Rooh E Mehram Novel By Umme Umama Complete Romantic Urdu Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 3 July 2024

Rooh E Mehram Novel By Umme Umama Complete Romantic Urdu Novel

Rooh E Mehram Novel By Umme Umama Complete Romantic Urdu Novel 

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Rooh E Mehram Br Umme Umama Complete Romantic Novel 


Novel Name: Rooh E Mehram  

Writer Name Umme Umama  

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

°°°°°

فجر کی آزان ہوتے ہی شاہ حویلی کے سارے افراد اٹھ چکے تھے خواتین نماز پڑھنے کے لیے وضو کررہی تھیں اور مرد حضرات مسجد جانے کی تیاری

شاہ حویلی کے سارے افراد فجر کے وقت ہی اٹھ جاتے تھے سواے ایک شخص کے جنہیں جب تک انکی اماں سائیں نہ اٹھا دیں یا بابا سائیں کی سخت آواز سننے کو نہ ملے تو وہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے

"آہان شاہ میں آخری بار کہہ رہی ہوں اٹھ جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا"آئرہ نے پانچویں مرتبہ دروازہ بجا کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تھی جب اندر سے اسکی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی

"اماں سائیں سونے دیں اللہ سے توبہ کرکے نماز بعد میں پڑھ لوں گا"اسکے کہنے پر آئرہ وہاں سے جانے لگی کیونکہ اب اسے عالم نے ہی اٹھانا تھا

"کیا ہوا ہے" پیچھے سے آتی بھاری گمبھیر آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں عالم کھڑا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

ہمیشہ کی طرح کمیز شلوار پہنی ہوئی تھی جبکہ کندھوں پر مردانہ شال ڈالی ہوئی تھی آئرہ کے کہنے پر جو اسنے کچھ پینٹ شرٹس خریدیں تھیں وہ بھی بچوں کے بڑے ہونے کے بعد پہننی چھوڑ دی تھیں

اسکا کہنا تھا کہ اب وہ بوڑھا انسان ان کپڑوں میں اچھا نہیں لگتا جس پر آئرہ ہمیشہ اسے یہی کہتی کہ وہ کہیں سے بھی بوڑھا نہیں لگتا اور اسکی یہی بات سن کر عالم کا رومینٹک موڈ آن ہوجاتا جس کے جواب میں وہ یہ کہتا کہ مجھے اب تک جوان تو تمہارے پیار نے رکھا ہوا ہے یہ سچ تھا کہ اتنے سال گزرنے پر بھی اس میں کوئی فرق نہیں آیا تھا

بس گھنی گھنی داڑھی مونچھوں اور گھنے بالوں میں ہلکے ہلکے سفید بال نظر آنے لگ گئے تھے لیکن آئرہ کو وہ ہمیشہ سے زیادہ ہینڈسم ہی لگتا تھا ہاں اسکے ڈمپل کی اسنے تعریف کرنی کب کی چھوڑ دی تھی کیونکہ عالم سے زیادہ اسے زریام کا ڈمپل پسند تھا

"آپ ہی کے پاس آرہی تھی فجر کا ٹائم نکلا جارہا ہے اور یہ اٹھ نہیں رہا دروازہ بھی لاک کرکے پڑا ہوا ہے" آئرہ نے خفگی کے ساتھ کہتے ہوے اپنے بیٹے کی شکایت لگائی

جس پر عالم نے مسکراتے ہوے کمرے کا دروازہ ناک کیا

"آہان شاہ دو منٹ سے پہلے کمرے سے باہر نکلو" اسکی آواز سنتے ہی آہان کی نیند اڑن چھو ہوچکی تھی

"آیا بابا سائیں بس آیا"جلدی سے بستر سے اٹھ کر اسنے دروازہ کھولا

جس پر آئرہ نے گھور کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو اسکے اٹھانے پر تو اٹھا نہیں لیکن باپ کے ایک بار کہنے پر ہی اٹھ گیا

ہمیشہ کی طرح اسکے سارے بال ماتھے پر بکھرے پڑے تھے جبکہ نیند سے بھری آنکھیں زبردستی کھول کر وہ مسکرا کر اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا

"جی بابا سائیں"

"اٹھے کیوں نہیں تمہاری ماں اتنی دیر سے اٹھا رہی ہے"

"وہ رات کو دیر تک پڑھائی کرتا رہا تھا اسی وجہ سے اٹھ نہیں پایا میں بس جاتا ہوں نماز پڑھنے" منمناتے ہوے وہ جلدی سے وضو کرنے کے لیے باتھ روم میں بھاگ گیا جس پر آئرہ نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی اپنے باپ کے سامنے اسکا ہمیشہ ایسا ہی حال ہوتا تھا

"بہت ہنسی آرہی ہے جان عالم جلدی سے کمرے میں آؤ"

"میں نہیں آرہی مجھے ناشتہ لگوانا ہے"

"آئرہ کمرے میں آجاؤ ورنہ میں بوڑھا سب کے سامنے تمہیں گود میں اٹھا کر لے جاتا اچھا تھوڑی لگوں گا"

"عالم آپ کہیں سے بھی بوڑھے نہیں ہوے"

"میری جان مجھے جوان تو تمہارے پیار نے رکھا ہوا ہے نہ" اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر عالم نے اسے اپنے قریب کیا

"توبہ ہے عالم سدھر جائیں"

"میں نے سنا عالم بگڑ جائیں"

"اس سے زیادہ اور کیا بگڑیں گے" اسکی بانہوں سے آزاد ہوکر وہ وہاں سے بھاگ گئی

"آہان جلدی کرو" اسنے تیز آواز میں واشروم میں موجود آہان سے کہا اور وہاں سے چلا گیا

°°°°°

ضروری میٹنگ کی وجہ سے وہ ایک ہفتے کے لیے ترکی گیا تھا اور آج اسکی واپسی تھی

فجر سے پہلے وہ گاؤں میں پہنچ چکا تھا لیکن فجر ہونے میں بس چند منٹ رہ گئے تھے اسلیے وہ مسجد میں ہی بیٹھ گیا کیونکہ اسکا ارادہ فجر پڑھ کر ہی حویلی جانے کا تھا

جس وقت وہ حویلی میں داخل ہوا اس وقت عورتیں اپنے کمرے میں عبادت کررہی تھیں اسکا ارادہ ان سے ملاقات اب ناشتے کے وقت پر ہی کرنے کا تھا

اس وقت تو بس اسے اپنی جان کو دیکھنا تھا

اسلیے تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

جہاں نماز اسٹائل میں ڈوپٹہ باندھے وہ جاے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی جس میں وہ اتنی مگن تھی کہ اسکے آنے کا بھی علم نہیں ہوسکا

چہرے پر ہاتھ پھیر کر اسنے جاے نماز طے کرکے رکھی جب نظر بند دروازے کے قریب کھڑے عصیم کی طرف گئی

"شاہ آپ کب آے" اسنے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا جس پر اگلے ہی لمحے عصیم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا اور بنا اسکی کچھ سنے اسکے لبوں پر جھک گیا

کسوا نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن اسکے دونوں ہاتھ اسکی کمر پر باندھ کر وہ اپنے کام میں مگن رہا

ایک ہفتے بعد وہ اپنی بیوی سے مل رہا تھا اتنا پیار کرنا تو اسکا حق تھا اسکے مزاحمت کے باوجود بھی وہ اسی طرح اسکے لبوں پر جھکا رہا اور اسی طرح جھکا رہتا آگر کمرے میں تیسری آواز نہیں سنائی دیتی

"بابا سائیں اب چھوڑ بھی دیں میری ماں کو یہ تو دیکھ لیں جوان جذباتوں پر کیا اثر پڑے گا" شاہ میر کی آواز سنتے ہی اسنے جلدی سے کسوا کو چھوڑ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے شاہ میر کو دیکھا جو دکھنے میں بلکل اپنے باپ کی طرح تھا

داڑھی مونچھوں سے پاک چہرہ گندمی رنگت اور چہرے پر موجود شرارتی مسکراہٹ

اسے دیکھ کر عصیم اچھا خاصا شرمندہ ہوچکا تھا یہی وجہ تھی کسوا کی مزاحمت کی پہلے وہ پورا کمبل میں لیٹا پڑا تھا اسلیے اسنے غور ہی نہیں کیا کہ کمرے میں کوئی تیسرا وجود بھی موجود ہے جبکہ وہ اسکے یہاں ہونے کی امید بھی نہیں کررہا تھا

"یہ یہاں کیا کررہا ہے" اسنے کسوا کی طرف دیکھا جو شرمندہ سی نظریں جھکائے کھڑی تھی لیکن اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی شاہ میر بول اٹھا

"میں بتاتا ہوں مجھے رات کو نہیں آرہی تھی نیند تو سوچا میں نے کہ میں آجاؤں اپنی اماں سائیں کے پاس اور اچھا ہوا آگیا ورنہ بابا سائیں کی یہ بےتابی مس کردیتا پورے گھر میں بتاؤں گا"

"بتا دے پورے گاؤں میں بتادے بیوی ہے میری"

"ہاے بابا سائیں تو میری بیوی بھی لادیں نہ تاکہ میں بھی تھوڑی کسی مسی کرلوں"شاہ میر کے کہتے ہی عصیم غصے سے اسکی طرف بڑھا جبکہ اسے اپنی طرف بڑھاتا دیکھ کر وہ کسوا کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا

"دیکھ لیں اماں سائیں یہاں تو سچ بولنے پر بھی ڈانٹ ہی ملتی ہے" اسنے اپنی ماں کے گلے میں اپنے بازو حمائل کیے

"شاہ کیا کررہے ہیں جائیں فریش ہو جائیں صبح صبح میرے بچے کے پیچھے پڑھ گئے ہیں"

"سمجھالو اپنے اس بچے کو کسی دن بہت پٹے گا یہ مجھ سے اور تم بچے نماز پڑھ لی تم نے"

"نہیں جا ہی رہا تھا" اسنے سر کھجاتے ہوے کہا

"تو جاؤ پہلے ہی وقت نکلا جارہا ہے"

"سیدھے سیدھے کہیں نہ میرے کمرے سے دفع ہوجاؤ مجھے میری بیوی کے ساتھ رومینس کرنا ہے" شاہ میر کے کہنے پر کسوا نے غصے سے اسکے سر پر چپت لگائی

"ہاں کرنا ہے چلو اب جاؤ"عصیم نے بھی صاف گوئی سے کام لیا

جس پر اپنے کندھے اچکا کر اسنے کمرے کا دروازہ کھولا اور اگلے ہی پل کسوا کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر باہر بھاگ گیا

"بابا سائیں آپ تھکے ہوے آے ہیں آرام کریں" شاہ میر کی آواز سن کر اسنے غصے سے بڑبڑاتے ہوے اسے چند القابات سے نوازا اور فریش ہونے چلا گیا

°°°°°

اسنے نیند میں ہی ہاتھ بڑھا کر بجتے الارم کو بند کیا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا

شاور لے کر وہ واشروم سے باہر نکلا اور کندھوں پر مردانہ شال ڈال کر مسجد کی طرف چلا گیا

نماز پڑھ کر اسنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاے اور دعا مکمل کرکے ہاتھ چہرے پر پھیر لیے اور مسجد سے باہر نکل کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا

حویلی میں داخل ہوتے ہی آئرہ کی نظر اپنے خوبرو بیٹے پر گئی دل میں اسنے بےساختہ ماشاءاللہ کہا

زریام شاہ جو دکھنے میں بلکل اپنے باپ پر گیا تھا گھنی داڑھی مونچھیں گال پر پڑتا ڈمپل لمبا قد مظبوط جسامت پیشانی پر بل اور گوری رنگت

اگر اس میں اور عالم میں کچھ مختلف تھا تو یہ کہ عالم شاہ کو جتنی پڑھائی سے چڑ تھی زریام شاہ کو پڑھائی سے اتنا ہی لگاؤ تھا

وہ ایک انجینئر تھا لیکن پڑھائی ختم ہونے کے بعد اسنے کوئی جوب نہیں کی بلکہ اپنے باپ کا کام سنبھالا

بچپن میں وہ ساحر اور ماہر کے ساتھ اکثر یہ کھیل کھیلتا تھا جس میں وہ یہی کہتا کہ میں عالم شاہ ہوں ایک زمیندار اور اسے اندازہ نہیں تھا بڑے ہوکر وہ واقعی میں ایک زمیندار بن جاے گا

"اسلام وعلیکم اماں سائیں" اسنے جاکر آئرہ کو اپنے گلے لگایا جس پر مسکراتے ہوے اسنے زریام کی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے

"وعلیکم اسلام آؤ بیٹھو میں سب کو بلا کر لاتی ہوں"اسے بٹھا کر وہ سب کو بلانے کے لیے چلی گئی

حویلی کے سارے بچوں نے شہر سے ہی پڑھائی کی تھی اور کچھ ابھی بھی کررہے تھے اسلیے ان سے ملاقات جب ہی ہوتی تھی جب وہ ویکینڈ پر حویلی آتے تھے ورنہ وہ سب شہر میں عینہ کے پاس ہی رہتے تھے

°°°°°

"اسلام وعلیکم بابا جانی" گرم گرم چاے اسنے اسد صاحب کی طرف بڑھائی

"وعلیکم اسلام تم تیار نہیں ہوئی ہو بیٹا تمہاری یونی کا ٹائم ہورہا ہے"

"جی بس جارہی تھی میں نے سوچا ابھی تو کافی ٹائم پڑا ہے تھوڑی دیر میں تیار ہونے کے لیے چلی جاؤں گی"

"عزہ بیٹا آج پہلا دن ہے کلاس بھی نہیں دیکھی ہے تم نے"

"میشال نے دیکھی ہے بابا جانی اسنے کہا تھا وہ میرا باہر انتظار کرے گی اور ہم ایک ساتھ ہی اندر جائینگے تاکہ مجھے کوئی مسلہ نہ ہو" عزہ نے جلدی سے اپنی بچپن کی دوست میشال کا نام لیا اسکول کالج ایک ساتھ پڑھنے کے بعد اب وہ یونیورسٹی بھی ایک ساتھ ہی پڑھنے والی تھیں

"چلو یہ تو اچھی بات ہے اور احتیاط سے رہنا کوئی بدتمیزی کرے یا کچھ بھی کہے تو مجھے بتانا"اسد صاحب کے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاکر یونیورسٹی کے لیے تیار ہونے چلی گئی

اسے ڈر لگ رہا تھا اسکا پہلا دن تھا انجان جگہ تھی اسلیے اپنا ڈر اسے فطرئ لگ رہا تھا

"پری تم بوڑھی ہورہی ہو" معتصم نے اپنے گیلے بالوں کو تولیے سے رگڑتے ہوے کہا جبکہ اسکے کہنے پریشے نے گھور کر اسے دیکھا

"مطلب میں نے کل تمہارے بالوں میں ایک سفید لٹ دیکھی تھی"

"یہ شاہ میر کی کارستانی ہے میرے بالوں پر پینٹ کررہا تھا وہ تو شکر تھا صرف ایک لٹ پر ہوا تھا اور میرے بال بچ گئے"

"اور وہ ایسا کیوں کررہا تھا"

"اس کا کہنا تھا کہ اب میں بوڑھی ہوچکی ہوں لیکن میرے سفید بال نہیں نکلے اس لیے وہ میرے بال سفید کرنا چاہ رہا تھا ویسے معتصم پتہ ہے میں کیا سوچ رہی تھی"

"کیا سوچ رہی تھیں"تولیہ سائیڈ میں پھینک کر اسنے پریشے کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کیا

"تم نے مجھے کہا تھا ہنی مون پر فرانس لے کر جاؤ گے لیکن لے کر نہیں گئے"

"اتنی پرانی بات کہاں سے یاد آگئی"

"میں سوچ رہی تھی کہ وقت کتنی جلدی گزرتا ہے کل میری تم سے شادی ہوئی تھی تم مجھے ہنی مون پر لے کر جانے والے تھے اب ہمارے بچے بڑے ہوگئے اور انکی شادی ہوگی پھر وہ بھی ہنی مون پر جائینگے"

"ڈاکٹر پریشے شاید تم بھول گئی ہو میں اسکے بدلے اتنی اچھی جگہ پر لے کر گیا تھا تمہیں"

"مانچسٹر جو مجھے بلکل پسند نہیں آیا تھا"

"کوئی بات نہیں میں تمہیں اب فرانس لے جاؤں گا اور وہاں جاکر ہم اپنا نیا ہنی مون منا لینگے"

"کچھ شرم کرلو معتصم" اس سے دور ہٹ کر وہ کمرے سے نکل کر باہر چلی گئی

°°°°°

"زریام تم شہر کب جاؤ گے" اسنے ڈائیننگ روم میں موجود اپنی جگہ پر بیٹھے ہوے کہا

"کل جاؤں گا خیرت بڑی ماما"

"ہاں بچوں کے لیے سامان لیا تھا وہ دے دینا"

"کیوں پری اس ہفتے نہیں آئینگے وہ سب" ثقلین صاحب نے پریشے کو مخاطب کیا

"نہیں نور کے پیپرز ہورہے ہیں نہ تو سب اسکے پیپرز کے بعد ہی آئینگے"

"عینہ سے کہا کرو خیال رکھا کرے نور کا اسکے کھانے پینے کا دھیان رکھا کرے" اس بار ثمرین بیگم نے کہا جس پر اسنے مسکراتے ہوے جواب دیا

"عینہ کو خیال رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اسکے بھائی ہی کافی ہیں اسکا خیال رکھنے کے لیے"اسنے کہتے ہوے گرم چاے کا گھونٹ اپنے اندر اتارا

°°°°°

"شانزے کب سے فون بج رہا ہے تمہارا اٹھا کیوں نہیں رہی ہو" کینٹین میں بیٹھی اس وقت وہ دونوں سموسوں سے انصاف کررہی تھی

لیکن بار بار بجتا شانزے کا فون انہیں ڈسٹرب کررہا تھا جس کی وجہ سے ثنا نے تب کر کہا

"آہان کا فون ہے خود تو یونیورسٹی آیا نہیں گاؤں جاکر بیٹھ گیا اور اب مجھے فون کررہا ہے مجھے پتہ ہے آج کہ دن کی کہانی سننے کے لیے فون کررہا ہوگا"

"تو سنا دو"

"کیوں سناؤں خود تو گاؤں جاکر بیٹھ گیا اور اب مجھے پتہ ہے کوئی بہانہ بنا کر اپنا اسائنمنٹ بھی میرے سر پر ڈال دے گا" اسنے اپنی چھوٹی سی ناک کو سکوڑ کر کہا جس پر ثنا نے مسکرا کر اسے دیکھا

اسے پتہ تھا یہ ناراضگی صرف اس لیے ہے کیونکہ آہان اسے بنا بتاے گاؤں چلا گیا تھا اور یونیورسٹی کے ان گزرے سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ جیسے ہی آہان اسکے سامنے آے گا تو اسکی ناراضگی ختم ہوجاے گی

اسکول کے دور میں ہی وہ حیدرآباد سے کراچی آگئی تھی کیونکہ یہاں اسکے والد کو اپنے دوست کے ذریعے کافی اچھی جوب مل گئی تھی اور کالج اسنے یہیں سے پڑھا تھا جہاں کالج میں اسکی دوستی ثنا سے ہوئی اور یونیورسٹی کے پہلے ہی ہفتے آہان سے

ثنا کے ساتھ اسکی دوستی کو زیادہ عرصہ ہوچکا تھا لیکن ثنا اور شانزے سے زیادہ گہری دوستی آہان اور شانزے کی تھی جس سے پوری یونیورسٹی بخوبی واقف تھی

°°°°°

سفید ڈوپٹہ مفلر کی طرح گلے میں ڈالے پیلی کرتی اور سیفد چوڑی دار باچامہ پہنے وہ تیز تیز قدموں سے چلتی نیچے کی طرف آرہی تھی

آدھے بالوں میں کیچر لگایا ہوا تھا جبکہ بیگ کندھے پر موجود تھا

"ایہاب جلدی سے مجھے یونی چھوڑ دو" ناشتے کی ٹیبل پر آکر اسنے جلدی سے بریڈ اپنے منہ میں ڈال کر لاؤنج میں بیٹھے ایہاب سے کہا

"ڈئیر آپی میں کہیں نہیں جارہا میرے دوست آنے والے ہیں اور مجھے انکے ساتھ جانا ہے" ایہاب نے ایک نظر اٹھا کر اپنے سے ایک سال بڑی ماہیم کو دیکھا اور دوبارہ اپنی نظریں موبائل پر مرکوز کردیں

"میں تمہاری بکواس نہیں سن رہی اٹھو جلدی" جوس کا گلاس اٹھا کر اسنے لبوں سے لگا لیا اور ایک ہی سانس میں پی گئی

"ماہیم کونسی بس چھوٹی جارہی ہے آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو" اسکی جلد بازی دیکھ کر عینہ نے اسے ٹوکا

"بہت لیٹ ہوگئی ہوں ماما اسے کہیں مجھے چھوڑ کر آے"

"یہ تو پہلے نخرے دکھاے گا پھر کام کرے گا اس سے بہتر ہے ماہر کے ساتھ چلی جاؤ ابھی باہر گیا ہے"عینہ کے کہنے پر اسنے ایہاب کی طرف دیکھا جو ابھی تک اپنے موبائل میں مصروف تھا

"ایہاب ادھر دیکھو" ماہیم کے کہنے پر ایہاب نے اسکی طرف دیکھا اور اسکے دیکھتے ہی عینہ اسے دفعہ ہوجاؤ کہتی باہر چلی گئی جبکہ اسکے کہنے پر ایہاب بھی ڈھٹائی سے مسکرا دیا

°°°°°

"ماہر بھائی رک جائیں مجھے بھی یونی چھوڑ دیں" اسکی آواز سن کر گاڑی کا دروازہ کھولتے ماہر کا ہاتھ رکا

وائٹ شرٹ کی آستینیں کونیوں تک فولڈ تھیں جینز اور ٹائی لگاے وہ جانے کے لیے تیار کھڑا تھا

جبکہ اسکی آواز سنتے ہی اسکی پیشانی جس پر دو لٹیں گری ہوئی تھیں اچھے خاصے بل پڑ چکے تھے

"کیا مسلہ ہے" اسکے قریب آتے ہی ماہر نے سخت لہجے میں کہا جسے سن کر ایک پل کے لیے وہ ٹھٹک گئی

"وہ مجھے یونیورسٹی جانا تھا" اسنے منمناتے ہوے کہا

"تو میں تمہارا ڈرائیور ہوں"

"سوری مجھے پتہ نہیں تھا آپ ہو مجھے لگا ماہر بھائی ہیں" اسنے سر جھکا کر کہا جبکہ اسکے ایسا کرتے ہی وہ جو کب سے اپنے ایکسپریشن کو کنٹرول کررہا تھا اسنے قہقہہ لگایا اور اسکے ایسا کرتے ہی ماہیم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا رکی ہوئی سانس بحال ہوئی

"آپ بہت برے ہو ماہر بھائی میں آپ سے بات نہیں کروں گی" ناراضگی سے کہتی ہوئی وہ اسکی گاڑی میں بیٹھ گئی

"پر پھر بھی تم میری ہی گاڑی میں بیٹھی ہو ماہیم" اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے اسنے سیٹ سے سر ٹکا کر اپنی آنکھیں بند کرلیں مطلب وہ واقعی میں ناراض ہوچکی تھی

ساحر اور ماہر جو ایک دوسرے کا سب کچھ تھے دکھنے میں وہ بلکل ایک جیسے تھے اور اوپر سے کپڑے بھی ہمیشہ وہ ایک جیسے پہنتے تھے جس کی وجہ سے ہر کوئی مشکل سے ہی انکو پہچانتا تھا ان دونوں کی آواز بھی کافی ملتی جلتی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کا عکس تھے بس فرق اتنا تھا کہ ساحر تھوڑا سخت تھا

یا ماہیم کو ایسا لگتا تھا کیونکہ جب جب اسکا ساحر سے سامنہ ہوتا تو اسے ڈانٹ ہی پڑتی تھی اسے ساحر سے ڈر لگتا تھا اور یہ بات ماہر بخوبی جانتا تھا

اسلیے جب بھی وہ اکیلا ہوتا اور ماہیم اسکے پاس آتی وہ یہی شو کرتا کہ وہ ساحر ہے اور ساحر کی طرح ہی ڈانٹنے لگ جاتا لیکن یہ کام وہ زیادہ دیر تک نہیں کرپاتا تھا کیونکہ اسکے ڈانٹے پر ماہیم کا روندو چہرہ دیکھ کر ہمیشہ اسکی ہنسی نکل آتی تھی

°°°°°

جلدی جلدی کرتے ہوے بھی اسے آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی

میشال کافی دیر تک اسکا انتظار کرتی رہی لیکن کلاس شروع ہونے والی تھی اسلیے وہ اندر چلی گئی

جبکہ وہ خود مشکل سے ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈتے ہوے اپنی کلاس میں پہنچی تھی جہاں سر پہلے ہی کلاس میں موجود تھے

اسنے اپنا تھوک نگلا پہلا ہی دن تھا اور وہ اتنی لیٹ آئی تھی

گہرا سانس لے کر اسنے اندر آنے کی اجازت مانگی جس پر ماہر نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا

"آپ کا نام"

"ع-عزہ اسد"

"تو مس ع-عزہ اسد" ماہر کے کہنے پر ساری کلاس کی ہنسی نکلی جس پر ماہر نے گھور کر سن سب کو دیکھا

"سائلنس" ماہر کے سختی سے کہنے پر کلاس پہلے کی طرح خاموش ہوچکی تھی

"ٹائمنگ نہیں پتہ آپ کو"

"سوری سر آئیندہ ایسا نہیں ہوگا" اسکے کہنے پر ماہر نے اسے اندر آنے کی اجازت دی وہ جاکر میشال کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی

اور ماہر پھر سے اپنی چھوڑی ہوئی بات کی طرف متوجہ ہوگیا آج سب کا پہلا دن تھا اسلیے سب کا صرف انٹروڈکشن ہی ہوا تھا

°°°°°

آہان کی مسلسل آتی کالز کی وجہ سے وہ اپنا موبائل ہی آف کر چکی تھی

جو اسنے اب گھر آکر کھولا تھا جہاں اسکی تین مس کالز اور لگی ہوئی تھیں

جبکہ فون اب پھر سے آرہا تھا یہ اسکے یونی سب واپسی کا ٹائم تھا جو وہ بھی جانتا تھا اسلیے اس وقت اسے کال کررہا تھا اسنے کچھ دیر اپنا بجتا فون دیکھا اور کال پک کرکے فون اپنے کان سے لگا لیا

"کیا مسلہ ہے"

"یہ تم مجھے بتاؤ کیا مسلہ کال کیوں پک نہیں کررہی تھیں میری"

"میری مرضی"

"تمہاری مرضی کی تو ایسی کی تیسی"

"کیا ایسی کی تیسی آہان شاہ یہ روعب کسی اور کو دکھانا شانزے مظہر تم سے نہیں ڈرتی ہے" اسکا خفا لہجہ دیکھ کر آہان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر گہرا سانس لیا

"تو شانزے مظہر ناراض ہوگئی ہے"

"میں تو ناراض نہیں ہوں"

"سوری یار ڈرائیور چھٹی پر تھا میرے علاوہ کسی کو اس ویک حویلی آنا نہیں تھا اسلیے میں یونی کے بعد ہی نکل گیا تھا آج واپس آجاؤں گا کل ملتے ہیں اور تمہیں بتا نہیں سکا اسکے لیے سوری"

"ہمم چلو کوئی بات نہیں" شانزے کے کہنے پر اسنے اطمینان بھرا سانس لیا

"تھینک یو تمہیں پتہ ہے نہ تم ناراض ہوتی ہو تو میری جان پر بن آتی ہے"

"ہاں تو کیوں کرتے ہو ایسے کام جس سے میں ناراض ہوتی ہوں"

"ایک کام کرو پیپر پر وہ ساری باتیں لکھ دو جس سے تم ناراض ہوتی ہو تاکہ آئیندہ میں ان سب باتوں کا خیال رکھ سکوں"

"ہاں یہ تم نے اچھی بات کہی میں ابھی لکھ لیتی ہوں" اسکی مزاق میں کہی بات کو وہ سیریس لے چکی تھی اور واقعی میں اب وہ ان سب چیزوں کی لسٹ بنارہی تھی جن سے اسکے ناراض ہونے کے خدشے تھے

اپنے آفس روم میں موجود کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوکر شیشے سے نظر آتے باہر چلتے منظر کو دیکھ رہا تھا

اسکا آفس روم سب سے اوپر فلور پر موجود تھا جس کے باعث یہاں کھڑے ہوکر سڑک پر چلتی گاڑیاں کسی چینوٹی کی مانند لگ رہی تھیں

دروازہ نوک ہونے کی آواز پر اسنے باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی اور خود جاکر اپنی چئیر پر بیٹھ گیا

سفیر نے ایک نظر اپنے سنجیدہ سے باس پر ڈالی جو اس وقت وائٹ شرٹ کے ساتھ بیلک پینٹ کوٹ میں بیٹھا سنجیدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

"سر اس فائلز پر آپ کے سائن چاہیے تھے" اسنے فائل کھول کر اسکے سامنے رکھی جسے پڑھنے کے بعد ساحر نے اپنے کوٹ میں رکھا پین نکال کر اس پر سائن کر دیے

"سر وہ عصیم سر ترکی گئے تھے انکی واپسی کب تک ہوگی"

"وہ آچکے ہیں اس وقت گاؤں میں موجود ہیں" اسنے سنجیدگی سے جواب دیا

"سر وہ باہر انٹرویو کے لیے لڑکیاں آئی ہیں" سفیر کے کہنے پر اسنے اپنے سی سی ٹی وی فوٹیج کی طرف دیکھا جہاں باہر ویٹنگ ایریا میں بیٹھی لڑکیاں نظر آرہی تھیں

"پہلے نمبر پر جو لڑکی بیٹھی ہے اسے رکھ لو باقی سب کو بھیج دو"

"لیکن سر انٹرویو نہیں ہوگا"

"نہیں"

"لیکن سر ہوسکتا ہے اس میں سے کوئی ضرورت مند ہو میرا مطلب ہے چند لڑکیاں مجھے ایسی لگ رہی ہیں انکے کپڑے اور حولیے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے"

"تم زیادہ نہیں بولنے لگ گئے سفیر" ساحر کے کہنے پر اسنے سر جھکا کر معذرت خواہانہ انداز میں کہا

"سوری سر"

"خیر میں یہ کام ضرورت مندوں کے لیے نہیں کرتا جو اس جوب کے قابل ہوگا یہ جوب اسے ہی ملنی چاہیے جو میری بی اے کے حساب سے ہوگی"ٹیبل پر رکھا اپنا سامان اٹھا کر وہ آفس روم سے نکل گیا

جبکہ اسکے جاتے ہی سفیر نے گہرا سانس لیا عصیم اور معتصم کے بعد اب شاہ انڈسٹری ساحر شاہ کے ہاتھ میں تھی جسے وہ بہت اچھے سے چلا رہا تھا کیونکہ بچپن سے اپنے باپ اور بڑے بابا کو دیکھتے ہوے کم عمری میں ہی اسے اس کام کا اچھا خاصا تجربہ ہوچکا تھا

معتصم اور عصیم اب صرف ہفتے میں اک اد بار ہی یہاں کا چکر لگاتے تھے جبکہ باقی کی ساحر سے ساری صورتحال معلوم کرتے تھے اور وہ بھی انہیں ساری تفصیل بتادیتا تھا تاکہ اگر کہیں وہ غلط ہو تو اس غلطی کو درست کردیا جاے

ان دونوں کو اب وہ کام صرف جب ہی کرنے دیتا تھا جب اس سے خود کچھ ہینڈل نہیں ہوپاتا تھا اور ایسے موقع کم ہی آتے تھے ہاں دوسرے ملک یا شہر جانے کی بات ہوتی تو وہ تینوں میں سے کوئی بھی چلا جاتا تھا

ماہر بھی کبھی کبھی آفس آجاتا تھا لیکن اسے ان سب چیزوں کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھی نہ ہی اسے ان سب چیزوں کا شوق تھا اسلیے اس کام کو کرنے کے بجاے اسے وہ کام کرنا زیادہ اچھا لگا جو وہ ابھی کررہا تھا

لیکن اسکی باتوں کو نظر انداز کرکے وہ اسے اور زریام کو آفس کے بارے میں ضروری معلومات ہمیشہ دیتا رہتا تھا تاکہ انہیں بھی اس کام کا علم ہو

°°°°°

ہاتھوں میں تین سے چار بیگ تھامے وہ حویلی سے باہر جارہا تھا جب حویلی میں داخل ہوتے عالم نے اسے پکارا

"کہاں جارہے ہو زریام"

"بڑی ماما نے کچھ چیزیں بھجوانی تھیں سب کے لیے بس اسی وجہ سے شہر جارہا تھا"

"اچھا جاتے ہوے اسکول بھی دیکھ کر جانا میں کل بھی وہاں نہیں جاسکا تھا تم دیکھ لینا کام کیسا چل رہا ہے"

"جی بابا سائیں میں دیکھ لوں گا" اپنا سر ہلاکر اسنے عالم کو "اللہ حافظ" کہا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا

بھلے عالم کو خود پڑھنے کا شوق نہیں تھا لیکن یہ اسکی خواہش تھی کہ گاؤں کا ہر بچہ پڑھے اور یہی خواہش زریام کی بھی تھی

عالم نے پہلے گاؤں میں دو اسکول بنوائے تھے جہاں ٹیچرز شہر سے پڑھانے آتے تھے اور انکی سہولت کی ہر چیز کا انتظام یہاں کیا گیا تھا

جبکہ اب تیسرا اسکول زریام نے خود اپنی خواہش پر بنوایا تھا جس میں ساتھ ہی کالج بھی ہوگا ویسے تو گاؤں میں چند کالج موجود تھے لیکن یہ کالج زریام ہر لحاظ سے بہتر بنوانا چاہتا تھا

کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ گاؤں کا ہر بچہ خوب پڑھے خاص طور پر لڑکیاں اسے چڑ تھی ان لوگوں سے جو پرانی سوچیں لے کر اپنی بچیوں کو پڑھنے نہیں دیتے تھے لیکن وہ انکی یہ پرانی سوچ ختم کرنا چاہتا تھا

وہ یہ دکھانا چاہتا تھا کہ لڑکیاں بھی پڑھ سکتی ہیں اور لڑکوں سے زیادہ آگے بڑھ سکتی ہیں بس انکے والدین کو انکا ساتھ دینا چاہیے

°°°°°

بیگ کندھے پر لٹکاے وہ ڈرائیور کا انتظار کررہی تھی جب تھوڑے فاصلے پر اسے ایک گاڑی رکتی نظر آئی جسے دیکھ کر وہ اسکی جانب چلی گئی

وہ بلیک لینڈ کروزر تھی جو ماہر کے پاس تھی اور اسے یہی لگا کہ ماہر ہی اسے لینے آیا ہوگا ویسے بھی اسے آنا بھی چاہیے تھا وہ صبح اس سے ناراض جو ہوگئی تھی لیکن وہ یہ بھول گئی کہ ساحر کے پاس بھی یہی گاڑی تھی وہ بھی اسی کلر میں

"میں بیٹھ ضرور گئی ہوں ماہر بھائی لیکن اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں آپ سے ناراض نہیں ہوں" گاڑی میں بیٹھ کر اسنے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوے کہا

جس پر گاڑی اسٹارٹ کرتے ساحر نے اپنا سر نفی میں ہلایا

"تم لڑکیوں کو روٹھنے منانے کے علاؤہ اور کچھ نہیں آتا" اسکی آواز سنتے ہی بیگ میں موبائل تلاش کرتا اسکا ہاتھ تھما

بھلے وہ دکھنے میں بلکل ایک جیسے تھے لیکن یہ فرق ان دونوں کی پہچان بتاتا تھا کہ کون ساحر ہے کون ماہر

ماہر کی نسبت ساحر کی آواز کچھ زیادہ ہی بھاری تھی اور اسکا لہجہ ہمیشہ سنجیدہ رہتا تھا

"س--سوری ساحر بھائی مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ ہو"

"بلکل پتہ ہوتا تو ایسا نہیں کہتیں کیونکہ تم مجھ سے روٹھتی نہیں ہو"

"مجھے آپ سے روٹھنا بھی نہیں ہے"

"میں نے تمہیں کوئی ایسا حق دیا بھی تو نہیں ہے" بات تو صحیح تھی جسے سن کر اسے کوئی فرق نہیں پڑا لیکن پھر بھی آنکھیں نم ہوچکی تھیں

"مجھے آپ سے ایسا کوئی حق چاہییے بھی نہیں" اسکی رندھی ہوئی آواز سن کر ساحر نے جھٹکے سے گاڑی روکی اور ماہیم کے تھوڑا قریب ہوا جبکہ اسکی اس حرکت پر وہ گاڑی کے دروازے سے چپک چکی تھی

"لیکن میں تو تمہیں یہ حق دینا چاہتا ہوں" اسکے کہنے پر ماہیم نے ناسمجھی سے اپنی بھیگی سیاہ آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا

"تمہیں پتہ ہے ماہیم تمہاری یہ آنکھیں مجھے بہت پسند ہیں سیاہ بلکل رات کی طرح اور ان میں جب آنسو ہوتے ہیں تو یہ اور زیادہ حسین لگتی ہیں جیسے رات کے پہر بارش" اسکی بات سن کر ماہیم نے اپنا تھوک نگلا ساحر کی باتیں ہمیشہ اسے عجیب ہی لگتی تھیں

"تمہیں پتہ ہے میں تمہیں ڈانٹتا کیوں ہوں اور کسی اور ایسا کیوں نہیں کرنے دیتا کیونکہ تمہیں ڈانٹنے کا تم پر غصہ ہونے کا حق صرف میرا ہے ہاں تمہیں پیار کرنے کا ابھی میرے پاس کوئی حق نہیں ہے"

"ساحر بھائی مجھے گھر جانا ہے" اسکے کہنے پر ساحر نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کریں اور گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کردی جبکہ دل اپنی ہی بات میں اٹک چکا تھا

"ہاں تمہیں پیار کرنے کا ابھی میرے پاس کوئی حق نہیں ہے لیکن جب یہ حق ملے گا تو تمہیں مجھ سے زیادہ پیار کوئی کر نہیں پاے گا" اسنے نظریں موڑ کر ماہیم کی طرف دیکھا جو اسکی طرف نہیں دیکھ رہی تھی

اور اسے پتہ تھا کہ اب یہ سفر ختم ہونے تک وہ غلطی سے بھی اس پر نظر نہیں ڈالے گی

°°°°°

"کیسا گزرا پہلا دن"اسکے بائیک پر بیٹھتے ہی اسد صاحب نے پوچھا

"بہت اچھا گزرا بابا جانی بس تھوڑی لیٹ ہوگئی تھی لیکن شکر تھا سر نے زیادہ ڈانٹا نہیں"

"چلو یہ تو اچھی بات ہے لیکن آئیندہ دھیان رکھنا بیٹا انسان کو وقت کی پابندی کرنی چاہیے" کچھ دیر بعد انہوں نے بائیک ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روکی جس پر عزہ نے حیرت سے انہیں دیکھا

"بائیک یہاں کیوں روکی ہے بابا جانی"

"آج تمہاری یونیورسٹی کا پہلا دن ہے تو اسی لیے سوچا تمہیں آئسکریم کھلا دوں"

"اسکی ضرورت نہیں ہے بابا جانی گھر چلتے ہیں امی انتظار کررہی ہوں گی"

"ارے کوئی انتظار نہیں کررہی ہوگی دیکھنا جب ہم وہاں جائینگے تو ٹی وی کے سامنے بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہوگی" اسد صاحب کے منہ بنانے پر اسے بےاختیار بےاختیار ہنسی آگئی

°°°°°

گھر پہنچ کر اسکی وصی اور عینہ سے ملاقات ہوچکی تھی جبکہ باقی سب گھر سے باہر تھے

ایہاب اپنے دوستوں کے ساتھ تھا ماہر نور اور ماہیم یونی اور ساحر آفس میں تھا اسکا ارادہ ان سب سے مل کر ہی جانے کا تھا

اسلیے وہیں بیٹھ کر وہ انکا انتظار کرنے لگا جبکہ ملازمہ سے کہہ کر عینہ اسکے سامنے الگ الگ ڈشز رکھ رہی تھی جو ساری اسکی پسند کی تھیں

"عینہ آنٹی آپ کو پتہ تھا میں آنے والا ہوں جو آپ نے سب کچھ میری پسند کا بنوایا تھا"

"ہاں پری نے بتادیا تھا اسلیے میں نے پہلے ہی سب بنوالیا تھا اب کوئی بہانہ مت بنانا سب کچھ کھانا ہے" عینہ نے فنگر فش اسکے سامنے رکھی

"آہان کب آرہا ہے واپس"

"آج کا کہہ رہا تھا میں نے کہا بھی تھا میرے ساتھ آجاے لیکن اسکا کہنا تھا میرے ساتھ سفر بہت بورنگ گزرتا ہے"

باتوں کے دوران ہی ماہیم اور ساحر بھی آچکے تھے

°°°°°

"زریام کیسے ہو" ساحر نے اسے دیکھ کر خوش گوار حیرت سے کہا اور آگے بڑھ کر اسکے گلے ملا

ساحر سے ملنے کے بعد اسنے ماہیم کے سر پر ہاتھ رکھا

تھوڑی دیر اسکے پاس بیٹھ کر وہ فریش ہونے کے لیے جا چکی تھی جبکہ ساحر وہیں اسکے پاس بیٹھا رہا اسکے ساتھ باتیں کرتے کرتے ماہر بھی آچکا تھا

جس کے بعد تھوڑی دیر مزید ان دونوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ گھر سے نکل کر جاچکا تھا کیونکہ نور یونی کے بعد اپنی دوست کے یہاں جاچکی تھی

جس کا ایڈریس وہ عینہ سے لے چکا تھا کیونکہ نور سے ملنے کے لیے اسے وہیں جانا تھا اس طرح کسی کے گھر جانا اسے اچھا تو نہیں لگ رہا تھا

لیکن ایسا کیسے ممکن تھا کہ یہاں آکر وہ اپنی پرنسس سے نہیں ملتا وہ بس اسے باہر بلا کر اس سے ملے گا اور واپس چلا جاے گا لیکن اس سے ملے بنا نہیں جاے گا

اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسنے گاڑی اس جانب بڑھا دی جس جگہ کا ایڈریس عینہ نے اسے دیا تھا

جب راستے میں اسکی نظر تھوڑے فاصلے پر کھڑے اس گجرے بیچتے آدمی پر گئی گجرے دیکھتے ہی اسے نور کا خیال آیا

گاڑی سے اتر کر اسنے گجرے خریدے والٹ جیب میں رکھا اور واپس جانے لگا جب اسکی کسی سے زور دار ٹکر ہوئی کسی نے اسکی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسکا والٹ نکالا تھا

بھلے سامنے والے نے یہ کام بہت پھرتی اور نامحسوس انداز میں کیا تھا لیکن پھر بھی وہ جان چکا تھا

لیکن اس سے پہلے وہ شخص بھاگتا زریام نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا

°°°°°

°°°°°

"ماہیم تجھ سے کیوں ناراض ہے" زریام کے جاتے ہی اسنے ماہر کی طرف دیکھتے ہوے کہا

"ساحر بن کر بس تھوڑا روڈلی ہوکر بات کی تھی" اسکے لاپروائی سے کہنے پر ساحر نے گھور کر اسے دیکھا

''ایسے مت دیکھ یار میں تو بس تھوڑا فن کررہا تھا کچھ دنوں کی تو بات ہے جب تیری اس سے شادی ہوجاے گی تو پھر تو تیری پیار بھری نظروں سے وہ خود ہی سمجھ جاے گی کہ ساحر کون ہے اور ماہر کون" اسکے کہنے پر ساحر نے ٹھٹک کر اسے دیکھا

"جڑواں ہوں تیرا ہم تو ایک دوسرے کے دل کی باتیں بھی سمجھ جاتے ہیں"

"یہی تو غم ہے"

"ایک دن یہی بات تجھے اچھی لگے گی دیکھ لینا"

"دیکھتے ہیں" بڑبڑاتے ہوے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا

"ساحر چینج کرے گا تو وہ کپڑے پہن لینا جو میں نے پہنے ہوے ہیں" اسکی بات سن کر ساحر نے اچھنبے سے اسے دیکھا

"کیوں"

"عینہ آنٹی بتارہی تھیں آج انکا نیا ڈرائیور آے گا تو بس اسی لیے تھوڑی مستی کرنی ہے"

"ماہر میرا خیال ہے ہم ان سب چیزوں کے لیے بڑے ہوگئے ہیں"

"پھر بھی دل تو بچہ ہے جی"

"جس کا دل بچہ ہے وہی یہ کرتب کرتا پھرے" نفی میں سرہلا کر وہ وہاں سے چلا گیا

جبکہ ماہر نے بھی اپنا سر جھٹک کر ٹیبل پر رکھے فرائیڈ رائس اٹھا لیے

°°°°°

"ہاتھ چھوڑ اپن کا"اسنے زریام کی سخت گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا جبکہ زریام تو بس حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا

وہ جو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی لڑکا ہے تو یہ اسکی غلط فہمی تھی ویسے بھی یہ چوری والا کام کرنے کی امید بھلا وہ کسی لڑکی سے کیسے کرسکتا تھا لیکن سامنے اس وقت واقعی لڑکی ہی کھڑی تھی سیاہ رنگ کا مردانہ کرتا پہنے

اسکے ڈھیلے جوڑے میں بندھے بالوں پر مٹی لگی ہوئی تھی جسے دیکھ کر لگ رہا تھا اسنے کتنے دنوں سے اپنا سر نہیں دھویا ہے اسکے سیاہ کمیز شلوار پر بھی مٹی لگی ہوئی تھی

جبکہ سیاہ سوٹ میں اسکی سفید رنگت دمک رہی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اسکے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی لمبی گھنی پلکیں اور چھوٹی سی ناک جبکہ قدرتی طور پر سرخ گال اور سرخ لب

اسے کسی بناؤ سنگھار کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسے پہلے ہی قدرتی حسن ملا ہوا تھا

"ہاتھ چھوڑ اپن کا"

"میرا والٹ واپس کرو"

"ہیں،،،؟" زریام کے کہنے پر اسنے ناسمجھی سے اسے دیکھا جیسے اسکی کہی بات اسے سمجھ نہیں آئی ہو

"یہ جو تم نے اپنی جیب میں میری چیز رکھی ہوئی ہے نہ اسے واپس کرو" اپنی چوری پکڑے جانے پر وہ شرمندہ تو ہرگز نہیں ہوئی تھی

"ہاں تو کررہی ہوں نہ تو پہلے ہاتھ چھوڑ اپن کا شرم نہیں آرہی لڑکی کا ہاتھ پکڑے کھڑا ہے'' اسکے کہنے پر زریام نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا

اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ آج تک کسی نے اسے تو کہا ہو یہ پہلی لڑکی تھی جو زریام شاہ کو اس طرح بدتمیزی سے پکار رہی تھی

اسنے زریام کا والٹ نکلا کر اسے دیا اور فورا وہاں سے بھاگ گئی

زریام نے اپنا والٹ کھول کر دیکھا وہ کیش کم ہی رکھتا تھا اسکے والٹ میں تین پانچ ہزار کے جبکہ دو ہزار کے نوٹ تھے لیکن اب دو پانچ ہزار کے نوٹ غائب تھے یقیناً وہ چورنی اسکے پیسے لے کر بھاگ گئی تھی لیکن یہ کام اسنے اتنی صفائی سے کیا تھا کہ زریام بھی اسے داد دیے بنا نہیں رہ سکا

"چورنی"بڑبڑاتے ہوے وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا

°°°°°

وہ ویران سڑک پر تیز بائیک چلاتا جارہا تھا جب اچانک کوئی اسکے سامنے آیا یہ تو شکر تھا کہ اسنے بائیک روک لی تھی جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا

لیکن سامنے آنے والی لڑکی پھر بھی زمین پر گر چکی تھی

"اندھی دیکھ کر نہیں چل سکتی ہو"

"میں اندھی ہوں بائیک تو تم چلا رہے تھے" میشال نے اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتے ہوے کہا جن پر زمین پر گرنے کی وجہ سے مٹی لگ چکی تھی یہ تو شکر تھا کہ اسے کہیں چوٹ نہیں لگی تھی

"تو یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے جو بائیک چلاتا ہے غلطی اسکی ہوتی ہے"

"یہ میری کتاب میں لکھا ہے بجاے اس کے تم مجھے سوری بولو الٹا تم مجھے سنا رہے ہو"

"سنا تو میں کچھ نہیں رہا اور میری آواز اتنی بےسری ہے کہ میں سنانا بھی نہیں چاہتا پھر بھی تم کچھ سننا چاہو تو سنا دوں گا" ایہاب نے اپنے دانتوں کی بھرپور نمائش کرتے ہوے کہا جس پر میشال اسے گھوری سے نواز کر بدتمیز کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

ویسے بھی اس ویران سڑک پر وہ اس انجان لڑکے سے اب لڑنے والی تو تھی نہیں

°°°°°

نائٹ سوٹ بدل کر وہ جیسے ہی بیڈ پر لیٹی اسکا فون بج اٹھا اسنے فون اٹھا کر دیکھا جہاں آہان کی کال آرہی تھی

"ہیلو"

"کیسی ہو"

"بلکل ٹھیک"

"اچھا اپنی کھڑکی پر آؤ تم سے کچھ بات کرنی ہے" آہان کے کہنے پر اسنے حیرت سے اپنی بند کھڑکی کو دیکھا اور جاکر کھڑکی کھول دی

جہاں سامنے ہی آہان پائب پر لٹکا کھڑا تھا

اسکا روم گھر کی دوسری منزل پر تھا جس کی وجہ سے وہ پایہ پر چڑھ کر اسکی کھڑکی تک پہنچا تھا

"آہان کے بچے یہاں کیوں لٹکے پڑے ہو"

"تم سے ملنے کا دل چاہ رہا تھا کل تک کا صبر مجھ میں تھا نہیں تو اسی لیے ابھی ملنے آگیا"

"اندر آؤ"

"کیا تمہارے کمرے میں کسی نے دیکھ لیا تو"

"یہاں میری کھڑکی پر بندر کی طرح جو لٹکے پڑے ہو وہ تو جیسے کوئی نہیں دیکھے گا اندر آؤ" اسکا ہاتھ پکڑ کر شانزے نے اسے اندر آنے میں مدد دی

"تھینک یو مجھے تو ڈر لگ رہا تھا میرے وزن سے وہ پائب نہ ٹوٹ جاے" اسنے ایک نظر اسکے پورے کمرے پر ڈالی

"تمہارے کمرے میں کچھ تو چینج لگ رہا ہے"

"کچھ بھی چینج نہیں ہے خیر تم کیوں آے ہو"

"میں تمہیں یہ دینے آیا تھا"اسنے اپنے کندھے پر لٹکے بیگ میں سب ایک چاکلیٹ باکس نکال کر اسے دیا

"آہان تم سچ میں اس وقت مجھے یہ دینے آے ہو"

"ہاں نئی چاکلیٹ ہے میں نے کھائی مجھے بہت اچھی لگی تو اسلیے تمہارے لیے بھی لے لی"

"دے دی نہ اب تم جاؤ''

"بڑی بےمروت لڑکی ہو بیٹھنے کو نہیں کہو گی" خود ہی جاکر وہ اسکے بیڈ پر لیٹ گیا

"یار شانزے تمہارا بیڈ تو بہت نرم ہے"

"اس پر سونے والی بھی تو اتنی ہی نرم ہے"

"میرا منہ مت کھلواؤ"

"نہیں کھلوارہی تم فلحال جاؤ اب باقی کی باتیں کل یونی میں کریں گے"

"تم سچ میں بہت بےمروت ہو اچھا دروازہ تو کھول دو گی نہ"

"میں کیوں کھولو گی جس طرح سے آے ہو اسی طرح سے واپس جاؤ اور خبردار جو مجھے پھر سے بےمروت کہا تمہارا اسائنمنٹ جو بنایا تھا نہ ابھی کے ابھی پھاڑ دوں گی"

"ارے پگلی میں تھوڑی کچھ کہہ رہا تھا بس جارہا ہوں" اسکے گال کھینچ کر وہ احتیاط سے کھڑکی پر چڑھ کر اترنے لگا

اپنی کھڑکی پر کھڑی ہوکر وہ مسکراتے ہوے اسے دیکھ رہی تھی جو اب نیچے اتر کر اسے ہاتھ سے باے کا اشارہ کررہا تھا

°°°°°

"دیکھ اماں اپن تیرے لیے کیا لائی ہے" حوریب نے اپنے اینٹوں سے بنے اس چھوٹے سے گھر میں داخل ہوکر عشل سے کہا جو ڈوپٹہ سر بندھے اپنا سر درد کم کرنے کی کوشش کررہی تھی

"تم نے پھر چوری کی حوریب" کھانے پینے کی اشیاء سے بھری ان تھیلیوں کو اپنے سامنے دیکھتے ہی اسنے حوریب سے سوال کیا

"تو اور کیا کرتی"

"تم مت کیا کرو یہ کام"

"تو فکر کیوں کرتی ہے اپن صرف گاڑی والوں کو لوٹتا ہے"

"تو کیا انکا پیسہ پیسہ نہیں ہوتا ہے"

"حرام کی کمائی ہے"

"سب کی نہیں ہوتی"

"ہاں تو اور کیا کروں چوری کرنا چھوڑ دوں جس سے کچھ کھانے کو نہیں ملے گا تو بھی بھوک سے مرجاے گی اور اپن کو بھی مار ڈالے گی"

"نہیں مرتا کوئی خدا نے سب کا رزق لکھا ہوتا ہے تمہارا بھی لکھا ہے میرا بھی لکھا ہے جو تمہیں یہ کام چھوڑ کر بھی مل جاے گا"

"تو میرا دماغ مت کھا اور جاکر سوجا سردرد میں بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے" اسنے غصے سے بڑبڑاتے ہوے کہا اور اپنے لاے ہوے سامان میں سے ایک سیب نکال کر اپنی کمیز سے صاف کیا اور بنا عشل کی طرف دیکھے کھانے لگی

"تو بھی کھالے پیسے بچاے رکھے ہیں صبح تجھے حکیم کے پاس لے چلتی ہوں مولوی کو بھی دکھا دے" ایک سیب عشل کی طرف پھینک کر اسنے اپنا سیب ختم کیا اور اپنی چارپائی پر جاکر لیٹ گئی

اس ایک کمرے نما گھر میں صرف یہی تھا دو چارپائی ایک پانی کا گھڑا اور ایک چھوٹا سا چولہا چھت پر لگا سالوں پرانہ پنکھا اور ایک بلب جسے جلانے کی ضرور پیش نہیں آتی تھی

کیونکہ یہاں لائٹ بھی تین سے چار دن میں چند گھنٹوں کے لیے آتی تھی

°°°°°

"ماما ایک بات پوچھوں" ماہیم نے پرسوچ انداز میں اپنے سر میں انگلیاں پھیرتی عینہ سے کہا

"پوچھو"

"معتصم انکل کہتے ہیں میں بہت پیاری ہوں کیونکہ میں بابا پر نہیں گئی وہ ایسا کیوں کہتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا"

"میری جان انکی اس بات سے وصی چڑتا ہے بس اسی لیے وہ اسے چڑانے کے لیے کہتے ہیں"

"ایک اور بات"

"ہمم کہو"

"ساحر بھائی بہت عجیب باتیں کرتے ہیں" اسکی بات سن کر عینہ ٹھٹکی

"عجیب مطلب"

"پتہ نہیں وہ کہتے ہیں انہیں میری آنکھوں میں آنسو اچھے لگتے ہیں میں انہیں روتے ہوے اچھی لگتی ہوں بھلا کوئی کسی کو روتے ہوے کیسے اچھا لگتا ہے"

"ماہیم وہ مذاق کرتا ہوگا" عینہ نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی

وہ مطمئن تو نہیں ہوئی تھی لیکن مسکرا کر بات بدل دی

°°°°°

اسکے سلکی بالوں نے اسکی آدھی کمر چھپائی ہوئی تھی اسکے ہاتھ میں موبائل تھا جس میں سے ٹاپک دیکھ کر وہ نرم لبوں میں دبا پین نکال کر جرنل پر لکھ لیتی اور پھر اسے واپس لبوں میں دبالیتی

وہ نور شاہ تھا شاہ حویلی کی جان حویلی کے سارے مکینوں کی شہزادی اور اپنے پانچ بھائیوں کی لاڈلی پرنسسز

اس نے حویلی کے سارے فرد سے کچھ نہ کچھ لیا تھا اسکے سلکی کمر تک آتے بال آئرہ کی طرح تھے معصومیت اور شرارتی وہ کسوا کی طرح تھی اور گال میں پڑتا ڈمپل اسنے اپنے چاچا سائیں سے لیا تھا وہ خوبصورت تھی بےحد خوبصورت

موبائل پر آتی کال دیکھتے ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی جس سے گال میں پڑتا ڈمپل نمایاں ہوا

"اسلام وعلیکم بابا سائیں" اسنے کال پک کرتے ہی کہا

"وعلیکم اسلام میرا بچہ کیسا ہے"

"میں بلکل ٹھیک ہوں آپ بتائیں گھر میں سب خیریت ہے"

"ہاں سب ٹھیک ہے بس تم اس ویک گھر نہیں آئی تھیں تو سارے گھر والے تم سے بات کرنے کے لیے بےچین تھے سارے لائن بنا کر بیٹھے ہیں اب باری باری ان سب سے بات کرلینا"

معتصم نے اپنے سامنے بیٹھے سارے افراد کی طرف دیکھ کر پریشے کو فون دے دیا جبکہ باقی سب اسکے پیچھے لائن بنا کر بیٹھے ہوے تھے

پریشے کے پیچھے آئرہ کسوا عصیم عالم شاہ میر مظفر صاحب ظفر صاحب صائمہ بیگم ثمرین بیگم ثقلین صاحب عماد صاحب فارینہ بیگم زریام سب لائن داری سے اس سے بات کرنے کے لیے بیٹھے ہوے تھے

فری وہ اس ٹائم ہی ملتی تھی اسی لیے سب گھر والے اسے اسی وقت فون کرکے باتیں کرتے تھے

سب سے بات کرکے اسنے فون رکھ دیا اب اسکا ارادہ سونے کا تھا اور اب پرسکون نیند آنی تھی کیونکہ وہ سب گھر والوں سے بات جو کرچکی تھی

°°°°°

"سر ماہر" اسکے کلاس روم سے نکلتے ہی کسی نے اسے پکارا جس پر مڑ کر اسنے اس وجود کو دیکھا جہاں عزہ کھڑی تھی

"جی مس عزہ"

"سر یہ آپ کا فون وہیں کلاس میں رہ گیا" اسنے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل ماہر کی طرف بڑھا دیا جسے دیکھ کر اسنے اپنی جینز کی پوکیٹ چیک کی جو خالی تھی اسے یاد آیا کہ میسیج کرکے اس نے اپنا فون وہیں پر رکھ دیا جس کے بعد وہ اسے اٹھانا بھول چکا تھا

"تھیکنس آپ کو کچھ پوچھنا تھا" اسے وہیں کھڑے اضطرابی کیفیت میں انگلیاں مڑوڑتے دیکھ کر ماہر نے پوچھا

"جی وہ آپ نے جو ٹاپک سمجھایا تھا سمجھ نہیں آیا پلیز دوبارہ سمجھا دیں گے"

"جی بلکل میں کل آپ کو سمجھاؤں گا اور آئیندہ اس طرح کی کوئی بھی بات ہو تو جھجک محسوس مت کیجیے گا" اسکے کہنے عزہ نے مسکراتے ہوے اپنا سر ہلایا اور کینٹین کی طرف چلی گئی

کیونکہ میشال وہیں پر اسکا انتظار کررہی تھی ویسے بھی اسکی اب کوئی کلاس نہیں تھی اور اسے پتہ تھا جب تک اسد صاحب نے اسے لینے نہیں پہنج جانا تھا اسے تب تک میشال کی بک بک سننی پڑے گی

°°°°°

"تم سر ماہر سے کیا بات کررہی تھیں" اسکے بیٹھتے ہی میشال نے مشکوک نظروں سے اسے گھور کر دیکھا

"میں ان سے پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ اپنا سمجھایا ہوا ٹاپک مجھے دوبارہ سمجھا دیں گے"

"انہوں نے کیا کہا"

"انہوں نے کہا میں سمجھا دوں گا"

"ہاے ویسے کتنے پیارے ہیں نہ سر ماہر سچ کہوں تو اس پوری یونیورسٹی میں ایک وہی ٹیچر اچھے ہیں باقی سب تو بس یہاں رعب جھاڑنے آتے ہیں بس ایک سر ماہر ہیں جو کتنے سوئیٹ ہیں"

"کچھ شرم کرلو میشال وہ ہمارے سر ہیں ہمارے ماں باپ کی جگہ ہیں"

"اوہ بہن ہمارے ماں باپ نہ اس وقت گھر میں بیٹھے پڑے ہیں اور ماں باپ ہمارے لیے وہی بہت ہیں مجھے کوئی شوق نہیں ہے کسی اور کو اپنے ماں باپ بنانے کا اور اتنے ہینڈسم سر کو تو بلکل بھی نہیں" اسکے کہنے پر وہ فقط اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گئی

°°°°°

"بات سنو شازمہ ماہر بھائی گھر پر آگئے ہیں" اسنے ٹیبل صاف کرتی شازمہ سے پوچھا

"جی وہ پڑھائی والے کمرے میں تھے لیکن پتہ نہیں کون سے صاحب ہیں" اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاتی ہوئی اپنی کتابیں سینے سے لگائے اسٹڈی روم کی طرف چلی گئی

شازمہ سے اسٹڈی روم کہا نہیں جاتا تھا اسلیے وہ اسے پڑھائی والا کمرہ کہتی تھی کیونکہ وہاں پر کتابیں رکھی ہوئی تھیں جسے دیکھ کر اسے پڑھائی والے کرنے سے زیادہ اچھا کوئی نام نہیں سوجا

اور ساحر اور ماہر کو دیکھ کر وہ ہمیشہ ہی کنفیوژ ہوجاتی تھی کیونکہ اسے تو ان دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا ایسا لگتا تھا جیسے کوئی شخص آئینے کے سامنے کھڑا ہو

°°°°°

اسٹڈی روم کا دروازہ کھلا پڑا تھا جہاں بیٹھا ساحر اپنا کام کررہا تھا اسنے گلا کھنکار کر اسے متوجہ کیا

"ماہر بھائی" اسنے تصدیق کرنی چاہی کہ اسکے سامنے بیٹھا یہ شخص ماہر ہے یا ساحر

اسکی آواز سن کر ساحر نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا کر اسے اپنے قریب بلالیا بلکل اسی طرح جس طرح ماہر بلاتا تھا

اسکے اس طرح کرنے پر وہ پرسکون انداز میں مسکراتی ہوئی ہوئی اسکے پاس چلی گئی جبکہ ساحر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ماہر ساحر بن سکتا ہے تو کچھ دیر کے لیے ماہیم کو اپنے سامنے دیکھنے کے لیے ساحر بھی ماہر بن سکتا ہے

"مجھے نہ ایک سوال سمجھنا تھا آپ سے آدھے گھنٹے سے سمجھنے کی کوشش کررہی ہوں لیکن سمجھ ہی نہیں آرہا ہے" صوفے پر اسکے برابر بیٹھ کر اسنے اپنی کتابیں ٹیبل پر رکھیں جب باہر سے اسے عینہ کی آواز سنائی دی

"ساحر کسوا کا فون آیا تھا اس سے بات کرلے نا کہہ رہی تھی تمہارا فون نہیں مل رہا ہے"

"ماما ساحر بھائی یہاں نہیں ہیں یہاں ماہر بھائی ہیں"ماہیم نے جیسے اسکی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی

"ماہیم ماہر اس وقت یونیورسٹی میں ہے" عینہ کے کہنے پر اسکا جیسے سانس ہی رک چکا تھا

اسنے آہستہ سے چہرہ موڑ کر ساحر کی طرف دیکھا جو اپنی مسکراہٹ ضبط کیے بیٹھا تھا

اگلے ہی پل وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی ساحر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب بٹھا چکا تھا

"میرا ہاتھ چھوڑیں آپ نے جھوٹ کیوں بولا"

"میں نے کوئی جھوٹ نہیں کہا تم نے خود ہی سوچ لیا کہ میں ماہر ہوں"

"لیکن آپ نے یہ بھی تو نہیں بتایا کہ آپ ماہر بھائی نہیں ہو ہاتھ چھوڑیں میرا" اسنے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا لیکن اسکا ہاتھ کھینچ کر ساحر نے اسے مزید اپنے قریب کرلیا اور گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا

"ساحر بھا"

"جو سوال سمجھنے آئی ہو اسے سمجھ کر جاؤ"

"نہیں مجھے نہیں سمجھنا"

"بنا سمجھاے تو میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا"اسکے سخت لہجے میں کہنے پر اسکی آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہوچکے تھے

"سمجھائیں" اسنے روتے ہوے اپنا ہاتھ پھر سے چھڑانا چاہا اور کوشش اس بار بھی ناکام رہی

"پہلے اپنے آنسو صاف کرو مانا کہ تم روتے ہوے مجھے اچھی لگتی ہو لیکن اسکا یہ مطلب تھوڑی ہے ہر وقت تمہیں روتا ہی دیکھتا رہوں"

اسکے کہنے پر ماہیم نے اپنے ایک ہاتھ سے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے کیونکہ دوسرا ہاتھ تو اسکی گرفت میں تھا

°°°°°

"اوے یہ لڑکا تمہیں گھور کیوں رہا ہے" اسنے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو کب سے شانزے کو گھور کر دیکھ رہا تھا

"اس بندے نے مجھے پروپوز کیا تھا میں نے اسے ریجیکٹ کردیا بس اسی لیے یہ مجھے گھور کر دیکھ رہا ہے"

"اس نے تمہیں پرپوز کیا تھا"اسنے جیسے صدمے سے کہا

"تو اس میں صدمے والی کیا بات ہے پرپوز ہی تو کیا تھا"

"تم نے ریجیکٹ کردیا تو پھر تمہیں گھور کیوں رہا ہے" اسکا بس نہیں چل راہ تھا اس لڑکے کا منہ توڑ دے جو ابھی تک شانزے کو گھور رہا تھا

"کیونکہ اسے شاید لگ رہا ہوگا میں نے اسے تمہاری وجہ سے ریجیکٹ کیا ہے"

"بھلے کسی بھی وجہ سے کیا ہو کردیا نہ پھر بھی گھور رہا ہے" غصے سے وہ اپنی جگہ سے اٹھا جبکہ اسکا ارادہ جان کر شانزے نے فورا اسکا ہاتھ پکڑ لیا

"آہان چپ چاپ بیٹھ جاؤ کوئی تماشہ مت لگانا اگنور کرو گے تو خود ہی باز آجاے گا" اسکے کہنے پر آہان نے شانزے کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر وہاں سے چلا گیا

°°°°°

°°°°°

صبح ہوچکی تھی لیکن پھر بھی کمرے میں کوئی روشنی نہ ہونے کے باعث کمرہ اندھیرے میں ڈوبا پڑا تھا

نیند سے جاگ اسنے اپنے قدم بیڈ سے نیچے اتارے اور جاکر کھڑکی سے ریشمی پردے ہٹادیے جس کے ہٹتے ہی باہر کی روشنی اندر کمرے میں آکر اجالا بکھیر چکی تھی

اسنے واپس بیڈ پر آکر اپنا موبائل اٹھایا جہاں اسکے لیے مبارک باد کے میسیج آے ہوے تھے سواے اس ایک شخص کے جس کی مبارک باد کا اسے انتظار تھا

گہرا سانس لے کر اسنے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور بالوں میں ہاتھ پھیر پر بکھرے بالوں کو پیچھے کیا

جب اچانک اسکا موبائل بجا اسنے بےچینی سے اپنا موبائل اٹھایا جہاں دادا جان کی کال آرہی تھی اسکے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور اگلے ہی لمحے اسنے کال پک کرلی

"یاد آگئی آپ کو میری''اسنے فورا شکوہ کیا

"میں تو اب بھی فون نہیں کرتا پر کیا کروں اکلوتے پوتے جو ہو میرے اکیلا بھی تو نہیں چھوڑسکتا ہوں"

"فلحال آپ نے مجھے مبارک باد نہیں دی دادا جان جس کا میں کب سے منتظر تھا"

"اصیرم علی خان بہت بہت مبارک ہو تمہیں اب اس ملک کے سیاستدان تم ہو اور مجھے امید ہے تم اپنے باپ سے زیادہ اچھے سیاستدان بنو گے"

"آپ کو خوشی ہوئی"

"ہاں ہوئی بس ڈر تھا اسی وجہ سے میں نے اپنے بیٹے کو کھویا تھا اور اب یہی ڈر مجھے تمہارے لیے لگا رہے گا"

"دادا جان آپ کو میرے لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں دنیا کے کسی کونے میں بھی چھپ جاؤں نہ تو بھی موت مجھے آنی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں میں اپنی زندگی کسی اچھے کام میں لگادوں جیسے میرے باپ نے لگائی تھی"

"خدا تمہیں کامیاب کرے میرے بچے" انہوں نے گہری سانس لے کر کہا

اسکے علاؤہ وہ اور کہہ بھی کیا سکتے تھے جبکہ دوسری طرف انکی یہ بات سنتے ہی اصیرم خان کا دل یک دم پرسکون ہوچکا تھا لبوں کے ساتھ ساتھ اسکی گہری نیلی آنکھیں بھی مسکرا اٹھیں

°°°°°

اسٹوڈنٹس اپنے گھر کی طرف جارہے تھے تقریباً آدھی یونی خالی ہوچکی تھی

وہ بھی گھر جانے کے ارادے سے باہر نکلنے لگا جب اسے کسی کے چیخنے کی آواز آئی آواز کافی دور سے آرہی تھی جس کی وجہ سے پہلے تو اسے اپنا وہم لگا لیکن پھر دوبارہ وہ آواز سن کر وہ واپس اندر چلا گیا

اس وقت یہ حصہ ویران پڑا تھا جبکہ آواز بیک سائیڈ سے آرہی تھی جہاں پر ایک اسٹوڈنٹ نے خود خوشی کی تھی جس کے بعد کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی تو پھر بھلا وہاں پر کون گیا تھا

زہہن میں آتے وسوسے کو جھٹک کر وہ بیڈ سائیڈ کی طرف بھاگا جہاں پر یونی کا ہی ایک سر اسٹوڈنٹ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کررہا تھا

یہ منظر دیکھتے ہی اسکی آنکھوں میں خون اترا غصے سے وہ اسکی جانب بڑھا اور اس سر کو مارنے لگا

تھوڑی ہی دیر میں یونیورسٹی میں ایک تماشہ پھیل چکا تھا

جو بچے کچے لوگ وہاں موجود تھے وہ بھی وہیں رک کر یہ تماشہ دیکھ رہے تھے اور یقینا کل تک یہ تماشہ یونیورسٹی کے سارے لوگوں میں پھیل جانا تھا

°°°°°

"اپنی حرکت کی وضاحت دینا چاہیں گے ماہر شاہ" اس وقت وہ وائس چانسلر کے آفس میں ہاتھ باندھے غصے سے کھڑا تھا اور اس کے غصے کی وجہ یہ تھی کہ اس سر کو بنا کچھ کہے وہاں سے بھیج دیا تھا

"سوری لیکن وضاحت تو آپ کو مجھے دینی چاہیے بجاے اس کے آپ دھکے مار کر اسکو اس یونیورسٹی سے نکالتے آپ نے اسے چھوڑ دیا"

"تو پھر میں کیا کرتا اس یونیورسٹی کا جو مالک ہے بہروز مرزا اسکا بیٹا ہے میں اسے چاہ کر بھی یہاں سے نہیں نکال سکتا"

"تو آپ اسے چھوڑ کر اسے دوبارہ موقع دے رہے ہیں آج جس لڑکی کی عزت بچ گئی ہے ضروری نہیں ہے دوبارہ بچ جاے گی"

"آپ ابھی یہاں سے چلے جائیں اور اس بات کا مزید تماشہ مت بنائیں انشاءاللہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا میں بات کرتا ہوں انکے فادر سے اور مجھے یقین ہے بہروز مرزا دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے"انکے کہنے پر وہ غصے سے انکے آفس سے نکل گیا اس وقت وہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتا تھا

°°°°°

"بابا سائیں میں کیا سوچ رہا تھا" شاہ میر نے دھڑام سے صوفے پر عصیم کے پاس گرتے ہوے کہا اس وقت سب بڑے وہاں لاؤنج میں ہی موجود تھے

"کیا سوچ رہے ہو"

"پہلے سب کی پچپن میں ہی منگنی ہوجاتی تھی جیسے آپ کی اماں سائیں کی دونوں بڑے بابا کی تو پھر ہماری کیوں نہیں ہوئی"

"کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ یہ فیصلہ بچے بڑے ہوکر خود کریں جیسے میری منگنی ہوئی تھی لیکن میں نے پری کو اپنا ہمسفر چنا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ دوبارہ یہ سب کچھ ہو منگنی ٹوٹے یا کوئی رشتہ زبردستی بنے اس سے بہتر ہے یہ فیصلہ بچے بڑے ہوکر خود کریں "اسکی بات کا جواب معتصم نے دیا

"یہ اچھی بات نہیں ہے ہمیں بھی تو یہ مزے لینے دیتے ہاے ہم ملتے اپنے منگیتر سے چھپ چھپ کر کتنا مزہ آتا"

"شرم تو آنہیں رہی بڑوں کے سامنے کیسی باتیں کررہے ہو"عصیم نے اسے شرم دلانے کی کوشش کی جو اسے بلکل نہیں آنی تھی

"اپنے زمانے میں بڑے بھی یہ حرکتیں کرچکے ہیں تب انہیں شرم نہیں آئی اور بابا سائیں آپ کی ساری حرکتیں تو بڑے بابا مجھے بتاچکے ہیں بس آپ میرا منہ مت کھلوائیں" اسنے عالم کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا

"آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیے اس دن جو آپ نے کیا تھا نہ میں نے کسی کو بتایا نہیں" اسکی بات سن کر جہاں سب دلچسپی سے اسکی طرف متوجہ ہوے وہیں عصیم نے غصے سے اسے دیکھا

"عزت سے یہاں سے دفع ہوجاؤ شاہ میر شاہ"

"جارہا ہوں مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ بوڑھوں میں بیٹھنے کا"بڑبڑاتے ہوے وہ وہاں سے چلا گیا

شاہ میر نے بمشکل بی اے پاس کیا تھا اگر یہ کہا جاے کہ پڑھائی کے معاملے میں وہ عالم کی طرح تھا تو غلط نہیں ہوگا بس فرق اتنا تھا کہ بھلے زبردستی ہی سہی اسنے بی اے کی ڈگری لے لی تھی

پڑھائی کے بعد جہاں سب کسی نہ کسی کام سے لگ چکے تھے وہاں ایک شاہ میر شاہ ہی بچا تھا جسے سارا دن حویلی میں بیٹھ کر اپنے باپ کو تنگ کرنے کے علاؤہ کوئی کام نہیں تھا

°°°°°

"کیا ہوا ہے اس طرح کیوں بیٹھا ہے" اس وقت وہ سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا تھا جب ساحر نے اسکے پاس بیٹھتے ہوے کہا

جس پر ماہر نے آج ہوا سارا واقعہ اسے بتادیا ویسے بھی وہ ساحر سے کچھ نہیں چھپاتا تھا

"تو یہاں اپنی ہی الجھنیں لے کر بیٹھا ہے میں تو اپنی بات کہنے آیا تھا" اسکی بات سن کر ماہر اپنا سر جھٹک کر اسکی طرف متوجہ ہوا

"بول"

"میں ماہیم سے شادی کرنا چاہتا ہوں"

"اچانک شادی کا خیال کیسے آگیا"

"شادی کا خیال تو بہت پہلے سے تھا لیکن میں اسکی پڑھائی ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا"

"تو اب ساحر شاہ کے جذبات ںےقابو ہورہے ہیں جو وہ شادی کرنا چاہتا تھا کیونکہ پڑھائی تو اسکی ابھی بھی ختم نہیں ہوئی ہے"ماہر نے اپنی مسکراہٹ دبا کر کہا جس پر ساحر نے گھور کر اسے دیکھا

"میں بس اس سے نکاح کروں گا رخصتی اسکی پڑھائی کے بعد ہی ہوگی میں بس چاہتا ہوں وہ میرے پاس رہے مجھ سے دور نہ جاے مجھ سے ڈرے نہیں"

"اس پر غصہ دکھا کر تم اسے خود ہی ڈراتے ہو ساحر"

"کیونکہ میں اس پر ہر طرح کا حق رکھنا چاہتا ہوں چاہے وہ اسے پیار کرنے کا ہو ڈانٹے کا غصہ کرنے کا کوئی بھی ہو میں یہ چاہتا ہوں کہ اس پر ہر طرح کا حق صرف میرا ہو ماہیم وصی مکمل طور پر صرف ساحر شاہ کی ملکیت ہو" اسکے لب و لہجے میں جنونیت بھرا تاثر تھا جسے دیکھ کر ماہر محض سر ہلاکر رہ گیا

"کیا کرنا ہے"

"حویلی پہنچتے ہی سب سے پہلے اماں سائیں سے بات کروں گا"

"ماہیم مان جاے گی"

"ماننا تو اسے پڑے گا"

"تم کوئی زبردستی نہیں کرو گے ساحر"

"میں جو بھی کروں گا تم مجھے نہیں روکو گے ماہر"

"تم سے بحث کرنا فضول ہے میں نور کو لینے جارہا ہوں اپنی دوست کے گھر گئی ہوئی تھی" اسے پتہ تھا کہ ساحر یہی کہتا کہ نور ابھی تک نہیں آئی اسلیے اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ اپنی بات کہتے ہوے اٹھ کر باہر چلا گیا جبکہ ساحر اب اپنی ہی سوچوں میں گم تھا

°°°°°

گول گپوں کے اسٹال پر کھڑی وہ اس وقت سارے بچوں کو جمع کرکے انہیں گول گبے کھلا رہی تھی

ارادہ تو اسکا سیدھا گھر جانے کا تھا لیکن اپنے سامنے اپنی پسندیدہ چیز دیکھ کر وہ خود یہاں آئی جو آئی وہاں سڑک پر بیٹھے سارے بچوں کو بھی بلا لائی

فون کی بجتی بیل پر اسنے اپنا فون نکال کر دیکھا جہاں ماہر کی کال آرہی تھی

"اسلام وعلیکم لالا" اسنے فون اٹھاتے ہی سلام کیا

"وعلیکم سلام نور کہاں ہو تم عینہ آنٹی نے تو کہا تھا تم اپنی دوست کے گھر پر ہو لیکن وہ کہہ رہی تھیں تم جاچکی ہو کہاں ہو تم اس وقت" اسکی آواز سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی

"ہاں میں گھر ہی آرہی تھی ، لیکن پھر میں نے گول گپوں کا اسٹال دیکھا تو یہاں آگئی" دوسری بات اسنے منمناتے ہوے کہی

ساحر اور ماہر کو اسکا اس طرح باہر اسٹال کی چیزیں کھانا بلکل پسند نہیں تھا اسلیے اسے اسٹال سے یہ سب چیزیں کھانے کا موقع صرف تب ہی ملتا تھا جب وہ اکیلی باہر موجود ہوتی

"تم پھر اسٹال کی چیزیں کھا رہی ہو نور"

"اچھا اب غصہ مت کیجیے گا میں اسکے گھر کی بیک سائیڈ پر ہی ہوں آپ جلدی سے آجائیں" اسکے کہنے پر وہ اچھا کہہ کر فون رکھ چکا تھا

اسنے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے لیکن یہ کیا اسکے بیگ میں پیسے نہیں تھے اور اب اسے یاد آرہا تھا کہ جلدی جلدی کے چکر میں وہ آج پیسے لانا ہی بھول گئی تھی

"بیٹا پیسے" اسٹال والے نے اسے پکارا جس پر وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی

"بھائی میرے پاس پیسے نہیں ہیں ابھی میرے لالا آنے والے ہیں تو وہ آپ کو پیسے دے دیں گے"

"کہو تو ہم پیسے دے دیں" مردانہ آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا جہاں تین لڑکے عجیب سے حولیے میں کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے اسنے بنا کوئی جواب دیے اپنا رخ پھیر لیا ایسے لوگوں کو ہمیشہ وہ اگنور ہی کرتی تھی

"خاموشی کا مطلب تو ہاں ہوتا ہے" ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر اسکا نرم ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی چہرے پر زور دار مکا پڑنے سے وہ پیچھے جا گرا

°°°°°

ماہر نے غصے سے ان لڑکوں کو دیکھا اور آگے بڑھ کر انہیں مارنے لگا ایک لڑکا تو اسے دیکھ کر ہی بھاگ چکا تھا جبکہ باقی کے دو اب اس سے پٹ رہے تھے

اسکا تو صبح یونیورسٹی میں ہوے واقعی والا غصہ نہیں اترا تھا اور یہاں یہ لوگ اسکی بہن کو گندی نظر سے دیکھ کر اسے مزید غصہ دلا چکے تھے

وہ غصے سے انہیں مار رہا تھا جبکہ پیچھے کھڑی نور گول گپے کھاتے ہوئے ہوئی انہیں مزے سے دیکھ رہی تھی جیسے اس وقت وہ کوئی مووی دیکھ رہی ہو

لوگوں نے آگے بڑھ کر ماہر کو ان لڑکوں سے دور کیا لیکن پھر بھی ایک آخری زور دار مکا وہ ان لڑکوں کے چہرے پر مارنا نہیں بھولا تھا اور وہ آخری وار دکھنے میں ہی اتنا زور دار لگ رہا تھا کہ یقینا ایک دانت تو انکا ٹوٹ ہی چکا ہوگا

°°°°°

"چلو یہاں سے" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے وہاں سے لے جانے لگا

جب ایک منٹ کہہ کر نور نے اس کا والٹ مانگ کر اسٹال والے کو پیسے دیے اور اسکے ساتھ جاکر گاڑی میں بیٹھ گئی

"لاسٹ پنچ تو زبردست تھا ماہر لالا ایک یا دو

دانت تو ٹوٹ ہی گئے ہوں گے" گاڑی میں بیٹھتے ہی اسنے تبصرہ کیا

جسے سن اسنے مسکراتے ہوے اپنا سر نفی ہیں ہلا کر گاڑی اسٹارٹ کردی

°°°°°

صبح ہوتے ہی وہ گاؤں کے لیے نکل چکا تھا اس وقت بس اسے اپنے ماں باپ سے بات کرنی تھی

حویلی میں داخل ہوتے ہی وہ عصیم کے کمرے کی طرف گیا تھا جہاں اسے دیکھتے ہی کسوا خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی

باقی سب تو ہر ہفتے گھر آجاتے تھے ایک ساحر ہی تھا جو مہینے میں صرف دو بار حویلی آتا تھا

"میرا بچہ کیسا ہے"اسکے ماتھے پر پیار کرکے کسوا اسکے گلے لگ گئی اپنے بیٹے کو دیکھ کر خوشی سے اسکی آنکھیں بھیگ چکی تھیں

"بلکل ٹھیک اماں سائیں بابا سائیں کہاں ہیں" اسنے کسوا سے عصیم کے بارے میں پوچھا

جب عصیم بھی کمرے میں داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہی اسکا ری ایکشن بھی کسوا سے کم نہیں تھا

"ابھی آپ کے بارے میں ہی پوچھ رہا تھا بابا سائیں آپ دونوں سے کچھ بات کرنی تھی" اسنے عصیم سے گلے ملتے ہوے کہا اور ان دنوں کو صوفے پر بٹھا کر خود بھی انکے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا

"میں شادی کرنا چاہتا ہوں" اسکے کہنے پر عصیم اور کسوا دونوں ہی حیران ہوے تھے

وہ اس سے اس طرح کسی بات کی امید نہیں کررہے تھے لیکن یہ حقیقت تھی کہ اس کی بات سن کر ان دنوں کو دلی خوشی ملی تھی

اگر ساحر کی جگہ ماہر یا شاہ میر ہوتے تو ایسی بات کرنے سے پہلے سو دفعہ تہمید باندھتے لیکن وہ شاہ میر یا ماہر نہیں تھا وہ ساحر شاہ تھا جو اپنی بات بنا کسی تہمید کے کہتا تھا

"کون ہے وہ" عصیم نے اپنی حیرت چھپا کر پوچھا

"ماہیم وصی" اسکے منہ سے ماہیم کا نام سن کر وہ دنوں پہلے سے زیادہ حیران ہوے تھے

"میں چاہتا ہوں آپ اسکے لیے میرا رشتہ لے کر جائیں لیکن اس سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اس سب میں آپ کی مرضی بھی شامل ہو"

"ہمیں بھلا کیسا اعتراض ہوگا اتنی پیاری تو ہے ماہیم میں ابھی سب کو بتا کر آتی ہوں شاہ ہم آج ہی جائینگے" جوش وخروش سے کہتے ہوے وہ جلدی سے کمرے سے نکل گئی تاکہ سب کو یہ خبر سنا سکے جبکہ اسکی اتنی خوشی دیکھ کر ساحر بھی مسکرا اٹھا

"بابا سائیں آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے"

"نہیں بیٹا تم خوش ہو تو میں بھی خوش ہوں اور مجھے تمہاری پسند پر فخر ہے"

°°°°°

ساری تیاری کرکے وہ جلد ہی شہر کے لیے نکل چکے تھے شہر پہنچ کر وہ سیدھا وصی کے گھر پر گئے تھے لیکن اس بار ہمیشہ کی طرح نہیں گئے

کسوا کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنی ہونے والی بہو کے لیے سب کچھ خرید کرلے جاے

اسکی بےصبری دیکھ کر عصیم نے اسے سمجھایا تھا کہ اس وقت کوئی تقریب نہیں ہورہی ہے وہ صرف رشتہ مانگنے جارہے ہیں لیکن اسکے باوجود بھی وہ پتہ نہیں کیا کیا اٹھا لائی تھی

وصی اور عینہ جہاں انہیں دیکھ کر خوش ہوے وہیں انکے آنے کا مقصد جان کر خوشی دوبالا ہوگئی

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ساحر دیکھا بھالا بچہ ہے بہت اچھا ہے میری طرف سے تو ہاں ہی سمجھو" وصی نے اپنا جواب بتادیا تھا اور عینہ کی بھی یہی راے تھی

"وہ سب ٹھیک ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ایک بار اس بارے میں ماہیم سے بھی پوچھ لینا چاہیے زندگی تو اسے ہی گزارنی ہے" اسکی بات سن کر عالم نے کہا تھا جس پر اسنے اپنا سر ہلادیا

"ہاں ویسے میرا نہیں خیال ماہیم کو کوئی اعتراض ہوگا لیکن یہ اسکی زندگی ہے تو فیصلہ بھی اسی کا ہونا چاہیے"

سب آپس میں باتوں میں لگے ہوے تھے جب معتصم کے موبائل پر کال آنے لگی ایکسکیوز کرکے اسنے باہر جاکر کال پک کی

"ہیلو کیا آپ معتصم شاہ بات کررہے ہیں"

"جی آپ کون ہیں"

"یہ نمبر ہمیں رفیق امجد نے دیا ہے انکا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے انکی حالت اس وقت بہت خراب ہے اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں" اس شخص کی بات سنتے ہی اسنے بےچینی سے ہاسپٹل کا نام پوچھا تھا اور گھر سے نکل گیا

رفیق اسکا صرف ملازم ہی نہیں دوست بھی تھا لیکن اپنی بیوی کی موت کے بعد وہ اسکے پاس کام کرنا چھوڑ چکا تھا اپنی بیٹی کے لیے

خود وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا جو اسکی فیملی کے حساب سے کافی تھا جبکہ ایک واحد فلیٹ جو اسنے خرید رکھا تھا وہ اسنے کراے پر دیا ہوا تھا جس کے پیسوں سے وہ اب اپنا گھر چلا رہا تھا

معتصم نے بہت بار اسکی مدد کرنی چاہی یہاں تک کہ اسے شاہ انڈسٹری میں جوب بھی آفر کی تھی لیکن وہ انکار کرچکا تھا وہ ایک خود دار انسان تھا وہ ہمیشہ وہی چیز لیتا تھا جو اسکی محنت کی ہوتی تھیں

فلیٹ سے جو کرایا اسے ملتا تھا وہ اسکے لیے بہت تھا اس کے زریعے زندگی آرام سے گزر رہی تھی

°°°°°

اسکی حالت بہت خراب تھی روڈ کراس کرتے ہوے اسکی ٹکر ایک ٹرک سے ہوئی تھی جس کے بعد لوگ اسے گورنمنٹ ہاسپٹل لاے تھے لیکن کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا کیونکہ جلد ہی اسکی زندگی کی ڈور ٹوٹ چکی تھی

اگر سانسیں بچی تھیں تو بس معتصم کے انتظار میں اسے یہ بتانے کے لیے کہ اسکے جانے کے بعد وہ اسکی بیٹی کا خیال رکھے اسے اپنے پاس رکھ لے شاید یہی بات کہنے کے لیے اسکی سانسیں چل رہی تھیں

اسکی فیملی میں ویسے بھی کوئی نہیں تھا نہ ہی اسکی بیوی کی فیملی میں کوئی تھا رفیق اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا جبکہ اسکی بیوی کے والدین بچپن میں ہی فوت ہوچکے تھے اور وہ شادی سے پہلے اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی

°°°°°

اسنے فون پر عصیم اور عالم کو کال کرکے رفیق کے گھر ہی بلا لیا تھا اور رفیق کی سم سے اسکے سالوں کا نمبر نکال کر انہیں بھی بتادیا تھا

ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اسکا موبائل ٹوٹا نہیں تھا لیکن خراب ہوچکا تھا جو ٹھیک کروانے سے ٹھیک ہوجاتا لیکن اسے ٹھیک کرواکر بھی کیا کرنا تھا جب اسے استعمال کرنے والا ہی نہیں تھا

اسکے پاس سے ملی ساری چیزیں اسنے رفیق کی بیٹی کو دے دی تھیں لیکن اسے دیکھ کر معتصم کو حیرت ضرور ہوئی تھی

وہ اپنے آنسو ضبط کرکے کھڑی تھی وہ رو نہیں رہی تھی کیونکہ شاید اسے پتہ تھا کہ اب اسکے آنسو صاف کرنے والا اس دنیا میں نہیں رہا تھا

تدفین تک وہ اسکے گھر پر ہی رہا تھا اور اسکے بعد اپنے گھر چلا گیا تھا عصیم اور عالم بھی اسکے ساتھ تھے

جبکہ کسوا پریشے اور آئرہ اس وقت عینہ کے گھر پر موجود تھے اور رات انہیں وہیں رکنا تھا

°°°°°

"کیا سوچ رہے ہو" عالم نے گم سم بیٹھے معتصم سے کہا

ان تینوں کو گھر آے ہوے تیس منٹ سے زیادہ ہوچکے تھے لیکن معتصم بس گم سم سا خلاؤں میں پتہ نہیں کیا تلاش کررہا تھا

"میں رفیق کی بیٹی کے بارے میں سوچ رہا تھا ماں تو پہلے ہی نہیں تھی اب باپ بھی نہیں رہا وہ اکیلے کیسے رہے گی کہاں رہے گی"

"کیا مطلب کہاں رہے گی اسکے ماموں ہیں انکے پاس رہے گی"

"تمہیں لگتا ہے وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے انکا رویہ نہیں دیکھا تم نے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی اجنبی کے جنازے پر موجود ہوں رفیق نے اپنی بیٹی کی ذمیداری مجھے دی تھی اور میں یہ ذمیداری لینا چاہتا ہوں"

"اسکے ماموں بھلا کسی غیر کو اپنی بھانجی کی ذمیداری کیوں دیں گے معتصم" عصیم نے اپنے زہہن میں چلتا سوال اسکے سامنے رکھا

"عصیم ٹھیک کہہ رہا ہے معتصم تم جذباتی ہورہے ہو پہلے انکا فیصلہ سنو اگر واقعی میں وہ اسکی ذمیداری نہیں لینا چاہتے تو تم وہی کرو جو تم کرنا چاہتے ہو" عالم کی بات پر اسنے اپنا سر ہلادیا لیکن وہ اسے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ یہ فیصلہ جذبات میں آکر نہیں کررہا تھا

°°°°°

پریشے تو اکثر عینہ سے ملنے آجاتی تھی اسلیے اسے دیکھ کر ماہیم کو حیرت نہیں ہوئی حیرت و خوشی اسے آئرہ اور کسوا کو دیکھ کر ہوئی تھی کیونکہ وہ بہت کم انکے گھر پر آتی تھیں

وہ خوش دلی سے ان سے ملی تھیں لیکن آج انکے انداز میں کچھ زیادہ ہی اپنائیت تھی

دماغ جیسے سائرن بجارہا تھا کسوا اسے اپنے پاس بٹھا رہی تھی اسکی ماں پیار سے اسے دیکھ رہی تھی اور نور کی شرارتی نگاہیں اسے کنفیوژ کررہی تھیں

بات کیا تھی یہ پوچھنے کی ہمت وہ نہیں کرپا رہی تھی لیکن یہاں بیٹھنا اب اسے عجیب لگ رہا تھا اسلیے معذرت کرکے وہ اپنے کمرے میں چلی آئی تھی

°°°°°

اسکے کمرے میں آتے ہی نور بھی اسکے پیچھے آئی چہرے پر شرارتی مسکراہٹ لیے وہ اپنے ڈمپل کی بھرپور نمائش کررہی تھی

"ایسے کیوں دیکھ رہی ہو" اسنے مسلسل اسکی خود پر ٹکی نظروں سے چڑ کر کہا

"تمہیں پتہ ہے گھر میں کیا بات چل رہی ہے"

"کیا بات چل رہی ہے"

"تمہاری شادی کی بات"

"میری شادی"

"ہاں"

"لیکن میری شادی کی بات کیوں چل رہی ہے" اسکے کہنے پر نور نے منہ بنا کر اسے دیکھا جو بات بتانے کے لیے وہ پرجوش تھی وہ تو ماہیم پوچھ ہی نہیں رہی تھی

"یہ تو پوچھو تمہاری شادی کی بات کس سے ہورہی ہے"

"کس سے ہورہی ہے"

"ساحر لالا"اسنے خوشی سے تقریبا چلاتے ہوے کہا تھا جبکہ ماہیم کو لگ رہا تھا اسنے کچھ غلط سن لیا

"کیا کہا تم نے"

"ساحر لالا" ماہیم کا پھیکا پڑتا چہرہ دیکھ کر اسکی مسکراہٹ غائب ہوئی

"کیا ہوا تمہیں خوشی نہیں ہوئی"

"نور مجھے ساحر بھائی سے شادی نہیں کرنی ہے"

"کسی کو پسند کرتی ہو"

"نہیں میں کسی کو پسند نہیں کرتی ہوں لیکن میں ساحر بھائی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی ہوں مجھے نہیں کرنی ان سے شادی" ایک آنسو اسکی آنکھ سے بہہ نکلا چہرے پر ڈر کے تاثرات تھے جیسے اسے زبردستی ساحر کے ساتھ باندھ دیا جاے گا

"ماہیم اس میں رونے کی کیا بات ہے کوئی زبردستی تھوڑی ہے تمہیں نہیں کرنی شادی تو انکار کردو لیکن پلیز رو تو مت وصی انکل نے کہا ہے کہ وہ تمہاری مرضی پوچھیں گے جب وہ تم سے پوچھیں تو منع کر دینا بات ختم" اسکے آنسو صاف کرکے نور نے اسے گلے لگا لیا

جبکہ دل میں اسے اپنے بھائی کے لیے دکھ تھا پریشے نے اسے بتایا تھا کہ وہ سب یہاں ساحر کی خواہش پر آے ہیں یقینا ساحر کو اسکا انکار بےحد برا لگے گا لیکن کسی کو زبردستی تو رشتے میں نہیں باندھ سکتے تھے نہ

°°°°°

"وہ آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی" ماہیم کے پاس سے اٹھ کر اسنے سیدھا اپنے کمرے میں جاکر ساحر کو فون کیا تھا جو اسکی بات سن کر حیران نہیں ہوا تھا ماہیم کی طرف سے اسے ایسے ہی جواب کی امید تھی

"ساحر لالا آپ سن رہے ہو"اسکی خاموشی دیکھ کر نور نے کہا

"سن چکا ہوں نور اور میں ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہوں"

"لالا آپ اسے فورس نہیں کریں گے"

"نہیں میرا بچہ میں اسے فورس نہیں کروں گا کل میں اور زریام شہر آئیں گے اور پھر میں ایک بار اس سے بات کروں گا اس کے بات اسکی مرضی وہ جو کہے گی میں اسکے فیصلے کو دل سے قبول کرلوں گا" اسکی بات نور کو ہضم نہیں ہوئی تھی

گھر کے بڑے تو یہاں پر آگئے تھے لیکن زریام ساحر اور شاہ میر اس وقت حویلی میں ہی موجود تھے اور انکا ارادہ اب صبح شہر آنے کا تھا

تھوڑی دیر بات کرکے اسنے فون رکھ دیا تھا جبکہ اسکے زہہن میں اب یہ باتیں چل رہی تھیں کہ ساحر ماہیم سے کیا بات کرے گا

جس شرافت کا مظاہرہ وہ کررہا تھا وہ شرافت اسکی ذات کا حصہ کبھی بھی نہیں تھی اور نہ ہی نور کو اس سے اطمینان بھرے جواب کی امید تھی

وہ ساحر شاہ تھا وہ کبھی بھی اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتا تھا تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ماہیم کے انکار پر وہ اتنا پرسکون رہتا وہ بھی تب جب سب حویلی والے ساحر کے کہنے پر آے تھے ہورہا تھا

°°°°°

اگلے دن رفیق کے گھر جاکر اسے وہی سننے کو ملا جس کی اسے توقع تھی

وہ حیات کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے تھے انکے اپنے ہی رونے ختم نہیں ہورہے تھے اور یہ انکا کہنا تھا کہ اگر حیات انکی سگی بہن کی بیٹی ہوتی تو وہ سوچ بھی سکتے تھے لیکن وہ سگی نہیں تھی

وہ ایک ایڈاپٹڈ چائیلڈ تھی پانچ سال گزرنے کے بعد بھی جب وہ دونوں میاں بیوی اولاد کی نعمت سے محروم ہی رہے تو انہوں نے اس بچی کو گود لیا تھا جس کا نام بہت پیار سے حیات رکھا گیا

لیکن اسے ان دونوں میاں بیوی کے علاؤہ کسی نے بھی دل سے قبول نہیں کیا تھا وہ تو ہمیشہ سے ان سب کے لیے پرائی تھی تو بھلا اب کیسے وہ اس پرائی اولاد کو پال لیتے

انکی بات سن کر معتصم نے ان سے وہی بات کہی تھی جو اسنے عصیم اور عالم سے کہی تھی وہ حیات کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا اپنی بیٹی بنا کر

اسکی یہ بات سن کر جیسے ان پر سے ایک بوجھ اتر گیا تھا انہیں اس لڑکی کی ذمیداری نہیں اٹھانی پڑتی انہوں نے خوش دلی سے معتصم کو حیات کی ذمیداری دے دی تھی

ویسے بھی رفیق کے زریعے وہ اسے بہت اچھی طرح جانتے تھے وہ کیسے مزاج کا ہے کیا کام کرتا ہے کہاں رہتا ہے انہیں سب معلوم تھا نہ بھی ہوتا تو بھی انہیں کیا فرق پڑنا تھا انکے نزدیک حیات ایک بوجھ تھی جسے معتصم شاہ اٹھانا چاہا رہا تھا اور بس ،،،

°°°°°

"میں معتصم شاہ ہوں یہی سمجھ لو کہ تمہارے والد کا ایک بہتریں دوست ہوں"معتصم نے نرم لہجے میں اپنے سامنے بیٹھی اس اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کو دیکھتے ہوے کہا

جس کی گھنی پلکیں اس وقت جھکی ہوئی تھیں سر پر سلیقے سے ڈوپٹہ جماے وہ معتصم کی بات سن رہی تھی اسکا چہرہ دیکھ کر ہی لگ رہا تھا جیسے وہ اسکے آنے سے پہلے کتنی دیر تک روتی رہی تھی

"میں جانتی ہوں انہوں نے بتایا تھا آپ کے بارے میں امی کی اچانک موت کے بعد ان کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کہیں وہ بھی اسی طرح اس دنیا سے نہ چلے جائیں اسلیے اکثر وہ مجھ سے یہ بات کہتے رہتے تھے کہ اگر انہیں کچھ ہوجاے تو میں آپ کے پاس چلی جاؤں کیونکہ میرے معاملے میں وہ آپ کے علاؤہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے اور دیکھیں" اسنے نم آنکھیں اٹھا کر معتصم کی طرف دیکھا

"ان کا ڈر سچ ثابت ہوا وہ بھی امی کی طرح مجھے چھوڑ کر چلے گئے"

"زندگی اور موت تو برحق ہے بچہ اس کی موت ایسے ہی لکھی تھی وہ جانے سے پہلے تمہاری ذمیداری مجھے دے کر گیا تھا میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو"

"میں آپ پر بھروسہ کرتی ہوں معتصم انکل کیونکہ بابا کو آپ پر بھروسہ تھا لیکن میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتی"

"کیوں" اسنے سوالیہ نظروں سے حیات کو دیکھتے ہوے پوچھا لیکن پھر اسکے جواب دینے سے پہلے خود ہی اگلا سوال پوچھ لیا

"کوئی اور ایسی جگہ ہے جہاں تم جاسکتی ہو"

"یتیم لوگوں کے لیے ایسی بہت سی جگہیں ہوتی ہیں میرے لیے بھی ہے"

"تمہیں لگتا ہے میں تمہیں ایسی کسی جگہ پر رہنے دوں گا"

"میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی ہوں"

"بیٹا تم میرے لیے بوجھ نہیں ہو اور نہ ہی کبھی ہوسکتی ہو تم میری بیٹی کی طرح ہو خدا کی طرف سے میرے لیے بھیجی گئی رحمت ہو ،، تم میرے ساتھ چل رہی ہو ضروری سامان پیک کرلو تمہارے بڑوں سے میں اس بات کی اجازت لے چکا ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے"

"انہیں کیوں اعتراض ہوگا میں انکے لیے پرائی ہوں" بچپن سے وہ ان سب کے منہ سے یہی سنتی آرہی تھی لیکن آج یہ سب سن کر اسے بےحد تکلیف ہوئی تھی

پہلے وہ ہمیشہ ان سب کی اس بات کو نظر انداز کرتی تھی کیونکہ اسکے ماں باپ اسکے ساتھ تھے لیکن انکے جانے کے بعد بھی ان سب کے وہی الفاظ سن کر اسے تکلیف ہوئی تھی اسے لگا ماں باپ کے جانے کے بعد تو انکے دل بدل جائینگے لیکن سب آج بھی ویسے ہی تھے

"لیکن میرے لیے نہیں ہو شاباش اٹھو منہ ہاتھ دھو پھر میں تمہیں گھر لے کر چلتا ہوں دیکھنا تمہیں ان سے مل کر بہت اچھا لگے" اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ اس کمرے سے نکل کر چلا گیا

حیات نے اپنی آنکھوں سے نکلے آنسو صاف کیے اور واشروم میں چلی گئی

بعض دفعہ چیزیں ویسے نہیں ہوتیں جیسی ہم نے سوچی ہوتی ہیں لیکن انجانے میں ہوئی وہ چیزیں ہمارے لیے بہترین ثابت ہوتی ہیں

°°°°°

جیب سے کار کیز نکال کر وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھا جب نظر دور چلتے منظر پر گئی جسے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا

وہ وہی تھی چورنی جس نے اسکا والٹ چرایا تھا اس وقت بھی وہ سڑک پر کھڑے فون پر بات کرتے اس بندے کی سائیڈ کی جیب کو غور سے دیکھ رہی تھی جب اسے یقین ہوگیا کہ اسی طرف والٹ رکھا ہوا ہے تو نامحسوس انداز میں اس شخص سے ٹکرا کر اسنے اسکا والٹ چرایا اور وہاں سے جانے لگی

جبکہ وہ آدمی ابھی تک اپنی باتوں میں مصروف تھا

زریام نے غصے سے اسے دیکھا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا اسکے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا

جبکہ اپنے سامنے اچانک کسی کو آتے دیکھ کر پہلے تو وہ گھبرا اٹھی لیکن پھر سنبھل کر بولی

"کیا ہے راستہ روکے کیوں کھڑا ہے" اسکے اس لہجے میں بات کرنے پر زریام نے بمشکل اپنے آپ کو کچھ کہنے سے بعض رکھا

"اس آدمی کی جو چیز تم نے چرائی ہے واپس کردو" اسکے کہنے پر وہ شرمندہ تو بلکل نہیں ہوئی تھی

"کیوں کروں"

"دیکھو میں تماشہ بنانا نہیں چاہتا تم اسے اسکا والٹ واپس کرکے آو اگر تمہیں پیسے چاہیے تو میں تمہیں دے دوں گا"

"اپن تیرے پر بھروسہ کیوں کرے" اسنے مشکوک نگاہوں سے زریام کی طرف دیکھا جس پر اسنے اپنے والٹ سے پانچ ہزار کے دو نوٹ نکال کر اسے دے دیے

"اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہوں بس ایک بار فرصت سے میری بات سنو" اسکے دیے ہوے پیسے حوریب نے اپنی کمیز کی جیب میں ڈالے اور اس آدمی کے قریب جاکر اس کا والٹ زمین پر پھینک دیا

اسکی اس حرکت پر زریام نے گھور کر اسے دیکھا جس پر وہ اپنے شانے اچکا کر رہ گئی

اسنے تو چیز واپس کردی تھی اب اسے اٹھانا تو اس آدمی کا کام تھا نہ کہ اسکا

°°°°°

معتصم اسے عینہ کے گھر پر ہی لایا تھا کیونکہ سب نے وہاں سے ہی گاؤں کے لیے نکل جانا تھا گھر پر اس وقت صرف ماہیم موجود تھی اسلیے صرف اسی کی حیات سے ملاقات ہوپائی تھی

"ماہیم اسے کھانا کھلادو" معتصم کے کہنے پر وہ جی اچھا کہتی ہوئی حیات کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی

جس کے بعد اسنے وہاں بیٹھی پری آئرہ اور کسوا کو دیکھا جو اب پوری تفصیل سننا چاہ رہی تھیں

عالم اور عصیم بھی وہیں موجود تھے لیکن انہیں پوری بات کا علم تھا اسلیے انہوں نے کچھ نہیں پوچھا تھا اگر پتہ نہیں ہوتا تو بھی ان عورتوں کی طرح بات سننے کے لیے اتنے بےصبرے نہیں ہورہے ہوتے

"حیات اب ہمارے ساتھ ہی رہے گی اسکا صرف باپ تھا جو اب نہیں رہا اور اسکے جانے کے بعد اب وہ میری ذمیداری ہے اور میں اسے بلکل اسی طرح رکھنا چاہتا ہوں جس طرح حویلی کے باقی بچے رہتے ہیں امید ہے میرے اس فیصلے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا" اسکی بات سنتے ہی سب کے سر ایک ساتھ نفی میں ہلے

"حیات جب کھانا کھالے تو اسے کچھ دیر آرام کرنے دینا پھر سب ایک ساتھ گاؤں کے لیے نکل جانا مجھے مینیجر کی کال آئی تھی آفس میں کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے تو میں ابھی نہیں جاسکتا تم لوگ جاؤ زریام یہیں پر ہے میں اسکے ساتھ ہی واپس آؤں گا"

"کون ملنے آیا ہے میں ساتھ چلوں" عصیم نے چاے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوے کہا جس پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا

"نہیں میں خود چلا جاؤں گا اور کون ملنے آیا ہے اسکا مجھے خود بھی علم نہیں ہے یہ وہاں جاکر ہی پتہ چلے گا" جواب دے کر وہ گھر سے باہر نکل گیا اب اسکا ارادہ آفس جانے کا تھا

°°°°°

°°°°°

کتابیں سنبھالتی ہوئی وہ یونی سے باہر جارہی تھی جب کسی سے اسکی زور دار ٹکر ہوئی جس کے باعث میشال کے ہاتھ میں موجود ساری کتابیں زمیں بوس ہوچکی تھں

"سوری سوری" ایہاب نے معذرت کرتے ہوے اسکی زمین پر گری ہوئی کتابیں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ اسے پہچان چکا تھا وہ وہی تھی جو اس دن اس کی بائیک سے ٹکر

کرائی تھی

"تھینکس" میشال نے اسکے ہاتھ سے کتابیں لے کر کہا

لیکن اسکے چہرے پر واضح الجھن تھی جیسے سامنے کھڑے شخص کو پہچاننے کی کوشش کررہی ہو

"تمہیں تو میں نے کہیں دیکھا ہے ، ہاں تم وہی ہو نہ جس نے مجھے ٹکر ماری تھی" اسنے چٹکی بجا کر کہا

جبکہ اسکی آواز اتنی تیز تھی کہ پاس سے گزرتے اسٹوڈنٹس حیرت سے اسکی طرف دیکھنے لگے انہیں سوری کہہ کر وہ دوبارہ ایہاب کی طرف متوجہ ہوئی

"پہلے مجھے بائیک سے ٹکر ماری اب دھکا دیا"

"یہ کہاں لکھا ہے کہ میں نے دھکا دیا ہے ٹکر تو تم نے بھی مجھے ماری ہے"

"یہ میری کتاب میں لکھا ہے"

"اچھا کہاں سے خریدے ایسی بکواس کتاب"

"زبان سمبھال کر بات کرو تم مجھے جانتے نہیں ہو میشال نام ہے میرا"

"میشال نام ہے تمہارا جان لیا میں نے اب کیا کروں" اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسنے اپنا چہرہ میشال کے قریب کیا جبکہ اسکا چہرہ اپنے اتنے قریب پاکر وہ دو قدم پیچھے ہوئی

"دور رہ کر بات کرو بلکہ میں تم سے کیوں بات کررہی ہوں ماما کہتی ہیں تم جیسے لوفروں سے دور رہنا چاہیے" اسے گھورتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی جبکہ ایہاب کی نظریں اسکے اوجھل ہونے تک اسے گھورتی رہی

°°°°°

اپنا سامان اٹھا کر وہ اپنے آفس روم سے باہر نکلنے لگا جب دروازہ کھولتے ہی اسکی کسی سے زور دار ٹکر ہوئی

اس اچانک افتاد پر اسنے سنبھلنے کی کوشش کے لیے سامنے والے کا ہاتھ تھاما جبکہ اسکے ایسا کرنے سے جہاں وہ خود زمین پر گرا وہیں وہ نازک وجود بھی اسکے اوپر گر چکا تھا

جس کے باعث عزہ کے نرم لب اچانک اسکی ناک کو چھو چکے تھے

وہ دونوں ہی جیسے سن ہوچکے تھے لیکن پھر جلد ہی ہوش میں آکر عزہ اسکے اوپر سے اٹھی شرمندگی اتنی تھی کہ اس سے نظریں اٹھانا بھی محال ہوگیا تھا

ماہر نے اپنے سامنے کھڑی اس نازک سی لڑکی کو دیکھا جو شرمندہ سی نظریں جھکائے اپنے لب کاٹ رہی تھی

بالوں کی اونچی پونی بناے گلے میں مفلر اسٹائل میں ڈوپٹہ ڈالے وہ کوئی بچی ہی لگ رہی تھی کلاس کی لڑکیاں اسے نازک کہتی تھیں جبکہ ماہر کو وہ کمزور لگتی تھی جس کی صحت بلکل نہیں تھی ایسا لگتا تھا جیسے اس میں کوئی وزن ہی نہیں ہے اور اوپر سے اسکا قد بہت چھوٹا تھا وہ بمشکل ماہر کے سینے تک آتی تھی اور یہ بات اسنے جب نوٹ کی تھی جب وہ اس سے اسائنمنٹ کا پوچھنے آئی تھی بےاختیاری میں وہ اسکے قریب کھڑی تھی اور جب ماہر نے یہ بات نوٹ کی تھی

"عزہ کوئی کام تھا" اسنے اسکی شرمندگی دیکھتے ہوے خود ہی بات شروع کردی

"جی وہ آپ کا والٹ گر گیا تھا کلاس میں تو میں یہ دینے کے لیے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی" اسنے ماہر کا والٹ اسکی طرف بڑھایا

جبکہ اسکے ہاتھ میں اپنا والٹ دیکھ کر اسنے اپنی جینز کی جیبوں کو چیک کیا جس میں والٹ نہیں تھا گہرا سانس لے کر اسنے مسکراتے ہوے اسکے ہاتھ سے والٹ لے لیا

"شائید میری چیزیں واپس کرنے کی ذمیداری آپ کی ہے" اسکے مسکرا کر کہنے پر وہ خود بھی ہلکا سا مسکرا کر وہاں سے چلی گئی

اسکے جانے کے بعد وہ خود بھی اپنے آفس سے باہر نکل گیا جہاں پہلی نظر اپنے آفس کے باہر کھڑے بہروز پر پڑی

°°°°°

"یقینا مجھے یہاں دیکھ کر تمہیں غصہ تو بہت آرہا ہوگا ماہر شاہ" دل جلانے والی مسکراہٹ لیے اسنے ماہر کی طرف دیکھا جو اسے دیکھ کر بمشکل خود پر ضبط کیے کھڑا تھا

"تم نے اندازہ تو لگایا ہی لیا ہوگا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہو میرا"

"بگاڑ تو میں تمہارا بہت کچھ سکتا ہوں"

"کیا واقعی میرا نہیں خیال اگر تم میرے ساتھ کچھ برا کرسکتے تو اس وقت میں یوں تمہارے سامنے نہیں کھڑا ہوتا"

"مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اپنے ساتھ برا تم نے خود کیا ہے جو اس یونی میں تمہاری عزت تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے لڑکیاں جہاں تم سے دور رہیں گی وہیں لڑکے بھی تمہاری عزت کرنا اپنی توہین سمجھیں گے اور اس سب کے بعد بھی تم یہاں بےغیرتوں کی طرح موجود رہو گے"

"یہ جو حرکت تم نے کی ہے نہ بہت ہی گھٹیا تھی پھر بھی تم بچ گئے لیکن دوبارہ یہ سب کرنے کی کوشش کی تو پھر تمہیں کوئی نہیں بچا پاے گا خود تو تم بدنام ہوگے ہی ساتھ میں اپنے باپ کے نام کو بھی ڈبو دو گے"

ماہر کی بات سن کر اسکا چہرہ غصے سے سرخ ہوچکا تھا اسنے جو کچھ کہا تھا صحیح کہا تھا

تھا تو سب کچھ سچ کڑوا سچ

°°°°°

یونی کے دروازے پر ہی اسے ایہاب مل چکا تھا وہ پہلے ہی اسے ٹیکسٹ کرچکا تھا کہ وہ باہر اسکا ویٹ کررہا ہے

"کہو ایہاب صاحب مجھ سے کیا کام پڑ گیا" اسکے کہنے پر ایہاب نے اپنا سر کھجایا

"وہ ماہر بھائی آپ کی گاڑی چاہیے تھی"

"کس لیے"

"دوستوں کے سامنے تھوڑی شو مارنی تھی میں نے ان سے کہہ دیا میرے بھائی کے پاس لینڈ کروزر ہے تو بس ضد پر آڑ گئے کہ دکھاؤ میں نے منع کیا تو کہنے لگے کہ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں پلیز گاڑی دے دو عزت کا معاملہ ہے" اسنے منت بھری لہجے میں کہا جس پر ماہر کو ہنسی آگئی

"تو ساحر سے مانگ لیتے"

"توبہ ہے شیر کے منہ میں کون ہاتھ ڈالے گا" اسنے باقاعدہ اپنے دونوں کانوں کو چھوا

"ٹھیک ہے پہلے مجھے گھر چھوڑو پھر لے جانا" اسکے کہنے پر ایہاب نے خوشی سے اسکے گلے لگ کر لو یو کہا اور دونوں یونی سے باہر نکل گئے

°°°°°

اس وقت وہ دونوں تخت پر بیٹھے ہوے تھے جہاں حوریب سامنے رکھی کڑھائی مرغی سے بھرپور انصاف کررہی تھی

جبکہ زریام حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا آلتی پالتی مارے وہ بڑے بڑے نوالے توڑ کر اپنے منہ میں ڈال رہی تھی

"اور کھاؤ گی" اسنے دو نان ہی منگوائے تھے جو وہ ختم کرچکی تھی لیکن شاید وہ پھر بھی بھوکی تھی

"ہاں دو" اسنے اپنی دو انگلیاں دکھائیں جس پر زریام نے دو نان اور منگوادیے

"شائید تمہیں بہت بھوک لگی تھی"

"ہاں اپن نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا سارا خرچا اماں کے اوپر لگ گیا تھا" اسنے سر اٹھا کر زریام کو دیکھا

"اپن کوئی ایسی ویسی چور نہیں ہے لوگوں کے بٹوے صرف تب چراتی ہے جب ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی صرف انکے چراتی ہے جن کے پاس گاڑیاں ہوتی ہیں"

"تمہیں پتہ ہے کہ وہ گاڑیاں انہی کی ہوتی ہیں ہوسکتا ہے وہ کسی وجہ سے کسی اور سے مانگ کر لاے ہوں" اسکے کہنے پر حوریب نے اپنے شانے آچکا دیے

"اپن کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ معلوم کرتی پھرے وہ گاڑی اس کی ہے یا نہیں اپن بس اسے گاڑی سے اترتے دیکھتی ہے اور جاکر بٹوہ نکال لیتی ہے"

"نام کیا ہے تمہارا"

"تو نے اپن کو کھانا کھلایا اسلیے بتارہی ہے حوریب"

"تمہیں پتہ ہے حوریب کے کیا معنی ہوتے ہیں"

"اپن کو کیا معلوم" اسنے لاپروائی سے کہتے ہوے روٹی کا بڑا ٹکڑا منہ میں ڈالا جو ابھی ابھی آدمی رکھ کر گیا تھا

"اسکا مطلب ہوتا ہے جنت کی عورت تمہارا یہ نام کس نے رکھا"

"جب اپن ہونے والی تھی اپنی اماں کو ایک عورت ملی تھی اماں سڑک پر بھوک سے بیٹھی تھی تب اسے وہ عورت ملی تھی اسنے اماں کو کھانا کھلایا اور پیسے دیے اسکا نام حوریب تھا اماں بولتی ہے جب میں پیدا ہوئی تو مجھ جیسی پورے محلے خاندان میں کوئی نہیں تھی اپن بلکل اس عورت کی طرح دکھتی ہے اپن کو پہلی بار دیکھ کر اماں کو وہی عورت یاد آئی اس وجہ سے اسنے اپن کا نام حوریب رکھ دیا"

"باپ کہاں ہے تمہارا"

"نہیں ہے اپن کے پیدا ہونے سے چند مہینے پہلے ہی وہ مر گیا تھا"

"تم نے کہا سارا پیسہ تمہاری ماں پر خرچ ہوجاتا ہے کیوں" اسکے کہنے پر حوریب نے تنگ آکر کھانے سے اپنا ہاتھ روکا

مسلسل اسکے سوال پوچھنے سے وہ کھانا ٹھیک سے نہیں کھا پارہی تھی جبکہ اسکے دیکھنے کا مطلب زریام کو کچھ اور ہی لگا

"تم کچھ غلط مت سمجھنا میں کسی غلط ارادے سے تم سے یہ سب نہیں پوچھ رہا تھا"

"معلوم ہے اپن کو تجھے پتہ ہے اپن جب چھوٹی تھی جب سے لوگوں کی خود پر گندی نظریں دیکھ رہی ہے اماں نے اپن کو بچپن میں ہی سب باتیں سمجھا دی تھیں تاکہ اپن خود ہی اپنی حفاظت کرسکے اپن بچپن سے یہ سب دیکھتی آرہی ہے اسلیے اچھے سے پہچانی ہے کس کی نظر کیسی ہے"

"چوری کیوں کرتی ہو تم"

"پہلے نہیں کرتی تھی لوگوں سے پیسے اور مدد مانگتی تھی لیکن بدلے میں یا تو لوگ دھتکار دیتے یا پھر گندی گندی باتیں کہتے اسلیے اپن نے یہ راہ تلاش کرلی اور کیا پوچھا تھا تو نے اپن کی ماں کا خرچا تو وہ یہ ہے کہ اپن اسکو کبھی حکیم تو کبھی مولوی کے پاس لے کر جارہی ہے لیکن وہ ٹھیک ہی نہیں ہورہی ہے شاید ہوگی بھی نہیں"

"کیا ہوا ہے انہیں" زریام کے کہنے پر اسنے کھانے سے ہاتھ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"کیسنر ہے کچھ وقت پہلے تھوڑا دور چند ڈاکٹر آے تھے وہ لوگوں کا مفت علاج کررہے تھے میں نے بھی اماں کو دکھایا تو انہوں نے یہ سب بتایا اپن کو تو معلوم بھی نہیں ہے کہ اس بیماری میں ہوتا کیا ہے بس انہوں نے یہ بتایا کہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے" اسکے کہنے پر زریام جیسے شاکڈ ہوچکا تھا

"تمہیں انکا علاج کروانا چاہیے"

"پیسہ نہیں ہے میرے پاس اور ان لوگوں نے کہا اگر علاج بھی کروایا تو بھی وہ بچ نہیں پاے گی اسکی زندگی میں صرف چند ماہ رہتے ہیں" آنسو آنکھ سے نکل کر اسکے مومی گال پر بہہ گیا جسے اسنے جلد ہی صاف کرلیا

زریام نے اپنے والٹ سے پیسے اور کارڈ نکال کر اسکے سامنے رکھے

"فلحال میرے پاس یہی ہیں انہیں سنبھالوں اور اپنی والدہ کو کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤ یہ میرا نمبر ہے جب بھی ضرورت ہو تو رابط کرلینا" حوریب نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور چیزیں اور کارڈ اٹھا لیے

"ہر چور کی ایسے ہی مدد کرتا ہے"

"ہر چور لڑکی نہیں ہوتی تم پہلی ہو"

"تیرا شکریہ" اپنے چکنے ہاتھ کمیز سے صاف کرکے اسنے پیسے جیب میں ڈالے اور وہاں سے چلی گئی جبکہ زریام کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا

پہلی بار کسی لڑکی سے اتنی لمبی بات کی تھی اور لڑکی بھی وہ جو چورنی تھی

°°°°°

کندھے پر بیگ ڈالے وہ بھاگتی ہوئی شاہ انڈسٹری میں داخل ہوئی جہاں اسکی پہلی ہی ملاقات راحت صاحب سے ہوئی تھی

ساحر سے ملنے وہ اکثر یہاں آتی تھی اسلیے سب اسے اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کون تھی جبکہ راحت صاحب سے اسکی اچھی خاصی دوستی تھی انکی عمر معتصم سے بھی چند سال بڑی تھی لیکن پھر بھی نور ہمیشہ انکی کمپنی میں انجواے ہی کرتی تھی

"آج نور شاہ یہاں کیسے آ گئیں" اسکے سلام کا جواب دے کر راحت صاحب نے مسکراتے ہوے کہا جس پر وہ پوری تفصیل انہیں بتانے لگی

"بابا سائیں کل عینہ آنٹی کے گھر آے تھے اسکے بعد وہاں سے چلے گئے اور پھر صبح جب وہ واپس انکے گھر آے تو میں یونی میں تھی اور عینہ آنٹی مجھے بتا رہی تھیں کہ ان سے کوئی ملنے آیا ہے اور وہ اس سے مل کر ہی گاؤں کے لیے نکل جائینگے بس اسی لیے میں یہاں ان سے ملنے آگئی" اسکے بتانے پر راحت صاحب ہنس پڑے

"ایسا ہوسکتا ہے بیٹا وہ یہاں آئیں اور آپ سے ملے بغیر چلے جائیں"

"نہیں ایسا ہو تو نہیں سکتا پر پھر بھی اچھا ہوا کہ میں یہاں آگئی انہیں سرپرائز مل جاے گا"

خوشی سے چہکتی ہوئی وہ معتصم کے آفس کی جانب بڑھ گئی جبکہ اسکی بات پر وہ ہنستے ہوے وہاں سے چلے گئے

°°°°°

معتصم کے آفس میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر وہاں بیٹھے شخص پر گئی جو اسے اجنبی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا

وائٹ کمیز شلوار پر لائٹ براؤن کوٹ پہنے وہ شخص اپنی نیلی آنکھوں میں اجنبیت بھرا تاثر لیے نور شاہ کو دیکھ رہا تھا

"آپ کون ہیں" نور نے عصیرم کو دیکھتے ہوے کہا یہ شخص اجنبی تو کہیں سے نہیں لگ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پہلے بھی اسے دیکھ چکی ہو

"عصیرم خان" عصیرم کے بتاتے ہی اسے جیسے یاد آچکا تھا کہ سامنے بیٹھا شخص کون ہے

"اوہ آپ تو سیاستدان عصیرم خان ہو وہی تو کہوں میں نے آپ کو کہاں دیکھا ہے میں نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا تھا مجھے آپ کو یہاں دیکھ کر بہت حیرت ہورہی ہے کیونکہ آپ سے کبھی ملنے کی امید جو نہیں تھی میں نور شاہ ہوں معتصم شاہ کی بیٹی"

"دراصل میں یہاں بابا سائیں کو سرپرائز دینے آئی تھی کیونکہ جب سے وہ شہر آے تھے میری ان سے ملاقات ہی نہیں ہوئی لیکن اچھا ہوا کہ میں یہاں آگئی اور میری آپ سے ملاقات ہوگئی ویسے مجھے یاسیدان پنسد نہیں ہیں لیکن حقیقت میں میں پہلے بار کسی سیاستدان کو دیکھ رہی ہوں"

"میں نے آپ کے والد کی بھی تصویر دیکھی تھی آپ بلکل انکی طرح ہو بابا سائیں نے ایک بار بتایا تھا کہ وہ انکے دوست تھے لیکن مجھے یقین نہیں آیا دوست ہوتے تو کبھی ملتے تو سہی انکے درمیان تو کبھی رابطہ تک نہیں ہوا تھا" عصیرم حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بنا رکے مسلسل بول رہی تھی جبکہ اسکے بولنے سے گال میں پڑتا ڈمپل کبھی ابھرتا تو کبھی غائب ہو جاتا

اسکے سامنے ایک اجنبی تھا اور اجنبی کے سامنے ہی اسکا یہ حال تھا تو گھر والوں کے سامنے اسکی زبان کی اسپیڈ کیا ہوتی ہوگی

اسکی مسلسل چلتی زبان دیکھ کر عصیرم کو مجبورا خود اسے روکنا پڑا

"مجھے معتصم شاہ سے ملنا تھا"

"ہاں وہ آنے والے ہیں"

"کیا آپ ہر کسی کے سامنے ایسے ہی بولتی ہیں"

اسکی بات کا مطلب سمجھ کر نور کھلکھلا کر ہنسی

"دراصل سب مجھے کہتے ہیں اس معاملے میں میں کسوا پھوپھو پر گئی ہوں لیکن آپ کو تو پتہ نہیں کسوا پھوپھو کون ہیں میں بتاتی ہوں"

"مجھے پتہ ہے وہ آپکی پھوپھو ہیں" اسکے کہنے پر ایک پل کے لیے وہ حیران ہوئی لیکن پھر خود ہی ہنس پڑی

"وہ تو آپ اسلیے کہہ رہے ہیں نہ کیونکہ میں نے انہیں پھوپھو کہا وہ میرے بابا سائیں کی بہن ہیں سگی نہیں ہیں لیکن پیار ان دونوں میں سگا والا ہی ہے بابا سائیں انہیں بلکل بہنوں والا پیار کرتے ہیں جیسے میرے بھائی مجھے کرتے ہیں" اسکی زبان ایک بار پھر سے شروع ہوچکی تھی اور اسی طرح چلتی رہتی اگر آفس روم کا دروازہ نہ کھلتا

دروازہ کھلنے پر جہاں نور کی زبان کو بریک لگا وہیں عصیرم نے شکر بھرا سانس لیا

°°°°°

وائٹ شرٹ پر بلیو پینٹ کوٹ پہنے وہ شخص حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا اسکے بالوں میں جھلکتے ہلکے ہلکے سفید بال اسے مزید دلکش بنا رہے تھے

"نور آپ یہاں کیا کررہی ہو" معتصم نے حیرت سے وہاں بیٹھے دونوں نفوس کو دیکھا

"میں آپ سے ملنے آئی تھی بابا سائیں"

"ہم بعد میں ملینگے"

"لیکن پھر آپ گاؤں چلے جائینگے"

"میں اپنی جان سے ملے بغیر تھوڑی جاؤں گا" معتصم کے کہنے پر اسنے مسکراتے ہوے اسکے گال پر پیار کیا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ معتصم کی نظروں کا مرکز اب سامنے کھڑا عصیرم تھا

"یہاں آنے کی وجہ جان سکتا ہوں عصیرم خان"

"میں اپنے لیے آپ کی طرف سے مبارک باد کا منتظر تھا معتصم انکل"

"اور تم منتظر کیوں تھے"

"کیونکہ یہ میری بہت بڑی کامیابی یے اور مجھے لگا کہ اپنے دوست کی اکلوتی اولاد کو آپ مبارک باد تو دے ہی سکتے ہیں" وہ اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اسکا قد معتصم سے چند انچ لمبا تھا

"میں نے تمہارے باپ کو بھی اس سب میں آنے سے منع کیا تھا لیکن علی خان رہا ہمیشہ کا ضدی اسنے میری نہیں سنی لیکن مجھے لگا شائید تم میری بات سن لو گے عصیرم سیاست سے دور ہوجاؤ گے لیکن میری بات نہ مان کر تم نے مجھ پر یہ ثابت کردیا ہے کہ تمہاری نظروں میں میری کیا عزت ہے"

"ایسی بات نہیں ہے یہ وہ کام ہے جو میرے باپ نے کیا تھا اور اسی لیے میں بھی یہی کرنا چاہتا ہوں مجھے آپ کے دادا جان کے ساتھ کی ضرورت ہے بابا ماما بم بلاسٹ میں مرے تھے جو انکے دشمنوں نے کروایا تھا لیکن انکی موت ایسے ہی لکھی تھی موت تو آنی ہے جب وقت مقرر ہوگا"

"کسی کا جلدی ہوتا ہے کسی کا دیر سے لیکن اس ڈر سے ہم دنیا کے کونے میں تو چھپ کر نہیں بیٹھ سکتے نہ آپ بھی جانتے ہیں کہ میں ایک سیاستدان بن کر اچھا کام کرنا چاہتا ہوں اپنے باپ سے بھی زیادہ اچھا سیاستدان بننا چاہتا ہوں تو پھر مجھے کیوں روک رہے ہیں میرا ساتھ دیجیے میں چاہتا ہوں میرے سے جڑے خاص لوگ میرے ساتھ رہیں اور آپ بھی انہی میں آتے ہیں"

"تمہیں باتیں بڑی بنانی آتی ہیں" معتصم کے سنجیدگی سے کہنے پر وہ مسکرا اٹھا

"بلکل اپنے باپ کی طرح ہو تم اور تمہاری آنکھیں دیکھ رہا ہوں تو ایسا لگ رہا ہے میرے سامنے علی کھڑا ہے اسکی آنکھیں بھی نیلی تھیں"

"نیکی آنکھیں تو مجھے وراثت میں ملی ہیں پر دادا سے دادا کو ملیں دادا سے بابا کو اور بابا سے مجھے"

"اب تم سے تمہارے بیٹے کو" معتصم کی بات سن کر اسکے لبوں پر مسکراہٹ دوڑی

معتصم نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا

"خدا تمہیں کامیاب کرے عصیرم"

"آمین"

°°°°°

"آہان مجھے بھوک لگ رہی ہے"شانزے نے اپنے ساتھ چلتے آہان سے کہا

کتنی دیر سے وہ دونوں سڑک پر چل رہے تھے آج جو اسائنمنٹ اسے سبمٹ کروانا تھا اسے وہ بنانا بھول چکا تھا جو اسے آج یونی میں ہی یاد آیا تھا اور ہر بار کی طرح پڑھائی سے جڑا مسلہ لے کر وہ شانزے کے پاس ہی آیا تھا جس پر اسنے اسے بتایا کہ وہ اسکا اسائنمنٹ پہلے ہی سبمٹ کراچکی ہے اور اسی خوشی میں اسنے کہہ دیا کہ آج رات ڈنر وہ اسے کراے گا

لیکن رستے میں ہی گاڑی خراب ہوچکی تھی اور اوپر سے آہان کا والٹ بھی گرچکا تھا موبائل وہ دونوں ہی نہیں لاے تھے جو گھر سے کسی کو بلوالیتے اور کوئی لفٹ بھی نہیں مل رہی تھی آج کا دن بہت خراب تھا بقول آہان کے حد سے زیادہ خراب تھا

"رک جاؤ کوئی ٹیکسی ملے تو گھر چلتے ہیں"

"کیا مطلب گھر چلتے ہیں تم نے کہا تھا کھانا کھلاؤ گے"

"شانزے بی بی پیسے نہیں ہیں میرے پاس پتہ نہیں کونسی محنوس گھڑی تھی جو میں نے کہہ دیا تمہیں کھانا کھلاؤں گا"

"مجھے مت ڈانٹو یہاں بھوک سے میری جان نکل رہی ہے اور تم الٹی الٹی باتیں کررہے ہو"

"اچھا وہ دیکھو" اسکی باتوں کو نظر انداز کرکے آہان نے اسے دور نظر آتے ہال کی جانب اشارہ کیا یقینا وہاں کوئی تقریب ہورہی تھی

"دیکھ لیا اب کیا کروں"

"کرنا کیا ہے وہاں چل کر کھاتے ہیں" شانزے کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے ہال کی جانب لے جانے لگا جہاں اینٹرنس پر ہی پھولوں کے بنے دل پر لکھا ہوا تھا آہان اینڈ زرنش مایوں

نام پڑتے ہی ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

"آہان تمہارا مایوں ہورہا ہے"

"اور مجھے پتہ ہی نہیں ہے"

°°°°°

یہ اسکی عادت تھی رات کے کھانے کے بعد وہ روز چہل قدمی کے لیے جاتا تھا اس وقت بھی وہ یہی کام سر انجام دے کر آرہا تھا

اسے پتہ تھا کہ گھر کی خواتین اسکے باہر جانے کے بعد واپس آگئی تھیں گارڈ اسے بتا چکا تھا لیکن ان سے اب وہ صبح ہی ملنے والا تھا کیونکہ اس وقت وہ سب شاید اپنے کمرے میں آرام فرما رہی تھیں

ہاں ایک بےچین کیڑا اسکے اندر بیٹھا ہوا تھا جو صبح تک بیٹھا رہتا جب تک اسے یہ پتہ نہیں چلنا تھا کہ جس کام کے لیے وہ لوگ گئے تھے اسکا کیا بنا

اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوے اسکی نظر نور کے کمرے کی طرف اٹھی جہاں کی لائٹ جل رہی تھی

پہلا خیال اسے یہی آیا کہ سب کے ساتھ نور بھی شہر سے واپس آگئی ہوگی اور یہ خیال آتے ہی وہ اسکے کمرے کی طرف بڑھ گیا

آہستہ سے دروازہ کھول کر وہ اسکے کمرے میں داخل ہوا جہاں بیڈ پر لیٹا وہ وجود سورہا تھا

اسے حیرت ہوئی وہ نور نہیں تھی لیکن اسکے کمرے میں کیا کررہی تھی

قدم بہ قدم چلتا وہ اسکے قریب گیا ارادہ اسے اٹھانے کا تھا بھلا ایک غیر لڑکی اسکی بہن کے کمرے میں کیسے ہوسکتی تھی

لیکن نظر اس لڑکی کے چہرے پر پڑتے ہی وہ جیسے اتنے قریب آنے کا مقصد بھول چکا تھا

چہرے پر معصومیت سجاے وہ دنیا جہان سے بیگانہ ہوے اپنی نیند پوری کررہی تھی اور شاہ میر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا

وہ خوبصورت نہیں تھی لیکن پھر بھی اسکے چہرے میں ایسی کشش تھی جو سامنے والے کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی

حیات نے کسمسا کر اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھولیں جب نظر شاہ میر پر پڑی بےاختیار اسکے لبوں سے چیخ نکلی اور اسکے ایسا کرتے ہی جیسے وہ بھی ہوش میں آیا

"کون ہو تم اور اس کمرے میں کیا کررہی ہو"جو پہلا سوال اسکے زہہن میں آیا وہ اسنے کہہ دیا

"م--میں وہ میں"

"کیا میں میں جواب دو" اسنے پہلے سے زیادہ سخت لہجے میں کہا جبکہ اسکا سخت لہجہ دیکھ کر حیات چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ پارہی تھی اور اسے کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی کیونکہ پریشے جو کمرے میں آگئی تھی

"شاہ میر یہاں کیا کررہے ہو تم"

"بڑی ماما یہ کون ہے اور نور کے کمرے میں کیا کررہی ہے"

"حیات تم سوجاؤ اور تم چلو میرے ساتھ" اسنے حیات کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور شاہ میر کو لے کر باہر چلی گئی پہلے ہی اتنی مشکل سے وہ اسے سلا کر گئی تھی

نیا ماحول تھا نئی جگہ جہاں اسے ایڈجسٹ ہونے کی ٹائم لگنا تھا اور شاہ میر نے پھر اسے اٹھا دیا تھا

"کون ہے یہ" کمرے سے باہر آکر بھی اسکا وہی سوال تھا جس پر پریشے نے مختصر لفظوں میں اسے سارا واقعہ بتادیا

"لیکن یہ نور کے کمرے میں کیا کررہی ہے اسے دوسرا کمرہ دے دیں"

"شاہ میر کل میں اسکے لیے نیا کمرہ سیٹ کروادو گی ویسے بھی نور کونسا یہاں ہے"

"بھلے وہ یہاں نہیں ہے مگر کمرہ تو اسکا ہے اسکی چیزیں موجود ہیں آپ کل اس لڑکی کا کمرہ چینج کردیے گا"

"اوکے کردوں گی" اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاکر جانے جگا پھر کچھ یاد آنے پر واپس اسکی طرف متوجہ ہوا

"آج جس کام سے گئے تھے اسکا کیا ہوا"

"شاہ میر یہ فیصلے اتنی جلدی نہیں ہوتے"

"لیکن اپنوں کے لیے تو جلدی ہوتے ہیں نہ"اسنے اپنی لوجیک بتائی

"عینہ ماہیم سے بات کرے گی"

"اسکے بعد شادی"

"نہیں شادی ماہیم کی پڑھائی کے بعد ہوگی اگر بات آگے بڑھی بھی تو ابھی صرف نکاح ہوگا"

"تو اسکی پڑھائی میں ٹائم ہی کتنا رہ گیا ہے دو ڈھائی ماہ ہی تو باقی ہیں ڈائریکٹ رخصتی کرتے ہیں"

"ہاں ارادہ تو یہی تھا کہ شادی ایک ساتھ ہی اسکی پڑھائی کے بعد ہوگی لیکن تمہارا بھائی ںےصبرا ہورہا ہے وہ کہتا ہے کہ رخصتی بھلے بعد میں ہوجاے نکاح ابھی ہی ہوگا اور اچھا ہے تمہارے بابا سائیں نے کہا ہے اگر ماہیم اس رشتے پر راضی ہوجاے گی تو ایک ہفتے بعد ہی نکاح کردینگے جبکہ رخصتی بعد میں کریں گے جب تک حفضہ آپی والے بھی آجائیںگے" اسنے ایک ساتھ ہی اسے پوری تفصیل بتادی کیونکہ جب تک وہ پوری بات نہیں جان لیتا خود بھی یہیں کھڑا رہتا اور اسے بھی یہیں کھڑا رکھتا

اسکی پوری بات سننے کے بعد وہ اپنا سر ہلا کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

فرہاد اور احسان وصی کے بھائی تھے فرہاد کی بیوی شہناز اور احسان کی بیوی حفضہ تھی جو پریشے کی بڑی بہن بھی تھی

شادی کے چند سال بعد وہ دونوں بھائی الگ الگ ملک میں سیٹیل ہوچکے تھے چونکہ انکے کچھ رشتے دار بھی وہیں موجود تھے اسلیے انہیں زیادہ مسلہ نہیں ہوا تھا جبکہ وصی یہیں رہتا تھا اور وہ یہیں خوش تھا

°°°°°

آج اسکی دوست کی انگیجمنٹ تھی چھوٹا سا فنکشن تھا جو گھر میں ہی ارینج کیا گیا تھا چند خاص مہمان تھے جن میں ایک ماہیم بھی شامل تھی

فنکشن اٹینڈ کرنے کے بعد اسنے ڈرائیور انکل کو کال کردی تھی کہ آکر اسے لے جائیں اور ٹھیک دس منٹ بعد وہ اسے لینے آگئے تھے لیکن گاڑی انہوں نے گھر کے سامنے نہیں روکی تھی

"آپ نے یہاں گاڑی کیوں روکی ہے" گاڑی شاہ انڈسٹری کے سامنے رکتے ہی اسنے اچھنبے سے ڈرائیور کی طرف دیکھتے ہوے کہا

"بیٹا ساحر سر نے مجھے آپ کو یہیں اتارنے کے لیے کہا تھا وہ اندر ہی ہیں"

"مجھے اندر نہیں جانا آپ مجھے گھر لے کر جائیں"

"آپ ساحر سر سے پوچھ لو اگر انکی اجازت ہو تو میں گھر لے چلتا ہوں"

وہ اسے ساحر سے پوچھنے کا کہہ رہے تھے اور جیسے اسے تو پتہ ہی نہیں تھا اگر ساحر نے اسے یہاں بلایا تھا تو کوئی وجہ ہی ہوگی اور بنا وہ وجہ ظاہر کیے وہ اسے ایسے تو نہیں جانے دے گا

"میں پاپا سے آپ کی شکایت لگادوں گی"دھمکی بھرے انداز میں کہتی ہوئی وہ گاڑی سے اتری

جبکہ اسکے اس طرح کہنے پر وہ مسکرا اٹھے اور انکی مسکراہٹ کا مطلب وہ اچھے سے جانتی تھی

وہ وصی سے شکایت لگا بھی دیتی تو کیا ہوتا وہ اپنی وفاداری نبھا رہا تھا اور وہ وصی کا نہیں ساحر کا وفادار تھا

°°°°°

اسکے اندر داخل ہوتے ہی وہاں کھڑا مینیجر اسے ساحر کے آفس روم کی طرف لے گیا رات کے نو بجنے والے تھے

آفس میں بس چند ایک افراد ہی باقی تھے جبکہ رات کے پہر وہ پورا آفس روشنی میں ڈوبا ہوا تھا

آہستہ سے اسکے آفس روم کا دروازہ دھکیل کر وہ اندر داخل ہوئی جہاں وائٹ شرٹ کے ساتھ ڈارک براؤن پینٹ کوٹ پہنے وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاے صوفے پر بیٹھا یقینا اسی کا منتظر تھا

ساحر نے گہری نظروں سے اپنے سامنے کھڑی اس لڑکی کو دیکھا وائٹ لونگ فراک پہنے وہ کھلے بالوں کے ساتھ اپنی سیاہ نظریں جھکائے کھڑی تھی

"تمہارا ہی انتظار کررہا تھا" ساحر نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوے کہا

جبکہ ماہیم کی نظریں اب وہاں رکھے ٹیبل پر موجود کھانے کی طرف تھیں جہاں اسکی پسندیدہ ڈشز رکھی ہوئی تھیں ٹیشو پیپرز چھری کانٹے سمیت وہ پورا دعوت کا انتظام لگ رہا تھا

"کیوں بلایا ہے آپ نے مجھے"

"یہ سب تمہارے لیے آرڈر کیا تھا آخر کو ہمارا رشتہ جو پکا ہوگیا ہے"

"ہمارا کوئی رشتہ پکا نہیں ہوا"

"تو ہوجاے گا" اسنے لاپروائی سے شانے آچکاے

"نہیں ہوگا"

"کیوں---؟"

"کیونکہ میں ایسا نہیں چاہتی"

"اور تم ایسا کیوں نہیں چاہتی ہو"

"کیونکہ آپ مجھے اچھے نہیں لگتے ہیں"

"لیکن تم مجھے اچھی لگتی ہو"

"ساحر بھائی آپ کیوں نہیں سمجھ رہے اگر آپ کسی کو پسند نہیں کرتے ہوں تو کیا آپ اس سے شادی کرلیں گے"

"یہاں کسی کی نہیں تمہاری اور میری بات ہورہی ہے" آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا وہ اسکے قریب آیا جبکہ اس سے فاصلہ بنانے کے چکر میں وہ پوری دیوار سے لگ چکی تھی

"میں تمہارے ساتھ کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا ماہیم" اسکا لہجہ بےحد نرم تھا

"میں چاہتا ہوں تم عینہ آنٹی کو جو جواب دو وہ تمہاری اپنی مرضی کا ہو"

"میرا جواب انکار میں ہے کیونکہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہے ساحر بھائی"

"کیوں نہیں کرنی ہے"

"آپ مجھے ڈانٹتے ہیں غصہ کرتے ہیں" اسنے جیسے اسے ایک جواز پیش کیا جبکہ اسکے ایسا کرتے ہی دیورا پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسنے اپنا چہرہ ماہیم کے قریب کرلیا

"آئی پرامس میری جان آج کے بعد کبھی نہیں ڈانٹوں گا"

"آپ مجھے اچھے نہیں لگتے ہیں"

"تم مجھے وہ چیز بتاؤ جس کی وجہ سے میں تمہیں اچھا نہیں لگتا میں وہ چیز چھوڑ دوں گا"

"آپ کچھ بھی کہیں مجھے نہیں کرنی آپ سے شادی" اسکی ایک ہی بات سن کر ماہیم نے چیختے ہوے کہا جوابا ساحر کی آواز اس سے زیادہ تیز تھی

"کیوں نہیں کرنی ہے" ساحر کے چلانے پر وہ سہم کر اس سے دور ہونے لگی لیکن ہوتی بھی کیسے پیچھے دیوار تھی آگے ساحر اور دونوں طرف اسکے مظبوط ہاتھوں کی قید

"جواب دو مجھے" اسنے غصے سے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا ماہیم نے گھبرا کر اپنی آنکھیں میچ لیں دیوار مظبوط تھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن اسے پتہ تھا ساحر کو تکلیف ہوئی ہوگی لیکن اس وقت ہمدردی دکھا کر وہ اپنے لیے مصیبت نہیں کھڑی کرسکتی تھی

اسکے انداز میں عجیب سا پاگل پن جھلک رہا تھا جبکہ ماہیم اس وقت واقعی میں خود کو اسکی قید میں محسوس کررہی تھی کوئی راستہ نہ پاکر اسے رونا آیا اور آنسو اسکی آنکھ سے بہنے لگے جبکہ اسے روتا دیکھ کر ساحر نے اپنے غصے کو ضبط کیا

"تمہیں اندازہ نہیں ہے ماہیم تم کیا ہو میرے لیے بہت محبت کرتا ہوں میں تم سے تم میری روح میں اترتا سکون ہو وہ سکون جسے میں اپنا محرم بنانا چاہتا ہوں"

"لیکن میں نہیں کرتی آپ سے محبت مجھے نہیں کرنی آپ سے شادی"

"میں مرجاؤں گا تمہارے بغیر"

"ساحر بھائی کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا ہے" اسنے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے

"مرجاتے ہیں ماہیم مرنے والے سچ میں مرجاتے ہیں" ساحر نے اپنا چہرہ اسکے قریب کیا جس پر اسنے دوبارہ اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں

اس وقت ساحر کی موجودگی سے اسے خوف آرہا تھا اور خود پر غصہ اس سے بہتر تو تھا گھر سے کسی کو کال کرکے بلالیتی یا پھر ٹیکسی میں چلی جاتی لیکن اسکی بات سننے کے لیے یہاں نہ آتی

"آنکھیں کھولو ماہیم" اسنے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں

ساحر کی حرکت پر وہ سن ہوچکی تھی وہ اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا یہ تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

°°°°°

اس وقت وہ دونوں کونے والی ایک ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے آہان نے تو آدھی پلیٹ کھا کر ہی کھانا دور کردیا تھا

کیونکہ اسکا پیٹ بھر چکا تھا جبکہ شانزے ابھی تک کھانا کھارہی تھی وہاں موجود بوفے میں سے کوئی بھی ایک چیز وہ اپنی پلیٹ میں رکھنا نہیں بھولی تھی بقول آہان کے پوری تھری ایڈیٹس کی پلیٹ بناکر بیٹھی تھی

"اب کھا بھی لو شانزے"

"تو کھا تو رہی ہو تم بار بار یہ جلدی جلدی کا الارم بجانا بند کرو"

'تم جلدی سے کھاؤ کسی نے ہمیں دیکھ لیا تو اچھا نہیں ہوگا"

"کیوں ہم کونسا انکی شادی میں خود کش بم رکھنے آے ہیں جو اچھا نہیں ہوگا" شانزے نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا

جوابا اپنا سر نفی میں ہلاکر اسنے اپنے ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہاتھ پھیر کر پیچھے کیا

"آہان وہ دیکھو سب ڈانس کررہے ہیں ہم بھی چلیں"شانزے نے اسٹیج کی طرف دیکھتے ہوے اشارہ کیا جہاں تین کپل ایک ہی اسٹیپ میں ڈانس کررہے تھے

"بلاوجہ بےگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ"

"لیکن تم عبداللہ نہیں ہو"

"مثال دے رہا تھا شانزے اب جلدی سے کھاؤ تاکہ ہم نکلے یہاں سے" وہ ایک بار پھر وہی بات دہرا رہا تھا جس پر منہ بنا کر شانزے نے کباب توڑ کر منہ میں رکھ لیا

"ہیلو" مردانہ آواز پر ان دونوں نے اس شخص کی طرف دیکھا جو انہی کی طرف دیکھ رہا تھا یقینا ان سے ہی مخاطب تھا

"آپ لوگ کون ہیں پہلے کبھی دیکھا نہیں"

"ہم آپ کو کیوں بتائیں" اسکی بات کا جواب دیے بنا شانزے نے الٹا سوال کیا

"کیونکہ میں دلہن کا بھائی ہو یہ ہماری تقریب ہے تو میں جاننا چاہتا ہوں آپ لوگ کون ہیں"

"ہم لڑکے کے چاچا کے دوست کے بچے ہیں" شانزے کو اپنے پیچھے کرکے اسنے جواب دیا

"لیکن لڑکے کے تو کوئی چاچا نہیں ہیں انکے والد اکلوتے ہیں"

"نہیں ہم لڑکے کی والدہ کی بہن کی دوست کے بچے ہیں" اب کی بار اسکے پیچھے سے نکل کر شانزے نے جواب دیا

"لڑکے کی والدہ کی بھی کوئی بہن نہیں ہے وہ بھی اکلوتی ہیں"

"انکل تو بڑے ہی ڈھیلے ہیں ایک ہی میں بس کردی" آہان نے بڑبڑاتے ہوے کہا جبکہ اسکی بڑبڑاہٹ سن کر شانزے نے زور سے اسکے پاؤں پر اپنا پاؤں مارا جس سے اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑا

"اب شرافت سے بتادو کون ہو تم یا پھر بلاؤں سیکورٹی کو"

"بھائی ہم تو آپ کی خوشی میں شریک ہونے آے تھے"

"ہمیں بن بلائے مہمان نہیں چاہییں" شانزے کو جواب دے کر اسنے اپنے موبائل سے باہر کھڑے گارڈ کو اندر آنے کے لیے کہا جبکہ وہ دونوں ہی اب پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے

"ہم چلتے ہیں" بالاآخر آہان نے ہی الفاظ تلاش کیے جبکہ شانزے تو حیرت و غصے سے سامنے کھڑے اس آدمی کو دیکھ رہی تھی

ڈراموں میں تو اسنے یہی دیکھا تھا کہ بندہ جاتا تھا اور کھانا کھا کر بھی آجاتا تھا کسی کو کچھ پتہ بھی نہیں چلتا تھا

"ایسے کیسے تھوڑی خاطر تواضع تو کرنے دیجیے" اس آدمی نے مڑ کر اینٹرنس کی طرف دیکھا جہاں سے گارڈ چلتا ہوا انہی کی طرف آرہا تھا

اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر آہان نے مظبوطی سے شانزے کا ہاتھ تھاما اور اگلے ہی پل باہر کی طرف دوڑ لگادی

تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگوں کی بھیڑ میں سے ہوتے ہوے ہال سے باہر نکل چکے تھے اور بھاگتے بھاگتے ہال سے کافی دور بھی آچکے تھے

"آہان پلیز ہاتھ چھوڑ دو اب ہم کیوں بھاگ رہے ہو" شانزے نے اسکے ساتھ بھاگتے ہوے پھولی سانسوں سے کہا

جس پر آہان نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر اپنا سانس درست کیا ہال سے وہ دونوں ہی دور آچکے تھے اور اتنا فارق تو وہ لڑکا تھا نہیں کہ اپنی تقریب چھوڑ کر انہیں ڈھونڈنے کے لیے پیچھے پیچھے تک آجاتا

ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اگلے ہی لمحے سڑک پر دونوں کے قہقہے گونج اٹھے

°°°°°

"ماہیم آنکھیں کھولو"اسنے ڈرتے ڈرتے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی سیاہ آنکھیں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"مرنے والے سچ میں مرجاتے ہیں اور میں بھی تمہارے لیے مر سکتا ہوں نہیں یقین تو آزما لو" سنجیدگی سے کہتے ہوے اسنے ٹیبل پر رکھی چھری اٹھائی جسے دیکھ کر ماہیم کی آنکھیں حیرت سے پوری کھل چکی تھیں

"ن-نہیں نہیں مجھے نہیں آزمانا"

"لیکن میں تمہیں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں" اسنے اگلے ہی پل تیزی سے وہ چھری اپنی کلائی پر پھیر لی

ساحر کی حرکت پر وہ سن ہوچکی تھی وہ اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا یہ تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

"یہ کیا کیا آپ نے" اسنے تقریبا چیختے ہوے کہا

جبکہ ساحر بنا اسکی بات کا جواب دیے وہاں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ چکا تھا

ماہیم کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا جبکہ نظریں تیزی سے بہتے ساحر کے خون کی طرف تھیں

اسنے اپنے پرس میں رکھا رومال نکالا اور اسکی طرف بڑھی لیکن اسکے کچھ کرنے سے پہلے ہی وہ اپنی کلائی اس سے دور کرچکا تھا

"پلیز ساحر بھائی آپ کا خون بہہ رہا ہے"

"تو تمہیں کیا فرق پڑتا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے نہ میں مرجاؤں گا تو تمہاری زندگی سے ساحر شاہ کا وجود نکل جاے گا جس سے تم ڈرتی ہو"

"فضول باتیں بند کریں اپنا ہاتھ دکھائیں" خوف اور آنسو ساحر کو واضح اسکے چہرے پر دکھ رہے تھے

ساحر کو اس طرح دیکھ کر اسے تکلیف ہورہی تھی اسلیے نہیں کیونکہ وہ تکلیف میں تھا بلکہ اسلیے کیونکہ اسکی وجہ سے تکلیف میں تھا

"ن-نہیں دکھانا مجھے تم جاؤ یہاں سے" اسنے تکلیف سے اپنی آنکھیں میچ لیں وہ اپنی تکلیف ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن ماہیم پھر بھی اندازہ کرسکتی تھی کہ اس وقت وہ کس تکلیف میں ہوگا

"پلیز"

"ماہیم جاؤ"اسکے چیخنے پر بھی وہ وہاں سے نہیں ہلی تھی

"آپ کا خون بہہ رہا ہے پلیز میرے ساتھ ہاسپٹل چلیں"

"نہیں جانا مجھے کہیں مرنے دو مجھے تم نے کیا کہا تھا تمہیں میرے ساتھ رشتہ نہیں رکھنا یہ تمہاری مرضی ہے میں تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن تمہارے بنا میں رہ بھی نہیں سکتا تو مرنے دو مجھے تم میرے ساتھ نہیں ہو تو نہیں چاہیے مجھے یہ زندگی"

اسکی بات سن کر ماہیم نے اپنی آنکھیں ضبط سے میچ لیں بالآخر اسنے ہار مان لی تھی

"م--مجھے آپ کا ساتھ ق-قبول ہے" اسکے کہنے پر ساحر نے اسکی طرف دیکھا

"کیا کہا تم نے"

"میں آپ سے شادی کے لیے تیار ہوں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے" بھیگی پلکیں اٹھائیں وہ اس پاگل شخص کو دیکھ رہی تھی جس سے ہمیشہ اسے ڈر لگتا تھا لیکن آج حقیقتاً اسے ساحر شاہ سے خوف آرہا تھا

"تم اپنی مرضی سے ہاں کہہ رہی ہو نہ" اسکے کہنے پر ماہیم نے آنکھوں میں شکوہ لیے اسکی طرف دیکھا لیکن وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ساحر شاہ نے جیسے اسکے سارے الفاظ چھین لیے تھے

"ہاں اپنا ہاتھ دکھائیں" اسنے اسکا مظبوط ہاتھ تھامنا چاہا جسے وہ پھر پیچھے کرچکا تھا اور ایسا کرنے سے اسکے چہرے پر تکلیف دا تاثرات ابھرے تھے

"جب عینہ آنٹی تم سے پوچھیں گی تو تم کیا کہو گی"

"میں ہاں کہوں گی" اسکا ہاتھ تھام کر اب کی بار ماہیم نے مظبوطی سے پکڑ لیا تاکہ وہ پھر پیچھے نہ کرسکے اور رومال اسکی کلائی پر باندھنے لگی تاکہ بہتا خون رک جاے

سوں سوں کرتی ہوئی وہ اسکا ہاتھ دیکھ رہی تھی کلائی سے نکلتے خوں کے باعث اسکا پورا ہاتھ خونم خان ہوچکا تھا اسنے کچھ زیادہ ہی گہرائی سے کاٹ لیا تھا

"بہت فکر ہے تمہیں میری" ماہیم نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا نظریں جھکائے وہ اپنے کام میں مگن تھی

جبکہ دوسری طرف ساحر شاہ کے چہرے پر اب ایک الگ ہی سکون اور اطمینان تھا اسکا دل چاہ رہا تھا کہ سامنے بیٹھی اس لڑکی کو سختی سے خود میں بھینچ لے اسکے چہرے پر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑے لیکن ابھی اسکے پاس ایسا کوئی حق نہیں تھا پر جلد ہی ملنے والا تھا

°°°°

"چلو گھر چلتے ہیں" ہاسپٹل میں بینڈیج وغیرہ کروا کر اسنے ماہیم سے کہا جو کب سے خاموش کھڑی تھی

"میں ڈرائیور کے ساتھ جاؤں گی آپ بھی ساتھ چلیں آپ سے ڈرائیونگ صحیح نہیں ہوگی" اسے جواب دے کر وہ وہاں سے جانے لگی ویسے بھی وہ صرف اسی وجہ سے یہاں موجود تھی کیونکہ ساحر یہاں آنے پر راضی نہیں تھا وہ اسے زبردستی یہاں لائی تھی

"یہ معمولی چوٹ ہے لیکن تمہیں میری بہت فکر ہورہی ہے"گہری نظروں سے اسنے ماہیم کی طرف دیکھا

"نہیں عصیم انکل اور کسوا آنٹی کا خیال آرہا ہے اور یہی خیال مجھے آپ کی مدد کرنے پر مجبور کررہا ہے"اسے جواب دے کر وہ جانے کے لیے مڑی

اسے جاتے دیکھ کر ساحر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا

"اپنی مرضی سے راضی ہوئی ہو تم ماہیم اور اب جب راضی ہوگئی ہو تو میں تمہیں پیچھے نہیں ہٹنے دوں گا اگر تم نے ایسا کیا تو میں جو کروں گا اسکا تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے" اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑا کر وہ وہاں سے باہر جاچکی تھی

اسے بس اس وقت اس شخص سے دور جانا تھا

°°°°°

گھر آکر اسنے سب سے پہلے اپنے کپڑے تبدیل کیے کیونکہ اسکی فراک پر ساحر کا خون لگ چکا تھا یہ تو شکر تھا کسی نے اسے دیکھا نہیں تھا ورنہ وہ کیا جواب دیتی

بیڈ پر لیٹ کر بھی وہ انہی سوچوں میں گم تھی ساحر ایسا کوئی قدم اٹھاے گا یہ اسنے نہیں سوچا تھا

اسکی نظریں ہمیشہ ہی ماہیم کو ڈسٹرب کرتی تھیں لیکن انکا مفہوم اسے کبھی سمجھ نہیں آتا تھا لیکن اب آگیا تھا

وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب دروازہ نوک کرکے عینہ کمرے میں داخل ہوئی اسے دیکھ کر وہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی

"تم آکر مجھ سے ملی بھی نہیں ماہیم میں تمہارا انتظار کررہی تھی مجھے لگا تم ابھی تک آئی نہیں ہو یہ تو تمہارے کمرے کی لائٹ آن دیکھی تو میں یہاں پر آگئی"

"جی بس تھک گئی تھی میں" اسنے خود کو کمپوز کرتے ہوے کہا

"فنکشن کیسا ہوا"

"بہت اچھا ہوا تھا بہت مزہ آیا" اسنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائے کہا

"تم سے کچھ بات کرنی تھی ابھی تک موقع ہی نہیں ملا حویلی والے آے تھے ساحر کے لیے تمہارا رشتہ لینے وصی چاہ رہا تھا کہ میں تم سے پوچھ لوں"

اگر آج اسکی ملاقات ساحر سے نہیں ہوئی ہوتی تو وہ پہلی فرصت میں انکار کردیتی لیکن اب حالات مختلف ہوچکے تھے اس رشتے سے منع کرنا اسکے بس میں نہیں تھا

"جیسے آپ لوگوں کی مرضی"

"ہماری مرضی کا کیا ہے رشتہ تو تمہارے ساتھ جڑ رہا ہے تو مرضی بھی تو تمہاری ہی ہونی چاہیے"

اسکی بات سن کر اسکے زہہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ عینہ کو ساحر کی ، کی گئی ساری حرکت بتادے لیکن اس سے بھی کیا ہوتا اپنی رضامندی دے کر وہ اب پھنس چکی تھی پیچھے ہٹنا بھی چاہتی تو ساحر شاہ نے اب اسے پیچھے ہٹنے نہیں دینا تھا

اسکی رضامندی نہ بھی ہوتی تو ساحر نے کرنا وہی تھا جو اسکا دل کہتا تو پھر کیا فائدہ ان باتوں کا

ان خیالات کو اپنے زہہن سے جھٹک کر وہ عینہ کی طرف متوجہ ہوئی

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ماما جو آپ دونوں کا فیصلہ ہوگا میں اس پر راضی ہوں" اسکے کہنے پر عینہ نے مسکراتے ہوے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسکے کمرے سے چلی گئی

اسے یہ خبر اب سب سے پہلے وصی کو دینی تھی

°°°°°

صبح کا وقت تھا اور اس وقت گارڈن میں بیٹھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب اچانک کوئی اسکے کان کے قریب چیخا

ڈر کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی

وہ شاہ میر شاہ تھا وائٹ ٹی شرٹ اور بلیو جینز پہننے شرارتی نظروں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا

"سوری تم ڈر گئیں" اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے وہ وہاں سے جانے لگی جب وہ پھر سے اسکے سامنے آگیا

"تعارف تو کروادو لڑکی بڑی ہی بےمروت ہو خیر تمہارے تعارف کی ضرورت نہیں ہے مجھے تو تمہارے بارے میں پتہ چل ہی گیا ہے میں اپنا تعارف کروا دیتا ہوں"

"میں ہوں شاہ میر شاہ عصیم شاہ کا بیٹا جس کا پسندیدہ کام ہے اپنے باپ کو تنگ کرنا میں سارا دن حویلی میں خواروں کی طرح پھرتا ہوں اگر بور ہوجاتا ہوں تو حویلی سے باہر چلا جاتا ہوں میرے بابا سائیں مجھے یہ بات بول بول کر تھک چکے ہیں کہ شاہ میر کچھ کام کرلو لیکن میں انکی یہ بات سن سن کر نہیں تھکا" اسنے ایک ہی سانس میں کہتے ہوے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا

جسے کچھ دیر جھجک کر اسنے تھام لیا

"اب تم بھی کچھ بولو"

"میں حیات ہوں"

"وہ تو ہم سب ہی ہیں"اسکی بات سن کر شاہ میر نے ہنستے ہوے کہا جس سے وہ مزید نروس ہوئی

"میرا مطلب میرا نام حیات ہے"

"ویسے میں جانتا ہوں کچھ اور بتاؤ"

"میں یہاں مہمان ہوں"

"ویسے اب تم مہمان نہیں ہو اب تو تم فیملی کا حصہ ہو اور اچھا ہی ہے کہ مجھے بھی ہوئی مل گیا سارا دن ان بوڑھوں کے ساتھ رہ کر مجھے لگنے لگا تھا میں بھی بوڑھا ہوچکا ہوں"

اسے دوبارہ اسکی پہلی والی جگہ پر بیٹھا کر وہ خود بھی اسکے برابر ہی بیٹھ گیا اب بس شاہ میر شاہ تھا اسکی باتیں

°°°°°

اپنے کمرے سے نکل کر وہ باہر جانے لگا جب نظر ماہیم کے کمرے کی طرف اٹھی جو ادھ کھلا پڑا تھا

"ماہیم میں آجاؤں" اسنے دروازہ نوک کرکے کہا

اسے دیکھ کر وہ ایک پل کے لیے گھبرائی تھی لیکن پھر ریلیکس ہوگئی

کیونکہ وہ ماہر ہی تھا اگر وہ ساحر ہوتا تو اتنی شرافت سے اس سے اندر آنے کی اجازت نہیں مانگ رہا ہوتا

"جی ماہر بھائی آجائیں"

"تم نے ساحر سے شادی کے لیے ہاں کہہ دی ہے ایسا کیوں کیا تم نے ماہیم اگر ساحر نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتاؤ میں بات کروں گا اس سے"

شائید اس سے زیادہ وہ اس بات کو اپنے اندر نہیں رکھ سکتی تھی گہرا سانس لے کر اسنے اس دن گزرا رہ واقعہ اسے بتادیا

جسے سن کر وہ صحیح معنوں میں شاکڈ ہوچکا تھا ساحر اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا یہ بھلا کسی نے کب سوچا تھا

"تمہیں اس فضول انسان کی بات ماننے کی ضرورت نہیں ہے میں بات کروں گا اس سے تم فکر مت کرو بلکہ ابھی کروں گا" اپنی بات کہتے ہوے وہ وہاں سے جانے لگا جب ماہیم نے اسکی مظبوط مردانہ کلائی تھام لی

"پلیز ماہر بھائی کسی سے کچھ مت کہیے گا انکی اس حرکت نے مجھے پہلے ہی بہت ڈرا دیا ہے میں نہیں چاہتی وہ مزید کچھ الٹا سیدھا کریں"

"تم کیوں ڈرو گی ماہیم تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"

"ماہر بھائی میں ایک عام سی لڑکی ہوں جس کی زندگی میں آج نہیں تو کل تو یہ دن آنا ہی تھا جب کل بھی یہ کام کرنا ہے ہی تو بہتر نہیں ہے آج ہی کرلیں اپنوں کی رضامندی کے ساتھ میں کیوں یہ جھوٹا خواب دیکھو کہ میرا کوئی شہزادہ آے گا یہ اصل زندگی ہے اور میں حقیقت میں جینے والی لڑکی حقیقت میں ہی جینا چاہتی ہوں"

"پلیز ماہر بھائی کسی سے کچھ مت کہیے گا دیکھیں تو سب گھر والے میرے ایک ہاں سے کتنے خوش ہوگئے ہیں میں بھی انکی خوشی میں خوش ہوں"

"ساحر بھائی کو میں پسند نہیں کرتی ہوں لیکن نکاح ایک ایسا بندھن ہے جس میں بندھنے کے بعد آپ کو اپنے ہمسفر سے قدرتی طور پر محبت ہوجاتی ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سب میں میرے ماں باپ کی رضامندی شامل ہے وہ میرے لیے کوئی غلط فیصلہ تھوڑی کرینگے"

"تم شیور ہو"

"جی بلکل اب آپ بھی اپنا موڈ ٹھیک کریں"

"مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا ماہیم اتنی سمجھداری کی باتیں کرتی ہے" ماہر نے اسکے دونوں گالوں کو کھینچتے ہوے پیار بھرے لہجے میں کہا اور اسے لے کر نیچے چلا گیا

°°°°°

ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہی اسنے سب سے پہلی نظر ماہیم پر ڈالی جو اپنا سر جھکائے ناشتہ کرنے میں مگن تھی

"تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا ہے ساحر" عینہ کی نظر سب سے پہلے اسکی کلائی پر گئی تھی جہاں پر پٹی بندھی ہوئی تھی کب سے اسے نہیں پتہ تھا کیونکہ اسنے دیکھی ہی ابھی تھی

وائٹ شرٹ کی اور لائٹ براؤن کوٹ کی فل سلیوز کے باجود بھی اسکی کلائی پر آدھی سفید پٹی واضح دکھ رہی تھی

"کچھ خاص نہیں عینہ آنٹی بس آفس میں ہلکی سی چوٹ لگ گئی تھی"

"ہلکی سی تو نہیں لگ رہی مجھے تو بہت بڑی لگ رہی ہے" ماہر نے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوے گھور کر اسے دیکھا

جس پر اسنے پہلے ماہیم اور پھر ماہر کو دیکھا اگلے ہی پل وہ سمجھ چکا تھا کہ ماہیم اسے سب بتا چکی ہے

"نہیں زیادہ بڑی نہیں ہے"

"تم نے ڈاکٹر کو دیکھایا" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ خود اسکی کلائی دیکھنے لگی جس پر ماہیم بس گہرا سانس لے کر رہ گئی

اسکی ماں دیکھ تو ایسے رہی تھی جیسے بندھی پٹی میں ہی یہ بات معلوم کرلے گی کہ زخم کتنا گہرا ہے اور کیسے لگا ہے

"جی بہت اچھی دوائی مل گئی مجھے اس زخم کی جلد ہی ٹھیک ہوجاے گا" اسنے ایک نظر ماہیم پر ڈال کر دوبارہ عینہ کی طرف دیکھا

"اچھا تم خیال رکھنا اور اس ہاتھ سے زیادہ کام مت کرنا زور پڑے گا اور ایک بار پھر ڈاکٹر کو دکھا دینا" اسکے تاکید کرنے پر اسنے مسکراتے ہوے اپنا سر ہلایا اور ناشتہ کرنے لگ گیا

°°°°°

ماہر کے ٹیبل سے اٹھتے ہی وہ خود بھی اٹھ کر اسکے پیچھے گیا جانتا تھا کہ سب جاننے کے بعد وہ اس سے ناراض ہی ہوگا

"ماہر بات سن میں نے کہا تھا نہ اس معاملے سے دور رہنا"اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ماہر کے قدم رکے اسنے مڑ کر اپنے جڑواں کو دیکھا

"کیوں دور رہوں میں تاکہ تیری ان حرکتوں سے لاعلم رہوں کیا لگتا ہے تجھے اپنا ہاتھ کاٹ کر بہت بڑا ہیرو بن گیا تو"

"کڑی مان گئی ہے تو اب تو کیوں نخرے دکھا رہا ہے"

"کیونکہ تو نے غلط کیا ہے اسکے ساتھ"

"ماہر تو بھی جانتا ہے میں ماہیم سے کتنی محبت کرتا ہوں سکون ہے وہ میرا اور یہ حقیقت ہے میں مرجاؤں گا اسکے بغیر ایک بار بچ گیا تو ضروری نہیں ہے کے دوبارہ بھی بچ جاؤں"

"ساحر تو ایسی باتیں کیوں کررہا ہے" ماہر نے افسوس سے اسے دیکھا

"کیونکہ میں نہیں جی سکتا اسکے بغیر اور یہ بات مجھے تجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تو جانتا ہے سب ماہر اب یہ ناراضگی بند کر اور اپنے بھائی کی خوشی میں شامل ہوجا"

خود ہی آگے بڑھ کے وہ ماہر کے گلے لگ گیا

"میری بہن کو تو نے اب کچھ بھی کہا تو ساحر میں تجھے چھوڑوں گا نہیں"

"نہیں کہہ رہا تیری بہن کو کچھ"

"چل اب چھوڑ بھی دے مجھے دیر ہورہی ہے بیوی نہیں ہوں میں تیری"

"مجھے پتہ ہے تو میری بیوی نہیں ہے میری ہونے والی بیوی اس وقت اندر ہے" ساحر نے ایک نظر گھر کے اندرونی دروازے پر ڈالی اور ایک بار پھر سے اسکے گلے لگ گیا

اسکے چہرے کی خوشی دیکھ کر ماہر نے دل میں ماشاءاللہ کہا وہ ماہیم اور اپنے رشتے کتنا خوش تھا یہ بات بھلا ماہر سے بہتر کون جانتا ہو گا

°°°°°

"میشال کی بچی کہاں تھیں تم کب سے ڈھونڈ رہی ہوں" میشال کو دیکھتے ہی وہ اسکے سر پر پہنچ کر چیخی

انکی کلاس شروع ہونے والی تھی اور یہ لڑکی پتہ نہیں کہاں غائب تھی

"بس آہی رہی تھی تم بتاؤ مجھے کیوں ڈھونڈ رہی تھیں"

"بابا جانی نے گاڑی لی ہے نہ تو خوشی کی خبر تمہیں سنانی تھی" اسنے ایکسائیٹڈ ہوکر کہا

وہ ہمیشہ سے بائیک پر ہی سفر کرتی تھی گاڑی انکے پاس نہیں تھی لیکن اب وہ بھی آگئی تھی جو اسد صاحب نے اپنے جمع شدہ پیسوں سے لی تھی

انہوں نے ہر چیز کا ایک حساب بنایا ہوا تھا جب پیسے آتے تو وہ سارے کام کرلیتے اور بچے ہوے پیسوں کو جمع کرلیتے اور ضروت پر انہیں استعمال کرتے تھے

"اچھا کونسی لی ہے" میشال نے اس سے زیادہ ایکسائیٹیڈ ہوکر کہا تھا

"مہران"

"مجھے کب بٹھاؤ گی اس میں"

"آج ہی میں نے بابا جانی سے کہہ دیا ہے کہ وہ یونی مجھے اسی میں لینے آئیں گے پھر میں تمہیں اسی میں تمہارے گھر چھوڑوں گی"

"اچھا وہ تو ٹھیک ہے لیکن ابھی ہم چلتے ہیں کلاس کا ٹائم ہورہا ہے" میشال کے کہنے پر جیسے اسے بھی وقت کا خیال آیا اور دونوں تیزی سے اپنی کلاس کی جانب بھاگ گئیں

عزہ کے والد ایک عام سی جوب کرتے تھے جس میں ضرورتیں تو پوری ہوتی تھیں لیکن خواہشات نہیں اور اسے کوئی خواہش تھی بھی نہیں اس کے مطابق جو اسکے پاس تھا بہت تھا لیکن اسکے والدین بھی اپنی اکلوتی اولاد پر جتنا بھی خرچ کرتے تھے کم تھا

جبکہ اسکے برعکس میشال کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا وہ بچپن کی دوستیں تھیں لیکن اتنے سالوں کی دوستی میں میشال نے کبھی اسے اپنی امیری نہیں جتائی تھی

وہ عزہ کو صرف وہی تحفے دیتی تھی جو نارمل ہوتے تھے کیونکہ مہنگے تحفے عزہ لیتی نہیں تھی وہ صرف وہی تحفے لیتی تھی جو وہ بھی بدلے میں اسے دے سکے

ایک بار میشال نے اسکے لیے اپنے جیسا سوٹ لیا تھا جس کی قیمت سولہ ہزار تھی لیکن اسکے بعد سے اسے اپنے اور میشال کے درمیان فرق محسوس ہوا تھا اسنے وہ سوٹ اسے واپس کردیا تھا کیونکہ اتنا مہنگا تحفہ وہ اپنی دوست کو نہیں دے سکتی تھی تو پھر لیتی کیوں

اسکے بعد سے میشال نے بھی اسے کوئی مہنگی چیز نہیں دی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی دوست اسکی کسی بھی حرکت سے دکھی ہو

°°°°°

"ایہاب تم باہر جارہے تو مجھے کتاب چاہیئے تھی وہ بھی لادو"

ایہاب جو انگلی میں چابی گھماتا ہوا باہر جارہا تھا ماہیم کی آواز پر مڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگا

"میں کیوں لاؤں اپنے ہونے والے سائیں سے منگواؤ"

"تم لاکر دے رہے ہو یا نہیں"

"نہیں" انداز چڑانے والا تھا لیکن وہ چڑی نہیں تھی بلکہ اسکی سیاہ آنکھیں بھیگ چکی تھیں

"مت لا کر دو کبھی میرا کوئی کام مت کیا کرو جب چلی جاؤں گی نہ تب یاد کرتے رہنا مجھے" روتے ہوے وہ وہاں سے جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر ایہاب نے اسے اپنے گلے لگا لیا

"ہاے اللہ کیا ہوگیا ہے اتنے موٹے موٹے آنسو کہاں سے آگئے"ایہاب نے نرمی سے اسکے آنسو صاف کرتے ہوے کہا

"ابھی صرف نکاح ہورہا ہے تمہارا جانہیں رہی ہو ابھی بھی ہمارے سروں پر بیٹھ کر ہمارا دماغ کھاتی رہو گی" اسکے بولنے پر ماہیم نے اسکے سینے پر مکا مارا

"رو کیوں رہی ہو ماہیم مانا کہ تمہیں ایک شیر کے ساتھ باندھ رہے ہیں لیکن تم بھی کسی شیرنی سے کم تھوڑی ہو"اسکے کہنے پر ماہیم کے چہرے پر بےساختہ مسکراہٹ پھیل گئی

"ساحر بھائی بہت اچھے ہیں ماہیم ہاں بس تھوڑے سے کھڑوس ٹائپ ہیں لیکن مجھے امید ہے تمہارا پورا خیال رکھیں گے"

"لیکن اگر کبھی غلطی سے بھی کچھ بھی کہہ دیں تو سیدھا مجھ سے آکر کہنا بھلے ان سے ڈرتا ہوں تو کیا ہوا اپنی بہن کے لیے تو پھر بھی کھڑا ہوجاؤں گا کیونکہ بھائی بڑے ہوں یا چھوٹے بہنوں کا مان ہوتے ہیں اور تمہارا یہ مان ہمیشہ برقرار رہے گا"اسنے ماہیم کے ماتھے پر اپنے لب رکھے

اسنے اپنا بھیگا چہرہ صاف کیا

"اچھا اب تم مجھے کتاب لادو"

"کتاب تو پھر بھی لاکر نہیں دوں گا اپنے سائیں سے ہی منگوانا" تیزی سے کہتے ہوے وہ باہر بھاگ گیا

"ایہاب" چلاتی ہوئی وہ باہر بھاگی لیکن تب تک وہ جاچکا تھا گیٹ تو ایہاب نے کہہ کر گارڈ سے پہلے ہی کھلوادیا تھا اسلیے بھاگنے میں اسے زیادہ ٹائم نہیں لگا

"آجاؤ بیٹا تم کتاب تو تم سے ہی منگواؤں گی" بڑبڑاتے ہوے وہ واپس اندر چلی گئی

لیکن سب سے پہلا کام اب اسے یہی کرنا تھا کہ ہمیشہ کی طرح عینہ سے ایہاب کی شکایت لگانی تھی اور اسکے بعد وصی کو بھی ساری بات بتانی تھی

شروع شروع میں وہ جب بھی وصی اور عینہ سے اسکی شکایت لگاتی تھی تو وہ کچھ دنوں تک اسکے کام کردیتا تھا

لیکن پھر اپنی اسی لائن پر آجاتا اسی طرح ڈانٹ سن سن کر وہ ڈھیٹ ہوچکا تھا اپنے موڈ وصی اور ساحر کی ڈانٹ کے علاؤہ وہ کم ہی کسی کے کام کرتا تھا

°°°°°

پوری کلاس اپنا ٹیسٹ کررہی تھی جبکہ وہ پین لبوں میں دباے ساحر کی حرکت سوچ رہا تھا

اسے حیرت ہوئی تھی کہ محبت میں کوئی اپنی جان بھی لے سکتا ہے آج تک اسے یہ باتیں صرف فلمی لگتی تھیں لیکن اپنے بھائی کی حرکت دیکھ کر جیسے اسے یقین آگیا تھا کہ ایسا حقیقت میں بھی ہوتا ہے

"اگر مجھے بھی محبت ہوگئی تو کیا میں بھی ساحر کی طرح پاگل ہوجاؤں گا" اپنے بھائی کے لیے پاگل لفظ استعمال کرنا اسے اچھا تو نہیں لگ رہا تھا لیکن اس وقت ساحر کے لیے اس سے اچھا لفظ بھی نہیں مل رہا تھا

اسنے خود ہی سوچ کر اپنے زہہن کو جھٹکا جب نظر اپنے ٹیسٹ میں مصروف عزہ پر پڑی جو ہمیشہ کی طرح سادی سی بیٹھی ہوئی تھی

اس پوری کلاس میں اسنے کوئی ایسی لڑکی نہیں دیکھی تھی جو اپنے آپ کو سنوار کر نہیں آتی تھی یہاں تک کے اسکی دوست میشال بھی کبھی بالوں کو کرل تو کبھی آئن کرکے آتی تھی ایک وہی تھی جو ہمیشہ ایسے ہی لاپرواہ سے حولیے میں رہتی تھی

"اف ماہر تم کب سے لڑکیوں پر اتنا ریسرچ کرنے لگ گئے" اسنے خود کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور اپنا دھیان دوبارہ اسٹوڈنٹس کی طرف لگا دیا

°°°°°

°°°°°

"اسلام وعلیکم"اسنے کچن میں ناشتہ بناتی پری اور کسوا کو سلام کیا اسے دیکھ کر ان دونوں نے مسکراتے ہوے جواب دیا

"تم اتنی جلدی اٹھ گئیں حیات" کسوا نے انڈہ پھینٹتے ہوے کہا

"جی میں جلدی ہی اٹھ جاتی ہوں امی کے بعد بابا کے سارے کام مجھے ہی کرنے ہوتے تھے تو اسی وجہ سے مجھے جلدی اٹھنے کی عادت ہوگئی ہے میں کچھ کام کروا دوں"

"نہیں تم بتاؤ اگر کچھ کھانا ہے تو میں تمہارے لیے بھی بنا دیتی ہوں کچھ بھی کھانا ہو بلا جھجک کہہ دیا کرو"

"نہیں آپ جو بنا رہی ہیں میں وہی کھالوں گی لیکن مجھے بھی کچھ ہلکیپ کرنے دیں میں ویسے بھی سارا دن ایسے ہی بیٹھی رہتی ہوں"

"اچھا تم کوفی بنادو شاہ میر کا ناشتہ کوفی پیے بنا مکمل نہیں ہوتا ہے جتنی چاے سے اسے چڑ ہے اتنا ہی کافی کا اسے نشہ ہے" اس بار جواب پریشے نے دیا

جس پر اپنا سر ہلا کر اسنے مگ اٹھالیا سامان سارا سامنے ہی رکھا ہوا تھا اسلیے اسے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی

"تمہاری شاہ میر سے کافی دوستی ہوگئی ہے" کسوا کے پوچھنے پر اسنے کسوا کی طرف دیکھا پہلا خیال اسے یہی آیا کہ شاید کسوا کو اسکی اور شاہ میر کی دوستی نہیں پسند

"جی میں اب بات نہیں کروں گی"

"ارے بیٹا میں منع تھوڑی کررہی ہوں بلکہ مجھے تو خوشی ہورہی ہے کہ اسے کوئی دوست مل گیا بس میرا ایک کام کردینا اسے سمجھا دینا کہ کوئی اچھی سی جوب ڈھونڈ لے یا بھائیوں کے ساتھ کام کرنے لگ جاے عصیم بچارے ہمیشہ اسکے لیے پریشان رہتے ہیں"

"جی میں ان سے کہہ دوں گی"اپنا سر ہلا کر حیات دوبارہ کام کی طرف متوجہ ہوگئی

°°°°°

"آہان کے بچے کہاں رہتے ہو تم عینہ بتارہی تھی کل سے گھر نہیں آے ہو" کال پک کرتے ہی آئرہ کی غصے سے بھری آواز اسے سنائی دی

"اماں سائیں آہان کا بچہ نہیں عالم کا بچہ ہوں میں"

"فضول باتیں بند کرو عینہ بتارہی ہے سارا دن گھر سے باہر رہتے ہو کہاں ہوتے ہو گھر میں کیا ہورہا ہے کچھ پتہ بھی ہے"

"کچھ بھی نہیں ہورہا اماں سائیں گھر میں وہی پرانی شکلیں ہیں" آہان نے لاپروائی سے شانے آچکاے

'سارا دن ہوتے کہاں ہو تم"

"دوست کے ساتھ"

"آج تک بتایا نہیں ایسا کونسا دوست بن گیا تمہارا جو اتنا عزیز ہوگیا"

"وہ ایک لڑکی ہے" اسنے ماتھے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کیا اسکی دوست ایک لڑکی تھی یہ بات پہلی بار آئرہ کو پتہ چلی تھی

"شرم نہیں آتی لڑکی دوست ہے تمہاری کبھی تمہارے بابا سائیں نے بھی کسی لڑکی سے دوستی نہیں کی" اس بار آئرہ کے لہجے میں بھی شرارت تھی

"بابا سائیں کے پاس اتنی ہوٹ منگ جو تھی انہیں بھلا کیا ضرورت تھی کسی اور لڑکی سے دوستی کی"

"بہت فضول بولنے لگ گئے ہو آہان شاہ گھر جاؤ شادی کا گھر ہے اتنی تیاریاں کرنی ہیں اور تمہارے سیر سپاٹے ہی ختم نہیں ہورہے ہیں"

"ہیں کس کی شادی ہے" یہ بات اسکے لیے کافی زیادہ حیران کن تھی گھر کے ماحول میں آج کل کچھ الگ چہل پہل تو اسے بھی محسوس ہوئی تھی لیکن شادی ہورہی ہے یہ اسے علم نہیں تھا

"ساحر کی"

"ساحر لالا کی شادی کس سے"

"ماہیم سے"

"کیا ماہیم سے" اسکی حیرانگی ختم ہونے کے بجاے مزید بڑھ چکی تھی

آئرہ اسے چند ہدایتیں دے کر فون رکھ چکی تھی جبکہ وہ اب تک شاکڈ تھا

°°°°°

موبائل پر آتی کال دیکھ کر اسنے فائل سے نظریں ہٹا کر موبائل اٹھا کر دیکھا جہاں بابا سائیں کالنگ لکھا نظر آرہا تھا

"کہاں ہو تم ساحر" عصیم نے خیر خیریت پوچھنے کے بعد کہا

"آفس میں ہوں بابا سائیں"

"اچھا مجھے تمہیں ایک بات بتانی تھی اپنا سامان اٹھا کر معتصم کے گھر میں شفٹ ہوجاؤ"

"کیوں" اسنے تعجب سے پوچھا

"کیونکہ میرے لال جس گھر میں تم رہتے ہو نہ وہاں تمہاری دلہن بھی موجود ہے اور اچھا نہیں لگے گا کہ دلہا بھی اسی گھر میں موجود ہو"

"یہ اچھا ہے بابا سائیں خود بھی تو آپ اور اماں سائیں حویلی میں ایک ساتھ رہتے تھے"

"بیٹا میری تو مجبوری تھی نہ کوئی اور ٹھکانہ نہیں تھا"

"جس ٹھکانے کا مشہورہ مجھے ابھی دے رہے ہیں اس وقت وہ ٹھکانہ آپ کے پاس بھی تھا بابا سائیں تو یہ بہانہ مجھے مت بتائیں"

"باپ سے بحث کررہے ہو بس اپنا سامان پیک کرو اور معتصم کے گھر میں شفٹ ہوجاؤ چاہو تو ماہر کو بھی اپنے ساتھ لے لو"

"ماہر کا میں کیا کروں گا ماہیم کو اپنے ساتھ لینا ہو تو بتا دیجیے"

"بےشرم انسان کچھ شرم کرلو"

"کہاں سے شرم کرلوں ہوں تو عصیم شاہ کی اولاد" اسکے کہنے پر نا چاہتے ہوے بھی عصیم ہنس پڑا

"خیر آپ کی بات مان لوں گا ابھی نکاح ہونے میں چند دن باقی ہیں جب دو دن باقی ہوں گے نہ تب آجاؤں گا حویلی"

"اتنا احسان بھی مت کرو"

"نہیں اب یہ احسان تو میں کرسکتا ہوں بابا سائیں"

تھوڑی دیر مزید بات کرکے عصیم فون رکھ چکا تھا جبکہ ساحر کا ارادہ اب اپنی جان سے بات کرنے کا تھا

°°°°°

ساحر کا نام دیکھتے ہی اسنے منہ بنا کر موبائل سائیڈ پر پھینک دیا کافی دیر تک فون بجتا رہا جسے اسنے اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی

لیکن میسیج رنگ ٹون کی آواز سن کر اسنے موبائل اٹھا کر دیکھا وہاں میسیج بھی ساحر کا تھا دھمکی بھرا

"فون اٹھا لو ورنہ میں گھر آجاؤں گا پھر تمہیں زیادہ پرابلم ہوگی"

موبائل پھر بجنے لگا گہرا سانس لے کر اسنے کال پک کرلی

"کہیے" انداز جان چھڑانے والا تھا

"ایسے بات کرتے ہیں ہونے والے شوہر سے"

"جب شوہر جائینگے تو تمیز سے بھی بات کرلوں گی"

"جب شوہر بن جاؤں گا تو تمیز میں تمہیں خود سکھادوں گا"

"ساحر بھائی آپ نے اسلیے فون کیا ہے مجھے" اسکی بات سن کر ساحر نے تپ کر جواب دیا

"مجھے بھائی مت کہنا ماہیم پہلے تم کہتی تھیں تو میں تمہیں اسلیے کچھ نہیں کہتا تھا کیونکہ اس وقت ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں تھا"

"رشتہ اب بھی نہیں ہے" ماہیم نے فورا جواب دیا

"ہاں نہیں ہے لیکن بہت جلدی ہوجاے گا اور تمہیں اندازہ نہیں ہے میں اس پل کا کتنی بےصبری سے انتظار کررہا ہوں یہ چند دن مجھے سالوں کے برابر لگ رہے ہیں" اسنے خمار آلودہ لہجے میں کہا

"لیکن بہت جلد ہی وہ دن آے گا جب تم میری بیوی بن جاؤ گی میری روح کا سکون میری محرم بن جاؤ گی شاید تب تمہیں میری محبت کا اندازہ ہوجاے"

"تمہارے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوگا جہاں میں اپنا لمس نہ چھوڑوں گا کسی جام کی طرح میں تمہاری سانسوں کو پی جاؤں گا"

"ساحر بھائی بند کریں یہ گندی گندی باتیں" چیختے ہوے اسنے کال کاٹ دی جبکہ اسکے کال کاٹتے ہی آفس روم میں ساحر کا قہقہہ گونجا

"صرف باتیں سن کر تمہاری یہ حالت ہوگئی جب میں عمل کروں گا تب کیا ہوگا" دلکش مسکراہٹ اسکے لبوں پر سج چکی تھی

°°°°°

"اسد آپا آئی تھیں" نویدہ بیگم نے چاے کا کپ اسد صاحب کے سامنے رکھتے ہوے بتایا

"اس میں کون سی نئی بات ہے وہ تو ہر ہفتے آتی ہیں"

"لیکن اس بار انکا آنے کا مقصد الگ تھا" انکے انداز پر اسد صاحب نے ٹھٹک کر اپنی بیگم کو دیکھا

"کیا مقصد تھا"

"وہ اپنے زید کے لیے عزہ کا رشتہ مانگنے آئی تھیں"

"تو تم کہہ دیتیں کہ عزہ ابھی پڑھ رہی ہے"

"میں نے کہا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ ابھی منگنی کرکے چھوڑ دیتے ہیں شادی اسکی پڑھائی کے بعد ہوجاے گی"

"آپا کا بھی دماغ خراب ہوگیا ہے میں اپنی اتنی پیاری بیٹی کو انکے بیٹے کے ساتھ بیاہ دوں جس کی پہلے ہی ایک شادی ناکام ہوچکی ہے میں خود بات کرلوں گا ان سے"

"لیکن پھر وہ ناراض ہو جائینگی پتہ تو ہے آپ کو انکا"

"ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں انکی ناراضگی کے ڈر سے میں اپنی بچی کو اس کنویں میں نہیں دھکیل سکتا" انکی بات سن کر نویدہ بیگم نے مطمئن ہوکر اپنا سر ہلایا اور چاے کا کپ اٹھا کر انکی طرف بڑھایا

°°°°°

ڈوپٹہ گردن میں ڈالے وہ تیز تیز قدموں سے چل رہی تھی ساحر ماہر اور وہ اس وقت ایک ساتھ واک پر آتے تھے لیکن اس وقت وہ دونوں باہر گئے ہوے تھے اسلیے وہ اکیلی ہی آگئی

یہ الگ بات ہے اگر کوئی اسے اس طرح اکیلے دیکھ لیتا تو بہت ڈانٹ پڑنی تھی

تیز تیز قدم اٹھاتی اب وہ واپس گھر کی طرف جارہی تھی جب نظر تھوڑے فاصلے پر کھڑے شخص پر پڑی اندھیرا ہونے کے باعث اسکا چہرہ نہیں دکھ رہا تھا اور نور کو اسے دیکھنا بھی نہیں تھا اسکی نظر تو بس سامنے سے آتی اس گاڑی پر ٹکی ہوئی تھیں جو اس شخص کی جانب ہی آرہی تھی

نور نے آواز دے کر اسے ہوش دلانا چاہا لیکن اسکے کوئی ریسپوںس نہ دینے پر خود ہی اسکے قریب بھاگ کر نور نے اسکا دھکا دیا

جس کی وجہ سے وہ خود بھی زمین پر گرچکی تھی لیکن شکر یہ تھا کہ اس شخص کو چوٹ نہیں لگی تھی

"کب سے آواز دے رہی ہوں آپ کو سنائی نہیں دے رہا" عصیرم نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑے جبکہ اسکا چہرہ دیکھتے ہی نور کو یاد آ چکا تھا کہ وہ کون تھا

"آپ تو وہی ہو نہ عصیرم خان ہم ملے بھی تھے"

"جی مجھے یاد ہے آپ کا شکریہ آپ نے میری ہیلپ کی"

"اتنے کہاں کھوے ہوے تھے کہ آپ کو نہ گاڑی دکھی نہ میری آواز آئی"

"کہیں نہیں" نفی میں سر ہلاتا ہوا وہ واپس راستے پر چلنے لگا نور نے اسکی چوڑی پشت کو دیکھا اور اسے پکارا

"میں ساتھ چل سکتی ہوں" عصیرم نے مڑ کر ایک نظر اسے دیکھا اور مسکراتے ہوے اپنا سر ہلادیا

"بابا سائیں نے مجھے آپ کے بارے میں سب بتادیا"

"اچھا کیا بتایا"

"یہی کہ انکی دوستی کیسے ہوئی پھر کیا ہوا وغیرہ وغیرہ"

"آج کے دن میرے والدین مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے میں اس دن کو کبھی بھول نہیں سکتا ہوں میں اداس تھا اور انہی سوچوں میں گم تھا اس وجہ سے کسی اور چیز پر دھیان نہیں گیا" اسکی بات سمجھ کر نور نے اپنا سر ہلایا

"یاد تو بہت آتی ہوگی"

"بہت زیادہ میرے دماغ میں انکے ساتھ بتاے گئے سارے لمحے اس طرح سے تازہ ہیں جیسے وہ پل ابھی بتاے ہوں"

"کبھی کبھی آپ زندگی سے بیزار لگتے ہیں"

"میں ہوں بےزار" ہنستے ہوے اسنے جیسے خود کا مذاق اڑایا

"مجھے اپنی زندگی نہیں پسند معتصم انکل نے کہا تھا سیاست میں مت جاؤ مجھے ڈر ہے جیسے تمہارے باپ کو کچھ ہوگیا کہیں تمہیں بھی کچھ نہ ہوجاے لیکن میں انہیں یہ نہیں کہہ سکا کہ میں تو چاہتا ہی یہی ہوں کہ مجھے کچھ ہوجاے خود کشی کرنہیں سکتا کیونکہ وہ حرام ہے لیکن اس طرح تو مر سکتا ہوں"

"میرے والدین جب مجھے چھوڑ کر گئے تب میں بہت چھوٹا تھا مجھے اپنوں کی ضرورت تھی لیکن دادا جان کے علاؤہ میرے پاس کوئی نہیں تھا وہ بھی صرف نام کے لیے ہی میرے پاس تھے انہیں ہمیشہ کام کی لگی رہتی تھی کمانے کی لگی رہتی تھی وہ مجھے کبھی بھی وقت نہیں دیتے تھے میں تنہا پلا بڑا ہوں اور مجھے تنہائی ہی پسند ہے میرے اتنے دوست بھی نہیں ہیں جو ہیں وہ صرف اپنے مطلب کے لیے ہیں"

"میں اجنبی ہوں اور آپ ایک اجنبی سے اپنی باتیں کہہ رہے ہیں" نور کے کہنے پر عصیرم نے رک کر اسکی طرف دیکھا

"جی اور مجھے امید ہے آپ یہ باتیں کسی سے نہیں کہیں گی"

"بلکل نہیں لیکن ایک اور بات کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گے"

"مجھ سے دوستی کرکے آپ کو کیا ملے گا"

"ایک اچھا دوست" عصیرم نے غور سے اس لڑکی کو دیکھا جو اپنے ڈمپل کی بھرپور نمائش کرواتی ہوئی اسکی طرف ہاتھ بڑھائے کھڑی تھی چند پل سوچ کر عصیرم نے اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا

"تھینک یو" اسنے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے ہوے کہا

"ویسے آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

"آپ کے بابا سائیں سے ملنے آیا تھا کچھ دن یہیں پر ہوں امید کرتا ہوں آپ سے دوبارہ ملاقات ہوسکے گی"

"بلکل دوستی کی ہے نبھانی تو پڑے گی"

"آپ یہاں کیا کررہی ہیں"

"واک پر آئی تھی ویسے میں سوچ رہی ہوں میں آپ کو کیا بلاؤں عصیرم سر صاحب یا پھر خان یا خان جی" اس نے تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر عصیرم کی طرف دیکھا

"جو آپ کو اچھا لگے"

"اور میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ اگلی بار جب ہم ملیں تو آپ میرے لیے آپ سے تم تک کے سفر پر پہنچ چکے ہوں"

"جی ایسا ہی ہوگا" اسنے مسکراتے ہوے جواب دیا

"میرا نام نور ہے"

"آپ مجھے بتا چکی ہیں آپ کو گھر چھوڑ دوں"

"نہیں وہ قریب ہی ہے میں چلی جاؤں گی"

"اپنا خیال رکھیے گا اللہ حافظ" مظبوط قدم اٹھاتا وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ نور اسکی کہی باتوں کو کتنی دیر تک سوچتی رہی

"نور یہاں کیا کررہی ہو" پیچھے سے آتی آواز سن کر اسنے ڈر کر پیچھے دیکھا لیکن پھر آہان کو دیکھ کر نارمل ہوگئی

"آہان لالا آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا"

ویسے تو آہان اس سے چند ماہ چھوٹا تھا لیکن سب کو لالا کہہ کر آہان کا صرف نام لینا اسے اچھا نہیں لگتا تھا اسلیے وہ بچپن سے اسے بھی لالا ہی بلاتی تھی

"تم یہاں کیا کررہی ہو"

"واک پر آئی تھی"

"وہ بھی اکیلے چلو گھر" آہان نے اپنی جیکیٹ اتار کر اسے پہنائی کیونکہ اس وقت اسنے صرف ڈوپٹہ لے رکھا تھا جبکہ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اسے لے کر گھر کی طرف چل دیا

"آپ کو پتہ ہے میں میں عصیرم خان سے ملی تھی"

"کون عصیرم خان"

"سیاستدان عصیرم خان"

"کیا واقعی"

"ہاں" اسے جواب دے کر وہ اسکے ساتھ کی ہوئی ملاقات بتانے لگی

جبکہ گھر پہچنے تک نور کی چلتی زبان رکی نہیں تھی اور آہان بڑے مزے سے اسے سن رہا تھا

°°°°°

صبح ہوتے ہی معتصم اور زریام شہر کے لیے نکل چکے تھے ویسے تو زریام کا خود اکیلے جانے کا ارادہ تھا لیکن معتصم کے کہنے پر وہ اسے بھی ساتھ لے آیا تھا اور اس وقت وہ دونوں اس گلی میں کھڑے تھے جہاں حوریب رہتی تھی

"کیا وہ یہیں رہتی ہے" معتصم نے ایک پوری نظر اس گلی پر ڈالی

جہاں سڑک میں جگہ جگہ کھڈے ہونے کے باعث کیچر جمع ہوچکی تھی بےلباس بچے گلی میں کھیل رہے تھے جگہ جگہ گند پھیلا ہوا تھا جسے دیکھ کر زریام کو شرمندگی ہورہی تھی اسے معتصم کو اپنے ساتھ نہیں لانا چاہیے تھا

"ہاں یہی ہے"

"تمہیں کیسے پتہ"

"آخری بار جب میں اس سے ملا تھا تو اسکا پیچھا کیا تھا جانتا ہوں یہ غلط حرکت تھی پر میں اسکی مدد کرنا چاہتا تھا پر ایک غلطی ہوئی مجھے آپ کو یہاں نہیں لانا چاہییے تھا" اسنے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری

"اب بس بھی کرو زریام اتنا بھی نازک نہیں ہوں جو ایسی جگہ پر آنے سے کتراؤں گا اور تم ایسے ری ایکٹ مت کرو جیسے پہلی بار کسی کی مدد کررہے ہو"

"کسی لڑکی کی تو پہلی بار ہی کررہا ہوں بڑے بابا" اسکی شکل دیکھ کر معتصم کی ہنسی چھوٹی

"خیر بتاؤ اسکا گھر کہاں ہے" اسکے کہنے پر زریام آگے بڑھ کر اسکا گھر ڈھونڈنے لگا وہاں سارے گھر ہی ایک جیسے لگ رہے تھے

بلآخر زریام کو اسکا گھر مل ہی گیا کیونکہ حوریب کا گھر ہی ایک ایسا واحد گھر تھا جہاں کے دروازے کا کلر سب سے مختلف تھا

"شاید یہی ہے"

"شاید'' معتصم نے گھور کر اسے دیکھا جس پر وہ گڑبڑا گیا

"نہیں مطلب یہی ہے"

گہرا سانس لے کر معتصم نے وہ لوہے کا دروازہ بجایا جسے کچھ سیکینڈ بعد ایک عورت نے کھولا

"عشل" اسے دیکھ کر معتصم کے لبوں سے اس ایک لفظ کے علاؤہ اور کچھ نکل ہی نہ سکا

°°°°°

"خالا جانی آپ سے کچھ بات کرنے آیا تھا" معتصم نے اپنے سامنے بیٹھی اپنی خالا کو دیکھتے ہوے کہا

"کہو بیٹا"

"میں اپنے اور عشل کے رشتے کے بارے میں بات کرنے آیا تھا"

"تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے معتصم" یہ آواز اسے پیچھے سے آئی تھی اسنے مڑ کر دیکھا وہاں عبید کھڑا تھا عشل کا بھائی

"لیکن کیوں"

"یہی بات کرنے آے ہوگے نہ کہ اب تمہاری اور عشل کی شادی ہو جانی چاہییے" وہ انکار کرنے والا تھا وہ یہ کہنے والا تھا کہ وہ اس رشتے کو ختم کرنے آیا ہے اسکی زندگی میں عشل کبھی بھی نہیں تھی لیکن اب پریشے ضرور ہے لیکن عبید کی اگلی بات سن کر جیسے وہ کچھ کہنا ہی بھول چکا تھا

"بھاگ گئی ہے وہ اپنے عاشق کے ساتھ"

"کیا بکواس کررہے ہو عبید دماغ ٹھیک ہے تمہارا" اسنے ایک نظر اپنی خالا پر ڈالی جو سر جھکائیں آنسو بہا رہی تھیں اور پھر غصے سے عبید کی طرف دیکھتے ہوے کہا

"بلکل ٹھیک ہے وہ اسے پسند کرتی تھی لیکن ہم نہیں مان رہے تھے جب تم کوما میں گئے تو اسے لگا کہ تم کبھی ہوش میں نہیں آؤ گے لیکن تمہارے ہوش میں آتے ہی اسے ڈر ہوچکا تھا کہ کہیں اب اسکی شادی تمہارے ساتھ نہ ہوجاے اسلیے ایک خط ہمارے لیے چھوڑ کر بھاگ گئی وہ رات کے اندھیرے میں"

اسکی بات سن کر وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے عشل پر غصہ ہو ناراض ہو یا افسوس کرے

"تم نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی عبید"

"ہاں بہت کی اور یقین جانو معتصم جس دن وہ ملی نہ خود اپنے ہاتھوں سے اسکا گلا دبا دوں گا"

"فلحال یہ باتیں چھوڑ دو اس کا صحیح سلامت ملنا زیادہ ضروری ہے"

"میری بلا سے اسکے ساتھ کچھ بھی ہو مجھے فرق نہیں پڑتا جب اسے ہماری عزت کا خیال نہیں ہے تو ہم کیوں اسکا خیال کریں میں بس یہ چاہتا ہوں کہ وہ ایک بار مجھے مل جاے تاکہ میں خود اسے مار سکوں"

وہ غصے سے کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا جبکہ معتصم اب وہاں بیٹھی عورت کو دیکھ رہا تھا جو ہچکیوں سمیت رو رہی تھی

"خالا جانی آپ سمجھائیے گا عبید کو عشل مل بھی جاے تو اسکے ساتھ کچھ غلط نہ کرے ایک غلطی اسنے کی ہے دوسری وہ نہ کردے"معتصم نے انکے سامنے بیٹھ کر کہا

"میں کچھ نہیں کرسکتی معتصم اسکے لیے جتنا لڑ سکتی تھی لڑی اس سے زیادہ مجھ میں ہمت نہیں ہے جن ماں باپ کی بیٹیاں اس طرح انہیں رسوا کرتی ہیں وہ ماں باپ کچھ کہنے کے لائق نہیں رہتے"

انکے آنسو صاف کرکے معتصم انہیں انکے کمرے میں لے کر چلا گیا اور انہیں پانی پلا کر بیڈ پر لٹا دیا جب تک وہ سو نہیں گئیں تب تک وہ وہیں بیٹھا رہا تھا

°°°°°

انکے گھر سے آنے کے بعد بھی وہ انہی سوچوں میں گم رہا تھا وہ جانتا تھا کہ عشل اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی لیکن وہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھاے گی یہ اسے نہیں پتہ تھا

گھر میں اسکی شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں وہ خوش تھا بےحد خوش لیکن ساتھ میں وہ عشل کو بھی ڈھونڈ رہا تھا

اور بہت جلد اسے یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ وہ کہاں تھی وہ اسکے گھر پر نہیں گیا تھا بس اسکا فون نمبر حاصل کرکے اس سے بات کی تھی

جس میں اس نے یہی بتایا کہ وہ بہت خوش ہے

اسکے علاؤہ اسکے گھر میں کام کرتی ملازمہ کو پیسے دے کر معتصم نے چند دن تک اسکی خبر معلوم کی تھی ملازمہ نے بھی اسکی ساری روٹین بتادی جس سے اسے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنے گھر میں خوش ہے سب سے بڑھ کر اسکا شوہر اسکا بہت خیال رکھتا تھا

معتصم نے یہ بات صرف اپنی خالا جانی کو بتائی تھی کہ انکی بیٹی کہاں ہے کیسی ہے تاکہ بیٹی کی فکر میں جو وہ ہر وقت غم زدہ رہتی تھی تو ٹھیک ہو جائیں

لیکن اسکے بھائیوں کو اسنے کچھ نہیں بتایا تھا نہ ہی اسکا ایسا کوئی ارادہ تھا

معتصم جانتا تھا کہ اگر وہ مل جاتی تو اسکے بھائی اسے جان سے مار دیتے تو پھر انہیں بتا کر کیا کرنا ہے وہ اپنی زندگی میں خوش تھی تو وہ بھی مطمئن ہوچکا تھا

°°°°°

"ماہیم دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا" اس وقت عینہ ایہاب اور ماہیم لاؤنج میں بیٹھے ہوے تھے جب آہان نے دور سے چلاتے ہوے ماہیم کو مخاطب کیا اور اپنی لائی ہوئی چیزیں اسکے قریب رکھ دی

ماہیم نے ان چیزوں کو دیکھا وہ فروٹس اور کھانے پینے کی مختلف چیزیں تھیں

"یہ کیوں لاے ہو آہان"

"ارے تمہاری ساحر لالا سے شادی ہورہی ہے یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے یہ تو تحفہ ہے تمہارے لیے اور مجھے فخر ہے تم پر آخر ساحر لالا کے ساتھ رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے لیکن تم یہ کام کرنے والی ہو"

"بس کرو پہلے ہی اتنی مشکل سے میں نے اسکا دھیان بٹایا تھا تم پھر اسے وہیں لے کر جارہے ہو" ایہاب نے آہان کا رکھا سامان اٹھایا اور خود کھانے لگا

"بس کرو تم دونوں" ان دونوں کی باتیں سن کر وہ عینہ کو ہی انہیں ٹوکنا پڑا

"اتنا پیارا بچہ ہے میرا ہر وقت اسکے پیچھے پڑے رہتے ہو کچھ کہتا بھی نہیں ہے وہ"

"بلکل عینہ آنٹی وہ نہیں کہتے کچھ انہیں کہنے کی کیا ضرورت گھورتے ہی ایسے ہیں بندے کی بولتی بند ہوجاے"

"ہاں میں نے تو ماہیم کو بیسٹ آف لک کا کارڈ بھی دے دیا ہے"

"بہت اچھا کیا" آہان نے اسے شاباشی دی

"منہ بند کرو تم دونوں اور یہ وہ میرے لیے لایا ہے دو واپس خود تو میرا کام نہیں کرتے ہو میری چیزیں لینے بیٹھ جاتے ہو" ماہیم نے اسکے ہاتھ سے وہ سامان کھینچا اور جو سیب وہ وہاں بیٹھا کھارہا تھا وہ بھی لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی

"ماما ماہیم میرا سیب لے گئی"

"مجھے تو اس پر بہت غصہ آرہا ہے تمہیں آدھا سیب بھی کیسے کھانے دیا" عینہ کے کہنے پر اسنے آہان کی طرف دیکھا

"میرے لیے کچھ نہیں لاے آہان میں بھی تمہارا چھوٹا بھائی ہوں"

"جس دن تمہیں یہ یاد رہے گا نہ ایہاب کہ میں تمہارا بڑا بھائی ہوں اس دن تمہارے لیے بھی کچھ لے آؤں گا" اسکے کہے پر وہ منہ بنا کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا

°°°°°

"تم یہاں کیا کررہی ہو"

عشل نے ان دونوں کو اندر بلا کر وہاں موجود چارپائی پر بٹھایا

کافی دیر خاموشی رہی جسے معتصم کی آواز نے توڑا جبکہ زریام حیرت سے اپنے بڑے بابا کو دیکھ رہا تھا وہ سامنے کھڑی اس عورت کو جانتا تھا اس کا اندازہ تو اسے ہو چکا تھا لیکن کیسے جانتا تھا

"تمہیں اندازہ بھی ہے خالا جانی تمہارے لیے کتنی پریشان رہتی تھیں" اسکے کچھ نہ کہنے پر معتصم نے پھر سے کہا

"کوئی بھی بات کہہ کر میرے پچھتاوے کو مزید مت بڑھانا معتصم"

عشل کی نظر زریام پر پڑی گھنی داڑھی مونچھوں والا وہ خوبرو مرد اپنی نظریں جھکائے بیٹھا تھا کمیز شلوار اور کندھوں پر مردانہ شال ڈالے وہ دوسرا عالم شاہ لگ رہا تھا

"کیا یہ عالم شاہ کا بیٹا ہے"

"ہاں"

"ماشاءاللہ بہت پیارا ہے بلکل انکی طرح ہے"

زریام نے نظریں اٹھا کر اس عورت کو دیکھا

سانولی رنگت اور جھریاں زدہ چہرہ نم آنکھیں اور جگہ جگہ سے پیوند لگے پرانے کپڑے

"تم یہاں کیا کررہی ہو تم تو اپنے شوہر کے ساتھ تھیں نہ اور تم تو بہت خوش تھیں"

"ہاں میں بہت خوش تھی لیکن صرف اپنے شوہر کی وجہ سے میرے سسرال والوں نے مجھے کبھی قبول نہیں کیا تھا وہ مجھے صرف امتیاز کی وجہ سے برداشت کرتے تھے وہ مجھ سے کبھی خوش ہی نہیں ہوے جب بھی نہیں جب میں نے ایک بیٹا پیدا کیا میں امیتاز سے انکی شکایت کرتی جس پر وہ کہہ دیتا کہ ایک گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو ہر کوئی نہیں اپناتا اسکی یہ بات ہمیشہ میرا دل دکھاتی لیکن میں کچھ نہیں کہتی کیونکہ وہ ٹھیک کہتا تھا"

"مجھے تو صرف اپنے شوہر کی محبت چاہیے تھی جس کی وجہ سے میں وہاں سے بھاگ کر آئی تھی اور وہ مجھے مل رہی تھی لیکن پھر زندگی بدل گئی شادی کے بارہ سال بعد جب میں دوبارہ ماں بننے والی تھی تب روڈ ایکسیڈینٹ میں امتیاز ہمیں چھوڑ چلے گئے"

"میں بہت زیادہ ٹوٹ چکی تھی مجھے کسی اپنے کی ضرورت تھی لیکن میرا کوئی اپنا نہیں تھا پھر میری بیٹی پیدا ہوئی اور میری بیٹی کا سنتے ہی میرے سسرال والے مجھے اپنے گھر سے نکال چکے تھے انہیں اس چند گھنٹوں کی بچی کا خیال بھی نہیں تھا یہی سوچ لیتے کہ میں انکے بیٹے کی بیوی تھی انہوں نے میرا بیٹا بھی مجھ سے چھین لیا یہ کہہ کر کہ وہ انکے بیٹے کی نشانی ہے اور وہ انکے ساتھ رہے گا"

اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا

"میں اپنی اولاد کے لیے لڑ بھی نہیں سکی کیونکہ میرے پاس کوئی طاقت کوئی اپنا نہیں تھا میں نے بہت سوچا کہ اپنے گھر چلی جاؤں لیکن جانتی تھی میرے وہ بھائی غیرت کے نام پر مجھے مار دیتے میں مر بھی جاتی لیکن اس وقت میں اکیلی نہیں تھی میرے ساتھ میری بیٹی تھی ایک ننھی جان"

"کاش تم کچھ دن صبر کرلیتیں میں خود اس رشتے کو ختم کرنے والا تھا تم کہتیں تو میں تمہاری شادی وہاں کروادیتا جہاں تم چاہتی تھیں" اسکے خاموش ہوتے ہی معتصم نے کہا

"معتصم پرانی باتیں مت کرو اب کچھ بدل نہیں سکتا"

"میں تمہیں تمہارے گھر لے کر نہیں جاسکتا ہوں لیکن تم میرے گھر تو چل سکتی ہو اپنا ضروری سامان لے لو تم ابھی ہمارے ساتھ حویلی چل رہی ہو" اپنی جگہ سے اٹھ کر اسنے جیسے حتمی فیصلہ سنایا

"معتصم"

کوئی بحث نہیں تمہارے بارے میں سب کچھ جان چکا ہوں میں تمہاری بیماری کے بارے میں اور یہ بھی کہ تمہاری بیٹی کیا کام کرتی ہے" اسکی بات سنتے ہی عشل نے شرمندگی سے اپنا سر جھکایا

"تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے عشل حویلی چلو وہاں سب تمہارے اپنے ہیں وہاں تمہاری بیٹی بھی محفوظ رہے گی اور تمہارا بھی اچھے سے علاج ہوجاے گا"

"تم یہاں تک کیسے آے معتصم" عشل کے کہنے پر اسنے زریام کی طرف دیکھا

"بعد میں بتاؤں گا تمہاری بیٹی کہاں ہے کیا نام ہے اسکا"

"حوریب"زریام کے لبوں سے بےساختہ پھسلا یہ پہلا لفظ تھا جو اسنے وہاں پر کہاں تھا

جبکہ اسکے کہنے پر عشل نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی

لوہے کا دروازہ کھلا اور بھورے رنگ کے ڈھیلے سے کمیز شلوار میں ملبوس وہ لڑکی اندر داخل ہوئی معتصم نے غور سے اسے دیکھا

اس لڑکی کے چہرے اور کپڑوں پر جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی جیسے وہ کہیں گری ہو اسکے بال بھی ایسے لگ رہے جیسے اسنے کتنے دن سے سر نہیں دھویا ہو لیکن معتصم نے یہ ماننے میں دیر نہیں کی تھی کہ وہ لڑکی واقعی میں خوبصورت تھی ایسی حالت میں بھی وہ بےحد پیاری لگ رہی رھی

"لڑکی تو ماشاءاللہ بہت پیاری ہے زریام" اسنے زریام کے کان میں سرگوشی کی بدلے میں اسنے بھی معتصم کے کان میں کہا

"جب زبان کھولے گی تب پتہ چلے گا کتنی پیاری ہے"

معتصم نے سوالیہ نظروں سے عشل کی جانب دیکھا

"کیا یہ تمہاری بیٹی ہے"

"ہاں"

"یہ لوگ کون ہیں اماں"کمیز کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ معتصم کو اوپر سے نیچے تک دیکھ رہی تھی جب نگاہ اسکے پیچھے کھڑے زریام پر پڑی

"آوے تو یہاں کیا کررہا ہے اپن کو نہیں چاہیے تیری مدد شرافت سے چلا جا" اسنے زریام کی طرف انگلی کرتے ہوے کہا

"اب بتائیں بڑے بابا کتنی پیاری ہے" زریام نے ہلکے سے اسکے کان میں سرگوشی کی جس پر معتصم نے گھور کر اسے دیکھا

"حوریب تمیز سے بات کرو یہ میرے رشتے دار ہیں" عشل کی بات پر حوریب نے قہقہہ لگایا جیسے عشل نے کوئی لطیفہ سنایا ہو جبکہ زریام بس غور سے اسے دیکھ رہا تھا وہ ہنستے ہوے اور زیادہ پیاری لگ رہی تھی

°°°°°

°°°°°

عشل کی گھوری پر بھی اسکی ہنسی نہیں رک رہی تھی جبکہ اسے مسلسل ہنستے دیکھ کر عشل کو معتصم اور زریام کے سامنے بے حد شرمندگی ہورہی تھی

"حوریب ہنسنا بند کرو"

"اماں تو مذاق کیوں کر رہی ہے ہمارا کونسا رشتے دار آگیا ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے سارے رشتے ہیں تو اپن کی اور اپن تیری"

"تمہاری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے میں عشل کی خالا کا بیٹا ہوں تمہارا ماموں جو تم دونوں کو یہاں سے لینے آیا ہے" معتصم نے نرم لہجے میں اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا

"اپن کا کوئی ماموں نہیں ہے اور اگر تو ہے بھی تو اپن کو کوئی ماموں نہیں چاہیے" اسکے بات کرنے کا لہجہ ایسا ہی تھا لیکن آج سے پہلے اسکے اس انداز پر عشل کو اتنی زیادہ شرمندگی نہیں ہوئی تھی

اپنے بھائیوں کے ڈر سے وہ اس کونے میں آگئی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا اسکے بھائی اسے ہر جگہ ڈھونڈیں گے لیکن وہ کسی ایسی جگہ پر ہوگی یہ وہ تصور بھی نہیں کرتے ہوں گے

پہلے وہ خود ہی نوکری کرتی تھی برقع اوڑھ کر جاتی اور اگر کوئی جاننے والا مل جاتا تو اس نوکری کو چھوڑ دیتی

لیکن جب سے اسکی طبیعت خراب ہوئی تھی تب سے حوریب نے اسے گھر میں ہی بٹھادیا تھا وہ اسے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھی گھر میں جو کچھ بھی آتا تھا وہ اسکی چوری سے آتا تھا

عشل کو اسکا یہ کام پسند نہیں تھا لیکن اب اس میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ کوئی کام کرتی لیکن حوریب کو اس کام سے روکنا وہ اپنا فرض سمجھتی تھی

عشل اسکے سامنے اسی طرح بات کرتی تھی جس طرح وہ اپنے گھر میں کرتی تھی لیکن حوریب بچپن سے زیادہ تر باہر ہی رہی تھی وہ گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلتی تھی اسلیے جو انکی زبان تھی وہی وہ بھی سیکھتی چلی گئی

"لڑکی تمیز سے بات کرو" اپنے لیے تو اسنے حوریب کا یہ لہجہ برداشت کرلیا تھا لیکن معتصم کے لیے اسکا وہی انداز زریام کو غصہ دلا رہا تھا

"اپن کے گھر میں کھڑے ہوکر اپن کو ہی تمیز سکھا رہا ہے"

"حوریب بات سنو میری معتصم ہمیں یہاں سے لے جانے کے لیے آیا ہے اور ہم یہاں سے جارہے ہیں"

اسے تو ویسے بھی ایک سہارے کی ضرورت تھی جو معتصم کی صورت میں اسے مل رہا تھا تو وہ کیوں پیچھے ہٹتی

اسے اپنی کوئی پرواہ نہیں تھی پرواہ تھی تو اپنی بیٹی کی اسے پتہ تھا کہ اسکے پاس زیادہ وقت نہیں بچا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ہوں گے لیکن اسکے جانے کے بعد اسکی بیٹی تو بے آسرا نہیں رہے گی انکے پاس تو کوئی ایسا شخص ہوگا نہ جو اسکا خیال رکھنے والا ہوگا

اسے پتہ تھا شاہ حویلی میں اسکی بیٹی کا بہت خیال رکھا جاے گا وہاں تو ملازموں کی تکلیف پر بھی مرحم رکھا جاتا تھا یہ تو پھر انکی اپنی تھی

"اماں تو پاگل ہوگئی ہے اپن کہیں نہیں جارہی ہے اور تو نکال ان لوگوں کو یہاں سے"

اسکے کہنے پر عشل نے اسکے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے

"مان جاؤ حوریب میری خاطر" اسنے بےبسی سے اپنی ماں کو دیکھا

ایک اسکی ماں ہی تو تھی جو اسکی کمزوری اسکی محبت تھی جس کے خاطر وہ کچھ بھی کرسکتی تھی

"کیا کرنا ہے اپن کو"

"تم دونوں میرے ساتھ حویلی چلو گی میں تمہاری ماں کا علاج بھی کرواؤں گا اور میرا وعدہ ہے تم سے وہاں تم دونوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی"

معتصم کے کہنے پر اسنے منہ بنا کر اپنی ماں کو دیکھا

"چل لیتے ہیں دیکھ لینگے تیرے یہ رشتے دار کتنے دن اپنے گھر میں رکھتے ہیں"

اسکی بات ان سنی کیے معتصم نے زریام کی طرف دیکھا

"اسے گاڑی کے پاس لے کر جاؤ زریام" زریام نے گہرا سانس لے کر اپنے بڑے بابا کی طرف دیکھا

وہ تو بس حوریب کی مدد کرنا چاہتا تھا یہ تھوڑی کہا تھا کہ اس تحفے کو اٹھا کر گھر ہی لے چلو

"زریام لے کر جاؤ" اسکے دوبارہ کہنے پر زریام اس گھر سے باہر نکل گیا جبکہ اسکے نکلتے ہی حوریب بھی اپنی کمیز کی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہوئی باہر نکل گئی

"اپنا ضروری سامان لے لو عشل" حوریب کے باہر نکلتے ہی اسنے عشل کی طرف دیکھتے ہوے کہا

°°°°°

تیز تیز قدم اٹھاتی وہ زریام کے ساتھ چل رہی تھی گاڑی کے قریب پہنچ کر زریام نے اپنے لیے فرنٹ ڈور کھولا

جبکہ حوریب بیک ڈور کھولنے کی کوشش کررہی تھی

"کیا کباڑ ہے" اسنے غصے سے اس گاڑی کو گھورا جب تیز کلون کی خوشبو اسکی ناک سے ٹکرائی

اسنے ہلکا سا چہرہ موڑ کر دیکھا اسکے پیچھے زریام کھڑا تھا

"میں کھول دوں" اسکے کہنے پر وہ اس سے دو قدم دور ہوئی جس کے بعد زریام نے بیک ڈور کھولا اور اسکے بیٹھے پر دوبارہ بند کردیا

اور خود آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا

تھوڑی دیر بعد معتصم اور عشل بھی وہاں آچکے تھے

"اماں دیکھ تو کتنی نرم جگہ ہے" عشل کے بیٹھتے ہی حوریب نے کہا

اسکا اشارہ کار کی سیٹ کی طرف تھا جس پر وہ بیٹھی ہوئی تھی

"چپ کرو" عشل نے اسے گھورتے ہوے کہا حوریب پہلی بار کسی گاڑی میں بیٹھی تھی اسلیے اشتیاق سے ہر طرف سے جائزہ لے رہی تھی

"آوے اس میں اے سی بھی ہے" اسنے آگے کو ہوکر پہلے معتصم اور پھر زریام کو دیکھا اور اپنا ہاتھ اے سی کے سامنے کردیا ٹھنڈی ہوائیں اسکے ہاتھ کو چھونے لگیں جبکہ اسے ایسا کرتے دیکھ عشل نے اسے پیچھے کی طرف کھینچا

جس پر منہ بناتی ہوئی وہ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اے سی کیا ہوتا ہے یہ اسے پتہ تھا کیونکہ اسکی ماں نے اسے بتایا تھا اور مختلف جگہوں پر اس چیز کو دیکھ کر اسے معلوم تھا یہ کیا ہوتا ہے اسکی ماں نے اسے بتائی تو بہت ساری چیزیں تھیں لیکن یاد اسے صرف کچھ چیزیں ہی تھیں

کچھ دیر وہ خاموشی سے بیٹھی رہی لیکن پھر دوبارہ آگے ہوکر معتصم کی طرف دیکھا

"ماموں اس میں گانے بجتے ہیں" اسکے اچانک قریب آنے سے معتصم ایک لمحے کے لیے گھبرایا تھا لیکن پھر نارمل ہوکر اپنا سر ہاں میں ہلادیا

"حوریب پیچھے ہوکر بیٹھو" عشل نے اسے پھر سے پیچھے کیا

''کیا اماں اس نے ہی تو بولا تھا کہ ماموں ہے تو ماموں ہی بولوں گی نہ"

"ہاں بلکل تم مجھے ماموں بلانا اور اس میں گانے ہیں میں لگا دیتا ہوں" معتصم نے پلئیر آن کردیا

یہ گاڑی زریام کی تھی تو گانے بھی اسی کی پسند کے تھے اسے انگش سونگ پسند تھے اور وہ وہی سنتا تھا تو اس وقت بھی گاڑی میں انگلش سونگ ہی چل رہا تھا

"You are the light"

"You are the night"

"You are the color of my blood"

"You are the cure you are the pain"

"ہیں یہ کیا ہے" اسنے عجیب سا منہ بنایا

"یہ ایک انگلش سونگ ہے اور میری گاڑی میں تمہیں ایسے ہی سونگز ملیں گے" زریام نے پلئیر آف کردیا

"یہ بھی بھلا کوئی گانا ہوتا ہے"

"اچھا تو تمہیں کون سے گانے پسند ہیں" معتصم نے دلچسپی سے پوچھا

"مچھلی پلا کھلاؤں تجھے سندھ دریا کے کنارے" حوریب نے اپنا پسندیدہ گانا باقاعدہ گاتے ہوے کہا جس پر مسکراتے ہوے معتصم نے اپنا سر نفی میں ہلادیا

°°°°°

اپنے موبائل پر عالم کی کال دیکھ کر اسنے فورا پک کرکے تمیز سے سلام کیا

"اسلام وعلیکم بابا سائیں"

"وعلیکم اسلام بیٹا سائیں کہاں غائب رہتے ہو تم آج کل"

"کہیں نہیں بابا سائیں بس پڑھائی میں ہی لگا رہتا ہوں"

"اچھا عینہ نے تمہاری ماں کو بتایا کہ تم سارا سارا دن گھر سے غائب رہتے ہو"

'نہیں نہیں بابا سائیں وہ دراصل میں دوست کے گھر پر جاتا ہوں وہ بھی پڑھائی کی وجہ سے" اسنے جلدی سے وضاحت دی

یہ سچ تھا کہ جتنی محبت وہ عالم سے کرتا تھا تو اس سے ڈرتا بھی اتنا ہی تھا

"اچھا حویلی کب آرہے ہو تمہارے لالا کا نکاح ہونے والا ہے آکر تیاری کرواو" وہ اسے یہ نہیں کہہ سکا کہ لالا تو خود یہاں پر بیٹھیں ہیں

کیونکہ ایسا کہنے پر عالم اسے بدتمیزی قرار دے کر آدھے گھنٹے کا لیکچر دیتا رہتا

"بس دو تین دن میں آجاؤں گا"

چند ایک مزید بات کرکے عالم فون رکھ چکا تھا جس پر آہان نے گہرا سانس لیا

°°°°°

"حیات بی بی کیا ہورہا ہے" اسکی چٹیا کھینچ کر شاہ میر اسکے سامنے بیٹھ گیا جو پتہ نہیں کن سوچوں میں گم تھی

انکے گھر کے ماحول میں وہ کافی جلدی ایڈجسٹ کرچکی تھی بڑوں میں تو اسکی سب سے ملاقات ہوچکی تھی

لڑکوں میں اسکی ملاقات صرف زریام اور شاہ میر سے ہوئی تھی جبکہ لڑکیوں میں اسکی ملاقات صرف شہر میں ماہیم سے ہی ہوپائی تھی

"معتصم انکل نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آگے ایڈمیشن لے لوں" اسنے اپنی پریشانی ظاہر کی

"تم نے کتنا پڑھا ہوا ہے"

"انٹر" اسکے کہنے پر شاہ میر نے افسوس کا اظہار کیا

"بس انٹر ہی کیا ہوا ہے کچھ شرم کرلو لڑکی تم سے زیادہ پڑھا لکھا تو میں ہوں" اسکے تاثرات بدلے اور پھر اسنے اپنی ہی بات کی نفی کی

"نہیں بلکہ صحیح ہے کیا کرنا ہے تمہیں مزید بڑھ کر پھر بھی پڑھنا چاہو تو پڑھ لو تمہاری مرضی"

حیات نے اسے کان قریب لانے کا اشارہ کیا اور پھر ارد گرد دیکھ کر اس بات کی تسلی کی کہ یہاں ان دونوں کے علاؤہ کوئی اور نہیں یے

"مجھے پڑھنے کا بلکل شوق نہیں ہے انٹر بھی میں نے بہت مشکلوں سے کیا تھا لیکن یہ بات انکل کو بتاتے ہوے مجھے شرم آرہی ہے" اسکے کہنے پر شاہ میر نے قہقہہ لگایا

"مجھے بھی پڑھنے کا شوق نہیں ہے لیکن میں بہت فخر سے یہ بات سب کو بتاتا ہوں لیکن تمہیں شرم آرہی ہے تو میں ان سے کہہ دوں گا" وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگا جبکہ اسکے کہنے پر حیات نے بےچینی پوچھا

"کیا کہیں گے"

"یہی کہ تمہیں پڑھائی نہیں کرنی تمہیں شادی کرنی ہے" اسنے شرارت سے کہا

"آپ ایسا کچھ نہیں کہیں گے"

"میں کہوں گا"

"شاہ میر آپ ایسا کچھ نہیں کہیں گے" اسنے معصومیت سے شاہ میر کی طرف دیکھا

"ایسے پیار سے بولو گی تو کوئی نہیں کہے گا لیکن میں پھر بھی کہوں گا" اپنی بات مکمل کرکے وہ وہاں سے بھاگ چکا تھا جبکہ اسے یہ بات بتاکر وہ اب پچھتا رہی تھی کہ کہیں وہ سچ میں معتصم سے یہ بات نہ کہہ دے

°°°°°

اسنے کھانا بناتی آئرہ کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیا جو اس وقت کچن میں اکیلی تھی

"عالم چھوڑیں میں کام کررہی ہوں" آئرہ نے غصے سے اسے پیچھے کیا لیکن اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے پھر سے اپنی طرف کھینچ چکا تھا

"زریام کہاں ہے"

"معتصم لالا کے ساتھ گیا ہوا ہے پتہ نہیں کہاں اب چھوڑیں میں کھانا بنارہی ہوں جگہ بھی دیکھ لیا کریں ہر جگہ شروع ہوجاتے ہیں" آئرہ نے اسے خفگی سے دیکھتے ہوے کہا جبکہ اسکی خفگی کو نظر انداز کرکے عالم نے اسکے گال پر اپنے لب رکھ دیے

"عالم" آئرہ نے اسے گھور کر دیکھا جس پر اسنے مسکراتے ہوے اسکے دوسرے گال پر اپنے لب رکھ دیے

"سب کے سب یہ حرکتیں کرکے میرا دل جلاتے رہتے ہو" شاہ میر کی آواز سنتے ہی اسنے جلدی سے آئرہ کو چھوڑا

دروازے پر کھڑا وہ اداسی سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا

"کیا چاہیے شاہ میر عصیم گھر میں نہیں ہے جو یہاں پر آگئے ہو" اسے گھورتے ہوے عالم کچن سے باہر نکل چکا تھا جبکہ اسکے نکلتے ہی شاہ میر بھی اسکے پیچھے آنے لگا

"مجھے شادی کرنی ہے ماموں لیکن بابا سائیں کہتے ہیں کہ جب تک کوئی کام دھندا نہیں کرو گے تب تک تمہاری شادی نہیں کروں گا"

"کیا کرو گے شادی کرکے شادی کرنا مطلب ٹینشن پالنا ہوتا ہے"

"اچھا خود نے تو لڈو کھا لیے ہمیں کہہ رہے ہیں مت کھاؤ" اسکے کہنے پر عالم نے تنگ آکر کہا

"جا جاکر کھالے جو کھانا ہے بس میرا دماغ مت کھا"

"تو کس کا کھاؤں"

"اپنے باپ کا کھالے"

"وہ گھر پر نہیں ہیں"

"تو ماں کا کھالے"

"بقول آپ کے میری ماں کے پاس دماغ ہی نہیں ہے" شاہ میر نے اسکی کہی ہوئی بات دہرائی

"غلط تھوڑی کہتا ہوں" عالم کے کہنے پر شاہ میر نے بھی اپنا سر اثبات میں ہلادیا

"بلکل یہ بات تو آپ ٹھیک کہتے ہیں"

ری ملاقات میں عصیرم نے اسے اس جگہ کا ایڈریس بتایا تھا جہاں وہ رہ رہا تھا لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اٹھ کر ہی وہاں پر آجاے گی

وہ خود باہر جارہا تھا جب وہ دور سے ہی اسے نظر آگئی کندھے پر اپنا یونی بیگ ڈالے وہ اسے دیکھتے ہی بھاگتے ہوے اسے قریب آئی

اسے یہاں دیکھ کر عصیرم کو بےحد حیرانی ہوئی تھی وہ باہر جانے والا تھا اور یہ تو اچھا تھا وہ اسکے جانے سے پہلے آگئی تھی ورنہ اگر بعد میں آتی یا وہ اندر ہوتا تو گارڈ اسے یہیں سے بھگا دیتا اور یہ خود اسکا اپنا آرڈر تھا

اسے لے کر وہ اندر چلا گیا لیکن غصہ اس پر بےحد آیا تھا جو یہاں پر آگئی تھی

"آپ یہاں کیا کررہی ہیں" اسے اندر لاکر عصیرم نے پہلی بات یہی کہی

"تم"اسنے تم پر زور دے کر جیسے اسے اپنی بات یاد دلانی چاہی جو عصیرم کو آ بھی چکی تھی

"تم یہاں کیا کررہی ہو"

"میں آپ سے ملنے آئی تھی"

"اندازہ ہے تمہیں اگر کوئی تمہیں یہاں دیکھ لے گا تو کتنی بڑی مصیبت ہوجاے گی"

"تو آپ کہہ دینا کہ میں آپ کی دوست ہوں"

"اور جیسے لوگ میرا یقین کرینگے"

"اف میں یونی سے آئی ہوں کسی کو بتایا بھی نہیں ہے مجھے جلدی واپس جانا ہے سوچا آپ سے مل لوں اتنی مشکلوں سے میں یہاں پہنچی ہوں اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ میں اکیلی اس جگہ پر گئی ہوں تو ڈانٹ الگ پڑے گی اوپر سے آپ بھی مجھے ڈانٹ رہے ہیں بجاے اس کے مجھے کچھ کھلایا پلایا جاے مہمان کی مہمان نوازی کی جاے" وہ پھر سے ایک ہی سانس میں بولنا شروع ہوچکی تھی

"میں کوئی مہمان نوازی نہیں کرسکتا تم ابھی یہاں سے جاؤ گی اور آج کے بعد تم یہاں کبھی نہیں آؤ گی میرے لیے تو مسلہ بنے گا لیکن اسے سے زیادہ تمہارے لیے بن جاے گا" اسنے جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کی

وہ ایک سیاستدان تھا اسکی ایک ایک خبر پھیل جاتی تھی اور اگر نور کو یہاں کوئی دیکھ لیتا تو اس سے زیادہ مسلہ اس لڑکی کے لیے بننا تھا

"ویسے آپ یہاں کیوں رہتے ہیں مجھے تو لگا تھا آپ کسی بڑے سے گھر میں رہتے ہوں گے" اسنے عصیرم کی بات جیسے سنی ہی نہیں تھی

"مجھے چھوٹے گھر پسند ہیں"

"اچھا مجھے تو بڑے گھر پسند ہیں" اسنے اپنے ہاتھوں کو لمبا کرکے بتایا جبکہ اسکے انداز پر وہ مسکرا اٹھا

"اب مجھے جلدی سے کچھ کھلادیں تاکہ مہمان نوازی بھی ہوجاے اور میں چلی بھی جاؤں مجھے پانچ منٹ میں نکلنا ہے میں نے ڈرائیور انکل کو دور کھڑا کیا تھا تاکہ انہیں پتہ نہ چلے کہ میں آپ سے ملنے آئی تھی میں نے ان سے کہا تھا دوست کے گھر جارہی ہوں اس سے کچھ ضروری کام ہے پتہ ہے میں نے اتنی مشکلوں سے بہانہ سوچا کیونکہ پھر وہ میری ہر تفصیل بابا سائیں کو بتاتے ہیں"

خود ہی باتیں کرتی ہوئی وہ صوفے پر بیٹھ گئی جس پر وہ فقط اپنا نفی میں سرہلا کر رہ گیا

اسکی باتیں عصیرم کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا سبب بن رہی تھیں

جبکہ لبوں کے ساتھ ساتھ عصیرم خان کی نیلی آنکھیں بھی مسکرا اٹھیں

°°°°°

گاڑی میں عشل کی طبیعت کافی خراب ہوچکی تھی جس کی وجہ سے وہ اسے ہاسپٹل لے کر گئے اور اسی وجہ سے انہیں آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی

حویلی میں داخل ہوتے ہی سب انہیں لاؤنج میں ہی بیٹھے مل گئے تھے سواے سب بڑوں اور حیات وہ اپنے کمرے میں تھے چونکہ معتصم ان سب کو یہاں آنے سے پہلے ہی ساری تفصیل بتاچکا تھا اسلیے معتصم اور زریام کے ساتھ دو نئے چہرے دیکھ کر انہیں حیرانی نہیں ہوئی تھی

"پری برا تو نہیں مناؤ گی" اسکے برابر والے صوفے پر بیٹھے عالم نے آگے ہوکر شرگوشیانہ انداز میں کہا جس پر پریشے نے اچھنبے سے اسے دیکھا

"میں کیوں برا مانو گی"

"کیونکہ معتصم کے ساتھ کھڑی بی بی انکی سابقہ منگیتر ہیں" اسنے جیسے اسکی نولیج میں اضافہ کیا

"جب وہ منگیتر تھی جب معتصم نے انہیں چھوڑ دیا تو اب بھلا مجھے کیا ٹینشن ہوگی ویسے بھی اب آپ سب بوڑھے ہوچکے ہو ایسا کوئی چانس بنتا بھی نہیں ہے" اسے جواب دے کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر عشل سے ملنے کے لیے کھڑی ہوگئی

جب اسنے اپنے برابر بیٹھی آئرہ سے کہا

"فضول میں ہمیں بوڑھا کہہ گئی پتہ ہے اس دن بھی میں باہر گیا تھا تو تمہیں یاد کرکے میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور کھیتوں میں کھڑی ایک لڑکی نے مجھے دیکھ لیا اور میرے ڈمپل پر دل ہار بیٹھی"

"تو کس نے کہا تھا سڑک پر کھڑے مسکراتے پھریں"

"میں تو تمہیں یاد کرکے مسکرا رہا تھا"

وہ تو اسے یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ لڑکیاں آج بھی اس پہ فدا ہیں جبکہ آئرہ نے اس بات میں سے بھی اپنی ہی بات نکالی جبکہ بقول عالم کے اسے کہنا چاہیے تھا ہاں عالم آپ آج بھی بہت ہینڈسم ہیں

"کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے گھر سے باہر یاد کرنے کی اب اگر مجھے یاد بھی کرنا ہو تو صرف گھر میں کریے گا" اسے حکم دے کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی

جبکہ عالم بس منہ بسور کر رہ گیا جب اسے کسی کی ہنسی سنائی دی

اسنے چہرہ موڑ کر دیکھا تھوڑے فاصلے پر شاہ میر کھڑا تھا اور اپنی پوری بتیسی کی نمائش کررہا تھا

"بچارے شوہر کی کوئی عزت ہی نہیں ہے میں بتاؤں گا کہ شوہر کیسے بنتے ہیں"

"اچھا بتا دینا"

"پہلے شادی تو کرواو" اسکی بات پر عالم گہرا سانس لے کر رہ گیا ہر بات میں وہ اپنا ہی مطلب نکالتا تھا

°°°°°

"اماں اتنا بڑا گھر ہے اپن لوگ یہاں رہیں گے" اسنے پوری حویلی کو دیکھتے ہوے پوچھا ایسا نہیں تھا اسنے کبھی بڑے گھر نہیں دیکھے تھے دیکھے تھے لیکن صرف باہر سے

عشل نے اسکی بات کا جواب نہیں دیا تھا

وہاں بیٹھے سب گھر والے اب ان سے مل رہے تھے بچوں کے علاؤہ بڑوں میں آئرہ اور پریشے اس سے پہلی بار مل رہی تھیں انہوں نے آج تک صرف اسکا ذکر سنا تھا

"زریام لالا کہاں سے ملا یہ پٹاخہ" شاہ میر نے زریام کے کان کے قریب آکر سرگوشی کی جس پر زریام نے گھورتے ہوے اسکے سر پر زور دار تھپڑ مارا

"جب دیکھو فالتو کی بات کرتا ہے"

"چھوٹے ہونے کا نقصان ہے ہر کوئی بےعزتی کرتا رہتا ہے" اسنے منہ بسور کر اپنا ہمیشہ والا جملا دہرایا

"چھوٹے ہونے کا نہیں نکمے ہونے کا نقصان ہے" زریام نے اسے اصل بات بتائی جس پر اسنے اپنا منہ بگاڑ کر چہرہ پھیر لیا لیکن تب ہی نظر اپنی اماں سائیں پر گئی

جو عشل سے اس طرح سے گلے مل رہی تھی جیسے محبت کرنے والی بچھڑی بہنیں اب جاکر مل رہی ہوں

"پری انہیں گیسٹ روم میں چھوڑ آؤ" معتصم کے کہنے پر وہ اپنا سرہلاتی ان دونوں ماں بیٹی کو لے کر چلی گئی

اکثر یہاں پر کسی نہ کسی کے مہمان آتے رہتے تھے اور جو دور سے آتے تھے وہ رات یہیں گزارتے تھے اسلیے انکے لیے وہ کمرے ہمیشہ صاف کرواکر رکھتی تھی جو اب ان دونوں کے کام آنا تھا

°°°°°

عشل اور حوریب کو انکا کھانا کمرے میں ہی دے دیا تھا معتصم نے کہا تھا کہ انہیں کوئی ڈسٹرب مت کرنا آرام کرنے دو اسلیے وہ کھانے کے برتن لینے بھی نہیں گئی تھی

کسوا آئرہ اور پریشے نے کھانا باقی سب کے ساتھ کھالیا تھا جبکہ عصیم اور عالم نے اسکے انتظار میں نہیں کھایا تھا وہ تینوں کھانا زیادہ تر ساتھ ہی کھاتے تھے

اس وقت بھی ڈائیننگ ٹیبل پر وہ پانچ افراد بیٹھے ہوے تھے جن میں سے وہ تینوں باتیں کررہے تھے شاہ میر کھانے سے زیادہ انکی باتوں سننے میں مصروف تھا اور زریام خاموشی سے کھانا کھارہا تھا

"تم کیا کرو گے معتصم اس کے گھر والوں کو بتادو گے اسکے بارے میں" عالم کے کہنے پر اسکے ہاتھ رکے

"نہیں عالم میں انہیں نہیں بتاؤں گا میں نے عشل سے کہا تھا کہ وہ یہیں رہے گی جہاں وہ اور اسکی بیٹی محفوظ ہیں اور اسی لیے اسنے یہاں آنے کی ہامی بھری تھی وہ اپنے گھر نہیں جانا چاہتی ہے"

"وہ ٹھیک ہے معتصم لیکن پھر بھی ایک بار سوچو تو وہ اسکے سگے بھائی ہیں زیادہ سے زیادہ غصہ کرینگے لیکن پھر معاف کردیں گے ویسے بھی یہ بات بہت پرانی ہوچکی یے" عصیم نے اپنی راے دی

"جب تک عشل نہیں چاہے گی میں انہیں کچھ نہیں بتاؤں گا اور میرا نہیں خیال وہ ایسا چاہے گی وہ اسے ماریں گے نہیں لیکن زندگی بھی جینے نہیں دیں گے چاہے بات پرانی ہو لیکن وہ لوگ بھولے نہیں ہیں اگر یہاں وہ بہتر محسوس کررہی ہے تو اسے یہاں رکھنے میں کیا مسلہ ہے اتنی بڑی حویلی میں ہم دو افراد کی جگہ تو آرام سے نکال سکتے ہیں"

"ارے واہ نئی انٹرٹینمنٹ آگئی ہے" انکے خاموش ہوتے ہی شاہ میر نے جوش سے کہا جس پر عصیم نے گھور کر اسے دیکھا

"خبردار شاہ میر جو تم نے اس لڑکی کو تنگ کیا ہر کوئی حیات کی طرح نہیں ہوتی جو تمہاری فضول حرکتیں برداشت کرے اس لڑکی سے تو پچاس قدم کے فاصلے پر رہنا"

"ارے بابا سائیں دیکھیں تو وہ لڑکی کتنی پیاری تھی میری شادی تو اس سے ہی کروادیں"

"شاہ میر پہلے اس سے ملو بات کرو پھر بتانا شادی کرنی ہے یا نہیں" زریام نے اپنا مفت مشہورہ دیا

جسے ان تینوں کی تو نہیں البتہ معتصم کی سمجھ میں ضرور آگیا تھا جب ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی

°°°°°

کمرے میں موجود بک شیلف میں سے اسنے کتاب نکالی یہ اسکی عادت تھی کتاب پڑھے بغیر اسے نیند نہیں آتی تھی

تب ہی نظر شیلف کے برابر بنی کھڑکی سے نیچے لان میں کھڑے شخص پر گئی

وہ حوریب تھی لیکن مختلف حولیے میں اسنے حیات کا سوٹ پہنا ہوا تھا لائٹ بلیو کلر کا سوٹ پہنے وہ لان میں کھڑی وہاں کا حصہ ہی لگ رہی تھی

اسکے بال کھلے ہوے تھے اسکا نکھرا نکھرا وجود دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی نہا کر آئی ہے

زریام نے پہلی بار اسکے کھلے بال دیکھے تھے وہ اتنے گھنے نہیں تھے لیکن بےحد پیارے تھے کافی سلکی بلکل ایسے ہی جیسے اسکی ماں کے بال ہیں

کتاب واپس رکھ کر وہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر نیچے لان میں چلا گیا اس وقت وہ عام سے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھا جو اسکا نائٹ سوٹ تھا

"کہتے ہیں رات کے پہر وہ بھی کھلے بالوں سمیت ایسی جگہ پر نہیں آتے جن عاشق ہوجاتے ہیں" زریام نے اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر کہا وہ اس وقت ایک پھول پر جھکی اس کی خوشبو سونگھ رہی تھی یقینا اسے وہ خوشبو اچھی لگ رہی تھی یا پھر پھول اچھا لگ رہا تھا

اسکی آواز سن کر حوریب نے مڑ کر دیکھا چھوٹی سی ناک سرخ گال اور سرخ لب سمجھ نہیں آتا تھا کہ اسے خوبصورت کہا جاتا یا بےحد خوبصورت یا حسین یا پھر بےحد حسین

"اور ایسی خوبصورتی پر تو جن عاشق ہی ہو سکتا ہے" یہ الفاظ بےاختیار اسکے لبوں سے نکلے تھے جس پر وہ خود ہی شرمندہ ہوگیا لیکن اس بار اسکی آواز کم تھی جسے شکر تھا اسنے نہیں سنا

"کیا بڑبڑ کررہا ہے" اسکے کہنے پر زریام نے افسوس سے اپنا سر نفی میں ہلایا

اگر وہ خاموش رہے تو کتنی اچھی لگے گی

"یہاں کیا کررہی ہو تم"

"پھول دیکھ رہی تھی تیرے کو کیا ہے"

"حوریب اندر جاؤ جو دیکھنا ہے صبح دیکھ لینا ابھی رات ہورہی ہے"

"کیوں جاے اپن ماموں نے بولا تھا یہ تمہارا گھر ہے جو مرضی کرنا اور تو ابھی سے اپن پر پابندی لگا رہا ہے" حوریب نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا

جس پر زریام پر سوچ کر رہ گیا کہ اس لڑکی کا دماغ یہ سب کیسے سوچ لیتا ہے

"اپنی امی کے پاس جاؤ تمہیں انہیں اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا پتہ ہے نہ گاڑی میں بھی انکی طبیعت کتنی خراب ہوگئی تھی"

"سیدھے بول تو نہیں چاہتا اپن تیرے باغیچے میں گھسے نہیں گھسنا اپن کو تو رکھ اپنا باغیچہ" غصے سے کہتی ہوئی وہ وہاں سے جاچکی تھی جبکہ اسکی باتوں کو سوچ کر وہ کتنی دیر تک وہیں کھڑا مسکراتا رہا

وہ عجیب تھی بے حد عجیب یا شاید الگ تھی سب سے الگ اس میں کوئی بناوٹ نہیں تھی اور یہی بات تو زریام شاہ کو حوریب امتیاز کی طرف کھینچتی تھی

°°°°

"ہاں بھئی اسد تو کیا خیال ہے تمہارا یقینا تمہاری بیوی نے تم سے بات تو کرہی لی ہوگی" اپنا بھاری بھرکم وجود لے کر وہ صوفے پر بیٹھتے ہی اسد صاحب سے گویا ہوئیں

"آپا زید ہمارا اپنا بچہ ہے لیکن اسکا اور عزہ کا کوئی جوڑ نہیں ہے" انہوں نے تحمل سے سامنے بیٹھی رضوانہ آپا سے کہا جو انکا جواب سنتے ہی بھڑک اٹھیں

"کیوں جوڑ نہیں ہے صاف صاف کہو نہ کہ تم یہ رشتہ نہیں جوڑنا چاہتے"

"جی بلکل مجھے یہ رشتہ نہیں جوڑنا زید کیسا ہے یہ آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی اسکی پہلی شادی ناکام ہوچکی ہے کماتا وہ کچھ یے نہیں بس باپ کی پینشن کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے"

"میاں میں یہاں تم سے اپنے بیٹے کی تعریفیں سننے نہیں آئی ہوں میں تو اسلیے آگئی تھی گھر کی بچی گھر میں ہی رہ جاے گی میرے اپنے بھائی کی بیٹی ہے بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے" انہوں نے ہاتھ نچاتے ہوے چلا کر کہا

"مت کریں بھلائی آپا مہربانی ہوگی آپ کی"

نہیں کرتی بتاؤ بھلا کیا کمی ہے میرے بچے میں بس یہی نہ کے کماتا نہیں ہے وہ بھی کوشش تو کرتا ہے نہ لیکن تمہیں رشتہ نہیں کرنا تو مت کرو ڈھونڈتے رہنا غیروں میں رشتے اور جب بیٹی کا نصیب پھوٹے تو میرے پاس آنسو بہانے مت آنا" غصے سے کہتی ہوئی وہ صوفے سے اٹھیں

"اللہ نہ کرے آپا کیسی باتیں کررہی ہیں" اسد صاحب نے اپنے لہجے کو دھیما رکھ کر کہا جبکہ انکی بات سن کر غصہ تو بہت آیا تھا

"ہاں بھئی اب ہماری باتیں بھی بری ہی لگیں گی بس نہیں آوں گی میں یہاں کبھی" اسد صاحب اور نویدہ بیگم کے روکنے کے باجود بھی وہ وہاں سے جاچکی تھیں

جبکہ اپنے کمرے میں موجود یہ سارا تماشہ سنتی اور دیکھتی عزہ منہ بنا کر بیڈ پر لیٹ گئی

"اللہ تعالیٰ پلیز پھوپھو اس بار اپنی بات پر قائم رہیں" آنکھیں بند کرکے وہ دل میں اللہ سے مخاطب ہوئی

اسکی اکلوتی پھوپھو بلکل ڈراموں والی پھوپھو کی طرح تھیں جو ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر روٹھ جاتی تھیں اور گھر دوبارہ نہ آنے کی دھمکی دے کر اپنا بھاری بھرکم وجود سمیٹ کر چلی جاتی تھیں لیکن پھر کچھ دنوں بعد دوبارہ یہیں موجود ہوتی تھیں

°°°°°

ناشتے کرتے زریام کی نظر سامنے سے آتی حوریب پر پڑی جس نے رات والا سوٹ ہی پہنا ہوا تھا البتہ بالوں کو اب جوڑے کی شکل میں باندھا ہوا تھا

"آجاؤ حوریب بیٹھو" اسکے قریب آتے ہی معتصم نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا

کرسی کھینچ کر وہ زریام کے سامنے والی جگہ پر بیٹھ گئی جبکہ نظریں ٹیبل پر رکھے الگ الگ قسم کے ناشتے پر تھیں شاید زندگی میں اسکا یہ پہلا ناشتہ تھا جہاں اسے ایک ہی وقت میں اتنی چیزیں مل رہی تھیں

"حوریب کیا کھاؤ گی" آئرہ نے اسکی پلیٹ دیکھ کر پوچھا جو ابھی تک خالی پڑی تھی

"کچھ بھی" اسنے منمناتے ہوے کہا جبکہ زریام اپنا ناشتہ کرتا ہاتھ روک کر اسے دیکھ رہا تھا اسکے سامنے تو بڑا چلا چلا کر اپن اپن کرتی تھی اور اب تو جیسے آواز ہی غائب ہوگئی تھی شاید یہ نئے ماحول کا اثر تھا جو اسکے لیے بلکل نیا تھا

حیات یہاں آرام سے ایڈجسٹ ہوگئی تھی لیکن اسکے لیے ایڈجسٹ ہونا کافی مشکل رہے گا اور یہ بات سب ہی جانتے تھے اسلیے جتنا ہوسکے اسے اتنا آرام دہ ماحول دینے کی کوشش کررہے تھے

زریام مسکراتے ہوے اسے دیکھ رہا تھا جو اب سامنے رکھے ناشتے سے بھرپور انصاف کررہی تھی جبکہ اپنا ناشتہ کرتا معتصم گہری نظروں سے زریام کو دیکھ رہا تھا

°°°°°

"آج تو تم بڑی خوش لگ رہی ہو" اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی میشال کی آواز اسکے کانوں میں پڑی جسے سن کر چہرے پر موجود مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی

"پھوپھو ناراض ہوگئی ہیں اب دو تین ہفتوں تک گھر نہیں آئیں گی" اسنے اپنی خوشی اسکے ساتھ شئیر کی

"بری بات عزہ وہ پھوپھو ہیں تمہاری تم ہمیشہ انکے کے ایسا کیوں کہتی ہو"

"تم تو جیسے میری پھوپو کو جانتی ہی نہیں ہو"

"خیر اب انہوں نے کیا کردیا"

"اپنے بیٹے زید کا رشتہ لے کر آئی تھیں وہ میرے لیے"

"ہیں اس زید کا" اسکا منہ پورا کھل چکا تھا اپنی پھوپھو اور انکے گھر کے ہر فرد کی عزہ نے اسے پوری تفصیل بتائی ہوئی تھی اسلیے وہ بخوبی جانتی تھی زید کیسا ہے

"ہاں بابا جانی نے انکار کردیا اسلیے وہ ناراض ہوکر چلی گئیں"

"ویسے عزہ تم اپنی پھوپھو سے پوچھو نہ وہ کیا کھاتی ہیں اپنا تھوڑا سا موٹاپا ہی تمہیں دے دیں قسم سے تمہیں دیکھ کر لگتا ہے انکل آنٹی تمہیں کچھ کھلاتے ہی نہیں ہیں" میشال کے کہنے پر اسنے زور سے اسکے بازو پر مکا رسید کیا جس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا

°°°°°

"آہان تم اسے تو روز اسکے گھر چھوڑتے ہو مجھے آج پہلی بار چھوڑ رہے ہو اس میں بھی اتنی باتیں سنارہے ہو" ثنا نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے آہان اور شانزے کو گھورتے ہوے کہا

شانزے کو اکثر وہی گھر چھوڑتا تھا جبکہ ثنا کا ڈرائیور اسے لینے آتا تھا جو آج نہیں آیا تھا اسلیے اسنے آہان کو گھر چھوڑنے کا کہہ دیا جس میں پہلے تو اسنے باتیں سنائیں اور پھر جاکر راضی ہوا

"اب ایسی بات بھی نہیں ہے ثنا یہ مجھے روز گھر نہیں چھوڑتا ہے" شانزے نے اسکی غلطی درست کری

"ہاں روز نہیں چھوڑتا بس ہفتے میں چار دن چھوڑتا ہوں چھٹی کے دن نکال دو تو باقی دن شانزے خود جاتی ہے" آہان کے کہنے پر ثنا کی ہنسی چھوٹی

"ہاں تو تم اپنی خوشی سے لے کر جاتے ہو میں تمہیں تھوڑی کہتی ہوں" اسنے منہ بگاڑ کر کہا

"تو میں نے کب انکار کیا اب اپنا موڈ خراب مت کرنا ویسے بھی میں آج گاؤں چلا جاؤں گا تو چند دنوں تک ملاقات بھی نہیں ہوگی اسلیے ابھی میرے ساتھ جتنا ٹائم گزارنا ہے گزار لو"

"تم گاؤں کیوں جارہے ہو آہان" یہ سوال ثنا نے پوچھا تھا جس کا جواب شانزے نے دیا

"کیونکہ آہان کے بھائی کا نکاح ہونے والا ہے اور اس شخص نے ہمیں انوائیٹ بھی نہیں کیا"

"بھائی کی شادی میں آکر کیا کروگی میری شادی میں آنا"

"ہاں تمہاری شادی میں تو ہفتے بھر پہلے ہی تمہاری حویلی آجاؤں گی اور خوب ڈانس بھی کروں گی" اسکی بات سن کر وہ فقط مسکرا کر رہ گیا

°°°°°

"دیکھیں عصیرم خان ویسے تو میرا آپ سے بات کرنے کا بلکل دل نہیں چاہ رہا ہے لیکن مجبوری ہے کیونکہ میں آپ سے دوستی کرچکی ہوں جو مجھے نبھانی تو پڑے گی نہ"

اس وقت وہ فون کان سے لگاے عصیرم سے بات کررہی تھی اسکا فون نمبر بھی وہ جب ہی لائی تھی جب انکی آخری ملاقات ہوئی تھی

"میں نے کیا کردیا ہے"

"میں آپ کے گھر آئی تھی اور آپ نے مجھے صرف ایک گلاس پانی ایک گلاس جوس پلا کر گھر بھجوادیا ایسا کوئی کرتا ہے اپنے مہمان کے ساتھ"

"جیسے تم تو سمجھیں ہی نہیں تھیں میں نے تمہیں کیوں بھیجا"اسکی بات وہ سمجھ گئی تھی اسلیے اس بات پر بحث اسے فضول لگی

"خیر چھوڑیں اس بات کو آپ کو پتہ ہے میں نے اپنی کلاس میں سب کو بتایا کہ میں آپ سے ملی تھی لیکن کسی نے میرا یقین نہیں کیا اگلی بار جب ہم ملینگے نہ تو میں آپ کے ساتھ پکچر کلک کروں گی تاکہ ان سب کو دکھا سکوں"

"اور انہیں دکھا کر تم کیا کرو گی"

"ارے بھئی انہیں بھی تو پتہ چلنا چاہیے نہ کہ میں عصیرم خان سے ملی ہوں لیکن ابھی تو فلحال تو میں جارہی ہوں گاؤں"

"اچھا"

"پوچھیں نہ کیوں جارہی ہوں" اسکے پاس سے کوئی رسپانس نہ پاکر اسنے خود ہی کہہ دیا جس پر مسکراتے ہوے اسنے پوچھ لیا

"کیوں جارہی ہو" وہ جانتا تھا کہ وہ کیوں جارہی ہے اسکے بھائی کا نکاح تھا جس کا انویٹیشن بھی اسے معتصم کی طرف سے مل چکا تھا

"کیونکہ ساحر لالا کا نکاح ہے ماہیم کے ساتھ ماہیم نہ ہماری کزن ہے اور بہت پیاری ہے اسلیے میں گاؤں جارہی ہوں اور آپ کو بھی انوائیٹ کررہی ہوں آپ کو آنا ہے" اسنے حکم دینے والے انداز میں کہا

"بلکل تم نے انوائیٹ کیا ہے اب تو آنا ہی پڑے گا"

"یہ ہوئی نہ بات اچھا میں اب فون رکھ رہی ہوں آپ نے مجھے باتوں میں لگادیا اتنا کام رہتا ہے میرا" وہ فون رکھ چکی تھی لیکن عصیرم کتنی دیر تک اس فون کو اپنے ہاتھ میں پکڑے دیکھتا رہا

تو اسکی تنہا زندگی میں بھی کوئی آگیا تھا ایک دوست جو اس سے ناراض ہوتا شکوہ کرتا اسکی پرواہ کرتا

عصیرم نور کے لیے کیا تھا اسے نہیں پتہ تھا لیکن عصیرم خان نور شاہ کا نام ان سب میں ڈال چکا تھا جو اسکے لیے خاص تھے کیونکہ اب وہ بھی اسکے لیے خاص ہوچکی تھی

°°°°°

"اپنی نظروں کو زرا لگام ڈالو زریام شاہ" معتصم کے جملے پر زریام نے حیرت سے اسے دیکھا

اس وقت وہ دونوں نماز پڑھ کر واپس حویلی کی طرف جارہے تھے جب معتصم کے جملے نے اسکے قدم روکے

"کیا مطلب بڑے بابا"

"مطلب صاف ہے جس طرح تم حوریب کو گھور رہے تھے اگر کوئی اور دیکھ لیتا تو کیا مطلب نکالتا"

"میں گھور تو نہیں رہا تھا"سر کھجا کر اسنے منمناتے ہوے کہا

"اچھا تو تمہاری نظر میں اسے کیا کہتے ہیں"

"میں تو ایسے ہی بس دیکھ رہا تھا"

"پسند کرتے ہو تم اسے" چند پل رک کر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا

"اچھا مجھے غلط فہمی ہوئی ہوگی عشل چاہتی ہے جلد سے جلد حوریب کے لیے کوئی رشتہ دیکھ کر اسکی شادی کردی جاے بھلے یہیں گاؤں میں ہو اگر تمہاری نظر میں کوئی اچھا لڑکا ہو تو مجھے بتانا ویسے بھی اتنی پیاری ہے حوریب میرا نہیں خیال کوئی اسکے لیے انکار کرے گا" اسنے اپنی مسکراہٹ ضبط کرکے کہا لیکن زریام کے فیس ایکسپریشن دیکھ کر لگ رہا تھا یہ کام وہ زیادہ دیر تک کر نہیں سکے گا اسلیے تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھ گیا

جبکہ زریام تو بس وہاں کھڑا اسکی کہی باتیں سوچ رہا تھا کیا واقعی میں حوریب کے لیے رشتہ آجاے گا اور پھر اسکی شادی بھی ہوجاے گی

معتصم کو اندازہ نہیں تھا وہ اسے کس کیفیت میں مبتلا کرچکا تھا

°°°°°

آج اسکا دن ضرور سے زیادہ اچھا چلا گیا تھا مسکراتے ہوے اسنے اپنے کمرے میں قدم رکھا اور وہاں موجود ساحر کو دیکھ کر اسکی مسکراہٹ غائب ہوگئی

اب پتہ چلا کیوں اچھا گزرا صبح سے ساحر بھائی کی شکل جو نہیں دیکھی تھی

سوچتے ہوے وہ جلدی سے وہاں سے جانے لگی جب ساحر نے تیزی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کھینچا اور دروازہ بند کردیا

"میں کب سے تمہارا انتظار کررہا ہوں"

"کیوں کررہے تھے" اسنے ساحر کے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑانی چاہی جو اسکی جہدوجہد دیکھ کر وہ چھوڑ چکا تھا

لیکن اسکے چھوڑنے پر وہ بھاگی نہیں تھی کیونکہ ساحر شاہ سے دور وہ نہیں بھاگ سکتی تھی وہ ہمیشہ اسے پکڑ لیتا تھا

"گاؤں جارہا ہوں میں آج"

"اچھی بات م-میرا مطلب مجھے پتہ ہے" اسنے اپنی بے اختیاری پر خود کو کوسا

"جتنا بھاگنا تھا اتنا بھاگ چکی ہو تم اب تم مجھ سے دور نہیں جاسکتی ہو ماہیم بہت جلد تم مکمل طور پر صرف میری ہوجاؤ گی" چند انچ کا فاصلہ مٹا کر وہ اسکے مزید قریب ہوا

"ساحر بھائی دور رہ کر بات کریں" ماہیم دوبارہ اس سے چند قدم کے دور ہوئی لیکن اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے دوبارہ اپنے قریب کھینچ چکا تھا

"خود کو مظبوط کرلو میری شدتیں سہنا آسان نہیں ہوگا" اسنے ماہیم کے کان میں سرگوشی کی جبکہ اسکی سر گوشی پر وہ کانپ کر رہ گئی

ساحر نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور گہری نظروں سے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر وہاں سے چلا گیا

°°°°

°°°°°

حویلی کے اندر قدم رکھتے ہی اسکی پہلی نظر لان میں کھڑی حوریب پر پڑی جو کرسی کے اوپر اسٹول رکھ کر درخت سے پھل توڑنے کی کوشش کررہی تھی

"کیا ہورہا ہے" اسنے حوریب کے قریب جاکر کہا جبکہ وہ جو اپنے کام میں مگن کھڑی تھی آواز سن کر مڑی جس کے باعث اسٹول انبیلنس ہوا لیکن اس سے پہلے وہ زمیں پر گرتی زریام اسے اپنے مظبوط بازوؤں کی قید میں لے چکا تھا

"شکریہ تو نے اپن کو گرنے سے بچالیا" اسنے شکر بھرا سانس لیا

زریام نے اسکے سفید پاؤں سبز گھاس پر رکھتے ہوے گہری نظروں سے اسے دیکھا

"کوشش کروں گا تمہیں کبھی گرنے نہیں دوں کیا کررہی تھیں"

"اپن کو امرود کھانا تھا بس وہی توڑ رہی تھی"

"تو اتنی اونچائی پر جانے کی کیا ضرورت تھی نیچے والا اتار لیتیں"

"نہیں نہ وہ جو اوپر لٹک رہا ہے نہ" اسنے اوپر کی طرف موجود امرود پر اشارہ کیا

"وہ زیادہ پکا ہوا ہے اپن کو وہی کھانا ہے"

زریام نے کرسی پر سے اسٹول اتارا اور خود اس کرسی پر چڑھ کر وہ امرود ٹور کر اسے دے دیا اسکے دیتے ہی وہ وہیں بیٹھ گئی اور عادت کے مطابق اسے اپنی کمیز سے صاف کرنے لگی

"یہ کیا کررہی ہو اندر جاؤ اسے دھو کاٹو پھر کھاؤ"

"اپن کو ایسے ہی عادت ہے" شانے اچکا کر اسنے دانتوں سے امرود توڑا جبکہ اسکی اس حرکت پر وہ اپنا سر نفی میں ہلاکر اندر چلا گیا

°°°°°

"آپ یہاں پر بیٹھے ہیں اور میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں" آہان نے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر کہا جبکہ اسکی آواز سن کر عفان شاہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی مبشرہ بیگم کی فریم شدہ تصویر سائیڈ پر رکھ دی

"آجاؤ بچے تم کب آے"

"جب آپ میری نانی سائیں کی یادوں میں گم بیٹھے تھے" کمرے کے اندر داخل ہوکر وہ ان کے پاس آکر بیٹھ گیا

"ارے نہیں بس گھر میں خوشی کا موقع ہے نہ تو اسلیے اسکی یاد آگئی مبشرہ ہوتی تو کتنا خوش ہوتی"

"آپ کو اس طرح دیکھ کر تو وہ بلکل خوش نہیں ہوتیں نانا سائیں انہیں تکلیف ہوتی"

جب مبشرہ بیگم کا انتقال ہوا تب آہان چند سال کا تھا انکے انتقال کے بعد عفان شاہ جیسے ٹوٹ چکے تھے گھر والوں سے الگ وہ بس اپنے کمرے میں بند رہتے تھے

ایسے میں آئرہ آہان کو انہی کے پاس چھوڑ دیتی تھی کیونکہ اسکے ہونے سے وہ اپنے غم سے نکل آتے تھے آہان کا بچپن سب سے زیادہ انہی کے ساتھ گزرا تھا اسی لیے وہ سب سے زیادہ انہی کے نزدیک تھا

"تمہیں پتہ ہے آہان ہماری لو میریج ہوئی تھی"

"جی میں جانتا ہوں اماں سائیں نے بتایا تھا اور اب آپ ساری باتیں چھوڑ کر میرے ساتھ نیچے چل رہے ہیں ارے شادی والا گھر ہے سب مل کر رونق لگاتے ہیں ویسے بھی اماں سائیں بتا رہی تھیں آپ نے کھانا نہیں کھایا ہے میں نے بھی نہیں کھایا ہے دونوں مل کر کھاتے ہیں"انکا ہاتھ پکڑ کر وہ انہیں کمرے سے باہر لے کر چلا گیا

°°°°°

"زریام اب کہہ بھی دو پچھلے پندرہ منٹ سے ہمیں یہاں بیٹھا کر رکھا ہوا ہے" آئرہ نے تنگ آکر کہا

جبکہ عالم خاموشی سے سامنے بیٹھے زریام کا جائزہ لے رہا تھا جو ان سے کچھ کہنے کے لیے یہاں بیٹھا ہوا تھا لیکن جس بات پر وہ غور کررہا تھا وہ یہ تھی کہ وہ نروس ہورہا تھا اور ان سے بات کرتے وقت وہ اتنا نروس کبھی نہیں ہوا تھا

"وہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں"

"بیٹا سائیں اس سے آگے بھی کچھ کہہ دو"

"میں شادی کرنا چاہتا ہوں" بالآخر اسنے کہہ ہی دیا جہاں اسکے پتے ہی ان دونوں کے چہروں پر حیرانی کے ساتھ خوشی بھی امڈ آئی

"اچھا کوئی لڑکی ہے تمہاری نظر میں" آئرہ نے دلچسپی سے پوچھا

آج سے پہلے جب جب بھی آئرہ نے اس سے اس ٹاپک پر بات کی تھی وہ ہمیشہ ہی ٹال دیتا تھا لیکن آج وہ خود یہ بات کہہ رہا تھا

"جی حوریب ہے" اسکی بات سن کر خاموش نظروں سے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا

"کوئی مسلہ ہے" انکی خاموشی دیکھ کر اسنے خود ہی پوچھ لیا

"حوریب کا خیال تمہارے دماغ میں کیسے آیا"

"اماں سائیں آپ مجھے اپنی بات بتائیں کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے"

"اگر میں کہوں ہے تو پھر"

"کیا آپ یہ اسلیے کہہ رہی ہیں کیونکہ وہ ہم جیسی نہیں ہے پڑھی لکھی نہیں ہے اسکا لہجہ ہم سے مختلف ہے"

"پڑھے لکھے کی بات مت کرو زریام میں نے تمہارے بابا سائیں کے ساتھ اپنی زندگی گزاری ہے" آئرہ کے کہنے پر جہاں اس سنجیدہ ماحول میں بھی زریام کے لب مسکرا اٹھے وہیں عالم نے گھور کر اسے دیکھا

"تو پھر کیا بات ہے" اسکی بات سن کر عالم نے سنجیدگی سے جواب دیا

"زریام تم یہ فیصلہ کیوں کررہے ہو"

"کیونکہ وہ مجھے اچھی لگتی ہے میں اسے پسند کرتا ہوں"

"پسند بدل بھی جاتی ہے"

"آپ جانتے ہیں میری نہیں بدلتی میں اگر کسی چیز کو اپنی زندگی میں شامل کر لوں تو پھر اسے سمبھال کر رکھتا ہوں یہاں تو پھر معاملہ ایک جیتے جاگتے وجود کا ہے"

"زریام حوریب باقی لڑکیوں کی طرح نہیں ہے سمجھ لو وہ ایک ایسا کاغذ ہے جس پر ٹیڑھی لکیرے کھینچی ہوئی ہیں تمہیں پہلے ان لکیروں کو مٹانا ہوگا پھر اس کاغذ پر سب کچھ صحیح طریقے سے لکھنا ہوگا اسکے ساتھ زندگی آسان نہیں گزرے گی"

"مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے بابا سائیں بس آپ سب کی رضا مندی چاہتا ہوں"

"ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے زریام جو تمہاری خوشی ہوگی ہمارے لیے وہی اہم ہے لیکن حوریب کی رضامندی بھی تو ضروری ہے نہ"

"وہ مان گئی ہے" اسکے کہنے پر عالم اور آئرہ نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا وہ انہیں کسی بھی کام کے لیے اتنی آسانی سے ماننے والی لڑکی تو نہیں لگی تھی

"تم نے بات کی ہے اس سے" آئرہ کے کہنے پر اسنے نظریں جھکا کر اپنا سر اثبات میں ہلادیا

"یہ تو بہت اچھی بات ہے میں معتصم لالا سے کہتی ہوں وہ عشل سے بات کرلیں اور ساحر کے ساتھ ہی ہم تمہارا بھی نکاح کردینگے" جوش سے کہتی ہوئی وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکلی جبکہ عالم ابھی تک مشکوک نظروں سے اپنے بیٹے کو گھور رہا تھا

"زریام تم نے سچ میں اس سے بات کی ہے"

"نہیں-----"

"تو پھر جھوٹ کیوں کہا"

"کیونکہ اگر اماں سائیں سے یہ کہتا کہ میں نے اس سے بات نہیں کی ہے تو وہ خود کرنے پہنچ جاتیں اور انکی بات سنتے ہی حوریب انکار کردیتی اور اس کا انکار سن کر وہ پیچھے ہٹ جاتیں اسلیے میں نے جھوٹ کہا" اسنے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کی

"اب کیا کرو گے"

"کوئی ایسا انسان اس سے بات کرے گا جو اسے اس بات کے لیے قائل کرسکے" اسکے کہنے پر عالم نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی

"خبردار جو میرا نام لیا"

"میں آپ کا نام نہیں لے رہا بابا سائیں بڑوں کو نام سے بلانا اچھی بات نہیں ہے لیکن ہاں یہ بات آپ سمجھ گئے اس سے بات آپ ہی کرینگے اور میں جانتا ہوں آپ اسے منا لینگے"

"میں ایسا کچھ نہیں کروں گا زریام"

"آپ اپنے بیٹے کی خواہش پوری نہیں کرینگے" اسنے معصومیت سے اپنے باپ کی طرف دیکھا جس پر عالم گہرا سانس لے کر رہ گیا

"میں صرف بات کروں گا اگر اس نے انکار کیا تو تم بھی پیچھے ہٹ جاؤ گے" اسکے کہنے پر زریام نے اچھے بچوں کی طرح اپنا سر ہلادیا

°°°°°

اپنے کمرے میں اس وقت وہ کتابوں میں سر دیے بیٹھی تھی جب عینہ اسکے کمرے میں داخل ہوئی ماہیم نے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"تمہارا فون کہاں ہے"

"چارج ہورہا ہے"

"اچھا تو ساحر کب سے کال کررہا ہے اس سے بات کرلو تم پک نہیں کررہی تھیں تو اسنے میرے پاس کال کی تھی تم اس سے بات کرلو وہ پریشان ہورہا تھا" نرم مسکراہٹ لیے اسنے ماہیم سے کہا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ غصے سے اب ساحر کو سنا رہی تھی

"مجھے نہیں کرنی کوئی بات وہ اب گندی گندی باتیں کرتے ہیں" اسنے بڑبڑاتے ہوے کہا دل تو چاہا تھا یہ بات اپنی ماں سے کہہ دے لیکن ایسی بات وہ اپنی ماں سے کیسے کہتی

اسنے چارجنگ پر لگا اپنا فون ہٹایا پڑھائی کرتے وقت وہ اپنا فون سائیلنٹ پر رکھتی تھی جو اس وقت بھی تھا اسلیے اسے ساحر کی کال کا پتہ نہیں چلا تھا

اسکی کال اب پھر سے آرہی تھی جسے گہرا سانس لے کر اسنے پک کرلی کیونکہ پتہ تھا جب تک وہ اپنی عجیب و غریب بقول ماہیم کے ایک دو گندی گندی باتیں نہیں سناے گا سکون سے نہیں بیٹھے گا

پہلے وہ اسے صرف عجیب نظروں سے دیکھتا تھا لیکن جب سے انکے نکاح کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی جب سے وہ اس سے عجیب باتیں بھی کرنے لگ گیا تھا اور ماہیم کو ڈر اس بات کا تھا کہ اب نکاح کے بات وہ اپنی ان عجیب باتوں کو حقیقت میں کرنے نہ بیٹھ جاے

°°°°°

"طبیعت کیسی ہے تمہاری" اجازت ملتے ہی وہ عشل کے کمرے میں داخل ہوا جو بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی وہ شکل سے ہی بیمار لگ رہی تھی

معتصم نے اسے چند ڈاکٹر سے دکھایا تھا لیکن کہیں سے بھی کوئی تسلی بھرا جواب نہیں ملا تھا

"ٹھیک ہوں"

"تم سے کچھ بات کرنی ہے"

"ہاں کہو"

"تم نے کہا تھا حوریب کے لیے اچھا سا لڑکا ڈھونڈو تو میری نظر میں ایک لڑکا ہے"

آئرہ نے اسے زریام کی وہ ساری باتیں بتادی تھیں جو اسنے ان دونوں سے کہیں تھیں

اور اسکی بات سن کر معتصم کا دل چاہا جاکر اس کے سر پر دو تھپڑ لگاے جب وہ خود پوچھ رہا تھا تب تو انکار کردیا اور اب اچانک سے اسے حوریب پسند آگئی لیکن اپنی اس سوچ کو سوچ ہی رکھ کر وہ سیدھا عشل کے کمرے میں آیا تھا

"کون ہے وہ"

"زریام" اسکی بات سن کر وہ شاکڈ ہوچکی تھی

"زریام"

"ہاں تمہیں کوئی اعتراض ہے"

"نہیں لیکن تم زریام سے بھی تو پوچھو نہ"

"میں زریام کے کہنے پر ہی تم سے بات کرنے آیا ہوں تم اپنی راے دو"

اسکے کہنے پر عشل نے نم آنکھوں سے اپنا سر اثبات میں ہلادیا

میں کیا راے دوں بھلا زریام جیسے لڑکے کے لیے بھی کوئی انکار کرسکتا ہے"

اسے تو بس اپنی بیٹی کے لیے ایک اچھا لڑکا چاہیے تھا زریام یا اس حویلی کا کوئی لڑکا اس کی سوچ میں کہیں نہیں تھا

اسے نہیں لگتا تھا کہ حویلی کا کوئی بھی لڑکا اسکی بیٹی سے شادی کے لیے ہاں کہے گا کیونکہ وہ اس جگہ کے لحاظ سے بلکل مختلف تھی وہ ایک چورنی تھی جسے بات کرنے کی تمیز نہیں تھی وہ ایک چھوٹے سے علاقے سے آئی تھی جس کے باپ اور گھر والوں کا کچھ پتہ نہیں تھا تو بھلا کیسے اس سے شادی کرلیتے

لیکن اسکی سوچ غلط تھی اسکی بیٹی کے لیے اللہ نے زریام جیسے شخص کو چنا تھا جو ہر لحاظ سے اچھا تھا

°°°°°

"یہ آپ کیا کیا اٹھا کر لے آئی ہیں" اسنے نور کی طرف دیکھتے ہوے کہا جو اسکے لیے لائی ہوئی چیزیں بیگ سے نکال رہی تھی

اسے ہمیشہ سے ایک بہن کی خواہش تھی جو جب پوری ہوئی جب وہ شہر جاکر رہنے لگی

ماہیم سے اسکی اچھی خاصی دوستی تھی لیکن شہر جانے کے بعد وہ دوستی مزید گہری ہوچکی تھی

پریشے یہ بات اسکے یہاں آنے سے پہلے ہی بتا چکی تھی کہ حیات جو کہ اسکے بابا کے دوست کی بیٹی تھی وہ اب یہاں رہے گی جسے سن کر اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اسے ایک اور دوست جو ملنے والی تھی

حیات کے لیے ساحر کے نکاح کی ساری شاپنگ وہ خود ہی کرکے آئی تھی اور اب اسے وہی دکھا رہی تھی

حوریب بھی یہیں تھی یہ بات اسے یہاں آکر پتہ چلی تھی ساتھ ہی اب یہ خوش خبری بھی ملی تھی کہ وہ اسکی ہونے والی بھابھی تھی جسے سن کر اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا یہ الگ بات تھی کہ وہ اب تک اس سے ملی نہیں تھی

"یہ سب ضرورت کی چیزیں ہیں"

"لیکن نور میرے پاس کپڑے تھے"

"شادی کے لحاظ سے تو نہیں تھے نہ اور یہ میں اپنی خوشی سے لائی ہوں تم اسے رکھوگی اسکا سامان اسے دے کر اسنے حکم دینے والے انداز میں کہا جس پر حیات بس مسکرا کر رہ گئی

°°°°°

"اماں تیرے ساتھ مسلہ کیا ہے نہیں کرنی اپن کو شادی تو نے کی تھی نہ کیا ہوا تیرا" عشل کی بات سنتے ہی اسنے غصے سے کہا

"میرا اور اپنا موازنہ مت کرو حوریب"

"نہیں کررہی لیکن اپن شادی بھی نہیں کرے گی"

"کیا برائی ہے زریام میں"

"اس میں کوئی برائی نہیں ہے برائی تو تیری بیٹی میں ہے جب ہی تو بوجھ سمجھ کر دوسروں کے سر پر ڈال رہی ہے" بولتے بولتے اسکی آواز رندھ چکی تھی

اور اس سے پہلے عشل کچھ کہتی وہ کمرے سے باہر بھاگ چکی تھی وہ اپنی ماں کو یہ بات نہیں سمجھا پارہی تھی کہ اپنی ماں کی حالت دیکھ کر اسے شادی جیسے رشتے سے ڈر لگتا تھا

°°°°°

"مامی سائیں" شاہ میر نے اسکے قریب چیخ کر کہا جس پر ایک نظر اسے دیکھ کر وہ دوبارہ اس کام کی طرف متوجہ ہوچکی تھی جو وہ کررہی تھی

شاہ میر کے قریب آکر چیخنے کی وہ عادی ہوچکی تھی لیکن وہ اسے کس طرح مخاطب کرتا تھا اس بات سے وہ عادی نہیں ہوئی تھی کبھی وہ اسکے لیے مامی بن جاتی کبھی خالا تو کبھی بڑی ماما

"کہو شاہ میر"

"یہ غلط بات ہے اس خوبصورت کڑی کو آپ نے اپنے زریام کے لیے رکھ لیا"

"میں نے اپنے زریام کے لیے نہیں رکھا ہے زریام نے خود اسے اپنے لیے رکھ لیا ہے"

"لیکن یہ غلط بات ہے زرا دیکھیں تو وہ لڑکی ہے کتنی خوبصورت لیکن استغفرُللہ اب تو وہ میری ہونے والی بھابھی ہے" اپنی بات کہہ کر اسنے خود ہی کانوں کو ہاتھ لگاکر توبہ کی جبکہ اسکے انداز پر آئرہ کو بےاختیار ہنسی آگئی

"لیکن میرے پاس ایک اور آئیڈیا بھی ہے"

"کیا ہے"

"حیات ہے نہ اسے میرے لیے بک کردیں"

"کوئی کسی کے لیے بک نہیں ہورہا ہے شاہ میر پہلے کوئی کام وغیرہ کرو اور جاکر عصیم لالا سے بات کرو اور جلدی کرو اس سے پہلے حیات کو بھی کوئی لے جاے"

"کیا کام کرنا اتنا ضروری ہوتا"اسنے اپنا سر کھجایا

"بلکل تم خود اپنے باپ بھائیوں کے آسرے پر ہو شاہ میر اور اگر تم شادی کرتے ہو تو تمہاری بیوی بھی انہی کے آسرے پر ہوجاے گی اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے فخر کی بات تو جب ہوگی جب اسکا شوہر کماے گا اور وہ اپنے شوہر کی کمائی کو فخر سے خرچ کرے گی"

"واؤ آپ کی باتیں تو سیدھا میرے دل پر لگی بابا سائیں سے جاکر کہتا ہوں میری شادی کردیں تاکہ پھر میں اپنی بیوی کے لیے کمانے لگ جاؤں ابھی جاکر بات کرتا ہوں"اپنی بات مکمل کرکے وہ وہاں سے جانے لگا جب آئرہ نے اسکی پشت کو دیکھ کر اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا

"یہ لڑکا کبھی نہیں سدھرنے والا"

°°°°°

ہر چیز سے بے نیاز ہوکر وہ اس وقت لان میں تنہا بیٹھی تھی جب اسے اپنے برابر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اسنے چہرہ موڑ کر دیکھا وہ عالم شاہ تھا

"سنا ہے تم نے زریام کے لیے انکار کردیا"عشل کے بتانے پر وہ سیدھا اسکے پاس آیا تھا ویسے بھی اسکے انکار کی توقع اسے پہلے سے تھی

"ہاں" اسنے چہرہ واپس اسی طرف موڑ لیا جس طرف پہلے تھا

"وجہ جان سکتا ہوں"

"اپن کو شادی وادی نہیں کرنی ہے"

"یا پھر یوں کہو تمہیں شادی جیسے رشتے سے ڈر لگتا ہے" اسکی بات سن کر حوریب نے ہولے سے اپنا سر ہلادیا

"ہاں لگتا ہے" اسنے اقرار کیا

"ہر شادی ناکام نہیں ہوتی ہے حوریب"

"لیکن بےجوڑ شادی ہوجاتی ہے خود اپنے بیٹے کو دیکھو وہ کہاں ہے اور اپن کہاں ہے"

"تم بھی زمین پر ہو وہ بھی زمین پر ہے زیادہ تعلیم حاصل کرنے سے میرا بیٹا کوئی اور مخلوق نہیں بن گیا وہ انسان ہی ہے جسے شادی کے لیے ایک عدد لڑکی چاہیے جس کے لیے اسنے تمہارا انتخاب کیا ہے" اسکے لہجے میں بےانہتا نرمی تھی

"مجھے دیکھ لو میں نے صرف دسویں جماعت پڑی تھی اور چونکہ میں وہاں تک بھی صرف نقل کے زریعے پہنچا تھا تو اسلیے مجھے انگلش بھی نہیں آتی تھی میں نے پڑھائی پر کبھی دھیان نہیں دیا نہ ہی اسے ضروری سمجھا میں بس گاؤں میں رہتا ایک زمیندار تھا جس کی زندگی میں ایک شہر کی پڑھی لکھی لڑکی آئی اور وہ مجھے ہر طرح سے اپنا بنا گئی اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا میں کتنا پڑھا لکھا ہوں اسکے لیے بس یہ بات اہم ہے کہ میں اسکا عالم شاہ ہوں"

حوریب غور سے اسکی بات سن رہی تھی

"اسی طرح سے میرے بیٹے کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کتنی پڑھی لکھی ہو اسکے لیے بس تم اہم ہو ہاں اگر تمہیں زریام میں کوئی برائی نظر آتی ہے تو مجھ سے کہو پھر کوئی تمہیں اس رشتے کے لیے اسرار نہیں کرے گا"

"نہیں وہ اچھا انسان ہے"

"تو پھر کیا مسلہ ہے"

"اپن کو ڈر لگتا ہے شادی سے اس رشتے سے اگر اسنے اپن کو چھوڑ دیا یا پھر وہ بدل گیا تو"

"وہ ایسا نہیں کرے گا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں شادی کے بعد اگر زریام سے تمہیں کوئی بھی گلہ ہوا تو میں خود تم دونوں کی راہیں بدل دوں گا لیکن اس بات کا بھی یقین دلاتا ہوں کہ میرا بیٹا تمہارا بہت خیال رکھے گا وہ کبھی بھی خود سے جڑے رشتوں میں لاپروا نہیں ہوتا ہے لیکن فیصلہ تمہارا ہوگا" عالم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا

"سچ بول رہا ہے"

"بلکل سچ"

"ٹھیک ہے جیسا سب کو بہتر لگے" اسکا جواب سن کر عالم کے لب مسکرا اٹھے

"ماموں اپن بس تیرے پر بھروسہ کررہی ہے"

"میں تمہارا یہ بھروسہ ٹوٹنے نہیں دوں گا اور ماموں نہیں تم مجھے اب سے بابا سائیں بلاؤ گی اب اٹھو اندر چلتے ہیں" عالم نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوے کہا اور اسے لے کر اندر چلا گیا

°°°°°

"یہ کیا کہہ دیا اسے" عالم کی پوری بات سنتے ہی اسنے صدمے سے کہا

"کیا کہہ دیا" اسنے ناسمجھی سے زریام کی طرف دیکھا

"یہ کیوں کہہ دیا کہ اگر اسنے کوئی گلہ کیا تو آپ ہماری راہیں بدل دیں گے"

"تو تمہیں خود پر بھروسہ نہیں ہے زریام تم اسے اتنا موقع ہی مت دینا کہ وہ کوئی گلہ کر سکے اسکا ہر طرح سے خیال رکھنا"

"بابا سائیں میری کوشش یہی ہوگی لیکن آپ اسے نہیں جانتے کیا وہ کیسی ہے مجھے تو اسکے مزاج کا بھی ٹھیک سے نہیں پتا"

"زریام وہ ایک لڑکی ہی ہے کوئی ہوائی مخلوق نہیں ہے اسکے جذبات بھی اندر سے وہی ہیں جو ہر لڑکی کے ہوتے ہیں بس وہ سب کی طرح ظاہر نہیں کرتی ہے یا شاید کوئی ایسا انسان اسکے پاس نہیں ہے جس کے سامنے وہ ظاہر کرسکے تم بن جاو وہ انسان"

"میں ضرور بنوں گا"سرہلاتے ہوے اسنے جیسے خود سے وعدہ کیا تھا

°°°°°

"حیات بات سنو" اسے کمرے سے باہر نکلتے دیکھ کر شاہ میر نے اسے پکارا اور بھاگتے ہوے اسکے قریب گیا

"جی"

"اگر میں کوئی کام نہیں کروں گا تو کیا تم مجھ سے شادی کرلو گی" حیات نے اسکی بات سن کر اپنا سر نفی میں ہلادیا

"نہیں"

"اگر میں کام کروں تو تم مجھ سے شادی کرلو گی"

"نہیں'' اسکی مزید کوئی بات سنے وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ شاہ میر بس اسکی پشت کو گھورتا رہ گیا

"حد ہوتی ہے ہینڈسم لڑکوں کی آج کل کسی کو قدر ہی نہیں ہے" اسنے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہا

"ویسے منع کیوں کرکے گئی ہے اچھا بھلا تو بند ہوں"اب وہ اس سوچ میں گم تھا

°°°°°

دروازہ نوک کرکے وہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں اس وقت حوریب اکیلی موجود تھی

جبکہ آئرہ کو دیکھتے ہی اسنے جلدی سے اپنے بھیگے گال صاف کیے

"رو کیوں رہی ہو" آئرہ نے اسکے قریب بیٹھ کر پوچھا جس پر اسنے صاف اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"وہ لڑکا اپن کے پیچھے کیوں پڑا ہے" بنا نام لیے بھی وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ زریام کے بارے میں بات کررہی ہے

"کیوں تمہیں اس لڑکے سے شادی نہیں کرنی ہے"

"اپن نہیں ہے اس کے لائق"اسنے آستین سے اپنی ناک صاف کرتے ہوے کہا

"یہ تم سے کس نے کہہ دیا کون کس کے لائق ہے یہ ہم نہیں جانتے ہوسکتا ہے میرا بیٹا تمہارے لائق نہ ہو"

"لیکن وہ کیوں کررہا ہے اپن سے شادی اپن تو پڑھی لکھی بھی نہیں ہے غریب ھے بدتمیز ہے"

"جوڑیاں انسان نہیں بناتے اللہ بناتا ہے اور اچھا ہی ہے وہ بناتا ہے اگر یہ کام انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا تو کبھی کسی غریب کا کسی امیر سے رشتہ نہیں جڑتا تم میرے بیٹے کے لیے ہی تھیں حوریب اور مجھے اسکی پسند پر فخر ہے" آئرہ نے پیار سے اسکی تھوڑی کو چھوا

"میں تمہارا سوٹ لے کر آئی تھی کل تمہارا نکاح ہے"

"کل" اسنے حیرت سے منہ کھول کر کہا

"ہاں ہمارا ارادہ تھا کہ زریام اور ساحر کا نکاح ایک ہی دن ہو لیکن تمہاری ماں ایسا نہیں چاہتی اس دن زیادہ لوگ ہوں گے اور وہ نہیں چاہتی کوئی اسے دیکھ کر پہچان لے اور اسکے گھر والوں کو اسکی یہاں موجودگی کا علم ہو اسلیے کل سادگی سے تمہارا نکاح ہوگا ہاں ولیمہ تمہارا ہم دھوم دھام سے کریں گے" آئرہ نے اسے پوری تفصیل بتائی لیکن وہ ابھی بھی الجھی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی

"تو کیا ولیمہ پر اماں کو کوئی نہیں دیکھے گا"

"اس وقت تک تمہارا اور زریام کا نکاح ہوچکا ہوگا وہ ابھی اسلیے ڈر رہی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی نکاح سے پہلے کوئی بھی تماشہ ہو وہ چاہتی ہے ساتھ خیریت سے تم دونوں کا نکاح ہوجاے"

آئرہ نے ہاتھ میں پکڑا بیگ اسنے بیڈ پر رکھا اور اسکی سفید بےداغ پیشانی پر اپنے لب رکھ کر وہاں سے چلی گئی

اسکے جانے کے بعد حوریب نے بیگ میں موجود وہ سوٹ نکالا لائٹ پنک کلر کا وہ بےحد خوبصورت گرارہ تھا جو حوریب امتیاز کے لیے تھا

°°°°°

"بابا سائیں میں کیا پہنو" عالم کے سر پر کھڑا وہ کب سے اسے پریشان کررہا تھا

صبح ہوتے ہی سارے افراد کام پر لگ چکے تھے آج حوریب اور زریام کا نکاح تھا جس میں صرف گھر والے اور باہر کے صرف چند خاص افراد موجود تھے

حویلی والوں کی صبح جلدی ہوتی تھی اور آج صبح ہوتے ہی سب گھر والے تیاریوں میں لگ چکے تھے ہر طرف پھولوں کی سجاوٹ ہورہی تھی جس میں سب سے زیادہ خوار زریام ہورہا تھا

اسے تو رات میں ہی پتہ چلا تھا کہ کل اسکا نکاح ہے اور صبح ہوتے ہی وہ کاموں میں لگ گیا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے لیے شادی کا سوٹ خریدنے کا موقع بھی نہیں ملا

اسے سب سے زیادہ صدمہ ان دو باتوں کا تھا کہ اسکی ماں نے اپنی بہو کا سوٹ تو منگوالیا لیکن بیٹے کو بھول گئی دوسری یہ کہ آج اسکا نکاح تھا اور وہ خود ہی سارے کام کررہا تھا

بس ایک ساحر ہی تھا جو اسکی مدد کررہا تھا لیکن صرف اسلیے تاکہ اسکے نکاح میں زریام بھی سارے کام سمبھال لے

"ساحر کے نکاح کے لیے جو سوٹ خریدا تھا وہ پہن لے"

"وہ ابھی آیا نہیں ہے کل تک آے گا"

"تو میری شادی کی شیروانی پہن لے" عالم نے اسے مشہورہ دیا جس پر اسنے منہ بنا کر اپنے باپ کو دیکھا

"مجھے نہیں پہنی وہ چمکیلی شیروانی اس سے اچھا تو بڑے بابا کا پرنس کوٹ تھا"

"تو جا اور جاکر اسکا پرنس کوٹ ہی پہن لے" اسکے کہنے پر وہ گہرا سانس لے کر وہاں سے چلا گیا

جب عالم نے مسکراتے ہوے اسکی پشت کو دیکھا آہان کو بھیج کر سوٹ تو وہ اسکا پہلے ہی منگوا چکا تھا بس اسکے ساتھ تھوڑی تفری کرنی تھی

°°°°°

"امی آپ میری بات نہیں سن رہی ہیں نہ" عزہ نے سلاد بناتی نویدہ بیگم کو ٹوکا

وہ کب سے بولے جارہی تھی اور انکی طرف سے صرف خاموشی سننے کو مل رہی تھی

"کیا بات سنو عزہ اکیلی لڑکی کو کیسے میں اتنی دور انجان لوگوں کے ساتھ بھیج دوں"

"انجان کیوں امی سب دوست ہوں گے ٹیچرز اور میشال بھی تو ہوگی"

"عزہ فضول باتیں بند کرو میں نے بس منع کردیا تو کوئی بحث نہیں ہوگی" انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا

"اس سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے میرا بچہ میری اجازت ہے تم چلی جانا"اس بار انکی گفتگو میں اسد صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو لاؤنج میں بیٹھے کب سے انکی باتیں سن رہے تھے

"سچ میں بابا جانی"

"کوئی ضرورت نہیں ہے اسکی بات ماننے کی پتہ نہیں یہ ٹرپ جیسی فضولیات لوگ کرتے ہی کیوں ہیں" انہوں نے غصے سے اسد صاحب کو گھورا اور واپس اپنے کام میں لگ گئیں

"یہ فضولیات نہیں ہوتی بیگم اور میں نے عزہ کو اجازت دے دی ہے وہ جاے گی بس وہ جاے گی ایسے موقعے بار بار نہیں ملتے ہیں" انکے کہنے پر اسنے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا اور چہکتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

سب سے پہلے یہ بات میشال کو جو بتانی تھی بابا جانی نے کہہ دیا مطلب اسکا جانا کنفرم تھا

اس سفر پر جانے کے لیے وہ بےحد خوش تھی لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ سفر اسکی زندگی میں ایک نیا موڑ لے کر آنے والا تھا

°°°°°

"ماہیم کہا ہے" پریشے نے عینہ سے گلے ملتے ہوے کہا وصی اور ایہاب وہیں تھے لیکن ماہیم نہیں تھی

زریام کے نکاح کی وجہ سے وہ تینوں وہاں پر آے تھے

"اس بلا کو ہم گھر چھوڑ آے" ایہاب نے پریشے کی بات سن کر مزے سے کہا جب پیچھے سے اسے سر پر زور دار تھپڑ پڑا

اسنے مڑ کر دیکھا وہاں ساحر کھڑا تھا جو غصے سے اسے ہی گھور رہا تھا

"یہ جن بھی ہمیشہ غلط وقت پر آتا ہے" اسنے بڑبڑاتے ہوے خوش دلی سے اسے سلام کیا

"بہت زبان چلنے لگی ہے تمہاری زرا میرے ساتھ آؤ" اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے وہ خود وہاں سے چلا گیا جبکہ ایہاب خود کو کوستا ہوا اسکے پیچھے جانے لگا انکے جانے کے بعد پریشے دوبارہ اسکی طرف متوجہ ہوئی

"میں اسے ساتھ نہیں لائی اچھا انہیں لگ رہا تھا دو دن بعد اسکا نکاح ہے اور وہ یہاں آتی"

"کیسی بات کررہی ہو عینہ تم اسے اکیلی چھوڑ کر آگئی ہو"

"نہیں پری اسے اسکی دوست کے گھر پر ڈراپ کردیا تھا" عینہ کے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاتی ہوئی ان دونوں کو اندر لے کر چلی گئی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوکر اسنے حوریب کو دیکھا جسے نور تیار کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ مسلسل منع کررہی تھی

لائٹ پنک کلر کے گرارے میں اسکا چاندی جیسا وجود کھل رہا تھا

اسنے کوئی سنگھار نہیں کیا تھا صرف کپڑے تبدیل کیے تھے لیکن پھر بھی وہ اس میں ہی بےحد حسین لگ رہی تھی

آئرہ نے اسے دیکھ کر دل میں ماشاءاللہ کہا اسکی بہو واقعی میں چاند کا ٹکڑا تھی

"اپن کو تیار نہیں ہونا"

"ارے لیکن تم دلہن ہو" نور نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور یہ کوشش وہ کب سے کررہی تھی

"نور اسے تیار نہیں ہونا تو چھوڑ دو بیٹا بس ہئیر اسٹائل بنادو" آئرہ کے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاتی ہوئی اسکے بال بنانے لگی

آئرہ جانتی تھی کہ حوریب کچھ ایسا ہی کرے گی اسلیے اسنے کسی بیوٹیشن کو بلایا ہی نہیں تھا وہ گھر والوں کے ہاتھ سے تیار ہوجاتی یہ بھی بڑی بات تھی

°°°°°

خواتین ایک طرف سر پر دوپٹہ اوڑھے کھڑی تھیں جبکہ مولوی صاحب اور چند مرد حضرات دوسری طرف کھڑے ہوے تھے

"نکاح شروع کریں مولوی صاحب" معتصم کے کہنے کر انہوں نے اپنا سر ہلاکر نکاح شروع کیا

"حوریب امتیاز ولد امتیاز شیخ آپ کا نکاح زریام شاہ ولد عالم شاہ کے ساتھ پچیس لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

مولوی صاحب کے پوچھنے پر جیسے اس سے لفظ ہی ادا نہیں ہورہے تھے

اپنے باپ کو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی دیکھنے کی کبھی چاہ ہوئی تھی لیکن آج ہورہی تھی زندگی کہ اس اہم موقع پر اسے اپنے باپ کی یاد ستارہی تھی

مولوی صاحب نے دوبارہ اپنے الفاظ دہرانے لیکن وہ اس بار بھی کچھ نہیں کہہ پائی

اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں جس کے باعث آنکھ میں بیٹھے وہ موتی بہہ نکلے جب اسے اپنے سر پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا

"بابا سائیں" بےساختہ اسکے لبوں سے نکلا

"ہمم جواب دو بیٹا" عالم کی آواز اسے سنائی دی اور پھر مولوی صاحب کے تیسری بار پوچھنے پر اسنے اپنا جواب دے دیا

اسکا جواب سنتے ہی کمرے میں موجود سارے افراد نے سکون کا سانس لیا

اسکے سائن کرنے کے بعد عالم نے اسکے سر پر اپنے لب رکھے اور باقی مرد حضرات کے ساتھ کمرے سے باہر چلا گیا

°°°°°

زریام کے سائن کرتے ہی سارے لڑکوں نے شور مچایا اور باری باری اس سے گلے ملے

لان میں باہر اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر پھولوں کی سجاوٹ ہورہی تھی اور زریام اب وہیں بیٹھا اپنی دلہن کا انتظار کررہا تھا

جو کچھ ہی دیر میں اسے آتی دکھائی دی اسکے ایک طرف نور تو دوسری طرف حیات تھی

اور زریام کی نظریں بس اس لڑکی پر جمی ہوئی تھیں جو کچھ دیر پہلے اسکے نکاح میں آئی تھی

اسکے کھلے بال نیچے سے کرل ہورہے تھے جبکہ اپنا دوپٹہ اسنے ایک کندھے پر پھیلایا ہوا تھا اسے دیکھ کر پہلا خیال اسے یہی آیا

وہ دلہن کہیں سے نہیں لگ رہی تھی پھر اسنے خود ہی اپنی سوچ کی نفی کی

ہاں وہ دلہن نہیں لگ رہی تھی پری لگ رہی تھی حور لگ رہی تھی جو غلطی سے اس دنیا میں آگئی تھی

اسنے کوئی میک اپ نہیں کیا ہوا تھا جس پر زریام نے شکر ادا کیا وہ بنا میک اپ کے صرف اس جوڑے اور ہئیر اسٹائل کرکے اتنی حسین لگ رہی تھی کہ زریام کا دل چاہ رہا تھا اسے سب سے چھپالے اگر وہ تیار ہوجاتی تو پتہ نہیں وہ کیا کرجاتا

"کیا ہے گھور کیوں رہا ہے" اسنے زریام کے قریب بیٹھتے ہوے کہا

اور اسکے ایسا کرتے ہی زریام جیسے کسی خواب سے باہر نکلا تھا

"کیوں نہ گھوروں اب تو تم میرے نکاح میں آچکی ہو"

"بول تو ایسے رہا ہے جیسے نکاح میں نہیں تھی تو تو گھورتا ہی نہیں تھا" حوریب نے دوبدو جواب دیا جبکہ اسکے جواب پر وہ بس اپنا سر جھٹک کر رہ گیا

حوریب نے اپنے برابر بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو عام دنوں کی نسبت آج کچھ زیادہ ہی اچھا لگ رہا تھا

وائٹ کلر کے کمیز شلوار کر اسنے بلیک کلر کا کوٹ پہنا ہوا تھا بالوں کو جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا جبکہ کلائی میں قیمتی گھڑی موجود تھی ایک پل کے لیے اسے بے انتہا حیرت ہوئی یہ شخص خدا نے اسکے نصیب لکھا تھا

"اچھا لگ رہا ہوں" زریام نے اسے مسلسل خود کو دیکھتا پاکر پوچھا جس پر اسنے اپنی نظروں کا زاویہ موڑ لیا

"تو نے بتایا نہیں اپن کیسی لگ رہی ہے"

"بعد میں تفصیل سے بتاؤں گا" اسنے معنی خیزی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوے کہا

وہ تو خود حوریب کو یہ بات بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس وقت کتنی پیاری لگ رہی ہے لفظوں سے نہیں عمل سے

°°°°°

سب گھر کے افراد ہی اس تقریب میں موجود تھے باقی جو چند افراد باہر والے آے تھے وہ بھی جاچکے تھے

سارے کام نمٹاکر وہ جلدی جلدی اپنے کمرے میں جانے لگا

تاکہ اپنی بیوی کے پاس بیٹھ جاے اس کے ساتھ پیار بھری باتیں کرے

بھلے انکی شادی ویسے نہیں ہوئی تھی جیسے لوگوں کی ہوتی ہے لیکن جذبات تو اسکے وہی تھے نہ

کیا کیا سوچ کر اسنے اپنے کمرے میں قدم رکھا تھا لیکن اسکے دل کے ارمان شاید دل میں ہی رہ جانے والے تھے

کیونکہ حوریب میڈم تو اسکے بیڈ پر مزے سے سورہی تھیں اور زیادہ صدمہ زریام کو اس بات کا لگا تھا کہ وہ چینج بھی کر چکی تھی

دروازہ بند کرکے اسنے اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر رکھا اسکے بعد ہاتھ میں موجود گھڑی اتار کر ڈریسنگ پر رکھی اور جاکر اسکے برابر بیٹھ گیا

زریام غور سے اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا آج پہلی بار وہ اسے اتنی قریب اور غور سے دیکھ رہا تھا اور سمجھ نہیں آرہا تھا اسکی خوبصورتی کے لیے کس لفظ کا استعمال کیا جاتا

نظریں بھٹک بھٹک کر اسکے سرخ لبوں کی طرف جارہی تھیں اور بہت آسانی سے زریام شاہ کو بہکا رہی تھیں

اپنا چہرہ اسکے قریب کرکے انتہائی نرمی سے زریام اسکے سرخ لبوں پر جھک گیا

°°°°°

°°°°°

اپنے اوپر جھکاؤ محسوس کرکے اسکی آنکھ کھلی اور زریام کو اپنے اتنے قریب دیکھتے ہی اسکی ساری نیند جیسے اڑ چکی تھی

اسنے زریام کے سینے پر ہاتھ مار کر اسے خود سے دور کیا اور وہ جو مدہوشی کے عالم میں اسکے لبوں پر جھکا ہوا تھا حوریب کی اس طرح کی حرکت پر بیڈ سے گرتے گرتے بچا

"یہ کیا حرکت ہے-----" اسنے حوریب کو گھورتے ہوے کہا

"تو کیا کررہا تھا اپن کی نیند کا فائدہ اٹھا رہا تھا"

"مجھے تمہاری نیند کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے جو کرنا ہوگا تمہارے ہوش میں ہونے کے باجود بھی کرلوں گا" اسکے کہنے پر حوریب نے منہ بنا کر اپنا چہرہ پھیر لیا

اسکی اس حرکت پر زریام گہرا سانس لے کر رہ گیا اسے بےساختہ عالم کی بات یاد آئی جو اسنے نکاح سے پہلے اس سے کہی تھی

"اپنے ساتھ ایک دوسری زندگی باندھنے جارہے ہو تم بہت خیال رکھنا حوریب کا بیٹی کہا ہے میں نے اسے اپنی اور اگر تم سے اس کے معاملے میں کوئی کوتاہی ہوئی تو معاف نہیں کروں گا زریام"

"آپ فکر مت کریں بابا سائیں میں حوریب کا ہر طرح سے خیال رکھوں گا" اسنے جیسے عالم کو یقین دلایا

"زریام آپ کا محرم تو کوئی بھی بن جاتا ہے اصل مزہ تو روح کے محرم بننے میں ہے"عالم کے کہنے پر اسنے مسکراتے ہوے اپنا سر ہلایا

"میں ضرور بنوں گا زریام شاہ حوریب امتیاز کا روح محرم ضرور بنے گا" اسنے جیسے خود سے وعدہ کیا تھا

°°°°°

نظروں کا زاویہ اسنے حوریب کی طرف کیا جو منہ پھیر کر بیٹھی تھی

"حوریب اس طرح منہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے تمہاری اجازت کے بنا میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا"اسکے کہنے پر حوریب نے چہرہ موڑ کر اسکی طرف دیکھا

"اپن تیرے کو بنا اجازت آنے بھی نہیں دے گی آکر تو دکھا" اسکے کہنے پر زریام کا قہقہہ گونجا اور حوریب یک ٹک اسکے ہسنتے چہرے کو دیکھنے لگی

آج پہلی بار غور سے وہ زریام شاہ کو دیکھ رہی تھی اور اتنے قریب سے پہلی بار وہ اسکے گال کا ڈمپل دیکھ رہی تھی جو اتنا گہرا تھا کہ اسکی گھنی داڑھی مونچھوں میں بھی صاف دکھ رہا تھا

"ہنس کیوں رہا ہے" اسکے کہنے پر زریام نے اپنا سر نفی میں ہلایا وہ اسے یہ نہیں کہہ سکا کہ اگر وہ اسکے قریب آنا چاہتا تو حوریب کی کوئی مزاحمت اسے روک نہیں سکتی تھی

"خیر میری بات غور سے سنو اب سے میں تمہیں پڑھایا کروں گا میں تمہارا شوہر بعد میں ہوں ٹیچر پہلے"

"کیوں پڑھاے گا تو اپن کو تاکہ اپن تیرے جیسی ہوجاے ویسے تو بڑا بول رہا تھا کہ اپن جیسی بھی ہے تیرے کو کوئی مسلہ نہیں ہے"

"مجھے اب بھی کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن تمہیں ضرور ہوگا اور میری یہ بات تمہیں جلد ہی سمجھ آجاے گی اب سب سے پہلے تم یہ اپن بولنا بند کرو گی اور بڑوں کو آپ کہہ کر مخاطب کروگی تمہیں عادت نہیں ہے یہ سب کہنے کی اسلیے غلطی میں معاف کردوں گا لیکن اگر جان بوجھ کر کہو گی تو اسکی تمہیں سزا ملے گی"

اسکی بات سنتے ہی وہ ہنسنے لگی جبکہ اسکا ہنسا زریام کو ایسا محسوس کروا رہا تھا جیسے وہ اسکا مذاق اڑا رہی ہو

"تو اپن کو سزا دے گا اپن بولے گی اور یہی بولے گی کیا کرلے گا تو"

"حوریب شاید تم نے میری بات غور سے نہیں سنی"

"سن لی اپن،اپن،اپن" اسکا انداز چڑانے والا تھا

اسکی اس حرکت کو وہ کچھ دیر تک برداشت کرتا رہا لیکن اسکے مسلسل بولنے پر زریام نے جھٹکے سے اسکا وجود بیڈ پر لٹایا اور اسکے لبوں پر جھک گیا

اور وہ جو مزے سے ہنستے ہوے بول رہی تھی اس اچانک حملے پر پھڑپھڑا کر رہ گئی

اسنے پہلے کی طرح زریام کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن اس بار وہ دور نہیں ہوا بلکہ اسکا انداز مزید شدت اختیار کرچکا تھا

"اب بتاؤ بولو گی" اسکے لبوں کو آزاد کرکے زریام نے اسکے سرخ بھیگے لبوں پر اپنا آنگھوٹھا پھیرا

گال تو اسکے سرخ ہی رہتے تھے لیکن زریام کی اس حرکت سے اسکا پورا چہرہ گلاب کی مانند سرخ ہوچکا تھا

اسکی اس چھوٹی سی گستاخی پر ہی شرم کی وجہ سے حوریب کی زبان بند ہوچکی تھی زریام شاہ پہلا مرد تھا جس نے اسے اس طرح سے چھوا تھا

"ن--نہیں بولے گی چھوڑ اپن---"

اسے معلوم تھا اس وقت وہ زریام کی قید سے بنا اسکی مرضی کے آزاد نہیں ہوپاتی تو بہتر تھا ہار ہی مان لی جاتی اور اسنے وہی کیا

لیکن اسے دوبارہ وہی لفظ استعمال کرتے دیکھ زریام پھر سے اسکے لبوں پر جھک چکا تھا لیکن اس بار انہیں جلد ہی آزاد بھی کردیا تھا

"چ-چھوڑ دے"

"چھوڑ دے نہیں چھوڑ دیں کہو زریام پلیز مجھے چھوڑ دیں"

"زریام پ-پلیز مجھے چھوڑ دیں" اسنے جلدی سے اسکا کہا گیا جملہ دوہرایا جسے سن کر زریام نے اسے آزاد کردیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ بیڈ سے اترنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ چکا تھا

"کہاں جارہی ہو"سوالیہ نظروں سے اسنے حوریب کو دیکھا

" میں وہ میں" وہ اسے یہ نہیں کہہ سکی کہ اسے بس اس وقت زریام سے دور جانا تھا

"وہ باتھ روم" اسنے واشروم کی طرف اشارہ کرکے بہانہ بنایا

زریام نے بنا اسکے بہانے پر دھیان دیے اسے اپنے قریب کرلیا

"جانتا ہوں کہیں نہیں جانا ہے تو بلاوجہ کے بہانے بند کرو اور چپ چاپ سوجاؤ اس سے پہلے میں پھر سے پہلے والے موڈ میں آجاؤ"

اسکے کہنے پر حوریب نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی

اسے سوتے دیکھ زریام نے اسکا سوتا وجود مزید خود کے قریب کرلیا

°°°°°

صبح ہوتے ہی حویلی میں پھر سے شور مچ چکا تھا کیونکہ آج ساحر کا نکاح تھا

ہر طرف افراد تفری مچی ہوئی تھی سارے کام نمٹا کر سب لوگ تیار ہونے کے لیے جاچکے تھے

بیوٹیشن کو گھر پر ہی بلالیا گیا تھا حوریب کو تیار ہونا نہیں تھا حیات کو یہ سب پسند نہیں تھا اسلیے ان دونوں کے علاؤہ باقی ساری خواتین کو وہ تیار کرچکی تھیں

حوریب نے بس کل کی طرح ہئیر اسٹائل بنوایا تھا وہ بھی آئرہ کے کہنے پر جبکہ حیات کا ہلکا پھلکا میک اپ نور نے کردیا تھا وہ بھی زبردستی اسے بٹھا کر

کتنا ہی وقت ان سب کی تیاریوں میں گزر چکا تھا اور تیار ہوتے ہی اب شہر کے لیے نکلنے کا شور مچ اٹھا تھا

°°°°°

"کسوا اب بس بھی کردو وقت نکلا جارہا ہے" عصیم نے تیسری مرتبہ چلنے کے لیے کسوا سے کہا جو ساحر کو اپنے سامنے رکھ کر پتہ نہیں کن کن چیزوں سے اسکی نظر اتار رہی تھی

"اف تھوڑی دیر صبر کریں دکھ نہیں رہا ابھی میں ضروری کام کررہی ہوں"

"یہ آکر بھی تو ہوسکتا ہے"

"آکر کیسے ہوگا اچھے سے نظر اتاروں نہ ماشاءاللہ میرا لال کتنا پیارا لگ رہا ہے کہیں میری ہی نظر نہ لگ جاے" اسنے پیار بھری نظروں سے اپنے سامنے کھڑے ساحر کو دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں لگ گئی

اسکی بات سن کر عصیم صرف اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گیا اور ساحر کو دیکھنے لگا

اسنے کریم کلر کا پرنس کوٹ پہنا ہوا تھا بالوں کا ہئیر اسٹائل بناکر جیل سے سیٹ کیا ہوا تھا اور ہاتھ میں رولیکس کی گھڑی موجود تھی اسکے چہرے پر آج ایک الگ ہی چمک دکھ رہی تھی

اسکا بیٹا آج کچھ زیادہ ہی ہینڈسم لگ رہا تھا اور اس بات کا اسنے اعتراف بھی کیا تھا بس اپنی پاگل بیوی کی طرح پچیس منٹ سے کھڑا اسکی نظر نہیں اتار رہا تھا

"کسوا اب بس بھی کرو" فارینہ بیگم نے ان کے پاس آکر کہا

"دادی سائیں جب تک اماں سائیں کا یہ کام پورا نہیں ہوجاتا ہم نہیں جائینگے" اسنے فارینہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوے کہا جبکہ اسکے کہنے پر کسوا کو اپنے بیٹے پر بےتحاشہ پیار آیا

"ہاے میرا لال بس نکلتے ہیں ہوگیا میرا کام" اسکا ہاتھ پکڑ کر کسوا اسے باہر کی طرف لے گئی جبکہ اسکے ایسا کرنے پر عصیم نے شکر بھرا سانس لیا

°°°°°

تیز تیز قدم اٹھاتی وہ باہر کی طرف بھاگ رہی تھی جب ہائی ہیلز پہنے اسکے قدم لڑکھڑائے لیکن اس سے پہلے وہ گرتی زریام اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے سمبھال چکا تھا

"تھینک یو لالا"

"نور بچہ سب تمہارا باہر انتظار کررہے ہیں"

"ہاں بس جاہی رہی تھی" اسنے اپنا لہنگا درست کیا جب زریام کی نظر اسکے لاؤں میں موجود ہائی ہیلز پر گئی

اپنا لہنگا درست کرکے وہ باہر جانے لگی جب زریام نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا

"تم نے لہنگے کے ساتھ ہائی ہیلز کیوں پہنی ہیں"

"اف لالا منع مت کیجے گا میرے بھائی کی شادی ہے مجھے میرے شوق پورے کرنے دیں آپ کی شادی پر بھی ٹھیک سے تیار نہیں ہوئی تھی" اسنے منہ بنایا

"کوئی بات نہیں میرے ولیمے پر ٹھیک سے تیار ہوجانا ابھی یہ اتارو"

"لالا پلیز" اسکا انداز منت بھرا تھا

"نور تم ابھی گرتے گرتے بچی ہو جاکر اپنی یہ ہیلز اتارو جلدی سے چینج کرکے آؤ اسکے ساتھ میں تمہیں نہیں جانے دوں گا" زریام کے کہنے پر وہ منہ بناتی ہوئی دوبارہ اندر جانے لگی

اسے اندر کی طرف جاتے دیکھ کر زریام خود بھی وہاں سے چلا گیا جبکہ اسکے جاتے ہی وہ واپس باہر بھاگ گئی لیکن اس بار قدم احتیاط سے اٹھاے کہیں دوبارہ نہ گرجاے

°°°°°

"ہاے اللہ سب مجھے چھوڑ کر تو نہیں چلے گئے" اپنا لائٹ براؤن کوٹ پہن کر وہ پریشانی سے باہر بھاگا لیکن شکر تھا وہاں زریام موجود تھا

ان سب لڑکوں نے ایک جیسی ڈریسنگ کی ہوئی تھی وائٹ کلر کے کمیز شلوار پر لائٹ براؤن کوٹ

"نہیں گئے تمہیں میرے سر پر چھوڑ کر گئے ہیں"

"ایسے تو مت بولیں لالا میں آپ کے سر پر تو نہیں ہوں"

"شاہ میر نہ اپنا دماغ چلاؤ نہ میرا دماغ کھاؤ جاؤ جلدی سے حیات کو لے کر آو ابھی تک نہیں آئی وہ بھی ہمارے ساتھ جاے گی میں حوریب کو لے کر آتا ہوں" اسکے کہنے پر شاہ میر نے شرارتی مسکراہٹ لیے اسے دیکھا

"مجھے سب پتہ ہے حوریب کو لے کر آنے کے بہانے کیا کرنے جارہے ہیں ہمیں تو کھچڑی بھی نہیں مل رہی ہے اور زریام شاہ پوری بریانی کھا رہے ہیں" اپنی بک بک کرتے ہوے اسکی نظر زریام کے چہرے پر گئی جو اسکی بات سن کر اپنے اشتعال کو قابو میں کیے کھڑا تھا

اسکے فیس ایکسپریشن دیکھ کر شاہ میر نے وہاں سے کھسکنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی

°°°°°

حیات کو ڈھونڈتا ہوا وہ اسکے کمرے میں آیا اور شاہ میر کی توقع کے مطابق وہ وہیں تھی

"حیات تم ادھر ہو چلو جلدی سب چلے گئے ہیں" شاہ میر نے اسے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا

اس وقت بلیو کلر کی لانگ فراک پہنے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ عام دنوں کی حیات سے بالکل مختلف لگ رہی تھی

"بس آرہی تھی میرا جھمکا نہیں مل رہا تھا اسلیے دیر ہوگئی"

"تو اب مل گیا"

"نہیں وہی ڈھونڈ رہی ہوں اسنے شاہ میر کی طرف دیکھا اسکے ایک کان میں گولڈن جھمکا تھا جبکہ دوسرا کان خالی تھا

شاہ میر کی نظر بیڈ کے نیچے پڑی اس چیز پر گئی جسے پہلی نظر میں دیکھتے ہی وہ جان چکا تھا کہ وہ حیات کا جھمکا ہے

اب تک تو شاید وہ حیات کو مل بھی جاتا لیکن وہ کمرے میں ڈھونڈنے کے بجاے صرف ڈریسنگ اور الماری میں اسے دیکھ رہی تھی کیونکہ اسنے اپنا سارا سامان ایک طرف کرکے وہیں رکھا تھا یہ جھمکا بھی یقینا افرا تفری میں ہی یہاں تک پہنچ گیا ہوگا

"پہن کے اتنا زیور گہنا،تیز ہوا سے بچ کے رہنا"

"گر جاے تو پھر نہ کہنا جھمکا گرا رے"

خود سے گنگناتے ہوے اسنے بیڈ کے نیچے سے وہ جھمکا نکالا اور حیات کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا

اسکے اس عمل سے وہ ایک دم بوکھلا چکی تھی لیکن شاہ میر نے بنا اسکے تاثرات کی پرواہ کیے خود ہی نرمی سے اسکے کان میں جھمکا پہنادیا

"اب جلدی آؤ" اس پر ایک گہری نظر ڈال کر وہ وہاں سے جاچکا تھا

حیات نے اپنے تیز دھڑکتے دل کو قابو میں کرنے کی کوشش کی اور ڈوپٹہ ٹھیک سے ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئی

°°°°°

فون پر بات کرتے ہوے وہ اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا ارادہ حوریب کو بلانے کا تھا اور اسے دیکھنے کا بھی

کیونکہ صبح اسکے جاگنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے باہر بھاگ چکی تھی اور زریام نے اسے صبح سے نہیں دیکھا تھا

اس سے پہلے وہ اپنے کمرے میں جاتا وہ خود ہی باہر آچکی تھی اور اسے دیکھتے ہی زریام جیسے ساکت ہوچکا تھا

حوریب کے پاس شادی کے لحاظ سے کوئی کپڑے موجود نہیں تھے اسلیے آئرہ نے اس سے کہہ کر حوریب کے لیے شادی کے لحاظ سے کپڑے منگوائے تھے

وہ اپنے اندازے کے مطابق اس کے لیے الگ الگ سائز کے کپڑے لایا تھا کیونکہ اسے حوریب کے کپڑوں کا سائز معلوم نہیں تھا

اس وقت اسنے زریام کا لایا ہوا ہی پنک کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن کام ہورہا تھا

یہ سوٹ حوریب کے لیے تھوڑا ٹائیٹ تھا اور اسکے لہنگے کی یہ کرتی ٹائیٹ ہونے کے باعث ضرورت سے زیادہ ہی دلکش نظارہ پیش کررہی تھی

کم از کم زریام کو تو ایسا ہی لگ رہا تھا

°°°°°

"بات سن یہ تو کیا اٹھا لایا ہے" اسے دیکھتے ہی حوریب نے اسکے قریب آکر کہا پہلی بار اسنے لہنگا پہنا تھا جس میں اس سے چلنا مشکل ہورہا تھا

یا تو اسے ہاتھ میں پکڑ کر پھرتے رہو یا پھر پاؤں میں چھوڑ دو اور جیسے ہی یہ جھنجھنا پاؤں میں اٹکے زمیں کو سلامی پیش کردو حوریب کا تو یہی کہنا تھا

"تجھ سے بات کررہی ہوں" اسنے زریام کا کندھا ہلایا جو اسکے قریب آتے ہی چہرے کا رخ پھیر چکا تھا

"کپڑے بدل کر آؤ" اسنے حوریب کی طرف دیکھے بنا کہا جس پر اسنے حیرت سے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھ کر وہ وجہ ڈھونڈنی چاہی جس کی وجہ سے زریام اسے کپڑے بدلنے کا کہہ رہا تھس

"کیوں"

"بس کہا نہ بدل کر آؤ جلدی سے بہت سوال پوچھتی ہو باقی جو کپڑے لے کر آیا تھا ان میں سے کچھ پہن لو اسے فورا اتارو" اسکے ڈانٹنے پر وہ منہ بسورتی ہوئی واپس کمرے میں چلی گئی

پانچ سے سات منٹ بعد اسکی واپسی ہوئی اس بار اسنے کریم کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس پر ستاروں کا کام ہورہا تھا

پہلے سوٹ کی نسبت یہ سوٹ ڈھیلا تھا اور کریم کلر اسکی کھلتی رنگت پر خوب جچ بھی رہا تھا

اسے دیکھ کر زریام گہرا سانس لے کر رہ گیا وہ لڑکی بس ہر طرح سے اسکے جذبات جگا رہی تھی جس سے وہ خود بھی انجان تھی

°°°°°

"آگئے تمہارے دولہے میاں" ایہاب نے اسکے کمرے میں داخل ہوکر کہا

اسنے بھی اس وقت سفید کمیز شلوار پہنا ہوا تھا بس اسکے کوٹ کا کلر چینج تھا

یہ بھی ایہاب صاحب کی ہی ٹیکنیک تھی کہ کوٹ وہ الگ کلر کا ہی پہنے گا تاکہ سب کو پتہ چلے کہ وہ لڑکی والوں کی طرف سے ہے

"ویسے ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہے ہیں" ماہیم نے اسکی بات کا جواب نہیں دیا تھا جب اسے پھر سے ایہاب کی آواز سنائی دی

"کان بند کرلو ماہیم نور شاہ آرہی ہے" اسنے اپنی طرف سے مفت مشہورہ دیا جس پر ماہیم اپنا سر نفی میں ہلاکر رہ گئی اور نور کمرے میں داخل ہوئی

"ماہیم کتنی پیاری لگ رہی ہو تم" اسے دیکھتے ہی نور کے لبوں سے بےساختہ نکلا

اس وقت وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی ساحر اسکے اور اپنے لیے ایک ہی کلر کا ڈریس لایا تھا

اس وقت اسنے کریم کلر کا گرارہ پہنا ہوا تھا جس پر گولڈن کام ہورہا تھا جیولری اور برائیڈل میک اپ کے ساتھ وہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی

"تم یہاں کیا کررہی ہو تم لڑکے والوں کے ساتھ ہو لڑکی نیچے جاؤ واپس اسے میں لے کر آؤں گا" ایہاب نے اسے گھورتے ہوے کہا جس پر وہ اپنے کندھے اچکا کر رہ گئی

''میں لڑکے والوں کی طرف سے آچکی ہوں اب مجھے لڑکی والوں کی طرف جانا ہے اور میں اپنی بہن کو لے کر جارہی ہوں"

ماہیم کا ڈوپٹہ درست کرکے وہ اسے نیچے لے جانے لگی جب ایہاب بھی ماہیم کے قریب آکر دوسرے سائیڈ پر کھڑا ہوگیا

اسکی اکلوتی بہن کا نکاح تھا جس میں اسے اپنے سارے ارمان پورے کرنے تھے

°°°°°

اسنے اپنے تیز تیز دھڑکتے دل کو قابو میں کرنے کی کوشش کی اسکی آواز رندھی چکی تھی آنسو بس آنکھ سے گرنے باقی تھے جنہیں وہ بمشکل ضبط کیے بیٹھی تھی

بھیگی آواز کے ساتھ اسنے قبول ہے کہا اور اسکی رضامندی سنتے ہی ساحر شاہ کا بس نہیں چل رہا تھا یہیں پر شکرانے کا سجدہ ادا کرنے بیٹھ جاے

آخر آج اسکی محبت اسکا عشق اسکا جنون اسکے نام ہوچکا تھا ماہیم وصی اسکی محرم بن چکی تھی

نکاح ہوتے ہی اسنے اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ پھولوں سے بنا پردہ ہٹایا جو اسکے اور ماہیم کے درمیان موجود تھا اور ماہیم کا چہرہ تھام کر نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے

اسکی اس حرکت پر ہر طرف شور مچ اٹھا تھا

کتنی دیر تک وہ اسکے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑتا رہا جب ان دونوں پر پھولوں کی پتیاں برسنا شروع ہوئیں

ان پھول پھینکے والوں میں جو سب سے زیادہ پھول پھینک رہا تھا وہ شاہ میر تھا جو شاید اس طرح کرکے اپنی ایکسائیٹمنٹ ظاہر کررہا تھا

°°°°°

نکاح تک وہ بمشکل باہر کھڑی رہی تھی لیکن نکاح ہوتے ہی وہ تیزی سے اندر آگئی

سب اس وقت باہر موجود تھے اسلیے گھر کے اندر کا حصہ پورا سنسان پڑا تھا

"ویسے تو بڑا بول رہا تھا کہ اپن جیسی بھی ہے تیرے کو کوئی مسلہ نہیں ہے"

"مجھے اب بھی کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن تمہیں ضرور ہوگا اور میری یہ بات تمہیں جلد ہی سمجھ آجاے گی"

اسے زریام کی بات یاد آئی اسنے ٹھیک کہا تھا اس ماحول میں وہ خود کو بہت ان فٹ محسوس کررہی تھی

ایسا لگ رہا تھا جیسے اپنی دنیا سے نکل کر وہ کسی اور دنیا میں آگئی ہو

یہاں جیسے لوگ موجود تھے اسے ان کی طرح بولنے کی عادت نہیں تھی اسلیے کسی سے بھی بات کرتے ہوے اسے عجیب سی جھجک محسوس ہورہی تھی

پہلے یہ بات اتنی محسوس نہیں کی کیونکہ پہلے وہ صرف حوریب تھی لیکن اب وہ حوریب زریام تھی اب اسے زریام کے نام سے پہچانا جارہا تھا شاہ حویلی کی بہو کے طور پر متعارف کرایا جارہا تھا

اور اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اپنی وجہ سے وہ ان سب کو شرمندہ کردے گی

"حوریب تم یہاں کیا کررہی ہو" اپنے پیچھے سے آتی زریام کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا

جو اسکی باہر غیر موجودگی دیکھ کر اسے ڈھونڈتا ہوا اندر آیا تھا

"کچھ نہیں بس وہ لوگ زیادہ تھے تو گھبراہٹ ہورہی تھی" اسنے نظریں جھکا کر کہا

جبکہ زریام گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے اسکے اندر کا حال جان لے گا اور شاید اسے اندازہ بھی ہو گیا تھا

"آؤ میرے ساتھ ہی رہنا" اسکا ہاتھ پکڑ کر زریام اسے اپنے ساتھ باہر لے گیا

جب اسے اپنے ہاتھ پر حوریب کی سخت گرفت محسوس ہوئی جیسے اسے ڈر ہو زریام اسکا ہاتھ چھوڑ دے گا اسکے لب مسکرا اٹھے

اسکا اندازہ صحیح تھا وہ بس اس ماحول میں خود کو اکیلا اور انکنفرٹیبل محسوس کررہی تھی زریام کو یقین تھا وہ اب ایسا محسوس نہیں کرے گی کیونکہ اب وہ اسکے ساتھ تھا

°°°°°

واشروم سے نکل کر اسنے چلتے چلتے اپنا لہنگا درست کیا جب قدم ایک بار پھر لڑکھڑائے اور اس بار بھی وہ بچ گئی

عصیرم جو اسے ڈھونڈتے ہوے یہاں آیا تھا اسے گرتے دیکھ تیزی سے آگے بڑھتے ہوے اسے کمر سے تھام کر گرنے سے بچا چکا تھا

"تھینک یو" اسے سامنے دیکھتے ہی اسنے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا جبکہ اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے عصیرم بس اسکی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا

پتہ نہیں خواب تھا وہم تھا یا پھر حقیقت

جھوٹ تھا یا سچ

لیکن وہ پینتیس سالہ بھرپور مرد اسکی مسکراہٹ پر دل ہار چکا تھا

"مجھے بہت اچھا لگا کہ آپ آے چلیں میں آپ کو سب سے ملواتی ہوں"

"نور معتصم انکل مجھے سب سے ملواچکے ہیں"

"لیکن میں نے تو نہیں ملوایا نہ آپ سب کو بتانا آپ میرے دوست ہو اور میں نے آپ کو انوائیٹ کیا ہے"

"لیکن مجھے تو معتصم انکل نے انوائیٹ کیا ہے" اسکے کہنے پر نور نے منہ بنا کر اسے دیکھا

"مطلب آپ انکے کہنے پر آے ہیں" اس طرح کہتی ہوئی وہ عصیرم کو بہت کیوٹ لگ رہی تھی

"نہیں آیا تو میں تمہارے کہنے پر ہی ہوں"

"تو پھر میری ہی خاطر سب سے ملیے" اسے لے کر وہ باہر چلی گئی

°°°°°

اسے حیات کے پاس چھوڑ کر وہ باقی کے کام نمٹانے گیا تھا

لیکن کافی دیر تک جب وہ نظر نہیں آیا تو بےچین ہوتی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی نگاہ وہاں کھڑے شاہ میر پر گئی جو پلیٹ کے ساتھ ساتھ منہ بھی بھر کے کھڑا تھا

کھانا کھل چکا تھا اور سب اسی کام میں مصروف تھا بس ایک وہی تھا جسے مہمانوں سے زیادہ اپنے کھانے کی پرواہ تھی

لیکن اب وہ اتنا نکما بھی نہیں تھا آس پاس گزرتے ویٹرس کو اپنے پاس بلاتا انکے ہاتھ میں موجود ڈش سے اپنے لیے کھانا لیتا اور پھر جس ٹیبل پر کھانا کم نظر آرہا ہوتا اس ٹیبل پر رکھنے کا آرڈر دے دیتا

"بات سن" اسے اپنے قریب دیکھ کر شاہ میر جلدی سے منہ میں چلتا نوالہ نگلا اور پلیٹ ٹیبل پر رکھ دی

"بول بول" ہاتھ کی مٹھی بنا کر اسنے پہلی اور آخری انگلی باہر نکالی اور روکنگ اسٹائل میں ہاتھ نچاتے ہوے کہا

"یہ کیا کررہا ہے"

"تمہارے اسٹائل میں بات کرنے کی کوشش کررہا ہوں"

"ہاتھ نیچے کر" اسکے گھورنے پر شاہ میر نے شرافت سے ہاتھ نیچے کیے

"وہ کہاں ہے"

"وہ کون"اسنے ناسمجھی سے کہا

"تیرا بھائی"

"اوہ اچھا یوں کہو کہ تمہارے سائیں کہاں ہیں کھانا کھلارہے ہیں مہمانوں کو"

"اور تو خود یہاں کھا رہا ہے میں نے خود سے دیکھا کھا تو کم رہا ہے نظریں زیادہ چلا رہا ہے"

"ہاں تو میرے بھائی تو شادی کررہے ہیں اب میں اپنے لیے کچھ نہ کروں"

"شرم کرلے کچھ تو لڑکیاں تاڑ رہا ہے"

"تو تمہیں تاڑ لوں" اسکے شرارت سے کہنے پر حوریب نے صدمے سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا

"اپن بھابھی ہے تیری تجھے شرم نہیں آرہی ایسے بات کرتے ہوے ابھی تیرے بھائی کو بتاتی ہوں" منہ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ وہاں سے چلی گئی

جبکہ اسے جاتے دیکھ کر شاہ میر کو زریام کے ہاتھوں اپنی اچھی خاصی شامت ہوتی دکھ رہی تھی اسلیے اسے روکنے کے لیے وہ جلدی سے اسکے پیچھے بھاگا

°°°°°

"میرا ہاتھ چھوڑیں" دانت پیستے ہوے اسنے اپنے برابر بیٹھے ساحر سے کہا جو اسکے یہاں بیٹھتے ہی اسکا ہاتھ پکڑ چکا تھا

اور اسکی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ چھڑا بھی نہیں پارہی تھی جبکہ یہ سوچ کر الگ شرمندگی ہورہی تھی کہ اگر کوئی ایسے انہیں دیکھ لیتا تو کیا سوچتا

"چھڑا سکتی ہو تو" چھڑا لو شان بے نیازی سے کہتے ہوے اسنے اپنے لب ماہیم کے ہاتھ کی پشت پر رکھ دیے جبکہ اسکے ایسا کرتے ہی وہ شرم سے سرخ ہوتی ہوئی اپنی نظریں جھکا گئی

ساحر گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اسکی نظروں سے کنفیوژ ہوتی ارد گرد دیکھ رہی تھی جب اسکی نظر سامنے سے آتی نور پر پڑی

"نور" نور پر نظر پڑتے ہی ماہیم نے اسے پکارا جو اسکے پکارنے پر اسکے پاس جاکر کھڑی ہوگئی

"ہاں"

"مجھے اب یہاں بیٹھے سے الجھن ہورہی ہے اندر جانا ہے" نور کی نظر اسکے ہاتھ پر گئی جو ساحر کی قید میں تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے بےحد قریب بیٹھے تھے اسلیے غور کرنے پر ہی پتہ چل رہا تھا کہ ساحر نے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا ہے

"ماہیم سب مہمان بیٹھے ہوے ہیں"

"پلیز تم ماما سے کہو نہ مجھے کمرے میں جانا ہے"

"اچھا میں عینہ آنٹی سے پوچھ کر آتی ہوں" نیچے اتر کر وہ وہاں سب چلی گئی جب ساحر نے اسکے کان میں سرگوشی کی

"اچھی بات ہے تم اندر جاؤ پھر میں بھی آرہا ہوں"

"آپ کیوں آرہے ہیں آپ یہیں بیٹھیں" اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا لیکن اسکی اگلی بات سن کر ماہیم کی نظریں پھر جھک چکی تھیں

"نکاح سے پہلے جو باتیں میں لفظوں میں کہتا تھا اب انہیں عمل کرکے دکھاؤں گا"

°°°°°

"یہ اپن کو چھیڑ رہا تھا" اسنے زریام کے پاس آتے ہی تیزی سے کہا

بلاآخر اتنے لوگوں میں اتنی دیر ڈھونڈنے کے بعد وہ اسے مل ہی گیا تھا

اسکے کہنے پر زریام نے گھورتی نظروں سے شاہ میر کو دیکھا جبکہ شاہ میر سر جھکاتے ہوے ڈھٹائی سے مسکرا رہا تھا

پہلے اسکا ارادہ حوریب کو روکنے کا تھا پھر زریام کو دیکھتے ہی اسکا ارادہ یہاں سے بھاگنے کا ہوا لیکن پھر سوچا صفائی دے دی جاے کہیں اسکا بھائی اسے غلط نہ سمجھے

"لالا قسم سے میں نے کچھ نہیں کہا تھا"

"آہ بتا کیسا جھوٹا انسان ہے یہ" حوریب نے اسکے جھوٹ پر صدمے سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا

"یہ لڑکیاں تاڑ رہا تھا اپن نے منع کیا تو کہنے لگا تمہیں تاڑ لوں"

"کچھ شرم ہے بھی یا نہیں بھری محفل میں تم اپنی بھابھی سے اس طرح بات کررہے ہو" حوریب کی مکمل بات سنتے ہی اسنے سخت لہجے میں کہا دل تو چاہ رہا تھا ایک تھپڑ اسکے منہ پر لگاے لیکن وہ یہاں کسی طرح کا تماشہ نہیں چاہتا تھا

"مطلب اکیلے میں کرسکتا ہوں بھری محفل میں اعتراض ہے"

"بکواس بند کرو اپنی جب دیکھو الٹی سیدھی حرکتیں رہ گئیں تمہاری"

"سوری لالا میں نے تو بس مذاق کیا تھا" اسنے ہلکی آواز میں معصومیت بھرے لہجے میں کہا اور زریام کو اس وقت وہ دنیا کا سب سے معصوم شخص لگ رہا تھا

اگر کوئی اور ہوتا تو اسکا چہرہ دیکھ کر دھوکا کھا جاتا لیکن وہ بھی شاہ میر کا بھائی تھا اسے اچھی طرح سے جانتا تھا

"پہلے غلطی کرتے ہو اور پھر ہر بار سوری کرنے آجاتے ہو اس بار تمہاری یہ غلطی معاف نہیں ہوگی بلکہ تمہیں سزا ملے گی اور تمہاری سزا یہ ہوگی کہ تمہاری دو مہینے کی پوکیٹ منی بند"

اپنی بات مکمل کرکے وہ حوریب کا ہاتھ پکڑے اسے لے کر جا چکا تھا جبکہ شاہ میر کی حالت اسکی بات سن کر ایسی ہوچکی تھی جیسے ابھی بےہوش ہوجاے گا

°°°°°

آہستہ آہستہ سب مہمان رخصت ہورہے تھے باہر اب بس چند لوگ ہی بچے تھے جو جانے کی تیاری کررہے تھے جبکہ گھر کے کچھ افراد بھی اب اندر بیٹھے اپنی کمر سیدھی کررہے تھے

جب عصیم اندر داخل ہوا لیکن وہاں بیٹھے افراد میں اسے ماہر نظر نہیں آیا بلکہ وہ اسے کافی دیر سے نہیں دکھا تھا

"ماہر کہاں ہے" اسنے وہاں بیٹھے افراد سے پوچھا

"اپنی بیگم سے پوچھیں" آہان نے اپنی مسکراہٹ کو ضبط کرتے ہوے کہا

"کسوا ماہر کہاں ہے"

"ماہر بھائی تو باہر ہی ہیں کسوا آنٹی نے کہا ہے جب تک سارے مہمان نہیں چلے جاتے باہر ہی رہنا اور جو لڑکی اچھی لگے آکر مجھے بتانا زریام کے ولیمے پر تمہارا بھی نکاح کردوں گی" ایہاب نے مزے سے اسکی کارستانی بتائی جس پر عصیم نے گھور کر اسے دیکھا

"شاہ آپ نے سنا نہیں تھا وہ کہہ رہا تھا کہ جب ساحر اور میں نے ہر کام ساتھ کیے ہیں تو ہماری شادی بھی تو ساتھ ہونی چاہیے نہ دیکھیں نہ زریام کا بھی نکاح ہوگیا ساحر کا بھی ہوگیا بس میرا ماہر رہ گیا ہے بیچارا"

"تو اسلیے تم نے اسے باہر لڑکیاں تاڑنے پر لگا دیا"

"نہیں نہیں شاہ وہ تاڑ نہیں رہا میں نے اس سے کہا تھا بس دیکھنا" اسنے عصیم کے لفظوں کو درست کیا

جس پر اپنا سر نفی میں ہلاکر وہ دوبارہ باہر چلا گیا

°°°°°

نور اسے تھوڑی دیر پہلے ہی کمرے میں لے کر آئی تھی اور پانچ منٹ میں آنے کا کہہ کر پتہ نہیں کہاں چلی گئی تھی جو دس منٹ میں بھی نہیں آئی تھی

اپنا دوپٹہ اتار کر اسنے اپنے بالوں میں لگی پن اتار کر اپنے بال کھولے اور الماری سے اپنے لیے سادہ لباس نکالنے لگی اسنے ابھی تک نکاح والا جوڑا ہی پہن رکھا تھا

"کہاں تھیں تم" دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے چہرہ موڑ کر اس سمت دیکھا اسے یہی لگا تھا کہ نور ہوگی لیکن ساحر کو دیکھ کر جیسے اسکے الفاظ ہی دم توڑ چکے تھے

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں" اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے ساحر نے دروازہ لاکڈ کیا جس سے اسے مزید گھبراہٹ ہوئی

"آپ دروازہ کیوں بند کررہے ہیں"

"تاکہ کوئی اندر نہ آے" اسکے قریب آکر ساحر نے اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا

"دی--دیکھیں آپ جائیں نور آجاے گی"

"اب آیا ہوں تو منہ بنا میٹھا کیے چلا جاؤں گا"

"دیکھیں مجھ سے فضول باتیں مت کریں آپ جائیں ورنہ میں شور مچاؤں گی"

"دھمکی دے رہی ہو اگر ہاں تو جان ساحر میں تمہاری ان دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں مچاؤ شور" ساحر نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور اسکے کان کی لو کو اپنے دانتوں میں لیا اس کی اس حرکت پر ماہیم کانپ کر رہ گئی

"پ--پلیز آپ جائیں" اسنے ہمت کرکے کہا لیکن وہ بنا اسکی بات سنے اسکے چہرے اور گردن پر اپنا لمس چھوڑنے لگا

جبکہ اسکی ان حرکتوں کی وجہ سے ماہیم سے کچھ کہنا مشکل ہورہا تھا

"پلیز جائیں" ساحر نے بغور اسکا چہرہ دیکھا جہاں وہ آنکھیں زور سے میچیں کھڑی تھی

"جاؤں"

"ہاں" اسنے بند آنکھوں کے ساتھ کہا

جس پر ہلکا سا مسکرا کر ساحر اسکے لبوں پر جھک گیا اسکی اس حرکت پر ماہیم کی آنکھیں پوری کھل چکی تھیں

قطرہ قطرہ اسکی سانسوں کو خود میں اتارتا وہ شاید اپنی سالوں کی پیاس مٹا رہا تھا

°°°°°

دروازہ ناک ہونے کی آواز پر وہ بدمزاح ہوکر پیچھے ہٹا اور ماہیم کا سرخ چہرہ دیکھنے لگا

ان پیار بھرے لمحوں میں اسے اس وقت باہر کھڑے شخص کی موجودگی بہت بری لگ رہی تھی وہ ہرگز دروازہ نہیں کھولتا اگر اسے نور کی آواز نہیں آتی

"ماہیم دروازہ کھولو"

گہرا سانس لے کر ساحر نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا جبکہ نور اسے یہاں دیکھ کر کافی حیران ہوئی

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں ساحر لالا"

"نور بچہ تم غلط وقت پر آئی ہو"

"اب تو آگئی" مزے سے کہتی ہوئی وہ کمرے میں داخل ہوئی

ساحر نے چہرے کا رخ ماہیم کی طرف موڑا جو ابھی تک نظریں جھکائے کھڑی تھی

اسکی حالت دیکھ کر وہ مسکراتے ہوے کمرے سے چلا گیا

°°°°°

ایک ہفتے بعد زریام کا ولیمہ رکھا گیا تھا اور جس کو جتنی ولیمے کے لیے جتنی تیاری کرنی تھی وہ بس اس ایک ہفتے میں کرنی تھی

گاؤں ان میں سے ابھی کوئی بھی نہیں جارہا تھا کیونکہ شاپنگ کے لیے ان سب کو واپس شہر آنا پڑتا اسلیے سب تیاریاں مکمل کرکے ہی اب وہ لوگ گاؤں جانے والے تھے

کیونکہ زریام کا ولیمہ گاؤں میں موجود بینکوئیٹ میں ہونا تھا

کچھ مہمان جو شادی کی وجہ سے دور سے آے تھے وہ اس وقت وصی کے گھر پر رکے ہوے تھے

پورا گھر چڑیا گھر لگ رہا تھا اور اب تو کمرے بھی کم پڑ رہے تھے

اسلیے سب لڑکوں کو جمع کرکے معتصم انہیں اپنے گھر لے کر جانے کا ارادہ رکھتا تھا جبکہ ساری لڑکیاں یہیں پر رہنے والی تھیں

°°°°°

"پہننے کے لیے کچھ نہیں ہے"زریام کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے منمناتے ہوے کہا

"تم ماہیم سب مانگ لینا بلکہ میں خود اس سے کہہ دوں گا کل میں تمہیں شاپنگ پر لے کر تو جاؤں گا تو جب تمہارے لیے کپڑے لے لینگے"

زریام کا ولیمہ اور یہاں رکنے کا ارادہ اچانک ہی بنا تھا ورنہ اگر پتہ ہوتا تو وہ سب اپنی تیاری کرکے آتے اس وقت جو سوٹ حوریب نے پہنا ہوا تھا وہ ایسا تو تھا نہیں کہ اس میں سویا جاتا اور نہ ہی اسے ایسے کپڑے پہننے کی عادت تھی وہ تو ہمیشہ سے سادے سے مردانہ کمیز شلوارہ پہنتی تھی

"اپن" پہلے لفظ کے استعمال میں زریام کی گھورتی نظروں کی وجہ سے اسنے اپنے الفاظ کو درست کیا

"میرے کو چھوڑ کر جارہا ہے"

"تم کہتی ہو تو نہیں جاؤں تمہارے پاس اس کمرے میں رک جاتا ہوں" اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر زریام نے نرمی سے اسے اپنے قریب کیا

"اس بند کمرے میں بس ہم دونوں ہوں گے اور ہم دونوں کے درمیان پیار بھرے لمحات" اسکے کہنے پر حوریب نے تیزی سے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں تو جا"

اسکے کہنے پر زریام کے لبوں پر تبسم بکھرا اور اگلے ہی لمحے وہ اسکے لبوں پر جھک گیا

معتصم نے اسے یہی کہا تھا کہ وہ یہیں رہے گا اس کی ابھی ابھی شادی ہوئی تھی اسے اپنی بیوی کو ٹائم دینا چاہیے

وصی مہمانوں کی وجہ سے یہیں موجود تھا ورنہ وہ بھی انکے ساتھ جاتا سب ایک ساتھ تھے اور ایسا موقع کم ہی میسر ہوتا ہے باقی گھر کے بڑے بھی یہیں موجود تھے

لیکن باقی سب مرد حضرات جارہے تھے اور ایسے میں اسے پھر یہاں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا اور یہاں سے جانے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی

کہ اگر وہ یہاں رہتا تو حوریب اسی کے پاس بیٹھی رہتی لیکن اگر وہ یہاں سے چلا جاتا تو وہ باقی لوگوں سے ملتی اور اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش تو کرتی

اسکے لبوں کو آزاد کرکے زریام نے نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر چلا گیا

سب لڑکیاں ایک ہی کمرے میں جمع تھیں اسلیے زریام نے اسے بھی انہی کے پاس چھوڑ دیا

°°°°°

معتصم عالم اور عصیم سونے کے لیے کمروں میں جاچکے تھے جبکہ باقی کی ینگ پارٹی باتیں کرنے میں مصروف تھی

"تو ماہر لالا کوئی لڑکی ملی آپ کو" آہان کا انداز چھیڑنے والا تھا جب سے اسے پتہ تھا کہ کسوا نے اسے کیا کہا ہے تب سے وہ اسے چھیڑے جارہا تھا

ساحر ماہر اور زریام اس وقت صوفے پر بیٹھے ہوے تھے جبکہ ایہاب شاہ میر اور آہان نیچے کارپٹ پر لیٹے ہوے تھے

ٹیبل پر پیزا کے بچے ہوے چند سلائس موجود تھے جو ان لوگوں نے آرڈر کرکے منگوایا تھا ساتھ ہی کولڈ رنگ رکھی ہوئی تھی جو آہان ہر تھوڑی دیر بعد اپنے لبوں سے لگاتا اور پھر اسے واپس ٹیبل پر رکھ دیتا

"بھائی تو اسے ایک ہی بار پی جانا" زریام نے تب کر کہا آہان کی حرکت اسے غصہ دلا رہی تھی جو ہر تھوڑی دیر بعد بوتل اٹھا کر ایک گھونٹ لیتا اور واپس رکھ دیتا پینی تھی تو ساری ایک ساتھ ہی جاتا

"ایک ہی بار پی جاؤں گا تو ساری ختم ہوجاے گی نہ لالا" ماتھے پر بکھرے بال پیچھے کرکے اسنے معصومیت سے جواب دیا

"تو ایک ایک گھونٹ پینے میں ختم نہیں ہوگی"

"دیر سے ہوگی" اسے جواب دے کر وہ دوبارہ ماہر کی طرف متوجہ ہوا اپنے سوال کا جواب لینے کے لیے

"اماں سائیں کا کہنا ہے کہ ساحر اور زریام کی شادی دیکھ کر میرا بھی شادی کا دل چاہ رہا ہے انہوں نے یہ غم میرے چہرے پر پڑھا جبکہ مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ میری ماں نے وہ غم کیسے پڑھ لیا جو مجھے ہے ہی نہیں" ماہر کی بات سن کر وہاں سب کے قہقہے گونجے

سواے ساحر کے جو اپنی ہنسی روکے بیٹھا ہوا تھا اپنی ماں ہر ہنسنا اسے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن شاہ میر اس جیسا نہیں تھا وہ پورا گلا پھاڑ کر زور زور سے ہنس رہا تھا

"کوئی جا کر انہیں یہ سمجاے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے"

"ماہر لالا میں نے سنا ہے جنہیں شادی کا شوق نہیں ہوتا وہ شادی کے بعد گندے ہوجاتے ہیں"

"شاہ میر میں نے بھی سنا ہے جنہیں شادی کا شوق ہوتا ہے وہ شادی کے بعد مزید گندے ہوجاتے ہیں"

"انہیں شادی کرنی نہیں ہے تو سب انکے پیچھے پڑے ہوے ہیں مجھے کرنی ہے تو کوئی میری کرواتا نہیں ہے"

"شاہ میر تم زرینہ سے شادی کرلو" ایہاب کے کہنے پر اسنے اپنے دماغ پر زور دے کر یاد کرنا چاہا کہ زرینہ کون ہے

"کون زرینہ"

"ہمارے چوکیدار کی بیوی" اسکے کہنے پر جہاں شاہ میر نے منہ بنایا وہیں سب کے قہقہے پھر گونجے جبکہ زرینہ کو یاد کرتے ہی اسنے جھرجھری لی

جہاں زرینہ کا شوہر انکا چوکیدار تھا وہیں اسکی بیوی زرینہ انکے سامنے والے گھر میں کام کرتی تھی وصی نے انہیں ایک سرونٹ کوارٹر دیا ہوا تھا اسلیے وہ لوگ اسکے گھر پر ہی رہتے تھے

اسی وجہ سے سب نے ہی زرینہ کو دیکھا ہوا تھا جس کے دانت اتنے بڑے تھے کے شاہ میر انہیں دیکھ کر سوچتا رہ جاتا کہ اسکا شوہر اسے کس کیسے کرتا ہوگا

ایک بار یہ سوال اسنے آہان اے پوچھا تھا جس کے جواب میں اسنے یہ کہا کہ تو کرکے دیکھ لے پتہ چل جاے گا

"کچھ شرم کرلو تم لوگ وہ شادی شدہ ہے" اپنی طرف سے اسنے انہیں شرم دلانے کی کوشش کی

"تو کیا ہوا وہ اپنی سولہ کی بیٹی کے لیے رشتے ڈھونڈ رہی ہے اسے دیکھ لیتے ہیں" اس بار ماہر نے اسے اپنے قیمتی مشہورے سے نوازا

"جب گھر میں اتنی پیاری لڑکی ہے تو میں باہر کیوں دیکھوں" اسکے کہتے ہی سمجھ تو سب گئے تھے کہ وہ حیات کی بات کررہا ہے لیکن ظاہر کسی نے نہیں کیا

"شاہ میر تجھے شرم نہیں ہے نور بہن ہے تیری" آہان کے کہنے پر ایہاب نے "اوہ" کو لمبا کھینچ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھا

"بے شرم انسان"

"نہیں نہیں تم لوگ غلط سمجھ رہے ہو"

"اچھا تو پھر ماہیم کے بارے میں بات کررہا تھا" آستینیں اوپر چڑھا کر اس بار ساحر بھی میدان میں اترا جس پر وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گیا

"نہیں یار ماہیم اور نور بہنیں ہیں میری"

"اچھا تو مطلب حوریب ہے مجھے تو شروع سے ہی تجھ پر شک تھا"

"زریام لالا آپ بھی حد کرتے ہیں مجھے کسی سے کچھ بات ہی نہیں کرنی ہے جارہا ہوں میں سونے کے لیے" جھنجھلائے ہوے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ اسکے جاتے ہی وہاں پھر سے سب کا قہقہہ گونجا

°°°°°

°°°°°

ماہیم کے کمرے میں اس وقت وہ چاروں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں وہ تینوں تو خاموش تھیں یا شاید نور انہیں کچھ کہنے ہی نہیں دے رہی تھی

"ماہیم تم بتاؤ تمہاری آنکھیں اتنی خوبصورت کیسے ہیں بھابھی آپ بتائیں آپ خود اتنی خوبصورت کیسے ہیں اور حیات تم بتاؤ تم اتنا کم کیوں بولتی ہو"

"نور اگر تم کسی کو بولنے کا موقع دو گی تو وہ ضرور بولے گا" ماہیم کے مسکرا کر کہا

"اچھا ٹھیک ہے نہیں کہہ رہی میں کچھ بھابھی آپ بتائیں آپ کی اور زریام لالا کی ملاقات کیسے ہوئی" اس بار اس کا رخ حوریب کی طرف تھا

حیات اور ماہیم تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کہہ ہی رہی تھیں لیکن وہ جب سے کمرے میں آئی تھی خاموش بیٹھی پڑی تھی

"اپ" اپن کا لفظ استعمال کرتے کرتے اسکی زبان رکی اسے زریام کے لفظ یاد آے

"سب سے پہلے تم یہ اپن بولنا بند کرو گی"

"میں اس سے سڑک پر ملی تھی میں اسکا بٹوہ چرا رہی تھی اور اسنے مجھے پکڑ لیا"اسنے صاف گوئی سے کام لیا

وہ تینوں دلچسپی سے اسکی کہانی سن رہی تھیں اس طرح کی ملاقات انہوں نے پہلی بار دیکھی تھی اور حوریب جو شروع میں تھوڑا شرما رہی تھی کچھ ہی دیر میں انکے ساتھ گھل مل چکی تھی

°°°°°

"مطلب حد ہوگئی ہے پہلے جب پھوپو آتی تھیں تو جب بھی امی کو شکایت رہتی تھی کہ روزانہ آجاتی ہیں اور اب جب وہ نہیں آرہی ہیں تو پھر انہیں فکر ہورہی ہے کہ اتنے دن ہوگئے آکیوں نہیں رہی ہیں جبکہ انہیں خود پتہ ہے کہ وہ اسلیے نہیں آرہی ہیں کیونکہ بابا جانی نے انکے پکے زید کے لیے انکار جو کردیا ہے"

آدھی سے زیادہ یونیورسٹی خالی ہوچکی تھی اور وہ بھی باہر نکلنے پی والا تھا جب لائبریری کے قریب سے گزرتے ہوے اسے کسی کے بڑبڑانے کی آواز آئی

ساحر کے نکاح کے باعث وہ چند دنوں بعد یونیورسٹی آیا تھا

اسنے لائبریری میں داخل ہوکر دیکھا جہاں عزہ اسٹول پر چڑھے اوپر والے حصے سے کوئی کتاب نکال رہی تھی لیکن وہاں تک بھی اسکا ہاتھ نہیں جارہا تھا اسلیے اسنے اپنی ایڑیاں اٹھائی ہوئی تھیں

مسکراتے ہوے ماہر اسکے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا اور غور سے اسکی بڑبڑاہٹ سننے لگا

"مطلب یہ بھی کوئی بات ہوئی امی کو تو خوش ہونا چاہیے جب سے انہوں نے آنا کم کیا ہے مہینے کے سامان میں کافی بچت آنے لگی ہے لیکن نہیں انہیں کون سمجھائے اور اوپر سے یہ میشال کی بچی بےکار کام مجھ پر چھوڑ گئی جبکہ جانتی تھی کہ اتنی اوپر میرا ہاتھ نہیں جاے گا"

"عزہ"ماہر کی گمبھیر آواز سنتے ہی وہ ہڑبڑا کر مڑی جب قدم لڑکھڑائے اور وہ سیدھی ماہر کے اوپر جاگری

اس بار ماہر کو اپنے لبوں پر اسکا لمس محسوس ہوا تھا جسے محسوس کرکے اسکا دل عجیب بے ڈھنگے انداز میں دھڑکنا شروع ہوگیا

دوبارہ ہوے اس حادثے پر وہ دونوں ہی شاکڈ کی کیفیت میں تھے

ماہر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ جلدی سے اٹھی نظریں شرمندگی کی وجہ سے جھک چکی تھیں

زمیں پر جو کتابیں گرچکی تھیں عزہ نے انھیں اٹھا کر ٹیبل پر رکھا اور بنا اسکی طرف دیکھے باہر بھاگ گئی

ماہر نے اسکی پشت کو دیکھا بےساختہ اسکا ہاتھ اپنے لبوں پر گیا جہاں اسے ابھی بھی عزہ کا لمس محسوس ہورہا تھا

°°°°°

صبح ہوتے ہی وہ واپس وصی کے گھر پر آگیا تھا جہاں گھر کے قریب پہنچتے ہی اسکی نظر گیٹ پر کھڑے چوکیدار پر گئی

اسے دیکھتے ہی شاہ میر کو بڑے دانتوں والی زرینہ یاد آگئی سوچا آج اپنی کنفیوژن مٹا ہی لی جاے اسلیے گلا کھنکار کر وہ اسکے قریب جاکر کھڑا ہوگیا

"بات سنو"

"جی صاحب" شاہ میر کو دیکھتے ہی بختو چوکیدار نے ادب سے کہا شاہ میر اکثر یہاں آتا رہتا تھا اسلیے وہ جانتا تھا کہ وہ کون ہے

"ایک بات پوچھوں تھوڑا پرسنل سوال ہے"

"پوچھیں صاحب آپ کو بھلا اجازت کی کیا ضرورت"

"تم اپنی بیوی کو کس کیسے کرتے ہو"

"کیا مطلب" اسنے سر کھجاتے ہوے ناسمجھی سے کہا

"تم اپنی بیوی کا چما لیتے ہو"اسنے اپنے طریقے سے آسان لفظوں میں اسے سمجھانے کی کوشش کی

"جی صاحب" اسنے اپنے کندھوں پر رکھا رومال دانتوں میں دبا کر شرماتے ہوے بتایا

ایسی بات کسی نے اس سے پہلی بار پوچھی تھی

"تو مطلب تم لیتے کیسے ہو" اسکی کنفیوژن ابھی بھی دور نہیں ہوئی تھی اسلیے اسنے کہہ دیا جبکہ اسکے کہنے پر چوکیدار اسے بتانے لگا

کہ وہ چما کیسے لیتا ہے اور اسکی اس طرح کی بات سن کر وہ منہ بگاڑتا ہوا بھاگ کر اندر چلا گیا اب اسکے کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی چما کہانی اسے بتانے بیٹھ جاتا

"وصی انکل کو بولتا ہوں اپنا چوکیدار بدلیں یہ بہت چھچھورا ہے"

°°°°°

اسکا ارادہ آج ماہیم کو اپنے ساتھ ڈنر پر لے جانے کا تھا جس کے لیے اسنے پہلے وصی سے اجازت لی

مانا کے ماہیم اب اسکے نکاح میں تھی لیکن ساحر کے ابھی اس پر مکمل اختیارات نہیں تھے اسلیے ماہیم کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے اسے پہلے وصی اور عینہ کی اجازت کی ضرورت تھی

وصی سے بات کرکے اسنے اگلی کال ماہیم کو کی تھی

°°°°°

حیات حوریب اور نور ابھی تک سورہی تھیں آئرہ تو ناشتہ کرتے ہی اپنے ساتھ پریشے کسوا اور عینہ کو شاپنگ پر لے کر جاچکی تھی جبکہ ثمرین فارینہ اور صائمہ بیگم گھر پر ہی موجود تھی

گھر میں موجود مرد حضرات اور باقی کے مہمان جو رکے ہوے تھے وہ اپنے کمروں میں موجود تھے اور ماہیم کچن میں ناشتہ کرتی ان میسیجز کو دیکھ رہی تھی جو اسے دوستوں کلاس فیلوز اور ٹیچرز کی طرف سے نکاح کی مبارک باد کے طور پر ملے تھے اور وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی

زندگی اتنی جلدی بدل جاتی ہے کاغذ کے چند ٹکڑوں پر دستخط کرکے وہ کسی اور کی ہوگئی اسکے نام کے ساتھ وصی ہٹ کر ساحر لگ چکا تھا

"آپ اتنی جلدی اٹھ گئیں ماہیم بی بی" ملازمہ نے کچن میں داخل ہوکر اسے وہاں بیٹھے دیکھ کر کہا

"ہاں سب لڑکے کہاں ہیں کوئی دکھ ہی نہیں رہا ہے" مہمانوں کے جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی

اسے بس اتنا پتہ تھا کہ ایک ہفتے بعد زریام کا ولیمہ ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ گھر میں بھی نہیں ہیں انکی غیر موجودگی اسنے صبح ہی دیکھی تھی

"جی وہ سب تو گاؤں چلے گئے" اسے جواب دے کر وہ سنک میں رکھے برتن دھونے لگی

جبکہ اسکے جواب پر ماہیم کے لب مسکرا اٹھے اسے کوئی اینرجی اپنے اندر اترتی محسوس ہورہی تھی اور ایسا صرف جب ہی ہوتا تھا جب ساحر گاؤں جاتا تھا

مسکراتے ہوے وہ نور کے کمرے کی طرف جانے لگی کیونکہ اسکے اپنے کمرے میں تو وہ تینوں سورہی تھیں

صبح ہوتے ہی اسے اتنی اچھی خوش خبری ملی تھی لیکن وہ خوشی بھی ساری پھیکی پڑ گئی جب موبائل پر ساحر کی کال آنے لگی

"جی ساحر بھائی" عادت کے مطابق اسکی کال اٹھاتے ہی ماہیم کے لبوں سے نکلا لیکن پھر اپنے الفاظ سن کر خود ہی اپنے آپ کو ڈانٹا جبکہ دوسری طرف اسکے لبوں سے ابھی بھی اپنے لیے بھائی سن کر وہ اچھا خاصا تپ چکا تھا

"بھائی نہیں ہوں میں تمہارا آج کے بعد اگر مجھے غلطی سے بھی بھائی کہا کہ تو دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں"

اسکے منہ سے غلطی سے بھائی نکلا تھا اور اسنے اپنی غلطی مانی بھی تھی لیکن ساحر کے اس طرح دھماکے پر اسکا پارہ بھی چڑھ چکا تھا

ویسے بھی وہ کونسا یہاں پر تھا اسلیے ماہیم نے اپنے دل کی بات کہنے میں دیر نہیں کی تھی

"کیا کرینگے آپ میرے ساتھ اب تو میں آپ کو بھائی ہی کہوں گی"

"ماہیم تم مجھے غصہ دلا رہی ہو"

"آپ کو کب غصہ نہیں آتا ہر وقت تو غصہ ناک پر بیٹھا رہتا ہے میں کہوں گی آپ میرے بھائی ہو ساحر بھائی ساحر بھائی ساحر"

اسنے فون کان سے ہٹایا کال کٹ چکی تھی جس پر اسنے شکر کا سانس لیا اور کمرے میں جانے کا ارادہ ترک کرکے وہیں بیٹھ گئی

اسنے پہلی بار ساحر سے اس طرح بات کی تھی اور اندر سے ایسی فیلنگ آرہی تھی جیسے ساحر سے اس طرح بات کرکے وہ کوئی شیرنی بن گئی ہو

°°°°°

مزے سے وہ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی اندر کا دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے وہ بہت آرام سے باہر لان کا منظر دیکھ سکتی تھی

اور تب ہی اسے ہرے بھرے لان میں غصے سے بھرا ساحر نظر آیا وہ اس وقت فون پر بات کررہا تھا اور ماہیم یہاں سے بھی آرام سے دیکھ سکتی تھی کہ وہ غصے میں ہے

اپنی آنکھیں مسل کر اسنے اس بات کی تصدیق کرنی چاہی کہ وہ ساحر ہی ہے اور جب یقین آیا کہ ہاں وک ساحر ہی ہے تو جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھی ارادہ بس یہاں سے بھاگنے کا تھا

جب وہ ملازمہ سے ٹکرائی اور اسے دیکھتے ہی ماہیم غصے سے اسے گھورنے لگی

"کیا کہا تھا تم نے ساحر بھا مطلب وہ گاؤں گئے ہیں" اسنے اپنے لفظوں کو درست کیا

"جی وہ جب یہاں نہیں ہوتے تو گاؤں ہی تو جاتے ہیں"اسکی بات سن کر ماہیم اپنا سر پکڑ رک رہ گئی

"وہ یہاں پر آگئے ہیں اگر میرا پوچھیں تو کہہ دینا میں یہاں نہیں ہوں غائب ہوگئی ہوں"

"ماہیم بی بی کیا بولوں آپ کہاں ہیں"

"ارے کچھ بھی کہہ دینا زمیں کھا گئی یا آسمان نگل گیا" بھاگتے ہوے اسنے تھوڑی تیز آواز میں کہا تاکہ ملازمہ سن سکے

پہلا کھلا کمرہ اسے نور کا ملا جو خالی تھا اس میں داخل ہوکر اسنے جلدی سے دروازے کو اچھے سے لاک کیا اور شکر بھرا سانس لے کر اپنا سر دروازے پر ٹکا دیا

سانس جو رکا ہوا تھا ایک دم بحال ہوا لیکن پیچھے سے آتی آواز سن کر واپس رک چکا تھا

"دروازہ اچھے سے لاک ہوگیا نہیں ہوا تو میں کردیتا ہوں"

°°°°°

°°°°°

"معتصم انکل قسم سے آپ کے ساتھ سفر کرنے میں بلکل مزہ نہیں آتا آپ سے زیادہ اچھی ڈرائیونگ تو عالم انکل کرتے ہیں"

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایہاب نے اس خاموشی کو توڑا

ڈرائیور آج کسی کام سے چلا گیا تھا اور ایہاب کی بائیک خراب تھی ایسے میں معتصم نے اسے یونی سے پک کرلیا

"عالم انکل تمہیں اس لیے اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ تمہیں باہر کھڑی لڑکیاں دیکھنے پر منع نہیں کرتے اور میں کررہا ہوں" معتصم کے کہنے پر وہ خاموش ہوگیا وہ غلط تو نہیں کہہ رہا تھا

°°°°°

لان میں کھڑا وہ غصے سے فون پر موجود اپنے ورکر کو ڈانٹ رہا تھا ماہیم کی حرکت سے غصہ تو پہلے ہی آرہا تھا اوپر سے یہ شخص اسے بار بار کال کرکے تنگ کررہا تھا اسلیے سارا غصہ اسنے اس بیچارے ورکر پر نکال رہا تھا

کال رکھ کر تیزی سے اندر کی جانب بڑھا جب اسکی نظر ماہیم کی پشت پر گئی جو بھاگتی ہوئی نور کے کمرے کی طرف جارہی تھی

الٹے قدم اٹھاتا وہ واپس لان کی دوسری سائیڈ پر آیا جہاں سے نور کے کمرے کی کھڑکی موجود تھی یہ اتفاق تھا یا اسکی قسمت اچھی تھی یا پھر ماہیم کی قسمت بری جو کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی

آگے بڑھ کر وہ اس کھڑکی کے زریعے کمرے میں داخل ہوا جب ماہیم بھی کمرے میں داخل ہوئی

اور بنا اسکی طرف توجہ دیے جلدی سے دروازہ لاک کرنے لگی

کھڑکی آہستی سے بند کرکے ساحر اسکی کاروائی دیکھ رہا تھا

جو اب اپنا سر دروازے پر ٹکاے کھڑی تھی اسکی حالت دیکھ کر ساحر کے لب مسکرا اٹھے

"دروازہ اچھے سے لاک ہوگیا نہیں ہوا تو میں کردیتا ہوں"

ساحر کی آواز سن کر اسنے اپنا تھوک نگلا اور ڈرتے ڈرتے اپنا چہرہ اسکی طرف موڑا جو دونوں ہاتھ باندھے دیوار سے ٹیک لگائے فرصت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

°°°°°

"یہ کس کا گھر ہے" گاڑی ایک گھر کے سامنے رکتے دیکھ کر ایہاب نے معتصم کی طرف دیکھا گھر کے باہر پینٹ کوٹ میں ملبوس معتصم کی عمر کا ایک آدمی کھڑا تھا

"میرے دوست اور بزنس پارٹنر کا"

"تو آپ مجھے یہاں کیوں لاے ہیں"

"فکر مت کرو تمہیں پہلے گھر چھوڑوں گا پھر کام پر جاؤں گا ابھی بھی اگر اسکا میسیج نہیں آتا تو ہم سیدھا گھر ہی جاتے" کہتے ہوے وہ گاڑی سے اتر کر باہر کھڑے اس آدمی سے پاس چلا گیا اسکے اترنے پر ایہاب بھی اتر کر انکے قریب جاکر کھڑا ہوگیا

"کہاں تھے تم معتصم اتنی دیر سے انتظار کررہا ہوں" خیر خیریت پوچھنے کے بعد عارف نے معتصم سے کہا

"سوری دیر ہوگئی چلو چلتے ہیں میں پہلے ایہاب کو ڈراپ کروں گا"اسنے ایہاب کی طرف اشارہ کیا

"نہیں بھلے تم اسے یہاں پر روک لو"

"عارف تمہیں گھر میں ساری خواتین ہیں"

"او ہو معتصم کچھ نہیں ہے تم گاڑی میں بیٹھو میں آتا ہوں" بنا اسکی بات ہوا میں اڑا کر وہ ایہاب کو لے کر اندر چلا گیا اور جاکر اپنی والدہ اور بیوی سے اسکا تعارف کروایا

باہر گارڈ موجود تھا اور گھر میں تین خواتین جو وقت آنے پر کسی پر بھی بھاری پڑ سکتی ہیں یہاں تو پھر وہ ایک کم عمر لڑکا تھا

اسلیے بنا کسی ٹینشن اور فکر کے وہ اسے اندر چھوڑ کر باہر چلا گیا جہاں معتصم اسکا انتظار کررہا تھا

°°°°°

"آ----آپ"

"ہاں میں کیا کہہ رہی تھیں تم مجھے ساحر بھائی بھائی ساحر بھائی" ساحر چلتا ہوا اسکے قریب آیا جبکہ اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر ماہیم کی تو جیسے آواز ہی غائب ہوچکی تھی

"جواب دو"اسکے چلانے پر اسنے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا

"ن-نہیں وہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی میں ماہر بھائی کہہ رہی تھی"

"گدھا سمجھ رکھا ہے مجھے" اسکے بازو اپنی گرفت میں لے کر ساحر نے دانت پیستے ہوے کہا جبکہ اسکی اتنی سخت گرفت پر ماہیم کی آنکھیں نم ہوچکی تھیں

"سوری نہیں بولوں گی پلیز چھوڑیں"

"کیا ہوں میں تمہارا"

"شوہر"

"کیا کہو گی تم مجھے" اسنے گہری نظروں سے ماہیم کو دیکھا

"س-ساحر"

"پھر سے کہو"

"ساحر"

"اب اگر غلطی سے بھی تمہارے ان لبوں سے میرے لیے بھائی نکلا تو دیکھنا ماہیم میں تمہارا کیا حال کرتا ہوں" سخت لہجے میں کہتے ہوے اسنے ماہیم کے بازوؤں کو اپنی سخت گرفت سے آزاد کیا اور اسکے ایسا کرتے ہی وہ اپنے بازو سہلانے لگی

اسے یقین تھا کہ ساحر کی اتنی سخت گرفت کی وجہ سے اسکے بازوؤں پر ساحر کی انگلیوں کے نشان ضرور چھپ گئے ہوں گے

"رات کو تیار رہنا تمہیں ڈنر پر لے کر جاؤں گا"

"میں نہی" اسنے کچھ کہنا چاہا جب ساحر گھورتا ہوا اسکے مزید قریب ہوا

"انکار کرنے کا تو سوچنا بھی مت سنی تو تمہاری ویسے بھی نہیں جاے گی"

"نہیں وہ میں کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ کو ماما پاپا سے اجازت لینی چاہیے" اٹکتے اٹکتے اسنے ایک جواز پیش کیا

"ان سے اجازت میں لے چکا ہوں تم بس اپنی تیاری کرنا" اسکا گال تھپتھپا کر ساحر نے ہلکے سے اسکے لبوں کو چھوا اور کمرے سے چلا گیا

°°°°°

تھوڑی دیر انکے ساتھ بیٹھتے ہی ایہاب ان سے اچھا خاصا فرینک ہوچکا تھا دادی اور آمنہ ہنس مکھ سی تھیں

خود وہ بھی انہی جیسا تھا اسلیے تھوڑی ہی دیر میں وہ ان سے گھل مل چکا تھا

آمنہ اسکے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنے گئی ہوئی تھیں جبکہ وہ دادی کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب ان سے بات کرتے ہوے اسکی نظر وہاں رکھے فریم پر گئی

جس میں فیملی فوٹو لگی ہوئی اس میں موجود لڑکی کو دیکھ کر ایہاب نے یاد کرنے کی کوشش کی کے اسنے اس لڑکی کو کہاں دیکھا تھا اور جلد ہی اسے یاد آگیا تھا کہ اسنے اس لڑکی کو کہاں دیکھا تھا

"پہلے مجھے بائیک سے ٹکر ماری اب دھکا دیا"

"یہ کہاں لکھا ہے کہ میں نے دھکا دیا ہے ٹکر تو تم نے بھی مجھے ماری ہے"

"یہ میری کتاب میں لکھا ہے"

"اچھا کہاں سے خریدی ایسی بکواس کتاب"

"زبان سمبھال کر بات کرو تم مجھے جانتے نہیں ہو میشال نام ہے میرا"

"میشال نام ہے تمہارا جان لیا میں نے اب کیا کروں"

اسکے ساتھ ہوئی آخری ملاقات یاد کرکے وہ مسکراتے ہوے دادی کی طرف متوجہ ہوا

"دادی یہ کون ہے" اسنے فریم کی طرف اشارہ کیا جن میں دادی آمنہ عارف اقرار اور میشال موجود تھے جن میں وہ یہاں آکر میشال اور اقرار کے علاؤہ سب سے مل چکا تھا

"یہ میرا پوتا ہے اقرار اور پوتی ہے ابھی باہر گئے ہوئے ہیں اور میشال تو بس آنے والی ہے" ابھی وہ اسے میشال کے بارے میں بتا ہی رہیں تھیں جب باہر ڈور بیل بجی اور دادی نے چہکتے ہوے بتایا کہ میشال آگئی ہوگی

"میں دیکھ کر آتا ہوں دادی" اسنے اپنی شرارتی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا

°°°°°

"یہ کھانا دیکھنے کے لیے نہیں منگوایا ہے" اسکے رکے ہاتھ دیکھ کر ساحر خود اسکی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگا

اس وقت وہ دونوں ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوے تھے وہ جب سے یہاں آے تھے تب سے ماہیم بلکل خاموش تھی اسنے کچھ نہیں کہا تھا اور اسکی یہ خاموشی ساحر کو بری طرح چب رہی تھی

بات تو وہ اس سے پہلے بھی اتنی نہیں کرتی تھی لیکن اتنی خاموشی بھی کبھی نہیں تھی

"مجھے نہیں کھانا" اسنے پلیٹ خود سے دور کی جس پر ساحر نے گھور کر اسے دیکھا

"ماہیم کھانا کھاؤ"

"آپ ہر بار میں میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے" اسنے اپنی آواز دھیمی رکھی البتہ لہجہ سخت تھا

"جیسے میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کب کی ہے"

"آپ نے مجھ سے زبردستی شادی کی ہے"

"تم اپنی مرضی سے راضی ہوئی تھیں"

"آپ نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا اگر میں ہاں نہیں کہتی تو ساری زندگی اس گلٹ میں مبتلاء رہتی کے ساحر شاہ کی موت میری وجہ سے ہوئی ہے"

"ماہیم ہمارا نکاح ہوچکا ہے" اسکی باتیں ساحر کو غصہ دلا رہی تھیں لیکن اس جگہ وہ اپنا غصہ نہیں دکھا سکتا تھا

"اب کیا کرو گی تم ہمارا نکاح ہوچکا ہے"اسنے اپنے الفاظ دہرانے

"کچھ نہیں کرسکتی میں بس غصہ نکال رہی تھی جو اتنے وقت سے میرے اندر تھا"

"تو غصہ نکالنے کے لیے تمہیں یہی جگہ ملی تھی"

"گھر پر کہتی تو آپ پھر عجیب حرکتیں کرتے"

"مجھے لوگوں کی نظروں کا مرکز بننے کا کوئی شوق نہیں ہے ورنہ میں تمہیں اپنی حرکتیں یہاں بھی دکھا دیتا اب شرافت سے کھانا کھاؤ"

گہرا سانس لے کر وہ کھانا کھانے لگی غصہ تو ساحر پر وہ کر نہیں سکتی تھی لیکن یہ ساری باتیں جو کب سے وہ ساحر سے کہنا چاہتی تھی اب کہہ کر پرسکون تھی

°°°°°

شام گہری ہوکر رات میں ڈھل چکی تھی جب وہ باہر نکلا گارڈ نے دروازہ کھولا اور وہ اندر داخل ہوئی جبکہ ایہاب دور کھڑا اسے غور دیکھ رہا تھا

گرین کلر کی کرتی اور بلیک جینز پہنے وہ بالوں کو کھلا چھوڑے بلکل ویسی ہی لگ رہی تھی جیسے ایہاب نے اسے پہلے دو بار دیکھا تھا

اپنے دھیان میں چلتی وہ موبائل چلاتی اندر داخل ہورہی تھی جب اپنے دماغ میں چلتے کیڑے کا کہا مانتے ہوے وہ وہاں بنے پلر کے پیچھے چھپ گیا اور جیسے ہی میشال وہاں پر پہنچی

اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لے کر اسنے میشال کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا

ایہاب کا ارادہ تو اسے ڈرانے کا تھا لیکن اس سے پہلے وہ اپنی سوچی ہوئی بات پر عمل کرتا میشال اگلے ہی لمحے اسکے پیٹ میں زور دار لات مار چکی تھی

جس کی وجہ سے وہ درد سے تڑپتا ہوا اپنے پیٹ کو پکڑ کر پیچھے کی جانب گر گیا

میشال نے مڑ رک اسکی طرف دیکھا اور تھوڑا غور کرنے پر یاد آگیا کہ وہ کون ہے

"تم یہاں میرے گھر میں کیا کررہے ہو"

"ظالم لڑکی دیکھ تو لیتی ایسے ہی شروع ہوگئی یہ تو بچت ہوگئی اگر تمہاری لات تھوڑی اور نیچے لگتی تو میرا کیا ہوتا"

اسے گھورتے ہوے اسنے آمنہ اور دادی کو آواز دیں جو اسکی پکار سنتے ہی بھاگتی ہوئی باہر نکلیں اور اسے زمین پر پڑا دیکھ کر میشال کو گھورنے لگیں یہ یقینًا اسی کی کارستانی تھی

"یہ تم نے کیا ہے نہ میشال"

"یہ آدمی سوری لڑکا وہ بھی ڈھیلا لڑکا ایک لڑکی کی لات سے زمیں پر گرگیا اس نے پہلے مجھے بائیک سے ٹکر ماری پھر یونی میں میری کتابیں گرائیں اور اب مجھے ڈرانے کی کوشش کی بہت اچھا ہوا اسکے ساتھ یہی کرنا چاہیے تھا"خود ہی بولتی ہوئی وہ اندر چلی گئی جبکہ آمنہ اور دادی حیرت سے اسکی پشت کو دیکھنے لگیں وہ کیا کہہ کر گئی تھی

اسکی بات کو اگنور کرکے انہوں نے باہر کھڑے گارڈ کو اندر بلایا اور اسکی مدد سے ایہاب کو پکڑ کر اندر لے جانے لگیں جو ابھی تک اپنا ہاتھ پیٹ پر رکھے کراہ رہا تھا

°°°°°

"ہاں تو کیا کہہ رہی تھیں تم" ساحر نے گاڑی ایک سنسان جگہ پر روکی اور ماہیم جو آرام سے بیٹھی ہوئی تھی اس کی اس حرکت سے گھبرا کر اسے دیکھنے لگی

"میں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا بس وہی کہا تھا جو میرے دل میں ہے"

"اچھا چلو اچھی بات ہے تم نے اپنے دل کی بات مجھ سے کہی لیکن اسکے بعد کیا کہہ رہی تھیں میں عجیب حرکتیں کرتا ہوں مثلا میں کیا کرتا ہوں"ساحر نے اپنا چہرہ اسکے نزدیک کیا جبکہ اسے اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر وہ سیٹ سے چپک چکی تھی

"وہ آپ" وہ بات ہی ایسی پوچھ رہا تھا اوپر سے تھا بھی اسکے اتنے نزدیک جس کی وجہ سے اسے لفظ ادا کرنے مشکل لگ رہے

"ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے اگر تم میرے ارادے جان لو تو پھر مجھے کیا کہو گی" بہکے بہکے لہجے میں کہتے ہوے وہ غور سے اسکے لپسٹک سے سجے لبوں کو دیکھ رہا تھا

ماہیم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اگلے ہی پل نظریں واپس جھکا لیں

اسنے کچھ کہنے کے لیے اپنے لب کھولے جب اسکے ایسا کرتے ہی ساحر اسکے لبوں پر جھک گیا

°°°°°

ہر چیز بھول کر وہ اس وقت بس اسکی سانسوں کو پینے میں مصروف تھا ایسے میں اگر کوئی چیز اسے تنگ کررہی تھی تو وہ تھی ماہیم کی مزاحمت جو ساحر کے انداز کو مزید شدت اختیار کرنے پر مجبور کرچکی تھی

ایک ہاتھ اسکے بالوں میں پھنسائے اور دوسرے ہاتھ میں اسکے دونوں ہاتھوں کو قید کیے وہ بس اس وقت اس میں کھویا ہوا تھا

لبوں کو آزادی ملتے ہی ماہیم نے اس سے دور ہونے کی کوشش کی لیکن یہ بھی کہاں آسان تھا کیونکہ ہر طرح وہ اسے اسے اپنے حصار میں لیے بیٹھا تھا

"د--دور رہیں" وہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی اور ساحر نے لبوں کو جو چند سیکنڈ کی آزادی دی تھی وہ اسے دوبارہ چھن چکا تھا

"پتہ ہے جب میں تمہارے قریب ہوتا ہوں تو مجھے سب سے زیادہ بری چیز کیا لگتی ہے" اسکے لبوں کو آزاد کرکے ساحر نے گہری نظروں سے اسے دیکھا

"تمہاری مزاحمت تمہاری باتیں جو تم مجھے خود سے دور کرنے کے لیے کہتی ہو نفرت ہے مجھے تمہاری ان باتوں سے ان حرکتوں سے" اسکا لہجہ تیز ہوا جس پر ماہیم نے خفگی سے اسے دیکھا

"آپ مجھے پھر ڈانٹ رہے ہیں حالانکہ آپ نے پرامس کیا تھا کہ اب نہیں ڈانٹینگے"

"تم ایسے کام کیوں کرتی ہو کہ مجھے تمہیں ڈانٹنا پڑے" اسے گھورتے ہوے وہ پیچھے ہٹا اور گاڑی دوبارہ اپنی منزل کی جانب بڑھا دی

°°°°°

ڈائیننگ ٹیبل پر اقرار کے قہقہے گونج رہے تھے

جب سے اسے میشال کی حرکت کا پتہ چلا تھا تب سے وہ اسی طرح ہنس رہا تھا

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن گھر آے مہمان کے ساتھ یہ سب اسنے پہلی بار کیا تھا آج تک اسکی یہ حرکتیں صرف باہر کے افراد کے ساتھ ہی کی تھیں

"اقرار ہنسنا بند کرو" عارف نے اسے گھور کر کہا اور میشال کی طرف متوجہ ہوا جو اپنا کھانا کھانے میں مگن تھی

"یہ تم نے کیا حرکت کی ہے میشال گھر آیا مہمان تھا وہ تم اسکے ساتھ اس طرح کا بیہیو کیسے کرسکتی ہو"

اس کے جواب میں وہ یہ نہیں کہہ سکی کہ گھر آیا مہمان بھلے اسے پیٹ سے پکڑتا پھرے بس وہ کچھ نہ کرے

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی سڑک پر چلتے ہوے اگر کوئی لڑکا اسے گھورتا تو بدلے میں وہ خود اسے زیادہ گھورنے لگتی اگر کوئی اسے چھیڑتا تو اسے مارنے سے بھی باز نہیں آتی تھی

"اب تو چلا گیا نہ وہ پھر کیوں اسکی باتیں لے کر بیٹھے ہوے ہیں"

"تمہیں اندازہ نہیں ہے معتصم کے سامنے مجھے کتنی شرمندگی ہوئی ہے"

"کتنی ہوئی ہے"اپنی بات کہتے ہوے اسکے چہرے کے ایکسپریشن ایسے تھے کہ اسے دیکھ کر بےاختیار اقرار کا قہقہہ پھر چھوٹا

جبکہ اسکی لاپروائی دیکھ کر عارف غصے سے اٹھ کر ٹیبل سے جاچکا تھا اس کے جانے پر آمنہ اور دادی نے گھور کر اسے دیکھا جس پر انہیں پریشان نہ ہونے کا کہہ کر وہ خود عارف کے کمرے میں چلی گئی

اسکے باپ نے اسے ایک مظبوط لڑکی بنایا تھا آج سے پہلے اسنے جب بھی ایسی حرکت کی تھی عارف نے کچھ نہیں کہا تھا بلکہ اسکی اس حرکت سے وہ ہمیشہ خوش ہوتا تھا لیکن آج اسکا باپ اس سے خفا ہوا تھا کیونکہ میشال نے اسے شرمندہ کیا تھا

°°°°°

ضروری چند کام نمٹانے کے بعد زریام اسے اپنے ساتھ شاپنگ پر لے کر جاچکا تھا

جہاں ولیمے کا ڈریس اسنے اپنی مرضی سے پسند کیا تھا اتنا اندازہ تو اسے ہوگیا تھا کہ حوریب کو ہیوی کپڑے پسند نہیں ہیں اسلیے اسنے وہی ڈریس خریدا تھا جس میں وہ خود کو آرام دہ محسوس کرتی

پیمنٹ کرکے وہ شاپ سے باہر نکلا ڈریس پسند کرنے کے بعد اسنے حوریب کو فوڈ کورٹ میں بھیج دیا تھا پیمنٹ کرکے وہ خود بھی وہیں جانے لگا

اسے یہی لگا تھا کہ وہ اس وقت وہیں ہوگی لیکن وہ وہاں نہیں تھی بلکہ وہ دوسری شاپ کے باہر کھڑی ڈسپلے پر لگی ساڑھی کو دیکھ رہی تھی

اسکے انداز میں پسندیدگی تھی یا پھر حسرت زریام سمجھ نہیں پایا

"یہاں کیا کررہی ہو" حوریب جو غور سے اس بلیک ساڑھی کو دیکھ رہی تھی زریام کی آواز سنتے ہی مڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگی

وہ اسے یہ نہیں کہنے والی تھی کہ اسے وہ ساڑھی بےحد پسند آئی تھی لیکن حوریب کا اسے خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ وہ دکھنے میں ہی کافی مہنگی لگ رہی تھی اور زریام پہلے ہی اسکے منع کرنے کے باوجود ولیمے کا اتنا مہنگا ڈریس لے چکا تھا

ساڑھیاں پہنے کا شوق تو اسے ہمیشہ سے تھا جنہیں کم عمری میں اسنے عشل کی چادر باندھ کر پورا کیا تھا

لیکن بڑے ہوکر جیسے حالات اسنے دیکھے تھے یہ شوق ہی مرگیا لیکن آج اس خوبصورت ساڑھی کو دیکھ کر نظریں وہاں اٹکیں تو اٹکیں ہی رہ گئیں

"تمہیں اچھی لگی یہ ساڑھی" اسکے پوچھنے پر حوریب نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا

"مگر مجھے تو اچھی لگی" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے شاپ کے اندر لے گیا

"نہیں چاہیے نہ" اسنے ہلکی آواز میں زریام سے کہا لیکن اسنے جیسے حوریب کی بات سنی ہی نہیں تھی

وہ ساڑھی ڈھائی لاکھ کی تھی یہ ایک برینڈڈ شاپ تھی یہاں کپڑے اسی طرح کی قیمت میں ملنے تھے

یہاں کی قیمت دیکھ کر زریام کو حیرت نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ یہاں پہلی بار نہیں آیا تھا البتہ حوریب ضرور اسے گھور رہی تھی

"کیا ضرورت ہے لینے کی اگر تیرے پاس اتنا ہی فالتو پیسہ ہے تو میرے کو دے دے اس میں میں اپنا سال بھر کا گزارا کرسکتی ہوں" اسنے غصے سے زریام کو دیکھا اسکی آواز آہستی تھی لیکن لہجہ سخت تھا

اسکی بات سن کر زریام نے مسکراتے ہوے اپنا سر نفی میں ہلایا اور اسے لے کر باہر چلا گیا

زریام شاہ تو اپنی چورنی پر اپنی پوری دولت لٹا سکتا تھا یہاں تو پھر وہ صرف ڈھائی لاکھ کی ساڑھی تھی

°°°°°

"کتنا انتظار کرواتی ہو تم" اسکے گاڑی میں بیٹھے ہی عصیم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا اور اسکے گال پر اپنے لب رکھ دیے

"شاہ چھوڑیں مجھے جگہ بھی دیکھ لیا کریں" کسوا نے اسے گھورتے ہوے کہا جس پر اسنے لاپروائی سے اپنے کندھے اچکاے

اس وقت وہ دونوں زریام کے ولیمے کے لیے شاپنگ پر جارہے تھے ویسے تو کسوا نے اپنی شاپنگ کرلی تھی لیکن عصیم شادی کے بعد سے صرف اسی کی مرضی کا لباس پہنتا تھا

"اپنی گاڑی میں اپنی بیوی کو کس کررہا ہوں کسی کو کیا مسلہ" دلکش مسکراہٹ چہرے پر سجاے اسنے کسوا کو دیکھا اور اسکے لبوں پر جھک گیا

جب اچانک پچھلی طرف کا دروازہ کھلا اور عصیم جلدی سے پیچھے ہٹا

وہ شاہ میر تھا جو اپنے ساتھ ساتھ حیات کا ہاتھ بھی زبردستی پکڑے اسے گاڑی میں بٹھا رہا تھا

"اوے ہوے یہاں تو لو برڈز بیٹھے ہوے تھے" شاہ میر نے شرارتی نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا یہ شخص ہمیشہ ایسے وقت پر ہی کیوں آتا تھا

جبکہ عصیم کی گھورتی نظروں سے حیات پریشان ہورہی تھی اسے اس طرح کسی کی گاڑی میں بیٹھنا اچھا نہیں لگ رہا تھا اگر شاہ میر اپنی سخت گرفت سے اسکا ہاتھ آزاد کردیتا تو وہ ابھی یہاں سے بھاگ جاتی

"انکل میں نہیں آرہی تھی یہ مجھے زبردستی لاے ہیں اور میرا ہاتھ بھی پکڑا ہوا ہے چھوڑ بھی نہیں رہے" اسنے جلدی سے اپنےیے صفائی پیش کی

"ارے اچھا ہوا نہ لے آیا ورنہ یقین سے کہہ رہا ہوں تم نے آج تک حقیقت میں ایسا سین نہیں دیکھا ہوگا" اسنے اپنے ماں باپ کی طرف اشارہ کیا

"کوئی بات نہیں بیٹا تم بھی ہمارے ساتھ شاپنگ پر چل لو ویسے بھی کسوا بتارہی تھی تمہاری شاپنگ نہیں ہوئی ہے شاہ میر اسکا ہاتھ چھوڑو اور گاڑی سے اترو تم کہیں نہیں جارہے ہو" اسے نرمی سے جواب دے کر وہ شاہ میر کی طرف متوجہ ہوا

"ایسے کیسے نہیں جارہا مطلب حیات کو بھی تو میں لے کر آیا تھا نہ اگر میں نہیں جاؤں گا تو اسے بھی نہیں جانے نہیں دوں گا" اسکے کہنے پر عصیم نے تھک کر اپنا سر نفی میں ہلایا اور گاڑی اسٹارٹ کردی

شاہ میر نے نظروں کا رخ حیات کی طرف موڑا جو سر جھکائے بیٹھی تھی

صبح سے وہ بس کمرے میں بند تھی کیونکہ آج اسے اپنے ماں باپ کی کچھ زیادہ ہی یاد آرہی تھی

یہاں سب اسکا بہت خیال رکھتے تھے لیکن والدین کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا نہ

ماہیم نے ہی اسے بتایا تھا کہ وہ صبح سے کمرے میں اکیلی بیٹھی ہے اور اسنے کچھ کھایا بھی نہیں ہے

حیات کی سب سے زیادہ شاہ میر سے ہی بنتی تھی اسلیے ماہیم نے اسے بتانا ہی بہتر سمجھا اور اسکے بتانے پر شاہ میر اسے اپنے ساتھ باہر لے آیا تھا شاید اس سے اسکا دل بہل جاتا

°°°°°

"نور میں نے منع کردیا نہ اب کوئی بحث نہیں ہو گی" معتصم نے سخت لہجے میں کہا جس پر وہ منہ بسور کر رہ گئی

عصیرم دو دن بعد اسلام آباد جانے والا تھا اس سے اگلی ملاقات کب ہونی تھی معلوم نہیں تھا اسلیے بس وہ اس سے ملنے جانے کی ضد کررہی تھی جس پر پہلے معتصم نے اسے پیار سے سمجھایا لیکن اسکے مسلسل بولنے پر اسکا لہجہ سختی اختیار کرگیا اور اپنی بیٹی سے اس لہجے میں وہ بہت کم ہی بات کرتا تھا

وہ کسی پلبک پلیس پر اسے عصیرم سے ملنے نہیں دے سکتا تھا اور عصیرم کے گھر بھی اسے اکیلے جانے نہیں دے سکتا تھا

جبکہ اس بات سے وہ انجان تھا کہ وہ پہلے ایک بار عصیرم کے گھر جاچکی تھی ہاں یہ بات اسے ضرور پتہ تھی کہ اسکی لاڈلی عصیرم خان کو اپنا پکا دوست بنا چکی ہے

"کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا" اسکی بھیگی آواز سن کر معتصم نے گہرا سانس لے کر اسکی طرف دیکھا

وہ ایسی ہی تھی اگر کبھی اسے کسی کام کے لیے منع کردیا جاتا تو یا تو پورا گھر سر پر اٹھا لیتی یا پھر رونے بیٹھ جاتی اور اسکا رونا اس گھر میں کسی سے بھی برداشت نہیں ہوتا تھا

"نور ٹھیک ہے میں اسے کال کردیتا ہوں وہ یہاں آجاے گا"

"نہیں رہنے دیں" اسنے اپنے گال پر موجود ان قطروں کو صاف کیا جب آہان کمرے میں داخل ہوا

آیا تو وہ معتصم سے بات کرنے تھا لیکن نور کو اس طرح دیکھ کر پریشان ہوچکا تھا

"نور تم رو کیوں رہی ہو"

"مجھے دوست کے گھر جانا ہے بابا سائیں جانے نہیں دے رہے ہیں" اسے دیکھتے ہی نور نے فوراً معتصم کی شکایت لگائی

ویسے بھی وہ اپنے ماں باپ سے زیادہ لاڈلی اپنے بھائیوں کی تھی

"بڑے بابا کیوں نہیں جانے دے رہے" اسنے اپنا رخ معتصم کی طرف موڑا

"ٹھیک ہے چلی جانا لیکن گھر سے کسی لڑکے کو ساتھ لے کر جانا اور جب بھی جانا ہو مجھے بتانا گارڈز تمہارے ساتھ جائینگے" اسنے ہار مانتے ہوے کہا

جبکہ اسکے کہنے پر وہ خوشی سے چہکتی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور اسکی مسکراہٹ دیکھتے ہی معتصم اور آہان نے سکون بھرا سانس لیا

°°°°°

"شاہ میر گھر چلتے ہیں نہ" اسنے تھکے ہوے لہجے میں کہا ڈیڑھ گھنٹے سے شاہ میر نے اسے خوار کیا ہوا تھا

پہلے اسنے حیات کی شاپنگ کروائی جو بیس منٹ میں ہی ہوچکی تھی باقی کا سارا وقت اسنے اپنی شاپنگ پر لگایا تھا اسنے ابھی تک صرف ایک گھڑی لی تھی جبکہ سوٹ اسنے ابھی تک پسند نہیں کیا تھا شاپنگ کے معاملے میں وہ لڑکیوں سے زیادہ ٹائم لیتا تھا اور یہ بات ماننے میں حیات نے دیر نہیں کی تھی

کسوا اور عصیم تو شاپنگ پوری کرکے فوٹ کورٹ میں جاچکے تھے جبکہ وہ اسے ابھی تک لے کر ہی پھر رہا تھا نہ خود اپنا کام ختم کررہا تھا نہ اسے کسوا اور عصیم کے پاس جانے دے رہا تھا

"یہ گھر چلنے والی بات تم نے تیسری بار کہی ہے تم میری کچھ ہیلپ تو کروا نہیں رہی ہو حیات اور پھر کہہ رہی ہو دیر ہورہی ہے" شاہ میر نے اسے گھورتے ہوے کہا لیکن پھر اسکے تھکن زدہ چہرے کو دیکھ کر یاد آیا کہ اسنے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اسلیے اسے کھانا کھلانا زیادہ بہتر تھا

"چلو پہلے کچھ کھالیتے ہیں پھر یہ کام مکمل کرینگے" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے شاپ سے باہر لے کر چلا گیا

شاہ میر نے اسکا ہاتھ پکڑا ہوا تھا لیکن وہ اسکے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اسکی سست رفتار پر کچھ کہنے کے لیے وہ مڑا جب اسکی حالت دیکھ کر وہ یک دم پریشان ہوا

وہ بےہوش ہونے کے قریب تھی بلکہ ہوچکی تھی اگر شاہ میر اسے نہیں پکڑتا تو وہی یہیں زمین بوس ہوجاتی

"حیات حیات" اسکا گال تھپتھپاتے ہوے شاہ میر نے پریشانی سے کہا جب عصیم اور کسوا بھی جلدی سے انکے پاس آے

کافی دیر انتظار کے بعد بھی حیات اور شاہ میر وہاں نہیں آے تھے اسلیے وہ دونوں انہیں ہی دیکھنے جارہے تھے لیکن یہاں حیات کی ایسی حالت دیکھ کر وہ دونوں بھی پریشان ہوچکے تھے

"شاہ میر کیا ہوا ہے اسے" کسوا نے اسکے قریب بیٹھ کر پریشانی سے کہا

"مجھے نہیں پتہ اماں سائیں آپ پلیز دیکھیں اسے" اسنے پریشانی سے حیات کے ہاتھ سہلاے جبکہ عصیم تو بس گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

کسوا اور نور کے علاؤہ حیات وہ تیسری ہستی تھی جس کے لیے شاہ میر شاہ اتنا پریشان ہورہا تھا

°°°°°

°°°°°

بی پی لو ہونے کی وجہ سے وہ بےہوش ہوئی تھی

ہوش میں آتے ہی اسنے سب کو دیکھا اس وقت کمرے میں تقریباً گھر کے سارے افراد موجود تھے جو پریشانی سے اسکے سر پر کھڑے تھے جن میں سر فہرست شاہ میر تھا

اسکے ہوش میں آتے ہی ہر کوئی اسکی تیمارداری میں لگ چکا تھا جیسے وہ بےہوشی سے نہیں خدانخستہ کسی بیماری سے اٹھی تھی

ان کی فکریں دیکھ کر حیات نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا

اسکی ماں کے جانے کے بعد اسکے باپ کو ہمیشہ یہی تو فکر رہتی تھی کہ اگر وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگیا تو اسکی بیٹی کا خیال کون رکھے گا

یہ سب صرف ہماری سوچیں ہوتی ہیں خدا نے تو پہلے سے ہی ہمارے لیے سب سوچ لیا ہوتا ہے اور صحیح وقت پر ہمیں اسکی مصلحت بھی سمجھ آجاتی ہے

آج حیات رفیق کے دل نے شدت سے اس بات کی گواہی دی تھی کہ رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے

کبھی کبھی اپنے بھی غیر ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی غیر اپنوں سے بڑھ کر بن جاتے ہیں

°°°°°

"میں نے تجھ سے کیا کہا تھا" ساحر نے اپنے سامنے کھڑے ایہاب کو گھورتے ہوے کہا

اس وقت وہ دونوں لان کی بیک سائیڈ پر موجود تھے

گھر میں مہمان بھرے ہوے تھے اور ماہیم کے کمرے میں لڑکیاں گھیرا ڈالے بیٹھی ہوئی تھیں ایسے میں اسنے ایہاب سے صرف اتنا کہا تھا کہ جاکر اپنی بہن کو باہر لان میں لے آ اور اگر پوچھے کیوں تو کہہ دینا ساحر بھائی کے چوٹ لگ گئی ہے یقینا یہ بات سن کر وہ آجاتی کیونکہ سیدھے طریقے سے وہ اتنی آسانی سے تو کبھی نہیں آتی

"میں نے یہی کہا تھا کہ آپ کو چوٹ لگی ہے وہ نہیں آئی تو میرا کیا قصور" اسنے قصوروار بہن کو ٹہرا دیا

"زرا بتانا کہاں چوٹ لگی تھی میرے"

"پیٹ کی ہڈی میں" جتنے مزے سے اسنے بتایا تھا اگلے لمحے اتنے ہی مزہ کا قرارہ تھپڑ اسکے گال پر رسید ہوا جس وجہ سے وہ اگلے ہی لمحے زمین پر جاگرا

"ساحر بھائی یہ غلط حرکت ہے میں بابا سے شکایت لگاؤں گا"اسکا انداز ایسا تھا جیسے ابھی رو دے گا جبکہ اسکا چہرہ دیکھ کر ساحر نے بمشکل اپنا قہقہہ ضبط کیا

ایہاب ہمیشہ سے اسکے لیے ایک ڈھول تھا جسے جب موقع ملتا وہ بجانے بیٹھ جاتا تھا

°°°°°

"تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی" اسے خود کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے پاکر عصیم نے بات شروع کی

"میں سوچ رہا ہوں تمہاری شادی کردی جائے" اسکے کہنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر شاہ میر نے اسکا ماتھا چھوا پہلا خیال اسے یہی آیا کہ اسکی طبیعت خراب ہے کیونکہ نارملی عصیم ایسی بات کبھی نہیں کرتا

"آپ ٹھیک ہیں"

"میں ٹھیک ہوں پر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو بتادو" اسکے کہنے پر شاہ میر نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں نہیں آپ کہیں" اسنے جلدی سے کہا کہیں عصیم اپنے کہے سے پیچھے نہ ہٹ جائے

"ہاں تو میں سوچ رہا تھا کہ تمہارے بارے میں بھی ہمیں کچھ سوچنا چاہیے اگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو تم مجھے بتادو" وہ جانتا تھا کہ شاہ میر کس کا نام لے گا پر پھر بھی وہ اسکی مرضی اسکے منہ سے سننا چاہتا تھا

"آپ کیا سننا چاہتے ہیں بابا سائیں"

"تمہاری مرضی"

"آپ جانتے ہیں میری مرضی کیا ہے"

"شاہ میر یہ کوئی مذاق نہیں ہے زندگی کا بہت بڑا فیصلہ ہے یہ زندگی بھر کا فیصلہ ہے"

"بابا سائیں آپ جانتے ہیں اپنے سے جڑے رشتوں کا میں بہت خیال رکھتا ہوں"

"تو پھر ٹھیک ہے حیات سے اسکی مرضی پوچھیں گے اگر اسنے اقرار کیا تو زریام کے ولیمے پر ہی تمہارا بھی نکاح کردینگے" اسکے کہتے ہی شاہ میر جوش و خوشی سے اٹھ کر اسکے گلے لگا

"ہائے اللہ بابا سائیں تھینک یو آپ کی بات سن کر دل چاہ رہا ہے آپ کو زور سے کس کروں لیکن نہ ہی تو میں اماں سائیں ہوں اور نہ ہی آپ حیات ہیں" اسکے کہنے پر عصیم نے زور سے اسکی کمر پر مکا رسید کیا

جس کی وجہ سے وہ اپنی کمر سہلاتا ہوا پیچھے ہوا

"بےشرم انسان کبھی تو شرم کرلیا کر"

"کہاں سے شرم کروں عصیم شاہ کا بیٹا ہوں"اسنے اپنی دکھتی کمر سہلاتے ہوے کہا جبکہ اسکے کہنے پر عصیم نے اپنی مسکراہٹ دبائی

"اچھا اہم بات تو تم نے سنی ہی نہیں تمہارا ابھی نکاح ہورہا ہے لیکن میں رخصتی تب تک نہیں کروں گا جب تک تم کمانے نہیں لگ جاتے"

"ارے آپ فکر مت کریں حیات کے لیے تو میں ساری حیات کماتا ہی رہوں گا" اسکے چہرے پر الگ ہی خوشی دکھ رہی تھی کیوں نہیں دکھتی اسکی شادی کی مراد جو پوری ہونے جارہی تھی وہ بھی اپنے من پسند شخص سے

°°°°°

"بابا ساحر بھائی نے مجھے تھپڑ مارا" بچوں کی طرح اس وقت وہ عینہ اور وصی کے سامنے کھڑا ساحر کی شکایت لگا رہا تھا

"تم نے ہی کچھ کیا ہوگا" وصی کے پوچھنے پر اسنے صاف لفظوں میں اسے ساحر کی کہی ساری باتیں بتادیں جن میں وصی نے غور بس اپنے نالائق بیٹے کی بات پر کیا

"گدھے کی اولاد کس عقلمند نے کہا ہے پیٹ میں ہڈی ہوتی ہے" اسکے کہنے پر عینہ نے زور سے اسکے بازو پر مکا مارا جس سے اسے احساس ہوا کہ اسنے کیا کہہ دیا ہے اولاد تو وہ اسی کی تھا نہ

"ارے پہلے مجھے بھی یہی لگتا تھا لیکن جب اس دن میرے پیٹ میں اس لڑکی نے لات نہیں ماری تھی اور میرے بہت درد ہورہا تھا تب ماما نے کہا تھا کہ پیٹ کی ہڈی میں لگی ہوگی"

"ایہاب میں نے غصے میں کہا تھا"اسکے بات سن کر عینہ کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے

"ایسا بھی کیا غصہ تھا کہ آپ نے مجھے غلط بات بتادی اور اسی وجہ سے ساحر بھائی کا تھپڑ بھی کھانا پڑا" اسنے پھر سے اپنا گال سہلاتے ہوے کہا

"تو کیا غصے والی بات نہیں تھی ایک لڑکی سے مار کھا کر آگئے تھے" اسنے جیسے اسے شرم دلانی چاہی

"میں تو پھر بھی ایک کم عمر لڑکا ہوں بابا کی طرح تھوڑی جو اتنے بڑے مرد ہوکر معتصم انکل سے تھپڑ کھا چکے تھے"اسکے کہنے پر وصی تیزی سے اسے مارنے کے لیے اٹھا جبکہ اسکے اٹھتے ہی وہ تیز رفتار سے کمرے سے بھاگ گیا

پرانی باتیں کرتے ہوے ایک بار پریشے نے انہیں یہ بات بتادی تھی کہ معتصم نے وصی پر ہاتھ اٹھایا تھا اور تب سے ایہاب کسی بھی موقع پر اسے یہ بات یاد دلانا نہیں بھولتا تھا

°°°°°

"تو عصیم شاہ نے اپنا فیصلہ بدل لیا"اسکی پوری بات سنتے ہی عالم نے تبصرہ کیا جبکہ معتصم سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

"ہاں بدلنے پر مجبور ہوگیا"

"لیکن تم تو کہتے تھے جب تک شاہ میر اس لائق نہیں ہوجاتا کہ کسی کی ذمیداری اٹھائے تب تک اسکی شادی نہیں کروگے تو پھر اب یہ خیال کیسے آگیا" معتصم نے الجھی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھا

"ہاں میں نے کہا تھا معتصم لیکن اب ایسا نہیں ہے پہلی بات یہ ہے کہ جب حیات کی طبیعت خراب ہوئی تھی تب میں نے شاہ میر کو دیکھا تھا مجھے پہلے ایسا لگتا تھا کہ وہ حیات کو پسند کرتا ہے لیکن میں نے اپنی سوچ کو جھٹک دیا پر اس واقعے نے مجھے دوبارہ یہ سوچنے پر مجبور کردیا اور میرا اندازہ صحیح تھا شاہ میر حیات کو پسند کرتا ہے"

"دوسری بات یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے وہ تب تک کوئی کام نہیں کرتا جب تک اس پر اس کام کا بوجھ نہیں ڈالا جائے میں اسے یہ کہتا تھا کہ جب تک وہ کوئی جوب نہیں کرتا تب تک میں اسکی شادی نہیں کروں گا پر یہ بات میں نے نہیں سوچی کہ اگر میں اسکا نکاح یا شادی کردوں تو وہ خود ہی اپنی ذمیداری سمجھ جاے گا اسے اپنے رشتوں کا خیال رکھنا آتا ہے اور میں یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جب حیات اسکی ذمیداری بن جائے گی تو وہ اسے نبھانے میں دیر نہیں کرے گا آئرہ اور پری میں سے کوئی ایک حیات سے اس بارے میں بات کرلیں گے اور دوسرا فیصلہ تمہارا ہوگا معتصم کیونکہ تم ہی اسکے سر پرست ہو"

"میری طرف سے ہاں سمجھو لیکن میں اہمیت حیات کے فیصلے کو ہی دوں گا" اسکے کہنے پر عصیم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا جب عالم ان سے مخاطب ہوا

"ویسے بات تو کسوا کو کرنی چاہیے نہ"

"جیسے تم تو اپنی بہن کو جانتے ہی نہیں ہو پہلے تو اسے یہ بات بتاؤ پھر خوشی میں جب وہ صدمے میں جاے گی تو اسے صدمے سے باہر نکالو پھر کہو جاکر حیات سے بات کرنی ہے وہ جاکر بات نہیں کرے گی اپنے نکمے کی تعریفیں کرے گی اور حیات سے یہ کہہ کر کہ شاہ میر اسے بہت خوش رکھے گا خود ہی اسکا جواب رضامندی میں دے دے گی" عصیم کے کہنے پر معتصم نے اپنی ہنسی ضبط جبکہ عالم نے زور سے اسکی کمر پر مکا رسید کیا اسکا کمینہ کزن پلس دوست پلس بہنوئی اسکے سامنے بیٹھ کر اسکی ہی بہن کے بارے میں ایسی باتیں کررہا تھا

°°°°°

معتصم نے اسے عصیرم کے گھر کا ایڈریس دیا تھا جو اسنے خاموشی سے تھام لیا وہ اپنے باپ سے یہ نہیں کہہ سکی کہ وہ عصیرم خان کے گھر کا ایڈریس پہلے سے جانتی تھی

آہان کے ساتھ ہی وہ اسکے گھر آئی تھی انہیں دیکھتے ہی گارڈ نے فورا انکے لیے دروازہ کھولا کیونکہ یہ عیصرم کا آرڈر تھا کہ اگر نور دوبارہ اس گھر میں آے تو اسے پہلے کی طرح باہر کھڑا نہ کیا جائے

آہان کے موبائل پر اسکی دوست کی کال آرہی تھی اسلیے وہ باہر رک کر کال سننے لگا جبکہ وہ بنا اسکے اندر آنے کا انتظار کیے خود اچھلتی ہوئی اندر چلی گئی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر اپنے بال سلجھاتی کسوا پر گئی

اسکے پیچھے کھڑے ہوکر عصیم نے نرمی سے اسے اپنے حصار میں لے لیا

"تمہارے لیے ایک خوش خبری لایا ہوں جان شاہ"

"کیسی خوش خبری"

"ہم نے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے دوسرے بیٹے کو بھی گھوڑی چڑھا دیتے ہیں" عصیم کے کہنے پر وہ جھٹکے سے اسکی طرف مڑی

"کیا سچ میں آپ ماہر کی بات کررہے ہیں" اسنے سوالیہ نظروں سے عصیم کو دیکھا

"نہیں میری جان میں تمہارے نکمے کی بات کررہا ہوں"

"کیا سچ میں آپ اسکی شادی کے لیے راضی ہوگئے"

"ہاں بلکل اور میں زریام کے ولیمے پر ہی اسکا نکاح کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تم نے پوچھا نہیں لڑکی کون ہے"

"کون ہے"

"حیات"

"کیا سچ میں آپ کو پتہ ہے مجھے حیات بہت اچھی لگتی ہے" چہکتے ہوے وہ اپنی خوشی کا اظہار کررہی تھی اور عصیم مسکراتے ہوے اسکی خوشی دیکھ رہا تھا

وہ کہیں سے بھی تین بڑے بچوں کی ماں نہیں لگتی تھی نہ دکھنے میں نہ حرکتوں میں

اسکی صرف عمر بڑھ رہی تھی جبکہ حرکتیں اسکی پہلے کی طرح ہی تھیں

°°°°°

ملازمہ نے اسے بتایا تھا کہ عصیرم اس وقت گھر میں بنے آفس روم میں موجود ہے جہاں اسکے خاص مہمان موجود ہیں اسکی بات سنتے ہی وہ وہاں کا رستہ پوچھ کر وہیں چلی گئی

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی وہ اگر شاہ انڈسٹری میں جاتی تھی تو بلا جھجھک میٹنگ روم میں چلی جاتی تھی اور کوئی اسے کچھ نہیں کہتا تھا

اس وقت بھی اسنے یہی کیا تھا اور یہ کام کرتے ہوے اسکے زہہن میں یہ بات کہیں نہیں آئی تھی کہ وہ اس وقت شاہ انڈسٹری میں نہیں تھی عصیرم خان کے گھر میں موجود تھی

°°°°°

روم میں داخل ہوتے ہی سب نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا

وہاں چند کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور سربراہی کرسی پر عصیرم خان موجود تھا جس کا چہرہ اسے دیکھتے ہی غصہ ضبط کرنے کے باعث سرخ ہوچکا تھا

"ایکسکیوز می" ان سے ایکسکیوز کرکے وہ باہر نکلا اور اسکے پیچھے نور بھی دوبارہ کمرے سے باہر نکل گئی

"یہاں کیا کررہی ہو تم" دروازہ بند کرتے ہی اسنے غصے سے کہا اس وقت اسے اندر بیٹھے سارے افراد دیکھ چکے تھے اور یہی تو عصیرم خان نہیں چاہتا تھا

وہ اسے کسی کی نظروں میں بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا لیکن اسکے منع کرنے کے باوجود یہ لڑکی پھر اسکے گھر آگئی تھی نہ صرف آئی تھی بلکہ بلاجھجک اسکے آفس روم تک بھی آچکی تھی

"آپ نے بتایا تھا نہ کہ آپ جانے والے ہیں تو میں بس آپ سے ملنے آئی تھی"

"کیوں ملنے آئی تھیں تم مجھ سے ایک بار کی کہی بات تمہیں سمجھ نہیں آتی ہے" اسکا آفس روم ساؤنڈ پروف تھا اسلیے اسے اس بات کا ڈر نہیں تھا کہ اسکے غصے سے بھری آواز وہاں اندر تک جارہی ہوگی

"میں تو بس ملنے آئی تھی" اسکے ایسا لہجہ سن کر نور کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں اسے کہاں عادت تھی کسی کے ایسے لہجے کی

"کیوں ملنے آئیں تھیں میں نے کہا تھا کیا"

"آپ بلکل بھی اچھے نہیں ہیں میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی" روتے ہوے اسنے اپنے نازک ہاتھ کا مکا اسکے سینے پر مارا اور وہاں سے بھاگ گئی

جبکہ اسکے جانے پر عصیرم نے ضبط سے آنکھیں بند کیں

اسکا لہجہ کچھ زیادہ ہی تیز ہوگیا تھا اور زیادہ غصہ اسے اس بات کا خود پر آرہا تھا کہ اسنے یہ غصہ نور شاہ پر دکھایا یقینا وہ پہلا مرد تھا جس نے اس سے اس طرح بات کی تھی لیکن ابھی کیلیے یہ ضروری تھا

اسنے خود کو ریلیکس کیا اور واپس اندر چلا گیا جہاں وہاں بیٹھے افراد اسی کا انتظار کررہے تھے

"عصیرم خان از ایوری تھنگ آل رائٹ" ان میں سے بیٹھے ایک شخص نے اسے دیکھتے ہی پوچھا جس پر اسنے اپنا سر ہاں میں ہلادیا

"وہ لڑکی کون تھی"

"کوئی خاص نہیں اپنے کام کی طرف آتے ہیں" بالوں میں ہاتھ پھیر کر وہ اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا

°°°°°

"تمہارے بھائی کے ریسیپشن کا انویٹیشن ملا تھا تمہیں مبارک باد دینی تھی" اسکے کال پک کرتے ہی شانزے نے خوشگوار لہجے میں کہا

"تھینک یو بڈی"

"یور ویلکم لیکن یہ اچانک کیسے ہوگیا"

"لمبی کہانی ہے تم سے مل کر بتاؤں گا جب تم آؤ گی اسی بہانے تم میری حویلی بھی آجاؤ گی"

"میں نہیں آرہی آہان جس دن تمہارے بھائی کا ریسیپشن ہے اس دن میری پھوپھو آرہی ہیں تمہیں بتایا تھا نہ جو لنڈن میں رہتی ہیں"

"تو تم کیا انہیں لنڈن لینے جارہی ہو" اسنے برا سا منہ بنایا جب نظر باہر آتی نور پر پڑی وہ اتنی جلدی کیوں آرہی تھی

"میں بعد میں بات کرتا ہوں شانزے" بنا دوسری طرف کی کوئی بات سنے اسنے کال کاٹ دی

"کیا ہوا ہے تم اتنی جلدی آگئیں" اسکے قریب آتے ہی آہان نے پوچھا لیکن اسکے چہرے پر غور کرنے کے بعد وہ ٹھٹک گیا

"کیا ہوا تم رو رہی ہو"

"ہاں وہ عصیرم اندر نہیں ہیں تو بس میں اسلیے رو رہی ہوں میں انکی وجہ سے آئی اور وہ تھے ہی نہیں" اسنے نظریں جھکائے کہا

اگر وہ آہان کو وہ سب بتادیتیں جو عصیرم نے اس سے کہا ہے تو پھر ایک تماشہ لگنا تھا اور وہ یہ سب نہیں چاہتی تھی اسلیے تماشتے سے بہتر تھا جھوٹ بولنا

"کوئی بات نہیں میں پھر لے آؤں گا" اسے اپنے ساتھ لے کر وہ باہر چلا گیا

°°°°°

"اب کیسی طبیعت ہے تمہاری" آئرہ نے بیڈ پر اسکے قریب بیٹھ کر کہا جس پر وہ ہلکا سا مسکرا دی

"میری طبیعت کو کچھ نہیں ہوا ہے آئرہ آنٹی آپ سب بلاوجہ میں اتنے پریشان ہوگئے"

"طبیعت تو تمہاری خراب تھی تم نے صبح سے کچھ کھایا بھی تو نہیں تھا میں کاموں میں اتنا الجھی ہوئی تھی میرے بھی دھیان میں نہیں رہا"

"نہیں آپ کی غلطی نہیں ہے عینہ آنٹی نے مجھے کھانے پر بلایا تھا بعد میں انہوں نے ملازمہ کے ساتھ بھی بھجوایا تھا پر میرا دل نہیں چاہ رہا تھا اسلیے میں نے نہیں کھایا" اسنے ایک ہی سانس میں پوری وضاحت دی

"خیر تم سے کچھ بات کرنی تھی"

"جی کہیے"

"اگر ہم تمہارے لیے کوئی فیصلہ کریں تو کیا تم راضی ہوجاؤ گی"

"جی" اسنے اپنا سر ہاں میں ہلایا

"چاہے وہ فیصلہ تمہاری شادی کا ہو" اسکی بات سن کر حیات نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اپنا سر پھر ہاں میں ہلادیا

"آپ معتصم انکل سے پوچھ لیں وہ جو کہینگے مجھے منظور ہے"

"معتصم لالا سے ہم پوچھ چکے ہیں اور انکا کہنا ہے جو فیصلہ حیات کرے گی سب وہی مانیں گے"

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے آپ لوگ میرے لیے اچھا فیصلہ ہی کریں گے"

"میں تمہیں لڑکے کا نام بتا دیتی ہوں کہیں تم نام سن کر انکار نہ کردو" اسکے کہنے پر حیات نے اچھنبے سے اسکی طرف دیکھا

"ہم نے شاہ میر کو تمہارے لیے پسند کیا ہے"

"شاہ میر"

"ہاں شاہ میر"

"لیکن آپ ان سے تو پوچھ لیں"

"یہ سب اسکی مرضی سے ہی تو ہورہا ہے تم اپنی مرضی بتاؤ حیات" اسنے پیار سے اسکی تھوڑی جو چھوا

"میں اب بھی سب کچھ آپ لوگوں پر ہی چھوڑتی ہوں آپ لوگوں نے مجھے ایک فیملی ممبر کی طرح رکھا ہے میرے لیے کوئی غلط فیصلہ تھوڑی کرینگے" اسکے کہنے پر آئرہ نے مسکراتے ہوے اس معصوم پری کو اپنے گلے لگا لیا

°°°°°

دروازہ نوک ہونے کی آواز پر اسنے باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی جبکہ نظریں اپنے ہاتھ میں موجود موبائل پر تھیں

"نور بی بی یہ آپ کے لیے آیا ہے" شازمہ(ملازمہ) نے ہاتھ میں موجود پھولوں کا بوکے اور گفٹ بیگ اسکی طرف بڑھایا

"کس نے بھیجا ہے"

"پتہ نہیں ایک لڑکا لایا تھا کہہ رہا تھا آپ کے کسی دوست نے بھیجا ہے" اپنی جگہ سے اٹھ کر نور نے اسکے ہاتھ سے وہ پھولوں کا بوکے اور گفت بیگ لیا اور اسے جانے کا اشارہ کیا

گفٹ بیگ میں ایک گفٹ اور کارڈ رکھا ہوا تھا نور نے وہ گفٹ اور کارڈ نکالا

اسنے گفٹ ریپر اتارا وہ ایک لیڈیز پرفیوم تھا اپنی کلائی پر ہلکا سا اسپرے کرکے وہ اس پرفیوم کی خوشبو سونگھنے لگی اور دل کیا بس اس خوشبو کو محسوس ہی کرتی رہے

اسنے کارڈ اٹھا کر کھولا جس پر بڑے بڑے لفظوں میں خوبصورت رائیٹنگ سے سوری نور لکھا ہوا تھا

بھیجنے والے کا نام کہیں نہیں تھا لیکن ان دو لفظوں سے ہی وہ سمجھ چکی تھی کہ یہ کام کس کا ہے غصے سے اسنے اس کارڈ کو مڑوڑا اور پھولوں کا بوکے اور پرفیوم دور پھینکے

پھینکنے کی وجہ سے وہ کانچ کی بوتل ٹوٹ چکی تھی جبکہ اسکی خوشبو آہستہ آہستہ سارے کمرے میں پھیل رہی تھی اور دوسری طرف وہ خوبصورت پھولوں کو بوکے اپنی ناقدری پر رو رہا تھا

°°°°°

"میشال بات کررہی ہوں" فون پر موجود دوسری جانب سے اسے میشال کی تیز آواز سنائی دی

جس پر اسنے خود کو کوسا اگر اسے پتہ ہوتا کہ یہ نمبر میشال کا ہے تو وہ کبھی بھی نہیں اٹھاتا

"تمہیں میرا نمبر کہاں سے ملا"

"میرے کہنے پر میرے والد محترم نے معتصم انکل سے تمہارا نمبر مانگا تھا تاکہ میں تم سے اس دن کے لیے معذرت کرسکوں"

"اچھا تو کرو"

"معذرت کے لیے فون کیا ہے یہ کافی نہیں ہے جو معذرت بھی کروں"

"جب معذرت کرنی نہیں تھی تو فون کیوں کیا" اسکی بات سنتے ہی ایہاب نے تپ کر کہا

"تمہارا حال جاننے کے لیے زیادہ زور سے تو نہیں لگی تھی اور ابھی درد تو نہیں ہورہا"اسکا انداز مذاق اڑاتا تھا

"ایہاب وصی اتنا کمزور نہیں ہے کہ ایک لڑکی کی لات سے ڈھے جائے وہ تو میں تیار نہیں تھا اسلیے یہ سب ہوگیا اگر تم مجھے مارنے سے پہلے بتاتیں نہ تو پھر تمہیں پتہ چلتا میں چیز کیا ہوں"

"اچھا تو اگلی ملاقات میں بتا دونگی پھر پتہ چل جاے گا تم کیا چیز ہو" اسے باے کرکے وہ فون رکھ چکی تھی جبکہ ایہاب نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا جیسے وہ تکلیف ابھی بھی محسوس ہورہی ہو

مارا تو اسے ایک لڑکی نے ہی تھا پر اسکا مارنے کا انداز کسی مرد سے کم نہیں تھا

°°°°°

اسکا فون مسلسل بج رہا تھا یہ عصیرم کی چوتھی کال تھی جسے بالآخر اسنے پک کرہی لیا تھا لیکن کہا کچھ نہیں

"کیا بات ہے نور شاہ کی طرف سے اتنی خاموشی" اسکی طرف سے مسلسل خاموشی پاکر عصیرم نے کہا جسے سن کر بھی اسنے کوئی جواب نہیں دیا

"گفٹ بھیجا تھا مجھے معلوم نہیں تھا تمہیں کیا پسند ہے اسلیے اپنی پسند سے بھیج دیا کیسا لگا"

جوابا پھر خاموشی ملی

"نور آئی ایم سوری مجھے تمہیں اس طرح ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا پر میں کیا کرتا تم اس طرح سب کے سامنے آگئی تھیں میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تم کسی کی نظروں میں آؤ" اسنے اسے سمجھانے کی کوشش کی

"پلیز تم بات تو کرو مجھے تمہاری خاموشی بلکل اچھی نہیں لگ رہی ہے تم بھی بھلے مجھے ڈانٹ دو پر کچھ تو کہو"اسکے انداز میں بےچینی تھی جسے وہ بھی محسوس کرچکی تھی پر پھر بھی اسنے کچھ نہیں کہا بلکہ بنا اسکی مزید سنے کال کاٹ دی

عصیرم نے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھا اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی

انسان ناراض اسی سے تو ہوتا ہے جس سے وہ یہ چاہتا ہو کہ سامنے والا اسے منائے اور عصیرم اسے ضرور منائے گا

اسکی زندگی میں آج تک ایسا کوئی آیا ہی نہیں تھا جسے وہ مناتا یا اس سے ناراض ہوتا نور شاہ وہ پہلی شخص تھی اور عصیرم خان کو اسے منانا تھا کسی بھی طرح

اسے نور کی ناراضگی بےچین کررہی تھی اور جب تک وہ مان نہیں جاتی تب تک اسے اسی طرح بےچینی رہنی تھی

°°°°°

"عالم دیکھیں نہ دونوں کتنے پیارے لگ رہے ہیں" آئرہ نے مسکراتے ہوے اسٹڈی روم میں بیٹھے زریام اور حوریب کو دیکھتے ہوے کہا جنہیں روم میں لگے گلاس وال کے زریعے وہ باآسانھ دیکھ رہے تھے

جہاں وہ دونوں زمیں پر بیٹھے ہوے تھے جبکہ سامنے رکھی چھوٹی ٹیبل پر چند کتابیں موجود تھیں

چونکہ شادی گاؤں میں ہی ہونی تھی اسلیے کچھ افراد واپس حویلی آچکے تھے کیونکہ یہاں بھی بہت تیاری کرنی تھیں اور اب تو شاہ میر کے نکاح کی تیاری بھی ہونی تھی جو زریام کے ولیمے کے ساتھ ہونا تھا

"ہمم ماشاءاللہ"

"ویسے عالم یہ منظر کچھ دیکھا دیکھا نہیں لگ رہا ہے" آئرہ نے شرارت سے اسکی طرف دیکھا جس پر اسنے مسکراتے ہوے اسے اپنے حصار میں لے لیا

"بلکل جان عالم بس فرق اتنا ہے پہلے یہاں ایک مرد موجود تھا اور اب ایک لڑکی لیکن اب تم انہیں دیکھنا بند کرو انہیں انکا کام کرنے دو اور تم اپنا کام کرو"

"میرا کیا کام ہے" اسنے ناسمجھی سے عالم کی طرف دیکھا

"تمہارا کام ہے مجھے خوش کرنا" اسنے آئرہ کے وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھایا

"اف آئرہ بہت بھاری ہوگئی ہو" عالم کے کہنے پر اسنے خفگی سے اسکے سینے پر زور سے مکا مارا جس پر وہ مسکراتے ہوے اسے لے کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

°°°°°

"یہ غلط بات ہے خود تو ساحر لالا ہر وقت ماہیم کے ساتھ چپکے رہتے تھے اب مجھے موقع ملا ہے تو اٹھا کر یہاں بھیج دیا" کب سے کمرے میں اکیلا بیٹھا وہ خود سے بڑبڑائے جارہا تھا

حیات اس وقت شہر میں ہی تھی جبکہ شاہ میر مسلسل ساحر کی شان میں قصیدے پڑھ رہا تھا

کیونکہ اسنے ہی شاہ میر کو یہاں پر زبردستی بھیجا تھا کیونکہ اسے پتہ تھا اگر وہ وہیں رہتا تو نکاح ہونے تک حیات کی ناک میں دم کرنا تھا بہتر تھا جب تک نکاح نہیں ہوتا شاہ میر کو حیات سے دور ہی رکھا جاتا

"دیکھنے تو دیتے حیات مجھے دیکھ کر کس طرح کا ری ایکشن دیتی تھوڑا شرماتی تھوڑا گھبراتی یا شاید کچھ اور کرتی" تصور میں وہ حیات کے الگ الگ توپ سوچ رہا تھا

"حیات بی بی بس جلدی سے میری حیات میں آجاؤ" اسنے گہرا سانس لے کر کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا شاید باہر کچھ انٹرٹینمنٹ کا سامان مل جاتا

°°°°°

"اتنی جاہل نہیں ہوں میں اے بی سی اور الف ب میرے کو آتی ہے اماں نے سکھائی تھی" اسکے سامنے چند کتابیں رکھی ہوئی تھیں اور زریام اسے اے بی سی سکھا رہا تھا جس پر اسنے غصے سے کہا

"اچھا سناؤ مجھے" زریام کے کہنے پر اپنے دونوں ہاتھ آپس میں باندھ کر وہ اچھے بچوں کی طرح آنکھیں بند کرکے اسے اے بی سی سنانے لگی جبکہ اسکے انداز پر زریام بس اپنی مسکراہٹ ضبط کیے بیٹھا رہا

"واؤ حوریب میں تو تمہیں جاہل سمجھتا تھا تم تو پڑھی لکھی ہو" اسکے کہنے پر حوریب نے فخر سے گردن اکڑائی

"اچھا تو میں تمہیں کچھ بیسک چیزیں سکھا دیتا ہوں"

"نہیں سیکھنی اتنی دیر سے یہاں بٹھایا ہوا ہے چھوڑ دے میری جان"

اس وقت وہ دونوں کارپٹ پر بیٹھے ہوے تھے جبکہ ان دونوں کے درمیان صرف چند انچ کا فاصلہ تھا جو اسکی بات سنتے ہی زریام نے مٹا دیا

اسے کمر سے پکڑ کر زریام نے ہلکا سا اٹھا کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا

"اب جان کہہ رہی ہو تو چھوڑ کیسے دوں" زریام نے شرارتی نظروں سے اسکی طرف دیکھا

حوریب نے نظریں اٹھا کر اس شخص کو دیکھا گھنی گھنی داڑھی مونچھوں سمیت وہ ڈمپل والا خوبرو مرد صرف اسکا تھا یہ سوچ ہی کتنی دلکش تھی

"چھوڑ مجھے"

"چھوڑ مجھے نہیں چھوڑیں مجھے بلکہ چھوڑنے کی بات ہی کیوں کرنی ہے ہم پکڑنے کی بات کرتے ہیں نہ" اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر زریام نے اسکا چہرہ خود کے قریب کیا اور اسکے لبوں پر جھک گیا

حوریب نے بنا کوئی مزاحمت کیے اسکے گردن میں اپنے بازو ڈال دیے اور اسکا یہ انداز زریام کو مزید بہکا چکا تھا

"کمرے نہیں ہیں آپ لوگوں کے پاس" شاہ میر کی صدمے سے بھری آواز سنتے ہی وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوے حوریب تو اسکی گود سے اٹھ کر کمرے سے بھاگ چکی تھی

جبکہ زریام اپنی مونچھیں سنوارتا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا

"لالا یہ اسٹڈی روم ہے یہ پڑھنے کے لیے ہوتا ہے"

"ہاں تو میں اسے پڑھا ہی رہا تھا"

"آپ اسے پڑھا نہیں رہے تھے بائیولوجی سکھا رہے تھے" شاہ میر کے کہنے پر زریام نے گھور کر اسے دیکھا

"بےشرم انسان کچھ شرم کرلے"

"میں کیوں شرم کروں شرم تو آپ کو کرنی چاہیے بیٹا میرا نکاح ہوگا نہ تب میں نے یہ سب اپنے کمرے سے باہر کیا تو مجھے کچھ مت کہنا"

"میری بلا سے تو باہر روڈ پر جاکر کرلے تجھے جو کرنا ہے"

"اب اتنا بے وقوف بھی نہیں ہوں جو روڈ پر ہی چلا جاؤں گا" منہ بناتے ہوئے وہ وہاں سے چلا گیا

جبکہ اسکے جانے کے بعد زریام بھی ساری کتابیں اٹھا کر انکی جگہ پر رکھنے لگا یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ اسکی بیوی تو بھاگ چکی تھی

°°°°°

°°°°°

بک اسٹور سے نکل کر اسنے اپنی گاڑی دیکھنے کے لیے نظریں دوڑائیں جو کچھ فاصلے پر کھڑی تھی

یہاں پارکنگ کی جگہ نہیں تھی اسلیے ڈرائیور نے گاڑی دور کھڑی کی تھی

وہ گاڑی کی جانب بڑھنے لگی جب اپنے پیچھے اسے عصیرم کی آواز سنائی دی حیرت سے مڑ کر وہ اسکی طرف دیکھنے لگی

بلیو جینز کے ساتھ اس وقت اسنے بلیک جیکٹ اور آنکھوں پر بلیک سن گلاسز لگائے ہوے تھے جبکہ سر پر کیپ پہنا ہوا تھا

اس وقت وہ عام دنوں سے مختلف لگ رہا تھا کیونکہ عام دنوں میں نور نے اسے پینٹ کوٹ یا پھر کمیز شلوار میں ہی دیکھا تھا

اس وقت جب تک کوئی اسے قریب سے نہ دیکھ لیتا تو یہ نہیں جان پاتا کہ وہ عصیرم خان ہے

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

"تم سے ملنے آیا تھا"

"کیوں ملنے آے تھے-----؟"

"کیونکہ تم مجھ سے بات نہیں کررہی تھیں"

"آپ کو فرق پڑتا ہے" اس کی آواز آہستہ تھی لیکن لہجہ سخت

"بلکل پڑتا ہے آج میں جارہا ہوں پر تمہاری ناراضگی مجھے جانے نہیں دے رہی ہے ایک ہی تو دوست ہے میری اسے نہیں کھونا چاہتا ہوں اور نہ ہی یہ بات مجھے اچھی لگ رہی ہے کہ وہ مجھ سے ناراض ہے" اسنے آنکھوں سے چشمہ ہٹایا اور نور کی نظریں اسکی نیلی آنکھوں سے ٹکرائیں

"ٹھیک ہے پر آپ مجھے کبھی اس طرح ڈانٹینگے نہیں"

"بلکل نہیں"

"اور میں جو کہونگی وہ کرینگے"

"بلکل"

"اور ابھی مجھے کوئی مہنگا گفٹ دینگے تاکہ میری ناراضگی دور ہوجائے" اسکے کہنے پر عصیرم نے مسکراتے ہوے اپنا سر اثبات میں ہلایا

وہ راضی ہوچکی تھی تو عصیرم کی بےچینی بھی دور ہوچکی تھی

°°°°°

آج زریام اور حوریب کے ولیمے کے ساتھ ساتھ شاہ میر اور حیات کا نکاح بھی تھا صبح سے سب تیاریوں میں لگے ہوے تھے

ایسے میں زریام کا سارا دن مصروفیت بھرا گزرا تھا اسنے تو صبح سے حوریب کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی جسے دیکھنے کی اسے کب سے بےچینی ہورہی تھی

حوریب کو میک اپ سے چڑ تھی اور زریام تو خود نہیں چاہتا تھا کہ وہ تیار ہو کیونکہ وہ سادگی میں اتنی خوبصورت لگتی تھی تیار ہونے کے بعد اسنے پھر کیا قیامت ڈھانی تھی

لیکن آئرہ بیوٹیشن کو بلوا کر اسے زبردستی تیار کرا رہی تھی آج کا دن خاص تھا اور آئرہ اسے ان دونوں کے لیے مزید خاص بنانا چاہتی تھی

تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگا اسے اپنی بیوی کو دیکھنے کی بےتابی ہورہی تھی اسے دیکھنا تھا کہ اسکے دلائے ہوے ڈریس میں وہ کیسی لگ رہی ہوگی

وہ دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا جب دروازہ کھلا اور بیوٹیشن باہر نکلی اسے دیکھتے ہی بیوٹیشن نے مسکراتے ہوے سلام کیا جس کے جواب میں اسنے سر کو ہلکے سے جنبش دی

"مسٹر زریام آپ کی وائف بہت خوبصورت ہیں" اسکی بات سن کر زریام نے مسکراتے ہوے تھینکس کہا اور اسکے وہاں سے جانے کے بعد اپنے کمرے میں آگیا

جہاں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر حوریب پر پڑی جو ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کر زریام کا جیسے سانس رک چکا تھا

اسنے اس وقت زریام کی دلائی ہوئی وائٹ کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی جس پر ستاروں کا کام ہورہا تھا جو اس میکسی کو جگمگانے کا باعث بن رہا تھا

سلیقے سے بالوں کا خوبصورت جوڑا بنایا ہوا تھا اور دو لٹیں آگے کی طرف نکالیں ہوئی تھی جو اسکے گالوں کو چھو رہی تھیں اسکے سرخ لبوں پر ہلکا سا پنک لپسٹک کا شیڈ دیا ہوا تھا

آج وہ سر سے لے کر پیر تک صرف زریام شاہ کے لیے تیار ہوئی تھی

اس وقت وہ اس دنیا کی لگ ہی نہیں رہی تھی اس وقت وہ ایک حسین پری لگ رہی تھی جو شاید غلطی سے اس دنیا میں آ گئی تھی

اسکے قریب جاکر زریام غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا

"تمہیں کس نے حق دیا ہے اتنا خوبصورت لگنے کا" اسکی بات سن کر حوریب کی نظریں شیشے میں نظر آتے اسکے وجود پر پڑیں

بالوں کو جیل سے سیٹ کیے اس بلیک ڈنر سوٹ میں موجود وجیہہ مرد کو حوریب نے گہری نظروں سے دیکھا

"تیرے کو کس نے دیا ہے کہ تو اتنا اچھا لگے" اسکے کہنے پر زریام نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی

جب بھی وہ بات کرتی تھی تو اسکا لہجہ سن کر زریام کو یقین آجاتا تھا کہ وہ کوئی خواب نہیں تھی وہ حقیقت تھی کسی اور جہان کی نہیں تھی اسی دنیا کی تھی

"تیرے نہیں کہتے حوریب تم یا آپ سے مخاطب کرتے ہیں" زریام نے اسکا ڈوپٹہ نکالا وہ نیٹ کا ڈوپٹہ بیوشین نے اسکے جوڑے میں سیٹ کردیا تھا جبکہ باقی کا سارا پیچھے کی طرف زمیں پر پھیلا ہوا تھا

"کیا کررہا ہے" اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے زریام نے وہ ڈوپٹہ اسکے چہرے پر پھیلایا اور پن سے سیٹ کردیا

"یہ کس لیے"

"اس وقت تم بےحد خوبصورت لگ رہی ہو اور ایسے میں میں اپنے گھر والوں کی نظریں تم پر برادشت نہ کروں یہاں تو پھر ہم بھری محفل میں جارہے ہیں" اسکا ہاتھ پکڑ کر زریام نے اسے اٹھایا اور اسے لے کر کمرے سے باہر چلا گیا

°°°°°

"جلدی کریں نہ دیر ہورہی ہے" اسنے جھنجھلاتے ہوے ساحر سے کہا جو دس منٹ سے اسکے بال بنا رہا تھا

پہلے سیٹ کرتا پھر منہ بنا کر چینج کردیتا اور دس منٹ سے وہ یہی کام سر انجام دے رہا تھا

سب لڑکے ساحر کے روم میں ہی تیار ہوئے تھے جس کی وجہ سے اسکا سارا کمرہ پھیلا پڑا تھا

سب تیار ہوچکے تھے سوائے شاہ میر کے جسے ایہاب آہان اور ساحر مل کر تیار کررہے تھے

تیار کیا رہے تھے درحقیقت اسکی درگت بنا رہے تھے جتنی جلدی وہ مچا رہا تھا وہ اتنی ہی دیر کررہے تھے

"کیا جلدی ہے تیرے کو کہیں نہیں جارہی تیری دلہن تیرے ہی نکاح میں آے گی" ساحر نے اسے گھورتے ہوے کہا اور پھر سے اس کے بال بنانے لگا جس پر شاہ میر نے بے چارگی سے دور کھڑے ماہر کو دیکھا

بھلے وہ اسکی حالت سے لطف اندوز ہورہا تھا لیکن کم از کم انکے ساتھ ملا ہوا تو نہیں تھا

"ماہر لالا"اسنے التجائی نظروں سے ماہر کی طرف دیکھا اور شاید ماہر کو اس پر ترس آگیا

"چلو بس بہت ہوا ہوچکا ہے وہ تیار اب چلتے ہیں" ساحر کے ہاتھ سے برش لے کر اسنے خود جلدی سے شاہ میر کے بال سیٹ کردیے

"ہاں جلدی کرو ابھی نیچے اسکے انتظار میں کسوا آنٹی بھی کھڑی ہیں" ایہاب کے کہنے پر شاہ میر جو جلدی سے کمرے سے باہر جارہا تھا وہیں رک گیا

"میں تو کھڑکی سے جاؤں گا" تیزی سے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھا لیکن اس سے پہلے وہ کھڑکی کے زریعے وہاں سے باہر نکلتا آہان اور ساحر اسے پکڑ چکے تھے

"ارے چھوڑو مجھے اماں سائیں نے پکڑ لیا تو آدھے گھنٹے سے پہلے چھوڑنا نہیں ہے" اسنے احتجاج کیا لیکن بنا اسکی کچھ سنے وہ اسے لے کر باہر آگئے

جہاں کسوا زریام اور حوریب کی نظر اتار رہی تھی اور اگلی باری شاہ میر کی تھی

"چھوڑو مجھے" اسنے ہلکی آواز میں کہتے ہوے اپنا آپ چھڑانا چاہا لیکن وہ دونوں بنا اسکی کسی بات پر دھیان دیے اسے کسوا کے سامنے لے جاکر کھڑا کر چکے تھے

اسے دیکھتے ہی کسوا نے ملازمہ سے کہہ کر نئی مرچیں منگوائیں کیونکہ اب اسکا ارادہ یہ ساری کارستانی شاہ میر کے ساتھ کرنے کا تھا

شاہ میر نے غصے سے ساحر اور آہان کو دیکھا جو اسے ہی دیکھتے ہوے ڈھٹائی سے مسکرا رہے تھے

انہیں دیکھ کر وہ بس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا اب کسوا نے اسے بیس سے پچیس منٹ تک تو یہیں کھڑے رکھنا تھا

°°°°°

"کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی ہو مسز معتصم" معتصم نے پریشے کو پیچھے سے اپنے حصار میں لیتے ہوے کہا اور گہری نظروں سے اسکے خوبصورت وجود کو دیکھنے لگا جو اس وقت ڈارک بلیو کلر کی فراک پہنے بہت پیاری لگ رہی تھی

وہ کافی دنوں بعد اتنا تیار ہوئی تھی اسلیے معتصم کو کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی تھی

"خوبصورت لوگ ہمیشہ خوبصورت ہی لگتے ہیں مسٹر معتصم"اسکے کہنے پر معتصم نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا

اسنے خود بھی اس وقت ڈارک بلیو کلر کا پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا اور یہ میچنگ پریشے نے ہی کی تھی

"کیا یہ تعریف میرے لیے تھی"

"جو سمجھنا چاہو سمجھ لو" اسکے لبوں کو ہلکے سے چھو کر وہ وہاں سے جانے لگی جب معتصم نے اسے پھر سے اپنے حصار میں لے لیا

"جانتی ہو نہ تمہاری یہ حرکتیں میرے جذبات جگاتی ہیں" اسکے آگے کی طرف پھیلے بالوں کو پیچھے کرکے وہ اسکے لبوں پر جھک گیا

جب کمرے کا دروازہ کھول کر نور داخل ہوئی

"اماں سائیں" اسکی آواز سنتے ہی معتصم فورا اس سے دور ہٹا جبکہ ان دونوں کو اس طرح دیکھ کر وہ خود اپنی حرکت پر شرمندہ ہوئی

"سوری سوری" دروازہ بند کرکے وہ واپس بھاگ گئی شرمندگی اتنی تھی کہ اسنے معتصم کی پکار بھی نہیں سنی تھی

اسکے جانے کے بعد معتصم نے پریشے کی طرف دیکھا جو اسے اب گھور رہی تھی

"میں نے تھوڑی بھگایا ہے اسے ہماری بیٹی بہت سمجھدار ہے ماں باپ کو ڈسٹرب کرنا اسے اچھا نہیں لگ رہا ہوگا اسلیے جلدی سے بھاگ گئی بنا کچھ سنے"

"معتصم کبھی وقت بھی دیکھ لیا کرو"

"پیار وقت دیکھ کر نہیں ہوتا"

"پر ابھی پیار کا وقت بھی نہیں ہے" اسے گھورتی ہوئی وہ باہر چلی گئی جس پر وہ بس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا

°°°°°

مسلسل وہ اپنے برابر بیٹھی حیات کو دیکھ رہا تھا جو کچھ دیر پہلے ہی اسکے نکاح میں آئی تھی

اسکے مسلسل دیکھنے سے وہ کنفیوژ ہوتی اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی

جبکہ شاہ میر تو اپنی نئی نئی بیوی کو فرصت سے نہار رہا تھا جو اس وقت فیروزی رنگ کی پیروں کو چھوتی ہیوی فراک پہنے اسکی دلہن بنی بیٹھی تھی

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو" اسکے کہنے پر حیات نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکے ایسا کرتے ہی شاہ میر نے اسکے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے

جتنی تیزی سے وہ ان پر جھکا تھا اتنی ہی تیزی سے بس ہلکا سا کس لے کر دور بھی ہوچکا تھا جبکہ حیات جو پہلے ہی گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی اب اس میں مزید اضافہ ہوچکا تھا

بھری محفل میں شاہ میر اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا یہ اسے اندازہ بھی نہیں تھا لیکن اس وقت کوئی شاہ میر سے پوچھتا جو اسے دیکھ کر کتنی مشکلوں سے اپنے جذبات پر لگام ڈالے بیٹھا تھا

"یار اتنا لال گلابی کیوں ہورہی ہو کسی نے نہیں دیکھا" اسنے حیات کو تسلی دی جب اسے قہقہے کی آواز سنائی دی جنہیں سن کر شاہ میر اس آواز کی طرف متوجہ ہوا

جبکہ حیات کی جھکی نظریں مزید جھک چکی تھیں وہ آہان اور ایہاب تھے جو اسے دیکھتے ہوے قہقہہ لگا کر ہنس رہے تھے یقیناً اسکی حرکت دیکھ کر لیکن اسے کونسا فرق پڑنا تھا

"حیات میں پھر بھی یہی کہوں گا اتنا لال گلابی مت ہو دیکھ لیا تو دیکھ کیا بس یہ دونوں جل رہے ہیں مجھ سے کہ میرے پاس بیوی آگئی ہے اور انکے پاس نہیں" اسکے لہجے میں آج فخر تھا

یہ اسکے لیے فخر والی بات ہی تو تھی کہ وہ بھی آج بیوی والا ہوگیا تھا

°°°°°

"یارا تیری کہانی میں ہو زکر میرا"

"کہیں تیری خاموشی میں ہو فکر میرا"

"رخ تیرا جدھر کا ہوا ، ہو ادھر میرا"

"تیری بانہوں تلک ہی ہے یہ سفر میرا"

"او ماہی او ماہی او ماہی او ماہی"

"او ماہی او ماہی او ماہی او ماہی"

"میری وفا پے حق ہوا تیرا"

"او ماہی ، ماہی وے"

"او ماہی او ماہی او ماہی او ماہی"

"او ماہی او ماہی او ماہی او ماہی"

"او میں قیامت تک ہوا تیرا"


ہلکی آواز میں میوزک چل رہا تھا ہر طرف پھولوں کی سجاوٹ ہورہی تھی اور ایک اسٹیچ پر حیات اور شاہ میر جبکہ دوسرے اسٹیج پر زریام اور حوریب کو فوٹو شوٹ ہورہا تھا

جسے کرواتے کرواتے زریام بیزار ہوچکا تھا لیکن حیرت کی بات تھی کہ حوریب نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ تو ہر وہ کام کررہی تھی جو فوٹو گرافر کہہ رہی تھی

اس وقت حوریب کا ڈوپٹہ اسکے چہرے کے بجاے اسکی بیک پر پھیلا ہوا تھا وہ بھی صرف اس وجہ سے کیونکہ اس سائیڈ پر صرف عورتیں تھیں اور مردوں میں گھر کے افراد اور دوسری بات کہ انکا فوٹو شوٹ ہورہا تھا جس کے لیے زریام نے ایک فی میل فوٹوگرافر کو بلوایا تھا

"میم سر کے کندھے پر ہاتھ رکھیں" فوٹو گرافر کے کہنے پر اسنے اپنا سفید نرم ہاتھ زریام کے مظبوط کندھے پر رکھ دیا


"باتوں کو بہنے دو ، بانہوں میں رہنے دو"

"ہے سکون ان میں"


"کیا بات ہے تمہیں بہت خوشی ہورہی ہے" زریام نے اسکے مسکراتے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیا

"وہ میرے کو میم بلا رہی ہے میرے کو پہلی بار کوئی اس طرح سے بلا رہا ہے" اسنے خوشی سے چہکتے ہوے اسے وجہ بتائی اور ایسا کرتی ہوئی وہ زریام کو کوئی بچی ہی لگ رہی تھی


"رستے وہ بےگانے"

"جھوٹے وہ افسانے تو نہ ہو جن میں"


"اچھا تمہیں میم سننا اچھا لگتا ہے تو آج کے بعد پھر میں بھی تمہیں میم ہی کہوں گا" زریام نے گہری مسکراہٹ لیے اسے دیکھا


"ہو تھوڑی عمر ہے پیار زیادہ میرا"

"کیسے بتاؤں یہ سارا تیرا ہوگا میں نے مجھے ہے تجھ کو سونپنا"


حوریب نے پہلی نظر اسکے گال میں ہنسنے کی وجہ سے نمایاں ہوتے ڈمپل کو دیکھا اور پھر اسکے چہرے کی طرف دیکھا

بےاختیار اسنے اپنا ہاتھ بڑھا کر زریام کے ابھرتے ڈمپل پر رکھا اور نظریں اٹھا کر زریام کی طرف دیکھا جو گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

حوریب نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا جب زریام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ اپنے گال پر رکھا اسکی اس حرکت سے حوریب کے لب مسکرا اٹھے اور انکا یہ خوبصورت منظر کیمرے میں قید ہوگیا


"آنہوں پہ بانہوں پہ"

"راہوں پناہوں پہ"

"آنہوں پہ بانہوں پہ"

"ساہوں سلاہوں پہ"

"میرے عشق پہ حق ہوا تیرا"

"او ماہی او ماہی او ماہی"

"او ماہی او ماہی او ماہی"

"لو میں قیامت تک ہوا تیرا"

°°°°°

"خوش ہو تم" اپنی پینٹ کی پوکیٹ میں ہاتھ ڈالے وہ عشل کے قریب آیا جو مسکراتی نظروں سے دور کھڑے زریام اور حوریب کو دیکھ رہی تھی

"بہت زیادہ تمہیں پتہ ہے معتصم میں نے تو ہمیشہ خدا سے شکوے کیے تھے کہ میری بیٹی کی زندگی باقی لڑکیوں کی طرح کیوں نہیں ہے اور آج سمجھ آرہا ہے کہ میری بیٹی کی قسمت تو واقعی عام لڑکیوں جیسی نہیں ہے زریام جیسا شخص ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتا ہے پتہ نہیں یہ کسی نیکی کا صلہ ہے یا پھر کیا جو خدا نے میری بیٹی کا نصیب اتنا چھا کھول دیا" وہ کھوے کھوے لہجے میں کہہ رہی تھی

"یہی تو ہماری سوچ ہوتی ہے خدا نے تو پہلے ہی ہمارے لیے سب طے کر رکھا ہوتا ہے یہ تو انسان ہوتا ہے جو زرا سی دیری پر ناشکری کرتا ہے پر صحیح وقت آنے پر ہمیں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس دیری کی وجہ کیا تھی" اسکے کہنے پر عشل نے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی اور نم آنکھوں سے دوبارہ زریام اور حوریب کو دیکھنے لگی

یہ منظر اسے اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت منظر لگ رہا تھا جس سے نظریں ہٹانے کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا

°°°°°

برائیڈل روم میں داخل ہوکر اسنے اپنا پرس ایک طرف رکھا اور پاؤں کو ہائی ہیلز سے آزاد کیا جنہیں پہنے کی وجہ سے پیر دکھ رہے تھے

کچھ دیر وہیں بیٹھ کر اسنے اپنے پیروں کو ریلیکس کیا اور کھڑی ہوکر اپنے بال ٹھیک کرنے لگی جب برائیڈل روم کا دروازہ کھلا اور ساحر اندر داخل ہوا

اسے شیشے میں دیکھتے ہی ماہیم جلدی سے مڑی اور جلدی جلدی پاؤں میں ہیلز ڈال کر وہاں سے نکلنے لگی جب ساحر نے اسکی اس کوشش کو ناکام بناتے ہوئے اسے اپنے قریب کرلیا

ڈنر والی رات کے بعد سے اتنا فرق تو پڑا تھا کہ وہ اس سے اب باتیں کرنے لگی تھی لیکن اکیلے میں اب بھی نہیں ملتی تھی اور جہاں اسے اکیلا دیکھ لیتی اس جگہ سے ہی بھاگ جاتی

"اتنی تیار ہوکر کیوں آئی ہو" ساحر نے گہری نظر اسکے سراپے پر ڈالی

جو اس وقت کریم کلر کی ہیوی شورٹ فراک اور کیپری پہنے اسکے سامنے کھڑی تھی

"ماما نے کہا تھا کہ شاہ میر کی شادی ہے تو اسی طرح تیار ہونا"

"کیوں شاہ میر تمہارا کیا لگتا ہے"

"دیور" اسنے نظریں جھکائے معصومیت سے کہا اسکا انداز دیکھ کر ساحر کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا

"تمہیں اندازہ نہیں ہے ماہیم تمہاری یہ حرکتیں میرے جذبات جگا دیتی ہیں جنہیں پھر قابو کرنا میرے لیے مشکل ہوجاتا ہے" ساحر نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی جبکہ اسکا چہرہ اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ اپنی آنکھیں بند کرچکی تھی

ساحر نے آہستہ سے اسکے فراک میں ہاتھ ڈالا اور پھر ماہیم کو اسکی انگلیوں کا لمس اپنی کمر پر محسوس ہوا اسنے سختی سے ساحر کی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا جب اسے اپنی گردن پر ساحر کا لمس محسوس ہوا بند آنکھوں کو اسنے مزید میچ لیا

"پلیز مجھے جانا ہے" اسکے انداز میں التجا تھی جسے محسوس کرکے وہ پیچھے ہٹا اور اسے وہاں رکھے صوفے پر بٹھا دیا

ماہیم نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو اب زمین پر بیٹھا ہوا تھا

"یہ آپ کیا کررہے ہیں" اسکا ہاتھ اپنے پیروں پر محسوس کرکے وہ جلدی سے اٹھنے لگی جب ساحر نے اسے پھر بٹھا دیا

"بیٹھی رہو" اپنی جیب سے گولڈ کی پازیب نکال کر اسنے انہیں نرمی سے ماہیم کے دونوں پاؤں میں پہنا دیا

"نکاح کے بعد میری طرف سے تمہارے لیے پہلا تحفہ تھوڑا لیٹ دیا پر کوئی بات نہیں" اسکا ہاتھ پکڑ کر ساحر نے اسے صوفے سے اٹھایا

"پر تم نے مجھے کچھ نہیں دیا"

"مجھے نہیں پتہ تھا کوئی گفٹ دینا ہے میں آپ کو بعد میں دے دوں گی"

"لیکن میں نے تو تمہیں ابھی دیا ہے"

"تو آپ واپس رکھ لیں جب میں دوں گی تب آپ واپس دے دینا" اسنے ساحر کو اپنے مفت مشہورے سے نوازا

"نہیں تم اسے رکھو اور مجھے میرا گفٹ ابھی دو"

"میرے پاس ابھی کوئی گفٹ نہیں ہے"

"جو مجھے چاہیے وہ صرف تمہارے پاس ہی تو ہے اور اس وقت بھی ہے" اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر ساحر نے اسے اپنے قریب کیا

"ک--کیا چاہیے آپ کو"

"چاہیے تو لو بائٹ پر وہ تو تم دو گی نہیں فلحال ابھی کے لیے ایک کس دے دو میں ابھی کے لیے اس سے بھی کام چلا لوں گا"

"پلیز چھوڑیں مجھے"

"تم صرف ٹائم ویسٹ کررہی ہو" اپنی آنکھیں بند کرکے اسنے اپنا چہرہ ماہیم کے قریب کیا

"آہ وہ کیا ہے" ماہیم کے چلانے پر اسنے جلدی سے آنکھیں کھولیں ماہیم پر اسکی گرفت ڈھیلی ہوئی اور موقع ملتے ہی اسنے ساحر کو خود سے دور کیا اور جلدی سے برائیڈل روم سے بھاگ گئی

ماہیم کی اس حرکت سے اسنے بمشکل اپنے غصے کو ضبط کیا جب نظر وہاں رکھے ماہیم کے پرس پر گئی

اسنے اٹھا کر اسے کھولا اس میں ٹیشو پیپر لپسٹک اور ماہیم کا موبائل تھا جسے مسکراتے ہوے نکال کر اسنے پرس واپس وہیں رکھ دیا

°°°°°

کمرے میں آکر اسنے اپنی جیولری اتاری اور ڈریس چینج کرنے چلی گئی

جس وقت وہ چینج کرکے باہر نکلی اس وقت اسکے کمرے میں معتصم بیٹھا ہوا تھا پتہ نہیں وہ کب آیا تھا اسے دیکھتے ہی حیات نے اپنا دوپٹہ سر پر لیا

"آپ کو کوئی کام تھا انکل"

"نہیں کام تو کوئی نہیں تھا" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ حیات کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا

"ماشاءاللہ آج تم بہت پیاری لگ رہی تھیں" اسکے کہنے پر حیات نے شرماتے ہوے اپنا سر جھکا لیا

"حیات میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاہ میر تمہارے لیے بہترین انتخاب ہے پر پھر بھی کبھی تمہیں لگے یہ فیصلہ اگر غلط ہوا ہے یا کوئی بھی ایسی بات ہو تو تم مجھ سے بلاجھجک کہہ سکتی ہو بیٹی بنا کر لایا ہوں تو بیٹی کی طرح رکھوں گا بھی"

"اگر آپ یہ بات نہیں بھی کہتے تو بھی میں یہی کرتی بابا کے بعد میں نے جسے انکا مقام دیا ہے وہ آپ ہی تو ہیں اگر مجھے ایسا کچھ کہنے کی ضرورت ہوئی تو آپ سے ہی کہوں گی" اسکے کہنے پر معتصم نے مسکراتے ہوے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور وہاں سے جانے لگا جب حیات کی کھڑکی زور زور سے بجنے لگی

"کھولو اسے" اسے کھولنے کا اشارہ کرکے وہ کمرے کے کونے میں جاکر کھڑا ہوگیا کیونکہ اسے پتہ تھا آنے والا کون ہوگا

اس وقت کمرے میں صرف ایک بلب جل رہا تھا جو کمرے میں ہلکی روشنی پیدا کرنے کا سبب بن رہا تھا ایسے میں کونے میں کھڑے معتصم کا شاہ میر کی نظروں میں آنا تھوڑا مشکل تھا

"تم نے چینج بھی کرلیا" کھڑکی کھولتے ہی شاہ میر اندر داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہی صدمے سے کہا

"میں اتنی مشکلوں سے یہاں پر آیا ہوں پتہ ہے تمہیں بابا سائیں نے پہرے بٹھائے ہوے ہیں کہ میں تمہارے کمرے میں نہ آؤں لیکن دیکھو میں پھر بھی آگیا" فخریہ انداز میں کہتے ہوے اسنے فرضی کالر جھاڑے

"اور یہاں آکر مجھے کیا مل رہا ہے حیات بی بی چینج بھی کرچکی ہیں ارے میرا انتظار تو کرلیتی تمہیں اچھے سے دیکھنے تو دیتیں پر کوئی بات نہیں میں تمہاری تعریف ابھی بھی کردوں گا وہ"

"شاہ میر مجھے نیند آرہی ہے" اسنے شاہ میر کی بات کاٹی وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کوئی بھی الٹی سیدھی بات کرے اور وہاں کھڑا معتصم یہ سب سنے جبکہ وہاں کھڑا معتصم تو بس اپنی ہنسی ضبط کیے کھڑا تھا

"سوتی رہنا پہلے میری داستان تو سنو بلکہ داستان سنانے سے پہلے میں تمہیں ایک خوش خبری سنانے والا ہوں"

"خوش خبری تو میں بھی تمہیں سنانے والا ہوں" وہ جو مزے سے اپنی اپنی کہے جارہا تھا معتصم کی آواز سنتے ہی جیسے سارے الفاظ دم توڑ چکے تھے

شاہ میر نے سب سے پہلے سوئچ بورڈ سے لائٹ کا بٹن آن کیا جس سے کمرہ روشنی میں نہا گیا

اور اس تیز روشنی میں اسے وہاں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا معتصم دکھ رہا تھا

"بڑے بابا آپ یہاں کیا کررہے ہیں" اسنے زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائی

"تمہارے باپ نے منع کیا تھا نہ یہاں آنے سے پھر بھی آگئے"

"وہ میں نیند میں چلتا ہوا آیا تھا"

"ایسی باتیں مت کیا کرو قسم سے وصی کی اولاد لگتے ہو"

"لیکن میں وصی کی اولاد نہیں ہوں میں عصیم اور کسوا کی اولاد ہوں"اسنے مزے سے کہا

"اوہ ہاں میں بھول گیا تھا تم کسوا کی بھی تو اولاد ہو تب ہی تو ایسے ہو" اسکے کہنے پر شاہ میر کی بےاختیار ہنسی چھوٹی

"ہنس لیے اب چلو" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے کمرے سے باہر لے جانے لگا جب اسنے بےچارگی سے معتصم کی طرف دیکھا

"حیات سے تھوڑی بات تو کرلوں"

"نہیں"

"حیات میں تم سے ملنے پھر آؤں گا" اسکی نوٹنکی پر معتصم نے گھور کر اسے دیکھا اور اسکا ہاتھ چھوڑ کر اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوے کمرے سے چلا گیا جبکہ اسکے جانے پر شاہ میر نے خود اپنی ایکٹنگ کو داد دی

°°°°°

اسکا ہاتھ پکڑ کر وصی نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر گرایا

"وصی کیا کررہے ہیں"

"آج میرا موڈ بہت اچھا ہے اپنی بیوی کو پیار کرنے کا دل چاہ رہا ہے"

"کیوں آج ایسی کیا خاص بات ہے"

"ضروری نہیں ہے عینہ کوئی بات ہو تو ہی میرا موڈ رومینٹک ہو"مسکراتے ہوے اسنے عینہ کے گال پر اپنے لب رکھے

اسکی اس حرکت پر عینہ نے بھی مسکراتے ہوے اپنی آنکھیں بند کرلیں جب انہیں باہر سے ماہیم کی آواز سنائی دی جو کمرے دروازہ ناک کررہی تھی

"آجاؤ ماہیم" وصی نے اس سے دور ہوکر کہا

"ماما میرا موبائل نہیں مل رہا ہے" اسنے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا

"یہیں کہیں ہوگا کال کرکے دیکھ لیتیں"

"کروائی تھی نور سے لیکن کوئی رسپانس نہیں ملا"

"ماہیم ہوسکتا ہے کہیں گرگیا ہوگا کہاں رکھا تھا" وصی کے کہنے پر اسنے یاد کرنا چاہا کہ آخری بار اسنے اپنا موبائل کہاں رکھا تھا

"میں نے تو پرس میں ہی رکھا تھا لیکن اب دیکھا تو اس میں نہیں تھا"

"کہیں گرا دیا ہوگا اس لڑکی کی یہی لاپروائی رہ گئی ہر تقریب میں اس لڑکی کا کچھ نہ کچھ کھو جاتا ہے"عینہ نے کہنے پر اسنے ناراضگی سے اپنی ماں کو دیکھا ایک تو موبائل بھی اسکا کھویا تھا دوسرا ڈانٹ بھی اسے ہی پڑ رہی تھی

"اچھا نہ بس اب ڈانٹو مت اسے ملازموں سے کہہ دینا صفائی کرینگے تو دیکھ لینگے اگر نہیں ملا تو میں نیا لادوں گا" وصی کے کہنے پر وہ اپنا سر ہولے سے ہلاکر باہر چلی گئی اور اسکے جاتے ہی وصی اپنے پہلے والے کام میں لگ گیا

وہ لوگ اس وقت گاؤں میں ہی موجود تھے شہر کے لیے انہیں کل نکلنا تھا

°°°°°

"مجھے معلوم ہے تمہارا موبائل کہاں ہے" ایہاب جو اتنی دیر سے باہر کھڑا انکی گفتگو سن رہا تھا اسکے باہر آتے ہی جھٹ سے بولا

"کہاں ہے"

"ساحر بھائی کے پاس"

"انکے پاس میرا موبائل کہاں سے گیا"

"مجھے کیا معلوم میں نے تو بس انکے ہاتھ میں دیکھا تھا"وہ اسے یہ نہیں بتا سکا کہ ساحر نے ہی اسے یہ پیغام ماہیم تک پہچانے کے لیے کہا تھا جبکہ اسکے کہنے پر ماہیم نے اپنی انگلیاں مڑوڑیں اور یاد آیا موبائل اسکے پرس میں تھا پرس برائیڈل روم میں رہ گیا تھا جسے وہ بعد میں لینے گئی تھی لیکن اس سے پہلے وہاں ساحر موجود تھا یقینا ساحر نے ہی اسکا موبائل لیا تھا

°°°°°

"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں بڑے بابا کھڑے تھے" معتصم کے جاتے ہی اسنے خفگی سے حیات کو دیکھا

"آپ نے کہنے کا موقع ہی کب دیا تھا جو میں بتاتی"

"اچھا چھوڑو ان باتوں میں مجھے ان باتوں میں ٹائم ویسٹ نہیں کرنا ہم اپنی باتیں کرتے ہیں" اپنے حصار میں لے کر شاہ میر نے اسے اپنے قریب کیا

"شاہ میر" اسنے گھبرا کر شاہ میر کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھا

"تمہیں میری خوشی کا اندازہ نہیں ہے حیات آج میری زندگی میں ایک اور فرد کا اضافہ ہوچکا ہے جو اب میرا محرم ہے میری روح کا حصہ ہے میرا روح محرم ہے" شرگوشیانہ انداز میں کہتے ہوے اسنے اپنے لب اسکی پیشانی پر رکھے اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا

"نیا سفر مبارک ہو میری جان جس میں تم حیات رفیق سے حیات شاہ میر بن چکی ہو" اسے اپنے حصار میں لیے شاہ میر نے پھر سے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے

°°°°°

دروازہ نوک ہونے کی آواز پر وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھا اسے یقین تھا کہ ماہیم ہی ہوگی لیکن دروازہ کھولتے ہی ساری خوش فہمی ختم ہوگئی

"خیریت میرا بچہ تم اس وقت یہاں" اسنے اپنے سامنے کھڑی نور کو دیکھتے ہوے کہا

"لالا ماہیم کہہ رہی ہے اسکا فون آپ کے پاس ہے بس اسنے مجھے وہی لینے بھیجا ہے"

"نہیں اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی میرے پاس اسکا موبائل نہیں ہے" اسکے کہنے پر وہ اوکے کہہ کر وہاں سے چلی گئی اسے اپنے لالا پر یقین تھا

اگر اسکی جگہ شاہ میر ہوتا تو بنا جگہ کی تلاشی لیے اس جگہ سے ہلنے کا نام بھی نہیں لیتا

°°°°°

ہمت کرکے اسنے دروازہ نوک کیا اسے معلوم تھا جب تک وہ خود اس سے موبائل مانگنے نہیں جاے گی تب تک وہ نہیں دے گا اسلیے ہمت کرکے وہ یہاں تک آہی گئی

"دروازہ کھلے گا میں اپنے موبائل کا پوچھوں گی کہینگے نہیں ہے تو چلی جاؤں گی اور اگر ہوا تو لے کر جلدی سے بھاگ جاؤں گی" اسنے گہرا سانس لیا

جب دروازہ کھلا اور اس سے پہلے وہ کچھ کہتی ساحر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے اسے اندر کھینچا

"یہ کیا" ابھی اسکے الفاظ منہ میں ہی تھے جب اسے بیڈ کے قریب لے جا کر اس پر دھکا دیا اور اگلے ہی پل اسکے لبوں پر جھک گیا

اسکی اس حرکت پر وہ سٹپٹا کر رہ گئی

اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیے وہ قطرہ قطرہ اسکی سانسوں کو خود میں اتار رہا تھا

"چ-چھوڑیں مجھے" لبوں کو آزادی ملتے ہی اسنے پھولی سانسوں سمیت کہا

"میں نے تھوڑی کہا تھا میرے کمرے میں آؤ"

"میرا فون آپ کے پاس ہے مجھے واپس کریں اور چھوڑیں مجھے"

"تمہیں کیا لگتا ہے اب جب کہ تم خود میرے کمرے میں آئی ہو تو اتنی آسانی سے تمہیں چھوڑ دوں گا صبح سے پہلے تو تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا"اسے بیڈ پر صحیح طرح سے لٹا کر ساحر نے اسے اپنے حصار میں لیا اور اس پر کمبل پھیلانے لگا

"چھوڑیں مجھے جانا ہے" اسنے ساحر کا ڈالا ہوا کمبل پرے کھسکایا جو اسنے دوبارہ ڈال دیا

"چپ چاپ لیٹ جاؤ اب اگر تمہارے وجود میں زرا سی بھی حرکت ہوئی تو"

"میں کچھ نہیں کہہ رہی" اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ماہیم نے جلدی سے کہا کیونکہ اندازہ تھا وہ کیا کہے گا جبکہ اسکی حرکت پر مسکراتے ہوے اسنے اسے مزید سختی سے اپنے حصار میں لے لیا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے شکر بھرا سانس لیا کیونکہ نکاح والے دن کی طرح اسکی بیوی چینج کرکے سو نہیں رہی تھی

بلکہ صوفے پر اپنی میکسی سمیت آلتی پالتی مارے بیٹھی بریانی کھا رہی تھی

"مجھے تو لگا تھا تم چینج کرچکی ہوگی"

"تیری اماں نے بولا تھا کہ تیرے آنے سے پہلے کپڑے نہ بدلوں" پلیٹ صاف کرکے اسنے ٹیبل پر رکھی اور واشروم میں جاکر ہاتھ دھونے لگی

"میری ہی نہیں اب وہ تمہاری بھی اماں ہیں تو انہیں اماں سائیں کہا کرو" اسکے واشروم سے باہر آتے ہی زریام نے اپنے جوتے اتارتے ہوے نرمی سے کہا

"اچھا اماں سائیں نے بولا تھا کہ تیرے آنے سے پہلے کپڑے نہ بدلوں"

"تیرے نہیں کہتے تم یا آپ کہتے ہیں"

"اچھا اماں سائیں نے بولا تھا"

"حوریب یار بس کرو میں تمہیں سبق یاد نہیں کروا رہا" اسکے تیسری بار وہی بولنے پر زریام نے جھنجھلا کر کہا جس پر اسنے خفگی سے اپنے شوہر کو دیکھا

"ایک تو میں وہی بول رہی ہوں جو تو مطلب تم بول رہے ہو اوپر سے ڈانٹ بھی میرے کو پڑ رہی ہے" ناراضگی سے کہتی ہوئی وہ منہ پھیر کر دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی

"حوریب تو ناراض ہوگئی اب میں اسکے لیے لایا ہوا تحفہ کس کو دوں گا" زریام کے کہنے پر اپنی ساری ناراضگی بھلائے وہ اسکے پاس بیڈ پر جاکر بیٹھ گئی

"تحفہ کہاں ہے جلدی سے دے دو میرے کو آج تک کسی نے تحفہ نہیں دیا" اسکے بچوں جیسے انداز پر زریام مسکرا اٹھا

اسکی حرکتیں آہستہ آہستہ زریام پر کھل رہی تھیں دکھنے میں وہ ایک خود مختار لڑکی تھی جسے زندگی گزارنے کے لیے کسی مرد کی ضرورت نہیں تھی پر اندر سے وہ ویسی ہی تھی جیسی ہر لڑکی ہوتی ہیں جیسی اسکی نور تھی

بس فرق یہ تھا کہ حوریب کو آج تک ایسا شخص نہیں ملا تھا جو اسکی خواہشات پوری کرپاتا یا اسے کوئی خوشی دے پاتا جس کے سامنے وہ کھل کر اپنے ہر جذبے کا اظہار کر پاتی اسلیے اسنے اپنی ان خواہشوں کو ہی مٹا دیا تھا پر اب جب خدا نے اسے زریام جیسے تحفے سے نوازا تھا تو یہ ساری خواہشات پھر سے جاگ اٹھی تھیں

"پتہ ہے آج تک تمہیں کسی نے تحفہ کیوں نہیں دیا کیونکہ یہ کام خدا نے صرف میرے نصیب میں لکھا تھا" اسکا ہاتھ پکڑ کر زریام نے اسے ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا کیا اور اپنی الماری سے ایک بوکس نکالا

"یہ رہا تمہارا تحفہ" اسنے بوکس حوریب کی جانب بڑھایا جسے اسنے جلدی سے پکڑ کر کھولا

اس میں ڈائمنڈ کا نازک سا سیٹ تھا اور وہ اپنی پوری آنکھیں کھولے اس جگمگاتے سیٹ کو دیکھ رہی تھی

"یہ میرے لیے ہے یہ تو بہت مہنگا لگ رہا ہے"

"اپنی اکلوتی بیوی کو میں کوئی سستی چیز تو دوں گا نہیں" زریام کے کہنے پر اسنے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا بھلا آج تک کہاں کسی نے اسے اتنی قیمتی شے دی تھی

اتنا تو اسے پتہ تھا کہ یہ سیٹ ہیرے کا تھا اور ہیرے کی قیمت کتنی ہوتی ہے اسکا بھی تھوڑا بہت اندازہ تو تھا بس اسی لیے اسے حیرت ہورہی تھی

زریام اسے تحفہ دے گا یہ بات اسنے اب تک نہیں سوچی تھی جب اسنے تحفے کا ذکر کیا تو بھی اسے یہی لگا کہ وہ اسے کوئی سوٹ وغیرہ دے گا کیونکہ پہلے بھی زریام نے اسے وہی دلواے تھے لیکن جو اسنے دیا تھا وہ اسکی سوچ اور امید سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھا

°°°°°

اسکا رخ شیشے کی جانب کرکے زریام نے وہ بوکس اسکے ہاتھ سے لیا اور اس میں سے وہ نازک سا نیکلس نکال کر اسے پہنا دیا

اسکی سفید صراحی دار گردن میں وہ نیکلس چمک رہا تھا اور اسے دیکھ کر زریام کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بنا ہی اسکے لیے تھا اسکا رخ اپنی جانب کرکے زریام نے اسکے نیکلس پر اپنے لب رکھے جس کے باعث اسکے لبوں نے حوریب کی گردن کو چھوا

"سمجھ نہیں آرہا یہ نیکلس خوبصورت ہے یا پھر تمہارے پہننے کے بعد خوبصورت لگ رہا ہے" اسنے گہری نظروں سے حوریب کو دیکھا جو اپنی نظریں جھکائے کھڑی تھی

زریام نے اسکے جوڑے میں بندھے بالوں کو پنوں کی قید سے آزاد کیا اور اسکے بال کھول کر اس میں اپنا چہرہ چھپا لیا

"آئی لو یو" اسنے حوریب کے کان کے قریب سرگوشی کی جبکہ اسکی سرگوشی سن کر حوریب گہرے گہرے سانس لینے لگی آج زریام شاہ کی حرکتیں اسے ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں

°°°°°

پہلے دن جب زریام نے اسے پڑھائی کروائی تھی تو سب سے پہلا لفظ یہی کہا تھا

"آئی لو یو کا مطلب پتہ ہے"

"اتنی جاہل نہیں ہوں میں معلوم ہے آئی لو یو کا کیا مطلب ہوتا ہے" اسکے کہنے پر حوریب نے منہ بنایا

"چلو یہ تو اچھی بات ہے"اسکے لبوں پر ہلکا سا تبسم بھکرا

°°°°°

"زریام میرے کو کپڑے بدلنے ہیں" حوریب کی آواز سن کر اسنے اپنا چہرہ اسکے بالوں سے نکالا اور گہری نظروں سے اسکے شرمائے گھبرائے ہوے روپ کو دیکھنے لگا

"کیوں بدلنے ہیں" اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر زریام نے اسے اپنے اتنا قریب کرلیا کہ اب ان دونوں میں انچ بھر کا فاصلہ بھی نہیں تھا

"میرے کو سونا ہے"

"پر میں تو آج تمہیں سونے کی اجازت نہیں دوں گا میرا ارادہ تو آج ساری رات تمہیں جگانے کا ہے"

اسکے بالوں کو کان کے پیچھے کرکے زریام نے اسکے دونوں گالوں پر باری باری اپنے لب رکھے اور اسکے لبوں پر جھک گیا

اسکے انداز میں بےانہتا نرمی تھی

مدہوشی کے عالم میں وہ دونوں ایک دوسرے میں کھوے ہوے تھے جب دروازہ ناک ہونے کی آواز پر زریام بدمزہ ہوکر پیچھے ہٹا اور جاکر دروازہ کھولا جہاں آہان کھڑا ہوا تھا

"سب ٹھیک ہے آہان"

رات کے اس وقت وہ اس کے کمرے کے باہر کھڑا تھا یقینا کوئی ضروری بات ہی ہوگی

"لالا عشل آنٹی کی طبیعت خراب ہورہی تھی تو انہیں ہاسپٹل لے کر گئے تھے بڑے بابا نے آپ کو بتانے سے منع کیا تھا پر اب بتانا ضروری ہوگیا تھا" اسکے بنا کہے بھی وہ اسکی بات سمجھ چکا تھا

"کہاں ہیں وہ لوگ"

"وہ لوگ ابھی ہاسپٹل میں ہی ہیں بابا سائیں کی کال آئی تھی تو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اب نہیں رہیں"

زریام نے گہرا سانس لے کر اپنی آنکھیں موندیں جب پیچھے سے اسے دھڑام کی آواز آئی زریام کے ساتھ ساتھ آہان نے بھی مڑ کر دیکھا جہاں حوریب فرش پر گری پڑی تھی

یقینا ان کی باتیں اسنے سن لی تھی

°°°°°

"اماں سائیں میری شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا ہے جلدی سے ٹانک دیں" شاہ میر کی آواز سن کر اسنے غصے سے پلیٹ کچن سلپ پر رکھی یہ اسکی چوتھی آواز تھی جس میں وہ اپنی چیز کے لیے اسے بلا رہا تھا

آج اسکی جوب کا پہلا دن تھا اور تیاری وہ اس طرح سے کررہا تھا جیسے اسے کسی جنگ پر بھیجا جارہا ہو

اسکی جوب کا سن کر سب کو بےانتہا حیرت ہوئی تھی سواے عصیم کے کیونکہ وہ شاہ میر سے اسی طرح کے عمل کی توقع کررہا تھا

اسے اپنے بیٹے کی عادت پتہ تھی جب وہ شادی جیسے رشتے میں بندھ جاے گا تو خود ہی اپنی ذمیداری سمجھ جاے گا اور ایسا ہی ہوا

جوب تو اسکی نکاح سے ایک دن پہلے ہی لگ چکی تھی اور یہی خوش خبری وہ نکاح والی رات حیات کو سنانے آیا تھا

لیکن معتصم کی وجہ سے یہ موقع ہی نہیں مل سکا

اسکی جوب گاؤں میں موجود اسکول میں ٹیچنگ کی تھی اسکول بھی وہ جو عالم نے بنوایا تھا معتصم تو چاہتا تھا وہ شاہ انڈسٹری یا پھر ماہر کی طرح شہر میں ہی جوب کرتا لیکن ایسا کرنے سے وہ اپنی بیوی سے دور ہوجاتا جو اسے ہرگز منظور نہیں تھا اسلیے اسنے اپنی جوب یہیں پر ڈھونڈی تھی

"اس لڑکے نے میرا دماغ خراب کردیا ہے حیات بیٹا جاکر دیکھنا اب کیا نئی مصیبت آگئی ہے" اسنے ناشتے میں ہیلپ کرتی حیات سے کہا جبکہ اسکی بات سن کر حیات نے چونک کر اسے دیکھا

"میں جاؤں"

"ہاں آگے بھی تو یہ کام تم نے کی کرنے ہیں بہتر ہے ابھی کرلو پریکٹس بھی ہوجاے گی جاؤ شاباش" اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاتی ہوئی اسکے کمرے میں چلی گئی

°°°°°

"کیا ہوا شاہ میر" اسنے اپنی شرٹ میں الجھے شاہ میر کو دیکھتے ہوے پوچھا جبکہ اسکی آواز سن کر شاہ میر فورا اسکی طرف متوجہ ہوا اسے امید نہیں تھی کہ وہ آجاے گی

"اچھا ہوا تم آگئیں یار میری شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا ہے لگادو"

"میں دوسری نکال دیتی ہوں"

"نہیں اگر اماں سائیں یہ بات کہتیں تو میں انکار نہیں کرتا پر تم یہی بٹن لگاؤ گی اب جلدی سے لگادو مجھے دیر ہورہی ہے" اسکی عجیب و غریب بات سن کر حیات کمرے سے باہر گئی اور دو سے تین منٹ میں اسکی واپسی ہوئی اسکے ہاتھ میں سوئی اور دھاگہ تھا

"بٹن دکھائیں" اسکے کہنے پر شاہ میر نے بٹن اسکی پھیلی ہتھیلی پر رکھ دیا جس کے بعد سوی میں دھاگہ ڈال کر وہ اسکی شرٹ کا بٹن لگانے لگی

جب اپنی کمر پر اسے شاہ میر کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا اور تب اسکی سمجھ میں آیا

کہ اماں سائیں کے کہنے پر وہ نئی شرٹ پہن لیتا لیکن اسکے کہنے پر نہیں پہنتا تاکہ بٹن لگوانے کے بہانے اپنی یہ حرکتیں دکھا سکے

اسکی گھبراہٹ کو اگنور کیے وہ اسکے چہرے اور گردن پر جابجا اپنا لمس چھوڑ رہا تھا جس سے وہ گھبرا رہی تھی اور انگلیاں کپکپارہی تھیں

"آہ" سینے میں سوئی چبتے ہی اسکی ہلکی سی چیخ نکلی جس پر حیات نے پریشانی سے اسے دیکھا

"کیا ہوا"

"چب گئی"

"الٹی سیدھی حرکتیں کرینگے تو یہی ہوگا نہ اب سیدھے کھڑے رہیں" اسے ڈانٹ کر وہ پھر سے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئی اور کام ختم ہوتے ہی وہاں سے جانے لگی جب شاہ میر نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا

"کدھر پہلا دن ہے جوب کا منہ تو میٹھا کروادو"

"اچھا تو میں کچن سے چینی لے آتی ہوں"

"چینی کی ضرورت نہیں ہے میرے پاس پہلے ہی ایک اچھی سوئیٹ ڈش ہے" مسکراتے ہوے اسنے اپنا فوکس حیات کے لبوں کی طرف کیا اور اسکے لبوں پر جھک گیا

اسکی اس حرکت سے وہ جیسے اپنی جگہ پر جم چکی تھی

"واقعی میں سوئیٹ ہے" اسکے لبوں کو آزاد کرتے ہی اسنے ہنستے ہوے کہا جبکہ سامنے کھڑی حیات بس سرخ چہرہ لیے اپنی نظریں جھکائے کھڑی تھی

"تمہیں پتہ ہے پہلی بار کسی لڑکی کو کس کیا ہے اور مجھے بہت اچھا لگا ابھی میں لیٹ ہورہا ہوں ورنہ یہ ایکسرسائز دس منٹ تک تو کرتا اب چلتے ہیں یہاں کھڑا رہا تو ایسے ہی لیٹ ہوتا رہوں گا اوپر سے تم نے مجھے پہلے ہی اتنا لیٹ کروا دیا ہے" اسکے کہنے پر حیات اسے گھور بھی نہ سکی وہ اسے لیٹ کروا رہی تھی

یا پھر وہ خود ہی اپنی الٹی سیدھی حرکتیں دکھا کر ٹائم ویسٹ کررہا تھا

°°°°°

ایک تکیے پر سر رکھے اور دوسرے تکیے کو سینے سے لگاے وہ اس وقت گہری سوچ میں مبتلا تھی

عشل کے انتقال کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا سب کی روٹین پہلے جیسی ہوچکی تھی لیکن وہ تھی کہ کسی بھی طرح اپنے غم سے باہر ہی نہیں نکل پارہی تھی

دروازے پر دستک ہوئی جسے سن کر وہ سیدھی ہوکر لیٹی اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر آنسو صاف کرنے لگی

"آجاؤ" اسنے آنے والے چہرے کو دیکھا وہ معتصم تھا

"ماموں آجاؤ"اسے دیکھتے ہوے وہ پھیکا سا مسکرائی

"کیسی ہو تم"

"بلکل ٹھیک"

"اپنے کمرے سے باہر کیوں نہیں نکلتی ہو"وہ بیڈ پر اسکے قریب جاکر بیٹھ گیا

"دل نہیں چاہتا ہے" اسنے نظریں جھکا کر کہا

"کاش سارے کام ہی ہمارے دل کے چاہنے سے ہوتے حوریب میں جانتا ہوں تمہارا غم بہت بڑا ہے میں خود بھی اس غم سے گزر چکا ہوں اسلیے میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا ہوں اور تمہیں یہی سمجھانا چاہتا ہوں کہ جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن انکے غم میں ہم ایک ہی جگہ رک نہیں جاتے زندگی تو گزارنی پڑتی ہے نہ"

"میں کوشش کررہی ہوں" اسنے بھیگی آواز کے ساتھ کہا

"کرنی بھی چاہیے تمہیں معلوم ہے تمہاری ماں کتنی خوش تھی تمہیں دیکھ کر اسنے کہا تھا کہ اسے تمہاری طرف سے جو فکر تھی وہ دور ہوچکی ہے وہ سکون میں تھی اور اب بھی ہے لیکن تمہارے یہ آنسو اسے بےسکون کر دیتے ہوں گے کیا تم اپنی ماں کی بےسکونی کی وجہ بننا چاہتی ہو" معتصم کے کہنے پر اسنے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا

"تو پھر خوش رہو جسے دیکھ کر وہ بھی سکون میں رہے اپنا زہہن بٹاؤ زریام کے ساتھ باہر چلی جاؤ"

"مجھے کہیں نہیں جانا ہے"

"حوریب اپنے ارد گرد دیکھو کتنے لوگ ہیں جو تم سے پیار کرتے ہیں تمہارے لیے پریشان ہیں اپنا نہ سہی انکا خیال تو تم کرو گی نہ میرا بچہ" اسکا گال تھپتھپا کر معتصم نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے اور وہاں سے چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد وہ پھر سے پرانے مناظر میں کھو گئی

°°°°°

"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں معتصم کے وہ تمہارے پاس ہے" معتصم نے نظریں اٹھا کر عبید کی طرف دیکھا جو اپنا سر جھکائے بیٹھا تھا

"عشل نے منع کیا تھا اسے لگتا تھا اسکی بیٹی کو تم سے کوئی خطرہ ہوگا تم اسکی غلطی کی سزا اسکی بیٹی کو نہ دے دو وہ اپنی حرکت پر شرمندہ تھی تم سے معافی مانگنا چاہتی تھی لیکن تم لوگوں سے ڈرتی تھی"

"ہم نے تو اسے تب ہی معاف کردیا تھا جب ہمیں اسکے حالات کے بارے میں علم ہوا تھا"

"تمہیں کیسے پتہ چلا"معتصم نے حیرانگی سے پوچھا

"اسکے گھر کا ایڈریس بہت مشکل سے معلوم کیا تھا اسکے بعد وہاں گئے تو وہ وہاں تھی نہیں ایک ملازم کو پیسے دے کر اس سے سب معلوم کیا تھا اور تب سے ہی اسے ڈھونڈ رہا تھا تاکہ اسے اپنے پاس لے آؤں میں حوریب کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں"

"اب وہ زریام کی بیوی ہے عبید"

"مل تو سکتا ہوں اس سے" اسنے آس بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھا

"پہلے میں اس سے پوچھوں گا اگر وہ تم سے ملنا چاہے گی تو ضرور ملنا لیکن اگر اسنے انکار کردیا تو میں اسکے ساتھ کسی قسم کی زبردستی نہیں کروں گا" اسکے کہنے پر عبید فقط اپنا سر ہلاکر رہ گیا

°°°°°

"اماں سائیں حوریب نے کھانا کھایا" اسنے کچن میں داخل ہوکر وہاں کھڑی آئرہ سے کہا جو ٹرے میں کھانا رکھ رہی تھی

"نہیں کل سے کچھ نہیں کھایا ہے میں لے کر بھی گئی تھی پر کچھ نہیں کھا رہی ہے تمہارے پاس ہی آرہی تھی شاید تمہاری کہنے پر کھالے"

"میں کھلادوں گا آپ پریشان مت ہوں" زریام نے ٹرے اسکے ہاتھ سے لی اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

جہاں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھی

"تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا" ٹرے بیڈ پر رکھ کر اسنے حوریب کی طرف دیکھا جو ابھی بھی اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی اسنے ایک بار بھی نظر اٹھا کر زریام کو نہیں دیکھا تھا

اسکی حالت دیکھ کر زریام نے گہرا سانس لیا اور بنا کچھ کہے اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا

"کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہہ لو رونا چاہتی ہو تو رو لو"

جب سے وہ ہوش میں آئی تھی اسنے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا نہ ہی روئی تھی اور اسکی حالت زریام کے ساتھ ساتھ سب کو پریشان کررہی تھی

کل سے وہ کاموں میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور اب جب ملا تھا تو وہ چاہتا تھا حوریب اپنے سارے آنسو بہادے ہر غم اور دکھ اسکے ساتھ بانٹ لے

اسنے اپنے سینے سے لگی حوریب کو دیکھا جس کی آنکھوں سے اب آنسو بہہ رہے تھے جن میں آہستہ آہستہ مزید روانی آرہی تھی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ زریام کے سینے سے لگی ہچکیوں سے رو رہی تھی جسے نرمی سے وہ سہلا رہا تھا

جب اسکے رونے میں تھوڑی کمی آئی تو زریام نے وہاں رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر اسکے لبوں سے لگایا اور ٹیشو پیپر سے اسکا بھیگا چہرہ اور ناک صاف کرنے لگا جبکہ اس سارے عمل کے دوران بھی وہ اسکے سینے سے لگی بیٹھی رہی

ٹرے اپنی جانب کھسکا کر وہ پہلا نوالہ اپنے سینے سے لگی حوریب کو کھلانے لگا جسے دیکھ کر اسنے کسی بچے کی طرح اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپالیا

"حوریب کھانا کھاؤ" زریام نے نرمی سے اسے پکارا لیکن بنا کوئی رسپانس دیے وہ اسی طرح بیٹھی رہی

"میرے لیے بھی نہیں کھاؤ گی" اسکے کہنے پر حوریب نے اپنا چہرہ اٹھا کر اسکی جانب دیکھا اور زریام غور سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا اسکی روئی روئی آنکھیں اور سرخ ناک دیکھ کر اسے تکلیف محسوس ہوئی

اسنے آگے بڑھ کر اسکی آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیے اور اسے پھر سے کھانا کھلانے لگا

جو اس بار اسنے بنا کوئی چوں چراں کیے کھالیا

چند نوالے لے کر اسنے اپنا چہرہ پیچھے کرلیا جسے دیکھ کر زریام نے بھی اسے فورس نہیں کیا

ابھی کے لیے اسنے اتنا کھالیا تھا یہ بھی کافی تھا

"تمہارے ماموں آے تھے وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں لیکن بڑے بابا نے کہا ہے اگر تمہاری مرضی ہوئی تو ہی وہ انہیں تم سے ملنے دیں گے"

"وہ میرے سے کیوں ملنا چاہتے ہیں" اسکے لہجے میں تلخی در آئی

"کیونکہ تم انکی بہن کی نشانی ہو عشل آنٹی نے ہمیشہ ایک ایسے ڈر میں زندگی گزاری ہے جو بلاوجہ تھا اگر ایک بار اپنے ڈر سے نکل کر اپنے بھائیوں کے پاس چلی جاتیں تو شاید تم دونوں کو ایسی زندگی نہیں گزارنی پڑتی"اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کر وہ اسے نرمی سب سمجھا رہا تھا

"پرانی باتوں کا کیا فائدہ"

"وہ شرمندہ ہیں کہ وہ اپنی بہن کا خیال نہیں رکھ سکے"

"انکی شرمندگی کا اب میرے کو کیا فائدہ"

"تمہی نے تو کہا کہ پرانی باتوں کا کیا فائدہ تو پھر تم بھی پرانی باتیں بھول جاؤ" اسنے چہرہ اٹھا کر زریام کی طرف دیکھا

"تلخ باتیں بھول جاتے ہیں تم خود سوچو عشل آنٹی ہوتی تو کیا یہی کرتیں"

"میں مل لوں گی ان سے"اسنے اپنا سر ہلایا جبکہ اسکے کہنے پر زریام نے اطمینان بھری سانس کھینچ کر اسے مزید سختی سے اپنے حصار میں لے لیا

°°°°°

"دوستی کی ہے نبھانی تو پڑے گی"

"آپ بلکل بھی اچھے نہیں ہیں میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی"

"مجھے کوئی مہنگا گفٹ دینگے تاکہ میری ناراضگی دور ہوجائے"

بیڈ پر چت لیٹا اس وقت وہ خیالوں میں گم تھا اور ان خیالوں پر قبضہ اس وقت نور شاہ کا تھا

اپنا موبائل نکال کر اسنے اس میں موجود نور کی تصویر لگائی جس میں وہ مسکراتے ہوئے اپنے ڈمپل کی بھرپور نمائش کررہی تھی

یہ اس وقت کی تصویر تھی جب آخری ملاقات میں وہ اس سے ملا تھا اور یہ تصویر اس طرح سے لی تھی کہ نور کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوسکا

گہری نیلی انکھوں سے وہ اس وقت مسکراتے ہوے نور کو دیکھ رہا تھا

"تمہیں پتہ ہے نور جب تم زندگی میں نہی تھیں تو جیسے زندگی جینے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی بے مطلب زندگی گزار رہا تھا میں اور اب تم آگئی ہو تو لگتا ہے زندگی جینے کے لیے تمہارے علاؤہ اور کوئی وجہ نہیں ہے"

"تم آگئی ہو تو لگتا ہے بے مطلب زندگی کو کوئی وجہ مل گئی ہے"

دھیمے لہجے میں وہ اسکی تصویر دیکھتے ہوے کہہ رہا تھا جب اسکا دروازہ ناک ہوا اور دادا جان اندر داخل ہوے

انہیں دیکھ کر اسنے اپنا موبائل بند کیا اور سیدھا ہوکر بیٹھا

"برخوردار جب سے آے ہو خیالوں میں گم بیٹھے ہو کیا ہوگیا ہے تمہیں" دادا جان نے اپنی گہری نیلی آنکھوں سے اسے دیکھا اس عمر میں بھی انہوں نے خود کو فٹ رکھا ہوا تھا وہ ایک جوان ہوتے کے دادا تو کہیں سے نہیں لگتے تھے

"کچھ نہیں ہوا ہے مجھے دادا جان"

"کس کی تصویر دیکھ رہے تھے زرا مجھے بھی دکھاؤ"انکے کہنے پر وہ حیران نہیں ہوا تھا وہ اسکی ایک ایک حرکت پہچانتے تھے وہ چاہ کر بھی ان سے کچھ نہیں چھپا سکتا تھا

"تصویر دیکھ کر کیا کرینگے آپ کو حقیقت میں ملواؤں گا"

"چلو جیسا تمہیں ٹھیک لگے پھر کب ملواؤ گے" دادا جان کے کہنے پر اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی اس لڑکی کا ذکر ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ لے آتا تھا

"بہت جلدی"

°°°°°

°°°°°

"واؤ بہت انٹرسٹنگ اسٹوری ہے مطلب تمہاری بھابھی واقعی میں ایک چورنی تھیں" اسکی بات سنتے ہی شانزے نے اپنی حیرت کا اظہار کیا

"بلکل لیکن تم انہیں دیکھو وہ کہیں بھی سے ایک چورنی نہیں لگتی بلکہ رکو میں تمہیں انکی تصویر دکھاتا ہوں" کہتے ہوے وہ اپنی جیب سے موبائل نکالنے لگا

یہ وقت ان دونوں کی کلاس کا تھا جسے دفعہ کیے وہ دونوں اپنی باتیں کرنے میں مصروف تھے آخر اتنے دنوں بعد جو ملاقات ہورہی تھی کلاس میں کیا ہورہا تھا یہ ساری ڈیٹیل وہ لوگ بعد میں ثنا سے لے لیتے اسلیے اسکی انہیں فکر نہیں تھی

"واؤ بہت خوبصورت ہیں" تصویر دیکھتے ہی بےاختیار اسکے لبوں سے نکلا وہ زریام اور حوریب کے ولیمے کی تصویر تھی

"پتہ ہے آہان ایسی باتیں میں نے صرف فلموں یا کہانیوں میں ہی دیکھی تھیں آج حقیقت میں پہلی بار سن رہی ہوں"

"اب سن لیا تو اٹھ جاؤ ثناء آگئی نہ تو ہم دونوں کو چھوڑے گی نہیں" اپنا بیگ اٹھا کر اسنے شانزے کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر کینٹین کی طرف چلا گیا

کلاس ختم ہونے والی تھی اور کلاس ختم ہوتے ہی ثناء آکر انکے سر پر کھڑی ہوجاتی کیونکہ ہر بار کی طرح وہ دونوں اسے کلاس میں چھوڑ آے تھے اور وہ بیچاری پڑھائی کی ماری وہیں کلاس میں بیٹھے بیٹھے انہیں نہ جانے کتنے القابات سے نواز چکی تھی

°°°°°

عالم کا کہنا تھا کہ حوریب کو کچھ دنوں کے لیے کسی دوسری جگہ لے جایا جاے جس سے اسکا مائینڈ فریش ہوجاتا

آئرہ ان دونوں کی پیکنگ کرچکی تھی جس کے بعد وہ دوپہر میں گاؤں سے نکل چکے تھے اور اب گاڑی کا سفر خاموشی سے کٹ رہا تھا

کیونکہ حوریب سورہی تھی اور اسکی نیند خراب نہ ہو اسلیے وہ گاڑی احتیاط سے ہی ڈرائیو کررہا تھا ویسے بھی کتنے دنوں سے اسنے نیند بھی ٹھیک سے نہیں لی تھی

گاڑی کھڑی کرکے وہ دوسری سائیڈ پر آیا اور حوریب کا سویا ہوا وجود اپنی بانہوں میں اٹھالیا اور اسے لے کر اندر چلا گیا

اس وقت وہ دونوں عینہ کے گھر پر آے ہوے تھے اور انکے آنے کا سن کر عینہ پہلے ہی انکے لیے کمرہ تیار کروا چکی تھی

"اسے کیا ہوا ہے" عینہ نے پریشانی سے اسکی بانہوں میں موجود حوریب کو دیکھتے ہوے کہا

"کچھ نہیں ہوا عینہ آنٹی سوگئی تھی نیند خراب ہوتی اسلیے میں ایسے لے آیا"

"اچھا تم اسے کمرے میں لٹا کر آجاؤ پھر کھانا کھالو"

"نہیں میں حوریب کے ساتھ ہی کھاؤں گا آپ بس چاے بھجوادیں تھکن ہورہی ہے"

"میں بھجوا دیتی ہوں تب تک تم فریش ہوجاؤ" اسکے کہنے پر اپنا سر ہلاکر وہ کمرے کی طرف چلا گیا

°°°°°

نیند سے جاگتے ہی اسنے اپنے آپ کو انجان جگہ پر پایا نظریں دوڑا کر اسنے ادھر ادھر دیکھا

بیڈ پر دوسری طرف نور بیٹھی ہوئی تھی ہاتھ میں موبائل تھامے اور کانوں میں ہینڈ فری لگائے

آنکھیں مسل کر وہ اٹھ کر بیٹھی اور اسے اٹھتے دیکھ کر نور بھی اسکی طرف متوجہ ہوئی

"اٹھ گئیں آپ کھانا لاؤں" نور کے کہنے پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلایا

"تو مطلب تم یہاں کیا کررہی ہو"

"لالا نے یہاں بٹھایا تھا انہوں نے کہا تھا آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں"

"وہ خود کہاں ہے"

"وہ کام سے باہر گئے ہوے ہیں آپ کو پتہ ہے وہ آج آپ کو ڈنر پر لے جانے والے ہیں"

ڈنر لفظ کہتے ہی اسے یاد آیا اور پھر اسنے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مارا

"میں تو بھول ہی گئی تھی انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ اٹھ جائیں تو آپ سے پوچھ کر آپ کے کپڑے نکال دوں آپ بتائیں مجھے کونسا سوٹ پہنیں گی ڈنر پر جانے کے لیے"

"جو دل کرے نکال دو" حوریب کے کہنے پر اسنے وہاں رکھا اسکا بیگ کھولا اور اس میں سے کپڑے ڈھونڈنے لگی

ابھی تک انکے کپڑے اسی طرح بیگ میں پڑے تھے کیونکہ زریام کا ارادہ یہاں رہنے کے بجاے معتصم والے گھر میں رہنے کا تھا تاکہ اپنی بیوی کے ساتھ وہ اکیلے کچھ وقت گزار لے

°°°°°

"کہاں تھیں تم"اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی عصیم نے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا کیونکہ روز کی نسبت آج وہ دیر سے کمرے میں آئی تھی

"میں شاہ میر کے پاس گئی تھی" وہ اسکے پاس جاکر لیٹ گئی

"کیوں"

"آج اسکا پہلا دن تھا تو میں بس وہی پوچھ رہی تھی کہ دن کیسا گزرا اتنا تھکا ہوا لگ رہا تھا میرا بچہ پتہ نہیں اس جوب کی کیا ضرورت تھی"

"تو اس بچے کو سدا عمر گھر میں بٹھانے کا ہی ارادہ تھا"

"نہیں لیکن وہ ساحر کے ساتھ بھی تو کام کرسکتا ہے نہ کسی اور کی نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے"

"یہ تو اسکی اپنی مرضی ہے"

عصیم نے اسکا ڈوپٹہ اسکے وجود سے دور پھینکا اور اسکے ایسا کرتے ہی کسوا نے مسکراتے ہوے اپنا سر نفی میں ہلایا اور اسکی گردن میں اپنی بانہیں ڈال دیں

°°°°°

کمرے میں داخل ہوکر اسنے بیگ میں سے اپنا سوٹ نکالا اور واشروم میں چلا گیا

کمرے میں اس وقت وہ اکیلا تھا کیونکہ حوریب ماہیم کے کمرے میں تھی

واشروم سے باہر نکل کر وہ ڈریسنگ کے سامنے آکھڑا ہوا

بال بنا کر اسنے ہاتھ میں گھڑی پہنی اور وائٹ شرٹ کی آستینیں درست کرنے لگا

گیلے بالوں کی چند لٹیں اسکی سفید بل دار پیشانی کو چھو رہی تھی

اپنی پوری تیاری کا جائزہ لے کر اسنے بیڈ پر رکھا اپنا بلیک کوٹ اٹھا کر پہنا اور کمرے سے باہر چلا گیا

°°°°°

"کہاں جانے کی تیاری ہورہی ہے ہیرو" گھر میں داخل ہوتے ہی ماہر نے لاؤنج میں بیٹھے زریام سے کہا

صبح کا نکلا ہوا وہ اب گھر میں آیا تھا اسلیے زریام سے اسکی ملاقات اب ہورہی تھی

"اپنی بیوی کے ساتھ ڈنر پر جارہا ہوں" اسنے "بیوی" پر خاصا زور دیا

"اوہ اچھا مجھے لگا ہم سے ملنے آیا تھا"

"نہیں تم لوگوں سے ملنے نہیں آیا تھا وہ اب بیوی والا ہوگیا ہوں نہ تو ذمیداری بڑھ گئی ہے تو نہیں سمجھے گا"

"زریام تو مجھے طعنہ مارہا ہے" اسکے کہنے پر زریام نے بنا بات گھمائے اپنا سر ہاں میں ہلادیا

"تو دیکھ بیٹا ساحر کی رخصتی سے پہلے تجھے بیوی والا بن کر دکھاؤں گا بلکہ نہیں یہ جھنجٹ تم لوگ ہی پالو تمہیں ہی یہ بیویاں مبارک ہو"

اسکے جواب میں اس سے پہلے زریام کچھ کہتا وہ بنا اسکی سنے وہاں سے جاچکا تھا زریام نے مسکرا کر اپنا سر جھٹکا

جب نظر سیڑھیوں سے اترتی حوریب پر جم گئیں

اس وقت اسنے زریام کی دلائی ہوئی بلیک ساڑھی پہنی ہوئی تھی سیدھے بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا جبکہ اس وقت اسنے زریام کا ہی دیا ہوا ڈائمنڈ سیٹ پہنا ہوا تھا

میک اپ کے نام پر اسنے کچھ نہیں کیا تھا اور بنا کسی میک اپ کے بھی وہ بس یہ کالی ساڑھی پہنے کوئی اپسرا لگ رہی تھی

اسے دیکھ کر زریام گہرا سانس لے کر رہ گیا اس خوبصورتی کی بلا وہ کہاں کہاں اور کس کس سے چھپاتا پھرتا

°°°°°

"یہ خالی کیوں ہے" اسنے خالی ریسٹورنٹ دیکھ کر پوچھا

اس وقت پورے ریسٹورنٹ میں اسٹاف کے علاؤہ صرف وہ دونوں موجود تھے جبکہ پورے ریسٹورنٹ میں پھولوں اور غباروں کی سجاوٹ ہورہی تھی

"تمہاری وجہ سے"

"میری وجہ سے" اسنے ناسمجھی سے زریام کی طرف دیکھا

"تمہیں باہر لے کر جاتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کس کس سے چھپاتا پھروں کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے تمہیں ایک کمرے میں قید کرلوں جہاں میرے سوا کوئی تمہیں دیکھ ہی نہ پاے"

"جب تم میری زندگی میں نہیں تھے میں تب بھی باہر نکلتی تھی"

یہ زریام کی روک ٹوک کا ہی اثر تھا جو اسکی زبان پر تو سے تم آنے لگا تھا

"کیونکہ جب میں تمہاری زندگی میں نہیں تھا پر اب ہوں اور میں یہ بات بلکل برداشت نہیں کرسکتا کہ میری حسین بیوی کو کوئی غیر مرد دیکھے ساری دنیا سے میں تمہیں چھپا نہیں سکتا لیکن جتنا چھپا سکتا ہوں اتنا چھپاؤں گا" اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوے زریام نے ویٹرس کو اشارہ کیا اور آرڈر لکھوانے لگا

حوریب نے غور سے وہاں موجود کام کرتے افراد کو دیکھا

ابھی تک اسنے وہاں پر جتنے بھی ورکرز دیکھے تھے وہ صرف عورتیں تھیں

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو اس لباس میں"ویٹرس کے جاتے ہی زریام نے گہری نظروں سے اسکے وجود کو دیکھا

اسکی ساڑھی عینہ نے باندھی تھی اور نہایت سلیقے سے باندھی تھی اسکے وجود کا کوئی حصہ نظر نہیں آرہا تھا

"تمہاری بہن نے نکال کر دی تھی" اسنے نظریں جھکا کر کہا

"تمہیں پتہ ہے میری کیا خواہش ہے حوریب"

"کیا" اسنے نظریں اٹھا کر زریام کو دیکھا

"کہ اگر ہماری بیٹی ہوئی تو وہ شکل و صورت میں اپنی ماں پر نہ جاے"

"کیوں"

"کیونکہ میرے لیے ایک خوبصورتی کی بلا کافی ہے دوسری بھی ایسی ہوگئی تو اسے کہاں کہاں چھپاتا پھروں گا"اسکے کہنے پر اس بار حوریب کے لب بھی بےساختہ مسکرا اٹھے

°°°°°

"ساحر میں کیا سوچ رہا ہوں" ماہر نے پرسوچ انداز میں لیپ ٹاپ پر کام کرتے ساحر کو پکارا اس وقت وہ ساحر کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا

"کیا سوچ رہا ہے"

"شاہ میر کا نکاح بھی ہوگیا تیرا نکاح بھی ہوگیا زریام کا نکاح بھی ہوگیا آہان تو ہم سب سے چھوٹا ہے اسکی تو خیر ہے"

"تو سیدھا سیدھا کہہ کہ تیرے دل میں بھی شادی والے لڈو پھوٹ رہے ہیں"

"ہاں دل تو چاہ رہا ہے میرے پاس بھی ایک عدد بیوی ہو"

"کوئی ہے نظر میں"ساحر کے کہنے پر بےساختہ زہہن کے پردے پر ایک نازک سراپا لہرایا

"عزہ کوئی کام تھا"

"جی وہ آپ کا والٹ گر گیا تھا کلاس میں تو میں یہ دینے کے لیے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی"

"شائید میری چیزیں واپس کرنے کی ذمیداری آپ کی ہے"

"نہیں کوئی نہیں ہے" خیالوں کو جھٹک کر وہ ساحر کی طرف متوجہ ہوا جو غور سے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا

"لیکن مجھے تو کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے"

"تیرے دماغ کا فتور ہے"اسکے کہنے پر ساحر کندھے اچکا کر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا یہ الگ بات تھی کہ ماہر گڑبڑ تو تھی جس کا اسے یقین تھا

اسکے دوبارہ کام کی جانب متوجہ ہونے پر ماہر بھی دوبارہ اپنی سوچوں میں گم ہوگیا ساحر کو تو جھٹلا دیا تھا خود کو کیسے جھٹلاتا

°°°°°

"یہ کس کا گھر ہے" گھر کے سامنے گاڑی رکتے ہی اسنے حیرت سے زریام کی طرف دیکھا اس گھر کو وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی

وہاں کھڑے گارڈ نے دروازہ کھولا اور زریام گاڑی اندر لے گیا

"بڑے بابا کا"

حوریب نے نظریں گھما کر دیکھا گارڈن کا وہ حصہ رات کے پہر وہاں لگائی تیز روشنیوں میں بےحد خوبصورت لگ رہا تھا

وہ دونوں وہاں رہنے والے تھے یہ بات سنتے ہی معتصم انکے لیے گھر صاف کرواچکا تھا

ویسے تو اس گھر کی باقائدگی سے صفائی ہوتی تھی لیکن اگر کوئی یہاں پر رہنے کے لیے آنے والا ہوتا تو یہ معتصم کا خاص آرڈر تھا کہ اس گھر کا کونا کونا صاف ہونا چاہیے

"تو ہم یہاں کیوں آے ہیں" زریام نے اسکی بات کا جواب نہیں دیا تھا

گاڑی کھڑی کرکے وہ دوسری جانب آیا اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر گھر کے اندر لے جانے لگا

"مجھے نیچے اتارو میں خود چل سکتی ہوں"

"معلوم ہے مجھے"

گھر کے اندر داخل ہوکر زریام نے اسے نیچے اتارا اور وہاں کھڑی ملازمہ کو جانے کا اشارہ کیا جو انکے انتظار میں ہی کھڑی تھی تاکہ اگر انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسے پورا کردے

اسکے اشارہ کرتے ہی وہ ملازمہ وہاں سے چلی گئی جب حوریب نے پھر سے اپنا سوال دہرایا

"ہم یہاں کیوں آے ہیں زریام"

"ہم یہاں اسلیے آے ہیں تاکہ اس گھر میں ہم دونوں کے علاؤہ کوئی تیسرا نہ ہو یہاں پر صرف تم ہو میں ہوں اور ہمارے درمیان پیار بھرے لمحات ہوں"اسکی بات سن کر حوریب کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی

°°°°°

اسکا ہاتھ پکڑ کر زریام اسے وہاں بنے کمروں میں سے ایک میں لے گیا اور حوریب حیرت سے اس کمرے کو دیکھنے لگی جسے نہایت خوبصورت طریقے سے سجایا ہوا تھا پورے کمرے میں گلاب کے پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی

اسنے اپنے تیز تیز دھڑکتے دل کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جب اپنے پیٹ پر اسے زریام کی گرفت محسوس ہوئی اور اگلے ہی پل زریام نے حوریب کی پشت کو اپنے سینے سے لگا لیا

"ی-یہ سب کیا ہے"

"میرا نہیں خیال تمہیں یہ بات پوچھنے کی ضرورت ہے"

زریام نے اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسکی بندھی ساڑھی کا پلو ہٹا دیا

اسکی اس حرکت سے حوریب نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں جبکہ زریام تو بس گہری نظروں سے اسکے حسین خوبصورت وجود کو دیکھ رہا تھا

اسکی گردن پر ہاتھ رکھ کر زریام اسکی سفید نرم و ملائم گردن پر جھک کر اپنے لبوں کا بوسہ دینے لگا اور اسکی یہ حرکتیں حوریب کی سانسیں اٹکانے کا باعث بن رہی تھیں

"تم حسین ہو حوریب بہت زیادہ حسین" اسکے کان کے قریب جھک کر وہ سرگوشی کرنے لگا

"زریام م-میں"

یقینا وہ اس سے دوری بنانے کے لیے کوئی بہانہ کرتی اور آج کی رات تو کم از کم زریام کو اس سے دوری گوارہ نہیں تھی تب ہی اسکے باقی کے لفظوں کو خود میں قید کرلیا

اسکی سانسوں کو آزاد کرکے زریام نے اپنا کوٹ اتار کر دور پھینکا اور وہاں کھڑی اس حسن کی پری کو دیکھنے لگا جو لبوں کو آزادی ملتے ہی اس سے فاصلہ بنا کر کھڑی ہوچکی تھی جبکہ زریام کی اتنی سی قربت پر ہی اسکا چہرہ گلاب کی مانند سرخ ہوچکا تھا

اسنے اپنی شرٹ اتاری اور وہاں کھڑی حوریب کا ہاتھ پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسے بیڈ پر لٹا دیا

اسکے رخ موڑتے ہی حوریب کی نظر اسکے چوڑے مردانہ سینے پر گئی اور اسے دیکھتے ہی نظریں دوبارہ جھک گئیں البتہ گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوچکا تھا

عشق بن کے تیرے دل میں بس جاؤں

محرم بن کے تیری روح میں اتر جاؤں

(از قلم ام-امامہ)

"زریام تم مجھے کبھی چھوڑو گے تو نہیں نہ" اسنے جھکی نظروں کے ساتھ کہا

"تمہیں چھوڑنا میرے لیے موت کے مترادف ہوگا اپنے سکون کو چھوڑ کر میں بےسکونی کیوں اپناؤں گا" زریام نے غور سے اسکے کپکپاتے لب دیکھے اور اگلے ہی پل ان پر جھک کر اسکی سانسوں کو اپنی سانسوں میں الجھالیا

رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی اور اس گزرتی رات میں حوریب زریام ، زریام شاہ کے پیار کی بارش میں بھیگتی جارہی تھی

°°°°°

"دماغ ٹھیک ہے تمہارا یہ تم کہہ کیا رہے ہو" معتصم نے دوسری طرف فون کال پر موجود شخص پر چیختے ہوے کہا

"اس میں دماغ خراب ہونے والی کیا بات ہے میں آپ کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں معتصم انکل اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں" دوسری طرف اطمینان سے جواب ملا

"عصیرم میری بیٹی تمہیں صرف ایک اچھا دوست سمجھتی ہے"

"آپ نے اسکے دل میں جھانک کر دیکھا ہے"

"نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھے دیکھنا ہے چاہے نور کی اس میں مرضی شامل ہو یا نہیں لیکن میں اسکی شادی تم سے تو ہرگز نہیں کروں گا" اسکے کہنے پر عصیرم کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھری

"کیوں شاید اسلیے کہ میری زندگی اور موت کا بھروسہ نہیں ہے"

"ہاں اسی لیے دو دن پہلے تم پر حملہ ہوا تھا قسمت اچھی تھی جو تم بچ گئے"

"پہلی بات جنہوں نے حملہ کیا تھا وہ پولیس کی گرفت میں ہیں جلدی منہ بھی کھول دیں گے کہ یہ کس نے کروایا ہے دوسری بات آپ خود ہی کہتے ہیں نہ کے زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے تو پھر آپ اس طرح کی بات کیسے کرسکتے ہیں"

"عصیرم تم میرے لیے اہم ہو لیکن میری بیٹی سے زیادہ نہیں میں تمہارے علاؤہ کسی سے بھی اسکا نکاح کردوں گا لیکن تم سے نہیں" اسنے تحمل بھرے لہجے میں کہا شاید نرمی سے کہنے پر عصیرم پیچھے ہٹ جاتا

"اسکی زندگی میں میرے علاؤہ اور کوئی نہیں آے گا اگر آپ نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو میں نور کو اٹھانے میں بھی دیر نہیں کروں گا بہتر ہے راضی ہو جائیں دادا جان کو آپ کے پاس بھیجوں گا آپ کا جواب ہاں میں ہی ہونا چاہیے اور اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں وہاں نہیں ہوں تو مجھے کسی بات کا علم نہیں ہوگا یہ صرف آپ کی غلط فہمی ہے بہتر ہے میری بات مان لیں ورنہ عیصرم علی خان کیسا ہے یہ آپ بہتر جانتے ہیں" وہ کال کاٹ چکا تھا لیکن معتصم کا دماغ بس اسکی کہی باتیں سوچ رہا تھا

"میں تم سے نکاح نہیں کروں گی"

"سوچ لو پہلے ہی تمہاری غلطی کی سزا یہ بھگت رہی ہیں میں اس سے آگے بھی بڑھ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا تو بہتر ہے کہ میری بات مان لو"

"اجازت مانگوں گا ان سب سے اگر مل گئی تو ٹھیک نہیں تو تمہیں گھر سے اٹھانے میں بھی دیر نہیں کروں گا کیونکہ اب تم صرف میری ہو"

اسنے ماضی کی یادوں کو زہہن سے جھٹکا

"نہیں نہیں میں نور کی شادی عیصرم سے نہیں کرسکتا کبھی بھی نہیں" اسنے گہرا سانس لے کر خود کو ریلیکس کیا

°°°°°

"کیا بات ہے میری بیوی کو آخر میرا خیال آہی گیا" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی شاہ میر نے اسے دیکھتے ہوے کہا اس وقت وہ کمرے میں موجود اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا اپنا کام کررہا تھا

"جی کسوا آنٹی بتا رہی تھیں آپ تھکے ہوے تھے میں نے آپ کے کمرے کی لائٹ آن دیکھی تو آپ کے لیے کافی لے آئی"

"ہاں ضرورت تو مجھے واقعی میں تھی" اسکے ہاتھ سے کافی لے کر شاہ میر نے اسے اپنی گود میں بٹھایا

"لیکن کافی کی نہیں اپنی بیوی کی"

"ش-شاہ میر یہ کیا حرکت ہے" حیات نے اسکی گود سے اٹھنا چاہا جسے ناکام بناتے ہوے اسنے اپنی گرفت سخت کردی

گہری نظروں سے وہ اسکا گھبرایا ہوا روپ دیکھ رہا تھا

"یہ پیار ہے میری جان" شاہ میر نے پیار سے اسکی تھوڑی کو چھوتے ہوے کہا اور باری باری اسکے دونوں گالوں پر اپنے لب رکھ دیے

"چھوڑیں مجھے میں صرف آپ کو کوفی دینے آئی تھی"

"نہیں چھوڑ رہا مجھے بہت تھکن ہورہی ہے اور اس وقت میں صرف سونا چاہتا ہوں"

"تو آپ سوجائیں"حیات نے اسکی پوری بات سنے بنا جلدی سے کہہ دیا

"اور مجھے اپنی بیوی کے ساتھ سونا ہے"

"نہیں مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے چھوڑیں مجھے"اسکا ہاتھ پکڑ کر شاہ میر نے زبردستی اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لٹایا

"شاہ میر چھوڑیں مجھے کوئی دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا"

"کیا سوچے گا کچھ بھی نہیں سوچے گا"

"شاہ میر پلیز"

"حیات اب تمہاری ایک بھی آواز آئی نہ تو میں تمہاری بولتی اپنے طریقے سے بند کروں گا پھر مجھ سے کوئی شکایت مت کرنا" اسکی بات کا مطلب سمجھتے ہی حیات نے خاموشی اختیار کرلی

لیکن یہ نصیحت اسے مل گئی تھی کہ آئیندہ شاہ میر کے کمرے میں وہ نہیں آے گی خاص طور پر رات کے وقت تو بلکل نہیں

"گڈ گرل"اسکی خاموشی دیکھ کر شاہ میر نے مسکراتے ہوے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسے اپنے حصار میں لے کر آنکھیں بند کرلیں اور اسکے بعد حیات بس اسکے سونے کا انتظار کرنے لگی تاکہ اسکے سوتے ہی وہاں سے چلی جاے

"ایک اور بات میں سو بھی جاؤں تو بھی یہاں سے کہیں مت جانا صبح اٹھتے ہی مجھے سب سے پہلے تمہارا چہرہ دیکھنا ہے اگر تم یہاں سے چلی گئیں نہ حیات تو اچھا نہیں ہوگا" اسکے نیند میں جانے سے پہلے حیات نے یہ اسکی آخری بات سنی تھی اور اسے یہی لگا کہ اس وقت وہ نیند میں یہ بات کہہ رہا ہے

اسکے سوتے ہی حیات نرمی سے اسکے حصار سے نکلی اور آہستہ سے قدم اٹھاتی کمرے سے باہر چلی گئی

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسنے نیند سے بھری آنکھیں لیے ارد گرد دیکھا اور نظر اپنے وجود پر گئی اس وقت اسنے صرف زریام کی وائٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی

اسے دیکھتے ہی رات کا ہر منظر کسی فلم کی طرح زہہن کے پردے پر چلنے لگا اور شرماتے ہوے اسنے بیڈ کے دوسری جانب دیکھا جو خالی تھا

زریام وہاں نہیں تھا اور یہ سوچ آتے ہی وہ جلدی سے اٹھی لیکن پھر سکون کا سانس لیا

ڈارک بلیو کلر کی کمیز شلوار پہنے اس وقت جاے نماز پر بیٹھا وہ آنکھیں موندے دعا مانگ رہا تھا اور حوریب کو اس وقت وہ دنیا کا سب سے حسین مرد لگ رہا تھا

"میں تو مل گئی پھر دعا میں کیا مانگ رہے تھے" اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہی حوریب نے کہا جس پر زریام اسکی طرف متوجہ ہوا

"زندگی بھر تمہارے ساتھ کی دعا مانگ رہا تھا" جاے نماز طے کرکے اسنے سائیڈ پر رکھی

"اٹھ گئی ہو تو پھر نماز پڑھ لو"

"میں نماز نہیں پڑھتی"

"کیوں نہیں پڑھتی ہو"

"میں پہلے بہت نمازیں پڑھتی تھی بہت دعائیں کرتی تھی کہ میرے حالات بدل جائیں ہم اس گندی جگہ سے نکل جائیں میری ماں کو اسکے بھائی معاف کردیں ہر کوئی مجھے گندی نظر سے دیکھتا تھا میں چاہتی تھی جو لوگ مجھ پر گندی نظریں رکھتے ہیں وہ ایسا نہ کریں مجھے چوری نہیں پسند تھی میں چاہتی تھی زندگی میں کوئی ایسا معجزہ ہوجاے جس سے میں یہ غلط کام چھوڑ دوں پر میری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی تھی اسلیے میں نے یہ سب کرنا چھوڑ دیا"

اسے خود بھی پتہ نہیں چلا کب آنسو اسکی آنکھ سے نکل کر گال پر بہہ نکلے

"حوریب ہماری دعا کبھی بھی رد نہیں ہوتی ہے" اسکے گال پر بکھرے آنسو صاف کرکے زریام نے نرم لہجے میں کہا

"ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ہماری دعاؤں کا بھی اور صحیح وقت آنے پر وہ قبول ہوجاتی ہیں کیا تم نے غور کیا تمہاری ساری دعائیں قبول ہوچکی ہیں کیونکہ ان کی قبولیت کا وقت اب مقرر تھا جب تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوئی تو تم نے دعا مانگنا چھوڑ دی نماز پڑھنا چھوڑ دی لیکن اب جب قبول ہوچکی ہیں تو کیا تم نے خدا کا شکر ادا کیا" اسکے کہنے پر حوریب نے شرمندگی سے اپنا سر جھکا لیا اس طرف اسکا دھیان کبھی گیا ہی نہیں تھا

"شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے میری جان جلدی سے اٹھو اور جاکر نماز پڑھو اس سے پہلے فجر کا وقت نکل جاے نماز پڑھو تاکہ تمہیں جنت ملے" اسکے کہنے پر حوریب نے مسکراتے ہوے اسکی گردن میں اپنی بانہوں ڈال دیں

"مجھے میری جنت دنیا میں ہی مل چکی ہے"

"مجھے بھی میرا سکون دنیا میں مل چکا ہے اور میں چاہتا ہوں یہ سکون جنت میں بھی میرے ساتھ ہو"زریام نے اسکی تھوڑی کو چھوا اور اسے اٹھنے کا اشارہ کیا

اپنا سر ہلاکر حوریب نے خود پر سے کمبل ہٹایا اور اسکے ایسا کرتے ہی زریام کی نظریں بےساختہ اسکے سفید پاؤں کی طرف اٹھیں

اسنے اس وقت زریام کی شرٹ پہنی ہوئی تھی جو اسکے گھٹنوں تک آرہی تھی جبکہ نیچے کا باقی حصہ کچھ نہ پہننے کے باعث صاف دکھ رہا تھا

اسے دیکھ کر زریام نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اگر وہ اس وقت نماز کے لیے نہیں جارہی ہوتی تو اتنا ضبط کرکے وہ کبھی نہ بیٹھا ہوتا

اسکے جاتے ہی زریام نے اپنی آنکھیں کھولیں جب چند سیکینڈ بعد وہ پھر سے اسکے سامنے اسی حولیے میں آکر کھڑی ہوگئی اور اس بار جیسے زریام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا

اسکا ہاتھ پکڑ کر زریام نے جھٹکے سے اسے اپنی گود میں بٹھایا

"جانتا ہوں ان کپڑوں میں تم انگلش مووی کی ہیروئن لگ رہی ہو لیکن میرے سامنے آکر کیوں میرے جذبات جگا رہی تھی"

"وہ میرے پاس پہننے کے لیے کچھ نہیں ہے"

اسکے کہنے پر زریام نے اسے اپنی گود سے اٹھایا اور بنا اسکی طرف دیکھے وارڈروب میں سے ایک سوٹ نکال کر اسکی طرف بڑھا دیا اب جب تک وہ کپڑے نہیں بدل لیتی تب تک زریام شاہ نے اسکی طرف نہیں دیکھنا تھا یہ تو طے تھا

"لیکن یہ میرا تو نہیں ہے"

زریام نے اپنا بیگ گاڑی میں پہلے ہی رکھوالیا تھا اسلیے اسکا سامان اس وقت اسکے پاس موجود تھا لیکن حوریب کا بیگ ابھی تک عینہ کے گھر پر تھا اسلیے زریام نے اسے اپنا سوٹ نکال کر دے دیا

اپنا طے کیا ہوا ارادہ توڑ کر وہ اسکی طرف مڑا اور اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے قریب کرلیا

"ایک منٹ حوریب ایک منٹ سے پہلے پہلے یہ سوٹ بدل کر آؤ ورنہ یہ جو سوٹ دے رہا ہوں نہ یہ بھی نہیں دوں گا اور یہ جو میری شرٹ تم نے پہنی ہوئی ہے یہ بھی لے لوں گا"

زریام کے چھوڑتے ہی وہ بنا کچھ کہے واشروم کی طرف بھاگ گئی کیونکہ اسنے بات ہی ایسی کی تھی یہاں کھڑے ہوکر وہ ٹائم ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی جبکہ اسکے بھاگنے کی اسپیڈ دیکھ کر کمرے میں زریام کا قہقہہ گونجا

°°°°°

°°°°°

"معتصم تمہارے انکار کی وجہ کیا ہے جتنا میں اسے جانتا ہوں اس سے وہ مجھ اچھا ہی لگا اور تم تو اسے مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہو" اسکی پوری بات سنتے ہی عالم نے اپنی راے دی جس سے عصیم نے بھی اتفاق کیا

"عالم میں عصیرم اور نور کی شادی کبھی بھی نہیں کروں گا بلکہ عصیرم کے آنے سے پہلے نور کا نکاح ہی کردوں گا" اسکے کہنے پر عصیم اور عالم نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا

جبکہ انکے حیرت سے دیکھنے پر وہ انہیں عیصرم کی کہی بات نہیں بتا سکا اسے اس بات کی پریشانی نہیں تھی کہ عیصرم نے نور کو اٹھانے کی بات کی تھی

اسے اس بات کی فکر تھی کہیں وہ سچ میں ایسا نہ کردے اور وہ ایسا کر بھی سکتا تھا کیونکہ ماضی میں اسنے بھی تو کچھ ایسا ہی کیا تھا اور یہی ایک ڈر اسکے دل میں بیٹھ گیا تھا

"معتصم کیا ہوگیا ہے تمہیں نہیں کرنی عصیرم سے شادی تو انکار کردو اتنا بڑا فیصلہ لینے کی کیا ضرورت ہے" عصیم کے کہنے پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں میں فیصلہ کرچکا ہوں"

"اچھا پھر تو لڑکا بھی تم نے ڈھونڈ لیا ہوگا" عالم کے کہنے پر معتصم نے اسکی طرف دیکھا

"ہاں آہان"

"معتصم آہان نور سے چھوٹا ہے"

"عالم چند مہینے کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتا"

"میری بات سنو مجھے نہیں معلوم تم نور کی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ اتنی جلدی کیوں لے رہے ہو لیکن میں تمہیں بتادوں میں تمہارے اس فیصلے میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں"

"عالم ٹھیک کہہ رہا ہے معتصم یہ فیصلے جلد بازی کے نہیں ہوتے"

"بھلے جلد بازی میں یہ فیصلہ لیا ہے لیکن سوچ سمجھ کر لیا ہے میں آہان سے خود بات کروں گا"

"کرو بلکل کرو آہان سے بھی کرو نور سے بھی کرو لیکن میں تمہیں بتا رہا ہوں معتصم اگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی انکار کیا تو میں ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کروں گا" اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے جاچکا تھا

عالم کے جانے کے بعد عصیم نے اسے مخاطب کیا

"معتصم کوئی بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے تو کہو تم کبھی بھی اپنے فیصلے اس طرح نہیں لیتے ہو پلیز شیئر کرو"

"نہیں عصیم کوئی بات نہیں ہے" اسکے کہنے پر وہ مطمئن تو نہیں ہوا تھا لیکن کوئی اور بات کرنا فضول تھا کیونکہ معتصم نے کچھ بتانا نہیں تھا

°°°°°

ٹرے ہاتھ میں تھامے میں وہ کمرے میں داخل ہوئی کل رات کے بعد سے اسکا شاہ میر کے کمرے میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا

لیکن کسوا کے زور دینے پر وہ اسکے لیے ناشتہ لائی تھی کیونکہ آج اسے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی اسلیے جلدی سے اسکا ناشتہ تیار کروا کر کسوا نے اسکے کمرے میں بھجوا دیا

"شاہ میر ناشتہ کرلیں" اسنے ٹرے ٹیبل پر رکھ کر شاہ میر سے کہا جو اب اپنے بال بنا رہا تھا

بال بنانے کے بعد اسنے اپنا ضروری سامان اٹھایا اور کمرے سے جانے لگا جب حیات نے پھر اسے پکارا اسے یہی لگا تھا پہلے کہی بات شاہ میر نے سنی نہیں تھی

"شاہ میر ناشتہ کرلیں"

"بھوک نہیں ہے مجھے''

"لیکن آپ بنا ناشتہ کیے کیسے جائینگے" حیات کے کہنے پر شاہ میر نے مڑ کر اسکی طرف دیکھا

"ایک دن اگر ناشتہ نہیں کروں گا تو مر نہیں جاؤں گا" اسکا لہجہ روڈلی تھا اور آج حیات پہلی بار اسکا ایسا لہجہ سن رہی تھی اپنے لیے تو کم از کم اسنے پہلی بار ہی سنا تھا

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ بنا اسکی سنے وہاں سے جاچکا تھا اور حیات نم آنکھوں سے بس اسکی پشت کو دیکھتی رہی

وہ اس سے اس طرح بات کیوں کرکے گیا تھا

°°°°°

نماز پڑھ کر وہ کمرے سے باہر نکل کر زریام کو ڈھونڈنے لگی جو کچن میں موجود تھا

آستینوں کو کونیے تک فولڈ کیے وہ نظریں جھکائے تیزی سے ہاتھ چلاتا اپنا کام کررہا تھا

"تم کیا کررہے ہو"اسکی آواز سن کر زریام نے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور اسے دیکھتے ہی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی

اس وقت اسنے زریام کا ڈارک براؤن کلر کا کرتا پہنا ہوا تھا یہ نئی بات نہیں تھی شادی سے پہلے وہ اسی طرح کے کپڑے پہنتی تھی

بس فرق اتنا تھا کہ پہلے وہ کپڑے اسکے سائز کے ہوتے تھے لیکن یہ سوٹ اسکے لیے بڑا تھا

اسکی کمیز حوریب کے گٹھنوں سے بھی کافی نیچے جارہی تھی اور لمبی آستینوں کو اسنے فولڈ کیا ہوا تھا اور نیچے اسنے زریام کا ٹراؤزر پہنا ہوا تھا جسے موڑ کر اسنے اپنے پہنے قابل بنایا ہوا تھا

"تمہارے لیے ناشتہ بنا رہا تھا آج تم زریام شاہ کے ہاتھوں کا ناشتہ کرو"

"تمہیں کھانا بنانا آتا ہے"

"بلکل میں پڑھائی کی وجہ سے شہر میں رہتا تھا اور اپنے لیے کسی کو تکلیف دینا مجھے پسند نہیں تھا اسلیے یہ چھوٹے موٹے کام میں نے خود ہی سیکھ لیے"

حوریب غور سے اسکے مردانہ ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو تیز تیز چلتے انڈہ پھینٹ رہے تھے

"مجھے کھانا بنانا نہیں آتا جب بھی بنانا ہوتا تھا اماں ہی بناتی تھی" اسکے لہجے میں افسردگی چھا گئی

"کوئی بات نہیں میں تمہیں سکھا دیتا ہوں فلحال تو باقی کا کام ہوچکا ہے بس یہ رہتا ہے یہی بنالیتے ہیں"

حوریب کو اپنے سامنے کھڑا کرکے اسنے باؤل اسے تھمایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باؤل سے انڈہ فرائینگ پین میں ڈالنے لگا

تھوڑی دیر بعد اسنے حوریب کا ہاتھ پکڑ کر احتیاط سے اس انڈے کو پلٹا اور اسی طرح اسے اچھے سے فرائی کرکے پلیٹ میں نکال لیا

"ہاے اللہ یہ میں نے بنایا ہے" وہ پلیٹ میں رکھے انڈے کو خوشی سے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ اسنے بنایا تھا

زریام نے سبزیاں چوپ کرکے اس میں ڈالی تھیں اور اسنے کون سی سبزیاں ڈالی تھیں یہ اسے نہیں پتہ تھا اسے بس یہی پتہ تھا کہ اسنے پہلی بار کچھ بنایا ہے

وہ بچوں کی طرح خوش ہورہی تھی اور زریام اسے دیکھ کر خوش ہورہا تھا

°°°°°

"بڑے بابا کیا ہوگیا ہے آپ کو نور بہن ہے میری اسکے بارے میں ایسی کوئی بات میں سوچ بھی نہیں سکتا" اسکی بات سنتے ہی آہان نے چیخ کر کہا

"سگی بہن نہیں ہے آہان"

"ہاں سگی بہن نہیں ہے سگی سے بھی بڑھ کر ہے میں مر کر بھی نور کے بارے میں ایسی کوئی بات سوچ بھی نہیں سکتا ہوں"

"آہان تم میرے فیصلے سے انکار کررہے ہو"

"بڑے بابا آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے سواے اسکے پلیز سمجھنے کی کوشش کریں" وہ اسے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کررہا تھا لیکن معتصم بنا سکی بات سنے کال کاٹ چکا تھا

جبکہ آہان اب فکرمندی سے اسکی باتیں یاد کرکے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا یہ بات معتصم نے کیوں کہی اور اس طرح کی بات اسکے زہہن میں آکیسے گئی

°°°°°

چہرے پر ہاتھ رکھے وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب اپنے قریب صوفے پر اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا

اسنے گردن موڑ کر دیکھا وہاں عصیم آکر بیٹھا تھا جو سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

"کن سوچوں میں گم ہو چندا"

"میں اداس ہوں بابا سائیں" منہ بسور کر اسنے اپنا سر عصیم نے کندھے پر رکھ لیا

نکاح کے بعد عصیم نے ہی اس سے کہا تھا کہ اب سے وہ کسوا کو اماں سائیں اور اسے بابا سائیں بلایا کرے گی

"کیوں اداس ہو" عصیم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کسوا کہہ اٹھی جو اسکی بات سن کر وہاں آئی تھی

"وہ مجھ سے بات نہیں کررہے تھے میں صبح ناشتہ بھی لے کر گئی لیکن انہوں نے نہیں کھایا اوپر سے اتنا روڈلی بات کی مجھ سے"

"ایسی بات ہے تو آنے دو اسے میں دیکھتا ہوں دو دن ہوے نہیں کام پر جاتے ہوے اور نخرے دیکھو صاحب زادے کے"عصیم کے کہنے پر حیات نے پریشانی سے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا

"نہیں آپ ان سے کچھ مت کہیے گا ورنہ وہ سمجھیں گے کہ میں نے انکی شکایت لگائی ہے" اسکے کہنے پر عصیم اور کسوا نے اپنی مسکراہٹ دبائی شکایت تو وہ لگا ہی چکی تھی

"اچھا نہیں کہتے لیکن حیات میں بتارہی ہوں تم نے ایسی کوئی بات یا حرکت کی ہوگی جس کی وجہ سے وہ تم سے ناراض ہوگیا ہوگا وہ کم ہی کسی سے ناراض ہوتا ہے"

کسوا کے کہنے پر اسے رات والی بات یاد آئی

"ایک اور بات میں سو بھی جاؤں تو بھی یہاں سے کہیں مت جانا صبح اٹھتے ہی مجھے سب سے پہلے تمہارا چہرہ دیکھنا ہے اگر تم یہاں سے چلی گئیں نہ حیات تو اچھا نہیں ہوگا"

اسے تو یہی لگا تھا کہ وہ نیند میں یہ سب کہہ رہا تھا لیکن وہ نیند میں نہیں کہہ رہا تھا اور اب

شاید اسی بات پر وہ اس سے ناراض ہوچکا تھا کہ رات کو وہ اسکے کمرے سے کیوں چلی گئی

"اب میں کیا کروں" اسنے پریشانی سے ان دونوں کو دیکھا شاہ میر اس سے ناراض ہوچکا تھا اب اسے مناتی کیسے

"اسے مناؤ وہ زیادہ دیر تک کسی سے ناراض نہیں رہ سکتا"

°°°°°

"کیا کیا ہے تم نے" اپنا پھیلا سامان ایک طرف رکھ کر وہ ماہیم کی طرف متوجہ ہوا

"وہ مین نے اپنی دوستوں سے کہہ دیا کہ میرا نکاح آپ سے ہوا ہے نکاح پر میں نے کسی کو انوائیٹ نہیں کیا تھا تو سب کو لگا میں سچ کہہ رہی ہوں" اسنے اپنی انگلیاں مڑوڑتے ہوے کہا جبکہ اسکی بات سن کر ماہر تو جیسے صدمے میں ہی جاچکا تھا

"کیا میرا نام کیوں لیا"

"وہ مجھے ساحر بھ مطلب ساحر کے نام سے چھیڑتی تھیں جب میں انہیں یہ بتاتی تھی کہ وہ کیے ڈانٹتے مجھ پر غصہ کرتے ہیں اور اسی لیے غصے میں ایک بار میں نے کہہ دیا کہ مر جاؤں گی لیکن ساحر سے نکاح نہیں کروں گی اب اگر کہتی کہ زندہ ہوں اور اسی ساحر سے نکاح کیا تھا تو میرا کتنا مذاق بنتا بس اسی لیے آپ کا نام لے دیا اور اب وہ آپ سے ملنا چاہ رہی ہیں"

"واہ ماہیم میڈم بہت کمال کا کام کیا ہے تم نے" اسنے زور دار تالیاں بجائیں

"ہاں تو آپ چلیں گے"

"مجھے تو معاف ہی رکھو تمہارے شوہر کو پتہ چلا نہ کہ میں تمہاری یونیورسٹی میں تمہارا شوہر بن کر گیا ہوں تو بنا جڑواں ہونے کا لحاظ کیے میری گردن کاٹ دے گا"

"انہیں بتاے گا کون"

"جس بات کو جتنا چھپاؤ وہ اتنی ہی جلدی کھلتی ہے"

"ماہر بھائی پلیز نہ میری عزت کا سوال ہے"

"مجھے تو معاف ہی رکھو" اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر وہ وہاں سے چلا گیا

اسکے جانے کے بعد ماہیم نے غصے سے اپنے پیر پٹخے اور پھر جلدی سے اس طرف گئی جس طرف ماہر گیا تھا

"فون رکھیں اور پہلے میری بات سنیں" اسنے وہاں کھڑے ساحر سے کہا جو فون پر کسی سے بات کررہا تھس اس نے اس وقت بلیک ٹراؤزر کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی اسکے زہہن میں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ ساحر ہوگا کیونکہ ماہر نے بھی اسی طرح کی ڈریسنگ کی ہوئی تھی

"صرف ایک کام کہہ رہی ہوں آپ سے ایک چھوٹا سا کام نہیں کرسکتے میرے لیے صرف یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہوکر میری دوستوں سے مل کر یہ کہنا ہے کہ آپ میرے شوہر ہو کونسا کہنے سے بن جاؤ گے رہوں گی تو میں اس سڑو کی ہی بیوی نہ ویسے تو بڑا بہن بہن کرتے ہو بہن کے لیے ایک کام نہیں کرسکتے"

"منہ بند کرو جب دیکھو الٹا سیدھا بولتی رہتی ہو اب کیا کرکے آئی ہو"

وہ جو مسلسل نون اسٹاپ بولے جارہی تھی ساحر کی آواز سن کر ایک دم چپ ہوئی اسکے ارد گرد جیسے خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر بیڈ پر بیٹھی حیات پر پڑی جو اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھے اسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی

"یہاں کیا کررہی ہو تم"

"کیوں میں یہاں نہیں آسکتی"

"حیات میرے کمرے سے نکلو"

"میں کہیں نہیں جارہی یہ میرا بھی کمرہ ہے" ڈھیٹ بنی وہ وہیں پر بیٹھی رہی

"بیٹھو یہیں میں جارہا ہوں" موبائل اور والٹ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر وہ کمرے سے جانے لگا

جب حیات جلدی سے اٹھی اور اپنے دونوں ہاتھ شاہ میر کے پیٹ پر باندھ کر اسکی پشت پر اپنا سر ٹکا دیا

"میں صبح سے سوچتی رہی اور پھر مجھے اماں سائیں کی مدد سے پتہ چل گیا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں"

"یہ نہیں پتہ چلا کیوں ناراض ہوں"

"کیونکہ میں رات کو کمرے سے چلی گئی تھی لیکن قسم سے مجھے لگا آپ نیند میں یہ بات کہہ رہے ہیں" اسنے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی جب اسکے ہاتھ اپنے پیٹ سے ہٹا کر شاہ میر نے اپنا رخ اسکی جانب کیا

"حیات میں چاہے کوئی بھی بات جاگتے میں کہوں یا سوتے میں تمہیں میری بات سننی چاہیے سب میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں میرا مذاق اڑاتے ہیں میں کچھ نہیں کہتا نہ ہی مجھے برا لگتا ہے پر میں چاہتا ہوں میری بیوی میری ہر بات کو اہمیت دے"

"میں آئیندہ خیال رکھوں گی آپ بس ناراض مت ہونا" اسکے کہنے پر شاہ میر نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور اسکے لبوں پر جھک گیا صبح سے اسی چیز کو ہی تو وہ اتنا مس کررہا تھا

"نہیں ہوں گا میں ناراض لیکن آج کی پوری رات تمہیں یہاں میری بانہوں میں سونا پڑے گا اور تم انکار نہیں کرو گی"

"صرف ایک رات شاہ میر"حیات نے اپنی ایک انگلی اٹھائی جس پر شاہ میر نے اپنے لب رکھ دیے

"رخصتی سے پہلے پوری کوشش ہوگی بس یہ ایک رات اور اس سے زیادہ بھی ہوگئیں تو کیا ہوگا سلا ہی تو رہا ہوں کونسا میں تمہارے ساتھ"

"شاہ میر"اسکے جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی حیات نے اپنا ہاتھ اسکے لبوں پر رکھا

جس پر شاہ میر نے اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹایا اور اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا

°°°°°

"کیا کرکے آئی ہو تم ماہیم" ساحر نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا جبکہ اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے وہ مڑ کر بھاگنے لگی جب بےدھیانی میں سر وہاں لگے پلر سے ٹکرا گیا

سر ایک دم جیسے گھوم گیا اور اس سے پہلے وہ چکراتے سر کے ساتھ زمین پر گرتی ساحر اسے پکڑ چکا تھا

"بے وقوف لڑکی دھیان کہاں رہتا ہے تمہارا" اسے غصے سے گھورتے ہوے وہ اسکا ماتھا سہلانے لگا جو لال ہورہا تھا جبکہ ماہیم اب بس روے جارہی تھی

کس کس چیز کے لیے پتہ نہیں

ماہر کو راضی نہیں کرسکی

ساحر کے سامنے الٹا سیدھا بول دیا

اور اب اسکے سامنے سر پلر میں ٹھک گیا

"زیادہ زور سے لگ گئی" ماہیم کو روتے دیکھ کر اسکا لہجہ نرم ہوا

لیکن وہ بنا اسکی بات کا جواب دیے وہاں سے بھاگ گئی جس پر ساحر گہرا سانس لے کر رہ گیا

اسے پتہ تھا ماہیم صرف اسکے سوالوں سے بچنے کے لیے بھاگی تھی وہ شاید اسے صحیح بات بتاتی بھی نہیں صحیح بات اسے صرف ماہر سے ہی پتہ چل سکتی تھی

°°°°°

"میں جانتا ہوں مجھ پر حملہ تم نے ہی کروایا تھا" عصیرم نے سنجیدگی سے دوسری طرف موجود آصف لغاری سے کہا جس پر اسنے قہقہہ لگایا

"تم بنا کسی ثبوت کے مجھ پر الزام لگا رہے ہو عصیرم خان"

"مجھے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے آصف میں جانتا ہوں تم مجھے مارنا چاہتے ہو بلکل اسی طرح جس طرح میرے ماں باپ کو مارا تھا"

"تمہارے باپ نے میری جگہ لی تھی"

"میرے باپ کو وہی جگہ ملی تھی جس کے وہ لائق تھا تم اس جگہ کے لائق نہیں تھے اگر ہوتے تو لوگ تمہارا ساتھ دیتے نہ کہ میرے باپ کا"

"پرانی باتوں کا وقت گیا چھوڑ دو ان باتوں میں رہ کر تمہیں کچھ نہیں ملے گا ابھی کا کہو تم کیا کرو گے مجھے بنا کسی ثبوت کے جیل بجھواؤ گے"

"میں تمہیں جیل بھجوا کر کیا کروں گا تھوڑے دنوں میں تم مجھے پھر باہر نظر آؤ گے میں تمہیں سزا دوں گا خود اپنے ہاتھوں سے تمہارا قتل کروں گا"عصیرم کے لہجے میں اس شخص کے لیے بےانتہا نفرت تھی

اس شخص نے اس کے ماں باپ کو اس سے چھین لیا صرف اس وجہ سے کیونکہ اسکے گھٹیا کارنامے اس کا باپ دنیا کے سامنے لے آیا تھا

"تم کل کے آے بچے ہو عصیرم مجھ سے مقابلہ نہیں کرسکو گے"

"لاکھ کوشش کی تم نے میری جگہ پر آنے کی لیکن دیکھ لو اس کل کے آے بچے نے تمہیں ہرا دیا" اسکی بات سن کر جیسے دوسری طرف موجود شخص کے جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی تب ہی اسنے مزید کچھ سنے بنا جلدی سے کال کاٹ دی

°°°°°

"زریام اب چھوڑو مجھے"

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ جانے لگی جب زریام نے اسے واپس اپنے قریب کرلیا

"کہاں جارہی ہو"

"مجھے بھوک لگ رہی ہے"

"پر میری بھوک ابھی نہیں مٹی ہے" اسے اپنے بےحد قریب کرکے زریام نے بے باکی سے کہا

"پلیز زریام چھوڑو مجھے میں تھک گئی ہوں"

"دو گھنٹے میں ہی تمہارا یہ حال ہوگیا" اسکے کہنے پر حوریب کے چہرے کی سرخی مزید گہری ہوئی

بنا مزید کچھ کہے اسنے اپنے چہرے پر کمبل ڈال لیا کیونکہ جب تک زریام کی اجازت نہیں ہونی تھی تب تک اسنے حوریب کو وہاں سے اٹھنے نہیں دینا تھا

زریام نے اسکے چہرے سے کمبل ہٹایا اور بنا کچھ کہے اسکے لبوں پر جھک گیا

°°°°°

غصے سے وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا معتصم کی باتیں جب جب یاد آرہی تھیں تب تب اسے غصہ آرہا تھا اوپر سے اس بات کی الگ پریشانی ہورہی تھی کہ معتصم اس سے ناراض ہوچکا تھا لیکن وہ بھی کیا کرتا وہ نور سے شادی کبھی بھی نہیں کرسکتا تھا

عالم کو وہ بار بار کال ملا رہا تھا شاید وہی اسے اس بات کے پیچھے کی وجہ بتادے لیکن وہ تھا جو اسکی کال ہی پک نہیں کررہا تھا اور ایسے میں جس بات کا غصہ اسے سب سے ذیادہ آرہا تھا وہ تھی اسکے موبائل پر بار بار آتی کال جو اسکے غصے کو مزید بڑھا رہی تھی

"آہان میں تمہیں کب سے کالز کررہی ہوں تم پک کیوں نہیں کررہے تھے"اسکے کال اٹھاتے ہی شانزے نے فورا کہا

"کیا کام ہے شانزے"

"تم پہلے مجھے بتاؤ تم میری کالز کیوں نہیں پک کررہے تھے پتہ ہے میں نے تمہیں کنتی کالز کی ہیں کم از کم ایک میسیج ہی کر دیتے"

"معلوم ہے مجھے تم نے کتنی کال کی ہیں پر فالتو نہیں بیٹھا رہتا ہر وقت جو ہر بار پہلی بیل پر ہی تمہاری کال اٹھا لوں" اسکا لہجہ تلخ ہوا

"آہان تم ایسے کیوں بات کررہے ہو مجھے تو تمہیں اتنی امپورٹنڈ بات بتانی تھی"

"تمہاری ہر بات ہی ضروری ہوتی ہے شانزے کبھی میری بات سنی ہے تم نے نہیں تمہاری بات چاہے ضروری یا غیر ضروری ہو لیکن اسے سنانا تم اپنا فرض سمجھتی ہو"

''تو مت سنو میری بات میں تمہارے آگے ہاتھ نہیں جوڑتی ہوں کہ آکر میری بات سنو"اسنے غصے سے تیز لہجے میں کہا اور کال کاٹ دی

آہان نے پہلی بار اس سے اس طرح بات کی تھی غصے اور آنا کو دور کرکے اسنے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ آہان نے اس سے اس طرح بات کیوں کی

اسکے کال کاٹنے پر آہان پھر سے عالم کو کال ملانے لگا

°°°°°

تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اپنی گاڑی کی طرف جارہا تھا جب جیب میں رکھا موبائل تھرتھرانے لگا

اسنے اپنی جیب سے موبائل نکالا

نمبر دیکھ کر چہرے پر سنجیدگی اور بڑھ گئی اسنے اگلے ہی لمحے کال پک کی

"ہیلو"

"سر معتصم شاہ نے کہا ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کردینگے" اسکی بات سنتے ہی عصیرم کی نیلی آنکھوں میں غصہ اترا

"کس کے ساتھ"

"آہان شاہ"

اسنے کال کاٹ دی اور اپنے اشتعال پر قابو پانے کی کوشش کی

لیکن غصہ تھا جو بڑھتا ہی جارہا تھا اسکی نور کسی اور کی ہوجاتی یہ سوچ ہی اسے تڑپا رہی تھی

کیسے وہ اس لڑکی کو کسی اور کا ہونے دیتا جسے وہ اپنا مان چکا تھا جس سے محبت میں وہ اس حد تک آگے نکل چکا تھا کہ پیچھے مڑنے کا اب کوئی راستہ ہی نہیں تھا

°°°°°

مشکلوں سے زریام نے اسکی جان چھوڑی تھی اور فریش ہوتے ہی وہ سب سے پہلے کچن میں آئی کیونکہ بھوک سے اسکا برا حال ہورہا تھا

زریام سارے ملازموں کو یہاں سے بھیج چکا تھا باہر بس گارڈز کھڑے تھے جبکہ گھر میں صرف وہ دونوں موجود تھے

اسنے فریج کھولا کھانا تو کچھ بنانا نہیں آتا تھا اسلیے فروٹ نکال کر ٹیبل پر رکھے اور عادت کے مطابق بنا دھوے اور کاٹے کھانے لگی

اس گھر میں گھر کے افراد صرف ضرورت کے تحت یا کسی کام کی وجہ سے ہی رکتے تھے اسلیے خالی فریج جب ہی چیزوں سے بھرتا جب کوئی فرق یہاں رہنے آتا

زریام کچن میں داخل ہوا اور پہلی نظر کرسی پر بیٹھی اپنی بیوی پر گئی جو کرسی پر آلتی پالتی مارے بیٹھی سیب کھارہی تھی

زریام اسکا سامان عینہ کے گھر سے منگوا چکا تھا اسلیے اس وقت اسنے اپنا ہی لائٹ بلیو کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا

گیلے بال پیچھے کی طرف ڈالے ہوے تھے اور ایک کندھے پر ڈوپٹہ لاپروائی سے ڈلا ہوا تھا

"حوریب کاٹ کر کھاؤ''

"میرے کو ایسے ہی عادت ہے" اسکے کہنے پر اپنا سر نفی میں ہلاکر اسنے پلیٹ اور چھری نکالی اور وہاں رکھے فروٹس کو پانی سے دھو کر صفائی سے کاٹنے لگا

سیب ختم کرکے حوریب اسکا کاٹا ہوا فروٹ کھانے لگی کچھ ٹکرے اسکے منہ میں ڈال دیتی اور باقی کا خود کھا جاتی

"حوریب ایک بات کہوں"

"ہاں"

"جہاں تک میں نے تمہیں دیکھا ہے کھاتی تو تم سب کچھ ہو"

"تو"

"لیکن طاقت تم میں بلکل بھی نہیں ہے" اسکے کہنے پر حوریب جلدی جلدی اپنا منہ چلانے لگی تاکہ اسے اس بات کا جواب دے سکے جو بھرے ہوے منہ سے وہ دے نہیں سکتی تھی

"بہت طاقت ہے مجھ میں تو نے"

"تم نے" زریام نے اسے ٹوکا

"ہاں تم نے ابھی میری طاقت دیکھی نہیں ہے"

"ہمارے ان پیار بھرے لمحوں میں دیکھ چکا ہوں میں تمہاری طاقت ایک گھنٹے میں ہی بےحال ہوجاتی ہو جس کی وجہ سے مجھے تمہیں جلدی چھوڑنا" اسکی بات سنتے ہی حوریب نے جلدی سے اسٹرابیری اسکے منہ میں ڈالی

"خود بھی کھاؤ اور میرے کو بھی سکون سے کھانے دو" اسنے بنا نظریں ملاے کہا اور پھر سے اپنا منہ چلانے لگی

"میں تو اسے اچھا بھلا شریف انسان سمجھتی تھی لیکن یہ آدمی تو عمران ہاشمی کا بھائی نکلا" یہ بات وہ صرف دل میں ہی کہہ سکی

°°°°°

"تم پریشان لگ رہے ہو" پریشے کی آواز پر اسنے چونک کر اسکی طرف دیکھا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی

"کیا"

"تم پریشان لگ رہے ہو معتصم سب ٹھیک ہے"

"ہاں سب ٹھیک ہے بس میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہا ہوں سب ٹھیک ہے" اسنے مسکرا کر اسے مطمئن کرنا چاہا اور اپنا ہاتھ سر کے پیچھے رکھ کر بیڈ پر لیٹ گیا

وہ واقعی میں کچھ زیادہ سوچ رہا تھا یہ بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی اسنے بنالی تھی

"کچھ برا نہیں ہوگا سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہی رہے گا" خود کو مطمئن کرکے اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں

°°°°°

"ماہیم نے تجھ سے کیا کہا تھا" ٹی وی سے نظریں ہٹا کر اسنے ساحر کی طرف دیکھا جو اس وقت بلیو شرٹ اور بلیک جینز پہنے کھرا تھا یقینا باہر جانے کی تیاری تھی

ٹی وی بند کرکے اسنے اپنا گلا تر کیا اور اسکی طرف متوجہ ہوا

"میری غلطی نہیں ہے میں نے کچھ بھی نہیں کہا جو بھی کہا ہے ماہیم نے کہا ہے تو مجھے کچھ مت کہنا"

"ماہر ماہیم نے کیا کہا تھا"

"اسنے اپنی دوستوں سے یہ کہہ دیا کہ اسکا نکاح مجھ سے ہوا ہے"

"اور اسنے کیا کہا تھا"اسکے ہاتھ اب اپنی شرٹ کی آستینیں فولڈ کررہے تھے جسے دیکھ کر ماہر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا

"دیکھ ساحر ساری غلطی ماہیم کی ہے میں معصوم ہوں"

"ماہر اور اسنے کیا کہا تھا"آستین کونیوں تک فولڈ کرکے اسنے اپنا سوال دہرایا

"اسنے مجھ سے کہا کہ میں جاکر اسکی دوستوں سے ملوں اسکا شوہر بن کر" اپنی بات کہہ کر وہ جلدی سے وہاں سے بھاگ گیا جس پر ساحر نے مسکراتے ہوے اپنا سر نفی میں ہلایا

اسکا پیارا بھائی تو معصوم تھا بلاوجہ میں ڈر کر بھاگ گیا غلطی اسکی بیوی نے کی تھی تو سزا بھی تو اسے ہی ملنی چاہیے

°°°°°

عالم اور عصیم کے ساتھ وہ اس وقت شہر آیا ہوا تھا

ضروری میٹنگ تھی جس میں ان دونوں کی شرکت لازمی تھی اسلیے وہ دونوں یہاں آے تھے جس کی وجہ سے عالم بھی انکے ساتھ آگیا

میٹنگ سے فارغ ہوکر وہ سیدھا وصی کے گھر گیا تھا کیونکہ اسکا ارادہ نور سے ملنے کا تھا

"معتصم انکل کیسے ہیں آپ" اسے دیکھتے ہی ماہیم نے خوشی سے چہکتے ہوے کہا جس پر مسکراتے ہوے معتصم نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے

"میں بلکل ٹھیک ہوں میری جان تم بتاؤ پڑھائی کیسی جارہی ہے"

"بہت اچھی"

"نور کہاں ہے"

"وہ ابھی تک نہیں آئی" اسکے کہنے پر معتصم کی پیشانی پر بل پڑے

"لیکن اس وقت تک تو وہ یونی سے آجاتی ہے"

"یہ تو ماما کو ہی پتہ ہوگا اسے اگر لیٹ آنا ہوتا ہے تو وہ انہیں بتاکر جاتی ہے"

"کہاں ہے عینہ"

"کچن میں"

اسکی بات سن کر پریشانی سے وہ کچن کی طرف جانے لگا جب اسکا فون رنگ ہوا

اسنے فون نکال کر دیکھا جہاں عصیرم کا نام جگمگا رہا تھا نور ابھی تک گھر نہیں آئی تھی اور اسے عصیرم کال کررہا تھا دماغ میں خطرے کا سائرن بجنے لگا

"ہیلو"

"نور کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے معتصم انکل وہ میرے پاس ہے" اسکے کہنے پر معتصم نے کس طرح اپنے غصے کو ضبط کیا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا

"عصیرم میری بیٹی کہاں ہے"

"کہہ تو رہا ہوں میرے پاس ہے"

"اسے لے کر آو"

"میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ نور میری ہے لیکن آپ نے پھر بھی اسے کسی اور کے ساتھ جوڑنا چاہا اور میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا"

"عصیرم میں کہہ رہا ہوں اسے واپس لاؤ"

"نکاح کرکے لے آؤں گا"

"بکواس بند کرو اپنی" اسنے چیخ کر کہا لیکن پھر اپنے لہجے کو قابو میں کیا چیخنے چلانے سے معاملہ مزید بگڑ سکتا تھا

"عصیرم اسے لے کر آو ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں"

"میرے گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو نور وہاں نہیں ملے گی"

اسکی مزید کوئی بات سنے عصیرم نے کال کاٹ دی اور اسکی یہ حرکت معتصم کی پریشانی کو مزید بڑھا چکی تھی

عصیرم پتہ نہیں اسکی بیٹی کے ساتھ کیا کرے گا یہ بات اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی

"کچھ نہیں کرے گا وہ عصیرم کچھ نہیں کرے گا میری بیٹی کو میری بیٹی بلکل ٹھیک ہے اور صحیح سلامت میرے پاس آے گی"اپنی کنپٹیاں سہلا کر وہ خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا

عجیب سی تھکن پورے وجود پر طاری ہورہی تھی

°°°°°

تھکے تھکے قدموں سے وہ ساحر کے کمرے میں داخل ہوا کیونکہ عالم اور عصیم بھی وہیں بیٹھے تھے

"مل لیے تم نور سے" اسے دیکھتے ہی عصیم نے پوچھا جس پر اسنے اپنے لب بھینچ کر اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں وہ یہاں نہیں ہے"

"لیکن اس وقت تو وہ آجاتی ہے"

"عصیرم اسے لے گیا" اسکے کہنے پر ان دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا

"کیا مطلب کہاں لے گیا"

"وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا میں اسی بات سے تو ڈرتا تھا میں نے پریشے کے ساتھ یہی تو کیا تھا اسکے ساتھ زبردستی نکاح کیا اسے اپنے ساتھ زبردستی باندھ کر رکھا اور اب میری بیٹی کے ساتھ بھی شاید وہی سب ہو"

"معتصم کچھ نہیں ہوگا نور کو اور نہ ہی تم نے کچھ غلط کیا تھا نکاح کیا تھا تم نے پریشے سے اسے اپنے ساتھ جائز رشتے میں باندھا تھا عصیرم کو کال ملاؤ اسے کہو نور کو لے کر آے ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں" عالم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی اور بنا اسکے کسی عمل کا انتظار کیے اسکی جیب سے فون نکال لیا ارادہ عصیرم کو کال ملانے کا تھا

"مجھے میری بیٹی واپس چاہیے مجھے میری نور واپس چاہیے پلیز اسے لے کر آؤ" اسکی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے اور اسکی حالت عالم اور عصیم کو پریشان کررہی تھی

"معتصم کچھ نہیں ہوگا نور کو ابھی آجاے گی وہ"

عصیم نے اسے تسلی دی لیکن وہ اسکی تسلی نہیں سن رہا تھا اسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا اسے بس تکلیف ہورہی تھی کہاں یہ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا بس آخری چیز جو اسنے دیکھی تھی وہ یہ تھی کہ عالم اور عصیم پریشانی سے اسے پکار رہے تھے

°°°°°

"ماہر سر"

اسنے مڑ کر دیکھا جہاں عزہ بھاگتی ہوئی اسکے قریب آرہی تھی

بلیو جینز اور پیرٹ گرین کلر کی کرتی پہنے ڈوپٹہ گلے میں مفلر اسٹائل کی طرح ڈالے بالوں کی اونچی پونی بناے وہ ہمیشہ کی طرح سادہ سی تھی

اسکے قریب آکر وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی کیونکہ بھاگنے کی وجہ سے اسکا سانس پھول چکا تھا

"عزہ میرے پاس موبائل اور والٹ دونوں ہیں" اسکے کہنے پر عزہ بےاختیار ہنسی

"نہیں آپ نے ہی تو کہا تھا کہ کلاس ختم ہونے کے بعد آپ سے ملوں آپ مجھے اور میشال کو ٹاپک سمجھا دیں گے"

"سوری میں بھول گیا تھا چلیں میرے آفس روم میں آجائیں اور میشال کو بھی لے آئیں" اسکے کہنے پر اپنا سر ہلاکر وہ میشال کو بلانے چلی گئی

اس پوری یونیورسٹی میں ماہر اسکا فیورٹ ٹیچر تھا اس سے کتنے بھی سوال کتنی بار بھی کرلیے جاتے بنا اف کیے وہ آرام سے سمجھا دیتا تھا

°°°°°

"آپ اتنی جلدی آگئے مجھے تو لگا تھا مہینے بعد آپ سے ملاقات ہوگی" اسکے ڈرائینگ روم میں آتے ہی نور نے کہا

اسے یونیورسٹی سے عصیرم نے ہی پک کیا تھا اور عینہ کو اسنے میسیج کرکے بتادیا تھا کہ وہ دوست کے ساتھ جارہی تھی

اس وقت وہ مزے سے بیٹھی سامنے ٹیبل پر رکھے ڈھیروں لزومات سے انصاف کررہی تھی

اگر اسے پتہ چل جاتا کہ اسکی غیر موجودگی نے اسکے باپ کو کتنا بےچین کر رکھا تھا تو کبھی بھی اتنے اطمینان سے نہیں بیٹھی ہوتی

"تمہاری یاد آرہی تھی بس اسلیے واپس آگیا" اسنے پیار بھری نظروں سے نور کو دیکھا جو اپنے کھانے میں مگن تھی پہلی بار تو عصیرم نے اسکی اپنے گھر پر اتنی خاطر تواضع کی تھی اسلیے وہ وہ بھرپور طریقے سے انصاف کررہی تھی

"آپ بھی کھالیں ورنہ مجھے اچھا نہیں لگے لگا"

''تم کھالو تمہیں کھاتا دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے"

اسکا ارادہ تھوڑی دیر میں نور کو واپس گھر چھوڑ کر آنے کا تھا اپنے ساتھ وہ اسے صرف اسلیے لایا تھا تاکہ معتصم کو دھمکا سکے ہاں اگر معتصم نے دوبارہ رشتے سے انکار کیا یا پھر نور کی شادی اسکے علاؤہ کسی اور کے ساتھ کرنے کے بارے میں سوچا تو وہ اپنے کہے پر عمل کرنے میں دیر نہیں لگاے گا

چاہے زبردستی یا پھر اسکی رضا سے لیکن نور شاہ کو ہر طرح اپنا بنا لے گا

اسکی سوچوں کو فون کی آواز نے توڑا اسنے اپنا موبائل نکال کر دیکھا اور جلدی سے کال پک کی

جہاں دوسری طرف کی بات سنتے ہی چہرے پر موجود سنجیدگی مزید بڑھ گئی

"کونسا ہاسپٹل ہے"

°°°°°

''شاہ میر مجھے کام کرنے دیں" اسنے جھنجھلا کر شاہ میر کو پیچھے کرنا چاہا جو کسی ایلفی کی طرح اسکے ساتھ چپکا ہوا اپنی بےباک حرکتیں دکھا رہا تھا

اسکے کہنے پر ہی وہ اسکے لیے کچن میں کھانا بنانے آئی تھی اور جب سے وہ آئی تھی تب سے وہ اسے تنگ کیے جارہا تھا

"کتنی سلو کام کرتی ہو تم"

"آپ کی وجہ سے میں کام ٹھیک سے نہیں کرپارہی ہوں"

"اتنی بھوک لگ رہی ہے مجھے اور جب تک تم مجھے کچھ کھانے کو نہیں دوگی میں اسی طرح کی حرکتیں کرتا رہوں گا اب اپنے کام پر توجہ دو ورنہ زیادہ دیر لگی تو کھانے کے بجاے تمہیں ہی کھاو جاؤں گا" مسکراتے ہوے اسنے حیات کے گال پر اپنے لب رکھے جب اسے پریشے کی آواز سنائی دی جو اسے ہی پکار رہی تھی شاہ میر جلدی سے پیچھے ہٹا کیونکہ اسے ڈھونڈتی ہوئی وہ کچن تک آچکی تھی

"شاہ میر"

"کیا ہوا بڑی ماما آپ پریشان لگ رہی ہیں"

"معتصم کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے وہ ہاسپٹل میں ہے مجھے اسکے پاس جانا ہے پلیز جلدی گاڑی نکالو" اسکے کہنے پر شاہ میر جلدی سے باہر بھاگا

تھوڑی دیر میں ہی حویلی میں موجود تمام خواتین شاہ میر کے ساتھ وہاں سے نکل چکی تھیں

°°°°°

گھر کے سارے افراد ہاسپٹل میں موجود پریشانی سے معتصم کی صحت یابی کے لیے دعا کررہے تھے

جن میں آئرہ اور کسوا پریشے اور نور کو تسلی دے رہی تھیں جو کب سے روے جارہی تھیں اور عصیرم تکلیف سے روتی ہوئی اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا

اسے یہ سب اپنا قصور لگ رہا تھا معتصم کی اس حالت کا ذمیدار وہ خود کو ٹہرا رہا تھا

کتنا وقت ایسے ہی گزر گیا جب ڈاکٹر روم سے باہر نکلا اسے دیکھ کر پریشے بےتابی سے اسکی جانب بڑھی

"میرے ہزبینڈ کیسے ہیں"

"وہ اب بلکل ٹھیک ہیں خطرے والی کوئی بات نہیں ہے" ڈاکٹر کے کہنے پر سب نے سکون بھرا سانس لیا

ایسا لگ رہا تھا جیسے اٹکی ہوئی سانسیں بحال ہوگئی ہوں

°°°°°

ہوش میں آتے ہی اسنے سب کی طرف دیکھ کر اپنا مطلوبہ چہرہ ڈھونڈنا چاہا جو اسے مل بھی گیا

اپنا ہاتھ بڑھا کر اسنے نور کو اپنے پاس بلایا

اسکے ایسا کرتے ہی نور جلدی سے آگے بڑھی اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا اسکا لمس پاکر معتصم نے سکون سے آنکھیں موندے لیں اسکی بیٹی اسکے پاس تھی اسکے قریب

"آپ ٹھیک ہیں بابا سائیں"

"ہاں میری جان اب میں بلکل ٹھیک ہوں"

اگلا چہرہ جو اسنے دیکھا تھا وہ تھا اپنی جان سے عزیز بیوی کا جس نے رو رو کر اپنا حشر بگاڑ لیا تھا

اسکے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھر گئی اسے اپنے لیے پریشے کی فکرمندی ہمیشہ ہی اچھی لگتی تھی

"مجھے عصیرم سے اکیلے میں بات کرنی ہے" اسکے کہنے پر سب آہستہ آہستہ کمرے سے جاچکے تھے

انکے جاتے ہی کمرے کا ماحول خاموش ہوگیا اور اس خاموشی کو معتصم کی آواز نے توڑا

"تم شرمندہ لگ رہے ہو" اسکے لہجے میں نقاہت تھی لیکن وہ پہلے کی نسبت کافی زیادہ بہتر لگ رہا تھا

"ہاں میں ہوں"

"عیصرم تم میرے لیے ہمیشہ سے خاص تھے اور اب بھی ہو بس میں اپنی بیٹی کے معاملے میں ڈر گیا تھا" وہ رک رک کر اپنے الفاظ ادا کررہا تھا

"مجھے تمہاری اور نور کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں بس ڈر گیا تھا لیکن میرا یہ ڈر بلاوجہ تھا جسے میں ختم کرچکا ہوں"

"مطلب آپ راضی ہیں"اسکے لہجے میں ایک دم خوشی کا تاثر ابھرا

"میں راضی ہوں پر آخری فیصلہ میرا نہیں ہوگا"

"نور کا ہوگا"

"نہیں"اسکے کہنے پر عصیرم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا

"تو پھر"

"اس سے پہلے اسکے بھائیوں کا فیصلہ ہوگا وہ نور کو اتنی آسانی سے کسی کے ساتھ رخصت نہیں کرینگے اگر تم انہیں انکی بہن کے لائق لگے تو ہی وہ اس رشتے کو آگے بڑھنے دیں گے" اسکے کہنے پر عصیرم فقط گہری سانس لے کر رہ گیا

ایک بھی نہیں دو بھی نہیں یہاں تو اسکے پانچ پانچ سالے تھے جنہیں کسی بھی طرح اسے راضی کرنا تھا وہ سوچ کر رہ گیا

°°°°°

شاہ حویلی کو کسی دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا ہر طرف پھولوں کی سجاوٹ اور لائیٹوں کی روشنی ہورہی تھی

اتنی سجاوٹ کیوں نہ ہوتی آخر شاہ حویلی کے مکینوں کی جان کی رسم مایوں تھی

ہر کوئی تیاری کرنے میں مصروف تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی جگہ پر بھی کسی طرح کی کوئی کمی آئے

لیکن یہ الگ بات تھی کہ آنکھیں سب کی بھیگ رہی تھیں کبھی خوشی میں تو کبھی نور شاہ کے خود سے دور جانے کے غم میں

بھلا کس نے سوچا تھا کہ انکی چھوٹی سی پرنسسز اتنی جلدی رخصت ہوجاے گی لیکن وہ ہورہی تھی

آج مایوں کا فنکشن تھا اور دو دن بعد رخصتی

°°°°°

عصیرم نے شرٹ کا پہلا بٹن کھولا اور گلا کھنکارتے ہوے کوٹ اتار دیا

معتصم نے ہاسپٹل سے گھر آتے ہی ان سب کو یہ بات بتادی تھی کہ عصیرم نور سے شادی کا خواہش مند ہے جس کے بعد وہ سب اس سے اپنے گھر پر ملاقات کرنا چاہتے تھے

اس وقت وہ وصی کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا

وہ اتنا نروس ہونا نہیں چاہتا تھا لیکن وہاں بیٹھے ان چھ افراد کی نظریں اس پر اس طرح سے جمی ہوئی تھیں کہ وہ شخص جو ہزاروں لوگوں کے بیچ میں اتنے اعتماد سے بات کرتا تھا اس وقت کنفیوژ ہورہا تھا

"یہ کون ہے" اپنی نروسنیس پر قابو پاکر اسنے خود کو گھورتے ایہاب کی طرف اشارہ کیا

"میں ایہاب ہوں" اسنے خود ہی اپنا تعارف کروایا

"لیکن تم نور کے بھائی تو نہیں ہو"

"ہوں تو پر میں بس یہاں مزے لینے بیٹھا ہوں"

"آہان اسے باہر نکال" زریام کے کہنے پر آہان نے اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے زبردستی کمرے سے باہر نکالا اور دروازہ لاکڈ کردیا تاکہ وہ ڈھیٹ بندہ دوبارہ اندر نہ آجائے

"تو تم نور سے شادی کرنا چاہتے ہو" ساحر نے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا جس پر اسنے اپنا سر ہلایا

"ہاں"

"کیوں" اس بار سوال ماہر کی طرف سے آیا

عصیرم نے غور سے ان دونوں کو دیکھا اس وقت ان دونوں نے ایک جیسی وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیو جینز پہن رکھی تھی

اسے بس اتنا پتہ تھا ایک ان میں سے ایک ساحر ہے اور ایک ماہر لیکن کونسا والا کون تھا یہ اسے نہیں پتہ تھا

"میں محبت کرتا ہوں نور سے"

"محبت ایک چھوٹا سا لفظ ہے بس اس وجہ سے ہم اپنی بہن کو تمہیں سونپ دیں" زریام نے بغور اسکا جائزہ لیا

"آپ بھول رہے ہیں زریام شاہ جب آپ نے شادی کی تھی تو اسی ایک چھوٹے لفظ کا استعمال کیا تھا" اسکے کہنے پر زریام فورا سیدھا ہوا

"تمہیں کیسے معلوم"

"میں جانتا ہوں آپ کے بھائی شاہ میر جسے گھر میں سب نکما کہتے ہیں"

"سب نہیں کہتے صرف بابا سائیں اور میرے بھائی کہتے ہیں" شاہ میر نے اسکی غلطی درست کی

"ہاں وہی شاہ میر جس نے آج تک اپنے باپ کے کہنے پر کوئی جوب نہیں کی اسنے کل کی آئی لڑکی کے لیے جوب شروع کردی کیوں اسی ایک چھوٹے سے لفظ کی وجہ سے محبت" اسنے "محبت" لفظ پر زور دیا

جبکہ اسکی بات سنتے ہی شاہ میر نے داد دیتے انداز میں تالیاں بجائیں

"میری طرف سے تو ہاں سمجھو یہی انسان میرا بہنوئی بنے گا"اسنے اپنا حتمی فیصلہ سنایا جس پر کسی نے غور نہیں کیا

"ساحر شاہ آپ کی کہانی بھی تھوڑی بہت پتہ ہے کہیں تو سنادوں"

"میری کہانی چھوڑو عصیرم اور مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں یہ سب کیسے پتہ"

"جھوٹ نہیں کہوں گا آپ کا ملازم ہے جو میرے کہنے پر مجھے ساری خبریں دیتا ہے قیمت لے کر"

''کون ہے وہ اور تم یہ کام کب سے کررہے ہو" ماہر نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا

"ویسے یہ کام میں نے بس تب سے شروع کیا تھا جب میری نور سے دوستی ہوئی تھی اور جہاں تک بات ہے کہ وہ کون ہے تو یہ میں نہیں بتانے والا"

"ہم خود پتہ کر لینگے" آہان کے کہنے پر اسنے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا

"آپ کی حویلی میں تیس سے زائد ملازم کام کرتے ہیں معتصم انکل کے گھر پر ہر وقت سرونٹ کوارٹرز میں دو ملازمہ اور دو گارڈز موجود ہوتے ہیں اور اس وقت جس گھر میں ، میں بیٹھا ہوا ہوں یہاں بھی پانچ سے زائدہ ملازم ہیں اسکے علاؤہ بچے شاہ انڈسٹری کے ورکرز تو ان سب کو ملا کر اگر آپ ڈھونڈ سکتے ہیں کہ وہ کون ہے جو مجھے یہاں کی ساری خبریں دیتا ہے تو آپ کی مرضی ہے میں انکار نہیں کروں گا" اسنے اطمینان بھرے انداز میں جواب دیا

°°°°°

نور حیات حوریب اور ماہیم اس وقت گھر پر موجود نہیں تھیں کیونکہ نور انہیں زبردستی اپنے ساتھ شاپنگ پر لے کر جاچکی تھی

اس وقت سب لاؤنج میں بیٹھے ڈرائینگ روم کا دروازہ کھلنے کا انتظار کررہے تھے جو چالیس منٹ سے بند پڑا تھا سب آرام سے بیٹھے ہوے تھے لیکن کسوا میں اتنا صبر نہیں تھا کہ اتنی دیر تک دروازہ کھلنے کا انتظار کرتی

اسلیے کب سے کھڑی وہ اندر ہوتی باتوں کو سننے کی کوشش کررہی تھی جس میں عالم اسکا بھرپور ساتھ دے رہا تھا

"لالا کوئی آواز ہی نہیں آرہی ہے"

"مجھے ہلکی ہلکی آرہی ہے اس طرف آؤ" کسوا کا ہاتھ پکڑ کر اسنے اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا جہاں سے اب ہلکی ہلکی باتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی

لیکن سمجھ کچھ نہیں آرہا تھا

"عالم بند کریں یہ بچوں والی حرکتیں" آئرہ نے دانت پیستے ہوے اسے ٹوکا اور اسکے تیسری بار بولنے پر شاید عالم پر اثر ہو ہی گیا جو واپس جاکر اسکے برابر میں بیٹھ گیا لیکن کسوا ابھی تک وہیں پر کھڑی تھی

"پتہ ہے عصیم میں کیا سوچتا ہوں" معتصم نے اپنے برابر بیٹھے عصیم کو مخاطب کیا جو کسوا کی طرف دیکھ رہا تھا

"کیا سوچتے ہو"

"جب اسکی تم سے شادی ہورہی تھی اور وہ راضی نہیں تھی تو میں یہی سوچتا تھا کہ اسکی شادی تم سے نہ ہونے دوں پر میں یہ کام کبھی نہیں کر پایا کیونکہ میں جانتا تھا تم کسوا سے کتنی محبت کرتے ہو اور اب میں سوچتا ہوں اچھا ہی ہے جو میں نے یہ کام نہیں کیا"

"کسوا کو تم سے بہتر ہمسفر کوئی نہیں مل سکتا تھا تم اسے سمجھتے ہو کوئی اور اسے اس طرح سے نہیں سمجھ سکتا اگر اسکی شادی کسی اور جگہ ہوجاتی تو شاید اس کا یہ بچپنا بھی ختم ہو جاتا لیکن تم نے ایسا نہیں ہونے دیا"

"کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ بدلے وہ مجھے ایسے ہی پسند ہے ہاں اسے ہینڈل کرنا تھوڑا مشکل ہے پر وہ جیسی بھی ہے میرے لیے خاص ہے"

اسنے نظریں گھما کر واپس کسوا کی طرف دیکھا جب کمرے کا دروازہ کھلا اور کسوا باہر نکلتے ساحر کے سینے سے ٹکرائی

"اماں سائیں آپ ہماری باتیں سن رہی تھیں" اسے دیکھتے ہی ساحر نے صدمے سے کہا اسے اپنی ماں سے اس چیز کی امید نہیں تھی

"نہیں تو میں تو چائے لے کر آئی تھی"

"پر چائے تو کہیں نہیں ہے"

"ہاں تو پوچھنے آئی تھی نہ عصیرم چائے پیتا ہے یا نہیں" اسے جواب دے کر وہ وہاں سے چلی گئی اور ساحر اسے یہ بھی کہ کہہ سکا کہ جس چائے کا پوچھنے آئیں تھیں وہ تو پوچھ لیتیں

°°°°°

"نور میری جان میں تمہارے لیے بہت بڑی خوش خبری لے کر آئی ہوں" اسکے گھر آتے ہی کسوا تیزی سے اسکے کمرے میں داخل ہوئی

"کیسی خوش خبری"

"تمہارا رشتہ پکا ہونے جارہا ہے" اسکی بات سن کر شاپنگ بیگ میں سے سامان نکالتے اسکے ہاتھ تھمے

"کیا کہا آپ نے"

"تمہارا رشتہ پکا ہونے جارہا ہے"

"کس کے ساتھ"

"عصیرم کے ساتھ"

"آپ سچ کہہ رہی ہیں" لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ پھیل گئی

"ہاں بلکل"

"اور باقی سب راضی ہوگئے بابا سائیں اماں سائیں لالا وغیرہ اور یہ بات کس نے کہی ہے کیا عصیرم نے خود کہی ہے" وہ ابھی تک بے یقینی سے کسوا کو دیکھ رہی تھی

"ہاں عصیرم نے خود کہی ہے اور سب راضی ہوگئے تم اپنی بات کرو تمہیں خوشی ہوئی سن کر"

"جی"

"تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے"

"نہیں پھوپھو سائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں" جھجکتے ہوے اسنے اپنی رضامندی دے دی جبکہ اسکے کہنے پر اسے پیار کرکے کسوا واپس باہر چلی گئی اور نور کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی

بھلے اسنے عیصرم کے بارے میں کبھی ایسا کچھ نہیں سوچا تھا پر کتنا اچھا ہوتا اگر اسکا دوست ہی اسکا محرم بن جاتا

°°°°°

"میں نے نور کو بتادیا ہے عصیرم کے بارے میں" اسکے کہنے پر عصیم نے گہرا سانس لے کر اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مارا

"کسوا تم سے کس نے کہا تھا یہ بات بتانے کے لیے" عالم کے کہنے پر اسنے اپنی انگلیاں مڑوڑیں وہ تو ایک اچھا کام کرکے آئی تھی پھر سب اسے اس طرح کیوں دیکھ رہے تھے

"کیوں کچھ غلط کردیا کیا"

"عصیرم نے کہا تھا یہ بات نور کو نہ پتہ چلے"

"پر شادی ہوتی تب بھی تو پتہ چلتی"

"وہ خود اسے یہ بات بتانا چاہتا تھا لیکن اب تم نے اسکا سارا سرپرائز خراب کردیا"عالم کے کہنے پر وہ منہ لٹکا کر وہاں سے جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر معتصم نے اسے اپنے قریب بٹھا لیا

"لالا میں تو اچھا کام کرنے گئی تھی"

"بلکل میرا بچہ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے یہ سب فضول میں بول رہے ہیں تم بتاؤ مجھے نور نے تمہاری بات سن کر کیا کہا"

معتصم کے کہنے پر وہ اپنا موڈ ٹھیک کرکے وہ اسے خوشی خوشی ساری بات تفصیل سے بتانے لگی

°°°°°

معتصم کے مکمل طور پر صحت یاب ہوتے ہی گھر میں نور کی شادی کی بات چلنے لگی

عصیرم کو وہ سب جانتے تھے اور اسے پسند بھی کرچکے تھے لیکن عصیرم چاہتا تھا کہ اسکے دادا جان خود آکر اسکے رشتے کی بات کرتے جیسے ہر نارمل شادی میں کی جاتی ہے

دادا جان خود بھی معتصم کو اچھے سے جانتے تھے اسلیے انہیں بھی کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں ہوا

دادا جان سے چند ایک ملاقات کے بعد انکی شادی کی تاریخ طے کردی اور دو ہفتے بعد انکی شادی کی رسمیں شروع ہوجانی تھیں

یہ بھی دادا جان کا ہی فیصلہ تھا کہ مختصر وقت میں ہی یہ شادی بس جلد از جلد کردی جاتی

°°°°°

"بڑے بابا میں آجاؤں" آہان کی آواز پر معتصم نے اسکی طرف دیکھا جو ڈراک بلیو شرٹ کے ساتھ براؤن جینز پہنے دروزے میں کھڑا اس سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بے ترتیبی سے بکھرے ہوے تھے

"آجاو"

"کچھ پوچھنا تھا"

"ہاں پوچھو"

"آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ میں نور سے شادی کرلوں" اسنے سنجیدہ نظروں سے معتصم کی طرف دیکھا جو اسکی بات سن کر مسکرا اٹھا

"پریشان کردیا تھا نہ میں نے تمہیں"

"ہاں ویسے کر تو دیا تھا"

"ہر بات پر پریشان کیوں ہوجاتے ہو"

"یہ بات مجھے پریشانی کی ہی لگی آپ نے اچانک مجھ سے کہا کہ میں نور سے شادی کرلوں پھر آپ نے عصیرم بھائی کے ساتھ اسکی شادی طے کردی"

جب سے نور اور عصیرم کا رشتہ پکا ہوا تھا تب سے آہان اسے بھائی ہی کہتا تھا

"آہان بھول جاؤ میں نے ایسا کچھ کہا تھا تمہاری بہن کی شادی ہونے والی ہے اسے انجواے کرو اور بات بات پر پریشان ہونا چھوڑ دو عالم شاہ کے بیٹے ہو تم یہ پریشانی تم پر نہیں جچتی ہے" معتصم نے اسکے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیر کر انہیں مزید بےترتیب کردیا

°°°°°

غصے سے اپنے دونوں ہاتھ باندھے وہ ساحر کو گھور رہی تھی

اس وقت وہ ساحر کے آفس روم میں بیٹھی ہوئی تھی وہ بھی صرف اسکی وجہ سے

پہلے یونیورسٹی جاکر اسکی دوستوں کے سامنے اپنا اچھا سا تعارف کروایا اور خاص ساحر لفظ پر زور دے کر انہیں یہ بتایا کہ اسکا نکاح ساحر سے ہی ہوا ہے اور اسکے بعد اسے یہاں لے کر آگیا اور پچھلے پندرہ منٹ سے وہ اسی طرح اسے گھور رہی تھی

"مجھے گھر جانا ہے"

"شرافت سے بیٹھی رہو"

"آپ مجھے زبردستی نہیں بٹھا سکتے ایک تو پہلے ہی میری دوستوں کے سامنے آپ نے یہ سب کہہ دیا اب وہ میرا اتنا مذاق اڑائیں گی"

"غلطی تمہاری تھی تم نے کیوں غلط بیانی کی تھی اب غلطی کی ہے تو سزا بھگتو اور جب تک میرا کام ختم نہیں ہوتا تم یہیں بیٹھی رہو گی میری نظروں سے حصار میں"

"تو آپ نے مجھے سزا دینے کے لیے یہاں بٹھایا ہے" اسکے کہنے پر ساحر نے لاپروائی سے اپنے کندھے اچکاے

"جو سمجھنا چاہو سمجھ لو"

"میں بور ہورہی ہوں اپنا موبائل ہی دے دیں"

"تم کیا کرو گی" مصروف سے انداز میں اسنے ٹیبل پر رکھی چند فائلوں میں سے ایک اٹھائی

نور کی شادی سے پہلے پہلے وہ یہ تمام کام نمٹا دینا چاہتا تھا

"گیم کھیلوں گی میرا موبائل گاڑی میں رہ گیا ہے" اسکے کہنے پر ساحر نے اپنا موبائل اسے دیا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا

"ساحر"

اسکے کہنے پر بےاختیار ساحر کے لب مسکرا اٹھے

"ہمم"

"پاسورڈ کیا ہے"

"جان ساحر"

اسکی بات سن کر وہ پاسورڈ کھولنے لگی لیکن موبائل پھر بھی لاک ہی رہا

"یہ تو کھل ہی نہیں رہا"

"تم نے کیا لکھا" اس بار چہرہ اٹھا کر اسنے ماہیم کی طرف دیکھا

"جان ساحر"

"ماہیم جان ساحر سے مراد جو ساحر کی جان ہے" اسکے کہنے پر شرمیلی سی مسکراہٹ نے ماہیم کے لبوں کو چھوا اور اسنے ماہیم لکھ دیا اور ایسا کرتے ہی موبائل ان لاک ہوگیا

ارادہ تو موبائل میں گیم کھیل کر ٹائم پاس کرنے کا تھا

لیکن کچھ سوچ کر وہ اپنا نمبر ملانے لگی ارادہ یہ دیکھنے کا تھا کہ ساحر نے اسکا نام کس سے سیو کیا ہے اور دیکھ بھی لیا

وہاں جان لکھا ہوا تھا لیکن اسے یہ لفظ ادھورا سا لگ رہا تھا

اسلیے کچھ سوچ کر مسکراتے ہوے اسے جان سے جان ساحر کردیا

°°°°°

اجازت لے کر سیف اندر داخل ہوا اور ہاتھ میں پکڑی فائل ساحر کی طرف بڑھائی جبکہ نظریں بار بار گھومتی ہوئی موبائل میں مگن ماہیم پر جارہی تھیں

فائل بند کرکے اسنے سیف کی طرف دیکھا اور اسکی نگاہوں کا رخ دیکھ کر پیشانی پر لاتعداد بل پڑے

"سیف"اسکے پکارنے پر سیف نے چونک کر اسے دیکھا

"جی سر"

"اگر چاہتے ہو یہ نظریں کہیں اور دیکھنے کے قابل رہیں تو ابھی کے ابھی یہاں سے دفعہ ہوجاؤ" اسکی آواز ہلکی تھی لیکن لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی

اسکے کہنے پر سیف نے گھبرا کر جلدی سے اپنا سر ہلایا اور واپس چلا گیا اسکے جانے کے بعد ساحر نے موبائل میں گم ماہیم کی طرف دیکھا

"ماہیم نیچے جاؤ میں بس پانچ منٹ میں آرہا ہوں پھر گھر چلتے ہیں"

وہ ٹیبل پر رکھی فائلوں کو سمیٹنے لگا اور اسکے کہنے پر ماہیم نے اپنا سر ہلا کر اسکا موبائل ٹیبل پر اسکے قریب رکھا اور باہر چلی گئی

فائلیں سمیٹ کر اسنے اپنا سامان اٹھایا جب موبائل پر میسیج رنگ ٹون بجی

جہاں ماہیم کا میسیج آیا ہوا تھا

اسنے حیرت سے اس نام کو پڑھا لیکن پھر مسکرا دیا یہ حرکت یقینا ماہیم کی تھی اور میسیج بھی صرف اسی لیے کیا ہوگا تاکہ وہ اس کے لکھے نام کو پڑھ لے

°°°°°

حویلی میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر لان میں بیٹھے آہان پر پڑی

کم وقت تھا اور تیاریاں زیادہ کرنی تھیں اسلیے زریام جب حویلی آیا تو اسے بھی ساتھ لے آیا تھا ویسے بھی اسکی یونیورسٹی اب ختم ہوچکی تھی جبکہ نور اور ماہیم کی ہونے والی تھی

ایک بات جو زریام نے دیکھی تھی وہ جب سے آیا تھا تب سے پریشان ہی تھا

"کیا ہوا ایسے منہ لٹکا کر کیوں بیٹھے ہو"زریام کی آواز سنتے ہی اسنے چونک کر اپنا سر اٹھایا

"لالا آپ کب آے" ایک طرف ہوکر اسنے زریام کے لیے جگہ بنائی

"جب تم کسی کے خیالوں میں گم تھے"

"ہاں تھا تو میں کسی کے خیالوں میں ہی گم"مسکراتے ہوے اسنے اعتراف کیا

"اچھا کون ہے وہ جس نے آہان شاہ کے خیالوں پر قبضہ کرلیا ہے"

"شانزے میری دوست وہ مجھ سے ناراض ہے اور میں بس اسی لیے پریشان ہوں"

"تو اسے فون کرلو"

"کیا ہے پر وہ پک نہیں کررہی ہے ویسے وہ زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہتی ہے پر اس بار پتہ نہیں کیسے مانے گی میں نے اس پر بہت غصہ کیا تھا اور پہلی بار کیا تھا"

"تو جاکر اس سے مل لو"

"میں انتظار کررہا تھا جب نور کی شادی ہوجاے گی تب جاکر اس سے ملوں گا فلحال یہاں بہت کام پڑے ہیں میں کیسے چلا جاؤں"

"کام ہوتے ہی رہتے ہیں آہان اتنے ملازم ہیں یہاں پر ہو جاے گا لیکن تم فرصت ملتے ہی اس سے ملنے جاؤ گے"

"جیسا آپ کا حکم" اسنے مسکراتے ہوے اپنے سر کو خم دیا اور اسکے مسکرانے پر زریام نے سکون بھرا سانس لیا

°°°°°

"چل جو بھی ہے سب نکال دے" دو نقاب پوش آدمی اس پر گن تانے کھڑے تھے اور وہ بیچارا گھبراہٹ میں کچھ کہہ بھی نہیں پارہا تھا

"میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے بھائی" اسنے ڈرتے ہوے کہا جبکہ نظریں اس کے ہاتھ میں موجود گن پر تھیں

"جیبیں چیک کر اسکی"اس نقاب پوش آدمی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا جو اسکی جیبیں چیک کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن تب ہی کسی نے اسکے سر پر پتھر مارا

ان دونوں کے ساتھ ساتھ ایہاب نے بھی اس طرف دیکھا جہاں کھڑی میشال روڈ پر پڑے کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے سائز کے پتھر اٹھا اٹھا کر انہیں ماررہی تھی

انکا ارادہ اسکی طرف بڑھنے کا تھا لیکن اسکے مسلسل پتھروں کی بارش کرنے سے وہ دونوں جلدی سے اپنی بائیک پر بیٹھے اور وہاں سے بھاگ گئے

انکے جانے کے بعد ایہاب نے شکر بھرا سانس لیا وہ ان میں سے ایک آدمی کے پیچھے کھڑا تھا اسلیے بچت ہوگئی ورنہ میشال کی کی ہوئی بارش میں اسے بھی بھیگ جانا تھا

"تھینک یو" اسکے قریب آکر ایہاب نے شکریہ ادا کیا

"ایسے کیوں کھڑے ہوے تھے خود کا بچاؤ کیوں نہیں کیا"

"انکے پاس گن تھی میں کیا کرسکتا تھا"

"نکلی گن تھی"

"تمہیں کیسے پتہ"

"اصلی ہوتی تو چلاتے نہ کہ میرے پتھر کھاتے" اسکی بات سمجھ کر ایہاب نے اپنا سر ہلایا

"پر اصلی ہوتی اور تمہیں لگ جاتی تو" اسنے میشال کی طرف دیکھا اور دل کے اونچے مقام پر اسے بٹھایا کتنی اچھی لڑکی تھی وہ اسکے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کی اور اسے بچانے آگئی

"اتنی بھی بہادر نہیں ہوں اسلیے گاڑی کے پیچھے کھڑی تھی تاکہ گولی چلاتے تو پتہ چلا جاتا اصلی گن ہے اور پھر میں اپنی گاڑی میں بیٹھ کر بھاگ جاتی"

"مجھے چھوڑ کر"اسنے صدمے سے کہا جبکہ دل میں جو اسے اونچے مقام پر بٹھایا تھا وہ مقام واپس گرادیا

"کیوں تم کیا میرے ماموں کے بیٹے لگتے ہو جو تمہارے انتظار میں کھڑی رہتی"

"انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے"

"یہ انسانیت ہی تھی جو تمہاری مدد کی ہے اب بیٹھ رہے ہو تو بیٹھو گھر چھوڑ دیتی ہوں تمہیں" اسکے کہنے پر ایہاب منہ بنا کر اسکی گاڑی میں بیٹھ گیا

کیونکہ اکیلے تو اس وقت وہ اب پیدل گھر واپس جانے والا نہیں تھا اسکی بائیک بھی اسکے پاس نہیں تھی جو اسی پر چلا جاتا ایسے میں میشال کی آفر ریجیکٹ کرنا اسے صرف بیوقوفی لگی

°°°°°


"ادھر ادھر کہاں بھاگی جارہی ہو" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی حوریب تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے میں باہر جانے لگی جب زریام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچ لیا

"وہ اماں سائیں نے بلایا تھا تو بس انکے پاس جارہی تھی"

"کیوں بلایا تھا"

"وہ کچھ مہمان آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ میرے کو ان سے ملوائینگی"

"بلکل تم ملنا ان سے لیکن ابھی نہیں صبح ویسے بھی اماں سائیں کو بلکل اچھا نہیں لگے گا تم انکے بیٹے کو چھوڑ کر باہر لوگوں سے مل رہی ہوگی''

"زریام چھوڑو مجھے جانا ہے"

"یوں کہو مجھ سے بھاگنا ہے"

"اچھا انہیں بتا تو دوں وہ میرا انتظار کررہی ہوں گی بس بتاکر آجاتی ہوں"حوریب کے کہنے پر اسنے اپنی نظریں دوڑائیں اور دور کھڑی ملازمہ اور اپنے پاس بلایا

"جی صاحب" ملازمہ نے اسکے قریب آکر پوچھا

"اماں سائیں سے کہنا زریام صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے حوریب بی بی انکے پاس ہیں اسلیے وہ مہمانوں سے نہیں مل سکتی ہیں" زریام کے کہنے پر ملازمہ جی اچھا کہتی وہاں سے چلی گئی

اسکے جاتے ہی زریام واپس اندر کمرے میں گیا اور دروازہ بند کرلیا جبکہ حوریب تو بس منہ کھولے اس جھوٹے کو دیکھ رہی تھی

"جھوٹے کیا ہوا ہے تمہاری طبیعت کو"

"ہوا ہے نہ میری طبیعت خراب ہے اور تم اب ایک اچھی بیوی بن کر دکھاؤ اور اپنے شوہر کی خدمت کرو"

زریام نے اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنے قریب کیا اور اسکے سرخ لبوں پر جھک گیا

°°°°°

شاہ حویلی کو کسی دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا ہر طرف پھولوں کی سجاوٹ اور لائیٹوں کی روشنی ہورہی تھی

اتنی سجاوٹ کیوں نہ ہوتی آخر شاہ حویلی کے مکینوں کی جان کی رسم مایوں تھی

ہر کوئی تیاری کرنے میں مصروف تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی جگہ پر بھی کسی طرح کی کوئی کمی آئے

لیکن یہ الگ بات تھی کہ آنکھیں سب کی بھیگ رہی تھیں کبھی خوشی میں تو کبھی نور شاہ کے خود سے دور جانے کے غم میں

بھلا کس نے سوچا تھا کہ انکی چھوٹی سی پرنسسز اتنی جلدی رخصت ہوجاے گی لیکن وہ ہورہی تھی

آج مایوں کا فنکشن تھا اور دو دن بعد رخصتی

عصیرم کی فیملی میں صرف اسکے دادا جان تھے اور دور کے چند رشتے دار

اسلیے معتصم نے مایوں کا فنکشن ایک ساتھ ہی رکھا تھا نور اسکے لیے خاص تھی لیکن کم عصیرم بھی نہیں تھا وہ جانتا تھا ایسے موقع پر اسے اپنے ماں باپ کی کمی زیادہ محسوس ہوگی اسلیے وہ خود ایک باپ کی طرح اسکی بھی ساری ذمیداری اٹھا رہا تھا

°°°°°

"اماں سائیں" ہاسپٹل سے نکلتے ہی حوریب نے جھجکتے ہوے اسے پکارا جس پر اسنے مڑ کر حوریب کی طرف دیکھا

"ہاں کیا ہوا کہیں درد ہورہا ہے" فکرمندی سے وہ اسکے قریب جاکر پوچھنے لگی

"نہیں وہ آپ یہ بات اسے مت بتایے گا میں خود بتاؤں گی" اسنے نظریں جھکا کر بتایا جس پر آئرہ مسکرا اٹھی

"ٹھیک ہے تم ہی زریام کو بتانا" اسنے پیار سے اسکی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اسکے گال پر اپنے لب رکھے اور اسے لے کر گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی ہاسپٹل سے گھر کی طرف بڑھ گئی

آج نور کا مایوں تھا اور سارے لڑکے کام میں الجھے ہوے تھے ایسے میں وہ زریام کو بنا تنگ کیے حوریب کو ڈاکٹر کے پاس لے کر چلی گئی

کیونکہ اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اور اشارہ کس طرف جارہا تھا یہ بات بھی اسکے زہہن میں آرہی تھی اور جب ڈاکٹر نے اسکی شک کی تصدیق کردی تو اسکے پاؤں جیسے زمیں پر ہی نہیں ٹک رہے تھے

ابھی انکی شادی کو فقط ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا اور آئرہ کو یہ امید نہیں تھی کہ یہ خوشی انکے گھر میں اتنی جلدی آجاے گی

اسے حیرت ہورہی تھی وقت کتنی جلدی گزر جاتا ہے کل تک یہ خوش خبری وہ عالم کو دے رہی تھی اور آج اسکی بہو نے اسکے بیٹے کو دینی تھی

وہ بےتاب تھی گھر میں سب کو یہ بات بتانے کے لیے کہ وہ دادی بننے والی ہے لیکن جب تک حوریب نے یہ بات زریام کو نہیں بتانی تھی تب تک وہ بھی کسی کو بتانے نہیں والی تھی

°°°°°

کمرے کا دروازہ کھول کر وہ پانچوں اندر داخل ہوے جہاں وہ مایوں کی دلہن بنی بیٹھی تھی

اسنے پیلے رنگ کا لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا بالوں کو ایک سائیڈ سے پن کرکے دوسری طرف سے آگے ڈالے ہوے تھے سر پر پنز سے ڈوپٹہ سیٹ کیے وہ پھولوں سے بنا انتہائی خوبصورت سیٹ پہنے بیٹھی تھی

انہیں شیشے میں دیکھ کر نور نے اپنا چہرہ موڑ کر انکی طرف دیکھا

ان سب لڑکوں نے ایک جیسے کپڑے بنوائے تھے سفید کمیز شلوار اور گلے میں پیلے رنگ کی چنری

جبکہ لڑکیوں نے بھی ایک جیسے کپڑے بنوائے تھے مایوں کی مناسبت سے پیلے رنگ کی گہر دار فراک

"لالا آجائیں" انہیں وہیں کھڑا دیکھ کر اسنے اندر آنے کا اشارہ کیا

ایک ایک کرکے وہ اسکے کمرے میں داخل ہوے جن میں سب سے پہلے ماہر تھا کیوںکہ وہ ان میں سب سے بڑا جو تھا

"کتنی خوبصورت لگ رہی ہو تم" اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر ماہر نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے اور اپنی بھیگی آنکھوں کو بند کرلیا

"تمہیں پتہ ہے نور جب تم پیدا ہوئی تھیں تو ہمیں کتنی خوشی ہوئی تھی تم ہمارے لیے وہ تحفہ ہو جسے ہم نے خدا سے دعائوں میں مانگا ہے"

"میں جانتی ہوں پر آپ لوگ رونا بند کریں ورنہ پھر میں بھی رونے لگ جاؤں گی اور میرا میک اپ خراب ہوجائے گا" اسکے کہنے پر ماہر بھیگی آنکھوں سے مسکرا دیا

"ماہر صاحب آپ اب یہاں سے اٹھنا پسند کرینگے ہمیں بھی چند لمحیں اپنی بہن کے ساتھ گزارنے ہیں" ساحر کے کہنے پر اسنے پیار بھری نظر نور پر ڈالی دیکھا اور اسکے سامنے سے اٹھ گیا

کیونکہ وہاں باقی سب بھی لائن بنا کر کھڑے تھے

°°°°°

نور کے کمرے سے نکل کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا جب نظر کمرے سے باہر نکلتی حوریب سے پر گئی اور ہمیشہ کی طرح وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا

اس وقت اسنے پیلے رنگ کی گہر دار فراک پہنی ہوئی اور پیلا رنگ اسکی گوری رنگت پر حد سے زیادہ کھل رہا تھا بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا اور لبوں پر لپسٹک لگا کر سرخ لبوں کو مزید سرخ کیا ہوا تھا

ادھر ادھر نظریں دوڑاتی ہوئی وہ شاید کسی کو تلاش کررہی تھی اور پھر اسے اپنا مطلوبہ سخص مل گیا

زریام کو دیکھتے ہی اسکے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی

"تمہیں کچھ بتانا تھا" اسکے قریب آتے ہی اسنے جوش سے کہا

"اتنی تیار کیوں ہوئی ہو" وہ صرف اسکے لبوں پر لگی اس سرخ لپسٹک کو تیاری کہہ رہا تھا

"میرا دل چاہ رہا تھا"

"پر میرا دل نہیں چاہ رہا" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے واپس اپنے کمرے میں لے کر آیا

"زریام کیا کررہے ہو" اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے اسنے ڈریسنگ پر رکھے ٹیشو باکس میں سے ٹیشو نکالا اور اسکے لبوں پر لگی لپسٹک صاف کرنے لگا

"نہیں مجھے نہیں ہٹانی" اسنے زریام کا ہاتھ پیچھے کیا جب زریام نے اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کیا اور اسکے لبوں پر لگی لپسٹک صاف کردی حوریب نے منہ بنا کر اسے دیکھا

"تمہیں جتنا تیار ہونا ہے ہوجاؤ لیکن میرے سامنے اس طرح تم کسی اور کے سامنے جاؤ گی تو یہ بات مجھے بلکل اچھی نہیں لگے گی"

"تم بلکل بھی اچھے نہیں ہو"

"اچھا بتاؤ کیا بتانا تھا مجھے" اسکی بات جیسے زریام نے سنی ہی نہیں تھی

"نہیں بتانا اور نہ ہی بتاؤں گی چھوڑو مجھے" اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر حوریب نے اسے خود سے دور کیا

"حوریب میری بات سنو یار" زریام نے اسے پکارا لیکن وہ بنا اسکی سنے کمرے سے باہر نکل گئی

°°°°°

"بس کردو پری اور کتنا تیار ہوگی سارے مہمان آچکے ہیں"

اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا کیونکہ پچھلے آدھے گھنٹے سے پری میڈم یہیں کہہ رہی تھیں کہ وہ تیار ہونے والی ہیں اور تیاری تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی

بیوٹیشن اسے تیار کرکے جاچکی تھی لیکن اسکی تیاریاں پھر بھی رہ ہی جارہی تھیں

"تمہیں کیا مسلہ ہے تیار ہونے دو مجھے میری بیٹی کی شادی ہے اچھے سے تو تیار ہوں گی نہ" پریشے نے اسے گھورتے ہوے کہا اور نظریں اسکے خوبرو وجود پر اٹک گئیں

اس وقت اسنے وائٹ کلر کی کمیز شلوار پر کریم کلر کی شال ڈالی ہوئی تھی اور ہمیشہ کی طرح ہی بےحد دلکش لگ رہا تھا

"بہت خوبصورت لگ رہا ہوں"

"نہیں" اسنے منہ بنایا اور مڑ کر واپس اپنے کام میں لگ گئی جب معتصم نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا اور گہری نظروں سے پریشے کو دیکھنے لگا جس نے اس وقت گولڈن کلر کی فراک پہنی ہوئی تھی

"لیکن تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو اور تمہاری یہ تیاریاں مجھے بہکا رہی ہیں جارہا ہوں اور مجھے دوبارہ آنے کی ضروت نہ پڑے"

"نہیں پڑے گی بس پانچ منٹ میں آرہی ہوں تم جاؤ" اسکے جاتے ہی پریشے نے بیڈ پر رکھا اپنا دوپٹہ اٹھایا اور اسے سیٹ کرکے خود پر پھیلانے لگی

°°°°°

"کیا بات ہے جان شاہ اتنی تیاری کس لیے ہورہی ہے" اسنے کمرے میں داخل ہوتے ہی تیار ہوتی کسوا سے کہا

سب لڑکیوں کی طرح پریشے کسوا اور آئرہ نے بھی گولڈن کلر کی ایک جیسی فراک پہنی تھی اور سب لڑکوں کی طرح معتصم عالم اور عصیم نے بھی ایک جیسی ہی ڈریسنگ کی تھی وائٹ کمیز شلوار پر کریم کلر کی شال

"آج نور کا مایوں ہے نہ شاہ"کسوا نے اسے ایسے بتایا جیسے وہ تو جانتا ہی نہیں تھا آج نور کا مایوں ہے

"اچھا ہوا تم نے بتادیا کسوا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا"

"آپ کو پتہ تھا آپ مجھ سے جھوٹ مت بولیں" اسکے جھوٹ بولنے پر کسوا نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا

"اچھا یار نہیں بولتا تم سے جھوٹ اب جلدی سے تیار ہوجاؤ اور باہر آجاؤ مہمان آنا شروع ہوچکے ہیں"اسکا گال تھپتھپا کر وہ وہاں سے جانے لگا جب اسے کسوا کی آواز سنائی دی

"شاہ آپ نے میری تعریف تو کی ہی نہیں" اسکے کہنے پر عصیم نے چہرہ موڑ کر اسکی طرف دیکھا

"تو تمہیں تعریف سننی ہے کردیتا ہوں" وہ پھر سے اسکے قریب جانے لگا جب کسوا دو قدم دور ہوئی

"نہیں اب بعد میں"

"ٹھیک ہے پھر بعد میں کر دوں گا اچھا ہی ہے بعد میں فرصت سے کروں گا اور بتاؤں گا تم کتنی پیاری لگ رہی ہو" اسکی تھوڑی پر اپنے لب رکھ کر اسنے ایک نظر اسکے معصوم چہرے پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا

°°°°°

تیز تیز قدم اٹھاتا وہ باہر کی جانب جانے لگا جب نظر وہاں بیٹھی ماہیم پر ٹھہر گئی

اس نے پیلے رنگ کی فراک پہن رکھی تھی جبکہ بالوں کی اسٹائلش سی چٹیا بنائی ہوئی تھی ہلکی پھلکی جیولری کے ساتھ دونوں کلائیوں میں اسنے گجرے پہنے ہوے تھے

نظریں جھکائے وہ اپنے کام میں مگن وہاں رکھی ڈسپوزیبل پلیٹس میں پھول ڈال رہی تھی

اپنے اوپر کسی کی گہری نظریں محسوس کرکے اسنے اپنی سیاہ آنکھیں اٹھا کر سامنے کھڑے ساحر کو دیکھا

اور اسکی سیاہ آنکھیں دیکھ کر ساحر کو ان میں اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا

اسکی آنکھیں حسین تھیں ایسے ہی تو وہ اسکی آنکھوں کا دیوانہ نہیں تھا

"کیا ہوا'' اسے مسلسل خود کو دیکھتا پا کر ماہیم نے اچھنبے سے پوچھا

''یہاں آؤ''

"میں نہیں آرہی"

"ماہیم یہاں آؤ" اس بار لہجے کی نرمی سختی میں بدل گئی

جبکہ ماہیم اب تیز قدم اٹھاتی ہوئی وہاں سے جارہی تھی ساحر اسے اپنے قریب سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے تو بلوا نہیں رہا تھا اور جس لیے بلوا رہا تھا اس بات کا بھی اسے اندازہ تھا

تیز تیز قدم اٹھاتی وہ وہاں سے جانے لگی لیکن کتنا بھی تیز بھاگ لیتی ساحر کی تیزی کا مقابلہ تو پھر بھی نہیں کرسکتی تھی

اسکے بھاگنے پر ساحر جلدی سے اسکے قریب آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا

اسکی اس حرکت پر ماہیم نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ بنا اسکی کچھ سنے وہیں کھڑے کھڑے اسکے لبوں پر جھک گیا

ماہیم نے اسکے چوڑے سینے پر اپنے مکے برساے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ کوئی انہیں اس طرح دیکھ نہ لے لیکن وہ ڈھیٹ بنا اپنے کام میں مگن رہا

وہاں سے گزرتے زریام کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور الٹے قدموں سے واپس چلا گیا البتہ ساحر کو دل میں گالیاں دینا نہیں بھولا تھا جو اپنے کمرے کے ہوتے ہوے بھی یہیں پر کھڑا یہ حرکتیں کررہا تھا

"ساحر شاہ" عصیم کی آواز سن کر ساحر اس سے دور ہوا اور اسکے دور ہوتے ہی ماہیم باہر کی طرف بھاگ گئی اس وقت اس کا دل چاہ رہا تھا زمین پھٹے اور اس میں سما جائے یا ساحر کے منہ پر زور دار تھپڑ مار دے

اب تو ایسا لگ رہا تھا وہ عصیم کے سامنے کبھی نظریں بھی نہیں اٹھا پاے گی

"یہ کیا بےہودہ حرکت تھی" ماہیم کے جاتے ہی اسنے سخت لہجے میں سامنے کھڑے شخص سے پوچھا

"بےہودہ حرکت کیا بابا سائیں بیوی ہے میری"اسنے ڈھٹائی سے جواب دیا

"صرف نکاح ہوا ہے"

"اور نکاح ہی سب سے اہم ہوتا ہے"

"اچھا تو اسکا مطلب تم یہاں بیچ راستے میں کھڑے یہ حرکتیں کرو گے کبھی تمہارے باپ نے یہ حرکتیں نہیں کیں تم نے کہاں سے سیکھ لیں"

"باپ کا دور پرانہ تھا اب نیا دور آگیا ہے"

"اچھا تو اس پرانے دور والے باپ کا ہی فیصلہ ہے کہ تمہاری رخصتی جو ایک مہینے بعد ہورہی تھی اب چار مہینے بعد ہوگی" اسکے کہنے پر ساحر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا

"نہیں بابا سائیں اب یہ ظلم تو نہ کریں" اسنے بیچارگی سا منہ بنایا لیکن عصیم بنا اسکی بات پر دھیان دیے وہاں سے چلا گیا

ساحر نے نظریں دوڑا کر ماہیم کو ڈھونڈنا چاہا جو یہاں نہیں تھی

"سب کچھ ماہیم کی وجہ سے ہی ہوا ہے پتہ نہیں اسے بولتا کون ہے اتنا پیارا لگنے کے لیے کہ میں خود پر سے کنٹرول کھو دوں" دل میں ماہیم کو سناتا ہوا وہ باہر چلا گیا

°°°°°

"رکو تو زرا آئرہ بی بی اتنی تیار کیوں ہوئی ہو تم" اسکے باہر نکلتے عالم نے کہا جو خود اسے بلانے کے لیے آیا تھا

"کیوں اچھی نہیں لگ رہی"

"اچھی تو لگ رہی ہو لیکن تیاری اپنی عمر کے حساب سے تو کرتیں"

"اب کہنا کیا چاہتے ہیں عالم"اسنے عالم کو گھورتے ہوے کہا

"مطلب دیکھو تو بڑھاپے کی طرف جارہی ہو اور سنگھار تم اس طرح کررہی ہو جیسے کوئی نئی نویلی دلہن" اسکا انداز چڑانے والا تھا

"میں تو پھر بھی ٹھیک ہوں خود کو دیکھا ہے کبھی بالوں میں کیسی سفیدی چھا رہی ہے"

"سائیڈ کے چند بال ہی سفید ہیں"

"ہیں تو نہ"

"تمہارے بھی ہوجائینگے کلر لگانا بند کر دو"

"عالم میں کوئی کلر نہیں لگاتی اور خبردار جو اب میری عمر کا مذاق کیا"اپنی انگلی اٹھا کر اسنے عالم کو تنبیہ کی اور اسکی مونچ کا کونا پکڑ کر تیزی سے کھینچا اور وہاں سے چلی گئی

اسکی اس حرکت پر عالم نے تکلیف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں یہ حرکت آئرہ نے کافی وقت بعد کی تھی

°°°°°

اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی شاہ میر نے اگلے ہی پل اسے دیوار سے لگا دیا

"شاہ میر یہ کیا حرکت ہے"

"بیس منٹ پہلے بلایا تھا اور تم اب آرہی ہو" شاہ میر نے فرصت سے اسکا پورا جائزہ لیا

"میں تیار ہورہی تھی"

"اور اب تم تیار ہوچکی ہو اور میری امید سے کہیں زیادہ حسین لگ رہی ہو"

"شاہ میر تنگ مت کریں بتائیں مجھے کیوں بلایا تھا"

اسکے کہنے پر شاہ میر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس لے گیا

جہاں پر گجرے رکھے ہوے تھے اسکا ہاتھ تھام کر وہ ان گجروں کو اسکے ہاتھ میں پہنانے لگا

"میری طرف سے تمہارے لیے ایک چھوٹا سا گفٹ"

"بہت خوبصورت ہے تھینک یو"

"میں نے تمہیں دیا ہے تو اب تم بھی مجھے گفٹ دو بلکہ میں خود لے لیتا ہوں" خود ہی کہتے ہوے وہ اسکے لبوں پر جھکنے لگا جب حیات نے اسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا

"شاہ میر نہیں میری لپسٹک خراب ہوجاے گی"

"جانتا تھا میں تم یہی کہو گی دیکھو تو کتنا خیال کرنے والا شوہر ملا ہے تمہیں میں نے پہلے ہی تمہارے لیے ایک لپسٹک منگوالی تھی" دراز میں سے اسنے ایک پنک کلر کی لپسٹک نکالی اور اس سے پہلے حیات مزید کچھ کہتی وہ تیزی سے اسکے لبوں پر جھک گیا

°°°°°

لڑکے والوں کے آتے ہی ہر طرف شور مچ چکا تھا اور زیادہ شور اس بات کا مچا تھا کہ ان میں عصیرم تھا

عصیرم خان کوئی عام ہستی نہیں تھی اسکی خوبصورتی پر لڑکیاں فدا تھی وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے کم عمری میں ہی اپنا نام بنالیا تھا

اس وقت بھی اسنے وائٹ کمیز شلوار پر براؤن کلر کی ویسکوٹ پہنی ہوئی تھی اور لڑکیاں حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں

مردوں کا انتظام دوسری سائیڈ پر کیا ہوا تھا جبکہ عورتوں کا انتظام باہر بنے بڑے سے لان میں ہورہا تھا

عصیرم کو بھی وہیں نور کے برابر بٹھادیا گیا کیونکہ ان دونو کی رسم ساتھ ہی ہونی تھی

لیکن یہ دیکھ کر وہ اچھا خاصا بدمزہ ہوا تھا کہ نور کے چہرے پر تھوڑی تک اسکا ڈوپٹہ ڈلا ہوا تھا

جب سے انکی شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی تب سے تو نور نے اس سے بات بھی نہیں کی تھی اور یہاں آکر بھی اسکا چھپا چہرہ ہی دیکھنے کو ملا

"یہ سب کیا ہے نور ہٹاؤ اس دوپٹے کو"

"نہیں ہٹا سکتی دادی سائیں نے کہا ہے کہ میرا آپ سے پردہ ہوگا وہ تو ساتھ رسم بھی نہیں کروانا چاہتی تھیں لیکن بابا سائیں نے اصرار کیا تو وہ راضی ہوئیں"

فارینہ اور ثمرین بیگم کو وہ دادی ہی کہتی تھی

''ٹھیک ہے کرلو ابھی سارے پردے کیونکہ بعد میں تو ہمارے درمیان کوئی پردہ ہی نہیں رہے گا" اسکی بات کے جواب میں نور نے کچھ نہیں کہا تھا

اور عصیرم بس سوچ کر رہ گیا کہ اس گھونگھٹ کے پیچھے اسکی بات سن کر نور کے چہرے پر کس طرح کے تاثرات آرہے ہوں گے

°°°°°

"ارے یار میوزک بجاؤ میری بہن کی شادی ہے کوئی مذاق تھوڑی ہورہا ہے" اپنی چنری گلے میں لپیٹ کر اسنے ڈی جے والے کو اشارہ کیا جو اسکے اشارہ کرتے ہی میوزک چینج کرکے آواز بڑھا چکا تھا

اور اسکے ساتھ ہی شاہ میر کا ڈانس بھی شروع ہوچکا تھا جس کی اسنے کافی پریکٹس کی تھی


"اکھاں دے کٹورے سرمہ بٹورے"

"لگدے چھچھورے ہاے ہائی فائی"

"دل تے ڈراتی ساڈے چل جاتی"

"مار دے گلاٹی پوچھے وائے وائے"


"اماں سائیں میں بھی جاؤں مجھے بھی ناچنا ہے" حوریب نے بےچینی سے اپنے پاس کھڑی آئرہ کا بازو ہلایا

"ٹھیک ہے لیکن احتیاط کرنا اچھلنا مت بلکہ زریام سے پوچھ لو اگر اسے اچھا نہیں لگا تو" آئرہ کے کہنے پر وہ منہ بناتی ہوئی زریام کے پاس جانے لگی جو تھوڑے فاصلے پر ہی کھڑا تھا جتنی دیر میں زریام نے اسے اجازت دینی تھی اتنی دیر میں تو گانا ہی ختم ہوجاتا


"چاے میں ڈوبا بسکٹ ہوگیا"

"میں تو ایویں ایویں ایویں ایویں لٹ گیا"


"زریام میرے کو بھی ناچنا ہے میں جاؤں" اسنے زریام کے پاس آکر کہا

"ہاں بلکل جاؤ"زریام کے کہنے پر وہ خوشی سے چہکتی ہوئی شاہ میر کے پاس چلی گئی

زریام مسکراتے ہوے اسے دیکھنے لگا اس وقت لان میں گھر کے دو تین مردوں کے علاؤہ صرف خواتین موجود تھیں اسلیے زریام نے اسے اجازت دے دی

تھوڑی دیر میں حوریب اور شاہ میر کے ساتھ ساتھ آہان کا اضافہ بھی ہوچکا تھا اور اسی طرح ہنسی خوشی یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی خالی کمرے نے اسکا استقبال کیا حوریب کی غیر موجودگی دیکھ کر وہ واپس باہر جانے لگا جب نظر بیڈ پر رکھے اس کارڈ پر گئی

اسنے اٹھا کر اسے دیکھا جہاں پہلے صفحے پر بچوں جیسے ٹیڑھی میڑھی لکھاوٹ ہورہی تھی جو یقیناً حوریب کی تھی

لیکن زریام کو یہ لکھائی دنیا کی سب سے خوبصورت لکھائی لگ رہی تھی کیونکہ وہ حوریں کی لکھائی تھی

"صبح سے ایک بات بتانا چاہ رہی ہوں اور بتانے کے لیے اس سے بہتر طریقہ مجھے نہیں ملا" اس کی لکھائی میں غلطیاں تھیں لیکن زریام کو پھر بھی وہ لفظ ہر طرح سے پرفیکٹ لگ رہے تھے اسکی حوریب نے جو لکھے تھے

اسنے کارڈ کھولا اندر جو لکھائی ہورہی تھی وہ آئرہ کی تھی لیکن وہ اس لکھائی کو نہیں دیکھ رہا تھا وہ تو بس اس میں لکھے اس جملے کو حیرت سے پڑھ رہا تھا

"Your going to be a father"

ایک بار دو بار تین بار

حیرت سے وہ بار بار اس جملے کو پڑھ رہا تھا اور جیسے یقین ہی نہیں آرہا تھا

اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ محسوس کرکے وہ مڑا جہاں حوریب نظریں جھکائے مسکرا رہی تھی

"یہ سچ ہے حوریب" اسکے قریب جاکر زریام نے بےیقینی سے پوچھا

"ہاں" اسکے کہنے کی دیر تھی جب زریام نے سختی سے اسے خود میں بھینچ لیا اسے خود بھی پتہ نہیں چلا کب اسکی آنکھیں بھیگ گئیں

"مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیسے اپنے رب کا شکر ادا کروں"خوشی سے بھرپور لہجے میں وہ کہتے ہوے کبھی اسے خود میں بھینچ لیتا تو کبھی اسکے چہرے پر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑنے لگتا

حوریب نے اپنے نرم ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کیے جب زریام نے اسے پھر سے خود میں بھینچ لیا

اسے اپنے سینے سے لگاے وہ کسی اور ہی جہان میں پہنچ کر اپنی اس خوشی کو محسوس کررہا تھا جب اسے باہر سے عالم کی آواز سنائی دی جسے سن کر وہ حوریب کا ہاتھ پکڑے باہر چلا گیا

°°°°°

"کیا کہا تم نے" آئرہ کی بات سنتے ہی اسنے حیرت سے پوچھا

"میں نے کہا کہ آپ دادا بننے والے ہیں"

"تم سچ کہہ رہی ہو آئرہ تمہیں کس نے بتایا اور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا زریام نے بھی مجھے نہیں بتایا" ایک ہی سانس میں کہتے ہوے وہ بنا اسکی کچھ سنے جلدی سے اپنے کمرے سے نکلا اور زریام کو پکارنے لگا

لڑکوں کی ٹیم تو ویسے بھی باہر ہی بیٹھی ہوئی تھی لیکن گھر کے افراد جو اندر گئے تھے وہ بھی اسکی آواز سن کر باہر آچکے تھے

"عالم کیا ہوا ہے" معتصم نے تشویش سے اسکے قریب آکر پوچھا

"معتصم میں دادا بننے والا ہوں" اسکی بات سن کر سب ہی حیران تھے جبکہ عالم کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ پوری دنیا کو اپنی اس خوشی میں شریک کرلے

عالم نے ملازمہ کو اشارہ کیا اور اسے مٹھائی لانے کے لیے کہا جب نظر کمرے سے نکلتے زریام اور حوریب پر پڑی

اسنے آگے بڑھ کر زریام کو اپنے گلے لگایا

"میرا بیٹا بہت بہت مبارک ہو تمہیں" اسنے زریام کی کمر تھپتھپائی اور مٹھائی جو ملازمہ لے کر وہاں کھڑی تھی اس میں سے پورا لڈو اٹھا کر زریام کے منہ میں ڈال دیا اور اسکے پیچھے کھڑی حوریب کے پاس گیا

اپنی جیب سے چند نیلے نوٹ نکال کر اسنے حوریب کے سر پر وارے اور وہاں کھڑی ملازمہ کو دے دیے

"میرا بچہ" اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر عالم نے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے

خوشی تو گھر میں پہلے ہی تھی اب فرق اتنا تھا کہ وہ خوشی دوبالا ہوچکی تھی مٹھائیاں تو پہلے ہی بٹ رہی تھیں اب انکی تعداد بڑھ چکی تھی

°°°°°

سب لوگ اپنے کمرے میں جاچکے تھے سواے ان پانچوں کے جو یہاں بیٹھے ایک دوسرے کے چہرے دیکھ رہے تھے

"ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں" ایہاب نے اپنا ہاتھ تھوڈی پر رکھتے ہوے پوچھا

"کمرے میں جاکر بھی تو یہی کرنا ہے اس سے اچھا یہیں بیٹھ کر ایک دوسرے کے چہرے دیکھ لو" ماہر نے اسے جواب دیا جب شاہ میر نے دل میں دبی بات ان سب سے کہہ دی

"میں سوچ رہا ہوں کہ زریام لالا نے شادی بھی ایک ہی ہفتے میں کرلی تھی اور اب اتنی جلدی یہ خبر بھی سنادی کیسے"

"وہ رہا زریام کا کمرہ وہاں جا اور جاکر پوچھ لے" ساحر نے زریام کے کمرے کی طرف اشارہ کیا جس پر وہ منہ بنا کر واپس صوفے پر لیٹ گیا

"ویسے میں کیا بنوں گا"ماتھے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرکے اسنے سب کی طرف دیکھا جبکہ اسکے جواب پر ایہاب تو جیسے تپ ہی گیا تھا

"پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے تمہیں پتہ ہی نہیں ہے تم کیا بنو گے چاچو بنو گے"

"تم مجھ سے تمیز سے بات کیا کرو بڑا ہوں میں تم سے"

"اچھا ہوا تم نے بتایا میں تو بھول ہی گیا تھا میں بھول جاؤں نہ تو مجھے یاد دلا دیا کرو"

"ہاں ایک تھپڑ ماروں گا نہ تو سب یاد آجاے گا"

انکی نوک جھوک دیکھ کر شاہ میر ساحر اور ماہر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آہستہ سے اٹھ کر وہاں سے چلے گئے جبکہ کمرے میں جانے سے پہلے بھی انکے کانوں میں آہان اور ایہاب کی آواز پڑ رہی تھی

°°°°°

وقت تو پہلے ہی تیزی سے گزر رہا تھا اور یہ دو دن تو جیسے پر لگا کر اڑ گئے تھے

آج عصیرم اور نور کی بارات تھی اور صبح سے ہی ہر طرف شور مچ رہا تھا وہ حویلی اس وقت کسی چڑیا گھر سے کم نہیں لگ رہی تھی

اپنے کمرے سے نکل کر وہ سیدھا نور کے کمرے میں گئی اسے دیکھنے کی اتنی بے چینی جو تھی

اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی پریشے اپنی جگہ رک کر اسے دیکھنے لگی

ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اس وقت وہ دلہن بنی بےحد حسین لگ رہی تھی

"اماں سائیں آجائیں" اسکی آواز سن کر پریشے جیسے ہوش میں آئی اور کمرے میں داخل ہوئی

"ماشاءاللہ بہت خوبصورت لگ رہی ہو"

"آپ کی طرح لگ رہی ہوں نہ"

"نہیں تم مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو بس خدا تمہارے نصیب بھی ایسے ہی خوبصورت کرے"پریشے نے پیار سے اسکی تھوڑی کو چھوا

"میں جانتی ہوں تمہیں کوئی نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے پر پھر بھی نور تم اب ایک نئے رشتے میں بندھنے جارہی ہو پورے خلوص سے اس رشتے کو نبھانا اور عصیرم کو کبھی شکایت کا موقع مت دینا"

"آپ فکر مت کریں میں کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی" اسکے کہنے پر پریشے نے مسکراتے ہوے اسکی پیشانی پر پیار کیا

اب انہیں نکلنا تھا بارات کا انتظام بڑے سے ہال میں کیا گیا تھا جو گاؤں سے تھوڑا دور تھا

°°°°°

بارات کا استقبال دھوم دھام سے کیا گیا مہمانوں سے ملاقات ہوئی اور پھر تھوڑی دیر بعد نکاح شروع ہوگیا

دھڑکتے دل کے ساتھ نور شاہ نے قبول ہے کہا اور اپنا سب کچھ عصیرم خان کو سونپ دیا

سائن کرتے وقت اسکے آنسو تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے آج وہ کسی اور کی ہوگئی تھی

نور معتصم سے نور عصیرم بن گئی تھی جو اب اسکے جسم و جان کا مالک تھا

°°°°°

آنکھیں پوری کھولے وہ سامنے سے آتی اس نور کو دیکھ رہا تھا جو آج نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی اور شرمائی شرمائی سی سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی

سرخ رنگ کا لہنگے پہنے آج وہ دلہن بنی ہوئی تھی عصیرم خان کی دلہن

اپنا مظبوط ہاتھ اسکے سامنے کرکے عصیرم نے اسکا نرم ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے لے جاکر اسٹیج پر بٹھادیا

نور نے ٹیڑھی نظروں سے اس شخص کو دیکھا جو اب اسکے شوہر کے عہدے پر فائز تھا

بلیک کلر کی شیروانی پہنے اپنی شخصیت کا جادو وہ ہر طرف بکھیر رہا تھا

"اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو کھل کر دیکھو اب تو ہر طرح سے تمہارا ہی ہوں" اسکے کہنے پر وہ شرمندہ ہوکر نظریں جھکا گئیں اور جھکی نظروں کے ساتھ وہ خود پر جمی عصیرم کی نگاہ آرام سے محسوس کررہی تھی

"عصیرم مجھے دیکھنا بند کریں"

"کیوں"

"کوئی دیکھ لے گا تو کیا کہے گا"

"کوئی کیا کہتا ہے کیا سوچتا ہے مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب تم عصیرم خان کی ملکیت ہو مکمل طور پر میری ہو کوئی کہہ کر تو دکھاے حشر نہ بگاڑ دوں"

اسکے کہنے پر نور نے بنا کچھ کہے اپنی نظروں کا زاویہ موڑ لیا لیکن عصیرم کی نظروں وہ خود پر اب بھی باآسانی محسوس کررہی تھی

°°°°°

"اسلام و علیکم" دادا جان نے اپنے کوٹ کو درست کرکے سلام کیا

اس عمر میں بھی وہ اتنے فٹ تھے کہ کچھ بھی پہن لیتے سب کچھ ہی جچتا تھا

"وعلیکم اسلام" دادی جان نے اس اجنبی کو جھجکتے ہوے سلام کیا

"کافی دیر سے آپ کو دیکھ رہا تھا محترمہ رہا نہیں گیا تو آپ سے بات کرنے آگیا آپ یہاں کس کی مہمان ہیں"

"دراصل میرا بیٹا عارف معتصم کا خاص دوست ہے تو ہم بس اسی طرف سے ہیں"

"اچھا اچھا آپ کے شوہر بھی ہیں" انکے کہنے پر دادی جان کے چہرے پر افسردگی چھا گئی

"نہیں وہ سالوں پہلے گزر چکے ہیں"

"اوہ معذرت چاہتا ہوں میری بیوی بھی سالوں پہلے گزر چکی ہیں"

"آپ یہاں کس کی طرف سے ہیں"

"عصیرم خان میرا پوتا ہے"

"اوہ اچھا تو آپ لڑکے کے دادا ہیں"

"جی بلکل بندے کو وجاہت خان کہتے ہیں" انہوں نے ایک ادا سے اپنا نام لیا

"کیا آپ اپنا نام بتانا پسند کرینگی"

"جی میرا نام دلنشین ہے"

"آپ کی طرح ہی ہے" انکے کہنے پر دادی جان نے شرماتے ہوے چہرے پر ہاتھ رکھا اور وہاں سے چلی گئیں جبکہ دادا جان تو بس انکی اس ادا پر اپنا دل تھام کر رہ گئے

°°°°°

"میشال کیسی ہو" تیز آواز میں اسے پکارتے ہوے وہ بھاگتا ہوا اسکے قریب آرہا تھا جبکہ اسکا انداز ایسا تھا جیسے وہ دونوں کتنے پرانے دوست ہوں

"کیا ہے" اسنے بےزاری سے ایہاب کی طرف دیکھا

"وہ تمہیں تھینکس کہنا تھا اس دن تم نے میری بہت مدد کی تھی نہ پہلے مجھے بچایا پھر مجھے گھر تک ڈراپ کیا"

"اچھا تو کرو"

"تھینک یو" تھوڑا جھجک کر اسنے کہہ دیا لیکن سامنے والے کے تاثرات اب بھی ویسے ہی تھے

"ہوگیا اب جاؤ"

"تم ہر وقت ایسے کیوں رہتی ہو"

"کیسے رہتی ہوں"اسنے الٹا سوال کیا

"جیسے رہتی ہو"

"وہی تو کیسے رہتی ہوں"

'چھوڑو اسے تم ہماری مہمان ہو میں فصول بات کی وجہ سے تمہارا موڈ نہیں خراب کرنا چاہتا ہوں"

"میرا موڈ خراب نہیں ہوا لیکن میں تمہیں ایک مشہورہ دینا چاہتی ہوں"

"کیسا مشہورہ"

"باہر اکیلے مت نکلا کرو" اسنے مسکراتے ہوے کہا اور وہاں سے چلا گئی اور اسکے جانے بعد ایہاب کو سمجھ میں آیا کہ وہ کیا کہہ کر گئی ہے وہ اسے اسکی بزدلی کا طعنہ مار کے گئی تھی

°°°°°

رخصتی کا وقت ہوا اور ہر کسی کے آنسو جو کب سے رکے ہوے تھے وہ بہنے لگے آج انکی جان ان سے دور جارہی تھی

اپنے سب بھائیوں سے گلے ملتے ہوے وہ رو رہی تھی لیکن اپنے باپ کے گلے لگتے ہی رونے کے انداز میں شدت آچکی تھی

"اپنی جان تمہیں سونپ رہا ہوں عصیرم اسکا بہت خیال رکھنا" معتصم نے بھیگی آنکھوں سے عصیرم کو دیکھتے ہوئے کہا اور اپنے سینے سے لگی نور کے ماتھے پر اپنے لب رکھے

"آپ فکر مت کریں اپنی جان سے زیادہ خیال رکھوں گا میں نور کا"

وہ اسے یہ نہیں کہہ سکا کہ آپ کو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میرے پانچوں سالے مجھے یہ بات اچھے طریقے سے سمجھا چکے ہیں

°°°°°

گھر میں اسکا شاندار استقبال کیا گیا شروعات سے لے کر گھر کے آخری کونے تک کو سجایا گیا تھا

چند رسومات ادا کرکے نور کو عصیرم کے کمرے میں بٹھادیا گیا جہاں ہر طرف پھولوں کی سجاوٹ ہورہی تھی

وہاں بیٹھی وہ کتنی دیر سے عصیرم کا انتظار کررہی تھی لیکن وہ تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا

اسنے اپنا سر بیڈ کراؤن سے ٹکا دیا اور تھکن کے باعث تھوڑی دیر میں ہی اسکی آنکھ لگ چکی تھی

°°°°°

مہمانوں کو رخصت کرکے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا اسے پتہ تھا اسکی بیوی اسکا انتظار کررہی ہوگی لیکن جلدی جلدی کرتے ہوے بھی اسے آنے میں دیر ہوچکی تھی

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر نور کے سوے ہوے وجود پر پڑی

مسکراتے ہوے وہ اسکے قریب جاکر بیٹھ گیا اور اسکا معصوم چہرہ دیکھنے لگا

ہاتھ بڑھا کر اسنے آہستہ سے نور کا دوپٹہ اتارا اور اسی طرح نرمی سے اسکی ساری جیولری اتار دی اسے صحیح طرح سے لٹا کر عصیرم نے کمبل اس پر ڈالا اور چینج کرنے چلا گیا

چینج کرکے جب وہ باہر نکلا تو نور اسی پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھی جس میں وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا

بیڈ پر لیٹ کر اسنے نرمی سے اسے اپنے حصار میں لیا اور آنکھیں بند کرلیں جب اسکی بانہوں میں موجود وجود کسمسایا

"عصیرم آپ آگئے" نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اس نے عصیرم کو دیکھا جو پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

"ہممم"

"سوری مجھے سونا نہیں چاہیے تھا" وہ اپنی جگہ سے اٹھنے لگی جب عصیرم نے اسے مزید مظبوطی سے خود میں قید کرلیا

"لیٹی رہو تمہیں اندازہ نہیں ہے اس وقت تمہیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر مجھے کتنا سکون مل رہا ہے"

"عصیرم ایک بات پوچھوں"

"تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہے میری جان"

"آپ نے کبھی بتایا نہیں کہ آپ کے والدین کی ڈیتھ کیسے ہوئی"

"بم بلاسٹ میں انکی ڈیتھ ہوئی تھی"

"لیکن وہ کس نے کروایا تھا اور کیوں کروایا تھا" اسنے نظریں اٹھا کر عصیرم کو دیکھا

"کیونکہ میرے بابا نے اسکی کچھ بےہوادہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال دی تھیں"

"آپ کے بابا ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ شخص انہیں نہیں مارتا"

"نہیں" اسکا چہرہ اب بےتاثر تھا

"تو پھر انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا"

"انہیں ایسا اسلیے کرنا پڑا کیونکہ اس شخص نے ایک ایسی لڑکی کو نقصان پہنچانا چاہا تھا جس سے وہ بےحد محبت کرتے تھے"

"آپ کی ماما" اسنے سوال پوچھا لیکن جواب اسکی سوچ کے برعکس تھا

"نہیں وہ بہت اچھے انسان تھے میری ماں کی کبھی حق تلفی نہیں کی انہیں ہر طرح کی خوشی دی لیکن انہیں کبھی اپنی محبت نہیں سمجھا انہوں نے صرف ایک ہی لڑکی سے محبت کی تھی اور ساری عمر اسے ہی چاہا"

وہ مزید سوال پوچھنا چاہتی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر نہیں پوچھا کہ شاید اسکی یہ باتیں عصیرم کو اچھی نہیں لگ رہی ہوں اسلیے وہ خاموش ہوگئی

تھوڑی دیر میں ہی وہ پھر سے نیند کی وادیوں میں جانے لگی لیکن جانے سے پہلے دل میں چھپا سوال لبوں پر آہی گیا

"اس لڑکی کا نام کیا تھا"وہ نیند میں جاتے ہوے کہہ رہی تھی عصیرم نے کوئی جواب دیا یا نہیں اسے نہیں پتہ تھا کیونکہ وہ نیند میں جاچکی تھی

لیکن اسکا یہ سوال سنتے ہی عصیرم کے زہہن کے پردوں پر ایک چہرہ لہرایا اور لبوں سے بے ساختہ نکلا

"آئرہ"

°°°°°

"بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ" وہ جو ویٹر کو ہدایت دے رہی تھی عصیرم کی آواز پر مڑ کر اسکی طرف دیکھنے لگی

"تمہیں یہ بات اپنی ساس سے کہنی چاہیے"اسنے ہنستے ہوئے کہا

"بلکل لیکن مجھے اس تعریف کے قابل زیادہ آپ لگی"

"ایسی بات ہے تو پھر تمہیں میری جوانی کی تصویریں دیکھنی چاہیے تاکہ تمہیں پتہ چلے اس وقت میں آج سے زیادہ خوبصورت تھی"

"میں دیکھ چکا ہوں" اسکے کہنے پر آئرہ نے تعجب سے اسے دیکھا

"اچھا تم نے کہاں دیکھیں نور نے دیکھائیں ہوگی"

"نہیں میرے پاس آپ کی تصوریں ہیں"

"تمہارے پاس میری تصویرں کیسے آئیں"

"کیونکہ میں عصیرم خان ہوں علی خان کا بیٹا" اسکا انداز پراسرار تھا جبکہ اسکے اس طرح کہنے پر آئرہ کی مسکراہٹ غائب ہوئی

"علی خان"اسکے لب ہولے سے ہلے

"ہاں علی خان" وہ کہہ کر وہاں سے جاچکا تھا جبکہ آئرہ کتنی دیر تک وہیں کھڑی اس لفظ کو سوچتی رہی

جب سے عصیرم نے ہال میں اس سے یہ بات کی تھی تب سے وہ اسی سوچ میں گم تھی

کھڑکی کے سامنے کھڑی وہ عصیرم کی باتوں کو سوچ رہی تھی

عصیرم خان ایک سیاستدان تھا علی خان کا بیٹا تھا اسکا باپ بھی سیاستدان تھا لیکن ابھی تک یہ بات اسکے زہہن میں ہی نہیں آئی کہ عصیرم کا باپ علی خان وہی علی خان ہوسکتا ہے

"کیا سوچا جارہا ہے" عالم نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا اور اسکے ایسا کرتے ہی آئرہ سوچ کی دنیا سے باہر نکلی

"عالم"

"بولو جان عالم"

"عصیرم علی خان کا بیٹا ہے''

"تمہیں اب پتہ چلا ہے"

اسنے رخ موڑ کر عالم کی طرف دیکھا

"آپ جانتے تھے تو مجھے بتایا کیوں نہیں"

"بتانے والی بات ہی نہیں تھی"

"عالم علی خان"

"آئرہ عصیرم علی خان کا بیٹا ہے یہ ایک حقیقت ہے بس اب اس بات کو یہیں چھوڑ دو"

اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر عالم اسکی گردن پر جھک گیا

"لیکن عالم آپ جانتے ہیں نہ علی کون تھا"

"آئرہ وہ کوئی بھی نہیں تھا اور اب میں ایک اور بار تمہاری زبان سے یہ نام نہیں سننا چاہتا سنا تم نے"اس بار اسکا لہجہ سختی اختیار کرگیا

"وہ مرچکا ہے عالم"

"اچھا ہوا مرگیا ورنہ میں اسے ماردیتا"

"عالم" اسنے کچھ کہنا چاہا لیکن بنا اسکی کچھ سنے عالم اسکے لبوں پر جھک گیا اس وقت اسے کچھ نہیں سننا تھا اور علی خان کا زکر تو بلکل نہیں

اسے خود میں قید کیے عالم جیسے اسے ہر سوچ سے دور لے جارہا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آئرہ کی سوچیں تو وہیں اٹکی پڑی تھیں

°°°°°

کتنی دیر سے وہ بے مقصد سنسان سڑکوں پر چل رہی تھی جبکہ زہہن میں بس آج صبح نیوز میں سنے الفاظ گردش کررہے تھے

سیاستدان علی خان کچھ دنوں پہلے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دیکھا گیا تھا اور یہ کہا گیا کہ ان دونوں کا افئیر چل رہا ہے لیکن آج صبح اسنے یہ خبر سنی کہ علی خان کا اس لڑکی کے ساتھ افئیر نہیں چل رہا تھا بلکہ وہ لڑکی اس کے نکاح میں تھی نہ صرف نکاح میں بلکہ ان دونوں کا چند سال کا ایک بیٹا بھی تھا عصیرم خان

علی سے اسکی ملاقات اتفاقی طور پر ہوئی تھی اور چند ملاقاتوں بعد دوستی کی شروعات اور انکی یہ دوستی کچھ ہی وقت میں محبت میں تبدیل ہوچکی تھی لیکن صرف علی کے لیے

آئرہ نے اسے ہمیشہ دوست ہی سمجھا تھا لیکن اپنے لیے وہ علی کے جذبات سے باخوبی واقف تھی

علی اس سے محبت کرتا تھا اور اس بات کا اقرار بھی کرتا تھا لیکن آئرہ نے کبھی اسکی اس بات میں اتنی دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ وہ صرف محبت کی بات کرتا تھا شادی کی نہیں

اور آئرہ کے نزدیک اصل محبت تھی ہی وہی جو انسان کو اپنے محرم سے ہوتی ہے

علی اس سے محبت کرتا تھا اور اسکی اس محبت کا یقین اسنے تب ہی کرنا تھا جب وہ اسے ایک پاک بندھن میں باندھتا

لیکن اسکی نوبت ہی نہیں آئی ہر طرف پہلے یہ خبر چل رہی تھی کہ علی خان کا افئیر چل رہا ہے اسنے اس بات پر یقین نہیں کیا کیونکہ اسے علی پر بھروسہ تھا لیکن آج یہ بھروسہ ٹوٹ چکا تھا یہ جان کر کہ وہ شادی شدہ تھا اور بقول آئرہ کے اب تک اسکے ساتھ صرف ٹائم پاس کررہا تھا

یہ بات اسنے خود ہی اپنے زہہن میں سوچ لی

"آئرہ"

علی کی آواز سن کر اسکے چلتے قدم جھٹکے سے رکے اسنے مڑ کر دیکھا جہاں اپنی گاڑی سے نکل کر وہ اسی کی طرف آرہا تھا

اس وہ وقت گرے کلر کے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا وہ سینتیس سال کا تھا لیکن لگتا بلکل نہیں تھا

"تم سے بات کرنی ہے" اسنے آئرہ کے قریب آکر کہا

جو اسکی بات سن کر واپس مڑ کر جانے لگی اور اسکی یہ حرکت دیکھ کر وہ فورا اسکے سامنے آیا

"آئرہ تم نے یقیناً نیوز دیکھ لی ہوگی پر مجھ سے بات کرو میں نے تمہیں دھوکا نہیں دیا"

"تو کیا آج جو نیوز میں نے سنی وہ جھوٹ تھا" اسکی آنکھوں میں غصہ اتر آیا

"نہیں وہ سچ ہے لیکن میں تمہیں ایکسپلین کرسکتا ہوں"

"کیا ایکسپلین کرو گے علی"

"آئرہ میں نے صرف تم سے محبت کی ہے مجھے اس لڑکی کے ساتھ نہیں رہنا ہے میری پہلی اور آخری محبت تم ہو میں اسے چھوڑنا چاہتا ہوں اسلیے میں نے یہ بات کبھی میڈیا پر نہیں آنے دی کہ میں شادی شدہ ہوں کیونکہ مجھے اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا تھا میں نے کبھی تم سے شادی کی بات نہیں کی کیونکہ میں چاہتا تھا پہلے میں وسیلہ کو طلاق دوں اسکے بعد تمہیں اپناؤں"

"اگر تمہیں اسے چھوڑنا ہی تھا تو پھر یہ شادی کیوں کی"

"میں نے یہ شادی صرف گھر والوں کی زبردستی پر کی تھی"

"اور تمہارا بیٹا بھی گھر والوں کی زبردستی پر ہوا تھا" اسکے طنز پر وہ نظریں جھکا گیا

"دیکھو علی ہمارے درمیان جو بھی تھا وہ اب ختم ہے تمہاری بیوی ہے اسکے ساتھ خوش رہو مجھے خود پر افسوس ہو رہا ہے کہ میں اتنے ماہ تک کسی ایسے شخص کے ساتھ رہی جو پہلے ہی کسی کا شوہر تھا تم میرے کبھی تھے ہی نہیں"

"ایسا نہیں ہے میں اسے چھوڑ دوں گا مجھے نہیں رہنا آئرہ اسکے ساتھ مجھے صرف تم سے شادی کرنی ہے"آئرہ کی باتیں اسے تکلیف دے رہی تھیں اسے خود بھی پتہ نہیں چلا کب اسکی نیلی آنکھیں بھیگ گئیں

"علی تم اسے چھوڑ بھی دو تو اب میں تم سے شادی نہیں کروں گی بہتر ہے اپنی زندگی جیو اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ خوش رہو"

وہ کہہ کر وہاں سے جا چکی تھی لیکن وہ بس وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا

°°°°°

ہاتھ لگا کر اسنے اپنے دکھتے سر کو سہلایا جب سے وہ آئرہ سے مل کر آیا تھا تب سے وہ اسی طرح بیٹھا ہوا تھا اور شاید بیٹھا ہی رہتا اگر اسکا فون نہیں بجتا

بےدلی سے اسنے اپنا موبائل نکال کر دیکھا جہاں انجان نمبر سے فون آرہا تھا

"ہیلو"اسنے کال اٹھاتے ہی بےزاری سے کہا جب اسے دوسری طرف کسی کی ہنسی سنائی دی

"تمہاری محبوبہ بہت خوبصورت ہے علی خان" اسکی بات سن کر وہ جھٹکے سے سیدھا ہوا

"آج صبح ہی میرے آدمی نے تم دونوں کو دیکھا تھا بس پھر میں نے سوچا میں بھی اس سے مل لوں"

"آصف کیا چاہیے تمہیں آئرہ کو کچھ مت کرنا"

"اچھا تو آئرہ نام ہے خیر میں اسے کچھ نہیں کروں گا تمہاری تڑپ بتا رہی ہے وہ تمہارے لیے کتنی ضروری ہے میں اسے کچھ کرکے اپنا نقصان کیوں کروں گا تم سے کچھ بات کرنی ہے ایڈریس بھیج رہا ہوں آجاؤ اور اکیلے آنا" اسنے کال کاٹ دی اور علی جلدی سے اپنی جگہ اٹھ کر باہر کی طرف بھاگا

°°°°°

"آئرہ کہاں ہے"

اس جگہ پر داخل ہوتے ہی علی نے پوچھا جبکہ اسکی اتنی بے چینی پر آصف لغاری ہنس پڑا

اسنے علی کو اپنے گھر پر نہیں بلایا تھا بلکہ وہ کوئی دوسری جگہ تھی جیسے کوئی پرانی فیکٹری جہاں ان تینوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا

"صبر کرو خان اتنے بےصبرے کیوں ہورہے ہو"

"اپنی بکواس بند کرو اور بتاؤ مجھے کہاں ہے وہ"

"پہلے تم میری بات مانو سیاست چھوڑ دو یہ میری جگہ تھی جہاں تم اس وقت بیٹھے ہو جس پر تم نے قبضہ کرلیا ہے میری بات مان لو ورنہ اس لڑکی کو اور تمہیں ایسا بدنام کروں گا نہ کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے ہو"

"تم سے مجھے کسی اچھی چیز کی امید نہیں ہے"

"لیکن مجھے تم سے ہے تم میری بات مان لو گے"

"غلط فہمی ہے تمہاری اسے دیکھو" اسنے اپنی جیب سے موبائل نکال کر ایک ویڈیو پلے کی جسے دیکھ کر آصف لغاری کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا

"دیکھ رہے ہو اسے میرے پاس تمہاری ان بےہوادہ ویڈیوز کا پورا کلیکشن ہے اور کوئی بھی انہیں جھٹلا نہیں سکتا تو اگر تم نہیں چاہتے کہ میں یہ ویڈیو ہر طرف پھیلا دوں تو بتادو مجھے میری آئرہ کہاں ہے"

اسکی بات سن کر آصف کی آنکھوں میں خون اترا لیکن اس وقت وہ کچھ کرنہیں سکتا تھا اسنے وہاں بنے ایک دروازے کی طرف اپنے ہاتھ کا رخ کیا

اسے یہ ڈر تھا کہ کہیں علی خان سچ میں اسکی ویڈیو وائرل نہ کردے لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آئرہ کو محفوظ کرکے علی نے ویسے بھی یہ کام کرنا تھا

اسکے اشارہ کرتے ہی علی اس دروازے کی طرف بھاگا اور جلدی سے اسے کھولا

وہاں آئرہ کونے میں بیٹھی اپنا سر گٹھنوں میں رکھے رو رہی تھی

پورے کمرے میں اندھیرا ہورہا تھا لیکن علی کے دروازہ کھولتے ہی باہر سے آتی روشنی کرنے میں داخل ہوئی جسے محسوس کرکے آئرہ نے اپنا سر اٹھایا اور سامنے اسے کھڑے دیکھ کر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھی

"علی"

اسے دیکھ کر علی نے قریب آکر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا اور اسے اپنے سینے سے لگالیا

آج تک اسنے آئرہ کا صرف ہاتھ پکڑا تھا یہ حرکت اسنے پہلی بار کی تھی شاید اپنا ڈر دور کرنے لیے جو چند لمحوں پہلے اسے کھونے کا ہوگیا تھا

اسکی اس حرکت پر آئرہ نے جلدی سے اسے خود سے دور کیا اور اسکے ایسا کرتے ہی علی کو بھی اپنی حرکت کا احساس ہوا

"تم ٹھیک ہو نہ آئرہ"

"میں ٹھیک ہوں" اسنے نظریں جھکا کر اپنا سر ہلایا جبکہ اسے دیکھ کر علی گہرا سانس لے کر رہ گیا دل تو چاہ رہا تھا اسے زور سے خود میں بھینچ لے لیکن اسکے پاس یہ حق تھا ہی کب

"چلو تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں"

"میں خود چلی جاؤں گی بس تم مجھے یہاں سے نکال دو"اسنے ایک خوفزدہ نظر چاروں طرف ڈالی

لمحوں کا کھیل تھا جب سڑک پر اسے کسی نے بےہوش کردیا اور آنکھ کھلی تو وہ یہاں تھی کافی دیر تک آوازیں دیں نکلنے کی کوشش کی لیکن ہر طرف سے ناکامی دیکھ کر وہ بس روتے ہوے اللہ سے مدد مانگنے لگی

"آئرہ پلیز میرے ساتھ چلو ہماری آخری ملاقات سمجھ لو اسکے بعد میں کبھی تمہارے سامنے نہیں آؤں گا" اسکے کہنے پر آئرہ نے اپنا سر آہستہ سے ہلایا

علی نے اسکا ہاتھ پکڑنا چاہا جسے آئرہ نے پیچھے کرلیا

یہ اسکی عادت تھی جب بھی آئرہ اسکے ساتھ ہوتی تھی وہ اسکا ہاتھ پکڑ لیتا تھا لیکن اس سے زیادہ وہ کبھی آگے نہیں بڑھا تھا

پہلی بار آئرہ نے اپنا ہاتھ دور کیا تھا اور اسکی یہ حرکت علی خان کو اندر تک توڑ چکی تھی

وہ ایک فیصلہ کرکے یہاں آیا تھا کہ اب وہ آئرہ کے ساتھ اپنا یہ تعلق ختم کردے گا تاکہ اسکی وجہ سے پھر کبھی آئرہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے

لیکن اس لڑکی کے بنا وہ جیتا کیسے یہ بات بس وہ سوچ کر رہ گیا

°°°°°

"آئرہ"

آئرہ جو گاڑی سے اتر رہی تھی اسکے پکارنے پر رک کر اسکی طرف دیکھنے لگی

"تم نے ٹھیک کہا تھا ہمارے راستے الگ ہی ہیں"

"اچھی بات ہے تم سمجھ گئے علی میں تمہارے نصیب میں نہیں تھی تمہارے نصیب میں جو ہے اسکی قدر کرو اسکا خیال رکھو اسے اسکے حق دو اسے وہ سب دو جو وہ ڈیزرو کرتی ہے"اسکا انداز سمجھانے والا تھا لیکن علی نے اسکی بات پر دھیان نہیں دیا

"میری وجہ سے آج تمہارے ساتھ یہ سب ہوا اور میں نہیں چاہتا میری وجہ سے دوبارہ تمہارے ساتھ ایسا کچھ ہو اسلیے مجھے یہی فیصلہ بہتر لگا بس ایک بات کہہ دو کہ تم مجھے کبھی نہیں بھولو گی"

"تم ہمسفر نہ سہی پر میرے دوست تو ہو اور میں بس تمہیں اسی حیثیت سے یاد رکھوں گی اللہ حافظ"

جب تک وہ بولتی رہی تب تک علی اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو دیکھتا رہا جیسے حفظ کرنا چاہ رہا ہو پتہ نہیں اسے پھر کب یہ چہرہ دیکھنے کو ملتا شاید ملتا بھی یا نہیں

"تم میرے نصیب میں نہیں ہو لیکن جس کے نصیب میں ہوگی وہ بہت خوش نصیب ہوگا"

°°°°°

علی کے جانے کے بعد زندگی کچھ دنوں تک جیسے رک گئی بھلے اسے علی سے محبت نہیں تھی لیکن وہ اسکی زندگی کا ایک اہم فرد بن چکا تھا

اسکی رکی ہوئی زندگی تب دوبارہ راستے کی جانب بڑھی جب اسکی پہلی ملاقات عالم شاہ سے ہوئی

"تم گاڑی میں بیٹھنے والے زمین پر چلنے والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہو کچھ نہیں دیکھتے بس انہیں روند کر چلے جاتے ہو" اسکے قریب آتے ہی آئرہ نے سخت لہجے میں کہا جس سے عالم شاہ کی سفید پیشانی پر موجود بل میں اضافہ ہوچکا تھا

"دیکھو لڑکی مجھ سے زیادہ زبان درازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے اور ویسے بھی غلطی اس بچے کی ہے"

"اس بچے کی غلطی نہیں ہے غلطی تمہاری ہے اور اب تم اسے ہاسپٹل لے کر جاؤ گے"آئرہ کے کہنے پر عالم شاہ نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا

ہاسپٹل تو وہ اس بچے کو ویسے بھی لے کر ہی جاتا لیکن مردوں کے سامنے اس طرح بات کرنے والی لڑکیاں اسے ہرگز پسند نہیں تھیں اسکا بس چلتا تو ایسی لڑکیوں کی زبان کھینچ لیتا

اور اسکے ساتھ پہلی ملاقات کے بعد زندگی میں نیا موڑ آیا

اسے پتہ تھا کہ اسکے بابا اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں میں رہتے ہیں لیکن عالم بھی اسی فیملی کا حصہ تھا یہ اسے نہیں پتا تھا اور ایک اہم بات جو اسے گاؤں جاکر پتہ چلی تھی وہ یہ تھی کہ وہ عالم شاہ کی منگ تھی

آہستہ آہستہ جیسے علی کی یاد زندگی سے مٹتی گئی اسکے لیے

جبکہ اپنی فیملی میں بیٹھے اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہنستے بولتے علی خان کی ہر یاد میں بس وہ ہی بستی تھی

°°°°°

اسے ابھی شادی نہیں کرنی تھی اور عالم جیسے شخص کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں لیکن اپنے بابا کے اسرار پر اسے اس شادی کے لیے راضی ہونا پڑا

اس شادی میں بھلے سے اسکی مرضی شامل نہ تھی پر وہ اس شادی کو پورے دل سے نبھانا چاہتی تھی اور اسنے نبھائی بھی تھی

اسے نہیں پتہ تھا کہ عالم شاہ جیسے شخص سے بھی اسے کبھی محبت ہوسکتی ہے لیکن ہوگئی تھی وہ شخص جو اسکا محرم بنا تھا دھیرے دھیرے اسکا سب کچھ بنتا چلا گیا

اپنی زندگی میں وہ خوش تھی اور وہ انہی دنوں کی بات تھی جب وہ عالم کے ساتھ ہنی مون پر گئی تھی

عالم باہر گیا ہوا تھا اور وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب نیوز چینل پر آتی خبر دیکھ کر اسکے ساتھ سے ریموٹ نیچے گرگیا

نیوز اینکر پورے جوش سے یہ بات بتا رہی تھی کہ سیاستدان علی خان اور انکی بیوی ایک بم بلاسٹ میں انتقال کر چکے ہیں

اور اتنے وقت بعد اسے جیسے اسے یاد آیا کہ اسکی زندگی میں علی خان بھی کبھی تھا

یہ خبر سنتے ہی وہ رو رہی تھی آج پہلی بار وہ علی خان کے لیے رو رہی تھی اور اگر علی کو یہ بات پتہ چل جاتی کہ آئرہ اسکے لیے رو رہی ہے تو وہ ویسے بھی خوشی سے مرہی جاتا

روتے روتے اسے یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ عالم کب وہاں آیا

اسے روتے دیکھ کر وہ اچھا خاصا پریشان ہوچکا تھا

اسکے پوچھنے پر آئرہ نے بنا کچھ چھپاے اسے اپنے ماضی کا وہ ادھورا قصہ سنادیا وہ اس بات کو بھول چکی تھی لیکن اب یاد آگئی تھی تو وہ چھپانا نہیں چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی آگے جاکر کبھی عالم کو کسی اور سے یہ بات پتہ چلے

"وہ تمہارا ماضی تھا آئرہ چلا گیا میں تمہارا حال اور مستقبل ہوں"

"آپ کو برا نہیں لگا عالم"

"تم اگر اب مجھے دھوکہ دیتیں تو مجھے برا لگتا پر تم میرے ساتھ مخلص ہو پورے دل سے تم اس رشتے کو نبھارہی ہو تو پھر میں کیوں پرانی بات لے کر یٹھوں بات اس جگہ ہوئی ہے اور اسے یہیں ختم کردو"

"آپ کو واقعی کوئی فرق نہیں پڑا"

"نہیں اگر مجھے کسی چیز سے فرق پڑ رہا ہے تو وہ ہیں تمہارے آنسو جو تم کسی اور کے لیے بہا رہی ہو رونا بند کرو"عالم نے اسکے بھیگے گال صاف کیے

"عالم وہ مر چکا ہے میں بس اسے لیے رو رہی تھی"

"تو تم میرے لیے رو اسکے لیے کیا مجھے بھی مرنا پڑے گا"

"عالم" اسنے مزید شدت سے روتے ہوے اسکے سینے پر اپنا مکا مارا

عالم نے اسے اپنے حصار میں لے لیا

"یہ بات یہیں ختم کردو آئرہ تمہارا ماضی حال مستقبل سب کچھ صرف عالم شاہ ہے"عالم نے شدت سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسے مزید سختی سے خود میں بھینچ لیا

آئرہ نے بھی اس بات کو اسی جگہ پر ختم کردیا دوبارہ کبھی اسے یاد نہیں کیا لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ زکر پھر اسکی زندگی میں آجاے گا

°°°°°

"عصیرم اٹھیں اٹھیں"اسکا مضبوط کندھا ہلاتی ہوئی وہ اتنی دیر سے اسے جگانے کی کوشش کررہی تھی

"کیوں اٹھنا ہے"اسنے نیند میں ڈوبی آواز کے ساتھ کہا

"نو بجنے والے ہیں"

"میری جان وہ روز ہی بجتے ہیں"

"پلیز اٹھیں نہ اماں سائیں کا فون آیا تھا وہ ناشتہ لے کر آرہے ہیں" نیند سے بھری آنکھیں کھول عصیرم نے نور کی طرف دیکھا

جس نے اس وقت ریڈ کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا ہلکی پھلکی جیولری اور ہلکا پھلکا میک اپ کرکے اسنے لبوں کو سرخ لپسٹک سے سجایا ہوا تھا اور اسکا یہ روپ عصیرم کے سوے جذبات جگا رہا تھا

"کیوں ہمارے گھر میں ناشتہ نہیں ملتا"عصیرم نے اسکا وجود اپنے اوپر گرایا

"عصیرم یہ رسم ہوتی ہے"

"خیر ابھی تو نہیں آے نہ پھر سوجاؤ"

"میں اپنی نیند پوری کرچکی ہوں"

"ایک اچھا شوہر ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ اپنی نیند پوری کرلو کیونکہ کل میں نے تمہیں چھوڑ دیا تھا لیکن آج ایسا ہرگز نہیں ہوگا" اسکی بات سنتے ہی نور کے گال سرخ ہوچکے تھے

"چھوڑیں مجھے" اسنے عصیرم نے اوپر سے اٹھنا چاہا جب اسکا وجود بیڈ پر لٹا کر عصیرم نرمی سے اسکے لبوں پر جھک گیا

وہ پہلی بار اسکے اس قدر قریب آیا تھا

دروازہ بجنے کی آواز پر عصیرم نے اسکے لبوں کو آزاد کیا

"سر نور میڈم کے گھر والے آگئے ہیں"

"تم جاؤ ہم آرہے ہیں" جواب وہ باہر کھڑے شخص کو دے رہا تھا لیکن نظریں بس نور پر ٹکی ہوئی تھیں جو نظریں جھکائے اپنی تیز ہوتی دھڑکن کو قابو میں کرنے کی کوشش کررہی تھی

"چلو تمہارے گھر والوں نے بچا لیا لیکن آج رات ولیمے کے بعد تمہیں کوئی نہیں بچا پائے گا" اسنے نرمی سے اسکا گال سہلایا

"میں فریش ہوکر آتا ہوں ساتھ چلیں گے لیکن اس سے پہلے مجھے جلدی سے اپنا ڈمپل دکھاؤ"

"عصیرم"

نور نے اسکی فرمائش پر اسے گھور کر دیکھا

"جلدی سے دکھاؤ" اسکے کہنے پر نور ہلکا سا مسکرائی اور اسکے ابھرتے ڈمپل پر عصیرم نے نرمی سے اپنے لب رکھے دیے

°°°°°

ان دونوں کو ایک ساتھ آتے دیکھ کر پریشے نے دل میں بے ساختہ ماشاءاللہ کہا

وہ ایک بھرپور مرد تھا اور وہ نازک لڑکی لیکن انکی جوڑی انتہا کی حسین تھی

"اسلام و علیکم"پریشے نے مسکراتے ہوے عصیرم کو سلام کا جواب دیا اور اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر نور کو اپنے سینے سے لگالیا

اسے اپنی بیٹی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کیسی ہے کیونکہ خوشی اسکے چہرے سے ہی پھوٹ رہی تھی

ماہیم اور حیات کے علاؤہ وہاں لڑکوں میں صرف ایہاب اور آہان موجود تھے

ان سب سے مل کر عصیرم نے انہیں نور کے ساتھ ڈائینگ روم میں بھجوادیا لیکن خود وہ آئرہ کے ساتھ وہیں موجود تھا جانتا تھا کل اسکی بات کے بعد سے وہ عجیب کیفیت میں ہی رہی ہوگی

"آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں" ان سب کے جانے کے بعد وہ آئرہ کی طرف متوجہ ہوا

"میری تصویریں پھینک دو عصیرم تم نے انہیں کیوں رکھا ہوا ہے"

"نہیں پھینک سکتا وہ میرے بابا کی یادیں ہیں انکی خاص چیزیں"

"تمہیں مجھ سے نفرت ہورہی ہوگی"

"مجھے آپ سے نفرت کیوں ہوگی"

"کیونکہ میری وجہ سے تمہارے باپ نے تمہاری ماں کو چھوڑنا چاہا" اسکی بات سن کر عصیرم نے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں مجھے آپ سے نفرت نہیں ہے بلکہ مجھے تو ہمیشہ سے آپ سے محبت رہی ہے آپ جانتی ہیں آئرہ آنٹی جب میں چھوٹا تھا تب بابا نے مجھے اپنے ماضی کی ساری باتیں بتادی تھیں وہ میری ماں کو چھوڑنا چاہتے تھے لیکن نہیں چھوڑا کیونکہ آپ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا جو رشتہ ٹوٹنے والا تھا میرے بابا نے اسے تاحیات جوڑ کر رکھا صرف آپ کی وجہ سے آپ کے کہنے پر"

"یہ تمہاری سوچ ہے تمہیں پتہ ہے عصیرم تم اچھے ہو"

"صرف اچھا"

"نہیں تم بہت اچھے ہو تم بلکل اپنے باپ کی طرح ہو" مسکراتے ہوے نم آنکھوں سے اسنے عصیرم کی طرف دیکھا

"میں اپنے باپ کی طرح ہوں یہ بات میرے لیے قابل تعریف ہے چلیں ناشتہ کرتے ہیں" اسے اپنے ساتھ لے کر وہ ڈائینگ روم میں طرف چلا گیا

°°°°°

عصیرم کے گھر سے واپس آکر وہ سب پھر سے اپنے کاموں میں لگ گئے

آج کا دن بھی ایسا ہی مصروفیت بھرا گزرنا تھا کیونکہ آج نور اور عصیرم کا ولیمہ تھا

"شاہ دیکھیں میں نے آپ کے کپڑے اور باقی سارا سامان نکال کر رکھ دیا ہے تو مجھے اب آواز مت دیجیے گا میں آئرہ آپی کے پاس جارہی ہوں" اسکا سارا سامان ترتیب سے ٹیبل اور صوفے پر سجا کر وہ جانے لگی جب عصیم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کرلیا

"اتنی جلد بازی کیوں دکھا رہی ہو جب سے نور کی شادی شروع ہوئی ہے تم تو مجھے بھول ہی گئی ہو"

"ایسی بات نہیں ہے وہ شادی والا گھر ہے نہ تو کتنے کام ہوتے ہیں" اپنی طرف سے اسنے ایک جواز پیش کیا

"ہاں سارا کام تمہارے ان کندھوں پر ہی تو ڈالا ہوا ہے آج تمہاری کوئی بہانے بازی نہیں چلے گی"

"ابھی تو چھوڑیں نہ مجھے جانا ہے"

"جاکر کیا کروگی"

"پلیز شاہ چھوڑیں رات کو جو بولیں گے وہ کروں گی پر ابھی چھوڑیں"

"پکا رات کو میں جو کہوں گا تم وہ کرو گی"

"ہاں"گہرا سانس لے کر عصیم نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور اسکے چھوڑتے ہی وہ باہر بھاگ گئی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر حوریب پر پڑی جو آئینے کے سامنے کھڑی اپنا ہر طرف سے جائزہ لے رہی تھی

"حوریب کیا دیکھ رہی ہو"

"زریام میں موٹی ہورہی ہوں نہ" اسکی بات سن کر زریام کو ہنسی آئی

اسے اپنا آپ ابھی سے موٹا بھی لگنا شروع ہوگیا تھا

"نہیں میری جان تم بلکل موٹی نہیں ہورہی ہو" اسنے پیچھے سے حوریب کو اپنے حصار میں لیا

"لیکن ہو تو جاؤں گی نہ"

"تو کیا ہوا مجھے تو تم ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہو"اسکی بات سن کر حوریب نے اپنا رخ موڑا اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا

"سچ کہہ رہے ہو"

"بلکل"

"اچھا ایک اور بات بتاؤ"

"ہمم کہو"

"جب ہماری اولاد ہوجاے گی تو میرے لیے تمہارا پیار کم تو نہیں ہوجاے گا نہ"

"نہیں میرا پیار تمہارے لیے کبھی ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ تو دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے" اسنے حوریب کی سفید بےداغ پیشانی پر اپنے لب رکھے

"کھانا کھایا تم نے"

"ہاں کھالیا"

"کچھ اور کھانا ہے"

"ہاں چاٹ کھانی ہے کھلادو گے" اسنے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا

"ہاں بلکل جو بھی کھانا ہو مجھے بتایا کرو ابھی میں تمہاری چاٹ کا بندوست کرکے آتا ہوں"

زریام کے جانے کے بعد اسنے دوبارہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور پھر سے خود کا جائزہ لینے میں مصروف ہوگئی

°°°°°

مہمانوں سے سلام دعا کرتے دادا جان کی نظریں بار بار اینٹرنس کی طرف جارہی تھیں

انتظار تھا کہ وہ خاتون جو انہیں پہلے ملیں تھیں وہ دوبارہ مل جاتیں

"کس کا انتظار کررہے ہیں دادا جان" عصیرم کی آواز پر دادا جان نے مڑ کر اپنے خوبرو پوتے کو دیکھا جو اس وقت رائل بلیو کلر کے تھری پیس میں کھڑا اپنی نیلی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہا تھا

"خاص مہمان ہیں"

"کون سے مہمان"

"تم نہیں جانتے"

"آپ نے خود انوائیٹ کیا تھا کیونکہ میں نے کیا ہوتا تو مجھے پتہ ہوتا"

"نہیں میں نے نہیں کیا تھا"

"جب انوئٹ نہیں کیا تو پھر وہ کیسے آئینگے دادا جان"

"معتصم نے کیا تھا اور اب تم عصیرم اپنی دلہن کے پاس جاؤ میرا دماغ مت کھاؤ مجھے پہلے ہی بہت غصہ آرہا ہے" دادا جان کے کہنے پر عصیرم اپنے کندھے اچکا کر وہاں سے چلا گیا جبکہ سامنے سے آتی ہستی کو دیکھ کر دادا جان کو اپنا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھتا محسوس ہوا

انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ویٹر کو اپنے قریب بلایا

"جی سر"

"سامنے ان لوگوں کو دیکھ رہے ہو" انہوں نے سامنے کھڑی فیملی کی طرف اشارہ کیا جس میں عارف آمنہ دادی جان میشال اور اقرار تھے

"جی سر"

"انکا خاص خیال رکھنا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو فورا جاکر دینا" انکے کہنے پر ویٹر اپنا سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا جبکہ دادا جان بھی اپنی دلنشین کو دیکھ کر اطمینان محسوس کرتے وہاں سے چلے گئے

°°°°°

"کیسا ہے میرا بچہ"اسکے چہرے کو چھو کر معتصم نے اسے اپنے ساتھ لگالیا

"کیسی لگ رہی ہوں بابا سائیں"

"بہت خوبصورت بہت اچھی"

"اور میں ایسی ہی ہوں آپ میرے لیے فکر مت کریں"

"تمہارے لیے تو میری یہ فکر تاحیات رہے گی"

"کیوں رہے گی ہم ہیں نہ فکر مت کرو معتصم اب تو یہ ہماری بیٹی ہے" دادا جان کی آواز پر معتصم کے ساتھ ساتھ نور نے بھی انکی طرف دیکھا

"جی میں جانتا ہوں"

"اچھا زرا میرے ساتھ آؤ"دادا جان نے اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا جو بغیر کچھ پوچھے آنکھ ساتھ چل دیا

"وہاں کورنر پر جو فیملی بیٹھی ہے تم انہیں جانتے ہو" انکی بات سن کر معتصم نے حیران ہوتے ہوے اپنا سر ہلایا

"جی عارف میرا بہت اچھا دوست اور بزنس پارٹنر ہے"

"اچھا اچھا"

"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں"

"ارے نہیں نہیں بس وہ بہت اچھے لوگ لگ رہے تھے تو میں نے اسی لیے تم سے پوچھ لیا کبھی دیکھا نہیں نہ انہیں جاؤ بیٹا جاکر مہمانوں سے ملو" انکے کہنے پر وہ فقط اپنا سر ہلاکر وہاں سے چلا گیا

°°°°°

اسنے آہستہ سے دروازہ کھول کر قدم کمرے میں رکھا

پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور اسے یہی لگا کہ عصیم بھی سوچکا ہوگا کیونکہ مصروفیت کی وجہ سے کمرے میں دیر سے آئی تھی لیکن دو قدم جب وہ مزید چلی تو کسی نے اندھیرے کمرے میں اجالا بکھیر دیا

"شاہ آپ جاگ رہے تھے"

"کیسے نہیں جاگتا آخر ہماری بات طے ہوئی تھی"

"لیکن مجھے اب نیند آرہی ہے"

"تم اپنی بات سے مکر رہی ہو کسوا شاہ"

"مکر نہیں رہی کسی اور دن پر ڈال رہی ہوں" مزے سے کہتی ہوئی وہ چینج کرنے کے لیے جانے لگی جب عصیم نے اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنی جانب کھینچا

"آج میرا تمہیں چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے مسسز عصیم شاہ"

"شاہ پلیز دیکھیں میری آنکھیں ان میں کتنی نیند بھری ہوئی ہے" اپنی آنکھیں پوری کھول کے وہ عصیم کو اپنی نیند دکھانے کی کوشش کرنے لگی لیکن ایسے معاملوں میں کچھ خوش قسمت دنوں کے علاؤہ کسوا کی کبھی نہیں چلی تھی اور آج بھی نہیں چلنے تھی

اسے بیڈ پر گرا کر عصیم اسکے اوپر جھکا اور اسکے لبوں کو اپنی قید میں لے لیا

°°°°°

بیڈ پر اپنی میکسی پھیلائے وہ کل کی طرح عصیرم کا انتظار کررہی تھی لیکن آنکھوں میں اترتی نیند اسے سونے پر مجبور کررہی تھی

اسنے اپنا سر بیڈ کراؤن سے لگایا اور کل کی طرح پھر سے نیند کی وادیوں میں چلی گئی

کمرے میں داخل ہوکر اسکی پہلی نظر سوئی ہوئی نور پر پڑی اپنی گھڑی اور کوٹ اتار کر اسنے بٹن کھول کر سلیوز کونیوں تک چڑھائیں اور بیڈ پر بیٹھ کر غور سے اسے دیکھنے لگا

لائٹ بلیو کلر کی میکسی پہنے وہ کل سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی اگر یہ کہا جاے کہ عصیرم کو تو وہ ہر پل ہی خوبصورت لگتی تھی تو غلط نہیں ہوگا

"آج تو تمہیں نہیں چھوڑ سکتا نور"اسکے گال کو سہلاتے ہوے اسنے ہلکی سی سرگوشی کی اور اسکے لبوں پر جھک گیا

دوسری طرف نور کو لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے

کسی کی موجودگی اپنے اوپر بھاری وزن اور پھر رکتی سانسیں اسکی نیند خراب کرچکی تھیں

اسنے آنکھیں کھول کر اپنے اوپر جھکے عصیرم کو دیکھا

اور اپنے دونوں ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی رہی

اسکے لبوں کو آزاد کرکے عصیرم غور سے اسکا لال گلابی چہرہ دیکھنے لگا

"آپ کب آے" اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر اسنے سوال پوچھا

"تھوڑی دیر پہلے" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اپنی وارڈروب کی جانب بڑھا اور وہاں سے ایک چھوٹا سا بوکس نکال کر واپس اسکے پاس آکر بیٹھ گیا

"یہ تمہارا گفٹ کل دے نہیں سکا تھا اور دیر سے دینے کے لیے معذرت چاہتا ہوں" نور نے اسکے ہاتھ میں پکڑے اس بلیک باکس کو دیکھا اور اپنے ہاتھوں میں اسے لے کر باکس کو کھولا

اور گفٹ دیکھ کر حیرت سے عصیرم کو دیکھنے لگی اس باکس میں ایک چابی تھی گاڑی کی چابی

"یہ میری ہے عصیرم" اسنے بےیقینی سے عصیرم کی طرف دیکھا

"ہاں بلکل"

"تھینک یو"خوشی سے چہکتے ہوے وہ عصیرم کے گلے لگ گئی

"آپ کو پتہ ہے مجھے گاڑی چلانے کا کتنا شوق تھا"

"ہاں میں جانتا ہوں تم مجھے پہلے بھی بتاچکی ہو"

"بابا سائیں اور لالا نے مجھے کبھی چلانے نہیں دی"

"کیوں"

"انہیں لگتا تھا میں خود کو کوئی چوٹ پہنچا لوں گی"

"خیر یہ ڈر تو مجھے بھی ہے لیکن میں اس ڈر کے پیچھے تمہاری اس خواہش کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتا" اسنے نرمی سے اسکی کمر سہلاتے ہوے کہا اور اسکے ہاتھ سے باکس لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا

"تو تمہیں تمہارا گفٹ مل گیا اب میں اپنا گفٹ لے لوں"

اسے بیڈ پر لٹا کر عصیرم اسکے اوپر جھک گیا

"عصیرم میں گاڑی دیکھ لوں" اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر اسنے بوکھلاتے ہوے کہا

"تمہاری ہی ہے میری جان بعد میں دیکھ لینا ابھی صرف اپنے شوہر پر دھیان دو"بہکے بہکے لہجے میں کہتے ہوے وہ اسکی گردن پر جھک گیا

"تم میرے لیے بہت خاص ہو نور تمہارا شکریہ میری محرم بننے کے لیے میری روح کا محرم بننے کے لیے"اسکی سرگوشی نما آواز سن کر نور نے اپنی آنکھیں بند کرلیں

جب اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنی قید میں لے کر عصیرم نے اسکی لرزتی پلکوں پر اپنے لب رکھے اور اسکے لبوں پر جھک کر اسے ہر طرح سے اپنا بناتا چلا گیا

°°°°°

"ہیلو ثناء کیسی ہو" ثناء کے کال اٹھاتے ہی اسنے خوشی سے کہا

زریام کے کہنے پر اسنے کوشش کی تھی کہ شانزے سے جا کر مل لے لیکن فرصت ہی نہیں مل پائی

لیکن پھر بھی وہ اسے لاتعداد کال کرچکا تھا لیکن اسکا نمبر ہر بار ہی بند جاتا اسلیے آج اسنے ثنا کو کال ملا لی

ویسے وہ شانزے کے گھر بھی جاسکتا تھا لیکن آہان کے مطابق وہ غصے میں ہوگی اسے سامنے دیکھ کر پتہ نہیں کس طرح کا ری ایکٹ کرتی یا شاید گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دیتی تو بہتر تھا پہلے فون پر بات کرکے اسے منا لیا جاے

"تمہیں آج میری یاد کیسے آگئی" اسکی بات سن کر آہان اپنا سر کھجانے لگا

"کیسی ہو"

"کام کی بات کرو آہان"

"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں تمہیں بنا کام کے کال ہی نہیں کرتا ہوں"

"ہاں نہیں کرتے ہو"

"اچھا وہ شانزے کا نمبر بند جا رہا ہے"

"تو یوں کہو نہ شانزے کے لیے کال کی ہے"اسکی بات آہان نے ہوا میں اڑائی

"دوست کی ہیلپ نہیں کرو گی"

"اسنے اپنا نمبر چینج کرلیا ہے"

"اچھا تو مجھے اسکا نیا نمبر سینڈ کردو"

"کررہی ہوں اب فون رکھو میں تیار ہورہی ہوں مجھے جانا ہے"

"کہاں جانا ہے"

"شانزے کا نمبر دے رہی ہوں اس سے پوچھ لینا وہ زیادہ اچھے سے بتادے گی" اسنے کال کاٹ دی اور آہان کو شانزے کا نیا نمبر سینڈ کردیا پتہ تھا جب تک وہ یہ کام نہیں کرے گی تب تک وہ کال اور میسجیز کر کے اسکا دماغ کھاتا رہے گا

°°°°°

"تم نے نمبر چینج کرلیا مجھے کیوں نہیں دیا تم سے بات نہیں ہورہی تھی میں اتنا بےچین تھا تم بھلا کیسے اتنی آرام سے رہ رہی ہو" اسکے کال اٹھاتے ہی آہان بنا اسکی بات سنے اپنی کہنا شروع ہوگیا

"آہان بریک لو پھر بولو"

"سوری یار میں نے تمہیں ڈانٹا تھا"

"آہان وہ اب پرانی بات ہوچکی ہے میں بھول گئی تم بھی بھول جاؤ"

"یعنی تم مجھ سے ناراض نہیں ہو"

شانزے اس سے ناراض نہیں تھی اور یہ بات سنتے ہی اسے سکون ملا

"نہیں"

"تو پھر مجھے اپنا نم ر کیوں نہیں دیا"

"تم میرے گھر آسکتے ہو"

"ابھی"اسکی بات سن کر آہان نے حیرت سے پوچھا

"ہاں ابھی اور سنو اچھے سے تیار ہوکر آنا"

"ٹھیک ہے میں آجاتا ہوں"

شانزے سے ملاقات کے تصور نے ہی اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دی

°°°°°

اس وقت سب لوگ وصی کے گھر پر ہی رکے ہوے تھے سواے ماہر کے نور کی شادی کے اگلے روز ہی وہ یونی ٹرپ پر جاچکا تھا

کپڑے بدل کر اسنے اپنے بکھرے بالوں کو ٹھیک سے بنایا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر سے نکل گیا

راستے میں اسنے شانزے کے لیے پھولوں کا چھوٹا سا گلدستہ خرید لیا

راستہ اسے پتہ تھا خود وہ پہلے بھی اسکے گھر ایک بار جاچکا تھا لیکن آج تک اسکے گھر والوں سے نہیں ملا اور نہ ہی شانزے اسکے گھر والوں سے ملی تھی

اسکے گھر کے باہر گاڑی روکتے ہی وہ حیرت سے ہر طرف دیکھنے لگا

رات کے آٹھ بج رہے تھے اور اسیے میں شانزے کا لائٹوں سے سجا کر سب گھروں میں الگ ہی دکھ رہا تھا

پھولوں کا گلدستہ گاڑی سے نکال کر وہ اندر چلا گیا جہاں اندر جاتے ہی اس منظر کو دیکھ کر اسکا وجود ساکت ہوگیا

گلدستہ اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جاگرا

سامنے ہی اس خوبصورت سے اسٹیج میں دلہن بنی شانزے بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس اس شخص کے ساتھ بیٹھی ہنس رہی تھی

اور آہان کو اپنا دل ٹکڑوں میں بٹتا محسوس ہورہا تھا جن محبت بھرے جذبوں کو اسنے صحیح وقت کے انتظار میں آج تک چھپا رکھا تھا وہ جیسے اندر ہی اندر مر رہے تھے

ادھر ادھر نظریں دوڑاتی شانزے کی نظر اس پر پڑی اسنے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا لیکن وہ الٹے قدموں واپس باہر چلا گیا

°°°°°

"آہان"

اپنی گاڑی کا دروازہ کھولتے آہان کے ہاتھ اسکی آواز سن کر رکے

اسنے مڑ کر بھیگی نظروں سے اسے دیکھا اس وقت بےبی پنک کلر کی میکسی پہنے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی

لیکن آہان کو اسکی یہ خوبصورتی نظر نہیں آرہی تھی یا شاید وہ اس وقت دیکھنا نہیں چاہتا تھا

"تم کہاں جارہے ہو"

"یہ سب کیا ہے"

"یہی تو تمہیں اس دن بتانا چاہ رہی تھی کہ میری انگیج منٹ فکس ہوگئی ہے اور آج بھی اسی لیے تمہیں بلایا تاکہ تمہیں یہ سرپرائز دے سکوں چلو آؤ تمہیں داد سے ملاتی ہوں" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے اندر لے جانے لگی لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا

"تم اتنی بیوقوف کیوں ہو شانزے سچ سچ بتاؤ کیا آج تک تمہیں میری نظر میں اپنے لیے کوئی جذبات نہیں دکھے تمہیں آج تک یہ اندازہ نہیں ہوا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں" اسکی بات سن کر شانزے حیرت سے اسے دیکھنے لگی

"یہ تم کیا کہہ رہے ہو"

"تم مجھے بتاؤ جواب دو میری بات کا" اسکا ہاتھ پکڑ کر آہان نے اسے اپنے قریب کھینچا

"آہان تم پاگل ہوگئے ہو یہ کیا کہہ رہے ہو"

"سچ کہہ رہا ہوں شانزے بہت محبت کرتا ہوں تم سے یہ فالتو رشتہ یہیں توڑ دو" آہان نے اپنے ہاتھ میں پکڑے اسکے ہاتھ پر اپنے لب رکھنے چاہے لیکن اسکی اس حرکت پر وہ فورا اس سے دور ہٹی اور تیز تیز قدم اٹھاتی واپس اندر چلی گئی اسے پیچھے سے آہان کی آواز سنائی دی جو اسے پکار رہا تھا لیکن وہ اسکی پکار نہیں سن رہی تھی وہ اس وقت سننا ہی نہیں چاہتی تھی

°°°°°

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ دونوں سیدھا ڈائینگ روم کی طرف چلے گئے

کیونکہ یہ ڈنر ٹائم تھا سب نے اس وقت وہیں ہونا تھا

"آہان کہاں ہے"

آہان کی غیر موجودگی دیکھ کر آئرہ نے پوچھا وہ عالم کے ساتھ باہر گئی ہوئی تھی اور انکی واپسی اب ایک گھٹنے بعد ہورہی تھی

"اپنے کمرے میں ہے کھانے کا پوچھا تھا انکار کردیا اسنے کہا اسے بھوک نہیں ہے" عینہ کے کہنے پر اسکے چہرے پر پریشانی کے تاثرات آے

آہان ایسے موقعے کبھی نہیں چھوڑتا تھا جہاں سب گھر والے ایک ساتھ بیٹھے ہوں چاہے اسے بھوک ہو یا نہیں لیکن ڈنر ٹیبل پر وہ سب سے پہلے موجود ہوتا تھا کیونکہ اس وقت پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھی ہوتی تھی

"میں گیا تھا اسے دیکھنے لیکن وہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا اسنے کہا اسکے سر میں درد ہے" زریام کے کہنے پر وہ سیدھا آہان کے کمرے کی طرف گئی عالم بھی اسکے پیچھے تھا

"آہان دروازہ کھولو"اسنے ہلکے سے اسکا دروازہ کھٹکھٹاکر کھولنا چاہا لیکن وہ لاکڈ تھا

"مجھے بھوک نہیں ہے اماں سائیں"

آہان کی بات سن کر عالم نے اپنے بھاری ہاتھ سے دستک دی

"آہان دروازہ کھولو"

چند لمحے خاموشی کی نزر ہوگئے اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی جس پر آئرہ شکر بھرا سانس لے کر اندر داخل ہوئی جہاں ان دونوں کو آہان کی پشت دکھائی دی

عالم نے آگے بڑھ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا اور اسکے ایسا کرتے ہی کسی بچے کی طرح وہ اسکے گلے لگ کر رونے لگا

وہ اپنے باپ سے ڈرتا تھا لیکن پیار بھی سب سے زیادہ اسی سے کرتا تھا

"آہان کیا ہوا ہے میرا بیٹا" اسکی کمر تھپتھپاتے ہوے عالم نے نرمی سے کہا جس پر وہ پیچھے ہٹ کر جلدی سے اپنے آنسو صاف کرنے لگا

"آہان بتاؤ کیا ہوا ہے"

آئرہ نے آگے بڑھ کر پوچھا

"میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں"

"تو اسلیے رو رہے ہو"

"بابا سائیں اسکی منگنی ہوگئی ہے"

"منگنی ہوئی ہے نکاح نہیں"

"کون ہے وہ لڑکی" یہ سوال آئرہ کی طرف سے آیا

"وہ میری دوست ہے شانزے آج اسکی منگنی ہوچکی ہے"

"منگنی ہوئی ہے نکاح نہیں یہاں لوگوں کے نکاح ٹوٹ جاتے ہیں ہمارے بیٹے نے تو صرف منگنی شدہ لڑکی پسند کی ہے" عالم کے کہنے پر آئرہ نے گھور کر اسے دیکھا

"عالم آپ کسی کی منگنی توڑنا چاہ رہے ہیں"

"اپنے بیٹے کے لیے میں ایک کوشش تو کروں گا آئرہ" اسنے نرمی سے اسکے بھیگے گال صاف کیے

نور کو ہمیشہ جتنا لاڈوں میں پالا تھا اتنا ہی گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کے باعث آہان کو بھی پالا تھا اسلیے عالم کے علاؤہ کوئی بھی اس پر سختی نہیں کرتا تھا

"ہمارا کھانا کمرے میں بھجوادو"اسنے آہان کو اپنے سینے سے لگایا

اسکے کہنے پر آئرہ نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور اپنا سر ہلاکر وہاں سے چلی گئی

°°°°°

اپنے دکھتے سر پر ہاتھ رکھ کر اسنے آنکھیں کھولیں

دھندلاہٹ آہستہ آہستہ ہٹنے لگی اور وہ حیرت سے اس چھت کو دیکھنے لگا وہ یہاں کیا کررہا تھا

اس وقت وہ وصی کے گھر میں بنے اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا

دماغ جیسے سن پڑا تھا کیا ہورہا تھا کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا اسنے غائب دماغی سے دھاڑ سے کھلتے اپنے کمرے کے دروازے کو دیکھا

جہاں عصیم سمیت گھر کے باقی مرد افراد بھی تھے

اسنے غصے سے عصیم کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا

عصیم نے اسکا گریبان کھینچ کر اسے اٹھایا اور زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا وہ حیرت و بےیقینی سے اپنی جگہ کھڑا رہ گیا

"عصیم کیا کررہے ہو دماغ ٹھیک ہے تمہارا جوان اولاد پر ہاتھ اٹھا رہے ہو" معتصم نے اسے پیچھے کیا جو شاید اس پر دوسرا تھپڑ مارنے کا ارادہ رکھتا تھا

"ہاں اٹھا رہا ہوں جب اولاد یہ حرکتیں کرنا شروع کردے تو ماں باپ جوان اولاد پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گزیز نہیں کرتے"

"بابا سائیں پہلے اسکی بات تو سن لیں" ساحر نے آگے بڑھ کر کچھ کہنا چاہا جب عصیم نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروایا

"کیا بات سنو اسکی اب کچھ سننے کے لیے رہ گیا ہے ایک لڑکی کی عزت خراب کردی ہے اسنے اور تم کہہ رہے ہو میں اسکی بات سنوں" اس الزام پر ماہر تو جیسے سکتے کی کیفیت میں جاچکا تھا

اسنے تو کبھی کسی لڑکی پر غلط نگاہ بھی نہیں ڈالی تھی تو بھلا بات یہاں تک کیسے پہنچ گئی

"ب--بابا سائیں میں نے کچھ نہیں کیا آپ می-میرا یقین کریں" ہکلاتے ہوے اسنے اپنی صفائی دینی چاہی لیکن وہ اسکی کچھ سن ہی نہیں رہا تھا

"اپنی بکواس بند کرو جاکر بلاؤ اسکی ماں کو کیا کہتی تھی وہ میرا ماہر بہت شریف ہے دکھادی اسکے ماہر نے ساری شرافت"

"نہیں آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں نے کچھ بھی نہیں کیا مجھے تو کچھ پتہ بھی نہیں ہے آپ کہہ کیا رہے ہیں میں نے کچھ نہیں کیا"

"تم نے بہت کچھ کیا ہے ماہر تم نے میرے مان توڑا ہے"اسکے لہجے میں افسوس تھا دکھ تھا پہلی بار ماہر نے اپنے لیے اسکے لہجے میں افسوس دیکھا تھا دکھ دیکھا تھا اور جیسے اندر تک کچھ ٹوٹ سا گیا تھا

غصے سے عصیم اسکے کمرے سے باہر نکل گیا

معتصم اور عالم بھی اسکے پیچھے چلے گئے اس وقت اتنے غصے میں اسے اکیلا چھوڑنا ٹھیک نہیں تھا

"ساحر میں نے کچھ نہیں کیا مجھے تو معلوم بھی نہیں ہے میرے ساتھ کیا ہوا ہے" انکے جاتے ہی اسنے بھیگے لہجے میں ساحر کی طرف دیکھا کوئی کرے یا نہ کرے ساحر تو اسکی بات پر یقین کرے گا

"غلط تو ہوا ہے ماہر لیکن یہ غلط کس نے کیا ہے یہ پتہ لگانا پڑے گا"

"بابا سائیں نے کہا میں نے کسی لڑکی کی ع--عزت خراب کی" اسنے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا سوچا نہیں تھا زندگی میں کبھی یہ الفاظ وہ خود اپنے لیے کہے گا

"وہ لڑکی کون ہے ساحر"

"عزہ اسد"

ساحر کے کہنے پر اسکا جیسے سانس تک رک چکا تھا

°°°°°

°°°°°

"آپ نے مجھے کیوں کال کی ہے" کال اٹینڈ کرتے ہی اسنے رکھائی سے کہا

"بڑے بابا نے بتایا عزہ تمہارے گھر پر ہے" اسنے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری

"ہاں ہے کیونکہ اسکے والدین اب نہیں رہے اکیلا اسے وہاں تو نہیں چھوڑ سکتے تھے نہ اسکی اکلوتی پھوپھو اسے اپنے گھر رکھنے پر تیار نہیں ہیں انکا کہنا ہے کہ وہ عزہ جیسی لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی ہیں جو یہ سب کرتی پھرے انہوں نے سارا الزام اس بچاری پر ڈال دیا لیکن کوئی جاکر انہیں بتاے میری دوست معصوم ہے اصل قصوروار آپ ہیں" اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس وقت ماہر کی جان لے لے

"میشال میری بات سنو پلیز میری عزہ سے بات کرا دو"

"کیوں اب کوئی کسر رہ گئی ہے"

"میشال میں نے کچھ نہیں کیا میں بےقصور ہوں تم خود مجھے جانتی ہو لڑکیاں مجھے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کتنی کوشش کرتی تھیں لیکن میں ان سے ہمیشہ فاصلہ بنا کر رکھتا تھا"

"پہلے میں بھی آپ کو شریف سمجھتی تھی لیکن آپ میں کتنی شرافت ہے ماہر سر یہ آپ دکھا چکے ہیں"

"اچھا تم میری عزہ سے بات مت کراؤ پر مجھے یہ بتا دو کہ اس دن کیا ہوا تھا" اسکے کہنے پر میشال چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگئی

"یہ بات صرف عزہ ہی جانتی ہے جب میں کمرے میں گئی تو مجھے عزہ اور آپ" اسے اپنے الفاظ ادا کرنے مشکل لگ رہے تھے وہ اپنے ٹیچر سے یہ بات کیسے اتنی آرام سے کہہ دیتی

"پلیز میشال میں بےقصور ہوں میرا یقین کرو کیا تم نے عزہ سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا"

"نہیں"

"تو پھر پلیز اس سے پوچھو اور فون بند مت کرنا میں سننا چاہتا ہوں وہ کیا کہتی ہے"

گہرا سانس لے کر اسنے موبائل اپنی شرٹ کی جیب میں ڈالا اور عزہ کے کمرے میں چلی گئی وہ جب سے یہاں آئی تھی بلکل خاموش تھی نہ اسنے کوئی بات کی نہ کسی نے اس سے اس بارے میں پوچھا

°°°°°

کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی جہاں وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی جس میں میشال نے اسے آخری بار دیکھا تھا

"عزہ"

اسنے نرمی سے عزہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اسکے برابر بیٹھ گئی لیکن دوسرا وجود اسی طرح بیٹھی رہا

"عزہ ہم نے اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں کی لیکن میں تم سے پوچھنا چاہتی ہوں بتاؤ اس دن کیا ہوا تھا"

میشال کے کہنے پر اسکا سکتہ ٹوٹا اور آنسو جن پر مشکل سے بند باندھا ہوا تھا وہ منظر یاد کرتے ہی پھر تیزی سے بہنے لگے

اسے زارو قطار روتے دیکھ کر مشیال کو اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا اسے اس طرح کی بات پوچھنی ہی نہیں چاہیے تھی

اسنے کال کاٹ کر عزہ کو اپنے گلے لگایا اور اسے چپ کرانے لگی

°°°°°

بےبسی سے اسنے اپنے موبائل کو دیکھا عزہ کے رونے کی آواز تو وہ خود بھی باآسانی سن پارہا تھا لیکن وہ حیران تھا

آخر ایسا کیا ہوا تھا جس کا الزام بھی اسی پر آرہا تھا اور اسے کچھ پتہ بھی نہیں تھا

سر درد تھا جو بڑھتا ہی جارہا تھا

اسنے اپنے دکھتے سر کو سہلایا

اس رات کیا ہوا تھا یہ عزہ کے علاؤہ کوئی نہیں جانتا تھا اور وہ بتانے کی حالت میں نہیں تھی ایسے میں اسے کیا کرنا چاہیے تھا

اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنی تھی اسے عزہ سے ملنا تھا تاکہ جان سکے کہ بات ہے کیا

پر وہ اس سے ملنے پر راضی کیسے ہوتی یہ بات سوچتے ہی زہہن کے سلجھتے دھاگے پھر الجھنے لگے

°°°°°

اسنے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا اور نظر جاے نماز پر بیٹھی کسوا پر گئی جو دعا مانگ رہی تھی

بنا کچھ سوچے ماہر نے جاکر اپنا سر اسکی گود میں رکھ دیا

اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کسوا نے اسکی طرف دیکھا اور اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی

"اماں سائیں میں نے کچھ نہیں کیا ہے سب مجھ پر الزام لگا رہے ہیں یہاں تک کہ بابا سائیں بھی لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ہے آپ جانتی ہیں نہ آپ کا ماہر ایسا کام کبھی نہیں کرسکتا"

اسنے امید بھری نظروں سے کسوا کی طرف دیکھا جیسے امید ہو وہ اسکا یقین ضرور کرے گی

"ماہر میری جان کوئی الزام نہیں لگا رہا جو سب کہہ رہے ہیں وہی حقیقت ہے" کسوا کے کہنے پر ماہر نے اپنا سر اسکی گود سے اٹھایا ساری امید جیسے ٹوٹ گئی وہ اپنی جگہ سے اٹھا

"ماہر"

کسوا نے نم آنکھوں سے اسے پکارا لیکن وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے کمرے سے جاچکا تھا

°°°°°

آج اس واقعے کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا تھا اور اس ایک ہفتے میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا سب ویسا ہی تھا

ہر طرف اداسی بھری ہوئی تھی کس نے سوچا تھا کہ کبھی شاہ حویلی والوں پر ایسا وقت بھی آے گا

زریام کے ساتھ باقی سب کو حویلی بھجوادیا گیا تھا یہاں وصی کے گھر پر آئرہ پریشے اور کسوا کے علاؤہ وہ تینوں تھے جبکہ نور کو اس سارے معاملے سے بے خبر ہی رکھا گیا تھا وہ نہیں چاہتے تھے اسکی نئی شادی شدہ زندگی میں کوئی مسلہ پیدا ہوا

"معتصم"

اپنی سوچوں کو جھٹک کر اسنے اپنے پاس بیٹھے معتصم کو پکارا

"ہاں"

"میں اس لڑکی سے ملنا چاہتا ہوں"

"کس لڑکی سے"

"عزہ اسد وہ عارف کے گھر پر ہے نہ تو عارف سے بات کرو مجھے اس سے ملنا ہے"

"عصیم میرا نہیں خیال وہ تمہیں عزہ سے ملنے کی اجازت دے گا عزہ تو ابھی تک نارمل بھی نہیں ہوپائی ہے"

"میرا بیٹا بھی نہیں ہوا ہے"اسکا لہجہ تیز ہوا

"دیکھ رہے ہو نہ تم اسے کس طرح اسنے خود کو کمرے میں بند کر رکھا ہے کسوا کھانا کھلا دیتی ہے تو کھالیا ہے ورنہ بھوکا بیٹھا رہتا ہے"

"اور اسکا ذمیدار کون ہے" عالم کے کہنے پر اسکے ماتھے پر بل پڑے اسے پتہ تھا عالم کیا کہنے والا ہے

"اسے ضرورت ہے تم سب کے اعتماد کی جو تم اسے نہیں دے رہے ہو اسے یونیورسٹی سے نکالا جاچکا ہے وہ اس وقت اکیلا ہے اسے تمہاری ضرورت ہے"

"ساحر اسکے ساتھ ہے''

''ساحر اسکا باپ نہیں ہے عصیم تم ہو''

"عالم ماہر میرا بیٹا ہے میں جانتا ہوں وہ اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھاے گا لیکن جب تک میں بات کی تہہ تک نہیں پہنچ جاتا تب تک کے لیے میری اس سے دوری ہی ٹھیک ہے میں عارف کے گھر جارہا ہوں تم دونوں میں سے کوئی آرہا ہے تو آجاے"

اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر وہ باہر چلا گیا معتصم اور عالم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر خود بھی باہر چلے گئے

°°°°°

کھانے کی ٹرے تھامے وہ اسکے کمرے میں داخل ہوئی اور ٹرے بیڈ کے قریب رکھ کر ماہر کو دیکھنے لگی جو بازو آنکھوں پر رکھے لیٹا ہوا تھا

"ماہر کھانا کھالو"

"بھوک نہیں ہے بڑی ماما"

آئرہ نے اسکے بازو اسکی آنکھوں سے ہٹایا

"اٹھو کھانا کھاؤ اس طرح کمرے میں بند رہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو"

"میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتا"

"اپنی بے گناہی بھی ثابت نہیں کرنا چاہتے"

"کیسے ثابت کروں اور کس کو ثابت کروں سب مجھے قصوروار ٹھہرا چکے ہیں"

"عزہ سے ملو ماہر عزہ نہ سہی کوئی تو ایسا شخص ہوگا جو اس جانتا ہو اس رات کیا ہوا تھا ساحر نے کہا ہوسکتا ہے یہ کام کسی ایسے شخص نے کیا ہو جو تمہارا یا عزہ کا دشمن ہو" اسکے کہنے پر ماہر نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور زہہن کے پردے پر ایک چہرہ لہرایا

"یہاں کمرے میں بند ہونے سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا ماہر" پلیٹ میں کھانا نکال کر اسنے پہلا نوالہ اسکی طرف بڑھایا

"تمہارے بابا سائیں عارف بھائی کے گھر گئے ہیں" اسکی بات سن کر ماہر نے حیرت سے اسکی کی طرف دیکھا

"کیوں"

"سچ جاننے" آئرہ نے دوسرا نوالہ اسے کھلایا

اسکے ہاتھوں سے چند لوالے زبردستی کھا کر اسنے مزید کھانے سے انکار کردیا

اس وقت تو دماغ بس اسی بات میں گم تھا کہ وہاں کیا بات ہورہی ہوگی عزہ ان سے کیا کہے گی شاید سب بتاے گی

کہ اس رات آخر ہوا کیا تھا

°°°°°

"معتصم میں تمہیں اس سے ملنے نہیں دے سکتا اس وقت اسکی کنڈیشن ایسی نہیں ہے پہلے ہی بہت مشکلوں سے وہ تھوڑی بہتری کی طرف جارہی ہے میں نہیں چاہتا پھر سے کوئی مسلہ ہو"

ان کی بات سنتے ہی عارف نے صاف انکار کردیا

"عارف پلیز تم سمجھو تو صرف ایک عزہ ہی ہے جو یہ ثابت کرسکتی ہے ماہر بے گناہ ہے"

"وہ گناہ گار ہے معتصم تم اسے بے گناہ مت کہو" اسکا انداز چیخنے والا ہوگیا

"میرا بیٹا گناہ گار ہے یا بے گناہ اس کا فیصلہ کوئی تب تک نہیں کرسکتا جب تک ساری بات کا علم نہ ہوجاے"

"تمہیں اب بھی اپنا بیٹا بے قصور لگ رہا ہے عصیم شاہ"

"ہاں"

"ٹھیک ہے تم عزہ سے بات کرو اور اسکی زبانی سن لو کہ تمہارے بیٹے نے کیا کیا ہے"

اسنے میشال کو اشارہ کیا جو انہیں اس کمرے کی طرف لے گئی جہاں عزہ رہ رہی تھی

بند دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر عصیم نے گہرا سانس لیا اور دل میں دعا مانگی کہ اسکا بیٹا بے گناہ ہو

دروازہ کھول کر وہ عزہ کے قریب گئی جو بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹی تھی دروازہ کھلنے کی آواز سن کر بھی اس میں زرا سی بھی ہلچل نہیں ہوئی

عصیم نے غور سے بیڈ پر لیٹے اس وجود کو دیکھا چھوٹا سا نازک وجود اور چہرے پر بلا کی معصومیت

"عزہ"

میشال نے اسکے بالوں کو چہرے سے ہٹا کر اسے پکارا لیکن وہ اسی طرح لیٹی رہی

"عزہ"

اسکے دو سے تین بار پکارنے پر بھی جب وہ نہیں اٹھی تو میشال نے پریشانی سے معتصم کی طرف دیکھا

"یہ اٹھ نہیں رہی ہے ڈاکٹر کو کال کریں" اسنے پانی کی چھینٹے اسکے چہرے پر ماریں لیکن اسکے پھر بھی نہ اٹھنے پر میشال کے ساتھ ساتھ وہ سب بھی پریشان ہوچکے تھے

°°°°°

بے چینی سے کمرے میں ٹہلتا وہ عصیم کا انتظار کررہا تھا تاکہ جان سکے کہ عزہ نے ان سے کیا کہا سوچوں میں گم وہ مسلسل کتنی دیر سے ٹہل رہا تھا جب اسکا موبائل بجا

اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا جہاں میشال کی کال آرہی تھی

"ہیلو"

"ماہر سر" اسکی آواز بھیگی ہوئی تھی جسے سن کر ماہر پریشان ہوا

"کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے میشال"

"کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے"

"میشال کیا ہوا ہے تم رو کیوں رہی ہو"

میشال کے رونے سے اسکے زہہن میں فورا عزہ کا خیال آیا

"عزہ ، عزہ ٹھیک ہے بتاؤ کیا ہوا ہے" اسے فکر ہورہی تھی وہ جاننا چاہتا تھا کہ میشال کیوں رو رہی ہے وہاں کیا بات ہوئی

میشال نے اپنے بھیگے گال صاف کرکے اسے وہ بات بتائی جسے سنتے ہی جیسے ساتوں آسمان ایک ساتھ ماہر کے سر پر آگرے

"عزہ پریگنینٹ ہے"

°°°°°

°°°°°

دماغ کی رگے جیسے پھٹنے کے قریب تھیں اپنی کیفیت وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا

"کوئی تو ایسا شخص ہوگا جو جانتا ہو اس رات کیا ہوا تھا ساحر نے کہا ہوسکتا ہے یہ کام کسی ایسے شخص نے کیا ہو جو تمہارا یا عزہ کا دشمن ہو"

آئرہ کی بات زہہن میں آتے ہی اسنے اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا

"ماہر کہاں جارہا ہے"

گھر میں داخل ہوتے ساحر نے اسے جاتے دیکھ کر پوچھا لیکن اسے بنا کوئی جواب دیے وہ باہر نکل گیا

ساحر بھی فورا باہر نکلا لیکن اس سے پہلے وہ ماہر سے کچھ پوچھ پاتا ماہر گاڑی میں بیٹھ کر جاچکا تھا

بنا مزید کچھ سوچے وہ اپنی گاڑی کی طرف گیا اس وقت اسے ماہر کو اکیلا نہیں چھوڑنا تھا پتہ نہیں وہ کہاں جارہا تھا

°°°°°

"کیا ہوا ہے آپ ملے اس لڑکی سے" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی کسوا نے بےچینی سے پوچھا

"ہاں مل لیا تھا'' سنجیدگی سے کہتے ہوے وہ بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا

"تو پھر کیا ہوا"

"وہ لڑکی پریگنینٹ ہے"عصیم کے کہنے پر اسکی دھڑکنیں جیسے رک سی گئیں

"لیکن ایسا ، ایسا کیسے"

"ایسا ہی ہے کسوا"

"ماہر نے کچھ نہیں کیا"

"کسوا وہ لڑکی پریگنینٹ ہے اس بچے کا باپ تمہارا بیٹا ہے اور کیا سننا چاہتی ہو تم"تنگ آکر وہ غصے سے چیخا

جس پر کسوا نے اپنی نم ہوتی آنکھیں جھکا لیں وہ اس وقت غصے میں تھا اور وہ اسکی کیفیت سمجھ سکتی تھی

"سوری یار پلیز یہاں آؤ" اسنے کسوا کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا جسے بنا دیر کیے اسنے تھام لیا

عصیم نے اسے اپنے بےحد قریب بٹھالیا

"شاہ ماہر نے کچھ نہیں کیا" اسنے عصیم کے کندھے پر اپنا سر رکھا

"یہ سب ماہر نے ہی کیا ہے کسوا وہ دونوں ایک ساتھ اس کمرے میں تھے اور اس لڑکی کی حالت دیکھ کر کوئی بھی یہ بات بتا سکتا ہے کہ ماہر نے اسکے ساتھ کیا کیا لیکن میرا دل پھر بھی نہیں مان رہا ہے کہ میرا بیٹا ایسا کرسکتا ہے"

اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑا کسوا کا ہاتھ نرمی سے دبایا

"سب ٹھیک ہوجاے گا"

"انشاء اللہ" کسوا کے لب ہولے سے ہلے

°°°°°

اسکے گھر کے سامنے گاڑی روکتے ہی وہ جلدی سے اترا گارڈ نے آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا لیکن بنا کسی کی پرواہ کیے وہ اندر کی جانب بڑھ گیا

ساحر اسکے پیچھے پیچھے جلدی سے اندر آیا

اندر گھر میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر ڈرائینگ روم میں بیٹھے لیپ ٹاپ استعمال کرتے بہروز مرزا کی طرف گئی

غصے سے کھولتا ہوا وہ اسکے قریب گیا

لیپ ٹاپ دور زمیں پر پھینکا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا

"یہ کیا حرکت ہے چھوڑو مجھے گارڈز" اسکی اس حرکت پر وہ باہر کھڑے گارڈز کو بلانے لگا لیکن وہ اندر آنے والے نہیں تھے کیونکہ ماہر پہلے ہی یہ کام کرکے آیا تھا کہ وہ اس وقت اندر آنے کی حالت میں نہیں تھے

گھر میں موجود ملازمین یہ منظر دیکھنے لگے لیکن آگے بڑھنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی

"بتا مجھے اس رات کیا ہوا تھا میں جانتا ہوں جو بھی ہوا تھا وہ تو نے کیا تھا"اسکے کہنے پر وہ خباثت سے کہا

"میں نے کچھ نہیں کیا تھا کمرے میں تم تھے تو جو بھی کیا تم نے ہی" اسکی بات سنتے ہی ماہر نے زور دار گھونسا اسکے منہ پر مارا

"جو بھی بات ہے سچ سچ بتا دے بہروز ورنہ یہیں تیری قبر کھود کر تجھے دفنا دوں گا"

"ہاں یہ سب میں نے کیا ہے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینے کے لیے جو تمہاری وجہ سے میری ہوئی تھی"

"میں نے صرف ایک لڑکی کی عزت بچائی تھی جسے تم جیسا درندہ نوچنا چاہ رہا تھا"

"اور اسی وجہ سے میں آج تک بدنام پھر رہا ہوں جو میں نے کرنا چاہا وہ بات ہر طرف پھیل گئی میرے باپ کا سر میری وجہ سے جھک گیا اور میں ہر وقت انکے منہ سے اپنے لیے اسی وجہ سے طعنے سنتا رہتا ہوں میں چاہتا تھا جیسا تم نے میرے ساتھ کیا ہے ویسا ہی بدلہ لوں اگر تم شاہ خاندان سے تعلق نہیں رکھتے نہ تو اس وقت عارف نے تمہیں جیل میں ڈلوا دیا ہوتا"

"ماہر"

ساحر کی غصے سے بھری آواز پر اسنے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا ساحر نے کچھ نہیں کہا تھا اور نہ ہی ان دونوں کو کچھ کہنے کی ضرورت تھی وہ دونوں ایک دوسرے کے اشارے ہی سمجھ جاتے تھے

ماہر نے گھوم کر بہروز مرزا کو دیکھا اور اس بار جو وہ مارنا شروع ہوا تو جب تک نہیں رکا جب تک اسنے اپنے ہاتھ نہیں جوڑ لیے

"بتا مجھے تو نے کیا کیا تھا ، اس رات کیا ہوا تھا"

بہروز نے اپنے ہونٹوں اور ناک سے نکلتا خون صاف کیا اور گہرا سانس لے کر کہاں شروع ہوا

°°°°°

"کیا سوچ رہا ہے"

"میں سمجھ رہا تھا عزہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے لیکن یہ حقیقت ہے اسکے ساتھ جو بھی ہوا اسکا ذمیدار میں ہوں ساحر میں نے اسکی زندگی برباد کردی اور یہ ، یہ بچہ بھی میرا ہے" اسکے لہجے میں دکھ تھا وہ اپنی کیفیت لفظوں میں بیان نہیں کر پارہا تھا

"تیری کوئی غلطی نہیں ہے ماہر تو نے کچھ نہیں کیا"

ماہر نے آنکھیں بند کرکے اپنا سر سیٹ سے لگایا

"مجھے عزہ سے ملنا ہے"

"عارف انکل ملنے نہیں دینگے"

"لیکن مجھے ملنا ہے" اسنے ساحر کی طرف دیکھا جس پر وہ اپنا سر ہلاکر رہ گیا

°°°°°

اسکے گھر میں داخل ہوتے ہی سب نے حیرت سے اسے دیکھا وہ یہاں آجاے گا یہ کسی نے نہیں سوچا تھا

'کیوں آے ہو تم یہاں" عارف نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوے غصے سے کہا

"مجھے عزہ سے ملنا ہے"

"اور تمہیں لگتا ہے میں تمہیں اجازت دوں گا ہرگز نہیں ابھی کہ ابھی نکلو میرے گھر سے" اسکے کہنے پر ساحر اپنے لب بھینچ کر رہ گیا

°°°°°

لائن داری سے بنی ان تین کھڑکیوں میں سے اس نے پہلی کھولی کمرہ خالی تھا عزہ نہیں تھی

اسنے دوسری کھڑکی کھولنی چاہی لیکن وہ بند تھی اسنے تیسری کھڑکی کھولی جو کھل گئی اور اندر موجود وجود کو دیکھ کر اسنے سکون بھرا سانس لیا اسنے آہستہ سے کمرے میں قدم رکھا اور غور سے اسے دیکھنے لگا

وہ نازک سا وجود کمرے کے کونے میں اپنا سر گھٹنوں پر رکھے گم سم سا بیٹھا تھا

وہ جلدی سے عزہ کے قریب گیا

اسے پتہ تھا کہ اسے دیکھ کر عزہ کبھی بھی نارمل ری ایکشن تو دے گی نہیں وہ چیخنے چلانے جیسا کچھ لازمی کرتی اور اسکی طرف کسی کا دھیان نہ جاے اسی لیے اسنے باہر ساحر کو ماہر بنا کر کھڑا کیا تھا جو ان سب سے عزہ سے ملنے کی درخواست کررہا تھا

"عزہ"

اسکی آواز سن کر عزہ نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا اور اسے دیکھتے ہی لبوں سے چیخ نکلنے لگی لیکن اس سے پہلے اسکی چیخ باہر تک جاتی

ماہر اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنی قید میں لے کر اسکے لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ چکا تھا

اسکی اس حرکت پر عزہ کے چہرے پر مزید خوف پھیلا

"دیکھو میں بس تم سے کچھ بات کرنے آیا ہوں اگر سیدھے سیدھے کرنا چاہوں گا تو تم میری بات سنو گی نہیں اسلیے اس کے لیے سوری" اسنے اپنے ہاتھوں میں قید اسکے جھپٹاتے ہاتھ دیکھے

"دیکھو عزہ تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو تم جانتی ہو نہ میں ایسا نہیں ہوں میں نے تمہارے ساتھ جو بھی کیا اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی میں تمہیں پوری بات بتانا چاہتا ہوں پر پلیز سکون سے میری بات سنو" اسنے اسکے لبوں سے اپنا ہاتھ ہٹایا

"ک---کیا صفائی دینگے آپ اپنی گ-گھٹیا حرکت کی" اسکی خوفزدہ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے

"عزہ میں نے کچھ نہیں کیا"

اسکے کہنے پر عزہ نے جیسے صدمے سے اسکی طرف دیکھا اتنا کچھ کرکے بھی وہ کہہ رہا تھا اس نے کچھ نہیں کیا

"دیکھیں اسے"

اسنے اپنے کندھے سے کمیز ہٹائی جہاں زخم کا نشان تھا جبکہ اسکی اس حرکت پر ماہر نے شرم سے اپنی نظریں جھکا لیں

"ن-نظریں کیوں چرا رہے ہیں دیکھیں اسے یہ آپ کی حیوانیت کے ن-نشان ہیں"

"عزہ میری غلطی ہے لیکن میں اتنا قصوروار بھی نہیں ہوں جتنا تم مجھے سمجھ رہی ہو"

"پلیز جائیں یہاں سے"

اپنے دونوں گھٹنے خود میں سمیٹ کر وہ مزید کونے میں کھسکی

"عزہ"

"پلیز پلیز جائیں میشال ، میشال" اسنے چلاتے ہوے میشال کو آواز دی

اسکے چلانے کی آواز سن کر باہر کھڑے ساحر سے بات کرتے وہ سارے افراد اندر کی طرف بھاگے

اور وہاں کھڑے ماہر کو دیکھ کر ساری بات جیسے سمجھ آگئی

"تم یہاں کیا کررہے ہو" عارف نے بمشکل اپنے غصے کو قابو میں کیا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا ان دونوں بھائیوں کو دھکے دے کر گھر سے نکال دے اگر معتصم کا لحاظ نہ ہوتا تو وہ ایسا کرنے میں دیر بھی نہیں لگاتا

ماہر نے ایک نظر بےبسی سے عزہ کے خوفزدہ وجود کو دیکھا جسے میشال اپنے ساتھ لگاے بیٹھی تھی

بنا کوئی جواب دیے وہ باہر نکل گیا یہاں رکنا فضول تھا عزہ اس وقت اسکی کوئی بات نہیں سنتی

°°°°°

"یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہو"

اس وقت وہ سب خاموشی سے لاونج میں بیٹھے ہوے تھے عارف کے گھر پر کیا ہوا تھا اس بات سے سب ہی واقف تھے لیکن پریشے کو ابھی پتہ چلا تھا اور زہہن میں جو پہلا خیال آیا وہ کہنے میں اسنے دیر نہیں کی جبکہ اسکے کہنے پر معتصم نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا

"کیا کہنا چاہتی ہو"

"میرا مطلب ہے کہ ہم بھلا کیسے ایک غیر لڑکی کی بات پر یقین کرلیں ہمیں کیسے پتہ کہ وہ لڑکی سچ کہہ رہی ہے"

"پریشے تم اس طرح کی بات کہہ بھی کیسے سکتی ہو ایک لڑکی کبھی بھی خود پر اس طرح کا الزام نہیں لگا سکتی"

"معتصم تم خود سوچو" اسنے کچھ کہنا چاہا لیکن معتصم ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روک چکا تھا

اسے امید نہیں تھی اسکی بیوی کبھی بھی اس طرح کی کوئی بات کرے گی

"تم مجھے خاموش مت کرواؤ میں وہی کہہ رہی ہوں جو مجھے ٹھیک لگ رہا ہے"

"لیکن آپ کو غلط لگ رہا ہے بڑی ماما" ماہر کی آواز پر ان سب نے چونک کر اسکی طرف دیکھا

ملازم سے پتہ چلا تھا کہ وہ غصے میں کہیں باہر گیا تھا یہ سن کر سب ہی پریشان ہوے لیکن پھر یہ سن کر مطمئن ہوگئے کہ ساحر بھی اسکے ساتھ تھا

"عزہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اسکا قصوروار میں ہوں"

اسنے اپنی جیب سے موبائل نکال کر ریکارڈنگ آن کی جو اسنے بہروز کی باتوں کی کری تھی

°°°°°

°°°°°

"کام ہوگیا" اسنے ویٹر کے قریب آتے ہی پوچھا جس نے جلدی سے اپنا سر ہلایا

اس وقت وہ سب یونیورسٹی ٹرپ پر گھومنے کے لیے آے ہوے تھے جہاں ہوٹل سے باہر وہ سب ہی اپنے اپنے گروپ بناے بیٹھے تھے

"جی میں نے انکے جوس میں دوائی ملادی تھی لیکن وہ تھی کس چیز کی"

"نشے کی"

"لیکن آپ نے ایسا کیوں کیا"

"نشے میں انسان اپنا آپ تک کھو دیتا ہے اسے کچھ یاد نہیں رہتا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کررہا ہے اور میں نے تو پھر ہائی ڈوز دیا ہے ماہر شاہ انسان ہے لیکن وہ مجھے انسان اچھا نہیں لگتا میں اسے حیوان بنانا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے اس دوائی کی وجہ سے وہ میری امیدوں پر پورا اترے گا"

"لیکن یہ تو غلط ہے نہ سر" اسکے کہنے پر بہروز نے گھور کر اسے دیکھا

"تمہیں پیسے چاہیے تھے مل گئے نہ اب جاؤ اور اسے سیکینڈ فلور کے کسی کمرے میں چھوڑ آؤ اور اگر تم نے میری یہ بات کسی کو بتائی تو میرا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن تمہاری یہ جوب ضرور چلی جاے گی"

اس ہوٹل میں سیکینڈ فلور کے کمرے لڑکیوں کے لیے جبکہ فرسٹ فلور کے کمرے لڑکوں کے لیے بک کرواے تھے

آدھی سے زیادہ لڑکیاں اس وقت نیچے تھیں اور دو تین لڑکیاں اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھیں جبکہ باقی کے لڑکے سر اور ٹیچرز یہیں پر موجود تھے

"اب جاؤ" اسکے کہنے پر ویٹر اپنا سر ہلاتا اندر چلا گیا کیونکہ ماہر بھی تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے اٹھ کر اندر گیا تھا

°°°°°

اسنے اپنے چکراتے سر کو سنبھالا طبیعت عجیب سی ہورہی تھی اسلیے اسکا ارادہ اپنے کمرے میں جانے کا تھا

"سر میں آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ دوں" ابھی اسنے مزید ایک قدم آگے بڑھایا تھا جب اسے پیچھے سے کسی کی آواز آئی

اسنے مڑ کر دیکھا اور اپنا سر ہلادیا

وہ کون تھا اسے نہیں پتہ تھا اس وقت کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا دماغ جیسے بند ہوتا چکا تھا

°°°°°

"میں نیچے جارہی ہوں تم آرہی ہو عزہ" اپنے بالوں کی پونی باندھ کر میشال نے اسکی طرف دیکھا جو خود اپنے بال باندھ رہی تھی

اس وقت وہ دونوں کمرے میں موجود تھیں سب اس وقت نیچے تھے اور فریش ہونے کے بعد اب انہیں بھی نیچے ہی جانا تھا

"ہاں تم جاؤ میں بس بال بنا کر دو منٹ میں آرہی ہوں"

"ٹھیک ہے جلدی آجاؤ"

اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر اسنے مفلر کی طرح گلے میں ڈالا اور باہر چلی گئی

اسکے جانے عزہ دوبارہ اپنے بال باندھے لگی جب اسکا فون بجا

اور وہ جو اپنے بالوں کو پونی میں باندھ رہی تھی فون کی آواز پر انہیں ایسے ہی چھوڑ کر فون کی جانب بڑھی

کھلے بال کندھے سے نیچے تک لہرانے لگے

اسنے موبائل اٹھا کر کال پک کی

اسے حیرت ہورہی تھی زید اسے کیوں کال کررہا تھا جبکہ جب سے اسکے بابا جانی نے پھوپھو کو ان دونوں کے رشتے سے انکار کیا تھا تب سے نہ تو وہ انکے گھر آیا تھا نہ ہی پھوپھو

"اسلام و علیکم زید بھائی"

"عزہ کہا ہو تم"

"کیا ہوا خیریت آپ پریشان لگ رہے ہیں"

"ماموں ممانی کا کار ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے وہ اس وقت ہاسپٹل میں ہیں"اسکی بات سن کر عزہ کے قدموں سے جیسے زمین نکل چکی تھی

°°°°°

وہ بھاگتی ہوئی نیچے آئی اسے گھر جانا تھا ابھی اسی وقت

"کیا ہوا عزہ سب ٹھیک ہے تم پریشان لگ رہی ہو" اسکے قریب آتے ہی ٹیچر نے پوچھا

"میم مجھے گھر جانا ہے"

"کیوں"

"میرے بابا جانی اور امی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے"

"عزہ رات ہورہی ہے تم اس وقت گھر نہیں جاسکتی ہو"

"پلیز آپ کچھ بھی کریں مجھے گھر بھجوادیں میرا جانا بہت ضروری ہے مجھے انکے پاس جانا ہے"

"عزہ میں صبح ہوتے ہی تمہیں گھر بھجوادوں گی لیکن ابھی رات ہورہی ہے اس وقت میں تمہیں اکیلے نہیں بھیج سکتی آئی پرامس بیٹا میں تمہیں صبح گھر بھجوادوں گی"

اسنے روتے ہوے اپنے ہونٹ دباے اور دور کھڑی میشال کو دیکھا وہ دور کھڑی تھی اور لڑکیوں میں بیٹھی اپنی باتوں میں مگن تھی اسلیے ابھی تک اسکی نظر عزہ پر نہیں پڑی تھی

پہلے اسنے سوچا جاکر میشال کو سب بتادے لیکن پھر ارادہ ترک کردیا وہ خوش تھی اور اپنی وجہ سے وہ اسکی یہ خوشی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی

اسے بس صبح تک کا انتظار کرنا تھا تاکہ جلدی سے وہ اپنے گھر اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جاے

°°°°°

اسکا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھے وہ اسے سیکینڈ فلور پر لے آیا

"چھوڑو مجھے"پیشانی پر بل ڈالے اسنے ویٹر کو خود سے دور کیا

"سر وہ آپ کو کمرے تک چھوڑ دوں"

"دفعہ ہوجاؤ" اسنے اپنی آنکھیں مسلیں جبکہ اسے وہیں کھڑے دیکھ کر وہ ویٹر وہاں سے چلا گیا

اسنے ماہر کو یہاں تک چھوڑ دیا تھا یہی بہت تھا ابھی اسے یہاں سے جانا تھا کیونکہ اگر کسی اور کو پتہ چل جاتا کہ اسنے پیسوں کے خاطر یہ کام کیا ہے تو اسکی نوکری چلی جانی تھی

ماہر نے اپنا ہاتھ دیوار پر رکھا اور لائن داری سے آمنے سامنے بنے ان کمروں میں سے ایک میں چلا گیا

°°°°°

اسنے کمرے میں واپس آکر اپنے آنسو صاف کیے اور واشروم میں جاکر وضو کرنے لگی

اس وقت اسے صرف دعا کرنی تھی اللہ سے مدد مانگنی تھی

وضو کرکے وہ باہر نکلی جب نظر کمرے میں داخل ہوتے ماہر پر پڑی اسنے جلدی سے صوفے پر رکھا اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر خود پر پھیلایا

"ماہر سر آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

"یہ میرا کمرہ ہے" اسکی حالت دیکھ کر عزہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی لیکن پھر خود ہی اپنے آپ کو جھڑکا

"نہیں یہ میرا کمرہ ہے"

"ا-اچھا تو میں اپنے کمرے میں چلا جاتا ہوں" وہ مڑ کر جانے لگا جب قدم لڑکھڑائے

عزہ نے آگے بڑھ کر فورا اسکا تھاما جبکہ اسکی اس حرکت سے خود پر پھیلا وہ ڈوپٹہ وجود سے ہٹ کر فقط ایک کندھے پر رہ گیا

ماہر نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا بھیگا بھیگا چہرہ ، چہرے اور گردن پر پانی کی بوندیں

ان بوندوں کو دیکھ کر ماہر کو اپنا آپ پیاسہ لگ رہا تھا

اسنے اپنی انگلیاں اسکی گردن پر رکھ کر ان پانی کے قطروں کو چھونا چاہا جب اسکی اس حرکت سے عزہ اگلے ہی پل اس سے دور ہوئی

اسکی حالت اسکا لہجہ عزہ پر بہت کچھ واضح کررہا تھا اور دماغ میں جیسے خطرے کا سائرن بجنے لگا

"آپ جائیں سر"

"کیوں"

عزہ نے گھبرا کر اسے دیکھا اور تیز قدم اٹھاتی کمرے سے باہر جانے لگی لیکن اس سے پہلے وہ کمرے سے باہر جاتی ماہر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچ کر اسکی گردن پر جھک گیا

اسکا انداز ایسا تھا جیسے وہ اسکی گردن پر موجود ان پانی کے قطروں کو پی کر سچ میں اپنی پیاس مٹانا چاہتا ہو

"ماہر سر چ-چھوڑیں مجھے" اسنے گھبراتے ہوے اسے خود سے دور کرنا چاہا اور اسکی اس حرکت سے ماہر نے اپنے دانت اسکی گردن میں گاڑے جبکہ اسکی اس حرکت پر عزہ نے تکلیف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں

بے بسی تھی یا تکلیف جو اسکی آنکھوں میں آنسو لے آے تھے

"چھوڑیں مجھے" اسنے زور لگا کر اسے خود سے دور کیا اور اس بار وہ لڑکھڑاتا ہوا تھوڑا دور ہوا

بنا وقت ضائع کیا وہ باہر بھاگنے لگی لیکن ماہر پھر سے اسکے نازک وجود کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا

"پلیز مجھ سے د-دور مت جاؤ"

"چھوڑیں مجھے میشال کوئی ہے"

اسنے چلاتے ہوے کسی کو بلانا چاہا لیکن ماہر اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لے کر اسکی چیخ کا گلا گھونٹ چکا تھا

اسکے لبوں پر جھکا وہ بنا اسکی رکتی سانسوں کی پرواہ کیے ان پر جھکا ہوا تھا

جبکہ اپنی رکتی سانسوں کے باعث عزہ میں اب اتنی ہمت میں نہیں تھی کہ اسے خود سے دور کر دیتی

ماہر نے اسکے لب آزاد کیے جنہیں وہ زخمی کرچکا تھا لیکن پھر بھی اسے اپنا آپ پیاسا لگ رہا تھا

عزہ نے روتے ہوے اسے دھکا دیا لیکن وہ نازک سا وجود تھا بھلا کیسے وہ اس پھرپور مردانے وجود کا مقابلہ کرتی

اسکی بےحال ہوتی حالت نظر انداز کرکے ماہر پھر سے اسکے زخمی لبوں پر جھک گیا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے ماہر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر دھکا دیا

جبکہ اسکی اس حرکت سے عزہ کی گھبراہٹ مزید بڑھ چکی تھی اس میں جیسے ہمت ختم ہوتی جارہی تھی

اسنے پھر بھی اٹھ کر بھاگنا چاہا چلانا چاہا لیکن ماہر اسکی ہر طرح کی کوشش ناکام بنا چکا تھا

"م--ماہر سر پلیز چھوڑیں مجھے آ-آپ کو اللہ کا واسطہ ہے پلیز چھوڑیں"

کوئی راستہ نہ پاکر اسنے منت شروع کردی لیکن وہ کہاں سے سنتا اس وقت بس اس پر ایک شیطان سوار تھا

°°°°°

کافی دیر تک جب عزہ نیچے نہیں آئی تو اسے دیکھنے کے لیے وہ اسکے کمرے کی طرف چلی گئی

لیکن اندر کا منظر دیکھ کر اسکی جیسے سانس ہی رک چکی تھی اسنے جلدی سے آگے بڑھ کر عزہ کو اٹھایا جو زمین پر بےہوش بڑی تھی اسکے کپڑے پھٹے ہوے تھے جبکہ اسکے بدن پر زخم کے نشان ہورہے تھے

اسنے بےیقینی سے بیڈ پر پڑے ہوش و حواس سے بیگانہ ماہر کو دیکھا اور بھیگی آنکھوں سے عزہ کا چہرہ تھپتھپاتے لگی

اسے ہوش میں نہ آتے دیکھ کر وہ جلدی سے باہر بھاگی

اسکا ارادہ صرف ٹیچر کو بلانے کا تھا کیونکہ وہ اکیلی اس وقت عزہ کو نہیں سمبھال سکتی تھی اور نہ ہی وہ یہ چاہتی تھی کہ اسکی دوست کی بات یہ کسی کو بھی پتہ چلے لیکن یہ بات چھپنے والی نہیں تھی

اسنے نیچے جاکر فی میل ٹیچر کو آہستہ سے بات بتائی جو اسکی بات سن کر خود بھی حیرت زدہ تھیں

میشال کے ساتھ وہ خود عزہ کے کمرے میں گئیں اور وہاں کا ماحول دیکھ کر وہ خود بھی شاکڈ تھیں

چھپانے کے باوجود بھی آہستہ آہستہ یہ بات وہاں موجود سارے افراد میں پھیل چکی تھی

ڈاکٹر کو بلا کر عزہ کو ٹریٹمنٹ دیا میشال نے اسکے کپڑے چینج کیے اور اسکے ہوش میں آتے ہی وہ واپسی کے لیے نکل چکے تھے

ماہر کے گھر پر فون کرکے ساری صورتحال بتائی گئی تھی وہ ہوش میں آچکا تھا لیکن اسکی کیفیت غنودگی جیسی تھی

ساحر فاسٹ ڈرائیو کرکے ڈیڑھ گھنٹے میں وہاں پہنچا تھا اور اسکے وہاں پہنچنے تک بھی ماہر کی کیفیت ایسی ہی رہی

ٹیچرز پرنسپل اس سے کچھ کہہ رہے تھے لیکن کیا یہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا

اسے بس اتنا یاد تھا کہ ساحر اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر واپس گھر لایا تھا اور مکمل ہوش میں آتے ہی جو پہلی چیز اسے یاد تھی وہ تھا عصیم کا تھپڑ

°°°°°

گھر پہنچنے تک وہ پھر سے بےہوش ہوچکی تھی اسکی حالت میں سدھار آتے ہی میشال اسے اسکے گھر لے کر گئی لیکن وہاں جیسے ایک اور قیامت اسکی منتظر تھی

اسکے ماں باپ نہیں رہے تھے اور وہ اس دنیا میں اپنے غم کے ساتھ تنہا رہ چکی تھی

جو کلاس فیلوز اسکے گھر تازیت کرنے آے تھے انکی وجہ سے ٹرپ پر ہوئی بات وہاں بیٹھیں لوگوں میں پھیل چکی تھی

وہاں بیٹھے لوگ اسکے اور ماہر کے بارے میں کھسر پھسر کرکے وہاں سے چلے گئے

تدفین ہوئی اور گھر آہستہ آہستہ سارے افراد سے خالی ہوگیا وہاں کوئی تھا تو میشال کی فیملی زید اور پھوپھو

جو اپنے گھر جانے کے لیے بیٹھی ہوئی تھیں عارف کا کہنا تھا کہ انہیں عزہ کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہیے وہ اکیلی نہیں رہ سکتی اور ایسے وقت میں اسے اکیلا چھوڑنا بھی نہیں چاہیے لیکن وہ صاف انکار کرچکی تھیں

کیونکہ اسکے ساتھ وہاں کیا ہوا تھا یہ اب ان سے ڈھکا چھپا تو اب تھا نہیں اگر ہوتا بھی تو بھی وہ نہیں لے کر جاتیں کیونکہ انکا بھائی ان سے اپنی زندگی میں ہی تعلق ختم کرچکا تھا

وہ اسے اپنے ساتھ لے کر تو نہیں گئی تھیں لیکن اس پر الزاموں کی اچھی خاصی بارش کرکے گئی تھیں

انکے جانے کے بعد عارف اسے اپنے ساتھ اپنے ہی گھر لے آیا تھا وہ اسے اکیلا کیسے چھوڑ دیتا وہ بھی اس وقت جب اسے کسی اپنے کی ضرورت تھی

°°°°°

"میں جانتا ہوں میری غلطی ہے پر میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا ہے"

ریکارڈنگ ختم ہوتے ہی اسنے اپنا موبائل اٹھایا جبکہ بہروز کی ساری باتیں سن کر سب ہی اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے

انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ری ایکٹ کریں ماہر بےقصور تھا پر عزہ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا تھا وہ اسنے ہی تو کیا تھا

"انجانے میں ہی سہی پر غلطی تو ہوئی ہے نہ ماہر عزہ کیا کرے گی اب" معتصم نے اسکے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھا لیکن اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی عصیم کہہ اٹھا

"جانتا ہوں اسکے ساتھ جو بھی ہوا وہ بہت برا تھا پر ایک حادثے سے اسکی زندگی رک نہیں جاتی معتصم یہ اسکی زندگی ہے اسکا پورا اختیار ہے وہ جو کرنا چاہے کرے"

"عصیم بات اب کہیں زیادہ آگے بڑھ گئی ہے" عالم کے کہنے پر اسنے ماہر کی طرف دیکھا جو خود اسکے اگلے لفظوں کا منتظر تھا

"یہ اسکی زندگی ہے وہ جو کرنا چاہے کرے اگر اسے یہ بچہ نہیں چاہیے تو معاملہ یہیں ختم ہوجاے گا" اسکے کہنے پر ماہر تو جیسے تڑپ ہی گیا تھا وہ کیسے ایک ننھی سی جان کے لیے یہ بات کہہ سکتا تھا

"بابا سائیں آج آپ نے یہ بات کہہ دی اور میں نے سن لی لیکن آئیندہ ایسی کوئی بات نہ ہو"

"تو پھر کیا کرو گے تم"

"میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں"

"ماہر شاہ تمہیں لگتا ہے یہ سب ہونے کے باوجود بھی وہ تم شادی کرے گی"

"ہاں وہ کرے گی اسے کرنی ہوگی"

تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اپنے کمرے کی جانب چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد کمرے میں اتنے سارے لوگوں کے ہونے کے باوجود بھی سناٹا تھا

°°°°°

اسنے سکون بھرا سانس لے کر فون کال بند کی جب اسے اپنے پیچھے سے شاہ میر کی آواز سنائی دی

"کس کا فون تھا لالا"

زریام نے مڑ کر اسے دیکھا

"ساحر کا"

"کیا کہہ رہے تھے"

"ماہر کو اس رات نشہ آور دوائی دے دی تھی" اسنے مختصر لفظوں میں اسے پوری بات بتادی جسے سن کر اسنے دل میں خدا کا شکر ادا کیا اسے پتہ تھا اسکا بھائی کچھ ایسا نہیں کرسکتا اور اسنے نہیں کیا تھا

"مجھے پتہ تھا وہ بےقصور ہیں"

"لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا ہے شاہ میر تم جاتے ہو نہ بات اب ماہر یا اس لڑکی کے درمیان نہیں رہی ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا وجود بھی آچکا ہے"

"میں جانتا ہوں لیکن آپ فکر مت کریں اللہ ہے نہ اب تک بھی تو اسنے ساتھ دیا ہے تو پھر وہ کوئی نہ کوئی راستہ آگے بھی نکال ہی دے گا" شاہ میر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا جس پر وہ اپنا سر ہلا کر رہ گیا اور ہلکے سے لب ہلے

"انشاء اللہ"

°°°°°

"اس وقت وہ لان میں رکھی چئیر پر بیٹھا ہوا تھا نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر جمی ہوئی تھیں جب اسے اپنے ہاتھ پر نرم سا لمس محسوس ہوا

اسنے سکون سے آنکھیں بند کرلیں اور اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنے قریب کرلیا

جس کے بعد ماہیم نے اسکے مظبوط کندھے پر اپنا سر رکھ لیا

"آپ پریشان ہیں"

"ہاں"

"کیوں اب تو سب ٹھیک ہوگیا ہے"

"ابھی کہاں ٹھیک ہوا ہے" اسنے آنکھیں کھول کر ماہیم کی طرف دیکھا

"تو ہوجاے گا بس ایک کام کرنا ہے عزہ کو ماہر بھائی سے شادی کے لیے منانا ہے"

"اور یہ تم کیسے کرو گی"

"میں نے میشال سے بات کی تھی"

"کون میشال" اسنے حیرت سے پوچھا لیکن پھر خود ہی یاد آگیا کہ میشال کون ہے

"نمبر کہاں سے ملا تمہیں اسکا"

"معتصم انکل سے"

"کیا بات کی تم نے"

"میں نے اس سے عزہ کے بارے میں پوچھا تھا اسنے بتایا کہ اسکے والدین انتقال کر چکے ہیں ایک پھوپھو ہیں جو اسے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہمیں بس یہ کرنا ہے کہ اسکے سارے راستے ماہر بھائی کی طرف لے کر آجائیں"

"یہ غلط ہے ماہیم ہم اس کے ساتھ کسی طرح کی زبردستی نہیں کرسکتے"

"ہم کوئی زبردستی نہیں کررہے ساحر اور اگر یہ زبردستی ہے بھی تو کبھی کبھار یہ چیز بھی انسان کے لیے اچھی ہوتی ہے ماہر بھائی بہت اچھے انسان ہیں ان سے انجانے میں ہوئی ایک غلطی کی وجہ سے ہم انکی ساری اچھائیاں بھلا نہیں سکتے ہم سب بس کچھ ایسا کریں گے کہ وہ ماہر بھائی سے شادی کے لیے راضی ہوجاے کیونکہ ابھی کے لیے یہی ایک بہتر آبشن ہے"

ساحر مسکراتے ہوے غور سے اپنی بیوی کی باتیں سن رہا تھا

"یہ باتیں تمہارے دماغ میں کس نے فٹ کی ہیں"

"یہ باتیں میں نے اپنے شوہر سے سیکھی ہیں کیا کہا تھا آپ نے نکاح سے پہلے ماہیم اگر تم نے شادی سے انکار کیا تو میں مرجاؤں گا" اسنے باقائدہ اپنی آواز ساحر کی طرح بھاری کرکے کہا لیکن وہ ہوئی نہیں یہ الگ بات ہے

اسکے کہنے پر ساحر کھل کر ہنسااور ماہیم غور سے اسکی دلکش مسکراہٹ دیکھنے لگی کتنے دن بعد وہ اس طرح ہنسا تھا

"اور جب میں نے ہاں کہہ دیا تو آپ نے مجھے سے کیا پوچھا کہ تم اپنی مرضی سے ہاں کہہ رہی ہو آپ تو ایسے کہہ رہے تھے جیسے اگر میں کہتی مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی ہے تو آپ پیچھے ہٹ جاتے"

"ہاں میں ہٹ جاتا اگر تم شادی سے انکار کرتیں تو میں تمہیں بلکل فورس نہیں کرتا لیکن اس آفس میں پڑے پڑے مر ضرور جاتا کیونکہ تمہارے بنا میں جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا"

"آپ مجھ سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں میں نے تو ہمیشہ ہمارے درمیان بہن بھائی والا رشتہ رکھا تھا اور میں تو آپ کو اپنا بھائی ہی سمجھتی تھی"

"لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا تھا میں نے تمہیں ہمیشہ صرف پیار کی نظروں سے دیکھا بچپن سے ہی میں نے تم پر اپنا پورا حق سمجھا تھا"

اسنے ماہیم کے چہرے پر ہوا سے بکھرتے بالوں کو پیچھے کیا اور اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور نرمی سے اسکے لبوں پر جھک گیا

گاڑی کا ہارن سنتے ہی ماہیم نے اسے دھکا دیا اور جلدی سے اٹھ کر دروازے کی طرف دیکھا وہ وصی کی گاڑی تھی جو گھر میں داخل ہورہی تھی بنا ساحر کی طرف دیکھے وہ تیزی سے اندر بھاگ گئی جبکہ اسکے بھاگنے کا انداز دیکھ کر ساحر کا بے ساختہ قہقہہ چھوٹا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پر سوتی حوریب پر پڑی

آج کل یہی دو کام تو وہ باقائدگی سے کررہی تھی یا تو سوتی رہتی یا جب اٹھتی تو کھاتی رہتی

زریام خود بھی اسکے کھانے پینے کا بہت دھیان رکھتا تھا اس وقت بھی رات کے کھانے کا وقت ہورہا تھا اور وہ تھی کہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی

"حوریب" زریام نے نرمی سے اسکا گال تھپتھپایا

"ہمم" اسنے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر زریام کو دیکھا

"چلو اٹھو کھانے کا وقت ہورہا ہے"

"کمرے میں لادو" کمبل خود پر ڈال کر وہ دوبارہ سو گئی آج کل وہ کچھ زیادہ ہی سستی دکھانے لگی تھی

اسکی سستی پر زریام بس اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گیا

اسنے ملازمہ کو کھانا کمرے میں لانے کا کہا اور خود اپنے کپڑے بدلنے چلا گیا

ڈریسنگ روم سے نکل کر اسنے بیڈ پر لیٹی حوریب کو دیکھا جو دروازہ بجنے کی آواز پر بھی سوئی پڑی تھی

اسنے دروازہ کھولا اور ملازمہ کے ہاتھ سے ٹرے لے کر دروازہ بند کردیا

"حوریب چلو کھانا کھاؤ"

اسنے کمبل اسکے اوپر سے ہٹا کر اسے زبردستی اٹھا کر بٹھایا

"تم خود ہی کھلادو" اسنے بند آنکھوں کے ساتھ اپنا سر اسکے بازو پر رکھا

مسکراتے ہوے زریام نے اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھایا جس کے بعد حوریب نے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ لیا

زریام کے کھلانے پر وہ بند آنکھوں کے ساتھ ہر نوالہ کھاتی گئی وہ اسے کیا کھلا رہا تھا اسے پتہ بھی نہیں چل رہا تھا کیونکہ اس وقت وہ نیند میں حد سے زیادہ ڈوبی ہوئی تھی

"اب میں سوجاؤں'' اسکے ٹرے سائیڈ میں رکھتے ہی حوریب اسکی گود سے اٹھنے لگی جب زریام نے اسے واپس بٹھالیا

"اب تم اپنی نیند کو بھگاؤ کیونکہ واک کا ٹائم ہوگیا ہے"اسکے کہنے پر حوریب نے منہ بنایا

زریام روزانہ کھانے کے بعد اسے واک کرواتا تھا اور جب تک وہ یہ کام کرواتا رہتا تب تک حوریب کا منہ بنا رہتا

"نہیں نہ میں کل اتنا کروں گی کہ آج کا بھی پورا ہوجاے گا بس ابھی سونے دو میرے کو" وہ پھر سے اسکی گود سے اٹھنے لگی جب زریام نے اسے اس بار اپنی بانہوں میں اٹھالیا

"سوجانا فلحال جو ضروری کام ہے وہ کرو"

"میں اماں سائیں سے تمہاری شکایت کروں گی"بنا اسکی بات پر دھیان دیے اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے زریام باہر لے گیا

مطلب یہ تو طے تھا کہ زریام نے اسے بنا واک کرواے اب سونے نہیں دینا تھا

°°°°°

"عصیرم میری بات سنیں"

اسنے تیار ہوتے عصیرم سے کہا جو اس وقت بیلک کمیز شلوار کے ساتھ بلیک کوٹ پہنے باہر جانے کے لیے تیار ہورہا تھا

"بولو جان عصیرم" اسکا ہاتھ پکڑ کر عصیرم نے اسے اپنے قریب کیا

اسکی قربت کی وجہ سے آج کل نور کچھ زیادہ ہی کھلی کھلی رہنے لگی تھی

"وہ ہم ہنی مون پر کب جارہے ہیں" نظریں جھکائے وہ اسکے دل کے مقام پر اپنی نازک انگلی پھیرنے لگی

"بہت جلدی نہیں ہے تمہیں جانے کی" اسنے شرارتی نظروں سے نور کو دیکھا

"نہیں وہ میں سوچ رہی تھی کہ جانے سے پہلے سب گھر والوں سے مل لوں آج چلی جاؤں کیا"

"ہاں چلی جاؤ وہ لوگ اس وقت تمہارے وصی انکل کے گھر پر ہیں"

"وہ وہاں کیوں ہیں"

"تم جب وہاں جاؤ گی تو پتہ چل جاے گا ڈرائیور کے ساتھ جانا اور گاڑزذ کے بنا مت جانا"عصیرم نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور کمرے سے باہر چلا گیا

°°°°°

"مجھے عزہ سے ملنا ہے میشال پلیز تمہارے علاؤہ کوئی میری مدد نہیں کرسکتا ہے" اسنے فون کی دوسری طرف موجود میشال سے کہا

"تم نے وہ ریکارڈنگ سن لی"

ماہر کے کہنے پر اسنے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا

"جی میں نے سن لی لیکن میں آپ کی کوئی ہیلپ نہیں کرسکتی عزہ آپ سے نہیں ملنا چاہتی ماہر سر پلیز اسکے ساتھ کسی طرح کی کوئی زبردستی مت کریں"

"میشال مجھے عزہ سے ملنا ہے" اسکے لہجے میں سختی در آئی جسے سن کر میشال گہرا سانس لے کر وہ گئی

"وہ اپنے گھر پر گئی ہے اسے اپنے پیرنٹس کی یاد آرہی تھی"

"تم نے اسے اکیلا کیسے چھوڑ دیا تم اسکی کنڈیشن جانتی ہو اسے اس وقت اکیلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے"

"میں نے اسے ڈرائیور کے ساتھ بھیجا تھا وہ اس وقت اکیلا رہنا چاہتی تھی اسلیے مجھے اسنے اپنے ساتھ جانے سے منع کردیا"

"اسکے گھر کا ایڈریس دو" اسکے کہنے پر میشال نے اسے عزہ کے گھر کا ایڈریس بتایا جسے سنتے ہی اسنے گاڑی اسٹارٹ کردی

°°°°°

آہستہ سے اسنے گھر کا دروازہ کھولا

گھر کے سامنے گاڑی رکتے ہی اسنے ڈرائیور کو واپس جانے کے لیے کہا تھا لیکن یہ عارف کا حکم تھا کہ اسے اکیلا نہیں چھوڑنا اسلیے وہ گاڑی میں باہر ہی بیٹھا تھا

اسنے گھر میں داخل ہوتے ہی ہر طرف نظریں دوڑائیں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اسنے آخری بار چھوڑا تھا

ہر چیز ویسے ہی بکھری پڑی تھی البتہ بند رہنے کی وجہ سے گھر میں دھول مٹی ہورہی تھی

بنا دروازہ بند کیے وہ اندر رکی جانب چلی گئی جیسے ہر پرانی یاد کو تازہ کررہی ہو

اسد صاحب کے کمرے میں آکر وہ وہاں رکھی ہر چیز کو بھیگی آنکھوں سے چھونے لگی اسکے ماں باپ اب نہیں رہے تھے اور اسے ابھی تک یہ لگ رہا تھا کہ وہ کوئی بھیانک خواب دیکھ رہی ہے

اسنے اسد صاحب کی الماری کھولی اور اس میں سے شیشے کی بوتل نکالی جس میں نیند کی گولیاں موجود تھیں اور اسے اس وقت اس چیز کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی

"ماموں ممانی کا کار ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے وہ اس وقت ہاسپٹل میں ہیں"

"ماہر سر چھوڑیں مجھے"

"تمہارے ماں باپ اب نہیں رہے"

"شی از پریگنینٹ"

ہر منظر جیسے کسی فلم کی طرح اسکے زہہن میں چل رہا تھا

اسنے ساری گولیاں بوتل سے نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھیں

لیکن اس سے پہلے وہ مزید کوئی حرکت کرتی ماہر اسکا گولیوں سے بھرا ہاتھ جھٹک چکا تھا

اسکے ہاتھ میں رکھی ساری گولیاں زمین پر جاگری

عزہ نے غصے سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا لیکن سامنے کھڑے ماہر کو دیکھ کر غصہ کی جگہ خوف نے لے لی

"یہ کیا کررہی تھیں تم"

سمجھ نہیں آرہا تھا اس لڑکی کی حرکت پر غصہ کرئے سختی کرئے یا ایک تھپڑ لگائے

اگر اس وقت وہ نہ آتا تو نہ جانے یہ لڑکی کیا کر بیٹھتی

"آ--پ یہاں کیا کررہے ہیں ج-جائیں یہاں سے"

"میں نے پوچھا یہ تم کیا کررہی تھیں" اسنے چلا کر اپنا سوال دہرایا

"مر رہی تھی میں نہیں جینا مجھے"

"اور اپنے ساتھ ساتھ اس ننھی سی جان کو بھی مار رہی تھیں"

"ہاں مار رہی تھی"

اسنے چیخ کر کہا خوف جیسے کہیں پیچھے چلا گیا لیکن جب ماہر نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا تو جیسے سویا ہوا خوف پھر لوٹ آیا

"میری ایک بات دھیان سے سنو عزہ"

"چ-چھوڑو مجھے"

اسنے عزہ کی بات جیسے سنی ہی نہیں تھی وہ بس اپنی ہی کہنے میں لگا ہوا تھا

"اگر تم نے دوبارہ خود کو یا اس بچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں پہلے جو تمہارے ساتھ کیا تھا وہ انجانے میں غلطی سے کیا تھا لیکن اگر تم نے اس بچے کو کوئی بھی نقصان پہنچایا تو اس بار میں جو تمہارے ساتھ کروں گا وہ پورے ہوش و حواس میں کروں گا"

اسکی باتیں سن کر وہ خوف سے بلکل خاموش ہوچکی تھی اور اسکا خوف سے سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر ماہر نے اسکے کندھوں پر اپنی گرفت ڈھیلی کی لیکن چھوڑا پھر بھی نہیں تھا

"دیکھو عزہ جو ہوگیا اسے بھول جاؤ نہ مجھ سے خوب زدہ ہونا چھوڑ دو" اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے وہ نرمی سے کہہ رہا تھا

عزہ نے اپنی بند ہوتی آنکھوں سے اسے خود سے دور کرنا چاہا اور اگلے ہی پل اسکی بانہوں میں بےہوش ہوگئی

ماہر نے فکر مندی سے اسکا چہرہ تھپتھپایا لیکن اسے ہوش میں نہ آتے دیکھ کر اپنی بانہوں میں اٹھاے اسے باہر کی طرف لے گیا

ڈرائیور کو وہ پہلے ہی یہاں سے بھیج چکا تھا ایک جھوٹی فون کال کروا کر

اسکا وجود اپنی بانہوں میں اٹھاتے ہی اسے بےحد حیرت ہوئی تھی بھلا کوئی اتنا نازک بھی ہوسکتا ہے

°°°°°

میشال کو میسیج کرکے اسنے گھر سے باہر بلوایا جو اسکا میسیج دیکھتے ہی باہر بھاگ کر آئی ماہر نے گاڑی گھر سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی کی تھی

"کیا ہوا ہے اسے"

اسنے بیک سیٹ پر لیٹی عزہ کو دیکھ کر پریشانی سے پوچھا

"بےہوش ہوگئی تھی"

"کیوں آپ نے کیا کہا اس سے آپ کو اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا چاہیے تھا"

"میں لے کر گیا تھا خوف کی وجہ سے بےہوش ہوئی ہے تھوڑی دیر میں ہوش آجاے گا پلیز تم اسکا خیال رکھا کرو میشال"

"ماہر سر آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے" اسکے کہنے پر ماہر نے اپنا سر ہلایا اسے واقعی میں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی اسکے ویسے بھی سب اسکا بہت خیال رکھتے تھے

"میں بڑی ماما کو یہاں بھیجوں گا میں چاہتا ہوں وہ عزہ سے بات کریں میری نہ سہی ان کی تو سن لے گی"

"جو آپ چاہتے ہیں وہ کبھی نہیں ہوگا بابا آپ کی اس سے شادی کے لیے کبھی نہیں مانیں گے ماہر سر"

"اگر عزہ مان گئی تو وہ بھی مان جائینگے فلحال مجھے اسے اندر لے کر جانا ہے لیکن تمہارے بابا نے دیکھ لیا تو غصہ کرینگے"

"میں اسے خود لے جاؤں گی" میشال نے بیک ڈور کھولا

"تم اسے کیسے لے جاؤ گی میشال"

"ماہر سر عزہ جیسی لڑکی کو لے جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے" اسنے ماہر کی مدد سے اسے گاڑی سے باہر نکالا اور اسے اپنی گود میں اٹھاے اندر لے گئی

میشال عزہ کی نسبت کافی صحت مند تھی اسلیے عزہ جیسی لڑکی کو وہ اتنے آرام سے اٹھا کر لے گئی یہ بات کوئی اتنی حیران کن نہیں تھی

°°°°°

"آپ لوگوں نے مجھے کچھ بتایا کیوں نہیں"

وہ جب سے آئی تھی اسے یہی رونا لگا ہوا تھا کہ ماہر کے ساتھ ہوا حادثہ انہوں نے اسے کیوں نہیں بتایا اور سب سے زیادہ غصہ تو عصیرم پر آرہا تھا جس نے سب جانتے ہوے بھی اسے ہر چیز سے لاعلم رکھا

"عصیم نہیں چاہتا تھا تمہیں اس بات کا علم ہو ہم تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے" پریشے نے اسے سمجھانے کی ایک اور کوشش کی جو وہ کتنی دیر سے کررہی تھی

''میری شادی ہوگئی تو آپ لوگوں نے مجھے بلکل پرایہ کردیا مجھے لالا سے ملنا ہے کہاں ہیں وہ"

"وہ اس وقت گھر پر نہیں ہے نور لیکن پلیز آپ رونا بند کرو آپ کے رونے سے ماہر اور پریشان ہوگا"معتصم نے نرمی سے اسکے آنسو صاف کرکے اسے اپنے ساتھ لگالیا

شکر تھا اس وقت ماہر یہاں نہیں تھا ورنہ اسے روتے دیکھ کر اسنے مزید پریشان ہو جانا تھا

°°°°°

'تو اب ماہر بھائی کی شادی عزہ سے ہوجاے گی" حیات نے چہرہ موڑ کر اپنے برابر بیٹھے شاہ میر کو دیکھا

اس وقت وہ دونوں لاونج میں اکیلے بیٹھے ہوے تھے

"پتہ نہیں"

"گھر والے کب تک واپس آئینگے"

"میں نہیں جانتا حیات وہ لوگ جب تک واپس نہیں آئینگے جب تک ماہر لالا کا مسلہ حل نہیں ہو جاتا"

"جو انشاء اللہ بہت جلد حل ہوجاے گا آپ دیکھنا" اسکے کہنے پر شاہ میر نے مسکراتے ہوے اسے اپنے ساتھ لگایا

"میری پیاری بیوی مجھے اتنی عزت مت دیا کرو عادت نہیں ہے مجھے تم میری عادت بگاڑ رہی ہو"

"تو عادت ڈال لیں کیونکہ میں تو آپ کو ساری زندگی ایسے ہی مخاطب کروں گی"

°°°°°

"تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا نور"

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے بیڈ پر بیٹھی نور سے کہا جو اسے دیکھتے ہی اپنا چہرے کا رخ موڑ کر بیٹھ گئی

صبح کی گئی ہوئی وہ اسکے آنے سے بیس منٹ پہلے گھر آئی تھی آج اسے خود بھی کافی دیر ہوگئی تھی اور گھر آکر ملازم سے یہی سننے کو ملا کہ وہ آتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں چکی گئی اور اسنے کچھ کھایا بھی نہیں تھا اور عصیرم کو یہی فکر ہورہی تھی

اسے پتہ تھا کہ جب ماہر والی بات اسکے سامنے آے گی تو اسکا ری ایکشن کچھ ایسا ہی ہوگا اور پتہ نہیں اس پریشانی میں اسنے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں

"نور کیا ہوا ہے"

اپنا کوٹ اتار کر اسنے سائیڈ پر رکھا اور جاکر اسکے قریب بیٹھ گیا

"آپ جانتے تھے نہ لالا کے ساتھ کیا ہوا ہے"

"ہاں میں جانتا تھا"اسنے اعتراف کیا

"تو مجھے کیوں نہیں بتایا"

"تمہیں بتا دیتا تو تم کیا کرتیں اسکے ساتھ جو ہوچکا ہے اسے بدل دیتیں"

"بدل نہیں سکتی تھی عصیرم پر اس وقت میں انکے ساتھ تو ہوتی"

"تم اسکے ساتھ ہوتیں تو تم خود پریشان ہو جاتیں جس سے ماہر کی پریشانی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی اپنے بھائی پر بھروسہ ہے تو یقین رکھو وہ سب کچھ ٹھیک کرلے گا"

عصیرم نے اسکے بھیگے گال صاف کیے اور اسکا نرم رویہ دیکھ کر نور اسکے گلے لگ گئی

''عصیرم''

"ہمم"

"مجھے ہنی مون پر نہیں جانا ہے"

اسکے کہنے پر عصیرم کے لب بے اختیار مسکرا اٹھے

"ٹھیک ہے ہم نہیں جارہے تم جب جانا چاہو گی ہم بس تب ہی چلیں گے" اسے مزید سختی سے خود میں قید کرکے عصیرم نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے

°°°°°

ناک کرکے اسنے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا جہاں پہلی نظر بیڈ پر بیٹھی عزہ پر گئی جو کھڑکی کی طرف دیکھتی اپنی ہی سوچو میں گم تھی

اپنا گلہ کھنکار کر آئرہ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا

اور وہ جو اپنی سوچو میں گم تھی آئرہ کی کھنکار کر بری طرح چونکی

"آپ کون ہیں"

"میں آئرہ ہوں کیا یہاں بیٹھ سکتی ہوں"اسنے بیڈ کی طرف اشارہ کرکے اجازت مانگی

اسکے کہنے پر عزہ ایک طرف ہوگئی مطلب اسے بیڈ پر بیٹھے کی اجازت دے دی

"تھینک یو عزہ"

"آپ کون ہیں اور یہاں کیوں آئی ہیں"

"میں ماہر کی ممانی ہوں"

"تو آپ یہاں کیوں آئی ہیں"

"تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں" اس نے غور سے اس لڑکی کو دیکھا جو دکھنے میں ہی سولہ سترہ سال کی لگ رہی تھی لیکن وہ تھی انیس سال کی یہ اسے بھی پتہ تھا

"مجھے کچھ نہیں سننا ہے"

"لیکن میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں کیا تم مجھے بتاؤ گی تم نے اپنے بارے میں کیا سوچا ہے اپنے بے بی کے بارے میں کیا سوچا ہے"

"میں نے کچھ سوچا ہے نہ مجھے کچھ سوچنا ہے"

"کیوں نہیں سوچنا"

"کیونکہ" وہ ایک لمحے کے لیے رکی

"کیونکہ مجھے یہ نہیں چاہیے"

"ماہر تم سے شادی کرنا چاہتا ہے عزہ" اسکے کہنے پر عزہ نے جیسے صدمے سے اسے دیکھا

"آپ کی بیٹی ہے"

"نہیں"

"لیکن سوچیں اگر اسکے ساتھ بھی یہی ہوا ہوتا تو کیا آپ اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے کر دیتیں"

"میں اس بارے میں کیوں سوچوں جو بات ہے ہی نہیں عزہ ماہر بہت اچھا ہے اس سے جو بھی غلطی ہوئی ہے وہ انجانے میں ہوئی ہے وہ ہوش میں کبھی ایسا قدم اٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن تم اسے ایک موقع تو دو"

"یہ بات آپ کے لیے کہنی آسان ہے"

"شاید ہاں تو پھر تم بتادو تم کیا چاہتی ہو"

"میں آپ کو بتاچکی ہوں" سنجیدگی سے کہتے ہوے وہ دوبارہ کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی

"تمہارا یہی فیصلہ ہے عزہ"

"جی"

"تو پھر ٹھیک ہے ہم اس معاملے کو جلد از جلد ختم کر دیتے ہیں میری دوست ایک ہاسپٹل میں ڈاکٹر ہے میرے یا آمنہ کے ساتھ تم چل لینا تاکہ یہ قصہ یہیں ختم ہو جائے کل ملتے ہیں اپنا خیال رکھنا"آئرہ نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھ کر دبایا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر چلی گئی

جبکہ اسکے جانے کے بعد عزہ کتنی دیر تک خود اپنی کہی باتیں سوچتی رہی یہ اسنے کیا کہہ دیا تھا غلط کہا تھا یا سہی

°°°°°

"آپ ایسا کیسے کرسکتی ہیں بڑی ماما" اسکی بات سن کر ماہر بے بےیقینی سے اسکی طرف دیکھا

"ماہر وہ ایسا ہی چاہتی ہے"

"پر میں ایسا نہیں چاہتا"

"یہاں تمہارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا یہ اسکی مرضی ہوگی وہ جیسا چاہے گی ویسا ہی ہوگا تم اسے سمجھو تو ماہر غلط وہ بھی نہیں ہے" آئرہ نے نرمی سے اسکا شانہ تھپتھپایا

"نہیں یہاں اسکی مرضی نہیں چلے گی جو وہ کرنا چاہتی ہے میں وہ نہیں ہونے دوں گا اور یہ بات میں آخری بار کہہ رہا ہوں مجھے دوبارہ کہنے کی ضرورت نہ پڑے آپ اسکی بات ماننے کے بجائے اسے سمجھا دیں"

اسنے دانت پیستے ہوئے کہا وہ بتا نہیں سکتا تھا عزہ کے اس فیصلے سے اسے کتنا غصہ آرہا تھا

اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ آئرہ بس اپنا سر نفی میں ہلاتی رہ گئی

ایک طرف عزہ تھی جو اپنا فیصلہ بدلنے پر تیار نہیں تھی اور دوسری طرف ماہر تھا جو اسکا یہ فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا

°°°°°

گارڈ باہر کرسی پر بیٹھا سو رہا تھا ماہر نے افسوس سے اسے دیکھا لیکن پھر سوچا اچھا ہی ہے جو سورہا ہے اسکے لیے تو آسانی ہی رہی

دروازہ بند پڑا تھا اسلیے وہ وہاں بنی دیوار پر چڑھ کر اندر کی طرف کودا اور اسی کھڑکی کے سامنے جاکھڑا ہوا جہاں پہلے اسے عزہ ملی تھی

اسنے آہستہ سے کھڑکی کھولی یہ شاید اسکی اچھی قسمت تھی جو پہلے کی طرح آج بھی وہ کھڑکی کھلی ہوئی تھی

اسنے آہستہ سے کمرے میں قدم رکھا اور ہلکے لیمپ کی روشنی میں بیڈ پر لیٹے اس وجود کو دیکھنے لگا جو اپنے آدھے وجود پر کمبل ڈالے سورہی تھی

دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا ماہر اسکے قریب جانے لگا

°°°°°

نیند میں اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہورہا تھا اسنے اپنے ہاتھ ہلانے چاہے لیکن وہ بھی جیسے کسی چیز میں بندھے ہوے تھے

اسنے ڈر کے مارے جلدی سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے اوپر جھکے ماہر کو دیکھ کر جیسے ساری نیند کہیں دور چلی گئی

اسنے اپنے ہاتھ ہلانے چاہے لیکن وہ ماہر کی گرفت میں تھے جبکہ ماہر کا دوسرا ہاتھ اسکے منہ پر تھا

خوف سے اسکا وجود کانپنے لگا اسے لگا ماہر پھر اسکے ساتھ وہی سب کچھ کردے گا اور وہ کچھ نہیں کرپاے گی اپنی بےبسی دیکھ کر اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آے

"کیا کہا تھا میں نے تم سے تم اس بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گی پھر تم نے بڑی ماما سے ایسا کیوں کہا تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تھی شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے تمہیں اور اس بچے کو اپنانا چاہتا ہوں لیکن شاید تمہیں یہ منظور ہی نہیں ہے"

اسنے عزہ کے ہاتھوں کو چھوڑا جو اسکے چھوڑتے ہی اسکے چوڑے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنے لگی

"عزہ میں اپنی غلطی مانتا ہوں اور تم میری بات نہ مان کر مجھے ایک اور غلطی کرنے پر مجبور کررہی ہو کل تم بڑی ماما کے ساتھ کہیں نہیں جاؤ گی اور اگر گئیں تو انجام کی ذمیدار تم خود ہوگی میں تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں" اسنے اپنا ہاتھ اسکے لبوں سے ہٹایا اور اسکے ایسا کرتے ہی عزہ چیختے ہوئے میشال کو آواز دینے لگی

اسکا پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا ماہر نے اپنے قدم واپس کھڑکی کی جانب بڑھا دیے اور جیسے ہی وہ اسکے کمرے سے باہر نکلا میشال سمیت سارے گھر کے افراد بھاگتے ہوے اسکے کمرے میں آے

اس وقت وہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ کسی نے اس سے کچھ پوچھا ہی نہیں اور اس وقت پوچھنا ویسے بھی بےکار تھا وہ کچھ بتانے کی حالت میں نہیں تھی

°°°°°

گاڑی ہاسپٹل کے سامنے رکتے ہی اسنے ہاتھ بےساختہ اپنے پیٹ پر رکھا

وہ یہ کیا کرنے جارہی تھی یہ غلط تھا اسے یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا

"عزہ چلو اترو" آئرہ کی آواز سن کر اسنے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور دروازہ کھول کر گاڑی سے اتری

آمنہ بھی انکے ساتھ آنے والی تھی لیکن دادی جان کی طبیعت خرابی کی وجہ سے وہ نہیں آسکیں جبکہ میشال خود اسکے ساتھ نہیں آئی تھی کیونکہ وہ اس فیصلے کے حق میں ہی نہیں تھی جو عزہ نے لیا تھا

اسکا ہاتھ پکڑ کر آئرہ اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگی جب اسکے پرس میں رکھا فون بجنے لگا اسنے فون نکال کر دیکھا جہاں عالم کی کال آرہی تھی

"عزہ تم اندر جاؤ میں بس دو منٹ میں آرہی ہوں" اسکے کہنے پر اپنا سر ہلاتی وہ اندر جانے لگی جبکہ دل اتنی زور زور سے دھڑک رہا تھا مانو باہر ہی آجاے گا

اسکے زہہن میں ماہر کی باتیں گونجی جو اسنے کل رات کو کہی تھیں اور اسنے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے اسے اس وقت اکیلے نہیں رہنا تھا اگر ماہر یہاں آگیا تو

باہر نکل کر اسنے آئرہ کو ڈھونڈا جو اسے فون کال پر بات کرتی مل گئی

اسنے اپنے قدم آئرہ کی جانب بڑھا دیے جب کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے گاڑی میں بٹھادیا

یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کہ اسے کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا

°°°°°

ڈرائیونگ سیٹ پر ماہر کو بیٹھتے دیکھ کر اسنے دروازہ کھولنا چاہا لیکن وہ لاکڈ تھا

"دروازہ کھولو پلیز دروازہ کھولو" اسکے انداز میں التجا تھی جسے نظر انداز کیے اسنے گاڑی اسٹارٹ کردی

"میں کہہ رہی ہوں دروازہ کھولو اتارو مجھے یہاں سے" اسنے چلا کر کہا جس پر ماہر نے اپنی غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا جس کے بعد یہ ہوا کہ وہ چیخ نہیں رہی تھی وہ بس روتے ہوے کوشش کررہی تھی کہ کسی بھی طرح اس گاڑی سے نکل جاے

اسٹیئرنگ پر اپنی گرفت سخت کیے وہ کافی تیز اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا

گاڑی معتصم کے گھر کے سامنے روک کر وہ اپنی سیٹ سے اترا اور عزہ کی طرف آکر اسکا دروازہ کھولا

"نیچے اترو"

"نہیں میں نہیں اتروں گی" وہ سہم کر پیچھے ہوئی جبکہ اسکے کہنے پر ماہر نے بلاجھجک اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے اتارا اور کھینچتا ہوا اندر لے گیا

"چھوڑو پلیز مجھے چھوڑو میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے"

"تم نے میری بات نہ مان کر اپنا نقصان خود کیا ہے"

اسے کھینچتا ہوا وہ گھر کے اندر لے کر آیا اور ایک کمرے میں لے جاکر اسکا ہاتھ چھوڑا

وہاں واشروم کا کھلا دروازہ دیکھ کر عزہ بھاگنے لگی کیونکہ اس وقت تو وہ واشروم بھی اسے ماہر سے بچنے کے لیے بےحد محفوظ لگ رہا تھا

لیکن اسکی اس کوشش کو ناکام بناتے ہوے اسنے عزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے دیوار سے لگایا

°°°°°

اسکی اس حرکت پر عزہ دیوار کے کونے سے لگ کر بیٹھ گئی اسکا وجود خوف سے کانپ رہا تھا لیکن آج ماہر کو کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی

"ادھر دیکھو" اسکی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر ماہر نے اسکا چہرہ زبردستی اٹھا کر اپنی طرف کیا

اسکا چہرہ پسینے اور آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا

"کیا کہا تھا میں نے تم سے"ماہر کے سختی سے کہنے پر اسنے اپنی تھوڑی پر رکھا اسکا ہاتھ جھٹکا اور مزید پیچھے ہونے لگی

"عزہ میں نے تم سے کیا کہا تھا" اسکے دھاڑنے پر عزہ کی کپکپاہٹ میں مزید اصافہ ہوا

"م--مجھے م-منع کیا تھا ج-جانے جانے س-سے"

"تو پھر تم کیوں گئیں میرے منع کرنے کے باجود کیوں گئیں تھیں تم"اسنے زور سے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا دل تو یہ ہاتھ عزہ پر اٹھانے کا چاہ رہا تھا لیکن وہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا

"م---مجھے جانے"

"جانے کا تو تم اب نام بھی مت لینا تم یہیں رہو گی میرے پاس"

اسکے کہنے پر عزہ نے خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھا

"مجھے نہیں رہنا"

"عزہ نکاح کرو گی مجھ سے"

"مجھے جان-نے دو"

"عزہ مجھ سے نکاح کرو گی" اسنے اپنا سوال دہرایا

"نہیں مجھے نہیں کرنا"

"تو پھر یہیں رہو گی تم میرے ساتھ میرے پاس بغیر نکاح کے ہی سہی لیکن تمہیں اپنے پاس رکھوں گا" اسنے عزہ کے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھا جسے اسنے جھٹکنا چاہا لیکن اسکا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں لے کر اسنے عزہ کا چہرہ اپنے بےحد قریب کرلیا

"منظور ہے تمہیں"

"پلیز مجھے جانے دو"

"تمہارے یہ آنسو اس وقت مجھ پر بلکل اثر نہیں کررہے راستہ دیا ہے میں نے تمہیں جائز رشتے میں میرے ساتھ رہو نہیں رہنا چاہتی ہو تو تمہاری مرضی"ماہر نے اسے اپنے مزید قریب کیا

جبکہ اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر گزرا ہر لمحہ عزہ کے زہہن میں گھومنے لگا اور اگلے ہی لمحے وہ حوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی

اپنی بانہوں میں موجود اس لڑکی کے بےہوش وجود کو دیکھ کر ماہر نے گہرا سانس لیا اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹایا جب دروازہ زور زور سے بجنے لگا

ماہر جانتا تھا جس طرح وہ عزہ اپنے ساتھ لایا تھا ملازم ضرور کسی نہ کسی کو اطلاع کردینگے

اسنے دروازہ کھولا جہاں ساحر کھڑا تھا

اسے دھکا دے کر ساحر اندر داخل ہوا اور نظر بیڈ لیٹی عزہ پر پڑی

"کیا کیا ہے تو نے"

"کچھ نہیں کیا وہ خود ہی بےہوش ہوئی ہے"

"اسے یہاں کیوں لایا ہے ماہر"

"کیونکہ جو یہ کرنے جارہی تھی وہ میں ہونے نہیں دے سکتا"اسکے غصے سے کہنے پر ساحر نے حیرت سے اسے دیکھا یہ ماہر کا بلکل نیا روپ تھا جسے وہ اس وقت دیکھ رہا تھا

"بابا سائیں پہلے ہی تجھ سے خفا ہیں انہیں تیری اس حرکت کا پتہ چلا تو مزید ناراض ہو جائینگے"

"ہو جائیں"اسکے انداز میں لاپروائی تھی

"ماہر اسے واپس گھر چھوڑ کر آ"

"نہیں میں اسے کہیں نہیں جانے دوں گا"

"ماہر اسے یہاں رکھنے سے یہ تجھ سے مزید خوف زدہ رہے گی بہتر ہے اسے وقت دے ہوسکتا ہے ایسے یہ خود ہی ٹھیک ہوجاے"

ساحر کے کہنے پر اسنے گہرا سانس لے کر بیڈ پر لیٹی عزہ کو دیکھا اور ساحر کی بات سمجھ کر آہستہ سے اپنا سر ہلادیا

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

"عزہ بیٹا جواب دو" اسکی مسلسل خاموشی دیکھ کر آمنہ نے اسے ہلکا سا ہلایا جس پر اسنے کپکپاتے لبوں سے کہا

"قبول ہے"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

"قبول ہے"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

اسنے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں زندگی کیا سے کیا ہوگئی تھی آج وہ اپنا سب کچھ اس شخص کو سونپنے جارہی تھی جو اسکی عزت کا لٹیرا تھا

"ق-قبول ہے"

°°°°°

ہوش میں آتے ہی اسنے اپنے سر پر ہاتھ رکھا اور اجنبی جگہ کو دیکھ کر یاد کرنا چاہا کہ وہ کہاں ہے

جب نظر سامنے صوفے پر بیٹھے ماہر پر گئی اور اسے دیکھتے ہی یاد آگیا کہ وہ کہاں تھی وہ ابھی تک اس شخص کے پاس تھی

"کھانا کھالو عزہ" اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹرے کی طرف اشارہ

"مجھے گھر جانا ہے"

"کس کے گھر"

"میرے گھر"

"تمہارا کوئی گھر نہیں ہے عزہ تم اپنی دوست کے گھر میں رہ رہی ہو"

اسکے کہنے پر عزہ نے تکلیف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں واقعی اب اسکا کوئی گھر نہیں تھا اور یہ حقیقت بہت اذیت ناک تھی

اپنی جگہ سے اٹھ کر ماہر بیڈ پر اسکے پاس جاکر بیٹھ گیا جبکہ اسکے بیٹھتے ہی وہ کھسکتی ہوئی بیڈ کے آخری کونے پر جا بیٹھی

"آپ میرے پیچھے کیوں پڑے ہیں"اسنے رندھی ہوئی آواز کے ساتھ کہا

"میں تمہارے پیچھے ایسے ہی پڑا رہوں گا جب تک تم میری بات نہیں مانو گی"

"کیا چاہیے آپ کو"

"مجھے یہ بچہ چاہیے"

"نہیں ماننی مجھے آپ کی کوئی بات میں اس کو ختم کرنا چاہتی ہوں"

"تم سو بار بھی یہ قدم اٹھاؤ گی تو میں سو بار تمہارے راستے میں آؤں گا لیکن اسے کوئی نقصان پہنچنے نہیں دوں گا" اسکے لہجے کی سختی دیکھ کر خوف سے جیسے عزہ کے سارے الفاظ غائب ہوچکے تھے

"عزہ تمہارا اب کوئی نہیں ہے ماں باپ تمہارے مر چکے ہیں اور تمہاری پھوپھو تمہیں کسی قیمت پر اپنے پاس نہیں رکھیں گی رہ گئی میشال تو وہ بھی تمہیں کب تک اپنے ساتھ رکھے گی کہاں جاؤ گی تم کیا کرو گی"

"اللہ کی زمین بہت بڑی ہوتی ہے"

"میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گا بس میری ایک بات مان لو"

"کیا" اسنے بےتابی سے پوچھا

ابھی تو سب سے بڑی خواہش اسکی یہی تھی کہ ماہر اسکا پیچھا چھوڑ دے

"مجھ سے نکاح کرلو یہ بچہ مجھے دے دو تمہیں نہیں چاہیے تو مت لو لیکن اسے مجھے دے دو جب یہ مجھے مل جاے گا تو میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گا کبھی تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا بس یہ مجھے دے دو اسکے بعد اگر تم کہو گی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا بس یہ مجھے دے دو"

اسکے کہنے پر عزہ نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا وہ اس سے کیا مانگ رہا تھا ایک بچہ جو اسکا اپنا تھا کیا واقعی میں وہ اتنی آسانی سے اسے وہ بچہ دے دیتی ہاں شاید اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے دے دیتی

"پھر آپ کبھی مجھے تنگ نہیں کرینگے"

"ہاں کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گا بس اسے مجھے دے دو لیکن اسکے لیے تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہوگا میں نہیں چاہتا کوئی تمہارے کردار پر انگلی اٹھاے"

"انگلیاں اٹھ چکی ہیں ماہر سر"

"تم مجھے اتنا حق دو کے میں اٹھنے والی ان ساری انگلیوں کو توڑ دوں"

اپنے ہونٹ بھینچ کر اسنے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی لیکن روکنے کے باجود بھی وہ نکل ہی آے

وہ غلط تو نہیں کہہ رہا تھا اب اسکا اس دنیا میں تھا ہی کون

میشال جو اسکی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتی تھی آخر کب تک وہ اسکی وجہ سے اپنی زندگی ایسے چھوڑ کر بیٹھی رہتی

°°°°°

ساحر نے ملازموں کو یہ بات کسی کو بھی بتانے سے منع کردیا تھا کہ ماہر کسی لڑکی کو یہاں لایا تھا

صرف آئرہ ہی اسکی اس حرکت کے بارے میں جانتی تھی وہ بھی اس لیے کیونکہ ہاسپٹل میں عزہ کی غیر موجودگی دیکھ کر وہ کافی زیادہ پریشان ہوچکی تھی جس کی وجہ سے ساحر نے اسے یہ بات بتادی

البتہ عارف کے گھر پر بھی سب کو بس یہی پتہ تھا کہ وہ آئرہ کے ساتھ گئی ہے ماہر آیا اور اسے لے کر گیا اس بات سے سب انجان ہی انجان تھے

°°°°°

گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اسے سناٹے میں عارف اور آمنہ کی صاف آواز سنائی دے رہی تھی جن کی گفتگو کا موضوع عزہ تھی

"عزہ کے بارے میں کیا سوچا ہے عارف"

"کیا مطلب" اسنے نظریں سامنے رکھی فائلوں پر جماے مصروف سے انداز میں جواب دیا

"میرا مطلب وہ کب تک یہاں رہے گی"

"یہاں نہیں رہے گی تو کہاں جاے گی"

"عارف مجھے ڈر ہے اسکی وجہ سے میشال کے لیے کوئی مسلہ نہ بن جاے جب سے عزہ آئی ہے وہ خود کو بھول چکی ہے ہماری بیٹی کوئی اتنی چھوٹی نہیں ہے کچھ وقت بعد ہمیں اسکی شادی بھی کرنی ہے ایسے میں عزہ کی یہاں موجودگی اسکے لیے مشکل پیدا کرسکتی ہے"

اسے پتہ تھا کہ عزہ اس وقت پر گھر نہیں ہے اگر پتہ ہوتا تو کبھی اتنی آرام سے اتنی تیز آواز میں بات نہیں کررہی ہوتی

اسکی باتیں سن کر عزہ نے گہرا سانس لیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی اسے یہ سب باتیں بری نہیں لگی تھیں کیونکہ وہ جانتی کہ وہ غلط تو نہیں کہہ رہی تھیں

"آمنہ عزہ میرے لیے میشال جیسی ہی ہے اگر میں کسی کی بیٹی کی مدد کروں گا تو بھلا میری بیٹی کے لیے کیوں مشکل پیدا ہوگی اللہ میری بیٹی کے لیے آسانیاں پیدا کردے گا" ایک پل کو رک کر وہ پھر کہنا شروع ہوا

"ماہر اس سے شادی کرنا چاہتا ہے"

"تو عزہ سے بات کروں"

"آئرہ بھابھی نے کی تھی وہ انکار کرچکی ہے لیکن اگر وہ اقرار کر دیتی تو میں بنا وقت ضائع کیے اسے ماہر کے ساتھ رخصت کریدتا کیونکہ میں جانتا ہوں ماہر ایک بہت اچھا انسان ہے اور اس وقت تو عزہ کے لیے وہ بیسٹ آبشن ہے اسنے ایک غلطی کی ہے وہ بھی انجانے میں اسکی وجہ سے میں ماہر کی اچھائیاں اگنور نہیں کرسکتا"

اسکی بات سمجھ کر آمنہ نے اپنا سر ہلایا لیکن دل میں وہ یہ طے کرچکی تھی کہ عزہ سے خود ایک بار اس بارے میں بات ضرور کرے گی کیا پتہ وہ اسکی راے بدلنے میں کامیاب ہو جاتی

°°°°°

"مجھ سے نکاح کرلو یہ بچہ مجھے دے دو تمہیں نہیں چاہیے تو مت لو لیکن اسے مجھے دے دو جب یہ مجھے مل جاے گا تو میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گا کبھی تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا بس یہ مجھے دے دو اسکے بعد اگر تم کہو گی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا بس یہ مجھے دے دو"

اسکی سوچو کو بجتے دروازے کی آواز نے توڑا

"آجائیں"

"تم کب آئیں عزہ یہ تو مجھے ملازمہ نے بتایا تم کمرے میں ہو" آمنہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوے کہا

"کیا ہوا تم ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں"

"کچھ نہیں ہوا"

"سب ٹھیک تھا نہ" اس نے تشویش سے پوچھا

"میں نے اپنا فیصلہ بدل لیا"اسکے کہنے پر آمنہ کو تھوڑی حیرت ہوئی تھی ایسا وہاں کیا ہوا تھا جس نے اسے فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا

اپنی حیرت چھپا کر وہ اس سے وہ بات کرنے لگی جسے کرنے کے لیے وہ یہاں آئی تھی

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی" گہرا سانس لے کر اس نے اپنی بات شروع کی

"ماہر تم سے شادی کرنا چاہتا ہے عزہ آئرہ بھابھی نے تم سے بات کی ہوگی"

"ہاں کی تھی" اسکا چہرہ بےتاثر تھا

"تو تمہارا کیا فیصلہ ہے"

"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے" اسکے کہنے پر آمنہ نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا اسکے اتنی جلدی راضی ہو جانے کی امید جو نہیں تھی

"نہیں تم اچھے سے سوچ لو پھر جواب دینا تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہورہی ہے تم انکار کرنا چاہو تو کرو تمہیں پورا حق ہے بیٹا"

"میں سوچ سمجھ کر ہی جواب دے رہی ہوں آنٹی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے"

سوچ تو وہ چکی تھی ماہر نے صحیح کہا تھا اسکے پاس یہی ایک راستہ تھا

اس بچے کو وہ چاہ کر بھی ختم نہیں کرسکتی تھی کرنا چاہتی تو ماہر ایسا نہیں کرنے دیتا پھوپھو اسے اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں تھیں اور میشال کے گھر پر بھی وہ کب تک رہتی سارے بند دروازوں میں اسکے لیے بس ایک یہی کھلا دروازہ تھا

°°°°°

آمنہ کی بات سنتے ہی عارف نے معتصم کو عزہ کا جواب بتادیا

جس کے دو دن بعد ہی انکا نکاح رکھ دیا گیا

ویسے بھی کسی طرح کا کوئی شور شرابہ نہیں ہونا تھا کیونکہ اسکے والدین کو گزرے ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا ایسے میں بس سادگی سے ہی انکا نکاح ہونا تھا

°°°°°

ڈوپٹہ تھوڑی تک ڈالے وہ بس غائب دماغی سے اپنے ساتھ ہوتی کاروائی دیکھ رہی تھی پورا کمرہ گھر کے افراد سے بھرا ہوا تھا لیکن نظریں اٹھا کر اسنے ایک بار بھی کسی کو نہیں دیکھا نہ ہی اسے دیکھنا تھا

وہ بس خاموشی سے مولوی صاحب کے ادا کیے الفاظ سن رہی تھی جو اس سے اسکی رضا مندی پوچھ رہے تھے

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

"عزہ بیٹا جواب دو" اسکی مسلسل خاموشی دیکھ کر آمنہ نے اسے ہلکا سا ہلایا جس پر اسنے کپکپاتے لبوں سے کہا

"قبول ہے"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

"قبول ہے"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

اسنے ضبط سے آنکھیں بند کرلیں زندگی کیا سے کیا ہوگئی تھی آج وہ اپنا سب کچھ اس شخص کو سونپنے جارہی تھی جو اسکی عزت کا لٹیرا تھا

"ق-قبول ہے"

°°°°°

نکاح عارف کے گھر پر ہی ہوا تھا جس میں بس سارے گھر کے افراد ہی شامل تھے

فارغ ہوتے ہی اب ان سب کا ارادہ سیدھا حویلی کے لیے نکلنے کا تھا ویسے بھی یہاں رہتے ہوے اب کافی دن ہوچکے تھے باقی کے سارے افراد حویلی کے لیے نکل چکے تھے آئرہ عصیم اور کسوا کے علاؤہ

آئرہ بھی باقی سب کے ساتھ ہی جانے والی تھی لیکن حویلی کے سارے افراد میں سے صرف آئرہ ہی تھی جو عزہ سے ملی تھی جس نے اس سے بات چیت کی تھی ایسے میں عزہ صرف اسکے ساتھ ہی آرام دہ محسوس کررہی تھی اسلیے عزہ بیک سیٹ پر اسکے ساتھ ہی چپکی بیٹھی تھی

حویلی جانے سے پہلے وہ اپنی پھوپھو سے ملنے گئی تھی ایک ان ہی سے تو دنیا میں اسکا آخری رشتہ باقی تھا

اسے دیکھ کر پہلے تو وہ اس بات پر غصہ ہوئیں کہ بنا ان سے کچھ مشورہ کیے اسنے شادی کرلی اور جب یہ پتہ چلا کہ اسنے اس لڑکے سے شادی کی ہے جس نے اسکے ساتھ بدتمیزی کی تھی تو ان دونوں پر اچھی طرح الزام لگا کر بنا کچھ سنے دروازہ بند کردیا

°°°°°

حویلی پہنچنے تک وہ آئرہ کے ساتھ ہی چپکی بیٹھی رہی

سارے افراد جلدی نکلنے کی وجہ سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے تھے

لیکن کسی طرح کا کوئی استقبال نہیں کیا گیا کیونکہ عزہ میشال سے کہہ کر پہلے ہی انہیں منع کروا چکی تھی

"یہ تمہارا کمرہ ہے لمبے سفر سے آئی ہو آرام کرو صبح تمہیں سب سے ملواؤں گی"

اسکا گال تھپتھپا کر آئرہ کمرے سے چلی گئی

اسکے جانے کے بعد وہ گہرا سانس لے کر کمرے کا جائزہ لینے لگی اور کمرہ دیکھتے ہی ٹھٹک کر رک گئی

وہاں لگی تصویریں دیکھ کر اسے جاننے میں دیر نہیں لگی کہ یہ کمرہ کس کا ہے

اسے اس شخص کے کمرے میں اسکے ساتھ نہیں رہنا تھا

دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ بنا مڑے بھی جانتی تھی کہ کون ہوگا

ماہر نے اپنے قدم اسکے قریب بڑھاے اور اسکے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا جبکہ اسے اپنے پیچھے محسوس کرکے اسکا جیسے سانس تک رک چکا تھا

"عزہ"

اسکے پکارنے پر بنا ماہر کی طرف دیکھے اسنے اپنے قدم باہر کی جانب بڑھائے

"عزہ بات تو سنو" ماہر نے اسکا ہاتھ پکڑا جب اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتی وہ کمرے سے باہر کی طرف بھاگ گئی

تیز تیز قدم اٹھاتی وہ نیچے کی طرف آرہی رھی

جب نظر سامنے سے آتے ساحر پر پڑی اسنے حیرت سے مڑ کر اپنے پیچھے آتے ماہر کو دیکھا

اور اسکی حالت ایسی ہوگئی جیسے اسنے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو اس وقت وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ ایک پل کے لیے اسکے زہہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ جڑواں ہوسکتے ہیں

اسنے اپنے چکراتے سر پر ہاتھ رکھا اور اس سے پہلے وہ بےہوش ہوکر وہاں گرتی ماہر اسکے قریب آکر اسے پکڑ چکا تھا

"کیا ضرورت تھی اس وقت کمرے سے نکلنے کی" اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے اسنے ساحر کو گھور کر دیکھا

"میں تو اماں سائیں کو ڈھونڈ رہا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ بےہوش ہوجائیں گی"

اسکے کہنے پر اپنا سر نفی میں ہلا کر وہ اسے اپنے کمرے کی طرف لے گیا البتہ زہہن میں یہ سوچ ضرور آئی تھی

"کہ یہ لڑکی اتنا بےہوش کیوں ہوتی ہے"

اپنی بانہوں میں اٹھاے ماہر اسے اپنے کمرے میں لے کر آیا اور اسکا نازک وجود نرمی سے بیڈ پر لٹا دیا

اسکا ڈوپٹہ اتار کر ماہر نے بیڈ کے دوسری طرف رکھا جب نظریں اسکے معصوم چہرے پر جا ٹکیں

اسکے نرم گال کو وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلانے لگا

"کبھی سوچا نہیں تھا کہ تم جیسی لڑکی میری زندگی میں آے گی تمہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے ساری زندگی تمہارا خیال رکھنے میں گزر جاے گی" نرم لہجے میں کہتے ہوے وہ اس سے بات کررہا تھا

"تمہیں پتہ ہے عزہ تم مجھے اچھی لگتی تھیں ساری لڑکیوں سے مختلف بہت معصوم سوچا تھا جب کبھی شادی کا ارادہ ہوا اور تم کسی اور کی نہیں ہوئیں تو اماں سائیں کے سامنے تمہارا ہی نام لوں گا لیکن تم میری زندگی میں اس طرح آؤ گی یہ میں نے نہیں سوچا تھا"

"میرے لیے یہ بچہ بہت اہمیت رکھتا ہے پر یہ بات میں نے تم سے جھوٹ کہی کہ اسکے ہونے کے بعد میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گا تم میری وجہ سے بدنام ہوئی تھیں میری وجہ سے تم نے اتنے زخم کھائے میں تمہیں اپنا کر تمہارے ہر زخم پر مرہم رکھنا چاہتا تھا"

"تم چاہو بھی تو بھی میں تمہیں اب نہیں چھوڑوں گا ہاں لیکن تم سے اتنا پیار ضرور کروں گا اتنا خیال ضرور رکھوں گا کہ تمہیں خود سے محبت کرنے پر مجبور کردوں"

جھک کر ماہر نے نرمی سے اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے اور اپنا ہاتھ نرمی سے اسکے پیٹ پر رکھا

وہ باپ بننے والا تھا یہ احساس دنیا کا سب سے خوبصورت احساس تھا بے اختیار اسکے لبوں کو ہلکی سی مسکراہٹ نے چھوا

°°°°°

صبح کی کرنیں چہرے پر پڑتے ہی اسنے کسمسا کر اپنی آنکھیں کھولیں

کتنی دیر سے وہ اسی پوزیشن میں لیٹی رہی جب کمرے کا دروازہ بجا

جسے سن کر وہ اٹھ کر بیٹھی اور بیڈ پر پڑا اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر خود پر پھیلایا اور اندر آتے ان سب افراد کو دیکھنے لگی

جہاں آئرہ کے ساتھ کئیں نئے چہرے تھے جن سے آئرہ اسکا تعارف کروارہی تھی

حیات نور پریشے کسوا عینہ ماہیم حوریب سب کی سب لائن داری سے کھڑی تھی جن سے آئرہ اسکا تعارف کروارہی تھی اور وہ بس غائب دماغی سے اپنا سر ہلا رہی تھی

"میں تو کہہ رہی تھی کہ پہلے تم فریش ہو جاتیں پھر تمہیں ان سب سے ملواتی لیکن انہیں تم سے ملنے کی بہت بےچینی ہورہی تھی تو اسلیے میں لے آئی تمہارا سامان میں نے وارڈروب میں سیٹ کروا دیا تھا تم جاکر فریش ہو جاؤ" اسکے کہنے پر اپنا سر ہلاکر وہ واشروم میں چلی گئی

اور اسکے جانے کے بعد وہ سب بھی ایک ایک کرکے کمرے سے نکل گئیں

آئرہ نے ملازمہ سے کہہ کر اسکا ناشتہ کمرے میں ہی لگاوادیا تھا اس وقت وہ شاید سب کے ساتھ غیر آرام دہ محسوس کرتی اسلیے وہ اسکا ناشتہ کمرے میں ہی منگوارہی تھی

لیکن عزہ کو کھلانا اپنے سامنے ہی تھا میشال نے بتایا تھا کہ وہ کھانے میں بہت لاپروائی کرتی ہے ماہر اسکی ذمیداری بخوبی نبھا سکتا تھا لیکن جب تک وہ ماہر کے ساتھ نارمل نہیں ہو جاتی تب تک یہ کام آئرہ نے خود کرنا تھا

°°°°°

حویلی میں داخل ہوتے ہی سامنے لان کا منظر دیکھتے ہی غصے سے اسکا پارہ ہائی ہوچکا تھا

جہاں حوریب کرسی پر کھڑی اپنے پاؤں اوپر اٹھاے درخت پر چڑھی پھل توڑ رہی تھی

وہ پہلے بھی ایسا کرچکی تھی لیکن تب زریام کو اتنا فرق نہیں پڑا پر اب بات اور تھی وہ لڑکی ایسی حالت میں بھی اتنی لاپروائی دکھا رہی تھی

"حوریب کی بچی نیچے اترو" اسکے قریب جاکر زریام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے اترنے کا کہا

"ابھی تو میری بچی ہوئی بھی نہیں ہے"

"میں کہہ رہا ہوں نیچے اترو"

"لیکن میرے کو پھل تو توڑنے دو"

"تم نیچے اترو میں توڑ دوں گا" اسکے کہنے پر حوریب منہ بناتی ہوئی نیچے اتری

"بہت لاپرواہ لڑکی ہو تم آئیندہ میں تمہیں اس طرح کی حرکت کرتے نہ دیکھوں" اسے گھورتے ہوے وہ کرسی پر چڑھ گیا اور دو تین سیب توڑ کر اسے دے دیے

جنہیں اپنی کمیز سے صاف کرکے وہ کھانے لگی لیکن زریام کے گھورنے پر اندر چلی گئی

اسکے گھورنے کا مطلب تھا اندر جاؤ دھو کر اور کاٹ کر کھاؤ

°°°°°

ڈوپٹہ خود پر ڈال کر وہ نیچے کچن میں چلی آئی

کل سب کے ساتھ وہ خود بھی حویلی چلی گئی تھی لیکن صبح عزہ سے مل کر ہی وہ واپس شہر کے لیے نکل گئی تھی

کیونکہ عصیرم نے اسے بمشکل وہاں ایک رات رکنے کی ہی اجازت دی تھی

اس وقت وہ گھر پر نہیں تھا اور اسکے آنے سے پہلے نور اسکے لیے کچھ اچھا سا بنانا چاہتی تھی ویسے تو زیادہ کچھ بنانا نہیں آتا تھا لیکن جو آتا تھا وہ تو بنا سکتی تھی

اسکی شادی کو دو ہفتے ہوچکے تھے لیکن اسنے ابھی تک کچھ نہیں بنایا تھا

پریشے نے اسے بتایا تھا کہ شادی کے بعد لڑکی پہلی کوئی میٹھی چیز بناتی ہے لیکن اسنے ایسا کچھ نہیں کیا تھا

باتوں باتوں میں ایک بار اسنے ایسے ہی عصیرم سے اس رسم کا ذکر کیا تھا جس پر اسنے یہ کہہ دیا کہ شادی کے دس پندرہ سال بعد یہ رسم شوق سے نبھانا لیکن ابھی کچن میں اسے کچھ بھی بنانے کی اجازت نہیں تھی

°°°°°

"پتہ نہیں اسکے ساتھ کیا مسلہ ہے میں بیڈ پر لیٹ کر زرا سا بھی ہلتی ہوں تو کہتا ہے سو کیوں نہیں رہی ہو میں سوتی ہوں تو کہتا ہے کھانا کھالو کھانا کھاتی ہوں تو کہتا ہے واک کرو اس انسان نے میرا دماغ خراب کیا ہوا ہے"

اسنے پلیٹ میں رکھا سیب اٹھا کر منہ میں ڈالا جو آئرہ کاٹ کر اسکے سامنے رکھ رہی تھی اور اپنی بہو کے منہ سے اپنے بیٹے کی شکایتیں مسکراتے ہوے سن رہی تھی

"تم بھی تو اسے اتنا تنگ کرتی ہو"

"میں بلکل تنگ نہیں کرتی وہ جو کہتا ہے میں چپ چاپ کرتی ہوں لیکن پھر بھی مجھے ہر وقت ڈانٹتا رہتا ہے" اسنے منہ بناتے ہوے ایک اور پیس منہ میں ڈالا

جب زریام کچن میں داخل ہوا اور اسکی گھورتی نظریں پھر حوریب پر ٹک گئیں

"میرا مطلب تھا کاٹ کر کھاؤ یہ نہیں کہا تھا میری ماں سے کٹوا کر کھاؤ"

"میں نے نہیں بولا تھا"

"تو یقیناً تم نے منع بھی نہیں کیا ہوگا"

"زریام میں خود کاٹ رہی ہوں اسنے مجھ سے کچھ نہیں کہا تھا اسے کچھ مت کہو"

آئرہ کے کہنے پر حوریب نے فاتحیانہ مسکراہٹ لبوں پر سجاے اسکی طرف دیکھا جسے دیکھ کر وہ اپنا سر نفی میں ہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا

"ویسے اماں سائیں آپ مجھے بگاڑ رہی ہیں اور یہ اچھی بات نہیں ہے"اسکے کہنے پر آئرہ مسکراتے ہوے اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گئی

°°°°°

گھر میں داخل ہوتے ہی ملازم سے اسے یہ بات پتہ چل چکی تھی کہ نور آگئی ہے لیکن یہ جان کر کافی حیرت ہوئی کہ وہ کچن میں ہے

اپنے کمرے میں جانے کے بجاے وہ سیدھا کچن میں ہی گیا تھا جہاں اسے نور کی پشت دکھائی دی

"نور"

اسکی آواز سن کر نور نے مڑ کر اسے دیکھا جبکہ اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ کر عصیرم تو جیسے تڑپ ہی گیا تھا

"کیا ہوا ہے"

"مجھے چوٹ لگ گئی" اسنے رندھی ہوئی آواز میں کہتے ہوے اپنا ہاتھ اسکے سامنے کیا جہاں اسکے انگھوٹے اور انگلی پر چوٹ لگی ہوئی تھی اور خون کی بوند بھی نکل رہی تھی

"یہ کیسے لگی"

"میں سلاد کاٹ رہی تھی نہ تو کاٹتے وقت لگ گئی"

"تمہیں ضرورت کیا تھی کچھ کرنے کی"

ملازمہ سے فرسٹ ایڈ باکس منگوا کر اسنے نور کو وہاں رکھی کرسی پر بٹھایا اور اسکی چوٹ کو صاف کرنے لگا اور جب تک اسنے اپنا کام پورا نہیں کیا تب تک کچن میں نور کی سوں سوں جاری رہی

"چلو اب اٹھو اور کمرے میں چلو"

"لیکن میں آپ کے لیے کھانا بنا رہی تھی وہ ابھی رہتا ہے"

"تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور آج کے بعد میں تمہیں کچن میں کوئی کام کرتا نہ دیکھوں"

"لیکن مجھے آپ کے لیے کام کرنا اچھا لگتا ہے"

"اگر تمہیں واقعی کچھ کرنا ہے تو اپنے شوہر کی خدمت کرو" مسکراتے ہوے اسنے نور کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا

"عصیرم نیچے اتاریں مجھے"

"اب میری خدمت کرو ویسے بھی اپنے شوہر کے لیے کام کرنا تو تمہیں اچھا لگتا ہے نہ"

"تنگ مت کریں مجھے چوٹ لگی ہے" اسنے اپنا چوٹ والا ہاتھ اسکے سامنے کیا

"ہاں بلکل بہت زیادہ لگی ہے تمہیں آرام کی ضرورت ہے"عصیرم کے کہنے پر وہ کھلکھلا کر ہنسی اور عصیرم بس اپنی ڈمپل گرل کو دیکھتا رہا

°°°°°

عزہ کی رخصتی کے وقت وہ سب بھی شاہ حویلی آگئے تھے اور اگلے دن اب وصی کا کہنا تھا کہ رات ہونے سے پہلے انہیں نکل جانا چاہیے تاکہ وقت سے گھر پہنچ سکے اسلیے اپنے ساتھ جو تھوڑا بہت سامان وہ لے کر آئی تھی اسے اپنے بیگ میں رکھ رہی تھی

جب کمرے کا دروازہ کھلا اور ساحر اندر داخل ہوا

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں"اسے ایک نظر دیکھ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی جب ساحر نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا

"تم جارہی ہو"

"ہاں"

"مت جاؤ نہ" اسکا انداز اس وقت ماہیم کو کسی بچے کی طرح لگ رہا تھا

"کیوں یہاں کس حق سے رہوں"

"میری بیوی کے ہونے کے حق سے"

"لیکن ابھی آپ مجھ پر پورا اختیار نہیں رکھتے ساحر"

"تم کہو تو کل ہی رخصت کروا لوں تمہیں"ساحر نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا

"چھوڑیں نہ مجھے کام کرنے دیں"

"سب چیزوں کی پرواہ ہے سواے اپنے شوہر کے"

"ہاں جی نہیں ہے اپنے شوہر کی پرواہ"

"اسی لیے تو مجھے اپنا خیال خود رکھنا پڑتا ہے اپنی پیاس خود مٹانی پڑتی ہے" اسکے لبوں کو سہلاتے ہوے وہ اگلے ہی لمحے اسکے لبوں پر جھک گیا

اور اسکی سانسوں کو خود میں اتارنے لگا اور ہمیشہ کی طرح اپنی رکتی سانسوں کی وجہ سے ماہیم کو خود اسے خود سے دور کرنا پڑا ورنہ وہ تو ایک بار اسکے قریب آ جاتا تو اس سے دور جانا بھول جاتا تھا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے ساحر اسکی گردن پر جھک گیا اور اسکی اس حرکت سے ماہیم نے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ کر اپنی آنکھیں بند کرلیں

"س-ساحر پلیز دور ہٹیں" اسکے کہنے پر ساحر نے اپنا چہرہ اسکی گردن سے نکالا اور اسکے گلابی ہوتے چہرے کو دیکھنے لگا

"کام کی وجہ سے ایک ہفتے کے لیے اسلام آباد جانا ہے مجھے اور تم میرے ساتھ چلو گی" اسکے کہنے پر ماہیم نے جلدی سے آنکھیں کھولیں

"کیا"

"ہاں"

"نہیں مجھے نہیں جانا ہے"

"میں تم سے پوچھ نہیں رہا تمہیں بتا رہا ہوں جب عینہ آنٹی تم سے میرے ساتھ جانے کا پوچھیں تو تم ہاں کہو گی"

"نہیں میں نہیں کہوں گی"

"تو میں تمہیں بےہوش کرکے اپنے ساتھ لے جاؤں گا لیکن لے کر ضرور جاؤں گا"

شدت سے اسکے گال پر اپنے لب رکھ کر وہ کمرے سے چلا گیا جبکہ ماہیم بس سوچ کر رہ گئی

وہ تو یہاں اسے نہیں چھوڑتا تھا وہاں اکیلے میں اسکا کیا حال کرتا

°°°°°

اسے کمرے میں لاکر عصیرم نے نرمی سے بیڈ پر لٹایا اور خود چینج کرنے چلا گیا

چینج کرکے جب وہ باہر نکلا تو نور اپنی چوٹ کا معائنہ کررہی تھی اسے دیکھ کر عصیرم نے اپنی ہنسی دبائی

چھوٹی سی چوٹ تھی لیکن اسکی نازک بیوی کے لیے وہ بہت بڑی تھی

"درد ہورہا ہے" اسکے قریب یٹھ کر عصیرم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا

"نہیں آپ نے میرے زخم پر مرہم رکھ دیا نہ تو اب مجھے درد نہیں ہورہا"

"ابھی تو اچھے سے رکھا بھی نہیں ہے"اسکی نظروں کا مفہوم جان کر نور نے اپنی نظریں جھکا لیں

"رکھ دوں''

"رکھ دیں" شرمیلی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر بکھر گئی اور اسکی بات سنتے ہی عصیرم اسکے لبوں پر جھک گیا

"عصیرم کھانے کا وقت ہورہا ہے" اسکی بڑھتی گستاخیاں دیکھ کر نور نے گھبراتے ہوے اسکے سینے پر ہاتھ رکھا

جب اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے وہ بنا اسکی کچھ سنے اس پر جھکتا چلا گیا

°°°°°

اس وقت وہ اسٹڈی روم میں عصیم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جو اسے اپنی شادی کا البم دکھا رہا تھا

آئرہ زبردستی اسے کھینچ کر باہر لائی تھی کیونکہ کمرے میں بیٹھے رہنے سے تو وہ گھر والوں سے گھلنے ملنے والی تھی نہیں

عصیم کو پہلی بار دیکھ کر تو اسے ڈر ہی لگا وہ لمبا چوڑا مرد اسے گھنی گھنی مونچھوں سمیت کوئی ڈاکو ہی لگ رہا تھا لیکن جب اسکے لہجے میں اپنے لیے نرمی دیکھی تو ڈر تھوڑا کم ہوگیا

اس وقت وہ اسکے برابر بیٹھی غور سے ہر اس شخص کو تصویر میں دیکھ رہی تھی جو عصیم اسے تصویر میں دکھا رہا تھا

"یہ میرے دادا سائیں ہیں جمال شاہ" اسنے جمال شاہ کی تصویر پر انگلی رکھ کر اسے بتایا اور ساتھ ہی زہہن کتنی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں

"یہ کہاں ہیں"

"اب نہیں ہیں"

"تو انہیں کیا ہوا تھا"

"انہوں نے خود خوشی کی تھی"ماضی کی یادوں میں کھوے ہوے اسنے جیسے غائب دماغی سے کہا

"کیوں" اسنے جھجکتے ہوے پوچھا کیونکہ اسے یہی لگا کہ یہ سوال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتی تھی

"تم فیملی کا فرد بن چکی ہو تم سے کچھ نہیں چھپ سکتا آہستہ آہستہ ساری باتیں تمہارے سامنے آجائینگی" اسنے مسکراتے ہوے اس البم کو بند کیا اور دوسرا اٹھایا جو ساحر کے نکاح کا تھا

"تم اسے دیکھو میں دو منٹ میں آرہا ہوں"

"کیا ہورہا ہے" ساحر کی آواز پر ان دونوں نے اسکی طرف دیکھا جبکہ اسے دیکھ کر عزہ کے ڈر مارے اپنا چہرہ عصیم کے پیچھے چھپا چکی تھی

"ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے عزہ یہ ماہر نہیں ہے ساحر ہے"نرم لہجے میں اپنی بات کہہ کر اسنے ساحر کی طرف دیکھا

"تم اسکے پاس بیٹھو میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں"اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ جانے لگا جب عزہ نے ڈر کر اسکا بازو پکڑ لیا

"میرا بچہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ ساحر بھائی ہیں اور جب تک یہ یہاں ہیں ماہر تمہیں کچھ نہیں کہے گا" نرمی سے اپنا بازو چھڑا کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا اور اسکے جانے کے بعد ساحر مسکراتے ہوے اسکے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا

"مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ساحر ہوں جسے دیکھ کر کل رات کو آپ بےہوش ہوگئی تھیں"

"میں اور ماہر ٹوئنز ہیں اور وہ مجھ سے چند منٹ بڑا ہے"

"آپ بلکل ان جیسے ہیں"

"ہاں لیکن آپ جلد ہی ہم دونوں میں فرق کرنا سیکھ جائیں گی" اسکے کہنے پر عزہ نے مزید کچھ کہے بغیر اپنی نظریں جھکا لیں

جب تک عصیم وہاں دوبارہ نہیں آگیا تب تک ساحر خود ہی اس سے باتیں کرتا رہا اور اسکے جانے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا گیا

°°°°°

"ساحر کام کے سلسلے میں اسلام آباد جارہا ہے" وصی نے کپڑے طے کرتی عینہ سے کہا جس نے اسکی بات سن کر فقط اپنا سر ہلادیا

"وہ ماہیم کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا ہے"اسکے کہنے پر عینہ کے ہاتھ رکے

"کیوں"

"ایسے ہی"

"لیکن وصی ایسے اچھا تو نہیں لگتا ہے نہ"

"کیوں نہیں لگتا"

"انکا صرف نکاح ہوا ہے میں کیسے ماہیم کو اس کے ساتھ بھیج دوں"

"ویسے تو ماہیم اسکے نکاح میں ہے اور مجھے کوئی ڈر نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ ساحر اپنی حدیں جانتا ہے لیکن تمہیں کوئی اعتراض ہے تو بتا دو"

اسکے کہنے پر چند پل سوچ کر اسنے اپنا سر نفی میں ہلا دیا

"نہیں لیکن ماہیم سے بھی تو پوچھ لینا چاہیے نہ جانا تو اسنے ہی ہے"

"ہاں بلکل اس سے پوچھو اگر وہ انکار کرے گی تو میں ساحر سے خود بات کرلوں گا" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کمرے سے چلا گیا اور کپڑے طے کرکے عینہ خود بھی اٹھ کر ماہیم کے کمرے کی طرف چلی گئی

°°°°°

"عینہ آنٹی تم سے میرے ساتھ جانے کا پوچھیں گی اور تم ہاں میں جواب دو گی"

"میں نہیں دوں گی مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ" اسنے فون پر دوسری جانب موجود ساحر سے کہا

"ماہیم اگر ہاں کہو گی تو پیار سے لے کر جاؤں گا اور پیار سے واپس لے کر آؤں گا"

"اور اگر انکار کیا"

"تو پھر زبردستی لے کر جاؤں گا اور اسکے بعد میں وہاں جاکر تمہارے ساتھ جو کروں گا اسکے لیے تیار رہنا" اسنے دھمکی دی

"ٹھیک ہے بس میری کچھ باتیں مان لیں پھر میں ساتھ چل لوں گی"

"جیسے"

"جیسے آپ وہاں گندی گندی باتیں نہیں کرینگے" اسکے کہنے پر ساحر کے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ پھیلی

"میرا تو گندی گندی حرکتیں کرنے کا ارادہ ہے"

"وہ بھی نہیں کرینگے"

"مطلب میں تمہاری طرف سے ہاں سمجھوں تیار رہنا اور اب انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے" بنا اسکی کچھ سنے اس نے اپنی کہہ کر کال کاٹ دی

"اچھی زبردستی ہے"

اسنے منہ بنایا جانتی تو تھی چاہے انکار کرتی یا اقرار لے کر تو وہ اسے ویسے بھی جاتا تو بہتر تھا پیار سے ہی چلی جاتی تاکہ وہ بھی پیار سے ہی رکھتا

°°°°°

"یہ کس کی بچی اٹھا لائی ہو" کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر آئرہ کے ساتھ لیٹی عزہ پر پڑی جو آئرہ کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بچوں کی طرح سورہی تھی

"اسے ماہر کے کمرے میں نہیں سونا تھا اسلیے یہاں آگئی"

"آئرہ تمہیں اسے یہاں نہیں سلانا چاہیے تھا اسے ماہر کے قریب رہنے دو ورنہ اس طرح تو یہ کبھی ماہر کے قریب نہیں ہوگی جب سے عزہ یہاں آئی ہے تب سے ان دونوں میں ایک لفظ کی بات چیت بھی نہیں ہوئی"

"عالم اس گھر میں رہتے ہوے یہ ویسے بھی ماہر کے قریب نہیں ہوسکے گی"

ان دونوں کی آواز دھیمی تھی تاکہ عزہ کی نیند خراب نہ ہو

"یہاں اسے ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جن کے پاس یہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے اگر اسے ماہر کے قریب کرنا ہے تو ان دونوں کو کسی ایسی جگہ بھیجنا ہوگا جہاں اسکا ہر راستہ صرف ماہر تک ہی جاتا ہو تب ہی شاید ان کی دوریاں ختم ہوسکتی ہیں"

اسکے کہنے پر عالم بھی سوچ میں پڑ گیا

"بات تو ٹھیک ہے میں عصیم سے بات کروں گا" اپنی شال صوفے پر رکھ کر وہ واپس کمرے سے جانے لگا جب آئرہ نے اسے پکارا

"اب کہاں جارہے ہیں"

''یہاں رہ کر بھی کیا کروں گا بچی کا شکریہ ادا کرو اسنے آج تمہیں بچا لیا ورنہ میرا ارادہ آج تمہیں چھوڑنے کا ہرگز نہیں تھا''

"پھر تو مجھے روز اس بچی کو اپنے پاس سلانا چاہیے"آئرہ نے مسکراتے ہوے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا جبکہ اسکے کہنے پر عالم نے گھور کر اسے دیکھا

°°°°°

"ماہیم ساحر اسلام آباد جارہا ہے"

اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی جو بات عینہ نے کہی تھی وہ یہ تھی جبکہ اسکی بات سن کر ماہیم بس اپنا سر پکڑ کر رہ گئی

وہ پہلے بھی کام کے سلسلے میں بہت سی جگہوں پر جاچکا تھا لیکن اس بار بات الگ تھی کیونکہ اس بار وہ ماہیم کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا

"جانتی ہوں ماما"

"تو وہ تمہیں بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے تم جاؤ گی"

"آپ نے کیا کہا ہے ان سے"

"تمہارے بابا نے ہاں کردی ہے لیکن اگر تم انکار کرو گی تو وہ ساحر کو بتادیں گے یہ کوئی اتنا بڑا مسلہ نہیں ہے"

"جب پاپا نے ہاں کہہ ہی دی ہے تو چلی جاؤں گی میں وہ دوسرے شہر جارہے ہیں آپ لوگ تو ایسے ری ایکٹ کررہے ہو جیسے وہ مجھے لے کر دوسرے پلینٹ میں جا رہے ہیں" اسکے کہنے پر عینہ نے اسکے سر پر تھپڑ مارا

"کتنی بار گئی ہو تم ماں سے دور مجھے تو سوچ سوچ کر رونا آرہا ہے اور تم اتنی آرام سے جانے کا کہہ رہی ہو"

ماہیم نے منہ کھول کر حیرت سے اپنی ماں کی بھیگی آنکھوں کو دیکھا اب اس میں رونے والی کیا بات تھی

"رو کیوں رہی ہیں رخصت تھوڑی ہورہی ہوں" اسکے ہاتھ پکڑ کر ماہیم نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا

"تو اس میں بھی کونسا اتنا وقت رہ گیا ہے"

"اچھا تو ایسا کرتے ہیں اب بھی چل لیں پاپا کو بھی لے چلتے ہیں ایہاب کو یہیں چھوڑ دیں گے اور ہم سب اچھے سے گھوم کر آجاتے ہیں"

"ایہاب کو کیوں چھوڑیں"

"اچھا بہی تو ایہاب کو بھی لے کر چلیں گے" ماہیم نے اسکی گردن میں اپنی بانہوں ڈالیں جس پر مسکراتے ہوے اسنے ماہیم کی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے

"نہیں ساحر تمہارے ساتھ اکیلے وقت گزارنا چاہتا ہے تم دونوں جاؤ اور ڈھیر سارا انجواے کرنا" اسے پیکنگ کرنے کا کہہ کر وہ اٹھ کر کمرے سے چلی گئی اور اسکے جانے کے بعد ماہیم بس سوچ کر رہ گئی وقت تو واقعی کتنا کم رہ گیا تھا اسکے رخصت ہونے میں

پھر اسنے اپنے گھر سے ماں باپ سے بھائی سے دور چلے جانا تھا

°°°°°

"آپ نے بلایا تھا بابا سائیں" اسنے اسٹڈی روم میں داخل ہوتے ہوے کہا جہاں اس وقت عصیم اکیلا بیٹھا کتاب پڑھنے میں مصروف تھا

"ہاں تمہیں پتہ ہے ساحر اسلام آباد جارہا ہے"

"ہاں اسنے بتایا تھا"

"اسکی غیر موجودگی میں آفس کا کام کون دیکھے گا"

"آج سے پہلے تو آپ یا بڑے بابا دیکھتے تھے لیکن اب آہان بھی آفس جوائن کرچکا ہے تو میرے خیال سے وہی کام دیکھے گا"

اسنے لاپروائی سے کندھے اچکاے

نور کی شادی کے بعد سے آہان بھی شاہ انڈسٹری جوائن کر چکا تھا لیکن وہاں کام وہ ایک ایمپلائے کی حیثیت سے کرتا تھا

بھلے وہ شاہ خاندان سے تھا لیکن اسکا مطلب یہ نہیں تھا اسے سیدھا مالک کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا

ساحر کا کہنا تھا جب اسے آہان اس لائق لگنے لگے گا تو وہ خود اسے وہ عہدہ دے دے گا جس کا وہ حقدار ہوگا

"نہیں تم آفس کا کام سمبھا لو گے" اسکے کہنے پر ماہر نے حیرت سے اسے دیکھا

"میں کیسے کرسکتا ہوں"

"تم کیوں نہیں کرسکتے"

"ساحر کی بتائی چند باتوں کے علاؤہ مجھے اس کام کے بارے میں کچھ نہیں پتہ ہے"

"ساحر نے بھی تو سیکھا ہے تم بھی سیکھ لینا مینیجر تمہیں سب سمجھا دے گا پھر بھی کوئی پرابلم ہو تو مجھ سے یا معتصم سے شئیر کرنا ویسے بھی صرف چند دنوں کی تو بات ہے"

"بابا سائیں یہ غلط بات ہے"

"کچھ غلط نہیں ہے تم وہاں جاؤ گے اور معتصم کے گھر پر رہو گے عزہ تمہارے ساتھ جاے گی" اسکے کہنے پر ماہر لے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی

"تو یوں کہیں نہ عزہ کے ساتھ اکیلے ٹائم اسپینڈ کرلو"

"ہاں میں تمہیں اسی لیے بھیج رہا ہوں تاکہ تم دونوں کہ درمیان سب کچھ ٹھیک ہوجاے"

"تو آفس میں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے میں بس اسے لے کر چلا جاتا ہوں نہ"

"اب جارہے ہو تو ایسے ہی مفت کی روٹیاں توڑو گے بہتر نہیں کچھ کام ہی کرلو"عصیم کے کہنے پر وہ بس منہ بنا کر رہ گیا

°°°°°

"آئرہ آپی عزہ ناشتہ نہیں کررہی ہے"

اسنے کچن میں ناشتہ بناتی آئرہ سے کہا

عزہ کی اب تک سب سے زیادہ اٹیجمنٹ اسکے ساتھ ہی ہوئی تھی اسلیے اسے آئرہ کو بتانا ہی بہتر لگا

"میں لے کر گئی تھی لیکن اسنے کہا بھوک نہیں ہے میں نے زبردستی بھی کی پر وہ کھا نہیں رہی ہے"

"اچھا میں دیکھ لیتی ہوں تم ناشتہ لگوا دو"

ٹرے میں عزہ کا ناشتہ رکھ کر وہ کچن سے نکل گئی اور اسکے جانے کے بعد کسوا باقی کا رہ گیا کام ختم کرنے لگی

°°°°°

ٹرے ہاتھ میں لیے وہ کمرے میں داخل ہوئی دروازہ کھلنے کی آواز پر عزہ نے چونک کر دیکھا اور پھر اسے دیکھ کر مطمئن ہوگئی

رات سے وہ عالم اور آئرہ کے کمرے میں ہی موجود تھی

"ناشتہ کیوں نہیں کررہی تھیں"

"دل نہیں چاہ رہا"

"لیکن کھانا تو پڑے گا نہ میں تو کہتی ہوں حوریب سے اس معاملے میں کچھ سیکھ لو ماشاءاللہ سے وہ اپنے کھانے پینے کا خود اتنا دھیان رکھتی ہے کسی کو دھیان رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی" اسنے ٹرے اسکے پاس بیڈ پر رکھی

"آنٹی نے مجھے بتایا کہ میں ماہر سر کے ساتھ جارہی ہوں مجھے نہیں جانا"

"تم اسے آنٹی نہیں اماں سائیں کہا کرو جیسے ماہر کہتا ہے اور ماہر اب تمہارا شوہر ہے تو اسے سر کہنا بند کرو باقی جہاں تک بات ہے جانے کی تو کیوں نہیں جانا"

"بس نہیں جانا"

"ڈر لگ رہا ہے ماہر سے" آئرہ کے کہنے پر اسنے اپنی نظریں جھکا لیں وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی ڈر تو اس شخص سے اسے لگتا تھا

"عزہ زندگی ڈر کر نہیں گزاری جاسکتی"

"مجھے ان کے ساتھ زندگی گزارنی بھی نہیں ہے آئرہ آنٹی میں نے ان سے نکاح صرف اسلیے کیا تھا کیونکہ انہوں نے کہا وہ بعد میں مجھے چھوڑ دیں گے"

اسکے کہنے پر آئرہ نے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا

"یہ ماہر نے کہا تم سے"

"ہاں انہوں نے کہا جب یہ بے بی ہوجاے گا تو میں انہیں دے دوں گی پھر وہ میرا پیچھا چھوڑ دیں گے"

وہ ایک بچے کی ماں بننے والی تھی لیکن آئرہ کو اس وقت اپنے انداز سے وہ خود ایک بچی لگ رہی تھی

"اسنے چھوڑ دیا تو کہاں جاؤ گی"

"چلی جاؤں گی کہیں نہ کہیں"

"جانتی بھی ہو اولاد کیا ہوتی ہے اتنی آسانی سے تم اپنے وجود کا حصہ ماہر کو سونپ کر جاسکتی ہو"

"تو میں کیا کروں"

"پہلے ناشتہ کرو" ٹرے اپنی جانب کھسکا کر اسنے عزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا اور چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر اسے کھلانے لگی

"جانتی ہو ماہر نے تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کیا تھا وہ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا"

"جانتی ہوں"

"ماہر بہت اچھا ہے عزہ اسلیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میرا اپنا ہے بلکہ حقیقت بتا رہی ہوں اگر کوئی انسان غلطی کرے تو ہمیں اسے ایک موقع تو دینا چاہیے نہ تم بھی کوشش کرکے دیکھو"

"میرے لحاظ سے انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں کمپرومائز کرنا پڑھتا ہے اور تمہیں بھی اس وقت یہی کرنا ہے بھلے اپنے لیے نہ سہی اس بچے کے لیے" اسنے عزہ کے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھا

"گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تمہیں یہ احساس ہوتا رہے گا کہ یہ تمہارے لیے کتنا اہم ہے اور پھر تم اسے کسی اور کو دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہو"

"اگر ایسا ہے تو میں اسے بھی ساتھ لے جاؤں گی" اسکے کہنے پر آئرہ کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوگئی

"اسے لے کر کہاں کہاں پھرتی رہو گی بقول تمہارے ماہر نے اس بچے کی وجہ سے تم سے شادی کی ہے تمہارا کیا خیال ہے وہ اسے تمہیں لے جانے دے گا بلکل نہیں"

"تو پھر"

"تو پھر یہ میری جان کہ تم ماہر کو ایک موقع دو اسکے ساتھ زندگی کی شروعات کرو ایک کوشش کرو زندگی کا سفر ماہر کے ساتھ گزارنے کی تاکہ جب یہ بےبی اس دنیا میں آے تو اسکے ماما پاپا مل کر خوشی سے اسکا ویلکم کریں" اسکی ناک کھینچ کر آئرہ نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور ٹرے اٹھا کر کمرے سے چلی گئی

°°°°°

"شاہ میر"

"ہمم"اسنے نظریں لیپ ٹاپ پر جماے کہا

"شاہ میر"

"ہممم"

"شاہ میر" اس بار اسکے چیخنے پر شاہ میر نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا

"ہاں کہو"

"آپ میری بات نہیں سن رہے نہ"

"سن تو رہا ہوں"

"پچھلے پندرہ منٹ سے میں کہا کہہ رہی تھی"

"اب ہر بات میں حفظ تو نہیں کرسکتا نہ حیات لیکن میں نے تمہاری ساری باتیں سنی ہیں" اسکے کہنے پر حیات نے خفگی سے اسے دیکھا جانتی تھی اسکی باتوں سے زیادہ شاہ میر کا دھیان اپنے کام پر تھا

"میں دیکھ رہی ہوں جب سے آپ نے جوب شروع کی ہے آپ مجھے اگنور کرنے لگ گئے ہیں"

حیات کے کہنے پر اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کیا

"ایسے تو مت بولو اپنی نیند خراب کرکے صبح صرف تمہارے خاطر ہی تو اٹھتا ہوں ورنہ تمہیں میری نیند کا ابھی پتہ نہیں ہے میں تو مردوں سے شرط لگا کر سوتا ہوں" اسکی فضول بات سن کر حیات نے زور سے اسکے کندھے پر تھپڑ مارا

"جب دیکھو فضول بولتے رہتے ہیں"

"کچھ وقت کی بات ہے سن لو میری باتیں ورنہ بعد میں تو ہماری رخصتی ہوجاے گی پھر نہ تو میں تمہیں بولنے کا موقع دوں گا نہ خود کچھ کہوں گا پھر تو بس اپنے دل کے ارمان تم پر نکالوں گا"

"آپ کام ہی کریں میں جارہی ہوں" اسکا موڈ چینج ہوتا دیکھ کر وہ وہاں سے جانے لگی جب شاہ میر نے اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کرلیا

"مجھے تم ڈسٹرب کرچکی ہو اب تم تب تک نہیں جاؤ گی جب تک میری اجازت نہیں ہوگی چلو اپنی باتوں کو وہیں سے کنٹینیو کرو"

حیات نے اپنا سر اسکے کندھے پر رکھا اور باتوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑ لیا جہاں سے رکا تھا

°°°°°

وہ خاموشی سے کار ڈرائیو کررہا تھا اور دوسری طرف عزہ دروازے کے ساتھ چپک کر خاموش بیٹھی ہوئی تھی

اس وقت وہ دونوں شہر جارہے تھے معتصم والے گھر پر

اسے پتہ تھا کہ جب وہ اسکے ساتھ اکیلے جاے گی تو گھر میں سب کو پاکر کچھ ایسا ضرور کرے گی جس سے اسکا ماہر کے ساتھ جانا کینسل ہوجاے اسلیے ماہر اسے سوتے میں اٹھا کر لایا تھا

تھوڑا راستہ کٹنے کے بعد وہ اٹھ چکی تھی اور جب سے اٹھی تھی تب سے ایسے ہی خاموش بیٹھی ہوئی تھی

ماہر نے ایک نظر اپنے برابر بیٹھی عزہ کو دیکھا جو خاموشی سے اپنی آنکھیں موندے بیٹھی سونے کا دکھاوا کررہی تھی لیکن وہ جاگ رہی تھی اور یہ بات وہ جانتا تھا

حالات کتنے بدل گئے تھے اسکے برابر آج وہی ماہر شاہ بیٹھا تھا جسے کل تک وہ اپنا فیورٹ ٹیچر کہتی تھی اور آج جیسے اسکی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی

چند لمحے مزید ڈرائیو کے بعد اسنے گاڑی روکی اور گاڑی سے اتر کر باہر نکل گیا

گاڑی رکنے پر عزہ نے جلدی سے اپنی آنکھیں کھولیں جہاں ماہر گاڑی سے اتر کر باہر جارہا تھا

ایک لمحے کے لیے اسے ڈر لگا کہیں وہ اسے اکیلا چھوڑ کر تو نہیں جارہا لیکن پھر خود ہی مطمئن ہوگئی

وہ اسے اکیلا کسیے چھوڑ دیتا ماہر کا بےبی تو اسی کے پاس تھا نہ اپنے بےبی کو وہ کیسے چھوڑ کر چلا جاتا

چند منٹ بعد اسے ماہر واپس آتا دکھائی دیا جسے دیکھ کر وہ اسی پوزیشن میں بیٹھ گئی جس طرح ماہر کے سامنے بیٹھی تھی

°°°°°

اسنے اپنے ہاتھ میں موجود تین بیگ میں سے دو پیچھے رکھے اور ایک عزہ کی طرف بڑھا دیا

ان سارے بیگز میں کھانے پینے کی مختلف اشیاء موجود تھیں

اسکے بیگ پکڑانے پر عزہ نے دوبارہ اپنی آنکھیں کھولیں اور بنا اسکی طرف دیکھے بیگ واپس اسے دے دیا

"ہمارے پہنچنے میں ابھی ٹائم ہے تب تک یہ کھالو" اسنے بیگ واپس عزہ کی طرف بڑھایا

"مجھے بھوک نہیں ہے"

"میرے بےبی کو لگ رہی ہے"

"نہیں لگ رہی"

"لگ رہی ہے"

"نہیں لگ رہی ہے مجھے پتہ ہے"

"ہاں تمہیں زیادہ پتہ ہوگا تمہارے اندر ہی تو فٹ ہے لیکن پھر بھی کھالو اب انکار کیا تو گاڑی روک کر میں خود کھلانے لگ جاؤں گا''

اسکے کہنے پر اس بار بنا کچھ کہے وہ خاموشی سے بیگ میں سے چیزیں نکال کر کھانے لگی بھول تو اس وقت لگ رہی تھی

°°°°°

"ہیلو "

کال پک کرکے اسنے ایک نظر عزہ کو دیکھا جو اپنا کھانا کھانے میں مصروف تھی اور اسے دیکھ کر وہ بس سوچ کر رہ گیا اگر ان دونوں کی جگہ ساحر اور ماہیم ہوتے تو ساحر اس مومنٹ کو بھی کتنا رومینٹک بنادیتا

"بہروز کہاں ہے ماہر"

"تجھے کیا کرنا ہے"

"وہ لاپتہ ہے اسکا باپ اسے ڈھونڈ رہا ہے اور وہ کہاں ہے یہ تیرے علاؤہ اور کوئی نہیں جانتا سیدھے سیدھے بتادے وہ کہاں ہے میں نہیں چاہتا کسی کو یہ بات معلوم ہو" اسکے کہنے پر ماہر گہرا سانس لے کر وہ گیا

"ایڈریس بھیج رہا ہوں پھینک آنا اسے اسکے باپ کے گھر" اسنے کال کاٹ دی اور ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر رکھے دوسرے سے اسے ایڈریس بھیجنے لگا

ویسے بھی جس مرمت کے لیے اسنے بہروز مرزا کو اٹھوایا تھا وہ تو کرہی چکا تھا اسکی بیوی اسکے پاس بیٹھی تھی اور اسے یقین تھا بہت جلد ان کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوجاے گا

تو پھر اسے اب رکھنے کا بھی کیا فائدہ تھا ویسے بھی جتنی مرمت وہ اسکی کرچکا تھا ایک ہفتے سے پہلے اسنے ہاسپٹل سے واپس نہیں آنا تھا

°°°°°

"عینہ بس کرو اسکی رخصتی نہیں ہورہی ہے" وصی نے زبردستی اسے ماہیم سے دور کیا جو خود تو رو رہی تھی ساتھ ماہیم کو بھی دلا رہی تھی

ان دونوں کے نکلنے کا وقت ہورہا تھا جہاں وہ جانے سے پہلے سب سے مل رہی تھی ایہاب تو مزے سے بائے کہہ چکا تھا لیکن عینہ اسے گلے لگاے اس طرح رو رہی تھی جیسے وہ چند دنوں کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ساحر کے ساتھ جارہی تھی

"مل تو لوں" اسے گھورتے ہوے وہ واپس ماہیم کے گلے لگ گئی جس پر اپنا سر نفی میں ہلاتا وہ ساحر کی طرف متوجہ ہوا

"ساحر اسکا خیال رکھنا"

"آپ فکر مت کریں"

"جانتے ہو نہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے"

"آپ بےفکر رہیں وصی انکل ساحر شاہ اپنی حدود اچھے سے جانتا ہے جس طرح ماہیم کو لے کر جارہا ہوں اسی طرح واپس لے کر آوں گا"

دبے لفظوں میں وہ اسے اپنی طرف سے تسلی دے رہا تھا لیکن یہ تسلی وہ کس دل سے دے رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا

°°°°°

گاڑی معتصم کے گھر میں داخل ہوئی

جس سے اتر کر وہ عزہ کو اپنے ساتھ اندر لے کر چلا گیا

جہاں انکے انتظار میں چند ملازم پہلے ہی موجود تھے

جب بھی کسی نے وہاں جانا ہوتا تھا تو معتصم پہلے ہی فون کرکے یہ بات ان میں سے کسی ایک کو بتادیتا تھا تاکہ وہاں سارے انتظام پہلے سے ہو جائیں اور جانے والے کے لیے وہاں کسی چیز کی کمی نہ ہو

"شاہ صاحب کچھ چاہیے"

"نہیں آپ لوگ جائیں" اسکے کہنے پر سارے ملازم جانے لگے جب عزہ نے ڈر کر ان میں سے ایک ملازمہ کا ہاتھ پکڑ لیا وہ ماہر کے ساتھ اکیلے کیسے رہ سکتی تھی

"آپ میرے ساتھ ہی رہ لو" اسنے آہستہ آواز میں ملازمہ کو کہا لیکن اسکی یہ آواز ماہر باآسانی سن چکا تھا

جب ہی آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورنے لگا

"آپ جائیں"اسکی بات پر اپنا سر ہلاکر وہ چلی گئی

عزہ سے پہلے تو انہیں ماہر کا حکم ماننا تھا

"کھا تھوڑی جاؤں گا تمہیں آؤ فریش ہوجاؤ پھر ریسٹ کرلو"ماہر نے اسکا ہاتھ پکڑنا چاہا جب اسکی اس حرکت سے وہ چند قدم پیچھے ہوئی گہرا سانس لے کر ماہر نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا

خاموشی سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ اسکے پیچھے چلنے لگی ایک کمرے میں داخل ہوکر اسنے اپنا اور عزہ کا بیگ سائیڈ پر رکھا اور خود کمرے سے باہر چلا گیا جانتا تھا اس وقت اسکی کمرے میں موجودگی عزہ کو بے آرام کرے گی

°°°°°

اسنے گہرا سانس لے کر اپنا سانس بحال کیا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسکے اوپر کتنا بھاری سامان رکھ دیا ہو

نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسنے اپنے اوپر لیٹے ماہر کو دیکھا جو اپنا اوپر وزن اسکے اوپر ڈالے مزے سے سورہا تھا اسے اپنے اتنے نزدیک دیکھ کر خوف سے اسکی چیخ نکلی اور اسکی چیخ سن کر ماہر ہڑبڑا کر اٹھا

"کیا ہوا" نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسنے فکر مندی سے عزہ کو دیکھا جو اسکے اوپر سے اٹھتے ہی ڈر کر بیڈ سے اٹھی اور اسکی یہ حرکت دیکھ کر ماہر کو اسکے چیخنے کی وجہ سمجھ آگئی

اسے پتہ تھا اسکی موجودگی میں وہ سکون سے سو نہیں پاے گی اسلیے وہ خود سونے کے لیے جب ہی لیٹا تھا جب وہ گہری نیند میں جاچکی تھی

"اس میں چیخنے کی کیا بات ہے عزہ"

"ی-یہاں کیا کررہے ہیں آپ"

"تو مجھے کہاں ہونا چاہیے تھا"اسنے الٹا سوال کیا

"دوسرے کمرے میں جائیں"

"میں یہیں سوؤں گا"

"تو بیڈ سے اٹھیں زمین پر سوجائیں"

اسکے کہنے پر بنا کچھ کہے اسنے خاموشی سے اپنا تکیہ اٹھا لیا جبکہ اسکی اتنی فرمابرداری پر عزہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی

تکیہ صوفے پر رکھ کر وہ لیٹنے کے بجاے بیٹھ گیا کیونکہ جتنا وہ صوفہ تھا اس پر ماہر جیسا شخص آدھا بھی نہیں آسکتا تھا

"سوجاؤ"

"دوسرے کمرے میں جائیں"

"میں تمہیں اس کمرے میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا"

"میں پہلے بھی اکیلے کمرے میں سوتی تھی"

"جب تمہارے ساتھ میرا بےبی نہیں تھا"

اس سے بحث فضول تھی خود پر کمبل ڈالے وہ اسکی طرف سے پیٹھ موڑ کر لیٹ گئی لیکن نیند جب تک نہیں آنی تھی جب تک وہ دوسرا شخص ٹھیک سے نہیں لیٹ جاتا

وہ اسے اپنے ساتھ نہیں سلا سکتی تھی اور دوسرے کمرے میں وہ جا نہیں رہا تھا اسلیے اسنے یہی سوچا کہ ماہر کو بیڈ پر لٹا دے گی اور خود جاکر صوفے پر سوجاے گی

اسنے گلا کھنکارا اور اسی طرح لیٹے لیٹے سائیڈ میں ہوگئی تاکہ ماہر سمجھ جاے وہ اسے بیڈ پر سونے کا کہہ رہی ہے لیکن اسکی طرف سے کوئی رسپانس کہ پاکر اسنے پھر وہی حرکت کی

جس پر اپنی مسکراہٹ دباے وہ بیڈ پر جاکر لیٹ گیا ورنہ جس طرح کا طریقہ عزہ کا اسے بلانے کا تھا یقیناً ایک دو بار مزید یہ حرکت کرتی تو بیڈ سے نیچے جاگرتی

اسکے لیٹتے ہی وہ جلدی سے اٹھی اور جاکر صوفے پر لیٹ گئی جس پر وہ آرام سے فکس ہوچکی تھی

"وہاں کیوں گئی ہو عزہ یہاں آکر سو" اسکے پکارنے پر بھی وہ خاموشی سے لیٹی رہی جس کے بعد ماہر نے بھی کچھ نہیں کہا جانتا تھا ابھی اسنے سننا ویسے بھی نہیں تھا زبردستی کرتا تو پھر ڈرتی

اس پر نظریں جمائے وہ اسکے نیند میں جانے کا منتظر تھا تاکہ اسے بیڈ پر لٹا سکے اور اسکے نیند میں جاتے ہی نرمی سے اسکا وجود اپنی بانہوں میں اٹھاے اسنے عزہ کو بیڈ پر لٹا دیا اور اسے اپنے حصار میں لے کر سکون سے آنکھیں موند لیں

°°°°°

آنکھیں زور سے میچے وہ کب سے اسکے بازو سے چپکی ہوئی تھی

"کیا ہوا جانے کے لیے اتنی ایکسائیٹیڈ ہورہی تھیں اور اب اتنا ڈر رہی ہو" عصیرم کے کہنے پر اسنے اسکی طرف دیکھا

"میں پہلی بار پلین کا سفر کررہی ہوں"

"مطلب دوسری بار کرو گی تو ڈر ختم ہوجاے گا"

"پتہ نہیں" منہ بناکر وہ دوبارہ اسکے کندھے سے چپک گئی

کچھ خاص نہیں بس ہوا یہ تھا کہ جو بات معتصم نے کسوا کو ہنی مون پر جاتے وقت کہی تھی وہی بات مذاق میں کسوا نور سے کہہ چکی تھی اور تب سے اسکا یہی حال ہورہا تھا

"عصیرم ہم نہ ایفل ٹاور کے نیچے کھڑے ہوکر تصوری بنوائیں گے" اسکی بات سن کر عصیرم کے لبوں پر تبسم بکھرا

"اچھا"

"ہاں میں وہاں جاؤں گی اور پھر ہم رومینٹک سی پکچر بنائینگے"

"ٹھیک ہے ہم بنائینگے رومینٹک سی پکچر"

"آپ کے والی نہیں میری والی رومینٹک پکچر"اسکی بات سن کر عصیرم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی

"اچھا ٹھیک ہے تمہاری والی رومینٹک پک بنوالینگے"

اسکے کہنے پر وہ آنکھیں بند کرکے پھر سے پہلے کی طرح آیتیں پڑھنے لگی تاکہ یہ سفر جلد از جلد آسانی سے کٹ جاے

°°°°°

"یہ کیا ہے" کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے ساحر کو گھور کر بیڈ کی طرف اشارہ کیا

"یہ بیڈ ہے"

"لیکن یہ ایک ہے"

"مجھے پتہ ہے یہ ایک ہے ویسے میرا ارادہ سنگل بیڈ لینے کا تھا جس میں تمہارے ساتھ میں آرام سے سوتا لیکن پھر تمہارے آرام کا خیال کرکے

یہ روم بک کرلیا"

"لیکن میں آپ کے ساتھ ایک کمرے میں نہیں رہ سکتی میرے لیے دوسرا کمرہ لیں" اسنے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا جو فرصت سے اسے نہار رہا تھا

"ماہیم جان تم یہیں رہو گی اسی کمرے میں میرے ساتھ اسی بیڈ پر یہ تو شکر مناؤ وصی انکل کی وجہ سے تمہارے ساتھ کچھ نہیں کروں گا"اسکے کہنے پر ماہیم کھلکھلا کر ہنسی

"ہاں اس بات پر تو دل چاہ رہا ہے جا کر پاپا کو ایک زور سے ہگ کروں مجھے ایک جن سے جو بچا لیا" اسکی بات سن کر ساحر نے اسکی کمر کے گرد اپنا بازو حائل کیا اور اگلے ہی پل اسے اپنے قریب کھینچ لیا

"پاپا تو ہیں نہیں مجھے ہگ کرلو"

"نہیں مجھے نہیں کرنا"

"کب تک بچتی رہو گی اس جن سے آنا تو تم نے میرے ہی پاس ہے" اسنے ماہیم کے گال پر اپنے لب رکھے

"ساحر دور رہیں آپ نے پاپا سے وعدہ کیا تھا"

"محبوب پاس ہو وہ بھی جائز حق سے اور ہم کوئی گستاخی نہ کریں محبت میں کوئی اتنا شریف بھی نہیں ہوتا"

"چھوڑیں مجھے تھکن ہورہی ہے سونا ہے"

ماہیم نے اس سے دوری بنانے کی کوشش کی جب اسکے لبوں کو ہلکے سے چھو کر وہ خود ہی اس سے دور ہوگیا

"دس منٹ میں واپس آرہا ہوں سونا مت باہر چلیں گے"

اسکے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور اسکی بات کو ہوا میں اڑا کر وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور تھکن کے باعث وہ تھوڑی دیر میں ہی نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی

°°°°°

"معتصم تمہیں پتہ ہے نور اور عصیرم کی فلائٹ کا ٹائم ہوگیا"

"وہ تو کب کا ہوچکا ہے" اسکی بات سن کر معتصم نے حیرت سے کہا

اب تک تو وہ دونوں پہنچنے والے ہوں گے اور یہ بات وہ جانتی تھی پھر یہ سب کہنے کا مقصد

"عصیرم اسے فرانس لے کر جارہا ہے"

اسکی بات سن کر معتصم نے آہستہ سے اپنا سر ہلایا اسکی بات کہنے کا مقصد وہ سمجھ چکا تھا

"تو"

"تو یہ کہ کتنا اچھا ہے میرا داماد اور ایک تم تھے فرانس کا کہہ کر بیوقوف بنایا"

ساری زندگی اسکا یہی غم تو رہا تھا کہ معتصم کہہ کر بھی اسے فرانس لے کر نہیں گیا

"فرانس لے کر نہیں گیا لیکن کہیں اور لے کر تو گیا تھا نہ"

"فرانس لے کر تو نہیں گئے نہ"

"ٹھیک ہے لے کر چلوں گا تمہیں تاکہ تمہارا یہ غم ختم ہو جائے اسی بہانے ہمارا ایک اور ہنی مون ہوجاے گا"

"اب اس عمر میں تمہارے ساتھ ہنی مون پر جاتی ہوئی میں اچھی لگوں گی وہ تو میں تمہیں بس بتانے آئی تھی"

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ واشروم میں چلی گئی اور معتصم واپس اپنے ہاتھ میں موجود کتاب پڑھنے لگا لیکن پریشے کو وہ اب فرانس لے کر ضرور جاے گا اس بات کا عہد اسنے خود سے کیا تھا

°°°°°

"شاہ"

"ہمم"

"ماہر اور عزہ پہنچ گئے"

"ہمم"

"شاہ"

"ہممم"

"ساحر اور ماہیم پہنچ گئے"

"ہممم"

"شاہ"

"ہمم"

"نور اور عصیرم پہنچ گئے"

"ہممم"

"شاہ"

اسکی چوتھی بار پکارنے پر عصیم پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوا

"کسوا شاہ میر یہیں پر ہے"

"میں اسکا تو پوچھ ہی نہیں رہی مجھے پتہ ہے وہ یہیں ہے"

اسکے کہنے پر عصیم نے مسکراتے ہوے اپنے ہاتھ میں پکڑا فون سائیڈ پر رکھا

یہ کسوا کا طریقہ تھا جب بھی اسے عصیم کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہوتا تھا تو اسی طرح کی حرکتیں کرتی تھی

"تو پھر کیا کہہ رہی تھیں"اسنے کسوا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا

"میں آپ کو مس کررہی تھی"

"تو ایسا کہو نہ" مسکراتے ہوے اسنے کسوا کے وجود کو بیڈ پر لٹایا اور اسکے لبوں پر جھک گیا

°°°°°

پندرہ منٹ میں یہ اسنے تیسری کروٹ لی تھی جسے محسوس کرکے زریام نے فکرمندی سے اسے دیکھا

"کیا ہوا ہے تم سو کیوں نہیں رہی ہو کہیں درد ہورہا ہے"

اسکے کہنے پر حوریب نے غصے سے اسے دیکھا

"کروٹ بھی نہیں لے سکتی"

"اس طرح کیوں بول رہی ہو فکر رہتی ہے مجھے تمہاری"

اسکے کہنے پر حوریب نے گہرا سانس لیا اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھ لیا

"انگریزی میں معافی کو کیا بولتے ہیں"

"سوری لیکن تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں ہے"

اسنے پھر بھی کہا

"سوری"

"کوئی بات نہیں"

"ویسے تمہیں میری فکر نہیں ہے تمہیں تو اپنے بچے کی فکر ہے"اسنے نظریں اٹھا کر زریام کو دیکھا

"ہے نہ"

"نہیں مجھے دونوں کی فکر ہے"

"نہیں کہو تمہیں بس میری فکر ہے"اسکا انداز حکمیہ تھا

"نہیں دونوں کی ہے"

"نہیں تمہیں میری فکر زیادہ ہے"

"نہیں مجھے تم دونوں کی فکر ہے"

زریام حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اس بچے سے جل رہی تھی جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آیا تھا

اسکے کہنے پر حوریب اٹھ کر جانے لگی جب زریام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے واپس اپنے سینے پر لٹایا

"اچھا مجھے تمہاری زیادہ فکر ہے"

"زریام تم اس بچے کے آنے کے بعد مجھ سے محبت کرنا تو نہیں چھوڑو گے نہ" اسکی آواز رندھ چکی تھی جسے سن کر زریام کو حیرت نہیں ہوئی اسے پتہ تھا حوریب اس طرح ری ایکٹ کیوں کررہی ہے

وہ محبتوں سے محروم لڑکی تھی یہاں آکر اسے جتنی محبتیں مل رہی تھیں ان سے اسے ڈر لگنے لگا تھا کسی وجہ سے اس سے یہ محبتوں چھن نہ جائیں یا پھر کم نہ ہوجائیں

"نہیں کروں گا حوریب تم میرے لیے سب سے خاص ہو" وہ اسکے بالوں میں نرمی سے انگلیاں پھیرتے ہوے کہہ رہا تھا

نیند سے جاگتے ہی اسکی پہلی نظر اپنی بانہوں میں موجود عزہ پر پڑی جسے دیکھتے ہی اسکے چہرے پر دلکش مسکراہٹ بکھر گئی

یہ سب اسے ایک خواب لگ رہا تھا اسنے بھلا کب سوچا تھا کہ ایک دن عزہ یوں اسکی بانہوں میں اسکے اس قدر قریب ہوگی

ماہر کی نظریں اسکے معصوم چہرے کا طواف کررہی تھیں اسکا چہرہ بھی اسکی جسامت کے حساب سے تھا چھوٹا سا

چھوٹے سے لب نرم و ملائم گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند

ماہر نے اپنا کان اسکے لبوں کے قریب کیا اور عزہ کے بچوں جیسے چھوٹے چھوٹے خراٹوں کی آواز سن کر اسنے مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی

°°°°°

"ماہیم اٹھو ہم باہر جارہے تھے"

دس سے پندرہ منٹ بعد وہ واپس آیا تھا جہاں ماہیم اسے سوتی ہوئی ملی اسے بنا جگاے وہ ہوٹل سے باہر چلا گیا تاکہ اسکے اٹھنے تک اپنے چند ایک کام نمٹالے اور اب جب دو گھنٹے بعد وہ واپس آیا تھا تو وہ تب بھی ایسے ہی سورہی تھی

"مجھے تنگ مت کریں میں بہت تھکی ہوئی ہوں"

"ہاں گاڑی تو تم ہی چلا رہی تھیں"

اس بار اسے ماہیم کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا

گہرا سانس لے کر اسنے بیگ سے اپنے کپڑے نکالے اور چینج کرنے چلا گیا

چینج کرنے کے بعد اسکا ارادہ سونے کا تھا کیونکہ اسکے علاؤہ اور کرتا بھی تو کیا ماہیم میڈم کی تو نیندیں تھیں جو پوری ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں

اسنے پورے بیڈ پر پھیلا ماہیم کا وجود ایک طرف کیا اور بیڈ پر لیٹ کر اسے اپنے حصار میں لے کر آنکھیں بند کرلیں

°°°°°

کب سے بیٹھی وہ بس اس چیز کا انتظار کررہی تھی کہ کوئی اسکے لیے ناشتہ لے کر آے گا لیکن کافی دیر بعد بھی کسی کو نہ آتے دیکھ کر وہ خود ہی اٹھ کر باہر چلی گئی

حویلی میں تو اسنے اب تک جو کچھ بھی کھایا تھا وہ آئرہ نے ہی کھلایا تھا لیکن یہاں آئرہ نہیں تھی اسے اپنا خیال خود رکھنا تھا

آہستہ سے قدم اٹھاتی ملازمہ سے راستہ پوچھ کر وہ کچن کی جانب چلی گئی اور وہاں کھڑے ماہر کو دیکھ کر واپس جانے لگی جب اسکی تیز آواز نے عزہ کے قدموں کو رکنے پر مجبور کردیا

"کیا ہوا کچھ چاہیے تھا"

عزہ نے مڑ کر اسے دیکھا وہاں اسکے ساتھ ایک اور ملازمہ کھڑی ٹرے میں ناشتہ رکھ رہی تھی شاید وہ ناشتہ اسکے لیے ہی تھا اسنے دل میں سوچا

"بھوک لگ رہی تھی"منمناتے ہوے اسنے اپنی انگلیاں مڑوڑیں

"تو بھاگ کیوں رہی تھیں آؤ میں تمہارے لیے لا ہی رہا تھا" ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرکے اسنے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا

اسنے ایک نظر ماہر کو دیکھا اور بیٹھ گئی اگر اس وقت اتنی بھوک نہ لگ رہی ہوتی تو وہ کبھی بھی اس طرح ماہر کے سامنے نہ بیٹھتی

"تم ناشتہ کرلو اور تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو"

"مجھے کچھ نہیں چاہیے" ماہر کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ کہہ اٹھی جس پر وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا

اسنے وہاں رکھا جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھا اور اپنا چہرہ اسکے قریب کیا جس پر عزہ نے خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھا

"مجھ سے ڈرنا چھوڑ دو''

"اور اسے پورا ختم کرنا"اسنے ٹرے کی جانب اشارہ کرکے کہا اور باہر چلا گیا

عزہ نے سلپ پر رکھی پلیٹ دیکھی جس میں یقینا ماہر کا ناشتہ رکھا ہوا تھا اور ماہر نے اسکی وجہ ہی نہیں کھایا ہوگا تاکہ وہ اسکے یہاں بیٹھنے سے ڈسٹرب نہ ہو

"کیا ضرورت تھی آنے کی اگر تھوڑی دیر انتظار کرلیتیں تو تمہاری ناشتہ کمرے میں ہی آجاتا" اسنے خود کو کوسا

جس بھوک کے لیے وہ یہاں پر آئی تھی وہ تو جیسے ساری اڑ چکی تھی اسنے چند نوالے لے کر آدھا گلاس جوس کا پیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی

°°°°°

"ساحر اٹھیں"

"نہیں اٹھ رہا خود تم اپنی نیند پوری کرچکی ہو اور اب مجھے پریشان کررہی ہو"اسنے نیند میں ڈوبی آواز کے ساتھ کہا اور اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا

جبکہ اسکی اس حرکت پر ماہیم منہ بسور کر رہ گئی اسنے اپنی تیاری کو دیکھا

بلیو جینز کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ پہنے اسنے ساتھ ہی سردی کے باعث لانگ کوٹ بھی پہن رکھا تھا وہ باہر جانے کے لیے کب سے تیار بیٹھی تھی لیکن ساحر تھا جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا

"پلیز اٹھیں مجھے باہر جانا ہے"

"تو خود چلی جاؤ"

"اکیلی" اسنے حیرت سے کہا

"ہاں چلی جاؤ" اسے جواب دے کر اسنے کمبل چہرے تک ڈال لیا اسے یہ نہیں پتہ تھا ماہیم واقعی میں اکیلے چلی جاے گی

ماہیم اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنا پرس اٹھا کر کمرے سے باہر چلی گئی

°°°°°

بھاگتے ہوے اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا لیکن کسی کو نہ پا کر اطمینان سے مڑا جب سامنے اتنے قریب کھڑی میشال کو دیکھ کر اسکی بےساختہ چیخ نکلی

وہ کب آئی ، آئی جو آئی اتنے قریب کیسے آئی اور کیوں آئی

"اتنی خوفناک ہوں میں جو ایسے چیخ رہے ہو"

"اتنی قریب کھڑی ہوگی تو ایسے ہی چیخ نکلے گی"

"اتنے گھبرائے ہوے کیوں ہو"

"پچھلی گلی میں چار لڑکے بیٹھے ہوے تھے"

"تو اسلیے اتنے گھبرائے ہوے ہو"

"وہ مجھے گھورتے ہوے دیکھ رہے تھے اور پھر پیچھا کرنے لگے میں تو بھاگ کر آگیا آج کل زمانہ بڑا خراب ہے نہ"ایہاب نے اپنا ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا جبکہ میشال پورا منہ کھولے حیرت سے اس بزدل لڑکے کو دیکھ رہی تھی

"تم مرد بلکہ تمہیں تو مرد کہنے کا بھی دل نہیں چاہتا" اسکے کہنے پر ایہاب نے گھور کر اسے دیکھا

"لڑکے ہو تو بن کر بھی دکھاؤ یہ کیا بزدلوں والی حرکتیں کرتے ہو"

"کیا حرکتیں کردی میں نے وہ چار تھے اور میں اکیلا پھر بھی وہیں کھڑا رہتا"

"ایک لڑکی کی لات سے تم ڈھے گئے غنڈے تمہیں لٹ رہے تھے اور تم اپنا بچاؤ نہیں کر پائے اور اب بھی ایسے ہی بھاگ آے"

"لڑکے کچھ شرم کرلو کل کو تمہاری شادی ہوگی نہ تم تو کیا لڑکی کو بچاؤ گے الٹا لڑکی کو تمہیں بچانا پڑے گا" میشال نے اسے شرم دلانے چاہی لیکن آتی کیسے وہ ڈھیٹ بندہ تھا

"تم ہر جگہ پہنچ جاتی ہو مجھے بچانے تو پھر تم ہی کرلو نہ مجھ سے شادی" اسکے کہنے پر میشال نے اسے ایسے دیکھا جیسے ایہاب کے دماغ کا کوئی نٹ ڈھیلا ہوگیا ہو

"شکل دیکھی ہے اپنی پہلے سو بار منہ دھو کر آؤ"

"سو بار منہ دھو کر آؤں گا تو مجھ سے شادی کرلو گی"

اسکے کہنے پر میشال نے اپنا ہاتھ ماتھے پر مارا اور وہاں سے چلی گئی اس سے بات کرنا افضول تھا

°°°°°

نیند سے جاگ کر اسنے پورے کمرے کا جائزہ لیا کمرہ کافی بڑا تھا لیکن اس بڑے سے کمرے میں ماہیم نہیں تھی

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاکر واشروم کا دروازہ ناک کیا لیکن جب تھوڑی دیر تک بھی کوئی جواب نہیں آیا تو اسنے دروازہ کھول کر اندر دیکھا

واشروم خالی تھا اسے فکر ہوئی اسے دیکھنے کے ارادے سے وہ کمرے سے باہر جانے لگا جب اپنی کہی بات زہہن میں گونجی

ماہیم باہر جانے کا کہہ رہی تھی تو کیا وہ پاگل لڑکی سچ میں باہر چلی گئی

"پلیز اٹھیں مجھے باہر جانا ہے"

"تو چلی جاؤ"

"اکیلی"

"ہاں چلی جاؤ"

اسنے غصے سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور دعا کی کہ ماہیم ہوٹل میں ہی کہیں ہو

اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ اکیلی باہر جاسکتی ہے وہ تو کراچی میں بھی کبھی کہیں اکیلی نہیں گئی تھی تو بھلا یہاں کیسے نکل گئی

صوفے پر رکھی جیکٹ اٹھا کر اسنے جلدی سے پہنی اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا

°°°°°

"میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں چلیں جائیں لیکن وہ یہیں رہے اسلیے مجبورا مجھے انہیں بیڈ پر سلانا پڑا میں خود صوفے پر جاکر سوگئی لیکن جب میں اٹھی تو میں بیڈ پر تھی اور آئرہ آنٹی مجھے پتہ ہے ایسا انہوں نے ہی کیا ہوگا"

بچوں کی طرح وہ آئرہ کو یہاں ہوئی ایک ایک بات بتا رہی تھی اور دروازے پر کھڑا ماہر بس اسکی باتیں سن رہا تھا

آج اسکا آفس میں پہلا دن تھا اسلیے وہیں جانے کی تیاری تھی ابھی بھی کمرے میں لینے تو وہ اپنا موبائل ہی جارہا تھا لیکن عزہ کی شکایتیں سن کر قدم باہر ہی رک گئے

یقیناً آئرہ کا فون آیا ہوگا اور اسنے کال پک کرلی ہوگی

بنا اپنا موبائل لیے وہ وہیں سے پلٹ گیا اگر اسکی شکایتیں لگانا عزہ کو اچھا لگ رہا تھا تو اسے اس بات سے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا

ملازمہ کو اسکا خیال رکھنے کی ھدایت کرکے وہ گھر سے نکل گیا

°°°°°

"ناشتہ کرلیا تم نے"

"جی کرلیا" اسنے نرم لبوں کو دانتوں میں لیا ناشتہ تو اسنے ادھورا چھوڑ دیا تھا جسے دیکھ کر ماہر کو یہی لگا کہ اسے ناشتہ پسند نہیں آیا جس کے بعد اسنے میشال سے پوچھ کر عزہ کی مرضی کا ناشتہ بنوایا اور جب تک اسنے اپنا ناشتہ مکمل نہیں کیا تب تک ماہر نے بھی اسکی جان نہیں چھوڑی

"میں نے تم کیا کہا تھا عزہ"

"کیا کہا تھا"

"ماہر کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کرو تم کررہی ہو" اسکی بات کے جواب میں عزہ نے کچھ نہیں کہا

کیا کہتی وہ تو بس اس سے دور بھاگتی رہتی ہے کوئی کوشش تو اسنے کی نہیں تھی

"عزہ"

"جب وہ میرے قریب ہوتے ہیں تو مجھے ان سے خوف آتا ہے"

اسکی بات سن کر آئرہ نے بات بدل دی وہ اسے سمجھا چکی تھی

عزہ کوشش بھی کرتی تو بھی ماہر کے قریب نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اسے ماہر سے خوف آتا تھا اور اسکا یہ خوف صرف ماہر ہی دور کرسکتا تھا

°°°°°

ہوٹل میں وہ کہیں نہیں تھی وہ ہوٹل سے باہر نکل کر ارد گرد کی جگہوں پر اسے ڈھونڈنے لگا

بارش جو پہلے ہلکی ہورہی تھی اب اس میں تیزی آچکی تھی وہ بھیگ رہا تھا لیکن اسے اس وقت بس ماہیم کو ڈھونڈنا تھا

دل چاہ رہا تھا بس ایک بار یہ لڑکی اسکے سامنے آے اور اسکا چہرہ وہ تھپڑوں سے لال کردے

اسے ڈھونڈتے ہوے وہ ہوٹل سے کافی دور آچکا تھا جہاں پر لوگ بھی صرف چند ایک ہی تھے پریشانی سے وہ واپس جانے لگا جب اسے دور سے کسی کی چیخ سنائی دی

وہ اس آواز کو کیسے نہ پہچانتا تیز قدموں سے بھاگتا ہوا اس طرف گیا جہاں سے چیخ کی آواز آئی تھی

اور وہاں پہنچ کر جو منظر اسے دیکھنے کو ملا وہ اسکا غصے سے برا حال کرچکا تھا

°°°°°

اسکا کوٹ اور پرس دور پڑا ہوا تھا جبکہ اسکی جینز بھی گھٹنوں سے پھٹ چکی تھی جیسے وہ کہیں گری ہو

وہاں کھڑے وہ لڑکے اسکی بیوی کو چھو رہے تھے گندی نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ماہیم اپنا آپ بچانے کی کوشش کررہی تھی

غصے سے وہ انکے قریب گیا اور بنا ادھر ادھر دیکھے انہیں مارنا شروع کردیا

ان دونوں کے چہروں پر وہ مکوں کی اتنی برسات کرچکا تھا کہ اس وقت تو انکا چہرہ پہنچانا بھی مشکل تھا مار مار کر اسکا خود کا ہاتھ بھی زخمی ہوچکا تھا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی

"ساحر"

ماہیم کی کپکپاتی آواز پر اسنے اپنی غصے سے سرخ ہوتی انکھوں اسے اسے دیکھا اور اسے اس قدر غصے میں دیکھ کر وہ اپنی جگہ کانپ کر رہ گئی

غصے سے ساحر نے اپنے قدم اسکے قریب بڑھاے اور بنا کسی چیز کی پرواہ کیے زور دار تھپڑا اسکے آنسوؤں سے بھیگے گال پر رسید کردیا

اسکا تھپڑ اتنا شدید تھا کہ وہ زمین پر جاگری

اسکے سارے بال اسکے چہرے پر آگرے جس کی وجہ سے اسکا چہرہ چھپ چکا تھا

ساحر نے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا اور اسکے چہرے پر آتے اسکے بال ہٹاے اور اسکے چہرے پر نظر پڑتے ہی تکلیف سے آنکھیں میچ لیں

اسکا ہونٹ پھٹ چکا تھا اور سردی کے باعث لب کپکپارہے تھے جبکہ خود وہ حوش و حواس سے بیگانہ ہوچکی تھی حالت تو اسکی پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی رہی سہی کسر ساحر کے تھپڑ نے پوری کردی

ساحر نے اپنی جیکیٹ اتار کر اسے پہنائی کیونکہ اسکا زمین پر گرا کوٹ گندا ہوچکا تھا

جیکیٹ اتارتے ہی سادہ سی ٹی شرٹ کے باعث سردی نے ساحر کو ہلکا سا جھنجھوڑا اب اسے بھی ٹھنڈ لگ رہی تھی لیکن اس وقت اسے اپنی فکر نہیں تھی اس وقت اسے بس ماہیم کو ہوٹل لے کر جانا تھا

یہ راستہ تھوڑا ویران تھا اور لوگوں کا گزر بھی یہاں کم ہی تھا

ساحر نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور ایک نفرت بھری نگاہ ان دونوں آدھ مرے لڑکوں پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا

"پکڑو اپنا جھنجانا اپنے پاس میرا تو سر درد ہورہا ہے"غصے سے اسنے لیپ ٹاپ سائیڈ پر پھیکا جس پر آہان نے اپنا سر نفی میں ہلایا

"ماہر لالا آپ یہاں کام کرنے آے ہیں"

"میں اس وقت یہاں کا باس ہوں کوئی مجھے کام نہیں دے سکتا" اسنے رعب سے کہتے ہوے کرسی سے ٹیک لگا لی

"یہ کون کہتا ہے کہ باس کام نہیں کرتا سیدھے طریقے سے کام کریں ورنہ چاچا سائیں سے آپ کی شکایت کروں گا"

"دھمکی دے رہا ہے بیٹا"

"جی" اسنے اپنے دانتوں کی نمائش بھرپور نمائش کی

"میں گھر جارہا ہوں مجھے اپنی بیوی کے پاس جانا ہے" اسنے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوے ٹیبل پر رکھی گاڑی کی چابیاں اٹھائیں جب آہان نے اسے دوبارہ بٹھادیا

"شرافت سے بیٹھیں رہیں گھر ہی جانا ہے فلحال آپ تب تک نہیں جاسکتے جب تک آپ کے جانے کا ٹائم نہیں ہو جاتا"

"باس کبھی بھی جاسکتا ہے"

"آپ ابھی صرف باس کی کرسی پر بیٹھیں ہیں چاچا سائیں کا حکم تھا آپ کو ٹائم سے پہلے جانے نہ دوں اور اگر آپ گئے تو ان سے شکایت کردوں گا"

اسکے کہنے پر ماہر نے غصے سے گاڑی کی چابیاں پھینکیں یہاں بیٹھ کر کام کرنا اس وقت اسے دنیا کا سب سے بورنگ کام لگ رہا تھا اور وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ ساحر یہ کام کیسے کرتا ہوگا

°°°°°

اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے وہ روم میں داخل ہوا

ماہیم کو بیڈ پر لٹا کر اسنے کھڑکیوں پر پردے ڈالے اور اسکے بیگ میں سے کپڑے نکال کر لائٹ آف کردی

بارش کی وجہ سے وہ پوری بھیگ چکی تھی سردی تو اسے پہلے ہی لگ رہی تھی ایسے میں اگر ساحر اسکے کپڑے چینج نہیں کراتا تو یقیناً اسنے بیمار پڑھ جانا تھا

اسکے کپڑے چینج کرا کر اسنے لائٹ آن کی اور خود اپنے بھیگے کپڑے بدلنے چلا گیا

چینج کرکے اسنے اپنی آستین فولڈ کیں اور اسکے قریب بیٹھ گیا

اسکے گال پر ساحر کی انگلیوں کے نشان چھپے ہوے

ٹاول گیلا کرکے ساحر نے اسکا چہرہ اور ہاتھ پاوں اچھے سے صاف کیے اسکے بعد نرمی سے اسکے ہونٹ کے قریب زخم پر ٹیوب لگائی

اب دھیان اسکے گھٹنے کی طرف جارہا تھا جہاں سے اسنے پھٹی ہوئی چینز میں زخم دیکھا تھا اسنے ماہیم کا ٹراؤزر گھٹنوں تک اوپر کیا

ساحر نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکے گھٹنے پر ٹیوب لگانے لگا

دل تھا جو تیز تیز دھڑک رہا تھا اسنے آج ماہیم پر ہاتھ اٹھایا جس کا اسے کوئی افسوس نہیں تھا اسکا یہ سوچ کر ہی دماغ پھٹے جارہا تھا کہ اگر وہ وقت پر نہیں پہنچتا تو کیا کچھ ہو جاتا

وہ وصی سے وعدہ کرکے آیا تھا کہ اسکا خیال رکھے گا کیا جواب دیتا اسے سب سے بڑھ کر خود کو کیا کہتا کہ اسکی حفاظت بھی ٹھیک سے نہیں کر پایا

°°°°°

"چھوڑیں مجھے" مسلسل اپنے چہرے پر اسکے لب محسوس کرکے نور نے غصے سے اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا

جب سے وہ یہاں آے تھے تب سے وہ بس عصیرم کے ساتھ کمرے میں بند تھی جس پر اب اسے کافی تب چڑھ رہی تھی اسے باہر جانا تھا گھومنے کے لیے

لیکن عصیرم کا پیار تھا جو ختم ہی نہیں ہورہا تھا

"کیا ہوا میرے بےبی کو غصہ آرہا ہے" اسکے غصے پر مسکراتے ہوے عصیرم نے اسکے چہرہ اپنی جانب کیا جس پر اسکا پھولا منہ مزید پھول گیا البتہ نظریں جھکی ہوئی تھیں

"اچھا تمہیں باہر جانا ہے"

"ہاں"

"کل لے کر جاؤں گا"

"ٹھیک ہے لیکن ابھی مجھے چھوڑیں"

"نہیں چھوڑوں گا"

"عصیرم چھوڑیں"اسنے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور نظریں دوبارہ جھکالیں اسکی اتنی قربت پر اس وقت نور کے لیے اس سے نظریں ملانا محال تھا

"نہیں چھوڑوں تو"

"چھوڑیں مجھے یہ میرا حکم ہے"اسنے حکمیہ انداز میں کہا

"تم مجھے حکم دے رہی ہو نور"

"ہاں دے رہی ہوں"

"ہاں ایک تم ہی تو ہو جو مجھے حکم دے سکتی ہو" اسنے نور کی چھوٹی سی ناک پر اپنے لب رکھے

حیرت کی بات ہی تو تھی عصیرم خان جس نے آج تک ہر کسی کو صرف حکم ہی دیا تھا آج پہلی بار اسے کوئی حکم دے رہا تھا وہ بھی ایک چھوٹی سی لڑکی

°°°°°

اسنے اپنی آنکھیں کھولیں اور چھت پر نظر پڑتے ہی وہ جلدی سے اٹھی اور اٹھتے ہی نظر سامنے صوفے پر بیٹھے ساحر پر گئی جو اطمینان سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

اسے دیکھتے ہی ماہیم کو اسکا مارا گیا تھپڑ یاد آیا بے اختیار اسنے ہاتھ اپنے گال پر رکھا اور نظریں جھکا لیں جب نظر اپنے لباس پر گئی

یہ سوچ کر ہی دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی کہ اسکا لباس کس نے تبدیل کیا ہوگا

"مزہ آیا تمہیں میرے خیال سے آج کے لیے اتنا گھومنا کافی ہے"اسنے تنظیہ انداز میں کہا

"میرے کپڑے کیوں چینج کیے" ساحر کا سوال نظر انداز کرکے اسنے نظریں جھکائے کہا

"تم ہوٹل سے باہر کیوں نکلی تھیں"

"میرے کپڑے کیوں چینج کیے"

"نظارے دیکھنے کا دل چاہ رہا تھا"ساحر کے چلانے پر جہاں وہ سہمی وہیں اسکی بات کا مطلب سمجھ کر اچھی خاصی سرخ بھی ہوچکی تھی

ماہیم نے اپنی سیاہ بھیگی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور دوبارہ نظریں جھکالیں

کچھ اور سمجھ نہ آیا تو وہیں بیٹھے بیٹھے رونا شروع کردیا اور اسکے رونے سے ساحر کے انداز میں نرمی در آئی

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ اسکے قریب گیا اور اسے اپنے سینے سے لگالیا

"آئی ایم سوری مجھے اکیلے نہیں جانا چاہیے"اسنے بھیگے لہجے میں معذرت کی

"تمہیں اندازہ نہیں ہے ماہیم اگر آج کچھ ہو جاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتا ساری زندگی خود کو اس چیز کا قصوروار ٹہراتا رہتا کہ میں تمہاری حفاظت نہیں کرسکا" اسنے مزید سختی سے اسے اپنے حصار میں لے لیا جبکہ اسکی اتنی سخت گرفت میں ماہیم کو اپنا سانس رکتا محسوس ہورہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کوئی ہڈی ٹوٹ جاے گی

"ساحر مجھے درد ہورہا ہے" اسکے کہنے پر ساحر نے اپنی گرفت تھوڑی ڈھیلی کی

"آج کے بعد ایسی حرکت مت کرنا ماہیم"

"لیکن آپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا"

"جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں ہے اگر دوبارہ اس طرح کی کوئی حرکت کی دو ایک کے بجاے دو تھپڑ لگاؤں گا"اسکے کہنے پر ماہیم نے اس سے دور ہوکر شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا

جس پر ساحر نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسے واپس اپنے سینے سے لگالیا

"اچھا آئی ایم سوری مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا" ساحر نے مسکراتے ہوے اسکا گال سہلایا اور نرمی سے اسکے گال پر اپنے لب رکھ دیے

"مجھے بھوک لگ رہی ہے"

"میری بھوک اڑا کر کہہ رہی ہو تمہیں بھوک لگ رہی ہے"

ساحر نے اپنے لب اسکے دوسرے گال پر رکھے اور نرمی سے اسکے چہرے کے ایک ایک نفش کو اپنے لبوں سے چھونے لگا جب اپنا چہرہ موڑ کر ماہیم نے چھینک ماری

"اچھو"

"ہوگئی نہ طبیعت خراب"

"کچھ نہیں ہو اچھوں" ابھی وہ کچھ کہہ ہی رہی تھی جب اسے دوسری چھینک آئی

"میں تمہارے لیے کھانا منگواتا ہوں اسکے بعد میڈیسن کھالینا" وہ اپنی جگہ سے اٹھنے لگا جب ماہیم بنا کچھ کہے اسکے سینے سے لگ گئی اور سکون سے آنکھیں موند لیں

اسکی اس حرکت پر ساحر نے مسکراتے ہوے اسکی کمر سہلائی اور اسکے ایسا کرنے سے ماہیم کو ڈھیروں سکون خود میں اترتا محسوس ہورہا تھا

ایسا لگ رہا تھا کہ اسکے لیے سب سے محفوظ مقام صرف ساحر کی بانہیں ہیں جن میں اس وقت اسے بےحد سکون مل رہا تھا

°°°°°

اتنی دیر سے کمرے میں بیٹھے بیٹھے وہ اچھی خاصی بور ہوچکی تھی اور کچھ کمرے میں رہنے کی وجہ ماہر تھا

اسنے باہر نکل کر ملازمہ سے ماہر کا پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو

اسنے بتایا کہ وہ صبح ہی باہر چلا گیا جس پر اسنے سکون کا سانس لیا اور خود کو ڈپٹا فضول میں ہی کمرے میں بند بیٹھی تھی جس کی وجہ سے بیٹھی تھی وہ تو یہاں تھا ہی نہیں

نظریں دوڑا کر وہ گھر کا جائزہ لے رہی تھی جب نظر گلاس وال سے دکھتے باہر کے منظر پر پڑی

جہاں بارش ہورہی تھی پہلے ہلکی ہلکی لیکن پھر ایک دم سے ہی تیز برسنا شروع ہوچکی تھی اسکے چہرے پر بچوں جیسی خوشی آئی

بھاگتی ہوئی وہ باہر لان کی طرف گئی اور تیز برستی بارش میں مکمل بھیگ گئی

°°°°°

گاڑی اسنے باہر ہی کھڑی کردی تھی آج کا سارا دن اسکا انتہائی برا گزرا تھا اور مزید موڈ خراب اس بارش نے کردیا

بگڑے موڈ کے ساتھ وہ گھر میں داخل ہوا لیکن لان میں کھڑے وجود پر نظر پڑھتے ہی سارا برا موڈ ایک پل میں ٹھیک ہوگیا

اسے خود بھی پتہ نہیں چلا بارش میں بھیگتی عزہ کو دیکھ کر کب اسکے لب مسکرا اٹھے

عزہ کا بھیگا سراپہ اسکے دل میں ہلچل مچا رہا تھا

مرد تھا جذبات رکھتا تھا آخر کب تک خود کو روکتا مظبوط قدم اٹھاتا ہوا وہ اسکی جانب بڑھا

جو بارش اسے تھوڑی دیر پہلے بری لگی رہی تھی وہ اب اسی میں کھڑا بھیگ رہا تھا

اسنے عزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب موڑ کر اسے اپنے قریب کیا جو اسکے ایسا کرتے ہی اسکے چوڑے سینے سے ٹکرائی

ماہر بہکی بہکی نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا اور نظریں عزہ کے بھیگے لبوں پر پڑتے ہی اسے اپنا آپ کسی پیاسے کی مانند لگ رہا تھا

"اگر کوئی انسان غلطی کرے تو ہمیں اسے ایک موقع تو دینا چاہیے نہ تم بھی کوشش کرکے دیکھو"

وہ بھاگنا چاہتی تھی لیکن آئرہ کی بات زہہن میں آتے ہی اسنے بھاگنے کا ارادہ ترک کردیا

ماہر نے اسکی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اوپر کیا اور اسکے بھیگے لبوں پر نرمی سے جھک گیا

قطرہ قطرہ وہ اسکی سانسوں کو خود میں اتارتا مدہوش ہوتا جارہا تھا

جبکہ اسکی اتنی قربت پر عزہ نے خوف سے اپنے دوپٹے کو مظبوطی سے ہاتھوں کی گرفت میں پکڑ لیا

"م--ماہر سر پلیز چھوڑیں مجھے آ-آپ کو اللہ کا واسطہ ہے پلیز چھوڑیں"

ماہر کی حیوانیت یاد آتے ہی اسنے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا انداز دھکا دینے والا تھا

اور ماہر جو مدہوشی کے عالم میں اس پر جھکا ہوا تھا اسکی اس حرکت سے ہوش کی دنیا میں لوٹا

نظریں عزہ کے چہرے پر گئیں جہاں اس وقت اسے برستی بارش میں عزہ کے چہرے پر صرف ایک ہی قسم کا تاثر دکھ رہا تھا خوف کا

"عزہ"

ماہر اسکے قریب جانے لگا جب اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر اسنے اپنے قدم پیچھے کی جانب کیے اور وہاں سے بھاگ گئی

ماہر نے تھکے ہوئے انداز میں ماتھے پر آئی بھیگی لٹوں کو پیچھے کیا اور گہرا سانس لے کر اندر چلا گیا

°°°°°

جب سے وہ ہوٹل واپس آئی تھی تب سے اسنے ایک بار بھی باہر جانے کی ضد نہیں کی تھی

"کیا ہوا ماہیم باہر گھومنے نہیں جانا ہے"

اسکے کہنے پر ماہیم نے گھور کر اسے دیکھا

"میرا مذاق اڑانے کی ضرورت نہیں ہے ساحر مجھے آپ نے اجازت دی تھی باہر جانے کی"

"بکواس کرتا ہوں میں آئیندہ میری کوئی بات ماننے کی ضرورت نہیں ہے"

"مطلب کوئی بھی نہیں"اسنے ہلکی آواز میں کہا جسے سن کر ساحر مسکرا اٹھا جانتا تھا اسکی بات کا مطلب کس طرف تھا

"میری بات تم ویسے بھی نہیں مانتی ہو"

"ایسے مت کہیں میں آپ کی ہر بات تو مانتی ہوں"

"اچھا پھر ادھر آو" اسکے کہنے پر ماہیم اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے قریب جا کھڑی ہوئی

"میری گود میں بیٹھو" اسکی بات سنتے ہی ماہیم کی آنکھیں پھیلیں الٹے قدموں وہ واپس جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر ساحر نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا

"کیا ہوا مان لی میری بات" اسکا انداز جتانے والا تھا

"ہاں تو کوئی اور بات کہیں میں مان لوں گی"

"مجھے لپ کس کرو"

"اسکے علاؤہ کچھ اور کہیں"

"تو گال پر ہی کردو"

"کس کے علاؤہ کچھ بھی کہیں میں کرلوں گی"

"مجھے کھانا کھلاو" اسکی بات سن کر ماہیم نے جلدی سے اپنا سر ہلایا لیکن اسکی گلی بات سنتے ہی جلدی سے اسکی گود سے اٹھی

"اپنے لبوں سے کھلانا"

"چھی گندے پھر گندی باتیں شروع کردیں"

اسکے چہرے کے ایکسپریشن دیکھ کر کمرے میں ساحر کا جاندار قہقہہ گونجا

°°°°°

اسے پڑھنا تھا اپنی یونیورسٹی کمپلیٹ کرنی تھی لیکن یونیورسٹی جانے کا وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی

جو کچھ اسکے ساتھ ہوا تھا وہ بات پوری یونی میں پھیل چکی تھی اور وہاں جانے کے بارے میں وہ اب سوچ بھی نہیں سکتی تھی

لیکن اسے اپنی پڑھائی مکمل کرنی تھی اپنے لیے نہ سہی اپنے بابا جانی کے لیے یہ انکی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر اچھی سی جوب کرے جوب کا تو پتہ نہیں تھا لیکن وہ پڑھ لکھ تو سکتی تھی نہ

ماہر سے یہ بات وہ کہہ نہیں سکتی تھی اسلیے اسنے آئرہ سے یہ بات کہہ دی تھی جس پر اسنے یہی کہا تھا کہ وہ ماہر سے بات کرے گی جس کے بعد مطمئن ہو کر اب وہ اپنا کھانا کھارہی تھی

ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی وہ کبھی پلیٹ میں چمچہ گھوماتی تو کبھی اس چمچے میں چاول بھر کر کھا لیتی

وہاں کھڑی ملازمہ غور سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت اسے کھاتے ہوے کسی بچی سے کم نہیں لگ رہی تھی اسے حیرت ہو رہی تھی ماہر شاہ کو ایسی لڑکی مل کہاں سے گئی

ماہر کچن میں داخل ہوا اور ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرکے جاکر عزہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اسے دیکھتے ہی عزہ کا لبوں تک جاتا ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا

پلیٹ میں چمچہ رکھ کر وہ وہاں سے جانے لگی جب ماہر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی واپس اسی جگہ پر بٹھادیا

"بس کچھ بات بتانی تھی" اسکے کہنے پر عزہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

"تمہارا ایڈمیشن کروادیا ہے تم اپنی پڑھائی وہیں سے کنٹینیو کرو گی جہاں سے چھوڑی تھی کل سے تم یونی جوائن کرلینا تمہارا سارا سامان میں منگوا کر کمرے میں رکھ چکا ہوں"

"میں اس یونیورسٹی میں نہیں جاؤ گی"

"میں تمہاری یونی چینج کروا چکا ہوں"

اس یونیورسٹی میں وہ نہ تو اب خود جانا چاہتا تھا اور نہ ہی اسے بھیجنا چاہتا تھا اسلیے اسنے عزہ کا ایڈمیشن دوسری یونی میں کروادیا اور ساتھ ہی اسے اب خود بھی وہیں جوب کرنی تھی

اسکے جوب کرنے کا مقصد صرف عزہ تھی وہ اسے اکیلے وہاں اس حالت میں نہیں جانے دے سکتا تھا

اگر اسنے عزہ کا ایڈمیشن کروایا تھا تو وہ بھی صرف اس وجہ سے کیونکہ اسنے آئرہ سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا

جس یونی میں ماہر نے اسکا ایڈمیشن کروایا تھا وہ ساحر کے دوست کے والد کی تھی اسلیے اسے زیادہ مسلہ پیش نہیں آیا تھا

وہ جانتا تھا اسکے یہاں ہونے سے وہ ٹھیک سے کھا نہیں پاے گی اسلیے اس سے بات کرکے وہ جانے لگا جب اسے عزہ کی نرم آواز سنائی دی

"آپ بھی کھالیں"

جانتی تھی اسنے بھی ابھی تک نہیں کھایا اور تب تک نہیں کھانے والا تھا جب تک عزہ اپنا کھانا فنش نہ کرلیتی

اسکے کہنے پر ماہر کے لب بےساختہ مسکرا اٹھے گہرا سانس لے کر وہ وہیں بیٹھ گیا

جس کے بعد عزہ اپنا کھانا کھانے لگی وہ اسے دھکا دینے پر شرمندہ تھی اپنی حرکت کا اسے افسوس تھا اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا

ماہر اگر اسکے قریب آیا تھا تو اس وجہ سے کیونکہ اسنے کسی طرح کی کوئی مزاحمت نہیں کی تھی اگر وہ ایسا کرتی تو وہ کبھی بھی اس طرح کی حرکت نہیں کرتا

°°°°°

عالم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے چند ایک مزید بات کرکے وہ رکھ دیا

"کس سے بات ہورہی تھی دو بار کمرے میں چکر لگا کر گیا تھا اور تم تھیں جو فون کی جان ہی نہیں چھوڑ رہی تھیں"

"عزہ تھی بہت خوش لگ رہی تھی ماشاءاللہ سے ماہر نے اسکا ایڈمیشن کروایا ہے نہ تو بس وہی بتارہی تھی"

اسکی بات سن کر عالم نے اپنا سر ہلایا اور جاکر اسکے قریب بیٹھ گیا

"میں نے کیا کہا تھا عالم جب وہ دونوں اکیلے ہوں گے تو سب ٹھیک ہوجاے گا"

"تو سب ٹھیک ہوگیا"

"ابھی نہیں ہوا لیکن انشا اللہ بہت جلد ہوجاے گا"

"میری پیاری بیوی ہر کسی کی پرواہ ہے تمہیں سواے اپنے شوہر کے"اسکا ہاتھ کھینچ کر عالم نے اسے اوپر گرایا

"مجھے اپنے شوہر کی پرواہ ہے"

"نہیں ہے"

"ہے کیسے دکھاؤں"

"مجھے پیار کرکے"

اسکے چہرہ پر شرارتی مسکان تھی جسے دیکھ کر آئرہ نے اسکے ڈمپل پر اپنے لب رکھ دیے

"اور کرو اور تب تک کرو جب تک میں یہ نہیں جان جاتا کہ میری بیوی کو واقعی میری پرواہ ہے"

"توبہ ہے عالم"

"بگڑ جائیں" عالم نے اسکا جملہ مکمل کیا جس پر اپنا سر نفی میں ہلا کر وہ اٹھنے لگی جب اسے بیڈ پر لٹا کر عالم خود اسکے اوپر جھک گیا

"مجھے پیار ٹھیک سے نہیں کیا تم نے جس سے میں سمجھ گیا تمہیں میری پرواہ نہیں ہے"

"اگر پیار کرنے سے یہ بات پتہ چلتی ہے پھر اس حساب سے تو آپ کو میری بہت پرواہ ہے"

"وہ تو ہے"

"اچھا تو پلیز اپنی یہ پرواہ تھوڑی کم کر لیجیے" اسکے کہنے پر عالم نے خفگی سے اسے دیکھا

"تمہیں میرے پیار کی قدر نہیں ہے آئرہ قدر کرلو اس سے پہلے دیر ہوجاے بعد میں یاد"

آئرہ نے اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسکا جملہ ادھورا رہنے دیا اور ناراضگی سے اسکے سینے پر مکا مارا

"میں جارہی ہوں چھوڑیں مجھے"

"ایسے کیسے جارہی ہو تم نے تو مجھے پیار دیا نہیں مجھے تو دینے دو"

عالم نے گہری نظر اسکے چہرے پر ڈالی اور اسکے لبوں پر جھک گیا

°°°°°

"میرا خیال ہے یہ بچوں والی حرکت ہے نور"

"عصیرم اس میں کوئی بچوں والی حرکت نہیں ہے میرے خیال سے یہاں آیا ہر کپل یہ کام کرتا ہے"

اس وقت وہ دونوں لو لوک بریج پر موجود تھے جہاں نور اسکے ساتھ لاک پلر پر لگانے کی ضد کررہی تھی

جس پر اسکا اور عصیرم کا نام لکھا ہوا تھا

یہاں پر اس طرح کے اور بھی کپلز موجود تھے جو اپنا نام اس لاک پر لکھ کر ایک ساتھ اس میں چابی ڈال کر اسے پلر میں لگا رہے تھے لیکن عصیرم کو یہ چیز بلکل بچوں والی لگ رہی تھی

"ہر کپل کرتا ہے اسکا مطلب یہ تھوڑی ہم بھی کریں"

"پلیز لگائیں میرے ساتھ" اسکے ضد کرنے پر عصیرم نے گہرا سانس لیا اور اسکے ساتھ مل کر اس لاک کو پلر پر باندھ دیا جس کے بعد نور نے اس جس کے بعد نور نے اس لاک کی چابی کو پانی میں پھینک دیا

بریج پر لاک لگانے کا جو سلسلہ ہے وہ دو ہزار آٹھ میں شروع ہوا تھا لوگ وہاں بنی ریلنگ پر لاک لگاتے تھے پر دو ہزار چودہ تک اس بریج کی گرل پر اتنے لاک ہوچکے تھے کہ اسکا ایک پارٹ کولیپس ہوگیا تھا جس کے بعد اس گرل سے سارے تالے ہٹا کر وہاں گلاس ریلنگ لگادی تھی

اور اب لوگ یہ کام وہاں بنے پلر پر کرتے تھے

یعنی لاک لگانا جو اس وقت نور بھی زبردستی عصیرم کے ساتھ مل کر رہی تھی

°°°°°

ضروری کام سے وہ گھر سے باہر گیا ہوا تھا اور آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی

ملازمہ اسے بتا چکی تھی کہ عزہ نے رات کا کھانا کھالیا ہے اسلیے وہ مطمئن تھا ورنہ باہر جاتے ہوے بھی اسکی فکر لگی رہتی تھی

گھر میں داخل ہوتے ہی اسنے وہاں موجود ملازمہ کو سرونٹ کوارٹر میں بھیج دیا عزہ کے اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک یہیں موجود تھی

اسکا ارادہ اب سیدھا اپنے کمرے میں جانے کا تھا جب اسکی نظر لاونج میں سوتی عزہ پر پڑی

ٹی وی چل رہا تھا اور عزہ صوفے پر خود میں سمٹی سورہی تھی

ماہر نے آگے بڑھ کر ٹی وی آف کیا اور اسکی طرف بڑھا ارادہ اسے کمرے میں لے جانے کا تھا تاکہ وہ آرام سے سو سکے

لیکن نظریں اسکے معصوم چہرے میں الجھ سی گئیں آج عزہ اس سے ڈری نہیں تھی بلکہ اسنے اسکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا اور یہ بات ماہر کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی

ہاتھ بڑھا کر اسنے عزہ کے نرم لبوں کو چھوا اور بےخود ہوتا اگلے ہی لمحے اس کے لبوں پر جھک گیا

اپنے اوپر جھکاؤ محسوس کرکے اسکی آنکھ کھلی جب پہلی نظر خود پر جھکے ماہر پر گئی

چند لمحے اسے سمجھنے میں لگے اور پھر سے اسنے وہی حرکت کی اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر خود سے دور کیا

اسکے خود سے دور کرنے پر ماہر نے تکلیف سے اسے دیکھا وہ اب اس سے دور نہیں رہ سکتا تھا اور نہ ہی رہنا چاہتا تھا

"عزہ بات سنو" اسنے کچھ کہنا چاہا لیکن بنا اسکی بات سنے عزہ وہاں سے اٹھ کر جانے لگی

ماہر نے اسکا ڈوپٹہ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے روکنا چاہا لیکن اپنا ڈوپٹہ وہیں پھیکتی وہ کمرے کی جانب بھاگ گئی ماہر نے گہرا سانس لیا اور کمرے کی جانب چلا گیا

آج وہ اس خوف کو ختم کر دینا چاہتا تھا جو عزہ کو اس سے تھا

°°°°°

"معتصم میں کیا سوچ رہی تھی" کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ بیڈ پر اسکے قریب آکر بیٹھی اور جس لیپ ٹاپ پر وہ کام کررہا تھا اسے بند کرنے سائیڈ کر رکھ دیا

"بند کرو اسے ہر وقت کام ہی کرتے رہتے ہو"اسکے لیپ ٹاپ بند کرنے پر وہ پوری طرح اسکی جانب متوجہ ہوا

"کیا سوچ رہی تھیں"

"تمہیں مجھ سے پہلے نظر میں محبت ہوگئی تو تم نے مجھ میں کیا دیکھا تھا مطلب تمہیں مجھ میں کیا اچھا لگا"

"کچھ نہیں اندھا ہوگیا تھا"اسکے کہنے پر پریشے نے منہ بگاڑ کر اسے دیکھا وہ معتصم سے اس جواب کی امید ہرگز نہیں رکھتی تھی

"تم بلکل بھی اچھے نہیں ہو" خفگی سے کہتی ہوئی وہ وہاں سے جانے لگی جب معتصم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا جس پر پریشے نے اپنے چہرے کا رخ موڑ لیا

"مذاق کررہا تھا سچ بتاؤں تو مجھے خود نہیں پتہ میں نے بس تمہاری آواز سنی تمہیں دیکھا اور جیسے تمہارے اندر ایک الگ سی کشش محسوس کی اور پھر میں تمہاری طرف کھینچتا چلا گیا اور پھر تم میرا عشق میری محرم بن گئیں میری روح محرم بن گئیں" بولتے بولتے وہ اچانک سے ہنسا جیسے کچھ یاد آگیا ہو

"اور کیا نام بتایا تھا تم نے اپنا"

"ام۔کلثوم" اسکے کہنے پر بیک وقت ان دونوں کا قہقہہ کمرے میں گونجا

°°°°°

اسنے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن ماہر اسکی یہ کوشش ناکام بناتے ہوے کمرے میں آچکا تھا

"عزہ یار بس کرو کب تک ڈرتی رہو گی مجھ سے تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ میں نے جو بھی تمہارے ساتھ کیا تھا وہ غلطی سے ہوا تھا میں اس وقت ہوش میں نہیں تھا"

"اب تو ہوش میں ہیں نہ تو پھر اب میرے قریب کیوں آرہے ہیں" اسکے کہنے پر ماہر اسکے قریب ہوا

"کیونکہ ایک مرد ہوں جذبات رکھتا ہوں کب تک خود پر ضبط کرتا رہوں گا تمہیں دیکھتا ہوں تو تمہاری طلب محسوس ہوتی ہے مجھے"

"پلیز جائیں" اسنے اپنا رخ موڑ لیا اس وقت وہ ماہر کے سامنے بغیر ڈوپٹے کے کھڑی تھی جس وجہ سے اسے ماہر کے سامنے کھڑے ہونا بےحد عجیب لگ رہا تھا

"میں منتظر ہوں تو بس تمہاری اجازت کا" ماہر اسکے پیچھے اسکے بےحد نزدیک جا کھڑا ہوا

"اگر میں اجازت نہیں دوں تو آپ میرے قریب نہیں آئینگے"

"نہیں ساری زندگی تمہاری اجازت کا منتظر رہوں گا"

"تو پھر پلیز جائیں یہاں سے"

"چلا جاتا ہوں اور تب تک تمہارے قریب نہیں آؤں گا جب تک تم خود مجھے اجازت نہیں دو گی لیکن پلیز مجھ سے ڈرنا تو چھوڑ دو تمہارا مجھ سے ڈرنا مجھے تکلیف دیتا ہے عزہ" اسکا ہاتھ پکڑ کر ماہر نے اسکا رخ اپنی جانب کیا

عزہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور ماہر کی بھیگی آنکھیں دیکھ کر وہ اپنی جگہ حیران رہ گئی

"ایک بار موقع تو دو تمہارے سارے درد ساری تکلیفیں اپنے اندر لے لوں گا تمہارے بکھرے وجود کو خود میں سمیٹ لوں گا بس ایک موقع تو دو اپنے روح کا ساتھی بننے کا اپنا محرم بنا چکی ہو تو روح محرم بھی بنا لو" اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے وہ نم آواز میں کہہ رہا تھا

"م-مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے"

"میں تمہارا سارا ڈر دور کردوں گا"

"آپ میرے قریب آتے ہیں تو مجھے اس ر-رات کا ہر لمحہ یاد آتا ہے"

"ایک بار مجھے خود کو چھونے کی اجازت دے دو مجھے محسوس کرو میں وہ خوفناک رات تمہارے زہہن سے نکال دوں گا"

ماہر نے اسکے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر اپنی پیشانی اسکی پیشانی سے ٹکا کر اپنی آنکھیں موند لیں

"ماہر سر آپ پلیز جائیں یہاں سے"

"پلیز عزہ پلیز پلیز"

اسکے انداز میں التجا تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے اس وقت اسے عزہ کی کتنی ضرورت تھی یا شاید وہ اس سب سے تھک چکا تھا سکون چاہتا تھا

عزہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں

ماہر نے اسکی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھے اور انتہائی نرمی سے اسکے نرم لبوں کو اپنی قید میں لے لیا

عزہ نے خوف کے مارے مظبوطی سے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں دبوچ لیا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے ماہر اسکی نازک گردن ہر جھک کر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑنے لگا جبکہ اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر عزہ سختی سے اپنی آنکھیں میچ کر کھڑی تھی اسکا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا

ماہر نے اسکی گردن سے چہرہ نکال کر اسکے معصوم چہرے کو دیکھا اور اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھالیا جس پر عزہ نے اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا لیا

اسکی اس حرکت پر ماہر کے لب مسکرا اٹھے ڈر بھی اس سے رہی تھی اور چھپا بھی اسی میں جارہا تھا

اسکا وجود بیڈ پر لٹا کر ماہر اس پر جھک کر پیار بھری نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا

"اجازت ہے"

اسکے کہنے پر عزہ نے اپنی آنکھیں کھولیں لیکن اسکی نظریں جھکی ہوئی تھیں

"اگر میں نہ دوں تو آپ پیچھے ہٹ جائیں گے"

"ہاں میں پیچھے ہٹ جاؤں گا"

اسکے کہنے پر عزہ نے چند لمحوں بعد اپنی بانہیں اسکی گردن میں ڈالیں اور اسکے سینے سے لگ گئی

اسکی اس حرکت سے ماہر کو ایک سکون سا خود میں اترتا محسوس ہوا

اسے خود میں قید کیے وہ اس پر جھکتا چلا گیا اسکے چھونے کے انداز میں اتنی نرمی تھی جیسے وہ کسی گڑیا کو چھو رہا ہو

عزہ کا نازک وجود خود میں سمیٹ کر وہ اس کی ہر تکلیف ہر دکھ ختم کر دینا چاہتا تھا

اسکا سارا ڈر سارا خوف مٹا دینا چاہتا تھا

°°°°°

"زریام زریام"اسنے سوے ہوے زریام کا بازو ہلایا جس پر پہلے تو اسنے غائب دماغی سے ہوں کہا لیکن جب پتہ چلا کہ بازو ہلانے والی حوریب ہے تو جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھا

"کیا ہوا ہے کہیں درد ہورہا ہے بڑی ماما کو بلاؤں" اٹھتے ہی وہ فکر مندی سے کبھی حوریب کا چہرہ پکڑ کر دیکھنے لگتا تو کبھی اپنا ہاتھ اسکے پیٹ پر رکھ کر نہ جانے کیا چیک کرتا

"کچھ نہیں ہوا ہے"

"تو پھر اٹھایا کیوں"

"پیٹ میں گدگدی ہورہی تھی"

"تو میں بڑی ماما سے پوچھ کر آتا ہوں" پریشانی سے وہ اٹھ کر جانے لگا جب حوریب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا

"کچھ نہیں ہوا ہے"

"تمہارے پیٹ میں درد ہورہا ہے نہ"

"درد نہیں ہورہا گدگدی ہورہی ہے"

"تو یہ کیسے ٹھیک ہوگی"

"میرا پیٹ سہلاؤ"اسکی عجیب فرمائش پر زریام نے مسکرا کر اپنا سر جھٹکا اور اسے اپنے حصار میں لے کر اسکا پیٹ سہلانے لگا

"آج کل تم کچھ زیادہ ہی عجیب بیہیو کررہی ہو حوریب"

"میں اپنے نخرے اٹھوارہی ہوں کیونکہ جب یہ بچہ آجاے گا تب تو تم میرے نخرے اٹھاؤ گے نہیں"

"یہ تم سے کس نے کہہ دیا"

"مطلب اٹھاو گے"اسنے زریام کی طرف دیکھا

"بلکل جب تو میری محبت تمہارے لیے مزید بڑھ جاے گی اتنی تکلیفوں سے گزر کر تم مجھے اتنا قیمتی تحفہ دینے جارہی ہو میں کیسے تمہاری قدر نہ کروں"

"تمہاری سوچ الگ ہے ہر کوئی ایسا نہیں سوچتا زریام"

اسنے زریام کے سینے پر انگلیاں پھیرتے ہوے کہا جیسے کسی کا نام لکھ رہی ہو

اور زریام محسوس بھی کرچکا تھا وہ اسکا نام لکھ رہی تھی جب سے زریام نے اسے اپنا نام لکھنا سکھایا تھا وہ روز رات کو کسی کتاب کی طرح اسکے سینے پر اسکا اور اپنا نام لکھتی تھی

"لیکن زریام شاہ ایسا ہی سوچتا ہے کسی کے آنے سے میری زندگی میں تمہاری ویلیو کم نہیں ہوجاے گی تم میرے لیے قیمتی ہو اور ہمیشہ رہو گی"اسنے حوریب کی سفید بےداغ پیشانی پر اپنے لب رکھے اور اسے مزید سختی سے خود میں قید کرلیا

°°°°°

"پاپا میں نے ایک فیصلہ کیا ہے" دھڑام سے دروازہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوا اور وصی جو کتاب پڑھنے میں مصروف تھا اسکے اس طرح آنے پر گھبرا کر اسکی طرف دیکھنے لگا

"کیا ہوا ہے ایہاب"

"میں شادی کرنا چاہتا ہوں"

وصی جو اتنا سیرئیس ہوکر اسکی بات سن رہا تھا اسکی بات سنتے ہی واپس اپنی کتاب پڑھنے لگا جیسے ایہاب نے کوئی فضول بات کہہ دی ہو

"ارے کچھ تو ری ایکٹ کریں"

"مذاق کا موڈ نہیں ہے"

"میں مذاق نہیں کررہا سچ میں مجھے شادی کرنی ہے ہاے وہ لڑکی اسکی ادا بس ول لڑکی میرے دل میں سما چکی ہے" اسنے کسی عاشق کے انداز میں اپنے دل پر ہاتھ رکھا

"اب میرے سامنے پھر یہ ایکٹنگ کی نہ تو مہینے کا خرچ بند کر دوں گا"

"آپ کو مذاق لگ رہا ہے میں سچ میں اسے پسند کرنے لگا ہوں"

"کون ہے وہ" ایہاب کا انداز دیکھ کر اس بار وہ بھی تھوڑا سیرئس ہوکر اسکی طرف متوجہ ہوا

"میشال عارف معتصم انکل کے دوست کی بیٹی"

"جس نے تمہارے پیٹ میں لات ماری تھی" وصی کے کہنے پر اسنے منہ بنا کر اسے دیکھا یاد کرنے کے لیے کیا بس ایک یہی تعارف ملا تھا

"ہاں وہی"

"سچ میں اسے پسند کرتے ہو"

"ہاں"

"ایہاب پہلے اپنے آپ کو اس لائق بناؤ کہ میں تمہارے بارے میں یہ فیصلہ کرسکوں"

"ارے اتنا لائق تو ہوں میں"

"گھر میں سب سے چھوٹے ہو تم جب سب کی شادی ہوجاے گی تب تمہارے بارے میں بھی سوچ لیں گے"

"سب کی تو ہوگئی ہے"

"سب کی نہیں ہوئی آہان ابھی رہتا ہے"

"تو ہم میں زیادہ فرق تو نہیں ہے"

"ہاں بس ایک سال کا ہے لیکن فرق تو ہے نہ"

"تو یہ سب آپ کی غلطی ہے مجھے دیر سے کیوں لاے دنیا میں آہان سے پہلے نہیں لاسکتے تھے" اسکے کہنے پر وصی نے غصے سے اسے گھورا جسے دیکھ کر وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا

وصی اپنا فیصلہ سنا چکا تھا جب اسے ایہاب اس لائق لگے گا تو وہ اسکی شادی کرنے میں دیر نہیں لگاے گا لیکن ابھی اسکا ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں تھا

"عصیم انکل سے ہی کچھ سیکھ لیں پاپا شاہ میر کا نکاح اسلیے کروایا تاکہ وہ کسی لائق بن جاے اور میرا باپ اسلیے نہیں کروا رہا تاکہ میں پہلے کسی لائق بن جاؤں"منہ بناتا ہوا وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا

°°°°°

اس وقت وہ دونوں ایفل ٹاور میں بنے ریسٹورنٹ میں موجود تھے اور نور حیرت سے ہر طرف دیکھ رہی تھی

اسے تو زندگی میں پہلی بار یہ بات پتہ چلی تھی کہ ایفل ٹاول میں کوئی ریسٹورنٹ بھی ہے نہ صرف ریسٹورنٹ بلکے شاپنگ کی سہولت بھی یہاں موجود تھی

"عصیرم میں نے میں نے پڑھا تھا کہ ہم یہاں فوٹو نہیں لے سکتے کیا یہ سچ ہے"

"نور ہم رات کے وقت ایفل ٹاول کی فوٹو نہیں لے سکتے پیرس میں اسے غیر قانونی مانا جاتا ہے اگر ہم رات کے ٹائم ایفل ٹاور کی تصویر کھینچنا چاہتے ہیں تو ہمیں تصویر کھینچنے سے پہلے یہاں کی سرکار سے اجازت لینی ہوگی"

"اور ایسا کیوں ہوتا ہے" اسنے گال پر ہاتھ رکھ کر دلچسپی سے پوچھا لیکن پھر خود کی منع کردیا اسے کیا کرنا تھا اتنی ڈیٹیل میں جاکر اس وقت تو بس اسے یہاں بیٹھ کر مزے کرنے تھے اور سامنے رکھے کھانے سے بھرپور انصاف کرنا تھا

یہ اسکی زندگی کا سب سے حسین پل تھا جس میں عصیرم کی موجودگی اس پل کو مزید حسین بنا رہی تھی

°°°°°

نیند سے جاگتے ہی اس کی پہلی نظر اپنے بےحد قریب ماہر پر گئی جسے دیکھتے ہی چہرے کی سرخی مزید بڑھ گئی

ماہر اسکے بےحد قریب اسے اپنی بانہوں میں لیے سورہا تھا اور عزہ کے سارے بال اسکی گردن میں پھیلے پڑے تھے

اپنے بال سمیٹ کر وہ اٹھ کر جانے لگی جب ماہر نے اسے نیند میں ہی اپنے قریب کرلیا

عزہ نے گھبرا کر اسے دیکھا جو اب نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسے دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے پر عزہ نے اپنی نظریں جھکالیں

"کہاں جارہی ہو"

"وہ مجھے اٹھنا ہے"

"اتنی جلدی اٹھ کر کیا کرو گی سوجاؤ"اسنے اسے واپس سلانا چاہا لیکن عزہ پھر اٹھ کر بیٹھ گئی

"نہیں مجھے یونی جانا ہے"

"کونسی یونی"اسنے غائب دماغی سے کہا پھر خود ہی یاد آگیا کون سی یونی

"آج جانا ضروری نہیں ہے کل سے چلی جانا"

"نہیں ماہر سر پلیز چھوڑیں مجھے"

"کیوں چھوڑوں"

"وہ مجھے بھوک لگ رہی ہے"اسنے منہ بناتے ہوے معصومیت سے کہا جس پر ماہر نے گہرا سانس لے کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کردیا

اس وقت اگر اسے چھوڑا تھا تو صرف اسلیے کیونکہ اسکے پیارے سے بےبی کو بھوک لگ رہی تھی

°°°°°

°°°°°

نیا دن تھا نئی یونیورسٹی اس بار ڈر پہلے کی نسبت کچھ زیادہ ہی لگ رہا تھا

پہلے تو میشال اسکے ساتھ تھی لیکن اب تو وہ اکیلی تھی یہاں کون اسکی ہیلپ کرتا

"کلاس میں جاؤ عزہ" اسے ایک ہی جگہ کھڑے دیکھ کر ماہر نے ٹوکا

"آپ بھی ساتھ چلیں نہ"

"میں تمہارے ساتھ ہی ہوں کسی چیز کی ضرورت ہو کوئی کچھ کہے بھی تو سیدھا مجھے بتانا"

"تو اندر میرے ساتھ بھی بیٹھ جائیں آپ تو یہاں سر ہیں نہ آپ کو کوئی کچھ تھوڑی کہے گا" اسکا انداز اس وقت کسی بچے کی طرح تھا جیسے اسکے اسکول کا پہلا دن ہو

"عزہ میں نہیں جاسکتا اپنا خیال رکھو اور جاؤ"

"نہیں"

"عزہ جاو پھر دیکھنا تمہیں ایک سرپرائز ملے گا"

"کیسا سرپرائز"

"آنکھیں بند کرو" ماہر کے کہنے پر اسنے اپنی آنکھیں بند کرلیں

لیکن جب تھوڑی دیر تک اسکی کوئی آواز نہ آئی تو عزہ نے اپنی آنکھیں کھول لیں ماہر کہیں نہیں تھا اسے رونا آیا لیکن اس سے پہلے وہ اس کام کو سر انجام دے پاتی کسی نے اسکی آنکھوں پر پیچھے سے ہاتھ رکھا

"پوچھو تو بتاؤں میں کون ہوں" جہاں پہلے وہ اس طرح ہاتھ رکھنے پر ڈری تھی وہیں میشال کی آواز سنتے ہی اسکا سارا ڈر حیرانگی میں بدل گیا

"میشال تم یہاں تم یہاں کیا کررہی ہو"

"میرے خیال سے ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں عزہ"

"نہیں میرا مطلب"

"میں تمہارے سارے مطلب سمجھتی ہوں جہاں میری دوست نہیں ہو گی وہاں پھر مجھے کیا کرنا تھا لات ماری میں نے اس یونیورسٹی کو اور یہاں تمہارے پاس آگئی" اسکے کہنے پر عزہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اسکے گلے لگ گئی

"اب چلیں اس سے پہلے پرانی یونیورسٹی کی طرح تم پہلے دن کلاس میں پھر لیٹ پہنچو" میشال کے کہنے پر اسنے اپنا سر ہلایا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر چلی گئی جبکہ دور کھڑا ماہر اسے مسکراتے دیکھ کر اطمینان سے خود بھی وہاں سے چلا گیا

°°°°°

"عزہ میں عزہ کو تو بھول ہی گئی"

عزہ کا خیال آتے ہی اسنے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا سب کے لیے سامان خرید چکی تھی سواے عزہ کے

"گاڑی روکیں ساحر بلکہ مال واپس چلیں مجھے عزہ کے لیے بھی چیزیں لینی ہیں"اسکے کہنے پر ساحر نے گاڑی واپس مال کی جانب بڑھا دی ویسے بھی وہ زیادہ دور نہیں تھا

"ہماری بھابھی کو میرا بھائی مل گیا اب بھلا کسی اور چیز کی ضرورت ہی کیا ہے"

"وہ بھائی جسے وہ بلکل پسند نہیں کرتی ہے"

"کرلیں گی تم بھی تو پہلے مجھ سے ایسے ہی دور بھاگتی تھیں اور اب پاس آنے کے بہانے ڈھونڈتی ہو" اسنے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس پر ماہیم پورا منہ کھول کر اسے دیکھنے لگی

"میں کب آئی آپ کے پاس جھوٹے کہیں کے"

"رات کو سوتے وقت تم میرے پاس آتی ہو اور خود تم نیند میں ہوتی ہو لیکن میری ساری نیندیں حرام کر دیتی ہو قسم سے اگر تمہارے باپ سے وعدہ"

"ساحر" ساحر جو اپنی ہی لہہ میں کہے جارہا تھا اسکے کہنے پر اپنے لفظوں کو درست کرنے لگا

"مطلب وصی انکل سے وعدہ نہیں کیا ہوتا تو مجھ سے بچ کر دکھاتیں"

"آپ تو کردیا ہے نہ وعدہ تو پلیز اس بات کا پیچھا چھوڑ دیں"

اسکے کہنے پر ساحر بس گہرا سانس لے کر رہ گیا

°°°°°

یونی ٹائم ختم ہوتے ہی اسنے پہلے عزہ کو گھر چھوڑا اسکے بعد آفس چلا گیا

اگر یونیورسٹی میں وہ اس وقت جوب کررہا تھا تو صرف عزہ کی وجہ سے جب عزہ کی پڑھائی مکمل ہوجانی تھی تو وہ بھی مستقل طور پر ساحر کے ساتھ ہی شاہ انڈسٹری میں کام کرنے والا تھا

اسے زیادہ کچھ پتہ نہیں تھا لیکن سیکھنے سے ہی تو آنا تھا

°°°°°

"شاہ میر یہ کیا ہے"

اس وقت وہ اسٹڈی روم بیٹھا کتاب پڑھنے میں مصروف تھا جب غصے سے بھری حیات وہاں پر آئی

شاہ میر نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا لیکن اس کے ہاتھ میں موجود چیز کو دیکھ کر جھٹکے سے اٹھ بیٹھا

"ی-یہ کہاں سے ملا تمہیں"

"اماں سائیں نے کہا تھا آپ کی الماری صاف کردوں اتنے مہینوں سے نہیں ہوئی ہے وہیں سے ملا مجھے یہ"

"حیات یہ میرا نہیں ہے"

"یہ آپ کا نہیں ہے" اسنے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا اور اس میگزین کو غصے سے دور پھینکا

پتہ نہیں وہ شاہ میر کو ملا کہاں سے تھا جس میں لڑکیوں کی تصویریں موجود تھیں اور جس طرح کے انہوں نے کپڑے پہن رکھے تھے اسے دیکھ کر ہی حیات کو انتہائی شرم محسوس ہورہی تھی پتہ نہیں شاہ میر اسے اٹھا کر کیسے لے آیا نہ صرف اٹھا لایا بلکہ بڑی شان سے اسنے اپنی الماری میں بھی رکھا ہوا تھا

"مجھ سے جھوٹ مت بولیں شاہ میر"

"مطلب میرا ہے لیکن قسم سے یہ میرے پاس ہمارے نکاح سے بھی بہت پہلے رکھا ہوا تھا"

"ضرورت کیا تھی یہ گھٹیا چیز لانے کی''

"آہستہ بولو کسی نے سن لیا تو"

"تو سن لے بلکہ اچھا ہے سن لے سب کو آپ کے کارنامے بتاتی ہوں میں"

غصے سے اسے گھورتی ہوئی وہ وہاں سے جانے لگی جب شاہ میر نے جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑا کہیں وہ سچ میں جاکر کسی کو نہ بتادے

"حیات قسم سے یہ میرے دوست نے دیا تھا مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کیا ہے اسنے مذاق میں ایسے ہی دے دیا تھا بس چھوٹی سی تو بات ہے"

"اور آپ نے اسے ابھی تک سمبھال کر رکھا ہوا ہے"

"ہاں وہ میں پھینکنا بھول گیا" اسنے جلدی سے کہا

"یا پھر یہ کچھ زیادہ ہی حسین ہیں کہ پھینکنے کا دل نہیں چاہا"اسنے میگزین اٹھا کر اسکے سامنے کیا اور اسکے سینے پر مار کر وہاں سے چلی گئی

شاہ میر نے اپنا سر کھجا کر اس میگزین کو اٹھایا ابھی اسے پھینکنا ضروری تھا اگر اسکا باپ ایسی کوئی چیز اسکے پاس دیکھ لیتا تو بنا کسی چیز کا لحاظ کیے اسکا گال لال کردیتا

لیکن اس سے بھی بڑی مصیبت جو اسکے سر پر آچکی تھی وہ تھی حیات کی ناراضگی

°°°°°

گھر میں داخل ہوتے ہی اسے کچن سے کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی جسے سن کر وہ کچن میں ہی چلا گیا جہاں عزہ کچن سلپ پر کھڑی نہ جانے کیا کررہی تھی

ماہر نے غصے سے اسے دیکھا اور اسکے قریب جاکر اسے کھینچ کر اپنی بانہوں پکڑ کر نیچے اتارا

"یہ کیا حرکت ہے عزہ اوپر چھڑنے کی کیا ضرورت تھی"

"وہ میں آٹے کا ڈبہ اتار رہی تھی"اسکے چیخنے پر عزہ نے منمناتے ہوے کہا

"کیوں کیا ضرورت تھی اتارنے کی"

"مجھے بھوک لگ رہی تھی" اسنے ارد گرد دیکھا اور اسکے کان کے قریب ہوکر آہستہ سے کہا

"ملازمہ کھانا بلکل اچھا نہیں بناتی ہے پر میں اسلیے نہیں کہتی کیونکہ اسے برا لگ سکتا ہے"

"تو یہاں کھڑی تم کیا کررہی تھیں"

"وہ میں کھانا بنا رہی ہوں تو آٹے کا ڈبہ اوپر رکھا ہے میں بس وہی اتار رہی تھی" اسنے اوپر رکھے ڈبے کی طرف اشارہ کیا

"تو کسی اور سے اتر والیتیں"

"اس وقت کوئی تھا نہیں آپ اتار دیں گے"

"چھوٹے قد والے لوگ پیچھے ہی رہیں تو اچھا ہے" ماہر نے اسے تھوڑا پیچھے کیا جبکہ اسکے کہنے پر عزہ نے گھور کر اسے دیکھا وہ اسکے قد کا مذاق بنا رہا تھا

ڈبہ کچھ زیادہ ہی پیچھے رکھا ہوا تھا ماہر نے ہاتھ بڑھا کر اسے اتارنا چاہا جب وہ آٹے کا ڈبہ آدھ کھلے ڈھکن کے باعث سیدھا نیچے آگرا

شاید کسی ملازمہ نے لاپروائی سے ایسے ہی رکھ دیا تھا

ڈبہ دھڑام سے عزہ کے قدموں میں گرا جبکہ گرنے سے پہلے اس میں موجود آٹا اچھل کر عزہ پر گر چکا تھا

اسے دیکھ کر ماہر پہلے تو حیران ہوا لیکن پھر کچن میں اسکا جاندار قہقہہ گونجا

عزہ کو دیکھ کر اس وقت ایسا لگ رہا تھا وہ کسی چکی میں کام کرکے آئی ہے

"لمبے قد والے نے کیا کردیا" عزہ نے غصے سے چلا کر کہا لیکن وہ بنا اسکی کچھ نے بس ہنسے جارہا تھا

عزہ نے آٹے کے ڈبے میں سے بچا ہوا آٹا نکالا اور اسے ماہر کی طرف اچھال دیا جس کی وجہ سے اسکی ہنسی کو بریک لگی

"یہ کیا حرکت ہے"

"آپ نے بھی تو پھینکا تھا"

"وہ صرف غلطی سے ہوا تھا عزہ"

"لیکن میں نے جان بوجھ کر پھینکا ہے" اسنے مزید آٹا نکال کر اسکی طرف پھینکا جس پر ماہر مصنوعی غصے سے اسکی طرف بڑھا

"رک جاؤ تمہیں تو میں بتاتا ہوں"

اسکی حالت دیکھ کر اب ہنسے کی باری عزہ کی تھی

ان دونوں کی اس لڑائی کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں وہ کچن کسی میدان جنگ سے کم نہیں لگ رہا تھا

°°°°°

"یہ کیا ہورہا ہے" آہان کی آواز پر وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوے وہ کب آیا انہیں پتہ ہی نہیں چلا

"آپ دونوں یہ کیا رہے ہو" کچن اور ان دونوں کی حالت دیکھ کر آہان کا صدمہ ہی ختم نہیں ہو رہا تھا

اسکے کہنے پر ماہر نے عزہ کی طرف اور عزہ نے ماہر کی طرف اشارہ کیا

"یہ ماہر سر کی وجہ سے ہوا ہے"

"میں نے کچھ نہیں کیا یہ عزہ کی غلطی ہے"

"خیر جس کی بھی غلطی ہے کوئی بات نہیں آپ لوگ انجوائے کرو میں تو بس ماہر لالا کو انکا فون دینے آیا تھا آپ آفس میں بھول گئے تھے" آہان نے جیب سے موبائل نکال کر کچن سلپ پر رکھا اور وہاں سے چلا گیا

اسکے جانے کے بعد ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

"یہ آپ کی غلطی ہے"

"میری غلطی"

"ہاں میری ساری بھوک بھی ختم ہوگئی اور اب میں کچھ بنانے بھی نہیں والی ہوں"

"اچھا میں آرڈر کردیتا ہوں بتاؤ کیا کھاؤ گی"

"چکن تکہ ، بریانی ، ریشمی کباب اور آئسکریم اب اتنا منگا رہے ہیں تو کولڈ رنگ بھی منگوا لیجیے گا"

ماہر حیرت سے کبھی اسے دیکھتا تو کبھی اسکی کہی چیزیں دہراتا

"یہ سب تم کھاؤ گی"

"ہاں آپ آرڈر کردیں میں تب تک شاور لے لیتی ہوں" اپنے ہاتھ اور کپڑے جھاڑتی وہ کمرے کی طرف چلی گئی

ماہر نے آرڈر کرنے کے لیے اپنا موبائل اٹھایا لیکن پھر ایک خیال آتے ہی لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی اسنے موبائل واپس وہیں رکھا اور خود بھی کمرے کی طرف چلا گیا

°°°°°

"مہر نام کیسا ہے"

"نہیں اچھا نہیں ہے تھوڑا ہلکا پھلکا سا دکھائیں نہ"

اس وقت وہ عصیم کی گود میں بیٹھی اپنے ہونے والے پوتا پوتی کے نام ڈھونڈ رہی تھی لیکن کوئی اچھا نام اسے مل ہی نہیں رہا تھا

عصیم اسے دو سو سے زیادہ بچوں کے نام دکھا چکا تھا لیکن ہر نام سنتے ہی وہ انکار کر دیتی

"کسوا پہلا حق ماہر اور عزہ کا ہوگا وہ اگر تمہیں کہینگے تو ہی تم نام رکھنا ورنہ یہ کام انہیں ہی کرنے دینا"

"کیا مطلب میں پہلی بار دادی بننے والی ہوں اب انکے نام بھی نہیں رکھ سکتی"

"رکھ سکتی ہو لیکن اس پر سب سے پہلا حق اسکے ماں باپ کا ہوگا" اسکے بگڑے موڈ کو دیکھ کر عصیم نے نرمی سے کہا

"نہیں میں ہی ان کے نام رکھوں گی اور اگر ماہر نے منع کیا نہ تو پھر" وہ کچھ کہتے کہتے رکی

"تو پھر" اسکے رکنے پر عصیم نے کہا جیسے جاننا چاہ رہا ہوں وہ کیا گرے گی

"میں ماہر سے ناراض ہو جاؤں گی"اسنے منہ بنایا لیکن پھر خود ہی اپنی بات کی نفی کی

"بلکہ آپ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں پہلا حق تو ان کا ہی بنتا ہے شاہ"

چلو بلاآخر اسے عصیم کی بات سمجھ میں آہی گئی

"وہی تو کہہ رہا ہوں جان شاہ" اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر عصیم اسکے لبوں پر جھک گیا

جب کمرے کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا کسوا کو گود سے اٹھا کر اسنے دروازہ کھولا

جہاں شاہ میر منہ لٹکا کر کھڑا ہوا تھا

"کیا بات ہے شاہ میر"

اسکی بات کا جواب دینے کے بجاے وہ کمرے میں داخل ہوگیا اور جاکر کسوا کے برابر بیٹھ گیا

"میری بیوی مجھ سے ناراض ہوگئی ہے بابا سائیں"

"تو یہاں آنے سے وہ مان جاے گی"

"نہیں میں نے سوچا جب وہ مجھ سے ناراض ہے تو آپ کو آپ کی بیوی کے پاس کیسے چھوڑ دوں" اسنے اپنا سر کسوا کی گود میں رکھ لیا

"شاہ میر اٹھ اور کمرے سے نکل"

"اماں سائیں آپ کے شوہر مجھے کمرے سے بےدخل کررہے ہیں"

"شاہ اب آگیا تو رہنے دیں نہ"اسنے شاہ میر کی حمایت کی

"تم چپ کرو اور بیٹا تو شکر کر کمرے سے بےدخل کررہا ہوں ورنہ جس طرح کی تیری حرکتیں ہیں نہ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے جائیداد سے ہی بےدخل کردوں"

"تو کردیں نہیں چاہیے مجھے آپ کی جائیداد میں خود محنت کروں گا اپنا نام بناؤں گا" کسوا کی گود سے اٹھ کر اسنے ڈرامائی انداز میں کہا

جس پر اپنا سر ہلا کر عصیم نے اپنا موبائل اٹھایا

"کیا کررہے ہیں بابا سائیں"

"وکیل کو فون کررہا ہوں تاکہ تیری خواہش پوری کرسکوں"

"ارے میں تو مذاق کررہا تھا آپ تو سیرئیس ہی ہوگئے جارہا ہوں میں کمرے سے"شرافت سے اٹھ کر وہ کمرے سے چلا گیا

کسوا نے خفگی سے اسے دیکھا اسکے بیٹے کو کمرے سے جو نکال دیا تھا لیکن اسکی ساری خفگی کو نظر انداز کرکے عصیم نے اسے اپنے قریب کرلیا

اسکے واشروم میں داخل ہوتے ہی ماہر بھی اندر آگیا جس پر عزہ نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا

"یہاں کیا کررہے ہیں جائیں یہاں سے"

"میں تو بس تمہاری تھوڑی ہیلپ کرنے آیا تھا"

"مجھے نہیں چاہیے آپ کی ہیلپ آپ جائیں"

اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے ماہر نے اسے اپنے قریب کیا اور اسے لے کر شاور کے نیچے کھڑا ہوکر شاور کھول کردیا

"م-ماہر سر پلیز جائیں" عزہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سے فاصلہ بنانا چاہا اور اسکی اس حرکت پر ماہر نے اسکے دونوں ہاتھ پیچھے اسکی کمر سے لگا کر اسے اپنے مزید قریب کرلیا اتنا کہ اب ان دونوں میں ایک انچ کا فاصلہ بھی نہیں بچا تھا

وہ گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا بے بی پنک کلر کی فراک میں عزہ کا بھیگا سراپہ ایک دلکش نظارہ پیش کررہا تھا

اسنے آگے بڑھ کر اسکے دونوں گالوں پر اپنے لب رکھے جس پر عزہ نے اپنی آنکھیں میچ لیں

ماہر نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور اسکے بھیگے لبوں پر جھک گیا

اسنے عزہ کے ہاتھوں کو اپنی قید سے آزاد کردیا اور تب عزہ کو اپنی کمر پر اسکی سرسراتی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا

اسنے ایک بار پھر اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن اس بار بھی ناکام ٹہری

ماہر نے آہستہ سے اسکی فراک کی ڈوری کھولی جبکہ ماہر کی اس حرکت سے عزہ نے سختی سے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیا

°°°°°

"حیات تم سے ناراض ہے"

ڈرائیونگ روم میں اس وقت وہ عالم اور معتصم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جب عالم کے وہان سے جاتے ہی معتصم نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا

"ہاں ہے اور مان بھی نہیں رہی ہے"

"تم اسے منع بھی تو نہیں رہے میں نے تو نہیں دیکھا"

"کوشش تو کرچکا ہوں"

"کیوں ناراض ہے وجہ نہیں پوچھوں گا یہ تم دونوں کا آپس کا معاملہ ہے لیکن شاہ میر میں نے حیات کو تمہارے حوالے یہ سوچ کر ہی کیا ہے کہ تم اسکا خیال رکھ سکتے ہو بیٹی ہے وہ میری اور اسے کبھی اکیلا مت سمجھنا اگر تمہاری طرف سے اسے کوئی بھی تکلیف پہنچی تو میں تمہیں نہیں بخشوں گا"

"حیات بیوی ہے میری بڑے بابا میری محبت ہے اسکا خود سے زیادہ خیال رکھوں گا میری طرف سے آپ کو کبھی کوئی شکایت نہیں ملے گی"

اسکے کہنے پر معتصم نے مسکرا کر اپنا سر ہاں میں ہلایا اسے شاہ میر ایسے ہی کسی جواب کی امید تھی

°°°°°

"عصیرم دیکھیں یہ کیسا ہے" اسنے وائٹ کلر کی چھوٹی سی شرٹ عصیرم کے سامنے کی

اس وقت وہ دونوں شاپنگ کرنے کے لیے آے ہوے تھے اور نور کے ہاتھ میں جو شرٹ تھی وہ شرٹ بچوں کے لیے تھی

نور کے ہاتھ میں اس شرٹ کو دیکھ کر اسے کسی طرح کی کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ جب سے وہ یہاں آئی تھی اس طرح کی کتنی ہی چیزیں لے چکی تھی

"واؤ ہمارے بچوں کے لیے لے رہی ہو" اسنے نور کے ہاتھ سے وہ شرٹ لی جبکہ اسکے کہنے پر نور کے گالوں پر سرخی چھا گئی

"نہیں عصیرم ماہر لالا اور زریام لالا کے بےبی کے لیے ہے مجھے تو بہت اچھی لگی"

"نور یہ چھوٹے بچوں کے لیے نہیں ہے کم از کم چار پانچ سال کے بچوں کے لیے ہے وہ یہ کیسے پہن سکتے ہیں"

"بڑے تو ہوں گے نہ عصیرم"

"نور"

"کچھ مت کہیں بس مجھے اچھی لگ رہی ہے میں لوں گی بلکہ"

اسنے کہتے ہوے مزید دو تین چھوٹی چھوٹی شرٹ نکال کر عصیرم کو پکڑائیں

"یہ بھی لے لیتے ہیں"

"جیسے تمہیں اچھا لگے"

نور کو یہ چیزیں لینی تھیں تو وہ بھلا کیا اعتراض کرتا اسکی ہر خواہش کو پورا کرنا وہ ویسے بھی اپنا فرض سمجھتا تھا

نور نے اب تک جو بھی شاپنگ کی تھی اس میں آدھا سامان تو اسنے بچوں کا لیا تھا جن کے آنے میں بھی ابھی کافی ٹائم باقی تھا

°°°°°

"حیات"

شاہ میر نے اسکے کمرے میں داخل ہوکر اسے پکارا جبکہ اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر حیات نے پھرپور ناراضگی دکھاتے ہوے اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا

"کیا مسلہ ہے"

"تم ابھی تک ناراض ہو"

"ہاں"

"ایسی کوئی بڑی بات تو نہیں تھی حیات"

"اچھا اگر میں ننگے لڑکوں کو دیکھوں تو آپ کو اچھا لگے گا"

"نہیں مجھے بلکل اچھا نہیں لگے گا اگر تمہیں دیکھنا ہو تو مجھے بتا دینا میں خود تمہارے سامنے اس طرح آجاؤں گا"

"اف شاہ میر آپ جائیں"

اسنے منہ بناتے ہوے دروازہ کی طرف اشارہ کیا

مطلب جاؤ

"نہیں جاؤں گا تم میری بات تو سنو میں سوری کررہا ہوں نہ سوری سوری"

چہرے پر معصومیت سجاے اسنے اپنے دونوں کان پکڑے جس پر حیات نے اپنی مسکراہٹ دبائی وہ ناراض تھی اور یہی ظاہر کرنا چاہتی تھی

"کبھی دوبارہ کسی لڑکی کو ایسے نہیں دیکھیں گے"

"نہیں دیکھوں گا بلکہ تمہارے علاؤہ کسی لڑکی کو نہیں دیکھو گا بس ایک شرط ہے"

"کیا"

"میری بیوی مجھے ایسے نظارے دکھاے کہ مجھے کہیں اور دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے"

شاہ میر کے کہنے پر اسکی کان کی لو تک سرخ ہوچکی تھی

اسکی حالت دیکھ کر شاہ میر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی اور اسنے آگے بڑھ کر حیات کو خود سے لگالیا جب اسے حیات کی مدھم سی آواز سنائی دی

"شاہ میر"

"ہمم"

"میں پہن لوں گی ایسے کپڑے بس آپ کہیں اور مت دیکھنا" اسنے شاہ میر کے سینے میں منہ چھپا کر کہا

"ٹھیک ہے پھر کل سے ہی تمہارے لیے شاپنگ شروع کردیتا ہوں" اسنے مسکراتے ہوے مزید سختی سے اسے خود میں بھینچ لیا

°°°°°

"ماہیم آپی ان کپڑوں میں ، میں بچی نہیں لگ رہی" اپنا حلیہ دیکھتے ہی اسنے ماہیم کی طرف دیکھا

ماہر کی وجہ سے نہ گھر میں کچھ بن سکا اور نہ ہی اسنے کچھ آرڈر کیا

جس کے بعد ماہر نے یہی سوچا کہ اس سے اچھا کھانا باہر جاکر ہی کھا لیا جاے

ساحر اور ماہیم آج شام کو ہی واپس آگئے تھے اسلیے ماہر نے یہی کہا کہ پہلے وصی کے گھر جاکر ان سے مل لیا جاے اس کے بعد وہ دونوں ڈنر پر چلے جائیں گے

وہ دونوں ڈنر پر جارہے تھے یہ بات سنتے ہی ماہیم اسے اپنے ساتھ اپنے روم میں تیار کرنے کے لیے لے گئی تھی اور اس وقت ماہیم کی تیاری کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی کم لگ رہی تھی

"ارے نہیں دیکھنا ماہر بھائی کو تم کتنی پیاری لگو گی" ماہیم نے اسکا گال کھینچا اور اسے اپنے ساتھ باہر لے گئی

°°°°°

"ماہر بھائی یہ رہی آپ کی بیوی"

ماہر جو ساحر سے باتیں کرنے میں مصروف تھا ماہیم کی آواز سن کر اسکی طرف دیکھنے لگا اور نظریں ماہیم کے پیچھے آتی عزہ پر گئی اسے دیکھ کر ماہر فقط گہرا سانس لے کر رہ گیا

اسے کیا پسند تھا ماہیم کو اندازہ نہیں تھا اسلیے اپنے اندازے کے مطابق وہ اسکے لیے جینز اور شرٹ لے آئی تھی اور اس وقت عزہ نے وہی پہن رکھی تھی

گلے میں مفلر ڈالے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ اسنے بالوں کو اونچی پونی میں باندھ رکھا تھا

"ماہیم میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر جارہا ہوں بیٹی کو نہیں"

"آپ کی بیوی اتنی کم عمر ہے تو میں کیا کرسکتی ہوں" اسنے شانے اچکاے

جس پر ماہر اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوے انہیں اللہ حافظ کہہ کر عزہ کا ہاتھ تھامے باہر نکل گیا

"ہم بھی باہر چلیں ماہیم" انکے جانے کے بعد ساحر اسکے قریب آیا

"ساحر ہم باہر سے ہی تو آرہے ہیں"

"پھر وہاں کی یاد دلادی" وہ بدمزہ ہوا جس پر ماہیم نے اپنی ہنسی ضبط کی

"ایسے مت کہیں ساحر اتنا اچھا وقت گزار کر آے ہیں"

یقیناً ساحر کا یہ غم ساری زندگی نہیں جانے والا تھا کہ ماہیم اسکے اتنے قریب رہ کر بھی اس سے دور رہی

°°°°°

"دلنشین بیگم بس آپ جلدی سے میری زندگی میں آجائیں اب تو آپ کے بنا سب کچھ ادھورا سا لگنے لگا ہے"

دادا جان نے فون کے دوسری طرف موجود دادی جان سے کہا جو انکی بات سن کر ہنس پڑیں

عصیرم کے ولیمے پر دادا جان نے ان سے انکا فون نمبر مانگا تھا اور پھر دادا جان نے ہی انہیں فون کرنے میں پہل کی

اب تو بات اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ دادی جان کو بھی ان سے پیار والا احساس ہونے لگ گیا تھا سچ کہتے ہیں پیار عمر نہیں دیکھتا

"خان صاحب کیا بچے مان جائینگے" دادی جان انہیں پیار سے خان صاحب ہی بلاتی تھیں

"ارے کیوں نہیں مانیں گے وہ اپنی زندگی جی رہے ہیں اور ہم نے اپنی زندگی جینی ہے" دادا جان کو جیسے انکی کہی بات پسند نہیں آئی تھی

"تو پھر پہلے آپ بچوں سے بات کریں پھر ہی مجھے اپنے نکاح میں لیجیے گا"

"تھیک ہے بس آپ جلدی سے آجائیں میری زندگی میں اب میری عمر ہوگئی ہے پتہ ہیں کب سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاے"

"اللہ نہ کرے کیسی باتیں کررہے ہیں" انکے کہنے پر دادی جان نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جس پر دادا جان نے قہقہہ لگایا اور اپنی بےاختیاری پر شرمندہ ہوتی دادی جان نے کال کاٹ دی

°°°°°

ڈنر کے بعد وہ عزہ کے ساتھ واک پر نکل آیا تھا گاڑی اسنے ڈرائیور کو بلا کر ڈنر کے دوران ہی گھر بھیج دی تھی اور خود وہ اب عزہ کا ہاتھ پکڑے پیدل چل رہا تھا

جو ایک ہاتھ میں اسے اپنا ہاتھ دیے دوسرے سے کاٹن کینڈی کھا رہی تھی

"ویسے انسان سامنے والے سے بھی پوچھ لیتا ہے"

"کیا" اسنے ناسمجھی سے ماہر کی طرف دیکھا

"اگر ہم کچھ کھا رہے ہوں تو سامنے والے سے بھی بندہ مروت میں پوچھ ہی لیتا ہے"

"آپ کو بھی کھانی ہے"

"ہاں"

"تو اپنی بھی خرید لیتے" مزے سے کہتی ہوئی وہ پھر سے کھانے لگی مطلب صاف تھا ماہر کو کھلانے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا

کینڈی زیادہ ہی بڑی تھی اسلیے کھاتے وقت اسکے ناک اور گال پر بھی لگ چکی تھی

"خریدنے کی کیا ضرورت ہے تم ہو نہ مجھے کھلانے کے لیے" اسنے رک کر عزہ کا رخ اپنی جانب کیا جس پر اسنے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور کاٹن کینڈی پیچھے کرلی لیکن ماہر کا اسکی کینڈی نہیں اسے کھانے کا ارادہ تھا

ماہر نے اسکی ناک پر اپنے لب رکھے جس سے عزہ کی ناک پر لگی کینڈی اسکے ہونٹوں پر لگ گئی

"نہیں ایسے مت کھائیں میں کھلا دیتی ہوں" اسنے کاٹن کینڈی اسکے سامنے کی جس پر مسکراتے ہوے اسنے ہلکی سی چکھ لی

کھانی تو اسے ویسے بھی نہیں تھی بس عزہ کو تھوڑا تنگ کرنا تھا

جبکہ ماہر کی کچھ دیر پہلے کی گئی حرکت سے اسکا پورا چہرہ لال ہوچکا تھا وہ سڑک پر اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا اسے اندازہ بھی نہیں تھا

اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ پھر سے چلنے لگا جب تھوڑی دور مزید چلتے ہی عزہ میڈم کو نیند آنے لگی جس کی وجہ سے وہ بار بار آنکھیں مسلتی تو کبھی ہاتھ منہ پر رکھتی

"گھر کب آے گا"

"کیوں"

"مجھے نیند آرہی ہے"

"تو تم سوجاؤ"

"کیسے"

اسکے کہنے پر ماہر اسکے سامنے بیٹھ گیا جس پر عزہ نے چہکتے ہوے اسکی گردن کے گرد اپنے دونوں ہاتھ ڈالے اور بچوں کی طرح اسکی کمر پر چڑھ گئی

"آپ کو پتہ ہے ماہر سر بچپن میں مجھے بابا جانی ایسے ہی اٹھاتے تھے" اپنے باپ کا ذکر کرتے ہی اسکے چہرے کی ساری مسکراہٹ کہیں غائب ہوگئی

"ماہر سر اگر وہ دونوں ہوتے تو کیا وہ بھی پھوپھو کی طرح مجھے غلط سمجھتے"وہ پھر پرانی باتوں کی طرف جارہی تھی جن سے ماہر اسے دور رکھنا چاہتا تھا

"نہیں عزہ وہ جانتے تھے انکی بیٹی کیسی ہے وہ تمہیں کیسے غلط سمجھتے"

"لیکن"

"مزید کوئی بات نہیں شاباش سوجاؤ عزہ ورنہ نیچے اتار دوں گا"

اسنے اپنا سر ماہر کے کندھے پر رکھ لیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ سوچکی تھی نیند گہری نہیں تھی لیکن پرسکون تھی

نیند میں اسنے بیڈ کی دوسری طرف ہاتھ رکھا لیکن وہاں کسی کو نہ پاکر اسکی آنکھ کھل گئی

اسنے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر پورے کمرے کا جائزہ لیا واشروم کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور عزہ کمرے میں کہیں نہیں تھی

اسنے گھڑی کی طرف دیکھا جو ساڑھے چھ بجا رہی تھی اس وقت عزہ کہاں جاسکتی تھی

کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا جہاں اسے عزہ کی آواز سنائی دی اس وقت وہ کس سے بات کررہی تھی

آنکھیں مسلتے ہوے وہ لاونج میں آگیا جہاں بیٹھے عصیم کو دیکھ کر اسے بےحد حیرت ہوئی جو اس وقت عزہ کے ساتھ بیٹھا کیرم کھیل رہا تھا

"بابا سائیں آپ یہاں کب آے"

اسکی آواز سن کر وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوے جہاں وہ بکھرے بالوں کے ساتھ ٹراؤزر اور شرٹ میں کھڑا تھا

"ویسے میں رات کو یہاں آیا تھا تم دونوں سورہے تھے اسلیے ڈسٹرب کرنا اچھا نہیں لگا مجھے گاؤں کے لیے نکلنا ہے شام تک عزہ یونیورسٹی جاے گی تم آفس میں ہوگے شاید ملنے کا وقت نہیں ملتا اسلیے میں رات کو ہی یہاں آگیا تھا"

اسنے پوری تفصیل ںتائی

"سب خیریت ہے"

"ہاں بہی خیریت ہے بس اپنی بہو سے ملنے کا دل چاہ رہا تھا تو آگیا"اسنے نرمی سے عزہ کے گال کو چھوا

"اور صبح کے اس وقت آپ کیرم کھیل رہے ہیں"

"ہاں مجھے نیند نہیں آرہی تھی بابا سائیں بھی جاگ رہے تھے تو ہم کیرم کھیلنے لگ گئے" اسکی بات کا جواب عزہ نے دیا

"فلحال بہت کھیل لیا اب جاؤ یونی کا ٹائم ہورہا ہے"

"لیکن ابھی گیم باقی ہے"

"عزہ جاو جاکر تیار ہوجاؤ"

ماہر کے کہنے پر اسنے منہ بنا کر عصیم کی طرف دیکھا جس نے مسکراتے ہوے اسے جانے کا اشارہ کیا

"تم سے ملے بغیر تھوڑی جاؤں گا فلحال ابھی جاکر تیار ہوجاؤ اور یہ گیم ہم بعد میں کمپلیٹ کریں گے"

اپنا سر ہلاکر وہ تیار ہونے کمرے میں چلی گئی اور اسکے جانے کے بعد ماہر عصیم کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا

°°°°°

ماہر کے لیکچر سے زیادہ اس وقت اسکا دھیان پیچھے بات کرتی لڑکیوں کی طرف تھا جو کب سے اسکے شوہر کو ڈسکس کررہی تھیں

"یہ نئے سر کتنے ہینڈسم ہیں نہ"

"ہاں ہیں تو" پیچھے بیٹھی اس لڑکی نے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی کی بات سن کر تائیدی انداز میں سر ہلایا

"ویسے انکا نام کیا ہے''

"ماہر شاہ"

"ہاے قسم سے بڑے ہاٹ ہیں"

غصے سے مڑ کر وہ کچھ کہنے لگی جب میشال نے اسے واپس سیدھا کردیا

"کیا مسلہ ہے میشال"

"چپ چاپ بیٹھ جاؤ"

"وہ ماہر سر کو اتنی دیر سے ڈسکس کررہی ہیں"

"اگنور کرو لیکچر پر دھیان دو" میشال نے اسکا چہرہ ماہر کی جانب موڑ دیا لیکن اس کے باوجود بھی اسکا سارا دھیان پیچھے بیٹھی ان لڑکیوں کی طرف تھا

"دل چاہ رہا ہے فزہ ایک بار انکے مسلز کو ٹچ کروں"

اس بار جیسے اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اسنے مڑ کر غصے سے انہیں گھور کر دیکھا

"کیا اتنی دیر سے فضول بولے جارہی ہو"

"تمہیں کیا مسلہ ہے ہم اپنی باتیں کررہے ہیں" اسکے کہنے پر فزہ نے منہ بنا کر جواب دیا

"کرو میری بلا سے تم دونوں کو جو باتیں کرنی ہیں کرو لیکن ماہر سر کے بارے میں اب کچھ مت کہنا"

"کیوں تمہارے کیا بھائی لگتے ہیں"

"شوہر" اسنے زور دے کر کہا

"شوہر ہیں وہ میرے میں انکے نکاح میں ہوں وہ میرے محرم ہیں یعنی ہمارا نکاح ہوچکا ہے بلکہ رخصتی بھی ہوچکی ہے تو اب انکے بارے میں کچھ کہا تو میں تم دونوں کا منہ توڑ دوں گی" غصے سے وہ انہیں یہ چیز اچھے سے باور کردینا چاہتی تھی کہ ماہر سے اسکا کیا رشتہ ہے

جبکہ اسکے کہنے پر وہ دونوں تو بس حیرت سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہی تھیں جو سامنے کھڑے انکے سر کی بیگم تھی

"عزہ"

ماہر کی آواز پر اسنے چہرہ اسکی طرف موڑا اور اسکے کہنے پر کھڑی ہوگئی

"دھیان کہاں ہے آپ کا"

"یہیں ہے"

"اچھا میں نے کیا سمجھایا" ماہر کے کہنے پر وہ اپنے لب چبانے لگی اسنے کیا سمجھایا تھا یہ تو اسنے سنا ہی نہیں تھا کیونکہ اسکا تو سارا دھیان ان لڑکیوں کی باتوں پر تھا

"وہ میں بھول گئی"

جب کافی دیر تک کوئی جواب زہہن میں نہیں آیا تو اسنے یہی جواب دیا جسے سن کر ماہر نے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا

عزہ نے بےیقینی سے اسے دیکھا وہ کیسے اسے کلاس سے باہر بھیج سکتا تھا

اسکے دوبارہ کہنے پر نظریں جھکا کر وہ کلاس سے باہر چلی گئی شرمندگی سے اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھیں تھوڑی دیر پہلے اسنے ان لڑکیوں کے سامنے کتنے فخر سے کہا تھا کہ ماہر اسکا شوہر ہے اور اب اسی شوہر نے سیدھا کلاس سے باہر نکال دیا تھا

وہ اب ماہر سے کبھی بات نہیں کرنے والی تھی اور اس بات کا وہ پکا فیصلہ کرچکی تھی

°°°°°

کلاس ختم ہوتے ہی وہ باہر نکلا جب نظر عزہ پر گئی جو نظریں جھکائے کھڑی تھی

"میرے آفس میں آو"ماہر نے اسکے قریب آکر کہا

"میں نہیں آؤں گی"

"میں تمہارا سر ہوں تم مجھے انکار نہیں کرسکتی ہو فیل کردوں گا"

چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اسنے دھمکی دی اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا

جس پر وہ سخت بدمزہ ہوکر اسکے پیچھے چل دی

اسکے آفس روم میں داخل ہوتے ہی ماہر نے دروازہ بند کرکے اسے دروازے سے لگایا اور بنا اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے اسکے لبوں پر جھک گیا

اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر عزہ نے اسے خود سے دور کرنا چاہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا

"اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے عزہ میں نے تمہیں بس تمہاری غلطی کی سزا دی ہے" اسکے لبوں کو آزاد کرکے ماہر نے اسکے پھولے چہرے کو دیکھ کر کہا جس پر اسکی آنکھوں میں بیٹھے آنسو جنہیں کب سے وہ گرنے سے روک رہی تھی بہنا شروع ہوچکے تھے

"میری کوئی غلطی نہیں ہے سب آپ کی غلطی ہے میری حالت کا بھی خیال نہیں ہے اور مجھے کلاس سے باہر کھڑا کردیا پتہ ہے مجھے چکر بھی آرہے تھے"اسنے روتے ہوے اپنی آستین سے ناک اور آنسو صاف کیے جبکہ اسکی بات سن کر ماہر نے اسے پریشانی سے وہاں رکھی چئیر پر بٹھایا

"تمہیں چکر آرہے تھے تو مجھے بتایا کیوں نہیں"

"اب بتاؤں گی بھی نہیں"

اسکے کہنے پر ماہر اس وقت اسے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ بتا تو وہ چکی ہے

"ہٹیں مجھے جانا ہے" وہ اپنی جگہ سے اٹھی جب ماہر نے اسے واپس بٹھادیا

"کہیں نہیں جارہی ہو تم"

"میری کلاس کا ٹائم ہورہا ہے"

"بھاڑ میں گئی کلاس بیٹھو یہاں پر اور یہیں بیٹھی رہو" اسکا انداز تھوڑا سخت ہوا جسے دیکھ کر عزہ خاموشی سے وہیں بیٹھ گئی

ماہر نے اسکے لیے جوس اور چند کھانے پینے کی اشیاء منگوائیں اور جب تک اسنے وہ ساری چیزیں نہیں کھالیں تب تک اسے اٹھنے نہیں دیا

وہ ناراض تھی اور اپنی ناراضگی وہ بھرپور طریقے سے دکھا رہی تھی یہ الگ بات تھی کہ ماہر کی منگوائی ہر چیز اسنے کھائی تھی

°°°°°

اسے گھر چھوڑ کر وہ خود آفس کے لیے نکل گیا سارے راستے عزہ نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی

اسے منانے کے لیے ماہر کا ارادہ اسکے لیے کوئی اچھا سا گفٹ لینے کا تھا عزہ کو کیا پسند تھا یہ اسے میشال سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا تھا

جبکہ دوسری طرف گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھا عصیم کے پاس گئی تھی

ماہر کی شکایت کرنے

عصیم واپس جانے والا تھا لیکن جانے سے پہلے وہ عزہ سے مل کر جانا چاہتا تھا لیکن اسکا شکایت نامہ سن کر اسے بھی اپنے ساتھ لے جانے کا ارادہ کرلیا

"یہ اسنے بہت غلط حرکت کی ہے" اسکی ساری شکایتیں سن کر عصیم نے اپنی راے دی

"تو ہم ایسا کرتے ہیں نہ تمہیں گاؤں لے چلتے ہیں ویسے بھی اب دو دن تک تو تمہاری یونی آف ہی ہے"

"سچ میں آئرہ آنٹی کے پاس" اسکے کہنے پر عصیم مسکرا اٹھا

"ہاں تمہاری آئرہ آنٹی کے پاس جاؤ جلدی سے اپنا سامان لے لو پھر ہم چلتے ہیں تاکہ تمہاری غیر موجودگی میں اس نالائق کو تمہاری قدر آجاے"

اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاتی جلدی سے کمرے میں چلی گئی تاکہ اپنا ضروری سامان لے سکے

°°°°°

"میں اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں بیچ میں گھس رہا ہے" اسنے ساحر کو گھور کر کہا جو اسکے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر وہ خود تھا

"میری غیر موجودگی میں تو نے اپنا سارا وقت اپنی بیوی کے ساتھ ہی گزارا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں جب سے تیری بیوی آئی ہے نہ تو مجھے اگنور کرنے لگ گیا ہے"

"کیا کروں شادی شدہ انسان ہوں تجھے نہیں پتہ شادی شدہ بندے کے کتنے کام ہوتے ہیں تو خود تو بس نکاح کرکے بیٹھا ہوا ہے" اسکا انداز چڑانے والا تھا

جبکہ اسکی بات سن کر ساحر نے گھور کر اسے دیکھا

"میری بھی چند ماہ بعد رخصتی ہے"

"ہاں جب تک ہوگی تیری رخصتی جب تک تو میرے بچے بھی اس دنیا میں آجائینگے"

"بچوں سے یاد آیا ویسے تو بڑا کرتا ہے ساحر میرا بھائی ہم نے سارے کام ایک ساتھ کیے ہیں تو پھر تو نے یہ کام میرے بنا کیسے کرلیا"

"جیسے تو تو جانتا ہی نہیں ہے یہ سب کیسے ہوا باقی تیری سروس سلو ہے تو میں کیا کروں"

اسکے کہنے پر ساحر نے زور سے اسکے بازو پر مکا رسید کیا جبکہ اسکے اتنی زور سے مارنے کر ماہر بس درد سے کراہ کر رہ گیا

°°°°°

گھر پہنچتے ہی عزہ کی غیر موجودگی دیکھ کر اسے پریشانی نے آگھیرا کہیں ناراضگی میں وہ اسے چھوڑ کر تو نہیں چلی گئی

"بابا سائیں بھی تو یہیں تھے نہ آج ان سے پوچھ لے کیا پتہ انکے ساتھ ہو" ساحر کے کہنے پر اسنے جلدی سے عصیم کو کال ملائی

"کب سے تمہارے فون کا ہی انتظار کررہا تھا میرا بیٹا"

"بابا سائیں عزہ آپ کے ساتھ ہے"

"ہاں تمہاری بیوی میرے قبضے میں ہے اسکے لیے پریشان مت ہو"

"تو آپ اسے کہاں لے گئے"

"ہم گاؤں جارہے ہیں"

"اسے ساتھ کیوں لے جارہے ہیں"

"وہ تم سے ناراض تھی نہ اسلیے"

اسپیکر سے آتی عصیم کی باتیں سن کر ساحر نے قہقہہ لگایا

اتنی بےتابی اور بےچینی سے ماہر گھر آیا تھا تاکہ اپنی ناراض بیوی کا دیدار کرے اور اسے منا سکے لیکن وہ تو یہاں تھی ہی نہیں

"ساحر تمہارے ساتھ ہے"

دوسری طرف سے ہنسنے کی آواز سن کر اسنے پوچھا

"ہاں" عصیم کے پوچھنے پر اسنے بگڑے موڈ کے ساتھ جواب دیا پہلے ہی غصہ آرہا تھا اور ساحر کا ہنسنا اسکے غصے کو مزید بڑھا رہا تھا

"تو یہاں رہ اپنی بیوی کے جانے کا غم منا میں جارہا ہوں اپنی بیوی کے پاس میری نکاح شدہ بیوی کم از کم میرے پاس تو ہے"

اسنے اپنی ہنسی ضبط کرکے کہا اور وہاں سے جانے لگا جب اسپیکر سے آتی عصیم کی آواز سن کر اسکا حال بھی ماہر ہی کی طرح ہوگیا

"ماہیم بھی میرے پاس ہے ساحر باقی تم دونوں مل کر انجواے کرو"

"بابا سائیں ماہیم کو کیوں لے کر گئے" اسنے فون ماہر کے ہاتھ سے لے کر بےتابی سے پوچھا

"ایسے ہی بس دل چاہ رہا تھا اپنی تینوں بہوؤں کو اپنے ساتھ رکھوں تم دونوں مزے کرو اور یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے ویسے بھی عزہ ماہر سے ناراض ہے تو تم دونوں کے لیے نو انٹری کا بورڈ لگا ہوا ہے"

"ماہر نہیں آسکتا پر میں تو آسکتا ہوں نہ"

"نہیں"

"کیوں"

"تم دونوں تو پارٹنر ہو نہ سوچا ایک کے ساتھ یہ کام کروں گا تو دوسرے کو برا نہ لگ جاے اسلیے میں تم دونوں کی بیویوں کو لے آیا"

اسنے کال کاٹ دی اور اب اسکی حالت دیکھ کر ہنسنے کی باری ماہر کی تھی

°°°°°

"سر آپ دونوں کو عصیم صاب نے اندر آنے سے منع کیا ہے" ان دونوں کو وہاں دیکھتے ہی گیٹ پر کھڑے گارڈ نے کہا جس پر ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا

"اب یہ ہمیں ہمارے گھر میں جانے سے ہی روکے گا ماہر"

"جی انہوں نے کہا تھا اگر آپ لوگ یہاں آو تو انہیں فوراً بتادوں"

"جانتے ہو یہ کون ہے" ماہر نے اسکے قریب آکر ساحر کی طرف اشارہ کیا

"یہ شاہ انڈسٹری کا مالک ہے تمہیں تنخواہ یہ دیتا ہے تمہارے عصیم صاحب نہیں وہ تو بس بیٹھ کر حکم چلاتے ہیں اب یہ تم پر ہے یا تو انکا حکم مانو یا پھر ساحر سے اپنی ہر ماہ کی تنخواہ لو"

اسکے کہنے پر گارڈ نے فورا دروازہ کھول دیا

"جائیں ہم تو نوکر لوگ ہیں ہم کون ہوتے ہیں روکنے والے"

اسکے کہنے پر ساحر نے داد دیتے انداز میں ماہر کو دیکھا اور اندر چلا گیا

°°°°°

"آپ کو عصیم انکل نے یہاں آنے سے منع کیا تھا ماہر بھائی" اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی ماہیم نے کہا

اس وقت وہ ساحر کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی اور عزہ اسکے ساتھ بیڈ پر سورہی تھی

"اپنے باپ کا اتنا فرمابردار بھی نہیں ہوں میں اپنی امانت کو لے جاؤں" اسنے بیڈ پر سوئی عزہ کی جانب اشارہ کیا جس پر اسنے اپنے کندھے اچکا دیے

"آپ کی ہی ہے لے جائیں"

ماہر نے آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور کمرے سے باہر چلا گیا

جب اپنی نیند خراب ہوتی دیکھ کر اسنے آنکھ کھولی اور خود کو ماہر کی بانہوں میں پاکر اس سے پہلے وہ چیختی ماہر اسکے منہ پر ہاتھ رکھے اسے جلدی سے اپنے کمرے کی طرف لے کر بھاگا

°°°°°

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

پہلے دیکھ کر تو اسے یہی لگا کہ ماہر واپس کمرے میں آگیا ہے کیونکہ اس وقت ساحر اور ماہر نے کپڑے بھی ایک جیسے ہی پہن رکھے تھے لیکن زیادہ غور کرنے پر پتہ چل گیا کہ وہ ساحر ہے ماہر نہیں

"میں تم سے ملنے آیا تھا"

"حلانکہ عصیم انکل نے آپ دونوں کو منع کیا تھا"

"اب میں اتنا فرمابردار بھی نہیں ہوں"

"ماہر بھائی نے بھی یہی کہا تھا"

"غلط تھوڑی کہا تھا"

"لیکن میں اچھی بہو ہوں میں انکی بات ضرور مانو گی" جلدی سے کہہ کر وہ بنا اسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے کمرے سے بھاگ گئی

اسکی اس حرکت پر ساحر بھی جلدی سے اسکے پیچھے گیا

لیکن شاید اسکی قسمت اچھی نہیں تھی کیونکہ عصیم اس وقت اپنے کمرے سے باہر تھا اور ماہیم بھاگتے ہوے سیدھا اسی کے پاس گئی تھی

"عصیم انکل دیکھیں یہ دونوں زبردستی حویلی میں گھس آئے حالانکہ آپ نے منع کیا تھا"ساحر کو دیکھتے ہی اسنے عصیم سے کہا جس پر ساحر نے بے چارگی سے منہ بنا کر اپنے باپ کو دیکھا

"بابا سائیں زبردستی کیسی ہمارا اپنا گھر ہے"

"دوسرا والا کہاں ہے"عصیم نے اسکی بات کو نظر انداز کرکے سوال پوچھا

"وہ اپنی بیوی کو اپنے کمرے میں لے گیا اب آپ جاکر اسکے کمرے کا دروازہ بجائینگے اچھا تو نہیں لگے گا نہ"

"ہاں بلکل اچھا نہیں لگے گا اور تم دونوں اب آہی گئے ہو تو خیر ہے ماہیم بیٹا جاو جاکر میرے کمرے میں سوجاؤ"اسکے کہنے پر ماہیم نے اپنا سر ہلایا اور ایک نظر ساحر پر ڈال کر وہاں سے چلی گئی جو سخت نظروں سے اسے ہی گھور کر دیکھ رہا تھا بھلا کیا ضرورت تھی کمرے سے باہر آنے کی

"بابا سائیں تو آپ کہاں سوئیں گے"

"میں تمہارے کمرے میں سوؤں گا"اسکے کہنے پر ساحر نے منہ بنایا

"ٹھیک ہے سوجائیں پر رات کو اگر میں ماہیم سمجھ کر میں آپ کو کس کرنے لگ گیا نہ تو مجھے کچھ مت کہیے گا" اپنی طرف سے اسنے دھمکی دی جس کا عصیم پر کوئی اثر نہیں ہوا

ان لوگوں کا رشتہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستوں کی طرح ہی رہا تھا اسلیے وہ کوئی بھی بات بلا جھجک کرلیتے تھے

"کوئی بات نہیں میں بھی تمہیں کسوا سمجھ لوں گا"

اسکے کہنے پر ساحر کا بگڑا منہ مزید بگڑ گیا جسے دیکھ کر عصیم نے قہقہہ لگایا

°°°°°

"چھوڑیں مجھے یہ کیا حرکت ہے آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے عزہ کو اپنی گود سے اتارا

"میں اپنے گھر میں ہوں عزہ بھلا یہ کیسا سوال ہوا"

"ہاں تو آپ رہیں اپنے گھر میں مجھے جانے دیں"

"ابھی تک ناراض ہو مجھ سے" اسکے کہنے پر عزہ نے منہ پھیر کر اپنی ناراضگی ظاہر کی

"اچھا تو کیسے مانو گی"

"مرغا بن جائیں"

"عزہ میں مرغا بنتا اچھا نہیں لگوں گا"

"تو پھر اٹھک بیٹھک کرلیں"

اسکے کہنے پر ماہر نے گہرا سانس لیا اور پش اپس کرنے لگا

"اٹھک بیٹھک کہی تھی ماہر سر"

"بڑوں کے لیے ایسی ہی ہوتی ہے"

عزہ چند لمحے تو اسے دیکھتی رہی پھر مسکراتے ہوے جاکر اسکی پیٹھ پر بیٹھ گئی

تھوڑی دیر مزید پش اپس کرنے کے بعد ماہر سیدھا ہوا جس کی وجہ سے عزہ سیدھا اسکے سینے پر آگری

"تو ہوگئی تمہاری ناراضگی ختم"

"جی ہوگئی بس آئیندہ آپ پھر کبھی مجھے پنش نہیں کریں گے"

اسکے کہنے پر ماہر نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا

"نہیں کروں گا"

"اور اگر کیا تو" اسنے سوالیہ انداز میں کہا

"تو تم بتاؤ"

"تو پھر میں آپ سے دور چلی جاؤں گی" اسکے کہنے پر ماہر کی اس پر گرفت سخت ہوئی

"تمہیں تو اب میں مرتے دم تک خود سے دور نہ کروں" عزہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اسنے شدت بھرے انداز میں کہا

°°°°°

"اگر عصیرم خان کو کمزور کرنا ہے تو اسکی کمزوری ڈھونڈو کیا ہے اسکی کمزوری یقیناً اسکی بیوی"

اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا وہ حرام مشروب خود میں اٹنڈیلتا مسلسل سوچ میں گم تھا جب اسکی بات سن کر پیچھے کھڑا گارڈ اسکی طرف متوجہ ہوا

"کیا کرنا چاہیے مجھے جیسے اسکے باپ کی کمزوری پکڑی تھی ویسے ہی اسکی کمزوری کو بھی پکڑ لوں لیکن اسے پکڑتے ہی ماردوں اس بار میں اسے چھوڑ کر پہلے والی غلطی نہیں کرنا چاہتا"

"لیکن سر عصیرم خان اسے اکیلا کہیں نہیں بھیجتا جب بھی وہ کہیں جاتی ہے گارڈز کی فوج اسکے ساتھ ہوتی ہے"

"تو ہم ان گارڈ کو ہی خرید لیتے ہیں"

"لیکن وہ عصیرم خان کے وفادار ہیں"

"کوئی ایک تو غدار نکلے گا"

آصف لغاری نے خباثت سے ہنستے ہوے کہا اور گلاس اٹھا کر اپنے لبوں سے لگالیا

°°°°°

اسنے اپنے مہندی سے بھرے ہاتھوں کو گہری نظروں سے دیکھا آج اسکا نکاح تھا اور اسکا بیسٹ فرینڈ یہاں نہیں تھا

اسکی انگیجمنٹ کے بعد سے آہان نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا خود وہ کتنی ہی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کرچکی تھی لیکن وہ نہ تو اسکی کوئی کال اٹھاتا نہ ہی میسیج کا کوئی جواب دیتا

اگر اسے محبت آہان سے نہیں تھی تو داد سے بھی نہیں تھی

شادی تو اسے کرنی ہی تھی تو کیا یہ بہتر نہیں تھا ماں باپ کی پسند سے کرلی جاتی اور داد اسکے ماں باپ کو بہت پسند آیا تھا

ہاں اگر آہان انگیجمنٹ سے پہلے یہ بات اسکے سامنے کہتا تو وہ اس بارے میں گھر میں بات کرتی لیکن اب نہیں

اسکے نصیب میں داد ہی تھا جس کے ساتھ آج اسکا نکاح ہونے والا تھا

"ماشاءاللہ شانزے تم کتنی پیاری لگ رہی ہو" ثناء نے اسکے کمرے میں داخل ہوکر کہا اس وقت وہ دلہن بنی لائٹ بلیو کلر کے گرارے میں واقعی بہت پیاری لگ رہی تھی

"آہان سے بات کی تم نے اسے بتایا آج میرا نکاح ہے" اسنے جلدی سے پوچھا آہان اسکا فون نہیں اٹھا رہا تھا اسلیے یہ کام اسنے ثناء کے ذریعے کروایا تھا

"ہاں میں نے اسے بتادیا تھا اور اسنے کہا تھا وہ ضرور آے گا اب چلو تم نیچے سب تمہارا انتظار کررہے ہیں"

ثناء نے اسکا ڈوپٹہ صحیح کیا اور اسے لے کر نیچے چلی گئی جہاں گھر کے لان میں ہی نکاح کی تقریب کا انتظام کیا گیا تھا

°°°°°

"شانزے مظہر ولد مظہر خواجہ آپ کا نکاح آہان شاہ ولد عالم شاہ کے ساتھ پچیس لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"

مولوی صاحب کے الفاظ سنتے ہی اسنے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا اور سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھنے لگی جس سے آج اسکا نکاح تھا اسے ایسا لگ رہا تھا اسنے کچھ غلط سن لیا ہو

پھولوں کے پردے کے باعث وہاں بیٹھا شخص اسے ٹھیک سے دکھ نہیں رہا تھا لیکن اتنا اندازہ تو صاف ہورہا تھا کہ وہ آہان عالم شاہ ہی ہے

اسنے حیرت و بےیقینی سے مظہر صاحب کی طرف دیکھا جنہوں نے آہستہ سے اپنا سر اثبات میں ہلادیا

اسکی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر مولوی صاحب نے اپنے الفاظ دہراے جنہیں سن کر اسنے آہستہ سے قبول ہے کہہ دیا اور تھوڑی دیر میں اپنا سب کچھ آہان شاہ کے نام کردیا

°°°°°

"تم جانتی تھیں میرا نکاح آہان سے ہورہا ہے"

ثناء اسے چھوڑنے اسکے کمرے تک آئی تھی جب اسے اپنے ساتھ اکیلے دیکھ کر اسنے کب سے من میں چلتا سوال اسکے سامنے رکھ دیا

"ہاں جانتی تھی"

"تو بتایا کیوں نہیں"

"بتانے سے کیا ہوتا"

"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا میرا منگیتر داد تھا آہان سے میرا نکاح کیسے ہوسکتا ہے" اسنے الجھن بھری نظروں سے ثناء کی طرف دیکھا

"تمہارا منگیتر داد ہی تھا جب آہان نے عالم انکل کو بتایا تھا کہ وہ تمہیں پسند کرتا ہے تو وہ تب ہی تمہارے پیرنٹس سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن کچھ ایشوز کی وجہ سے کرنہیں پائے"

"تمہارے نکاح کی ڈیٹ رکھنے کے بعد آہان نے داد سے بات کی تھی اسکے سامنے یہ آفر رکھی تھی کہ وہ اس رشتے سے پیچھے ہٹ جاے جس کے بدلے وہ اسے پیسے دے گا"

"اور وہ پیچھے ہٹ گیا" اسکے لب ہولے سے ہلے

"ہاں وہ ہٹ گیا"

"کتنے پیسوں میں ڈیل کی آہان شاہ نے میری" اسکے لہجے میں تلخی در آئی

"شانزے تم اسے غلط مت سمجھو وہ تم سے محبت کرتا ہے اور یہ بات میں یونیورسٹی کے دنوں سے جانتی تھی پر تمہیں کیوں محسوس نہیں ہوا اسنے تمہیں پانے کی بس ایک کوشش کی تھی اور اسکی نیت صاف تھی جب ہی تو تم اسکے نصیب میں لکھ دی گئیں اور دیکھو اچھا ہی ہوا نہ داد جیسے شخص سے تمہاری جان چھوٹ گئی جو شخص صرف چند لاکھ روپے کے خاطر تمہیں چھوڑ سکتا ہے وہ تمہارا کیا ساتھ دیتا"

"مجھے کسی نے کچھ بتایا کیوں نہیں"

"آہان نے منع کیا تھا اسے لگتا تھا اگر نکاح سے پہلے تمہیں بتا دیتے تو تم کوئی ڈرامہ کریٹ نہ کر دیتیں" آخری بات اسنے بڑے مزے سے بتائی جس پر شانزے نے گھور کر اسے دیکھا

"نکلو میرے کمرے سے آج کے بعد تم میری دوست نہیں ہو" اسکا ہاتھ پکڑ کر شانزے نے اسے اپنے کمرے سے نکال دیا

°°°°°

اسکے دھکے دینے پر وہ کمرے میں آتے آہان سے ٹکرائی

"کیا ہوا ہے کیوں پاگل بھینس بنی ہوئی ہو" اسکے کہنے پر ثناء نے زور سے اسکے بازو پر مکا مارا

"یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے اس نے مجھے کمرے سے نکال دیا"

"میٹر تھوڑا گھما ہوا ہے میں سیٹ کرکے آتا ہوں"

"میں یہیں رک جاتی ہوں تم بھی پھر کمرے سے باہر نکالے جاؤ گے"

"اسکی نوبت نہیں آے گی پھر بھی یہاں کھڑے ہوکر ہماری پرسنل باتیں سننا چاہو تو تمہاری مرضی"

کندھے اچکا کر وہ اندر کمرے میں داخل ہوا جس پر ثناء منہ بناتی ہوئی وہاں سے چلی گئی یہاں کھڑے ہوکر ان دونوں کی باتیں سننے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا

°°°°°

کمرے کا دروازہ کھلتے دیکھ کر شانزے نے اس طرف دیکھا اور وہاں کھڑے آہان کو دیکھ کر غصے سے بیڈ پر رکھا کشن اٹھا کر مارا

"اتنا غصہ"

"یہاں کیا کررہے ہو نکلو میرے کمرے سے"

"اب کیا تمہارا کیا میرا"دلکشی سے مسکراتے ہوے وہ شانزے کے قریب آیا

اس وقت اسنے کریم کلر کا پرنس کوٹ پہن رکھا تھا جبکہ ہمیشہ کی طرح بکھرے بال اس وقت جیل کی وجہ سے ترتیب سے جمے ہوے تھے

"آہان مجھ سے تو دور ہی رہو"

"اچھا"

اسکی بات کو نظر انداز کرکے آہان نے اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کیا

"اتنی مشکلوں سے مہمانوں کے درمیان سے نکل کر تم سے ملنے آیا ہوں اور ایک تم ہو جو دور رہنے کا کہہ رہی ہو"

"آ-آہان"

"مانا تم ناراض ہو لیکن موقع تو دو کہ تمہاری ناراضگی دور کرسکوں" اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر آہان اگلے ہی پل اسکے لپسٹک سے سجے لبوں پر جھک گیا

جس پر شانزے کی آنکھیں پوری کھل گئیں آج تک آہان اسکے لیے صرف ایک دوست تھا اسکے بارے میں شانزے نے کبھی کچھ اور سوچا ہی نہیں تھا

اسلیے اسکی اس طرح کی حرکت اسے صدمے میں ڈال چکی تھی

اسکے لبوں کو آزاد کرکے آہان اسکے شرمیلے روپ کو دیکھنے لگا

"آئی لو یو شانزے"

"آ-آہان پلیز مجھے کچھ وقت دو میرے لیے یہ سب بلکل نیا ہے" اسنے نظریں جھکا کر کہا آہان کی کی گئی گستاخی کی وجہ سے اس سے اس وقت نظریں اٹھانا محال ہورہا تھا

"ہماری رخصتی تک تمہارے پاس وقت ہی وقت ہے" آہان نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور ایک گہری نظر اسکے سراپے پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا

وہ وقت مانگ رہی تھی جو اسے دینے میں آہان کو کوئی مسلہ نہیں تھا کیونکہ اسے اب یہ اطمینان ہوچکا تھا کہ شانزے صرف اسکی ہے

°°°°°

وہ سب لوگ آہان کے نکاح کی وجہ سے اس وقت وصی کے گھر پر ہی تھے

نکاح سے واپس آکر وہ سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے آج سارا دن ہی سب مصروف رہے تھے اسلیے تھکن حد سے زیادہ ہورہی تھی

بس ایک وہی تھی جو اسٹڈی روم میں بیٹھی اپنے کل کے ٹیسٹ کی تیاری کررہی تھی

"عزہ تم ابھی تک جاگ رہی ہو"

کسوا نے اسے اسٹڈی روم میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا اسکے ہاتھ میں پانی کا جگ تھا یقیناً وہ کمرے سے باہر یہی لینے آئی تھی

"جی وہ کل ٹیسٹ ہے نہ تو اسکی تیاری کررہی تھی"

"ہوگئی تیاری"

"بس ایک سوال سمجھ نہیں آرہا آپ سمجھا دیں گی" اسکے کہنے پر کسوا نے برا سا منہ بنایا

"نہیں مجھے تو تم ان چیزوں سے دور ہی رکھو اور ابھی جاکر سوجاؤ صبح ماہر سے پوچھ لینا"

اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاکر اسٹڈی روم سے چلی گئی

°°°°°

کمرے میں داخل ہوکر اسنے اپنا سارا سامان بیڈ پر رکھا اور اپنے نرم وملائم ہاتھوں سے ماہر کا چہرہ تھپتھپانے لگی

"ماہر سر اٹھیں"

اسکے گال تھپتھپانے پر ماہر نے نیند میں ہنکار بھرا

"مجھے سوال سمجھ نہیں آرہا سمجھا دیں"

"صبح سمجھا دوں گا ابھی سوجاؤ"

"نہیں ابھی سمجھائیں صبح ٹائم نہیں ملے گا اور اس سبجیکٹ کے ٹیچر بلکل اچھے نہیں ہیں اگر میں نے ٹیسٹ اچھا نہیں دیا تو وہ مجھے پھر پنش کریں گے"

اسکے کہنے پر ماہر نے آنکھیں کھول کر اسکی پھیلی کتابوں کو دیکھا اور لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی

"بھلا کس میں اتنی ہمت ہے میری چھوٹی سی بیگم کو پنش کرے" عزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسنے اسے اپنے اوپر گرایا

"میرے سر میں ہے"

"اب اگر تمہیں وہ بنش کرے تو مجھے بتانا میں اسکے کان کھینچوں گا" اسکے کہنے پر عزہ کھلکھلا کر ہنسی

"ٹھیک ہے لیکن ابھی مجھے سوال سمجھادیں"

"اتنی آرام سے سمجھادوں میری فیس تو دو"

"کیا فیس چاہیے"

"کس دونوں گال پر"

اسکے کہنے پر کچھ دیر جھجک کر عزہ نے باری باری اسکے دونوں گالوں پر اپنے لب رکھ دیے

"اب سمجھائیں"

"لیکن اس فیس سے میرا کچھ بنا نہیں"

"ماہر سر"

وہ چیخی جس پر مسکراتے ہوے ماہر اٹھ بیٹھا

"سمجھادیتا ہوں اسکے بعد میں خود اچھے سے اپنی فیس لے لوں گا" اسے اپنے قریب بٹھا کر ماہر نے اسکی کتابوں کو اپنے قریب کیا

°°°°°

"آج کل تم کچھ زیادہ ہی محنتی بننے کی کوشش کررہے ہو" اسنے فروٹ کھاتے ہوے اپنے سامنے بیٹھے ایہاب سے کہا جو کام کرنے میں مصروف تھا پہلے ہی نسبت اسکی کال چوری میں کمی آگئی تھی اور وصی کے سامنے وہ خود کو کچھ زیادہ ہی محنتی دکھانے کی کوشش کررہا تھا

"میرے باپ نے بولا ہے پہلے کچھ کام وغیرہ کرو پھر ہی تمہاری شادی کروں گا اسلیے مجھے یہ سب کرنا پڑرہا ہے لیکن شادی ہوجاے گی نہ تو میں یہ سب چھوڑ دوں گا" اسکی حالت دیکھ کر آہان کی ہنسی کا فوارہ چھوٹا

"ہاں ہاں ہنس لو اپنا وقت تو جیسے تم بھول ہی گئے شانزے کی انگیجمنٹ ہونے پر کیسے فلمی ہیروئن کی طرح کمرہ بند کرکے بیٹھ گئے تھے"

"میرا نکاح ہوچکا ہے اسلیے میری فکر چھوڑ دو اپنی فکر کرو اور اب مجھ سے بدتمیزی کی تو تمہاری یہ شادی کے بعد کام چھوڑنے والی پلیننگ وصی انکل کو بتا دوں گا پھر دیکھتا ہوں کیسے ہوتی ہے تمہاری شادی"

"تمہاری بات پر جیسے وہ یقین کرلیں گے"

اسکے کہنے پر آہان نے اپنے پاس رکھا فون اٹھایا اور اس میں موجود ایہاب کی کہی باتیں سنادیں

اسکے نکاح کے بعد سے ایہاب ویسے بھی آج کل تپہ پڑا تھا

وہ آج کل اتنا کام صرف وصی کو دکھانے کے لیے کررہا ہے اور اسے پتہ تھا اسکے اس طرح کی کوئی بات پوچھنے پر بگڑے موڈ میں کچھ نہ کچھ الٹا ضرور کہے گا اسلیے یہاں بیٹھتے ہی اسنے ریکارڈنگ آن کردی تھی

"کیا بول رہا تھا" ریکارڈنگ ختم ہوتے ہی اسنے مسکراتے ہوے ایہاب کی طرف دیکھا

"میں تو کہہ رہا تھا شانزے بھابھی کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے بتا دینا میں حاضر ہوں"اپنے لیے ایہاب کے منہ سے اتنی عزت اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی

°°°°°

"وہ تم سے محبت کرتا ہے اور یہ بات میں یونیورسٹی کے دنوں سے جانتی تھی پر تمہیں کیوں محسوس نہیں ہوا"

"تم اتنی بیوقوف کیوں ہو شانزے سچ سچ بتاؤ کیا آج تک تمہیں میری نظر میں اپنے لیے کوئی جذبات نہیں دکھے تمہیں آج تک یہ اندازہ نہیں ہوا کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں"

"شانزے آہان شاہ"

گزرے پل کی یادوں میں کھوئی ہوئی وہ اس وقت اپنے مہندی سے سجے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی

ثناء بھی جانتی تھی کہ آہان اس سے محبت کرتا ہے لیکن اسے تو آج تک اس بات کا زرا بھی احساس نہیں ہوا کیا واقعی میں وہ اتنی بیوقوف تھی

مہمانوں کے جانے کے بعد اسنے مظہر صاحب سے ساری تفصیل سنی تھی

آہان نے داد کو پیسوں کا لالچ دیا تھا تاکہ وہ شانزے سے منگنی ختم کردے انہیں اس بات کی وجہ سے اس پر بلکل غصہ نہیں آیا کیونکہ اس وجہ سے انہیں یہ بات جو پتہ چلی گئی کہ داد انکی بیٹی کے ساتھ کتنا مخلص ہے جو شخص پیسوں کے خاطر نکاح سے چند دن پہلے اسے چھوڑ سکتا تھا وہ آگے جاکر کیا کرتا

ایسے میں آہان کا رشتہ انکی نظر میں بیسٹ آبشن تھا شانزے کی وجہ سے وہ اسکی پوری فیملی سے واقف تھے البتہ ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی مظہر صاحب انکے نام کی وجہ سے انہیں اچھے سے جانتے تھے

انہوں نے شانزے سے اسکی راے نہیں لی تھی کیونکہ وہ اپنا ہر فیصلہ پہلے سے ہی ان پر چھوڑ چکی تھی اسنے داد سے منگنی پر بھی اپنی راے انہی پر چھوڑی تھی اور یہاں تو بات آہان شاہ کی تھی جو اسکا بیسٹ فرینڈ تھا انہیں نہیں لگتا تھا شانزے کو اس بات سے کوئی اعتراض ہوگا

لیکن یہ بات اسے نہ پتہ چلے یہ آہان کی ہی خواہش تھی

اسکا نکاح آہان سے ہونے والا تھا یہ اسکے علاؤہ سب ہی جانتے تھے

°°°°°

ہوش میں آتے ہی اسنے اپنے دکھتے سر پر ہاتھ رکھا جب ہاتھ پر کچھ گیلا پن سا محسوس ہوا

اس وقت وہ جس جگہ موجود تھی وہ کمرہ کسی کھنڈر سے کم نہیں لگ رہا تھا کمرے میں روشنی تھوڑی اوپر کی طرف بنی کھڑکی سے آرہی تھی

اسنے اپنا ہاتھ اس روشنی میں کیا جہاں اسکے ہاتھ پر اب خون لگا ہوا تھا اسنے اپنا ڈوپٹہ سر کی دکھتی جگہ پر رکھا شاید سر کہیں لگنے کی وجہ سے چوٹ لگی تھی

وہ اس وقت کہاں تھی

آہان کے نکاح کی وجہ سے وہ وصی کے گھر پر ہی تھی اور آج ڈرائیور کے ساتھ وہ اپنے گھر جارہی تھی جب راستے میں گولیاں چلنی شروع ہوئیں اور گاڑی انبیلنس ہوئی جس کے بعد وہ بےہوش ہوگئی تھی

اب ہوش آیا تو اس بند کمرے میں تھی

اسنے گہرا سانس لے کر خود کو پرسکون کیا اور دروازہ بجا کر آوازیں دینے لگی

وہ کہاں پھنس گئی تھی شاید کوئی اسے کسی غلط فہمی کی بنا پر یہاں لے آئے تھے

اسنے اپنا پرس ڈھونڈنا چاہا لیکن وہ یہاں نہیں تھا لیکن اسکا موبائل اسکے پاس تھا اسنے شکر ادا کیا

وہ اپنا موبائل بہت کم پرس میں رکھتی تھی اس وقت بھی موبائل اسکی شرٹ کی جیب میں ہی تھا جس پر یقینا ان لوگوں نے اتنا دھیان نہیں دیا ہوگا جو اسے یہاں لائے تھے ورنہ اب تک یہ اسکے پاس نہیں ہوتا

اسنے موبائل نکال کر سب سے پہلے عصیرم کو کال ملائی لیکن اسکا نمبر آف جارہا تھا دوسری کال اسنے معتصم کو ملائی جو تیسری ہی بیل پر اٹھا لی گئی تھی

°°°°°

وہ سب ابھی تک وصی کے گھر میں موجود تھے آج انکا ارادہ گاؤں جانے کا تھا اسلیے جانے سے پہلے سب اس وقت لان میں بیٹھے شام کی چائے پی رہے تھے اسکے بعد انہیں نکلنا تھا

"آہان کہاں ہے آئرہ" اس وقت سب ہی لان میں بیٹھے ہوے تھے سواے آہان کے اسکی غیر موجودگی دیکھ کر عالم نے اپنے برابر بیٹھی آئرہ سے پوچھا

"باہر گیا ہوا ہے"

"اسے کہو واپس آے جانے سے پہلے اس سے بھی مل لیں ورنہ وہ تو آفس کے کاموں میں اب اتنا مصروف رہنے لگ گیا ہے کہ بات کرنے کا بھی ٹائم نہیں ملتا"

اسکے کہنے پر آئرہ اپنا سر ہلاکر اندر جانے لگی جب عالم نے اسے پھر پکارا

"کہاں جارہی ہو"

"میرا موبائل اندر ہے عالم"

"اچھا بیٹھ جاؤ میں خود کردیتا ہوں" چاے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر وہ اندر چلا گیا جہاں اندر رکھا معتصم کا فون بج رہا تھا

اسنے حیرت سے نور کا نمبر دیکھا تھوڑی دیر پہلے تو وہ یہاں سے گئی تھی پھر اب کیوں فون کررہی تھی

"ہیلو"

"عالم چاچو" اسکی گھبرائی ہوئی آواز سن کر عالم پریشان ہوا

"نور کیا ہوا ہے"

"مجھے کسی نے کڈنیپ کرلیا ہے"

"کیا کہہ رہی ہو نور کہاں ہو تم اس وقت"

"مجھے نہیں معلوم"اسنے روتے ہوے کہا

"میں نہیں جانتی یہ کون سی جگہ ہے عصیرم بھی فون نہیں اٹھا رہے آپ پلیز مجھے یہاں سے لے جائیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے"

"تم دیکھو بتاؤ تو مجھے تم کس جگہ پر ہو وہاں کوئی تو چیز ہوگی جس سے مجھے جگہ کی پہچان ہو"

اسکے کہنے پر نور وہاں پر جالی سے باہر کا منظر دیکھنے لگی جہاں سڑک ویران پڑی تھی وہ اسے باہر نظر آتا منظر بتانے لگی جسے سن کر عالم کو تھوڑا بہت اندازہ تو ہوگیا تھا کہ نور کہاں ہے

"تم فکر مت کرو میں بس آرہا ہوں تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"

کال کاٹ کر اسنے وہاں رکھا اپنا موبائل اٹھایا اور جلدی سے باہر نکلا جہاں سب لان میں ابھی تک باتوں میں مصروف تھے اس وقت ان سب کو کچھ بتاںا صرف پریشان کرنے والی بات تھی

اسلیے بنا کسی کو کچھ بتاے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا

°°°°°

میٹنگ سے فارغ ہوکر اسنے اپنا موبائل نکالا میٹنگ کے دوران وہ موبائل ہمیشہ سائلنٹ پر رکھتا تھا وہاں نور کی مس کال آئی ہوئی تھی اور اس سے پہلے وہ اسے کال بیک کرپاتا اسکے موبائل پر عالم کی کال آنے لگی

جو اسنے اگلے ہی لمحے پک کرلی

"تم کہاں ہو" اسکی پریشان آواز سن کر عصیرم ٹھٹکا

"میں آفس میں ہوں سب خیر ہے"

"عصیرم نور کڈنیپ ہوگئی ہے"

"کیا مطلب آپ سے کس نے کہا نور کہاں ہے"

"میں تمہیں جگہ بتادیتا ہوں تم جلدی سے وہاں آجاو مجھے یقین ہے نور وہیں ہوگی"

اسے ایڈریس بتاکر عالم نے کال کاٹ دی

اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھا کر عصیرم جلدی سے باہر نکلنے لگا جب اسکے موبائل پر پھر سے کال آنے لگی

°°°°°

"عصیرم خان کیسے ہو"

"کیا بکواس کرنی ہے" آصف لغاری کی آوز سنتے ہی اسنے بےزاری سے کہا جب اگلے ہی پل زہہن میں جھماکہ سا ہوا نور کڈنیپ تھی اور وہ اسے کال کررہا تھا

"تمہاری بیوی اس وقت میرے پاس ہے"

"کیا چاہیے تمہیں"

"نور نام ہے نہ"

"اپنی بکواس بند کرو بتاؤ کیا چاہیے تمہیں"

"تمہاری بیوی کی موت" اسکے کہنے پر عصیم تو جیسے تڑپ ہی اٹھا تھا

"دیکھو آصف تم چاہتے ہو میں سیاست چھوڑ دوں تو میں چھوڑ دوں گا"

"اور وہ ثبوت جو تمہارے پاس میرے غلط کاموں کے ہیں"

"میں وہ بھی جلادوں گا کسی کو نہیں دوں گا تم بس میری بیوی کو کچھ مت کرنا" اسنے جلدی سے کہا جبکہ اسکی بےچینی دیکھ کر آصف لغاری نے قہقہہ لگایا

"میں ایسی کوئی غلطی نہیں کرنے والا تمہارے باپ نے بھی یہی کیا تھا لیکن میں تمہارے معاملے میں یہ بے وقوفی نہیں کروں گا مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں ہے اسلیے میں اسے مار دوں گا"

"تم نے اسے کچھ بھی کیا نہ آصف تو میں تمہیں درد ناک موت دوں گا اذیت بھری" اسنے دانت پیستے ہوے کہا

"بات کرو گے اپنی بیوی سے"

°°°°°

عالم سے بات کرکے اسکے دل کو تھوڑی تسلی ملی اب وہ آرہا تھا اسے بچانے کے لیے وہ دوبارہ عصیرم کو کال ملانے لگی جب دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا اسنے جلدی سے موبائل چھپالیا

"تو تم ہو عصیرم خان کی بیوی" آصف لغاری اسکے قریب آکر اسکے سامنے بیٹھ گیا جس پر نور نے خود کو پورا دیوار سے چپکا لیا

"تمہارا شوہر ہے تم سے بات کرنا چاہتا ہے اسے بلاؤ اس سے بات کرو"اسنے فون نور کے قریب کیا

لیکن وہ خاموشی رہی جس کی وجہ سے آصف لغاری نے اسکے بالوں کو اپنی پکڑ میں لیا

اسکے سر میں چوٹ تو پہلے ہی لگی ہوئی تھی اسکے اتنی سختی سے بال پکڑنے پر چیخ اسکے لبوں سے نکلی جسے سن کر عصیرم مزید بےچینی ہوا اسکا بس نہیں چل رہا تھا اس وقت اڑ کر نور کے پاس جاے اور اسے خود میں چھپا لے

"بلاؤ اسے"

"ع-عصیرم پلیز مجھے یہاں سے لے ج-جائیں" اسنے کپکپاتے لہجے میں کہا اور اس سے پہلے عصیرم کچھ کہہ پاتا آصف لغاری فون کاٹ چکا تھا

اسنے اطمینان سے ایک نظر روتی ہوئی نور کو دیکھا اور اٹھ کر باہر چلا گیا

°°°°°

اسکے جانے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازہ کھولنے لگی شاید اس شخص نے دروازہ لاک نہیں کیا ہو لیکن وہ لاکڈ تھا

اسنے پورے کمرے میں نظریں دوڑائیں جب وہاں ایک اور دروازہ نظر آیا

وہاں جاکر نور نے دروازہ کھولا وہ واشروم تھا جس کی حالت اتنی گندی اور خراب ہورہی تھی کہ نور کا دل متلی ہونے لگا

اسکی نظر وہاں بنی کھڑکی پر گئی وہ اوپر کی طرف بنی ہوئی تھی لیکن اگر نور وہاں تک پہنچ جاتی تو باآسانی اس میں سے نکل سکتی تھی

اپنے دونوں پاؤں واش بیسن پر رکھ کر وہ کھڑی ہوگئی جس کی وجہ سے وہ آرام سے اس کھڑکی تک پہنچ گئی تھی

اسنے کھڑکی کھولی جو کھل ہی نہیں رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کتنے عرصے سے وہ بند ہی پڑی ہے

اسنے زور لگایا اور تھری کوشش کے بعد کھڑکی کھل گئی اسنے کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا زمین سے تھوڑا فاصلہ تو تھا اگر وہ کودتی تو یقینا کہیں چوٹ لگ سکتی تھی لیکن اس وقت یہاں سے نکلنے کا یہی ایک راستہ تھا

جیسے تیسے کرکے وہ اس کھڑکی سے نکل کر کودی جس کی وجہ سے اسکی کھال جگہ جگہ سے چھل چکی تھی

°°°°°

سڑک ویران پڑی تھی وہ وہاں سے بھاگنے لگی جب وہاں گھر کے اوپر کھڑے ایک گارڈ نے اسے دیکھ لیا اور دیکھتے ہی گولی چلادی یہ انکے مالک کا حکم تھا کہ اگر وہ لڑکی کہیں بھاگنے لگے تو اس پر فورا گولی چلا دی جاے

وہ جس طرف کودی تھی وہ بیک سائیڈ تھی گولی کی آواز سن کر دوسری طرف کھڑے گارڈ متوجہ ہوے تھے لیکن یہاں اوپر کھڑا بس وہ ایک واحد گارڈ تھا

ٹھاہ کی آواز اس خاموشی ماحول میں گونجی

نور نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا جہاں سے خون نکل رہا تھا تکلیف اتنی تھی کہ کھڑے ہونا بھی مشکل لگ رہا تھا

وہ لاڈوں میں پلی تھی جس کی چھوٹی سی چوٹ پر ہی پوری حویلی کے افراد پریشان ہو جاتے اسکے بھائیوں نے کبھی اسے ایک کانٹا تک چبنے نہیں دیا اور یہاں اسے گولی لگ گئی تھی کیسے برداشت کرتی وہ اس درد کو

گارڈ نے بندوق کا رخ اسکی جانب کیا اور مزید گولیاں چلائیں لیکن اس بار گولیاں نور کے نہیں بلکہ عالم کے لگیں تھیں جو اوپر کھڑے گارڈ کی بندوق کا رخ اسکی جانب دیکھ کر کسی ڈھال کی طرح اسکے سامنے جاکھڑا ہوا تھا

اسنے اس وقت کریم کلر کا کمیز شلوار پہن رکھا تھا جو اس پر گولی لگنے کی وجہ سے سارا خون میں بھر چکا تھا

"ن-نور میرا ب-بچہ" تکلیف سے ہونٹ بھینچ کر اسنے نور کو پکارا جو بےہوش ہوچکی تھی

اس سے پہلے وہاں مزید کسی کا خون بہتا پولیس وہاں پر آچکی تھی

آصف لغاری تو پہلے ہی یہاں سے جاچکا تھا باقی وہاں موجود گارڈز کو پولیس اپنی حراست میں لے چکی تھی

"ایمبولینس بلاؤ فورا" ان دونوں کو خون میں لت پت دیکھ کر عصیرم چلایا

"نور نور میری جان اٹھو دیکھو میں آگیا"اسنے بھیگی آنکھوں سے نور کے خون میں لت پت وجود کو اپنی بانہوں میں بھر کر پکارا

اسکی آنکھیں بھیگ رہی تھیں پہلے ماں باپ کو وہ کھو چکا تھا اب نور کو کھونے کی ہمت نہیں تھی

اسکی بےرونق زندگی میں وہ نور بن کر آئی تھی جس نے ہر طرف روشنی بکھیر دی تھی وہ کیسے اسے کھونے دیتا

"نور پلیز ایک بار آنکھیں کھولو دیکھو تمہارا عصیرم آگیا ہے اٹھو ایک بار مجھے دیکھو تو سہی دیکھنا میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا اور اگر تمہیں کچھ ہوا تو خدا کی قسم خود کو بھی ختم کرلوں گا"

وہ بھیگے لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا جسے اس وقت کسی بات کا ہوش ہی نہیں تھا

ایمبولینس کے وہاں آتے ہی اسنے جلدی سے عالم اور نور کو اس میں ڈالا

ان دونوں کا خون پہلے ہی بہت بہہ چکا تھا نور کو ایک گولی لگی تھی جبکہ عالم کو تین

°°°°°

گم سم سا وہ اس وقت سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا جب اچانک کسی نے اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا

"تمہاری وجہ سے ہوا ہے نہ یہ سب میری بہن اس وقت اس حال میں تمہاری وجہ سے ہے" غصے سے وہ اس پر چلارہا تھا اور عصیرم غائب دماغی سے اسکی باتیں سن رہا تھا

"ماہر چھوڑو اسے" معتصم نے آگے بڑھ کر اس سے عصیرم کو دور کیا وہ سب ہی جان چکے تھے کہ اس سب کے پیچھے آصف لغاری کا ہاتھ ہے جس کا سب سے بڑا دشمن عصیرم خان ہے یقیناً عصیرم کی وجہ سے ہی اسنے نور کے ساتھ یہ سب کیا تھا

"کیسے چھوڑ دوں نور اور بڑے بابا اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں صرف اس شخص کی وجہ سے"

"ماہر تو میرے ساتھ چل "ساحر نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑا جسے جھٹک کر وہ خود ہی غصے سے وہاں سے چلا گیا

"ساحر اسکے پیچھے جاؤ" عصیم کے کہنے پر وہ اپنا سر ہلاکر اسکے پیچھے چلا گیا جب زریام عصیرم کے قریب آیا

"اسنے کچھ غلط نہیں کہا عصیرم نور کی اور میرے باپ کی اس حالت کے تم ذمیدار ہو تم نے کہا تھا اس کی حفاظت کرو گے یہ حفاظت کی ہے تم نے اسکی" وہ ماہر کی طرح چیخ نہیں رہا تھا لیکن غصہ اسکے لہجے سے صاف جھلک رہا تھا

"یاد رکھنا عصیرم علی خان اگر میری بہن کو کچھ بھی ہوا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا"

وہ کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا جبکہ اسکے کہنے پر عصیرم اسے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ اگر اسکی نور کو کچھ ہوا تو وہ خود اپنے آپ کو ختم کرلے گا

°°°°°

"بیٹھ جاؤ عصیرم پریشان مت ہو دیکھنا انشاء اللہ نور کو کچھ نہیں ہوگا" معتصم نے اسے واپس بٹھایا اور خود اسکے برابر بیٹھ گیا

وہ باپ تھا اور بھائی بھی اس وقت اسکے دو قیمتی رشتے زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے تھے اسکی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں اپنے آنسو پر اسنے مشکل سے بندھ باندھا ہوا تھا اسے تسلی چاہیے تھی لیکن اس وقت اس سے زیادہ تسلی کی ضرورت عصیرم کو تھی جو اس وقت کسی ہارے ہوے انسان کی طرح بیٹھا پڑا تھا

"آپ نے ٹھیک کہا تھا" کچھ دیر خاموشی کے بعد اسنے آہستہ آواز میں کہا جس پر معتصم گہرا سانس لے کر رہ گیا جانتا تھا وہ کس بارے میں بات کررہا ہے

"آپ نے کہا تھا میں اپنی وجہ سے اسکی جان بھی خطرے میں ڈال دوں گا میں نے ڈال دی معتصم انکل آج نور میری وجہ سے اس حال میں ہے اگر میں اسکی زندگی میں نہیں ہوتا تو آج وہ اس حال میں نہیں ہوتی"

"عصیرم اگر تم میری بیٹی کی زندگی میں نہیں ہوتے تو وہ شاید اتنی خوش باش زندگی نہیں گزار رہی ہوتی ماہر نے جو کچھ بھی کہا ہے غصے میں کہا ہے اسکی باتوں کی وجہ سے پریشان مت ہو"

"تم جانتے ہو نہ میں نے اپنی بیٹی کو بہت نازو سے پالا ہے کسی اور کو اسے سونپتا تو ہمیشہ اسکی فکر رہتی لیکن وہ تمہارے ساتھ ہے اور یہی بات مجھے ہمیشہ بےفکر رہنے پر مجبور کرتی ہے یہاں بیٹھے رہنے سے تمہیں تمہاری نور واپس نہیں ملے گی عصیرم"

"تو کیسے ملے گی" اسنے نظریں اٹھا کر معتصم کو دیکھا

نیلی آنکھیں آج ویران اور خالی خالی نظر آرہی تھیں

"اللہ سے مانگو ، اسے مانگو ، اسکی زندگی مانگو"

اسکے کہنے پر عصیرم نے گہرا سانس لے کر اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا

°°°°°

"آئرہ آپی پانی پی لیں" کسوا نے پانی اسکی طرف بڑھایا کب سے یہاں بیٹھی وہ بس روے ہی جارہی تھی

"مجھے نہیں پینا"

"آپ فکر کیوں کررہی ہیں کچھ نہیں ہوگا عالم لالا کو آپ دیکھیے گا"

"ہاں مجھے پتہ ہے کچھ نہیں ہوگا لیکن میں جب تک انہیں دیکھ نہ لوں مجھے سکون نہیں ملے گا" اسنے بھرائی آواز میں کہا اور گال پر پھسلتے آنسو صاف کرنے لگی

°°°°°

"اے اللہ میں ایک عام سا بندہ ہوں جو آج تو کے آگے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ رہا ہے بیشک تو اپنے بندوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا"

"جانتا ہوں میں بہت گناہ گار ہوں پر تو تو رحم و کریم ہے یا رب بےشک تو اپنے بندوں پر انکی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"

"میں تھک چکا تھا اکیلے تنہا زندگی گزارتے گزارتے نور میری زندگی میں آئی اور اب میں اسے نہیں کھونا چاہتا سے اللہ تو میرا سب کچھ مجھ سے لے لے بس میری نور مجھے واپس دے دے اسے زندگی دے دے اسکے بنا میرا کوئی وجود نہیں ہے"

"وہ میری زندگی جینے کی وجہ ہے جس نے میری زندگی کو روشنیوں سے بھر دیا اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں پھر سے اندھیرے میں چلا جاؤں گا اور میں پھر سے اندھیرے میں نہیں جانا چاہتا رحم کر مولا بیشک تو نہایت رحم کرنے والا ہے"

اس وقت وہ روتے ہوے دعا مانگ رہا تھا اپنی زندگی مانگ رہا تھا دعا میں زندگی جینے کی وجہ مانگ رہا تھا

اس پاک ذات سے جو اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے روتے تڑپتے بندے کو خالی ہاتھ لوٹا دیتا

°°°°°

اس وقت وہ ایک ہی جگہ پر نظریں جمائے کھڑی تھی معتصم نے دور سے اسے وہاں کھڑے دیکھا اور جاکر اسکے قریب کھڑا ہوگیا

وہ عصیرم کو دیکھ رہی تھی جو پرئیر روم میں بیٹھا ہوا ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھاے رو رہا تھا

"کیا دیکھ رہی ہو" اسکی نظریں مسلسل روتے ہوے عصیرم پر دیکھ کر معتصم نے پوچھا

وہ عصیرم خان تھا ایک مشہور سیاستدان مظبوط مرد جو آج اپنا سب کچھ بھلاے کسی بچے کی طرح ایک لڑکی کے لیے رو رہا تھا

"دیکھ رہی ہوں میری بیٹی کتنی خوش نصیب ہے میں نے ایک بار پڑھا تھا معتصم کہ وہ عورت خوش نصیب ہوتی ہے جس کے لیے مرد ہوتا ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ میری بیٹی بھی ان خوش قسمت عورتوں میں شامل ہوگی"

اسنے نظریں اٹھا کر معتصم دیکھا

"نور کو کچھ نہیں ہوگا"

پتہ نہیں وہ بتارہی تھی یا پوچھ رہی تھی معتصم نے سر ہلاکر نرمی سے اسے اپنے ساتھ لگایا

"ہماری بیٹی کو کچھ نہیں ہوگا"

°°°°°

ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی وہ سب بےچینی سے انکے قریب گئے

"آئی ایک سوری مسٹر خان"

ڈاکٹر کے کہنے پر عصیرم کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہورہا تھا

"ہم آپ کے بچے کو نہیں بچا سکے" اسے ایسا لگ رہا تھا وہ اگلی سانس نہیں لے پاے گا

جبکہ ڈاکٹر کی بات سن کر وہاں بیٹھے سب ہی افراد حیرت میں جاچکے تھے

"ب-بچہ"

"جی آپ کی وائف پریگنینٹ تھیں"

ڈاکٹر کے کہنے کر اسنے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری

"میری بیوی وہ کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نہ"

"جی آپ کی بیوی اب خطرے سے باہر ہیں" اسنے سکون بھرا سانس لیا اور دل میں خدا کا شکر ادا کجا

"اور عالم انکل مطلب دوسرا پیشنٹ"

"انکے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے آپ لوگ بس دعا کریں"

ڈاکٹر کہہ کر وہاں سے جاچکی تھیں جبکہ انکے الفاظ سن کر آئرہ نے اپنا دل تھام لیا

تھوڑی دیر پہلے نور کے ٹھیک ہونے کی خبر سن کر وہ سب لوگ جہاں مطمئن ہوگئے تھے وہیں عالم کے بارے میں سن کر اب وہ سب پھر سے بےسکون ہوچکے تھے

°°°°°

"اماں سائیں آپ صبح سے ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہیں کچھ کھایا بھی نہیں ہے پلیز گھر جاکر تھوڑی دیر آرام کرلیں"

زریام کے کہنے پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں میں عالم کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی جب انہیں ہوش آے گا اور میں یہاں نہیں ہوں گی تو انہیں برا لگے گا"

"نہیں لگے گا بلکہ اگر آپ کو یہاں دیکھا تو برا ضرور لگے گا کہ آپ انکی وجہ سے سارا دن ایسے ہی بنا کچھ کھاے پیے بیٹھی ہیں "

"میں کہیں نہیں جاؤں گی زریام"

"اماں سائیں آپ کو میری قسم"

زریام کے کہنے پر اسنے بےبسی سے اسکی طرف دیکھا

"پلیز جائیں وعدہ کرتا ہوں جیسے ہی بابا سائیں کو ہوش آے گا سب سے پہلے آپ کو اطلاع دوں گا پلیز گھر جائیں تھوڑی دیر آرام کرلیں"

"زریام"

"اچھا ٹھیک ہے تھوڑی دیر آرام کرنے بعد واپس آجائیے گا پر پلیز ابھی جائیں"

"پھر تم یہاں سے اٹھنا مت اور بار بار ڈاکٹر سے پوچھتے رہنا اور مجھے بتاتے رہنا"اسکے کہنے پر زریام نے اپنا سر ہاں میں ہلایا اور آہان کے ساتھ اسے باہر بھیج دیا

°°°°°

اسنے آہستہ سے اسکے کمرے میں قدم رکھا تھوڑی دیر پہلے ہی اسے روم میں شفٹ کیا گیا تھا جبکہ ہوش اسے ابھی تک نہیں آیا تھا

اسکے قریب جاکر عصیرم اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا

اسنے اپنا ہاتھ نرمی سے نور کے پیٹ پر رکھا اسے گولی لگی تھی پیٹ پر

کتنی تکلیف ہوئی ہوگی نہ اسکی نور کو اور اس جان کو بھی جس سے سب ہی اب تک لاعلم تھے

وہ باپ بننے والا تھا اور اسے پتہ ہی نہیں تھا خوش خبری ملی بھی تو تب ہی چھن بھی گئی

لیکن اسے کوئی گلہ نہیں تھا وہ تو خدا کا شکر ادا کرتے کرتے نہیں تھک رہا تھا جس نے اسکی بیوی کو واپس اسے دے دیا تھا

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسنے گھڑی میں ٹائم دیکھا جہاں رات کا ایک بجنے والا تھا وہ جلدی سے اٹھی

گھر آکر وہ بس چند لمحوں کے لیے لیٹی تھی جب اسکی آنکھ لگ گئی اسے حیرت ہورہی تھی وہ بھلا کیسے سوگئی

وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی اسے یہاں سے جانا تھا اس وقت اسے بس عالم کو دیکھنا تھا

°°°°°

ہاسپٹل پہنچتے ہی وہ سیدھا اس سائیڈ پر گئی جہاں وہ پہلے بیٹھی ہوئی تھی اس وقت بھی سب وہیں بیٹھے تھے

"زریام عالم کیسے ہیں انہیں ہوش آگیا"

اسنے زریام کے پاس آکر جلدی سے کہا

"اماں سائیں آپ یہاں کیا کررہی ہیں میں نے کہا تھا نہ میں آپ کو خود فون کردوں گا"

"تم مجھے بتاؤ عالم ٹھیک ہیں"

"جی وہ ٹھیک ہیں لیکن ابھی ہوش نہیں آیا ڈاکٹر انہیں چیک کررہے ہیں"

وہ اسے باقی کی تفصیل بتانے لگا جب نرس آئی سی یو سے نکل کر تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی

ایک دم سے جیسے وہاں بھگ دڑ مچ چکی تھی جسے دیکھ کر آئرہ کا دل ڈوبا جارہا تھا

"یہ سب کیا ہورہا ہے زریام"اسنے گھبرا کر زریام کا بازو ہلایا لیکن اس سے پہلے وہ اسے کوئی تسلی بھرا جواب دے پاتا ڈاکٹر روم سے باہر نکلے جنہیں دیکھ کر آئرہ جلدی سے انکے قریب گئی

"ڈاکٹر میرے ہزبینڈ کیسے ہیں"

"آئی ایم سوری مسز عالم ہم نے پوری کوشش کی لیکن انکی اتنی ہی زندگی تھی"

آئرہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ انکے کہے لفظ سن رہی تھی آئی ایم سوری کتنا آسان ہوتا ہے نہ یہ لفظ کہنا چاہے بھلے سامنے والی کی ساری دنیا کی اجڑ جاے

ہوش میں آتے ہی وہ جلدی سے اندر گئی جہاں بند آنکھوں کے ساتھ عالم کا بےجان وجود پڑا ہوا تھا

اسکی آنکھیں بند تھیں اور آج تو اسکا ڈمپل بھی غائب تھا

"عالم"

اسکے قریب جاکر آئرہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے اسکے چہرے کو چھوا

"ع-عالم اٹھیں دیکھیں ڈاکٹر کیا کہہ رہے ہیں مجھے پتہ ہے ایسا کچھ نہیں ہے آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے پلیز اٹھیں" اسکا چہرہ تھپتھپاتے ہوے وہ اسے اٹھانے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ کیسے اٹھتا وہ جاچکا تھا

"آئرہ وہ مرچکا ہے" اسکی حالت دیکھ کر عصیم نے کہا اسے بتانا چاہا کہ عالم شاہ اب نہیں رہا تھا لیکن آئرہ نے اسکی بات پر دھیان نہیں دیا تھا

وہ بس روتے ہوے عالم کو اٹھانے کی کوشش کررہی تھی

اسکے آنسو عالم کے چہرے پر گررہے تھے لیکن آج وہ ہمیشہ کی طرح اسکے بہتے آنسو دیکھ کر تڑپا نہیں تھا

"تو تم میرے لیے رو اسکے لیے کیا مجھے بھی مرنا پڑے گا"

"تمہیں میرے پیار کی قدر نہیں ہے آئرہ قدر کرلو اس سے پہلے دیر ہوجاے"

اسے عالم کی باتیں یاد آرہی تھیں جنہیں یاد کرکے اسکے رونے میں مزید اِضافہ ہورہا تھا

"عالم پلیز اٹھیں نہ مجھے اپنا ڈمپل دکھائیں پلیز اٹھ جائیں کبھی آپ کو بات نہیں ٹالوں گی جو کہیں گے وہ کروں گی بس آپ اٹھ جائیں"

اسکی حالت دیکھ کر وہاں ہر کسی کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں لیکن اسے چپ کرانے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہورہا تھا

زریام اپنے آنسو صاف کرکے آگے بڑھا اور اسے عالم سے دور کیا

"اماں سائیں بابا سائیں اب نہیں رہے"

"تم کیسے یہ بات کہہ سکتے ہو"

اسکے کہنے پر زریام چیخا اس وقت آئرہ کو نرمی سے کوئی بات سمجھ نہیں آنی تھی

"اماں سائیں مر چکے ہیں بابا سائیں چلے گئے ہمیں چھوڑ کر"

"زریام نہیں ایسے مت کہو"

اس سے دور ہوکر وہ واپس عالم کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگی جب زریام نے اسے واپس کھینچ کر مظبوطی سے اپنے سینے سے لگالیا

"زریام چھوڑو مجھے"

"اماں سائیں وہ مر چکے ہیں اب واپس نہیں آنے والے"وہ کس طرح ان لفظوں کو ادا کررہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا

اسکے کہنے پر آئرہ کے رونے میں مزید شدت آئی وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی اور زریام بس ضبط سے اسے اپنے سینے سے لگائے کھڑا

اسنے بھیگی نظروں سے عالم کو دیکھا جب وہاں کھڑے وارڈ بوائے نے چادر اسکے چہرے تک ڈال کر اسکا چہرہ چھپا دیا

زریام نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں جس کی وجہ سے آنکھوں میں بیٹھے آنسو گال پر بہہ نکلے یہ منظر دنیا کا سب سے خوفناک منظر لگ رہا تھا

عالم شاہ نہیں رہا تھا وہ چلا گیا تھا اور اپنے ساتھ جڑے کتنے ہی رشتے بکھیر گیا تھا

°°°°°

"عالم"

وہ ہڑبڑا کر اٹھی سارا وجود پسینے میں بھیگا ہوا تھا جب کے دل تیز تیز دھڑک رہا تھا

وہ خواب دیکھ رہی تھی ایک خوفناک خواب

آنکھ کھلتے ہی اسنے گھڑی میں ٹائم دیکھا جہاں رات کا ایک بجنے والا تھا وہ جلدی سے اٹھی

گھر آکر وہ بس چند لمحوں کے لیے لیٹی تھی جب اسکی آنکھ لگ گئی اسے حیرت ہورہی تھی وہ بھلا کیسے سوگئی

اسے یہ نہیں پتا تھا کہ ہاسپٹل میں زریام اسے پانی میں نیند کی گولی ڈال کر دے چکا تھا جس کی وجہ سے وہ اتنے آرام سے سوئی رہی

وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی اسے یہاں سے جانا تھا اس وقت اسے بس عالم کو دیکھنا تھا

°°°°°

عصیرم ہاسپٹل کے باہر کھڑا فون پر بات کررہا تھا جب اسکے فون رکھتے ہی ماہر اسکے قریب آیا

"شاید میں نے کچھ زیادہ ہی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تھا"

اسکے کہنے پر عصیرم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر نفی میں ہلایا

"نہیں تم اپنی جگہ سہی تھے میں جانتا ہوں اپنوں کو کھونے کا دکھ کیا ہوتا ہے اس وقت تمہاری کیفیت کیا تھی میں سمجھ سکتا ہوں مجھے تمہاری کسی بات کا برا نہیں لگا"

"اچھا پھر نور سے یہ بات ڈسکس تو نہیں کرو گے نہ"

"مطلب معذرت اس وجہ سے ہوئی ہے تاکہ میں نور سے یہ سب نہ کہہ دوں"

"نہیں بعد میں مجھے خود بھی اپنے رویے کا احساس ہوا تو کہہ دیا ہاں لیکن نور کو پتہ چلا میں نے اسکے شوہر کو یہ سب کہا ہے تو ازے یقیناً اچھا نہیں لگے گا"

"ایسی کوئی بڑی بات نہیں ہوئی ہے ماہر میں نور سے کچھ نہیں کہنے والا چلو اندر چلتے ہیں"

موبائل جیب میں ڈال کر وہ ماہر کے ساتھ اندر چلا گیا

°°°°°

"زریام عالم کیسے ہیں وہ ٹھیک تو ہیں نہ انہیں ہوش آ گیا" ہاسپٹل پہنچتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی زریام کے پاس گئی

"اماں سائیں آپ اس وقت یہاں کیوں آئی ہیں صبح آجاتیں"

"عالم کیسے ہیں بتاؤ مجھے"

"وہ بلکل ٹھیک ہیں ہوش نہیں آیا لیکن اب وہ خطرے سے باہر ہیں" اسکے کہنے پر آئرہ نے سکون بھرا سانس لیا

"مجھے ان سے ملنا ہے انہیں دیکھنا ہے"

اسکے کہنے پر زریام اپنا سر ہاں میں ہلاکر اسے اس کمرے کی طرف لے گیا جہاں عالم کو شفٹ کیا گیا تھا

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے بیڈ پر لیٹے عالم کو دیکھا جس کے وجود پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں

آئرہ اسکے قریب گئی اور کرسی بیڈ کے پاس کھینچ کر بیٹھ گئی

جب تک عالم کو ہوش نہیں آنا تھا تب تک اسے بھی اطمینان نہیں ہونا تھا

اسنے عالم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور نرمی سے اسکے ہاتھ پر اپنے لب رکھ دیے

چند آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے جنہیں صاف کرکے اسنے اپنا سر عالم کے ہاتھ پر رکھ دیا

ابھی کچھ دیر ہی اسے لیٹے ہوے ہوئی تھی جب عالم کی آواز اسکے کانوں میں پڑی

"کیا حالت بنا رکھی ہے آئرہ اجڑا چمن لگ رہی ہو"

اسکی آواز سن کر آئرہ نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا

"آپ ٹھیک ہیں عالم"

"ہاں میں ٹھیک ہوں نور کہاں ہے وہ کیسی ہے"

"وہ بلکل ٹھیک ہے عالم"

"اور تم کیسی ہو" عالم نے اسکی روئی روئی آنکھوں کو دیکھ کر پوچھا

"میں ٹھیک نہیں ہوں پتہ ہے آپ نے ہم سب کو کتنا ڈرا دیا تھا"

"کیا بات کررہی ہو تم واقعی میں ڈر گئی تھیں"

اسے تین گولیاں لگی تھیں اس وقت وہ زخمی تھا لیکن اسکے چہرے پر تکلیف کا نام و نشان نہیں تھا وہ آرام سے باتیں کررہا تھا

"ہاں"

"مطلب تم میرے کیے روئی بھی تھیں" اسکے کہنے پر آئرہ نے حیرت سے اسے دیکھا یہ بات کرنے کا بھلا کیا مقصد تھا

"نہیں میں بلکل نہیں روئی"

"یہ تو غلط بات ہے عصیرم کے باپ کے مرنے پر تو تم روئی تھیں"

"عالم آپ فضول باتیں بند کریں آپ کو آرام کی ضرورت ہے سکون سے سوجائیں"

"میرا سکون تو تم لوٹ چکی ہو کیا تم واقعی میرے لیے نہیں روئی تھیں آئرہ مطلب مجھے واقعی میں مرنا پڑتا تب تم"

اسنے بےاختیار اپنا ہاتھ عالم کے لبوں پر رکھا

"روئی تھی میں عالم آپ کی حالت دیکھ کر روئی تھی ایک پل کے لیے بھی مجھے سکون نہیں ملا تھا اور ملتا بھی کیسے آپ تکلیف میں جو تھے اور اب اپنی ان باتوں سے آپ مجھے مزید تکلیف دے رہے ہیں"

"اوکے ساری مطلب سوری"

اسکے کہنے پر آئرہ نے ہلکے سے مسکرا کر اپنا چہرہ جھکا لیا عالم ٹھیک تھا اور اسے ٹھیک دیکھ کر اب وہ بھی بلکل ٹھیک ہوچکی تھی

"ویسے سچ میں روئی تھیں یا ایسے ہی کہہ رہی ہو" اسکے پھر سے وہی بات کہنے پر آئرہ نے جھنجھلا کر اسکے بازو پر ہاتھ مارا جس سے عالم کے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات آے اور آئرہ کو اپنی بےاختیاری کا احساس ہوا

کیونکہ ایک گولی اسکے بازو پر لگی تھی

"سو سوری آپ ٹھیک ہیں میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں"

تیزی سے کہتی ہوئی وہ وہاں سے جانے لگی جب عالم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا

"ک-کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے میرے ساتھ ہی رہو"

"لیکن آپ کو درد ہورہا ہے"

"تم ہونا میرے درد کی دوا"

"آپ سوجائیں عالم"

آئرہ کے کہنے پر اسنے شرافت سے اپنی آنکھیں بند کرلیں جبکہ ہاتھ میں پکڑے آئرہ کے ہاتھ پر اسکی گرفت مزید سخت کرلی

°°°°°

عالم کے ہوش میں آتے ہی سب نے جیسے سکون کا سانس لیا

وہ دونوں ٹھیک تھے اور یہ خدا کا کرم ہی تو تھا

نور جب سے ہوش میں آئی تھی تب سے کوئی نہ کوئی اسکے پاس آے جارہا تھا جس کی وجہ سے عصیرم ٹھیک سے اسکے پاس بیٹھ بھی نہیں پارہا تھا اسنے تو ابھی تک نور کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا اسکی آواز بھی نہیں سنی تھی

اور شاید دل میں چھپی یہ بات معتصم سن چکا تھا اسلیے سب کو کمرے سے باہر نکال کر لے گیا ان سب کے جاتے ہی عصیرم اسکے پاس آکر اسے دیکھنے لگا جو آنکھیں بند کیے لیٹی پڑی تھی

عصیرم نے آگے بڑھ کر اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے جب اسکا لمس پاکر نور نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

"تم ٹھیک ہو"

"میں ٹھیک ہوں"

"درد ہورہا ہے"عصیرم نے اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ کر پوچھا جس پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا

"پھر کیا ہوا ہے"

"میری وجہ سے ہمارا بےبی نہیں رہا"

"تم جانتی تھیں اس بارے میں" اسے حیرت ہوئی اسنے سب سے یہی کہا تھا کہ نور کو اس بارے میں کچھ پتہ نہ چلے بتانے سے وہ صرف دکھی ہوتی

"ہاں میں اسی لیے گھر آرہی تھی میں کل آئرہ چاچی کے ساتھ ہاسپٹل گئی تھی تو جب مجھے پتہ چلا اسلیے میں آج آپ کے پاس آرہی تھی کیونکہ میں چاہتی تھی آپ کو سرپرائز دوں میں نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی اور چاچی کو بھی منع کردیا تھا کیونکہ میں یہ بات سب سے پہلے آپ کو بتانا چاہتی تھی"

وہ روتے ہوے اسے ہر بات بتا رہی تھی اور عصیرم نرمی سے اسکے آنسو صاف کررہا تھا

"یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے اگر میں ایسے اکیلے نہیں آتی تو یہ سب نہیں ہوتا عالم چاچو بھی میری وجہ سے اس حال میں ہیں"

"نہیں میری جان تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا ہے اور عالم انکل بھی اب بلکل ٹھیک ہیں"

"لیکن بےبی تو نہیں"

عصیرم نے نرمی سے اسکے لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا

"جو ہوچکا ہے ہم اسے بدل نہیں سکتے نور ہماری قسمت میں جب خدا نے اولاد لکھی ہوگی ہمیں مل جاے گی میرے لیے اس وقت جو سب سے اہم چیز ہے وہ تم ہو اور تم میرے پاس ہو مجھے اسکے علاؤہ اور کچھ نہیں چاہیے"

اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے وہ وہیں اسکے پاس بیٹھ گیا اسکی اپنے قریب موجودگی دیکھ کر نور نے اپنی بھیگی آنکھیں بند کرلیں اور پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی

°°°°°

عالم اور نور کے ہاسپٹل سے آتے ہی معتصم اور عصیم کتنی ہی بار صدقہ دے چکے تھے

معتصم نور کو اپنے ساتھ گھر لے جانا چاہتا تھا وہاں لوگ زیادہ تھے اس کا دھیان آسانی سے رکھ سکتے تھے

لیکن عصیرم اسے منع کرچکا تھا نور اسکی بیوی تھی اسکی ذمیداری اور اپنی ذمیداری اسے اچھے سے نبھانی آتی تھی

°°°°°

"کیا چاہیے عالم" اسے درازے کھنگالتے دیکھ کر آئرہ نے پوچھا جو ابھی ابھی کمرے میں آئی تھی اسکے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں دودھ کا گلاس اور میڈیسن رکھی ہوئی تھیں

"میرا پرس نہیں مل رہا ہے"

اتنے دنوں سے اسکی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی اسلیے اسے آج اسے اپنا والٹ یاد آیا تھا جو کہیں مل ہی نہیں رہا تھا

"وہ یہاں نہیں ہے میں نے ہر جگہ دیکھ لیا تھا ہوسکتا ہے باہر گر گیا ہو''

آئرہ کے کہنے پر اسنے زہہن پر زور دیا جب وہ وصی کے گھر سے نکلا تھا تو اسکا والٹ جیب میں ہی تھا افراتفری میں یقینا وہ اسی جگہ گرگیا ہوگا

"گر گیا ہوگا"

"وہی تو کہہ رہی ہوں"اسنے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی

"یہ کیا ہے"

"یہ دوائی ہے اور یہ دودھ ہے"اسنے ایسے بتایا جیسے عالم کو سچ میں پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا لائی ہے

'میں صرف دودھ پیوں گا"

"اور دوائی کون کھاے گا"

"وہ تم کھا لینا ویسے بھی تم کھاؤ میں کھاؤں بات تو ایک ہی ہے"اسکی عجیب سی بات کو اگنور کرکے آئرہ نے گولیاں اسکی ہتھیلی پر رکھیں

"تم تنگ نہیں آتی ہو ان کاموں سے کتنی پابندی سے تم یہ کام کرتی ہو کبھی بھول بھی جایا کرو"

"تنگ میں آپ کی حرکتوں سے آتی ہوں لیکن پھر خود کو مطمئن کرلیتی ہوں انسان بڑھاپے میں ایسی حرکتیں کرتا ہے"

"میرے لیے ایسا الفاظ استعمال کرکے تم سراسر زیادتی کرتی ہو"

اسنے منہ بنا کر گولیاں نگلیں اور آئرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب بٹھایا

"آج کے بعد یہ چیز مجھے مت دینا"

"لیکن آپ کو کھانی پڑے گی جب تک آپ مکمل ٹھیک نہیں ہوجاتے"

"اچھا خاصا دیسی بندہ ہوں ان چیزوں کی مجھے ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ منہ کا ذائقہ بگڑ چکا ہے اسے درست کردو"

اسے اپنے بےحد نزدیک کیے عالم اسکے لبوں پر جھک گیا جس پر آئرہ جلدی سے اس سے دور ہوئی

"توبہ ہے عالم بیمار ہیں آپ کچھ تو خیال کریں"

"میں اگر بیمار ہوں تو میری اصل دوائی یہی ہے صبح دوپہر شام دیتی رہو گی تو دیکھنا کسی اور دوائی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی"

اسکے کہنے پر آئرہ بس اسے گھور کر رہ گئی

°°°°°

"نور کھاؤ اسے"

اسنے ٹیبلیٹ اور پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا جس پر اسنے منہ بنا کر اپنا چہرہ پیچھے کرلیا

آج کل وہ کچھ زیادہ ہی نخرے کرنے لگی تھی جنہیں عصیرم بنا تھکے یا کچھ کہے آرام سے اٹھاتا تھا

"نہیں کھانی مجھے یہ بہت کڑوی ہے"

"تم اسے کھاؤ گی تو میں تمہارے لیے سوئیٹ ڈش لے کر آؤں گا"

"کل بھی یہی کہا تھا کہ آئس کریم کھلائیں گے لیکن کوئی نہیں کھلائی تھی"

"اچھا تو آج پکا کھلاؤں گا پہلے اسے کھاؤ"

منہ بگاڑ کر اسنے گولی اپنی نرم ہتھیلی پر لی اور عجیب و غریب تاثرات کے ساتھ نگل گئی

"اب لائیں میری سوئیٹ ڈش"

"میں یہاں ہوں تو تمہیں کسی اور سوئیٹ ڈش کی بھلا کیا ضرورت ہے"

اسکا چہرہ اپنے قریب کرکے عصیرم اسکے لبوں پر جھک گیا جس پر نور نے اپنی آنکھیں میچ لیں

"یہ چیٹنگ ہے" لبوں کو آزادی ملتے ہی اسنے سرخ چہرے کے ساتھ کہا

"مطلب اور چاہیے" شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجاے وہ پھر سے اسکے لبوں پر جھکنے لگا جب نور نے اسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا

"عصیرم میں بیمار ہوں"

"اسی لیے ابھی تک تم سے فاصلہ قائم رکھا ہوا ہے"

اپنے لبوں پر رکھا نور کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسنے اسکے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے

°°°°°

"آخری ملاقات کرنے آیا تھا تم سے"

عصیرم نے اسکے اوپر پانی ڈال کر اسے ہوش دلایا جو نڈھال سا گردن جھکائے کرسی پر بندھا ہوا تھا

کتنے وقت سے آصف لغاری اسکے پاس موجود تھا جسے وہ اپنے انداز میں ازیت دے کر اس تکلیف کا بدلہ لینا چاہ رہا تھا جو اسنے اسکی نور کو دی تھی

"میں تمہیں آج آزاد کرنے آیا ہوں" اسکے کہنے پر آصف لغاری نے اسکی طرف دیکھا

اسکی حالت اس وقت اتنی خراب تھی کہ اس سے کچھ بولا بھی نہیں جارہا تھا اسکی حالت قابل رحم تھی لیکن عصیرم کو اس پر بلکل بھی رحم نہیں آرہا تھا

وہ شخص اسکے ماں باپ کا قاتل تھا اس شخص کی وجہ سے اسکے ماں باپ اس سے دور ہوگئے اسنے برداشت کرلیا لیکن اب وہ شخص اسکی زندگی کی اکلوتی خوشی اس سے دور لے کر جانے والا تھا عصیرم کیسے اسے چھوڑ دیتا

"م----معا--ف"

"معافی کا وقت گزر چکا ہے"

اسنے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنے ساتھ کھڑے اپنے پرسنل گارڈ کو باہر آنے کا اشارہ کرکے خود اس چھوٹے سے گھر سے باہر نکل گیا

وہ گھر کم اور کھنڈر زیادہ لگ رہا تھا جو کسی ویرانے میں بنا ہوا تھا

گھر سے باہر نکلتے ہی اسنے گارڈ کو اشارہ کیا جسے دیکھتے ہی اسنے اس گھر کے ایک حصے کو جلا دیا

سارا انتظام تو عصیرم کے کہنے پر وہ پہلے ہی کرچکا تھا بس انتظار تھا تو عصیرم کے اشارے کا

آہستہ آہستہ آگ سارے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور عصیرم کتنی ہی دیر تک کھڑا اس جلتے گھر کو دیکھتا رہا جس میں آصف لغاری بھی جل رہا تھا

°°°°°

عالم اور نور کے صحت یاب ہوتے ہی گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں

لیکن شادی عزہ اور حوریب کی ڈیلیوری کے بعد ہونی تھی

°°°°°

چکر آنے کے باعث دھڑام سے وہ زمین پر گری جبکہ ساتھ کھڑی پریشے اور کسوا اسکے گرنے سے پریشان ہوکر اسے دیکھنے لگی

"آئرہ"

پریشے نے پریشانی سے اسکا گال تھپتھپایا جبکہ اسے ہوش میں نہ آتے دیکھ کر کسوا بھاگتے ہوے باہر گئی

جہاں سب لاونج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے

"عالم لالا آئرہ آپی کچن میں بےہوش ہوگئی ہیں"

اسکے کہنے پر عالم سمیت سب پریشانی سے کچن میں طرف گئے جہاں پریشے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھی

"آئرہ کیا ہے اسے"

"مجھے نہیں پتہ عالم بھائی اسے کمرے میں لے کر چلیں میں چیک کرتی ہوں"

پریشے کے کہنے پر اسنے آئرہ کے بےہوش وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے کر چلا گیا

°°°°°

اس وقت وہ سارے کے سارے عالم کے کمرے کے باہر کھڑے تھے جب پریشے کے دروازے کھولتے ہی ایک ایک کرکے وہ سب اندر داخل ہوے جہاں آئرہ آنکھیں کھولے حیرت سے ان سب کو دیکھ رہی تھی یقیناً اسے ابھی ابھی ہوش آیا تھا

"کیا ہوا ہے"

اسنے اپنے کمرے میں پوری فوج کو دیکھ کر پوچھا عالم کا کمرہ خاصا بڑا تھا لیکن اس وقت ان سب کی موجودگی سے وہ کمرہ پورا بھر چکا تھا

"پری کیا ہوا ہے اسے"

عالم نے آئرہ کے قریب بیٹھ کر اس سے پوچھا جس پر اسنے اپنی مسکراہٹ دبائی

"آئرہ مجھے دوبارہ بڑی ماما بنانے والی ہے" اسکے کہنے پر سب نے حیرت سے بیڈ پر بیٹھی آئرہ کو دیکھا جو اسکی بات سن کر خود بےیقینی کی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی

"کیا کہا"عالم کو لگ رہا تھا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے

"میں نے یہ کہا عالم بھائی کہ آپ پھر سے بابا سائیں بننے والے ہیں" اسکے دوبارہ کہنے پر عالم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری جبکہ آئرہ تو ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے

"مطلب میری بہن یا بھائی آنے والا ہے" ان سب کی حیرت و خاموشی کو آہان کی خوشی سے بھرپور آواز نے ختم کیا

جہاں تھوڑی دیر پہلے سب پریشان ہورہے تھے وہیں اب ان سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل چکی تھی

وہ سب آگے بڑھ کر اسکے گلے لگ کر اسے مبارک باد دینے لگے جنہیں وہ بڑی خوشی سے وصول کررہا تھا لیکن دوسری طرف آئرہ تو بس اپنی نظریں جھکا بیٹھی تھی

اسے ایسا لگ رہا تھا اگر وہ نظریں اٹھا کر دیکھے گی تو اسکا مذاق بنایا جاے گا وہ ماں بننے والی تھی جبکہ یہ دن تو اسکے دادی بننے کے تھے

آہستہ آہستہ سب کمرے سے نکل کر جاچکے تھے جب انکے جانے کے بعد عالم نے مڑ کر آئرہ کو دیکھا اور ٹھیک اسی لمحے اسکے سینے پر آئرہ نے تکیہ پھینک کر مارا

"آرام سے"

"بہت خوشی ہورہی ہے"

"خوشی کی بات تو ہے کم از کم اب میری بیٹی والی خواہش پوری ہوجاے گی"

"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے" اسنے سارا الزام عالم پر لگایا جسے اسنے خوش دلی سے قبول کیا

"ہاں میری وجہ سے ہوا ہے لیکن غلطی تمہاری بھی تو ہے تمہیں ہی شوق چڑھ رہا تھا بیمار شوہر کی خدمت کرنے کا"

اسکے کہنے کر آئرہ نے اپنا چہرہ موڑ لیا اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا وہ ابھی رو دے گی اور پھر وہ رونے بھی لگ گئی

"آئرہ اس میں رونے کی کیا بات ہے"

عالم اسکے قریب جاکر بیٹھ گیا جس پر وہ غصے سے اسکے سینے پر مکے برسانے لگی تھوڑی دیر تک وہ برداشت کرتا رہا لیکن جب آئرہ کا یہی عمل رہا تو اسنے غصے سے اسکے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے اسے اپنے بےحد نزدیک کرلیا

"کیا ہورہا ہے یہ سب کس بات کا دکھ ہورہا ہے تمہیں"

"سب میرا مذاق بنائینگے عالم"

"کوئی مذاق نہیں بناے گا اگر کوئی کچھ کہے تو مجھے بتانا میں اسکا منہ اچھے سے توڑوں گا اور اب یہ رونا بند کرو بجاے شکر ادا کرنے کے تم ناشکری کررہی ہو ہونے والوں کے بچے اس عمر میں بھی ہو جاتے ہیں"اسکے سختی سے کہنے پر آئرہ نے ہونٹ بھینچ لیے

"سوری"

"بلکل سوری تو تمہیں کرنی چاہیے اتنی اچھی خبر ملی ہے مجھے میری بیٹی ملنے والی ہے اور تم اس طرح کررہی تھیں لیکن تمہاری اس غلطی کو معاف کردیتا ہوں اپنی بیٹی کی خاطر"

عالم نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسے اپنے سینے سے لگالیا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر عزہ پر پڑی جو نظریں جھکائے خود میں مگن اپنی پڑھائی کررہی تھی اسکے پیپرز چل رہے تھے جس کی وجہ سے آج کل وہ کچھ زیادہ ہی مصروف تھی

ماہر صوفے کے پیچھے کھڑے ہوکر اسے دیکھنے لگا جو تیزی سے اپنا ہاتھ چلاتی پیپر پر کوئی جواب لکھ رہی تھی

اسکے قریب جھک کر ماہر نے نرمی سے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جس کی وجہ سے عزہ کے چلتے ہاتھ رکے

"ماہر سر میں کام کررہی ہوں"

اسکے کہنے پر ماہر نے گہرا سانس لے کر اسکا ہاتھ چھوڑا اور اسکے قریب بیٹھ کر اسکے بھرے بھرے وجود کو اپنے ساتھ لگالیا

اپنے پیپرز کی وجہ سے اس وقت وہ شہر میں ہی تھی لیکن وصی کے گھر پر تاکہ یہاں پر عینہ اسکے کھانے پینے کا ٹھیک سے خیال رکھ سکے ویسے تو یہ کام ماہر بھی اچھے سے کرنا تھا لیکن کسوا کی تسلی کے لیے وہ دونوں یہاں پر تھے

آج کل میشال عزہ کو دیکھنے کے لیے ہر ہفتے چکر لگانے لگی تھی کیونکہ وہ یہ مومنٹ مس نہیں کرنا چاہتی تھی اسکی خواہش تھی عزہ کو موٹا دیکھنا

جو اس طرح سے پوری ہورہی تھی وہ کیسے ان لمحات کو ضائع کر دیتی

البتہ ایہاب اسکے یہاں آنے سے کچھ زیادہ ہی خوش ہو جاتا تھا اور اسکی خوشی کی اصل وجہ تو یہ بھی تھی کہ وصی اب عارف سے بات کرنے کے لیے تیار تھا اور ایہاب بس یہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد وصی اس سے بات کرلے

"لڑکی کب تک تم مجھے سر کہتی رہو گی شوہر ہوں میں تمہارا"

"لیکن آپ میرے سر بھی تو ہیں"

"لیکن میں چاہتا ہوں تم مجھے سر کہنا بند کردو"

"پھر کیا کہوں"

"ماہر"

"مجھے آپ کا خالی نام لینا اچھا نہیں لگتا"

"تو پھر تم اماں سائیں کی طرح مجھے بھی شاہ بلا لیا کرو"

"میں نے کچھ اور سوچا ہوا ہے" اسکے کہنے پر ماہر دلچسپی سے اسکی بات سننے لگا

"کیا"

"جب ہمارا بےبی ہوجاے گا مطلب جیسے وہ گرل ہوئی اور ہم نے اسکا نام منہا رکھا تو میں آپ کو منہا کے بابا بلایا کروں گی"

اسکے کہنے پر ماہر نے قہقہہ لگایا

"میری جان تم نہ بھی بلاؤ تو بھی سب جانتے ہوں گے میں منہا کا بابا ہوں اسلیے تم مجھے بس میرے نام سے ہی بلایا کرو"

"ٹھیک ہے کوشش کروں گی"کندھے اچکا کر اسنے اپنا سر ماہر کے کندھے پر رکھ لیا

"ماہر سر"

"ہاں"

"آپ نے مجھ سے کہا تھا جب یہ بچہ ہوجاے گا تو آپ اسے مجھ سے لے کر مجھے چھوڑ دینگے"

کتنے دنوں سے یہ سوال اسکے دل میں تھا آج ہمت کرکے پوچھ ہی لیا ورنہ وہ اس زکر کو چھیڑنا نہیں چاہتی تھی

"تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہو"

"اگر جانا چاہوں تو جانے دیں گے" اسنے نظریں اٹھا کر ماہر کی طرف دیکھا

"نہیں"

"پھر پوچھا کیوں"

"یہ جاننے کے لیے کہ میرے ساتھ تم اپنی مرضی سے رہنا چاہتی ہو یا نہیں اگر تم ہاں کہتیں تو بھی میں تمہیں خود سے دور نہیں جانے دیتا تم نے یہیں رہنا ہے ساری زندگی میرے پاس جہاں تم ہوگی میں ہوں گا اور ہمارا پیارا سا بےبی ہوگا"

اسنے مسکراتے ہوے اپنا ہاتھ عزہ کے پیٹ پر رکھا جس پر شرماتے ہوے وہ اس میں چھپنے لگی

بھلے ماہر اسکی زندگی میں جس طرح بھی آیا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ایک بہترین ہمسفر تھا

اسنے عزہ کو ہر وہ چیز دی تھی جس کی ایک لڑکی خواہش کرتی ہے

وہ عزہ کے گھر کی صفائی ہر ہفتے باقاعدگی سے کرواتا تھا اور ساتھ ہی ہر ہفتے اسے وہاں لے کر بھی ضرور جاتا تھا

اور پرانی یادیں یاد آتے ہی عزہ اسے وہاں گزرا ہر پل بتاتی تھی جسے وہ بہت غور سے سنتا

°°°°°

ایسا لگ رہا تھا وہ ٹھیک سے سانس نہیں لے پارہا ہو کبھی وہ ہاتھ میں پہنی گھڑی کو دیکھتا ہوا تو کبھی بند دروازے کو

جبکہ دل میں مسلسل اپنی بیوی اور اولاد کے لیے دعا گو تھا

"زریام بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہوگا" اسے مسلسل چکر کاٹتے دیکھ کر آئرہ نے کہا جس پر اسنے اپنا سر نفی میں ہلادیا جب تک اسے خیر کی خبر نہیں ملنی تھی سب تک وہ اسی طرح بےچین رہتا

دروازہ کھلا اور ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی وہ بےچینی سے انکی طرف بڑھا

"کونگریچیولیشن مسٹر شاہ بیٹی ہوئی ہے"

ڈاکٹر کی بات سنتے ہی وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرا دیا

"میری میری بیوی وہ کیسی ہے"

"وہ بھی بلکل ٹھیک ہیں"

اسنے اطمینان بھرا سانس لیا جب ایک نرس اسکے قریب آئی

لال مخملی کمبل میں موجود نرس کے ہاتھ میں موجود وہ ننھی گڑیا زریام شاہ کی بیٹی تھی

کپکپاتے ہاتھوں سے زریام نے اسے اپنی گود میں لیا اور اس پر پہلی نظر ڈالتے ہی بےساختہ ماشاءاللہ کہا

اسکی ماں خوبصورت تھی اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ننھی پری خوبصورتی میں اپنی ماں جیسی تھی یا شاید اس سے بھی آگے

"اماں سائیں بابا سائیں دیکھیں تو کتنی پیاری ہے"

"ہاں ماشاءاللہ بہت پیاری ہے" آئرہ نے مسکراتے ہوے اسے اپنی گود میں لیا جبکہ عالم نے اپنی جیب سے ہزاروں کے نوٹ نکال کر اس ننھی گڑیا پر وار دیے

°°°°°

"تمہاری بیٹے والی خواہش تو ادھورہ رہ گئی زریام"

"نہیں حوریب میرے لیے دونوں ہی برابر تھے ہاں بس ڈر لگتا تھا بیٹی ہوئی تو اسکی حفاظت کیسے کروں گا"

"ہم ہیں نہ اسکے لیے"

"نہیں یہ خود کافی ہوگی اپنے لیے میں اسے اتنا مظبوط بناؤں گا کہ کوئی اسکی طرف غلط نگاہ سے بھی دیکھ نہیں پاے گا"

اسکی بات سن کر حوریب نے مسکراتے ہوے اپنی بیٹی کو دیکھا جس کا نام اسنے خود حورم رکھا تھا

اس وقت ہاسپٹل کا کمرہ گھر کے افراد سے بھر چکا تھا اور حورم کھلونے کی طرح کبھی کسی تو کبھی کسی کی گود میں جارہی تھی

"مجھے دے میں سگا چاچا ہوں" اسنے شاہ میر کی گود سے اسے لینے کی کوشش کی جس نے اسے مزید اپنے قریب کرلیا

"تو میں کیا سوتیلا ہوں"

"مجھے نہیں پتہ دے ادھر میں نے تو ایک بار بھی اسے گود میں نہیں لیا"اسنے زبردستی حورم کو اپنی گود میں لیا جب اچانک ہی اسنے رونا شروع کردیا آہان نے ڈر کر اسے واپس شاہ میر کو دیا جس نے اسے رونے پر خود واپس آہان کو دے دیا

"تو لے"

"تو سگا ہے نہ تو لے"

ان دونوں کی لڑائی دیکھ کر کسوا نے آگے بڑھ کر خود اسے اپنی گود میں لے لیا اور چپ کرانے لگی

"میرا بےبی میں تمہاری دادی ہوں کسوا دادی"

اسے گود میں لیتے ہی کسوا اس سے اپنا تعارف کرانے لگی جس پر اسکے رونے میں مزید شدت آئی

"دو ادھر دکھ نہیں رہا بچی کو تمہاری شکل پسند نہیں آرہی ہے" عصیم نے مصنوعی خفگی سے کہتے ہوے حورم کو اسکی گود سے لیا جبکہ اسکی بات پر کسوا نے گھور کر اسے دیکھا

"آپ کی تو بڑی اچھی ہے نہ آپ کی تو مونچھیں دیکھ کر ہی ڈر جاے گی یہ بس میرا حوصلہ ہے جو زندگی گزار کی ان ڈاکو والی مونچھوں کے ساتھ"

اسکی بات کو نظر انداز کرکے عصیم اسے چپ کرانے لگا جو وہ تھوڑی ہی دیر میں ہوچکی تھی

اسکے چپ ہونے پر عصیم نے فاتحیانہ مسکراہٹ لیے کسوا کو دیکھا جو اسکے دیکھنے پر منہ بنا کر رہ گئی

"میں اب بس اپنے ماہر کے بچوں کو گود میں لوں گی"

اسکی بات سنی سب نے تھی لیکن کسی نے دھیان نہیں دیا کیونکہ سب ہی جانتے تھے تھوڑی دیر میں وہ خود واپس آکر اسے پھر سے گود میں لے لے گی اور ایسا ہی ہوا

غصہ اترتے ہی اسنے واپس اسے اپنی گود میں لیا اور پھر سے اپنا تعارف کرانے لگی جس کی فلحال حورم کو تو سمجھ آنی نہیں تھی

°°°°°

آنکھ کھلتے ہی اسکی پہلی نظر اپنے قریب سوئی عزہ پر پڑی جو اس وقت سوتی ہوئی کوئی معصوم گڑیا لگ رہی تھی

ماہر نے مسکراتے ہوے اسے دیکھا اور نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے

نظریں اٹھا کر اسنے گھڑی کی طرف دیکھا جو بارہ بجا رہی تھی آج چھٹی کا دن تھا اور رات دیر تک باتیں کرنے کے باعث نہ تو صبح آنکھ کھلی نہ کسی نے انکی نیند خراب کی اسلیے آج اٹھنے میں کچھ زیادہ ہی دیر ہوچکی تھی

"عزہ چلو اٹھو بارہ بج رہے ہیں" ماہر نے اسکا گال سہلاتے ہوے اسے جگایا لیکن وہ اسی طرح بےسود پڑی رہی

"عزہ اٹھو" اسکے دوبارہ پکارنے پر بھی جب عزہ کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تو وہ پریشانی سے اٹھ کر اسکا گال تھپتھپانے لگا

سائیڈ سے پانی کا گلاس اٹھا کر اسنے پانی کی چھینٹے اسکے چہرے پر ماریں لیکن اسے ہوش میں نہ آتے دیکھ کر بنا وقت ضائع کیے اسے اپنی بانہوں میں اٹھاے کمرے سے نکل گیا

°°°°°

پریشانی سے وہ سر کی پشت دیوار سے ٹکاے بیٹھا تھا

اس وقت ہاسپٹل میں اسکے ساتھ صرف عینہ اور وصی موجود تھے جبکہ باقی گھر کے افراد گاؤں میں ہونے کی وجہ سے ابھی تک آنہیں سکے تھے

لیکن عینہ انہیں یہ اطلاع دے چکی تھی کہ عزہ کی طبیعت خراب ہے اور وہ لوگ اس وقت ہاسپٹل میں ہیں

"میری بیوی کیسی ہے" ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی اسنے اپنی جگہ سے اٹھ کر بےتابی سے پوچھا

جبکہ کہنا تو وہ یہ چاہتا تھا کہ میری زندگی کیسی ہے

ہاں زندگی ہی تو بن گئی تھی وہ اسکی

اور اسکے بنا جینے کا اب ماہر شاہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا

"انکی حالت ٹھیک نہیں ہے ہمیں انکی ڈیلیوری کرنی ہوگی"

اسکی ڈیلیوری میں ابھی ٹائم تھا اسلیے ڈاکٹر کی یہ بات سن کر وہاں موجود وہ تینوں ہی پریشان ہوچکے تھے

"آپ کی وائف پہلے ہی بہت ویک ہیں مسٹر شاہ اور انکی کنڈیشن اس وقت کافی خراب ہے ہم آپ کے بےبی یا بیوی میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتے ہیں"

"میری بیوی کو بچائیں" اسنے بنا لمحہ ضائع کیے کہا

وہ بچہ جس کی وجہ سے عزہ اسکی زندگی میں آئی تھی اس وقت جیسے اسے تو وہ بھول۔ہی چکا تھا اگر کچھ یاد تھا تو وہ تھی بس عزہ

"آپ کے ٹوئینز بیٹے ہیں" ڈاکٹر نے اسے یہ بات بتانا ضروری سمجھی

"آپ کو میری بات سمجھ نہیں آرہی مجھے صرف میری بیوی چاہیے" اسکے چیخنے پر ڈاکٹر نے سہم کر جلدی سے اپنا سر ہلایا

جیسے کہنا چاہتی ہو کہ ماہر کی بات وہ سمجھ چکی تھی

°°°°°

بھیگی آنکھیں موندے مسجد کے کونے میں بیٹھ کر اس وقت وہ دل میں اللہ کو پکار رہا تھا

جانتا تھا اس وقت اسے ہاسپٹل میں ہونا چاہیے تھا لیکن اس میں کوئی بری خبر سننے کی ہمت نہیں تھی اسلیے کتنی دیر سے وہ یہیں پر بیٹھا ہوا تھا

اسکے اختیار میں کچھ نہیں تھا لیکن جس کے اختیار میں سب کچھ تھا اس سے تو وہ مانگ سکتا تھا نہ اپنے بچوں کی زندگی اپنی بیوی کی زندگی اور مانگ رہا تھا کب سے بیٹھا وہ دعا ہی تو مانگ رہا تھا

اور معافی بھی اپنے اس گناہ کی جو اس سے غلطی سے سرزد ہوا تھا

اسکے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا جب اسنے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

"کب سے ڈھونڈ رہا ہوں اور تو یہاں چھپا بیٹھا ہے"ساحر نے اسکے قریب بیٹھ کر کہا

"ہاسپٹل چلیں ماہر "

"ہاسپٹل"

اسکے لب ہولے سے ہلے وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اسکی بیوی کیسی ہے اسکے بچے کیسے ہیں لیکن ہمت ہی نہیں ہورہی تھی

"ہاں ہاسپٹل جہاں تیری بیوی کو تیری ضرورت ہے جہاں جونئیر ساحر ماہر اپنے بابا سائیں کا انتظار کررہے ہیں" اسکے کہنے پر ماہر نے بےیقینی سے اسکی طرف دیکھا

"میرے بچے"

"ہاں دو ہیں اور بہت ہی پیارے ہیں انہیں دیکھ کر اپنا بچپن یاد آگیا"

"عزہ وہ کیسی ہے"

"وہ ٹھیک نہیں ہے" اسکے کہنے پر ماہر کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا

"کیونکہ اسکا شوہر اسکے پاس نہیں ہے وہ تو جب ہی ٹھیک ہوگی جب اسکا شوہر اسکے پاس جاے گا اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر انہیں پیار کرے گا"

اسکے کہنے پر ماہر نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور شکر بھرے کتنے ہی آنسو اسکی آنکھ سے بہہ نکلے

اپنے آنسو صاف کرکے وہ وہیں سجدے میں گر کر اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا جس نے اسکی سن لی تھی

°°°°°

"کتنے پیارے ہیں یہ دونوں اور بلکل ایک جیسے ہیں میں تو کنفیوز ہی ہو جاوں گی کون چنوں ہے کون منوں" ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھاے میشال کبھی ایک کو پیار کرتی تو کبھی دوسرے کو

وہ تو جب سے ہاسپٹل آئی تھی ان دونوں کو اپنی گود میں لیے بیٹھی تھی

"تم سے سنبھل نہیں رہے تو ایک مجھے دے دو میں تھوڑی ہیلپ کردیتا ہوں" ایہاب نے اسکے قریب آکر آفر کی جس پر اسنے منہ بنا کر اپنا چہرہ موڑ لیا

اسکی طرف سے کوئی رسپانس نہ ملنے پر وہ اوقات سے واپس پیچھے چلا گیا جب اسے کسی کی دبی دبی ہنسی کی آواز سنائی دی اسنے مڑ کر دیکھا جہاں کونے میں کھڑے شاہ میر اور آہان اسکی طرف دیکھ کر اپنی ہنسی دبا رہے تھے یقیناً میشال کے اگنور کرنے پر

وہ تپ کر رہ گیا

"عزہ انکا نام کیا رکھو گی جو بھی رکھو میں تو ایک کو چنوں بلاؤں گی اور دوسرے کو منوں"

"میں نے ابھی تک کوئی نام نہیں سوچا" اسنے آہستہ آواز میں کہا

اسے تو لگ رہا تھا ہوش میں آتے ہی اسے سب سے پہلے ماہر کا چہرہ دیکھنے کو ملے گا لیکن یہاں وہ سب کے چہرے دیکھ چکی تھی سواے ماہر کے

دروازہ کھلنے کی آواز کر اسنے بےچینی سے نگاہیں اٹھا کر اس طرف دیکھا

جہاں ماہر کھڑا تھا بکھرے بالوں کے ساتھ ویران سے حولیے میں لیکن چہرے پر ایک الگ ہی سکون تھا

"آجائیں ماہر سر میں پوچھ رہی تھی آپ بچوں کے نام کیا رکھیں گے"

اسے دیکھتے ہی میشال نے چہک کر پوچھا

ماہر نے ایک نظر میشال کی گود میں موجود ان دونوں ننھے وجود کو دیکھا دل میں سکون کی ایک لہر دوڑ گئی

لیکن انہیں گود میں لینے کے بجاے اسنے آگے بڑھ کر سب سے پہلے عزہ کو دیکھا اور نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے

"تم ٹھیک ہو"

"جی" اسنے نظریں جھکا کر کہا کیونکہ سب بڑوں کے سامنے ماہر کی اس حرکت پر شرم کے مارے اسکی نظریں بھی نہیں اٹھ رہی تھیں

ماہر نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو میشال کی گود سے لیا اور بھیگی آنکھوں سے مسکرا دیا

اسنے نرمی سے ایک ایک کرکے ان دونوں کے نرم گال پر اپنے لب رکھے

"ایک کا نام تو میں ہی رکھوں گی" کسوا نے اسکی گود سے ایک کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا

"آپ دونوں کے رکھ لیں اماں سائیں"

"ہاے سچی"ماہر کے کہنے پر وہ تو جیسے خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی

ماہر نے چہرہ موڑ کر اجازت طلب نظروں سے عزہ کی طرف دیکھا وہ صرف اسکے بچے تھوڑی تھے ان بچوں پر ان دونوں کا برابر کا حق تھا

اسلیے عزہ سے پوچھنا ضروری تھا کیا

"جی آپ رکھ لیں اماں سائیں" عزہ کے کہنے پر اسنے خوش ہوتے ہوے دوسرے والے کو بھی ماہر کی گود سے لے لیا

اور پھر تھوڑی ہی دیر سوچ کر کسوا نے ان دونوں کا نام رکھ دیا

"المیر شاہ اور ازمیر شاہ"

°°°°°

شور شرابہ تو حویلی میں پہلے بھی رہتا تھا لیکن اب ان تینوں بچوں کی وجہ سے وہ شور مزید بڑھ چکا تھا

وہ تینوں اپنے ماں باپ کے پاس کم ہی پاے جاتے تھے کبھی وہ کسی کی گود میں ملتے تو کبھی کسی کی

اس وقت بھی حورم آئرہ کی گود میں موجود تھی جس کے ساتھ وہ باتیں کررہی تھی

آئرہ کی باتیں اسے سمجھ تو نہیں آرہی تھیں لیکن اسکی باتیں سن کر وہ کھلکھلا ضرور رہی تھی اور اپنے دونوں گالوں میں پڑتے ڈمپلز کی بھرپور نمائش کروا رہی تھی

اب خدا جانے یہ ڈمپلز اسنے کس سے چراے تھے دادا سے پھوپھو سے یا باپ سے

جو بھی تھا لیکن یہ ڈمپل اسکی ہنسی کو مزید دلکش بنا رہے تھے آئرہ کبھی کبھی بس اسے دیکھ کر رہ جاتی وہ بچپن میں اتنی پیاری تھی تو پھر بڑی ہوکر اسنے کیا قیامت ڈھانی تھی

ازمیر اور المیر ڈیڑھ ہفتے کے ہوچکے تھے جبکہ حورم ایک مہینے کی ہونے والی تھی لیکن وہ کافی زیادہ صحت مند تھی جس کی وجہ سے وہ تین چار ماہ کی بچی لگتی تھی

دن میں ایک مرتبہ لازمی آئرہ اسکی نظر اتارتی تھی ڈر لگتا تھا کہیں اپنی پوتی کو اسکی خود کی نظر نہ لگ جائے

"کیا ہورہا ہے" عالم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا

"ہم باتیں کررہے ہیں"

"جیسے اسے تو تمہاری باتیں کتنی سمجھ آرہی ہیں" عالم نے اسے اپنی گود میں لے لیا

"میرا بچہ کیا حال ہیں" اسکے کہنے پر حورم کھلکھلا کر ہنسی جیسے اسکی بات سمجھ آگئی ہو اور اسے اپنا حال سنارہی ہو

"تمہیں پتہ ہے بہت جلدی تمہاری پھوپھو بھی اس دنیا میں آنے والی ہیں"اسکے کہنے پر آئرہ نے گھور کر اسے دیکھا

"توبہ ہے عالم بچی کے سامنے تو یہ بات مت کریں

آئرہ تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے بچی کو میری باتیں کتنی سمجھ آرہی ہیں اور آ بھی رہی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے اسے بھی تو پتہ چلنا چاہیے اسکی پھوپھو آنے والی ہے"

اسنے اپنی گود میں موجود حورم کو دیکھا جو اپنا ہاتھ منہ میں ڈالے اسے پورا تھوک میں بھر چکی تھی

اسکی اس حرکت پر عالم نے منہ بنایا

"گندی بچی" اسنے حورم کا ہاتھ اسکے منہ سے نکالا اور ٹیشو باکس سے ٹیشو نکال کر اسکا ہاتھ صاف کرنے لگا

°°°°°

"پہلے تمہیں پلاؤں یا تمہیں" اسنے فیڈر ہلاتے ہوے بیڈ پر لیٹے المیر اور ازمیر کو دیکھ کر پوچھا جس پر ازمیر نے آواز نکالی اور اسی چیز کو اسکا اشارہ سمجھ کر کسوا نے اسے اپنی گود میں اٹھا کر فیڈر اسکے لبوں سے لگادی

جب اسکے ایسا کرتے ہی المیر نے رونا شروع کردیا

"رو مت میری جان بھائی کو پلا دوں پھر تمہیں بھی پلاتی ہوں" اسنے روتے ہوے المیر سے کہا جیسے اسکی کہی بات وہ سمجھ جاے گا

"شاہ اسے اٹھائیں یہ رو رہا ہے"عصیم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے جلدی سے کہا

'تو تم اسے چپ کیوں نہیں کرا رہی ہو"

"دکھ نہیں رہا میں ازمیر کو پلا رہی ہوں تو اسے کیسے اٹھاؤں"

"کسوا تمہارا حال دیکھ کر کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے تم نے اپنے بچے کیسے پال لیے"اسنے روتے ہوے المیر کو اپنی گود میں اٹھایا

"جب دونوں کو ایک ساتھ سمبھال نہیں سکتی ہو تو ساتھ اٹھا کر کیوں لاتی ہو"

"میں نے اپنے بچے بھی پالے ہیں اور وہ بھی دو ایک ساتھ"اسنے باقائدہ اسے دو انگلیاں دکھائیں

"اور تیسرا تو ان دو پر بھاری تھا اسلیے مجھ سے یہ بات مت کریں کہ میں نے کیسے پالے ہیں" اسنے برا سا منہ بنایا

"خود تو گھر میں نہیں ہوتے تھے سارا دھیان تو مجھے رکھنا پڑھتا تھا ان سے تو بس باتیں کروالو"

"اچھا اب بس بھی کرو غلطی ہوگئی تم نے ہی پالے ہیں بچے اور کیا خوب پالے ہیں" اسکے کہنے پر کسوا نے اپنا بنایا ہوا موڈ ٹھیک کیا اور ازمیر کو فیڈر بلا کر المیر کو اپنی گود میں لے لیا

°°°°°

"موٹی چپ ہوجا" حورم کے مسلسل رونے پر اسنے چلا کر کہا

صحت مند تو وہ پہلے سے ہی تھی اوپر سے کسوا اسے چھوٹا سا گرارہ اور شرٹ پہنا چکی تھی

جس کی وجہ سے حوریب کو وہ اور وزنی لگ رہی تھی اوپر سے جو چیز اسے سب سے زیادہ تنگ کررہی تھی وہ تھا اسکا اتنی دیر سے رونا

"کیا ہوگیا ہے یہ کیوں رو رہی ہے"

"پتہ نہیں بابا سائیں کب سے بس روے جارہی ہے چپ بھی نہیں ہورہی"

آج مایوں کی رسم تھی ساحر شاہ میر اور آہان کی

جو شہر کے ایک بڑے سے حال میں رکھی گئی تھی

نکاح تو ان تینوں کا ہوچکا تھا اسلیے مایوں کی رسم ایک ساتھ ہی ادا ہونی تھی

اسے یہی لگا تھا کہ حورم لوگوں کے شور کی وجہ سے رو رہی ہے اسلیے وہ تھوڑے خاموش حصے میں آکر کھڑی ہوگئی لیکن یہاں آکر بھی اسکا باجا بجے ہی جارہا تھا

عالم نے اپنے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے پاس بلایا اور اسے دیکھ کر حورم اپنا رونا بھول کر اسکے پاس آگئی

وہ زیادہ تر زریام کی گود میں ہی رہتی تھی اور زریام کافی حد تک عالم جیسا تھا اسلیے کبھی کبھی اسے عالم ہی اپنا باپ لگتا

عالم نے اسکے نرم و ملائم گال پر بہتے آنسو صاف کیے جب اسنے پھر سے رونا شروع کردیا

"میرا خیال ہے اسے آئرہ کے پاس لے جاؤ وہ بہتر سمجھتی ہے"

اسکے کہنے پر حوریب نے اپنا سر ہلاکر اسے عالم کی گود سے لیا اور وہاں سے چلی گئی

°°°°°

"اماں سائیں"

آئرہ کے پاس آتے ہی حوریب نے اسے پکارا جو اپنی گود میں المیر کو لیے کھڑی تھی جبکہ ازمیر اس وقت پریشے کے پاس تھا

"ہاں"

"یہ چپ نہیں ہورہی ہے پتہ نہیں اسے کیا ہوگیا ہے مجھے تو اب پریشانی ہورہی ہے"

آئرہ نے اپنے پاس کھڑی کسوا کی گود میں المیر دیا اور خود حورم کو اپنی گود میں لے لیا

"اسکے کپڑے بدلو حوریب یہ کپڑوں کی وجہ سے رو رہی ہے"

اسکا گرارہ ستاروں سے بھرا ہوا تھا یقیناً انہی کی وجہ سے اسے الجھن ہورہی تھی

آئرہ ان تینوں بچوں کی ضرورت کا سارا سامان ایک بیگ میں ڈال کر لائی تھی جس میں حورم کا سادہ سا سوٹ بھی تھا

یہ سوٹ اسنے صرف اسے کسوا کی ضد پر پہنایا تھا لیکن اسے اندازہ تھا کہ اسے ان کپڑوں میں الجھن ہوگی اسلیے وہ پہلے ہی اسکے کپڑے لے آئی تھی

"آجا موٹی کپڑے بدلتے ہیں" حوریب نے اسے آئرہ کی گود سے لیتے ہوے کہا جس پر آئرہ نے گھور کر اسے دیکھا

"مذاق کررہی تھی یہ تو میری جان ہے ابھی تو اسے کھلا پلا کر اور موٹا کرنا ہے"آئرہ کے گھورنے پر اسنے جلدی سے کہا

موٹی تو وہ اسے بس مذاق میں کہتی تھی کیونکہ زریام اسکے اس طرح کہنے سے چڑتا تھا

جبکہ حقیقت میں تو وہ گول مٹول سی گڑیا حوریب کی زندگی تھی

°°°°°

تین طرح کے الگ الگ اسٹیج بناے گئے تھے جن میں وہ تینوں جوڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں

ان تینوں دلہوں کا سوٹ پیلے رنگ کا تھا البتہ ڈیزائن چینج تھا کیونکہ وہ انکے پیارے پیارے شوہر اپنی مرضی سے لاے تھے

جبکہ ان تینوں لڑکوں نے کریم شلوار کمیز کے اوپر ڈارک براؤن کلر کی چنری ڈالی ہوئی تھی

لیکن ان تینوں دلہوں کے چہرے پر ںےزاریت تھی کیونکہ انکی دلہنیں اپنا ڈوپٹہ تھوڑی تک ڈالے بیٹھی ہوئی تھیں

اور یہ حکم ثمرین بیگم کا تھا کہ اگر رسم ساتھ کرنی ہے تو اسی طرح کرنی ہوگی

"میری شادی ہورہی ہے کچھ تو ہلا گلہ کرلو"

سب اپنی باتوں میں لگے پڑے تھے لیکن خود وہ اچھا خاصا بےزار ہورہا تھا اوپر سے آج تو حیات بھی اسے منہ نہیں لگا رہی تھی جیسے اسکی آواز کا بھی پردہ ہو

اسلیے تنگ آکر اسنے کہہ ہی دیا اور اسنے اتنی زور سے کہا تھا کہ سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوگئے

"کم از کم کوئی ڈانس ہی کرلو"

"تو فکر نہ کر شاہ میر میں ہوں نہ" عالم نے اسٹیچ پر آکر اپنی شال کو گلے میں مفلر کی طرح ڈالا اور ڈی جے سے مخاطب ہوا

"لگا میری پسند کا گانا"اور اس سے پہلے ڈی جے اسکی پسند کا گانا لگاتا ساحر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا چکا تھا

وہ ڈی جے شاہ میر کا دوست تھا جسے اچھے سے پتہ تھا کہ عالم کی پسند کیا ہے اسلیے اگر ساحر منع نہیں کرتا تو وہ اسکی مرضی کا گانا لگانے میں بھی دیر نہیں کرتا

"بڑے بابا اپنی مرضی کا گانا لگوا رہے ہو اور اس ںےزاریت بھری تقریب کی ںےزاریت مزید بڑھا رہے ہو"

وہ سب جانتے تھے کہ عالم کو سیدھے گانے نہیں پسند اسے زیادہ تر سندھی یا پنجابی گانے اچھے لگتے تھے

"اچھا بہی ان کی مرضی کا لگادے لیکن ہونا پنچابی ہی چاہیے"اس سے کہہ کر اسنے اپنا ڈانس پارٹنر ڈھونڈنا شروع کیا اور وہاں کھڑی نور کو اپنے پاس بلایا

اور جب ہی ڈی جے نے پنچابی ویڈنگ سونگ چلادیا

اور تھوڑی دیر بعد عالم اور نور کے ساتھ عصیم اور معتصم بھی شامل ہوچکے تھے

آہستہ آہستہ وہ اسٹیچ سارے گھر کے افراد سے بھرگیا اور پھر بنا دیر کیے اسٹیچ پر بیٹھی وہ تینوں جوڑیاں بھی انکے ساتھ شامل ہوگئیں

بوریت بھرے ماحول میں عالم کی بدولت اچھی خاصی خوش گواری چھا چکی تھی

رسمیں ادا ہوئیں اور اسی طرح ہنسی خوشی یہ تقریب ختم ہوئی

°°°°°

"رکو زرا یہ تم مجھے اگنور کیوں کررہی ہو"

گھر پہنچتے ہی حیات سیدھا اپنے کمرے میں گئی اور سب سے نظریں بچاتا شاہ میر بھی فورا اس کے پیچھے بھاگا

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں جائیں یہاں سے"

"پہلے تم مجھے بتاؤ یہ صبح سے تم مجھ سے بات کیوں نہیں کررہی ہو" اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے شاہ میر نے اسے اپنے نزدیک کیا

"وہ پری آنٹی نے منع کیا تھا انہوں نے کہا تھا آپ سے پردہ کروں اور اپنا چہرہ آپ کو شادی والے دن ہی دکھاؤں"

"اچھا اس سے کیا ہوگا"

"اس سے مجھ پر روپ آتا لیکن اب آپ نے مجھے دیکھ لیا تو مجھ پر روپ نہیں آے گا"

اسکی بات سن کر شاہ میر نے بےساختہ قہقہہ لگایا جس کر حیات نے اسے گھور کر دیکھا وہ اسکی بات کو مذاق سمجھ رہا تھا

"حیات تم جیسی بھی ہو مجھے ہر حال میں پسند ہو میرے نہ دیکھنے سے تم پر کتنا روپ آنا تھا میں نہیں جانتا لیکن میرے دیکھنے اور خاص کر قریب رہنے سے تم پر کتنا روپ آنا ہے یہ میں جانتا ہوں"

شاہ میر نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اور اگلے ہی پل اسکے لبوں پر جھک گیا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے شاہ میر غور سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا جو اسکی چھوٹی سی گستاخی پر ہی کوئی کھلتا گلاب بن چکی تھی

"شاہ میر پلیز جائیں"

"جارہا ہوں اتنا انتظار کرلیا تو تھوڑا اور سہی آنا تو پھر تم نے میرے پاس میری پناہوں میں ہی ہے"

شاہ میر نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی اور اسکے کان کی لو پر اپنے لب رکھ کر اسکے کمرے سے چلا گیا

اسکے جانے کے بعد حیات نے اپنی اٹکی سانسیں بہال کیں

°°°°°

جیولری اتار کر اسنے ٹیبل پر رکھی جب اسے اپنی کھڑکی پر کسی کی دستک محسوس ہوئی

جو پہلے تو اسے اپنا وہم لگا لیکن جب دوبارہ دستک ہوئی تو وہ جلدی سے اٹھی اور جاکر کھڑکی کھول دی

جہاں آہان پائپ پر چڑھا ہوا تھا

"تم یہاں کیا کررہے ہو"

"تم سے ملنے آیا تھا میرے اتنے قریب بیٹھی رہی تھیں تم اور ایک بار بھی نظریں اٹھا کر مجھے نہیں دیکھا میں سمجھ گیا میری شرمیلی بیوی سب کے سامنے مجھ سے بات کرتے ہوے جھجک رہی تھی اسلیے میں یہاں آگیا"

"اپنا دماغ زرا کم ہی لگایا کرو آہان شاہ اندر آو" کھڑکی سے ہٹ کر اسنے آہان کو اندر آنے کا اشارہ کیا جو اسکے اشارہ کرتے ہی فورا اندر داخل ہوگیا جیسے اسی انتظار میں تو کھڑا تھا

"کہو کیا بات کرنی تھی"

"تمہیں ابٹن لگانا تھا"

"لیکن یہاں کوئی ابٹن نہیں ہے آہان"

"کیسے لوگ ہو تم شادی والا گھر ہے اور ابٹن نہیں رکھا"

"ہے بھی تو مجھے نہیں لگوانا اب نکلو یہاں سے"

"کیوں"

"کیونکہ تمہارا شادی والا گھر ہے جہاں تین شادیاں ہورہی ہیں ایسے میں یہاں فضول میں کھڑے ہونے سے بہتر ہے گھر جاکر آرام کرو"

اسکے کہنے پر آہان نے مسکراتے ہوے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی قریب کھینچا

"بہت فکر ہورہی ہے میری"

"ہاں فکر تو کرنی پڑے گی اب زندگی بھر کے لیے تم میرے پلے جو پڑھ گئے ہو"

اسکے کہنے پر آہان نے مسکراتے ہوے اسکے دونوں گالوں پر باری باری شدت سے اپنے لب رکھے اور شرم کے مارے شانزے اسے گھور بھی نہیں سکی

°°°°°

کپڑے چینج کرکے وہ جیسے ہی واشروم سے باہر نکلی بیڈ پر بیٹھے ساحر کو دیکھ کر قدم اپنی جگہ رک گئے

"آپ یہاں کیا کررہے ہیں"

"تم سے ملنے آیا تھا"

"ہم مل تو لیے تھے" اسنے اسے کچھ دیر پہلے والی ملاقات یاد دلائی جو تقریب میں انکی ہوئی تھی

اسکی بات سن کر ساحر اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے قریب آکر کھڑا ہوگیا

"مطلب تمہیں پیار کرنے آیا تھا"

"آپ جائیں یہاں سے ماما پاپا نے دیکھ لیا نہ تو انہیں اچھا نہیں لگے گا"

"انہیں تو بہت اچھا لگے گا رات کو تھکا ہارا انکا داماد اپنی نیند کی پرواہ کیے بغیر صرف اپنی بیوی کو پیار کرنے آیا ہے"

اسے اپنے قریب کیے ساحر اسکی مہکتی گردن پر جھک گیا

"ساحر دیکھیں مت کریں دور رہیں"

"تمہارا یہ مہکتا وجود میری بے قراریاں بڑھا رہا ہے اور تم دور رہنے کا کہہ رہی ہو"

"میں آپ کے پاس ہی تو آنے والی ہوں دکھاتے رہیے گا بےقرا"اسکی بات سن کر وہ جلدی سے کہنے لگی لیکن جب اندازہ ہوا کہ کیا کہہ رہی تھی تو اپنے الفاظ روک لیے

"ہاں کہہ تو تم صحیح رہی ہو آنا تو تم نے میرے پاس ہی ہے اور پھر میں تمہیں اچھے سے اپنی بے قراریاں دکھاؤں گا جو باتیں آج تک لفظوں میں کہتا آیا ہوں ان پر عمل کرکے دکھاؤں گا"

اسنے سرگوشی نما آواز میں کہا جسے سن کر ماہیم کانپ کر رہ گئی

"پر ابھی جانے والا تو میں ویسے بھی نہیں ہوں آج رات تمہارے ساتھ ہی رہوں گا"

اسکا نازک وجود اپنی بانہوں میں اٹھا کر ساحر نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لٹا دیا

اور اسے اپنے حصار میں لے کر آنکھیں موند لیں

ماہیم نے مزید کوئی مزاحمت نہیں کی تھی جانتی تھی اسکی کسی مزاحمت کو کون سا اسنے کسی خاطر میں لانا تھا

"معتصم حفصہ آپی آگئی ہیں"

اسکے فون رکھتے ہی پریشے جلدی سے اسکے پاس آئی کب سے اسے یہ بات بتانے کی بےچینی ہورہی تھی لیکن اسکی کال تھی جو ختم ہی نہیں ہورہی تھی

"اچھی بات ہے فرہاد کی طبیعت کیسی ہے''

فرہاد وصی کا بڑا بھائی تھا جس کی طبیعت خراب ہونے کے باعث وہ سب مایوں کی تقریب میں شامل نہیں ہوسکے تھے

"اب بلکل ٹھیک ہیں وہ سب وصی کے گھر پر ہیں میں پوچھنے آئی تھی میں جاکر ان سے مل لوں کتنے ٹائم بعد وہ آئی ہیں"

"پری آج بارات ہے تم کیسے جاسکتی ہو"

"تو کوئی بات نہیں میں وہاں سے شریک ہو جاؤں گی بات تو ایک ہی ہے"چٹکی بجا کر اسنے مسلے کا حل نکالا

"ایسے ہی اجازت دے دوں"

"تو کیا چاہیے"

"گیو می آ کس"

اسکی کمر پر ہاتھ رکھ کر معتصم نے اسے اپنے قریب کیا جس پر بنا بحث کیے اسنے معتصم کے گال پر اپنے لب رکھ دیے

اسکی شرافت دیکھ کر معتصم نے اپنا دوسرا گال بھی اسکے سامنے کیا جس پر اسنے جلدی سے اپنے لب رکھ دیے یقیناً اسے اپنی بہن سے ملنے کی بہت بےتابی ہورہی تھی

"اب جاؤں"

"نہیں تم یہاں سے ہی جاؤ گی میرے ساتھ وہاں جاکر ان سے مل لے نا"

"یہ غلط بات ہے معتصم"

"جیسا تم ٹھیک سمجھو"

"میری کس واپس کرو" اسنے کہا تو غصے میں ہی تھا لیکن اسکی اس بات میں بھی معتصم کا ہی فائدہ تھا اسنے شرافت سے پریشے کے دونوں گالوں پر اپنے لب رکھ کر اسکی کس واپس کردی

جس پر اسنے خفگی سے معتصم کو دیکھا اور وہاں سے چلی گئی

°°°°°

دونوں طرف گھر کی ہی بات تھی اسلیے معتصم نے حیات اور ماہیم کی رخصتی ایک ہی دن طے کرلی تھی

آہان کی رخصتی کل ہونی تھی

حیات کی ساری ذمیداری معتصم نے خود اٹھائی تھی

جانتا تھا اس دن اسے اپنے ماں باپ کی کمی بہت محسوس ہوگی یہ دن ہی اتنا خاص ہوتا ہے

لیکن یہ کوشش اسنے پوری کی تھی کہ وہ اس ساری ذمیداری کو پورا کرے جو رفیق ہوتا تو حیات کے لیے کرتا

اسنے حیات کے چند خاص رشتے داروں کو بھی بلایا تھا

بھلے انہوں نے حیات سے رشتہ ختم کردیا تھا لیکن پھر بھی حیات کے لیے وہ اسکے اپنے تھے

°°°°°

جب سے وہ یہاں آئی تھی تب سے بس حفضہ کو ہی ڈھونڈ رہی تھی جو اسے تھوڑی دور کھڑی مل گئی

بھاگتی ہوئی پریشے اسکے پاس گئی اور جاکر اسکے گلے لگ گئی کتنے سالوں بعد وہ اپنی بہن سے مل رہی تھی

"حفضہ آپی"

"پری کیسی ہو تم کب سے تمہیں ہی ڈھونڈ رہی تھی "

"میں بلکل ٹھیک ہوں"

"نور کہاں ہے وہ کیسی ہے اور مجھے اپنے داماد سے بھی ملواؤ چھپ کے شادی بھی کروالی اسکی بتایا تک نہیں تم نے" اسنے فورا شکوہ کیا

نور کی شادی اچانک ہی طے ہوئی تھی اور اس دوران ارتضیٰ حد سے زیادہ بیمار تھا اسکی وجہ سے وہ سب ہی نور کی شادی پر نہیں آسکے

"ملاتی ہوں پہلے مجھے بتائیں ارتضیٰ کہاں ہے اب تو کتنا بڑا ہوگیا ہوگا نہ وہ"

"تم خود ہی دیکھ لو"

اسے جواب دے کر حفضہ نے اپنی نظریں دوڑائیں اور دور کھڑے ارتضیٰ کو آواز دے کر اپنے قریب بلایا

اس پر نظر پڑھتے ہی پریشے نے دل میں بےساختہ ماشاءاللہ کہا

اس وقت وہ ڈارک بلیو کلر کے پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا وہ سترہ سال کا تھا لیکن اسکی مظبوط جسامت اسے اپنی عمر سے زیادہ بڑا بنا رہی تھی

ارتضیٰ احسان آفندی ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا شادی کے کئیں سالوں بعد وہ منت مرادوں سے پیدا ہوا تھا

اسلیے اپنے ماں باپ کا لاڈلا تھا اور حد سے زیادہ ضدی

"اسلام و علیکم خالا جانی"

پریشے کے قریب آکر اس سبز آنکھوں والے شہزادے نے سلام کیا جس پر اسے تھوڑی حیرت ہوئی وہ اتنے سالوں بعد مل رہے تھے اور ارتضیٰ پھر بھی اسے اتنے آرام سے پہنچان گیا تھا

"پہچان گئے تم مجھے"

"بلکل آپ میں کوئی فرق جو نہیں آیا ہمیشہ کی طرح خوبصورت ہی ہی " اسکے کہنے پر پریشے نے مسکراتے ہوے اسے اپنے ساتھ لگایا

"لیکن تم ماشاءاللہ بہت بڑے ہوگئے ہو اب تم چھوٹے ارتضیٰ نہیں رہے"

"آپ لوگوں کے لیے تو ہمیشہ ہی چھوٹا رہوں گا"

"ہاں میرے لیے تو تم میرے چھوٹے ارتضیٰ ہی رہو گے" پریشے نے اسکے ماتھے پر بکھری لٹ کو پیچھے کیا اور اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیے

°°°°°

اسنے حیات کا حنائی ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا جس پر اسنے گھبرا کر شاہ میر کی طرف دیکھا

"شاہ میر ہاتھ چھوڑیں کوئی دیکھ لے گا"اس وقت وہ دونوں اسٹیج پر ایک ساتھ بیٹھے ہوے تھے

ساحر اور اسکی شیروانی ایک جیسی تھی بس فرق اتنا تھا ساحر کی بلیک کلر کی تھی اور اسکی کریم کلر کی

"ہاے میری جان اب یہ کوئی دیکھ لے گا والا چھوڑ دو اب تو باقاعدہ تمہیں رخصت کروا کے لے جارہا ہوں"اسنے اپنی گھبرائی ہوئی دلہن کو دیکھ کر کہا جو اس وقت سرخ رنگ کے لہنگے میں غصب ڈھا رہی تھی

'لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے"

"میں جانتا ہوں رخصتی ہونے میں ابھی وقت ہے لیکن تم نہیں جانتی ہو یہ وقت جو باقی ہے میں کس طرح سے کاٹ رہا ہوں ورنہ جتنی خوبصورت تم اس وقت لگ رہی ہو نہ دل چاہ رہا ہے تمہیں یہیں برائیڈل روم میں لے کر بھاگ جاؤں"

اسکی بات کا مطلب سمجھ کر حیات اسے گھور بھی نہ سکی عصیم کے لیے وہ نکما تھا لیکن حیات کے لیے وہ انتہا کا بےشرم تھا

°°°°°

"تمہارے ہاتھ اتنے ٹھنڈے کیوں ہورہے ہیں"اسکا ہاتھ تھامتے ہی ساحر ٹھٹکا کیونکہ اسکے ہاتھ برف جیسے ٹھنڈے ہورہے تھے

اسکے پوچھنے پر ماہیم نے اپنا سر نفی میں ہلادیا اب اسے کیا بتاتی آج اسکی رخصتی تھی اور اسی بات سے اسے ڈر لگ رہا تھا ساحر کی کی گئی حرکتیں یاد کرکے ڈر لگ رہا تھا اب تو ماہیم نے مکمل طور پر صرف اسکا ہونا تھا تو اب ساحر کیا کرتا

"اتنی پریشان کیوں ہورہی ہو ماہیم"

"ن-نہیں میں پریشان نہیں ہورہی میں بس کچھ سوچ رہی تھی"

"مجھ سے بچنے کے بہانے سوچ رہی ہو اگر ہاں تو بھلے سوچ کو لیکن آج تمہیں چھوڑنے والا تو میں نہیں ہوں"

اسنے ماہیم کے ہاتھ پر اپنی گرفت سخت کرکے کہا جس پر ماہیم کا ننھا سا گھبرایا دل مزید گھبرا گیا اور اسکا یہ سجا سنورا گھبرایا ہوا روپ سیدھا ساحر کے دل میں اتر رہا تھا

°°°°°

رخصتی کا شور اٹھتے ہی وصی اور عینہ کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں کیوں نہ بیھگتیں وہ اپنے دل کا ٹکڑا کسی اور کو جو دے رہے تھے

ماہیم کو روتے دیکھ کر حیات کی آنکھیں بھی نم ہوچکی تھیں

ماہیم اپنے باپ کے گلے لگ کر رو رہی تھی اور اسے اپنا باپ یاد آرہا تھا اگر وہ آج وہ یہاں ہوتا تو کتنا خوش ہوتا حیات اسکے گلے لگ کر روتی اور وہ اسے شاہ میر کے ساتھ رخصت کرتا

اسنے پلکیں جھپکا کر اپنے آنسو ضبط کیے جب اسے اپنے سر پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا

اسنے چہرہ موڑ کر دیکھا وہاں معتصم کھڑا مسکراتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا

اسنے بنا کچھ کہے حیات کو اپنے ساتھ لگالیا اور حیات نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کرلیں ایسا لگ رہا تھا معتصم نے اسکے دل کی بات سن لی ہو

اسنے حیات کو صرف بیٹی کہا ہی نہیں تھا بلکہ اسکا باپ بن کر بھی دکھایا تھا

°°°°°

"اپنے ہی گھر جارہی ہے وصی بےفکر رہو ماہیم کے لیے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے"

عالم نے اسے دیکھ کر کہا جو ماہیم کو اپنے ساتھ لگاے اپنے آنسو ضبط کررہا تھا

وصی سے دور ہٹ کر وہ عینہ سے ملی جو خود رو رہی تھی

وقت واقعی بہت جلدی گزرتا ہے کل تک وہ خود اس مقام پر کھڑی تھی اور آج اسکی بیٹی

"عصیم میری بیٹی کا خیال رکھنا"وصی نے بھیگی آنکھوں سے عصیم کو دیکھا جس پر اسنے تسلی دیتے انداز میں اپنا سر ہلایا

"وہ اب میری بیٹی ہے وصی"

عصیم کی بات سن کر اسنے مزید کچھ نہیں کہا تھا

اسکی بیٹی ایسے گھر میں جارہی تھی جہاں پیار اور محبت تھی جہاں سارے رشتے ایک دوسرے سے جڑے ہوے تھے اور سب سے بڑھ کر اسکا شوہر اس سے بےتحاشہ محبت کرتا تھا اسے اپنی بیٹی کے لیے کوئی پریشانی نہیں تھی بس تھوڑا دکھ تھا اسکی جدائی کا

وصی نے ماہیم کی طرف دیکھا جو اب ایہاب سے گلے ملتے ہوے رو رہی تھی اور آج اپنی بہن کے دور جانے پر وہ بھی آنسو بہا رہا تھا

"اوے رونا بند کر تیری وجہ سے میری بیوی کا میک اپ خراب ہوا نہ تو تیرا چہرہ بگاڑ دوں گا" ساحر نے اسے گھورتے ہوے کہا

"رخصت ہورہی ہے میری بہن بھلے آج جتنا مارنا ہے مار لو لیکن میں جب تک اس سے اچھے سے نہیں مل لیتا چھوڑوں گا نہیں" اسنے مزید سختی سے ماہیم کو اپنے ساتھ لگایا

جبکہ اسکے بچوں جیسے انداز کو دیکھ کر سب ہنس پڑے اسکے سینے سے لگی ماہیم بھی

°°°°°

نور اسے کمرے میں بٹھا کر گئی جس کے بعد وہ اپنی نم ہتھیلیاں مسلتی کب سے ساحر کا انتظار کررہی تھی

تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا جس کی آواز سن کر اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا

اسکے قریب آکر ساحر نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا جسے دیکھ کر اسنے اگلے ہی پل تھام لیا

اسکا ہاتھ پکڑ کر ساحر نے بنا کچھ کہے اسے بیڈ سے اتارا اور باہر لے جانے لگا

"ہم کہاں لے کر جارہے ہیں ساحر" اسکے قدم حویلی سے باہر جاتے دیکھ کر ماہیم نے پوچھا

"ایک خاص جگہ"

اسے جواب دے کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا

ماہیم کو بٹھا کر وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کردی

°°°°°

اسنے گاڑی ایک گھر کے سامنے روکی جو اندر باہر جلتی لائٹس کے باعث پورا روشن ہوا پڑا تھا

پچیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ دونوں وہاں پہنچے تھے

اپنی جگہ سے اتر کر وہ دوسری طرف آیا اور دروازہ کھول کر ماہیم کو گاڑی سے اتارا

"یہ کس کا گھر ہے"

"یہ تمہارا گھر ہے میری طرف سے تمہاری منہ دکھائی"

"لیکن مجھے اسکی ضرورت نہیں تھی" اسنے ساحر کی طرف دیکھ کر کہا اسے امید نہیں تھی ساحر اسے تحفے میں کوئی ایسی چیز دے گا

"لیکن مجھے ہے کام کی وجہ سے مجھے شہر میں ہی رہنا پڑتا ہے اب اپنے سسرال میں رہتا اچھا تو نہیں لگوں گا اسلیے ہم یہیں رہیں گے اور سب سے اچھی بات بتاؤں کیا ہے"

"کیا ہے" اسنے دلچسپی سے پوچھا شاید واقعی ماہیم کو اسکی طرف سے کوئی اچھی بات سننے کی امید تھی

"ہم دونوں یہاں اکیلے ہوں گے ڈسٹرب کرنے کے لیے کوئی تیسرا نہیں ہوگا" اسکے کہنے پر ماہیم نے اپنی نظریں جھکالیں

ساحر نے غور سے اسکی جھکی نظروں کو دیکھا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر لے گیا

"ویسے اس گھر میں صرف تین کمرے ہیں پہلے میں نے سوچا ایک دو اور بنوالوں لیکن پھر سوچا ہمارے لیے تو ایک کمرہ بھی کافی ہے"

"میں گھر دیکھ لوں"ساحر کی نظروں سے گھبرا کر اسنے اپنی نظریں ہر طرف دوڑا کر گھر کا جائزہ لیا

اس گھر میں ہر ایک چیز ماہیم کی پسند کی تھی ایسا لگ رہا تھا ساحر نے اس گھر کی سیٹینگ بڑی فرصت سے کروائی تھی

"ابھی فلحال ہمارا کمرہ دیکھو گھر کل دیکھ لینا"

بنا لمحہ ضائع کیے اسنے ماہیم کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور وہاں بنے کمروں میں سے ایک میں چلا گیا

°°°°°

اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی حیات نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں

شاہ میر بیڈ پر اسکے قریب آکر بیٹھ گیا اسکے بیٹھنے پر بھی حیات نے اپنی نظریں نہیں اٹھائیں

"حیات اپنا ہاتھ دکھاؤ" اسکے کہنے پر حیات نے جھکی نظروں کے ساتھ اپنا ہاتھ اسکے سامنے کر دیا

جسے تھام کر اسنے اپنی جیب سے چھوٹی سی مخملی ڈبی نکالی اور اس میں موجود انگوٹھی نکال کر حیات کی انگلی میں پہنا دی

حیات نے جھکی نظروں کے ساتھ اس انگوٹھی کو دیکھا جو دکھنے میں ہی کافی قیمیتی اور مہنگی لگ رہی تھی

"تم جانتی ہو حیات میں نے اس لمحے کا کتنا انتظار کیا ہے"

اسنے آہستہ سے اپنا سر ہلادیا شاہ میر کتنی دفعہ ہی اس سے اس بات کا اظہار کرچکا تھا کہ اسے ان لمحوں کا کتنا انتظار ہے

"تو پھر سیدھی بات"

"نو بکواس"

"رومینس اسٹارٹ"

اگلے ہی لمحے اسے بیڈ پر لٹا کر بنا کچھ سمجھنے کا موقع دیے شاہ میر اسکے لبوں پر جھک گیا

اس اچانک افتاد پر حیات نے گھبرا کر اسکے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے جلدی سے خود سے دور کیا

"کیا ہوا"

"شاہ میر یہ کیا حرکت ہے"

"یہ کس ہے میری جان"اسنے اس طرح بتایا جیسے حیات کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہا تھا

"مطلب ایسے کون کرتا ہے" اسنے جھکی نظروں کے ساتھ کہا

"سوری مجھے نہیں آتا تم سکھا دو"

"مجھے بھی نہیں آتا"

"تو پھر مجھے کرنے دو"

شاہ میر نے نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور ایک ایک کرکے اسکی ساری جیولری اتار کر اس پر پھر سے جھک گیا

°°°°°

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے ماہیم کو نیچے اتارا جبکہ وہ حیرت سے پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی

حویلی میں ساحر کا کمرہ سجا ہوا تھا لیکن یہاں یہ کمرہ اس سے زیادہ خوبصورت طریقے سے سجایا گیا تھا

جبکہ بیڈ کے اوپر دیوار پر اسکی اور ساحر کی نکاح کی خوبصورت سی تصویر لگی ہوئی تھی

"جاؤ اسے پہن کر آؤ" ساحر کی آواز پر ماہیم نے چونک کر اسکی طرف دیکھا اور اسکے ہاتھ میں وہ نیٹ کی شارٹ ڈریس دیکھ کر آنکھیں پوری پھیل گئیں

"یہ پہن کر آؤں یہ پہننے لائق ہے"

"ہاں ماہیم جان یہ پہن کر آؤ"

"آپ خود ہی پہن لیں"

"اگر یہ مجھ پر اچھا لگتا تو میں ضرور پہنتا لیکن یہ میرے لیے نہیں ہے اسلیے شرافت سے جاکر اسے پہن کر آؤ"

"نہیں پہننی مجھے"

ساحر کے بار بار کہنے پر اسنے جھنجھلا کر کہا اور اسکے کہنے پر اس بار ساحر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کھینچا جس کی وجہ سے وہ سیدھا اسکے چوڑے سینے سے ٹکرائی

"تم جانتی ہو نہ میں پہلے بھی تمہارے کپڑے چینج کرچکا ہوں دوبارہ کرنے میں بھی مجھے کوئی پرابلم نہیں ہوگی" اسکے کہنے پر ماہیم نے جلدی سے اسکے ہاتھ سے وہ ڈریس لیا اور واشروم میں گھس گئی

پانچ منٹ گزرے

دس منٹ گزرے

پندرہ منٹ گزرنے کے بعد اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ماہیم کو دیکھ کر لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ پھیل گئی

وہ ڈریس ماہیم کے گھٹنوں سے بھی اوپر آرہی تھی اور خود وہ اپنی آنکھیں بند کیے واشروم کے دروازے کے پاس کھڑی تھی

ساحر نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما اور اسے کے جاکر آئینے کے سامنے کھڑا کردیا

چند سیکینڈ بعد ماہیم کو اپنی کمر اور پیٹ پر اسکے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا جس سے اسنے اپنی آنکھیں مزید میچ لیں

"آنکھیں کھولو ماہیم"

"مجھے نہیں کھولنی"

"میں کم از کم آج تو تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا اسلیے آنکھیں کھولو"

ماہیم نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور پہلی نظر اپنے پیٹ پر گئی جہاں وہ خوبصورت سی چین بندھی ہوئی تھی ساحر اسے یقیناً یہی قمر بند پہنا رہا تھا جب اسے اسکا لمس اپنے پیٹ پر محسوس ہوا تھا

"کیسی لگی"

"اچھی ہے" اسنے نظریں جھکالیں جب ساحر نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لے کر اسکے کندھے پر اپنی تھوڑی رکھ دی

"تمہارے لیے مجھے اس سے زیادہ اچھا کوئی تحفہ ہی نہیں ملا تمہارے نازک وجود کا تصور زہہن میں آتے ہی مجھے یہ چیز سب سے بہترین لگی"

اسکے بکھرے بال ایک طرف کرکے ساحر نے اسکی گردن پر اپنے لب رکھے

اسکا رخ اپنی جانب کرکے ساحر بہکی بہکی نظروں سے اسکے گھبرائے ہوے روپ کو دیکھنے لگا اسکا شرمانا گھبرانا ساحر کی نظروں میں اسے مزید حسین بنا رہا تھا

اگلے ہی پل وہ ماہیم کے لبوں کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا اسکے شدت بھرے انداز پر وہ مچلی لیکن بنا اسکی پرواہ کیے وہ اسکے لبوں پر جھکا رہا اور کافی دیر بعد انہیں اپنی قید سے آزاد کیا

اسکے لبوں کو آزاد کرکے ساحر نے اسکا وجود اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اسے بیڈ پر لٹا کر خود اس پر جھک گیا

ماہیم نے گھبرا کر اپنے چہرے کا رخ موڑ لیا اس سے زیادہ وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی جانتی تھی آج راہ فرار ممکن نہیں تھی

ساحر نے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اپنی جانب کیا اور اسکی جھکی نظروں پر اپنے لب رکھ کر اسکے لبوں کو پھر سے اپنی قید میں لے لیا

°°°°°

آنکھیں کھول کر وہ کب سے اپنے قریب سوے ہوے شاہ میر کو دیکھ رہی تھی جو سوتے ہوے انتہا کا معصوم لگ رہا تھا

حیات نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بےترتیب بالوں کو صحیح کیا جب شاہ میر نے اپنی نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور اسکے دیکھتے ہی حیات نے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا جیسے کوئی کرنٹ لگ گیا ہو

"اس طرح کی حرکتیں کروگی پھر میں تمہارے قریب آوں گا اور پھر تم شکایت کرو گی یہ تو غلط بات ہوئی نہ جان"

"میں نے کچھ نہیں کیا میں تو بس آپ کے بال ٹھیک کررہی تھی"

"اچھا تو کرو رک کیوں گئیں" اسنے شرارتی نظروں سے حیات کی طرف دیکھا

"میں کرچکی ہوں" وہ اٹھ کر جانے لگی جب شاہ میر نے اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر اسے اپنے قریب کرلیا

"شاہ میر پلیز مجھے جانے دیں"

"پہلے میری مورننگ کس دو"

اسکے کہنے پر حیات نے جلدی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسکی اس حرکت کے بعد شاہ میر کوئی گستاخی کرپاتا اس سے پہلے ہی وہ اپنا آپ اس کی گرفت سے چھڑا کر تیزی سے بھاگ چکی تھی

°°°°°

"ساحر پلیز چھوڑیں مجھے نیند آرہی ہے" نیند سے بھری آنکھیں بمشکل کھول کر اسنے اپنے اوپر جھکے ساحر سے کہا

صبح ہوچکی تھی لیکن وہ ابھی تک ساحر کی بانہوں میں قید تھی اور اب تو نیند سے اسکا برا حال ہورہا تھا

"اب سو کر کیا کرو گی تم یہ تو لوگوں کے اٹھنے کا ٹائم ہوتا ہے" اسکی حالت دیکھ کر ساحر نے مسکراتے ہوے اسکی گردن پر اپنے لب رکھے جہاں اسکی شدتوں کے نشان بکھرے پڑے تھے

اسکے جواب میں ماہیم اسے یہ بھی نہ کہہ سکی کہ ساری رات اسنے سونے کب دیا تھا جو اب اٹھنے والی بات کررہا تھا

"چھوڑیں مجھے"

اسنے خفگی سے اسکے برہنہ سینے پر مکا مارا جس پر ساحر اس سے دور ہوگیا ویسے بھی وہ اسے کچھ زیادہ ہی ستا چکا تھا

اسکے چھوڑتے ہی ماہیم اٹھ کر جانے لگی جب ساحر نے اسے پھر سے اپنے قریب کھینچا جس سے وہ سیدھا اسکی گود میں آکر گری

"ی-یہ کیا حرکت ہے"

"تمہارا دلکش سراپہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دے رہا کہ میں تمہیں خود سے دور کروں" ساحر نے اپنا چہرہ اسکے بالوں میں چھپایا اور اپنا ہاتھ اسکے گھٹنے سے اوپر پھیرنے لگا جس پر ماہیم نے گھبرا کر جلدی سے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا

"پلیز چھوڑ دیں" اسکی معصوم سی آواز سن کر ساحر نے ترس کھا کر اسے چھوڑ دیا اور اسکے چھوڑتے ہی اس بار بنا لمحہ ضائع کیے وہ سیدھا واشروم میں بھاگ گئی

°°°°°

ساری تیاریاں کرکے وہ سب لوگ میریج حال کے لیے نکل چکے تھے

آج آہان کی رخصتی تھی اسلیے آج کا سارا دن بھی مصروفیت بھرا گزرا تھا

بارات کے آتے ہی انکا بہترین استقبال ہوا اور تھوڑی دیر بعد شانزے کو آہان کے برابر لا کر بٹھا دیا گیا

"آج تو تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو" اسنے گہری نظروں سے اپنے برابر بیٹھی اپنی دوست پلس بیوی کو دیکھا جو اس وقت مہرون رنگ کے لہنگے میں آج بہت مختلف لگ رہی تھی

"میں ہوں ہی خوبصورت" اسنے ایک ادا سے جواب دیا جس پر آہان بس مسکرا کر رہ گیا

شانزے کی بار بار خود کی طرف اٹھتی نظریں اسے یہ احساس دلا رہی تھیں کہ اسے وہ اچھا لگ رہا ہے ویسے بھی اسنے اس وقت شانزے کی پنسد سے ہی ڈریسنگ کی ہوئی تھی

یونیورسٹی ٹائم میں کتنی ہی بار وہ آہان کو یہ بات بتا چکی تھی کہ اپنے ہونے والے دولہے کو لائٹ براؤن کلر کی شیروانی پہناے گی خود اپنی پنسد سے

اسنے شیروانی لائٹ براؤن کلر کی ہی پہنی ہوئی تھی وہ شیروانی شانزے کی پنسد کی نہیں تھی لیکن کلر تو اسکا پسندیدہ تھا نہ

°°°°°

آج آہان کی رخصتی کے ساتھ ساتھ وجاہت خان کا بھی نکاح تھا

انہوں نے یہ بات سب گھر والوں کے سامنے کہی تھی جس پر پہلے تو سب خاموشی ہی رہے

لیکن پھر تھوڑا سوچ کر معتصم نے عارف سے اس بارے میں بات کرلی

اسکی بات سن کر پہلے تو وہ اچھا خاصا تپ گیا

یہ بھی کوئی عمر ہوتی ہے شادی کرنے کی وہ اس فیصلے کے حق میں بلکل نہیں تھا لیکن بعد میں آمنہ اور معتصم کے سمجھانے پر انکے نکاح کے لیے حامی بھرلی

آہان کے ساتھ آج ان دونوں کا بھی سادگی سے نکاح ہونا تھا

°°°°°

وہ حیرت سے کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑی اس مخملی ڈبی کو دیکھتا جو عینہ نے اسے دی تھی تو کبھی اپنے سامنے کھڑی میشال کو

وصی نے اسے اسٹیج پر بلایا تھا لیکن اسے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس لیے بلا رہا ہے آج اسکی منگنی تھی اور اسے اب یہ بات پتہ چل رہی تھی

وصی نے عارف سے پہلے ہی ان دونوں اور رشتے کی بات کرلی تھی اور عارف کے اقرار کے بعد ان لوگوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ گھر کی شادی میں ہی یہ کام بھی ہوجاے گا

"اب بھی کیوں بتارہے ہو ساری دال پکالی اور مجھے بتایا بھی نہیں"

"شکر کر دال کھائی تو نہیں ہے" آہان نے اسکی فضول سی بات سنتے ہی چڑ کر کہا

"تو کھا بھی لیتے"

"اتنا ڈرامے نہ کر نہیں کرنی منگنی تو انگھوٹھی واپس کردے" معتصم نے اسکے ہاتھ سے باکس لینا چاہا جب اپنے نخرے بھاری پڑتے دیکھ کر اسنے جلدی سے انگھوٹھی باہر نکالی

"میں تو مذاق کررہا تھا سیریس کیوں ہوتے ہو"

میشال کا ہاتھ پکڑ کر اسنے جلدی سے اسکی انگلی میں انگھوٹھی پہنادی جبکہ اسکی اتنی جلدی بازی پر سب کے قہقہے چھوٹے

اسنے اپنا ہاتھ میشال کے سامنے کیا جسے دیکھ کر اسنے بھی انگیجمنٹ رنگ ایہاب کی انگلی میں پہنا دی

"مجھے تو لگا تھا تم نخرے دکھاؤ گی اتنی آرام سے تم نے مجھ سے منگنی کرلی" یہ بات اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی کہ میشال نے اتنی آرام سے اسکے ساتھ ایک رشتہ باندھ لیا

"گھر والوں نے تھوڑا سمجھایا پھر میں نے بھی سوچا اور ہاں کہہ دیا ویسے بھی مجھے تم جیسے انسان کی تو تلاش تھی"

"ہیں سچ کہہ رہی ہو" اسنے حیرت سے پوچھا جیسے کچھ غلط سن لیا ہو

"ہاں جو تم جیسا بزدل ہو جس کی حفاظت میں کروں جو مجھ سے دب کر رہے"

"دبنے والا تو میں کسی سے نہیں ہوں سواے پاپا اور ساحر بھائی کے اور جہاں تک بات ہے حفاظت کی تو اتنا گیا گزرا بھی نہیں ہوں اپنی حفاظت بھلے نہ کرسکوں لیکن اپنوں کے لیے تو جان بھی دے سکتا ہوں"

اسنے نظریں میشال کے چہرے پر ٹکاے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اس پر اپنے لب رکھ دیے

جبکہ اسکی اس حرکت پر میشال نے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا جس پر ایہاب نے قہقہہ لگایا

"ویسے تو بڑی بہادر بنتی ہو بس اتنی سی حرکت پر ہی ساری بہادری نکل گئی"

وہ یہ بات بس سوچ کر رہ گیا جبکہ چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی

°°°°°

"کتنی پیاری ہے کس کی بےبی گرل ہے"اسنے پریشے کی گود میں موجود حورم کو دیکھتے ہوے کہا اور خود اسے اپنی گود میں اٹھا لیا

بچے تو اسے ویسے بھی ہمیشہ سے پنسد تھے لیکن یہ گول مٹول بچی حد سے زیادہ پیاری تھی

"زریام کی بیٹی ہے"

"میں اسے اپنے ساتھ رکھ لوں خالا جانی"

"ٹھیک ہے بس دھیان رکھنا یہ بہت بےچین ہے اور یہ رکھ لو"اپنے بیگ سے رومال نکال کر اسنے ارتضیٰ کو دیا

"یہ کس لیے"

"تھوڑی دیر میں پتہ چل جاے گا"

اسنے رومال پکڑ لیا اور تھوڑی دیر میں اسے واقعی پتہ چل گیا کیونکہ حورم اپنا ہاتھ بار بار منہ میں لے جاکر اپنا منہ اور ہاتھ گیلا کرے جارہی تھی اور اپنی اس حرکت سے وہ ارتضیٰ کو مزید کیوٹ لگ رہی تھی

°°°°°

"اپنا نام تو بتا دو"

رخصتی کا ٹائم ہورہا تھا اسے شانزے کے پاس جانا تھا لیکن اللہ جانے کون تھا یہ بندہ جو اسکے پیچھے ہی پڑ گیا تھا

"کیا کرنا ہے تمہیں میرا نام جان کر" اسنے اپنے سامنے کھڑے اقرار کو گھورتے ہوے کہا جو کب سے اسکے پیچھے پڑا ہوا تھا

"اقرار عارف کو تم سے اقرار کرنا ہے"

"دیکھو تم جو بھی ہو"

"تم میشال کو جانتی ہو میں اسکا چھوٹا بھائی ہوں زیادہ چھوٹا نہیں صرف گیارہ مہینے چھوٹا ہوں میرا نام اقرار ہے اور میرے والد کا نام عارف ہے میری والدہ کا نام آمنہ ہے اب پلیز تم بھی بتادو"

"اگر نماز پڑھتے ہو تو میرا نام وہ ہے جسے تم ہر نماز میں پڑھتے ہو اب ڈھونڈتے رہو اور میری جان چھوڑ دو"

اسے الجھا کر وہ خود وہاں سے بھاگ گئی اور اقرار اسکا نام سوچنے لگا

"دعا ہوگا نہیں دعا تو مانگتے ہیں سورت سورت نام تھوڑی ہوتا ہے ہر نماز میں کیا پڑھتے ہیں" وہ خود سے بڑبڑاتے ہوے کہہ رہا تھا اور پھر اسے پتہ چل ہی گیا کہ اسکا نام کیا ہوگا

"ثناء یقیناً لڑکی کا نام ثناء ہی ہوگا" ایکسائیڈیٹ ہوکر وہ واپس اسے ڈھونڈنے لگا جو پتہ نہیں اب کہاں غائب ہوچکی تھی

°°°°°

شانزے کی رخصتی کا وقت ہوتے ہی دادا جان نے بھی اپنی رخصتی کی بات کہہ دی جس پر سب ہی حیران ہوے کیونکہ یہ بات تو طے ہوچکی تھی کہ ان سب کے ولیمے کے دن ہی یہ کام ہونا تھا لیکن وہ اپنی بات پر بضد رہے انکا کہنا تھا زندگی اور موت کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا

اگر ولیمے تک وہ مر مرا گئے تو پھر کیا ہوگا اسلیے وہ اپنی بیگم کو ابھی رخصت کروانا چاہتے تھے

انکی بات پر عارف نے فقط اپنا سر ہلادیا اسکے علاؤہ اور کرتا بھی کیا

ایہاب کی منگنی بھی ولیمے والے دن ہی ہونی تھی لیکن مظہر صاحب کے کہنے پر آج ہی ہوئی کیونکہ بقول انکے یہ ایک ہی بات تھی ویسے بھی عارف اور مظہر صاحب کے درمیان کافی اچھے تعلقات تھے بلکل دوستوں کی طرح

°°°°°

°°°°°

"اس عمر میں شادی عجیب تو لگا ہونا شاید تمہیں شرمندگی بھی ہوئی ہوگی لوگوں کے سامنے بتاتے ہوے کہ تمہارے دادا سسر نے شادی کرلی ہے"

وہ دادی جان کو دادا جان کے کمرے میں چھوڑنے آئی تھی جب انہوں نے اسے اپنے پاس بٹھا کر کہا

"اس میں شرمندگی والی کیا بات ہے آپ نے کوئی غلط کام نہیں کیا دادا جان نے آپ سے نکاح کیا ہے"

"تم ایسا سوچتی ہو"

"جی بلکل میرے نزدیک تو یہ تو اچھی بات ہے کہ زندگی کے دو تنہا ساتھی ایک ساتھ ہوگئے"

"اس وقت تم بولتے ہوے بلکل اپنے باپ کی طرح لگ رہی ہو"

انکے کہنے پر وہ بےساختہ مسکرائی جب بھی کوئی اسے اسکے ماں باپ میں ملاتا تھا تو اسے خود پر فخر محسوس ہوتا تھا

°°°°°

"اسلام و علیکم بیگم" دادا جان نے کمرے میں داخل ہوکر اسلام کیا جسے سن کر بیڈ پر بیٹھیں دادی جان چونکیں اور سلام کا جواب دیا

"مجھے لگا آپ بیڈ پر بیٹھی مجھے شرمائی ہوئی ملینگی" انکی بات سن کر دادی جان بےساختہ ہنسی

"میرے شرمانے کے دن تو کب کے چلے گئے خان صاحب"

"ارے ابھی تو شرمانے کے دن شروع ہوے ہیں مجھے بوڑھا مت سمجھیں جوان لڑکوں سے زیادہ رومینٹک ہوں میں"

دادا جان نے اپنی جیب سے مخملی ڈبیہ نکالی اور اس میں موجود ڈائمنڈ رنگ نکال کر دادی جان کی انگلی میں پہنا دی اور نرمی سے انکے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا

جبکہ انکے اس عمل سے دادی جان واقعی شرما گئیں

°°°°°

"کہاں تھیں تم"

"میں آپ کی نئی نئی دادی جان کے ساتھ تھی"

"میری ہی نہیں تمہاری بھی دادی جان ہیں" اسکا ہاتھ پکڑ کر عصیرم نے اسے بیڈ پر اپنے قریب بٹھایا

"عصیرم آپ کو پتہ ہے ماہر لالا اور زریام کے بچوں کو دیکھ کر میرا بھی دل چاہ رہا ہے ہمارے بھی جلدی سے بےبی ہو جائیں"

"انشاء اللہ وہ دن بھی جلدی آے گا جب چھوٹا سا عصیرم خان یا پھر چھوٹی سی نور خان ہمارے گھر میں چہکتے پھر رہے ہوں گے"

"وہ وقت آنے والا ہے" اسنے شرماتے ہوے اپنا سر عصیرم کے سینے پر رکھ لیا جبکہ اسکی بات سن کر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا

"کیا کہا تم نے"

"حویلی میں میری طبیعت خراب ہوگئی تھی اماں سائیں نے چیک کیا تھا تو انہوں نے بتایا"

"انہوں نے کیا بتایا" وہ نظریں یک ٹک اسکے چہرے پر جماے پوچھ رہا تھا

"یہی کہ چھوٹا عصیرم خان یا نور خان آنے والی ہے"

اسکے الفاظ سنتے ہی عصیرم نے گہرا سانس لیا اور بھیگی آنکھوں سمیت اسے اپنے سینے سے لگالیا

"کسی نے مجھے کیوں نہیں بتایا تم نے کیوں نہیں بتایا"

"میں نے سب کو منع کیا تھا میں چاہتی تھی خود آپ کو یہ بات بتاؤں"

"اور تم مجھے اب بتارہی ہو"

"سوری صبح سے موقع ہی نہیں مل سکا"اسنے معصومیت سے عصیرم کی طرف دیکھا جس پر عصیرم نے مسکراتے ہوے اسکے ماتھے پر شدت سے اپنے لب رکھ دیے

اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اسے شکر ادا کرنا تھا اپنے مالک کا اپنے اللہ کا جس نے اسے یہ دن دکھایا تھا اسکی اندھیری زندگی میں نور ہی نور بکھیر دیا تھا

°°°°°

کمبل خود پر ڈال کر وہ جیسے ہی سونے کے لیے لیٹی بجتے فون نے سارا موڈ خراب کردیا

اسنے موبائل اٹھا کر دیکھا جہاں انجان نمبر سے کال آرہی تھی

"ہیلو"

"دیکھو تم جو بھی ہو صبح کال کرنا اس وقت مجھے بہت نیند آرہی ہے"

"نام تو سن لو بندے کو اقرار عارف کہتے ہیں" اسکا نام سنتے ہی ثناء کی ساری نیند اڑن چھو ہوگئی اس نام کو وہ اتنی جلدی کیسے بھولتی وہ وہی شخص تھا جو آج کی ساری تقریب میں اسکا دماغ کھاتا رہا تھا

"تمہارے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا"

"ایہاب بن گیا میرا بہنوئی اور آہان بھائی ہیں اسکے پیارے سے دوست اور کزن تو بس چھپکے سے انکا فون لے کر تمہارا نمبر نکال لیا" اسنے مزے سے اسے پوری بات بتائی جیسے بہت فخر کا کام کیا ہو

"کیا مسلہ ہے کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو"

"سیدھی سی بات ہے مس ثناء تم مجھے اچھی لگی ہو ٹائم پاس کرنے والا بندہ نہیں ہوں تم ابھی لگی ہو اور تمہیں لائف پارٹنر کے طور پر منتخب کرنا چاہتا ہوں کیا تم میرا ساتھ قبول کرو گی"

"تمہیں اسکے لیے میرے پیرنٹس سے بات کرنی ہوگی"

"اسلیے تو فون کیا ہے جس طرح تمہارا فون نمبر لے لیا اس طرح تمہارا ایڈریس بھی لے لوں گا بس تمہاری اجازت چاہیے کیا میں اپنی فیملی کے ساتھ تمہارے گھر آجاؤں" چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اقرار کو اسکی آواز سنائی دی

"آجاؤ" اسنے کال کاٹ دی اور اقرار کو اسکا اقرار سن کر بےانتہا سکون ملا

جبکہ دوسری طرف اسے سوچ کر ثناء کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی یہ باتیں تو آج تک اسنے صرف فلموں ڈراموں میں دیکھیں تھیں

لڑکی کو دیکھا پسند آگئی لڑکا اسکے لیے رشتہ لے آیا لیکن اسے نہیں پتہ تھا اسکے ساتھ بھی ایسا کچھ حقیقت میں ہوگا

لیکن ہوچکا تھا واقعی میں اسکے بھی خوابوں کا شہزادہ آگیا تھا اقرار عارف کی صورت میں

°°°°°

"ویسے یہ تو غلط بات ہے سب کی گھر میں شادی ہوگئی اور یہ لوگ مجھے منگنی بھر ٹرکھا رہے ہیں" اسنے فون کال پر موجود دوسری جانب میشال سے کہا جس کا پچھلے تیس منٹ سے وہ دماغ کھا رہا تھا

"پہلے تم اس لائق تو بن جاؤ کہ تمہاری شادی کی جا سکے"

"اور کس لائق بننا پڑے گا مجھے اب تو پاپا کے ساتھ انکا کام میں ہاتھ بھی بٹاتا ہوں"

"بہت بڑا احسان کرتے ہو مت بٹایا کرو"

"میں تو تمہاری وجہ سے کررہا ہوں جب ہماری شادی ہوجاے گی کہ تو میں یہ کام چھوڑ دوں گا"

"اچھا پھر کیا کرو گے"

"کچھ بھی نہیں اسنے" لاپروائی سے شانے اچکاے

"بس تم سے پیار کروں گا"

"تم کام چھوڑ دو گے اور میں کچھ نہیں کہوں گی اگر تم ایسا سوچ رہے ہو تو یہ صرف تمہاری غلط فہمی ہے"

"اچھا تم کیا کرو گی" اسنے دلچسپی سے پوچھا

یہ بات تو اسنے مذاق میں ہی کہی تھی کہ وہ کام چھوڑ دے گا اسے معلوم تھا اب اگر اسنے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو وصی اسے چار کندھوں پر بٹھا کر آفس لے کر جاے گا لیکن لے کر ضرور جاے گا

"روز تمہیں اچھی بیویوں کی طرح آفس کے لیے اٹھاؤں گی اگر نہیں اٹھے تو میرے ہاتھ بھی بہت اچھے چلتے ہیں"

"مطلب تم مجھے اچھی بیویوں کی طرح مارننگ کس دو گی پھر تو میں ساری زندگی کام کرلوں اور سنو میں صرف لپ کس لوں گا"اسنے فرمائش کری جسے سن کر میشال نے منہ بنا کر اگلے ہی پل کال کاٹ دی

"گندا بےہودا" اسنے منہ بگاڑ کر اپنے فون کو دیکھ کر کہا جیسے فون کو نہیں ایہاب کو دیکھ رہی ہو

جبکہ دوسری طرف ایہاب بس ہنستے ہوے سوچنے لگا کہ اسکی بات سن کر میشال کے چہرے کے ایکسپریشن اس وقت کیسے ہوں گے

°°°°°

"کیا سوچ رہی ہو" وصی نے اسکے قریب بیٹھتے ہوے پوچھا جب کب سے خاموشی بیٹھی تھی

"ماہیم کے جانے سے گھر کتنا خاموشی ہوگیا ہے نہ وصی"

"ہاں ہو تو گیا ہے لیکن کیا کرسکتے ہیں یہ تو رسم دنیا ہے اسے نبھانا تو پڑتا ہے"

"لیکن میرے پاس ایک آئیڈیا ہے" اسنے اپنا سر وصی کے کندھے پر رکھ لیا جس سے وصی نے اسکی کمر کے گرد بازو حائل کرکے اسے اپنے مزید قریب کرلیا

"ہم ایہاب کی شادی کر دیتے ہیں اسکی بیوی آے گی تو گھر کی رونق بھی لوٹ آے گی"

"میرے پاس اس سے زیادہ اچھا آئیڈیا ہے"

"وہ کیا"

"ہم بھی عالم کی طرح ایک اور ماہیم کی تیاری کرلیتے ہیں تاکہ ہمارے گھر کی یہ اداسی اس کی بدولت ختم ہوجاے" اسکے کہنے پر عینہ نے گھور کر اسے دیکھا اور اٹھ کر جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر وصی نے اسے اپنے قریب کھینچا اور اسکے اوپر جھک گیا

°°°°°

اسکے کمرے میں داخل ہوتے ہی شانزے نے ایک نظر اسے دیکھا اور نظریں واپس جھکا لیں

"تم اب باقی مردوں کی طرح میرے حسن کے قصیدے تو نہیں پڑو گے نہ" اسکے بیڈ پر بیٹھے ہی شانزے نے کہا

"تمہیں بڑا پتہ ہے کہ مرد عورتوں کے حسن کے قصیدے پڑھتے ہیں"

"کہانیوں میں تو یہی پڑھا ہے"

"کہانیوں میں پڑھے ہوں گے پر میں نہیں پڑوں گا کیوں فصول میں ٹائم ضائع کرنا سیدھا کام کی بات پر آتے ہیں" اسکے مزید قریب آ کر آہان اسکے لبوں پر جھکنے لگا جب شانزے نے اپنا ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ دیا

"پہلے میرا گفٹ دو"

اسکے کہنے پر آہان نے گہرا سانس لے کر سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک باکس نکالا اور اسے شانزے کی طرف بڑھا دیا

شانزے نے اس باکس کو کھول کر دیکھا وہ گولڈ کا لاکٹ تھا جس میں بنے دل میں اسکا اور آہان کا نام لکھا ہوا تھا

"کتنا خوبصورت ہے آہان تھینک یو"

اس میں بھلا تھینک یو کہنے کی کیا ضرورت ہے" اسنے شانزے کی گردن سے اسکا پہنا ہار اتارا اور اسکی نازک گردن میں اپنا دیا ہوا لاکٹ پہنا دیا اور نرمی سے اسکے گردن پر اپنے لب رکھے

"آہ-آہان میں چینج کرلوں"اسکے قریب آتے ہی شانزے نے گھبرا کر کہا

"بات تو بس گفٹ کی ہوئی تھی جو تمہیں مل چکا ہے میں نے تمہاری بات سنی اب تم میری بات سنو بلکہ سنو نہیں بس مجھے محسوس کرو" اسے بیڈ پر لٹا کر آہان نرمی سے اسکے لبوں پر جھکا اور اس پر جھکتا چلا گیا

°°°°°

"زرا ٹہرو تو کہاں جارہی ہو" شامیر کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ جلدی سے واشروم کی طرف بھاگنے لگی جب شاہ میر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا

"شاہ میر مجھے چینج کرنا ہے مجھے بہت نیند آرہی ہے"

"رات کو تو میں نے تمہیں اتنا ستایا بھی نہیں تھا پورے چار گھنٹے کے لیے تمہیں سونے بھی دیا تھا پھر ربھی تمہیں نیند آرہی ہے"

"پلیز چھوڑ دیں"

"اس طرح بولو گی تو مزید پیار آے گا" اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر شاہ میر نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اسے چھوڑ دیا

شاہ میر کے چھوڑتے ہی وہ واشروم کی طرف بھاگ گئی اور خود وہ بھی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلا گیا

تھوڑی دیر بعد حیات چینج کرکے باہر نکلی جہاں شاہ میر بیڈ پر لیٹا ہوا تھا

اسکے قریب جاکر حیات نے اپنا سر اسکے سینے پر رکھا جب شاہ میر نے اسے مزید اپنے قریب کرلیا اور حیات نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کرلیں

جبکہ دل میں خدا کا بے انتہا شکر ادا کیا جس نے ماں باپ کے جانے کے بعد زندگی خالی کردی تھی تو شاہ میر کو زندگی میں لاکر اس زندگی کا خالی پن بھی دور کردیا تھا

°°°°°

"حورم کہاں ہے" کمرے میں حورم کی غیر موجودگی دیکھ کر اسنے بیڈ پر لیٹی حوریب سے پوچھا

"موٹی کو ارتضیٰ لے گیا" اسنے اپنی مسکراہٹ دبا کر کہا

"دیکھو حوریب میری بیٹی کو اس طرح مت کہا کرو"

"غلط تو نہیں کہتی زریام"

"اچھا پھر جب تمہارا موٹا اس دنیا میں آے گا نہ تو میں بھی اسے ایسے ہی مخاطب کیا کروں گا"

"بھلے کرلے نہ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ میں تمہارا ساتھ دوں گی" اسنے لاپروائی سے کندھے اچکاے جس پر زریام بس اپنا سر نفی میں ہلاکر رہ گیا

"تم سے مجھے یہی امید ہے"

"دیکھو میں تمہاری امیدوں پر پورا اتری"

اسکے کہنے پر زریام مسکراتے ہوے اسکے قریب گیا اور اسے بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر جھک گیا

"آج کل بہت خوبصورت نہیں ہوتی جارہی ہو"

"تمہیں تو میں ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہوں"

"لیکن مان بننے کے بعد کچھ زیادہ ہی حسین ہوگئی ہو"

"اور باپ بننے کے بعد تم کچھ زیادہ ہی چھچھورے ہوگئے ہو"اسنے زریام کے سینے پر اپنے ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا جب اسکے دونوں ہاتھ اسنے بیڈ سے لگادیے

"ایسے مت بولو میری چورنی میں بہت شریف انسان ہوں"

"تمہاری ساری شرافت میں اچھے سے دیکھ چکی ہوں زریام اول نمبر کے چھوچھورے ہو تم"

"بےبنیاد الزام لگا رہی ہو تم کیوں نہ واقعی میں ایسی حرکتیں کردوں کہ کم ازکم یہ الزام بےبنیاد تو نہ رہے" اگلے ہی پل حوریب کے سرخ لبوں پر جھک کر اسنے حوریب کی سانسوں کو خود میں قید کرلیا

وہ زریام شاہ کی چورنی تھی لوگوں کے وہ پیسے چراتی تھی لیکن زریام شاہ کا اسنے دل چرایا تھا

°°°°°

حویلی پہنچتے ہی وہ فورا اپنے کمرے میں گئی اور چینج کرکے سیدھا جاکر بیڈ پر لیٹ گئی ساحر نے کل پوری رات اسے سونے نہیں دیا تھا اور صبح سے سارا دن ایسے ہی مصروفیت بھرا گزرا اب تو نیند سے اسکا برا حال ہورہا تھا

اسے سوے ہوے ابھی کچھ وقت ہی ہوا تھا جب اپنی رکتی سانسوں کے باعث اسکی آنکھ کھل گئی

اسنے نیند سے بھری آنکھیں کھول کر اپنے اوپر جھکے ساحر کو دیکھا اور اسے خود سے دور کیا

"ساحر میں سورہی ہوں"

"اور میں تمہیں پیار کررہا ہوں"

"پلیز مت کریں مجھے بہت نیند آرہی ہے"

"بیوی اپنی نیند بھگاؤ کیونکہ تمہاری یہ معصوم شکل دیکھ کر بھی میں تمہیں نہیں چھوڑنے والا"

اسکی پیشانی پر اپنے لب رکھ کر وہ پھر سے ماہیم کے لبوں پر جھک گیا

جس کے بعد ایک بات تو ماہیم نے دل میں طے کرلی تھی کہ کل وہ ساری چیزوں کو دفع کرکے دن میں ہی سوجاے گی کیونکہ ساحر صاحب اسکی نیند کے اچھے خاصے دشمن بن چکے تھے

°°°°°

"کیا سوچ رہی ہو" سر کھڑکی سے ٹکاے وہ سوچوں میں گم تھی جب ماہر نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا اسکی آواز سن کر عزہ چونکی

"کچھ خاص نہیں"

"لیکن میں بہت خاص سوچ رہا تھا"

"کیا"

"یہ کہ ان دونوں کو اماں سائیں کے پاس چھوڑ کر آجاتا ہوں" اسنے بیڈ پر سوے ہوے ازمیر اور المیر کی طرف اشارہ کیا

"وہ کیوں"

"تاکہ تمہارے ساتھ پیار بھرے لمحات گزار سکوں اور بیچ میں مجھے یہ دونوں اپنے رونے سے ڈسٹرب نہ کریں"

"بلکل نہیں آپ کیوں اماں سائیں کو رات کے اس وقت پریشان کررہے ہیں"

"نہیں کرتا انہیں پریشان پھر تمہیں کرلوں" عزہ کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اسنے اسے اپنے قریب کیا اور اس سے پہلے وہ کوئی گستاخی کرتا پیچھے سے المیر کے رونے کی آواز سن وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے

ماہر نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے اپنی گود میں اٹھایا کہیں اسکی آواز سن کر دوسرا بھی رونا شروع نہ کردے

اسکے چپ ہونے پر ماہر نے سکون بھرا سانس لیا جب بیڈ پر لیٹا ازمیر رونے لگا اور اسے روتے دیکھ کر المیر بھی دوبارہ رونا شروع ہوگیا ماہر نے گہرا سانس لے کر ان دونوں کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا

اسکے ارادہ ان دونوں کو دوبارہ سلا کر عزہ کے ساتھ وقت گزارنے کا تھا لیکن وہ تھے کہ چپ ہی نہیں ہورہے تھے

"عزہ تھوڑی ہیلپ کردو"

"میں سونے جارہی ہو ہوں ماہر سر آپ چپ کرائیں" اسے جواب دے کر وہ خود پر کمبل ڈال کر مزے سے سونے لگی اور اپنی گود میں موجود ان دونوں کو دیکھ کر ماہر کو اپنے دل کے ارمان ان دونوں کے آنسوؤں میں بہتے نظر آرہے تھے

اسے تو اب احساس ہورہا تھا جب وہ اور ساحر بچپن میں عصیم کے رومینس میں ٹانگ اڑاتے تھے تو اسے کیسا لگتا ہوگا

°°°°°

"شاہ"

اسنے اپنی گود میں لیٹے عصیم کا کندھا ہلا کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا

"ہمم"

'آپ کو پتہ ہے معتصم لالا پری بھابھی کو فرانس لے کر جارہے ہیں ہنی مون پر"

"جانتا ہوں"

"اور وہ پہلے بھی ایک بار ہنی مون پر جاچکے ہیں"

"کہنا کیا چاہتی ہو کسوا" وہ پوری طرح اسکی جانب متوجہ ہوا

"زیادہ کچھ نہیں بس یہی کہ آپ بھی مجھے ہنی مون پر لے جائیں"

اسکی فرمائش سن کر عصیم کے گھنی مونچھوں تلے عنابی لب مسکرا اٹھے

"تم جانا چاہتی ہو ہنی مون پر"

"ہاں"

"ٹھیک ہے میں تمہیں لے جاؤں گا بتاؤ کہاں جاؤ گی"

"ہم ترکی جائینگے لیکن اس شہر میں نہیں جہاں پہلے گئے تھے وہاں تو گھومنے کی جگہ بھی نہیں تھی لیکن آپ نے گھومایا بھی تو نہیں تھا بس گھر میں لے کر بند ہوگئے اور وہاں پھر میں تھی عصیم شاہ تھے اور انکی حرکتیں"

وہ ایک بار بولنا شروع ہوچکی تھی اور اب بس کسوا تھی اور اسکی باتیں

°°°°°

"جب میرے بیٹی ہوگی تو میں اسکا نام جنت رکھوں گا" اسنے آئرہ کی طرف دیکھ کر کہا جو اسکے سینے پر اپنا سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی

"اور اگر بیٹا ہوا تو"

"اگر بیٹا ہوا تو اسکا نام تم رکھو گی لیکن مجھے پورا یقین ہے اس بار میرے بیٹی ہی ہوگی" اسکے کہنے پر آئرہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا

"اور اگر بیٹا ہوا تو"

"تو میں پھر سے بیٹی کے لیے کوشش کروں گا" اسکے کہنے پر آئرہ نے زور سے اسکے سینے پر مکا مارا

"عالم سدھر جائیں"

"مطلب بگڑ جائیں" اپنی بات کہ جواب میں اسکا ہمیشہ کی طرح وہی جواب سن کر آئرہ نے مسکراتے ہوے واپس اسکے سینے پر سر رکھ لیا جس پر عالم نے اسے اپنے مزید قریب کرلیا

°°°°°

"تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے میرے پاس"

"کیا"

معتصم نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل کی ڈرار سے کچھ چیز نکال کر پریشے کو دی

جسے دیکھتے ہی اسنے حیرت سے معتصم کی طرف دیکھا

"یہ کس لیے"

"کیا مطلب کس لیے تم سے کہا تو تھا کہ تمہیں فرانس لے کر جاؤں گا تو بس اب ہمیں چلیں گے اپنے تیسرے ہنی مون پر"

"معتصم میں نانی بننے والی ہوں بہت اچھی لگوں گی ہنی مون پر جاتے ہوے"

"میری جان تم پر نانی بھی بن جاؤ گی نہ میں تمہیں تب بھی اپنے ساتھ ہنی مون پر لے جاؤں گا"

"مجھے نہیں جانا" اسنے ٹکٹ واپس معتصم کو دیے

"میں تم سے پوچھ نہیں رہا پری بتارہا ہوں تیاری کرلینا ورنہ ایسے ہی اٹھا کر لے جاؤں گا"

"تم بہت برے ہو معتصم" اسنے منہ بگاڑ کر کہا جس پر معتصم نے مسکراتے ہوے اسکے گال پر اپنے لب رکھے اور اسے اپنے قریب کرلیا

اسنے کہا تھا وہ نہیں جاے گی لیکن پھر ساری رات وہ معتصم سے فرانس کی ہی باتیں کرتی رہی وہاں وہ کہاں جائیں گے کس جگہ جائینگے اور پیرس لازمی جائینگے

°°°°°

اس وقت وہ لاونج میں بیٹھا کب سے حورم کے ساتھ کھیل رہا تھا لیکن شاید اب حورم میڈم کو نیند آرہی تھی جب ہی اپنی آنکھیں وہ بار بار بند کررہی تھی

رخصتی کے وقت وہ بھی سب کے ساتھ حویلی آگیا تھا کیونکہ اسے حورم کے ساتھ ٹائم گزرنا تھا پھر پتہ نہیں اس سے ملاقات کب ہوتی اسلیے جب تک وہ یہاں تھا تب تک اپنا سارا ٹائم اس ننھی گڑیا کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا

وہ چھوٹی سی گڑیا اسے پہلی ہی نظر میں بہت پیاری لگی تھی اور اب تو اسے اتنے کم وقت میں بہت خاص بھی لگنے لگی تھی

اسے اپنی گود میں اٹھاے ارتضیٰ ٹہلنے لگا اور تھوڑی ہی دیر میں اسکے کندھے سے لگی حورم سوچکی تھی

اسے سوتے دیکھ کر ارتضیٰ نے مسکراتے ہوے اسکے گال پر اپنے لب رکھے

اب تو اسے خود بھی نیند آرہی تھی اسے اپنی گود میں اٹھاے وہ پریشے کے کمرے کی طرف چلا گیا تاکہ حورم کو اسے دے سکے

اس وقت نہ حویلی میں موجود کسی فرد کو نہ خود ارتضیٰ کو اور نہ اسکے کندھے پر سر رکھے سوئی حورم کو یہ اندازہ تھا کہ آگے جاکر کیا ہونے والا ہے

ان میں سے کسی کو بھی اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ آگے جاکر حورم زریام شاہ نے ارتضیٰ احسان آفندی کا جنون بن جانا تھا اسکا عشق بنا جانا تھا

°°°°°

"ختم شد"

۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔>


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Rooh E Mehram  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Rooh E Mehram  written by Umme Umama  .Rooh E Mehram  by Umme Umama is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages