصے سے بولا۔

جبکہ ایفا گل کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو چکے تھے۔

(ہمیشہ اسی طرح غصہ کرتے ہیں، میں جو مرضی کر لوں، جتنی کوشش کر لوں انکو خوش کرنے کی، یہ کبھی خوش نہیں ہوتے مجھ سے؛)

سوچتے ہوئے وہ مسلسل رو رہی تھی۔

کچھ دیر وہ صبر سے اسکی سوں سوں سنتا رہا۔

(میں جو بھی کر لوں اس لڑکی کو نہیں سمجھا سکتا کچھ، فضول بے وقوف لڑکی،میں کیا کچھ سوچ کر یہ سب نارمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اسکو دیکھو، یہ اس لیے انتظار کر رہی تھی کہ آؤں اور ان خاتون کو انکے ابا کے گھر چھوڑ آؤں۔۔۔حد ہے ویسے حد ہے)

"ایفا گل بات سنو میری" وہ چاہ کر بھی اپنی ٹون نارمل نہ رکھ پایا۔اسکا رونا اب حاطب کو جھنجھلاہٹ کا شکار کر رہا تھا۔اب بھلا رونے والی کونسی بات تھی اس میں ۔


"میں کیا کہہ رہا ہوں؟ یار" جنجھلا کر اسکا کندھا ہلایا، وہ ہنوز چہرہ موڑے رونے کا شغل فرما رہی تھی ۔

"چپ کر تو رہی ہوں" وہ مزید روہانسی ہو گئی، آنسو جو نہیں رک رہے تھے۔

"ایسے چپ کرتے ہیں اور یہ کیا فضول کا رونا شروع کر دیا ہے تم نے؟"

وہ خشمگی نگاہوں سے تکتے بولا۔

" آپ بولیں میں سن رہی ہوں"

اب وہ سوں سوں نہیں کر رہی تھی ، مگر آنکھوں کی نمی بڑھتی جا رہی تھی۔

" کیا ہوا ہے تمہیں پہلے تو تم یوں نہیں روتی تھیں ۔بلکہ مجھے یاد ہے تم بہت بہادر تھیں، بلکہ اس رات بھی میرا راستہ روکنے کو جب سب کھڑے تھےاور انکے بھاگنے کے باوجود تم وہیں کھڑی رہی تھیں "

غیر دانستہ طور پر اس نے ایک پرانی خوشگوار یاد دہرائی۔

بد شگونی تو اسکے فوراً بعد شروع ہو گئی تھی۔

وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے حلق میں اترتی کڑواہٹ کا رستہ نہیں روک سکا۔

اسے لگا تھا جانے سے پہلے وہ سب ٹھیک کر لے گا، یہاں ویسا ہوتا ہوا نظر نہ آتا تھا۔

اسکی گاڑی کا دوسرا پہیہ ذرا کم فہم تھا، اور اب اسکے پاس برداشت کرنے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں تھی۔

وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔

"ٹھیک ہے جیسا تم کہہ رہی ہو ویسا ہی ہو گا، مگر" اس اقرار پر ایفا گل کی آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں ۔

"کیا؟"

بے ساختہ منھ سے پھسلا۔

"میری بھی ایک شرط ہے جو تمہیں ماننا ہو گی"

وہ بغور اسکے تاثرات جانچتے بولا۔


"ٹھیک ہے جو کہیں گے وہی کرونگی "

خفگی سے کہا، جیسے وہ اس مقصد کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔

"(ہوں، اتنی تم فرمانبردار میری) وہ سوچ ہی سکا۔

" پہلے سن تو لو"

طنزیہ بولا۔

" ٹھیک ہے، بتا دیں کیا شرط" اس انداز پر وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔

" میں حویلی نہیں جاؤں گا، اور نہ ہی تم اس بات پر اصرار کروگی، اور وہاں سب کو جواب بھی تم ہی دو گی"

وہ شاید اسے حالات کی سنگینی سے ڈرانا چاہ رہا تھا۔پہلے وہ چند پل چپ رہی۔

"ہاں تو میں بتا دونگی آپ نہیں آنا چاہتے"

پھر کندھے اچکا کر خفگی سے بولی۔

"اور وجہ کیا بتاؤ گی؟ جب پہلی دفعہ تم میرے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتیں تو کیا وہاں اکیلی چلی جاؤ گی"وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔جسے ہر بات دیر ہی سے سمجھ آتی تھی۔

"وجہ آپ جو مرضی بتاتے رہیے گا، میں کہہ دونگی نہیں آئے تو نہیں آئے، ویسے بھی ہماری کونسا محبت کی شادی تھی کہ سب سوال کریں گے، سب کو پتہ تو ہے کہ آپ کیسے ہیں "

وہ اپنے کندھوں کا بوجھ بڑے آرام سے اس پر ڈال گئی۔حاطب اس بار جھنجھلا بھی نہیں سکا۔فائدہ ہی نہیں تھا، وہ کونسا سمجھ رہی تھی۔

" اور تمہیں اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ سب تمہارے اور میرے بارے میں باتیں کریں گے؟ "وہ طنز کر رہا تھا۔ایفا گل نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔پھر کتنی ہی دیر پر سوچ انداز میں دیکھتی رہی۔

" آپ کی تو مجھے بلکل سمجھ نہیں آتی، پتہ نہیں آپ کیا چاہتے ہیں ۔مطلب کبھی لگتا ہے آپ بہت اچھے ہیں اور کبھی لگتا بس باہر سے ہی اچھے ہیں"وہ اسکے مردانہ وجاہت سے بھرپور چہرے پر نگاہ ٹکائے ناراضی سے بولی ۔حاطب کچھ نہ کہہ سکا۔اس لڑکی کی زبان جب چلتی تھی تو نان سٹاپ چلتی تھی۔اس بات کا اب وہ معترف تھا۔دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی، تمام خوابوں کا جنازہ نکال کر وہ اب بستر پر بیٹھی تھی۔

"چھوڑ تو آئیں گے نا؟" وہ شاید کنفرم کر رہی تھی۔

(الُو کی پٹھی)

وہ دل ہی دل میں جل کر رہ گیا۔چٹھانک بھر کی لڑکی کیسے اسکے صبر کا امتحان لیتی تھی۔

"بتائیں نا صبح چھوڑ آئیں گے؟"

وہ بضد تھی۔

"ابھی چھوڑ آؤں؟"

وہ کلس کر رہ گیا۔انداز طنزیہ تھا۔وہ جواباً کچھ نہیں بولی۔البتہ تسلی ہو گئی تھی۔کہ وہ چھوڑ آئے گا۔اسی لیے ہتھیلی کی پشت سے رگڑ کر چہرے کی نمی صاف کی۔

"اچھا پھر آپ بستر پر آ جائیں، میں وہاں سو جاؤں گی"

وہ آنکھوں پر بازو ٹکائے کاؤچ پر دراز تھا۔

(ہوں، پاس رکھو اپنی ہمدردی، جو انٹیک پیس میرے حصے میں ہی آنا تھا)

اسے خود سے شدید ہمدردی ہوئی۔

"آ جائیں نا"

وہ اسکی ہمدردی میں ڈوبی جا رہی تھی۔

"اب آواز نہ آئے تمہاری ورنہ بہت برا پیش آؤں گا"اٹھ کر اسے باور کراتا وہ ایک پل کو اسے ڈرا گیا تھا۔

(ہمدردی کے قابل ہی نہیں ہیں)

وہ کندھے اچکا کر سوچتی چپکی ہو رہی۔

پھر ساری رات خوابوں میں وہ نجانے کتنی ہی بار اڑتی اڑتی حویلی پہنچ گئی تھی۔سب سے ملتی اور پھر آنکھ کھلتیں تو خود کو اسی کمرے میں پاتی۔

لنساء انھیں لڑتا دیکھ کر کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔اسے شاید یہ شور شرابا پسند نہیں آیا تھا، نتیجتاً اب وہ دونوں ہی تھے۔ایک خوش اور دوسرا جلا ہوا تھا۔ایک ہی رات تھی مگر کسی پر عذاب بن کر اتری تھی اور کسی کے لیے ثواب۔

"چھوڑ آئیں گے نا؟"

صبح جس پل وہ اٹھ کر کچن میں پانی پینے کی غرض سے آیا ایفا گل کا سلام دعا کے بعد پہلا سوال ہی یہی تھا۔

"ناشتہ کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟"

وہ صبح صبح اپنا موڈ برباد نہیں کرنا چاہتا تھا صبر سے طنزیہ بولا۔

"ہاں آپ بیٹھیں میں منٹوں میں ناشتہ بنا دیتی ہوں "

آج اسکی پھرتی دیکھنے لائق تھی۔

"ابھی ٹھہر جائیں صرف چائے دے دیں، کچھ دیر تک ناشتہ کرونگا"

وہ اسے کچن میں موجود دیکھ کر زیادہ ہی نوابی پن سے بولا۔ورنہ ماما کے زمانے میں ایسے چونچلے نہیں چلتے تھے۔

"ٹھیک ہے" وہ اپنی ہی دھن میں تھی۔پھر کچھ یاد آنے پر پلٹی۔

" لیکن پھر دیر یو جائے گی نا، ابھی آپ نے نہا کر چینج بھی کرنا ہو گا تو اور دیر ہو جائے گی"

اسکے چہرے پر فکر مندی تھی۔

"نیند آ گئی تھی رات کو تمہیں؟"

وہ طنزیہ بولا۔تو ایفا گل چند پل کو کچھ نہ سمجھی پھر حجالت سے ہنسی۔

"جی" اثبات میں سر ہلایا۔ورنہ ساری رات تو وقفے وقفے سے آنکھ کھلتی رہی تھی۔

" چائے بنا دیں "

انھوں نے واپس اسے متوجہ کیا جو کسی سوچ میں ڈوبی تھی۔

پھر اسکے منع کرنے کے باوجود وہ دس منٹ بعد اسکا ناشتہ بھی بنا کر لے آئی تھی۔حاطب نے خشمگی نگاہوں سے اسے گھورا۔

دل نہ چاہنے کے باوجود وہ اسے صرف اس لیے چھوڑنے جا رہا تھا کہ وہ اسے خوش کرنا چاہتا تھا وہ جلد از جلد اس رشتے کو نارمل کرنا چاہتا تھا۔

چاہے اسکے لیے انا کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے ۔

"آپ تیار ہو جائیں نا" وہ ٹیلی ویژن کھولے بیٹھا تھا۔گھر پر ماما اور ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ماما ابھی ابھی کمرے میں گئی تھیں ۔اور ایفا گل تیار تھی۔حاطب نے ناگواری سے اسے دیکھا ۔

(اڑ کر چلی جاؤ اتنی جلدی ہے تو)

وہ بناء کچھ بولے اٹھ گیا۔

"ماما کو بتا آؤ"

آستین کے بٹن بند کرتا وہ اسے ہدایت کر رہا تھا جو اسے منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھی۔فورا مڑی۔اور انکی حیرت ہی تو انتہا نہیں رہی۔

"یہ کب ہوا، کل تک تو ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا"

وہ فوراً اسکے پیچھے لپکی تھیں ۔

"ارے حاطب بچے کل ہی تو تم آئے ہو اگر جانا ہی ہے تو جاتے ہوئے اسے چھوڑ جانا، کچھ دن رہ لے گی"

انھیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی۔

"ماما بس چھوڑ آؤں، پھر دو تین اور بھی کام ہیں جو جانے سے پہلے کرنے ہیں مجھے ۔سوچ رہا ہوں وہیں سے دانیہ کی طرف بھی چکر لگا آؤں، جاتے ہوئے مل کر جانا چاہ رہا ہوں میں اس سے"

وہ بناء انکی طرف دیکھے بول رہا تھا جبکہ وہ ایک ہی رات میں اس کایا پلٹ پر حیران تھیں ۔


~~~~~~~~

" محترم ایس پی صاحب آپ پر رٹ آف مینڈمس کی گئی ہے۔آپکے وکیل تیار ہیں.،آپکے دفاع کے لیے؟"


جج نے اس بھاری بھرکم فائل کے چند صفحات جانچنے کے بعد سامنے موجود نشستوں پر براجمان ہمایوں جاوید خان کو دیکھا۔

"جی جج صاحب میں اس عدالت میں انکی طرف سے دلائل دونگا"

ایڈووکیٹ حارث آفندی نے کھڑے ہو کر اپنی سروس پیش کی۔مقدمہ کی کاروائی شروع ہو گئی تھی چند رسمی باتوں کے بعد ہمایوں کے وکیل نے دلائل کے لیے اگلی تاریخ لے لی تھی۔پیشی ختم ہوئی اور وہ سب کمرہ عدالت سے باہر نکلے۔

" خان صاحب میں نے رٹ کی کاپی حاصل کر لی ہے، کیس میں تیار کر لونگا اگر کسی مزید معلومات کی ضرورت پڑی تو آپ سے رابطہ کر لونگا۔"

صبح سے وہ آیا ہوا تھا۔تفصیلی ڈسکشن ہو گئی تھی۔اتنا بڑا کیس نہیں تھا، مگر پھر بھی پیشیاں بھگتنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

اللہ جانے اختیارات سے تجاوَز کے ساتھ ساتھ کن کن دفعات کے تحت اسے طلب کروایا گیا تھا۔حارث کو اسکے ایک دوست نے رکمینڈ کیا تھا۔وہ اس سے مصافحہ کرتا رخصت ہوا۔کچھ دور ایک لڑکا اور دو لڑکیاں سمیت اس بدتمیز لڑکی کے گاڑی میں سوار ہو کر واپسی کے لیے تیار تھے۔

"میں دیکھ لونگا تمہیں"

زیر لب دہراتا وہ اپنی گاڑی میں جا بیٹھا جو اس نے اپنے ایک شو روم کے مالک دوست سے آج کے لیے حاصل کی تھی۔


واپسی پر اس نے شیریں خانم کے علاوہ تینوں وکلاء سے رابطہ کروایا تھا۔

ان میں سے دو نے ٹال دیا تھا جبکہ تیسرا بات کرنے اور ملنے کے لیے رضا مند ہو گیا تھا۔

اگلی پیشی پر اسے یقین تھا ان میں سے ایک دو تو ضرور پیچھے ہو جانے والا تھا۔

باقی لڑکیوں کی اسے زیادہ پرواہ نہیں تھی۔

جبکہ وہ سارے وکلاء پر امید تھے کہ چند ایک بار لگاتار لاہور جا کر پیشیاں بھگتنے سے یقیناً ایس پی صاحب کا دماغ اور روٹین اچھی طرح ٹھکانے لگتی۔

ان دونوں فریقین کو اندازہ نہیں تھا نتائج انکی توقعات سے مختلف ہونے والے تھے۔


~~~~~~~~


" دانیہ کی طرف جائیں گے؟ "

گاڑی جونہی سڑک پر پہنچی اس نے پوچھا ۔حاطب نے اسے دیکھا تک نہیں تھا۔

" کیا دانیہ کی طرف جائیں گے مجھے چھوڑ کر"کچھ دیر اسکے جواب نہ دینے پر اپنا سوال دہرایا۔انھوں نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔یہ انکی ناراضگی نا اظہار تھا مگر پرواہ کسے تھی۔

" جواب تو دے دیں، کیا ناراض ہو گئے ہیں؟"

وہ اسکی سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اسے حیران کر گئی مگر اس بار وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوا۔

"اچھا بتا تو دی‍ں اگر ناراض ہیں تو"

گردن موڑ کر وہ کچھ الجھن سے اسے دیکھ رہی تھی۔کم از کم وہ حاطب کو ناراض کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

" can you keep your mouth shut, plz?"

وہ پیشانی پر بل سجائے بولے۔ایفا گل کا دل مسلا گیا تھا۔

(ہوں، سب سے پیار ہے، اپنی بہنوں سے بھی پیار ہے، آیت کے لیے بھی کل تحفہ لے آئے، اب دانیہ سے ملنے بھی جا رہے ہیں اور میرے لیے بس غصہ ہے، سب کا غصہ بس بیچاری ایفا گل پر نکال دو، عروہ کا، گھر والوں کا، باہر والوں کا، سب کا)

وہ خود ترسی کی کیفیت میں مبتلا ہو رہی تھی۔

وقفے وقفے سے اسے دیکھتی رہی جو سیاہ شلوار سوٹ میں باہر سے تو پیارے ہی لگ رہے تھے۔اندر سے پتہ نہیں کیوں ایسے تھے؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔

"سب سے پیار ہے آپکو، بس میں ہی اچھی نہیں لگتی، اگر آپکی جگہ دیوان لالا ہوتے تو اپنی بہن کے ساتھ ساتھ کزن کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ضرور لاتے"

وہ کڑھتے رہنے کے بعد اس خیال کو زبان پر آنے سے نہیں روک سکی۔حاطب نے الجھن سے اسے دیکھا ۔

"مطلب کوئی کسی کے دئے تحفوں پر نہیں گزارا کرتا، لیکن کم از کم یہ تو لگے کہ اگلے تو یاد رکھا ہوا تھا۔آپکو تو میں یاد بھی نہیں ہونگی"

وہ نجانے کس حیثیت سے شکوہ کر رہی تھی یقیناً بیوی کی حیثیت سے تو نہیں کر رہی تھی۔اس نے کزن کا صیغہ استعمال کیا تھا۔

(ہوں.، تم جیسی بے وقوف لڑکی کو یاد نہ رکھتا تو ہی اچھا ہوتا کم از کم اس وقت خود پر غصہ تو نہ آ رہا ہوتا)

وہ اسکا اشارہ سمجھ کر جھنجھلاہٹ سے بولا۔

ایفا گل کے لیے نہایت محبت اور خوش و خروش سے لایا گیا تحفہ انکے بیگ میں ہی پڑا تھا۔اس نے موقع ہی نہیں دیا تھا۔کہ وہ اسے دے پاتے ۔

اور اب کیسے شکوے کر رہی تھی۔

"آپ اور آپکے بھائی سب جانتا ہوں میں" وہ استہزاء سے بولا۔ایفا گل نے پھٹی نگاہوں کے ساتھ انھیں دیکھا۔جیسے یقین نہ آیا ہو۔

"میرے بھائیوں کے بارے میں بات نہ کریں آپ"

خفگی سے اسے وارن کیا۔

"ہوں" وہ ہوں کر کے ناک سے جیسے مکھی اڑا رہا تھا۔ایفا گل کے دل پر لگی تھی پہلے ہی وہ ٹچی ہو رہی تھی۔

" میں نا پہلے آپکو دیکھ کر سوچا کرتی تھی کتنے اچھے ہیں آپ، بہت عظیم سے لگتے تھے آپ مجھے"

(چلو شکر ہے کبھی تمہیں اچھا بھی لگتا تھا میں) وہ اسکے گزشتہ رات ادا کیے گئے تعریفی الفاظ سوچتے ہوئے دل ہی دل میں بولے ۔

"اور میں اللہ سے دعا کیا کرتی تھی کہ لاش اللہ جی میرا بھی کوئی بھائی بلکل آپ جیسا ہوتا، "

وہ کسی سابقہ دعا کو یاد کرتے ہوئے حسرت سے بولی۔

"مگر اب میں شکر کرتی ہوں وہ سب آپ جیسے نہیں کم از کم"

سامنے دیکھتے ہوئے حسب معمول وہ کفن پھاڑ کر بولتی اسے حیران کر گئی۔

" کم از کم پیار تو کرتے تھے مجھ سے، یہ نہیں کہ جسکا بھی غصہ ہو ایفا گل پر نکال دو"

وہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔حاطب نے یکدم گاڑی کو بریک لگائے۔ٹائر ایک ہولناک چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ ہی ساکن ہو گئے۔وہ بھی خوفزدہ انداز میں سوالیہ انھیں دیکھ رہی تھی۔

"ایک بات بتاؤ میں پسند ہوں تمہیں؟

مطلب میری کوئی ایسی بات جو تمہارے لیے قابل قبول ہو؟ "

(اچھے خاصے تو ہیں، ابھی وہی تو بتا رہی تھی کہ اچھے لگتے تھے، اب کیا ہو گیا؟)

وہ دل ہی دل میں سوچتے انھیں سوالیہ دیکھ رہی تھی۔

"ایفا گل آپ کو چھوڑ رہا ہوں میں" وہ چند پل شدید غصے سے اسے گھورتے رہے پھر کسی نتیجے پر پہنچ کر بولے۔

" آپکو چھوڑ رہا ہوں میں، وہاں رہیں، کچھ دن وقت دیں اس رشتے کو اور تسلی سے سوچیں کہ کیا آپ اس رشتے میں رہنا چاہتی بھی ہیں یا نہیں ۔اگر ہاں تو پھر آپکو اسکی اصل روح کے مطابق رہنا ہو گا۔اور اگر نہیں"وہ سانس لینے کو رکے۔ایفا گل کی سانس تو اسکی آنکھوں میں موجود سخت تاثر کو دیکھ کر ہی رک گئی تھی۔

" اور اگر آپکو میں پسند نہیں ہوں تو پھر اس فیصلے تک پہنچ جائیں آپ، کیونکہ میں مزید کوئی ذہنی اذیت برداشت نہیں کر سکتا"

وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے اسے باور کرا رہے تھے۔

مگر اسکی سانس اٹک گئی تھی۔وہ احتجاج کا ایک لفظ بھی نہیں بولی۔

(اللہ میری توبہ جو آئندہ کچھ کہوں انھیں ۔ایل دم سے تو کوئی بات بری لگ جاتی ہے انھیں) وہ سہم گئی تھی لاکھ وہ کم فہم سہی نظروں کا سخت تاثر تو سمجھتی تھی۔

پھر کتنی ہی دیر وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتے رہے۔ایفا گل سانس روکے بیٹھی کوئی ورد کرنے لگی تھی۔

جبکہ حاطب کی اس سے ناراضگی مزید سخت ہوتی چلی گئی ۔

"یا اللہ یہ کیسی آزمائش میرے سر پڑ گئی ہے، اور کتنا نیرے صبر کا امتحان باقی ہے" وہ اللہ سے مخاطب تھا۔

گاڑی میں خاموشی تھی، بولنے والی کو جو ڈرا دیا تھا۔

"اچھا آئم سوری" کوئی گھنٹے بھر بعد اسکی آواز سنائی دی تھی۔حاطب بس خود پر ضبط کر کے رہ گیا۔

اب اس پر مزید وہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

" یا اللہ انکا دل میری طرف نرم کر دے۔اتنا غصہ پتہ نہیں کیوں آتا ہے انھیں، اللہ آپ ہی انکا دل نرم کر سکتے ہیں" وہ ہاتھ دعا کے انداز میں جوڑے اوپر گاڑی کی چھت کو دیکھتے ہوئے " یا رؤف" کا ورد کر رہی تھی۔وہ مہربان رب ہی حاطب کا سخت، پتھر دل نرم کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔وہ مسلسل پڑھ پڑھ کر پھر چپکے سے ہلکا سا ان پر پھونک رہی تھی۔

حاطب محسوس کیے بناء نہیں رہ سکا۔پھر ٹھنڈی سانس بھری۔

(یہ لڑکی نہیں بدل سکتی۔

میں جو مرضی کر لوں یہ ایسے ہی رہے گی)

وہ بے بس ہو کر سوچ رہا تھا۔اور اسکی ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔شاید وہ اسکے ساتھ حویلی چلا ہی جاتا مگر اب تو یہ ناممکن ہی تھا۔

"یہ لیں کال کریں اپنے بھائی کو اور اسے کہیں لے لے آپکو سٹاپ سے"

اس نے اپنا موبائل فون بنا دیکھے ایفا گل کی جانب بڑھایا تھا۔

"کیا مطلب، کیا آپ دو منٹ بھی نہیں جائیں گے وہاں" وہ حیران ہوئی جیسی امید تھی کہ وہ اسے لے ہی جائے گا۔حاطب نے جواب نہیں دیا۔بس اسکے ماتھے پر پڑے بیزاری کے بل تعداد میں کچھ زیادہ ہو گئے تھے۔

سعد کا نمبر سکرین پر جگمگا رہا تھا۔

"حاطب کہہ رہے ہیں مجھے لے لیں سٹاپ سے"سلام دعا کے بعد اس نے سیدھی اور کھری بات کی، وہ بے ساختہ اسے گھورنے پر مجبور ہو گئے ۔

"جی بس تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے"

"کتنی دیر لگے گی؟" کال پر گفتگو کرتے ہوئے اس نے شاید سعد کا سوال فارورڈ کیا تھا۔

"گھنٹے ڈیڑھ میں ادھر مین سٹاپ پر پہنچ جائیں گے"

وہ قریبی ٹاؤن کی بات کر رہے تھے۔گاؤں جانے کا واقعتاً ارادہ نہیں تھا۔

"یہ لیں بات کر لیں"

موبائل-فون حاطب کی جانب بڑھایا۔وہ یہی نہیں چاہتا تھا ورنہ خود ہی سعد کو میسج کر دیتا، کہ بہن کو لے جاؤ۔

" یار میں بزی ہوں کچھ، اسلام آباد جانا تھا مجھے دانیہ سے ملنے،"

وہ بہانہ پیش کر رہا تھا۔جو بھی تھا وہ سعد یا فرحت، دیوان کو یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ نہیں آئے گا۔کیونکہ آنا ہی نہیں چاہتا ۔

"وہ تو ہے پھر دیر ہو جائے گی، ہاسٹل میں دیر گئے تو ملنے بھی نہیں دیتے "

ایفا گل اسکی طرف مڑی بغور اسے دیکھ رہی تھی۔گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی۔

"ہاں ٹھیک ہے پھر فرحت کو کہہ دو"

پھر چند پل بعد وہ الوداعی کلمات ادا کر رہے تھے۔

حاطب نے فون ڈیش بورڈ پر پھینکا اور خود واپس سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا۔

ایفا گل چند پل سے زائد برداشت نہیں کر سکی۔

"کیا کہا ہے، اب کیا فرحت لالا آئیں گے، سعد تو دفتر میں ہے"

وہ سرکاری ملازم تھا، ابا کی جگہ بھرتی ہوا تھا۔؛ اس وقت مصروف تھا۔

حاطب نے کوئی جواب نہ دیا۔

اور یہی بات ایفا گل کا دل ہولا رہی تھی۔

وہ ہر ایک منٹ بعد گردن موڑ کر حاطب کا سنجیدہ چہرہ دیکھتی مزید پریشان ہو رہی تھی۔

اوپر سے اسکے اوراد و وظائف اور پھر چپکے سے حاطب پر پھونکیں مارنے کا عمل۔وہ چپ نہیں رہ سکا۔

"یہ کیا کر رہی ہو تم" ایک دفعہ اسی طرح پھونک مارنے کے عمل کو اس نے پکڑ لیا تھا۔

"جج جی؟"

"یہ کیا عمل اعمال کر رہی ہو تم، کوئی سیدھا کام ہے تمہارے پاس؟"

وہ سخت مایوس تھا۔ایفا حجل ہوئی۔

"نہیں ۔۔۔"

مزید کچھ نہیں بول سکی۔حاطب کو تو کوئی موقع ملا تھا۔

"ہاں مجھے پہلے ہی پتہ تھا سیدھا کوئی کام نہیں تمہارے پاس"

وہ طنزیہ جتاتے ہوئے بولا ۔

"نہیں مطلب کچھ نہیں کر رہی بس پڑھ تھی۔تو آپ پر پھونک دیا"جھنجھلا کر وضاحت دی۔حاطب نے مڑ کر بغور اسے دیکھا

" کس لیے؟" سوال مختصر اور آسان تھا مگر جواب بے حد مشکل۔مگر وہ منتظر تھا، جواب دیتے ہی بنی۔

"تا کہ آپکا دل میرے لیے نرم ہو جائے، اور سب کی طرح مجھ سے پیار کرنے لگیں آپ"

وہ پیار کی متلاشی لڑکی اسکے پیار کو لات مار کر اب وظیفے پڑھ رہی تھی۔

حاطب چاہ کر بھی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکان کو نہیں روک سکا۔بمشکل اپنا چہرہ سٹرک کی طرف موڑ کر مسکراہٹ چھپا پایا تھا۔جبکہ ایفا اسے یوں چہرہ موڑتے دیکھ کر مزید دکھی ہو گئی تھی۔

" کر لیں جو مرضی۔جب آپکو پتہ چلے گا نا کہ ایفا گل کتنی اچھی ہے تب پچھتائیں گے آپ" وہ چینلج کرتے ہوئے روہانسی ہو رہی تھی۔نجانے کیوں اسے یقین ہو چلا تھا حاطب کو اس سے پیار نہیں ہے ۔

(مجھے نہیں پتہ وہ کونسا طریقہ ہو گا اظہار محبت کا جو تم جیسی بے وقوف لڑکی کے نزدیک قابل عمل ہو گا)

وہ خود سے کہتا لاجواب سا ہو کر سر جھٹک کر ڈرائیور کرتا رہا۔


ایفا گل کی درود ورود میں تیزی آ گئی تھی۔

حاطب نے سر جھٹکا۔

(اب پتہ نہیں اس طرف کس نے لگا دیا ہے اسے)

_______________

دونوں لڑکوں میں سے ایک نے منع کر دیا تھا۔ایک ہی پیشی کے بعد اسے لگ رہا تھا کہ اب اس کیس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، شیریں اور باقی دونوں نے اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ اڑا رہا۔شیریں کا دل چاہ رہا تھا دو چانٹے اسکے رخسار پر لگا کر پوچھتی۔

"کیا پہلے اس سب کا اندازہ نہیں تھا۔جو آنکھیں بند کر کے شامل ہو گئے تھے۔" مگر وہ صرف اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ ہی سکی۔

دوسرے نے انھیں تسلی دی تھی کہ وہ اسے سمجھا کر کنونس کر لے گا مگر اب اسکی کال آئی تھی کہ وہ کسی صورت نہیں مان رہا۔اور اللہ جانے ایسا کیا ہوا تھا کہ جو اسے منانے گیا تھا اب وہ بھی کچھ پھیکا پڑ گیا تھا۔

کال بند کر کے ان سب کو برا بھلا کہتی وہ پھر سے اپنے کام میں مگن ہو گئی۔

"شیریں خانم تم پیچھے نہیں ہٹو گی چاہے ان میں سے کوئی بھی نہ رہے"

دادا اسکی جھنجلاہٹیں سن کر مسکرا رہے تھے۔

انھیں پہلے ہی علم تھا اس سب کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔

"لڑکی میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ ہوا کے مخالف سمت سفر کی ضد باندھنا درست نہیں ۔نقصان اڑنے والے پرندے کا ہی ہوتا ہے، ہوا کا کچھ نہیں جاتا"

" دادا میرے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کریں ورنہ شیریں خانم کا برا روپ دیکھیں گے آپ"

ننھی ننھی آنکھوں کو مزید سکیڑے وہ انھیں وارن کر رہی تھی ۔

" چھوڑ دو شیریں اس سب کو تھک جاؤ گی، یا پھر اپنے پر زخمی کر لو گی؛، "

وہ بہت دنوں بعد اس سے یوں ہنستے مسکراتے بات کر رہے تھے۔

" دادا مشکل مسافت کا مطلب یہ تو نہیں کہ پرندہ اڑنا چھوڑ دے۔آپ جانتے ہیں کچھ پرندے ایسے ہیں جو امریکہ سے اڑتے ہوئے آسٹریلیا کے آئی لینڈز تک جاتے ہیں اور وہ بھی ہر سال، سائنس اسکا جواب دینے سے قاصر ہے مگر وہ پھر بھی اسکو ممکن بناتے ہیں ۔تو آپکو کیا لگتا ہے میں ہار جاؤں گی؟ "

وہ بولتے ہوئے اب مسکرانے لگی تھی۔جیسے اپنی ہی باتوں میں سے امید کی کوئی کرن نظر آ گئی ہو۔

ہوتا ہے نہ کبھی کبھی انسان اپنی ہی باتوں میں سے روشنی تلاش کر لیتا ہے۔اسے کسی دوسرے سے روشنی مستعار لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

" اس سب میں کچھ نہیں ملے گا، تم تھکن سے ٹوٹ جاؤ گی، وہ پرندے ہیں مگر ہم انسان ہیں ہمیں ایسی مسافتیں توڑ دیتی ہیں"

شمشاد خان اس جان سے عزیز پوتی کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔نجانے کیا وجہ تھی اپنی تمام ضدوں اور ہٹ دھرمی کے باوجود وہ انھیں اسی طرح عزیز تھی۔کبھی بری نہیں لگتی تھی۔یہ اللہ کی طرف سے کوئی خاص بات تھی جو انکے دل میں شیریں کے لیے ناگواری بھرے جذبات جنم ہی نہیں لیتے تھے۔وہ بھی سنجیدہ ہو گئی تھی۔

"دادا یہی بات مجھے بیٹھنے نہیں دیتی۔وہ پرندے ہیں اور وہ ہار نہیں مانتے، اپنی جان اور عقل سے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں اور میں انسان، اشرف المخلوقات ہو کر بھی برائی کو قبول کر لوں، اسکے خلاف کھڑی نہ ہوں ۔صرف اس لیے کہ میں تھک جاؤں گی؟"

انکے سامنے کھانے کے لوازمات رکھتی وہ خود بھی آ بیٹھی۔

" اور فکر نہ کیا کریں ۔جس دن تھک جاؤں گی، آپکی گود میں آ کر گر جاؤں گی۔بس اتنا کیجیے گا کہ تب میری ناکامیاں یاد کروانے کی بجائے مجھے سنبھال لیجیے گا"

وہ پیار سے بظاہر عام سے لہجے میں بولی۔مگر شمشاد خان کو چونکا گئی تھی۔

وہ ناکامی کے لیے تیار تھی۔تو پھر وہ یہ جنگ کیوں لڑ رہی تھی؟ اس مسافت کے طے کرنے کا مقصد کیا تھا؟

یقیناً وہ ناکام ہونے کا مزہ چھکنے کے لیے تو یہ سب نہیں کر رہی تھی ۔

پھر اسکے محرکات کیا تھے؟؟؟ وہ سوچ میں پڑ گئے ۔

بغور اسے دیکھا جو مگن سی کھانا کھا رہی تھی۔کچھ دیر پہلے کی ذہنی اذیت اور کوفت اب دادا سے بات کرنے کے بعد ختم ہو چکی تھی۔اسے اس سفر میں کسی کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

~~~~~~~~~~~


"حاطب کہاں ہے؟"

ہمایوں اگلے دن شام کو گھر آیا تھا۔چاہ کر بھی وہ وقت ہی نہیں نکال سکا۔

"بیگم صاحبہ کو لے کر گیا ہے، خوش ہو جاؤ تم بھی، بہت تکلیف تھی نا تمہیں"

ماما نے اسے گھورا گویا حاطب کے جانے کی وجہ ایفا کے ساتھ ساتھ ہمایوں ہی ہو۔وہ خود بھی حیران ہوا تھا۔

" کیا مطلب چلا بھی گیا؟میں تو ملنے آیا تھا اس سے"

وہ صوفے پر بیٹھا اب جوتے اتار رہا تھا۔

"ویسے میں نے تو ابھی لڑنا تھا اس سے وہ پہلے ہی چلا گیا "

ہمایوں ہنستے ہوئے بولا۔

"کب آئیں گے کل؟ یا پرسوں تین دن کے لیے ہی آئے ہیں نا کیپٹن صاحب؟"

اسکا موڈ یکدم اس تبدیلی پر خوشگوار ہو گیا تھا۔

" ہاں تین دن کے لیے آیا میرا بچہ، یہ نہیں کہ اسے گھر بٹھا کر کوئی خیال ویال کرے اٹھا کر ساتھ لے گئی۔پتہ نہیں اس لڑکی کو کب عقل آئے گی"

وہ سخت نالاں تھیں ۔انکے خیال میں ایفا نے حاطب کے ساتھ زیادتی ہی کی تھی۔

"چلیں آ جائیں گے، اچھا ہے کچھ گھوم پھر آئیں گے اور آپکی ایک ساتھ جانے والی شرط بھی پوری ہو جائے گی"

دانستہ وہ نہیں کہہ سکا۔کہ کچھ وقت ساتھ گزار لیں گے اسی لیے اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔ورنہ اچھا تھا۔مطلب حاطب صاحب واپس ٹریک پر آ چکے تھے۔یقیناً اب دونوں کے درمیان چیزیں نارمل ہو چکی ہونگی۔تبھی تو آئے اور اگلے دن چل دئیے۔وہ زیر لب مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا۔بھائی نے جتنی اذیت سہی تھی اسکے بعد یہ سب اسکا حق تھا۔


" کہاں وہ میڈم تو سامان لے کر گئی ہے۔اور رہنے کا کہہ رہی تھی۔جبکہ حاطب کہہ رہا تھا کہ دانیہ کو ملنے جائے گا"


"یہ کیا بات ہوئی، ابھی رہنے کیوں چلی گئی، ابھی تو ویسے بھی وہ جا رہا ہے اسکے جانے بعد چلی جاتی" بے ساختہ اسکے منھ سے نکلا تھا۔ اور ماما کی بڑبڑاہٹیں بڑھ گئی تھیں ۔

" یقیناً اس بے وقوف لڑکی نے ضد کی ہو گی"

سارے خوشگوار خیالات اپنی موت مر گئے اور ہمایوں اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ ایفا گل ضد کر کے اسے ساتھ لے جانے پر مجبور کر چکی تھی۔

" میرے بھائی ابھی تو تمہاری آزمائش طویل ہے، ایفا گل جسی سادہ روح کو تم جیسے گھنے کے ساتھ سیم سپیڈ پر چلنے میں بہت وقت لگنے والا ہے"

وہ حاطب کی ریزروڈ اور سینسٹو نیچر سے واقف تھا۔سوچتے ہوئے اپنا قہقہہ نہیں روک سکا۔ماما نے اسکو غلط سمجھا تھا۔

"ہاں ہنسو ماں پر، میں تو پاگل ہوں نا جو یونہی بول رہی ہوں ۔تم لوگوں کا بھلا سوچتی ہوں مگر تم لوگ سمجھتے ہی نہیں "

انھیں سب سے ہی شکایت ہو رہی تھی۔

اور ابھی وہ یقیناً اصل صورتحال سے نا واقف تھیں

اگر واقف ہوتیں تو پاگل ہی ہو جاتیں ۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا ماما بیکار کی فکر مند ہیں آپ"انھیں کندھوں سے تھام کر تسلی دیتا وہ انھیں مزید چڑا گیا۔

" جاؤ ہمایوں تمہاری تو سوچ ہی نرالی ہے تم سے تو بات کرنا بیکار ہے"

اسکی نکاح کے گواہ والی سوچ پر وہ ابھی بھی حیران تھیں ۔ہمایوں ہنستا ہوا کمرے میں فریش ہونے چلا گیا۔بھائی سے ملنے آیا تھا اور بھائی صاحب زوجہ کے ساتھ سسرال سدھار گئے تھے۔

~~~~~~~~~


سفیان کو اکمل نے جو کاغذات تیار کروانے کے لیے کہا تھا۔وہی ایک عظیم مرحلہ تھا۔اسکے کورس کی فیس اکمل خود ادا کرنے کا کہہ رہا تھا۔سفیان کو صرف کاغذات مکمل کروا کر اسے بجھوانے تھے مگر اس پر بھی پیسہ پانی کی طرح لگا تھا۔کوئی دوست نہیں بچا تھا جس سے وہ مدد کے لیے ہاتھ پھیلا سکتا۔

ماں جی سے اب وہ پیسے مانگتا نہیں تھا۔وہ بھی اس پر پیسے لگا لگا کر تنگ آ چکی تھیں اب ہڈیاں جواب دےگئی تھیں ۔پہلے کی طرح پورا پورا دن سلائی مشین نہیں چلا پاتی تھیں ۔

اسی لیے سفیان سخت پریشان تھا۔اسی پریشانی کا اظہار کال پر عروہ سے کیا تھا وہ حسب توقع تڑپ اٹھی تھی۔

"مسئلہ کیا ہے تمہیں کتنے پیسے چاہییں"

وہ اسکج پریشانی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

"نہیں پیسوں کا مسئلہ نہیں ۔فرسٹ انسٹالمنٹ تو اکمل کہہ رہا تھا وہ ارینج کر لے گا، بس یار یہ پیپر ورک ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔تمہیں علم ہے میری جاب بھی کیسی ہے، پندرہ بیس ہزار سے زیادہ نہیں ملتے اور اس میں تو گھر کا گزارہ بھی نہیں ہوتا سب سے ادھار بھی لے چکا ہوں "

وہ بس وضاحت دئے جا رہا تھا۔

" سفی میں اور تم الگ تو نہیں، دوستوں سے ادھا مانگنے کی بجائے تمہیں مجھ سے بات کرنی چاییے تھی"وہ کچھ خفا ہو کر بولی۔

" یار تم سے مدد مانگتے ہوئے غیرت نہیں آتی مجھے؟ "

وہ کچھ ناگواری سے بولا۔

" غیرت کیسی میں بھی تو ضرورت میں تم سے مدد مانگتی ہوں اور تم حاضر ہو جاتے ہو، پھر تم کیوں نہیں مانگ سکتے "وہ معنی خیزی سے بولی۔سفیان کا قہقہہ بلند تھا۔

" وہ مدد تو میں خوشی سے کرتا ہوں، خیر چھوڑو میں کچھ کر لونگا"

" نہیں بس اب کسی اور سے پیسے مت مانگنا، مجھے بتاؤ جو بھی چاہیے"

وہ سختی سے بولی۔

" تمہارے پاس کہاں سے آگئے اتنے فالتو"

" یار ڈیڈ تو اب فالتو نہیں دیتے مجھے، مگر وہ اس ڈرامہ فلاپ ویڈنگ کے دوران جو سلامیاں ملی تھیں وہ ابھی تک میرے پاس ہی پڑی ہیں"

وہ بخوشی اسے ساری ڈیٹیلز بتا رہی تھی۔

" ڈرامہ اور فلاپ ویڈنگ"کے الفاظ پر سفیان ایک پل کو خاموش ہو گیا تھا پھر اسنے سر جھٹکا۔

" پھر ٹرانسفر کر دوں تمہارے اکاؤنٹ میں؟ "

وہ کنفرم کر رہی تھی۔

" نہیں، ملو پھر مل کر دینا، تمہارا شکریہ بھی تو ادا کرنا ہے"

وہ معنی خیزی سے اصرار کر رہا تھا۔وہ رضامند ہو گئی۔

"ٹھیک ہے مگر زیادہ دیر نہیں رکوں گی"

اسے پیشگی باور کرایا ۔

"آؤ گی تو ہی پتہ چلے گا"

وہ بے پرواہی سے بولا۔

فرحت لالا اسے حاطب کی بتائی جگہ پر لینے آ گئے تھے ۔حاطب سے کچھ دیر رکنے کا کہا مگر وہ دانیہ سے ملنے جانے کا بہانہ پیش کر کے جان چھڑا گئے، لالا نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا تھا۔عفی کو تو اب کسی تیسری چیز کی پرواہ ہی نہیں تھی۔ایسے لگ رہا تھا جیسے سالوں محاذ جنگ پر گزارنے کے بعد واپس آئی ہو۔

حاطب رک رہا تھا یا جا رہا تھا۔یہ اب اہم نہیں رہا تھا۔

گھر پر اس وقت امی جی ہی تھیں ۔فرحت لالا اسے چھوڑ کر اپنے کسی کام سے چلے گئے ۔اور وہ گھر کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتی رہی۔سالوں سے اس گھر کا نقشہ ایک سا ہی تھا۔سادی فرنیچر، ضروریات زندگی کی چیزیں میسر تھیں ۔پہلے ابا کی سرکاری نوکری اور چار بچے ہونے کے باعث حالات بس گزارے لائق ہی تھے، بعد میں دیوان لالا بھی سرکاری نوکری پر لگ گئے حالات آہستہ آہستہ بہتر ہوتے گئے ، بعد میں لالا نے نوکری چھوڑ دی تھی۔اور اپنا کاروباہلر


"ارے واہ میرے بعد تو گھر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے"

وہ ہر شے کو دیکھ کر حیران پریشان ہو رہی تھی۔امی جی تو اسے دیکھ کر ہی خوش ہو گئی تھیں ۔

"ہاں یہ دیوان لایا تھا پھر مجھے لے گیا کہ فرنیچر پسند کریں امی جی" انکے لہجے کا فخر اور خوشی محسوس کی جا سکتی تھی۔

"پھر یہ سارے صوفے سیٹ، یہ نئی شیشے کی میزیں، یہ اتنا بڑا ٹیلی ویژن اور بھی کیا کچھ نہیں لایا، میں تو منع ہی کرتی رہ گئی"

انکے لہجے سے نہیں لگتا تھا انھوں نے منع کیا ہو گا۔شاید پہلی دفعہ انھیں یوں کھل کر اپنی مرضی سے خریداری کا موقع ملا تھا۔

"لگ تو نہیں رہا منع کیا ہو گا آپ نے"ایفا گل نے جتایا تھا۔وہ جھینپ گئیں۔

" اور ابا جی نے کچھ نہیں بولا۔مطلب باقی تو چلیں جو بھی یہ ایل ای ڈی سے تو نفرت تھی انھیں"

اسکی آنکھیں پٹھی تھیں ۔ابا تو اکیس انچ کا ٹی وی بھی دن میں دو گھنٹے وہ بھی اپنی نگرانی میں لگاتے تھے۔

"ہاں بہت منع کیا، دیوان سے تو بس ناراض ہو گئے تھے مگر مجھے بہت ڈانٹ پلائی، کتنے ہی دن غصہ کرتے رہے۔پھر دیوان نے ہی سمجھایا کہ اب عفی نہیں ہے اسی کی وجہ سے منع کرتے تھے آپ،."

انھوں نے اپنے دوپٹے سے ایک بار پھر صاف ستھری میز کو صاف کیا۔

"تب کہیں جا کر چپ ہوئے تمہارے ابا، اور پھر یہ سارا سامان بھی آ گیا، سارے گھر میں نئے پردے بھی لگوا کر دئے ہیں "

ایفا گل نے شاکی انداز میں ماں کو دیکھا۔اسکے بعد سے کیسی کیسی تبدیلیاں آ گئی تھیں وہ بھی بس دو ماہ میں ۔

"امی جی تو میرے ساتھ کونسا بیر تھا جو میرے سامنے وہ سب رکھ کر بیٹھے رہے اور میرے جاتے ہی ہر شے نئی آ گئی "

وہ شاکی انداز میں گلہ کر رہی تھی۔

" اے میری جھلی دھی۔بیر نہیں تھا بس تیرے ابا کہتے تھے جتنا اسکو آسائشوں کی عادت ڈالیں گے اتنا ہی اگلے گھر جا کر مسئلہ ہو گا تجھے، اب تیری قسمت تو نہیں دیکھی تھی نا، اور ویسے نا تیرے ابا کتنے سادگی پسند ہیں پتہ تو ہے تجھے ۔وہ تو ان نئی چیزوں پر بیٹھتے بھی نہیں اپنے کمرے میں ہی پڑے رہتے ہیں ۔کہتے ہیں یہ سب فضول خرچی ہے، "

وہ اسکے سر پر پیار سے چپت لگا کر بولیں ۔اور ایفا گل حیران پریشان تھی۔واقعی ابا ٹھیک سوچتے تھے۔اور اگر وہ نازوں اور آسائشوں میں پلی ہوتی تو یوں چچی کے ساتھ گزارا ہوتا اسکا؟

جواب نفی میں تھا۔یہ ابا کی تربیت ہی تھی کہ اسکے مزاج میں نخرہ نہیں تھا، وہ صابر تھی۔اور صلح جو بھی۔

مگر وہ پھر بھی حیران تھی۔کبھی بھی اسے یہ خیال نہیں آیا تھا۔وہ تو بس ان سب پابندیوں کو ابا کے مزاج کی سختی ہی سمجھتے تھے۔

ابا نے ان سب کو ہی سخت اصولوں اور کڑی نگرانی میں رکھ کر پروان چڑھایا تھا۔اب بھی وہ سب اتنے خود مختار نہیں ہوئے تھے۔گھر میں ابا ہی کی بات آخری ہوتی تھی۔یہ اور بات کہ دیوان اور فرحت لالا نے پیشے اپنی مرضی سے منتخب کیے تھے۔دونوں لڑکوں نے محنت کی اور اللہ نے انھیں اسکا بے حساب بدلہ بھی دیا تھا۔

پھر بھی وہ جاوید چچا کی بیٹیوں کے لیے قابل قبول نہ سمجھے گئے تھے۔بس ایک یہی کسک تھی جو سدید خان کے دل میں تھی۔

باقیوں کے دلوں میں کیا تھا اس سے اللہ ہی واقف تھا۔


~~~~~~~~~~


دیوان شام کو جلدی گھر آ گیا تھا۔ایفا گل کو دیکھ کر اسکی خوشی بے پایاں تھی۔دونوں بہن بھائی کے جوش و خروش کو دیکھ کر سجاد خان بھی اپنے پورشن سے نکلے تھے۔

"یہ عفی کب آئی ہے؟"

انھیں حیرت نے گھیرا۔بیوی سے دریافت کیا۔

"آج سہ پہر میں ہی آئی ہے"

"کس کے ساتھ، کیا کوئی اور بھی ہے؟"

انھیں جاوید کا پورشن پہلے کی طرح بند ہی نظر آیا تھا۔

"نہیں اکیلی آئی ہے، فرحت چھوڑ کر گیا ہے گھر تو"

انھیں حیرت ہو رہی تھی صبح ہی تو انھوں نے فرحت کو گھر ہی دیکھا تھا۔پھر وہ کب گیا اور کب واپس بھی آ گیا۔

احساس زیاں نے انھیں ایک مرتبہ پھر سے گھیرا ۔جب جب وہ ایفا گل کو اور جاوید کی فیملی کو دیکھتے یہ احساس بڑھنا ہی تھا۔مگر ایک بے وقوف عروہ تھی کہ اسے پرواہ تک نہیں تھی۔

کتنے ارمانوں سے انھوں نے ایف ایس سی کے بعد بھتیجے کو اپنے پاس رکھا۔اسکی تیاری کروا کر آئی ایس ایس بی دلوایا۔وہ پاس ہوا۔پھر ٹریننگ اور پھر اسکی بہترین جگہوں پر پوسٹنگ یہ سب انھوں نے اسی لیے کیا تھا کہ انھیں اس میں ایک کامیاب نوجوان نظر آیا تھا۔مگر عروہ کی قسمت ہی شاید تاریک تھی۔وہ بے چین ہو گئے۔دوسروں کی کامیابیوں پر بے چین ہونے والے کم ظرف ہوتے ہیں ۔وہ بھی کم ظرف ثابت ہوئے تھے۔

بڑے بھائی صاحب کے پورشن میں آج معمول کے برعکس بہت چہل پہل تھی۔بیچ میں جاوید کا پورشن ہونے کے باوجود سعد، فرحت اور دیوان کی آوازیں انکے پورشن میں سنائی دے رہی تھیں ۔وہ سب شادی شدہ بہن کے میکے آنے پر خوش تھے۔اگر عروہ کم عقلی نہ دکھاتی تو آج وہ بھی اتنے ہی مطمئن ہوتے۔انھوں نے سر جھٹکا۔

اب تو بس پچھتاوا ہی رہ گیا تھا۔

~~~~~~~~~

"عروہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہاری دی ہوئی ایک ایک پائی، ایک ایک فیور کو لوٹاؤں گا"

سفیان کے چہرے پر موجود شرمندگی بھری بے بسی عروہ کو بلکل پسند نہیں آئی تھی۔

"فار گاڈ سیک۔سفی تم بدل گئے ہو، اب تم پہلے جیسے نہیں رہے"

اس نے اپنی ناپسیندگی کا اظہار کیا۔

"کیا ہوا اب کیا برا لگ گیا تمہیں؟ "

وہ اسکی جذباتی فطرت سے آگاہ تھا۔وہ محبت میں پاگل پن کی حد تک دیوانی تھی۔

"اب تم پہلے کی طرح نہیں بات کرتے، پہلے بھی تم اسی طرح غریب تھے مگر یہ بات تم اتنی محسوس نہیں کرتے تھے کہ سر پر سوار کر لو اب تو بس پیسے کو سوار کر لیا ہے تم نے"

وہ جھنجھلا کر اسکا کندھا ناپسندیدگی سے ہلا کر بولی۔وہ دونوں بہت قریب پارک کی بینچ پر بیٹھے تھے۔سفیان چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر اسے چھو لیتا۔مگر وہ اس قسم کی دست درازی نہیں کرتا تھا۔اسی لیے عروہ کی محبت اس سے شدید ہوتی جا رہی تھی۔وہ یونیورسٹی کے باقی نامراد عاشقوں کی طرح اس سے فضول اور غیر آخلاقی مطالبات بھی نہیں کرتا تھا۔ شکل و صورت کا بھی بہت اچھا تھا۔بس ابھی سٹرگلنگ ٹائم پیریڈ میں تھا، اسکا مسئلہ یہ تھا کہ وہ منھ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔اور عروہ گل کو اس مسئلے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

باقی اگر کوئی مسائل تھے بھی تو اسے پرواہ نہیں تھی۔


" ہاں سچ کہتی ہو تم شاید میں احساس کمتری کا شکار ہو رہا ہوں ۔میں بس ہر صورت اپنے حالات بدلنا چاہتا ہوں اب مزید صبر نہیں کر سکتا، امی بھی اب بیمار ہیں وہ کام نہیں کر سکتیں ۔میں انھیں اس عمر میں لوگوں کے کپڑے سیتا نہیں دیکھ سکتا"

وہ بے روزگاروں والے ڈپریشن کا شکار تھا۔وہی نا امیدی جو اکثر نوجوانوں کو گھیرے ہوئے ہے، جو تعلیم ڈگریاں ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں ۔

" سفیان مجھے تم وہی پسند ہو، جیسے تم تھے اپنے حالات میں خوش اور مستقبل کے بارے میں پر امید، مجھے اسی سفیان سے عشق ہے". وہ نرمی سے اسے دلاسہ دیتی اسکے کندھے پر سر ٹکا چکی تھی۔

یہ سوچے بناء کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے نامحرم تھے۔اور نا محرم رشتوں اور تعلقات میں خیر کم ہی نکلتی ہے۔

" اور مجھے تمہاری اس معصومیت سے عشق ہے عروہ"

اس نے بھی جوابا عروہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔

پھر انگوٹھے سے اسکے ہاتھ کی پشت کو سہلانے لگا۔

"جب تم اکمل بھائی کے پاس چلے جاؤ گے تو مجھے بلانے میں دیر مت کرنا، بس جونہی کچھ سیٹل ہوئے واپس آنا اور مجھے بھی ساتھ لے جانا، میں اب مزید یہ دوریاں برداشت نہیں کر سکتی"

وہ اسے اپنی بے قراریوں کا محرم بنا رہی تھی جبکہ سفیان اسکے پاگل پن پر مسکرا پڑا۔

"جاب ڈھونڈوں گا، کچھ پیسے اکٹھے کرونگا، یہاں گھر بناؤں گا پھر ہی تمہیں اپنا سکوں گا"

اس نے اسے گھور کر سارے پلانز یاد دلائے" نہیں ہرگز نہیں اس میں تو بہت ٹائم لگ جائے گا. مجھے بس تمہارے ساتھ رہنا یے باقی چیزیں آتی جاتی رہیں گے، ساری زندگی پڑی ہے دونوں مل کر حاصل کر لیں گے، نا بھی کر سکے تو کوئی مسئلہ نہیں، بس ہر جگہ ہر سفر میں ہم دونوں ساتھ ہوں"

اسکا نظریہ حیات ہی مختلف تھا۔سفیان نے اسے اسکا پاگل پن قرار دیا۔

" اور تمہارے ڈیڈ ان سب چیزوں کے بغیر جیسے تمہیں سونپ دیں گے مجھے"اس پریم کتھا میں ظالم سماج بھی تو تھا سفیان نے اسے اس کردار کی یاد دلائی۔مگر وہ خیالوں کی اس حسین دنیا میں سفیان کے سنگ اڑتی جا رہی تھی۔اور وہاں سے حقیقت کی دنیا میں کسی صورت لوٹنا نہیں چاہتی تھی۔

"ان سے میں بات کر لونگی بس تم اپنا دماغ درست رکھنا یاد رکھو تمہاری پہلی پرائورٹی میں ہوں اور مجھے ہی ہونا چاہیے" اسکے کندھے پر سر ٹکائے وہ اسکی محبت میں پوری طرح ڈوبی ہوئی تھی۔

وہ یہ بھول گئی تھی کہ اسلام اسے پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے۔نا جائز تعلقات کی نہیں ۔حدود کی اس باریک لکیر کو وہ روند چکی تھی۔اور اسے ادراک تک نہیں تھا۔دوسری جانب سفیان مجید اب اسکی دیوانگی سے کچھ ڈرنے لگا تھا۔

__________


"تم کال کیوں نہیں کرتی تھیں، جب بھی کرو تو خود ہی کرو، کیا بھول گئی تھیں ہم سب کو"

وہ یکدم بڑی بڑی اور پرائی پرائی لگنے لگی تھی۔دیوان نے اسے ڈپٹا۔

"چچی کے نمبر سے کال سنتی ہوں، جاوید چچا تو گھر نہیں ہوتے تھے، اور چچی سے بار بار مانگنا عجیب لگتا تھا۔"

وہ یہاں نہیں بتا سکتی تھی کہ چچی کا رویہ کتنا لیا دیا سا ہوتا تھا۔

"صبح آتے ہوئے ایک سیل فوج لیتے آنا فرحت"

دیوان نے پیچھے صوفے پر بیٹھ کر چائے پیتے فرحت کو پکارا جو کچھ لا تعلق سا مگر وہیں بیٹھا تھا۔

شاید یہ ایفا کا پروٹوکول تھا ورنہ وہ اس وقت سارے دن کے کیے کاموں کا حساب کتاب کیا کرتا تھا۔

آخر کو کامیاب سپوت تھا۔اسکی زندگی میں بس کام کام اور کام ہی تھا۔حلقہ احباب بھی چھوٹا سا تھا۔زیادہ تر کاروباری تعلقات تھے گھر میں بھی اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی خاندان کے معاملات میں کچھ دلچسپی لیتا تھا یا پھر کام میں ۔وہ اگر ساتھ نہ ہوتا تو شاید دیوان اتنی جلدی اتنی کامیابیاں نہ سمیٹ سکتا۔وہ دونوں یک جان دو قالب تھے۔مگر ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔

دیوان لالا غصیلے، باغی ہونے کے ساتھ ساتھ گھر اور عفی اور امی جی کے لیے بہت نرم دل اور خیال کرنے والے تھے۔باہر بھی بہت سوشل تھے۔علاقے میں تیزی سے شہرت مل رہی تھی۔

اور سعد تو ابھی تھا ہی چھوٹا اور مکمل طور پر ابا جی کے زیر اثر بھی تھا۔

مگر وہ تینوں ایفا گل کا مان تھے۔

"لالا آپ لوگ ایک دفعہ بھی مجھے لینے نہیں گئےملنے بھی نہیں گئے" باتوں باتوں میں اس نے گلہ کیا تھا۔

"میں تو سعد کو اسی لیے بھیجا تھا بعد میں تمہیں لینے بھی بھیج رہا تھا مگر ابا جی نے منع کر دیا کہ پہلی مرتبہ ہے تم حاطب کے ساتھ آؤ گی"

وہ جلدی سے وضاحت دیتے بولے۔

" مجھے تو لگتا تھا اب کام میں بزی ہو گئے ہونگے آپ بھی فرحت لالا کی طرح اسی لیے سب بھول گئے" فرحت نے اسکا معصوم سا شکوہ سنا تھا۔

" اگر میں بھی کام نہ کروں تمہارے دیوان لالا تو کر چکے سارے کام، اور انکے بس میں ہوتا تو روز سارے کام چھوڑ کر تمہارے پاس پہنچے ہوتے "فرحت لالا خلاف عادت مسکرا کر بولے۔

" تو کیا آپ نے بھی منع کیا تھا انھیں؛ "وہ دیوان کے پاس بیٹھی فرحت لالا کو گھور کر دیکھتی بولی۔

" بھئی میں نے کسی کو منع نہیں کیا، بلکہ اب تم اگر آئی ہو تو کچھ دن رہو۔پھر سعد چھوڑ آئے گا تمہیں "

وہ اپنی جان چھڑواتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔

"اور سعد صبح پیسے لے جانا مجھ سے اور کوئی اچھا موبائل فون لے آنا عفی کے لیے، چلانا تو آتا ہے نا تمہیں؟"

ساتھ ہی انھوں نے یاد آنے پر ایفی کو پوچھا یقین تھا اسے نہیں آتا ہو گا۔

" توبہ ہے لالا آپ نے بھی بی اے کیا ہے اور میں نے بھی بی اے تو کر ہی لیا ہے چاہے پرائیویٹ ہی سہی"

اس نے شاکی ہو کر جواب دیا تھا۔

"تم دونوں کا بی اے نا ہونے کے برابر ہے"دیوان لالا نے دونوں کو چوٹ لگائی۔

"ہاں یہ صاحب تو پنجاب یونیورسٹی کے ٹاپر تھے، سوائے اردو کی غزلیں پڑھتے ہوئے ہم نے تو کبھی کچھ اور پڑھتے نہیں دیکھا تھا کبھی"

فرحت ہمیشہ اسی بات پر چوٹ کرتا تھا۔دیوان کو اس زمانے میں شعر و شاعری کا بھی شوق ہوا کرتا تھا۔

جبکہ فرحت کی اردو ہمیشہ سے کمزور تھی۔

" تم اپنی اردو کی سپلیو‍ں کا ذمہ دار مجھے ہی ٹھہرانا۔ویسے تمہاری جلن بنتی بھی ہے، کتنی دفعہ اردوکا پیپر دیا تھا تم نے تین دفعہ یا چار دفعہ"

ایفا گل کے ساتھ مل کر وہ فرحت کو رگید رہا تھا۔کبھی کبھی وہ یوں میں بیٹھتا تھا اور اسے گھیر لیتے تھے۔

"بس کرو تم دونوں، دوسری دفعہ پاس ہو گیا تھا اسی لیے وہ بیٹھتا نہیں تم لوگوں کے ساتھ"امی جی فوراً فرحت کے دفاع میں آئی تھیں۔ وہ دیوان کو. ملامتی نظروں سے دیکھتا وہاں سے اٹھ گیا تھا۔

بعد میں ابا نے سعد کو موبائل-فون لانے سے منع کر دیا تھا۔

"اسکا شوہر جب مناسب خیال کرے گا اسے دلا دے گا، یوں دلانا مناسب نہیں "

ابا جی کے اپنے ہی ضوابط تھے، جو وہ اتنے سالوں میں بھی سمجھنے کے قابل نہ ہوئے تھے۔

فرحت کو بتایا تو وہ بھی چپکا ہو رہا۔جو بھی تھا وہ باپ کے کہے کے خلاف نہیں جاتے تھے۔

لاکھ اختلافات تھے مگر انکا کہا آخر ہی ہوتا تھا۔

یہ انکی سعادت مندی ہی تھی وہ ہر اچھا برا کام انکے خلاف جا کر نہیں کرتے تھے۔یہی سدید خان کی تربیت تھی۔

اور اسی چیز کی بناء پر وہ اپنے باقی خاندان والوں کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔

~~~~~~~

"ایس پی صاحب آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں گے،"

کمرہ عدالت میں خاموشی تھی، شیریں خانم نے اپنے تمام چارجز بہ الفاظ دیگر الزامات پڑھ کر سنائے تھے اور ہمایوں کے چہرے کے تاثرات اسکی آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتے رہے تھے۔

اسے اندازہ نہیں تھا جس عورت کو وہ بدتمیز اور پاگل سمجھ کر ہلکا لے رہا تھا، اسکے اندر اتنا زہر بھرا ہو گا۔اوپر سے اعتماد دیکھنے لائق تھا۔

ہمایوں کے وکیل نے اسکا تفصیلی جواب تحریری صورت میں جج کے سامنے رکھا تھا، مگر جج صاحب شاید اسے بھی سننا چاہتے تھے۔

"میں اپنی صفائی تب ہی دے سکتا ہوں جب مجھے اپنے جرائم کی تفصیلات سے آگاہی ہو۔ابھی تک تو میرا جرم صرف یہی ہے کہ میں نے شہر کی پولیس فورس کا چارج سنبھالنے سے لے کر آج دن تک ہمیشہ اسی عزم کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کیا ہے کہ پولیس نے اس لگے بندھے اور فرسودہ نظام کے خلاف کھڑا رہوں گا، اور پولیس فورس اور اپنے عہدے کو واقعتاً عام عوام کی خدمت کے لیے وقف کرونگا"

اس نے پورے اعتماد سے کہا۔وہ سادہ کپڑوں میں سینہ تانے کھڑا تھا۔خاصہ فریش اور صحت مند نوجوان پولیس افسر، شیریں نے اسے دیکھ کر ان دیکھا کر دیا البتہ وہ اسے توجہ سے سن ضرور رہی تھی۔

" جو تمام الزامات اور اختیارات سے تجاوز کی رٹ آپ پر کی گئی ہے، اسکی تفصیلات سے آپکو آگاہ کر دیا گیا ہے، اگر آپ چاہیں تو میں دوبارہ دہرا دیتا ہوں اس معاملے میں آپکی کیا رائے ہے کہ آپ اپنے عہدے کو ذاتی عناد اور اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں آپکے انڈر تھانوں میں عام عوام کا استحصال ہو رہا ہے؛؟ "

ادھیڑ عمر، جج کا چہرہ روشن اور آنکھوں میں سختی کا عنصر نمایاں تھا۔

" میں ایک اٹھارہ گریڈ کا پی ایس پی افسر ہوں، آپ چاہیں تو پی ایس پی افسران کی ویب سائٹ پر جاکر میری مکمل پروفائل چیک کر سکتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرا جرم صرف یہی ہے کہ میرے آنے کے بعد میرے ضلع کی پولیس کارکردگی میں عوامی خدمت کا گراف بہت بلند ہوا ہے۔حتی کہ بہترین پولیسنگ اور کارکردگی کی بنیاد پر ہمارا ضلع پنجاب کے چھتیس میں سے دس بہترین کارکردگی والی پولیس کے اضلاع میں آ چکا ہے اور یہ اس شہر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے "

وہ اپنی بات کے آخر میں ایڈووکیٹ شیریں خانم کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔

" آپ اس بارے میں تو بات نہ ہی کیجیے ہم سب کو علم ہے ان رینکنگز اور بہترین پولیسنگ کے کھوکھلے دعوؤں کی حقیقت کا۔

لیکن آپ اس بارے میں کیا کہیں گے جو آپکے پولیس اہلکار تھانوں سے باہر پرائیویٹ عقوبت خانوں میں لے جا کر عام عوام اور محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیے گئے ملزمان کے ساتھ سلوک کرتے ہیں "

شیریں خانم اسکے کٹھہرے کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔اس بڑھتی سردی کے موسم میں سفید لباس پر مخصوص سیاہ کوٹ پہنے وہ اپنے آپ سے بے نیاز تھی۔

" میں ایسے کسی بھی عمل کی سپورٹ نہیں کرتا نا میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ ہے، معزز عدالت کو دئے گئے اپنے تفصیلی جواب میں اس چیز کو بھی ذکر کیا گیا ہے کہ چارج سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے انھی عقوبت خانوں کو بند کرایا گیا۔اسکے باوجود اگر ایسا اکا دکا کہیں ہوا ہے تو میرے علم میں نہیں "


وہ اسکے جواب پر مڑ کر اب جج کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی۔

" جیسا کہ آپ نے سنا اور دیکھا گریڈ اٹھارہ لے اس پی ایس پی آفیسر کے لہجے میں کس قدر غرور اور اکڑ ہے۔اسکے ہوتے ہوئے ان سے اس قسم کے جواب کی امید ہی کی جا سکتی تھی۔مگر میری معزز عدالت سے درخواست ہے کہ انکے اس مغرور انداز کو بغور نوٹ کیا جائے ۔کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی شہر کے پولیس سربراہ کو اسکے اہلکاروں کا اعمال کا اندازہ نہ ہو


(غرور اللہ میری توبہ کونسا غرور کہاں کا غرور) وہ سوچ کر رہ گیا، شیریں کی زبان زہر اگلتی جا رہی تھی۔


"میں نے ان تمام کیسز اور ثبوتوں کی کاپیاں ساتھ لگائی ہیں جن میں معزز ایس پی صاحب کی ہدایت پر انکے اہلکاروں نے تھانوں سے طاہر عقوبت خانوں میں لے جا کر ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنایا حتی کہ دو کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

بہت سے ملزمان کو عدالتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی یہ پولیس افسران اپنے شخصی غرور میں خود ہی جج اور جیوری بن کر سزائے موت سناتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں، ملزمان کو انکے فری اینڈ فئر ٹرائل کا قانونی حق نہیں دیا جاتا اور کئی فائلیں ایسے ہی جعلی پولیس مقابلوں کے نام پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔اور اس سب کا مقصد بہت واضح اور ایک سا ہوتا ہے"

وہ طویل دلائل کے دوران سانس لینے کو رکی تھی۔

(یو بلڈی سٹوپڈ وومن)

ہمایوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے سوچا تھا۔

"مقصد صرف اور صرف طاقتور مجرمان کو تحفظ دینا ہے"

" ہارڈنڈ کرمنلز جب پولیس کی حراست سے فرار ہو جاتے ہیں تب بھی آپ جیسے وکلاء حضرات ہی ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ انکا بر وقت علاج کیوں نہ کیا گیا، یہ ایک غیر تحریری مگر طے شدہ اصول یے جو پورے ملک میں رائج ہے، اسکے باوجود میں اسکے فیور میں نہیں ہوں"

ہمایوں نے اسے ٹوکا تھا۔

" آپ اسکے فیور میں نہیں ہیں اور آپ ہی کے تھانوں میں یہ پریکٹس ہو رہا ہے براوو مسٹر ایس پی"

وہ کاٹ دار انداز میں بولی۔

" مائی لارڈ اگر ان سے جواب مانگا جائے، تو یہ تھانے میں موجود نہ ہونے کا بہانہ بنا دیتے ہیں ۔انکے جونئر اہلکار تھانے کے اندر گھسنے تک نہیں دیتے، سول حکومت سے مدد کی درخواست کی جائے تو وہ بھی اس پولیس گردی کے آگے بے بس نظر آتی ہے کیونکہ بڑے ستاروں والے یہ مغرور پی ایس پی افسران کسی کو اپنی ناک کا بال تک نہیں سمجھتے، "

" بحیثیت شہر کے پولیس چیف میں اپنی ذمہ داریوں کے لیے پولیس ہیڈ کوراٹرز میں جواب دہ ہوں، لیکن اگر کوئی وکلاء گردی کرتے ہوئے تھانے آ کر ہم سے جواب طلب کرے تو ہم انکے خلاف قانون ہاتھ میں لینے پر کاروائی کرنے کے مجاز تو ہیں مگر جواب دینے کے پابند نہیں "

(پاگل، فارغ البال عورت)اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی اس نے ایسا کیا کیا تھا جو یہ عورت ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑی تھی۔جج نے ہمایوں کے اس پر اعتماد انداز کو ناپسندیدگی سے دیکھا تھا۔

" جج صاحب میری درخواست ہے کہ انکے اس جواب کو کیس کے ریکارڈ کا حصہ بنا کر محفوظ کر لیا جائے کیونکہ اگر ان افسران کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش نہ کی گئی تو کل کو انکے یہ الفاظ اور اس کیس کے تمام فریقین گواہ ہونگے کہ ہم نے اس خطرے کی گھنٹی کو بجایا تھا۔"

وہ بار بار اسکے انداز کو نوٹ کروا رہی تھی اور ہمایوں کو لگا تھا وہ اسے دیکھ تک نہیں رہی ۔

(شیطان کی اولاد)

وہ بس یہی کہہ سکا۔وہ بھی دل میں اسکا وکیل اب اسکی جانب سے جواب دینے لگا تھا۔ہمایوں دانستہ چپ ہو رہا ۔چند منٹ بعد مقدمے کی کاروائی روک دی گئی تھی۔

" ایسا ہی ایک کیس چند دن پہلے میں نبٹھا چکا ہوں اور ایک ہی ہفتے میں یہ دوسری پٹیشن ہے عدالت کو اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، کہ اس کیس کی باقی کاروائی سپیشل بینچ کورٹ میں ہو، تا کہ ان اصول و ضوابط کا تعین کر سکے۔

اور عدالت یہ تجویز کرتی ہے پولیس افسران کے اختیارات کا از سر نو جائزہ لیا جائے "

لکھتے کے ساتھ ہی جج صاحب اگلی پیشی کی تاریخ دے کر اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔

شیریں کا انداز نہایت پرمسرت تھا، ہمایوں کا وکیل اس سب کے لیے تیار نہیں تھا وہ شاک کا شکار تھا۔

اب تو مسئلہ ہو گیا ہے پتہ نہیں کیا ہو گا۔کتنا لمبا چلے گا یہ کیس"

یقیناً اب کیس میں نئی دفعات شامل کی جاتیں اور فل کورٹ یا سپیشل بینچ جب کیس کی سماعت کرتا تو اور نجانے کتنے شر انگیز وکلاء اس میں شامل ہو جاتے۔

" سچ ہی کہا تھا شاعر نے

پیدا جو ہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لو آج میں بھی صاحب اولاد ہو گیا۔

ہمایوں شدید ذہنی کوفت کا شکار ہوا تھا۔

~~~~~~


شیریں اپنی کامیابی پر خوش تھی ساتھ ہی ساتھ یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر ٹی وی پر چلنے لگی تھی۔بہت سے وکلاء نے اس سے رابطے کیے تھے۔یہ بیوروکریسی کی تاریخ کا ایک اہم کیس ثابت ہونے والا تھا ۔

مگر اسکی اپنی ٹیم ٹوٹ رہی تھی۔

ہمایوں نے کھل کر ان سب کو وارن کیا تھا۔شیریں نے تو ذرا خاطر نہیں لائی مگر باقی سب پریشان ہو گئے تھے۔

کسی جو توقع نہیں تھی یہ کیس کیا صورت اختیار کر جائے گا۔وہ دن رات اب اسی کی تیاری میں لگی رہتی تھی۔بناء سماعت کے بھی ایک بیرسٹر صاحب سے مشورہ کرنے کے لیے لاہور جا چکی تھی اب بھی آدھی رات کو بیٹھی تیاری کر رہی تھی۔دنیا و مافیا سے بے نیاز ۔اسکا پروفیشنل کیرئر بن بھی سکتا تھا اور تباہ بھی ہو سکتا تھا۔موخرالذکر وہ افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔اسی لیے جان مار رہی تھی۔دادا بھی پریشان رہنے لگے تھے۔بلکہ پریشانی سے اب انکی تعلق داری بن گئ تھی۔

"بس کر دو شیریں خانم بیمار پڑ جاؤ گی"


"صبح پیشی ہے میری دعا کیجیے گا"

رات کو گیارہ بجے وہ لاونج میں بیٹھی کوئی موٹی سی کتاب کنگال رہی تھی، دادا برداشت نہیں کر سکے، آہستہ آہستہ چلتے اسکے سر پر پہنچ گئے ۔

"ٹھیک ہے مگر سفر کرنے سے پہلے آرام کرنا ضروری ہے، تم آرام کرو یہی بہتر ہے تمہارے لیے ۔"


" کون کون جا رہا ہے؟ "

پھر کچھ یاد آنے پر پوچھا ۔

"ثناء نہیں جا رہی میں اور وہ بیگ صاحب کا لڑکا جائیں گے"

"ڈرائیور لے جانا اکیلے لڑکے کے ساتھ جانا اچھا نہیں لگتا"

"کیا ہو گیا شمشاد خان ایک کے ساتھ اچھا نہیں لگتا، دو کے ساتھ اچھا لگے گا؟ "

وہ چڑی۔

" وہ گھر کا بچہ ہے اور مجھے تسلی رہے گی ورنہ تن تو اتنی منہ زور ہو کہ اکیلے بھی جا سکتی ہو "وہ طنز کرتے ہوئے سختی سے تاکید کر رہے تھے۔

" اتنے پیسے نہیں میرے پاس کہ ڈرائیور رکھ سکوں "

باپ کا ڈرائیور وہ لے کر جانا گوارا نہیں کر رہی تھی۔

" تو پھر وہ دوسری لڑکی کو کہو وہ ساتھ چلی جائے "

انکا لہجہ اٹل تھا۔اس پر کوئی کمپرومائز نہیں تھا۔

" وہ اب اس کیس سے الگ ہو گئی ہے"

بتائے بناء چارہ نہیں تھا، اس نے دوٹوک بتا دیا۔

" تو پھر تم کیا یہ سب اکیلے کر رہی ہو؟ وہ ایک لڑکا پہلے بھی الگ ہوا تھا نا،. سب کچھ کر کے وہ کیوں الگ ہو گئی، "

وہ وہیں رک گئے تھے، قدم زمین نے جیسے جھکڑ لیے تھے۔

" ہم دو لوگ ہیں، اور ثناء کہتی ہے اسکے پاس اتنے پیسے نہیں جو اس کیس پر لگا سکے۔"

وہ سنجیدگی سے بولی ۔جیسے یہ معمولی بات ہو ۔

" تو کون پیسے لگا رہا ہے؟ کیا بیگ کا لڑکا؟ وہ تو خود بھوکے مرنے والے ہیں، مر مر کر تو گزاراہ ہو رہا ہے انکا"

"دادا چھوڑ دیں اس وقت بس کر لونگی میں کچھ نہ کچھ ارینج"

وہ جان چھڑاتے ہوئے بولی۔

" تم کب سے اتنی امیر ہو گئی ہو,؟ "

انکا لہجہ تفتیش کرنے والا تھا۔

" بس ہو گئی ہوں نا، آپ فکر نہ کریں "

اس کے چہرے پر بے زاری چھا گئی تھی۔

" شیریں بس کر دو اس سب کو، اس سے کچھ نہیں نکلنے والا، سب کو عقل آ گئی ہے وہ پیچھے ہٹ رہے ہیں، تمہیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ کوئی عقل مندانہ فیصلہ نہیں"

"دادا کوئی پیچھے نہیں ہونا چاہتا تھا، وہ بلڈی۔۔۔ ایس پی پریشرائز کر رہا ہے انکو، اب بزدل لوگ ہیں سارے، اسی لیے انکا کچھ بھی نہیں ہو سکتا یہ اسی طرح کنویں کے مینڈک بنے زندگی گزار دیں گے"

بمشکل منھ میں آنے والی گالیاں روکی تھی۔ورنہ عدالت کچہری میں پھرتے پھرتے وہ ایک گالیوں کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا بن چکی تھی۔

" اور تم کیا تمہیں اپنی جان مال عزیز نہیں ہے جو تم ہر کسی کے خلاف دشمنی مول لے رہی ہو "

" نہیں مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں، جو میں نے سوچا ہے وہ میں کر کے رہوں گی، دادا آپکو نہیں پتہ اس سب کا بس چھوڑ دیں میں دیکھ لونگی"وہ پچھلے چند دنوں میں ہونے والی اتنی ساری ذلالت، شیر اسد کے رشتے کا انکار، چیمبر چھوڑنا اپنی الگ سے پریکٹس کرنا علیحدہ دفتر سیشن کورٹ کی رٹس، ثمر مبارک والا واقعہ جیسے سب فراموش کر چکی تھی۔اسے اپنے آج تک کے نقصان کی پرواہ نہیں تھی آگے کیوں ہوتی۔شمشاد خان نے بے بسی سے اسکا انداز دیکھا ۔


" ٹھیک ہے جو تمہارا جی چاہے کرو، لیکن ایک بات کا جواب دو یہ اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟"

شمشاد خان کو خود پر شدید کمزوری اور بڑھاپا اترتا ہوا محسوس ہوا۔اولاد جب ماں باپ کو کم عقل اور خود کو سمجھدار سمجھنے لگے تو ماں باپ کمزور اور بوڑھے ہی ہو جاتے ہیں ۔انھوں نے تو پھر بھی خود لو شیریں کے لیے ہی مضبوط کر رکھا تھا۔اب شیریں بھی خود مختار تھی۔

" دادا میں کر لونگی ارینج، فکر نہ کریں بس میرا ساتھ دیں"

وہ ان سے ابھی بھی ساتھ کی توقع رکھتی تھی۔

"میرے ساتھ دینے یا نہ دینے کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے، شیریں، خیر اسکو چھوڑو، مجھ بوڑھے کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، اب تم جوان اور عقل مند ہو سب فیصلے کر سکتی ہو"

وہ گلہ نہیں کر رہے تھے مگر شیریں کے یہ انداز درحقیقت انھیں دکھی کر گئے تھے۔

" دادا کیا یار اتنے نیگیٹو کیوں ہو رہے ہیں ۔"

اس نے دادا کے گلے میں بانہیں ڈال دیں ۔

" شیریں خانم ،تم ہر ہفتے گاڑی لے کر لاہور جاتی ہو، وہاں کیس کے اخراجات پھر جن بیرسٹر صاحب سے کیس کے سلسلے صلاح مشورہ لے رہی ہو انکی فیس اور بھی نجانے کیا کچھ، اتنے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں ۔"

انکے ماتھے پر بل اور انداز مشکوک تھا۔

"جبکہ میری اطلاعات کے مطابق پچھلے دو ماہ سے تمہارے پاس کوئی سورس آف انکم نہیں ہے جو سیونگز تھیں وہی لگا رہی ہو، دفتر لیا، سامان اور بھی سب کچھ، پھر یہ کیس، کہاں سے اتنا پیسہ آ رہا یے؟ "

" دادا میں کر لونگی ارینج، فکر نہ کریں کیس جیت گئی اور ایس پی کو اتنی سی سزا بھی مل گئ تو پھر کیس ہی کیس ملینگے آہکی شیریں خانم کو"پرے ہٹ کر وہ دانستہ آنکھیں ملائے بغیر بولی۔دادا کھٹکے تھے

" کیا تم کسی کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہو۔

یعنی دماغ انکا زبان تمہاری؟ "

بدترین خدشہ انکی زبان پر آ ہی گیا۔اوپر سے جس طرح وہ شیریں کو دیکھ رہے تھے وہ سٹپٹا کر رہ گئی ۔

" دادا ایسا کچھ نہیں ہے، میں یہ اپنے لیے کر رہی ہوں، اور جیولری بیچی یے کچھ"

جھنجھلاہٹ سے شروع ہونے والے جملے کا اختتام مری ہوئی پست آواز میں ہوا تھا۔

" کیا کہتی ہو تم شیریں خانم؟ ذرا پھر سے کہو"

انھیں یقین نہیں آیا تھا۔ماں کی جیولری بیچی تھی۔

شیریں خانم نے اپنی ماں کی جیولری بیچی تھی۔جسے وہ سالوں سے سنبھال کر رکھ رہی تھی ۔کبھی گرد تک نہ پڑنے دیتی تھی۔اسکے لیے کسی اور پر اعتبار نہ کرتی تھی، اس نے وہ جیولری بیچ دی تھی۔وہ بھی ایک معمولی سے کیس کے لیے ۔

وہ اپنی کرسی پر ڈھے گئے۔

"میں اس ایس پی کو بھی سبق سکھاؤں گی، شیریں خانم کو کوئی معمولی سی عورت سمجھ رکھا ہے اس نے، اسے لگتا ہے وہ اس طرح مجھے ہرا دے گا۔میں ایسا ہونے ہی نہیں دونگی"

"کس کے لیے کر رہی ہو یہ سب، کیا ایک پولیس افسر کو نیچا دکھانے کے لیے "

انھوں نے ترحم سے اسکی حالت دیکھی۔جو اپنے آپ سے بھی بے نیاز ہو چکی تھی۔ہر وقت بس عدالت کیس، پڑھائی، تیاری اور یہی سب ۔اور جو اکسی ذہنی حالت تھی وہ ابتر تھی۔وہ نارمل نہیں تھی۔کوئی نارمل انسان ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔اسی لیے انھیں اس پر رحم آ یا تھا۔انکے انداز پر شیریں چند پل کو کچھ نہیں بولی، پھر لب بھینچ لیے۔

" بتاؤ مجھے کس لیے کر رہی ہو یہ سب، اپنی مرحومہ ماں کی آخری نشانی کس لیے بیچ آئی ہو تم۔؟"

انکی نگاہوں میں کوئی پیار نہیں تھا۔بس ترحم اور ہمدردی سی تھی۔

"آپکے بیٹے کے لیے"

وہ پتھریلے لہجے میں بولی۔

رات کو وہ امی جی کے ساتھ ہی سوئی تھی، جیسے پہلے سوتی تھی، ابا جی باہر والے کمرے میں ہی تھے۔دیوان لالا اور فرحت لالا بھی آج گھر ہی تھے۔ورنہ وہ اپنے ٹاؤن والے مکان میں ہی رہ جاتے تھے، کبھی حویلی آ جاتے کبھی وہیں رک جاتے۔سعد کو بھی ابا آجکل اپنے کمرے میں سلاتے تھے، انکی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی تھی، احتیاطََ سعد انکے پاس ہوتا۔

امی جی نے کمرے کی تاریکی میں اسے پکارا ۔

"دل تو لگ گیا ہو گا اب تمہارا؟"نجانے کس امید سے انھوں نے پوچھا تھا۔وہ جو دن بھر کے واقعات یاد کر رہی تھی چونکی۔

"کدھر، اتنا اچھا نہیں لگتا کوئی فارغ ہی نہیں ہوتا، سب صبح سے شام تک مصروف، میں تو سارا دن گھر کے کام کرتی رہتی ہوں پھر بھی بور ہی ہوتی ہوں"

وہ بچوں جیسی معصومیت سے بولی تھی، امی جی کو ایسے کسی جواب کی امید نہیں تھی۔

"سب کا رویہ کیسا ہے تیرے ساتھ؟"

گو کہ شوہر نے انھیں سختی سے کریدنے سے منع کیا تھا مگر وہ ماں تھیں ۔

" ٹھیک ہیں ویسے ہی جیسے یہاں ہوتے ہیں دانیہ تو ایک بار آئی ہے صرف گھر، آیت بھی بزی چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی"

وہ سب کا چیدہ چیدہ بتانے لگی۔آج کھل کر بولنے کا موقع ملا تھا۔ورنہ تو بات کرنے کو ترستی تھی۔

"کیا ہوا تیری چچی کو بھلی چنگی تو تھی"

"پتہ نہیں کہتی ہیں طبیعت ٹھیک نہیں "

وہ لاپرواہی سے بولی۔

" اور جاوید وہ کیا کرتا رہتا ہے کیا وہ بھی مصروف ہوتا ہے "


امی جی نہ چاہتے ہوئے بھی استفسار کر رہی تھیں ۔

"وہ بھی کام پر چلے جاتے ہیں واپس آ کر محلے کے دوستوں کے پاس، بس سب ہی گم رہتے ہیں وہاں "وہ اس بات سے جیسے نالاں تھی۔

" ہاں ہمایوں بھائی اچھے ہیں ویسے تو وہ بھی مصروف ہوتے ہیں مگر ہیں بہت اچھے" ہمایوں کے ذکر پر اسکی آواز میں جوش بھر گیا تھا۔

امی جی نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔سب کا ہی بتا دیا تھا جسکا بتانا چاہیے تھا اسکا ذکر تک نہیں کیا۔

(میری جھلی دھی)

وہ اسکی کم عقلی پر خاموشی سے مسکرائیں ۔جو اب چپ کر گئی تھی۔

اور حاطب میاں، وہ کیسے ہیں؟ "

انھوں نے کچھ معنی خیزی سے پوچھتے اسکا چہرہ نیم تاریکی میں بغور دیکھا ۔جہاں پہلے حیرت پھر الجھن امڈ آئی تھی۔

وہ چونکیں، انکے خیال میں تو شوہر کے ذکر پر اسے شرمانا لجھانا چاہیے تھا۔

"اچھےےے ہیں وہ بھی"

اسکا لہجہ کمزور تھا۔ماں کے دل میں کھٹکا ہوا تو اٹھ بیٹھیں ۔

"اچھا، مطلب دل لگ گیا ہے تمہارا انکے ساتھ؟"

وہ خود بھی اسکی شادی شدہ زندگی کے معاملات (خانگی) پر بات کرتے ہوئے جھجک رہی تھیں ۔

"پتہ نہیں اماں بس وہ کچھ عجیب سے ہیں،"

وہ پرسوچ انداز میں بولتی چت لیٹی تھی۔

"سمجھ نہیں آتی مجھے انکی، بس پتہ نہیں کیسی طبیعت ہے انکی"

وہ انکے سابقہ رویوں کو سوچتے بولی۔انکے پل پل بدلتے انداز،معمولی باتوں پر ڈانٹ ڈپٹ ۔اور پھر آتے ہوئے انکی سخت ترین ناراضگی ۔

" کیا ہوا؟ شادی کے شروع شروع میں تو سمجھنا پڑتا ہے لیکن وقت لگتا ہے، تم بس خیال کرنا اور بحث نہ کیا کرو"

" امی جی میں کہاں بحث کرتی ہوں، "

وہ فوراً نفی کرتے ہوئے بولی، حاطب ہوتا تو حیرت سے بے ہوش ہو جاتا۔

"خود ہی چھوٹی چھوٹی عجیب ہی باتوں پر غصہ ہو جاتے ہیں بعد میں غصہ اتر بھی جاتا ہے، عجیب ہی ہیں مجھے تو ڈر لگتا ہے ان سے"

وہ جھرجھری لیتے ہوئے بولی۔حاطب کے سارے خوفناک روپ آنکھوں کے سامنے لہرائے۔

"غصہ تو مرد کی فطرت میں ہے، مگر پیار بھی کرتا ہو گا، جومرد زیادہ غصیلے ہوتے ہیں وہ پیار بھی زیادہ کرتے ہیں "

اماں نے اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔

یہی غم تو اسے کھائے جا رہا تھا حاطب سب سے پیار کرتے تھے سوائے اسکے۔


"پتہ نہیں، میں تو ڈر جاتی ہوں" وہ کچھ خفگی سے بولی تھی۔

"ایسے نہیں کرتے بھئی ڈر بھی ہونا چاہیے مگر شوہر کو توجہ دینی پڑتی ہے ورنہ وہ اکھڑ پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔شروع میں تو کسی کی بھی دوستی نہیں ہوتی بعد میں مزاج آشنائی ہو جاتی ہے"

پہلی دفعہ وہ اسے یوں کھل کر سمجھا رہی تھیں ۔ورنہ وہ اس پر اتنی سختی نہیں کرتی تھیں ۔بلکہ وہ اپنے کسی بچے پر بھی سختی نہیں کرتی تھیں ۔سختی کرنے کو انکا باپ جو تھا۔

"میرا نہیں دل لگتا وہاں "جو دل میں تھا وہ ماں کے سامنے تو کہہ سکتی تھی۔امی جی سہیلیوں جیسی ہی تو تھیں۔

"عفی میری جھلی دھی، تم دل چھوٹا کر رہی ہو، فکر نہ کرو، دل بھی لگ جائے گا، بلکہ کچھ وقت بعد جب بچہ ہو جائے گا تو پھر تمہارا وہاں کے علاوہ کہیں دل ہی نہیں لگے گا"

امی جی نے نجانے کیا سوچ کر کہا تھا ایفا گل کا قہقہہ غیر متوقع اور خاصہ بلند تھا ۔

"کیا ہوا ہے عفی یہ تو کب سے منھ پھاڑ کر ہنسنے لگی ہے"

انھیں حیرت ہوئی تو سوالیہ اسے نیم اندھیرے میں دیکھا ۔

" کچھ نہیں بچوں کا خواب کہاں سے آ گیا ہے آپکو"

وہ پوچھ نہیں رہی تھی بس مضحکہ اڑا رہی تھی۔

"لے تو بچے نہیں ہونے؟ ان شاء اللہ ہونگے، میں تو دعا مانگتی ہوں روز کہ اللہ میری اولاد کو نیک اولاد عطا کرے "


(توبہ ہے امی جی بھی نا)

وہ چپ ہو گئی۔مزید بحث مناسب نہیں لگی تھی۔

" جب میری شادی ہوئی تھی تیرے ابا جی سے تو بڑے غصیلے تھے تیرے ابا، پہلے ہی دن جب رخصت ہو کر آئی تو تیرے ابا نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ فضول کے چونچلے اور بے حیائی پسند نہیں اس لیے اس سب سے دور رہنا" کچھ دیر بعد وہ بولیں تو ایفا گل نے دلچسپی سے سر اٹھایا ایسی باتیں یہاں کبھی نہیں ہوتی تھیں ۔

" اور مجھے عادت تھی، کشادہ، بے تکلف ماحول کی، کہ ہمارے میکے میں تو بس ہم بہنیں ہی تھیں ۔اب میں بھی ہنستی تھی منھ پھاڑ کر اور تیرے ابا کو پسند نہیں تھا"

وہ آج عہد رفتہ کو یاد کر رہی تھیں ۔

"اچھا امی جی ابھی تو نہیں کچھ بھی ایسا کرتیں آپ" اسے شدید حیرت ہوئی ۔

" ہاں تو دیوان کے ابا کے ساتھ رہ رہ کر چھوٹ گئیں ساری عادتیں ۔پر بڑا ڈر لگتا تھا مجھے دیوان کے ابا سے، روز جی چاہتا بھاگ کر ماں باپ کے گھر چلی جاؤں پھر دیوان کے ابا تھے بھی غصے والے"امی جی ابا کو دیوان کے ابا جبکہ ابا جی عفی کی ماں کہتے تھے۔وہ دونوں ایک دوسرے کا نام نہیں لیتے تھے۔عجیب رومینس تھے۔

"تو پھر کیسے دل لگا آپکا"وہ پرجوش تھی۔

" پھر تیرے باپ کا مزاج سمجھ گئی میں ۔اور اللہ پاک نے دیوان میری جھولی میں ڈال دیا۔اور تیرے ابا بھی پیار کرنے لگے تھے۔کچھ کچھ بدل گئے تھے، تو اچھے بھی لگنے لگے" امی جی کی آواز میں باقاعدہ شرماہٹ تھی۔عفی کے اندر کا شریر جاگا۔اٹھ کر امی جی کے پاس آبیٹھی۔

"اچھا واہ، یہ تو نہیں بتایا ابا جی پیار کیسے کرتے تھے"اس نے ماں کو شرارت سے چھیڑا تھا۔وہ فورا بدک گئیں ۔

" چل ہٹ بے حیاء ماں سے دل لگیاں کرتی ہے"وہ باقاعدہ شرما گئی تھیں ۔عفی دیر تک ان سے لپٹ کر ہنستی رہی۔

پہلی دفعہ امی ابا کی آپسی محبت کی داستان سننے کا موقع ملا تھا اوپر سے امی جی کا شرمانا، اور سٹپٹانا۔

وہ دیر تک اسے دھیمے دھیمے سے نصیحتیں کرتی رہیں ۔کتنی اسکے دماغ میں بیٹھی تھیں کتنی نہیں یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا۔

~~~~~~


ٹی وی پر ہیڈ لائنز چل رہی تھی ۔نیچے سرخ پٹی پر بھی مسلسل یہی خبر تھی۔

عدالت نے پولیس افسران کو بیوروکریسی کے ماتحت کرنے کا کہا تھا۔

آج شیریں بھی لاہور گئی ہوئی تھی۔اور اسی کیس کے سلسلے میں گئی ہوئی تھی جس نے بیوروکریسی اور پولیس فورس کے بڑے ایوانوں میں تھرتھلی مچا دی تھی۔وہ سسٹم جو سالوں سے ایک جگہ رکے تالاب کے پانی جیسا تھا۔اس گندے بدبو دار جوہڑ میں کسی نے پتھر پھینکا تھا اور ایسا پھینکا تھا کہ ہلچل مچ گئی تھی ۔

پولیس والے الگ بیانات دے رہے تھے اور بیوروکریسی والے اپنا رونا رو رہے تھے۔

اور اس ساری آگ کو نادانستہ طور پر شیریں خانم نے ہی بھڑکایا تھا مگر بات اب دو لوگوں سے نکل کر دو اداروں کی دھینگا مشتی تک پھیل گئی تھی۔شمشاد خان کا بلڈ پریشر کل رات سے ہائی تھا۔

انکی اکلوتی لاڈلی پوتی وہ جسکے لیے وہ زندگی کو گھسیٹ رہے تھے ۔کس قدر خطرناک رستے پر چل پڑی تھی۔وہ جسکا دل چڑیا جیسا نرم اور نازک تھا مگر اس میں نفرت کی سیاہی اس قدر بھر چکی تھی سب سیاہ سفید گڈ مڈ ہو گیاتھا۔اپنی نازوں پلی اولاد کو تباہ ہوتے دیکھنا زمینی عذاب جیسا دردناک ہوتا ہے ۔شمشاد خان بھی اسی درد سے گزر رہے تھے۔

"عثمان میری ڈائری اٹھا کر لا دو اندر سے"

عثمان کو شاید شیریں سے کوئی کام تھا وہ جب سے یہاں آکر بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔

"لا دیتا ہوں دادا، شیریں آپا کو بھی کال کریں نا شام ہو گئی ہے ابھی تک نہیں آئیں"

وہ بچہ بھی جھنجھلا رہا تھا۔شمشاد خان چپ رہے، کل رات وہ اس سے زبانی طور پر سارے ناطے ختم کر چکے تھے۔خلاف معمول آج صبح وہ اسے سی آف کرنے باہر بھی نہیں نکلے۔وہ خود ہی انکے کمرے جا کر اپنے جانے کی اطلاع دے گئی تھی، دن میں بھی انھوں نے اسے ایک کال تک نہیں کی۔یہ انکی ناراضگی کا اظہار تھا مگر شاید دوسری جانب وہ بھی ناراض ہو گئی تھی ورنہ لاہور سے واپسی کے لیے نکلنے سے پہلے انھیں کال ضرور کر دیتی تھی ۔

"سلام منظور رانا، میں شمشاد خان بات کر رہا ہوں؛" انھوں نے ڈائری سے اپنے ایک پرانے شاگرد کا نمبر نکال کر ملایا۔

"تمہارے سکول کے زمانے میں ہیڈ ماسٹر ہوا کرتا اگر یاد ہو تو" انکا لہجہ کمزور تھا بے حد کمزور۔

"ماسٹر صاحب شرمندہ نہ کریں آپکی آواز تو ہزاروں کے مجمعے میں بھی پہچان سکتا ہے رانا"وہ انکساری سے بولا۔ورنہ وہ بہت ٹھکر آدمی تھا۔

"تمہاری نوازش ہے یہ، ورنہ کون سالوں تک یاد رکھتا ہے"

" نہیں نہیں ماسٹر صاحب آپکو نہیں بھول سکتے کبھی۔حکم کیجیے رانا کو کیسے یاد کیا"وہ لہجے میں عاجزی مٹھاس بھرتے ہوئے بولا۔شاید مصروف تھا۔

" تم سرکاری ملازمت میں تھے نا، شاید"

انھوں نے دوٹوک بات کا آغاز کیا۔سمجھ نہیں آ رہی تھی کس اسلوب میں اپنا مدعا بیان کریں۔

" جی جی اب بھی وہیں کی خاک چھان رہا ہوں "

" یہ جو نئے ایس پی صاحب ہیں ان سے کوئی تعلق داری ہے تمہاری؟"

"نئے تو نہیں ماسٹر صاحب پچھلے سال سے یہیں ہیں، بڑے زبردست آدمی ہیں سالوں بعد اس شہر میں کوئی زبردست افسر تعینات ہوا ہے"

یعنی وہ قریبی جان پہچان رکھتا تھا۔

" اچھا اچھا۔

منظور تم سے درخواست تھی، اگر تم ان سے ایک ملاقات کا وقت لے لو تو میں ملنا چاہتا ہوں ایک مرتبہ ان سے،"

انھیں یوں کسی سے فیورز مانگنا قبول نہیں تھا مگر یہ اب شاید ماضی کی بات بن گئی تھی۔


" ملنا ضروری ہے"پھر مزید زور دیا۔

"آجکل تو کچھ مصروف ہیں وہ کافی جگہ الجھے ہوئے ہیں "

رانا نے پرسوچ انداز میں کہا ۔شمشاد خان جلدی مایوس نہیں ہوتے تھے صبر سے اسے پوری بات کرنے کا موقع دیا ۔

"لیکن آپ فکر نہ کریں میں بندوبست کرتا ہوں"

"ٹھیک ہے منظور، بہت شکریہ بیٹا، پھر اطلاع دے دینا، میں تم جہاں کہو گے پہنچ جاؤں گا"

" نہیں نہیں ماسٹر صاحب فکر نہ کریں میں خود لے جاؤں گا، آپکی رہائش گاہ کا پتہ معلوم ہے مجھے"

وہ انھیں بھرپور تسلی دیتے ہوئے بولا۔سارا شہر انکے شاگردوں سے بھرا ہوا تھا کبھی کسی نے انکار نہیں کیا تھا مگر پھر بھی شرم سی محسوس ہوتی تھی۔

پرانے وقتوں کے شاگرد بھی بہت اچھے تھے، افف تک نہیں کرتے تھے کہیں مل جاتے تو اونچے عہدوں کے باوجود گردن جھکا کر ملتے۔بچھ بچھ جاتے۔اور آجکل کے نوجوان ماں باپ کی نہیں سنتے، استادوں کا ادب کہاں سے کریں گے۔

سچ کہتے ہیں با ادب با مراد۔بے ادب بے مراد ۔

مگر اب اس کہے کی بھی اہمیت کہاں رہ گئی تھی۔


~~~~~~


"بھائی یہ کیا بات ہوئی عفی کو حویلی چھوڑ آئے آپ" بجائے ملنے ملانے کے دانیہ انکے ساتھ گھر واپسی کے لیے تیار ہو گئی تھی، اسکا کہنا تھا وہ سب کے ساتھ مل کر انھیں سی آف کرنے ائر پورٹ جائے گی۔آخر کو انکی زندگی کی اتنی بڑی اور اہم اچیومنٹ تھی۔بھائی کے منع کرنے کے باوجود وہ بضد رہی تو حاطب کو لاتے ہی بنی۔دانیہ کو وہاں سے لے کر دونوں بہن بھائی فری آپی کی طرف گئے تھے۔چند گھنٹے انکے اور انکے بچوں کے ساتھ گزار کر لیٹ نائٹ وہ وہاں سے نکلے تھے۔اور ارادہ سیدھا گھر جانے کا تھا کہ ایفا گل کا ذکر خیر چھڑ گیا۔

"ماما بھی کہہ رہی تھیں کہ فرسٹ ٹائم اکیلی نہ جائے، وہ خود بھی مس کر رہی تھیں تو میں آتے ہوئے ڈراپ کر آیا"

انھوں نے اپنے مخصوص دھیمے اور ٹھہرے ہوئے انداز میں جواب دیا۔


"لیکن مل کر ساتھ لے آتے، کیا آپکو سی آف نہیں کرے گی وہ؟"

وہ دھیان سے ڈرائیو کر رہے تھے، رات کا وقت تھا احتیاط لازم تھی۔

" وہ رہنا چاہ رہی تھیں، تو میں چھوڑ آیا "

دانیہ کو ہضم نہیں ہوا تھا، گو کہ حاطب نے بات ختم کر دی تھی۔مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی اوپر سے اس ہاسٹل لائف کی خودمختاری نے اسے بے باک اور پر اعتماد بھی بنا دیا تھا۔ورنہ گھر میں حاطب بھائی سے بحث کا کوئی رواج نہیں تھا۔وہ جو کہہ دیتے اسے سیرئس لیا جاتا تھا۔

"چلیں واپسی پہ عفی کو لے چلتے ہیں، پھر ہمایوں بھائی یا پاپا چھوڑ جائیں گے اسے"

کچھ دیر بعد دانیہ نے تجویز دی تھی۔

"اسکی کیا ضرورت ہے"

انھوں نے تجویز رد کر دی۔ساتھ ہی ایفا گل سے ناراضگی مزید سخت ہوئی۔

(اسے ماں باپ سے ملنا زیادہ ضروری ہے تو بہتر ہے وہیں رہے)

گو کہ حاطب کو اسکے وہاں جانے پر اعتراض نہیں تھا اعتراض اسے اپنے جانے پر تھا۔

مگر پھر بھی وہ ایفا گل کی ضد پر اسے لے گیا۔مگر یہ عفی کو خیال ہونا چاہیے تھا کہ اسے اس اہم موقع پر کم از کم شوہر کو سی آف تو کرنا چاہیے۔

وہ تھی کہ ساری رات لے جانے سے انکار کا سوگ مناتی رہی اب مزے میں ہو گی یقیناً ۔

"بھائی اسی روٹ سے چلتے ہیں عفی کو بھی لیتے چلیں گے" تھوڑی دیر بعد وہ پھر سے بولی تھی۔

"میرا کوئی ارادہ نہیں حویلی جانے کا، اسکے بھائی ٹاؤن سے لے گئے تھے وہی چھوڑ بھی جائیں گے"

وہ بے نیازی دکھا رہے تھے۔

"کیا مطلب آپ حویلی نہیں گئے؟"

"فرحت لے کر گیا تھا انھیں، سعد چھوڑ جائے گا کچھ دنوں تک"

دانیہ کے ذہن میں بہت سی گرہیں خودبخود کھلنے لگی تھیں ۔تو اسکا مطلب بھائی بظاہر نارمل تھے مگر اندر سے وہ ابھی بھی وہیں تھے۔

چند پل وہ لاجواب سی ساکت بیٹھی رہی۔

اور فری آپی سے اس نے کتنے اعتماد سے کہا تھا۔آپ خواہ مخواہ فکر مند ہیں ۔بھائی سب بھول چکے ہیں ۔

ماما اور فری آپی کا خیال تھا، کہ وہ کچھ نہیں بھولے، اور اسی لیے وہ دونوں انھیں حویلی اور حویلی والوں سے دور رکھنے کی سوچ پر عمل کر رہی تھیں ۔جبکہ دانیہ کو لگا تھا وہ ذہنی طور پر بہت زیادہ سٹرانگ تھے، سب بھول چکے ہیں موو آن کر چکے ہیں ۔

"بھائی زندگی میں اچھے اور برے دونوں طرح کے تجربات ہوتے ہیں، دونوں کو ہی سر پر سوار کرنے میں نقصان ہوتا ہے جو چیز گزر گئی اسے بھول کر اگلی زندگی کی تیاری کرنا ہی کامیاب لوگوں کی نشانی ہے"

بھائی کا چہرہ یکدم سپاٹ ہوا تھا۔مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

"آپکے ساتھ بلکہ ہماری فیملی کے ساتھ جو بھی ہوا وہ ایک برے واقعے سے زیادہ اثر انگیز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں تھی"

وہ فلسفہ نہیں بول رہی تھی۔زندگی کا ایک اصول بیان کر رہی تھی۔

"بلکل میرا بھی یہی خیال ہے" انھوں نے سپاٹ سے انداز میں اسکی تائید کی۔

" سچ پوچھیں تو بھائی میں تو بہت ڈسٹرب ہو گئی تھی۔یقیناً آپ بھی ہوئے ہونگے، وہ سب خود پر بیتنا، ایکسپریس کیے جانے سے باہر کی فیلنگ تھی، وہ بہت ڈپریسنگ تھا" وہ سارے تکلیف دہ لمحے آنکھوں کے سامنے سے گزرے تھے وہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔دو دن میں دو نکاح ہوئے تھے اور ایک سے بڑھ کر ایک تکلیف دہ واقعہ ۔

" اور بہت دنوں تک میں ڈپریسڈ رہی، "وہ اداسی سے اپنی کیفیات بیان کر رہی تھی، حاطب دانت پر دانت جمائے خاموشی سے چھوٹی بہن کی باتیں سن رہے تھے۔وہ یہ ٹاپک ڈسکس نہیں کرتے تھے نا کرنا چاہتے تھے اسی لیے خود کو نارمل ظاہر کرتے تھے۔

"مگر جب میں لاسٹ ٹائم گھر گئی تو میرا ڈپریشن کچھ کم ہوا ۔

U know wht"

وہ مڑ کر بھائی کو دیکھتی یکدم پرجوش انداز میں بولی۔

"Effa Gul is such a pretty, cute girl, she is far better thn Urwa. I felt like she really compliment your personality."

اسکی آواز کا جوش اگنور کیے جانے کے قابل نہیں تھا۔

(ہوں، بے وقوف فضول لڑکی، جسے کوئی بھی بات وقت پر کبھی سمجھ نہیں آئی ہمیشہ دیر سے ہی سمجھ آتی ہے) وہ اپنی سوچوں میں گم تھے جبکہ دانیہ اپنی ہی ہانک رہی تھی۔

"ڈونٹ مائنڈ بٹ عروہ بہت ہائی مینٹیننس (نخریلی) تھی، کم از کم ایفا گل کے ساتھ بیٹھ کر انسان بہت انجوائے کرتا یے، شی از آ پیور گرل"زمانے میں چند سال دھکے کھانے کے بعد اسے اتنی پہچان تو ہو گئی تھی ۔

کوئی اور وقت ہوتا تو شاید حاطب اسکے ساتھ اتفاق کرتے اس وقت تو وہ سخت چڑے ہوئے تھے۔خیالوں میں ہی منھ چڑایا۔دانیہ شروع ہو چکی تھی۔

ساتھ اسکی بے وقوفانہ باتوں کا حوالہ دے کر ہنس بھی رہی تھی۔بہت دیر بعد وہ اس ٹاپک کو کلوز کرتے ہوئے نتیجے پر پہنچی۔حاطب نے نہ اسے ٹوکا نہ کوئی جواب دیا۔بس بے نیازی سے سنتے رہے۔اور ان سنی کرتے رہے ۔

"ویسے ایفا گل زیادہ خوبصورت ہے، تھوڑی بے وقوف ہے، مگر مجھے یقین ہے جب آپکے ساتھ کسی گریژن میں رہے گی تو وہاں سے سب سیکھ جائے گی"

(ہوں خوبصورت) انھیں پتہ نہیں اس پر اتفاق تھا یا اعتراض مگر یہ بات انکی سماعت پر اٹک گئی تھی۔

البتہ عروہ کا ذکر کیا جانا اس دفعہ انھیں کوئی قابل ذکر ناگوار نہیں گزرا تھا۔ساری توجہ ایفا گل کی بے وقوفیوں کی جانب تھی۔

(جب بڑے ابا کو پتہ بھی تھا کہ انکی لاڈلی بیٹی کتنی عقل بند ہے تو پتہ نہیں کیوں میرے سر منڈھ دی)

وہ پھر سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے۔البتہ اب گاڑی اپنا رخ بدل چکی تھی۔

انکے سفر کا روٹ تبدیل ہو چکا تھا۔

دانیہ سچ کہتی تھی وہ ایک برا تجربہ تھا جسے گزر جانا چاہیے تھا۔ابھی نجانے کتنے مزید برے تجربے انکے منتظر تھے۔

ایفا گل سے بھلائی کی امید لگانا اب بیکار تھا۔وہ اپنی دنیا میں مست تھی۔

رانا شمشاد خان کو گھر سے لینے آ گیا تھا۔عثمان انکے پاس ہی تھا جبکہ شیریں خانم ابھی کورٹ سے نہیں لوٹی تھی۔

اپنے اندر کا اضطراب چھپائے وہ کچھ دیر بعد ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوچتے بظاہر نارمل تھے۔

"ماسٹر صاحب اگر کوئی بے آرامی ہو تو بتا دیجیے گا، دوسری گاڑی میرا بیٹا لے گیا، بتایا بھی نہیں ورنہ میں کوئی اور انتظام کر لیتا" یہ ایک ہونڈا سٹی اچھی خاصی گاڈی تھی مگر رانا منظور بار بار شرمندہ ہو کر پوچھ رہا تھا۔

" اچھی خاصی نئی اور آرام دہ گاڑی ہے، بچہ لے گیا تو تم کیوں ملال کر رہے ہو "دوسری یقیناً اس سے اچھی تھی۔

"اللہ تمہیں سیدھے رستے پر چلائے اور مزید نوازے"

انھوں نے اسکے لیے دعا کی، اس بار وہ کچھ نہیں بولا تھا، ملک خداداد پاکستان میں سرکاری ملازمت پل صراط جیسی تھی۔اکثر ڈول ہی جاتے تھے۔بلکہ زیادہ تر ڈول کر اپنا اخروری نقصان کر لیتے تھے مگر بعضوں کو تو شعور تک نہیں تھا۔سرکاری خدمت کے عہدے امانت ہوتے ہیں اس امانت میں خیانت نجانے اللہ معاف کرتا ہے یا نہیں ۔

وہ دونوں مختلف سوچیں سوچتے ہوئے منزل کا انتظار کر رہے تھے۔

عرصے بعد انکی ایسی کسی جگہ آمد ہوئی تھی پہلے وہ کبھی آئے بھی تھے تو شہر کے معزز کے طور پر کسی صلح نامے کے دستخط کی تقریب میں شرکت کے لیے ہی آۂے تھے۔

ضلع بھر کے اہم اور سنجیدہ مقدمات کے صلح نامے ایس پی آفس میں بیٹھ کر ہی دستخط کیے جاتے تھے۔ایک ایسی جگہ جہاں دوستیاں بھی قائم ہوتی تھیں اور دشمنیاں بھی نبھائی جاتی تھیں ۔انصاف کی مثالیں بھی قائم ہوتیں اور بے انصافیاں بھی یہیں سے جنم لیتی تھیں ۔


"آپ لوگ بیٹھیے میں ایس پی صاحب کو خبر کرتا ہوں" بڑے بڑے آرام دہ صوفوں پر نشست سنبھالے بیٹھے وہ انتظار کی بے آرامی کا شکار تھے۔مگر انھیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرایا گیا۔دس منٹ بعد انھیں داخل دفتر ہونے کی اجازت مل گئی تھی۔


~~~~~~~~

"ابا جی مجھے پھر سے پڑھانا شروع نہیں کریں گے جہاں سے روکا تھا"

وہ صبح ہی صبح اپنی ڈائری اور تفسیر والا قرآن پاک اٹھا کر انکے سامنے تھے، وہ اپنے وظائف میں مگن تھے، اسے دیکھ کر چونکے۔

"آ جاؤ عفی بیٹھ جاؤ"

انھوں نے اٹھ کر اسکے لیے جگہ بنائی ۔

وہ ڈائری کھول کر پرانے اسباق پر نظر پھیرنے لگی تھی۔

اتنی دیر ابا جی اسے بغور دیکھتے رہے۔

پھر وہ انکی جانب متوجہ ہوئی۔

"کہاں سے شروع کریں؟" اس نے مسکرا کر ابا سے پوچھا ۔

"کتنے پارے رہ گئے ہیں تمہارے؟ "

" ابھی تو کافی ہیں بیس ہوئے تھے شاید"

وہ پھر سے ڈائری کے صفحات کھنگالنے لگی۔

"یاد ہیں یا بھول گئیں؟"

انھوں نے مسکرا کر یوں پوچھا جیسے پورا یقین ہو بھول چکی ہو گی۔وہ جھینپ گئی۔

" کچھ کچھ یاد ہے کچھ کچھ باتیں بھول گئیں" قرآن کا یہ معجزہ ہے اگر آہ اس سے دوری اختیار کر لیں تو یہ خودبخود آپکی یادداشت سے ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

"اسکا مطلب ہے وہاں پڑھنا چھوڑ دیا تھا"

وہ گڑبڑا کر رہ گئی ۔

"نہیں قرآن پاک تو پڑھتی، نماز بھی پڑھتی تھی" اس نے جوش سے بتایا پھر اسکی آواز کا جوش ماند پڑ گیا۔

"لیکن تفسیر کا وقت ہی نہیں ملتا تھا" اس نے سر جھکا کر وضاحت دی۔

"ہممم" ابا جی نے کچھ نہیں کہا۔

"باقی دنیاوی کاموں کو فوقیت دے کر پہلے نبھٹاؤ گی تو اگلی زندگی کی تیاری کے لیے وقت کیونکر ملے گا"ابا جی نے سادہ سا سوال کیا تھا۔اس نے فوراً بولنے کے لیے منھ کھولا پھر واپس بند کر لیا۔کہتے تو ٹھیک ہی تھے۔

"ابھی تو تمہیں وقت نہیں ملتا، پھر تمہیں وقت بھی مل جائے گا اور خواہش بھی ہو گی، مگر ہو سکتا ہے یہ قرآن تمہارے دل پر نہ اترے"

ابا کی بات سن کر وہ متحیر رہ گئی۔بے یقینی سے ابا کی نظروں میں دیکھا وہاں سنجیدگی تھی۔مطلب وہ سچ کہہ رہے تھے۔

"ابا جی" اس نے شاکی انداز میں انھیں پکارا۔


" ہاں میری بچی زندگی اور آخرت کا انتخاب اسی دنیا میں کرنا پڑتا ہے آج اگر تم اپنی دنیا کو سنوارنے میں لگی رہو گی تو پھر آخرت میں اچھائی کی امید تمہیں نہیں لگانی چاہیے۔حق تو یہ ہے کہ دنیا کو اسکی ضرورت کے مطابق لے کر چلو مگر تمہاری نظر آخرت کے سوال جواب پر ہو، "

انھوں نے تسبیح کو مکمل کر کے اسے چوم کر آنکھوں سے لگایا۔جس سے یقیناً انھیں راحت ملتی تھی۔

" ابا جی میں کرتی ہوں آخرت کی بھی فکر۔مگر ۔۔"وہ چپ ہو گئی۔وضاحتیں دینا اکثر بے ثمر ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب اپنے دل میں چور کی موجودگی کا کھٹکا ہو چکا ہو۔

" اچھی بات ہے، فکر ہونی بھی چاہیے، بندہ مومن وہ ہے جسکے دنیاوی اعمال میں بھی اسکی فکر آخرت کی جھلک نظر آئے۔"ابا جی ہمیشہ کی طرح اپنی سخت آئیڈیالوجی پر قائم تھے۔عفی کو ان پر رشک آیا۔


"تم نے قرآن میں پڑھا تو ہو گا۔اللہ بندے پر واضع کرتا ہے کہ

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ

اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو کرتا ہے۔

Holy Quran-53:39

بے شک وہ بڑا رحیم اور غفار ہے بار بار معاف فرمانے والا ہے، مگر معافی بھی تب ہی ملے جب ہمیں اپنے گناہوں کا احساس ہو۔"

وہ بولتے جا رہے تھے، سمجھاتے جا رہے تھے۔لفظ لفظ اسکی سماعتوں سے ہوتا ہوا دل میں سرایت کر رہا تھا۔تبھی حویلی کا مرکزی دروازہ کھلا تھا۔

ابا جی نے کھڑی میں سے جھانک کر دیکھا اتنی صبح کون آ یا جا رہا تھا جسکے لیے بڑا دروازہ کھولنا پڑا تھا۔

سامنے گاڑی اندر آ کر رکی تھی۔

دانیہ اور حاطب نکلے تھے۔ عفی نے کچھ حیرت سے ابا جی کو دیکھا جہاں ابا جی کے چہرے پر بے ساختہ مسکان دوڑ گئی تھی۔

(یہ کہاں سے آ گئے، انھوں نے تو دانیہ سے مل کر واپس گھر جانا تھا)

اسکی حیرت بجا تھی۔حاطب نے حویلی جانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

"چلو آ جاؤ اب ناشتے واشتے کا انتظام کرو اپنی ماں کے ساتھ مل کر"

وہ جوتے پہنتے باہر جانے کو اٹھے۔تو ایفا گل کو ہوش آیا۔

"اور یہ سبق" وہ آج بھی ویسی ہی بے وقوف تھی اسے ابھی بھی سبق کی ضرورت تھی۔ابا جی چونکے پھر مڑے ۔

"جو سکھایا اور پڑھایا ہے اسکی دہرائی کرو اور اب وقت آ گیا ہے کہ تم اس پر عمل کر کے دکھاؤ، جو رہ گیا ہے وہ میرا رب خود تمہیں سکھا دے گا۔اللہ تمہارا سینہ ہدایت کے لیے کھول دے"

"آمین" مری مری سی آواز میں اس نے آمین کہا تھا۔صبح ہی صبح حیرت کے جھٹکے لگ ریے تھے، ابا کی باتیں ہی ابھی حواس پر سوار تھیں اور حاطب صاحب نے بھی یہاں تشریف لا کر دھماکا کر دیا۔

~~~~~~~~

حویلی میں سب انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھےفجر کے بعد منھ اندھیرے کا وقت تھا۔بڑی امی شاید ناشتے کی تیاریوں میں مصروف تھیں ۔کیونکہ انکو دیکھ کر جب وہ باہر نکلیں ہاتھ آٹے میں لتھڑے تھے۔

"ارے میرے بچے آ گئے، کیسے ہو"

بڑے ابا اپنے کمرے سے نکل کر انکے سامنے آئے تھے۔دانیہ نے مسکرا کر سر پر ہاتھ پھیروایا۔

حاطب کو سینے سے لگایا تھا۔

بڑی امی سے پیار لیا۔تب تک کنفیوز سی مسکراہٹ سجائے عفی بھی وہیں آ چکی تھی۔سادہ سے کپڑے، سر پر نماز کے انداز میں دوپٹہ، اور نازک پاؤں جوتوں سے بے نیاز۔وہ ویسی ہی لگ رہی تھی جیسے پہلی حویلی آنے پر وہ اسے دیکھتے تھے۔

"آا کیسی ہو ایفا گل" دانیہ فرحت جذبات سے اسکی طرف بڑھی پیارمحبت کے تبادلے میں وہ دونوں اردگرد سے لاپرواہ ہو گئیں ۔

"تم کیوں نہیں بھائی کے ساتھ مجھے لینے" وہ گلہ کر رہی تھی۔مگر اس سے پہلے کہ ایفا گل جواب دیتی ابا اندر چل کر بیٹھنے کا کہہ رہے تھے۔

"السلام علیکم "اس نے حاطب کو دیکھ کر سلام کیا تھا۔مگر وہ اکڑو اور کھڑوس، انھوں نے دیکھا تک نہیں یا شاید دیکھ کر ان دیکھا کر دیا۔وہ منھ بناتی انکے پیچھے ہو لی۔

جتنی دیر وہ سب کی خیر خیریت دریافت کرتے رہے۔ایفا گل مسلسل جانچتی نظروں سے حاطب کو دیکھ رہی تھی۔البتہ حاطب کے بارے ایسا دعویٰ کرنا مشکل تھا۔

دانیہ نے کن انکھیوں سے دونوں کو دیکھا۔یقیناً امی جی اور ابا جی نے بھی محسوس کیا ہو گا۔

"چلو بھئی تم ناشتے واشتے کا انتظام کرو، ساری رات سفر کر کے آئے ہیں بچے بھوکے ہوں گے، خالی پیٹ تو آرام بھی نہیں کر سکتے۔"

وہ خود دیوان فرحت کو دیکھنے کے لیے باہر نکل گئے، وہ تینوں بھائی نماز کے لیے گئے ہوئے تھے ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔بڑی امی بھی باہر نکلیں۔حاطب ویسے ہی سنجیدہ اور لاتعلق سے بیٹھے ہوئے تھے۔

(لگتا ہے ابھی تک ناراض ہیں، دیکھ بھی نہیں رہے سلام کا جواب بھی نہیں دیا) اسے جانچتی وہ دل میں سوچ رہی تھی۔دانیہ نے وہاں سے اٹھنے میں عافیت جانی۔

"میں ہاتھ منھ دھو آؤں۔" کہتی وہ وہاں سے بھاگی تھی۔

~~~~~~~~


ہلکے کاپر رنگ کی دیواروں اور براؤن فرنیچر سے سجا یہ دفتر، بیٹھنے والے کے مزاج کا پتہ دیتا تھا۔

شمشاد خان لاٹھی ٹیکتے ہوئے کرسی پر بیٹھ رہے۔

یونیفارم میں ملبوس سمارٹ اور پر اعتماد سا افسر جو انھیں کھڑا ہو کر خوش آمدید کہہ رہا تھا انکے بیٹھنے کے بعد واپس اپنی کرسی سنبھال چکا تھا۔

"اور رانا صاحب کہاں مصروف ہوتے ہیں آجکل"

مسکراتے ہوئے وہ رانا کی جانب متوجہ تھا۔شمشاد خان نے نوٹ کیا وہ خاصہ مصروف تھا۔چہرے سے ہی اندازہ ہو رہا تھا مگر پھر بھی خشاش بشاش نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔

"ہم تو یہیں ہیں اسی شہر کی خاک چھانتے ہوئے آپ ہی کم نظر آتے ہیں آجکل"

رانا اپنے مزاج کے بے تکلفی کے باوجود، باوقار انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔

"کیا لیں گے آپ لوگ" اس نے دونوں بزرگان کی طرف دیکھا۔

"شکریہ تمہارا بیٹا، بس زیادہ نہیں تمہارا تھوڑا سا وقت لیں گے"

ہاتھ میں پکڑا انٹرکام کا رسیور واپس رکھ کر وہ رانا کو سوالیہ دیکھنے لگا۔

"میں نے ذکر کیا تھا نا کہ آپ سے ایک بزرگ ملنے کے خواہش مند ہیں ۔یہ شمشاد خان صاحب ہیں ۔سرکاری سکول اور پھر بعد میں کالج کے پرنسپل تھے۔میرے سب سے شفیق استاد، بلکہ اس شہر میں جو آپکو ہمارے ساتھ کے زیادہ تر افسران نظر آئیں گے وہ انھی کے ہاتھوں سے نکل کر ان دفتروں تک پہنچے ہیں ۔اور بھی بڑے بڑے عہدے دار"

رانا نے عقیدت سے تعارف کرایا تھا۔ہمایوں جاوید خان کے چہرے پر بھی مسکان قدرتی ہو گئی تھی۔

" او، یہ میری بدقسمتی ہے کہ آپکو یہاں آنے کی زخمت ہوئی"وہ شرمندہ تھا پھر رانا کی طرف متوجہ ہوا ۔

" رانا صاحب یہ زیادتی کی ہے آپ نے، اگر آپ مجھے پہلے بتا دیتے تو میں خود حاضر ہو جاتا"

وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔شمشاد خان اندر ہی اندر مزید نروس ہو کر رہ گئے۔

کتنا اچھا اور عظیم سمجھ رہا تھا یہ افسر، ایسے بندے کے آگے ابھی وہ ہاتھ پھیلانے لگے تھے۔

"نہیں نہیں بیٹا، آپکی ذمہ داری ایسی ہے کہ مصروفیت ہوتی ہے لیکن میں تو فارغ بزرگ ہوں، بس زندگی کو زبردستی گھسیٹ رہا ہوں تا کہ موت سے فاصلہ رہے"

وہ ابھی مرنا نہیں چاہتے تھے کم ازکم اس وقت تک جب تک شیریں خانم کا کچھ نہیں بن جاتا تھا۔

کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔شمشاد خان اسے طائرانہ نگاہوں سے دیکھتے جائزہ لیتے رہے۔اس نے اصرار کر کے تین چائے منگوا لی تھیں ۔شمشاد خان کے انکار پر تسلی دی تھی کہ بل اپنی جیب سے دے گا۔

اکثر پرانے وضع دار لوگ کسی مجبوری میں پولیس ڈپارٹمنٹ آکر یہاں کا پانی بھی نہیں پیتے تھے۔

اس دوران کئی بار اسکے دفتر کا فون بجا، اور اس نے مختلف احکامات جاری کیے۔

"دراصل مجھے ایک درخواست کرنی تھی مگر سمجھ نہیں پا رہا اپنا مدعا کن مناسب الفاظ میں بیان کروں"

انھوں نے سر جھکا کر ہاتھوں کی سلوٹ زدہ انگلیاں نگاہ میں رکھیں ۔ہمایوں نے اچنبھے سے رانا کی جانب دیکھا وہ نفی میں سر ہلا کر لا علمی کا اظہار کر رہا تھا۔ تبھی اسکا فون بجا۔

" آپ لوگ بات کیجیے میں فون سن کر آتا ہوں "وہ دانستہ باہر چلا گیا۔

"بیٹا میں شیریں خانم، جنھوں نے آپ پر کیس کیا ہے اسکے سلسلے میں ایک درخواست لے کر آیا ہوں"

انکا لہجہ کسی مجرم کی مانند تھا۔ہمایوں کو کم از کم ایسی کسی بات کی امید نہیں تھی۔وہ تو کوئی اور قبضہ یا محلے کی غنڈہ گردی ٹائپ کی شکایت ٹائپ کی درخواست کی امید کر رہا تھا۔بزرگ ایسے ہی کاموں کو آتے تھے۔

"آپ کون ہیں ۔میرا مطلب وہ کون ہیں "اسکے ماتھے ہر استعجاب کے بل تھے۔

"وہ میری پوتی ہے، میری زندگی کی آخری امید ہے" انھوں نے جھکا سر اٹھا کر اپنے جرم کا مکمل اعتراف کیا۔

ہمایوں کئی پل کچھ نہیں بول سکا تھا۔

~~~~~~~~

"ناراض ہیں کیا؟" ایفا گل نے براہ راست انھیں مخاطب کیا۔مگر جواب نا پید۔وہ مایوسی سے انھیں دیکھنے لگی۔

حاطب نے سائیڈ میَز پر پڑے جگ سے پانی کا گلاس لے کر پینا چاہا۔وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر ان سے پہلے ہی جگ اٹھا چکی تھی۔

"میں ڈال دیتی ہوں" اس نے گلاس انکے ہاتھ سے لے کر پانی ڈال کر دیا۔حاطب اسکی پھرتی پر بمشکل اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روک سکا۔

"اب تو ناراضگی ختم کر دیں" اس نے درخواست کی تھی۔اس بار جواب فوراً آیا تھا۔

"کیوں اب کیا ہو گیا ہے؟"

"کچھ نہیں، مگر اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے" وہ فوراً سے اسے تسلی دیتی بولی۔حاطب نے سوالیہ ابرو اٹھا کر اسے دیکھا جیسے یقین نہ آیا ہو۔

"کونسی غلطی کااحساس ہو گیا ہے۔مجھے نہیں لگتا آپ نے کوئی غلطی بھی کی ہے" وہ طنزیہ بولے۔

"نہیں ساری غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے میں نے اللہ سے معافی بھی مانگ لی ہے"وہ اسے ہر قسم کی تسلی دینے کو تیار تھی۔

"کب؟"

"ابھی ابھی دس منٹ پہلے آپکے آنے سے پہلے"

، اسکا مقصد احساس کب ہوا پوچھنے کا تھا، مگر وہ ہمیشہ کی طرح الٹ ہی سمجھی۔مگر اس جواب میں سے بھی حاطب کو سوال مل گیا تھا۔

" اسکا مطلب ابھی دس منٹ پہلے، مطلب میرے آنے سے پہلے آپ مجھے یاد کر رہی تھیں" یہ سوال نہیں بس تبصرہ ہی لگا تھا۔

عفی نے سر جھکا لیا۔پتہ نہیں اب اسکی کیا وجہ تھی۔

"یہ سعادت ہے کہ آنسہ ایفا گل آپ ہمیں یاد کرتی ہیں" وہ طنزیہ مسکراہٹ سجائے بولے۔

"یہ آپ تو نہ کہا کریں، ایسا لگتا ہے آپ ڈانٹ رہے ہیں یا بے عزتی کر رہے ہیں "

وہ منھ بنا کر بولی۔

حاطب نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔البتہ آنکھوں کی چمک روکنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ایفا گل نے بغور انھیں دیکھا جو شکل سے سنجیدہ نظر اتے تھے مگر آنکھیں کچھ اور کہتی تھیں ۔

" مجھے پتہ ہے اب ہنس رہے ہیں، جان بوجھ کر مجھے ڈرانے کے لیے منھ بنایا ہوا ہے" اس نے دے مار انداز میں اسکی چوری پکڑی تھی۔حاطب نے کندھے اچکا کر اسکے کہے کی نفی کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔

" جائیں جا کر جوتے پہنیں اچھی خاصی ٹھنڈ ہے". وہ اسے ٹوک کر وہاں سے بھیجنے کی نیت سے بولا۔

وہ خجل ہو کر وہاں سے چلی گئی ۔پیچھے اکیلے بیٹھے وہ دیر تک ہنستے رہے۔

اب ناراضگی اصولاً بنتی تو نہیں تھی جبکہ وہ دا منٹ پہلے اپنی غلطیوں کا احساس کر کے معافی بھی مانگ چکی تھی۔

مگر اسے شوہر سے بے پرواہی برتنے پر کچھ سبق تو سکھانا چاہیے تھا۔

دوسرا اب حاطب کسی پر اتنی جلدی اعتبار نہیں کر پاتے تھے۔

(بے وقوف لڑکی۔)

جس وقت شمشاد خان ہمایوں جاوید خان کے دفتر سے نکل کر رانا منظور کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھے تھے، ایس پی صاحب خود انکو مرکزی دروازے تک چھوڑ کر گئے تھے۔

اور شمشاد خان دل ہی دل میں اس نوجوان کی قابلیت اور شخصیت سے متاثر ہوئے تھے۔جو انکی گاڑی بیرونی دروازے سے باہر ہونے تک وہیں سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا انھیں مسکرا کر دیکھتا رہا تھا۔انکی بینائی کمزور تھی مگر وہ اس اعتماد کو اپنے ذہن میں نقش ہونے سے روک نہیں پائے۔جو اس نوجوان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔

پہلی ملاقات تھی، حوالہ جات بھی کوئی روشن نہ تھے، مگر بزرگوں کا احترام، انکی قدر و منزلت اور حوصلے اور توجہ سے انکی بات سننا، یہ سب عوامل اسکی بہترین طبیعت اور تربیت کے گواہ تھے۔

کچھ شخصیات پہلی ہی ملاقات میں بہت گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں ۔یہی تاثرات ہمایوں کے شمشاد خان کے بارے میں تھے۔وہ انکے دھیمے مزاج، انکی خدمات اور شخصیت کے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہوا تھا۔ایک بات جو اسے شدت سے محسوس ہو رہی تھی وہ یہ تھی کہ اتنے نفیس آدمی کی پوتی اتنی بدتمیز اور بد تہذیب کیسے ہو سکتی ہے؟

اگلے دن بھی وہ یہی سوچتا رہا ، نا چاہتے ہوئے بھی اسکا ذہن شمشاد خان اور انکی پوتی کے مزاج کے فرق میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ایک ایسا شخص جسکی اچھائی اور نیکی کی گواہی شہر کے لوگ دیتے تھے ۔جسکی شخصیت کی جھلک اسکے شاگردوں میں نظر آتی تھی۔

اسکی اپنی پوتی اس جھلک سے کیوں محروم تھی؟

(یا شاید میں اسکی شخصیت کو ٹھیک طرح سے سمجھ ہی نہیں پایا)

اس نے سر جھٹک کر خود کو سامنے پڑی ریکارڈ کی فائلوں کی طرف متوجہ کیا۔دنیا نے اسے وقت نہیں دیا تھا کہ وہ مزید اس الٹ دماغ لڑکی کے بارے میں سوچ پاتا ۔یا کوئی نتیجہ اخذ کر پاتا۔

دنیا نےتیرییادسے بیگانہکردیا

تجھسےبھیدلفریبہیںغم روزگار کے

~~~~~~~

دانیہ ہاتھ منھ دھو کر واش روم سے نکلی تو باتوں میں مگن اپنے دھیان میں چلتے فرحت سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔

جہاں وہ دونوں بھائی حیران ہوئے تھے وہیں وہ بھی خجل ہوئی۔

"السلام علیکم"

دیوان کے چہرے پر یکدم سنجیدگی چھا گئی تھی، فرحت نے لاشعوری طور پر پہلے اسے پھر دیوان کو دیکھا۔

"وعلیکم السلام" ہلکی سی آواز میں جواب فرحت ہی نے دیا تھا۔دیوان ان دیکھا، ان سنا کر کے سامنے والے کمرے میں چلا گیا جہاں امی جی ناشتہ لگا رہی تھیں ۔دیوان کا یہ رویہ دانیہ کے لیے غیر معمولی نہیں تھا اسی لیے وہ نارمل رہی۔بس وہاں سے جانے کے لیے فرحت کے ہٹنے کی منتظر تھی۔جو اب مجبوری میں حق میزبانی نبھانے کو وہیں کھڑا تھا۔

" کیسی ہو؟ "

"میں ٹھیک ہوں فرحت بھائی" اس نے بھائی پر زور دے کر کہا۔

فرحت فقط سر ہلا سکا۔بات کو انجام تک پہنچانے کے لیے بھی کسی بات کی ضرورت ہوتی ہے۔ان دونوں خاندانوں کے لوگ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اکثر الفاظ کی کمی کا شکار رہتے تھے۔

"حاطب کے ساتھ آئی ہو؟"

" جی، ہم ایفا گل کو لے کر جا رہے تھے بڑے ابا نے روک لیا کہ کچھ دیر آرام کر لیں"

وہ اب اعتماد سے فرحت کے برابر میں چلنے لگی تھی۔وہ دونوں اسی انداز میں اس کمرے میں پہنچے جہاں سب جمع تھے۔

ناشتے کے دوران بھی دیوان اسی سنجیدگی سے حاطب اور زیادہ تر اپنی بہن سے محو گفتگو رہا، سعد نے بھی شرمیلے انداز میں سلام کیا تھا۔گو کہ وہ نوکری پیشہ، پڑھا لکھا تھا مگر ابھی بھی بچہ ہی لگتا تھا۔دانیہ بھی دانستہ سعد سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔فرحت کی نگاہ ان دونوں خصوصاً دیوان پر تھی۔وہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔


ناشتے سے فراغت کے بعد سب اپنے اپنے کام کاج کے لیے نکل چکے تھے۔صرف دیوان ابھی گھر ہی تھا۔وہ شاید کچھ دیر میں فارم پر جا رہا تھا۔

"سو جاؤ بیٹا تھوڑی دیر، پھر اٹھ کر نہا دھو کر تاَزہ دم ہو جانا" بڑی امی نے پیار سے کہا۔ایک نظر باہر حویلی کے صحن میں نظر آتے دیوان پر ڈال کر دانیہ نے نفی میں سر ہلایا ۔

"بڑی امی ہماری کیز کدھر ہیں؟ میں اسی بہانے اپنے کمرے کا چکر لگا آؤں، وہیں تھوڑی دیر ریسٹ بھی کر لیں گے"

اس نے حاطب کی جانب دیکھا۔

" کیا ضرورت ہے ابھی تو ویسے بھی بند ہے اور وہاں ٹھنڈ بھی ہو گی۔یہی آرام کر لو، تم ادھر میرے کمرے میں سو جاؤ، حاطب ادھر بڑے ابا کے کمرے میں آرام کر لے گا"وہ خلوص سے آفر کر رہی تھی۔

" کوئی بات نہیں اسی بہانے تھوڑی دیر کھل جائیں گے رومز اور ہوا بھی لگ جائے گی"

حاطب نے بھی اسی بات پر اصرار کیا تھا۔درحقیقت وہ یہاں آ تو گیا تھا مگر اتنا آرام دہ محسوس نہیں کر رہا تھا ۔بڑی امی چابیاں لے آئیں ۔

" نہیں میں ہوا لگواتی رہتی ہوں دوسرے تیسرے دن، صفائی بھی کروا دیتی ہوں، سکینہ کی لڑکی آتی ہے جو ادھر بھی اور ادھر کی بھی صفائی کر دیتی ہے، مجھ اکیلی جان سے تو اب اتنا کام نہیں ہوتا، پہلے تو عفی ساتھ ہوتی تھی تو بھاگتی پھرتی تھی ادھر سے ادھر"

انکے پورشن کا مرکزی دروازہ کھولنے تک وہ بولتی رہیں ۔

دونوں بہن بھائی سنتے رہے۔

پھر وہ باقی چابیاں انھیں پکڑا کر خود مڑ گئی تھیں ۔

دانیہ اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ حاطب اپنے کمرے میں آ گیا۔

نیا فرنیچر اور سامان، جسکی مہک فورا ہی اسکے نتھنوں کو چھوتی ہوئی اسے نئے ماحول کا احساس دلا گئی تھی۔

اور پھر یکدم اسکے ذہن کی سکرین پر بہت سے واقعات چلنے لگے۔

اسکی شادی کی تیاریاں، سجاوٹ، مہندی، نکاح اور پھر وہ تاریک رات جب اس نے کتنی چاہت اور محبت کے ایک پر جوش جہان کے ساتھ عروہ سجاد خان کو اپنے سنگ رخصت کرایا تھا۔

اپنے بٹریل کا ایک ایک لمحہ انکی آنکھوں میں لہرانے لگا۔لاشعوری طور پر انھوں نے وحشت سے آنکھیں میچ لیں۔مگر کانوں میں وہ ساری آوازیں پھر سے گونجنے لگی تھیں ۔

"میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی" اور وہ عروہ کی اس بات کو مذاق سمجھے تھے۔

"میں یہ کبھی بھی نہیں چاہتی تھی"

اس نے صاف واضح کیا تھا۔وہ بے یقین رہ گئے تھے۔

انکی شادی تو سالوں سے طے تھی پھر اس شب عروہ پر یہ کیوں اور کیسے کھلا تھا کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں تھی، پھر اس شب جو انکے وصل کی شب ہونا قرار پائی تھی ۔

اور وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ شادی چلنا یا باقی رہنا ممکن نہیں تھا۔صبح صادق کے وقت وہ اس من چاہے رشتے کے بوجھ کو ڈھونے کے قابل نہیں رہے تھے، اس رشتے کو جسکو انھیں ساری زندگی جینا تھا، نبھانا تھا۔

وہ رشتہ حادثاتی موت نہیں مرا تھا، باقاعدہ پلاننگ سے اسے مارا گیا تھا۔اسکا قتل ہوا تھا، اور اس قتل کے نشانات انکی روح پر لگے تھے، جنھیں وہ آج تک دیکھ کر ان دیکھا کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔،بھولنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر وہ سب نشانات ابھی بھی تازہ تھے۔

وہ الٹے قدموں باہر نکلے، اور تیزی سے مرکزی دروازے کی جانب بڑھے، انکے چہرے پر وحشت تھی، بے تحاشہ وحشت۔

"آؤؤچ"

اپنے آپ سے باتیں کرتی وہ مگن سی چلتی آ رہی تھی، پوری شدت سے انکے سینے سے ٹکرائی۔حاطب اتنے وحشت زدہ تھے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکے انکا ارادہ وہاں سے دوڑ لگا دینے کا تھا، مگر قدم جھکڑے گئے تھے۔ایفا گل نے سر سہلاتے ہوئے حاطب کا حیرت زدہ چہرہ دیکھا۔

"سوری"پھر بے ساختہ اسکے منھ سے پھسلا تھا ۔

حاطب نے اسکو دیکھا پھر سر جھٹکا۔وہ حقیقت کی دنیا میں لوٹے تھے۔

"دیکھ کر کیوں نہیں چلتیں؟" وہ غصہ نہیں ہوئے ۔یہ خلاف توقع تھا۔ورنہ جس طرح وہ حیران ہوئے تھے امید تھی سنا دیں گے۔

"دیکھ کر ہی چل رہی تھی، مگر آپکو نہیں دیکھ سکی"

وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے بولی۔

"میں نظر نہیں آیا آپکو؟" وہ عام سے انداز میں کہتے سامنے موجود خشک اور بڑھی ہوئی گھاس کی جانب بڑھ گئے۔عفی پیچھے ہی تھی۔

"آپکے لیے پانی لا رہی تھی۔" پانی کی بوتل برآمدے میں موجود چھوٹے سے میز پر رکھی۔

" آؤ تھوڑی دیر یہاں بیٹھتے ہیں "وہ گھاس کی طرف اشارہ کرتے بولے۔سجاد چچا اپنے پورشن کے دروازے سے نکلے تھے۔جاوید چچا اور بڑے ابا کا پورشن چند سال پرانا تھا، جبکہ سجاد خان نے ابھی دو سال قبل ہی نیا گھر بنوایا تھا۔جو باقی دونوں کی نسبت بڑا بھی تھا اور عالیشان بھی۔اور ہر ایک پورشن کے سامنے خالی زمین تھی۔جسے سجاد اور جاوید نے لان کی شکل دے لی تھی جبکہ سدید خان کے پورشن کا صحن پکا تھا۔

حویلی کا مرکزی دروازہ بھی انھی کے صحن کے دوسرے کونے پر تھا۔انھیں وہاں بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی۔جب سجاد خان حاطب اور ایفا کو وہاں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف دیکھ کر چونکے۔

دونوں مطمئن اور خوش لگتے تھے۔اور اگر انکی لاڈلی وہ بے وقوفی نہیں کرتی تو شاید اس وقت وہ یہاں ہوتی اور انکے اطمینان کا باعث بھی بنتی۔

ایک کسک سی تھی۔جو شاید اب ساری زندگی ہی ساتھ رہنے والی تھی۔یا شاید یہ حسد تھا جو اطمینان لینے نہ دیتا تھا۔ یہ انکی نظروں کا ارتکاز تھا کہ عفی نے مڑ کر دیکھا پھر چونکی۔

"سجاد چچا" اس نے حاطب کو متوجہ کیا، جو چونکے پھر انکے ماتھے پر بل پڑے ۔

"دیکھ رہے ہیں، آپ مل آئیں" اس نے مشورہ دیا تھا، حاطب نے کوئی جواب نہیں دیا۔

"حاطب، اچھا نہیں لگتا، وہ بڑے ہیں، ویسے بھی اگر آپ مل لیں گے تو یہ اچھا رہے گا، پرانی باتیں اب یاد نہ رکھیں تو اچھا ہے" وہ یکدم بھرپور سمجھداری کا مظاہرہ کرتی حاطب کو مجبور کر گئی کہ وہ اسے گھور کر دیکھتے۔

"کچھ زیادہ ہی نہیں بولنے لگیں؟" وہ برا منائے بغیر تجزیہ کر رہے تھے۔ایفا گل کے چہرے پر شرمیلی مسکان سج گئی ۔گویا اس نے حاطب کی بات کو تعریف ہی سمجھا تھا۔

" میں تعریف تو نہیں کر رہا تھا" حاطب جتائے بنا نہیں رہ سکے۔جواباً اس نے منھ بنایا۔

"میرا بولنا اچھا نہیں لگتا، چاہے جو بھی بولوں برا ہی لگے گا"

وہ دونوں پھر سے موضوع سے بھٹک چکے تھے۔

"ہاں آپ تو بہت مظلوم ہیں نا، اٹھیں" حاطب اسکا گلہ خاطر میں نہیں لائے۔اور اٹھ گئے۔

مگر انھیں بھاشن دیتی وہ خود واپس ہونے کی تیاری کر رہی تھی۔

"ہیلو اب آپ کدھر"اپنے پورشن کے برآمدے کی طرف اسے رخ موڑتے دیکھ کر حاطب نے پوچھا تھا۔

"آپ مل آئیں، میں تو مل چکی ہوں "

وہ جان چھڑا رہی تھی، کل وہ مل آئی تھی مگر ان کا انداز ایسا نہیں تھا کہ وہ دوبارہ خوشی خوشی وہاں جاتی۔

"چلیں اب میرے ساتھ چلیں" حاطب نے اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا۔

"حاطب" وہ جو ایسی کسی بات کی امید لگائے ہوئے نہ تھی، اسے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا۔

اسی لیے اسم گرامی پکارا اور ہکلا کر ادھر ادھر دیکھا، سجاد چچا بظاہر اخبار پڑھ رہے تھے۔

یقیناً انکی نظروں سے اوجھل نہیں تھے۔

" چلو"حاطب نے اعتماد سے کہا تھا، وہ شرما نہیں رہی تھی، حیرت زدہ ہو رہی تھی۔

"ہاتھ کیوں پکڑا ہے وہ تو چھوڑیں" زور لگا کر ہاتھ چھڑایا۔حاطب نے چند ہی پل میں چھوڑ دیا تھا۔مگر عفی کے ردعمل نے انھیں ہر چیز بھلا کر مسکرانے پر مجبور کر دیا تھا۔دہشت زدہ ہو رہی تھی۔

" آ جاؤ" وہ اب اعتماد سے چلتے ہوئے آگے آگے تھے، گویا ان چند منٹوں میں انھوں نے خود کو سجاد خان کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر لیا تھا۔یہ سب وہ لاشعوری طور پر کر رہے تھے۔

وہ انکے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی سر جھکائے ہوئے خاموش تھی۔

سجاد خان انھیں دیکھ کر البتہ خوش ہوئے تھے، شاید اسکی وجہ حاطب تھا۔جو بھی تھا وہ انکا قابل بھتیجا تھا۔عفی کی طرح وہ اسے اگنور نہیں کر سکتے تھے۔

"کیسے ہیں آپ"

حاطب نے گفتگو کا آغاز کیا، وہ خاموشی سے انھیں دیکھ رہی تھی۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں، تم سناؤ ابھی تک یہیں ہو" انھوں نے نشست پیش کی وہ دونوں بیٹھ گئے ۔

ایک دوسرے کے برابر میں بیٹھے مسکرا کر انھیں دیکھتے۔ایک ہیپی کپل کی طرح ۔

سجاد خان نے بے چینی سے پہلو بدلا۔

" نیکسٹ ویک اینڈ پر جانا ہے، سوچا سب سے مل آؤں، پھر تو چند ماہ تک نہیں آ سکوں گا"

کہتے ہوئے انھوں نے عفی کو دیکھا، وہ نا سمجھی سے مسکرا دی۔

"ہمم اچھا ہے، سب سے مل ملا کر جاؤ، مجھے تو لگا تھا، اکیلی آئی ہے عفی، کل تم سے ملاقات نہیں ہو سکی تھی تو لگا تم نہیں آؤ گے" انھوں نے شاید طنز کیا تھا یا کیا۔عفی کو بلکل سمجھ نہیں آئی۔


حاطب البتہ اتنے کم عقل نہیں تھے۔

"نہیں میں ہی لے کر آیا تھا مگر مجھے اسلام آباد جانا تھا تو سوچا یہ یہاں رہ جائیں، کافی دن سے چکر لگانا چاہ رہے تھے مگر موقع ہی نہیں ملا، اسی بہانے انھیں سب سے ملنے کا موقع مل گیا" حاطب نے پھر سے اسی گہری مسکان کے ساتھ ایفا گل کو دیکھا تھا۔وہ نا سمجھی سے پھر مسکرا دی البتہ اسکا چھوٹا سا دماغ الجھ ضرور گیا تھا، جو گفتگو ہو رہی تھی وہ نارمل تھی مگر جس ماحول اور انداز میں ہو رہی تھی وہ نارمل نہیں تھا۔

" اچھا ہے، بلکہ میں تو کہتا ہوں عفی کو بھی ساتھ لے جاتے، وہ بھی فارغ ہی ہوتی ہے اچھا ہے اسی بہانے کہیں گھوم پھر لے گی" سجاد خان اخبار کو تہہ کر کے رکھتے بولے تھے ایک پل کو حاطب کے چہرے پر سنجیدگی دوڑ گئی ۔

(یہ اب طنز کر رہے ہیں ہوںنن)

وہ سوچ کر رہ گئے۔

"ابھی تو ممکن نہیں، لیکن واپسی پر میں بھی ایسا ہی کچھ سوچ رہا ہوں، فیملی ساتھ ہو تو انسان بہتر محسوس کرتا ہے، بعد میں تو شاید اتنا وقت نہ مل سکے"


انھوں نے بھی تایا کے خیالات کی تصدیق کی تھی۔

"ان شاء اللہ واپسی تک مجھے امید ہے پروموشن بھی ہو جائے گی۔تب نئے گیریژن میں نئی جگہ پر گھر لونگا، تو انھیں بھی لے جاؤں گا"


(یہ کب سوچا ہے انھوں نے؟)

عفی نے سوالیہ انھیں گھورا، جنکے چہرے کا اعتماد نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھا۔سجاد خان نے پہلو بدلا، اب ان سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا۔انھیں سدید خان کے داماد کی ترقیوں کے قصے سننے میں چندا دلچسپی نہ تھی۔

اخبار اٹھا کر اپنے سامنے پھیلایا۔چند پل وہ دونوں انکے سامنے بیٹھے رہے۔

پھر حاطب نے ایفا گل کو اشارہ کیا۔

"ٹھیک ہے تایا جان اب ہم چلتے ہیں ۔آپ اپنا اخبار انجوائے کریں"

وہ انھیں الوداع کہتے وہاں سے اٹھے، عفی کو آگے چلنے کا اشارہ کیا اور پھر اسکے پیچھے وہاں سے رخصت ہوئے ۔. "یہ کیا کہہ رہے تھے آپ؟"

وہ دو منٹ بھی صبر نہیں کر سکی۔

"وہی جو تم نے سنا"

انداز ویسا ہی شوخ تھا۔

"کیا اب کسی اور جگہ جائیں گے؟ "

اسے اتنی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔انکی جاب کے طریقہ کار اسکے لیے نئے ہی تھے۔

"ہاں، لیکن ابھی نہیں، تم تسلی رکھو"

وہ بہت مطمئن تھے، یہاں آنے سے قبل وہ جس بے چینی کا شکار تھے۔وہ اب ختم ہو چکی تھی۔

" میرے ساتھ جانا پسند نہیں آپکو؟" اسکے کنسرن دیکھ کر وہ اسی نتیجے پر پہنچے ۔

"نن نہیں ایسا تو نہیں آپ بہت اچھے ہیں،" وہ اسکی اچھائیوں کا اعتراف کر رہی تھی۔یہی امی جی نے کہا تھا۔

"مجھے بھی بہت اچھے لگتے ہیں ۔لیکن میں اکیلی نہیں رہ سکتی" اس نے اظہارِ الفت کے ساتھ ساتھ اپنی مجبوری بیان کی۔

" جب میں ہوں گا وہاں تو اکیلی تو نہیں ہونگی، بلکہ اچھا ہے وہاں آپکو کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہو گا، کسی کا خوف بھی نہیں ہو گا"

وہ پتہ نہیں کس خیال کے تحت کہہ رہے تھے۔

"مجھے کس کا خوف ہے؟ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ" وہ لاشعوری طور پر انکے راستے میں کھڑی ہو گئی ۔

" پتہ نہیں، مجھے تو لگتا ہے سب کا خوف ہے، ابھی کچھ دیر پہلے میرے ہاتھ پکڑنے پر جان نکل رہی تھی آپکی۔کم از کم جب اکیلے ہونگے تو یہ سب تو نہیں ہو گا، کم از کم آپکا ہاتھ سکون سے پکڑا جا سکے گا"

وہ شرارت سے کہتے اسے وہاں سے سٹپٹا کر بھاگنے پر مجبور کر گئے۔

(توبہ ہے، حاطب، پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے انھیں) وہ مایوس ہوتی وہاں سے بھاگ نکلی۔

واقعی ہمایوں ٹھیک کہتا تھا، وقت کے ساتھ چیزیں سیٹل ہو جاتی ہیں ۔وہ اپنی اپنی جگہ پر ایڈجسٹ ہو جاتی ہیں ۔بس انھیں ایک بار فیس کرنا پڑتا ہے۔اور انھوں نے فیس کر لیا تھا، ان سب کو جنکے سامنے انکا تماشہ بنا تھا۔یا بنایا گیا تھا۔یہ سب مشکل تھا مگر انھوں نے اسکو ممکن بنا دیا تھا۔

وہ کافی سے زیادہ پر اعتماد محسوس کر رہے تھے۔

برا وقت گزر چکا تھا۔آہستہ آہستہ اثرات بھی ختم ہو رہے تھے۔

اور کیا تھا اگر ایفا گل سجاد خان کی دختر کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھی۔منھ پھٹ اور نخریلی نہیں تھی۔ضرورت سے زیادہ پر اعتماد نہیں تھی۔

یہ سب اتنا اہم تھا بھی نہیں ۔زندگی ایک ساتھ گزارنے کے لیے جو خوبیاں ضروری ہوتی ہیں ۔وہ احساس، ہمدردی، نیک نیتی اور شخصی کردار ہے، باقی سب کی اہمیت ثانوی ہے۔

انھوں نے ثانوی چیزوں کو اہمیت دی تھی مگر اللہ نے اس فیصلے کو ناکام ثابت کیا تھا۔یقیناً اسی میں بہتری تھی۔

اب وہ کمرہ انھیں کاٹ کھانے کو نہیں دوڑ رہا تھا۔عفی پانی رکھ کر واپس چلی گئی تھی۔

انھوں نے اسے نہیں روکا۔وہ اسے وقت دے رہے تھے، جس طرح انھوں نے بہت سی چیزیں وقت کے ساتھ سیکھی تھیں، یقیناً ایفا گل بھی سیکھ جاتی۔

شاید وہ تھوڑی دیر لگاتی مگر انھیں امید تھی کہ وہ سیکھ جائے گی۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس پر اعتبار کرنے لگے تھے۔


~~~~~~~~


"دادا کیا خیال ہے کدو کا حلوہ بنا دوں آپکے لیے؟

وہ انھیں کو انکا پسندیدہ کدو کا حلوہ آفر کر رہی تھی۔ مگر شمشاد خان نے انھیں جواب نہیں دیا۔

" بات سن رہے ہیں یا نہیں؟ "وہ بے تکلفی سے پوچھتی انکے پیچھے سے آکر ان سے لپٹ گئی تھی۔

" ہاتھ ہٹاؤ "انھوں نے سرد پن سے کہتے اسکے ہاتھ ہٹا دئیے۔

"یار دادا بس کر دیجیے اب، دیکھیں کتنی مشہور ہو گئی ہوں میں، بلکہ مجھے تو لگتا ہے اگلی پیشی تک میرے ٹی وی پر انٹرویوز بھی چل رہے ہونگے"

یہ جلتی پر تیل ڈالنے والی بات تھی، مگر وہ جانتی تھی اسی طرح دادا اپنی خاموشی کو توڑیں گے۔

"تم ٹی وی پر آؤ یا ریڈیو پر مجھے کوئی مسئلہ نہیں "انکی سختی برقرار تھی، ہمایوں جاوید خان سے اپنی ملاقات کے متعلق انھوں نے شیریں سے کچھ نہیں کہا تھا۔انکا ابھی اسے بتانے کا ارادہ نہیں تھا۔انھوں نے ہمایوں سے کچھ وقت مانگا تھا ساتھ ہی ساتھ یہ یقین دہانی بھی کروائی تھی کہ وہ شیریں کو روک لیں گے، اسے اس پٹیشن سے نکلنے کے لیے منا لیں گے۔

" اچھا ایک بار سوچ لیں، پھر نہ کہیے گا کہ آپکو بتایا نہیں" وہ انکی طویل ناراضگی سے جھنجھلا چکی تھی۔

"شیریں خانم میں اب تمہیں کسی کام سے منع نہیں کرونگا، نہ ہی روکوں گا، تم جو مناسب سمجھو وہ کرو، میں اپنی رائے دے کر اپنے لیے شرمندگی اور خجالت کا سامان پیدا نہیں کرنا چاہتا، "وہ یوں بولے جیسے خود ترسی کی کیفیت کا شکار ہوں۔ساری دنیا ناراض ہو جائے اسے فرق نہیں پڑتا تھا، مگر دادا ناراض ہو جائیں اس بات سے اسے فرق پڑتا تھا۔

" آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟ "

" آپ چاہتے ہیں میں ظلم کو برداشت کرو‍، ظلم کو چپ چاپ یوتا دیکھتی رہوں؟ "اسکا پیمانہ صبر بس اتنا ہی تھا۔

جونہی اسکی مرضی کے خلاف کوئی بات ہوتی وہ پیمانہ زور زور سے ڈولنے لگتا۔

"نہیں بولو تم ضرور بولو۔مگر اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھو۔ظلم کو روکنے کے لیے کیا تم خود تو ظالم نہیں بن گئیں؟ کبھی سوچنا اس بارے میں "وہ وہاں سے چلے گئے، ہاتھ میں موجود شیشے کا گلاس اس نے پوری طاقت سے فرش پر مارا تھا۔

(دادا آپ سے مجھے یہ امید نہیں تھی) اسے اب بھی اپنا آپ ہی مظلوم لگ رہا تھا۔

جو بھی کر لیں میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔بہادری یہ نہیں کہ میں اب اس کام کو شروع کر کے پیچھے ہٹ جاؤں، چاہے کوئی بھی نہ ہو میرے ساتھ، میں اسے تکمیل تک پہنچاؤں گی۔

دادا میں آپ پر ثابت کرونگی کہ میں ٹھیک تھی۔کہ دنیا اتنی سیدھی نہیں ۔لیکن دنیا اتنی طاقتور بھی نہیں کہ ہم اسکے بنائے اصولوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ۔

ٹوٹے گلاس کی کرچیاں سنبھالتے وہ دل میں اپنا ارادہ پکا کر چکی تھی۔دادا کی اگر ضد تھی تو اب یہ اسکی بھی ضد تھی۔

اور اگلی پیشی پر وہ ہائی کورٹ میں اکیلی ہی تھی۔اسکا کوئی ساتھی بھی وہاں نہیں تھا۔مگر اسکی اس ڈھٹائی اور وہاں موجودگی سے ایک بات تو ہمایوں جاوید خان پر واضع ہو گئی تھی۔

کہ شمشاد خان جتنے بھی مسخور کن شخصیت کے مالک ہوں، پوتی پر انکی کوئی نہیں چلتی تھی۔

اسکے دماغ کی جگہ شاید اخروٹ تھا۔

(معاف کیجیے گا شمشاد خان مگر آپ اپنا وعدہ نہیں پورا کر سکے۔اب مجھے اپنے طریقے سے ہی آپکی پوتی کو سمجھانا ہو گا)

~~~~~~~~

وہ جو امی جی کے ساتھ مل کر سارے کام نبٹھانے کی تیاری کر رہی تھی۔اس وقت چونکی جب امی جی نے اسے بھی تھوڑی دیر آرام کرنے کا کہا تھا۔

"میں کہا جا رہی ہوں؟" اسکی حیرت بجا تھی۔

"تم واپس گھر جا رہی ہو۔تمہارے ابا جی کہہ رہے ہیں واپس چلی جاؤ، وہ کچھ دنوں تک پھر لے آئیں گے تمہیں" امی جی کی دی گئی اطلاع نے اسے بیک وقت حیرت اور اداسی کا شکار کیا تھا۔جو بھی تھا وہ اتنی جلدی واپس جانے کی نیت سے تو نہیں آئی تھی۔

" لیکن امی میں تو سامان لے کر آئی ہوں "اسکی آواز میں اداسی تھی۔

" کوئی بات نہیں، اب شوہر گھر میں ہو اور تم یہاں رہو تو اچھا تو نہیں لگتا نا،"

انکی اپنی ہی ایک منطق تھی۔

"تو وہ تو کل یا پرسوں چلے جائیں گے"

اسکی سوچ بس یہیں تک جاتی تھی۔

"جب چلا جائے خیر سے تو تمہارے ابا لینے آئیں گے تجھے، سعد کے ساتھ"

وہ کپڑے تہہ کر کے ایک طرف رکھتیں پھر سے اسے سمجھانے بیٹھ گئیں ۔

" اب منھ نہ بنا، ملنا تھا تو ملانے لے آیا ہے، باقی رہنے بھی آ جانا، تمہارے ابا بات کر لیں گے حاطب سے،"

وہ اسے منھ بنانے کی اجازت دینے کو بھی تیار نہیں تھیں ۔

" مجھے نہیں لگتا آپ لوگ مجھے یاد بھی رکھیں گے" وہ سارے کام کاج چھوڑ کر بیٹھ گئی تھی۔

"اب رونی صورت بنا کر اپنے ابا کے سامنے نہ جانا، اور خوشی خوشی واپس جا، میں کہہ رہی ہوں نا کہ تجھے لے کر آئیں گے، پھر رہ لینا جتنا وقت چاہو"

"توبہ ہے، یہ اچھا ہے میرا نہیں دل لگتا وہاں "وہ جھنجھلا کر رہ گئی ۔اس گھر میں اسکے شب و روز جیسے بھی گزر رہے تھے وہ گزار رہی تھی مگر اب پنجرہ کھلا تھا اور باہر کی تازہ ہوا کا مزہ چھکنے کے بعد واپس پنجرے میں جا کر قید تنہائی کاٹنا آسان نہیں تھا۔

" جو تجھے سمجھایا تھا نا بس اسی طرح کر، اپنی ََ زبان کو قابو میں رکھنا اور شوہر، گھر بار پر توجہ دینا، خودبخود دل لگ جائے گا" انکا نسخہ آسان اور سادہ تھا.عفی کو پسند نہیں آیا۔

"اچھا اب یہاں بیٹھنے کی بجائے جا، اور حاطب میاں سے پوچھ اگر انھیں کچھ چاہیے ہے تو دے انھیں "

" کچھ نہیں چاہیے انھیں "اپنی طرف سے جواب دیتی وہ جھنجھلا کر رہ گئی ۔

پھر بمشکل خود کو تسلی دے پائی۔

کمرے میں آئی تو حاطب موبائل فون پر مگن تھے۔

"سوئے نہیں آپ؟"

"نہیں نیند نہیں آ رہی تھی۔"

انھوں نے مختصر جواب دیا۔

" کب جانا ہے آپ نے وہاں؟ "وہ اپنی واپسی کے بارے میں ابھی سے اندازے لگا رہی تھی۔حاطب البتہ اسکی اداسی دیکھ کر چونکے۔

"کیا ہوا، آپ کیوں اتنی اداس ہیں؟"

"ایسے ہی، پھر جب آپ واپس چلے جائیں گے تو میں کیا کرونگی وہاں "

یہ جواب اسے امی جی کو دینا تھا۔کہ حاطب تو دو دن بعد واپس چلا جاتا جسکے لیے وہ اسے بھیج رہی تھیں ۔پھر وہ کیا کرتی وہاں ۔حاطب نے ہلکا سا قہقہ لگایا۔

"فکر نہیں کرو واپس آ جاؤں گا، بس ڈھائی تین مہینے کی بات ہے"

حاطب نے اسے تسلی دی۔

" پھر آپکو بھی ساتھ لے جاؤں گا"

وہ خوش نظر آتے تھے، آپ ہی کہہ رہے تھے، مگر طنز نہیں کر رہے تھے۔اطمینان کی ایک لہر ایفا گل کے اندر سرایت کر گئی۔

"آپ بہت خوش ہیں وہاں جانے سے؟" اس نے بغور حاطب کا چہرہ دیکھتے پوچھا ۔

وہ اسکے سامنے آن بیٹھے۔

" ہاں اوبوئسلی میرا بہت بڑا خواب تھا یہ، بلکہ ہر فوجی جوان کا یہ خواب ہوتا ہے اسے بیسٹ شوٹر کے طور پر چنا جائے ۔سنائپنگ کورس میں ہر سال پوری آرمی سے تین یا چار لوگ جاتے ہیں باہر اور اب میرا سلیکشن ہوا ہے، کیا مجھے خوش نہیں ہونا چاہیے"

انھوں نے اسے سمجھانے کی ایک کوشش سی کی تھی۔

" واہ پھر تو آپکی اتنی بڑی خواہش پوری ہو رہی ہے، میں سمجھ رہی تھی مجبوراً جا رہے ہیں "

وہ خوشی سے تجزیہ کر کے بولی۔

" نہیں میں نے اسکے لیے بہت محنت کی ہے،اس سے پہلے مقامی سطح پر بہت سے سنائپنگ مقابلے بھی جیتے ہیں ۔اور کئ کئی گھنٹے اپنے آرام کی قربانی دے کر پریکٹس کی ہے، تب جا کر سلیکشن ہوا تھا میرا "

" مطلب یہ آپکا بہت بڑا خواب تھا جو پورا ہوا ہے"

اسکی آنکھیں استعجاب سے پھیل گئی تھیں ۔


" ہاں یہی سمجھیں، میرا خواب پورا ہونے جا رہا ہے ۔"وہ ایک پل کو رکے پھر اسے دیکھا جو متاثر نظر آتی تھی۔پھر چند پل اسے دیکھتے رہے۔جو کچھ دیر پہلے اداس تھی اب انھیں خوش دیکھ کر خوش ہو گئی تھی۔

" ہر انسان کی کوئی نا کوئی خواہش ہوتی ہے۔آپکی بھی تو کوئی خواہش ہو گی ایفا گل؟"

ابھی تک وہ اسے تم کہنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پائے تھے

البتہ ایفا گل سوچ میں پڑ گئی۔پھر نفی میں سر ہلایا۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے متعلق کبھی کوئی خواب نہ دیکھا ہو"

حاطب کلائی سے گھڑی اتار کر سائیڈ میَز پر رکھتے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔وہ پھر سے سوچ میں ڈوب گئی۔حاطب کی نگاہ اسی پر جمی تھی۔

(دانیہ سچ کہتی ہے، کچھ بے وقوف ہے مگر بہت خوبصورت ہے) وہ اسے بغور دیکھتے اعتراف کیے بناء نہیں رہ سکے۔پھر یکبارگی عفی کے چہرے پر چمک ابھری۔

"ہاں ایک خواب ہے میرا" وہ جوش سے بولی۔

"وہی تو پوچھ رہا ہوں بے غم صاحبہ"

وہ کچھ شرارت سے اسے بے غم کہتے بولے۔پھر بستر پر دراز ہو گئے۔

"بس میرا ایک ہی خواب ہے پر مجھے نہیں لگتا پورا ہو گا"

جوش یکدم اداسی میں بدل گیا۔اس کے معصوم چہرے پر اداسی بھلی لگتی تھی۔حاطب جاوید نے سر جھٹک کر خود کی توجہ ہٹانی چاہی۔مگر یہ وہ کہاں ہونے دیتی تھی۔

"پتہ ہے کیا اب آپ تو ہیں تھوڑے کھڑوس، ابا جی ہی کی طرح تو انھوں نے مجھے اجازت نہیں دی کبھی تو آپ کیوں میرا خواب پورا کریں گے" وہ اپنی ہی دھن میں بولتی چلی گئی، حاطب نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا۔ابھی پانچ منٹ پہلے وہ اسکی ذات کی اچھائیوں کا اعتراف کر رہی تھی اور اب اتنی مایوس تھی۔

اس لڑکی کو سنبھالنا بہت مشکل ہونے والا تھا۔

وہ بس سر جھٹک کر رہ گئے۔

آج نیا لقب مل گیا تھا۔" کھڑوس"۔


~~~~~~~

"تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ؟ کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو"

ایک ویران جگہ پر سٹرک کنارے گاڑی کا سٹیرنگ مضبوطی سے پکڑے بیٹھی وہ چیخی تھی۔

مقابل نے سن گلاسز اتارے بغیر احتیاط سے آگے پیچھے پھر اسکی جانب نگاہ کی۔

لڑی کی ننھی ننھی آنکھیں غصہ لیے ہوئے تھیں۔

"پولیس کا کام دھمکی دینا نہیں ہے، پولیس تو عوام کی مخافظ ہے۔۔"

اسکی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی،، مگر وہ اسہتزائیہ سر جھٹک کر رہ گئی۔

(پولیس اور محافظ،، غنڈہ! کہیں کا)


"مس ایڈووکیٹ میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اگر آپ نے اپنے شہر کے پولیس چیف کے خلاف رٹ کر رکھی ہو تو آپکو یوں اکیلے"

اس نے ایک لمحے کا وقفہ دیا،، اور *اکیلے* پر زور دیتے ہوئے اسے شرارت سے دیکھا، لڑکی کی آنکھیں سکڑی تھیں، اور اسکے تاثرات بھی بدلے،،، سن گلاسز کے پیچھے چھپی آنکھوں میں سرور اترا۔

"یوں اکیلے اس ویران سڑک پر ہر پندرہ دن بعد آپکا جانا، پھر ایک ہی پٹرول سٹیشن سے ری فلنگ، اور ایک ہی مخصوص جگہ سے ری فریشمنٹ،، یہ سب آپکے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے"

"ایک منٹ، تم میرا پیچھا کرتے ہو؟"

اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔

سامنے والے نے پہلی بار سن گلاسز ہٹائیں

اس غنڈے کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔

مگر لڑکی نے اس بے وقت خیال کو جھٹکا۔

" ارے نہیں میں تو بس اپنے کام سے جاتا ہوں،، آپ میرے لیے معزز ہیں،،

بنیادی طور پر مجھے فکر ہے آپکی.، میں نہیں چاہتا کہ کل کو اخبار میں آپکے متعلق کوئی افسوسناک خبر پڑھ کر مجھے ملال ہو اسی لیے کہہ رہا ہوں

ویسے بھی آجکل اغواء وغیرہ کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور یہ میرا علاقہ بھی نہیں کہ میں آپکی حفاظت یقینی بنا سکوں.. So u know what I mean"

وہ صبر نہ کر سکی ۔ہمایوں جاوید خان کی اس جرات نے اسے پاگل کر دیا تھا۔

"u bloody idiot,

تمہیں کیا لگ رہا ہے اس طرح تم مجھے دھمکاو گے تو میں ڈر جاوں گی اور تمہارے خلاف کیس واپس لے لوں گی"سٹیرنگ پر غصے سے ہاتھ مار کر وہ شیرنی کی طرح دھاڑی۔

(درحقیقت وہ ڈر گئی تھی، اس بارے میں تو اسنے سوچا ہی نہیں تھا)۔

ہمایوں نے بغیر وجہ کے ناک سکیڑی شیشے پر جھکا اور چبا چبا کر بولا۔

" مس ایڈووکیٹ آپکو کیس تو واپس لینا ہی ہو گا، ایسے نہیں تو ویسے سہی.، میں اپنی سالوں کی محنت آپکے نفسیاتی پن کی نظر نہیں ہونے دونگا"

"او رئیلی؟"

اس نے مذاق میں اسکا استہزاء اڑانے کی کوشش کی مگر وہ جا چکا تھا کچھ دور عین لڑکی کی گاڑی کے آگے اسکی فورچونر کھڑی تھی وہ اسکی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ ٹھک سے بند کرتا غائب ہو چکا تھا۔

شیریں کے جسم میں خوف کی ایک تیز لہر سرائیت کر گئی۔

(تو کیا اب میں اغواء ہونے والی ہوں؟) اس نے بے یقینی سے خود سے سوال کیا سارا نخرہ اور بہادری کہیں جا سوئی تھی۔ان پولیس والوں سے کسی بھی چیز کی امید کی جا سکتی تھی۔

اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔دادا کچھ زیادہ غلط بھی نہیں کہتے تھے۔

____________________________

"السلام علیکم شمشاد خان صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں"

شمشاد خان نے رسیور اٹھا کر کان سے لگایا، تو سلجھا ہوا، شیریں انداز۔ایک پل کو وہ مقابل کو سمجھ نہیں پائے۔

"میں شمشاد خان ہی بات کر رہا ہوں" انھوں نے سوالیہ وقفہ دیا۔

"میں ہمایوں، ہمایوں جاوید"

"معاف کیجیے گا میں یاد نہیں کر پا رہا۔"

بزرگان کی آواز میں الجھن تھی، وہ ہلکا سا ہنسا۔

"ہمایوں جاوید خان آپکے شہر میں ایس پی تعینات ہوں"

عاجزی سے حوالہ دیا گیا۔اور اتنا ہی تعارف کافی تھا۔آجکل وہ اسی کے متعلق تو سوچتے رہتے تھے۔

"بیٹا،کیسے ہیں آپ، میں خود بھی آپکو کال کرنے کے متعلق سوچ رہا تھا مگر زخمت نہیں دینا چاہتا تھا"


وہ خود بھی سوچ رہے تھے کہ کیسے ہمایوں کو تسلی دیں، اسے کس طرح شیریں کے متعلق یقین دہانی کرائیں ۔کہ وہ اسے سمجھا لیں گے۔

(یا اللہ میری اس بے وقوف پوتی کے حق میں میری دعاؤں کو قبول فرما۔)

انکے دل سے شدت سے دعا نکلی تھی۔

" نہیں آپ جب چاہیں مجھے کال کر سکتے ہیں ۔مجھے ہرگز زخمت نہیں ہو گی"

اور ہمایوں جو انھیں اپنی طرف سے فائنل وارننگ دینا چاہتا تھا۔تا کہ بعد میں انھیں کوئی گلہ نہ رہے۔بے بس ہو کر رہ گیا۔بزرگ سلجھی ہوئی معتبر شخصیت اور انکا عاجزی بھراانداز۔

"بیٹا میں آپکی پریشانی سمجھتا ہوں ۔میں بہت شرمندہ ہوں کہ آپ جیسے نیک سیرت نوجوان کی پریشانی کی وجہ ہم بن رہے ہیں ۔" انھوں نے شیریں کا الزام اپنے سر لیا۔

"مگر میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ میری اس بات سے درگزر کریں ۔میں جانتا ہوں آپ میری بات سننے پر مجبور نہیں تھے، اسکے باوجود اگر آپ نے میری بات سنی اور پھر اسکا مان بھی رکھا تو یہ آپکی اچھائی ہے"

کبھی کبھی اولاد انسان کو واقعی شرمندہ کرا دیتی ہے۔مگر پدرانہ محبت آپکو اجازت نہیں دیتی کہ آپ اپنی اولاد کی غلطیاں گنوا سکیں ۔


" میں شرمندہ ہوں "انھوں نے اپنی بات کا اختتام اپنی شرمندگی کے اظہار پر کیا تھا۔انکے پاس الفاظ کی کمی نہیں ہوتی تھی اب الفاظ جوڑ ہی نہ پا رہے تھے۔

"آپکو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، یہ تو چھوٹی موٹی چیزیں ہیں ۔بلکہ پولیس فورس میں یہ چیزیں کیرئیر کا حسن سمجھی جاتی ہیں ۔آپ اسکے لیے معذرت کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں"

ایک پل میں اسکا انھیں وارن کرنے کا ارادہ بدلا تھا اور یہ قطعی غیر ارادی تھا۔

"میں نے کال اس لیے کی تھی اس دن آپ میرے دفتر میں اپنا چشمہ بھول گئے تھے۔اگر چاہیں تو آپکو لوٹانے آنا چاہتا ہوں "

انس نے اس دن ذکر کیا تھا مگر ہمایوں نے سرسری سا لیا تھا۔اب یکدم ذہن میں اسکا خیال آیا تو اس نے بات بنا لی۔

"اگر آپکو ذخمت نہ ہو تو ضرور تشریف لائیے۔لیکن اگر آپ مصروف ہیں تو میں اپنے ملازم کو بھیج دونگا۔میں تو سمجھا کہ اپنا چشمہ گنوا بیٹھا ہوں "

" ایسا نہیں ہے وہ میرے پاس محفوظ ہے، اور مجھے زخمت نہیں ہو گی آپ بار بار یہ کہہ کر شرمندہ نہ کریں ۔"

وہ تیزی سے بولتا شمشاد خان کو مزید بار احسان تلے دبا گیا تھا۔

وہ یہ سب غیر ارادی طور پر بول رہا تھا۔بہت سے واقعات، بہت سے حالات انسان کی پلاننگ اور کنٹرول سے باہر نکل کر خوف بخود وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔یہ بھی ایسی ہی ایک شروعات تھیں ۔

اس نے انس کو بلا کر اس چشمے کی بابت دریافت کیا تھا۔

"سر وہ تو شاید ڈسٹ بن میں پھینک دیا تھا۔"

اے ایس آئی حیران سا اسکے پوچھنے پر بتا رہا تھا۔

"ایسے کیسے کسی کی چیز پھینک سکتے ہو تم لوگ"

ہمایوں نے ناگواری سے پوچھا تھا۔

"سوری سر، میں نے آپکو بتایا تھا آپ نے کہا جانے دیجیے، تو میں نے پھر دھیان نہیں دیا۔" وہ اپنی ہلکی سی غلطی قبول کر رہا تھا۔

" کیا مطلب ہے اس بات کا؟ اگر میں آپکو بتاتا تب آپکو اندازہ ہوتا کہ وہ کسی کی امانت تھی اگر کوئی لینے نہیں آیا تو آپکو سنبھال کر رکھنی چاہیے تھی"

وہ ناپسندیدگی سے کہہ رہا تھا۔

" خیر مجھے وہ چشمہ چاہیے ہر صورت میں، کچرے سے ڈھونڈو یا جہاں سے بھی پیدا کرو مجھے وہ چاہیے، تم جانتے بھی ہو کس قدر اہم ہے وہ چشمہ "

اس نے اپنے سامنے کھلی فائل بند کرتے ہوئے سخت انداز میں ہدایات جاری کی تھیں ۔

" معاف کیجیے گا سر لیکن ایسا کیا ہے اس چشمے میں ۔میرا مطلب اتنا اہم کیوں ہے وہ"

اسے کوئی سکیورٹی تھریٹ معلوم ہو رہا تھا۔

" کیا مطلب تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ اہم کیوں ہے؟جانتے ہو کس کا ہے وہ چشمہ؟"

انس نے بے ساختہ نفی میں سر ہلایا۔

پورے دفتر میں ہمایوں کا سب سے قریبی اہلکار وہی تھا۔

" شمشاد خان کا ہے وہ چشمہ اور کل ہر صورت ان تک پہنچانا ہے،"

یس سر کہتا انس بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔یکدم وہ معمولی چشمہ اہم کیوں ہو گیا تھا۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔یہ شمشاد خان کون تھا اسے یہ بھی علم نہیں تھا۔مگر پورے ایس پی آفس میں ایمرجنسی نافذ ہو چکی تھی۔

سارا سٹاف رات گئے تک وہ الہ دین کے جن والا چشمہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکا تھا۔پچھلے ایک ہفتے تک کا کچرا چھان لیا گیا تھا۔مگر چشمہ مل کر نہیں دیا۔

"اب تو گھر جانے دیں ۔بہت دیر ہو گئی ہے"

نوجوان سویپر نے التجا کی تھی۔

انس نے بغور کچرے کے ڈھیر پر نگاہیں دوڑائیں پھر اسکی بات سن کر نفی میں سر ہلایا۔

"جانتے بھی ہو کس کا ہے وہ چشمہ؟

جب تک نہیں مل جاتا کوئی یہاں سے نہیں جائے گا۔ایس پی صاحب دو دفعہ کال کر کے پوچھ چکے ہیں ۔."

اس نےسب پر واضح کر دیا تھا۔کون ہے یہ کمبخت شمشاد خان؟ یہ وہ سوال تھا جو ہر کسی کی زبان پر تھا مگر جواب سے کوئی واقف نہیں تھا۔


~~~~~~~


کچھ دیر آرام کے بعد وہ لوگ وہاں سے رخصت ہو گئے تھے۔دانیہ خود پیچھے بیٹھ کر اسے آگے بیٹھنے کا اشارہ کر رہی تھی۔

" میں بھی پیچھے ہی بیٹھ جاؤں گی تمہارے پاس"

وہ ہچکچا رہی تھی۔

دانیہ معنی خیزی سے مسکرائی ۔البتہ بولی کچھ نہیں ۔حاطب نے گردن موڑ کر اسے گھورا۔

"محترمہ میں ڈرائیور نہیں ہوں آپکا"

حاطب کے جتانے پر وہ جھینپ کر آگے ہی اسکے برابر میں فرنٹ سیٹ پر نشست سنبھال چکی تھی۔دانیہ نے گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی کانوں میں ہینڈز فری لگا کر آنکھیں موند لی تھیں ۔

ایفا گل تھوڑی دیر اداسی سے خاموش بیٹھی رہی ۔

پھر اس نے بھی آنکھیں بند کر لیں ۔یقیناً اب وہ سونے کی تیاریوں میں تھی۔

"آپکو فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر سونا الاؤڈ نہیں ہے"

حاطب نے اسے ٹوکا تھا۔

"کیوں؟" فورا اسکا چہرہ اتر گیا تھا۔کچھ پہلے ہی اداس تھی۔

"فرنٹ سیٹ پر بیٹھے شخص کے لیے دوران ڈرائیو جاگنا اور باتیں کرنا مینڈیٹری ہے۔" وہ سامنے سڑک پر نگاہ جمائے بولے تھے،

"مینڈیٹری کیا ہوتا ہے"اسکے ککھ پلے نہیں پڑا۔

" مینڈیٹری مطلب شرط ہے یا ضروری ہے ۔" حاطب نے نرمی سے اسکی الجھن دور کی تھی۔

"لیکن کیوں؟"

اسے غالباً اعتراض تھا۔

" کیونکہ اس طرح ڈرائیور کی توجہ نہیں رہتی اور پھر وہ ڈسٹرب ہوتا ہے،"

"یہ کیا بات ہوئی، پھر میں پیچھے بیٹھ جاتی ہوں "

اس نے حل سوچا۔حاطب نے اسے نگاہ موڑ کر دیکھا۔

" آگے کیا مسئلہ ہے؟"

سوال سادہ مگر انداز معنی خیز تھا۔توقع کے مطابق ایفا گل نے بلکل نوٹ نہیں کیا۔

" پھر میں بیٹھ کر کیا کروں، آپ تو دن تک سوئے رہے۔میں تو اس وقت بھی کام کر رہی تھی۔"وہ اپنی مجبوری بیان کرنے لگی۔

"مثلاً کیا کام کرتی رہی ہیں آپ۔" اور جواباً اس نے اپنے کیے گئے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کام کی بھی تفصیل بتا دی تھی۔

دانیہ ہینڈز فری کے باوجود اسکی آواز سن پا رہی تھی۔اور مسکرا رہی تھی۔جو بس بولی تو بولتی ہی جا رہی تھی ۔

"اسکا مطلب ہے آپ بہت پروڈکٹو خاتون ہے، اتنا کام کاج کرتی ہیں "حاطب نے اسے سراہنا چاہا تھا۔توقع کے مطابق وہ شرمیلا سا مسکرائی ۔

(توبہ ہے بھائی کم از کم بیوی کے ساتھ تو تھوڑی فرینک گفتگو کر لو۔کیا آپ جناب لگا رکھی ہے)

اس نے مایوسی سے حاطب کو آنکھوں کی جھری سے دیکھا تھا۔

جو بظاہر سڑک پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔

" کیا ہوا؟ اب کیا باتیں ختم ہو گئی ہیں؟" چند منٹ کی خاموشی حاطب کو شاید گراں گزری تھی۔

"نہیں ۔میں تو ویسے بھی کم بولتی ہوں"

وہ اپنے دھیان میں بولی تھی۔حاطب کا ہلکا سا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

"کیا ہوا؟" عفی نے انھیں گھورا تھا۔

"کچھ نہیں، میں سوچ رہا تھا آپ واقعی کم بولتی ہیں "

سنجیدگی سے یقین دلایا تھا۔ایفا گل کو انکی بات پر بلکل یقین نہیں آیا۔چھوٹی چھوٹی لا یعنی باتوں نے انکے درمیان جھجک کی خلیج کافی حد تک کم کر دی تھی۔

اور ایفا گل بھی آج خلاف عادت انکی ہر بات پر اعتراض برائے اعتراض والا فارمولا ترک کیے ہوئے تھی۔

دور کہیں اندر گہرائی میں حاطب پر اطمینان ہوئے تھے۔انکا اندرونی اعتماد کافی حد تک بحال ہو رہا تھا۔

دیر گئے وہ لوگ گھر پہنچے ۔ہمایوں انکا منتظر تھا۔دونوں بلکہ تینوں کو دیکھ کر وہ خوشگوار حیرت کا شکار ہوا۔

آج اس خاندان کے لوگوں کے رویے بدلے ہوئے تھے۔معمول کی سی بے نیازی کی جگہ آج باہمی محبت اور دوستی نظر آتی تھی۔وہ سب اہل خانہ حاطب کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔یا شاید اسے اپنے ساتھ کا احساس دلانے کو اس خوشی کا بڑھ چڑھ کر اظہار کر رہے تھے ۔

حاطب اندرون خانہ جس جنگ کا شکار تھے اس میں ایسے لمحات کسی خزانے کی طرح قیمتی ہوتے ہیں ۔وہ بھی ان لمحات کو سمیٹ کر ذہن کے صندوق میں احتیاط سے محفوظ کر رہے تھے ۔

رات گئے جس پل کو کمرے میں آئے ایفا گل بے سدھ سو رہی تھی۔

لنساء اس سے یوں لپٹی تھی جیسے صدیوں سے بچھڑی اب ملی ہو۔

وہ مسکرائے۔آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔پھر رفتہ رفتہ چلتے ہوئے ۔ایفا گل کی طرف آئے۔بغور اسکا سویا ہوا معصول چہرہ دیکھا۔

اطمیان بھری پر سکون نیند۔بالوں کی چند آوارہ لٹیں چہرے کے اردگرد بکھری تھیں۔

(میں تمہیں لاکھ دفعہ بے وقوف کہوں مگر اس بات سے انکار اب نہیں کر سکتا کہ تمہارا دل بہت معصوم اور سادہ ہے۔اس دنیا کی تلخیوں اور گندگی سے پاک اور بہت دور"

وہ شاید ان باتوں کا اعتراف ساری زندگی اسکے سامنے نہ کرتے، مگر انھوں نے اپنے سامنے آج ایک اعتراف کر لیا تھا۔

" آج مجھے ایک بات کا ملال ختم ہو گیا ہے کہ عروہ کیوں نہیں؟ وہ میری کیوں نہیں ہو سکی تھی؟

کیونکہ مجھے اس بات کا جواب مل گیا ہے۔وہ میری ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔میں اسے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔"

گہری سانس جذب کر کے انھوں نے احتیاط سے نشست سنبھالی۔مبادا وہ دونوں جاگ نہ جائیں ۔

وہ اعتراف جو انسان دن کے اُجالوں میں نہیں کر پاتا وہ سب اعتراف رات کے اندھیروں میں، تنہائی میں کر سکتا ہے۔شاید یہی رات کا حسن ہے۔یہی دن کی کمی ہے۔

کتنی ہی دیر وہ اسے دیکھتے رہے۔یہ محبت نہیں تھی۔وہ اس سے محبت کے دعوے دار بھی نہیں تھے۔

مگر جو بھی تھا وہ بہت قدرتی بہت اطمینان بخش تھا۔

ان لمحات کے حسن میں دنیا کی ہر تلخی کچھ پل کے لیے چھپ سی گئی تھی۔مدھم ہو گئی تھی۔

اسکا بولنا، اسکا دیکھنا، سننا سب اہم تھا۔مگر اس وقت سب سے اہم اسکا ہونا تھا۔ایسے وقت میں جب وہ خود کو ذہنی طور پر تنہا محسوس کر رہے تھے ۔اندر اپنی بکھری کرچیوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایسے میں وہ بے شک خاموشی سے ہی سہی۔انکے سامنے بیٹھی تھی۔یہی غنیمت تھا۔

بے ساختگی میں انھوں نے چند آوارہ لٹوں کو اسکے چہرے سے ہٹایا۔وہ اسی طرح پرسکون رہی۔

حاطب مزید کچھ ہمت پا کر قریب ہوئے۔

"ایفا گل تمہاری معصومیت، تمہاری رواداری اور تمہاری کردار کی خوطصورتی سب ناقابل تردید حقیقتیں ہیں، مگر میں ایک چیز سے ڈرتا ہوں ۔کیا تم اتنے نرم اور نازک دل کے ساتھ مجھ جیسے ٹوٹے ہوئے شخص کی کرچیاں سمیٹ لو گی؟

کہیں میرے زخم سیتے ہوئے میں تمہارے ہاتھ زخمی نہ کر دوں "ناچاہتے ہوۂے بھی ایک تکلیف سی انکی آنکھوں میں امڈ آئی تھی۔

" میں اب اس بات سے بھی ڈرتا ہوں ۔کہ کیا تم مجھ جیسا بکھرا ہوا شخص ڈیزرو کرتی ہو؟ جو اس بات کو بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ تمہیں کم از کم تمہارے حصے کی جائز محبت دے گا"

انھیں اس وقت اپنا دل سخت اور محبت کے معاملے میں بنجر لگتا تھا۔گو کہ وہ پہلے بھی کوئی بڑے عاشق نہیں تھے مگر عشق کی پہلی سیڑھی پر ہی انکے ارمانوں کا خون کیا گیا تھا۔وہ سب اپنی موت نہیں مرے تھے۔بلکہ قتل کیے گئے تھے۔جڑ سے نکال کر پھینکے گئے تھے۔اب وہاں محبت کی نئی فصل کی ہیداوار آسان نہیں تھی۔

"سچ ہوچھو تو میں تم سے محبت کرنا چاہتا ہوں مگر میرا دل مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

میں نے کوشش کی ہے میں محبت، پیار کے اس تعلق کو خیر آباد کہہ کر صرف ایک شوہر اور بیوی کا تعلق نبھاؤں" انھوں نے اسکا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

بستر سے باہر ہونے کے سبب وہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

" مگر میرا مجھے اس سے بھی منع کرتا ہے، کیونکہ یہ تمہارے ساتھ زیادتی ہو گی۔کہ میں تم سے تعلق تو رکھوں مگر محض ضرورت کا تعلق ۔میں ضرورت کے کسی تعلق کو استوار کر کے تمہاری روح کو زخمی بھی نہیں کرنا چاہتا۔"


"تم محبت کیے جانے کے، چاہے جانے کے قابل ہو ۔اور میں تمہارے ساتھ زیادتی نہیں کر پا رہا۔میں اسکے لیے خود کو تیار نہیں کر پایا۔"

وہ اسکی روشن پیشانی پر جھکے تھے۔

مگر یہ حرکت لنساء کو شاید پسند نہیں آئی تھی۔وہ شاید جاگ رہی تھی اور انھیں دیکھ بھی رہی تھی۔بھرپور غصے سے غرائی تھی۔

حاطب بے ساختہ سیدھے ہوئے ۔. ایفا گل بھی جاگ گئی تھی۔

حاطب بجلی کی تیزی سے بستر سے دور ہوئے۔

وہ رات لے اس پہر اسے پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔

جب تک وہ صورتحال کا ادراک کر پائی وہ مخالف سمت سے بستر پر سے لنساء کو اٹھا رہے تھے۔

"یہ شاید مجھے یہاں دیکھ کر ڈر گئی ہے"

لنساء بستر سے چھلانگ لگا کر نیچے بھاگی تھی۔حاطب نے وضاحت دی۔

"کوئی بات نہیں آپ یہاں سو جائیں،" وہ آنکھیں ملتی اپنا دوپٹہ تلاش کرتی اب بستر سے اٹھ رہی تھی.۔

"اٹس اوکے آپ سوجائیں،مجھے ویسے بھی نیند نہیں آ رہی"

حاطب نے اسے اٹھنے سے روکا تھا۔چند لمحات قبل کی بے تکلفی اسکے آنکھیں کھولتے ہی کہیں روپوش ہو گئی تھی۔


وہ چند پل سوالیہ انھیں دیکھتی رہی پھر واپس دراز ہو گئی۔لنساء صوفے کے پاس زمین پر جا بیٹھی تھی۔

ایفا گل نے آخری بار اسکی وہاں موجودگی کی یقین دہانی کی اور آنکھیں موند لیں۔

اسکی نیند اتنی ہی آسان اور پر سکون تھی۔

حاطب نے کھڑکی کا ایک پٹ کھول کر سگریٹ سلگایا تھا۔پھر اپنے عقب میں اسے ایفا گل کی آواز سنائی دی۔

"واپس کب جانا ہے آپ نے؟"

وہ آنکھیں کھولے پوچھ رہی تھی۔

"کل شام" حاطب نے مختصر جواب دیا۔

"پھر کب آئیں گے؟" اسکا اگلا سوال بھی فوراً آیا تھا۔

"پتہ نہیں"

حاطب کا لہجہ سرد اور کھویا کھویا سا تھا۔


~~~~~~~


"یار یہ لمبا چوڑا پراسیس شروع کرا دیا ہے تم نے، مجھے رزلٹس چاہییں، اور جلدی چاہییں" بریگیڈیئر ریٹائرڈ سجاد خان چھوٹے بیٹے پر شدید غصہ ہو رہے تھے۔جو مسلسل انھیں تسلیاں دے رہا تھا۔

"ڈیڈ، اتنی دیر تو لگ جاتی ہے، یونیورسٹی سے اکسیپٹنس لیٹر آ گیا ہے، اب بس وہ اپنے ڈاکومنٹ پورے کر رہا ہے، ایک مہینے کے تو نہیں ہوتے نا، بس تھوڑا ٹائم تو لگ جائے گا، تمام ڈاکیومینٹیشن میں، پھر جا کر ویزہ فائل سبمٹ ہو گی"

اکمل نے باپ کو تسلی دی۔

"جو بھی طریقہ کار ہے ایک دفعہ نکالو اسکو، میں نہیں چاہتا عروہ یہاں بیٹھی رہےاور لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع ملے ۔"

وہ کس وجہ سے اتنے جھنجھلاہٹ کا شکار تھے، اکمل تو کیا کوئی بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔

" ڈیڈ مسئلہ کیا ہے، اب راتوں رات تو کچھ نہیں ہو گا۔جو ہونا تھا ہو گیا اب سکون سے ڈگری مکمل کرنے دیں اسے، اجمل بھائی کی جلدی جلدی والی عادت آپ میں کیوں آ گئی ہے "

وہ جو اپنی جاب کے لیے لیٹ ہو رہا تھا، اب مزید وضاحت بھی دینا پڑ رہی تھی۔

"میں نہیں چاہتا یہ معاملہ مزید خراب ہو، بس وہ لڑکا یہاں سے نکلے تو عروہ کے لیے بھی اپلائی کرو، میں چاہتا ہوں انکی شادی کر کے انھیں یہاں سے کہیں دور نکال دیں. کم از کم اس وقت تک جب وہ لوگ فائنینشلی سٹیبل نہیں ہو جاتے"

"ٹھیک ہے، لیکن راتوں رات کچھ نہیں ہو گا، یہاں سیٹل ہونے میں کم از کم بھی سال دو سال لگ جائیں گے"

" جہنم میں جائے سیٹل منٹ، اب میرا ارادہ جلد از جلد ان دونوں کی شادی کا ہے۔تم بس ایک دفعہ سفیان کو یہاں سے نکالو، باقی جو عروہ نے کیا ہے وہ خود بھگتے گی۔"

انھوں نے غصے سے کال کاٹ دی تھی۔

انکی بیوی نے فکر مندی سے انکا غصیلہ چہرہ دیکھا۔

"لیکن اب آپکے خیالات کیوں بدل گئے ہیں، پہلے تو آپ دو سال تک انکی شادی کے حق میں نہیں تھے۔"

" ہاں مجھے لگا تھا اب حاطب یا جاوید یہاں اتنی آسانی سے نہیں لوٹیں گے، اور بات آہستہ آہستہ دب جائے گی۔چند سالوں بعد ویسے بھی لوگ بھول جائیں گے"

وہ جس بے چینی کا شکار تھے اسے سمجھنا انکے آرام پسند گھر والوں کے بس کی بات نہیں تھی۔

" تو اب کیا ہو گیا ہے؟ "

" اب وہ لڑکا اپنی بیوی کو لے کر یہاں کے چکر لگانا شروع ہو گیا ہے، مجھے اس سب کی بلکل امید نہیں تھی۔یہ سب میری توقع کے برعکس ہے، اب وہ جب جب یہاں آئے گا، لوگ نئے سرے سے اس واقعے کو دہرائیں گے، اور اسکا نقصان کسے ہو گا؟"

وہ بے زاری سے بیوی کو دیکھ کر بولے۔

بیگم سجاد بھی فکر مند ہو گئی تھیں ۔واقعی انہیں امید نہیں تھی حاطب اتنی جلدی یہاں واپس آ کر سب کو فیس کرے گا۔

" اس سب کا نقصان عروہ کو ہو گا۔لوگ ہمارے بارے میں باتیں بنائیں گے، اور میں نہیں چاہتا اس سب سے عروہ کی زندگی متاثر ہو، ابھی بس یہ تین چار ماہ ہیں جب تک وہ یو ایس جا رہا ہے، اسکے بعد وہ پندرہ دن بعد یہاں ہو گا، اور میں یہ اذیت برداشت نہیں کر سکتا۔

میں نے اس لڑکے پر کتنی محنت کی تھی، اب اسے کسی اور کا نہیں دیکھ سکتا۔کم از کم اس طرح کہ عروہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہی ہو"جو بھی ہوا تھا غلط ہوا تھا مگر نہ وہ خود شرمندہ ہوسکتے تھے

نا اپنی اولاد کو شرمندہ دیکھ سکتے تھے۔

" میں بس تین چاہ ماہ میں عروہ کا نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔"

" کیا تین چار ماہ میں وہ لڑکا اتنا سیٹل ہو جائے گا کہ واپس آ کر نکاح کر سکے۔؟ "

بیگم سجاد سمجھنے سے قاصر تھیں ۔

"نہیں آتا تو نہ آئے۔ٹیلی فون نکاح کر دیں گے، پھر عروہ بھی وہیں چلی جائے گی ۔یہی ایک طریقہ ہے اسے اس غربت سے نکالنے کا۔"

انھوں نے سفیان کے گھر اور اہل خانہ کی حالت یاد کر کے جھرجھری لی۔

جو انکی بیٹی کی قسمت میں نہیں تھا، وہ اسے زبردستی نہیں دلا سکتے تھے۔اگر ایسا ہو سکتا تو کسی طاقت ور کی بیٹی دنیا میں دکھی نہ ہوتی۔اور کسی کمزور کی بیٹی کے نصیب میں خوشیاں نہ رہتیں۔

یہ قسمت کے کھیل تھے۔حاطب عروہ نہیں ایفا کا نصیب تھا۔اور اسے مل گیا تھا۔

یہ سادہ سی بات وہ قبول نہیں کر پا رہے تھے۔

کوئی کسی کا نصیب نہیں چھین سکتا نہ ہی نصیب بدل سکتا ہے۔

نصیب صرف دعائیں بدل سکتی ہیں ۔

وہ دعا کے علاوہ ہر کوشش کر رہے تھے ۔


~~~~~~~


"میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی مس انڈر سٹینڈنگ نہ رہے۔اور آپ یہ اچھی طرح جان لیں کہ میں آپکو کسی قسم کے پاگل پن کی اجازت نہیں دونگا۔"

باوردی پولیس افسر اس وقت شیریں کو زہر کی طرح لگ رہا تھا۔مگر وہ بے بس تھی، وہ اپنے دفتر میں کوئی شور شرابہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

" آپ میرے دفتر میں کس لیے تشریف لائے ہیں؟ " اسکی سوئی بس اسی بات پر اٹکی تھی، غصے پر قابو پانے کی کوشش میں ننھی ننھی آنکھیں مزید چھوٹی ہو گئی تھیں ۔

"ابھی تو میں صرف دفتر میں تشریف لایا ہوں ۔جلد آپکے گھر پر بھی حاضر ہونے کا ارادہ ہے"

وہ صرف اتنا ہی جان پایا تھا کہ شمشاد خان اسکی اکثر سے زائد حرکتوں سے واقف نہیں ۔اور نہ ہی شیریں خانم کو ہمایوں کا یوں اسکے دفتر آنا اچھا لگا تھا۔

"میرا آپکا جو بھی اختلاف ہے وہ پروفیشنل ہے، گھر سے باہر اور عدالت کی حد تک ہے، آپ اسکا جواب اپنے وکیل کے ذریعہ سے دیں۔تو ہی بہتر ہو گا" وہ چبا چبا کر ایک ایک لفظ ادا کر رہی تھی۔


"یہ جنگ آپ نے شروع کی ہے ۔اور آپکو لگتا ہے کہ میں اسکو آپ ہی کی شرائط پر عمل کر کے لڑوں گا؟وہ بے تکلفی سے اسکے سامنے بیٹھ چکا تھا۔

لڑکی کی جھنجھلاہٹ اور غصہ ضبط کرنے میں سرخ ہوتی ناک اور اسکا دبا دبا لہجہ اس بات کا غماز تھا کہ وہ اس وقت کوئی بحث یا لڑائی نہیں چاہتی تھی۔اسی کمزوری کو وہ استعمال کر رہا تھا ۔یکدم اسکی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔اسے لگا تھا وہ شور مچائے گی، بحث کرے گی۔مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔

"میں نے کوئی جنگ نہیں کی۔میں نے صرف ایک عام شہری کے طور پر اپنا حق استعمال کیا ہے، اور اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب اوچھی حرکتیں کر کے آپ مجھے جھکا لیں گے، یا مجھے بھی باقی وکلاء کی طرح بیک آف کرنے پر مجبور کر دیں گے تو یہ سب آپکی سمجھ کی غلطی ہے۔یا آپکی خوش فہمی، اس سے زیادہ کچھ نہیں "وہ طویل آرگیومنٹ کے آخر میں کرسی پر پیچھے کو ہو کر بیٹھی تھی۔ہمایوں نے بغور اسکے انداز دیکھے جو چیلنجنگ تھے۔وہ یوں چھوٹی چھوٹی باتوں کو سر پر سوار نہیں کرتا تھا، مگر اس لڑکی سے آج تک جتنی ملاقاتیں ہوئی تھیں ۔سب ایسی ہی فضول تھیں ۔نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسکے سر پر سوار ہو رہی تھی۔یہ سب سمجھ میں آنے والا نہیں تھا۔وہ بس اسے غصہ دلا دیتی تھی۔اسے ان کمفرٹ ایبل کر دیتی تھی۔وہ سوچتے ہوئے اسے دیکھے گیا۔

" اب اگر آپ نے مجھے جی بھر کر دیکھ لیا ہے تو یہاں سے تشریف لے جائیں کیونکہ مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں" ہمایوں کے مسلسل دیکھنے پر وہ طنزیہ، بے زار انداز میں اسے باہر کا راستہ دکھا رہی تھی۔

وہ جو ایسی کسی بات کی امید نہیں کر رہا تھا۔بے ساختہ مسکرایا۔

"دیکھ تو رہا ہوں مگر کچھ ایسا نظر نہیں آ رہا۔جو دیکھنے لائق ہو۔مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آپکے اس عمل کے پیچھے وجہ کیا ہے" اسکی بات کے دو معنی نکالے جا سکتے تھے۔

(ایک لڑکی جسکے گھر والے اس سے اتنا پیار کرتے تھے۔وہ شہر کی سب سے بڑی لاء فرم کی چہیتی وکیل رہ چکی تھی ۔اسکو اس چھوٹے سے شہر میں اتنی مادر پدر آزادی میسر تھی۔اسکی ایسی حرکتوں کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟)

ہمایوں جاوید خان سمجھنے سے قاصر تھا۔

"اسکی وجہ آپکا یہ مغرور، فرعونیت بھرا انداز ہے، جس میں آپ پولیس والوں کو سامنے والے کے حقوق کا کوئی خیال ہی نہیں رہتا"

اپنے مخصوص انداز میں بس وہ پھٹنے کو تیار تھی۔

"آپکو مجھ سے کوئی ذاتی عناد ہے یا پولیس فورس سے ہی کوئی مسئلہ ہے؟"

وہ بغور اسکے دفتر کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔

"مجھے ہر اس شخص سے مسئلہ ہے جو دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کا سبب بنتا ہے ۔میرا ہر اس شخص کے خلاف اعلان جنگ ہے" اسکے ماتھے کے بل پھر سے بڑھنے لگے تھے ۔ہمایوں اسکی بات سننے کو رکا۔پھر استہزاء سے ہنسا۔

" آپ نے ساری دنیا کا ٹھیکا اٹھا رکھا ہے؟"

وہ واقعی حیران ہوا تھا۔

" یہی سمجھ لیں "شیریں نے ڈھٹائی سے اقرار کیا۔

" عجیب بے تکی سی سوچ ہے"وہ لاشعوری طور پر تبصرہ کر رہا تھا۔جو دل میں تھا وہ یکدم زبان پر بھی آ گیا۔شیریں خانم کو ناگوار گزرا تھا۔

"میں نے آپ سے رائے نہیں مانگی۔اب آپ جا سکتے ہیں ۔"

" ویسے مجھے یہ کہنا پڑ رہا کہ آپ ایک بلکل بھی اچھی وکیل نہیں ہیں ۔" یکدم ہمایوں نے اسکی ذات پر براہ راست دوسرا تبصرہ کیا تھا۔شیریں کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ہمایوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے مزید کہا۔

"میں سچ کہہ رہا ہوں لیڈی ایڈووکیٹ ۔آپ دوسرے کی بات نہیں سن سکتیں

You aren't a good lawyer"

اسکے اعتماد پر وہ ایک پل کو اسے گھور کر رہ گئی پھر جلد ہی سنبھل کر بولی۔

"میں پھر کہوں گی مجھے آپکی رائے کی ضرورت نہیں"

"ٹھیک ہے میرا مقصد آپکو بتانا تھا۔اگر کوئی وکیل اپنے کسی کیس کے لیے اپنے آپ کو، اپنے کریئر کو مشکل میں ڈال دے تو وہ اچھا وکیل نہیں ہے۔اور یہ کیس یا تو آپکے کیرئیر کو تباہ کرے گا یا میرے،


اور اتنا یقین کریں میں اتنی آسانی سے اپنا کریئر تباہ نہیں ہونے دونگا، پھر چاہے اسکے بدلے میں آپ ہی تباہ کیوں نہ ہو جائیں".

ایک پل کو رکا۔

اور اسے صرف َایک دھمکی مت سمجھیے گا"

وہ میز پر بازو ٹکا کر کچھ آگے کو جھکا کہہ رہا تھا۔


اب اگر معاملہ فلیش پوائنٹ پر آ گیا تھا تو یقیناً شیریں خانم ہی ذمہ دار تھی۔ہمایوں نے خود کو اس کی ذمہ داری سے بری الزمہ قرار دیا۔

" جو کرنا ہے کر لو جا کر۔اور ہاں آپ نے اس دن بھی دھمکی دی تھی کہ اغواء ہو جاؤں گی میں یا جو بھی۔۔تو اب اسکا جواب بھی سن لیں"

وہ نفرت سے پھنکاری تھی۔اسکے اندر اتنا زہر بھرا تھا۔کہ جو بھی چھوتا، زہر آلود ہو جاتا ۔ہمایوں مڑا تھا۔

"تو تم چاہے تو اغواء کر لو یا کسی سے گولی مروا دو، مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔مجھے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس لیے آئندہ جو جی میں کر لینا، کیونکہ اب میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، چاہے تم خود تباہ ہو جاؤ یا تمہارا یہ دو ٹکے کا کیرئیر۔مجھے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا"

اسکی حالت ایک ایسے خود کش بمبار کی سی تھی جو سر پر کفن باندھے نکلا تھا۔بس اسے کسی ایسے ٹارگٹ کی تلاش تھی جس سے ٹکرا کر وہ نا صرف اپنی جان دے دے بلکہ اگلے کی جان بھی لے لے۔


"جس آگ میں آپ نے ہاتھ ڈالا ہے اسکے شعلے کتنی دور تک جائیں گے ابھی آپکواندازہ نہیں ہے۔ابھی بھی وقت ہے معافی مانگ لیں اور سنبھل جائیں، ورنہ میں اب یہ بھی نہیں دیکھوں گا کہ میرے سامنے ایک معزز شخص کی پوتی کھڑی ہے"

وہ اسے سختی سے وارن کرتا وہاں سے نکل گیا۔

اگر بات صرف ایک رٹ تک رہتی تو شاید وہ برداشت کر لیتا۔اب بات پولیس فورس اور سول ایڈمنسٹریشن کے درمیان بن چکی تھی۔وہ برداشت نہیں کرنے والا تھا کہ اسکا زبردست سا کئرئر ایک عجیب بے تکی سی لڑکی کی ضد کی نظر ہو جاتا۔

بعض اوقات چھوٹے چھوٹے حادثات بھی نئی شروعات کا باعث بنتے ہیں ۔شیریں خانم بس ضد اور انا میں اندھی ہو چکی تھی۔شمشاد خان دن رات اسکے لیے دعا گو رہتے تھے۔ثمر مبارک کی زندگی اس نے مشکل بنا دی تھی۔

اور ہمایوں جاوید خان بھی جتنا اس سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا اتنا ہی الجھتا جا رہا تھا۔

اس بے تکی لڑکی کی شخصیت کو کھوجنے کی بے نام سی خواہش زور آور ہوتی جا رہی تھی۔


~~~~~~~

سہ پہر میں حاطب گھر سے نکلے اور ہمایوں کے پاس پہنچے تھے وہ کچھ مصروف اور الجھا ہوا تھا۔

وجہ وہ جانتے تھے۔

"تم پریشان کیوں ہو رہے ہو یار سب ہوتا رہتا ہے، اس سب کو فیس کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں"

انھوں نے ہمایوں کو تسلی دی۔وہ کچھ حیران سا جواباََ حاطب کو دیکھنے لگا۔جو آج خاصہ بہتر اور زندہ دل لگ رہا تھا۔

"نہیں کیپٹن صاحب پریشان نہیں ہوں، پہلے تھا اب نہیں ہوں، جو ہونا تھا وہ ہو رہا ہے، مخالفت نہ ہو تو انسان اپنے آپ کا تجزیہ کرنا بھول جاتا ہے "اس نے کندھے اچکا کر سٹریس کو دور دھکیلا۔

"بس مسئلہ یہ ہے کہ اگر بندہ ایک پریشانی میں الجھے جائے تو سارے شہر کو موقع مل جاتا ہے سازشیں کرنے کا۔اب سب نے اپنی اپنی بندوقیں اسی کیس پر رکھ کر میرے خلاف سازشیں کرنی شروع کر دی ہیں "

وہ نارمل سے لہجے میں بولا تھا۔واقعتاً آج کل سب مسائل نے اسے گھیر لیا تھا۔مخالفین اس صورتحال کو اسکے خلاف استعمال کر رہے تھے۔

" hope it'll make you more stronger "

حاطب نے اسکا کندھا تھپکا۔

وہ اسکے دفتر سے ملحقہ ریسٹ روم میں آ بیٹھے۔

" اسکی حالت تو درست کرو۔اگر پولیس فنڈز نہیں ہیں تو اپنی جیب سے کچھ پیسے لگا لو" اسکی دگرگوں حالت حاطب کو گراں گزری تھی۔

"less is more"

ہمایوں نے ڈھٹائی سے کہا۔

"یہ بہت لگژری تھا۔میں نے سارا گند باہر پھینکوایا ہے۔یار پتہ نہیں حلال کا مال تھا یا حرام کا"

ہمایوں سادہ سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔

ایک اہلکار دو چائے کے کپ چھوٹی تپائی پر رکھ گیا تھا۔

"اسی لیے کہہ رہا ہوں اپنی جیب سے چند پیسے لگا کر اسکو بہتر کرو، تم سے ہزار گنا بہتر میرا آفس ہے"

ہمایوں نے قہقہہ لگایا۔

" آپ امیر آدمی ہیں ۔میرے پاس اتنے فائنینسز نہیں ہیں ۔یہ دیکھ لو میں تو رات کو جو کپڑے پہن کر سوتا ہوں وہ بھی تمہارے ہیں" وہ ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے بولے، حاطب نے خشمگی نگاہوں سے اسے گھورا۔

" اتنی غربت کیوں چھائی ہوئی تم پر؟ کہاں جاتی ہے تمہاری ساری پے؟"

وہ ہمیشہ والا سوال دہرا رہا تھا۔

"یار میری اتنی سیلری نہیں ہے، نا ہی تمہاری طرح لمبے چوڑے الاؤنسز ہیں ۔"وہ دنیا کا سب سے غریب پی ایس پی آفیسر تھا۔

کم از کم اسکی ظاہری شخصیت سے یہی ظاہر ہوتا تھا۔

" یہ کیس ختم ہوتا ہے تو اس غربت سے نکل کر کچھ پیسے سیلف گرومنگ پر لگاؤ"

ناگواری سے ہر شے کا جائزہ لیتے حاطب نے کہا تھا ۔ہمایوں نے چائے کا سپ لیتے ہوئے بغور کیپٹن صاحب کو دیکھا۔مخصوص ہئر کٹ، سلیقے سے جمے بال۔تازہ تازہ شیوڈ چہرہ، استری شدہ لباس، اور خاص قسم کی خوشبو، جو اسکی آمد کا اعلان کرتی تھی۔

" بھائی صاحب آپ یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں، یہ صاف ستھرا لباس، یہ فائن کریز، اور ہر شے آپکو مفت میں وقت پر میسر ہوتی ہے، مگر ہماری آپکی بیوی کی طرح کوئی سگھڑ بیوی نہیں ہے، ہمیں پیسے دے کر یہ سروسز لینا پڑتی ہیں"

اس نے جان بوجھ کر بات اسکی شادی شدہ زندگی کی طرف موڑی تھی۔وہ صرف کرنٹ سٹیٹس جاننا چاہتا تھا۔.حاطب ہنسے ۔مطمئن سی ہنسی۔

"آفس وہ میرے پاس نہیں ہوتی۔اور اگر اتنی تمہیں بیوی کی کمی محسوس ہو رہی ہے تو تم بھی شادی کر لو۔"

" میں اس تجربے سے دور ہی رہنا چاہتا ہوں فلحال۔لیکن میرا وعدہ ہے، جب میری شادی ہو گی، تو پھر میں اس سے بھی زیادہ فٹ فاٹ، اور ویل ڈریسڈ رہا کرونگا۔اور میری بیوی کے سلیقے کے سامنے آنسہ ایفا گل بھی پانی بھرا کریں گی"اس نے ممبئی چھوڑی، حاطب نے اسے گھورنے پر اکتفا کیا۔اس دفعہ وہ ایفا گل کے ذکر خیر پر بے زار نہیں تھے، ہمایوں نے تسلی سے گہری سانس جذب کی۔

پھر حاطب اسے کچھ جاب ٹپس دینے لگے۔

" مسئلہ مجھے نہیں ہے، اگر کوئی میل ہوتا تو میں ہینڈل کر سکتا تھا۔"ہمایوں نے مجبوری بیان کی۔

" ایک لڑکی ہے یہ، اور لڑکی کے معاملے میں ذرا احتیاط کر رہا تھا میں ۔لیکن اب سچویشن کچھ اور ہی ہو گئی ہے، آئی جی صاحب نے بھی بلایا ہے مجھے کمنگ منڈے کو۔"

حاطب نے کچھ بے یقینی سے اسے گھورا ۔

" لاہور اور کراچی میں تو نفسیاتی سی خواتین لائیرز ہوتی تھیں اب یہاں بھی ہوتی ہیں؟ " گو کہ وہ ایڈووکیٹ شیریں خانم کو نہیں جانتے تھے لیکن حاطب کا نقطہ نظر وہی تھا جو ہمایوں کا تھا۔

اسکے باوجود ہمایوں اتفاق نہیں کر سکا۔

" نہیں نہیں ۔ہے تو اچھی وکیل۔لیکن کچھ سر پھری سی ہے ۔اور پیچھے ہٹنے کو بھی تیار نہیں ۔میں روایتی طریقے استعمال نہیں کرنا چاہتا یار"

حاطب نے صرف سر ہلایا تھا۔وہ ہمایوں کے پر سوچ انداز کے پیچھے چھپی وجہ کی گہرائی میں نہیں گئے۔

ایفا گل کی کچھ عادتیں ان میں بھی آتی جا رہی تھیں ۔

" واپس کب جانا ہے؟ "

" میں ابھی بس کچھ دیر تک نکل جاؤں گا، تم پریشان تھے سوچا تم سے مل آؤں۔

فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔جو پاسبل سولیوشن نکل سکتا ہے نکال لو۔اگر مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر بتانا، میرے ایک کولیگ کے فادر بھی لاہور پولیس لائنز میں ہیں ۔ان سے ملاقات کر لیں گے، ہو سکتا ہے وہ کوئی بہتر ہیلپ کر سکیں "وہ جاتے ہوئے اسکے گلے لگے پھر تسلی دی۔

" نہیں میں سنبھال لونگا، پاپا کے بھی جاننے والے ہیں وہ بھی کہہ رہے تھے، لیکن مجھے امید ہے اسکی ضرورت نہیں پڑے گی۔"

حاطب چلے گئے تھے۔ہمایوں انھیں اللہ حافظ کہنے گھر تک نہیں جا سکا۔اسے شمشاد خان سے ملنے جانا تھا۔انکا چشمہ بھی تو واپس کرنا تھا ۔ 

ہمایوں جس پل شمشاد خان کے ہاں پہنچا وہ پہلے سے ہی اسکے منتظر تھے۔وہ سفید ڈریس شرٹ اور بلیو جینز میں ملبوس تھا۔گاڑی بھی پرائیویٹ تھی۔یعنی وہ اپنے فارغ وقت میں سے کچھ لمحات نکال کر آیا تھا۔

ویسے وہ پیسہ ویسہ خرچ کرنے کے معاملے میں کنجوس تھا۔لیکن نجانے کس خیال کے تحت اس نے ملے جلے پھولوں کا ایک بکے بھی خرید لیا تھا۔

"عثمان جاؤ اور اصغر سے کہو مہمان کے لیے کچھ انتظام کریں" شیریں خانم گھر نہیں تھی۔وہ بلاتے تو شاید آ بھی جاتی لیکن وہ ابھی ہمایوں اور اپنی ملاقات کی کہانی شیریں کو نہیں بتانا چاہتے تھے۔کم از کم اس وقت تک جب تک یہ فضول سا قصہ ختم نہ ہو جاتا۔

"میں زیادہ دیر نہیں بیٹھوں گا، کچھ مصروفیات تھیں ۔لیکن اگر آپ چاہیں تو بس ایک کپ چائے پلا دیں ۔" وہ انکساری سے بولا۔ چھبیس ستائیس سالہ نوجوان جسکے پاس اٹھارہ گریڈ کا ایک عہدہ تھا۔وہ اگر گردن اکڑا کر بھی بات کرتا تو مضائقہ نہیں تھا، لیکن ہمایوں جاوید خان کی عاجزی، اسکی دوستانہ طبیعت، دھیان سے بات سننے نے شمشاد خان کو متاثر کر دیا تھا۔

(پتہ نہیں جو شیریں خانم کہتی ہے، وہ سچ ہے یا جو میں اس بچے میں دیکھ رہا ہوں وہ سچ ہے)

وہ ذہنی طور پر کنفیوز ہو چکے تھے۔

"شیریں خانم ابھی کچھ دیر میں گھر پہنچ جائے گی، اسے کچھ کام تھا۔تو اے سی آفس جانا تھا" شمشاد خان نے سرسری سا ذکر کیا تھا۔

"آپ یہاں اکیلے رہتے ہیں" جب اصغر چائے رکھ کر گیا تھا تو ہمایوں نے کچھ سوالیہ انھیں دیکھا ۔

"نہیں یہ ساتھ والے پورشن میں میرا بیٹا اور اسکی فیملی رہتی ہے ۔ثمر مبارک "چائے کا سپ لیتے ہوئے شمشاد خان مسکرائے۔انکا کوئی نہ کوئی شاگرد ان سے ملنے آ جاتا تھا۔وہ اصغر کو پیغام بھجواتے اور وہ چائے وغیرہ بنا کر دے جاتا۔

کھانا وانا تو شیریں خانم بنا کر جاتی تھی۔اگر ضرورت پڑتی تو دن میں دو گھنٹے کے لیے گھر بھی آ جاتی تھی۔

" اور آپ یہاں رہتے ہیں ۔اچھا ہے پرائیویسی کا خیال رکھنا چاہیے" ہمایوں نے دوسری بات صرف اس لیے کی تھی کہ اکیلا کہنے پر انکے دل میں کوئی برا تاثر نہ جائے۔

"ارے ہم بڈھے لوگ تو بندہ ڈھونڈتے ہیں ۔ہماری کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی۔شیریں خانم کا کام کاج کچھ سٹریس والا ہے تو اسے شور شرابا پسند نہیں ۔اسی لیے ہم دونوں دادا پوتی یہاں رہتے ہیں"

شیریں کے ذکر پر انکے لہجے میں محبت اور پرواہ نظر آنے لگی تھی۔

(چلو شکر ہے کوئی تو ہے جو اس پاگل عورت کا نام سن کر مسکراتا بھی ہے)

بے ساختہ سا خیال اسکےذہن میں آیا تو سر جھٹک کر وہ شمشاد خان کی طرف متوجہ ہوا۔

" مجھے بہت خوشی ہوئی آپ یہاں آئے۔لیکن"شمشاد خان نے تمہید باندھی۔پھر زبان پھیر کر ہونٹوں کو تر کیا۔ہمایوں نے دھیان نے سے انھیں سنا۔

"آپ کے مسائل کا مجھے اندازہ ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے کی طرح میری پوتی میری ہر بات نہیں مانتی اب۔"

وہ بہت سنجیدگی سے بولے تھے۔

" بچے بڑے ہو جائیں تو بہت عقل مند بھی ہو جاتے ہیں، پھر بزرگوں کی باتیں انھیں قابل عمل نہیں لگتیں" وہ مسکرائے۔زخمی سی مسکراہٹ ۔

" آپ فکر نہ کریں ۔میں اس نیت سے یہاں نہیں آیا۔" ہمایوں نے انھیں شرمندگی سے نکالنا چاہا۔بزرگوں کے لیے اسکے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔پھر چاہے وہ سخت مزاج بڑے ابا ہوں یا اب نرم مزاج سے شمشاد خان ۔

" میں نے کہا تھا نا میں سب سنبھال لونگا۔آپ میری بات کا یقین کریں "اس نے شمشاد خان کو یقین دلایا۔وہ زبردستی مسکرائے۔پھر ٹھنڈی آہ بھری۔

"میں آپکی شخصیت کی خوبیوں سے متاثر ہوا ہوں ۔ایس پی صاحب"

انھوں نے پھر سے ہونٹوں پر زبان پھیری، جسکا واضح مطلب تھا وہ پریشانی اور خدشات کا شکار تھے۔

" میں جانتا ہوں آپ اچھے انسان ہیں ۔ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اپنا دفاع کرے۔لیکن میری ایک درخواست مانیے گا۔اسکے ساتھ کچھ ایسا نہ ہو جو روایتی طور پر ہوتا ہے۔

آپ بے شک اسے کیس میں ہرا دیں ۔میں آپکو ایک بہترین بیرسٹر صاحب کا نمبر دیتا ہوں آپ ان سے اپنا کیس ڈسکس کریں ۔میں ان سے بات کر چکا ہوں آپکے بارے میں "ہمایوں نے پہلی بار کچھ بے یقینی سے انھیں دیکھا۔ایسی کسی مدد کی امید کہاں تھی بھلا؟

" وہ ایک دو پیشی میں شیریں خانم کی ساری وکالت نکال کر رکھ دیں گے۔"شمشاد خان نے ہمایوں کو یقین دلایا تھا۔

" اتنی بری وکیل نہیں ہیں وہ"بے ساختہ اسکے منھ سے نکلا تھا۔

" میں جانتا ہوں وہ محنتی اور ذہین ہے، لیکن ابھی وہ بچی ہے اسے اتنے داؤ پیچ نہیں آتے، بیرسٹر سلمان آپکا کیس سنبھال لیں گے۔آپ اسکی فکر نہیں کریں "ہمایوں چائے پینا بھول گیا تھا۔یہ کیا کاروائی ہونے جا رہی تھی۔وہ حیران تھا۔

شمشاد خان نے ڈائری سے اسے ایک نمبر دکھایا ۔ہمایوں نے اپنے موبائل میں نوٹ کر لی۔

" مجھے خوشی ہو گی آپ جتنا جلدی اس سب سے نکل سکیں۔لیکن پولیس والوں جیسے روایتی طریقوں پر عمل کر کے اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیے گا۔اسے ایک بزرگ کی درخواست سمجھیں"

انکے لہجے میں لجاجت تھی۔منت تھی۔درخواست تھی۔

وہ وہاں سے واپس آ گیا تھا۔وہ جو بھی کہتا جس طرح بھی یقین دلا دیتا بے کار تھا۔شمشاد خان کی فکر بے جا نہیں تھی۔شیریں جیسی لڑکیوں کے گھر والے اسی طرح فکر مند رہتے ہیں ۔

(میرے بس میں تو تمہارا الٹ دماغ میں ایک دن میں سیدھا کر دوں) بے دھیانی میں اسے خیال آیا تھا۔جس پل وہ گھر سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا۔پیچھے سے اسکی گاڑی آتی دکھائی دی تھی۔وہ نظر انداز کر کے وہاں سے نکل گیا۔

شمشاد خان پورچ میں گھر کے مرکزی دروازے پر کھڑے تھے اسے دیکھ کر وہیں رک گئے۔شیریں نے گاڑی سے نکلتے ہی سوال کیا۔

"کوئی آیا تھا کیا؟" اسکے ماتھے پر استفسار کے بل تھے۔

"ہاں" انھوں نے محتاط انداز میں کہا۔

"کون؟" وہ گاڑی لاک کرتی انکے قریب پہنچی۔

"کوئی نہیں میرے مہمان تھے"

وہ آگے آگے چلتے اندر آ گئے۔. (ہمایوں سے کہنا یاد نہیں رہا کہ اس سلمان والے معاملے کا شیریں کو علم نہ ہو، اگر اسے پتہ چل گیا تو ۔۔۔اففف) وہ شیریں کا رد عمل سوچ کر ہی جھرجھری لے کر رہ گئے۔جبکہ وہ دیر تک سوچتی رہی کون تھا جسے چھوڑنے دادا باہر تک گئے۔لگ بھی کوئی نوجوان ہی رہا تھا۔ وہ عادتاََ سوچتی رہی پھر فریش ہو کر کچن میں گھس گئی۔بس وہ ایسی ہی تھی، اسکی زندگی میں آرام یا فراغت جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔

اب تو وہ اس معاملے میں ایسی پھنسی تھی۔کہ فارسی غزلیں بھی نہیں سنتی تھی۔


~~~~~~~~~


حاطب گھر واپس آئے، دانیہ آیت، ایفا گل وہ سب بیٹھے باتیں کرتے رہے۔شام کی چائے تک جاوید چچا بھی گھر آ گئے تھے۔پھر ایفا گل پرتن سمیٹ رہی تھی جب وہ اپنے کمرے میں آ گئے۔کچھ دیر بعد اپنے مخصوص انداز میں اسے پکارا تھا۔

"کیا آپ میرے ساکس ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گی؟"

انداز ایسا تھا وہ سر کے بل چل کر آنا پڑتا تو چلی آتی۔

بھاگی بھاگی آئی تھی۔ سامان پیک کر چکے تھے۔وہ دیر تک وہیں رہی مبادا انھیں مزید کسی چیز کی ضرورت ہو ۔ مگر وہ سنجیدہ تھے۔اسی لیے چپ رہی۔

"ایفا گل اگر آپ چاہو تو میری غیر موجودگی میں اپنے گھر،، میرا مطلب بڑے ابا کے ہاں انکے ساتھ رہ سکتی ہو۔"

وہ جانے کے لیے تیار تھے۔بس آخری پل کو نجانے کیوں یہ بات یاد آ گئی تھی۔

"میں ملنے جاؤں گی، اگر آپ کہیں گے تو کچھ دن رہوں گی پھر واپس آ جاؤں گی" وہ جو پہلے ہی اسکے لیے تیار بیٹھی تھی، کچھ چونکی پھر امی جی کی نصیحت کے مطابق سیانی بن کر جواب دیا۔

" میں آپکو منع نہیں کر رہا، بلکہ میں آپکو کسی بھی بات سے منع نہیں کروں گا۔اس سے پہلے جو کچھ میں غصے میں کہہ چکا ہوں اسے بھول جائیں ۔"

حاطب کو اپنی سابقہ حرکتوں کی یاد آئی تو سر جھکا کر کچھ سنجیدگی سے کہا تھا۔عفی کی حیرت بجا تھی۔

"آپ اتنے اچھے کیسے ہو گئے ہیں حاطب؟ "وہ باقاعدہ انکے سامنے آکر بغور انکا جائزہ لے رہی تھی۔جیسے انکی خرابی صحت کا یقین ہو چلا ہو۔حاطب نے اسے جواباََ گھورا تھا۔

" حد ہے ویسے ایفا گل، حد ہے" وہ سخت مایوس ہوئے۔مڑ کر اپنا سامان اٹھایا۔تو وہ انکے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔

"اب کیا ہوا ہے، ایک بات ہی تو پوچھ رہی ہوں میں"

"کچھ نہیں ہوا، بس آپ سمجھتی رہو جو بھی سمجھنا ہے" وہ شاید ناراض ہو گئے تھے۔کمرے کے دروازے کی طرف بڑھے تو ایفا گل نے آگے آکر رستہ بند کر دیا تھا۔حاطب نے اس حرکت پر اسے سوالیہ دیکھا۔

"ناراض ہو کر تو نہ جائیں، میں تو ویسے ہی کہہ رہی تھی۔"

وہ کچھ اداسی سے بولی تھی۔حاطب خاموش رہے۔

" اچھا سوری"وہ بھرپور سنجیدگی سے سوری کر رہی تھی۔

حاطب مزید خاموش یا ناراض نہیں رہ سکے۔

"اب کیا چاہتی ہیں مجھ سے؟" بغور اسکی کانچ سی گہری آنکھوں میں دیکھا تھا۔جہاں سادگی تھی۔اور کچھ اداسی بھی۔ وہ بے ساختہ اس معصوم تاثر پر مسکرائے۔

یہ لڑکی کچھ بھی نہیں چھپا سکتی تھی۔

" ناراض ہو کر نہ جائیں" وہ اسی سادگی سے بولی۔

"اگر اس طرح کریں گی تو پھر سرے سے جا ہی نہیں سکوں گا۔"

انھیں اپنا آپ اندر گہرائی میں کہیں کمزور ہوتا دکھ رہا تھا۔

مگر چاہ کر بھی اسکے چہرے سے نگاہیں ہٹانا ممکن نہ ہو رہا تھا۔

حاطب نے گہری سانس خارج کی۔

"آپ ناراض ہیں مجھ سے؟ "

اسکی سوئی وہیں اٹکی تھی۔

حاطب نے ہنوز اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا۔وہ یکدم مسکرائی تھی۔بس اسی بات کی اسے فکر تھی کہ شوہر کو ناراض کر کے گھر سے باہر نہیں بھیجنا۔


" مجھے یاد کریں گی؟" حاطب نے اسی سنجیدگی سے سوال کیا۔پہلے وہ حیران ہوئی پھر مشکوک سا مسکرائی۔حاطب بے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔

"آپ یاد آ جائیں گے خود ہی"

جواب توقع کے مطابق حاطب کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔

"میں بہت یاد کرنے والا ہوں آپکو"

اسی مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے کہا تھا۔ایفا گل نے اثبات میں سر ہلایا۔گویا یقین ہو اس بات کا۔

"واپسی پر میرے ساتھ چلیں گی؟"

وہ بلکل عفی کے سامنے کھڑے تھے۔ خوامخواہ میں وہ غیر آرام دہ ہو رہی تھی۔اس نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔

"تیار ہو جائیں واپسی پر میرے ساتھ جانا ہو گا آپکو" مزید زور دیاگیا۔

"کہاں؟" وہ بے ساختہ بولی۔

"وہیں جہاں میں رہوں گا"

" پتہ نہیں "وہ ابھی بھی پریقین نہیں تھی کہ اسکے ساتھ جائے گی یا نہیں۔

"سوچ لیں ۔ابھی وقت ہے آپکے پاس"

یکدم ڈھیڑ ساری اداسی نے انھیں جھکڑا تھا۔بعض اوقات اس وقت گھر چھوڑنا پڑتا ہے جب سب سے زیادہ گھر میں رہنے کی ضرورت ہو۔یقیناً یہ وہی جانتے تھے۔


"ایفا گل"گھمبیر لہجے میں اسے پکارا ۔وہ انکی آنکھوں میں دیکھتی بے وجہ مسکرائی۔وہ بھی نروس ہو رہی تھی۔حاطب نے ہاتھ بڑھا کر اسکا دایاں ہاتھ تھاما۔

جو وہ کہنا چاہتے تھے وہ زبان پر آنے سے انکاری تھا۔ایفا گل اپنی گھبراہٹ پر چاہ کر بھی قابو نہیں پا سکی۔

"تم ۔۔۔" پہلی بار انھوں نے اسے یوں تم کہا تھا۔مگر سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کیسے کہیں ۔حاطب گھمبیر سنجیدگی کا شکار تھے۔ ایفا گل کی دھڑکن منتشر ہوئی۔

اس سے پہلے وہ کہہ پاتے دروازے پر دستک ہوئی تھی۔اگر باہر موجود آیت دروازہ کھولتی تو ان دونوں کے منھ پر بجتا۔

"بھائی پاپا کہہ رہے ہیں آ جائیں"

"ہاں میں آ رہا ہوں" جواب حاطب نے دیا تھا۔ایفا گل کا ہاتھ ہنوز انکے ہاتھ میں تھا۔ پھر وہ سر جھٹک کر رہ گئے۔سارا موڈ بدل کر رہ گیا تھا۔

"یہ سب سے مشکل کورس ہونے والا ہے میری زندگی کا۔کیونکہ آخر وقت میں اب میں کنفیوز ہو گیا ہوں "

انھوں نے اعتراف کیا تھا۔

ایفا گل نے حیرت سے انھیں دیکھا۔وہ تو کہہ رہے تھے انکا زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جو پورا ہونے جا رہا تھا۔

"مجھے سمجھ نہیں آ رہی مجھے جانا چاہیے بھی یا یہیں رہنا چاہیے ۔تمہارے ساتھ"

وہ مسکرائے۔جانتے تھے گھر سے نکلتے ہی وہ سنبھل جائیں گے مگر گڈ بائیز کبھی بھی آسان نہیں ہوتے۔اسی بات سے وہ ڈرتے تھے۔

نجانے ان تھوڑے سے دنوں میں انھیں یہ لڑکی اتنی عزیز کیسے ہو گئی تھی۔مگر کچھ تھا جو انکے اختیار سے باہر ہو کر انکے دل میں قبضہ جما رہا تھا۔

وہ نروس سی انھیں دیکھے جا رہی تھی۔یکدم زبان کو بریک لگ گئے تھے۔حاطب بھی بے بسی سے کندھے اچکا کر رہ گئے۔

"لڑکی تم نے میری زندگی مشکل بنا دی ہے" پھر وہ سر جھٹک کر مسکرائے ۔ایفا گل کے چہرے پر بھی شرمیلی سی مسکان دوڑ گئی تھی۔

اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے چھو کر انھوں نے آزاد کر دیا تھا۔

جتنا یہاں رکتے اتنا ہی مزید مشکل ہو جاتا۔وہ خود کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔یہ سب سے مشکل گڈ بائے تھا۔

وہ دیر تک وہیں مدہوش سی کھڑی رہی۔پھر ایک مستقل مسکان اسکے لبوں کا احاطہ کر گئی۔

اس وقت تک وہ مسکراتی وہی جب تک رات گئے اسے حاطب کے جانے اور کئی مہینوں کے لیے چلے جانے کا خیال آیا۔پھر وہ خوامخواہ میں اداس ہو گئی بے تحاشہ اداس۔

یہ الگ بات کہ اداسی بس ایک دو دن کی ہی تھی۔

وہ پھر سے اپنی زندگی کے سائکل میں بزی ہو گئی۔اب ایک تبدیلی آئی تھی۔

اس نے پھر سے تفسیر کی دہرائی شروع کر دی تھی۔

ابا نے کہا تھا اب اسے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔اس نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا تو گھر کے کاموں ۔اور نماز قرات کے ساتھ ساتھ تفسیر نے اسے مصروف کر دیا تھا۔

لیکن اب اسے اس سب کی بھی عادت ہو رہی تھی۔اب وہ اکیلے پن کا شکار بھی نہیں تھی۔

سعد اسے لینے آیا تھا۔ایک ہفتے بعد فرحت لالا چھوڑ گئے تھے، امی جی مطمئن تھیں، اب اسکا دل لگ رہا تھا۔ابا جی اسے تفسیر پر دماغ دوڑاتے دیکھ کر مطمئن تھے، اپنی بچی کے بارے میں جو خدشات تھے وہ اپنی جگہ تھے ایک اطمینان تھا کہ وہ مایوس نہیں ہو گی ۔کیونکہ اسکے ہاتھ ایک عالمگیر کتاب کا علم اور اسکی لگن وہ تھما چکے تھے۔

جسکا والی اللہ تھا وہ کبھی مایوس نہیں ہو سکتا ۔

یہی انھیں یقین تھا۔

مگر پھر بھی وہ مکمل بے فکر نہیں تھے۔

کوئی بھی ماں باپ مکمل بے فکر نہیں ہو سکتے ۔

~~~~~~~~

دن گزرتے جا رہے تھے۔ہمایوں کو شمشاد خان کی بھرپور مدد حاصل تھی۔انھوں نے درخواست کی تھی کہ اس معاملے کا علم انکی پوتی کو کسی صورت نہ ہو سکے۔اور یہ بات بھی ہمایوں پر واضح ہو چکی تھی کہ شیریں خانم دنیا سے ناراض اور بیزار قسم ہستی تھی۔جسکے نہ تو زیادہ دوست تھے نا کوئی اور قریبی رشتہ۔انکے گھریلو حالات کا اسے علم نہیں تھا نا شمشاد خان ذکر کرتے تھے۔مگر وہ ایک دفعہ مزید دن میں انکے گھر گیا تھا۔شمشاد خان نے ملاقات کے لیے پھر سے وہی وقت منتخب کیا تھا جس وقت وہ گھر نہیں ہوتی تھی۔

اس دن کسی کام سے وہ نکلا تو رستے میں اے سی(اسسٹنٹ کمشنر) دفتر سے ہوتے ہوئے جانے کا سوچا۔کافی دن ہو گئے تھے اس لڑکی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔دانیہ کی وجہ سے وہ ایک دو دفعہ اس سے ملنے اسکی رہائش گاہ گیا تھا۔

اس نوجوان لڑکی کو وہ جانتا تھا لیکن ایس پی صاحب کو دیکھ کر وہ عجیب سی اکسائٹمنٹ کا شکار ہوئی تھی۔

"آپ اتنے بزی انسان ہیں ۔یہ میری پہلی پوسٹنگ ہے جہاں کے ایس پی صاحب اتنے مصروف اور ان اویل ایبل ہوتے ہیں ۔آپ تو کہیں غائب ہو گئے ہیں" وہ عجیب جتانے والے انداز میں بولی تھی۔ایک اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے بات کرنی نہیں چاہیے تھی ۔وہ بھی ایک ایس پی سے۔جو علاقے کا ہیڈ ہوتا ہے۔

" یہ شہر کوئی چھوٹا تو نہیں ۔آبادی زیادہ ہے وسائل کم، اسی لیے ذمہ داری بڑی ہے اور وقت کم، اگر ہم بھی فارغ رہنے لگے تو آپ کے لیے مسائل ہو جائیں گے" وہ اپنے مخصوص انداز میں ٹھنڈی ٹھار چوٹ کر گیا تھا۔

"پتہ نہیں کہاں کہاں مصروف ہوتے ہیں، ہم تو کئی دفعہ کال بھی کر چکے لیکن آپ ملے ہی نہیں۔سٹاف نے یہی کہا ایس پی صاحب بزی ہیں۔لیکن فکر نہیں اب تو جلد آپکی مصروفیات کا ریکارڈ یہاں ہی ہوا کرے گا؛، "

ہمایوں نے ابرو اٹھا کر سوالیہ اسے دیکھا۔وہ پولیس سروس کو بیوروکریسی اور سول ایڈمنسٹریشن کے انڈر کیے جانے کے حوالے سے چلنے والے ریفرنس کی بات کر رہی تھی۔

(ہوں ،بلی کے خواب میں چھیچھڑے)وہ مسکرا کر سوچ رہا تھا۔اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ نے بھی ہمایوں کا انداز محسوس کیا تھا۔اسی لیے فوری وضاحت دی۔

" شیریں خانم،آپکی مخالف وکیل دوست ہیں میری، تو اسی نے بتایا تھا اس سب کا۔اور ٹیلی ویژن پر بھی نیوز آتی رہتی ہے"

ہمایوں نے سنا، اور دھیان سے سنا پھر مسکرایا۔اگلے کے ذہن میں سنسناہٹ پیدا کرنے والی مسکراہٹ ۔

"فکر نہ کریں ۔اور خوامخواہ کے وہمات سے نکل آئیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا "اس نے خوش فہمی کی جگہ وہمات کا لفظ استعمال کیا تھا ۔

پرجوش نوجوان اے سی نے معنی خیز مسکراہٹ سے اسے دیکھا ۔

"ابھی پولیس فورس میں اتنا دم ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی کی اجازت کی محتاج نہیں، سول ایڈمنسٹریٹر اپنا کام کر لیں بہت ہے، پولیس فورس کی نگرانی کیا کریں گے" وہ استہزاء سے کہتا وہاں سے رخصت ہونے لگا تھا۔

"یہ تو ہے لیکن اس دفعہ جو وکلاء کی ٹیم اس تحریک کا حصہ ہے وہ سب ہی پاگل ہیں اور انھیں عدلیہ کی حمایت بھی حاصل ہے"

ہمایوں نے مڑ کر اسے دیکھا پھر مسکرایا جیسے ناک سے مکھی اڑائی ہو۔اور بنا کچھ بولے وہاں سے چلا گیا۔

"گھاگھ چالاک انسان، کیسے ٹینشن فری نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔خیر شیریں خانم بھی شیرنی ہے "

اسسٹنٹ کمشنر کو اسکا انداز زیادہ پسند نہیں آیا تھا۔

جبکہ اپنی گاڑی میں واپس دفتر جاتے ہوئے ہمایوں ایک الگ ڈھنگ پر سوچ رہا تھا۔

"تو شیریں بی بی تم بھی مینوپلیٹ کی جا رہی ہو۔"

اب اسے سمجھ آئی تھی اس چھٹانک بھر کی لڑکی میں اتنی ڈھٹائی کہاں سے آئی تھی کہ معاشرے ،خاندان اور دادا کی پرواہ کیے بغیر وہ ڈٹی ہوئی تھی۔

جب اسکے غلط صحیح کاموں کی داد دینے والے اسکے آس پاس تھے تو وہ کیسے درست سمت میں سوچ سکتی تھی۔

شیریں بی بی تم جو بہت ہوشیار بنتی ہو، حقیقت یہ ہے کہ کچھ اور لوگ اپنی اپنی بندوقیں تمہارے کندھوں پر رکھے ہوئے ہیں "

" poor stubborn woman "

ہمایوں نے ہمدردی سے سوچا تھا۔

معاملہ بہت حد تک اسکے سامنے واضح ہو گیا تھا۔

~~~~~~~~


اگلے دن اسکی پیشی تھی ۔اور اس نے ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا ۔

شیریں خانم اکیلی تھی۔جس پل وہ اپنی گاڑی لاک کر کے ہائی کورٹ کی پارکنگ سے نکلی تھی ہمایوں کچھ فاصلے پر دوسری لین میں اپنی گاڑی میں بیٹھا بغور اسے دیکھ رہا تھا۔کچھ دیر وہ اسکی پراعتماد مگر عجلت بھری چال کو دیکھتا رہا جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو وہ اپنا لباس درست کرتا وہاں سے نکلا تھا۔آج وہ گھر سے پھر حاطب کا نیا نکور شلوار سوٹ پہن کر خصوصی تیاری کے ساتھ آیا تھا۔ریفرنس تو اپنی جگہ تھا مگر آج بیرسٹر سلمان نے اسے یقین دلایا تھا اسکی انفرادی حیثیت میں اس سب سے جان چھوٹ جائے گی۔

انھیں شیریں کے کیس کی تیاری کے متعلق کچھ قانونی کاغذات کی کاپیز درکار تھیں ۔ہمایوں نے جب شمشاد خان کو بتایا کچھ دیر تک تو وہ ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔حتی کہ ہمایوں کو لگا وہ دعوے کے برعکس ایسی کوئی مدد نہیں کریں گے۔یہ ٹھیک بھی تھا وہ کیسے اپنی پوتی کی محنت کی تفصیلات اسکے مخالف وکیل کو دے سکتے تھے۔

مگر اگلے دن انھوں نے اسے ایک لفافہ بھجوایا تھا ۔ساتھ تحریری نوٹ تھا۔

"میں امید کرتا ہوں آپ کیس جیت جائیں گے اور یہ بات میرے اور آپکے درمیان دفن ہو جائے گی۔یہ بات شیریں خانم کے علم میں نہ آئے، ورنہ وہ ٹوٹ جائے گا، اسکا زندگی پر سے بھروسہ ختم ہو جائے گا" ہمایوں دلچسپی سے کتنی ہی دیر وہ نوٹ دیکھتا رہا پھر دراز میں ڈال دیا۔

"اگر انھیں اتنی طوفانی محبت ہے اپنی پوتی سے تو میری مدد کیوں کر رہے ہیں "

وہ استہزاء سے زیر لب بول رہا تھا ۔کچھ کہانیاں بہت دلچسپ ہوتی ہیں ۔کچھ واقعات سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں ۔مگر وہ نہیں سمجھ سکتا تھا۔وہ کسی کا باپ نہیں تھا. اس نے کسی بن ماں کی بچی کو نہیں پالا تھا ۔

یا شاید حقیقت اسکے برعکس تھی۔

وہ سمجھ گیا تھا۔

اس نے شیریں خانم کی گاڑی کے قریب آ کر احتیاط سے ایک سرسری سی نگاہ آس پاس دوڑائی ۔پھر بہت ہی آرام سے اس نے دو تین بار کی کوشش کے بعد اسکی گاڑی کا دروازہ کھول لیا تھا۔اسکے لیے یہ معمولی سی بات تھی۔

کچھ دیر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا رہا۔

احتیاط سے گاڑی کا انٹیرئیر دیکھا۔چلانے والی ہی کی طرح وائلڈ اور بد لحاظ سی بو محسوس ہوئی تھی یا شاید یہ اسکا وہم تھا۔اس نے ڈیش بورڈ کے کیبنٹ کو کھنگالا۔. اور گاڑی میں موجود سامان کو احتیاط سے جانچا۔

چند پل بعد وہ حیران رہ گیا۔یکدم اسکے ہاتھوں کی حرکت میں تیزی آ گئی تھی۔جو اس نے سوچا تھا شاید وہ اب غیر ضروری تھا۔

جو اسے وہاں ملا تھا وہ خاص تھا۔

"ہمم پاگل جنونی عورت۔آج یہ تمہاری آخری پیشی ہے۔" ہمایوں نے اطمینان سے سوچا۔بعض اوقات انسان وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو عام حالات میں کرنے کا وہ سوچتا بھی نہیں ۔

مگر اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمایوں جاوید خان کے پاس سو نہیں ہزار طریقے تھے ۔اور ان میں سے کسی کے بھی استعمال سے وہ جھجکتا نہیں تھا۔

" اس سے زیادہ تمہیں ڈھیل نہیں دی جا سکتی۔لیڈی لائیر"

وہ اطمینان سے بڑبڑاتا باہر نکلا ۔گاڑی واپس اسی طریقے سے لاک کی۔آس پاس ایک نگاہ دوڑائی اور ہائی کورٹ کی عمارت کے اندر داخل ہو گیا۔


~~~~~~~~

شام کی نارنجی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ایک عقیقے کی تقریب میں جانے کے لیے دیوان کی تیاری آخری مراحل میں تھی۔پرفیوم کا چھڑکاؤ کر کے خود کو آخری دفعہ آئینے میں دیکھا۔اور ایک مسکان اسکے عنابی ہونٹوں پر پھیل گئی۔مونچھوں کو ایک ادا سے تاؤ دے کر اس نے سامنے ایک خوبصورت ڈبیا سے کف لنکس اٹھائے اور موبائل-فون جیب میں ڈال کر چلتے چلتے لنکس سیٹ کرنے لگا۔

دیوان اپنے کمرے سے نکلا، کف لنکس لگاتے اسکا دھیان سامنے سے آتی عروہ پر نہیں جا سکا تھا۔وہ جو اپنی ہی دھن میں موبائل فون پر ٹائپنگ کررہی تھی زور دار انداز میں اسکے کندھے سے ٹکرائی۔

سر پر چوٹ پڑی تو حواس بحال ہوئے سامنے دیوان چہرے پر ناگواری کے بل سجائے اسے گھور رہا تھا۔

"آنکھیں کھول لو" اسکا انداز بہت کاٹ دار تھا۔گو کہ عروہ اس سے بہت چھوٹی تھی لیکن اسکی ناپسندیدگی کی وجہ بس عروہ کی حالیہ حرکت تھی ۔

"میری اگر بند تھیں تو آپ کھول کر رکھ سکتے تھے"

حساب بے باک کرنا عروہ کو بھی خوب آتا تھا ۔

"میری آنکھیں تو ہمیشہ سے کھلی ہوئی ہیں ۔تمہارے باپ بھائیوں کی اب کھلی ہیں" اگر وہ گستاخانہ انداز میں بولی تھی تو دیوان کو کس کا لحاظ تھا ۔اب تک اس معاملے میں چپ رہا تھا تو نجانے یہ عروہ کے کس اچھے عمل کا نتیجہ تھا ورنہ اسکا ردعمل بہت خراب ہو سکتا تھا۔ہوتا بھی اگر ابا جی ایفا گل کی قربانی دے کر نیا قصہ نہ کھول دیتے ۔

عروہ نے بمشکل خو دکو چپ رکھا تھا۔

"افسوس کیا جا سکتا ہے تم جیسی لڑکیوں پر" وہ اسے ملامت بھری ہمدرد نگاہوں سے تکتے بولے تھے۔

"دیوان لالا میں آپکی بہت عزت کرتی ہوں، اسی لیے بہتر ہے آپ اپنے کام سے کام رکھیں ۔میرے گاڈ فادر نہ بنیں تو بہتر ہے"

پھولی ناک کے ساتھ وہ غصہ ضبط کرتی سخت انداز میں بولی تھی۔عموماً وہ ایسا کرتی نہ تھی۔آجکل اسکا سب کے ساتھ یہی رویہ تھا۔

"مجھے تم سے اور تمہاری کسی بات سے کوئی سروکار نہیں ۔اور میں تمہارا گاڈ فادر نہیں بنا، کیونکہ مجھے لگا ابھی تمہارے وہ غیرت مند بھائی اور باپ زندہ ہیں ۔اگر نہ ہوتے تو ضرور تم دیکھتیں کہ تمہارا کیا انجام ہوتا"

عروہ نے لب بھینچ کر انکا وارن کرتا چہرہ دیکھا ۔

"میری فکر نہ کریں ۔اور مجھ جیسی لڑکیوں سے ہمدردی کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔بلکہ آپکو تو خوش ہونا چاہیے اسی بہانے آپکی بہن کا کام اچھا سیٹ ہو گیا"

اسے ایفا گل سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن ابھی دیوان کا منھ اسی طرح بند کرایا جا سکتا تھا۔اور توقع کے مطابق انکے چہرے کے تاثرات بدلے تھے۔


"میری بہن کا تم سے کوئی مقابلہ نہیں ۔کم از کم اس نے اپنا گھر تو بنایا ہوا ہے۔عزت سے ٹھہری ہوئی ہے وہ۔فکر تو مجھے تمہاری ہے۔" وہ طنزیہ بولے ۔عروہ نے زہر آلود نظروں سے انھیں دیکھا تھا ۔

مگر خود کو مزید کچھ کہنے سے باز رکھا ۔

بڑے ابا نے اتفاقی طور پر دونوں بچوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے، خراب تاثرات کے ساتھ ایک دوسرے کو گھورتے دیکھا تھا۔ایک پل میں انھیں صورتحال کا ادراک ہوا ۔

"دیوان" انکا لہجہ سخت تھا۔دیوان سدید خان نے مڑ کر باپ کو دیکھا پھر سر جھٹک کر مزید کچھ کہنے سے باز رہا۔

"تم جاؤ جہاں جا رہے تھے" بڑے ابا اب ان دونوں کے قریب تھے۔

"آ جاؤ بچی" انھوں نے سخت تاثرات کے ساتھ صحن سے مرکزی دروازے کی جانب جاتے جوان بیٹے کی پشت دیکھی ۔

" کس لیے آئی تھیں تم؟" انھوں نے اس کی اور دیوان کی گفتگو کے متعلق سوال نہیں کیا تھا۔یہ قطعی غیر ضروری تھا۔عروہ گل سر جھٹک کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑے ابا کی جانب متوجہ ہوئی۔چاہ کر بھی وہ بہت دیر تک دیوان لالا کا انداز اور گفتگو بھلا نہ پا رہی تھی ۔باتیں بھلائی جا سکتی تھیں ۔لہجے اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں ۔

چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی سزا سالوں تک ملتی ہے۔اور ملتی ہی رہتی ہے۔بعض غلطیاں لوگ کبھی فراموش نہیں کرتے ۔وہ انکا حوالہ دے کر تکلیف پہنچا دیتے ہیں ۔

وہ نا چاہتے ہوئے بھی یہ تکلیف محسوس کر رہی تھی۔

حاطب جاوید نے اس رات اسے کہا تھا۔

یہ دن ہی تم کبھی فراموش نہیں کر پاؤ گی۔میں تم پر رات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔

اور اسے لگا وہ غلط کہہ رہا تھا۔سب ٹھیک ہو گیا ہے۔اس نے سب غلط ہونے سے بچا لیا ہے۔

یہ اسکی غلط فہمی تھی۔خام خیالی تھی۔

~~~~~~~

شیریں کو شہر کی حدود سے باہر ہی شام ہو گئی تھی ۔مقدمے کی کاروائی آج نہایت طویل تھی ۔نجانے بیرسٹر صاحب کو کونسے الحام ہوئے تھے اسکے ہر اعتراض کا انھوں نے قانونی جواب دیا تھا۔ایک پل کو شیریں انکا منھ دیکھتی رہ گئی۔وہ لاجواب سی ہو گئی تھی۔

بیرسٹر سلمان شاہ کو وہ جانتی تھی وہ اسکے فیورٹ ہوا کرتے تھے۔ایک تجربہ کار اور ماہر وکیل تھے مگر اتنی یادداشت اتنی اتھنٹیسٹی نجانے کہاں سے آ گئی تھی کہ انھوں نے اسکے ہر اعتراض کا جواب فوری دیا۔شیریں بے یقینی سے انھیں دیکھتی رہ گئی ۔ سفید شلوار سوٹ میں مطمئن سے ہمایوں جاوید خان کو اس نے پھٹی نگاہوں سے دیکھا تھا۔ہوش تب آیا جب جج صاحب نے کہا تھا کہ اس نے ایک قابل افسر کا اتنا وقت ضائع کیا ہے جو کہ ایک نہایت نامناسب بات ہے. نجانے کس چیز کی عجلت تھی انھوں نے پٹیشن کا فیصلہ سنا کر اسے غیر حقیقی اور مبالغہ آمیز قرار دیا تھا۔

شیریں خانم غصے سے لال پیلی ہوتی رہی۔وہ سب اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔اصولا اسے کیس کے آخر میں اپنے مخالف وکیل کو کیس جیتنے کی مبارک باد دینی تھی۔مگر وہ یہ بنیادی اصول فراموش کر بیٹھی ۔کیس ہارنے کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار تھی۔ایسے کیسز کو طول دینے پر نتیجہ افسر کی جیت ہی ہوتی ہے ۔مگر اس طرح کی ہار کا اسے گمان تک نہ تھا ۔وہ تو چاروں شانے چت کرنے آئی تھی۔پوری تیاری کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئی تھی ۔پھر وہ کیسے چت کر دی گئی ۔

غم و غصے سے اسکا حال برا تھا۔غصے سے زیادہ بے یقینی تھی۔

وہ شہر کی حدود میں داخل ہونے کو تھی جب پولیس کا ناکہ لگا نظر آیا اکا دکا گاڑیاں روک کر پولیس اہلکار چیکنگ کر رہے تھے۔ایک اہلکار نے اسکی گاڑی کو رکنے کا اشارہ دیا تھا۔

مگر وہ اس قدر بے زار تھی کہ نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ وہاں سے بناء رکے گزر گئی تھی۔

"دو چار کلو میٹر پیچھا کریں گے اور بس" اس نے بیزاری سے سوچا۔

مگر ایک پولیس کی گاڑی اسکے پیچھے آ رہی تھی۔مسلسل سائرن بجاتی گاڑی کو دیکھ کر اس نے سپیڈ مزید بڑھا دی۔خیال تھا وہ نکل جائے گی ۔مگر ایک جھٹکا اسے لگا تھا دوسرا لگنے کے لیے تیار تھا ۔آج اسکا برا دن تھا ۔شہری حدود سے پہلے ہی پولیس کی دو گاڑیاں سڑک کے درمیان کھڑی جیسے اسی کی منتظر تھیں ۔

راستہ بند تھا اور بندوقیں سیدھی کیے جیسے وہ لوگ اسی کے منتظر تھے۔اسکی گاڑی قریب آتے ہی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔

اسے گاڑی سے یوں باہر نکالا گیا جیسے کوئی خطرناک دہشت گرد گرفتار کیا گیا ہو۔ 

"ہاتھ اوپر اٹھائیں، اوپر" تین فٹ کے فاصلے پر اسکے گرد ایک گھیرا بنا لیا گیا تھا۔بندوقوں کی نالیوں کا رخ اسکے سر کی طرف تھا۔وہ ایک حفیف سی بے وقوفی کرتی اور کئی گولیوں اسکے سر میں اتار دی جاتیں ۔

"لیکن میرا قصور کیا ہے؟"

وہ انجان بنی پوچھ رہی تھی۔اگر وہ ناکے پر رکی نہیں تھی تو یہ کوئی اتنا بڑا جرم تو نہیں سمجھا جاتا تھا۔اور نہ ہی اس نے ایسا پہلی مرتبہ کیا تھا۔

"گھٹنوں کے بل"

ایک پولیس اہلکار نے جو شاید باقیوں سے سینئر تھا اسے تنبیہ کی ۔وہ سب نہایت چوکس نظر آتے تھے۔چند پولیس اہلکار اسکی گاڑی کو گھیرے میں لے چکے تھے ۔

"جہنم میں جاؤ تم لوگ" گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ اوپر کیے اس نے انھیں جہنم کا راستہ دکھایا۔ساتھ ہی ایک بندوق کی سرد نال اسکے سر سے ٹکرائی تھی۔تکلیف کا احساس اندر تک سرایت کر گیا۔

چند پل وہ جان لیوا خاموشی کو برقرار رکھ کر ساری کاروائی دیکھتی رہی۔

"آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ناکہ انٹیلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر لگایا گیا تھا اور آپ وہاں سے بھاگیں"

اسکے بار بار قصور دریافت کرنے پر پولیس اہلکار نے اسکی معلومات میں اضافہ فرمایا ۔

وہ یکدم جھنجھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"بھئی روک رہے تھے مگر مجھے تو پتہ نہیں چلا کہ مجھے روکا ہو کسی نے "اس نے دیدہ دلیری سے کہا۔

" پولیس اہلکاروں کو آپ بے وقوف خیال کرتی ہیں"

افسر کا لہجہ طنزیہ تھا۔

"یہ کہاں سے حاصل کی ہے آپ نے؟ اور اسکا لائسنس رکھتی ہیں آپ؟"اتنے میں وہ اسکی گلاک 17 کو اسکی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا، جسے پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال دیا گیا تھا۔یکدم شیریں کے چہرے کے سخت تاثرات ڈھیلے ہو گئے تھے۔سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اسے صورتحال کا ادراک ہوا۔


" مجھے اپنی حفاظت کے لیے اسے رکھنا پڑتا ہے"اسکا جواب سوال کے مقابلے میں گندم اور چنے جیسا تھا۔

"میں آپ سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ اسکا لائسنس رکھتی ہیں؟" پولیس افسر اپنی بات دہراتے ہوئے بولا ۔وہ ڈھٹائی سے خاموش رہی ۔


"بہتر ہے آپ اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لیں اور گھٹنوں کے بل نیچے زمین پر بیٹھ جائیں "

اسکی ڈھٹائی بھری خاموشی پر پولیس افسر پھر سے اسکی گاڑی چیک کروا رہا تھا۔

گاڑی کے کاغذات اسکے پاس موجود تھے۔لیکن گن کا لائسنس اسکے پاس نہیں تھا۔پولیس افسر کی ہدایات کے برعکس وہ ڈھٹائی سے سینے پر ہاتھ باندھے پیشانی پر بل ڈالے ان سب اہلکاروں کو دیکھ رہی تھی۔جس طرح آج اسکا جیتا ہوا کیس وہ ہاری تھی اگر اسے گولی مار دی جاتی تو بھی وہ اسی ڈھٹائی سے کھا لیتی اور ملال تک نہ کرتی ۔

"یہ کہاں سے آیا آپکے پاس؟" اتنا تو اسے پتہ ہی تھا کہ گن کا لائسنس اسکے پاس نہیں اگر تھا بھی تو اس وقت نہیں تھا۔

"تم لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہو ایسی چیزیں کہاں کہاں سے آتی ہیں"

وہ زہریلے سپاٹ لہجے میں بولی۔

اسکی بحث طویل ہوتی جا رہی تھی۔نہ وہ اسے چھوڑ رہے تھے نہ تھانے لے جا رہے تھے۔آس پاس سے گزرتی گاڑیاں اور ان میں موجود لوگ حیرت سے اس کاروائی کو مڑ مڑ کر دیکھتے ۔

" اب کیا جانے دیں گے آپ مجھے؟ "اس نے شام کے ڈھلتے سائے دھیان میں رکھتے ان سے پوچھا تھا۔

" آپ اپنے پاس موجود اسلحہ کے کاغذات دکھائیں اور یہاں سے چلی جائیں، ورنہ آپکو ہمارے ساتھ تھانے جانا ہو گا۔آپ نے پولیس ناکہ پر نہ رک کر ایک جرم کیا ہے اور غیر قانونی اسلحہ بناء لائسنس کے رکھ کر دوسرا سنگین جرم بھی کیا ہے۔جس کے لیے آپکو جواب دینا ہو گا"

"ٹھیک ہے آپ لے چلیں مجھے تھانے "

اسکا انداز دو ٹوک اور فیصلہ کن تھا۔یہاں ویران سڑک پر تماشہ بننے سے تھانے جانا بہتر ہی تھا، گو کہ اس صورت میں جو پیچیدگیاں ہو سکتی تھیں، وہ سب بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں تھیں ۔مگر وہ اب اس پر یا اسکی کسی بات پر دھیان نہیں دے رہے تھے۔یہ بلی اور کبوتر کا کھیل پچیس تیس منٹ تک جاری رہا تھا۔پھر دوسری کئی گاڑیوں ہی کی طرح ایک گاڑی انکی طرف دیکھتی آگے بڑھتی گئی تھی۔خاص بات یہ تھی کہ کوئی سو میٹر آگے جانے کے بعد ریورس گئر پر گاڑی واپس آئی تو اہلکار اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر یکدم ہوشیار باش قسم کے سیلیوٹ جھاڑے گئے۔

اور گاڑی سے نکلنے والی شخصیت کو دیکھ کر شیریں کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔

(او فضول ترین دن بس اسی کی کمی تھی)

وہ جھنجھلا کر رخ موڑ گئی۔

"کیا ہوا ہے؟ جگہ جگہ ناکے کیوں لگائے گئے ہیں"

ہمایوں جاوید خان کو دیکھ کر وہ سب الرٹ ہو چکے تھے۔

"سر ان بی بی کی گاڑی سے غیر لائسنس یافتہ اسلحہ برآمد ہوا ہے، اور یہ پچھلے ناکے پر پولیس کو چکمہ دے کر بھاگ گئیں تھیں"

"کیا بکواس ہے یہ، انکی گاڑی سے کونسا اسلحہ برآمد ہو سکتا ہے؟ "ہمایوں نے واضح حیرت کا اظہار کیا۔ساتھ ملا جلا ناگواری کا تاثر تھا۔

"سر جی سچ کہہ رہے ہیں ۔یہ ہتھیار برآمد ہوا ہے انکی گاڑی سے"

آفیسر اپنی چستی دکھانے کے ساتھ ساتھ اس معاملے کی سنگینیت سے بھی آگاہ کر رہا تھا۔ہمایوں نے کن انکھیوں سے اس ننھی ننھی آنکھوں والی بدتمیز لڑکی کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے پولیس والوں کے نرغے میں لیفٹ رائٹ کر رہی تھی۔چہرے پر بے بسی کی کیفیت غصے کے ساتھ مل کر عجیب خوفناک سا تاثر پیدا کر رہی تھی۔اور وہ ہمایوں کو مکمل نظر انداز کر رہی تھی۔

ہمایوں نے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکی۔

"پیچھے ہٹ جائیں ۔میں جانتا ہوں انھیں یہ ایک ذمہ دار سیٹیزن ہیں"

اسکے گرد دائرہ بنائے، بندوقیں تانے کھڑے اہلکاروں کو اس نے اشارہ کیا تھا وہ سب ناسمجھی سے الٹے قدموں پیچھے پیچھے ہو گئے۔

"آپ فکر مند نہ ہوں مس ایڈووکیٹ"

ہمایوں نے اسے تسلی دی۔جواباََ شیریں نے ناک یوں چڑھائی جیسے کوئی ناگوار بات سن لی ہو۔

عادت کے برعکس وہ خاموش تھی۔

~~~~~~~


سفیان کی قسمت بہت اچھی تھی ویزہ سبمٹ ہوا اور دو تین ہفتوں میں ہی اسکا ویزہ سٹیمپ ہو کر بھی آ گیا تھا۔

اب اسکی تیاریاں عروج پر تھیں ۔جوں جوں اسکے جانے کے دن قریب آ رہے تھے عروہ کی اداسی بڑھتی جا رہی تھی۔حویلی میں دیوان اور پھر باقی گھر والوں کے ساتھ بحث میں جو کوفت اس نے اٹھائی تھی اسکا اثر بھی زائل ہوتا جا رہا تھا۔

"ڈیڈ چاہتے ہیں تم وہاں جاؤ اور پھر فوراً مجھے بلا لو۔اور میں بھی یہی چاہتی ہوں"

پرکشش، ستواں ناک کچھ پھولی ہوئی تھی۔جو بھی تھا وہ اسکے جانے سے کوئی خاص خوش نہیں تھی۔اگر مجبوری نہ ہوتی تو سفیان کو کبھی یوں سب کچھ چھوڑ کر جانے کی اجازت بھی نہ دیتی۔

جبکہ سفیان کے تاثرات ملے جلے تھے۔وہ کچھ پرجوش بھی تھا اور فکر مند بھی ۔

" فوراً کیسے بلا سکتا ہوں ۔کچھ وقت تو لگے گا سیٹل ہونے میں، جاب تلاش کرنے میں"

عروہ کی تشفی کے لیے ضروری تھا کہ وہ اسکی اداسی کے جواب میں سوا تر اداسی کا مظاہرہ کرتا ۔

"مجھے نہیں علم، بس جو بھی کرنا لیکن جلدی کرنا"

اسکے حدت بھرے جذبات ایک پل سکون نہ لینے دے رہے تھے۔اسے تو یہ تصور ہی سوہان روح لگ رہا تھا کہ وہ اب کچھ عرصہ سفیان کو نہیں دیکھ سکے گی ۔

"تمہیں لگتا ہے میں تمہارے بغیر وہاں خوشی سے رہوں گا؟"

وہ بھی اس سے دوری کے احساس سے پریشان تھا۔کچھ عرصہ پہلے تک اسکی اداسی بھی اسی طرح کی ہوتی تھی، جب جب عروہ ویک اینڈز پر حویلی رہنے جاتی، سفیان کو ہمیشہ ناگوار لگتا تھا۔پھر جب اسکی شادی کا مسئلہ کھڑا ہوا، تب سفیان مجید کو محسوس ہوا اسکی سانسیں رک جائیں گی۔اگر عروہ اسکی زندگی سے نکل گئی تو وہ زندہ نہیں رہ پائے گا۔

اسی احساس نے اسے اپنی جان لینے پر مجبور کر دیا تھا۔

اسکی خود کشی کی کوشش کوئی ڈرامہ نہیں تھی۔وہ حقیقت تھی۔

بناء کچھ سوچے سمجھے اس نے اپنی جان لینا چاہی تھی مگر یہ اسکی قسمت تھی یا اسکی ماں کی دعائیں کہ وہ مر نہیں سکا۔وہ آج بھی زندہ تھا۔

عروہ اسے دیکھنے بھاگی بھاگی آئی تھی۔اور اس پر اسے اپنے بھائی کے تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا۔اسکی ماں نے اسکے سامنے اپنے بوڑھے مشقت زدہ ہاتھ جوڑے تھے۔سب پریشان تھے ۔فکر مند تھے۔اور دہشت زدہ تھے۔

وہ اسے کھونا افورڈ نہیں کر سکتی تھیں ۔انھوں نے اس پر سالوں کی محبت، محنت اور توجہ لگائی تھی تب کہیں جا کر وہ اس قابل ہو سکا تھا۔

وہ کیسے برداشت کر لیتیں، انکی ساری زندگی کی کمائی، انکے بڑھاپے کی واحد امید کسی لڑکی کی عشق میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔

ماں، بہن کا روتا بلکتا چہرہ جب کئی دن آنکھوں کے سامنے رہا تو محبت کا زور آور سیلاب کمزور پڑنے لگا تھا۔

سب کچھ کسی سیراب کی مانند لگنے لگا تھا۔

شاید وہ عروہ کو بھول کر اس زخم کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھ جاتا ۔لیکن پھر عروہ نے وہ کر دیا تھا جسکا ہونا تو کیا سوچنا بھی آسان نہیں تھا۔

اس نے معاشرے کی، رسم و رواج کی، اور خاندان کی تمام بیڑیاں توڑ دی تھیں

وہ تن تنہا تمام مشکلات کا سامنہ کر کے اسکے پاس واپس لوٹ آئی تھی۔اور پھر سفیان مجید خلا میں لٹکا رہ گیا۔

اسے سمجھ نہیں آتی تھی اس پر عروہ کا حق زیادہ ہے یا اسکی ماں کا؟

مگر وہ اس دائرے میں گھومتا جا رہا تھا ۔منزل نجانے کہاں تھی؟ اور شاید تھی بھی یا نہیں ۔


اسے علم نہیں تھا۔کتنی ہی دیر عروہ اسکے کندھے پر سر رکھے اسکی موجودگی محسوس کرتی رہی۔اسکی اداسی بحق تھی۔

سفیان بھی سوچوں کے سمندر میں غوطے لگاتا رہا۔

نجانے عروہ کیا کیا کہہ رہی تھی وہ توجہ سے سن نہیں سکا۔

"سفی ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا"

یکدم وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے گھٹنوں کے بل اسکے سامنے آ بیٹھی تھی۔

سفیان نے سوالیہ اسے دیکھا ۔

"میں نے بہت مشکل اور بہت قربانیوں سے تمہیں حاصل کیا ہے۔تم صرف میرے ہو۔صرف اور صرف میرے"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی زور دے کر بول رہی تھی۔

" چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جاؤاور جتنے بھی کامیاب ہو جاؤ یہ بات کبھی مت بھولنا کہ تم عروہ گل کے ہو" وہ بہت سنجیدگی سے اسے یہ باور کروا رہی تھی ۔

" اور مجھے تم میں کسی قسم کی کوئی شراکت کبھی قبول نہیں ہو گی، کیونکہ میرے پاس اب تمہارے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

میں اپنی ساری کشتیاں جلا چکی ہوں "

سفیان بھی براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔جہاں سختی تھی، امید تھی، اداسی تھی اور لو دیتے جذبات تھے۔

وہ لڑکی کبھی کبھی اسے ڈرا دیتی تھی۔اسے لگتا تھا کہ عروہ گل ایک لاوہ ہے جو باقی سب کی طرح کسی دن اسے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔

" میری محبت پر یقین رکھو عروہ، جیسے آج تک تم نے مجھ پر یقین رکھا ہے۔ہمیشہ ویسے ہی۔

میں کبھی تمہیں مایوس نہیں کرونگا"

غیر ارادی طور پر بس وہ بولتا جا رہا تھا۔

اس وقت عروہ گل کے جذبات کا جواب اسکے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا۔وہ اسے مایوس کر بھی نہیں سکتا تھا۔

وہ ڈرنے لگا تھا ۔

~~~~~~~~


شیرزمان ثمر مبارک کے پاس آئے تھے۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد انھوں نے باقاعدہ موضوع پر آنا مناسب سمجھا۔


" میں شیریں کے متعلق بات کرنے آیا تھا"

انکی بہن خاموش ہو گئی ۔؛ جنھیں شیریں کے متعلق معاملات میں بولنے کی نہ اجازت تھی نہ ضرورت۔

انکے شیریں کے ساتھ تعلقات ایسے ہی تھے۔اسکا ہونا یا نہ ہونا انکے لیے معنی نہیں رکھتا تھا۔

"کیجیے بھائی" ثمر مبارک کے کان کھڑے ہو گئے ۔کسی خیر کی بات کی تو انھیں امید نہیں تھی۔پچھلے چند ہفتوں میں انھیں شدید سبکی کا سامنہ کرنا پڑا تھا۔

"آجکل شہر بھر میں کافی شہرت حاصل کر رکھی ہے اس نے۔گوکہ میں اسکے خلاف نہیں ہوں۔یہ ایک وکیل کا حق ہے اور انسان ایسے ہی تجربات سے سیکھتا ہے" انکی تمہید طویل ہو رہی تھی۔ثمر مبارک نے پہلو بدلا۔

"شیر اسد کو پسند نہیں یہ سب۔وہ کل بھی کہہ رہا تھا۔کہ اس طرح جہاں شیریں کے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں مخالفین بھی بڑھ رہے ہیں ۔اور ایک وکیل کو یہ بات نقصان پہنچا سکتی ہے"

" بھائی میں خود بھی اسکے حق میں نہیں ہوں ۔شیر اسد بلکل ٹھیک کہتا ہے، لیکن آپکو پتہ ہے کہ بابا جان نے اسے کتنی ڈھیل دے رکھی ہے۔وہ ہر سنگین کام کو بھی بس ایک ایڈونچر سمجھ کر کرتی ہے "

وہ کہہ نہیں سکے کہ شیریں پر انکا بس نہیں چلتا تھا ورنہ وہ اسے جان سے مار دیتے ۔

" بہر حال جو بھی ہے ہر دو رائے کے مطابق اب بہتر یہی ہے کہ شیریں اس سے سٹیپ آؤٹ کرے اور اپنے کیسز پر فوکس کرے "

وہ کس معاملے سے سٹیپ آؤٹ کرنے کا کہہ رہے تھے اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

"میں بابا جان سے بات کرونگا۔وہ ہی سمجھائیں گے اسے"

اسکے علاوہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔

" میں چاہتا ہوں نئے سال کے شروع میں شیر اسد کی شادی ہو جائے، آپ لوگ آپس میں مشورہ کر لیں، بہتر ہے مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ ہو جائے"

انھیں بیٹے کی شادی کرنا تھی۔وہ اسکے لیے سالوں انتظار نہیں کر سکتے تھے۔اگر شیریں نہیں تو کوئی اور سہی۔انھیں رشتوں کی کمی تو نہیں تھی۔

~~~~~~~~~

"کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں یہ گن آپکی ہی ہے یا آپ پر پلانٹ کی جا رہی ہے؟"

وہ بھرپور کنسرن دکھا رہا تھا۔

"میری ہی ہے"

دو ٹوک سپاٹ سا جواب ۔گویا شیریں خانم کو کسی کنسرن کی ضرورت نہیں تھی۔

"آدھے گھنٹے سے تماشہ لگا کر رکھا ہوا ہے۔ہتھیار وہ بھی ذاتی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھنا سنت ہے ۔اب جبکہ وزارت داخلہ لائسنس ایشو نہیں کر رہی تو ہم لوگ کیا کریں ۔؟ اپنی جان خطرے میں ڈال دیں؟"

یکدم وہ پھٹ پڑی تھی۔ہمایوں نے اسکی پوری بات سنی پھر گھور کر اس افسر کو دیکھا ۔


" یہ کوئی طریقہ نہیں ہے ایس آئی صاحب ۔شریف سیدھی سادھی خواتین کو یوں سر راہ روکنے کا"

ہمایوں جو کر رہا تھا وہ منافقت کے اول درجے میں رکھا جا سکتا تھا۔لیکن اس وقت کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں تھا۔

یا شاید یہ منافقت نہیں تھی یہ کچھ اور تھا۔

"شیریں صاحبہ اگر آپکو کوئی سکیورٹی ایشو تھا تو آپ پولیس سکیورٹی کے لیے درخواست دے سکتی تھیں ۔قانون تو خیر قانون ہے اگر آپ جیسے مہذب لوگ ہی اسکی پاسداری نہیں کریں گے تو پھر عوام کیسے کرے گی" وہ اس وقت قانون کا سب سے بڑا حامی تھا۔

"مجھے قانون کی پاسداری کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ۔. آپ مجھے تھانے لے کر جائیں اور جو کاروائی بنتی ہے میں اسے عدالت میں فیس کروں گی پھر صحیح اور غلط کا فیصلہ ہو جائے گا"

" ارے مس ایڈووکیٹ، عدالتوں میں آپ وکیلوں سے کون جیت سکتا ہے بھلا۔اور آپ فکر نہیں کریں۔انکی طرف سے میں معذرت کرتا ہوں آپ سے"

ہمایوں نے برجستگی سے کہا تھا۔

" ٹھیک ہے جو قانونی کارروائی ہے وہ تم لوگ کرو، انکی گاڑی اور یہ گن تحویل میں لے لو، لیکن شیریں صاحبہ تھانے نہیں جائیں گی۔وہ صبح آپ سے مل لیں گی"

وہ اب شیریں کی طرف ہو گیا تھا۔شیریں نے بے یقینی سے اسے دیکھا ۔

(یہ اتنا ہمدرد کیوں بن رہا ہے میرا؟)


دوسری جانب ہمایوں سے بھی اسکی حیرت چھپی نہیں رہ سکی تھی۔مگر وہ چپ رہا۔

" لیکن سر جی اگر یہ کل نہ آئیں تو؟ "

ایس آئی کا لہجہ شدید کنفیوژن لیے ہوئے تھا۔اگر چھوڑ دیتا تو بھی ہمایوں کے عتاب کا نشانہ بن سکتا تھا نہ چھوڑتا تو بھی اسکا فوری نشانہ بنتا۔


"میں گارنٹی دے رہا ہوں انکی۔

ٹھیک ہے نا شیریں صاحبہ؟"

سول لباس میں ملبوس ہمایوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسکی ضمانت دی ۔جسکے ساتھ آج تک کی اسکی سخت ترین مخالفت چلی آ رہی تھی۔وہ جو اسے ہر ممکن نقصان پہنچا چکی تھی۔شیریں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔بس وہ پرسوچ انداز میں یہ سب دیکھ رہی تھی ۔پہلی دفعہ تھا کہ صورتحال اسکے قابو سے بلکل باہر تھی۔اسکا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔

"ٹھیک ہے یہ لوگ ابھی آپکو گاڑی نہیں دیں گے، آپ کو گاڑی کے لیے کل صبح تھانے جانا ہو گا"

وہ اسکی طرف مڑا۔

"لیکن گاڑی کے پیپرز ہیں میرے پاس، اسے رکھنے کا کیا جواز ہے؟"

وہ جھنجھلائی۔مطلب گاڑی کے بغیر گھر جاتی تو بھی دادا کو پتہ چل ہی جانا تھا۔


"دیکھیں میں آپکو سمجھ سکتا ہوں لیکن کچھ قانونی کارروائی تو کرنا مجبوری ہے انکی، میں آپکو چھوڑ دیتا ہوں "

" مجھے آپکی سمجھ بوجھ یا مدد کی ضرورت نہیں" یکدم وہ بے زاری سے بولی۔

" میں آپکی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں شیریں خانم صاحبہ"

ہمایوں نے جتایا تھا۔اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔

پھر اپنا بیگ لیتی سٹرک پر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔یہاں اس مقام پر تو کوئی پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں مل سکتی تھی۔


" آپ اعتبار کر سکتی ہیں مجھ پر"

پر اعتماد انداز اور چہرے کا اطمینان ۔شیریں خانم نے اس خدائی مددگار کو دیکھا ۔جسے نجانے اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی تھی

"مجھے آپ پر اعتبار کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

اسکا جواب بناء کسی لگی لپٹی کے تھا۔ہمایوں جاوید خان ایک پل کو لاجواب سا ہو گیا۔

"میں آپکی ضمانت دے رہا ہوں ۔ایک الیجڈ کرمنل ایکٹ کے باوجود آپکو یہاں سے لے کر جا رہا ہوں اور آپ کہہ رہی ہیں آپکو اعتبار کرنے کی ضرورت نہیں ہے"

شیریں نے اسے دیکھا پھر اسکے احسانوں کی لسٹ کو۔

"الیجڈ کرمنل ایکٹ، اب اگر آپ مجھ پر احسان کر کے میرا اتنا بڑا کرمنل ایکٹ نظر انداز کر رہے ہیں تو بہتر ہے میری چیزیں مجھے واپس دلوائیں تا کہ مجھے آپکے مزید کسی احسان کی ضرورت نہ رہے۔"

اسکے پیشانی کے بل یکدم غائب ہو گئے تھے، مطلب وہ لڑکی اتنی ہڑ مغز نہیں تھی جتنی بنتی تھی۔

" آپ مجھ سے فیور مانگ رہی ہیں؟ "

ہمایوں نے صرف کنفرم کرنا چاہا تھا، شہر بھر میں اسکی سب سے بڑی مخالف اسی سے فیور مانگ رہی تھی، آج نجانے کون کونسے معجزے ہونے باقی تھے۔

شیریں نے صرف اثبات میں سر ہلایا تھا۔مگر اسکا انداز پر اعتماد تھا۔جیسے اسے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہ ہو۔

(یہ حیرت کی بات ہے، اور شاید میں تمہیں اسکے بعد ہر فیور دے بھی دیتا، لیکم اب یہ میری بھی ضد ہے، تمہیں میرے ہی ساتھ جانا ہو گا)

ہمایوں نے دل میں دہرایا پھر نفی میں سر ہلایا۔

"کیا مطلب؟" مطلب واضح تھا مگر اس نے بے یقینی سے پوچھا۔اسے لگا تھا اسکے جھکنے پر یہ شخص مان جائیے گا۔

"میری طرف سے انکار سمجھیں"

ہمایوں نے اسکی طرف سے رخ موڑ لیا تھا ۔

"لیکن کیوں" بے ساختہ شیریں کے منھ سے پھسلا۔

"کیونکہ آپ ہی تو کہتی ہیں میں اس شہر کا کوتوال ہوں ۔اگر میں قانون پر عمل نہیں کرونگا تو آپ جیسی خود سر عوام سے قوانین پر عمل درآمد کیسے کرواؤں گا"

وہ یکدم" مہذب" اور سیدھی سادھی سے خود سر ہو گئی تھی۔

جبکہ وہ قانون کا سب سے بڑا سفیر نظر آتا تھا ۔شیریں نے شدید ناگواری سے اسے دیکھا ۔ہمایوں پولیس کے اہلکاروں کو ہدایات دینے لگا۔دو اہلکار اسکی گاڑی کو کوئی تیسری بار چیک کر رہے تھے۔

(میں جانتا ہوں تم جیسی پاگل عورت کبھی بھی مجھ سے لفٹ نہیں لے گی۔) ہمایوں کو یقین ہو چلا تھا وہ مزید چند گھنٹے تھانے میں گزار لے گی مگر اس سے لفٹ نہیں لے گی۔

مگر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ اپنا بیگ کاندھے پر لٹکائے اسکی گاڑی کی پچھلی طرف کا دروازہ کھول کر بیٹھ چکی تھی۔ایک منٹ میں کتنے روپ بدلتے تھے اس عورت کے؟

(مائی فٹ، مجھے ڈرائیور سمجھا ہوا ہے اس نے)

ہمایوں اسکے انداز سے یہی اندازہ لگا پایا۔جو نہایت بے نیازی بلکہ بے زاری سے گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔اور اب اسکے گاڑی چلانے کی منتظر تھی

~~~~~~~


"میں آپکو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں"

گاڑی سٹارٹ ہوئی۔اور پھر ہمایوں نے دیکھا وہ سپاٹ انداز میں باہر دیکھے جا رہی تھی۔

(مجھے محسوس ہوتا ہے اس لڑکی کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے)

اسکا انداز گفتگو، شخصیت اور ہر ہر ادا کچھ بھی نارمل نہیں تھا۔

وہ قابل توجہ تھی نہ قابل ہمدردی ۔

مگر اسکی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جو متضاد تھا۔

اسکی شخصیت اس قدر بولڈ تھی کہ سامنے والا چاہ کر بھی اگنور نہ کر پائے ۔ایک طرف وہ زہریلی تھی اور دوسری طرف اسکا ہر برائی کے خلاف اعلان جنگ تھا۔یہ خواتین کی کوئی انوکھی قسم تھی۔جس میں توازن تھا اور کہیں بھی توازن نہیں تھا۔


جو حیرت کی بات تھی وہ یہ تھی کہ شیریں خانم کو کسی مرد کی ہمدردی یا توجہ کی ضرورت نہیں تھی۔اسے کسی کی بھی توجہ یا ہمدردی کی ضرورت نہیں تھی۔وہ سیلف سفیشنٹ تھی۔خود کفیل، خود مختار ۔جبکہ اسکی شخصیت کا ایک دوسرا رخ بھی تھا۔ایک نازک اور حساس رخ۔جسے وہ ظاہر نہ ہونے دیتی تھی۔

اسی چیز نے ہمایوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔

"میرے خیال میں ہمارے درمیان جو بھی ہوا اسے ایک برا واقعہ سمجھ کر بھول جانا چاہیے"

اسکا اشارہ شیریں کے پٹیشن دائر کرنے کی جانب ہی تھا۔مگر اس عورت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

"آپ فکر نہ کریں کل آپکی گاڑی واپس کر دی جائے گی۔آپ نے میری جانے انجانے میں کی گئی غلطیاں بھی معاف نہیں کیں مگر میں ایسا نہیں کرونگا۔"

شیریں نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا۔مگر وہ بے زار ہو رہی تھی اور اسے بےزار کرنے میں بھی ہمایوں بھرپور لطف اندوز ہو رہا تھا۔

"میں اپنے اختیار میں جو ہو سکا آپکے لیے کرونگا "

وہ اشارتاََ جتا رہا تھا۔اسکی پیشانی کے بل مزید گہرے ہو رہے تھے ۔

" مجھے آپکی فیورز کی کبھی بھی ضرورت نہیں تھی نہ اب ہے"

(تمہاری فیورز میرے جوتے کی نوک پر)

دل میں وہ تلملا کر رہ گئی تھی۔

"میں آپکی اس بات کی بھی قدر کرتا ہوں "

وہ زخموں پر نمک چھڑک رہا تھا ۔

"اگر آپ یہ کیس جیت جاتیں تو شاید میرا ردعمل کچھ اور ہوتا، لیکن اب جبکہ میں اپنی بے گناہی ثابت کر چکا ہوں تو آپکے سارے جرم معاف"

وہ اتنا چپکو اور ڈھیٹ نہیں تھا جتنا اس وقت بنا ہوا تھا۔

"اقبال کالونی کے مرکزی گیٹ پر اتار دیں آگے میں چل کر چلی جاؤں گی"


ہمایوں اسکے کہنے پر بے ساختہ مسکرایا۔پھر کن انکھیوں سے بیک ویو میں اسکا چہرہ دیکھا ۔

" بہتر ۔"

شکر ہے اس نے اس معاملے میں بحث نہیں کی۔

جس پل وہ اسکی بتائی گئی جگہ پر رکا۔شیریں نے ایک پل ضائع کیے بغیر گاڑی سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ۔

" مس شیریں "

ہمایوں نے اسے پکارا تھا۔وہ فرنٹ سیٹ کی طرف جھکا شیشہ نیچے کیے اسے دیکھ رہا تھا۔

یہ شخص اسے لاتعداد ناموں سے پکارتا تھا۔

لیڈی لائیر

مس ایڈووکیٹ

شیریں صاحبہ

شیریں خانم

اور اب مس شیریں ۔

"جی فرمائیے، شکریہ ادا کر چکی ہوں آپکا"

اس نے جتایا تھا۔

" کب؟ "ہمایوں کے منھ سے بے ساختہ نکلا۔

"اچھا خیر چھوڑیں ان تکلفات کی ضرورت نہیں ۔اپنے دادا کو میرا سلام دیجیے گا۔"

ہمایوں نے اسے نظروں کے حصار میں رکھے کہا۔شیریں نے دھیان نہیں دیا۔

"اور ہاں ایک اور بات"

وہ اپنی جگہ رک گئی لیکن اس دفعہ مڑی نہیں ۔

"آپ ایک اچھی خاتون ہیں ۔میں پبلک ویلفیئر کے لیے آپکے کنسرن اور حسیاسیت کی قدر کرتا ہوں "

یہ کومپلیمنٹ تھا یا کیا مگر شیریں کو زہر کی طرح کاٹ گیا تھا۔

(اللہ مجھے صبر دے) مٹھیاں بھینچ کر اس نے اللہ سے صبر مانگا۔

اور لمبے لمبے ڈھگ بھرتی وہاں سے چلی گئی ۔ہمایوں کا قہقہ بے ساختہ تھا۔

" پلان پوری طرح کامیاب نہیں ہوا مگر فیل بھی نہیں ہوا "

وہ مطمئن تھا اس نے اپنے شہر کی حدود سے باہر شیریں کو روکنے کا سوچا تھا۔تا کہ اس پر براہ راست شک نہ جائے مگر شیریں نے اس ناکے پر نہ رک کر اسے موقع دیا تھا کہ وہ وہاں ہی ہیرو بن جائے ۔

یا شاید اسے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ سب ہمایوں کی پلاننگ تھی۔

جبکہ ایسا ہونا مشکل ہی تھا۔کیونکہ وہ اپنے غیر قانونی اسلحہ کے ساتھ ساتھ ناکے پر نہ رکنے کے باعث یوں خوار ہوئی تھی۔

کچھ تو اسے سبق سکھانا بنتا ہی تھا۔

کیا یاد کرو گی بدتمیز عورت تم نے کس کے ساتھ الجھ کر اپنا دماغ مزید خراب کیا ہے"

چلو بھئی ہمایوں یہ چیپٹر تو کلوز ہوا۔

وہ اطمینان سے سوچتا وہاں سے چلا گیا۔قدرت کے راز کوئی نہیں جانتا وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ چیپٹر کلوز نہیں ہوا بلکہ بہت سے نئے چیپٹرز کھول گیا تھا۔

ابھی وہ جیت کے نشے میں سرشار تھا۔اسے یہی محسوس ہو رہا تھا ساری فتح اسکے حصے میں آ گئی ہے۔

یہ جانے بغیر کہ کچھ تو نقصان اسے بھی بھرنا ہو گا۔

دوسری جانب وہ سرپھری تو فائدے نقصان سے سرے سے لاپرواہ تھی۔

~~~~~~~~

جب دل تمہارا اپنا ہو

پر باتیں ساری اسکی ہوں

جب سانسیں تمہاری اپنی ہوں

اور خوشبو آتی اسکی ہو

جب حد درجہ مصروف ہو تم

وہ یاد اچانک آۓ تو

جب آنکھیں نیند سے بوجھل ہوں

تم پاس اسے ہی پاٶ تو

پھر خود کو دھوکہ مت دینا

اور اس سے جا کر کہ دینا

اس دل کو محبت ھے تم سے

موبائل فون کی سکرین پر موجود جھلک کسی اور کی نہیں بلکہ انکی زوجہ محترمہ کی تھی۔یہ تصویر پرانی تھی شاید انکی شادی کی جس میں شرکت کے لیے ایفا گل نے ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔گو کہ اس تصویر میں آیت بھی اسکے ساتھ تھی۔لیکن حاطب نے کراپ کر کے صرف ایفا گل کو رکھا تھا۔

یہاں کی روٹین جسمانی لحاظ سے تو نارمل تھی مگر ذہنی آزمائش عروج پر تھی۔اوپر سے آرچری سے لے کر پروفیشنل سنائپنگ کی مشقیں ۔یہ سب بہت تھکا دینے والا تھا۔پوری دنیا کی افواج سے 140 کے قریب بہترین نشانے باز یہاں کورس کے لیے دعوت دئیے گئے تھے۔ان میں افسران بھی تھے اور سولجرز بھی ۔مگر یہاں مقابلہ رینک کا نہیں ۔نشانے بازی کا تھا۔

اور نشانے بازی میں اگر کوئی چیز انکے کام آ سکتی تھی تو وہ فوکس تھا۔

لیکن حاطب ابھی تک کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔یہاں آنے کے لیے جتنی اکسائٹمنٹ تھی اسکے برعکس وہ یہاں پر خوش نہیں تھے۔

بے نام سی بے چینی اور اداسی نے انکے دل میں گھر کر لیا تھا۔ڈپریشن سے نکلنے کی جتنی کوششیں انھوں نے کی تھی وہ یکدم بے کار ہو رہی تھیں ۔

وہ پھر سے اسی مردہ دلی کا شکار ہو رہے تھے جو اوائل دنوں میں انھیں محسوس ہوتی تھی۔

لیکن انکے اندر کہیں ایک خواہش تھی کہ وہ اس کیفیت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لیں ۔

پھر سے کامیابیاں سمیٹیں ۔پھر سے خوش ہو سکیں ۔

اپنی کامیابیوں کا جشن منا سکیں ۔

مگر اب یہ سب بیکار لگتا تھا۔

کورس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا جا رہا تھا۔

اور ایفا گل کی یاد انھیں ستانے لگی تھی۔انھیں اس سے دھواں دار محبت نہیں ہوئی تھی لیکن اسکا ہنستا مسکراتا معصوم سا چہرہ ہر جگہ انکی آنکھوں کے سامنے آنے لگتا۔

شروع شروع میں وہ چونک جاتے تھے پھر خود کو ڈپٹ کر چپ کرا دیا۔

لیکن کوئی ان دیکھی طاقت تھی جو انھیں بار بار اسی کی جانب متوجہ کرتی تھی۔

"تمہارے پاس کونسی سپرچوئل پاورز (روحانی طاقتیں) ہیں کہ میں خود کو تمہارے خیال سے آزاد نہیں کرا پا رہا۔"

وہ بے بس ہو کر سوچ رہے تھے۔وہ ایفا گل یا کسی دوسرے کے سامنے ان کیفیات کو آشکار نہیں کر سکتے تھے۔اسکے لیے جس ہمت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں نہیں تھی۔وہ ان سے دور نہیں تھی چاہتے تو دس سیکنڈ میں کال ملاتے اور اسے دیکھ لیتے، اس سے بات کر لیتے۔یہ جو دوریاں تھیں وہ انکے ذہن نے پیدا کر رکھی تھیں ۔ایفا گل ہی نہیں وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے بھی دور ہو چکے تھے۔

ڈپریشن نے انکی ابھی پوری طرح جان نہیں چھوڑی تھی ۔

یہ وہ سچ تھا جو کوئی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

"کیا مجھے تم سے محبت ہو رہی ہے،؟"

انھوں نے اسکی تصویر سے پوچھا ۔جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔

اسکی مسکان شرمیلی تھی، وہاں بے باکی نہیں تھی۔

"اگر ایسا ہے تو پھر ایسا کیوں ہے؟ میں تم سے محبت نہیں کرنا چاہتا"

وہ خود سے بھی خفا تھے۔وہ سب سے خفا تھے۔اپنے دل سے خفا تھے جو انکے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔

انھیں یہ سب نہیں سوچنا چاہیے تھا۔مگر خود پر کوئی اختیار کہاں تھا سارے اختیار وہ کھوتے جا رہے تھے۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dil E Marjan Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil E Marjan written by Farishty Ch. Dil E Marjan by Farishty Ch is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment