Mein Tujhe Toot Ky Chaho By Zunaira Bano New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 29 July 2024

Mein Tujhe Toot Ky Chaho By Zunaira Bano New Complete Romantic Novel

Mein Tujhe Toot Ky Chaho By Zunaira Bano New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mein Tujhe Toot Ky Chaho By Zunaira Bano Complete Romantic Novel 

Novel Name: Mein Tujhe Toot Ky Chaho

Writer Name: Zunaira Bano

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

ڈھلتی شام کی اداس سرخی کو سیاہ کڑوی رات کی گہری تاریکی رفتہ رفتہ اوٹ میں لے رہی تھی۔ نیم اندھیرا، ماحول سنسان، گلیاں ویران۔ خالی میدان، سناٹا وحشت ناک۔ سیاہی مائل درخت جو اس ملگجا اندھیرے میں بڑے بھیانک لگ رہے تھے۔ کچھ ایسے کھڑے تھے کہ کٹہرا سا بن گیا تھا۔ اسی کٹہرے کے درمیان وہ اکڑوں بیٹھی تھی۔ سفید ریشمی قمیض مٹی سے میلی ہو گئی تھی۔ ڈوپٹہ کندھے سے لٹکتا گھاس کے مخملی سبز فرش پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ رات سے بھی سیاہ، کالے ریشمی بال بے لگام کھلے تھے۔ گھنے اور خوبصورت۔ ایسے میں وہ چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں چھپاۓ، زار و قطار رو رہی تھی۔ مسلسل آہیں بھرتی، متواتر سسکیاں لیتی۔

فضا میں یکا یک کرب چھا گیا۔ پتوں سے لدی پھدی ڈالیاں جھک جھک کر دیکھنے لگیں۔ گھروں کو لوٹتے پرندے آسمان میں ہی ٹھہر گۓ۔ امبر پر پھیلی سیاہی بھی کانپ اٹھی۔ برگد کی اوٹ میں براجمان ہزار داستان کا دل بھر آیا۔ وہ کیوں رو رہی ہے؟ وہ شہزادیوں جیسی دوشیزہ، خوبصورت ملکہ جیسی کوئی پری رُو، جیسے سمندر سے برآمد ہوئی جل پری۔۔۔ یہ کیوں اپنے خوبصورت نینوں کو زرد کیے خود سے بیگانہ، دنیا سے بے پرواہ آنسو بہا رہی ہے؟

لڑکی بلکتی رہی۔ سسکتی رہی:

"مجھے وہ کیوں نہیں ملا اللہ۔ مجھے وہ آخر کیوں نہیں ملا؟" 

ہچکی لے کر اس نے گیلے ہاتھ چہرے پر پھیلا لیے:

"مجھے ضوریز حسن کیوں نہیں ملا؟ کیوں نہیں ملا؟"

------------------------------ 

انیس سالہ عمیر کے ہاتھ میں تین ڈبے تھے اور گھر کے سب بچے اس کے گرد جمع تھے۔ پھپھو گھر کی سب سے چھوٹی کنزیٰ کو گود میں لیے فیڈر سے دودھ پلا رہی تھیں۔ عمیر کا چہرہ دمک رہا تھا۔ وہ پھپھو کے بعد گھر میں سب سے بڑا تھا۔ عیدی کے ساتھ ساتھ تحفے بھی بانٹ رہا تھا:

"پہلا تحفہ میرے کزن حنان کے لیے۔" اس نے پہلا ڈبہ کھولا تھا۔ پھپھو کے بڑے بیٹے کا نام لے کر ایک بڑی خوبصورت کھلونا گاڑی اس کو تھما دی۔ پھر اسی ڈیزائن کی ایک مختلف رنگ میں گاڑی اس سے چھوٹے منان کو دی۔ وہ دونوں خوشی سے چمک گۓ تو عمیر نے دوسرا ڈبہ کھولا۔ اس میں تین رنگین کھلونا بھالو موجود تھے۔ پھپھو نے ایک ہانیہ کو دی اور دوسری ملازمہ کی بچی کو تھما دی۔ تیسری گڑیا نکال کر ہتھیلی پر رکھی:

"اور یہ گڑیا میری سب سے پیاری بہن کے لیے۔"

پیاری بہن کونے میں کھڑی تھی۔ سب بچوں سے دور، اس کا چہرہ سپاٹ تھا، وہ پانچ یا چھے سال کی تھی۔ 

"الوینہ۔ دیکھو تمہارے لیے کیا آیا ہے؟"

بڑے بھائی کے بلانے پر وہ آگے آئی۔ رنگین گڑیا بالکل الوینہ جیسی تھی۔ اس نے گڑیا تھام لی اور اسے دیکھنے لگی۔ ادھر عمیر نے تیسرا ڈبہ کھولا اور اس میں سے ایک کھلونا ڈریگن نکالا۔

"بلال کو ڈریگنز پسند ہیں، ہے ناں بلال۔"

سات سالہ بلال چہک کر کھلونے ڈریگن پر جھپٹا اور کھلکھلایا۔ حنان تو متوجہ ہی نہ تھا۔ اسے کھلونا کار بہت بھائی تھی لیکن الوینہ سپاٹ چہرہ لیے کھڑی تھی۔

"کیا ہوا الوینہ، تحفہ پسند نہیں آیا۔"

الوینہ کی نگاہیں ایک نقطے پر جم سی گئی تھیں۔ وہ منہ سے ایک لفظ نہ بولی۔ پلکیں جھپکے بغیر انگلی اٹھائی اور اشارہ کر دیا۔

"کیا چاہیے تمہیں؟" عمیر سٹپٹا گیا۔ 

"میرا ڈریگن۔" اس کا رخ بلال کے کھلونے پر تھا۔

"پر تمہارے لیے گڑیا آئی ہے ناں الوینہ۔" پھپھو نے مداخلت کی:

"دیکھو کتنی پیاری ہے۔ چلو اسے ہانیہ کے پاس لے جاؤ، دونوں مل کر کھیلو۔"

لیکن الوینہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ کھڑی رہی، سوچتی رہی، ڈریگن پر نگاہیں مرکوز کیے رہی۔ عمیر کو لگا وہ سمجھ گئی ہے۔ وہ ادھر ادھر ہو گیا۔ پھپھو بچوں کے کھیل میں مگن ہو گئیں۔ تب الوینہ آگے بڑھی۔ اس نے سر اٹھایا۔ انگلی کا اشارہ کیا:

"وہاں کیا ہے بلال؟"

ننھا بلال معصومیت سے سر اٹھا کر دیکھنے لگا۔ عین اسی لمحے الوینہ نے اسکا کھلونا ڈریگن اٹھایا اور اسے لے کر بھاگی۔ بلال چیخ اٹھا۔ پھپھو نے آواز دی۔ 

"چرا لیا، الوینہ نے بلال کا ڈریگن چرا لیا۔" وہ سب الوینہ کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ انہیں لگا تھا الوینہ کھلونا لے کر اپنے کمرے میں جا چھپے گی لیکن الوینہ کا رخ کچن کی جانب تھا۔ باقی بچے دور تھے جب اس نے سلیب پر سے پین نائف اٹھائی اور اسے فوم کے ڈریگن کے دل میں اتارا۔

 کچن کے دروازے میں ایستادہ بلال بے ساختہ رونے لگا۔ الوینہ چھریاں چلاتی رہی یہاں تک کہ ڈریگن کا ستیاناس ہو گیا۔ پھر اس نے کھلونا ڈریگن بلال کی طرف پھینک دیا۔

"اب اس سے کھیل لو۔ اب یہ پیارا لگ رہا ہے۔"

پھپھو کی آنکھیں حیرت میں ڈھلی تھیں، بچے سہم کر اسے دیکھ رہے تھے۔ منان تو چیخ چیخ کر اسے چڑیل کہہ رہا تھا۔ بلال کے آنسو بے آواز بہہ رہے تھے۔ حنان نے جلدی سے اپنی کار چھپا لی تھی لیکن الوینہ جہاں داد چپ چاپ سر اٹھاۓ ان کے درمیان سے گزرتی چلی گئی۔

لاؤنج کا رش تھم گیا تھا۔ اب وہاں صرف الوینہ بیٹھی گڑیا سے کھیل رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھپھو اسے ہمیشہ پیار سے سمجھانے سے عاجز رہیں تو بلآخر ان کا رویہ ترش ہو گیا۔

وہ اسے یتیم جان کر بخش دیتی تھیں لیکن عمیر بھی تو یتیم تھا، ہانیہ بھی تو اسی یتیم کی بہن تھی، کنزیٰ بھی تو اسی کے باپ کی بیٹی تھی، پھر بھی الوینہ جہاں داد کے جینز میں جانے ہٹ دھڑمی کوٹ کوٹ کر کیوں بھری تھی۔ ان کی پوری کوشش ہوتی کہ الوینہ کے ساتھ اپنا رویہ نرم ہی رکھیں لیکن وہ ان کی ضبط کی آخری حد بھی نگل جاتی۔

آج اس نے ہانیہ سے جھگڑا کیا، کل اپنی دوست کی کتاب گم کر دی، پرسوں حنان پر برس پڑی، اور اب کل بینش کا نیا قلم جو اسے بہت اچھا لگا تھا توڑ دے گی۔ وہ اپنے بیٹوں پر اس کی زیادتی سہہ جاتیں لیکن پھپھو کو تاؤ تب آتا جب وہ بلال کی کوئی چیز چھین کر غصہ کرتی۔ انہیں ایک بار قہر تب آیا تھا جب اس نے بلال کا سر پھاڑ دیا تھا۔ خیر غلطی بلال کی تھی لیکن وہ بھی بچہ تھا۔ اپنے کھلونوں سے کھیلتا کھیلتا جانے کب اس کے کمرے میں آگیا اور اس کی رنگین پنسلوں کو چھونے لگا، ان سے نقش و نگار بنانے لگا۔

الوینہ نے جب اسے دیکھا تھا تو ایسا طیش آیا تھا کہ وہ زخمی شیرنی کی طرح بلال پر جھپٹی تھی۔ اس سے اپنی پنسلیں چھین کر اس پر پھنکاری اور اسے اپنے کمرے سے نکال کر دھکا کیا۔ آٹھ سالہ بچہ اٹھارہ زینے پھلانگتا زمین بوس ہوا اور اٹھائیس دن بستر پر پڑا کراہتا رہا۔ لیکن یہ تو شروعات تھی۔ بلال کم گو تھا اس لیے اس کی زیادتیاں برداشت کر جاتا۔ اصل جنگ تو منان اور الوینہ میں ہوتی۔ بال نوچ نوچ کر تو ہانیہ اور الوینہ لڑتی تھیں۔ ہانیہ اس سے ایک سال بڑی تھی لیکن پھر بھی ہار جاتی۔

الوینہ جہاں داد سے کوئی نہیں جیت سکتا تھا۔ وہ بقول ان سب کے شیطان تھی ۔

--------------------------------

وہ ہمیشہ سے ایسی تھی یا نہیں، کسی کو یاد نہیں تھا۔

عمیر اور ہانیہ اس سے ہمیشہ نالاں ہی رہے تھے۔ وہ اس کی عادتوں پر سر پیٹ کر رہ جاتے لیکن اسے کچھ کہنے سے عاجز تھی کیونکہ وہ ان کی سوتیلی بہن تھی۔ علیم کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے وہ سب یکے بعد دیگرے گھر سے نکلے تو پھر ولایت کے ہی ہو کر رہ گۓ۔ اپنی مرضی کی شادیاں کیں اور وہیں سیٹل ہو گۓ۔ البتہ سب سے چھوٹا بیٹا، جہاں داد عباس پاکستان میں ہی رہائش پذیر تھا۔ عباس علیم کے اس مشترکہ گھر میں اب ان کا چھوٹا بیٹا اور بیٹی رہتی تھی۔ جہاں داد کے دو بچے تھے، عمیر اور ہانیہ۔ جہاں داد کی بہن کے بھی دو بچے تھے، بڑا حنان اور چھوٹا منان۔ عمیر آٹھ برس اور ہانیہ دو برس کی تھی جب جہاں داد نے پہلی بیوی ہونے کے باوجود دوسری شادی کی۔ لوَ میرج جو زیادہ عرصے تک چل نہیں سکی کیونکہ دوسری بیوی الوینہ جہاں داد کو جنم دینے کے بعد گزر گئی۔ پھر کچھ عرصہ بعد پہلی بیوی سے کنزیٰ جہاں داد پیدا ہوئی۔

 تب الوینہ جہاں داد کو کوئی منہ نہیں لگاتا تھا لیکن پھر وہ سانحہ بھی ہوا۔

جب جہاں داد عباس اور ان کی بیوی کا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو الوینہ سات سال جبکہ کنزیٰ بس چار مہینوں کی تھی۔ عمیر ایم بی اے کر رہا تھا اور ہانیہ کا میٹرک مکمل ہونے کے قریب تھا۔ پھپھو جان نے بھائی کے دونوں بچوں کو سنبھالا۔ کنزیٰ ان کی جان تھی جبکہ الوینہ سے نہ تو ان کا سلوک اچھا تھا اور نہ برا۔

الوینہ کو اپنے نۓ رشتی دار پسند نہیں آۓ تھے۔ وہ ان سب سے نفرت سی کرتی تھی، ان سب کو حقیر سا جانتی تھی۔

-----------------------------

اس نے اپنے مستقبل کو میلینیم کے ہاتھوں سونپ دیا تھا۔

پھپھو چاہتی تھیں کہ اگر وہ لاء پڑھنا چاہتی ہے تو بیرونِ ملک چلی جاۓ۔ عمیر بھی اسے مانچسٹر بھیجنے کے لیے راضی تھا لیکن الوینہ نے ان کی ایک نہیں سنی تھی۔ وجہ بس ایک تھی۔

"وہاں بلال کی چچی رہتی ہیں۔ رہائش کا انتظام بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے پاس رہنا اور یونیورسٹی سے پڑھتے رہنا۔ پھر اپنا بلال بھی تو وہیں سے ایم بی اے کر رہا ہے۔ تو بھی۔۔۔۔"

وہ بس بلال کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے ساتھ پڑھنے کا خیال، اس کے گھر رہنے کا خیال اسے الجھن دیتا تھا۔ بلال ہی نہیں، وہاں حنان بھی ہوتا تو الوینہ کے یہی تیور ہوتے۔ وہ اپنی فیملی سے خفا ہی رہتی تھی۔ ہر فیملی ڈنر پر غائب ہوتی۔ پکنک کا موڈ بنتا تو الوینہ کی ناں ہوتی۔ وہ اس خاندان کا حصہ بن کر خوش نہیں تھی، اسے ان سب رشتہ داروں سے نفرت تھی۔ وہ نکلنا چاہتی تھی، ان سب سے دور جانا چاہتی تھی۔ 

تبھی تو اس نے قانون پڑھنا چاہا تھا۔

تبھی تو اس نے میلینیم میں داخلہ چاہا تھا۔

اسے اندازہ ہی نہیں تھا وہاں اس کی دنیا کیسے بدل جاۓ گی۔

اسے اندازہ ہی نہیں تھا وہاں اس کی ملاقات کس سے ہو جاۓ گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یونیورسٹی کے پانچ سالوں میں وہ ہر لڑکے کی جان بنی رہی۔ تقریباً ہر لڑکے کا اس پر کرش تھا اور تقریباً ہر لڑکا ہی اس کے ہاتھوں مسترد قرار پایا تھا۔ نئی دنیا نے اسے خود پسند بنا دیا تھا۔ یوں غلاموں کو آگے پیچھے بھاگنے دیکھنا، لڑکیوں کی نظروں میں اپنے لیے رشک دیکھنا، حسد سے لبریز نگاہوں کا منبع بننا، آج اس کے ساتھ ڈنر کرنا اور کل اس کی یونی میں سرِ عام عزت اتار دینا، اس سب نے اسے مغرور سا بنا دیا۔ 

خوبصورت تو وہ تھی ہی۔ اس پر مستزاد اپنا حلیہ یوں بناۓ رکھتی کہ دیکھنے والا اسے دیکھتا اور دیکھتا ہی رہتا۔ وہ حسن میں پرفیکٹ تھی، ذہانت میں پرفیکٹ تھی، آرٹ میں پرفیکٹ تھی۔

وہ پرفیکٹ پارٹنر کا ہونا ڈیزرو کرتی تھی۔

یونیورسٹی کے لڑکوں پر جان ہارتی اور چھپ چھپ کر اپنے منگیتروں سے باتیں کرتی لڑکیوں کو دیکھ کر وہ کھلکھلا اٹھتی۔ یہ سب کتنی بچگانہ عورتیں تھیں۔ کم عقل لڑکیاں جو محبت کی تشریح بھی نہیں جانتی تھیں لیکن سب سے محبت کرتی تھیں۔ پھر وہ سوچتی کیا کبھی اسے بھی محبت ہو گی، کوئی دوست، کوئی محبوب، کوئی جانثار، کوئی کرش۔۔۔

وہ کرش ضوریز حسن تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ جہاں داد کا مطلوب۔۔۔۔ ضوریز حسن!

یونیورسٹی کی پانچ سالہ زندگی میں پتا بھی نہیں چلا ہو گا کہ وہ کون ہے، کیسا ہے، کہاں کا ہے۔ اسے یہ تب پتا چلا تھا جب اس کی زندگی نیا موڑ پکڑنے والی تھی۔

اس روز موسم بڑا سہانا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا وجود کو فرحت بخش رہی تھی۔ سفید دودھیا بادلوں نے آسمان ڈھک رکھا تھا۔ ایسے میں فضا میں مدھر سی آواز بھی گو نج رہی تھی۔ وائلن کی آواز۔ اپنی مخروطی انگلیوں سے دھاگوں کو چھیڑتی، وہ بے حد سریلی تان بنا رہی تھی۔ عجیب سا سوز، انوکھا سا احساس تھا اس آواز میں جو اس کی انگلیوں سے پیدا ہوتا جب وہ مخصوص رفتار اور شدت سے وائلن کے دھاگوں کو کھینچتی۔ وہ اپنی تخلیق میں گم تھی، آنکھیں بند کیے کسی اور ہی دنیا میں کھوئی وہ حسین جل پری اس وقت انہماک سے اپنے شغل میں مشغول تھی۔ کمرے میں موجود نفوس کو جیسے کسی طلسم نے جکڑ رکھا تھا۔ مبہوت، مسحور سی وہ لڑکیاں حسرت سے اسے دیکھتیں، طلسم میں قید تھیں۔ ادھر پیانو سے نکلتی آوازوں کی لہر میں سستی در آئی، ادھر کرسی پر بیٹھی نازش بے اختیار اٹھی اور دونوں ہتھیلیاں ملا کر تالیاں بجانے لگی۔

"ویل ڈن، الوینہ، ویل ڈن۔"

باقی لڑکیاں اگرچہ بیٹھی رہیں لیکن ان کی آنکھوں سے بھی ستائش کی چمک عیاں تھی۔ الوینہ کے لبوں نے تبسم کیا، انگلیاں باہم پھنسا کر وہ چیئر پر پلٹی تو گال پر بنے گڑھے بھی نظر آ رہے تھے۔ پروفیسر ٹڈاشی ارجنٹ فون کال پر ابھی ابھی کمرے سے نکلے تھے۔ جانے سے پہلے انھیں ریہرسل کی تاکید کر گۓ تھے کہ کمپیٹیشن میں محض سات دن بچے تھے۔ 

"تم ناں الوینہ۔۔۔" نازش اب واپس کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور الوینہ سے مخاطب تھی:

"تم جیوری کے سامنے بھی یہی ٹون پلے کرنا۔ بہت زبردست میوزک ہے۔ آڈیئنس پر سحر طاری کر دے گا۔" 

"اونہوں۔ یہ تو کلاسیکل تال تھی۔ ایسا رتھم تو کوئی بھی پیدا کر سکتا ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کوئی ٹون کاپی کرنے کی بجاۓ خون کوئی ساز پیدا کروں۔"

"اتنے کم وقت میں؟" ایک لڑکی نے ناک بھویں چڑھائی۔

"رِسک مت لو لڑکی۔ آرام سے اس میوزک کی ریہرسل کرو جو پروفیسر ٹڈاشی نے بتایا ہے۔ نیا کرنے کے چکر میں تم یہ میڈل ہاتھ سے کھو مت دینا۔"

"الوینہ جہاں داد نے کبھی کچھ کھویا ہے جو اب کھوۓ گی؟؟؟"

اس نے ایک بھرپور مسکراہٹ کا اظہار کیا اور اسی مسکراہٹ کو برقرار  رکھتے ہوۓ واپس پیانو پر جھک گئی۔

"الوینہ جہاں داد سے آج تک کوئی جیتا ہے کوئی۔"

انگلیاں ایک مرتبہ پھر وائلن کے ابھرے دھاگوں کو چھیڑتیں، رقص کر رہی تھیں۔ عقب میں بیٹھی لڑکیاں خاموشی بناۓ، انہماک سے سن رہی تھیں کہ اچانک باہر شور سا اٹھا۔ چند ایک لڑکیوں نے خفگی سے سر اٹھایا۔ الوینہ چونکی ضرور لیکن مطمئن سی وائلن بجاتی رہی۔ تبھی باہر راہداری میں دوڑتے قدموں کی آوازیں ابھری ۔ نازش نے چونک کر ادھر دیکھا۔ الوینہ تھم گئی۔ چند لمحے بعد ماحول کا توازن قائم ہوا تو الوینہ نے چہرے پر بدقت طمانیت سجا کر وائلن کی جانب متوجہ ہونا چاہا۔ یکایک ویسا ہی قیامت خیز شور دوبارہ اٹھا۔ آبنوسی دروازے کے اس طرف گویا قیامت برپا ہو گئی تھی۔ 

الوینہ نے فوکس کرنا چاہا لیکن ٹھک ٹھک کی آوازیں زور پکڑتی جا رہی تھیں۔ صبر کی انتہا ہو گئی تو وہ اٹھی اور دروازہ دھکیل کر باہر آئی۔ باقی لڑکیاں بھی اس کے ہمراہ تھیں۔ 

"اف، یہ لڑکے بھی ناں۔"

نازش نے ناک سکوڑی۔ وہ چھے سات لڑکے تھے جو رف سے حلیوں میں موجود فٹ بال کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ غالباً کچھ دیر پہلے فٹ بال دروازے سے آٹکڑائی تھی۔ یہ اس لڑکے کا فاؤل تھا لیکن وہ ضدی ہتھیار ڈالنے کی بجاۓ اونچی آواز میں چیختے ہوئے ایک اور شاٹ کھیلنے کے لیے تیار تھا۔ وہ سب چھوٹے راہداری نما برآمدے میں فٹ بال کے ساتھ مگن تھے۔ ان لڑکیوں کو تو کسی نے دیکھا بھی نہیں۔

"ہۓ۔" الوینہ نے ذرا بلند آواز میں انھیں پکارا تو چند ایک نے پلٹ کر دیکھا:

"اپنی فٹ بال لے کر گراؤنڈ میں چلو۔ یہ تمہارا پلے گراؤنڈ نہیں ہے، یونیورسٹی کاریڈور ہے۔"

"بیلیرینا (Ballerina) کو لگتا ہے ہم اندھے ہیں۔" 

ان میں سے ایک نے طنز کیا تو باقی قہقہہ مار کر ہنسے۔ الوینہ کے ماتھے پر بل پڑے۔ ادھر وہی لڑکا دوبارہ بولا:

"لگتا ہے آپ کی نظر خراب ہے میڈم۔ تبھی تو آپ کو نظر نہیں آرہا۔ باہر بارش ہو رہی ہے۔"

"پھر یہاں پر مت کھیلو۔ ہم میوزک پریکٹس کر رہے ہیں۔ تمہاری فٹ بال کا شور ہماری توجہ بانٹ رہا ہے۔"

اس نے مخصوص کاٹ دار لہجے میں کہا تو لڑکا بڑے مزے سے مسکراتے ہوۓ کہنے لگا:

"ایسا کرو، تم لوگ پریکٹس مت کرو۔ ویسے بھی، تمہارے میوزک کی وجہ سے ہماری توجہ بٹ جاتی ہے۔"

الوینہ کے چہرے پر ناگواری ابھری۔ حتیٰ الامکان لہجے کو نرم رکھتے ہوۓ اس نے کہا:

"پروفیسر ٹڈاشی کہاں ہیں۔ میں ان کو بتاؤں گی کہ یہ لوگ کاریڈور میں فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ کیا کاریڈور میں فٹ بال کھیلتے ہیں؟"

"نہیں کاریڈور میں نہیں۔" اب کی بار وہ بولا تو سنجیدہ تھا:

"بلکہ جہاں کہیں بھی آپ کے پاس فٹ بال ہے، آپ وہاں فٹ بال کھیل سکتے ہیں۔"

بات کے اختتام پر اس نے تبسم کیا تو باقی لڑکوں نے بھی قہقہہ لگایا۔ الوینہ کا ریڈ بلش سے دمکتا چہرہ مزید لال ہو گیا۔

"ہم کمپیٹیشن کے لیے پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ جیت اور ہار کا معاملہ ہے۔"

"ہم بھی میچ کمپیٹیشن کے لیے پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ بھی جیت اور ہار کا معاملہ ہے۔"

ترکی بہ ترکی جواب دے کر وہ فٹ بال ہاتھ میں لیے اسے ایک انگلی پر گھماتے ہوۓ مسکرانے لگا۔ الوینہ مزید سرخ ہو گئی۔

"تمہیں سمجھ نہیں آرہی۔ ہم پریکٹس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمہیں فٹ بال پریکٹس کرنی ہے تو باہر گراؤنڈ میں جاؤ ناں۔"

"اونہوں۔ ہم تو نہیں ہٹتے۔ تمہیں میوزک پریکٹس کرنی ہے تو کچھ دیر ٹھہر جاؤ ناں۔"

اس سے زیادہ برداشت کرنا الوینہ جاں داد کے لیے ناممکن تھا۔ وہ 'اسٹوپڈ' کہہ کر پلٹی تو اچانک عقب سے آواز آئی:

"ہۓ۔ ہۓ، ناراض مت ہو۔" فٹ بال اسی طرح انگلی پر گھماتے ہوۓ وہ دو قدم آگے آیا تھا۔ اس کی آنکھیں الوینہ کے چہرے پر ٹک گئی تھیں۔ شاید وہ اسے کچھ دیر مزید دیکھنا چاہتا تھا۔ جبھی تو مسکراتے ہوۓ بولا:

"ایک ڈیل کرتے ہیں۔"

"کیسی ڈیل؟" الوینہ نے اچنبھے سے پوچھا۔

"تم ایک دفعہ میرے ہاتھ سے فٹ بال لے کر دکھاؤ۔ اگر جیت گئیں تو میں اور باقی ساتھی یہاں سے چلے جائیں گے۔ منظور؟"باقی لڑکے بھی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ 

"الوینہ، چھوڑو ان نمونوں کو۔"

نازش نے اسے پیچھے کھینچنا چاہا لیکن وہ چیلنج کیسے نہ لیتی۔ اس کے سامنے کھڑا لڑکا فٹ بال گھماتے ہوۓ کچھ اس انداز سے مسکرا رہا تھا کہ دو دانت ہونٹوں سے باہر جھانک رہے تھے۔ الوینہ کا دل چاہا انھیں توڑ دے۔ بجلی کی سی تیزی سے وہ فٹ بل پر جھپٹی۔ لڑکے نے بجلی سے بھی زیادہ تیز رد عمل دیا اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ مسکراہٹ اس کے لبوں پر ہنوز قائم تھی۔ الوینہ سنبھل کر سیدھی ہوئی۔ ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈال کر اس نے دوبارہ فٹ بال کھینچنی چاہی۔ اس بار وہ لڑکا پیچھے ہٹا اور فٹ بال کو زمین پر پٹخا۔ فٹ بال دوبارہ آسمان کی جانب بلند ہوئی تو اسے ہاتھ سے دھکیلتے ہوۓ باؤسنگ کرنے لگا۔ لڑکے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ جبکہ لڑکیوں کے چہرے پر خفگی کے آثار تھے۔ اور الوینہ، اس کی رنگت اس کے لبوں سے میل کھا رہی تھی۔ بھڑکتا ہوا سرخ جو بس پھٹنے کے قریب تھا۔ تلملائے ہوۓ انداز میں وہ اس بار جھپٹی اور فٹ بال کھینچنی چاہی۔ لڑکا ہٹ گیا اور الوینہ جہاں داد کا وار خطا گیا۔ لڑکا اب مسکرا رہا تھا اور الوینہ تپ رہی تھی۔

"کافی ہے مس بیلیرینا (Bellerina)۔" ایک جلاتی ہوئی مسکان دیتے ہوۓ وہ اس نے فٹ بال ہوا میں اچھا دی:

"ڈیل ختم۔ یو آر ڈیڈ۔"

تضحیک کے احساس سے وہ پگھل رہی تھی۔ ایک نگاہ غلط اس پر ڈال کر وہ پیر پٹختی ہوئی واپس پلٹی۔ آبنوسی دروازے کے اس پار آگئی اور پوری قوت سے اپنا ہاتھ پیانو بورڈ پر دے مارا۔

"میں نے تو پہلے ہی کہا تھا رک جاؤ الوینہ۔" نازش اب دلاسہ دے رہی تھی:

"یہ تو بالکل سنکی ہے۔ پروفیسر ٹڈاشی کا چہیتا ہے۔ جبھی تو یونیورسٹی میں کچھ زیادہ ہی سینہ تان کر چلتا ہے۔"

"ہے کون یہ گول منھ والا بندر؟" الوینہ غرائی۔ اس کی بھوری آنکھوں میں شدید غصہ تھا۔ نازش مسکرائی۔ کہنے لگی:

"پروفیسر کے دوست کا بیٹا ہے۔ میرا دور پار کا کزن، ضوریز حسن نام ہے اسکا۔"

نازش نے اتنا کہا اور پھر پیانو کے سامنے آ بیٹھی۔ الوینہ نے سر جھٹک دیا۔ ایک یونیورسٹی پروفیسر کے دوست کے بیٹے کی اتنی ہمت کہ وہ الوینہ جہاں داد کے سامنے زبان چلاۓ، ہونہہ۔ 

اسٹوپڈ!

------------------------------- 

شام ڈھلے الوینہ گھر لوٹی تو لاؤنج میں خوب گہما گہمی تھی۔ عمیر آیا ہوا تھا اور بینش کو ساتھ لایا تھا۔ وہ امید سے تھے اور پھپھو آج کل اس کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تھیں۔ اس کی ہیل نے دہلیز میں شور مچایا تو سب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ حنان کے چہرے پر تو الرٹ کا ٹیگ نظر آنے لگا۔ وہ اب الوینہ کو دیکھتا تو یونہی دیکھتا رہتا تھا۔ بینش کی رگیں تن گئیں۔ اسے الوینہ کبھی بھی پسند نہیں رہی تھی۔ البتہ باقی سب سپاٹ چہرہ لیے بیٹھے رہے۔ 

"آؤ الوینہ۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی بیٹھو۔"

عمیر نے اسے اشارہ کیا تو الوینہ بادل ناخواستہ آگے آئی۔ دماغ اس سنکی لڑکے کی باتوں سے پہلے ہی تپا ہوا تھا۔ بدقت مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر وہ بینش کے مقابل سنگل صوفے پر آ بیٹھے۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے، انگلیوں کو انگلیوں میں پھنساۓ، ہونٹوں کو مخصوص طنزیہ مسکراہٹ سے پھیلاۓ۔ یہ مسکراہٹ الوینہ جاں داد کا خاصہ تھی۔ وہ جب اس مسکراہٹ کے ساتھ سخت بات کہتی تو اگلا بندہ گڑھوں پانی میں ڈوب جاتا۔ اپنے آپ میں ہی شرمندگی محسوس کرنے لگتا۔ 

"باہر بارش ہو رہی تھی، الوینہ۔ خیر سے گئی تھیں؟" پھپھو نے سرسری سے لہجے میں دریافت کیا۔ الوینہ نے لاپروائی سے سر ہلایا::

"یونیورسٹی گئی تھی۔ پروفیسر ٹڈاشی سے ملنا تھا۔ میوزک کورس کی تیاری جو کرنی تھی۔"

"اوہ، تو تم میوزک کمپیٹیشن میں حصہ لے رہی ہو؟" عمیر کی حیرت ڈوبی آواز ابھری تو الوینہ بھی اسی حیرت سے عمیر کو دیکھا:

"بڑی جلدی پتا چل گیا آپ کو، بھائی۔ حالانکہ مجھے لگا تھا کہ میرے گلے میں میڈل دیکھ کر ہی آپ پوچھیں گے کہ یہ کیا؟"

عمیر کھسیانی ہنسی ہنسا۔ نفی میں سر ہلایا۔ کنزیٰ اس وقت سو رہی تھی۔ وہ اے لیولز کر رہی تھی اور پیپرز قریب تھے۔ 

"تمہیں آرٹ میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہو گئی؟" ہانیہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ الوینہ بے اختیار مسکرائی۔ کہنے لگی:

"آرٹ ایک خوبصورت جہان کا نام ہی میری جان۔ پھر دنیا کی خوبصورت لڑکی کو دنیا کے خوبصورت ترین جہان سے لگاؤ نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ کیوں حنان، ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؟"

اس نے فقرہ مکمل کرتے ہوۓ اپنے چہرے پر گرتی زلفوں کو ہٹا کر حنان کو مخاطب کیا تو وہ یکلخت چونکا۔ ایک نظر الوینہ کر چہرے کو دیکھا۔ سرخ بلش سے دمکتا چہرہ۔ اُف!! یہ جان لے کر رہے گا۔ حنان نظریں نہیں ہٹا سکا۔ اس نے جلدی سے تھوک نگلا اور سر ہلایا:

ہاں۔ ہاں۔ ٹھیک کہہ رہی ہو۔ آرٹسٹ ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بلکہ میرے خیال میں، آرٹسٹ از آ پرفیکٹ مین۔"

اس کا الوینہ کی حمایت میں کہا گیا جملہ تھا یا تیر۔ ہانیہ کی رنگت فق ہو گئی۔ منان سب نوٹ کر رہا تھا۔ جبھی تو فوراً بات بدلنے کی خاطر رخ عمیر کی طرف موڑ لیا:

"عمیر بھیا، میں نے فنکشن کی سب تیاریاں کر لی ہیں۔ دوست احباب کو تو آپ خود ہی دعوت دے دیجیے گا۔ یہیں لان میں سیٹنگ کر لیں گے۔ سب پرفیکٹ ہو جاۓ گا۔"

"اوہ، ایبک کی برتھ ڈے پارٹی کے متعلق بات ہو رہی ہے؟" الوینہ نے بظاہر چونک کر پوچھا تو بینش نے بھی لب کھولے۔ ایبک اسکا بیٹا تھا۔

"ہاں۔ چھے سال کا ہو جاۓ گا۔ ایک گرینڈ فنکشن رکھیں گے۔ پچھلے فنکشن کی تو بات ہی مت کرو۔" عمیر نے اسے ٹوکنا چاہا لیکن وہ بولتی جا رہی تھی:

"ثریا (ملازمہ) نے ساری کوک تمہارے اوپر گرا دی تھی۔ پھر یاد ہے الوینہ، تم نے کیسا شور مچایا تھا۔ پھوپھو جان نے بے چاری ثریا تو نوکری سے ہی نکال دیا۔ ویسے ٹھیک ہی کیا پھوپھو نے۔ میرے بھی کئی بار کپڑے خراب کیے تھے اس نے۔"

الوینہ کے تاثرات نہ بدلے۔ وہ مسکراتی رہی اور اپنی آنکھیں چھوٹی کیے بینش کو دیکھتی رہی:

"آپ کی رنگت کافی ڈل ہوتی جا رہی ہے بھابی، خیر ہے؟"

بینش کی آنکھیں پھیلیں۔ فوراً چونکی:

"ہیں؟ واقعی؟"

"ہاں۔ اور آنکھوں کے گرد ڈارک سرکلز بھی بہت ہیں۔ پمپلز بھی نکل رہے ہیں۔ اوہ، شاید۔۔۔ (انگلی دانتوں میں دبا کر الوینہ نے شرارتی قہقہہ لگایا) آپ کو ثریا کی بددعا لگ گئی بھابی۔"

بینش کے چہرے پر خفگی کے تاثرات ابھرے۔ جہاں عمیر نے تادیبی نظروں سے الوینہ کو دیکھا، وہیں حنان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔ 

"تم جواب اچھے دیتی ہو، الوینہ۔" اس کی زبان میں بہت دیر سے کھجلی ہو رہی تھی۔ قابو نہ رکھ سکا تو بول اٹھا۔ الوینہ نے چہرے پر گرتی لٹ انگلی میں لپیٹی اور کندھے اچکاتے ہوۓ مسکراتی رہی:

"کیا کروں؟ زبان دراز جو ہوں۔"

ہانیہ اور بینش نے فورا چہرہ موڑ لیا۔ پھپھو نے کچھ سخت کہنا چاہا لیکن حنان کی موجودگی میں وہ اس کو کم ہی جھڑکتی تھیں کیونکہ جانتی تھیں ان کے بیٹے کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ موجود ہے۔ انھوں نے الوینہ سے بھی کچھ کہنا چاہا لیکن اپنے بیٹے کے تاثرات دیکھ کر چپ رہیں۔ بظاہر فون پر مصروف وہ کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا جو اب بڑی توجہ سے عمیر کو سن رہی تھی۔ پھپھو نے کڑی نگاہوں سے اسے گھورا لیکن وہ باز ہی نہ آیا۔ ڈھیٹ نے فون ایک طرف رکھا اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بڑی فرصت سے الوینہ کو تکنے لگا۔ ادھر عمیر کہہ رہا تھا:

"تمہارے بھائی برتھ ڈے پر آئیں گے ناں بینش۔"

پھوپھو کو اچانک بڑھیا منصوبہ سوجھا۔ وہ ایک دم کہنے لگیں:

"ہاں بھئی۔ بینش کے رشتے دار بھی آئیں گے۔ اور بلال بھی تو آۓ گا۔"

جہاں حنان یہ نام سن کر بے چین ہوا، وہیں الوینہ کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔ بظاہر کمپوزڈ نظر آنے کی کوشش کرتے ہوۓ اس نے ٹانگ پر ٹانگ جماۓ رکھی۔ ادھر عمیر کہہ رہا تھا:

"وہ کیسے آۓ گا پھپھو۔ اتنی دور سے محض ایک سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے چھٹیاں تھوڑی ناں ملتی ہیں۔"

"ارے ایسے کیسے نہیں آۓ گا۔ میری کوئی بات ٹالتا ہے کبھی۔ دیکھنا، ایک فون کروں گی اور دوڑا آۓ گا۔ اور پھر کتنا ہی عرصہ ہوا اسے دیکھے۔"

"رہنے بھی دیں پھپھو۔ ابھی دو ماہ پہلے لاسٹ ایئر شروع ہونے سے پہلے اس نے پاکستان کا چکر لگایا تو تھا۔" ہانیہ نے انھیں یاد دہانی کرائی۔ بلال حنان سے دو سال اور عمیر سے چار سال چھوٹا تھا۔ منان کا ہم عمر اور پھپھو کی بہن کا بیٹا تھا۔ جبھی تو اس کے متعلق سن کر منان نے منہ بنا دیا:

"آپ کو تو ناں بس اس کی فکر رہتی ہے ماں جی۔ کہیں وہ بھی آپ کا سوتیلا بیٹا تو نہیں۔"

"اونہہ۔ چل ہٹ۔" پھوپھو کا ہاتھ جوتے تک گیا تو منان نے بے اختیار کانوں کو لگا لیے۔ عمیر نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن الوینہ کے ضبط کی انتہا ہو گئی تھی۔ وہ مزید یہ 'بلال نامہ' نہیں سن سکتی تھی سو فوراً اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ حنان نے ناگواری سے ماں کو دیکھا جو اس کے چلے جانے سے مطمئن بیٹھی تھیں۔ حنان کچھ نہ بولا۔ الوینہ زینے چڑھتی ہوئی کمرے تک آئی۔ جونہی کمرے اور لاؤنج کے درمیان آڑ آگئی، الوینہ کا بمشکل چھپایا ہوا غصہ باہر آگيا۔ پوری قوت سے اس نے بیگ بیڈ پر دے مارا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی:

"پہلے یہاں نمونے کم ہیں جو اب ایک اور آ جاۓ گا۔" اس کا چہرہ تنا ہوا تھا اور آنکھوں میں شدید غصہ تھا؛

"یہ پھپھو کا لاڈلا حنان کم تھا کیا جو اب وہ بلال بھی آجاۓ گا۔ نہ شکل اچھی نہ صورت۔ کالا منہ نیلے پیر۔ اور باتیں یوں کرتا ہے جیسے۔۔۔۔" بولتے بولتے وہ ہانپ گئی تو جلدی سے ڈریسنگ کی ٹیبل تھام لی:

"یہی رہ گۓ میرے لیے۔ یہ دل پھینک حنان، وہ بدصورت بلال اور۔۔۔ اور۔۔۔۔۔"

پس منظر میں اکیڈمی کے کاریڈور میں کھڑا نوجوان ابھرا۔ فٹ بال ہاتھ میں لیے وہ قہقہہ لگا رہا تھا۔ الوینہ نے سر جھٹکا۔ ہونہہ، اسٹوپڈ!

------------------------------ 

وہ بے جان سی برگد کے بڑے درخت تلے، سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔ ریشمی بالوں نے اس کے چہرے کو ڈھانپ لیا تھا۔ اس کے باوجود اس کی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔ آنسو قطرہ قطرہ چہرہ بگھو رہے تھے۔ سمندر سا بنا رہے تھے۔

"شاید میں نے ہی سب غلط کیا۔" وہ اب اپنا احتساب کر رہی تھی۔ سر تنے سے ٹکاۓ سوچوں میں غلطاں تھی:

"شاید میں ابتدا میں زیادہ تلخ رہی۔ اس کے ساتھ زیادتی کرتی رہی تبھی تو وہ انتہا میں مجھ سے عاجز آگیا۔ لیکن۔۔۔ لیکن وہ جانتا تھا میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ اسے پتا تھا میں اس کے لیے کیا جذبات رکھتی ہوں۔ پھر بھی اس نے۔۔۔ پھر بھی اس نے۔۔۔ میری محبت کو مذاق سمجھا۔ مجھے مذاق سمجھا۔"

اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ غم آنسو بن کر بہہ نکلا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اگلی شام کی بات تھی۔ میوزک کلاس سے بہت دور آڈیٹوریم کے قریب ایک نسبتاً پرسکون جگہ پر الوینہ وائلن پکڑے بیٹھی تھی۔ آس پاس کوئی نہیں تھا، سو دل بھی مطمئن تھا۔ ازرقی آسمان پر روئی کے گالے بکھرے تھے۔ ہوا کا زور تیز تھا۔ یکلخت جھونکا آتا تو اس کے ریشمی بال اڑا لے جاتا۔ ہوا کے زور پر سیاہ گیسو کچھ دیر رقص کرتے، پھر اس کے شانوں پر آگرتے۔ لائٹ لائم فراک پہنے، وائلن سے مدھر دھن نکالتی وہ بے حد پُرسکون دکھائی دیتی تھی جب کسی اسے پکارا۔ الوینہ نے نظرانداز کرنا چاہا لیکن دوبارہ آواز آئی تو اس نے سر اٹھایا۔ دور گراؤنڈ پار کرتا ہوا وہ فٹ بال بغل میں دباۓ الوینہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ الوینہ کو متوجہ پا کر اس نے فٹ بال چھوڑی اور دایاں ہاتھ ذرا اونچا کر کے لہرایا۔ الوینہ کے چہرے پر خفگی در آئی۔ وہ قریب آتا جا رہا تھا۔ پھر وہ اس کے عین سامنے رکا۔ 

"ہیلو۔" دو انگلیوں سے سلام کرتے ہوۓ وہ دھپ سے اس کے برابر آ بیٹھا۔ الوینہ کا چہرہ تن گیا۔ سارا موڈ ہی خراب ہو گیا۔

"لگتا ہے تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں وہی ہوں جو کل کاریڈور میں فٹ بال کھیل رہا تھا۔" اپنا تعارف کراتے ہوۓ اسے کسی بھی قسم کی جھجھک محسوس نہ ہوئی۔ 

"جی ہاں۔ تم وہی ہو جو کل گراؤنڈ میں طوفانی انداز سے فٹ بال کھیل رہے تھے اور کھیلتے کھیلتے کاریڈور تک آگۓ اور میری پریکٹس برباد کرنا چاہی۔"

نوجوان ہنسا۔ سر جھٹکا۔ "نیور مائنڈ۔" پھر الوینہ کے وائلن کو دیکھنے لگا:

"سو تم میری وجہ سے آج یہاں الگ تھلگ وائلن لیے پریکٹس کر رہی ہو۔ اور تمہاری باقی دوستیں کہاں ہیں؟ چنکی منکی اور پنکی؟" وہ بات کرتے ہوۓ جھجھکتا نہیں تھا۔ الوینہ نے نفی میں سر ہلایا۔

"وہ پریکٹس کر چکی ہیں۔ اور ویسے بھی، ان کے لیے یہ میوزک کمپیٹیشن ایک کھیل ہے۔" 

"تمہارے لیے کیا ہے؟" نوجوان نے دلچسپی سے پوچھا۔ الوینہ ناراضی بھول کر کہنے لگی:

"میرے لیے یہ جنگ ہے۔ جیت اور ہار کی جنگ جسے اگر میں نہیں جیتوں گی تو کبھی خود کو معاف نہیں کر سکوں گی۔ لیکن دیکھنا، میں جیت کر رہوں گی۔"

"بہت پراعتماد ہو تم اپنی جیت کے متعلق؟"

"ہاں۔ الوینہ جہاں داد کو آج تک کسی نے ہرایا ہے کیا۔" اس نے کہا تو گردن خودبخود اکڑ گئی۔ نوجوان نے بے اختیار اسے دیکھا:

"تو تم الوینہ جہاں داد ہو۔ میرا مطلب، تمہارا نام ہے الوینہ۔"

اب الوینہ کو جیسے کچھ یاد آیا۔ اس نے چہرہ گھما کر کاجل سے لبریز موٹی موٹی آنکھوں سے اسے گھورا اور غرائی:

"میں یہاں تم نمونوں سے بچ کر آئی تھی تاکہ سکون سے پریکٹس کر سکوں۔ اور تم۔۔۔۔"

نوجوان نے جیسے سنا ہی نہیں۔ اپنی کہنے لگا:

"خود پر بھروسہ کرنا اچھی بات ہے الوینہ۔ سیلف۔ اسٹیم اور خوداری اچھی چیز ہے۔ میں بھی اپنے متعلق اتنا ہی کانشیئشس ہوں۔ ہار مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ ان فیکٹ، یہ فٹ بال میچ مجھے ہر حال میں جیتنا ہے۔"

الوینہ ذرا تھم گئی۔ ایک بے زار سی نظر اس پر ڈالی۔ پھر لاپروائی سے کہنے لگی:

"تم پروفیسر ٹڈاشی کے کیا لگتے ہو۔"

"کچھ بھی نہیں۔ بس پروفیسر میرے کھڑوس ڈیڈ کے دوست ہیں، اس لیے مجھے فیورز دیتے ہیں۔" وہ الوینہ کی جانب چہرہ کر کے جلدی سے بولا:

"باۓ دا وے، میرا نام۔۔۔"

"مجھے پتا ہے تمہارا نام۔" الوینہ نے اطمینان سے اس کی بات کاٹی اور وائلن پر جھک گئی۔ ضوریز کا منہ مارے حیرت کے کھل گیا۔ کچھ دیر وہ شاک کر عالم میں بیٹھا رہا۔ پھر آہستگی سے اس کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔

"تو مس الوینہ جہاں داد کو اس ناچیز کا نام معلوم ہے۔" شرارت سے کہتے ہوۓ وہ اٹھا تو لبوں پر مسکراہٹ تھی:

"ویسے، مجھے تمہیں بھی سوری بھی کہا چاہیے الوینہ۔ کل میں زیادہ ہی بدتمیزی کر گیا۔ میں تھوڑا منہ پھٹ ہوں یا زبان دراز۔ وٹ ایور۔ سو۔۔۔۔" ایک لمحے کے لیے وہ رکا۔ پھر دوبارہ لبوں پر مسکراہٹ سجا کر ہاتھ ماتھے تک لے گیا:

"پھر ملیں گے مس جہاں داد۔"

الوینہ نے خفگی سے اسے دیکھا۔ وہ اس کے منہ سے سوری یا اس قسم کے ایکسکیوز کی توقع کر رہی تھی۔ وہ ماتھے تک ہاتھ لے جا کر سلام کرتے ہوۓ پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ الوینہ نے سر جھٹک دیا۔

اونہہ، فلرٹی!

------------------------------------

گھر میں فنکشن کی تیاریاں جاری تھیں۔ یوں انتظامات کیے جا رہے تھے جیسے کسی کہ بارات آنی ہو۔ الوینہ جانتی تھی ایبک کی سالگرہ ہمیشہ دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ وہ عمیر اور بینش کا اکلوتا بیٹا تھا، جبھی اس کی کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی تھی۔ اور جب سے بینش امید سے تھی، پھپھو جان تو ہر لمحے اس پر واری جاتیں۔ ہر وقت اس کی بلائیں لیتیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے انھوں نے اس کے لیے وظیفہ بھی تو شروع کیا تھا۔ اب جانے وہ پورا کیا یا نہیں۔

"ہونہہ مجھے کیا۔" الوینہ نے سر جھٹک کر آگے بڑھ جانا لیکن ہر بار کی طرح وہ بری طرح ہرٹ ہوئی تھی۔

"ہونہہ۔ ساری عنایتیں سگے بچوں کے لیے ہیں۔ میں تو کچھ ہوں ہی نہیں۔"

لیکن وہ خود پر یہ فقرہ حاوی نہیں ہونے دیتی تھی۔ اسے اس خاندان سے عنایتوں کی مانگ بھی نہیں کرنی تھی۔ وہ ان کے بغیر جینا سیکھ چکی ہوں۔ 

"ہۓ، الوینہ۔" الوینہ رک گئی۔ سامنے سے حنان چلا آرہا تھا۔ الوینہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ ایک حنان تھا جو اس کی قدر کرتا تھا۔ الوینہ خوب جانتی تھی وہ یہ نوازش کیوں کرتا ہے۔ وہ جانتی تھی حنان مصطفیٰ کیوں دن رات اس کا دم بھرنے کیوں کوشش کرتا ہے۔ کیوں یہ پھپھو کا لاڈلا صاحب زادہ پھپھو کے روبرو بھی سوتیلی کزن کی حمایت کرتا ہے۔ وہ جانتی تھی، تبھی تو اس امر کے خوب مزے لیتی تھی۔

"کیا ہوا؟"

"تمہاری ریہرسل ہو گئی؟ کمپیٹیشن کے لیے؟"

"آف کورس۔" 

"اور یہ کمپیٹیشن اسی روز ہے جس دن ایبک کی سالگرہ ہے۔" حنان فوراً بولا:

"میں سوچ رہا تھا کہ تم فنکشن اٹینڈ کر بھی سکو گی یا۔۔۔"

"میں فنکشن کیوں نہیں اٹینڈ کروں گی، حنان۔ آخر کو بلال نے بھی تو فنکشن پر آنا ہے۔"

مسکراتے ہوۓ اس نے جھینپے جھینپے لہجے میں بلال کا نام لیا۔ اسے ایک فیصد بھی خوشی نہیں تھی "اس" بلال کی پارٹی میں آنے کی لیکن حنان کو ستانا تھا، سو ستایا۔ اور جواباً، حسبِ توقع حنان کا چہرہ لال ہو گیا۔ بدقت خود پر قابو رکھ کر اس نے سر جھکایا اور جلدی سے سر ہلایا:

"آف کورس۔ بلال آۓ گا۔ آف کورس۔"

"تو؟ اب میں جاؤں؟ بلال آنے والا ہو گا۔ مجھے تیار بھی ہونا ہے۔" اس نے کندھے اچکا کر سوال کیا تو حنان مزید سرخ ہو گیا۔ البتہ فوراً بولا:

"ہاں ہاں۔ جاؤ ناں۔"

الوینہ نظروں کے سامنے سے ہٹی تو حنان نے دیکھا، پھپھو جان ستون کے قریب کھڑیں، ہاتھ میں تسبیح لیے سرد نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ حنان نے گہری سانس لی۔  اب اسے اگلے آدھے گھنٹے تک اپنی ماں کا لیکچر سننے تھا۔ ادھر الوینہ ہاتھ ہلاتی اندر آگئی تو اچانک رکی۔ وہاں پِلر کی قریب کچن کی سلیب سے ٹیک لگاۓ، آستینیں کہنیوں تک چڑھاۓ منان مسکرا مسکرا کر ہانیہ سے کچھ کہ رہا تھا اور وہ ہنستے ہوۓ اسے سن رہی تھی۔ ایک بار کو منان نے کچھ کہنے لیے منہ کھولا تو اچانک ہانیہ کی نظر الوینہ پر پڑھی۔ اس نے بے اختیار ٹیک چھوڑی۔ ہانیہ نے بھی اسے دیکھا اور اضطراری طور پر منان سے تھوڑا دور ہٹ گئی۔ الوینہ کے لبوں پر ظنریہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ معنی خیز نظروں سے ان دونوں کے چہروں پر اڑتی ہوائیوں کو پرکھتی وہ سیڑھیاں چڑھتی کنزیٰ کی کمرے میں آئی۔ دروازہ کھلا تھا اور کنزیٰ صوفے پر لیٹی منہ کے الٹے سیدھے زاویے بنا رہی تھی۔ شاید سائنس ذہن میں فٹ نہیں آرہی تھی۔ آہٹ ہوئی تو صوفے پر بیٹھی کنزیٰ کا چہرہ اسے دیکھتے ہی کھل اٹھا۔ فوراً اٹھ کر اس کے قریب آئی اور بولی:

"بینش بھابی پاگل ہو گئی ہیں، باجی۔"

"ہیں؟" الوینہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"ہاں ناں۔ جب سے آپ نے وہ پمپلز والی بات کی ہے، دن میں سیکڑوں دفعہ خود کو شیشے میں دیکھتی ہیں کہ آیا واقعی کہیں وہ بدصورت تو نہیں ہوتی جا رہیں۔"

الوینہ نے مسکراہٹ سے اپنی تسکین کا احساس دلایا لیکن زبان سے کچھ نہیں کہا۔ جوتے اتارے اور کنزیٰ کے ساتھ ہی صوفے پر لیٹ گئی۔ ایک میٹھی سی مسکان اسکے لبوں پر تیر رہی تھی اور وہ فرصت سے سر صوفے کی ہتھی پر رکھے سیلنگ کو گھور رہی تھی۔ ان گھر والوں میں ایک کنزیٰ تھی جسس سے الوینہ التفات سے پیش آتی۔ شاید وہ چھوٹی تھی اس لیے۔ شاید وہ الوینہ کو پسند کرتی تھی اس لیے۔

"یہ دنیا بہت خود غرض ہے کنزیٰ۔ ہر فرد دوسرے کی مدد کرنے سے پہلے اپنا بھلا سوچتا ہے۔ لیکن پتا ہے کیا،میں صرف اپنا بھلا ہی سوچتی ہوں۔"

کنزیٰ فرش پر اس کے قریب ہی بیٹھی چپس کھاتی بغور اسے دیکھ رہی تھی، بڑی توجہ سے سن رہی تھی۔"

"میں، الوینہ جہاں داد، کسی کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں وہ ہوں جس کے پیچھے لوگ بھاگتے ہیں۔ اور لاحاصل کے پیچھے بھاگتے ہی رہتے ہیں۔"

پلر کے قریب حنان سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ پھپھو اسے سرد نگاہوں سے گھورتی، اسے چبا چبا کر کہہ رہی تھیں:

"اس کے بارے میں سوچنا بھی مت حنان۔ تُو اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آیا تو میں تیرے ساتھ بہت برا سلوک کرو گی۔ وہ بلال کی منگیتر ہے۔ اس کی شادی میں بلال سے ہی کروں گی۔ تیرے سے نہیں۔ خبردار جو اس بارے میں سوچا بھی!"

"میں وہ نہیں ہوں جسے لوگ ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیں، جسے اس آسانی سے پریشان کر سکیں، جسے اس کے کرتوت یاد دلا کر بلیک میل کریں۔"

ڈرائنگ روم کے سامنے کھڑی بینش بالوں میں رولر پھیر رہی تھی۔ اچانک وہ ٹھٹکی۔ بے اختیار رولر سلیب پر رکھا اور آئینے کے قریب جھکی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر دونوں کہنیاں ٹکاۓ اس نے تنقیدی نظروں سے خود کو آئینے میں دیکھا۔ چھوٹا، بہت چھوٹا سے گلابی ابھار جو اسے اپنے پر بے حد بد نما لگا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں اور چہرہ متفکر تھا۔

"میں آج چاہوں تو ان سب کو انگلیوں پر نچاؤں۔ ان سب کے وہ راز عیاں کر دوں کہ یہ منہ چھپاتے پھریں۔ لیکن میں خاموش ہوں۔ کیونکہ میں ان دو ٹکے کے افراد کو اس قابل بھی نہیں سمجھتی کہ ان سے دشمنی روا رکھی جاۓ۔"

کچن شیلف کے قریب کھڑی ہانیہ غم و غصّے کا مجسم بنی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں آگ برسا رہی تھیں اور وہ دبی دبی آواز میں چبا چبا کر کہہ رہی تھی۔

"میں اسکی نظروں کا مطلب سمجھتی ہوں منان۔ یہ میری بہن نہیں ہے۔ آستین کی سانپ ہے۔ یہ جب ان ظنریہ نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہے تو گویا دھمکی دیتی ہے کہ یہ پھپھو کو تمہارے اور میرے متعلق بتا دے گی۔ یہ بہت۔۔۔۔۔"

منان پریشان نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر اطمینان قائم رہا۔ رسان سے ہانیہ کے کندھے تھام کر وہ کہ کہنے لگا:

"ریلیکس ہانیہ۔ وہ کیا بتاۓ گی اماں کو۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ تو بتانے دو ناں۔ اچھا ہے، ہمارا کام آسان ہو جاۓ گا۔ حنان تو کنوارا ہی قبر میں جاۓ گا، لیکن کم از کم میری باری تو آجاۓ گی۔"

"یہ سب جانتے ہیں کہ میں ان کے رازوں سے آگاہ ہوں۔ اسی لیے یہ مجھ سے احتراز برتتے ہیں۔ میری پیٹھ پیچھے مل بیٹھ کر برائیاں کرتے ہیں اور میرے روبرو زبانیں سی لیتے ہیں۔ لیکن الوینہ جہاں داد کو ان منافقوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے تو یہ دنیا پسند ہے جہاں وہ ان نیچ لوگوں کی ملکہ ہے اور ان پر حکم خوب چلا سکتی ہے۔"

پھپھو دالان میں مخصوص تخت پر تسبیح لیے بیٹھی تھیں اور ملازمہ ان کے پاؤں دباتے ہوۓ بتا رہی تھی: 

"آپ نے اچھا کیا جو بلال صاحب کو بلا لیا چاچی۔ یہ چھوٹی میم صاحبہ کی عقل دیکھنا دو روز میں ٹھکانے آ جاۓ گی۔"

پھپھو جیسے کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔ کہنے لگیں:                             

"یہ بلال جیسے سپیرے کے قابو میں آنے والی سانپ نہیں ہے سویرا۔ یہ ناگ ہے جو خود کو اس گھر کی ملکہ سمجھتی ہے۔ اس گھر کا ہر فرد اس کے طلسم میں قید ہے۔" پھر جیسے وہ نیند سے جاگیں۔ ایک ہی لمحے میں چہرے پر سخت تاثرات سجا لیے اور غرائی:

"اور تو کونسی کن سوئیاں لے رہی ہے کم بخت۔ جا اور جا کر اپنا کام کر۔ اور خبردار جو میری بھتیجی کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو۔"

"لیکن میں نے کیا کہا ہے، چاچی۔" سویرا ہکا بکا کھڑی تھی۔ پھپھو کے تیور یونہی بدلتے تھے۔ 

"سنا نہیں، جا جا کر کام کر اپنا۔" سویرا نے ناک بھویں چڑھائی۔ پیر پٹختی وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔

"اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ الوینہ بے وقوف ہے جو ان کے دام تلے آ جاۓ گی۔ انھیں شاید پتا نہیں ہے کہ میں نے آج تک سر نہیں جھکایا۔ میں سر نہیں جھکاتی کنزیٰ۔ میں سر جھکانا جانتی ہی نہیں ہوں۔"

اس گھر سے دور پارک کے ایک کونے میں عمیر کھڑا تھا۔ متلاشی نگاہوں سے چہار سو دیکھتا جیسے وہ کسی کو کھوج رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید پیکٹ تھا جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوۓ تھا۔ دفعتاً ایک آدمی چراغ کے جن کی مانند اس کے عقب سے نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں نسبتاً بڑا سیاہ پیکٹ تھا۔ عمیر نے اس پر سرسری سی نگاہ ڈالی۔ دونوں مرد مخالف سمت سے ایک دوسرے کی جانب بڑھے، ٹکڑاۓ، اور پھر سوری کہہ کر الگ ہوگۓ۔ عمیر نے کوٹ سے نادیدہ گرد جھاڑی اور کالر درست کیا۔ وہ لارنس گارڈن سے نکلا اور کار کی جانب بڑھ گیا۔ لیکن اب، اس کے ہاتھ میں سفید کی بجاۓ سیاہ پیکٹ تھا۔

"لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خاموش خاموش میرا مشاہدہ کرتے ہیں۔ میرا مسیحا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔"

ایئرپورٹ سے باہر نکلنے والے لوگوں میں سے ایک نوجوان کا فون بجا۔ نوجوان نے فون نکال کر دیکھا۔ مالیا کالنگ۔ پھر بھویں سکیڑ کر نفی میں سر ہلایا اور فون واپس لوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔

"وہ میرے سامنے یوں بنتے ہیں جیسے انھیں مجھ سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ حالانکہ وہ میرے لیے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔"

نوجوان جب ایگزٹ کے قریب آ کھڑا ہوا تو دوبارہ فون کوٹ سے نکالا۔ فون بک سرچ کی۔ حنان مصطفیٰ۔ کچھ دیر سوچا، پھر سرچ کرتے ہو نیچے گیا۔ الوینہ جہاں داد۔ نوجوان کی آنکھوں میں چمک سے ابھری۔ تبھی کھٹکا ہوا۔ اس نے دیکھا ٹیکسی ڈرائیور اس سے مخاطب تھا۔ اس نے بنا نمبر ملاۓ فون فرنٹ پاکٹ میں ڈال لیا اور سامان اٹھاۓ ٹیکسی کی جانب بڑھا۔

"کہاں جانا ہے سر؟"

"جہاں داد بینگلو۔ مضافات میں ہے۔" اس نے پتہ بتایا تو ڈرائیور نے اچنبھے سے اسے دیکھا، کچھ گھبرا سا گیا۔

"آپ عمیر جہاں داد ہو صاب؟ جہاں داد صاحب کے بیٹے ہو۔"

"نہیں۔" اس کے یک لفظی جواب پر ڈرائیور سمجھ گیا کہ اب اسے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے لیکن وہ کچھ بے چین تھا۔ جہاں داد خاندان کی ریپوٹیشن اچھی نہیں تھی۔ کئی بار اس نے اس سنجیدہ سا چہرہ لیے گندمی سے رنگت والے جوان کو فرنٹ مرر میں دیکھا۔

"لیکن مجھے۔۔۔۔" الوینہ صوفے سے اٹھ گئی اور مسکرا دی:

"مجھے بھی اس سب سے مزا آتا ہے کنزیٰ۔ تم کیا جانو آپسرہ کہلاۓ جانے میں کتنا مزہ ہے۔"

پھر وہ اٹھی اور کاریڈور پار کرتی اپنے کمرے میں آگئی۔ لاؤنج سے پھپھو کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شاید وہ حنان سے باتیں کر رہی تھیں۔ الوینہ نظر بچا کر اپنے کمرے میں آگئی۔ تبھی اس کے پیچھے پیچھے سویرا بھی اس کے کمرے میں آئی۔ الوینہ نے ایک بیزار نظر اس پر ڈالی، پھر الماری میں ٹنگے کپڑوں کا جائزہ لینے لگی:

"جلدی بولو، سویرا۔ اب کیا کیا ہے تم نے؟"

"میں نے کچھ نہیں کیا باجی۔ پر آپ کو بتانے آئی ہوں کہ چاچی (سویرا پھپھو کو چاچی کہتی تھی) آج آپ کو ناگن کہہ رہی تھیں۔"

"اوہ گُڈ۔ اگر میں ناگن تو وہ مہا ناگن۔" اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر سویرا کو دیکھتے ہوۓ تبصرہ کیا تو سویرا کی ہنسی نکل گئی۔ لیکن الوینہ نہیں ہنسی۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔

"اور اب تم نیچے جا کر یہی باتیں پھپھو سے کہہ دینا۔ ہلکے پیٹ کی عورت، خوب جانتی ہوں میں تمہیں۔ پھپھو نے رکھا ہے ناں تمہیں میری جاسوسی کے لیے۔ جو باتیں میں تم سے کہتی ہوں وہ ساری تم پھپھو کو لگا دیتی ہو۔ یہ لگائی بجھائی والی بری عادت ہے تمہیں۔"

"میں تو آپ کو سچ بتا رہی تھی الوینہ باجی۔ اور میں لگائی بجھائی نہیں کرتی۔" وہ اب خفگی سے پلٹی اور ایک تپا دینے والے تاثر کے ساتھ الوینہ کو دیکھا:

"آپ نے میری بڑی بیستی کر دی باجی۔"

"بیستی کی بچی۔ ٹھہرو بتاتی ہوں میں تمہیں۔"

سویرا خود کو عتاب سے بچاتی جلدی جلدی سیڑھیاں اترتی جا رہی تھی۔ الوینہ خوب مشتعل تھی۔ وہ اونچی آواز میں سویرا کو ڈانٹی، اسے بے نقط سناتی اس کے پیچھے پیچھے نہچے اتر رہی تھی:

"نخرے زیادہ نہیں ہو گۓ تمہارے۔ ہاں؟ ایک تو تم ادھر کی بات اُدھر کرو اور اس پر مستزاد تمہاری مالکن تمہیں ڈانٹ بھی نہیں۔۔۔"

اس کے قدموں کو خود بخود بریک لگی۔ زبان پہ یکلخت قفل پڑا۔ لاؤنج میں سامنے والے صوفے پر کوئی نوجوان براجمان تھا۔ اس کا گرے کوٹ صوفے کے قریب رکھا تھا۔ جینز کے اوپر ہائی نیک گرے شرٹ پہنے وہ قدرے ریلیکسڈ سا بیٹھا تھا۔ سیاہی مائل گندمی رنگت۔ دائیں آنکھ کے نیچے چھوٹا سا زخم تھا۔ چاۓ کا کپ اس کے لبوں سے لگا ہوا تھا اور وہ دھیرے دھیرے چسکیاں بھرتے ہوۓ پھپھو کو بغور سن رہا تھا جب الوینہ کی آواز سن کر پھپھو کے کلام کا سلسلہ ٹوٹا اور اس نے بھی سر اٹھایا۔ الوینہ کو یکلخت کچھ سجھائی نہ دیا۔ ہاں، اسی الوینہ جہاں داد کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ 

وہ آخری زینے پر کھڑی تھی۔ بے اختیار آگے کو آئی اور غصے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ اب وہ قدرے کم مشتعل تھی لیکن چہرے پر بے چینی کے آثار تھے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ اس نے آنا تھا لیکن یوں اچانک۔ اُف الوینہ، تمہیں تو اس "اندھیری رات" کے راستے میں خوب رکاوٹیں حائل کرنی تھیں۔ اس کو اچھا خاصا تنگ کرنا تھا لیکن یہ تو۔۔۔۔ اسے شرمندگی مٹانے کو کچھ سجھائی نہ دیا تو کہہ دیا:

"السلام علیکم۔"

بلال نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ اسے سر سے پیر تک دیکھا۔ پنک جینز، مِنی بلیک شرٹ جس پر ریڈ میڈورا سے رنگے ہونٹوں کا لوگو بنا تھا، ادھ بھورے اور ادھ نیلے ڈائی ہوۓ بال کھلے، شانوں پر بکھرے، خوبصورت چہرے پر شدید غصہ اور تناؤ، عام حالات میں بھی کیا گیا میک اپ۔ بلال نے فوراً چہرہ موڑ لیا اور سر کے خم سے سلام کا جواب دیا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی اور وہ دوبارہ پھپھو کو سننے لگا تھا لیکن الوینہ کو محسوس ہوا کہ اس کی نگاہوں میں الوینہ کے لیے ناپسندیدگی جھلکی تھی۔

الوینہ بھی کوئی شوق نہیں تھا اس شخص سے فری ہونے کا لیکن سوچا کہ چلو، پردیس سے کزن آیا ہے، دو منٹ بیٹھ جاتی ہوں۔ وہ صوفے پر آ بیٹھی اور شانوں پر بکھرے بال اٹھا کر جوڑے کی صورت میں باندھنے لگی۔ پھپھو کو سنتے بلال نے کنکھیوں سے اسے دیکھا اور ایک بار پھر سر جھٹک دیا۔ الوینہ کو لگا کہ اسکی آنکھوں میں دوبارہ وہی احساس پیدا ہوا تھا۔ 

"تم ویسے۔۔۔ کب آۓ، بلال؟"

اس نے اپنے تیئں اپنے مخصوص لہجے میں سوال کیا۔ بلال نے اسے دیکھا بھی نہیں۔ چاۓ کا کپ ٹرے میں رکھا اور 'ابھی' کہہ کر پھپھو کو دیکھنے لگا:

"میرا وہی روم ہے ناں خالہ۔ اپر لیفٹ۔" پھپھو رشتے میں بلال کی خالہ لگتی تھیں۔ وہ عباس جہاں داد کی سب سے چھوٹی بہن کا بیٹا تھا۔

"ہاں بیٹا۔ تم آرام۔۔۔۔"

پھپھو کچھ کہہ رہی تھیں لیکن بلال نے جیسے سنا ہی نہیں۔ فوراً فون اٹھایا، خود بھی اٹھا اور تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ الوینہ نے نخوت سے منہ پھیر لیا۔ آج کے بعد وہ اس سے بات بھی نہیں کرے گی، یہ تو طے تھا۔ وہ کسی بندے کو اس سے زیادہ لفٹ نہیں کراتی تھی۔ اور جو اسے لفٹ نہ کراۓ، اس کے منہ لگنے کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس اندھیری رات کے منہ لگنا، ہونہہ۔ ممکن ہی نہیں۔ وہ اٹھ گئی کہ اسے ریسٹ کر کے واپس اکیڈمی جانا تھا۔ 

--------------------------------

کیفے کی ٹو سِٹر ٹیبل پر الوینہ جوس تھامے بیٹھی تھی اور نازش بڑے غور سے اسے سن رہی تھی۔ کافی دیر کے غور و فکر کے بعد نازش کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ پرجوش سی ہو کر وہ الوینہ سے کہنے لگی:

"مجھے تو اس کے ایٹی کیٹس بہت اچھے لگے۔ اچھی بات ہے اس نے تم سے اپنے رویے کی معافی مانگی۔" الوینہ نے کچھ متعجب ہو کر اسے دیکھا:

"ابھی کچھ روز پہلے تک تمہاری اس کے متعلق راۓ کچھ اور تھی۔"

"وہ تو اور بات تھی ناں الوینہ۔ اب اس نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوۓ تم سے معافی مانگ۔۔۔۔" الوینہ نے اسکی بات کاٹ دی:

"معافی نہیں مانگی اس نے۔ صرف اسے احساس ہوا کہ اسے معافی مانگنی چاہیے لیکن اس کے باوجود وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔ بلکہ یو نو واٹ، جو بھی اس نے کہا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھے کوئی سیدھی سادھی مخلوق سمجھ کر مجھ سے فلرٹ کر رہا تھا۔"

"کونسا لڑکا فلرٹ نہیں کرتا الوینہ۔" نازش نے بے زاری سے سوال کیا اور کندھے اچکاۓ۔ پھر کہنے لگی:

"اور تمہارے منگیتر کا کیا؟ تم نے بتایا تھا وہ تمہارے گھر آیا ہے۔"

الوینہ کو جھنجھلاہٹ نے گھیر لیا۔ ایک لمحے میں اس کے تیور بدل گۓ:

"وہ بچپن کی ایک اسٹوپڈ منگنی تھی جو اب اسکی نظر میں یقیناً کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اندھیری رات نہ ہو تو، خود کو بہت بڑا ہیرو سمجھتا ہے۔ اپنے لیے دیکھ لی ہو گی کوئی گوری اس کالے نے پردیس میں۔ آخر وہاں۔۔"

"شش۔ وہ یہیں آرہا ہے۔" نازش نے سرگوشی کی تو الوینہ کو جیسے کرنٹ لگا:

"کون؟ بلال؟"

"نہیں، وہی فلرٹی!"

الوینہ کے تنے اعصاب ڈھلک گۓ۔ وہ جو لمحہ بھر کے لیے گھبرا سی گئی تھی کہ کسے فلم کی مانند ہیرو نے کرسی کے پیچھے کھڑے ہو کر ہیروئن کی باتیں سن کی ہیں، وہ وہم عنقا ہوا۔ سامنے سے ضوریز حسن چلا آرہا تھا۔ بلیک پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوۓ وہ مسکراتا ہوا ان کے سامنے آیا:

"ہیلو گرلز۔"

نازش نے تو رسماً جواب دے دیا لیکن الوینہ بے نیاز سی بیٹھی رہی۔

"خوب اتفاق ہے ناں۔ میں بھی یہیں کافی پینے آیا تھا۔ اِن فیکٹ، میں یہیں سے۔۔۔"

"اتنی کم عمر میں کافی پینے کی لت لگ جانا اچھی بات نہیں۔" الوینہ بولی تو آواز گھمبیر تھی۔ چہرہ ضوریز کی جانب موڑا اور چبھتی نگاہوں سے اسے گھورا:

"یا تم میرا پیچھا کر رہے ہو؟"

ضوریز کی مسکراہٹ برقرار رہی۔ اس نے الوینہ سے مخاطب ہونے کی بجاۓ نازش کو دیکھا۔ الوینہ اور نازش میز کے آخری سروں پر براجمان تھیں جبکہ وہ ٹیبل کے قریب ان دونوں سے مساوی فاصلے پر کھڑا تھا:

"تمہاری دوست کو اپنے متعلق بہت خوش فہمیاں ہیں نازش۔۔۔"

"اب یہاں جھگڑا شروع مت کر دینا ضوریز۔" نازش چونکی لیکن ضوریز کہتا رہا:

"پہلی بات، یہ واحد خوبصورت لڑکی نہیں ہے اور دوسری بات، اس کے علاوہ اس شہر میں اور بھی خوبصورت لڑکیاں ہیں مس الوینہ جن سے میری شناسائی ہے۔"

"اف۔۔۔" الوینہ کلس کر رہ گئی۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ نازش کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ پھر ضوریز نے کسی اور ٹیبل کی کرسی گھسیٹی اور ان کے قریب سرکا کر بیٹھ گیا:

"تو، تمہارا میوزک کمپیٹیشن کب ہے؟"

"کل۔" نازش فوراً بولی۔ الوینہ صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گئی۔

"اوہ۔ تو کیا میں آسکتا ہوں۔ میرا مطلب، مجھے میوزک پسند ہے۔ زیادہ نہیں کیونکہ کلاسیک ٹونز مجھے بور کر دیتی ہیں لیکن۔۔۔"

"ہاں شیور۔ پوری یونیورسٹی یہ فنکشن اٹینڈ کرے گی۔ پروفیسر ٹڈاشی نے سب کو کارڈز بانٹے تھے۔ تم آ سکتے ہو۔"

"ریلی؟" نازش نے کہا تو ضوریز نے کنکھیوں سے الوینہ کو دیکھا۔ وہ سپاٹ چہرہ بناۓ بیٹھی تھی۔

"ہاں ریلی۔ بلکہ۔۔۔ میں اور الوینہ تو ابھی تمہیں ڈسکس بھی کر رہے تھے۔"

الوینہ پر صدمے کا پہاڑ آ ٹوٹا۔⁦ اس نے نازش کو روکنا چاہا لیکن وہ کہتی گئی:

"اس نے مجھے بتایا کہ کیسے تم نے کل شام اس سے معافی مانگی۔ لیکن سیریئسلی ضوریز، میری دوست الوینہ کو تمہارا غرور بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ اسے پسند نہیں آیا کہ کیسے اس دن تم نے اسے ہرٹ کیا۔"

ضوریز کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے دوبارہ کنکھیوں سے الوینہ کو دیکھا:

"میرا خیال ہے کہ تمہاری دوست کو میرا غرور ہی نہیں، میں بذاتِ خود بھی اچھا نہیں لگا۔" 

کسی شوخ مزاج دل پھینک ٹائپ لڑکے کو مزید برداشت کرنا الوینہ کے لیے ناممکن تھا۔ اس نے جوس کا گلاس میز پر کچھ یوں پٹخا کہ ٹیبل تھرتھرائی اور سنیکس گر گۓ۔ غصے میں نے ان نمونوں میں سے کسی کو بھی دیکھے بغیر پرس اٹھایا اور کرسی دھکیلتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"جو مرد اپنا رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ الوینہ جہاں داد کو کبھی اچھے نہیں لگتے۔"

چبا چبا کر کہتی وہ وہاں سے نکل آئی۔ ضوریز نے عقب سے پکارا:

"یعنی میں کمپیٹیشن دیکھنے آسکتا ہوں۔"

الوینہ نظرانداز کرتے ہوۓ باہر نکل گئی۔ کار چلائی اور گھر آگئی۔ اپنی مخصوص اتراتی چال سے چلتی لاؤنج سے گزرتے ہوۓ ٹھہر گئی۔ اس کی قدموں کی آہٹ پا کر بلال نے لمحہ بھر کو سر اٹھایا تھا، اسے دیکھا تھا اور پھر جھکا لیا تھا۔ الوینہ اسے نظر انداز کر کے سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھڑکیوں پر پڑے سرخ لمبے پردے بھی وائلن سے آتی مترنم آواز کو جذب کرنے سے قاصر تھے۔ موسیقی کے دلدادہ کرسیوں پر براجمان بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔ ججز موجود تھے۔ بغور سب کو دیکھتے، سب کو سنتے وہ آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ بغل میں واقع کرسیوں پر بیٹھی لڑکیاں اور لڑکے اپنے باری کے انتظار میں تھے کہ اپنا فن دکھا سکیں۔ انہی میں ایک الوینہ تھی۔ اس کے چہرے پر تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ وہ اسٹیج پر بیٹھی اس افریقی لڑکی کو گٹار پلے کرتےدیکھ کر کڑھ رہی تھی۔ 

افریقی لڑکی وہی ٹون بجا رہی تھی جو الوینہ نے منتخب کی تھی۔ الوینہ مضطرب تھی۔ اس کا ساز کسی نے چرا کر اپنے فن سے بدل دیا تھا اور حاضرین کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ وہ اب کیا کرتی۔ 

"مس الوینہ جہاں داد۔ کم آن اسٹیج میم۔"

اینکر اسے بلا رہا تھا۔ الوینہ نے ماتھے پر بل ضرور ڈالے لیکن اس کے اعتماد میں رتی برابر فرق نہ آیا تھا۔ متانت سے چلتی وہ چیئر پر آ بیٹھی۔ وائلن اس  کے ہاتھ میں تھا۔ حاضرین میں بیٹھی نازش نے اس کی پریشانی بھانپ کر تاسف سے اسے دیکھا تھا لیکن اسے نہیں پتا تھا سامنے الوینہ جہاں داد بیٹھی تھی۔ اس کی دنیا چرا لی گئی تھی تو وہ اپنی دنیا جنم دے سکتی تھی۔

اس نے وائلن بجایا۔ بے ڈھنگی سی چند آوازیں نکلیں تو حاضرین نے کان ڈھانپ لیے۔ ججز کا منہ بن گیا۔ چند ایک لڑکوں کے دانت نکل آۓ۔ الوینہ کو قہر آیا۔ وہ قہر موسیقی کی صورت میں وائلن کے ذریعے باہر آیا۔ اس نے سختی سے وائلن بجا ڈالا اور بجاتی گئ۔ دھن بنتی گئی۔ آواز مترنم ہوتی گئی۔

"Who is she?" (کون ہے وہ)

ججز سرگوشیاں کر رہے تھے۔ 

"یہ آخر کیا بجا رہی ہے؟" وہ متجسس تھے۔ ایسی دھن انھوں سے پہلے نہیں سنی تھی۔ الوینہ لمحہ بھر کو رکی تھی اور آواز کو سانس لینے دی۔ ایک نظر حاظرین پر دوڑائی اور ٹھٹک گئی۔ 

ضوریز حسن سامنے براجمان تھا۔ ہائی نیک شرٹ پہنے، کوٹ کے کالر کھڑے کیے وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بغور اسے دیکھ رہا تھا۔ یک ٹک، پلکیں جھپکے بغیر، جیسے وہ اسے پڑھ رہا تھا۔ الوینہ نے اسے دیکھتے ہوۓ وائلن بجایا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا وہ کیا کر رہی ہے لیکن کم از کم وہ اس شخص کے سامنے خود کو بے عزت نہیں کرا سکتی تھی۔ آنکھیں بند کر کے اس نے پوری قوت سے وائلن بجا دیا تھا۔ اس کے بازو اب وائلن بجاتے بجاتے شل ہو گۓ تھے۔ سرخ پردے گویا پھٹا رہے تھے۔ قیامت سی خاموشی حاظرین پر مسلط تھی۔ وائلن سے نکلتی وہ دھن جانے کیا جذبات اپنے اندر چھپاۓ ہوئی تھی۔ 

اور پھر خاموشی چھا گئی۔ سکوت قائم ہو گیا۔ الوینہ نے وائلن چھوڑ دیا۔ آنکھیں کھول دیں۔ نظروں کے عین سامنے، سب سے پچھلی سیٹ پر ضوریز ابھی بھی بیٹھا تھا۔ ججز متذبذب سے اسے دیکھ رہے تھے۔ سب جیسے یکلخت تھم گیا تھا۔

"تمہیں کیا لگا تم نے وائلن سے یہ کیا بجایا؟؟؟؟؟" خاتون جج کاٹ دار لہجے میں بولی تو الوینہ گھبرا سی گئی۔ اس کے نگاہوں کا رخ موڑا تو سب اسے گھور رہے تھے۔

"کیا تمہیں پتا ہے میں نے آج تک ایسی موسیقی نہیں سنی۔" وہ چیخی اور بے اختیار کھڑی ہوئی۔ الوینہ کا دل دھڑکا۔ کیا اب اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاۓ گا؟ لیکن اس نے دیکھا کہ خاتون جج نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کیے اور ملا لیے۔

"it was wonderful." 

 (تم نے کمال کر دیا)

اور ساتھ ہی حاضرین کھڑے ہو گۓ تھے۔ داد و تحسین کا ایک شور تھا۔ الوینہ کے لب بے اختیار ہی مسکراہٹ میں ڈھل گۓ اور گردن اونچی ہو گئی۔ آنکھوں کی چاشنی لوٹ آئی اور گردن کا خم وجود میں آگیا اس نے دیکھا نازش چیخ چیخ کر اسے مبارکباد دے رہی تھی۔ الوینہ نے یونہی پچھلی کرسیوں پر نظر ڈالی۔ ضوریز اسی پہلو پر بیٹھا تھا۔ یک ٹک اسے دیکھتا، نظروں ہی نظروں میں کچھ کہتا۔ اب اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی لیکن الوینہ کو اچھا نہیں لگا۔ کیونکہ وہ ابھی تک بیٹھا تھا۔

سب اس کے لیے کھڑے ہوۓ۔ وہ کیوں نہیں ہوا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ویسے تو مجھے تمہارے منہ سے کچھ بھی سننے کا شوق نہیں ہے لیکن بندہ مبارکباد ہی دے سکتا ہے۔"

اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے لیے آیا تھا۔  نازش ہٹی اور وہ قریب آیا تو الوینہ زبان روک نہ سکی۔ جواباً وہ دھیمے سے مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ بھی بڑی پراسرار سی تھی۔ الوینہ نے نظر بھر کر اسے دیکھا تھا۔

"مبارک ہو۔ تم ہارتے ہارتے بھی جیت گئیں۔"

الوینہ جل ہی تو گئی۔ صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گئی۔ 

"الوینہ جہاں داد نے ہارنا نہیں سیکھا۔ وہ شکست سامنے دیکھ کر بھی کبھی شکست قبول نہیں کرتی۔"

جواباً ضوریز نے استہفامیہ نگاہوں سے اسے دیکھا:

"یو شیور (تمہیں یقین ہے) کہ یہ ٹون جو تم نے ابھی پلے کی تھی، خود ساختہ تھی؟ میرا مطلب یہ تم نے خود بنائی۔"

"تمہیں لگتا میں نے چرائی؟" الوینہ نے ابرو اٹھایا۔

"ہو سکتا ہے۔" اس نے بس اتنا کہا لیکن الوینہ بھڑک گئی۔ اس نے سنا، ضوریز کہہ رہا تھا:

"کیا تم نے فیری ٹیل (fairytale) سنا ہے۔ الیگزنڈر ریبک کا آسکر وننگ وائلن سانگ ہے۔ مجھے لگا تم نے اسے کاپی کیا۔"

الوینہ لال بھبھوکا ہو رہی تھی۔ ضبط کرتی وہ بس اتنا کہہ سکی۔

"میں نے۔۔۔ کاپی۔۔۔ نہیں کیا۔"

ایک ایک لفظ توڑ کر ادا کیا۔ ضوریز نے سر ہلایا:"ہاں تم تو کبھی کاپی نہیں کرتی ناں، اس لیے۔"

وہ جانے مذاق تھا یا طنز، الوینہ سمجھ نہیں سکی۔ ضوریز فوراً بولا:

"اور اگلے ہفتے بلیک فائٹرز کا میچ ہے۔ اب چونکہ میں تمہاری پرفامنس دیکھنے آیا ہوں، سو تم بھی مجھے کھیلتا دیکھنے قذافی اسٹیڈیم آؤ گی۔"

"تم نے میری اتنی بے عزتی کی اس کے بعد تم سوچ بھی کیسے سکتے ہو کہ میں۔۔۔۔"

"بے عزتی نہیں کی یار۔" وہ بے زاری سے بولا اور آگے کو ہوا:

"you played amazingly well."

"تم نے حیرت انگیز حد تک اچھا بجایا۔ جو کمنٹ میں نے کیا، وہ تو میرا بطور تنقید نگار (critic) تبصرہ تھا۔"

"ہونہہ۔ تنقید نگار کی شکل تو دیکھو۔"

وہ غصہ تھی۔ ضوریز اسے دیکھتا رہا۔ اب وہ معافی مانگنے سے تو رہا۔ سو ہاتھ بلند کر کے الوینہ کا کندھا تھپتھپایا:

"میچ دیکھنے ضرور آنا۔"

اور اتنا کہہ کر پلٹا گیا۔ الوینہ ششدر سی کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ کیسا دوغلا بندہ تھا ناں! تعریف بھی کر دو اور بے عزتی بھی۔تبھی کسی نے اس کی فراک کھینچی تو الوینہ کیسے خواب سے جاگی۔ سامنے ننھا بچہ ایک رقعہ لیے کھڑا تھا۔

"یہ آپ کے لیے ہے!"

اس نے بس اتنا کہا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ الوینہ نے معتجب نگاہوں سے رقعے کو دیکھا، اسے کھولا۔ لکھا تھا:

"آپ اتنا اچھا وائلن بجا لیتی ہیں۔ مجھے پتا نہیں تھا۔ آپ میں اور کیا کیا ہنر چھپے ہیں مس جہاں داد۔ میں یہ بھی جاننا چاہوں گا۔"

الوینہ وہ رقعہ پڑھ کر بے اختیار مسکرائی۔ اسے ایک فیصد بھی شک نہ تھا اس امر میں کہ یہ رقعہ ضوریز نے بھیجا تھا۔ اس نے وہ خط مٹھی میں دبا لیا۔ 

اور یہ پہلا خط تھا جو الوینہ جہاں داد کو ملا۔ 

تاریکی چھا رہی تھی۔ اندھیرے کی دبیز چادر برگد کو لپیٹے ہوۓ تھے جبکہ برگد تلے اکڑوں بیٹھی وہ سفید لباس پہنے عورت حور لگ رہی تھی۔ اس کے آنسو ابھی تلک بے آواز بہہ رہے تھے۔

"میں نے اس کے لیے ہر شخص کو ٹھکرا دیا۔" وہ اکڑی گھاس پر ہاتھ پھیلاۓ سوچ رہی تھی:

"حنان کو، بلال کو۔" اس کی آنکھوں کا مرکز بدلا اور نظریں اپنے ہاتھوں پر گڑ گئیں:

"ان ہاتھوں نے ان سب کو ان کی اوقات یاد دلائی اور۔۔۔ اور ایک مرد کے پیچھے میں اپنی اوقات بھول گئی۔ میں کسی سے التجا نہیں کرتی تھی لیکن اس کے لیے۔۔۔ اس کے لیے میں اس کے پاؤوں میں بیٹھ گئی۔ میں نے ان سب کی محبت کو ٹھکرا کر صرف اس سے محبت دی لیکن وہ۔۔۔ وہ مجھ سے محبت کر نہیں سکا۔ میں اس کے لیے دنیا سے بھڑ گئی لیکن وہ۔۔۔ وہ میرے لیے چند لوگوں سے نہیں جیت سکا۔"

وہ غمِ عشق کی ماری لڑکی ایک بار پھر بے آواز رونے لگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

اس کے دائیں ہاتھ نے ہر اس مرد کو اس کی اوقات دلائی تھی جس نے اس کے ساتھ اونچ نیچ کرنے کی کوشش کی تھی۔ بدقسمتی سے ان میں حنان بھی شامل تھا۔ اور جس رات ایبک کی چھٹی سالگرہ کی تقریب تھی، اس روز بلال کی بھی شامت آئی تھی۔ وہ کلب سے واپس آئی تو خوش تھی۔ وہ کمپیٹیشن ہی نہیں جیتی تھی، اس کی تخلیق کو سراہا بھی گیا تھا۔ اس کے ذہن میں لمحہ بھر کے لیے ضوریز کا خیال ضرور آیا تھا لیکن اسے پسِ پشت ڈال کر وہ لاؤنج میں آگئی تھی۔ 

باہر تقریب جاری تھی۔ الوینہ نے ایک نظر باہر جانے سے پہلے خود کو آئینے میں دیکھا تھا۔ خوبصورت تو وہ تھی ہی، اس شام بھی نک سک سے تیار غضب ڈھا رہی تھی۔ اپنا مسکارا ٹھیک کرنے کے لیے اس نے کمرے میں جانے کی بجاۓ لاؤنج کے دیوار گیر شیشے کا ہی استعمال کیا۔ لپ اسٹک ٹھیک کر رہی تھی جب حنان اندر آیا تھا اور الوینہ کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا تھا۔

الوینہ نے اسے آئینے میں دیکھ لیا تھا اور بے اعتنائی برتتے ہوۓ لپ اسٹک ٹھیک کرتی رہی۔ اس نے ہولے سے دونوں لب آپس میں ایک ادا سے جوڑے تھے اور چوکھٹ پر کھڑا حنان ہمیشہ کی طرح مبہوت ہو کر اسے دیکھنے لگا تھا۔

"کیوں گھور رہے ہو؟" الوینہ نے گھمبیر لہجے میں پوچھا تو حنان چونکا۔ پھر کھنکھار کر آگے آیا۔

"کیا رزلٹ نکلا تمہارے کمپیٹیشن کا؟" 

"جو نکلنا چاہیے تھا۔ الوینہ جہاں داد راج کرے گی۔ وہی فاتح کہلائی جاۓ گی۔ کسی میں دم ہے جو اس سے آگے نکلے۔" مسکرا کر وہ سیدھی ہوئی اور لباس سے نادیدہ گرد جھاڑنے لگی۔

"یعنی جیت گئیں؟" حنان متعجب ہوا۔ الوینہ نے اثبات میں سر ہلایا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر، ایک جلاتی نگاہ حنان کر ڈالتے ہوۓ پوچھا:

"میں خوبصورت تو لگ رہی ہوں ناں، حنان؟"

اور حنان مصطفیٰ پھر گڑبڑا گیا تھا۔ اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلا کر کچھ کہنا چاہا تو الوینہ معصوم سے لہجے میں کہنے لگی:

"بس دعا کرے میں بلال کو بھی خوبصورت ہی نظر آؤں۔ وہ امریکہ سے آیا ہے۔ ان نے کتنی خوبصورت لڑکیاں دیکھ لی ہوں گی، ان سے بات کی ہو گی، اب میں اسے کہاں پسند آؤں گی؟"

"کوئی اندھا ہی ہو گا جسے تم پسند نہیں آؤ گی الوینہ۔" حنان کا جواب بے ساختہ تھا۔ الوینہ مسکرائی:

"پھر بلال اندھا تو نہیں۔ چلو، میرے لیے دعا کرنا، میرے بھائی۔"

وہ اس کا دل جلا کر لاؤنج میں نکل آئی۔ کچھ دور آکر جو پلٹ کر دیکھا تو حنان بے چارگی سے سر جھکاۓ کھڑا تھا۔ الوینہ کے لبوں کو مسکان نے حصار میں لے لیا۔ گردن واپس پھینک کر اس نے قدم آگے بڑھاۓ تو بے اختیار ہی رکی۔ اسے پتا ہی نہیں چلا کہ سامنے سے بلال آٹھ سالہ کنزیٰ کو کندھوں پر اٹھاۓ بھاگا آرہا تھا۔ وہ خوشی سے جھوم رہی تھی اور بلال اسے جھلا رہا تھا۔ الوینہ کو سامنے دیکھ کر وہ ٹھہر گیا تو الوینہ بال بال بچی۔ ادھر اس نے کنزیٰ کو کندھوں سے اتارا، ادھر الوینہ منہ پھیر کر آگے بڑھ گئی۔

"ہۓ، الوینہ۔" بلال کی آواز بھاری تھی۔ وہ دھیما اور ٹھہر ٹھہر کر بولتا تھا۔ الوینہ کو مجبوراً رکنا پڑا۔ سو فرشتے بھی گواہی دینے آتے تو وہ کبھی نہیں مان سکتی تھی کہ بلال عمان خوبصورت تھا۔ البتہ اس کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ سا ضرور تھا۔ الوینہ اسے لاکھ بدصورت کہتی، اسے لاکھ بددعائیں دیتی لیکن اس کے سامنے، حنان کے برعکس، کچھ خاموش ہو جاتی، نظریں جھکا لیتی۔ شاید کیونکہ وہ بھی ہمیشہ ریزروڈ (محتاط) رہا تھا!

"Congrats." (مبارک ہو)

"کس لیے؟" الوینہ چونکی۔

"حنان نے تمہارے کمپیٹیشن کے بارے میں بتایا۔ مجھے اچھا لگا کہ تم جیتیں۔" سیاہ پینٹ شرٹ میں وہ عام سے حلیے میں ملبوس تھا، پہلے کی نسبت اخلاق سے پیش آرہا تھا۔ الوینہ ظنریہ مسکرائی۔ کندھے اچکاۓ:

"جیسے باقیوں کو میری ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ویسے ہی تمہارے اچھا لگنے یا نہ لگنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا بلال۔"

"ایکسکیوز می؟" بلال کی رنگت بدلی۔ الوینہ کی ظنریہ مسکراہٹ ہنوز قائم تھی:

"چند دن پہلے تم مجھے صحیح سے دیکھ بھی نہیں رہے تھے، بات کرنا تو درکنار! اور آج اچانک یوں تمہیں مجھ سے ہم کلام ہونا یاد آگیا جبکہ میں تمہاری جانب متوجہ بھی نہیں تھی۔ کیوں بلال، کیا چاہیے تمہیں؟"

وہ اب بازو سینے پر باندھے چبھتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ایسے ٹھرکیوں سے نپٹنا اسے آتا تھا، اب چاہے وہ گھر کے باہر ہوں یا اندر۔ 

"مائنڈ یوئر لینگویج، الوینہ۔ (زبان سنبھال کر، الوینہ)۔" اس کے لہجے میں خطرناک سا عنصر تھا۔ چہرہ بے تاثر تھا۔ الوینہ کی آنکھوں میں بغاوت کے آثار نظر آۓ:

"کیا کروں۔ سب کہتے ہیں زبان دراز ہوں۔"

"تو ان 'سب' نے تم زبان دراز کی لگامیں کھینچنے کے لیے کچھ نہیں کیا؟" الوینہ کو پتا تھا اس کا جواب بے ساختہ ہے لیکن وہ مشتعل ہوئی تھی۔ غصہ بدقت پی کر وہ دو قدم آگے آئی:

"دنیا میں کوئی فرد جنما نہیں ہے جو الوینہ جہاں داد کی لگامیں کھینچ سکے۔ وہ اڑنے کے لیے بنی ہے۔ اس کو بیڑیوں میں کوئی نہیں جکڑ سکتا۔"

"ہاں نظر آرہا ہے۔" اب کے بلال کے لہجے میں ہلکا سا طنز تھا، چہرے پر مسکان تھی:

"تمہاری یہ تراش خراش، یہ گرومنگ اور میکنگ، ثابت کر رہی ہے کہ تم ایک بگڑی ہوئی، مغرور اور انا پرست رئیس زادی ہو جس کے چھوٹے سے دماغ میں محض اس کا اپنا آپ ہے بستا ہے۔"

"اور تم؟ تم تو رئیس زادے بھی نہیں ہو۔ نہ تم میں رتی برابر کوئی کشش ہے۔ بورنگ اینڈ barren۔ اور سب سے اہم، تم تو اس گھر کے فرد بھی نہیں ہو۔ یہ گھر بھی تمہارا نہیں ہے۔ پھر میرے گھر میں کھڑے ہو کر تم کیسے مجھ پر پھبتی کس سکتے ہو؟"

"یہ میرے باپ کا گھر ہے۔"

"تمہارا تو نہیں ہے ناں۔ پھر اپنی تشریف یہاں کیوں لے آتے ہو۔ نہیں اچھا لگتا مجھے تمہارا یہاں آنا۔"

"کیوں؟" بلال اب مسکرایا تھا:

"تمہارا منگیتر ہوں۔ آتا جاتا رہوں گا تو ہماری انڈرسٹینڈنگ ہو گی۔ ورنہ شادی کے بعد بھی تم مجھ سے کھنچی کھنچی رہیں تو ہمارے بچوں کا کیا ہو گا، الوینہ۔"

"ناؤ یو مائنڈ یوئر لینگوئج (اب تم اپنی زبان سنبھالو)۔"

وہ چیخنا نہیں چاہتی تھی۔ لوگوں کو تنگ کرنا، طعنے دے کر لاجواب کرنا اس کا وطیرہ تھا۔  آج برابر کا جواب ملا تو الوینہ کی آواز نہ چاہتے ہوئے بھی بلند ہو گئی۔ اردگرد کے لوگ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ بلال اس کی بات سن کر ہلکا سا ہنسا تھا۔ الوینہ کو اسکی ہنسی میں بھی طنز نظر آیا تھا۔

"تمہاری تو برداشت کی حد بھی بہت چھوٹی ہے، الوینہ۔"

الوینہ تماشا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے کچھ عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور پلٹ گئی۔ اس جگہ سے دور جانے کے لیے قدم اٹھاۓ ہی تھے کہ بازو پر بلال کی گرفت محسوس ہوئی۔ 

"سنو الوینہ۔ تم میری بات کا۔۔۔"

وہ کچھ کہہ رہا تھا جو الوینہ نے سننے کی زحمت نہیں کی۔ بمشکل وہ خود پر جبر کر کے وہاں سے ہٹی تھی لیکن وہ تو بدتمیزی کی حد ہی پار کر گیا۔ کیا اسے لگا ہے وہ ہانیہ سے سے مخاطب ہے جبھی تو اس کا بازو پکڑ رہا ہے۔ کیا اسے نہیں پتا اس کی مخاطب الوینہ جہاں داد تھی، وہی حسین ملکہ جس کے سامنے سرنگوں رہنا پڑتا ہے، نپے تلے لہجے میں بولنا پڑتا ہے، بولتے وقت الفاظ کا دھیان سے چناؤ کرنا پڑتا ہے، نظریں جھکانی پڑتی ہیں اور جسم کو ساکت رکھنا ہے۔ پھر وہ عام سے شکل کا ایک ادنیٰ غلام کیسے یوں ملکہ کو سرِعام بے عزت کرنے کے بعد اس کا یوں بازو تھام کر اسے عقب میں کھینچ سکتا ہے۔

بس ایک لمحہ لگا اور الوینہ کا دماغ گھوما۔ اس نے پلٹ کر ردِ عمل دیا تو تڑاخ کی آواز آئی۔ لاؤنج میں یکلخت سناٹا چھا گیا۔ بلال کے لیے یہ صدمہ کم تھا لیکن الوینہ۔۔۔ وہ خود کچھ بوکھلا گئی۔ نہیں، اس نے تو صرف بلال کو ہلکا سا دھکا دے کر ہٹانا تھا۔ یہ ہاتھ کیسے اٹھ گیا۔ یہ طمانچہ کیسے مار دیا۔

اسے محسوس ہوا کہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ اس نے بلال سے نظریں نہیں ملائیں۔ الٹے قدموں چلتی وہ پورچ تک آئی، پھر پلٹی اور تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے کمرے کا دروازہ جان کر نہیں لگایا یا شاید لگانا یاد نہیں رہا۔ نیچے سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ یونہی سر گراۓ بیڈ کے ایک کونے میں بیٹھی رہی۔ نیچے کہرام مچ گیا تھا، جانے ہو کیا رہا تھا۔ تھی دہلیز پر آہٹ ہوئی۔ وہ کنزیٰ تھی۔ اس نے متاسف نظروں سے الوینہ کو دیکھا ضرور لیکن بیک وقت پوچھا:

"آپ نے بلال بھیا کو کیا کہا ہے، الوینہ باجی۔"

"میں اس وقت تمہارے فیورٹ بھائی کے بارے میں بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں کنزیٰ۔" وہ کچھ غصہ تھی، کچھ پرُملال۔ کنزیٰ روہانسی ہو گئی:

"نیچے پھپھو اور ہانیہ باجی آپ کو کوس رہی ہیں۔ آپ نے بلال بھیا کو کچھ تو کہا ہے ناں باجی۔"

"میں نے کچھ نہیں۔۔۔"

"۔۔۔۔ تبھی تو وہ سامان باندھ رہے ہیں۔ وہ واپس جا رہے ہیں باجی۔ "

الوینہ مزید غصہ ہوئی۔ یعنی اتنی بدتمیزی دکھا کر وہ اب معصوم بن رہا تھا۔ لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کے لیے وہ اپنا سامان باندھ کر جا رہا تھا۔ الوینہ جھٹکے سے اٹھی۔ کنزیٰ کو پار کرتی وہ تیز تیز قدموں سے چلتی لاؤنج میں آئی۔ ہانیہ پریشان حال سی وہیں کھڑی تھی۔ حنان بھی سینے پر بازو باندھے تماشا دیکھ رہا تھا۔ الوینہ کو دیکھ کر سیدھا ہوا لیکن ان سب کو نظرانداز کرتی الوینہ سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔ اپر لیفٹ کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور پھپھو دہلیز پر ایستادہ تھی۔ 

"چل بلال۔ میں ماں ہوں نا تیری۔ میری مان لے، رک جا ناں۔"

وہ منت سی کر رہی تھیں۔ جواباً بلال نے رخ ان کی جان کر کے کچھ کہنا چاہا تو نگاہ بے اختیار پھپھو کے پیچھے سیڑھیوں میں رکی الوینہ پر جا ٹکی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ الوینہ سیدھی اوپر آئی اور پھپھو کو دیکھے بغیر دہلیز سے دو قدم اندر کمرے میں آئی۔

"آپ باہر جائیں گی پھپھو، مجھے اس سے بات کرنی ہے۔"

پھپھو اسے کچھ سخت سست سنانا چاہتی تھیں لیکن بے اختیار ہی دو قدم پیچھے ہٹ گئیں۔ الوینہ نے بنا ہچکچاہٹ کے دروازہ ان کے منھ پر ٹھاہ بند کیا اور پلٹی۔ بلال اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے پلٹتا دیکھ کر بیڈ پر رکھے اٹیچی میں کپڑے رکھنے لگا۔

"تو اب اپنی تشریف لے کر دفعان ہو رہے ہو تاکہ سب تمہیں معصوم سمجھیں؟" سینے پر بازو باندھ کر اس نے دروازے کی پشت سے ٹیک لگا لی تھی۔ بلال ہنوز کپڑے تہہ کر رہا تھا:

"تم نے ہی کہا تھا کہ تمہیں میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگتا۔ اب جا رہا ہوں تو تکلیف ہو رہی ہے؟"

"مجھے برا بنا کر جا رہے ہو۔ جانتے ہو پھپھو کتنی دہائیاں دیں گی کہ ان کے مہینوں بعد آۓ بھانجے کو میں نے تھپڑ مار کر واپس بھیج دیا۔"

"غلطی کا احساس ہو گیا؟" بلال کے لہجے میں ظنر تھا۔ الوینہ پھڑک کر آگے آئی تھی:

"تم بکواس کرو، مجھے گالیاں دو، مجھے جاہلوں کی طرح manhandle کرنے کی کوشش کرو، یہ صحیح ہے؟"

"تم مجھے بدصورت کہو، میری شخصیت کے پرخچے اتارو اور مجھے تھپڑ مارو، یہ صحیح ہے؟ کیا انا صرف تمہاری ہے الوینہ جہاں داد؟ کیا عزت صرف تمہاری ہے؟"

"میں تمہاری منگیتر نہیں ہوں۔" وہ یک دم بولی تھی۔ بلال بے تاثر نگاہوں سے اسے دیکھے گیا تھا۔ الوینہ نے انگلی اٹھا کر کہا تھا:

"تم اسے بے عزتی سمجھو یا بدتمیزی۔ بات اتنی ہی ہے کہ میرے لیے تمہیں سامنے دیکھنے کا تصور ہی ایک برا خواب (nightmare) ہے۔ شادی تو ناممکن بات ہے۔ تم بھی خوب جانتے ہو کہ ہماری منگنی محض اس لیے ہوئی تھی کہ تمہارا  جہاں داد ہاؤس سے رشتہ جڑا رہے۔ اب وہ رشتہ ختم، اور آئیندہ میرا بازو پکڑنا تو کجا، خبردار! جو مجھ پر زبانی حق جتانے کی کوشش بھی کی بلال!"

"کیا کرو گی؟" وہ بے اختیار کپڑے چھوڑ کر آگے آیا تھا:

"جب تمہیں ان الفاظ پر پچھتانا پڑے گا اور ہر دن رات نہیں بلکہ ہر پل مجھے اپنے پاس دیکھنا پڑے گا۔"

"الوینہ جہاں داد کی زندگی میں وہ دن نہیں آۓ گا۔" اس نے محض اتنا کہا اور پلٹ گئی۔ بلال نے کوئی رد عمل نہیں دیا تھا۔ الوینہ نے باہر آنے کے لیے دروازہ کھولا تو پھپھو کو کان لگا کر باتیں سنتے پایا۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھتی، سیڑھیاں اتر گئی۔ اب اس کا اور بلال کا آپس میں ایک ہونا ناممکن تھا، یہ تو طے تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

الوینہ کو نہیں یاد تھا بلال نے اس واقعے کے بعد اسے بلا ضرورت یا باضرورت دیکھا، یا ٹوکا اور روکا۔ اس نے اس شخص سے خوب چھٹکارا پایا لیکن موڈ کچھ دن تک خراب ہی رہا۔ ان دو تین ہفتوں میں وہ گھر سے بالکل بھی نہیں نکلی۔ اسکا کمرہ تھا، اس کا ایزل (پینٹنگ اسٹینڈ) اور اس کے رنگ۔ کنزیٰ جب بھی کمرے میں آتی اسے رنگوں کے حصار میں پاتی۔ اپنا کمرہ اس نے نۓ انداز میں سجا لیا تھا۔

پھر تیرے ہفتے صبح صبح نازش آئی۔ وہ بڑی افسردہ تھی۔

"کیا تم بھول گئیں ہم نے میچ دیکھنے جانا تھا؟"

"سوری نازش۔ میرے پاس وقت نہیں ہے اور میرے پاس ٹکٹ نہیں ہیں۔"

"اونہہ، ٹکٹ تو خریدنے ہی نہیں پڑے۔ ضوریز نے مفت میں دلواۓ ہیں۔"

اس کا نام سن کر الوینہ کا رنگ بدل گیا۔ حلق کڑوا ہو گیا۔ اس نے نخوت سے چہرہ موڑا۔ نازش کہہ رہی تھی:

"اب تم ایسے مت کرو الوینہ۔ وہ بھی تو تمہارا میوزک شو دیکھنے آیا تھا۔ اب تمہیں بھی چاہیے کہ اس کی دعوت قبول کرو۔ گھنٹے دو گھنٹے کی تو بعد ہے۔"

تبھی کنزیٰ کمرے میں آئی تھی۔ اس کی مخاطب الوینہ تھی:

"آج رات حنان بھائی ڈنر دے رہے ہیں، باجی۔ ان کی کوئی انویسٹمنٹ بر لائی ہے، اسی لیے۔"

اور بس یہ فقرہ سن کر الوینہ نے سیکنڈوں میں لباس بدلا تھا۔ کم از کم وہ حنان جیسے مجنوں کو آج برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ چلو میچ کے بہانے کچھ آؤٹنگ ہی سہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ کو اسے دیکھ کر بے اختیار ہنسی آئی تھی۔ 

کھلی سی شرٹ اور شارٹس میں وہ بالکل جوان میسی لگ رہا تھا لیکن الوینہ یہ تسلیم نہ بھی کرتی تو جانتی تھی کہ وہ اس حلیے میں اپنی عمر سے بہت کم عمر، قدرے ہینڈسم سا لگ رہا تھا۔ ان باقی کھلاڑیوں میں وہ الوینہ کو سب سے پہلے نظر آیا۔ نازش اسے شارٹس میں دیکھ کر بے اختیار ہنسی لیکن الوینہ کی نگاہیں اس پر ٹک گئ تھیں۔

"چلو الوینہ۔ دوست کے لیے دعا کرتے ہیں۔"

نازش نے جلانے والے انداز میں کہتے ہوۓ دونوں ہاتھ بلند کیے تھے۔ وہ سمجھتی تھی الوینہ معمول کے مطابق کوئی تلخ جملہ کسے گی۔ لیکن خلافِ معمول اس کی نظروں کا مرکز ضوریز حسن کی بنا رہا جس کی ٹانگوں میں جیسے بجلی بھری ہوئی تھی۔ پہلے دو گول اس نے کیے تھے، اگرچہ مخالف ٹیم تین گول کر گئی تھی۔

"یہ تو ٹیم کو جتوا دے گا۔ اس کی پھرتی دیکھی ہے۔ بھلا اس سے کون جیت سکتا ہے۔"

نازش نے بے خیالی میں تبصرہ کیا تھا۔ تب ضوریز نے بال مخالف کھلاڑی سے چھینی تھی۔ حاضرین نے داد و تحسین کے نعرے بلند کیے۔ اور تبھی کمینڑی باکس کی جانب نگاہ بلند کرتے ضوریز نے بے اختیار باکس کے قریب سیٹوں پر براجمان ان دو لڑکیوں کو دیکھا تھا۔ ایک نگاہ اور پھر پلٹ گیا، پھر پلٹ کر دوبارہ کچھ حیرانی سے دیکھا۔ اگر اس کی رفتار flash سی تیز تھی تو آنکھیں بھی acquiline (عقاب جیسی) تھیں۔ اس نے گول کرنا تھا۔ مخالف فٹ بال لیے اس کی جانب بھاگا آرہا تھا لیکن ضوریز اِس سے بےخبر، اُس جانب دیکھے گیا۔ پھر ایک دل فریب مسکان الوینہ کی جانب اچھالی۔ الوینہ کچھ متعجب ہوئی، اندر ہی اندر مشتعل بھی ہوئی۔ 

"گول، ضوریز، گول۔"

سب پکار رہے تھے جب ضوریز چونکا۔ بال کو اس نے طوفانی انداز سے اپنی جانب بڑھتے دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ زمین پر چاروں شانے چت پڑا تھا۔ بال اس کی ٹانگ زخمی کر گئی تھی۔ اور پھر ساری گیم وہ کھیلا نہیں تھا۔ سیکنڈ ہاف میں ہی بنچ پر بٹھا دیا گیا۔ 

اسے سر جھکاۓ، ٹانگ پکڑے بنچ پر بیٹھا دیکھ کر بھی الوینہ ہولا سا مسکرائی تھی۔ 

اس کی نگاہیں ضوریز کی ٹانگ زخمی کر گئی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نازش میچ کے آخر پر ایک جوس کا ڈبہ تھامے گراؤنڈ میں آئی تھی اور اسے ضوریز کے سامنے دھر دیا۔ 

"تمہیں نہیں لگتا یہ کسی اور کو مجھے تھمانا چاہیے تھا؟"

ضوریز کا اشارہ الوینہ کی جانب تھا۔ البتہ اس نے جوس تھام ضرور لیا۔ الوینہ نے وہ سنا، چپ کا رد عمل دیا لیکن نازش نے جیسے سنا ہی نہیں۔ وہ الوینہ کو کچھ کہہ کر اسٹیڈیم سے باہر جا رہی تھی۔ خود اعتماد سی الوینہ ٹھٹک گئی۔

"مجھے اکیلا کیوں چھوڑ کر جا رہی ہو؟"

"اسنیکس خریدنے جا رہی ہوں، الوینہ۔ وہاں اتنا رش ہے۔ تم یہیں ٹھہر جاؤ۔ دوست کی کمپنی انجواۓ کرو۔"

الوینہ کڑھ کر رہ گئی تھی۔ پھر پلٹی تو ضوریز جوس کا سٹرا لبوں میں دباۓ غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے یوں کھڑا دیکھ کر اس نے سٹرا لبوں سے نکالا اور مسکرایا:

"تو مس الوینہ جہاں داد دا گریٹ ضوریز حسن کو کھیلتا دیکھنے، چل کر اسٹیڈیم آئی ہیں۔"

"تم اتنے اہم بھی نہیں ہو۔" اس نے نظریں ملاۓ بغیر کہا تھا:

"میں نے بس بورنگ ایڈونچر اور برے ایڈونچر میں سے ایک کو چنا ہے۔"

"یہ بورنگ ایڈونچر تو نہیں تھا۔ میری ٹیم زبردست کھیلی۔ تبھی تو ہم نے ٹرافی جیتی ہے۔"

"لیکن تم تو سیکنڈ ہاف میں بنچ پر ہی بیٹھے رہے، اوہ۔۔۔ (الوینہ نے بے ساختہ مسکراتے لبوں کو دونوں ہاتھوں سے ڈھکا) تم تو کچھ کلو وزنی فٹ بال سے زخمی ہو گۓ تھے۔"

"جادو ہو گیا تھا مجھ پر۔" ضوریز کی نظریں یہ کہتے ہوۓ اس پر سے ہٹی نہیں:

"ایک خوبصورت جادوگرنی نے اپنی حسین آنکھوں سے مجھے دیکھا اور منجمد کر دیا۔ اپنی مغرور آنکھیں میری آنکھوں میں گھونپ کر مجھے حصار میں قید کر لیا۔ پھر طلسم ٹوٹا تو میں نے خود کو طوفان کی زد میں پایا۔" وہ اٹھ کر الوینہ کے سامنے آیا اور مسکرایا:

"اس جادوگرنی نے زخمی کر دیا۔ اس ٹانگ کو بھی اور۔۔۔ (سینے پر ہاتھ رکھا) اس دل کو بھی۔"

الوینہ نے متوحش نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔ محسوس ہوا کہ دل سینے میں نہیں ہے۔ پھر لگا کہ دل ہے اور دھڑک دھڑک کر بے حال ہے۔ 

"اگلے ہفتے ڈنر کریں؟" وہ پشت پر ہاتھ باندھے پوچھ رہا تھا۔ کیا وہ اسے اپنی کوئی گرل فرینڈز سمجھ رہا تھا؟ بے اختیار ہی، بے ساختہ ہی، بلا توقع ہی، الوینہ کے لب اچانک ہی کپکپاۓ تھے۔

"اگر فری ہو تو ٹھیک ہے ورنہ۔۔۔۔"

'مم۔۔۔ میں نے۔۔۔ ایگزیبیشن (نمائش) میں اپنی پینٹنگز پیش کرنی ہیں۔ اگلے ہفتے۔۔۔۔ اس لیے۔۔۔۔"

"اٹس اوکے۔ مجھے لگا تم آج کل فری ہو۔ اس لیے میں نے پوچھا۔" اس نے جلدی سے وضاحت دی تھی۔ الوینہ کو جانے غصہ کیوں نہیں آیا۔ ضوریز حسن اس کے سامنے آنے والا پہلا ہینڈسم لڑکا تھا۔ اس کی شخصیت سے متاثر ہونے والا، اس پر مر مٹنے والا پہلا مرد بھی نہیں تھا۔ وہ ایسے ٹھرکیوں کو ڈانٹ دیتی تھی۔ ڈنر کی درخواست کرتے ایسے دل پھینک لڑکوں کو ان کی اوقات یاد دلا دیتی تھی۔ لیکن وہ اس دن خاموش رہی۔ بالکل خاموش یہاں تک کہ نازش ہجوم سے اسنیکس لے کر نکلتی نظر آئی۔ وہ ضوریز کے پاس سے بھاگی۔ تیز قدموں سے چلتی وہ اسنیکس والے حصے میں آئی۔ تبھی چھوٹے گول مٹول بچے نے اس کا دامن کھینچا۔ الوینہ نے دیکھا۔ اس نے ایک رقعہ اس کی جانب بڑھا رکھا تھا۔

'یہ آپ کے لیے ہے۔"

الوینہ نے کچھ حیرانی سے رقعہ تھاما۔ کھولا اور پڑھا۔ ساتھ ہی پیشانی پر بل پڑ گۓ۔ لکھا تھا:

"تو اپنے کزن کا ڈنر چھوڑ کر آپ یہاں اسٹیڈیم میں ضوریز حسن کا میچ دیکھنے آئی ہیں۔ ویل ڈن مس جہاں داد۔ یہی تو رشتوں سے وفا ہوتی ہے۔"

یہ رقعہ کس نے بھیجا تھا؟ کیا ضوریز نے؟ اس نے پلٹ کر دیکھا تو ضوریز کو دور بنچ سے اٹھتے دیکھا۔ گھر جاتے تک الوینہ کے ذہن میں وہ رقعہ کھلبلی مچاتا رہا۔ پھر مندمل ہو گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے اتھاہ بیزاری سے اپنی پینٹنگز کو گھورا تھا۔

ان کے سبب وہ آج ریسٹورنٹ میں اس کے ساتھ ڈنر کرنے کی بجاۓ یہاں ہال میں مقید سی کھڑی تھی۔ اس کی تخلیقات کو سراہا جا رہا تھا۔ پینٹنگز کی قیمتیں پوچھیں جا رہی تھیں لیکن وہ لاتعلق سی ایک سٹول پر بیٹھی تھی۔ تنگ جینز اور لمبی بلو شرٹ پر گلے میں مفلر لپیٹ کر ڈالے وہ بڑی پروقار سی لگ رہی تھی۔ ہونٹ ہمیشہ کی طرح بھڑکتی سرخ لالی میں رنگے تھے اور آنکھیں کاجل سے لبریز تھیں۔ البتہ آج اس کے بال بندھے تھے۔ سٹرابری بلونڈ (سرخ نما سنہرے) بالوں کی اس نے فرنچ چٹیا بنائی تھی جو ماتھے کر تاج کی طرح سج گئی تھی۔

دل پریشان تھا۔ دل بے حال تھا۔

اس کی بے کلی حد سے بڑھنے لگی تو وہ کچھ مضطرب ہو کر اٹھی۔ پرس ہمیشہ کی طرح کاندھے پر تھا۔ قائدے کے مطابق اسے نمائش ختم ہونے تک ہال میں ہی رہنا تھا کیونکہ آویزاں پینٹنگز میں سے کئی اس کی تھیں لیکن وہ یہاں سے بھاگ نکلنا چاہتی تھی۔ خراماں خراماں چلتی وہ ابھی لابی میں داخل بھی نہیں ہوئی تھی کہ بے اختیار رکی۔ کچھ معتجب ہوئی اور دوبارہ پلٹ کر نمائشی ہال میں تعمیر شدہ ریلنگ کے قریب کھڑے مرد کو گھورا۔ اس کی پیٹھ الوینہ کی جانب تھی۔ پینٹ شرٹ کے اوپر اس نے نسبتاً لمبی جیکٹ پہنی تھی جس کے کالر کھڑے تھے، نتیجتاً اس کی گردن چھپ گئی تھی۔

الوینہ چونک سی گئی۔ انہی قدموں سے وہ واپس سیڑھیاں چڑھ آئی۔ لوگوں کو پار کرتی وہ ریلنگ تک آئی۔ پھر بنا ہچکچاہٹ کے کچھ بے اختیار ہو کر اپنا ہاتھ مرد کے کندھے پر دھر دیا۔ وہ سامنے دیوار پر لگی پینٹنگ کو گھور رہا تھا۔ قدرے حیرانی سے پلٹا۔ شناسائی کی ایک لہر اس کی آنکھوں میں دوڑی اور وہ مسکرایا:

"ہۓ، بیلیرینا۔" اس نے دو انگلیوں سے 'ہاۓ' کا اشارہ کیا۔ الوینہ کا دماغ گھوم گیا۔ کیا ایسے لمحات کو کہتے ہیں اتفاق؟ کیا یہ ہوتا ہے الہام؟

"تم یہاں۔۔۔ یہاں؟" الوینہ جہاں داد پریشان نہیں ہوتی تھی۔ ہچکچاتی نہیں تھی، ہکلاتی نہیں تھی۔ حالات اس کے مخالف بھی ہوں تو وہ ڈٹ جاتی تھی لیکن اس دن۔۔۔ وہ گڑبڑا گئی۔ سٹپٹا گئی۔

"ویسے مجھے بتا کر آنا چاہیے تھا پر مسئلہ یہ ہے میرا تم سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔" وہ اب لابی کی جانب اشارہ کر رہا تھا:

"میرے ڈیڈ باہر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ آج کل اسمگلنگ کیسیز بہت بڑھ گۓ ہیں ناں اس لیے۔ ان کے مخبر نے انہیں اطلاع دی ہے کہ یہاں کچھ تو ہو گا۔ (اتنا کہہ کر وہ لب الوینہ کے کان کے قریب لایا اور سرگوشی کی) شاید کسی مجرم کا اِن کاؤنٹر۔"

"تمہارے ڈیڈ پولیس میں ہیں؟" الوینہ کو یہ دلچسپ لگا۔

"ایس-پی۔" ضوریز نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ کہا تھا:

"ان سے بڑھ کر دہشت ناک انسان کوئی نہیں ہے۔ I ought to respect him. (میرا فرض ہے کہ میں ان کی عزت کروں۔)"

"لیکن تم یہاں کیا کرنے آۓ ہو؟" الوینہ کا مسئلہ وہیں تھا۔ ضوریز اس کے متفکر چہرے کو دیکھ کر زیرِ لب مسکرایا:

"کیا سننا چاہتی ہو میرے منہ سے؟" وہ اب پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے مسکرا رہا تھا:

"کہ ضوریز حسن تم سے متاثر ہو چکا ہے اور اب اس کا دل ایک منٹ بھی تمہارے بغیر قابو میں نہیں رہتا۔"

"کوئی ایک شخص دکھاؤ جس نے الوینہ جہاں داد کو دیکھا، پھر پلٹ کر دوبارہ نہیں دیکھا۔" وہ مخصوص مغرور سے لہجے میں بولی تھی۔ ضوریز بس مسکرا کر رہ گیا۔ پھر سر جھٹک کر پلٹا اور پینٹنگ پر ہاتھ رکھا:

"تم نے بنائی؟"

"نیچے نام لکھا ہے۔" الوینہ نے ظنریہ لہجے میں انگلی پینٹنگ کے کونے میں لکھے نام پر رکھی۔ ضوریز نے سر ہلایا:

"نام تو تمہارا ہی لکھا ہے لیکن کیا یہ واقعی تم نے پینٹ کی ہے۔ یو نو، (تمہیں پتا ہے) کچھ لوگ پیسے دے کر بھی پینٹنگز خرید لیتے ہیں اور پھر انہیں اپنا نام لے کر بیچتے ہیں۔"

"ہاں۔ اور کچھ لوگ ہوتے ہیں جو میچ کے پہلے ہاف میں زخمی ہونے کا بہانہ بنا کر بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ اگر ٹیم ہار جاۓ وہ یہ کہنے کے قابل ہوں کہ ہم زخمی تھے، کھیلے نہیں اور ٹیم ہار گئی۔ لیکن اگر ٹیم جیت جاۓ تو کہیں کہ قدرت نے ان کے زخموں کے بدلے ان کی ٹیم کو کامیابی سے نوازا۔"

ضوریز ہنسا۔ جواباً دیر تک ہنستا رہا۔ الوینہ اس کو ہنستا دیکھتی رہی۔ پھر جانے کیوں اس کے اپنے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، بڑی آسودہ سی، خوش کن سے مسکان۔

"اگر تم برا نہ منانے کا وعدہ کرو تو ہم ڈنر کی بجاۓ لنچ کریں، کیا کہتی ہو؟"

الوینہ نے سوچا کہ وہ جانا تو چاہتی ہے لیکن پس و پیش کرنے کے لیے کیا بہانہ بناۓ۔ 

"میری پینٹنگز بکاؤ نہیں ہیں۔ مجھے انہیں واپس لینا ہے اور اس لیے مجھے نمائش ختم ہونے تک یہیں رہنا۔۔۔۔"

"تو یہ کونسی بڑی بات ہے۔ ہم مینیجر کو کہہ جاتے ہیں کہ نمائش ختم ہونے پر پینٹنگز اپنی کولیکشن (ذخیرہ مراد سٹور) میں رکھیں۔ تم کل یا پرسوں لے لینا۔"

الوینہ نے محسوس کیا کہ اب کوئی بہانہ بنانا، یعنی ضوریز حسن کا دل توڑنا۔ کیا فرق پڑتا ہے، الوینہ۔ ایک دل ہی تو ہے۔ کتنے دل توڑے ہیں تم نے؟ ایک اور توڑ دو۔ پر اس نے اپنی مخروطی انگلیوں سے اس کے دھڑکتے دل کو ذرا دبایا تو اس کے اپنے سینے میں، اپنے دل میں تکلیف کا احساس ہوا۔ اپنی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں اور اپنا بدن کانپ اٹھا۔ یہ کیا ہوا؟ ان دلوں میں یہ احساس کا بندھن کب قائم ہو گیا۔

"چلیں؟" اس نے چابی بھی نکال لی تھی اور ریلنگ سے دو قدم دور ہو گیا تھا۔ الوینہ بے خودی میں اس کے قریب آئی تھی۔ اس کے ساتھ قدم بڑھانے لگی تھی۔ آج ایک نیا احساس اسے حصار میں کے رہا تھا۔ وہ ضوریز حسن کے ساتھ چل رہی تھی۔ لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ لوگ اسے پہلے بھی تو دیکھتے تھے۔ لیکن آج کچھ الگ تھا۔ سب اسے رشک سے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے بھی تو دیکھتے تھے۔ لیکن آج کچھ الگ تھا۔ لیکن آج کیوں الگ تھا؟

"کیا کھاؤ گی؟"

اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کب یہاں پہنچ گئی۔ کرسی پر ضوریز کے مقابل بیٹھی، گلابوں کی مہک میں لپٹی وہ خیالوں میں مگن تھی جب ضوریز کی آواز سنائی دی۔ الوینہ نے ایک نظر مینو پر دیکھا۔ کیا وہ یہ کہہ دے کہ میں وہی کھاؤں گی جو تم منگواؤ گے۔ اس نے دل میں سوچا اور اس بے تُکی سی سوچ پر مسکرا دی۔ یہ اسے کیا ہو رہا ہے۔ یہ پل ہی پل میں کیا ہو گیا ہے۔

"یعنی وہی کھاؤ گی جو میں آرڈر کر دوں گا؟"

وہ اس کی بے وجہ خاموشی اور پراسرار سی مسکراہٹ کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ الوینہ نے ناک بھویں چڑھائی تھی:

"کیوں؟ میرا انتخاب کہاں گیا؟"

ضوریز نے کندھے اچکا دیے اور کرسی سے ٹیک لگائی۔ بیرا ادھر آرہا تھا۔ وہ اس پر نظریں مرکوز کیے زیرِ لب گویا ہوا تھا:

"امجد اسلام امجد کہتے ہیں؛

"مزاج اپنا، پسند اپنی، خیال اپنا۔۔۔ کمال کیا ہے؟

جو یار چاہے، وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے

الوینہ نے دونوں ابرو استہفامیہ انداز میں اٹھاۓ۔ وہ یہ کیا بول رہا تھا۔ وہ یہ کب سے بول رہا تھا۔ الوینہ کے لیے وہ لنچ جانے کب آیا، جانے کب ہو گیا۔ وہ تمام عرصہ اس میں مگن رہی تھی، خود میں مگن رہی تھی۔ سامنے بیٹھے مرد کو بے خیالی میں دیکھا نہیں لیکن پھر بھی پرکھتی رہی۔ 

تمہارے ڈیڈ۔۔ کیا وہ اعتراض نہیں کریں گے کہ تم ان کے ساتھ آۓ تھے لیکن پھر غائب ہو گۓ؟" 

"اونہہ۔ وہ میری زندگی میں مداخلت نہیں کرتے۔ اور یہی ان کی سب اسے اچھی خوبی ہے۔" اس نے بڑی نفاست سے اسٹیک کا ٹکڑا منہ میں ڈالا تھا۔

"تم بتاؤ۔ نازش نے ایک دفعہ اپنی ایک خوبصورت سی دوست کا تذکرہ کیا تھا جس کے خاندان والے انتہائی ظالم ہیں۔"

"تو نازش تمہیں ہر بات بتاتی ہے؟" الوینہ چونکی۔ ضوریز نے نفی میں سر ہلایا:

"وہ میری دور پار کی کزن ہے۔ دراصل ہمارا کوئی بلڈ ریلیشن (خون کا رشتہ) نہیں ہے ناں۔"

اوہ، تبھی نازش نے  اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ خیر، میں کیوں اس کے بار میں جاننے کے لیے اتنی متجسس ہو رہی ہوں۔   

"چلیں اب؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟"

اسے محسوس ہوا وہ کافی دیر سے خاموش بیٹھی ہے۔ جبھی تو ضوریز نے واپس جانے پر اصرار کیا تھا۔ الوینہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔ اٹھی۔ ضوریز اس سے پہلے سے اٹھ کر کار سٹارٹ کرنے کے بہانے باہر آگیا تھا۔ الوینہ اٹھی، پرس کاندھے پر ڈال کر آگے بڑھی اور کچھ محسوس کر کے ٹھہر گئی۔ اس کی نظریں ٹیبل پر رکھی نوٹ بک پر جا پڑیں۔ ضوریز نے وہاں ابھی لنچ کی پےمنٹ رکھی تھی۔ لیکن جس شے نے الوینہ کی توجہ کھینچی تھی وہ، وہ سفید خط نما رقعہ تھا۔ الوینہ کو کرنٹ سا لگا۔ اس نے ریورس گیئر لگایا اور وہ رقعہ سیدھا کیا۔ لکھا تھا:

"تو ضوریز حسن آپ کے لیے اتنا اہم ہے کہ آپ نے اس کی لنچ کی التجا ایک بار ہی قبول کر لی۔ یہ تو چیٹنگ ہے، مس جہاں داد۔ آپ کے گھر کتنے امیدوار موجود ہیں۔ ایک ہینڈسم کنوارا ہے۔ دوسرا منگیتر ہے آپ کا۔ پھر بھی آپ کسی اجنبی پہ اپنا دل لٹا رہی ہیں۔ یہ کیا بے وقوفی کر رہی ہیں؟"

"وٹ دا ہیل (کیا بے ہودگی ہے)" الوینہ آگ بگولا تھی۔ اس نے رقعہ مٹھی میں بھینچا۔ یہ ضوریز نے تو بالکل بھی نہیں بھیجا تھا۔ پھر کس کی ہمت تھی کہ الوینہ جہاں داد کا احتساب کرتا! وہ بجلی کی سی تیزی سے ریستوران سے باہر آئی۔ ضوریز فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ایکسیلیریٹر دبا چکا تھا۔ الوینہ دھم سے اس کے برابر آبیٹھی۔

"جس رات میرا میوزک کمپیٹیشن تھا، اس رات مجھے ایک ستائشی خط ملا جس کو بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ کیا وہ تم نے بھیجا تھا؟"

"کونسا خط؟" ضوریز چونکا۔ الوینہ کی تمام حسیات اس کی جانب متوجہ تھیں۔

"پلیز ضوریز۔ وہ خط جس میں تم نے کہا کہ تمہیں میرا آرٹ ورک اچھا لگا۔ وہ تم نے ہی بھیجا تھا ناں۔"

"میں نے تو تمہاری روبرو تعریف کر دی تھی الوینہ۔ پھر مجھے خط بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟"

"وہ تم نے نہیں بھیجا تھا؟" الوینہ کا دل ڈوبا۔

"آف کورس ناٹ۔" ضوریز نے کار آگے بڑھائی:

"اب تمہیں تمہارے گھر ڈراپ کرتے ہیں۔"

الوینہ کا دماغ گھوم چکا تھا۔ وہ تین خط اگر ضوریز نے نہیں لکھے تھے تو کون اسے یہ خط بھیج رہا تھا۔ کوئی ایسا جو اس کے پل پل کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس کا دماغ ماؤف تھا۔ ضوریز جب اس کے رہائشی علاقے میں داخل ہوا تو شام تقریباً ڈھل چکی تھی۔ ضوریز نے کار بنگلے کے گیٹ کے عین سامنے پارک کی تھی۔

"نائس ہوم۔" اس نے اس خوبصورت بنگلے کی شان پر تبصرہ کیا۔ الوینہ تب بھی گم سم بیٹھی تھی۔ ادھر ضوریز کہہ رہا تھا:

"اور وہ ضرور تمہارا کزن ہو گا الوینہ۔"

الوینہ نے نگاہ باہر گھمائی۔ وہاں حنان گیٹ کے دوسری طرف کلف لگی شلوار قمیص میں ملبوس کھڑا تھا۔ ڈرائیور بھی پیچھے تھا، گویا وہ فیکٹری سے آیا تھا یا دوبارہ جا رہا تھا۔ ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھول رکھا تھا لیکن حنان کی نگاہیں سیاہ مرسڈیز پر جمی تھیں، مرسڈیز ڈرائیو کرتے جوان پر گڑھی تھیں، ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی الوینہ پر ٹکی تھیں۔

"وہ کچھ سنجیدہ لگ رہا ہے۔" ضوریز نے اسے بغور دیکھا تھا:

"تمہاری فیملی کنزرویٹو تو نہیں ہے ناں؟ کیا اسے تمہیں یوں کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ کر غصہ آۓ۔۔۔۔"

"وہ میرے سامنے کچھ نہیں ہے، ضوریز۔ اور ہاں، الوینہ کسی سے نہیں ڈرتی۔"

اس نے اتنا کہا اور کار سے نکل گئی۔ ضوریز نے مرسڈیز آہستگی سے پیچھے گھمائی۔ حنان الوینہ کو قریب آتا دیکھتا رہا۔

"تم گھر میں کیا کر رہے ہو، فیکٹری مین؟" الوینہ دھیما سا مسکرائی تھی۔

"کچھ خاص نہیں۔ عمیر بھائی اماں سے ملنے آۓ تھے۔ کوئی معاملہ ڈسکس کرنا تھا اس لیے مجھے بھی بلا لیا۔"

"اوہ ہاں، تم سب کا وہ پراسرار بزنس جو سال میں اکثر ٹھپ ہو جاتا ہے۔"

اس نے بال گھماتے ہوۓ لاتعلقی کا مظاہرہ کیا۔ حنان کی نگاہیں بے اختیار گیٹ سے دور جاتی سیاہ مرسڈیز پر پڑی تھی۔

"کہاں سے آرہی ہو؟" اس کے لہجے میں کچھ تھا جو الوینہ کو اچھا نہیں لگا۔ لمحہ لگا اسے ریستوران والی الوینہ سے بدل کر اصلی حالت میں آنے میں۔ 

"تم کہاں جا رہے ہو یہ پوچھا میں نے؟؟؟؟؟ جب میں نے نہیں پوچھا کہ کہاں آرہے ہو، کہاں جا رہے ہو تو تم کون ہوتے ہو یہ پوچھنے والے۔"

"الوینہ میں تو۔۔۔۔۔" حنان کا لہجہ اس بار نرم تھا لیکن الوینہ بال کندھوں سے ہٹا کر کمر پر بکھراۓ لاؤنج کی جانب بڑھی۔ پھر ٹھٹک کر رکی۔ ذہن میں خط پر لکھے الفاظ گونجے:

"۔۔۔آپ کے گھر کتنے امیدوار موجود ہیں۔ ایک ہینڈسم کنوارا ہے۔ دوسرا۔۔۔"

"ہینڈسم کنوارا۔"

"ہینڈسم کنوارا؟؟؟؟؟؟؟"

الوینہ کی آنکھوں میں حیرت در آئی۔ اپنی تعریف یوں کوئی بھی نہیں کرتا۔ تو کیا وہ خط اسے حنان نے لکھے۔۔۔۔۔۔

اس کی تو۔۔۔۔۔۔ الوینہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ آخر اس کی جرآت بھی کیسے ہوئی الوینہ سے ٹاکرا لینے کی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حنان کو یوں افراتفری میں گھر کیوں بلوایا گیا، الوینہ جانتی تھی۔

پھوپھا جان ٹیکسٹائل فیکٹری کے مالک تھے جو اعلیٰ معیار کا کپڑا بناتی اور بیچتی۔ اس فیکٹری میں آدھا حصہ مصطفیٰ کا تھا اور اور آدھا جہاں داد کا۔ جہاں داد کی موت ہوئی تو وہ حصہ عمیر سنبھالنے لگا۔ پھر مصطفیٰ سے حنان کے ہاتھ آیا۔ یہ وہ دور تھا جب فیکٹری کی آمدن میں اضافہ ہونے لگا۔ پھپھو حیران تھیں کہ کہ یہ اضافی ہن کہاں سے برسنے لگا۔ ان کے آۓ دن کے استفسار سے تنگ آکر عمیر نے انہیں بھی راز میں شریک کر لیا۔

"وہ فیکٹری کی آڑ میں افیم بیچتے ہیں۔" الوینہ نے بے زاری سے کہا تھا۔ وہ بتانا نہیں چاہتی تھی لیکن ضوریز کریدنے پر لگا تھا۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ ضوریز لمحہ بھر کو خاموش ہو گیا۔ سناٹے کا ایک لمبا وقفہ، پھر اس نے سرد ہوا اندر کھینچی۔

"اوہ یعنی۔۔۔ میں خطرناک لوگوں میں پھنس گیا۔"

الوینہ اندر ہی اندر مسکرائی۔ وہ واقعی ذومعنی باتیں کرتا تھا یا الوینہ کو ان کا مطلب سمجھنے میں غلطی ہوتی تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے آسودگی سے بیڈ پر لیٹ گئی۔ بال بکھرے تھے اور بدن پرسکون تھا۔ کانوں میں ضوریز کی آواز گونج رہی تھی اور جسم میں ایک سکون سا اتر رہا تھا:

یہ اسے کیا ہو رہا تھا یا۔۔۔۔ یہ اسے کیا ہو گیا تھا۔

"ہیلو؟ الوینہ؟"

شاید وہ سمجھا تھا کہ کال کٹ گئی۔ الوینہ نے لب جوڑے۔ جواب دینا چاہا کہ بے اختیار نظریں شیلف پر جا پڑیں۔ کتابیں قرینے سے سجی تھیں۔ ایک طرف مصنوعی پھلوں سے بھری ٹوکری رکھی تھی۔ اسی ٹوکری پر ایک کاغذ مڑا ہوا رکھا تھا۔ وہ مڑے ہوۓ کاغذ کا یہ انداز پہچانتی تھی۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی تھی۔

"الوینہ، آر یو دیئر؟" ضوریز کی آواز قدرے بلند تھی۔ ماحول کا سارا فسوں غائب ہوا۔ الوینہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی:

"مم۔۔۔ میں تمہیں بعد میں۔۔۔ بعد میں فون کرتی ہوں ضوریز بلکہ۔۔۔ بلکہ ہم۔۔۔ ہم کل ملیں؟"

اس کا لحجہ حکمیہ تھا یا التجائیہ، ضوریز سمجھ نہیں سکا۔ البتہ فوراً بولا:

"شیور۔ کل ملیں پھر۔"

الوینہ نے پھرتی سے کال کاٹی اور جلدی سے اٹھی۔ ٹوکری پر سے رقعہ اٹھایا اور کمرے سے باہر آئی۔ کنزیٰ حسبِ معمول قالین پر کھلونے بکھراۓ کھیل رہی تھی۔ الوینہ نے باآواز اسے قریب بلایا۔

"میری غیر موجودگی میں میرے کمرے میں کون آیا تھا کنزیٰ؟"

"آپ کے کمرے میں؟" کنزیٰ حیران تھی۔ کچن میں کھڑی کا یہ نے بھی جھانک کر دیکھا تھا۔

"ہاں میرے کمرے میں۔۔۔۔ کون آیا تھا میرے کمرے میں؟"

"آپ کے کمرے میں تو کوئی بھی نہیں گیا الوینہ باجی۔"

کنزیٰ فرم لہجے میں بولی تھی۔ اور عین اسی وقت ہانیہ نے ظنریہ لہجے میں کہا تھا:

"پہلے تو تمہیں صرف اس بات پر اعتراض ہوتا کہ تمہارے گھر والے تمہارے بارے میں چغلیاں کرتے ہیں۔ اب یہ بھی سوچنے لگی ہو کہ وہ تمہارے پیٹھ پیچھے تمہارے کمرے کی تلاشی لیتے ہیں۔"

الوینہ پہلے ہی بھڑکی ہوئی تھی۔ اس نے مزید بات نہیں بڑھائی۔ پلٹ کر رقعہ کھولا اور پڑھا۔

"جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں آپ ایک باغی عورت ہیں، مس جہاں داد۔ آپ نے اپنی خوبصورتی کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے تاکہ ان تمام لوگوں کو زیر کر سکیں جو آپ کے مخالف ہیں۔ پر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ اس ہتھیار نے آپ کو خود اعتماد نہیں بنایا بلکہ حد درجے سرکش بنا دیا ہے۔ آپ کو اپنی ذات کو ممتاز رکھنا تھا۔ سب کے درمیان خود کو منفرد بنانا تھا لیکن مس جہاں داد۔۔۔ آپ نے تو خود کو سبھا کی پری سمجھنا شروع کر دیا۔ یہ یتیم لڑکی کن راستوں میں بھٹک گئی ہے۔ کن لوگوں کے پیچھے بھٹک رہی ہے۔ آپ ہمیشہ سے توجہ کی تلاش میں تھیں۔ آپ کی فیملی نے آپ پر توجہ نہیں دی تو اب۔۔۔ آپ توجہ کے لیے بیرونی دنیا میں گھومتے لوگوں کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ اور ضوریز حسن۔۔۔۔ آپ نے اپنے لیے اسے چُنا ہے۔ میں آج دعٰوے سے کہتا ہوں مس جہاں داد، افسوس! آپ چہرہ شناس نہیں ہیں۔ آپ نے غلط آدمی کو چُن لیا ہے۔ وہ ایک خود غرض انسان ہے۔ وہ آپ کو آخر میں یقیناً دھوکہ دے گا۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ضوریز نے خط پڑھ کر تبسم کیا تھا۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر الوینہ کو جلال آگیا تھا۔ اس میں برداشت کی صلاحیت بہت کم تھی۔ یہ جو کوئی بھی تھا، الوینہ کا امتحان لے رہا تھا۔

"ویسے اس شخص نے تمہارا اچھا احتساب کیا ہے۔" ضوریز نے تبصرہ کیا:

"باغی تو تم ہو، الوینہ۔"

الوینہ نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے لیکن ضوریز بولتا رہا:

"اور مجھے حیرانی ہوئی کہا اس نے میرا ذکر کیا؟ میرا کیا قصور الوینہ؟" اس نے معصوم سا چہرہ بنایا۔ الوینہ نے چہرہ پھیر لیا۔

"مجھے چُننے سے اس کی کیا مراد؟" ضوریز نے دوبارہ سوال کیا۔ الوینہ کی نظریں ہنوز جھکی تھیں۔

"جیسے تمہیں پتا ہی نہیں ہے۔" اس کی آواز دھیمی تھی۔ ضوریز کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

"مجھے پتا ہے تمہیں اپنا آپ پسند ہے الوینہ۔ اس میں کوئی برائی ہے۔ سب انسانوں کو اپنے وجود سے پیار ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے، میں مفاد پر چلتا ہوں۔" الوینہ اب بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ ضوریز کی آنکھیں اسکی آنکھوں میں گڑی تھیں:

"مجھے خود سے پیار ہے کیونکہ میرا وجود مجھے ہمیشہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ مجھے اپنے پروفیشن سے پیار ہے کیونکہ اس نے مجھے مضبوط بنا دیا ہے۔ تم سے مجھے کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچا تو۔۔۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ البتہ میں تم سے جُڑ کر بدنام ضرور ہو گیا ہوں۔" اس نے ایک نظر پھر خط کو گھورا تھا:

"تمہارے گمنام مسیحا کی لکھائی تو بہت زبردست ہے۔ شاید اس نے کسی خطاط سے یہ خط لکھوایا ہے۔" پھر وہ کچھ سوچنے لگا:

"کہیں یہ تمہارے اس منگیتر کا کام تو نہیں ہے، الوینہ۔ وہی جس کے بارے میں تم کل بتا رہی تھیں۔"

ضوریز کے ذہن میں نام نہ آسکا۔ الوینہ نے ناک بھویں چڑھائی:

"وہ صرف نام کا منگیتر ہے بلکہ، صحیح کہوں تو ہم میں بالکل بھی مطابقت نہیں ہے۔ وہ امریکہ میں رہا ہے۔ اسے مجھ جیسی مشرقی لڑکی سے کیا غرض۔"

"اوہ، پھر تو وہ اندھا ہے الوینہ۔"

ضوریز کا جواب بے ساختہ تھا۔ اس کی نظریں الوینہ کے آر پار ہو رہی تھیں۔ الوینہ جانتی تھی وہ خود کو جتنا بھی calm and cool ظاہر کرے، اس کی موجودگی میں جتنا بھی چوکس ہو کر بیٹھے، پھر بھی بےخود نگاہوں سے اسے تکتا رہتا ہے۔ الوینہ تب ہونٹ دبا کر کہیں اور دیکھ لیتی، مٹھیاں بھینچ لیتی، ہلکا سا مسکرا دیتی لیکن وہ ڈھیٹ جانے کس مٹی کا بنا تھا، چپ چاپ اپنا کام بھی کرتا رہتا اور اسے بھی تکتا رہتا۔ لاء یونیورسٹی میں یہ ان کا آخری ہفتہ چل رہا تھا۔ پھر جانے کیا ہونا تھا، کیا بننا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حنان کو سامنے دیکھ کر الوینہ میں آگ سی سلگنے لگتی تھی۔

وہ نفرت جو وہ پہلے بلال کے لیے محسوس کرتی تھی، اب حنان کے لیے پروان چڑھنے لگی تھی۔ اسے یقین تھا اس کے علاوہ کون اسکی یوں جاسوسی کر سکتا ہے۔ پھر وہ خط بڑی خوبصورت اردو لکھائی میں لکھے ہوتے۔ حنان کے سوا اور کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ 

یونیورسٹی تین دن کے لیے آف تھی، سو وہ گھر پر ہی تھی۔ ان تین دنوں میں اسے کوئی خط نہیں ملا۔ ضوریز بھی نہیں ملا۔ اس شام الوینہ کے من میں جانے کیا آئی۔ کافی بنانے کچن میں کھڑی ہو گئی۔ پھپھو نے اسے جو کچن میں کافی بناتے دیکھا تو سب کے لیے بنانے کا حکم دے ڈالا! مرتا کیا نہ کرتا۔ سب کے لیے بنائی اور آیا کے ہاتھوں چاۓ ٹرے میں رکھوا کر خود اپنا کپ پکڑ، اپنے کپ کی جانب لپکی۔ تبھی اسے پھپھو نے آواز دی تھی۔ 

"یہ کیا آداب ہیں، الوینہ۔ کبھی سب کے ساتھ بھی بیٹھا کرو۔"

الوینہ چپ چاپ کپ لے کر ہانیہ کے برابر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ حنان کی اپنی باتیں تھیں اور منان کی اپنی۔ بینش ایبک کو لے کر آئی ہوئی تھی، البتہ عمیر موجود نہیں تھا۔ اور تبھی باتوں ہی باتوں میں پھپھو نے پوچھ لیا تھا:

"یونیورسٹی سے فارغ کب ہو گی، الوینہ؟ کب یہ لاء کی پڑھائی ختم ہو گی؟"

الوینہ نے بے زاری سے کندھے اچکا دیے تھے۔ حالانکہ جواب خوب جانتی تھی۔

"تم لوگ بھی لمبی پڑھائیوں میں لگ گۓ ہو۔ وہاں بلال کا منحوس مارا ایم بی اے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور یہاں تمہارا ایل ایل بی ختم نہیں ہو رہا ہے۔ بس میرا حنان صحیح رہا۔ بی اے کرتے ہی فیکٹری سنبھالنے لگ گیا۔"

حنان گفتگو میں مشغول نہیں تھا۔ اس کی نظریں الوینہ پر جمی تھیں۔

"میں بھی تو فیکٹری ہی سنبھالتا ہوں اماں۔" منان منمنایا تھا۔ ادھر بینش نے ناک بھویں چڑھائی تھی: 

"یہ لوگ بھی کیا لمبی پڑھائیوں میں لگ جاتے ہیں کہ ان کی شادی کی عمر ہی نکل جاتی ہے۔" بینش کے تبصرہ پر الوینہ مسکرا کر رہ گئی تھی۔ کہنے لگی:

"اچھا ہے ناں بھابی۔ کچھ پڑھ لکھ لیتے ہیں۔ ورنہ تو آپ کی طرح شادی کر کے بس ہر سال زمین پر بچوں کا بوجھ ہی بڑھائیں گے۔"

پھپھو نے دھیان نہیں دیا اور عمیر تھا نہیں ورنہ الوینہ کو جھڑکی ضرور  پڑتی۔ البتہ ہانیہ نے سن لیا۔ بولی:

"لڑکی شادی کے لیے ہی تو ہوتی ہے الوینہ۔ اب چاہے وہ پڑھ لکھ کر گھر بساۓ یا پڑھے بغیر گھر چلاۓ۔"

پھپھو نے تسبیح کے چند دانے زیرلب کچھ پڑھ کر گراۓ۔ پھر جلدی سے بولیں:

"جو بھی ہو۔ منگنی تو تم دونوں کی پہلے ہی ہو چکی ہے۔ جیسے ہی بلال واپس آۓ گا تو نکاح کی رسم بھی ادا ہو جاۓ گا۔"

الوینہ کو یہ جاننے میں ایک لمحہ نہیں لگا تھا کہ یہ بات الوینہ کے بارے میں ہی جا رہی تھی۔ وہ چونکی۔ پھر ڈھیلی پڑھی اور ہنکارا بھر کر جلدی سے کہا:

"میں تو شادی نہیں کروں گی۔"

"ہائیں؟ تو کیا کنواری رہو گی؟" پھپھو شاک میں تھیں۔ الوینہ نے اطمینان سے کافی کا گھونٹ بھرا۔

"بھلا میں کیوں کنواری مروں۔ انشاللہ شادی کروں گی اور اسی سال میں  اپنے جیسے آرٹسٹ لڑکے سے کروں گی لیکن پھپھو، آپ اس غلط فہمی میں مت رہیے گا کہ میں بلال سے شادی کروں گی۔"

کہانی میں نیا موڑ آیا تو سب چونکے۔ پھپھو نے ناگواری سے اسے دیکھا:

"کیوں؟ بلال میں کیا کمی ہے۔"

"پھپھو پلیز۔ ابھی مجھے یہ معاملہ ڈسکس ہی نہیں کرنا۔ بلال جب اۓ گا، تب دیکھا جاۓ گا۔ ویسے بھی، بلال بھی مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔"

"ہاۓ ہاۓ۔ میرے بچے پر الزام لگا رہی ہو۔" پھپھو ابل پڑیں۔ الوینہ ہنسی:

"آپ کا لاڈلا بھانجا کوئی معصوم بچہ نہیں ہے۔ اچھا بھلا چالاک مرد ہے۔ اسے کہیں وہیں امریکہ سے کوئی گوری بیاہ لاۓ۔ میری فکر نہ کرے۔"

"کیونکہ تم اپنے لیے کوئی ڈھونڈ چکی ہو۔" حنان کے لہجے میں رقابت کی بو تھی، ایک طنز کا احساس تھا۔ جہاں ہانیہ نے چانک کر الوینہ کو دیکھا، وہیں بینش بھی دلچسپی سے آگے ائی۔ کہانی دلچسپ موڑ مڑ گئی تھی۔ البتہ الوینہ ابھی تک مطمئن تھی۔ اس نے کمال برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ کافی کا مگ لبوں سے لگایا تھا۔

"میں نے اپنا پرنس چارمنگ ڈھونڈا ہو یا نہ ڈھونڈا ہو، مجھے بلال سے شادی نہیں کرنی۔ اور سب کو میری فکر کیوں ہو رہی ہے۔ ہانیہ بھی تو ہے۔ اور وہ پھر مجھ سے بڑی ہے۔ میرا اور بلال کا تو صرف منگنی کا رشتہ ہے اور ہم میں بالکل بھی compatibility نہیں ہے۔ لیکن ہانیہ نے تو اپنے ہونے والے شوہر کو چاہتی بھی ہے۔"

ہانیہ کی رنگت فق ہو گئی تھی۔ پھپھو بھی ششدر تھیں۔

"کیا بک رہی ہو؟" وہ چلائیں۔ حنان نے بھی فون چھوڑ کر انہیں دیکھا۔

"اوہ۔ کیا آپ لوگوں کو نہیں پتا؟" الوینہ نے بری معصومیت سے سب پر نگاہ ڈال کر منان کو دیکھا:

"منان؟ کیا تم نے ابھی اپنی مام کا بھی نہیں بتایا تھا کہ تم ہانیہ کو پسند کرتے ہو؟"

ہانیہ پیلی پڑ گئی تھی۔ پھپھو کو ان عشق و محبت کی فضول داستانوں سے چڑ تھی۔ انھوں نے نخوت سے گردن اٹھا کر منان کو گھورا۔ ساتھ ہی بینش چہکی:

"ریلی ہانیہ؟ تم نے بتایا نہیں۔ اور منان، تم تو بڑے چھپے رستم نکلے۔"

لاؤنج میں لمحہ بھر کو سکوت قائم رہا۔ پھر پھپھو صوفے سے اٹھیں اور مشتعل نظروں سے منان کو دیکھا:

"تم میرے کمرے میں آؤ ابھی۔"

منان چپ چاپ اٹھ گیا تھا۔ بینش اور حنان معتجب نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھتے رہے۔

"اچھا بھئی۔ میں بھی چلتی ہوں۔"

الوینہ ایک بھرپور مسکراہٹ پھینکتی اٹھی۔ وہ ابھی پلٹی بھی نہ تھی کہ ہانیہ نے اسکے پیچھے پیچھے اٹھی اور اپنا کپ پوری قوت سے فرش پر پھینکا تھا۔

"تم میری بہن نہیں، چڑیل ہو، الوینہ۔ خدا تمہیں رسوا کرے۔"

الوینہ کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ ہانیہ منہ چھپاتی، آنسو پیتی، سسکیاں بھرتی، زینے پھلانگتی، کمرے میں بھاگ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے کے وسط میں واقع بیڈ پر وہ بازو پھیلاۓ لیٹی تھی۔ فون سیٹ کان کے قریب رکھا تھا اور ضوریز کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ اس آواز کی اسیر تھی۔ وہ بنا بنا کر بولتا تو آواز باریک ہو جاتی، روانی میں بولتا تو لہجہ بھاری تھا۔

"ہم نے کتنے دنوں سے ایک دوسرے کو آمنے سامنے نہیں دیکھا ضوریز۔" وہ مخمور سے لہجے میں گویا ہوئی۔ اس لمحے اس کے لیے اس کی ذات، اس کا مقام، اس کا غرور کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ کوئی شے اگر اہم تھی تو وہ اس کی چاہت تھی۔ کوئی شے اگر معنی رکھتی تھی تو وہ ضوریز حسن تھا۔

"مجھے گننے دیں، ملکہ عالیہ۔۔۔ عم عم عم۔۔۔ ہاں تو، پورے تین دن ہو گۓ ہیں۔"

الوینہ ہنسی⁦۔ بس تین دن ہوۓ ہیں۔ وہ تین دن کا ہجر نہیں جھیل پا رہی۔ وہ اس مسخرے کے بغیر کیوں نہیں جی پا رہی۔

شراب مودم

شباب موسم

اکیلا کمرہ 

کتاب موسم

 پھپھو جان گاؤ تکیے سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھیں اور کرسی پر سر جھکاۓ، مضطرب سے بیٹھے منان کو گھور رہی تھیں:

"تیری وجہ سے اس کمین نے میرے سامنے زبان چلائی، منان۔ میں اسے اپنے قابو میں کر رہی تھی، اسے لگام ڈال رہی تھی لیکن اس نے تیرا نام لے کر میرا مذاق اڑایا۔"

"مجھے ہانیہ اچھی لگتی ہے، ماں۔" منان منمنایا۔ پھپھو کی آنکھیں شعلہ بار تھیں:

"تم دونوں بھائیوں کو جہاں داد کی لڑکیوں میں کیا نظر آتا ہے، بے غیرتو۔ حنان اس سانپ کا دیوانہ ہے اور تو۔۔۔۔"

"میں الوینہ کو تھوڑی ناں پسند کرتا ہوں، ماں۔ مجھے تو ہانیہ سے پیار ہے۔ وہ شروع سے آپ کہیں گود میں ہی تو رہی ہے، آپ کی نظروں کے سامنے بڑی ہوئی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے اچھی ہے، یہ آپ بھی جانتی ہیں ماں۔ ایسا بھی کیا جرم کر دیا ہے میں نے جو یوں میری جواب طلبی ہو رہی ہے؟"

سوال حیرت 

جواب موسم 

ستارہ آنکھیں 

حجاب موسم

بینش نے رسان سے ہانیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ بلک بلک کر رو رہی تھی:

"الوینہ یہی کرتی آئی ہے بھابی۔" اس نے آنکھیں رگڑ لی تھیں:

"میرا کیا قصور ہے اگر مجھے اس کی ماں نے جنم نہیں دیا۔ میں نے ہمیشہ اسے بہنوں کی طرح ٹریٹ کرنا چاہا ہے، اسے چھوٹی بہن سمجھ کر کنزیٰ جیسی محبت دینی چاہیے ہے لیکن وہ مجھے۔۔ مجھے اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ میری کمزوریوں پر  ہر وقت نظر رکھتی ہے۔ کیا کوئی بڑی بہن کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جو اس نے کیا۔ کیا کوئی۔۔۔۔"

اس کی ہچکی بندھ گئی ھی۔ بینش خاموش خاموش اسے دیکھ رہی تھی:

 "ہاں۔ مجھے پسند ہے منان۔ تو کیا غلط ہے اس میں؟ میں نے کبھی کسی سے کہا نہیں۔ پھپھو کا دم بھرا۔ منان سے محبت کی لیکن اسے قریب نہیں آنے دیا کیونکہ وہ میرا شوہر نہیں تھا، منگیتر نہیں تھا۔ اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ پھپھو کو یہ بات یوں بتاۓ جیسے میں نے کوئی گناہ کر دیا ہے۔ اسے کیا حق پہنچتا ہے مجھے یوں رسوا کرنے کا، مجھے پھپھو کی نظروں میں، حنان بھیا کی نگاہوں میں گرانے کا۔۔۔۔۔"

ہماری قسمت

خراب موسم

ہمارے خوں میں

ہے خواب موسم

ٹیبلیٹ کنزیٰ کے سامنے رکھا تھا اور وہ اوندھے منہ لیٹی مسکرا رہی تھی:

"تمہاری باجی میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتیں۔"

بلال نے مصنوعی غصے سے کہا تھا۔  ٹیبلیٹ کی اسکرین میں اس کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔

"جیسے میں الوینہ باجی کو آپ کے خلاف کچھ بولنے نہیں دیتی، اس طرح میں آپ کے منہ سے بھی الوینہ باجی کے خلاف کوئی بات سنوں گی بھائی۔"

بلال نے ہار ماننے والے انداز میں دونوں ہاتھ اٹھاۓ:

"میں کچھ نہیں کہتا بھئی۔ تم اور تمہاری مغرور بہن۔"

"پھر کیوں۔۔۔۔"کنزیٰ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ ٹیبلیٹ میں بلال کے عقب میں کوئی لڑکی نظر آئی تھی۔ وہ بلال سے کچھ پوچھ رہی تھی اور جواباً بلال نے ماؤتھپیس پر ہاتھ رکھ کر اسے جواب دیا تھا۔ لڑکی اسکرٹ اور بلاؤز پہنے تھی۔ ٹانگیں گھنٹوں تک ننگی تھیں۔ 

"وہ کون ہے؟" کنزیٰ کو وہ اچھی نہیں لگی۔

"تمہیں کیوں بتاؤں، kitty۔"

"مجھ سے راز مت رکھا کریں، بلال بھائی۔ ورنہ میں آپ کے راز رکھنا چھوڑ دوں گی۔ کون ہے وہ لڑکی؟ اور آپ کے اپارٹمنٹ میں کیا کر رہی ہے؟ الوینہ باجی کو بتاؤں اس کے بارے میں۔"

ہاں بتاؤ۔ جیسے تمہاری باجی کو فرق پڑتا ہے۔"

بلال نے بے زاری سے کہا تھا اور پلٹ کر لیپ ٹاپ کی جانب دیکھا جو اس سکرٹ بلاؤز والی لڑکی نے اس کے قریب لا رکھا تھا۔ اسکرین پر الوینہ کی تصویر لگی تھی۔ وہ گنگ سا ہو کر اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھتا رہا تھا۔ 

"کیا یہ ہے تمہاری منگیتر؟" سکرٹ والی لڑکی پوچھ رہی تھی۔ بلال کا چہرہ سخت ہو چلا تھا۔

"کبھی تھی۔" اور لیپ ٹاپ کا ڈھکن بند کر دیا۔ پھر مسکرایا:

"اب تو میری پارٹنر تم صرف ہو، مالیا۔"

چراغ جیسا

شراب موسم

غبار نظریں 

سراب موسم

"اس نے مجھے میری بہو کے سامنے ذلیل کرنا چاہا ہے، منان۔"

پھپھو کی آواز پھٹ رہی تھی۔ منان نے رسان سے ان کے دونوں ہاتھ باندھے تھے:

"تو اس کے پتھر کا جواب آپ اینٹ سے دے ناں، ماں جی۔"

"وہ کیسے؟" پھپھو چونکیں۔ منان نے ملتجی نگاہوں سے انہیں دیکھا:

"میری شادی کر دیں ہانیہ سے۔"

"اونہہ۔" پھپھو نے ہاتھ چھڑاۓ۔ منان نے اس بات سختی سے تھان لیے:

"اس نے مرچ مصالحہ لگا کر آپ کو یہ بات بتائی تاکہ آپ مجھ سے بدظن ہو جائیں اور ہانیہ کے متعلق خواہ مخواہ غلط سوچیں پال لیں۔ آپ ایسا نہ کریں ماں جی۔ بلکہ آپ ہم سے اپنے رشتے اور مضبوط کر لیں۔ میں آپ کا بیٹا ہوں ناں۔ مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیں۔ ہانیہ آپ کی بیٹی ہے ناں۔ اسے اپنی بہو بنا لیں۔"

"اور الوینہ؟" پھپھو ٹھنڈی پڑیں۔

"مہینے ہو گۓ بلال کو ڈگری لے کر امریکہ سے اسلام آباد آۓ۔ اب کب سے اپنے باپ کے گھر میں فارغ بیٹھا ہے۔ الوینہ کو بھی کچھ عرصہ میں ایل ایل بی کی ڈگری مل جاۓ گی۔ بلال کو اس گھر بلوائیں پھپھو۔ فیکٹری میں اسکی ماں کا جو حصہ ہے، وہ اس کے حوالے کریں تاکہ وہ یہاں سے دوبارہ امریکہ نہ جاۓ۔"

"لیکن الوینہ؟" مسئلہ وہیں تھا۔ منان مسکرایا:

"جب بلال منگنی پر راضی ہو جاۓ گا تو بلال کی منگیتر کی کیا مجال کہ اس کے سوا کسی اور کو بھی سوچے؟"

پھپھو بے یقینی سے منان کو دیکھتی رہیں۔ پھر مسکرائیں۔ یہ منان اتنا ذہین کب سے ہو گیا ہے؟

یہ پستیوں کا 

خراب موسم

یہ آئینوں کا

نصاب موسم

ضوریز کنکشن منقطع کرتے ہوۓ مسکرایا۔ پھر فون سینے پر رکھ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ نہ بھی مانتا تو یہ حقیقت غلط ثابت نہیں ہو سکتی تھی کہ الوینہ جہاں داد اس پر حاوی ہو گئی تھی۔ اس کی خوبصورت آنکھیں، سیاہ پلکیں، سنہری سی زلفیں، سپید چہرہ، مورت سا جسم، باریک ٹانگیں اور۔۔۔ اس کے نازک سے لال لال ہونٹ۔۔۔

"اُف!!!!" وہ بے اختیار ہی بیڈ سے اٹھا اور شرٹ کا اوپری بٹن کھولا تو کچھ گھٹن کم ہوئی۔ وہ ایسا دل پھینک تو نہیں تھا۔ رومانس وغیرہ اسے پسند نہیں تھا۔ ایل ایل بی اس نے کیا ہی اس لیے تھا کہ وہ ایک پریکٹیکل مرد بن کر رہنا چاہتا تھا۔ وہ teenager بھی نہیں تو کہ ان پیار ویار کے چکروں میں پڑتا۔ اچھا بھلا  بائیں تیئںس سالہ نوجوان تھا جو محبت کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ پھر یہ سب کیا تھا۔

اور یہ احساس صرف دل میں نہیں پنپ رہا تھا۔ الوینہ جہاں داد کو دیکھ کر ہی بدن سنسنا اٹھتا تھا۔ وہ اسے مائل کرتی تھی۔ اپنی طرف کھینچتی تھی۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہتا تھا۔ اس کی مخروطی گردن کو تکتا رہتا۔

"I love her, right????"

(میں اس سے پیار کرتا ہوں ناں؟)

اس نے دل سے پوچھا۔ جواب میں سناٹا تھا۔

"Don't I?"

(کیا میں اس سے پیار نہیں کرتا)

آئینے میں بیڈ پر بیٹھے وجود نے نفی میں سر ہلایا تھا۔

روانیوں کا 

حساب موسم

یہ بے زری کا

عذاب موسم۔۔۔

ہے پیار موسم۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ خاندان والے کس قدر عجیب ہیں۔" 

الوینہ نے بنگلے کی دیواروں پر چمکتی لائٹس کو گھورا، ریلنگ پر چڑھی گلابوں کی لڑیوں کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی:

"ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہونے جب پھپھو کو ان کی محبت کا علم ہوا ہے اور آج ہی یہ ان کی دلی خواہش پوری کرنے جا رہی ہیں۔ یہ کیا بچگانے کھیل ہیں۔"

پرسوں گریجوایشن ڈے تھا۔ دوستوں نے پارٹی رکھی تھی۔ نازش کا ابھی میسج آیا تھا اور وہ کمرے میں تیار ہو رہی تھی۔ نگاہیں آئینے میں ایستادہ وجود پر ٹِکی تھیں لیکن ذہن کہیں اور محو تھا۔ وہ آئینے میں اپنے برابر کسی اور کو دیکھ رہی تھی، اسے محسوس کر رہی تھی۔ کافتان نما فراک میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ہونٹ ہمیشہ کی طرح لالی سے سجے تھے لیکن اس کا تخیل، وہ کس قدر حسین تھا۔ کسی ٹرانس کی حالت میں چلتی وہ سیڑھیوں سے نیچے اتری۔ ابھی درمیان میں تھی کہ کنزیٰ نے اس کا دامن پکڑ کر اسے نیچے کھینچا تھا!

"دیکھیں الوینہ باجی۔ منان بھائی ہانیہ آپی کے لیے کتنا پیارا ڈریس لاۓ ہیں۔"

الوینہ نے دیکھا تھا کہ ہانیہ لاؤنج میں بیٹھی سفید میکسی کو دیکھ رہی تھی۔ پھپھو غائب تھیں۔ الوینہ ہانیہ کو دیکھ کر طنز کرنا نہیں بھولی تھی:

"ہانیہ کی شادی ہو گی ناں کنزیٰ۔ وہ بھی اس کے اپنے 'منان بھائی' سے۔ اب خوش ہونا تو بنتا ہے۔ پھر منگنی کا جوڑا منگیتر سے تحفے کی صورت میں لینا، یہ بھی بنتا ہے۔'

ہانیہ نے کچھ نہیں کہا۔ اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تیر رہی تھی۔

"کہیں جا رہی ہو؟ بھول گئیں رات کو منگنی ہے؟" ہانیہ نے پوچھا۔ الوینہ کھلکھلائی۔ بڑے مان سے اپنے مرمریں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھے:

"ٹنشن ناٹ بے بی۔ تمہاری منگنی کا فنکشن کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ اتنے عرصے بعد تمہاری خواہش پوری ہو رہی ہو۔ میں بھلا کیسے غائب ہو سکتی ہوں۔"

"تم طنز کرنا نہیں چھوڑو گی، الوینہ۔" ہانیہ برابر مسکرا رہی تھی۔ الوینہ بھی مسکرائی:

"افسوس۔ میں طنز نہیں کرتی، سچ کہتی ہوں۔ اور اگر الوینہ جہاں داد نے سچ کہنا چھوڑ دیا تو پھر الوینہ جہاں داد کا کیا بچا؟"

ہانیہ کی مسکراہٹ مدہم ہوئی۔ وہ اب متاسف نظروں سے الوینہ کو دیکھ رہی تھی۔ 

"کبھی کبھی مجھے تم پر بہت ترس آتا ہے، الوینہ۔" 

"مت کھاؤ ترس۔" الوینہ تلخ ہوئی لیکن ہانیہ برابر کہتی رہی:

"تمہاری ماں تمہیں بچپن میں چھوڑ گئی۔ باپ بھی اکیلا چھوڑ کر مر گیا۔ بھائی نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ بہنوں نے تمہیں نہیں سمجھا۔ کزنوں نے تمہیں خوبصورت لڑکی سمجھ کر قابو کرنا چاہا۔ دوست تم سے دور بھاگتے رہے اور منگیتر۔۔۔منگیتر تم سے راضی نہ ہوا۔ تمہارا مزاج اگر تلخ ہو گیا ہے تو اس میں حقیقتاً تمہاری غلطی نہیں ہے۔ تم نے اس دنیا میں سروائیو کرنے کے لیے غرور کو ہتھیار بنایا ہے تو یہ تمہاری غلطی نہیں ہے۔"

"ہاں یہ میری غلطی نہیں ہے۔ تم لوگوں کی غلطی ہے۔" وہ ہذیانی میں انداز میں غصہ دبا کر دبا دبا سا چیخی۔ درمیانی انگلی ہانیہ کے سینے میں گھونپتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں بےتحاشہ غصہ تھا:

"اور میرا کوئی منگیتر نہیں ہے۔ الوینہ جہاں داد کل بھی آزاد تھی، آج بھی آزاد ہے اور ہمیشہ آزاد رہے گی۔"

وہ اتنا کہہ کر پلٹ گئی۔ تیز تیز قدم اٹھاتی لاؤنج سے نکل گئی۔ ہانیہ نے تاسف سے سر جھٹکا۔ سیڑھیوں پر کھڑی کنزیٰ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"بلال بھائی تو اتنے اچھے ہیں۔ پھر الوینہ باجی کو کیوں نہیں پسند؟"

"اسے کوئی نہیں پسند، کنزیٰ۔" ہانیہ نے بے چارگی سے کہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ حیران تھی۔

اسے لگا تھا ہمیشہ کی طرح میلینیم (Millennium) (لاء یونیورسٹی) کے لاسٹ ایئر کے اسٹوڈنٹس یہ پارٹی Hill view یا سرینا ہوٹل میں سیٹ کریں گے۔ لیکن یہ تو بنگلہ (Banglou) تھا۔ تین منزلہ خوبصورت فرنِشڈ گھر جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ حال میں ہی تعمیر ہوا ہے۔ نازش اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ حیرانی بھی ہوئی کہ نازش گریجوایشن پارٹی کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ بنگلے میں پھیلے دوستوں اور خوش گپیاں کرتی سہیلیوں کو دیکھ کر الوینہ کا ذہنی تناؤ کچھ کم ہو چلا تھا۔ وہ بھی بے فکری سے چار دیواری میں گھوم رہی تھی۔ کوک سرو کرے ایک بیرے کی ٹرے سے اس نے ایپل جوس کا جوس تھام لیا تھا۔ اکثر سہیلیاں اس سے مل رہی تھی۔ کچھ دوست اسے میوزک کمپیٹیشن کی مبارکباد دے رہے تھے۔

ایک نسبتاً خاموش گوشے میں آکر الوینہ نے فون کھولا۔ نازش نہ آنے کی معذرت کر رہی تھی۔ اس کی طبیعت جو خراب تھی۔ الوینہ کا موڈ مزید خراب ہو گیا۔ اس نے سر اٹھایا۔ اور تبھی اسے اپنی آنکھوں کے سامنے منظر اندھیرے میں چلا گیا۔ آنکھوں کو کسی شے نے ڈھک لیا۔ رخسار پر کسی کے لمس سا احساس ہوا۔ الوینہ بے اختیار کانپ اٹھی۔

"اللہ جی۔"

گھبرا کر، ہڑبڑا کر اس نے آنکھوں سے وہ ہاتھ ہٹایا! اسی اثنا میں پلٹی اور پیروں تلے زمین غائب ہو گئی۔ اس نے خود کو سنبھالنا چاہا۔ تبھی انہی دو ہاتھوں نے اس کی کلائیوں کو تھام ملا۔ 

الوینہ نے دیکھا کہ سر پر تاروں سے سجا آسمان تھا۔ نیچے سویمنگ پول کا نیلا شفاف پانی تھا اور سامنے، اس نے آنکھیں پھیلا کر دیکھا تو سامنے ضوریز حسن کو کھڑا پایا۔ اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"چھوڑ دوں؟"

اس نے الوینہ کی کلائیوں پر اپنی گرفت ذرا سی ڈھیلی چھوڑی اور الوینہ کے لمبے بالوں کے آخری سرے پانی میں ڈوب گۓ۔

"اب میں تم سے مجھے بچا لینے کی التجا تو نہیں کروں گی۔"

ضوریز ہنسا۔ اس کی آنکھیں ہنستے ہوئے جیسے غائب ہو گئی تھیں۔

"تم بہت دلچسپ ہو الوینہ۔ پُول میں گر کے اپنا تماشہ بنوانے کے لیے تیار ہو لیکن مجھے پلیز کہہ کر سیدھا نہیں ہونا چاہتیں۔"

ساتھ ہی اس نے الوینہ کو دونوں بازوؤں سے سیدھا کر کیا تھا۔ وہ اس کے زور پر پانی اور فرش کے درمیان اٹکی تھی۔ اس نے جو الوینہ کو تختے پر کھینچا تو وہ جھونک میں آگے آئی، بے اختیار اس کے وجود میں سما سی گئی۔ اس کے وجود سے اٹھتی مردانہ کلون کی مہک الوینہ کے نتھنوں میں داخل ہوئی۔ تازہ شیو کا کھردرا پن پیشانی کو رگڑ گیا۔ ہونٹوں کا لمس بالوں میں گم ہو گیا۔

"سرپرائز۔" وہ الگ ہوئی تو ضوریز نے تبسم کیا۔ الوینہ کی آنکھیں یونہی چمک اٹھی تھیں۔

"تم کہاں؟" وہ گڑبڑا گئی۔

"تم بھی کمال کرتی ہو۔ اب اگر میلینیم کا ٹاپر بھی گریجوایشن پارٹی اٹینڈ نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟"

"نہیں میرا مطلب۔۔۔ کب آۓ؟" وہ اب آہستہ آہستہ سنبھل رہی تھی۔ حواسوں میں واپس آرہی تھی۔

"ضوریز حسن کے گھر میں کھڑی ہو کر ضوریز حسن سے پوچھ رہی ہو کہ وہ گھر کب آیا۔"

یہ تمہارا گھر ہے؟" الوینہ چونکی۔ ضوریز کی مسکراہٹ گہری ہوئی:

"ڈیڈ کا فارم ہاؤس ہے۔ انھوں نے میرے نام کر رکھا ہے۔ یہ پارٹی میں نے دی ہے۔ تمہیں تو بلایا نہیں تھا۔ تم کہاں سے آٹپکیں؟"

"میں چلی بھی جاؤں گی۔" الوینہ نے گویا دھمکی دی۔ ضوریز نے سر ہلایا۔

"تو جاؤ! اچھا ہے مجھے اسٹیک کے بس بائیس پیکس منگوانے پڑیں گے۔" 

الوینہ نے تکلیف سے اسے دیکھا۔ جانے کے لیے مڑی۔ پیر پٹختی بھاگی۔ ضوریز نے دوبارہ اس کے دونوں بازو تھام لیے۔

"الوینہ calm down۔ تم میرے مذاق کو سنجیدہ کیوں لے لیتی ہو؟" الوینہ کو اس کی قربت میں انتہا کا اطمینان محسوس ہوا۔ وہ کیسی خوبصورت جگہ تھی، کیسا خوبصورت پل تھا۔ سویمنگ پُول کا نیلا پانی، چمکتے تاروں سے سجا آسمان، گردونواح میں کھڑے اونچے سبز درخت، ماحول کی گنگناتی تاریکی، آنکھوں کو چندھیاتی روشنیاں، اور بس وہ۔۔۔

بلیک ٹی شرٹ کے اوپر اس نے بلیک سلیو لیس اپر پہن رکھا تھا۔ الوینہ کو اپنا آپ بہت کمتر لگا۔ وہ کس شے پر اتراتی تھی۔ وہ اس کے سامنے کہاں کی شہزادی تھی۔

"تم آج اچھی لگ رہی ہو۔ کچھ معمول سے ہٹ کر تیار ہوئی ہو، ہے ناں؟"

وہ اسے اوپر نیچے دیکھ رہا تھا۔ الوینہ ہنسی:

"تمہیں خوبصورتی نظر آتی ہے؟"

"آف کورس۔ میں تھوڑا میچور سہی لیکن مرد ہوں۔ اور الوینہ تم۔۔" وہ تھوڑا قریب آیا اور لب اس کے کانوں کے قریب اپنے لب رکھے:

"تم سے مل کر تو کچھ عجیب ہونے لگتا ہے۔"

الوینہ کے لبوں پر ایسی مسکراہٹ ابھری کہ کبھی پہلے نظر نہیں آئی تھی۔ ضوریز مزید کچھ کہے بغیر زیرِ لب مسکرایا:

"کم اِن (اندر آؤ)۔ یہ پارٹی تمہارے لیے ہی تو ہے۔" وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ سے الوینہ کو دیکھتا دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ الوینہ کی پلکیں بے اختیار جھک گئیں۔ وہ متانت سے چلتی اندر آئی۔ کچھ بے چین سی ہوئی تو اس نے کلائی کو پرس سے آزاد کیا اور پھر۔۔۔ وہی ہوا جو خوبصورت لمحوں میں ہو جایا کرتا تھا۔ اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔ ہاں اس نے صحیح دیکھا تھا۔ پرس سے گٹار نما کی چین لٹکی ہوئی تھی۔ اسی کی چین میں وہ مخصوص سا صفحہ اڑا ہوا تھا۔ وہ الوینہ جہاں داد کے نام اگلا خط تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 الوینہ نے اسے کھینچ کر نکالا اور پرس زمین پر پٹخا۔ لکھا تھا:

 "اتنا اچھا لگتا ہے آپ کو ضوریز حسن؟ اتنی دیوانی ہیں آپ اس کی؟ اس کے لیے آپ اپنے منگیتر کو ٹھکرا سکتی ہیں، اپنے کزن کا دل توڑ سکتی ہیں، اپنے خاندان والوں کو دھوکہ دے سکتی ہیں۔ جانتی ہیں یہ احساس کیا ہوتا ہے؟ یہ محبت ہوتی ہے، مس جہاں داد۔ جس کے لیے آپ کُل زمانے سے لڑ جائیں وہ آپ کی اپنی ذات نہیں ہوتی۔ وہ محبوب کی ذات ہوتی ہے۔"

"الوینہ، جلدی آؤ۔ دانش گیم شروع کر چکا ہے۔"

 کوئی لڑکی اس کا بازو کھینچ رہی تھی لیکن الوینہ سُن کھڑی تھی۔ لکھا ہوا پڑھ رہی تھی:

"آپ اس محبت کا اعتراف کر لیں مس جہاں داد۔ یہ آپ کا حق ہے۔"

الوینہ نے نقاہت سے پیپر بھینچا۔ یہ کون تھا جو اسے اس سے زیادہ جانتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب جانتے تھے ضوریز حسن کی پارٹیاں عظیم الشان legendary ہوتی تھیں۔ سب رقیب اس پارٹی میں آپس میں بدلے لیتے۔ do or die (کرو یا مرو) کی بات آتی تو سب کو متعلقہ کام کرنا ہی پڑتا۔ الوینہ اب بھی لاؤنج میں آئی تو بڑی میز پر بیٹھے دانش کے گرد سب جمگھٹا بناۓ ہوۓ ھے۔انھوں نے ڈنر کب کر بھی لیا، الوینہ کو پتا ہی نہیں چلا۔ وہ کتنی دیر اس خط کو لیے کھڑی رہی تھی، اسے پتا ہی نہ تھی۔

"الوینہ آگئی۔" چند ایک کے شور مچایا:

"کس نے کہا تھا یہ چلی گئی ہے۔ اس کا نام بھی ڈالو پرچیوں میں۔"

الوینہ کا دماغ ماؤف تھا۔ وہ زبردستی مسکراتی میز کے ایک کنارے پر آبیٹھی اور کنکھیوں سے ضوریز کو دیکھا۔ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا، متواتر، پلکیں جھپکے بغیر۔۔۔

"چلو الوینہ۔ do or die؟" دانش نے آنکھیں گھما کر پوچھا تھا۔ الوینہ سوچوں میں گم تھی۔

"الوینہ۔۔۔" کئی آوازیں آئیں۔ الوینہ چونکی:

"ہاں؟"

"میں نے پوچھا، do or die؟" دانش نے سوال دہرایا تھا۔ 

 "die کیا ہے?

الوینہ اصول جانتی تھی۔ جبھی تو اس نے پوچھا۔

"باہر سویمنگ پول میں تین گھنٹے تک ریسٹ کرو۔" سب لڑکوں کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی۔ الوینہ بھی مسکرائی۔

"اور do؟" 

"تمہارے لیے آسان ہی ہو گا۔ دراصل ضوریز کے گھر کا کچن بہت خوبصورت ہے۔ بس اتنا کرو کہ ہمارے لیے کچھ میٹھے میں بنا دو۔"

"مجھے کوکنگ نہیں آتی۔" الوینہ منمنائی۔ 

"یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے الوینہ۔ کیا تمہیں rules کا نہیں پتا؟"

"اور میرا اسسٹنٹ؟" ان کا یہی اصول تھا۔ ایک سزا دو کھلاڑی مل کر بھگتتے تھے۔ 

"چُن لو ہم سے کسی کو۔"

الوینہ نے نظر گھما کر دیوار کے ساتھ سزا میں کھڑے چند لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھا۔ ضوریز لاتعلق سا پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ الوینہ کی ساری بے زاری ہوا ہوئی اور وہ مسکرائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں ہی ملا تھا تمہیں؟"

اس نے بڑی نفاست سے فلور کا ڈبہ اٹھا کر کچن سلیب پر پٹخا۔ پھر بھی پاؤڈر اڑ کر ہوا میں بکھرا اور اس کی سیاہ جیکٹ پر آ کر تھم گیا۔ ضوریز نے بے زاری سے جیکٹ جھاڑی۔ الوینہ چاکلیٹس کو پگھلانے کی بجاۓ مزے سے سٹول پر بیٹھی کٹ کیٹ کھا رہی تھی۔ انہیں کچن میں بند کر دیا گیا تھا۔ اب وہ چاکلیٹ کیک بنا کر ہی نکلیں گے۔

"تمہیں قانون کی ساری شقیں پتا ہیں لیکن چاکلیٹ کیک بنانے کی ترکیب نہیں پتا؟" الوینہ مذاق اڑانے والے انداز میں بولی۔ ضوریز نے برا سا منھ بنایا:

"نیا نیا وکیل ہوں۔ کسی بیکری کا شیف نہیں ہوں۔"

پھر اس نے یوں کارن فلور کے ڈبے اور کریم پیچھے ہٹا دی جیسے پکانے سے انکاری ہو۔ جیکٹ سے نادیدہ گرد جھاڑی اور سینے پر بازو رکھ کر الوینہ کے سامنے آکھڑا ہوا۔

"چلو۔ ہم do or die کھیلتے ہیں۔"

الوینہ مسکرائی۔ چاکلیٹ رکھ دی اور ضوریز کی جانب متوجہ ہوئی۔

"کیا ہے die؟"

"یہ چاکلیٹ کیک بناؤ۔" اس نے سامان کی جانب اشارہ کیا۔

"اور تمہارا do؟"

ضوریز کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر کھوجتی نظروں سے الوینہ کو دیکھا:

"تم ابھی لاؤنج میں آئیں تو پریشان تھیں۔ کیا کسی نے کچھ کہا تھا؟"

"نہیں تو۔" الوینہ جھٹ سے بولی۔ ضوریز چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا:

"مجھے وہ خط دکھاؤ۔"

الوینہ کی رنگت فق ہوئی۔

"کک۔۔۔ کیا چیز؟"

"میں نے تمہیں وہ پڑھتے دیکھا ہے الوینہ۔ اور اب یہ بہانہ مت بتانا کہ وہ خط تمہارے پرس میں رہ گیا جو باہر ہے۔ مجھے وہ دکھاؤ الوینہ۔۔۔ پلیزززززز۔۔۔۔"

اس کا حکمیہ لہجہ آخر میں التجائیہ ہوا تو الوینہ کی نگاہیں جھک گئیں۔ بے اختیار اس نے بایاں ہاتھ فراک کی سیدھی پاکٹ پر رکھ لیا۔اس کی موٹی موٹی کاجل سے بھری آنکھیں ضوریز کو گھور رہی تھیں۔ ضوریز نے نرمی سے ہاتھ بڑھایا اور اس کی پاکٹ سے جھانکتا مڑا ترا کاغذ نکالا۔ اسے کھولا۔ پڑھا، پھر ایک گہری سانس لے کر واپس اسے تھما دیا۔

"تمہیں نہیں پتا یہ خط کون لکھتا ہے؟" 

الوینہ کا سر بے اختیار نفی میں ہل گیا۔ ایک عجیب سا احساس اسے حصار میں لے رہا تھا۔ اسے لگا تھا وہ ابھی رو پڑے گی لیکن وہ الوینہ تھی۔ اس نے اسی انداز میں فرار حاصل کرنا تھا۔

"میں تمہیں do دوں؟" اس نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر پوچھا تو ضوریز کا چہرہ بھی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اٹھا۔

"ہاں شیور۔"

"مجھے یہاں سے باہر نکالو۔ اس کچن سے، اس گھر سے، اس علاقے سے۔"

اور میرا die؟" وہ متجسس تھا۔

"سمپل ہے۔ میرے ساتھ مل کر کیک بناؤ۔" 

ضوریز کے لبوں کی مسکراہٹ برقرار رہی۔

"ویسے میرے لیے تمہارا do آسان ہے۔ چلو چلیں۔" وہ تیار بھی ہو گیا۔ الوینہ چونک سی گئی۔

"پاگل ہو گۓ ہو کیا؟ باہر سب کیک کھانے کے لیے بیٹھے ہیں۔ ہمیں ڈنڈوں سے ماریں گے۔"

"یہ۔۔۔ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ تم نے حکم دیا ہے کہ ضوریز حسن تمہیں اس ہنگامے سے دور لے جاۓ۔ غلام تعمیل کرے گا۔ آپ بس۔۔۔ خاموش رہیں ملکہ عالیہ۔"

اس نے الوینہ کی کلائی تھامی اور کچن کے دروازے تک ایا۔ خوش قسمتی سے دروازہ کھلا تھا۔ وہ الوینہ کو لے کر باہر نکلا۔ لاؤنج میں آیا تو سب لڑکے لڑکیوں نے انہیں دیکھا۔ ضوریز انہیں نظرانداز کرتا آگے ایا۔ الوینہ کی کلائی ہنوز اس کی گرفت میں تھی۔

"اوہ ہیرو۔ کہاں جا رہے ہو۔ اندر جا کر کیک بناؤ۔" ان سب کہ مشترکہ آواز آئی۔ ضوریز رکا نہیں۔ آگے چلتا گیا۔

"اندر جا کر دیکھو۔ تمہاری ڈیزرٹ تیار ہے۔"

بس اتنا کہا اور اسی انداز میں الوینہ کو اپنے پیچھے کھینچا۔ اب اس کے قدموں میں روانی آگئی تھی۔ ہال عبور کر کے وہ پورچ میں آیا تھا جب پسِ منظر میں شور اٹھا۔ لڑکے لڑکیاں دوڑتے آرہے تھے۔ انھوں نے کیک بتانا تھا یہی ان کا do تھا لیکن ضوریز نے اپنا do پورا کرنا تھا۔ وہ قدموں کی آوازیں سن کر بے اختیار ہی الوینہ کو لےکر بھاگا۔ گیراج میں کھڑی کار تک آیا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار اڑا لے آیا۔ پسِ منظر میں لڑکے لڑکیاں اب بھی چلا رہے تھے۔ لیکن ان کو پوچھنے والا کون تھا۔

"تم کتنے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہو؟" الوینہ کھلکھلائی۔ ضوریز کچھ پراسرار آنکھیں لیے مسکرا کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے کار ایک اور بنگلے کے سامنے روکی لیکن یہ نسبتاً خاموش نظر آتا تھا۔ روشنیاں مفقود تھیں اور سویمنگ پول کا پانی ٹھہرا تھا۔ درخت تاریکی لپیٹ میں کھڑے تھے اور دروازے بند تھے۔

"یہ مجھے کہاں لے آۓ؟" وہ متفکر ہو کر دیکھنے لگی۔ ضوریز نے فرنٹ دروازہ کھولا۔ کار کے دروازے میں قدرے جھکتے ہوۓ اس نے بائیں ہاتھ کی پشت کمر پر رکھ کر دایاں ہاتھ الوینہ کی جانب بڑھایا:

"آپ اندر تو آئیے مس جہاں داد۔"

الوینہ کے لبوں پر فخریہ سی مسکراہٹ پھیلی۔ اس کا ہاتھ ایک طرف دھکیل کر وہ اپنے زورِ بازو پر کار سے نکلی تو ضوریز کا منہ بنا ضرور مگر وہ جلد سنبھل گیا۔

"یہ ڈیڈ کا مینشن ہے۔" اس نے الوینہ کی استہفامیہ نگاہیں بھانپ لی تھیں۔ جبھی تو بولا۔ جواباً الوینہ کے چہرے پر تعجب خیر تاثرات نظر آۓ۔

"تم باپ بیٹا الگ گھروں میں رہتے ہو؟"

"ہاں۔ ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو جو دوڑتے ہیں۔" وہ اب لاؤنج میں کھڑے تھے۔ الوینہ دھم سے صوفے پر بیٹھ گئی تھی اور چہار سو دیکھ رہی تھی۔ ضوریز نے ہاف سلیو بلیزرز اتار کر ہُک میں ٹانگے اور پلٹا:

"ڈیڈ کی فریج میں بہت سا سامان ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ تم کیا کھاؤ گی؟"

"بھوک نہیں ہے۔" اس نے شاید مروتاً کہا۔ ضوریز اس کے بیان پر ہنسا:

"جھوٹ کیوں بولتی ہو الوینہ۔ اسٹیک کا تئیسواں پیک وہاں فارم ہاؤس میں فریج میں ہی پڑا ہو گا۔ مجھے پتا ہے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ دیکھتے ہیں یہاں کہا ہے؟"

الوینہ آپ ہی آپ میں خجل ہوئی۔ پھر جلدی سے اٹھی:

"تمہیں بتایا تو تھا میری بہن کی انگیجمنٹ سرمنی ہے۔ یہاں کچھ کھایا اور وہاں منہ بند رکھا تو پھپھو، جان کو آجائیں گی۔"

ضوریز کے فریج کو کھولتے ہاتھ رکے۔ وہ اب پلٹ کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر کندھے اچکاۓ اور ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈال کر قدم قدم چلتا آگے آیا۔

"صاف صاف کہو ناں تمہیں واپس جانا ہے۔" ضوریز بھڑک گیا۔ وجیہہ چہرے پرہ لال ہو گیا۔

"ہاں واپس تو جانا ہی ہے ناں۔" الوینہ مسکرا رہی تھی۔ ضوریز کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ وہ ایک قدم مزید آگے آیا تھا۔

"مجھے چھوڑ کر جاؤ گی؟"

"اونہہ۔ تم مجھے چھوڑ کر آؤ گے۔ کیونکہ میں اس وقت کسی ٹیکسی میں جانا تو قطعی افورڈ نہیں کر سکتی۔" الوینہ کی مسکراہٹ برقرار تھی۔ ضوریز نے نفی میں سر ہلایا:

"میں تمہیں نہ چھوڑ کر آیا تو۔ تمہیں یہیں رکھ لیا تو۔" وہ دو قدم مزید آگے آیا۔ درمیانی فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ الوینہ کو اب کلون کی مہک محسوس ہو رہی تھی۔

"تو کیا؟ میں اپنے منگیتر کو فون کروں گی کہ مجھے لے جاۓ۔"

الوینہ اس کے تاثرات سمجھ رہی تھی، جبھی تو مسکرا کر بولی۔ ضوریز کو جلانے میں مزہ آرہا تھا۔ وہ اس کے جذبات سے انجان بن رہی تھی۔

"جب میں تمہیں یہاں مقید کر لوں گا تو تمہیں کسی کو فون کیسے کر دوں گا؟"

"تم نہ کرنے دینا فون۔ میرے گھر والے لاکھ خود غرض سہی لیکن میرے بارے میں متفکر ضرور ہوں گے۔ وہ آجائیں گے۔ میرا بھائی گن ہمیشہ دیش بورڈ میں رکھتا ہے۔ اسے ساتھ لاۓ گا۔ کزنز کی تو میں جان ہوں۔ میری غیر حاضری میں وہ تڑپ اٹھیں گے۔ اور اب تو خوش قسمتی یہ ہے کہ ایک خدائی فوجدار میری ہر لمحہ جاسوسی کرنے لگا ہے۔ وہ بھی تو میرے لیے آۓ گا۔"

"کسی کو پتا ہو گا تم کہا ہو تو آئیں گے ناں۔ اب اس جاسوس کو کیا پتا کہ تم ضوریز حسن کے بیڈروم میں ہو۔"

اور اس بار، الوینہ کی مسکراہٹ ماند پڑ گئی تھی۔ ہونٹ لرزے ضرور لیکن جواب دینے سے انکاری رہے۔ ضوریز اسے خاموش دیکھ کر اتنا قریب آیا کہ اب مزید آگے بڑھنا ناممکن تھا۔

"بولو پھر؟ تب کیا کرو گی؟"

الوینہ کو اس کے وجود سے اٹھتی مہک نے بے حال سا کر دیا تھا۔ وہ کیا کرے گی جب ضوریز حسن اسے اپنانا چاہے گا۔ اس کو اپنی بانہوں میں بھر کر اپنا حق جتانا چاہے گا۔ وہ کیا کرے گی جب محبوب اس پر دل و جان سے قربان ہونا چاہے گا۔ جب وہ اس کی محبتوں کے جواب میں اپنی ساری محبتیں اس پر نچھاور کرے گا۔

"تب میرے چاہنے پر کچھ نہیں ہو گا۔"

"لیکن اگر ایک موقع ملا تمہیں کچھ کر دکھانے کا تو کیا کرو گی؟" وہ اب ضوریز کے حصار میں تھی۔ پیشانی سے اس کی ناک کی پھننگ رگڑ کھا رہی تھی۔ بدن بار بار اس کے چوڑے سینے سے مل رہا تھا۔

"تب الوینہ جہاں داد اپنا آپ تمہارے نام کر کے صفحہ ہستی سے مٹ جاۓ گی تاکہ تم سرخرو ہو سکو۔"

اور وہ آخری حد تھی۔ محبوب پر قربان ہو جانا، محبوب کے لیے قربان ہو جانا۔ ضوریز نے بہت قریب سے اس کے چہرے پر بکھرے رنگوں کو پڑھا تھا۔ وہاں درخواست سی تھی، فریاد سی تھی، تکلیف بھی تھی، تسکین بھی تھی۔ پیار تھا اور اٹوٹ محبت تھی۔ 

"الوینہ۔" وہ بولا تو اس کی سانسیں الوینہ کے چہرے پر بکھریں۔ ایک نشہ سا بدن میں اترتا محسوس ہوا اور ساری حسیں بیدار ہوئیں:

"I crave for you."

(میں تمہیں چاہتا ہوں)

الوینہ کے لبوں پر شریر سی مسکان نظر آئی۔ اس نے پلکیں جھکائیں اور اسے وقت ضوریز نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر سر جھکایا اور اس کے لال لال ہونٹوں کو اپنے لبوں میں قید کر کے اسے سینے سے لگا لیا۔ الوینہ نے آنکھیں بند کے کر اسے قبول کیا۔ ضوریز نے اسے بانہوں میں بھینچ کر اس کے لبوں کو چومنا شروع کیا تو وہ ساکت اس کے حصار میں مقید رہی۔ اس نے الوینہ کے جسم کو خود میں سمیٹ کر لبوں پر اپنا نام لکھا تو بھی وہ سمٹی رہی۔ یہ طے تھا وہ ضوریز حسن کو منع نہیں کر سکتی تھی۔ کم از کم اب نہیں جب وہ اس پر مہربان ہوا تھا۔

"آئی لو یو ضوریز۔" اس نے بس ایک بار اپنی لپ اسٹک کا نشان بہت نرمی سے ضوریز کی گردن پر چھوڑا تھا۔ وہ اب بس اسی کی تھی۔ کوئی دیوار راستے میں حائل نہیں ہو سکتی تھی۔

اس نے برگد کی جھکی شاخوں کا سہارا کے کر اٹھنا چاہا لیکن کمزوری نے نڈھال کر دیا تھا۔ وہ بے اختیار زمین پر گری تو سفید پوشاک پر ثبت سر خ دھبے واضح ہو گۓ۔ وہ شاید خون تھا، اس کے زخموں سے نکلتا، جسم سے بہتا۔ پسِ منظر میں سناٹا اداس گیت گا رہا تھا۔ دور جنگل میں بھیڑیے چنگھاڑ رہے تھے۔ سفید فراک والی لڑکی بیٹھی تھی۔ اُسی کسی بھیڑیے کے انتظار میں، موت کے فرشتے کے دیدار میں، کسی قاتل کے فراق میں۔۔۔

"تم وعدہ پورا کر دو الوینہ۔" وہ آنکھیں بند کر کے بول رہی تھی۔ چاند اب سر پر آپہنچا تھا اور اس کے لبوں پر بنا زخم نظر آرہا تھا:

"تم نے اپنے شوہر کو دھوکہ دیا۔ ایک اجنبی کی محبت پر اعتبار کیا۔ گناہ ماننے کے باوجود زنا کیا۔ تم خود کو مار دو الوینہ۔"

اس کی آنکھوں سے اب آنسو نکل رہے تھے:

"وعدہ پورا کرو۔ خود کو صفحہ ہستی سے مٹا دو۔ خود کو مار دو، الوینہ۔ اسے سرخرو کر دو اور خود کو مٹا دو۔"

اس نے چاہا کہ اپنا گلا ہی گھونٹ لے۔ لیکن نقاہت نے ہاتھ اٹھانے بھی نہیں دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آپ تو محبت کرتی ہیں الوینہ، وہ محبت جو روح سے ہوتی ہے۔ پھر جسم کی چاہ کیوں رکھ رہی ہیں۔"

یہ وہ پہلا فقرہ تھا جو گھر میں قدم رکھتے ہی اس کے منہ پر پڑا۔ سفید ورق پر لکھا یہ جملہ الوینہ کو سلگا گیا۔ خط پتھر میں لپٹا تھا، اس کی کمر میں آکر لگا تو الوینہ کو درد کا احساس ہوا اور اس نے اٹھا کر پڑھا۔ پڑھ کر چاروں اطراف دیکھا۔ وہ پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی۔ لان کے عقبی حصے میں فنکشن جاری تھا۔

اسے مہمانوں میں جو پہلا فرد نظر آیا وہ حنان تھا۔ وہ تیر کی طرح اس کی طرف لپکی۔

"میرا پیچھا۔۔۔ چھوڑ دو حنان۔" وہ اس کا گریبان تھام کر غرائی تھی۔ حتیٰ الامکان آواز دھیمی رکھی۔ حنان اس افتاد پر بوکھلا سا گیا۔ پھر ناگواری سے اپنا گریبان چھڑایا:

"پھپھو ٹھیک کہتی ہیں الوینہ۔ تمہیں تمیز چھو کر نہیں گزری۔"

"تو کیا تمہارا تمیز سے کوئی واسطہ ہے۔ دن رات میری جاسوسی کرتے ہو۔ میں کہاں جاتی ہوں، کس سے ملتی ہوں اس کی خبر رکھتے ہو اور لکھ لکھ کر مجھے چڑاتے ہو۔ بتاؤں تمہاری ماں کو کہ ان کے لاڈلے کے کیا کرتوت ہیں۔"

"زبان سنبھال کر الوینہ۔ میں بلال عطاء اللہ نہیں جو چپ چاپ تمہاری بکواس سن کر تم سے تھپڑ بھی کھا لے گا۔'

"ہاں۔ تم تو حنان مصطفیٰ ہو۔ قائر، جو پیٹھ پیچھے وار کرے گا۔"

حنان کی آنکھوں میں اشتعال در آیا۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ قریب سے گزرتی پھپھو نے ان کی آوازیں سن لیں۔ سر پیٹتی وہ قریب آئیں:

"خدا کا خوف کرو الوینہ۔ ہر تقریب میں تم کیا تماشہ لگانے بیٹھ جاتی ہو۔" 

"اپنے بیٹے سے پوچھیں ناں پھپھو۔ عورتوں سے بات کرنے کی تمیز بھول گیا ہے۔"

"اماں میں تو صرف اسے۔۔۔" حنان منمنایا۔ پھپھو نے تنفر سے سر اٹھایا:

 "چُپ کر تُو۔ اس مبارک موقع پر میرا دماغ خراب مت کر۔" پھر انھوں نے الوینہ کو دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر لان کے ایک حصے میں بنے اسٹیج پر لے گئیں۔ سفید گلابوں سے پسِ منظر سجا تھا۔ وہیں ہانیہ منظر میں نظر آتی، سفید لباس پہنے، ہنستی مسکراتی مطمئن سی کھڑی تھی۔ منان اس سے کچھ دور تھا لیکن ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔ پھپھو نے الوینہ کو چھوڑا تو وہ لاتعلق سی اسٹیج پر کھڑی ہو گئی۔ چاکلیٹ کافتان فراک میں وہ ہمیشہ کی طرح پیاری اور منفرد سی لگ رہی تھی۔ بے اعتنائی برت رہی تھی جب اس نے بلال کو دیکھا تھا۔

اچھا! تو یہ 'اندھیری رات' بھی آیا ہوا تھا۔

پھپھو اب ایک بازو منان کے گرد باندھے اسے اسٹیج پر پہنچا رہی تھیں لیکن الوینہ کی نظروں کا مرکز صرف اور صرف بلال تھا۔ وہ کچھ چُپ چُپ سا تھا۔ کنزیٰ کے علاوہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ الوینہ دور سے ہی دیکھ سکتی تھی کہ اس کی آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں۔ الوینہ کو تجسس ہو رہا تھا کہ آخر کیا ہوا۔ لیکن بلال سے بات نہ کرنے کی قسم جو کھا رکھی تھی۔ پسِ منظر میں پھپھو ہانیہ کو انگوٹھی پہنا رہی تھیں۔ منان کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ 

"نکاح کی رسم بھی انشاللہ جلد ادا ہو گی۔" پھپھو نے پیاری سی ہانیہ کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ شرما سی گئی تھی۔ 

"بھئی تینوں لڑکوں کا نکاح اکٹھا کریں گے۔ آخر تینوں کی عمر ہو گئی ہے۔" عمیر نے نکتہ اٹھایا تھا۔ جواباً پھپھو نے جلدی سے ہانیہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر ساتھ کھڑی الوینہ کو قریب کیا تھا:

"ہاں کیوں نہیں۔ جاثیہ کا نکاح حنان سے ہو گا۔ ہانیہ منان کی منکوحہ بنے گی اور الوینہ میرے بلال کے لیے ہے۔ بس سردیوں کے آغاز میں ان سب کی شادیاں کر دوں گی۔ پھر بس میری چھوٹی کنزیٰ رہ جاۓ گی۔"

اور یہ خبر سب کے لیے غیر متوقع تھی۔ بلال نے چونک کر دیکھا تھا۔ حنان کا رنگ فق ہو گیا تھا اور الوینہ۔۔۔ ضبط کی آخری حد کو چھوتی وہ اسٹیج پر کھڑی رہی۔ اس کی رنگت سرخ ہو گئی۔ آنکھیں غم و غصے سے گیلی ہونے کے قریب تھیں لیکن اس نے برداشت کیا۔ مہمانوں کے سامنے خاندان والوں کی لاج رکھی۔ پھر اسٹیج سے اتری۔ کسی سے بھی نظریں ملاۓ بغیر وہ کمرے میں آگئی۔ دروازہ لاک کیا اور بستر پر گر گئی۔

"میں الوینہ جہاں داد، کبھی اپنی تقدیر کو دوسروں کے ہاتھوں میں نہیں سونپوں گی۔ میں صرف ضوریز حسن کی ہوں۔ صرف اسی کی۔"

اور تبھی، اس کے ذہن میں وہ پل آچمکا۔ مرسڈیز سے اترتے ہوۓ اس نے جب ضوریز کو دیکھا تھا تو اس کی نظریں اس کی گردن پر جا پڑی تھیں۔ سرخ لپ اسٹک کا نشان وہاں ثبت تھا۔ الوینہ ٹشو لے کر آگے کو ہوئی تھی۔

"کیا کر ہی ہو؟" وہ متذبذب تھا۔ الوینہ ہچکچا گئی تھی۔

"وہ۔۔۔ تمہاری۔۔۔ گردن پر یہ۔۔۔" ضوریز نے تب فرنٹ مرر میں خود کو دیکھا۔⁦ لپ اسٹک کا نشان واقعی واضح تھا۔

"اسے رہنے دو۔" اس نے الوینہ کے کھلے بالوں کی دو لِٹوں کو چوم کر کہا تھا:

"اسے یہ رات مٹا دے، مجھے قبول ہے۔ تم اسے مٹاؤ، یہ قبول نہیں ہے۔"

بیڈ پر لیٹی الوینہ بے ساختہ کھلکھلائی۔ اس نے کیسے ضوریز حسن کو بے اختیار کر دیا تھا۔ وہ کیسے ایک لمحے میں اس پر واری گیا تھا۔ وہ اٹھ بیٹھی۔ اور تبھی سامنے رکھے آئی پوڈ کی سکرین چمکی۔ الوینہ نے اچنبھے سے دیکھا۔ نمبر غیر شناسا تھا۔ اس نے کلک کیا تو سکرین پر انگریزی میں ٹیکسٹ لکھا نظر آیا:

"منگنی مبارک ہو، مس جہاں داد۔"

خلافِ معمول الوینہ کو غصہ نہیں آیا۔ اس نے بڑے متجسس انداز میں لکھا:

"Who are you?" (کون ہو تم)

اور جواباً لکھا نظر آیا:

"No one." (کوئی نہیں)

"تم وہی ہو ناں خو مجھے خط لکھتا ہے۔ تم حنان نہیں ہو۔ پھر کون ہو۔"

اور جواب میں وہی دو لفظ لکھے تھے۔ الوینہ چونک سی گئی تھی۔

"میرے بارے میں سب جانتے ہو۔ تم آخر لڑکا ہو یا لڑکی؟" سوال۔

"بتایا تو ہے۔ کوئی نہیں ہوں۔" جواب۔

"میری جاسوسی کیوں کرتے ہو؟"سوال۔ اور جواب۔۔۔

"آپ کی جاسوسی نہیں کروں گا تو زندگی میں اور کیا کروں گا مس جہاں داد۔"الوینہ کو عجیب سا احساس ہوا۔⁦ اس نے لکھا:

"مجھ سے محبت کرتے ہو؟"

خانے میں لکھا تھا:

"کرتا تھا۔"

الوینہ مسکرائی۔ اس سے کتنے لوگ محبت کرتے ہیں۔ لیکن پھر اس نے الفاظ پر زور دیا۔ کرتا تھا؟ یعنی وہ اب نہیں کرتا۔

"اور اب؟"

"اب میں جان گیا ہوں کہ محبت ہمیشہ یہ طرفہ ہوتی یے۔" پھر الوینہ نے کئی سوال پوچھے لیکن ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ الوینہ کُڑھ کر رہ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اصل تماشہ تو صبح لگا تھا۔

چونکہ عمیر آیا ہوا تھا، اس لیے سب ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ کر رہے تھے۔ الوینہ اگر نیچے نہ جاتی تو کئی سوال اٹھتے۔ بس اسی لیے وہ منہ ہاتھ دھو کر سیدھی ڈائننگ ہال میں ائی۔ کنزیٰ کو دیکھ کر اس کا تناؤ کم ہوا اور وہ اسے گود میں لے کر بیٹھ گئی۔

"مجھے اب یوں بچوں کی طرح ٹریٹ نہ کیا کریں باجی۔ میں بڑی ہو گئی ہوں۔" اس نے فر فر زبان چلائی تو الوینہ مسکرا اٹھی۔ سربراہی کرسی پر پھپھو بیٹھی تھیں۔ ان کی برابر والی کرسی پر عمیر تھا۔ عمیر کی ساتھ والی کرسی پر براجمان حنان الوینہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ پھپھو اس کی اس حرکت سے واقف تھیں۔ جبھی تو انہوں نے دانستہ بات شروع کی:

"جاثیہ کی والدہ گھر آنے کا پروگرام بنا رہی ہیں۔ اسے بھی ساتھ لانا چاہتی ہیں۔"

جہاں حنان کا حلق کڑوا ہوا، وہیں الوینہ کھلکھلائی۔ ادھر عمیر چونکا:

"اوہ اچھا۔ بلائیں ناں انہیں۔ اب اتنے سالوں کی رشتہ داری ہے تو رشتے مزید مضبوط کریں۔ پھر ان کی بیٹی کو بھی تو آپ نے اپنی بیٹی بنانا ہے۔"

"جاثیہ بڑی پیاری ہے، پھپھو۔ کالج میں ہمیشہ دوستوں کو ایسے جواب دیتی تھی کہ اب دنگ رہ جاتے۔ ذہین بھی بڑی ہے۔" ہانیہ نے اپنے تیئں بتایا تھا۔ وہ ایک ہی رات میں جانے کیسے اتنی پیاری ہو گئی تھی۔ پھر ابھی تو بس منگنی ہوئی تھی۔ 

"ہاں بھئی۔ اسکے سب گُن پتا کر رکھے ہیں میں نے۔ دیکھنا تینوں دلہنیں شادی والے دن کیسی چندے آفتاب، چندے ماہتاب لگیں گی۔"

"تیسری کون؟" الوینہ نے بے خیالی میں پوچھا۔ بینش حیران ہوئی:

"بھئی جاثیہ اور کون؟"

"جاثیہ تو دوسری ہے۔ پھر تیسری کون؟" اس نے دوبارہ پوچھا۔ حنان نے زور سے پلیٹ پٹخی تو سب نے اس کی جانب دیکھا۔ البتہ وہ خونخوار نظروں سے الوینہ کو دیکھ رہا تھا:

"بچی ہو تم۔ جب پتا ہے کہ تیسری تم ہو تو بکواس کیوں کر رہی ہو۔"

"حنان۔" عمیر اس اندازِ کلام پر برہم ہوا لیکن الوینہ پر چنداں اثر نہ ہوا۔ وہ ہنسی اور ہنستی رہی۔

'اوہ۔ مجھے لگا شاید پھپھو کو نۓ مصطفیٰ صاحب دیے جارہے ہیں۔"

"الوینہ۔ ایسے بات کرتے ہیں بڑوں سے۔"

بینش نے بے ساختہ منہ ڈھک لیا تھا جب عمیر غرایا۔ الوینہ نے بھی اب حنان کے انداز میں پلیٹ پٹخی۔ اس کی ساری نفاست اور مسکراہٹ عنقا تھی۔

"میں آپ لوگوں کا پالتو جانور نہیں ہوں جو آپ کے کہنے پر کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ بندھ جاۓ گا۔ میں انسان ہوں۔ میری اپنی مرضی ہے۔ اپنی چاہت ہے۔"

"الوینہ، یہ تمہارے بڑوں کا فیصلہ ہے۔" پھپھو نے تنبیہ کی۔ الوینہ بگڑ کر اٹھی:

"نفرت ہے مجھے اپنے بڑوں سے اور تھوکتی بھی نہیں میں اپنے بڑوں کے فیصلوں پر۔"

الوینہ کو پتا ہی نہیں چلا کب عمیر اٹھا تھا اور اس کا گال عمیر کے طمانچے سے لال ہو گیا تھا۔ وہ سسک اٹھی تھی۔ ڈائننگ ہال میں سناٹا چھا گیا تھا۔ الوینہ ششدر کھڑی تھی اور پھر پلٹی۔⁦ بھاگ کر باہر آئی۔ جھونک میں دوڑتی وہ لاؤنج میں آئی تو سیڑھیاں اترتا بلال اسے اوپر آتا دیکھ کر ایک طرف ہو گیا۔ الوینہ پھر بھی سیدھی اس کی طرف آئی۔ 

"یہ سب۔۔۔ تمہاری غلطی ہے بلال۔ ساری تمہاری غلطی ہے۔"

بلال نے اسے ردعمل جان کر ایک لفظ نہ کہا۔ اس نے بس ایک نظر الوینہ کو دیکھا۔ اس کا خوبصورت چہرہ آنسوؤں سے تر تھا، تضحیک سے جھکا ہوا تھا۔ وہ پھر رکی نہیں تھی۔ نان سٹاپ اوپر چڑھتی گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز پہلی بار اس کے آنسو دیکھتا رہا۔

اس کا دل چاہ رہا تھا وہ آگے بڑھ کر اس کے نرم گرم جسم کو بانہوں میں بھر کر دلاسہ دے لیکن وہ پبلک پلیس میں بیٹھے تھے۔ کیفے میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔⁦ اس نے سسکی کی تو کئی لوگوں نے اس بار پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔ ضوریز نے رسان سے اس کا ہاتھ تھاما:

"ایک تھپڑ ہی تو پڑا یے۔"

"ان کی اتنی مجال ہے کہ اپنی یتیم بہن کو تھپڑ ماریں؟ الوینہ جہاں داد کو تھپڑ ماریں؟"

"مجھے اکثر ڈیڈ سے تھپڑ لگتے رہتے ہیں، الوینہ۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، یار۔"

"پر ماں تو نہیں مارتی ناں۔" وہ تقریباً چیخ پڑی۔ ضوریز کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ اس نے نچلا ہونٹ کاٹا۔ پھر اس کی سرگوشی سنائی دی:

"وہ نہیں ہیں۔"

الوینہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ سپاٹ آنکھوں سے الوینہ کو دیکھ رہا تھا:

"جس دن میں پیدا ہوا، وہ گزر گئیں۔"

الوینہ کو بے اختیار ماں یاد آئی۔ وہ جس دن پیدا ہوئی تھی، ماں گزر گئی تھی۔ الوینہ نے آنسو خودبخود خشک ہو گۓ۔ اس نے اس ہاتھ کو سختی سے تھام لیا جو اس کو مطمئن کرنے اس کے ہاتھوں کو گرفت میں لیے ہوۓ تھا۔

"سوری مجھے لگا۔۔۔۔"

"ہاں ہمیں کبھی کبھار غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں۔ مجھے برا نہیں لگا الوینہ۔ میں نے تیئس سال ان کے بغیر گزارے ہیں۔ میں ایک پتھر دل آدمی ہوں۔"

"پتھر کو محبت ہوتی ہے؟" الوینہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔ ضوریز کی آنکھیں چمکیں۔ مسکراہٹ خودبخود در آئی۔

"محبت سے زیادہ محبت کو تکلیف میں دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔"

الوینہ اب مسکرا رہی تھی۔⁦ اس کا ذہن اب مطمئن تھا۔ اور ہمیشہ کی طرح، اس ملاقات کے اختتام پر اسے خط ملا۔ دو سطروں پر مشتمل خط۔

"محبت میں پہلی ذلت یوں اٹھانی پڑی کہ بھائی نے ہی طمانچہ دے مارا۔ ابھی اور رسوائی ہو گی۔ ابھی اور تکلیفیں سہنی ہوں گی مس جہاں داد۔ برداشت کریں گی؟ ابھی بھی، محبت کریں گی؟"

"میں نے کب کی ہے محبت۔" اس نے ورق ہاتھ میں بھینچ کر زیرِ لب کہا تھا:

"خود ہی تو ہوئی ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر دو مہینے اطمینان سے گزرے۔

وہ محبت کا عروج کا دور تھا۔ مِلن کا دور تھا۔ چاہتوں کا دور تھا۔

ضوریز حسن تھا اور الوینہ جہاں داد تھی۔ اکٹھی صبحیں تھیں، اکٹھی شامیں تھیں۔ ضوریز لاء پریکٹس کرنے لگا تھا۔ الوینہ اب بھی پینٹنگز بناتی تھی۔ اب بھی گٹار بجاتی تھی۔ اس کی آواز میں ترنم آگیا تھا۔ تخلیق میں ایک ٹھہراؤ آگیا تھا۔ بالکل جیسے زندگی میں ٹھہراؤ آگیا تھا۔ضوریز کی قربت اس کے لیے جنت تھی۔ 

وہ بولتا تو الوینہ ٹھہر جاتی۔ اس کے الفاظ سننے کے لیے خاموش ہو جاتی۔ وہ جیسے اس کی پوجا کرنے لگی تھی۔ اس کو بھگوان ماننے لگی تھی۔ اس کی ہر ادا پر وہ کھو جاتی تھی۔ اس کی ہر خواہش پر سر جھکاتی تھی۔ وہ اس کے در کی پجارن بن گئی تھی۔ اپنی حیثیت کھو گئی تھی۔ 

ضوریز اس کے سامنے اپنی محبت کا بہت کم اظہار کرتا۔ لیکن جب کبھی موڈ میں ہوتا اور اس کے ہاتھ تھام لیتا، اس کو پیار کے تین انگریزی لفظ کہہ دیتا تو اس کی روح سرشار ہو جاتی۔ تب اس کا دل کرتا وہ بس یونہی کھڑی رہے، ضوریز بار بار یہی الفاظ کہتا رہے اور وہ سنتی رہے۔ 

وہ محبت کرنا چاہتی تھی۔ اس سے پیار بھی کرتی تھی اور اسے احترام بھی دیتی۔

البتہ ضوریز کا مزاج الگ تھا۔ اس کی محبت کا معیار بھی مختلف تھا۔ اس کے لیے رومانس اور محبت میں کوئی فرق نہیں تھا۔ الوینہ کو اس کا ساتھ اچھا لگتا لیکن وہ بہت قریب آجاتا تو وہ ہچکچا جاتی تھی۔ کسمسا سی جاتی تھی۔ اس کے ہاتھ چومنے، ماتھا چومنے میں تحفظ کا سا احساس جھلکتا تھا لیکن جب وہ للچائی نظروں سے اس کے لبوں کو دیکھتا، بے خود ہو کر اس کو بانہوں میں لیتا تو الوینہ ٹھٹھک جاتی۔ پھر کئی دنوں اس کے قریب نہ آتی لیکن وہیں تو قرار تھا۔ سکون اسی حصار میں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے جب پہلا کیس جیتا تھا تو ایس پی حسن اعوان نے اپنے بیٹے کے اعزاز میں پارٹی رکھی تھی۔ ضوریز اس دن بہت پرجوش  تھا۔ اس نے پوری پارٹی میں الوینہ کو ممتاز رکھا تھا اور اسی دن، الوینہ کا اپنے باپ سے تعارف بھی کروایا تھا۔ حسن اعوان کی شخصیت میں کچھ تھا کہ الوینہ ان سے ڈر سی گئی تھی۔ شاید یہ ان کے نام اور ان کے پیشے کا اثر تھا۔  ضوریز اسے اپنے والد سے اپنی دوست کی حیثیت سے ملا رہا تھا اور یہ بات الوینہ کو بہت عجیب لگی تھی۔ کیا وہ اب بھی اس کے لیے صرف ایک دوست تھی۔

یہ بعد الوینہ تب بھول گئی تھی جب مہمان رخصت ہوۓ اور ضوریز نے اس سے معذرت کی تھی:

"میں نے ابھی انھیں تمہارے بارے میں زیادہ نہیں بتایا، الوینہ۔"

"زیادہ؟"

"ہاں۔ میں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ ہم دونوں کا کیا رشتہ ہے اور ہم کتنی محبت کرتے ہیں۔ میرے ڈیڈ پریکٹیکل آدمی ہیں۔ محبت وغیرہ پر نہیں مانیں گے۔⁦ انہیں دلائل سے سمجھانا ہو گا۔"

ذرا سی معذرت پر الوینہ مان گئی تھی۔ وہ خاص مہمان تھی، سو اس کی میزبانی بھی خاص کی گئی تھی۔ مزیدار طعام، تعریفی کلمات اور تھوڑا سا رومانس جو مزید چلتا اگر اسے الوینہ کے لرزتے جسم اور کانپتے ہونٹوں پر رحم نہ آیا ہوتا۔

اتنا تو الوینہ جان گئی تھی وہ باقیوں سے الگ تھا۔ تبھی تو اس کے حواسوں پر یوں سوار ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے ان دو مہینوں میں آٹھ خط ملے تھے جو الوینہ کی توقع سے بہت کم تھے۔ پہلے روز ایک خط ملتا لیکن اب تعداد میں کمی واقع ہو گئی تھی۔ ان خطوں کے ذرائع بھی الگ تھے۔ کبھی کمرے کی بُک شیلف پر تو کبھی یونیورسٹی میں اس کے ڈیسک کے اندر سے، کبھی کیفے ٹیڑیا میں کوئی بچہ اسے تھما جاتا تو کبھی کمرے کی دراز میں یہ خط موجود ہوتا۔ وہ حیران ہوتی کہ کون اس کے پل پل کی نگرانی کرتا ہے۔ کون اس کی یوں جاسوسی کرتا ہے۔ اور سب سے اہم، یہ خط اس کے کمرے میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔

یہ شک دور ہو گیا تھا کہ مکتوب الیہ حنان ہے۔ ایک بار ای- میل بھی آئی تھی اور یہی اس شک کے خاتمے کا سبب بنا تھا۔⁦ الوینہ جانتی تھی حنان ای-میل استعمال نہیں کرتا تھا۔ کچھ اس شک کی تصدیق تب ہوئی جب چند ہفتے پہلے پھپھو اور باقی افراد کی غیر موجودگی میں حنان سے اچھی جھڑپ ہوئی، وہ یہ قسم اٹھا گیا کہ اس نے ایک خط بھی الوینہ کو نہیں لکھا۔ بلکہ اس نے تو پوچھا:

"تمہیں کوئی خط لکھتا ہے؟ تمہیں کون خط لکھتا ہے؟"

لیکن الوینہ اب محسوس کرتی تھی کہ وہ پہلے والا حنان نہیں رہا تھا۔ وہ اب چیختا تھا، غصہ کرتا تھا، ہتھے سے اکھڑتا تھا۔ ایک دفعہ الوینہ نے خود کو اس کی جگہ رکھا تو اس نے محسوس کیا، وہ کچھ غلط نہیں تھا۔ محبت ہی تو کرتا تھا۔ محبت مل کے نہیں دے رہی تھی۔ مل ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کی محبت کو پانے والے بہت لوگ تھے۔ اس کے لیے الوینہ تک رسائی ناممکن تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر وہ دن بھی آگیا تھا۔ 

سب موجود تھے اور شادی کی تاریخیں فِکس ہو رہی تھیں۔ الوینہ اُن دنوں ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ ضوریز اس کا حاصل تھا۔ وہ ملکیت میں تھا تو وہ خود کو ملکہ تصور کرتی تھی، کچھ غلط نہیں کرتی تھی۔

"پھپھو شادی کی تاریخ فِکس کر رہی ہیں، باجی۔"

کنزیٰ نے خوشی سے جھومتے ہوۓ آکر بتایا تھا اور الوینہ کا منہ حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔ کنزیٰ کی مزید سنے بغیر اس نے کہا تھا:

"مجھے بلال سے شادی نہیں کرنی، کنزیٰ۔ مجھے اس سب کی ایک فیصد بھی خوشی نہیں ہے۔"

کنزیٰ کا پھول سا چہرہ مرجھا گیا۔ وہ پلٹی۔ پھر بھی جاتے جاتے کہنے لگی:

"آپ کو بلال بھیا کیوں اچھے نہیں لگتے، باجی؟"

الوینہ نے جواباً چپ سادھ لی تھی لیکن یہی سوال پورے خاندان کا تھا۔ لاؤنج میں اس روز خوب تماشا لگا تھا۔ عمیر موجود تھا لیکن آج الوینہ کو اس کی بھی پرواہ نہ تھی۔ کیا بینش، کیا ہانیہ وہ سب پر برس رہی تھی۔

"یہ ہو گی آپ کے بھتیجے کی عاشق۔" اس کا اشارہ بینش کی جانب تھا:

"جو آپ کی بہو بن گئی۔ یہ ہو گی۔" اب کی بار نشانہ ہانیہ تھی:

"یہ ہو گی آپ کے بیٹے کی عاشق جو اس سے شادی کے لیے تیار ہو گئی۔ میں کسی کی مرضی سے شادی نہیں کروں گی۔ میری زندگی ہے، میں اپنی زندگی کا فیصلہ خود کروں گی۔"

"تم پر کوئی پہاڑی یا جنگلی تو مسلط کر رہے۔ بلال سے تمہیں کیا مسئلہ ہے؟" عمیر حیران تھا۔ الوینہ کی کسی شخص کے لیے اتنی ناپسندیدگی اس نے آج پہلی بار دیکھی تھی۔

"تو مجھے بلال سے بھی نہیں کرنی شادی۔"

بلال وہیں تھا۔ چُپ تھا اور نظریں میز پر جماۓ وہ جیسے بُت بن گیا تھا جو نہ کچھ سنتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔

"کیوں؟ کیا کمی ہے بلال میں؟ یا میں سمجھوں کہ تم یہ کہہ رہی کیونکہ تم نے کوئی اور پسند کر رکھا ہے۔"

پھپھو نے بالکل حنان والی بات کہی تھی۔ الوینہ کہنا چاہتی تھی کہ ہاں! ہاں وہ ضوریز حسن کو چاہتی ہے اور اسی کو پانا بھی چاہتی ہے۔ لیکن یہ واحد نقطۂ تھا جہاں اس کا ردعمل ان عام مشرقی لڑکیوں جیسا ہی تھا۔ وہ یوں روبرو نہیں کہہ سکتی تھی۔ نہیں کہہ پائی تھی۔

"اب چپ کیوں ہو؟" حنان بھی اسی خاموش دیکھ کر شیر ہوا تھا:

"بتاؤ سب کو۔ کس کو پسند کرتی ہو؟"

الوینہ نے دل مضبوط کیا۔ اب سب پوچھ رہے ہیں تو بتانا تو پڑے گا ناں۔ اتنے میں ہی پھپھو نے کہا تھا:

"میں تمہاری مزید لن ترانیاں برداشت نہیں کروں گی الوینہ۔ تم نکاح خواں کے سامنے بھی بیٹھو گی اور قبول ہے بھی کہو گی۔ تمہیں راضی ہونا ہی ہو گا الوینہ۔"

"لیکن میں راضی نہیں ہوں۔"

کایا یکلخت پلٹی۔ صوفے پر بیٹھے بلال کے لب ہلتے نظر آۓ۔ نظریں ابھی تک میز پر جمی تھیں۔

'کیا کہا تم نے؟" حنان چونک اٹھا۔ بلال کی نظریں اب اٹھیں۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا! وہ ہلکا سا کھنکھارا اور بازو سینے پر باندھ لیے۔

"میں نے کہاکہ مجھے الوینہ سے شادی نہیں کرنی۔"

"چلو۔ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہے۔" بینش نے دل میں سوچا تھا۔ پھپھو بھی متوحش سی نظر آتی تھیں۔

"کیوں؟ اب تمہیں کیا اعتراض ہے؟ اور تم دونوں کو اس رشتے میں خامیاں اب کیوں نظر آرہی ہیں؟" عمیر اکتایا نظر آرہا تھا۔ بلال نے کندھے اچکاۓ۔⁦ اس کی نگاہیں دوبارہ میز پر جم گئی تھیں:

"کسی نے مجھ سے میری مرضی پوچھی جو نہیں۔"

اوہ۔ تو ہانیہ کی منگنی پر یہ اس لیے اکتایا نظر آرہا تھا - الوینہ نے دل ہی دل میں سوچا۔ 

"کون ہے وہ؟ جس کے لیے تم الوینہ کو چھوڑ سکتے ہو۔" حنان کو جہاں مسرت ہوئی، وہیں یک دم جلن کا احساس بھی ہوا۔ لاؤنج میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ الوینہ بھی منجمد کھڑی بلال کو دیکھ رہی تھی۔ یہ کیا معجزہ ہو گیا تھا۔

"مالیا۔" بلال نے دوبارہ کلام کا سلسلہ جوڑا تھا:

"اس نے میرے ساتھ ہی ایم بی اے کیا تھا۔ ہم یونیورسٹی میں اکھٹے تھے تو۔۔۔۔"

وہ کچھ الفاظ کہنے کے بعد رک جاتا۔ سارا قصہ لقموں کی صورت میں جسم میں اتار رہا تھا تاکہ ہضم ہو سکے۔

"انگریز ہے! غیر مسلم؟" منان نے بھی حصہ ضروری سمجھا۔ بلال نے اثبات میں سر ہلا دیا:

"اب تک غیر مسلم ہے لیکن میں کہوں گا تو مذہب بھی بدل لے گی۔"

"پھر اس بارے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی؟" پھپھو مشکوک سے لہجے میں بولیں۔ ان کا خیال تھا بلال ان سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا لیکن۔۔۔

"آپ لوگوں نے میرے نام کے ساتھ الوینہ کا نام لینا چھوڑا ہی کب ہے۔ الوینہ بلال۔ الوینہ بلال۔ نہں ہے ہماری compatibility۔ نہیں ہے ہم میں مطابقت، نہیں ہے ہم میں محبت۔ اسے اس کی راہ پر چلنے دیں اور مجھے میرا کام بنانے دیں۔"

وہ پہلی بار چیخا۔ محض دورانِ گفتگو ہی نہیں، زندگی میں بھی یوں پہلی بار اکتا گیا۔ تنک کر یوں اٹھا کہ شیشے کی میز تھرتھرا گئی۔ ان سب کو نظرانداز کرتا وہ ہال سے نکلا۔ الوینہ کچھ دیر صورت حال سمجھتی رہی۔ پھر جلدی سے اس کے پیچھے لپکی۔ وہ ابھی لاؤنج میں تھا جب الوینہ نے اسے جا لیا۔ 

"او ہیرو۔ رکو رکو۔" اس نے بلال کا بازو کھینچا تھا۔ وہ جو دو سیڑھیاں چڑھ گیا، عجلت میں پلٹا:

"تم تو بڑے چھپے رستم نکلے۔"

"الوینہ شٹ اپ۔" وہ بھڑکا اور اسی بھڑک بھڑک میں دھپ دھپ کرتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔ الوینہ البتہ مطمئن تھی۔ چلو یہ عذاب تو ٹلا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے ضوریز سے ملنا تھا۔

اس نے اس دن دیکھ لیا تھا کہ محبت کا اعتراف کیسے کرتے ہیں۔ اپنی بات کیسے منواتے ہیں۔ اس نے بلال کو دیکھ کر اپنا پلان بنایا تھا۔ اسے اپنے سارے جذبات عیاں کرنے تھے۔ محبت کے سارے راز فاش کرنے تھے۔ واشگاف الفاظ میں ضوریز کو بتانا تھا کہ وہ اس کے بغیر نہیں کی سکتی۔ اسے بتا دینا تھا کہ وہ اس کے وجود کے بغیر اپنی ذات کی تکمیل نہیں کر سکتی۔

وہ آج معمول سے بھی زیادہ تیار ہوئی تھی۔ Joy (پرفیوم) میں ڈوبی ہوئی، کاجل آنکھوں میں انڈیلے، مخصوص لپ اسٹک لبوں پر جماۓ۔ اس کا گہرا نیلا ڈریس اس کے موزوں جسم پر نہایت سج رہا تھا۔ وہ چاہتی تھی ضوریز حسن آج اسے دیکھے اور بس دیکھتا رہے۔ کیا اوقات تھی ضوریز حسن کی کہ اسے نہ دیکھتا۔ 

بن ٹھن کر وہ نیچے آئی۔ ہانیہ نے اسے ایک نظر دیکھا لیکن کچھ کہے بغیر مڑ گئی۔ وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر لاؤنج سے نکلتی جا رہی تھی جب آواز آئی:

"Have a lucky day."

(تمہارا دن اچھا گزرے)

الوینہ رک گئی۔ اس نے جو پلٹ کر دیکھا تو صوفے پر بلال کو براجمان پایا۔ ٹانگیں سیدھی کر کے سامنے والی میز پر رکھے، اس نے لیپ ٹاپ گود میں رکھا ہوا تھا۔ الوینہ کے لبوں پر مسکراہٹ تیر گئی۔ وہ متناسب چال چلتی اس کے قریب آئی۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر ہاتھ رکھے اور اس پر زور دیا۔ وہ بند ہوئی اور الوینہ بھی جھک سی گئی۔ بلال نے استہفامیہ انداز میں نگاہیں اٹھائیں۔

"میں تمہاری بہت احسان مند ہوں بلال۔ جس طرح تم نے میری زندگی آسان کر دی ہے۔۔۔" وہ رکی اور بے ساختہ ہنسی:

"I just love you for that."

(اس کے لیے میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں)

بلال نے دونوں ابرو اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ اس نے بلال کی گود میں رکھے لیپ ٹاپ پر دونوں ہاتھ رکھے تھے، سو اب جھکی تھی تو اس کے بہت قریب آگئی تھی۔ اسکے لمبے بلونڈ بال بلال کے سینے پر گر رہے تھے۔ اور وہ کہہ رہی ہے وہ اس سے پیار کرتی ہے، چاہے جس بھی لیے، پر پیار کرتی ہے۔

"بلکہ۔۔۔" اس نے بات جاری رکھی تھی:

"تمہارا ویڈنگ ںیڈروم روم میں سجاؤں گی۔ تمہاری امریکی دلہن کو بھی میں  سجاؤں گی۔ تم جانتے نہیں ہو تمہارے اس اعلان سے میں کس قدر آزاد محسوس کر رہی ہوں۔"

بلال کچھ نہیں بولا۔ الوینہ نے دونوں انگلیاں لبوں پر رکھیں اور پھر بلال کی جانب پھیر دیں، فلائنگ کِس! بلال اشارہ سمجھتا تھا۔ سمجھ گیا۔ اور سمجھ کر چہرہ موڑا۔ لیکن الوینہ نے اسکی مسکراہٹ دیکھ لی تھی۔ وہ فاتحانہ انداز میں چلتی باہر آئی۔ گاڑی نکلوائی اور ڈرائیور سے چابی لی۔ ابھی کار میں بیٹھنے نہ پائی تھی کہ چوکیدار دوڑا دوڑا آیا:

"بی بی۔ یہ کوئی بچہ پکڑا کر گیا ہے۔ بول رہا تھا الوینہ باجی کو دینا ہے۔"

الوینہ کو اب ان خطوں کی عادت سی ہو گئی تھی۔ البتہ وہ اکتائی ضرور! بدقت خط پکڑا اور اسے کھولا۔ لکھا تھا:

"تو آپ نے محبت جیت لی، مس جہاں داد۔ ویل ڈن۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ اپنے خاندان والوں پر یہ محبت آشکار کر کے ایک اور جنگ جیت لیتیں۔ جس ٹرپ پر جا رہی ہیں جائیے۔ ضوریز حسن کو سب کچھ کھل کر کہہ دیجیے۔ لیکن مس جہاں داد۔ آج میرا بھی ایک کام کیجیے گا۔ اس سے پوچھیے گا شفق کون ہے۔ پھر مجھے بتائیے گا۔ فی امان اللہ۔"

الوینہ کا منہ بن گیا۔ اب یہ کیا نیا چکر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

ضوریز الوینہ کو دیکھتے ہی کھل اٹھا تھا۔

اور الوینہ۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہی بدحواس سی ہو گئی تھی۔ وہ بلیک کوٹ پہنے ہوۓ تھا۔ شاید کورٹ سے آیا تھا یا جا رہا تھا۔ الوینہ نے پوچھا نہیں۔ ممکنہ طور پر ضوریز کی شخصیت نے اسے یہ پوچھنے نہیں دیا۔ اس کے مزاج بھی آج الگ تھے۔ الوینہ کی دلی خواہش پوری ہو رہی تھی۔ وہ باتیں کم کر رہا تھا، اس پر نظریں زیادہ مرکوز کیے ہوۓ تھا۔ انھوں نے Hill view میں ڈنر کیا تھا اور الوینہ اسے سب کہہ دینا چاہتی تھی۔ لیکن دونوں خاموش تھے۔ نظروں کے تبادلے تھے لیکن ہونٹ مقفل تھے۔ ضوریز اسے گھر لے جانے کی بجاۓ فارم ہاؤس لایا تھا۔ الوینہ کچھ متعجب تھی۔

"یہاں کیوں؟" اس نے سوال کیا۔ ضوریز نے کوٹ اتار کر لٹکایا۔

"شہر والے گھر میں اس وقت ڈیڈ ہوں گے۔ بس اسی لیے تمہیں یہاں لے آیا۔"

"تو تمہارے ڈیڈ کو میرے بارے میں پتا تو ہے۔ ان سے ایک بار ملتی اور پھر میں گھر چلی جاتی۔"

ضوریز نے جواباً چپ سادھ لی۔ ٹائی ڈھیلی کہ اور گہری سانس لی۔

"تم نے انہیں۔۔۔۔ ابھی تک میرے بارے میں نہیں بتایا۔ تم نے ان سے اپنے اور میرے رشتے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، ہے ناں؟"

الوینہ کے دل میں کچھ ٹوٹ گیا۔ ضوریز نے رسان سے دونوں بازو اس کے کندھے پر رکھے تھے:

"تمہیں مجھ پر اعتماد کیوں نہیں ہے۔ میں انہیں بتاؤں گا الوینہ۔ میری زندگی کی واحد خوشی صرف تم ہو، صرف تم۔"

وہ اب الوینہ کی پیشانی پر اپنے لب رکھے ہوۓ تھا۔

"اور پھر ڈیڈ کے سامنے ہم یہ سب کیسے کرتے بھلا۔" اس نے حسبِ معمول الوینہ کی دو لِٹوں کو چوما تھا۔ الوینہ نے نظریں جھکا لی تھیں۔

"یہ غلط ہے ضوریز۔" اس کے دل سے آواز آئی جو ضوریز نے بھی سنی تھی۔

"میرا محبت کرنا؟" اس نے اب دونوں ہاتھوں سے الوینہ کا چہرہ بھی تھام لیا تھا۔

"تمہارا یوں بلا رشتہ مجھ پر حق جتانا۔" اس کے الفاظ ضوریز کو روک نہیں سکے تھے۔ اس نے لب الوینہ کی پیشانی سے ہٹاۓ تھے۔ اسے قدرے پیچھے کو جھکا کر اس کی گردن پر رکھ دیے تھے۔

"محبت رشتہ نہیں ہے؟"

"نکاح کے بغیر، محبت کچھ نہیں ہے۔" اس نے ضوریز کے لمس تلے آنکھیں بند کر لی تھیں۔

"ہم نے نکاح ہی تو کرنا ہے۔" وہ اب اس کی کمر کو اپنے بازوؤں پر گراۓ اس کی گردن سے بھی نیچے اتر آیا تھا۔

"پھر نکاح کرو، ضوریز۔" اس نے آہستگی سے کہا تھا لیکن ضوریز کے لب رک گۓ تھے۔ اس نے اتنی ہی آہستگی سے اپنے بازوؤں کا حلقہ کھول کر اسے سیدھا کیا تھا۔

"کب کریں؟" وہ پوچھ رہا تھا۔ جیسے ایک کام ہو۔ الوینہ نے بہت مان سے اسے دیکھا تھا۔

"جب تمہیں یقین ہو جاۓ کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔"

"تمہیں لگتا ہے میں نہیں کرتا؟"

وہ اس تیزی سے آگے آیا تھا کہ اس کا کسرتی وجود الوینہ سے ٹکڑا سا گیا تھا۔ وہ بے اختیار ہی دو قدم پیچھے ہٹ گئی تھی۔ 

"پھر۔۔۔ نکاح کرو ضوریز۔"

وہ منمنائی تھی۔ ضوریز کے تیور بدل سے گۓ۔ 

"تو میں نے منع کب کیا ہے، الوینہ۔ میں نے۔۔۔ میں نے آخر۔۔۔۔"

وہ صورت حال سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اس کے لب تھرتھرا رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ اپنے مؤقف پر کچھ کہہ نہیں سکا تو دو قدم پیچھے ہٹا۔ تبھی الوینہ کی آواز گونجی:

"شفق کون ہے، ضوریز؟"

ضوریز کے چہرے کی رنگت لمحے میں بدلی۔ اس نے بے یقینی سے الوینہ کو دیکھا۔ وہ اس کو بغور دیکھتی، اس کے ہر تاثر کو پرکھتی تھی۔

"تمہیں اس کے بارے میں کیسے پتا؟" وہ اب دوبارہ الوینہ کے قریب آگیا تھا۔

"شفق کون ہے ضوریز؟" اس کے لب کپکپاۓ تھے۔ ضوریز نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر سر ہلاتا گیا جیسے کچھ سمجھ رہا ہو۔

"تو اس وجہ سے آج مجھ سے نکاح کی بات چھیڑ رہی تھیں۔" اس کے لبوں کر اب ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی:

"تمہیں لگتا ہے کہ وہ دو انچ لمبی شفق سلیمان تمہارے لیے خطرہ ہے۔"

"شفق۔۔۔ کون۔۔۔ ہے ضوریز؟" وہ اپنی پوری قوت سے چیخی تھی۔ ضوریز نے لب بھینچ لیے تھے۔ جیسے اسے الوینہ کا یہ انداز اچھا نہیں لگا تھا۔

"منگیتر ہے میری۔"

وہ زیرِ لب بولا۔

وہ میز پر یوں جھکی تھی کہ پیشانی میز پر ٹکی تھی اور بلونڈ بال ادھر ادھر پھیل گۓ تھے۔ آنکھیں منجمد تھیں پتھرا سی گئیں۔ ان میں اندر کہیں وہی منظر دہرایا جا رہا تھا۔

"منگیتر ہے میری۔" ضوریز نے دانت پر دانت جما کر کہا تھا اور الوینہ کو یقین ہی نہیں آیا تھا۔

"منگیتر؟؟؟؟ ضوریز حسن کی تو صرف وہ تھی۔ پھر یہ کیوں منگیتر۔ کون منگیتر۔

"تم نے۔۔۔ تم نے مجھے نہیں بتایا تھا۔" وہ یہ کہتے ہوۓ ساکت تھی۔ پلکیں نہیں جھپک سکی تھی۔

"کیونکہ میں نے اسے اتنی اہم بات ہی نہیں سمجھا کہ تمہیں بتاؤں۔"

"یا تم نے مجھے اتنا اہم نہیں سمجھا کہ بتاؤ۔" اس کے لب بے خیالی میں ہلے تھے۔ ضوریز قریب آیا تھا اور اس بار قدرے نرمی سے بولا تھا:

"وہ میری نظروں میں کوئی معنی نہیں رکھتی، الوینہ۔ بس ایک دور پار کی منگیتر ہے۔"

"دور پار کی منگیتر نہیں، تمہارے نام کی مالک ہے، ضوریز۔" وہ ایک بار پھر چیخی۔ ضوریز کا دماغ گھوم گیا تھا۔

"تمہارا بھی تو ایک عدد منگیتر ہے۔ کیا میں نے کبھی اعتراض کیا؟ کبھی اس کے بارے میں تم سے ایک سوال بھی پوچھا؟"

"وہ تمہاری بیوی نہیں بنے گی ضوریز۔ کبھی نہیں۔"

اس نے ضوریز کے سینے پر دوہتڑ رسید کیے تھے اور باہر بھاگ آئی تھی۔ اور اب، وہ تہی دامن سی کرسی پر بیٹھی تھی، میز پر سر جھکاۓ ہوۓ تھی۔ پھر یکلخت اس نے آئی پوڈ کھولا تھا۔ الفاظ لکھے تھے:

"وہ ضوریز کی منگیتر ہے۔ تمہیں اس کے بارے میں کیسے پتا۔"

وہ اس بے نام شخص پر اس وقت سب سے زیادہ اعتبار کرتی تھی لیکن وہ جواب نہیں دے رہا تھا۔

"پلیز۔ مجھے سے بات کرو۔ مجھے اس کے بارے میں مزید جاننا ہے۔"

لیکن وہ پہلی بار الوینہ جہاں داد سے بے خبر تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اس رات دو پیشیاں ہوئی تھیں۔

بلال گھٹنوں پر پھپھو کے تخت کے پاس بیٹھا رہا تھا۔ 

"تو نے میرا مان توڑ دیا بلال۔"

انہیں دکھ تھا۔ وہ بلال کو منان اور حنان سے بھی زیادہ چاہتی تھیں۔ لیکن اس  نے بھی آج قد نکال لیا تھا۔

"آپ نے بھی تو کسی سے پوچھے بغیر رشتہ کر دیا۔ اب وہ زمانے نہیں رہے ناں خالہ۔ لڑکیاں چاہتی ہیں وہ اپنا جیون ساتھی خود چنیں۔ مرد چاہتے ہیں وہ کوئی ایسی عورت چنیں جو ان کی عزت کرے۔"

"وہ گوری امریکی عورت تیری عزت کرے گی؟" پھپھو نے ناک بھویں چڑھائی۔ بلال ہنس دیا تھا:

"مالیا اچھی لڑکی ہے، پھپھو۔ لیکن، میں ابھی شادی نہیں کروں گا۔ وہ جب کہے گی، بس تب۔۔۔"

"لیکن ایک بار اسے پاکستان تو بلا۔ میں اسے ایک نظر دیکھ تو لوں۔"

بلال نے کچھ لمحہ سوچا، پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری پیشی الوینہ نے بھگتنی تھی۔ عمیر نے اسے خود بلایا تھا۔ الوینہ مرے مرے قدموں سے چلتی اس کے کمرے تک گئی تھی۔ اس کا دماغ سنسنا رہا تھا، بدن کانپ رہا تھا۔ وہ ایک سہہ حرفی لفظ (منگیتر) اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا۔ بینش وہیں تھی لیکن عمیر نے اسے کسی کام کے بہانے باہر بھیج دیا تھا! وہ اب اکیلی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔

"کیا کہہ رہا تھا حنان؟"

وہ بتیس تیتتس سالہ میچور مرد تھا۔ لہجے سے ہی بات اخذ کر لیتا تھا۔ الوینہ کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔

"وہ آپ کی جوان بہن پر الزام لگا رہا تھا کہ وہ آۓ روز لڑکوں سے ملتی ہے اور ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتی ہے۔"

"کیا وہ الزام سچ تھا؟" عمیر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ الوینہ کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی۔ آنکھوں میں عجیب اداسی تھی۔

"آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ الزام صحیح ہے؟"

"میں یہ سوچ سکتا ہوں کہ میری بہن ایک آزاد پسند لڑکی بےآسانی کسی بھی مرد کے چنگُل میں پھنس سکتی یے۔"

الوینہ کی آنکھیں مزید تاریک ہو گئی تھیں۔ سر خودبخود جھک گیا تھا۔ 

"پر اب تو پھنس گئی ہوں بھائی۔" اس کی آنکھوں میں نقاہت کے اثرات واضح تھے۔ عمیر نے گہرا سانس لیا تھا۔

"پھر اسے کہو عزت سے تمہارا رشتہ لے کر آۓ الوینہ۔"

"رشتہ؟؟؟" الوینہ کا ذہن کہیں کھو گیا تھا۔

"یوں کام نہیں چلے گا، الوینہ۔ پھپھو شادی کرنے پر بضد ہیں۔ میں بھی جلد اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ اچھے رشتے گھر میں موجود ہیں لیکن اگر تم کسی میں دلچسپی رکھتی ہو تو بتاؤ۔ میں تمہاری حمایت کروں گا۔"

"حمایت کریں گے؟" الوینہ بے خیالی میں دہرا رہی تھی۔ عمیر نے چند باتیں مزید کہہ کر اسے واپس جانے کا اشارہ کیا۔ وہ انہی بے جان قدموں سے اٹھ کر باہر آئی۔ بے خیالی میں سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اوپر آئی۔ کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ بستر پر رکھا فون روشن تھا۔ گھنٹی بج رہی تھی۔ ضوریز بار بار کال کر رہا تھا۔ الوینہ نے یونہی سبز بٹن پر انگلی رکھی۔

"الوینہ۔

"ہیلو، الوینہ۔"

وہ دوسری طرف چِلّا رہا تھا۔ کار کے ہارن کی آواز آئی۔ گویا وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔ 

"الوینہ۔ تم اپنے گھر میں تو ہو ناں۔ گھر پہنچ گئی ہو ناں؟"

الوینہ کی زبان گنگ تھی۔ وہ پتھرائی آنکھوں سے بستر کی چادر کو دیکھ رہی تھی۔ اور پھر اچانک اس کا منظر دھندھلا گیا تھا۔ گال پر کچھ گیلا سا ٹپکا تھا۔ لبوں کو بھگوتا وہ گردن میں اتر گیا تھا۔

"الوینہ۔ الوینہ، تم میری جان ہو یار۔ ناراض مت ہو اور۔۔۔ اور مجھ سے بات کرو ناں۔"

اس کی آواز میں بے چینی تھی، بے قراری تھی۔ الوینہ کے لب کپکپاۓ۔ آواز حلق میں ہی رہ گئی تھی۔

"میں۔۔۔ میں تمہارے گھر آرہا ہوں الوینہ۔ تم بات نہیں کرو گی تو میں آجاؤں گا۔"

"ضوریز۔" اس نے وہ ایک لفظ خارج کرنے میں اپنی پوری قوت لگا دی تھی۔

"ضوریز۔" دوبارہ اس کا نام لیا تھا اور پھر بلک بلک کر رو دی تھی۔ فون کان سے لگاۓ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔

"آجاؤ۔ ضوریز آجاؤ۔ میں۔۔۔ میں یہاں۔۔۔ یہاں اکیلی ہوں۔ یہاں آجاؤ ضوریز۔"

"آرہا ہوں۔ بس دو منٹ میں آرہا ہوں۔" اس نے فون کان سے لگاۓ رکھا تھا۔ اور جیسے ہی ضوریز نے کہا تھا وہ پہنچ گیا ہے، الوینہ نے فون کان سے ہٹایا تھا اور بجلی کی سی تیزی سے بھاگی تھی۔ ڈوپٹہ بازو سے لٹک گیا تھا، بال الجھ گۓ تھے لیکن وہ دیوانہ وار باہر بھاگ گئی تھی۔ ہال، پورچ، لان، سب سے گزرتے ہوۓ وہ ایک لمحے کے لیے میں گیٹ کے اس طرف رکی۔ ضوریز نے فون ابھی تک کان سے لگایا ہوا تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں مرسڈیز کی چابی تھی اور وہ چلتا آرہا تھا۔ راستے میں بڑے گیٹ حائل تھے۔ الوینہ ان کے دوسری طرف رک گئی تھی۔ چوکیدار بغور دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ الوینہ ان کی جانب متوجہ ہی نہ تھی۔ اس کی توجہ کا اکلوتا مرکز ضوریز تھا۔ 

"میں آگیا۔" اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ الوینہ کے آنسو بے آواز بہہ رہے تھے۔

"تم نے مجھے منگیتر کے بارے میں۔۔۔ کیوں نہیں بتایا تھا، ضوریز؟"

اس کی آواز رندھ گئی تھی۔ بات کرتے ہوۓ ہچکی بندھ گئی۔ ضوریز جواب میں بولا تو لہجہ شکست زدہ تھا:

"مجھے لگا تھا اس عورت کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ وہ عورت ضروری نہیں ہے۔"

پھر اس نے سر جھٹک کر اٹھایا:

"تمہیں نازش نے یہ بتایا ہو گا۔"

"افسوس تم نے نہیں بتایا۔" اس کا لہجہ مغموم تھا:

"میں ہر وقت تمہیں سوچتی ہوں، ضوریز۔ تمہارے تصور سے زندہ رہتی ہوں۔ تمہاری آواز ہر وقت میرے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ تمہاری آنکھیں ہر وقت مجھے دیکھتی ہیں۔ تم پاس ہوتے ہو تو میرا دل بے حساب دھڑکتا ہے۔ آنکھوں سے غائب ہوتے ہو تو دل بھی جدا ہو جاتا ہے۔ مجھے پتا ہے یہ محبت ہے ضوریز۔ تمہاری موجودگی میں مسکرانا اور غیر موجودگی میں بے چین رہنا، یہ میری محبت ہے ضوریز۔ تمہاری محبت کہاں ہے۔"

"مجھے نہیں پتا۔" اس کا سر نفی میں ہل گیا تھا:

"مجھے نہیں پتا مجھے تم سے محبت بھی ہے کہ نہیں۔ پر مجھے تمہیں دُکھی نہیں کرنا۔ تم روتی ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ ہنستی ہو تو تسکین ملتی ہے۔ تم قریب ہو تو دل کرتا ہے تمہیں کبھی دور جانے نہ دو۔ دور ہو تو دل کرتا ہے تمہیں سب سے سے چرا کر اپنے پاس لے آؤں۔ میں۔۔۔" اس نے گیٹ کی دونوں سلاخیں تھام لی تھیں۔ الوینہ نے اسکی آنکھوں میں ایک بے بیان سی سرخی محسوس کی۔

"میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں الوینہ۔ صرف تمہیں۔"

"الوینہ۔"

عقب سے کرخت سی آواز آئی تو الوینہ نے سر جھکایا۔ اور پھر ششدر رہ گئی۔ عمیر ان دونوں کو تادیبی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"کیا ہو رہا ہے یہ؟" اس کے لہجے میں درشتی تھی۔ چہرے پر کرختگی تھی۔ الوینہ نے بہت سا تھوک نگلا۔ وہ اپنے کہے پر خوفزدہ نہیں تھی۔ وہ بس ضوریز کی تضحیک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

"کیا دن کا دورانیہ ان ملاقاتوں کے لیے کافی نہیں ہوتا جو تمہیں رات کو بھی چین نہیں ملتا۔"

وہ کسی ایک سے مخاطب نہیں تھا۔ ضوریز نے دونوں ہاتھ سلاخوں سے ہٹا لیے تھے۔

"ضوریز مجھ سے ملنے آیا تھا۔" الوینہ کی آواز ابھی تک گیلی سی تھی۔ آنسو اسے اب تک بھگو رہے تھے۔

"تو اسے اندر بلاؤ۔ یہاں اندھیرے میں دروازے میں کھڑی کیا کر رہی ہو۔"

تب ضوریز دو قدم پیچھے ہٹا اور دونوں ہاتھ اٹھاۓ۔

"سوری۔ میں بس۔۔۔ جا رہا تھا۔" اس نے ہاتھ میں تھامی چابی ہلائی تھی۔

"یوں تو اب تم جا نہیں سکتے۔" عمیر اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ اس نے اب دونوں چوکیداروں کو دیکھا تھا:

"گیٹ کھولو اور اس کی کار اندر کرو۔ اور تم۔ (اس نے ضوریز کو اشارہ کیا) میرے پیچھے آؤ۔"

الوینہ چپ چاپ عمیر کو عبور کرتی اندر چلی گئی تھی۔ لاؤنج پار کرتی، سیڑھیاں چڑھتی وہ اپنے کمرے میں گئی اور وہاں قالین پر دو زانو ہو گئی۔ عمیر نے ایک طرف ہو کر ضوریز کے لیے راستہ چھوڑا۔ وہ سٹپٹا سا گیا اور پلٹا۔ چوکیدار نے اس سے چابی لے لی تھی اور مرسڈیز اندر لا رہا تھا۔ ضوریز شکستہ قدموں سے لان کے درمیان میں بنے ڈرائیو پر چلتا ہوا اندرونی دروازے تک پہنچا۔ دروازے کے دنوں طرف ایستادہ جید آئینوں پر اس کی نظر پڑی تو اسے اپنا عکس نظر آیا۔ کوٹ ندارد تھا اور بلیک ٹائی ڈھیلی تھی۔ سفید شرٹ کا نچلا حصہ بیلٹ سے باہر نکلا ہوا تھا۔ آنکھیں سرخ تھیں اور بال الجھ رہے تھے۔ 

ضوریز نے ہاتھ اٹھا کر نامحسوس انداز میں ٹائی کی ناٹ باندھی اور الجھے بالوں کو سیدھا کیا۔ وہ اب بہتر نظر آتا تھا۔ عمیر اس کے پیچھے پیچھے اندر آیا تھا اور اسے لاؤنج میں بیٹھنے کا اشارہ کر کے اندرونی کمرے میں گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد پھپھو آتی دکھائی دیں۔ ان کے چہرے پر ناگواری صاف پڑھی جا رہی تھی۔ وہ سب ضوریز کو سر سے پاؤں تک بغور دیکھ رہے تھے۔ ضوریز کا چہرہ سپاٹ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ کو آوازیں آرہی تھیں۔

پھپھو ضوریز کا حسب نسب پوچھ رہی تھیں۔

عمیر اس کو قائدے سے چلنے کا مشورہ دے رہا تھا۔

اس سے محبت کرتے ہو نکاح کرو، باپ سے کرو رشتہ لاۓ، روز روز کی ملاقاتوں سے گریز کرو اور وغیرہ وغیرہ۔ الوینہ نے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں اور آئی پوڈ اٹھایا۔ کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ وہ پھر روہانسی ہو گئی تھی۔ قریب قریب رو ہی پڑی تھی۔ محبت نے پہلی بار رلایا تھا۔ اور یوں رلایا تھا کہ اب آنسوؤں سے رشتہ جڑ سا گیا تھا۔

پھر اسے اپنی پشت پر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ عمیر آیا ہو گا، یا پھپھو یا کوئی اور دل جلا تبصرہ کرنے۔ وہ چپکی بیٹھی رہی۔ نووارد چلتا آیا اور اس کے گرد بازو حائل کر دیے۔ الوینہ کی آنکھیں خودبخود بند ہو گئیں۔ وہ کیسا شخص تھا کہ تکلیف بھی دیتا تھا اور تسکین بھی اس سے ملتی تھی۔

"ہم جلد ساتھ ہوں گے، الوینہ۔"

اس نے اپنے لب الوینہ کے بالوں پر رکھے تھے۔ وہ مکمل طور پر اس کی کمر پر جھکا تھا:

"میں نے تمہاری خواہش پوری کی ہے۔ تمہارے بھائی اور تمہاری موجودہ والدہ کو میرے گھر آنا ہو گا۔"

"تمہارے باپ کو میری شکایت لگانے۔" وہ منمنائی۔

"اونہوں۔ ہماری شادی کرانے۔" اس کے لہجے میں بے بہا مٹھاس تھی۔ الوینہ  اس مٹھاس کے آگے ہار گئی۔ اس کے شبہات کی دیوار زمیں بوس ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن، نازش آئی تھی۔ اس کی آنکھیں الوینہ کو دیکھ کر پھٹتی جا رہی تھیں۔

"تم جانتی نہیں ہو مجھے مام نے کتنا ڈانٹا ہے۔" وہ روہانسی ہو رہی تھی۔ درحقیقت شکایت کرنے آئی تھی:

"ضوریز نے انہیں شکایت لگائی کہ میں بہت بدتمیز اور منہ پھٹ ہو گئی ہوں اور میں نے تمہیں شفق کے بارے میں بہت غلیظ باتیں کہی ہیں۔"

الوینہ سمجھ گئی تھی کہ یہ ضوریز نے نازش کو سبق سکھانے کے لیے کیا تھا۔ کم از کم وہ یہی سمجھتا تھا کہ نازش نے ہی محبت کرنے والوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے شفق کا مسئلہ پیدا کیا۔

"شفق کون ہے نازش؟" الوینہ نے اگلوانا چاہا۔ نازش سرگوشی میں بولی:

"ضوریز کی منگیتر ہے۔ منگنی خفیہ ہے، اس لیے ہمیں اجازت نہیں ہے کہ کسی سے اس بارے میں بات کریں۔ پر تم بتاؤ، تمہیں شفق کے بارے میں کیسے پتا چلا؟ میں نے تمہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔"

"ضوریز محبت کرتا ہے شفق سے؟" الوینہ نے اگلا سوال پوچھا۔ نازش کا سوال نظرانداز کر گئی۔

"اونہوں۔ مجھے تو لگتا ہے اس نے شفق کو بس ایک دو بار دیکھا ہو گا۔ ہمیں تو یہی پتا ہے کہ یہ منگنی ضوریز کے ڈیڈ کی مرضی سے ہوئی تھی۔"

"لیکن خفیہ کیوں رکھی گئی؟" الوینہ الجھی۔ نازش اس کے قریب کھسک آئی:

"شفق کے ڈیڈ  ریجنل کورٹ کے جج ہیں۔ جسٹس سلیمان ضوریز کے ڈیڈ کے بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ مام نے بتایا تھا جسٹس سلیمان نے کسی اسمگلنگ کیس میں ضوریز کے ڈیڈ کی حمایت کی۔ انہیں پروموشن بھی ملی اور نارکوٹکس کی جانب سے ایوارڈ بھی ملا۔ تب سے جسٹس ضوریز کو اپنا داماد سمجھتے ہیں۔ باقاعدہ منگنی نہیں ہوئی ناں، اس لیے فیملی والوں کو بتایا نہیں ہے۔"

"وہ اس کو اپنا شوہر سمجھتی ہے اور ضوریز کہتا ہے کہ وہ اس کی نظروں میں کچھ نہیں ہے؟" الوینہ کھو سی گئی۔ اس کی آنکھوں میں اجنبیت سی اتر آئی تھی۔ نازش نے اسے بغور دیکھا:

"تمہارا اور ضوریز کا کیا رشتہ ہے، الوینہ؟"

الوینہ نے نقاہت سے سر بیڈ پر رکھ لیا:

"محبت کوئی رشتہ نہیں ہے۔"

"محبت کرتی ہو اس سے؟" نازش زیرِ لب مسکرائی تھی۔ الوینہ کی آنکھیں پھر سے پتھرا گئی تھیں:

"مجھے لگنے لگا ہے کہ وہ مجھے نہیں ملے گا۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے وہ جس قدر میرے قریب آرہا ہے حقیقت میں مجھ سے اتنا ہی دور جا رہا ہے۔"

"اگر محبت کرتی ہو تو سب صحیح ہو گا الوینہ۔" نازش نے رسان سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ اب بدلی نظروں سے الوینہ کو دیکھ رہی تھی۔

"اس نے کبھی اظہارِ محبت کیا؟ کیا تم سے پیار اقرار کیا؟"

الوینہ کے لبوں پر اداس سی مسکراہٹ ابھری۔ وہ ضوریز کہ محبت کو کیسے تولتی۔ وہ تو ہاتھوں کا کام بھی لبوں سے کرتا تھا۔

"ہاں، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ بہت محبت کرتا ہے۔"

اس نے بے خیالی میں کہا تھا۔ جیسے ایک ٹین ایجر کی سب سب سے بڑی فینٹسی! 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نازش اس سے کرید کرید کر سوال کرنے لگی۔ وہ چلی گئی تو الوینہ آئی پوڈ کی جانب متوجہ ہوئی۔ اس کے سوال کا جواب ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اور اتنے عرصے سے، اسے ایک بھی خط نہیں ملا تھا۔

"ہیلو؟" اس نے ٹائپ کیا تھا۔ چند لمحوں بعد ہی لکھا آیا تھا:

"Hi there!"

الوینہ متعجب ہوئی کہ اس نے پوچھنا کیا ہے۔ پھر لکھا:

"تم نے اتنے دنوں سے خط نہیں لکھے۔"

تین نقطے گھومتے نظر آۓ۔ پھر سکرین پر لکھا نظر آیا:

"آپ نے اتنے دنوں سے کوئی قابلِ اعتراض حرکت جو نہیں کی۔"

الوینہ کو برا لگا۔ اس نے لکھا:

"مجھے بری حرکتوں سے روکنے والے تم کون ہوتے ہو۔ مولوی ہو کیا؟"

نقطے گھومتے نظر آۓ۔ پھر لکھا تھا:

"No one  کوئی نہیں ہوں)۔)"

پھر لکھا آیا تھا:

"میں کچھ نہیں ہوں مس جہاں داد۔ میری ذات کھوکھلی ہے۔"

"تم میرے سامنے آؤ۔" الوینہ نے تجسس سے لکھا تھا۔

"کیا کریں گی مجھے دیکھ کر۔ حنان کی طرح مجھ پر چیخیں چلائیں گی؟ اپنے منگیتر کی طرح مجھے تھپڑ ماریں گی یا ضوریز کی طرح مجھے ایک کِس دیں گی۔"

الوینہ نے بے اختیار ہونٹ کاٹے۔ دل زور سے دھڑکا۔

"تمہیں۔۔۔ تمہیں ضوریز کے اور میرے بارے میں کیسے پتا۔"

"مجھے سب پتا ہے مس جہاں داد۔ آپ کے اس کے لیے جذبات اور اسکے آپ کے لیے احساسات بہت مختلف ہیں۔ آپ محبت کرتی ہیں لیکن وہ محبت کرواتا ہے۔ آپ اس کی بے باکیوں کو اس کی محبت جان کر قبول کر لیتی ہیں لیکن مس جہاں داد، محبت حد سے بڑھنے نہیں دیتی۔ جو حد پار کر جاۓ، وہ محبت نہیں ہوتی۔"

"اور تمہاری محبت؟ تم نے کہا تھا تم بھی مجھ سے محبت کرتے تھے؟ کب؟؟؟ میلینیم کے دنوں میں؟ یا بچپن کے کوئی دوست ہو؟"

اور ہمیشہ کی طرح جواب نہیں آیا۔ الوینہ انتظار کرتی رہی۔ اختتام میں اس شخص نے بس اتنا لکھا تھا:

"مجھے صرف اتنا بتائیں مس جہاں داد، آپ نکاح کیوں کرنا چاہتی ہیں۔ سب کچھ تو نکاح کے بغیر بھی مل رہا ہے۔ مجھے بتائیں وہ نکاح کیوں کرنا چاہتا ہے۔ اس کا کام تو نکاح کے بغیر بھی چل رہا ہے۔"

اور ساتھ ہی الوینہ کی برداشت کی حد بھی ختم ہوئی تھی۔ اس نے آئی پوڈ بیڈ پر دے مارا تھا۔

"الوینہ جہاں داد کا احتساب کرتا ہے۔ جانے کون ہے بدبخت!"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا دن۔۔۔۔۔

الوینہ بیڈ پر لیٹی تھی۔ فون کان سے لگا ہوا تھا اور ضوریز کی آواز گونج رہی تھیں:

"ماؤنٹ ایورسٹ چڑھنا آسان ہے الوینہ۔ پر حسن اعوان سے بات کرنا، توبہ!" الوینہ نے تصور میں ضوریز کو کانوں کو ہاتھ لگاتے دیکھا۔ ڈرا سہما سا ضوریز حسن، الوینہ تخلیے پر مسکرائی۔ ادھر وہ کہہ رہا تھا:

"انہیں ایک بار غصہ آجاۓ تو وہ پھر لحاظ نہیں کرتے الوینہ۔"

"وہ مان جائیں گے؟" الوینہ ممنون نظر آتی تھی۔ ضوریز کچھ دیر خاموش رہا۔

"مجھ پر اعتبار کرو۔"

الوینہ بھی خاموش ہو گئی تھی۔ وہ ضوریز پر اندھا اعتبار کرتی تھی۔ لیکن شفق سلیمان، وہ اس کے دماغ سے چپک کر رہ گئی تھی۔

دوسرا دن۔۔۔۔۔

لاؤنج میں رکھے بڑے صوفے پر پھپھو تسبیح لیے بیٹھی تھیں۔ ان کے پہلو میں میرون شلوار قمیض میں ملبوس، ڈوپٹہ ایک کندھے پر ڈالے، بھورے بال رول کیے دائیں کندھے پر پھیلاۓ خوش شکل سی لڑکی براجمان تھی۔ یہ جاثیہ تھی۔ اس کی ماں سامنے والے صوفے پر براجمان تھی اور رسمی باتیں جاری تھیں۔ تبھی حنان اندر آیا۔ وہ فیکٹری سے آیا تھا اور شلوار قمیض پہنے نکھرا نکھرا سا لگ رہا تھا۔ جاثیہ کی ماں نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوما۔ وہ اس افتاد کے لیے تیار نہیں تھا۔

"ماشاءاللہ۔ فیکٹری اب میرا حنان ہی سنبھالتا ہے۔"

پھپھو نے بیٹے کے حق میں تعریفی کلمات کہے۔ جاثیہ کی ماں نے حنان کو زبردستی پاس بٹھا ہی لیا۔ حنان کے چہرے پر ایک عجب بے زاری تھی۔ پھپھو کے بغل میں بیٹھی جاثیہ نے لمحہ بھر کو نگاہ اٹھا کر حنان کو دیکھا، پھر سر جھکا کر شرمیلا سا مسکرائی۔ حنان نے عین اسی سمے اسے دیکھا تھا۔ اور پھر بس اسے ہی دیکھتا رہا تھا۔

سب جانتے ہیں مردوں کے دل کتنی جلدی بدلتے ہیں۔

تیسرا دن۔۔۔۔۔

منان ابھی پھپھو کی صلواتیں سن کر فیکٹری جانے کے لیے راضی ہوا تھا لیکن کچن میں چاۓ بناتی ہانیہ کو دیکھ کر رک گیا تھا۔ اس کا لباس سیاہ کامدار دوپٹے میں چھپا ہوا تھا۔ منان ہولے ہولے چلتا اس کے قریب آیا تھا۔ ہانیہ چاۓ ابالنے میں مگن تھی۔ اسے پتا نہیں چلا۔

"ہر وقت کچن میں مت گھسی رہا کرو۔ ابھی تمہاری شادی ہونی ہے۔ اس عرصے میں تمہارے رنگ کو کچھ ہوا تو قسم خدا کی، منگنی توڑ دوں گا۔"

ہانیہ کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور دوپٹے کو سینے پر پھیلا لیا:

"ہٹو پیچھے سے۔ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟" وہ گھبرا گئی تھی۔ منان ہنسا:

"اٹس اوکے۔ اب تو تم میری منگیتر ہو۔ کوئی ہمیں بات کرنے سے نہیں روک سکتا۔"

"اونہہ۔ آپ کی اماں نے کہا ہے کہ اب میں تب تک آپ سے پردہ کروں جب تک آپ کی بیوی نہیں بن جاتی۔"

"کیوں؟ یہ کہاں لکھا ہے؟ اب تو ہمارا رشتہ اور مضبوط ہو گیا ہے۔ اب ہی تو ہم۔۔۔" منان کہہ رہا تھا لیکن ہانیہ نے اسے سینے پر ہاتھ رکھتے ہی غصے سے پیچھے کو دھکیل دیا تھا:

"جب تمہیں پتا تھا کہ میں کچن میں اکیلی ہوں تو اندر کیوں آۓ۔ چلو بھاگو اور اب نکاح سے پہلے مجھے چھوا یا شرارت کی تو منان مصطفیٰ، منگنی میں توڑوں گی۔"

منان اسے متعجب نظروں سے دیکھا گیا۔ یہ لڑکی اتنی عقل مند کب سے ہو گئی تھی۔

چوتھا دن۔۔۔۔۔

پھپھو اپنے مخصوص تخت پر براجمان تھیں۔ منان ان کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا اور سامنے صوفے پر بلال سپاٹ چہرہ لیے کاغذات کو دیکھ رہا تھا۔

"آپ مجھے سزا دے رہی ہیں ناں۔" وہ پھیکا سا مسکرایا تھا:

"میں نے آپ کے مرحوم بھائی کی بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تو اب آپ مشترکہ فیکٹری سے میرا حصہ نکال کر مجھے تھما رہی ہیں۔"

"سزا نہیں ہے، تحفہ ہے بلال۔" پھپھو نرمی سے گویا ہوئی تھیں:

"تم اب اسلام آباد میں اپنا بزنس بھی کر رہے ہو۔ مانا تمہارا باپ تمہارے لیے بہت کچھ چھوڑ گیا تھا جسے تم دنیا میں قدم جمانے کے لیے استعمال کر سکتے ہو لیکن فیکٹری میں جو تمہاری ماں کا حصہ ہے، وہ بھی تمہارا ہے۔ اور اب تو تم فیملی بنانا چاہتے ہو۔ تمہاری بیوی آخر یہیں رہے گی۔"

بلال نے بے خیالی میں ان کی بات سنی تھی۔ پھپھو اسے جانچتی نظروں سے دیکھنے لگیں:

"تم نے اس لڑکی کو پاکستان تو بلوا لیا ہے ناں۔"

"وہ آجاۓ گی کچھ دنوں میں۔ فکر نہ کریں۔ میری وجہ سے آپ کے بیٹے اور قریب قریب بیٹی کی شادی نہیں رکے گی۔"

اس کا لہجہ بالکل خشک تھا۔ پھپھو کو اس کا چہرہ بھی اترا اترا لگا تھا۔

پانچواں دن۔۔۔۔۔

ضوریز کی نگاہیں جھکی تھیں۔ حسن اعوان سر ہاتھوں کے پیالے میں گراۓ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔

"میں لوگوں کے سامنے اپنی بےعزتی کیسے برداشت کروں گا۔ اور سب سے اہم، میں سلیمان کو کیا جواب دوں گا، ضوریز۔"

"سلیمان انکل کو جواب دینا آپ کے لیے میری خواہش پوری کرنے سے زیادہ اہم نہیں ہونا چاہیے، ڈیڈ۔"

"تمہاری شفق سے منگنی ہوئی تھی ضوریز۔ تمہیں صرف اس سے روابط بناۓ رکھنے تھے۔ پھر یہ کسی غیر۔۔۔۔"

"آئی لائیک ہر ڈیڈ۔" ضوریز منمنایا۔

"لیکن شفق کی بار تم نے کہا تھا، یو لو ہر۔" حسن اعوان پوری قوت سے گرجے تھے۔ ضوریز نے گہرا سانس کے کر چہرہ موڑ لیا۔ اسکے چہرے پر تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ آنکھوں میں بے چارگی بھرا غصہ تھا۔

"اب کیا تم ہر سال ایک نئی عورت کو پسند کر کے لے آؤ گے اور مجھ سے کہو گے کہ میں اس سے تمہارا نام جوڑ دوں۔"

"الوینہ اچھی لڑکی ہے ڈیڈ۔"

"شفق بھی تو اچھی ہے۔"

"پر مجھے اس سے شادی نہیں کرنی۔" وہ بھی اب کی بار گرجا تھا اور سلسلہ کلام منقطع کر کے اٹھ گیا تھا۔ حسن اعوان غصے میں مٹھیاں بھینچ کر رہ گۓ تھے۔

چھٹا دن۔۔۔۔۔

بلال  بیڈروم میں صوفے پر ٹانگیں پھیلاۓ بیٹھا تھا۔ کمرے میں نیم تاریکی چھائی تھی لیکن اس کا چہرہ روشن تھا۔ لیپ ٹاپ کی سکرین پر

مالیا نظر آرہی تھی۔بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے، وہ بلال کو سن رہی تھی:

"کب ہے شادی؟" اس نے چِنگم چباتے ہوۓ پوچھا۔ بلال نے کندھے اچکاۓ:

"میری فیملی سلو موشن میں کام کرتی ہے۔ آج شادی کا فیصلہ ہوا ہے تو پرسوں تاریخ فِکس ہو گئی۔"

مالیا ہنسی۔ اس کے اگلے دو دانت بچوں کی طرح نظر آنے لگے۔ 

"کیا ہو ہے بلال؟ پریشان سے لگ رہے ہو؟"

وہ اس کا چہرہ پڑھ رہی تھی۔ بلال بے ساختہ مسکرایا تھا اور اپنی آنکھیں مسلیں۔ پھر بہت امید سے مالیا کو دیکھا:

"یہاں آجاؤ یار۔ آج یا کل، بس آجاؤ۔"

"میری یاد آرہی ہے، بلال عطاء اللہ؟" وہ دوبارہ دو دانت نکال کر ہنسی تھی۔ بلال بھی بے اختیار ہنسا تھا:

"نہیں۔ پھپھو کو یاد آرہی ہو۔ ان کے خیال ہی میں ان کے بچوں کے باقی دو نکاح لیٹ نہ کرادوں۔" پھر قدرے توقف سے بلال اس نے پوچھا:

"تم مجھ سے شادی تو کر لو گی ناں۔"

"پورے قائدے سے؟" مالیا نے سوال کیا اور بلال نے اثبات میں سر ہلایا۔ مالیا متفکر سی نظر آنے لگی۔ پھر جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ساتویں دن، الوینہ کی مراد بر لائی تھی۔ 

عمیر خود گھر آیا تھا یا پھپھو نے اسے بلایا تھا،  معلوم نہیں لیکن وہ الوینہ کہ مرضی پوری کرنے کے لیے تیار تھے۔ الوینہ خوشی سے پھولے نہیں سنائی تھی۔ عمیر نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا لیکن اس کے تیور خوش گوار تھے۔ گویا یہ اشارہ تھا کہ وہ سب اچھا کرنے جا رہا تھا۔ وہ محبت کے رشتے کو پکا کرنے جا رہے تھے۔⁦ سب اچھا کیسے نہ ہوتا۔

وہ دن بھر ادھر سے ادھر گھومتی پھری۔ پرانے سے پرانے دوستوں کے نمبر کھنگال کر ان سے خوب باتیں کی۔ وہ اپنے خوشی کا اظہار یوں کر رہی تھی۔ اس نے ایک دو بار ضوریز کا نمبر بھی ملایا لیکن وہ مصروف تھیں۔ بات نہیں کر سکا۔ الوینہ پھر بھی خوش تھی۔ سب صحیح ہونے جا رہا تھا۔ سب رنگین نظر آرہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کے سات بج گۓ۔ وہ دونوں واپس نہیں آۓ۔ حنان فیکٹری سے واپس آگیا تھا اور ان کی واپسی نہ ہونے پر متعجب پر آرہا تھا۔ سات بج گۓ، آٹھ بج گۓ لیکن وہ واپس نہ آۓ۔ منان نے بہیترا نمبر ملاۓ لیکن کوئی میسر نہ تھا۔ بلال اپنے گھر تھا، اسے علم نہ تھا۔ 

اور پھر ساڑھے آٹھ کے قریب وہ واپس آۓ۔ پھپھو حواس باختہ نظر آتی تھیں۔ منان نے انھیں تھاما تھا تو ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ مارے صدمے کے ان سے کچھ بولا نہ جا رہا تھا۔ حنان ان سے سوال کر رہا تھا لیکن وہ جواب نہیں دے رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اور تبھی عمیر کار سے نکلا تھا۔ دور سے ہی نظر آتا تھا کہ وہ آگ بگولا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ ایک آنکھ قدرے سوجی ہوئی تھی۔ اس نے پورچ میں کھڑے حنان کو نظر انداز کیا، پھپھو کو سنبھالتے منان کو بھی نہیں دیکھا اور سیدھا اندر آیا تھا۔

"الوینہ۔" وہ پوری قوت سے دھاڑا تھا۔ اپنے بستر پر بیٹھی الوینہ کانپ اٹھی تھی۔ ادھر کمرے سے ہانیہ بھاگ کر باہر آئی تھی۔ 

"الوینہ، دو منٹ میں نیچے نہیں آئی تو میں گن لے کر اوپر آجاؤں گا۔"

الوینہ تک آواز پہنچ گئی تھی۔ اس کی رنگت یکلخت پیلی پڑی۔ ہانیہ نے ہمت جتا کر سوال کیا:

"کیا ہوا ہے بھائی؟" 

عمیر نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔ جیسے اسے کچا چبا جاۓ گا۔

"کہاں ہے بلال؟"

"بلال۔ بلال بھائی تو چھوٹی پھپھو والے گھر۔۔۔۔"

"اسے فون کرو۔ ابھی کرو۔"

خوش قسمتی سے موبائل ہانیہ کے ہاتھ میں تھا۔⁦ اس نے عمیر کے تیور دیکھ کر سوال نہ کیا اور بلال کا نمبر ملایا۔ حنان ڈائننگ ہال میں داخل ہو رہا تھا۔

"کیا ہوا ہے بھائی؟"

"پوری دنیا کے سامنے میری عزت کا تماشہ لگا ہے، اور کیا ہوا ہے حنان؟" وہ دانت دبا کر بولا اور اسی لمحے اسے الوینہ سیڑھیوں سے اترتی دکھائی دی تھی۔ لمحہ بھر میں عمیر کے اندر بجلی بھر گئی تھی۔ وہ پھرتی سے سیڑھیوں تک آیا تھا اور الوینہ کا بازو کھینچ کر اسے لاؤنج میں لایا تھا:

"تم میں غیرت نام کی کوئی شے نہیں ہے الوینہ۔" وہ اسے فرش پر پٹختے ہوئے دھاڑا تھا:

"تم نے آج دکھا دیا ہے کہ تم میری بہن نہیں ہو بلکہ میری ماں کی سوتن کی اولاد ہو۔"

الوینہ نے ایک سسکی بھری تھی۔ عقب میں ہانیہ کی ہلکی سی آواز آئی۔ بلال نے فون اٹھا لیا تھا اور اب وہ بات کر رہا تھا۔ عمیر کو بھی آواز آئی تھی۔⁦ اس نے جھٹکے سے فون ہانیہ کے ہاتھ سے کھینچا تھا:

"پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس۔ ان پانچ منٹوں میں تم یہاں نہ پہنچے تو میں آئندہ تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا بلال عطاء اللہ۔"

"آخر کیا ہوا ہے بھائی؟" منان نے اس کا غصہ دیکھ کر نرمی سے پوچھا تھا۔ عمیر کی آنکھیں خونخوار تھیں، تنفر سے بھرپور تھیں:

"اس حرام زادے کا باپ ایس پی ہے۔ جسٹس سلیمان طاہر کا قریبی دوست ہے۔ اور یہ اس حرام زادے سے محبت کرتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا باقی مرد مر گۓ تھے الوینہ؟ کیا تمہیں اپنا پیار جتانے کے لیے خاندان والوں کے دشمنوں کے علاوہ کوئی نہیں ملا تھا۔"

"مم۔۔ میں نے بت۔۔ بتایا تھا کہ اس کے ڈیڈ پولیس میں ہیں۔" الوینہ نے تھوک نگلا۔ فرش پر گرنے کے سبب اس کے بال الجھ سے گۓ تھے۔

"پر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ایس پی حسن اعوان کا بیٹا ہے۔ یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ مرد اصل میں جسٹس سلیمان کا ہونے والا داماد ہے۔"

"ضوریز۔۔ ضوریز ان کا داماد نہیں ہے۔" الوینہ بڑبڑائی اور تبھی ہارن کی آواز آئی۔ منان نے جا کر دیکھا تو وہاں دراز قد کا کوئی اڈھیر عمر آدمی کھڑا تھا، سر پر کلاہ باندھے، ہاتھ میں بیگ لیے۔

"مولوی صاحب آۓ ہوں گے۔" عمیر نے باآواز کہا تھا:

"انہیں اندر لے کر آؤ۔"

وہ دو لفظ سن کر الوینہ کی روح کانپ گئی تھی۔ ایک جھٹکے سے زمین پر گھسیٹتی وہ عمیر کے قدموں میں آگری تھی:

"نہیں۔ میں صرف ضوریز سے نکاح کروں۔۔۔"

"ضوریز۔ ضوریز۔ ضوریز۔" عمیر کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسے کچھ اٹھا کر دے مارتا:

"میرا خدا جانتا ہے میں نے کتنی مشکل سے ٹریگر پر سے انگلی ہٹائی ہے تاکہ اس ایس پی کا بیٹا زندہ رہے۔"

"اسے۔۔۔ اسے مارا آپ نے؟" الوینہ دھک سے رہ گئی۔

"تمہارا ان لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں ہونا چاہیے الوینہ۔ اس لڑکے کا باپ ہمیشہ ہمارے کاروبار میں ٹانگ اڑاتا آیا ہے۔ ہمارے آدھے ملازم ان پولیس والوں کے سبب جیل میں پڑے ہیں۔ اور تمہیں پتا نہیں ہے الوینہ۔ تمہارے باپ کو بھی انھوں نے مارا تھا۔ ان کا ایکسیڈنٹ ایس پی حسن اعوان نے کروایا تھا۔"

الوینہ کو پتا نہیں چلا کب دو آنسو اس کی بادامی آنکھوں کے کنارے سے نکلے اور چہرہ بھگوتے چلے گۓ۔ ایک لمحے کے لیے سناٹا سا چھا گیا تھا۔ اس کے لیے سب ساکت ہو گیا تھا۔ پھر پسِ منظر میں قدموں کی آوازیں گونجیں۔ بلال دہلیز پر ہی رک گیا تھا۔ عمیر اسے بھی دیکھ کر غرایا تھا:

"آج تم ایک لفظ نہیں بولو گے، بلال۔اندر آؤ اور اس صوفے پر آکر بیٹھو۔ اور مولوی صاحب (اس نے چہرہ موڑ کر نکاح خواں) کو دیکھا تھا:

"آپ نکاح پڑھانا شروع کریں۔"

"بھائی۔" بلال نے کچھ کہنا چاہا اور عمیر تبھی دھاڑا:

"کیا میں نے نہیں کہا کہ تم ایک لفظ نہیں بولو گے؟"

"میں نکاح نہیں کروں گی۔ مجھے یہ رشتہ قبول نہیں ہے۔"

الوینہ نے ہمت مجتمع کی تھی۔ بہادر بن کر کہا اور تبھی عمیر کا تھپڑ اس کا گال لال کر گیا۔ وہ تھپڑ سہہ گئی تو عمیر نے ایک اور تھپڑ رسید گیا۔ الوینہ کے آنسو نکل آۓ تھے لیکن وہ چلا رہی تھی:

"مجھے آپ سے نفرت ہے بھائی۔ آپ مجھے زندہ گاڑ دیں لیکن میں نکاح نہیں کروں گی۔"

"پھر کیا کرو گی؟ گھر سے بھاگو گی؟ اس حرام زادے کے منہ لگو گی؟ میں تمہاری چمڑی اڈھیر دوں گا الوینہ۔ ایس پی کے بیٹے کے بھیجے میں گولیاں اتار دوں گا لیکن تمہارا اس کے ساتھ نکاح نہیں ہونے دوں گا۔"

"ہاں میں اسی کے پاس جاؤں گی، ابھی جاؤں گی۔"

وہ اپنی پوری قوت سے چیخی تھی اور اٹھ کر بھاگی تھی۔⁦ اس کی سرکشی کمال کی تھی، خودسری اخیر کو تھی۔ عمیر بھی دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگا۔ اسے دہلیز پر ہی بالوں سے کھینچا اور دوبارہ لاؤنج کی زمین پر پٹخ دیا۔ حنان اسے پیچھے کھینچنے کے لیے آگے آیا لیکن عمیر پر خون سوار تھا:

"انھوں نے تمہاری ماں جیسی پھپھو کا لحاظ نہیں کیا۔ انھوں نے تمہارے بھائی کی عزت کی دھجیاں اتار دیں اور یہاں تم۔۔۔ تم اس بدذات کی حمایت کر رہی ہو۔"

اس نے اپنا جوتا اتارا تو صوفے پر بٹھایا گیا بلال بے اختیار اٹھا۔ حنان نے عمیر کو پیچھے کھینچا اور وہ دونوں کے درمیان میں آیا۔

"کیوں سب کے سامنے تماشہ لگا رہے ہیں بھیا؟" اس نے ہاتھ سے عمیر کو روکنا چاہا لیکن وہ مسلسل جوتیاں برسا رہا تھا:

"میں اس بے غیرت کی خواہش پوری کرنے گیا تھا لیکن وہ آدمی مجھے پولیس کو بھجوا رہا تھا۔ مجھے جیل بھیجنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔"

الوینہ جھکی تھی۔ بلال جو درمیان میں آیا تھا تو عمیر کی جوتیاں بلال کی کمر میں لگی تھیں۔

"میں تمہیں آج یہاں زندہ گاڑھ دوں گا الوینہ۔ اور تمہارے عاشق کوکسی دوسرے ملک بھجوا دوں گا۔"

اس نے اب کی بار جو جوتا برسایا تو الوینہ پر جھکے بلال نے اس کا دایاں ہاتھ پکڑا تھا اور مڑ کر الوینہ کو دیکھا تھا:

"اپنے کمرے میں جاؤ الوینہ۔"

"مم۔۔ میں نکاح نہیں کروں۔۔۔"

میں نے کہا اپنے کمرے میں جاؤ۔" بلال نے دھاڑ کر کہا تو وہ تڑپ کر اٹھی تھی۔ الٹے قدموں سیڑھیوں کی جانب بھاگی۔⁦ عمیر ڈکارتے ہوۓ اس کے پیچھے بڑھا لیکن بلال نے اسے روک لیا تھا۔ عمیر کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر مطمئن کرنا چاہا تھا۔ ادھر الوینہ اپنے کمرے میں آئی تھی۔ دھک دھک کرتے دل اور بہتی آنکھوں سے بے نیاز اس نے فون کان سے لگایا تھا۔⁦ ایک کال، دوسری کال، تیسری کال، چوتھی پر ضوریز نے اٹھا لیا تھا۔

"ضوریز۔ یہ سب کیا ہو گیا ہے ضوریز۔"

"تمہارے بھائی نے سب بگاڑ دیا الوینہ۔" ضوریز کی نقاہت زدہ آواز سنائی دی۔ الوینہ کا دل بیٹھ گیا تھا:

"تم۔۔ تم ٹھیک تو ہو ناں؟چوٹ تو نہیں لگی؟"

"ہمیں ملنا ہو گا الوینہ۔ ابھی، اسی وقت۔"

"میں نہیں نکل سکتی ضوریز۔ بھیا مجھے مار۔۔۔۔"

لیکن اس نے کہہ کر ٹھک سے فون کر دیا تھا۔ الوینہ بےاختیار گھٹنوں پر گئی۔ یہ تقدیر نے کیسا پلٹا کھایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلیے ایک سرسری نظر اعوان ہاؤس پر ڈالتے ہیں جہاں شام کے چار بجے ہیں اور عمیر پھپھو کو کے کر لاؤنج میں بیٹھا ہے۔ 

لاؤنج میں آویزاں پورٹریٹ، شیلف پر سجے میڈل اور سرٹیفیکیٹس دیکھ کر ہی اس کا کلیجہ منہ کو آگیا تھا۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ کسی عام پولیس والے کے گھر نہیں بیٹھا، وہ ایس پی کے گھر موجود ہے۔⁦ اسے یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ وہ ان آفیسرز میں سے کسی کے گھر نہیں بیٹھا جن کی جیب گرم کر کے وہ فیکٹری سے اشیا اسمگل کرتا ہے۔ وہ ایس پی حسن اعوان کے گھر بیٹھا تھا۔ وہی ایس پی جس نے بارہا اسے جیل بھجوانے کی کوشش کی تھی، اس کا دھندا بند کروانے کے لاکھ جتن کیے تھے، اس کے باپ جہاں داد عباس اور اس کی ماں کو درحقیقت سازش کے ذریعے مروایا اور اِن کاؤنٹر کو کار ایکسیڈنٹ کا رنگ دے دیا۔

حسن اعوان نے بھی بس ایک نظر عمیر کو دیکھا تھا اور وہ بھڑک گۓ تھے۔ ان کی بیٹھک میں ایک پیشہ ور مجرم بیٹھا تھا۔ شہر میں اسمگلنگ کے کیسیز کی بھرمار تھی لیکن جہاں داد فیکٹری اسمگلنگ کے لیے بدنام تھی۔ افیم کی ترسیل تب رک گئی تھی جب حسن اعوان نے جہاں داد عباس کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ البتہ انہیں افسوس ضرور ہوا تھا کہ حادثے کی زد میں جہاں داد عباس کی بیوی بھی آگئی تھی۔ اور اب عمیر جہاں داد کا نام اس فیکٹری سے جڑا تھا اور وہ کتنی ہی بار ایس پی کو جُل دے گیا تھا۔

وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر بھڑک اٹھے تھے۔ زبانی کلماتی جنگ ہوئی اور آخری حربے کے طور پر حسن اعوان نے بنگلے کے چوکیداروں اور مسلح گارڈز کو اندر بلوا لیا۔ عمیر کو طیش آگیا تھا۔ گن ہمیشہ اس کے پاس رہتی تھی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پستول کی نال اسی جوان کی کنپٹی پر رکھ دی جسے وہ اپنا بہنوئی بنانے آیا تھا۔ خوب تماشا بنا تھا اور چلتا ہی رہا تھا۔ ایس پی اعوان نے اپنے مزید کارکن منگوا لیے تھے اور عمیر نے جانے کن غنڈوں کو ایس پی کے گھر میں گھسوا لیا۔ پھپھو حواس باختہ سی اس منظر میں فٹ نہیں آئیں تو انہیں ایک ملازم کے ہاتھوں سسرال والے گھر بھجوا دیا۔ 

پھر جسٹس سلیمان آۓ تھے۔ ایس پی اعوان نے واشگاف کہہ دیا کہ ایک عادی مجرم دندناتے ہوۓ ان کے گھر میں آیا اور ان کے بیٹے پر بندوق تان لی۔ عمیر اور بھڑک گیا۔ البتہ جسٹس کے سامنے بدتمیزی نہیں کر سکا تو بس اتنا بولا کہ وہ اپنی ماں کو ساتھ لایا تھا۔ وہ اس گھر میں اپنی بہن کا رشتہ کرنے آیا تھا۔

"لیکن ضوریز حسن میرا داماد ہے۔"

جسٹس سلیمان کے جملے نے سب کاروائیوں پر مہر لگا دی تھی۔

اب کی بار اس نے آنکھیں مسلیں تو خشک معلوم ہوئیں لیکن سرخی ایسی پھیلی تھی کہ گمان ہوتا لہو نینوں سے رواں ہے۔  وہ اب رو رو تک تھک گئی تھی۔ پچھتا پچھتا کر تھک گئی تھی۔ محبت میں رسوا ہو کر بھی تھک گئی تھی۔

اسے اب نیا ایڈونچر کرنا تھا۔ اسے اب مرنا تھا۔

اس کے کپڑوں پر خون پھیلتا جا رہا تھا۔ وہ اب ہل نہیں سکتی تھی۔ برگد تلے ڈھے سی گئی تھی۔ اس نے کپڑے یوں سمیٹ لیے تھے کہ خون تہوں میں چھپ گیا تھا۔ چہرہ یوں ٹکا لیا تھا جیسے وہ آرام کر رہی تھی۔

"بلال۔" 

اسے یکلخت خیال آیا تھا۔ بے اختیار اضطراب در آیا تھا:

"تم اسے کیسے بھول گئیں الوینہ؟" پھر وہ نقاہت سے مسکرائی اور آنکھیں موندیں:

"تم نے اسے یاد کب رکھا ہے الوینہ۔ ضوریز حسن کے سامنے تم اسے ہمیشہ بھول گئیں۔ اب بھی تم ضوریز کے لیے مر رہی ہو۔ اور اسے بھول گئی ہو۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز حسن نے کہا تھا انہیں ملنا ہی ہو گا۔ اس نے کہہ دیا تھا تو بس، الوینہ کو جانا تھا۔ وہ اس قدر سہمی ہوئی تھی کہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر، جھانک کر بھی نہیں دیکھا کہ باہر قیامت ٹل چکی ہے، بلال اور عمیر جا چکے ہیں یا نہیں۔ اسے نکلنا تھا لیکن وہ مین دروازے سے نکلنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔ اس نے کمرے کی اندرونی چٹخنی لگائی اور اپنے کھلے سنہری بالوں کو پونی کی صورت میں باندھا۔ تبھی آئی پوڈ کی سکرین چمکی۔ پیغام آیا تھا۔ اس وقت؟؟؟؟ الوینہ نے سرسری سی نگاہ سکرین پر ڈالی، لکھا تھا:

"اب آپ کیا کریں گی مس جہاں داد؟ کیا بھاگیں گی؟"

وہ عارضی مدت کے لیے بھاگنے ہی جارہی تھی۔ ہیل شوز اتار کر کینوس پہنے۔ اپنے آنسو خشک کیے اور کھڑکی تک آئی۔ وہ نہ تو ایتھلیٹ تھی اور نہ جمناسٹکس جانتی تھی۔ پھر بھی اس نے کھڑکی کے دونوں پٹ کھولے اور ٹانگیں باہر لٹکا لیں۔ یہ بنگلے کا عقبی حصہ تھا اور یہاں ہو کا عالم تھا۔ الوینہ جانتی تھی کھڑکی اونچی ہے۔ پھر بھی اس نے چھلانگ لگائی۔ دھم سے وہ مٹی کے پہاڑ میں آگری۔ چہرہ زمین سے رگڑ کھا گیا اور سفید پوشاک بھورے رنگ میں ڈھل گئی لیکن وہ رکی نہیں۔

عقبی فینس پار کر کے وہ بنگلے کی حدود سے نکلی اور دور بھاگتی  چلی گئی۔ اب وہ سڑک پر آگئی تھی۔ یہاں راڈ لیمپ چہار اطراف لگے تھے اور ملجگا سا اندھیرا تھا۔ گاڑیاں گزر رہی تھی، سائیکل سوار اسے عجیب نظروں سے گھور رہے تھے۔ وہ پیدل چلتی گئی۔ فون بار بار کان سے لگاتی کہ اب ضوریز نے اٹھایا، اب اٹھایا۔ 

تبھی کار اس کے عین عقب میں آکر رکی۔ کار کے ٹائر چرچراۓ اور بریکس کی آواز آئی۔ الوینہ تڑپ کر ایک طرف ہٹی اور پھر بے ساختہ رو دی۔

"ضوریز۔"

وہ ابھی کار سے بمشکل نکلا تھا کہ الوینہ اس سے لپٹ گئی۔ اسے نہیں پتا تھا وہ یہاں تک کس جرآت کا مظاہرہ کر کے آئی ہے کیونکہ اب وہ ڈر رہی تھی، سہم رہی تھی، خوف کھا رہی تھی۔ 

"مجھے بھیا نے مارا ہے، ضوریز۔ میرا نکاح۔۔⁦۔۔۔ وہ میرا نکاح کر رہے تھے۔ وہ مجھے بلال کو سونپ رہے تھے۔ میں بہت روئی۔ میں بہت گڑگڑائی لیکن۔۔۔"

اپنی کہتی جا رہی تھی۔ ضوریز نے اسے خود سے علیحدہ کرتے ہوۓ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا تو وہ دنگ رہ گئی۔ بے اختیار اپنا ہاتھ اٹھایا اور ضوریز کے دائیں گال پر بنے زخم پر رکھا۔ خون رسنا بند ہو گیا تھا لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ زخم تازہ ہے۔

"تم تکلیف میں ہو؟" الوینہ روہانسی ہو گئی۔ ضوریز خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

"کچھ تو بولو ضوریز۔ خدا کے لیے، مجھ سے بات کرو۔"

اس نے ضوریز کے سینے پر اپنے ہاتھ پھیلاۓ۔ اس کی آنکھوں میں نقاہت نظر آئی تھی۔

"دو گھنٹے۔" اس کے لب ہلے تو الوینہ کی جان میں جان آئی۔ لیکن اس کے الفاظ سخت تھے۔ لہجہ بلاشبہ نرم تھا:

"میں دو گھنٹے اکڑوں، اپنی کنپٹی پر اس پستول کا بوجھ برداشت کیے گھٹنوں پر بیٹھا رہا ہوں جو تمہارے بھائی نے مجھ پر تان رکھی تھی۔"

کیا وہ جتا رہا تھا؟ کیا وہ بس سنا رہا تھا؟ الوینہ نے سسکی لی۔ اس نے سنا، ضوریز کہہ رہا تھا:

"مجھے تم چاہیے تھیں، الوینہ۔ پر یہ کیا ملا مجھے؟"

الوینہ کی ٹانگوں سے جان نکل گئی تھی۔ اسے کوئی گلہ نہیں کرنا تھا، بالکل بھی بحث نہیں کرنی تھی۔ وہ گھٹنوں پر بیٹھتی گئی۔ اور جب زمین سے آلگی تو آنکھیں بند کر کے اس نے ہاتھ جوڑ دیے:

"مجھے معاف کر دو ضوریز۔"

"میں نے تمہیں بتایا تھا کہ کوئی نہیں مانے گا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ قدم اٹھانا بہت مشکل ہو گا۔" وہ اب خود جھک گیا تھا، اکڑوں زمین پر بیٹھ گیا تھا:

"لیکن تم اس پہلی رسوائی پر ہی یوں تو رہی ہو، الوینہ؟"

"وہ میرا نکاح بلال سے کر دیں گے۔" الوینہ نے سسکی لی۔

"کیا میں ہونے دوں گا؟" 

"وہ تمہیں جان سے مارنے کے بعد میرا فیصلہ کریں گے۔ وہ پہلے تمہیں مار دیں گے تاکہ تم میری راہ میں رکاوٹ نہ حائل کر سکو۔"

"تو تم بھی خود کو مار لینا، الوینہ۔" وہ اسے آسان راستہ دکھا رہا تھا۔ دائمی زندگی کا راستہ لیکن عذاب کا راستہ۔ الوینہ نے سر اٹھایا۔ آنکھوں میں آنسو تھے:

"مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ۔"

"ڈیڈ میرے سامنے تمہارے ٹکڑے کر دیں گے۔ مجھے منظور نہیں ہے، الوینہ۔"

"پھر میرے ساتھ آجاؤ۔"

"وہ ہمیں دنیا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ لیں گے، کوشش بے کار ہو گی، الوینہ۔"

وہ یوں روانی میں بولتا تھا جیسے سب پہلے سوچ کر آیا تھا۔ الوینہ بے دم سی ہو کر اسے دیکھ رہی تھی اور تبھی دو مسلح افراد سے بھری گاڑیاں ضوریز کی کار کے دونوں اطراف میں اکھڑی ہوئیں۔ الوینہ گھبرا کر ضوریز کے سینے سے لگ گئی۔ کاروں سے مسلح گارڈز نکلے۔ ان کی توجہ کا مرکز ضوریز تھا۔

"آپ کے والد نے آپ کو گھر سے نکلنے سے منع کیا تھا، سر۔"

ضوریز نے جیسے سنا ہی نہیں۔ گارڈ دوبارہ گرجا:

"آپ کے ڈیڈ نے کہا ہے کہ اگر آپ شرافت کی زبان سمجھ کر گھر واپس نہیں آتے تو آپ کو زبردستی گھر لایا جاۓ۔"

الوینہ سب سن رہی تھی۔ اس کی آنسو لگاتار گر رہے تھے۔ بے آواز بہہ رہے تھے۔ ضوریز کی آنکھیں سرخ تھیں۔ ایک مرکز پر ٹکی تھیں۔ پھر اچانک الوینہ زمین پر ڈھے گئی۔ ضوریز نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ دو گارڈز نے اسے جکڑ کر کار میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ الوینہ کا سر زمین سے جا لگا۔

مرشد میں عشق میں جھٹلایا گیا ہوں!

مرشد میں ہارا نہیں، ہرایا گیا ہوں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی مسیحا نہیں تھا، کوئی درماں نہیں تھا۔

وہ یونہی سڑک پر جھکی رہی تھی۔ ابھی بس کسی گھر والے نے آجانا تھا اور اسے لے جانا تھا۔ وہ شکست زدہ، نقاہت زدہ تھی۔ بلک بلک کر تھک گئی تھی۔ ان دیکھے خدا کے سامنے سجدے میں پڑی تھی۔ محبت کی پجارن جو مانگ رہی تھی، وہ مانگ مانگ کر بھی تھک گئی تھی۔

بہت دیر گزر گئی تھی اور پھر اچانک سڑک پر گزرتی متعدد گاڑیوں میں سے ایک گاڑی اس کے قریب آکر آہستہ ہوئی۔ 

عمیر آیا ہو گا۔ ابھی اس کو صلواتیں سناۓ گا، اسے جوتے لگاۓ گا اور اسے گھسیٹ کر لے جاۓ گا۔

حنان آیا ہو گا، وہ اس کا مذاق اڑاۓ گا، اس کو کھینچ کر کار میں بٹھاۓ گا اور بے نقط سناۓ گا۔

بلال آیا ہو گا، وہ اسے نفرت سے دیکھ رہا ہو گا، اسے اس قدر حقیر شے سمجھ رہا ہو گا کہ اسے دیکھے بغیر اس کو گدی سے پکڑ کر کار میں ڈال دے گا۔

قدموں کی آوازیں قریب آئیں اور کسی نے اس کا نام لیا۔ الوینہ نے سر اٹھایا۔

وہ منان تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ نے کچھ کہے بغیر سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی تھیں۔

"بھاگی ہی تھیں تو تھوڑا دور تو چلی جاتیں، الوینہ۔"

وہ یقیناً طنز تھا۔ الوینہ اپنی جارحیت چھپاۓ مسکرائی۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ آسماں انہیں خاک میں بھی ملا دے تو ان کا دماغ عرش پر رہتا ہے۔ وہ خاک میں لٹھری تھی، پھر بھی جواب دینے کے قابل تھی:

"اگر میں چلی جاتی تو تمہیں کیسے موقع ملتا کہ تم مرچ مصالحے لگا کر میرا قصہ اپنے خاندان والوں کو سناؤ۔"

"میرا حق ہے الوینہ۔" منان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی:

"تم وہی ہو ناں جس نے خوب مرچ مصالحے لگا کر، میری محبت کا مذاق اڑا کر ماں جی کو میرے خلاف بھڑکایا تھا۔"

الوینہ نے لب بھینچ لیے لیکن کہا کچھ نہیں۔ اس نے سنا، منان کہہ رہا تھا:

"لیکن میری قسمت اچھی ہے الوینہ۔ جو بات میں ماں جی کو براہ راست کہنے سے ڈرتا تھا، وہ تم نے کہہ دی۔ تم نے میرا کام آسان کر دیا، مجھے میری ہانیہ دلوا دی۔ اس کے لیے تمہارا شکریہ (اس نے سینے پر ہاتھ رکھا اور بات جاری رکھی) اور اب چونکہ عمیر بھیا کو خطرہ ہے کہ تم اپنے عاشق سے ملنے کے بہانے گھر سے بھاگنا چاہو گی، سو وہ شادی کی تاریخیں بھی جلدی فکس کر رہے ہیں۔"

"میں بلال سے شادی نہیں کروں گی۔ سنا تم نے؟" الوینہ دبا دبا سا غرائی تھی۔ یہ اس الوینہ سے مختلف تھی جو بکھری بکھری سی سڑک پر جھکی تھی۔ کار میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر منان نے بہت آہستگی سے کہا:

"تمہیں بلال کے بارے میں غلط نہیں سوچنا چاہیے الوینہ۔ وہ اب اتنا بھی برا نہیں ہے۔"

"ہاں پر وہ اچھا بھی نہیں ہے۔"

"پر میں تمہیں ایک بات بتادوں، تمہاری شادی اس سے ہو کر رہے گی۔ تمہارے لیے یہ بہتر ہے کیونکہ عمیر بھیا تمہاری بات کبھی نہیں سنیں گے، بلال پھر بھی سن لے گا۔"

الوینہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کا دماغ بٹا ہوا ہے۔

"گھر والوں سے کیا کہو گے؟ یہی کہ مجھے سڑک سے اٹھا کر لاۓ ہو؟"

"عمیر اپنے گھر چلے گۓ ہیں۔ ماں جی سو چکی ہیں۔ حنان کے علاوہ اور کوئی باز پرس نہیں کرے گا۔ حنان سے میں خود نپٹ لوں گا۔"

"لیکن بلال؟" الوینہ خوفزدہ سی نظر آئی۔

"وہ کچھ نہیں کہے گا۔"

الوینہ کو اس کی بات پر ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا لیکن وہی ہوا جو اس نے کہا۔ لاؤنج میں کوئی نہیں تھا۔ الوینہ سیدھی کمرے میں آئی تھی اور بستر پر ڈھیر ہو گئی تھی۔

"مجھے تم چاہیے تھیں، الوینہ۔ پر یہ کیا ملا مجھے؟" اس کے ذہن میں ضوریز کے الفاظ گونجے۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن اعوان نے اسکے سر پر ایک بہت رسید کی، پھر اس کے سر کو جھٹکے دیتے ہوۓ خونخوار نظروں سے اسے دیکھا:

"تمہارا دماغ کہاں ہے ضوریز۔ تمہاری عقل کہاں گھاس چرنے چلی گئی ہے؟" ضوریز کا چہرہ سپاٹ تھا۔ آنکھوں میں بے زاری تھی۔

"اس لڑکی کے بھائی نے تمہاری کنپٹی پر بندوق رکھی تھی۔ اس کے غنڈے تمہیں مارنے کو آۓ تھے لیکن تم سب پسِ پشت ڈال کر پھر اسی عورت سے ملنے چلے گۓ۔ تمہاری غیرت کہاں گئی ضوریز۔"

ضوریز ایک لفظ نہیں بولا تھا۔ حسن اعوان بکتے جھکتے رہے لیکن وہ خاموش کھڑا تھا۔ پھر تھک ہار کر ایس پی صوفے پر ڈھیر ہو گۓ تو ضوریز نے سر اٹھایا:

"سلیمان انکل؟"

"چلا گیا۔ اور مجھے جتا کر گیا ہے کہ یہ اس کا بڑا پن ہے جو وہ تمہاری بے وفائی دیکھ کر یہ رشتہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔"

ضوریز کے گلے میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی۔ اس نے بہت سا تھوک نگلا۔ ادھر حسن اعوان کہہ رہے تھے:

"جسٹس سلیمان کی بیٹی تمہاری منگیتر ہے ضوریز۔ وہ تمہاری محبت بھی تو ہے۔ پھر تم۔۔۔"

"کیا انھوں سے آپ سے میرے بارے میں کوئی بات کی؟" ضوریز کا انداز کریدنے والا تھا۔ حسن اعوان بپھر گۓ:

"اس نے ساری باتیں تمہارے بارے میں ہی تو کی۔ یہ ساری کہانی تمہاری ہی تو ہے۔ مجرم تم ہی تو ہو۔"

"ہاں۔ مجرم میں ہی تو ہوں۔" اس نے آہستگی سے سر جھکا لیا تھا۔ ذہن میں بہت سی یادیں بیدار ہو رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کھانا کھانے میز پر نہیں آئی تھی تو ہانیہ اسے ناشتہ اوپر ہی دے گئی تھی۔ الوینہ نے تنفر سے اسے دیکھا تھا۔ 

"پھپھو کا سامنا نہیں کرنا چاہتیں اس لیے نیچے نہیں آئیں۔" اس نے ٹرے رکھتے ہوۓ سادگی سے پوچھا تھا۔ الوینہ کو بات چبھ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کی درشتی واضح نظر آنے لگی۔

"اپنے شر سے ان سب کو بتانا چاہتی ہوں، اس لیے سامنے نہیں آئی۔"

"ضد چھوڑ دو الوینہ۔ جو سب کہہ رہے ہیں وہ۔۔۔" اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن الوینہ نے اپنا بایاں ہاتھ بلند کر کے چہرہ موڑ لیا:

"الوینہ جہاں داد جانتی ہے کیا ٹھیک ہے اور کیا صحیح۔ مجھے پاٹ پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔"

"یہ ٹھیک نہیں ہے الوینہ۔ تم ایک اجنبی پر اعتبار کر کے خود کو یوں تکلیف نہیں دے سکتیں۔"

"تم نے اپنے کزن پر اعتبار کیا اور اسے اپنی محبت ماننا شروع کیا۔ اسے جیت گئیں اور کل یا پرسوں پا لو گی۔ میں نے جس پر اعتبار کیا ہے، مجھے اسے آزمانے دو۔ مجھے اپنی محبت کو جیتنے دو، مجھے میرا محبوب پانے دو۔"

آخری جملہ کہتے اس کی آواز تھرا گئی تھی، آنکھیں ہلکی سی گیلی ہو گئیں تھیں لیکن وہ پلکیں جھپکاۓ بغیر ہانیہ کو دیکھتی رہی۔ ہانیہ کو اس پر بے تحاشہ ترس آیا۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولی۔ بس اتنا کہا:

"خدا کرے تم کامیاب رہو لیکن الوینہ۔۔۔" اس کی نظروں میں افسوس کا عنصر نمایاں تھا:

"نیچے فیصلہ ہو چکا ہے، پرسوں تمہارا نکاح ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ کو پتا تھا وہ ہانیہ کے جانے کے بعد کتنا روئی تھی۔ 

"میرا نکاح ہو رہا ہے ضوریز۔"

اس نے ایک ہی ریکارڈنگ کے کوئی ساٹھ ستر میسیجز ضوریز کو کیے تھے۔ بہیترا کالز کی تھیں۔ پھر تھک ہار کر کمر بیڈ کراؤن سے ٹکا لی تھیں۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ لیکن پھر اس نے آئی پوڈ تھاما۔ اسے مثبت سوچنا تھا۔ اسے مثبت رہنا تھا۔ اس نے مخصوص ابتدائیہ کلمات لکھے لیکن جواب ندارد تھا۔ شاید راوی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ شید الوینہ سے بے خبر تھا۔ لیکن پھر لکھا آیا۔ دو لفظ:

"کتنا روئیں؟"

"بہت۔" الوینہ لکھتے ہوۓ ہچکچائی نہیں تھی۔ اسے اس سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی۔ وہ سب جانتا تھا۔ پھر وہ کیا چھپا سکتی تھی۔

"پھر کیا محبت چھوڑ دینے کے لیے تیار ہیں، مس جہاں داد؟"

"دنیا فنا ہو جاۓ گی، الوینہ جہاں داد کی محبت فنا نہیں ہو گی۔ اس کے آنسو خون بن جائیں گے، لیکن بہنا نہیں چھوڑیں گے۔"

"آپ کا نکاح ہو جاۓ گا مس جہاں داد۔ کیا آپ کا شوہر یہ سب پسند کرے گا؟"

الوینہ نے اسی لیے تو آئی پوڈ کھولا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس سے اس کے بارے میں پوچھے اور وہ اپنی من کی کہے۔ وہ کہہ رہی تھی:

"اس شوہر کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنے جا رہا ہے وہ کسی سے محبت کرتی ہے۔ اسے میری محبت کا احترام کرنا چاہیے۔ پھر وہ خود بھی تو ایک امریکی عورت سے محبت کرتا ہے۔"

"وہ مرد ہے مس جہاں داد۔ وہ محبت مفاد دیکھ کر کرتا ہے۔ اس نے پہلے آپ سے شادی سے انکار کیا کیونکہ اس طرح وہ اپنی امریکی محبت پا سکتا ہے۔ لیکن اب وہ آپ سے شادی سے انکار نہیں کرے گا کیونکہ اس نکاح کے بدلے آپ۔۔۔ مس جہاں داد، آپ اسے مل رہی ہیں۔ شادی سے اسے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کے جسم پر حق حاصل ہو گا۔ کیا وہ پھر بھی اس نکاح سے ہچکچاۓ گا؟"

"میں بلال سے نکاح نہیں کروں گی۔" وہ جانے کیا لکھ رہی تھی۔ یہ جانتی بھی نہیں تھی کہ دوسری جانب کون ہے، کوئی لڑکی،کوئی لڑکا، عمیر کا چھوڑا جاسوس یا ضوریز کا کوئی دوست۔۔۔ بس وہ بات کر رہی تھی۔ کرتی جا رہی تھی۔ 

"تم مجھے مشورہ دے سکتے ہو۔-" الوینہ نے لکھا تھا:

"مجھے بتاؤ میں کیا کروں۔"

"صبر رکھیں۔" جواب بس اتنا تھا۔

"صبر میری محبت کو کھا جاۓ گا۔" الوینہ کڑھ گئی تھی۔

"اور محبت آپ کی زندگی کھا جاۓ گی۔" تین نقطے مسلسل گھوم رہے تھی۔ مکتوب الیہ مسلسل لکھ رہا تھا:

"آپ ایک شخص کے لیے اپنی زندگی برباد مت کریں مس جہاں داد۔ محبت میں جیت نظر آرہی ہے تو ثابت قدم رہنا ہی محبت ہے لیکن آپ کی محبت آپ کو برباد کر دے گی، مس جہاں داد۔ ابھی دستبردار ہو جائیں۔ یہی مشورہ ہے۔"

الوینہ نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا۔ تبھی بیڈ پر رکھا فون تھرتھرایا، اس نے دیکھا کہ ضوریز کال کر رہا تھا۔ اس نے آئی پوڈ دور پھینک دیا تھا اور فون کان سے لگا لیا تھا:

"کورٹ میرج کے بارے میں کیا خیال ہے، الوینہ؟"

"کورٹ میرج؟؟؟؟" الوینہ کے لب ہلے۔ یہ خفیہ نکاح، نہیں!!! وہ ضوریز حسن کی ملکیت میں مخفی طریقے سے نہیں آۓ گی۔

"ضوریز۔ ہم یہ کیسے۔۔۔" اس کے الفاظ درمیان میں رہ گۓ۔ ضوریز دوسری جانب سے فوراً بولا تھا:

"تمہیں میرے چیمبر آنا ہو گا۔ بس تم اور میں۔ بس میں اور تم۔"

الوینہ کی آنکھوں میں پھر نقاہت نظر آئی۔ اس نے بہت تکلیف سے آئی پوڈ پر نگاہیں دوڑائیں:

"آپ کی محبت آپ کو برباد کر دے گی مس جہاں داد۔ ابھی دستبردار ہو جائیں۔"

الوینہ کا سر ایک بار نفی میں ہل گیا تھا۔

وہ ضوریز حسن کو انت تک آزمانا چاہتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے بہت مشکل سے اپنا غرور سے اٹھا سر قدرے جھکایا تھا اور منان کے کمرے کے سامنے آرکی تھی۔ اسے کسی پر بھروسہ نہیں تھا۔ لیکن کسی کی مدد کے بغیر وہ فرار ہونا تو کجا گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتی تھی۔ منان کمرے میں ہی تھا۔ اسے دیکھ کر کچھ متعجب ہوا تھا۔

"مجھ میں بحث کرنے کی ہمت نہیں ہے الوینہ۔ چلی جاؤ۔"

"میں بحث کرنے نہیں آئی۔" اس نے دھیما لہجہ اپنایا تھا:

"مجھے باہر جانا ہے۔"

"میں ڈرائیور تو نہیں ہوں۔" وہ اطمینان سے بولا تھا۔

"منان پلیز۔ میں مذاق نہیں کر رہی۔ مجھے واقعی باہر جانا ہے۔"

اب منان نے فون چھوڑ کر اسے بغور دیکھا:

"تمہاری ریپوٹیشن آج کل بہت خراب ہو گئی ہے الوینہ۔ عمیر بھیا تو تمہارے کمرے سے نکلنے پر بھی پابندی لگا کر گۓ تھے۔ پھپھو نے حکم صادر کیا ہے تم اس گھر سے باہر قدم بھی مت رکھو۔ اور تم مجھے آکر کہہ رہی ہو کہ میں تمہیں باہر جانے کس لیے لے چلوں۔ بی بی، پاگل ہوں میں؟ کیا پڑی ہے مجھے اپنی منگیتر کا دل دکھانے کی؟ کیا پڑی ہے ماں جی سے ڈانٹ کھانے کی؟"

"پھر اس رات کیا پڑی تھی مجھے سڑک سے اٹھا کر گھر لانے کی؟" الوینہ غرائی۔ منان نے کندھے اچکا دیے:

"اونہوں۔ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ تم اس سڑک پر موجود ہو۔ یہ تو بلال نے تمہاری فون لوکیشن سے پتا کیا تھا اور مجھے بھیجا تاکہ تمہیں گھر لاؤں۔"

"بلال نے؟" الوینہ دنگ رہ گئی۔ منان نے سر ہلایا:

"ہاں، اس نے ہی کہا تھا کہ میں تمہیں فرنٹ گیٹ سے لاؤں اور حنان جھگڑا کرے تو اسے کہہ دوں کہ تم بلال کی اجازت سے گئی تھیں۔"

"بلال نے ایسا نہیں کیا۔" الوینہ نے یونہی تردید کرنا چاہی۔ منان مسکرا دیا۔ پھر سر جھٹکا اور صوفے سے ٹیک لگا لی:

"ویسے مجھے تمہاری محبت کی سازش میں تمہارا ساتھ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن الوینہ، میں تمہیں ایک مشورہ دے سکتا ہوں (اس نے ذرا وقفہ دیا) تم نکاح کر لو۔"

الوینہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں چہرہ گھمایا لیکن منان سنجیدہ تھا:

"تمہیں اس گھر میں آزادی نہیں ملے گی لیکن بلال کے ساتھ بھی، تم چاہو  تو اپنے عاشق سے مل سکتی ہو۔ وہ بہت نرم دل ہے الوینہ۔ تم اس شرط پر اس کے ساتھ نکاح کرو کہ حقِ طلاق تمہارے پاس ہو گا۔"

"اور بلال یہ شرط مان لے گا۔" اس نے ظنر کیا۔

"کیا میں نے نہیں کہا کہ وہ بہت نرم دل ہے؟ خاص کر تمہارے معاملے میں!"

"وہ بہت نرم دل ہے، سواۓ میرے معاملے کے۔" الوینہ نے جملہ درست کیا۔ منان نے کندھے اچکا دیے:

"تم بس اب میرا سر کھانے کی بجاۓ اس سے جا کر کہو کہ وہ تمہیں باہر لے جاۓ۔"

وہ اتنا کہہ کر دوبارہ صوفے پر لیٹ گیا اور ہیڈفون لگا لیے۔ الوینہ سمجھ گئی اب وہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ باہر آگئی لیکن دماغ متذبذب تھا۔ سب اسے ایک ہی بات کیوں کہہ رہے تھے، وہ خط والا آدمی اور یہ منان، پورا خاندان، یہ اس کی شادی بلال سے کروانے پر تلے تھے۔ الوینہ اسے اب تک قید سمجھ رہی تھی۔ ہاں، یہ اس کے لیے فرار کا ایک راستہ بھی ہو سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ جلدی سے اپر لیفٹ کمرے کی جانب مڑی۔ دروازے پر ہاتھ رکھا۔ شاید اندر سے بند تھا۔ اس نے کھٹکھٹایا۔

"آجاؤ۔"

الوینہ نے دل مضبوط کیا تھا اور اندر گئی۔ اور اندر کا منظر دیکھ کر اس کی رگیں پھر تن گئی تھیں۔ یہ کس دن ہوا، کس وقت ہوا۔ بلال بڑے ایزی انداز میں صوفے پر بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ جبکہ اس کے بیڈ پر وہ امریکی لڑکی اوندھے منہ لیٹی گیم کھیل رہی تھی۔ اس کے بال چھوٹے کٹے تھے اور کانوں تک آتے تھے۔ سکرٹ اور فراک میں ملبوس وہ پیاری سی لگ رہی تھی لیکن الوینہ کو ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔ اس نے فوراً پلٹ کر بلال کو دیکھا جو اسے استہفامیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"مجھے بات کرنی ہے۔" اس کے لب ہلے۔ 

"کہو۔" بلال نے پیپرز کو گود میں رکھ لیا۔

"اکیلے میں بات کرنی ہے۔" اس نے چہرہ موڑے بغیر کہا۔ بلال طنزیہ لہجے میں امریکی لڑکی سے گویا ہوا:

"الوینہ کو اپنے منگیتر کے ساتھ پرائیویسی چاہیے، مالیا۔ تھوڑی دیر باہر جاؤ گی۔"

مالیا نے چہرے کے یوں زاویے بناۓ جیسے یہ سب اسے برا لگا تھا۔ پیر پٹختی وہ اٹھی اور باہر نکل گئی۔ الوینہ نے اب مڑ کر بلال کو دیکھا۔ بلال نے اسے دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور بلال نے لیپ ٹاپ آف کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔

"کون ہے یہ؟" الوینہ کو وہ اچھی نہیں لگی تھی۔

"مالیا او ہینری۔ اے-کے-اے (زبانِ زدِ عام) بلال کی ہونے والی منکوحہ۔"

"اوہ۔ مجھے لگا میرا نکاح تم سے ہو رہا ہے۔" الوینہ نے طنز کیا۔ بلال نے بھی اسی انداز میں سر ہلایا:

"اوہ، مجھے لگا تمہیں اس پر اعتراض تھا۔"

"مجھے اب بھی اعتراض ہے۔" الوینہ غرائی۔

"پھر میرے کمرے میں کیا لینے آئی ہو۔" اس شخص کو برداشت کرنا مشکل تھا۔ الوینہ نے بدقت آواز نارمل کی:

"مجھے کسی سے ملنے جانا ہے۔"

"اور اس کام کے لیے مجھے تم نے اپنے باپ کا نوکر سمجھا ہے، اس گھر کا ڈرائیور یا اپنا حقیقی منگیتر۔"

"گدھے ہو تم۔ تم پر سواری کر کے جانا چاہتی ہوں۔"

"پھر آؤ۔ بیٹھو۔" اس نے دونوں بازو کھولے۔ الوینہ گڑبڑا سی گئی۔ ضبط کھو گئی۔ مشتعل ہو کر آگے آئی:

"تم اس شادی سے منع کر دو بلال۔"

"اس صورت حال میں میرا منع کرنا تمہیں زیادہ تکلیف دلاۓ گا الوینہ۔"  

"کیا تم مالیا سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے! اس سے محبت نہیں کرتے تھے؟"

"مجھے دکھ ہے کہ میرا نکاح مالیا سے نہیں ہو رہا۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ تمہارا نکاح بھی عمیر بھیا کے کسی چرسی یا بھنگی دوست سے نہیں کو رہا۔"

الوینہ کے دل نے کہا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہ اڑ جاتا اور مالیا سے نکاح کی ضد کرتا تو بھی الوینہ کا نکاح ہونا ہی تھا۔ تب رقعے میں بلال کی بجاۓ کسی ایرے غیرے کا نام نکلتا۔

"یہ نکاح میری محبت پر ہرگز اثرانداز نہیں ہو گا۔ میں ضوریز کو نہیں چھوڑوں گی بلال۔"

"وقت بتا دے گا۔" بلال نے چہرہ موڑ لیا تھا۔ الوینہ نے اپنے ناخن رگڑے۔ وہ کس لیے یہاں آئی تھی۔

"مجھے کہیں جانا ہے۔ میری ملاقات ضروری ہے۔"

"کیا یہ ایک ملاقات اس قدر طاقتور ہو گی کہ تمہارا نکاح رکوا دے گی؟" بلال نے استفسار کیا۔⁦ الوینہ نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

"اور کیا تم جانتی بھی ہو کہ تم یہ درخواست کس سے کر رہی ہو؟"

"تم سے کر رہی ہوں۔ کیونکہ اگر آج تم نہیں لے گر گۓ تو بہت پچھتاؤ گے۔"

"کیوں کیا نکاح کی رات بھاگ جاؤ گی؟" بلال آٹھ کر اس کے سامنے آیا تھا۔ الوینہ نے بمشکل آنکھوں کو تر ہونے سے روکا۔

"میں زہر کھالوں گی۔"

"بلال تریاق ڈھونڈ لے گا۔" اس نے اتنا کہہ کر نگاہیں اس کے چہرے سے پھیر لیں۔ الوینہ پھر بھی کھڑی رہی۔ آنسو پیتی رہی۔کمرے میں خاموشی بھائی۔ پھر بلال نے اسے دیکھے بغیر فون میز سے اٹھایا تھا۔

"صرف دو گھنٹے الوینہ۔ صرف دو گھنٹے۔"

وہ سر یونہی نگاہیں پھیریں ملاقات کی میعاد بتا رہا تھا۔ الوینہ نے محسوس کیا کہ منان نے سچ کہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ الوینہ موقع دیکھ کر بھاگ بھی سکتی تھی لیکن وہ مان گیا تھا۔ ہاں وہ بہت نرم دل تھا۔ وہ اس کی بات مان لیتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز نے اپنا فون کھولا تھا تو دیکھا قریب قریب ساٹھ وائس میسج اۓ ہوۓ تھے۔ تیس کے قریب مس کالز آچکی تھیں۔ وہ تنک گیا۔ بپھر سا گیا۔ پھر ٹھنڈا پڑا۔ کیا کوئی اس قدر محبت کر سکتا تھا جتنا وہ کرتی تھی۔ کیا کوئی کسی کی محبت میں اس قدر بے قرار ہو سکتا تھا جتنا وہ بے قرار تھی۔ 

"کورٹ میرج کے بارے میں کیا خیال ہے؟"

"کورٹ میرج۔۔۔"

"کورٹ میرج۔"

الوینہ کے ذہن میں وہ دو لفظ گونج رہے تھے۔ وہ سن سی چیمبر کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ بلال کار میں بیٹھا اسے بغور دیکھ رہا تھا۔

"اب جاؤ۔" الوینہ نے حکم دیا۔ جواباً بلال ہنسا:

"مجھے الّو سمجھ رکھا ہے۔ میں نے تمہیں دو گھنٹے دیے ہیں الوینہ۔ دو گھنٹے اپنے عاشق نے ساتھ گزارو اور دو گھنٹوں بعد اسے بھول کر باہر آؤ۔"

الوینہ نے منہ چڑایا۔ پھر چہرہ موڑ کر دو قدم آگے بڑھاۓ۔ تین قدم، چار قدم اور پھر رک گئی۔ چوکیدار (peon) نے سر تا پاؤں اسے دیکھا تھا۔ استفسار کیا:

"الوینہ میم؟"الوینہ نے سر اثبات میں ہلایا تو چوکیدار نے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ الوینہ نے قدم اٹھاۓ۔ اس فرنِشڈ کمرے کی بڑی دیوار پر قدیم ترازو کی فریم شدہ تصویر آویزاں تھی۔ اسی تصویر کے نیچے کرسی پر ضوریز متذبذب سا بیٹھا تھا۔ کہنیاں میز پر ٹکائی تھیں اور ہاتھ ملا کر تھوڑی تلے رکھے وہ کسی گہری سوچ میں مصروف تھا۔ الوینہ اسے سامنے دیکھ کر سیدھی اس کی طرف آئی۔

"ضوریز۔"

اسے دیکھ کر تازہ دم سی ہو کر چہکی اور اس کی کرسی تلک آئی۔ پھر ٹھٹک کر رکی۔ بغلی دیوار کے ساتھ رکھے صوفے پر کوئی اور آدمی بھی بیٹھا تھا۔ اڈھیر عمر، سفید کلف شدہ سوٹ پہنے، واسکٹ چڑھاۓ، انگوٹھیوں سے مزین انگلیاں ایک دوسرے میں پھنساۓ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جو الوینہ کو دیکھ کر گہری ہو گئی تھی۔ ضوریز نے سر اٹھا کر الوینہ کو دیکھا تھا۔ عین اسی وقت وہ آدمی بھی الوینہ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔

"یہ وہ لڑکی ہے ضوریز؟"

اس کی استہفامیہ نگاہیں ضوریز پر ٹک گئیں۔ ضوریز کے چہرے پر ہچکچاہٹ کے آثار نظر آۓ۔ اسی ہچکچاہٹ میں اس نے سر ہلایا۔

"جہاں داد کی بیٹی۔" اس ادمی نے دانت پیس کر کہا۔ الوینہ نے چہرہ ضوریز کی طرف گھمایا تھا۔

"یہ جسٹس سلیمان ہیں۔"

ضوریز نے بہت آہستہ آواز میں بتایا۔ الوینہ کے لب بھینچ گۓ۔ خلافِ توقع اس پر خوف کی بجاۓ غصہ غالب آیا۔

"یہ کیا کر رہے ہیں یہاں؟"

اس سے پہلے کہ ضوریز بولتا، جسٹس سلیمان کی آواز آئی:

"آپ سے ملنا تھا، الوینہ۔ دیکھنا تھا کہ کون ہے وہ عورت جو ضوریز کا دل چرا کے لے گئی ہے۔"

"لیکن میں یہاں صرف ضوریز سے ملنے آئی تھی۔ پرائیویسی کا مطلب تو آپ جانتے ہیں ناں؟" الوینہ کا  لہجہ کرخت تھا۔ ضوریز چپ بیٹھا رہا۔

"افسوس بیٹا۔ اب میں یہاں موجود ہوں تو آپ کی پرائیویسی کسی کام کی نہیں۔ مجھ سے حیا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ دونوں بات کریں۔ آخر میں ضوریز کے ہر راز سے واقف ہوں۔"

انھوں نے مسکرا کر کہا لیکن ضوریز کی رنگت فق ہو گئی۔ ادھر الوینہ ضوریز کو دیکھ رہی تھی۔ سر گوشی میں کہہ رہی تھی:

"میرے پاس وقت نہیں ہے ضوریز۔ کل رات میرا نکاح ہے۔"

"اوہ ریلی۔ یہ تو خوشی کی بات ہے۔ جسٹس سلیمان مسکراۓ:

"ضوریز کا بھی پرسوں نکاح ہے۔"

الوینہ کا لگا آسمان پھٹ پڑا اور اسے فنا کر گیا یا زمین اسے نگلنے آئی اور وہ اس میں سما گئی۔ اس کی آنکھوں کا تعجب، چہرے کی رنگت، تعجب میں چھپا تاسف، سب نہ تو ضوریز سے پوشیدہ تھا اور نہ جسٹس سلیمان سے۔ ادھر وہ کہہ رہے تھے:

"اور چونکہ آپ ان کی بہت 'اچھی' دوست ہیں تو ان کی شادی میں ضرور آئیے گا۔"

"ضوریز۔" الوینہ نے اپنے ٹھنڈے برف ہاتھ ضوریز کے ہاتھوں پر رکھے۔ اس کے ہاتھ الوینہ کے برعکس گرم تھے۔

"یہ سب کیا ہے ضوریز۔"

"اوہ، کیا ضوریز نے آپ کو یہ سب نہیں بتا۔۔۔۔"

"آپ تھوڑی دیر کے لیے چپ کیوں نہیں رہتے۔"

الوینہ پوری قوت سے جسٹس سلیمان پر چلائی تھی۔ سلیمان واقعی خاموش ہو گۓ تھے۔ الوینہ کی آنکھیں گیلی ہوئی جاتی تھیں۔ اس نے ضوریز کو کندھوں سے موڑ کر اپنے سامنے کیا تھا۔

"ضوریز۔"

"وہ سچ کہہ رہے ہیں۔" ضوریز کی طویل خاموشی ٹوٹی تو الوینہ نے چاہا کہ کاش وہ خاموش ہی رہتا:

"پرسوں میرا اور شفق کا نکاح ہے۔ اور تم مدعو ہو۔"

"ضوریز، تم کہاں کھوۓ ہو؟" الوینہ نے اس کا گریبان تھام کر اسے جھنجھوڑا تھا:

"کیا تمہیں اندازہ ہے کہ میں رات بھر تمہیں سوچتی رہی ہوں؟ کیا تمہیں اندازہ ہے کہ میں کتنی مشکلوں میں تمہارے ایک دفعہ کے کہے پر تم سے ملنے آئی ہوں۔ کیا تمہیں اس وقت میری تکلیف کا اندازہ ہے۔ کیا تمہیں میری محبت کا اندازہ ہے۔"

"آئی ایم سوری الوینہ۔" ضوریز نے بہت نرمی سے کہا اور اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کیا۔ الوینہ کا دل ایک چھناکے سے ٹوٹا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے لبوں کو ڈھانپا۔ حیرت و استعجاب اور حزن و اضطراب کی کیفیت اس پر غالب تھی۔ سلیمان سب دیکھ رہے تھے اور خاموش تھے۔ ضوریز نے سر نہیں اٹھایا تھا۔ الوینہ نے ایک سسکی لی۔

"تم خود غرض ہو، ضوریز۔"

پھر وہ پلٹی اور باہر بھاگی۔ اور تب ضوریز نے سر اٹھایا۔ بہت تکلیف سے اسے دیکھا۔ اس کے پیچھے جانے کو قدم بڑھائے ہی تھے کہ سلیمان کی کرخت آواز گونجی:

"تم یہاں سے باہر جاؤ گے اور میرا ہاتھ میرے فون تک جاۓ گا۔ تم اس سے کلام کرو گے تو میں یہاں تمہارے باپ سے بات کروں گا۔"

اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ضوریز کے قدموں کو بریک لگ گئی۔ اس نے بہت نفرت سے سلیمان کو دیکھا اور اظہارِ نفرت میں اپنی ٹائی اتار کر دور پھینکی۔ ادھر الوینہ منہ پر ہاتھ رکھ کر باہر بھاگتی گئی۔ اس نے تکلیف یوں ضبط کی تھی کہ آنسو آنکھیں تر کر رہے تھے مگر اشکِ رواں بننے پر قادر نہیں ہو پارہے تھے۔ 

وہ لمبے لمبے ڈنگ بھرتی کار تک آئی اور دھپ سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر چہرہ گھما لیا۔

"ہو گئی بات؟" بلال نے ٹیک ہٹائی۔ الوینہ نے سر ہلایا۔ بلال نے ایک کاغذ اس کی جانب بڑھایا۔ الوینہ نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

"کوئی بچہ تمہارے نام دے کر گیا ہے۔ میں نے نہیں پڑھا۔"

الوینہ نے کاغذ جھپٹا اور رندھی آواز میں کہا:

"گاڑی چلاؤ۔"

اس نے گاڑی چلائی۔ ⁦  الوینہ نے لب ذرا کھول لیے، آنکھیں قدرے پھیلا لیں تاکہ آنسو رخسار پر نہ بہہ جائیں۔ پھر ہاتھ میں تھاما کاغذ کھولا۔ لکھا تھا:

"سب سے پہلے۔۔۔ بہت پہلے۔۔۔ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ ضوریز حسن ایک خود غرض انسان ہے، مس جہاں داد؟"

الوینہ کاغذ پر لکھی سطر بار بار پڑھتی گئی یہاں تک کہ کاغذ گیلا ہو ہی گیا۔ یہاں تک کہ کار رک گئی اور اس نے آنسوؤں سے تر چہرے کو بلال کی جانب گھمایا:

"پھپھو کو کہنا الوینہ شادی کے لیے تیار ہے۔"

اور بس اتنا کہہ کر کار سے نکلی، لاؤنج کی جانب بھاگی، کمرے میں آئی، چٹخنی لگائی، بستر پر گری اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ ضوریز حسن ایک خود غرض انسان ہے، مس جہاں داد؟"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ سب ایک پارٹی سے شروع ہوا۔ 

حسن اعوان کی پروموشن کی پارٹی سے۔۔۔

ضوریز اٹھارہ انیس سالہ شوخ مزاج سا لڑکا تھا۔ اس کی پارٹی میں کسی لڑکی سے تلخ کلامی ہو گئی تھی، جو بدقسمتی سے جسٹس سلیمان کی بیٹی نکلی۔ اس نے فوراً معافی مانگی تھی اور شفق نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اسے معاف کر دیا تھا۔ پھر ملاقاتیں بڑھیں۔ شامیں اکھٹی گزرنے لگیں۔ شفق خوبصورت تھی اور ذہنی طور پر صحت یاب نہیں تھی۔ اس کی تھیراپی چل رہی تھی۔ البتہ ان میں بڑی چیزیں مشترک تھیں۔ ضوریز مفاد پر چلتا تھا اور شفق بھی۔ اور پھر کہانی ایک اور پارٹی تک آئی۔۔۔

سلیمان طاہر کی ہائی کورٹ کا جج منتخب ہونے کی پارٹی تک۔۔۔

اس کا انداز دوستانہ تھا لیکن شفق نے کچھ ایسا کہا تھا جو اسے پسند نہیں آیا۔ وہ بپھر گیا تھا۔ ناراض ہو گیا تھا۔ اور پیشانی پر بل ڈال کر غصہ کرتے ہوۓ وہ شفق کو بہت اچھا لگا۔ ضوریز اس پر بگڑ رہا تھا۔ اس سے  ناراض ہو رہا تھا۔ شفق کو اس کی ناراضی عجب بھائی۔ اس نے ضوریز کے گلے میں بازو ڈالے تھے اور اسے چوم لیا۔ 

وہ ضوریز کا پہلا تجربہ تھا۔ اس طلسم میں جکڑ کر ایسا آزاد محسوس ہوا کہ اس نے شفق کو تھام کر اس پر اپنے سارے ارمان پورے کیے۔ پورچ کی تاریکی میں وہ بانہوں میں بانہیں ڈالے یوں مگن تھے کہ جسٹس سلیمان نے انہیں دیکھا لیکن وہ دونقں انہیں دیکھ نہ سکے۔

"میں معافی مانگتا ہوں انکل۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ میں۔۔۔ میں آئیندہ اسے نظر بھر کر بھی نہیں دیکھوں گا۔⁦ آئی سویئر انکل، میں آئیندہ نہیں۔۔۔"

وہ جسٹس سلیمان کے قدموں میں گر گیا لیکن شفق بہت اطمینان سے بولی تھی:

"اس نے کچھ نہیں کیا ڈیڈ۔ I love him۔ شروعات میں نے کی۔"

سلیمان اپنی بگڑی امیر زادی کو کیا جھڑکتے۔ وہ ضوریز کو چپکے سے باہر لے گۓ تھے۔ اسے اچھی ذہنی کھلبلی میں مبتلا کر گۓ:

"کیا میں تمہارے باپ کو بتاؤں تم میری بیٹی کے ساتھ کیا کرہے تھے۔ میں چاہوں ابھی تم پر سیکشن 375 لگوا سکتا ہوں۔ ابھی تمہیں جیل بھجوا سکتا ہوں۔"

"انکل۔ انکل، شروعات اس نے۔۔۔"

"پر انت تک تو تم گۓ ہو۔ میری معصوم بیٹی ذرا خود کو بہلا رہی تھی پر تم۔۔۔ تم ضوریز، تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔"

"میں اس سے دوبارہ معافی مانگوں کا انکل۔"

"صرف معافی نہیں اب تم اس کا ہاتھ بھی مانگو گے۔ وہ اب تمہاری رہے گی ضوریز۔ تم نے اس کے معصوم ذہن کو exploit کیا ہے۔ اب اس کے اس گناہ کے ذمہ دار تم ہو۔"

اور جب ایس پی حسن اعوان اس سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کیوں یہ منگنی کرنا چاہتا ہے تو اس نے جسٹس سلیمان کی طرف دیکھا۔ انھوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں تھا اور ضوریز نے سر ہلا دیا تھا:

"آئی لو ہر۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

لیکن وہ یہ سب الوینہ کو کیسے بتاتا۔ نہیں بتا سکتا تھا۔ تبھی تو نہیں بتا رہا تھا۔ البتہ الوینہ کا ہاتھ تھام کر وہ گڑگڑا ضرور رہا تھا:

"میں نے وہ سب اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا الوینہ۔ انکل سلیمان نے مجھے فورس کیا۔"

"ایک بوڑھے آدمی نے تمہیں کہا کہ تم اس کی بیٹی سے شادی نہیں کرو گے تو وہ برا سلوک کرے گا اور تم اس کے کہنے میں آگۓ۔"

"تم ان پولیس والوں اور ججوں کو نہیں جانتیں۔ یہ بہت خطرناک ہیں الوینہ۔"

"میں تو تمہیں بھی نہیں جانتی ضوریز۔" الوینہ کا لہجہ سپاٹ تھا:

"پرسوں رات جو ہوا، یقین کرو میں اس لمحے تمہیں نہیں پہچان سکی۔"

"میں مجبور تھا الوینہ۔" ضوریز بڑبڑایا۔

"میں مجبور نہیں تھی؟" الوینہ بگڑ کر بولی:

"کیا تمہیں پتا ہے میں کتنی جنتوں سے اس شخص کی منتیں کر کے صرف تم سے ملاقات کرنے آئی تھی جسے میں بالکل بھی پسند نہیں کرتی۔ لیکن تم نے جواباً بے اعتنائی برتی۔ اور اس بے اعتنائی کے دوران جو مجھے نقصان پہنچا ، اس کے لیے تم نے کہا۔۔۔ آئی ایم سوری۔"

"آئی ایم سٹِل سوری (میں ابھی بھی معذرت خواں ہوں)۔" ضوریز نے مزید نرمی سے اس کے ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کیا تھا۔ وہ اس وقت اس بیوٹی پارلر میں موجود تھا جہاں الوینہ پیڈی کیور اور میک-اپ کرانے کے لیے آئی تھی، جہاں اس نے ضوریز کو بلایا تھا جب ضوریز اسے بارہا کالز کر چکا تھا:

"میں نے تمہیں اپنے چیمبر اسی لیے بلوایا تھا کہ میں تم سے کورٹ میرج کرنا چاہتا تھا۔ کم از کم اس طرح ہمارے درمیان ایک رشتہ تو قائم ہو جاتا۔ اب مجھے کیا خبر تھی سلیمان انکل وہاں پہنچ جائیں گے اور یوں مجھے بلیک میل کریں گے۔"

"میں کیسے مان لوں تم سچ کہہ رہے ہو؟" الوینہ بولی۔ ضوریز ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر ہاتھوں کی مٹھیاں بنائیں۔ لب بھینچے اور ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ کہنے لگا:

"کورٹ چلو۔" اس نے الوینہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا:

"ابھی نکاح کرتے ہیں۔"

الوینہ نے اس کے بڑھے ہاتھ کی جانب دیکھا۔ کوئی روکنے والا نہیں، کوئی ٹوکنے والا نہیں، نہ بلال نہ سلیمان لیکن الوینہ کا ہاتھ نہ بڑھ سکا۔ ایک اداس مسکراہٹ اس کے لبوں پر تیر کر گئی:

"تم نے دیر کر دی ضوریز۔" دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے اور گال پر پھیل گۓ:

"میرا نکاح ہو چکا ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ رات۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاثیہ اتنی خوش نہیں تھی جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ وہ مسکرا کر لوگوں سے مل ضرور رہی تھی لیکن حنان جب صوفے پر آبیٹھا تھا تو وہ خاموش خاموش،۔ نظریں جھکاۓ بیٹھی رہی۔ کچھ تھا جو اسے پریشان کر رہا تھا۔ کچھ تو تھا جو اسے کھل کر مسکرانے نہیں دے رہا تھا۔

"دیکھا تھا میں نے تمہیں۔" حنان نے اس رات خاموش رہنے کی قسم کھائی تھی لیکن پھر جاثیہ کی پژمردگی دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا تھا:

"مہندی کی رات تم خوب ہلا گلا کر رہی تھیں۔ پھر آج کیا ہو گیا ہے۔"

"کیونکہ مہندی کی رات آپ صرف مجھے دیکھ رہے تھے۔ آج آپ کی توجہ کا مرکز کوئی اور ہی تھا۔"

اس نے مدعا نہیں چھپایا تھا، کھل کر رقیب کے لیے نفرت کا اظہار کیا تو حنان چونکا:

"حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے آپ کو الوینہ سے شادی کرنی تھی۔ اسی لیے تو اتنی عرصہ سے مجھے ٹھکرا رہے تھے۔ اور آج جب میں بیوی بن کر آئی ہوں تو بھی آپ کی نظروں سے وہ اوجھل ہی نہیں رہی تھی۔"

جاثیہ پہلی رات ہی آنکھوں میں آنسو لے آئی تھی تو حنان کو کچھ برا لگا۔ الوینہ اسے ملتی نہیں ہے اور جو ملتا ہے اس کا جینا حرام کیے رکھتی ہے۔

اسے روتی دلہن کو دیکھ کر دل ہی دل میں الوینہ پر غصہ آیا۔ پھر اس بلکتی حور پر پیار بھی آیا۔ پھپھو نے کے کتنی بار تو کہا تھا تجھے الوینہ میں کسی کیا آتا ہے، کیا جاثیہ کسی سے کم ہے پر وہ سنتا ہی کب تھا۔ آج کہا سنا یاد آیا اور نظروں نے سب خود دکھایا تو وہ مبہوت سا رہ گیا۔ کہاں کی الوینہ، کہاں کی محبت، سب پر تین حرف بھیج کر اس نے نازک سی جاثیہ کے آنسو انگلیوں کی پوروں سے صاف کیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہانیہ کھوئی کھوئی سی تھی۔ منان کے بار بار بلانے پر بھی متوجہ نہیں ہوئی تھی تو وہ اکتا گیا تھا:

"اب میں سامنے تو بیٹھا ہوں۔ کسے سوچ رہی ہو۔"

ہانیہ سٹپٹا کر سیدھی ہوئی۔ پھر بہت دکھ سے منان کو دیکھا تھا:

"مجھے الوینہ پر بہت ترس آرہا ہے منان۔"

"ہونہہ۔ وہ وہی کاٹ رہی جو اس نے بویا ہے۔ اور آج نہیں تو کل، اس کی شادی بلال سے ہی ہونی تھی، اس میں ترس کھانے والی کونسی بات ہے۔"

"پر وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔" ہانیہ دوبارہ کھو گئی۔ منان نے بوریت سے اسے دیکھا۔ پھر کھسک کر آگے ایا اور اس کے ہاتھ تھام لیے:

"اچھا چھوڑو ناں الوینہ شلوینہ کو۔ میں یہاں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں اور تم الوینہ کے بارے میں سوچ رہی ہو۔ بی بی وہ اپنے شوہر کے پاس ہے اور تم اپنے شوہر کے پاس۔"

"بلال اسے تکلیف تو نہیں دے گا ناں؟" ہانیہ حقیقی متفکر نظر آئی۔ منان بھی اب کی بار ٹھٹکا۔ پھر کندھے اچکاۓ:

"مجھے پتا ہے بلال ایسا نہیں ہے۔ وہ الوینہ کو ہرٹ نہیں کرے گا۔" پھر شرارتی انداز میں اس نے ہانیہ کو دیکھا:

"جیسے میں تمہیں ہرٹ نہیں کروں گا۔"

"تم مجھے ہرٹ کیا ایک دفعہ مجھ سے غصے سے بات تو کر کے دکھاؤ۔ تمہارا منہ نہ توڑ دیا تو میں ہانیہ جہاں داد نہیں۔"

منان نے گھبرا کر کانوں کو ہاتھ لگاۓ۔ ہانیہ بے اختیار ہنسی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہ آپ سے شادی سے انکار نہیں کرے گا کیونکہ اس نکاح کے بدلے آپ۔۔۔ مس جہاں داد، آپ اسے مل رہی ہیں۔ شادی سے اسے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کے جسم پر حق حاصل ہو گا۔ کیا وہ پھر بھی اس نکاح سے ہچکچاۓ گا؟"

اس گمنام شخص نے ٹھیک کہا تھا۔ بلال اسے دیکھ رہا تھا اور بس دیکھ رہا تھا۔⁦ الوینہ بپھر کر اسے گھورتی تو وہ سر جھکا لیتا۔ وہ بے اعتنائی سے نگاہیں پھیر لیتی تو وہ کچھ خجل ہو کر چہرہ موڑ لیتا لیکن وہ پھر بھی متوجہ تھا۔ مالیا تقریب میں تھی اور وہ اتنی اداس نہیں تھی جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ اس نے بہت جوش سے بلال کو مبارکباد دی تھی اور الوینہ کا دل سلگ اٹھا تھا۔

"اپر لیفٹ؟"

بلال جب اسٹیج سے اٹھ کر حنان سے BMW کی چابی مانگ رہا تھا تو حنان چونکا تھا:

"تمہارا کمرہ ہانیہ نے خود ڈیکوریٹ کرایا تھا۔ ماں جی نے بھی یہی کہا تھا کہ تم بارات کے فنکشن کے بعد یہیں رہو گے۔ ولیمے کی تقریب کے بعد اسے گھر لے جانا۔"

"میں آج رات یہاں نہیں رہوں گا۔ مجھے مام والے گھر جانا ہے۔ اب الوینہ کو تو یہاں نہیں چھوڑوں گا ناں۔ سو اسے بھی ساتھ کے کر جا رہا ہوں۔"

پھپھو کو لگا تھا کہ شاید اسے ماں کی یاد آرہی تھی اس لیے وہ نئی نویلی دلہن کو ماں کے گھر کے جانا چاہ رہا تھا۔ انھوں نے اپنا دستِ شفقت اس کے سر پر دھرا اور ڈرائیور کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڑے کو گھر پہنچا کر آئیں۔

الوینہ کا دماغ سنسنا رہا تھا۔ وہ اسے اپنے گھر لے جا رہا تھا۔ وہ اسے ان سب سے اکیلا کر رہا تھا، اسے سب کی نظروں سے اوجھل اپنے ساتھ تنہائی میں لے جا رہا تھا۔ اور پھر وہ اپنی نئی دلہن کو لے کر جا رہا تھا۔ الوینہ کا دل بیٹھ گیا تھا۔ تو وہ اب اسے اپنی بیوی سمجھے گا۔ اس پر حق جتاۓ گا۔

ڈرائیور لوٹ گیا تھا اور پھپھو کے لاکھ کہنے کے باجود بلال انہیں اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔ وہ دونوں اکیلے تھے۔ چوکیدار نے سارے بنگلے کو روشن کر رکھا تھا، سو تنہائی کا احساس کچھ کم ہو رہا تھا۔

"کل ولیمے کے بعد جب وہاں سے آئیں گے تو اپنا اہم سامان لے آنا۔"

بلال نے آہستگی سے یوں کہا کہ الوینہ کو شک ہوا وہ اس سے بات کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ پھر اس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر لایا۔ چوکیدار اور ملازمہ کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی الوینہ نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ چہرے پر تلخی سجا لی تھی:

"مجھے یہاں لاۓ ہو تاکہ اب سارے بدلے کے سکو۔"

اس نے کمرے تک جانے کی پرواہ نہیں کی۔ لاؤنج میں ہی اسے روک لیا تھا۔ بلال کی پیشانی پر بل پڑے تھے۔ کم از کم وہ اس وقت جھگڑا نہیں چاہتا تھا، اسی لیے دھیمی آواز میں بولا:

"تمہیں یہاں کھلے گھر میں لایا ہوں کیونکہ وہاں ایک بیڈروم کے ایک بیڈ پر تمہیں میرے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں مشکل پیش آسکتی تھی۔"

"مجھ سے زبان سنبھال کر بات کرو بلال۔" وہ چیخی تھی۔ بلال بھی فوراً بولا:

"تو تم بھی سوچ سمجھ کر سوال کرو، الوینہ۔"

"میں۔۔۔" الوینہ نے انگلی اٹھائی:

"میں یہ شادی زیادہ عرصے تک نہیں چلاؤں گی بلال۔ میں تمہیں اس قدر لاچار بنادوں گی کہ تم مجھے طلاق دینے پر مجبور ہو جاؤ گے۔"

"یا شاید۔۔۔" وہ اس کے عین سامنے آیا تھا:

"میں تمہاری بدتمیزی کو زیادہ عرصے تک برداشت نہ کر پاؤں، الوینہ اور تمہیں یوں توڑ کر رکھ دوں کہ آئیندہ تم میرے سامنے زبان چلانا تو کجا آنکھ اٹھانے سے بھی گریز کرو۔"

"میں تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی۔"

"میں ہاتھ لگانا چاہوں گا تو تم روک بھی نہیں سکو گی۔" بلال کا چہرہ سپاٹ تھا:

"جاؤ اپنے کمرے میں۔ اپر رائٹ۔"

الوینہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن بہتر یہی تھا کہ وہ بحث سے گریز کرتے ہوۓ اوپر چلی جاتی۔ وہ چلی گئی، پیر پٹختی، ملغوضات بکتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اب ضوریز سامنے کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ تاریک تھا، آنکھوں میں انتہا کی بے زاریت تھی۔

"نکاح کر لیا؟" وہ مرے مرے لہجے میں گویا ہوا:

"میں نے ایک بار سر کیا جھکایا تم نے منہ ہی موڑ لیا۔"

"سر اس مرد نے جھکایا جس کا نکاح ہونے جا رہا تھا اور منہ اس نے موڑا جو اس سے محبت کرتی تھی لیکن جان گئی کہ اس کا محبوب بے وفا ہے۔"

"میں بے وفا نہیں تھا الوینہ۔" اس کی آنکھیں سلگ رہی تھیں، دل بے حساب دھڑک رہا تھا:

"میرا نکاح مجھے روک نہیں سکتا تھا۔ پر تم۔۔۔ تم نے خود کو اس زنجیر سے باندھ کیا جس سے فرار ناممکن ہے۔ تم نے خود کو کسی اور کو سونپ دیا۔"

"تم نے اجازت دی تھی ضوریز۔" الوینہ کی آنکھیں نہ چاہتے ہوۓ بھی تر ہو گئیں۔ ضوریز کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے کھلے لیکن پھر بند ہو گۓ۔ الوینہ کو اس کی آنکھوں میں شکست کی سی کیفیت نظر ائی۔ وہ اس پر سوٹ نہیں کر رہی تھی۔ اس کا یوں ٹوٹ کر، شکوہ کناں نظروں سے الوینہ کو دیکھنا الوینہ کو اچھا نہیں لگا تھا۔

"میں تمہیں لینے آیا تھا الوینہ۔"

"(میسر نہیں ہوں) not available۔" الوینہ کے لب ہلے۔ ضوریز نے بہت دکھ سے نفی میں سر ہلایا:

"میں شفق سے شادی پر راضی نہیں تھا الوینہ۔ اب بھی شادی پر راضی نہیں ہوں۔"

"یہ سب سننے کے لیے۔" اس کے لب تھر تھر کانپ رہے تھے:

"not interested."

"بدلہ لے رہی ہو ناں۔" ضوریز پھیکا سا ہنسا تھا:

"سب چیزوں کا آج بدلہ لے رہی ہو۔ آج مجھے تمہاری ضرورت تھی تو تم اپنی اہمیت جتا رہی ہو۔"

"not certain." (پریقین نہیں ہوں)

اس نے بدقت کہا تھا اور اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ پارلر والی لڑکی جھانک رہی تھی:

"مسز بلال۔ آپ کے شوہر باہر آپ کو لینے آۓ ہیں۔"

"میں ڈریس پہن کر آتی ہوں۔ بس پانچ منٹ۔" اس نے باآواز کہا تو آواز لڑکھڑائی۔ پھر پلٹ کر میز پر سے ٹشو اٹھایا اور آئینے میں دیکھا۔

"تم چلے جاؤ ضوریز۔ کسی نے تمہیں دیکھ لیا تو۔۔۔۔"

"تمہارے شوہر کو اپنی شکل دکھا کر جاؤں گا۔" وہ غرایا تھا اور جھٹکے سے باہر نکلا۔ الوینہ اسے روکنے کے لیے نہیں رکی۔ اس نے اپنا ولیمہ ڈریس اٹھایا۔ دروازہ ساؤنڈ پروف تھا۔ اسے آواز نہیں آئی باہر کیا ہوا۔ باہر کچھ نہیں ہوا۔ ضوریز حقیقی شخص کو پہچانتا نہیں تھا۔ اس نے بس گرجدار آواز میں لابی کے درمیان کھڑے ہو کر بس اتنا کہا تھا:

"الوینہ جہاں داد کے ساتھ اپنا نام لگا کر وہ تمہاری نہیں ہو جاۓ گی، بلال۔ وہ میری ہے۔ میری ہی رہے گی۔"

بلال ریسیپشن پر کھڑا تھا۔ اس نے کچھ کہے بغیر سر جھکا لیا تھا۔ ضوریز لمبے ڈگ بھرتا اسے عبور کرتا نکل گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ولیمہ کیا تھا، ایک فارمیلٹی تھی جو الوینہ نے بجھے دل کے ساتھ پوری کی۔ اس نے پلٹ کر جو حنان اور جاثیہ کو دیکھا تھا تو نفرت کی ایک لہر بدن میں دوڑ گئی تھی۔ وہ مسکرا رہے تھے۔ گوشیوں میں مصروف تھے۔ پھر اس نے گھوم کر ہانیہ اور منان کو دیکھا۔ وہ ہنس رہے تھے۔ باآواز خوش گپیوں میں مشغول تھے۔

"پھپھو کہہ رہی ہیں رات یہیں رکو۔" وہ ابھی اسٹیج سے اٹھی نہیں تھی جب بلال نے بتایا تھا:

"تم یہاں رکنا چاہتی ہو۔"

"مجھے ان predators (شکاریوں) کا prey (شکار) بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔" اس نے حقارت سے سر جھٹکا تھا:

"میں یہاں نہیں رہوں گی۔ ایک منٹ بھی نہیں۔"

"میں گھر جارہا ہوں۔ تمہیں ساتھ چلنا ہے تو چل سکتی ہو۔"

الوینہ لاکھ بار اس کے ساتھ چلنے کے لیے راضی ہوتی۔ جانے کیوں اسے اس پورے گھر سے اب وحشت سی ہو رہی تھی۔ اس کے مکینوں کی دہشت سی چھا گئی تھی۔

"کوئی سامان لینا ہے۔"

"مجھے یہاں سے کچھ نہیں چاہیے۔" اس نے تلخی سے کہہ کر سیٹ سے ٹیک لگائی۔ پھر خیال آیا تو بلال کو دیکھا:

"ہاں لینا ہے۔"

"کیا لینا یے؟" وہ کار کے باہر کھڑا استہفامیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ الوینہ اسے بتاتے بتاتے رک گئی۔ خود کار سے اتری اور اسے عبور کرتی اندر آئی۔ سیدھی اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ ٹیبل پر اس کا آپی پوڈ رکھا تھا۔ الوینہ نے اسے اٹھایا۔ پھر دراز کھولی۔ اندر چند خطوط رکھے تھے۔ وہ سارے صفحات جو وہ اب تک وصول کرتی آئی تھی۔ اس نے ان سب کو ایک ڈبے میں بڑھا۔ پھر صفحات کو چھپانے کے لیے اوپر آئی پوڈ رکھا اور اسے اٹھاۓ باہر آئی۔ لاؤنج سے گزر رہی تھی جب اسے پھپھو نے دیکھا۔ انہوں نے الوینہ کو روک لیا تھا:

"تم یہاں سے بیاہی نہیں گئی، الوینہ۔ یہ گھر تمہارا اپنا ہے۔ یہاں آتی جاتی رہنا۔"

الوینہ نے چپ رہنا چاہا۔ اپنے حساب سے وہ ان لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی لیکن پھر پلٹ کر پھپھو کو دیکھا:

"بیاہی ہی تو گئی ہوں۔" اسکا لہجہ تلخ تھا:

"آپ سب نے مجھے ہمیشہ غیر ہی تو سمجھا۔ مجھے اس گھر کے فرد کی بجاۓ جہاں داد کی بیوی کی سوتن کی بیٹی سمجھا۔ اور اب میری شادی اس شخص سے کر دی جس کے لیے میں دل سے راضی بھی نہیں تھی۔ عورت کی رضامندی کے بغیر کیا گیا نکاح ، نکاح نہیں ہوتا پھپھو۔ وہ مجھے اپنی بیوی تسلیم کرے گا تو سنگین گناہ کرے گا۔ اور اس گناہ کے ذمہ دار آپ سب لوگ ہوں گے۔"

پھپھو متاسف نظروں سے اسے دیکھتی رہیں۔ الوینہ نے ایک نگاہِ غلط ان کر ڈالی اور ڈبہ اٹھاۓ کار تک آئی۔ اسے ڈرائیونگ سیٹ پر رکھا اور خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔ پھر ڈبہ اٹھا کر ڈرائیونگ سیٹ سے فرنٹ سیٹ پر رکھ لیا۔

"تم اپنا سامان پیچھے رکھ سکتی ہو۔" بلال نے سرسری سے لہجے میں کہا تھا۔ اس نے گتے کا ڈبہ اپنی گود میں رکھا تھا اور کاغذ کا برادہ اس کا لباس خراب کر رہا تھا لیکن الوینہ نے منہ سے کچھ کہے بغیر نفی میں سر ہلایا تو بلال پھر کچھ نہ بولا۔ پورا سفر خاموشی چھائی رہی۔ یہاں تک کے وہ بنگلے پہنچے۔ بلال پہلے کار سے نکلا تو دروازے پہ کھڑا چوکیدار جلدی سے اسکی طرف لپکا۔

"یہ آپ کے لیے آیا تھا، چھوٹے صاحب۔"

بلال نے اسکے ہاتھ سے وہ نیلا لفافہ لیا اور اسے کھولا۔ 

"بنام مسٹر اینڈ مسز بلال۔"

بلال نے ایک سرسری نگاہ اس پر ڈالی، پھر اسے قریب سے گزرتی الوینہ کے ڈبے میں ڈال دیا۔

"یہ تمہارے لیے ہے۔"

الوینہ نے دیکھا وہ شادی کارڈ تھا۔ 

بلال نے کھول کر باکس میں پھینکا تھا۔ اندر ضوریز حسن کا نام لکھا نظر آرہا تھا۔ ترکِ تعلق ہو چکا تھا، راستے الگ ہو گۓ ہیں، پھر بھی الوینہ کا دل بیٹھ سا گیا، آنکھیں بھیگنے لگیں۔ اس نے سنا، بلال کہہ رہا تھا:

"اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ کارڈ اسی آدمی نے بھیجا ہے ناں جو آج لابی میں کھڑا یہ جتا کر رہا تھا کہ میرا نام ساتھ لگ جانے سے الوینہ جہاں داد میری بیوی نہیں بن جاتی۔"

الوینہ کو دماغ پر اس کا ایک ایک لفظ ہتھوڑے کی مانند برستا محسوس ہوا:

"میں حیران ہوں الوینہ، کیا جب جسٹس سلیمان کی بیٹی کے ساتھ اس کا نام لگے گا تو وہ اس کی بیوی نہیں بنے گی۔"

"وہ اس نیچ عورت کو اپنی بیوی تسلیم نہیں کرے گا۔" الوینہ غرائی حالانکہ آنکھوں میں آنسو تھے۔ بلال ہنسا:

"جب میں نے ایک بےوفا عورت کو اپنی بیوی تسلیم کر لیا تو پھر تمہارے دل پھینک عاشق کی کیا اوقات ہے جو وہ کسی اور کے منہ نہ لگے۔"

"ضوریز کے بارے میں ایک لفظ بھی خارج کیا تو میں لحاظ نہیں کروں گی بلال۔" الوینہ ایک بار پھر چنگھاڑی۔ مزاحمت ختم ہوئی اور آنسو خودبخود چہرہ گیلا کر گۓ۔ بلال کچھ نرم پڑا۔ دو قدم قریب آیا:

"تم سے زیادہ بیوقوف عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی الوینہ۔" اس کی آنکھوں میں تعجب بھی تھا، دکھ بھی تھا:

"وہ آدمی تمہیں بھلا کر کسی اور عورت کو اپنانے جا رہا ہے لیکن تم اب بھی اس کے لیے اپنے شوہر سے لڑ رہی ہو۔"

"تم شوہر نہیں ہو میرے۔" اس نے ہاتھ میں تھاما باکس پوری قوت سے نیچے پھینکا۔ کاغذ اچھلے لیکن آئی پوڈ کے زیرِ اثر جلد بیٹھ گۓ۔

"تم تسلیم کرو یا نہ کرو، قانون تمہیں میری بیوی بنا چکا ہے۔" وہ اب کرخت ہوا۔ آنکھوں میں بھی سختی لایا۔

"میں تھوکتی ہوں تم پر، تمہارے قانون ہر اور تمہارے خاندان پر۔" اس نے بلال کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کو دھکا دیا تھا۔ آنسو متواتر گر رہے تھے:

"میں ضوریز حسن کی محبت ہوں، میں اور صرف میں (اس نے سینے پر انگلی رکھی تھی)۔ میں نہ تو تمہاری ملکیت ہوں اور نہ تمہاری بیوی۔ وہ جن دو کاغذوں پر مجھ سے دستخط کراۓ گۓ ہیں وہ زبردستی تھی۔ اور زبردستی کا نکاح، نکاح نہیں ہوتا بلال عطاء اللہ۔ تم مجھے بیوی مان کر میرے قریب آؤ گے تو اس زنا کا گناہ تم پر ہو گا۔ میری ساری زندگی کا گناہ اب سے تمہارے سر ہو گا۔"

وہ اتنا کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ پھر آدھے رستے میں رکی اور واپس آئی۔ آنسو رخساروں پر پھیل رہے تھے لیکن اس نے صاف کرنے کی زحمت نہیں کی۔ زمین پر رکھا ڈبہ اٹھایا اور دوبارہ پلٹی۔ بلال کو دیکھے بغیر اندر کی جانب بڑھی۔

"تمہارا غرور تمہارا عاشق ہی توڑے گا الوینہ۔"

اس نے زیرِ لب کہا تھا لیکن الوینہ نے سنا نہیں۔ وہ بس اندر چلتی جا رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال کی کڑی منع تھی لیکن الوینہ اس کی مانتی ہی کب تھی۔

اس نے اپنا عروسی جوڑا ہی پہنا، سفید لمبی پشواز جو اس کے اس روز بھی خوب جچی تھی، آج بھی خوب جچ رہی تھی۔ اس گھر میں اس کے سب دشمن جمع تھے۔ جسٹس سلیمان اور ایس پی اعوان۔ شفق سلیمان اور سرِ فہرست، ضوریز حسن۔ وہ بے وفا شخص جو اسے یوں ٹھکرا گیا تھا جیسے وہ اس کی زندگی میں کبھی آئی ہی نہیں تھی۔ وہ یہاں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن اسی حلیے میں لان کی مخملی گھاس پر قدم رکھتے آئی جیسے ولیمہ فنکشن کے لیے تیار ہوئی تھی۔

بلال نے نہیں آنا تھا، نہیں آیا تھا۔ 

الوینہ کو ان سب لوگوں کے درمیان گھٹن سی ہو رہی تھی۔ جسٹس سلیمان اسے پہچان گۓ تھے۔ ایس پی اعوان اسے پہچان گۓ تھے لیکن الوینہ باوجود ادراک ہو جانے کے پر سکون تھی۔

"یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے، حسن صاحب؟" جسٹس سلیمان نے یوں حیرت کا اظہار کیا تھا جیسے وہ کچھ جانتے ہی نہیں تھے۔ حسن اعوان سخت برہم تھے۔ وہ مہمانوں کے سامنے کسی قسم کے تماشے کے حامی نہ تھے۔ انہوں نے اپنے گارڈز کو بلایا تھا لیکن الوینہ کے سکون میں رتی برابر فرق نہ آیا۔ وہ متانت سے چلتی اندرونی حصے میں آگئی تھی۔ دلہن سے ملنے کے بہانے، اپنا لباس سیٹ کرنے کے واسطے وہ کاریڈور سے گزر کر ریسٹ رومز کی جانب بڑھ رہی تھی جب اس نے حسن اعوان کے گارڈز کو اپنے پیچھے آتے دیکھا۔ اس کے قدموں میں روانی آگئی۔ چہرہ مطمئن رہا لیکن وہ تیز قدموں سے چلتی اب جھونک میں چلنے لگی تھی۔ پھر یکلخت بھاگی۔ یوں بھاگی کہ آنکھیں خودبخود بند ہوئیں اور اور مزاحمت ساتھ چھوڑ گئی۔

ضوریز جانے کب آگے سے آیا تھا اور وہ سہم کر ، اس کو تھام کر، دھکا دے کر آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ وہ جیسے اس کا پیچھا کرتے قدموں کی آہٹوں کا مقصد جان گیا۔ اس کی آنکھوں کا مطالبہ سمجھ گیا اور اسے بازو سے کھینچ کر اوٹ میں کے آیا۔ گارڈز عقابی نگاہوں سے ادھر ادھر جھانکتے آگے نکل گۓ۔ وہ اس اوٹ میں ہی کھڑی رہ گئی تھی۔ پھر گہرا سانس لے کر اس نے اس اندھیر نگری سے باہر قدم رکھنا چاہے تو کامیابی نہ ہوئی۔ 

ضوریز حسن اس کی راہ میں یوں حائل تھا کہ دیوار سی بن گئی تھی۔

الوینہ کا بمشکل بنایا اطمینان، بدقت قائم کیا سانس، چہرہ سپاٹ، سب بکھر گیا۔ ہر احساس چہرے پر عیاں ہو گیا، ہر جذبہ واضح ہو گیا۔ وہ اس کی وجاہت کے زمانے ایک بار پھر ہار سی گئی۔ اس کے وجود سے اٹھتی اٹرنیٹی کی مہک میں پھر ڈوب گئی۔ اس کی سپاٹ آنکھوں سے ہار سی گئی۔

"ہٹو۔۔۔ راستے سے۔۔۔ ہٹو۔" اس نے ضوریز کے بازو تھام کر اسے ہٹانا چاہا تو آواز جانے کیوں بھیگ رہی تھی۔ ضوریز یک ٹک اسے دیکھے گیا۔ سب قابلِ فراموش تھا لیکن اس کے لالی سے رنگے وہ بے اختیار کانپتے ہونٹ نہیں۔ وہ سب نظرانداز کر دیتا لیکن اس کی بھیگتی آنکھیں نہیں۔

"آج ہٹ گیا تو پھر کبھی ہٹانا نہیں پڑے گا۔" وہ بولا تو آواز شکست خوردہ تھی۔ الوینہ نے اس کے بازوؤں پر دباؤ جاری رکھا، اسے راستے سے ہٹانے کی سعی کرتی رہی۔ سر جھکاۓ آنسو پیتی رہی لیکن کم بخت آنسو بہتے گۓ۔ رخسار پر پھسلتے رہے۔ ضوریز حسن کی آنکھوں کا جادو انہیں مائل کر رہا تھا۔ وہ ان جھیلوں میں سیلاب لا رہے تھے۔ اس کا دل پگھلا رہے تھے۔ اسے باغی بنا رہے تھے۔

اس کے وجود نے حرکت کی تھی اور قدم اندر کو اٹھے تھی۔ الوینہ نے لب ایسے ہی بھینچ لیے جیسے اس نے الوینہ کو بانہوں میں بھینچا تھا۔ اس کا حصار مضبوط تھا۔ الوینہ نے توڑنے کی سعی نہیں کی تھی۔

"وعدہ کرو ضوریز۔ تم کبھی اس عورت کی خواہش نہیں کرو گے، ضوریز۔" وہ روتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ ضوریز نے لب اس کی پیشانی پر رکھ دیے۔

"نہیں کروں گا۔"

"تم اس کے قریب نہیں جاؤ گے۔"

ضوریز نے اسے مزید قریب کر لیا تھا۔ اسے گڑیا سمجھ کر دونوں بازوؤں میں اٹھا لیا تھا:

"نہیں جاؤں گا۔"

"تم اس کو نہیں چھوؤ گے۔"

"نہیں چھوؤں گا۔" اس نے الوینہ کی گیلی آنکھوں کو چومتے ہوۓ عہد کیا۔ الوینہ نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں:

"تم صرف میرے رہو گے ضوریز۔"

"صرف تمہارا رہوں گا۔"

بلال اسے لینے آیا تھا۔ پارکنگ ایریا میں الوینہ کا انتظار کر رہا تھا۔ شفق تیار ہو چکی تھی۔ وہ اب ناخن چباتی ضوریز کا انتظار کر رہی تھی لیکن دونوں کا انتظار طویل تھا۔ طوالت کو ضوریز حسن نے جنم دیا تھا۔ تاریخ خود کو دہرا رہی تھی۔ جسٹس سلیمان کی کوٹھی تھی، وہی تاریک کونا تھا، وہی ضوریز تھا لیکن آج اس کے حصار میں الوینہ جہاں داد تھی۔ آنسو بے شمار بہا چکی تھی لیکن ضوریز نے اس کا ایک ایک آنسو اپنے لبوں سے چنا تھا۔ 

اس نے اپنا عہد ہر صورت وفا کرنا تھا۔ وہ اپنا اعتبار پھر سے قائم کر چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دورانِ سفر سکوت قائم رہا۔ وہ بلال کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے واقف تھی لیکن انجان بنی رہی۔ قیامت گھر آکر برپا گئی۔ الوینہ بے اعتنائی برتتی کمرے کی طرف جا رہی تھی جب وہ جلدی سے اس کے سامنے آیا تھا۔

"میں نے کہا تھا تم وہاں نہیں جاؤ گی۔"

الوینہ کی آنکھوں میں زندگی لوٹ آئی تھی۔ چہرہ کھل اٹھا تھا۔ آنکھوں میں تازگی جاگ گئی تھی۔ ضوریز حسن کے لمس نے اسے ازسرِ نو زندہ کر دیا تھا۔ وہ فرش پر پٹخ دی گئی لڑکی آٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ ایک بار پھر سب کو ایک مرد کے لیے تہہ تیغ کر دینا چاہتی تھی۔

"تم تو یوں کہہ رہے ہو جیسے تمہاری بات میرے لیے کوئی معنی رکھتی ہے۔"

اس نے بلال کے سخت تاثرات کا نوٹس نہ لیا تو اس کی سختی کرختگی میں بدل گئی۔ اس نے انگلی اٹھائی، الوینہ کے قریب آیا:

"آخری بار، آخری بار کہہ رہا ہوں الوینہ۔ تم اس آدمی سے کوئی تعلق نہیں رکھو گی۔"

"میں بھی آخری بار کہتی ہوں، تم مجھ پر حکم نہیں چلاؤ گے۔"

اپنے گال پر گرتی دو لِٹوں کو پیچھے دھکیل کر اس نے بلال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ 

"میں عمیر بھیا کو بتادوں گا کہ تم اب بھی۔۔۔"

"میں عمیر سے نہیں ڈرتی۔ تم سے نہیں ڈرتی، کسی کے باپ سے نہیں ڈرتی۔"

اس نے بلال کے سینے میں شہادت کی انگلی گھونپ کر کہا اور اپنے کمرے کی جانب مڑ گئی۔ وہ سیڑھیوں پر تھی جب بلال نے باآواز کہا تھا:

"جب تک میرا صبر باقی ہے، اپنی من مانی کرتی رہو۔ جس دن میری برداشت ختم ہو گئی، اس دن تمہاری ساری اکڑ منٹوں میں نکال دوں گا۔ پھر دیکھتا ہوں تمہاری زبان پر اس بے غیرت کا نام بھی کیسے آتا ہے۔"

الوینہ پر دھمکی نے اثر نہ کیا۔ اس نے ریلنگ پر جھکتے ہوۓ دونوں انگلیاں لبوں پر رکھیں اور مخصوص اشارہ کیا۔ لیکن آج بلال مسکرا نہیں سکا۔ اس کی مٹھیاں بھینچ گئی تھیں۔ اس کا دل چاہا وہ ابھی سیڑھیاں چڑھے، ابھی اسے اس حرکت کا جواباً مزہ چکھا دے لیکن۔۔۔

الوینہ غائب ہو گئی اور وہ کھڑا رہا۔ گہرے گہرے سانس لیتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی سوچوں کا محور اب بدل گیا تھا۔ وہ برگد سے ٹیک لگاۓ اب کچھ اور یادوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اپنے تخلیے میں مگن تھی۔ اس نے چشمِ تصور سے دیکھا کہ وہ لان کے وسط میں بنے سنگِ مرمر کے اسٹیج پر گھوم رہی تھی۔ نارنجی پشواز کے جھالر اس کے ساتھ ہی محوِ رقصاں تھے۔ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی تھی۔ سب کی ستائشی نظریں اس پر ٹکی تھیں اور اور وہ خود رقص کے سرور میں ڈوبی تھی کہ یک لخت عقل بیدار ہوئی۔ وہ گھومتے گھومتے رکی لیکن کسی نے اس کا بازو تھام کر اسے پھر گھما دیا۔ وہ اب بھی رقص کر رہی تھی لیکن نظریں اس مرد پر جمی تھیں جو اس کی کمر پر ہاتھ رکھے، دایاں بازو گرفت میں لیے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

"وہاں بلال تھا۔" الوینہ کی آنکھیں ایک بار پھر خودبخود بند گئیں:

"تم نے خود کو بہت کوسا کہ آخر تم نے اس رات بلال کے کہنے پر سر کیوں جھکایا۔ تم دل سے چاہتی تھیں کہ وہاں ضوریز حسن ہوتا، وہ تمہیں تھامتا، تمہیں چومتا اور تمہارے ساتھ رقص کرتا۔ تم نے اس رات کے لیے خود کو بارہا ملامت کی لیکن۔۔۔ وہ تمام راتیں جو تم نے ضوریز کے ساتھ بتائیں، ان کا تمہیں افسوس نہیں تھا۔ ان پر کبھی تمہیں ندامت نہیں ہوئی۔"

ندامت اب آنسو بن کر بہہ رہی تھی۔ اس نے خود کو بازوؤں سے ڈھک لیا تھا، جسم چھپا لیا تھا:

"میں نے غلط کیا، میں نے بہت غلط کیا۔"

وہ بلک بلک کر رونا چاہتی تھی لیکن اتنا رو چکی تھی کہ اب آنسو خشک ہو گۓ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے کیوں، مگر اس دن کے بعد سے اسے ایک بھی خط نہیں ملا۔ ایک بھی ای- میل موصول نہیں ہوئی۔ الوینہ کو باہر سے مسرت محسوس ہوئی۔ یہ ساۓ کی طرح سر پر سوار رہنے والا جاسوس شاید جاسوسی کر کر کے تھک گیا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر الوینہ عجیب مخمصے کا شکار ہوئی۔ وہ یوں یکلخت خط لکھنا کیوں چھوڑ گیا۔ تجسس بھی ہوا اور دل عجب بے چینی کا شکار ہوا۔ پھر لمبے عرصے تک یہ بے قراری دل سے جُڑی رہی۔ درد سے شفا تب ملی جب بہت ہفتوں بعد ریستوران سے واپسی پر اسے ریستوران کے نوعمر بیرے نے خط تھمایا:

"تو آپ نے طے کر لیا ہے کہ آپ اپنی حرکتوں سے کسی صورت باز نہیں آئیں گی، مس جہاں داد؟"

الوینہ کو یاد تھا وہ خط پڑھ کر زیرِ لب مسکرائی تھی۔ وہ باز آنا چاہتی بھی تھی تو اب فرار ناممکن تھا۔ طلسمِ ہوش ربا کی نادیدہ زنجیروں نے اب کی بار ایسا جکڑا تھا کہ وہ کسی اور کے بارے میں سوچنا تو کجا، اب کچھ سوچتی ہی نہیں تھی۔ عقل سے یارانہ ٹوٹ گیا تھا۔ عشق ہر عمل کا محرک بن گیا تھا۔ خدا بھلا دیا گیا تھا۔ محبوب کو ناخدا بنا لیا تھا۔ زندگی ضوریز سے شروع ہو کر ضوریز پر ختم ہوتی تھی۔ دن ضوریز سے شروع ہوتا اور رات اسی آفتِ جاں پر ہوتی تھی۔ اس کے مزاج ابھی بھی ویسے ہی تھے۔ وہ ویسا ہی وجیہہ سا، مغرور سا ضوریز حسن تھا۔ اپنی کہتا تھا اور اپنی چاہ کھل کر پوری کرتا تھا۔ دن میں شاپنگ مال اور شام کو ریستوران، ان کا یہی معمول تھا اور اس معمول بھی فرق نہیں آرہا تھا۔ جیسے کسی کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں آیا تھا۔ کوئی نکاح کے بندھن میں نہیں بندھا تھا۔ 

لیکن حالات پھر بھی بدل گۓ تھے، چاہتیں کچھ کچھ بدل گئی تھیں۔

وہ اب قریب آتا تو الوینہ بالکل نہیں ہچکچاتی تھی۔ وہ اظہارِ محبت کرتا تو دل کھول کر وصول کرتی۔ وہ نرم مزاجی کا مظاہرہ کرتا تو دل و جان اس پر قربان ہوتے۔ وہ کچھ غصہ کرتا تو الوینہ کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اس کے قدموں میں بیٹھ کر معذرت کر لے۔ کوئی کسی کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے، وہ انتہا تک جا چکی تھی، ایک بار نہیں، بار بار، بارہا اس کی ہو چکی تھی۔ 

لیکن فی الحال تو وہ بلال کی تھی اور یہی حقیقت تھی۔ ضوریز حسن اس کا نہیں تھا۔۔۔ یہی حقیقت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ ایبک کی ساتویں سالگرہ تھی جو عمیر کے گھر منائی گئی تھی۔

بینش کی دس ماہ کی بیٹی کی سالگرہ بھی اسی کے ساتھ منائی گئی تھی۔ بلال کو لگا تھا الوینہ کبھی بھی اس گھر میں قدم رکھنے کے لیے تیار نہیں ہو گی لیکن اس نے دیکھا الوینہ لان میں ٹہل رہی تھی، کنزیٰ سے چہک رہی تھی، ہنس رہی تھی، گنگنا رہی تھی۔

بلال اندر ہی اندر تپ سا گیا تھا۔ الوینہ مسکارا ٹھیک کرنے لاؤنج میں آئی تھی۔ تب بلال اس کے پیچھے پیچھے آیا اور ظنریہ لہجے میں بولا:

"تمہاری غیرت تو واقعی مر گئی ہے الوینہ۔" اس نے الوینہ کے قریب آکر سرگوشی کی تھی:

"میں تمہاری جگہ ہوتا تو جو ہو چکا ہے اس کے بعد عمیر کے سامنے سر بھی نہ اٹھا پاتا۔ لیکن یہاں تم کیسے ہنس رہی ہو۔ تم ہنس بھی کیسے سکتی ہو الوینہ۔"

"بالکل ایسے ہی جیسے تم میری زبان سے ذلیل ہونے کے باوجود خود کو میرا شوہر کہتے ہو۔-

جواباً بلال کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔ 

"شوہر تو میں تمہارا ہوں الوینہ۔ تم مانو یا نہ مانو۔"

"بیوی تو میں تمہاری بنوں گی نہیں بلال، آج لکھ کر رکھ لو۔"

وہ جلاتی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی پلٹی اور ٹھٹھک کر رکی۔ اس نے تادیبی نگاہوں سے بلال کو دیکھا، پھر اپنی کلائی پر نگاہ ڈالی جو بلال کی گرفت میں تھی۔

"میں بس ایک بار کہوں گی کہ میرا بازو چھوڑ دو۔"

"میں بس ایک بار کہوں گا کہ مجھ سے بدتمیزی کرنا چھوڑ دو۔"

"کیوں؟ تمہیں میرے سلوک کی پرواہ کب سے ہونے لگی۔ میرا رویہ تمہارا دل کب سے دکھانے لگ گیا۔" اور وہ خود ہی اچنبھے کا شکار ہوئی۔ مصنوعی حیرت کے ساتھ اس نے منہ کھولا اور جھینپا سا مسکرائی:

"بلال، کہیں تمہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہو گئی۔"

اور اس لمحے لاؤنج میں بلال کا قہقہہ گونجا تھا۔ وہ یوں بے ساختہ ہنسا تھا کہ الوینہ خود سہم سی گئی تھی۔ وہ ہنستا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھیں ہنسنے کی شدت سے بھر آئیں۔ الوینہ اسے یوں اپنا مذاق اڑاتا دیکھ کر خجل سی ہوئی۔ ندامت چھپانے کو اس نے خفگی اپنائی اور جانے کے لیے پلٹی۔ بس دو قدم اٹھاۓ اس نے اور ایک بار پھر بلال کی گرفت میں تھی۔ 

"مجھے محبت ہو گئی تو تمہاری کاروائیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی الوینہ۔" وہ اس کے قریب تھا۔ اس سے مخاطب تھا۔ لاؤنج میں داخل ہوتی پھپھو بے ساختہ رک گئی تھیں، بلال کی مسکراہٹ اور الوینہ کی خجالت دیکھ کر انہیں راحت ملی تھی۔ یہ نظارہ انہیں خوب لگا اور وہ الٹے پاؤں مڑ گئیں۔ الوینہ نے عین اسی لمحے خود کو چھڑانا چاہا تھا اور اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔ 

"جس روز میری محبت فتح پا گئی ناں بلال، اس دن تو تم پچھتاؤ گے۔"

بلال کی نظریں اس پر مرکوز ہو گئیں:

"مانا ہماری compatibility نہیں ہے مگر، ہم کوشش تو کر سکتے ہیں ناں الوینہ۔۔۔"

اس کا لہجہ اس حد تک نرم تھا کہ الوینہ بے اختیار اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔

ایسی نظروں سے اسے دیکھا کہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔

بیوی کی نظروں سے شوہر کو دیکھا۔

لمحہ بھر کے لیے دل دھڑکا۔

پھر نظروں میں حقارت در آئی۔

"تم Burak ozcivit جیسے لگتے ضرور ہو۔ لیکن اس جیسے بالکل بھی نہیں ہو۔ اس لیے میرے سامنے زبان نہ چلایا کرو۔" تن فن کرتی وہ کلائی چھڑا کر بھاگ گئی، اف، کس قدر مضبوط گرفت تھی اس کی، جیسے کلائی توڑ دی ہو۔ بلال بےخیالی میں اسے جاتا دیکھتا رہا۔ پھر سامنے ایستادہ آئینے میں دیکھا۔

"میں بُراق جیسا لگتا ہوں؟" اسے تو اپنا آپ کسی بھی زاویے سے منفرد نہیں لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز نے ابھی کل اسے کہا تھا:

"تم لاء پریکٹس کیوں نہیں کرتیں الوینہ۔"

اس کا مشورہ معقول تھا۔ الوینہ نے ذہن پر زور دیا کہ کہیں وہ ساری کتابیں بھول تو نہیں گئی تھی۔ درحقیقت اسے پریکٹس کا شوق نہیں تھا لیکن اس کو یہ کہنے والا ضوریز تھا۔ وہ بات کیسے نہ مانتی، کیسے نہ سر جھکاتی۔

"مجھے لاء پریکٹس کرنا ہے بلال۔"

اس نے خبرنامہ پڑھنے والے انداز میں جب اپر لیفٹ کمرے میں آکر بتایا تھا تو بلال بوٹ پہن رہا تھا۔ اس کا انداز بھی جواباً اتنا ہی مصروف سا تھا:

"تم پوچھ رہی ہو یا بتا رہی ہو۔"

"ہونہہ۔ بڑے آۓ تم کہ تم سے پوچھتی پھروں۔ آف کورس بتا رہی ہوں۔"

بہت دیر خاموشی چھائی رہی تھی۔ آخر بلال نے پوچھا تھا:

"چیمبر تو ہے نہیں، کس کے ساتھ بیٹھنے کا سوچا ہے؟" اس کا لہجہ سرسری تھا، الوینہ نے بھی بڑے ہی سرسری لہجے میں کہا:

"میلینیم میں میرا دوست تھا۔ ایس پی حسن اعوان کا بیٹا ہے۔ ضوریز حسن نام ہے اس کا۔ اس کے ساتھ۔۔"

اتنا کہنا تھا کہ بلال کے تاثرات سخت ہو چلے۔ اس نے بے یقینی سے سر اٹھا، مشتعل نگاہوں سے الوینہ کو گھورا:

"تم مجھے اس آدمی کے ساتھ نظر نہیں آؤ گی الوینہ۔"

"تم دن میں جانے کتنی عورتوں کے ساتھ نظر آتے ہو، میں نے تو کبھی اعتراض نہیں کیا۔"

"مدعا میرا نہیں ہے، مدعا تمہارا ہے۔" وہ آگ بگولا نظر آیا تھا لیکن اسکی آواز پست تھی:

"میں بے غیرت سہی لیکن اتنا گرا ہوا نہیں ہوں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے تمہیں تمہارے عاشق سے ملتا دیکھوں۔"

"پھر آنکھیں بند کر لو بلال۔"

اس نے مزے سے کہا اور پلٹ گئی۔ عقب میں گلاس ٹوٹنے کی آواز آئی لیکن الوینہ کے اطمینان میں فرق نہیں آیا۔ بلال عطاء اللہ کو تنگ کرنے میں مزہ آتا تھا، بہت مزہ آتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے دراصل بلال کا رویہ چیک کرنے کے لیے ضوریز کا نام لیا تھا ورنہ حقیقتاً وہ نویرا کا چیمبر جوائن کیے ہوئی تھی۔ بلال کو یہ جلد پتا چل گیا تھا اور وہ یہ جان کر کچھ ٹھنڈا پڑا تھا لیکن الوینہ کی ہٹ دھرمی قائم تھی۔ وہ اب بھی ضوریز سے ملتی تھی، اب بھی اس کے ساتھ نظر آتی تھی، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ 

ضوریز حسن اس کے لیے مہربان تھا۔ دونوں زندگی یوں چلا رہے تھے جیسے کسی اور سے رشتہ ہی نہ تھا۔ الوینہ کو معلوم نہیں تھا کہ شفق کے ساتھ اس کے شب و دن کیسے گزرتے تھے۔ اسے تو بس یہ اطمینان تھا کہ اس کے شب و روز الوینہ کے ساتھ تو پرفیکٹ گزرتے ہیں۔ وہ مطمئن تھا اور الوینہ اسے مطمئن دیکھ کر مطمئن ہو جایا کرتی۔ اسے اب خط نہیں ملتے تھے۔ عرصہ ہوا، آئی پوڈ پر میسج بھی نہیں آیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روز نے اکھٹے لنچ کا پروگرام بنایا تھا۔

دن اتوار کا تھا اور چیمبر آف تھا۔ الوینہ دل و جان سے تیار ہوئی تھی۔ کاجل سے آنکھیں بھرے، ہونٹوں کو لالی سے رنگے وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ اپنی تیاری مکمل کر کے وہ گیراج میں آئی تو ایک لمحے کے لیے دھک سے رہ گئی تھی۔ چوکیدار اسے دیکھ کر آگے آیا تھا اور سر خم کیا تھا۔

"میری کار کہاں ہے خان؟" وہ اپنی پوری قوت سے دھاڑی تھی۔ جواباً خان نے نظریں جھکا لی تھیں:

"بلال صاحب کی دوست نے ایئرپورٹ جانا تھا بی بی جی، وہ آپ کی کار لے کر گئی ہے۔"

"تو بلال صاحب کی دوست بلال صاحب کی کار کے کر کیوں نہیں گئی؟ اس کی کار مر گئی تھی کیا؟"

"ہم کو کیا پتا بی بی جی۔ ہم تو بس یہ دروازے کھولتا اور بند کرتا ہے۔"

الوینہ واقعی مشتعل تھی۔ بلال نے کبھی اس کے معاملوں میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہیں کی تو اب یہ حرکت کیوں۔ اسے فوراً ریستوران پہنچنا تھا۔ اگر نہ پہنچتی تو یقیناً لنچ سے لیٹ ہو جاتی لیکن وہ پہلے بلال کی طبیعت صاف کرنا چاہتی تھی۔ اس نے چوکیدار کو ٹیکسی کے لیے دوڑایا۔ خان ہچکچا گیا تھا:

"ہم آپ کو بلال صاحب کی پرانی کار میں چھوڑ آتا ہے، بی بی جی۔ ٹیکسی کہاں سے لاۓ گا۔"

لیکن الوینہ نے یہ گوارا نہ کیا۔ خان ٹیکسی کی تلاش میں نکلا تو بہت دیر میں واپس آیا۔ اس دوران الوینہ دالان میں ہی ایستادہ رہی تھی۔ ٹیکسی آئی تو وہ اس کے ذریعے بلال کے آفس پہنچی۔ لنچ سے لیٹ ہو جانے کا خیال اسے مزید مشتعل کر رہا تھا۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتی وہ لابی پار کر گئی تو سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اس خیال آیا کہ اس جید عمارت میں اسے جانا کہاں ہے۔ ٹانگوں نے ریورس گیئر لگایا۔ وہ واپس ریسیپشن تک پہنچی:

"مینیجر کا آفس کہا ہے؟"

"عدیل صاحب کا پوچھ رہی ہیں یا بلال صاحب سے کوئی کام ہے۔" ریسیپشنسٹ نے مصروف انداز میں سوال کیا تو الوینہ جھلا گئی تھی:

"کیا میں نے مینیجر نہیں کہا؟ کون ہے تمہارے آفس کا ہیڈ؟"

اب ریسیپشنسٹ نے سر اٹھایا۔ ظنریہ مسکرائی:

"آپ نے مینیجر کے بارے میں پوچھا تھا میم۔ ادارے کے مینیجر عدیل صاحب ہیں۔ اگر آپ ہیڈ کا پوچھتیں تو میں بلال صاحب کا نام لیتی۔ اب آپ بتائیں، آپ کو مینجر سے ملنا ہے یا۔۔۔۔"

اس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑا۔ الوینہ کا پارہ آہستہ آہستہ ابلتا جا رہا تھا:

"بلال عطاء اللہ کا آفس کہاں ہے، مجھے بتاؤ ابھی اور اسی وقت۔"

"تھرڑ فلور پر، اپر لیفٹ۔" ریسیپشنسٹ نے بتایا تو الوینہ نے گیئر لگانا، اسی لمحے نوجوان لڑکی آٹھ کھڑی ہوئی تھی:

"آپ ایسے ہی ان سے نہیں مل سکتیں۔ کیا آپ نے ان کی سیکرٹری سے ملاقات کا وقت لے رکھا ہے۔"

الوینہ سنی ان سنی کرتی نکل گئی تھی۔ تیسرا فلور نسبتاً کشادہ تھا اور وہاں لوگوں کا ہجوم تھا۔ الوینہ نے اپر لیفٹ کمرے کا رخ کیا تو بائیں ہاتھ بیٹھی سیکرٹری چونک کر اٹھی تھی، الوینہ اسے نظرانداز کرتی آگے بڑھی اور دونوں ہاتھوں سے دھکا دے کر دروازہ کھولا۔

"تو یہاں بیٹھے عمان انٹرپرائزز کے سی-ای-او، بلال عطاء اللہ صاحب۔"

اس کے لہجے میں تصنع کوٹ کوٹ کر بھری تھی، میز پر کہنیاں ٹکا کر لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتے بلال نے پیشانی پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔ پھر اس کے عقب میں کھڑی سیکرٹری کو دیکھا:

"آئی ایم سوری سر یہ یوں اچانک۔۔۔۔"

اس کا اشارہ الوینہ کی جانب تھا۔ بلال نے اسے واپس پلٹنے کا اشارہ کیا تھا۔

"تمہارے آفس کا عملہ انتہائی غیرذمہ دار، منہ پھٹ اور تمہاری طرح کے conceited (مغرور) افراد پر مشتمل ہے۔"

الوینہ کے تبصرے پر بلال مسکرایا، سر اٹھایا:

"یہ آپ اپنی خوبیاں بیان کر رہی ہیں مسز بلال۔"

"میری کار کہاں ہے؟" الوینہ مدعے پر آئی۔

"مالیا لے گئی۔" بلال نے کندھے اچکاۓ۔ الوینہ دھک سے رہ گئی:

"وہ گوری عورت۔" الوینہ کو تپ چڑھی:

"اس کی ہمت کیسے ہوئی میری کار کو ہاتھ لگانے کی۔ یہاں تمہاری بیوی ٹیکسیوں پر سفر کر رہی ہے اور اور تم اس کی کار اپنی امریکی محبوبہ کو تحفے میں دے چکے ہو۔"

"تحفے میں نہیں دی الوینہ۔ اسے ایئرپورٹ جانا تھا تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ تمہاری کار میں اسے ڈراپ کر دے، سمپل۔" پھر اس نے سر اٹھایا اور بغور الوینہ کو دیکھا:

"لیکن تم کہاں جا رہی ہو؟"

"مجھے اپنی کار کی چابیاں دو۔"

بلال کے چہرے کو ایک پراسرار سی مسکان نے حصار میں لیا۔ آج اس کا موڈ خوشگوار لگتا تھا۔ اس نے دونوں بازوؤں کا تکیہ بنا کر سر کے پیچھے رکھا اور کرسی سی ٹیک لگا لی:

"جس لہجے میں تم مانگ رہی ہو اس لہجے کے بدلے تو میں تمہیں اپنا جھوٹا بھی نہ دوں الوینہ۔"

"میں نے کہا مجھے اپنی کار کی چابیاں دو بلال۔"

"پھر تھوڑا پیار سے مانگو ناں جان۔" وہ اب بھرپور انداز میں مسکرا رہا تھا تو الوینہ نے دیکھا اس کے دونوں گالوں میں گڑھے بن رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں فتح کا عنصر تھا، چہرہ الوینہ کا مذاق اڑا رہا تھا۔

"مجھے چابیاں۔۔۔ دے دو بلال۔" اس نے کچھ نرم لہجہ اپنایا۔ بلال کا سر نفی میں ہل گیا:

"کتنی نرمی سے بات کرتی ہو اپنے عاشق سے۔ ویسے ہی مجھ سے بات کرو۔ ویسے ہی التجا کرو۔"

"میں تمہارا خون پی جاؤں گی بلال۔" وہ تپ گئی تو غرائی۔ بلال ہنسا:

"پھر تو تمہیں چابیاں کبھی نہیں ملیں گی، مسز بلال۔"

الوینہ نے بہت برداشت سے اس کے لبوں پر کھیلتی ظنریہ مسکراہٹ کو دیکھا تھا۔ اسے چابیاں چاہیے تھیں، ہر حال میں چاہیے تھیں۔ اس نے لبوں کو بھینچا اور سر جھکایا۔ بہت نرمی سے کہا:

"چابیاں دے دو بلال۔۔۔" اور پھر پلکیں جھکا کر کہا:

"پلیز۔"

بلال بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ جیسے سوچ رہا ہو دے یا نہ دے۔ پھر کرسی سے اٹھا اور پشت پر کمر باندھ کر اس کے سامنے آیا۔ الوینہ نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا:

"فرنٹ پاکٹ سے نکال لو۔" وہ کہہ رہا تھا۔ الوینہ نے اس کی سفید شرٹ کی پاکٹ اندر تک کھنگھالی۔ پھر استہفامیہ نگاہوں سے بلال کو گھورا:

"نہیں۔ چابیاں تو پینٹ کی پاکٹ میں ہیں۔"

اس کی نگاہیں بلال کی پینٹ پر ٹکیں۔ بہت ضبط سے اس نے اس کی پینٹ کی اگلی جیبیں کھنگالنا چاہیں تو آواز آئی:

"اونہوں، بیک پاکٹس دیکھو۔"

الوینہ کا خون کھول رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بلال کی پینٹ کی بیک پاکٹ میں ڈالے تو سر بے اختیار بلال کے سینے سے ٹکڑا گیا، ناک بے خیالی میں بلال کی تھوڑی سے رگڑی گئی۔ 

"یہ کیا مذاق کر رہے ہو میرے ساتھ۔" اس نے بیک پاکٹس کو خالی پایا تو چیخ اٹھی۔ بلال نے انگلی کا اشارہ کیا:

"اوہو میں بھول گیا تھا۔ وہ دیکھو، ٹیبل پر پڑی ہیں۔"

چابیاں واقعی ٹیبل پر پڑی تھیں۔ الوینہ نے انہیں جھپٹ کر اٹھایا اور دروازے کی جانب لپکی۔ بلال اس سے تیز نکلا تھا، اس کا بازو تھام چکا تھا۔

"وہ میرا انتظار کر رہا ہے، بلال!" 

وہ جلانے والے انداز میں کرختگی سے بولی تو بلال کا چہرہ یکلخت تاریک ہوا تھا۔ ساری شگفتگی پل بھر میں عنقا ہوئی تھی۔ اس کا توازن بھی ماند پڑ گیا تھا۔ الوینہ باآسانی اسے ایک طرف دھکیل کر نکل گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارہ مہینوں میں دس کیسز لینا اور دس کے دس جیت جانا!

ضوریز کو پتا تھا یہ اس کا عروج تھا۔

وہ پرواز کر رہا تھا۔ اڑتا ہی جا رہا تھا۔ قانون اندھا تھا لیکن اسے پہچاننے لگا تھا۔ پولیس اور وکلا میں اس کو بڑی پذیرائی ملنے لگی تھی۔ سب جانتے تھے ایس پی حسن اعوان جیسے ذہین اور محنتی آفیسر کا بیٹا بھی اتنا ہی لائق فائق نکلے گا۔ لیکن ایک تعارف ضوریز کو بہت چبھتا تھا۔ اسے کاٹ کر رکھ دیتا تھا:

"جسٹس سلیمان کا داماد۔"

"جسٹس سلیمان کی بیٹی کا شوہر۔"

ضوریز سلگ جاتا۔ بھڑک اٹھتا۔ وہ مجبور تھا۔ یہاں اپنی مرضی کرنے سے محروم تھا۔ اس کی الوینہ جہان داد سے محبت کوئی بہانہ نہیں تھی۔ وہ اسے پسند کرتا تھا، اس سے ان زنجیروں کو توڑ ساری خواہشیں پوری کرتا تھا جو جسٹس سلیمان نے اس پر مسلط کی تھیں۔ الوینہ کہتی تھی وہ ڈرتا کیوں یے۔ وہ اپنا کردار کھونے سے ڈرتا تھا۔

"جس دن تم نے شفق کے علاوہ کسی اور لڑکی کو نگاہ بھر کر دیکھا یا میری بیٹی کو نقصان پہنچایا، میں تمہارا پول کھول دوں گا ضوریز۔ پوری دنیا کو بتا دوں گا کہ ایس پی ضوریز حسن کا بیٹا ایک ریپسٹ ہے۔ پھر دیکھوں گا تمہیں کوئی عورت منہ بھی کیسے لگاتی ہے۔ پھر دیکھوں گا تمہاری عزت کیسے ہوتی ہے۔"

الوینہ کے لیے وہ ایک کامیاب، وجیہہ مرد تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ ایک سہما ہوا بزدل آدمی تھا جو خود کو بہلانے کے لیے، خود کو شفق سلیمان سے چھڑانے کے لیے اسے ہتھیار بنا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سچ میں اسے بہت چاہتی تھی۔

اور اب جب بیوی ہونے کے باوجود وہ اس سے وفا نبھا رہا تھا، اس سے محبت روا رکھے ہوۓ تھا تو محبت میں شک کی گنجائش ہی باقی نہیں تھی۔ اب اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ لیکن وہ بھول گئی تھی ان کا پیار خفیہ نہیں رہ سکتا۔ یوں سب ٹھیک نہیں وہ سکتا۔ عشق و مشک چھپاۓ نہیں چھپتے۔ 

چھپ ہی نہیں سکتے۔

وہ نویرا کے چیمبر سے واپسںی پر شاپنگ مال آئی تھی۔ بلال نے کہا تھا انہیں پھپھو کے ہاں جانا تھا۔ ہانیہ امید سے تھی۔ انہیں وہ فنکشن اٹینڈ کرنا ہی تھا۔ الوینہ دکھانا چاہتی تھی کہ وہ ان سب سے جدا ہو کر خوش تھی۔ وہ اپنا لباس منتخب کرنے آئی تھی جب پارکنگ ایریا سے گزرتے ہوۓ اس نے اس عورت کو دیکھا تھا۔

ہائی ہیلز پہنے، لمبا کوٹ چڑھاۓ، آنکھوں کو سن گلاسز سے ڈھکے۔ وہ شفق سلیمان تھی۔ ضوریز کی شفق، ضوریز کا نصیب، الوینہ کی رقیب۔ بہتر ہوتا کہ وہ چپکے سے نکل جاتی اور پلٹ کر نہ دیکھتی لیکن غم و غصہ عقل پر حاوی آگیا تھا۔ وہ قدم اٹھانا چاہتی تھیں لیکن ہلنے سے قاصر تھی۔ اس نے بدقت پیر اٹھاۓ تھے، پلٹنا چاہا تھا اور اسی لمحے شفق نے اسے دیکھ لیا تھا۔

وہ اسے پہچانتی تھی۔ الوینہ جہاں داد، وہ ضوریز کی محبت شفق سلیمان کی نفرت۔

"الوینہ جہاں داد۔" اس نے کچھ ایسے انداز سے نام لیا تھا کہ الوینہ ٹھہر گئی تھی۔ اس کے الفاظ سننے کے لیے رک گئی تھی۔ اس نے دیکھا شفق قریب آگئی اور ان گلاسز اتار دیے۔

"اوہ الوینہ۔ تمہیں یہاں دیکھ کر کتنی خوشی ہو رہی ہے میں بتا نہیں سکتی۔" وہ مسکرا رہی تھی، پرجوش سی تھی۔ الوینہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔

"مجھے دیکھ کر تمہیں خوشی کیسے مل سکتی ہے، مس سلیمان۔"

"اونہوں۔ اٹس مسز ضوریز۔ میں اب اپنے بابا کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگاتی۔"

اس نے اتنا کہا اور الوینہ کا چہرہ لال ہو گیا۔ ادھر شفق مسلسل کہہ رہی تھی:

"بھلا جس کا ضوریز حسن جیسا شوہر ہو اسے اور کیا چاہیے، الوینہ۔ کیوں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں۔"

الوینہ کو لگا وہ سانس نہیں لے پاۓ گی۔ ادھر شفق پوچھ رہی تھی:

"تمہارے شوہر کہاں ہیں، مسز بلال؟ تمہارے ساتھ شاپنگ پر نہیں آۓ۔"

الوینہ جواب دینے سے قاصر ہی نہیں۔ البتہ بے خیالی میں اس کا سر نفی میں ہل گیا تو شفق چونکی:

"ڈیٹس ناٹ گڈ، الوینہ۔ تمہیں اپنے شوہر کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ جانتی ہو میں نے ضوریز کو کیسے کھینچ کر رکھا ہے۔ یقین کرو یار، وہ ایک لمحہ بھی میرے بغیر نہیں گزار پاتا۔"

وہ اسے جلا رہی تھی، مشتعل کر رہی تھی، ہنس ہنس کر باتیں سناتی، مسکرا کر ضوریز کا نام لیتی وہ الوینہ کو بہت بری لگی رہی تھی۔ وہ بھاگ نکلنا چاہتی تھی لیکن شفق کے انکشافات اس پر لرزہ طاری کر رہے تھے:

"پر اسے قابو کرنا بہت مشکل ہے الوینہ۔" وہ نان سٹاپ بول رہی تھی:

"ایک بار پیار کرنے لگے تو پھر اس کے حصار سے نکلنا ناممکن ہے۔ مجھے کبھی کبھی اس سے بہت خوف آتا ہے۔ پر وہ بہت کیئرنگ ہے الوینہ۔ بہت پیار کرتا ہے۔ بہت۔۔۔"

"ضوریز حسن تم سے پیار نہیں کرتا۔ وہ تم سے کبھی پیار نہیں کر سکتا۔"

الوینہ نے کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہتے ہوۓ شفق کی بات کاٹی۔ جواباً اسے شفق کی ہنسی سنائی دی۔ جلترنگ بج رہے تھے یا کوئی گیت گایا گیا تھا۔

"یعنی اس نے تم سے کئی باتیں چھپائی ہیں ناں الوینہ۔" وہ اب مسکراہٹ دبا کر آتشی نگاہوں سے الوینہ کو گھور رہی تھی:

"کیا اس نے تمہیں نہیں بتایا وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا تھا۔ شادی سے پہلے، منگنی سے بھی پہلے، وہ میرے لیے پاگل تھا الوینہ۔ ان فیکٹ، میں اس کی آنکھوں میں اپنے لیے جنون دیکھ کر سہم جاتی تھی۔ اس کے پاس نہیں جاتی تھی پر وہ حقیقتاً میرا دیوانہ تھا۔ شادی سے پہلے ہی حق جتاتا تھا۔ کیا تم تصور کر سکتی ہو الوینہ،اب جب حقیقتاً اسے مجھ پر حق حاصل ہو گیا ہے تو اس کے میرے لیے کیا احساسات ہوں گے؟"

الوینہ کو پتا نہیں چلا تھا کب اس کی آنکھوں کے کنارے تر ہو گۓ۔ وہ اس پلاسٹک کی گڑیا کے سامنے خود کو حقیر ثابت نہیں کر سکتی تھی۔ شفق کچھ کہہ رہی تھی لیکن الوینہ نے منہ پھیر لیا۔ پارکنگ میں اس نے کار تلاش کی اور اندھی طوفان کی طرح گھر پہنچی تھی۔ وہ کار سے اتری تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ اس کا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا۔ بھاگ کر سیڑھیاں چڑھیں، بھاگ کر کمرے تک آئی اور دروازے پر ٹھٹک گئی۔

وہ دروازہ لاک کر کے بستر پر گرنا چاہتی تھی لیکن الماری کی قریب گھٹنوں پر بیٹھا بلال کچھ ڈاکومنٹس کھنگال رہا تھا۔ 

الوینہ کا سارا غیض و غضب اکٹھا ہوا۔ اس نے پوری قوت سے بیگ بلال کے دے مارا:

"میرے کمرے میں کیا کر رہے ہو تم۔"

بلال واقعی میں خائف ہوا تھا۔ اس نے گھور کر الوینہ کو دیکھا:

"تمہارے ہاتھ کچھ زیادہ ہی کھلے ہوۓ ہیں الوینہ۔"

"شٹ اپ، جسٹس شٹ اپ۔"

اس نے قریبی میز سے اٹھا کر گلاس بھی اسی انداز میں پھینکا جو بلال کے قریب فرش پر چکناچور ہو گیا۔ بلال کو غصہ چڑھا۔ وہ اچھل کر کھڑا ہوا۔ الوینہ کی قوت مزاحمت ختم ہو گئی تھی۔ بلال اس کے کمرے میں ایستادہ تھا۔ وہ جھٹکے سے کمرے سے نکل آئی، بجلی کی سی تیزی سے اسٹڈی کی طرف بھاگی۔ اسٹڈی میں داخل ہو کر اس نے چٹخنی لگائی۔ پھر صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔ فرش پر بیٹھے، دونوں بازو صوفے پر پھیلاۓ، وہ زار و قطار رو رہی تھی:

"صرف ضوریز حسن، اور کچھ نہیں۔ صرف ضوریز حسن۔" ہچکی بندھ گئی تھی لیکن وہ انگلیوں کے پوروں پر گن رہی تھی:

"میری مانگ بڑی تو نہیں ہے۔ صرف ایک آدمی۔ صرف ایک آدمی۔ صرف ضوریز۔ صرف میرا ضوریز۔"

قدرت جانتی تھی وہ کس سے مخاطب تھی۔

ع بتوں کی زبان پر خدا کا نام آیا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے یاد نہیں تھا وہ کب یونہی روتے روتے، یونہی صوفے سے ٹیک لگاۓ بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی۔ بدن میں تکلیف کا احساس تب ہوا جب کھڑکی کے کھلے پٹوں سے ہوا جسم سے آ ٹکڑائی۔ وہ کسمسائی تھی اور پھر اپنے گرد لپٹے کمبل میں سمٹ گئی تھی۔ جانے کون اوڑھا گیا تھا، کون ابھی ابھی اسے جگا کر گیا تھا۔ وہ شاید کچھ کہہ رہا تھا۔ کیا کہہ رہا تھا:

"مجھے لیٹ مت کرانا الوینہ۔ شام سات بجے تیار رہنا۔"

الوینہ کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔ ذہن ابھی تک منتشر تھا۔ وہ بے خیالی میں اٹھی تھی، کہیں سے کہیں چلتی جا رہی تھی۔ دو بار وہ سیڑھیوں سے گرتے گرے بچی، کئی بار ڈریسنگ ٹیبل سے آ ٹکڑائی۔

" وہ شادی سے پہلے ہی حق جتاتا تھا۔ کیا تم تصور کر سکتی ہو الوینہ،اب جب حقیقتاً اسے مجھ پر حق حاصل ہو گیا ہے تو اس کے میرے لیے کیا احساسات ہوں گے؟"

الوینہ کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گۓ۔ اس نے دیکھا ضوریز کا ایک بھی میسج نہیں آیا تھا، ایک بھی کال نہیں تھی۔ اس کے لیے الوینہ جہاں داد اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ وہ یقیناً اس کے لیے اہم نہیں تھی۔

اس نے خود پر جبر کر کے چہرہ دھویا اور میک اپ سے سجایا۔ وہ کسی سے کم تر نہیں تھی، وہ ایک شخص کے لیے اس سے زیادہ خود کو کتنا برباد کر لیتی، کتنے آنسو بہا لیتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال کے تاثرات معتدل تھے۔

الوینہ نے انہیں پرکھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ سوچوں میں غلطاں تھی۔ اپنے آپ میں مگن تھی۔ وہ، وہ پہلے والے الوینہ کہیں سے بھی نہیں لگ رہی تھی۔ آج اس کی کاجل سے سجی آنکھوں میں ایک عجیب سا خالی پن تھا۔ لالی سے سجے ہونٹوں پر لرزا طاری تھا۔ بلال کے ایک بار دھمکی آمیز انداز میں دیے گۓ حکم پر وہ جھٹ پٹ تیار تھی۔ آج اس سے جھگڑ بھی نہیں تھی، جنگ بندی کی سی کیفیت تھی۔

زرق برق لباس زیب تن کیے عورتیں اسے دیکھ رہی تھی۔ کچھ خوشامدی اس سے مل رہی تھی، اس کی تعریف کر رہی تھیں، کرید کرید کر سوالات کر رہی تھیں۔ وہ بلال کا سوشل سرکل تھا۔ الوینہ کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ وہ سب عورتیں اپنے شوہروں کے نوجوان باس کی بیوی کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ الوینہ کو نظروں کا مرکز بننا پسند تھا۔ آج اس 'تاکا جھاکی' سے نفرت ہو رہی تھی۔

موسیقی کی آواز اسے گڑبڑا رہی تھی۔ لان میں جلتی لائٹس آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔

وہ گھٹن مٹانے کھلی فضا سے نکل کر اندر بند حصے میں آئی۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ کھلی فضا اسے گھٹن دے رہی تھی۔ امیر اپنی پارٹیوں میں سارا گھر ہی کھول دیتے ہیں۔ وہ بھی گھومتی گھماتی ٹیرس پر آگئی تھی، یہاں کوئی نہیں تھا۔ پر وہ یہاں بھی تھا۔ 

"میں میچور سہی لیکن مرد ہوں اور تم، الوینہ۔۔۔۔ اور تم سے مل کر تو دل کو کچھ ہونے لگتا ہے۔"

وہ یہی کہتا تھا، یہی مانتا تھا، پھر اب اس کا دل کیوں نہیں دھڑکا۔ اب کیوں کوئی احساس نہیں جاگا۔ الوینہ کا دل اُچاٹ ہونے لگا تھا۔ وہ پلٹی ہی تھی کہ لاؤنج میں کھلتے دروازے میں ایستادہ بلال کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔  کچھ کہے بغیر وہ دروازے تک چلتی آئی اور سر جھکا کر نکلنے لگی تھی جب بلال نے ا سکا بایاں بازو تھام لیا۔

"تم کیوں یہ حرکت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ میں بار بار تمہاری بے عزتی کروں۔" اس نے غصہ کرنا چاہا لیکن آج اشتعال دل کے جانے کس حصے میں مدفن تھا۔ بلال نے لاپروائی سے کندھے اچکاۓ:

"میری ڈیوٹی سخت ہے۔ مجھے بار بار دیکھنا پڑتا ہے کہ آیا تم موجود بھی ہو کہ کہیں بھاگ واگ گئی ہو۔"

"میں بھاگنا چاہتی تو گزرے وقت میں بھاگ جاتی۔ میں نہ کل بھاگی تھی اور نہ آج بھاگوں گی۔ میں کل بھی زبردستی مقید کی گئی تھی اور آج بھی (بلال کے اس ہاتھ کی طرف اشارہ کیا جس نے بازو پکڑ رہا تھا) جبراً استعمال کی جا رہی ہوں۔"

"یعنی شوہر بیوی کا ہاتھ تھام رہا ہے تو جبر کر رہا ہے۔ تم اور تمہارے اصول الوینہ!"

وہ الوینہ کے احساسات سے بے پرواہ کھل کر ہنسا۔ الوینہ کا چہرہ تاریک تھا۔ وہ کنی کترا کر نکل رہی تھی جب بلال نے اس کا دایاں بازو بھی گرفت میں کے لیا۔ الوینہ نے دیکھا اس کے چہرے کو سنجیدگی نے حصار میں لے رکھا تھا۔ اس نے الوینہ کا اپنے برابر کھڑا کیا تو وہ حرکت نہیں کر سکی تھی۔ وہ لاکھ مضبوط بنتی لیکن اس کے اِس روپ سے ڈرتی تھی۔ اس کا یہ سنجیدہ انداز الوینہ کے دل کی تالیں چھیڑ دیتا تھا۔ وہ اب بھی منتشر سی ہوئی تھی، سہم گئی تھی۔ 

"میں کوئی کھلونا نہیں ہوں جس سے تم نے اپنے طریقے سے کھیلا، جب چاہا استعمال کیا، جب چاہا توڑ دیا۔ مجھے اپنی زندگی  میرے طریقے سے جینی ہے الوینہ۔ تم دو کشتیوں کی مسافر بن چکی ہو، میں نہیں بننا چاہتا۔"

"پھر چھوڑ دو مجھے۔" الوینہ کا لہجہ مضبوط تھا۔

"میں نے چھوڑ دیا تو کہاں جاؤ گی الوینہ۔" بلال کا قد اس سے لمبا تھا۔ الوینہ کو اسے سر اٹھا کر دیکھنا پڑ رہا تھا۔ اس کی سانسوں کی حدت اور الفاظ کی سنگینی الوینہ کو خائف کر رہی تھی۔ کچھ حالیہ صدمہ بھی لاحق تھا۔ الوینہ گنگ ہو گئی تھی۔

"میں تمہارے ٹکڑوں پر نہیں پل رہی۔ میں تمہارے ہونے سے نہیں ہوں۔" مگر اس کا لہجہ کمزور تھا۔ بلال کے بدن میں لان میں گونجتی موسیقی کی دھن پر خفیف سی حرکت ہو رہی تھی۔ اس کا سر الوینہ کی پیشانی سے جڑا تھا۔ اطراف سے بے نیاز وہ اسے گھور رہا تھا:

"مانا ہماری compatibility نہیں ہے، پر ہم کوشش تو کر سکتے ہیں ناں الوینہ۔ تم گرنے لگو تو میرا ہاتھ پکڑ سکتی ہو۔ میں ہمیشہ تمہارے لیے حاضر ہوں۔ تم کوشش کر سکتی ہو۔ ہم کوشش کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کو سمجھنے کی، بس ایک بار ساتھ۔۔۔"

"مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔" اس کی کڑی ناں تھی۔ بلال کا چہرہ سپاٹ تھا اور اب الوینہ کی آنکھیں بھیگنے کے قریب تھیں:

"تم یقیناً اچھے ہو۔ بہت اچھے سب سے اچھے۔ but I don't like you. مجھے تمہاری صورت سے، سیرت سے، صحبت سے، سب سے نفرت ہے بلال۔ مجھے تم سے تو کیا باقی سب سے نفرت ہے۔"

"پھر اس سے محبت کیسے ہے؟" اس کا اشارہ جس طرف تھا، الوینہ سمجھ گئی۔ اس کے لبوں پر آسودہ سی مسکراہٹ تیر گئی تھی۔ 

"کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ میری پرواہ کرتا ہے۔ وہ ہینڈسم ہے، کیئرنگ ہے۔ وہ مجھے سمجھتا ہے، میری باتیں سمجھتا ہے۔ دنیا نے سب نے مجھے آج تک ہراس کیا ہے بلال! مگر وہ صرف محبت کرتا آیا ہے۔ کیا اس جیسا کوئی ہے؟ کیا اس کے علاوہ کوئی ہے؟"

دو آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ کر چہرے پر پھیل گۓ تھے۔ بلال یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا:

"اس جیسا کوئی نظر آیا تو کیا اپنا دل بدل لو گی؟"

"اس جیسا کوئی نظر ہی نہیں آۓ گا۔ کوئی نظر ہی نہیں آیا۔"

بلال پھر کچھ نہیں بولا۔ کئی لمحے یونہی ہولے ہولے موسیقی کے ترنم میں ہلتے نظر آگۓ۔ الوینہ نے آنکھیں بند کی تھیں تو آنسو خودبخود خشک ہو گۓ تھے۔ وہ اب بہتر محسوس کر رہی تھی۔ پر جانے کیسے؟

"کب چاہیئں ڈائیوورس پیپیرز؟" اس کا لہجہ اب بھی سپاٹ تھا۔ الوینہ کا ذہن بلینک ہو گیا۔ وہ کچھ کہہ نہیں سکی۔ سٹپٹا سی گئی۔

"جب چاہیئں میں تمہارے ہاتھ میں تھما دوں گا۔ اور پلیز الوینہ، کوشش کرو کہ یہ کام جلدی ختم کر سکو۔ ہم میں مطابقت نہیں ہے۔ you hate me and I hate you ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم جلد سے جلد علیحدہ ہو جائیں۔"

الوینہ نے سر جھکا لیا۔ اس نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

"اب بتاؤ گی ایسا کیا ہو گیا جو تم زاروقطار رو رہی تھیں۔"

الوینہ نے آنکھیں گھمائیں، سر جھٹک دیا۔

"it's personal."

(یہ ذاتی ہے)

 "میں بھی تو تمہارا پرسنل ہوں۔"

الوینہ کے ماتھے پر اچانک ہی بل ہڑے۔ سادی افسردگی عنقا ہوئی اور الجھی نگاہیں بلال پر ٹک گئیں:

"تم وہی ہو جو چند لمحوں پہلے مجھے طلاق دینے کی بات کر رہے تھے۔"

"پر دی تو نہیں۔" اس نے مزے سے کہا اور کان الوینہ کے لبوں تک کے آیا:

"اور جب تک نہیں دیتا، تم میری جائز بیوی ہو جس پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی عزت کرے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔"

الوینہ نے لبوں سے حقارت بھری آواز نکالی اور خود کو چھڑانے کی سعی کی۔ عین اسی وقت بلال نے اسے کلائی سے تھام کر، اپنے بازو کے نیچے سے گزار کر گول گھمایا۔ وہ چکر کاٹتے ہوۓ گھومی اور پلٹ کر بلال کے سینے سے آلگی۔ بلال کی آنکھیں اس کے بہت قریب تھیں۔ اب وہ جانے کیا کرنے کو اس کا چہرہ تھام کر جھکا لیکن الوینہ نے اسے روکنے کے لیے خود کو ایک بار پھر گھما لیا۔ بلال نے پھر جرآت نہیں کی۔

شاید وہ بھی الوینہ سے اتنا ہی ڈرتا تھا جتنا الوینہ اس سے۔۔۔

وہ بھی الوینہ سے اتنی ہی باتیں چھپاتا تھا جتنی الوینہ اس سے۔۔۔

وہ بھی۔۔۔ شاید وہ بھی الوینہ کو اتنا ہی برداشت کر رہا تھا جتنا الوینہ اسے۔۔۔۔

اور پھر بھی دونوں کہتے تھے compatibility ہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح اس نے فون کھولا تو اسے ضوریز کا محض ایک ڈیلیٹ شدہ میسج وصول ہوا۔ ایک دو مس کالز بھی تھیں۔ البتہ نویرا کا میسج پڑھ کر وہ کچھ پریشان ہوئی تھی:

"ایک کیس ہے۔ میں وہ تمہیں دینا چاہتی ہوں۔ صبح جلدی چیمبر آجانا! کیس اسٹڈی کرنے میں تبھی مدد کر سکوں گی۔"

اسے دلی خوشی ہوئی۔ تین مہینوں میں نویرا نے پہلے بار اسے کوئی اپنا کیس دینے کی حامی بھری تھی ورنہ ان تین ماہ میں تو وہ پنچایتوں کے ذریعے چھوٹے موٹے اراضی کے جھگڑوں اور گھریلو تشدد کے کیسز میں پھنسی خوار ہی ہوئی تھی۔ وہ خوب تیار ہوئی۔ وہی پرانی الوینہ جہاں داد لوٹ آئی جو فتح کی خوشی سے سرشار مغرور ہوئی جا رہی تھی۔ اس کی کار (صد شکر) بلال کہیں سے واپس لے ہی آیا تھا۔ اسے ڈرائیو کر کے چیمبر پہنچی تو ٹھٹک گئی۔ پارکنگ ایریا میں سفید (limousine) کھڑی تھی۔ شاید کوئی اعلیٰ افسر تشریف لاۓ تھے، شاید کسی بڑے افسر کا کیس تھا۔ الوینہ مخصوص اتراتی چال چلتی لابی سے گزرتے نویرا کے روم میں آئی۔ 

اور دہلیز پر ہی ٹھہر گئی۔

وہ یہیں کھڑے ہو کر بھی دیکھ سکتی تھی کہ نویرا اکیلی نہیں تھی۔ بڑے صوفے پر کوئی ٹانگ پر ٹانگ رکھے براجمان تھا۔ الوینہ دور سے ہی دیکھ سکتی تھی کہ اس کے چہرے پر برہمی تھی جسے وہ بدقت چھپاۓ بیٹھا تھا۔ 

"الوینہ۔" نویرا نے اسے دیکھ لیا تھا:

"کم اِن۔ کم اِن۔" الوینہ کے قدم پتھر ہو گۓ۔ نویرا خود اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ اب صوفے پر بیٹھے شخص سے مخاطب تھی:

"کیا آپ یہیں کمفرٹیبل محسوس کریں گے سر؟"

"اٹس اوکے۔" وہ فوراً بولا۔ نویرا نے نامحسوس انداز میں سر خم کیا اور نکلتی چلی گئی۔ روم میں خاموشی تھی۔ دو نفوس ساکت و جامد تھے۔ پھر الوینہ کے لبوں پر ایک ظنریہ مسکراہٹ ابھری۔ کایا پلٹ گئی تھی لیکن وہ اب بھی مضبوط کھڑی تھی:

"پاور۔" اس نے ایک حرف اگلنے میں کئی لمحے لگا دیے:

"جب پاور ملتی ہے تو تم جیسے لوگ ہم جیسے لوگوں کو کیسے منٹوں میں خرید لیتے ہیں، ایڈووکیٹ ضوریز حسن اعوان۔"

پھر وہ رکی نہیں اور الٹے قدموں پلٹی۔ لابی تک آئی۔ سامنے نویرا کھڑی تھی۔ الوینہ کا رخ اسی کی جانب تھا:

"تو اس لیے مجھے یوں افراتفری میں بلایا گیا۔" الوینہ کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ظاہر ہو رہے تھے:

"میں سمجھی میرے ٹیلنٹ کو پرکھا گیا ہے۔ مجھے اہمیت دی گئ ہے اور مجھے آپ نے کوئی اسائمنٹ دینے کے لیے بلایا ہے۔ لیکن یہاں تو آپ میرے وقت کو بیچ چکی ہیں۔ مجھے بیچ رہی ہیں۔"

"بیچ۔۔۔ بیچنا۔" نویرا گڑبڑا گئی:

"وہ ضوریز حسن ہے الوینہ۔ اور وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔ مجھے نہیں پتا اس کا تم سے کیا رشتہ ہے اور۔۔۔۔"

"اس نے یقیناً آپ سے کہا کہ وہ اس کیس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہے جس میں وہ آپ کے خلاف لڑ رہا ہے اگر آپ اسے مجھ سے ملوا دیں۔ اور آپ نے اسے ملوا دیا۔"

نویرا کچھ کہہ نہیں سکی۔ ادھر آفس میں بیٹھے ضوریز کا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ پھر وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور باہر آیا۔ لابی سے گزرتے ہوۓ اس نے الوینہ کا بازو تھاما اور اسے اپنے سارے باہر لے جانا چاہا۔

"چلو میرے ساتھ۔"

"میں تمہاری لونڈی نہیں ہوں۔" الوینہ حلق کے بل چلائی تھی،  بازو چھڑا لیا:

"میں تمہاری بیوی نہیں ہوں جس پر تم یہ حق جتا رہے ہو، تمہاری داشتہ نہیں ہوں جو یوں زبردستی کر رہے ہو۔"

سب یکلخت رک کر انہیں دیکھنے لگے تھے۔ ضوریز مزید لال ہو گیا تھا۔

"یہاں تماشا مت لگاؤ الوینہ۔ آرام سے میرے ساتھ باہر چلو۔"

وہ دبے دبے لہجے میں غرایا اور الوینہ کو کھینچ لیا۔ وہ پارکنگ ایریا تک اس کے ساتھ کھینچتی آئی، خود کو چھڑانے کی مزاحمت کرتی رہی اور جب وہ لیموزین کے قریب آکر رکا تو اسے چھوڑ دیا۔ 

"how dare you manhandle me, Zoraiz Hussan?"

اس کی آواز گونج رہی تھی، لڑکھڑا رہی تھیں، آنکھیں سرخ تھیں، بہہ رہی تھی:

"کیا میں کوئی کھلونا ہوں جو تم مجھے یوں ٹریٹ کرتے ہو۔"

"کھلونا نہیں ہو۔ تم ایک بے وقوف، بے لگام اور بدزبان عورت ہو۔"

"اور تم ایک بے وفا اور بدکردار مرد ہو۔"

"الوینہ اپنے الفاظ درست کرو۔" اس کے واقعی دل پر لگی تھی اور آنکھوں سے آگ بن کر نکلی تھی۔

"کیوں؟ ورنہ کیا کرو گے؟" وہ ہتھے سے اکھڑ رہی تھی:

"مجھے اپنے باپ کی جیل میں پھینکوا دو گے۔ جیسے تمہارے باپ نے میرے باپ کو مروایا ویسے تم مجھے مروا دو گے۔ ہر کیس جیتتے ہو ناں۔" وہ دو قدم آگے آئی تھی:

"مجھ پر ہراسمنٹ کا کیس ڈالو گے۔ مجھے سربازار نیلام کرو گے یا اپنی بدکرداری کا ثبوت دیتے ہوۓ مجھے بے عزت کرو گے۔"

"میں اس وقت واقعی حد سے گزر جاؤں گا۔" اس کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں، آنکھوں میں خون تھا۔

"جو بکواس تم نے شفق سے کی اسے سننے کے بعد میرا دل کر رہا تھا میں تمہیں جان سے مار دوں۔ میں تمہارے اور میرے رشتے کو چھپانے کی ممکنہ کوشش کر رہا ہوں کہ کہیں جسٹس سلیمان تمہیں تکلیف نہ پہنچائیں لیکن تم۔۔۔"

"جو سچائی شفق نے بیان کی اسے سننے کے بعد میرا دل کر رہا تھا میں خود کو دار پر لٹکا لوں۔" اس کی آواز بےساختہ لرز گئی اور آنسو بےآواز بہہ گۓ تھے۔ وہ ضوریز کے قریب آئی۔ اس کے روبرو کھڑی ہو گئی:

"تم ایک دوغلے انسان ہو ضوریز۔ تم۔۔۔ تم باقیوں سے الگ نہیں ہو۔"

"تم بھی ایک خودغرض لڑکی ہو الوینہ۔ تم اب میرے دل میں کہیں نہیں ہو۔"

"آئی لو یو، ضوریز۔"

اس نے چاہا ضوریز کے لبوں پر اپنے لب رکھ دے۔ اس نے چاہا پھر دھول بن کر اس کے قدموں میں رُل جاۓ۔ ایک بار پھر الوینہ نے خود کو گرایا۔ ایک بار پھر جیتتے جیتتے بھی خود کو ہرا کر اسے سرخرو کرنا چاہا۔

"لیکن وہ اسے بازو سے ہٹا کر نکل گیا۔

پاور۔۔۔ جب مرد کو ملتی ہے تو عورت زیر کر دی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے بہت دکھ ہوا کہ اس نے پھر روتے ہوۓ سوۓ یار سے واپسی کا رخ کیا۔

اسے مزید دکھ ہوا جب اس نے بلال کو لاؤنج میں صوفے پر ٹانگیں پساڑے، لیپ ٹاپ گود میں لیے بیٹھے دیکھا۔ وہ روتے ہوۓ، بلکتے ہوۓ کمرے کی جانب، بھاگی تھی اور بلال نے دیکھ لیا تھا۔ وہ اسے ہمیشہ یوں تہی دامن سا، شکست خوردہ سا کیوں دیکھ لیتا تھا، پھر اس پر مستزاد وہ اس کا احتساب کیوں نہیں کرتا تھا۔ اسے روتا دیکھ کر مزید نہیں رلاتا تھا، حسبِ معمول ظنر نہیں کرتا تھا۔

وہ کچھ کہے بغیر بیگ پھینک کر کمرے میں آئی اور مقید ہو گئی۔ پیالہ ہاتھوں میں گراۓ وہ بستر پر گر گئی۔ پھر اٹھ بیٹھی۔ الوینہ کو آج تسلیم کرنا تھا کہ وہ ہمیشہ سچ کہتا آیا تھا۔ اس نے آئی پوڈ اٹھایا تھا اور اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ لیا:

""تم نے صحیح کہا تھا۔ تم نے صحیح کہا تھا جب کہا کہ وہ ایک خودغرض انسان ہے۔ وہ واقعی خودغرض ہے، بے وفا ہے اور انتہائی احسان فراموش انسان ہے۔"

وہ سب کہہ کر دل ہلکا کرنا چاہتی تھی۔  لیکن مخاطب دوسری جانب موجود تھا۔ اگے ہی لمحے جواب ملا تھا:

"کون سا انسان خودغرض نہیں ہوتا مس جہاں داد۔ کونسا مرد بے وفا نہیں ہوتا؟"

"اس نے کہا کہ میں اس کے دل میں کہیں نہیں ہوں۔ کیا اتنی جلدی کوئی کسی کو دل سے کھرچ کر پھینک سکتا ہے؟ کیا کوئی لمحوں میں کسی کو بے وقعت کر سکتا ہے؟ محبت تو جاودانی ہے۔ پھر وہ یوں محبت کا جنازہ کیسے نکال سکتا ہے؟"

"شاید وہ غصے میں تھا۔ شاید وہ سب غصے میں کہہ گیا۔" گمنام آدمی کہہ رہا تھا۔ الوینہ بپھر گئی ھی۔ غم وغصہ ایک ہو گیا تھا:

"اس نے میرے ساتھ بے وفائی کی، مجھے اتنا عرصہ استعمال کیا، اپنی اصلی محبت کی آڑ میں مجھے استعمال کیا، مجھے بے عزت کیا اور کہا کہ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے، کہ وہ مجھے جان سے مار ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر بھی میں سمجھوں اس نے سب بے خیالی میں کیا۔ میں سمجھوں کہ سب اس سے غلطی سے سرزد ہوا۔"

"وہ مجبور ہو سکتا ہے مس جہاں داد۔"

"تم اس کی حمایت کیسے کر سکتے ہو۔" الوینہ کو حقیقی صدمہ پہنچا تھا:

"تم ہمیشہ مجھے کہتے آۓ ہو کہ وہ میرے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ ہمیشہ اسے مجھ سے متنفر کرتے آۓ ہو۔ اور اب جب میرا دل شبہات کا شکار ہو گیا ہے تو تم کہتے ہو کہ وہ مجبور ہو سکتا ہے، کہ جو اس نے کیا وہ غصے میں دیا گیا ردعمل ہو سکتا ہے۔"

 "میں نے یہ کہا کہ وہ خودغرض ہے، یہ نہیں کہا کہ وہ آپ سے محبت نہیں کرتا۔"

الوینہ کچھ کہہ نہیں سکی۔ گول نقطے اسکرین پر ہلتے نظر آرہے تھے:

"یہ راستہ آپ نے چنا ہے مس جہاں داد۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ غلط ہے لیکن آپ نے یہی راستہ چنا۔ یہ آپ کا انتخاب تھا، میرا اس پر اختیار نہیں تھا۔"

"میں واپس نہیں پلٹ سکتی۔ میں واپس پلٹنا ہی نہیں چاہتی۔" الوینہ نے کرب سے آنکھیں موند لی تھیں:

"تمہیں نہیں پتا مجھے ضوریز حسن سے کس قدر محبت ہے۔ تمہیں نہیں پتا۔"

"شاید میں جانتا ہوں مس جہاں داد۔ جبھی تو آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔"

"میں بری نہیں ہوں۔ میں ضوریز کا برا نہیں چاہتی۔ میں تمہارا برا نہیں چاہتی۔ میں بلال کا برا بھی نہیں چاہتی۔" وہ اب لکھتی جا رہی تھی:

"پر میں برا کر رہی ہوں۔ میں ایک بے وفا شخص سے محبت کر کے خود کو برباد کر رہی ہوں۔ اس شخص کی بیوی کا حق چھین رہی ہوں۔ میں اپنے۔۔۔ اپنے شوہر کا حق چھین رہی ہوں۔"

"آپ کی شادی جن حالات میں ہوئی ہے وہ سازگار نہیں تھے۔ اگر آپ بلال کو اپنا شوہر نہیں مانتیں تو آپ بھی غلط نہیں ہیں مس جہاں داد۔"

"پھر وہ میرا شوہر ہے۔" وہ اپنا احتساب کر رہی تھی:

"میں مانوں یا نا مانوں، وہ مجھ پر حق رکھتا ہے۔ میں اس کے ساتھ زبان درازی کرتی ہوں، اس کو بے عزت کرتی ہوں، اس کے بے غیرت کہتی ہوں لیکن وہ برداشت کرتا ہے۔ وہ برداشت کیوں کرتا ہے۔ میں نے بلال کو لاکھ مرتبہ بدکردار کہا۔ اس کے ماتھے پر بل بھی نہ آیا۔ آج میں نے ضوریز کو بدکردار کہا۔ اس نے جواباً مجھے دل سے نکال پھینکا۔"

"پھر آپ کیا چاہتی ہیں مس جہاں داد؟" وہ سوال ایک لمحے کا تھا۔ وہ سوال پوری پوری زندگی تھا۔  

"میں چاہتی ہوں بلال مجھے چھوڑ کر ایسی عورت کو چنے جو اس کے لائق ہو۔ میں چاہتی ہوں ضوریز شفق کو چھوڑ کر مجھے اپنا لے کیونکہ میں اس کے لائق ہوں۔"

"پھر میرا سہارا لینا چھوڑ دیں۔" اسے لگا ان تین گھومتے نقطوں میں عجیب سا ملال تھا۔ الفاظ نظر آرہے تھے:

"میں نہ آپ کا ضوریز ہوں نہ آپ کا بلال۔ آپ جو کہنا چاہتی ہیں اپنے عاشق سے کہیں یا اپنے شوہر کو بتائیں۔ میں آپ کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں اب بھی کچھ نہیں ہوں۔"

"تم کون ہو؟" وہ سوال جو وہ ہمیشہ کرتی تھی۔ جس کا جواب کبھی نہیں ملتا تھا۔ وہ دوسری جانب اب موجود نہیں تھا، الوینہ جان گئی تھی۔ ضوریز حسن کہیں ذہن میں نہ رہا۔ بلال سوچوں سے محو ہو گیا۔ وہ اس پہلو پر سوچتی رہی۔ وہ کسی سے محبت کرتی ہے، اور کوئی اس سے محبت کرتا ہے۔ کوئی ایسا جو سمجھتا ہے الوینہ جہاں داد لاحاصل ہے۔

وہ صورت حال پر غور کرتی رہی پھر جھٹکے سے اٹھی۔ سیڑھیاں اتر کے لاؤنج میں آئی۔

"بلال۔"

وہ ابھی تک اسی انداز میں بیٹھا تھا۔ لیپ ٹاپ گود میں تھا اور سر صوفے کی ہتھی پر ٹکا ہوا تھا۔ اپنا نام سن کر چونکا۔ پھر الوینہ کو دیکھ کر اس کا چہرہ سپاٹ ہو گیا۔

"فرمائیے۔" الوینہ محسوس کرتی تھی وہ اس سے نظریں نہیں ملاتا تھا۔ شاید وہ اس قابل ہی نہیں تھی کہ وہ اس سے نظریں ملا کر بات کرتا۔

میری جاب چلی گئی۔"

"تم کوئی جاب کرتی بھی تھیں؟" بلال نے طنز کیا۔

"مجھے لاء پریکٹس نہیں کرنا۔ مجھے کسی کے ساتھ اس کے چیمبر میں نہیں بیٹھنا۔"

"تو؟" بلال کا لہجہ مصروف تھا۔

"تو یہ کہ تمہیں بتا رہی ہوں!"

"کس لیے؟" وہ اب متوجہ تھا۔ الوینہ کی بھنویں سکڑ گئیں۔ پھر آہستہ آہستہ اعصاب ڈھلے۔ اس نے سنا، بلال کہہ رہا تھا:

"میں تمہاری بات تب سنوں جب میری کہی ہوئی کوئی بات تمہارے لیے معنی رکھتی ہو الوینہ۔"

الوینہ کچھ نہیں بولی۔ کھڑی رہی۔ پھر پلٹ کر کمرے میں جانے لگی۔

"سنو۔"  الوینہ رک گئی۔ بلال اسے دیکھ رہا تھا:

"ابھی کیوں رو رہی تھیں؟"

وہ پوچھ رہا تھا اور الوینہ کو لگا اس کی آنکھیں بھر آئی ہیں۔ کیا وہ دوبارہ طنز کر رہا ہے؟ کیا وہ صرف معلومات کے لیے پوچھ رہا تھا۔ اس نے جواب نہیں دیا۔ چلتی چلی گئی۔

"آج رات تمہارے مرحوم 'باپ کے گھر' جانا ہے۔" بلال نے باآواز اسے مطلع کیا تھا۔ الوینہ ایک بار پھر رک گئی۔

" کس لیے؟"

"خالہ سے ملنا ہے۔" وہ کہہ کر پھر لیپ ٹاپ پر جھک گیا تھا۔ الوینہ نے پس و پیش نہیں کی۔ وہ لوگوں کی قوتوں کے آگے مزاحمت کرتی تھک گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہانیہ امید سے تھی۔

جہاں داد ہاوس میں اس کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھ گئی تھی۔ منان کا پیار اور بھی پختہ ہو گيا تھا۔ بینش اپنے میکے گئی تھی۔ عمیر اب بہت کم جہاں داد ہاؤس کا چکر لگاتا تھا۔ کام بلال کا ہی تھا۔ وہ حنان سمیت دیر تک خالہ کے سامنے بیٹھا رہا تھا۔ شاید فیکٹری کا معاملہ تھا۔ خالہ حصے کی بات کر رہی تھیں۔ بلال  کچھ طلب کر رہا تھا۔ الوینہ کو کانا پھوسی کی عادت نہ تھا۔ اس کے جاثیہ سے خوشگوار مراسم نہ تھے سو وہ دیر تک لاؤنج میں کنزیٰ کے ساتھ بیٹھی رہی۔

"میں اداس ہوں باجی۔" وہ واقعی رو دینے کو تھی:

"آپ بھی چلی گئی ہیں۔ بلال بھیا بھی چلے گۓ ہیں۔ آپ یہاں بہت کم آتی ہیں۔ وہ یہاں بالکل نہیں آتے ہیں۔"

الوینہ چپ تھی۔ وہ یہاں آتی تو ہونٹ سیے رکھتی تھی۔ چہرے پر کرختگی سجاۓ رکھتی تھی۔ یہ سب آستین کے دشمن تھے۔ یہ سب اسکی کہانی کے ولن تھے۔ تبھی دہلیز میں کھٹکا سا ہوا تھا۔ وہ چونکی کہ شاید بلال ہے۔ دیکھا تو سامنے سے حنان چلا آرہا تھا۔ اس کا رخ سیڑھیوں کی جانب تھا لیکن الوینہ کو دیکھ کر بدل لیا تھا۔

" لیڈی ڈایانا۔" وہ چہکا تھا۔ اس کی مسکان بھی ظنریہ تھی۔ اس کی نگاہیں بھی طنزیہ تھیں۔ دھم سے وہ صوفے پر آ بیٹھا تھا۔ پھر کنزیٰ سے کہنے لگا:

"جاؤ چھوٹو، میرے لیے پانی لاؤ۔"

کنزیٰ بگڑی۔ مہینے میں ایک بار اس کی بہن آئی ہے اور اس دوران بھی اسے اس کے پاس بیٹھنے نہیں دیا گیا۔ وہ بادل نخواستہ اٹھی تو حنان کی نگاہوں کا مرکز ایک بار پھر الوینہ کا چہرہ بن گیا:

"اور سنائیں، عیش کر رہی ہیں مادام؟ یا ایسے کہوں کہ شوہر کو عیش کروا رہی ہیں۔"

وہ مسکرا رہا تھا۔ الوینہ نے چہرہ موڑ لیا تھا:

"کیا مزے ہیں ناں بلال کے۔ بیٹھے بٹھاۓ اسے ایک خوبصورت کیریئر وومین مل گئی، فیکٹری کا حصہ بھی مل گیا۔ بڑے نصیب ہیں۔"

"تم جیسے نکھٹو کو بھی تو ایک بیٹھے بٹھاۓ بیوی مل گئی، حالانکہ نہ شکل ہے نہ صورت۔ باپ کے چھوڑے ہوۓ پیسے پر سانپ بن کر بیٹھتے ہو۔ افیم کی ترسیل کرتے ہو۔  کس قدر خوش نصیب ہو۔"

"قسمت کی بات ہے الوینہ۔" وہ کھل کر ہنسا:

"میں بھی کیا بے وقوف تھا جو تمہاری پیروں کی دھول بنا رہتا تھا۔ تم سے جدا ہو کر جیسے مکمل ہو گیا ہوں۔ اور ہاں، میری بیوی میری بات مانتی ہے، میری پسند پر چلتی ہے۔ شکر ہے وہ تم جیسی زبان دراز اور بے غیرت عورت نہیں ہے۔ شکر ہے وہ تم سے کہیں درجہ بہتر ہے۔"

الوینہ کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔ وہ جھٹکے سے صوفے سے اٹھی۔ اسی لمحے حنان بھی اٹھا۔ الوینہ صوفہ پار کر کے قالین پر نکلی تو اس نے الوینہ کا بازو تھام لیا:

"اور کیا وہ ایس پی کا بیٹا ابھی بھی سین میں ہے الوینہ؟" وہ اب الوینہ کے دل پر وار کر رہا تھا، اس کا ہتک آمیز لہجہ الوینہ کو جلال دے رہا تھا:

"یا بلال نے تمہیں اس قدر سیر کر دیا ہے کہ اب تمہیں اس کی ضرورت نہیں رہی۔"

"مجھ سے دور رہو، حنان۔" اسے اس کے حصار میں الجھن سی ہو رہی تھی۔ جانے کنزیٰ پانی لے کر اب تک واپس کیوں نہیں آئی تھی:

"کیوں؟ پہلے تو تمہیں لوگوں کو ملتجی نگاہیں لیے اپنے قریب دیکھنے میں مزہ آتا تھا۔ اب کیا ہوا جو تم یوں بدل گئی ہو۔"

حنان نے مزید سختی سے اس کا بازو تھاما، الوینہ نے چھڑایا اور عین اسی وقت بلال پھپھو کے کمرے سے برآمد ہوا۔ حنان نے اس دیکھا تو الوینہ کے بازو پر خودبخود گرفت ڈھیلی ہو گئی۔ الوینہ نے بازو پرے کھینچ لیا پر وہ جانتی تھی بلال نے اگر سب سنا نہیں ہے تو دیکھا ضرور ہے۔ اس نے استفسار نہیں کیا لیکن اس کی آنکھوں میں ناپسندیدگی جھلکی تھی۔

الوینہ پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ اب گھر واپس جا سکتے ہیں اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گئی۔ بس ایک بار اس نے پلٹ کر دیکھا تھا تو بلال سپاٹ چہرہ لیے حنان سے کچھ کہہ رہا تھا۔ الوینہ نے منہ پھیر لیا اور پورچ تک آئی۔ کتنی ہی دیر وہ کار میں بیٹھی رہی۔ بلال کچھ منٹوں بعد باہر آیا تھا۔ بلال اس سے بلاضرورت بات نہیں کرتا تھا۔ اکثر چپ رہتا تھا لیکن آج اس سے خاموش نہیں رہا گيا۔

"کیا کہہ رہا تھا حنان؟" اس نے پوچھ ہی لیا۔ الوینہ نے نخوت سے سر جھٹکا۔

"وہ پوچھ رہا تھا کہ میں کتنی بار تمہیں عیش کرا چکی ہوں۔"

وہ پریقین تھی کہ بلال اب خاموش ہو جاۓ گا۔ خلاف توقع بلال ہنسا۔ کھل کر ہنسا:

"پھر تم نے اسے بتایا۔۔۔" وہ ہنستے ہوۓ کہہ رہا تھا:

 "کہ تم مجھے اپنے قریب تو کیا اپنے کمرے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتیں۔ اسے بتاتیں کہ تمہارا شوہر اس قدر مظلوم ہے کہ الگ بیڈ پر، الگ کمرے میں سوتا ہے اور عین ممکن ہے کہ اگلے ماہ تک وہ الگ گھر میں ہی شفٹ ہو جاۓ۔"

الوینہ نے گھور کر اسے دیکھا۔ اس کے سر پر لگی تھی اور تلووؤں میں بچھی تھی۔

"تو تم اس گھر میں تمہاری ماں کا جو حصہ ہے وہ لینے آۓ تھے۔ جائیداد کی مانگ کرنے آۓ تھے کیوں ہے ناں؟"

بلال کی نظریں سڑک پر جمی رہیں۔ اس کا لہجہ متوازی تھا۔

"میں نے گھر میں سے حصہ نہیں مانگا۔ خالہ خود دینے پر بضد ہیں۔ میں نے تو بس فیکٹری میں سے حصے کی مانگ کی تھی۔"

"کیوں، تم اب افیم بیچتے بیچتے تھک گۓ ہو۔"

بلال کی نظریں ہنوز سڑک پر ٹکی تھیں۔ اس نے نفی میں سر ہلایا:

"یہ پیشہ تمہارے باپ، تمہارے چچا اور تمہارے تایا کا ہے۔ نہ اس میں میری ماں کا کوئی عمل دخل تھا اور نہ میرے باپ کا۔ مجھے اپنے خاندان کے ناجائز کاروبار میں شرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"

"ناجائز کاروبار سے کماۓ گۓ پیسوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟" الوینہ کا طنز کیسا تھا کہ بلال نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ الوینہ محسوس کر سکتی تھی کہ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا:

"فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ پیسہ خود پر خرچ نہیں کروں گا۔"

الوینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ باقی سفر خاموشی سے کٹا۔ وہ گھر واپس آۓ تو الوینہ نے کمرے میں جانے سے پہلے فون چیک کیا۔ ضوریز کا کوئی میسج نہیں تھا، کوئی کال نہیں تھی۔ اس کے دل میں بے نام سا درد اٹھا۔ سب رشتے ایک لمحے کے لیے ثانوی ہو گۓ۔ وہ اپنے کمرے کی دہلیز پار نہیں کر سکی۔ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی اور بالکونی میں آٹکی، کچھ اداس سی، پر ملال سی۔

تبھی اسے اپنے پیٹ کے گرد کسی کے بازوؤں کا حصار محسوس ہوا۔ وہ تپ گئی۔ گرج اٹھی۔

"میں کچھ دنوں میں تم سے ڈائیوورس پیپرز مانگ لوں گی۔"

"ابھی مانگے تو نہیں۔" سرگوشی اس کے کان کے بہت قریب سے کی گئی تھی۔ الوینہ نے محسوس کیا کہ اگر وہ پلٹی تو مزاحمت نہیں کر پاۓ گی۔

"کل میں کورٹ جاؤں گی۔" اس نے ہونٹ بھینچتے ہوۓ کہا:

"اور ایک ریسٹریننگ آرڈر فائل کرواؤں گی جس کی رو سے جب تک ہماری طلاق نہیں ہو جاتی، تم مجھ سے چھے فٹ کے فاصلے پر رہو گے۔"

"کیا تم کورٹ جا سکتی ہو؟ کیا تمہارا موجودہ صورت حالوں میں وکلاء کے ساتھ جھگڑا نہیں چل رہا؟"

الوینہ کا دل دھڑکا۔ وہ یہ کیا بات کر رہا ہے۔ کیا کہہ رہا تھا۔ وہ عجلت میں پلٹی لیکن مزید آگے نہیں بڑھ سکی۔ بلال راہ میں حائل تھا۔ وہ آگے نہیں جا سکی۔

"اور میں کوئی وائرس ہوں جو اگر چھے فٹ کے فاصلے پر نہیں رہیں تو تم سے لپٹ جاؤں گا؟"

"اب بھی لپٹے کھڑے ہو۔" الوینہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی تو بلال کے لبوں پر ہلکی سی مسکان ابھری۔ ابرو استعجاب میں اٹھی۔ وہ دو قدم مزید آگے آیا اور الوینہ ریلنگ پر ٹک گئی۔ وہ غیر محفوظ تھی۔ہاں وہ اس وقت بالکل بھی محفوظ نہیں تھی۔

"تم اسے لپٹنا کہتی ہو؟" الوینہ کے دماغ میں گھنٹی بجی۔ وہ مزید قریب ہوا:

"کیا تمہیں بتاؤں لپٹنا کسے کہتے ہیں؟"

"بلال پلیز۔"

 وہ سمٹ کر رہ گئی۔ 

"التجا کر رہی ہو لیکن لہجہ حکمیہ بنا رکھا ہے۔"

وہ اب واضح ٹارچر کر رہا تھا۔ الوینہ سختی سے ہونٹ بھینچے، بدن سمیٹے کھڑی تھی۔

"میرا لہجہ ایسا ہی ہے، بدل نہیں سکتی۔" اس کی پوری کوشش تھی وہ مضبوط رہے۔ بلال نے دونوں بازو اس کے دائیں بائیں ریلنگ پر ٹکا لیے تھے۔

وہ مقید کھڑی رہی۔ وہ قید کیے کھڑا رہا۔ نہ خود گيا، نہ اسے جانے دیا۔ اور پھر الوینہ کے فون کی اسکرین روشن ہوئی۔ اگلے ہی سکینڈ میں ٹون کی آواز آئی۔ الوینہ کا سر بالکونی سے نیچے جھول رہا تھا۔ وہ دیکھ نہیں سکی۔ البتہ بلال کی نظریں لمحہ بھر کے لیے جھک کر الوینہ کے فون پر پڑیں اور مزید اندھیری ہو گئيں۔ الوینہ نے محسوس کیا وہ پلٹ گیا تھا۔ اس نے اپنی بند آنکھیں کھولیں تو خود کو بلال کے حصار سے آزاد پایا۔ خود کو بالکونی میں اکیلا پایا اور بلال کو اپنے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھا۔

اس نے فون سیدھا کیا۔ سکرین پر بس دو الفاظ لکھے تھے:

"الوینہ کا ضوریز۔"

الوینہ کا دل کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ وہ اسے کال کر رہا تھا۔ وہ الوینہ کو کال کر رہا تھا۔ اس نے جلدی سے سبز بٹن پر کلک کرنا چاہا لیکن نگاہیں خودبخود اپر لیفٹ کمرے تک سفر کر گئيں۔ بلال نے پوری قوت سے دروازہ لگایا تھا۔ الوینہ کی انگلی خودبخود سرخ بٹن تک حرکت کر گئی۔

وہ دو کشتیوں کی سوار تھی۔

بلال کا ہونا نہیں چاہتی تھی۔

ضوریز کو چھوڑ نہیں سکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح فون دیکھا تو بہیتری کالز آچکی تھیں۔ ناشتے کے بعد دیکھا تو تعداد دوگنی ہو گئی تھی۔ دوپہر کے وقت اس نے موبائل آف کر دیا۔ وہ اب کی بار قدموں کی دھول نہیں بنے گی۔ اب وہ اس قدر آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرے گی۔ 

بلال بھی آج آفس سے واپس نہیں آیا۔ وہ دن بھر فون پکڑے کھڑکی کے پاس بیٹھی رہی۔ پھر چار بج گۓ۔ شام اگنے لگی۔ وہ جانے کب بیٹھے بیٹھے ہی اونگھنے لگی۔ اس کی نیند کار کے ہارن سے ٹوٹی۔ تو کیا ہوا الوینہ؟ کارز کالونی سے گزرتی ہیں۔ اس نے نگاہ اٹھائی۔ سبزہ زار کے اس پار اجلی سڑک پر ڈالی تو درختوں کے درمیان دوڑتی سفید لیموزین دکھائی دی۔ 

الوینہ کا دماغ بھک سے اڑا۔ آنکھیں کے سامنے چھایا سایہ منٹوں میں چھٹا۔

"ضوریز۔"

وہ ڈوپٹہ سنبھالتی اٹھی۔ بھاگتے ہوۓ باہر آئی۔ منظر وہی تھا۔ تب رات تھی، اب دن تھا۔ تب الوینہ نے اسے بلایا تھا، آج وہ خود آیا تھا۔ الوینہ کے قدموں کو بریک دروازے کے قریب لگی۔ دوسری جانب وہ کار سے اترا تھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا دروازے کے اس پار آلگا تھا:

"الوینہ۔"

اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی، بے قراری سی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ گیٹ کی دونوں سلاخیں تھامتا، الویہ نے پورا گیٹ کھول دیا تھا۔ وہ دیوانہ جھونک میں چلتا آرہا تھا۔ اس کے قریب آکر رکا۔

"میں۔۔۔ میں بدکردار نہیں ہوں الوینہ۔"

الوینہ نے دیکھا اس کے لب کانپ رہے تھے، ہاتھ تھرتھرا رہے تھے:

"میں نے شفق کو ایکسپلائیٹ نہیں کیا۔ اس سے پیار نہیں کیا۔ میں اس سے محبت نہیں کرتا تھا، اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتا تھا۔"

"ضوریز۔" الوینہ نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے تھے پر وہ بولتا جا رہا تھا، نگاہيں کسی خلائی نقطے پر مرکوز تھیں:

"اس رات مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ ہاں بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔ پر میں شرمندہ تھا الوینہ۔ میں نے معافی مانگی تھی۔ کئی بار مانگی تھی جبکہ غلطی میری نہیں تھی۔ شروعات میں نے تو نہیں کی تھی پر۔۔۔ 

They just trapped me.

انکل نے کہا اگر میں نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ میرا معاملہ بڑھا چڑھا کر میرے فادر کو سنائيں گے، میڈیا کو بتائیں گے اور مجھے ریپسٹ کہلوائیں گے۔"

الوینہ نے بہت نرمی سے اس کے دونوں بازو تھام لیے۔ ضوریز نے سر جھکا کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی بے قراری تھی۔ انتہا کی بے چینی تھی۔

"میں ڈر گيا تھا الوینہ۔" اس نے تقریباً سرگوشی ہی کی تھی:

"میں ڈر گيا تھا کہ اگر میں نے مزاحمت کی تو وہ مجھے برہنہ کر کے پورے شہر کو دکھائیں گے۔ میں ڈر گيا کہ وہ مجھے میرے باپ کی نظروں میں گرا دیں گے۔ میں نے تمہیں اس سب سے بے خبر رکھا کیونکہ الوینہ، مجھے ڈر تھا کہ میں تمہیں کھو دوں گا۔" اس نے نرمی سے الوینہ کس گال پر ہاتھ رکھا، وہ سمٹ سی گئی تھی:

"مجھے اپنی عزت بہت پیاری ہے الوینہ۔ پر تم سا پیارا کوئی نہیں ہے۔"

الوینہ کا دل چھناکے سے ٹوٹا۔ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ پھر ریزہ ریزہ ہوا اور آخر میں پگھلنے لگا۔ ضوریز نے اسے نرمی سے خود سے جوڑ لیا اور سر اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ الوینہ کی رہی سہی مزاحمت بھی ختم ہوئی۔ اس نے آخر کیسے سوچ لیا کہ ضوریز حسن، اسکا ضوریز حسن بےوفائی کر سکتا ہے۔ آخر کیسے سوچ لیا کہ وہ محبت سے دستبردار ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات سچ ہے کہ ایسا ضرور لگتا ہے

اسے قریب سے دیکھوں تو دور لگتا ہے

مجھے پتا ہے کہ سازش اسی کی ہے لیکن

میں کیا کروں،مجھے وہ بے قصور لگتا ہے

س نے بتایا کہ وہ کتنا مجبور ہو گیا تھا، جیسے معذور ہو گیا تھا۔

اس کی شرٹ ڈھیلی ڈھالی سی تھی، پینٹ میلی سی تھی، کوٹ ندارد تھا، آنکھیں لال لال تھیں۔ الوینہ کے دل کا نرم گوشہ جاگ گيا تھا۔ ضوریز حسن کے لیے ہمیشہ جاگ جاتا تھا۔

"اس نے تمہارے دماغ میں صرف زہر بھرا۔" وہ اسے اکثر ملاقاتوں پر کہتا تھا:

"میں نے اسے نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ چھوا بھی نہیں تھا۔ وہ خود چل کر میرے پاس آئی تھی۔ وہ خود میری طرف مائل ہوئی تھی۔"

الوینہ اسے بولنے دیتی۔ اسے بغور سنتی، اس کے ہاتھ تھام لیتی۔ وہ اب مزاحمت سے باز رہتی تھی۔ حفاظت کی پرواہ نہیں کرتی تھی۔ ضوریز تھامنا چاہتا تو ہاتھ پھیلا دیتی، چومنا چاہتا تو سر جھکا لیتی، اسے قریب بلاتا تو حکم بجا لاتی۔ وہ سمجھتی تھی اس نے اب انکار ہوا تو وہ سب کھو دے گی۔ ضوریز نے اس کے انکار پر ایک بار نگاہیں پھیر لیں تو وہ رو دے گی۔

وہ اسے سب معاف کر چکی تھی۔ ایک بار، ہر بار کی طرح ایک بار پھر قربان ہو گئی تھی۔

پھر عورت کا تو نام ہی قربانی ہے۔ اس کا کام ہی قربانی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی ضوریز سے صلح کو تیسرا مہینہ تھا جب الوینہ نے مالیا کو دیکھا تھا۔ 

وہ کیفے میں بیٹھی تھی۔ ضوریز کے ساتھ کافی پینے آئی؛ تھی جب کندھے پر بیگ ڈالے کیفے سے مالیا نے اسے دیکھ کر اسی کی طرف آئی تھی۔ الوینہ کی رنگت ایک لمحے کے لیے فق ہوئی۔ وہ بلال کی محبوبہ، وہ امریکی عورت، وہ پاکستان میں تھی۔ وہ اسی شہر میں تھی۔ وہ جانے کب سے یہاں تھی۔ سب سے اہم بات تھی کہ وہ اس وقت اسی کیفے میں تھی، اسے دیکھ چکی تھی۔

"الوینہ۔" اس نے مخصوص برٹش لب و لہجے میں الوینہ کا نام لیا۔ پھر گھوم کر کرسی کے دوسری طرف دیکھا۔ الوینہ کا حلق کڑوا ہوا۔ ہاں وہ اسے ضوریز کے ساتھ دیکھ چکی تھی۔ 

"آپ؟؟؟" وہ اب ضوریز سے ہی مخاطب تھی۔ ضوریز لمحہ بھر کو ٹھٹکا تھا۔ سوالیہ نگاہوں سے الوینہ کو دیکھا تھا:

"یہ بلال کی دوست ہے۔ ان فیکٹ، دوست سے بھی زیادہ 'اہم شخصیت' ہے۔"

 الوینہ نے سلگتے لہجے میں ضوریز کو بتایا لیکن مالیا ہنس دی۔ اسے تعارف پسند آیا تھا۔ وہ ہنسی اور دوستانہ لہجے میں گفتگو کرنے لگی تو ضوریز اٹھ گیا۔ وہ صرف الوینہ کے لیے وقت نکال کر آیا تھا۔ اسے کورٹ واپس جانا تھا۔ وہ اٹھ گیا تو الوینہ بھی سارے آداب بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئی۔ مالیا سے کہہ گئی:

"تو پھر تم اور بلال کب شادی کر رہے ہو۔"

مالیا مسکرائی تھی۔ اس نے کندھے اچکا دیے تھے:

"میرے اور بلال کے ریلیشن کا تم سے کیا تعلق؟"  

"کیونکہ بلال میرا شوہر ہے اور تم سے پیار کرتا ہے، جتنی جلدی تم اس سے شادی کے لیے حامی بھرو گی، وہ مجھے طلاق دے گآ اور مجھے آزاد کر دے گا۔"

مالیا جوابا بہت دیر تک مسکراتی رہی تھی۔

"تم کچھ بھی نہیں جانتی ہو الوینہ۔" اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا اور الوینہ لال ہو گئی تھی۔ اسے مالیا ہمیشہ سے ناپسند تھی۔ جیسے اسے شفق سے نفرت تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے دیکھے سات دنوں سے زیادہ عرصہ ہو گیا تھا۔

الوینہ متعجب تھی کہ وہ اتنے عرصے سے خاموش کیسے ہے۔ وہ اپنے لیے ضوریز کے جنون سے واقف تھی۔ پھر اس کی ریاضتوں سے گھبرا بھی جاتی تھی۔  اسے معلوم ہوا وہ مصروف تھا۔ اسے پتا چلا وہ اپنے کیس پر کام کر رہا تھا۔

"تم ہر کیس کیسے جیت لیتے ہو۔" وہ اس کی ذات کے ہر پہلو سے مبہوت تھی۔ اس سے بری طرح متاثر تھی۔ جواباً ضوریز کے لبوں پر مسکان ابھری۔ دوارن گفتگو وہ پہلی دفعہ مسکرایا تھا۔ اور مسکراتے ہوۓ کتنا اچھا لگا تھا:

"میں میلینیم کا ٹاپر ہوں۔ ایل-ایل-ایم میں گولڈ میڈیلسٹ ہوں۔ یونہی تو شہرت نہیں ملتی۔ یونہی تو فتح نہیں ملتی۔"

"اور یونہی تو الوینہ جہاں داد نہیں ملتی۔" اس کا کتنا دل کیا تھا کہ وہ کہہ دے لیکن ضوریز دوبارہ فائلوں میں مصروف ہو گیا۔ الوینہ نے اپنے تاثرات چھپا کر فائل اٹھائی تھی:

"۔۔۔۔۔ بنام سرکار؟" وہ اگلے حصے پر ٹھٹک گئی۔ 

"تم قانون کے خلاف جا رہے ہو۔"

"میں صرف ایک ملزم کو ڈیفینڈ کر رہا ہوں۔" اس نے سادہ سے لہجے میں جواب دیا۔

"وہی ملزم جسے پراسیکیوٹر باآسانی مجرم ثابت کر سکتا ہے۔" الوینہ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔

"تم ایک کرمنل کو ڈیفنڈ کر رہے ہو؟ تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔"

ضوریز خاموش تھا۔ الوینہ کو جاننے میں ایک لمحہ لگا تھا۔

"جج کون ہے؟" وہ پوچھ رہی تھی۔ بہت توقف کے بعد ضوریز نے کہا تھا:

"جسٹس سلیمان۔"

اور الوینہ سارا معاملہ سمجھ گئی تھی۔ اس نے پرملال نگاہوں سے ضوریز کو دیکھا تھا:

"وہ تم سے ایک مجرم کی حمایت کروا رہے ہیں۔ انھوں نے تمہیں دفاعی وکیل کے طور پر منتخب کیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ پراسیکیوٹر کیس کو جتنا بھی آسان سمجھے، جب دفاع میں ضوریز حسن کھڑا ہو گا تو کیس کی کایا ہی پلٹ جاۓ گی۔"

"ہم سزا ملنے تک ملزم کو مجرم نہیں کہتے الوینہ۔" اس کی ہلکی سی آواز برآمد ہوئی۔ الوینہ نے سنا ہی نہیں۔ وہ اپنی کہتی جا رہی تھی:

"انہوں نے تم پر دباؤ ڈال کر یہ مقدمہ تمہیں سونپا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ہے، ہے ناں؟"

"وہ ملزم کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔"

"تم انہی کی زبان بول رہے ہو۔" الوینہ شکستگی سے پلٹی تھی:

"تم ان کا حکم ٹال کیوں نہیں سکتے ضوریز۔"

"تم اچھی طرح جانتی ہو کہ کیوں۔۔۔" ضوریز نے سر جھکا لیا تھا۔ الوینہ صدمے سے اسے دیکھے گئ:

"تم اپنے لیے اسٹینڈ لے سکتے ہو ضوریز۔ پلیز، یہ کیس۔۔۔"

ضوریز نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا تھا:

"تمہیں اب گھر جانا چاہیے الوینہ۔ کافی رات ہو گئی ہے۔"

وہ نگاہیں نہیں ملا رہا تھا۔ الوینہ سے منہ پھیر رہا تھا۔ الوینہ کو حقیقی صدمہ لگا ۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا اور اپنا ہاتھ ضوریز کے ہاتھ پر دھر دیا:

"ضوریز، تم انہیں منع۔۔۔"

"الوینہ، go۔" 

اس نے نرمی سے کہا لیکن الوینہ تڑپ کر اٹھی۔ اسے دلی دکھ پہنچا تھا۔ حقیقی تکلیف ہوئی تھی۔ ضوریز اس کے لیے بہت اہم تھا۔ وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ شکست خوردہ قدموں سے چلتی باہر آئی اور ٹھٹک گئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سڑک کے دوسری طرف سیاہ بی-ایم-ڈبل-یو سے ٹیک لگاۓ بلال ایستادہ تھا۔ الوینہ اس کی چبھتی نگاہیں دور سے ہی بھانپ گئی تھی۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتی اس کے قریب آئی تھی۔

"میری ڈرائیوری کرنے آۓ ہو؟" اسے اچھا نہیں لگا تھا۔

"تم نے وقت دیکھا ہے۔" اس کی پیشانی پر خفگی کے آثار نمایاں تھے:

"میں نے تمہیں دن میں تمہارے عاشق کے ساتھ گھومنے پھرنے کی آزادی دی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم رات کو واپس نہ آؤ۔"

"تم نے آزادی نہیں دی ہے۔ یہی معائدہ ہوا ہے۔"

"میں نے کوئی معائدہ نہیں کیا الوینہ۔ جو باؤنڈریز ہم نے قائم کی ہیں ان پر نہیں چلو گی تو خدا کی قسم، میرا دماغ خراب ہونے میں بس ایک منٹ لگے گا۔ ناؤ گیٹ ان ٹو دا کار۔"

"میں خود چلی جاؤں گی۔" اس نے ضد کی۔ بلال نے اس کا بازو کھینچ کر اسے کار کی جانب دھکیلا۔

"سنا نہیں میں نے کیا کہا۔"

"میں نے تمہیں کہاں تھا مجھے چھوا بھی مت کرو بلال۔"

"اور میں نے کہا تھا کہ مجھ سے تمیز سے بات کیا کرو الوینہ۔"

اس نے اتنا کہہ کر پوری قوت سے دروازہ کھینچا۔ الوینہ تن فن کرتی اندر بیٹھ گئی اور خود کو لاک کر لیا۔ بلال دوسری طرف سے ڈرائیونگ سیٹ تک آیا تو دروازہ بند تھا۔ الوینہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کار لاک کر چکی تھی۔ بلال بگڑ گیا۔

"دروازہ کھولو الوینہ۔" غصہ اس کی آنکھوں سے عیاں ہو رہا تھا۔

"میں نے کہا ناں، میں خود چلی جاؤں گی۔" اس نے آنکھیں گھمائیں اور بیک وقت ایکسیلیٹر دبایا۔ کار جھٹکے سے آگے نکل گئی۔ بلال صبر کے گھونٹ بھرتا کھڑا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہت دنوں بعد نازش اس سے ملنے آئی تھی۔ وہ متعجب نگاہوں سے الوینہ کو دیکھتی حیران تھی۔

"تمہاری شادی ہو گئی۔" اسے حقیقی صدمہ لگا تھا:

"تم نے شادی کر لی اور مجھے خبر نہیں ہونے دی۔ مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔"

"مجھے بھی پتا نہیں چلا نازش۔" وہ یوں بڑبڑائی کی نازش سن نہیں سکی۔

"میں فیشن ڈیزائیننگ کا کورس کر رہی ہوں۔ خالہ کے پاس دبئی گئی ہوئی تھی۔ واپس آئی ہوں تو تمہارے بارے میں سنا۔ میں تو۔۔۔ میں تو گنگ رہ گئی الوینہ۔"

الوینہ خاموش رہی، چپ چاپ سنتی رہی۔ پھر نازش نے ہچکچاتے ہوۓ کہا:

"الوینہ ایک۔۔۔ ایک بات پوچھوں۔'"

الوینہ جانتی تھی کہ وہ کیا پوچھے گی۔ اس نے وہی پوچھا تھا:

"تم اور ضوریز۔۔۔ تم تو ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔"

"شاید وہ وقت کبھی آیا ہی نہیں تھا۔" الوینہ نگاہیں پھیر کر رہ گئی۔ نازش نے ٹیک چھوڑی۔ چاۓ کے کپ میں گھورنے لگی۔

"شفق۔" وہ اب ہولے ہولے بتا رہی تھی:

"شفق پیاری ہے۔ میں تو ضوریز کے نکاح کا فنکشن بھی اٹینڈ نہیں کر سکی لیکن بعد میں البم دیکھی تھی۔ دونوں بہت پیارے لگ رہے تھے۔ بالکل ایک مکمل۔۔۔" وہ مزید کہنا چاہتی تھی لیکن الوینہ کے تاثرات دیکھ کر بات بدل گئی:

"پر مما کہہ رہی تھیں ان کا رشتہ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ میرا مطلب، دیکھو ناں ان کی شادی کو آٹھ مہینے ہو گۓ ہیں لیکن وہ ضوریز کے ساتھ کہیں نظر آئی۔ کسی بھی گیدرنگ میں وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لاتا۔ کبھی اسے آمنے سامنے دیکھنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ اور تو اور، ان کا تو کوئی بچہ بھی۔۔۔"

الوینہ کی آنکھوں میں اس لفظ پر لالی اتری۔ نازش گھبرا کر چپ گئی۔ اس نے سنا، الوینہ کہہ رہی تھی:

"وہ جس روز اسے چھوۓ گا، اس دن الوینہ جہاں داد کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔"

"الوینہ۔" نازش کانپ گئی تھی۔ یہ اسکی دوست کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ بے چین ہو کر اٹھی اور اسی لمحے مین دروازے سے بلال داخل ہوا۔ فون اس کے کان سے لگا تھا اور وہ عجلت میں دکھائی دیتا تھا۔ اس نے نازش کو دیکھا نہیں، الوینہ کے لیے رکا نہیں اور سیدھا اپنے کمرے میں گیا۔

"یہ تمہارے شوہر ہیں؟" نازش خودبخود بیٹھ گئی۔ الوینہ نے بدقت سر ہلایا۔

"ہاں تمہارے لائق تو نہیں لگتا۔" کہ الوینہ کا چاند سا چمکتا چہرہ اسے مزید تاریک دکھا رہا تھا:

"پر۔۔۔ دیکھنے میں ڈیسنٹ سا تو لگتا ہے۔" نازش نے دوبارہ کمرے تک جاتی سیڑھیوں پر نگاہیں ٹکا لی تھیں۔ تبھی بلال فون کان سے لگاۓ لگاۓ دوبارہ نیچے اترا۔ لاؤنج میں ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر اس نے نازش کو مکمل نظرانداز کرتے ہوۓ الوینہ کو دیکھا:

"میرے ساتھ چلو۔"

"کہاں؟" الوینہ اس افتاد پر تنک کر بولی۔

"کورٹ جانا ہے۔"

"کس خوشی میں؟" الوینہ کی بھویں تن گئيں۔ بلال نے ایک نظر نازش کو دیکھا، پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں الوینہ سے کچھ کہا۔ وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی اٹھی اور اس کے قریب آئی۔ استہفامیہ نگاہوں سے دیکھا۔

"عمیر کی ہائی کورٹ میں ہے۔ اور تم اچھے سے جانتی ہو کہ وہاں جج کون ہیں!"

-------------------

وہ چاہتے تھے الوینہ ضوریز سے کہے، ضوریز جسٹس سلیمان سے کہے اور فیصلہ عمیر کے حق میں ہو۔

الوینہ کی کڑی ناں تھی۔

"تم مجھے استعمال کر رہے ہو۔" وہ کورٹ میں ہی بلال پر برسی تھی:

"تمہیں میرا جس شخص کے سامنے جانا بھی پسند نہیں ہے، تم مجھے خود اس کے سامنے ہاتھ جوڑتا دیکھنا چاہتے ہو۔"

"میں نے تمہیں صرف تمہارے بھائی کا حکم سنایا ہے، فیصلہ تمہارا ہے۔ تم چاہو تو اپنے عاشق کو منا کر اپنے بھائی پر لگایا الزام منٹوں میں صاف کرا لو۔ اگر نہیں کرنا چاہتیں تو ابھی واپس چلی جاؤ۔"

وہ واپس چلی گئی۔ اسے اس جگہ سے وحشت ہو رہی تھی، عمیر کی دہشت طاری ہو رہی تھی۔ لیکن پھر گول ستون کے اس پار کھڑے مرد کو دیکھ کر رک گئی۔ فون سے کان لگاۓ، وہ ٹائی کو انگلی  پر رول کرتے ہوۓ پریشان سا لگ رہا تھا۔ الوینہ ٹھہر گئی تھی۔ اس کی طرف چلی آئی تھی۔ وہ اب بائیں ہاتھ کی انگلیاں چٹخا رہا تھا۔ الوینہ نے نامحسوس انداز میں اس ہاتھ تھام لیا۔ ضوریز یکلخت چونکا۔ عدالت کی مرتعش دیواروں اور بھانت بھانت کے چہروں اور بولیوں کے درمیان اسے ایک خوبصورت مسکراتا چہرہ نظر آیا۔ وہ اداسی سے مسکرایا، فون والا ہاتھ جھٹک دیا۔

"بیلیرینا۔ (ballerina)" 

الوینہ بے ساختہ مسکرائی۔ اس کا بے اختیار دل چاہا کہ ضوریز کے سینے پر سر رکھ کر بہت دیر تک کھڑی رہی۔ اس کے برعکس اس نے ستون سے ٹیک لگا لی۔

"کیسے ہو؟"

ضوریز نے کندھے اچکا کر فون لہرایا۔

"موکل کا انتظار ہے۔"

الوینہ کا چہرہ تاریک پڑا۔

"تو تم اس کیس سے دستبردار نہیں ہوۓ۔ تم نے میری بات نہیں مانی، ضوریز۔ کیا تمہاری نظروں میں میری اتنی اہمیت ہے؟"

"تمہاری بات کی اتنی ہی اہیمت ہے۔" اس نے کہا اور الوینہ کی آنکھیں مزید بجھ گئيں۔ وہ حسب معمول اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظریں راہداری سے گزرتے لوگوں پر ٹکی تھیں۔

"لوگ اسے مجرم کہہ رہے ہیں۔ مدعی اسے مجرم کہہ رہا ہے، پراسیکیوٹر، قانون اسے مجرم کہہ رہا ہے۔ وہ مجرم ہے یا نہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق تو اس بات سے پڑتا ہے کہ اسے مجرم کون نہیں کہہ رہا۔ اسے اسی شخص کی ضرورت ہے جو جانتا  ہے کہ وہ مجرم ہے لیکن وہ پھر بھی اسے بچانا چاہتا ہے۔ اسے۔۔۔ میری ضرورت ہے الوینہ۔"

الوینہ کچھ سمجھ نہیں سکی۔ بدحواسی میں اس نے اردگرد سے بے پرواہ ضوریز کے دونوں بازو تھامے:

"یہ تم کیا سوچنے لگے ہو، ضوریز؟" پھر وہ اچانک چونکی، بے یقینی سے ضوریز کو دیکھنے لگی:

"تم خود کو مجرم کہتے ہو، اسی لیے ان مجرموں کی حمایت کر رہے ہو۔"

"میں مجرم نہیں ہوں۔" وہ سخت پڑا۔

"ہاں، تم نے جرم نہیں کیا ضوریز۔ وہ بس ایک غلطی تھی۔"

"پھر مجھے ثابت کرنے دو کہ جو میرے موکل نے کیا وہ جرم نہیں بس ایک غلطی تھی۔"

"تمہارا معاملہ کچھ اور تھا ضوریز، تمہارے موکل کا معاملہ کچھ اور ہے۔"

"آئی ڈانٹ کیئر۔" اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔ الوینہ ششدر رہ گئی تھی۔ وہ اس ضوریز کو نہیں پہچانتی تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر پلٹ گئی اور ضوریز نے اسے روکنے کی زحمت نہیں کی۔ باخدا وہ اسے نہیں پہچانتی تھی۔

اس کا دل ہمیشہ کی طرح دکھا لیکن خود کو سنبھال کر وہ بیرونی احاطے کی جانب چلی تو قدم منجمد ہو گۓ۔ اس کو ایک لمحے کے لیے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔ وہ سمجھ نہیں سکی کہ وہ اب کیا کرے۔ اس نے چاہا کہ کاش اس لمحے اسے بلال دیکھ لیتا لیکن وہ آس پاس نہیں تھا۔ اس نے چاہا کہ کاش اس لمحے اسے ضوریز ڈھانپ لیتا لیکن وہ غائب ہو گیا تھا۔ 

"یعنی تم ابھی بھی باز نہیں آئی ہو، بے غیرت۔"

وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولا تھا۔ الوینہ کی جان نکل گئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

عمیر کے تھپڑ اس کا چہرہ لال کر گۓ تھے۔

اس کی ہمت جواب دے گئی تو وہ ہانپ کر دور جا کھڑا ہوا۔

حنان فیکٹری گیا تھا، منان ابھی کچھ دیر پہلے نکلا تھا۔ ہانیہ مارے خوف کے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ جاثیہ منہ پر ہاتھ رکھے سب دیکھ رہی تھی۔ ایک پھپھو تھیں جنہوں نے عمیر کو روکنا چاہا تھا لیکن اس پر جنون سوار تھا۔

"میں نے غلطی کر دی الوینہ۔" وہ دھاڑا تھا:

"میں نے غلطی کی جو تمہارا نکاح کیا۔ میں کیوں بھول گیا کہ فطرت نہیں بدلتی، میں کیوں بھول گیا کہ نکاح کی بیڑیاں بھی تمہیں بے غیرتی دکھانے سے روک نہیں سکتیں۔"

پھپھو نے کچھ کہہ کر اسے ہٹایا لیکن وہ آتشی نگاہوں سے الوینہ کو برابر گھورتا رہا:

"مجھے تمہیں مار دینا چاہیے تھا الوینہ۔ مجھے تمہارے ٹکڑے کر دینے چاہیں تھے۔"

"میرے ٹکڑے کر دیے ہوتے تو آج آپ کو عدالت سے باعزت بری کون کراتا بھائی۔" اس نے خون نگلتے ہوۓ طنزیہ لہجے میں کہا تو عمیر کو تپ چڑھی۔ چٹاخ کی آواز آئی تو پھپھو چیچ مار کر فرش پر ڈھیر ہو گئیں۔ جاثیہ چپکے سے پچھے ہٹ گئی تھی۔ عمیر بدستور چلا رہا تھا:

"خدا جانے تمہاری غیرت کہاں مر گئی ہے الوینہ۔ تم اپنے ماں باپ کے قاتلوں سے یارانہ رکھے ہوۓ ہو۔ تم اپنے شوہر کی عزت ہونے کے باوجود خود کو اجنبی کے ہاتھوں بے عزت کرا رہی ہو۔"

"میں تو آپ کے ہاتھوں بھی بے عزت ہو رہی ہوں بھائی۔ آپ میں اور باقیوں میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ آپ پورے خاندان کے سامنے اپنی بہن کے ساتھ دست درازی کر رہے ہیں، آپ کی غیرت کا مادہ کہاں گیا ہے۔"

اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ ہونٹ خونم خون تھے، کپڑے تر ہو رہے تھے، بال الجھ رہے تھے لیکن وہ برابر چلا رہی تھی۔ عمیر کے وار سہہ رہی تھی اور برابر دھاڑ رہی تھی۔ تب حنان آیا تھا۔ یقیناً جاثیہ نے اسے کال کی تھی۔ وہ الوینہ کو یوں بے حال دیکھ کر بھونچکا رہ گیا تھا لیکن آگے نہیں بڑھا۔ الوینہ کی آنکھیں اب بند ہو رہی تھیں، اس کی شدید مزاحمت میں اب کمی آگئی تھی۔ مدافعت ختم ہو گئی تھی۔ اور تب اس نے دہلیز پر قدموں کی آہٹ سنی، اس کی دھندھلی نگاہوں نے دیکھا کہ کوئی باہر سبزہ زار میں دوڑا چلا آرہا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ کی بصارت میں کمی آرہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر منظر میں داخل ہوتے وجود کو چھونا چاہا۔ عین اسی وقت عمیر کا تھپڑ اس کے قدم ڈگمگا گیا۔ وہ منہ کے بل فرش پر پھسل کر گری۔ ہچکی لے کر دونوں کہنیاں زمین پر ٹکائیں اور بیک وقت خون کی دھار لبوں کو تر کرتے ہوے گردن تک بہتی چلی گئی۔

"بھائی۔"

وہ یوں چلاتے ہوۓ آگے بڑھا تھا کہ عمیر کا ہاتھ پکڑتے پکڑتے اس کا سیاہ بوٹ الوینہ کا بایاں ہاتھ مسل گیا۔ وہ تڑپ گئی اور عمیر بپھر گيا۔

"تم بھی دیکھو بلال۔" عمیر غرایا:

"دیکھو کہ ایسے بے غیرت عورت کا کیا انجام ہوتا ہے۔"

"میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے میری بیوی کے ساتھ کیسا جانوروں کا سا سلوک کیا ہے۔" اس کے لہجے میں دبا دبا غصہ تھا، چوڑی پیشانی پر ابرو تنے ہوۓ تھے۔ 

"تمہارے بیوی اسی لائق ہے۔" غصہ اس کی بھی پیشانی سے جھلک رہا تھا:

"یہ غلیظ عورت اب بھی اس بدذات مرد سے ملتی۔۔۔"

"ہاں جانتا ہوں ملتی ہے۔" وہ بھی دھاڑ کر بولا تو حنان یکلخت چونکا، پھپھو نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ بلال ایسے بات نہیں کرتا تھا۔ بلال ایسے نہیں چیختا تھا۔

"ہاں جانتا ہوں وہ مرد رات دن اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جانتا ہوں یہ رات دن اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ جان کر میں کیا کروں؟ اس کی آنکھیں پھوڑ دوں تاکہ وہ اسے پھر دیکھ نہ سکے۔ ٹانگیں توڑ دوں تاکہ اس سے مل نہ سکے، جسم توڑ دوں تاکہ ہل بھی نہ سکے۔ کیا میں یہ وحشیانہ سلوک کروں جو آپ کر رہے ہیں۔ کیا اس کے ساتھ یہ رویہ رکھوں جس کا اظہار آپ کر رہے ہیں۔"

"بدکردار عورتوں کی یہی سزا ہے۔"

"پھر اپنی بدکردار بہن کو سنگسار کرنا تھا۔" وہ اب حلق کے بل چیخا:

"اسے رجم کی سزا دینی تھی، میرے پلے کیوں باندھا۔ اسے اسی بدکار مرد سے بیاہ دینا تھا، میرے نام کیوں کیا۔"

"کیونکہ مجھے لگا تھا کہ۔۔۔"

"آپ کو لگا تھا وہ باہر جاۓ گی تو میں اسے ماروں گا۔ وہ چلاۓ گی تو میں اس کی زبان کاٹ دوں گا۔" طیش سے اس کی سیاہ رنگت خوب چمک رہی تھی، ماتھے پر پسینہ ٹھہرا ہوا تھا:

"ایک بار۔۔۔" اس نے درمیانی انگلی اٹھائی تھی:

"ایک بار بھی میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا کہ کہیں میں غصے میں آکر ناانصافی کر بیٹھوں لیکن آپ یہاں زیادتی کر گۓ ہیں بھائی۔"

"میں وہ کر گيا ہوں جو تم نہیں کر سکے۔ میں نے واقعی غلطی کی جو تمہیں اس کے پلے باندھ دیا۔ میں کیسے بھول گیا کہ یہ ہمیشہ تم سے جیتتی آئی ہے۔ بھول گیا کہ یہ ہمیشہ تم پر غالب آئی ہے۔"

"ہاں میں مغلوب سہی۔" اس نے عمیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں:

"ہاں میں زن مرید سہی، بے غیرت سہی، بدکردار سہی پر یاد رکھیں بھائی۔" اس نے اب کی بار درمیانی انگلی بلند کی:

"مجھے اپنی بیوی کو چوٹ پہنچانے کا حق نہیں ہے تو پھر کسی اور کو بھی نہیں ہے۔ اپنی جوان بہن کو تھپڑوں سے لال کر رہے ہیں؟ کیا پڑھے لکھے ہیں اپ؟ کیا عام مردوں کی طرح فضول کو رعب جمانے والے ہیں اپ؟ 

"تم یہ مت بھولو بلال کہ تمہارے سامنے تمہارے باپ جیسا بھائی کھڑا ہے بلال۔" عمیر غرایا:

"تم اس گھٹیا عورت کے لیے میرے سامنے سینہ اٹھاۓ کھڑے ہو۔"

آپ بھی یہ مت بھولیں کہ بس عورت کو آپ سرعام تھپڑ مار رہے ہیں وہ صرف آپ کی بہن نہیں کسی کی  بیوی بھی ہے۔" اس کی انگلی جوں کی توں کھڑی تھی۔ وہ دو قدم آگے آیا اور عمیر کی آنکھوں میں دیکھا:

"آئیندہ میری بیوی کے ساتھ یوں بدسلوکی کرنے سے پہلے سوچیے گا کہ میں لحاظ نہیں کروں گا۔"

عمیر گنگ رہ گیا تھا۔ الوینہ کی بصارت کے ساتھ ساتھ سماعت کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ وہ پتھر بنی ایک طرف اوندھی پڑی تھی۔ اس کو بلال کے مبہم سے الفاظ سنائی دیے۔ پھر کندھوں پر اس کے لمس کا احساس ہوا تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔ کسمسا کر ہٹی لیکن بلال کی گرفت سخت تھی۔ الوینہ کے پاؤں زمین پر رگڑ کھا رہے تھے۔ وہ محسوس کر سکتی تھی کہ اس کا سر بلال کے سینے پر ٹکا تھا۔ وہ بدک کر ہٹ رہی تھی لیکن بلال نے اسے سختی سے تھام رکھا تھا۔ وہ اسے اسی سختی سے اٹھاۓ کار تک لایا اور فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر کار سٹارٹ کی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر پہنچ کر اس نے الوینہ کو کار سے نکالا تو الوینہ کا دماغ ماوف تھا۔ اس کی نظریں فرنٹ سیٹ پر ثبت شدہ خون کے دھبوں پر جم گئی تھیں۔

وہ تکلیف میں تھی۔ تکلیف ہر احساس پر حاوی آرہی تھی۔

بلال اسے کمرے تک لایا۔ دراز سے آئنٹمنٹ نکالی اور پٹی کھولی۔ الوینہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ اسے بیڈ پر بٹھا کر اس کے قریب بیٹھا۔ روئی سے اس کی ناک سے بہتا خون صاف کیا تو قربت کا احساس تکلیف پر حاوی آگیا تھا۔ وہ بلال تھا، وہ اس کے ساتھ تھا اور اسے چھو رہا تھا۔ اس کے بستر پر تھا، اس کے قریب تھا۔

اس نے ایک لمحے میں منہ پھیر لیا۔ فوراً منہ بنا لیا۔

"میں خود کروں گی۔" اس کے لہجے میں ناگواری تھی، آواز محبت سے عاری تھی۔ لیکن بلال بدستور خون صاف کرتا رہا۔ الوینہ نے ایک بار پہلو بدلا، دوسری بار بدک کر ہٹنا چاہا اور تیسری بار اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ 

بلال کو یکلخت طیش آیا۔ اس نے وہی خون آلود روئی دور پھینکی اور آئنٹمنٹ کو دور پھینک کر کھڑا ہوا۔

"تم میرا کتنا امتحان لو گی الوینہ۔"

اس کی نفرت کا عروج تھا۔ الوینہ کی آنکھوں سے خودبخود آنسو بہتے چلے گۓ تھے۔ وہ بے بسی کے آنسو تھے۔ بے کلی میں نکلے تھے۔ وہ بے اختیار بستر سے اٹھی اور اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور دھکیل دیا:

"تم چلے جاؤ بلال۔ مجھے نفرت ہے تم سے۔۔۔"

"میں چلا گیا تھا۔۔" اس نے الوینہ کا بازو کھینچ کر پھر جھٹکا:

"میں تم سے دور تھا، اپنے کام میں مصروف تھا جب حنان نے کہا کہ تم مر رہی ہو۔ کیا میں تمہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔ کیا جو ہو رہا تھا وہ ہونے دیتا۔"

"تم سب مجھے ماد دو گے۔ تم مجھے مار کر رہو گے۔" وہ رو رہی تھی۔ ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔ 

"کیا تمہیں نظر نہیں آرہا تھا۔" بلال شدید غصے میں تھا، برابر چیخ رہا تھا۔ اس نے بینڈیج اٹھا کر الوینہ کے دے ماری تھی:

"کیا میں تمہیں ہرٹ کر رہا ہوں؟ تمہیں تکلیف دے رہا ہوں؟ اپنی حالت دیکھو الوینہ۔ یوں ٹکڑے ہونے کے باوجود بھی تم غرور سے کھڑی ہو لیکن تمہاری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ تمہارے زخموں سے لہو بہہ رہا ہے۔"

"مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔" وہ بھڑک اٹھی تھی۔

"مجھے پتا ہے تمہیں کس کی ضرورت ہے۔ وہ ضرورت میں جلد ختم کر دوں گا۔"

اس نے غراتے ہوۓ کہا اور پلٹ گیا۔ الوینہ کا دل کانپ اٹھا۔ کیا وہ وہی بات کہہ کر گیا تھا جو اس نے سنی تھی۔ کیا وہ اسے دھمکی دے کر گیا تھا۔ الوینہ کی آنکھیں بند ہوئی جاتی تھیں۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ اٹھایا اور پوری قوت سے بلال کے دے مارا:

"تم مجھے مار ہی کیوں نہیں دیتے بلال۔"

وہ اس کی سنگین غلطی تھی۔ بلال کو قہر آیا تھا۔ وہ پلٹا اور اسے بازو سے کھینچ کر دیوار سے لگا گیا۔

"مجھے مارنے میں دقت نہیں ہو گی الوینہ۔" وہ دھاڑا تھا لیکن الوینہ نے اس کے غصے کی پرواہ نہیں کی۔ اسے ددھکا دیتے ہوۓ خود سے دور ہٹایا تو وہ رو رہی تھی۔ لہو اور آنسو ایک سے ہو گۓ تھے:

"تم کسی صورت ان سب سے الگ نہیں ہو بلال۔" اس کی آواز تک لرز رہی تھی:

"تمہارا جب تک دل کیا تم نے اپنی محبوبہ کے ساتھ عشق چلایا اور جب دل بھر گیا تو مجھ سے رشتہ بنا لیا۔ لیکن میں نے عشق کیا تو مجھے سنگسار کرنے کے قابل ٹھہرایا۔ میں نے محبت کی تو مجھے برا بنایا۔" بلال کی آنکھوں کی سختی برقرار تھی۔ الوینہ کی آواز گونج رہی تھی:

"تم میرا احتساب کرتے ہو۔ تم اتنے ہی غیرت مند ہو تو ابھی جا کر عمیر کا گریبان پکڑتے کہ اس کی ہمت کیے ہوئی تمہاری بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی۔ تم اس کمینے حنان کے منہ پر گھونسا مارتے کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہارے بیوی پر زبردستی کرنے کی۔ تم مجھے روکتے ہو، اتنے ہی غیرت مند ہو تو جا کر ضوریز کو سولی پر چڑھا دو۔  تم یہ۔۔۔" 

اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھولی، ایک ساتھ کئی کاغذ اس کے ہاتھ میں آگۓ۔ اس نے سب خط اٹھا کر بلال کے منہ پر دے مارے:

"اگر غیرت مند ہو تو اس شخص کے سینے میں گولی اتار آؤ جو تمہاری بیوی کی جاسوسی کرتا ہے، جو اسے دن رات خط لکھتا ہے۔"

بلال کی نگاہوں کا زاویہ بدلا تھا۔ اس نے نظریں جھکا کر قدموں میں گرے خطوط کو دیکھا، پھر سر اٹھا کر الوینہ کو دیکھا۔ وہ دو دو قدم پیچھے ہٹ رہی تھی۔ ہٹتی ہٹتی بستر تک پہنچ گئ‏ی تھی:

"اور اگر یہ نہیں کر سکتتے تو آؤ۔" وہ پیچھے کو جھک گئی، کمر بستر سے ٹکا لی، بازو کھول دیے، آنکھیں بند کر لیں:

"مجھے مارو بلال۔ مجھے سے اپنی ہر تذلیل کا بدلہ لو۔ مجھے میری بے وفائی کی سزا دو۔ میری ٹانگیں توڑ دو تاکہ میں اس کے پاس جا نہ سکوں۔ میری آنکھیں پھوڑ دو تاکہ میں اسے دیکھ نہ سکوں، میری زبان کاٹ دو تاکہ میں اس کا نام نہ لے سکوں۔ مجھے شکست دے دو، خود سرخرو ہو جاؤ۔"

اس کے لبوں سے خون بہنے لگا تھا۔ کانپتی، لرزتی وہ بستر پر چت پڑی تھی۔ بلال کی مٹھیاں بھنچ گئیں، دانت جم گۓ، آنکھوں میں خون اتر آیا۔ الوینہ تکلیف کو دباتے ہوۓ ساکت پڑی رہی۔ وہ سزا کی رات تھی۔ وہ سزا بھگتنے کے لیے تیار تھی۔

اسے رخسار پر لمس کا احساس ہوا تو جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔ آنکھیں مزید بھنچ گئيں، نظام تنفس تیز ہو گیا۔ پھر ہونٹوں پر نرمی کا احساس ہوا۔ الوینہ نے ہولے سے آنکھیں کھولیں۔ وہ اس کے قریب بیٹھا تھا، ایک ہاتھ اس کے رخسار پر رکھے روئی سے اس کے لبوں سے بہتا خون صاف کر رہا تھا، پھر گردن پر جما خون صاف کرنے لگا، کلائیاں صاف کرنے لگا۔

"جس دن سزا دوں گا، اس دن تمہیں آزاد بھی کر دوں گا۔"

اس نے نرمی سے کہا تھا لیکن الوینہ سن ہو گئی تھی۔ اس میں اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بلال کا ہاتھ جھٹکتی یا اسے روک دیتی۔ وہ ایک مسیحا کو مسیحائی کرنے سے نہیں روک سکتی تھی۔ وہ اب اس کے کندھوں سے شرٹ کھینچ کر مرہم رکھ رہا تھا۔ کمر کے داغ صاف کر رہا تھا۔

الوینہ نے بس نقاہت سے آنکھیں موند لی تھیں۔ جانے کس پہر وہ اپنا غصہ پی کر آئنٹ منٹ باکس اور ٹشو پیپر پرے پھینک کر کمرے سے نکل گیا۔ الوینہ نے بس آہستگی سے کمبل کندھوں تک کھینچ لیا

--------------------------

اگلے ہی دن نازش دوبارہ آئی۔

اس کے وجود پر لرزہ طاری تھا۔ آنکھوں میں غصہ نمایاں تھا۔

"تم یہ کیا کرتی پھر رہی ہو الوینہ۔" وہ دبے دبے لہجے میں بول رہی تھی، جیسے کسی کے سن لینے کا خوف ہو، راز افشاں ہونے کا بوجھ ہو۔ الوینہ پتھرائی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ رات سے اسی پہلو پر لیٹی تھی، کمر تختہ ہو گئی تھی۔

"کیا تمہارا شوہر جانتا ہے؟" نازش نے متجسس لہجے میں کہا تھا:

"کیا وہ جانتا ہے کہ تم اب بھی ضوریز سے ملتی ہو؟"

کون نہیں جانتا تھا کہ وہ ضوریز سے ملتی ہے۔ الوینہ نے نگاہیں پھیر لی تھیں لیکن نازش آگے کو کھسک آئی، اس کے بستر پر آ بیٹھی:

"ضوریز اب قانون کے خلاف جانے لگا ہے۔ سرکاری وکلاء یکلخت اس کے خلاف ہو گۓ ہیں، اس کا نام خراب کرنے کے لیے سب پراسیکیوٹرز تمہارے اور اس کے متعلق افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمہارا ضوریز سے افیئر چل رہا ہے۔"

الوینہ کچھ نہیں بول سکی، اس کی خالی آنکھوں میں جیسے زندگی کی رمق بھی نہیں تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ پر نازش کا لمس محسوس کیا۔ اس کے لہجے میں بھی ہمدردی تھی:

"تم یہ سب چھوڑ کیوں نہیں سکتیں الوینہ۔ تم ضوریز کو چھوڑ کیوں نہیں سکتیں۔"

الوینہ نے نگاہیں موڑ کر نازش پر ٹکا لیں۔ 

"وہ خط۔۔۔" اس کے لب ہلے تو مخاطب نازش تھی:

"وہ خط مجھے تم لکھتی ہو۔"

"خط؟" نازش بھونچکا رہ گئی۔ الوینہ کہتی گئی:

"تمہیں سب پتا تھا۔ تمہیں شروعات سے ہی پتا تھا کہ میرے ضوریز کے لیے کیا احساسات ہیں۔ تم نے مجھے وہ خط لکھ کر مجھے میرے ارادے سے باز رکھنا چاہا۔ تم نے میری محبت کا قتل کرنا چاہا۔"

"یہ کیا کہہ رہی ہو الوینہ؟" نازش ششدر تھی۔ الوینہ کی بدگمانی عروج پر تھی:

"تم خودغرض عورت ہو نازش۔ تم نے مجھ سے میری محبت چھین لی۔ تم نے مجھ سے میرا ضوریز چھین لیا۔"

"اور مجھے یہ سب کر کے کیا ملا؟" نازش نے استفسار کیا۔ الوینہ کا ذہن جواب نہیں سوچ سکا۔ نازش اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں افسوس کا تاثر تھا:

"خدا وہی کرے جو تمہارے حق میں بہتر ہو الوینہ۔"

الوینہ جانتی تھی اس کے لیے ضوریز سے بہتر کون تھا۔ کون تھا اس سے بہتر!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز حسن نے اپنے موکل کو باعزت بری کرا لیا تھا۔

الوینہ کو خبر سن کر خوشی نہیں ہوئی۔ وہ لاکھ دلائل دیتا، اس نے ایک مجرم کی حمایت کی تھی۔ الوینہ نے بے دلی سے فون پھینکا اور ساتھ ہی جسم میں درد کی ٹیس اٹھی۔ یہ ایک پھیکی سوموار کی شام تھی۔ اس کے شکستہ جسم میں تکلیف کے آثار ابھی تک باقی تھے، جسم پر نشان بھی قائم تھے۔ وہ بیڈ پوسٹ کے سہارے اٹھی اور خراماں خراماں چلتی باہر آئی۔ لاؤنج میں گھومنے لگی، پورچ میں چہل قدمی کرنے لگی، عقبی حصے میں آرکی۔

بلال کی کار اسے گیراج میں نظر نہیں آئی۔ وہ شاید آفس سے نہیں آیا تھا۔ الوینہ سویمنگ پول کے اس پار آکھڑی ہوئی، نیلے پانی میںں اپنا عکس تلاش کرتی رہی۔ نازش کے الفاظ اس کے ذہن میں گونج رہے تھے:

"سب پراسیکیوٹرز تمہارے اور اس کے متعلق افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمہارا ضوریز سے افیئر چل رہا ہے۔" 

اس نے بے اختیار اپنی پیروں میں گرتی سفید مکسی کی زپ کھولی اور خود کو لباس و حجاب سے بیگانہ کر کے پانی میں اتر گئی۔ پول کا ٹھہرا ٹھنڈا پانی بھی اسے راحت نہیں دے سکا۔ زخموں کا درد بڑھ گیا، خراشیں تکلیف دینے لگی۔

الوینہ کے لبوں سے سس کی آواز نکلی۔ اگلے ہی لمحے وہ ٹھہر گئی۔ جسم میں اٹھتا درد اسے پتھر بنا رہا تھا۔ پھر پتھر کو درد نہیں ہونا تھا، کوئی احساس باقی ہی نہیں رہنا تھا۔ اس نے اطمینان سے اپنے ریشمی بال کھول کر بازو پھیلا لیے۔ تبھی عقب میں آہٹ ہوئی۔ الوینہ وہم جان کر آنکھیں بند کیے پرسکون رہی۔ پھر شناسا سی آواز آنے لگی۔ قدموں کی گونج قریب آنے لگی۔

الوینہ نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا اور خائف سی ہو گئی۔ وہ دہلیز تک آیا تھا اور پھر ٹھٹک کر رک گیا تھا۔ فون پر بولتا آرہا تھا اور بولتے بولتے گنگ ہوا تھا۔ نظریں پول میں لیٹی الوینہ پر پڑیں، پھر پول کے قریب رکھی سفید میکسی پر جا ٹکیں، اضطراری انداز میں گھومیں اور دوبارہ الوینہ پر ٹک گئیں۔ کیا وہ آفس نہیں گیا تھا؟ کیا وہ اتنے عرصے میں گھر ہی تھا۔

الوینہ نے خفگی سے چہرہ موڑ لیا اور بازو سمیٹ لیے۔ پتھر کو یکلخت ہی خفت کا احساس ہوا جو تکلیف نے چھپا لیا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ بلال دیکھ رہا ہے۔ وہ بدقت اٹھی اور پول سے نکلی۔ وہ محسوس کر رہی تھی بلال اب بھی دیکھ رہا ہے۔ اس نے جھک کر میکسی اٹھائی اور بالوں کا جوڑا بنایا۔ پر وہ محسوس نہیں کر سکی کہ بلال عقب میں آیا تھا۔ احساس تب ہوا جب اپنی برہنہ کمر پر اسے بلال کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا۔

وہ لمس محبت کے نہیں تھے، نفرت کے بھی نہیں تھے۔ وہ بے خودی کا احساس تھا، وہ بہک جانے کا اظہار تھا۔ الوینہ کی میکسی پر گرفت مضبوط ہو گئی۔ بلال کی انگلیاں اس کی کمر سے گھومتے ہوۓ پیٹ پر چلنے لگیں۔ لب ہولے ہولے گردن کو چھونے لگے۔ 

اس کے لمس بڑھ گۓ تو الوینہ نے نرمی سے اس کے ہاتھ ہٹا دیے۔ گردن پر لبوں کی شدت ہو گئی تو اس نے گردن جھٹک دی۔ بلال جیسے ہوش میں آیا۔ یکلخت نیند سے جاگا اور دو قدم پیچھے ہٹا۔

"تمہارے زخم بھر گۓ ہیں۔" اسے کہنے کے لیے کوئی اور بات نہیں ملی۔ الوینہ نے میکسی سے جسم ڈھک لیا۔

"سب زخم بھر جاتے ہیں۔" اس نے بلال کو ایک طرف ہٹا کر اپنی راہ لی اور کمرے تک آئی ہی تھی کہ اس کا فون رنگ کرنے لگا۔ اس نے اسکرین دیکھی۔

وہ ضوریز حسن کو یاد آگئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

وہ کورٹ میں ہی ملے تھے۔

الوینہ کو یوں لگ رہا تھا سب انھیں گھور کر دیکھ رہے ہیں، سب بس انہی کو ہی دیکھ رہے ہیں۔

"تمہیں پریکٹس چھوڑنی نہیں چاہیے الوینہ۔" ضوریز مزے میں تھا۔ اس کا ستارہ خوب چمک رہا تھا:

"تمہیں اصلی دنیا کا مزہ لینا ہے تو قانون کا حصہ بنو۔ قانون کی اولاد سے ملو۔ اس کے پیادوں سے کھیلو۔ تم تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ عدالت میں کھڑے پراسیکیوٹر کی عزت کی دھجیاں اتارتے ہوۓ کیا لطف آتا ہے۔"

الوینہ اسے دیکھے گئی۔ پینٹ کے اوپر شرٹ اور ٹائی پہنے، شرٹ کے بازو کلائیوں تک موڑے وہ اچھا لگ رہا تھا، بال ماتھے پر بکھرے تھے، جواۓ کی خوشبو میں مہکا ہوا تھا۔ کوٹ کرسی پر پھیلا رکھا تھا۔ الوینہ نے ٹیک چھوڑی تھی:

"تم پراسیکیوٹر کے لیے ٹسٹ نہیں دو گے؟"

"اونہوں۔ کبھی نہیں۔" اس کا لہجہ قطعی تھا۔ الوینہ مدھم ہوئی:

"تو کیا کرمنلز کو ڈیفنڈ کرتے رہو گے؟"

ضوریز کی ٹائپ کرنے کی رفتار مدھم پڑی۔ اس نے سر اٹھا کر الوینہ کو دیکھا:

"ہم یہ بحث اس طرف نہیں لے کر جائیں گے الوینہ۔"

"مجھے تمہارا یہ روپ اچھا نہیں لگتا ہے۔"

"but I love this style of me.”

وہ بگڑ کر بولا۔ الوینہ مزید آہستہ ہو گئی:

"پر یہ تم پر سوٹ نہیں کرتا ضوریز۔"

اس سے پہلے کہ ضوریز کچھ کہتا، اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی۔ ضوریز نے فون اٹھایا اور رنگت فق ہو گئی۔ الوینہ نے بھانپ لیا:

"کس کا ہے؟"

ضوریز نے کال پک کر لی تھی۔ دوسری جانب سے الوینہ کو آواز آرہی تھی:

"کیا اپنے چیمبر میں ہو سویٹ ہارٹ؟"

جہاں الوینہ کی رنگت مدھم پڑی، وہیں ضوریز نے نگاہیں چرا لیں۔ وہ دونوں جان گۓ تھے لائن پر کون تھا۔

"کوئی کام تھا؟" ضوریز نے لہجہ سپاٹ رکھا۔ دوسری جانب سے روہانسی آواز سنائی دی:

"ہم نے ڈنر کا پلان بنایا تھا ضوریز، بھول گۓ؟ اور پھر مجھے ہاسپٹل کون لے کر جاۓ گا۔"

"رات کو دیکھیں گے۔ ابھی تو میں مصروف ہوں۔"

"پر میں کیا کروں۔ میں تو تمہارے روم کے باہر کھڑی ہوں۔"

اس نے اتنا کہا اور بیک وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ اس سے پہلے کہ ضوریز کچھ کہتا، پنک فراک میں ملبوس بال لہراتی شفق سلیمان کمرے میں داخل ہوئی۔ سیدھی ضوریز کی طرف آئی اور ایک ادا کے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی:

"میں آگئی۔" اس کے رخسار لالی سے بھڑک رہے تھے۔ الوینہ کے لبوں کا رنگ ماند پڑ گیا تھا۔ ضوریز کے چہرے سے ایک عجب وحشت جھلکنے لگی تھی۔ شفق نے گھوم کر کرسی پر براجمان الوینہ کو دیھکا:

"مسز بلال۔" وہ چہکی:

"آپ بھی یہیں ہیں۔"

الوینہ نے نخوت سے منہ موڑا۔ شفق چہکتی رہی:

"کیا آپ لوگ کوئی کیس اسٹڈی کر رہے تھے، اکٹھے؟؟؟" اس نے آخری لفظ پر زور دیا۔ مخاطب اس کا شوہر تھا۔ ضوریز نے ہنکارا بھرا:

"تمہیں کورٹ آنے سے پہلے بتانا چاہیے تھا۔"

"میں تو ڈیڈ سے ملنے آئی تھی۔ پھر سوچا ڈنر کی بجاۓ لنچ کرتے ہیں۔ اور ہاسپٹل بھی تو جانا ہے ضوریز۔"

اس نے معصوم سا منہ بنایا تو ضوریز نے لیپ ٹاپ آف کر دیا۔ الوینہ سب دیکھ رہی تھی۔ بے اختیار بولی:

"اور ہمارا کیس؟" اس کا مخاطب بھی ضوریز تھا۔ ضوریز نے ابرو استہفامیہ انداز میں اٹھاۓ۔ شفق فوراً بولی:

"ضوریز کے لیے اس کی بیوی کیس سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیوں ہے ناں ضوریز۔"

الوینہ کی نظریں ضوریز پر ٹک تھیں۔ ضوریز نے بدقت مسکرا کر سر ہلایا، الوینہ کو دیکھا:

"کل ملتے ہیں الوینہ۔ 'جو رہ گیا ہے' کل ڈسکس کریں گے۔"

وہ بات سنبھال رہا تھا لیکن اس کا انداز۔۔۔۔ اس کا انداز الوینہ کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ وہ ثابت کر رہا تھا الوینہ ثانوی حیثیت رکھتی تھی، شفق اس پر مقدم تھی۔ وہ ثابت کر رہا تھا کہ ضوریز کے لیے اس کی بیوی الوینہ سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ وہ اٹھ گئی، بے دلی سے، بے قراری سے اٹھی اور پرس کاندھے پر ڈالا۔ اس کے پیچھے پیچھے ضوریز باہر آیا۔ اس کے قدموں میں روانی تھی، جیسے وہ بھاگ نکلنا چاہتا تھا۔

"ہاسپٹل؟" الوینہ نے پرسوچ نگاہوں سے شفق کو دیکھ کر کہا تو وہ رک گئی۔ الوینہ کی تمام تر توجہ شفق کی جانب تھی:

"ہاسپٹل کیوں جانا ہے۔"

جہاں اس سوال پر ضوریز کا دماغ بھک سے اڑا، وہیں شفق کے گال لال ہوۓ۔ وہ مسکرائی اور مسکراتی رہی۔

"ویکلی چیک اپ۔" اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ بتایا:

“we are expecting a baby.”

------------------------

 خزاں کی رت میں یہ مشعلہ تھا

میں بکھرے پتے سمیٹتا تھا

عجیب تر تھیں تمہاری یادیں

میں زندہ رہ کر نہ جی سکا تھا

چلی تھی مجھ میں وہ کیسی آندھی

کہ دل کا خمیہ اجڑ گیا تھا

بہا تھا آنکھوں سے میری آنسو

یا کوئی منظر بگھل رہا تھا

میں اپنی ہستی کے بت کدے میں 

وفا کی مورت بنا رہا تھا

رکا ہوا تھا میں جس کی خاطر

وہ میری خاطر نہ رک سکا تھا

وہ مجھ میں اترا عذاب بن کر 

جو دل کے مندر کا دیوتا تھا

اس کے دونوں بازو خون سے سنے ہوۓ تھے، گردن تک بہتا خون اب کپڑے بگھونے لگا تھا، دم گھٹ رہا تھا، سانسوں کا رابطہ ٹوٹ رہا تھا۔ اس نے آخری منظر میں دیکھا کہ کوئی اس پر جھک کر اس کے گال تھپتھپا رہا تھا۔ وہ ضوریز نہیں ہو سکتا تھا، شاید بلال تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نے اسے رات ہی ڈسچارج کر دیا تھا۔ الوینہ چپ تھی۔ اس کے حواس معطل تھے۔ بلال اسے بیڈ پر لٹا کر چلا گیا تھا اور پھر واپس نہیں آیا۔ پھپھو جانے کب آئی تھیں۔ انہوں نے اس کی پیشانی چھوئی تو انہیں ادراک ہوا کہ وہ اب بھی بخار میں پھنک رہی ہے۔ لمس پا کر الوینہ نے آنکھیں کھولیں تو کوئی آس پاس نہ تھا۔ وہ کسمسائی اور بازوؤں کو حرکت دی تو دونوں پٹیوں میں جکڑے ہوۓ تھے، سر اٹھانا چاہا تو ماتھے میں ٹیس سی اٹھی۔ 

بالکونی سی آوازیں آرہی تھیں۔ بالکونی میں ایستادہ بلال کا رخ نیم وا تھا، اس کے سامنے ہی کوئی بوڑھی عورت کھڑی کچھ کہہ رہی تھی۔ الوینہ کو وہ شناسا سی لگی لیکن پہچان میں نہیں آئی۔

"تیرا اس سے کوئی جھگڑا ہوا ہے؟ کچھ کہا ہے تو نے اسے؟" پھپھو کے لہجے میں خفگی تھی۔ بلال سپاٹ چہرہ لیے کھڑا تھا۔

"دیکھ بلال۔" پھپھو نے رسان سے اس کا بازو تھاما تھا:

"وہ میرے بھائی کی آخری نشانی ہے، اس پر ترس کھایا کر۔ وہ تھوڑی ٹیڑھی ہے، پھر جن حالات سے گزری ہے، انہوں نے اسے اور ضدی بنا دیا ہے۔ اس کی بدتمیزی کو برداشت کر جایا کر۔ اس سے پیار سے پیش آیا کر۔"

بلال تب بھی کچھ نہیں بولا۔ جیسے بہت ضبط کر رہا تھا۔

"بلکہ میں تو کہتی ہوں۔" پھپھو کی آوازیں اب الوینہ کو سنائی دے رہی تھیں۔ ان کے الفاظ کاری تھے:

"اپنے بچوں کا سوچ بلال۔ وہ ماں بننے والی ہو گی تو کچھ نرم پڑے گی۔ ماں بنے گی تو خاندان کا سوچے گی۔ منان کی مثال تیرے سامنے ہے۔ کیسا بے کار ہوا کرتا تھا۔ اب باپ بننے والا ہے تو یکلخت بدل گیا ہے۔"

کمرے میں یہ سن کر الوینہ کا بدن سن پڑ گیا تھا۔ اس کا جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا لیکن ذہن حاضر تھا۔ وہ سب یاد دلا رہا تھا۔ سب رشتوں کا ادراک کرا رہا تھا۔

الوینہ نے چہرہ موڑا تو دیکھا سائیڈ ٹیبل پر اس کا آئی پوڈ رکھا تھا۔ اس نے اٹھایا اور میسج ٹائپ کیے۔ پھر انہیں ڈیلیٹ کیا۔ چند اور میسج لکھے لیکن جواب نہیں آیا۔

یہ دوسری بار تھا کہ وہ خط والا آدمی اس سے بیگانہ تھا۔

اس نے آئی پوڈ دور پھینک دیا اور بستر پر اٹھ بیٹھی۔ بلال ابھی تک سر جھکاۓ پھپھو کی نصیحتیں سن رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھپھو واپس نہیں گئیں، دوسرے کمرے میں ہی موجود تھیں۔ بلال الوینہ کے کمرے کے باہر کھڑا تھا۔ وہ اسٹڈی میں جاتا تو پھپھو یقیناً دیکھ لیتیں اور اندر جا نہیں سکتا تھا۔ کھڑے کھڑے تھک گیا تو سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ تب الوینہ کمرے سے نکلی۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ چہرے پر  پرانے اور نۓ زخموں کے نشان تھے۔ ہاتھ میں گتّے کا ڈبہ تھا۔

"بلال۔" اس نے بہت مدھم آواز میں پکارا تو بلال یکلخت چونکا۔ الوینہ عقب میں کھڑی تھی۔

"مجھے۔۔۔ مجھے کورٹ لے چلو گے؟"

بلال کی نگاہیں استہفامیہ تھیں۔ جانے کیوں، الوینہ کا سر جھک گیا۔

"ہم۔۔۔ ابھی آجائیں گے۔"

بلال چپ رہا۔ اسے دیکھتا رہا۔

"ضروری ہے؟؟؟؟؟؟ (جانا)

"شاید!" وہ حواسوں میں نظر نہیں آتی تھی لیکن الوینہ کو لگا تھا وہ آج اپنے مکمل حواسوں میں تھی۔ بلال نے کچھ کہا نہیں، کچھ مزید سنا نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ سیڑھیاں اتر کر گیراج میں آیا اور اس کے لیے گاڑی سٹارٹ کی۔ ان کا رخ کورٹ کی جانب تھا۔ بلال نے اعتراض نہیں اٹھایا۔ ایک مبہم خاموشی نے اسے حصار میں لے رکھا تھا۔ اس نے الوینہ سے ایک لفظ نہ کہا! الوینہ خود مخاطب ہوتی رہی تھی:

"میں بس پانچ منٹ میں آجاؤں گی۔"اپنے تیئں بتا کر وہ آگے بڑھ گئی تھی۔ راہداری سے گزرتے ہوۓ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ سرکاری وکیلوں کے چہرے تاریک تھے۔ کئی لوگ اسے پہچانتے تھے۔ وہ سب کو عبور کرتی مطلوبہ کمرے تک پہنچی۔ دروازہ کھٹکھٹاۓ بغیر اندر آئی اور گتے کے ڈبے کو میز پر رکھ دیا۔

فون ضوریز کے کان سے لگا تھا۔ خودبخود جھٹکا گیا۔

"یہ کیا ہے؟" اسے اچنبھا ہوا۔ موڈ خوشگوار تھا۔ جیسے کچھ بدلا ہی نہ تھا۔ الوینہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ مخصوص رعونت آج غائب تھی۔

"تمیں دکھانے لائی ہوں کہ ایک شخص نے ابتدا میں ہی تمہارا احتساب کیا تھا اور کیا خوب کیا تھا۔ میں احمق تھی جو اس پر یقین نہ کر سکی۔ میں بےوقوف تھی جو تم سے دل لگا بیٹھی۔"

ضوریز نے گہرا سانس لیا اور ٹیک لگا لی:

"مجھے پتا ہے تم غصہ۔۔۔۔"

"غصہ؟؟؟" الوینہ کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔ ابرو تن گۓ۔ وہ مخصوص سی الوینہ بن گئی۔ ویسے ہی ظنر کرنے لگی:

"تم نے اپنی بیوی سے  اپنا حق وصول کیا ہے ضوریز۔ اس امر میں غصہ کرنے والی میں کون ہوتی ہوں۔"

الوینہ۔" ضوریز اب آٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے برابر آیا تھا:

"یار، اسے ایک بے بی چاہیے تھا۔ ڈیٹس اٹ۔"

"اور تمہیں ہمیشہ سے وہ چاہیے تھی، ڈیٹس اٹ۔"

"میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔۔۔"

"پر تم نے کیا۔" الوینہ کی آواز کانپتی تھی:

"تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم اسے  چھوؤ گے بھی نہیں۔ تم نے ایک جھوٹا وعدہ کیا۔ تم نے مجھے استعمال کیا۔ تم نے۔۔۔"

"مجھ پر الزام مت لگاؤ الوینہ۔ آئی ریلی لو یو۔"

"پر تم نے تو محبت کو مذاق بنا دیا ضوریز۔" الوینہ کو پتا نہیں چلا کب اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ضوریز نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے۔

"الوینہ، سب مجبور کر رہے تھے۔ تمہیں انکل سلیمان کا پتا تو ہے۔ پھر فیملی کی عورتیں۔۔۔"

"تم بھی عورت ہی ہو ضوریز۔ مجبور اور معذور عورت۔ چوڑیاں کیوں نہیں پہن لیتے۔" اس کی آواز نسبتاً بلند ہوئی۔ضوریز کی پیشانی پر بل پڑے۔

"تو تم مجھ سے لڑنے آئی ہو؟"

"نہیں۔" الوینہ کا چہرہ سپاٹ تھا:

"بس سب وکلاء کو تمہارا نجی بیک گراؤنڈ بتانے آئی ہوں۔ انہیں بتانے آئی ہوں کی ضوریز حسن ایک مجبور انسان تھا، کل وہ اتنا مجبور تھا کہ ایک بوڑھے آدمی کے خوف میں آکر اس کی بیٹی سے نکاح کر گیا۔ انہیں بتاؤں گی کہ اس نے نکاح کیوں کیا۔ انہیں بتاؤں گی کہ اس نے دراصل اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتا۔"

"ڈانٹ یو ڈیئر، الوینہ۔"

ضوریز یکلخت بھڑکا۔ الوینہ سہم گئی لیکن برابر چیختی رہی:

"میں انہیں بتاؤں گی کہ تم نے مجھے ایکسپلائیٹ کیا۔ جیسے ماضی میں تم نے اپنی بیوی کو ایکسپلائیٹ کیا۔ تم ہر عورت کو ایکسپلائیٹ کرتے ہو۔ تم سب کو استعمال کرتے ہو۔"

"تم نے ایک لفظ منہ سے نکالا تو میں تمہاری جان نکال لوں گا الوینہ۔" وہ دبا دبا غرایا۔ الوینہ چیختی رہی:

"میں تمہارا پول کھول دوں گی، تمہیں سب کے سامنے تماشہ بنا دوں گی۔"

"الوینہ، I said shut the hell up۔" اس نے بھڑک کر کہا اور بیک وقت چٹاخ کی آواز آئی۔ پھر کمرے میں قیامت کی سی خاموشی چھا گئی۔ الوینہ کو گال پر تکلیف کا احساس ہوا لیکن اس کے دماغ نے حقیقت کو جھٹلانا چاہا۔

نہیں الوینہ، ایسا نہیں ہوا۔

نہیں الوینہ، ضوریز نے کچھ نہیں کیا۔

اس نے ضوریز کو دیکھا تو وہ کچھ مشتعل، کچھ نادم بھی نظر آرہا تھا۔ الوینہ کی گال کی تکلیف بڑھ گئی۔تبھی دہلیز پر آہٹ ہوئی۔ چپڑاسی ضوریز کو بلانے آیا تھا۔ چپڑاسی کو دیکھ کر ضوریز کے تنے تاثرات ڈھلک گۓ۔ وہ الوینہ کو دیکھے بغیر باہر راہداری میں نکل گیا۔ الوینہ ساکت و جامد کھڑی تھی۔

ضوریز نے۔۔۔ اسے تھپڑ مارا!

اس کے ضوریز نے۔۔۔۔

ضوریز حسن نے؟؟؟ہر احساس محو ہو گیا اور تذلیل کا احساس باقی رہ گیا۔ پھر اس کی ٹانگوں کو تحریک ملی۔ وہ جھٹکا کے کر پلٹی اور راہداری میں چلتی چلی گئی۔ ضوریز برآمدے میں کسی شخص کے ساتھ کھڑا تھا۔ لوگ آس پاس تھے۔ وکلاء کھڑے تھے۔ وہ قدم بڑھاتی گئی۔ یہاں تک کہ ضوریز کے قریب پہنچ گئی۔

قریب پہنچ کر اس نے ضوریز کو بازو سے کھینچ کر اپنی جانب موڑا۔ ضوریز چونک گیا اور تبھی الوینہ نے اپنی پوری قوت سے اس کے بائیں گال پر تھپڑ جڑ دیا۔ ایک لمحے کے لیے جیسے برآمدے میں سکوت چھا گیا۔

ضوریز بے یقین سا کھڑا تھا۔ الوینہ نے جھک کر اپنا گتے کا ڈبہ اٹھایا۔

"اسے بدلہ کہتے ہیں ضوریز۔"

وہ آنسو روک کر پھنکاری اور پلٹ گئی۔ عقب میں سرگوشیاں ہونے لگیں لیکن الوینہ نکل گئی۔ سفید کار تک آئی اور جھٹکے سے عقبی دروازہ کھول اندر بیٹھ گئی۔

"چلو۔" اس نے آہستگی سے کہا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے لبوں کو چھپا کر قدرے جھکتے ہوۓ سیٹ پر ٹک گئی۔ بلال نے فرنٹ مرر میں اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں، انگلیاں کانپ رہی تھیں، وہ سہمی ہوئی تھی، ڈری ہوئی تھی۔ 

بلال نے چپکے سے کار آگے بڑھا دی۔ 

گھر پہنچنے تک سکوت قائم رہا۔  کار روک کر بلال نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ اسی پوسچر میں بیٹھی تھی۔

"الوینہ۔"

اپنے نام پر چونکی۔ بے سمجھی سے، جیسے جانتی نا ہو وہ کہاں ہے۔

"گیٹ ڈاؤن۔ (اترو)۔"

وہ اتر گئی۔ ڈبہ مضبوطی سے تھام لیا۔ بلال نے کار کو ریورس گیئر لگایا۔

"کہاں جا رہے ہو؟" وہ واقعی کسی شے سے خوفزدہ تھی۔

"آجاؤں گا۔" اس نے اشارے سے بتایا اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ اندر چلی آئی۔ گتے کا ڈبہ احتیاط سے کرسی پر رکھ دیا۔ بستر پر لیٹ گئی۔ دماغ سائیس کر رہا تھا۔

"ایک لڑکی۔۔۔۔

وہ سمجھتی تھی وہ جو کرتی ہے ٹھیک کرتی ہے۔ اس کا ہر فیصلہ، ہر رویہ، ہر انداز صحیح ہے۔ وہ مغرور ہے۔ بات نہیں مانتی،ضدی ہے، ہٹ دھڑم، زبان دراز ہے، پر کیا اس سب کی سزا اتنی بڑی تھی جتنی کہ اس کو ملی؟"

وہ سوچتی جا رہی تھی۔ پھر اسے ٹیکسٹ باکس میں لکھنے لگی۔ لکھتی جا رہی تھی، ایک میسج دوسرا میسج لیکن جواب ندارد تھا۔ وہ محبت کرنے والا گمنام شخص بھی غائب تھا۔ 

اس نے دراز کھولی۔ اسے سپیلنگ پِلز کی ضرورت تھی۔ وہاں نہ ملیں تو وہ بالکونی پار کر کے بلال کے کمرے میں آئی۔ دراز کھولی تو دیکھا کہ گولیوں کی شیشی دراز پر ہی پڑی تھی۔ 

"اسے ایک بی بی چاہیے تھا یار، ڈیٹس اٹ۔"

"وہ سب مجھے مجبور کر رہے تھے، فیملی کی عورتیں۔۔۔"

"پر یہاں ہم الگ ہیں ضوریز۔" اس نے آہستگی سے سرگوشی کی:

"مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا، میں اپنا ہر فیصلہ خود کرتی ہوں۔"

اس نے چند گولیاں نکال کر ہتھیلی پر کھیں اور انہیں نگل لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال ساڑھے بارہ کے قریب واپس آیا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کا رخ کمرے کی جانب تھا۔ اس نے چابی ٹیبل پر رکھی، ٹائی اتار کر ڈریسنگ پر پھیلائی اور شرٹ کے بٹن کھولے۔ اس کے ہر کام میں عجلت نمایاں تھی، جیسے وہ بے چین تھا یا کسی چیز کی جلدی میں تھا۔ شرٹ اتار کر اس نے ہینگر سے پریس شدہ نئی شرٹ اتارنی چاہی تو یکلخت ٹھٹک گیا۔ بستر تک آیا اور وہ سفید ڈوپٹہ اٹھایا۔

"ڈریگن!" مدھر سی آواز آئی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔ الوینہ صوفے پر لیٹی تھی، اب اٹھی تھی تو اس کے بال کندھوں پر بکھرے گۓ۔ سیاہ گاؤن کے کھلے گلے سے اس کے دودھیا بازو جھانک رہے تھے۔ 

"ڈریگن۔۔۔۔" دوبارہ کہہ کر وہ سر جھٹکتی اٹھی، لڑکھڑاتے ہوۓ بلال تک پہنچی۔ اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر اس نے بلال کے برہنہ سینے پر رکھا، پھر دائیں ہاتھ سے اس کے سینے سے پیٹ تک جاتے ڈریگن کے جیّد ٹیٹو کو محسوس کرنے لگی۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔

"الوینہ کو ڈریگنز اچھے لگتے ہیں۔"

اس نے آہستگی سے کہا اور ہولے سے اپنے لب ڈریگن کے لبوں سے جوڑے تو بلال کو سینے پر نرمی کا احساس ہوا۔ اس نے اتنی ہی نرمی سے اس کا سر اپنے سینے سے ہٹایا:

"کیا الوینہ جہاں داد بھول گئی ہے کہ یہ اس کا کمرہ نہیں ہے۔"

"مجھے۔۔۔ مجھے ڈریگنز پسند ہیں، بلال۔" وہ بے خیالی میں دوبارہ اس کے سینے پر جھک گئی۔ بلال نے اچنبھے سے اسے دیکھا:

"ہوا کیا ہے تمہیں؟" پھر جیسے ہی اس کی نظر ڈریسنگ پر رکھی نیند کی گولیوں کی کھلی شیشی پر پڑی، وہ سب لمحے میں سمجھ گیا۔ الوینہ کو بدقت خود سے علیحدہ کیا اور صوفے پر گرا کر پلٹا۔ اپنی شرٹ اٹھائی اور اسے پہننا چاہا۔ اس سے پہلے ہی لڑکھڑا کر چلتی الوینہ گرتی پڑتی اس کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔

بلال کی پیشانی پر بل پڑے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اسے یہ سب پسند نہیں آرہا۔

"گولیاں کیوں کھائیں، ہاں؟" اس نے غصہ پیا۔ نیند سے جھولتی الوینہ نے معصوم سا چہرہ بنایا۔

"بھوک لگی تھی۔" اور کہہ کر اس نے بڑے مزے سے اپنے بازو بلال کی گردن میں ڈال لیے:

"نیند نہیں آرہی تھی۔" اپنے لب اس نے پھر بلال کے سینے پر رکھ دیے۔ ٹیٹو کا کھردرا پن بھلا محسوس ہو رہا تھا۔ 

"ڈر لگ رہا تھا بلال۔ رونا آرہا تھا۔" اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ بہت شدت سے اس کا سینہ چومتے ہوۓ وہ لرز رہی تھی۔ بلال نے اسے اس حرکت سے روکا۔ اس کا چہرہ تھام کر اپنے چہرے کے برابر لایا۔

"اس نے مجھے تھپڑ مارا۔" دو آنسو اس کی آنکھوں کے کنارے سے نکل کر بہہ گۓ۔ اپنی درمیانی انگلی اس نے بائیں گال کر رکھی:

"یہاں درد ہو رہا ہے۔" وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ بلال بہت دیر اسے دیکھے گیا۔ اسے مسیحا بننے کی ممانعت تھی۔ اسے الوینہ جہاں داد پر ترحم کھانے کی بھی ممانعت تھی۔ وہ سپاٹ نگاہوں سے اسے دیکھے گیا۔  پھر اس کے رخسار پر گرتے بالوں کو کنپٹی کے پیچھے اڑسا۔ الوینہ کی بادامی جھیلوں میں پانی کھڑا تھا۔ اس نے نرمی سے اپنے لب اس کے بائیں رخسار پر رکھے، رکھ کر جیسے بھول گیا۔

 اور یہاں۔۔۔" الوینہ نے بلال کا ہاتھ تھام کر اس کی درمیانی انگلی اپنے سینے پر رکھی تھی، دل کی جانب اشارہ کیا:

"یہاں بھی۔۔۔" 

بلال نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ وہ رو رہی تھی، اسے بلا رہی تھی، اسے اجازت دے رہی تھی۔ بہکنے میں کیا مضائقہ ہے۔ اگر حسن کی اجازت ہے تو معاہدوں کا کیا کرنا ہے۔ 

اس نے الوینہ کے مخملی وجود کو دونوں بازوؤں میں اٹھایا اور بستر پر لٹا کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اتنی ہی نرمی سے اس نے اس بار اپنے لب الوینہ کے سینے پر دائیں طرف رکھے۔ وہ کسمسا گئی۔ اس کے بالوں کو تھام گئی۔

"اور۔" وہ سر اٹھاۓ، اب پیاسی نگاہوں سے اسے دیکھتا، اس کے لبوں پر انگلی پھر رہا تھا:

"یہاں؟ یہاں درد ہے؟" الوینہ نے سر اثبات میں ہلا کر آنکھیں موند لیں۔ بلال نے بڑے حق سے اس کے نازک ہونٹوں کو اپنے لبوں میں قید کیا۔ پھر اپنی گود میں اس کا سر رکھ کر فرصت سے اسے چومنے لگا۔ اس کے بال، اس کی گردن چومتے چومتے تھک گیا تو الوینہ کا سیاہ گاؤن اتار کر اسے سینے سے لگا لیا۔ اس کی مخروطی کمر پر لب پھیرنے لگا۔ ٹانگوں پر لمس چھوڑنے لگا۔ 

وہ نیند کی آغوش میں تھی لیکن بلال اسے اپنی آغوش سے چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے، کالونی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی، تاریکی چہار سو تھی لیکن وہ کمرے کے اندھیرے میں مدہوش اسے برابر چوم رہا تھا۔ اسے برہنہ کرنے کے بعد وہ خود لباس سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ سیر پر سیر ہو رہا تھا۔ وہ بار بار جاگ رہی تھی، کسمسا رہی تھی، اس کے لمس تلے کانپ رہی تھی۔ 

"درد ہو رہا ہے۔ بلال۔۔۔ بلال درد۔۔۔۔"

وہ مدہوشی میں کہہ رہی تھی، بلال سن نہیں رہا تھا۔ وہ پہلے روئی تھی، اب رو رو کر بھی تھک گئی تھی۔ بلال کو ہوش خون آلود بستر دیکھ کر آیا۔ اپنے سارے ارمان پورے کرنے کے بعد وہ اس کی سسکیوں سے متحرک ہوا۔

خداکی پوجا کرتے کرتے وہ خدا بن گیا۔

وہ اس کی شدتیں اب برداشت کرنے سے قاصر تھی۔ بلال کو ساکت پا کر اس کی آنکھیں مزید بھر گئی تھیں۔ الوینہ اسے سن پا کر لرز کر اٹھی اور خود کو لہو سی سنی بیڈ شیٹ میں چھپاۓ اس کے کمرے سے نکلی، اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ کمرے کا دروازہ لگایا کہ مبادا وہ پھر نہ آجاۓ۔

"مجھے معاف کر دو۔۔۔" وہ بڑبڑا رہی تھی، ہاتھ جوڑے وہ سجدے میں گری تھی۔ بلک رہی تھی:

"مجھے بتا دو میں کہاں جاؤں۔ مجھے بتا دو میں کیا کروں۔"

وہ نیند سے بوجھل تھی، خون آلود چادر میں چھپی ہوئی تھی۔ اپر لیفٹ کمرے میں بلال ابھی تک ساکت بیٹھا تھا، لال و لال بیڈ کو دیکھ رہا تھا۔

"وہ پہلی بار تمہیں اپنے راز میں شریک کرنے آئی تھی، پہلی بار تمہیں خود کچھ بتانے آئی تھی، پہلی بار تم سے مدد چاہتی تھی، پہلی بار تمہاری ہمدردی چاہتی تھی لیکن تم نے۔۔۔"

اس نے لیمپ اٹھا کر دور مارا۔ غم و غصہ ایک ہو گیا۔ اپنے کمرے میں بیٹھی الوینہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔

وہ اسے توڑ پھوڑ چکا تھا۔

الوینہ کا بدن کانپ رہا تھا۔

کہیں پناہ نہیں تھی، زمین اس پر تنگ، زمین کے لوگ اس پر حاوی تھے۔

جنگل کے وسط میں شاہ بلوط کے درختوں کے درمیان سے کوئی کار زن سے گزری تو برگد کے درخت کے پاس مدہوش پڑی وہ لڑکی کانپ کر اٹھی، پھر سہم کر برگد سے چمٹ گئی۔ وہ اب کسی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ اپنے پیٹ میں اٹھتی درد کی لہروں کو دباتے ہوۓ وہ نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔ کپڑے بہتے لہو میں لال تھے اور لمحہ بہ لمحہ بعد خون آلود ہوتے جا رہے تھے۔

"موت۔" وہ اب کھلی آنکھوں کی مردہ لاش نظر آرہی تھی:

"یہاں بھی تکلیف ہے۔ موت بھی تکلیف دیتی ہے۔"

ٹمٹماتے تاروں کو دیکھتی وہ سوچ رہی تھی:

"محبوب تکلیف دیتا ہے۔ محبت تکلیف دیتی ہے۔ ہجر تکلیف دہ ہے۔ ملن بھی تکلیف دہ ہے۔ پھر کہاں تکلیف نہیں ہے؟ کیا تکلیف دہ نہیں ہے؟"

آہٹ سن کر اس نے سر گھمایا۔ دور درختوں کے جھنڈ سے کوئی برآمد ہوا۔  اس کے قدم قریب آتے گۓ۔ اس کا چہرہ دھندھلا رہا تھا۔ لیکن الوینہ نے اسے پہچان لیا۔ نقاہت سے آنکھیں موند لیں۔

"بہت کچھ برا ہوا ہے۔ اب اور کچھ برا نہیں ہو گا۔ یہ احساس۔۔۔ بس یہ احساس تکلیف دہ نہیں ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مرسڈیز سے اترا تو تاثرات تنے ہوۓ تھے۔ 

کار کا دروازہ ٹھاہ مار کر اس نے چابی سختی سے انگلی میں دبائی اور سلاخوں والے بڑے گیٹ کے اس پار آکھڑا ہوا۔ چوکیدار پر نگاہ ڈالی۔

"بلاؤ اپنی مالکن کو۔" 

چوکیدار کی نظروں میں اس شخص کے لیے ناپسندیدگی نظر آئی لیکن اس کی مہنگی گاڑی سے مرعوب ہو گیا۔ اندر کی جانب لپکا۔ عین اسی لمحے ٹیرس پر گھومتی الوینہ جہاں داد نے نیچے جھانکا اور پھر پتھر ہو گئی۔ وہ جلے پاؤں کی بلی کی مانند گیٹ کے باہر ادھر سے ادھر گھوم رہا تھا۔ نگاہوں کا ارتکاز پا کر اس نے سر اٹھایا۔ الوینہ کو دیکھا اور پھر مسکرایا۔ الوینہ نے لرز کر اس کی ظنریہ مسکراہٹ کا جائزہ لیا۔ پھر فون کی گھنٹی بجی۔ فون بھی اسی کا تھا۔ الوینہ نے فون کان سے لگایا:

"تم نیچے نہ آئیں تو گیم اوور، بیلیرینا۔"

اس کی آواز میں کڑواہٹ تھی۔ الوینہ پھیکا سا مسکرائی:

"اس دن تھپڑ مارا تھا۔ آج مارنے کے لیے کیا لاۓ ہو؟"

"اس دن تم نے منہ کھولا تھا۔ آج منہ کھولنے آیا ہوں۔ کیا ابھی یہاں کالونی میں تماشہ کھڑا کروں؟ کیا کالونی کے سارے مردوں کو تمہارے گھر کے باہر جمع کروں؟"

"تم ایسا کر گزرے تو میں خودبخود باہر آجاؤں گی ضوریز۔"

"تم کبھی پرخلوص نہیں تھیں الوینہ۔ تم نے۔۔۔"

"ضوریز آئی لو یو۔" اس نے بے اختیار کہا تو آنکھیں خودبخود نم ہو گئیں۔ گیٹ کے اس پار ایستادہ ضوریز نے سر اٹھا کر ٹیرس سے جھانکتا لڑکی کو دیکھا۔ وہ سر جھکاۓ کھڑی تھی۔ ضوریز کے پاس سنانے کے لیے بہت سخت سست تھا۔ لبوں پر مچلتے بہت الفاظ تھے، ہزار شکوے، بہت سے گلے لیکن الوینہ کے وہ تین الفاظ، اس کا دائمی پیار۔۔۔

"گال پر کیا ہوا؟" 

ضوریز کا سوال کانوں میں گونجا تو الوینہ کے لب پھر مسکراہٹ میں ڈھلے۔ ہاتھ بے اختیار رخسار پر بنی خراش پر گیا۔ وہ اتنی دور سے بھی اسے یوں دیکھ رہا ہے جیسے وہ سامنے کھڑی رہی ہے۔ پر اگلے ہی لمحے تاریک رات کی تکلیف جسم میں سرایت کر گئی۔ کچھ کہنے کی کوشش میں اس نے لب ہلاۓ تو فون کی ٹون بجنے لگی۔ بلال کا نام دیکھ کر اس کا دل دھڑکا۔ کال ریسیو کی۔ ضوریز لائن تھا۔ اس نے سنا جب بلال نے الوینہ کو کہا:

"اپنے عاشق کو میرے گھر کے دروازے سے دو منٹوں کے اندر ہٹاؤ الوینہ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

ضوریز کے تاثرات سخت ہوۓ تھے۔ اس نے اب بدلے تاثرات سے الوینہ کو دیکھا جو سر جھکاۓ، دیوار کھرچ رہی تھی۔

"وہ میرے بلانے پر نہیں آیا۔ میرے کہنے سے نہیں جاۓ گا۔"

"مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے۔" بلال طیش میں تھا، الوینہ جان گئی تھی:

"دو منٹ الوینہ۔ وہ نہ ہٹا تو تمہاری قسم، جو تم دونوں کا حشر ہو گا اس سے تم بخوبی واقف ہو۔"

ایک آنسو الوینہ کی آنکھ سے نکلا اور گال پر بہہ گیا۔ اس نے سنا، بلال کہہ رہا تھا:

"ڈو اٹ الوینہ۔ کیونکہ مجھے ایک بار پھر تمہیں لائن پر لانے کے لیے ویسی ہی رات دہرانے کی ضرورت پڑی تو مجھے دقت نہیں ہو گی۔"

مزید دو آنسو آنکھ سے نکلے تو گردن تک بہہ گۓ۔ بلال نے کنکشن منقطع کر دیا لیکن ضوریز بے چین ہو گیا:

"کیا مطلب ہے اِس کا؟" وہ بڑبڑایا اور پھر اچنبھے سے بولا:

"رات کا کیا؟ کیا ہوا ہے الوینہ؟"

الوینہ نے آنسو پونچھے۔ لب اسپیکر کے قریب لائی:

"الوداع ضوریز۔"

"الوینہ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟ اس نے کیا کیا ہے؟"  وہ چیخا لیکن الوینہ فون والا ہاتھ جھٹک کر ٹیرس سے ہٹ گئی۔ ضوریز متذبذب سا کھڑا رہا، پھر کچھ سوچ کر ہٹ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی یہ حرکت الوینہ کو نشانۂ مشق بنانے کے لیے کافی تھا۔ بلال آیا تو اس کا رویہ ترش ہی تھا۔ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ کر اپنے جوتوں کے تانے کھولتے ہوۓ وہ ہنسا تھا:

"تمہارا عاشق تو ڈر کر بھاگ گیا۔"

الوینہ کچھ نہ بولی۔ کچن میں کھڑی وہ اپنے لیے کافی بنا رہی تھی لیکن ذہن منتشر تھا۔ بلال نے شوز اتارے، ٹائی ڈھیلی کی اور سینے پر ہاتھ باندھ کر کچن کی دہلیز میں رک گیا۔

"سنا ہے تم نے کورٹ میں اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ کیا واقعی؟"

الوینہ کچھ نہ بولی۔ بلال نے دیکھا اس کے سیاہ ریشمی بالوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ سرمئی فراک ہلکی ہلکی گیلی تھی۔ وہ شاید کچھ دیر پہلے نہائی تھی۔ بلال نے آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر اس کے گیلے بالوں کی چند لٹوں کو چھوا تو الوینہ نے سختی سے کپ تھاما۔ ہونٹ بھینچ لیے۔

"کیا اب تم تھپڑ کھانا چاہتے ہو، بلال عطاء اللہ؟"

بلال نے ہاتھ کھینچ لیا۔ سر جھکا کر وہ لب اس کے کان کے قریب کے آیا:

"الوینہ۔" اس نے دو انگلیوں سے الوینہ کی تھوڑی چھوئی:

"آئی ایم سوری۔"

الوینہ کے لبوں پر اداس مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے پلٹا کھایا۔ چہرہ بلال کے سامنے کے آئی:

"پتا ہے، اس کے تھپڑ میں بہت تکلیف تھی بلال۔" وہ اب مسکراتے ہوۓ کہہ رہی تھیں لیکن آنکھوں میں بے نام کرب تھا:

"ایسی تکلیف میں نے کبھی زندگی میں محسوس نہیں کی۔ میں مرہم چاہتی تھی۔ سکون کی طلبگار تھی۔ پر۔۔۔ سکون ملتا تو تکلیف بڑھ جاتی۔ تمہاری تکلیف نے مجھے اس تکلیف سے مبرہ کر دیا۔ تمہارے درد نے وہ درد زائل کر دیا بلال۔" کہتے ہوۓ اس کی آواز لڑکھڑائی تو بلال کا چہرہ سپاٹ ہو گیا۔ الوینہ نے خشک لبوں پر زبان پھیری:

"اپنی جارحیت دکھانے کا شکریہ بلال۔"

وہ کہہ کر گھوم گئی تو بلال یکلخت اسے تھام لیا۔ دونوں بازوؤں میں اسے قید کیا۔ الوینہ کا بدن کانپنے لگا۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے کھڑی رہی۔ لیکن جسم کمزور تھا۔

"میں نے کہا ناں سوری۔" بلال نے اچانک ہی لب اس کے گال پر رکھے تو وہ گہرا سانس لے کر کانپ اٹھی۔

"چھوڑ دو مجھے۔" اس کی مزاحمت دم توڑے ہوئی تھی۔ بلال اسے آزاد کر کے دو قدم پیچھے ہٹا۔ الوینہ کافی کا مگ اٹھا کر وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے مگ ٹیبل پر رکھ دیا اور خود لیٹ گئی۔ 

اسے فیصلہ کرنا ہی ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز حسن فیصلہ کر چکا تھا۔ 

وہ عدالت میں اپنے پرانے موکل کا ایک بار پھر دفاع کرنے کے لیے تیار تھا۔ جج کے متعلق وہ جانتا تھا کہ ہرگز نہیں بِکے گا، اپنے فیصلے سے نہیں ہٹے گا، یہ کہ وہ ایماندار ہے، کبھی ڈولتا نہیں ہے، دباؤ میں آتا نہیں ہے۔۔۔

قدرت نے دیکھا کہ جج مجبور ہو گیا۔

ضوریز حسن فاتح ٹھہرا۔

اس نے اپنا موکل، ایک مجرم پھر رہا کرا لیا۔

کیا نیا تھا؟ وہ ہر بار مجرموں کو بری کرا لیتا تھا۔ جسٹس سلیمان اس کی حرکتوں سے واقف تھے لیکن خاموش تھے۔ اس رات وہ برس پڑے۔

"میں روز دیکھتا ہوں تم جیسے وکیلوں کو۔" وہ غرا رہے تھے:

"قانون اندھا ہے لیکن تم جیسے جھوٹے وکیل اسے مفلوج کر چھوڑو گے۔"

"میں نے آج تک عدالت میں جھوٹ نہیں کہا۔"

"تم حلفیہ بھی کہو تو میں یقین نہیں کروں گا کہ تم نے کبھی سچ کہا ہے ضوریز۔"

"جھوٹ بولنے اور سچ کو چھپانے میں فرق ہے انکل۔ میں بس دوسرا کام کرتا ہوں۔"

"اور اس کام کی مدد سے تم مجرموں کو رہا کروا رہے ہو؟؟؟؟" انہوں نے ضوریز کا گریبان پکڑ لیا:

"کیا تم جانتے ہو تم بدمعاشوں کے کس گینگ سے الجھ بیٹھے ہو۔ کیا تمہیں اصل میں پتا بھی ہے کہ کل تم نے کسے رہا کروایا ہے؟"

ضوریز نے گریبان نہیں چھڑایا۔ خوف نہیں کھایا لیکن جسٹس سلیمان کی آنکھوں میں جھانک کر وہ بولا:

"میں بس یہ جانتا ہوں کہ میں نے ایک ایسے شخص کی حمایت ہے جس سے آپ ڈرتے ہیں، انکل سلیمان۔"

ضوریز کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ جسٹس اس کا لہجہ بھانپ کر چونکے۔ اس کا گریبان چھوڑ دیا۔

"تو اب تم میرے خلاف جاؤ گے۔ مجرموں کے مسیحا اس لیے بن رہے ہو تاکہ ایک دن مجھ سے بچنے کے لیے ان کی گود میں پناہ لے سکو؟"

ان کا لہجہ کرخت تھا۔ ضوریز سر جھکا گیا:

"آئی ایم سوری انک۔۔۔"

"مت بھولو تم میرے دام تلے ہو، ضوریز۔ تمہاری لگام ابھی بھی میرے ہاتھ میں ہے۔" وہ اب دھاڑ رہے تھے۔ ضوریز سر جھکاۓ کھڑا تھا:

"تمہارے سارے کرتوتوں کا ریکارڈ، تمہارا خراب کردار اور سب سے اہم، وہ لڑکی ضوریز۔۔۔" ان کے لبوں پر اب رقیبانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی:

"تم میری بیٹی کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کرو۔ میں نے تمہاری محبوبہ کے خاندان تک کو صفحہ ہستی سے نہ مٹایا تو پھر جسٹس سلیمان دوبارہ جج کی کرسی پر نہیں بیٹھے گا۔"

ضوریز کی آنکھوں میں نفرت کی لہر نظر آئی تھی۔ غم و غصہ ایک سا ہو گیا تھا:

"اسے ہرٹ کرنے کی کوشش کی تو میں۔۔۔" اس نے کہنا چاہا۔

"اگر میری بیٹی کو ہرٹ کرنے کی کوشش کی تو میں۔۔۔" وہ جملہ ادھورا چھوڑ گۓ۔ ضوریز ساکت و جامد رہا۔

وہ نادیدہ بیڑیوں میں قید تھا۔

بیڑیاں الوینہ کے نام کی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ کو اس کی بات سن کر گہرا شاک لگا تھا۔

کیفے کا ہر منظر غائب ہو گیا تھا اور وہ یک ٹک ضوریز کو دیکھ رہی تھی۔

"تمہیں بھول جاؤں؟" اس نے یوں تعجب سے کہا جیسے یہ ناممکن سی بات تھی:

"میں تمہیں بھول جاؤں؟" وہ تعجب زدہ تھی کہ ضوریز کے منہ سے یہ سننا بھی ناممکن سی بات تھی:

"تم کہتے ہو میں اپنی تمام ریاضتیں بھلا کر اپنی محبت سے دستبردار ہو جاؤں۔ تم چاہتے ہو۔۔۔۔ تم چاہتے ہو۔۔۔۔"

وہ گہرے صدمے میں تھی۔ لب تھرتھرانے لگے تھے۔ گال کا زخم بے اختیار ہی واضح ہو گیا تھا۔ ضوریز نے اپنی درمیانی انگلی سے اس کا رخسار چھوا:

"مجھ سے جڑ کر تمہیں کیا مل رہا ہے الوینہ؟ صرف یہ؟" اس کا اشارہ زخموں کی طرف تھا۔ الوینہ روہانسی ہو گئی:

"تم سے جڑ کر مجھے تم مل رہے ہو ضوریز۔ تم ہو تو باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔"

"پھر یہ مان لو کہ ضوریز حسن ہے ہی نہیں۔" اس نے مزید نرمی سے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔ وہ گلاس وال کے ساتھ مصنوعی پودے کی اوٹ میں تھے۔ کافی ٹھنڈی ہو گئی تھی لیکن کوئی اسے پینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

"تم نہیں ہو تو میں نہیں ہوں، ضوریز۔" الوینہ نے بدقت کہا۔ ضوریز سٹپٹا گیا۔

"اوہ سٹاپ اٹ الوینہ۔" وہ اب ستا ہوا نظر آرہا تھا:

"یہ کوئی کتابی کہانی نہیں ہے جہاں دو عشق کرنے والے افراد ایک دوسرے کے لیے امر ہو جائیں تو قربان رہتے ہیں۔ کیا تم اپنے شوہر کی نظروں میں یونہی روز گرنا چاہتی ہو؟ کیا تم میرے لیے اپنی عزت نفس کو یونہی قتل کر دینا چاہتی ہو؟"

"میں آج اسے کہوں گی تو مجھے طلاق دے گا ضوریز۔ ہمارا رشتہ ناپائیدار ہے لیکن تم۔۔۔۔" اس نے ضوریز کے دونوں ہاتھ تھام لیے:

"تم مجھے اپنا سکتے ہو۔ تم۔۔۔"

"میں شفق کو نہیں چھوڑ سکتا۔" اس کا لہجہ قطعی تھا۔ الوینہ دھک سے رہ گئی۔ اس نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

"مجھے اس عورت سے شدید نفرت ہے۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے، اس کے بچے کی پرواہ بھی نہیں ہے لیکن میں۔۔۔ اسے نہیں چھوڑ سکتا الوینہ۔"

"لیکن مجھے تو اپنا سکتے ہو۔" الوینہ کی اس کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط ہو گئی۔ وہ کل شفق سلیمان کے نام سے حسد کرتی تھی، آج صرف ضوریز کے لیے شفق سلیمان کی سوتن بننے کے لیے تیار تھی۔ ضوریز پھیکا سا مسکرایا، سر جھٹکا:

"میں اچھا شوہر نہیں بنوں گا۔"

"میں اچھی بیوی بنوں کی ضوریز۔"

اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ضوریز کے قدموں میں بیٹھ جاتی۔ اس کا ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے، وہ لبوں تک لائی تو ٹیبل پر رکھے ضوریز کے فون نے بیپ کیا۔ ضوریز نے دیکھے بغیر گرین بٹن دبایا۔ کرخت سی آواز گونجی:

"کیا میں پاپا کو بتاؤں کہ تم اپنی داشتہ کے ساتھ باہر گھوم رہے ہو؟"

وہ چیخی تو ضوریز کا چہرہ لال ہو گیا۔ الوینہ نے فوراً اس کے بازو چھوڑ دیے۔

"شفق۔" فون اس نے کیا تھا۔ ضوریز نے فوراً سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ گلا وال کے اس پار اس کی کار کھڑی تھی۔ اور کار کے قریب شفق سلیمان ایستادہ تھی:

"باہر آؤ ڈارلنگ۔ ورنہ مجھے پاپا کو فون کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔"

وہ کھلکھلائی تو ضوریز نے ہونٹ بھینچ لیے۔ فون پٹخ کر وہ اٹھا اور کرسی کی پشت پر پھیلایا کوٹ اتارا۔

"ضوریز۔" الوینہ نے اسے آواز دی، آٹھ کھڑی ہوئی، کچھ کہنا چاہا لیکن ضوریز نے ہاتھ بلند کر دیا:

"بعد میں ملتے ہیں الوینہ۔"

اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا نکل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ گھر واپس آئی تو گیراج میں BMW کھڑی تھی۔ الوینہ حنان کی وہ کار پہنچاتی تھی۔ بلال کی کار غائب تھی۔ گویا وہ ابھی آفس سے نہیں آیا تھا لیکن یہ حنان کی کار۔۔۔ وہ منتشر الذہن تھی اور اب مزید تذبذب کا شکار ہو گئی۔ رخسار کے زخم کو محسوس کرنا چاہا۔ پھر نڈر بن کر اکیلی اندر داخل ہوئی۔ لاؤنج میں داخلی دروازے کے قریب رکھے صوفے پر ہی کوئی براجمان تھا۔ 

آہٹ پر اس نے پلٹ کر دیکھا تو الوینہ کے تاثرات بدل گۓ۔

وہ منان تھا۔

آفس سوٹ میں ملبوس وہ صوفے پر بیٹھا سوچوں میں غلطاں تھا، الوینہ کو دیکھ کر مسکرایا:

"میں نے آنے سے پہلے فون کیا تھا۔ تم نے فون چیک نہیں کیا ناں؟"

الوینہ نے ہاتھ میں پکڑے فون پر نگاہ ڈالی، پھر قدم قدم چلتی اندر آئی۔ منان کی یوں اچانک آمد اسے متفکر کر رہی تھی۔

"کافی؟"

اس نے آہستگی سے نظریں ملاۓ بغیر پوچھا۔ منان نے نفی میں سر ہلا دیا:

"میں مینیجر حنان مصطفیٰ سے دو گھنٹے کی ریلیف لے کر آیا ہوں۔ اس دوران واپس ہسپتال بھی جانا ہے۔"

الوینہ نے اس کے فقرے پر غور نہ کیا۔ چپ چاپ کچن کی جانب بڑھ گئی۔ منان صوفے سے اٹھا اور کچن کے دروازے میں آکھڑا ہوا۔

"آج ہانیہ کی ڈیلیوری تھی۔" اس نے خود بتایا:

"میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنا چھوٹا سا بیٹا دیکھا، الوینہ۔"

"کیسی ہے ہانیہ؟" رسمی سوال۔ منان نے سر ہلایا:

"بے ہوش تھی۔ اب جاؤں گا تو۔۔۔"

"وہ بے ہوش تھی اور تم نے اسے اکیلا چھوڑ دیا؟" الوینہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ منان مسکرایا:

"پھپھو ہیں اس کے پاس۔ پھر مجھے کچھ کام تھا۔"

الوینہ نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ منان نے چپ چاپ کافی کا مگ ا سکے ہاتھ سے لیا اور اسے کچن سلیب پر رکھا:

"میں کافی پینے نہیں آیا الوینہ۔" الوینہ کا ہاتھ تھام کر وہ اسے کو کچن سے باہر لے آیا۔ 

"میں نے جب اسے گود میں لیا تو وہ رو رہا تھا۔ کیا تم نے کبھی کسی چھوٹے بچے کو گود میں اٹھایا ہے۔ وہ روئی کا پھولا آپ کا دل پگھلا دیتا ہے۔ وہ رو رہا تھا اور میرا دل کر رہا تھا میں اس کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ بس یونہی، بے وجہ ہی۔" اس نے الوینہ کو لاؤنج میں صوفے پر بٹھایا۔ خود سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا:

"میں آج باپ بن گیا ہوں الوینہ۔ میں نہیں چاہتا میرا کوئی جھوٹ کبھی میرے بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔ میں نہیں چاہتا میرا کوئی جھوٹ میرے بچے کی ماں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو۔ اس لیے۔۔۔" وہ لمحہ بھر کے لیے رکا، الوینہ کی آنکھوں میں دیکھا:

"آئیندہ تم مجھے کوئی میسج نہیں کرو گی۔"

الوینہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ منان ہچکچا گیا:

"وہ خط۔۔۔" اس نے نچلا لب کاٹتے ہوۓ کہا:

"وہ خط، الوینہ۔۔۔ وہ خط میں نے تمہیں لکھے تھے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ ایک لمحے میں ظاہر ہوتا لیکن ایسا کہ اس پر یقین مشکل ہوتا ہے۔ الوینہ نے بے خیالی میں سر اٹھایا، پھر مسکرائی اور کندھے اچکاۓ۔

"تو اب تم مجھے بلیک میل کرو گے؟"

منان پھیکا سا مسکرایا۔ نفی میں سر ہلایا:

"آئی ایم سوری الوینہ۔ میں نے تمہارے ساتھ جو کھیل کھیلا وہ جائز نہیں تھا۔ پر مجھے یہ کرنا پڑا۔"

چھناکے کی آواز الوینہ کے دل میں کچھ ہوا۔ لبوں پر پھیلی مسکراہٹ مدھم ہو گئی۔ اس نے سنا، منان کہہ رہا تھا:

"تم میرے اور ہانیہ کے رشتے کے بارے میں جانتی تھیں۔ مجھے پتا تھا تم اماں جان کو میری محبت داغدار کر کے دکھاؤ گی۔ میں نہیں چاہتا تھا تمہاری وجہ سے ہانیہ کو کوئی نقصان پہنچے یا میری محبت پر آنچ آۓ اس لیے، میں نے تمہاری کمزوری ڈھونڈی۔" وہ اس سر جھکاۓ کہہ رہا تھا:

"ضوریز حسن۔ تم کب اس سے ملتی ہو، کیا کرتی ہو، کہاں جاتی ہو، میں نے سب ریکارڈ کیا۔ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تاکہ وقت آنے پر تمہیں بلیک میل کر سکوں پر۔۔۔ تم تو خود برباد ہو رہی تھیں اور ابھی تک اس شخص کے ہاتھوں تباہ وہ رہی ہو۔ مجھے اس سب کا فائدہ نہیں ہوا۔ لیکن اج۔۔۔۔" اس نے سر اٹھایا:

"آج جب میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے اس سب سے باز آنا چاہیے۔ تم پر یوں نظر رکھنا غلط ہے۔ تمہارے جذبات سے کھیلنا۔۔۔۔"

"تم نے کہا تھا کہ تمہیں میری پرواہ ہے۔" الوینہ نے بات کاٹی۔ منان نے بغور اسے دیکھا:

"مجھے تمہاری پرواہ ہے۔ جبھی تو میں چاہتا ہوں تمہیں میری وجہ سے تکلیف نہ پہنچے الوینہ۔"

"تم نے کہا۔۔۔ تمہیں مجھ سے محبت تھی۔" الوینہ کو اپنی آواز آواز دور گڑھے سے آتی محسوس ہوئی۔ منان نے پیشانی پر ہاتھ مارا اور نادم نظر آیا:

"یہ واحد جھوٹ ہے جو میں نے بولا۔ صرف اس لیے تاکہ تم مجھ پر بھروسہ کرو اور خودبخود مجھے ساری باتیں بتا سکو۔"

"یو ایکسپلائیٹڈ می۔" 

(تم نے مجھے استعمال کیا)

وہ دھاڑی۔ منان چپکا رہ گیا:

"میں غلط تھا۔ آئی ایم سو۔۔۔"

وہ کہہ رہا تھا لیکن الوینہ جھٹکے سے اٹھی۔ اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے، سر چکرا رہا تھا۔ وہ صوفہ پار کرتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی تو قدم لڑکھڑا رہے تھے :

"الوینہ۔ الوینہ، میری بات۔۔۔" منان بھی اٹھا۔ الوینہ نے عجلت میں سیڑھیاں چڑیں۔ دوسری سیڑھی پر ہی اس کا سر بے اختیار چکرایا کہ دنیا گھومتی محسوس ہوئی۔ منان نے عین وقت پر اسے تھاما۔

وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری جاسوسی کیوں کرتے ہو؟"

"آپ کی جاسوسی نہیں کروں گا تو زندگی میں اور کیا کروں گا مس جہاں داد۔"

"مجھ سے محبت کرتے ہو۔"

"کرتا تھا۔"

"پھر اب؟"

اب میں جان گیا ہوں کہ محبت ہمیشہ یک طرفہ ہوتی یے۔"

الوینہ نے نقاہت سے آنکھیں کھولیں تو برابر والی کرسی پر ہی منان بیٹھا تھا۔ الوینہ کو دیکھ کر مسکرایا تو الوینہ نے چہرہ پھیر لیا۔

"یو آر پریگننٹ؟؟؟؟" اس کے ابرو استعجاب میں اٹھے:

"زخمی شیرنی تو کسی کو قریب بھی نہیں آنے دیتی۔ پھر اب کیا؟"

الوینہ چپ رہی تو منان نے نرمی سے اپنا بایاں ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا۔

"چلے جاؤ۔" اس کی آواز زخمی تھی۔

"بہادر لڑکی تو بڑی سے بڑی بات بھی برداشت کر جا لیتی تھی، پھر اب کیا؟"

"تم جیسے دھوکہ بازوں نے اسے موم کر دیا۔" اور واقعی اس کا مومی وجود نڈھال بستر پر پڑا تھا۔ منان کی نگاہیں جھک گئیں۔

"مجھ سے غلطی ہوئی الوینہ۔ مگر تمہارے لیے، اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔" اس نے رسان سے الوینہ کا ہاتھ تھاما:

"جانتی ہو جاثیہ بھابی کی نجی زندگی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ حنان کے دل میں ان کے لیے رتی برابر بھی جگہ نہیں ہے۔ اس کی بھابی کے لیے عدم توجہی اکثر جھگڑوں کا سبب بنتی ہے۔ یہ فیکٹری کے ناجائز مال کی لعنت ہے۔ یہ حنان کے رویے کی بابت ہے۔ چند مہینوں پہلے ان کا جھگڑا ہوا۔ حنان غصے میں آگیا اور۔۔۔" منان ہچکچایا:

"ان کا بچہ ضائع ہو گیا۔" 

الوینہ نے وحشت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ 

"اور اب وہ دوبارہ امید سے ہیں۔" منان اسے ہی دیکھ رہا تھا:

"میں جانتا ہوں بلال اچھا شوہر نہیں ہے۔ وہ تم پر چیختا ہے، غصہ کرتا ہے، پابندیاں لگاتا ہے۔ تم اگر کسی آدمی سے ملتی ہو تو تم بدکار لیکن وہ خود رات دن آفس کی فی میل ایمپلائی کے ساتھ ہوتا ہے، پھر بھی صحیح ہے۔ نہیں، وہ صحیح نہیں ہے الوینہ لیکن۔۔۔" منان کی آواز مدھم ہو گئی تھی:

"وہ تمہارا شوہر ہے۔ مانا چیختا ہے لیکن تمہیں گالی نہیں دیتا۔ غصہ کرتا ہے لیکن تمہیں تھپڑ نہیں مارتا۔ تم اس کی جائز بیوی ہو اس کے باوجود کسی اور سے ملتی ہو، وہ اس پر اعتراض نہیں اٹھاتا۔ تم اس غیر محرم کے ساتھ کیا کچھ کرتی ہو وہ اندازہ کر سکتا ہے لیکن کبھی تمہیں ہرٹ نہیں کیا۔ کیا تمہیں اس سے زیادہ انصاف چاہیے؟ کیا تمہیں اس سے زیادہ کچھ چاہیے؟"

"میں نے بلال کو نہیں چاہا۔ کبھی نہیں۔"

"میں نہیں کہہ رہا کہ تم اسے چاہنے لگو۔ میں چاہتا ہوں تم 'باقیوں' کو چاہنا چھوڑ دو۔" منان کچھ سوچ کر بولا تھا۔ الوینہ بھانپ گئی۔ وہ منان کو دیکھ کر رہ گئی۔ اسی لمحے باہر راہداری میں بھاری قدموں کی آہٹ گونجی۔ دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور بلال اندر آیا۔ پھر ٹھٹک کر رکا۔ منان نے ایک نظر بلال کو دیکھا، پھر الوینہ کو دیکھ کر مسکرایا:

"میری بیوی مجھے یاد کر رہی ہو ہو گی۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا:

"گیٹ ویل سُون۔"

وہ نکل گیا اور بلال متذبذب سا دروازے میں ایستادہ رہا۔ الوینہ ضبط کی حدوں کو چھوتی لیٹی رہی۔ پھر جھٹکے سے اٹھی، بیڈ کے قریب رکھے سینڈل پہننے لگی۔

'"طبیعت خراب کیوں ہوئی؟" اس کا لہجہ مخصوص سا سپاٹ تھا۔ الوینہ نے تنک کر جوتے کا اسٹیپ بند کیا۔

"اب خراب رہنے لگی ہے۔" وہ اب کھلے بالوں کا جوڑا باندھ رہی تھی لیکن آنکھیں بھیگنے کو تیار تھیں:

"ہر روز الوینہ کے لیے نیا راز افشاں ہونے کے لیے تیار ہے۔ سب الوینہ کو استعمال کرتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے  ہیں تو کہتے ہیں چلو الوینہ کو تنگ کریں، اس کا مذاق اڑائیں۔ اسے کہیں پھینک آئیں۔" وہ پیر پٹخ کر اٹھی۔ نظریں جھکی تھیں اور لبوں سے شکوے جاری تھے۔ وہ مسلسل بے خیالی میں کچھ کہہ رہی تھی کہ بلال نے یکلخت اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔ الوینہ نے پوری قوت سے مزاحمت کی۔ عین اسی لمحے بالکونی سے گزرتی پھپھو کی آواز آئی۔ وہ جونہی منظر میں آئیں، بلال نے ہاتھ اٹھا لیا۔

"ہاۓ، یہ کیا حال بنا دیا ہے میری بیٹی کا۔"

وہ بلال کے ساتھ ہسپتال سے گھر آئی تھیں۔ اب حسبِ معمول وہ بلال سے گلہ کر رہی تھیں، الوینہ کو سینے سے لگاۓ کھڑی تھیں۔ الوینہ کا ضبط ٹوٹ رہا تھا۔ سب غم ملتے ہیں تو آنسوؤں کو تحریک ملتی ہے۔ اس کے آنسوؤں کا سیلاب بہہ جانے کو تھا لیکن اِدھر پھپھو تھیں، اُدھر بلال تھا۔

وہ دونوں جلد رخصت ہو گۓ۔ پھپھو الوینہ کی طبیعت کا پتا کرنے آئی تھیں۔ بلال پھپھو کو واپس ہسپتال چھوڑنے گیا کہ ہانیہ وہاں منان نے ساتھ اکیلی تھی۔ 

الوینہ نے سب سے پہلے آئی پوڈ اٹھایا۔ سارے میسج پڑھتی گئی، ڈیلیٹ مارتی گئی۔ سب جھوٹ تھا، ایک سراب تھا۔ میسج ڈیلیٹ ہوۓ تو اس نے آئی پوڈ اٹھایا اور پوری قوت سے دیوار میں دے مارا۔ چھناکے کی آواز آئی اور اسکرین ٹوٹ گئی۔ پھر اس کی نگاہ میز پر رکھے خطوط کے ڈبے پر پڑی۔ سب جھوٹے خطوط تھے، سب جھوٹی باتیں تھیں۔ 

"میری جاسوسی کیوں کرتے ہو؟"

"آپ کی جاسوسی نہیں کروں گا تو زندگی میں اور کیا کروں گا مس جہاں داد۔"

"مجھ سے محبت کرتے ہو۔"

"کرتا تھا۔"

"پھر اب؟"

اب میں جان گیا ہوں کہ محبت ہمیشہ یک طرفہ ہوتی یے۔"

الوینہ نے گتہ فرش پر الٹا دیا۔ سفید کاغذ پھیل گۓ۔ اس نے سیڑھیاں اتر کر کچن کا رخ کیا۔ ماچس کہیں نہیں ملی۔ وہ ہاتھ مارتی رہی۔ پھر بے خیالی میں بلال کے کمرے میں آئی ۔ درازیں کھنگالیں تو لائٹر نظر آیا۔

وہ لائٹر اٹھاۓ اپنے کمرے میں آئی۔ کاغذوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔

"مس جہاں داد، محبت حد سے بڑھنے نہیں دیتی۔ جو حد پار کر جاۓ، وہ محبت نہیں ہوتی۔"

"اور تمہاری محبت؟ تم نے کہا تھا تم بھی مجھ سے محبت کرتے تھے؟

الوینہ سب جلا دے گی۔ وہ دل کے نہاں خانوں سے اس کی ہر یاد مٹا دے گی۔ اس نے ایک خط اٹھایا اور اسے لائٹر سے جلایا، پھر دوسرا ، تیسرا اور جلتے خط کاغذوں پر پھینک دیے۔ ایک اور خط اٹھایا اور اسے لائٹر کی آگ سے چھوا۔

"الوینہ۔"

بالکونی سے گزرتا بلال دم بخود رہ گیا تھا۔

"الوینہ کیا کر رہی ہو؟"

وہ لپک کر کمرے میں آیا اور لائٹر چھیننا چاہا۔ الوینہ نے مزاحمت کرتے ہوۓ خطوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔ بلال نے اسکے دونوں بازو تھام لیے۔ الوینہ نے پوری قوت سے خود کو چھڑاتے ہوۓ چیخ ماری، پھر ہیجانی انداز میں چیخنے لگی۔

"الوینہ۔۔" وہ اسے سنبھالنے سے عاجز تھا۔ الوینہ نے بازو چھڑاۓ اور جلتے کاغذوں کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھی۔ جلتا لائٹر اٹھایا اور کاغذ جلانے لگی۔ اس کے ہاتھ آگ کی تپش سے سرخ ہو گۓ تھے، ڈوپٹے نے آگ پکڑ لی تھی۔ بلال نے اسے کمر سے کھینچ کر آگ سے دور کیا۔ اس کا آگ میں یکتا دوپٹہ اتار کر دور پھینکا۔ وہ چیخ رہی تھی، خود کو چھڑا رہی تھی، بلال نے سختی سے اسے بانہوں میں قید کر لیا۔

"مجھے جلانے دو، مجھے سب جلانے دو۔" وہ بڑبڑا رہی تھی، بازو ہٹا رہی تھی۔ بلال کا حصار تنگ ہو گیا۔ اس کی گرفت مضبوط ہو گئی۔

"سب جل جاۓ گا الوینہ۔ لیکن تم خود کو کیوں جلا رہی ہو؟" اس نے ہولے سے کانپتی لرزتی الوینہ کے کان میں سرگوشی کی تھی، الوینہ کا آگ کی طرف مائل وجود ڈھیلا پڑا۔ پھر اتنی ہی سختی سے اس نے اپنا سر بلال کے سینے میں دیا۔ 

  "I loved him." 

اس کی مدھم آواز بلال کے دل نے سنی تھی:

"کیا تم یقین کرو گے بلال، میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا، اسے کبھی نہیں سنا، اسے کبھی نہیں چھوا مگر۔۔۔ I loved him."

بلال کی شرٹ کا اگلا حصہ تربتر ہو رہا تھا۔ آنسوؤں کا وہ سیلاب کھل کر باہر آیا تھا۔

"میں نے ضوریز سے بے پناہ محبت کی، میرا دل ہمیشہ اس کے لیے ہمکتا تھا، میرا دل اس کے بغیر بے چین رہتا تھا لیکن سکون۔۔۔ اس کے صرف لفظ ہی سکون دیتے تھے۔ اس کے لفظ مرہم تھے۔ میں نے اس سے محبت نہیں کرنا چاہی تھی، اس کو کبھی نہیں چاہا تھا بلال لیکن مجھے پتا ہے کہ۔۔۔۔" اس نے آنکھیں موند لی تھیں :

 "I loved him."

"کیا میری یہی سزا ہے کہ مجھے انت میں کچھ نہیں ملے گا؟" اس نے سر اٹھا کر بلال کی آنکھوں میں دیکھا:

"جیسے مجھے وہ نہیں ملا، کیا مجھے ضوریز بھی نہیں ملے گا؟ کیا مجھے۔۔۔ کیا مجھے صرف ہجر ملے گا؟ صرف درد ملے گا؟"

بلال کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ جانے سب سن رہا تھا یا نہیں، کچھ کہہ نہیں رہا تھا۔ اس نے خاموشی سے سر جھکایا اور الوینہ کا سر سینے سے لگا لیا۔ پوری رات الوینہ کا سر اس کے سینے پر دھرا رہا تھا۔ پوری رات وہ اکڑوں بیٹھا رہا تھا۔ وہ آنسو بہاتے نیند کی آغوش میں اتر گئی اور وہ۔۔۔

پوری رات پتھر کا بنا بیٹھا رہا۔

پھر کیا محبت چھوڑ دینے کے لیے تیار ہیں، مس جہاں داد؟"

"دنیا فنا ہو جاۓ گی، الوینہ جہاں داد کی محبت فنا نہیں ہو گی۔ اس کے آنسو خون بن جائیں گے، لیکن بہنا نہیں چھوڑیں گے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بلال کے بس میں ہوتا تو وہ کار کو بھی جہاز کی طرح اڑا کے لے جاتا۔ الوینہ کے فون کی لوکیشن آف تھی، اس کا اتا پتہ نہ تھا۔ وہ کورٹ گئی تھی، یہاں تک وہ جانتا تھا، اس کے آگے سب نشانات غائب تھے۔ وہ اب جنگل سے ملحق سڑک پر کار بھگاتا جا رہا تھا۔ آنکھوں میں اضطراب تھا لیکن چہرہ سپاٹ تھا۔پھر فون کی اسکرین روشن ہوئی اور بیپ کی آواز ائی۔ بلال کی نظریں فون پر مرکوز ہوئیں۔ نیلا دائرہ جنگل میں ایک جگہ ظاہر ہوا تھا۔ بلال کے جیسے جان میں جان آئی۔ سڑک پر سیدھی دوڑتی کار نے بے اختیار موڑ لیا اور درختوں کے درمیان سے گزرتی جنگل کی اونچی نیچی زمین میں اتر گئی۔

اسے الوینہ کا فون مل گیا۔ اسکرین ٹوٹی ہوئی تھی لیکن سم اندر ہی تھی۔ اس نے شدید اضطراب کی حالت میں فون اٹھایا تھا۔

"اور تم کہاں ہو الوینہ؟" وہ زیرِ لب بولا۔ اس سے بہت دور برگد کے پاس لیٹی الوینہ آخری سانسیں لے رہی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تاریک جنگل میں کھڑے کھڑے ضوریز تھک گیا تھا۔ کئی بار اس نے واپسی کا سوچا۔ سو طرح کے خیال ذہن میں امڈ رہے تھے لیکن مرد بن کر کھڑا رہا۔ پھر دور سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ ایک آدمی چلا آرہا تھا۔ ضوریز نے سامسنگ کی ٹارچ روشن کی۔ وہ وہی موکل تھا جسے ضوریز نے مہینہ قبل چھڑایا تھا۔

اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلوٹ والے انداز میں سلام کیا۔ ضوریز نے بس سر کو ہلکا سا خم کیا۔ آدمی نے بیگ ضوریز کو تھمایا۔

"آپ کی فیس۔ پورے دس لاکھ۔"

ضوریز نے گننے کی زحمت نہیں کی۔ بیگ لیا اور جوں کا توں مرسڈیز کی بیک سیٹ پر اچھا دیا۔ 

"میرے صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ انہیں آپ سے کام ہے۔" آنے والے آدمی نے بتایا۔ ضوریز نے منہ پھیر لیا۔

"میں نے تمہیں جیل جانے سے بچایا نے، تم نے اسی کے پیسے دیے ہیں۔ میں تمہارے صاحب کا نوکر نہیں ہوں جو ان کے ایک بار کہنے پر چل دوں۔"

"ہمارا بھائی قتل کے کیس میں پھنسا ہے، صاحب۔ اس کو مزید دس لاکھ ہے بدلے  باعزت بری کرانا تو آپ کے لیے آسان ہو گا۔"

ضوریز اس کی بات سن کر رک گیا۔ آدمی مسکرایا۔ اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ ضوریز پیدل اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ جنگل میں اندر کہیں روشنی نظر آئی۔ آدمی اسے وہیں لے جا رہا تھا۔ وہ پرانا سا مکان تھا، وہیں ایک آدمی پتھر بیٹھا سگریٹ سلگاۓ ہوۓ تھا۔ چند مسلح افراد آس پاس کھڑے تھے۔ ضوریز انہیں دیکھ کر ٹھٹک گیا۔

جسٹس سلیمان نے ٹھیک کہا تھا کہ وہ نہیں جانتا وہ کن لوگوں میں پھنس گیا ہے۔ 

وہ سب اشتہاری تھے۔ ضوریز سب کو پہچانتا تھا۔ آدمی اپنے باس سے مخاطب تھا۔ ضوریز بس ان مسلح افراد کی بندوقوں کا جائزہ لیتا رہا۔ بس کے رعب و دبدبے کو پرکھتا رہا۔

"جسٹس سلیمان کا داماد!" سگریٹ پیتے آدمی نے مسکراتے ہوۓ ضوریز کو دیکھا تھا۔ اس کی نگاہیں سوالیہ تھیں:

"جسٹس سلیمان کا داماد ایک مجرم کی حمایت کر سکتا ہے؟"

ضوریز کچھ نہیں بولا۔ آدمی نے کئی سوال پوچھے، ضوریز نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔

"میرا آدمی جیل جانے کے قریب ہے۔ کیس لو گے؟" 

اس شخص نے آخری سوال کیا۔ ضوریز نے سر ہلا دیا:

"اسی لیے تو آیا ہوں۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورٹ میں جسٹس سلیمان اس کے آڑے آگۓ۔

"تم نے مزید ان اشتہاریوں کی حمایت کی تو میں بھول جاؤں گا کہ تم میری بیٹی کے شوہر ہو۔"

"آپ نے اگر میرے کام میں ٹانگ اڑائی تو میں بھول جاؤں گا کہ آپ جج اور میں وکیل ہوں۔"

"ضوریز، میں تمہارا پول کھول دوں گا۔" وہ غراۓ اور ضوریز خاموش نگاہوں سے انہیں دیکھے گیا۔ اس کا نازک سرا ان کے ہاتھ تھا۔ وہ بحث نہیں کر سکا۔ اس کا رخ شہر والے گھر کی جانب تھا لیکن ایس پی اعوان نے اسے گھر میں قدم نہیں رکھنے دیا۔

"قانون، ضوریز!" وہ غصہ تھے، ناراض تھے:

"تمہارے باپ نے اپنی پوری زندگی قانون کے وفا کی اور کہیں بھول کر بھی کوتاہی نہیں کی۔ لیکن افسوس کہ تمہارا باپ تمہیں قانون سے وفا کرنا نہیں سکھا سکا۔"

"مجھ سے آپ کی طرح لوگوں کی نوکری نہیں ہوتی۔" وہ سر جھکاۓ کھڑا تھا ۔ لہجہ دھیما تھا۔ ایس پی اعوان نے کچھ کہے سنے بغیر اسے پلٹنے کا اشارہ کر دیا، وہ ناراض تھے اور ضوریز نے انہیں منانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ابھی ناراض تھے، ناراضی جائز تھی، جب غصہ نہیں ہوں گے تو وہ منا لے گا۔

اس نے مرسڈیز بنگلے کے سامنے روکی۔ خود پر جبر کر کے اندر آیا۔ دہلیز میں کھڑے ہو کر اس نے دیکھ لیا تھا کہ شفق اپنے بال پھیلاۓ، بستر پر لیٹی گنگنا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر جھٹ پٹ سے اٹھی۔ اس کے قریب آگئی:

"میں نے تمہیں کتنی کالز کیں ڈارلنگ، تمہیں کتنے میسج کیے۔ اب تم مجھے اگنور کرو گے؟ مجھ سے بات نہیں کر گے؟" وہ معصوم سا چہرہ بنا کر، اپنی انگلیوں سے اس کا گال چھوتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ ضوریز نے ٹائی کھینچ کر گھڑی اتاری۔ شفق نے نرمی سے اس کا کوٹ اتارنے کی کوشش کی تو ضوریز دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

"پھر کیا سوچا تم نے ہمارے ہنی مون کے بارے میں؟" وہ بالوں کو انگلی پر رول کرتے ہوۓ بولی۔ ضوریز کا دماغ ایک منٹ میں ہی خراب ہوا کرتا تھا، سو خراب ہو گیا۔

"ہم جہنم جائیں گے شفق۔" وہ بڑبڑایا اور کوٹ کھینچ کر بازو پر ڈالا، دھپ دھپ کرتا دوسرے کمرے میں آگیا۔ شفق پیچھے آئی تو ضوریز نے دروازہ اس کے منہ پر بند کیا۔ بیڈ پر آلیٹا اور قریب سے فون اٹھا لیا۔

الوینہ کے ڈھیروں میسج، لاکھوں کالز۔۔۔

جانے کب سے آرہی تھیں اور بس آرہی تھیں۔ ضوریز کے تاثرات بدلتے نظر آۓ۔ اس نے جلدی سے ٹیکسٹ باکس کھولا اور 'ہاۓ' کا میسج ٹائپ کرنا چاہا لیکن رک گیا۔

"وہ لڑکی تم سے محبت کرتی ہے ضوریز۔ آخر اسکا کیا قصور ہے؟" 

اس کی انگلیاں کانپنے لگیں، تاثرات دوبارہ پتھرا گۓ۔ 

"تم بھی اسے بچا رہے ہو ضوریز۔ تمہارا کیا قصور ہے؟" اس نے سیل فون آف کیا اور بازوؤں کا تکیہ بنا کر سر کے نیچے رکھ لیا۔ شفق رات بھر وقفے وقفے سے دروازہ کھٹکھٹاتی رہی، ضوریز رات بھر جاگتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ جہاں داد نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں سے خود کو سِنک کے اوپر لگے آئینے میں دیکھا۔

وہ ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے ہوئی تھی، بازو آستین سے مڑے ہوۓ تھے، بلونڈ بال الجھے تھے، چہرہ متورم اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں۔ وہ کہیں سے اس وقت خوبصورت نہیں لگ رہی تھی کہ کوئی دیکھتا تو بہت جاتا۔ وہ لاچار ضرور نظر آرہی تھی۔ کوئی دیکھتا تو ترس کھاتا۔

"تمہیں خالہ کے گھر ڈراپ کر دوں گا اور شام کو لے لوں گا۔"

پھپھو کی تینوں بہوئیں امید سے تھیں اور بینش کی بیٹی کی سالگرہ قریب تھی۔ سب فنکشن اکٹھے مناۓ جانے والے تھے۔ بلال نے اسے اطلاع دی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس کا چہرہ بھی سپاٹ تھا اور لہجہ بھی۔ الوینہ نے بلال کو دیکھا تو اس کا چہرہ پژمردہ تھا۔ 

جھک کر فون کو دیکھا ، ضوریز کی کوئی کال نہ پاکر چہرہ تاریک ہو گیا۔

پھر اس نے سر اٹھایا اور اچانک اس کا چہرہ تاریک تھا۔

"جہاں تک جا سکتی ہوں، جاؤں گی۔"

اس نے ہولے سے کہا اور نل کھولا۔ ہاتھوں کے پیالے میں پانی بھرا اور چہرہ دھویا، چہرے پر ماسک لگایا، لمبا شاور لیا اور اپنا سب سے خوبصورت لباس پہنا۔ ہائی ہیلز پہنیں اور سرخ لپ اسٹک لگائی۔ بال اسٹریٹ کیے اور کندھوں پر کھلے چھوڑ دیے۔ فون اٹھا کر دیکھا تو بلال کے اسے لینے آنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔

وہ جانتی تھی ان دو گھنٹوں میں اسے کہاں جانا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز ایک لمحے کے لیے نظریں نہیں ہٹا سکا تھا۔

حسن لازوال رہتا ہے اور محبت جاودانی ہوتی ہے۔

اس نے کنی کترا کر نکلنا چاہا لیکن الوینہ اس کی کار کے شیشے سے لگی کھڑی تھی۔

"مجھے دیر ہو رہی ہے الوینہ۔" اس نے نرمی سے کہہ کر لاک کھولنا چاہا۔ نگاہیں جھکی تھیں۔ الوینہ نے سن گلاسز اتاریں۔ دھوپ میں اسکی آنکھیں چھوٹی ہو گئیں۔

"ہم دونوں جدا نہیں ہو سکتے ضوریز۔"

"ہم جدا ہو چکے ہیں۔" اس نے سختی سے لاک پر ہاتھ رکھا۔ الوینہ نے اس کا بازو تھام لیا۔

"تم مجھے چھوڑ چکے ہو، میں نے تمہیں نہیں چھوڑا۔"

"کیا چاہتی ہو تم؟" ضوریز نے بگڑ کر ہاتھ لاک پر سے اٹھایا اور الوینہ کی آنکھوں میں دیکھا:

"اگر مجھے بھروسہ ہوتا کہ میں تمہاری حفاظت کر سکتا ہوں تو میں تمہیں آج اپنی بیوی بنا لیتا پر۔۔۔" وہ مجبور سا دکھائی دیا:

"میں واقعی ایک بزدل مرد ہوں۔ آج مجھے نہیں پتا کہ کل میں زندگی میں کیا قدم اٹھاؤں گا۔ میں خود کو بچا نہیں سکتا، تمہیں کیسے بچاؤں گا، خود کے لیے آج تک اسٹینڈ نہیں لے پایا، تمہارے لیے کیسے لوں گا۔"

"تمہیں مجھے بچانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ضوریز۔ میں خود کو خود بچاؤں گی۔" اس نے لجاجت سے کہا۔ ضوریز کا سر نفی میں ہل گیا:

"پھر خود کا بچانے کا انتظام کر لو۔" وہ کسی گہری سوچ میں گم نظر آتا تھا:

"سب ختم ہونے والا ہے۔"

الوینہ کا ہاتھ لاک پر تھا لیکن ضوریز نے سختی سے ہٹا کر لاک کھول لیا۔ الوینہ کلس کر رہ گئی اور دور کھڑے آدمی نے یہ منظر کیمرے میں محفوظ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز کورٹ سے نکلا تو گردن اونچی تھی۔

وہ پراسیکیوٹر اور مدعی پر ایک بھی ٹھوس الزام نہیں لگا سکا لیکن وہ مقدمہ جس کا آج فیصلہ ہو جانا تھا، ملتوی ہو گیا۔ 

"یہ فائینل ہیئرنگ (آخری سماعت) تھی۔"

ریجنل کورٹ کے جسٹس سلیمان خود جج سے باز پرس کرنے آۓ تھے۔ جج سمجھ نہیں پارہا تھا کہ جسٹس اس لیے غصہ ہیں کہ اس نے دفاعی وکیل کی خاطر مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا یا اس لیے کہ اس نے ضوریز حسن کے مقدمے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا۔

"یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے، جسٹس سلیمان۔ ایک تاریخ سے کیا فرق پڑتا ہے۔"

لیکن جسٹس سلیمان کا پارہ نقطۂ ابال کو پہنچا ہوا تھا۔ ضوریز حسن ان کو بے عزت کروا رہا تھا۔ ضوریز حسن، وہ کل کا لڑکا جس کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں تھی، وہ انہیں کیسے بے عزت کر سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال کو امید نہیں تھی وہ اتنی جلدی غم سے ابھر پاۓ گی۔

الوینہ جہاں داد کا اسٹائل الوینہ کا خاصہ تھا لیکن اس کی وہ مخصوص اکڑی گردن، وہ غائب تھی۔ بلال نے اسے دیکھا تو خلافِ معمول اس کا سر بلال کے سامنے نہیں اٹھا۔ اس نے الوینہ کو مخاطب کیا تو خلافِ معمول اس کا لہجہ سپاٹ ہی رہا۔ وہ آج طنز نہیں کر رہی تھی، وہ آج رو بھی نہیں رہی تھی۔ 

پھپھو کے گھر منعقدہ فنکشن اسکے لیے ہمیشہ کی طرح بورنگ تھا لیکن منان۔۔۔ اس کی نظریں بے اختیار منان کی جانب آٹھ گئی تھیں۔۔۔

وہ جھوٹا دغاباز آدمی۔۔۔

پھر اس کی نظریں ہانیہ پر ٹک گئیں۔

وہ خوش قسمت عورت۔۔۔

اس کا دل متلا گیا۔ سینہ بھاری ہو گیا۔ اس نے بے اختیار دل پر ہاتھ رکھا بے چینی سے پہلو بدلا اور خوش قسمتی تھی کہ بلال اسے دیکھ رہا تھا۔ گھٹن۔۔۔ گھٹن اسے مار رہی تھی۔ وہ تڑپ رہی تھی۔

"تو تنگ کپڑے پہننا چھوڑ دو ناں۔"

بلال نے اس کے اندرونی خلفشار سے بے پرواہ فضول سا تبصرہ دیا جسے سن کر الوینہ کا بوجھ بڑھ گیا۔ نگاہیں اپنے وجود پر ٹک گئیں۔ اب وہ کیا کرے اگر وہ ایسے ہی اچھی لگتی ہے۔ وہ تنگ کپڑے پہننا کیسے چھوڑ دے کیونکہ وہ تو انہی میں اچھی لگتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز دوسرے کمرے میں جانے لگا تو شفق نے اسے بازو سے کھینچنا چاہا تھا۔

"میں تو تمہیں تنگ بھی نہیں کرتی ضوریز۔ دوسرے روم میں کیوں جاتے ہو؟"

وہ سمجھ نہیں سکا وہ دوسرے کمرے میں کیوں جاتا ہے۔ ہاں وہ اس پر حاوی تھی لیکن ضوریز کی مرضی کے بغیر اسے چھو نہیں سکتی تھی۔ پھر خطرہ کس بات کا تھا۔ یہ علیحدگی کا کیا چکر تھا۔

"تم میری باتوں سے پریشان ہو جاتے ہو ناں۔" وہ خود پر ہنس رہی تھی:

"پاپا بھی اکثر تنگ آجاتے تھے۔ میں کچھ زیادہ ہی بول جاتی تھی۔ میں۔۔۔ بہت زیادہ ہی نروس ہو جاتی تھی۔"

وہ اب متفکر سی تھوڑی تلے بائیں ہاتھ کی انگلی رکھے، دوسری انگلی سے سر کھجا رہی تھی۔ ضوریز لمحہ بھر کے لیے رکا۔ پلٹ کر اسے دیکھا۔ 

"میرے سامنے اپنی معصومیت کا ڈرامہ نہ رچایا کرو شفق۔"

اس کی دبی دبی آواز میں غصہ تھا۔ شفق نے لمحہ بھر میں کان پکڑ لیے:

"ناراض مت ہونا۔ میں چپ ہوں۔ بالکل چپ۔" ساتھ ہی اس نے درمیانی انگلی ہونٹوں پر رکھی۔ ضوریز نے بھی پلٹ کر حسبِ معمول ٹائی اتاری، گھڑی کھولی۔ 

"ضوریز۔" وہ بس ایک لمحے بعد اس کی پشت پر کھڑی اس کی گردن میں بازو ڈال چکی تھی:

"مجھ سے دوبارہ پیار کرو ناں۔" وہ عقب سے اس کے کوٹ پر سر رکھے، آنکھیں موندے کھڑی تھی۔ ضوریز ابرو اٹھاۓ، بے چینی سے گھڑی اتار رہا تھا۔ اس نے سنا، شفق کہہ رہی تھی:

"تم بچے کو بہانہ بنا کر مجھ سے دور دور رہتے ہو۔ بچے کی وجہ سے مجھ سے احتراز برت رہے ہو۔ میں۔۔۔ میں بچہ ضائع کرا دیتی ہوں میں۔۔۔"

"آئیندہ تم نے بچہ ضائع کرنے کی بات کی تو میں تمہیں ضائع کر دوں گا شفق۔" اس کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔ شفق نے اس کے دونوں بازو تھام لیے:

"پھر میں کیا کروں کہ تم مجھ سے پیار کرو۔" وہ روہانسی نظر آئی۔ ضوریز بپھر کر ہٹا:

"بس مجھ سے دور ہٹو۔"

اس نے شرٹ کے اگلے دو بٹن کھولے اور الماری سے نئی پریس شدہ شرٹ ڈھونڈنے لگا۔ عقب میں شفق پرسوچ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"وہ کیا کرتی ہے؟؟؟؟" اس کی مدہم سی آواز ابھری:

"جب تم ناراض ہوتے ہو تو وہ تمہیں منانے کے لیے کیا کرتی ہے؟"

ضوریز کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔ اس نے پلٹ کر ایک نظر ضوریز کو دیکھا:

"یہی تو فرق ہے۔ اسے بتانا ہی نہیں پڑتا کہ وہ منانے کے لیے کیا کرے۔"

اور اتنا کہہ کر وہ گھوم گیا۔ الماری سے شرٹ نکالی۔ تبھی سینے پر شفق کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔ وہ اس کی کمر سے لپٹ گئی تھی، سر کندھے پر ٹکا دیا تھا۔

"آئی لو یو ضوریز۔" اس کی آواز بہت باریک تھی، بالکل بچوں جیسی۔ ضوریز گھوم گیا۔ اسے دیکھتا رہا۔

"تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟" اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ شفق گردن ٹیڑھی کیے سوچتی رہی:

"تم۔۔۔ تم ناں مجھ سے پیار کرو۔ ہر وقت، ہر پل۔"

"پر مجھے تم اچھی نہیں لگتیں۔"

اس کے لیے یہ ناممکن تھا۔ شفق کھلکھائی:

"پھر تو اور بھی آسان ہے۔ تم بس میرے پاس کرو۔ پیار میں کر لوں گی۔"

اس نے ضوریز کی گردن میں بازو ڈال کر، مسکرا کر کہا۔ ضوریز اب کی بار پلٹ نہیں سکا۔ شفق نے اپنے بازوؤں کو حلقہ مضبوط کرتے ہوۓ اس کے لبوں کو ہونٹوں سے چھوا۔ ضوریز کو جیسے کچھ محسوس ہی نہیں ہوا۔ شفق نے لمحہ بھر کے لیے لب ہٹاۓ اور پھر دوبارہ اس کی سانسوں میں اپنی سانسیں ملا دیں۔ ضوریز کی ساری حسیں مردہ تھیں۔ شفق کے لیے وہ پھتر کا بن گیا تھا۔

"مجھے۔۔۔ معاف کر دو۔" 

اس نے نرمی سے ضوریز کے کان میں کہا۔ ضوریز کا سر نفی میں ہل گیا۔

"بس ایک بار۔" اس نے لب ضوریز کے کان پر رکھ دیے۔ ضوریز کا سر نفی میں ہلتا رہا۔

"سوری ضوریز۔" وہ اس کی شرٹ پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ پھر ہولے سے جھکتی رہی۔ ضوریز کے قدموں میں آ بیٹھی۔ ضوریز نے سر جھکایا۔ وہ کان پکڑے بیٹھی تھی:

"میں کبھی وہ حرکت دوبارہ نہیں کروں گی؟" اس کی موٹی موٹی آنکھیں بھی تو بھر گئی تھیں:

"سوری!"

ضوریز کا چہرہ وحشت زدہ تھا۔ اس کا سر بے اختیار نفی میں ہلا، پھر بے خیالی میں رکا۔ ایک جھٹکے سے وہ پیچھے ہٹا اور اپنی شرٹ اٹھا کر کمرے سے نکل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ اس کے سر پر کھڑی تھی اور بلال ایک اکتاہٹ کے ساتھ سب شرائط پڑھ رہا تھا۔

"طلاق دینے کے معاملے میں ہچکچاہٹ نہیں، عین وقت پر مکرنا نہیں، تحریری صورت میں حلف، طلاق کے وقت تمام تمام آزاروں کا ہرجانہ ادا کرنے کی قسم۔۔۔" وہ کلس اٹھا:

"کونسا آزار؟"

الوینہ نے ابرو اٹھاۓ۔

"وہ رات یاد ہے مجھے۔" اس نے چبا چبا کر کہا۔

"اوہ۔ مجھے لگا تم اس دوران بے ہوش تھیں۔" وہ لڑنے کے موڈ میں دکھائی دیتا تھا۔

"تم نے بے ہوش رہنے جو نہیں دیا۔"

بلال نے کچھ مسکرا کر کندھے اچکاۓ۔

"کیا کروں۔ تم اتنے عرصے بعد بے بس ہو کر میری بانہوں میں موجود تھیں الوینہ۔ بس تمہاری تکلیف کا خیال نہیں رہا۔" 

الوینہ کا چہرہ اب سپاٹ ہو گیا تھا۔

"میری شرائط منظور ہیں کہ نہیں؟"

بلال کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ دھیمی پڑی۔ اس نے شرائط والا کاغذ مروڑ کر الوینہ کو دیکھا:

"نہیں!" اس کا لہجہ فرم تھا۔ الوینہ دنگ رہ گئی۔

"ہاں جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ تم مجھ سے طلاق لینے کے بعد بھی محفوظ ہو یا نہیں، میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔"

"میری حفاظت سے تمہارا لینا دینا نہیں ہے۔" وہ پھنکارنا چاہتی تھی لیکن غصہ نہیں آرہا تھا۔

"آف کورس میرا لینا دینا ہے، آفٹر آل۔۔۔" اس نے بازو مخصوص انداز میں کھولے:

"میں تمہارا کزن بھی تو ہوں۔"

"میں ضوریز سے نکاح کروں گی۔ اس کی بیوی بنوں گی۔ تب تمہارا کیا کردار رہ جاۓ گا۔" وہ سوال نہیں کر رہی تھی، للکار بھی نہیں رہی تھی۔ بس جیسے اسے باور کرا رہی تھی۔ بلال نے دوبارہ کندھے اچکا دیے:

"پہلے اس کی بیوی تو بن کر دکھاؤ۔ پھر بتاؤں گا میرا کردار کیا ہے۔"

اور اتنا کہہ کر اس نے شرائط والا کاغذ ایک طرف دھرا اور خود اپنے لیپ ٹاپ پر جھک گیا۔ الوینہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ پھر دھیمے قدموں سے پلٹ گئی۔ بلال نے کام ختم کر کے لیپ ٹاپ دراز میں رکھا، لائٹ آف کی اور بیڈ تک آیا۔ پھر کچھ محسوس کر کے پلٹا۔ کمرے سے باہر آیا۔

الوینہ بالکونی میں ریلنگ کی دو سلاخیں پکڑے بیٹھی تھی۔ 

"جیل میں ہو کیا؟" وہ طنز کرنے سے باز نہیں رہ سکا۔ الوینہ چونکی نہیں۔ کہنے لگی:

"یہ گھر کسی جیل سے کم نہیں ہے۔"

بلال کے لبوں پر دھیمی سی مسکان ابھری۔ وہ دھیمے قدموں سے چلتا ریلنگ تک آیا اور اس سے ٹیک لگاۓ یوں بیٹھ گیا کہ الوینہ کا چہرہ اس کے سامنے تھا۔

"رات بھر جاگتی رہو گی؟"

"کوشش کی بھی تو نیند نہیں آۓ گی۔" اس کی آنکھوں میں حالانکہ لالی تھی۔

"بیڈ چینج کر کے دیکھ لو۔ شاید نیند آجاۓ۔"

اس کے جملے کہ گہرائی الوینہ بھانپ گئی لیکن کہا کچھ نہیں۔ بلال نے درمیانی انگلی سے اسکی تھوڑی اٹھائی۔ الوینہ نے استہفامیہ نگاہوں سے دیکھا۔

"اب کیا چال چل رہی ہو؟" جیسے وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

"بس ایک آخری کوشش کر رہی ہوں۔" اس کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔ 

"اگر یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی؟"

"پھر۔۔۔ میں آزاد ہو جاؤں گی۔" 

اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ بلال کو اس وقت اسکی مسکراہٹ بہت اچھی لگی۔ ہر رقابت سے بری، وہ ایک بے چارگی بھری مسکراہٹ تھی۔ اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔

"گڈ لک۔" اور اتنا کہہ کر اٹھ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ستمبر کی ایک معمول کی صبح تھی۔

ضوریز ابھی ابھی کورٹ پہنچا تھا۔ اس کا رخ چیمبر کی جانب تھا لیکن فون پر موصول میسج دیکھ کر وہ باہر آگیا۔ پارکنگ ایریا میں رش نسبتاً کم تھا۔ ضوریز وہیں پہنچا۔ کالا سوٹ پہنے، وہی موکل ہاتھ میں لال سبز کاغذ لیے کھڑا تھا۔

"رسید۔" اس نے کاغذ ضوریز کی آنکھوں کے سامنے لہرایا:

"غلام نے دس لاکھ آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے ہیں۔ صاحب نے آپ کو عزت سے سلام کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔"

موکل کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ ضوریز نے بس سر خم کیا۔

"صاحب کو آپ کا طریقہ پسند آیا ہے۔ یہ قانون پڑھ کر قانون کی ہی جڑیں کاٹنے والا کام۔"

اس کے طنز پر ضوریز کا چہرہ لال ہوا لیکن آدمی مسکرا رہا تھا:

"میرے صاحب نے بولا ہے کہ آپ پر نظر رکھوں۔ آپ کو کوئی تکلیف پہنچاۓ تو اس کا اگلے ہی لمحے کام تمام کر دوں۔۔۔"

آدمی نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر گردن پر نشان بنایا۔ گویا گلا کاٹنے کا اشارہ کر رہا ہو۔

"مجھے فضول کی جاسوسی سے نفرت ہے۔"

اس نے زیرِلب کہا اور پلٹ گیا۔ متانت سے قدم اٹھاتا اپنے چیمبر کی جانب بڑھا۔ چپڑاسی نے پہلے ہی بتا دیا کہ مس جہاں داد اندر اس کی منتظر تھی۔ الوینہ کا تصور ذہن میں آتے ہی ضوریز کا چہرہ سپاٹ ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کچھ کہے سنے بغیر ابھی واپس پلٹ جاۓ اور کمرے میں قدم ہی نہ رکھے۔ کاش وہ پلٹ جاتا!

الوینہ مقابل کرسی پر بیٹھی تھی، بازو پھیلاۓ، کسی سوچ میں گم تھی۔ وہ اب اکثر سوچ میں گم ہی رہتی تھی۔

"اتنے دنوں بعد کورٹ آئی ہو۔" وہ لہجہ خوشگوار بنا کر بولا۔ الوینہ نے کندھے اچکاۓ:

"تم نے منع جو کر دیا تھا۔"

ضوریز جواباً ہچکچا گیا۔

"میں نے اس بات سے منع نہیں۔۔۔"

"پرانی باتوں پہ مٹی ڈالو۔" وہ ٹیک چھوڑ کر آگے کو آئی اور مصروف لہجے میں سوال کیا:

"بتاؤ ہم شادی کب کر رہے ہیں؟"

ضوریز کا چہرہ تاریک ہونے میں ایک لمحہ لگا۔ لب ایک منٹ میں بھینچ گۓ۔

"تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتا الوینہ؟" وہ دبی دبی آواز میں غرایا۔

"کیونکہ میں ایک ناسمجھ بے وقوف عورت ہوں۔ تم نے ماضی میں جس عورت کو ایکسپلائیٹ کیا وہ آج تمہارے نکاح میں ہے۔ مجھے بھی اب تک استعمال ہی تو کرتے آۓ ہو۔ پھر نکاح کرنے میں کیا حرج ہے؟"

"تم مجھ پر آج بھی الزام لگا رہی ہو الوینہ۔" وہ دھاڑا۔ الوینہ نے دانت پر دانت جما کر کہا:

"اگر مجھ سے نکاح کرتے ہو تو یہ الزام، بس الزام رہے گا۔ لیکن اگر کل رات تک تم نے مجھے اپنا فیصلہ نہیں سنایا تو یہ الزام، پبلک، میڈیا اور صحافیوں کے ذریعے جرم بننے میں دیر نہیں لگاۓ گا۔"

"تو اب تم مجھے بلیک میل کرو گی۔"

"بے وفائی کی قانون میں کوئی سزا نہیں ہوتی ناں۔" الوینہ مسکرا رہی تھی:

"اس لیے سزا بھی ہم خود مقرر کرتے ہیں۔"

"الوینہ، جسٹ گیٹ آؤٹ۔" وہ اکتا گیا۔ الوینہ برابر مسکراتی رہی۔

"وہ وقت یاد ہیں جب تم مجھے فون کر کے خود بلاتے تھے۔ اج چل کر آئی ہوں تو مجھے دفعان کر رہے ہو۔"

ضوریز کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ الوینہ کی مسکراہٹ اسے جلال دے رہی تھی۔ وہ جھٹکے سے اٹھا، الوینہ کا بازو کھینچ کر اسے کرسی سے اٹھایا اور چیمبر سے باہر لے چلا۔

"مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟" وہ اب بھی مطمئن تھی۔

"جہنم میں۔" وہ بھڑکا ہوا تھا۔ اسے کھینچ کر دروازے تک لایا اور باہر کی جانب دھکا دینے ہی لگا تھا کہ رک گیا۔

دروازے میں جسٹس سلیمان اور حسن اعوان ایستادہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن اعوان کا تھپڑ ضوریز کا گال لال کر گیا تھا۔

اس کا چیمبر دور واقع تھا اور اکا دکا لوگوں کے سوا آس پاس کوئی نہ تھا۔ البتہ چپڑاسی اور سامنے والے کیبن کے گارڈ نے چونک کر دیکھا۔ پھر تھپڑ کی آواز ان کر سب گیلری کے اس پار، راہداری کے درمیان جمع ہو گۓ۔ ایک لمحے کے لیے الوینہ بھی سن رہ گئی تھی۔ جسٹس سلیمان نے سینے پر بازو باندھ لیے۔

حسن اعوان کی رنگت شدتِ غم سے لال پڑتی جا رہی تھی۔ انہوں نے الوینہ کو جیسے دیکھا ہی نہیں۔ بس ضوریز کا گریبان تھاما:

"یہ سلیمان کیا بتا رہا ہے مجھے ؟"

ان کی دھاڑ ضوریز کو اندر تک ہلا گئی تھی۔ ان کا تھپڑ اس کو چند ثانیوں میں برہنہ کر گیا۔ 

"ڈیڈ یہاں۔۔۔۔ یہاں نہیں، میں آپ کو۔۔۔"

وہ کچھ کہنا چا رہا تھا، ہولے ہولے کہتا، آہستگی سے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں مطمئن کرتا۔

"تم نے اس کی بیٹی کا بھی لحاظ نہیں کیا؟"

وہ سمجھ گیا تھا کہ راز افشاں ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے لجاجت سے اپنے باپ کے دونوں کندھے تھام لیے تھے۔

"ڈیڈ۔ I can explain، ڈیڈ یہاں مت کہیں پلیز۔"

"تم نے پہلے کہا ہوتا تو اس کی نوبت نہ آتی ضوریز۔" حسن اعوان کی آواز دھیمی ہو گئی تھی لیکن عین اسی وقت عقب سے سلیمان طاہر بولے:

"یہ تمہیں کیا بتاتا۔ یہ خود اپنا جرم کیسے کھولتا۔ اس نے تو کبیرہ گناہ کیا اور چھپایا۔ میری بیٹی کو ڈرایا ڈھمکایا۔ یہ، یہ سب تمہیں کیسے بتا دیتا۔"

ضوریز کی گرفت بے اختیار اپنے باپ کے کندھوں پر ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ اس نے جسٹس سلیمان کو دیکھا، پھر اپنے باپ کو دیکھا جس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔

"نہیں ڈیڈ، ڈیڈ یہ جھوٹ بول۔۔۔۔"

"تمہارے بیٹے نے میری بیٹی کی عزت چھین لی حسن۔" ان کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی، ضوریز کی نظریں جھکتی جا رہی تھی:

"لیکن میں نے تمہاری عزت بچانی چاہی۔ میں نے سوچا کہ لوگ کہیں گے کہ ایس پی حسن اعوان کا بیٹا بدکار نکلا۔ اس ایماندار آفیسر کا بیٹا ریپسٹ نکلا۔ میں نے اپنی بیٹی کو اسے درندے کے ہاتھوں سونپ دیا جس نے اسکا دماغی توازن خراب کر دیا تھا۔"

"ان کی بیٹی کا تو پہلے سے ہی دماغی توازن خراب تھا۔" الوینہ نے دل ہی دل میں سوچا۔ جسٹس سلیمان بول رہے تھے:

"لیکن تمہارا بیٹا اپنی مکروہ حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ اس نے اپنی تو کیا، تمہاری عزت کی پرواہ نہیں کی، یار!"

ضوریز میں جیسے سر اٹھانے کی سکت نہیں کی، مجمع اردگرد تھا اور وہ پھنس گیا تھا۔ سلیمان جیسے اس کے کپڑے نوچ رہے تھے، اسے سرِ عام بدنام کر رہے تھے۔ اسے کچھ پیارا نہیں تھا، نہ الوینہ، نہ شفق، اسے بس عزت پیاری تھی، وہ عزت چھین رہے تھے۔

"اس نے تمہارا نام خراب کرنے کے سوا کیا کیا ہے؟" سلیمان ابھی تک بول رہے تھے:

"اشتہاریوں کا بادشاہ بن گیا ہے۔ قانون کا مذاق اڑانے لگا ہے۔ اور تو اور۔۔۔ اس نے میرے احسان کا بھی پاس نہ رکھا۔ میری بیٹی کے ہوتے ہوۓ یہ کسی اور عورت کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے۔"

"ایکسکیوز می۔" الوینہ نے بلاوجہ ہی مداخلت کی:

"اب آپ کا یہ الزام نہایت بے بنیاد ہے، یوئر آنر۔"

حسن اعوان نے اس کی آواز ان کر اسے پہلی بار دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

"یہ ہر لمحہ یہیں تو ہوتی ہے، میرے دوست۔" سلیمان، الوینہ سے بھی پہلے بولے تھے:

"تمہارے بیٹے کی داشتہ ہے یہ۔"

"اونہوں، انکل۔ ایسے تعارف نہیں کراتے۔" الوینہ نے مسکرا کر کہا تھا:

"یہ کہتے ناں کہ ان کے بیٹے کی محبوبہ ہوں میں۔"

"یہ بدکردار آدمی کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔" جسٹس سلیمان نے ناک سے مکھی اڑائی۔

"کیوں؟ بدکردار کے پاس دل نہیں ہوتا؟" الوینہ نے معصومیت سے پوچھا۔ فضا کا رنگ یکلخت بدلا۔ سلیمان نے ناگواری سے اسے دیکھا:

"یہ جھوٹ بھی اس نے ہی تم سے بولا ہو گا۔ یہ سارا سبق بھی اس بے غیرت نے ہی تمہیں سکھایا ہو گا۔ سدھر جاؤ لڑکی، یہ میری بیٹی کا عزت کا قاتل، تمہیں بھی قتل کر چھوڑے گا۔"

"الزام تو یہ بھی بے بنیاد ہے، سلیمان صاحب۔" الوینہ حسن اعوان کے عین سامنے آکھڑی ہوئی، ضوریز کی جانب اسکی پیٹھ تھی:

"ضوریز نے دراصل آپ کی بیٹی کی عزت کا قتل نہیں کیا۔ اس نے تو بس آپ کی بیٹی کی ہوس کو پورا کیا۔"

"اپنی زبان کو لگام دو لڑکی۔" سلیمان دھاڑے۔ ضوریز نے بے اختیار الوینہ کو پیچھے کیا:

"تم بیچ میں مت آؤ۔"

"یہ بوڑھا آدمی مجھے گالی سے پکارے اور میں بیچ میں نہ آؤں۔" الوینہ کے سر میں لگی اور تلوؤں میں بچھی۔ چیمبر کے باہر اچھا خاصا مجمع جمع ہو گیا تھا۔

"اپنی اس زبان دراز دوست کو یہاں سے بھیج دو ضوریز نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔" حسن اعوان کہہ رہے تھے۔ ضوریز نے الوینہ کو بازو سے پکڑ کر ہٹایا لیکن وہ ایک بار پھر راہ میں حائل ہو گئی تھی۔

"آپ اچھے باپ ہیں، ایس پی صاحب۔" وہ طنزیہ نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی:

"یہاں ایک اجنبی آپ کے اپنے بیٹے کی کردار کشی کر رہا ہے اور آپ زبان سیے کھڑے ہیں۔"

"کیا جھوٹ کہا میں نے؟" جسٹس سلیمان چار چار فٹ اچھل رہے تھے:

"ایک بدکردار کا کردار کھولا ہے اور بس۔"

"تو اپنی بے لگام بیٹی کی فحاشی کا قصہ بھی کھولیں پھر۔" وہ دوبدو کھڑی تھی۔

"میری بیٹی کو درمیان میں مت لاؤ۔" سلیمان کی آنکھیں لال تھیں:

"اس زانی نے اس کا ذہنی توازن خراب کر دیا، اس کو بے عزت کر دیا اور۔۔۔۔"

"جھوٹ بکنا بند بھی کریں یوئر آنر۔" الوینہ نے دایاں ہاتھ بلند کیا تھا:

"سب جانتے ہیں کہ آپ کی بیٹی پہلے سے ہی OCD (آبسیسوِ کمپلسو ڈس آڈر) کا شکار تھی۔ ذہنی بیمار تھی۔ کہاں ہنسنا ہے کہاں رونا ہے، اسے پتا ہی نہیں تھا۔ کہاں جسم کھولنا ہے، کہاں ڈھانپنا ہے، اسے پتا ہی نہیں تھا۔"

"اوہ۔" جسٹس سلیمان ظنریہ مسکراۓ اور مجمع کی طرف مڑ کر کہنے لگے:

"یہ بات جو عورت کہہ رہی ہے اس کے حلیے کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں، ایڈووکیٹس؟"

"الوینہ۔" ضوریز نے تڑپ کر اس کا بازو تھاما اور اسے پیچھے کو دھکیلا۔

"الوینہ، میں نے کہا خاموش ہو جاؤ۔"

"میں خاموش کیوں ہوں؟" وہ جھٹکا کھا کر مڑی تھی:

"تم آج تک اپنے لیے اسٹینڈ نہیں لے سکے ضوریز۔ میں آج تمہارے حق میں کھڑی ہوں تو تم مجھے روک نہیں سکتے۔"

"یہ تمہاری جنگ نہیں ہے۔ میں کہہ رہا ہوں چلی جاؤ۔"

"نہیں جاؤں گی، تمہیں ان مکاروں کے درمیان چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔" ادھر حسن اعوان افسردگی سے اسے دیکھ رہے تھے:

"یہاں ایک عورت تمہارا دفاع کر رہی ہے۔ وہ تمہاری ڈھال بنی کھڑی ہے۔ تم یہ کہاں پہنچ گۓ ہو۔ تم اس کو بے عزت ہوتا دیکھ کر بھی خاموش کھڑے ہو؟"

لیکن الوینہ سلگ کر ان پر ہی برس پڑی تھی:

"اس کو کیا شرمندہ کرتے ہیں۔ سب سے بڑے بے غیرت تو آپ ہیں۔"

الوینہ۔" ضوریز نے غرا کر اس کا بازو دھاڑا لیکن الوینہ نے خود کو چھڑا کر حسن اعوان کا سامنا کیا:

"اپنے دوست کی بات پر یقین کر کے آپ اپنے بیٹے سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ اس سب کے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ نے میرے ماں باپ کو مار دیا تھا۔ پھر آپ نے میری محبت کو مار دیا۔ آج اپنے بیٹے کو بھی مار دیں گے۔ قاتل تو آپ ہیں، مجرم تو آپ ہیں۔"

آنسو نہ چاہتے ہوۓ بھی الوینہ کے چہرے سے نکل رہے تھے۔ حسن اعوان کی مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں۔ پسِ منظر میں جسٹس سلیمان ابھی تک چلا رہے تھے۔ ضوریز نے ایک آخری بار الوینہ کو کو کھینچا اور بازو کھینچ کر ایک طرف کو نکل گیا۔ لوگ کھڑے تھے لیکن خودبخود ایک طرف ہٹ گۓ۔ 

"بدکردار تو آپ سب ہیں، بے ایمان تو آپ لوگ ہیں۔"

وہ چیخ رہی تھی، خود کو چھڑا رہی تھی۔ قدرے دور آکر ضوریز نے اسے دونوں بازوؤں میں اٹھایا اور راہداریوں سے گزرتا پارکنگ ایریا تک پہنچا۔ الوینہ اب چیخ نہیں رہی تھی، رو رہی تھی۔ ضوریز نے اشارہ کیا تو ڈرائیور نے لیموزین کا پچھلا دروازہ کھولا۔

"انہیں ان کے گھر ڈراپ کرو۔ 40/A ڈی-ایچ-اے۔"

الوینہ نے اس کے بازو نہیں چھوڑے۔ ضوریز نے خود ہی چھڑاۓ۔

"جو کچھ بچا تھا۔" اس نے کار کے شیشے پر لب رکھے:

"وہ بھی آج ختم ہو گیا۔ تم نے سب ختم کر دیا الوینہ۔ تم نے۔۔۔ مجھے رسوا کر دیا۔" اور الوینہ، وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"اٹس اوور، الوینہ۔" اس نے فرم لہجے میں کہا:

"تم اور میں، سب اوور۔"

میرا خلوص پٹخا اس نے میرے منہ پر

میری وفا، اس کی انا کی زد ہو گئی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرہ تاریک تھا، اور شراب کی بو سے معمور تھا۔

آدمی نے اندر داخل ہوتے ہی بے اختیار ناک پر ہاتھ رکھا، پھر عادی ہو گیا تو اٹھا لیا۔ دروازے کے قریب ہی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

"آج تو کمال ہوئی، وکیل صاحب۔"

اس نے رازدانہ انداز میں کہا تو ضوریز نے بس لمحہ بھر کے لیے اسے دیکھا۔ وہ کھڑکی کے قریب فرش پر براجمان تھا۔ پینٹ ٹانگوں تک مڑی ہوئی تھی، گریبان کھلا ہوا تھا، بال الجھے تھے اور آنکھیں لال تھیں۔ درجنوں بوتلیں اس کے قریب خالی پڑی تھیں۔ تیرہویں یا چودھویں اسکے ہاتھ میں تھی۔

"آج گھر نہیں جاؤ گے، صاحب؟"

آدمی اس کی دن رات رکھوالی کرتا تھا، جاسوسی کیا کرتا تھا۔ آج کا تماشہ اس نے بغور دیکھا تھا۔

"میرے یہاں بیٹھنے سے تجھے بل آتا ہے؟"

"ناں صاحب۔ بل کی بات نہیں یے۔" آدمی مسکرا کر بولا:

"میں تو بول رہا تھا کہ اگر گھر بیوی پاس نہیں جانا تو کوئی دِلبر یہیں لے آؤں؟"

ضوریز کچھ نہ بولا۔ چہرہ موڑ لیا۔

"ویسے، صاحب۔ وہ لڑکی آج خوب بول رہی تھی۔" آدمی سر کھجاتے ہوۓ بولا:

"جج کو کھڑکا کر رکھ گئی۔ بڑی پٹاخہ سی تھی۔ کہا واقعی آپ کے دل میں بس رہی ہے صاحب؟" آدمی نے اشتیاق سے پوچھا۔ ضوریز پھر بھی کچھ نہ بولا۔ ایک اور بوتل منہ سے لگا لی:

"ساری رات یونہی پیتے رہو گے۔"

"تُو چپ کرے گا تو پھر سوچ بھی سکوں گا۔" اس کی لڑکھڑاتی آواز گونجی۔ آدمی نے اسے بغور دیکھا۔

"کیا سوچ رہے ہو؟"

"سلیمان کا پتہ صاف۔" اس نے جملہ توڑ توڑ کر ادا کیا۔ پھر شراب پینے لگا۔ اس کی حالت خراب تھی لیکن وہ ڈرائیو کرنے پر بضد تھا۔ آدمی نے اعتراض نہیں کیا۔ اس کا کام بس نظر رکھنا تھا۔ وہ بس نظر ہی رکھتا تھا۔

وہ دو بجے کے قریب گھر پہنچا تو کمرے کی لائٹ روشن تھی۔ صوفے پر لیٹی شفق اسے دور سے ہی نظر آگئی تھی۔ ضوریز نے ایک لمحے کے لیے رک کر اسے دیکھا۔

"شفق سلیمان۔۔۔ سارے فساد کی جڑ۔۔۔ اس کی محبت کی قاتلہ۔۔۔ اس کی عزت کی قاتلہ۔۔۔ وہ نہ ہوتی تو سب ٹھیک ہوتا، وہ نہ ہوتی تو ضوریز آج یہاں نہ ہوتا۔"

"ضوریز۔" وہ اسے بالکونی میں ایستادہ دیکھ کر عجلت میں باہر آئی۔

"دیکھو تم کتنی دیر سے واپس اۓ۔ میں ڈر رہی تھی۔ میں ڈر گئی تھی۔"

 "تم نے اپنے باپ سے بات کی؟" وہ منتشر الذہن تھا۔ بس اتنا ہی سوچ سکا۔

"کونسی بات؟" اس کا موڈ ہمیشہ کی طرح خوشگوار ہی تھا۔

"تم نے اپنے باپ کو میرے اور الوینہ کے بارے میں بتایا، ہے ناں؟"

وہ دھاڑا تو شفق سہم گئی۔ ہچکچا گئی۔

"تم اسے پسند کرتے ہو۔ میں نے بس یہی کہا۔" وہ سچ کہہ رہی تھی:

"تم ہمیشہ اس کی وجہ سے مجھے درد دیتے ہو۔ میں نے انہیں بس یہی کہا۔"

"تم نے انہیں کہا وہ داشتہ ہے میری۔" وہ دو قدم آگے آیا۔

"نہیں، میں نے نہیں۔۔۔" وہ کہہ رہی تھی لیکن ضوریز کا تھپڑ اس کا گال لال کر گیا۔ اس کا ہاتھ بھاری تھا۔ شفق بے اختیار لڑکھڑا گئی تھی۔

"تم نے میری زندگی برباد کر دی شفق۔" وہ چیختا جا رہا تھا، اس کے رخسار لالی میں رنگتا جا رہا تھا۔ شفق خوف سے سمٹی جا رہی تھی، پیچھے ہٹتی جا رہی تھی۔ ضوریز ہمیشہ غصہ کرتا تھا، ڈانٹتا تھا، کوستا تھا لیکن۔۔۔ مارتا نہیں تھا۔ اس نے اب ہاتھ اٹھایا تو وہ دہشت زدہ تھی۔ وہ دیوار کے قریب سمٹ کر بیٹھ گئی تھی۔

"سوری۔ سوری۔"

آنکھیں بند تھیں اور وہ وقفہ وقفہ بعد کہتی تھی۔ ضوریز نے لحاظ کیے بغیر اسے دونوں بازوؤں سے کھینچا اور فرش پر لٹا لیا۔

"نو سوری۔ نو معافی۔"

اس نے اپنی شرٹ اتاری اور شفق کے وجود کو سمیٹنا چاہا۔ شفق بری طرح کانپ اٹھی تھی۔ اسے خود پر سے ہٹا رہی تھی، وہ جبر کر رہا تھا تو رو رہی تھی۔

"سوری۔ ویری سوری۔"

ہچکیوں پر ہچکیاں، التجاؤں پہ التجائیں۔ وہ چھٹے مہینے کی حاملہ تھی۔ لاکھ گناہ سہی، پھر وہ اس سلوک کی بھی قابل نہیں تھی۔ 

"میں مر جاؤں گی ضوریز۔" خوف سے اس کا بدن تھرتھرا رہا تھا۔ وہ اس کے قریب لیٹا اسے کھلونا سمجھ کر اس کے لبوں کو وحشیوں کی طرح بھنبھوڑ رہا تھا۔ ایک آگ اس کے اپنے بدن میں جل رہی تھی۔ چند لمحوں کی بربریت کے بعد ہی وہ اٹھا اور شاور لینے گھس گیا۔ پانی تکلیف میں اضافہ کر رہا تھا، سردیوں کی رات میں اس نے فل ٹمپریچر پر اے سی چلا دیا۔ 

قصوروار وہ کسی اور کو ٹھہرا رہا تھا۔

سزا خود کو دے رہا تھا۔

بستر پر لیٹے لیٹے اس نے نگاہ دوڑائی۔

وہ دیوار کے قریب ہی لیٹی تھی۔ آنکھیں کھلی تھیں لیکن وجود پتھر کیے۔۔ سردی سے ٹھٹھر رہی تھی لیکن جسم ساکت کیے۔

جیسے وہ اپنی موجودگی سے اسے تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔

جیسے وہ اس کے لیے مر جانا چاہتی تھی۔

ضوریز چپکے سے اٹھا اور اسے بانہوں میں اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔ اس کا جسم برف تھا، ہونٹ نیلے سرخ تھے۔ اس نے اے-سی بھی آف کر دیا۔ اسے کمبل بھی اوڑھا دیا۔ کنکھیوں نے اس نے دیکھا کہ اس کی موٹی موٹی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ جبھی تو انہیں بند کرنے سے قاصر تھی۔

"ضوریز۔" وہ برابر میں آلیٹا تھا جب  شفق نے اس کا بازو تھام لیا۔

"معاف کرو۔" اور اس کا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھا:

"اس کی خاطر، معاف کر دو۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وہ بے ہوش تھی جب بلال گھر آیا۔

معمولی سا پینک اٹیک تھا جو اس کی عدم توجہی کے سبب بڑھ گیا۔بلال صحیح معنوں میں غصہ تھا۔ غصہ اتار بھی رہا تھا:

"جس کے نخرے سے زخمی ہو کر گھر آتی ہو، اس سے کہا کرو کہ تمہیں گھر چھوڑنے سے پہلے تمہارے زخم بھی سی دیا کرے۔ میں تمہارا نوکر نہیں ہوں جو تمہیں ہر وقت فرسٹ ایڈ دیتا پھروں۔"

الوینہ گم سم تھی۔ اس نے اپنی پوری قوت مجتمع کی تو ٹانگوں میں جان آئی۔ وہ اٹھنا چاہتی تھی۔ اٹھنے کے لیے زور لگایا۔

"خبردار۔" بلال اس کے تیور بھانپ گیا تھا:

"ڈاکٹر کہتی بھی ہے تو آج تم ہسپتال سے ڈسچارج نہیں ہو گی۔ اس بیڈ کے علاوہ کہیں قدم بھی رکھا تو میں لحاظ نہیں کروں گا کہ تم پریگننٹ ہو۔"

کھری کھری دھمکی دے کر وہ چلا گیا۔ الوینہ نے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں تو بس وہ فقرہ گونج رہا تھا۔

"الوینہ، تم نے مجھے رسوا کر دیا۔"

محبت اس نے کی لیکن رسوا وہ ہوا۔۔۔

یہ کہاں کا انصاف ہوا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانی گرنے کی آواز سن کر اس کی آواز کھلی۔

ملحقہ باتھ روم میں یقیناً ضوریز تھا۔ آہٹ پر دروازہ کھلا اور وہ برآمد ہوا تو شفق نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں اور سونے کا ناٹک کیا۔ ضوریز نے لمحہ بھر کے لیے بستر پر نگاہ ڈالی۔ شفق کی آنکھیں بند تھیں لیکن ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔ 

وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جان گیا تھا۔

اس نے تین حرف اس ڈرامے باز عورت پر بھیج کر پلٹنا چاہا لیکن کھڑا دیکھتا رہا۔ پھر بے اختیار آگے بڑھا۔ شفق دم سادھے لیٹی تھی۔ ضوریز نے دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں بستر پر رکھے۔ اس کے لبوں سے بہتا خون اب تک جم گیا تھا۔ 

وہ سو نہیں رہی تھی، ضوریز کو یقین تھا۔

اس کے گیلے بالوں سے پانی کے دو قطرے شفق کی بند آنکھوں پر گرے۔ اس نے سہم کر آنکھیں کھولیں۔ پھر مزید گھبرا گئی۔ ضوریز بہت قریب تھا۔ اس نے جلدی سے دونوں ہونٹوں کو ہاتھوں سے ڈھک لیا۔

"اٹھو۔ میرے ساتھ کورٹ چلو۔"

اس کو سہما سہما دیکھ کر وہ اٹھ گیا۔ شفق بھی جھٹکے سے اٹھی۔

کیوں؟ کورٹ کیوں؟"

"ڈائیوورس پیپرز بنانے ہیں۔"

"کیوں؟" اس کا سوال بھونڈا تھا۔ ضوریز تپ گیا۔ 

"مجھے خلع لینا ہے۔" وہ بہت ضبط سے بولا۔ شفق کی ہنسی نکل گئی۔ اسے اب ضوریز سے خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ جیسے کل رات کچھ ہوا نہیں تھا، جیسے لمحہ بھر پہلے اسے خوف آیا ہی نہ تھا۔

"مجھے خود سے علیحدہ نہ کرو ضوریز۔"

اس نے بہت آہستگی سے کہا۔ ضوریز نے بس ایک بار اسے پلٹ کر دیکھا:

"گیٹ اپ اینڈ گیٹ ریڈی۔"

اس نے اشارے سے کہا تو شفق اٹھی۔ ضوریز نے ٹائی سیٹ کی، پرفیوم چھڑکا اور کوٹ پہنا تو شفق تیار ہو گئی تھی۔ 

"دیکھو، میں کتنی اچھی لگ رہی ہوں۔"

وہ خود کو آئینے میں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی:

 "لیکن میرا۔۔۔ پیٹ۔"

اس نے اگلا جملہ آہستگی سے کہا لیکن ضوریز نے سن لیا۔ اضطراری انداز میں اس نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کا لباس مکمل تھا، قابلِ قبول بھی تھا۔ پسِ منظر میں آواز گونج رہی تھی:

"آپ کی بیٹی پہلے سے ہی OCD (آبسیسوِ کمپلسو ڈس آڈر) کا شکار تھی۔ ذہنی بیمار تھی۔ کہاں ہنسنا ہے یہاں رونا ہے، اسے پتا ہی نہیں تھا۔ کہاں جسم کھولنا ہے، کہاں ڈھانپنا ہے، اسے پتا ہی نہیں تھا۔"

"چلیں۔" اس نے ضوریز کے بازو میں بازو بھی ڈال لیا تھا۔

"سنا نہیں؟؟؟؟" وہ جز بز سا ہوا:

"I am gonna divorce you today." 

"نہیں، میں نے تو بس یہ سنا کہ ہم کورٹ جارہے ہیں اور واپسی پر لنچ کریں گے۔"

"میں نے ایسا کب کہا؟" وہ بپھر گیا۔

"میں نے تو یہی سنا۔" شفق نے اصرار کیا۔ تبھی ضوریز کے فون کی گھنٹی بجی۔ میسج دیکھ کر اس نے فون کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فیصل اوینیو پر اس نے کار آہستہ کی تو ایک بائیک قریب آرکی۔ ضوریز نے شیشہ نیچے کیا اور ہاتھ باہر نکالا۔ بائیک والے کے چہرے پر نقاب تھا۔ اس نے ایک پیکٹ کار کے شیشے سے اندر بڑھایا۔

'اپ کی آزادی کا پروانہ صاحب۔ باس نے آپ کو سلام بھی بھیجا ہے۔"

اتنا کہہ کر وہ بائیک پر یہ جا وہ جا۔ ضوریز نے پیکٹ ڈیش بورڈ میں رکھا اور کار کی رفتار بڑھا دی۔ شفق مسلسل بول رہی تھی اور وہ مسلسل چپ تھا۔ اب کی بار اس نے کار روکی تو اپنی سیٹ بیلٹ بھی اتاری۔ پیکٹ اٹھایا اور کار سے نکلا۔

"کار میں انتظار کرو۔ باہر مت آنا۔"

شفق نے فرمانبرداری سے سر ہلایا۔ پھر کار کے شیشے سے سر نکال کر دیکھا۔ پولیس اسٹیشن، وہ پولیس اسٹیشن آیا تھا۔

سنتری نے نظریں گھما گھما کر اسے دیکھا۔ کانسٹیبلز بھی اسے گھور رہے تھے۔ 

"ایس پی حسن اعوان۔" اس نے دروازے میں ایستادہ انسپکٹر سے پوچھا۔ انسپکٹر نے چپ چاپ انگلی کا اشارہ کر دیا۔کچھ کے لیے وہ حسن اعوان کا بگڑیل لڑکا تھا۔ باقیوں کے لیے وہ ایک دفاعی وکیل تھا۔

ضوریز نے پیکٹ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ اندر جانے سے پہلے اس نے دو بار دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ اکیلے نہیں تھے، سامنے دو انسپکٹرز براجمان تھے۔ دستک سن کر سب چونکے۔ حسن اعوان نے ناگواری سے منہ پھیرا اور ٹیک لگا لی۔ ضوریز آگے آیا۔ دونوں انسپکٹرز کو دیکھا۔

"Leave me with my dad.... please!"

دونوں انسپکٹرز چپ چاپ نکل گۓ تو ضوریز نے گلاسز اتارے، پیکٹ میز پر رکھ کر اس کے اوپر دھر دیے۔

"ہاۓ ڈیڈ۔"

"باپ نہیں ہوں میں تمہارا۔" وہ غصہ تھے۔ ضوریز ہنسا:

"آپ کے کہنے سے رشتہ تو نہیں بدلے گا۔"

"اپنے باپ کو تم نے دنیا کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ پھر اب کیا لینے آۓ ہو؟"

"بتانے آیا ہوں کہ آپ کو دنیا کو منہ دکھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ڈیڈ۔" 

"تمہیں لوگوں کے طعنوں کی پرواہ نہیں ہو گی۔ مجھے ہے۔" وہ اپنے پیشے سے پرخلوص تھے۔ ضوریز مسکرا رہا تھا:

"مجھے بھی کل تک اپنی عزت کی پرواہ تھی۔۔۔" وہ آگے کو جھکا:

"لیکن آج نہیں ہے۔"

"یہ سب چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟" وہ لجاجت سے بولے:

"سب بھول جاؤ اور صرف یہ سوچو کہ تمہارا باپ تمہیں پلٹنے کا حکم دے رہا ہے۔"

"اور آپ یہ سوچ کر مجھے معاف کر دیجیے گا کہ میں نے آپ کی کبھی کوئی بات نہیں ٹالی تھی مگر یہ حکم نہیں مانا کیونکہ یہ ماننا ناممکن تھا۔"

حسن اعوان بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ ضوریز کا سر جھکا ہوا تھا۔ اور وہ بولتا جا رہا تھا:

"آپ اگر مجھے سب چھوڑنے کا کہیں گے تو یہ ناممکن ہے۔ جو میں کر رہا ہوں مجھے کرنے دیں۔ مجھے عروج ملا تھا، اب زوال آیا ہے، مجھے پھر عروج حاصل کرنے دیں۔ جب زوال آۓ گا تو پھر لوٹ آؤں گا۔ لوگ مجھے میرے پیشے کے سبب برا بھلا کہیں، میری وجہ سے آپ کو نادم کریں تو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جو کرنا چاہتا ہوں مجھے کرنے دیں۔ جب تھک جاؤں گا تو خود ہی خاموش بیٹھ جاؤں گا۔ جب زوال پاؤں گا تو آپ کے پاس ہی لوٹ کر آؤں گا۔"

"جسٹس سلیمان کیا کہہ رہے تھے؟" وہ مضبوط لہجے میں پوچھ رہے تھے۔ ضوریز نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا:

"کچھ سچ کہہ رہے تھے۔ کچھ جھوٹ بول رہے تھے۔"

اس نے اتنا کہہ کر پیکٹ میز پر سرکایا۔ اپنے باپ کے سامنے رکھا:

"کوئی پرفیکٹ سچا نہیں ہوتا۔ کوئی مکمل جھوٹا نہیں ہوتا۔"

حسن اعوان نے دیکھا کہ پیکٹ پر جلی حروف میں جسٹس سلیمان لکھا تھا۔

"میری اوقات آپ کے دوست کی طرح چھوٹی نہیں ہے۔ میں اس کے سارے کرتوت کورٹ میں کھول سکتا ہوں لیکن میں پولیس اسٹیشن آیا کیونکہ آپ نے کہا تھا قانون اندھا صحیح مگر قانون ہے۔" اس نے پیکٹ کی جانب اشارہ کیا:

"یہ آپ کے دوست کے نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے جج کی پچھلے اٹھارہ ماہ کی کاروائیوں کی فہرست ہے۔ ہر وہ غلط فیصلہ آج انہوں نے کورٹ میں لیا، ہر وہ مقدمہ جس میں انہوں نے دیگر ججوں کو بلیک میل کر کے ان سے اپنی مرضی کا بیان دلوایا۔۔۔ اور یہ حقیقت بھی کہ ان جیسا تیسرے درجے کا وکیل آخر ہائی کورٹ کا جج منتخب کیسے ہو گیا۔"

اس نے اتنا کہہ کر سانس لیا:

"یہ ان کا سارا کٹھا چٹھا ہے۔ چاہیں تو اسے پبلک کریں، چاہیں تو چھپا کر رکھیں اور چاہیں تو ابھی اسی وقت اسے ثبوت مان کر جسٹس سلیمان کو گرفتار کریں۔"

"ضوریز۔" حسن اعوان کی آنکھوں میں تعجب تھا:

"یہ ثبوت کہاں سے لاۓ ہو؟"

ضوریز نے جواب نہیں دیا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ گلاسز لگاۓ:

"میرے اپنے سورسز ہیں۔" اس کے لبوں پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی:

"پھر ملتے ہیں ڈیڈ۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔۔۔

کسی کے دور جانے سے، تعلق ٹوٹ جانے سے

کسی کے مان جانے سے، کسی کے روٹھ جانے سے

اس نے راستے میں ایک دو جگہ کار روکی، کسی کا فون سننے کے لیے رکا، پھر کار کورٹ کی جانب بڑھی۔ پارکنگ ایریا میں ہی ضوریز نے پولیس جیپ دیکھ لی تھی۔ وہ اترا اور شفق کو اپنے ساتھ اتارا۔ اس کا ہاتھ تھام کر راہداری سے گزرا تو لوگ تو لوگ، شفق حیران تھی، وہ اس کا ہاتھ پکڑ رہا تھا۔ اس نے خود اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔

مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔۔۔

کسی کی نارسائی سے، کسی کی پارسائی سے

کسی کی بیوفائی سے، کسی دکھ انتہائی سے

بلال کی نصیحت زہن میں دور دور تک کہیں نہیں تھی۔

اسے ایک آخری داؤ چلنا تھا، ایک آخری کوشش کرنی تھی۔

نرس آس پاس نہیں تھی اور ڈاکٹر کے مطابق تو وہ ڈسچارج ہو کر گھر بھی جا سکتی تھی۔ الوینہ دبے پاؤں بیڈ سے اٹھی اور جوتے پہنے۔ وہ وہی کل والے لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔ مگر وہ ہمیشہ خوبصورت ہی تو لگتی تھی۔ اس نے اپنا ریشمی گاؤن شارٹ شرٹ کے اوپر پہن کر باہر کا رخ کیا۔ کوئی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔⁦

الوینہ جہاں داد سب کی نظروں سے غائب ہو گئی تھی۔

مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔۔۔

نہ تو اس پار رہنے سے، نہ تو اُس پار رہنے سے 

نہ اپنی زندگانی سے، نہ اک دن موت آنے سے

ضوریز اس کا ہاتھ پکڑ کر چلتا رہا یہاں تک کہ مطلوبہ جگہ آگئی۔ کورٹ کے دروازے میں چار پولیس اہلکار ایستادہ تھے۔ ان کی پیٹھ ضوریز کی جانب تھے۔ ضوریز شفق کے ساتھ ان پولیس اہلکاروں سے کچھ دور کھڑا ہو گیا۔

"ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟" شفق پوچھ رہی تھی۔ ضوریز دم سادھے کھڑا رہا۔ پھر کچھ لمحوں بعد پولیس کے دو اہلکار دائیں جانب مڑ گۓ اور دو بائیں جانب مڑ کر اپنی جگہ کھڑے رہے۔ ان کے درمیان سے جسٹس سلیمان برآمد ہوۓ۔

"یہ کیا بے ہودگی ہے؟" ان کے ماتھے کی تیوری تھی،پیشانی پر غصہ تھا۔

"ہمارے پاس آپ کے خلاف اریسٹ وارنٹ ہے۔" ڈی-ایس پی خود سامنے کھڑا تھا:

"عدالت کا احترام اور آپ کی عزت دونوں ہمیں پیاری ہے۔ اس لیے چپ چاپ ہمارے ساتھ چلیں۔ جو اعتراض اٹھانا چاہتے ہیں، پولیس اسٹیشن میں اٹھائیے گا۔"

"تم مجھے گرفتار کرنے آۓ ہو؟" وہ بے یقین نظر آۓ۔ اور تبھی ان کی نظر پولیس اہلکار کے پیچھے کھڑے ضوریز پر کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ پھر یکلخت مسکراہٹ میں ڈھلا۔ اس نے سینے پر ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوۓ سر کو خم کیا۔ 

جسٹس سلیمان سلگ کر رہ گۓ تھے۔

مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔

اکیلے مسکرانے سے، کبھی آنسو بہانے سے

اس سارے زمانے سے، حقیقت کے فسانے سے

بنگلے کے باہر گارڈ نام کی چیز نہیں تھی۔ اس کی چابی الوینہ کے پاس تھی۔⁦ لاک کھول کر وہ اندر آئی تو رہائش کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ 

آس پاس سناٹا تھا۔

اس کے علامہ جید عمارت میں کوئی نہ تھا لیکن وہ سپاٹ چہرہ لیے برآمدے میں کھڑی تھی۔

مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔

کسی کو چھوڑ دینے سے، کسی کو چھوڑ جانے سے

نہ شمع کو جلانے سے، نہ شمع کو بجھانے سے 

"یہ کیا ہو رہا ہے؟" وہ ضوریز کا بازو مضبوطی سے تھامے کھڑی تھی۔

"یوئر فادر از اندر اریسٹ۔" ضوریز نے چبا چبا کر کہا۔ شفق لمحہ بھر کے لیے دنگ رہ گئی۔ بے یقینی سے ضوریز کو دیکھا۔

"اریسٹ؟"

ضوریز کے لبوں پر مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ اس نے کندھے اچکا دیے:

"اے۔۔۔ ر۔۔۔ ر۔۔۔ ای۔۔۔ ایس۔۔۔ ٹی۔ اریسٹ۔"

شفق ضوریز کو دیکھتی رہی۔ اپنے باپ کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کے لبوں سے ایک بے چارگی کی آہ نکلی۔

"پاپا کے ساتھ برا ہوا۔" اس نے آہستگی سے کہا۔ پھر جلدی سے ضوریز سے چمٹ گئی:

"اب ہم لنچ کرنے چلیں۔ مجھے ٹھنڈ بھی لگ رہی ہے اور بھوک بھی۔"

ضوریز نے ڈبل بے یقینی سے اسے دیکھا۔ 

"تمہارا باپ اریسٹ ہوا ہے شفق۔"

"میں تو اریسٹ نہیں ہوئی ناں۔" اس نے کندھے اچکاۓ:

"انہوں نے کچھ غلط کیا ہو گا۔ جبھی پولیس نے انہیں اریسٹ کر لیا۔" پھر وہ چہکی۔ ضوریز کے مقابل آکھڑی ہوئی:

"جیسے جب میں نے غلط کیا تھا، تو تم نے مجھ اریسٹ کر لیا۔"

ضوریز کے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ ابھری۔ بولا:

"جبھی تو تمہیں اپنی قید سے رہا کر رہا ہوں۔ ڈائیوورس دے رہا ہوں۔"

"مجھے رہائی نہیں چاہیے۔" اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں:

"مجھے بس معافی چاہیے۔"

کون کہتا تھا ایک وقت آتا ہے جب کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ شفق سلیمان کو تو اس وقت بے انتہا ڈر لگ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئینہ اس کے سامنے تھا۔ الوینہ کے روبرو انتہائی حسین عورت کھڑی تھی۔ ریشمی لباس پہنے، لبوں کو لالی میں رنگے وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ مخملی وجود اس کے لباس سے ظاہر ہو رہا تھا۔ بالوں سے مہک کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ 

نیچے برآمدے میں قدموں کی آہٹ گونجی۔ کسی عورت کی زور و شور سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ الوینہ کا چہرہ سپاٹ ہی رہا۔ قدم دروازے کے قریب آگۓ اور اچانک دو سایے اندر داخل ہوۓ۔

پہلا فرد ضوریز تھا۔  الوینہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا تھا۔

دوسری شفق تھی، اس کی کھلی کھلی مسکراہٹ الوینہ کو دیکھ کر ماند پڑ گئی تھی۔

"تم۔۔۔" وہ مارے صدمے کے کچھ بول نہیں سکا۔ 

"تمہاری بہت دیر سے منتظر تھی ضوریز۔" الوینہ کا لہجہ متناسب تھا۔ وہ پلٹی تو ضوریز کی نگاہ بے اختیار اس کے وجود پر ٹک گئیں۔ ذہن میں گونجنے لگا:

"آپ کی بیٹی پہلے سے ہی OCD (آبسیسوِ کمپلسو ڈس آڈر) کا شکار تھی۔ ذہنی بیمار تھی۔ کہاں ہنسنا ہے یہاں رونا ہے، اسے پتا ہی نہیں تھا۔ کہاں جسم کھولنا ہے، کہاں ڈھانپنا ہے، اسے پتا ہی نہیں تھا۔"

"نہ کوئی فون کیا، نہ میسج؟" الوینہ مسکراتے ہوۓ پوچھ رہی تھی۔ ضوریز کے تاثرات سخت تھے:

"کیا کہا تھا میں نے؟" وہ بولا تو آواز بھی کرخت تھی:

"اوور الوینہ، سب ۔۔۔ کچھ۔۔۔ اوور!"

"ہمارا رشتہ کیسے اوور ہو۔۔۔"

"الوینہ، جان چھوڑ دو میری۔" وہ اپنی پوری قوت سے دھاڑا تو شفق نے بے اختیار اس کا بازو چھوڑا اور دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ الوینہ کی بات نامکمل رہ گئی:

"آج پہلی بار میں آزاد محسوس کر رہا تھا، خوشی محسوس کر رہا تھا، لیکن پھر تم اپنا منحوس چہرہ کے کر سامنے آگئیں۔ تم۔۔۔ کہیں چلی کیوں نہیں جاتیں۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتیں۔"

"تم نے کہا تھا کہ میں تمہاری زندگی کی واحد خوشی ہوں۔ میرے بغیر تم کبھی خوش نہیں ہو سکتے۔" اس نے ضوریز کا گریبان تھام کر کہا۔ 

"جھوٹ کہا تھا میں نے۔ دھوکہ دیا ہے تمہیں۔"

"ضوریز تم مجھ سے محبت۔۔۔" الوینہ نے بے اختیار اس کے دونوں ہاتھ تھامے۔

"ارے نہیں کی محبت۔" وہ پوری قوت سے اس کے ہاتھ جھٹک کر چیخا:

"تھک گیا ہوں میں سب کی خواہشوں پر پورا اتر اتر کر۔ میں اب۔۔۔۔" اس نے بے چارگی سے لب رگڑے تھے۔

"میں جینا چاہتا ہوں الوینہ۔ میں آزادی کا مزہ لینا چاہتا ہوں۔ میں وہ کرنا چاہتا ہوں جو میری مرضی کے مطابق ہو۔ میں ایسی زندگی چاہتا ہوں جہاں بس میں ہوں۔"

"اور میری یہ چاہت کی میری زندگی میں بس تم ہو؟ اس چاہت کا کیا؟" اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔

"ختم کر دو اسے۔"

"یا ختم کر لوں خود کو؟" الوینہ نے لب بھینچ لیے۔ پھر دانت پر دانت جما کر ضوریز کو دیکھا۔ ضوریز کی آنکھوں میں بے حسی ہی بے حسی تھی۔

"Leave me Alvina. forever...."

الوینہ کا سپاٹ چہرہ بے اختیار ہی آنسوؤں سے تر ہوا۔ سب عداوتیں بھلا کر اس نے وفا کا پاس رکھنا چاہا۔

"ضوریز، پلی۔۔۔۔"

"گیٹ آؤٹ۔" ضوریز نے دونوں بازو اٹھا لیے مبادا وہ پھر گرفت میں نہ لے لے۔ الوینہ گنگ رہ گئی تھی۔ اس نے قدم اٹھاۓ اور پلٹتی گئی۔ بے یقین نظروں سے ضوریز کو دیکھتی، وہ نفی میں سر ہلاتی باہر جا رہی تھی:

"میں نے محبت کی تھی، ضوریز۔ میں نے تم سے بے پناہ محبت کی تھی۔

"الوینہ گووو۔۔۔۔" وہ بھڑک کر بولا۔ الوینہ کی رفتار تیز ہو گئی۔ وہ پلٹی اور کمرے سے باہر آگئی۔ سیڑھیاں اترنے لگی، آنسو پوچھتی ہال میں آئی تو صوفے کے پاس کھڑی سہمی سی شفق کو دیکھ کر اس میں آگ سی لگی۔

"تم میری محبت کی قاتل ہو۔ تم میری قاتل ہو، بدکار۔"

اس نے بپھر کر کہا اور دونوں ہاتھوں سے شفق کو دھکا دیا۔ وہ توازن برقرار نہیں رکھ سکی۔ پیٹھ کے بل گری۔ الوینہ ہال سے بھاگتی ہوئی باہر آگئی۔ اوپر بیڈروم میں الوینہ کی دھاڑ سن کر ضوریز نیچے آیا۔ ہال میں  فرش پر گری شفق کو دیکھ کر وہ سن ہو گیا تھا۔ 

"شفق۔"

وہ کراہ اٹھی تھی۔ خوف زدہ انداز میں ہچکی لیتے ہوۓ اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔

"کچھ نہیں ہوا۔ کچھ نہیں ہوتا۔"

ضوریز نے نرمی سے اس کا چہرہ تھاما اور بیک وقت اس کی پیشانی پر غصہ ٹھہر گیا۔ وہ شفق کو فرش پر چھوڑ کر اٹھا اور فون کان سے لگایا۔ غصہ اسے ایک ایسے عمل کی تحریک دے رہا تھا جس پر اسے بہت پچھتانا تھا۔

"غلام حاضر ہے صاحب!" فون پر آواز گونجی۔

"چھے سات گھنٹے میرے لیے کام کرنے کے کتنے پیسے لو گے۔" ضوریز کا لہجہ بھاری تھا۔ وہ کچھ خطرناک کرنے جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال بکتا جھکتا گھر واپس آیا۔

اس کے منع کرنے کے باوجود وہ ہسپتال سے بھاگ نکلی۔ ہاں، وہ بھاگ ہی تو نکلی تھی۔

اس کی پیشانی پر بل پڑے تھے اور ابرو تنے تھے۔ ٹائی ایک سمت اور گھڑی دوسری سمت پھینک کر وہ ٹیرس پر آیا تو سسکیوں کی آواز آئی۔ بلال کے سخت تاثرات میں کمی واقع ہوئی۔ وہ بیرونی بالکونی سے ہوتا اپر رائٹ کمرے کے بیرونی سیٹنگ ایریا میں تو اسے کمرے کی جانب اترتی سیڑھیوں پر بیٹھا پایا۔ 

سر گھٹنوں میں دیے، سسکیاں بھرتے۔۔۔ ہاں، وہ رو رہی تھی۔

ہمیشہ کی طرح نہیں، گھٹ گھٹ کر نہیں، وہ زاروقطار رو رہی تھی۔

بلال اس سے دو سیڑھی اوپر آبیٹھا، سنہرے بھورے بالوں نے الوینہ کا چہرہ چھپا رکھا تھا۔

"کم از کم اپنی حالت کا ہی خیال کر لیا کرو الوینہ۔" وہ کہے بغیر رہ نہ سکا۔ الوینہ نے چونک کر سر اٹھایا، سرخ بوٹی آنکھیں نے بلال کو گھورا:

"میں رو نہیں رہی تھی۔" اس نے سختی سے سر نفی میں ہلایا:

"میں بس یہاں کھلی ہوا میں بیٹھی تھی۔ جیسے میں ہمیشہ، وہاں پھپھو والے گھر میں اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس ایزل رکھ کر بیٹھتی تھی۔ میں ہوتی تھی، میرے رنگ ہوتے تھے، کھڑکی سے اندر آتی ہوا اور چہچہاتے پرندے، تب Carrie Lockwood میری فیورٹ سِنگر ہوتی تھی۔ بیلے سانگز اور سلو موشن سے مجھے نفرت تھی۔ لوگ کہتے تھے میں تب بہت مغرور تھی، بہت بدتمیز تھی۔ مگر تب۔۔۔ میری زندگی بہت فاسٹ تھی، میری زندگی بہت آسان تھی۔"

وہ سر جھکاۓ، بلال کی جانب نیم وا رخ کیے بول رہی تھی:

"پھر میرے رنگ پھیکے پڑنے لگے ،کھڑکی سے خنکی اندر آنے لگی، سب پرندے غائب ہوۓ، سب رنگ بے جان ہو گۓ، میرے کمرے میں "fairytale" اور "Broken angle" جیسے گانے گونجنے لگے۔ میرے لیے سب اجنبی ہوگۓ۔ زنگی جیسے ایک محور کے گرد گھومنے لگی۔"

بلال کیا نہیں جانتا تھا وہ کیا بات کر رہی تھی۔ وہ بولتی جا رہی تھی:

"میرا طریقہ غلط ہو گا، میرے جذبات بے قابو ضرور ہوں گے لیکن میں نے اسے بے پناہ محبت دی، میں نے اس سے اپنی بساط سے بڑھ کر محبت کی۔ اپنی ہر پسند اس کے پسند کے آگے مٹی میں ملا دی۔ اپنی عزتِ نفس کو دفنا کر اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ اور آج۔۔۔" وہ وحشت زدہ نظر آئی:

"اس نے کہا کہ میں اپنی محبت کا گلا گھونٹ دوں۔" اس نے بے یقین نگاہوں سے بلال کو دیکھا:

"مجھے بتاؤ بلال۔ میں ہر دن کے ہر گھنٹے کے ہر لمحے کی عبادت کو میلا کیسا کروں؟ وہ اپنی خواہشات کو حاصل کر کے امر ہو جاۓ لیکن میں زندہ بھی یوں رہوں کہ زندگی موت کے برابر ہو۔ میں اسے کیوں نہیں پا سکتی؟ کیا اس لیے کہ میں ایک عورت ہوں جو اگر محبت کرے تو محبت گناہ بن جاتی ہے؟ کیا اس کے لیے کہ میں ایک عورت ہوں جو اگر محبوب سے محبت کا دعویٰ کرے تو میں بدکار ٹھہرتی ہوں! کیا اس لیے کہ میں ایک عورت ہوں جو بنائی ہی اسی لیے گئی ہے کہ مرد اسے استعمال کرے اور طلب پوری ہونے پر اسے چھوڑ دے؟؟"

اس کا مومی چہرہ آنسوؤں سے تر ہو رہا تھا۔ وہ اب سر اٹھا کر بلال کو دیکھ رہی تھی:

"مجھے ہمیشہ سے کہا گیا کہ لوگ کیا کہیں گے، تم لڑکی ہو الوینہ۔ اونچی آواز میں بات نہ کرو، بڑوں کے سامنے زبان نہ چلاؤ۔۔۔ تم لڑکی ہوں، یوں گلا پھاڑ کر مت ہنسو، تم لڑکی ہو، بلاوجہ کہ خواہشیں مت کرو۔ صحیح بات بھی کر رہی ہو تو لوگوں کا غصہ دیکھ کر خاموش رہو۔ تمہارے ساتھ زیادتی بھی ہو رہی ہے تو صبر سے کام لو۔" اس کی استہفامیہ نگاہیں بلال پر ٹک گئی تھیں:

"میں لڑکی ہوں تو کیا میری اپنی چاہت نہیں ہے۔ میں لڑکی ہوں تو کیا میری زبان نہیں ہے۔ میں لڑکی ہوں تو کیا اپنی خوشی کا اظہار نہیں کر سکتی۔ تکلیف میں ہوں تو کیا رو نہیں سکتی۔ میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو کہہ نہیں سکتی۔ میں لڑکی ہوں تو کیا۔۔۔ کیا محبت نہیں کر سکتی؟ لڑکی ہوں تو کیا۔۔۔ کیا کبھی ضوریز کے قابل نہیں بن سکتی؟"

وہ اب بلک بلک کر رو رہی تھی۔ چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں چھپاۓ، وہ پھر گھٹنوں پر جھک گئی۔ بلال اتنا دور تھا کہ اس نے ہاتھ بڑھایا تو محض اس کی تھوڑی کو ہی چھو سکا۔ الوینہ نے بے اختیار سر اٹھایا تو بلال کی نگاہیں اس کے چہرے پر ہی ٹکی تھیں:

"ہمیشہ ۔۔۔ مجھے ہی قربانی کیوں دینی پڑتی ہے بلال؟" اس کا لہجہ استہفامیہ تھا۔ بلال کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری تھی:

"تم قربانی نہیں دو گے تو مرد کیسے جیت پاۓ گا، الوینہ؟" اس کے الوینہ کے رخسار پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوۓ کہا تھا:

"تم نے اگر سر نہیں جھکایا تو اسے غرور کیسے آۓ گا۔ تم نے سر اس کے قدموں میں نہیں رکھا تو اس کی گردن میں خم کیسے آۓ گا۔ جانتی ہو لڑکی کو لوگوں سے ڈرا کر سر جھکانے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے۔" اس نے الوینہ کے دونوں رخسار اپنے ہاتھوں میں بھر لیے تھے:

"وہ ڈرتے ہیں کہ اگر لڑکی مسکراۓ گی تو مرد کو ہرا دے گی۔ وہ اونچی آواز میں بات کرے گی تو مرد کو بےزبان کر دی گی۔ وہ اپنے حق میں بولے گی تو مرد کو لاچار کر دے گی۔⁦ اسے اصولوں کی بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ مرد کے سامنے سر نہ اٹھا سکے، کیونکہ اگر وہ سر اٹھاۓ گی تو مرد کا غرور توڑ دے گی، اسے شکست دے دے گی، اسے تسخیر کر لے گی۔" اس کا لہجہ نرم سے نرم ہوتا جا رہا تھا:

"کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تمہیں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم ہنسو تو کوئی تم پر فریفتہ ہو جاۓ، تمہیں اپنی وقتی محبت میں گرفتار کر کے اور ضرورت ختم ہونے پر تمہیں یوں کا لاچار چھوڑ جاۓ۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم قربانی دو الوینہ۔"

اس نے الوینہ کی زلفوں کو چہرے سے ہٹاتے ہوۓ کہا تھا:

"اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تم پر جبر کرتے ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ لڑکی مسکرائی تو کہیں مرد کی مردانگی نہ ختم ہو جاۓ۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر لڑکی نے اگر قربانی نہ دی تو کہیں مرد کا وجود نہ مٹ جاۓ۔"

"اور قربانی دیتے دیتے وہ تھک جاۓ تو۔" وہ تھک گئی تھی۔

"تو وہ یاد رہے کہ زندگی جینے کا حق اسے ابھی اتنا ہی ملا ہے جتنا کہ مرد کو۔ وہ یاد رکھے کہ ہر چیز حاصل کرنے کا حق اتنا ہی ملا ہے جتنا کہ مرد کو۔"

الوینہ کے آنسو برابر بہہ رہے تھے۔ بلال ابھی تک دو سیڑھیاں چھوڑ کر بیٹھا تھا اور الوینہ کا چہرہ تھام رکھا تھا:

"اپنی ہر عداوت بھلا کر، اپنی ہر نفرت بھلا کر، میں ایک بات کہتا ہوں کہ مجھے تمہاری حفاظت کی پرواہ ہے الوینہ۔ میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ آج کل، جب تم چاہو لیکن ایک شرط پر۔۔۔" اس کی آنکھیں الوینہ کی آنکھوں میں کھب گئی تھیں:

"طلاق سے پہلے، طلاق کے بعد، تم کبھی ایڈووکیٹ ضوریز حسن کے در کا رخ نہیں کرو گی۔ لیکن اگر تم نے اس شرط پر عمل نہ کیا، تو تمہیں طلاق دینا تو کیا، میں تمہیں اسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں گا۔" اس کا لہجہ سنگین تھا:

"not I as your husband then, but as your cousin"

(تب تمہارے شوہر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ تمہارے کزن کی حیثیت سے)

"مجھے اس کے پاس نہیں جانا۔" وہ سہمی نظر آتی تھی۔ آنسو ابھی تک بہہ رہے تھے۔ اس کا قطعی لہجہ بھانپ کر بلال کے چہرے پر طمانیت کی ایک لہر ابھری تھی۔

"چلو، اب کمرے میں جاؤ۔ پسِ منظر میں Carrie Lockwood  کو چلاؤ اور ریسٹ کرو الوینہ۔ کل شام تمہیں ڈیوورس پیپرز مل جائیں گے۔ تب تک، انجواۓ۔"

وہ اس کا گال تھپتھپا کر اٹھا اور بالکونی کی جانب مڑ گیا۔ الوینہ بیٹھی رہ گئی۔ پسِ منظر میں مسلسل گونج رہا تھا:

"I am in love with a fairytale...

even though it hurts..."

"سوری، الوینہ۔"

الوینہ کے فون پر یہ دو لفظی میسج ہزاروں باہر آچکا تھا۔ الوینہ نظر انداز کر رہی تھی، اسے اب پڑھنا بھی چھوڑ چکی تھی۔ اسے نظر انداز کرتے کرتے رات آگئی لیکن وہ میسج بار بار نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ وائس میسج میں ضوریز کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔

"طلاق سے پہلے، طلاق کے بعد، تم کبھی ایڈووکیٹ ضوریز حسن کے در کا رخ نہیں کرو گی۔ لیکن اگر تم نے اس شرط پر عمل نہ کیا، تو تمہیں طلاق دینا تو کیا، میں تمہیں اسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں گا۔" 

"آئی لو یو الوینہ۔"

"آئی جسٹ سوری۔"

بلال کی آواز گونج رہی تھی۔ ضوریز کی معافی غالب آرہی تھی اور پسِ منظر میں بج رہا تھا:

"I am in love with a fairytale

even though it hurts...

'cause I don't care if I lose my mind

I'm already cursed..."

اس کو بیڈ ریسٹ کی تاکید کر کے بلال آفس گیا تھا اور اب جب پانچ بج گۓ تھے، وہ گھر واپس لوٹنے والا تھا۔ 

"الوینہ، پلیز الوینہ۔" ضوریز کا میسج اس کی نظروں کے سامنے تھا:

"ایک بار مجھ سے مل لو۔ بس ایک بار، آخری بار۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گھر سے نکل رہی تھی تو گیٹ بند کرتے چوکیدار نے بہت عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ اس کے صاحب کی گھر سے نکلنے کی دیر ہوتی تھی اور یہ میم صاحب بھی پیچھے پیچھے ہی کار لے کر نکل جاتی۔ اس نے ٹیکسی کی بجاۓ بلال کی پراڈو کا انتخاب کیا تھا۔ رخ کورٹ کی جانب تھا۔ وہ پریقین تھی کہ ضوریز اس سے وہیں ملاقات کرے گا۔ 

اس کے چیمبر کو لاکڈ پا کر وہ ٹھٹک گئی۔ کچھ لوگوں کے بقول وہ آج پورا دن کورٹ میں نظر نہیں آیا۔⁦ الوینہ کو لگا اس کے ساتھ مذاق ہو گیا ہے۔ وہ ساکت و جامد سی اپنی جگہ پر کھڑی تھی جب فون کی گھنٹی بجی۔ نمبر ضوریز کا تھا۔ الوینہ نے جھٹ سے اٹھایا تھا۔

"آگئی ہو؟" اس کا انداز استہفامیہ تھا۔

"کہاں ہو تم؟" الوینہ متفکر تھی۔

"میرا ڈرائیور باہر پارکنگ ایریا میں کار کے ساتھ موجود ہے۔ کار میں بیٹھو اور میرے پاس آجاؤ۔"

الوینہ حیران پریشان سی چلتی پارکنگ ایریا تک آئی۔ وہ کورٹ میں داخل ہوئی تھی تو اعصاب پر سکون تھے لیکن اب اضطراب کی سی کیفیت سوار تھی۔ سفید لیموزین سب میں ممتاز کھڑی تھی اور ڈرائیور پشت پر ہاتھ باندھے سر جھاۓ کھڑا تھا۔ الوینہ قریب آئی تو اس نے پچھلا دروازہ کھولا اور خود ہٹ گیا۔

"لیکن میری کار۔" الوینہ کے الفاظ درمیان میں رہ گۓ۔ ڈرائیور کی نظریں ہنوز جھکی تھیں:

"یہیں لاکڈ رہنے دیجیے میم۔ آپ کو ایک بار سر کے پاس پہنچا دوں، پھر آپ کی کار کا بھی انتظام کر دوں گا۔"

الوینہ چپ چاپ کار میں بیٹھ گئی۔ سفر طے ہو گیا تو کار ہائی وے پر رک گئی۔ الوینہ کا دل دھڑکا۔ شام ڈھل رہی تھی اور سنسان سڑک پر ڈرائیور نے کار روک دی تھی۔

"کیا ہوا؟"

"مجھے صاحب نے یہی ایڈریس بتایا تھا۔ آپ اتر جائیں۔"

الوینہ شش و پنج میں مبتلا اتر گئی۔ لمبے سرو کے درخت سڑکے کے دائیں بائیں فلک بوس کھڑے تھے۔ الوینہ کے فون کی گھنٹی بھی بجنے لگی تھی۔

"آگئی ہو؟" وہی استہفامیہ لہجہ۔

"ضوریز، تم کہاں ہو؟" اس کا دل بیٹھ رہا تھا۔

"سڑک سے اتر آؤ اور جنگل کے درمیان میں بنی روش پر ناک کی سیدھ میں چلتی آؤ۔"

"لیکن، ضوریز تم کہاں ہو؟"

"تم آؤ تو سہی میری جان۔ میں وہیں ہوں۔"

کنکشن منقطع ہو گیا تو الوینہ درخت کا سہارا لے کر ڈھلوان سے اتری۔ پتے سرسرا رہے تھے، جھینگر بول رہے تھے، مہیب سناٹا جو شام کی بڑھتی تاریکی میں ماحول کو ڈراؤنا بنا رہا تھا۔ الوینہ ناک کی سیدھ میں چلتی رہی تھی اور اچانک سامنے بوسیدہ سا مکان آگیا۔

"آگئی ہو؟" ضوریز کا لہجہ سپاٹ تھا۔ الوینہ رو دینے کو تھی:

"ضوریز، میرے ساتھ کھیل مت کھیلو۔ تم کہاں ہو؟ مجھے بتاؤ کہاں ہو؟"

"اندر آجاؤ، میں اندر ہوں۔"

باہر جنگل میں کوئی جانور غرایا تو الوینہ نے چیخ ماری اور بھاگ کر مکان کے اندر آگئی۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا۔ الوینہ نے فون کی ٹارچ روشن کی۔ اس کا تنفس بڑھ گیا تھا، چہرہ لال ہو گیا تھا۔ تبھی کسی نے کمرے میں لگا واحد بلب روشن کیا تو نیم روشنی پھیل گئی۔ 

"ضوریز۔" وہ دہلیز میں ایستادہ تھا۔⁦ الوینہ نے فون چھوڑا اور بے اختیار اس کے سینے سے جا لگی۔ 

"تم نے مجھے ڈرا دیا۔" وہ روتے روتے رہ گئی۔ اس کے سینے سے چہرہ رگڑ کر آنسو آنکھوں میں واپس دھکیل دیے۔

"کوئی تمہارے پیچھے تو نہیں آیا؟" ضوریز پوچھ رہا تھا۔ الوینہ نے کچھ حیرانی سے سر اٹھایا اور اسے تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا:

"میرے پیچھے کون آۓ گا؟"

"میرا کوئی دشمن، کوئی حریف یا کوئی ایسا جو تمہیں اور مجھے برابر نقصان پہچانا چاہتا ہے، میری بیوی یا تمہارا شوہر۔" وہ بول رہا تھا تو چہرہ سپاٹ تھا۔⁦ الوینہ ناسمجھی سے اسے دیکھتی رہی، پھر ہولے سے مسکرائی:

"ہمیں کوئی علیحدہ نہیں کر سکتا ضوریز۔"

"بس ایک طریقہ ہی ہے۔" ضوریز خشکی سے بولا:

"وہ یا تمہیں مار دے یا مجھے۔" الوینہ کو کندھوں سے تھام کر وہ آگے آیا:

"میرا کیا ہے!!! ضوریز حسن کو تھپڑ لگتے ہی رہتے ہیں، زخم بھی آتے رہتے ہیں لیکن تم الوینہ۔۔۔۔" اس نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا تھا:

"اس نے مجھے باندھ کر تمہیں قابو میں کر لیا تو؟ مجھے مار کر تمہیں زندہ رہنے دیا اور تڑپا تڑپا کر مارا تو؟ تمہارے جسم کو حصوں میں کاٹ کر کتوں کو کھلا دے گا تو میں کیا کر سکوں گا۔" اس کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے کر وہ سنگینی سے بول رہا تھا۔ الوینہ کو اس سے بے پناہ خوف آرہا تھا۔

"ضوریز میں۔۔۔"

"جب میں نے کہا تھا اوور، تو اس کا مطلب تھا کہ تمہارے اور میرے درمیان ہر تعلق ختم، اوور!!!!"  

"ضوریز، تم نے مجھے بلایا تھا۔" وہ روہانسی ہو گئی تھی۔ ضوریز کی نگاہوں میں درشتی تھی:

"تو میں کون ہوتا ہوں جس کے ایک بار کہنے پر تم سر جھکا کر میرے پاس آبھی گئیں۔"

"ضوریز۔" الوینہ نے کسی خطرے کے پیشِ نظر اس کی شرٹ کو گرفت میں لیا۔ تبھی عقب میں آہٹ ہوئی۔⁦ وہاں کوئی آدمی دروازے میں کھڑا تھا۔ مسکرا رہا تھا:

"بی بی کا فون گرا ہوا ہے صاحب۔"

الوینہ تو سہم کر ضوریز کے سینے میں چھپ گئی جبکہ ضوریز نے فون کی جانب دیکھا۔ اسے اٹھایا اور اپنی پاکٹ میں ڈال لیا۔

"وہ کون ہے ضوریز؟" الوینہ سہمی نگاہوں سے دروازے میں ایستادہ اس مرد کو دیکھ رہی تھی۔ ضوریز نے الوینہ کے بازو نیچے جھٹک دیے تھے:

"وہ ملک ہے جو اگلے دس گھنٹے تک اس مکان کے باہر پہرہ دے گا تاکہ تم کسی بھی صورت یہاں سے بھاگ نہ سکو۔" 

وہ خود جا رہا تھا۔ اس کا فون قبضے میں لیے وہ مکان سے نکلا تو الوینہ کا دماغ گھوم گیا۔

"ضوریز۔" وہ سرپٹ بھاگی، ضوریز کا بازو کھینچ لیا:

"مجھے چھوڑ کر مت جاؤ ضوریز۔"

"یہ تمہاری یہاں آنے کی سزا ہے الوینہ۔"

"مجھے واپس چھوڑ آؤ۔ میں۔۔۔ میں تمہیں تنگ نہیں کروں گی ضوریز۔ مجھے یہاں چھوڑ کر مت جاؤ۔ مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ مجھے اپنے ساتھ۔۔۔"اس نے پوری قوت سے دروازہ بجایا۔ پھر کھڑکی میں آکھڑی ہوئی تو کھڑکی کے باہر کھڑے ملک نے مسکرا کر اسے ہیلو کا اشارہ کیا۔ ضوریز نے الوینہ کا فون زمین پر پھینکا اور اس پر اپنا بوٹ رکھا۔ اسکرین ٹوٹ گئی تو وہ آگے بڑھ گیا۔ الوینہ کی التجاؤں پر کان بند کیے وہ پتھریلی روش پر چلتا گیا، ڈھلوان چڑھی اور کار تک پہنچا۔

"گھر چلو۔"

کار میں بیٹھ کر اس نے ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ سفید لیموزین دھول اڑاتی دور نکل گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

الوینہ نے گھنٹوں دروازہ بجایا، کھڑکی سے آوازیں دیں اور پھر تھک ہار کر دیوار سے آلگی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی نمی تیر رہی تھی۔ کمرے کا بلب مدھم روشنی بکھیر رہا تھا اور پھر اچانک وہ بھی گُل ہو گیا۔ تاریک کمرے میں بھی وہ اپنا انجام دیکھنے کے قابل تھی۔ ضوریز نے اسے واقعی دھوکہ دیا تھا۔ اس نے واقعی اسے سزا دی تھی۔

ملک اسے کھڑکی کے اس پار،  آنکھیں بند کیے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خوبصورت تھی اور اس سفید لباس میں انتہائی حسین لگ رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ اندھیرے کمرے میں بیٹھی وہ بھی چاند کی طرح ہی چمک رہی تھی۔

"کیا بگاڑا ہے تو نے وکیل کا؟" اس سے رہا نہیں گیا۔ کھڑکی پر سر رکھ کر اس نے بہت غور سے الوینہ کو دیکھا تھا۔ الوینہ آواز پر چونکی لیکن چپ رہی۔

"تو نے کچھ غلط کیا ہو گا۔" ملک اپنے تیئں گتھیاں سلجھا رہا تھا۔

"ورنہ اسے کیا پڑی ہے تجھ جیسی خوبصورت عورت کو یوں اکیلے میں کسی مرد کے سپرد کر کے خود بھاگ جاۓ اور مڑ کر خبر بھی نہ لے۔"

"وہ واپس نہیں آۓ گا؟" الوینہ دم بخود رہ گئی۔ جانے کب یہ جملہ لبوں سے پھسل بھی گیا۔ ملک ہنسا۔ ہنستا رہا۔

"وہ تجھے دھتکار کر گیا ہے، بے وقوف عورت۔ جسے دھتکار دیا جاتا ہے، اس کے لیے کون پلٹ کر آتا ہے۔"

الوینہ کو اس تاریک کمرے سے وحشت محسوس ہوئی۔ وہ بے یقینی سے کھڑکی کی جانب دیکھتی رہی، پھر بے اختیار اٹھ کر کھڑکی کے پاس آبیٹھی۔

"تم۔۔۔" اس نے دونوں ہاتھ جوڑ لیے تھے:

"تم مجھے یہاں سے باہر نکال دو۔"

"دس گھنٹے بعد نکال دوں گا اور دس لاکھ لے لوں گا۔"

دس گھنٹے یعنی آدھی رات۔۔ الوینہ نے سوچا۔۔ آدھی رات تک بلال گھر آجاۓ گا اور اسے غائب پا کر کس قدر غصہ ہو گا۔ وہ رہا ہو جاۓ گی تو یقیناً گھر جاۓ گی۔ اور گھر میں بلال۔۔۔۔

"طلاق سے پہلے، طلاق کے بعد، تم کبھی ایڈووکیٹ ضوریز حسن کے در کا رخ نہیں کرو گی۔ لیکن اگر تم نے اس شرط پر عمل نہ کیا، تو تمہیں طلاق دینا تو کیا، میں تمہیں اسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں گا۔"

"نہیں، نہیں۔" اس نے مارے دہشت کے ہاتھ جوڑے اور لجاجت سے کہا:

"میں۔۔۔ میں تمہیں منہ مانگی قیمت دوں گی۔ تم دس لاکھ کی بات کرتے ہو۔ میں تمہیں بیس لاکھ دلواؤں گی۔"

"اتنا ہی پیسہ تھا تیرے پاس تو اس کو استعمال کر کے وکیل کو کیوں نہیں خرید لیا۔" ملک نے ظنر کیا تھا۔ الوینہ لاجواب ہو گئی۔ بڑبڑانے لگی:

"مم۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی۔۔۔ میں۔۔۔ میں پیسہ لے کر۔۔۔"

وہ کہہ رہی تھی لیکن ملک سن نہیں رہا تھا۔ الوینہ ہاتھ جوڑے بیٹھی رہی۔ لجاجت و ندامت نے اس کے آنسوؤں کا تحریک دی تو چہرہ آنسووں سے گیلا ہو گیا۔

"وہ مجھے مار دے گا۔ مجھے چھوڑ دو، ابھی چھوڑ دو۔"

سر جھکاۓ، وہ روانی کے عالم میں کہہ رہی تھی جب ملک نے سر اٹھایا۔

"کیا ہے ملک، دس لاکھ کی بجاۓ یہ آئیٹم بیس لاکھ دے رہی ہے۔ پھر دیکھ تو سہی کیسی ادا سے ہاتھ جوڑ کر رو رہی ہے۔ تجھ سے تو کبھی کبھی کسی عورت نے سیدھے منہ بات نہیں کی، ہاتھ جوڑنا تو کجا۔ اور یہاں یہ خوبصورت عورت ہاتھ جوڑے تیرے سامنے جھکی ہے۔ جانے دے ناں ملک۔ وکیل کو کہہ دیں گے کہ لڑکی بھاگ گئی تھی۔ وہ بیس لاکھ دے گی، ملک۔ پورے۔۔۔ بیس۔۔۔ لاکھ۔"

ملک ہڑبڑا کر اٹھا اور کھڑکی سے ہٹ گیا۔ الوینہ کی رہی سہی امید بھی ٹوٹ گئی۔ وہ مایوسی کے عالم میں فرش پر ڈھیر ہو گئی تھی جب بیرونی دروازہ چرچرایا۔ ملک نے چابی تالے میں ڈالی سور گھمائی۔ دروازہ کھل گیا اور راستہ صاف تھا۔

الوینہ کا ذہن لمحہ بھر میں بیدار ہوا تھا۔

ملک دروازہ کھول کر ایک طرف ہٹا ہوا تھا اور راستہ صاف تھا۔ کوئی معائدہ نہیں ہوا۔ کوئی وعدہ نہیں کیا۔ وہ جھٹکے سے اٹھی اور مکان سے نکل کر بھاگنا چاہا۔ ملک چوکنا تھا۔ اس نے فوراً الوینہ کو قابو کر لیا۔

"چچ، یہاں بھی دھوکہ ہوا ملک۔" بے چارگی سے مسکراتے ہوۓ اس نے تڑپتی الوینہ کو حصار میں لیا تھا:

"کیا بیس لاکھ دیے بغیر بھاگ رہی تھی، جان من؟"

"مجھے۔۔۔ مجھے جانے دو۔" اس نے دونوں بازوؤں سے اسے پرے دھکیلنے کی کوشش کی۔

"جانے ہی تو دے رہا تھا۔" وہ بولا اور الوینہ کا بازو کھینچ کر اسے دیوار سے لگایا:

"میرے بیس لاکھ میرے ہاتھ میں دے۔"

"میں دوں گی، قسم سے دوں گی، پر ابھی۔۔۔ ابھی۔۔۔"

اس نے اٹک کر کہنا چاہا۔ ملک پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا۔ الوینہ نے بے اختیار عقب میں اشارہ کیا،

"وہ دیکھو، وہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے۔"

ملک ٹھٹک کر پلٹا۔ اس کی گرفت کمزور پڑی اور الوینہ اسے دھکا دے کر بھاگ آئی۔ مکان سے باہر نکلی اور سرپٹ بھاگنے لگی۔ ملک بس ایک لمحے کے لیے غافل ہوا تھا، پھر لڑکی کو بھاگتا دیکھ کر خود بھی سر پر پیر کریں کر دوڑا۔ پیسہ بھی ہاتھ سے جا رہا تھا اور لڑکی بھی۔ اس حقیقت نے اس کی ٹانگوں میں جان بھر دی۔

"بھاگتی کہاں ہے، بے غیرت۔" اس نے اب کی بار الوینہ کو کھینچا تو وہ لڑکھڑا چت گری تھی:

"تجھے یوں نہیں بھاگنے دوں گا۔ تجھے یوں آسانی سے جُل نہیں دینے دوں گا۔"

"میں۔۔۔ میں تمہیں بیس لاکھ۔۔۔" الوینہ نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہنا چاہا۔

"بھاڑ میں گۓ بیس لاکھ۔" ملک اب غراتے ہوۓ، اس کے بازو زمین سے جوڑے، اس کے قریب بیٹھا کہہ رہا تھا:

"بھاڑ میں گیا وکیل اور بھاڑ میں گیا سب کچھ۔"

اس نے الوینہ کے دونوں بازو باندھ کر اسے گھسیٹنا شروع کیا۔ وہ اسے کھینچ کر مکان میں لے جارہا تھا۔ جانے اس کی نیت کیا تھی، الوینہ کی ساری طاقت اس کی ٹانگوں میں آجمع ہوئی تھی۔ اس نے اپنے بازو چھڑاۓ، اپنی پوری قوت سے زمین پر رگڑ کھائی اور آزاد ہو گئی۔ ملک  غصے سے غراتے ہوئے اس کی جانب بڑھا اور الوینہ۔۔۔ وہ بھاگ اٹھی تھی۔

تاریک رات میں وہ درختوں کے درمیان سے دوڑتی جا رہی تھی۔ ایک شور سا جنگل میں بیدار ہوا تھا اور قدموں کی آوازیں بلند ہوئیں۔

پھر اچانک نسوانی چیخ بلند ہوئی۔

وہ الوینہ تھی جس کا بے خیالی میں پاؤں رپٹا اور وہ زمین پر گری۔ پھر ڈھلوان میں گرتی گئی اور برگد کے قریب آکر رکی۔ سر درخت سے ٹکرایا اور جسم ٹوٹ گیا۔

ملک نے رک کر ادھر ادھر دیکھا۔ وہ جیسے غائب ہو گئی تھی۔ نشیب میں برگد کا قوی الجثہ درخت تھا جس کی ٹہنیوں نے الوینہ کو چھپا لیا تھا۔ اس ہے آنسو بہہ رہے تھے لیکن اسے بے آواز، بے جان بن کر یہیں چھپے رہنا تھا۔

جب تک کوئی آ نہیں جاتا۔

جب تک موت آنہیں آجاتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ملک نے جھوٹ بولا تھا۔

پورے دس گھنٹے بعد ضوریز واپس آیا تھا تو اس کی کار کی پچھلی سیٹ پر رکھا بریف کیس صاف نظر آرہا تھا۔ وہ دس لاکھ ساتھ لایا تھا۔ الوینہ کو لینے آیا تھا۔

ملک لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے قریب آیا اور استہفامیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ضوریز نے کار کی پچھلی سیٹ کی جانب اشارہ کیا۔ ملک نے بیگ پر جھپٹنا چاہا تو ضوریز راستے میں آگیا۔

"لڑکی کہاں ہے؟"

"اندر ہے۔" اس نے صاف جھوٹ بولا اور بیگ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ ضوریز راستے میں حائل تھا۔ اس نے بیگ دور کر دیا۔

"پہلے اسے باہر لاؤ۔"

ملک کے چہرے پر خفگی کے آثار ابھرے۔

"اعتبار نہیں ہے کیا صاحب؟ پیسے دو اور جاؤ لڑکی کو لے آؤ۔"

لیکن ضوریز اسے نہیں سن رہا تھا۔ اس کی نگاہ بے اختیار ہی مکان کے دروازے پر پڑی۔ تالا لگا ہوا تھا لیکن ضوریز کو لگا جیسے وہ مقفل نہیں تھا۔ وہ بے اختیار آگے آیا اور تالے کو ابھی ہاتھ ہی لگایا تھا کہ وہ ٹوٹ کر نیچے گرا۔ وہ ساکت رہ گیا اور ملک کا چہرہ سپاٹ ہو گیا۔

" کہاں گئی ہے وہ؟" وہ دھاڑا اور گھوم کر ملک کی طرف آیا۔ ملک نے گہرا سانس لیا۔

"صاحب، آپ کو چاہیے تھا ناں کہ مجھے۔۔۔"

"وہ کہاں ہے، ملک؟" ضوریز نے ملک گریبان پکڑ کر اسے جھٹکا دیا۔ ملک کی آنکھوں میں ناگواری در آئی تھی۔ ضوریز برابر چنگھاڑ رہا تھا:

"میں نے تھجے دس لاکھ مفت میں مکان کے باہر سگریٹ پینے کے نہیں دے رہا تھا۔ تجھے اس پر نظر رکھنی تھی۔ تجھے اسے اسی مکان میں بند رکھنا تھا۔"

"جانے والے کو کون روک سکتا ہے، صاحب؟" ملک نے کندھے اچکاۓ۔ ضوریز مشتعل تھا:

"وہ کمزور لڑکی تالا نہیں توڑ سکتی۔ تو نے دروازہ کھولا؟ کس لیے کھولا؟" اور اگلے ہی لمحے اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔ ملک ہچکچاتے ہوۓ گردن کھجا رہا تھا۔ ضوریز کی زبان بے اختیار لڑھک گئی: 

"کک۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا کِیا؟"

"وکیل صاحب، تمہاری جو قیدی تھی ناں اس نے۔۔۔"

"کیا کیا اس کے ساتھ؟" ملک کا گریبان ایک بار پھر اس کی گرفت میں تھا۔ وہ اب پاگل ہو رہا تھا۔ اسے جھٹکے پر جھٹکے دے رہا تھا۔ ملک نے اسے ردعمل جان کر بہت دیر تک برداشت کیا۔ عمل برداشت سے باہر ہو گیا تو اس نے ضوریز کو دھکا دے کر ہٹایا تھا:

"بھاگ گئی ہے تیری محبوبہ۔" پوری قوت سے چیخا،

"بھاگتی بھاگتی سڑک پر کسی کار کے نیچے آگئی ہو گی یا جنگل میں ہم دم توڑ گئی ہو گی۔"

ضوریز کا دماغ ماؤف ہو گیا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ وہ ملک کو جان سے مار دینا چاہتا تھا لیکن اعضا منجمد ہو گۓ تھے۔ وہ کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتا تھا۔

قصور اس کا اپنا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال نے نقاہت سے گیراج کی جانب نگاہ اٹھائی تھی۔ اس کی کار غائب تھی اور اسے یقین تھا کہ کہ جب وہ اندر جاۓ گا تو اسے الوینہ نظر نہیں آۓ گی۔ ایک موہوم سی امید دل میں لیے وہ الوینہ کے کمرے میں آیا۔ وہ غائب تھی۔ اس کا فون غائب تھا۔

بلال نے اس پر اعتماد کیا تھا اور وہ اعتماد توڑ گئی تھی۔

"اس نے اپنی خواہش پوری کی ہے۔ جہاں جانا چاہتی تھی، اپنی مرضی سے گئی ہے۔ اس نے اپنی زندگی جینے کی کوشش کی ہے۔ چھوڑ دو بلال۔ تم اپنی زندگی گزارو۔ اپنے کام کرو۔"

وہ کمرے میں آگیا۔ گھڑی اتاری اور کوٹ صوفے پر پھینکا۔ شرٹ اتاری اور شاور چلایا۔ 

"ریلیکس بلال۔ جاتی ہے تو جاۓ۔" اس نے زیرِلب کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔ پانی کے گرم قطرے اس کے ٹھنڈے جسم پر پڑے تو راحت کا احساس ہوا۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر اس نے گردن کی پشت پر رکھے تو بے اختیار ذہن میں آواز گونجی:

"طلاق سے پہلے، طلاق کے بعد، تم کبھی ایڈووکیٹ ضوریز حسن کے در کا رخ نہیں کرو گی۔ لیکن اگر تم نے اس شرط پر عمل نہ کیا، تو تمہیں طلاق دینا تو کیا، میں تمہیں اسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں گا۔" 

بلال نے آنکھیں کھولیں اور خود کو آئینے میں دیکھا۔

شاید وہ دھتکاری گئی تھی اور واپس آنا چاہتی تھی لیکن وہ واپس نہیں آسکتی تھی۔ وہ موت کی طرف خود چل کر کیسے آسکتی تھی۔

بلال نے جھٹکے سے شاور بند کر کے باہر آیا اور شرٹ پہنی۔ ٹیبل سے فون اٹھایا اور عجلت میں سیڑھیاں اترتا باہر کی جانب بھاگا۔ فون پر کوئی نمبر ملا کر اس نے بے خیالی میں شرٹ کے بٹن لگاۓ اور گیراج تک آیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شفق نے نیند سے بیدار ہوتے ہی کمبل اپنے کندھوں تک گھسیٹا تھا۔ خنکی جسم میں اتر رہی تھی اور ٹھنڈ تکلیف کی حد تک اثرانداز ہو رہی تھی۔ کمبل بازوؤں پر لپیٹ کر اس نے احتیاط سے کروٹ لی تو نگاہ ضوریز پر جا پڑی۔

کھڑکی کھلی تھی اور ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔ اس سرد ہوا میں وہ فرش پر بیٹھا تھا۔ شرٹ کے بٹن کھول رکھے تھے اور ہوا اس کے برہنہ سینے پر حملہ زن تھی۔ اس کے آس پاس سے دھویں کے مرغولے اٹھ رہے تھے۔ وہ تکلیف میں تھا اور خود کو مزید تکلیف دے رہا تھا۔

شفق ہولے سے اٹھی اور اس کے پاس آ بیٹھی۔ سردی کا ایک تھپیڑا اس کے جسم میں سنسنی پیدا کر گیا۔ پھر بھلا وہ ٹھنڈ ضوریز پر اثرانداز کیوں نہیں ہو رہی تھی۔

"ضوریز۔ تمہیں ٹھنڈ نہیں لگ۔۔۔؟" اس نے کچھ کہنا چاہا اور پھر اچانک چونکی:

"ضوریز۔" 

وہ رو رہا تھا۔ دو گیلی لکیریں اس کی آنکھوں سے گردن تک کھنچی ہوئی تھیں۔ شفق نے اضطراری انداز میں ضوریز کے رخسار پر ہاتھ رکھا تو اس نے سگریٹ منہ میں دبا لی۔ اسکے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ کش تک نہیں بھر سکا تھا۔

"ضوریز۔" شفق کا دل بری طرح دھڑکا تھا۔ اپنا ہاتھ اٹھا کر اس نے ضوریز کے رخسار پر رکھا تو جلتی سگریٹ بے اختیار اس کی گود میں گری۔ لب بھینچ گۓ:

"مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔" اس کی آواز شکست خوردہ تھی۔ سب کچھ پاکر بھی وہ تہی دامن تھا:

"وہ صرف محبت ہی تو کرتی تھی۔ میرے پیچھے میری لیے ہی تو آرہی تھی۔ مجھ سے مجھے ہی تو مانگ رہی تھی۔ جو میں نے دینے کا وعدہ کیا تھا، اس وعدے کو ہی تو یاد دلا رہی تھی۔ مجھے اسے اتنی بڑی سزا نہیں دینا چاہیے تھی۔ کیا ہوا اگر وہ محبت سے دستبردار ہونے پر رضامند نہیں تھی۔ مجھے،کم از کم مجھے تو اسے محبت کی یہ سزا نہیں دینی چاہیے تھی۔"

دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گال پر پھیل گۓ:

"مجھے اسے سمجھانا چاہیے تھا۔ پیار سے، آرام سے۔ مجھے اسے بتانا چاہیے تھا کہ وہ میری ساتھ محفوظ نہیں رہے گی۔ مجھے اسے یہ سب پیار سے بتانا تھا۔ پر۔۔۔ میں نے کیا کر دیا۔ میں نے کیا کھو دیا۔"

اس نے دونوں ہاتھ گردن کی پشت پر باندھ کر سر جھکا لیا۔ آنسو جلتی سگریٹ پر گرے اور اسے بھجا گۓ۔

"ضوریز۔" شفق نے بیت نرمی سے اس کا گال سہلایا تھا:

"تم۔۔۔ تم روؤ مت۔ تم بس۔۔۔ روؤ مت۔"

وہ ڈر رہی تھی۔ خود رونے لگی تھی۔

"وہ پریگننٹ تھی۔" وہ بولا تو ہونٹ کانپ رہے تھے:

"مجھے غصہ آیا تھا کیونکہ اس نے تمہاری حالت کا خیال کیے بغیر تمہیں دھکا دیا۔ لیکن میں نے اسے ایک اجنبی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا۔ اس نے کیا سہا ہو گا۔ اس کے ساتھ۔۔۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔"

اس کی گردن پر گرفت مضبوط ہو گئی اور سر مزید جھک گیا۔ شفق نے نرمی سے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا:

"ہم اسے ڈھونڈ لیں گے ضوریز۔ ہم اسے واپس لے آئیں گے۔"

"ملک نے کہا وہ مر گئی ہو گی۔ اسی یقین تھا کہ وہ مر گئی ہو گی۔"

"وہ۔۔۔ وہ نہیں مر سکتی۔ وہ۔۔۔ وہ کہیں چھپی ہو گی ضوریز۔ وہ کہیں۔۔۔"

وہ بس کسی طرح ضوریز کو مطمئن کرنا چاہتی تھی۔ ضوریز نے اپنا آنسوؤں سے لبریز چہرہ اٹھایا۔ وہ شفق کو دیکھ رہا تھا۔ دھندلے منظر میں اسے وہ چہرہ بے انتہا معصوم لگا تھا۔ سب بے گناہ تھے۔ خطاکار تو صرف وہ تھا۔

"میں نے ہمیشہ تم سے نفرت کی شفق۔" اپنے آنسو پیتے ہوۓ وہ کہہ رہا تھا:

"پر میں بھول گیا کہ اس رات قصور میرا بھی اتنا ہی تھا جتنا کہ تمہارا۔ تم معصوم تھیں۔ تمہیں نہیں پتا تھا کیا کرنا ہے۔ میں جانتا تھا غلط کیا ہے۔ مجھے روکنا چاہیے تھا۔ میں مجرم تھا شفق۔ پر میں غلط پر اڑا رہا۔ جیسے میں ہمیشہ اڑ جاتا ہوں۔ نتیجہ دوسرے بھگتتے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھی میں اسے معاف کر دوں اور اپنے ساتھ واپس لے اؤں۔ میں نے منع کر دیا۔ اپنی بات پر اڑا رہا اور نتیجہ۔۔۔ نتیجہ اسے بھگتنا پڑا۔"

نیچے ڈوربیل مسلسل بج رہی تھی۔ شفق حیران تھی کہ چوکیدار کہاں مر گیا تھا۔ وہ ضوریز کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی لیکن گھنٹی بجانے والا اتاؤلا ہوا رہا تھا۔ وہ ہولے ہولے چلتی دروازے تک پہنچی۔ ضوریز کا دماغ ماؤف تھا۔ گردن گراۓ، سر جھکاۓ، وہ مسلسل سر نفی میں ہلا رہا تھا، کچھ بڑبڑا رہا تھا۔

"ضوریز۔"

 شفق کی مدہم سی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا۔ شفق اکیلی نہیں تھی۔

"کہاں ہے میری بیوی؟"

غصہ بلال عطاء اللہ کے ماتھے پر ٹھہرا ہوا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضوریز کے لبوں پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔ اس مسکراہٹ میں بھی بلا کا سوز تھا۔ سر نفی میں ہلا کر اس نے پھر جھٹک دیا تھا:

"وہ اب نہیں ملے گی۔ وہ اب۔۔۔ وہ اب کبھی نہیں ملے گی۔"

"اپنا بچہ عزیز ہے کہ نہیں۔"

اس کے دائیں ہاتھ میں پستول تھی، فون تھا اور بائیں ہاتھ سے اس نے شفق کا بازو گرفت میں لے رکھا تھا۔ ضوریز کا سر ہنوز جھٹکا ہوا تھا:

"میں کسی کو نہیں بچا سکتا۔ میرے لیے میرا عزیز بھی کوئی وقعت نہیں رکھا۔ میں شراپ ہوں۔ کسی کو مجھ سے جڑنا نہیں چاہیے تھا۔"

وہ اتھاہ مایوسی میں ڈوبا ہوا تھا۔ بلال نے شفق کا بازو چھوڑا اور کھڑکی تک آیا۔ پستول کا لاک کھولا اور نال ضوریز کے ماتھے پر رکھ دی۔

"ضوریز۔" شفق وہیں فرش پر ڈھیر ہو گئی تھی۔ ضوریز نے بمشکل سر اٹھایا۔ بلال کا چہرہ سپاٹ تھا:

"جھوٹ بولنے سے کیا فایدہ ہو گا ایڈووکیٹ؟" اس کا لہجہ بھی چہرے کی طرح بےتاثر تھا۔

"میری کار کورٹ میں کیا کر رہی ہے، یہ تم سے بہتر مجھے کوئی نہیں بتاۓ گا، کیوں ہے ناں؟"

ضوریز کی آنکھوں میں خالی پن تیر رہا تھا۔ وہ جھوٹ بول کر کیا پا لیتا۔

"میں نے اسے پھنسایا۔" وہ تسلیم کر چکا تھا:

"میں نے اسے اصرار کر کے بلایا اور پھر اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ میں نے اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔"

"اس کا فون کہاں ہے؟"

"توڑ دیا۔" لوٹنے کے سب راستے تو وہ خود مٹا آیا تھا۔ 

"کس جگہ توڑا؟"

اس نے جگہ بتائی۔  بلال نے پستول ہٹاۓ بغیر بائیں ہاتھ سے فون سیدھا کیا، نمبر ملایا اور کان سے لگایا۔ ضوریز دھندلی آنکھوں سے اس آدمی کو دیکھ رہا تھا جو ایک ناکام کوشش کرنے جا رہا تھا۔

"میں نے پاگلوں کی طرح اس جگہ کو ایک ہزار بار چھان مارا ہے۔ وہ مجھے پھر بھی نہیں ملی۔"

اس نے کہنا ضروری سمجھا تھا۔ بلال نے فون کان سے ہٹا کر پستول بھی ہٹا لی تھی۔

"کیونکہ ایڈووکیٹ ضوریز حسن نے صرف الوینہ جہاں داد کو ڈھونڈا۔ مجھے الوینہ جہاں داد کو نہیں ڈھونڈا۔ مجھے اپنی بیوی تلاش کرنی ہے۔ زندہ اور صحیح سلامت۔ جب تک مجھے نہیں ملتی، میں ڈھونڈتا رہوں گا۔ یوں پچھتاوے کے نشے میں ڈوب کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھوں گا۔"

لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ کمرے سے نکل گیا۔ ضوریز کے آنسو خودبخود خشک ہو گۓ تھے۔

"میں نے کہا تھا۔ میں تمہیں محفوظ نہیں رکھ سکتا الوینہ۔" وہ بڑبڑا رہا تھا۔ پچھتاوے کے نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال کے بس میں ہوتا تو وہ کار کو بھی جہاز کی طرح اڑا کے جاتا۔ الوینہ کے فون کی لوکیشن آف تھی، اس کا اتا پتہ نہ تھا۔ وہ کورٹ گئی تھی، یہاں تک وہ جانتا تھا، اس کے آگے سب نشانات غائب تھے۔ وہ اب جنگل سے ملحق سڑک پر کار بھگاتا جا رہا تھا۔ آنکھوں میں اضطراب تھا لیکن چہرہ سپاٹ تھا۔پھر فون کی اسکرین روشن ہوئی اور بیپ کی آواز ائی۔ بلال کی نظریں فون پر مرکوز ہوئیں۔ نیلا دائرہ جنگل میں ایک جگہ ظاہر ہوا تھا۔ بلال کے جیسے جان میں جان آئی۔ سڑک پر سیدھی دوڑتی کار نے بے اختیار موڑ لیا اور درختوں کے درمیان سے گزرتی جنگل کی اونچی نیچی زمین میں اتر گئی۔

اسے الوینہ کا فون مل گیا۔ اسکرین ٹوٹی ہوئی تھی لیکن سم اندر ہی تھی۔ اس نے شدید اضطراب کی حالت میں فون اٹھایا تھا۔

"اور تم کہاں ہو الوینہ؟" وہ زیرِ لب بولا۔ اسے تلاش جاری رکھنی تھی۔ آگے بڑھتے رہنا ہی تھا۔ اس نے فون کی ٹارچ روشن کی اور جنگل میں آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک بار دو بار، تین بار اور کرنی ہی بار اس نے پورے جنگل کا چکر کاٹا لیکن الوینہ جہاں داد کا نام و نشان نہیں تھا۔

وہ تھک ہار کر برگد کے نیچے آبیٹھا۔

"میں نے پاگلوں کی طرح اس جگہ کو ایک ہزار بار چھان مارا ہے۔ وہ مجھے پھر بھی نہیں ملی۔"

پاگل؟ ہاں وہ اب پاگل ہی ہوا چاہتا تھا۔ الوینہ جہاں داد کو ڈھونڈنا جیسے ضد بن گئی تھی۔ ادھر سے ادھر، اُدھر سے اِدھر وہ نان سٹاپ گھوم رہا تھا۔ یہ کوشش بھی بے سود تھی۔ وہ کہیں بھی نہیں تھی۔

جنگل کے وسط میں اس نے گھنٹوں پر ہاتھ رکھے اور حلق کے بل چیخا۔ ایک بار، دو بار اور تین بار۔۔۔

تبھی یکلخت سامنے آہٹ ہوئی۔ وہ کوئی چھوٹا جانور تھا جو سہم کر جھاڑی سے نکلا تھا اور بھاگا تو بے اختیار گڑھے میں گرا تھا۔ گر کر فوراً اٹھا اور جست لگا کر ایک طرف کو نکل گیا۔

بلال کی زندگی اس ایک پل پہ اٹک گئی۔ چند میٹروں کا فیصلہ طے کرنے میں اس نے کئی منٹ لگا دیے۔ ہولے ہولے چلتا وہ گڑھے کے قریب آیا تو مٹی میں بہتا سرخ سرخ پانی پہلی نگاہ میں ہی نظر آگیا تھا۔ وہ گڑھے میں اترا تو جوتے اس لال لال مٹی سے بھر گئی۔

اور وہ وہاں تھی۔

 برگد کی پھیلی ٹہنیوں نے اسے چھپا رکھا تھا۔ سر تنے پر ٹکاۓ، وہ آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ سفید فراک لال تھی۔ وہ خون سے سنی ہوئی تھی، مٹی سے داغدار ہوئی تھی۔ آہٹ پا کر اس کی آنکھوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ بلال ساکت و جامد کھڑا تھا۔ پھر آہستگی سے گھٹنوں پر بیٹھا اور سپاٹ آنکھوں سے اسے دیکھا۔

"کیا کہا تھا میں نے؟" اس کے لہجے سے وحشت ٹپک رہی تھی:

"کہ اگر گھر سے باہر قدم بھی رکھا تو میں کیا کروں گا؟"

الوینہ کو سینے میں گھٹن محسوس ہوئی۔ دھندلی آنکھوں سے اس نے دیکھا کہ پسٹل کی نال اس کے سینے پر تھی۔ اس کے مضطرب تاثرات میں اعتدال سا آگیا اور اس نے دوبارہ آنکھیں موند لیں۔

اس کا انتظار ختم ہوا تھا۔ موت آپہنچی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اپنے اردگرد صرف اندھیرا محسوس کر سکتی تھی۔

ناگوار سی بو اس کے آس پاس پھیلی تھی۔ گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی یا شاید وہ مانیٹر کے بیپ کی آواز تھی۔ کہیں پانی گر رہا تھا، یا شاید وہ ڈرپ میں میں گرتا فلوئڈ تھا۔ ایک مبہم سا شور کانوں میں گونج رہا تھا یا شاید دوسرے کمروں میں کراہتے مریضوں کی آواز تھی۔

اسے اس اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ مضطرب تھی، ہاتھ پاؤں ہلانا چاہ رہی تھی لیکن جسم ساتھ دینے سے انکاری تھا۔ وہ خوفزدہ تھی، دہشت زدہ تھی اور تبھی اندھیرے میں روشنی سی ٹمٹمائی۔ فضا مہکنے لگی۔ اسے اپنی پیشانی پر نرم گرم سے لمس کا احساس ہوا اور شعور یکلخت بیدار ہوا۔

وہ ہسپتال میں تھی۔ آنکھیں بند تھیں اور مہیب اندھیرا آنکھوں کے سامنے چھایا تھا لیکن وہ اکیلی نہیں تھی۔ چرچراہٹ سے اسے معلوم ہوا کہ کوئی کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب بیٹھا تھا۔ اس کا وجود پرفیوم سے مہکا ہوا تھا، وہ اس کے وجود کو بھی مہکا رہا تھا۔ وہ اس خوشبو سے واقف تھی۔ وہ یہ مہک بھی پہچانتی تھی۔

"یو لاسٹ یوئر بے بی۔ (تم نے اپنا بچہ کھو دیا)۔" وہ اس سے پوچھ رہا تھا، یا بتا رہا تھا۔ الوینہ نے یونہی خود کو ٹٹولا۔ وہ صرف اپنی دھڑکنوں کو محسوس کر سکتی تھی۔ باقی سب پرسکون تھا۔

"ڈاکٹرز نے شفق کو اگلے ہفتے کی ڈیٹ دی ہے۔ اس کا بچہ صحت مند ہے مگر وہ خود بہت کمزور ہے، ڈر جاتی ہے، درد سے گھبرا جاتی ہے۔ کل رات وہ درد سے بے چین ہو رہی تھی۔ صرف علامتی تکلیف سے ہی وہ اس قدر بے چین تھی کہ میں پریشان ہو گیا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ تم نے کیا برداشت کیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ تم نے کتنا درد سہا۔"

درد۔۔۔ ہاں وہ درد محسوس کر سکتی تھی، ٹانگوں میں، پیٹ میں، جسم میں، ہر جگہ درد تھا۔ بے حساب درد تھا۔

"میں غلط تھا۔" وہ ہولے ہولے کہہ رہا تھا:

"میں سمجھ نہیں سکا کہ میں زیادتی کر رہا تھا۔ میں نے تمہیں تکلیف سے دوچار کیا۔ میں نے تمہیں آزار پہنچایا۔ مجھے اس کے لیے معاف کر دینا الوینہ۔ مجھے ہر چیز کے لیے معاف کر دینا۔"

اس نے الوینہ کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا:

"تم کہتی تھیں کہ میں اب لوگوں سے ڈرتا کیوں ہوں، تم مجھے کہتی تھیں کہ میں اپنا حق پانے سے ہچکچاتا کیوں ہوں؟ میں ایسا نہیں تھا الوینہ۔ میرے دوستوں کا سوشل سرکل بہت وسیع تھا۔ میرے فرینڈز، میرے ٹیچرز، مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ میں loveable بن گیا ہے۔ سب کی نظروں میں credible ہو گیا تھا۔ لیکن شفق سلیمان کو ایکسپلائیٹ کرنے کے بعد، جسٹس سلیمان سے ڈرنے کے بعد میں، میں نہیں رہا۔ وہ مجھے ہر دن اس بات سے ڈراتے کہ وہ مجھے باآسانی ایک گھناؤنے جرم میں پھنسا کر لوگوں کی نظروں میں گرا سکتے ہیں۔ میں جانتا تھا میں نے شروعات نہیں کی، ان کی بیٹی پر نظر نہیں رکھی مگر کہیں نہ کہیں اس سب میں غلطی میری بھی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے ان کی بات نہیں مانی تو میں اپنی lovability اور credibility کھو دوں گا۔ میں سہما ہوا تھا، تنگ آیا ہوا تھا۔ مجھے کسی ایسے کی ضرورت تھی جو میری بات سن سکے، کوئی ایسا جو مجھے سمجھ سکے۔"

وہ اب نرمی سے الوینہ کا ہاتھ تھپک رہا تھا:

"مجھے وقت گزارنا تھا تو میں نے تمہیں اپنی وقت گزاری کا حربہ بنایا۔ مجھے ان سب نپٹنا تھا تو میں نے تمہیں اپنی ڈھال بنایا۔ میں اپنے لیے اسٹینڈ نہیں لے سکتا تھا، کبھی خود سے اپنے باپ کے سامنے بات نہیں کر سکتا تھا اس لیے میں نے تمہیں خود سے اس قدر جوڑ لیا کہ جب سب مجھ سے نفرت کرنے لگیں اور میری حقیقت جان جائیں تو تم، کم از کم تم تو مجھ سے محبت کرتی رہو لیکن۔۔۔" اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ 

"I swear that I loved you by heart too, Alvina..."

اس کی بند آنکھوں کو دیکھتا، وہ کہہ رہا تھا:

"تم ذہین تھیں، بہادر تھیں، اور کسی بھی دوسری لڑکی سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں۔ شاید میں نے تمہیں استعمال کیا الوینہ، پر تم کبھی نہیں جان سکتیں میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں۔ تم چاہتی ہو میں تمہیں اپنا لوں، میں تمہیں آج اپنا لوں۔۔۔ پر دنیا ہم دونوں کو ایک ساتھ نہیں رہنے دی گی الوینہ۔"

وہ اب اس کا ہاتھ چھوڑ کر اس کی پیشانی پر اپنی ہتھیلی رکھے ہوۓ تھا:

"مجھے پتا ہے تم جاگ رہی ہو۔ مجھے پتا ہے تم سب سن رہی ہو اور سب سن کر سوچ رہی ہو کہ میں معافی کیوں مانگ رہا ہوں۔ تم سوچ رہی ہو کہ میں اب بھی تمہیں اپنانے کی بجاۓ بس معافی مانگ رہا ہوں۔ تم جانتی ہو میرا یہی فیصلہ بہترین ہے۔ تمہارے لیے، میرے لیے اور سب کے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم الگ ہو جائیں الوینہ، پوری زندگی کے لیے، ہمیشہ کے لیے۔۔۔" 

دو آنسو الوینہ کی بند آنکھوں سے نکلے اور بہتے ہوۓ کنپٹی کو بھگو گۓ۔ ضوریز نے افسردگی سے ان موتیوں کو دیکھا تھا:

"میں نے کہا کہ میں نے تم سے محبت نہیں کہی، میں نے جھوٹ کہا۔ میں نے کہا کہ تم نے مجھے رسوا کیا حالانکہ تم نے ہمیشہ میرا بھرم رکھا۔ میں یہ یہ بھی جھوٹ کہا۔ میں نے کہا کہ تم نے مجھے بے عزت کیا۔ میں نے یہ بھی جھوٹ کہا۔ تو تم ایک جھوٹے شخص کے ساتھ رہنا ڈیزرو نہیں کرتیں۔ تم جیسی وفادار لڑکی مجھے ڈیزرو ہی نہیں کرتی۔" اس کے آنسوؤں کو انگلیوں کے پوروں سے صاف کرتے ہوۓ اس نے نرمی سے کہا:

"میں اگلے ہفتے ایل ایل ایم کے لیے شفق کو ساتھ لے کر جرمنی جا رہا ہوں۔ دنیا بہت چھوٹی ہے الوینہ، ہم دور بھی چلے گۓ تو زندگی میں کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے ضرور ملیں گے۔ ہمیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا الوینہ کیونکہ تب تک ہم ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ چکے ہوں گے۔ ہم ایک دوسرے  کو بھلا چکے ہوں گے۔"

پیشانی پر بکھرے اس کے بال ہٹا کر وہ اٹھا:

"الوداع الوینہ۔"

 چرچراہٹ کی آواز گونجی اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ بہت دیر یونہی گزر گئی۔ پھر الوینہ نے آہستگی سے بند آنکھوں کو کھولنا چاہا۔ چپکی پلکوں کو علیحدہ کیا تو ہسپتال کا کمرہ اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ منظر دھندھلا رہا تھا، گھوم رہا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے

وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست 

فضا میں چارلس کیلون کے پرفیوم کی مہک کا عنصر ابھی تک موجود تھا۔ الوینہ آنکھیں کھولے چھت کو گھور رہی تھی اور نمی ابھی تک ان جھیلوں میں تیر رہی تھی۔

بے اختیار ہی سر گھما کر اس نے آنکھیں دروازے پر مرکوز کیں تو گلاس وال ہے اس طرف اسے بلال نظر آیا۔ وہی سپاٹ چہرہ، سپاٹ انکھیں۔۔۔

اس نے الوینہ کو آنکھیں کھولے دیکھا اور منہ پھیر لیا۔

پھر یوں ہوا کہ راحتیں کافور ہو گئیں

پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہو گئیں

اس کا بچہ ضائع ہو گیا تھا، بلندی سے گرنے کے سبب پاؤں میں موچ آئی تھی، بائیں ٹانگ حرکت پر درد کر رہی تھی، سر کا پچھلا حصہ زخمی تھا اور وہ سر کو جنبش بھی دیتی تو تکلیف کا ایک طوفان اس پر حمہ زن ہوتا۔

اسے بس ایک مخصوص پوسچر میں لیٹے رہنا تھا۔

خود پر افسوس کرنا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہو گۓ

پھر یوں ہوا کہ شہر بیابان ہو گۓ

بیڈ کے ایک طرف پھپھو تسبیح لیے بیٹھی تھیں، دوسری جانب ہانیہ اپنا تین ماہ کا بیٹا گود میں لیے، اس کے لیے سوپ بنا رہی تھی۔ حنان ان دو عورتوں کو ہسپتال چھوڑ کر، سرسری سی عیادت کے بعد لوٹ گیا تھا۔ پھپھو کے وظیفے کی آواز بلند ہو رہی تھی، ہانیہ کے بیٹے کی رونے کی آواز گونج رہی تھی لیکن الوینہ کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

اس کے لیے شہر بیابان بن گیا تھا۔ 

پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر گئی 

پر یہ نہ کھل سکا پسِ دیوار کون تھا

ہسپتال کا بیڈ کمرے کے بیڈ سے بدل گیا۔ پھپھو کے ہاتھ میں تسبیح کی بجاۓ سوپ کا پیالہ نظر آیا۔ ہانیہ کے پہلو میں اس کے بیٹے کی بجاۓ کنزیٰ نظر آئی۔ سب الوینہ کے لیے متفکر تھے۔ سب اس کی صحت مندی کے خواہاں تھے اور اسے صحت مند دیکھنا چاہتے تھے۔

الوینہ نے سر گھمایا۔

سب اندر اس کے پاس تھے لیکن بلال باہر تھا۔ وہ ایک بار بھی اندر نہیں آیا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ وقت کے تیور بدل گۓ

پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گۓ

اس کا کمرہ اب ویران تھا۔ ہانیہ کو منان لے گیا تھا اور پھپھو حنان کے ساتھ گھر چلی گئی تھیں۔ وہ اکیلا محسوس کر رہی تھی۔ کنزیٰ اس کے پاس تھی لیکن وہ بھی تھک ہار کر سو گئی تھی۔ الوینہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی، اس نے پھر سر گھمایا۔

نیم کھلے دروازے سے اسے بالکونی سے نیچے جاتی سیڑھیوں پر بیٹھا بلال نظر آرہا تھا۔ الوینہ کا شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ وہ اندر آجاۓ۔ وہ اندر تو کیا، کمرے کے قریب بھی نہیں آیا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ گردشِ دوراں میں گھر گۓ

پھر یوں ہوا کہ وہ بھی ہمارا نہیں رہا

ڈاکٹر اس کے ہفتہ وار چیک اپ کے لیے آئی تھی۔ اس کے سر میں درد نسبتاً کم تھا لیکن ٹانگ ابھی چلنے کے قابل نہیں تھی، جسم حرکت کرنے کے قابل نہ تھا۔ ڈاکٹر اسے ریسٹ کی تاکید کر کے، بلال کو ضروری ہدایات دے کر کمرے سے نکل گئی۔

وہ کچھ دیر کمرے میں پشت پر ہاتھ باندھے کھڑا رہا، پھر پلٹ گیا۔ الوینہ نے اس کا نام پکارنا چاہا لیکن حلق سے آواز تک نہیں نکل سکی۔ وہ شدید قسم کے پچھتاوے کا شکار تھی، شاید معافی کی طلبگار تھی لیکن اسے آواز نہیں دے سکی۔

پھر یوں ہوا کہ جھوٹ کی عادت سی ہو گئی

پھر یوں ہوا کہ سچ کو چھپانا پڑا مجھے

"بلال کو میں نے منع بھی کیا تھا۔" پھپھو اکثر کہتی تھیں:

"میں نے اسے کہا تھا صبر سے کام لے۔ تجھے تیری مرضی سے جینے دے اور لڑائی جھگڑے سے باز رہے۔ وہ تجھے یہاں تک لے آیا۔ میں تجھے یہاں تک لے آئی۔" پھر وہ الوینہ کا گم سم سا چہرہ دیکھ کر کہتیں:

"تو روتی کیوں نہیں ہے الوینہ؟" پھپھو نے بہت بار اس کی پیشانی تھتھپاتے ہوۓ کہا تھا،

"جاثیہ کا مس کیرج ہوا تھا تو وہ بہت روئی تھی۔ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ سارا غم نکال کر سکھی ہو گئی تھی۔ تو ایک بار رو لے۔ جی بھر کر رو لے۔ سارے غم دور ہو جائیں گے، سب درد ختم ہو جائیں گے۔" 

پہلے تو انتظار میں آنکھیں چلی گئیں

پھر یوں ہوا کہ جان سے جانا پڑا مجھے

وہ اس کی دوائیاں سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر گیا تھا۔ پانی کا جگ خالی تھا۔ بلال نے اسے بھرا اور گلاس دوبارہ دھو کر سرہانے رکھا۔ اس دوران الوینہ اسے دیکھتی رہی تھی۔ وہ دائیں تھا تو دائیں طرف سر گھما رہی تھی۔ بائیں جانب تھا تو وہ بائیں جانب گھوم گئی تھی۔ پھر اپنے گیلے ہاتھ اپنی ہی شرٹ سے خشک کرتے ہوۓ وہ نکل گیا۔ الوینہ نے پوری ہمت سے لبوں کو جوڑا۔

"بلال۔" 

وہ رک گیا اور پلٹ کر دیکھا لیکن اس کا سر جھکا تھا۔ نظریں جھکی ہوئی تھیں۔

"کچھ چاہیے؟" سپاٹ سے لہجے میں پوچھا۔ الوینہ کا سر سختی میں نفی میں ہل گیا۔ بلال نے نیم رخ سے اس کا سر نفی میں ہلتا دیکھا اور باہر آگیا۔ باہر آکر اس نے لمحہ بھر کے لیے اندر جھانکا۔ 

وہ ابھی تک سختی سے آنکھیں بھینچے مسلسل نفی میں سر ہلاۓ جا رہی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا

پھر یوں ہوا کہ خواب سجاۓ تمام عمر

اسے سب یاد آرہا تھا۔

وہ سویمنگ پول میں گرنے لگی تھی اور ضوریز نے ایک جھٹکے سے اسے تھام لیا تھا۔

وہ کچن ٹیبل سے ٹیک لگاۓ کھڑی تھی اور ضوریز دیوانگی کے عالم میں اس کے ہونٹ چوم رہا تھا۔

وہ سڑک پر گھٹنوں کے بل بیٹھی، ہاتھ ہھیلاۓ رو رہی تھی اور ضوریز نے اس کو سختی سے بھینچ کر سینے سے لگا لیا تھا۔

وہ آگ بگولا ہوئی جاتی تھی لیکن ضوریز نے نرمی سے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے مطمئن کرنا چاہا تھا۔ 

پھر یوں ہوا کہ فاصلے بڑھتے چلے گۓ

پھر یوں ہوا کہ رنج بھلاۓ تمام عمر

ضوریز نے پوری قوت سے اس کے طمانچہ رسید کیا تھا۔

وہ ضوریز کا بازو تھام رہی تھی لیکن وہ اسے دھکا دے کر چلا گیا تھا۔

وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی لیکن وہ اسے بے وفائی کا طعنہ دے گیا تھا۔

ملک اس کے کپڑے پھاڑ رہا تھا، وہ ضوریز کو بلا رہی تھی لیکن وہ اس پاس نہیں تھا۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تو بیک وقت ٹانگ میں درد بھی ہوا اور گردن میں خم بھی آیا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور وہ سہمی ہوئی تھی۔ وہ ان خوابوں سے نجات حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ غم سے ابھر نہیں پا رہی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ دل سے اترتا گیا وہ شخص

پھر یوں ہوا کہ جان سے پیارا نہیں رہا

"ایڈووکیٹ ضوریز حسن، این ادر وکٹری (ایک اور فتح)"

اخبار کی شہہ سرخی دیکھ کر وہ یہ سوچنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی کہ اخبار کہاں سے آیا۔ بے خیالی میں گم صُم بیٹھی وہ بس جگ کے نیچے دبے اخبار کو گھور رہی تھی۔ بہت تکلیف سے آگے کھسک کر اس نے اخبار اٹھایا اور شناسا سا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ اس کی جاودانی مسکراہٹ الوینہ کی نظروں کے سامنے تھی۔ اس کا چہرہ الوینہ کے سامنے تھا۔

"تمہارے لیے، میرے لیے اور سب کے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم الگ ہو جائیں الوینہ، پوری زندگی کے لیے، ہمیشہ کے لیے۔۔۔" 

اس کا جملہ الوینہ کے ذہن میں گونجا تو عین وقت پر دو آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ کتنا روئی لیکن اخبار گیلا ہو گیا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ جیت کے قابل نہیں رہے

پھر یوں ہوا کہ مجھ کو بھی ہارنا پڑا

کار کے ہارن کی آواز سن کر اس کا گردشِ خون بڑھ گیا۔ جسم میں درد ہونے لگا۔ اس کی پشت گیٹ کی جانب تھی۔ اس پر مستزاد کرسی میں دھنسی ہوئی وہ چھپ سی گئی تھی۔ پھپھو اس کے سامنے تھیں، ان کی نگاہیں گیٹ سے اندر آتے بلال پر ٹکی تھیں۔وہ سیدھا پھپھو کے پاس آیا سر ڈر جھکایا، پھر یکلخت چونک سا گیا۔

"ماشاءاللہ لاؤنج سے لان تک میرا سہارا لے کر، چل کر آئی ہے میری الوینہ۔" پھپھو خوشی سے بتا رہی تھیں۔ الوینہ کرسی پر بیٹھی تھی لیکن ٹانگیں سیدھی کر کے ٹیبل پر رکھی تھیں۔ چہرہ اترا ہوا تھا لیکن پچھلے کچھ مہینوں کے مقابلے میں وہ آج بہتر نظر آرہی تھی۔ وہ نگاہ اٹھا کر بلال کو دیکھ نہیں سکی۔

وہ اب ہار چکی تھی۔ اور ہارا ہوا شخص کبھی سر اٹھانے کہ ہمت نہیں کر سکتا۔

پھر یوں ہوا کہ چاہنے کی چاہت نہیں رہی

خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی

حنان کا فون آیا تھا اور پھپھو وہ سننے اندر گئی تھیں۔ پھر اندر ہی نماز پڑھنے لگیں، اندر ہی مصلے پر  بیٹھی رہ گئیں۔ بلال فون پر نظریں ٹکاۓ لان میں بیٹھا رہا۔ الوینہ نظریں جھکاۓ، کرسی کی ہتھی کھرچتی رہی۔ شام کی تاریکی بڑھنے لگی تو ٹھنڈ اس کی ہڈیوں میں اترنے لگی۔ تکلیف سے بے قرار ہو کر اس نے پہلو بدلنا چاہا تو بلال نے سکرین پر سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

پھر وہ اٹھا اور فون پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا۔ ایک بازو الوینہ کے سر کے نیچے کے رکھا اور کسی قدر جھکا۔ دوسرا اس کی ٹانگوں کے نیچے سے گزارا اور اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔ الوینہ کی نگاہیں ابھی تک جھکی تھیں۔⁦ لاؤنج سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کی بجاۓ وہ نچلی منزل پر ہی واقع گیسٹ روم میں آیا اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔

"جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتیں، یہیں گیسٹ روم میں کو اپنا روم بنا لو۔ تمہارے چارہ گروں کو اوپر نیچے آنے کی دشواری نہیں ہو گی۔"

وہ کہہ رہا تھا اور الوینہ مسلسل اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ اس نے الوینہ کو آنکھ بھر کر تو کیا، ایک بار غلطی سے نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔

پھر یوں ہوا کہ وعدہ وفا نہ وہ کر سکا

پھر یوں ہوا کہ دیپ جلاۓ تمام عمر

"وعدہ کرو ضوریز۔ تم کبھی اس عورت کی خواہش نہیں کرو گے، اس کے قریب بھی نہیں جاؤ گے۔"

"میں مجبور تھا الوینہ، وہ سب چاہتے تھے کہ ہمارا ایک بچہ بھی ہو۔"

وہ ایک بار پھر چیخ مار کر اٹھی تھی۔ پھر ہوش میں آنے تک چیخیں مارتی رہی تھی۔ آنسو خودبخود بہتے چلے آۓ تھے، جسم چیخ کے ساتھ ہی لرزا تو ٹانگ میں درد کی شدید لہر اٹھی۔ باہر لاؤنج میں لیٹا بلال جھٹکے سے اٹھا اور اس کے کمرے میں آیا۔ وہ نیند میں ڈر کر جاگ گئی۔ بس اتنا ہی مسئلہ تھا۔ بس یہی ہوا تھا۔

وہ ایک نظر الوینہ کو دیکھ کر لوٹ گیا اور اور الوینہ روتی رہی۔ بلکتی رہی۔

پھر یوں ہوا کہ نکلے کسی کی تلاش میں 

پھر یوں ہوا کہ خود کو نہ پاۓ تمام عمر

الوینہ محسوس آکر سکتی تھی کہ ہانیہ پچھلے کئی گھنٹوں سے اس کا سر دبا رہی تھی۔ اکڑوں بیٹھی، وہ کبھی نرمی سے اس کی ٹانگیں دبانے لگتی تو کبھی اس کا سر دبا دیتی۔ اس کا بیٹا الوینہ کے قریب ہی ایک طرف بے سدھر سو رہا تھا۔ اس دوران وہ کمر سیدھی کرنے کی بجاۓ الوینہ کی تیمارداری میں مصروف تھی۔

وہ تھک گئی تو دروازے میں پھپھو ظاہر ہوئیں۔ ہانیہ اٹھ گئی اور پھپھو اس کی جگہ پر آبیٹھیں۔ اب وہ الوینہ کے سرہانے بیٹھیں اس کا سر دبا رہی تھیں، ساتھ ہی ساتھ کچھ پڑھ کر اس پر دم بھی کر رہی تھیں۔  

وہ سب اس کے مسیحا بنے ہوۓ تھے، وہی جو پہلے اس کا دل کاٹ کر رکھ گۓ تھے۔

اس نے رخ موڑ کر بالکونی میں مخصوص انداز میں بیٹھے بلال کو دیکھا۔

وہ پہلے اس کا مسیحا ہوا کرتا تھا، وہ اب اس کا دل کتر کتر کر پھینک رہا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ درد کا یارا نہیں رہا

پھر یوں ہوا کہ کوئی سہارا نہیں رہا

جاثیہ کی ڈیلیوری کی تاریخ قریب تھی، اسی لیے پھپھو واپس چلی گئیں⁦۔ یوں بھی وہ چھے مہینے کی مسلسل تیمارداری سے تھک گئی تھیں، آرام چاہتی تھیں۔ الوینہ کو اس اجنبی سے گیسٹ روم میں ڈر لگتا تھا، رات کو خوف کی انتہا ہوتی تھی۔ وہ خوابوں سے ڈر کر جاگ جاتی تھی، نیند میں چلا اٹھتی تھی۔

وہ اس رات بھی چیخ مار کر اٹھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ بلال کمرے میں تھا۔ پانی کا جگ بھر کر اس کے سرہانے رکھ رہا تھا۔ بلال کو دیکھ کر اس کی چیخ دب گئی تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر پلٹ گیا۔

"بلال۔" سونے جاگنے کی مبہم سی کیفیت میں الوینہ نے اس کا بازو تھام لیا تھا:

"مت جاؤ۔ میرے پاس سے۔۔۔ مت جاؤ۔"

وہ الوینہ کو دیکھتا رہا، پھر اپنا بازو چھڑایا اور متناسب چال چلتا کمرے سے نکل گیا۔

پھر یوں ہوا کہ ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا

ثابت ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں

ہمیشہ کی طرح اس نے چیخ ماری تھی اور یوں سہم کر اٹھی تھی کہ بے اختیار بستر سے گر گئی تھی۔ ٹانگ پر جسم کا وزن آیا تو الوینہ کی جان نکل گئی۔⁦ ایک دلدوز چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ ہاتھ میز پر جا پڑا تو پانی سے بھرا جگ اس پر آن پڑا۔ وہ مزید سمٹ گئی، مضطرب ہو گئی۔

لاؤنج میں لیپ ٹاپ لے کر بیٹھے بلال نے بس ایک نظر اسے دیکھا۔

پھر یوں اپنے لیپ ٹاپ پر جھک گیا جیسے اس کی سسکیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ الوینہ سہمی سہمی سی بیڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی۔ ٹھنڈے موسم میں وہ ٹھنڈے پانی میں نہا گئی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ درد نے جاگیر بنا لی

پھر یوں ہوا کہ درد مجھے راس آگیا

ڈاکٹرز نے اس کے لیے کئی مشقیں تجویز کی تھیں۔

بلال نے ایک دو بار اس کو پکڑ کر چلانا چاہا تو وہ منہ کے بل گری تھی۔ تین چار دن وہ گرتی رہی تو بلال نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ جب تک وہ خود ہمت نہیں کرتی، کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ شام ڈھلے وہ آفس سے واپس آیا تو کار سے اترتے ہی اس کی نظر لان میں کرسی سے اٹھتی الوینہ پر پڑی۔ وہ شاید اندر جانا چاہ رہی تھی۔ دونوں بازوؤں کو پھیلاۓ، وہ درد ضبط کیے، بہت ہمت سے قدم اٹھا رہی تھی۔ تین قدم بمشکل چلی تھی کہ دھڑام سے گھاس پر گری۔ ایک سسکی اس کے حلق سے برآمد ہوئی۔

پلٹ کر اس نے دیکھا تو بلال اسے دیکھ رہا تھا۔ 

پھر یوں ہوا کہ دنیا کو بھی چھوڑنا پڑا

پھر یوں ہوا کہ رونقوں میں شامل نہیں رہے

شادی کے دو سال بعد جاثیہ نے بیٹے کو جنم دیا تو جہاں داد محل میں عظیم الشان پارٹی رکھی گئی تھی۔ الوینہ جانا چاہتی بھی تھی اور نہیں بھی۔ لیکن دکھ اسے تب ہوا جب بلال خود تیار ہو کر، اسے کسی لاوارث کی طرح گیسٹ روم کے بیڈ پر لٹا کر، کمرہ لاک کر کے خود تقریب میں شامل ہونے چلا گیا۔

الوینہ دیر تک آنسو بہاتی رہی لیکن وہ تقدیر کا لکھا نہیں بدل سکتی تھی، یہ پیڑ اس نے بویا تھا، اسے ہی کاٹنا تھا۔ 

پھر یوں ہوا کہ درد کی لذت بھی چھن گئی 

اک شخص موم سے مجھے پتھر بنا گیا

اس نے دیکھا کہ ملک اس کے کپڑے پھاڑتے ہوۓ اسے مکان میں کھینچ رہا تھا۔ دلدوز چیخ مار کر وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں ملک کو دیکھ کر الوینہ نے فلک شگاف چیخ ماری۔ چیخیں مارتے وہ باہر بھاگی۔ ٹانگیں دہلیز پر ہی جواب دے گئیں اور وہ گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم سے باہر آئی۔ بلال کی نیند میں زبردست خلل آیا تھا۔ الوینہ فرش پر کہنیاں ٹکاۓ تو رہی تھی۔ بلال یکلخت آگ بگولا ہوا تھا۔

"تمہارا یہ رونے دھونے کا سلسلہ کب ختم ہو گا؟" وہ اٹھ آیا تھا اور اب اس کے بازو جھجھوڑ رہا تھا:

"الوینہ کیا میری زندگی تم نے پہلے کم اجیرن کر رکھی تھی جو اب مجھے تمہاری تیمارداری کے ساتھ ساتھ تمہاری babysitting بھی کرنی پڑتی ہے۔"

"وہ۔۔۔ وہ اندر ہے۔۔۔ اندر۔۔۔ اندر ہے۔" وہ گردان دہرا رہی تھی۔ بلال نے جھنجھلا کر اس کا بازو کھینچا اور اسے کھینچتے ہوۓ کمرے میں لے کر گیا۔ وہ فرش پر لڑھکتی اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی۔

 'کون مردود ہے یہاں؟" وہ پوری قوت سے دھاڑا تو الوینہ نے دیکھا، وہاں واقعی کوئی نہیں تھا۔

پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے

پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھاۓ تمام عمر

"مجھے۔۔۔ مجھے معاف کر دو بلال۔" وہ خود کو بے بس پا کر اس کے قدموں میں گر گئی تھی۔ آنسو اتنے بہہ چکے تھے کہ مزید گیلے چہرے سے لڑھکتے ہوۓ یہاں وہاں گر رہے تھے۔ بلال نے محض اس کو دونوں بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پر قریب قریب پٹخ دیا۔

"تم اس کمرے سے ایک قدم بھی باہر نہیں رکھو گی۔ تم کبھی اس گھر سے باہر نہیں جاؤ گی۔" اس کا بازو کھینچ کر، انگلی اٹھا کر وہ دھمکا رہا تھا۔ الوینہ سہمی سہمی سی سر نفی میں ہلا رہی تھی:

"نہیں جاؤں گی، نہیں جاؤں گی۔"

لیکن بلال کا غصہ اکثر خطرناک ثابت ہوتا تھا۔ 

"تم مجھے اب کہیں جا کر تو دکھاؤ الوینہ۔ تم میرے سامنے زبان چلا کر تو دکھاؤ۔" وہ بیڈ پر ادھر ادھر لڑھکتے ہوۓ نفی میں سر ہلا رہی تھی، خود کو بچا رہی تھی لیکن بلال کی شدتیں جاری تھیں۔ اس کا سارا غصہ جائز صورت میں نکل رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اسے بے بس پا کر بانہوں میں لیے اپنے سارے ارمان پورے کر رہا تھا، اس کی تکلیف کی پرواہ نہیں کر رہا تھا۔ اس کو بری طرح توڑ کر وہ اٹھا اور گیسٹ روم سے باہر نکل آیا۔ الوینہ پیچھے بے کمرے میں بے سدھ پڑی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ جھوٹ مجھے بولنا پڑا

کہ مجھ کو اس سے اب محبت نہیں رہی 

بلال نے ابھی پلکیں جھپکی ہی تھیں کہ اسے صوفے کے قریب الوینہ کا چہرہ نظر آیا۔ وہ آنکھیں مسلتے ہوۓ اٹھا تو دیکھا الوینہ فرش پر بیٹھی تھی۔ نظریں جھکاۓ، وہ انگلیاں چٹخ رہی تھی، ہونٹ کانپ رہے تھے، گیلے بال چہرے سے چپک رہے تھے۔ وہ خود بھی کانپ رہی تھی، جیسے وہ کچھ کہنے آئی تھی، کچھ کہنا چاہتی تھی۔

وہ صوفے پر آٹھ بیٹھا تو الوینہ نے سر اٹھایا، پلکیں جھکا لیں۔ 

"مجھے۔۔۔ مجھے یہ چاہیے۔" ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہہ کر اس نے چٹ ہوکے سے آگے بڑھا دی تھی۔ بلال کی آنکھیں رت جگے کے سبب سوجی ہوئی تھیں۔ اس نے چٹ پکڑی اور پڑھ کر ایک طرف رکھ دی۔ 

"آجاۓ گا۔" روکھے سے لہجے میں کہا تو الوینہ کا سر جھکا رہا۔ ہونٹ مزید کانپنے لگے۔ بلال نے کچھ سخت سست کہنا چاہا لیکن کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے سنا، الوینہ کہہ رہی تھی:

"میں کہیں نہیں جاؤں گی، کہیں نہیں بھاگوں گی۔ مجھے۔۔۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ کچھ۔۔۔ کچھ نہیں چاہیے۔" سر جھکا کر وہ کہہ رہی تھی اور ہتھیلیاں گیلی ہوتی جا رہی تھیں۔ اسے ادراک تھا کہ بلال دیکھ رہا تھا، تبھی تو اس نے سر مزید جھکا لیا تھا۔ 

بلال صوفے سے اٹھا اور اس کے قریب آیا۔ الوینہ نظریں جھکائی بیٹھی رہی۔ بلال کے لبوں نے اس کی ناک کی پھننگ کو چھوا۔

"تمہاری بھلائی مجھ سے دور رہنے میں ہی ہے الوینہ۔ مجھے قریب مت بلاؤ ورنہ انجام یہی ہو گا۔"

آہستگی سے کہہ کر وہ اٹھ گیا۔ الوینہ کے آنسو گرتے رہے تھے۔

اس انجمن میں، میں نے جلاۓ بہت چراغ

پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے

بلال نے لیپ ٹاپ آف کیا اور ہیڈفونز اتارے۔ فریج سے پانی پینے کے بعد وہ لاؤنج میں صوفے پر لیٹنے لگا تھا کہ بے اختیار نگاہ گیسٹ روم کی جانب گئی۔ آج وہ چیخ مار کر باہر نہیں نکلی، آج چیخیں مار کر نہیں روئی؟

بے اختیار وہ گیسٹ روم کی جانب بڑھا تو دبی دبی سسکیوں کی آوازیں  آنے لگیں۔ دہلیز پر کھڑے ہو کر اس نے دیکھا کہ وہ آنکھوں کو سختی سے بھینچے سر دائیں بائیں گھما رہی تھی۔ بدن مرتعش تھا، اکڑ گیا تھا۔ لب بھینچے ہوۓ تھے، اس کے باوجود سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ وہ تکلیف سے گزر گئی تھی۔ وہ کچھ دردناک محسوس کر رہی تھی۔

بلال نے بہت آہستگی سے اپنی ہتھیلی اس کی پیشانی پر دھر دی۔ اس کا ٹھنڈا ہاتھ الوینہ کے گرم ماتھے کو برف کی طرح محسوس ہوا۔ 

پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ کوئی شناسا نہیں رہا

لمس پا کر اس کی آنکھیں بےاختیار ہی کھلی تھیں، بلال اس کے سرہانے کھڑا تھا، سپاٹ چہرہ لیے، بغیر کچھ کہے وہ بس ساکت کھڑا تھا۔ الوینہ کا دل دھڑک گیا تھا۔ اس نے عجلت میں دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ ڈھانپ لیا اور نفی میں سر ہلایا۔ 

"نہیں رو رہی۔" باریک سی آواز آئی:

"میں نہیں رو رہی۔"

حالانکہ اس کی آنکھوں میں نمی ہی نمی تھی۔ بلال نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا اور پیچھے ہٹ گیا۔ الوینہ نے عین اسی وقت آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس کا ماتھا تپ رہا تھا۔ وہ اسی بخار ہی سی حالت میں سو گئی۔ اور صبح اٹھ کر اس نے دیکھا، بلال اسی گیسٹ روم میں صوفے پر بیٹھا تھا۔ سر پیچھے کو گراۓ، وہ بے سدھ سو رہا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ راستے ویران ہو گۓ

پھر یوں ہوا کہ پھول کھلائے تمام عمر 

اس کے ہاتھ میں رپورٹس تھیں، آنکھوں میں مایوسی تھی۔

"جب سب کچھ فزیکلی ٹھیک ہے تو تم ہمت کیوں نہیں کر رہی الوینہ۔" اس کی ڈانٹ میں غصہ نہیں تھا، رحم بھی نہیں تھا:

"اب تم بچی تو نہیں ہو کہ میں تمہیں انگلی پکڑ کر چلاؤں۔ اٹھو، باہر پھرو، گرتی ہو تو اٹھنے کی کوشش کرو۔ موو آن الوینہ، موو آن۔"

آخری جملہ کہتے ہوۓ اس کی آواز بلند ہوئی تو الوینہ کی آنکھوں میں لالی نظر آئی۔ اسے دبا کر الوینہ نے سر اٹھایا:

"تم نے منع کیا تھا۔" آہستگی سے کہہ رہی تھی،

"تم نے منع کیا تھا کہ کمرے سے باہر قدم نہیں رکھنا۔"

"تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں نے وہ بات کس سینس میں کہی تھی۔ اٹھو اور ابھی کے ابھی باہر آؤ۔"

اب اس نے واقعی ڈانٹا تھا۔ رپورٹس ایک طرف پھینک کر وہ تن فن کرتا باہر نکل گیا۔

پھر یوں ہوا کہ ناکردہ گناہ کی سزا ملی

پھر یوں ہوا کہ کوئی کفارہ نہیں رہا

وہ اسے واقعی انگلی پکڑ کر چلا رہا تھا۔ فینس کے ساتھ بنی روش پر وہ اس کے سہارے چل رہی تھی۔ بلال وقفہ وقفہ بعد ہاتھ چھڑا لیتا اور اسے خود چلنے کے لیے کہتا۔ وہ کوشش کرتی لیکن بلال کی موجودگی میں وہ معمول سے زیادہ ڈگمگا رہی تھی۔ معمول سے زیادہ گر رہی تھی۔

بلال دور تھا اور وہ پھولتی سانسوں کے ساتھ، ادھر کے قدم ادھر رکھتی سیدھا چل رہی تھی۔ اس کے قریب پہنچ جاتی تو وہ اور دور ہو جاتا۔ مزید قریب جاتی تو وہ مزید پیچھے ہٹ جاتا۔ وہ اس بار بھی پیچھے ہٹ گیا اور جھونک میں چلتی الوینہ کا پیر رپٹا۔ وہ بے اختیار آگے کو گرتی چلی آئی۔ بلال سامنے تھا۔ وہ اس کے سینے پر آگرتی لیکن بلال نے دونوں بازو اٹھا کر الوینہ کے بازو پکڑ لیے تھے۔ الوینہ نے دیکھا تھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک خشکی سی نظر آرہی تھی۔

وہ نہیں چاہتا تھا الوینہ اب اس کے قریب بھی آۓ۔ وہ دھتکاری گئی تھی۔ یہی اس کی سزا تھی۔

پھر یوں ہوا کہ جب بھی ضرورت ہمیں پڑی

ہر شخص اتفاق سے مصروف ہو گیا

بلال آفس سوٹ میں ملبوس صوفے پر بیٹھا تھا۔ سیکرٹری ایک کے بعد ایک فائل رکھ رہا تھا اور وہ دھڑ دھڑ سائن کر رہا تھا۔ اب کی بار سیکرٹری نے فائنل رکھی تو بلال ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ اسے تھاما اور بال پوائنٹ سیکرٹری سے تھام کر الوینہ کے سامنے رکھی۔

"سائن کرو۔" الوینہ کا دل تھم گیا، ڈائیوورس پیپرز۔ اس کی آنکھوں کے سامنے یہ دم اندھیرا سا چھایا اور اس نے بے یقینی سے بلال کو دیکھا۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا:

"جہاں داد ہاؤس میں تمہارا جو حصہ ہے، پھپھو نے تمہیں نقد صورت میں ادا کیا ہے اور تحریری ثبوت مجھے تھمایا ہے۔ میں اس پیسے کا قبضہ تمہیں دے رہا ہوں۔ سائن کرو اور اپنا حصہ اپنے نام کر لو۔"

الوینہ نے جسم میں سکون اترنا محسوس کیا۔ وہ جھک کر سائن کرنے لگی تو بلال کو کہتے سنا:

"باقی رہے تمہاری آزادی کے پیپرز، تو ان کی بھی فکر مت کرو۔"

الوینہ کا چہرہ رنگ بدل گیا۔ اس نے بال پین پیپر پر رکھی لیکن سائن نہ ہو سکے۔ بلال کی سیکرٹری، بلال خود، اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ الوینہ کا نظامِ تنفس بڑھ رہا تھا۔ اس نے نہ کچھ سنا، نہ کہا، نہ سائن کیے، چپ چاپ اٹھی اور بھاگتے ہوۓ کمرے میں آگئی۔

پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا

خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا

"سائن کیوں نہیں کیے؟" بلال شام کو آفس سے واپس آیا تو سیدھا اس کے کمرے میں آیا تھا۔ الوینہ چپکے سے سر جھکاۓ میز کھرچتی رہی۔

"الوینہ، مجھے جواب چاہیے۔" وہ دھاڑا تو الوینہ نے بے اختیار سر اٹھایا:

"میں پیسے کا کیا کروں گی جب اس گھر سے نہیں نکل سکتی، جب اس کمرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔ میں پیسے کا کروں گی جب یہاں پیسے کی فراوانی ہونے کے باوجود میں ساری رات جاگ کر گزارتی ہوں، سارا دن چپ چاپ لان میں کرسی پر بیٹھی رہتی ہوں۔ میں پیسے کا کیا کروں گی بلال جب۔۔۔ جب میری ہر خواہش تم اپنے پیسے پوری کر رہے ہو۔"

"ہمیشہ نہیں کروں گا۔" اس نے ہولے سے کہا اور پلٹ گیا۔ الوینہ کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی وہ کیا چاہتی ہے۔ وہ اندازہ نہیں کر پارہی تھی کہ ا سکا دل کیا کہہ رہا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ جسم ہی پتھر ہو گیا

روکا جب ایک شخص کی آواز نے مجھے

وہ منان تھا۔

بلال کے ہمراہ وہ پھپھو سے ملنے گئی تھی جب اسے وہ نظر آیا تھا۔ اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا الوینہ کی گود میں چڑھا اور پھر دوبارہ اترا نہیں۔ 

"He likes you, Alvina."

منان ہنستے ہوۓ کہہ رہا تھا اور الوینہ گم سم نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی:

"آئی ایم سوری الوینہ۔ میں نے تمہارے ساتھ جو کھیل کھیلا وہ جائز نہیں تھا۔ پر مجھے یہ کرنا پڑا۔"

یہ جملہ اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا اور وہ مضطرب ہو کر اٹھی۔ بلال اس کے تاثرات دیکھ کر چونک سا گیا تھا۔ وہ سیدھی اس کے پاس ہی آئی تھی:

"مجھے گھر جانا ہے۔"

وہ اسے گھر کے آیا۔ وہ اب ٹھیک چلتی تھی لیکن زیادہ فاصلہ ہو تو ڈگمگا کر گر بھی جاتی تھی۔ بلال اس کا ہاتھ تھامے اسے کمرے تک لایا۔

"کیا تمہیں پتا ہے بلال؟" الوینہ نے بے اختیار ہی سر اٹھا کر بلال سے کہا:

"ایک وقت آیا جب میں منان سے بہت محبت کرنے لگی تھی۔"

بلال کے چہرے پر چونکنے کا ہلکا سا بھی تاثر نہ تھا۔ وہ بس مسکرایا۔ بہت عرصے بعد آج وہ پہلی بار مسکرایا۔

"میں بس یہ جانتا ہوں کہ تم بلال عطاء اللہ کے سوا سب سے بہت محبت کرتی تھیں۔"

اور کہہ کر وہ رکا نہیں، چپکے سے تکیہ اٹھایا، صوفے پر دھرا، شرٹ کے اگلے دو بٹن کھولے اور صوفے پر گر گیا۔

پھر یوں ہوا کہ ہم نے بھی رستہ بدل لیا

پھر یوں ہوا کہ عشق کے قابل نہیں رہے

بلال جانے سو چکا تھا یا نہیں لیکن وہ پتھر کا بت بنی بستر پر بیٹھی تھی۔ دماغ کچھ بھی سوچنے سے قاصر تھا۔ جسم  نقاہت زدہ تھا اور دل۔۔ وہ بے چین تھا، بے قرار تھا، خطاکار تھا۔ وہ دل جو ہمیشہ اس بُتِ مضطرب کو سکون کی طرف کھینچ کے جاتا تھا آج یہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ الوینہ جہان داد کے لیے سکون کہاں سے ڈھونڈ لاۓ، وہ اس کو پچھتاوے سے کس طرح نجات دلاۓ۔

الوینہ نے ہولے سے سر اٹھایا اور صوفے پر نگاہ ٹکا لی۔

بلال بازوؤں کا تکیہ سر کے نیچے رکھے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے لیٹا، کچھ سوچ رہا تھا۔ وہ بے اختیار اٹھی اور صوفے کے قریب فرش پر آبیٹھی، اپنے دونوں بلال کے سینے پر پھیلا کر گردن کے گرد حائل کیے اور سر اس کے سینے پر دھر دیا۔

"معاف کر دو بلال۔۔۔"

پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گۓ

پھر یوں ہوا کہ دل سے لگاۓ تمام عمر

بلال کی سپاٹ آنکھوں میں کوئی تاثر دکھائی نہ دیا لیکن الوینہ کی مہک اس کے اعصاب پر طاری ہو رہی تھی۔ وہ جوں کا توں لیٹا رہا، آنکھیں کھلی رکھے سیلنگ کو گھورتا رہا۔ پھر دونوں بازو الوینہ کی کمر پر باندھے اور اسے سینے سے لگاۓ اٹھ بیٹھا۔ اسے خود سے لپٹاۓ صوفے سے اٹھا اور بہت احتیاط سے بستر پر لٹا دیا۔ اسے کمبل اوڑھایا اور پیشانی کا لمس بھرا۔

"کر دیا معاف۔" آہستگی سے کہہ کر وہ ہٹ گیا۔ گیسٹ روم کا وہ صوفہ جسے وہ کچھ دنوں سے بیڈ کے طور پر استعمال کر رہا تھا، اس پر بھی نہیں ٹکا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔

پھر یوں ہوا کہ دامنِ دل داغ داغ تھا

پھر یوں ہوا کہ داغ مٹاۓ تمام عمر

ہانیہ کا بیٹا اس کا دوست بن گیا تھا۔ اشتیاق سے اس کی پینٹنگز کو دیکھ رہا تھا۔ الوینہ اسے برش پکڑنا سکھا رہی تھی اور ہانیہ بغور اسے دیکھ رہی تھی۔

"الوینہ۔" بہت مان سے اس نے الوینہ کا ہاتھ تھاما تھا۔ رسان سے اسے دیکھا:

"میں یہ نہیں پوچھوں گی کہ اس رات تمہارے ساتھ کیا ہوا کہ تمہیں اتنے بڑے صدمے سے گزرنا پڑا لیکن میری بہن، میں یہ ضرور پوچھوں گی کہ کیا تم بلال کے ساتھ خوش ہو؟"

الوینہ کے لب تھرتھرا اٹھے۔ اس نے جبراً چہرہ اٹھایا اور مسکرائی:

"ہم۔۔۔ ہم آپس میں۔۔۔"

"مجھے تمہارے لبوں پر اصلی مسکراہٹ دیکھنی ہے الوینہ۔ مجھے بتاؤ کہ کیا وہ تمہیں ہرٹ کرتا ہے؟ کیا وہ تمہیں تکلیف پہنچاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں اسے منٹوں میں سیٹ کر دوں گی۔ میں اس کو۔۔۔"

"میں اس سے محبت نہیں کرتی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ بس یہی بات ہے۔"

اس نے سسکی کی اور سر جھکا لیا۔ 

پھر یوں ہوا کہ وہ بھی پلٹ کر نہ آسکا

پھر یوں ہوا کہ اس کو بھلانا پڑا ہمیں

وہ فون پر کسی سے بات کرتا شرٹ پریس کر رہا تھا۔ سگنلز کا مسئلہ تھا۔ فون کان سے لگاۓ وہ یونہی باہر چلا گیا تو الوینہ نے دیکھا وہ استری آن تھی، شرٹ بیچ میں ہی رہ گئی تھی۔ وہ اٹھی اور اس کی شرٹ پریس کرنے لگی۔ ایک، دو تین، چار۔۔۔ اس نے الماری کھولی اور بلال کی ہر شرٹ، ہینٹ، ٹائی، سب نکال کر بستر پر ڈھیر کیا اور انہیں پریس کرتی گئی۔ آدھ پون گھنٹے بعد بلال واپس آیا۔ اس کی درجنوں شرٹس پریس شدہ الماری میں ٹنگی تھیں۔ درجنوں بستر پر پڑی تھیں۔ وہ سر جھکاۓ، استری پکڑے بس لگی ہوئی تھی، لگی ہوئی تھی۔

بلال نے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ کر اس سے استری چھیننا چاہی تو الوینہ نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔ 

"میں کر رہی ہو ناں۔" آہستگی سے کہہ کر وہ دوبارہ کام میں جت گئی تھی۔ بلال نے ایک پریس شدہ شرٹ اٹھائی اور شاور لینے چلا گیا۔ واپس آیا تو دیکھا کہ اس کے کمرے کی سیٹنگ ہی بدلی ہوئی تھی۔ 

اس کا سر سختی سے نفی میں ہلا تھا۔ اس نے الوینہ کو دیکھ کر سختی سے سر نفی میں ہلایا تھا۔

"نوکرانی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔" 

"اور بیوی بننے کی؟" سوال اس کے لبوں پر تھا لیکن وہ پوچھ نہیں سکی۔ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم

اتنا چلے کہ راستے حیران رہ گۓ

حسیب المنان کی پہلی سالگرہ تھی۔

الوینہ نے اپنا بہترین لباس پہنا، بہت عرصے کے بعد خود پر پرفیوم چھڑکا، جیولری بھی پہنی اور میک اپ بھی کیا لیکن لپ اسٹک لگاتے لگاتے ٹھہر گئی۔ بے اختیار خود کو دیکھنے لگی۔

"تمہاری یہ تراش خراش، یہ گرومنگ اور میکنگ، ثابت کر رہی ہے کہ تم ایک بگڑی ہوئی، مغرور اور انا پرست رئیس زادی ہو جس کے چھوٹے سے دماغ میں محض اس کا اپنا آپ ہے بستا ہے۔"

یاد ذہن میں کوندی تو لپ اسٹک بے اختیار اس کے ہاتھ سے گری۔ سہم کر وہ خود کو دیکھ رہی تھی جب جوتوں کے تسمے باندھتے بلال نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کا زرد زرد سا چہرہ، یہ نشانی تھا کہ وہ خوفزدہ ہے۔ اس کا یوں بلاوجہ تھر تھر کانپنا، جانے اسے پتا بھی ہے کہ وہ کانپ رہی ہے یا نہیں؟

ہولے سے وہ اٹھا اور اپنا ہاتھ اس کی پشت پر گرتے بالوں پر رکھا:

"پیاری لگ رہی ہو۔" بہت نرمی سے اس نے کہا تو الوینہ جو جیسے سماعت پر یقین نہیں آیا۔ بہت دیر وہ بےیقینی سے آئینے میں بلال کے عکس کو دیکھتی رہی تو وہ سٹپٹا سا گیا۔ ہاں اسے یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اسے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ 

پھر یوں ہوا کہ بیٹھ گۓ راہ میں غیاث

پھر ہوا کہ وہ بھی نہ آۓ تمام عمر

محبت رشتوں کو جنم دیتی ہے۔ لیکن بعض اوقات رشتے بھی محبت کو جنم دیتے ہیں الوینہ۔" ہانیہ نے اس دن رسان سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔

"میں ایک بری لڑکی تھی۔" الوینہ اب سر جھکا کر کہہ رہی تھی:

"میں لوگوں کے سامنے زبان چلاتی تھی، سب کو ہرٹ کرتی تھی۔ میں نے اپنی بہن کے خلوص پر شک کیا، اپنے ماں جیسی عورت کے ساتھ برا سلوک کیا، ایک ناجائز تعلق کو بڑھاوا دیا۔ میری شادی ہو گئی لیکن میں نے اپنے شوہر سے کبھی پیار نہ کیا۔ میرے گناہ بڑھتے گۓ۔ میرے لیے سزا بنتے گۓ۔ آج میں سزا بھگت رہی ہوں۔ آج میں پھل پا رہی ہوں۔"

"سزا کی بھی ایک میعاد ہوتی ہے الوینہ۔" ہانیہ نرمی سے کہہ رہی تھی۔⁦ الوینہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی:

"میں نہیں چاہتی میری سزا ختم ہو۔ میں بس چاہتی ہوں کہ میری وقعت ختم نہ ہو۔" زاروقطار روتے ہوۓ وہ کہہ رہی تھی:

"میں نہیں چاہتی بلال مجھ سے محبت کرے۔ میں بس چاہتی ہوں وہ مجھ سے نفرت نہ کرے۔"

ہانیہ نے اس کو سینے سے لگا لیا تھا۔⁦ الوینہ نے آنسو پونچھ کر سر اٹھایا تھا⁦۔ اور یہ دیکھ کر کانپ گئی تھی کہ  گلاس وال کے اس پار، لان میں کھڑا بلال اسے دیکھ رہا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ گناہ کی طاقت نہ رہی

ہم جیسے کتنے لوگ بھی درویش ہو گۓ

وہ کمرے میں آیا تھا تو الوینہ سر جھکاۓ، اس کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر بولی تھی۔

"سوری۔"

بلال وہیں سے پلٹ گیا تھا۔ لاؤنج میں آگیا تھا۔ الوینہ ہولے ہولے چلتی اس کے پیچھے آئی۔

"سوری۔" کان پکڑ کر وہ کھڑی تھی۔ بلال بیٹھا رہا۔ وہ آہستگی کے اس کے پاس فرش پر آکر بیٹھ گئی۔ بلال نے اسے کچھ بھی نہ کہا۔

"میں۔۔۔ میں معافی مانگ۔۔۔"

"میں کل ازمیر جا رہا ہوں۔ تین دن کا وزٹ ہے۔ چوتھے دن واپس آجاؤں گا۔ تمہاری لیے تمہارا تحفہ بھی لاؤں گا۔ پھر سوچنا تم نے معافی مانگنی ہے یا نہیں۔ تم مجبور نہیں ہو الوینہ۔ بس چار دن انتظار کرو۔  بس چار دن۔۔۔"

وہ اتنا کہہ کر اٹھ گیا۔ الوینہ نے کچھ کہنا لیکن الفاظ لبوں پر ہی ان کر رہ گۓ۔ بلال چلا گیا اور وہ سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی رہی۔

اسے بتا ہی نہیں سکی کہ وہ ایک بار پھر امید سے تھی۔ 

پھر یوں ہوا کہ حسرتیں پیروں میں گر گئیں

پھر میں نے ان کو روند کر قصہ ختم کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چار دن کے لیے ازمیر گیا تھا۔

بس چار دن کا ہجر۔۔۔ چار دن کی جدائی الوینہ کو اس کی اہمیت کا احساس دلا گئی تھی۔

اسے کھانا خود بنانا تھا، دوائی خود کھانی تھی، ملازمہ گھر تو صاف کر دیتی لیکن پورا گھر اس کے حوالے تو نہیں کرنا تھا۔ پھپھو ان چار دنوں میں ایک دو بار چکر لگا گئیں لیکن الوینہ کا دل نہیں بہل رہا تھا۔ اس نے کئی بار فون اٹھایا کہ ایک میسج کرے، ایک کال کرے، ایک بار اس سے بات کرے لیکن ہمت نہیں پڑی۔

وہ اس کے لیے اہم نہیں تھی۔ وہ اس کے لیے اہم کیونکر ہو سکتی تھی۔ اس نے ہمیشہ بلال کا دل دکھایا تھا، اسے زندگی میں ہمیشہ ہرایا تھا۔ اب پہلی بار ہاری تھی تو سر اٹھا نہیں پا رہی تھی، ندامت کے احساس سے ابھر ہی نہیں پا رہی تھی۔

وہ صحیح معنوں میں نادم تھی۔

صحیح معنوں میں ٹوٹ سی گئی تھی۔ اسے بلال کی نظراندازی سے ڈر لگتا تھا۔ 

وہ نہیں چاہتی تھی بلال اس سے محبت کرے۔ وہ بس چاہتی تھی کہ وہ اس سے نفرت نہ کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چوتھے دن لوٹ کر آیا۔

لوٹ کر بھی یوں آیا کہ الوینہ کو تعجب نے گیر لیا تھا۔

وہ ابھی سو کر اٹھی تھی۔ شاور لیا تھا۔ ملازمہ ابھی تک آئی تھی، ویسے بھی الوینہ کو بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اسٹڈی میں جا رہی تھی، بالکونی میں ہی رک گئی۔ بلال کا کمرہ لاکڈ نہیں تھا۔ وہ اندر جانا چاہتی تھی۔ اس نے دھیرے سے دروازے کو دھکا دیا تو وہ کھل گیا۔ الوینہ کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

بس ایک رات۔۔۔ ایک رات کے لیے وہ اس کمرے میں ٹھہری تھی اور لہو لہان ہو کر نکلی تھی۔ 

ا سکا جی متلا گیا، دل دھڑک اٹھا لیکن چھوٹے چھوٹے قدم بھرتی وہ اندر آگئی۔ دو لیپ ٹاپس اور ایک آئی فون کے سوا کوئی شے بھی الماری اور دراز سے باہر نہیں تھی۔ کمرے میں خالی خالی پن سا تھا۔ جیسے الوینہ کے دل میں ایک خلا سا تھا۔ 

اس نے یو نہی کھڑکی کے پردے ہٹاۓ، اور پردہ ہٹاتے ہٹاتے اس کی نگاہ نیچے پورچ میں جا پڑی۔ بلال کی پراڈو وہاں کھڑی تھی۔ الوینہ کی آنکھوں میں تعجب در آیا۔ وہ آگے کو جھکی اور دیکھا بلال بھی وہیں کھڑا تھا۔ فون کان سے کیے تھا اور لب ہلتے نظر آرہے تھے۔

الوینہ نے پردے برابر نہ کیا، کمرے کا دروازہ لاک نہیں کیا۔ وہ بھاگتے ہوۓ باہر نکلی تو بے اختیار میز سے ٹکڑا گئی۔ سیڑھیوں سے اترنے لگی تو دوپٹہ گردن میں جھولتا، سیڑھیوں پر جھاڑو پھیرنے لگا۔ ایک دو دروازے پار کر کے وہ باہر آئی تو کار کے پاس کھڑے بلال کی اسکی جانب پیٹھ تھی۔ الوینہ بھاگتے ہوۓ پورچ میں آئی تھی تو اس نے رخ بدلا۔

الوینہ جہاں داد کا چہرہ مسرت و شادمانی سے تمتما رہا تھا۔

وہ خوش تھی، وہ کیا بلال کے آنے پر 'خوش' تھی۔

اس کے عین سامنے آکر وہ مضطرب سی ہو کر گئی۔ بلال کا فون اس کے کان سے لگا تھا۔ اس کا مخاطب فون والا شخص تھا لیکن اس کی نظریں الوینہ پر ٹکی تھیں۔ بہت دیر بعد اس نے کنکشن منقطع کیا تو فون والا ہاتھ نیچے جھٹکا۔ الوینہ مضطرب ہو کر دو قدم آگے آئی۔

"کب آۓ؟" ا سکی آواز جاندار تھی۔ بلال نے 'ابھی' کہہ کر فون پاکٹ میں ڈالا۔

"میرا آئیڈیا تھا تمہیں سرپرائز دوں گا پر۔۔۔ تم نے تو پہلے ہی دیکھ لیا۔"

اس کا چہرہ وہی مخصوص سپاٹ چہرہ تھا لیکن لہجہ نرم تھا۔ الوینہ برابر مسکراتی جا رہی تھی۔ وہ چوتھے دن آگیا تھا۔ اس نے وعدہ پورا کیا تھا۔

"میں نے۔۔۔ تمہیں وہاں سے دیکھا۔" اس نے کھڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ بلال کی نگاہ اٹھی۔⁦ پیشانی پر ہلکا سا بل پڑا:

"میرے کمرے کی کھڑکی سے؟؟؟؟"

الوینہ اس کے کمرے میں گئی؟ وہ ٹھٹک گیا تھا۔ ⁦ الوینہ گڑبڑا گئی۔

"ہاں میں۔۔۔ میں کمرے کی صفائی۔۔۔ صفائی کرنے گئی تھی۔ سحرش (ملازمہ) نہیں آئی تھی ناں، اس۔۔۔ اس لیے۔"

بلال نے سر ہلایا۔ کار کی چابی پاکٹ سے نکالی۔

"چلو، تمہیں کہیں لے کر جانا ہے؟"

ابھی؟" وہ تو تیار بھی نہیں تھی۔

"ہاں ابھی۔ آجاؤ۔"

بلال نے بازو بڑھایا۔ الوینہ گنگ سی ہو کر اس کے بڑھے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔ وہ اس کی جانب ہاتھ بڑھا رہا تھا۔ وہ خود الوینہ کو بلا رہا تھا۔

"تم گرنے لگو تو میرا ہاتھ پکڑ سکتی ہو، الوینہ۔'

ذہن میں خیال کوندا تو اس نے کچھ کہے بغیر بلال کا بازو تھام لیا۔ وہ متذبذب تھی۔ بلال کے تاثرات سمجھ نہیں سکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

"چلو آنکھیں بند کرو۔"

مسکرا کر اس نے کہا تو الوینہ کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔ 

وہ کار میں تھے۔ بلال کار سے باہر کھڑا تھا اور جونہی الوینہ کار سے نکلی تھی،وہ اس کے سامنے آگیا تھا۔

"آنکھیں بند کروں گی تو چلوں گی کیسے؟" وہ پریشان ہوئی۔ بلال نے ہولے سے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا کہ الوینہ تھام سکے۔ 

"چلو آؤ۔" وہ کہہ رہا تھا۔ الوینہ نے پہلے آنکھیں بند کیں، پھر اس کا ہاتھ تھاما۔ وہ آگے بڑھ رہی تھی، وہ بڑھا رہا تھا۔ اچانک وہ رک گیا۔ ہاتھ پھر بھی نہیں چھوڑا۔

"کھولو آنکھیں۔"

الوینہ نے آنکھیں کھولیں تو نگاہ وسط میں موجود میز پر پڑے ترازو کے ویکٹر پر پڑی۔ وہ چونک گئی اور نگاہ گھمائی۔ ہاتھ خودبخود چھوڑ دیا اور دیکھنے لگی۔ کتابیں، الماریاں، میز، کرسیاں، دیوار پر آویزاں کچھ فریمز اور مقولے۔

"ایڈووکیٹ الوینہ جہاں داد۔" بلال نے ہلکی سی سرگوشی کی تو الوینہ نے گھوم کر اسے دیکھا۔ نظروں میں بے یقینی تھی۔

"یہ۔۔۔ یہ چیمبر؟؟؟؟"

"تمہارا ہے۔" بلال نے جملہ مکمل کیا تو ہاتھ کوٹ کی جانب رینگ گیا۔ اندرونی جیب سے اس نے تہہ شدہ کاغذ نکالے اور انہیں الوینہ کے جانب بڑھا دیا۔

"تمہاری رہائی کے پیپرز۔"

الوینہ یکلخت گنگ ہو گئی۔ وہ بے یقین نظریں بے اختیار ہی بلال سے ہوتی ہوئی پیپرز پر ٹک گئیں۔ اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ بلال کہہ رہا تھا:

"ان کو تمہیں دینے میں جو تاخیر میں نے کی، اس کے لیے معذرت۔" وہ اب سر جھکاۓ، پشت پر ہاتھ باندھے بول رہا تھا:

"دراصل اسی چیمبر کی تعمیر میں دیر ہو گئی، ورنہ میں سات ماہ پہلے ہی تمہیں پیپرز تھما دیتا۔"

وہ اب الوینہ کو نہیں دیکھ رہا تھا، سر جھکاۓ، پاؤں موڑے کھڑا تھا۔ الوینہ کے لرزتے ہاتھوں نے کاغذ تھام لیے۔

"میں۔۔۔ کہاں جاؤں گی بلال؟"

وہ وحشت زدہ تھی، دہشت زدہ تھی۔ بلال نے ہولے سے سر اٹھایا، نظریں ہنوز جھکی تھیں:

"جو تمہارا ہے، وہ تمہارا ہی تو رہے گا الوینہ۔ پھر تمہیں یہ ڈر کیوں ہے کہ تم کہاں جاؤ گی؟" اس نے ناخن میز سے کھرچے تھے۔ الوینہ نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

"مجھے پتا ہے میں نے تمہیں اس رات بہت ہرٹ کیا۔ ہمارا رشتہ کاغذی تھا مگر میں نے تم پر حق جتایا، تمہیں نقصان پہنچایا۔ میں نے غلط کیا۔ میں چاہتا تھا کسی طرح اس رات کی بھرپائی کر سکوں اس لیے۔۔۔"

اس نے دو نۓ پیپرز کوٹ سے نکال کر میز پر الوینہ کے قریب دھر دیے تھے:

"ان پیپرز میں سے ایک پر سائن کرو گی تو تم عمان انٹرپرائزز کے آدھے شیئرز کی مالک بن جاؤ گی، دوسرے پیپر پر سائن کرو، اس کے بدلے ملنے والی رقم تمہارا نقصان پورا تو نہیں کر سکتی مگر میرے دل کو تسلی ضرور ہو جاۓ گی۔ تمہارا جہاں داد خاندان میں جو حصہ تھا وہ رقم کی صورت میں میرے پاس محفوظ تھا۔ اسے ابھی ابھی میں نے تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیا ہے۔ رہ گیا یہ چیمبر۔۔۔"

اس نے گہری سانس لی:

"میرا جہاں داد ہاؤس میں سے جو حصہ تھا، وہ میرے لیے زیادہ بڑی رقم نہیں تھی۔ بس پچاس ساٹھ لاکھ۔ اس رقم کے ذریعے میں نے تمہارے لیے یہ چیمبر بنوایا۔ اس کو بھی میرا احسان سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں، تو یہ تمہارا حق ہے۔"

"بلال۔۔۔۔" اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی، پیپرز پر گرفت مضبوط ہو گئی:

"میں۔۔۔ میں پریگننٹ۔۔۔"

"ہاں جانتا ہوں۔" وہ فوراً بات کاٹ گیا تھا:

"اس کا قصوروار بھی میں ہوں۔ میں بچے کے مستقبل کا اختیار تمہیں دیتا ہوں۔ تم بچہ نہیں چاہتیں تو تمہاری مرضی۔ اسے رکھنا چاہتی ہو تو بھی تمہاری مرضی۔ مگر تم پیدائش کے بعد اسے مجھے دے دو گی تو اس کے بدلے میں تمہیں مزید رقم ادا کر سکتا ہوں۔ ابارشن مت کروانا الوینہ، تم بس۔۔۔ بے بی مجھے دے دینا۔"

وہ روانی کے عالم میں بول رہا تھا۔ جیسے سب تیار کر کے آیا تھا۔ الوینہ کا سر جھکا تھا، جھکتا جا رہا تھا۔

"تمہیں سات مہینے ملے ہیں الوینہ۔ سات مہینوں کے علاوہ ہمارے نکاح کے وقت سے تم نے طلاق کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ تمہیں سوچنے کے لیے وقت چاہیے۔ اس لیے۔۔۔" اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا تھا:

"سائن کرو اور۔۔۔"

"مجھے۔۔۔ مجھے اکیلے میں۔۔۔ پھر کسی نے۔۔۔ کسی نے تنگ کیا؟ مجھے۔۔۔ تنہا رہ کر کچھ۔۔۔ کچھ ہو گیا تو۔" وہ اٹک گئی۔

"تو بلال عطاء اللہ تب تمہارے دشمنوں سے خود ہی نپٹ کے گا۔ 

not as your husband, as your cousin."

بلال نے الوینہ کے رخسار کا لمس بھرا، الوینہ نے آنکھیں سختی سے بھینچ لیا تھیں:

"کسی سے ڈر کر، کسی کے خوف میں آکر، تمہیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے الوینہ۔ شاید تم یہ پیپرز سائن کر دو گی تو ہمارے درمیان مطابقت پہلے سے بڑھ جاۓ گی۔ میں تمہاری مدد کر سکوں گا، تمہیں پروٹیکٹ کر سکوں گا۔ 

not as your husband, as your cousin."

 اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوۓ، بلال نے نرمی سے کہا تھا:

"تم یہ سائن کرتی ہو تو ہو سکتا ہے تمہاری فیملی تم سے ناراض ہو جاۓ، پر میں تمہارے ساتھ ہوں الوینہ۔ میں آج بھی تمہارا بھلا چاہتا ہوں اور اس کے بعد بھی تمہارا بھلا چاہوں گا۔ بلال عطاء، بلال عطاء ہی رہے گا۔ 

 not as your husband, as your cousin."

"اور۔۔۔ اگر میں نے سائن نہیں کیے۔"

الوینہ نے یہ کہا تو سر ڈھلک گیا اور بال شانوں پر بکھر گۓ۔ کمرے میں سکوت قائم رہا۔ پھر بلال نے کندھے اچکاۓ، اس کی انگلیاں ابھی تک الوینہ کے بالوں میں گم تھیں:

"پھر شاید ہم یہاں سے ہوٹل چلیں گے، لنچ کریں گے۔ میری مرضی سے فرق نہیں پڑتا۔ تم ناں کرو گی تو بلال پیپرز پر سائن کر دے گا۔ تم ہاں کرو گی تو وہ تمہیں سب بھلا کر موو آن کرنے کی نصیحت کرے گا۔ جیسے وہ سب کچھ بھلا کر خود موو آن کرے گا، 

not as your cousin, as your husband..."

کمرے کا سکوت پھر ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا۔ الوینہ کا جھکا سر اٹھا ہی نہیں، پیپرز اس کے بالوں کے سایے میں چھپے رہے۔ بلال ایک ہاتھ پشت پر باندھے، دوسرا اس کے بالوں میں رکھے کھڑا رہا۔ منتظر رہا۔

"الوینہ۔۔۔" اس نے کہنا چاہا، اگلے ہی لمحے الوینہ کا چہرہ اس کی ٹانگوں سے جڑ گیا تھا۔ بلال کو جھٹکا لگا تھا۔ الوینہ کی سسکیاں بے اختیار بلند ہوئی تھیں۔

"میں۔۔۔ میں کہاں جاؤں گی؟" وہ ہچکیاں لے رہی تھی۔ بلال کی ٹانگوں کے گرد دائرہ بناۓ، وہ سر جھکاۓ بیٹھی تھی:

"تم۔۔۔ تم مجھے چھوڑ دو گے تو میں کہاں جاؤں گی؟"

بلال ہولے سے بیٹھ گیا۔ الوینہ نے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بلال کے سامنے دھر دیا تھا۔

"تم نے مجھے مار کیوں نہیں دیا؟ تم نے کہا تھا کہ اگر میں نے تمہاری بات نہ مانتے ہوۓ گھر سے باہر قدم بھی رکھا تو تم مجھے مار دو گے۔ تم نے مجھے کیوں نہیں مارا؟ مجھے قتل کیوں نہیں کیا۔"

"تمہیں لگا میں اس قدر ظالم ہوں؟" بلال کی آواز دھیمی تھی۔

"ہاں تم ہو۔۔۔" اس نے چہرہ بے نقاب کیا۔ وہ سرخی جو الوینہ جہان داد کے لبوں کو حصار میں لیے رکھتی تھی، آج اس کی آنکھوں میں نظر آرہی تھی۔ چہرہ تر تھا، لرزہ براندام تھا۔

"تم اپنی۔۔۔ اپنی بیوی کو دھتکار رہے ہو۔ تمہیں۔۔۔ پتا ہے کہ تمہاری بیوی کے پاس کچھ نہیں بچا لیکن تم اسے خود سے جدا کر رہے ہو۔ تم جانتے ہو وہ تمہیں چھوڑ کر کہیں گئی تو ماری جاۓ گی۔ تم اسے مارنا چاہتے ہو۔ تم اسے چھوڑنا چاہتے ہو۔ تم۔۔۔"

بلال نے نرمی سے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔ 

"پھر تم پیپرز ہاتھ سے چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟"

الوینہ نے ان کاغذات کو گھن سمجھ کر دور پھینکا اور سمٹ کر بلال کے قریب ہوئی۔

"مجھے۔۔۔ مجھے کہیں نہیں۔۔۔" وہ کچھ کہہ رہی تھی۔ بلال نے نرمی سے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا تھا:

"کیا کہا تھا میں نے۔۔۔" الوینہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ بلال پوری طرح اس کے اوپر جھکا ہوا تھا:

"موو آن الوینہ۔"

"تم۔۔۔ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ میں۔۔۔ میں تم سے محبت نہیں کرتی بلال۔ میں کبھی نہیں کر سکوں گی۔ میں کبھی۔۔۔"

"اس کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔" بلال کا لہجہ متناسب تھا۔ الوینہ ابھی تک رو رہی تھی۔

"تم۔۔۔ تم مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ بلال، وہ مجھے پھر بلا لے گا۔ تم نے چھوڑ دیا تو وہ۔۔۔"

"تمہاری حفاظت نہیں کرے گا تو بلال زندگی میں کیا کرے گا الوینہ؟"

اس نے نرمی سے کہا اور اپنا ماتھا الوینہ کی پیشانی سے ٹکا دیا۔ الوینہ سسکتی رہی، بلکتی رہی، پھر اسی نرمی سے اپنا چہرہ بلال کے سینے سے جوڑ لیا۔ بلال نے حصار تنگ کر لیا۔ 

پیپرز ایک طرف پڑے رہ گۓ تھے۔

کسی کو ان کی ضرورت نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن قدرت کا امتحان باقی تھا۔

چھٹے مہینے میں وہ گیسٹ روم کی دو سیڑھیاں اترتے ہوۓ یوں گری کہ بچہ ضائع ہو گیا اور دو مہینے تک بستر پر پڑے رہنا پڑا۔ اس کا جسم اس کا وفادار نہیں رہا تھا۔⁦ بدن ٹوٹ سا گیا تھا۔ وہ ان دو مہینوں میں پتھر کا بت بنے بستر کی ہو گئی تھی۔ اپنے وجود سے بے زار ہو گئی تھی۔ اپنی نااہلی سے اکتا گئی تھی۔ 

بلال واحد تھا جو دن رات اس کے ساتھ تھا۔

الوینہ کو نہیں یاد تھا اس دن کے بعد سے بلال کا چہرہ اس کے لیے کبھی سپاٹ بنا رہا ہو۔ وہ کم گو تھا، مسکراتا کم تھا، ہنستا مرضی سے تھا لیکن اس کے پتھر سے تاثرات، وہ نرم وہ گۓ تھے۔ سپاٹ لہجہ مدہم ہو گیا تھا۔ الوینہ کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ 

وہ اب بھی رات کو رو پڑتی تھی، سہم جاتی تھی، چیخ اٹھتی تھی۔ پھر اپنی پیشانی پر بلال کا لمس محسوس کر کے مطمئن ہو جاتی۔ کبھی کبھار وہ ایک لمس بھی کافی نہ ہوتا۔ الوینہ کا وجود متواتر کانپتا رہتا۔ تب بلال کو مسلسل اس کے پاس اکڑوں بیٹھنا پڑتا۔ اسے سینے سے لگاۓ بچوں کی طرح تھپکنا پڑتا۔

ان کے درمیاں محبت نے جنم نہیں لیا تھا۔

رشتہ اب بھی بس احساس کا تھا، مسیحائی کا تھا۔

یہاں تک کہ اس کا تیسرا مس کیرج بھی ہو گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہاتھ پھیلاۓ، تہی دامن سی ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی تھی۔

"میری سزا کڑی ہے بلال۔" وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن آنسو بہتے جاتے تھے:

"میں نے اپنا پہلا بچہ جان بوجھ کر ضائع کرنا چاہا۔ قدرت اب مجھے سزا دے رہی ہے۔ میں ماں نہیں بن سکتی۔ میں کسی کے لیے مفید ثابت نہیں ہو سکتی۔"

"سزا کی ایک میعاد ہوتی ہے الوینہ۔"

ہانیہ نے کہا تھا۔ بلال بھی یہی کہتا تھا۔

"میری سزا بڑی ہے۔ میرے گناہ جو بڑے ہیں۔"

وہ رات دن یہی سوچتی تھی، خود پر کڑھتی تھی، خود کو مورد الزام ٹھہراتی تھی۔ بلال چاہتا تھا اس کا پچھتاوا ختم ہو۔ وہ چاہتا تھا الوینہ جہاں داد کسی طرح تو نارمل ہو۔

"ایڈووکیٹ الوینہ جہاں داد۔" وہ اسی اسی نام سے بلا کر چھیڑتا:

"تم نے لاء پڑھا ہے الوینہ۔ اس کی پریکٹس کرو۔ فارغ رہ کر تھک جاتی ہو گی۔ کچھ مفید کرو۔"

الوینہ کا دماغ یہ سن کر ماؤف ہو گیا تھا۔ کیا اس نے لاء پڑھا تھا؟ کیا اسے قانون کی کتب میں سے کچھ بھی یاد تھا؟ بلال وقتاً فوقتاً اسے یہ کہتا رہا۔ الوینہ چپکے سے سنتی۔ 

"مجھے ڈر لگتا ہے۔" اس نے بڑے رازدانہ انداز میں ایک دن کہا تھا:

"مجھے لوگوں سے ڈر لگتا ہے۔ بھیڑ سے ڈر لگتا ہے، جیل سے ڈر لگتا ہے، سیاہی سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے ہر شے سے ڈر لگتا ہے بلال۔ پھر میں کیسے اپنی زندگی کا آغاز کر سکتی ہوں؟ میں کیسے خوداعتماد ہو کر کوئی فیصلہ لے سکتی ہوں؟"

بلال نے بس اتنا کہا۔

"میں ہوں تو تمہیں کس چیز کا ڈر؟"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ واقعی سب بھول گئی تھی۔

بات کرتے ہوۓ اٹک جاتی تھی، مخلاف وکیل کی آواز ذرا بلند ہوتی تو وہ گھبرا جاتی، جج فیصلہ اس کے حق میں نہ کرتا تو یونہی رو پڑتی۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ اپنا آپ سنبھال نہیں پا رہی تھی۔

دس مہینوں میں اس نے قریب قریب دس کیس ہی لیے جو ابتدا میں چھوڑ دیے۔ موکل اس سے خوش نہیں تھے۔ وکلاء میں اس کی ریپو اچھی نہیں ہے۔

"وہ میڈم بھلا وکیل ہے؟" سب ہنس کر کہتے:

"اسے تو یہی نہیں پتا اس نے کب کونسا موضوع کھولنا ہے۔ بولتے بولتے ہچکچا جاتی ہے۔ عدالت میں اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ ایسی نازک عورتوں کو گھر بیٹھنا چاہیے، کوئی ٹیچر ویچر لگنا چاہیے۔ اسے قانون کی ڈگری کس نے دی؟ اسے عدالت میں قدم کس نے رکھنے دیا؟"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمان انٹرپرائزز کے سی-ای-او پر ناجائز طریقے سے زمین کو اپنے نام کر کے اس پر عمارت بنانے کا الزام لگا تھا۔

بلال کا غصہ عروج پر تھا۔ زمین اس کی تھی، عمارت اس کی تھی، پیسہ اس نے لگایا تھا لیکن اس کے باوجود جج فیصلہ مخالف پارٹی کے حق میں دے گیا۔ ایڈووکیٹ سہیل قادری شہر کے قابلِ اعتماد وکیل تھے، مگر جانے وہ بک گۓ یا واقعی ہار گۓ۔۔۔ بلال کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ وہ اسے سپریم کورٹ میں اپیل کی ترغیب دے رہے تھے لیکن بلال کا اعتماد اٹھ گیا تھا۔ وہ دوبارہ رسک نہیں لے سکتا تھا۔

"میں نے پورے دس کروڑ محض اس عمارت کی فرنشنگ پہ لگاۓ ہیں۔" وہ صوفے پر بیٹھا، مٹھیاں بھینچے، الوینہ سے مخاطب تھا:

"صرف دس کروڑ کی فرنشنگ ہے تو کیا تم اندازہ لگا سکتی وہ کہ وہ عمارت میرے لیے کتنی قیمتی ہے؟"

الوینہ اندازہ کر سکتی تھی۔ وہ متفکر بھی تھی۔ بلال نے فائل بند کی اور اسے الوینہ کی طرف بڑھا دیا۔

"مجھے وہ عمارت واپس چاہیے الوینہ۔"

الوینہ بھونچکا رہ گئی تھی۔ وہ یہ کیا حکم دے رہا تھا۔

"تم وکیل ہو۔" اس کا لہجہ متناسب تھا:

"میرے لیے لڑو۔ مجھے عمارت کا قبضہ واپس دلاؤ۔ تمہیں منہ مانگی قیمت دوں گا۔"

"میں۔۔۔ میں تمہارا کیس نہیں لڑ سکتی۔" اس کے ہاتھ پاؤں پھول گۓ تھے۔

"کیوں؟ تم آخر ایک وکیل ہو۔"

"کیونکہ میں ایک تھرڈ کلاس وکیل ہوں۔"

الوینہ رو دینے کو تھی۔ بلال کے لبوں پر ہلکی سی مسکان ابھری تھی جسے وہ چھپا گیا۔

"تمہیں پروفیشنل ہونے کے لیے ایک بڑا کیس چاہیے الوینہ۔ ایسا مقدمہ جس کے لیے تم جی جان سے لڑو۔ یہ مت دیکھو کہ یہاں مؤکل تمہارا شوہر ہے۔ تم یہ دیکھو کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں پیش ہونے والا کیس ہے۔ تم اس کے لیے تیاری کرو، پاسٹ ریکارڈ کو بھول کر کوشش کرو۔ سوچو اگر تم جیت گئیں تو کایا کیسے پلٹے گی۔"

الوینہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ روہانسی سی ہو کر بولی تھی:

"اور اگر ہار گئی، جو میں یقیناً ہار جاؤں گی تو تم کئی کروڑوں کی عمارت کا نقصان کر بیٹھو گے۔"

"میرے لیے کئی کروڑوں کی عمارت تمہیں ہیڈ سٹارٹ دینے سے زیادہ اہم نہیں ہے الوینہ۔"

"اور اگر وہاں جج نے کچھ الٹا سیدھا کہا اور مجھے پینک اٹیک آگیا اور میری چوتھی پریگننسی بھی ضائع۔۔۔۔" بلال نے پہلے تو اسے الٹا سیدھا بولنے سے روکا:

"چوتھی پریگننسی اہم ہے یا بلال عطاء اللہ؟"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ جہاں داد کا دماغ لمحے میں گھوم گیا تھا۔

وکیل ہمیشہ کی طرح جانے کیا کچھ بک رہا تھا، چِلا رہا تھا، مدعی عدالت کے قائدوں کے خلاف بول رہا تھا اور چیف جسٹس مداخلت کرتے ہوۓ کچھ سنا رہے تھے۔ الوینہ گنگ کھڑی تھی۔ اس پر ہچکچاہٹ کا دورا پھر پر گیا تھا۔ وہ منجمد ہو گئ۔

اس نے لمحہ بھر کے لیے پلٹ کر دیکھا۔ بلال ٹانگ پر ٹانگ رکھے، مشتعل نگاہوں سے مدعی کو دیکھ رہا تھا۔ مٹھیاں اور لب مضبوطی سے بھنچے ہوۓ تھے اور آنکھوں میں عجیب اکتاہٹ تھی۔

"اس کی کئی کروڑوں کی عمارت۔۔۔ کئی کروڑ۔۔۔۔"

الوینہ کے دماغ نے ایک ترنم سے کہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ ہانپتی کانپتی گارڈ کے ساۓ میں چلتی کار تک آئی تو بلال نے دروازہ پہلے ہی کھول دیا تھا۔ وہ دھم سے بیک سیٹ پر بلال کے ساتھ بیٹھ گئی۔

"سب مجھ پر مکھیوں کی طرح ٹوٹ رہے تھے۔" اس کے ابرو اتنے ہوۓ تھے، گھور کر اس نے بلال کو دیکھا:

"تمہیں شرم نہیں آئی۔ تمہاری حاملہ بیوی وہاں دھوپ میں کھڑی ہانپ رہی تھی اور تم یہاں مزے سے اے-سی کار میں بیٹھے تھے۔"

"اب صحیح سلامت آ تو گئی ہو۔ غصہ کیوں کر رہی ہو۔" بلال کا موڈ خوشگوار تھا۔ الوینہ نے منہ پھیر لیا۔

"تھینک یو۔ مجھے کیس جتوانے کے لیے۔"

اس نے ممنون نگاہوں سے الوینہ کو دیکھا۔ الوینہ کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری:

"میری فیس ابھی رہتی ہے۔"

"اگر تم مجھ سے بھی فیس لو گی تو مجھے تمہارا شوہر ہونے کا فایدہ کیا ہوا؟"

"فایدہ یہ ہوا کہ تمہاری وکیل بیوی نے تمہاری وہ قیمتی عمارت خسارے میں پڑنے سے بچائئ جس کی محض فرنشنگ پہ ہی دس کروڑ لگے تھے۔"

"ہونہہ۔ وہ تو میری تھی ہی نہیں۔" بلال نے کہا تو الوینہ کو جھٹکا سا لگا:

"کیا مطلب؟"

"مطلب یہ ہی کہ وہ عمارت میرے نام نہیں تھی۔ میں نے اس عمارت پر دس کروڑ تو کیا، ایک ڈھیلا بھی نہیں لگایا۔"

"لیکن وہ تمام کاغذات جن کے مطابق وہ عمارت تمہارے نام۔۔۔" 

"سب جعلی تھے۔ میں نے ہی بنواۓ تھے۔" بلال مزے سے کہہ رہا تھا۔ الوینہ سن رہ گئی تھی۔

"یعنی۔۔۔۔ وہ عمارت مدعی کے نام تھی، تم جھوٹ بول رہے تھے؟"

"ہاں بالکل۔" بلال نے فرمانبرداری میں سر ہلایا۔ الوینہ کو یکلخت غصہ آیا۔

"میں نے ایک جھوٹے مقدمے کی پیروی کی۔ میں نے ایک جھوٹے شخص کو جیل جانے سے روکا۔ میں نے ایک۔۔۔ ایک فریبی انسان کو۔۔۔"

بلال کی پیشانی پر بل پڑے:

"تم نے بس اپنے شوہر کو سپریم کورٹ میں ڈیفنڈ کیا اور تم جیت گئیں الوینہ۔"

"میں نے ایک مجرم کو ڈیفنڈ کیا۔" وہ متوحش تھی۔ بلال زیرِلب مسکرایا:

"مجرم؟" الوینہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ وہ اب کھل کر مسکرایا تھا،

"میں نے تم سے یہ کہا کہ کہ وہ عمارت میرے نام نہیں تھی۔ یہ تو نہیں کہا ناں کہ مدعی میرا ملازم نہیں تھا۔"

"کیا بکتے جارہے ہو؟" الوینہ کا دماغ گھوم رہا تھا۔ بلال نے مسکراہٹ لبوں میں دبائی:

"سب جھوٹ تھا الوینہ۔ مجھ پر کسی عمارت کو قبضے میں لینے کا الزام نہیں لگا۔ مدعی، پراسیکیوٹر، گواہ، سب میرے ہی ملازم تھے۔ سہیل قادری نے میرے ہی کہنے پر مقدمہ ہائی کورٹ تک چھوڑ دیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ سپریم کورٹ میں "تم" میرا دفاع کرو، جو تم نے بخوبی کیا۔"

"سب جھوٹ تھا؟" وہ سمجھ نہیں پائی۔ بلال نے سر ہلایا:

"میرا بنایا کھیل تھا۔ صرف تمہیں ایک بار جتوانے کے لیے۔۔۔"

لیکن الوینہ خوش نظر نہیں آرہی تھی۔ اس کا چہرہ صدمہ کن تھا:

"مجھے لگا میں نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر یہ مقدمہ جیتا۔" اس نے نم آنکھوں سے بلال کو دیکھا۔

"آف کورس تم نے اپنی ذہانت سے ہی جیتا ہے۔ چیف جسٹس نے فیصلہ تمہارے حق میں دیا ہے۔ اور تم پھر یہ بھی تو دیکھو کہ تم پراسیکوٹ کرتے ہوۓ نہیں جیتیں، بلکہ مجھے ڈیفنڈ کرتے ہوۓ جیتی ہو، بے شک کھیل میرا ہی بنایا ہوا تھا لیکن اس کھیل میں بھی وہ عمارت تو میرے نام نہیں تھی۔ تم نے ثبوتوں اور گواہوں سے یہ ثابت کیا کہ یہ عمارت میری ہے۔ یوئر آنر کے سامنے ثبوتوں کے ایسے ڈھیر لگاۓ کہ انہیں یقین آگیا میں بری الزمہ ہوں۔ یہ تمہاری ذہانت ہی تو ہے الوینہ۔ یہ جیت تمہاری ہی تو ہے۔"

الوینہ کی آنکھیں خشک ہو گئیں، دل پرسکون ہو گیا لیکن چہرہ پھر بھی اترا ہوا تھا۔ اس نے فرنٹ مرر میں بلال کو دیکھا۔ وہ الوینہ کو دیکھتے ہوۓ مسکرا رہا تھا۔ الوینہ سب بھول بھال گئی۔۔۔ بلال مسکرا رہا تھا۔ وہ کھنکھیوں سے اس کی مسکراہٹ دیکھنے لگی۔

"اب ناراض ہو گئی ہو؟" بلال واقعی مسکرا رہا تھا۔ 

"ہاں۔بالکل۔" اس نے ٹیک چھوڑی اور آگے کو ہو گئی۔

"پھر ناراض ہو تو ناراض ہی رہو۔ فرنٹ مرر میں مجھے کیوں گھور رہی ہو۔"

الوینہ نے کلس کر آنکھیں بند کیں۔ بلال نے بس ایک نظر اسے دیکھا، پھر رخ موڑ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے واقعی الوینہ کو یہ مقدمہ دے کر ایک ہیڈسٹارٹ دیا تھا۔

اس کی ساری ہچکچاہٹ ایک دن میں عنقا ہوئی تھی۔

ثریا سے زمیں پر گی وہ لڑکی پھر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ چڑھ رہی تھی، بار بار گر بھی رہی تھی۔ اس نے پراسیکیوٹر کا امتحان دیا تو بری طرح فیل ہوئی۔ ایک، بار، دو بار۔۔۔ تیسری بار صورتحال بدلی۔ 

پراسیکیوٹر الوینہ بلال۔۔۔

اسے یہ ٹائٹل اس قدر اچھا لگا کہ کوئی حد نہیں۔

اسے پرواز جاری رکھنی تھی۔ مگر اس بار اپنی صحت بھی برقرار رکھنی تھی۔ چوتھے مس کیرج کا خیال ہی اس کے لیے جان لیوا تھا۔ وہ اسٹریس لینے سے باز رہتی تھی، آخری مہینوں میں کیس لینے سے بھی چھوڑ دیے۔ لیکن ایک کیس ابھی تک التوا کا شکار تھا۔ 

وہ اس کے سبب آرام نہیں کر سکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بلال اس کو مقدمے کی سارے پوائنٹس تحریری صورت میں لکھ کر دے رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ کڑھ بھی رہا تھا:

"یہ میرا ٹائم تھا الوینہ۔" وہ کئی بار کہہ چکا تھا:

"تمہیں دو گھنٹے دیے تھے کہ دو گھنٹوں میں اپنا کام ختم کرو، پھر مال چلیں گے۔ آپ تین گھنٹے لے گئی ہیں، یوئر آنر۔"

"تم جلدی جلدی ٹائپ کرو ناں۔" الوینہ نے فائل پر سے نظر اٹھا کر، الماری کے قریب رکھے واحد صوفے پر ٹانگیں پساڑے بلال کو دیکھ کر کہا تھا:

"جتنی جلدی ٹائپ کرو گے، اتنی جلدی ہم مال چلیں گے۔"

"میں ٹائپ کر دیتا لیکن تم ٹائپ نہیں کروا رہیں، رائٹ (write) کر وا رہی ہو۔ وہ بھی اردو میں۔ عرصہ ہوا مجھے اردو پڑھے۔"

"پر لکھنی تو آتی ہے ناں۔" الوینہ نے نوٹس لیے بغیر کہا تو بلال چپ چاپ لکھتا رہا۔ الوینہ نے فائلز بند کیں اور انہیں میز پر رکھا تو دروازے میں یکلخت چپڑاسی نظر آیا۔ چہرے پر زلزلے کے آثار تھے، تھوک نگلتے ہوۓ کہا:

"باجی، وہ صاحب آۓ ہیں۔"

"کونسے صاحب آۓ ہیں؟" الوینہ نے عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بال پوائنٹس ڈبے میں ڈالیں۔

"وہی باجی، وکیل صاحب۔۔۔ جو کورٹ میں آپ پر غصہ ہو رہے تھے۔"

"تم پر کورٹ میں کوئی غصہ ہو رہا تھا؟" بلال یکلخت چونکا۔ الوینہ کے ماتھے پر بل پڑے۔ وہ بے زار نظر آرہی تھی، تنک سی گئی تھی۔

"کہاں ہیں وہ؟" 

"باہر کار میں بیٹھے ہیں جی۔" چوکیدار ہڑبڑایا ہوا نظر آرہا تھا۔ الوینہ جیسے خود پر جبر کر کے بیٹھی:

"بلاؤ صاحب کو۔"

چوکیدار ہاتھ سر تک لے گیا اور باہر گیا۔ الوینہ گردن کرسی پر گراۓ سوچتی رہی۔ اس کے ابرو تنے ہوۓ تھے، چوڑی پیشانی پر بل پڑے ہوۓ تھے۔ بلال کی لکھنے کی رفتار سست ہو گئی تھی۔ وہ الوینہ کے تاثرات نوٹ کر سکتا تھا۔ کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ دہلیز پر قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی بچے کی بولنے کی آواز آئی تو بلال کا قلم رک گیا۔ قدم اندر آگۓ اور دروازے سے اندر آتی روشنی کا راستہ رک گیا تو بلال خود بھی ٹھٹک گیا۔ 

اس کا دماغ بے اختیار ماؤف ہوا تھا۔ سر جھکا ہوا تھا، نگاہیں کاغذ پر تھیں لیکن ذہن بھٹک گیا تھا۔ یونہی اس کی نظریں بھٹکیں اور ورق کی پیشانی پر جا پڑیں۔ وہاں دفاعی وکیل کے نام کے آگے جلی حروف میں لکھا تھا:

"ایڈووکیٹ ضوریز حسن۔"

"اپنا بیٹا ساتھ لاۓ ہیں؟"

الوینہ کی طنزیہ آواز گونجی تھی۔ ضوریز اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھا تھا۔ بیٹے کو اشارہ کیا تو وہ بھی برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

"اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اپنے پاپا جیسا بہادر بننا ہے۔ اس لیے میں اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔"

صوفے پر دور ٹیک لگاۓ بلال کا قلم پھر حرکت نہیں کر سکا تھا۔ وہ نظریں ورق پر گاڑے کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ بدلا کچھ نہیں تھا۔ الوینہ جہاں داد آج بھی ضوریز حسن سے مل رہی تھی۔ وہ آج بھی اس سے رابطے میں تھی، آج بھی اس سے۔۔۔۔

وہ دونوں بات کر رہے تھے اور بلال صوفے پر جیسے غائب ہو گیا تھا۔ یعنی  نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ ان دونوں کے لیے بلال اب معنی نہیں رکھتا تھا۔ آج بھی، ضوریز حسن اس کے لیے بلال عطاء اللہ سے زیادہ اہم تھا۔

"دیکھیں اگر مجھے میری شکست سے خوفزدہ کرنے آۓ ہیں تو۔۔۔"

الوینہ تنک کر کہہ رہی تھی۔ 

"میری بات تو سنیں۔۔۔" ضوریز کا لہجہ ٹھنڈا تھا۔ اس کا انداز بھی دوستانہ تھا:

"ہم۔۔۔ سیٹل منٹ کر سکتے ہیں، میم۔"

"اب جب یہ کیس ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے، میں سیٹل منٹ نہیں کروں گی۔"

"پھر ہائی کورٹ میں ہار جائیں گی۔" ضوریز جیسے اس کی شکست کے لیے پریقین تھا۔ ٹیک چھوڑ کر بیٹھا:

"آپ نے پچھلی پیشی پر عدالت میں تاریخ لینا چاہی اور کیس ملتوی کرنا چاہا۔ میں نے اعتراض کیا اور جسٹس نہیں مانے۔ اگلی تاریخ تک آپ کے پاس اپنے موقف کی حمایت میں ثبوت تو اکٹھے ہو نہیں سکتے۔ آپ کو عدالت میں ہار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے آپ بھری عدالت کی بجاۓ بس میرے سامنے ہار جائیں اور سیٹل منٹ پر راضی ہو جائیں۔ میں مدعی الیہ کے خاندان والوں کو ملزم کے ذریعے منہ مانگی قیمت دلوا دوں گا۔"

کمرے میں لمحہ بھر کے لیے سکوت چھایا تو الوینہ کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ ابھری۔

"کیا آپ آج تک سارے کیسز اسی لیے جیتے ہیں کیونکہ آپ عدالت کے باہر پراسیکیوٹرز کو منہ مانگی قیمت میں خرید لیتے ہیں۔"

"کیا کروں۔ سب خود ہی بک جاتے ہیں۔" ضوریز نے اتنا کہہ کر قہقہہ لگایا۔ الوینہ بھی مسکرائی اور ٹیک لگا لی:

"پھر آج سب بدل گیا، مسٹر حسن۔ الوینہ جہان داد نہیں بِکی۔"

"مسز بلال۔" بلا کا تحمل تھا اس میں:

" میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس کیس میں آپ کی شکست پکی ہے۔ مان کیوں نہیں لیتیں۔"

"مان لیا۔ مان لیا کہ میں عدالت میں ہار جاؤں گی۔ لیکن۔۔۔ میں سیٹل منٹ ہرگز نہیں کروں گی۔"

ضوریز نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ٹیک چھوڑ دی۔ ایک نظر الوینہ کو دیکھا، پھر اپنے بیٹے پر نظریں جما لیں۔ دو انگلیوں سے میز بجائی اور مسکرایا:

"پراسیکیوٹر کے الفاظ نوٹ کرو بیٹا۔ وہ کیسے تڑخ کر ڈیفینڈر سے مفاہمت کرنے سے منع کر رہی ہے۔ پھر عدالت میں اس دن پراسیکیوٹر کے چہرے کے زاویے نوٹ کرنا جب وہ ہار جاۓ گی اور جسٹس فائنل فیصلہ میرے حق میں دیں گے۔" 

"کیوں اپنے چھوٹے سا بچے کا دماغ خراب کرتے ہیں۔" الوینہ کو برا لگا:

"اگر کوئی معجزہ ہوا اور میں یہ کیس جیت گیی، بھری عدالت میں آپ پہلی بار ہار گۓ تو آپ کے بیٹے کی نظروں میں آپ کی کیا عزت رہ جاۓ گی۔"

"My papa won't fail."

لڑکا بے اختیار ہی بولا۔ کمرے میں ایک لمحے کے لیے سکوت چھایا۔ ضوریز نے انگلیوں سے کان کی پشت کو رگڑا، پھر کندھے اچکا دیے:

"تو آپ کا فیصلہ بدلنے والا نہیں ہے۔"

"بلکل۔" 

ضوریز اٹھ کھڑا ہوا:

"کورٹ میں ملتے ہیں، میم۔"

اپنی بیٹے کی انگلی تھامے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا چیمبر سے باہر جا رہا تھا۔ نگاہ بے اختیار بلند ہوئی اور چیمبر کے کونے میں رکھے صوفے پر لیٹے بلال پر پڑی۔یونہی چلتے ضوریز کے قدموں میں روانی آگئی۔ دونوں کے قدموں کی آہٹ چیمبر سے باہر چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"چلے آتے ہیں منہ اٹھا کر مجھے ہراس کرنے۔"

الوینہ بڑبڑائی۔ بلال کا ذہن منتشر ہو چکا تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا، کاغذ موڑ کر فائل میں رکھ دیے۔

"لکھ چکے؟" الوینہ حیرت زدہ رہ گئی۔ بلال صوفے سے اٹھ گیا۔

"یہ ایڈووکیٹ کورٹ میں تم پر غصہ ہو رہا تھا؟" فائل میز پر رکھ کر اس نے سوال کیا تو آواز گھمبیر تھی۔

"اور کیا۔ میں نے بس کیس کو ایکسٹنڈ کرنے کے لیے ایک تاریخ کی مانگ کی تھی۔ صاحب جان تو یوں اکڑ گۓ جیسے میں نے اپنے حق میں فیصلہ کرنے کی سفارش کر دی ہے۔"

"اس میں غصہ کرنے والی کیا بات تھی۔ کورٹ میں یہی تو ہوتا ہے۔" بلال کچھ مضطرب تھا۔

"وکیل، یونہی مخالف وکیل کی دھجیاں اتارتا ہے۔ کورٹ میں یہی تو ہوتا ہے۔" الوینہ مسکرائی۔ بلال کی نگاہیں الوینہ کے آر پار ہوئی تھیں:

"جب تم جانتی ہو کہ تم ہار جاؤ گی تو یہ کیس چھوڑ کیوں نہیں دیتیں الوینہ۔"

الوینہ نے بلال کے دونوں ہاتھ تھام لیے:

"تم نے ہی تو مجھے ثابت قدم رہنا سکھایا ہے بلال۔ چند لوگوں کے ڈر سے میں یہ کیس چھوڑ دوں۔ ہار جانے کے خوف سے اپنے موقف سے ہی دستبردار ہو جاؤں۔"

"اپنی حالت پر بھی تو غور کرو۔" 

الوینہ اس کا اشارہ بھانپ گئی۔

"مہرے بچے کو کچھ نہیں ہو گا۔ کم از کم اس بار تو کچھ نہیں ہو گا۔"

اس نے مسکرا کر فائنل اٹھائی تو بلال کے لب بھینچ گۓ۔ ضبط ٹوٹ گیا۔

"صحیح بتاؤ۔ یہ کیس اس لیے نہیں چھوڑ رہی کہ تم آخری دم تک لڑنا چاہتی ہو یا اس لیے نہیں چھوڑ رہی کہ تم ضد میں بس ایک بار ضوریز حسن کو ہرانا چاہتی ہو۔"

الوینہ بچی تو نہیں تھی کہ اس کا اشارہ نہ سمجھتی۔ بے اختیار سہم سی گئی۔ پھر مسکرائی لیکن تاثرات پریشان کن ہی رہے۔

"کیا۔۔۔ کیا کہہ رہے ہو۔۔ بلال؟" اس کا بے چین سا چہرہ دیکھ کر بلال نے کندھے اچکا دیے۔

"کچھ نہیں۔ میں بس کہہ رہا تھا کہ چلو باہر چلتے ہیں۔"

پلٹ کر اس نے صوفے پر رکھی جیکٹ اٹھائی۔ الوینہ کا دماغ گھوم سا گیا لیکن وہ جلد خود پر قابو پا گئی۔ ٹیبل پر سے بلال کی رکھی گئی فائل اٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگی۔

"تم نے تو اسے مکمل بھی۔۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رک گئی۔ بلال نے جیکٹ پہن لی تھی:

"تھک گیا ہوں لکھ لکھ کر۔ دیکھو، اب تم یہ لکھنے مت بیٹھ جانا۔ ہم نے مال جانا ہے جیسا کہ پلان کیا تھا۔ میں کسی مزید وکیل کو میرے فری ٹائم میں مداخلت نہیں کرنے دوں گا۔"

گھوم کر اس نے الوینہ کو دیکھا تھا:

"الوینہ چلیں؟" الوینہ کی پیٹھ بلال کے جانب تھی۔ بلال چابی لہراتے ہوۓ اس کے قریب آیا تھا۔

"الوین۔۔۔۔"

بلال کے الفاظ درمیان میں رہ گۓ۔ الوینہ کی نگاہیں فائنل پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ مقدمے کی وضاحت پڑھ رہی تھی کسی بلال نے ابھی تحریر کیا تھا۔ اردو میں لکھائی، شناسا سی لکھائی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تمہارے گمنام مسیحا کی لکھائی تو بہت زبردست ہے۔ شاید اس نے کسی خطاط سے یہ خط لکھوایا ہے۔"

الوینہ کی آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں، جسم منجمد ہو گیا تھا۔

وہ خط۔۔۔" یادوں میں کہیں منان کہہ رہا تھا:

"وہ خط میں نے تمہیں لکھے تھے۔"

الوینہ کی نگاہوں کا مرکز نہیں دل سکا تھا۔ بلال۔۔۔ یہ فائنل بلال نے لکھی تھی۔ وہ خط۔۔۔ وہ خط۔۔۔

"میں۔۔۔ میں باہر کار میں انتظار کر رہا ہوں۔"

وہ الٹے قدموں ہٹ گیا تھا۔ الوینہ کے لیے سب لمحہ بھر میں غائب ہو گیا تھا۔ یہ سب کیا تھا، کیا بس نظروں کا سراب تھا، کیا وہ نظر آرہا تھا وہ حقیقت سے تعلق نہیں رکھتا۔ الفاظ سامنے تھے، الفاظ حقیقت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ 

وہ کھڑی رہی۔ ساکت رہی۔ بہت دیر یونہی پتھر کا مجسمہ بنی رہی۔ پھر دروازے پر دستک ہوئی۔ الوینہ سر نہیں اٹھا سکی۔ چوکیدار کی بس آواز ہی آئی تھی:

"یہ بلال صاحب نے دیا ہے باجی۔"

بلال خود اندر نہیں آیا تھا۔ چوکیدار میز پر رکھ کر چلا گیا۔ الوینہ کی نگاہوں نے میز پر رکھی چیز کا احاطہ کیا۔ وہ کاغذ تھا۔ ویسا ہی ایک ورق پر مشتمل خط تھا۔ ورق کے درمیان میں متن تحریر شدہ تھا۔ وہ راز تھا جو کھل چکا تھا:

"میں کہتا تو ہوں کہ تم ذہین ہو۔ مجھے پتا تھا تم پہچان لو گی، الوینہ۔ تم پہچان چکی ہو اور یقیناً گہرے صدمے میں ہو۔ جانے کیوں مگر حقیقت یہی ہے کہ میرے سرپرائز تمہیں صدمے میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ میں تمہیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا لیکن میرے سرپرائز، ہر بار تمہیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔" الوینہ نے ایک ہاتھ سے میز کا کونا تھاما تھا، بیٹھتی چلی گئی تھی:

"ہاں میں نے تمہیں کئی خط لکھے۔ کچھ مجبور ہو کر، کچھ جان بوجھ کر۔ وہ غلط عادت تھی۔ بچگانہ سا طریقہ تھا۔ پر مجھے جاننا تھا کہ تم لوگوں کے بارے میں، میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔ مجھے جاننا تھا کہ تم محفوظ ہو کہ نہیں۔ کیونکہ الوینہ جہاں داد، 

جو بتا کر کی جاۓ وہ حفاظت نہیں ہوتی۔ 

جو جتا کر کی جاۓ، وہ محبت نہیں ہوتی۔"

الوینہ نے محسوس کیا کاغذ لمحے میں اس کے آنسوؤں کے زیرِ اثر تر ہو گیا۔ وہ اب آخری دو سطریں پڑھ رہی تھی:

"تم باہر آؤ الوینہ۔ میں پوچھوں گا کہ تم نے کہاں جانا ہے۔ اگر تم 'مال' کہو گی تو ہم سب بھول جائیں گے۔ ہم ایسے ظاہر کریں گے کیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اگر تم "گھر" جانا چاہوں گی تو ہم کبھی ایک نہیں ہو سکیں گے الوینہ۔ 

اور جو کچھ میں نے کیا، اس کے لیے مجھے معاف کرنا۔"

اس نے سر میز کے کونے سے ٹکا لیا تھا۔ کتنی دیر وہ اسی پوز میں بیٹھی رہی یہاں تک کہ جسم درد کرنے لگا۔ آنکھیں خشک ہونے سے انکاری تھیں۔ الوینہ نہیں جانتی تھی وہ ابھی بھی باہر موجود ہے یا نہیں۔ اس نے ہمت کی، ٹانگوں پر زور دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ خط وہیں چھوڑ دیا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر آگئی۔

کار چیمبر کے دروازے سے کچھ دور پارک شدہ تھی، بلال سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاۓ، آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔

الوینہ کے قدموں میں روانی آگئی تھی، اپنے آنسو پونچھنے کی بے کار کوشش کیے بغیر اس نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور بیک سیٹ پر آبیٹھی۔ بلال نے اسے فرنٹ مرر میں دیکھا اور سر جھکا لیا۔

"کہاں چلیں؟"

الوینہ نے اپنے لرزتے ہوۓ بائیں ہاتھ سے لبوں کو ڈھک لیا۔مال۔۔۔ مال۔۔۔مال۔۔۔

"گھر۔" تیں حرفی لفظ لبوں سے ادا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بلال کا چہرہ تاریک ہو گیا۔ کار میں خاموشی چھائی رہی۔ پھر کار جھٹکے سے آگے بڑھنے لگی۔ الوینہ کو ہر شے سے اجنبیت محسوس ہو رہی تھی۔ کار گھر کے عین سامنے رکی تو وہ جھٹکے سے اتری اور پیٹ پر ہاتھ رکھے اندر کی طرف بھاگی۔ عقب میں ایکسیلیریٹر چلنے کی آواز آئی تو وہ ٹھٹکی۔ گھوم کر دیکھا تو نظر آیا کہ کار نے پوری قوت سے ریورس گیئر لگاتے ہوۓ موڑ کاٹا تھا۔

"بلال۔"

الوینہ نے کسی انجانے خدشے کے تحت سرگوشی کی۔ خدشہ درست ثابت ہوا تھا۔ عقب سے آنے والی کار بری طرح بلال کی کار سے ٹکرائی۔

ایک لمحے میں حادثہ ہو گیا تھا۔

الوینہ جہاں داد نے اس کا کھلونا ڈریگن چھین لیا تھا۔

بلال کو یکلخت کچھ سجھائی نہیں دیا۔ وہ بھی الوینہ کے تعاقب میں بھاگا۔ کچن کے دروازے پر رک گیا اور پھر لرز کر رہ گیا۔

وہ چاقو سے اس کے کھلونے کو چیر پھاڑ کر رہی تھی۔ اپنے غصہ کھلونے پر نکالنے کے بعد اس نے پھٹا ہوا فوم کا ڈریگن بلال کی جانب اچھال دیا اور فاتحانہ انداز میں چلتی باہر نکل گئی۔⁦ بلال کی آنکھیں یکلخت آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس لیے نہیں کہ الوینہ نے اس کا کھلونا چھین کر پھاڑ دیا تھا۔

بلکہ اس لیے کہ اگر اسے یہ کھلونا اچھا لگا تھا تو اس نے مانگا کیوں نہیں تھا۔ وہ ایک بار مانگتی تو وہ دے دیتا۔ وہ اپنے سب کھلونے اسے دیتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے اپنی چھوٹی کزن پسند تھی۔

مغرور سی، خوبصورت سی، وہ کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی لیکن اس کا تو جیسے دل آگیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ کھیلنا چاہتا چاہتا تھا، اپنے سب کھلونے اس کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا لیکن وہ واقعی منفرد سی تھی۔ اسے جواباً مارتی تھی، ڈانٹتی تھی۔ کتنی بار اس نے بلال کا سر پھوڑ دیا تھا، اسے سیڑھیوں سے دھکا دے دیا تھا۔ وہ اس سے بات بھی تو نہیں کرتی تھی، اس کے ساتھ کھیلتی بھی تو نہیں تھی۔

وہ بڑا تھا۔ اس نے شعور کی منزل پر قدم پہلے رکھا تھا۔

وہ اب چھوٹے بچے نہیں تھے۔ بلال کو مانچسٹر بھیجنے کے سب انتظامات ہوگۓ تھے۔ وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہیں جہاں داد ہاؤس میں رہنے کا خواہشمند تھا۔ اس نے طبیعت خراب جیسے کئی بہانے بنا کر کچھ دن، بس کچھ دن مزید رکنا چاہا لیکن وہ کچھ دن بھی گزر گۓ۔ وہ جا رہا تھا۔ وہ خوش نہیں تھا۔

خوش تو اسے پھپھو کی بات نے کیا تھا۔ 

الوینہ جہاں داد۔۔۔ اس کی منگیتر۔۔۔

یہ ایک طرح کا وعدہ تھا کہ وہ اسے مانچسٹر میں مقیم اس کی پھپھو کے پاس محض پڑھنے کے لیے بھیج رہی تھیں۔ بلال کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی لیکن وہ ظاہر نہیں کرتا تھا۔ وہ کبھی اپنے جذبات کسی پر واضح ہی نہیں کرتا تھا۔ ایک خوش کن احساس لیے وہ رخصت ہوا تھا، یہ جانے بغیر کہ اس کا محبوب اس رشتے میں کرنے سے کس قدر بے زار ہوا تھا۔

وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی۔ بلال عطاء اللہ کو پتا تھا۔

وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ بلال عطاء اللہ کو یہ نہیں پتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ تہی دامن سی کاریڈور میں کھڑی رہ گئی تھی۔

اس کی نظروں کے سامنے وہ خون آلود وجود دوڑ گیا جو بے ہوش اسٹریچر پر پڑا رھا، جو ڈاکٹرز کے ساتھ آئی سی یو میں مقید تھا۔ 

وہ زندہ تھا یا نہیں، الوینہ وہ پتا نہیں تھا۔

وہ زندہ بچے گا یا نہیں، الوینہ کو یہ بھی نہیں پتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مالیا او ہینری۔۔۔ وہ یونیورسٹی کی ماسٹر مائنڈ تھی۔

اس کا حلیہ لڑکوں سے میل کھاتا تھا، چہرہ بچوں جیسا تھا۔ کمپیوٹر سافٹ ویئرز اور پائیریسی میں اسے کمال حاصل تھا۔ ایک بار اس نے جیکب اور ریتا کی وٹس ایپ پر ہونے والی بڑی رومینٹک گفتگو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے کاپی کر کے ریتا کے بواۓفرینڈ کو بھیج دی۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں جو ہنگامہ ہوا، الامان۔ جیکب کے تیور خطرناک تھے۔ وہ جانتا تھا ساری کارستانی مالیا کی ہے۔ 

تب بلال نے اسے بچایا تھا۔

چپکے سے اسے سارے جمگھٹے میں سے کھینچ کر وہ اسے اپنے روم میں لے آیا اور جب تک ہنگامہ ٹل نہیں گیا، اسے وہیں رکنے کی آفر کی۔

"مجھے کیوں بچایا؟" وہ مشکوک ہوئی۔ بلال کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی۔ اس نے بس یونہی ہمدردی کا مظاہرہ کیا، شاید اس لیے کہ مالیا ایک لڑکی تھی۔ البتہ مالیا کو اس کا رویہ بھا گیا تھا۔ مالیا بہت دیر اس کی چیزیں چھیڑتی رہی، اس کے فون پر بے کار سے کلکس کرتی رہی، پھر اچانک اس کی نگاہ لیپ ٹاپ پر پڑی۔

"ہۓ، کیا یہ تمہاری گرل فرینڈز ہے؟" بہت اشتیاق سے اس نے لیپ ٹاپ کو گھورا۔ بلال چونک سا گیا۔ اٹھ کر لیپ ٹاپ چھیننا چاہا لیکن مالیا اسے لے کر دور جا کھڑی ہوئی تھی۔

"ویسے تو پیاری ہے۔ بتاؤ ناں، تمہاری گرل فرینڈز ہے؟ اسے ڈیٹ کر رہے ہو۔"

وہ اب گیلری کھول کر وہ ساری تصویریں دیکھ رہی تھی جو بلال نے جانے کتنی جنتوں سے حاصل کی تھیں۔

"کاش وہ میری گرل فرینڈز ہی ہوتی۔ کاش میں اسے ڈیٹ کر سکتا۔" آہستگی سے کہہ کر وہ واپس بیٹھ گیا۔ مالیا رک کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیوں، تم میں کیا کمی ہے؟" بلال جواباً ہنسا:

"تمہیں نظر نہیں آتی؟" وہ اب پلٹ کر مالیا کو دیکھ رہا تھا:

"میرا نام، میرا کام، میرا وجود، کچھ بھی منفرد نہیں ہے۔ اور وہ، وہ الوینہ جہاں داد ہے۔ وہ پوری دنیا کی عورتوں میں بس ایک ہے، وہ سب سے خوبصورت ہے۔" اپنا کام چھوڑ کر وہ اب میز پر سر رکھے، آنکھیں بند کیے بول رہا تھا۔ مالیا نے اونہہ کی آواز نکالی۔

"مجھے تو بس وہ ایک مغرور سی لڑکی نظر آتی ہے جس نے تمہیں احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے۔"

"وہ مجھ سے پیار نہیں کرتی مالیا۔" شاید اسے کمرے میں لانے سے پہلے بھی وہ یہی سوچ رہا تھا، تبھی تو اب روانی سے بول رہا تھا۔ پنسل لبوں میں دباۓ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد کہا:

"اگر وہ مجھے نہ ملی، تو میں کیا کروں گا؟"

"کیا کرو گے؟"

بلال کی آنکھوں میں خالی پن سا نظر آیا۔

"مر جاؤں گا۔"

اب اسٹریچر پر خون آلود وجود پڑا تھا۔ 

وہ مرنے کو تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے ملے گی، وہ اس کی ہو کر رہے گی۔

پھپھو نے اسے دورانِ کال پوچھا تھا کہ وہ کب واپس آرہا ہے۔ 

انہوں نے الوینہ کا تذکرہ بھی کیا تھا اور بلال خوشی سے پھولے نہیں سمایا تھا۔ اس کا نام سن کر ہی عجیب سی خوشی ہوتی تھی، اب اسے روبرو دیکھے گا تو کتنی خوشی وہ گی۔

🎵 Years ago when I was younger

I kinda liked a girl I knew🎵

وہ واپس آیا تھا۔

بہت عرصے بعد واپس آیا تھا اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا پھپھو لاؤنج سے اٹھیں اور کسی طرح اس کی کزن اس کے سامنے آکر بیٹھ جاۓ۔ اس کی خواہش بہت جلدی پوری ہوئی تھی۔ الوینہ کی چیخنے کی آواز سن کر ہی وہ اسے پہچان گیا تھا۔ سر اٹھا کر سیڑھیوں سے اتراتی لڑکی وہ دیکھا اور ٹھٹھک سا گیا۔

اپنے تاثرات اس نے لمحہ بھر میں چھپاۓ لیکن اضطراب چہرے سے عیاں تھا۔ پھر کنکھیوں سے اس نے دیکھا تو وہ مقابل صوفے پر بیٹھی، بازو اٹھاۓ، بال باندھ رہی تھی۔ شرٹ اس کی انتہائی تنگ تھی، دوپٹہ جسم پر موجود نہیں تھا۔ وہ مانچسٹر کے آزاد ماحول میں رہ کر آیا تھا۔ اسے الوینہ کا انداز برا نہیں لگا تھا لیکن وہ حیران ضرور ہوا۔

کیا یہ ماڈرن سی، بولڈ سی لڑکی وہی تھی جو اس کی منگیتر تھی؟

🎵 She was mine and we were sweethearts 

That was then, but then it's true 🎵

"ایک طریقہ ہے کہ ہم سچ کا پتا لگا سکتے ہیں۔" مالیا نے بہت رازدانہ انداز میں کہا تھا تو بلال چونک گیا تھا۔ نگاہیں لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ٹک گئی تھیں۔ ادھر مالیا کہتی جا رہی تھی:

"لڑکی کو دو عوامل ہی مغرور بناتے ہیں یار۔ یا تو کوئی اس کی تعریف کرے، یا کوئی اس سے محبت کرے۔ اس کی جاسوسی کرتے ہیں بلال۔ دو تین دن اس پر پہرہ تو دو۔ تمہیں معلوم ہو جاۓ گا مسئلہ کیا ہے۔ تمہیں معلوم ہو۔۔۔۔"

"میں ابھی اتنا بھی بے غیرت نہیں ہوں کہ اس پر نظر رکھوں۔ اس کی اپنی زندگی ہے، جیسے چاہے گزار سکتی ہے۔"

لیکن جانے کیوں وہ جب کلب کے لیے نکلی تو بلال پیچھے ہی ہو لیا تھا۔ اس نے اسٹیج پر الوینہ کو وائلن پلے کرتے ہوۓ دیکھا تھا۔ وہ پریقین تھا الوینہ نے اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ اختتام پر وہ اس سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ مصروف تھی، وہ کسی اور کے ساتھ مشغول تھی۔ بلال کو وقت نہیں مل سکا۔ وہ اس کے سامنے نہیں جا سکا لیکن اپنے دل کے ہاتھوں مجبور اس کے آرٹ کی تعریف کیے بغیر بھی نہیں رہ سکا۔ اس نے یونہی بے مقصد سا رقعہ لکھ بھیجا۔ لان میں وہ جب اس کے سامنے آئی تو بلال کی کچھ ہمت بندھی۔ اس نے الوینہ سے بات کرنا چاہی، اس کو جاننا چاہا لیکن یہاں کایا پلٹ چکی تھی۔

تھپڑ کھا کر اسے شدید احساس ہو اتھا،

ہاں، وہ اب اسکی نہیں رہی تھی۔

🎵 I am love with a fairytale

even though it hurts🎵

لیپ ٹاپ گود میں رکھے، سپاٹ چہرہ لیے، وہ سپاٹ لہجے میں کہہ رہا تھا:

"اگر اسے پتا چل گیا کہ اس کو خط میں لکھ رہا ہوں؟ اگر اسے پتا چل گیا کہ اس کی جاسوسی میں کر رہا ہوں، اسے ای-میلز میں بھیج رہا ہوں تو؟"

"تو ہم محبت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہار جائیں گے۔"

بلال نے سر اٹھا کر خود کو آئینے میں دیکھا تھا:

"یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔"

🎵 'cause I don't care if I lose my mind

I'm already cursed.... 🎵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کنزیٰ اس کی ہر بات مانتی تھی۔

اس کے ذریعے الوینہ کے کمرے میں خط رکھوانا اور پھر اسے ایک دو چاکلیٹس کا لالچ دے کر چپ کروانا بلال کے لیے آسان تھا۔

جی-پی-ایس الوینہ کی کار میں تھا۔ فون لوکیشن سے بھی باآسانی پتا چلتا تھا وہ کہاں جاتی ہے، کیا کرتی ہے۔ مانچسٹر میں رہ کر اس پر نظر رکھنے میں دقت پیش آتی تھی لیکن اب جب وہ واپس آگیا تھا تو کام آسان تھا۔ لیکن ہاں، وہ اپنا ہی دل جلا رہا تھا، خود کو ہی تکلیف دے رہا تھا۔

وہ الوینہ کو ہر ہر،جگہ دیکھتا سکتا تھا۔ 

اس نے الوینہ جہاں داد کو ضوریز حسن کے گھر میں بھی دیکھا تھا۔

اور قسمت اس قدر ظالم تھی کہ وہ اس وقت جہاں داد ہاؤس میں لوگوں کے درمیان تھا۔

ضبط کی حد سے گزرتا وہ سب کو نظرانداز کرتا واش رومز تک آیا اور دروازہ لاک کر کے سنک کے قریب جھک گیا۔

وہ آدمی جسے بلال نے ابھی تک زیادہ اہمیت نہیں دی تھی، وہ اسے سینے سے لگاۓ کھڑا تھا۔

وہ الوینہ جہاں کو بازوؤں میں باندھے اس کے لبوں کے گھونٹ بھر رہا تھا۔

دو آنسو بلال کی آنکھوں سے نکل کر چہرے پر پھسل گۓ تھے۔

مرشد میں عشق میں جھٹلایا گیا ہوں!

مرشد میں ہارا نہیں، ہرایا گیا ہوں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوینہ جہاں داد کے لیے اب رحم نہیں۔۔۔ 

اس کے ساتھ بیوفائی کرنے والی عورت سے اب اور محبت نہیں۔۔۔ اس نے ٹھان لی تھی۔ لیکن محبت اس نے کی کب تھی جو اب ترکِ محبت خود کرتا۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی وہ اپنے معمول میں مستقل مزاج رہا۔ اس پر نظر رکھے رہا۔ وہ چاہتا نہیں تھا لیکن جذبات کی رو میں اسے خط پر خط، میل پر میل کرتا رہا۔

ضوریز حسن۔۔۔ وہ اس کے بارے میں سب جان گیا تھا۔ جو اس کے متعلق راز تھے، وہ راز ہی تھے لیکن کم از کم بلال کو یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ الوینہ جہاں داد کا وہ معشوق ایک عدد منگیتر کا مالک تھا۔ بلال کا دل جل گیا تھا۔ وہ جل کر ہی تو رہ گیا تھا۔ پھر وہ نرم پڑا تھا۔ بہت دیر سوچتا رہا تھا۔

کیا الوینہ جانتی تھی؟  وہ نہیں جانتی تھی، جبھی تو اس دن ہال میں سب کے درمیان اس ایک مرد کے لیے اسٹینڈ لے رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ بلال کو ٹھکرا رہی تھی۔ بلال کا رہا سہا دل بھی کرچیوں میں بدل گیا۔ وہ اداس تھا لیکن اس نے دیکھا الوینہ اس سے زیادہ اداس تھی۔ وہ پھپھو اور حنان کے روبرو نڈر بن کر اپنے لیے اسٹینڈ لے رہی تھی لیکن جیت نہیں پا رہی تھی۔

بلال کو اسے کسی طرح جتوا دینا چاہیے تھا۔

مالیا او ہینری کو اپنی محبوبہ بتا کر اس نے الوینہ کو خود سے مزید دور کر دیا۔

وہ اس کا دل دکھانا نہیں چاہتا تھا لیکن الوینہ کے اس قدر پختہ یقین، اس کی اس قدر محبت سے بلال کو حسد ہونے لگا۔ وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس کی محبت یک طرفہ ہے یا نہیں لیکن وہ الوینہ کو اس حقیقت سے ناشناس بھی نہیں رکھنا چاہتا تھا جو اسے جاننے کا حق تھا۔

وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس کے محبوب کا دل صرف الوینہ کے پاس نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی یہ حرکت دردمندانہ بھی تھی، خودغرضانہ بھی تھی۔

اس کی یہ حرکت الوینہ کا دل دکھا گئی تھی۔

مگر بلال نے دیکھا کہ اس کے اس عمل سے کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔ سب خودبخود سیٹل ہو گیا۔ الوینہ کا معشوق خود چل کر الوینہ کو منانے ایا۔ اس نے الوینہ سے نکاح کرنے کی خواہش کی۔ بلال ایک بار پھر ہار گیا۔

اسے اب سب اوچھے ہتھکنڈے چھوڑ کر محبت سے دستبردار ہونا چاہیے تھا۔

وہ دستبردار ہو گیا۔ ہاں، وہ خود کو الوینہ جہاں داد سے دور لے گیا، تب مالیا کے انکل جرمنی گۓ تھے لیکن وہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آئی ہوئی تھی۔ بلال کو پتا نہیں تھا لیکن قسمت نے اس کے لیے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال نے بس اتنا دیکھا تھا کہ وہ کانپتے ہوۓ، سسکتے ہوۓ لاؤنج کے درمیان میں گری ہوئی تھی اور عمیر اس پر جوتے برسا رہا تھا۔

وہ کانپ کر رہ گیا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں پایا تھا۔

"مولوی صاحب آۓ ہوں گے، انہیں بلاؤ اندر۔"

عمیر کی آواز سن کر وہ بھونچکا رہ گیا۔ مولوی صاحب آۓ ہیں، اسے بلایا گیا ہے اور الوینہ رو رہی ہے۔ اسے سمجھنے میں دیر ہی کتنی لگی تھی۔ الوینہ ناں ناں کر رہی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا اس کے ساتھ زبردستی ہو رہی ہے۔

"زبردستی کی محبت؟ زبردستی کا نکاح؟"

اس کا جی متلا گیا اور وہ الوینہ کو چھڑانے عمیر کے سامنے آیا لیکن الوینہ۔۔۔ وہ اسی رات غائب ہو گئی۔ بلال سے زیادہ کون جانتا تھا کہ وہ کہاں گئی ہے اور ناکامیاب ہوئی ہے۔ وہ اسے واپس گھر لانا چاہتا تھا لیکن خود جانے سے ہچکچا رہا تھا۔

"اسے کچھ دیر باہر ہی رہنے دو بلال۔ دو گھنٹے بھی سردی میں باہر رہے گی تو اس کی عقل ٹھکانے آجاۓ گی۔" منان نے بلال کی بات سن کر ناک سے مکھی اڑائی تھی لیکن بلال سنجیدہ تھا۔

"تمہیں اندازہ بھی ہے تم یہ بات اپنی کزن کے بارے میں کہہ رہے ہو۔"

"پھر جاؤ اور اپنی چڑیل کزن کو خود واپس لے آؤ!"

بلال نہیں جا سکتا تھا۔ اسے پتا تھا اسے اس لمحے الوینہ پر غصہ آجاۓ گا تو نقصان ہو گا۔ لیکن اگر اسے اس لمحے الوینہ جہاں داد پر ترس آگیا تو۔۔۔۔

محبت پھر سے جاگ گئی تو۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منان جب اسے واپس لایا تو بلال نے دیکھا تھا اور بدقت کھڑکی سے ہٹا۔ مالیا تب اس کے روم میں تھی۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آئی تھی اور بلال کو دیکھ کر حیران تھی۔

"وہ تمہیں منہ نہیں لگاتی اور تم۔۔۔ تم اس سے اتنی محبت کرتے ہو، بلال؟"

"الوینہ جہاں داد سے محبت نہیں کروں گا تو کیا کروں گا۔" وہ بس سوچ کر رہ گیا۔ الوینہ کو تب اس کی ضرورت تھی۔ بلال جانتا تھا وہ اس کے لیے اہم نہیں بنا تھا، بس وہ ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنا رہی تھی ۔

بلال جانتا تھا وہ ضوریز حسن سے ہی ملنے کورٹ گئی تھی۔

اس نے الوینہ کے ہینڈ بیگ کے کلپ پر لگے کیمرے سے دیکھا تھا کہ اندر کیا ہوا۔ الوینہ جہاں داد رو رہی تھی۔ بلال کو برا لگا تھا۔ وہ واپس آئی تو وہ سب عداوتیں بھلا کر اس کا غم بانٹنا چاہتا تھا لیکن الوینہ نے یہ کہہ کر اسے گنگ کر دیا:

"پھپھو کو کہنا الوینہ شادی کے لیے تیار ہے۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال کو اس شادی کی ایک فیصد بھی خوشی نہیں تھی۔

کاغذی طور پر بیوی صحیح لیکن الوینہ اس کی نہیں تھی۔

وہ اسے اس کی حرکتوں سے روکنا چاہتا تھا لیکن روک نہیں پارہا تھا۔

اسے اپنانا چاہتا تھا لیکن اس کے قریب نہیں جا پا رہا تھا۔

اسے ضوریز سے متنفر کرتے کرتے بھی تھک گیا تھا۔ 

اس کا دماغ بھی الوینہ کے ذہن کی طرح منتشر ہو گیا تھا۔

کبھی اس پر غصہ کرتا تو کبھی اس پر ترس کھانے لگتا، کبھی اسے آزاد کر دینے کی قسم کھا لیتا تو کبھی کوشش کرتا کہ الوینہ جہاں داد کی کسی طرح تو اس کے ساتھ مطابقت پیدا ہو۔ 

مطابقت تو پیدا نہیں ہوئی، البتہ بلال نے اس کے دل میں اپنا خوف ضرور پیدا کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے اندازہ نہیں تھا الوینہ جہاں داد اس کا اس قدر کمزور پہلو تھی۔

ڈھیلی ڈھالی سی فراک میں ملبوس، نیند سے جھولتی جب وہ اس کی بانہوں میں گر رہی تھی، اس کے سینے پر اپنے لب رہی تھی تو بلال کو وجود سن ہو گیا تھا۔ الوینہ کے ریشمی بال اس کے سینے پر گر رہے تھے، نرم گرم ہونٹ گردن چھو رہے تھے، جسم سینے سے رگڑ کھا رہا تھا۔ 

اسے بہکنے میں ایک لمحہ لگا تھا۔

اسے اپنے آہنی بازوؤں میں قید کر کے وہ ساری رات اس سے سیر ہوا تھا۔ دل الوینہ کی نازک کلائیاں دکھا کر کہتا یہاں بھی بلال، اس کے گورے کندھے دکھا کر کہتا یہاں لب رکھو بلال، اس کی گردن کے بل، ٹانگوں کا حسن اور پھر اس سب کے بعد اس کے کانپتے ہوۓ ہونٹ۔۔۔ 

بلال شدت سے چومتا گیا اور اسے تکلیف دیتا گیا۔

اس کو پوری طرح برہنہ کر کے وہ الوینہ سے اپنے سارے ارمان پورے کر رہا تھا۔ وہ اس قدر سہم چکی تھی کہ ایک وقت آیا اس کی سسکیاں بھی دم توڑ چکی تھیں۔ بلال نے اس کی مزاحمت کے خلاف اس کے بازو باندھ کر بیڈ سے لگا دیے تھے۔ خود کو اسے سونپ کر وہ بے جان بستر پر اس کے وجود تلے چھپی کانپ رہی تھی، بس کانپ رہی تھی، کانپتی جا رہی تھی۔

بلال نے یک دم اسے چھوڑا تھا تو وہ سسک اٹھی تھی اور بلال۔۔۔

وہ کیوں بھول گیا کہ الوینہ جہان داد اس کی بیوی تھی، جیسی بھی سہی مگر اس کی عزت اپنی جگہ تھی۔

وہ کیوں بھول گیا کہ اس پر آج سے پہلے کسی نے درندگی کا مظاہرہ نہیں، اس نے درندگی کم اس کے جسم کی توڑ پھوڑ زیادہ کی تھی۔

اس کے لب کچھ کہنے کے لیے ہلے، آنکھوں میں نرمی کا تاثر ابھرا لیکن الوینہ اس کی گرفت سے نکل کر، تڑپ کر بھاگ گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی حرکت پر شرمندہ تھا۔ الوینہ کے قریب گیا تو وہ یوں سمٹ گئی جیسے اپنے وجود کی آپ مالک نہیں تھی۔

اس کی گردن کی کھرونچیں، لبوں کی سرخی، آنکھوں کی لالی اور پھر اس کی باتیں۔۔۔ بلال لب کاٹ کر رہ گیا تھا۔ وہ کسی صورت بھی معذرت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ معذرت چاہتی بھی نہیں۔ اس کے لیے ضوریز کا تھپڑ مارنا اور بلال کا آپے سے باہر ہو جانا ایک برابر تھا اور وہ تیسرا۔۔۔۔

بلال عطا اللہ جو الوینہ کے سامنے بلال کو ہی برا بھلا کہہ رہا تھا۔

اور الوینہ جہان داد، جو اس تیسرے کے سامنے بلال کا دفاع کر رہی تھی۔ اور پھر اس تیسرے سے پوچھ رہی تھی۔

"تم نے کہا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟"

اسے احساس ہو گیا تھا کہ الوینہ سب کی تھی۔۔۔ بس اس کی نہیں تھی۔

اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ اس گمنام خط بھیجنے والے شخص پر بھی بلال سے زیادہ اعتماد کرتی تھی۔

"یعنی بس بلال عطا اللہ میں ہی ٹیکنیکل فالٹ ہے۔" وہ جھلا اٹھا تھا۔ ایک منٹ میں فیصلہ کر گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آخر یہ ڈرامہ رچانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟" منان نے چھٹتے ہی مشکوک لہجے میں کہا۔ وہ الوینہ کے سامنے خود کو کاتب تسلیم کرنے پر راضی نہ تھا۔

"میری ایک بیوی ہے بلال۔ میں کیسے کسی اور کی بیوی کو جا کر کہوں کہ میں اسے محبت بھرے خط لکھتا تھا۔"

"تم کہہ سکتے ہو منان۔ کیونکہ تم خط نہیں لکھتے تھے۔" بلال اب بھی سنجیدہ تھا۔ منان سوچ میں پڑ گیا۔ بے یقین نگاہوں سے بلال کو دیکھا:

" الوینہ اس خط بھیجنے والے بلال عطا اللہ سے محبت کرتی ہے؟"

"ہاں۔"

"الوینہ اپنے شوہر بلال عطا اللہ سے محبت نہیں کرتی؟"

"نہیں۔"

"حالانکہ دونوں ایک ہیں۔"

"دونوں ایک نہیں ہیں۔"

بھلا جس نے الوینہ جہاں داد کو اس قدر ہرٹ کیا، وہ بلال عطا اللہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بلال صحیح تھا۔ وہ اسی رات اس کی بانہوں میں روتے ہوۓ کہہ رہی تھی:

🎵 I am in love with a fairytale

even though it hurts

'cause I don't care if I lose my mind

I'm already cursed.... 🎵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پریگننٹ تھی۔

بلال کو اس کی اس حالت پر اب ترحم سے بھی زیادہ غصہ، غصے سے بھی زیادہ اکتاہٹ ہوتی۔ وہ صاف صاف دیکھ سکتا تھا کہ اس کے رقیب ایڈووکیٹ کا الوینہ کو بسانے کا ایک فیصد بھی ارادہ نہیں تھا۔ جانتی تو الوینہ بھی تھی، پھر کیوں نہیں سمجھ نہیں رہی تھی۔

آۓ دن وہ اسے روتی ہی نظر آتی تھی۔

کمرے کے پاس بے ہوش ہی پڑی ملتی تھی۔

بکثرت نیند کی گولیاں کھانے لگی تھی اور اس قدر ضدی ہو گئی تھی کہ بلال کو اسے قابو کرنا مشکل تھا۔ اس رات بھی وہ ٹھنڈ میں ٹیرس پر کھلتی سیڑھیوں پر بیٹھی رو رہی تھی۔ بلال کو شدید غصہ آیا تھا۔ وہ اپنی پرواہ کیوں نہیں، وہ اپنے بچے کی پرواہ کیوں نہیں کر رہی۔ اس کا دل چاہا بازو سے گھسیٹ کر اسے کمرے میں لے جاۓ اور بستر پر پٹخ دے۔

"ہمیشہ ۔۔۔ مجھے ہی قربانی کیوں دینی پڑتی ہے بلال؟" وہ بلک کر کہہ رہی تھی اور بلال پتھر کا ہو گیا تھا۔ قربانی۔۔۔۔ہاں، بلال عطا اللہ نے آج تک کونسی قربانی دی ہے؟  اس نے تو محبت کی ایک لمحے کے لیے قربانی دی تو اگلے ہی لمحے محبت اس کے نام کر دی گئی۔ وہ آج محبت سے دستبردار ہوا اور کل محبت کو اس کے تائب قرار دے دیا گیا۔ اسے تو الوینہ جہاں داد مل گئی، بیوی کی صورت میں، جائز رشتے میں مل گئی۔ 

اور وہ۔۔۔

اسے کیا ملا تھا؟ 

کبھی کسی کی محبت نہیں، اپنی محبت بھی نہیں۔۔۔

وہ ہولے سے اس کے قریب بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا، محبت کے رشتے سے نہیں بلکہ ہمدردی کے رشتے سے۔۔۔ اور انت میں بس اتنا کہا:

طلاق سے پہلے، طلاق کے بعد، تم کبھی ایڈووکیٹ ضوریز حسن کے در کا رخ نہیں کرو گی۔ لیکن اگر تم نے اس شرط پر عمل نہ کیا، تو تمہیں طلاق دینا تو کیا، میں تمہیں اسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں گا۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن وہ چلی گئی۔

بلال نے یہ سوچ کر غصہ پی لیا، خود کو مطمئن کیا کہ یہ اسکی چوائس تھی۔

"ریلیکس بلال۔ جاتی ہے تو جاۓ۔"

وہ شاور لینے لگا لیکن سکون حاصل نہیں تھا۔ وہ اس کی ذمہ داری تھی۔ وہ اسکی بیوی تھی۔ بلال نے شاور تیز کر لیا لیکن اسے وہ نظر آرہی تھی۔ وہ اسے صحیح سلامت نظر نہیں آئی تھی۔ وہ فون اور لیپ ٹاپ بغل میں دباۓ کار میں آبیٹھا اور کورٹ کی جانب اڑا۔ اسے الوینہ کو ڈھونڈنا ہی تھا۔ 

"آپ مطلوبہ نمبر اس وقت موصول نہیں ہو رہا۔" مالیا کال اٹھا نہیں رہی تھی۔ بہت دیر بعد اس کی خوابیدہ آواز سنائی دی تو بلال چھٹتے ہی بولا تھا۔

"اس کے فون کی لوکیشن شو نہیں ہو رہی مالیا۔ میں کیا کروں، اس کے فون کی لوکیشن آف ہو چکی ہے۔"

"بلال کیا ہوا۔۔۔۔' مالیا نے کہنا چاہا۔ ادھر بلال نے بے بس ہو کر سیٹ سے ٹیک لگائی تھی۔

"میں نے اسے کھو دیا۔ میں نے پوری زندگی اسے اپنی نظروں میں رکھا اور اب، جب میں اسے پانے کے قریب تھا تو میں نے اسے کھو دیا۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ غلط تھا کہ اس نے الوینہ کو کھو دیا۔

برگد تلے مٹی اور گارے میں لتھڑی ہوئی وہ لاش لگ رہی تھی۔ بلال نے جب تک اس کی آنکھوں میں جنبش نہیں دیکھی، اسے لاش ہی تصور کیا۔ اور جیسے ہی اس نے بلال کو دیکھ کر پلکوں کو جوڑ لیا، بلال کے تاثرات سخت ہو گۓ۔ الوینہ کا قصور یاد آگیا۔ وہ قہر بار نگاہوں سے اسے دیکھتا، پستول کی نال اس کے سینے پر رکھ کر دھاڑا:

"کیا کہا تھا میں نے کہ اگر گھر سے باہر قدم بھی رکھا تو میں کیا کروں گا؟"

اور اسی لمحے بلال نے محسوس کیا کہ وہ محض مٹی اور گارے میں لتھڑی نہیں تھی خون سے بھی سنی ہوئی تھی۔ گردن سے بہتا خون، ہونٹوں سے بہتا خون، اور اس کے بچے کا خون۔۔۔

وہ جس تکلیف سے اتنی دیر سے گزر رہی تھی، اس کے بعد تکلیف سے مبرہ ہو جانا بنتا تھا۔ تھک کر اس نے آنکھیں موند لی تھیں اور بلال محض بن اس کی سفید پشواز پر پھیلے خون پر نظریں گاڑ کر رہ گیا۔

ٹریگر تک انگلی کا جانا تو کجا، پستول والا ہاتھ ہی منجمد ہو گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے تین مہینوں تک وہ چلنے کے قابل بھی نہیں تھی۔

الوینہ تو الوینہ، بلال اس سمے میں اذیت سے دوچار تھا۔ شدید قسم کا پچھتاوا، خود پر الوینہ پر غصہ، گھٹ گھٹ کر پچھتانے میں وہ رات دن ایک کر رہا تھا۔ وہ اس نہج پر اسی وجہ سے تھی۔ وہ اسے اس رات بری طرح ہرٹ نہ کرتا تو آج وہ اس عمل کے نتیجے کا نہ بھگت رہی ہوتی۔ وہ آج اتنی تکلیف میں نہ ہوتی۔

اس کی چیخیں بلند ہوتیں تو بلال بے ساختہ اٹھتا تھا۔ وہ رو رہی ہوتی تھی۔ خوفزدہ ہوتی تھی۔ بلال وہیں رک جاتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ قریب جاۓ گا تو اسے ہمیشہ تکلیف ہی دے گا۔ وہ قریب جاۓ گا تو اسے مزید خوفزدہ کرے گا۔

وہ اس کے قریب گیا تو اسے مزید تکلیف ہی دی تھی۔

اسے مزید خوفزدہ ہی کیا تھا۔

وہ پشیمان تھی اور بلال عطاء اللہ اس بار اس کی چالبازیوں کا نشانہ بننے کے لیے تیار نہ تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ وہ اب اپنے معشوق کے پاس نہ جاتی۔ پر اس صبح جب وہ شکست خوردہ سی، گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی، اس کی دی گئی تکلیف کو دبا کر روتے ہوۓ معافی مانگ رہی تھی تو بلال سر نہیں جھکا سکتا تھا۔

وہ اس کی لال آنکھوں میں ہی دیکھتا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے سات مہینے الوینہ کو انتظار کرایا۔

اس نے غلط کیا۔ وہ اسے آزاد کرنا چاہتا تھا اور اب تیار تھا۔ وہ اسے ڈیزرو نہیں کرتی تھی، وہ آزادی چاہتی تھی۔

وہ اس کے نقصان کی بھرپائی کے لیے جو کر سکتا تھا، کیا۔ آدھے سے زیادہ بزنس شیئرز اس کے نام کر دیے۔ کمپنی کے تمام شیئرز اس کے نام کر دیے۔ اس کا جہاں داد ہاؤس میں سے حصہ، حق مہر، سب اسے ادا کیا۔ ہاں، اب وہ مطمئن تھا۔ وہ کچھ مطمئن تھا اور جب الوینہ جہان داد نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ، سب چیزیں دھتکار کر بلال کے سینے میں سر دیا تو اسے انتہا کا اطمینان میسر ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ طے تھا کہ وہ اسے کبھی اس کی پرانی زندگی کے بارے میں یاد نہیں دلاۓ گا۔ یہ بھی طے تھا کہ وہ اب اسے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گا۔ الوینہ، اس کی الوینہ، یوں بکھری تھی کہ پیروں پر کھڑا رہنا ہی بھول گئی تھی۔ بلال نے اسے جوڑنا تھا۔ اس کے لیے یہ آسان تھا۔ برسوں کی محبت، اسے وہ محبت اب الوینہ جہاں داد پر لٹا دینی تھی، رفتہ رفتہ۔۔۔ آہستہ آہستہ۔۔۔

یہاں تک کہ ضوریز حسن دوبارہ نہیں آیا تھا۔

یہاں تک کہ بلال عطاء اللہ کا راز فاش نہیں ہوا تھا۔

اسے یقین تھا الوینہ بیک سیٹ پر آکر بیٹھے گی اور کہے گی:

"چلو، مال چلیں، بلال۔"

اسے لگا تھا الوینہ بلال کے لیے سب یونہی بھلا دے گی جیسے بلال نے الوینہ کے لیے سب بھلا دیا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کو کالونی کے قریب اتار کر اس نے ریورس گیئر لگایا۔ عین اسی وقت عقب سے آتی ہائی اسپیڈ کرولا اس کی کار کا حشر نشر کر گئی۔

"میری جاسوسی کیوں کرتے ہو؟"

"آپ کی جاسوسی نہیں کروں گا تو زندگی میں اور کیا کروں گا مس جہاں داد۔"

"مجھ سے محبت کرتے ہو۔"

"کرتا تھا۔"

"پھر اب؟"

اب میں جان گیا ہوں کہ محبت ہمیشہ یک طرفہ ہوتی یے۔"

الوینہ بے جان آنکھیں وارڈ کے دور افتادہ دروازے پر ٹکاۓ پتھر بنی کھڑی تھی:

"محبت حد سے بڑھنے نہیں دیتی۔ جو حد پار کر جاۓ، وہ محبت نہیں ہوتی۔"

کمر شل ہوئی اور پتھر کو تکلیف محسوس ہوئی تو الوینہ کا منجمد وجود حرکت کرتے ہوۓ دیوار سے جا لگا:

"وہ آپ سے شادی سے انکار نہیں کرے گا کیونکہ اس نکاح کے بدلے آپ۔۔۔ مس جہاں داد، آپ اسے مل رہی ہیں۔ شادی سے اسے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کے جسم پر حق حاصل ہو گا۔ کیا وہ پھر بھی اس نکاح سے ہچکچاۓ گا؟"

کاریڈور کا شور اسے سنائی دے رہا تھا۔ نگاہیں گلاس ڈور پر ٹکی تھیں۔ اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا تھا لیکن اندھیرے میں بھی اس کا خون آلود وجود ظاہر ہو رہا تھا۔

"کچھ ایسے مرد ہوتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تمہیں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم ہنسو تو کوئی تم پر فریفتہ ہو جاۓ، تمہیں اپنی وقتی محبت میں گرفتار کر کے اور ضرورت ختم ہونے پر تمہیں یوں کا لاچار چھوڑ جاۓ۔"

وقتی محبت۔۔۔۔

الوینہ نے سر اٹھا کر گلاس ڈور کی جانب دیکھا۔۔۔

تین سال کی محبت۔۔۔

وہ اسے اپنی تین سال کی محبت میں گرفتار کر کے خود اسٹریچر پر جا سویا تھا بلکہ۔۔۔ تین سال کی نہیں۔۔۔

وہ تو کئی سالوں کی محبت تھی۔ 

وہ تو کئی سالوں سے اس کی محب تھی۔

"میم۔"  چودہ پندرہ سالہ لڑکے نے قدرے شرماتے ہوۓ اسے آواز دی تھی۔ الوینہ کی نگاہوں کا مرکز بدل کر لڑکے پر ٹک گیا تھا:

"یہاں۔۔۔" اس نے بنچ کی جانب اشارہ کیا تھا:

"یہاں بیٹھ جائیں میم۔"

الوینہ دھم سے بنچ پر گر گئی۔ اندازہ ہی نہیں کر سکی کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ 

"آپ کا کوئی عزیز وارڈ میں ہے؟" نوجوان پوچھ رہا تھا۔ الوینہ میں جواب دینے کی سکت نہیں تھی۔

"وہ۔۔۔ وہ زندہ تو ہو گا ناں؟"

خون آلود وجود پھر نظروں کے سامنے سے گھوما تھا۔ نوجوان مسکرا دیا، اثبات میں سر ہلایا۔

"اٹس اوکے، میم۔"

اسی لمحے وارڈ کا دروازہ کھلا، ایک ڈاکٹر اور ایک نرس آس کی جانب بڑھے۔ الوینہ تیر کی طرح اس کی طرف لپکی تھی۔ مضطرب ہو گئی تھی۔

"وکٹم آپ کے کیا لگتے ہیں؟"

"میرے شوہر۔۔۔ میرے شوہر ہیں۔"

"ان کی حالت بہت نازک ہے۔" ڈاکٹر کا لہجہ بھی سنجیدہ تھا:

"گلاس کے ٹکڑے ان کے دل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ فوری سرجری کرنی پڑے گی لیکن اس میں بہت رسک ہے۔ آپ consignment (رضامندی) دیں گی تو ہم اپنی کوشش کر سکتے ہیں۔"

"آپ۔۔۔ آپ اسے بچا لیں۔" وہ ابھی تک نہیں روئی تھی۔ آنکھیں بھر آنے کو تھیں۔

"ہم اپنی پوری کوشش کریں گے، میم۔ وقت ضائع مت کریں۔ سرجری کی بدولت شاید ہم انہیں بچا پائیں۔ آپ رضامندی۔۔۔"

"آپ، اسے بچا لیں۔" الوینہ نے ہاتھ جوڑ دیے تھے۔ ڈاکٹر نے نرس کو اشارہ کیا۔ وہ تحریری دستخط کرانے آئی تھی۔ 

اگر اسے سرجری کے دوران کچھ ہو گیا تو ذمہ دار الوینہ جہان داد ہو گی۔

قصوروار ہمیشہ الوینہ جہاں داد ہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمیر جب آیا تو الوینہ کو بنچ پر ایک ہی رخ میں بیٹھے تیسرا گھنٹا شروع ہو گیا تھا۔ وہ اسے عبور کر کے آگے بڑھ گیا، پھر ٹھٹک کر رکا۔ سفید جینز کے اوپر لانگ سفید شرٹ اور سیاہ کوٹ پہنے، وہ کھوئی کھوئی لگ رہی تھی، پہچان میں نہیں آرہی تھی۔ عمیر کے قدموں کا رخ بدل گیا۔ وہ الوینہ کے سر پر آکھڑا ہوا۔

"الوینہ۔" آہستگی سے اس نے الوینہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو گرمی کا احساس ہوا۔ وہ تپ رہی تھی، آگ میں جل رہی تھی۔

"وہ لڑ رہا ہے۔" وہ بولی تو آواز شکست خوردہ تھی:

"وہ ہمیشہ میری وجہ سے لڑتا آیا ہے اور، اور آج بھی میری وجہ سے لڑ رہا ہے۔"

"کیا ہو گیا ہے؟ وہ وارڈ میں کیوں ہے؟" عمیر متفکر نظر آتا تھا۔

"میں نے اسے تکلیف دی۔" وہ ہاتھوں کا پیالہ بناۓ ناک ڈھانپے ہوۓ تھی:

"میں نے اسے عرصہ دراز تک تکلیف میں مبتلا رکھا اور جب اسے شفا مل گئی تو اسے پھر تکلیف دی۔"

عمیر نے کچھ کہنا چاہا لیکن بے نگاہ بے اختیار اس کے وجود پر پڑی۔ وہ امید سے تھی اور عمیر اتنے مہینوں سے نہیں جانتا تھا۔ سخت الفاظ لبوں پر روک کر وہ ہولے سے الوینہ کے قریب آیا۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ دو آنسو خودبخود الوینہ کی آنکھوں سے بہہ نکلے،

"وہ مر جاۓ گا بھیا۔" دونوں بازو پھیلا کر اس نے عمیر کو دیکھا:

"وہ مر جاۓ گا اور مجھے اکیلا چھوڑ جاۓ گا۔ بلال۔۔۔ بلال مجھے چھوڑ جاۓ گا۔"

"الوینہ، اسے کچھ نہیں ہو گا۔"

عمیر نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھاما۔ الوینہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ وہ اتنی دیر سے روئی نہیں تھی، اب بند کھلا تو سیلاب سا آگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھپھو اور حنان اکٹھے آۓ تھے۔

الوینہ کا پیلا پڑتا چہرہ دیکھ کر پھپھو بھونچکا رہ گئی تھیں۔ 

"ایکسیڈنٹ ہو گیا۔" انہیں جیسے یقین ہی نہیں آیا۔ کسی کو یقین ہی نہیں آیا۔ وہ بے جان سی کھڑی رہ گئیں۔ قریبی بنچ پر الوینہ عمیر سے جڑ کر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں اب خشک تھیں لیکن ایک مرکز پر ٹکی تھیں، لب مسلسل سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ وہ کچھ بڑبڑاۓ جا رہی تھی اور عمیر ہولے ہولے اس کا سر تھپک رہا تھا۔

"الوینہ۔"

پھپھو نے رسان سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا! لمس کا احساس ہوتے ہی الوینہ کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں۔ اس نے چہرہ موڑ کر پھپھو کو دیکھا۔

"آپ آگئیں۔" اس نے سر عمیر کے سینے سے ہٹایا اور پھپھو کو دیکھا:

"جائیں پھپھو۔ اندر جائیں اور اسے جگا کر آئیں۔ اسے کہیں جاگ جاۓ۔ اسے کہیں اب سب کے سامنے آجاۓ۔"

پھپھو کی آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔ الوینہ نے ان کے دونوں بازو تھام لیے۔

"مجھے اندر لے جائیں یا اسے کہیں الوینہ اسے بلا رہی ہے بلکہ۔۔۔" وہ یک دم ٹھہر گئی:

"یہ مت کہیں۔ اس کے سامنے میرا نام بھی مت لیں۔ اسے میں نے تکلیف دی ہے پھپھو۔ میرا نام سن کر وہ مضطرب ہو جاۓ گا۔ مجھے سامنے دیکھ کر پریشان ہو جاۓ گا۔ آپ۔۔۔ آپ اسے اس کے بچے کا واسطہ دیں۔" وہ اب پھپھو کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ سے جوڑے ہوئی تھی:

"اسے کہیں اس کا بچہ اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اسے کچھ جھوٹ موٹ کہہ کر اٹھائیں۔ اسے اٹھائیں، پھپھو۔"

"ایسی باتیں نہ کر الوینہ۔" پھپھو خود بے قرار ہو گئی تھیں۔ انہوں نے الوینہ کو دونوں کندھوں سے تھام کر چھاتی سے لگا لیا۔ الوینہ کی آواز گلوگیر تھی:

"تین گھنٹے ہو گۓ ہیں پھپھو۔ وہ تو بمشکل ایک گھنٹے سوتا ہے۔ مجھے پتا ہے پھپھو۔ میں سوتی ہوں اور وہ میرے سرہانے بیٹھ کر مجھے دیکھتا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ میں سوتی ہوں تو وہ جاگتا ہے تاکہ مجھے کوئی ضرورت محسوس ہو تو فوراً پورا کر سکے۔ میں سو جاتی ہوں لیکن وہ جاگتا ہے تاکہ میری حفاظت کر سکے۔"

پھپھو اس کی کمر تھپک رہی تھی۔ الوینہ نے آنکھیں موند لی تھیں۔ سرگوشی میں کہا تھا۔

"وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، پھپھو۔ اسے کہیں مجھے ایک موقع دے کہ میں اس سے محبت کر سکوں۔ اسے کہیں۔۔۔ وہ جاگ جاۓ۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھا گھنٹا بھی شروع ہو گیا تھا۔

پھپھو نے بہیترا کوشش کی کہ الوینہ حنان کے ساتھ گھر چلی جاۓ اور کچھ دیر آرام کر لے لیکن الوینہ نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ اس کے مسیحا کو اس کی مسیحائی کی ضرورت ہے تو منہ پھیر کر چلی جاتی۔ وہ خود غرضی کا مظاہرہ کرے جیسے وہ ہمیشہ کرتی ہے۔ وہ بےوفائئ کا ثبوت دے جیسے ہمیشہ دیتی ہے۔

الوینہ کو اپنا واقعی ہوش نہیں تھا۔ اس کا جسم تپنے لگا تو پھپھو نے اس کا کوٹ اتار دیا، عمیر حنان کے ساتھ کچھ دیر پہلے ہی فیکٹری سے فون آنے پر واپس گیا اور اب منان ہسپتال آیا تھا۔ الوینہ کو تکلیف محسوس ہونے لگی تو پھپھو نے منتیں کر لیں کہ وہ ہسپتال کے ہی کسی بیڈ پر سیدھی لیٹ جاۓ۔

"اپنی پرواہ نہ کر الوینہ۔ اپنے بچے کی تو پرواہ کر۔ بلال کے بچے کی تو پرواہ کر۔" بمشکل سمجھا بھجا کر اسے وہیں نیا روم کھلوا کر ایڈمٹ کر لیا گیا۔ پھپھو کمرے میں ایک طرف مصلی بچھا کر بیٹھ گئیں، منان سر جھکا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ الوینہ پتھرائی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی، گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ 

"بلال نے کہا اور تم نے کر دیا۔" الوینہ نے آہستگی سے سرگوشی کی تو منان نے سر اٹھایا۔ چونک کر الوینہ کو دیکھا۔

"اس نے کہا کہ تم الوینہ کے سامنے ناٹک کرو کہ تم اسے محبت بھرے خط لکھتے تھے۔ اور تم نے ناٹک کیا۔ کیوں کیا منان؟ بلال کی بات کیوں مانی؟"

منان نے دوبارہ سر جھکا لیا، ہونٹ کاٹے۔

"تم نے۔۔۔ بلال کا سچ کیوں چھپایا منان؟"

"کیونکہ وہ تم سے محبت کرتا تھا۔" منان نے صاف گوئی سے جواب دیا تھا۔ سر اٹھا کر کہا تھا:

"جس رات وہ مجھے اپنے راز میں شریک کرنے کے لیے آیا، تم نے اسے اس رات نہیں دیکھا تھا الوینہ۔ تم نے اس کی آنکھیں نہیں دیکھی تھیں۔ مجھے لگا تھا وہ روتا رہا ہے یا رو دے گا۔ وہ تمہارا نام لیتا تو سر جھکا لیتا تھا۔ تمہاری بات کرتا تو لہجہ نرم کر لیتا۔ جانتی ہو اس نے مجھے ایک بار بھی نہیں کہا کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔ اس نے ایک بار بھی نہیں بتایا کہ وہ تم سے پیار کرتا ہے۔ لیکن اس کی آنکھیں، الوینہ۔۔۔ اس کی آنکھیں صرف میں نے دیکھی تھیں۔"

"اور میری آنکھیں؟" الوینہ کے لب کانپنے لگے:

"جب تم نے مجھے جھوٹ کہا کہ تم ہی مجھے خط لکھتے تھے تو تم نے میری آنکھوں میں کیا دیکھا؟"

"تکلیف۔" منان نے کہا:

"میں نے بس تکلیف دیکھی۔ جیسے تمہیں کچھ کھو دینے پر بہت افسوس تھا۔ جیسے تمہیں ان سب باتوں پر یقین نہیں تھا۔"

"میں نے اسے کھو دیا تھا۔ میں نے بلال کو تب کھو دیا تھا ، جب میں نے اسے کھویا تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ وہ بلال ہے۔ میں اسی کے لیے اسی کے سینے سے لگی رہی تھی لیکن وہ خاموش تھا۔ وہ اس وقت۔۔۔ کیا سہہ رہ ہو گا ناں، منان۔ وہ مجھے اپنے پاس پا کر بھی قریب محسوس نہیں کر پا رہا ہو گا۔"

"میری دعا ہے سرجری کامیاب رہے۔" منان نے ہولے سے کہا۔

"اگر اسے کچھ ہوا۔" الوینہ کا دماغ کہہ رہا تھا:

"تو بیک وقت تین جانیں جائیں گی۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے کچھ نہیں ہوا۔

الوینہ جاگتی سوتی کیفیت میں تھی جب پھپھو نے نرمی سے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔

"آنکھیں کھول الوینہ۔"

الوینہ نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ایک ہی دن میں کتنی کمزور ہو چلی تھی۔

"بلال؟" بمشکل حلق سے آواز آئی۔ پھپھو نے اسے سہارے سے اٹھایا۔ انہی کے سہارے چلتی پھر وہ کاریڈور آئی۔ یکلخت بھاگی اور گلاس وال کے اس پار تک گئی۔

"انہوں نے گلاس کے ٹکڑے نکال دیے ہیں۔" منان کہہ رہا تھا:

"پر وہ ابھی بھی سو رہا ہے۔"

الوینہ نے سر شیشے سے ٹکا لیا۔ سفید تکیے پر سر رکھے وہ واقعی سو رہا تھا۔ مصنوعی آلہ اس کو سانس لینے سے مدد دے رہا تھا۔ الوینہ سہم کر دروازے سے ہٹی، ہٹتی گئی۔

"وہ۔۔۔ وہ زندہ ہے؟" اس نے بے یقینی سے نگاہیں منان کی طرف گھمائیں۔ منان مسکرا دیا تھا۔

Just when the caterpillar thought that the world was ending, it turned into a butterfly....

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پورے دن اور پوری رات اس کی آنکھوں میں جنبش تک نہیں ہوئی۔

الوینہ نے چوبیس گھنٹوں میں کمرے سے باہر قدم نہیں رکھا۔ سرجری کامیاب رہی تھی لیکن جانے ہوش میں کیوں نہیں آرہا تھا۔ ڈاکٹر نے الوینہ کو صرف اتنا کہا کہ وہ نقاہت کے زیرِ اثر تھا۔ منان کو اس نے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔

"اگر دو گھنٹے مزید گزر گۓ تو یہ بات واضح ہو جاۓ گی کہ آپ کا مریض کوما میں چلا گیا ہے۔"

منان نے افسردگی سے گلاس وال کے اس پار دیکھا۔ الوینہ چہرے کو ہاتھوں سے ڈھکے یوں بیٹھی تھی کہ بس اس کی لال لال نم آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ آنکھیں جو بنا حرکت کیے بلال کے وجود پر ٹکی تھیں۔ جیسے وہ اس کے جسم میں حرکت دیکھنا چاہتی تھی۔ ہلکی سی جنبش جو ہوتی۔ جو اس کو احساس جرم سے نکال پاتی۔

"سوری بلال۔"

"سوری۔۔۔"

اس سے بہت دیر ایک سٹول پر بیٹھی وہ مسلسل بڑبڑاۓ جا رہی تھی، متواتر کانپ رہی تھی۔ بلال کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روشنی کا ہالہ اس کے گرد بنتا جا رہا تھا۔ یہ بلب سے نکلتی روشنی تھی جو اس کے آس پاس پھیلی رہی تھی لیکن بلال اسے محسوس نہیں کر پا رہا تھا:

"الوینہ۔۔۔ الوینہ جہاں داد۔۔۔ دنیا کی سب سے خوبصورت حسینہ۔ بلال کی الوینہ۔"

بلال کا یکلخت دم گھٹا۔ اس نے ہاتھ سینے پر رکھا تو کسی نے اس کے بازو کھینچ کر بستر  پر ٹکا دیے۔

"انجیکشن لاؤ، اسے بے ہوش کرو۔"

"اگر الوینہ جہاں داد مجھے نہ ملی تو میں کیا کروں گا، مالیا؟"

روشنی کے پردے میں اس کا عکس بن رہا تھا۔ سنہرے بال، سرخ ہونٹ، یہ دو چیزیں نظر آئیں تو بلال کو وجود مرتعش ہو گیا، وہ کلبلا گیا۔

وہ تمہیں منہ نہیں لگاتی اور تم۔۔۔ تم اس سے اتنی محبت کرتے ہو، بلال؟"

چیختی آواز نے اس کا وجود جھنجھوڑ دیا۔ اسی لمحے انجیکشن کی سوئی نے بازو میں تکلیف پیدا کی۔ اس کا سر ڈھلک گیا، بدن سکون میں آگیا۔

"مجھے تمہاری صورت سے، صحبت سے، سیرت سے، سب سے نفرت ہے بلال۔ مجھے تم سے نفرت ہے بلال۔"

یکلخت اسے کچھ اپنے سینے میں اترتا محسوس ہوا تھا۔ بند آنکھوں سے وہ نہیں دیکھ پایا کہ ماسک پہنے وہ آدمی اس کی جلد میں کٹ لگا رہا تھا۔

"میں نہ آپ کا ضوریز ہوں نہ آپ کا بلال۔ آپ جو کہنا چاہتی ہیں اپنے عاشق سے کہیں یا اپنے شوہر کو بتائیں۔ میں آپ کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں اب بھی کچھ نہیں ہوں۔"

کوئی چیز اس کے دل کو چھو رہی تھی، تکلیف کا احساس اب بڑھ رہا تھا۔ وہ حرکت کرنا چاہتا تھا، آنکھیں کھولنا چاہتا تھا لیکن سب احساس مردہ ہو گۓ تھے۔

"ضوریز حسن کے بارے میں ایک بھی لفظ کہا تو میں لحاظ نہیں کروں گی بلال۔"

کچھ دل میں کھب رہا تھا۔ بلال کی سانسیں اٹک رہی تھیں، جسم کانپ رہا تھا، دل دھک دھک کر رہا تھا لیکن وارڈ میں دیکھیں تو بلال پرسکون بستر پر آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ ڈاکٹرز اس کا سینہ کھولے اوپن سرجری میں مصروف تھے۔

"میں ضوریز حسن کی محبت ہوں، میں اور صرف میں۔ میں نہ تو تمہاری ملکیت ہوں اور نہ تمہاری بیوی۔"

بلال کے جسم میں شدید درد اٹھا، دل دھڑک کر رہ گیا۔ اس نے پوری قوت سے اٹھنا چاہا لیکن بیڈ پر پڑا اس کا وجود محض مرتعش ہی ہو سکا۔

"وہ جن دو کاغذوں پر مجھ سے دستخط کراۓ گۓ ہیں وہ زبردستی تھی۔ اور زبردستی کا نکاح، نکاح نہیں ہوتا بلال عطاء اللہ۔ تم مجھے بیوی مان کر میرے قریب آؤ گے تو اس زنا کا گناہ تم پر ہو گا۔ میری ساری زندگی کا گناہ اب سے تمہارے سر ہو گا۔"

اس کے بدن میں جیسے اب آگ سی جل رہی تھی، آنکھیں جدا ہونے سے انکاری تھیں، وہ تکلیف میں تھا، چیخ رہا تھا لیکن ڈاکٹرز کے لیے وہ خاموش تھا، وہ سو رہا تھا۔ انہوں نے شیشے کا وہ ٹکڑا ہولے سے چمٹی کی مدد سے باہر کھینچ لیا۔ بلال کا جسم ساکت ہو گیا۔

"مجھے بتاؤ بلال۔ میں ہر دن کے ہر گھنٹے کے ہر لمحے کی عبادت کو میلا کیسا کروں؟ وہ اپنی خواہشات کو حاصل کر کے امر ہو جاۓ لیکن میں زندہ بھی یوں رہوں کہ زندگی موت کے برابر ہو۔ میں اسے کیوں نہیں پا سکتی؟"

بلال اب پرسکون نیند میں تھا لیکن وہ رو رہی تھی۔ وہ مسلسل رو رہی تھی:

"میں لڑکی ہوں تو کیا۔۔۔ کیا محبت نہیں کر سکتی؟ لڑکی ہوں تو کیا۔۔۔ کیا کبھی ضوریز کے قابل نہیں بن سکتی؟"

اس کی سسکی ابھری اور یادوں کے پردے میں کوئی دھاڑ کے بولا:

"طلاق سے پہلے، طلاق کے بعد، تم کبھی ایڈووکیٹ ضوریز حسن کے در کا رخ نہیں کرو گی۔ لیکن اگر تم نے اس شرط پر عمل نہ کیا، تو تمہیں طلاق دینا تو کیا، میں تمہیں اسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں گا۔"

اس نے یکلخت آنکھیں کھولیں اور روشنی کی شدت میں اسی لمحے بند کر لیں۔ پھر ہولے ہولے روشنی میں کچھ نظر آیا اور چہرے پر بوجھ کا احساس ہوا۔ سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہوئی۔ سر ہلانا چاہا تو حرکت کرنے میں بھی دشواری ہوئی۔

یہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا؟یہ اسے کیا ہو گیا؟

"تم باہر آؤ الوینہ۔ میں پوچھوں گا کہ تم نے کہاں جانا ہے۔ اگر تم 'مال' کہو گی تو ہم سب بھول جائیں گے۔ ہم ایسے ظاہر کریں گے کیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اگر تم "گھر" جانا چاہوں گی تو ہم کبھی ایک نہیں ہو سکیں گے الوینہ۔"

بلال نے نقاہت سے دوبارہ آنکھیں موند لیں اور اس بار جب پلکیں جھپکیں تو نگاہ بہت دور سٹول پر بیٹھی عورت پر پڑی۔ دونوں ہاتھ پیٹ پر باندھے، وہ سر جھکاۓ بیٹھے بیٹھے اونگھ رہی تھی۔ بلال نے بے خیالی میں پوری وقت سے بایاں ہاتھ اٹھایا اور الوینہ کی جانب بڑھانا چاہا۔ پس منظر میں وہ کہہ رہی تھی:

"تم چلے جاؤ بلال۔ مجھے نفرت ہے تم سے۔۔۔"

بلال کی سانسیں منتشر ہو گئیں۔ اس نے گہرا سانس لینا چاہا لیکن سب تھم گیا تھا۔ دور کوئی چیختا جا رہا تھا:

"بلال میری طرف دیکھو بلال۔۔۔ بلال تمہیں اللہ کا واسطہ۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مانیٹر کے بیپ کی آواز نے الوینہ کی نیند میں خلل ڈالا تھا۔

الوینہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو بستر پر لیٹا لرز رہا تھا، درد میں تھا۔ وہ اٹھی اور اس کے قریب آگئی تھی۔ بلال کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا، الوینہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

"بلال۔"

وہ اسے جگانا چاہتی تھی، دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے اس کا نام پکار رہی تھی:

"سانس لو بلال۔ میری طرف دیکھو بلال۔"

"بلال کو الٹ سنائی دے رہا تھا:

"تم مر جاؤ بلال۔ مجھ سے دور چلے جاؤ۔"

"بلال۔۔۔ آنکھیں کھولو بلال۔" اس کی رونے کی آواز باہر کھڑے منان نے واضح سنی تھی۔ وہ اندر آیا اور فوراً پلٹ کر ڈاکٹر کو آواز دی۔ وہ آس پاس نہیں تھا۔ صرف نرس دوڑی آئی۔ کمرے میں مریض کی حالت دیکھ کر انجیکشن بھرنے لگی۔ بلال نے نیم مردہ آنکھوں سے اس سوئی پر نظر ڈالی اور چہرہ موڑ کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔

"اینیستھیزیا۔" الوینہ زیرلب بولی اور نفی میں سر ہلایا:

"نہیں، اسے بے ہوش مت کرو۔ اسے مجھ سے بات کرنے دو۔ اسے میری طرف دیکھنے دو۔ مجھے اس سے بات کرنے دو۔ مجھے۔۔۔ مجھے اس سے معافی مانگنے دو۔"

"الوینہ، he is in pain." منان نے اسے اٹھایا۔ الوینہ خود کو چھڑا رہی تھی، بلال پر گر رہی تھی، منان اسے بمشکل کھینچ کر باہر لے جا رہا تھا۔ وہ روۓ جا رہی تھی:

"اس نے مجھے دیکھا۔" اس کی آنکھوں سے رواں تھے:

"اس نے مجھے دیکھا اور پریشان وہ گیا۔ مجھے دیکھ کر اسے تکلیف ہوئی منان۔ میں نے اسے پھر تکلیف دی، میں نے اسے۔۔۔۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اینیستھںیٹک کا اثر سات آٹھ گھنٹے رہا۔ 

وہ ہوش میں آیا تو پھپھو نے کھینچ کر الوینہ کو اندر لے جانا چاہا لیکن وہ دروازے کے باہر آلتی پالتی مارے بیٹھ گئی تھی، نفی میں سر ہلاتی جا رہی تھی:

"وہ مجھ سے غصہ ہے۔" دونوں ہاتھوں سے ہونٹ ڈھانپ رہی تھی:

"میں اس کا سامنا کیسے کروں گی، میں اس کے پاس کیسے جاؤں گی؟"

"الوینہ، وہ تجھے دیکھنا چاہتا ہو گا پتر۔" پھپھو منتیں کر رہی تھیں۔ الوینہ کا پچھتاوا اخیر تھا:

"وہ مجھے دیکھے گا تو پھر درد محسوس کرے گا۔ وہ مجھ سے دور ہی اچھا ہے، وہ مجھ سے دور ہی بہتر ہے۔"

پر جب پھپھو نماز کے لیے وضو کرنے گئی تھیں تو الوینہ کے قدم خودبخود کمرے کی جانب اٹھے تھے۔ وہ حسب معمول سو رہا تھا۔۔ وینٹیلیٹر ہٹ گیا تھا اور ایک ٹیوب کے ذریعے سانس لے رہا تھا۔ چہرے پر ایک دو خراشوں کے نشان تھے، بازو پر ایک طرف پٹی تھی اور گردن پر نظر آتے ڈریگن ٹیٹو کے نوکدار نشان عجیب اداسی کا شکار تھے۔

"میں نے تمہیں کئی خط لکھے۔ کچھ مجبور ہو کر، کچھ جان بوجھ کر۔ وہ غلط عادت تھی۔ بچگانہ سا طریقہ تھا۔ پر مجھے جاننا تھا کہ تم لوگوں کے بارے میں، میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔ مجھے جاننا تھا کہ تم محفوظ ہو کہ نہیں۔ کیونکہ الوینہ جہاں داد، 

جو بتا کر کی جاۓ وہ حفاظت نہیں ہوتی۔ 

جو جتا کر کی جاۓ، وہ محبت نہیں ہوتی۔"

"آئی لو یو بلال۔" اس نے بستر کے قریب فرش پر بیٹھ کر، بلال کی ہتھیلی پر اپنے لب رکھے۔ پھپھو واپس آئیں تو اسے فرش پر ٹکا پایا۔ پریشان ہو گئیں، کچھ کہنے کے لیے آگے بڑھیں لیکن ٹھٹک گئیں۔

بیڈ سے ٹیک لگاۓ، اس کی ہتھیلی پر سر رکھے الوینہ نیند میں تھی۔ بیاسی گھنٹوں میں پہلی بار وہ یوں پرسکون سو رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کیوں سب کو تنگ کر رہا ہے، میرے لاڈلے؟" پھپھو بہت دیر سے اس کے قریب بیٹھیں، اس کے بال سہلاتے ہوۓ کہہ رہی تھیں۔ منان بنچ پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اس کی ڈیوٹی سخت تھی جب سے بلال والا سانحہ ہوا تھا وہ گھر نہیں گیا۔ بلال کچھ دیر پہلے جاگا تھا۔ نیم وا آنکھوں سے پھپھو کو دیکھتا، وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انہیں سن رہا تھا:

"میں نے اپنے پیار میں کونسی کسر چھوڑی ہے جو تو اپنی ماں باپ پاس جا رہا تھا۔ وہاں جا کر شکایتیں کرتا کہ خالہ نے میرا خیال نہیں رکھا، باپ کو کہتا کہ اس کی بہن نے تیرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ تو بتا، اتنے عرصے سے بیڈ پر لیٹا سو رہا ہے، نیستی مارے۔ اٹھ جا، کیوں ہلکان کر رہا ہے سب کو؟ کیوں پریشان کر رہا ہے سب کو؟"

بلال کی نگاہیں بس پھپھو کے چہرے پر جمی تھیں، ٹیوب ابھی بھی اس ناک میں داخل تھی، اسے سانس لینے میں دقت ہوتی تھی۔

"اور بچے اور بیوی کا خیال ہے تجھے؟" منان کا لہجہ نرم تھا لیکن وہ اسے تحریک دے رہا تھا وہ اسے واپس بلانا چاہ رہا تھا۔ آواز پر بلال کی نگاہیں منان کی جانب مڑ گئیں۔ منان کہہ رہا تھا:

"ساری رات سارا دن وہ تیرے پاس فرش پر بیٹھ کر تیری نگرانی کرتی تھی، تو ذرا سا بھی حرکت کرے تو شور مچا دیتی ہے اور ایک تو ہے۔ کسی کو خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔ بستر سے اٹھ ہی نہیں رہا۔"

بلال کی نگاہیں اب دروازے پر جم گئی تھیں، کہیں اسے اس کے پار بیٹھی الوینہ تو نظر نہیں آرہی تھی:

"تو اسے اور کتنا رلاۓ گا، ہیں؟ اس کے ساتھ اب کتنا برا کرے گا؟"

پھپھو مسلسل اس کے بال سہلا رہی تھیں۔ بلال کے لب حرکت دکھائی دیے۔ مبہم سے الفاظ سنائی دیے تو پھپھو نے کان اس کے لبوں کے قریب کر لیے۔

"سس۔۔۔ سوری۔۔۔ سوری۔"

نقاہت سے کہہ کر اس نے آنکھیں کھولیں تو پانی خودبخود آنکھوں سے بہنے لگا۔ پھپھو کا دل پسیج کیا۔ انہوں نے بے اختیار اس کی دونوں آنکھیں صاف کیں اور ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بلال نے آنکھیں بند کر لیں۔ منان نے پھپھو کو اشارہ کیا اور دونوں اسے آرام کرنے کے لیے چھوڑ کر باہر آگۓ۔ اور باہر دروازے کے قریب بیٹھی الوینہ کو دیکھ کر پھپھو کا دل مزید پسیج گیا۔

"وہ ٹھیک ہے ناں؟ وہ جاگ تو رہا ہے ناں؟"

اس نے پھپھو کے دونوں بازو بے قراری سے تھامے۔ پھپھو نے الوینہ کا چہرہ ہاتھوں میں بھر لیا۔

"اسے تکلیف مت دے، الوینہ۔" منت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ اس کا رخ کمرے کی طرف موڑ رہی تھیں:

"جا، اس کے پاس چلی جا۔ اس کے پاس بیٹھ جا۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی تھکی ہوئی آنکھیں ڈرپ میں گرتے ہوۓ فلوئڈ پر ٹکی تھیں۔

الوینہ کے قدموں کی آہٹ بلال کو محسوس ہی نہیں ہوا۔ وہ بے جان سا بستر پر لیٹا گھڑی کی ٹک ٹک اور فلوئڈ کی ٹپ ٹپ سن رہا تھا۔ جسم سن تھا۔ پھر یک دم بائیں ہاتھ پر کچھ نرم سا آلگا۔ بلال کا سر دائیں جانب ٹکا تھا۔ اس نے رخ موڑا اور نگاہ بائیں جانب دوڑائیں۔

الوینہ کی نظریں جھکی تھیں، اس نے بہت ہمت سے بلال کا ہاتھ تھاما تھا۔

"کیسے ہو؟" نگاہیں ہنوز جھکی تھیں۔ بلال کی آنکھیں اس کے چہرے پر جم سی گئی تھیں۔ وہ کوئی جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ پھر اس کے دائیں ہاتھ میں جنبش ہوئی۔ اپنے ہاتھ میں الوینہ کا دایاں ہاتھ تھام کر وہ سینے تک لے کر آیا۔ الوینہ کے ہتھیلی اپنے سینے پر پھیلا لی۔

"یہاں۔۔۔ درد ہے؟ الوینہ متوجہ تھی۔ بلال نے بمشکل تھوک نگلا:

"دل۔۔۔" اس کی مدھم سی آواز الوینہ نے بمشکل سنی:

"دل ہے؟؟؟؟ یہاں؟؟؟؟ دل ہے؟" 

"ہاں، یہیں تو ہے۔" الوینہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ بلال نے الوینہ کی ہتھیلی چھوڑ دی۔ نفی میں سر ہلایا۔ 

"نہیں۔" بلال نے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی اٹھائی اور الوینہ کے سینے پر رکھی:

"یہاں ہے۔۔۔ بلال کا دل۔۔۔" اپنی پھولتی سانسوں کے درمیان وہ الوینہ کے دل کی جانب اشارہ کر رہا تھا:

"بلال کا دل۔۔۔ یہاں ہے۔"

الوینہ کی آنکھوں میں نمی بڑھ گئی تھی، احساس جرم، احساس ندامت، احساس رقابت، سب ختم ہوا اور وہ بس محب نگاہوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔

"میں۔۔۔ میں تمہیں ہمیشہ تکلیف دیتی ہوں اور تم۔۔۔ تم اتنی محبت کرتے ہو بلال؟" اپنا سر اس نے یکلخت بلال کے سینے پر رکھا تو وہ سسک اٹھا۔ الوینہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی:

"تم مجھے چھوڑ کر کیوں جا رہے تھے؟ تم مجھے اکیلا چھوڑ کر کیوں جا رہے تھے؟"

"تم نے کہا تھا۔" بلال توڑ توڑ کر کہہ رہا تھا:

"تم نے کہا تھا کہ تمہیں گھر جانا ہے اور میرے ساتھ۔۔۔ میرے ساتھ مال نہیں جانا۔"

"میں تو بکواس کرتی ہوں بلال۔ میں ہمیشہ جھوٹ بکتی ہوں۔ ہمیشہ فضول کہتی ہوں۔ میری بات نے تم پر اثر نہیں کیا تھا بلکہ تم۔۔۔ تم۔۔۔" وہ اب سر اٹھا کر بلال کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی:

"You felt insecured."

"تم نے دیکھا کہ ضوریز حسن آیا ہوا تھا اور میں اس سے مل رہی تھی۔ تمہیں لگا میں تم سے غافل وہ گئی تھی اور ابھی بھی۔۔۔ ابھی بھی اس سے محبت۔۔۔"

بلال نے یکلخت اپنا حرکت کرتا بایاں ہاتھ الوینہ کے منہ پر رکھا۔ الوینہ کی سسکیاں اس کی ہتھیلی پر دم توڑ گئیں۔

"I... trust you."

اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ۔ اس نے ہاتھ اٹھایا تو الوینہ کے لب آزاد ہو گۓ۔ وہ بال کانوں کے پیچھے اڑس کر اب نفی میں سر ہلا رہی تھی:

"میں اس کیس سے دستبردار ہو جاؤں گی۔ میں واقعی خودغرض ہو گئی تھی۔ مجھے کوئی کیس نہیں جیتنا۔ مجھے کسی سے آگے نہیں بڑھنا۔ مجھے صرف اپنے بچے کی پرواہ ہے۔ مجھے صرف۔۔۔ تمہاری پرواہ ہے۔"

"تم۔۔۔ تم کیس نہیں چھوڑو گی۔" اس نے پھولتی سانسوں میں کہا۔ الوینہ نے سنا، وہ کہہ رہا تھا:

"آخر تک۔۔۔ آخر تک لڑتے ہیں الوینہ۔ آخر تک لڑو۔۔۔ کیس۔۔۔ نہیں چھوڑنا۔"

"اور تم؟" الوینہ کی سوالیہ نگاہیں اس کے وجود پر ٹک گئیں:

"تم آخر تک کیوں نہیں لڑے؟ تم الوینہ جہان داد سے محبت کرتے تھے تو محبت سے دستبردار کیوں ہوۓ۔ محبت کے لیے آخر تک کیوں نہ لڑے؟"

"کیونکہ۔۔۔ میری محبت سے زیادہ تمہاری محبت اہم تھی الوینہ۔"

اس نے آخری جملہ کہا اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ 

"تم نے بتایا ہی نہیں۔۔۔ تم نے کبھی جتایا کیوں نہیں؟" الوینہ اس کے سینے پر بازو پھیلاۓ رو رہی تھی۔ بلال کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا:

"محبت بتا کر نہیں ہوتی الوینہ۔ محبت۔۔۔۔ جتا کر نہیں ہوتی۔"

الوینہ کی آنکھیں خودبخود بند ہو گئیں۔ بلال کا جسم بری طرح تھک رہا تھا۔ ہونٹ اب کانپ رہے تھے، سانس پھول رہا تھا۔ وہ بولنے میں ضروت سے زیادہ مشقت کر چکا تھا۔

"تم بہت سو چکے ہو۔" الوینہ کی ہمت جواب دے گئی تھی:

"میں ڈری ہوئی ہوں بلال۔ تم میرے پاس آجاؤ۔"

"میں تمہارے پاس ہی تو ہوں۔" 

اس کا دایاں بازو دھیرے سے الوینہ کے گرد حمائل ہو گیا۔ الوینہ کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں نے محض اس کے سنے سے گردن کی طرف بڑھتے ڈریگن کے پروں کے نوکدار ٹیٹو دیکھے۔ اس نے آنکھیں بند کر دیں، لب اسکی گردن پر رکھ دیے۔

"الوینہ کو ڈریگنز پسند ہیں بلال۔"

"اور بلال کو الوینہ پسند ہے میری جان۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Mein Tujhe Toot Ky Chaho Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mein Tujhe Toot Ky Chaho written by Zunaira Bano. Tumhe Jana Ijazat Hai Season 2Mein Tujhe Toot Ky Chaho by Zunaira Bano is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages