Shama E Ulfat By Ayn Khan New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 24 July 2024

Shama E Ulfat By Ayn Khan New Complete Romantic Novel

Shama E Ulfat By Ayn Khan New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Shama E Ulfat By Ayn Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name: Shama E Ulfat

Writer Name: Ayn Khan

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

جانم سائیں ،،،،،،،تمہیں خدا پوچھے اور اس مسٹر چیپس بنانے والے،،،،،،،،سوری سوری لکھنے والے کو کو جہنم ریسد کرے،،،،،،،،،،اب یہ بتاؤ آگے کیا کرنے کا اردہ ہے اگزمز کے بعد،،،،،،،،،،،،حورین اپنے موبائل سے اپنی دوست کو وائس میسج کرنے کے بعد اپنے ٹیب پر ویڈیو دیکھنے میں مصروف ہو گئی ۔

مائے کیمنی جانم جواب تو دو،،،،،،،میسج پڑھنے کے بعد بھی جواب نہیں دیتی،،،،،،،واٹیساپ پر اس نے میسج دیکھ لیا تھا پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو،،،،،،،،حورین جو بور ہو رہی تھی دوبارہ اسے میسج کرتے ہوئے بڑبڑائی ۔

میں ناراض ہو گئی ہوں تم سے،،،،،،،حورین میسج پر میسسج کر رہی تھی پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا ۔

تمہارے پیچھے کتے پڑھے،،،،،،،،تمہیں کوئی کوجی شکل والا ہیرو ملے جو تم پر ظلم،،،، ،،نہیں نہیں کوجی والا ہو ظلم نہ کرے،،،،،،،حورین بولتے ہوئے فون کو پٹکا ۔

ایک بھی میسج کا جواب نہیں دے رہی پرسوں اگزم ہے اور میں ہوں کے بور ہو رہی ہوں پڑھنے کو میرا دل نہیں اور کوئی مجھے سنتا نہیں،،،،،،،،حورین بیڈ پر لیٹی پنکھے کو گھورتے ہوئے پھر سے اسے ایک وائس میسج کرتے ہوئے آنکھوں کو موندھ گئی ۔

تب ہی اس کا موبائل پر ٹن کی آواز آئی جس پر حورین نے موبائل فون کی سکرین پر دوسری طرف کا جواب دیکھا ۔

ایم سوری رانگ نمبر،،،،،،،،میں کوئی ہیرؤین نہیں ہوں اور نہ ہی آپ کی دوست ہوں،،،، ،،،دوسری طرف کا جواب پڑھ کر حورین مسکرا دی ۔

تو آپ جو بھی کوئی ہیں بات کر لے مجھ سے کیوں کے میں بہت بور رہی رہیں ہوں،،،،،،،،،،حورین نے شرارت سے لکھتے ہوئے موبائل کو دیکھا پندرہ پھر بیس منٹ گزر گئے دوسری طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

جو کوئی بھی ہو تم نے مسٹر چیپس تو پڑھا ہو گا،،،، ،،،،،،،؟

اس کے بارے میں اپنی رائیہ تو دو،،،،،،،حورین کا جو دل کیا بینا سوچے سمجھے لکھا دیا۔

کیمنہ ہے یا کمینی جو کوئی بھی ہے جواب ہی نہیں دے رہا،،،،،،،،حورین بےزاری سے بولی۔

حورین لائف بہت بور ہے کیا کیا جائے چلو کچن میں چلتے ہیں کچھ کھا پی لے،،،،،،،خود سے بولتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔

کچن سے اپنے لیے چائے بنا کر باہر نکلی تھی کے سامنے ہی صوفے پر اس کی ماما اور زریاب اس کا کزن بیٹھا ہوا تھا۔

السلام علیکم،،،،،،،،حورین نے سلام کیا اور حاجرہ کے پاس بیٹھ گئی ۔

کسی ہو حور،،،،،،،؟؟زریاب چائے پتی حورین سے بولا۔

میں تو بہت پیاری ہوں آپ سنائیں،،،،،،،،حورین خوش ہوتے ہوئے بولی ۔

میں بھی ٹھیک ہوں،،،،،،،،،زریاب اس کی بات سن کر مسکراتے ہوئے بولا پر،،،،،،حاجرہ نے اسے گھور کر دیکھا ۔

ماما کیا ہے ڈانٹنا مت اب،،،،،،،،حورین چڑھ کر بولی ۔

تم مت سدرنا،،،،،،،حاجرہ کے بولنے پر زریاب بھی مسکرا دیا ۔

ایسے نہ مجھے تم دیکھو سینے سے لگا لوں گا دل میں،،،،،،،،،حورین اپنی ماں کو بولتے ہوئے اوپر کی طرف بھاگ گئی ۔

پیچھے زریاب ہنس دیا جبکہ ہاجرہ نے اسے گھوری سے نوازا ۔

آف ماما بھی نہ سب کے سامنے بھی بےعزتی کر دیتی ہیں،،،،،،،،،حورین چائے کا سیپ لیتے ہوئے خود سے ہی بولی ۔

جب اپنا سیل دیکھا تو اس پر میسسج آیا ہوا تھا۔

میں آپ کو بتا رہا ہوں آپ کی دوست نہیں ہوں میں اسی لیے اب دوبارہ مجھے میسج مت کرنا،،،،،،،دوسری طرف سے کہنے پر حورین مسکرا دی ۔

یہ تم ہی ہو ذلیل عورت تمہیں اللہ پوچھے،،،،،،ابھی ابھی ماما سے بےعزتی کروا کر آئی ہوں،،،، ،ایک میری ماں ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر میری بےعزتی کرتی ہے اور ایک تم ہو جو دوست ہونے کے باوجود ریپلائی نہیں کرتی،،،،،،،،کاش میں تمہاری کلاس میں ہوتی تم مجھ سے سینیر نہ ہوتی تو میں تمہیں جان سے مار دہتی،،،،،،،،،،،،،،،،حورین نے ایک لمبا سا وائس میسج اسے بھیجتے ہوئے موبائل کو سائیڈ پر رکھا دیا اور خود چاۂے پینے کے بعد سونے کے لیے لیٹ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عالم شاہ جو اپنی فائل پر کام کر رہا تھا کب سے کسی کے بار بار میسج آنے پر دیکھتے ہوئے ان کو سنتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی ۔

کوئی پاگل لڑکی ہے شاید،،،،،،،،عالم شاہ نے بولتے ہوئے اسے جواب دیا ۔

پر بار بار اس کے میسج آنے کے بعد اسے پھر سے جواب دیا۔

کتنی پاگل ہے اور میں اسے جواب بھی دے رہا ہوں،،،،،،،،،بلاک بھی تو کر سکتا ہوں،،،، ،،عالم شاہ سوچ کر رہا گیا ۔

پر شاید اسے اس لڑکی کی باتوں کا مزا ا رہا تھا۔

اس کی آخری بات سنتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ موبائل کا ڈیٹا آف کرتے ہوئے اپنا کام کرنے لگا۔

پاگل لڑکی لگتی  ہے ویسے جو بھی ہے موڈ فریش کر دیا میرا اور یہ میری فائل بھی کمپلٹ ہو گئی ۔

عالم شاہ اور کسی لڑکی کے بچپنین پر ہنس رہا ہے واہ،،،،،،،،وہ ہنستے ہوئے خود سے ہی باتیں کرتے ہوئے اپنے آفس سے باہر نکل گیا ۔

سیدھا آب اپنے دوست کے پاس جا رہا تھا جو ریسٹورنٹ میں اس کا انتظار کر رہا تھا،،، کیوں کے دونوں نے ڈینر کرنا تھا۔

عالم اپنی گاڑی سے نکل کر اسے کال کرنے ہی لگا تھا کے پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

اوپسس مسٹر شاہ آپ تو بہت الرٹ ہیں،،،،،،،،کسی نے عالم کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا کے عالم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہاتھ کو پکڑا کر اپنی گن نکالتے تان لی تھی اس پر،،،،،،،،،عالم شاہ کا اس طرح دیکھ کر زیان ہنستے ہوئے بولا۔

دشمن بہت ہے یار کیا کروں،،،،،،چلو چل کر کھانا کھاتے ہیں میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا،،،،،،،،،عالم شاہ بولا تو دونوں باتیں کرتے ہوئے آندر کی طرف بڑھ گیے ۔

آج موڈ کافی فریش ہے،،،، ،،زیان عالم کا موڈ الگ ہی طرح کا محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر بولا۔

ہاں بس کسی کی باتوں نے موڈ فریش کر دیا،،،،،،،عالم میسجوں کے بارے میں سوچ کر مسکرا دیا ۔

وہ وہ کون ہے وہ،،،،،،،،،،،،زیان ہنستے ہوئے بولا۔

کوئی پاگل ہے ایسا ویسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سوچ رہے ہو،،،،،،،،،،،بس کوئی رانگ نمبر تھا بس اس کے میسج پڑھ کر موڈ فریش ہو گیا کے اس طرح کے پاگل بھی ہے دنیا میں،،،،،،،،،،،،عالم ہنستے ہوئے بولا۔

ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا اور دونوں ہنس دئے۔

صبح ضروری ڈیل ہے اور اس کے بعد ایک ماہ کا لندن کا دورہ،،،،،،،،،عالم کھانا آنے کے بعد کھاتے ہوئے اس سے بتا رہا تھا ۔

ہمممم پورا ایک ماہ اور پھر اس کے بعد ہمارا عالم بنے گا دولہا،،،،،،،،اور اس کی دلہن پیچھے پیچھے شاہ جی شاہ جی کرتے ہوئے آئے گی اور اس کا شاہ جی کہے گا جی حضور،،،،،،،،زیان ہنستے ہوئے بولا ۔

میں عالم شاہ ہوں،،،،،،،،میں کسی کی جی حضوری نہیں کرتا،،،،،،،لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں پر عالم شاہ کو خود کی ذات سے زیادہ کسی سے محبت نہیں،،،،،،،،،،سرد اور پھیکا لہجہ لیے عالم بولا تو زیان شرمندہ سا مسکرا دیا۔

آرام سے کھانا کھا یہ نہ ہو میں تمہیں بھی اُٹھا کر باہر پھینک دوں،،،،،،،،عالم شاہ کے بولنے پر زیان ہاتھ اوپر کرتے ہوئے سرنڈر کرنے کے اندز میں مسکراتے ہوئے پھر سے کھانا کھانے لگا اور ساتھ ہی دونوں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کرتا ٹراوزر اور کندھوں پر ڈوپٹہ لیے،،،،،،،،،آہستہ سے چلتے ہوئے یونیورسٹی میں داخل ہوئی تھی ۔

شایان جو اسی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا دیا ۔

ہیلو کیوٹ گرل،،،،،،آنکھوں میں گول گلاسسز اور کندھوں کی بیک سائیڈ پر بیگ ڈالے   کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے مسکرا کر بولا ۔

ماہ نور ایک بولڈ لڑکی تھی جو کم ہی کسی کو منہ لگاتی تھی شایان کے علاوہ اس کی کسی سے دوستی نہیں تھی ۔

السلام علیکم شایان،،،،،،وہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔

وعلیکم السلام،،،،،،،،چلو جلدی چلیں کلاس کے لیے دیر ہو رہی ہے،،،،،،،،شایان اس کو بولا تو دونوں کلاس کی طرف بڑھ گیے ۔

ماہ نور کیا ہوا پریشان کیوں ہو،،،،،،،،،شایان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو اسے پریشان سی لگی تھی ۔

میرے بابا نے میری،،،،،وہ ابھی بول ہی رہی تھی کے پروفیسر کلاس میں داخل ہوئے اس وجہ سے اس کی بات بھیج میں ہی رہ گئی ۔

دونوں کلاس لے کر باہر نکلے تو،،،،،،سامنے ہی دو لڑکے اور دو لڑکیاں کھڑی تھی،،،،،،وہ ان کی کلاس کی سب سے امیر اور تنگ کرنے والا گروپ تھا ۔

شایان چلو یہاں سے،،،،،،،،،ماہ نور اس کو دوسری سائیڈ پر لے کر جانے لگی تھی کے ان میں سے ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر شایان کا راستہ روک لیا ۔

کیا تکلیف ہے اب بس کر دے یہ ناٹک پورا مہینہ ہو چکا ہے اور تُو شرط جیت چکا ہے ارمان اس کا بازوں پکڑ کر اسے کھنچتے ہوئے بولا۔

چلو یہاں سے ڈیسنٹ بوائے اب بس کر دو،،،،،،،یا اس کے ساتھ بہت مزا آنے لگا ہے تمہیں،،،،،،،اب دوسری طرف سے رمین ہنستے ہوئے بولی ۔

ماہ نور شایان کا چپ کرنا اور ان سب کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔

راستہ چھوڑ دو ہمارا ہمیں جانا ہے کلاس لینے،،،،،،،،ماہ نور ان اب کو گھور کر غصے سے بولی ۔

وہ مس انا پرست بولڈ  یہ ہمارا دوست ہے تمہارا نہیں،،،،،،،،،،،،،ایک ماہ پہلے شرط لگائی تھی کے تم سے دوستی کرے گا جب تمہیں یونیورسٹی کے گیٹ پر دیکھا تھا،،،،،،،،،،شرط پوری ہو چکی ہے اور اب ہم اپنا دوست واپس لیتے ہیں،،،،،،،سمیرا ہنستے ہوئے بولی ۔

جھوٹ مت بولو سب تم لوگوں کے جھوٹ کی وجہ سے میں اپنے دوست پر اعتبار کرنا نہیں چھوڑ سکتی مجھے پورا یقین ہے شایانِ پر،،،،،،،،،،،شایان نے ماہ نور کا اعتبار خود پر دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوئی ۔

وہ اب سچ بول رہے،،،،،،،،،،تم سے دوستی تمہاری انا توڑنے کے لئے کی تھی اور یہ سب میں نے رمین کے کہنے پر کیا تھا،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر ماہ نور بس چپ سی اسے دیکھتی رہ گئی ۔

کیوں کے تمہیں بڑا مان تھا نہ خود پر میں کسی بھی اعرے غیرے کو منہ نہیں لگاتی،،،،،،،،تم نے شایان کو منہ لگا لیا اوپسسسس،،،،،،،رمین ہنس دی ۔

بہت بہت مبارک ہو مسٹر شایان شاہ تم شرط جیت گیے،،،،،،،،،ماہ نور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

ماہ نور پلیز میری بات،،،،،،،،۔

نو،،،،،،،،،،ماہ نور ہاتھ کے آشارے سے اسے سٹاپ بولتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔

شایان بس اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہ گیا،،،،،،،،۔

چل یار چیل مار ایک نہ ایک دن تو یہ کھیل ختم ہونا تھا ہو گیا،،،،،،،،چلو اب کچھ کھاتے ہیں،،،،،،،،،ارمان بولتے ہوئے پانچوں وہاں سے چلے گئے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور اور شایان کی دوستی کو ٹوٹے تین دن ہو چکے تھے،،،، ،،ماہ نور نے دوبارہ اس محاطب نہیں کیا اور شایان نے بھی نہیں۔

اس وقت وہ لائبریری میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی کے شایان کے بولنے کی آواز پیچھے سے آئی ۔

ہیلو لائبریری،،،،،،وہ جب بھی لائبریری میں داخل ہوتا اونچی آواز میں بولتا اور ماہ نور اسے گھوری سے نوازتے ہوئے ہنس دیتی ۔

اس کی آواز آنے پر ماہ نور نے اچانک ہی اس کی طرف دیکھا تھا ،،،،،،،،انداز بالکل پہلے جیسا تھا،،،،،،،،شایان کی نظر بھی اس پر گئی ۔

ماہ نور نے جلدی سے اپنا رُخ پھیر لیا،،،،،،،،اور جلدی جلدی سے نوٹس بنانے لگی ۔

ماہ نور اُٹھی تھی اور اپنے فون کے بجنے پر جلدی سے سکرن پر دیکھتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ گئی ۔

شایان نے بس اسے جاتے ہوئے دیکھتا ہی رہ گیا ۔

جس لڑکی کا دن اس کے بغیر چلتا نہیں تھا آج کتنے دن سے اس نے اسے بات تک نہیں کی،،،، ،شایان بس سوچ کر ہی رہ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

تھینک یو اللہ جی آج لاسٹ اگزم بھی ختم ہو گیا اب کروں گی آرام اور پھر ہو گی موج مستی شروع،،،،،،،،،،،،حورعین لاسٹ اگزم دے کر آئی تھی اور اب فریش ہونے کے بعد بستر میں گھس گی،،،۔

آج دو دن سے اس نے موبائل کو دیکھا نہیں تھا،،،،،،،،،،اور سو گئی جب سو کر اُٹھی تو اچانک نظر موبائل پر پڑھی ۔

دیکھوں تو صحیح میری جانو کا میسج آیا کے نہیں،،،،،،،،،،،حورعین موبائل فون کو اون کرتے ہوئے بولی،،،،،،،،،،کیوں کے موبائل بند پڑھا ہوا تھا اور چارج بھی نہیں تھا۔

تم لگو چارجنگ پر اور میں کر لوں پیٹ پوجھا،،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے باہر نکل گئی جب کھانا کھا کر واپس آئی تو موبائل اون ہو چکا تھا۔

موبائل پر پہلے میسج آیا ہوا تھا جسے دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔

آپ ایک پاگل لڑکی ہیں،،،،،،،،،عالم شاہ لندن جانے سے پہلے اسے میسج کر کے گیا تھا۔

تھینک یو سو مچ،،،،،،،،،،میں پاگل ہوں تو آپ کیا ہیں،،،،،،،،،،حورعین کمبل میں گھستے ہوئے میسج کیا،،،،،،،،جس کو دو منٹ بعد ہی دیکھا لیا گیا تھا ۔

میں انسان ہوں اور الحمد للہ بالکل ٹھیک ہوں،،،،،،،،،۔

وہ تو میں بھی ہوں،،،،،،،حورعین مسکراہٹ کے ساتھ ٹائپ کرتے ہوئے بولی ۔

لگ نہیں رہیں آپ آپ پوری کی پوری پاگل لگ رہیں ہیں،،،،،،،،عالم کے جواب پر حورعین کا منہ کھل گیا ۔

دن گزرتے گئے اور عالم اور حورعین کی دوستی ہو گئی،،،، ،،عالم  آج کل فری تھا اپنا پورا وقت حورعین کو دیتا دونوں نے ایک دوسرے کی پیچر بھی دیکھی تھی وائس میسسج ویڈیو کال اور کال پر ہر وقت بات کرتی،،،،،،،،،حورعین نے اپنی پوری دنیا عالم کو مان لیا تھا۔

شاہ جی اتنی دیر سے جواب دیا ہے اپنے نے مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی سنا آپ نے،،،،،،،،،حورعین نے فون کو اُٹھا کر بولنے کے بعد فون بند کر دیا ۔

اس نے سوچا تھا کے عالم دوبارہ کال کرے گا پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا،،،،،،،،ایسے ہی پورا دن گزر گیا حورعین بے چین سے ادھر ادھر پھرتی رہی پر کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے خود ہی اسے میسسج کیا۔

آپ بدل گیے ہیں شاہ جی کوئی اور مل گئی ہو گی آپ کو،،،،،،،،،حورعین نے نم لہجے میں بولتے ہوئے اسے میسج کیا پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملا اور نہ ہی اس کا میسج دیکھا گیا۔

حورعین نے بے چین دل کے ساتھ کہیں دفع اسے میسج کیا پھر ڈلیٹ کر دیا ،،،،،،،،اور اسی طرح روتے ہوئے اس کی رات گزر گئی کچھ ہی دن کے تعلق کو اس نے دل سے جوڑ لیا۔

صبح جب اُٹھی تو عالم کا میسج سب سے پہلے آیا ہوا تھا۔

گوڈ مارننگ نین،،،،،،،،حورعین کو دیکھ کر بہت غصہ آیا ۔

شاہ جی میں آپ سے ناراض ہوں مجھے منائے،،،،،،،،،،میسج بھیج کر منہ بنا کر بیٹھ گئی ۔

عالم شاہ اسے ہمیشہ بچوں کی طرح ٹریٹ کرتا،،،، ،،،،،،،اس کی کئیر کرتا،،،، ،حورعین اس کی بہت بری طرح سے عادی ہوتی گئی ۔

آپ مجھے نین کیوں بلاتے ہیں شاہ جی،،،،،،،،حورعین لیٹے ہوئے اس سے بات کر رہی تھی کے وہ بولی ۔

کیوں کے سب تمہیں حور بلاتے ہیں پر میرے لیے تم بس نین ہو،،،،،،،،،میں سب سے الگا ہوں،،،، ،،عالم مسکراہٹ کے بولا۔

نین میں جا رہا ہوں واپس پاکستان تو میرا نمبر بند رہے گا دو دن اسی لئے پریشان مت ہونا،،،،،،،،،،عالم بولا تو حورعین نے منہ بنا لیا ۔

شاہ جی میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی اتنے دن،،،،،،،،،،،،،حورعین نم لہجے میں بولی ۔

حورعین بچوں والی ضد مت کرو تم میری دوست ہو اچھی خود کو میرا عادی مت بناؤ،،،،،،،،،،،،عالم بولا تو اس کا لہجہ سرد تھا۔

روڈ تو مت ہوں،،،،،،،۔

ہممم پھر بات ہو گی میں آرام کرنے لگا ہوں،،،،،،،،صبح میری فلائٹ ہے عالم تحمل سے بولنے کے بعد کال بند کر چکا تھا ۔

حورعین اس کے اس انداز پر رونے والی ہو گئی اور روتے ہوئے اسے میسج کیا۔

آپ بہت برے ہیں مجھے رولاتے ہیں،،،،،،،،،،،حورعین نے بولتے ہوئے میسج کیا۔

اور اسی طرح روتے ہوئے اس کی رات گزری ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیا ہوا رہا ہے مجھے میں اتنا روڈ رہنے والا انسان کیوں اس طرح اس سے باتیں کر رہا ہوں،،،،،،،،،عالم سگریٹ پیتے ہوئے باہر کھڑکی سے دیکھ رہا تھا،،،،،،،،،جب سے وہ واپس آیا تھا اس کا موبائل آف تھا اس نے اپنا موبائل اون نہیں کیا۔

مجھے محبت. نہیں ہو سکتی وہ بھی اس پاگل لڑکی کے ساتھ،،،،،،بس مجھے اس کی باتیں دلچسپ لگتی ہیں،،،،،،عالم شاہ خود سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے خود کو جسے تسلی دے رہا تھا۔

اور پھر ایسے ہی خود سے باتیں کرتے ہوئے موبائل فون اون کیا،،،،،،تو حورعین کے کہیں میسج سامنے آئے جس میں اس نے روتے ہوئے کیے تھے ۔

شاہ جی آپ بدل گیے ہیں،،،،کوئی اور مل گئی ہو گی میں جاؤں بھاڑ میں،،،،،،،عالم شاہ نے تمام میسج سنے تھے اور پھر چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔

.

 پاگل لڑکی ،،،،،،،،،،پتہ نہیں کیوں تمہاری زبان سے شاہ جی بہت پیار لگتا ہے،،،، ،،شاہ اس کی تصویر دیکھتے ہوئے مسکرا کر خود سے بولا۔

میں اسے کسی بھی دھوکے میں نہیں رکھ سکتا،،،، ،،،،،،میں اسے سچ بتا دوں گا،،،، ،وہ کوئی بھی امید نہ پال لے،،،،،،،،،عالم شاہ اس کے تمام میسسج دیکھنے کے بعد بولا اور موبائل کو سائیڈ پر رکھا دیا،،،، ،اور کام کرنے لگا 

کچھ ہی دیر اپنا کام کر رہا تھا کے اس کے موبائل پر بیل ہوئی اس نے موبائل فون کی طرف دیکھا تو،،،،،،،،،،،تو اس کے چہرے پر عجیب سا تصور تھا،،،،،،موباٸل کو دیکھتا رہا پر کال نہیں اُٹھائی کال بند ہو گئی اور پھر میسج ایا۔

شاہ جی بول دیں ایک دفعہ نہیں کرنا چاہتے بات،،،، ،،،،،،دوبارہ اپ کو کبھی بھی تنگ نہیں کرنے والی،،،،،،،،روتے ہوئے اس کا کیا وائس میسسج عالم شاہ نے سنا تھا پر ہھر بھی لب بھیچ چپ رہا اور کوئی جواب نہیں دیا۔

دوبا کال آئی تو اس دفع اس نے کال اُٹھا لی ۔

شاہ جی کوئی اور مل گئی ہے نہ آپ کو،،،،،،،اکتا گیے ہیں مجھ سے،،،، ،،بتا دیں مجھے آپ،،،،،،،نہیں کرتی آپ کو تنگ،،،،،،،،،حورین  روتے ہوئے اس سے بولی جس پر اس نے گہرا سانس لیا۔

نین کیا ہو گیا ہے،،،،،،،،،،،،،،اس میں رونے والی کیا بات ہے،،،،،،میں بیزی تھا کام میں مجھے تنگ مت کرو سنا تم نے،،،،،،،،،عالم شاہ سرد اور حشک لہجے میں بولا۔

جھ،،،،،،،،جھوٹ،،،،،،،مت بولیں،،،،،،،مجھ سے،،،، ،اکتا گیے ہیں آپ،،،،،،،لرزتے ہوئے اٹک اٹک کر بولی ۔

فار گاڈ سیک نین،،،،،،،،،،،تم بچی نہیں ہے جو میری مجبوری نہ سمجھوں،،،،،،،،،،عالم اس دفع بھی بولا تو لہجے میں غصہ تھا۔

شاہ جی میں آپ کے بغیر نہیں رہ پاتی،،،،،،،،،اپنا تھوڑا سا وقت مجھے دے دیا کریں،،،،،،،،،بس تھوڑا سا،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اس سے بول رہی تھی ۔

اوکے دے دوں گا رونا تو بند کرو،،،،،،،رو کر مجھے پریشان مت کرو تم،،،،،،،،،۔

آئی لو یو شاہ جی مجھے آپ سے محبت ہے شاہ جی،،،،،،،،،،،میرا ایک پل بھی آپ کے بغیر مشکل ہے مجھے کبھی مت چھوڑنا،،،،،،،، نہ مجھ سے اکتانا،،،،،،،،،،،،،وہ روتے ہوئے ایک امید سے بولی ۔

لیسن حورین ،،،،،،،،،،تم صرف میری دوست ہو صرف دوست،،،،،،،،یہ بات کبھی بھی مت بھولنا،،،،،،،،،،وہ دبے دبے لہجے میں بولا اس کے لہجے میں ورنیگ تھی ۔

ج،،،،،،،،ج،،،،،جی جانتی ہوں شاہ جی پر مجھے آپ سے محبت ہو گی ہے آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی میں میرا دل بے چین ہو جاتا ہے،،،،،،،حورعین سوں سوں کرتے ہوئے بولی ۔

اس کی بات سن کر عالم شاہ ایک دفع چپ کر گیا پر پھر جو بولا اس سے حورین کی دنیا ہل گئی ۔

حورعین ،،،،،،،میری ایک بات یاد رکھنا میں پہلے سے انگیجڈ ہوں،،،،،،،،،گاؤں میں میری منگ ہے،،،،،،،،عالم شاہ بولتے ہوئے چئیر سے ٹیک لگا گیا۔

آپ جھوٹ بول رہے ہیں نہ شاہ جی میں محبت کرتی ہوں آپ سے ،،،،،،،،،،،حورعین جب بولی تو اس کی آواز میں حیرانگی تھی اسے اپنی آواز دور سے آتی محسوس ہوئی۔

نہیں بالکل بھی نہیں،،،،،،،،،ہم شادی اپنے خاندان میں ہی کرتے ہیں اور میری ایک منگ ہے،،،، ،،اور میری دلہن بھی وہی بنے گی،،،،،،،،،شاہ کی بات سن کر حورین نے خود کو بمشکل کنٹرول کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا۔

آپ،،،،،، نے،،،، ،مجھ،،،، ،ے،،،،،،،مجھے،،،، ،،،،کیوں،،،، ،،،نہیں،،،، ،،،،،نہیں،،،، ،،بتایا،،،،،،،،،،،،حورعین اٹک اٹک کر بولی ۔

تم نے کبھی پوچھا نہیں،،،،،،،،،،عالم شاہ ریلکس سے اندازہ میں بولا،،،،،،،حورعین اس کی بات سن کر سسکی تھی اور روتے ہوئے فون بند کر گئی ۔

عالم شاہ نے گہرا سانس لیا تھا۔

تم میری محبت نہیں ہو بس میری اٹریکشن تھی،،،،،،عالم شاہ سگریٹ سلگا کر گہرا کش لے کر خود سے بولا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

میں بے وقوف ہوں ماما ٹھیک کہتی ہیں،،،،،،حورعین روتے ہوئے خود سے بولی،،،،،،عالم شاہ کی بات سن کر کتنی ہی دیر ہاتھوں میں چہرا چھپا کر روتی رہی ۔

کیوں ہوئی مجھے آپ سے محبت کیوں دی مجھے اتنی کئیر اور اب مجھے کہتے ہیں میری منگ بھی ہے،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے خود سے ہی باتیں کر رہی تھی اور اسی طرح روتے ہوئے سو گئی ۔

حورین نے دو دن عالم شاہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا دوسری طرف سے بھی کوئی بات نہیں کی گئی،،،،،،،،،حورعین سارا دن الجھن زدہ سی پھرتی رہتی پھر خود ہی اکتا کر میسج کر دیا ۔

آپ کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے کوئی جئے یا مرے،،،،،،،حورعین نے نم لہجے میں بولتے ہوئے اسے وائس میسج کیا،،،،،،،اور پھر موبائل سائیڈ پر رکھ دیا۔

نین انسان بن جاؤ،،،،،،،ائیند ایسی بات مت کرنا،،،،،،،شاہ کا میسسج دیکھ کر حورعین کے چہرے پر مسکراہٹ کھل گئی ۔

شاہ جی آئی لو یو،،،،،،،،،،۔

ہم صرف دوست ہیں صرف دوست،،،،یہ بات یاد رکھنا،،،،،،،،،،عالم شاہ کا آنے والا میسج دیکھ کر حورعین کے دل کو کچھ ہوا پر ضبطِ سے آنکھوں کو بند کئے تھوڑی دیر خود کو ریلکس کرنے کی کوشش کی۔

جی،،،،،،،،جی،،،،،،،جانتی ہوں آپ میرے نہیں ہیں شاہ جی،،،،آپ کسی اور کی امانت ہیں،،،، ،حورعین خود کے آنسو کو کنٹرول کرتے ہوئے بول کر لیٹ گئی اور پھر سے کہیں آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر بے مول ہو گیے ۔

تھوڑی سا وقت دے دیا کریں شاہ جی،،،،،،،،آپ کے بغیر نہیں رہا جاتا مجھ سے،،،،۔

نین لیسن ہم دوست ہیں خود کو اذیت مت دو،،،،،،،،،میری مانگنی ہو چکی ہے یاد رکھنا یہ چیز،،،،،،،،،عالم شاہ کے بولنے پر حورعین نے اوکے کا میسج کرتے ہوئے فون سائیڈ پر رکھ دیا۔

بیل کی آواز سے دیکھا تو عالم شاہ کا میسج آیا تھا۔

گوڈ گرل،،،،،،،میسسج پڑھنے کے بعد حورعین نے فون کو پھینک دیا اور لیٹ کر پھر سے رونے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

یہاں کیوں لے کر آئے ہیں آپ مجھے،،،،،،،،،،ماہ نور سی ویو پر آئی تھی ساتھ اس کا کزن بھی تھا ۔

انکل ہماری شادی کی بات کر رہے ہیں،،،،،،،تمہارا کیا حیال ہے اس بارے میں،،،،،،،،زین سامنے بہتی لہروں کو دیکھتے ہوئے بولا ۔

آپ آپی سے محبت کرتے ہیں کیسے آپ میرے ساتھ شادی کر سکتے ہیں،،،،،،یہ ہی سوچ مجھے پریشان کر رہی ہے،،،،،،،اور ڈیڈ نے پوچھا تھا کوئی پسند ہے تمہیں اور اب تو میرے پاس کوئی آپشن بھی نہیں ہے ہاں کہنے کے علاوہ کیوں کے ایک دوست کی مدد لینا چاہتی تھی پر اس سے دوستی ہی نہیں رہی،،،،،،،،،،،،،ماہ نور عام سے اندازہ میں بولی ۔

ہممممم تو اب کیا تم میرے لیے ہاں کر دو گی،،،،،،،،،،،،،زین اس کی طرف رُخ کرتے ہوئے بولا ۔

آپ اور آپی اپنے حق کے لیے کیوں نہیں لڑتے ڈیڈ سے کیوں ان کو نہیں بتا دیتے آپ دونوں،،،،،،،،،،وہ ابھی بول رہی تھی کے زین نے اس کی بات بھیچ میں کاٹ دی ۔

انکل نے مجھے تمہارے بارے میں پوچھا تھا اور میں ان کو انکار نہیں کر سکتا کیونکہ کے بہت سے احسان ہیں ان کے مجھ پر،،،،،،،،،،،،زین کے بولنے پر ماہ نور نے غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔

تو آپ ڈیڈ کی محبت میں مجھے اور آپی کی محبت کو قربان کر دیں گے،،،،،،،،،،آپ جانتے ہیں آپ میرے لیے میرے بھائیوں کی طرح ہیں،،،،،،،،وہ لب کاٹتے ہوئے نم لہجے میں بولی ۔

جانتا ہوں پر انکل چاہتے ہیں میں تم سے شادی کروں اور میں انکار نہیں کر سکتا اور تم انکار تب کر سکتی ہو جب،،،،،،،،،،،تمہاری زندگی میں کوئی اور ہو،،،،،،،،،،،،،،اور ایسا کوئی بھی نہیں ہے تمہاری لائف میں،،،،،،،،،َزین نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

میں انکار کر دوں گی پھر آپ کو آپی کے لیے سٹنڈ لینا ہو گا،،،،،،،،،،،،،ماہ نور کی بات سن کر زین نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔

کیسے،،،،،،،،،وہ آئبر اُٹھا کر بولا۔

وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں میں سنبھال لوں گی آپ بس آپی کے ساتھ شادی کی فکر کریں،،،،،،،،،وہ مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔

دور کھڑے شایان نے اس کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھی تھی اور ہاتھ میں پکڑا شیشے کا گلاس چکنا چور ہو گیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور نے ثانیہ کو بلایا،،،،،،،تھا ایک کام سے اور اب وہ اس سے ملا کر خوش تھی کیونکہ اس نے کہا تھا کے وہ اس کے لیے ایک لڑکے کا انتظام کر دے گی جو جھوٹ موٹ کے لیے کچھ دن ماہ نو سے محبت کا دعوا کرے گا،،،،۔

کیوں کے اس لڑکے کو پیسوں کی ضرورت تھی اور ماہ نور کو ایک ایسے انسان کی جس کی مدد دے وہ اپنی آپی اور زین کی زندگی سوار لے،،،،،،،،ماہ نور اب ثانیہ کے بھیجے انسان کا انتظار کر رہی تھی ۔

کیوں کے وہ تسلم صاحب کو بتا چکی تھی کے وہ آنے والا ہے ۔

ڈیڈ اگر آپ نے زین بھائی کو بول دیا ہے تو کیوں نہ آپی کا اور ان کا رشتہ کر دیں،،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر تسلم صاحب نے اس کی طرف دیکھا تھا۔

فلوقت تو تمہاری پسند دیکھ لوں پھر کوئی بات ہو گی،،،، ،،،وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے کس پر ماہ نور چپ کر کے ثانیہ کو میسج کرنے لگی ۔

ثانیہ کی بچی آیا نہیں ابھی تک ہو،،، ،،،،میسج کیا تو ساتھ ہی ریپلائی آ گیا ۔

بس پانچ منٹ تک وہاں ہو گا،،،،،،،ثانیہ کا میسج پڑھنے کے بعد اوکے کرتے ہوئے اپنے فادر کے پاس بیٹھ گئی ۔

تم چلو اوپر ٹھیک سے کپڑے پہن کر آؤ تب تک میں اس لڑکے سے بات کرتا ہوں،،،،،،،،،،اور میں جب تمہیں آنے کا کہاؤ تب انا،،،،،،،،،،،،تسلم صاحب اسے بولتے ہوئے اوپر اس کے روم میں بھیج گئے کیوں کے باہر چوکیدار نے بتایا تھا کہ کوئی آیا ہے ۔

جی ڈیڈ،،،،،،،،،،ماہ نور منہ بنا کر اوپر چلی گئی۔

ہائے پتہ نہیں کون منحوس ہے اب پتہ نہیں کیا ہو گا،،،،،،،،،،،ماہ نو کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتے ہوئے بولی ۔

گھنٹہ گزر چکا تھا پر تسلم صاحب نے اسے نیچے نہیں آنے کا کہا،،،،،،،،اسی لیے پریشان بھی تھی کیونکہ کے وہ نہیں جانتی تھی کے وہ ہے کون جس کر ثانیہ نے بھیجا ہے اور اب کیا بات ہوئی ہو گی ان کے درمیان،،،۔

چلو آپ کا پیغام آیا ہے نیچے زین ڈیڈ اور تمہارا ہونے والا وہ آیا ہے،،،،،،،،،،،،زرمین آ کر اسے بولی جس پر وہ منہ بناتے ہوئے اس کے پیچھے گئی ۔

آپی کیا وہ بہت پیارا ہے،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور کے پوچھنے پر زرمین نے اسے گھوری سے نوازا،،، ۔

آپ سے پوچھ رہی ہوں کے اپ کو پیارا لگا،،،، ،،،،،،؟؟  ماہ نور پھیکا سا مسکرائی۔

بہت ہی پیارا ہے ایک دفع مل لو اپنی پسند سے،،،،،،،،اور اگر کچھ گھڑ بھڑ ہوئی نہ نور تو تمہاری جان میں اپنے ہاتھ سے لوں گی،،،،،،،،زرمین کے بولنے پر ماہ نور بس سر کو جھکا گئی بولی کچھ نہیں ۔

اندر ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی تو سامنے بیٹھے شایان کو دیکھ کر اسے صحیح معنی میں جھٹکا لگا،،،،،،،،،،،،،،جو مسکرا کر تسلم صاحب سے باتیں کر رہا تھا ۔

یہ کہاں سے آ گیا ماہ نور سلام کرتے ہوئے تسلم صاحب کے پاس بیٹھ گئی ۔

ماہ نور ہمیں تمہاری چوائس بہت اچھی لگی،،،،،،،،،تسلم صاحب ولے تو زین بھی مسکرا دیا،،،،،،،زرمین بھی وہی بیٹھی ہوئی تھی ۔

اسی لیے میں چاہتا ہوں کے تمہارا اور شایان کا اور زرمین اور زین کا نکاح پرسوں کر دوں،،،،،،،،پھر مجھے جانا ہے دو ماہ کی لندن ٹریپ کے لیے تب آنے کے بعد رخصتی تمہاری،،،،،،،،،تسلم صاحب بولے تو ماہ نور نے شایان کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا ۔

پر ڈیڈ،،،،،،،،،،ابھی َوہ بولتی ،،،۔

بالکل مناسب ہے یہ جاؤ تم  دونوں بہنیں کھانے کا انتظام کرو تب،،،، ،،،،شایان بھی کھانا کھا کر جائے گا،،،،،،،،،،تسلم صاحب زرمین کی طرف دیکھ کر بولے جو ابھی کچھ کہنے لگی تھی ۔

جی ڈیڈ وہ دونوں اُٹھا کر چلی گئی،،،، ،،ماہ نور تو خود کا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے اوپر اپنے روم کی طرف بھاگ گئی ۔

جبکہ زرمین کچن میں کھانے کا انتظام دیکھ رہی تھی کے وہاں زین آیا ۔

خوش ہو تم،،،،،،،،،؟؟ زین کے بولنے پر زرمین نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا ۔

مجھے آپ سے کوئی نکاح نہیں کرنا ڈیڈ کو بول دیں،،،،،،،،،زرمین دوسری طرف چہرہ کئے،،،، ،،،چاول ڈالتے ہوئے بولی ۔

کیوں کیا وجہ ہے جو نہیں کرنا چاہتی ایسا،،،،،،زین کو غصہ تو آیا پر پھر بھی کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔

جو انسان میری محبت کو میرے بابا کے احسان کی وجہ سے  چھوڑ سکتا ہے کل جو وہ مجھے پھر سے چھوڑ دے تو اسی احسان کی وجہ سے،،،، ،،،،زرمین کے لہجے میں دُکھ. تھا ۔

تو پھر سمجھنا یہ شادی بھی محبت نہیں احسان ہی ہے،،،،،،،،،،،زین اس کی کمر کو گھورتے ہوئے بول کر باہر نکل گیا ۔

پیچھے زرمین بس اپنے آنسو اندر ہی اندر اتار گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کیا مسئلہ ہے ماہ نور نے ثانیہ کو کال کی تو وہ آگے سے بولی ۔

کمینی عورت کس کو بھیج دیا یہاں،،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر،، ثانیہ کا قہقہہ آگے سے گھونجا۔

یار اچھا بات سن اس کا یونیورسٹی کی فیس دینی ہے اسی لئے اس کو بھیج دیا بچارا کچھ پیسے کما کر اپنا خراچہ پورا کر لے گا،،،،،،،ثانیہ ابھی بول رہی تھی کے ماہ نور غصے سے فون بند کرتے ہوئے پیر پھٹک کر نیچے کی طرف بڑھ گئی ۔

تمہیں اللہ پوچھے ثانیہ کس کے ساتھ پھنسا دیا اور اوپر سے نکاح وہ بھی پرسوں،،،،،،،،،،،ماہ نور سامنے سے آتے ہوئے شایان کو گھورتے ہوئے دل میں سوچ رہی تھی تب ہی شایاکی اور اس کی نظر ملی تو شایان نے آنکھ بچا کر اسے ایک آنکھ ماری جس سے ماہ نور کو اور بھی غصہ آیا ۔

سب نے مل کر کھانا کھایا،،،،۔

شایان بچے آپ کے والدین نہیں ہیں اسی لیے آپ کی طرف کا سارا انتظام بھی ہم دیکھ لے گئے آپ کو فکر کی ضرورت نہیں،،،،،،آپ میرے بیٹے کی طرح ہو،،،،،،،،،،تسلم صاحب بولے تو شایان مسکرا دیا۔

ماہ نور بمشکل مسکرا رہی تھی ورنہ اس کا دل کر رہا تھا شایان کو کچا کھا جائے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین بچے ادھر آؤ،،،،،،،،،،حورعین سیڑھیوں اے اتر رہی تھی کے اس کی ماما بولی ۔

کیا بات ہے بچے اس طرح کیا حال بنا رکھا ہے خود کو،،،،،،،،طبیعت ٹھیک ہے،،،،،،،،؟؟ مسسز سلمان کے بولنے پر حورعین بس مسکرا دی ۔

کچھ نہیں ماما بس طبیعت تھوڑی سی اپسٹ ہے بس،،،،،،،،،اسی لیے وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی اور آنکھوں کو بند کر لیا۔

حورعین ہم تم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں،،،، ،،،اگر تم ہاں کرو گی تو بس تمہاری منگنی کر دیں گیے شادی ابھی تمہارے بی اے کے بعد،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان کے بولنے پر حورعین جو ان کی گود میں سر رکھ کر بیٹھی تھی ان کی طرف دیکھنے لگی ۔

بیٹا زریاب اچھا لڑکا ہے،،،، ،،سلجھا ہوا نیک اور دوسری بات اپنے خاندان کا ہے،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان بول رہی تھی کے حورعین کی آنکھوں میں آنسو ا گیے ۔

ماما مجھے تھوڑا وقت دے دیں سوچنے کا پلیز،،،،،،،،،،،،،حورعین بولی تھی مسسز سلمان نے ہاں میں سر ہلایا تو حورعین مسکراتے ہوئے اپنی ماں کے ساتھ لگ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین سیدھا کمرے میں گئی اور پھر عالم شاہ کو کال کی پر اس کے اس کی کال نہیں اُٹھائی ۔

شاہ جی میری کال اُٹھائے،،،،،،،،،حورعین نے غصے سے اسے میسج کیا،،،،۔

نین مجھے تنگ مت کرو میں بیزی ہو،،،، فری ہو کر کرتا ہوں بات،،،،،عالم شاہ وائس میسج کیا۔

وہ دن اس سے اگلا دن بھی گزر گیا اس کا کوئی جواب نہیں آیا،،،،،،،،،،حورعین کا دن اور پوری رات بے چینی میں گزری اور پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہر کر اسے دربادر کال کی جو اس نے دوسری دفع کرنے پر اُٹھا لی۔

کیا بات ہے نین رو کیوں رہی ہو،،،،،،،،،عالم شاہ نے اس کی سسکی سنی تو کہا۔

شاہ جی کیا آپ مجھے اپنے نام کریں گیے میں آپ سے بے تحاشا محبت کرتی ہوں آپ کے بغیر رہنا بہت مشکل ہے،،،، ،،،،،حورعین روتے ہوئے بولی ۔

میری بات سنوں میں پہلے بھی بول چکا ہوں کے میں اور تم صرف اچھے دوست ہیں اور کچھ نہیں سنا تم نے اور اب مجھے تنگ مت کرنا،،،،،،،،،یہ بولتے ہوئے عالم شاہ نے فون رکھ دیا ۔

حورعین نے اس کی بات سن کر غصے سے فون کو گھور کہیں آنسو گرنے لگے،،،، ،پھر حورعین اُٹھی اور اپنا منہ ہاتھ دھو کر مسسز سلمان کے پاس گئی ۔

السلام علیکم ماما بابا،،،،،،،اندر سلمان صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے،،،،،،،،تب ہی وہ اندر داخل ہو کر ان کے پاس بیٹھ گئی ۔

کسی ہے میری بیٹی،،،،،،،،،حورعین کو سلمان صاحب بولے،،،،،،،،،،،۔

بابا بہترین ہوں،،،،،،وہ مسکرا دی ۔

بابا ماما آپ کو جو بہتر لگے وہ کر لیں مجھے منظور ہے،،،،،،،،،،،حورین بولی تو دونوں نے اسے ساتھ لگا لیا اور خوش ہوتے ہوئے پیار دیا ۔

میرا بچہ بہت اچھا ہے،،،،،،،مسسز سلمان بولی اور حورعین ان سے مل کر باہر نکل آئی ۔

اچھا ہے بھول ہی جاؤں میں بھی آپ کو،،،،،،،،،حورعین نے بولتے ہوئے عالم شاہ کا نمبر ڈلیٹ کر دیا اور روتے ہوئے بیڈ پر گر گئی ۔

آئی ہیٹ یو شاہ جی آئی ہیٹ یو،،،،،وہ سسکتے ہوئے خود سے بولی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عالم شاہ آج کل بہت ضروری کام میں مصروف تھا کیونکہ کے سیاست کا حصہ بھی تھا اسی اس کے بارے میں بھی کام کر رہا تھا۔

اسی لیے نہ حورعین سے بات کر رہا تھا اور ویسے بھی جب سے اس نے کہا تھا کے اسے محبت ہے عالم شاہ اسے زیادہ اگنور ہی کر رہا تھا۔

ایسے ہی کام کرتے ہوئے عالم کو دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور نہ ہی حورعین سے بات ہوئی ۔

آج فری ہوا تو اپنے لیے کوئی شاپنگ کرنے کے لیے باہر نکل گیا مال گھومتے ہوئے ہر طرف دیکھ کر اپنے لیے چیزیں پسند کر رہا تھا کے اسے مال میں حورعین نظر آئی جو کے کسی لڑکے کے ساتھ اسے دکھائی دی ۔

حورعین اور وہ دونوں ساتھ چل رہے تھے آج پہلی دفع عالم شاہ بھی حورعین کو روبرو دیکھا رہا تھا ۔

حورعین اپنی تصویر سے بھی زیادہ معصوم اور  خوبصورت تھی بڑی بڑی آنکھیں معصوم سا حسن بینا میکاپ کے،،،،، ،،پر چہرے پر حجاب کر رکھا تھا،،،، ،،،،،،،،،اور زریاب نے اسے کچھ کہا تو اس کی بات پر وہ مسکرا دی،،،،،،،،عالم شاہ کس دل چاہا زریاب کو اس سے دور کر دے ۔

پر چپ چاپ ان کے پیچھے چلا گیا جہاں دونوں اب جیولری کی دکان میں گئے ۔

وہ بھی دوسری سائیڈ پر ان سے بات سننے کے بہانے ڈیزائن دیکھنے لگا،،،، ،،،،حورعین نے اس کی آواز سن کر ادھر اُدھر دیکھا پر اپنا حیال جان کر چپ کر گئی ۔

عالم شاہ دیکھ تو ڈائزن رہا تھا پر اس کا دھیان حورعین اور زریاب کی طرف تھا ۔

حورعین تم انگجمنٹ والے دن نتھ بھی پہنو گی،،، ،مجھے بہت پسند ہے لڑکیوں پر وہ،،،،،اور میں چاہتا ہوں کے میری ہونے والی بیوی ضرور نتھ پہنے،،،،،،،زریاب کے کہنے پر حورعین پھیکا سا مسکرا دی ۔

ج،،،،،،،،،جی،،،،،،،،،ضرور پہنا لوں گی،،،،،،عالم شاہ ان کی باتیں سنتے ہوئے ضبط کی آخری حد میں تھا۔

آپ دونوں کی انگجمنٹ ہے سر،،،،،،،؟؟شاپکیپر نے زریاب سے کہا۔

ہاں جی اسی لئے تو ہم رنگ دیکھ رہے ہیں،،،،،زریاب مسکراہٹ ساتھ بولا۔

پلیز اچھی سی رنگ اور ساتھ میں جیولری بھی دکھا دیں اور نتھ ضرور ہو اس میں،،،،،،،زریاب کے بولنے پر حورین کو کچھ دن پہلے کی عالم شاہ کی بات یاد آئی ۔

شاہ جی یہ دیکھیں میں نتھ لے کر آئی ہوں اپنے کالج پارٹی میں ایک شو کرنا ہے تب پھینو گی،،،،،،،،،وہ خوش ہوتے ہوئے اسے پیچر سینڈ کرتے ہوئے بولی،،،پر ساتھ ہی عالم کا کال آ گئی ۔

نین یہ نتھ پھینک دو تم یہ نہیں پھینو گی بس،،،عالم کا انداز ضدی اور سخت تھا۔

پر یہ تو ضروری ہے اسی لیے لے کر آئی ہوں،،،، ،،۔

شو چھوڑ دو تم نہیں جاؤ گی وہاں پر یہ نہیں پھینوں گی تم ،،،،،،عالم شاہ کا ضدی انداز دیکھ کر حورین چپ کر گئی ۔

یہ والی پیاری ہے نہ حور،،،، ،،،،،،حورین خود میں ہی کھوئی ہوئی تھی کے زریاب کی آواز سن کر اس کی طرف دیکھنے لگی ۔

جی جو آپ کو اچھی لگے،،،،،،،،حورین بول کر سر کو جھکا گئی ۔

عالم شاہ کو ان کی باتیں سنتے ہوئے غصہ آ رہا تھا اسی لئے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے جلدی سے باہر نکل گیا ۔

حورین نے بھی اس کے ساتھ شاپنگ کی اور پھر گھر چلے گیے دونوں ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

میرا بچہ خوش تو ہے نہ،،،،،،،حورعین سلمان صاحب کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کے وہ اس سے بولے ۔

جی بابا میں خوش ہوں آپ لوگ خوش تو میں خوش،،،،،،،،،،،،حورعین مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔

اوکے پھر جاؤ اب آرام کر لو تھک گئی ہو گی تم،،،،،،،،،،،سلمان صاحب کے بولنے پر حورعین ان کو مل کر اوپر اپنے روم کی طرف چلی گئی ۔

روم میں آئی تو موبائل دیکھا جہاں کسی ان نون نمبر سے کال آ رہی تھی ۔

یہ کس کی کال آ رہی ہے،،،،،،،،حورعین منہ بناتے ہوئے فون اُٹھایا ۔

میرا نمبر بلاک کیوں کیا تم نے،،،،،،،،،،،؟؟دوسری طرف سے عالم شاہ سرد اور خشک لہجے میں بولا۔

حورعین اس کے لہجے سے ایک دفع خوفزدہ ہوئی پر پھر بھی خود کو مضبوط کرتے ہوئے بولی ۔

کیوں کے مجھے آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا تھا اسی لیے،،،،،،،اسی لیے ائیند مجھے کال مت کرنا آپ،،،،،،،،،،،،حورعین بھی پوری رکھائی سے بولی ۔

نین فون بند مت کرنا ورنہ میں اسی وقت تمہارے گھر پہنچ جاؤں گا،،،،،،،،،،،،عالم کا اندازہ اتنا سخت تھا کے حورعین کا ہاتھ لرزنے لگا۔

کیا مسئلہ ہے آپ کو مسٹر عالم شاہ،،،،،،،،،،آپ نے کہا تھا ہم دوست ہیں اور اب میری انگیجمٹ ہونے والی ہے تو اسی لیے میں آپ سے کوئی بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتی،،،،،،،،سنا آپ نے،،،،،،،،،،،،،،،حورعین خود کو سنبھالتے ہوئے غصے سے بولی ۔

تمہیں مجھ سے محبت تھی،،،،،،۔

بھاڑ میں گئی محبت،،،،،،،،جائے خوش رہے اپنی منگ کے ساتھ مبارک ہو آپ کو آپ کی منگ،،،،،،،،میں خوش ہوں زریاب کا ساتھ پا کر ہی،،،،،،،،،،،،حورعین دانت پیستے ہوئے بولی ۔

تم انگیجمٹ نہیں کرو گی نین،،،،،،،عالم کا لہجہ اٹل تھا۔

کیوں نہ کروں آپ ہوتے کون ہیں مجھے حکم دینے والے،،،،،،،،،،،آئیند مجھے کال یا میسج مت کرنا مسٹر عالم شاہ اور میرا نام نین نہیں حورعین ہے،،،،،،،،بولتے بولتے حورین کا لہجہ نم ہوا ۔

تم میری نین ہو میری نین بس میری،،،،،،،،،،عالم شاہ ایک جنون اور غصے سے بولا ۔

میں بس دوست تھی آپ کی آپ نے خود کہا تھا شاہ جی میں نے بہت منت کی تھی آپ سے میری محبت کو اپنا لے پر آپ نے مجھے ٹھکرا دیا اب دیکھے مجھے کسی اور کا ہوتے ہوئے،،،،،،،،،،،،حورعین نم لہجے میں بولی کہیں انسو اس دوران آنکھوں سے بہہ نکلے ۔

ہاں محبت ہے مجھے آپ سے پر اب میں اپنے لائف پارٹنر کے ساتھ خوش رہنا چاہتی ہوں اسی لیے آپ کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتی،،،،،،،،،،،،،،،،،،اسی لیے ہو سکے تو مجھے کال کر کے دوبارہ اذیت مت دینا خوش رہے اپنی منگ کے ساتھ،،،،،،،،،،نم لہجے میں بولتے ہوئے آخر میں طنزیہ بول کر فون رکھ گئی، ۔

نین،،،،،،،،،ابھی عالم بولتا حورعین نے کال بند کرتے ہی فون بھی بند کر کے سائیڈ پر پھینک دیا۔

آپ بہت برے ہیں بہت برے مجھے دُِکھ دیا مجھے بہت درد ہے اس دل میں آپ سے محبت کی سزا مل رہی ہے،،،، ،،،،،شاہ جی آپ کی نین ایک دن اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جائے گی آپ کے بغیر اور آپ کو کسی اور کے ساتھ سوچ کر ہی میرا دل بند ہونے لگتا ہے پر آپ کو کب فرق پڑھے گا،،،،،،،،،،حورین روتے ہوئے دل میں اس سے محاطب تھی ۔

آپ کو یاد بھی نہیں کروں گی اپنے رشتے کو بس وقت دوں گی بس اپنے اور زریاب کے رشتے کو،،،،،،،،،،، حورعین بولتے ہوئے لیٹ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

عالم نے اس کو کتنی دفع کال کی پر اس کا نمبر ہی بند جا رہا تھا،،،،،،،،،،،،،اسی لیے غصے سے موبائل کو سامنے دیوار پر دے مارا ۔

نین ہو تم میری بس میری نین،،،،،،،ایک ایک لفظ سامنے ٹوٹے ہوئے موبائل کو دیکھ کر بولا۔

اور پھر اپنا دوسرا موبائل نکالتے ہوئے اپنے ایک خاص آدمی کو فون کیا۔

ہاں ایک نمبر دے رہا ہوں اس کی ساری انفارمیشن چاہے مجھے ایک ایک اور اس گھر میں کون کون ہے ہر چیز کی معلومات چاہے بس مجھے،،،،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے فون رکھا گیا ۔

دیکھتا ہوں تم اور کسی کی ہو کیسے سکتی ہو۔

نین صرف اپنے شاہ کی ہے،،،،،،،تم بس میری ملکیت ہو،،،،،،،،،بس میری،،،،،،،،سگریٹ سلگا کر ہونٹوں سے لگا کر بولا،،، ،آنکھیں لال انگار ہو رہی تھی ۔

جب سے اس نے اسے زریاب کے ساتھ دیکھا تھا پاگل سا ہو گیا تھا پہلے خود اس سے محبت کو انکار کیا اور اب خود ہی اسے اس طرح سوچ رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور نے دو دن میں شایان سے ملنے کی کوشش کی پر وہ اس سے نہیں مل پا رہی تھی،،،،،،،،،،شایان آسے کوئی موقع ہی نہیں دے رہا تھا،،،،،،،،،اور نکاح کا دن بھی آ گیا تھا وہ جانتی تھی اگر وہ انکار کرے گی تو اس کے فادر اس کا نکاح زین سے کروا دیں گے اور زین اور زرمین ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔

زین اس کی پھوپھو کا بیٹا ہے تسلم صاحب کی ایک ہی بہن تھی جس کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کو انہوں نے ہی پالا تھا۔

کیونکہ کے ان کی پسند کی شادی تھی اور کچھ خاندانی رنجش کی وجہ سے وہ زین کی پیدائش کے وقت یہ ہی غم لے کر مر گئی ۔

تب سے زین کو اس کے ماموں نے ہی پالا تھا کیونکہ کے ان کی وائف کی وفات بھی دس  سال پہلے کنسر کی وجہ سے ہو چکی تھی،،،،،،،،،اسی لیے انہوں نے تینوں بچوں کو پالا ۔

وہ جانتے تھے کے ماہ نور تھوڑی لاڈلی اور لا پروہ ہے اسی لئے وہ چاہتے تھے کے ماہ نور گھر میں ہی رہے،،،،،،،،،،جبکہ اس کے برعکس زرمین سمجھ دار ہے اسی لئے ۔

پر ماہ نور جانتی تھی کہ زرمین اور زین ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور وہ نہیں چاہتی تھی کے اس کا نکاح زین سے ہو ۔

آج دونوں بہنوں کا نکاح تھا دونوں نے سفید کلر کا شرار اور شرٹ پہن رکھی تھی،،،،،،،سر پر ڈوپٹہ اور مناسب سا میکاپ پھر بھی انتہائی خوبصورت لگ رہیں تھیں دونوں،،،،،،،آسمان سے اتری پریاں،،،۔

ماہ نور تیار سی بیڈ پر بیٹھی کب سے ناخنوں کو کھا رہی تھی اور دوسری طرف زرمین کھوئی کھوئی سی تھی،،،،،،،،،ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی ۔

میں نے آپ سے محبت کی اور وہ مجھے بس ایک احسان کی وجہ سے اپنی زندگی سے نکال رہے تھے،،،،،،،،،،،،آج اگر ماہ نور کو کوئی اور پسند نہ ہوتا تو کیا میری جگہ اس کا اور آپ کا نکاح ہوتا،،،،،،،زرمین اپنی ہو سوچوں میں گم تھی کے تب ہی تسلم صاحب مولوی صاحب کے ساتھ اندر داخل ہوئے ۔

دونوں کے سر پر ڈوپٹہ دیا گیا اور پھر نکاح شروع ہوا ۔

ثانیہ بھی ماہ نور کے ساتھ کھڑی تھی ۔

دونوں کا نکاح ہوا اور تسلم  صاحب نے دونوں کو اپنے گلے لگا کر پیار دیا اور پھر ان سے مل کر باہر نکل گیے،،،،،،۔

ماہ نور اب ثانیہ کے گلے لگی ۔

کیا تکلیف ہے چشمہ کی بیوی نہ ہو تو اتنی زور سے کاٹی ہے چٹکی چل پیچھے ہٹ،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے گلے لگا کر زور سے چٹکی کاٹی تو ثانیہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے بول کر زرمین کی طرف بڑھ گئی ۔

میرا ہاتھ لگ میں تیرا گلا بھی دبا دوں گی،،،،،،،،،ماہ نور اسے آہستہ آواز میں بولتے ہوئے پیچھے ہٹ گئی ۔

دونوں بہنوں کو باہر لایا گیا،،،،،،،اور زین اور شایان کے ساتھ بیٹھایا گیا ۔

شایان نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو،،،، ،ماہ نور نے اسے گھوری سے نوازا اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا،،،،،،،،،،،اس کے اس انداز پر شایان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔

دوسری طرف زرمین نے چپ چاپ سر کو جھکائے ہوئے ہی اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی ۔

تھوڑی سی رسموں کے بعد،،،،،،،،ماہ نور اور زرمین جب اندر جانے لگی تھی کے تسلم صاحب بولے ۔

زرمین کو زین کے روم میں چھوڑ کر آنا ماہ نور،،،،،،،،،،،،،تسلم صاحب کے بولنے پر زرمین نے ان کی طرف دیکھا جس پر انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔

خوش رہو آج تمہاری رخصتی بھی ہے،،،،،،،،اور ماہ نور کی رخصتی ابھی نہیں کر رہا،،،،،،،،،،تسلم صاحب کے بولنے پر ماہ نور نے شکر کا سانس لیا اور روتی ہوئی زرمین کو زین کے کمرے میں چھوڑنے چلی گئی ۔

کیا آپی رو کیوں رہی ہو،،،،،،،،،زین بھائی کا ہی کمرا ہے کون سا کسی دوسرے گھر جانا ہے آپ کو رو مت رونا تو مجھے چاہے،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر زرمین پھیکا سا مسکرا دی ۔

زرمین جب روم میں داخل ہوئی تو دیکھ کر حیران رہ گئیں دونوں بہنیں کے روم میں پر طرف پھول ہی پھول تھے۔

وہ ہو یعنی زین بھائی کو سب پتہ تھا کے آج رخصتی بھی ہے،،،،،،،،،،،،ماہ نور مسکراتے ہوئے بولی زرمین نے کوئی ریکشن نہیں دیا اور چپ چاپ سائیڈ پر بیٹھ گئی ۔

چلو آپی ادھر اوپر بیٹھوں اور زین بھائی کا انتظار کرو،،،،،،،،،،چلو بھی َ،،،،،،،،زرمین کا ہاتھ پکڑ کر اسے اوپر زبردستی بیٹھانے کے بعد وہ اس سے مل کر باہر نکل آئی،،،،،،،،،،،،،،،،پیچھے کہیں آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے ۔

میری محبت کا مزاق بنایا آپ نے زین،،،،،،،،میرے لیے سٹینڈ تک نہ لے سکے،،،،،،،مجھے کہا بھول جاؤں آپ کی محبت ان لکیروں میں آپ کا نام نہیں ہے،،،، ،،،،،،،،اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے جنونی سے انداز میں بول رہی تھی اور پھر اُٹھی اور بیڈ سے نیچے اترتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے ۔

میں نہیں ہوں آپ کی نہیں ہوں،،،،،،،،،جنونی سے انداز میں اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں اور زیورا اتارتے ہوئے بول رہی تھی تب ہی اندر زین آیا زرمین کو اس طرح دیکھ کر اسے غصہ آیا پر ضبط کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔

کیا مسئلہ ہے،،،،،،،،کیوں اتار رہی ہو یہ سب کیوں،،،، ،،،،،،،،،؟؟ زین نے اسے کلائی سے پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔

چھوڑیں مجھے ہاتھ مت لگانا مجھے،،،،،،،،،،میری محبت کو دھتکار کر یہ شادی صرف آپ نے احسان کے ناطے کی ہے بس،،،،،،،،،،اسی لیے میرے قریب آنے کا یا مجھے چھونے کا سوچنا بھی مت،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین غصے سے چیخی ۔

روک سکتی ہو مجھے،،،،،،،،تمہیں لگتا ہے تم مجھے روک سکتی ہو،،،،،،،،،،،مجھے زین شاہ کو چیلنج کر رہی ہو تم،،،،،،،،،،،،،،،،وہ َایک ائبرو اُٹھا کر اسے گھورتے ہوئے سرد سے لہجے میں اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔

دور رہو،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے اپنا حلق تر کیا تھا،،،، ،،،،،،،پر اسے اس وقت زین کی لال ہوتی آنکھوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔

زرمین تم مجھے چاہ کر بھی روک نہیں سکتی،،،،،،،ہمت ہے،،،،،،؟؟ زین نے اسے دھکا دیتے ہوئے بیڈ پر گرایا ۔

زرمین خوفزدہ سی اس کی طرف دیکھ رہی تھی جو غصے سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس پر جھکا۔

ہمت ہے تو کرو مجھے دور روک لو مجھے روک سکتی ہو،،،،،،،،،،،زین دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اس پر جھکا اس کی آنکھوں میں اپنے لیے خوف دیکھ کر بولا۔

زرمین نے اپنی چھوٹی سی کوشش کرتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا جس کو زین نے ناکام بناتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر پیچھے بیڈ سے لگا دیا۔

مسس زرمین زین شاہ آپ چاہ کر بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکتی،،،،،،،،،،،،،کیوں کے میں جب چاہو تمہیں حاصل کر سکتا ہو اپنا پورا پورا حق لے سکتا ہے زین شاہ اسی لئے ائیند مجھے چیلنج مت کرنا ورنہ یہ نہ ہو تمہیں کوئی بڑا نقصان اُٹھانا پڑھ جائے،،،،،،،،،،،،،زین اسے  پوری طرح سے قابو کیے کان میں سرگوشی نما بولتے ہوئے اس کے کان کی لو کو آہستہ سے اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا ۔

زرمین ابھی بھی اسی طرح بے سد پڑھی ہوئی تھی کہیں آنسو اپنی بے بسی پر نکل رہے تھے ۔

زین اُٹھا تھا ۔

جاؤ چینج کر لو،،،،،،،،،،زین اسے روتے ہوئے دیکھ کر دُکھ سے اپنا رُخ بدل گیا اور باہر بالکنی میں نکل گیا۔

آئی ہٹ یو زین آئی ہٹ یو،،،،،،،،،،،،،میری بے بسی کا ہمیشہ مزاق بناتے ہو تم،،،،،،،،زرمین روتے ہوئے وہی تکیہ پر سر رکھ کر بولی ۔

باہر زین بے چینی سے ادھر اُدھر چکر لگاتے ہوئے سگریٹ یونٹوں کے ساتھ لگا گیا۔

ماہ نور روم میں آئی تو شایان پہلے سے ہی روم میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہوئے بیٹھا ہوا تھا۔

نکلو میرے روم سے باہر آبھی کے ابھی،،،،،،،،ماہ رخ بولتے ہوئے غصے سے چیخی ۔

شایان اُٹھا تھا اور اس کی طرف بڑھا جو اس کو  اپنی طرف ہوئے دیکھ کر پیچھے قدم لینے لگی ابھی پیچھے ہو ہی رہی تھی کے شرارا پاؤں میں آ گیا اور وہ گرنے لگی تھی کے شایان نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ۔

ماہ نور نے گرنے کے خوف سے آنکھوں کو بند کر لیا ۔

فکر مت کرو گرنے نہیں دوں گا،،،،،،،،،،،شایان چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس کے اس خوبصورت روپ کو دیکھتے ہوئے بولا،،،،،اس کے اس طرح بولنے سے ماہ رخ نے پٹ سے آنکھوں کو کھولا اور اور اسے دھکا دیتے ہوئے اس کے حصار میں سے نکل گئی ۔

دھیان سے یار ڈر کیوں رہی ہو وہی شایان ہوں جس کے پیچھے پیچھے تمہارا سارا دن گزر جاتا تھا،،،،،،،،،،،،،شایان کے مسکرا کر بولنے سے ماہ نور نے غصے سے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔

جاؤ یہاں سے اب زیادہ شوہے مت ہو تمہیں تمہارے پیسے مل جائے گیے،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے اپنا رَخ موڑ گئی ۔

نہ جاؤ تو،،،،،،،،،تسلم انکل نے کہا ہے کے آج کی رات یہی روک جاؤں،،،،،،،،ساتھ والا کمرا بھی سٹ کروا دیا ہے،،،،،،،،تمہارا روم ساتھ تھا تو سوچا تم سے ہی مل لوں،،،،،،،،شایان ہاتھوں کو باندھے اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا جو گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی اسے۔

اسی لیے سوچا اپنی پیاری بیوی کو نکاح کی مبارک باد دے دوں،،،،،،شایان چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ بولا۔

میرے منہ مت لگنا دوبارہ اور نہ ہی میرے ساتھ تمہیں کوئی مطلب ہونا چاہے کیوں کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کے تم سے نکاح صرف میری مجبوری تھی اور کچھ نہیں اسی لئے زیادہ میرے شوہر بنے کی کوشش مت کرنا،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے انگلی سے ورن کرتے ہوئے کہا۔

تمہارا شوہر ہوں تو شوہر بنوں گا ہی،،،،،،،،،آخر نکاح میں ہو میرے،،،،،،،شایان دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

بکواس بند کرو اپنی اور چلتے بنو یہاں سے ایک دفع سب سٹ ہو جائے جلد ہی طلاق لے لوں گی تم سے میں سنا تم نے اسی لیے میرا شوہر بنے کی کوشش کبھی مت کرنا،،،،،،،،،،،ماہ نور کے لہجے میں غصہ تھا۔

اور ویسے بھی میں تم جیسے انسان کو منہ لگانا پسند نہ کروں بڑا آیا شوہر،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں اترنے لگی اور پھر اپنا ہاتھ کانوں میں پہنیں جھمکوں کی طرف گیا۔

طلاق کا تو بعد میں دیکھیں گے فلوقت تو تم میری بیوی ہو پیاری سی بیوی،،،،،،،شایان اسے کلائی سے تھامے اس کے کانوں کی طرف ہاتھ کرتے ہوئے اس کی جیولری اتارنے لگا،،،،،ماہ نور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کرنا چاہا جس پر شایان نے اسے گھوری سے نوازا ۔

اس کا سرد سا انداز دیکھتے ہوئے ماہ نور کو خوف محسوس ہوا پر وہ خود کے خوف پر قابو پاتے ہوئے پھر بھی اسے دھکا دینے کی کوشش میں تھی کے شایان نے اس کی کمر پر گرفت بنا کر اسے ایسا کرنے نہیں دیا۔

اس بھول میں ہرگز مت رہنا کے میں تمہیں ایسا کرنے دوں گا اسی لئے ہو سکے تو مجھے ضد مت دلانا،،،،،،،،،،شایان نے سرد سے لہجے میں بولتے ہوئے اس کے کان سے جھمکوں کو بے دردی سے اتار کر پھینک دیا۔

سسسسسی،،،،،،،،،ماہ نور درد سے کراہتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔

ماہ نور نے تو شایان کا صرف اچھا روپ دیکھا تھا اس طرح دیکھتے ہوئے ماہ نور خوفزدہ سی پیچھے ہٹی تھی ۔

شایان نے دیکھا تھا اس کے کان میں سے خون رسنے لگا اور آنکھوں میں خوف کے ساتھ حیرانگی تھی ۔

شایان کو خود کے اس انداز پر غصہ آیا ۔

ایم سوری ماہ نور،،،،،،،شایان اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ۔

دو،،،، ،،،،،دور ہو جاؤ،،،، ،جاؤ یہاں سے،،،،،،،،،ماہ نور نم لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

میری بات،،،،،،،۔

جاؤ کہا نہ میں نے جاؤ یہاں سے،،،،،،ماہ نور غصے سے چیخی تھی ۔

اوکے جاتا ہوں پر اس بھول میں مت رہنا کے یہ نکاح میں نے تمہیں چھوڑنے کے لیے کیا ہے،،،،،،،یہ تب تک نہیں ٹوٹے گا جب تک میرے جسم میں جان ہے اسی لیے خود کو تیار رکھو میرے لیے،،،،،،،،،،شایان ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

بھاڑ میں جاؤ،،،،،،،،،،ماہ نور دل میں سوچ کر رہ گئی پر بولی نہیں کیوں کہ اس وقت اسے اس سے ڈر لگ رہا تھا۔

شایان نے اس کی طرف دیکھا اور چپ چاپ باہر نکل گیا۔

گھٹیا کمنیہ کہیں کا بڑا آیا مجھ پر روب جمانے والا دیکھ لوں گی تمہیں،،،،،،،،،ماہ نور اپنے کان کو سہلاتے ہوئے غصے سے دروازے کو دیکھ کر بولی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

یہ رہی ساری انفارمیشن سر،،،،،،،سب ڈیٹیل ہے اس میں اس سیم والے انسان کیچ،،،،،،،عالم کے حاض آدمی نے اسے حورین کے ڈیڈ کی ساری انفارمیشن لا کر دے دی ۔

بتاؤ مجھے سب،،،،،،،عالم آنکھوں کو بند کیے چئیر پر جھولتے ہوئے بولا ۔

سلمان نام ہے اس آدمی کا،،،،،،،،،،یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور بیوی ہاؤس وائف اور دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی،،،،،،،،بیٹی  کے نام پر عالم نے سیدھا ہو  کر اس کی طرف دیکھا۔

ادھر دو فائل تم جاؤ یہاں سے،،،،،،،،عالم اس سے فائل لے مانگتے ہوئے بول جو وہ اسے دے کر باہر نکل گیا ۔

ہممممم حورین سلمان،،،،،،،،،اور ابھی کچھ دن بعد مانگی ہے آپ کی دیکھتا ہوں کیسے ہوتی ہے،،،، ،،فائل پر اس کے نام کے حروف پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جنونی انداز سے بولا۔

شاہ جی مجھے آپ سے محبت ہے شاہ جی،،،،،،،،اس کی بھیجی ہوئی وائس ریکارڈنگ سنتے ہوئے مسکرایا ۔

تمہارا شاہ تمہیں جلدی ہی اپنے پاس لے کر آنے والا ہے،،،،،،،وہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔

ایک لڑکی کی پیچر سینڈ کی ہے اس کی پل پل کی خبر مجھ تک پہنچنی چاہیے،،،،،،،،عالم کسی کو کال کرتے ہوئے بول اور ساتھ حورین کی تصویر بھی سینڈ کی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین کی صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی جب اُٹھ کر دیکھا تو،،،،،،،،،رات کے ہی کپڑوں میں وہ سو رہی تھی بکھیرا سا حوالیہ،،،،،،،،پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو جلدی سے سیدھی ہوئی۔

شٹ یہ تو صبح کے گیارہ بجے گیے ہیں،،،،،،زرمین اُٹھی تو اسے سامنے ہی زین بیٹھا چائے پیتا ہوا ملا۔

زرمین اسے مکمل اگنور کرتے ہوئے کمرے سے باہر جانے لگی ۔

کہاں جا رہی ہو،،،،،،،،،،؟؟ زین کی سرد سی آواز کمرے میں گھونجی تو زرمین کا ہاتھ جو ہینڈل پر تھا وہی رک گیا۔

اپنے روم میں کپڑے چینج کرنے ہیں،،،،،،،،،زرمین کو غصہ تو آیا پر تحمل سے لب کاٹتے ہوئے بولی ۔

تمہاری ضرورت کی ہر چیز ڈریسنگ روم میں پڑھی ہوئی ہے،،،،،،،،،،،زین بول کر چائے پینے لگا۔

زرمین نے اپنے کپڑے اٌٹھائے وہاں سے اور روم سے جانے لگی۔

اب کیا مسئلہ ہے کیوں جا رہی ہو،،،،،،،زین چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس کے پاس ایا۔

میں بس اپنے روم میں جانا چاہتی ہوں وہی کر لوں گی چینج ،،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے دروازہ کھولتی،،،،،،،،،،،،،،،زین نے غصے سے اس کی کلائی پکڑ کر اسے کھینچ کر اپنی طرف کیا۔

میری ایک بات کان کھول کر سن لو زرمین یہ سب ناٹک  اب بس اسی لئے یہ تماشا لگانا بند کرو،،،،،،،،،،،،،،تم بیوی ہو میری اور میں بالکل بھی نہیں چاہتا کے میں تم پر کوئی بھی سختی کروں،،،،،،،،،،،،زین ایک ایک لفظ چھپا کر اس کی کلائی پر زور دے کر بوکا۔

زرمین اس کی طرف بس حیرت اور دَکھ سے دیکھ رہی تھی ۔

جو سوچ رہی تھی کے وہ اسے منائے گا وہ اس پر اتنی سختی کر رہا تھا۔

جاؤ یہاں اور دس منٹ ہیں تمہارے پاس بس دس منٹ ریڈی ہو کر جلد باہر نکلو ماموں کو ایئرپورٹ چھوڑنے جا رہا ہوں میں،،،،،،،،زرمین اس کی بات پر چپ کر کے جلدی سے واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔

زین نے گہرا سانس لیا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے   اس کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔

اندر زرمین کی سسکیوں کی کہیں آوازیں اس کے کان میں گھونجی پر وہ خاموشی سے سنتا رہا۔

جب زرمین کا سارا گھبرا نکل گیا وہ تیار ہو کر باہر نکلی سادہ سا شلوار سوٹ پہین عام سے روزانہ کی طرح کے حولیے میں ۔

زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے اُٹھا اور غصے سے الماری کی طرف بڑھا وہاں سے اس کے لیے ایک جوڑا نکلا اور زرمین کی طرف بڑھا کو آئینہ کے سامنے کھڑی بالوں میں بریش کر رہی تھی ۔

یہ پہن کر آؤ،،،،،،،،،،،،جو میرے مرنے کا سوگ منا رہی ہو نہ جب ماموں چلے جائے تو تب منا لینا،،،،،،،فالوقت میں ان کو تمہاری وجہ سے پریشان نہیں دیکھ سکتا،،،،،،،،،،زین غصے سے اسے بازوں سے پکڑ کر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا ۔

زرمین نے ضبط اور دُکھ سے اس کی طرف دیکھا،،،اور چپ چاپ اس کے ہاتھوں سے کپڑے لے کر وہاں سے چلی گئی ۔

جب واپس آئی تو اس کے دئے جوڑے میں اسے نکھیری سی لگی،،،،،،،۔

یہ لو کاجل اور لیپسٹک لگاؤ اور چلو میرے ساتھ،،،،،،،،،زین اسے دیکھتے ہوئے بولا جس پر زرمین چپ چاپ اس سے لیتے ہوئے لگا کر اس کے ساتھ چلی گئی ۔

زین نے کمرے سے باہر نکالتے ہی اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے  لیا ۔

السلام علیکم بابا،،،،،،،زرمین کے آگے بڑھ کر تسلم صاحب کو سلام کیا،،،اور ماہ نور سے ملی جو جب سے سامنے بیٹھے شایان کو گھور رہی تھی جو ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہا تھا۔

شایان نے بھی زین کو سلام کیا اور پھر سب نے مل کر ناشتہ کیا۔

بابا آپ اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں،،،،،،،،،؟؟ آپ تو کچھ دن بعد جانے والے تھے،،،،،،،َزرمین کے بولنے پر وہ مسکرائے ۔

زر بچے ضروری ہو گیا تھا اسی لئے جانا پڑھ رہا ہے،،،،،،،،،،،اسی لیے تو رخصتی بھی ساتھ رکھی ہے اور واپس ا کر تم دونوں کا بڑا سا ریسپشن رکھوں گا،،،،،،،،،،،تسلم صاحب اورسب نے ناشتہ کیا اور وہ اپنی دونوں بیٹیوں سے مل کر ائرپورٹ کے لیے نکل گیے ان کے ساتھ شایان اور زین دونوں گیے تھے ۔

زر آپی آپ خوش ہیں،،،،،،،،،،ماہ نور کے پوچھنے پر وہ مسکرا دیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین کالج پریکٹیکل کے سلسلے میں زریاب کے ساتھ کالج آئی تھی،،،،،،،زریاب اسے چھوڑ کر جا چکا تھا ۔

حورعین نے اپنا پریکٹیکل دیا اور ابھی زریاب کو آنے میں کافی وقت تھا کیونکہ پریکٹیکل جلدی ختم ہو گیا ۔

حورعین اپنی ہی سوچ میں چلتے ہوئے درختوں کی بیک سائیڈ پر آ گئی تھی وہاں کوئی بھی نہیں تھا،،،،،،،،،وہ خود میں اتنی ماگن تھی کے اسے اپنے پیچھے کسی کا آنا بھی محسوس نہیں ہوا۔

ک،،،،،،،کو،،،،،،،کون ہو تم،،،،،،،،،،،،،،،وہ اپنے پیچھے کھڑے ایک نقاب پوش کو دیکھتے ہوئے ہکلا کر بولی ۔

تب ہی اس کے پاس سائیڈ پر بکنی سڑک پر ایک گاڑی آئی اور اس کو موقع دئے بینا اسے گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئی ۔

چھوڑیں مجھے کون ہے آپ پلیز جانے دیں،،،،،،،،حورعین نے چلاتے ہوئے اپنے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئے تھے جس عورت نے اسے پکڑ رکھا تھا اس کے کہیں ناخن اس کے ہاتھوں میں خراشیں ڈال گیے ۔

اور پھر گاڑی ایک جھٹکے سے روکی تھی،،،،،،،حورعین روتے ہوئے جب دیکھا تو وہ کوئی بڑا سا بنگلہ تھا۔

وہی عورت اسے کھنچتے ہوئے آندر لے گئی جہاں پہچا کر اس نے دیکھا کے سامنے عالم شاہ پوری شان سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ کیے سکون سے بیٹھا تھا۔

آج حورعین نے اسے پہلی دفع روبرو دیکھا۔

حورعین اس کو دیکھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی۔

پیچھے اس کو چھوڑ کر جانے والے وہاں سے جا چکے تھے،،،،،،حورعین کا پورا وجود اس کو دیکھ کر لرز رہا تھا۔

کیسی ہو نین،،،،،،،،،،؟؟ تمہیں کتنی دفع تمہیں کال کی پر تم نے میری کال اٹینڈ نہیں کی،،،،،،اسی لیے سوچا روبرو مل لیا جائے،،،،،،،عالم شاہ بولتے ہوئے اُٹھا تھااور اس کی طرف قدم لینے لگا۔

شاہ جی دور رہے،،،،،،،،حورعین کے اس طرح کہنے سے وہ مسکرایا ۔

تمہاری زبان سے یہ شاہ جی میں تو زندگی بھر سننا چاہتا ہوں،،،،،،،،وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ۔

کیوں کر رہے ہیں ایسا پہلے خود میری محبت کو دھتکار دیا تھا آپ نے پر اب اس طرح کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ کیوں،،،،،،،حورعین روتے ہوئے پیچھے ہٹ رہی تھی ۔

کیوں کے میں تمہیں کسی اور کا نہیں ہونے دے سکتا تم پر میری ملکیت ہے بس عالم شاہ کی،،،،،،،،،عالم شاہ بولتے ہوئے اس اپنے حصار میں کر گیا ۔

چھوڑیں مجھے نفرت ہے مجھے آپ سے نفرت حورعین کو نفرت ہے آپ سے،،،،،،،،وہ روتے ہوئے چیخ رہی تھی ۔

نفرت کرو یا محبت بس میری بنو بس میری،،،،،،،،،عالم شاہ اسے بول رہا تھا کے حورعین نے اسے خود سے دور دھکیل دیا۔

میں مار لوں گی خود کو میں صرف اور صرف زریاب کی ہوں صرف زریاب کی،،،،،،،،،،،،وہ ابھی بول ہی رہی تھی کے عالم شاہ کے آدمی نے زریاب کی لاش کو اس کے پاس لا کر پھینکا ۔

آ آ آ آ آ آ آ آ آ آ آ ا،،،،،،،،،،،،،،تب ہی حورعین کی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ چیخ کے ساتھ اُٹھ گئی ۔

اس کا پورا جسم پیسنے سے بھیگ چکا تھا۔

شکر ہے یہ خواب تھا،،،،،،،حورعین ن نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شکر ادا کیا ۔

تب ہی اس کا فون رنگ ہوا جس کو اس نے بے دھیانی میں اُٹھا لیا۔

ہیلو،،،،،،،،،،،،،! ؟

نین سلام کرتے ہیں پہلے یہ بری عادت بھول لو ورنہ آگے جا کر تمہیں بہت پریشانی ہو گی،،،،،،،،،،،دوسری طرف سے عالم شاہ کی آواز سننے کے بعد حورعین اور بھی خوف زدہ ہو گئی ۔

چلو یہ بعد میں دیکھیں گے آج میں نے اپنی نین کو خواب میں دیکھا،،،،،،،،،اور میں نے اسے اپنے نام کر لیا،،،، ،،،،،،،،،،،عالم شاہ بولتے ہوئے آخری لفظ سرگوشی نما بولتے ہوئے ہنس دیا۔

حورعین خوف کے عالم میں بس اسے سن رہی تھی ۔

پلیز مجھے تنگ مت کریں،،،،،،،،میری منگنی ہونے والی ہے اب،،،،،پرسوں میری انگجمنٹ ہے ائیند مجھے دوبارہ کال مت کرنا آپ،،،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے جلدی سے فون بند کر گئی ۔

پہلے میرے پیار کو ٹھکرا دیا اور اب جب میں نے ماما بابا کو ہاں کر دی ہے تو آ گئے ہیں میرے پاس،،،،،،،،،،،میں اپنے والدین کی خواہش پر اپنے سو محبتوں کو بھی قربان کر دوں شاہ جی اور دوسرا میں کسی کا حق نہیں لینا چاہتی،،،،،،،وہ اپنے بہتے ہوئے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ۔

میرا بچہ بہت پیارا لگ رہا ہے نظر نہ

 لگے،،،،،،،،،،حورعین ہلکے گرے کلر کے شرارے اور اس پر سلور کام سر پر ڈوپٹہ سجائے،،اور زریاب کی لائی جیولری اور ناک میں نتھ پہن رکھی تھی ۔

ماما یہ مجھے بہت اکورڈ لگ رہی ہے پلیز اس کو اتار دوں،،،،،،،،،،،،،،وہ نتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔

حور بچے یہ سپیشل زریاب لے کر آیا ہے تمہارے لیے اس کی پسند ہے مت اتارنا  مسسز سلمان کے کہنے پر وہ چپ کر کے بیٹھ گئی ابھی زریاب لوگ نہیں آئے تھے اسی لیے چپ سی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

شاہ جی آپ اب خوش ہو جائیں اب تو میں آپ کو یاد کرنا بھی گناہ سمجھو گی،،،،،،،،،،،،اسی لیے آج سے آپ حورعین کے حیال میں بھی نہیں آئے گیے،،،،،،،،،وہ سوچ کر پھیکا سا مسکرا دی ۔

چلیں حورعین بچے باہر زریاب لوگ آ گیے ہیں اب رسم کر لیتے ہیں،،،،،،،،،وہ اسے پکڑ کر باہر لے آئی تھی گارڈن میں انتظام کیا گیا تھا ۔

چھوٹا سا سٹیج بنایا گیا اور صرف اپنی اور ان کی فیملی شامل تھی ۔

حورعین کو زریاب کے ساتھ بیٹھا دیا،،،،،،،،ابھی رسم شروع ہوتی کے گیٹ سے اندر کچھ لوگ داخل ہوئے جن کے ہاتھوں میں گ*ن تھی اور وہ اندر آ کر چاروں اطراف پھیل گئے،،،،،،،،سب نے خوف سے ان کی طرف دیکھا ۔

حورعین کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا اور جب ساتھ ہی اندر عالم شاہ داخل ہوا حورعین کو لگا اس کا دل یہی ڈھرکنا بند ہو جائے گا،،،،،،،،،،،کیوں ایک تو اپنی من پسند شخصیت کو پہلی دفع روبرو دیکھنا اور پھر تب جب وہ آپ کے سب سے زیادہ حلاف ہو،،،،۔

عالم شاہ نے ضبط سے حورعین کی طرف دیکھا جو زریاب کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے ہی لگی تھی ۔

گرے کلر کے شرارے میں وہ معصوم سی پری ہی لگ رہی تھی،،،،،،اوپر سے عالم شاہ کا خوف اسے اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا. ۔

عالم غصے سے اس کی طرف بڑھا۔

تمہیں لگا محبت کا اظہار مجھ سے کرو گی اور مانگ  تم اس کی بنو گی،،،،وہ اس کے سجے روپ کو دیکھتے ہوئے ایک پاؤں ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس کے ناک سے نتھ کھنچتے ہوئے غرایا ۔

میں نے کہا تھا نہ مجھے نتھ نہیں پسند تو کیوں پہنی،،،،،،وہ اس کے بہتے خون کی پرواہ کئے بغیر اس کا چہرہ دبوچے سرد لہجے میں بولا۔

حورعین نے بہتے ہوئے آنسو سے اس کے دھندلاتے ہوئے چہرے کو دیکھا جہاں غصہ تھا۔

حورعین کو اس کے اس جنونی انداز سے خوف محسوس ہونے لگا اور درد سے کراہ کر رہ گئی ۔

کون ہو تم اور یہاں کیا لینے آئے ہو،،،،،،،سلمان صاحب اپنی بیٹی کو اس طرح دیکھ کر غصے سے بولے،،،،،،،زریاب اور اس کے والدین سب نے ہی اسے غصے سے دیکھا،،،،،،،،،،،حورعین نے اپنی آنکھوں کو زور سے بند کر لیا ۔

آپ کا ہونے والا دماد ہو سسسر جی،،،،،،،،،آپ کی بیٹی محبت کرتی ہے مجھ سے اسی لیے یہ منگنی تو ہو نہیں سکتی،،،،،،،،،،،،،،،،پر آج آپ کی بیٹی کی رخصتی ضرور ہو گی وہ بھی میرے ساتھ اور اب ہو گا نکاح،،،،،،،،عالم شاہ دیکھ حورعین کی طرف رہا تھا جو آنکھوں کو بند کیے رونے میں مصرف تھی ۔

کبوتر کی طرح آنکھوں کو بند کر کے تم بلی سے بچ نہیں پاؤ گی،،،،،،،،،عالم شاہ کا انداز َسرد تھا۔

حورعین کیا بول رہا ہے یہ،،،،،،،،،سلمان صاحب اور مسسز سلمان دونوں حیرت اور دُکھ کے ملے جلے تاثرات لیے بولے۔

 بابا ماما آپ کی پسند میری پسند ہے،،،،،،،،،،حورعین اپنی درد کی پرواہ کیے بغیر ان کے پاس جاتے ہوئے بولی ۔

کس نے کہا ایک دفع تم نے بول دیا اب تم صرف عالم شاہ کی ملکیت ہو صرف عالم شاہ کی،،،،،،،،،،،،،وہ اسے کلائی سے دبوچے پاس پڑھے صوفے پر پھینکتے ہوئے غرایا ۔

حورعین نے دُکھ سے اس کی طرف دیکھا۔

آنکھوں میں التجا تھی ۔

سلمان صاحب اور مسسز سلمان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔

عالم کے باڈی گارڈ نے سب پر گ*ن تان دی ۔

نکاح کرو گی یا سب کو اوپر پہچا کر تمہیں ساتھ لے کر جاؤں،،،،،،،،،اور آپ رضامندی دے گئے یا نکاح کے بغیر لے جاؤں،،،،،،،،عالم شاہ کے اس انداز پر حورعین نے شکوہ کرتی نگاہ سے اس کی طرف دیکھا تھا جس پر وہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتا رہ گیا ۔

کچھ ہی دیر میں حورعین سلمان سے حورعین عالم بن چکی تھی ۔

نکاح مبارک ہو نین،،،،،،،،،،عالم اس کی طرف بڑھ کر جھکا اور اس کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے کہا۔

ڈونٹ ٹیچ می،،،،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے دور کر مسز سلمان کے ساتھ لگ گئی جنہوں نے اسے ساتھ لگا لیا۔

چلو مل لو اپنے والدین سے پھر چلے ہم،،،،،،،،عالم کے بولنے پر حورعین نے حوف سے اسے دیکھا اور پھر دوبارہ سے مسسز سلمان کے ساتھ جوڑ گئی ۔

میری بیٹی کو ہاتھ بھی مت لگانا،،،، ،،،،،،،عالم آگے بڑھ کر اسے تھامنا چاہا پر سلمان آگے کھڑا ہو کر بولا۔

سسسر جی آپ کی بیٹی اب میری بیوی ہے اور اب یہ میرے ساتھ رہے گی،،،،،،،،،،گ*ن جب ان کی وائف پر گئی تو وہ ناچار اس کے آگے سے پیچھے ہٹ گیے ۔

پلیز مت لے کر جاو میری بچی کو،،،،،،،سلمان صاحب اور مسز سلمان روتی ہوئی حورعین کو دیکھتے ہوئے التجائیہ بولے ۔

جلدی ہی لے کر آؤں گا آپ لوگوں سے ملوانے کے لیے فکر مت کریں اب رخصتی کا وقت ہوتا ہے،،،،،،،،،عالم شاہ کے بولنے پر اس کے باڈی گارڈز نے کہیں ہوائی فائر کیے ۔

زریاب اور اس کی فیملی صرف خاموش تماشائی تھے ۔

عالم سب کو اگنور کرتے ہوئے روتی دھوتی حورعین کو کھنچتے ہوئے ساتھ لے گیا ۔

پیچھے سب بس دیکھتے ہی رہ گیے ۔

عالم نے اسے گاڑی میں بیٹھا کر خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔

چھوڑیں شاہ جی مجھے چھوڑ دیں مجھے میرے ماما بابا کے پاس جانا ہے مجھے ماما بابا کے پاس جانا ہے ،،،،،،،،حورعین کو اس وقت عالم نے کمر سے تھام کر اپنے قریب کر رکھا تھا۔

حورعین اس سے اپنا آپ چھڑوا رہی تھی ۔

چھوڑیں مجھے آئی ہیٹ یو شاہ جی آئی ہیٹ یو،،،،،،،،،،،،،،،حورعین کے اس طرح بولنے سے اسے غصہ آیا پر وہ خاموش رہا۔

چھوڑیں،،،،،،،،،حورعین نے اس کے سینے پر مکے مارتے ہوئے اسے دور کرتے ہوئے باہر نکلنے کے لئے دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے کے لیے اس طرف ہوئی ۔

عالم کو اس کی اس حرکت پر غصہ آیا ۔

گاڑی روک دو اور لاک کرتے ہوئے باہر نکل جاؤ،،،،،،،،،،رات کا اندھیرا اور اوپر سے گاڑی کی مدم سی لائٹ میں تھوڑا سا نظر آتا حورعین کا دمکتا ہوا چہرا،،،،اور ناک کے پاس جم چکا اس کا خون،،،،۔

تمہیں تو محبت تھی مجھ سے،،،،،،؟؟سوالیہ انداز ۔

میرے والدین سے بھر کر میرے لیے کچھ نہیں آپ بھی نہیں،،،،،،،،حورعین غصے سے روتے ہوئے چیخی ۔

کاش وہ وقت واپس ا جائے اور میں کبھی بھی آپ سے بات ہی،،،،،،،،،،،ابھی وہ بول رہی تھی کے عالم شاہ اسے بالوں سے دبوچے اس کے ہونٹوں پر جھکا،،،،،،،،،،،،اپنے اتنے دیر کا ضبط غصہ سب اس کے ہونٹوں پر اتارنے لگا ۔

حورعین نے روتے ہوئے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی،،،،،،،،،،عالم شاہ کا لمس پہلی دفع محسوس کرتے ہوئے حورعین لرز رہی تھی ۔

اپنی سانسس بند ہوتی محسوس ہوئی اور وہ اس کا جنونی پن بھی نہ جیل پائی اور اس کی بانہوں میں ہی اپنے ہوش کھو بیٹھی ۔

حورعین کو اس طرح دیکھ عالم شاہ نے مسکراتے ہوئے گہرا سانس لیا۔

اتنی سی قربت برداشت نہیں ہوئی آپ کو تو آپ کا آگے جا کر کیا ہو گا نین،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ اسے اپنے ساتھ لگا کر اس کے بالوں پر لب رکھتے بولا ۔

اور پھر باہر ڈرائیور کو اشارہ کیا تھا وہ اندر داخل ہو کر گاڑی کو سٹارٹ کرتے ہوئے وہاں سے لے گیا ۔

عالم نے حورعین کو متائجان کی طرح خود میں سمیٹ لیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

سلمان صاحب بہت پریشان سے تھے پولیس سٹیشن گیے ساتھ زریاب بھی گیا۔

ہمیں ریپوٹ کروانی ہے،،،،،،،سلمان صاحب نے اپنے ایک جاننے والے سے کہا ۔

آئے سلمان صاحب ہمیں تاثیر صاحب کی کال آئی تھی بتایا انہوں نے ہمیں آپ کے بارے میں،،،،،،،،سامنے بیٹھے ایس پی نے اسے ادب سے کہا ۔

بتائے کس کے حلاف کروانی ہے،،،،،،،،؟؟

عالم شاہ ہے پہلے میرے گھر گھسا پھر میری بیٹی سے زبردستی نکاح کیا اور اب اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گیا ہے،،،،،،،،،،،،سلمان صاحب نے پریشانی سے سب کچھ بتایا ۔

سر آپ پاگل ہو چکے ہیں کیا،،،،،،،،؟؟ آپ عالم شاہ کی بات کر رہے ہیں وہ ایک بہت بڑا بزنس مین اور پولیٹیکل پارٹی کا میمبر بھی ہے اس پر ہم ہاتھ ڈال کر اپنا ہی نقصان کریں گے ۔

اسی لیے ہو سکے تو اندر ہی اندر معاملہ ٹھیک کر لیں،،،،،،،پر سوری ہم یہ ریوپوٹ نہیں کر سکتے،،،،،،،،،،،،ایس پی تحمل سے بولا جس پر سلمان صاحب اس کا بس منہ دیکھتے رہ گیے ۔

دونوں چپ چاپ باہر آ گیے تھے ۔

اب پتہ نہیں کیا ہو گا میری حورعین،،،،،،،زریاب نے گاڑی چلاتے ہوئے ان کو دیکھا جو صدیوں کے بیمار لگے ۔

اولاد کا دُکھ انسان کو اندر ہی اندر بہت سی تکلیفیں دے دیتا ہے ۔

انکل ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا آپ فکر مت کریں،،،، ،زریاب ان کو بس تسلی ہی دے سکتا تھا کر کچھ نہیں پایا ۔

سلمان صاحب بس چپ سے کر گیے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور یونیورسٹی آئی تھی،،،،،،،،،،سامنے ہی شایان اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔

ماہ نور منہ چڑھا کر وہاں سے گزر کر کلاس کی طرف جانے لگی تھی کے پیچھے سے شایان نے اس کی کلائی تھام کر اسے اپنی طرف کھنچ لیا۔

کیا مسسز میرے دوستوں سے تو مل لو آخر لو میریج ہے ہماری،،،،،،دوست بول رہے ہیں کے پارٹی دو ہمیں،،،،،،،شایان اسے اپنے دوستوں کے پاس لے جاتے ہوئے بولا ۔

ماہ نور نے منہ بنا کر سب کی طرف دیکھا جہاں رمین ارمان سمیرا،،،،ہادی اور احد تھے ۔

پہلے رمین کی شکل دیکھو وہ تو جل کر کالی ہو رہی ہے،،،،،،،اور دوسری تمہاری دوست سمیرا وہ گولڈ پرل لگاتی ہے اس وجہ سے ورنہ کالی تو وہ بھی ہو چکی ہے جل کر،،،،،،،،،ماہ نور اس دفع بولی تو سارے حساب پورے کرنے کے لیے منہ کھولا ۔

اور تم،،،،،وہ ارمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تم نے آج کے بعد میرے پیارے جانو کو سگریٹ دیا تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گی،،،،،،،،کچھ دن پہلے دونوں ایک ہی سگریٹ پی رہے تھے کے ماہ نور نے دیکھ لیا تھا۔

اور تم احد تم اس انسان کی ایک ایک ریپوٹ مجھے دو گیے ورنہ سب کا کباڑ میں اپنے ہاتھوں سے کروں گی،،،،،،،،،،،،ماہ نور بول رہی تھی اور وہ سب اس کا منہ کھولے سن رہے تھے ۔

اور تم رہ گیے بس ہادی تم ایسا کرو ان چیپکو لڑکیوں کو میری پیاری معصوم سی جان سے دور رکھنا سنا تم نے،،،،،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر ہادی نے جلدی سے سر ہلایا ۔

شایان تو اس کے سب انکشافات سن کر حیرت زدہ سا رہ گیا ۔

تم دونوں اب نظر بھی نہ آؤ  مجھے اس کے ساتھ اور لائن ماری یا فلرٹ کیا تو اپنے ہاتھوں سے تم دونوں کا گلا دبا دوں گی سنا تم دونوں نے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے ان کو گھور کر کہا۔

نکلو یہاں سے تم دونوں ابھی کے ابھی،،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر وہ دونوں منہ بنا کر بینا کچھ بولے چلی گئی ۔

اور تم کسی دوسری لڑکی کی طرف دیکھا بھی تو اپنے ان پیارے ہاتھوں سے تمہارا وہ ہشر کروں گی کے ساری دنیا کو یاد رہے گا تمہاری بیوی کوئی اور نہیں بلکہ ماہ نور شایان ہے،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی طرف دیکھتے ہوئے دانت پیستے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی ۔

اب جاؤں سرتاج پارٹی ہو گی ہو تو،،،،،،،آخر میں ماہ نور نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

کلاس لو جلدی آ کر تم،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے ایک آنکھ دبا کر وہاں سے کلاس کی طرف بڑھ گئی ۔

اہم اہم اہم شایان تٗو تو گیا تیری تو ساری زندگی اب لگی پڑھی رہے گی،،،،،،،،،،،تینوں ماہ نور کو جاتے ہوئے دیکھ کر ہنستے جا رہے تھے۔

میری پھلجھڑی،،،،،،،،،،،،،شایان کے چہرے پر زبردست سی مسکراہٹ آ گئی ۔

چلو کلاس لے لیں ورنہ ہمارا ہشر بھی تمہارے ساتھ بھگڑ جائے ۔

دفع ہو ابھی ہے دس منٹ ایک سگریٹ دو،،،،،،،،،،،شایان ارمان سے بولا۔

چل نکل میں نہیں دیتا مجھے میری زندگی بہت پیاری ہے،،،،،،،،،،ارمان اپنی جیب پر ہاتھ رکھ کر بولتے ہوئے کلاس کی طرف بھاگ گیا ۔

پیچھے دونوں کا قہقہہ پھر سے گھونجا۔

اب آیا ہاتھی ہاتھ میں،،،،،،،شایان ان کی بے تکی مثال سن کر ان کو گھورتے ہوئے کلاس لینے چلا گیا ۔

تمام کلاس لینے کے بعد ماہ نور اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی کے شایان اس کے پاس ایا۔

چلو میں چھوڑ دوں تمہیں،،،،،۔

نہیں شکریہ میں چلی جاؤں گی آ رہی ہے میری گاڑی،،،،،،،،،،،ماہ نور اپنا رُخ دوسری طرف کر گئی ۔

شایان  بینا اس کی سنی اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے پارکنگ کی طرف لے گیا جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی ۔ 

وہاں تو بڑی شیر بن رہی تھی اب کیا ہوا نکل گئی،،،، ،،،،،،،،شایان اسے گاڑی کے ساتھ کھڑا کیے ہاتھوں کو باندھے اسے دلچسپی سے دیکھتے ہوئے بولا ۔

ہوا تو میں تمہاری نکالوں گی تم بس دیکھتے جاؤ بڑا شوق ہے مجھ سے پنگا کرنے کا،،،، ،،میں بھی ماہ نور ہو اینٹ کا جواب پوری اینٹ کی ٹرالی سر پر مار کر دیتی ہوں،،،،،،،،،،،،ماہ نور اسے انگلی دکھاتے ہوئے غصے سے بولی ۔

ہائے میں مر جاؤں تمہاری ان اداؤں پر مائے لو،،،،،،،،،،،،،،شایان تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھوں کو پٹ پٹا کر بولا۔

چیچورا انسان کہیں کا،،،،،،،،ماہ نور اپنی ہنسی دباتے ہوئے رَخ موڑ گئی ۔

چلو مجھے چھوڑ کر آؤ  اب ماہ نور اسے گھورتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اس میں بیٹھ گئی ۔

شایان بھی خوشی ہوتے ہوئے اپنی سیٹ سنبھال گیا،،،،،،،،،اور اسے گھر چھوڑنے کے لیے نکل گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج تیار ہو جانا دعوت ہے ہماری دوستوں نے پارٹی دی ہے،،،، ،،،،زین کچن میں کھڑی زرمین سے بولا جو کام کرنے میں مصروف تھی ۔

میری طبیعت نہیں ٹھیک میں نہیں جا پاؤں گی،،،،،،،،،،،،زرمین آہستہ آواز میں بولی ۔

کیوں کیا ہوا ہے تمہاری طبیعت کو،،،،،،،،بہانے بنانا بند کرو اور تیار ہو جانا ورنہ تم جانتی نہیں ہو مجھے کتنا برا پیش آ سکتا ہوں میں تمہارے ساتھ،،،،،،،،،،،،،،،زین کچن کے دروازے پر ہی کھڑا سرد سے لہجے میں بولا۔

زین میری طبیعت سچ میں نہیں ٹھیک سر میں بہت درد ہے میرے،،،،،،میں نہیں جا سکتی،،،،،،،،،زرمین رونی سی ہو گئی تھی ۔

آٹھ بجے تیار ہو جانا کیوں کہ میں کوئی بھی بدمزگی نہیں چاہتا اب زین اس کی طرف دیکھے بینا بولا تھا زرمین اسے جاتے ہوئے بس دیکھتی پی رہ گئی ۔

چھوٹی سی چوٹ ہے زین بس تھوڑا سا ہی تو کانچ چھبا ہے،،،،،،۔

یہ چھوٹی چوٹ ہے دیکھوں کتنا خون نکل رہا ہے زرمین،،،،،تم اپنا حیال بالکل بھی نہیں رکھتی،،، اوپر سے تمہیں بخار بھی ہے اور تم کچن میں کھڑی ہو جاو آرام کرو کھانا باہر سے ا جائے گا،،،،،،زین اسے ڈانٹتے ہوئے اسے اس کے روم میں لے گیا۔

بخار تھوڑا سا ہے بس زین،،،،،،۔

تمہاری تکلیف میں تمہاری آنکھوں سے پڑھ لیتا ہوں،،،،،زرمین ۔

زین کی سب باتیں سوچتے ہوئے زرمین کی آنکھوں میں پھر سے بے تحاشا آنسو بھر گیے ۔

زین کیوں ہو گیے ہیں آپ ایسے ایک دفع بس ایک دفع مجھے منا لیتے میں دل سے خوشی سے آپ کو معاف کر دیتی پر شاید آپ سچ میں میرا ساتھ چاہتے ہی نہیں تھے،،،،،،،،،،زرمین آنسو کو صاف کرتے ہوئے سوچ کر رہ گئی ۔

زین کا روائیہ اس کے دل میں الگ الگ طرح کے وسوسے ڈال رہا تھا۔

زرمین نے سر دار کو اگنور کرتے ہوئے جلدی سے اپنے لیے چائے بنائی تاکہ پینے کے بعد تھوڑی دیر آرام کر کے تیار ہو سکے ۔

❤️❤️❤️❤️

عالم سیدھا اپنے فارم ہاؤس آیا تھا حورعین کو لے کر،،،،،،،،گاڑی سے نکل کر اسے گود میں اُٹھائے سیدھا اپنے روم میں آیا اور اسے بیڈ پر رکھا اور اس پر کمفرٹ اُڑھا دیا ۔

حورعین بھی ابھی ہوش میں نہیں تھی عالم نے ڈاکٹر کو کال کر دی۔

سر ڈاکٹر آئے ہیں،،،،،،،اس کے ایک حادم نے آ کر بتایا ۔

بھیج دو ان کو،،،،،،،عالم سامنے لیٹی حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو بے سد سی پڑھی ہوئی تھی ۔

ڈاکٹر اندر آئی اور حورعین کو چیک کیا اسے انجکشن لگایا ۔

ٹھیک ہیں یہ شاید کسی خوف سے بے ہوش ہوئی ہیں،،،،،،،،ہو سکے تو ان کے کپڑے چینج کروا کر کسی کمفرٹینل کپڑے پہنیں،،،،،،،،باقی ٹینشن کی بات نہیں،،،،،،،،ڈاکٹر حورعین کو چیک کرنے کے بعد عالم سے بولی ۔

تھینک یو ڈاکٹر،،،،،،،آپ کو میرا ڈرائیور چھوڑ آئے گا،،،،،،،،عالم مسکراتے ہوئے بول کر حورعین کی طرف بڑھا۔

ڈاکٹر باہر نکل گئی ۔

چینج کرنا پڑھے گا کیونکہ آپ کمفرٹیبل نہیں ہیں،،،، ،،،،،،،،عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا اور اس کے چہرے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کیا،،،،،،،ناک کے پاس ابھی بھی خون جمع ہوا تھا۔

مجھے ہر وہ چیز تکلیف دیتی ہے جو کسی دوسرے کی خوشی کی وجہ سے تم پہنوں گی،،،،،،،،،میرا بس چلتا تو میں،،،،،،عالم خود کو کنٹرول کرتے ہوئے پیچھے ہٹا اور دراز سے فسٹ ایڈ باکس نکال کر وہاں سے کاٹن کے ساتھ اس کے زخم پر میڈیسن لگانے لگا۔

اور پھر اُٹھ کر الماری کی طرف بڑھ گیا.،،،،،،،،،،،وہاں سے اپنی ایک ٹی شرٹ اور ٹراؤز لے کر حورعین کی طرف ایا۔

تم صرف میری ملکیت ہو عالم شاہ کی،،،،،،ایک جنون سے بولتے ہوئے عالم نے لائٹ آف کر دی اور تھوڑی دیر بعد جب لائٹ اون کی تو حورعین اس کی ٹی-شرٹ اور ٹروزر میں تھی،،،،،،،عالم اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا ۔

روم بیل سے باہر ایک میڈ کو بلایا ۔

جی سر،،،،،،،،،؟؟

یہ کپڑے لو اور ان کو سائیڈ پر رکھنا اور تھوڑی دیر میں بتاؤں گا ان کا کیا کرنا ہے،،،،،،،،عالم اسے حورعین کا منگنی میں پہنیں ہوا ڈریس دے کر بولا ۔

اور پھر خود سامنے صوفے پر بیٹھ گیا،،،،،،،،،سگریٹ سلگا کر ہونٹوں سے لگا لی پر دھیان سارا حورعین کی ہی طرف تھا جو معصوم سی بچی لگ رہی تھی ۔

محبت یا عشق کیا ہو تم میرے لیے میں خود نہیں جان پایا،،،،،،،،کچھ ہی دن میں تم میرے لیے کیا سے کیا ہو گئی ہو عالم شاہ نے تمہیں اپنے نام کر لیا،،،،،،،،،،،،سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بس سوچ کر رہ گیا

❤️❤️❤️❤️❤️

تمہاری فیملی میں کون کون ہے،،،،،،،،،،؟؟ماہ نور اس کی گاڑی کو ادھر اُدھر ہر جگہ کو دیکھتے ہوئے عام سے اندز میں بولی ۔

یتیم ہوں ،،،،،،،کوئی بھی نہیں میری فیملی میں،،،،،،،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر ماہ نور نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔

کیا مطلب؟؟ کوئی بھی نہیں کو رشتے دار بھی نہیں؟؟ ماہ نور کو حیرت کا جھٹکا لگا۔

اگر نہ کہوں تو کیا چھوڑ دو گی،،،،،،،،؟؟

اگر مجھے تم سے محبت ہے تو تم چاہے فقیر بھی کیوں نہ ہو میں تمہیں نہیں چھوڑنے والی ۔

یہ گاڑی میرے دوست کی ہے میری نہیں،،،،،،،،،فلیٹ جس میں میں رہتا ہوں وہ بھی رینٹ کا ہے میں اون لائن کام کرتا ہوں َور اس کے ذریعے اپنی سٹیڈی کا خرچہ اور اپنا نکال لیتا ہوں،،،،،،،،شایان کے بولنے پر ماہ نور نے کچھ نہیں کہا۔

اچھا ہے محنتی بچے ہو،،،،،،،،دونوں مل کر بچوں کو پال ہی لے گیے،،،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر شایان نے اس کی طرف دیکھا جو ابھی بھی اس کی گاڑی کے پرزو کو چیڑ رہی تھی ۔

کیا مطلب تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو،،،،،،،،،،؟؟ شایان کو حیرت ہوئی ۔

ہاں کیوں نہیں تم اچھے ہو تو رہ ہی لوں گی دوست بھی رہ چکے ہیں ہم،،،،،،،،اور میں چاہتی ہوں کہ ہم دونوں سٹ ہو کر ایک گھر لے گئے بس پھر تھوڑا اور کامیاب ہوں گیے تو پھر بچے کریں گیے اور پھر لائف چل پڑھے گی،،،،،،،،،ماہ نور ہنستے ہوئے بولی ۔

تو اگر بچے بڑے ہو کر کچھ مانگے گیے تو،،،،،،،؟؟

تو میرے حصے کی جو رقم ہو گی اس سے ان کو کاروبار ڈال دیں گیے کیسا،،،،،،،،،ماہ نور کی بات سن کر شایان کو حیرت کا جھٹکا لگا وہ لڑکی جو کل تک اس سے طلاق کا بول رہی تھی آج اپنے اور اس کے بچوں کا فیوچر تک سوچ لیا تھا اس نے۔

تم سوچ رہے ہو گیے پاگل لڑکی ہے کل طلاق اور آج بچے،،،،،،،،،تو میں نے بہت سوچا اس بارے میں،،،،،،،،،،،،،لائف کسی کے ساتھ تو گزارنی ہے تم ہی ٹھیک ہو مجھے پسند بھی ہو اسی لئے،،،،،،،،ماہ نور سیدھے ہو کر اس کی طرف رُخ کرتے ہوئے بولی ۔

ہاں پلیز بائیک لے لینا بس،،،،،،گاڑی نہ صحیح ایک بائیک تو ہونی چاہے آنے جانے کے لئے،،،،،،،،،،،،،،اور نصیب میں گاڑی ہوئی تو وہ بھی لے لیں گے۔

ویسے تم ہو کیوٹ،،،،،،،ماہ نور اس کا گال کھنچتے ہوئے مسکرائی ۔

تمہیں سچ میں میرے غریب ہونے سے فرق نہیں پڑتا،،،،،،،،شایان ابھی بھی حیران تھا۔

نہیں،،،،،،،،،میرے بابا کہتے ہیں جب ان کی اور ماما کی شادی ہوئی تھی وہ بھی بہت غریب تھے اور پھر انہوں نے سب کچھ اپنی محنت اور ماما کے نصیب سے ملا،،،،،،،،،،،،،،اگر میرے نصیب میں سب کچھ ہوا تو مجھے بھی مل جائے گا،،،،،،،،،،،،وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی ۔

ہممممم شایان اس کی بات سن کر سیریس سا سامنے دیکھنے لگا۔

شایان،،،،،،،،،،،،۔

جی،،،،،،،،،؟

مجھ سے کچھ چھپانا مت ورنہ ساری زندگی تمہیں منہ نہیں لگانا میں نے،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو شایان اس کو دیکھتے ہوئے لب بھیچ گیا ۔

اوکے نہیں چھپاتا،،،،،۔

گوڈ بوائے،،،،،،،۔

❤️❤️❤️❤️❤️

رات کے وقت زین واپس آیا تو زرمین سر کو جھکائے بیڈ پر تیار ہو کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

زین نے اسے ایک نظر دیکھا جو ریڈ کلر کا فراک پہنیں مکمل تیار،،،،،،،ریڈ کلر میں اس کا سفید رنگ اور بھی دھمک رہا تھا۔

جاؤ یہ کپڑے چینج کر کے آؤ،،،،،،،،،،زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔

زرمین بس اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی ۔

زین میں آگے ہی بہت مشکل سے تیار ہوئی ہوں اب نہیں ہو سکتا مجھ سے،،،،،،،،،،زرمین نے آہستہ آواز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

زین اسے گھور کر اندر ڈریسنگ روم میں چلا گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک ہلکے گلابی رنگ کی نیٹ کی میکسی تھی جس کے بازو اور گلے پر سلور کلر کا کام تھا۔

یہ پہن کر آؤ جلدی پھر ہمیں نکلنا ہے،،،،،،،،،زین کے سرد اور مضبوط لہجے میں بولنے پر زرمین لب بھیچے بس اسے دیکھتی رہ گئی اور پھر اپنے چکراتے سر کو سنبھال کر سائیڈ پر پڑھی میکسی لے کر ڈریسنگ کی طرف چلی گئی اور پھر جب واپس آئی تو زین باہر نکل گیا تھا۔

جلدی سے بالوں کو بریش کیا اور لایپسٹ لگا کر،،،،،،،بمشکل آنکھوں کو کھولا،،،،،،سر درد اور بخار کی وجہ سے چکر بھی آ رہے تھے ۔

خود کو سنبھال کر باہر نکلی ۔

واہ آپی آپ تو بہت پیاری لگ رہیں ہیں ،،،،،،،،،زرمین جب باہر نکلی تو ماہ نور اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔

زین جو موبائل میں مصروف تھا وہ بھی اسے دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا،،،،،،،،،،،کیوں کے گلابی رنگ بھی اس پر خوب دھمک رہا تھا ۔

ماہ نور آتے ہوئے تھوڑی دیر ہو جائے گی اہنا دھیان رکھنا،،،،،،،زین اسے بول کر باہر کی طرف چلا گیا ۔

زرمین بھی ماہ نور سے مل کر باہر آ گئی جب باہر نکلی تو زین گاڑی میں بیٹھ چکا تھا،،،،،،زرمین لب بھیچے خود ہی گاڑی میں سوار ہو گئی ۔

دونوں وہاں ریسٹورنٹ میں پہنچے تھے جہاں دونوں کی دعوت تھی،،،،،،،زین کا فون رنگ ہوا جس کو وہ سنتے ہوئے آگے چل رہا تھااور،،،،،،زرمین اس کے پیچھے پیچھے لب بھیچے چلتی جا رہی تھی ۔

زرمین نے سامنے،،،،،،،،عادل عاصم اور ان کی وائف سامیہ اور صالہ کو دیکھا اور دونوں سے ملی،،،،،،زین ابھی بھی فون سن رہا تھا ان دونوں سے مل کر اشارے سے بتایا کے بات کر لے اور پھر دو منٹ کے لئے باہر گیا ۔

زرمین سب کے ساتھ ہنس کر باتیں کی اور پھر انہوں نے کھانا آڈر کیا تب تک زین بھی آ گیا تھا۔

سب نے مل کر کھانا کھایا،،،،،،،زرمین بخار اور درد کی وجہ سے بے زار سی تھی کچھ بھی کھایا نہیں جا رہا تھا زین اس کا بے زار سا روائیہ دیکھا رہا تھا جو صرف مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کھا رہی تھی ۔

پر زیادہ وہ چپ چاپ ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔

زرمین تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے،،،،،،،صالہ کے بولنے پر زرمین بمشکل مسکرائی ۔

چلو ہم لوگ چلتے ہیں وہاں سے آئسکریم لے گیے،،،،،،،،،،،سامیہ بولتے ہوئے ان دونوں کو آنے کا کہا صالہ تو اُٹھ گئی پر َزرمین کا سر آگے ہی چکرار رہا تھا وہ بے زاریات سے اُٹھی تھی اور ان کے ساتھ جانے ہی لگی تھی کے چکر کی وجہ سے گرتی،،،،،،،،،،،،پاس پڑی چئیر پر ہاتھ رکھ کر خود کو سنبھالا،،،، زین کا دھیان اس کی طرف تھا اسی لیے اس نے اسے دیکھا لیا۔

پر دوسرے کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ تینوں واپس آئی تھی ۔

اب گھر چلیں زین،،،،،،،،،زرمین زین کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔

ہاں اب چلتے ہیں کافی دیر ہو گئی ہے عادل بھی سامیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس پر سب نے ہی رضامندی دی تھی اور سب ہی باہر کی طرف نکلے ۔

سب اپنی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیے،،،،،،تب ہی زین زرمین کی طرف آیا تھا ۔

کیا تکلیف ہے تمہیں منہ کیوں بنا رکھا ہے،،،،،،،،،ہمارے بھیچ جو ہے اسے ہمارے بھیچ ہی رہنے دو،،،،،،،،،،،تماشا مت بناؤ،،،،،،،زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے سرد سے لہجے میں بولا۔

َزرمین اس کو کچھ بھی بولے بینا چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔

میں نے کچھ کہا ہے وہ چیخا ۔

زرمین آنکھوں کو موندھ بس سیٹ سے ٹیک لگا گئی ۔

زین غصے سے دوسری طرف گیا ۔

زرمین تماشا مت بناؤ،،،،،،،،،،،،۔

میں تماشا بنا رہیں ہوں یا آپ تماشا بنا رہے ہیں،،،،،،،،،،،،،آپ کو کیوں نظر نہیں آ رہا میری طبیعت نہیں ٹھیک زین،،،،،،،،میرا سر درد سے پٹ رہا ہے اور مجھے بخار ہے میں میڈیسن لینے کے بعد یہاں تک اتنی دیر گزار پائی ہوں،،،، ،،تماشا میں نہیں آپ بنا رہے ہیں ۔

زرمین کا ضبط جواب دے گیا تھا اسی لئے وہ بولی تو بولتی چلی گئی ۔

گاڑی چلائے آپ کی بلا سے میں مر جاؤں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں،،،، ،،،،،،زرمین بولتے ہوئے آخر میں رو پڑی اور اپنا رُخ بدل گئی ۔

زین کو اپنے اس طرح کے روائیہ کا احساس ہوا ۔

جاتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں،،،، ،،زین گاڑی سٹاٹ کرتے ہوئے بولا ۔

کوئی ضرورت نہیں ہے،،،گھر چلے میں میڈیسن لے لوں گی،،،،،،،،زرمین رُخ موڑے ہی بولی ۔

زین لب بھیچے گاڑی کو چلا رہا تھا ورنہ اس کا دل کر رہا تھا کچھ کر جائے ۔

گاڑی گھر ا کر روکی تو زرمین بینا کچھ بولے اندر کی طرف بڑھ گئی،،،،،،،زین وہی گاڑی میں بیٹھا،،،،،،،،،ٹھنڈی آہ بھر کر رہا گیا ۔

بدلہ لینا بہت مشکل لگ رہا ہے مجھے کیا میں اپنی ہی محبت سے بدلہ لے پاؤ گا،،،،،،،،،،زین گاڑی کی سٹ سے ٹیک لگائے سوچ کر رہا گیا ۔

اپنی ماں کے ہر دُکھ کا بدلہ تم دو گی زرمین تسلم،،،،،،،،،تسلم صاحب کی بیٹی ہونے کے ناطے تم ہر چیز کا بدلہ دو گی زین شاہ کو،،،،،،،،وہ سامنے پڑھے لائٹر سے سگریٹ جلا کر ہونٹوں سے لگا کر گہرا کش لیتے ہوئے آنکھوں کو موندھ گیا ۔

دوسری طرف زرمین اندر گئی تو روتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں پہنیں چیزیں اور جیولری اتارنے لگی،،،،،،،،،،اور اسی طرح روتے ہوئے کپڑے بدل کر آ کر بستر میں لیٹ گئی ۔

نہیں ہے آپ کو مجھ سے محبت زین نہیں ہے،،،،،،،،،،،،،،آپ کی. زندگی میں آنے کے بعد مجھے معلوم ہو چکا ہے،،،، ،،،زرمین کی سسکیاں پورے کمرے میں گھونج رہیں تھی ۔

رونے کا شغل ہو گیا ہے یا ابھی بھی باقی ہے تو جاؤ باہر جا کر رو لو،،،،،،،،،،،مجھے نیند آئی ہے مجھے سونا ہے،،،،،،،،زرمین رو رہی تھی کے زین کی آواز سن کر حیران ہوتی اس کی اگلی بات سن کر اسے پورا یقین ہو چکا تھا کے زین کو اس سے کوئی محبت نہیں ہے،،،،،،،،،،،اسی لیے چپ چاپ اُٹھی تھی اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔

کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی زین نے ٹھنڈی سانس ہوا میں چھوڑی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح جب حورعین کو ہوش آیا تو اپنی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے چھت کو گھور رہی تھی ۔

آنکھیں کھولنے سے آہستہ آہستہ ذہن بے دار ہونے لگا،،،،،،،،،،،،،،،،،،کہیں آنسو بھی ان آنکھوں سے بہہ نکلے،،اور ایک دم سے اُٹھا کر بیٹھ گئی ۔

اس کے ساتھ لیٹا عالم شاہ اس کی ساری کارروائی دیکھ رہا تھا چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اسے گھورنے میں مصروف تھا جو اب بیٹھی خود کے کپڑوں کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔

یہ کس نے کیا،،،،،،،،،،حورعین اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے حیرت زدہ سی بولی ۔

میں نے کیے ہیں اور میرے علاوہ تمہیں لگتا ہے کوئی تمہیں چھو بھی سکتا ہے جان نہ لے لوں میں اس انسان کی جو میری نین کو ہاتھ تو دور دیکھے بھی،،،،،،،،،،،،،،،،پیچھے سے عالم شاہ اس کے کان میں سرگوشی کی طرح بولتے ہوئے اس کے گرد حصارِ بنا گیا۔

حورعین اس کے حصارِ میں روئی تھی اور روتے ہوئے اسے کے ہاتھوں کو پیچھے جھٹک دیا،،،،،،،،عالم کی گرفت مضبوط نہیں تھی اسی لئے وہ اس طرح کر پائی ۔

عالم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا،،،،،،،۔

آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی،،،،،،نفرت ہے مجھے آپ سے انتہائی کوئی،،،،،،،،،،وہ ابھی بول رہی تھی کے عالم اُٹھ کر اس کی طرف بڑھا،،،،،،حورعین خوف سے لرزتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔

اب بولو نفرت ہے مجھ سے،،،،،،،عالم اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا جو اس کی لال انگار ہوتی آنکھیں جن میں غصہ تھا ان کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ رہی تھی ۔

ادھر چلو میرے ساتھ،،،،،،،،عالم نے صوفے پر پڑھی اپنی چادر اُٹھا کر اس کے گرد دے کر اسے کور کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھنچتے ہوئے لے گیا،،،،،،،۔

زلہہ زلہہ ،،،،،،،،،،وہ کپڑے لے کر آؤ جلدی،،، ،،،عالم باہر گارڈن میں کھڑا اسے آواز دیتے ہوئے بولا۔

جی سر یہ لے،،، ،،،،،،،،،بوتل کے جن کی طرح دو منٹ میں وہ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔

یہ ادھر نیچے پھینک دو اور جاؤ تم،،،،،،،،،عالم کے بولنے پر وہ وہاں نیچے ان کو پھینک کر چلی گئی ۔

حورعین بس خوفزدہ سی عالم کی گرفت میں کھڑی لرز ہی رہی تھی،،،،،،،،،اور اپنا انگجمنٹ والا ڈریس دیکھا جو پورچ کی زمین پر پڑھا ہوا تھا۔

عالم شاہ نے اس کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کپڑوں میں آگ لگا دی،،،،،،،جس کو دیکھتے ہوئے حورعین کی آنکھیں خوف سے اور بھی پھیل گئی ۔

وہ روتے ہوئے پیچھے ہٹی ،،،،،،،،،،،،،،اپنے قدم پیچھے لیتے ہوئے باہر گیٹ کی طرف بھاگی ۔

نین واپس آؤ اس سے پہلے کے میں تمہارے پاس آ کر کچھ غلط کروں،،،،،،،،عالم شاہ کی آواز پر حورعین کے گیٹ کھولتے ہاتھ ایک منٹ روکے تھے پر وہ سب اگنور کرتے ہوئے جلدی سے گیٹ کھول. باہر نکلی ۔

باہر نکل کر جب چاروں طرف دیکھا تو سب طرف ویران سی جگہ اور پیچھلی سائیڈ پر جنگل تھا،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین یہ سب دیکھ کر وہی نیچے زمین پر بیٹھ کر رونے لگی ۔

عالم شاہ اس کی طرف بڑھا اور ایک جھٹکے سے اسے بازو سے پکڑ کر اُٹھایا تھا،،،،،،اور روتی بلکتی حورعین اس کی بانہوں میں تھی ۔

وہ اسے اُٹھائے سیدھا کمرے میں آیا اور اسے بیڈ پر رکھا۔

ہو گیا ہو رونا دھونا تو کچھ کھا لے،،،،،،،،،،؟؟ عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے عام سے انداز میں بولا۔

دفع ہو جائے یہاں سے میں آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی نفرت ہے مجھے آپ سے سنا آپ نے جائے یہاں سے،،،،،،،،،،،،،وہ روتے ہوئے چیخی ۔

ائیند تمہاری زبان سے میں نے کوئی بھی بکواس سنی تو یہ یاد رکھنا تم جان سے جاؤ گی میرے ہاتھ سے،،،،،،،عالم اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے ان کو جھٹکا دیتے ہوئے غرایا ۔

ا آ نین کے منہ سے سسکی نکلی تھی. پر عالم کو کوئی پرواہ نہیں تھی ۔

چلے گی تمہاری زبان میرے سامنے بتاؤ مجھے،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سخت اور سرد لہجے میں بولا۔

حورعین نے روتے ہوئے نہ میں سر ہلایا تھا ،،،،،،،،،اسے لگا تھا اس کے بال جڑ سے ہی اتر جائے گیے اگر اب عالم نے اس کے بالوں کو نہ چھوڑا تو۔

شاہ جی مجھے درد ہو رہا ہے،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔

ائیند دھیان رکھنا کیوں کے عالم شاہ کسی کی بدتمیزی برداشت نہیں کرتا،،،،،،،،تمہیں ابھی کچھ نہیں کہا،،،، ،تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو اسے جان سے مار دیتا میں،،،،،،،عالم اس کے بالوں کو چھوڑ کر اسے اب اپنے ساتھ لگا کر پیار سے بولا ۔

حورعین اس کے اس دھوپ چھاؤں جسے روائیہ سے پریشان سی بس رو رہی تھی ۔

آپ کو مجھ سے محبت نہیں تھی پھر کیوں کیا یہ سب،،،،،،،،،،اس کا نرم روائیہ محسوس کرتے ہوئے ہمت سے بولی ۔

دیکھ لو ابھی تو محبت نہیں تھی تو یہ حال ہے میرا اگر محبت ہوتی تو پھر سوچوں کیا کرتا میں،،،،،،،،،،عالم اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔

آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے شاہ جی،،،،،،،،،،حورعین نے سر اُٹھا کر نم شکوہ کرتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

نہیں،،،،،،،،پر جب سے تم میری دوست بنی ہو تم میری ملکیت بن گئی ہو،،،،،،،،،،،،اور اپنی ملکیت میں کسی کو نہیں دیتا،،،،،،،،وہ جنونی انداز میں اس کے بہتے آنسو کو صاف کرتے ہوئے سخت ترین لہجے میں بولا ۔

حورعین بس چپ سے سر کو جھکا گئی،،،،،،،آنسو ابھی بھی بہہ رہے تھے ۔

جاؤ جلدی فریش ہو جاؤ تب تک میں ناشتے کا کہتا ہوں،،،،،،،،وہ حورعین کا گال تھپتھپا کر بولتے ہوئے باہر نکل گیا ۔

پیچھے حورعین اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھر سے رونے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

مجھے ماما بابا کے پاس جانا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین  نے اس کی طرف دیکھتے نم لہجے میں کہا۔

ناشتہ کرو پہلے،،،،،،،پھر کچھ سوچتے ہیں مل انا میرے ساتھ جا کر،،،،،،،،عالم اس کے ساتھ بیٹھ کر بریڈ کا سلائس اپنی پلٹ میں رکھتے ہوئے بولا۔

ملنا نہیں ہے مجھے ہمیشہ کے لیے ان کے پاس جانا ہے آپ برے ہیں آپ کو تو مجھ سے محبت بھی نہیں ہے،،،،،،،،،جب محبت نہیں تو کیوں رہو میں آپ کے پاس،،،،،،،،،حورعین چئیر کھنچتے ہوئے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔

دونوں اس وقت ڈائینگ ہال میں تھے ۔

نین چپ چاپ ناشتہ کرو،،،،،،میں تم پر غصہ نہیں کرنا چاہتا،،،،،،،،،،عالم کا دھیان اپنی پلٹ پر تھا وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا ۔

نہیں کھانا مر نہیں جاؤں گی ایک دن نہ کھایا تو،،،، ،،،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے وہاں سے جانے لگی ۔

ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو وہ حال کروں گا بھول جاؤ گی کے تم ہو کون،،،،،،،،،بس یاد رہے گا تو یہ کے عالم شاہ کون ہے اور کتنا درندوں صفت انسان ہے وہ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اس کی طرف دیکھتے ہوئے سرد لہجے میں بولا۔

حورعین اس کی طرف دیکھتے ہوئے چپ چاپ وہاں بیٹھ گئی ۔

ختم کرو اسے،،،، ،جلدی سے،،،، ،عالم اس کے سامنے سلائس رکھتے ہوئے بولا جس پر اس نے منہ بنا کر سب کھا لیا۔

مجھے ماما کے پاس لے جائیں،،،،،،حورعین کے بولنے پر عالم اس کی طرف دیکھنے لگا جو اسی کے کپڑوں میں کھڑی لمبی شرٹ اور بھگڑا سا حوالہ بال بھی بکھرے ہوئے تھے،،،،،،ناک رونے سے لال ہو رہی تھی ۔

بھول جاؤ اپنے والدین کو اب تم نے ساری زندگی میرے ساتھ گزارانی ہے،،،،،،،عالم کے بولنے پر حورعین غصے سے اسے دیکھتے ہوئے رونے لگی ۔

رونا مت،،،،،تھوڑی دیر کے لیے جا رہا ہوں ضروری کام ہے،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے بول کر وہاں سے نکل گیا حورعین وہی کھڑی بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی ۔

وہی بچوں کی طرح نیچے زمین پر بیٹھ کر رونے لگی تب ہی عالم کی دو میڈ وہاں آئی ۔

سکینہ یہ تو کوئی چھوٹی سی لڑکی ہے ورنہ تو صاحب بڑی بڑی لڑکیوں کے ساتھ آتے ہیں،،،،،،،،،،،،ایک عورت دوسری عورت سے بولی جس پر ان کی بات سن کر حورعین نے چہرا اوپر اُٹھایا ۔

کیا مطلب آپ کا آنٹی،،،،،،،،،حورعین نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

تم صاحب کے ساتھ کیا ایک رات کے لیے آئی ہو،،،، ،،،،،،،،،صاحب آگے بھی لے کر آتے ہیں لڑکیوں کو ایک یا دو راتوں کے لیے،،،،،،،پر تم پہلی لڑکی ہو جو اتنی چھوٹی سی ہے،،،،،،،،،،ان کی بات سن کر حورعین کو لگا اس کی سانس بند ہو جائے گی ۔

تو کیا یہ شاہ جی کا گھر نہیں ہے،،،،،،،،،،،،،حورعین نے حیرت میں دوبے ہوئے کہا ۔

نہیں تو یہ ان کا گھر نہیں ہے ان کی تو بہت بڑی حویلی ہے جہاں بہت سے لوگ ہیں یہ تو ان کا فارم ہاؤس ہے،،،،،،،،،،،اور تم کون ہو،،،،،،،،اس عورت کے بتانے پر حورعین کھو سی گئی ۔

کیا مجھے بھی ایک رات کے لیے لے کر آئے ہیں،،،،،،،،،،،؟؟ حورعین کی یہ سب سوچ کر ہی سانسس اٹک گئی ۔

تو ظاہر سی بات ہے اگر فارم ہاؤس میں لائے ہیں تو اسی لیے لے کر آئے ہوں گیے،،،،،،،،حورعین نے خوف سے ان کی بات سنی تھی اور پھر وہاں سے اٹھا کر اندر کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔

نہیں نہیں ایسے نہیں کر سکتے شاہ جی،،،،،،،،،،حورعین بری طرح رو رہی تھی اور کمرے میں ادھر اُدھر چکر لگا رہی تھی ۔

انہوں نے تو خود کہا ہے ان کو مجھ سے محبت بھی نہیں ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،تو وہ جو انہوں عورتوں نے بولا وہ سچ ہے،،،،،،،،،،حورعین بری طرح روتے ہوئے سوچ کر باہر کھڑکی کی طرف گئی ۔

میں بھاگ جاؤں گی کبھی بھی شاہ جی کے ہاتھ نہیں آنا میں نے،،،،،،،،،حورعین نیچے چاروں اطراف دیکھنے لگی اور جنگل سے باہر دور اسے سڑک نظر آئی تھی ۔.

ایسا ہی کروں گی وہاں سے ہوتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کروں گی مجھے ابھی جانا چاہے اس سے پہلے کے شاہ جی آ جائے یا زیادہ رات ہو جائے،،،،،،،،،حورین خود کو سنبھالتے ہوئے چپھکے سے چاروں اطراف دیکھتے ہوئے باہر کی طرف نکلی پاؤں میں کوئی جوتا اور شوز نہیں تھا۔

کوئی بات نہیں میں ایسے ہی بھاگ لوں گی،،،،،،پر آتے وقت وہ الماری میں سے عالم شاہ کے موزے لے کر آئی تھی ان کو پاؤں میں پھین لیا۔

سب سے چپ کر ایک سائیڈ سے ہوتے ہوئے وہاں سائیڈ پر بنے راستے سے نکل کر حورعین جنگل کی طرف نکل گئی ۔

پر وہ نہیں جانتی تھی کے جنگل لگتا چھوٹا ہے پر ہے بہت بڑا،،،،،،ایک رات تو کیا وہ اسے دو دن میں بھی پار نہ کر پائے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زین بھائی زین بھائی،،،،،،،،،،،زین سوئے ہوا تھا کے اسے نیچے سے ماہ نور کی آوازیں سنائی دی ۔

وہ جلدی سے جب نیچے آیا تو سامنے دیکھا ماہ نور زرمین کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جو سیڑھیوں کے پاس بے ہوش پڑی تھی ۔

کیا ہوا زرمین کو زرمین،، زرمین ،،،،،،،،،،زین اسے کا سر اپنی گود میں رکھ کر تھپتھپاتے ہوئے بولا۔

پتہ نہیں بھائی میں میں نماز پڑھ کر آئی تو دیکھا سامنے آپی نیچے زمین پر پڑھی ہوئی تھی،،،،،،،،،،زین اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا ۔

کیا زرمین رات کی،،،،،،،،،یہ سوچ آتے ہی زین نے جلدی سے زرمین کو باہوں میں بھرا اور باہر کی طرف بھاگا ۔

ماہ نور بھی اس کے پیچھے بھاگی ۔

دونوں اسے گاڑی میں ڈال کر سیدھا ہاسپٹل لے گیے ۔

زرمین کو ڈاکٹر اندر چیک کر رہے تھے اور وہ دونوں باہر بیٹھے ہوئے تھے ۔

ڈاکٹر کسی ہے زرمین،،،،،،،،ڈاکٹر کے باہر آنے پر زین جلدی سے اُٹھ کر اس کی طرف آیا اور بولا۔

اب بہتر ہیں ان کو ڈریپ بھی لگا دی ہے،،،،،،،،ان کو بہت تیز بخار ہے،،،شاید اسی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی،،اب انجکشن بھی لگایا ہے تھوڑی دیر بعد آپ ان کو گھر لے کر جا سکتے ہیں پر فلوقت ان کو آرام کی سخت ضرورت ہے،،،،،،،،،،،،،،،ڈاکٹر زین کو بول کر وہاں سے چلا گیا ۔

ماہ نور اندر کمرے میں گئی جبکہ زین وہی باہر بھینچ پر ہی بیٹھ گیا۔

کیا ہو رہا ہے کیا میں زرمین کے ساتھ ٹھیک کر رہا ہوں،،،،،،،،،،،زین وہی بیٹھ کر سوچ کر رہا گیا ۔

سر یہ آپ کے فادر کا کال آئی ہے،،،،،،،زین کے پاس ایک آدمی آ کر بولا ۔

زین نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

جی ڈیڈ،،،،،،،،،،؟؟ وہ آنکھوں کو موندے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا گیا ۔

جب تم پیدا ہونے والے تھے تمہاری ماں کو اتنی ذہنی ٹینشن دی گئی تھی کے اس نے تمہیں پیدا کرتے ہی موت کو گلے لگا لیا،،،،،،،،دوسری طرف کی بات سن کر زین نے لب بھیچ لیے ۔

آپ نے میرے پیچھے اپنے آدمی لگا رکھے ہیں،،،،،،،،،؟؟

ہاں تم بیٹے ہو میرے اسی لیے تمہاری حفاظت کے لیے ہے سب کچھ،،،،،،،،دوسری طرف کی بات سن کر زین نے فون بند کرتے ہوئے اسے فون پکڑایا اور خود اندر روم کی طرف بڑھ گیا جہاں زرمین تھی ۔

زین اندر گیا تو ماہ نور زرمین کے پاس اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

آپی تو شادی کے بعد خوش ہونے کے بجائے مرجھا گئی ہیں زین بھائی،،،،،،،،،،کیا حال ہو گیا ہے ان کا کیا چل رہا ہے آپ دونوں کے درمیان،،،،بتائے مجھے پلیز،،،،،،،،ماہ نور اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے زین کی طرف مڑ کر بولی۔

زین بس سپاٹ سے چہرے سے سامنے لیٹی زرمین کو دیکھ رہا تھا جو سچ میں مرجھائی مرجھائی اور پیلی زرد ہو رہی تھی اور آگے سے کمزور بھی ہو چکی تھی ۔

کچھ نہیں چل رہا ہمارے درمیان تم بھی جانتی ہو ماہ نور زرمین سے محبت کرتا ہوں میں،،،،،،زین کا دھیان اب  بھی زرمین کی طرف تھا پر وہ بات ماہ نور سے کر رہا تھا ۔

اگر آپ کی وجہ سے ان کو کچھ ہوا نہ زین بھائی تو میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرنے والی،،،،،سنا آپ نے،،،، ،،،،،،،،ماہ نور اس کو غصے سے بول کر باہر نکل گئی ۔

زین زرمین کے پاس آیا تھا اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا دیا جو ڈریپ لگنے سے سرد سا ہو رہا تھا ۔

کتنی ہی دیر اس کے سرد ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے کھڑا رہا،،،،اسے دیکھتا رہا پر گہرا سانس لیتے ہوئے پیچھے ہٹ کر پاس پڑھے صوفے پر بیٹھ گیا ۔

جو میں آگے کرنے والا ہوں وہ تم سے بالکل بھی برداشت نہیں ہو گا زرمین،،،،،،،،اتنی سے نے رحی سے تمہارا یہ حال ہے آگے جا کر کیا ہو گا تمہارا،،،،،،،،،،،،،زین پھیکا سا مسکرا دیا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور کمرے میں تھکی سی آ کر لیٹی تو اس کا فون رنگ ہوا،،،،،،اس نے بے زار ہوتے ہوئے جب فون کو دیکھا تو شایان کی کال تھی،،،فون کو دیکھنے کے بعد سائیڈ پر رکھا کر آنکھوں کو بند کر گئی ۔

موبائل تھوڑی دیر بجتا رہا اور پھر خود ہی بند ہو گیا ۔

میرا فون دیکھنے کے باوجود کیوں نہیں اُٹھایا،،،،،،،،،،،،شایان کی آواز خود کے بالکل قریب سنائی دی تو ماہ نور نے جھٹ سے آنکھوں کو کھولا تو وہ اسی پر جھکا ہوا اسے گھور رہا تھا ۔

تم یہاں،،،،،،،،،،؟؟ماہ نور اپنا حلق تر کرتے ہوئے آہستہ سے بولی ۔

میرا فون کیوں نہیں اُٹھایا ماہ نور،،،،،،،،،،وہ ماہ نور کے ارد گرد دونوں اطراف ہاتھ رکھے اس پر مکمل طور پر جھکا ہوا تھا۔

پیچھے ہٹو شایان،،،،،،،ماہ نور نے آس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا ۔

میرا فون کیوں نہیں اُٹھایا ماہ نور،،،،،،،،،،،اور یہ میں لاسٹ دفع پوچھ رہا ہوں اس کے بعد میں سزا دوں گا فون نہ اُٹھانے کی،،،،،،،،،،،،شایان جب اس دفع بولا تو اندازہ سرد تھا آنکھوں میں غصہ ۔

میرا موڈ نہیں تھا تم سے بات کرنے کا اور تم کون ہوتے ہوئے مجھے سزا دینے والے،،،،،،،،،غلام نہیں ہوں تمہاری،،،،،،،،ماہ نور آہستہ مگر دبے لہجے میں غرائی ۔

بیوی ہو تم میری اور تمہارا پورا فرض ہے میرا فون اُٹھانا،،،،،،،،کیوں نہیں تھا موڈ،،،،،،،،شایان اس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر سائیڈ پر اس کے ساتھ لیٹ گیا ۔

آپی کی وجہ سے پریشان ہوں،،،،،،،،،وہ اتنی لاپرواہ تو نہیں ہیں جتنی اب ہو گئی ہے،،،،،،،،،ماہ نور ابھی بھی ویسے ہی لیٹی ہوئی تھی ۔

کیوں کیا ہوا ،،،،،،،،،،،؟؟ شایان کہنی کے بل اس کی طرف ہوتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے بولا جس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے ۔

کچھ تو ہے جو زین بھائی اور زرمین آپی کے درمیان چل رہا ہے اور ابھی آپی اتنی زیادہ بیمار تھی ابھی ابھی ہاسپٹل سے آئے ہیں ہم،،،،،،،ان کو لے کر،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے بھی اس کی طرف رُخ کر لیا ۔

ہممم۔

شایان ،،،،،،،،،،،۔

وہ اپنی ہی سوچ میں گم تھا کے ماہ نور بولی۔

ہاں جی ،،،،،،،،،،،،۔

مجھے سکون چاہے،،،،،،،،،،،،نہیں ملتا مجھے،،، پتہ نہیں کیوں ایسا لگا رہا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہو،،،، میرے ذہن میں بری چیزیں گھوم رہیں ہیں،، ،،،،،،برے خواب ہر چیز ایسے جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے،،،،،،،،،،ماہ نور کی آنکھیں نم ہو گئی تھی ۔

ریلکس ماہ نور ایسا کچھ نہیں ہے بس تمہارا برا حیال ہے اور کچھ نہیں،،،،،،،،،،شایان سیدھا ہو کر اس کے چہرے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔

جاؤ یہاں سے،،،،،،،،ماہ نور رُخ موڑے شایان سے بولی ۔

عجیب پاگل لڑکی ہو تم کبھی بچوں تک کی بات کر دیتی ہو اور کبھی ایک منٹ میں اپنے گھر سے نکل جانے کو بولتی ہو،،،، ،،،،،،،،،شایان بیڈ سے سیدھا کھڑا ہوتے ہوئے بڑبڑایا ۔

ماہ نور اس کی بات سن کر مسکرا دی ۔

یہ مسکرانا کبھی ہمارے لیے بھی ہو جائے،،،،،،،،،شایان اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر پھر سے ایک دفع اس پر جھکا۔

اس دفع انکل آتے تو تمہیں گھر لے جاؤں گا،،،،،،،،،وہ خود کی طرف دیکھتی ہوئی ماہ نور کے ہونٹوں کو چھوتے ہوئے بول کر پیچھے ہٹا ۔

ماہ نور اس کی اس حرکت پر لال ٹماٹر ہو چکی تھی ۔

شایان اس کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے ایک آنکھ دبا کر وہاں نکل گیا ۔

بدتمیز کہیں کا،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے سر تکیہ میں چھپا گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شاہ صاحب آپ جلدی سے فارم ہاؤس آ جائے،، ،،،،،،،اپنے خادم کی کال سنتے ہوئے اس کے ماتھے پر بل پڑھے تھے جو مصروف سا تھا میٹنگ میں ۔

کیوں کیا مسئلہ ہے،،،،،،،،،،کان پر لگے بلوتھوت پر غصے سے بولا ۔

شاہ صاحب وہ جو بی بی آپ کے ساتھ آئی تھی وہ اب یہاں کہیں نہیں ہے سارا فارم ہاؤس دیکھ لیا ہے پر وہ نہیں مل رہی،،،،،،،،،،،،اس کی بات سنتے ہوئے عالم شاہ کا غصے سے برا حال ہو گیا ۔

اور وہ میٹنگ کو وہی چھوڑتے ہوئے باہر  کی طرف بھاگا تھا گاڑی کو تیز رفتار میں چلاتے ہوئے فارم ہاؤس کا گھنٹے کا راستے آدھے گھنٹے میں تہہ کر لیا ۔

کہاں ہے نین کہاں بتاؤ کیسے تم سب کے ہوتے وہ یہاں سے جا سکتی ہے،،،،،،،،عالم اندر آتے ہی چیخنا تھا سب نوکر اکھٹے سر جھکائے کھڑے تھے ۔

شاہ صاحب وہ سی سی ٹی وی سے دیکھا ہے بی بی جی جنگل کی طرف گئی ہیں،،،،ہمارے دو باڈی گارڈ بھی ان کے پیچھے گیے ہیں،،،،،،ایک نوکر کے بتانے پر عالم نے غصے سے سب کی طرف دیکھا تھا۔

وہاں تم لوگ جانتے ہو کھائی بھی ہے اگر اسے کچھ ہوا تو میں تم سب کو جان سے مار دوں گا،،،،،،۔

تم سب کو میں آ کر دیکھ لوں گا جلدی سے تیاری کرو اس طرف نکلنا ہے جلدی،،،،،،،عالم اپنے کمرے میں جاتے ہوئے بولا ۔

اور کمرے سے اپنی گن وغیرہ لینے کے بعد جنگل کی طرف اپنے باڈی گارڈ اور دوسرے حادموں کے ساتھ نکل گیا ۔

عالم اور اس کے ساتھی چاروں اطراف پھیل گیے،،،،،،عالم اس کے ہر نشان کو دیکھنے کی کوشش میں تھا۔

سر اندھیرا بھی ہو چکا ہے اس وقت تو یہاں ویسے بھی خطرہ ہوتا ہے،،،،،،،،خادم کی بات سن کر عالم شاہ نے اسے گھور کر کر دیکھا۔

مجھے میری نین ہر حال میں چاہے صحیح سلامت ورنہ آج تم سب کی لاشیں ہوں گی،،،،،،،،عالم کے سرد انداز پر سب پر خوف تاری ہو گیا تھا وہ جانتے تھے کے نہ ملنے کی صورت میں وہ سچ میں ان کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔

وہ یہی آس پاس ہے،،،،،،،عالم شاہ چاروں اطراف دیکھ کر بولا،،،،،،،جنگل میں اندھیرا پھیل چکا تھا پر ان کے پاس بڑی سرچ لائٹ تھی ۔

جس کی وجہ سے وہاں ہر طرف صبح کا منظر پیش کر رہیں تھیں۔

عالم شاہ بہت اچھی طرح سے جنگل کے حصوں کو جانتا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین چلتی جا رہی تھی پر کوئی راستہ سمجھ نہیں ا رہا تھا اور اوپر نے پاؤں میں کہیں دفع کانٹے لگے،،،،،،،،ان اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔

پلیز اللہ جی مدد کریں میں کہا پھنس گئی بہت درد ہو رہا ہے پاؤں میں،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے گھٹنوں میں سر دے کر درخت کے ساتھ تھک کر بیٹھ گئی،،، چارو اطراف اندھیرے کی وجہ سے بھی وہ خوفزدہ سی ہو چکی تھی ۔

پاؤں سے خون نکل رہا تھا جو اس کے پہنے موزوں میں جذب ہو رہا تھا جہاں جہاں سے موزے سفید تھے وہاں سے وہ خون کی وجہ سے سرخ ہو چکے تھے ۔

نین نین،،،،،،،،،،،،اسے پاس کہیں اپنے عالم کی آواز سنائی دی تھی،،،،،،روتی ہوئی حورعین نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا کر اپنی سسکی دبائی ۔

نہیں میں کبھی بھی نہیں جاؤں گی شاہ جی آپ کے ساتھ آپ مجھے ایک رات کے لیے رکھیں گے،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اپنی آواز دبائے ہوئے خود میں اور بھی سمٹ کر بیٹھ گئی ۔

نین میں تمہیں تمہاری خوشبو سے پہچان لیتا ہوں،،،،،،،،،،عالم شاہ کی آواز اپنے قریب سے سنائی دی تو،، حورعین نے بینا سوچے اُٹھی تھی اور وہاں سے بھاگنے لگی ۔

عالم شاہ کی اس کو دیکھ کر جان جانے والی ہو چکی تھی کیونکہ سامنے جس طرف وہ بھاگ رہی تھی وہاں کھائی تھی ۔

نین روک جاؤ آگے مت جانا،،،،،،،،،عالم کی آواز سنتے ہی وہ اور بھی تیزی سے بھاگنے لگی پاؤں کے زخموں کا حیال کیے بینا بس بھاگ کر عالم شاہ سے دور جانا چاہتی تھی ۔

عالم بھی اس کی طرف بھاگا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

نین آگے مت جانا نین،،،،،،،،عالم اسے پکار رہا تھا کے اس کے پاؤں پر  ٹھوکر لگی اور وہ نیچے گری،،،،،،،،ابھی وہ اُٹھا کر بھاگتی،،،،،،عالم تیزی سے اس کے پاس پہنچا تھا اور اسے زور سے خود میں بھیچ لیا ۔

چھوڑیں مجھے مجھے گھر جانا ہے گھر جانا ہے،،،، ،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اسے مار رہی تھی عالم کے سب آدمی آس پاس کھڑے تھے پر سب نے اپنی نظریں جھکا رکھی تھی ۔

آگے کھائی ہے نین تم پاگل ہو چکی ہو میں لے جاؤں گا صبح تمہیں تمہارے ماما بابا کے پاس ،،،،،،،بولا تھا نہ میں نے پھر کیوں بھاگی،،،،،،،،،،،،،،عالم جب بولا تو اس کا انداز غصہ لیے ہوا تھا۔

شاہ جی آپ مجھے ایک رات کے لیے لے کر آئے ہیں ایسا مت کریں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد تھے،،،،،،میں بری نہیں ہوں،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ سسکتے ہوئے چہرے پھر سے اس کے سینے میں چھپا گئی ۔

عالم نے محسوس کیا تھا اس کا وجود لرز رہا تھا اور وہ رو رہی تھی ۔

نین یہ سب کسی نے کہا تم سے،،،،،،،،،،؟؟ عالم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ارام سے کہا پر آنکھیں ضبط اور غصے سے لال ہو رہی تھی ۔

شاہ جی ایسا مت کرنا،،،،،،،،ورنہ میں مر جاؤں گی،،،، ،،،،، حورعین جب بولی تو عالم شاہ نیچے سے اُٹھا تھا اور اسے سیدھا کھڑا کیا ۔

آہ ہ ہ،،،،،،،،،،،،پاؤں جب زمین پر لگے تو حورعین درد کی وجہ سے کراہ اُٹھی۔

عالم نے لائٹ کی روشنی میں دیکھا کے اس کے پاؤں میں پہنیں موزے،،،،،،اور اس میں بینی سفید جگہ جو آپ سرخ ہو چکی تھی ۔

پاؤں میں درد ہے،،،،،،،عالم اسے بولا جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا ۔

اس کے سب خادم حیرت زدہ سے تھے وہ عالم شاہ جو کسی کو اپنے جوتے کی نوک پر نہیں رکھتا وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کو اب بانہوں میں بھرے جنگل سے اپنے فارم ہاؤس کی طرف جا رہا تھا سب ہی اس کے پیچھے آہستہ سے چل رہے تھے ۔

ڈاکٹر کو لے کر آو جلدی،،،،،،،،فارم ہاؤس پہنچ کر عالم کے کہنے پر،،،،،،،،اس کا ایک نوکر جلدی سے ڈاکٹر کو لینے چلا گیا ۔

عالم اسے کمرے میں لاتے ہی بیڈ پر لیٹا دیا حورعین ابھی بھی عالم سے خوفزدہ تھی ۔

شاہ جی مجھے ایک رات کے لیے،،،،،،،،،،،،،۔

ششش حورعین ایک اور لفظ نکلا تمہارے منہ سے اس بارے میں تو میں تمہاری جان اپنے ہاتھوں سے لوں گا،،،،،،،،،،،،اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا سرد سے اندازہ میں بولا حورعین نے خوف سے آنکھوں کو بند کر لیا جس سے عالم کے چہرے پر مسکراہٹ بھکر گئی ۔

وہ اُٹھا اور اس کے قدموں کی طرف گیا،،،،،،،،،آرام سے اس کے پاؤں سے موزے اتارے،،،،،،،،،،،،،،حورعین ایک دفع پھر سے سسکی تھی، ،،اس کے چہرے پر درد کے آثارِ صاف نظر آ رہے تھے ۔

عالم نے لب بھیچے اسے دیکھا،،،،،،،جس کے پاؤں میں جگہ جگہ زخم تھے اور خون رس رہا تھا ۔

تب ہی داکٹر اندر آیا،،،،،،،،،اس کے آنے پر عالم پیچھے ہٹ گیا اس نے حورعین کو چیک کیا اور پھر اس کو انجکشن لگا دیا،،،،جس سے وہ غنودگی میں جانے لگی۔

اور پھر اس کے پاؤں کے زخم کو آہستہ آہستہ صاف کیا اور وہاں میڈیسن لگائی،،،، ،غنودگی میں عالم شاہ نے دیکھا تھا کے اس کے چہرے پر درد تھا اور وہ نیند میں جاتے ہوئے بھی کراہ رہی ہے ۔

شاہ صاحب زخم کافی گہرے ہیں دوائی لگا دی ہے اور انجکشن دیا آرام کرنے کا صبح تک ٹھیک ہو جائے گی،،،،،،،،،اور یہ میڈیسن لکھ دی ہے اس کو ان کے پاؤں پر لگا لیجیے گا،،،،،،،،،ڈاکٹر کے بولنے پر عالم شاہ نے سر ہلا دیا تھا اس کا سارا دھیان ابھی بھی حورعین پر ہی تھا جو اب سو رہی تھی ۔

ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ اس کے پاس آیا اور اس کے پاؤں کے زخموں کو ہاتھ سے چھوا اور پھر اس پر کمفرٹ درست کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔

تمہیں بھاگنے کی سزا ضرور ملے گی نین مجھ سے دور جانے کی ہمت بھی کیسے کی تم نے،،،،،،،اس کی سزا تو ضرور دوں گا تمہیں میں پر ابھی اسے سزا ملے گی جس کی وجہ سے تم نے یہ سب کیا،،،، ،،،،،،،،عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی پیشانی کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

پلیز سلمان مجھے میری حورعین لا دیں،،،،،،،،مسسز سلمان کا برا حال ہو چکا تھا ۔

پتہ نہیں کس حال میں ہو گی میرا دل بہت بے چین ہے،،،،،،وہ انسان جو اسے ہمارے سامنے اتنی بے دردی سے ٹریٹ کر رہا تھا بعد میں کیا کیا ہو گا اس کے ساتھ،،،،،،،،مسسز سلمان اور سلمان صاحب بہت پریشان سے ایک دوسرے سے اپنا غم بانٹ رہے تھے ۔

کچھ پتہ چلا میری حور کا  صائم،،،،،،،،،،مسسز سلمان اپنے بیٹے سے بولی جو کچھ دن پہلے ہی حورعین کی خبر سن کر واپس آیا تھا۔

کچھ پتہ نہیں چل رہا ماما،،،،،کوئی بھی اس کے حالاف ریپوٹ نہیں لے رہا،،،،،،،بہت پاور ہے اس کی،،،،،،،،،صائم تھکے سے اندز میں صوفے پر بیٹھا آنکھوں کو موندے بولا۔

اللہ حیر کرے گا اللہ میری بیٹی کی حفاظت کرے،،،،،،،،،،سلمان صاحب صائم کے کندھے پر ہاتھ رکھ تسلی کے لیے بولے ۔

بابا آپ فکر مت کریں میں اس انسان کو چھوڑنے نہیں والا جس نے میری بہن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے،،،،،،،،صائم بولا تو اس کے لہجے میں غصہ تھا۔

سلمان کچھ غلط مت کرنا تب تک نہیں جب تک ہماری حور اس کے پاس ہے،،،،،،،میں نہیں چاہتا وہ اسے نقصان پہنچائے،،،،،،،،،سلمان صاحب سمجھ داری سے بولے،،،،،،،جس پر صائم سر کو جھٹک گیا  پر بولا کچھ نہیں ۔

اور آرام سے اُٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

بیگم ہو سکے تو زیادہ مت پریشان ہوا کرو اس کے سامنے ایک بچہ تو ہم کھو چکے ہیں دوسرا کھونے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے،،،،،،،،سلمان صاحب بولے تو ان کے لہجے میں بے بسی تھی ۔

مسسز سلمان بھی بے آواز رو دی ۔

میں کیا کروں سلمان وہ بیٹی ہے میری اور لاڈلی بھی اور وہ تو ہے بھی ڈرپوک سی،،،،،،،،،پتہ نہیں کس حال میں ہو گی،،،،،،،۔

سب ٹھیک ہو گا اللہ پر چھوڑ دیں بس،،،، اب زیادہ پریشان مت ہوں آپ سنا آپ نے،،،، ،،وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولے جس پر وہ سر کو ہلا گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بابا آپ کب آئے اور اتنی جلدی کیا ہوا سب ٹھیک ہے ماہ نور نیچے آئی تو سامنے ہی تسلم صاحب کو دیکھ کر بولی ۔

زین  زین کہاں ہے زین،،،،،،،،،،،،،وہ اونچی آواز میں چیخے،،،،،،۔

کیا ہوا ہے بابا سب ٹھیک تو ہے،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور پریشانی سے بولی ۔

کچھ ٹھیک نہیں ہے ماہ نور بچے،،،کچھ ٹھیک نہیں ہے،،،،،،،،،وہ اس دفع بولے تو ان کا لہجہ نم تھا۔

جی بولے،،،،،،،زین نیچے آ کر سرد سے اندز میں بولا ۔

ماہ نور اس کا اندازہ دیکھ کر ہی حیران تھی ۔

کیا ہو رہا ہے سب،،،،،،،،،کیوں کیا تم نے میرے ساتھ یہ،،،،،،،،،تسلم صاحب غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولے،،،،،،،،زین کے پیچھے پیچھے زرمین بھی آئی تھی ۔

بابا کیا ہوا،،،،،،،،زرمین بھی پریشانی سے تسلم صاحب کو دیکھ رہی تھی دونوں بیٹیاں ان کے ساتھ لگی پریشان تھی جب کے زین کا اندازہ سرد تھا۔

زین کیوں کیا،،،،،،،،،،،؟؟ تسلم صاحب کا سوال دونوں بہنیں نہیں سمجھ پا رہی تھی،،،،پر زین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔

ماں کا حصہ لیا ہے اور سب میری اپنی محنت ہے،،،،،،،،،،،،،آپ سے مطلب،،،،،،زین پرسکون طریقے سے صوفے ہر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا ۔

دونوں ماہ نور اور زرمین زین کا یہ انداز دیکھ کر حیران تھی ۔

ماں کا حصہ کیا مطلب ہے تمہارا،،،،،،تسلم صاحب چیخے ۔

آواز آہستہ تسلم صاحب،،،،،مجھ سے برداشت نہیں ہے یہ اب اور میں آپ کو جواب دے نہیں ہوں اپنی بیٹیاں لے اور جائے یہاں سے،،،،،،،،زین تحمل سے بول کر ان تینوں کی دنیا ہلا گیا ۔

زرمین تمہاری بیوی ہے،،،،،،،،،،،۔

نہیں زرمین آپ کی بیٹی ہے،،،،،،،،،،میرا اور اس کا کوئی رشتہ نہیں،،،،،،،،،،،،،وہ تسلم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

زین،،،،،،،،،میں اور ماہ نور چلے جائے گیے پر زرمین تو تمہاری بیوی ہے اسے تو مت نکالو،،،،،،،ان کے لہجے میں بے سی تھی ۔

یہ ہی تو سب سے بڑی سزا ہے آپ کی کے آپ کی بیٹی برباد ہو جائے اور میرے پیار میں مر جائے،،،،،،،،،،،زین کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک آنکھ دبا کر بولا ۔

بابا یہ سب کیا ہے،،،،،،،،،زرمین ہی  ان سے بولی جو خود زین کی ہر روائیہ سے دل بردشتہ ہو چکے تھے ۔

اپنا سامان لے کر آؤ تم دونوں،،،،،،،،،،،تسلم صاحب کے بولنے پر وہ دونوں ان کو دیکھنے لگی،،، زین کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔

بابا پر،،،،،،،۔

سنا نہیں تم دونوں نے جاؤ اپنی ضرورت کی چیزیں لے آؤ اور چلو میرے ساتھ، ،،،،،،،،تسلم صاحب کے چیخ کر بولنے پر دونوں اوپر کی طرف اپنے روم میں گئی۔

اچھا نہیں کر رہے تم زین پچھتاؤا گیے،،،،،،،،،،تسلم صاحب اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جو ان کی بات سن کر ہنس دیا ۔

کوئی بات نہیں پچھتا لوں گا پیارے سسر جی،،،، ،،،،،،وہ ہنستے ہوئے بولا ۔

بابا جی،،،،،،،،وہ دونوں حیرت زدہ سے بس تسلم صاحب اور زین کی باتیں سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی ۔

طلاق مل جائے گی جلدی ہی،،،،،،،،،،زین کی بات سن کر زرمین کو لگا اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو اس نے مڑ کر زین کی طرف دیکھا جو اب سگریٹ سلگا کر پی رہا تھا ۔

تسلم صاحب خاموش رہے ماہ نور بھی َزین کا یہ روپ دیکھ کر پریشان سی تھی پر اس کی یہ بات ان کر اور بھی زیادہ حیرت زدہ رہ گئی ۔

جس دن طلاق دی اس سے آگے دن میرے جنازے میں شرکت ضرور کرنے انا،،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے باہر کی طرف بڑھنے لگی ۔

ہاہاہاہاہاہا اہاہاہاہاہاہا سوری میری جان اتنا بے فضول وقت نہیں ہے میرے پاس ،،،،،،،،،،،وہ ہنستے ہوئے بولا جس پر زرمین لب بھیچے باہر نکل گئی اور ماہ نور کو تسلم صاحب کھنچتے ہوئے لے گیے ۔

پیچھے زین کی آنکھ سے ایک آنسو بہہ نکلا۔

نفرت کی جنگ میں آج اس نے اپنے سب رشتے کھو دئے تھے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

بابا کہاں جائے گیے ہم،،،،،،،،،،؟؟ زرمین پریشان سی تسلم صاحب سے بولی ۔

فلیٹ ہے جو تم دونوں کے نام ہے وہاں جائے گیے،،،،،،،،،تسلم صاحب گاڑی چالتے ہوئے ان دونوں کے ساتھ اس جگہ پہنچے تھے،،،، ،وہ جگہ کچھ خاص نہیں تھی پر رہنے کے قابل تھی ۔

تسلم صاحب کے دروازہ کھولنے پر  اندر دیکھا تھا فلیٹ کا کافی برا حال تھا۔

تسلم صاحب کا دھول کی وجہ سے سانس بند ہونے لگا،،، زرمین نے آگے بڑھ کر جلدی سے کھڑکی اور بالکنی کا دروازہ کھولا،،،،،اور وہاں پاس چئیر کو صاف کیا۔

ڈیڈ آپ ٹھیک ہیں،،،،،،،؟؟زرمین ان سے پریشانی سے بولی،،،،،جبکہ ماہ نور بس دیوار کے ساتھ لگی رونے میں مصروف تھی ۔

یہ سب کیوں کیا زین بھائی نے ڈیڈ،،،،،،،،؟؟ماہ نور بولتے ہوئے دیوار کے سہارے ہی نیچے بیٹھ گئی ۔

اسے لگتا ہے اس کی ماں کی موت میں میرا قصور ہے،،،،،،،،،،اسی لیے اس نے میرے تمام شئیر بھیچ کر اپنے نام کر لیے اور وہ گھر میں پہلے ہی زین کو اس کی ماں کے حصے میں دے چکا تھا،،،،،،،ہمارے پاس اب کچھ نہیں ہے ہم برباد،،،،،،،،وہ ابھی بولتے زرمین بولی ۔

ڈیڈ برباد ہم نہیں وہ ہو گیا آج اس نے تمام رشتے کھو دئے اپنی ضد اور انا میں آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا،،،،،،،،زرمین اس کے انسو صاف کرتے ہوئے مسکرائی،، پاس بیٹھی ماہ نور بس چپ سی ہو گئی تھی ۔

چلیں آپ بیٹھے میں روم کو دیکھوں تاکہ آپ آرام کریں پھر کچھ سوچتے ہیں میں جاب وغیرہ کا کچھ کرتی ہوں،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے اُٹھ کر اندر گئی تھی جہاں صرف دو کمرے اور ایک چھوٹا سا کچن اور چھوٹا سا ہی ہال تھا جہاں پر صوفہ لگا ہوا تھا جہاں تسلم صاحب پاس چئیر پر بیٹھے ہوئے تھے ۔

زرمین روم میں آ کر اپنے گرتے ہوئے آنسو کے ساتھ پورے کمرے کو جھڑنے لگی جس میں ایک سنگل بیڈ اور ڈریسنگ تھا پر کمرا اتنا گندا نہیں تھا صاف ہی تھی،،،،،،،،زرمین رو بھی رہی تھی پر خود کو کنٹرول کرتے ہوئے گھنٹے میں پورا کمرا صاف کر لیا تھا اور پھر مسکراہٹ کے ساتھ باہر آئی تھی ۔

چلیں آپ دونوں رو کیوں رہے ہیں اتنا پیارا اور صاف گھر ہے ڈیڈ،،،،،،،ضرورت کی ہر چیز ہے،،،، ،چلیں دونوں رونا بند کرو اور لیٹو جا کر اندر،،،،،،،،زرمین ماہ نور کو تسلم صاحب سے دور کرتے ہوئے ان کو بولی جس پر وہ اسے سر پر پیار دے کر اندر روم کی طرف بڑھ گیے ۔

آپی زین  بھائی ایسا کیسے کر سکتے ہیں،،،، ،ماہ نور روتے ہوئے بولی تھی،،،،جس پر زرمین لب بھیچے بس اسے اپنے ساتھ لگ گئی،،،اور اسے صوفے تک لا کر اسے وہاں لیٹا دیا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی ۔

سو جاؤ آرام کرو نور،،،،،،،،زرمین اسے پیار دیتے ہوئے بولی جس پر ماہ نور بس آنکھوں کو موندھ گئی اس وقت وہ تینوں بہت ٹوٹے ہوئے تھے کیونکہ ان کو اس شخص نے مات دی تھی جو ان کا اپنا تھا ۔

زرمین بس چپ سے ماہ نور کو لیے وہی بیٹھی رہی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

آخری دفع نین کی کس سے بات ہوئی تھی،،،،،،،،،،؟؟ عالم شاہ سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے ۔

وہ دونوں عورتیں جن کی حورعین سے بات ہوئی تھی ان کی سانس گلے میں اٹک چکی تھی وہ جانتی تھی اب ان کا بہت برا ہال ہو گا۔

شاہ صاحب ہمیں نہیں پتہ تھا وہ بی بی آپ کے ساتھ رات،،،،،،،،ان میں سے ایک بولتی عالم کی دھاڑ پر وہی ان کی زبان پر قلف لگ گیا ۔

بکواس نہیں،،،،نین کے بارے میں کسی نے ایک لفظ بھی بولا تو جان سے مار دوں گا میں،،، اور تم دونوں کا آج آخری وقت ہے،،،،،،،،،عالم لال انگارا ہوتی آنکھوں سے ان کو گھورتے ہوئے ان کی طرف دیکھتے ہوئے غرایا ۔

ان دونوں کو،،،،،،،،،،،،،۔

نہیں شاہ صاحب ایسا مت کریں غلطی ہو گئی ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،،،،،،،وہ دونوں روتے ہوئے ان کے پاؤں میں بیٹھ گئی۔

 معاف کیا ان بچوں کی خاطر،،، پر ان دونوں کو باہر پھینک دو آج سے تم دونوں مجھے یہاں نظر آئی تو وہ حال کروں گا جو تم سب کی سوچ ہے،،،اور باقی سب کسی کی ایک بری نظر یا بات میری نین تک پہنچی تو وہ اس دنیا میں نظر نہیں آئے گا،،،،،،،،،،عالم شاہ کی دھاڑ پورے ہال میں گھونجی تھی ۔

وہ سب کو ایک نظر دیکھتے ہوئے وہاں سے اُٹھا تھا اور اوپر حورعین کے پاس چلا گیا ۔

تم دونوں پاگل ہو وہ صاحب کی بیوی ہے نکاح کر کے اسے یہاں لے کر آئے ہیں اور اب بھوریا بستر اُٹھاؤ اور نکلو یہاں سے،،،،،،،،،،ایک خادم کے بولنے پر وہ دونوں بس دیکھ کر رہ گئی اور روتے ہوئے باہر نکل گئی تھی ۔

پیچھے سب میں یہ بات پھیل گئی کے شاہ صاحب نے خاندان سے باہر ایک لڑکی سے شادی کر لی ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️#ناول_کا_نام_شمع_الفت

#Episode8

#AynKhan 

نین آگے مت جانا نین،،،،،،،،عالم اسے پکار رہا تھا کے اس کے پاؤں پر  ٹھوکر لگی اور وہ نیچے گری،،،،،،،،ابھی وہ اُٹھا کر بھاگتی،،،،،،عالم تیزی سے اس کے پاس پہنچا تھا اور اسے زور سے خود میں بھیچ لیا ۔

چھوڑیں مجھے مجھے گھر جانا ہے گھر جانا ہے،،،، ،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اسے مار رہی تھی عالم کے سب آدمی آس پاس کھڑے تھے پر سب نے اپنی نظریں جھکا رکھی تھی ۔

آگے کھائی ہے نین تم پاگل ہو چکی ہو میں لے جاؤں گا صبح تمہیں تمہارے ماما بابا کے پاس ،،،،،،،بولا تھا نہ میں نے پھر کیوں بھاگی،،،،،،،،،،،،،،عالم جب بولا تو اس کا انداز غصہ لیے ہوا تھا۔

شاہ جی آپ مجھے ایک رات کے لیے لے کر آئے ہیں ایسا مت کریں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد تھے،،،،،،میں بری نہیں ہوں،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ سسکتے ہوئے چہرے پھر سے اس کے سینے میں چھپا گئی ۔

عالم نے محسوس کیا تھا اس کا وجود لرز رہا تھا اور وہ رو رہی تھی ۔

نین یہ سب کسی نے کہا تم سے،،،،،،،،،،؟؟ عالم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ارام سے کہا پر آنکھیں ضبط اور غصے سے لال ہو رہی تھی ۔

شاہ جی ایسا مت کرنا،،،،،،،،ورنہ میں مر جاؤں گی،،،، ،،،،، حورعین جب بولی تو عالم شاہ نیچے سے اُٹھا تھا اور اسے سیدھا کھڑا کیا ۔

آہ ہ ہ،،،،،،،،،،،،پاؤں جب زمین پر لگے تو حورعین درد کی وجہ سے کراہ اُٹھی۔

عالم نے لائٹ کی روشنی میں دیکھا کے اس کے پاؤں میں پہنیں موزے،،،،،،اور اس میں بینی سفید جگہ جو آپ سرخ ہو چکی تھی ۔

پاؤں میں درد ہے،،،،،،،عالم اسے بولا جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا ۔

اس کے سب خادم حیرت زدہ سے تھے وہ عالم شاہ جو کسی کو اپنے جوتے کی نوک پر نہیں رکھتا وہ ایک چھوٹی سی لڑکی کو اب بانہوں میں بھرے جنگل سے اپنے فارم ہاؤس کی طرف جا رہا تھا سب ہی اس کے پیچھے آہستہ سے چل رہے تھے ۔

ڈاکٹر کو لے کر آو جلدی،،،،،،،،فارم ہاؤس پہنچ کر عالم کے کہنے پر،،،،،،،،اس کا ایک نوکر جلدی سے ڈاکٹر کو لینے چلا گیا ۔

عالم اسے کمرے میں لاتے ہی بیڈ پر لیٹا دیا حورعین ابھی بھی عالم سے خوفزدہ تھی ۔

شاہ جی مجھے ایک رات کے لیے،،،،،،،،،،،،،۔

ششش حورعین ایک اور لفظ نکلا تمہارے منہ سے اس بارے میں تو میں تمہاری جان اپنے ہاتھوں سے لوں گا،،،،،،،،،،،،اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا سرد سے اندازہ میں بولا حورعین نے خوف سے آنکھوں کو بند کر لیا جس سے عالم کے چہرے پر مسکراہٹ بھکر گئی ۔

وہ اُٹھا اور اس کے قدموں کی طرف گیا،،،،،،،،،آرام سے اس کے پاؤں سے موزے اتارے،،،،،،،،،،،،،،حورعین ایک دفع پھر سے سسکی تھی، ،،اس کے چہرے پر درد کے آثارِ صاف نظر آ رہے تھے ۔

عالم نے لب بھیچے اسے دیکھا،،،،،،،جس کے پاؤں میں جگہ جگہ زخم تھے اور خون رس رہا تھا ۔

تب ہی داکٹر اندر آیا،،،،،،،،،اس کے آنے پر عالم پیچھے ہٹ گیا اس نے حورعین کو چیک کیا اور پھر اس کو انجکشن لگا دیا،،،،جس سے وہ غنودگی میں جانے لگی۔

اور پھر اس کے پاؤں کے زخم کو آہستہ آہستہ صاف کیا اور وہاں میڈیسن لگائی،،،، ،غنودگی میں عالم شاہ نے دیکھا تھا کے اس کے چہرے پر درد تھا اور وہ نیند میں جاتے ہوئے بھی کراہ رہی ہے ۔

شاہ صاحب زخم کافی گہرے ہیں دوائی لگا دی ہے اور انجکشن دیا آرام کرنے کا صبح تک ٹھیک ہو جائے گی،،،،،،،،،اور یہ میڈیسن لکھ دی ہے اس کو ان کے پاؤں پر لگا لیجیے گا،،،،،،،،،ڈاکٹر کے بولنے پر عالم شاہ نے سر ہلا دیا تھا اس کا سارا دھیان ابھی بھی حورعین پر ہی تھا جو اب سو رہی تھی ۔

ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ اس کے پاس آیا اور اس کے پاؤں کے زخموں کو ہاتھ سے چھوا اور پھر اس پر کمفرٹ درست کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔

تمہیں بھاگنے کی سزا ضرور ملے گی نین مجھ سے دور جانے کی ہمت بھی کیسے کی تم نے،،،،،،،اس کی سزا تو ضرور دوں گا تمہیں میں پر ابھی اسے سزا ملے گی جس کی وجہ سے تم نے یہ سب کیا،،،، ،،،،،،،،عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی پیشانی کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

پلیز سلمان مجھے میری حورعین لا دیں،،،،،،،،مسسز سلمان کا برا حال ہو چکا تھا ۔

پتہ نہیں کس حال میں ہو گی میرا دل بہت بے چین ہے،،،،،،وہ انسان جو اسے ہمارے سامنے اتنی بے دردی سے ٹریٹ کر رہا تھا بعد میں کیا کیا ہو گا اس کے ساتھ،،،،،،،،مسسز سلمان اور سلمان صاحب بہت پریشان سے ایک دوسرے سے اپنا غم بانٹ رہے تھے ۔

کچھ پتہ چلا میری حور کا  صائم،،،،،،،،،،مسسز سلمان اپنے بیٹے سے بولی جو کچھ دن پہلے ہی حورعین کی خبر سن کر واپس آیا تھا۔

کچھ پتہ نہیں چل رہا ماما،،،،،کوئی بھی اس کے حالاف ریپوٹ نہیں لے رہا،،،،،،،بہت پاور ہے اس کی،،،،،،،،،صائم تھکے سے اندز میں صوفے پر بیٹھا آنکھوں کو موندے بولا۔

اللہ حیر کرے گا اللہ میری بیٹی کی حفاظت کرے،،،،،،،،،،سلمان صاحب صائم کے کندھے پر ہاتھ رکھ تسلی کے لیے بولے ۔

بابا آپ فکر مت کریں میں اس انسان کو چھوڑنے نہیں والا جس نے میری بہن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے،،،،،،،،صائم بولا تو اس کے لہجے میں غصہ تھا۔

سلمان کچھ غلط مت کرنا تب تک نہیں جب تک ہماری حور اس کے پاس ہے،،،،،،،میں نہیں چاہتا وہ اسے نقصان پہنچائے،،،،،،،،،سلمان صاحب سمجھ داری سے بولے،،،،،،،جس پر صائم سر کو جھٹک گیا  پر بولا کچھ نہیں ۔

اور آرام سے اُٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

بیگم ہو سکے تو زیادہ مت پریشان ہوا کرو اس کے سامنے ایک بچہ تو ہم کھو چکے ہیں دوسرا کھونے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے،،،،،،،،سلمان صاحب بولے تو ان کے لہجے میں بے بسی تھی ۔

مسسز سلمان بھی بے آواز رو دی ۔

میں کیا کروں سلمان وہ بیٹی ہے میری اور لاڈلی بھی اور وہ تو ہے بھی ڈرپوک سی،،،،،،،،،پتہ نہیں کس حال میں ہو گی،،،،،،،۔

سب ٹھیک ہو گا اللہ پر چھوڑ دیں بس،،،، اب زیادہ پریشان مت ہوں آپ سنا آپ نے،،،، ،،وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولے جس پر وہ سر کو ہلا گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بابا آپ کب آئے اور اتنی جلدی کیا ہوا سب ٹھیک ہے ماہ نور نیچے آئی تو سامنے ہی تسلم صاحب کو دیکھ کر بولی ۔

زین  زین کہاں ہے زین،،،،،،،،،،،،،وہ اونچی آواز میں چیخے،،،،،،۔

کیا ہوا ہے بابا سب ٹھیک تو ہے،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور پریشانی سے بولی ۔

کچھ ٹھیک نہیں ہے ماہ نور بچے،،،کچھ ٹھیک نہیں ہے،،،،،،،،،وہ اس دفع بولے تو ان کا لہجہ نم تھا۔

جی بولے،،،،،،،زین نیچے آ کر سرد سے اندز میں بولا ۔

ماہ نور اس کا اندازہ دیکھ کر ہی حیران تھی ۔

کیا ہو رہا ہے سب،،،،،،،،،کیوں کیا تم نے میرے ساتھ یہ،،،،،،،،،تسلم صاحب غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولے،،،،،،،،زین کے پیچھے پیچھے زرمین بھی آئی تھی ۔

بابا کیا ہوا،،،،،،،،زرمین بھی پریشانی سے تسلم صاحب کو دیکھ رہی تھی دونوں بیٹیاں ان کے ساتھ لگی پریشان تھی جب کے زین کا اندازہ سرد تھا۔

زین کیوں کیا،،،،،،،،،،،؟؟ تسلم صاحب کا سوال دونوں بہنیں نہیں سمجھ پا رہی تھی،،،،پر زین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔

ماں کا حصہ لیا ہے اور سب میری اپنی محنت ہے،،،،،،،،،،،،،آپ سے مطلب،،،،،،زین پرسکون طریقے سے صوفے ہر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا ۔

دونوں ماہ نور اور زرمین زین کا یہ انداز دیکھ کر حیران تھی ۔

ماں کا حصہ کیا مطلب ہے تمہارا،،،،،،تسلم صاحب چیخے ۔

آواز آہستہ تسلم صاحب،،،،،مجھ سے برداشت نہیں ہے یہ اب اور میں آپ کو جواب دے نہیں ہوں اپنی بیٹیاں لے اور جائے یہاں سے،،،،،،،،زین تحمل سے بول کر ان تینوں کی دنیا ہلا گیا ۔

زرمین تمہاری بیوی ہے،،،،،،،،،،،۔

نہیں زرمین آپ کی بیٹی ہے،،،،،،،،،،میرا اور اس کا کوئی رشتہ نہیں،،،،،،،،،،،،،وہ تسلم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

زین،،،،،،،،،میں اور ماہ نور چلے جائے گیے پر زرمین تو تمہاری بیوی ہے اسے تو مت نکالو،،،،،،،ان کے لہجے میں بے سی تھی ۔

یہ ہی تو سب سے بڑی سزا ہے آپ کی کے آپ کی بیٹی برباد ہو جائے اور میرے پیار میں مر جائے،،،،،،،،،،،زین کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک آنکھ دبا کر بولا ۔

بابا یہ سب کیا ہے،،،،،،،،،زرمین ہی  ان سے بولی جو خود زین کی ہر روائیہ سے دل بردشتہ ہو چکے تھے ۔

اپنا سامان لے کر آؤ تم دونوں،،،،،،،،،،،تسلم صاحب کے بولنے پر وہ دونوں ان کو دیکھنے لگی،،، زین کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔

بابا پر،،،،،،،۔

سنا نہیں تم دونوں نے جاؤ اپنی ضرورت کی چیزیں لے آؤ اور چلو میرے ساتھ، ،،،،،،،،تسلم صاحب کے چیخ کر بولنے پر دونوں اوپر کی طرف اپنے روم میں گئی۔

اچھا نہیں کر رہے تم زین پچھتاؤا گیے،،،،،،،،،،تسلم صاحب اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے جو ان کی بات سن کر ہنس دیا ۔

کوئی بات نہیں پچھتا لوں گا پیارے سسر جی،،،، ،،،،،،وہ ہنستے ہوئے بولا ۔

بابا جی،،،،،،،،وہ دونوں حیرت زدہ سے بس تسلم صاحب اور زین کی باتیں سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی ۔

طلاق مل جائے گی جلدی ہی،،،،،،،،،،زین کی بات سن کر زرمین کو لگا اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو اس نے مڑ کر زین کی طرف دیکھا جو اب سگریٹ سلگا کر پی رہا تھا ۔

تسلم صاحب خاموش رہے ماہ نور بھی َزین کا یہ روپ دیکھ کر پریشان سی تھی پر اس کی یہ بات ان کر اور بھی زیادہ حیرت زدہ رہ گئی ۔

جس دن طلاق دی اس سے آگے دن میرے جنازے میں شرکت ضرور کرنے انا،،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے باہر کی طرف بڑھنے لگی ۔

ہاہاہاہاہاہا اہاہاہاہاہاہا سوری میری جان اتنا بے فضول وقت نہیں ہے میرے پاس ،،،،،،،،،،،وہ ہنستے ہوئے بولا جس پر زرمین لب بھیچے باہر نکل گئی اور ماہ نور کو تسلم صاحب کھنچتے ہوئے لے گیے ۔

پیچھے زین کی آنکھ سے ایک آنسو بہہ نکلا۔

نفرت کی جنگ میں آج اس نے اپنے سب رشتے کھو دئے تھے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

بابا کہاں جائے گیے ہم،،،،،،،،،،؟؟ زرمین پریشان سی تسلم صاحب سے بولی ۔

فلیٹ ہے جو تم دونوں کے نام ہے وہاں جائے گیے،،،،،،،،،تسلم صاحب گاڑی چالتے ہوئے ان دونوں کے ساتھ اس جگہ پہنچے تھے،،،، ،وہ جگہ کچھ خاص نہیں تھی پر رہنے کے قابل تھی ۔

تسلم صاحب کے دروازہ کھولنے پر  اندر دیکھا تھا فلیٹ کا کافی برا حال تھا۔

تسلم صاحب کا دھول کی وجہ سے سانس بند ہونے لگا،،، زرمین نے آگے بڑھ کر جلدی سے کھڑکی اور بالکنی کا دروازہ کھولا،،،،،اور وہاں پاس چئیر کو صاف کیا۔

ڈیڈ آپ ٹھیک ہیں،،،،،،،؟؟زرمین ان سے پریشانی سے بولی،،،،،جبکہ ماہ نور بس دیوار کے ساتھ لگی رونے میں مصروف تھی ۔

یہ سب کیوں کیا زین بھائی نے ڈیڈ،،،،،،،،؟؟ماہ نور بولتے ہوئے دیوار کے سہارے ہی نیچے بیٹھ گئی ۔

اسے لگتا ہے اس کی ماں کی موت میں میرا قصور ہے،،،،،،،،،،اسی لیے اس نے میرے تمام شئیر بھیچ کر اپنے نام کر لیے اور وہ گھر میں پہلے ہی زین کو اس کی ماں کے حصے میں دے چکا تھا،،،،،،،ہمارے پاس اب کچھ نہیں ہے ہم برباد،،،،،،،،وہ ابھی بولتے زرمین بولی ۔

ڈیڈ برباد ہم نہیں وہ ہو گیا آج اس نے تمام رشتے کھو دئے اپنی ضد اور انا میں آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا،،،،،،،،زرمین اس کے انسو صاف کرتے ہوئے مسکرائی،، پاس بیٹھی ماہ نور بس چپ سی ہو گئی تھی ۔

چلیں آپ بیٹھے میں روم کو دیکھوں تاکہ آپ آرام کریں پھر کچھ سوچتے ہیں میں جاب وغیرہ کا کچھ کرتی ہوں،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے اُٹھ کر اندر گئی تھی جہاں صرف دو کمرے اور ایک چھوٹا سا کچن اور چھوٹا سا ہی ہال تھا جہاں پر صوفہ لگا ہوا تھا جہاں تسلم صاحب پاس چئیر پر بیٹھے ہوئے تھے ۔

زرمین روم میں آ کر اپنے گرتے ہوئے آنسو کے ساتھ پورے کمرے کو جھڑنے لگی جس میں ایک سنگل بیڈ اور ڈریسنگ تھا پر کمرا اتنا گندا نہیں تھا صاف ہی تھی،،،،،،،،زرمین رو بھی رہی تھی پر خود کو کنٹرول کرتے ہوئے گھنٹے میں پورا کمرا صاف کر لیا تھا اور پھر مسکراہٹ کے ساتھ باہر آئی تھی ۔

چلیں آپ دونوں رو کیوں رہے ہیں اتنا پیارا اور صاف گھر ہے ڈیڈ،،،،،،،ضرورت کی ہر چیز ہے،،،، ،چلیں دونوں رونا بند کرو اور لیٹو جا کر اندر،،،،،،،،زرمین ماہ نور کو تسلم صاحب سے دور کرتے ہوئے ان کو بولی جس پر وہ اسے سر پر پیار دے کر اندر روم کی طرف بڑھ گیے ۔

آپی زین  بھائی ایسا کیسے کر سکتے ہیں،،،، ،ماہ نور روتے ہوئے بولی تھی،،،،جس پر زرمین لب بھیچے بس اسے اپنے ساتھ لگ گئی،،،اور اسے صوفے تک لا کر اسے وہاں لیٹا دیا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی ۔

سو جاؤ آرام کرو نور،،،،،،،،زرمین اسے پیار دیتے ہوئے بولی جس پر ماہ نور بس آنکھوں کو موندھ گئی اس وقت وہ تینوں بہت ٹوٹے ہوئے تھے کیونکہ ان کو اس شخص نے مات دی تھی جو ان کا اپنا تھا ۔

زرمین بس چپ سے ماہ نور کو لیے وہی بیٹھی رہی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

آخری دفع نین کی کس سے بات ہوئی تھی،،،،،،،،،،؟؟ عالم شاہ سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے ۔

وہ دونوں عورتیں جن کی حورعین سے بات ہوئی تھی ان کی سانس گلے میں اٹک چکی تھی وہ جانتی تھی اب ان کا بہت برا ہال ہو گا۔

شاہ صاحب ہمیں نہیں پتہ تھا وہ بی بی آپ کے ساتھ رات،،،،،،،،ان میں سے ایک بولتی عالم کی دھاڑ پر وہی ان کی زبان پر قلف لگ گیا ۔

بکواس نہیں،،،،نین کے بارے میں کسی نے ایک لفظ بھی بولا تو جان سے مار دوں گا میں،،، اور تم دونوں کا آج آخری وقت ہے،،،،،،،،،عالم لال انگارا ہوتی آنکھوں سے ان کو گھورتے ہوئے ان کی طرف دیکھتے ہوئے غرایا ۔

ان دونوں کو،،،،،،،،،،،،،۔

نہیں شاہ صاحب ایسا مت کریں غلطی ہو گئی ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،،،،،،،وہ دونوں روتے ہوئے ان کے پاؤں میں بیٹھ گئی۔

 معاف کیا ان بچوں کی خاطر،،، پر ان دونوں کو باہر پھینک دو آج سے تم دونوں مجھے یہاں نظر آئی تو وہ حال کروں گا جو تم سب کی سوچ ہے،،،اور باقی سب کسی کی ایک بری نظر یا بات میری نین تک پہنچی تو وہ اس دنیا میں نظر نہیں آئے گا،،،،،،،،،،عالم شاہ کی دھاڑ پورے ہال میں گھونجی تھی ۔

وہ سب کو ایک نظر دیکھتے ہوئے وہاں سے اُٹھا تھا اور اوپر حورعین کے پاس چلا گیا ۔

تم دونوں پاگل ہو وہ صاحب کی بیوی ہے نکاح کر کے اسے یہاں لے کر آئے ہیں اور اب بھوریا بستر اُٹھاؤ اور نکلو یہاں سے،،،،،،،،،،ایک خادم کے بولنے پر وہ دونوں بس دیکھ کر رہ گئی اور روتے ہوئے باہر نکل گئی تھی ۔

پیچھے سب میں یہ بات پھیل گئی کے شاہ صاحب نے خاندان سے باہر ایک لڑکی سے شادی کر لی ہے ۔

نور بچے اُٹھ جاؤ یونیورسٹی جانا ہے نہ تم نے،،،،،،،،،ماہ نور جو صوفے پر سوئی ہوئی تھی اسے زرمین اُٹھاتے ہوئے بولی ۔

آپی میرا موڈ نہیں ہے مجھے نہیں جانا،،،،،،،،وہ رُخ بدل گئی ۔

ماہ نور بری بات ہے یار میں صبح صبح جا کر تمہارے لیے سپشل ناشتے کا سامان لے کر آئی ہوں،،،،،،،زرمین اسے بولتے ہوئے ساتھ ہی کچن کی طرف گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اب ماہ نور ضرور اُٹھ جائے گی ۔

زرمین آپی تھوڑی دیر بعد ماہ نور اُٹھ کر اس کے پاس آئی اور سر کو جھکائے فریج کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی بولی ۔

 جی میرا بچہ،،،،،،،،،،،۔

آپی کیا ہو گا اب گھر کا خرچہ کیسے چلے گا،،،،،،،،،میں سوچ رہی ہوں جاب کر لوں کسی سکول وغیرہ میں،،،،بینک میں جتنے پیسے ہیں ان سے تو تھوڑے دن گزارا ہو گا،،،،،،،،،ماہ نور آہستہ آواز میں بولی ۔

کوئی ضرورت نہیں ہے چپ چاپ اپنی یونیورسٹی جاؤ جو کرنا ہے میں کر لوں گی،،،،،،،،،،میری ایک فرئنڈ ہے اس کے کوئی جاننے والے ہیں وہ کہہ رہی تھی وہ جاب دلا دے گی مجھے وہاں،،،،،،،اور رہی ڈیڈ کی بات تو وہ ہے ہی ہمارے سر پر ان کا سایہ ہی کافی ہے ہمارے لئے،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے ساتھ ساتھ اس کا ناشتہ بھی بنا رہی تھی۔

جاؤ اب جا کر جلدی سے فریش ہو جاؤ دیر ہو رہی ہے،،،،،،،،،،،،زرمین کے بولنے پر ماہ نور وہاں سے باہر نکل گئی ۔

آپ کی معافی ناممکن ہے زین،،،،،،،زرمین. لب بھیچے بس سوچ کر رہ گئی ۔

تھوڑی دیر بعد ماہ نور نے ناشتہ کیا اور وہاں سے چلی گئی،،،،،،،،،،جبکہ زرمین کام میں لگی رہی سارے گھر کا صاف کیا اور چھوٹی موٹی چیزیں وہ جا  کر پہلے ہی لے آئی تھی ۔

بابا اُٹھ جائے،،،،،،،،،زرمین جب تسلم صاحب کو اُٹھانے لگی تو دیکھا تھا وہ اپنی پوش میں نہیں تھے ۔

بابا کیا ہوا آپ کو اُٹھے،،،،،،،،،،،زرمین پریشان سی رونے والی ہو چکی تھی اس نے جلدی جلدی سے ایبلولس کو کال کی،،،، ،اور ان کو ہاسپٹل لے کر گئی ۔

ماہ نور کو بھی میسج کر دیا تھا جو ابھی تک یونیورسٹی میں تھی۔

زرمین اب پریشان سی باہر بیٹھی ہوئی ڈاکٹر نے کہا تھا کے ان کو ٹینشن کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا ہے،،،،،،،،اور ابھی بھی ان کی حالت تشویشناک تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور نے چپ چاپ کلاس لی اور ابھی باہر نکلی تھی کے سامنے کھڑے شایان کو دیکھا جو آج لیٹ آیا تھا۔

ماہ نور اسے اگنور کرتے ہوئے پیچھے سے دوسری طرف جانے لگی تھی کے شایان اس کے سامنے آ گیا.۔

کیا ہوا ہے پریشان کیوں ہو،،،،،،،،،،؟؟ شایان اس کے سامنے کھڑا ائبرو اُٹھا کر بولا ۔

شایان میں بات نہیں کرنا چاہتی پلیز،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے اپنا موبائل نکالا تو زرمین کا مسسیج دیکھ کر پریشانی سے رونے لگی ۔

کیا ہوا ماہ نور سب ٹھیک ہے،،،،،،،،،ماہ نور کو روتا دیکھ کر شایان بھی پریشانی سے بولا۔

نہیں  بابا بابا ہاسپٹل ہیں،،،مجھے جانا ہے،،،،،،،وہ بول کر جانے لگی تھی کے شایان بھی اس کے پیچھے ایا۔

روکو میں لے کر جاتا ہوں ریلکس یار،،،،،،،،شایان اس کے ساتھ دورتے ہوئے گیا اور اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے آپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔

بیٹھو آرام سے مجھے بتاؤ کون سے ہاسپٹل،،،،،ماہ نور کو لگاتار روتا دیکھا کر شایان نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور اور اس پر ہاسپٹل کا نام دیکھتے ہوئے وہاں کے لیے نکل گئے ۔

ماہ نور ابھی بھی رو رہی تھی۔

دونوں جب ہاسپٹل پہچے زرمین باہر بھینچ پر بیٹھے ہوئے تھے ۔

آپی بابا،،،،،،،ماہ نور اسے دیکھتے ہوئے دور کر اس کے پاس جا کر بولی ۔

بابا  نے بولا میں نے زین کو معاف کیا،، اور جب اسے احساس ہو تو تم بھی معاف کر کے اس کے ساتھ خوش رہنا ،،،،،،،،،،،،زرمین نم لہجے میں بولی ۔

ماہ نور کو لگا اس کا دل بند ہونے والا ہے ۔

آپی بابا،،،،،،،،،،ماہ نور آہستہ آواز میں ممنائی ۔

آپ اپنے پیشنٹ کی باڈی کو لے کر جا سکتے ہیں بس یہ تھوڑی فرملٹی  پوری کرنی ہے،،،،،،،،،ڈاکٹر کے بولنے پر ماہ نور نے ان کی طرف دیکھا ۔

پاس کھڑا شایان جو کب سے دونوں کو دیکھ رہا تھا ڈاکٹر کی بات سن کر شاک سے ان کو دیکھتا رہ گیا ۔

کون آئے گا ہمارے ساتھ،،،،،،،،ڈاکٹر کے بولنے پر شایان ہی ان کے ساتھ گیا،،،اور اس کے بعد دونوں بہنوں کو نہیں پتہ کیا ہوا کیا نہیں بس وہ روتے ہوئے شایان کے ساتھ گئی تھی ۔

شایان نے زین کو کال کی تھی جس پر وہ بھی وہی آیا تھا اور اور تسلم صاحب کی باڈی کو اپنے گھر ہی لے کر گیا۔

دونوں کو کوئی ہوش نہیں تھا بس روتی رہی یہاں تک کے تسلم صاحب کو تدفین کے لئے لے گیے ۔

شایان ہمیں گھر چھوڑ دو،،،،،،،،،،رات کا وقت تھا ماہ نور تو رو رو کر نڈال ہو چکی تھی پر زرمین ہمت کرتے ہوئے بولی ۔

آپی یہ گھر ہی تو ہے،،،،،،،،شایان ابھی بول رہا تھا کے زین ان دونوں کے پاس ا گیا ۔

زرمین جاؤ روم میں،،،،،،،،۔

شایان ہمیں چھوڑ آؤ گے یا ہم خود چلے جائے،،،،،،،،زرمین زین کا سرد لہجے سننے کے باوجود بھی شایان سے بولی ۔

جی آپی آپ جہاں کہیں،،،آپ  آ جائے میں گاڑی لے کر آتا ہوں،،،،،،،،،شایان بول کر باہر نکل گیا ۔

ماہ نور چلو یہاں سے،،،، ،،زرمین پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔

کیا مسئلہ ہے روم میں جاؤ سنا نہیں تم نے،،،،،،،،،،زین کلائی سے دبوچے اس کا رُخ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا تھا جس کا رو رو کا برا ہال تھا آنکھیں رونے سے سوجھی ہوئی تھی اور ناک لال ہو رہا تھا ۔

طلاق کا انتظار رہے گا مجھے،،،،،،،تمہارا بدلہ بھی پورا ہو گیا ہو گا میرے بابا کی موت کے ساتھ،،،،،،،،،،،،،،زرمین. بولتے ہوئے ماہ نور کو تھام کر باہر کی طرف چلی گئی،،،۔

زین اسے بس جاتے ہوئے دیکھتا ہی رہ گیا ۔

ہممممم یہ رشتہ بھی جلدی ہی تم سے دور جانے والا ہے دیکھتا ہوں اکیلے کیسے رہو گی تم،،،،،،،خود آؤ گی میرے پاس تم،،،،،،زین زہر خندق سا بولا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین کو دو دن ہو چکے تھے عالم شاہ اس کے سامنے نہیں آیا تھا پر جب وہ سو جاتی اس کے پاس آتا اور اسے کہیں دیر دیکھنے کے بعد پھر سے چلا جاتا ۔

حورعین نیچے ڈائنگ ہال میں آئی تو وہاں کچن کی طرف گئی ۔

بی بی جی آپ یہاں کیا کر رہیں ہیں اپک و کچھ چاہے،،،،،،ایک نوکرانی بولی ۔

مجھے چاہے بنانی ہے،،،،،،،حورعین کے پاؤں کے زحم اب کافی حد تک بہتر ہو چکے تھے پر پھر بھی درد تھا اسی لئے وہ لڑکھڑا کر چل رہی تھی ۔

آپ چلے ہم بنا کر لے آتے ہیں،،،، ۔

میں بور ہو چکی ہوں میں یہی بیٹھوں گی حورعین پاس پڑی چئیر پر بیٹھ گئی اور شلف پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھنے لگی جو اپنا کام کر رہی تھی ۔

شاہ جی کدھر ہیں،،،،،،،؟؟

پتہ نہیں بی بی جی روزانہ تو یہی ہوتے ہیں اب پتہ نہیں کہاں ہیں ہمیں کون بتائے گا،،،،،،اس کے بولنے پر حورعین رونی سی صورت بنا کر سر شلف پر رکھتے ہوئے آنکھوں کو موندے،،،رونے لگی ۔

عالم شاہ کو اس کے نیچے آنے کا علم ہوا تو وہ وہی آیا اور کچن کی طرف گیا جہاں وہ سر رکھے بیٹھی تھی عالم کے اشارہ کرنے پر وہاں سے سب ہی چلے گیے ۔

شاہ جی مجھے ماما بابا کے پاس جانا ہے آپ مجھے وہاں چھوڑ دیں،،،،،،،نم لہجے میں بولی جس پر عالم شاہ مسکرا دیا۔

تمہیں کیسے پتہ میں ہوں،،،،،عالم اس کے پیچھے کھڑا مسکرا کر بولا۔

آپ کا احساس مجھے محسوس ہوتا ہے،،،، ،آپ کی حوشبو محسوس کر لیتی ہوں میں آپ روزانہ رات کو میرے پاس آتے ہیں مجھے محسوس ہو جاتا ہے،،،،،،،،،،حورعین اپنا رَخ اس کی طرف موڑ کر بولی۔

عالم شاہ مسکرا دیا۔

شاہ جی کتنے دن رکھے گیے مجھے،،،،،،،،،حورعین کی بات سن کر عالم شاہ کے مسکراتے لب سکڑے،، آنکھیں غصے سے لال ہو گئی ۔

نین ائیند یہ سب بولا تو جان سے مار دوں گا،،،،،،وہ اس کو جبڑے سے دبوچے اونچی آواز میں چلایا۔

تو گھر لے کر جائے مجھے اپنے یہاں کیوں رکھا ہے آپ نے مجھے یہاں تو آپ اپنی ان لڑکیوں کو رکھتے ہیں تو کیا میں بھی ان میں شامل ہوں کیا میں بھی آپ کی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین ابھی کچھ بولتی عالم شاہ  اس کے چہرے کو زور سے دبوچے اس کے ہونٹوں پر جھکا،،،،،،،،۔

حورعین کے لیے اس کا پہلا لمس محسوس کرتے ہوئے سانسس اکھاڑنے والی ہو گئی تھی اس نے اپنی پوری ہمت جمع کرتے ہوئے اسے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا ۔

تمہارے ڈریسز اوپر روم میں رکھیں ہیں چینج کر لو پھر نکلتے ہیں گھر کے لیے،،،،،،،،،،عالم شاہ اسے چھوڑتے ہوئے اس کی گال پر بہتے آنسو کو صاف کر کے بعد بول کر جانے لگا تھا۔

پیچھے حورعین کی سسکی سنتے ہوئے واپس مڑا اور اسے دیکھنے لگا جو چئیر سے اُٹھ کر کھڑی ہوئی تھی ۔

عالم دوبارہ اس کی طرف بڑھ اور اسے باہہوں میں بھر کر اوپر روم کی طرف چلا گیا اور اسے آرام سے کھڑا کیا۔

حورعین کا چہرا شرم اور غصے سے لال ہو رہا تھا،،،،،،،،،،،،،،،وہ اپنا چہرہ جلدی سے موڑ کر کھڑی ہو گئی ۔

شرم سے لال ہے یا پھر غصے سے،،،،،،،عالم اس کی ناک دباتے ہوئے بولا جس پر اس نے عالم کو گھور کر دیکھا۔

اوکے ریڈی ہو جاؤں،،،،،،،میں نیچے انتظار کر رہا ہوں،،،، ،عالم بولتے ہوئے نیچے چلا گیا ۔

شاہ جی آپ مجھے کہاں لے کر آئے ہیں،،،،،،یہ تو میرا گھر نہیں ہے،،،،،،،،،عالم شاہ سے حورعین بولی جو اسے کسی حویلی نما گھر میں لے کر آیا تھا۔

یہ میرا گھر ہے تم کچھ نہیں بولو گی میں جو کہوں بس خاموشی سے سن لینا،،،،،،،،عالم اس سے بول جس پر وہ اسے بس دیکھ کر رہ گئی ۔

دونوں اندر کی طرف بڑھے تھے ۔

میرا بچہ آیا ہے آج اتنے دن بعد،،،،،،،،،،عالم کے دادا سلطان بولے جس پر وہ ان سے پیار سے ملا،،،،انہوں نے اسے گلے لگایا تھا۔

یہ لڑکی کون ہے،،،،،،،،،،؟؟  انہوں نے پیچھے کھڑی حورعین سے کہا جو سب کچھ حیرانگی سے دیکھ رہی تھی ۔

میرے دوست کی بہن ہے دادا جی،،،،،،،،،،عالم کے اس طرح بولنے پر حورعین نے دونوں کی طرف دیکھا آنکھوں میں بے تحاشا آنسو بھر آئے۔

وہ لندن کسی کام سے گیا ہے تو اسی لیے اس کو میرے پاس چھوڑ گیا وہاں اکیلا رہتا ہوں تو اسی وجہ سے اسے یہاں لے کر آیا ہوں سب کے بھیچ،،،،،،،،،،،،،عالم بولا تو حورعین لب بھیچ بس چپ چاپ سب سنتی رہی ۔

بہت پیاری بچی ہے،،،،،،وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے حورعین نے شکوہ کرتی نظروں سے عالم کی طرف دیکھا جس پر وہ اہنا رَخ بدل گیا۔

بڑی بہو بڑی بہو انہوں نے عالم کی ماں کو بلایا جس پر وہ بھی ان سے ملا کر خوش ہوئی اور حورعین کو اپنے ساتھ لے گئی سب ہی اس سے ملے ۔

یہ گھر تھا سلطان شاہ کا،،،،،،،،سب سے بڑا بیٹا ظہر شاہ اس کا بڑا بیٹا عالم شاہ  اور چھوٹا اریان شاہ اور بیٹی سامیہ شاہ ۔

دوسرے نمبر پر زینب شاہ تھی،،،،،جن کے بیٹے کی شادی ظہر کی بیٹی سامیہ سے ہوئی تھی اور وہ بھی اسی حویلی میں رہتے تھے اور ایک بیٹی ردا تھی جس کی شادی چھوٹے بھائی کے بیٹے سیمر سے ہونی تھی ۔

تیسرے نمبر پر حیسن شاہ جس کا ایک بیٹا تھا جو شہر پڑھنے کے لیے گیا تھا شایان شاہ اور سیمر شاہ اس کی  بہن انا بیہ شاہ تھی ۔

اتنی بڑی حویلی میں یہ سب ہی تھے پر یہاں ہر وقت کوئی نہ کو آتا رہتا تھا ۔

یہ تھی سلطان شاہ کی حویلی اور وہ سب سے بڑے تھے اس خویلی کے پر یہاں سب کچھ اب عالم شاہ دیکھتا تھا کیونکہ عالم کے ابا ظہر اس دنیا میں نہیں تھے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

بہت پیاری بچی ہو تم ،،،،،،،حورعین سر کو جھکائے ہوئے بیٹھی تھی،،،، ،اور اس کے اردگرد سب ہی اکھٹے اسے دیکھ رہے تھے ۔

کھانا کھایا بچے آپ نے،،،،،،،،؟؟مسسز ظہر بولی جس پر حورعین نے سر ہلایا ۔

کب کھایا،،،،،،،؟

صبح کھایا تھا ناشتہ،،،،،،،حورعین کے معصومیت سے بولنے پر سب ہی مسکرا دئے ۔

ہائے باجی کتنی پیاری بچی کیوں نہ اپنی شایان کے لیے اس کو لے لوں،،،،،،،مسسز حسین کے بولنے پر سب ہنس دئے پر حورعین ان کو بس پریشانی سے دیکھتی رہ گئی۔

پیاری تو بہت ہے،،،،اور معصوم بھی مسز ظہر اسے پیار سے بولی وہ اسے پیار کرتے ہوئے بولی اور پھر ملازمہ کو بلا کر اس کو کھانا کے لیے کہا ۔

سامیہ اس کو روم میں چھوڑ آؤ اور اس کا کھانا بھی وہاں پہچا دینا،،،،،،،،،،مسسز ظہر اپنی بیٹی سے بول جس پر وہ مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے گئی ۔

حورعین جب وہاں سے جانے لگی تو عالم وہاں آیا تھا جو کو حورعین نے ایک نظر دیکھتے ہوئے اپنا چہرا دوسری طرف کر لیا جس پر عالم کو غصہ آیا پر چپ چاپ اپنی ماں کی طرف بڑھ گیا ۔

بہت پیاری بچی ہے عالم،،،،،،،،ان کے اس طرح کہنے پر وہ مسکرا دیا ۔

تمہارے دادا چاہتے ہیں ان تمہاری اور انابیہ کی بھی شادی کر دی جائے،،،،،،،،کیوں کے سمیر اور ردا کی شادی کی تاریخ رکھ دی ہے،،،، ،،وہ چاہتے ہیں ساتھ تم دونوں کی بھی شادی ہو جائے تم بتاؤ کیا سوچا،،،، ،،،،،،،ان کے بولنے پر وہ بولا کچھ نہیں بس چپ کر گیا ۔

ابھی نہیں میری شادی کو کچھ دن تک رکھ لیجیے گا آپ لوگ،،،،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

پیچھے سب بس چپ کرگیے تھے۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اپنی بیوی کو حویلی لے کر جاؤ سنا تم نے مجھے وہ اب زرمین کے ساتھ نظر نہ آئے،،،،،،زین اس وقت آفس روم میں بیٹھا سامنے بیٹھے شایان سے بولا ۔

بھائی پلیز ایسا کیوں کر رہے ہیں آپ،،،،،،،،،،،،؟؟

زرمین آپی آپ کی بیوی ہیں اور ماہ نور تو آپ کو اپنا بھائی مانتی ہے،،،،،،،شایان بچارگی لیے بولی ۔

تم نے کہا تھا تمہیں ماہ نور چاہے تمہیں ماہ نور مل گئی ہے اب اپنی بیوی لو اور جاؤ مجھے تم دوبارہ یہاں نظر مت آنا اور رہی زرمین کی بات تو وہ میں جانو اور میرا کام اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہے،،،،،،،،،،،زین ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے چلا کر بولا ۔

واہ واہ گریٹ جاب مسٹر شایان اینڈ زین،،،،،،،،ماہ نور اندر تالیاں بجاتے ہوئے داخل ہوئی۔

کیا میرا نکاح شایان سے آپ دونوں کی سازش تھی،،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور غصے سے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

ماہ نور میری بات،،،،،،،،۔

میں نے کچھ پوچھا ہے،،،،،،شایان ابھی بولتا ماہ نور چیخی ۔

ہاں تم سے شایان کی شادی سب پلین تھا اور اب تم جاؤ گی اس کے ساتھ،،،،،،،،زین بولا تو ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا وہ لگ ہی نہیں رہا تھا کے یہ وہی زین ہے ۔

دوسری بات شایان میرا سوتیلا بھائی ہے،،،،،،،،،،اس نے جو بھی بولا سب جھوٹ تھا،،،، ،،،زین بول رہا تھا اور ماہ نور بس اسے دیکھتی جا رہی تھی ۔

ماہ نور نے شایان کو دیکھا ۔

میں نے سوچا تھا آپ کے پاس جاؤ آپ آپی کو لے آئے پر آپ دونوں تو سب سے بڑے جھوٹے نکلے،،،،،،،،،،،،،زین بھائی آپ سے یہ امید بالکل نہیں تھی ۔

اور تم،،،،،،،،تم میری نفرت کے قابل بھی نہیں ہو،،، ،،،،،،،،ماہ نور اسے بولتے ہوئے باہر نکلی ۔

جاؤ لے جاو اسے گھر ورنہ کبھی بھی ہاتھ نہیں آئے گی یہ،،،،،،،،،زین کے بولنے پر شایان جلدی باہر ماہ نور کے پیچھے گیا۔

اب ڈھونڈتی رہنا اپنی بہن کو بھی،،،،،،،،،،،،،،زین چئیر پر بیٹھ کر مسکراہٹ کے ساتھ خود سے بولا ۔

جاب جہاں ملی ہے وہاں بھی تم دیکھتی جانا ہر جگہ سے تمہارے راستے بند کروں گا بہت اترا کر گئی تھی مجھے سے دور اب خود آؤ گی واپس۔

کوئی دیکھتا تو کبھی نہ مانتا کے یہ وہی نرم دل زین ہے جو زرمین کے ایک آنسو پر اپنی جان دیتا تھا پر کچھ غلط فہمیاں انسان کو مکمل بدل کر رکھ دیتی ہیں ۔

❤️❤️❤️❤️

کیا ہوا کھانا کیوں نہیں کھایا بچی نے،،،،،،،،،سب رات کا کھانا کھا کر اُٹھے تھے ملازمہ کھانے سے بھری ہوئی ٹریے نیچے لے کر آئی تھی جو حورعین کے لیے لے کر گئی ۔

پتہ نہیں بی بی جی وہ سو گئی ہیں،،،،،،،،،،نیند میں ہی کہا تھا کے بھوک نہیں،،،،،،ملازمہ بول کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔

بچی بھوکی ہی سو گئی ہے بچاری،،،،،ماں باپ تو ہے نہیں بھائی نے بھی اکیلا چھوڑ دیا ہے تو اور اداس ہو گی،،،،،،،،،،مسسز ظہر دونوں آپس میں ایک دوسرے سے بولی پاس بیٹھے عالم نے سب سنا تھا اور پھر اپنے کمرے میں جانے کے بہانے اس کے کمر کی طرف بڑھ گیا ۔

کمرے میں گیا تو آہستہ سے اندر داخل ہوا کے آواز بھی پیدا نہ ہو،،،،،،عالم نے وہاں اس کی دابی دابی سسکیوں کی آوازیں سنی وہ رو رہی تھی ۔

نین کیوں رو رہی ہو،،،،،،،،،اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر بولا جو کمبل میں منہ دئے رونے میں مصروف تھی،،،،،اس کے رونے کی آواز بند ہو گئی پر اس نے اپنا چہرہ باہر نہیں نکالا ۔

کھانا کیوں نہیں کھایا،،،،،،،؟؟ اور رو کیوں رہی ہو،،،،،،،،،؟؟ اس دفع عالم شاہ نے اس کے چہرے سے کمبل پیچھے کرتے ہوئے اس پر جھکئے ہوئے کہا ۔

حورعین نے اپنے چہرے پر دونوں ہاتھوں کو رکھتے ہوئے اپنا چہرا چھپا لیا ۔

نین میری نین ،،،،،،،،،،،نین تم صرف میری ہو،،،،،،وہ اس کے قریب ہوئے کان میں بولتے ہوئے آرام سے اس کے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا ۔

حورعین اس کی زار سی قربت سے لرز اُٹھی تھی ۔

شاہ جی دور رہا کریں مجھ سے کس چیز کا بدلہ لے رہے ہیں مجھ سے آپ محبت کا بدلہ،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اس سے پیچھے کسکی تھی ۔

آپ میں ہمت نہیں ہے سب کو بتانے کی تو کیوں کیا مجھ سے نکاح،،،،،کیوں لے کر آئے ہیں مجھے اس گھر میں میرے ماں باپ کے گھر چھوڑ آئے مجھے،،،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے دبے دبے لہجے میں چیخی ۔

آواز نیچے،،،،،،،،،زبان سنبھال کر بات کرو حورعین ورنہ جان سے مار دوں گا،،،،،تم صرف عالم شاہ کی ہو،،،میری ملکیت،،،،اور میرا جیسے دل چاہے گا ویسے تمہیں اپنے پاس رکھوں گا اور تم بھول جاؤ کے تمہارے ماں باپ کے پاس جا پاؤ گی تم،،،،،،،عالم شاہ جب ایک دفع بول دیتا ہے تو وہ ہی ہوتا ہے،،،،،،،،،،،،،،،اور میں نے بول دیا ہے تم میری ہو،،،،،،،،،،،،،،،،میری ملکیت،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ اسے بازوں سے دبوچے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

تو کیا میں آپ کی محبت نہیں ہو سکتی کبھی بھی،،،،،،،،،،،،،،،حورعین اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نم لہجے میں بولی ۔

نہیں تم صرف میری ملکیت ہو،،،،،،،،اور میں تمہیں جیسے چاہے مرضی ٹریٹ کروں،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کی گال پر اپنا انگھوٹھا رگڑتے ہوئے بولا ۔

میں مر جاؤں گی شاہ جی،،،،،،،،،،وہ آنکھوں کو بند کئے آہستہ آواز میں ممنائی ۔

میں ایسا ہونے نہیں دوں گا،،،،،،،،،۔

مجھے محبت ہے آپ سے شاہ جی،،،،،،،وہ اس کی طرف آنکھیں کھول کر دیکھتے ہوئے بولی ۔

تو کیوں کر رہی تھی اس سے مانگنی،،،،،،،،،،؟؟

اپ نے مجھے اپنانے سے انکار کر دیا تھا،،،،،،،،،،،،آپ نے کہا ہم دوست ہیں آپ کو مجھ سے محبت نہیں تو کیا میں آپ سے دوستی کے لیے اپنے ماں باپ کی چوئس کو ٹھکرا دیتی،،،،،،،،،،،حورعین اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے بولے لفظوں کو جتا کر بولی ۔

تمہیں مجھ سے محبت تھی اسی لئے تم میری تھی،،،،،،،،،،تو تمہیں کسی اور کا کیسے ہونے دیتا،،،،،،،،،عالم شاہ نے اپنی دلیل دی ۔

مجھ محبت ہے آپ  کو نہیں شاہ جی،،،،،،اب اگر آپ نے مجھ سے زبردستی شادی کی ہے تو ایک بات یاد رکھیں گا شاہ جی آپ صرف اور صرف میرے صرف میرے،،،،،،،،،،تھوڑا وقت دے رہیں ہوں میں آپ کو سوچ لیں،،،،،،،،،،،،،،حورعین بھی غصے سے اس کا کالر دبوچے بولی ۔

عالم شاہ اس کے اندز پر مسکرا دیا ۔

تمہاری ساسس نے کہا ہے کہ دادا نے شادی تہہ کر دی ہے میری،،،،،،میری بچین کی مانگ انابیہ کے ساتھ،،،،،،،،،اور سمیر کی شادی کے بعد میری شادی ہے،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ جیسے جیسے بول رہا تھا حورعین کے ہاتھ ڈھیلے پڑھتے جا رہے تھے اور چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا ۔

شاہ جی کی نین ہو تم،،،،،،،،،،پر میرے والدین کا حکم میرے سر آنکھوں پر،،،، ،پر اسی لئے نکاح تو میرا انابیہ سے بھی ہو گا،،،،،،،،،،ہو سکے تو خود کو تیار رکھنا کیوں کے عالم شاہ صرف تمہارا نہیں کسی اور کا بھی ہے،،،،،،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔

حورعین اسے بس بے یقینی سے دیکھتی ہی جا رہی تھی ۔

حیال رکھنا اپنا کھانا بجاوا رہا ہوں کھا لینا ورنہ اگلی دفع میں آ کر اپنے طریقے سے بھی کھلاؤں گا،،،،،،،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے باہر نکل گیا ۔

پر اندر بیٹھی حورعین کی دنیا پوری کی پوری ہل چکی تھی ۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھے پھر سے رونے لگی ۔

باہر نکلتے عالم کو مسسز ظہر نے دیکھا تھا،،،،،،پر یہ سوچ کر چپ کر گئیں کے شاید حال چال پوچھنے گیا ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

گاڑی میں بیٹھوں ماہ نور،،،،،،،،،،شایان اس کے پیچھے جاتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

بھاڑ میں گیے تم اور تمہاری گاڑی دفع ہو جاؤ حالہ کا نوٹس بھیجوں گی میں تمہیں ،،،،،،،،،،وہ پیچھے مڑتے ہوئے چلا کر بولی ۔

شایان غصے سے اس کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کھنچ کر اپنی گاڑی کی طرف لے کر جاتے ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیلا اور خود جلدی سے دوسری طرف جا کر سیٹ سنبھالی اور گاڑی سٹارٹ کر دی ۔

روکو گاڑی میں خود جا سکتی ہوں سنا تم نے جان سے مار دوں گی میں تمہیں، ،،،،،،،،،،،،،ماہ نور چلا رہی تھی اور ساتھ ساتھ بہت دفع کوشش کر چکی تھی کہ وہ گاڑی کی بریک لگائے پر وہ ایسا کر نہیں پا رہی تھی ۔

شایان نے بھی گاڑی جا کر اپنی بلڈنگ کے پاس روکی اور پھر اسے کھنچتے ہوئے اپنے فلیٹ میں لے کر گیا یہ شکر تھا کے اسے دیکھا کسی نے نہیں،،،۔

چھوڑؤں مجھے وہ چلائی،،،،،،،،ہر شایان نے اسے صوفے پر دھیکلا اور خود گہرا سانس لیتے ہوئے خود کو ریلکس کیا۔

میری بات سنوں ماہ نور،،،،،،،۔

منہ بند رکھو اپنا کوئی بات نہیں سننی تمہاری،،،،،،،ماہ نور چلاتے ہوئے وہاں سے جانے لگی ۔

زبان سنبھال کر،،،،،،،،،،،حویلی جا رہے ہیں ہم تھوڑی دیر میں اور تم نے اگر وہاں جا کر کوئی بھی بدتمیزی کی یا پھر بکواس کی تو میں تمہارا،،،،،،،،،وہ ابھی بول رہا تھا کے اس کے موبائل پر آنے والی کال کو دیکھ کر وہ چپ کر گیے اور اسے چھوڑتے ہوئے سائیڈ پر گیا اور جب واپس آیا تو چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔

میں نہیں جانا تمہاری حویلی،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اسے غصے سے گھور رہی تھی ۔

شایان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا موبائل ٹیوی کے ساتھ کنیکٹ کیا اور اس پر جو چلا اس سے ماہ نور کی بولتی بند ہو گئی وہ سب دیکھتے ہوئے صوفے پر ڈھ سی گئی ۔

اب اگر تم نے میری کسی بھی بات سے انکار کیا تو زرمین آپی کے ساتھ بہت برا ہو گا اب تم جاؤ گی اپنے فلٹ میں وہاں سے ضروری چیزیں لو اور تم میرے ساتھ خویلی جا رہی ہو سنا تم نے،،،، ،،،،،شایان اسے بازوں سے کھڑے کرتے ہوئے بولا جس پر ماہ نور اسے بس بے بسی سے دیکھتی رہ گئی ۔

چھوڑو مجھے نفرت ہے مجھے تم سے نفرت ہے،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس سے اپنا بازوں چڑاتے ہوئے بول کر باہر نکل گئی ۔

جو بھی ہو اب ایسے ہی تمہیں قابو کرنا ہے ورنہ تم تو سیدھے راستے نہیں تھی آ رہی شایان سوچ کر رہا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور روتے ہوئے گھر آئی تو سامنے زرمین کر دیکھا کر اس کے گلے لگ گئی ۔

کوئی بات نہیں میری جان جانا تو ہے چلی جاؤ تم نے کیوں اتنی سی بات پر لڑائی کی ہے شایان کے ساتھ،،،،،،،،،،،،زرمین اسے اپنے ساتھ لگائے پیار کرتے ہوئے بولی ۔

کیا کہا ہے آپ سے شایان نے،،،،،،،،،ماہ نور پیچھے ہٹتے ہوئے بولی ۔

یہ ہی کے وہ اور تم خویلی جا رہے ہو اس کی جو کے اس کے والدین کی تھی پر تم انکار کر رہی ہو،،،،،،،،،،،،،،،وہ رخصتی چاہتا ہے آج ابھی تو میں نے اسے انکار نہیں کیا ماہ نور،،،ایم سوری،،،،،،،،،،،،، وہ اسے دیکھتے ہوئے آ سکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ۔

بچے اچھا ہے خوش رہو اس کے ساتھ،،،،،جیسا وہ کہتا ہے وہ کرو وہ تمہارا ہزبنڈ ہے بچے،،،، ،،،،،،،،ماہ نور اسے آرام سے سمجھا رہی تھی جس پر وہ صرف سر ہلا گئی۔ 

گوڈ گرل اب جاؤ چیج کر لو اور اپنی پینکنگ کر لو وہ آنے والا ہو گا جاؤ شاباش،،،،،،،،زرمین کے بولنے پر وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی ۔

بابا آپ کے جانے کے بعد یہ آخری رشتہ تھا پر کیا کروں،،،،،،،،اس کی خوشی کے لیے ہی سب کر رہی ہوں،،،،،،،،،،،،،،وہ خاموشی سے بس چپ سی بیٹھی رہی ۔

آپی آپ اکیلے کیسے رہے گی یہاں،،،،،،،؟؟ ماہ نور پریشان سی بولی ۔

ہوسٹل کا بندوبست ہو گیا ہے میرے اور ساتھ ہی جاب کا بھی اور ویسے بھی کچھ دن تک تو تم واپس آ جاؤ گی اسی لیے پھر میں تمہارے پاس آتی جاتی رہو گی،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے ماتھے  پر  پیار دیتے ہوئے بولی جس پر ماہ نور اس کے ساتھ لگی ایک دفع پھر سے رو دی ۔

مجھے لگتا ہے شایان آ گیا ہے،،،، ،،بیل کی آواز پر زرمین باہر نکلی تو شایان اندر آیا تھا اور ماہ نور کی طرف دیکھا جو رونے میں مصروف تھی ۔

شایان اسے دیکھتے ہوئے لب بھیچ گیا ۔

چلیں،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر اس نے اس کی طرف شکوہ کرتی نظروں سے دیکھا اور زرمین سے ملی تھی اور پھر دونوں باہر نکل آئے ۔

زرمین چپ سی بس وہی بیٹھی رہ گئی ۔

دروازہ کھولا نہیں چھوڑتے بیگم کوئی بھی اندر آ سکتا ہے،،،،،،،،،زین کی آواز سن کر زرمین جو گم سم سی بیٹھی تھی،،،،،،،،،غصے سے کھڑی ہو گی ۔

کیوں آئے ہو یہاں،،،،،،،،؟؟

سوچا اپنی بیوی کو دیکھ آؤ بچاری اکیلی رہ گئی ہے کہیں اسے میری ضرورت نہ ہو وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔

وہی روکوں اور جاؤ یہاں سے ائیند مجھے نظر مت آنا یہاں دفع ہو جاؤ میرے گھر سے،،،،،،،،،،،زرمین دبے دبے لہجے میں چیخی ۔

 آف بیوی اتنا غصہ تمہاری ننھی سی جان کے لیے ٹھیک نہیں ہے،،،،،،،،،ریلکس رہو آؤ مل کر باتیں کرتے ہیں،،،،،،،،،،،وہ اسے چڑھاتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا اور اسے بھی بازوں سے کھنچ کر اپنے پاس بیٹھا لیا ۔

چھوڑیں مجھے زین،،،،،،،،،زرمین نے اس سے اپنا آپ چھڑوانا چاہا ۔

شششش میں وہ پہلے والا زین بالکل بھی نہیں ہوں جسے تم سے محبت تھی میں تمہارا دشمن زین ہوں،،،،،،،،،،،،اسی لیے سوچ کر رہنا میرے ساتھ،،،،،،،،،،،،وہ اس کے بالوں میں چہرہ چھپائے اس کے بالوں کی خوشبو کو اپنے اندر اترتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔

زرمین نے بہت کوشش کی کے وہ اسے خود سے دور کر لے پر کر نہیں پائی،،،،،،،،،اسی لیے تھک کر بس خاموشی سے اس کے کندھے پر سر رکھ کر سسکی اُٹھی ۔

رونا کس بات کا ہے باپ کے مرنے کا یا بہن کے جانے کا،،،،،،،،،،،،،،زین اس کے بالوں میں ہاتھ دے کر اس کا چہرا اپنے سامنے کرتے ہوئے سرد سے انداز میں بولا۔

یہ رونا میری محبت کے مرنے پر ہے،،،،،،،آخری دفع رو رہی ہوں اس انسان سے محبت کرنے پر جو محبت کے لائک نہیں تھا،،،،،،،،،،زرمین. اپنے بہتے آنسو کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی ۔

میں تو تدفین بھی کر چکا ہوں،،،، تم ابھی تک اس محبت پر رو رہی ہو،،،،،،،،،،زین زہریلی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک آنکھ دبا کر بولا۔

زرمین نے اس کی طرف دیکھا تھا جہاں بہت سے شکوے تھے ۔

یہ آنکھیں تو مجھے بتا رہیں ہیں محبت اب بھی زندہ ہے،،،،،،،،،،،،،،زین اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا۔

اکثر مرنے والے بس آنکھوں میں ہی رہ جاتے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین ایک جھٹکے سے اس سے پیچھے ہوئی تھی اور کمرے میں جا کر خود کر بند کر لیا۔

زین کو غصہ تو آیا تھا پر وہ خود کو ریلکس کرتے ہوئے وہی بیٹھا رہا اندر سے اسے زرمین کے رونے کی صاف آوازیں سنائی دے رہی تھی پر وہ ضبط کئے خاموش تھا۔

جا رہا ہوں،،،،،،،،پر پھر سے آؤں گا،،،زین بولتے ہوئے باہر نکل گیا ۔

بابا کیوں چھوڑ گیے اس دنیا کے پاس آپ دونوں ہمیں اکیلے،،،،،،،،،،،،وہ چہرے ہاتھوں میں چھپائے رو دی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

صائم اب سلمان صاحب کی جگہ ان کی یونیورسٹی میں کلاسز لینے جا رہا تھا کیونکہ ان کی طبیعت بالکل ٹھیک نہیں تھی ۔

السلام کلاس آج سے میں آپ کی کلاس لوں گا کیونکہ بابا  بالکل بھی ٹھیک نہیں،،،، اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوں گیے ان کی جگہ میں ہوں،،، تاکہ آپ کی تعلیم پر کوئی خرج نہ ہو،،،،،،،،،صائم بولنے کے بعد کلاس شروع کی تھی لڑکیاں تو بہت خوش تھی آخری اہم ہینڈسم سر جو مل گیے تھے ۔

کلاس لینے کے بعد وہ اپنی گلاسسز لگا کر باہر کی طرف جانے لگا تھا کے انابیہ جو اسی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی،،،، ،سب سے لائک سٹوڈنٹ تھی وہ اس کے پاس جا کر اسے بولی ۔

سر کیا ہوا ہے سلمان سر کو،،،،،،،،،انابیہ اس کے ساتھ چل نہیں بلکہ دوڑ رہی تھی کیونکہ صائم بہت تیز چلا رہا تھا۔

ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کچھ پریشانی چل رہی ہے،،،،،،،،،صائم کی کلاس آخری تھی جس کی وجہ سے وہ اب گھر جا رہا تھا۔

سر کیا میں ان سے مل سکتی ہوں،،،،،،،،؟ 

اس کے اس طرح بولنے پر صائم کھڑے ہو کر اسے گھور کر دیکھنے لگا۔

سر وہ میرے سب سے اچھے پروفیسر ہیں پلیز ایک دفع ملنا چاہتی ہوں ان کا ایڈریس مل سکتا ہے کیونکہ میرا لاسٹ سمسٹر ہے اور اس کے بعد شادی ہے میری اور پھر میں یونی نہیں آ پاؤں گی،،،، ،،،،،،،،،،،،وہ آنکھوں پر پہنی ہوئی گلاسسز سے اس کی آنکھوں کو نہیں دیکھ پا رہی تھی پر اتنا جان گئی تھی کے اس کی آنکھوں میں ناگواری ہے۔

اوکے ٹھیک ہے میں بابا سے پوچھ کر بتا دوں گا کے ملنا ہے کے نہیں،،،، ،،،،وہ اس کو بول کر جانے لگا تھا کے انابیہ کے ڈرائیور کے بات سن کر وہی روک کر اسے دیکھنے لگا۔

انابیہ بی بی شاہ صاحب نے کہا ہے کہ آپ گھر آ رہیں ہیں کیونکہ سیمرا شاہ کی شادی ہے،،،،،،،انابیہ صائم سے بات کر رہی تھی کے اپنے خاص ڈرائیور کی بات سن کر گہرا سانس لیتے ہوئے گاڑی کی طرف جانے لگی ۔

سوری سر پر آپ کیا اپنا نمبر دے سکتے ہیں تاکہ میں آپ کو کال کر لوں گی اور سر کا حال چال پوچھ لوں گی،،،،،،،،،،،،انابیہ پھر سے اس کو دیکھتے ہوئے بولی جس پر اس نے اسے اہنا نمبر دے دیا۔

یہ ہی تھا وہ بندہ جو فوٹیج میں تھا تو کہیں یہ لڑکی اس کی بہن یا رشتے دار تو نہیں،،،،،،،،،صائم کسی سوچ کے تہت اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

پتہ کرنے پڑھے گا،،،،،،،،،صائم انابیہ کو جاتے ہوئے دیکھا رہ گیا جو اب اس سے نمبر لے کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔

تمہیں تو میں چھوڑنے نہیں والا عالم شاہ اگر تم میری بہن کے ساتھ زبردستی کر سکتے ہو تو میں تمہارے خاندان کی لڑکی کے ساتھ یہ سب کروں گا،،،،،،،،،،،صائم بھی غصے سے پاس سے جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر رہ گیا ۔

ماہ نور چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی آگے ڈرائیور بیٹھا ہوا تھا،،،،،،،،،،شایان نے اسے اپنے پاس کرنا چاہا پر ماہ نور نے اسے گھورتے ہوئے خود سے دور دھکیلا تھا۔

حد ہے ویسے،،،،،،،شایان بولتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگا۔

گاڑی جب حویلی آ کر روکی تو شایان نے ڈرائیور کو گاڑی سے باہر بھیج دیا اور خود دوسری طرف کا دروازہ کھول کر ماہ نور کو دیکھا جو اسی کو گھور رہی تھی اور سارا راستہ رونے کی وجہ سے آنکھیں لال ہو رہی تھی ۔

اب رونا بند کرو اور کوئی بھی ڈرمہ تمہاری بہن کی زندگی کو ختم کر سکتا ہے جانتی ہو تم،،،،،،،،،،،شایان بولتے ہوئے گاڑی کی سائیڈ پر بینی جگہ سے ایک چادر لے کر اس کے گرد اَڑاتے ہوئے بولا جس پر ماہ نور بس لب بھیچے تھے بولی کچھ نہیں ۔

چلو میرے ساتھ ،،،،،،اور اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے اندر کی طرف لے گیا ۔

کیا نوکر ہو یہاں کے،،،،،،،،،ماہ نور کی زبان پھسلی تھی ۔

ہاں اور تم نوکرانیو کی ہڈ ہو گی،،،،،،،،شایان اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سامنے چلتے ہوئے بولا۔

دُر دُر میں نہیں بنتی تم ہی رہو،،،، ،،،،،ماہ نور نے منہ بنایا ۔

شایان مسکرا دیا اور اندر چلا گیا،،،، ،ماہ نور بھی اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔

جب اندر داخل ہوا تو سب ہی وہاں لاؤنچ میں بیٹھے ہوئے تھے حورعین بھی وہی سر کو جھکائے ہوئے بیٹھی تھی،،،،،،،،،،،،،،،سب ہی شادی کی تیاریوں کے کپڑے پھیلا کر دیکھ رہے تھے ۔

السلام علیکم،،،،،،،شایان کے سلام کرنے پر سب نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی ماما خوش ہوتے ہوئے اس کی طرف بڑھی ۔

میرا بچہ آیا ہے،،،،،،،،،وہ اس کے ماتھے پر پیار دے کر بولی ۔

سامنے سے سلطان اور حسین شایان کا دادا اور باپ اور عالم شاہ سب ہی زمینوں سے ہو کر  آئے تھے ۔

وہ ان سے بھی ملا،،، اور ماہ نور نے بھی سب کو سلام کیا۔

یہ کون ہے،،،،،،،مسسز حسین کے بولنے پر سب نے ماہ نور کی طرف دیکھا ۔

یہ تمہاری بہو ہے،،،،،،،،،سلطان شاہ کی بات سن کر سب نے ہی پیچھے دیکھا جہاں منہ بنائے ماہ نور کھڑی تھی اردگرد چادر اوڑھی ہوئی تھی،،،،،،،حورعین نے بھی سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

تھک گیے ہوں گے دونوں بچی کو اس کا روم دکھا دو کچھ دن بعد جب ریسپشن ہو گا تب اسے شایان کے ساتھ رخصت کر دیں گیے،،،،،،،سلطان صاحب کے کہنے پر،،،سب نے ان کی طرف دیکھا تھا اور شایان نے بھی،،،،،،،،،،ماہ نور بالکل چپ سی تھی ۔

حورعین کے ساتھ والے روم میں چھوڑ انا اسے،،،،،،مسسز حسین غصے سے بولی ۔

آنٹی میں اکیلی ہوں مجھے ڈر لگتا ہے آپی کو میرے روم بھیج دیں،،،،،،،،،،،حورعین کے بولنے پر مسسز ظہر مسکراتے ہوئے سر ہلا کر اس طرف بڑھ گئی پیچھے پیچھے حورعین بھی گئی تھی اس نے عالم کی گھوری کو پوری طرح اگنور کر دیا ۔

سب ہی وہی بیٹھے ہوئے تھے اب،،،،،،مسسز حسین بہت غصے میں تھی ۔

ماما بابا کی بات تو سن لے پھر غصہ کرنا،،،،،،،،شایان اپنی ماں کو اپنے ساتھ لگا کر پیار سے بولا ۔

وہ بچی میرے دوست کی بیٹی ہے اور تین دن پہلے ہی باپ کی وفات ہوئی ہے اور کوئی بھی نہیں ہے اس کا ایسی لیے اس کو سہارا دینے کے لیے میں نے یہ سب کیا ہے بہت پیاری بچی ہے اور اپنے شایان کو پسند بھی ہے،،،،،،،حسین صاحب کے بولنے پر مسسز حسین کو تھوڑا سکون ہوا تھا اور شایان کی طرف دیکھا جو سچ میں خوش لگ رہا تھا۔

اگر شایان کو پسند ہے تو پھر ٹھیک ہے،،،، ،،،ان کے اس طرح کہنے پر سب ہی خوش ہو گیے ۔

اب شایان کے ریسپشن کی تیاری بھی ساتھ رکھنا،،،،،،،،،سلطان صاحب کے اس طرح بولنے پر سب ہی اب زیادہ جوش میں تھے کیونکہ کے سب کی شادیاں اکھٹی تھی ۔

عالم غصے سے بھرا بیٹھا تھا کیونکہ اب حورعین کے ساتھ ماہ نور بھی تھی دونوں ایک ہی کمرے میں تھیں ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

تم کون ہو،،،،،،،،؟؟ماہ نور کو وہ چھوٹی سی لڑکی پیاری لگی تھی جس پر وہ. اس کا گال کھنچ کر پیار سے بولی ۔

میں میں تو،،،،،،،،وہ ابھی بولتی اسے عالم شاہ کی بات یاد آئی ۔

میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی پر آپ کو نہیں بتا سکتی کون ہوں میں،،،،،،،،،،حورعین نم لہجے میں بولی تھی جس پر ماہ نور کو ترس آیا اس نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔

کوئی بات نہیں جب دل کیا تب بتا دینا،،،،،،وہ اسے پیار سے بولی ۔

جی آپی،،،،،،،،،،حورعین مسکرا دی ۔

کیا کرتی ہو ویسے تم،،،،،،،،،،،؟؟

آپی میں نے سکینڈیر کے اگزمز دئے ہیں اور اب اگر پاس ہو گئی تو پھر آگے پڑھوں گی ویسے دل کرتا میرا پر پڑھنا پڑھے گا اگر شاہ جی نے چاہا تو،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین منہ بناتے ہوئے بولی جس پر ماہ نور ہنس دی ۔

شاہ جی کون ہیں،،،،،،،،،،؟؟

شاہ جی،،،،،،،،وہ ابھی بولتی باہر سے دروازہ ناک ہوا،،،،،،،،،،،۔

جی آ جائے،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی ۔

کھانا کھا لے آپ دونوں آ کر یا ادھر ہی دے جائے؟؟ بڑی بی بی بول رہی ہیں،،،،،،،،،،،،،،ایک ملازمہ آ کر بولی ۔

تم یہاں کہاؤ گی،،،،،،،،،؟؟

مجھے تو بھوک نہیں ہے میرا دل نہیں،،،،،،،،،،حورعین کے بولنے پر ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا ۔

مجھے بھوک نہیں ہے،،،،،،،،،میں تو سونے لگی ہوں تھک گئی ہوں اور حورعین بھی سونے لگی ہے،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے جھوٹ گڑا اور اس کے جاتے ہی بستر پر لیٹ گئی دونوں اور لائٹ آف کر دی ۔

آپی آپ نے جھوٹ بولا،،،،،،،،؟؟

 نہیں تو سچ بولا ہے میں سو رہی ہوں اور تم بھی سو  جاؤ چپ کر کے یہ نہ ہو کوئی پھر سے ا جائے اور میرا بالکل بھی موڈ نہیں نیچے جانے کا اور کھانا کھانے کا  بھی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہی آنکھوں کو موند گئی ۔

اوکے آپی،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے آنکھیں بند کر گئی ۔

❤️❤️❤️❤️

وہ نئی بی بی نے کہا ہے ان کو بھوک نہیں ہے اور دوسری بی بی کو بھی اور دونوں سونے لگی ہیں،،،،،،،،،،،ملازمہ ان کا پیغام دے کر وہاں سے چلی گئی ۔

تھک گئی ہو گی حورعین تو کھا لیتی صبح کا ناشتہ کیا تھا اور وہ بھی ایک برئڈ کچھ نہیں کھاتی وہ بچی،،،، ،،،،،،،،بھی مسسز ظہر کے بولنے پر عالم نے اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔

چلیں آپ سب لوگ کھا لے،،،،،،،حسین صاحب بولے اور پھر سب اپنے کھانے میں مصروف ہو گیے تھے پر عالم کا دل کر رہا تھا وہ حورعین کو جھنجھوڑ کر رکھ دے ۔

وہ کھانا چھوڑ کر اُٹھ گیا اور اوپر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔

پورے کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا،،،،،،،،،،،،،۔

کیوں مجھے سختی کرنے پر مجبور کر رہی ہو نین تم، ،،،،،،،،،وہ ہاتھ کی مٹھو بنا کر سر پر ہلکے سے مارتے ہوئے بڑبڑایا۔

اس دن سے وہ اسے لگاتار اگنور کر رہی تھی اور نہ ہی اکیلے مل رہی تھی،،،،،،،،آج سوچا تھا رات کو ملے گا پر اب اس نے سارے راستے بند کر دئے تھے ماہ نور کو اپنے ساتھ سولا کر ۔

نین تم بہت زیادہ پچھتاؤ گی اب دیکھنا میں تمہیں کیسے سیدھا کرتا ہوں،،،،،،،،وہ غصے سے سرد سے لہجے میں بولا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صائم کا پورا پورا دھیان انابیہ کی طرف ہوتا تھا پر،،،،،،،،،پر اس نے کبھی شو نہیں ہونے دیا ۔

ابھی بھی کلاسز لے کر باہر نکلا تھا اس کو کوئی کال یا میسج نہیں کیا انابیہ نے اسی لیے وہ خود بھی خاموش تھا کیونکہ وہ سوچے سمجھے اور جانے بغیر کوئی بھی قدم نہیں اُٹھانا چاہتا تھا ۔

سر کیا آپ گھر جا رہے ہیں،،،،،،،،،،صائم کو باہر کے راستے کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر انابیہ اس کے پیچھے جاتے بولی ۔

جی کیوں کوئی کام تھا،،،،،،،،،،،،؟؟ صائم جیب میں ہاتھ ڈالے اس کی طرف چہرا کیے بولا ۔

سر مجھے بھی گھر لے جائے،،،،،،،،،،،،انابیہ چہرے پر آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے بولی ۔

کیوں، ،،،،،،،،،،،،؟؟ صائم نے ائبرو اَٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

سر مجھے سر سلمان سے ملنا ہے بتایا تو تھا،،،،،،مجھے بہت پسند ہے وہ سر اور اگزمز کے بعد میں ان سے مل نہیں پاؤں گی پلیز،،،،،،،،،،،انابیہ کا لہجہ التجائیہ تھا۔

آپ اپنی فیملی سے اجازت لے لو پھر مل لینا،،،،،،،،،،،،،،صائم بول کر وہاں سے جانے لگا ۔

سر نہیں ملے گی پلیز،،،،،،،،،لے جائے،،،،،،انابیہ رونے والی شکل بنا کر بولی ۔

اوکے ٹھیک ہے چلیں،،،،،،،صائم بولتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔

انابیہ بھی چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔

ایک بات پوچھوں،،،،،،،،،،،،؟؟

آپ شاہوں کی فیملی سے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،؟؟

جی جی سر کیوں کیا ہوا،،،،،،،،،،؟؟

عالم شاہ کون ہے،،،،،،،،،،،،،صائم نے ہوا میں ہی تیرر چھوڑ تھا۔

آپ کیسے جانتے ہیں ان کو،،،،،،،انابیہ حیران ہوئی ۔

جانتا ہوں بس اسے آپ کے کیا لگتے ہیں،،،،،،،،،،؟؟ 

وہ میرے کزن اور میرے فانسی ہیں ان کے ساتھ میری شادی ہونے والی ہے بس اگلے مہینے کے لاسٹ میں اور کل مانگنی کی سرمنی کرنی ہے چھوٹی سی ،،،،،،،،،،،،،انابیہ عام سے لہجے میں ہاتھوں کو مسلاتے ہوئے بولی ۔

صائم کو لگا تھا اس کا دماغ غصے سے پھٹ جائے گا پر وہ پھر بھی خود کو سنبھال کر گاڑی کو گھر تک لے کر آیا،،،اور گاڑی کو پورچ میں روکتے ہوئے جلدی سے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔پیچھے اس کے انابیہ بھی اندر داخل ہوئی ۔

انابیہ کو مسسز سلمان سے ملوا کر خود اپنے لان کے پیچھے بنے چھوٹے سے جیم میں چلا گیا جہاں پر لگے پنچنگ بیگ کے پاس جا کر آپنی سیلولیس شرٹ پہن کر زور زور سے مارنے لگا ۔

میری بہن کو اغواء کرنے کے بعد ہمارے خاندان کو سرے محفل رسوا کرنے کے بعد اب خود شادی کرے گا بہت خوب مسٹر عالم تمہارے خاندان کو پوری محفل میں رسوا نہ کیا تو میرا نام بھی صائم سلمان نہیں،،،،،،،،،،،سوچتے ہوئے زور زور سے اسے مار رہا تھا ۔

پورے جسم سے پیسنہ بہہ رہا تھا ۔

آپ مجھے چھوڑ آئے گیے سر نے کہا ہے آپ کو بولوں،،،،،،،،،انابیہ سر کو جھکائے ہوئے بولی تھی ۔

صائم کے مارتے ہوئے ہاتھ وہی رک گیے اور وہ اس کی طرف دیکھنے لگا جو سر کو جھکائے،،،،،،،کھڑی تھی سادہ سی شلوار قمیض پہن کر اردگرد چادر اوڑھ رکھی تھی،،،،،،،چہرے پر بکھری کچھ اورہ لٹیں،،،،،،،،،صائم کو لگا آج وہ سچ میں دل ہارنے لگا ہے اس کی سادگی پر ۔

بے اختیار ہی آگے بڑھ کر اس کے چہرے پر بکھیری لٹو کو کان کے پیچھے کر دیا،،،،،،،،،،انابیہ جو سر کو جھکائے ہاتھوں کو مسل رہی تھی اس نے دو قدم پیچھے لیے،،،،،،،،،،،،،،،،اور حیرت زدہ سی اسے دیکھنے لگی ۔

ایم سوری،،،،،،،،،،صائم بولتے ہوئے جلدی سے آگے بڑھ گیا انابیہ بھی اس کے پیچھے گئی جو اب گاڑی میں بیٹھا اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

انابیہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔

مل لیا آپ نے بابا سے،،،،،،،،،،،؟؟

جی جی سر،،،،،،،،،،،،انابیہ اپنی دھڑکنوں کے اُٹھتے شور کو قابو کیے آہستہ آواز میں بولی ۔

پھر کوئی بات نہیں کی اور گاڑی صائم نے یونیورسٹی کے سامنے روکی،،،،،،اندز پھر سے لاپروا سا تھا،،،،،،،،،،،۔

تھینک یو سو مچ سر،،،،،،،،،،انابیہ بول کر باہر جانے لگی ۔

اپنا خیال رکھنا،،،،،،،،صائم کے بولنے پر انابیہ کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا،،،وہ اسے ایک نظر دیکھ کر جلدی سے باہر نکل گئی،،،۔

پیچھے صائم کچھ دیر ایسے ہی بس اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا،،،،،،،اور پھر گاڑی کو جلدی ہی وہاں سے بھگا لے گیا ۔

انابیہ وہاں پاس بھنچ پر جا کر بیٹھ گئی ۔

میں نے بہت بڑی غلطی کر دی سر کے ساتھ جا کر کیا میں سچ میں اپنا دل،،،،،،،نہیں نہیں میری انگجمنٹ ہے،،، گہرا سانس لیتے ہوئے بس چپ سی کر گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سب ہی ڈائنگ ہال میں بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے،،،،،،،حورعین اور ماہ نور بھی دونوں بیٹھی ہوئی تھی ۔

کل ہم سب نے تہہ کیا ہے عالم شاہ اور انابیہ کی چھوٹی سی رسم کر دی جائے،،،،،،،،اور ساتھ میں کچھ دن بعد سیمر اور ردا کی شادی ہے تو ساتھ ہی عالم اور انابیہ کا نکاح ہے اور ساتھ میں شایان اور ماہ نور کا ریسپشن،،،،،،،،،،،،سلطان صاحب کی بات سن کر حورعین کو لگا تھا اس کا یہاں بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے وہ بس لب بھیچے اپنے آنسو کو روکنے کی کوشش میں تھی ۔

پر دادا رسم تو ٹھیک ہے نکاح زیادہ جلدی نہیں،،،،،،،،،،،،عالم کے بولنے سلطان شاہ نےا س کی طرف دیکھا ۔

بالکل بھی نہیں تم سب سے بڑے ہو گھر کے یہ سب بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا،،،،،،،،،سلطان شاہ کے بولنے پر عالم نے سر ہلا دیا تھا عالم کے اس طرح کرنے سے حورعین بس اسے دیکھتی ہی رہ گئی ۔

ماہ نور ایک لفظ نہیں بولی پر شایان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

پاس بیٹھی انابیہ کا دل بے چین سا ہو گیا تھا،،،، ،،وہ اُٹھی تھی اور وہاں سے چلی گئی سب نے اس کی شرم سمجھی ۔

حورعین جو آنسو روکنے کی کوشش میں تھی وہ بھی سب کو بول کر وہاں سے جانے لگی۔

آپ نے کھانا بھی نہیں کھایا کھاتی ہی نہیں ہو تم کچھ بھی ایسے کیسے چلے گا،،،، ،،مسسز ظہر کے پوچھنے پر حورعین سر کو جھکا گئی ۔

ماما بابا کی یاد آ رہی ہے،،،،،،،،،حورعین بولی تھی اور کہیں آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے،،،،،،مسسز ظہر نے اس کی طرف بڑھ کر اسے ساتھ لگا لیا ۔

بچے روتے نہیں ہیں میں بھی آپ کی ماما ہوں،،،،،،،،اتنا بولنا تھا حورعین کے رونے میں اور بھی تیزی آ گئی ۔

چپ چپ نہ کچھ کھاتی ہو اور نہ اپنا حیال رکھتی ہو کیا ہوا ہے میرے بچے کو،،،،،،،،وہ اسے پیار سے سمجھ رہی تھی ۔

چلو روم میں آرام کر لو،،، ،،،،،،مسسز ظہر بولی تو ماہ نور اسے اپنے ساتھ لے گئی۔

عالم شاہ بس چپ چاپ یہ سب  دیکھتا ہی رہ گیا تھا حورعین کا رونا بہت مشکل سے برداشت کر رہا تھا اور اب تو دو دن ہوئے اس سے بات بھی نہیں کر پایا تھا ۔

اس کے بھائی سے بات کرو بچی بہت پریشان ہے نہ کچھ کھاتی ہے اور نہ ہی بات کرتی بس خاموش سی سی ہے،،،،،،،،،مسسز ظہر کے بولنے پر عالم نے سر ہلایا ۔

چلو تم لوگ بس تیاریاں رکھو سب کل انگجمنٹ ہے تو اسی لیے سلطان شاہ کے بولنے پر سب ہی خاموش ہو گئے تھے اور کھانا کھانے لگے ۔

عالم کا دل پوری طرح سے بے چین ہو چکا تھا اس کا رونا بہت تکلیف دے تھا ۔

زرمین کا آج پہلا دن تھا آفس میں اسی لیے سکون سے بیٹھی کام کر رہی تھی،،،،،،،اس کو اندر باس نے بلایا ۔

مسس زرمین آپ ہی ہیں نہ جنہوں نے نیا نیا جوائن کیا ہے،،،،،،،،،،آفس میں داخل ہونے کے بعد سامنے بیٹھے شاداب نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اسے اوپر سے لے کر نیچے تک گھور کر دیکھا۔

ج، ،،،،،،،،جی،،،، ،،،،،جی  سر میں ہی ہوں،،،،،،،،زرمین اس کی نظروں سے بمشکل گھبراتے ہوئے بولی ۔

ہممم یہ کچھ فائلیں ہیں ان کو کمپلٹ کر کے دیں مجھے اور کام اچھے سے ہونا چاہے،،،،،،یہ آپ میری پرسنل سیکرٹری ہیں اور اب آپ میرے ساتھ محتلف میٹنگز میں بھی جایا کریں گی جانتی ہیں نہ آپ،،، ،،،،،،،،،،،،،،،. ؟؟ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

جی سر جانتی ہوں،،،،،،،،،میں جاؤں سر،،،،،،،،وہ اس کی نظر سے گھبرا رہی تھی اسی لئے جلدی سے بولی ۔

جی جائے اور اچھے سے اپنا کام کریں،،،،،،،،جتنا اچھا کام ہو گا اتنی ہی اچھی آپ کی سیلری،،،، ،،،،اس کے اس طرح کہنے سے زرمین جلدی سے سر ہلا کر باہر بھاگی تھی ۔

اللہ حفاظت کرنا میری  اور مجھے ہمت دینا سب کچھ سنبھالنے کی زرمین پریشان سی بولی تھی اس کو بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی اس سب سے یہ اس کا سب سے پہلے ایکپرنسس تھا۔

جلدی سے اپنے کام میں لگ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیا ہوا ہے حورعین اتنا کیوں رو رہی ہو،،،،،،،،؟؟ ماہ نور کب سے حورعین کو روتا ہوا دیکھ کر بولی جو چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔

آپی ماما بابا کے پاس جانا ہے مجھے مجھے ان کے پاس جانا ہے یہاں سے جانا ہے،،،،،،شاہ جی بہت برے ہیں بہت برے،،،،،،،،مجھے لے جائے ماما بابا کے پاس ،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے بولی جس پر ماہ نور کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔

کیا بول رہی ہو یار میں بالکل بھی سمجھ نہیں پا رہی،،،،،،،،،،،ماہ نور کنفیوز سے بولی ۔

آپی شاہ جی شادی دوسری ماما بابا لے جاؤ مجھے،،،،،،،،،،،ماہ نور کے گلے لگی رو رہی تھی اور روتے ہوئے عجیب طرح کی باتیں کر رہی تھی ۔

آنٹی کو بتاتی ہوں،،،،،،،ماہ نور باہر جانے لگی تھی کے تب ہی عالم شاہ اندر داخل ہوا۔

جی اپ یہاں،،،،،،،؟؟ اور ساتھ ہی پیچھے شایان بھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔

شایان تھوڑی دیر اپنی بیوی کو باہر لے کر جاؤ مجھے بات کرنی ہے نین سے،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ کے بولنے پر ماہ نور جو باہر دروازے کے پاس جانے کے لئے کھڑی تھی چپ سی کر کے شایان کے ساتھ چلی گئی ۔

عالم شاہ نے حورعین کی طرف دیکھا جس نے رو رو کر آنکھیں لال کر لی تھی اور ابھی بھی رو رہی تھی ناک سرخ ہو رہی تھی شکوہ کرتی نظروں سے عالم کو دیکھتے ہوئے دوسری طرف بنے ڈریسنگ روم کی طرف بھاگی اور خود کو اندر بند کر لیا ۔

عالم بھی اس تک جاتا،،،،،،حورعین خود کو اندر بند کر چکی تھی اس کی سسکیوں کی آواز باہر تک سنائی دے رہیں تھی ۔

نین دروازہ کھولو ورنہ میں بہت برا پیش آؤں گا تمہارے ساتھ،،،،،،،،عالم غصے سے زور سے دروازے پر ہاتھ مارتے ہوئے دبے لہجے میں غرایا ۔

نہیں کھولوں گی کبھی بھی نہیں کھولنا میں نے جائے یہاں سے میں آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی سنا آپ نے نفرت ہے مجھے آپ سے نفرت جائے اپنی اس انابیہ کے پاس آپ نہیں ہیں میرے،،،،،،،،،،،،وہ اندر بیٹھی روتے ہوئے چلائی ۔

نین اوپن دی دوڑ ورنہ میں وہ کروں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتی،،،،،،،،،،،،،،،عالم کی آواز سرد تھی ایک دفع تو حورعین بھی کانپ گئی پر پھر بھی ہمت کرتے ہوئے بولی ۔

میں نہیں ڈرتی آپ سے جو کرنا ہے کر لے،،،،،،،مجھے آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنی،،،جائے شوق سے دوسری شادی کریں پر مجھے میرے ماما بابا کے پاس جانا ہے نہیں رہنا چاہتی میں آپ کے ساتھ سنا آپ نے،،،،،،،،،،،اپنی شادی سے پہلے مجھے میرے گھر چھوڑ کر آئے،،،،،،،،،،،،،،،حورعین کی روتی ہوئی آواز سن کر عالم کو بہت غصہ ا رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا پر پھر بھی اس نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے درز سے ڈریسنگ روم کی چابی ڈھونڈنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا ۔

اور آرام سے اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی گھٹنوں میں چہرا چھپائے رونے میں مصروف تھی ۔

عالم شاہ نے گہرا سانس لیا پر خود کے غصے کو کنٹرول نہیں کر پایا اور ایک ہی سکنڈ میں اس کے پاس  جا کر اسے بازوں سے دبوچ لیا۔

کیا بکواس کر رہی تھی کے میری شکل نہیں دیکھنا چاہتی مجھ سے نفرت ہے،،،،،،،،،،،،مجھے چھوڑ کر جانا چاہتی ہو،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اسے بازو سے دبوچے اس کے بالوں میں ہاتھ دئے اس کا سر اوپر کرتے ہوئے غرایا اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔

حورعین خوف کے مارے کانپنے لگی ۔

شاہ جی چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے،،،،،،،حورعین خوفزدہ لہجے میں آنکھوں کو بند کیے کانپتے ہوئے بولی ۔

تمہیں میں جان  سے مار دوں گا نین،،،،،،،،اگر ایک بھی لفظ اور اس طرح کی بکواس کی تم صرف میری ہو اور ساری زندگی میری ہی رہو گی چاہے دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے چہرے کے اور بھی قریب کر گیا اس کی سانسوں کی تپش کو خود کے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھوں کو اور بھی زور سے میچ گئی۔

عالم اسے حوف میں دیکھتے ہوئے مسکرایا اور اس کے کانپتے وجود کو باہوں میں سمٹتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھکا،،،،،،،،،،حورعین خوف سے اس کو کندھوں سے تھامے کانپ رہی تھی ۔

عالم شاہ نے اسے کے گرد حصارِ بنا کر اسے متاع جان کی طرح سمیٹ لیا ۔

ائیند مجھ سے دور جانے والی بکواس مت کرنا نین ورنہ عالم شاہ تمہیں زندہ زمین میں گاڑ دے گا پر کہیں خود سے دور نہیں جانے دے گا،،،،،،،،،عالم پیچھے ہوتے ہوئے اسے خود میں بھیچے اس کے بالوں پر لب رکھے بولا۔

شاہ جی دوسری شادی مت کریں،،،،،،،،وہ پھر سے بڑبڑائی اس کا وجود عالم شاہ کی گرفت میں ابھی بھی لرز رہا تھا ۔

دادا کی بات کو میں موڑ نہیں سکتا وہ منگ ہے میری بچپن کی،،،،،،،،وہ اس کے بالوں پر ہاتھ مارتے ہوئے آہستہ سے بولا ۔

تو مجھے چھوڑ دیں،،،،،،،،،حورعین نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا ۔

میری زندگی میں تم جان بوجھ کر آئی تھی خود اپنے منہ سے اظہار کیا تھا اب میں تمہیں کبھی بھی خود سے دور ہونے نہیں دوں گا،،،،،،،،،ہر چیز کو قبول کرنا ہو گا تمہیں چاہے اس میں تمہارا دل ہو یا نہ ہو،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے چہرے سے دبوچے غصے سے بولا ۔

ائیند اپنی زور آزمائی مجھ پر مت ازمانہ ورنہ تمہیں معلوم پڑھے گا عالم شاہ ہے کون،،،،،،،عالم اسے کہتے ہوئے جھٹکے سے چھوڑ کر چلا گیا ۔

پیچھے حورعین تھی اور اس کی سسکیوں کی آوازیں ۔

محبوب نہ ملے تو برداشت ہو جاتا ہے پر  محبوب کو بانٹنا سب سے مشکل کام ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیا مسئلہ ہے تمہارا کیوں لے کر آئے ہو مجھے یہاں تم، ،،،،،،،،،،،شایان اسے کھنچتے ہوئے اوپر چھت پر لے آیا تھا ماہ نور اس سے اپنا بازوں چڑواتے ہوئے غصے سے چیخی ۔

ویسے ہی تمہیں دیکھنے کو دل تھا اسی لئے،،،،،،،،،،،شایان مسکرا کر بولا ۔

بھاڑ میں جاو نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھتی میں تمہیں اور تمہارے اس سو کولڈ خاندان کو پہلے میری پھوپھو پھر میری بہن اور اب تم مجھے شکار بنا چاہتے ہو تو یہ تمہاری بھول ہے ۔

گھٹیا خاندان کے تم ہو اور وہ زین تم دونوں انتہائی گھٹیا گرے ہوئے خاندان،،،،،،،،،،،،،ابھی وہ بول رہی تھی کے شایان نے اسے جبڑے سے دبوچے دیوار کے ساتھ لگا دیا ۔

بکواس بند ایک اور لفظ بھی میرے خاندان کے بارے میں کہا تو جان سے مار دوں گا،،،،،،،،،،،،شایان اس کا چہر دبوچے غصے سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا ۔

ڈرتی نہیں ہوں میں تم سے چھوڑو مجھے،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور پوری طرح سے خوفزدہ ہو چکی تھی پر پھر بھی خود کو سنبھال کر اپنا آپ اسے سے چھڑوانے کی کوشش میں تھی ۔

اپنے باپ کا گھٹیا پن میرے باپ یا خاندان پر مت ڈالو ایک دفع آ جاؤ میرے روم میں تمہارے سارے کسے بل نہ نکال دئے تو میرا نام بھی شایان شاہ نہیں،،،،،،،،،،،،،،،شایان نے اسے جھٹکے سے چھوڑا ۔

تمہارے ہاتھ آتی ہے میری جوتی،،،،،،،تم ہو گھٹیا تمہارا خاندان گھٹیا،،،،،،،،،،،،ماہ نور تسلم صاحب کے خلاف سنا تو ایک دفع پھر سے غصے سے چیخی ۔

تم فکر مت کرو میری جان اسی گھٹیا خاندان سے تمہارے بچے بھی ہوں گیے،،،،ایک دفع بس ریسپشن ہو لینے دو تمہیں جان سے سے مار دوں گا،،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان ماہ نور کو دیوار سے چھپکائے کان میں پھنکارا۔

ہاتھ لگا کر دکھانا ہاتھ توڑ دوں گی تمہارے رہی بچوں کی بات تو تمہاری سوچ ہے میں تمہیں منہ نہ لگاؤ تم آئے برے بچے کرنے والے،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور کا غصہ بھی سوانزے پر تھا ۔

تم فکر مت کرو ایک دفع آ جاو ہاتھ بھی توڑوا لوں گا میں اور توڑ بھی لوں گا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کی بکھیری لیٹو کو کان کے پیچھے اڑاتے ہوئے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اسے ایک آنکھ دبا کر بولا ۔

اتنا غصہ مت کرو میری جان روپ نہیں آئے گا،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان اس کو دیکھتے ہوئے بولا جس کے ناک کے ناتھے غصے کی وجہ سے پھول رہے تھے ۔

میں کسی ریسپشن میں نہیں آنا میں تمہارے دادا کو سب سچ بتا دوں گی،،،،،،،،،،ماہ نور چیخی تھی ۔

بتا دو پھر ایک رشتہ جو ہے تمہارا وہ بھی نہیں بچے گا میرے آدمی تمہاری بہن کو تمہارے ماما بابا کے پاس بھیجوا دیں گے وہ اس پر جھکتا ماہ نور نے اپنا چہرا دوسری طرف کر لیا جس سے شایان  ہونٹوں اس کی گال پر رکھ گیا ۔

دور رہا کرو مجھ سے گھٹیا انسان اعتبار کیا ہر اعتبار توڑ دیا تم نے میرا،،،،،،،،،،،ماہ نور اسے خود سے دور دھیکل کر وہاں سے جانے لگی ۔

لاسٹ دفع کر لو اب نہیں توڑوں گا،،،،،،،،،شایان نے جاتی ہوئی ماہ نور کا ہاتھ پکڑا۔

کبھی بھی نہیں،،،،،،،تم اب میرے اعتبار کے قابل نہیں رہے،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے ہاتھ چڑوا کر وہاں سے چلی گئی ۔

پیچھے شایان لب بھیچھے بس دیکھتا رہ گیا ۔

ماہ نور جب کمرے میں گئی تو اسے سسکنے کی آواز آئی تو اس نے ڈریسنگ میں دیکھا جہاں حورعین رو رہی تھی ۔

حورعین بےبی آبھی بھی رو رہی ہو چپ کر جاو یار،،، ،،،،،،،،اتنی یاد آ رہی ہے تمہیں مجھے دیکھو میرے ماما بابا بھی اس دنیا میں نہیں ہیں،،،،،،،تم بھی رو مت خوش رہا کرو بس،،،،،،،،،،،ہو آس کی گال سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے اس  کا ہاتھ پکڑا کر اسے بیڈ تک لے گئی ۔

چلو اب رونا بالکل بھی نہیں صبح بہت انجوائے کرنا ہے شاہ بھائی کی منگنی کو،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو حورعین اور بھی تیز رونے لگی ۔

وہ جھوٹے ہیں دھوکے باز ہیں آپی بہت برے ہیں،،،،،،،،،،،،نفرت ہے مجھے ان سے،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اس کے ساتھ لگی بولی تھی ۔

چپ کر جاؤ رونا نہیں میری جان ہم ان کو صبح پوچھ لے گیے فلوقت تم آرام کرو کیا حال کر لیا ہے اپنا،،،،،،،،،،،،ماہ نور  اسے پچکارتے ہوئے بیڈ کی طرف لے کر آئی اور اسے لیٹایا تھا۔

آپی آپ ان کو بولو نہ کریں شادی پلیز آپی، ،،،،،،،،،،،،حورعین کے اس طرح کہنے سے ماہ نور چونک گئی ۔

اوکے میں کہتی ہوں تم چپ کر جاؤ،،،،،،ماہ نور نے اسے بہلایا ۔

کیا ہے سب یہاں تو ہر کوئی ایک راض لیے ہوئے ہے کیوں بول رہی تھی حورعین کیا تعلق ہے اس کا عالم شاہ سے ماہ نور اسے بستر پر لیٹا کر آس کے پاس بیٹھی سوچ کر رہ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عالم شاہ کب سے کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر لگا رہا تھا،،،،،،رہ رہ کر حورعین کی روتی آنکھیں اس کی باتیں تکلیف دے رہی تھی وہ جانتا تھا وہ اس وقت سچ میں ٹھیک نہیں ہے ۔

پاگل لڑکی کچھ کھایا بھی نہیں کیا حال کر لیا ہے اپنا میں اب کچھ نہیں کر سکتا اس کے لیے،،،،،،،،یہ شادی تو ضرور ہو گی،،،،،،عالم شاہ سگریٹ کو سلگائے صوفے پر بیٹھا کر کش لیتے ہوئے سوچ کر رہا گیا ۔

شاہ جی آپ میرے ہیں بس میرے ورنہ میں مر جاؤں گی مت کریں اس طرح،،،،،،،،،،،عالم شاہ نے آنکھوں کو بند کیا تو اسے حورعین کا روتا چہرہ نظر آیا جس پر وہ آنکھوں کو کھول جلدی سے سیدھا ہو گیا ۔

کچھ نہیں ہو سکتا تمہیں تمہیں کوئی بھی مجھ سے چھین نہیں سکتا،،،،،،،عالم ایک جنون سے بولا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

مجھے ساری ریپوٹ چاہے اس کے بارے میں،،،،،،،،،،زین چئیر پر جھولتے ہوئے اپنے سامنے کھڑے آدمی کو بولا جو اس کے لیے کام کرتا تھا ۔

سر جی میڈیم ایک آفس میں جاب کرتی ہیں اس آفس کے باس کی ریپوٹیشن کچھ ٹھیک نہیں ہے،،،،،،،،،،،،وہ بہت بڑا ٹھرکی اور کیمنہ انسان ہے،،،، ،،،،،اس کی بات سن کر زین نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔

اور،،،،،،،،،،،،،؟؟

وہ کا اکثر لڑکیوں کو اپنی ڈیلز کے لیے یوز کرتا ہے اور خود بھی ان کو بلیک میل کرتا ہے،،،،،،،،،سامنے کھڑے آدمی کی بات سن کر زین کے ماتھے پر کہیں بل پڑھے تھے ۔

میری بات سنوں اب،،،،،،،،زین سیدھا ہوا اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

ہر طرح سے تمہاری نظر زرمین پر ہونی چاہے اسے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچنا چاہے،،،،،،،،،اور اس انسان پر بھی نظر رکھو باقی میں دیکھ رہا ہوں مجھے کیا کرنا ہے،،،،،،،،،زین اپنے ماتھے کو ہاتھ سے مسلتے ہوئے پر سوچ انداز میں بولا۔

اوکے سر جسا آپ کہیے،،،،،،،۔

اب تم جا سکتے ہو،،،،،،،،،،زین کے بولنے پر وہ سر ہلا کر باہر نکل گیا ۔

تم بہت ضدی ہو زرمین تو میں بھی بہت ضدی ہوں میری ضد ابھی تم نے دیکھی ہی نہیں،،،،،،،،،زین خود سے بولا کر پھر سے چئیر سے ٹیک لگا گیا ۔

زرمین کیوں نہ ایک ملاقات کی جائے،،،، ،،زین مسکراتے ہوئے اُٹھا تھا اور گاڑی کی کیز لے کر آفس سے باہر نکل گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

تھینک یو سر میری مدد کے لیے،،،،مجھے سر سلمان سے ملانے کے لئے،،،،،،،،انابیہ نے صائم کو میسج کیا ۔

انابیہ بچے یہ تمہارا جوڑا ہے،،،،،،،،،،،تب ہی اس کی ماما اس کو جوڑ لے کر اندر داخل ہوئی،،،،انابیہ اسے دیکھ کر مسکرا دی ۔

کیسا ہے پیارا ہے نہ تمہاری بڑی ماما کی پسند ہے اور تم پر بہت پیارا بھی لگے گا،،،،،،،۔

جی ماما پیارا ہے بہت،،،،،،،،،وہ جوڑے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھیکا سا مسکرا دی ۔

چلوں اس کو رکھ دو الماری میں اور آرام کرو صبح ورنہ تھک جاو گی اوکے وہ اسے بولتے ہوئے پیار دے کر وہاں سے چلی گئی۔

پیچھے کہیں آنسو اس کی انکھ سے بہہ نکلے ۔

مجھے اس انسان کے ساتھ باندھا جا رہا ہے جس نے اج تک مجھے کزن ہونے کے ناطے بھی بات نہیں کیا اور نہ ہی کبھی حال تک پوچھنے کی کوشش کی ہے،،،،،،،،،،،انابیہ اسے دیکھتے ہوئے خود ہی سوچ کر رہ گئی ۔

پر میں بہت خوش ہوں اور بے اختیار ہی اس کے ذہن میں صائم کے بولے لفظ گھونجے ۔

اپنا حیال رکھنا،،،،،،،اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔

لوگ کہتے ہیں محبت  اتنی جلدی نہیں ہوتی'' 

'' میں کہتا ہوں محبت ایک پل میں ہو جاتی ہے،

انابیہ نے اپنا موبائل دیکھا تو اس کے موبائل پر صائم کا ریپلائی آیا تھا،،،،،،وہ میسج پڑھ کر انابیہ کا دل دھڑکا ۔

انابیہ موبائل کو کہیں دیر دیکھتی رہی اور پھر اپنے ڈریس کی پیچر بنا کر اس کو سینڈ کر دی ۔

میری مانگنی کا ڈریس،،،،،،،،،،،،،اور موبائل کو سائیڈ پر رکھ دیا ۔

،،،،،،،،،،کچھ خواہشات ہمیشہ ادھوری ہی رہ جاتی ہیں پر میں اپنی کوئی بھی خواہش ادھوری نہیں چھوڑتا'،،،،،،،،،،،،،،دوبارہ رنگ پر جب انابیہ نے صائم کا میسج دیکھا تو لب بھیچ لیے ۔

سر پلیز،،،،،،،،۔

اپنا حیال رکھنا انابیہ،،،،،،،،،صائم کا میسج پڑھنے کے انابیہ بے اختیار ہی رو دی ۔

کیوں ایک پل آیا وہ میری زندگی میں جو بھی تھا میں مطمئن تو تھی کیوں ہو رہا ہے میرے ساتھ یہ اب کیوں،،،،،،،،انابیہ بے تحاشا روتے ہوئے خود سے ہی بولی تھی ۔

میں کمزور نہیں ہوں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا مجھے کچھ بھی نہیں،،،،،،،انابیہ اُٹھی تھی اور اپنا ڈریس اُٹھا کر الماری میں رکھنے کے بعد چپ چاپ آ کر بیڈ پر ڈھ سی سی گئی اور ایک بار پھر سے ٹوٹنے لگی۔

زین کو آدھا گھنٹہ ہوا زرمین کا انتظار کر رہا تھا جو ابھی بھی باہر نکل کر رکشے کا انتظار کرنے لگی،،،،،،،زین نے دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی اس کے سامنے لا کر کھڑی کر دی جس پر زرمین ڈر سے چونکتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔

زین باہر نکل کر اس کی طرف بڑھا ۔

بیٹھوں گاڑی میں،،،،،،،،،،،،زین کا سخت لہجے محسوس کرتے ہوئے زرمین نے لب بھیچ لیے پر دوسری سائیڈ سے گزرتے ہوئے دوسری سڑک پر جانے لگی ۔

گاڑی میں بیٹھو میں نے کہا نہ،،،،،،،زین اسے کلائی سے دبوچے سخت لہجے میں بولا۔

اپنا یہ روب کسی اور پر چلاؤ میں تمہاری غلام نہیں ہوں سنا تم نے،،،،،،،،،زرمین اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چڑاتے ہوئے دبے لہجے میں دانت پیستے ہوئے بولی۔

اوکے ایسے نہیں تو ایسے ہی صحیح،،،،،،،،،زین نے زرمین کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھنچتے ہوئے گاڑی میں پٹکا،،،،،،،،اور خود دوسری طرف جاتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کر دی،،،، ،زرمین کو سوچنے کا بھی موقع نہیں ملا ۔

تمہیں مسئلہ کیا ہے مجھ سے کیوں پڑھے ہو میرے پیچھے پہلے خود ہی ہمیں گھر سے نکال دیا تھا اور اب یہ گھٹیا حرکتیں کر کے ثابت کیا کرنا چاہتے ہو تم،،،،،،،،،،،،زرمین غصے سے پھٹ پڑھی ۔

بیوی ہو میری اسی لئے جو چاہے دل کرے گا تمہارے ساتھ کروں گا،،،،،،،،،َزین کا لہجہ ضد لیے ہوئے تھا ۔

بیوی ہوں جس کو تم خود اپنی مرضی سے اپنے گھر سے اور زندگی سے نکال چکے ہو،،،،،،زرمین نے اسے طنزیہ کہا ۔

اب میں چاہتا ہوں کے وہ واپس گھر آئے،،،،،،،،سامنے دیکھتے ہوئے زین بولا  ۔

پر میں نہیں چاہتی مجھے اب طلاق لینی ہے تم سے مجھے ایک پل کے لیے بھی تمہارا ساتھ نہیں چاہے،،،،،،،،،،،،،،،زین اس کی بات سن کر اپے سے باہر ہو گیا ۔

کیا بولا مجھ سے طلاق چاہتی ہو،،،، ،کیوں کسی اور پر دل آ گیا ہے کوئی اور عاشق گیا ہے جو یہ بکواس،،،،،،،،،،،،،،،،،زین ایک جھٹکے سے گاڑی روکتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولا ۔

ٹھککککککک کی آواز سے زرمین کا ہاتھ اُٹھا تھا اور زین کے چہرے پر پڑھا تھا۔

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے تھیڑ مارنے کی،،،،،،،،،،،،زین اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دباتے ہوئے غصے سے چیخا ۔

تمہیں شرم نہیں آتی میرے کردار پر انگلی اُٹھاتے ہوئے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ ڈر تو گئی تھی پر اپنے کردار پر ایک لفظ برداشت کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا ۔

میرے ساتھ بھی تو چکر تھا تب کہاں تھا تمہارا کردار،،،،،،،،،زین طنزیہ ہنسی ہنس دیا،،،زرمین اسے بس بے یقینی سے دیکھتی رہ گئی ۔

مجھے نہیں پتہ تھا زین تم اس حد تک گر جاؤ گیے کے میرے کردار تک کو داغ دار کر دو گیے،،،،،،،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے گاڑی کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی،،،،جو کھل نہیں رہا تھا۔

مجھے ایک منٹ بھی تمہارے ساتھ نہیں رہنا ابھی کے ابھی دروازہ کھولو،،،،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین چیخی تھی ۔

آواز نیچے چھوڑ آتا ہوں میں تمہیں تمہارے گھر،،،،،،،،،،،،،بولتے ہوئے زین نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

باقی راستے زرمین کے رونے کی آواز ہی تھی گاڑی میں،،،،،،،،زین نے لب بھیچ لیے ۔

میرا کردار بہت برا ہے نہ زین ائیند میرے راستے میں ہرگز مت آنا،،،مر گئی تمہارے لیے زرمین،،،،،،،،،،،،،وہ بولتے ہوئے باہر نکل گئی ۔

پیچھے وہ بس اس کی پشت کو دیکھتا ہی رہ گیا 

زرمین تم کیا جانو میری بے قراریاں،،،،،،،،،،وہ اسے جاتے دیکھ کر منہ میں بڑبڑایا اور گاڑی اپنے گھر کی طرف موڑ لی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

یہ تم دونوں کے کپڑے ہیں،،،،،،،،،،،مسسز حیسن نے دو ڈبے رکھے تھے جس میں ماہ نور اور حورعین کے کپڑے تھے ۔

آنٹی حور کو بہت تیز بخار ہے،،،،،،،،ماہ نور نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔

ہممم بولتی ہوں باہر کوئی ڈاکٹر کو بلا کر لائے آج میری بچی کا دن ہے میں کو بھی بدمزگی نہیں چاہتی اتنی بیمار ہے تو اسے باہر مت لے کر آنا تم بھی آنا ہوا تو آنا ورنہ نہ بھی آؤ تو کوئی بات نہیں،،،،،،،،،،،مسسز حسین بول کر باہر نکل گئی ۔

پیچھے ماہ نور نے ایک نظر حورعین کو دیکھا اور ایک نظر کپڑوں کو اور پھر اکتا کر لیٹ گئی تھی بیڈ پر ۔

بھاڑ میں جائے آپ کی بچی کی خوشیاں،،،،،،،،،،،ماہ نور دانت پیستے ہوئے بڑبڑائی۔

کافی دیر گزر گئی پر کوئی ڈاکٹر نہیں آیا پر البتہ ایک ملازمہ آ کر بخار کی گولی دے گئی ۔

جس کو ماہ نور نے اسے کھلا دیا ۔

حورعین پھر اسی طرح بے سد پڑھی رہی،،،،،،،ماہ نور نے اس کے سر پر پٹیاں بھی کی پر پھر بھی بخار اتر ہی نہیں رہا تھا ۔

کیا کروں کتنے بےحس لوگ ہیں سب کسی کو پرواہ نہیں،،،،،،،،،،،،،ماہ نور حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی اور پھر خود ہی اُٹھی ۔

جب نیچے ریلنگ سے دیکھا تو پورا گھر سجا ہوا تھا اور سب تیار ہو کر کھڑے تھے اور ادھر اُدھر کے کام کر رہے تھے ۔

ماہ نور لب بھیچے واپس آ گئی ۔

آف میرے خدا کیا کروں،،،،،،،،،،اندر آ کر پھر سے ادھر اُدھر چکر لگانے لگی ۔

پاس پڑا کپڑوں کا ڈبہ غصے سے اُٹھا کر نیچے پھینکا،،،،،،،،اور پھنکاتے ہوئے واپس سے بیڈ پر گری اور بے بسی سے رونے لگی ۔

شایان جب اندر آیا تو سامنے زمین پر پڑھے کپڑے اور ماہ نور کو روتے ہوئے دیکھ کر لب بھیچ لیے۔

کس بات کا رونا ہے  تمہیں اور کیوں پہ پھینک دئے یہ کپڑے،،،،،،،،،،،وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے چلایا ۔

جاؤ یہاں سے دماغ مت خراب کرو میرا،،،،،،،،،ماہ نور بھی غصے سے بولی ۔

دس منٹ کے اندر اندر تیار ہو جاؤ ورنہ وہ حال کروں گا تمہارا کے خود کو بھی پہچان نہیں پاؤ گی سنا تم نے،،،،،،،،،،وہ لیٹی ماہ نور کو بازو سے دبوچ کر غرایا تھا آنکھوں میں غصہ اور آگ تھی ۔

کتنے بے حس ہو تم لوگ وہ بچی بخار سے،،،،،،،،،ابھی ماہ نور بولتی شایان اس کی بات کاٹ دی ۔

زندہ ہے نہ مری تو نہیں،،،،،،،،اسی لیے منہ بند کرو اور تیار ہو جاؤ اس سے پہلے کے میں تمہارا حولیہ بگاڑ دوں،،،،،،،،،،،،شایان اسے ڈرسنگ کی طرف دھکا دیتے ہوئے  ساتھ میں اس کا ڈریس بھی پھینکتے ہوئے غرایا ۔

ماہ نور لب بھیچے چپ چاپ ڈریس لے کر دروازہ بند کر گئی ۔

دس منٹ میں تم مجھے نیچے ملو ورنہ میں دوبارہ آؤں گا اور پھر وہ کروں گا جس کی تمہیں سوچ بھی نہیں ہو گی،،،،،،،،،،،شایان دروازے کے پاس کھڑا ہو کر بولتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔

پیچھے ماہ نور خون کے آنسو پیتی تیار ہونے لگی ۔

تیار ہو کر باہر نکلی تو خود کو آئینہ میں دیکھتی رہ گئی کیونکہ وہ لگ ہی بہت خوبصورت رہی تھی ۔

سکین ہلکے ہلکے کڑاہی والا فراک اور نیٹ کا ڈوپٹہ سائیڈ پر لیا بالوں کو کنگی کرنے لگی اور ان کو ایسے ہی کھلا چھوڑ دیا اور کوئی خاص میکاپ تھا نہیں،،،،،،،اسی لیے بیگ میں پڑھی لیپسٹک لگا کر سادہ سی بھی بہت پیاری لگ رہی تھی ڈبہ میں سے میچنگ ائرنگ نکالے اور ان کو پہن کر حورعین کی طرف آئی ۔

حور تم نے نہیں جانا باہر،،،،،،،،،؟؟

نہیں آپی شاہ جی کسی کا نہیں دیکھ سکتی،،،،،،،،،،،،وہ ٹوٹے پھوٹھے لفظوں میں بولی جس کی سمجھ ماہ نور کو نہیں آئی ۔

اللہ تمہاری حفاظت کرے حور وہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چیک کرتے ہوئے بولی اور پھر اس پر کمفرٹ ٹھیک کرنے کے بعد چپ چاپ باہر نکل آئی ۔

سامنے ہی عالم شاہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔

نین کہاں ہے،،،،،،،،،،؟؟

عالم کے پوچھنے پر ماہ نور نے غصے سے ائبر اُٹھائے،،، اور بینا بولے وہاں سے چلی گئی ۔

عالم کو غصہ تو بہت آیا پر چپ کر گیا۔

عالم جب کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی بستر پر وہ اسے لیٹی ملی۔

اسے غصہ آیا اور اس کی طرف بڑھا جب ہاتھ لگا کر اُٹھانے لگا تو اس کا تپتا وجود محسوس کرتے ہوئے چونک گیا ۔

نین تمہیں تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے،،،،،،،،،،،وہ اس کو چیک کرتے ہوئے بڑبڑایا اور جلدی سے باہر گیا ۔

شاہ جی مت،،، ،،،،،،پیچھے سے اس کی آواز آئی ۔

عالم ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے،،،،،،،،سامنے سے آتی ہوئی مسسز ظہیر بولی ۔

ماما وہ نین کو بہت تیز بخار ہے،،،،،،،،،اس کو لے کر جانا ہے،،،،،،،،۔

میری بات سنوں اس کو میڈیسن دی ہے وہ ٹھیک ہو جائے گی،،،،،،تم جا کر تیار ہو پندرہ منٹ تک سرمنی کرنی ہے جاؤ جلدی،،،،،،،ان کے بولنے پر عالم کو ناچارا جانا ہی پڑھا۔

پاس بیٹھی ماہ نور کو سب کی بے حسی پر غصہ آیا تھا اور وہ اُٹھی اور باہر چلی گئی وہاں سائیڈ پر جا کر کھڑی ہو گئی جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔

یہاں کیوں کھڑی ہو سب سے الگ،،،،،،،،،،،،،،،پیچھے سے شایان اسے اپنے گھیرے میں لیتے ہوئے پیار سے بولا ۔

اب دونوں اس طرح تھے کے ماہ نور پوری طرح سے اس کے حصارِ میں تھی اور وہ اس  کے کندھے پر اپنا سر رکھے ہوئے تھا ۔

چھوڑیں مجھے مسٹر شایانِ شاہ،،،،،،،،میں تو غلام ہوں نہ نہ بات مانوں تو مجھے دھمکیاں دو تم،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور کو غصہ تھا اس کی بات کا اور جب اس دفع بولی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ نکلے ۔

تم محبت ہو میری میرا عشق تمہیں میں یونیورسٹی سے پہلے کا جانتا تھا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،باقی سب تو پلین تھا تم سے ملنا دوستی کرنا پر تم سے محبت مجھے اسی دن ہو گئی تھی جس دن تم زین بھائی سے آئسکریم پر لڑائی کر رہی تھی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان بول رہا تھا اور اس کے سانسوں کی تپش ماہ نور کو اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھی اسے لگ رہا تھا وہ اس کی باتوں سے اندر سے جل گئی ہو۔

پھر میں نے کہا زین بھائی یہ لڑکی مجھے ہر حال میں چاہے یہ میری محبت ہے،،،،،،،،،،شایان آنکھوں کو بند کیے اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے بولا۔

چھوڑؤں مجھے ،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور لرزتے ہوئے چیخی ۔

انتہائی گھٹیا انسان ہو تم،،،،،،اتنا بڑا کھیل کھلتے رہے میرے ساتھ تم دونوں بھائی،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی طرف دیکھتے ہوئے رونے لگی تھی اور روتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔

ماہ نور میری بات،،،،،،،،،،۔

نہیں نفرت محسوس ہونے لگی ہے مجھے تم سے اور زین بھائی سے کے تم دونوں اتنا گر جاؤ گیے،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور کا وجود غصے سے کانپ رہا تھا ۔

دور رہنا مجھ سے سنا تم نے،،،،،،،،،ماہ نور دبے لہجے میں غرائی اور وہاں سے بھاگتے ہوئے چلی گئی ۔

بھاگ کر واپس اپنے روم میں آ گئی اور وہی بیڈ پر ڈھ سی سی گئی تھی یہ سچ اس کے لیے بہت بڑا تھا کے جو سب کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ سب گیم پلین تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیا میں آپ کی ایک تصویر دیکھ سکتا ہوں،،،،،،،،،،،،،،،؟؟صائم کا میسج انابیہ کے سیل پر آیا تو وہ جو تیار ہو کر بیٹھی تھی نم آنکھوں سے فون کی سکرین کو گھور کر رہ گئی ۔

نہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،،ایک لفظی جواب دے کر اپنے بہتے آنسو کو بمشکل قابو کیا۔

ہممممم صحیح پر میں آپ کو تصور کر رہا ہوں انابیہ کیسی لگ رہی ہو گی،،،،،،،،،،،،صائم کے اگلے میسج سے اس کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ بکھری ۔

کیسی،،،،،،،،،،،،،،،؟؟

بالکل اپنے نام کی طرح،،،،سجی ہوئی پر،،،،،،،،اس کا ادھورا میسج دیکھ کر اس نے پھر سے اسے ریپلائی کیا۔

پر کیا،،،،،،،،،،،،،؟؟

پر آنکھوں میں نمی اور میرے نام کی محبت لے کر کسی اور کے نام کی انگھوٹھی پہن لے گی وہ لڑکی،،،،،،،،،،،،،،صائم کا میسسج پڑھنے کے بعد انابیہ کے آنسو میں اور بھی رفتار آ چکی تھی ۔

پلیز صائم ائیند مجھے میسج مت کیجئے گا،،،،،،،،،وہ رونا نہیں چاہتی تھی پر پھر بھی. رو رہی تھی ،،،،خود کو بمشکل کنٹرول کرتے ہوئے چپ سی بیٹھ گئی ۔

تم صرف میری ہو یہ بات یاد رکھنا یہ انگھوٹھی یا وہ  شاہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا،،،،،،،،،،،،،،،میں یر حد سے گزروں گا تمہیں پانے کے لئے،،،،،،،،،،،،،،صائم کے اگلے آنے والی میسسج کر پڑھ کر خوفزدہ سی بس موبائل کو دیکھتی رہ گئی اس کے ہاتھ کانپنے لگ گیے تھے ۔

پلیز صائم ایسا کچھ مت کرنا جس سے میں جیتے جی مر جاؤں،،،،،،،،،انابیہ نے اسے میسسج کیا اور باہر آنے والی آوازیں سنتے ہوئے جلدی سے اپنا میکاپ ٹھیک کرتے ہوئے کھڑی ہو گئی ۔

چلیں باہر آپ کے شاہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں،،،،،،،،،،،،ردا اندر آ کر ہنستے ہوئے بولی ساتھ اس کے ساتھ سامیہ بھی تھی ۔

انابیہ پھیکا سا مسکرا دی اور ان کے ساتھ چلی گئی ۔

انابیہ کو وہاں چھوٹے سے بنے سٹیج پر بیٹھایا گیا،،،،،،،،،،،عالم شاہ بھی سیریس سا وہاں بیٹھا تھا ۔

انابیہ کا پورا وجود کانپ رہا تھا،،،،،،،،،،،عالم نے آج پہلی دفع جانا تھا بے بسی کو،،،،،،،،اسی لیے چپ چاپ سب کے درمیان بیٹھا ۔

وہاں بہت سی ان کی کزنز تالیاں ڈھولکی بجا رہی تھی ۔

چلیں بھائی رسم کریں،،،،،،،،،،،،سامیہ کی ہنستی ہوئی آواز پر وہ دونوں وجود جو کسی اور کے لیے محبت رکھتے تھے چونکے ۔

انابیہ کی آنکھوں میں پانی بھر گیا ۔

رسم کرنے کے فورن بعد ہی عالم وہاں سے آٹھ گیا تھا،،،،،اور اندر کی طرف بڑھ گیا ۔

انابیہ نے اپنے ہاتھ میں پھینی انگھوٹھی کی طرف دیکھا تھا عالم کا سرد روائیہ اس کا دل توڑ گیا تھا،،، ،،،،،،،،،۔

کاش محبت پل بھر میں نہ ہوتی تو آج عالم کا سرد روائیہ مجھے اتنی تکلیف نہ دیتا جتنی اب دے رہا ہے،،،،،،،،،سب ہی خوش تھے بس وہی خوش نہیں تھی جس کی یہ خوشی تھی ۔

شایان بھی وہی کھڑا تھا پر اس کا دھیان اندر ماہ نور کی طرف تھا ،،،،،،،،اس کے لیے کافی پریشان سا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیسی ہے اب نین،،،،،،،،،،؟؟عالم شاہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ۔

دور رہے اس سے آپ کیوں جا رہے ہیں اس کے قریب،،،،،،،،،،،،،،،،عالم کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر ماہ نور آگے کھڑی ہو کر بولی ۔

لڑکی پیچھے ہٹ جاؤ آگے بھی تم بہت بدتمیزی کر چکی ہو میرے ساتھ،،،،،،،،،،،عالم سرد اور غصے بھرے لہجے میں بولا ۔

جائے اپنی منگنی انجوائے کریں ہمیں اکیلا چھوڑ دیں،،،،مر جائے گی تب انا اس کا پتہ کرنے،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو عالم شاہ نے اسے کھا جانے والی نظروں گھورتے ہوئے اسے پیچھے کیا۔

نین تم ٹھیک ہو،،،،،،،عالم اسے پیچھے کرتے ہوئے اس کے پاس بیٹھا اس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا کر بولا ۔

شاہ جی،،،،،،،میں مر جاؤ گی شاہ جی مت کریں،،،،،،،،،،،،،حورعین غنودگی میں تھی اور اس کا جسم آگ کی طرح جل رہا تھا بخار سے ۔

نین میں نہیں کر رہا یار،،،،،میں صرف اور صرف اپنی نین کا ہوں ،،،،،،،،،،،،عالم شاہ اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکا گیا تھا اس کو اس طرح دیکھ کر وہ سچ میں گھبرا گیا تھا ۔

پاس کھڑی ماہ نور بس حیرت زدہ سی سب دیکھ رہی تھی ۔

کیا بول رہے ہیں آپ باہر آپ انگجمٹ کر کے ا رہے ہیں اور یہاں اس بچی کے ساتھ جھوٹ بولے رہے ہیں چھوڑیں اسے اور دور رہے،،،،،،،،،،،ماہ نور چیخی تھی اس کے دوغلے پن سے ۔

بکواس بند کرو لڑکی  میرے اور نین کے بھیچ مت انا بیوی ہے یہ میری میرے نکاح میں ہے اسی لیے اپنی حد میں رہو،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ کی بات سن کر ماہ نور ہونٹوں پر ہاتھ رکھے شقک کے عالم میں بس اسے دیکھتی ہی رہ گئی ۔

حورعین ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر کو بولئے،،،،،،،،،ماہ نور ضبط سے آخر میں بولی ۔

عالم اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے وہاں سے چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد اس کے ساتھ ڈاکٹر آیا تھا اس نے حورعین کو میڈیسن دی اور انجکشن لگایا  اور چلا گیا ۔

آپ نے اگر نکاح کر رکھا ہے حورعین سے تو پھر منگنی کیوں کر رہے ہیں؟؟؟ماہ نور کے سوال پر اس نے حورعین سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا ۔

میں جو مرضی کروں تمہیں مطلب نہیں ہونا چاہے لڑکی اور ائیند میرے معاملے میں مت بولنا اور ابھی کسی سے کچھ بھی کہا تو ایسی جگہ چھوڑ کر آؤں گا تمہارے فرشتے بھی تمہیں ڈھونڈ نہیں پائے گیے،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے بولا کے ماہ نور خوفزدہ سی بس وہی کھڑی. رہ گئی ۔

جاؤ یہاں سے اس وقت مجھے اکیلا رہنا ہے نین کے پاس،،،،،،،،،،عالم شاہ کی بات سن کر ماہ نور چپ چاپ لب بھیچے باہر نکل گئی ۔

یہاں ہر کوئی گھٹیا ہے اس چھوٹی سی جان کے ساتھ اس طرح کر رہے ہیں یہ تو پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں یہ،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اوپر جانے والی سیڑھیوں میں جا کر بیٹھ کر بس سوچ کر رہ گئی تھی ۔

نین میری جان ہوش کرو،،،،،،،،عالم اس کے سر پر پیٹیاں رکھتے ہوئے پیار سے اسے پکار رہا تھا۔

شاہ جی میرے پاس رہے آپ میرے ہیں بس میرے کسی اور سے آپ شادی نہیں کر سکتے ورنہ میں مر جاؤ گی،،،،،،،،،،،،،،،،،نین غنودگی میں ہی سب بول رہی تھی تھوڑا بخار اور تھوڑا دوائی کا اثر تھا ۔

جی میری جان میں صرف اور صرف اپنی نین کا ہوں ،،،،،،،،،،بس نین جلدی سے ٹھیک ہو جائے،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ اس کا ہاتھ تھامے پیار سے بولا ۔

حورعین نے آنکھوں کو کھول کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی،،،،،،،،،،،،،،،،،۔

نین رہنے دو نہیں اُٹھا جائے گا تم سے،،،،،،،،،،،عالم شاہ نے اسے سہارا دیا جس کا بخار سے سچ میں برا حال تھا۔

شاہ جی آپ ہیں نہ مجھے سہارا دیں،،،،،،،،،،نین اس کے گلے میں باہیں ڈالے مکمل طور پر اس کے سہارے تھی،،،،،،،،کمر پر ہاتھ رکھ کر عالم شاہ اسے مکمل طور پر اپنے حصار میں کیے ہوئے تھا ۔

شاہ جی میں آپ کے دل کی آواز سن رہیں ہوں بہت تیز دھڑک رہا ہے میرے قریب آنے سے،،،،،،،،،،،،حورعین دوائی کے زیرے اثر تھی اس کے سینے پر سر رکھے آنکھیں ابھی بھی بند تھیں ۔

جی میری محبت ہو تم اسی لئے دل تو تیز دھڑکے گا نہ میری جان،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے کو اپنے ساتھ لگا کر اس کے بالوں پر لب رکھے ہوئے تھا۔

دونوں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن کو سن رہے تھے ایک دوسرے میں گم ساری دنیا کو بھلائے ۔

شاہ جی آپ نے کہا آپ کو مجھ سے محبت نہیں،،،،،،،،،،،،حورعین کا شکوہ سن کر عالم شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔

ہاں محبت نہیں ہے تمہارے شاہ کو تم سے،،،،،،،،،،وہ اس کے کان میں سرگوشی نما بولا ۔

عشق ہے تمہارے شاہ جی کو تم سے عشق،،،،،،،،سنا ہے وہ قلندروں کو رقص کرواتا ہے،،،،،،کہیں تم اپنے شاہ کو اپنے عشق میں رقص مت کرونا،،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ گمبھیر لہجے میں کہتے ہوئے اس کے کان کی لو پر ہونٹ رکھ گیا ۔

آپ کی نین خود محبت میں مر جائے گی پر اپنے شاہ کو کبھی بھی رقص نہیں کرواتی،،،، ،،،حورعین کی آنکھیں بند تھیں پر چہرے پر مسکراہٹ ۔

کیوں،،،،،،،،،،،،،؟؟

آپ رقص کرتے اچھے نہیں لگے گیے،،،،،،،آپ تو اکڑے ہوئے غصے میں مغرور پی پیارے لگتے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،،بس نین اپنی سے محبت کریں اور دوسروں کی طرف دیکھنا بھی مت شاہ جی،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین پھر سے بچوں کی طرح ضدی انداز میں بولی ۔

سو جاؤ آرام کر لو تمہیں بہت تیز بخار ہے،،،،،،،،،،،،،وہ اسے پیار سے بچکارتے ہوئے بستر پر لیٹا گیا ۔

شاہ جی آپ میرے ہیں بس،،،،،،،،،،،،حورعین ایک دفع پھر سے بولی ۔

جی جی شاہ جی تمہارے ہی ہیں،،،،،،،،،،،،،،حورعین کے بولنے پر وہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا اس کا ہاتھ ابھی بھی حورعین کے ہاتھ میں تھا جس کو تھام کر وہ پھر سے سونے لگی۔

سوری نین  پر یہ شادی تو ہو کر رہے گی یہ شادی میری مجبوری ہے کیونکہ ہم شاہ مر جاتے ہیں پر اپنی منگ کو نہیں چھوڑتے،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے اوپر کمفرٹ درست کرتے ہوئے آرام سے اپنا ہاتھ چڑوا کر پیچھے ہو گیا ۔

عشق عالم شاہ کا صرف تم ہی ہو،،،،،،،،،،،،،،،اس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹا اور اسے ایک نظر دیکھ کر باہر کی طرف بڑھ گیا ۔اور پھر کسی کو بھی بتائے بینا شہر کے گھر کی طرف نکل گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شایان کو نیند نہیں آ رہی تھی اسی لئے کمرے سے نکالا اور چھت کی طرف جانے لگا تھا کے وہاں کی سڑھوں میں ماہ نور کو بیٹھ دیکھ کر چونکا جو شاید بیٹھی بیٹھی سو چکی تھی ۔

کافی دیر سے اپنی سوچوں میں گم وہ وہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سو گئی ۔

شایان اس کی طرف دیکھا اور اسے باہوں میں اُٹھا لیا ماہ نور جو کچی نیند میں بھی ہڑبڑا گئی۔

کیا مسئلہ ہے تمہیں چھوڑو مجھے،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی گود میں پھڑپڑاتے ہوئے بولی ۔

اوکے،،،،،،،،،،شایان کے چھوڑنے پر ماہ نور نیچے گری ۔

کمینہ انسان،،،،،،،،،ماہ نور بڑبڑائی ۔

گیر گئی لگی تو نہیں،،،،،،،،،،،،،شایان اس کے پاس بیٹھ کر مسکراتے ہوئے اس کا ناک کھنچ کر بولا۔

ہاں گیر گئی جیسے تم میری نظروں میں گر چکے ہو،،،،،،،،،،،،،، ماہ نور نے بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور اس کا ہاتھ جھٹکا ۔

ماہ نور میری بات،،،،،،،،،نہیں مسٹر شایان شاہ آپ کو کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے جب وہ انسان جس کو بھائی کی طرح مانا وہ دھوکا دے سکتا ہے تو تم کیوں نہیں تم  سے تو کوئی رشتہ بھی نہیں تھا،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک ایک لفظ چھبا چھبا کر بولی ۔

میرے راستے میں مت آنا ایک دفع یہ ریسپشن کا ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو میں واپس گھر جا رہیں ہوں اپنی آپی کے پاس میں تم جیسے انسان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،،،،،،،،،،،ماہ نور نیچے سے اُٹھی تھی اور وہاں سے جانے لگی تھی ۔

تمہیں کیوں لگتا ہے میں تمہیں جانے دوں گا،،،،،،،،،،،،شایان نے اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے دیوار کی طرف دھکیلا۔

چھوڑؤ مجھے، ،،،،،،،،،،شایان اس کے بالکل پاس کھڑا اس کے کان کے پاس گھمبیر سے لہجے میں بولا ۔

ماہ نور کا دل زور سے دھڑکا ۔

ماہ نور یہ سوچ دل سے نکال دو کے میں شایانِ شاہ تمہیں خود سے دور جانے دوں گا،،،،،،،،میں چاہتا تو تم بہت پہلے میرے گھر میرے پاس ہوتی پر میں نے اس چیز کا اتنا انتظار اس لیے کیا کیوں کے میں تمہارے ڈیڈ کی رضا مندی سے سب چاہتا تھا اب اگر زیادہ بکواس کی تو بہت برا پیش آؤں گا،،،،،،،،،شایان اس کے بالکل قریب کھڑا جان میں بول رہا تھا کے ماہ نور کو اس کے ہونٹوں کی سرسراہٹ اپنے کانوں پر محسوس ہو رہی تھی ۔

دور رہو اور آگے کون سا تم میرے ساتھ اچھے سے پیش آ رہے ہو مجھے چھوا مت کرو گن آتی ہے مجھے تم سے،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے دھکا دے کر دور کرتے ہوئے کہا ۔

شایان کو اس کی بات سے غصہ ایا اس نے اپنا ایک ہاتھ ماہ نور کی گردن پر لے جاتے ہوئے اس کا چہرہ خود کے قریب کیا۔

نو وے شایان،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کے اردوں کو سمجھتے ہوئے غرائی اور اسے خود سے دور کرنا چاہا پر شایان کی طاقت کے آگے بے بس ہو گی ۔

تم مجھے جان بوجھ کر ضد دلاتی ہو،،،،،،،،،،،،،وہ مسکراہٹ کے ساتھ بولتے ہوئے اس پر جھکا تھا ماہ نور نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے اس کے کندھوں پر ناخن گاڑ دئے ۔

جنگلی ہو پوری کی پوری،،،،،،،،،،،،،اپنے کندھے پر لگے ماہ نور کے ناخنوں کی جلن محسوس کرتے ہوئے شایان بڑبڑایا ۔

تم سے کم،،،،،،،،،ماہ نور بھی بار بار اپنے ہونٹوں کو صاف کرتے ہوئے بڑبڑائی ۔

اتنے سے ڈر گئی،،،،،،،،شایان اس کے پھر سے قریب ہوا. 

دور رہو کمینے ٹھرکی انسان،،،،،،،،ماہ نور غرائی ۔

ٹھرک صرف تمہارے لیے ہی ہے میری اور وعدہ ہے ساری زندگی تم پر ہی جاڑوں گا،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان اسے ایک آنکھ دبا کر مسکرایا ۔

تمہارے ساتھ ساری زندگی رہتی ہے میری جوتی،،،،،،،،،،ماہ نور نے منہ بنایا ۔

ہائے جوتی بھی رہے گی اور جوتی پہننے والی بھی. بس ایک دفع آ جاؤ،،،،،،،،،،شایان کی بات پر ماہ نور اسے گھورتے ہوئے وہاں سے جانا چاہا ۔

میری بات سنوں تم اب یہ ناراضگی چھوڑ دو اور تیاری پکڑو میرے پاس آنے کی،،،،،،،،،،سیریس بول رہا ہوں مجھ سے دور جانے کی کوشش مت کرنا تم شایان شاہ کا عشق ہو حاصل عشق،،،،،،،،،وہ اس کے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگا کر بولا ۔

ماہ  نور نے کچھ ریایکٹ نہیں کیا اور وہاں سے چلی گئی ۔

جنگلی کہیں کی،،،،،،،،،،شایان اپنے کندھے کو سہلاتے ہوئے مسکرا کر واپس اپنے روم کی طرف بڑھ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیا بات ہے آپ کو بابا آپ ٹھیک ہیں،،،،،،،،؟؟ صائم صبح نیچے ایا تو سلمان صاحب کو اس طرح دیکھ کر ان سے کہنے لگا ۔

ہاں کچھ نہیں ٹھیک ہوں بس پریشان ہوں حور کے لیے پتہ نہیں کیسی ہو گی میری بچی،،،،،،،،ان کی آنکھوں میں آنسو آ گیے ۔

ٹھیک ہو گی بابا نکاح میں ہے اس کے وہ،،،اللہ ہے ہماری حور کی حفاظت کرنے والا آپ پریشان مت ہوں،،،،،،،،صائم ان کے ہاتھوں کو تھامے محبت سے آنکھوں کو لگا کربولا ۔

جیتے رہو بس تم بھی خوش رہا کرو،،،،،،یہ اگزمز ختم ہوتے ہیں تو بس میں تو جاب چھوڑ رہا ہوں پھر تمہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں میری جگہ،،،،،،،وہ اسے دیکھتے ہوئے پھیکا سا مسکرا دئے ۔

جی بابا نہیں جاؤں گا بس اب اپنا بزنس شروع کر رہا ہوں بس دعا کریں مجھے کامیابی ملے،،،،،،،صائم مسکراتے ہوئے اپنا اردہ بتا رہا تھا ۔

ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں،،،،،،،،،،مسسز سلمان بھی اس سے بولی ۔

تھینک یو ماما بابا اور آپ فکر مت کریں جلدی ہی حور ہم سے ملنے آئے گی،،،،،،،،،صائم ہنستے ہوئے بولا۔

میں آج دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں،،،،،،،،کل پھر یونی ہو گی تو وقت نہیں ملے گا،،،،،،،وہ دونوں سے مل کر ان کی اجازت سے باہر نکل گیا ۔

اللہ میرے بچے کی حفاظت کرے،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان اسے جاتے ہوئے دیکھ کر دعا دیتے ہوئے بولی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آپی شاہ جی کہاں ہے،،،،،،،،،؟؟ حورعین نے اُٹھتے ہی پہلا سوال ماہ نور سے کیا جو پاس بیٹھی ٹیوی دیکھ رہی تھی ۔

شاہ جی تمہارے کیا لگتے ہیں حورعین،،،،،،،،؟؟ ماہ نور اسے دیکھتے ہوئے بولی جو جو ابھی بھی بخار کی وجہ سے بجھی بجھی سی تھی اور دوپہر کے تین بجے اُٹھی تھی ۔

آپی میں نے شاہ جی سے وعدہ کیا ہے آپ کو نہیں بتا سکتی،،،،،،،،،،،حورعین سر کو جھکا گئی ۔

شاہ بھائی کے نکاح میں ہو تم،،،،،،؟؟ کل انہوں نے کہا کے تم بیوی ہو ان کی،،،،،،،ماہ نور نے کہا جس پر حورعین حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی ۔

کیا انہوں نے سب کو بتا دیا،،،، ،،،،،،؟؟اس کی آنکھوں میں عجیب سی خوشی اور حیرت تھی ۔

نہیں منگنی کر کے آئے تو آ کر تمہارے پاس بیٹھے تھے جس پر میں نے ان کو کہا کے تمہارے قریب مت جائے تب انہوں نے کہا کے تم ان کے نکاح میں ہو،،، اب بتاؤں کیا سین ہے،،،،،،،،،،وہ اس کے سامنے بیٹھی ہاتھوں کو باندھے اس کو دیکھتے ہوئے بولی ۔

آپی آپ کسی کو مت بتانا پلیز ،،،،،،،،،،،،۔

اوکے نہیں بتاتی،،،،،،،،،۔

حورعین نے اسے اپنے اور عالم شاہ کے بارے میں سب بتا دیا،،،،جس کو سن کر ماہ نور بس شاک سے اسے دیکھتی رہ گئی ۔

کیا مطلب تم سے زبردستی نکاح کیا اور یہاں لے آیا،،،،آف میرے ربا یہ پورا خاندان ہی گھٹیا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے روتی ہوئی حورعین کو دیکھا جو اس کو بتانے کے بعد سوں سوں کر رہی تھی ۔

آپی نہیں شاہ جی ایسے نہیں ہیں،،،،،،،وہ بس میرے ہیں ،،،،،،،،،،،،حورعین کے ایسا کہنے پر ماہ نور نے اسے گھورا۔

تمہارا شاہ ایک نمبر کا دھوکے باز ہے وقت پر نہ بولی تو وہ شاہ دوسری شادی کر لے گا اور تم ادھر روتی رہ جانا،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

پر آپی اور کیا کروں میں؛،،،،،،،،،،،،،،،حورعین کے بولنے پر ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا ۔

ابھی نہیں ابھی کچھ دن بعد کرنا جو بھی کرنا ہوا دیکھنا یہ سب کا تماشا لگاتے ہیں ہم ان کا لگائے گئے،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے باقی کی بات دل میں بولی پر چہرے پر پراسرایت والی مسکراہٹ تھی ۔

چلو فریش ہو جاؤ میں زارا اپنے سسرال والوں سے مل کر تمہارے لیے ناشتہ بنواتی ہوں،،،،،،اوپسس سسرال تو میری حور  کا بھی ہے،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے ہر حورعین ہنس دی ۔

آپی آپ بہت اچھی ہیں،،،،،،،،وہ ماہ نور کو بول کر واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔

اور تم بہت بھولی ہو،،،،،،،،،،۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وقت گزر رہا تھا زرمین بھی آفس میں اب اجسٹ کر چکی تھی،،،،،،،،،،،اپنے کام سے کام رکھتی آسے باس سے پریشانی ہوتی پر پھر بھی جلدی سے جلدی اس کے آفس کا کام ختم کر کے باہر نکل آتی۔

مسس زرمین آپ کو سر نے آفس میں بلایا ہے،،،،،،،،،،،،،آفس کے ایک لڑکے نے اسے بتایا ۔

ہممم اوکے وہ کمپیوٹر پر نظریں رکھے ہی بولی اور وہ فائل ساتھ لے گئی جو اسے سر نے کام کرنے ک کے لیے دی تھی ۔

میں آ جاؤں سر،،،،،،،،،؟؟

آ جائے مس زرمین،،،،،،،،،اس کا باس دلچسپی سے اس کو دروازے کے پاس کھڑے دیکھتے ہوئے بولا۔

جی سر یہ فائل،،،،،،،،،،زرمین اس کے آگے فائل رکھتے ہوئے بولی ۔

ہممم گوڈ پر آبھی اس فائل کے لیے نہیں بلکہ آپ کو کسی اور کام کے لیے بلایا ہے،،،،،،،،،وہ اسے گھورتے ہوئے بولا ۔

جی جی سر،،،،،،،،،،زرمین کو اس کی نظروں سے گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔

مسس زرمین آج اہ ابھی میرے ساتھ ہوٹل بسٹ میں میٹنگ کے لیے جا رہیں ہیں ابھی بس پانچ منٹ میں گاڑی آنے والی ہے،،،،،،،،،،،،،اس کے باس نے وقت دیکھتے ہوئے کہا ۔

جی جی سر ابھی،،،،ابھی تو رات ہونے والی ہے اور میری ڈوٹی ٹائم ختم ہونے والا ہے،،،،،،،زرمین گھبراہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔

مسس زرمین میں پہلے بھی آپ کو بول چکا ہوں کے آپ میرے ساتھ جائے گی اسی لیے نو مور ارگیو اور پانچ منٹ ہیں اپنی چیزوں کو سمیٹ لے اور جا رہیں ہیں آپ میرے ساتھ،،،،،،،،،،،،،،،،۔

اس کی بات سن کر زرمین سر ہلاتے ہوئے باہر آئی اور اپنی چیزوں کو سمیٹ لیا اور چپ چاپ باس کے آنے پر اس کے ساتھ چلی گئی ۔

دونوں ایک ہی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے،،،،،،،زرمین کو اس کی مسکراہٹ عجیب سی لگی ۔

زرمین دل ہی دل میں اللہ کا نام لے کر گھبرائی بیٹھی تھی ۔

مسس زرمین ریلکس ہمارا کام بس دو گھنٹے کا ہے اس کے بعد آپ کو خود گھر چھوڑ کر آیا جائے گا،،،،،،،،،،،،اس کا باس اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

زرمین پھیکا سا مسکرا دی،،،،،،پر دل کچھ غلط ہونے کی نشانی کر ریا تھا ۔

ہوٹل پہچ کر زرمین  اس کے پیچھے پیچھے تھی،،،،،،،،،،،،،،اور اس نے ریسپشن سے پوچھ کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا ۔

سر میں کسی روم میں نہیں جاؤں گی،،،،،،،،،،زرمین گھبراہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔

مس زرمین آپ میرے انڈر کام کرتی ہے اور میری بات مننا آپ پر فرض ہے اسی لئے چلیں،،،،،،،،،،، اس کے سرد لہجے پر زرمین ڈرتے ڈرتے اس کے ساتھ گئی ۔

ایک روم میں آنے کے بعد وہ خود صوفے پر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی زرمین کو بیٹھنے کا کہا،،،،،،،،زرمین چپ چاپ تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھی تھی ۔

وہاں ایک اور آدمی آیا جس کے ساتھ انہوں نے میٹنگ کرنی تھی پھر میٹنگ شروع ہوئی،،،،،،اس آدمی کی نظریں زرمین کو خود کے آرپار محسوس ہو رہی تھی ۔

سر یہ آپ کا تحفہ میں چلتا ہوں،،،،،،،،زرمین کا باس بولتے ہوئے اس کے ہاتھ ملا کر زرمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا زرمین کو لگا اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو ۔

زرمین  بینا سوچے سمجھے وہاں سے باہر کی طرف بھاگنے لگی۔

کہاں لڑکی ایسے کیسے،،،،،،،،،دوسری آدمی نے زرمین کو بالوں سے پکڑ کر دوسری طرف پٹکا جس سے صوفے کی سائیڈ اس کے پیٹ میں جا کر لگی زرمین وہی زمین پر کراہتے ہوئے گیری ۔

اس کا باس مسکراتے ہوئے وہاں سے نکل گیا جبکہ زرمین وہی زمین پر نم اور بند ہوتی آنکھوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھا کر رہ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین کی آنکھیں بند ہو رہی تھی پر اس شخص کو حباثت سے خود کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر اُٹھنے کی کوشش کی،،،،،،،،اس نے زرمین کو بالوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور اس کے چہرے پر ایک تھپڑ مارا ۔

بھاگ رہی تھی سالی،،،،،،،،،اس کے لفظ اس کی حرکت سب سے زرمین شرمندہ سی ہو گئی،،،بالوں اور جسم میں اُٹھتے درد کی وجہ سے اس سے بولی بھی نہیں جا رہا تھا ۔

اس نے اسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے بیڈ پر دھکا دیا ۔

زرمین آدھ کھلی آنکھوں سے بس اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئے،،،،،،،،،،،،،پر سامنے والے انسان پر اس وقت ہواس سوار تھی ۔

پر تب ہی کمرے کا دروازہ کھولا اور اس کے اندر آنے والے شخص نے زرمین کے جوڑے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے آنکھوں کو زور سے بند کرتے ہوئے کھولا ۔

اندر کوئی اور نہیں بلکہ زین آیا تھا،،،،،،،زرمین کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے غصے اور نفرت سے اس انسان کی طرف بڑھا ۔

میری بیوی کو ہاتھ لگایا میری بیوی کو،،،،،،،،،،،زین نے آگے بڑھتے ہوئے اس کے چہرے پر مکوں کی برسات کر دی اس انسان نے آگے اپنے بچاؤ کے لیے زین کو مارنا چاہا پر زین نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔

زین بس اسے مارتا ہی جا رہا تھا پاگلوں کی طرح اور پھر پاس پڑھی زرمین کے کراہنے کی آواز پر اس کے پاس گیا اور اسے اپنی باہوں میں سمٹ لیا ۔

زین کے آدمی اندر آئے ۔

اس کو لے جاؤ اور اس کا وہ ہال کرنا کے اس کی ساتھ نسلے بھی یاد رکھیں،،،،،،،،،زین اپنے آدمیوں کو بولتے ہوئے زرمین کے غنودگی میں جاتے وجود کو باہوں میں سمٹ کر باہر کی طرف بھاگا ۔

.

 آپنی گاڑی میں سوار ہو کر زرمین کو ہاسپٹل کی طرف لے گیا ۔

زرمین جس کے پیٹ میں صوفہ لگا تھا وہاں درد کی لہریں اُٹھ رہیں تھی وہ  صرف کراہ رہی تھی پر اتنا جان چکی تھی کے اب وہ محفوظ ہاتھ میں ہے ۔

زرمین تم ٹھیک ہو،،،،،،،،زین نے چینی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بول رہا تھا ۔

میں،،،، ،،،،م،،،،،،،،،،،با،،،، بابا ،،،،،،،در،،،، ،د،،،،،،،زرمین عجیب عجیب باتیں کر رہی تھی زین اس کی خراب حالت کو دیکھ کر اور بھی پریشان ہو گیا ۔

جلدی چلاؤں گاڑی،،،،،،،،،زین اپنے ڈرائیور پر چیخا۔

تھوڑی دیر میں گاڑی ہاسپٹل کے آگے روکی تھی زین اسے اسی طرح اُٹھائے ہاسپٹل کے اندر بھاگا پھر ڈاکٹر زرمین کو اندر ایمرجنسی وارڈ میں لے گیے ۔

آپ کے پیشنٹ کا کسی وجہ سے پینڈس پھٹ گیا ہے ان کا فوری آپریشن ہو گا ورنہ زہر پھیل سکتا ہے،،،، ،،،،،،،،،،،ڈاکٹر کی بات سن کر زین پریشان سا ہو گیا۔

آپ وہ کریں جو آپ کو بہتر لگے پر میری زرمین کو کچھ نہیں ہونا چاہیے،،،،،،،،،،،۔

جی بہتر آپ پیشنٹ کے کیا لگتے ہیں،،،،،،،،؟؟

میں اس کا ہزبنڈ ہوں،،،،،،،،۔

اوکے وہاں جا کر کاؤنٹر پر پیمنٹ وغیرہ کر دے ہم آپریشن شروع کرنے والے ہیں،،،،،،۔

آپ جلدی سے کریں شروع میں پیمنٹ کر دوں گا پیسوں کی آپ فکر مت کریں،،،بس میری بیوی مجھے ہر حال میں ٹھیک چاہے،،،،،،،،زین بول کر وہاں سے دوسری طرف چلا گیا اور ڈاکٹر آپریشن کے لیے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

انابیہ آج یونیورسٹی ائی تھی،،،، گھر میں شادیاں شروع ہو رہی تھی پر وہ اہم نوٹس لینے کے لئے آئی تھی اس نے صائم کی کلاس نہیں لی اور اب لائبریری سے اپنے نوٹس مکمل کرنے کے بعد گھر کے لیے جانا تھا پر ابھی گاڑی آنے میں وقت تھا اسی لئے گیٹ کے پاس بنے بھینچ پر بیٹھ گئی ۔

صائم پیچھے سے آیا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے وہاں سے کھنچتے ہوئے لے کر جانے لگا۔

سر آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں چھوڑیں مجھے،،،،،،،،،،،،،،انابیہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کے لیے چیخ رہی تھی ۔

شٹ آپ کوئی ایک اور لفظ نہیں سنا تم نے،،،، ،،،صائم نے اسے گاڑی میں دھکیلا تھا اور خود دوسری طرف سے سیٹ سنبھال کر گاڑی چلا دی ۔

صائم سر آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں پلیز اگر کسی کو پتہ چل گیا تو میرے ساتھ ساتھ آپ کو بھی مار دیں گیے،،،،،،،،،،،،،،انابیہ رونے والی ہو چکی تھی ۔

مر جاؤں گا اچھا ہے نہ تمہاری جان چھوٹ جائے گی مجھ سے،،،،،،،،،صائم مسکراتے ہوئے تحمل سے بولا ۔

ایسا مت بولے سر میری عمر بھی آپ کو لگ جائے،،،،،،،،،،،، انابیہ نظروں کو جھکائے لب بھیچ گئی ۔

مجھے تمہاری عمر نہیں چاہے انابیہ مجھے تمہاری محبت چاہے تمہارا ساتھ چاہے،،،،،،،،،،صائم نے گاڑی کو. ایک سائیڈ پر  روک دیا تھا اور سر کو سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھوں کو موندھے انابیہ کا ہاتھ پکڑا۔

سر پلیز،،،،،میرے ہاتھ میں کسی اور کے نام کی انگھوٹھی ہے اور کسی اور کے نام کی مہندی آج لگے گی میرے ہاتھوں میں،،،،،،،،،،،،انابیہ نم لہجے میں بولی ۔

انابیہ وہ جھوٹا مکار شخص تمہارے قابل نہیں ہے یار،،،،،،،،،،،صائم چیخا ۔

سر وہ میرے بچین کے منگ ہیں،،،،،،،،،،انابیہ ممنائی ۔

وہ کمینہ انسان میری بہن کے ساتھ زبردستی نکاح کر چکا ہے مسس انابیہ شاہ،،،اور اب تم سے بھی نکاح کرنا چاہتا ہے اور یہ میں ہونے نہیں دوں گا وہ میری بہن ہے تو تم میری محبت ہو سنا تم نے،،،،،،،،،،،،. وہ انابیہ کو بازوں سے دبوچے غریا ۔

کیا مطلب،،،،،،،،،انابیہ گھبراہٹ لیے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔

کہیں آپ اپنی بہن کا بدل لینے کے لیے تو مجھ سے محبت کا ناٹک نہیں کر رہے،،،،،،،انابیہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

انابیہ یہ سچ ہے کے جب مجھے تمہارا اور عالم شاہ کے رشتے کا علم ہوا میں عالم شاہ کا بدلہ تم سے لینا چاہتا تھا،،،،،،،،پر کب ایک لمحے میں تم،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،صائم بول رہا تھا کے انابیہ چیخی ۔

نو نو مسٹر صائم اب بس،،،،،میں نے کیسے سوچ لیا کے میری قسمت میں محبت ہو سکتی ہے میں تو پہلے انسان کی منگ تھی اور آپ کے لیے بدلہ واہ مسٹر  صائم واہ،،،، ،،انابیہ نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

مجھے چھوڑ کر آئے ابھی ورنہ میں خود چلی جاؤں گی،،،،،،،،،،،انابیہ غصے سے گاڑی سے اترنے لگی ۔

انابیہ دیکھو میری آنکھوں میں کیا نظر آ رہا ہے تمہیں ان آنکھوں میں اپنے لیے کہیں ہواس ہے یا بدلہ ایسا کچھ نہیں ان آنکھوں میں تمہارے لئے صرف محبت ہے یار،،،،،،،،،،،صائم اس کا رَخ اپنی طرف کرتے ہوئے اسے کندھوں سے تھام کر چلایا ۔

میں نے ایک پل میں انابیہ شاہ سے محبت کی ہے بس ایک پل میں یار،،،،،،،صائم بے بسی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

اور اس انسان کی تو میں تمہیں ہونے نہیں دوں گا جو میری بہن کو زبردستی اپنی زندگی میں لے کر آیا ہے اور اب میری محبت سے بھی شادی کرنا چاہتا ہے تو ایسا میں مر کر بھی ہونے نہیں دینے والا سنا تم نے،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،صائم اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولا۔

َسر مجھے یونیورسٹی چھوڑ دیں میری گاڑی آنے والی ہے،،،،،،،،،انابیہ کو اس نے چھوڑا تو انابیہ اپنا رُخ دوسری طرف کرتے ہوئے آنسو کو صاف کرتے ہوئے بولی ۔

صائم اسے دیکھتا رہا پھر گاڑی سٹارٹ کر دی ۔

گاڑی جا کر یونیورسٹی کے آگے روکی ۔

کیا میری آنکھوں میں محبت نہیں ملی تمہیں،،،،،،،،،،،،،،،؟؟اس کے لہجے میں ایک اس تھی ۔

مجھے ان آنکھوں میں بس ایک بہن کا بدلہ ملا ہے بس،،،،،،،،انابیہ بولتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔

صائم کی نظروں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا۔

صائم مجھے ان آنکھوں میں اپنے لیے بہت محبت ملی ہے پر میں نہیں چاہتی کہ عالم شاہ آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچایا،،،، ،وہ شخص اگر آپ کی بہن کے ساتھ زبردستی نکاح کر سکتا ہے تو وہ اپ کو جان سے ختم کر سکتا ہے ۔

بس ڈر گئی ہوں میں،،،،،،،،،،،،،،انابیہ جانتی تھی کے صائم ابھی بھی اسے گاڑی میں بیٹھا دیکھ رہا ہے پر  وہ خود کو سنبھالے چپ سی بس بے حس بن کر بیٹھی ہوئی تھی ۔تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی آئی اور وہ اس میں سوار ہو کر چلی گئی ۔ 

صائم نے بس اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور ایک آنسو کا قطرہ اپنی محبت پر بہہ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج گھر میں سیمر اور ردا کی مہندی تھی سب ہی تیاریوں میں مصروف تھے اور ماہ نور اور شایان کے ولیمہ والے دن انابیہ اور عالم شاہ کو نکاح تھا۔

حورعین کو جب سے یہ بات معلوم ہوئی تھی وہ چپ سی کر گئی تھی کھانا پینا کم کر دیا تھا عالم شاہ سے بات کرنا چاہتی تھی پر وہ گھر ہی نہیں آیا تھا۔

ماہ نور بھی اپنی ہی جگہ پریشان سی تھی کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کے کرے کیا ۔

حورعین پریشان سی اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی تھی ۔

کمرے میں کوئی داخل ہوا تھا اور وہ اس کی خوشبو سے جان گئی تھی کے آج اتنے دن بعد دشمن جان اس کے پاس آیا ہے ۔

وہ قدم قدم چلتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔

بے اختیار ہی کہیں آنسو اس کی گال پر بہہ نکلے ۔

 اتنی سردی میں یہاں کیوں کھڑی ہو،،،،،،،،،؟؟سردی لگ گئی تو،،،،،،،،وہ اس کے پاس کھڑا ہو کر اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے گھمبیر لہجے میں بولا۔

اچھا ہے نہ مر جاؤ،،،،،،،،اس اذیت سے جان چھوٹ جائے گی،،،،،،،،،،حورین اپنی گردن پر اس کے ہونٹوں کی سرسراہٹ محسوس کرتے ہوئے آنکھوں کو بند کئے بولی ۔

کون سی اذیت دی ہے میں نے تمہیں،،،،،،،،،،،عالم شاہ غصے سے اس کا رُخ اپنی طرف کرتے ہوئے اسے کندھوں سے تھامے غرایا ۔

مجھے درد ہو رہا ہے شاہ جی،،،،،،،،،وہ نظروں کو جھکائے ہوئے ہی بولی ۔

اور اس درد کا کیا جو تم مجھے اپنی باتوں سے دیتی ہو نین ،،،،،،،،،،،،وہ حورین کے  لرزتے وجود کو خود کے قریب کیے اس کے بالوں میں منہ چھپائے اس کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے وہاں لب رکھے بولا۔

دوسری شادی مت کریں شاہ جی،،،،،،،ورنہ میں مر جاؤں گی،،،،،،،،،،،،،،آپ کی نین جیتے جی مر جائے گی،،،،،،،،،،عالم کو اس کے کہیں آنسو خود کی قمیض میں جذب ہوتے محسوس ہوئے اس کی ہچکیاں بند گئی تھی ۔

وہ میری بچپن کی منگ ہے،،،، ،اور یہ شادی تو ضرور ہو گی،،،،،،،،عالم اس کے آنسو سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔

تو پھر مجھے کیوں لے کر آئے اپنی زندگی میں کیوں کی مجھ سے زبردستی شادی،،،،،،،،کیوں مجھے رسوا کیا کیوں میری منگنی والے دن پہنچ کر مجھ سے زبردستی نکاح کیا،،، ،،،،،ہونے دیتے مجھے زریاب کا بنے دیتے اس کی بیوی،،،،،،،،،،،،حورین ابھی بول ہی رہی تھی کے عالم غصے سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا جبڑا دبوچ چکا تھا۔

آج تمہاری زبان سے اس زریاب کا نام سنا ہے ائیند اس کا نام تمہاری زبان پر آیا تو تمہارے ٹکرے ٹکرے کر دوں گا،،،،،،،،،،وہ اسے جبڑے سے دبوچے سرد اور روکھے لہجے میں بولا، آنکھوں سے خون جلکھنے والا ہو گیا۔

محبت کا دعویدار تھی تم مجھ سے،،،، ،،اور منگنی کسی اور سے کیسے ہونے دیتا،،،، ،مجھے مجبور مت کرنا تمہارے ساتھ وہ کرو نین جس کے بعد تم روتی رہ جاؤ،،،،،،،،،عالم اسے بولتے ہوئے جھٹک کر وہاں سے پیچھے ہوا۔

اگر آپ نے دوسری شادی کرنی ہے تو مجھے طلاق،،،،،،،،،،،،ابھی حورین بولتی عالم واپس مڑتے ہوئے اسے کلائی سے تھام گیا ۔

اس کے ہونٹوں پر جھکتے ہوئے اپنا جنون غصہ ان پر اتارنے لگا،،،،،،حورین کو لگا آج اس کی سانس بند ہو جائے گی ۔

عالم کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے رو رہی تھی ۔

عالم ان پر اپنا جنون اور غصہ اتارنے کے بعد حورین کو بالوں سے دبوچے اس کا چہرہ اپنے سامنے کرتے ہوئے انگلی سے اس کے ہونٹوں پر لگے خون کے قطرے کو صاف کرتے ہوئے مسکرایا ۔

آج اس بکواس پر یہ سزا دی ہے ائیند اس طرح کا کوئی بھی لفظ تمہاری زبان سے سنا تو تمہارے پورے خاندان کو صافہ ہستی سے مٹا دوں گا سنا مائے سوئٹ نین،،،،،،،،،،،عالم اس کے بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے بولا جس سے حورین کی سسکی نکلی،،،اور اس نے روتے ہوئے نہ میں سر ہلایا ۔

گوڈ گرل،،،،،،،،۔ رات کو تیار رہنا آؤں گا تمہارے پاس،،،،،،،عالم مسکراہٹ کے ساتھ بولتے ہوئے اسے وہی چھوڑ کر باہر نکل گیا ۔

پیچھے حورین اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی ۔

بہت برے ہیں آپ شاہ جی بہت برے،،،،،،،حورعین روتے ہوئے بول رہی تھی کے تب ہی اندر ماہ نور آئی تھی ۔

یہ شاہ گیا ہے تمہیں کیا بولا اس نے،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اسے روتے ہوئے دیکھ کر اس کو تھام کر ساتھ لگا کر بولی ۔

آپی وہ دوسری شادی کر کے رہے گیے وہ بول رہے تھے وہ ضرور کریں گے دوسری شادی،،،،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے اور بھی تیزی سے رونے لگی ۔

ہممممم اب میری بات سنوں غور سے آج آر یا پار اسی لیے جو میں بولوں وہ کرو گی اپنے شاہ کو پانے یا مکمل طور پر کھونے کے لیے،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو حورعین نے نہ میں سر ہلایا ۔

پانے کے لئے کھو نہیں سکتی میں ان کو،،،،،،،، حورعین روتے ہوئے بچوں کی طرح بولی ۔

ہممممم جان دو اب تیار ہو جاؤ آج ہو گا دھمکا،،،،،،سنوں تمہیں ایسا کرنا ہے،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے بہت کچھ سمجھایا تھا جس پر حورعین اس کی بات ماننے کو تیار تو ہو گئی تھی پر اندر سے پوری طرح خوفزدہ تھی ۔

اب آئے گا مزا،،،،،،،،،،ماہ نور مسکرائی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

وہ دور بھاگ جانا چاہتی تھی ،،،،،ہاتھوں پر لگی مہندی جو اسے اندر ہی اندر جلا کر راکھ کر رہی تھی میں صرف اپنی نین کا ہوں یہ لفظ آج اسے سانپ کی طرح ڈھس رہے تھے ۔

ایک موت ہی ہے شاہ جی جو نہیں آ رہی ورنہ رُخ تو کب سے پرواز کر چکی ہے میری،،،،،،،حورعین چہرا ہاتھوں میں چھپا کر رو دی تھی ۔

سامنے بیڈ پر پڑے اپنے کپڑے دیکھتے ہوئے اُٹھی تھی اور ان کو اُٹھا کر زور سے پھینک دیا تھا ۔

حورعین تم نے آج جو سوچا ہے وہ کرنا تم اتنی ڈرپوک نہیں ہو سکتی،،،،،،،پیچھے سے ماہ نور آ کر اس سے بولی ۔

آپی نہیں ہو پائے گا میں کیسے شاہ جی کو،،،،،،،،حورعین رو دی تھی ۔

سنبھال لو خود کو نہیں تو چپ کر جاؤ چھوڑ دو سب کچھ خوش رہو ایسے ہی شاہ جی کو بانٹ کر،،،،،،،،ماہ نور نیچے سے ڈریس اُٹھا کر اس کے ہاتھ میں دیا تھا ۔

حورعین نے اسے پکڑا تھا اور گہرائی سوچ میں چکی گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

سب لوگ مہندی کے لیے تیار تھے ماہ نور نے حورعین کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا جو اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے نیچے آ رہی تھی تاکہ وہ اپنے لہنگے کی وجہ سے گیر نہ جائے ۔

دونوں نے لہنگے پہن رکھے تھے،،،، ،اور حورعین معصوم سی ہلکی سی لگائی بس لیپسٹک کے ساتھ بالکل پری لگ رہی تھی سامنے کھڑے عالم کا دل اس کو دیکھ کر زور سے دھڑکا تھا  اسے باہوں میں سمٹ کر چھپا لینے کو دل کیا اس کا۔

دوسری طرف باہر سے آتے شایان کی نظر جب ماہ نور پر پڑھی تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا ماہ نور نے ہلکا سا میکاپ کیا ہوا تھا آج اور وہ بھی کسی سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔

حورعین سیڑھیوں سے اتر کر اپنا ہاتھ ماہ نور سے چڑوا کر عالم شاہ کی طرف بڑھی تھی ۔

شاہ جی میں کسی لگ رہیں ہوں،،،،،،،،،،،وہ خوش ہوتے ہوئے اس کے سامنے کمر پر ہاتھ باندھ کر کھڑی بولی ۔

وہاں موجود ہر شخص جو اپنی اپنی تیاری میں تھا حورعین کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا۔

اچھی لگ رہی ہو،،،،،،،،،عالم اس سے نظریں چراتے ہوئے آہستہ آواز میں بول کر وہاں سے جانے لگا ۔

شاہ جی کہاں جا رہے ہیں،،،،،،،،،،،،،،حورعین نے جاتے ہوئے عالم شاہ کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا ۔

نین کیا کر رہی ہو مجھے کام ہے مجھے جانا ہے،،،،،،،،،،،،سب حیرت زدہ سے تھے سوائے ماہ نور کے وہاں کھڑی انابیہ نے بھی عالم شاہ اور حورعین کی طرف دیکھا ۔

کیا یہ صائم کی بہن،،،،،،،،یہ سوچ آتے ہی انابیہ کا منہ حیرت سے کھل گیا ۔

ماہ نور کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جس کو شایان نے بڑی غور سے دیکھا ۔

نین کیا مسئلہ ہے کوئی کام ہے،،،،،،،،،،،؟؟ اس دفع عالم بولا تو اس کا لہجہ سحت اور سرد تھا حورعین کو خوف تو آیا پر وہ پھر بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک پاؤں اس کے پاؤں پر رکھتے ہوئے اس اوپر کو اَٹھی اور اس کے ماتھے پر لب رکھ دئے،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ تو شاک ہوا وہاں کھڑا ہو شخص شدیدت سا رہ گیا ۔

کیا بیہودگی ہے یہ لڑکی شرم  ہے نہ حیا،،،،،،،،،پیچھے سے مسز حیسن آتے ہوئے اسے بازو سے کھنچتے ہوئے پیچھے جھٹکا تھا۔

حورعین نے دیکھا عالم شاہ نے کوئی ریکشن نہیں دیا ۔

کیا مسئلہ ہے تمہیں بے شرم لڑکی،،،،،،،،،وہ پھر سے بولی اور تھپڑ مارنے کے لیے اس کی طرف بڑھی تھی کے ماہ نور بھیچ میں آ گئی اور اس کی ڈھال بن گئی ۔

اس لڑکی کو جان سے مار دوں گی ایک تو پناہ دی ہم نے اسے اور اوپر سے میری ہی بیٹی کے سہاگ کو چھین رہی ہے یہ چڑیل،،،،،،،،،،،وہ چیختے ہوئے بولی۔

پر حورعین کی نظریں عالم شاہ کی طرف تھی جو بس کھڑا سب تماشا دیکھ رہا تھا ۔

میں عالم شاہ کی رکھیل ہوں،،،،،،،،،جس کے ساتھ انہوں نے اپنی شادی کے بعد راتیں گزرنی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین ابھی بول ہی رہی تھی کے عالم اس کی طرف بڑھتے ہوئے اسے جبڑے سے دبوچ چکا تھا ۔

بکواس بند کرو نین ورنہ جان سے مار دوں گا ایک بھی گندا لفظ بولا نہ اپنے بارے میں تو،،،،،،،،،،۔

تو کیا شاہ جی تو کیا،،،،،،،،کیا رشتہ ہے ہمارے درمیان بتائیں سب کو کیوں چھپا رہے ہیں آپ،،،،،،،،،،،،،،،،،مجھے میرا حق چایے آپ کا نام چاہے بتائیں سب کو کے کون ہوں میں،،،،،،،،،،ورنہ چھوڑ کر آئے مجھے میرے گھر،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین چیخی ۔

آج سب کو بتاؤں گا کے کون ہو تم میری پر آج تمہیں میں تمہارے گھر بھی چھوڑ کر آؤں گا ہیمشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکال کرپھنکا دوں گا،،،،،،،،،،،،عالم کے ہاتھ میں اس کا جبڑا تھا اور حورعین کی آنکھوں میں عالم شاہ کی بات سے خوف آ گیا تھا ۔

ماہ نور بھی حیرت زدہ سی تھی حورعین کی باتیں سن کر ۔

شاہ جی نہیں،،،،،،،،،،حورعین نے روتے ہوئے نہ میں سر ہلائے ۔

شاہ جی ایسا مت بولیں مار لیں مجھے پر خود سے دور مت کرنا شاہ جی ورنہ آپ کی نین مر جائے گی،،،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اس کے ساتھ لگ کر سب بس حیرت زدہ سے اسے دیکھتے ہی رہ گیے ۔

سب سننے حورعین میری بیوی ہے،،،،،،،،،،،،،اور شایان کے ولیمہ والے دن میرا اور انابیہ کا نکاح ہو گا ہی ہو گا،،،،،،،،عالم نے نین کو بالوں سے دبوچے اس کا چہرہ خود کے سامنے کیا۔

نہیں آپ دوسری شادی نہیں کر سکتے شاہ جی،،،،، میں ایسا ہونے نہیں دوں گی،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے چیخی ۔

کون روکے گا تم،،،،،،،تمہیں میں ابھی اپنی زندگی سے نکال رہا ہوں بہت شوق تھا نہ اپنے گھر جانے کا تو چھوڑ کر آؤں گا تمہیں میں،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ نے اس کے بالوں کو جھٹکا دیا ۔

شاہ جی نہیں نہیں شاہ جی،،،،،،،،،،میں ہاتھ جوڑتی ہوں،،،،،،،،،،،،حورعین نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑے اور وہاں کھڑا ہر شخص بس حیرت زدہ سا دیکھ رہا تھا سب مسسز حسین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔

عالم شاہ کے نکاح میں رہو گی ساری زندگی تم پر سڑھوں گی تم وہی اپنے گھر کبھی بھی تمہیں تمہارا کوئی حق نہیں دوں گا،،،،تم نے میری انا پر وار کیا ہے نین میری محبت گئی بھاڑ میں مجھے میری عزت سے محبت ہے اور اب تمہیں اس کا مداوا تو کرنا ہی پڑھے گا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم گھسٹتے ہوئے حورعین کو وہاں سے لے کر گیا۔

نہیں شاہ جی میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤ گی آپ بس میرے ہیں بس میرے ،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اس سے اپنا ہاتھ چڑوا رہی تھی جو اسے اب گاڑی میں دھکا دیتے ہوئے خود دوسری طرف بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا ۔

نہیں شاہ جی خود سے دور مت کریں شاہ جی آپ کی نین مر جائے گی شاہ جی پلیز،،،،،،،،،،،،وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑے روتے ہوئے گڑگڑا رہی تھی پر عالم بے حس بنا گاڑی کی فل سپیڈ کرتے ہوئے گاڑی کو جیسے بھاگا رہا ہو ۔

حورعین نے ایک نظر عالم شاہ کو دیکھا اور پھر گاڑی کے دروازے کو اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول دیا ابھی خود کودتی عالم نے اسے کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچ لیا ۔

مر جانے دیں مجھے خود سے دور کرنا چاہتے ہیں نہ مجھے تو مر کر دور ہو جاؤں گی میں،،،،،،،،،عالم شاہ نے جھٹکے سے گاڑی روکی تھی اور اسے کھنچا تھا کے حورعین چلائی ۔

آواز نیچے بہت بکواس کرتی ہو تم نین،،،،،،وہ اسے کو بالوں سے پکڑے اس کے چہرے پر پھینکارا ۔

شاہ جی مت کریں دور خود سے پلیز شاہ جی مجھے خود میں سمیٹ لیں آپ کی نین مر  جائے گی آپ کے بغیر،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھے ہوئے تھی ۔

مرنا نہیں ہے تمہیں تمہیں زندہ رہ کر ہر اذیت برداشت کرنی ہے ،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ دے کر اس کا سر اوپر اُٹھایا  اور اس کے کانپتے لرزتے وجود کی پرواہ کیے بغیر اس کے ہونٹوں پر جھکا تھا۔

حورعین اس کے لمس سے تڑپ اُٹھی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور دھکیلنے لگی ۔

یہ ہے تمہاری اوقات میری نظر میں تم میرے لیے صرف میری ضد تھی ہو اور ہمیشہ رہو گی،،،،،،،،،،نہ تم سے پہلے مجھے محبت تھی نہ اب مجھے تم سے محبت ہے اور نہ کبھی تم سے مجھے محبت ہو سکتی ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم کا بولا ہر لفظ حورعین کو بے جان کر رہا تھا وہ بس چپ چاپ خود کی توہین برداشت کر رہی تھی بے یقینی ہی بے یقینی تھی اس کی آنکھوں میں ۔

عالم نے بولتے ہوئے اسے خود سے دور جھٹکا ،،،،،،،حورعین چپ چاپ سی بس سن ہوئی بیٹھی رہی ۔

نفرت ضد سب کچھ مجھے پر ختم،،،،،،،،،،،،وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے دیکھنے لگی جو اب اس کے گھر پہنچ گیا تھا اور گاڑی کو اس کے گھر کے سامنے روکا۔

اور حورعین کو کھنچتے ہوئے دروازے کی طرف لے کر آیا چوکیدار نے حورعین کو دیکھتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔

پھر اسے کھسٹتے ہوئے  اندر کی طرف بڑھ رہا تھا حورعین اس کے ساتھ بس کھینچی چلی جا رہی تھی۔

یہ لے اپنی بیٹی سامنے لاونچ میں بیٹھی مسسز سلمان کے آگے حورعین کو پھینکا،،،،،،،،،باہر آنے والی آوازیں سن کر اوپر سے سلمان صاحب بھی آ گئے پر جب انہوں نے حورعین کو دیکھا تو جلدی سے اس کی طرف بڑھے ۔

مسسز سلمان نے جلدی سے حورعین کو اپنے ساتھ لگا لیا،،،،،،،،،،،،وہ سسکتے ہوئے اُن کے ساتھ لگ گئی ۔

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی،،،،،،،،،،،،سلمان صاحب چیخے ۔

ہمت کی بات مت پوچھے،،،،،،،،،،مرتی ہے آپ کی بیٹی مجھ پر محبت نہیں عشق ہے اسے مجھ سے یہ سب اس کی خوشی کے لیے کیا تھا،،،،،،،،پر اس نے دکھا دیا کے یہ عالم شاہ کے لائک نہیں اس کی اوقات اتنی نہیں ہے اسی لیے واپس چھوڑ کر جا رہا ہوں میں اسے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو روتے ہوئے شکوہ کرتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔

طلاق کے پیپر مل جائے گئے ،،،،،،،،،،،،،،،،،سلمان صاحب ابھی بولتے عالم چیخا۔

بسسسس،،،،،،،،،،،اس کی آواز پورے ہال میں گھونجی ۔

ایک اور لفظ نہیں،،،،،،،یہ میری بیوی ہے اور ساری زندگی میرے نام کے ساتھ رہے گی اگر کسی نے اسے کسی اور کے نام کرنا چاہا تو اس کو اسی وقت موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔

حورعین عالم شاہ کی ضد ہے اور اپنی ہر ضد وہ پوری کرتا ہے جب میرا دل کرے گا آپ کی بیٹی میرے ساتھ جائے گی جو جو میں کہوں گا یہ وہی کرے گی،،،،،،،،،،،ورنہ سب کو مار دوں گا،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،عالم کا ہر لفظ حورعین پر قیامت برپا کر رہا تھا وہ بس شل سی اسے دیکھی جا رہی تھی ۔

وہ جس طرح دندناتے ہوئے آیا تھا اسی طرح وہاں سے نکلتا چلا گیا،،،،۔

پیچھے حورعین اپنے ماں باپ کے ساتھ لگی بے تحاشا رو دی تھی پورے ہال میں دونوں ماں بیٹی کے رونے کی آوازیں آ رہی تھی سلمان صاحب کے لیے دونوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا ۔

حورعین روتے ہوئے ان کی بانہوں میں ہی جول گئی تھی ۔

سلمان سلمان حور کو دیکھیں کیا ہو گیا ہے اسے،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے بے ہوش وجود کو دیکھتے ہوئے بولی تھی اور اسے دیکھ کر سلمان صاحب کے بھی ہاتھ پیر پھول گیے،،،،جلدی سے جلدی اب دونوں اسے گاڑی کی طرف لے کر جاتے پر گاڑی صائم لے کر باہر نکلا ہوا تھا ۔

دونوں نے جلدی سے ہاسپٹل ایمبولینس کو کال کی جو ٹھیک پندرہ منٹ بعد آئی تب تک حورعین کے کا وجود سے سانسس ختم ہو رہی تھی ۔

پھر کسی بھی طرح وہ اسے ہاسپٹل لے کر نکل گئے۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

انابیہ چپ چاپ روم میں آ گئی تھی ۔

تو کیا یہ لڑکی  صائم سر کی بہن ہے،،،،،،،،،،،،،انابیہ لب چھباتے ہوئے کھوۂے کھوئے سے لہجے میں بولی ۔

عالم شاہ پورے خاندان کی عزت کو خراب کر سکتا ہے میں نے سوچا بھی نہیں تھا،،،،،،،،وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے تو ا سکے ساتھ اتنا کچھ کیا مجھ سے تو اسے محبت بھی نہیں ہے،،،،،،،،،،انابیہ چپ سی صوفے پر بیٹھ کر صائم کے بارے میں اور اس کی باتوں کو سوچ رہی تھی ۔

صائم میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی،،،،،،،،،،،انابیہ نے ڈرتے ڈرتے صائم کو میسج کیا ۔

صائم جو گاڑی کو لے کر سی ویو پر گیا ہوا تھا اس وقت بھی رات کے اندھیرے میں سامنے بہتی لہرؤں کو دیکھ رہا تھا۔

موبائل کی ٹن پر موبائل کو دیکھنے لگا اور آنے والے میسج کر پڑھ کر اس کی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔

اور اسے کال کی ۔

کیا آپ مجھ سے نکاح کرنا چاہتی ہے،،،،،،،،سلام کرنے کے بعد صائم سیدھی بات پر آیا ۔

جی مجھے آپ سے نکاح کرنا ہے پر مجھے اپنے گھر والوں کا ڈر ہے میں نہیں چاہتی کے ان کی عزت پر ایک حرفِ بھی آئے میری وجہ سے،،،،،،،،،،،انابیہ بیڈ پر بیٹھی اس نے بیڈ شیٹ کو زور سے پکڑ رکھا تھا کیونکہ وہ کنفیوز اور ڈری ہوئی تھی ۔

ہممممممممم۔۔۔

صائم پلیز مجھے عالم کے ساتھ نکاح نہیں کرنا،،،،،،،،،،،،انابیہ کی آواز میں نمی تھی ۔

حورعین کیسی ہے،،،،،،،،،،؟؟ صائم کی اگلی بات سن کر انابیہ لب بھیچ گئی ۔

پھر انابیہ نے اسے عالم اور حورعین کے بھیچ ہوا سارا وقع سنا دیا جسے سن کر غصے سے صائم کے ماتھے کی رنگے تن گئیں ۔

میری بات سنوں میرا وعدہ ہے تمہارا نکاح عالم سے نہیں ہونے دوں گا چاہے اس کے لیے مجھ اپنی جان بھی دینی پڑے،،،،،،،،،،،،صائم دورتے ہوئے گاڑی کی طرف گیا تھا کیونکہ اب اسے گھر واپس جانا تھا۔

تھینک یو صائم،،،،،،،،بولتے ہی فون واپس رکھ دیا ۔

دوسری طرف صائم گھر بھاگا اور چوکیدار سے ساری معلومات ملی تو سلمان صاحب کو کال کی جس پر انہوں نے اسے سب بتایا اور وہ وہاں سے ہاسپٹل بھاگا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور حورعین کی حالت دیکھ کر بے چین سی ہو گئی تھی ۔

پریشان سی تھی بڑے سب ہی باہر مہندی کی رسم کے لیے گیے کیوں کے کوئی بھی شک نہیں ہونے دینا چاہتا تھا اس بات کا،،،،،،،،،،،،،سلطان شاہ نے سب کو مہندی کی رسم کرنے کا کہا ۔

ماہ نور نم آنکھوں سے سب کی طرف دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کے کتنے بے حس لوگ ہیں ۔

چلو رسم کرو میرے ساتھ،،،، ،،،،ماہ نور جو سائیڈ پر  چئیر پر بیٹھی ہوئی تھی شایان کی سرد آواز سن کر سر کو اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے لگی ۔

شایانِ کا چہرا اسے بالکل سپاٹ لگا ہر احساس سے اری اور سرد سا۔

مجھے نہیں جانا،،،،،،،،،،،بولتے ہوئے وہ رُخ دوسری طرف موڑ گئی ۔

میں نے پوچھا نہیں ہے حکم دیا ہے،،،اور تم پابند ہو میری،،،،،،،،شایان کے چہرے پر تو مسکراہٹ تھی پر اس کا لہجہ اور انداز ماہ نور کو خوفزدہ کر گیا اس نے اسے بازو سے پکڑا اور کھڑے کرتے ہوئے اپنے ساتھ سٹیج کی طرف لے گیا،،،۔

ماہ نور لب بھیچے اس کے ساتھ رسم کی اور پھر واپس ا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی آنکھوں میں نمی بھر آئی ۔

پھر سب رسموں کے بعد سب گھر کی طرف نکلے تھے وہ بھی ان کے ساتھ گھر چلی گئی اور گھر جاتے ہی سیدھا اندر اپنے کمر کی طرف بڑھ گئی ۔

ماہ نور سیدھا کمرے میں آئی تھی غصے سے ڈوپٹہ اُٹھا کر پھینکا ۔

سمجھتا کیا ہے مجھے غلام ہوں اس کی،،،،،،،،،،ماہ نور ہانپتے کانپتے لہجے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی ۔

شایان کمرے میں داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہوئے دروازے کو لاک لگایا ۔

کیا تکلیف ہے کیوں آئے ہو میرے کمرے میں دفع ہو جاؤ یہاں سے اور اس بھول میں مت رہنا کے میں یہ ریسپشن کا ڈرمہ کروں گی،،،،،،،،،،،ماہ نور سامنے کھڑے شایان سے بولی جو ہاتھ باندھے کھڑا اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

تم جانتی تھی نہ حورعین کے بارے میں؟؟ اور یہ سب ڈرمہ جو اس نے نیچے جا کر کیا تمہارے کہنے پر کیا،،،،،،،،،،،،،،،،،؟؟ شایان جب بولا تو اس کا لہجہ سرد سا تھا۔

ہاں جاتنی تھی سب میرے کہنے پر کیا اس نے اچھا ہو نہ اپنی عزت کی بڑی تم لوگ حفاظت کرتے ہوئے اور دوسروں کی عزت کو نعلام،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اونچی آواز میں چیخی تھی ۔

شایان اس کی طرف ہی بڑھ رہا تھا انداز غصہ لیے ہوا تھا،،،،،،،،ماہ نور کی بات سن کر اسے اور بھی غصہ آیا ۔

عزت نعلام کرنا جانتی کو کس کو کہتے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان اس کو بازوں سے دبوچے اپنے بالکل قریب کرتے ہوئے بولا۔

شایان دور رہ کر بات کرو مجھ سے قریب مت آنا میرے،،،،،،،،،ماہ نور نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ اسے خود سے دور کرنا چاہا۔

آؤں گا کر سکتی ہو کچھ کر سکتی ہو مجھے خود سے دور،،،،،،،،؟؟ ہے ہمت،،،، ؟؟بیوی ہو میری میرے نکاح میں ہو،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کی گردن پر ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اپنے چہرے کے بالکل قریب کئے غرایا آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

نہ میں تم سے ڈرتی ہوں اور نہ میں اس رشتے کو مانتی ہوں اسی لیے اپنے حد میں رہنا گھٹیا خاندان کے گھٹیا انسان ہو تم،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ بڑھانا چاہا پر شایان ایسا ہونے نہیں دے رہا تھا ۔

آج کچھ ایسا کروں گا اس رشتے کو بھی مانو گی اور مجھ سے ڈرو گی بھی اور ابھی تمہیں بتاتا ہوں میری اور تمہاری حد ہے کون سی اور کتنا گھٹیا ہوں یہ بھی آج تمہیں اچھی طرح بتاؤں گا ،،،،،،،،،،،،،،شایان جس انداز میں بولا ماہ نور کو اس سے خوف محسوس ہوا۔

شایان نے اسے جھٹکا دیتے ہوئے بیڈ پر پھینکا،،،،،ماہ نور اس کا اردہ اور اس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ سے خوفزدہ ہوتے ہوئے پیچھے ہٹی ۔

شایان میرے قریب آنے کی کوشش مت کرنا سنا تم نے،،،،،،،،،دور رہنا،،،،،،،،شایان جو اس کے پاس آیا تھا ماہ نور کی بات سن کر اس نے قہقہہ لگایا ۔

ہاہاہاہاہاہا اہاہاہاہاہاہا آج بچا لو اگر بچا سکتی ہو تو،،،،،،،،،،،میری محبت اور میرے خاندان کو گھٹیا کہا میرے خاندان کو رسوا کرنے کی کوشش کی تم نے میں تمہیں کیسے معاف کر دو ماہ نور،،،،،،،،وہ پیچھے ہٹتی ہوئی ماہ نور کو پاؤں سے کھنچتے ہوئے خود کے قریب کر گیا ۔

تم سب ہو ہی گھٹیا اچھا ہوا تم سب کے ساتھ،،،،،،،،،ماہ نور غصے سے چیخی تھی کیوں کہ شایان اس کے اوپر جھکا اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ جما کر اسے بے بس کر چکا تھا ۔

بہت شوق ہے نہ تمہیں مجھ سے پنگا لینا کا آج کے بعد اگر تم نے کوئی بھی بکواس کی تو اج جو میں تمہارا حال کروں گا آئندہ اس سے بھی برا کروں گا،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان  نے بولتے ہوئے اس کے ماتھے پر لگا ٹیکا نوچ کر پھینکا۔

آ آ آ آ آ،،،،،،،،،،،،،جس سے ماہ نور کو لگا اس کے بال بھی ساتھ اتر گیے ہوں،،،،،،اس کے منہ سے دبی سی چیخ نکلی،،،شایان کے پاگل پن کو محسوس کرتے ہوئے ماہ نور نے اس سے دور جانا چاہا ۔

اس کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ ساتھ خوف بھی پھیل گیا تھا۔

شایان تم پاگل ہو چکے ہو،،،،،،،اس کا ہاتھ جب ماہ نور کے کانوں کی طرف گیا تو ماہ نور نے چلاتے ہوئے اپنے کان ہر ہاتھ رکھنے کی ناکام کوشش کی جس کو شایان نے ناکامیاب بنا دی ۔

اور اس کے ہاتھوں کو تھام کر اس کی کمر کے پیچھے اس طرح کیا کے درد سے ماہ نور کی پھر سے چیخ نکلی ۔

شایان مجھے بہت دور ہو رہا ہے چھوڑو مجھے،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور کے بولنے پر وہ مسکرایا ۔

ابھی تو بہت تکلیف دوں گا تمہیں کے تم خوف کھاؤ گی مجھ سے خوف،،،،،،،،،،،،شایان اس کے کان میں بہتے خون کو دیکھتے ہوئے گمبھیر سے لہجے میں بولا ۔

ماہ نور اس کی بڑھتی ہر جسارت اور اس کے تکلیف دیتے احساس سے سسک اٗٹھی تھی ۔

نہیں شایانِ پلیز نہیں شایان نے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کر دی  تھی اب کمرے میں بس ماہ نور کی گھٹی گھٹی سسکیاں تھی وہ شایان  جیسے مرد کے آگے ہار گئی تھی ۔

. ماہ نور رو رہی تھی پر شایان آج بالکل بے رحم بن چکا تھا جو صرف اپنے خاندان کی توہین کا بدلہ اس سے لے رہا تھا ۔

شایان کا پاگل پن اور جنون سسہتے ہوئے ماہ نور اپنے ہوش کھو گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

مسٹر زین آپ اپنی وائف سے مل سکتے ہیں وہ ٹھیک ہے صبح کا دیکھ چکا ہوں آپ ایک دفع بھی اس ملنے  نہیں گیے صرف ایک دفع گیے تھے وہ بھی تب جب وہ اپنے ہوش میں نہیں تھی،،،،،،،،،،،،،زین ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے اسے کہا ۔

جی ڈاکٹر مل لیتا ہوں بس تھوڑا بیزی تھااور  اسے کچھ وقت دینا چاہتا تھا،،،،،،،زین نے بتاتے ہوئے ڈاکٹر سے ساری بات کر لی تھی اور پھر سست روی سے چلتے ہوئے زرمین کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔

اندر زرمین کے ہاتھ پر ڈریپ لگائی ہوئی تھی اور وہ بیڈ کی بیک سائیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔

زین اسے دیکھتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔

کیسی ہو زرمین،،،،،،،،،،،؟؟ زین آہستہ آواز میں بولا۔

زندہ ہوں،،،،،،،،،،،،،،زرمین ویسے ہی بیٹھے بیٹھے آنکھوں کو موندھ گئی جواب بھی تھوڑی تاحیر سے دیا تھا ۔

زین نے دیکھا تھا وہ مرجھائی مرجھائی سی تھی ۔

کاش میں مر جاتی سب کی جان چھوٹ جاتی تمہیں بھی سکون مل جاتا،،،،،،،،بدلہ بھی پورا ہو جاتا،،،،،،،،،،،،،زرمین اس دفع بولی تو ا سکا لہجہ دُکھ لیے ہوئے تھا۔

زرمین کوئی بکواس مت کرنا اب بس آرام کرو،،،،،،،،زین اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا اس کے ہاتھ پر ڈریپ لگی ہوئی تھی اور وہ سرد ہو رہا تھا۔

میں مر جاتی زین میں مر جاتی اگر تم وقت پر نہ آتے تو،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین نے روتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

میں ان دونوں کو جان سے مار دوں گا جنہوں نے تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی وہ اس دنیا میں اب نہیں رہے گیے،،،،،،،،،،،زین اس کے انسو صاف کرتے ہوئے اس کے چہر کو دونوں ہاتھوں میں تھام گیا اور اپنے لب اسے کے ماتھے پر رکھے۔

مجھے آرام کرنا ہے جاؤ یہاں سے،،،،،،،،زرمین نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کرتے ہوئے لیٹ کر دوسری طرف رَخ کر لیا ۔

زین اس کی پشت کو بس دیکھ کر رہ گیا اور پیچھے ہوتے ہوئے دوبارہ سے باہر نکل گیا ۔

زرمین کے رونے میں اور بھی رفتار آ گئی تھی ۔

پتہ نہیں کیا سوچ رہا ہو گا زین میرے بارے میں کے میں کیسی لڑکی ہوں،،،،،،،،،،،،،،وہ روتے ہوئے خود کی سوچیں گڑنھ لگی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حور بچے کچھ کھاؤ گی،،،،،،،،؟؟ مسسز سلمان حورعین کے پاس کھڑی اس کے سر  پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولی ۔

ماما شاہ جی شاہ جی کے پاس جانا ہے مجھے،،،،،،،،،،،،،حورعین جو لیٹی ہوئی تھی اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔

حور لیٹ جاؤ تم ٹھیک نہیں ہو آرام کرو بچے،،،،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان نے اسے دوبارہ لیٹانا چاہا اس کے ہاتھ میں ابھی بھی ڈریپ لگی ہوئی تھی ۔

نہیں ماما مجھے شاہ جی کے پاس جانا ہے آپ کو نہیں پتہ وہ دوسری شادی کر لیں گے اور میں ایسا نہیں ہونے دینا میں مر جاؤں گی ان کے بغیر ماما پلیز جانے دیں مجھے،،،،،،،،،،،،حورعین مسسز سلمان کو خود سے پیچھے کرتے ہوئے اپنے اوپر دیا کمبل بھی اتار رہی تھی ۔

جہاں ڈریپ کی سوئی لگی تھی وہاں سے خون رسنے لگا تھا۔

چپ بالکل چپ آرام سے لیٹ جاؤ حورعین ورنہ میں تم پر بہت غصہ کروں گا،،،،،،،،،،سلمان صاحب اندر آتے ہی حورعین کی اس حالت کو دیکھ کر غصے سے بولے ۔

نہیں بابا مجھے جانا ہے پلیز بابا جانے دیں مجھے شاہ جی کے پاس بابا وہ میرے شاہ جی ہیں بس تھوڑے سے ناراض ہیں جلدی ہی ان کو منا لوں گی ٹھیک ہو جائے گئے،،،، ،،،،،،حورعین سلمان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

وہ تمہیں چھوڑ کر جا چکا ہے سنا تم نے اب وہ تمہیں نہیں لے کر جائے گا جب تک اس کا دل نہیں کرے گا،،،،،،،،،،،،،،سلمان صاحب اس کی اس حالت کو پریشانی سے دیکھتے ہوئے پھر غصے سے بولے ۔

نہیں نہیں نہیں سنا آپ نے نہیں شاہ جی بس میرے ہیں بس میرے ،،،،،،،،،،میں مر جاؤں گی بابا ان کو بولے لے جائے مجھے لے جائے،،،،،،،،حورعین اپنے ہاتھ پر لگا کینولا اتار کر پھینکتے ہوئے پاگلوں کی طرح چلا اور رو رہی تھی ۔

بابا میں مر جاؤ گی مجھے جانے دیں جانے دیں مجھے،،،،،،،،حورعین بیڈ سے اتر کر باہر کی طرف بھاگی تھی پر سلمان صاحب اور مسسز سلمان اسے مشکل سے کنٹرول کرتے ہوئے اپنے قابو میں لے کر کھڑے اسے بیڈ کی طرف لے کر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

مسسز سلمان ساتھ ساتھ خود بھی رو رہی تھی اپنی جوان بیٹی کی اس حالت پر بے تحاشا رونا آ رہا تھا ۔

بابا آپ تو میری ہر خواہش پوری کرتے ہیں شاہ جی کو بولیں ان کی نین مر جائے گی ان کے بغیر میں نہیں رہ پاؤں گی بابا،،،،،،،،،،،،،وہ سلمان صاحب کو تھامے منت بھرے لہجے میں بولی ۔

سلمان صاحب نے اپنی بیوی کو اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کو لے کر آنے کا کہا ۔

جی میرا بچہ میں کہتا ہوں تمہارے شاہ جی کو وہ ضرور آ جائے گئے تمہارے پاس تم رونا مت،،،،سنبھالوں خود کو،،،،،،،،،،،،وہ اس کے انسو صاف کرتے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بیڈ کی طرف لے کر گئے تھے ۔

بابا وہ آ جائیں گے نہ،،،،،،،آپ ان کو بولنا ان کی نین ٹھیک نہیں ہے ہاسپٹل میں ہے تو دیکھنا وہ دورتے ہوئے آئیں گے ،،،،،،،،،،،،،،،حورعین کھوئی کھوئی سی بول رہی تھی تب ہی ڈاکٹر بھی آیا تھا ۔

سلمان صاحب کو اشارہ کیا کے وہ اسے اسی طرح باتوں میں لگائے ۔

بابا وہ غصہ ہیں ورنہ وہ کہتے ہیں وہ مجھ سے عشق کرتے ہیں،،،،،،،،،،سلمان صاحب کو وہ خود سے باتیں کرتی کوئی پاگل لگی تھی ۔

تب ہی ڈاکٹر نے اسے انجکشن لگایا تھا۔

بابا درد بابا شاہ جی شاہ جی کو بولا دو،،،،،،،،،،،غنودگی میں جاتے ہوئے لفظوں سے ایک دفع پھر سے سلمان صاحب اذیت کا شکار ہوئے تھے ۔

صائم بھی اندر داخل ہوا تھا وہ حورعین کی باتیں سن چکا تھا بس لب بھیچے اسے دیکھ رہا تھا جس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا اور اب نرس اس کو صاف کرتے ہوئے دوبارہ نیا کینولا لگا رہی تھی ۔

میری بات سننے مسٹر سلمان اگر آپ کی بیٹی کی یہی حالت رہی تو مجھے ڈر ہے کہیں ان کو برین ہیمرج نہ ہو جائے،،،،،،،،اسی لیے پلیز یہ جس انسان کو بلا رہیں ہیں اسے لے کر آئے،،،،،،،،،کیوں کے وہ بالکل بھی ریسپان نہیں کر رہی،،،،،،،،،،،۔

ڈاکٹر کے بولنے پر مسسز سلمان نے سلمان صاحب کے بازوں کو زور سے پکڑا تھا اور رونے لگی ۔۔

اللہ بہتر کرے گا،،،،،،،انہوں نے اپنی بیوی کو تسلی دی ۔

ڈاکٹر ان کو بتا کر باہر نکل گیا ۔

سنبھلنے دونوں خود کو وہ ٹھیک ہو جائے گی وقت مشکل ہے پر مجھے یقین ہے کہ وہ سنبھال لے گی ہماری حور کمزور بالکل بھی نہیں ہے،،،،،،،،صائم دونوں کو بولا تھا پر مسسز سلمان اس کے ساتھ لگی رو دی ۔

پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی میری بچی کو پہلے اس نے اس کے ساتھ زبردستی اور اب جب حور اس کے اس طرح پاگل ہو رہی ہے اور وہ اسے پھینکا گیا ہے میری بچی مر جائے گی سلمان مجھے پتہ ہے اگر اسے وہ نہ ملا تو یہ روتے روتے ہی مر جائے گی،،،،،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان روتے ہوئے بولی تو صائم نے ان کو ساتھ لگا لیا ۔

سب اللہ پر چھوڑ دیا ہے میں نے مجھے یقین ہے کہ وہ میری بچی کی حفاظت کرے گا،،،،،،،سلمان صاحب پورے یقین سے بولے ۔

صائم حورعین کو دیکھ رہا تھا جو نیند کی وادیوں میں تھی پر دل میں ابھی بھی چین نہیں تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

شایان چھوڑو مجھے ،،،،،،،،دُکھتے سر لے کر اُٹھنے کی کوشش کی پر اپنے اردگرد شایان کا حصار ہونے کی وجہ سے اُٹھ نہیں پائی،،،،۔

نہیں چھوڑوں تو،،،،،،،،شایان اس کے گرد اپنا حصارِ اور بھی مضبوط بناتے ہوئے اس کے بالوں میں منہ چھپائے بولا ۔

رات ہواس پوری نہیں ہوئی جو دوبارہ درندگی کا نشانہ بنانا ہے،،،،،،،،،ماہ نور نے بھی اپنا غصہ اس پر نکالا اور اسے طنز کیا ۔

شایان نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا جہاں آنکھوں میں پانی اور چہرے پر غصہ تھا ۔

تمہارے رونے اور تڑپنے سے مجھے تو بہت مزا آیا،،،،،،،،،،،،شایان بولتے ہوئے اسے سیدھا کرتے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے بولا،،،ماہ نور نے ضبط سے آنکھوں کو بند کرتے ہوئے رَخ پھیر لیا ۔

تکلیف ہو رہی ہے،،،،،وہ اس پر طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے اس کی سفید گردن کو دیکھنے لگا جہاں رات اس کی حیوانیت  کے نشان تھے ۔

شایان نے وہاں ہاتھ پھیر تو ماہ نور درد کی وجہ سے کراہ اُٹھی ۔

آ آ پلیز شایان نہیں،،،،،،،شایان نے آہستہ سے وہاں اپنے ہونٹ رکھے،،،،،،،،،تو ماہ نور نے اسے خود سے دور کرنا چاہا ۔

آئندہ زبان درازی مت کرنا میرے سامنے ورنہ اس سے بھی برا حال کروں گا،،،،،،،،،،وہ اپنا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے سرد سے لہجے میں بولا  ماہ نور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔

فریش ہو کر تیار ہو جاؤ جلدی سے ہمیں جانا ہے تمہاری بہن سے ملنے،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر ماہ نور نے اسے حیرت سے دیکھا ۔

ہاسپٹل میں ہے ،،،، شایانِ بولتے ہوئے اُٹھا تھا اور باہر جانے لگا ۔

کیا مطلب کیا ہوا آپی کو،،،،،،،،ماہ نور اپنی پریشانی بھولے،،،،،جلدی سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا رَخ خود کی طرف کرتے ہوئے بولی ۔

پتہ نہیں زین بھائی کی کال آئی تھی تمہیں لے کر آنے کا کہا ہے اسی لیے بول رہا ہوں جلدی کرو ہمیں واپس بھی آنا ہو گا،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر ماہ نور پریشانی سے بس اسے دیکھتی رہ گئی ۔

میری آپی کو کچھ ہوا تو میں تم سب کو جان سے مار دوں گی،،،،،،،،ماہ نور چیخی تھی ۔

مارو ابھی مارو،،،،میں نے کہا ہے میرے سامنے بکواس مت کرنا پھر بھی تمہاری زبان اتنی چلتی ہے تمہیں سمجھ نہیں آتا،،،،،،،،،،شایان اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا جبڑا دبوچے غرایا ۔

آئندہ زبان بند رکھنا،،،،،،،،،،،اور جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا ۔

ماہ نور اسے بس بے بسی سے دیکھتی رہ گئی ۔

میرے اندر پلنے والی محبت کا گلا گھونٹ دیا تم  نے شایان،،،،،محبت مر گئی،،،،،،،،ماہ نور روتے ہوئے نیچے زمین پر بیٹھ گئی ۔

یہ کیا کر دیا تم نے شایان،،،،،،،،،،،،،شایان کو اس کے لفظوں سے خوف محسوس ہوا،،،دل کے کسی کونے سے آواز ائی۔

میرے جسم پر موجود یہ نشان تو مٹ جائے گئے پر رَخ پر جو زخم ہیں وہ ساری زندگی مجھے تم سے نفرت کرنے پر مجبور کریں گئے،،،،،،،،شایان شاہ جس نے اپنے خاندان کی توہین پر اپنی ہی محبت کا گلا گھونٹ دیا،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور روتے ہوئے بول کر واش روم میں بند ہو گئی ۔

پیچھے شایان اس کے لفظوں کو سمجھتے ہوئے ایک دفع لڑکھڑایا ۔

پر خود پر چڑے خول اور انا کو آگے رکھتے ہوئے باہر نکل گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

مجھے یونیورسٹی چھوڑ انا شایان،،،،،،،،،،شایان اور ماہ نور جا رہے تھے کے انابیہ اس کے پاس آئی ۔

جی چلے آپ بھی،،،،،،،انابیہ بھی ان کے ساتھ چلی گئی تھی گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ماہ نور چپ چاپ پیچھے جا کر بیٹھ گئی ۔

ماہ نور آگے بیٹھوں تم،،،،،،،،،انابیہ اس کی طرف کا دروازہ کھول کر بولی ۔

نہیں آپ بیٹھ جائے میں یہی ٹھیک ہوں،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے چہرہ موڑ گئی ۔

ماہ نور،،،،،،،جاو شاباش،،،،،،،،انابیہ اندر بیٹھتے ہوئے اسے پیار سے بولی تھی ۔

ماہ نور کو ناچارہ اتر کر جانا پڑھا۔

آگے بیٹھتے ہی شایان نے گاڑی چلا دی،،،،،،چہرے پر غصہ تھا ۔

آپی آپ کس کے ساتھ واپس آئے گی،،،،،،،؟؟

میں نے ڈرائیور کو بولا ہے آتے ہوئے لے جائے گا کام ضروری تھا ورنہ میں نہ جاتی،،،،،،،انابیہ آگے دیکھتے ہوئے بولی۔

ماہ نور اس طرح چپ تھی جیسے وہ یہاں ہے ہی نہیں،،،،،وہ نہیں جانتی تھی کے شایانِ نے گھر والوں کو کیا بولا ہے پر وہ پریشان تھی زرمین کے لیے اور اپنے لائف میں ہونے والے واقعات سے ۔

اوکے تم دونوں حیال رکھنا اپنا میری یونی آ گئی،،،،،،،،،،،شایان نے یونیورسٹی کے سامنے گاڑی روکی تو انابیہ بول کر باہر نکل گئی ۔

کیا مسئلہ ہے تمہیں کوئی مر گیا ہے،،،،،،،،،؟؟ کس چیز کا روگ لگا کر بیٹھی ہو،،،،،،،،انابیہ کے جاتے ہی شایان اس کو بازو سے تھامے اس کا رَخ اپنی طرف کرتے ہوئے غرایا ۔

محبت مر گئی ہے شایان،،،،،،،،،ماہ نور کہنا چاہتی تھی پر چپ سی بس اسے دیکھی گئی آنکھوں سے بس آنسو بہہ رہے تھے،،،چہرا بالکل سپاٹ تھا،،،، درد کے باوجود اس نے ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا ۔

بکواس کرو ماہ نور تم سے پوچھ رہا ہوں کس چیز کا منہ بنا رکھا ہے تم نے،،،،،،،ماہ نور جب کچھ نہ بولی تو شایان پھر سے چیخا۔

گاڑی چلاؤں شایان ہمیں دیر ہو رہی ہے،،،،،،،،،،،ماہ نور اپنا بازوں چڑواتے ہوئے آہستہ سے بولی ۔

میں کچھ پوچھ رہا ہوں،،،،،،،،،،،،،،شایان نے اس کے بازو پر دباؤ ڈال کر کہا ۔

کچھ کہنے کو نہیں ہے میرے پاس،،،،،،،،،بس دعا کرنا تمہارے سلوک کو برداشت کرتے کرتے کہیں میں مرنے کا سوچنے نہ لگا جاؤں،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو شایان کی گرفت ڈیلی پڑھ گئی جو کو آسانی سے شایان سے چڑوا کر اس نے رَخ بدل لیا۔

شایان نے لب بھیچے اس کی طرف دیکھا پھر گاڑی کو سٹارٹ کر دیا ۔

پر اسے محسوس ہو رہا تھا کے وہ رو رہی ہے،،،،،،،،اسے اپنے روائیہ کا احساس تو تھا پر آنا اس احساس پر بھاری تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انابیہ صرف صائم سے ملنے کے لیے آئی تھی ۔

صائم کیا ہوا سب ٹھیک ہے،،،،،،،،؟؟وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور صائم کی گاڑی سی ویو سائیڈ پر کھڑی تھی ۔

حورعین بالکل ٹھیک نہیں ہے انابیہ،،،،،،،،،،،وہ عالم شاہ کو پکارتی ہے پاگلوں کی طرح بہیو کرتی ہے روتی ہے چلاتی ہے،،،،،،،ڈاکٹر نے کہا اگر وہ اسی طرح کرتی رہی تو اس کے دماغ پر اثر پڑھ سکتا ہے،،،،،،،،،،،،،،،صائم تھکے سے انداز میں بیٹھا ہوا تھا ۔

ان کی انا بہت بڑی ہے وہ کبھی بھی حورعین کو اب نہیں اپنائے گئے،،،،،،انابیہ اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے تلخ سا مسکرائی ۔

میں نے نکاح کا سارا انتظام کر دیا ہے،،،،،،بس دس منٹ تک میرے دوست آنے والے ہیں پھر میرے دوست کے فلیٹ میں ہو گا نکاح،،،،،،،،،صائم بولا تو انابیہ نے اس کی طرف دیکھا ۔

صائم پلیز کچھ غلط تو نہیں ہو گا،،،، ،انابیہ خوفزدہ سی تھی ۔

تھوڑا تو اس دن سب کو برداشت کرنا پڑھے گا پر اللہ بہتر کر دے گا،،،،،،،پر ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا انابیہ صائم کو تم سے محبت ہے ،،اور اس میں کوئی بدلہ یا کچھ بھی ایسا نہیں ہے یہ صرف محبت ہے،،،،،،،،،،،،،صائم بولا تو انابیہ نے سر ہلا دیا اس وقت وہ سچ میں بہت ڈری ہوئی تھی ۔

صائم اسے اپنے دوست کے فلیٹ میں لے کر گیا اور وہاں دونوں کا نکاح ہوا،،،انابیہ نے نم آنکھوں سے نکاح نامے پر سائن کر دئے

تم ٹھیک ہو انابیہ،،،،،،،،،صائم اس کے پاس آیا جو سر کو جھکائے رونے میں مصروف تھی ۔

ج،،،،،،،،جی،،،،،،،،،میں ٹھیک ہوں،،،،، ،وہ بمشکل مسکراتے ہوئے بولی ۔

سب ٹھیک ہو جائے گا انابیہ رو مت وہ اسے اپنے قریب کھڑے کرتے ہوئے اس کے انسو صاف کرتے ہوئے بولا ۔

صائم مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں کیسے،،،،،،،،،وہ اپنا چہرا ہاتھوں میں چھپائے پھر سے رونے لگی ۔

میں ہوں نہ میں سنبھال لوں گا،،،،سب ٹھیک ہو جائے گا،،،،،،اس نے انابیہ کو اپنے ساتھ لگا لیا ۔

انابیہ اسے خود کے اتنے قریب دیکھتے ہوئے جلدی سے پیچھے ہٹی تھی ۔

صائم مسکرا دیا ۔

یہ تمہارے لیے،،،،،،،فلوقت جاب نہیں ہے اور بزنس بھی ابھی شروع کیا  ہے تو بس یہ ہی افورڈ کر سکتا تھا،،،،،،،،،،،وہ ایک پیک اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔

انابیہ نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں ایک چادر تھی ۔

یہ ہمیشہ تمہیں سب کی نظروں سے بچا کر رکھے گی،،،،،،،انابیہ کے کھول کر دیکھنے اور مسکرانے پر صائم بولا ۔

یہ لے،،،،،،،،،،انابیہ نے وہ دوبارہ اس کی طرف بڑھائی،،،صائم کو لگا اسے پسند نہیں آئی ۔

کیا ہے مجھے دیں،،،،،،،،،صائم نے اس کی بات سمجھ کر مسکرایا اور اس کے گرد پھیلا دی اور مسکرا کر اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے ۔

ہمیشہ خوش رہنا میرے ساتھ،،،، ،تھوڑا غریب ہوں پر دل کا امیر ہوں،،،،صائم ہنستے ہوئے بولا تو انابیہ بھی مسکرا دی ۔

چلیں کافی دیر ہو گئی ہے تمہاری گاڑی آ گئی ہو گی اور آج تمہارے بھائی کی شادی بھی ہے اسی لیے چلو تمہیں چھوڑ دوں ،،،،،،،،،،،،،،،صائم بولا تو انابیہ سر ہلاتے ہوئے اس کے ساتھ نکل گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماما شاہ جی کے پاس جانا ہے مجھے،،،،،ماما نہیں مجھے شاہ جی کے پاس جانا ہے،،،،،،،۔

عالم شاہ اس وقت فارم ہاؤس میں تھا اور اس کے کمرے میں حورعین کی آوازیں گھونج رہیں تھی وہ اس کی پل پل کی خبر رکھے ہوئے تھا،،،،،،بے ہوش ہونے سے ہاسپٹل جانے سے ڈاکٹر کی ہر بات کی اسے خبر تھی ۔

اس وقت بھی کمرے میں حورعین کے بولے فکرے گھونج رہے تو،،،،،،،اپنی پہنچ سے اس نے کمرے میں حورعین پر کیمرا لگا رکھا تھا ۔

ڈاکٹر اسے پل پل کی خبر دے رہے تھے ۔

اس کے ہاتھ سے نکلتے خون اور اس کی حالت دیکھنے کے بعد عالم شاہ ضبط کی انہتا پر تھا ہاتھ میں پکڑا گلاس کب سے چکنا چور ہو کر اس کے ہاتھ کو خون آلود کر چکا تھا۔

پر عالم شاہ کی نظر ٹیوی پر چلتی حورعین پر تھی جس کی ویڈیو ابھی ابھی اسے معصول ہوئی تھی اور اس کا ایک ملازم اسے لگا کر گیا تھا ۔

اگر تمہیں کچھ ہو گیا حورعین تو عالم بھی سچ میں مر جائے گا،،،،،،،،عالم بے اختیار ہی اٹھا تھا اور اپنا خون سے بھرا ہاتھ اس نے ٹی وی پر حورعین کے چہرے پر لگایا ۔

شاہ صاحب میں آ جاؤں،،،،،،،،،؟؟

ہاں آ جاؤ،،،،،،،،،عالم شاہ پیچھے ہٹتے ہوئے اس سے بولا ۔

شاہ صاحب آپ کا کام ہو گیا ہے،،،،،،ڈاکٹر سے بات ہو گئی ہے انہوں نے بولا ہے کام ہو جائے گا ۔

رات کو حورعین بی بی آپ کے پاس ہو گئی،،،،،،،ملازم کی بات سن کر اس نے سر ہلایا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا کہا۔

میں تمہیں کبھی بھی کچھ نہیں ہونے دوں گا تم میرا عشق میرا پاگل پن ہو نین،،،،،،،،،،،،،وایک جنون اور ضد سے بولا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شایان نے گاڑی زرمین لوگوں کے گھر کے آگے روکی تھی جہاں وہ پہلے رہتے تھے ۔

تم نے کہا آپی ہاسپٹل میں ہیں،،،،،،،،،ماہ نور گھر کو دیکھتے ہوئے بولی ۔

نہیں بھائی کا میسج آیا تھا وہ ان کو گھر لے کر آ گئے ہیں،،،،،،،،،،شایان بولتے ہوئے گاڑی کو گیٹ کے اندر داخل کیا ماہ نور چپ کر کے بس بیٹھی رہی اور گاڑی اندر داخل ہوتے ہی باہر نکلی تھی ۔

شایان اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے قدم لے رہی تھی ۔

جیسے جیسے ماہ نور اندر داخل ہو رہی تھی بہت سی یادیں جو اپنے بابا کے ساتھ تھی وہ یاد آنے لگی اور ماہ نور کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے ۔

وہ دونوں سیدھا زین کے کمرے کی طرف گئے تھے ۔

وہ دونوں اندر گئے تو،، زرمین کو ڈاکٹر چیک کر رہا تھا ۔

ماہ نور بس چپ سی زرمین کو دیکھنے لگی جس کا رنگ پیلا زرد اور کمزوری سی لگ رہی تھی ۔

آپی،،،،،،،،،،،ماہ نور کے پکارنے پر زرمین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی،،،،،،اور خوش ہوتے ہوئے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ماہ نور دورتے ہوئے اس کے پاس گئی ۔

ڈاکٹر اب زین کو سب بتا رہا تھا اور وہ زین شایان تینوں باہر نکل گئے ۔

آپی کیا ہوا ہے آپ کو شایان نے مجھے بتایا آپ ہاسپٹل ہیں تو میری جان نکل گئی،،،،،،،،،،ماہ نور زرمین کو چومتے ہوئے بولی تھی ۔

میری جان میں بالکل ٹھیک ہوں بس یہ چھوٹا سا پنڈیس کا آپریشن تھا اور کچھ خاص نہیں،،،،،،،،زرمین باقی کی بات اس سے چھپا گئی ۔

آپی بہت درد ہوا،،،،،،،،؟؟ماہ نور کے بچوں والے انداز پر زرمین مسکرا دی اور اسے ساتھ لگا لیا ۔

اب بھی درد ہے آپ کو،،،،،،،،،،،،،؟؟زرمین کے ساتھ لگی بولی تھی جو تاکیہ کے سہارے بیٹھی ہوئی تھی ۔

نہیں میری جان آ گئی ہے اب میں بالکل ٹھیک ہوں،،،،،،،،،،،،زرمین اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔

ماہ نور اس کے ساتھ لگی رونے لگی تھی ۔

آپی بابا ہمیں کس کے سہارے اکیلا چھوڑ گئے،،،،،،کاش کوئی اپنا ہوتا،،،،،،،،میرا دل کرتا ہے میں کہیں چھپ جاؤں اور پھر کسی کو نہ ملوں،،،،،،،،،،،ماہ نور روتے ہوئے ہوئے اس کی گود میں سر رکھ گئی ۔

زرمین کو تکلیف ہو رہی تھی پر پھر بھی وہ ماہ نور سے مسکرا کر ہی بات کر رہی تھی ۔

بچے ایسا نہیں کہتے میں ہوں نہ آپ کی آپی ہمیشہ آپ کے پاس رہوں گی جب بھی پکارو گی آ جاؤں گی،،،،،،،،،،وہ بولی تو اس کی ساتھ ہی کراہ نکلی تھی ۔

سوری سوری آپی آپ آرام سے لیٹ جائے یار،،،،،،،ماہ نور اسے سہارا دے کر لیٹایا ۔

میں ٹھیک ہوں یار میرے پاس بیٹھ جاؤ مجھ سے باتیں کرو کیسا لگا شایانِ کا گاؤں،،،،،،،،،۔

آپی شایان زین بھائی کا سوتیلہ بھائی ہے اور میں ان کے گھر میں ہی رہتی ہوں،،،،،،،،ماہ نور بتایا تو زرمین پریشان ہو گئی ۔

انہوں نے تمہیں کچھ کہا تو نہیں ماہ نور،،،،،،،شایان نے تمہیں کچھ کہا،،،،،،،،،زرمین پریشانی سے بولتے ہوئے اُٹھا کر بیٹھنے لگی تھی ۔

آف آپی آرام سے لیٹی رہیں،،،،،سب ٹھیک ہے ایسا کچھ بھی نہیں جیسا آپ سوچ رہیں ہیں پرسوں ریسپشن ہے میرا آپ فکر مت کریں آپ کی ماہ نور بالکل ٹھیک ہے،،،،،،،،،،ماہ نور خوش ہوتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولی ۔

بس آپ نے اپنا حیال رکھنا ہے،،،،،،،،۔

میں ٹھیک ہو جاؤ تھوڑی سی تو واپس چلی جاؤں گی اپنے فلیٹ میں،،،،،،،،،زرمین پھیکا سا مسکرا دی ۔

آپی ،،،،،،،۔

تب ہی اندر زین اور شایان بھی داخل ہوئے تھے زین اس کی بات سن چکا تھا۔

کسی ہو ماہ نور،،،،،،،،،،؟؟

ٹھیک ہوں،،،،،،،،ماہ نور روڈ سا بول کر زرمین سے باتیں کرنے لگی ۔

آپ کیسی ہیں آپی  سوری اس وقت ڈاکٹر کے ساتھ باہر چلا گیا سوچا آپ باتیں کر لیں،،،،،،،شایان پاس چئیر پر بیٹھ کر بولا ۔

میں بہتر ہوں اب،،،،،،،،،زرمین مسکرا دی ۔

بس میری ماہ نور کا بہت زیادہ حیال رکھنا شایان میری جان ہے یہ،،،،،،،،زرمین ماہ نور کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جو اس کی بات سے مسکرا بھی نہیں سکی تھی ۔

جی آپی شایان نے سر ہلایا تھا اور اوکے کیا ۔

زین کا سارا دھیان زرمین پر تھا جو تکلیف میں لگ رہی تھی ۔

زرمین میڈیسن کھا لینی تھی،،،،،،،ٹائم ہو گیا ہے،،،،زین بولا تو زرمین  سر ہلا کر ماہ نو رکا سہارا لیتے ہوئے اُٹھی اور میڈیسن کھائی تھی ۔

دونوں کافی دیر وہاں رہے تھے پھر رات کا وقت ہونے لگا تو شایان جو نیچے زین کے پاس تھا واپس اوپر آیا ۔

چلیں ماہ نور،،،،،،،،،،،،؟؟

مجھے نہیں جانا آپی کے پاس رہنا ہے،،،، ،،ماہ نور نے صاف انکار کر دیا تھا ۔

بری بات ہے ماہ نور پھر آ جانا،،،،،،،زرمین اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی ۔

آپی آج برات ہے اسی لیے جانا ضروری ہے ورنہ شاید ماہ نور کو یہی چھوڑ جاتا،،،،،،،،،،،،،شایان کو ماہ نور کی بات سن کر غصہ آیا پر کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔

کوئی بات نہیں جا رہی ہے ماہ نور تمہارے ساتھ،،،،،،،،،،،زرمین مسکراتے ہوئے بولی جس پر ماہ نور نے منہ بنایا اور زرمین کے ساتھ مل کر شایان کے ساتھ گھر کے لیے نکل گئی۔

زرمین کافی دیر سے اکیلی تھی،،،،،،پھر اپنی ہمت جمع کرتے ہوئے اُٹھی اور درد کے باوجود بیڈ سے کھڑے ہو کر آُٹھتے ہوئے واش روم کی طرف جانے لگی تھی کے درد کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں اُٹھی تھی اور وہ وہی کراہ کر نیچے گیری ۔

زین اندر آ رہا تھا اس کی آواز سنتے ہوئے جلدی سے اندر کمرے میں آتے ہوئے زرمین کی طرف بڑھا اور اسے اُٹھانے کی کوشش کی ۔

میں خود اُٹھ سکتی ہوں،،،،،،،،،،،زرمین نے اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ پیچھے جھٹک دیا تھا اور دوبارہ کوشش کی پر درد کی وجہ سے اَٹھ نہیں پائی ۔

میں کر رہا ہوں نہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ نہیں اُٹھنا زیادہ،،،،،،،،،،،زین سخت لہجے میں بولا ۔

میں بھی آپ کو کہہ رہیں ہوئے مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے سنا آپ نے،،،،،،،،میں درد سے مر جاؤ آپ کو خوش ہونا چاہیے،،،،،،آپ کو تو مزا آتا ہو گا مجھے درد میں دیکھ کر،،،،،،،،،زرمین نے دوبارہ اس کا ہاتھ جھٹکا تھا اور تیز لہجے میں بولی ۔

جسٹ شٹ آپ زرمین ،،،،،،،،مجھے کرنے دو،،،،،،،،اس نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے سہارا دینا چاہا ۔

نہیں کہا تھا دور رہیں مجھ سے،،،،،،،زرمین نے ہاتھ ایک دفع پھر سے جھٹک دیا ۔

زین نے اسے غصے سے دیکھا اور اس کے بولنے کی پرواہ کئے بغیر اس کو باہوں میں اُٹھا کر واش کی طرف بڑھ گیا ۔

اسے آرام سے وہاں کھڑا کر کے خود باہر آ گیا ۔

جب وہ باہر نکلی تو زین کو سامنے کھڑے دیکھ کر منہ بنا کر وہاں سے اہستہ سے جانے لگی تھی کے زین نے پھر ایسا ہی کیا اور اسے بیڈ پر آرام سے لیٹا کر اس پر کمفرٹ درست کرنے کے بعد پیچھے ہٹا ۔

پہلے کہہ دیتی میری باہوں میں آنا چاہتی ہو،،،،،،،،زین اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سیریس سا بولا ۔

مجھے کوئی شوق نہیں ہے،،،،،،زرمین غصے سے بولی ۔

زین ائبرو اُٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے وہاں سے باہر چلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

یہاں کیوں لے کر آئے ہو،،،،،،،،،،،،؟؟ماہ نور اسے اس کے فلیٹ کی بلڈنگ کے پاس گاڑی روکتے ہوئے دیکھ کر بولی ۔

یہاں سب ہے تمہارے لیے تم تیار ہو جاؤ اور ہم یہاں سے سیدھا ہال جائے گئے کیونکہ گھر واپس جا کر پھر تیاری کرنے میں وقت لگا جائے گا،،،،،،،،،،شایان باہر نکلا تھا اور اسے لے کر فلیٹ کی طرف چلا گیا دونوں اندر داخل ہوۂے ۔

یہاں میرے کپڑے ہیں،،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور کا انداز سوالیہ تھا ۔

جی ہیں جب تم اپنی بہن کے پاس تھی سارا انتطام کر دیا تھا،،،،،،،،اسی لیے اتنی دیر بیٹھنے دیا ورنہ میں کبھی بھی تمہیں اتنی دیر نہ بیٹھنے دیتا،،،،،،،،،،،،،شایان کی بات سن کر ماہ نور منہ میں بڑبڑاتے ہوے کمرے کی طرف بڑھ گئی تاکہ تیار ہو سکے ۔

ماہ نور نے کپڑے پہنیں تھے،،،،بالوں کو بریش کرنے کے بعد اپنی سینڈل بند کر رہی تھی کے شایان اندر کمرے میں داخل ہوا اس کا دھیان ماہ نور کی طرف گیا جو ریڈ کے نیٹ کے فراک میں جس پر گولڈن کلر کا کام تھا ڈوپٹہ سے بے نیاز اپنی سینڈل سے لڑنے میں مصروف تھی ۔

سینڈ پہن کر اوپر اُٹھی تو شایان کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ماہ نور نے گھبراتے ہوئے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے اڑھایا تھا ۔

یہ کیوں نہیں پہنیں،،،،،،،،،وہ ڈریسنگ پر پڑھے اس کے جمکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

میں نہیں پہین سکتی،،،،،،ماہ نور نے ڈوپٹہ لیا تھا اور بول کر باہر جانے لگی ۔

کیوں کوئی خاص وجہ،،،،،،وہ اسے کلائی سے تھام کر اپنے روبرو کرتے ہوئے ائبرو اُٹھا کر بولا ۔

یہ دیکھو یہاں بھی تمہیں اپنی درندگی کے نشان ملے گئے،،،،،،،،،،،،،ماہ نور کے اشارہ کرنے پر شایان نے دیکھا تھا اس کے کانوں میں کاچے زخم تھے،،،،،،،جہاں سے ابھی خون جھلک پڑھے گا ۔

ایم سوری ماہ نور،،،،،،،،،،شایان کو شرمندگی ہوئی ۔

تمہاری سوری میری رُخ پر لگے زخم کو مٹا دے گی،،،،،،،،،،،،نہیں شایان شاہ کبھی بھی نہیں،، ،میری محبت تمہارے لیے ختم ہو چکی ہے اور اب کچھ مت  کہنا کیوں کہ میرے اندر اب اور برداشت نہیں ہے،،،،،،،،،،ماہ نور ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی ۔

چھوڑو مجھے یا زبردستی کرو گئے کے پہن کر جاؤں،،،،،،،،،،ماہ نور نے اس پر طنز کیا ۔

شایان نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا،،،،،،ماہ نور چپ چاپ باہر نکل گئی،،،،،،،شایان جو بالوں کو کنگی کرنے آیا تھا وہ بینا کنگی کئے،،،،،،،،،،،باہر کی طرف نکل گیا اور دونوں شادی کے لیے چلے گئے تھے ماہ نور کے ساتھ کئے سلوک کا اب شایان کو دُکھ ہو رہا تھا ۔

زین کو اپنے کئے پر شرمندہ اور تکلیف میں دیکھ کر شایان کو بھی احساس ہوا کے وہ کیا کچھ کر چکا ہے ماہ نور کے ساتھ ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شاہ جی کام ہو گیا ہے،،،،،،،،عالم شاہ ایک فون سننے کے بعد فارم ہاؤس سے نکل گیا تھا ۔

اب وہ سیدھا ہاسپٹل کے راستے پر تھا جہاں اس کی دشمن جان بیمار تھی ۔

ہاسپٹل میں وہ ڈاکٹر سے بات کر چکا تھا،،،،،،مسسز سلمان اور سلمان صاحب ہی ہاسپٹل تھے انہوں نے صائم کو گھر بھیج دیا تھا ۔

عالم نے کسی طریقے سے ان دونوں کو بے ہوشی کی دوائی کھلاوائی تھی اور حورعین کو دوسرے روم میں شیفٹ کیا گیا تھا ۔

ڈاکٹر باہر نکل گئے تھے،،،، عالم شاہ اندر داخل ہوا ۔

سامنے حورعین کی طرف دیکھا جو بیمار سی ہاسپٹل کے بیڈ پر پڑھی ہوئی تھی،،،،،،،جب سے اسے ڈاکٹر سے پتہ چلا تھا کے اس کی حالت اسی طرح رہی تو اسے برین ہیمرج ہو سکتا ہے تب سے عالم کا دل بے چین سا تھا۔

وہ حورعین کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔

نین دیکھو تمہارا شاہ تمہارے پاس آ گیا ہے،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کے کان میں سرگوشی نما بولا اور اس کے چہرے پر بکھیرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھ دئے ۔

نین اُٹھ جاؤ میری جان ورنہ میں چلا جاؤں گا،،،،،،،،،،،،،،،،عالم کا اتنا کہنا تھا کے حورعین نے آنکھوں کو کھول دیا ۔

شاہ جی آپ آ گئے،،،،،،،،،،وہ آنکھوں کو کھولتے ہوئے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھام کر مسکرائی ۔

جی میری جان تمہارا شاہ تمہارے پاس آ گیا ہے ۔

شاہ جی میں نے کہا تھا ماما بابا کو شاہ جی کو جب پتہ چلا کے میں ٹھیک نہیں ہوں وہ دورتے ہوئے آئے گئے مجھے پورا یقین تھا،،،،،،،،،،،،،حورعین کے لہجے میں مان تھا جس کو محسوس کرتے ہوئے عالم مسکرا دیا ۔

میری جان اب جلدی سے ٹھیک ہو جائے،،،،،،،عالم شاہ اس کے پاس بیڈ پر جگہ بنا کر بیٹھ گیا ۔

شاہ جی میرے پاس لیٹ جائے،،،،،،مجھے آپ چاہے بس،،،،،،،وہ اسے خود کی طرف کھنچتے ہوئے اپنے پاس کر گئی ۔

اب اس طرح تھا کے عالم شاہ آدھا بیڈ پر آ بیٹھا تھا اور حورعین اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی ۔

شاہ جی مجھے کبھی مت چھوڑ کر جانا ورنہ آپ کی نین مر جائے گی،،،،،،،،،،،حورعین اس کے کرتے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نم لہجے میں بولی ۔

نین آئند مرنے کی بات مت کرنا ورنہ میں بہت برا پیش آؤں گا تمہارے ساتھ،،،،،،،،،،،،وہ حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے اس انداز میں بولا کے حورعین مسکرا دی ۔

شاہ جی،،،،،،،،؟؟

جی،،،،۔

اگر میں مر جاتی تو. آپ روتے، ،،،،،،،،،،؟؟ حورعین کے سوال پر عالم نے اسے گھوری سے نوازا ۔

زیادہ اس طرح کی باتیں کرنی ہیں تو میں چلا جاتا ہوں،،،،،،،،وہ اس کی طرف دیکھتے بول کر اٹھنے لگا۔

شاہ جی نہیں نہیں پلیز مجھے اکیلے مت چھوڑنا ورنہ آپ کی نین،،،،،،،،وہ ابھی بول رہی تھی کے عالم شاہ اسے اپنے لمس سے روشناس کروانے لگا۔

آئند ایسا مت کہنا،،،،،،،اس کے ہونٹوں کو آزادی دیتے ہوئے بولا جس پر حورعین گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے عالم شاہ کے سینے پر سر رکھ گئی ۔

پھر ساری رات عالم نے حورعین سے باتیں کی اور پھر ڈاکٹر کے آنے پر اسے انجکش لگایا ۔

شاہ جی مجھ سے دور مت جانا مجھے چھوڑ کر مت جانا،،،،،،،،،،،،وہ غنودگی میں جاتے ہوئے بول رہی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے اسے آرام دے انجکشن لگایا تھا تا کہ وہ سو سکے ۔

عالم شاہ کتنی ہی دیر اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہا اور پھر اسے آرام سے بیڈ پر لیٹا دیا،،،،،،،عالم کے سامنے ہی اس کو وہاں سے لے جا کر دوسرے اس کے روم میں شفٹ کر دیا۔

عالم نے جاتے ہوئے اس کو دیکھا اور پھر گھر کی طرف نکل گیا ۔

آج اس کے صرف حورعین کی وجہ سے شادی تک اٹینڈ نہیں کی،،،،عالم جس طرح آیا تھا ایسی طرح واپس بھی چلا گیا ۔

صبح حورعین سو کر اُٹھی تو اپنے ارد گرد دیکھنے لگی،،،،،،مسسز سلمان پاس بیٹھی صائم سے باتیں کر رہیں تھی ۔

ماما شاہ جی کہاں گئے،،،،،،،،،؟؟ حورعین کی بات سن کر دونوں نے اس کی طرف دیکھا ۔

حورعین تمہارے شاہ جی گھر گئے ہیں وہ کہہ کر گئے ہیں کے تمہارا حیال رکھیں ہم،،،،،،،،،مسسز سلمان کو لگا شاید وہ ٹھیک نہیں ہے اسی لئے اس طرح کہہ رہی ہے وہ نہیں چاہتی تھی کے پھر سے وہ کچھ غلط کرے یا رونا شروع کر دے ۔

آف ماما ساری رات وہ میرے پاس تھے میں تو لیٹی ہوئی تھی وہ بیچارے تھک گئے ہوں گئے آسی لیے چلے گئے ہیں،،،، انہوں نے کہا ہے کے مجھے کبھی بھی نہیں چھوڑ کر جائے گئے میرے پاس ہمیشہ آتے رہے گئے اور میں ٹھیک ہو گئی تو مجھے اپنے ساتھ لے جائے گئے،،،،،،،،،،،،حورعین  خوش ہوتے ہوئے بولی تو صائم اور مسسز سلمان اسے بس دیکھ کر رہ گئے تھے ۔

اپنے شاہ جی تو تمہیں یاد ہیں تمہارا بھائی کتنی دن سے یہاں پاکستان آیا ہوا ہے اسے تو تم یاد نہیں کرتی اور نہ دیکھتی ہو،،،،،،،،،،،،،صائم اس کے سامنے کھڑے ہو کر مصنوعی غصے سے بولا ۔

بھائی یییییی آپ کب آئے،،، حورعین خوش ہوتے ہوئے اس کے گلے لگی تھی جس کو صائم نے پیار کرتے ہوئے گلے لگا لیا ۔

میرا بچہ کیسا ہے،،،،،،،؟؟

بہت پیارا بھائی،،،،،،،حورعین ہنستے ہوئے بولی جس پر مسسز سلمان بھی خوش ہو گئی کے حورعین کی حالت ٹھیک ہے ۔

تو پھر کریں ڈاکٹر سے بات آپ کے گھر جانے کی،،،،،،،،،،،،،صائم ہنستے ہوئے بولا ۔

جی بھائی مجھے گھر جانا ہے میں تھک گئی ہوں اس بیڈ پر بیٹھ کر اور لیٹ لیٹ کر،،،،،،،،،حورعین بے زاریت لیے بولی ۔

اوکے آتے ہیں ڈاکٹر تو بات کرتا ہوں میں،،،،،،،،،،،صائم نے اس کے سر پر پیار کیا تھا ۔

جی بھائی پھر میں شاہ جی کے پاس بھی چلی جاؤں گی،،،،،،،،حورعین خوش ہوتے بولی ۔

صائم اور مسسز سلمان نے آیک دوسرے کی طرف دیکھا تھا ۔

جی پر کچھ دن تو تم ہمارے ساتھ ہی رہو گئی میں تمہیں تمہارے شاہ جی کے پاس بالکل بھی جانے نہیں دے سکتا،،،،،،،،،،،،،صائم مصنوعی غصے سے بولا تو حورعین ہنس دی ۔

دور کہیں دو نظروں نے اس کی مسکراہٹ دیکھ کر سکون کی سانس لی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

بارات کا دن بھی گزر گیا اور ولیمہ کا بھی حورعین گھر آ چکی تھی اور صائم اور مسسز سلمان پریشان تھے کیونکہ وہ پھر سے شاہ جی شاہ جی کر رہی تھی اور ان سے ملنے کا بول رہی تھی ۔

اور آج صائم جانتا تھا کے آج انابیہ اور عالم شاہ کے نکاح کا دن ہے اور آج نئے دھماکے ہونے والے تھے سب کے سروں پر،،،،،،،،صائم نے سب کچھ سلمان صاحب کو تو بتا دیا تھا وہ خود بہت پریشان سے تھے ۔

اسی لیے دونوں نے سوچا تھا کے آج صائم گاؤں جائے گا حورعین کو لے کر،،،،،،،اسی لیے حورعین خوشی خوشی تیار ہو رہی تھی ۔

بھائی میں تیار ہوں چلے،،،،،،،،،،،حورعین نیچے آتے ہوئے بولی جس نے سفید رنگ کا فراک پہن رکھا تھا اور اس پر رنگین ڈوپٹہ بہت کیوٹ لگا رہا تھا اسے،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان نے اس کی نظر اتاری تھی اور اسے پیار کرتے ہوئے وہاں سے بھیج دیا ۔

پر سب آنے والے وقت سے انجان تھے کے وقت کون کون سا طوفان لے کر آنے والا ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور سر جھکائے کسی سوچ میں گم تھی،،،،،،،اس وقت وہ برائیڈل روم میں بیٹھی ریسپشن کے لیے مکمل تیار تھی بس انتظار تھا تو شایانِ کا جو ابھی تک نہیں آیا تھا بارات کے دن کا گیا واپس نہ آیا اس رات دونوں کی لڑائی ہوئی تھی جس کی وجہ سے شایان غصے سے وہاں سے چلا گیا اور ولیمہ تک اٹینڈ نہیں کیا ۔

ماہ نور کی سوچ پھر سے اس رات پر گئی تھی،،،،،،،،،جب وہ دونوں واپس گھر آئے تھے اور ماہ نور اپنے پاؤں کو سینڈل سے آزاد کیا ۔

تب ہی اندر شایان داخل ہوا اسے دیکھتے ہوئے اس کی طرف بڑھا تھا۔

ماہ نور اس کو دیکھتے ہوئے اگنور کر کے وہاں سے جانے لگی ۔

بہت پیاری لگ رہی ہو ماہ نور،،،،،،،،،،شایان اس کا ہاتھ تھام کر اسے قریب کر گیا ۔

ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا تو شایان کو اس کی نظروں سے شرمندگی محسوس ہوئی کیونکہ اس کی نظروں میں اسے اپنے لئے بے یقینی ہی نظر آئی تھی ۔

ہاتھ چھوڑ دو اور دور رہا کرو مجھ،،،،،،،،،،ماہ نور غصے سے ہاتھ چڑوا کر وہاں سے جانے لگی ۔

ماہ نور،،،،،،،،،،۔

اب دوبارہ ہواس پوری کرنے آئے ہو مجھ سے،،،،،،،،،،ماہ نور غصے سے چیخی ۔

بیوی ہو میری اگر ہواس پوری کرنی ہوتی تو اس وقت تم میرے گھر میں نہ ہوتی بلکہ کب کا پوری کر کے تمہیں وہی چھوڑ آتا تھا کون ہے تم لوگوں کا جو تم لوگوں کو ہم جیسے طاقت ور لوگوں سے انصاف دلا سکتا،،،،،،،،،،،،،بتاؤ کوئی تھا،،،،،،،،؟؟مجھے محبت ہے تم سے،،،،،،،،،،،،،شایان کو اس کی بات سے غصہ ایا اور جو اس کے منہ میں آیا بولتا گیا ۔

ماہ نور نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا ۔

مجھے نفرت ہے تم سے شایان شاہ،،،، ،جب جب تم مجھے چھوتے ہو یا میرے قریب آنے کی کوشش کرتے ہو تم میرا دل کرتا ہے اپنا وجود جلا کر راکھ کر لوں،،،،،،،،،،،،۔

میں نے کہا تھا شایان شاہ تمہاری محبت میرے دل میں دفن ہو چکی ہے اور اس کی قبر بھی میں نے نہیں بنائی کیوں کے میں قبروں پر بیٹھ کر رونے والوں میں سے نہیں ہوں،،،،،،،میں آگے بڑھ جانے والوں میں سے ہوں۔

اور دوسری بات محبت کا نام مت دینا اس کو اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوتی تو آج میرے اندر وہ لڑکی ََزندہ ہوتی جیسے شایان سے محبت تھی ۔

تمہاری انا اور خاندان کی عزت نے ہماری محبت کھا لی،،،،،،،،،،،،اب صرف اور صرف ایک ایسا رشتہ ہے جو جلد یا بدیر ٹوٹ جائے گا،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سب کہا تھا ۔

اکیسکوزمی میں چینج کر لوں آپ جا سکتے ہیں،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے اندر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔

شایان اس کی باتیں سن کر اندر تک کانپ گیا تھا ۔

ماہ نور،،،،،،،،سب سوچتے ہوئے ماہ نور اک دم سے سیدھی ہوئی سامنے ہی شایان کھڑا تھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔

ماہ نور  اسے کھوئے کھوئے انداز میں دیکھ رہی تھی جیسے کسی خواب میں گم ہو ۔

چلیں ہمیں جانا ہے پھر انابیہ اور بھائی کا نکاح ہے،،،،،،،،،،،،،شایان بولا تو ماہ نور ہوش میں آتے ہوئے سر کو ہلا گئی ۔

شایان نے اس کے آگے ہاتھ کیا تھا،،،،،،ماہ نور نے اس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے خود ہی کھڑی ہو گئی،،،،،،،شایان کو برا لگا پر وہ لب بھیچ گیا ۔

اور آگے بڑھ کر اس کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے قریب کر گیا ۔

ماہ نور نے گھبراتے ہوئے اسے دیکھا ۔

چلو،،،،،،،،،ماہ نور ابھی بولتی وہ اسے لے کر باہر کی طرف بڑھ گیا،،،ماہ نور ناچارا چپ کر کے اس کے ساتھ چلنے لگی کیوں کے سامنے ہی کیمرا مین کھڑا تھا اور اب وہ ان کے علیحدہ علیحدہ پوز بنوانے لگا جس سے شایان تو خوش تھا پر ماہ نور کو غصہ ا رہا تھا ۔

بس کر دیں اب،،،،،،ان کو بولو بس کر دیں ورنہ میں ان کا منہ توڑ دوں گی،،،،،،،کیمرا مین نے ایک پوز بنایا جس سے وہ دانت پیستے ہوئے شایان کی طرف دیکھ کر بولی ۔

شایان نے اپنی ہنسی چھپائی تھی اور کیمرا مین کو منا کر دیا ۔

اور اسے لے کر سینڈج کی طرف بڑھ گیا،،،، ،،سب ہی وہی تھے،،،،دونوں کا بہترین طریقے سے استقبال کیا گیا ۔

تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ سب کے پاس گیا ۔

بابا عالم بھائی کدھر ہیں ابھی تک آئے نہیں ہیں،،،،،،،،،،،،،،؟؟ شایان نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو خود عالم شاہ کو کال کر رہے تھے ۔

نہیں ابھی تک نہیں آیا پر جلدی ہی آ جائے گا،،،،،،،،،،،،،،حیسن صاحب بولے سلطان شاہ بھی پریشان تھے عالم کے نہ آنے پر،،،،۔

تب ہی اندر حورعین اور صائم داخل ہوئے تھے یہ تینوں حویلی کی دوسری طرف کھڑے تھے جہاں یہ ہال تھا ایسی لیے وہ سب بھی ادھر ہی آ گئے ۔

یہ لڑکی پھر سے ا گئی ہے اس بھول میں مت رہنا کے تم عالم کی زندگی میں آؤ گی کبھی بھی،،،،،،،،،،،،،،،،سلطان شاہ اونچی آواز میں غرائے ۔

صائم نے ان کو سرد نظروں س دیکھا ۔

حورعین بچے ماہ نور آپی ہے نہ تمہاری تم ان سے مل کر آؤ میں بات کر لوں،،،،،،،،،،،،صائم پریشان سی حورعین کو بولا جو سر ہل کر وہاں سے چلی گئی ۔

کس کے ساتھ دوسرا نکاح کریں گے آپ لوگ میری بہن کے شوہر کا،،،،،،،،،،،،،صائم پرسکون انداز میں بولا ۔

انابیہ کے ساتھ،،،،،،،،؟؟  وہ ائبرو اُٹھا کر پرسکون انداز میں بولا انداز سوالیہ ۔

لڑکے زیادہ بکواس مت کرو اور جاؤ یہاں سے اور اپنی بہن کو بھی لیتے جانا،،،،،،،،،،،،سلطان شاہ کے بولنے پر صائم مسکرا دیا ۔

جی فکر مت کریں ساتھ اپنی بیوی کو بھی لے کر جاؤں گا،،،،،،،،،،،صائم مسکرایا ۔

کیا بکواس ہے یہ،،،،،،،،،،،حیسن شاہ بولے،،،شایان ابھی چپ تھا کیونکہ بڑے بول رہے تھے ۔

جی سسسر جی اپنی بیوی انابیہ کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا جو میرے نکاح میں ہے،،،،،،،اسی لیے آپ کی عزت اسی میں ہے عالم شاہ کا نکاح سب کے سامنے میری بہن کے ساتھ اور انابیہ کا نکاح میرے ساتھ پڑھا دیں،،،،،،،،،،،،،،،صائم کندھے اچکا کر بولا ۔

کیا بکواس کر رہے ہو لڑکے،،،،،،،،،سلطان شاہ چیخے حیسن اور شایان کو بھی اس کی بات سن کر غصہ آیا ۔

نکاح نامہ بھی ہے میرے پاس جیسے آپ کے بیٹے نے زبردستی کی ہے ویسے میں نے بھی آپ کی بیٹی کے ساتھ زبردستی نکاح کیا ہے بس فرق اتنا ہے کے میں اسے رسوا نہیں کرنا چاہتا اسی لیے یہاں آیا ہوں عزت کے ساتھ ورنہ  کل کو مجھے کچھ بھی کیا آپ لوگوں نے تو میرے دوست ساری پول کھول دیں گئے آپ لوگوں کی،،،،اور کچھ نہیں بچے گا آپ کے پاس عزت بھی نہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،صائم مکمل طور پر سکون میں تھا پر وہاں کھڑے ہر شخص کا سکون خراب کر چکا تھا ۔

تم جھوٹ بول رہے ہو،،،،،،،،،،؟حسین شاہ کو اپنی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔

انابیہ کو بلا لے یہاں پر،،،،،،،صائم بولا تو شایان نے غصے سے اس کی طرف دیکھا ۔

میں خود بات کرتا ہوں ان سے،،،شایان بول کر اندر چلا گیا ۔

سلطان شاہ اور حیسن شاہ بھی سوچ میں پڑھ گئے تھے ۔

صائم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

سب باہر جائے مجھے بات کرنی ہے،،،،،،،وہاں بیٹھی لڑکیوں کو شایانِ نے کہا جو سب وہاں سے چلی گئی ۔

میری بات سننے اور مجھے سچ سچ بتائیں کیا آپ کے ساتھ حورعین کے کے بھائی نے زبردستی نکاح کیا ہے،،،،،،،،؟؟شایان سیدھا بات پر آیا ۔

کس نے کہا تم سے،،،،،،،،،؟؟انابیہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولی ۔

وہ باہر کھڑا ہے اور اس نے کہا ہے کہ،،،،،،،پھر شایان نے ساری بات بتا دی ۔

انابیہ روتے ہوئے پاس صوفے پر بیٹھ گئی ۔

کیا بات ہے بتا دیں مجھے آپ اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تو بھی بتا دیں،،،،،،،،،،،شایان اس کے پاؤں میں بیٹھا ایک بھائی ہونے کا مان دے رہا تھا ۔

شایان مجھے صائم سے محبت ہے اس نے میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی میں نے خود سب اپنی مرضی سے کیا ہے یہ نکاح بھی،،،،،،،،،،،،،انابیہ کے بولنے پر شایان نے اس کے ہاتھوں پر جو اپنے ہاتھ رکھے تھے وہ پیچھے کر لیے ۔

شایان تم ہی بتاؤ کیا کسی ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے جو آپ سے محبت تو دور کی بات آپ سے بات تک کرنا نہ پسند کرتا ہو،،،،،،،،،،شایان کو پیچھے ہٹتے دیکھ کر انابیہ نے اس کے ہاتھ تھام کر کہا ۔

آج اس شخص جس کے میں نکاح میں ہوں اس نے سارا الزام خود پر لے کر یہ ثابت کر دیا ہے کے اس شخص کو سچ میں مجھ سے محبت ہے شایان، ،،،،،،،،،،،،،،تم نے عالم شاہ کو دیکھا حورعین سے محبت کا دعوٰی کرتا ہے پر وہ اسے  بھری محفل  کھنچتے ہوئے اس خویلی سے نکالنے کے لیے لے کر گیا تھا ۔

تم سوچوں تمہاری بہن کتنی لکئی ہے جو اسے صائم جیسا انسان ملا جس نے کہا تھا کے وہ اسے رسوا نہیں ہونے دے گا اور آج اس نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا،،،،،،،،،،،،،،،انابیہ بول رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ چہرے پر فخر تھا۔

جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہیں ہوں مجھے فخر ہے اپنی محبت پر ۔

شایان نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تھی اور پھر اُٹھ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عالم بھی وہاں پہچا تو سارا منظر بدلنے پر حیران تھا پر ایک انا بھی تھی کے اس کی منگ کا نکاح کسی اور سے پر سلطان شاہ کے اگے چپ کر گیا ۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انابیہ کا نکاح صائم کے ساتھ اور حورعین کا نکاح عالم شاہ کے ساتھ ہوا تھا کوئی اور خوش ہو نہ ہو ماہ نور بہت خوش تھی اس سب سے ۔

انابیہ کو صائم کے پاس لا  کر بیٹھایا تھا،،،،،،،،،،ماہ نور کے ساتھ حورعین خوشی سے سب دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ دلہن کے روپ میں نہیں تھی اسی لئے عام سے انداز میں وہی سب کے بھیچ کھڑی خوش تھی کے اس کے بھائی کا نکاح ہی ہے ۔

انابیہ کے چہرے کی خوش دیکھنے لائک تھی ۔

انابیہ زیادہ خوش مت ہو لوگوں کو شک ہو جائے گا،،،،،،،،،،،،صائم اس کے پاس بیٹھا اہستہ آواز میں بولا ۔

نہیں میں تو نہیں خوش،،،،،،،،انابیہ خیرات زدہ سی بولی ۔

تمہارا چہرا بتا رہا ہے تمہاری خوشی کو،،،،،،،،،صائم نے اس کی طرف دیکھا تھا اس کے اس طرح بولنے سے گھبرائی سے چپ کر کے سر کو جھکا گئی ۔

میں نہیں چاہتا کے تمہارے سڑے ہوئے کزن کو شک ہو اور وہ مجھے کچا کھا جائے،،،،،،،،،،،،،،صائم بولا تو انابیہ مسکرا دی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،پر وہ اس مسکراہٹ کو چھپا گئی ۔

عالم شاہ کا غصے سے برا حال تھا وہ سامنے دیکھتے ہوئے اب حورعین کی طرف گیا جو ماہ نور کے ساتھ کھڑی خوش تھی ۔

شاہ جی میں بہت خوش ہوں مجھے بھی ایسے دلہن کی طرح بننا ہے،،،،،،،،،حورعین بولی تو عالم شاہ نے اسے گھور کر دیکھا تھا،،،،،جس سے وہ خوفزدہ سی اسے دیکھتی رہ گئی ۔

ایم سوری شاہ جی،،،،،،آنکھوں میں نمی لیے بول کر وہاں سے چلی گئی ۔

صائم جانے لگا تو سلطان شاہ نے اسے بلایا تھا۔

ہم جلد ہی ڈیٹ رکھ دیں گیے اور پھر،،،،،،،،،،تمہاری اور انابیہ کی اور عالم اور حورعین کی رخصتی ہو جائے گی،،،،،،،،،ان کے بتانے پر صائم نے سر ہلا دیا تھا اور صائم حورعین کو لے کر باہر نکل گیا ۔

آپ لوگوں نے اسے کیسے جانے دیا،،،،،،،،،عالم اس کے جانے کے بعد اُٹھ کر چلایا تھا ۔

آرام سے عالم پہلے تمہیں شرم آنی چاہے اپنی منگ کے ہوتے ہوئے تم نے نکاح کیا اگر اس نے بدلہ لیا ہے تو غلط کیوں لگ رہا ہے تمہیں اور ہمارے خاندان کے لیے جو بہتر ہے میں نے وہی کیا ہے اسی لئے ہو سکے تو جو ہو رہا ہے ہونے دو،،،،،،،،،،،،،،،سلطان شاہ غصے سے بول کر وہاں سے چلے گئے باقی سب بھی چپ تھے ۔

عالم شاہ نے سامنے پڑھے برتن ہاتھ مار کر نیچے پھینک دئے ۔

اور غصے سے وہاں سے نکل گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کہاں جا رہی ہو تم،،،،،،،،،،،،،زرمین جو آہستہ سے اتر کر سڑھوں سے نیچے آئی تھی چہرہ پورا سردی ہونے کے باوجود بھی درد کی وجہ سے پسینے سے بھر گیا تھا ۔

میں اپنے فلیٹ میں جا رہیں ہوں،،،،،،،،،زرمین سائیڈ سے ہوتے ہوئے جانے لگی ۔

زرمین تم ٹھیک نہیں ہو،،،،،،،اپنی حالت دیکھو،،،،اس حال میں تم سے چلا نہیں جا رہا تم گھر جاؤ گی،،،،،،،،،،،،،رحم کر لو خود پر،،،،،،،،،زین غصے سے بولا ۔

زرمین نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

ہو گیا ہے لیکچر تو جاؤں،،،،،،،،زرمین کا روکھا سا روائیہ دیکھ کر زین کو غصہ ایا پر چپ کرتے ہوئے اس کی سنے بغیر اس کو باہو میں بھر کر اوپر کی طرف لے کر جانے لگا ۔

کیا مسئلہ ہے زین خود اس گھر سے جانے کو کہا تھا نہ اب کیوں کر رہے ہو اس طرح،،،،،،،زرمین غصے سے نتھ پھیلائے بولی ۔

تم ٹھیک نہیں ہو زرمین دھیان رکھو فلوقت،،،،، وہ اس کی گال تھپتھپا کر اسے بیڈ پر آرام سے بیٹھاتے ہوئے بولا ۔

کیوں جب نفرت ہے مجھ سے میرے باپ سے تو اب کیوں آ رہا ہے تمہیں مجھ پر ترس،،،،،،،،؟؟زرمین اس کو کالر سے پکڑے غرائی ۔

ترس نہیں محبت ہے یہ،،،،،،،وہ اس کے پاس بیٹھ گیا تھا پر اس کے ہاتھوں سے اپنی کالر نہیں چڑوائی۔

تمہاری وجہ سے میرا باپ مر گیا،،،، ،جس نے تمہیں بچپن سے پالا تم اس کی موت کی وجہ ہو زین،،،،مجھے تمہاری محبت سے بھی نفرت ہو گئی ہے،،،،،،،،،،،،،زرمین اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نم لہجے میں بول کر اس کا کالر چھوڑتے ہوئے اپنا رُخ بدل کر لیٹ گئی ۔

ماموں کی بھی غلطی تھی میری ماما کی موت میں،،،،،،،،،،،وہ چاہتے تو ایک دفع میرے باپ سے معاف مانگ لیتے تو اج یہ سب نہ ہوتا میں اپنے باپ کے پاس اور ساتھ میری ماں بھی ہوتی،،،،،،،،،،،زین نے کو اس کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھ کر تکلیف تو ہوئی پر وہ بھی اپنے دفع میں بولا ۔

زین جسٹ گو،،،،،،،،،،میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی،،،،،،،،،،،،،زرمین آنکھوں کو میچے ہی بولی ۔

میں ماموں کی موت کی وجہ نہیں ہوں زرمین،،،،،،۔

اوکے جاؤ اب َ،،،،،،،زرمین روکھے سے لہجے میں بولی ۔

زین کو اس کی بات سن کر غصہ آیا پر اس کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ ٹھیک نہیں تھی اسی لیے اس کی پٹھ کو گھورتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔

زرمین بس سوچ کر ہی رہ گئی تھی کے آگے اس کی زندگی پتہ نہیں کون سا موڑ لے گی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور کو  شایان کے روم میں چھوڑ گئی تھی مسسز حسین ۔

ماہ نور چپ سی بس کمرے کو دیکھ رہی تھی،،،،،،،،،جس کو پھولوں سے سجایا گیا تھا ماہ نور نے سب کچھ اگنور کر دیا اور اُٹھی تھی اور اپنی جیولری اتارنے لگی ۔

کان کی طرف ہاتھ بڑھائے تو درد سے کراہ اُٹھی پر جھمکے اتارنے کی ہمت نہیں ہوئی،،،،،،درد سے کراہتے ہوئے جلدی سے ہاتھ پیچھے کھنچ لیا آنکھوں میں پانی بھر آیا،،،،،،رونے والی صورت لے کر  باقی کی جیولری اور ڈوپٹہ اتارنے لگی  اندر کمرے میں شایان داخل ہو چکا تھا ۔

جو اپنے ہی دھیان سے چیزیں اتار رہی تھی اس کو مکمل اگنور کئے ہوئے تھی ۔

شایان اس کے اگنور کرنے پر مسکرایا جیسے جیسے وہ قریب آ رہا تھا ماہ نور کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔

وہ اس کے قریب آتا ماہ نور جلدی سے سب چیزیں چھوڑ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھنے لگی ۔

کہاں ڈر گئی ہو،،،،،،،شایان اس کا ہاتھ تھام کر اسے قریب کرتے ہوئے بولا ۔

ڈرتی اور میں وہ بھی تم سے کبھی بھی نہیں مجھے چینج کرنا ہے اسی لیے جا رہی ہوں،،،،،،،،ماہ نور سکون اور تحمل سے بولی پر ہاتھ ابھی بھی لرز رہے تھے ۔

شایان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آئبرو اُٹھائے ۔

لاؤ تھوڑی مدد کر دوں،،،،،،،،،،،،اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ کو اس کی گردن کے قریب لے جا کر آہستہ سے اس پر پھیرتے ہوئے بولا،،،،،ماہ نور خود اس کی آنکھوں کے سحر میں کہیں کھو سی  گئی ۔

بہت خوبصورت لگ رہی تھی تم،،،،،،،شایان کے ہاتھ اب اس کے چہرے پر حرکت کر رہے تھے ماہ نور ایک پتلے کی طرح کھڑی بس اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔

آہ ہہہ،،،،،،،،، آ سکے منہ سے کراہ نکلی تھی  کیوں کے شایان نے بہت سکون سے اسے پتہ نہیں چلنے دیا تھا اور اس کے کان سے جمکا اتار دیا اور اسی طرح دوسرے سے بھی ماہ نور کو درد تو ہوا پر اتنا نہیں جتنا ویسے ہو رہا تھا۔

تھینک یو بعد میں کہہ لینا،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اسے کمر سے پکڑ کر اور بھی قریب کر گیا ۔

کیوں کہوں میں تمہیں تھینک یو،،،،،،،تکلیف بھی تمہاری دی ہوئی ہے،،ماہ نور تڑ کر بولی ۔

منا تو رہا ہوں کتنی دفع،،،،،اب بس بھی کر دو،،،،،،،شایان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا ماہ نور نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ اسے دھکا دیا۔

تمہیں شرم نہیں آتی شایان،،،،،،،؟؟ میرے ساتھ اتنا برا کرنے کے بعد تم سوچ رہے ہو کے تمھارے اتنے روڈ روائیہ کے باوجود میں تمہارے ساتھ ہنسی خوشی رہ لوں،،،،،،،،تم ،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور ابھی بول رہی تھی جب شایان نے اسے خود کی طرف کھینچ لیا ۔

میں بہت برا ہوں جانتا ہوں پر کیا کروں،،،،،،بہت محبت کرتا ہوں تم سے،،،، شایان ابھی بول رہا تھا کے ماہ نور بولی ۔

محبت محبت محبت بھاڑ میں جائے محبت،،،،،،،ظلم کرتے ہوئے کہاں ہوتی ہے تمہاری محبت،،،تب تو دو ٹکے کا کر دیتے ہو تم مجھے،، ،،،،،،،،،،ماہ نور منہ بنا کر دانت پیستے ہوئے چیخی تھی ۔

شایان اس کو دیکھتے ہوئے ہنس دیا،،،،،،اور اس کی طرف دیکھتے ہنستا ہی گیا ۔

بہت بڑے کمینے ہو تم شایان،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی طرف بڑھتے ہوئے اسے اٹھا کر کشن مارا تھا،، دونوں کی لڑائی شروع ہو چکی تھی ۔

کیا ہے یار تمہاری شکل دیکھنے والی تھی ویسے محبت محبت پھر سے کرنا،،،،،،شایان آس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا وہ پورے کا پورا  بیڈ پر گرا ہوا تھا ۔

میں تمہاری جان لے لوں گی،،،،،،،،ماہ نور کو اس کی بات سن کر غصہ آیا اور غصے سے اس کی طرف بڑھی تھی اور اس کا پاؤں اس کی میکسی میں پھنس گیا اور وہ اوندھے منہ شایان کے پاس جا کر گیری تھی ۔

ابھی سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتی،،،،،،،شایان نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔

جان لے لو میری،،،،،،میں تو تیار ہوں تمہیں جان دینے کو،،،،،،وہ اس کی گردن پر ہونٹ رکھتے ہوئے بولا تھا،،،،،،،اور ماہ نور کو کوئی بھی موقع دئے بینا اس پر حاوی ہوا ۔

پر اس دفع شایان نے اسے پیار سے سمٹ لیا تھا،،،،،،ماہ نور جانتی تھی اس دفع بھی اس کی نہیں چلے گی اسی لیے آپنا آپ َاس کے سپرد کر دیا۔

رات کی بڑھتی ہوئی تاریخی دونوں کی زندگی کو بدل تو رہی تھی پر دونوں ہی نہیں جانتے تھے کے صبع کا سورج دونوں کے لیے نیا طوفان لے کر آنے والا ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شاہ جی میری کال اُٹھائے شاہ جی پلیز،،،،،،،،،،،حورعین نے کہیں کالز کی تھی پر عالم شاہ نے ایک بھی کال نہیں اُٹھائی اب اس نے روتے ہوئے اسے میسج کیا۔

عالم شاہ جو اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا بجتے موبائل کو مکمل طور پر اگنور کر  رہا تھا وہ جانتا تھا دوسری طرف کون ہے پر پھر بھی،،،،،،،پھر میسج سننے کے بعد دوبارہ اس کی کال آئی تو اس نے اُٹھا لی۔

کیوں آپ کیوں کر رہے ہیں مجھے اگنور شاہ جی آپ کو پتہ ہے نہ کہ،،،،،،،،،وہ ابھی بولتی عالم شاہ اس کی بات کو اگنور کر گیا ۔

بچوں والی باتیں مت کرو اور بات سنوں میری،،،،،،،،،،،،،کل دادا آئے گئے اور ہماری تاریخ رکھنے کے لیے،،،،،،،،وہ بولا تو حورعین خوش ہو گئی ۔

تم انکار کر دو گی اور کوئی رخصتی نہیں ہو گی اس طرح کہنا ہے تمہیں،،،،،،،،،عالم شاہ بولا تو حورعین کے چہرے پر عجیب تاثر تھے ۔

کیوں کیوں میں بالکل بھی انکار نہیں کرنے والی سنا آپ نے،،،،،،،،حورعین بولی تو عالم شاہ کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا ۔

میں کہہ رہا ہوں نین اسی لیے،،،،،،،،،عالم شاہ کو غصہ تو تھا پر پھر بھی تحمل سے بولا ۔

نہیں بالکل بھی نہیں،،،، اگر نہیں ہوں میں آپ کو پسند تو ٹھیک ہے ایک دفع بھائی کی شادی ہو جائے میں نہیں رہوں گی آپ کے ساتھ بہت برداشت کر لی میں نے اپنی توہین اب بس،،،،،،نہیں چاہتے رخصتی ہماری تو خود جا کر اپنے دادا کو منا کر دیں اور رہی بھائی کی بات تو وہ ضرور ہو گی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اس دفع حورعین بولی تو عالم شاہ کو اس کی بات سن کر غصے کے ساتھ حیرت بھی ہوئی ۔

نین مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرنا ورنہ بہت برا پیش آؤں گا تمہارے ساتھ،،،،،،،،،،،،،،عالم کے لہجے میں واضح غصہ تھا۔

کتنا برا کتنا برا بتائیں مجھے شاہ جی آپ بہت برے ہیں بہت برے،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے چیخ کر بولی اور پھر فون کو بند کر گئی ۔

عالم شاہ خود کی کیفیت پی سمجھ پا رہا تھا اسے چاہے کا ۔

ایک طرف آنا آ رہی تھی کے اس کی منگ کسی اور کے نکاح میں ہے اور دوسری طرف حورعین کی محبت دونوں طرف سے اسے اپنی جیت چاہے تھی ۔

حورعین کی محبت اور ساتھ اور انابیہ کی طلاق کے ساتھ نکاح بھی،،،،،پر محبت اور انا میں وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کے انا کے چکر میں وہ اپنی محبت ہار جائے گا۔

تم سے بدلہ تو میں ضرور لوں گا تم نے ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا اب میں تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑنے والے،،،،،،،،،،،عالم شاہ بینا حورعین کے آنسو کی پرواہ کیے بغیر سب کچھ سوچ رہا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور صبح اُٹھی تو،،،،،،،اپنی دوسری طرف دیکھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا شایان شاید چلا گیا تھا ۔

بے زارا سا چہرا لیے اپنے بالوں کا رف جا جوڑا بنا کر اُٹھی تھی اور فریش ہونے چلی گئی ۔

فریش ہونے کے بعد ایک پیارا سا کڑاہی والا سوٹ نکال کر پہن لیا،،،،،،،اور سر پر ڈوپٹہ لیے باہر نکلی تھی ۔

نیچے آئی تو سب بڑے دوسری طرف بیٹھے کوئی بات کر رہے تھے اس کے آنے پر مسسز حسین کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی جس کو دیکھ کر ایک دفع ماہ نور کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔

لڑکی سنوں تم تم یہاں آؤ،،،،،،،،مسسز حسین بولی تو ماہ نور کو غصہ آیا ۔

آپ کے ہاں بہو کو اس طریقے سے بلایا جاتا ہے،،،،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور ائبرو اُٹھا کر بولی ۔

بہو تو ہم خاندانی لاتے ہیں تم بس شایان کی ضد تھی اور کچھ نہیں،،،،،،،،مسسز حسین کے بولنے پر ماہ نور نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور سب اور ان کے ساتھ گئی جہاں سب بڑے تھے ۔

جی بولیں اب کون سی دفع لگنی ہے،،،،،،،،آدھی بات بولی تھی باقی کی آدھی منہ میں ہی خود سے بڑبڑائی ۔

تم اپنے گھر جا رہی ہو ہمیں نہیں پتہ تھا تم اس عورت کی بھانجی ہو،،،،،،سلطان صاحب بولے تو ماہ نور نے ان کی طرف حیرانگی سے دیکھا ۔

تم اب ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتی،،،،،یہ صرف شایان کی ضد تھی بابا ورنہ  میں کبھی بھی اس لڑکی کو لے کر نہ آتا پر شایان اس کے بغیر یہاں آ نہیں رہا تھا،،،،،،،،،،،،حسین شاہ بولے تو ماہ نور نے اس دوغلے انسان کی طرف دیکھا جو پل پل اپنا رنگ بدلتا تھا۔

آپ کو لوگوں کی زندگی مزاق لگتی ہے،،،،،،،میں اس گھر سے کبھی بھی نہیں جانے والی،،،تب تک تو بالکل بھی نہیں جب تک شایان نہیں آ جاتا،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے چیخنے کے انداز میں بولی ۔

تم کیا تمہارے اچھے بھی جائے گیے یہاں سے،،،،،،،،،،،،،،مسسز حسین غصے سے اس کا بازوں پکڑتے ہوئے اسے گھسیٹنے کا سوچ رہی تھی ۔

چھوڑیں مجھے شرم تو نہیں آتی آپ لوگوں کو بیٹیوں والے ہوتے ہوئے اس طرح کے گھٹیا کام کرتے ہیں اور آپ آپ جیسے بڑے ہونے سے بہتر کے بڑے ہوں ہی نہ،،،،،،،،اور یہ دوغلا انسان گھٹیا ترین انسان ہے،،،،،،،،،،،،ماہ نور ان سب پر چیخ رہی تھی ۔

کیا بدتمیزی ہے یہ ماہ نور،،،،،،،،،،،،،،پیچھے سے شایان آیا تھا جس نے پوری بات نہیں سنی صرف ماہ نور کا چیخنا سنا تھا غصے سے بولا ۔

آؤ آؤ تم بھی اپنی لاڈلی کے کرتوت دیکھ لو کیسے سب بڑوں سے بدتمیزی کر رہی ہے یہ،،،،،،،،،،مسسز حسین اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔

کتنی دوغلی عورت ہیں آپ بھی،،،،،،،،،،ماہ نور چیخی تھی ۔

زبان سنبھال کر بات کرو ماہ نور،،،،،،،شایان دبے لہجے میں غرایا ۔

کیوں میں ہی کیوں اپنی فیملی کو کچھ کیوں نہیں بولتے تم،،،،،انتہائی گھٹیا لوگ ہیں سب کے سب بڑے کیا اور چھوٹے،،،،،،،،،،،ماہ نور ابھی بول رہی تھی کے شایان کا ہاتھ ماہ نور پر اُٹھتا ماہ نور نے خوف سے آنکھوں کو بند کیا،،،،،،،،،،،پر اس کا ہاتھ ہوا میں ہی رہ گیا ۔

ماہ نور نے دُکھ بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

تم مجھے مارنے لگئے تھے،،،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور حیرت زدہ سے بولی ۔

سب سے معافی مانگو ابھی کے ابھی،،،،،،،،شایان دبے لہجے میں غرایا،، مسسز حسین اور حسین شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی فاتح کی۔

نہیں مانگی تو،،،،،،،،،،،،؟؟

ابھی کے ابھی جا سکتی ہو تم میری محبت میرے ماں باپ پر قربان،،،،،،،،،،،،،شایان بولا تو ماہ نور مسکرا دی ۔

تھینک یو سو مچ مسٹر شایان مجھے میری اوقات بتانے کا،،،،اب تم سنوں یہ ہی سب تمہارے آنے سے پہلے تمہارے ماں باپ کر رہے تھے تم نے آخری مہر لگا  دی،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔

اور اپنے قدم باہر کی طرف کر لیے،،،،،،،شایان چپ چاپ بس اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔

ماہ نور کو شایان سے یہ امید نہیں تھی ۔

ڈرائیور چھوڑ آئے گا تمہیں،،،،،،،،،،،،ماہ نور کے پیچھے آتے ہوئے شایان بولا ۔

ماہ نور انسنی کرتے ہوئے باہر نکلی ۔

میں تم  سے کہہ رہا ہوں نہ ڈرائیور چھوڑ کر آئے گا راستے میں کچھ غلط ہوا تو پھر ہم پر ہی الزام لگے گا،،،،،،،،،،،،شایان اس کو کلائی سے تھام کر گاڑی میں دھکیلتے ہوئے بولا ۔

ماہ نور نے اس سب کے بعد ایک بھی لفظ اس سے نہیں کھا بس چپ چاپ چہرا ہاتھ میں دے کر رونے لگی تھی ۔

شایان نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور اندر کی طرف بڑھ گیا ۔

شایان بیٹا،،،،،،،،،،،،،،مسسز حسین بولی پر شایان ان کو ہاتھ سے اشارا کرتے ہوئے اوپر کی طرف چلا گیا ۔

بھائی،،،،،،،،ماہ نور گھر آ رہی ہے پلیز اسے سنبھال لینا،،،،،،،،،شایان نے گہرا سانس لیتے ہوئے زین کو کال کی تھی اور بولا۔

کیا بات ہے شایان،،،،،،،؟؟کیا ہوا ہے،،،،،،،؟؟زین پریشانی سے بولا ۔

بھائی کچھ ٹھیک نہیں ہے،،،ہمارے اپنے ہی ہماری خوشیوں سے کھیل جاتے ہیں،،،، ،بابا نے جو کچھ آپ سے کہا وہ سب بھی جھوٹ تھا اور جو آج میں نے کیا ہے وہ صرف اور صرف ماہ نور کی زندگی اور بالائی کے لیے کیا ہے،،،،،،،،،ورنہ بابا کچھ غلط کر دیتے،،،،،،،،،،،شایان کی بات سن کر زین اور بھی پریشان ہو گیا ۔

کیا کہنا چاہتے ہو تم شایان مجھے صحیح طرح بتاؤ،،، ،،،،،،،زین پریشانی سے آفس سے باہر نکلتے ہوئے بولا ۔

بھائی بس اتنا جان لے بابا کی بات پر اب یقین مت کرنا اور جو کچھ بھی آپ سے بابا نے کہا ہے وہ سب جھوٹ ہے،،،،،،،تسلم انکل غلط کبھی بھی نہیں تھے غلط پہلے بھی بابا تھے اور اب بھی بابا ہی ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،،زین نے محسوس کیا تھا شایان کی آواز میں نمی تھی ۔

تم سنبھالوں خود کو میں دیکھ لوں گا ماہ نور کو،،،،،،،،،،،،،زین سچ میں پریشان ہو گیا تھا ۔

شایان بچے تم ٹھیک ہو،،،،،،،،؟؟مسز حسین اندر داخل ہو کر شایان سے بولی ۔

یہ ماما میں ٹھیک ہوں،،،،،،،،،،،شایان ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا۔

اللہ سب بہتر کر دے گا تھوڑا وقت دو اسے اور حالات ٹھیک ہو جائے گئے تو تم اسے واپس گھر لے آنا،،،،،،،،سب بتاؤ گئے تو معاف کر دے گی تمہیں گھبراؤ مت،،،،،،،،،،،،،مسسز حسین اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے بولی ۔

جی ماما تھینک یو سو مچ ورنہ آج پتہ نہیں بابا کیا کرتے اس کے ساتھ،،،،،،،،،،،آپ نے وقت پر بتایا مجھے سب،،،،،،،،،،،شایان ان کے ہاتھ چومتے ہوئے پیار سے بولا ۔

حسین نے پہلے بھی زین کی ماں کو استعمال کیا اور جب اس کے بھائی نے شور کیا تو اسے گھر تو لے آیا پر دل بھر چکا تھا اس سے اور اس پر خود ہی الزام لگوا کر اسے گھر سے باہر نکلوا دیا،،،،،،،،اور مجھ سے شادی کی،،،، اور وہ عورت خود پر جھوٹا الزام لے کر اس دنیا سے چلی گئی اب زین کو دیکھ کر اسے پھر سے لالچ آیا اور اپنا بیٹا یاد آ رہا ہے بس دعا کرو اللہ اس بچے کو بھی سیدھا راستہ دکھائے اور خوشیاں دے ۔

مسسز حسین اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کو ریلکس رہنے کا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی ۔

شایان نے سر صوفے پر ٹکا دیا تھا،،،،،،،،،)خوشیوں بھری رات کی صبح اتنی خوفناک ہو گی اس نے سوچا نہیں تھا۔

اس کا خود کا باپ ہی اس کی خوشیوں کا دشمن ہے،،،،،،،،،وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔

یہ سب اسے مسسز حسین کے بتانے پر پتہ چلا تھا اور اس نے کچھ سوچتے ہوئے ہی ماہ نور کو اس گھر سے جانے کے لیے کہا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور نے گھر آ کر نہ زرمین سے کچھ نہیں کہا بس چپ سی رہی اور اتنا بتایا کے وہ اس کے لیے یہاں آئی ہے،،،،،،،،،زین نے ان دونوں کو یہاں سے جانے نہیں دی تھا اسے بھی اپنے باپ کی سچائی معلوم ہو گئی تھی پر وہ چپ تھا نہ زرمین سے نظریں ملا پا رہا تھا اور نہ ہی ماہ نور سے ۔

یہاں آئے ہوئے بھی ماہ نور کو ایک ماہ ہو چکا تھا پر زرمین جان گئی تھی کوئی نہ کوئی بات تو ہے پر وہ خاموش تھی کے ماہ نور اسے خود بتائے ۔

دونوں زین کو کم ہی بلاتی تھی ماہ نور خود میں اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی یہاں موجود ہر شخص کا یہی حال تھا ۔

ماہ نور تم نہیں جاؤ گی آج رخصتی ہے حورعین کی،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین بولی تو ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا تھا کیوں کے اسے سننے میں آیا تھا کے صرف رخصتی کا فنکشن کیا گیا تھا اور عالم شاہ کے ولیمہ پر انابیہ کی رخصتی رکھی گئی تھی ۔

جی آپی بس جاؤں گی تیار ہو جاؤ بس میں،،،،،،،،،،،،ماہ نور مسکرا کر بولی ۔

اور گھر کب جانے کا اردہ ہے یا کچھ ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو،،،،،،،،،،،،،،؟؟

ہاں آپی بہت کچھ ہے جو چھپا رہیں ہوں پلیز ابھی کچھ مت پوچھے،،،،،،،،،،ماہ نور التجائیہ بولی تھی جس کو دیکھتے ہوئے زرمین چپ کر گئی ۔

اوکے تیار ہو جانا بس باقی میں دیکھ لوں گی مجھے جاب بھی مل گئی ہے اب ہم اپنا خرچہ اُٹھا لے گئے،،،،،،،،،،،،زرمین بولی تھی ۔

پر آپی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس طرح کیسے چلے گا،،،،،،،،ماہ نور اس کر پیلا زرد رنگ دیکھتے ہوئے بولی ۔

میں کر لوں گی ماہ نور تم فکر مت کرو،،،،،،،زرمین کو ابھی بھی درد تھا پر پھر بھی مسکرا رہی تھی ۔

پر آپی،،،،،،،،،،،،؟

پر ور کچھ نہیں جاؤ تیار ہو جاؤ ورنہ دیر ہو جائے گی میں بھی جاتی پر ابھی طبیعت ٹھیک نہیں،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین اسے پیار سے بولی تھی کس پر وہ سر ہلا کر اوپر چلی گئی ۔

تم دونوں میری زمیداری ہو اور تمہیں جاب کرنے کی ضرورت نہیں ہے،،،،،،،،زین جو اوپر روم سے آیا تھا اس کی بات سن کر بولا ۔

نہ میں آپ کی زمیداری ہوں اور نہ ہی ماہ نور ہم دونوں کر سکتے ہیں جو بھی ہمیں کرنا ہوا یہ آپ کا  ہیڈک نہیں ہے مسٹر زین،،،،،،،،،زرمین بول کر وہاں سے جانے لگی تھی ۔

تم بھی میری ہو اور یہ ہیڈک بھی میرا ہے اسی  لیے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے،،،،،،،،،میں تم دونوں کو اپنی کمائی میں سے نہیں تم دونوں کے حصے میں سے دوں گا جو بھی دینا ہوا،،،،،،،،،،،،،،زین زرمین کو کمر سے تھامے آہستہ سے پیار بھرے لہجے میں بولا ۔

اسی لیے نہ کوئی احسان کر رہا ہوں اور نہ کوئی رحم،،،،،،،ہاں تم میری بیوی اور وہ میری بہن ہے اسی  لیے تم دونوں کی زمیداری اٹھانا چاہتا تھا پر تم نہیں چاہتی تو اسی لیے تم دونوں کا حصہ تم دونوں کو مل جائے گا،،،،،،،،،،،زین زرمین کے کسمساتے ہوئے وجود کو مضبوطی سے تھامے پیار اور تحمل سے بولا ۔

پہلے تو سارا حصہ کھا چکے تھے ہمارا اب ایک دم سے یہ سب کیوں،،،،،،،پر جو بھی ہو مسٹر زین ہم اپنا حصہ غریبوں میں دینا چاہتے ہیں اور میں جاب کر کے اپنی اور ماہ نور کی زمیداری اُٹھا لوں گی اور تیسری بات آپ کوئی بھی ایسا حق نہیں رکھتے جو مجھ پر بات بے بات روب جما رہے ہیں،،،،،،،،،،،،،،زرمین اس سے اپنا آپ چڑانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

چھوڑیں مجھے ،،،،،،،،،،،،زین نو،،،،،،،،زرمین اس کی آنکھوں میں اُٹھتے احساس کو دیکھتے ہوئے ممنائی،،،،،۔

تم بس دیکھتی جاؤ میں کوئی راستہ نہیں چھوڑوں گا تمہارا جو تمہیں مجھ سے دور لے کر جا سکے ،،،،،،،،،مجھ سے بہت بڑی بڑی غلطیاں ہو چکی ہیں پر میں اپنے کئے پر عمل پر شرمندہ ہوں زرمین،،،،،،،،،،،تم کیا جانو میری ترپ،،،،،،،،،،،،زین بولا تو زرمین ہنس دی۔

پہلی بات غلطی نہیں گناہ کر چکے ہیں اپ،،،،،،،اور نہ مجھے آپ کی شرمندگی کبھی نظر آئی ہے اور نہ ہی مجھے آپ کی ترپ دیکھنے میں کوئی انٹرسٹ ہے اوکے سو مجھ سے دور رہا کریں ،،،،،،،،،،زرمین اس کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے دھکا دیا تھا اسے اور درد کی وجہ سے کراہ کر صوفے پر بیٹھی تھی ۔

زرمین آر یو اوکے،،،،،،،،؟؟ زین اس کو تکلیف میں دیکھ کر اس کے قدموں میں بیٹھا اس کے جھکے سر کی وجہ سے بکھیرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔

جائے یہاں سے زین پلیز،،،،،،،،،زرمین درد سے دوہری ہوتے ہوئے بولی ۔

تم بھی نہ ہر کام الٹا ہے زین اُٹھا تھا اور دورتے ہوئے اس کے کمرے سے دوائیں لے کر آیا تھا،،،،،اور پانی لے کر اس کی طرف آیا ۔

کھاو اسے درد کم ہو گا،،،،،،،،،زین کے کہنے پر زرمین نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔

پکڑ لو،،،،،،زرمین نے چپ چاپ پکڑ کر کھا لی تھی اور صوفے سے ٹیک لگا لی۔

زین کہیں دیر کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر صاف درد کی تحریر تھی ۔

بہت درد ہے،،،،،،،،،؟؟

ہاں بہت درد ہےپر جو آپ نے دیا اس سے کم،،،،،،،،،،پہلے تو اس کی بات سن کر زرمین تلخ سا مسکرائی پھر اس کو طنزیہ بولی ۔

درد دیا ہے تو مداوا بھی کر دوں گا جلدی ہی،،،،،،،،،،،،،زین بولا نہیں بس دل میں سوچ کر رہ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

مس حورعین آپ ہیں،،،،،،،،،؟؟ حورعین دلہن بینی بیٹھی ہوئی تھی اس دن کے بعد اس کی اور عالم کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی،،،،پر سب کچھ بڑوں میں تہہ ہو چکا تھا ۔

جی میں حورعین ہوں،،،،،،،،،،وہ اس وقت پالر میں تیار ہو کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

مسس حورعین آپ کو کوئی باہر لینے آیا ہے،،،،،،،ایک لڑکی بول کر وہاں سے چلی گئی ۔

حورعین اپنی میکسی سبنھالتے ہوئے باہر کی طرف گئی تھی اور سامنے کھڑی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی یہ بھی نہیں دیکھا کے کون ہے اور کون نہیں،،،،،،،،،،،اس کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی گئی ۔

حورعین آج کے دن کی خوشی میں یہ تک بھول چکی تھی کے گاڑی جا کسی راستے پر رہی ہے ۔

ایک دم سے پیچھے ایک عورت نے اس کی طرف رومال کی تھا اور وہ اس کی ناک پر رکھنے کے تھوڑی دیر بعد ہی حورعین بےہوش ہو چکی تھی ۔

کام ہو گیا سرکار،،،،،،،،اور پھر اس عورت نے اس کسی کو فون کر کے بتایا اور گاڑی کہیں دور کسی انجان راستے کی طرف چلی گئی تھی ۔

پر کوئی نہیں جانتا تھا کے  کس کی کہانی کون سا موڑ لینے والی ہے،،،،۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور ڈرائیور کے ساتھ آئی تھی اور حورعین کی ماما سے مل کر ایک سائیڈ پر اکیلی بیٹھی ہوئی تھی ۔

تھوڑی ہی دیر میں بارات آ چکی تھی سب ہی اپنے اپنے مصروف تھے ماہ نور کو بھی مسسز سلمان وہاں سے لے کر گئی تھی تاکہ بارات کے آنے پر لڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہو کر پھول وغیرہ پھینک سکے وہ نہیں جانتی تھی کے ان کا اور ماہ نور کا کیا چل رہا ہے ۔

ماہ نور اُٹھی تھی اور ان کے ساتھ چلی گئی ۔

بارات اندر داخل ہوئی تو ماہ نور نے بھی ہاتھ میں پھول پکڑ رکھے تھے پر اس نے ایک دفع بھی کسی پر پھول نہیں پھینکے اس کی نظر سامنے سے آتے ہوئے شایان پر پڑھی جو تھری پیس میں فریش اور خوش خوش اندر آ رہا تھا۔

اس نے بھی ماہ نور کی طرف دیکھا جو بلیک رنگ کے فراک میں بالوں کو کھلا چھوڑئے ہلکے سے میکاپ کے ساتھ انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی ۔

ماہ نور اس کو دیکھتے ہی اپنے پھولوں کی پلٹ ساتھ والی لڑکی کو دے کر پیچھے ہٹی تھی اور پیچھے سے ہوتے ہوئے باہر کی سائیڈ پر بنی کھولی جگہ کی طرف چلی گئی ۔

ہوا میں گہرا گہرا سانسس لینے لگی شایان کی سب باتیں یاد آئی تو آنکھوں میں بے تحاشا نمی آنے لگی تھی اور سر چکرانے لگا ۔

بہت برے ہو تم شایان بہت برے،،،،،،،،،،،،،،،،،،اپنا آپ سبنھالتے ہوئے سائیڈ پر بنی دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہوگئی،،،،،،،،،،،،،،اسے لگ رہا تھا سانسس بند ہو جائے گی ۔

اسی طرح گہرا سانسس لیا اور نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی،،،،،،،،آنسو آنکھوں سے بہہ رہے تھے اور وہ خود کے بند ہوتے سانسس پر اُٹھ  بھی نہیں پا رہی تھی ۔

شایان جو اس کے پیچھے آیا تھا اس کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے بھاگ کر اس کی طرف آیا ۔

ماہ نور کیا ہوا تمہیں ماہ نور ہوش کرو یار،،،،،،،،،،وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولا ۔

پانہ،،،، ،،،،،،پان،،،، ،،،پانی،،،،،،ماہ نور کی اٹکتی ہوئی آواز پر جلدی سے شایان نے اسے اُٹھایا تھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔

گاڑی سے پانی کی بوتل کو اس کے منہ سے لگایا تب جا کر ماہ نور تھوڑا نارمل ہوئی پر ابھی بھی وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھی،،،،،،،،،،،۔

ماہ نور تم ٹھیک ہو،،،،،،،،،،،،؟؟ شایان اس کے چہرے پر چپکے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے پریشانی سے بولا ۔

مجھے گھر جانا ہے،،،،،،،ماہ نور بےبسی سے آنکھوں کو موندے ہوئے ہی بولی تھی،،،،،شایان نے اس کی حالت دیکھتی تھی اور بینا سوچے سمجھے سب کی پرواہ کئے بغیر اسے لے کر چلا گیا ۔

شایان اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر آیا تھا،،،،،،،،،،ڈاکٹر اسے اندر چیک کر رہی تھی اور وہ پریشانی سے باہر بیٹھا ہوا تھا ۔

آپ کو اندر ڈاکٹر بلا رہیں ہیں،،،،،،نرس باہر آ کر بولی تھی کیونکہ کے کمرے میں ماہ نور تھی ۔

یہ آپ کی کیا لگتی ہیں،،،،،،،،،؟؟ڈاکٹر ماہ نور کی طرف اشارہ کرتے بولی ۔

بیوی ہے میری،،،،سب ٹھیک تو ہے،،،،،،،،،،؟؟

اتنا تو آپ کا انداز ہو گا ہی کے جس طرح کی ان کی حالت ہے ان کو آرام اور سٹریس فری ہونے کی ضرورت ہے مسسٹر،،،،،،،،،،،،،حالت دیکھیں ان کی ان کا بلڈ پریشر بالکل لو تھا اگر وقت پر نہ آتے تو ان کی جان کے ساتھ بچے کی جان کو بھی خطرہ ہوتا کب سے نہیں کھایا کچھ انہوں نے،،،،،،،،،،،،،ڈاکٹر بولی تو اس کا لہجہ انتہائی سخت تھا ۔

ڈاکٹر آپ کیا بات کر رہیں ہیں مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں،،،،،،،،شایان خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاسر لئے بولا۔

کیا مطلب ہے آپ کا آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کے آپ کی بیوی پریگنٹ ہے،،،،،،،،،؟؟

نہیں مجھے سچ میں نہیں پتہ،،،،،،شایان نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

آپ کی بیوی پریگنٹ ہے اور ان کو خوراک کی بہت ضرورت ہے ،،، ان کی طرف دیکھیں کیا حال ہو چکا ہے ان کا،،،،،،،اب ان کا پراپر علاج کروائیں اور ان کی ڈائٹ کا اچھا حیال رکھیں،،،،،،،،،ڈاکٹر سخت لہجے میں بولی ۔

اوکے میں آئند حیال رکھوں گا،،،،،،،،،،شایان خوش ہوتے بولا ۔

ان کو ڈریپ لگی ہے جب یہ ختم ہو جائے تو ایک دفع چیک کروا کر آپ ان کو لے کر جاسکتے ہیں،،،،،،،،،،،،ڈاکٹر بول کر باہر چلی گئی ۔

شایان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مسکراتے ہوئے ماہ نور کو دیکھا تھا اور اس کے ماتھے پر لب رکھے،،،،،،،،،،جس کو ڈاکٹر نے ڈریپ لگائی تھی اور وہ سوئی جاگی کفایت میں تھی ۔

میری جان مجھے دنیا کے سب سے بڑی خوشی ملی ہے آج آئی لو یو الاٹ پر سوری وہاں میں نہیں لے کر جاسکتا تمہیں،،،،،،،،،،،،وہ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں اس کا ہاتھ تھام کر اس پر اپنے لب رکھتے ہوئے بولا ۔

پر خود کی کئر نہ کرنے اور میرے بے بی کو نقصان پہنچانے پر تمہیں سزا ملے گی گندی لڑکی،،،،،،،وہ اس کو دیکھتے ہوئے پیار سے بولا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماما حورعین پالر میں نہیں ہے اور ڈرائیور نے بتایا ہے کے وہ پہلے ہی کسی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جا چکی ہے،،،،،،،،،،،،،صائم نے گھبراہٹ بھرے لہجے میں مسسز سلمان کو بتایا جو یہ سب سن کر خود شل ہو چکی تھی۔

میری بیٹی،،،،،،اب کون سا امتحان باقی ہے،،،،،،،،،مسسز سلمان پاس پڑی چیئر پر ڈھ سی گئیں ۔

ماما بابا مجھے اس میں عالم شاہ کا ہاتھ لگتا ہے کیونکہ کے حورعین اس کے ساتھ خوش تھی پر اس کی منگ سے شادی میں نے کی وہ خوش نہیں تھا،،،،،،،،،،،صائم بولا تو دونوں نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

دلہن کو لے آئے آ. ہمیں گاؤں کے لیے نکلنا ہے،،،،،،،،،،مسسز ظہر آ کر بولی تھی ۔

ہمیں عالم سے بات کرنی ہے،،،،،،،سلمان صاحب بولے ۔

تھوڑی دیر میں سب وہاں جمع تھے ۔

اب کیا مسئلہ ہو گیا ہے عالم سخت گیر لہجے میں بولا ۔

حورعین کہاں ہے،،،،،،،،صائم چیخا ۔

تم لوگوں کے پاس،،،،،،،،عام سے لہجے میں جواب آیا تھا ۔

حورعین کو کہاں غائب کروایا ہے تم نے عالم شاہ اگر تم نے اب کچھ غلط کیا تو جان سے مار دوں گا میں تمہیں،،،،،،،،،،،،صائم چیخا تھا۔

تمیز سے لڑکے زیادہ بکواس کی تو ہم تمہاری جان دو منٹ میں لے لے گئے،،،،،،،،،عالم اس دفع بولا تو اس کا. لہجہ سرد تھا۔

ایک منٹ دونوں بس کر دو،،،،،،حورعین نہیں مل رہی پالر سے گھر  کے لیے نکلی تھی پر وہاں نہیں ہے،،،،،،،،،،،،،سلمان صاحب بولے تو سب نے ان کی طرف دیکھا ۔

بابا میں کہہ رہا ہوں حورعین کو اسی نے غائب کیا ہو گا،،،،،،،،،،،،صائم نے عالم کی طرف دیکھا جس کا خود کا چہر یہ بات سن کر سرخ لال ہو گیا تھا ۔

میں کیوں کروں گا ایسا اپنا تماشا کیوں بناؤں گا میں،،،،،،،،عالم صائم پر چیخا تھا ۔

کہاں ہے حورعین بتاؤں ہمیں عالم اب اور ظلم نہیں برداشت کر سکتی میری بیٹی ہاتھ جوڑتی ہوں میں تمہارا ایک ماں ہاتھ جوڑ رہی ہے،،،،،،،،،،،مسسز سلمان اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی ۔

دیکھیں میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے نہیں معلوم حورعین کہاں ہے،،،،،،،،،عالم خود بے حد پریشان ہو چکا تھا اور کسی کو کال کی ۔

مجھے ساری انفارمیشن ملنی چاہیے کس کے ساتھ اور کب گئی حورعین،،،،،،،،،،،،،عالم سخت اور سرد لہجے میں بول کر فون بند کر گیا ۔

ناٹک بند کرو عالم،،،،،،،،تم ہی نہیں چاہتے تھے کے رخصتی ہو،،،،،،میں نے ان لی تھی اس دن حورعین کی باتیں تم نے کہا تھا رخصتی سے انکار کر دو ورنہ بہت برا ہو گا اس نے انکار نہیں کیا تو تم نے یہ سب کیا میری بہن کے ساتھ،،،،،،،،،،،،،،،،،صائم چیخ کر بولا تو سب نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

سب بڑے ویسے ہی پریشان تھے ۔

ہاں کہا تھا میں نے پر میں نے حورعین کے ساتھ کچھ نہیں کیا محبت عشق ہے وہ میرا سنا تم نے عشق کرتا ہوں میں اس سے،،،،،،،،،،،،،،اپنی طرف بڑھتے ہوئے صائم کو جھٹکے سے پیچھے دھکیل کر چلایا ۔

میں خود ڈھونڈ لوں گا اپنی بیوی کو،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔

سب بڑے بس خاموش ہو چکے تھے سلمان اور مسسز سلمان تو بے بسی سے بس دیکھتے رہ گئے تھے سب کچھ ۔

بابا مل جائے گی حورعین آپ دونوں پریشان مت ہوں،،،،،،،،،،،صائم ان کے قدموں میں بیٹھا پیار سے بولا ۔

سب پی پھر آہستہ آہستہ وہاں سے چلے گئے تھے،،،،،،،،،،،لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے رہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا،،،،،،،حورعین نے ہمت کر کے راستہ ٹٹولتے ہوئے اٹھی پر اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کے جانا کہاں ہے وہ پاگلوں کی طرح چلانے لگی ۔

کون ہے کون ہے پلیز مجھے گھر جانا شاہ جی شاہ جی بچال لیں مجھے بچا لیں،،،،،،،،،،وہ سسکیاں لیتے ہوئے چلا رہی تھی ہر طرف اس کے رونے کی اور سسکنے کی آوازیں گھونج رہیں تھی ۔

وہ جب بھی ادھر سے اُدھر بھاگتی اس کی چوڑیوں کی آوازیں پھیل جاتی اسے اس اندھیرے میں کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا ۔

وہ بس رو رہی تھی چلا رہی تھی اور پھر تھک کر ایک سائیڈ پر بیٹھ کر گھٹنوں میں چہرا چھپائے سسکنے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور کو شایان گھر چھوڑ کر گیا تھا،،،،،،،وہ ابھی بھی دوائی کھا کر پھر سے سو گئی شایان باہر لاؤنچ میں بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ زین بھی تھا۔

اوپر سے اب زرمین بھی آئی تھی ۔

شایان میں تم سے بات کرنا چاہتی تھی،،،،،،،،پر ماہ نور کی وجہ سے چپ تھی،،،،،زرمین پاس دوسری طرف کے صوفے پر بیٹھی بولی ۔

جی آپی میں سمجھ سکتا ہوں آپ کے کہنا چاہتی ہیں پر سوری آپی میں ماہ نور کو گھر نہیں لے کر جاسکتا،،،،،،،،،،،،شایان بولا تو زرمین نے حیرت اور دُکھ سے اس کی طرف دیکھا۔

پر کیوں بیوی ہے وہ تمہاری تم دونوں کا ریسپشن تک ہو چکا ہے اب کیوں،،،،،،،،،زرمین تیز لہجے میں بولی ۔

ایسی بات نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہیں ہیں ،،،،،،آپی میں ماہ نور کی زندگی کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچنے دے سکتا میرے خود کے بابا ہی میری بیوی کے لیے خطرہ ہیں،،،،،،،،،،،،،،وہ ماہ نور کو،،،،،،،،،،،،،اور پھر شایان نے سب بتایا ۔

آپی ماہ نور سے مجھ محبت ہے پر بابا کی یہ سب چال تھی پر میری شادی کرنا اور زین بھائی کو مس گائیڈ کرنا یہ سب بابا نے کیاوہ سب پھر سے وہی کچھ ماہ نور کے ساتھ کرنا چاہتے تھے پر میں ایسا ہونے نہیں دے سکتا تھا آپی،،،،،،،،،،،،،اسی لیے میں نے سب کے سامنے اسے گھر سے جانے کے لیے کہہ دیا،،،،،،،،آپی بہت برا ہوں پر ماہ نور سے بے تحاشا محبت کرتا ہوں ۔

بہت غلطیاں مجھ سے بھی ہوئیں ہیں پر ماما نے مجھے وقت پر سب بتا دیا ورنہ بابا ماہ نور کے ساتھ بہت برا کرتے اور شاید میں بھی بابا کا مہرا ہوتا پر اللہ نے مجھے بچا لیا،،،،،،،،،،،،،،شایان بول رہا تھا اور زرمین بس چپ سی اسے سن رہی تھی ۔

اور اب تو آپی آپ کو اس کا زیادہ حیال رکھنا ہو گا،،،،،،،،،،،شایان خوش ہوتے ہوئے بولا۔

زرمین نے اس کی طرف دیکھا ۔

آپ خالہ بنے والی ہیں اور زین بھائی چاچو ،،،،،،،،،،،شایان خوش ہوتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا تھا۔

زین اور زرمین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی ۔

تم سچ کہہ رہے ہو شایان،،،،،،،زرمین خوش ہوتے ہوئے بولی تو شایان نے سر ہاں میں ہلا دیا ۔

مبارک ہو یار پر میں چاچو نہیں خالو ہوں،،،،،،،،،زین ہنستے ہوئے بولا تو شایان نے آنکھوں کو چھوٹے کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔

پارٹی بدل لی آپ نے،،،،،،،،،،،،،،شایان ہنستے ہوئے گلے مل کر بولا ۔

مبارک ہو شایان تمہیں بھی بس اللہ اپنی حفاظت میں رکھے دونوں کو اور تمہیں بھی،،،،،،،،زرمین خوشی سے بولی ۔

تھینک یو آپی،،،،،،،شایان بولا ۔

زرمین نے ایک دفع بھی زین کی طرف نہیں دیکھا تھا ۔

مبارک ہو تمہیں زرمین،،،،،،،،زین بولا تو زرمین سر ہلا گئی بس ۔

میں تمہارے لیے چائے لے. کر آتی ہوں،،،،،،،،زرمین بینا زین کی طرف دیکھے شایان کو بولتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔

زین بس اسے جاتے ہوئے دیکھ کر رہ گیا ۔

پر سب نہیں جانتے تھے کے ان کی خوشیوں کو بہت جلد نظر لگنے والی ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور چلو کھا لو شاباش یار یہ،،،،،،،،،ماہ نور اُٹھی تھی تو زرمین اس کے سامنے فروٹس سلیڈ رکھتے ہوئے بولی،،،،،،،جس کو ماہ نور نے نحسوست سے دیکھا تھا۔

آپی نہ کرو مجھے بالکل بھی بھوک نہیں ہے بس ایک کپ چائے چاہی اور کچھ نہیں کھانا میں نے،،،،،،،،،،،،ماہ نور کمبل میں گھسی بولی،،،،،،،،،،۔

چپ چاپ یہ کھا لو ورنہ بہت سخت ماروں گی تمہیں میں سنا تم نے اور آج سے چائے بالکل بند ہے تمہاری،،،،،،،،،،زرمین. ابھی بول رہی تھی کے شایانِ کمرے میں اندر داخل ہوا ۔

لو شایان آ گیا اب یہ ہی تمہیں کھلائے گا کیونکہ تم میرے ہاتھ سے نہیں کھا رہی،،،،،،،،،،،زرمین بول کر وہاں سے چلی گئی جب کے شایان مسکراتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گیا اور پلٹ کو تھام لیا۔

یہ کھاؤ جلدی سے سارا ختم کرنا ہے،،،،،،،،،شایان اس کے سامنے چمچ کرتے ہوئے بولا جس کو ماہ نور نے غصے سے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ۔

جاؤ یہاں سے کیا لینے آئے ہو یہاں اچار،،،،،،،،ماہ نور دانت پیستے ہوئے بولی جیسے دانت میں شایان کو چھبا رہی ہو ۔

اچار تو اب تم کھاؤ گی وہ بھی مزے لے لے کر،،،،،،،،،،،،،،شایان نے اسے آنکھ دبائی ۔

میں کیوں کھانے لگی پاگل ہوں میں،،،،،،،نکلو میرے گھر روم سے دفع ہو جاؤ مجھے نکالا تھا نہ اپنے گھر سے اب دفع ہو جاؤ یہاں سے،،،،،،،،،،اس دفع ماہ نور غصے سے چیخی ۔

اوکے چلا جاؤں گا پہلے یہ کھا لو پھر چلا جاؤں گا،،،،،،،،،،،شایان کو اس کے روائیہ سے تکلیف تو ہو رہی تھی پر پھر بھی جبری مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔

میں کھاؤں نہ کھاؤ کرو جاؤ تمہیں کیا تم اپنے کام سے کام رکھو اور جاؤ آہنی فیملی کے پاس،،،،،،،،،ماہ نور کو اس کی بات سن کر غصہ آیا تو اور بھی زور سے چیخی ۔

ماہ نور تم اپنا حیال رکھنا اور میں اس وقت اپنی فیملی کے پاس ہی ہوں تم اور میں اور ،،،،،،،،،،شایان مسکرایا ۔

اور ہمارا آنے والا وہ،،،،،،،،،،شایان نے انکھ دبائی ۔

کیا بول رہے ہو تم،،،،،،،،جاؤ یہاں سے،،،،،،،ماہ نور منہ بنا کر بولی ۔

ماہ نور حیال رکھوں اپنا ڈاکٹر نے کہا ہے تمہیں ضرورت ہے اپنا حیال رکھنے کی،،،،،،،اب تم اکیلی نہیں ہو ننھی سی جان جڑی ہے تمہارے ساتھ اس کے رکھوں اپنا حیال ورنہ اس کی جان کو. خطرہ ہو سکتا ہے،،،،،،،،،،،،،،شایان نے اس کے ہونٹوں کی طرف چمچ بڑھا کر کہا جس سے ماہ نور اس کی بات سنتے ہوئے کھا گئی ۔

بہت برا ہوں میں پر کبھی بھی ایک برا باپ نہیں بنوں گا،،،،،،،،،،اسی لیے میرے لیے نہیں اس کے لیے اپنا حیال رکھو،،،،،،،،،،وہ مسکرایا تھا جب ماہ نور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگئے تھے ۔

ی،،،،،،،،یہ،،،، ،،سچ ہے،،،،،،،،ک،،،،،کیا،،،، م،،،،م،،،میں اس،،،،،قا،،، ق،،،،،قابل ہوں،،،،،،،،اللہ،، اللہ نے،،،،،،مجھ،،،، ے،،،،،،مجھے ،،،،،،اتن ،،،،،،،بڑی خوشی دی،،،، ،،،،ماہ نور آنسو کے ساتھ اٹک اٹک کر بولی ۔

ہاں اللہ کا کرم ہے یہ ہم پر اسی لیے کہہ رہا ہوں اس نعمت کا حیال رکھو اور اپنا بھی تاکہ اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے بہتے ہوئے آنسو کو صاف کرتے ہوئے بولا ۔

ماہ نور اپنا چہرا ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی تھی ۔

ریلکس یار بہت بڑی خوشی ہے پر اتنا رو گی تو اچھا نہیں ہو گا شایان اسے ساتھ لگائے اس کی کمر سہلاتے ہوئے بولا ۔

تم تم جاؤ یہاں سے اب اب میں میں اور کیرا بےبی رہ لے گئے اکٹھے نہیں ضرورت ہمیں تمہاری،،،،،،،،ماہ نور کو ہوش آیا تو شایان کو کندھے پر مارتے ہوئے آنکھیں دکھا کر بولی ۔

تمہیں نہیں ہے پر بے بی کو بابا کی بہت ضرورت ہے اسی لیے خبر دار جو زیادہ بولی ہو،،،اور یہ کھا کر آرام کرو پلیز،،،،،،،،شایان بولا تو اس کے سب چپ چاپ کھا لیا تھا اور اس خوشی میں باقی سب بھول گئی تھی ۔

پر دونوں نہیں جانتے تھے کے ان کے امتحان ابھی بہت لمبے ہیں،،،،،،جو ان کی خوشیوں کو ختم کرنے والے ہیں ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین ماہ نور کے کمرے کے آگے سے گزر رہی تھی کے زین نے اس کا راستہ روک لیا تھا۔

کیا مسئلہ ہے آپ کو،،،،،،وہ جب سائیڈ سے گزرنے لگی تو زین نے پھر سے راہ روکتے ہوئے آگے آ گیا تھا ۔

اور پھر اس. کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے روم میں لے آیا ۔

کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ،،،،،،،؟؟ زرمین غصے سے بولی ۔

ایم سوری زرمین جانتا ہوں بہت برا  ہوں پر پلیز ایک دفع معاف کر دو،،،،،،بابا کی باتوں میں آ کر یہ سب کر دیا تھا میں نے میں بہت زیادہ شرمندہ ہوں،،،،،،،،،،،وہ اسے صوفے پر بیٹھا کر اس کے قدموں میں بیٹھا سر  کو جھکائے اس کے ہاتھوں کو تھام کر بولا۔

زرمین نے اس کی طرف سرد نظروں سے دیکھا تھا اور اُٹھ کر جانے لگی ۔

پلیز زرمین ،،،،،،،زین نے. اسے پھر سے بیٹھا دیا ۔

زین میرے بابا مر گئے ہیں،،،،،،،بس تمہاری اس ایک غلط فہمی کی وجہ سے ان کو اتنا دُکھ ہوا کے انہوں نے ایک رات میں ہی یہ غم لیا اور اس دنیا کو چھوڑ گئے زین بس تمہاری وجہ سے،،،،،،،،،،،،خود پر گزری اذیت تو معاف کر دوں پر اس کا کیا جو میرے باپ پر گزرا ہے میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی،، ،کبھی بھی نہیں،،،،،،زرمین انسو صاف کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے اہنے ہاتھ چڑا کر بولی ۔

پر زرمین مامس نے مجھے معاف کر دیا تھا،،،،،زین کے لہجے میں شرمندگی کے ساتھ ساتھ آس تھی ۔

انہوں نے کیا ہے میں نے نہیں،،،،،،،،اس لیے یہ سوچ کبھی مت رکھنا کے میں تمہیں معاف کروں گی،،،،،،،. ،زرمین اس کو پیچھے کرتے ہوئے روم سے باہر نکلتی چلی گئی ۔

پیچھے زین بس اس کو دیکھتے ہوئے اپنے کئے ہر عمل پر پچھتانے لے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

عالم چاہنے سب پتہ چلایا تھا گاڑی کا نمبر ہر چیز جھوٹی تھی حورعین کا کہیں پتہ نہیں چل رہا تھا وہ اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا ہر جگہ پر کہیں کوئی سراغ نہیں ملا،،،،،تھک ہار کر اس نے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائی تھی ۔

کہاں ہو تم نین کیوں ھم گئی ہو بس ایک دفع آ جاؤ ہر غم دور کر دوں گا نہیں کروں گا دوسری شادی میں اور بس تم ہم دونوں کی دنیا ہو گی کوئی تیسرا نہیں آئے گا ہمارے درمیان،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ آنکھوں کو موندے خود کے دل میں حورعین سے محاطب تھا۔

اس کے فون کی بیل پر جب اس نے فون کو دیکھا تو وہاں اس کو کوئی میسسج آیا ہوا تھا،،،،،،،،،،،،،،،جس کو اوپن کر کے دیکھا تو عالم شاہ کے ہوش میں ۔

کمرے کے درمیان میں زمین پر خون میں لت پت پڑھی حورعین اور اس کے چاروں اطراف آگ لگی ہوئی تھی،،،،،،،،،ایسے لگتا تھا جیسے اسے بہت مارنے کے بعد زمین پر پھنکا ہو ۔

چیچچچچچچچیچچچچ عالم شاہ سب کا سائیں عالم شاہ ہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہا آج تمہاری محبت کیا کہوں عشق کو اتنا مارا ہے کے اس کا آدھ مرا وجود ہے یہ،،،،،یہ مر تو ویسے بھی جائے گی پر اس کی درد ناک چیخیں تم تک پہنچنیں چاہے،،،،،،،پیچھے سے ویڈیو بناتے ہوئے کسی کی آواز آ رہی تھی ۔

عالم شاہ کو لگا آج اس کی سانس بند ہونے والی ہے آج اس نے جانا تھا بے بسی کس کو کہتے ہیں وہ محبت جس کو اس نے بار بار دھتکار دیا آج وہ مر رہی تھی ۔

یہ سب اسے ویڈیو ملی تھی ۔

پلیز میری بات سنوں،،،،،میری نین کو کچھ مت کرنا تم جو کہوں گئے میں وہ کروں گا بس اسے چھوڑ دو پلیز،،،،،،،عالم ضبط سے چیخا تھا،، عالم نے اسی نمبر پر کال کی تھی جو اُٹھا لی گئی تھی دوسری طرف کوئی بولا کچھ نہیں پر سن سب رہا تھا۔

اوپسسس یہ چیخیں سنوں تمہاری محبوب بیوی کی ہیں،،،،،،پیچھے سے آنے والی آہستہ آوازیں جو اب تیز ہو گئی تھی ۔

یہ اس کا وجود جل رہا ہے دس منٹ ہے اس کو بچا سکتے ہو تو بچا لو ورنہ وہ جل کر راکھ ہو جائے گی،،،،،،،،دوسری طرف سے بولنے کے بعد کال کٹ ہو چکی تھی اور اس کے نمبر پر ایک میسسج آیا تھا۔

صائم اس ایڈریس پر پہچ جاؤ ورنہ وہ اسے مار دیں گئے،،،،،،،،،،،،،،،،اس نے صائم کو کال کرتے ہوئے کہا تھا اور میسسج کرنے کے بعد اس کی گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی پر وہ نہیں جانتا تھا آج اس کی محبت موت کی دہلیز پار کر چکی ہے اس سے بہت دور جا چکی ہے ۔

ایک اور میسج آنے پر جب عالم نے دیکھا تو اس ویڈیو میں وہ دلہن کے روپ میں ڈالا وجود آگ کی نظر ہو رہا تھا اور چیخیں ہی چیخیں تھی ہر طرف،،،،،،،،،،،وہی عالم شاہ کی گاڑی کا توازن بگڑا تھا اور حورعین کی بند ہوتی چیخوں کے ساتھ عالم شاہ کی آنکھیں بھی بند ہونے لگی تھی ۔

میری نین،،،،،،،ایک آنسو کا قطر بہہ نکلا تھا اور وہی اس کی آنکھیں بند ہو گئی ۔

آج عالم شاہ کی محبت ایک ضد کی نظر ہو گئی ۔

عالم شاہ کو آج دو دن بعد ہوش آیا تھا،،،،،،،ایکسیڈنٹ والے دن سے وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا۔

عالم کو جب ہوش آیا تو اس نے خود کو انجان جگہ پر دیکھا تھا سر پر پٹی  لگی ہوئی تھی ۔

بھائی آپ کو ہوش آ گیا شکر ہے میں بابا اور دادا کو کال کرتا ہوں،،،،،،،،،شایان بولتے ہوئے دوڑ کر کال کرنے گیا ۔

تھوڑی دیر بعد سب آئے تھے ڈاکٹر نے عالم کا مکمل چیکاپ کیا تھا عالم نے بے چینی سے سب کی طرف دیکھا ۔

نین کہاں ہے،،،،،،،،،؟؟ عالم سامنے کھڑے سلطان شاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

عالم ابھی آرام کرو تم وہ بھی آ جائے گی ۔

میں نے پوچھا ہے نین کہاں ہے شایان بتاو مجھے کہاں ہے وہ کیسی ہے میری نین بتائے مجھے،،،،،،،،عالم چیختے ہوئے بیڈ سے اترا تھا اور ہاتھ میں لگی ڈریپ کی سوئی اتار کر پھینک دی تھی ۔

بھائی پلیز ابھی آپ آرام کریں ابھی آ جائے گی حورعین بھی،،،،،،،،شایان نے اسے سمجھنا چاہا ۔

ابھی چاہے مجھے وہ میرے پاس چاہے بلاؤں اس کو ابھی عالم کے چیخنے پر شایان اور سلطان شاہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔

بھائی آرام کریں ہم بلاتے ہیں اسے،،،،،،،شایان نے اسے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھانا چاہا ۔

نہیں مجھے نین چاہے بتاؤ کہاں ہے وہ نہ بتاؤ میں خود چلا جاؤں گا آس کے پاس،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ اسے پیچھے دھکا دیتے ہوئے وہاں سے جانے لگا تھا ۔

بھائی آپ ٹھیک نہیں ہیں پلیز،،،،،،،شایان بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگا تھا،،،،،،،،،،،،سلطان شاہ وہی کھڑے بس دیکھتے رہے ۔

میں آپ کو لے جاتا ہوں پلیز بھائی،،،،،،،،،،،،شایان اسے گاڑی کی طرف لے کر گیا تھا وہ جانتا تھا عالم یہ سب برداشت نہیں کر پائے گا پر پھر بھی وہ اسے حورعین کے گھر لے کر جا رہا تھا۔

گاڑی شایان چلا رہا تھا پر آس نے دیکھا تھا عالم کے چہرے پر بے چینی کو،،،،،،،،کبھی وہ سر کے بالوں کو پکڑ کر کھنچتا تو کبھی شیشے پر ہاتھ مارتا۔

جلدی کرو،،،،،،،عالم کے بولنے پر شایان نے سر ہلایا ۔

گاڑی حورعین کے گھر کے پاس روکی تو عالم بینا شایان کی طرف دیکھے جلدی سے اندر کی طرف بڑھ گیا چوکیدار نے دروازہ اسے دیکھتے ہی کھول دیا تھا۔

شایان اندر گیا تو سامنے ہی مسسز سلمان اور سلمان صاحب اپنے بیگ رکھے کھڑے تھے ۔

کیا لینے آیا ہے یہ انسان،،،،،،،،،،،؟سلمان صاحب غصے بھرے لہجے میں چیخے تھے ۔

انکل بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز اس طرح مت کریں،،،،،،،،شایان پریشانی سے بولا جس ہر سلمان صاحب نے نفرت بھرے لہجے میں اس کی طرف دیکھا ۔

مر کیوں نہیں جاتا یہ میری بیٹی کی زندگی میں اذیت دُکھ لکھنے والا یہ شخص جب سے ہماری زندگیوں میں آیا ہے ہم تو برباد ہو چکے ہیں میری بیٹی اس کی محبت میں پہلے پاگل ہوئی پھر موت کو گلے لگا لیا،،،،،،،،سلمان صاحب غصے بھرے لہجے میں بولے 

نین کہاں ہے،،،،،،،،،،،عالم چیخا تھا۔

مر گئی میری بیٹی مر گئی،،،،،،،،سلمان صاحب بولے تو مسسز سلمان جو پاس بیٹھی تھی انہوں نے روتے ہوئے ہاتھوں میں چہرا چھپا لیا ۔

جھوٹ مت بولے وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی آپ سب لوگ مجھ سے جھوٹ بولے رہے ہیں کیونکہ آپ نہیں چاہتے حورعین میرے ساتھ جائے،،،،،،،،،،،،عالم بھی ان کی طرف دیکھتے ہوئے غصے بھرے لہجے میں بولا ۔

اس کو لے جاؤ یہاں سے ہماری زندگیوں میں زہر گھول کر رکھا دیا ہے اس انسان نے سب کی زندگی برباد کر دی ہے اس نے،،،،،،،،،،میری بیٹی کو اس نے جلا دیا تمہارا بدلہ اس معصوم سے لیا میری معصوم بیٹی کو مار دیا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ روتے ہوئے پاس صوفے پر گیر سے گئے تھے ۔

پلیز انکل مجھے بتا دیں دنیا کی ساری خوشیاں لا کر آ سکے قدموں میں رکھ دوں گا کوئی غم نہیں دینے لگا اسے،،،،،،ایک دفع اسے سونپ دیں دوبارہ اسے ایک انچ نیچے آنے دوں گا میرا وعدہ ہے آپ سے،،،،،،،،،،،،،وہ روتے ہوئے التجائیہ بولا ۔

سلمان صاحب نے اس کی طرف دیکھا ۔

کہاں سے لے کر آئے اسے ہم سب سے دور چلی گئی ہے وہ اور اب ہم بھی یہاں سے جا رہے اس کی یادیں ہمیں روز ڈھستی ہیں،،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان عالم کی طرف دیکھتے ہوئے بےبسی سے بولی ۔

آپ کہہ دیں یہ جھوٹ ہے یہ جھوٹ ہے وہ زندہ ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کے پاس جا کر قدموں میں بیٹھا بولا۔

یہ جھوٹ نہیں ہے بھائی وہ سچ میں مر چکی ہے آپ  ہوش میں نہیں تھے حورعین کی لاش جل چکی تھی اسی لئے اسے دفن کر دیا گیا،،،،،،،جب تک صائم بھائی اور پولیس وہاں پہنچی لاش جل کر کوئل ہو چکی تھی،،،،،،،،،،،،،،،شایان کی آواز سن کر عالم نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

میڈیم سر  آپ کی گاڑی آ گئی ہے،،،،،،،،،،چوکیدار اندر آ کر بولا تھا جس پر سلمان صاحب نے سر ہلایا تھا ۔

یہ لو میری بیٹی کی آخری نشانی،،،،،،،یہ چین اس کے بابا نے دی تھی اسے جس کو اس نے کبھی نہیں اتارا اور اس کی لاش کے پاس گیری پڑھی تھی،،،،،،،،،،،،،،مسسز سلمان کھڑے ہوئی تو اس کے ہاتھ میں پکڑا کر اس کے ہاتھ میں رکھ دی تھی ۔

عالم شاہ نے اس چین کو دیکھا تھا اور میٹھو کو زور سے بند کر لیا تھا۔

مسسز سلمان اور سلمان صاحب وہاں سے نکلتے چلے گئے تھے ۔

پیچھے عالم شاہ تھا اور پورے گھر میں اس کی چیخیں تھی ۔

نینننننننننن ن ن ن ن ن ن ن ن تم مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہو،،،،،،،،،،عالم اتنی زور سے چیخا تھا کے گھر کے درو دیوار ہل کر رہے گئے تھے ۔

اس انسان کو میں مٹی میں ملا دوں گا جس نے میری نین کو نقصان پہنچایا،،،،،،،،،،،،آنکھوں میں خون لیے عالم بولا تھا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا آج عالم شاہ ۔

پاس کھڑے شایانِ نے آج پہلی دفع عالم کو دیکھا تھا اس طرح کی حالت میں درد اور تکلیف سے اسے کے خود کے آنسو بھی نکل آئے تھے ۔

ایک مرد رو رہا تھا وہ بھی اذیت کی آخری حد

 تک،،،،،،،،،،،،،،،،پورے گھر کی درو دیوار نے آج عالم شاہ کا ماتم سنا تھا جو اپنی محبت کے لئے کیا گیا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور اتنا نہیں روتے،،،،،،ماہ نور کو بھی آج ہی پتہ چلا تھا حورعین اس دنیا میں نہیں رہی اور وہ زرمین کے ساتھ لگی رونے میں مصروف تھی ۔

آپی ایسے کیسے کر سکتے ہیں لوگ اس کے ساتھ،،،،،،،،،،ماہ نور روتے ہوئے بولی ۔

اچھا ٹھیک ہے آرام کرو اس بچاری کے ساتھ جو ہوا سو ہوا تم اتنا رو رو کر خود کی طبیعت خراب کر لو گی اسی لئے چپ کر جاؤ،،،،،،،،،،زرمین اس کے انسو صاف کرتے ہوئے پیار سے بولی تھی ۔

آپی کیا کرو ایسا لگتا ہے جیسے میرے ساتھ بھی کچھ برا ہو جائے گا مجھے خوف محسوس ہونے لگا ہے اب مجھے ایسے لگتا ہے جیسے،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور ابھی بول رہی تھی کے کمرے میں داخل ہوا شایان جو آ سکا رونا دیکھ رہا تھا اونچی آواز میں بولا۔

سٹاپ اٹ ماہ نور ایک اور لفظ نہیں نکلنا چاہے تمہارے منہ سے ورنہ بہت برا ہو گا اور برا میں کروں گا،،،،،،،،،،،،۔

شایان کے اس طرح کہنے سے ماہ نور لب بھیچے چپ ہو گئی ۔

تم دیکھو اپنی بیوی کو میں اس کے لیے کچھ کھانے کو بھیجتی ہوں ہمارے ہاتھ سے تو کھاتی نہیں تمہارے سے کھا لے گی،،،،،،،،،،،،زرمین اس کی طرف دیکھتے ہوئے بول کر باہر نکل گئی ۔

ماہ نور روتے ہوئے دوسری طرف رُخ کر کے لیٹ گئی تھی شایان آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آیا تھا اور زرمین کی چھوڑی ہوئی جگہ پر بیٹھ گیا ۔

آج میں نے عالم بھائی کو دیکھا،،،،،،،،ان کی حالت دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کے جب آپ کی محبت آپ سے دور چلی جائے تو کیا گزرتی ہے آپ پر،،،،،،،انا اور ضد ہمیں صرف بے سکون ہی کرتی ہے،،،،،،سکون ہمیں صرف محبت دے سکتی ہے،،،،آج سے پہلے میں نے کبھی بھی ان کو اس طرح نہیں دیکھا،،،،،،،،،،،شایان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر ماہ نور کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بول رہا تھا ۔

ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔

اگر میں تم سے دور چلی گئی تو،،،،،،،،،،ماہ نور نے اس کی طرف رَخ کرتے ہوئے کہا ۔

ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا،،،،،،،،،،شایان نے غصے سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

قسمت سے کون لڑ سکتا ہے شایان،،،،،،،مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے بہت غلط،،،،،،،،،،،،میرا دل بہت بے چین سا ہے،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو اس کا لہجہ نم تھا ۔

کچھ غلط نہیں ہو گا تھوڑے دن ہے پھر تم واپس جا رہی ہو میرے ساتھ گھر،،،،،،،،،،میں سب سنبھال لوں گا بس تم میرے سامنے رہو گی،،،،،،،،،،،شایان اس کی طرف دیکھتے ہوئے سرد سا بولا ۔

اس بچے کے لئے لے کر جا رہے ہو مجھے ویسے تو تم نے خود اپنے گھر سے نکال دیا تھا مجھے،،،،،،،،،،ماہ نور غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

ماہ نور میری بات سنو ،،،،،،،،،،،،،،شایان نے اسے بولنا چاہا ۔

نہیں بالکل بھی نہیں سوچنا بھی مت کے میں تمہارے گھر جاؤں گی کبھی بھی نہیں جس گھر سے مجھے ہاتھ پکڑ کر نکال دیا گیا تھا وہاں میں کبھی بھی نہیں جاؤں گی،،،،،،،،،،تم لوگوں کا گھر گھر نہیں ہے شایان وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی بھی تمہارے خاندان کا نہیں ہوتا وہاں مر جاتا ہے جا کر جو بھی تم لوگوں سے جڑتا ہے مر جاتا،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی پیچھے ہوتے ہوئے بولی ۔

ماہ نور یہ تمہاری سوچ ہے بس اور کچھ نہیں،،،،،،،،،،شایان نے اس کے طرف بڑھنا چاہا ۔

نہیں نہیں نہیں،،،،،،،،،،میری پھوپھو مر گئی اور اب حورعین بھی مر گئی شایان اور اب میں بھی مر جاؤں گی،،،،،،،،،،ماہ نور روتے ہوئے عجیب طریقے سے بولی۔

جسٹ شٹ آپ ،،،،،،،،بس کر دو کچھ نہیں ہو گا تمہیں کچھ بھی نہیں میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا،،،،،،،،،،،شایان اسے اپنے ساتھ لگا خود میں بھیچ گیا تھا ۔

کمرے میں ماہ نور کی سسکیاں تھی ،،،،،،جس حالت میں وہ تھی،،،،،حورعین کی موت سے اسے   ڈریپریشن ہونے لگا تھا ۔

شایان مجھے بہت خوف محسوس ہو رہا ہے،،،میں کیا کروں،،،،،،،،،،ماہ نور روتے ہوئے عجیب سے لہجے میں بولی تھی ۔

ریلکس رہو یار کچھ نہیں ہو گا سب اللہ پر چھوڑ دو،،،،،،،،،،،،شایان اسے اپنے ساتھ لگائے دوبارہ بیڈ تک آیا تھا اور اسے وہاں لیٹا دیا ۔

پر دونوں وقت سے انجان تھے کے وقت دونوں کے لیے کیا قیامت لے کر آنے والا ہے جو دونوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

انابیہ اور صائم دونوں مسسز سلمان اور سلمان صاحب کو ائرپورٹ پر لینے کے لئے آئے تھے،،،،،،،،،،صائم انابیہ کو بھی اپنے ساتھ لے آیا تھا،،،،،،،،،جب سے اس کا نکاح ہوا تھا وہ انابیہ کا ویزا وغیرہ پر کام کر رہا تھا وہ جانتا تھا کے اسے کسی بھی حال میں آنابیہ کو اپنے ساتھ لے کر آنا ہے ۔

مسسز حسین اور سلطان شاہ اور حسین شاہ نے یہ ہی بہتر جانا تھا کے انابیہ کو صائم کے ساتھ رخصت کر دیا جائے اسی لئے کسی بھی رسم کے بغیر دونوں اب یہاں تھے ۔

آپ دونوں کیسے ہیں،،،،،،،،،،آنابیہ اور صائم  دونوں سے ملے تھے تو صائم بولا ۔

بہتر ہیں چلے،،،،،،،،،سلمان صاحب پھیکا سا مسکرا کر بولتے ہوئے ان کے ساتھ نکل گئے ۔

تھوڑی دیر میں وہ چاروں گھر پہنچ گئے تھے ۔

آپ دونوں آرام کر لیں یہ روم ہے آپ کا،،،،،،،،،صائم ان کو روم دکھا کر بولا تھا اور وہ آرام کرنے چلے گئے۔

صائم سب ٹھیک ہو جائے گا،،،،،،،،،صائم روم میں آیا تھا تو انابیہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے بولی ۔

بہت مشکل ہے انابیہ سب ٹھیک نہیں ہو گا ہمارے گھر کی دیواریں ہل چکی ہیں ہم دونوں میں ماما بابا کی جان تھی،،،،،،،،،،حورعین کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہی تھی جو ہم تینوں کے جینے کی وجہ تھی جب سے وہ عالم آیا ہے اس نے ہماری زندگی میں زہر گھول کر رکھ دیا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،صائم غصے بھرے لہجے میں بولا ۔

صائم پلیز ریلکس رہے آپ ہی اس طرح کریں گیے تو آنٹی انکل کو کون سنبھالے گا،،،،،،،،،،،،انابیہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کے آگے پانی کا گلاس کرتے ہوئے بولی ۔

تھینک یو انابیہ پتہ نہیں اگر تم نہ ہوتی تو میں اتنا بھی خود کو نہ سنبھال پاتا،،،،،،،،وہ پانی کا گھونٹ بھرنے کے بعد سائیڈ پر رکھتے ہوئے اس کے چہرے کو تھام کر پیار سے بولا ۔

میں نہ ہوتی تو کوئی اور ہوتی،،،،،،،،،،،،انابیہ مسکرائی ۔

کوئی اور کبھی بھی نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تمہیں لکھ چکا تھا میری زندگی میں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے چہرے کو پیار سے تھامے اس کے ماتھے پر لب رکھے بول کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا ۔

انابیہ نے بھی سکون سے انکھو کو موندھ لیا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کھانا کھا لے،،،،،،،،،زین رات کو لیٹ آیا تو زرمین باہر صوفے پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی جو اپنے ہی دھیان سے اوپر جانے لگا تھا حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگا ۔

تم میرے انتظار میں ہو،،،،،،،،،؟؟

آپ کھانا کھائے گیے یا کھا کر آئے ہیں،،،،،،،،،،،،؟؟زرمین اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے عام سے لہجے میں بولی ۔

نہیں میں بس پانچ منٹ میں آیا تم کھانا لگا دو،،،،،،،،،،،،زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا اور اوپر کی طرف چلا گیا ۔

زین جب نیچے آیا تھا زرمین نے کھانا لگا دیا تھا،،،،،،،،،،،،،۔

آپ بیٹھ کر کھا لے میں کافی بناتی ہوں،،،،،،،،زرمین بول کر جانے لگی ۔

تم نے کھانا کھایا،،،،،،،،،،،،؟؟زین سوالیہ انداز میں بولا ۔

جی کھا لیا تھا،،،،،،،،زرمین ہاتھوں کو مسلاتے ہوئے سر کو جھکا کر بولی ۔

مجھے کھانا ڈال دو،،،،،،،زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس پر زرمین نے سر کو اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور چپ چاپ اس کے لیے سالن ڈالنے لگی،،،،،،اور اس کے آگے رکھنے کے بعد جانے لگی ۔

زرمین بیٹھ کر کھانا کھاؤ،،،،،،،،زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

میں کھا،،،،،،،،،،،۔

نہیں تم نے نہیں کھایا اسی لیے کہہ رہا ہوں کھانا کھا لو،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،زین بولا تو زرمین چپ چاپ بیٹھ گئی ۔

سب ٹھیک ہے پریشان کیوں ہو زرمین،،،،،،،،،زین کھانا کھاتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو پریشان سی تھی،،،،،،جب بھی وہ پریشان ہوتی تھی اسے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ سہارا ہیمشہ سے زین ہی رہا تھا ۔

کچھ نہیں بس مجھے بھوک نہیں ہے،،،،،،،،زرمین  دو نوالے کھانے کے بعد بولتے ہوئے اٌٹھ گئی ۔

زین اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور پھر کھانا کھانے کے بعد چیزیں اُٹھا کر کچن کی طرف گیا جہاں زرمین تھی ۔

کیا بات ہے زرمین بتاؤ مجھے،،،،،،،،زین اس کے پیچھے کھڑا پیار بھرے لہجے میں بولا تھا ۔

میری طرف دیکھو یار جانتا ہوں بہت برا ہوں بہت کچھ غلط کر چکا ہوں تمہارے ساتھ بس آخری دفع اعتبار کر لو،،، اس دفع ناامید نہیں ہو گی تم،،،،،،،،،،،،،،،،زین آ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرم لہجے میں بولا۔

آپ کی کافی ،،،،،،،،،،زرمین اس کے آگے کافی رکھتے ہوئے ہوتے وہاں سے جانے لگی ۔

زرمین پلیز شئیر کرو مجھ سے،،،،،،،،زین اس کے آگے کھڑا ہو گیا تھا۔

زین کچھ نہیں ہے بتانے کو،،،،،،،،زرمین لب بھیچے بول کر جانے لگی ۔

تمہاری آنکھیں کچھ اور بول رہیں ہیں،،،،،،،،پیچھے سے زین کی آواز آئی تو زرمین کے جاتے قدم روک گئے ۔

آنکھیں جھوٹ بولتی ہیں زین داغہ دے جاتی ہیں یہ آنکھیں ان پر یقین مت کریں ،،،،،،،،،،زرمین اس کی طرف رُخ کرتے ہوئے بولی اور پھر وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

جب ہمیں لگتا ہے سب ٹھیک ہو رہا ہے پھر سے طوفان ہمارا منتظر ہوتا ہے،،،،،،،،۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زین بھائی مجھے یونیورسٹی جانا ہے ایک ضروری کام سے پلیز جاتے ہوئے مجھ لے جائے،،،،،،،کچھ دن بعد ماہ نور زین کے پاس صبح صبح آئی جب وہ آفس کے لیے نکل رہا تھا ۔

ماہ نور تم ٹھیک نہیں ہو،،،،،،،،،،شایان آئے گا تو تم چکر لگا لینا رہنے دو تم،،،،،،،،زین نے اسے پیار سے سمجھایا تھا ۔

اوکے کوئی بات نہیں میں ٹیکسی کروا کر چلی جاؤں گی،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور غصے سے بولتے ہوئے جانے لگی تھی ۔

اوکے اوکے لے جاتا ہوں غصہ مت کرو،،،،،،،زین بولتے ہوئے اسے لے گیا،،،۔

زرمین کو بتا دیا ہے نہ،،،،،،،؟؟ 

جی بتا کر آئی ہوں،،،،،،،ماہ نور نے جھوٹ بولا ۔

زین اسے لے کر وہاں سے نکل گیا تھا جب گاڑی میں بیٹھنے لگا تواس نے شایان کو کال کی ۔

ہیلو شایان،،،،،،،. اور کال سپیکر پر لگانے کے بعد گاڑی سٹارٹ کر دی اس کال کو ماہ نور صاف سن رہی تھی ۔

شایان ماہ نور سے بات کرو یہ یونی جا رہی ہے میں اس کو چھوڑ تو آؤں گا پر لے تم انا،،،،،،،،،،،شایان کی کال سن کر ماہ نور نے بے زار سا چہرا بنایا،،،،،،،۔

بھائی اس کو گھر واپس چھوڑ دیں،،،،،،،،شایان بولا تو ماہ نورکو غصہ آیا ۔

اگر یہ مجھے گھر چھوڑ دیں گئے تو میں خود چلی جاؤں گی تم فکر مت کرنا،،،،،،،ماہ نور بولی تو زین کی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔

ایسے ہی شایان سے لڑتی رہی،،،،،زین کا تھوڑا سا دھیان اس کی باتوں میں گیا اور اسے سامنے آنے والا ٹرک نظر نہیں آیا اور ایک دم سے بریک بھی نہیں لگ رہی تھی دوسری طرف کوئی گاڑی نہیں تھی،،،،،،،،،،،،،،پر سڑک کنارے دوسرے روٹ پر گاڑیوں کا ایک ہجوم تھا جس کی وجہ سے گاڑی کی تیز ٹکر ہوئی اور گاڑی گھومتے ہوئے الٹی ہوتی ہوئی جا کر سائیڈ پر لگی کچھ گاڑیوں سے ٹکرا گئی اور الٹی ہو گئی ۔

گاڑی میں ماہ نور کے چیخنے کی آوازیں اور ساتھ شایان کے بولنے اور زین کے کی آواز تھی اور پھر اس میں شایان کی ہیلو ہیلو کرتی آواز کے علاوہ خاموشی چھا گئی ۔

ماہ نور کو لگا تھا اس ک وہیم سچ ہو چکا ہے اور شایان کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھیں بند ہو گئی ۔

اس وقت زین کی گاڑی بھیچ سڑک پر الٹی پڑھی ہوئی تھی اور ادھر ادھر اُدھر لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہونے لگا تھا،،،،،،گاڑی کی خاموش فضا میں صرف شایان کی پریشان سی  آواز گھونج رہی تھی،،،،،جو کبھی زین کو تو ماہ نور کو بلا رہا تھا۔

لوگوں نے اپنی مدد سے ان دونوں کو ہاسپٹل پہنچایا تھا،،،،،،،،،اور کسی نے شایان کی آواز سن کر اسے اطلاع دے دی تھی۔

پر جو کچھ شایان کو معلوم ہوا تھا اس نے شایان اور زرمین کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ایک سال بعد ۔۔۔۔۔۔

وہ زندگی کی طرف لوٹتی ہی نہیں ہے کتنی معافی مانگی میں نے اس سے پر یہ نہیں آتی واپس،،،،،،،،،،،،،،،شایان اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس کرتے ہوئے نم لہجے میں بولا تھا ۔

وہ لوٹ آئے گی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس میں بہت زیادہ اچھے موو ہوئے ہیں وہ ضرور لوٹ آئے گی،،،،،،،،،،،،،زرمین سامنے پڑھے وجود کو دیکھتے ہوئے بولی جا میں اس کی جان بستی تھی ۔

آپی کب آئے گی جب میں مر جاؤں گا کیوں نہیں آتی ہوش میں مجھے سزا سے مجھے مارے میں کتنی تکلیف میں ہوں اتنی سزا کافی ہے آپی ہمارا بچہ تک نہیں رہا اس دنیا میں اب اور کیا رہ گیا ہے باقی،،،،نہ  وہ لوٹ کر آتی ہے واپس کب آئے گی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان کو اپنا آپ بے بسی کی انتہا پر لگ رہا تھا ۔

زرمین سامنے پڑی اپنی بہن کو جو مشینوں کے ساتھ زندہ تھی دیکھتے ہوئے پیچھے ہوئی اور روتے ہوئے باہر نکل گئی تھی ۔

ایک سال ہو چکا ہے ماہ نور لوٹ آؤ واپس کیوں نہیں کرتی مجھے معاف میں میں بہت شرمندہ ہوں بہت زیادہ اب نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے چیخا کر بولا ۔

آپ پاگل ہیں پیشنٹ کو ڈسٹرب مت کریں جائے یہاں سے اگر اس طرح کی حرکت کرنی ہے تو،،،،،،،،،،،باہر سے شور سن کر نرنس اندر آئی تھی،،،،،،،،،،اور غصے شایان سے بولی ۔

اس کو بولے یہ اُٹھ جائے میں نہیں کروں گا شور اس کو ٹھیک کر دیں کیوں نہیں کرتے ڈاکٹر اس کو ٹھیک،،،،،،،،،،،،،شایان جب بولا تو نرس کو بھی اس پر ترس آیا تھا ۔

دعا کریں آپ کے پیشنٹ اچھا ریسپان دے رہا ہے آپ دعا کریں بہت جلد ٹھیک بھی ہو جائے گا،،،،،،،،،،،نرس بولی تو شایانِ ماہ نور کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا ۔

اُٹھ جائے آپ کا میاں اور بہن آپ کے لیے بہت روتے ہیں،،،،،،ان کے لیے خود کو ٹھیک کر لیں،،،،ایک شخص آتا ہے رات لے سائے میں اور آپ کے پاس بیٹھ کر روتا ہے اس انسان کے لیے یہ تین ہستیاں ہیں،،،جو آپ کے پاس ایک سال سے دن رات آتی ہیں،،،،،،،،،،،،،،نرس لیٹی ماہ نور سے باتیں کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس کی ڈریپس اور مشینوں کو بھی چیک کر رہی تھی ۔

اور بیڈ پر لیٹی ماہ نور کی آنکھ سے ایک آنسو بہہ کر تکیہ میں جذب ہو گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

عالم شاہ چئیر پر بیٹھا ہوا تھا،،،،،،،،،اور اس کے سامنے تھوڑی دور ایک آدمی کو باندھ رکھا تھا آج پورے ایک سال بعد اسے وہ آدمی ملا،،،،،،بہت کوششوں اور ہر قدم کو پھونک پھونک کر چلنے کے بعد آج عالم شاہ کے ہاتھ میں وہ آدمی آیا تھا جس نے حورعین کے ساتھ یہ سب کیا تھا اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا ہی ایک آدمی تھا ۔

جو کے عالم کا وفادار تھا پر اس  کے فارم ہاؤس میں ایک لڑکی کے ساتھ غلط حرکت کرنے پر اسے نکال دیا تھا عالم نے،،،،،،اور اسے پولیس کے حوالے کیا گیا تھا ۔

وہ عالم کے ہر راز سے واقف تھا اسی لئے وہ ابھی تک عالم کے ہاتھ نہیں لگا تھا اپر عالم نے کسی نہ کسی طرح اسے اپنے قابو کر ہی لیا ۔

اس کے حورعین کے ساتھ یہ سب کر کے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیا تھا پر وہ نہیں جانتا تھا اب اس کے ساتھ ہو گا کیا آج پانچ دن ہو چکے تھے اس کی اس حالت کو عالم نے ہر طریقے سے اسے ٹارچر کیا تھا پر اسے مرنے نہیں دیا اس کی چیخیں اس کا کا رونا عالم کو سکون دے رہا تھا ۔

ابھی بھی اس کے دونوں بازوں کو جلانے کے بعد ان پر نمک مرچیں ڈالی گئی تھی،،،،،،،جس کو روتے ہوئے وہ نہ میں سر ہلا رہا تھا اور اونچی اونچی آواز میں چیخ رہا تھا پر عالم اس کی اس حالت کو دیکھ کر انجوائے کر رہا تھا ۔

بھائی یہ کون ہے اور کیا حالت ہو گئی ہے اس کی؟؟

شایان نے سامنے اد مرے انسان کی طرف دیکھا جس کا وجود جگہ جگہ سے جلا ہوا تھا اور،،،، ،اس کی آوازیں اس کی چیخیں پورے کمرے میں گھونج رہیں تھی ۔

اس نے میری حورعین کو مار دیا تھا وہی دم توڑ گئی تھی نہ اسی جگہ اس طرح مارا تھا تم نے اسے،،،،،،،،،،،،عالم اُٹھا تھا اور اس کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے غرایا ۔

شایان بھی اس کی طرف آیا ۔

نہیں،،،،،،،،،مری،،،، تھی،،،،، وہ،،،، نہیں،،،، مری،،،، تھی ،،،،،جب،،، جب،،،،،،،،وہ آدمی اٹک اٹک کر بولا ۔

کیا مطلب نہیں مری تھی حورعین وہی دم توڑ گئی تھی اس کی لاش ہی تھی جو گھر آئی تھی پر وہ بھی دیکھنے والی حالت میں نہیں تھی،،،،،،،،،،،،شایان اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے پھر عالم سے بولا ۔

نہیں وہ،،،،،،،،،زندہ،،،، تھہ،،،،،زندہ،،،،،،،،،وہ ،،،جلی،،،، ،،،،نہیں تھی،،،، ،،،اس کا،،،،،،بھائی لے،،،، ،،،گیا تھا،،،،،،،،اسے میں،،، ،جھوٹ نہیں بول،،، ،،،،،رہا،،،، ،،،،،،وہ آدمی ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا تھا ۔

عالم نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا اور اسے  اسی طرح پھینکتے ہوئے باہر نکل گیا تھا پیچھے ابھی بھی عالم کے آدمی اس پر تشدد کر رہے تھے وہ اس کو مارتے پھر ٹھیک کرتے اور پھر سے مارنے لگتے ۔

بھائی آپ نے اس کی بات نہیں سنی،،،،،،،،شایان اس کے پیچھے آیا تھا اور صوفے پر بیٹھے عالم شاہ سے بولا جو سگریٹ سلگا کر پی رہا تھا ۔

کیا سنوں بات،،،،،،کیا تھا اس بات میں کے حورعین وہاں زندہ تھی پر بچی تو نہیں نہ چھوڑا گئی مجھے،،،،،،،،،،درس بھرے لہجے میں بولا ۔

بھائی اس نے کہا کے وہ زندہ تھی اور پوری طرح سے نہیں جلی،،،،،،،،شایان کی بات سن کر اس نے آئبرو اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔

تو،،،،،،؟؟

تو یہ کے صائم نے کہا تھا کے حورعین وہی موقع پر زندگی کی بازی ہار گئی ہے اور اس کی لاش اتنی جل چکی تھی کے دیکھ بھی نہیں سکتے تھے اسے،،،،،،،،،،شایان بولا پر عالم اس کی بات نہیں سمجھا،،،،۔

کیا مطلب ہے شایانِ میں نہیں سمجھ پا رہا،،،،،،؟؟

بھائی مجھے ایسے کیوں لگتا ہے حورعین زندہ ہو اور صائم اسے چھپا رہا ہے کیونکہ وہ حورعین کی موت والے دن رات کو انابیہ کو لے کر چلا گیا تھا،،،،،،،،،،،،اس نے کہا تھا اسے بس یہاں سے جانا ہی جانا ہے،،،،،،سب کے روکنے کے باوجود وہ اسی دن چلے گئے،،،،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر عالم نے بھی اسی کی طرف دیکھا آنکھوں میں ایک امید تھی ۔

تو کیا معلوم حورعین زندہ ہو،،،،،،،شایان ابھی بول رہا تھا عالم نے کسی کو کال کی ۔

ہیلو ،،،،،،،،ہاں میں تمہیں کچھ بھیجا ہے مجھے ان دنوں کی فلائٹ کی انفارمیشن چاہے اور کوئی پیشنٹ تھا جس کو ان دنوں میں باہر کی کنٹری شیفٹ کیا گیا ہو سب معلومات چاہیے مجھے،،،،،،،،،،،،،. عالم فون کرتے ہوئے بولا جس پر شایان نے اس کی طرف دیکھا ۔

بھائی ایک اور کام ہمیں انابیہ بھی بتا سکتی ہے کے حورعین زندہ ہے یا،،،،،،،،شایان آ سکی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

وہ زندہ ہو گی اسے کچھ نہیں ہو سکتا،،،،،،،،،عالم ایک خوف اور درد سے بولا تھا۔

ماہ نور کیسی ہے،،،،،،،،،،؟؟ عالم نے بات بدلی،،،۔

ویسی ہی ہے کچھ نہیں بولتی بس روتی ہے،،،،،،جب بھی اس سے باتیں کرتا ہوں بس روتی ہے بہت کہتا ہوں مجھے معاف کر دو پر نہیں کرتی بھائی وہ مجھے معاف نہیں کرتی اسی لیے آنکھیں نہیں کھولتی،،،،،،،،،،،،شایان نم لہجے میں مسکراتے ہوئے بولا ۔

میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری فیلنگز کو شایان،،،،،،،،،مجھ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کے یہ اذیت کیا ہوتی ہے جس آپ کی محبت آپ سے ناراض ہو کر چھوڑ دے،،،،،،،،،،،،عالم نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور بولا ۔

بھائی ہمیں پہلے احساس نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تو وقت ہاتھ میں نہیں رہتا،،،،،،،،میں نے ہر پل اس کو توہین کی ہے اور اب قسمت نے اسے مجھ سے چھین لیا،،،،،،،،پر مجھے یقین ہے اللہ پر اللہ مجھے اسے واپس لا دے گا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ گہرائی مسکراہٹ کے ساتھ ایک یقین سے بولا ۔

ان شاء اللہ،،،،،،،عالم نے اس کا کندھا تھپتھپایا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین آفس پہنچی تو اس کی دوست اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے کھنچتے ہوئے وہاں سے لے کر اس کی سیٹ پر چلی گئی ۔

کیا مصبیت ہے یار،،،،،،،،زرمین اس ہی طرف دیکھتے ہوئے بے زار سے لہجے میں بولی ۔

یار آج سے باس جا رہے ہیں دور کہیں کام سے اور ان کی جگہ ان کا دوست آ رہا ہے جو اس جگہ کو سنبھالے گا اور،،،،،،،،،،ثانیہ بولی ۔

اور کیا کروں پھر،،،،،،،زرمین بے زاری لیے بول کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔

اور سڑی لڑکی وہ بہت زیادہ ہینڈسم ہے،،، اور،،،،،،۔

اور کیا،،،، ،،،،،؟؟

اور میں ڈالوں گی اس پر ڈورے،،،،،،،،،،،،ثانیہ کی بات سن کر زرمین نے اپنی ہنسی روکی تھی ۔

تم اور تمہارے خالی پلاؤ،،،،،،،،زرمین کام کرتے ہوئے بولی تھی جس پر ثانیہ نے اسے گھور کر دیکھا ۔

میں تمہیں اس کو ہٹا کر دکھاؤں گی،،،،،،ثانیہ منہ بنا کر بولی ۔

بیسٹ آف لاک،،،،،،،،میں یہ فائل سر کو دے کر آئی،،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے اندر روم کی طرف گئی تھی ۔

جب وہ روم میں داخل ہوئی تو اس  کے ابس کے سامنے والی چئیر پر کوئی بیٹھا ہوا تھا ۔

سر یہ فائل آپ نے کہا تھا صبح تک کمپلٹ کر دوں،،،،،،،،زرمین اجازت لے کر اندر داخل ہوئی اور اس سے بولی تھی ۔

تھینک مس زرمین،،،،،،،وہ فائل کے کر اسے بولا ۔

یہ آپ کے آج سے نئے باس ہوں گئے جب تک. میں واپس نہیں آ جاتا،،،،،،اس کا باس سامنے اشارہ کرتے ہوئے بولا جس پر بیٹھے شخص نے ایک دفع بھی مڑ کر اس کی طرف نہیں دیکھا ۔

السلام علیکم سر،،،،،،،زرمین مسکراتے ہوئے اپنے پروفیشنل انداز میں بولی ۔

وعلیکم السلام،،،،،،،،چئیر پر بیٹھے شخص نے اس کی طرف مڑ کر جواب دیا تو زرمین کے مسکراتے ہوئے لب سکڑے ۔

میں چلتی ہوں سر دوسری فائل کو دیکھ لوں،،،،،،،،زرمین بول کر جلدی سے باہر نکل گئی ۔

زین جو سامنے چئیر پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا واپس اپنا رَخ بدل کر سامنے اپنے دوست کی طرف دیکھنے لگا ۔

مس زرمین کو کیا ہوا،،،،،،،ویسے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا اچھی لڑکی ہے بہت،،،،،،،وہ ابھی بول رہا تھا کے زین نے اسے گھور رک دیکھا ۔

تُو کیوں ایسے گھور رہا ہے جیسے کھا جائے گا،،،،،،،۔

کیوں بیوی ہے وہ میری،،،،،،،،زین پرسکون انداز میں بولا ۔

کیااااااااااااااا؟؟ بکواس نہ کر زین،،،،،،،،وہ حیرانگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

تجھے میں پاگل لگتا ہوں جو فضول میں ہی تمہارا آفس سنبھالوں گا بینا مطلب کے وہ بھی ایک ماہ،،،،،،،یہ میں صرف اپنی بیوی کو ماننے کے کر رہا ہوں،،،،،،،،،،،زین بولا تو سامنے بیٹے اس کے دوست نے اسے کھا جانے والی آنکھوں سے دیکھا ۔

انتہائی کوئی واہیات انسان ہے تُو،،،،،،،،اس نے بولتے ہوئے اس سامنے والی فائل ماری،،،،،جس کو زین پکڑ کر دیکھنے لگا ۔

یار ناراض ہے مجھ سے بس اب منانا چاہتا ہوں تاکہ زندگی سکون سے گزرے،،،،،،،بچے ہوں اور،،،،ابھی زین بول رہا تھا کے وہ بول اُٹھا ۔

بس بس بس ابھی منا لے پھر بچے بھی کر لینا چل چپ کر کے بیٹھ،،،،،،،،،،،،،اس کے دوست کے بولنے پر زین نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔

دوسری طرف زرمین پریشان اے باہر آئی تھی،،،،،،جب سے ماہ نور کے ساتھ سب ہوا تھا اس کے بعد سے زرمین کا آج پہلی دفع زین سے سامنا ہوا تھا ۔

دل دو سو کی سپیڈ سے دھڑک رہا تھا،،،،،،،،آج پورے نو ماہ بعد اسے دیکھا تھا کیونکہ ایک دفع ہاسپٹل میں جب ماہ نور کو ہوش نہیں آ رہا تھا تو زرمین نے اسے لڑ کر باہر نکال دیا تھا جس کے بعد زین واپس مڑ کر نہیں آیا اور اب اتنی دیر بعد اس سے سامنا ہوا تھا ۔

سوئی محبت نے پھر سے انگڑائی لی تھی ۔

کہیں آنسو تھے جو بہہ نکلے تھے وہ اپنا تھا زرمین کا دل کر رہا تھا اسے کے گلے لگ کر خوب روئے پورے سال کا گھبار نکال دے۔

کبھی کبھی ہمیں ضرورت ہوتی ہے کسی ایسے کی جس کے ساتھ لگ کر بس رو دے انسان اور وہ اسے بینا کوئی سوال پوچھے خود میں بھیچ لے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اس فلائٹ کی ساری ڈیٹل آ چکی ہے سر اور وہ میں نے آپ کو سینڈ کی ہے ایک دن تھا جب ایک کوما پیشنٹ کو وہاں سے دوسرے ملک لے کر جایا گیا تھا،،،،،،،،ارجنٹ بیس پر،،،،،،،،،،دوسری طرف لی آواز سن کر عالم شاہ نے جلدی سے اپنا موبائل نکال کر اس میں سے ڈیٹل دیکھی تھی ۔

اور جو نام اس کے سامنے آئے تھے اس نے  اس کے جسم کے اندر ایک ٹکڑے کو زندگی دی تھی جس میں وہ انسان بستا تھا ۔

نین میری نین زند ہے،،،،،،،،،،عالم نے شکر سے آنکھوں کو موند لیا تھا سے لگا تھا وہ پھر سے جی اُٹھا ہے ۔

شایان جلدی سے آفس آؤ.،، ،جلدی ،،،،،،عالم نے شایان کو کال کی تھی جس پر ہو آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا تھا ۔

جی بھائی سب ٹھیک تو ہے،،،،،،،،،؟؟ شایان گھبراہٹ بھرے لہجے میں بولا۔

شایان وہ زندہ تھی یہ دیکھو ،،،،،،،،عالم کے بتانے پر شایان نے بھی خوشی سے اسے دیکھا تھا ۔

اب اس بات کو ایک انسان کنفرم کر سکتا ہے اور وہ کون ہے بلا،،،،،،،،،شایان بولا تو عالم نے اس کی طرف دیکھا ۔

انابیہ کو کال کرنے لگا ہوں میں بس آپ بولے گئے نہیں،،،،،،،،،،،،،میں پوچھتا ہوں،،،،،،،،،شایان بولتے ہوئے انابیہ کو کال کی ۔

حال چال پوچھنے کے بعد شایان سیدھی بات پر آیا تھا ۔

انابیہ کیا حورعین زندہ ہے،،،،،،،،،؟؟شایان کے پوچھے جانے والے سوال کو سن کر انابیہ نے ایم دفع فون کو دیکھا ۔

تمہیں پتہ تو کے سب شایان، ،،،،،،،،پہلے تو انابیہ گھبرائی پھر اپنی گھبراہٹ پر قابو پا کر بولی ۔

مجھے جاننا ہے حورعین زندہ ہے نہ،،،،،،،،شایان اس دفع بولا تو آ سکا لہجہ سرد اور سخت تھا۔

شایان پلیز میری سنوں،،،،،،،،،،،،۔

شایان وہ زندہ تھی پر،،،،،،،،،،،،اس کی حالت بہت زیادہ خراب تھی اس کی باڈی نبے پرسنٹ جل چکی تھی،،،، ،پورا جسم زخمی تھا،،،،،،،انابیہ جب بولی تو اس کا لہجہ نم تھا اور پاس بیٹھا عالم کو آنکھوں موندے سانسس تک روکے بیٹھا تھا حورعین کا ذکر سن کر زور سے مٹھیوں کو بھیچے کر آنکھوں کو کھولے فون کی طرف دیکھنے لگا وہ اس وقت ضبط کی انتہا پر تھا ۔

حورعین زندہ ہے،،،، ،،،،،،؟؟ شایان نے اپنا سوال دہرایا ۔

شایان نہیں،،،،،،،وہ ابھی اتنا بولی ہی تھی کے صائم کی آواز سن کر باہر کی طرف گئی ۔

پیچھے عالم کو لگا تھا اس کی سانسس آج سچ میں بند ہو گئی ہے ۔

وہ پھر سے ایک دفع مر گیا ہو ۔

شایان اور عالم پوری طرح سے فون میں سے آنے والی باتوں کو سن رہے تھے ۔

انابیہ شاید فون رکھ کر چلی گئی تھی،،،،،،،،پر اگلی آنے والی آواز نے عالم کے جلتے دل پر مرخم کی طرح کام کیا تھا ۔

انابیہ آپی،،،،،میری پرسوں کی فلائٹ ہے اور شکر ہے میرا پیپر ورک کمپلٹ ہو چکا ہے،،،،،،اس آواز کو سنتے ہی عالم کو لگا تھا وہ واپس سے اس دنیا میں آ گیا ہو اس کی سانس پھر سے آنے لگی ہو چہرے پر آنے والی مسکراہٹ اس بات کا ثبوت تھی ۔

عالم نے شکر کے عالم میں سر چئیر سے ٹیکا لیا تھا ۔

اللہ میں تیری کس کس نعمت کا شکر ادا کروں،،،،،،،،،،،،معجزات ہوتے ہیں آج میں نے جان لیا میری نین کو لٹا دیا آپ نے،،،، ،روتے ہوئے بولا تو شایان نے کال بند کر دی تھی ۔

شایان اس کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر مسکرایا تھا ۔

شایان انابیہ کو دوبارہ کال کرو تاکہ اسے شک نہ ہو کے ہمیں کچھ معلوم پڑھا ہے ۔

جی بھائی،،،،،،،،،،،،،اور پھر دوبارہ سے انابیہ کو کال  کی ۔

آپی کال بند کیوں کر دی میں کچھ پوچھا ہے آپ سے،،،،،،،،،،کال اُٹھانے پر جب شایان بولا تو دوسری طرف صائم تھا ۔

کیا بات ہے شایان،،،،،،،،،،؟؟ انابیہ تو کچن میں ہے پر تم مجھے بتا دو،،،،،،،،صائم کے بولنے پر عالم کے اشارہ کرنے پر شایان پھر سے بولا ۔

بھائی کیا حورعین زندہ ہے،،،،،،،؟؟پلیز بتا دیں عالم بھائی بالکل ٹھیک نہیں ہیں اور اب وہ ترکی جا رہے ہیں کل،،،،،،،ہمیشہ کے لیے پلیز بتا دیں،،،،،،،،،،،،شایان کی بات سن کر پہلے تو صائم حیران ہوا پھر خود کو سنبھال کر بولا ۔

تمہیں کس نے کہہ دیا ہے وہ زندہ ہے تمہارے سامنے ہی تو تھا سب،،،،،،،،،،،؟؟ 

ہم اس انسان کو پکڑ کر مار چکے ہیں جس نے حورعین کے ساتھ یہ سب کیا تھا اسی نے بتایا ہے سب کے وہ زندہ تھی،،،،،،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر صائم نے گہرا سانسس لیا تھا ۔

اچھا ہے اس انسان کو سزا ملی ہے ہاں زندہ تھی حورعین پر اب نہیں ہے وہ زندہ مر چکی ہے یہاں لے کر آیا تھا میں اسے پر اب نہیں ہے وہ،،،،،،،،،،،،،،صائم نے کہتے ہی کال بند کر دی تھی ۔

سب کو سزا ملے گی میری نین کو مجھ سے دور کرنے کی سزا بہت سخت تمہیں انا ہو گا میرے پاس اور اس بات کا اقرار بھی تم خود کرو گی کے تم زندہ ہو،،،،،،،،،،،،عالم ایک سوچ کے مطابق بولا ۔

بھائی پلیز اب آپ کو پلن کے مطابق کل ترکی کے لیے جانا ہے مطلب ناٹک کرنا ہے تاکہ حورعین آرام سے یہاں آ سکے،،،،،،،،،،،اور پھر ہم حورعین کو پکڑ لے گئے،،،،،،،،،پھر آپ کا جیسے دل کیا اسے منا لینا،،،،،،،،،،،،،،شایان پوری سمجھ داری سے بولا ۔

ہممممم تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو،،،،،،،،،،،ساری انفارمیشن نکالنی پڑے گی کے وہ کیوں اور کب کہاں رہے گی سب کچھ،،،،،،،،،،،عالم پر سوچ لہجے میں بولا ۔

جس پر شایان نے بھی سر ہلا دیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کا ایک پہر ہوتا تھا جب ایک انسان روزانہ اس کے پاس بیٹھ کر سارے دن کی باتیں کرتا اور اس سے اپنے نہ کردا گناہ کی معافی مانگتا،،،،،،،،،،وہ روزانہ اس کے پاس بیٹھ کر ٹوٹتا تھا اس بیڈ پر لیٹی ہستی کے ساتھ جڑا ہر شخص ہی ٹوٹ چکا تھا اس سب کے بعد ۔

زین اس کے بیڈ کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا،،،،،،،،رات کا یہ وقت ہوتا جب ماہ نور کے پاس کوئی نہیں ہوتا تھا کیونکہ کے یہ دو گھنٹے اس کے پاس نرس اس کا پراپر چیکاپ کرتی تھی پر آن دو گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ زین اس کے پاس رہتا اور اس سے اس چیز کی معاف مانگتا جو اس نے نہیں کیا،،،،،۔

زرمین نے ایک دن زین سے لڑ کر اسے ہاسپٹل سے نکال دیا تھا ماہ نور کے ساتھ جب سے یہ ہوا تھا وہ تب سے زین کے ساتھ بھی نہیں رہ رہی تھی ۔

اس کی رات ہاسپٹل میں اور دن آفس میں گزر جاتا اس کا ایک طرح سے یہ گھر ہی بن چکا تھا ماہ نور کے پاس شایان بھی رہتا تھا ۔

اس وقت دونوں باہر کاروڈور میں تھے ۔

اُٹھ جاؤ ماہ نور بچے اپنے بھائی کا اتنی بڑی سزا مت دو اب بالکل ٹوٹ چکا ہوں ایک دفع معاف کر دو میری وجہ سے تمہارا بچہ تک تم سے چھن گیا،،،،،،،،زین اس کے پاس بیٹھا بولا تھا اور اسی طرح اس سے باتیں کرنے کے بعد اُٹھا تھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا اور اپنے سر پر ہڈی کی کیپ پہن کر جیسے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا ۔

پر وہ نہیں جانتا تھا جن سے وہ چہپا کر آتا ہے وہ سب اس کی حقیقت جانتے ہیں،،،،،،زرمین اور شایان جانتے تھے زین کا یہاں آنا سب کچھ پر وہ چپ تھے کیونکہ کے وہ نہیں چاہتے تھے کے زین کو اس چیز سے آگاہ کر کے اور وہ سب جاننے کے بعد یہاں آنا بند کر دے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

انابیہ شایان کی کال تھی،،،،،،،،،،،صائم بولا تو انابیہ نے بھی اس کی طرف دیکھا اور وہاں بیٹھے ہر انسان نے اسے دیکھا تھا ۔

ان کو شک ہو چکا ہے حور کے بارے میں،،،،،،،،،انابیہ بولی تو صائم نے بھی سر ہلایا ۔

میں نے کہا ہے کے حورعین نہیں رہی تھی،،،،،،،انابیہ سر کو جھکا گئی۔

بیٹا کسی نہ کسی دن تو معلوم چل جائے گا سب کو تب ہم کیا کریں گے اور ویسے بھی عالم کے نکاح میں ہے وہ،،،،،،،،مسسز سلمان صائم کو بولی تھی ۔

ماما میں عالم کو بتانا چاہتا تھا پر حورعین نے انکار کر دیا تھا تب ہی ورنہ میں تو اسے تب ہی بتا دیتا،،،،،،،،،،،،،صائم بولا تو مسسز سلمان اور سلمان صاحب دونوں نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

پلیز بھائی میں،،،،میں نہیں چاہتی کے آپ ان کو میرے بارے بتائے،،،،،،،آپ دیکھ رہے ہیں یہ داغ میں ان کے ساتھ شاہ جی کے سامنے نہیں جا سکتی ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے ان سے بولی تھی ۔

پر یہ سب تو قسمت کا لکھا تھا اب تو کافی حد تک سب ٹھیک ہو چکا ہے حورعین تمہیں اسے بتا دینا چاہے وہ خود ٹھیک نہیں ہے،،،،،،،،،،،،،،،سلمان صاحب بولے ۔

بابا ایک نہ ایک دن ٹھیک ہو جائے گئے شاہ جی شادی بھی کر لیں گے،،،،،وہ بہت ضبط سے بولی ۔

پر اگر میں ان کے پاس گئی اور انہوں نے میرے یہ نشان دیکھے اور مجھے دھتکار دیا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں گی،،،یہ بدنامہ ہے بابا بہت تکلیف دیتے ہیں مجھے تو شاہ جی کو کتنی تکلیف ہو گی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ان سے وہ روتے ہوئے اپنی گردن پر بنے بدنامہ داغ جو جوریوں کی صورت میں تھے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔

حورعین بچے یہ سرجری سے ٹھیک ہو جائے گئے،،،،،،،،،،،صائم کے بولنے پر وہ تلخ سا مسکرائی ۔

جی بھائی ہو جائے گئے شاید،،،،،،،،میرا کام ہے پاکستان جیسے ہی وہ ختم ہو گا میں واپس ا جاؤں گی اور یہاں اپنی ڈگری پھر سے شروع کروں گی،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین ناامیدی سے بولتے ہوئے وہاں سے اُٹھا کر چلی گئی تھی ۔

پیچھے وہ سب اس کو جاتے ہوئے دیکھتے رہ گئے تھے ۔

صائم پلیز شایان کو بتا دیتی ہوں میں کے حورعین زندہ ہے کیا معلوم سب ٹھیک ہو جائے،،،،،،،،،،،انابیہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو ان مسسز سلمان نے بھی سر ہاں میں ہلایا ۔

ہممممم دیکھتے ہیں،،،،،،،،صائم بولا تو وہ دونوں ایک دوسرے کو بس دیکھ کر رہ گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین آفس میں بیٹھی ہوئی تھی اور اب سے آفس کو زین ہی دیکھ رہا تھا،،،،،،زرمین کا زیادہ کام ہی باس کے ساتھ ہوتا تھا اسی لئے وہ تھوڑی پریشان سی تھی ۔

زرمین کاش میں تمہاری جگہ ہوتی تو سارا دن باس کے آگے پیچھے پھرتی رہتی،،،،،،،،اس کیا دوست بولی جس پر زرمین نے بےزاری سے اسے دیکھا ۔

یہ لو فائل اور میری جگہ تم دے آؤ،،،،،،،،،زرمین اسے فائل دیتے ہوئے بولی جس کو وہ تھام کر خوشی خوشی اندر روم کی طرف بڑھ گئی ۔

زرمین شکر کا سانس لیتے ہوئے کام میں مصروف ہو گئی تھی ۔

تھوڑی دیر بعد وہ منہ بنا کر واپس آئی تو زرمین نے ائبرو اَٹھا کر اس کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کیا ہوا ہے ۔

جاؤ تم جاؤ میری تو سر نے بے عزتی کر دی ہے اور کہا ہے کے جس کا کام ہے اسے بھیجوں،،،،،،،،،،،ثانیہ منی بنا کر اسے فائل دیتے ہوئے بولی اس کی بات سن کر زرمین کو زین پر غصہ آیا تھا ۔

اور کرتی کیا اب ناچارا جانا پڑھا اور اس سے فائل لے کر باہر اس کے آفس کی طرف چلی گئی ۔

سر آ جاؤ،،،،،،،،زین نے پوچھا اور اس کی اجازت ملنے پر اندر بڑھ گئی ۔

یہ فائل،،،،،،زرمین اس کے سامنے فائل رکھتے ہوئے بولی جس پو زین نے پورے پروفشنل انداز میں پکڑا تھا اور اسے دیکھنے لگا ۔

زرمین جانے کے لیے مڑ گئی ۔

مس زرمین میں نے آپ کو جانے کا کہا،،،،،،،،،،؟؟زین فائل سے سر اوپر کئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ائبرو اُٹھا کر بولا ۔

سوری سر،،،،،،،،،زرمین بولتے ہوئے لب بھیچ گئی ۔

یہ کچھ اور فائلز ہیں ان کو بھی کمپلٹ کرنا ہے آپ نے،،،،،،،،،،زین نے اس کے آگے فائلیں رکھی ۔

. زرمین ان کی تعداد دیکھ کر گھبرائی ۔

کب تک،،،،،،،،،؟؟

کل تک،،،،،،،،زین کا جواب سن کر زرمین نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا پر زین کے چہرے پر جلانے والی مسکراہٹ تھی ۔

گھٹیا انسان،،،،،،،،،،،،،،زرمین فائلیں اُٹھا کر دل میں بولی  اور پھر سے جانے لگی ۔

میں نے کہا جانے کو،،،،،،،،؟؟

تو کیا کرو ادھر ہی بیٹھی  رہوں تو یہ فائل پر کام کب کروں گی،،،،،،،زرمین اس کی طرف دیکھتے ہوئے بے زار  اور تپا ہوا چہرا لیے بولی ۔

تمیز سے مس زرمین میں آپ کا سر ہو نہ کے آپ کا میاں جس کے ساتھ آپ بدتمیزی کریں،،،،،،،،زین اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بولا ورنہ اسے زرمین کا چہرا دیکھ کر مزا آ رہا تھا ۔

میاں اپنے کو تم میں منہ بھی نہ لگاؤں سر آپ فکر مت کریں،،،،وہ اس قابل نہیں ہیں،،،،،،،،،،،غصے سے جو اس کے منہ میں آیا وہ بول گئی ۔

زین کو اس  کی بات سن کر غصہ آیا تھا اور وہ اپنی چئیر سے اُٹھا کر اس کی طرف بڑا۔

کیوں مس زرمین کون سی ایسی وجہ ہے جو آپ ان کو منہ نہیں لگنا چاہتی،،،،،،زین اس کی طرف آیا،،،زرمین نے اپنے قدم پیچھے لیے ۔

دیکھیں دور  رہے مجھے سے میں کام کر لوں،،،،،،،،،،،،زرمین بول کر وہاں سے جانے لگی تھی ۔

میری بات سنوں تم آئندہ مجھ سے تمیز سے رہنا چاہے میں تمہارا شوہر ہوں یا باس سنا تم نے،،،،،،،،،،،،،،،،بہت سزا کاٹ لی میں نے اور بہت دے دی تم نے مجھے،،،،،اب گھر جانے کی تیاری کرو سنا تم نے ماہ نور کے ساتھ جو ہوا اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے،،،،،،،،،،،،وہ  اس کے بازو کو تھامے ایک ایک بات کو چھبا کر بولا ۔

میں غلام نہیں ہوں مسٹر زین آپ کی کے آپ کی کوئی بات مانو اسی لیے مجھ پر حکم مت چلائے،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے ہاتھ کو جھٹک کر اسے گھورتے ہوئے باہر نکل گئی ۔

زین نے پیچھے گہرا سانس لیا تھا اور خود کو ریلکس کرنے کی کوشش کی ۔

کب ہو گا ٹھیک سب،،،،،،،،زین لب بھیچے بس چپ سا کر گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین آج پورے سال بعد واپس پاکستان لوٹی تھی،،،،،،،،،،،،،،،اپنی زمین پر قدم رکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو ا گئے تھے ۔

کاش وہ سب نہ ہوتا تو آج ہم ساتھ ہوتے،،،،،،،وہ سب سوچتے ہوئے حورعین باہر نکلی تھی اور ٹیکسی لے کر اس ہوٹل کی طرف چلی گئی تھی جہاں سب صائم نے بک کروایا تھا ۔

فریش ہونے کے بعد جب روم میں واپس آئی تو خود کو آئینہ میں دیکھا تھا خود کے داغ چھپانے کے لئے اس نے ہائی نیک پہن رکھی تھی اور اوپر سفید کلر کی جرسی اور نیچے کالے رنگ کی پنٹ تھی ۔

یہ داغ نے مجھے آپ سے دور کر دیا شاہ جی اب دوبارہ ہم کبھی بھی نہیں ملے گئے ۔

وہ مکمل تیار تھی کیونکہ اسے دو دن کے اندر اندر کام ختم کر کے واپس جانا تھا اسی لئے وہ آتے ہی پہلے فریش ہو کر کام کے لیے جا رہی تھی یہ اس کا پہلا ایکسپرینس تھا کیونکہ وہ کبھی بھی اکیلے نہیں نکلی تھی ۔

اس نے اپنا بیگ لیا تھا میں اپنی ضرورت کی ہر چیز رکھی تھی اور فون کر کے صائم اور سلمان صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی ۔

سب کچھ خود کرنا ہے اور جلدی سے جلدی یہاں سے جانا ہے،،،،،،،حورعین خود کو بولی تھی ۔

ابھی وہ اپنے شوز بیگ سے نکال رہی تھی کے باہر دروازے پر ناک ہوا،،،، ،،حورعین نے سر اٹھا کر پوچھا کون ہے ۔

روک سرفس میم،،،،۔

میں نے تو کچھ نہیں مانگایا پھر کیوں،،،،،،،،،حورعین نے بینا سوچے دیکھے دروازہ کھولا تو سامنے جو ہستی کھڑی تھی اسے دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے جلدی سے دروازہ بند کرنا چاہا ۔

حورعین جلدی سے پیچھے ہٹی،،،،،،،،،۔

ک،،،،،،کو،،،،،،،کون ہیں آپ،،،،،،،،،،،،،حورعین نے انجان بنے کی کوشش کی تھی اور گھبراہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔

وہ پوری طرح سے خوفزدہ ہو چکی تھی ۔

عالم شاہ جس نے کندھے پر چادر رکھی ہوئی تھی اس نے اسے اتار کر آگے بڑا اور حورعین کے کندھوں پر ڈال کر اسے مکمل طور پر اس میں چھپا لیا ۔

حورعین خوفزدہ سی پیچھے ہٹی تھی اور اس چادر کو اتار کر پھینکنا چاہا ۔

نین اگر اس کو اتار کر پھینک دیا تو میں بہت برا پیش آؤں گا،،،،،،،،،،حورعین اس کے لفظوں سے خوفزدہ ہو چکی تھی پر اس نے اپنے ہاتھ وہی روک لیے ۔

میں م،،،،،،،مم،،،،،،،،نین نہیں ہوں،،،،،،،،،وہ ممنائی تھی ۔

میں نے تمہیں کہا تھا میں تمہاری خوشبوؤں محسوس کر لیتا ہوں،،،،،،،،عالم اپنے پیچھے کھڑے باڈی گارڈز کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے اسے کمر سے تھامے بولا ۔

چھوڑیں مجھے کیا بدتمیزی ہے یہ،،،،،،،،مجھے جانا ہے مجھے چھوڑ دیں،،،،،،،،،،،،حورعین نم لہجے میں چیخی ۔

تمہیں لگتا ہے تم جا سکتی ہو مجھ سے دور ابھی تو تمہیں پورے سال کی سزا دوں گا وہ بھی سود سمیت،،،،،،،،،،،،،،وہ اس کے گیلے بالوں میں چہرا کئے اس کی خوشبو میں کئی گھم سا ہونے لگا تھا ۔

پیچھے ہٹے مجھ سے نہیں جانتی میں آپ کو،،،،،،،،،،،،،،،حورعین نے روتے ہوئے اسے دھکا دیا ۔

کوئی بات نہیں جان جاؤ گی،،،،،،،،،،عالم نے کہتے ہوئے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا تھا اور اس نے حورعین کا سارا سامان اُٹھا لیا تھا اور پھر لے کر باہر نکل گیا ۔

چلو میرے ساتھ ،،،،،،،،،وہ اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے ساتھ لے کر جانے لگا ۔

نہیں جانا مجھے آپ کے ساتھ چھوڑیں مجھے ،،،،،،،،،،،،،،حورعین اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ رہی تھی پر عالم شاہ اسے کھنچتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا۔

آپی بابا کدھر ہیں،،،،،،،،،،،،؟؟ ماہ نور جس کو ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہوش آیا تھا اور ڈاکٹر نے زرمین کو اطلاع دی تو وہ آئی ہوئی تھی اور اسے دیکھتے ہوئے ماہ نور بولی ۔

کیا مطلب ماہ نور،،،،،،،،زرمین اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانگی سے بولی ۔

آپی بابا کدھر ہیں پلیز ان کو بلائے مجھے یاد آ رہی ہے ان کی،،،،،،،،وہ ابھی بول رہی تھی کے زین بھی آیا تھا ۔

ماموں لندن گئے ہوئے ہیں ایک ماہ تک آ جائے گئے بہت ضروری کام ہے ان کو،،،،،،،،،زین پیچھے سے ا کر بولا تو زرمین نے اس کی طرف دیکھا ۔

زین بھائی آپ کیسے ہیں،،،،،،،،ماہ نور خوش ہوتے ہوئے بولی۔

میں ٹھیک ہوں،،،تم کیسی ہو اب،،،،،،،ماہ نور سے بولا ۔

میں ٹھیک ہوں پر مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا کے میرے ساتھ کیا ہوا تھا کچھ سمجھ نہیں پا رہی،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی طرف دیکھتے ہوئے آرام سے اور الجھن زدہ لہجے میں بولی ۔

کچھ نہیں ٹھیک ہو جاؤ گی تم،،، زین ابھی بول رہا تھا کے ڈاکٹر اندر آئی ۔

کیسی ہیں اب آپ،،،،،،،وہ اسے چیک کر تے ہوئے بولی،،،۔

میں ٹھیک ہوں پر مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا،،،،،،،ماہ نور الجھن زدہ  سی تھی ۔

کوئی بات نہیں آہستہ آہستہ آپ ٹھیک ہو جاؤ گی آپ ایک سال سے کوما میں تھیں اور ابھی آپ کو وقت لگے گا بتائے کیا ڈیٹ ہے آج آپ کے مطابق،،،،،،،،،ڈاکٹر اسے آرام سے پوچھ رہی تھی کے ماہ نور نے اسے حیرانگی سے دیکھا۔

ماہ نور کی بتائی ڈیٹ پر ڈاکٹر کے ساتھ زرمین اور زین بھی حیران ہوئے تھے پر زین کو آگاہ کر چکی تھی ڈاکٹر کے اگر اسے ہوش آیا تو ہو سکتا ہے کے وہ اپنی کافی چیزیں بھول جائے پر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی ۔

پر ایک دم سے اس پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے ۔

اوکے ماہ نور پر اج یہ ڈیٹ نہیں ہے،،،،،،،،،ڈاکٹر نے اسے بہت پیار سے سب سمجھایا تھا جس کو وہ سمجھ گئی تھی پر ابھی بھی کسی سوچ میں گم سی تھی ۔

ان پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیں کیونکہ یہ دماغ پر زیادہ اثر نہ لے ورنہ اس کی میموری پر برا اثر بھی پڑھ سکتا ہے اور دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے اسی پر چیز کا دھیان رکھیں سب چیزیں ایک دم سے یاد کروانے کی کوشش بالکل مت کریں،،،،،،،،،ڈاکٹر نے سائیڈ پر جا کر زرمین اور زین کو سب بتایا تھا ۔

زرمین کو چپ سی لگ گئی تھی ۔

زین اور ماہ نور پرانی باتیں کر رہے تھے کے تب ہی خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ شایان اندر داخل ہوا۔

آپی وہ ٹھیک ہو گئی،،،،،،،،،،وہ خوشی سے سامنے بیٹھی ماہ نور کو بولا ۔

ماہ نور جو زین سے باتیں کر رہی تھی شایان کو دیکھ کر منہ بناتے ہوئے پھر سے نظریں پھیر گئی ۔

ماہ نور کیسی ہو تم،،،،،،،،،،،،شایان نے پوچھا تو ماہ نور نے اسے گھورا ۔

آپ کون ہیں اور میرا نام کیسے پتہ چلا،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے گھوری سے نوازا تھا۔

اور اتنے فری کیوں ہو رہے ہیں آپ،،،،،،،،ماہ نور غصے بھرے لہجے بولی تو شایان نے حیرت زدہ سا اسے دیکھا اور پھر زرمین اور زین کو۔

یہ میرا دوست ہے ماہ نور کام سے آیا ہے،،،،،،،،،زین بولتے ہوئے شایان کو باہر لے گیا جو چپ چاپ اسے کے ساتھ چلا بھی گیا ۔

کتنا بدتمیز تھا نہ کیسے نام لے رہا ہو جیسے بڑی رشتے داری ہے میری اس کے ساتھ،،،،،،،،،،ماہ نور منہ بنا کر  بولی تو زرمین نے اپنی ہنسی چھپائی۔

پتہ چل جائے کون سی رشتے داری ہے تو پھر نہ یہ سب کہو تم،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین بولی تو نہیں بس سوچ کر رہ گئی ۔

دوسری طرف شایان پریشان سا تھا ۔

وہ کیا تھا بھائی ماہ نور نے آیسا کیوں کہا،،،،،،،،،؟؟ شایان اس کی طرف دیکھتے ہوئے پریشان کن لہجے میں بولا ۔

ڈاکٹر نے کہا ہے اسے اپنی لائف کا بہت زیادہ حصہ یاد نہیں ہے اور شاید آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی وہ،،،،،،،،،،،،اسی  لیے تحمل سے رہو،،،،،،،،،،،،،،،زین نے باقی ساری تفصیل بھی اسے بتا دی جس پر وہ چپ سا رہ گیا تھا ۔

تو وہ کیا مجھے ہی بھول گئی ہے،،،،،،،شایان پاس بڑے بینچ پر بیٹھ گیا ۔

ہاں،،،،،،،،،،،،،،،،زین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو افسودگی لیے بیٹھا تھا ۔

ٹھیک ہو جائے گی وہ ہم سب کوشش کریں گئے اور تم بھی کچھ دن ہو سکے تو ہمارے گھر شفٹ ہو جاؤ اور رہی بات زرمین کی تو زرمین کو بھی اب وہی شفٹ ہونا پڑے گا کیونکہ کے اسی میں بہتری ہے سب کی،،،،،،،،،زین اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

میں کیا کہوں گا ایسا کے آپ کے گھر کیوں ہوں،،،،،،،،،،،،؟؟

میں کہا دوں گا تم کام کے سلسلے میں ہمارے گھر رہ رہے ہو تمہارا گھر ابھی بن رہا ہے اسی لئے،،،،،،،کوئی بھی بہانا کر دوں گا،،،،،،،،زین نے اسے بتایا تھا تاکہ وہ ریلکس رہ سکے کیونکہ وہ اس کے چہرے پر پریشانی پڑھ سکتا تھا ۔

جی بہتر،،،،،،،،،شایان بول کر سر ہلا گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کون ہیں آپ اور کیوں لے کر آئے ہیں آپ مجھے یہاں،،،،،،،،عالم شاہ حورعین کو اپنے فارم ہاؤس میں لے کر آیا تھا،،،حورعین اندر آتے ہی غصے سے چیخی تھی ۔

عالم مسکراہٹ کے ساتھ بس اس کی طرف دیکھ رہا تھا عالم نے آگے بڑھا تھا اور اسے خود میں بھیچ لیا ۔

. تمہیں پتہ ہے میں کتنا ترپا ہوں تمہارے لیے،،،،،،،،وہ اسے گلے سے لگا کر خود میں ایسے بھیچے کھڑا تھا جیسے  اسے چھوڑ دیا تو وہ اسے پھر سے چھوڑ کر چلی جائے گی ۔

چھوڑیں مجھے آپ ہیں کون میں نہیں جانتی آپ کو جانے دیں مجھے دور رہے مجھ سے،،،،،،،،،حورعین نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور دھکیلنے کی کوشش کی تھی ۔

حورعین بہت سزا دے لی ہے اب بس اب اور نہیں پلیز مجھے سکون چاہے اور وہ مجھے تمہاری ذات سے ملے گا،،،،،،،،،،اسے چہرے سے تھامے نم آس بھرے لہجے میں بولا ۔

دور رہے میں نہیں جانتی آپ کو آپ کون ہیں سنا آپ نے،،،،،،،،،،حورعین نے اسے دھکا دیا تھا اور اسے خود سے دور کیا ۔

عالم جس کی گرفت ڈھیلی تھی وہ لڑکھڑاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا تھا ۔

نہیں جانتی مجھے نہیں جانتی ،،،،،،،،،،عالم کا اسے خود سے دور دھکیلنا غصہ دلا گیا تھا،،،،،،،وہ اسے بالوں سے دبوچے سرد اور خشک سے لہجے میں اس کے چہرے کو خود کے چہرے کے قریب کرتے ہوئے پھینکارا۔

نہیں نہیں نہیں میں نہیں جانتی آپ کون ہیں،،،،،،،،،،حورعین نے خوف سے آنکھوں کو بند کر لیا تھا،،،،،،اس عالم کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر پڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی پر پھر بھی وہ خود کو مضبوط رکھے ہوئے تھی ۔

تم نین نہیں ہو،،،،،،،؟؟ اس دفع عالم نے اسے چھوڑ دیا تھا اور پیچھے ہوتے ہوئے آہستہ آواز میں بولا ۔

ن،،،،،،،،،نہ،،،،،،،،،نہیں ہوں میں،،،،،نین ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،نم آنکھوں سے نہ میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے ہٹی تھی ۔

اوکے ٹھیک ہے،،،،،،،،،،عالم بولا تھا اور اپنی الماری کی طرف بڑھ کر اس میں سے گن لے کر آیا تھا ۔

گن کو دیکھا کر حورعین کی سانس خشک ہو گئی ۔

تم میری نین نہیں ہو نہ وہ اس دنیا میں نہیں ہے تو پھر میرا بھی اس دنیا میں رہنے کا کوئی جواز نہیں،،،،،،،،،،،،،،،،عالم نے بولتے ہوئے گن اپنی کنپٹی پر رکھی تھی ۔

حورعین نے خوف سے نہ میں سر ہلایا ۔

میری نین نہیں ہے تو اس کا شاہ اس دنیا میں رہ کر کیا کرے گا،،،،،،،،،،،،،،،،عالم نے بولتے ہوئے گن کو لوڈ کیا اور ٹریگر پر انگلی رکھی تھی ۔

حورعین کی آنکھیں خوف سے پٹ گئی اور اس کا چہرہ بالکل سفید پڑھ گیا تھا ۔

ابھی عالم شاہ ٹریگر پر انگلی رکھ کر چلتا حورعین چیخی تھی ۔

شاہ،،،، شاہ،،،،،،،،،،،جی،،،،،،،،نہیں،،،، نہیں کریں پلیز،،،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین روتے ہوئے لرزتے لہجے میں اس کی طرف بڑھ کر اس کے ہاتھ سے گن لینے کی کوشش میں بولی ۔

پھر سے کہوں،،،،،،،،،عالم گن کو اسی طرح رکھے حورعین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جس کی آنکھوں میں خوف  تھا ۔

نہیں نہیں،،،، کریں،،،،،،،،،،،،،،،حورعین لب بھیچے گن کو پیچھے کرنا چاہا ۔

نہیں شاہ جی کہو مجھے،،،،،،،،،عالم چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ بولا ۔

شاہ،،،،،،،،،،شاہ،،،،،،،،،،،،جی مت کریں پلیز،،،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین بولی تو عالم شاہ اسے خود کے نزدیک کرتے ہوئے مسکرایا اُٹھا ۔

مجھے پتہ تھا تم میری نین ہو میں تمہارے سارے ڈاکومنٹس سے بھی ثابت کر سکتا تھا پر میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا تھا،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے پیار بھرے لہجے میں بولا ۔

دوسری طرف حورعین اس کی گرفت میں کسماساتے ہوئے سسکی تھی ۔

مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا شاہ جی،،،،،،،،،مجھے جانے دیں میں اپنا کام کر کے واپس جانا چاہتی ہوں،،،،،،،،،،،،حورعین اس سے پیچھے ہوتے ہوئے رَخ موڑ گئی تھی آنسو بہہ رہے تھے پر اس نے پھر بھی ان کو صاف کرتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔

کیوں جانے دوں تمہیں تم بیوی ہو میری اب بس تیاری پکڑو پرسوں ہی بڑا سا ریسپشن ہو گا اور ساری دنیا جان جائے گی تم زندہ ہو،،،،،،،،،،،عالم اس کا رُخ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا ۔

نہیں نہیں مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ آپ دوسری شادی کر لے اجازت ہے میری طرف سے پر اب میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی طلاق ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین ابھی بولتی عالم جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا غصے سے اس کا جبڑا دبوچ چکا تھا ۔

حورعین درد سے کراہ اُٹھی تھی ۔

اہہہہہ شاہ جی،،،،،،،،،،،،،اس نے بولنا چاہا ۔

آئیدہ طلاق کا لفظ نکلے گا تمہارے منہ سے بتاؤ مجھے،،،،،،،،،،،،،،؟؟ نکلے گا،،،،،،،،،عالم شاہ کی گرفت اتنی سخت تھی کے حورعین کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا جبڑا ٹوٹ جائے گا ۔

آنکھوں میں بے شمار پانی بھرے بامشکل نہ میں سر ہلایا ۔

آگے ہی بہت برا کر چکا ہے تمہارا بھائی تمہیں مجھ سے دور کر کرے اب اس بھول میں مت رہنا کے میں تمہیں خود سے دور کروں گا،،،،،،،،،،،ایک دن ہے تمہارے پاس خود کو تیار رکھوں میرے پاس مکمل طور پر آنے کے لیے ورنہ اس دفع پہلے تمہاری جان لوں گا اور پھر خود مر جاؤں گا مجھے چھوڑ کر جانے کی کوشش کی نہ تم نے حورعین تو اس دفع ہر چیز مٹا دوں گا اپنا وجود بھی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ کی آنکھوں میں لالی اتر آئی تھی غصے سے اس طرح بولا کے حورعین کا پورا وجود اس کے خوف سے کانپ گیا ۔

. بولو جواب دو مجھے تیار کر لو گی نہ خود کو یا ختم کر لوں میں خود کو بھی،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ کا اندازہ اس دفع بھی سرد تھا ۔

ج،،،،،،،،،جی،،،،،،،،،شاہ ،،،،،،جی،،،، ،،،،،حورعین روتے ہوئے بس اتنا ہی بول پائی ۔

گوڈ،،،،،،،،،،،عالم اتنا بول کر باہر کی طرف جانے لگا ۔

اور ہاں آئند مجھے تم اس طرح کے کپڑوں میں نظر نہ انا،،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا۔

حورعین نے سر ہلایا تھا اور بیڈ پر گر سی گئی تھی ۔

بہت برے ہیں آپ شاہ جی بہت برے،،،،مجھے معلوم ہے جیسے آپ آج مجھے اپنا رہے ہیں ویسے ہی مجھے چھوڑ بھی دیں گئے،،، جب آپ میرے جسم پر داغ دیکھیں گئے آپ مجھے چھوڑ دیں گئے آپ کو مجھ سے کراہیت محسوس ہو گی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ لب بھیچے ہوئے سسک اُٹھی تھی ۔

عالم اسے چھوڑ کر سیدھا باہر آیا تھا،،،،،،،،،،،،سگریٹ کو منہ سے لگائے کش لیتے ہوئے پریشان سا ادھر  اُدھر چکر لگا رہا تھا ۔

بہت برا کرتا ہوں تمہاری ساتھ نین پر کیا کروں اگر یہ سختی نہ کی تو تم میری بات کبھی بھی نہیں مانوں گی اور اب عالم شاہ تمہیں کھونے کی ہمت خود میں نہیں رکھتا اب جو بھی ہے تمہیں میرا ہونا ہی ہونا ہے،،،،،،،،،،،،،،،گہرا کشش لیتے ہوئے دھواں ہوا میں چھوڑا تھا ۔

سب دُکھ اور تکلیفیں سمیٹ لوں گا میں تمہاری،،،،،،،،،،،،،،،عالم حورعین کو سوچتے ہوئے خود سے ہی بولا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور کی ضد کرنے پر ڈاکٹر کی اجازت سے اب اسے گھر لے کر آیا گیا تھا اور اب زرمین بھی زین کے ساتھ اسی گھر میں آئی تھی کیونکہ ماہ نور کی میموری میں سے وہ باتیں نکال چکی تھی اسی لئے زرمین مجبوری میں ہی زین کے ساتھ ا گئی تھی ۔

اور شایان بھی ان کے ساتھ آیا تھا زین کا دوست بن کر ان کے گھر میں رہ رہا تھا ۔

یہ سڑا ہوا ہمارے گھر میں کیوں ہے بھائی،،،،،،،،،،،، ماہ نور زین کے کان میں بولی تھی کیونکہ سب ٹی وی لاؤنچ بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔

دوست ہے میرا اسی  لیے اس کو ضرورت تھی جگہ کی تو کچھ دن یہاں رہے گا یہ،،،،پر فکر مت کرو بہت اچھا ہے یہ،،،،،،،،،،،،،زین سامنے شایان کو ایک آنکھ دبا کر بولا تھا جس پر شایان نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ۔

کافی کھڑوس نہیں ہے یہ بندہ دیکھ کیسے رہا ہے آپ کو جیسے ہم اس کے حلاف باتیں کر رہے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو زین نے اس کی طرف دیکھا ۔

تو بچے ہم اس کے خلاف ہی باتیں کر رہے ہیں کبھی تم اس کو سڑا ہوا  کبھی کھڑوس اور کبھی منحوس بول رہی ہو،،،،،،،،،زین اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔

منحوس کب بولا،،،،،،،،ماہ نور نے منہ بنایا ۔

زرمین اور شایان تک ان کی کسڑ پھسر سن رہے تھے ۔

اپنی آپی کو دیکھو ہاں کیسا منہ بنا رکھا ہے،،،،،،،،،،،زین زرمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔

اتنا پیارا تو ہے کیا ہو گیا ہے،،،،،،،،،،ماہ نور مسکراتے ہوئے بولی ۔

تمہیں ایک بات تو بتائی نہیں جب تم کوما میں تھی تو ماموں نے ہمارا نکاح کر کے تو رخصتی کر دی ہے اور ریسپش تمہارے ہوش میں آنے کے بعد رکھنا تھا،،،،،،،،،،،،زین نے بڑی چلاکی سے اپنا کام کیا ۔

کیا کیا کیا،،،،،،،،،،،،ماہ نور ڈرامائی انداز میں بولی کے زرمین اور شایان اک دم سے اس کے انداز پر اچھلے تھے ۔

کیا ہو گیا ہے ماہ نور،،،،،،،،،؟؟

آپی آپی آپ کی رخصتی بھی ہو گئی میری بے ہوشی میں اور میں وہاں کوما میں رہی واللہ،،،،،،،،،،،،،ماہ نور منہ بنا کر بولی ۔

کوئی میرا بھانجا تو نہیں آ گیا،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولی تو زرمین نے زین کو گھور کر دیکھا تھا جو دانت چھپانے کی کوشش میں تھا ۔

نہیں آیا تمہارا بھانجا،،،،،،،،،،،،،،،زرمین دانت پیستے ہوئے بولی ۔

پھر ٹھیک ہے پر میں خوش ہوں پر اب بس بابا آ جائے پھر بڑا سا ریسپشن رکھیں گئے،،،،،،،،،،،،،ماہ نور خوش ہوتے ہوئے بولی ۔

جس پر زرمین اور زین نےاس کی طرف دیکھا تھا شایان بھی اسی کی طرف دیکھا رہا تھا۔

آپ بھی شادی کر لینا ان کے ریسپشن والے دن،،،،،،،،،،،،،،،شایان نے ماحول کو ہلاپھلکا کرنا چاہا ۔

اپنا مشورہ اپنے پاس رکھیں،،،،،،،،ماہ نور منہ بنا کر بولتے ہوئے زرمین کی طرف آئی تھی ۔

ہائے آپی میں بہت خوش ہوں آپ کے لیے،،،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے گلے لگا لیا تھا ۔

زرمین اس کے گلے لگی پر اس نے زین کو گھورا تھا جس نے بڑی چلاکی سے اپنا کام کر لیا تھا تاکہ زرمین اس کے کمرے میں رہ سکے ۔

کمرے میں تو میں تمہارے پھر بھی نہیں رہنے والی مسٹر زین،،،،،،،،،،،،،،زرمین اسے دیکھتے ہوئے دل میں خود سے بولی ۔

زین کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اب ماہ نور زرمین سے باتیں کر رہی تھی اور شایان زین کے پاس چلا گیا ۔

بہت تیز ہیں بھائی آپ ادھر میری چھٹی کروا کر خود اپنی کو اپنے پاس رکھنے کا انتظام کر لیا واہ کیا کہنے آپ کے غریب کی آہ لگئے گی آپ کو،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان کے بولنے پر زین کا قہقہہ بے ساختہ نکالا تھا ۔

رات کو پہرا ہوا تو سب ہی اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے تھے زرمین ماہ نور کے ساتھ اس کے کمرے میں سونے لگی ۔

آپی یہاں کہاں چلوں جاؤ اپنے میاں کے پاس چلو چلو شاباش،،،،،،،،،،ماہ نور اسے بیڈ سے اُٹھاتے ہوئے بولی ۔

ماہ نور تمہاری طبیعت بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے اس طرح میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاسکتی،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین. بولی تو ماہ نور نے نہ میں سر ہلایا ۔

میں کوئی بیمار نہیں ہوں جاؤ جاؤ،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے اسے زین کے کمرے میں چھوڑنے چلی ۔

پکڑے اپنی بیوی کو میں سونا ہے اکیلے ہی ان کو رکھیں اپنے پاس،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے زرمین کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں دے آئی اور خود اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔

زرمین ابھی اپنا ہاتھ کھنچتی زین نے اسے کوئی بھی موقع دئے بینا اس کا ہاتھ پکڑا کر اسے اندر کمرے میں کھنچ لیا تھااور دروازہ بند کر دیا ۔

کیا بدتمیزی ہے یہ زین چھوڑیں مجھے،،،،،،،،،،،زرمین نے اس کے ہاتھ میں سے ہاتھ نکالنے کی کوشش کی تھی ۔

کوئی بدتمیزی نہیں ہے بس یہ بتانا ہے کے اب تم یہی رہو گی،،،،،،،،،،،،،،زین نے آرام سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا،،،اور خود پیچھے ہٹ گیا تھا۔

مجھے نہیں رہنا یہاں،،،،،،،،،،میں دوسرے روم میں سو جاؤں گی،،،،،،،زرمین وہاں سے جانے لگی تھی ۔

زرمین واپس آ کر آرام سے یہاں سو جاؤ ورنہ میں بہت برا کروں گا،،،،،،،،ٹھیک ہے میں غلط تھا بہت برا ہوں پر ماہ نور کے ساتھ جو ہوا اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا،،،اور اس چیز کی سزا مجھے مت دو،،،،،،،،رہی ماموں یا تمہارے ساتھ وہ سب کرنے کی تو اس کے لیے میں دل سے شرمندہ ہوں،،،،،،،،،،زین تحمل سے سب بول رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کے وہ زرمین کو خود سے بدزن کر لے ۔

میں تم سے جس طرح سے کہو گی معافی مانگ لوں گا پر اب پلیز دور جانا چھوڑ دو مجھ سے میں بہت زیادہ تھک چکا ہوں اس سب سے پلیز زرمین،،،،،،،،،،،،زین ایک آس سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

زین اس کی طرف بڑا۔

میں سو جاؤں گی،،،،،،،،،زرمین نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خود کے قریب آنے سے روکا تھا اور چپ چاپ جا کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔

زین کافی دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر اُٹھا کر لائٹ آف کر دی تھی اور خود کمرے سے باہر نکل گیا ۔

زرمین نے اس کا جانا محسوس کیا تھا اور کئی بے آواز آنسو آنکھوں سے بہہ کر تکیہ میں جذب ہو گئے تھے ۔

معافی اتنی آسانی سے کیسے دے دوں،،،میری محبت کوئی مزاق تھی جو بدلے کی نظر کر دی میری محبت آپ نے زین،،،،،،،،ماہ نور آنسو صاف کرتے ہوئے آنکھوں کو بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ماہ نور نے لائٹ آف کی تھی اور خود بستر میں گھس کر آنکھوں کو بند کر کے سونے کی کوشش میں تھی ۔

پورے کمرے میں اندھیرا تھا ۔

ک،،،،،،،،،ک،،،،،،،،کون ہے،،،،،،،،،،،ماہ نور کو خود کی کمر پر کسی کا رنگتا ہوا ہاتھ محسوس ہوا تو ماہ نور خوف سے بولی ۔

میں بھوت ہوں،،،،،،،،اور تم پر عاشق ہو چکا ہوں،،،،،،،،،،،،،شایان اس کے کان میں سرگوشی نما بولا تھا۔

ماہ نور خوف سے آنکھوں کو اور بھی زور سے بند کئے کلمہ پڑھنے لگی ۔

شایان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی اندھیرے میں وہ اسے دیکھ تو نہیں پا رہا تھا پر اس کی بڑبڑاہٹ اور اس کی لرزش کو محسوس کر رہا تھا پر اتنے دن بعد وہ اسے ہوش میں ملی تو وہ کیسے خود کو اس سے دور کر سکتا تھا ۔

اس نے ماہ نور کا رَخ خود کی طرف کیا تھا ،،،،،،،،اور نرمی سے اس کے ہونٹوں کو چھوا ۔

تم سب کو بے وقوف بنا سکتی ہو مجھے نہیں میں تمہاری آنکھوں کو پڑھنے کا ہنر جانتا ہوں،،،،،،،،،،،،،،،،،،اس کے چھونے سے ماہ نور خود میں سمٹتے ہوئے اس سے اور بھی پیچھے ہونے لگی ۔

سوچنا بھی مت،،،،،بہت ناٹک کر لیا اب دور گئی تو سب کو سچ بتا دوں گا میں،،،،،،،،،،شایان سخت لہجے میں بولا ۔

چھوڑیں مجھے مسٹر شایان،،،،،،،،،،،ماہ نور غصّے سے اس سے دور ہونے کی کوشش میں تھی جو مکمل طور پر اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔

کیوں دور کیوں ہونا ہے مجھ سے کس چیز کی ناراضگی ہے بتاؤ اتنی سزا کافی نہیں تھی میرے لیے کے تم سے سال بھر دور تھا اور اب یہ یادداشت جانے کا ناٹک کیوں کر رہی ہو،،،،،،،،،،،شایان نے ہاتھ بڑا کر لیمپ جلا دیا تھا جس سے کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیل گئی تھی ۔

آپی کے لیے کیا سب،،،،،،،،،،،آپی اور زین بھائی کے لیے دونوں بہت دور ہیں خود سے میں محسوس کیا ہے دونوں کو بہت محبت ہے پر دونوں ہی ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے ہیں میں نے رات کے سناٹے میں زین بھائی کی سسکیاں سنی ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،ان کے بہتے آنسو مجھے محسوس ہوئے ہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور  شایان کی ٹی شرٹ کے گلے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی ۔

میرا رونا بھی یاد ہے کے بھول گئی،،،،،،،،،،شایان کی بات سن کر اس نے اسے گھورا ۔

مجھے یاد ہے تم نے ایک لڑکی بھی دیکھ رکھی ہے جس کے ساتھ تم شادی کرنے والے ہو،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اسے گھورتے ہوئے بولی ۔

اب میری بیوی آ گئی ہے اب نہیں،،،،،وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے ہونٹ پر انگلی پھیرتے ہوئے بولا ۔

ہاتھ مت لگانا،،،،،،،ماہ نور نے اسے گھورا ۔

ہمارا بچہ مر گیا نہ شایان،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔

کاش اس دن میں بھائی کی بات مان لیتی تو اج یہ سب نہ ہوتا اور ہمارا بچہ زندہ ہوتا ہمارے ہاتھوں میں،،،،،،،،،،ماہ نور نے بولتے ہوئے رونا شروع کر دیا تھا شایان کو خود اس چیز کی تکلیف تھی اس کی پہلی پہلی اولاد اور پھر یہ سب ماہ نور کے ساتھ ہونے سے شایان خود بہت ٹوٹ چکا تھا ۔

شایان اسے خود میں بھیچ چکا تھا ۔

آج جتنا رونا ہے رو لو پھر اس کے بعد خوشیاں ہماری منتظر ہوں گی وہ اس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولا تھا۔

تھوڑے دن پھر تم گھر جاؤ گئی میرے ساتھ،،،،،،،،،شایان بولا تو ماہ نور نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔

میں نہیں جانا چاہتی وہاں،،،،،،،،ماہ نور نے اس کے سینے پر سر رکھ کر آنکھوں کو بند کر لیا تھا۔

کیوں میری جان وہاں جانا تو پڑے گا،،،،،،،،،،،اور تمہیں ایک اور بات بتانی تھی کے،،،،،،شایان بولا تو ماہ نور نے آنکھوں کو کھول کر اس کی طرف دیکھا ۔

.

 کے کیا،،،،،،،،،،،،؟؟

حورعین زندہ ہے،،،،،،،،،،شایان نے بتایا تو ماہ نور نے خوش ہوتے اس کی طرف دیکھا ۔

سچ میں ،،،،،کیا مطلب کب کیسے ہوا سب،،،،،،،،؟؟

آرام سے آرام سے تھوڑا ٹھیک تو ہو جاؤ سب بتا دوں گا ابھی صرف میں اور تم باقی دنیا بعد میں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ مسکراہٹ کے ساتھ اس کی ناک دبا کر بولا ۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں ہاسپٹل پہچا تھا،،،،،،،اور ڈاکٹر نے بتایا تھا کے تم کوما میں ہو اور تب مجھے لگا میری زندگی وہی ختم ہو گئی ہو،،،میری سانس نہیں رکتی تھی باقی سب تو جیسے ختم ہو چکا تھا میرے لیے،،،،،،،،،،،،شایان جب بولا تو اس کے لہجے میں کرب اور تکلیف تھی ۔

تمہیں پتہ ہے ماہ نور میں نے اللہ سے رو رو کر تمہیں مانگا ہے دوبارہ،،،،،،،،،وہ ماہ نور کے ماتھے پر لب رکھے مسکرایا ۔

میں سب سنتی تھی پر پتہ نہیں ایسے لگتا جیسے سب حیال ہو،،،،،،،،،جب ایکسیڈنٹ ہوا سب سے پہلا حیال مجھے تمہارا آیا تھا اور مجھے لگا اگر میں مر گئی تو شایان تو دوسری شادی کر لے گا اور پھر،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،شایان جو اس کی بات غور سے سن رہا تھا ابھی مرنے والی بات پر غصہ کرتا اس کی اگلی بات سن کر اسے ہنسی آئی ۔

اور پھر کیا،،،،،،،،؟؟

پھر میں رَخ بن کر آتی اور تمہیں اور تمہاری بیوی کو زندہ جلا دیتی،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور ہاتھوں کو اس کے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منہ چڑھا کر بولی ۔

ہاہاہاہاہاہا میری جان میں تو تمہیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا میں،،،،،،،،میں چڑیل بیوی بھی اپنے پاس رکھ لیتا،،،،،،،،،وہ ہنستے ہوئے بولا ۔

شٹ آپ ،،،،،،،،،،،ماہ نور نے اسے مکا مارا تھا ۔

اب دفع ہو جاؤ مجھے سونا ہے،،،،،،،،،ماہ نور اسے پرے کرتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔

کہاں آج تو کوئی چھوٹ نہیں ہے سوچنا بھی مت،،،،،،،،،وہ اسے خود کی طرف کھنچ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔

میں بہت رویا ہوں تمہارے لیے ماہ نور بہت مس کیا میں نے تمہیں،،،،،،،،،شایان بولتے ہوئے اس کے گردن میں منہ چھپا گیا ماہ نور کو اس کے ہلتے ہوئے ہونٹ اپنی گردن پر محسوس ہو رہے تھے ۔

کچھ رنجشوں اور پریشانیوں  اور کچھ آزمائشوں کے بعد آج شایان کو اس کا حاصل مل گیا ماہ نور نے بھی گزرا ہر پل بھول کر اسے پوری طرح سے اپنا آپ  سونپ دیا ۔

دونوں کی زندگی خوشیوں سے بھر گئی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین کی جب صبح آنکھ کھلی تو زرمین کا سر زین کے سینے پر تھا اور اس کے گرد حصارِ بن رکھا تھا ۔

زرمین نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا اور کتنی ہی دیر اس کو دیکھتی رہی اور پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو چھوا تھا،،،،،،،،،اور نم آنکھوں سے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے اس سے دور ہونا چاہا ۔

زین نے اس کے دور ہونے پر اس کے گرد حصارِ اور بھی مضبوط کر لیا،،،،،،،،زرمین نے اس کی چہرے کی طرف دیکھا جہاں مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی،،،،،،،،،،،،،،،زرمین اس کی مسکراہٹ دیکھ کر گھبرائی اور اسے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے سے دور ہونا چاہا پر زین نے اسے اپنے اور بھی نزدیک کرتے ہوئے اوپر گرا لیا ۔

مجھے آفس کے لیے دیر ہو رہی ہے مجھے جانا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین نے جب اسے خود سے دور نہ کر پائی تو گھبراہٹ بھرے لہجے میں بولی ۔

میرا اپنا آفس ہے سنبھال لوں گا میں،،،،،،،،،،،،زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو نظروں کو جھکائے کنفیوز سی تھی ۔

پلیز چھوڑیں مجھے زین،،،،،،،،،زرمین پھر سے ممنائی ۔

رات کو تو خود ساتھ ساتھ آ کر چیمٹ رہی تھی میں نے کہا کئی صبح اَٹھا کر الزام ہی نہ لگا دے کے،،،،،،،،،،،،،،،زین ابھی بول رہا تھا کے زرمین نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔

مجھے الزام لگانے کی عادت نہیں ہے،،،،،،،سنا آپ نے 

 چھوڑیں مجھے،،،،،،،،وہ اپنے  گرد حصارِ تورتے ہوئے  غصے سے چیخی تھی ۔

زین نے اسے چھوڑ دیا تھا اور زرمین اُٹھی تھی اور جلدی سے روم سے باہر نکل گئی ۔

آف مسافت بہت لمبی ہے یار زین تیری تو،،،،،،،،،،،زین منہ بنا کر بولتے ہوئے اُٹھا تھا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️

یہ کپڑے کیوں نہیں پہن رہی تم،،،،،،،،،،،،عالم شاہ کمرے میں آیا تھا اور حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو منہ بنا کر بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔

کیوں کے مجھے نہیں پسند اسی لئے،،،،،،،،،وہ کندھے اچکا گئی ۔

کیوں نہیں پسند تمہیں یہ،،،،،؟؟ اتنے خوبصورت تو ہیں یہ،،،،،،،،،،،عالم نے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا تھا جو ہلکے پرپل رنگ کی شارٹ فراک اور ساتھ پلازو تھا،،،،۔

مجھے نہیں پہنے بس نہیں تو نہیں،،،،،،،،،،حورعین چیخی تھی ۔

میں خود پہنا دوں،،،،،،،،عالم شاہ  ائبرو اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑا ۔

پلیز شاہ جی مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ کئی بھی ،،،،،،،،،،،حورعین نہ میں سر ہلاتے ہوئے جلدی سے اُٹھا کر بھاگنے والی تھی ۔

کہاں جا رہی ہو پانچ منٹ میں یہ پہن کر آو ورنہ میں خود یہ کام کروں گا اور تمہیں میرا وہ عمل بالکل بھی پسند نہیں آئے گا،،،،،،،،،،،،،،،،عالم نے اسے گھور کر کہا جس پر حورعین غصے سے منہ بناتے ہوئے ڈریس لیا اور ڈریسنگ کی طرف بڑھ گئی ۔

حورعین نے جب اپنی ہائی نیک اتاری تو اپنے نشانوں کو دیکھتے ہوئے ان پر ہاتھ پھیرا تھا چہرے پر عجیب سا تاثر تھا،،،،،،،،خود کو رونے سے باز رکھتے ہوئے اس نے اپنے بیگ سے ایک بلیک رنگ کا نیک شیپ نکال کر گلے میں پہن لیا تاکہ اس کی گردن نظر نہ آئے اور پھر جلدی سے ڈریس پہن کر جب باہر نکلی تو عالم شاہ کمرے میں نہیں تھا ۔

ڈریسنگ ٹیبل سے بریش لے کر بالوں کو کنگی کیا،،،، ،،،،،،،،وہ سادگی میں بھی حیسن لگ رہی تھی ۔

بیڈ کے پاس پڑی اپنی ہیل والا جوتا پہن لیا جس کو بامشکل ہی وہ کیری کر پا رہی تھی اس سے چلنا مشکل ہو رہا تھا ۔

آرام آرام سے چلتے ہوئے جب سیڑھیوں سے نیچے اتری تو سامنے ہی عالم شاہ اپنی شان سے چلتے ہوئے اندر آ رہا تھا اس وقت وہ فون میں مصرف تھا اس کا دھیان حورعین کی طرف نہیں تھا ۔

شاہ جی آپ کے آگے میں کچھ بھی نہیں اور اب تو میرے جسم پر اتنے بدنام داغ ہے جو کو دیکھ کر ہی آپ کو کراہیت محسوس ہو گی،،،،،،،،،،،حورعین سامنے آتے ہوئے عالم شاہ کو دیکھ کر بولی جو ایک بہترین پرسنیلٹی رکھتا تھا اور ابھی بھی کوئی شہزادہ ہی لگ رہا تھا ۔

بات کرنے کے بعد حورعین کے پاس آیا جس کے چہرے پر نمی تھی ۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو نین،،،،،،،،،،،وہ حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ٹرانس کی کیفیت میں بولا تھا اس کے چہرے پر چمکتے ہوئے آنسو جو کسی موتی کی طرح لگ رہے تھے جس کو عالم شاہ نے ہاتھ بڑھا کر کر صاف کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے ۔

چلیں ہمیں خویلی جانا ہے،،،،،،،،عالم شاہ نے کہا تو حورعین نے نہ میں سر ہلایا ۔

پلیز شاہ جی مجھے نہیں جانا کہیں بھی پلیز،،،،،،خویلی تو بالکل بھی نہیں،،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین نم لہجے میں بولی تھی ۔

ہم بس تھوڑی دیر جانا ہے پھر مل کر واپس آ جائے گئے اور پھر ڈنر ہے ہم دونوں کا بس،،،،،،،،،حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس اس کے اس طرح کہنے سے لب بھیچ گئی اور اس کے ساتھ چلنے لگی ۔

عالم شاہ نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے حصار میں لیا کیونکہ اسے ہیل کی وجہ سے چلنے میں پریشانی ہو رہی تھی ۔

اسے آرام سے گاڑی میں بیٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا تھا اور پھر خویلی لے کر گیا وہاں سب اس سے مل کر خوش ہوئے تھے اور عالم نے ان کو ریسپشن کا بھی بتایا تھا ۔

پھر دونوں نے ڈئنر کیا اور رات کو واپس فارم ہاؤس ہی آئے تھے ۔

حورعین گاڑی میں بیٹھی بیٹھی ہی سو گئی تھی ۔

عالم نے اسے باہوں میں بھرا تھا اور اسے اوپر روم کی طرف لے گیا ۔

بیڈ پر رکھا اور اس کے گلے کے گرد ڈوپٹے کو پیچھے کیا تھا،،،،،۔

یہ کیا لگا رکھا ہے نین نے،،،،،،،،،،،عالم نے اس کے گلے میں پہین نیک کو دیکھا اور پھر آرام سے اسے چھوتے ہوئے اتارنے کی کوشش کی جب اس کو اتارا رہا تھا حورعین نیند میں ایک دفع کسمسائی ۔

پھر بھی عالم نے اس کے کمفرٹ کے لیے اسے اتار تو جو کچھ اس نے دیکھا اس سے عالم وہی شل سا رہ گیا تھا ۔

حورعین کی گردن کا ایک پورا حصہ جلے ہوئے نشانوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ بہت بدنامہ تھے ۔

تو کیا یہ وجہ ہے،،،،،،،،،عالم نے ایک نظر اسے دیکھا اور اس کی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے واپس اس نیک کو اسے کے گلے میں ڈالا تھا اور اس کے اوپر کمفرٹ ٹھیک کرتے ہوئے وہاں سے اُٹھا کر باہر چلا گیا ۔

میری نین کے ساتھ اتنا برا کیا اس نے،،،،،،،،،عالم کی  آنکھوں کے سامنے جب جب وہ نشان آتے عالم ضبط سے مٹھیوں کو بھیچ لیتا ۔

عالم نے اپنا فون نکالا اور صائم کو کال کی تھی ۔

کیا ہوا تھا نین کے ساتھ سب سچ بتاؤ،،،،،،،،عالم اس کے فون اُٹھاتے ہی بولا ۔

حورعین نہیں ہے،،،،،،،،،،،،،صائم ابھی بولتا عالم غصے سے غرایا ۔

نین میرے پاس ہے صائم،،،،،،،مجھے سچ جاننا ہے اس کے ساتھ کیا ہوا تھا بتاؤ مجھے،،،،،،،،،عالم کا لہجہ سخت تھا ۔

حورعین تمہارے پاس کیا کر رہی ہے،،،،،،،،،،،،،،؟؟صائم بھی غصے سے بولا۔

وہ بیوی ہے میری،،،،،،،،،اسی  لیے مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا اس کے ساتھ،،،،،،،اس کی گردن پر نشان،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے روکا ۔

وہ ٹھیک تو ہے،،،،،،،،؟؟ 

مجھے سچ بتاؤ،،،،،کیا ہوا،،،،،،،،،؟؟عالم صائم کی بات کاٹ کر کے بولا ۔

جب تم نے مجھے میسج کیا تھا اس سے پہلے ہی مجھے حورعین کا پتہ چل چکا تھا،،،، ،اور پھر جب میں وہاں پہچا تو دیکھا کے حورعین کا آدھے سے زیادہ جسم جل چکا تھا اس کے چہرے کو چھوڑ کر،،،،،،،،،،،،،،،،،،،اور اس کی زندگی کو خطرہ تھا ۔

میں نے اسے ہاسپٹل شیفٹ کیا اور پھر ڈاکٹر کی ہدایت لیتے ہوئے اپنے ایک دوست سے بات کرنے کے بعد اسی دن حورعین کو ایمرجنسی میں میڈیکل کے ایشو پر لے گیا حورعین کے پاس ویزا پہلے سے ہی تھا اسی لیے یہ سب میں وقت پر کر سکا ۔

تم سے چھپانے کے لئے میں نے ایک لاش لی تھی اور آس کی شکل کسی کو نہیں دکھائی اور اس کو دفن کر دیا،،،،،،،،،،ماما بابا کو بھی اس بارے میں نہیں بتایا تھا،،،،میں بس کسی کو بھی طرح  بہانا بنا کر وہاں سے انابیہ کو لے کر اسی دن چلا گیا۔

وہاں جا کر حورعین کا علاج کروایا اس کی بہت سی سرجری بھی ہوئی تھی پر پھر بھی یہ گردن کی سرجری خطرناک تھی اسی لئے یہ ماما نے نہیں کروانے دی،،،،،،،،،،،،،،۔

ماما نے ہم نے اسے کہا تھا کے وہ جائے تمہارے پاس پر وہ خوفزدہ تھی کے اگر تم نے وہ سب نشان دیکھنے کے بعد اسے دھتکار دیا تو وہ جیتے جی مر جائے گی،،،،،،،،،،،،،،صائم سب بولا تو عالم جو اس کی ہر بات غور سے سن رہا تھا چپ کر گیا ۔

پلیز اسے اب کوئی تکلیف مت دینا وہ آگے ہی بہت تکلیف برداشت کر چکی ہے اس آگ میں اس کے جسم کا آدھے سے زیادہ حصہ جل چکا تھا یہاں کے بہترین علاج کی وجہ سے وہ اب زندہ ہے ورنہ شاید وہ،،،،،،،،،،،،،صائم ابھی بولتا عالم بولا۔

آگے کچھ مت کہنا صائم ورنہ بہت برا ہو گا،،،،،،،،،،،عالم بولا تو اس کا انداز سرد تھا اور بولتے ہی اس نے فون بند کر دیا ۔

اتنی تکلیف دی ہے اس انسان نے تمہیں اب میں اسے کا بہت برا حال کروں گا،،،،،،،،،ہر تکلیف ہر درد دور کر دوں گا میں تمہارا میری جان،،،،،،،،،،عالم بولتے ہوئے اوپر بڑھ گیا جہاں حورعین سو رہی تھی ۔

عالم شاہ کمرے میں آیا تھا اور اس کے پاس بیٹھ گیا ۔

نین کپڑے چینج کر لو اور سکون سے سو جاؤ،،،،،،،،،،،،،،اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں بولا ۔

شاہ جی میرا بالکل بھی دل نہیں کر رہا بہت تھک گئی ہوں میں،،،،،،،،،،وہ نیند بھرے لہجے میں بولی تھی ۔

تو پھر میں چینج کر دوں خود،،،،،،،عالم شاہ شرارت سے بولا ۔

شاہ جی پلیز،،،،،،،حورعین نے جلدی سے آنکھوں کو کھول کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پیچھے ہونا چاہا ۔

کمفرٹیبل فیل کرو گی اسی لیے کہا تھا اور ایسا ویسا کچھ نہیں ہے،،،،،،،،،عالم شاہ مسکرایا ۔

کر لیتی ہوں آپ کا شکریہ،،،،،،،،حورعین بولتے ہوئے جلدی سے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی اور جب تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو نیچے گلے کو چھپانے کے لئے ہائی نیک تھی اور اوپر ڈیھلی سی شرٹ اور ٹراوزر،،،،،،۔

یہ ہائی نیک کیوں پہن رکھی ہے تم نے،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا جس پر حورعین گھبرا گئی ۔

بس ویسے ہی سردی لگتی ہے مجھے،،،،،،،،حورعین بولتے ہی جلدی سے کمبل میں گھس گئی جیسے عالم شاہ کے سوالوں سے بچنا چاہتی ہو ۔

کیا بات ہے نین پریشان ہو،،،،،،،،،،؟؟عالم نے اسے ایسے دیکھا تو بولا تھا ۔

شاہ جی کل ریسپشن نہ رکھیں،،،،،،،،،،وہ سر باہر نکال کر بولی ۔

کیوں نہ رکھوں کوئی خاص وجہ،،،،،،،،،،،, ؟عالم شاہ اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا جس کی نظروں کی التجا وہ پڑھ رہا تھا ۔

پہلے ہوتا تو شاید وہ اس کی بات نہ سمجھ پاتا پر اب وہ سب سمجھ رہا تھا اس کی پر بات کو اسی لیے اس سے سوال کیا ۔

حورعین کچھ نہیں بولی اور دوبارہ چہرہ کمبل میں کر گئی ۔

شاہ جی  لائٹ بند کر دیں مجھے سونا ہے،،،، ،،،،،،،،،،،،،،حورعین غصے سے بولی تھی ۔

عالم شاہ نے لائٹ بند کر دی اور خود بھی اس کے ساتھ لیٹ گیا ۔

نین،،،،،،،،،،،،عالم نے اسے پکارا ۔

جی شاہ جی،،،،،،،،حورعین نے ویسے ہی اندھیرے میں ہی اسے جواب دیا تھا ۔

سو جاؤ کچھ نہیں،،،،،،،عالم اسے خود کے قریب کئے اس کا سر اپنے سینے پر رکھے بولا جس پر حورعین الجھن زدہ سی آنکھوں کو بند کر گئی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زین جب آفس سے آنے لگا تو زرمین کے پاس آیا تھا ۔

تم میرے ساتھ گھر جاؤ گی،،،،،،،،،،؟؟زین اس کے پاس آتے ہوئے بولا ۔

سر میں بزی ہوں اس وقت ابھی نہیں جانا میں نے گھر،،،،،،،،زرمین دانت پیستے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔

فائلیں تو کمپلٹ کر لی ہیں اب باقی کیا رہ گیا ہے،،،،،،،،،،،؟؟ زین اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا جو منہ بنا کر بیٹھی تھی ۔

میری مرضی میں خود جا سکتی ہوں آپ کو ضرورت نہیں ہے مجھ پر احسان کرنے کی،،،،،،،زرمین بول کر اپنا کام کرنے لگی ۔

زین نے اسے گھور کر دیکھا تھا اور خود باہر نکل گیا ۔

یار یہ تو تیرا دیونا ہو گیا ہے،،،،،،ڈورے میں نے ڈالنے تھے ڈال تم نے لئے،،،،،،،،،،،ثانیہ بولی تو زرمین نے اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھا ۔

اچھا سوری اچھا بندہ ہے کر لینا ایکسپٹ اس کا پرپوزل یار دیکھ تو کتنا کیوٹ ہے تیری جگہ میں ہوتی تو دو منٹ میں کر لیتی،،،،،،،،،،،،،،،،،ثانیہ بولی تھی ۔

بھاڑ میں جاؤ تم بھی،،،،،،،،،زرمین غصے سے چیخی اور پھر کام کرنے کے بعد باہر نکل گئی سب لوگ وین میں جا رہے تھے کے زرمین بھی اس میں بیٹھنے لگی ۔

زرمین میری بات سنو ،،،،،،،،،زین جو گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا سگریٹ پی رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔

تم جاؤ،،،،،،،،،زین آفس وین کے ڈرائیور کو بولا جس پر وہ حکم ملتے ہی گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا ۔

گاڑی میں بیٹھی لڑکیوں نے دیکھا تھا کے زرمین زین کی گاڑی میں بیٹھ رہی ہے ۔

زرمین کو اس کی گاڑی میں بیٹھنا پڑھا کیوں کے وین جا چکی تھی اور ویسے بھی وین اس طرف نہیں جاتی تھی کا طرف ان کا گھر تھا پہلے دوسری سائیڈ پر رہنے کی وجہ سے گاڑی اس کے گھر کے پاس رک جاتی تھی ۔

زرمین سارے راستے ہی منہ بنا کر آئی تھی پر زین خوش تھا جو بھی تھا وہ اس کے ساتھ آئی تو۔

اگلی صبح بھی زرمین زین کے ساتھ آئی تھی،،،،،،،،آفس کی لڑکیوں اور لڑکوں نے اسے دیکھا تھا ۔

زرمین چپ چاپ اپنا کام کر  رہی تھی ثانیہ بھی اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی دونوں باتیں کرتے ہوئے کام کر رہیں تھی ثانیہ خوش تھی زرمین کے لیے پر باقی بہت سی لڑکیاں جیلس ہو رہیں تھی ۔

ویسے بہت نیک پارسا بنی پھرتی ہے چکر اس کا نئے باس کے ساتھ چل رہا ہے،،،،،،،،ایک لڑکی اس کے پاس سے گزرتے ہوئے بولی ۔

زرمین اس کی بات سن کر لب بھیچ گئی تھی ۔

زیادہ بکواس مت کرو تم لوگ جلی ہوئی عورتیں ہیں سب،،،،،،،،،ثانیہ منہ بنا کر بولی تھی جس پر وہ چپ ہو گئی ۔

زرمین اندر آفس کسی کام سے گئی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو وہ لڑکیاں پھر شروع ہو چکی تھی ۔

پتہ نہیں کیا کرتی ہے اتنی دیر دیر تک اندر ایسے تو کوئی نہیں ساتھ لگتا کوئی نہ کوئی چکر تو کیا ہے جو اتنا ہینڈسم بندہ ساتھ آگے پیچھے پھر رہا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،دو لڑکیاں مزاق بناتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنس دی تھی ۔

زرمین پھر بھی لب بھیچے چپ سی بیٹھی ہوئی تھی اس نے کسی ایک کو بھی ایک لفظ نہیں کہا تھا ۔

ہمارا بھی کوئی چانس ہے یا پھر صرف پیسے والوں کا،،،،،،،،،،،اس کے آفس کا ایک آدمی بولا تھا کے وہی زین آیا جو کب سے باتیں سن  رہا تھا اس آدمی کے منہ پر اس نے ایک مکا مارا ۔

بکواس کرتے ہو تمہارا منہ توڑ دوں گا میں،،،،،،،،، زین نے اس کے چہرے پر ایک کے بعد ایک مکا مارا تھا ۔

زین پلیز چھوڑیں اسے پلیز زین،،،،،،،،،،،زرمین آگے بڑ کر اسے پیچھے کرتے ہوئے بولی ۔

زین نے ایک دم سے زرمین کو کلائی سے تھام کر اپنے قریب کرتے ہوئے اس کی کمر پر ہاتھ رکھا تھا اور بالکل اپنے پاس کر لیا ۔

میری بیوی تم عورتوں کی طرح یہاں مردوں کا دل بہلانے نہیں آتی اپنا کام کرنے آتی ہے،،،،،،،،،،،،اسی لیے ائیند بکواس کی تو سب کی جان لے لوں گا ۔

اور یہ لڑکی میری بیوی ہے سنا تم سب نے زرمین زین شاہ ہے یہ،،،،،،،،،،،،،،،،زین شاہ کی بیوی،،،اس کی محبت اس کا عشق اور جو میری بیوی یا محبت کے بارے میں کچھ بھی بکواس کرے میں اس کی جان بھی لے لوں گا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،زین کی آواز پورے آفس میں گھونج رہی تھی سب ہی سناٹے میں آ چکے تھے،،،،،،،،ساری لڑکیاں حیرانگی سے سب دیکھ رہی تھی ۔

ثانیہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور باقی بہت سے چہروں پر شرمندگی اور حیرت ۔

زرمین کی آنکھوں میں نمی تھی ۔

زین نے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور اسے اندر آفس کی طرف لے گیا ۔

تم ٹھیک ہو زرمین،،،،،،،،،؟؟اسے چئیر پر بیٹھا کر اس کو پانی کا گلاس پکڑایا،،،،،اور محبت بھرے لہجے میں بولا ۔

جی میں میں ٹھیک ہوں،،،،،،،،،،،زرمین سر کو جھکائے ہوئے ہی بولی ۔

جواب کیوں نہیں دیا تم نے سب کو،،،، ،،،؟؟ کیوں سن رہی تھی سب کی،،،،،،،،،زین اس پر جھکا غصے سے بولا ۔

کیا جواب دیتی آپ نے کوئی ایسا احساس یا محبت مجھے نہیں دیا کے میں آپ کا نام لے کر خود کو متعرف کروتی،،،،،،،،،زرمین طنزیہ بولی تھی ۔

زرمین میں تم سے اپنے کئے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں پلیز معاف کر دو مجھے،،،،،،،،،،وہ نیچے اس کے پاس اس کے قدموں میں بیٹھ گیا تھا ۔

ایم سو سوری زرمین،،،،،،،،،،،وہ اس کے ہاتھوں کو تھامے بولا تو زرمین نے اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر سچ میں شرمندگی تھی ۔

مجھے گھر جانا ہے زین،،،،،،،،،زرمین آہستہ آواز میں اس کی بات کو اگنور کرتے ہوئے بولی ۔

میں تم سے ہیمشہ معافی کا طلب گار رہو گا،،،،،جب بھی ہو سکے مجھے معاف کر دینا،،،،،،،وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھے بولا ۔

چلو تمہیں گھر چھوڑ دوں،،،،،،،،وہ گاڑی کی چابی لے کر باہر کی طرف نکلا اور ساتھ زرمین کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور پورے آفس کے سامنے اسے ساتھ  لے گیا ۔

سارے آفس نے زین کے ساتھ زرمین کو اس طرح دیکھ کر شرمندگی محسوس کی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج تیار رہنا آج عالم بھائی اور حورعین کا ریسپشن ہے فارم ہاؤس میں اور تم میرے ساتھ جا رہی ہو آخر کو اس گھر کی بہو ہو،،،،،،،،،،شایان ماہ نور کے پاس آ کر بولا جس پر اس نے اسے گھور کر دیکھا تھا ۔

میں نہیں جا رہی میرے پاس کپڑے نہیں ہیں اور سوچنا بھی مت اس سڑے ہوئے تمہارے بھائی کے ریسپشن پر میں جاؤں گی،،،،،،،،،،ماہ نور نے بہانا بنایا ۔

جانا تو ہو گا کپڑے نہیں ہیں تو میں نیا ڈریس دلا دوں گا پر جانا ہے چلو چلیں تمہیں ڈریس دلا دوں تمہارا بہانا ختم ہو جائے گا،،،،،،،،،وہ ماہ نور کو کھنچتے ہوئے باہر لے گیا۔

دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے اور مال کی طرف نکل گئے ۔

ماہ نور کا بھی دل کر رہا تھا اسی لئے وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چلی گئی ۔

وہاں دونوں نے ڈریس لیا اور شایانِ نےا سے کھانا کھلایا اور آئسکریم کھلائی اور پھر دونوں واپسی کے لیے گھر آ گئے ۔

پر گھر آ کر ان کے ہوش صحیح معنی میں اَڑے تھے کیونکہ کے زین اور زرمین سامنے ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے اور زرمین کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ کتنے غصے میں ہے ۔

کہاں تھی تم ماہ نور،،،،،،،،،زرمین اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے بھرے لہجے میں بولی پر تحمل کے ساتھ ۔

آپی وہ میں،،،،،،،،میں،،،، شایان کے ساتھ گئی تھی،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور ڈرتے ڈرتے بولی ۔

تم نے چھوٹ بولا تھا تمہاری یاداشت کے بارے میں،،،،تمہیں سب یاد ہے،،،،،،،،،،،،زرمین اسے گھورتے ہوئے بولی ۔

آپی وہ وہ،،،،،،،،،،،۔

کیا وہ وہ کیا وہ لگا رکھی ہے سب نے مجھے بے وقوف بنانے کا سوچ رکھا ہے اس کو بے وقوف بنا لو یہ ہے ہی بےوقوف بن بھی جائے گی،،،،،،،،،،،،،،زرمین غصے سے بولی ۔

اور آپ زین آپ نے پھر سے مجھے دھوکا دیا باتیں تو آپ بہت کرتے ہیں پر ہیں آپ بھی ایک نمبر کے جھوٹے،،،،،،،،،،،،،،،،،زرمین کا لہجہ نم اور شکوہ کرتا ہو تھا۔

زرمین میری بات ،،،،،،،،،،زین ابھی بولتا زرمین غصے سے اشارہ کرتے ہوئے اپنے روم کی طرف چلی گئی ۔

میرا کیا قصور ہے تمہارا قصور ہے اور مجھے کیوں اور تم نے جھوٹ بولا اور تم میرے سامنے بڑے مسکین بن رہے تھے،،،،،،،زین نے دونوں کو ڈانٹا تھا ۔

سوری بھائی ہمیں نہیں معلوم تھا آپی اتنا سخت ریکشن دیں گی اور ہم تو بس شاپنگ کرنے گئے تھے سوچا آپ کے آنے سے پہلے ا جانا ہے،،،،،،،،ماہ نور بولی ۔

اللہ نے تمہیں ٹھیک کر دیا یہ ہی بہت اچھا ہے باقی زرمین کو منانے کی کوشش کرتا ہوں میں اب.،،،،،،،،،،،،،،زین اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔

جس پر ماہ نور اور شایان مسکرا دئے ۔

بھائی ہم دونوں آج جا رہے ہیں شاہ بھائی کے ریسپشن پر،،،،،،،،،،شایان بولا تو زین نے سر ہلا دیا تھا ۔

ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ دھیان سے جانا،،،،،،،،زین بولتے ہوئے روم میں آ گیا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حورعین کافی زیادہ خوفزدہ تھی کیونکہ کے آج اسے بے گلے کو چھپانے کے لئے کچھ بھی نہیں پہن رکھا تھا،،،،،،،،بس بیوٹیشن سے کہا تھا کے اس کی گردن پر اس طرح ڈوپٹہ سیٹ کرے کے اس کی گردن نظر نہ آئے ۔

ماشاءاللہ سے آپ بہت پیاری لگ رہیں ہیں کسی گڑیا کی طرح،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہ اسے کو مکمل تیار کرنے کے بعد بولی حورعین پھیکا سا مسکرا دی ۔

اس کے جانے کے بعد حورعین ائینہ کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی ۔

ہلکے سکین کالر کی میکسی اس پر گولڈن کام اور ہلکی سی جیولری اور مناسب سا میکاپ جو اس کو اور بے پر کشش بنا رہا تھا۔

وہ سچ میں کوئی آسمان سے اتری پری جیسی لگ رہی تھی ۔

معصوم سے چہرے پر بڑی بڑی آنکھوں ان میں چھپا ایک خوف اسے اور بھی پرکشش بنا رہا تھا ۔

دروازے کے کھولنے کی آواز سن کر جب حورعین نے دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں سے عالم شاہ اندر داخل ہوا ۔

جس نے تھری پیس پہن رکھا تھا اور کسی ریاست کے شہزادے سی شان سے چلتے ہوئے اندر داخل ہوا،،،،،،،،،،،،اور حورعین کو دیکھتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔

کچھ بھی بولے بینا بس اس کے چہرے کو تھام کر اس کے چہرے پر اپنا انگھوٹھا پھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔

حورعین نے اس کے قریب آنے سے آنکھوں کو زور سے میچ لیا ۔

میری طرف دیکھو نین،،،،،،،،میں آج ان آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھنا چاہتا ہوں،،،،،،،،،،،عالم اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا جس نے عالم کے کہنے پر ڈرتے ڈرتے آنکھوں کو کھولا ۔

ان آنکھوں میں آج پانی کیوں ہے،،،،،،مجھے بس ان میں اپنے لیے محبت چاہے،،،،،،،،،،،،،کوئی خوف کوئی درد کچھ نہیں،،،،،،،،،،،،بس ان آنکھوں میں عالم شاہ ہونا چاہیے،،،،،،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔

شاہ جی پلیز چلیں،،،،،،،،،،،،۔

ششششش ابھی مجھے سنو،،،،،،،عالم شاہ نے اس کے لیپ سٹک لگے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔

میں یہ نہیں کھوں گا کے  تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو،،،،،،عالم شاہ کے بولنے پر حورعین نے اس کی طرف دیکھا،، آنکھوں میں ایک خوف ابھرا ۔

مجھے میری نین ہر حال میں بہت پیاری لگتی ہے وہ جس طرح کی بھی ہو،،،،،،آج میں اعتراف کرتا ہوں مجھے میری نین کی باتوں سے محبت ہے مجھے اس کے ضدی انداز سے محبت ہے جب جب وہ کہتی ہے شاہ جی،،،،،،،،،مجھے لگتا ہے جیسے اس سے پیار سے مجھے کسی نے نہیں پکارا،،،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ کی دنیا حورعین عالم شاہ ہے،،،،،،،،،،،،،،عالم اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جہاں سے اب کئی آنسو بہہ کر اس کی گال پر آ چکے تھے ۔

شاہ جی،،،،،،،،،،،،،،،،حورعین ممنائی تھی ۔

جی شاہ کی جان،،،،،،،،،،،،؟

کیا میرے جسم پر لگے بدنامہ داغ آپ کو تکلیف نہیں دیں گئے،،،،،،،،،،،،،حورعین عجیب سے اندازہ میں بولی ۔

مجھے نین سے محبت ہے اور محبت جسموں کا کھیل نہیں ہوتا،،،،،،،،عالم نے بولتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھے اور پھر آنکھوں پر ۔

نین عالم شاہ کا عشق ہے،،،،،،،،،،،اس پورے سال میں جتنا میں تڑپا ہوں تمہیں بیان نہیں کر سکتا کاش اپنا دل نکال کر تمہارے سامنے کر سکتا،،،،،،،،،،،،،عالم نے حورعین کی طرف دیکھا تھا اور پھر آرام سے اس کا ڈوپٹہ جو گردن پر تھا اسے پیچھے کیا ۔

. حورعین نے خوف سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔

نہیں شاہ جی پلیز،،،،،،،،،،،،حورعین کو ڈر تھا کئی عالم شاہ اس کے جلے کے نشان نہ دیکھ لے ۔

. شششش،،،،،،،،،،،،،،، عالم نے اسے چپ کروایا تھا حورعین نے آنکھوں کو پھر سے بند کر لیا اور ہونٹوں کو بھیچ لیا ۔

میں نے کہا ہے نین میرا عشق ہے،،،،،،،،،،،،عالم نے اس کا خوف ختم کرنے کے لیے اس کی جلے ہوئے نشانوں پر اپنے ہونٹ رکھے تھے،،،،،،،،،،حورعین نے آنکھوں کو کھولتے ہوئے عالم کی طرف دیکھا اب جو اس طرح کرنے کے بعد اس کو دیکھ رہا تھا ۔

چلیں،،،،،،،،،،،،،،عالم واپس ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔

حورعین نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

چلوں سب ہمارا انتظار کر رہے ہیں باہر،،،،،،،،،،،،عالم اس کے گال تھپتھپا کر بولتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لئے باہر کی طرف نکال گیا ۔

حورعین ابھی بھی کئی کھوئی سی تھی اس کے لیے یقین کر لینا مشکل تھا جس چیز کا وہ خوف لے کر بیٹھی تھی وہ خوف اس سے عالم شاہ نے پانچ منٹ میں دور کر دیا تھا ۔

اب جو بھی تھا حورعین کو خود کا وجودِ بہت ہلکا پھلکا لگ رہا تھا ۔

ایسی لیے وہ مسکرا دی اور عالم کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر لی ۔

زرمین دروازہ کھولو پلیز یار،،،،،،،زین کب سے دروازہ بجا رہا تھا پہلے تو وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں گیا پر وہاں اسے زرمین کہیں نہیں ملی اسی لیے اب اس کے کمرے میں آیا تھا کیونکہ وہ غصے سے اپنے کمرے میں آ گئی تھی ۔

یہاں سے چلیں جائے زین مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی،،،،،،،،اندر سے زرمین کی بے زار سی آواز آئی تھی زین نے محسوس کیا تھا اس کی آواز میں نمی بھی ہے ۔

پلیز زرمین ایک دفع بات سن لو مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا،،،،،،،،زین نے دروازہ کے ساتھ سر ٹکا دیا ۔

مجھے کچھ نہیں سننا میری ذات سب کے لیے مزاق ہے جس کا دل کرتا ہے مجھ سے جھوٹ بول دیتا ہے جس کا دل کرتا زندگی میں احسان کے طور پر شامل کرتا ہے اور جس کا دل کرتا ہے بدلے کے لیے یوز کر لیتا ہے مجھے،،،،،،،،،،،،اندر سے زرمین روتے ہوئے چیخی تھی ۔

زرمین ایک دفع دروازہ کھول کر میری بات تو سن لو یار ایک دفع بس ،،،،،،،،،،،،،،،زین نے التجائیہ کہا تھا ۔

جائے یہاں سے سنا نہیں آپ نے مجھے نہیں کرنی آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی مطلب نہیں کرنی جاؤ،،،،،،،،،زرمین روتے ہوئے اونچی آواز میں چیخی ۔

زین چپ سا کر گیا تھا اور واپس اپنے کمرے میں آیا تھا ۔

زین بھائی سب ٹھیک ہے نہ،،،،،،،،زین جب واپس کمرے کی طرف جا رہا تھا تو شایان بولا وہ دونوں کب سے سب سن رہے تھے پر بولے نہیں تھے،،، زین نے شایان کی طرف دیکھا تھا اور تھکے ہوئے انداز میں اس کی طرف پھیکا سا مسکرا کر اندر روم کی طرف بڑھ گیا ۔

ماہ نور آئی تھی اور زرمین کے کمرے کی طرف گئی ۔

آپی آپی دروازے کھولے ورنہ میں کچھ کر لوں گی خود کو،،،،،،،،،،ماہ نور جو کب سے سب سن رہی تھی زرمین کے پاس آئی اور غصے سے بولی ۔

زرمین نے اس کی بات سن کر دروازہ کھول دیا تھا،،،،،،،،،،ماہ نور غصے سے اس کے پاس آئی تھی اور اس کا رُخ اپنی طرف کیا ۔

کیا مسئلہ ہے آپ دونوں کےساتھ،،،،،،ایک دوسرے کے لیے رو بھی رہے ہو اور اس طرح کرتے ہیں آپ دونوں،،،،،،،،،،،،،پہلے انا میں آ کر انہوں نے آپ کو سزا دی اور اب آپ آپی پلیز بس کر دیں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ظلم کرنا یار بس کر دو،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے بولی ۔

آپ دونوں کی باتیں سنتی رہیں ہوں میں،،،،،،،،،،،،،خود کا سب کلیر کرو آپ کیوں نہیں سب ٹھیک کرتے آپ دونوں وہ آگے بڑھ رہے ہیں تو اب آپ بھی ان کا ہاتھ تھام لو اپی ورنہ اس دفع زین بھائی صحیح میں ٹوٹ گئے تو آپ ان کو واپس نہیں لا پاؤ گئی اور پچھتاوا رہ جائے گا بس،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے واپس جانے لگی تھی ۔

اور دوسری بات زین بھائی کو کچھ معلوم نہیں تھا میری یادداشت کا یہ صرف مجھے پتہ تھا اور کسی کو نہیں سو ان کو غلط مت کہے اس سب میں،،،،،،،،،،،،،،،،،میں شایان کے ساتھ جا رہیں ہوں عالم بھائی کے ریسپشن پر شاید آج وہی رہے ہم،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور بولتے ہوئے باہر نکل گئی ۔

شایان بھی اس کے پیچھے گیا تھا،،،،،زرمین وہی زمین پر نیچے بیٹھ گئی تھی اور گزرے وقت کے پر پل کو یاد کر کے رونے لگی ۔

زین،،،،،،،،،،،،زرمین بس سوچ کر ہی رہ گئی تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ریلکس یار ،،،سب ٹھیک ہو جائے گا،،،،،،،،شایان گاڑی چلاتے ہوئے ماہ نور کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔

ہممم جانتی ہوں ٹھیک ہو جائے گا پر کب کب یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک ہوں گئے میں آپی کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں ان کی آنکھوں میں ویرانی نظر آتی ہے مجھے،،،،،،،،،کوئی شوق نہیں تھا مجھے کے میں یہ سب ڈرمہ کرتی میں نے یہ سب اسی لیے کیا ہے کیونکہ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہو سکے،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور سر کو ٹیک لگا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

ہو جائے گا تم پریشان تو مت ہو،،،،،،آج پلیز انجوائے کرنا سب کے ساتھ بس،،،،،،،،،،،شایان مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ کو دبا کر بولا تھا ۔

ماہ نور مسکرا دی تھی ۔

ویسے بہت پیاری لگ رہی ہو یار آج تم،،،،،،،،،،،شایان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔

تو آگے پیاری نہیں لگتی میں،،،،،،وہ اچھا تو اب میں کہاں پیاری لگنے والی ہوں وہ دوسری کی یاد آ رہی ہو تھی تمہیں تو،،،،،،،،،ماہ نور چڑ کر بولی ۔

یار وہ مزاق تھا بس میرا کے میری چڑیل اُٹھ جائے مجھے کیا پتہ تھا میرا مزاق میرے فیوچر میں بہت برا اثر کرے گا،،،،،،،،،،،،اور تم عورتیں سب بھول جاؤ گی پر مزاق میں کی ہوئی مرد کی دوسری شادی کی بات نہیں،،،،،،،،،،،،شایان سامنے دیکھتے ہوئے منہ بنا کر بولا ۔

ہاں مزاق تو تم لوگ تب ہی کرتے ہو جب کوئی نہ کوئی سین ہو ویسے تو تم لوگ ایسی بات کرتے نہیں ہو،،،،،،،،،،ماہ نور بات میں سے بات نکالنے کا ہنر جانتی تھی ۔

آف ماہ نور تم سے کوئی جیت نہیں سکتا معاف کر دو میری ماں،،،،،،،،،،،،،شایان اپنی ہار مانتے ہوئے مسکرا دیا ۔

ہاں بالکل صحیح اب مت کرنا ایسی فضول بات،،،،،،،،،اس کے لیے جاؤ تمہیں معاف کیا،،،،،،،بس میری تعریف کر دیا کرو روزانہ،،،،،،،،،،،،،،،،،،ماہ نور اس کی طرف رُخ کرتے ہوئے تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔

یس مائے لیڈی ایسا ہی ہو گا،،،،،،،،،،شایان بھی ہنس دیا ۔

پر دونوں وقت سے انجان تھے وقت ایک دفع پھر سے سب سے ایک امتحان لینے والا ہے ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ریسپشن کا انتظام فارم ہاؤس کے باہر کھلی جگہ پر رکھا گیا تھا،،،،،،،،،،پورے اطراف کو بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا ۔

درمیان میں ریڈ کارپٹ تھا جس پر دونوں چل کر آنے والے تھے ۔

عالم شاہ نے حورعین کو تھام رکھا تھا اور اندر کی طرف بڑا،،،،،،،،،،،سامنے کیمرا مینز تھے اور ان کے گرد مصنوعی دھواں چھوڑا گیا اور ساتھ ہی  دونوں اطراف سے پھلوں کی برسات کی گئی ۔

دونوں کی جوڑی بالکل پرفیکٹ لگ رہی تھی ۔

خویلی والے بھی سب وہی تھے،،،،،،،،،حورعین کے چہرے پر خوشی تو تب کھلی جب اس نے سامنے اپنے ماں باپ اور بھائی کو دیکھا ۔

شاہ جی ماما بابا،،،،،،،،،،،حورعین خوش ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔

میری نین کی خوشی ہے اور اس کے اپنے نہ ہوں ایسا ہو سکتا ہے،،،،،،،،،،،،،،عالم شاہ نے اس اور بھی قریب کیا تھا،،،،،،حورعین کی آنکھوں میں نمی آ گئی ۔

تھینک یو شاہ جی تھینک سو مچ،،،،،،،،،،،،،،وہ نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی اس وقت وہ اتنی خوش تھی کے اس کا وجود لرز رہا تھا ۔

آرام سے،،،،،،،عالم اس کی کیفیت سمجھتے ہوئے بولا تھا جس پر وہ مسکرا دی ۔

وہ دونوں چلتے ہوئے سٹیج کی طرف گئے تھے ۔

مسسز سلمان اور سلمان صاحب اسے خوش دیکھ کر خوش تھے ۔

مسسز سلمان اور سلمان صاحب اس سے ملے ۔

ماما بابا آپ یہاں میں بہت خوش ہوں،،،،،،وہ ان کے گلے گلی میں تھی ان دونوں نے اسے پیار دیا پھر اس سے انابیہ اور صائم بھی ملے ۔

ہمیشہ خوش رہو،،،،،،،،،،،،،،،،انابیہ حورعین کو پیارے دیتے ہوئے بولی ۔

حورعین مسکرا دی تھی ۔

وہاں ماہ نور اور شایان بھی آئے تھے ۔

. ماہ نور اس  سے ملی تھی اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو گئی تھی ماہ نور بھی سب سے ملی تھی ۔

پر کوئی تھا یہاں جو خوش نہیں تھا ان سب کو اس طرح دیکھ کر بھی ۔

شاہ جی میں بہت خوش ہوں میں آپ کا بتا نہیں سکتی،،،،،،،،،،حورعین سب سے مل کر بولی تھی اب دونوں ہی تھے جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔

تم خوش ہو تو میں بھی خوش ہوں ابھی تو ایک اور سپرائز ہے تمہارے لیے،،،،،،،،،،،وہ اس کے چہرے پر آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے مسکرایا ۔

سچی شاہ جی بتایئں کیا ہے،،،،،،،،،،،حورعین خوش ہوتے ہوئے بولی تھی ۔

ابھی نہیں بعد میں ،،،،،،،عالم شاہ مسکراتے ہوئے اس سے بولا تھا وہ بہت خوش تھا کیونکہ حورعین خوش تھی سب کو وہاں دیکھ کر ۔

سب لوگوں نے تقریب بہت اچھی طرح انجوائے کی تھی ۔

ماہ نور شایان کے ساتھ خویلی چلی گئی ۔

حورعین سے سب مل کر گھر چلے گئے تھے ۔

میں خوش ہوں شکر ہے حورعین خوش ہے،،،،،،،،،،،،،صائم ساتھ بیٹھی انابیہ سے بولا ۔

میں نے جب سے عالم کا پاگل پن سنا تھا شایان سے مجھے لگتا تھا عالم حورعین کو بہت وخش رکھے گا،،،،،،،،،انابیہ مسکراتے ہوئے صائم سے بولی ۔

تھینک یو سو مچ انابیہ ہر چیز میں میرا ساتھ دینے کے لیے،،،،،،،،،،،،،صائم نے اس کی طرف دیکھا تھا دونوں ایسے ہی باتیں کرتے ہوئے گھر آئے تھے ۔

یہ کیا ہے،،،،،،،،،،؟؟ انابیہ نے اس کے آگے ایک پیپر کیا تھا جس کو دیکھتے ہوئے صائم بولا ۔

کھول کر دیکھ لے،،،،،،،،انابیہ مسکراتے ہوئے بولی ۔

صائم نے جب اسے کھول کر دیکھا تو خوش سے آگے بڑا کر اسے گلے لگا لیا تھا۔

یہ سچ ہے کب ہوا یہ سب بتایا کیوں نہیں مجھے،،، ،،،،،،،،،،،،،صائم اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس پر انابیہ ہنس دی ۔

بتانے والی تھی ماما کے ساتھ گئی تھی ڈاکٹر کے پاس پر اچانک سے حورعین کا معاملہ اور پھر یہ سب میں آپ کو بتا نہیں پائی،،،،،،،،،،،انابیہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے سر کو اوپر کئے بولی ۔

میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتا میں کتنا خوش ہوں،،،،،،،،،فائنلی ہمارے گھر بھی کوئی چھوٹا سا بےبی آئے گا،،،،،،،حورعین کے بعد اب یہ ہو گا،،،،،،،،،،،،،،صائم اسے خوشی سے ساتھ لگائے بولا۔

صائم اور انابیہ کی دنیا مکمل ہو چکی تھی،،،،،،،ان کی زندگی میں آنے والی اس نئی جان نے ان کی زندگی کو بالکل مکمل کر دیا تھا ۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زرمین رات کو سوئی ہوئی تھی کے اسے اپنے پاس کسی کا احساس ہوا کوئی اس کے پاؤں کے قریب بیٹھا رو رہا تھا ۔

زین آپ یہاں،،،،،،،،،،،،،زرمین جلدی سے اُٹھی تھی اور اس کے پاس آئی تھی ۔

زرمین بہت تھک چکا ہوں میں،،،،آگے ہی بہت زیادہ گلیٹ میں ہوں جو کچھ ماموں کے ساتھ کر چکا ہوں اس کے بعد تو مجھے ان سے معافی مانگنے کا بھی موقع نہیں ملا زین اس کی طرف دیکھتے ہوئے تھکے سے اندازہ میں بولا ۔

پلیز زین سنبھالے خود کو آپ اتنے کمزور تو نہیں ہو سکتے،،،،،،،،ہاں مجھے غصہ ہے کیوں کہ آپ تو اپنے تھے ہمارے آپ کیسے ہمارے ساتھ یہ سب کر سکتے تھے بچپن کا ساتھ تھا ہمارا،،،،،،،،،،،،زرمین بولی تو  اس کا لہجہ دَکھ لیے ہوئے تھا ۔

میں نہیں چاہتا تھا یہ سب کچھ ہو زرمین،،،،،،،،حسین بابا نے ہم سب پر نظر رکھی ہوئی تھی،،،وہ ماموں کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے میرے ذریعے،،،،اور تم دونوں بہنوں کو بھی پر شایان کو ماہ نور پسند آ گئی اور اس نے ضد پکڑ لی کے اسے ماہ نور چاہے،،،،،،،،،زین بول رہا تھا اور زرمین اس کی باتیں سن رہی تھی ۔

مجھے نہیں پتہ تھا ماموں مجھ سے سچ جانے بغیر ہی اس دنیا سے چلے جائے گئے میں نے یہ سب حسین بابا سے  بچانے کے لیے کیا تھا،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔

مجھے پہلے بھی تم سے محبت تھی اور اب بھی ہے،،،،،،،،،بہت کچھ غلط کیا ہے بابا نے میں جانتا تھا جو کچھ بھی ہوا ہے بابا کی وجہ سے ہوا تھا ماموں کا کوئی قصور نہیں تھا اس سب میں،،،،،،،،،،،،،،،زین زرمین کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو اس کی باتوں کو سمجھنے کے بعد بس اسے دیکھتی رہ گئی ۔

تو کیا یہ سب کھیل ان کا تھا بابا کو برباد کرنا یہ سب،،،،،،،،زرمین حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔

ہاں پتہ نہیں کیوں پر وہ ماموں کو اور تم دونوں بہنوں کو برباد کرنا چاہتے تھے،،،،پر اللہ کا ایسا کرنا ہوا کے تم میری اور ماہ نور شایان کی عزت بن گئی اور وہ چاہا کر بھی یہ سب نہ کر پائے،،،،،،،پر،،،،،،،،،،،،،،،زین. بولا تو زرمین نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

پر کیا زین،،،،،،،،،،،؟؟

انہوں نے ماہ نور کو گھر سے نکالوں دیا تھا ان کا پورا دل تھا کے شایان ماہ نور کو طلاق دے دے پر شایان کی ماما نے وقت پر سب سنبھال لیا ۔

مجھے نہیں پتہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں وہ پر جو کچھ بھی تھا ان کے پیچھے تمہیں ماموں اور ماہ نور کو نقصان پہنچانے کے لیے کر رہے تھے سب،،،،،،،،،،،،،،زین بولا تھا اور بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا گیا اس وقت دونوں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے زین نے بیڈ کے ساتھ سر کو جوڑ رکھا تھا اور زرمین اس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی ۔

میں بہت تھک گیا ہوں زرمین بہت شرمندہ ہو اپنے کئے پر،،،،،،،اب بس میرا دل کرتا ہے اس  دنیا کو چھوڑ دوں مجھے معاف کر دو بہت تکلیف دی ہے تمہیں پر میں خود بھی ایک پل چین میں نہیں رہا یہ سب کرنے کے بعد،،،، ،،،،،،،،اس دفع بولا تھا تو زرمین نے اس کی طرف ترپ کر دیکھا تھا ۔

پلیز زین مجھے نہیں معلوم تھا یہ سب،،،،،،،،،زرمین زین کے ہاتھوں کو تھام گئی تھی ۔

بابا کے جانے کا سب قصور وار آپ لگتے تھے مجھے مجھے لگتا تھا جیسے سب ختم ہو گیا ہو بابا میرے بابا مجھے چھوڑ گئے وہ روتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے تھے زین،،،،تو میں اتنی جلدی کیسے آپ کو معاف کر دیتی،،،،،،،،،،،زرمین اس کے ہاتھوں کو تھامے روتے ہوئے بولی ۔

زین نے اسے اپنی طرف کھنچتے ہوئے اپنی باہو کے حصار میں لے لیا تھا ۔

اب وہ زین نے ساتھ لگی اپنا ہر شکوہ کر رہی تھی اور  زین اس کو سمیٹ رہا تھا دونوں ہی ایک دوسرے کو سمیٹ رہے تھے ۔

مجھے معاف کر دو زرمین میں بہت بڑا گناہ گار ہو تمہارا اور ماہ نور کا اور ماموں کا،،،،،،،،،،زین اسے خود کے ساتھ لگائے بولا تھا ۔

بس زین بہت سزا دی ہے اب میں خود بہت تھک گئی ہوں اور نئی زندگی شروع کرنا چاہتی ہوں،،،،،،،،،،،،،زرمین اس کے ساتھ لگی آنکھوں بند کئے سکون سے بولی ۔

ہاں اب ہماری زندگی میں سکون ہو گا اب کسی کو میں اپنی یا تمہاری لائف سے کھیلنے نہیں دوں گا،،،،،،،،،،،،،،،،زین اس کے گرد مضبوط حصارِ بنائے بولا ۔

زرمین نے بھی اس کے حصار میں خود کو محفوظ پایا ۔

آج جو بھی تھا وقت لگا پر دونوں کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں تھی ۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سر آپ نے جو کام کیا تھا ہو گیا،،،،،،،،ایک آدمی چئیر پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے پاس آ کر اس کا خاص آدمی بولا ۔

ہممممم کل وہ لڑکی مجھے میرے پاس چاہے،،،،،،،،،زدا،،،مجھے وہ میرے پاس چاہے کسی بھی طرح بہت انتظار کیا ہے میں نے اس کا،،،،،،،،،،،،،وہ آدمی حباثت سے ہاتھ میں پکڑی گن کو ماتھے پر پھیرتے ہوئے بولا ۔

کام ہو جائے گا سر جی وہ آپ کے پاس ہو گی سب انتظام اتنا اچھا کیا ہے کے اب کوئی بھی نہیں بچ سکتا،،،،،،،،،وہ آدمی سر کو جھکائے ہوئے ہی بولا ۔

پیچھلی دفع بھی ہاتھ سے نکال گئی تھی پر اس دفع نہیں اس دفع مجھے وہ چاہے وہ بھی اپنے پاس،،،،،،،،،،،،،،وہ آدمی کا چہرے غصہ تھا اور ایک دفع وہ پھر سے سب کی زندگیوں میں ہلچل مچانے والا تھا ۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Shama E Ulfat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Shama E Ulfat written by Ayn Khan. Shama E Ulfat by Ayn Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages