Malal E Yaar By Iqra Riaz New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday 24 July 2024

Malal E Yaar By Iqra Riaz New Complete Romantic Novel

Malal E Yaar By Iqra Riaz New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Malal E Yaar By Iqra Riaz Complete Romantic Novel 

Novel Name: Malal E Yaar

Writer Name: Iqra Riaz

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ بیڈ پر نیم دراز تھی، سامنے لیپ ٹاپ پڑا تھا.ماتھے پہ پریشانی سے بل پڑے ہوئے تھے.انگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ پر چل رہی تھیں.اس نے چہرے پہ بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیا.حقیقتاً انتظار دنیا کا سب سے کٹھن ترین کام ہے.دوسروں کو انتظار کروانا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے،لیکن جب خود کی باری آتی ہے تو یہی پسندیدہ ترین کام زہر لگنے لگ جاتا ہے.اسے اپنے ہاتھ ٹھنڈے ہوتے محسوس ہوئے...سکرین پر روشنی کی لہر دوڑی...اچانک ہی اسکے چہرے کے پریشان تاثرات خوشی میں بدلے تھے،انتظار ختم ہوا تھا.آخرکار اس نے کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ لیا تھا.اس نے انٹری ٹیسٹ کلیئر کر لیا تھا.اس نے اپنے خوابوں کے محل کی بنیاد رکھ لی تھی.

خواب وہ ہوتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے دیکھے جائیں، خواب پورے کرنے کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے،دل کو مارنا پڑتا ہے، خود کو محدود کرنا پڑتا ہے، اور اس حد کا تعین آپ کوخود کرنا پڑتا ہے.

وقت پہ محنت کر کے ہم اپنے خواب کی تعبیر دیکھ سکتے ہیں، اگر وقت چلا گیا تو ہمارے پاس صرف خاموشی، پچھتاوے اور آنسو رہ جاتے ہیں... تاعمر، تاحیات..!!!

خالی ہاتھ بہت اذیت دیتے ہیں، ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں ساری عمر ہماری آنکھوں میں چبھتی ہیں... لیکن تب تک تو بہت دیر ہوجاتی ہے نا، ہم چاہ کر بھی وقت کو واپس نہیں لا سکتے، وقت کا چکر بہت بھاری ہوتا ہے، وقت کے بھنور میں پھنسے لوگ کنارے تک نہیں پہنچ سکتے..!!

"اس سے پہلے کہ کسی رسم پر وارے جائیں،

چل کسی خواب کی تکمیل میں مارے جائیں.."

مایا نے محنت کی تھی، اپنے خواب کو پورا کرنے کیلئے..!!

اسکی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ اس نے کتنے آرام سے انٹری ٹیسٹ پاس کر لیا تھا، انٹر میں بھی ٹاپ کیا تھا، اب اس کے خوابوں کے پورا ہونے کا وقت تھا.شاید ہی زندگی میں کوئی ایسی چیز ہوگی جسکوحاصل کرنے کی خوشی آپکے خواب پورہ ہونے کی خوشی سے بڑھ کے ہو..یا شاید اسکا کوئی مقابلہ ہی نہیں..!!

مایا نے بیڈ پہ کھڑے ہو کر چیخنا شروع کر دیا تھا.خوشی سے اسکا چہرہ دمک رہا تھا.اسکی کتنی خواہش تھی ڈاکٹر بننے کی..آج اس نے اپنی یہ خواہش پوری کرلی تھی.اسکے پیرنٹس نے اسکے خواب کے حصول کیلئے اسکی بھرپور سپورٹ کی تھی.

انسان کی کامیابی میں اسکے اپنوں. کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے.گھر والوں کا ساتھ سیڑھی کی طرح ہوتا ہے، جس کی مدد سے ہم آسمان کو بھی چھو سکتے ہیں، اور اپنوں ہی کی مخالفت سے بہت سے لوگوں کے خواب کرچی کرچی ہو جاتے ہیں ، یہیں سے انسان کی شکست شروع ہوتی ہے، خداراہ اگر آپ اپنے بچوں کو سپورٹ نہیں کرسکتے تو انہیں روکیں بھی مت..انکے حوصلے مت توڑیں..!!

مایا کی چیخیں سن کر اسکے والدین(علی خان آفندی اور نور آفندی)

فوراً اسکے کمرے میں آئے تھے.ان دونوں کی جان انکی اکلوتی بیٹی مایا میں تھی.

کیا ہوا بیٹا تم ٹھیک تو ہو؟...علی نے بیٹی کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا.

ڈیڈ، مام میں نے انٹری ٹیسٹ کلیئر کرلیا، اب مجھے ڈاکٹر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا...مایا نے علی کے گلے لگتے ہوئے کہا.

مجھے تو پہلے ہی پتا تھا کہ میری بیٹی کو ڈاکٹر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا...علی نے مایا کو دیکھ کر فخریہ انداز میں کہا.

میں بہت خوش ہوں ڈیڈ...مایا کی خوشی اسکے چہرے سے واضح تھی.

اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے بیٹا...نور نے بیٹی کو دعا دی تھی.

اچھا ڈیڈ میں. نمرہ کی طرف جا رہی ہوں، اسے بھی تو خوشخبری سنانی ہے...مایا نے کہا.

اوکے بیٹا تم جاؤ، میں نے بھی آفس جانا ہے ایک ضروری میٹنگ ہے، ڈنر پر ملتے ہیں...علی نے مایا اور نور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور روم سے چلا گیا، کچھ دیر بعد مایا بھی نمرہ کے گھر پہنچ گئی.

مایا سیدھا نمرہ کے کمرے میں چلی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ نمرہ وہیں ہوگی.

نمرہ ہ ہ ہ... ہم نے انٹری ٹیسٹ پاس کرلیا...مایا نے نمرہ کی گلے ملتے ہوئے کہا.ان دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا.چیخیں پورے گھر میں سنائی دے رہی تھیں.

چل اب اٹھ جلدی سے، شاپنگ کرنے چلتے ہیں اور لنچ بھی باہر ہی کریں گے...مایا کے کہنے کی دیر تھی کہ نمرہ فوراً سے بھی پہلے اٹھی اور دونوں زناٹے سے گاڑی اڑاتی مال کی طرف بڑھ گئیں.دھوپ کی وجہ سے مایا نے اپنا چہرہ گلے میں ڈالے ہوئے سکارف سے ڈھانپ لیا تھا.

وہ دونوں ابھی ایک شاپ میں داخل ہونے ہی لگیں تھیں کہ مایا کی کسی سے زوردار ٹکر ہوئی، مایا کو لگا جیسے اسکا سر کسی دیوار سے ٹکرایا ہو، وہ بمشکل گرنے سے بچی تھی اور سامنے والا جوں کا توں کھڑا تھا.

مایا نے سر اٹھا کردیکھا تو سامنے ہی ایک ہینڈسم سا سوٹڈ بوٹڈ نوجوان، آنکھوں پر گوگلز اور کان پر موبائل لگائے بے نیاز سا کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا.اسکی ڈریسنگ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ ایک بزنس مین ہے.لیکن مایا بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی، اسکا غصہ ساتویں آسمان پر  پہنچ گیا تھا، مایا کو اس شخص کی پرسنیلٹی نے زرا بھی متاثر نہیں کیا تھا.

او مسٹر ، اندھے ہو کیا...یہ خوبصورت لڑکیوں سے ٹکرا کر ان سے فلرٹ کرنے کے اوچھے ہتھکنڈےکسی اور پہ آزمانہ، میں تمھارے جھانسے میں بلکل نہیں آنے والی...اگلے بندے کے ری ایکشن کا سوچے سمجھے بغیر جو مایا کے منہ میں آتا گیا ، وہ کہتی گئی، اسے پرواہ ہی کس کی تھی، وہ تو اپنی ہی موج میں رہنے والی لڑکی تھی.

سامنے کھڑا شخص شافع عمر خان ایک مشہور بزنس ٹائیکون تھا.جو گزشتہ سال ہی انگلینڈ سے MBAکر کے آیا تھا اور ایک سال میں ہی بزنس کی دنیا میں اپنا نام بنا لیا تھا.شافع ہمیشہ لڑکیوں سے دور ہی رہتا تھا لیکن مایا کی آنکھوں میں کچھ تھا کہ وہ نظر ہٹانا ہی بھول گیا تھا.مایا ناجانے کیا کچھ بولی جا رہی تھی لیکن اسے تو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا.وہ تو مایا کی نیلی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں کھو ہی گیا تھا.

"نظر ملی اور انکی آنکھیں جھکیں

بس! اتنی سی بات اور ہم برباد"

او ہیلو، یوں گھور گھور کر کیا دیکھ رہے، نظر لگانی ہے کیا؟...مایا نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا.مایا کی آواز سے وہ واپس دنیا میں آیا تھا.

ایکسکیوزمی میڈم، پہلی بات میں آپ سے جان بوجھ کر نہیں ٹکرایا، اور دوسری بات آپ نے اپنا چہرہ کور کیا ہوا ہے تو مجھے کیا معلوم آپ خوبصورت ہیں بھی یا نہیں، نظر لگانا تو بعد کی بات ہے لیکن ہاں آنکھیں بےحد کمال کی ہیں آپکی،سحر طاری کرنے والی...شافع نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا.

زیادہ سمارٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے، مایا تم جیسے لڑکوں کے منہ نہیں لگتی...مایا نے تڑخ کر کہا.

نام تو اچھا ہےآپکا، لیکن کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ آپ کس قسم کے لڑکوں کو منہ لگانا پسند کرتی ہیں...پہلی دفعہ شافع نے کسی لڑکی سے اتنی لمبی گفتگو کی تھی.

شٹ اپ، ایڈیٹ...یہ کہہ کر مایا نمرہ کو لے کر آگے بڑھ گئی جو تب سے ہکابکا کھڑی دونوں کی بحث سن رہی تھی.

شافع نے مڑ کر دیکھاتو وہ سامنے والی شاپ کے اندر چلی گئی تھی.

شافع کے لبوں پہ مسکراہٹ اُبھری تھی.."مایا"....اس نے زیرِلب دہرایا اور گارڈز کو اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا.اسکے ہمراہ گارڈز اور سیکٹری بھی حیران تھے کہ جس کے سامنے بڑے بڑے لوگ مناسب بات کہنے سے گھبراتے ہیں، آج ایک انجان لڑکی اسے اتنی فضول باتیں سناگئی اور شافع نے اسے کچھ کہا بھی نہیں ، بلکہ اسکے چہرے پہ مسکراہٹ تھی، عجیب بات تھی.

شافع کی میٹنگ تھی تو وہ سیدھا آفس چلا گیا.مایا کا موڈ آف ہوچکا تھا ..اس لئے ڈھنگ سے شاپنگ بھی نہ کر سکی اور لنچ کئے بغیر ہی گھر واپس چلی گئی.اس دن کے بعد نہ تو اسکی ملاقات پھر شافع سے ہوئی اور شافع نے بھی اسکا خیال دماغ سے جھٹک دیا، لیکن اسکی آنکھیں ... کیا ان آنکھوں کو وہ بھلا سکتا تھا؟؟

کبھی نہیں...!!!

"مجھ پہ جادو سا کر گئیں..

تیری نیلی آنکھوں کی سحر انگیزیاں ..!!"

آج مایا کا کالج میں پہلا دن تھا. ایک گھنٹہ لگا کر مایا نے ڈریس کا انتخاب کیا. ریڈ جینز اور وائیٹ شرٹ ، کھلے بال ، خوبصورت سا میک اپ ، کانوں میں لال رنگ کے موتی ، بلاشبہ آج وہ بہت سوں کو گرانے والی تھی. پرس کو کہنی پر ٹکائے وہ مغرور سی چال چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور ناشتہ کیے بغیر ہی نمرہ کی طرف چل دی. نمرہ کو پِک کرنے کے بعد دونوں کالج پہنچی تھیں. ان دونوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ کالج نہیں بلکہ ماڈلنگ کرنے آئی ہیں. کالج کے اندر کے حالات بھی ان دونوں سے مختلف نہ تھے. کچھ سٹوڈنٹس سادہ اور کچھ ان سے بھی زیادہ تیار ہو کر آئے تھے. کالج میں قدم رکھتے ہی مایا کو لگا کہ وہ ہواؤں میں اُڑ رہی ہے. آج وہ اپنے خوابوں کے محل میں کھڑی تھی تو خوش کیوں نہ ہوتی...!!! 

آج انکا پہلا دن تھا ، سب کا تعارف کروایا گیا، تمام سٹوڈنٹس آپس میں اس طرح مل رہے تھے جیسے بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ....لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے بانہوں میں بانہیں ڈالے، جیسے وہ کالج نہیں بلکہ پکنک سپاٹ پہ آئے ہوں...آہ..آزاد ماحول کی آزاد فضا...!!

مایا کا آج کا دن بہت بہترین گزرا تھا، مایا آزاد خیال لڑکی تھی ، گھر میں بھی اسے کوئی روک ٹوک نہیں تھی لیکن پھر بھی آج تک اس نے کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی تھی، اسکی تو بس ایک ہی دوست تھی ، بچپن کی دوست نمرہ... جس کے بعد اسے کسی اور کی ضرورت نہیں رہی تھی. 

"دوستوں کے جانے سے اک کمی سی رہتی ہے ،،

یوں کہو کہ اک گونہ بےبسی سی رہتی ہے ،،

دوستوں کے جانے سے کوئی مر نہیں جاتا،،

لیکن ان کے ہونے سے زندگی سی رہتی ہے،،

دوستوں کے ہوتے بھی مشکلات آتی ہیں ،،

لیکن ان کے لفظوں کی روشنی سی رہتی ہے ،،

دوستوں کے آنے سے کوئی جی نہیں اٹھتا ،،

لیکن ان کے آنے کی اک خوشی سی رہتی ہے ،،

بے شمار یاروں کی بے حساب یادیں ہیں،،

اب تو اپنے آنگن میں چاندنی سی رہتی ہے."

***************

ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا ، مایا کی زندگی کے حسین ترین دن چل رہے تھے. لیکچر ختم ہوا تو سب سٹوڈنٹس کلاس سے باہر نکلنے لگے ، مایا اور نمرہ بھی بیگز اٹھاکر باہر آئیں. 

ایکسکیوزمی... مس مایا..!! مایا کو کسی نے پکارا تھا. 

یس... مایا نے مڑتے ہوئے کہا، جیسے ہی وہ پلٹی پلک جھپکنا ہی بھول گئی... زندگی جیسے کہیں ٹھہر گئی تھی. کیا کوئی اتنا حسین بھی ہو سکتا ہے کہ پہلی نظر میں ہی آپکو اپنا دیوانہ بنا لے... بلاشبہ وہ حسین ترین لوگوں میں سے ہی ایک تھا. 

یہ آپکی بک نیچے گر گئی تھی... وہ مایا کو اسکی کتاب دے رہا تھا لیکن لینے کیلئے سامنے انسان کا حاضر ہونا بھی تو ضروری ہے نا، پر وہ تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی. 

آپ سن رہی ہیں نا؟؟...اس نے پھر سے کہا. نمرہ نے اسے کہنی ماری تو وہ جیسے ہوش میں آئی تھی. 

حج.. جی... مایا نے بمشکل کہا. 

آپکی بک میڈم... اس نے مسکراتے ہوئے کہا ، اکثر لڑکیاں اسے دیکھ کر ایسے ہی پزل ہو جاتی تھیں.. مایا نے بک پکڑ لی تو وہ جانے کیلئے مڑا. 

رکیں... مایا نے پکارا. 

جی... اس نے جواب دیا. 

آپ کا نام کیا ہے ؟؟...مایا نے تجسس سے پوچھا. 

میرا نام نوفل حیات ہے... اس نے مسکراتے ہوئے کہا. وہ مایا کی آنکھوں میں اپنے لئے پسندیدگی تو دیکھ ہی چکا تھا. 

میرا نام مایا ہے... مایا نے ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا. جسے اس نے بنا کسی گریز کے پکڑ لیا. 

بہت اچھا لگا آپ سے مل کر... نوفل نے اتنا کہا اور واپس جانے کیلئے مڑا. 

مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے نوفل حیات صاحب... مایا نے بنا کسی لحاظ کے کہا... وہ ایسی ہی تھی جو منہ میں آئے کہہ دینے والی، بنداس سی...!!! 

نوفل کو اپنی سماعت پہ شک ہوا تھا. 

جی... آپ نے کیا کہا؟؟...وہ ناچاہتے ہوئے بھی حیرت کا اظہار کر گیا تھا. 

Will you merry me??... مایا نے تو آج اسے شاک پہ شاک دینے کی قسم کھائی 

تھی.

وٹ؟ آپکو اندازہ بھی ہے آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟؟...نوفل پریشانی سے گویا ہوا. اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کوئی لڑکی اتنی ڈائریکٹ بھی ہو سکتی ہے کہ سیدھا شادی کی آفر کر دے. 

آف کورس، مجھے پتا ہے میں کیا کہہ رہی ہوں... مایا نے نارمل انداز میں کہا... نمرہ کو تو سانپ ہی سونگھ گیا تھا.. نوفل نے خود کو ریلیکس کیا. 

اچھا پہلے یہ بتائیں آپکو مجھ میں ایسا کیا نظر آگیا کہ پہلی ملاقات میں ہی شادی کی آفر کردی... جان نہ پہچان... ہو سکتا ہے میں برا انسان ہوں پھر؟... پھر کیا کریں گی آپ ؟؟...نوفل اب قدرے پرسکون تھا. 

ظاہر سی بات ہے تم پسند آگئے ہو اور شادی کے بعد جان پہچان بھی ہو جائے گی... رہی بات برے ہونے کی تو وہ تو مایا کو ٹھیک کرنا آتا ہے... مایا نے ایک ادا سے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا. 

اور اگر میں کہوں میں آل ریڈی شادی شدہ ہوں تو؟؟...نوفل کو اب اس لڑکی سے بات کرنے میں مزہ آرہا تھا ، پہلی بار اس نے ایسی لڑکی دیکھی تھی ، وہ ابھی تک یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ اسے تنگ کرنے کیلئے مزاق کر رہی ہے. 

تو مجھ سے دوسری شادی کرلو... مایا نے بلا کے اطمینان سے کہا. 

وٹ؟ سیریئسلی؟...آپ پاگل واگل تو نہیں ہیں؟؟...نوفل کو وہ لڑکی سائیکو کیس لگی تھی. 

آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا مایا کو پاگل کہنے والا... لیکن خیر... تم آئندہ مت کہنا... مایا نے بیزاری سے کہا. وہ ابھی بھی حیرانگی کی اٹھا گہرائیوں میں تھا. 

اچھا اب ایسے گھورو تو نہ... ٹھیک ہے شادی نہ کرو... دوستی تو کر سکتے ہیں نا؟؟...آخرکار مایا کو اسکی حالت پہ ترس آہی گیا تھا. 

اوکے... اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے کہا ، اور جلدی سے واپس چلا گیا. 

عجیب لڑکی ہے... لیکن ہے کمال... نوفل نے سوچا تھا. 

"اپنے دل تک مجھے ایسی رسائی دے،،

میں جدھر بھی دیکھوں تو ہی دیکھائی دے. "

مایا بڑبڑائی تھی. 

مایا یہ سب کیا تھا ؟؟ کیا تو سچ میں ؟؟...نمرہ نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی. مایا خیالوں سے باہر نکلی تھی. 

ظاہر سی بات ہے یار سچ میں ہی کہا ہے... تمھیں تو پتا ہے مایا خان کو ایک بار جو چیز پسند آجائے تو وہ اسے حاصل کر کے ہی رہتی ہے... مایا نے خیالوں میں گم ہوتے ہوئے کہا. 

یار ویسے نوفل ہے تو بڑا ہینڈسم... نمرہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا. 

اچھا چل اب گھر نہیں جانا کیا ؟؟...مایا نے اسکے سر پہ چپت لگاتے ہوئے کہا. 

پہلے تو اسکے خوابوں میں کھوئی ہوئی تھی اور اب تجھے گھر یاد آگیا ہے... چڑیل... چل اب... نمرہ نے عجیب سا منہ بناتے ہوئے کہا تو دونوں ہنسنے لگیں اور باہر کی طرف چل دیں. 

شافع اچانک ہڑبڑا کر اٹھا تھا. دو منٹ اسے سنبھلنے میں لگے تھے. کچھ دیر پہلے وہ اپنے بیڈروم میں سونے کیلئے آیا تھا کہ اچانک اٹھ گیا. ماتھے سے پسینے کے قطرے صاف کیے اور بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا. ہونٹوں پہ ظالم مسکراہٹ تھی. 

تو اب مِس بلیو تم اس طرح بندے کو تنگ کرو گی ، سونے بھی نہیں دیتی، کیا چاہتی ہو آخر تم  کہ شافع تمہیں اپنے محل میں قید کر لے ، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو بہت جلد تم یہیں پر میرے ساتھ ہوگی اور اسکی ذمہ دار تم خود ہو گی... شافع نے مسکراتے ہوئے سوچا اور اٹھ کر فریش ہونے کیلئے چلا گیا. 

"کچھ بھی ہو میں تو الزام تمھیں ہی دوں گا ،،

تم معصوم بہت ہو مگر توبہ تمھاری آنکھیں..!!"

کلاس میں ہر سوں خاموشی تھی.صرف پروفیسر کے بولنے کی آواز آ رہی تھی. تمام سٹوڈنٹس مکمل توجہ سے لیکچر لے رہے تھے. بائیں جانب کھڑکی کے پاس مایا بیٹھی تھی ، لیکچر سے بےنیاز ، اپنے ظالم شہزادے کو دیکھتے ہوئے ، مدھم سا مسکرارہی تھی. 

نوفل پورے انہماک سے لیکچر سنتا ہوا رجسٹر پر کچھ لکھ رہا تھا.

نوفل بلاشبہ بہت ہینڈسم بندہ تھا. لڑکیاں اس پر مرتی تھیں. لیکن وہ ہمیشہ لڑکیوں سے دور ہی بھاگتا تھا. اسے لوز کریکٹر کی لڑکیاں بلکل بھی پسند نہیں تھیں. یہی وجہ تھی کہ اسے مایا بھی باقی لڑکیوں کی طرح لگی تھی کیونکہ پہلی ملاقات میں ہی مایا نے اسے پرپوز کر دیا تھا. 

لیکچر ختم ہوا تو سب سٹوڈنٹس کلاس سے باہر نکلنے لگے. 

تمھارا یہیں بیٹھنے کا ارادہ ہے کیا؟؟...نمرہ نے اسے ہلاتے ہوئے کہا. 

اوہ... لیکچر ختم ہو گیا کیا؟؟...مایا نے ہڑبڑا کر پوچھا. 

جی میڈم، لیکچر ختم ہو گیا... اگر آپ اپنے ہیرو سے نظریں ہٹا کر دیکھیں تب ہی کچھ نظر آئے نا... نمرہ نے مصنوعی خفگی سے کہا. 

تُو رک میں اس سے مل کر آتی ہوں... نوفل کے نام پر مایا فوراً اٹھی اور اسکی طرف قدم بڑھادئے. نمرہ کا دل کیا کہ یہ موٹی سی کتاب اپنے سر میں مارے. 

نوفل کلاس کے باہر ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا. 

ہیلو گائیڈ... مایا نے سب کو کہا. 

ہائے... نوفل کی بجائے اسکے ایک دوست نے کہا. 

کیسے ہو نوفل؟؟...مایا نے سب کو نظرانداز کرتے ہوئے نوفل سے پوچھا. 

ٹھیک ہوں... آپ کیسی ہیں؟؟...نوفل نے مروتاً پوچھا. 

میں بھی ٹھیک ہوں... مایا نے چہک کر کہا. 

اگر آپ فری ہیں تو کافی پینے چلیں؟؟...مایا نے آفر کی. 

ایکچیولی مجھے ایک ضروری کام ہے ، مجھے جانا ہے اسلئے آج تو یہ ممکن نہیں ہے... نوفل نے بہانہ بنایا. مایا سمجھ گئی تھی کہ اسے کوئی ضروری کام نہیں ہے ، وہ بہانہ بنا رہا ہے اسکے ساتھ نہ جانے کا ،کیونکہ تھوڑی دیر پہلے تو وہ بڑے آرام سے دوستوں کے ساتھ گپیں ہانک رہا تھا. اسکے انداز سے مایا کو بلکل نہیں لگا کہ اسے کوئی ضروری کام ہے. 

"ہم وہ ہیں جو آنکھوں میں،، جھانک کہ سچ جان لیتے ہیں،، 

محبت ہے اِس لیے تیرے،،

جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں. "

چلیں کوئی بات نہیں ، پھر سہی... بائے... مایا کہہ کر واپس آ گئی. 

کیا ہوا تیرا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے ؟؟...نمرہ نے اسکی اتری ہوئی شکل دیکھ کر پوچھا. 

یار بہت ظالم ہے نوفل، یہ تو بلکل بھی مجھے لفٹ نہیں کرواتا... مایا نے افسردگی سے کہا. 

اوہو.. میں نے سوچا پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ، آہستہ آہستہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا تُو ٹینشن نہ لے... چل گھر چلتے ہیں... نمرہ نے اسے تسلی دی اور دونوں گھر آئیں. 

"وہ خواب میں بھی نہیں میسر،،

حجاب کی انتہا تو دیکھو. "

اسی طرح دن گزرتے گئے اور انکے پیپرز شروع ہو گئے. 

پیپرز کیا شروع ہوئے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کالج کو سانپ سونگھ گیا ہو.. ہر کوئی اپنی اپنی کتابوں میں مگن نظر آتا ، کسی کو کسی کا ہوش ہی نہیں تھا. مایا کا دھیان بھی نوفل کی طرف سے عارضی طور پر ہٹ گیا تھا ، اسے فلحال صرف پیپرز پر دھیان دینا تھا ، اپنا خواب پورا کرنا تھا. 

**********************

شافع میٹنگ روم میں بیٹھا تھا ، میٹنگ جاری تھی. ساری کمپنیاں سر توڑ کوشش کر رہی تھیں کہ شیئرز انہیں مل جائیں ، لیکن آخرکار ہمیشہ کی طرح شافع نے اس نامور کمپنی کے% 50 شیئرز حاصل کر لیے تھے. اگریمنٹ سائن ہوگیا تو اپنے پارٹنر سے ملا اور ایک سرد نگاہ سامنے بیٹھے علی خان آفندی پہ ڈالی. ایک طنزیہ مسکراہٹ اسکی طرف اچھال کر باہر کی طرف قدم بڑھادئے. ابھی وہ لفٹ میں داخل ہی ہوا تھا کہ علی خان آفندی بھی اسکے ساتھ ہی اندر آیا. 

مبارک ہو شافع خان... علی نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا. شافع نے ہاتھ ملانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا. 

میں تم جیسے خونی سے ہاتھ ملانا ضروری نہیں سمجھتا...شافع نے خود پہ ضبط کرتے ہوئے کہا. 

ہاہاہا... علی خان کا قہقہہ پوری لفٹ میں گونجا تھا. 

بچے تم کبھی بھی مجھے خونی ثابت نہیں کر پاؤ گے... علی نے تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا. 

علی خان تم الٹی گنتی گننا شروع کردو... بہت جلد تم اپنے انجام کو پہنچ جاؤ گے اور تمھیں تمہارے انجام تک میں اپنے ہاتھوں سے پہنچاؤں گا... شافع نے کہا اور لفٹ سے باہر نکل کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا. 

شافع غصے میں فل سپیڈ سے گاڑی دوڑاتا ہوا گھر پہنچا، ملازم پانی لے کر آیا جسے شافع نے ایک غصے بھری نگاہ سے دیکھا تو ملازم وہیں کھڑے کھڑے کانپنے لگ گیا. شافع نے گلاس اٹھایا اور پوری طاقت سے سامنے دیوار میں مارا تو ہر طرف کانچ ہی کانچ بکھر گیا. 

دفع ہو جاؤ سارے، اگر زندگی چاہتے ہو تو کوئی بھی میرے سامنے مت آنا... شافع نے غراکر کہا اور ایک ہاتھ سے خود کو ٹائی سے آزاد کیا. جیسے ٹائی سے اسکا دم گھٹ رہا ہو. 

ایک گھنٹہ پنچنگ بیگ پر غصہ نکالا اور پھر وہیں نیچے دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا. پورا جسم پسینے میں شرابور تھا. 

موم، ڈیڈ میں آپکے قاتل کو زندہ نہیں چھوڑوں گا ، یہ آپکے بیٹے کا وعدہ ہے آپ سے... شافع کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے. 

ایک سال پہلے جب وہ انگلینڈ میں تھا تو اچانک ایک روز اسکے ڈیڈ کا فون آیا تھا. اسے آج بھی وہ دن یاد تھا. وہ اسے پاکستان واپس بلا رہے تھے. 

خیریت ڈیڈ آپ اس طرح مجھے واپس کیوں بلا رہے ہیں ؟؟....شافع کو وہ بہت پریشان لگے تھے. 

ہاں بیٹا سب ٹھیک ہے ، میں چاہتا ہوں کہ تم اب یہاں ہمارے ساتھ رہو، ہم اب تم سے مزید دور نہیں رہ سکتے ، تم یہاں آ کر میرا بزنس سنبھالو ، سب کچھ تمہارا ہی تو ہے...!! 

وہ تو ٹھیک ہے ڈیڈ ، میرے بس دو پیپرز رہ گئے ہیں پھر میں واپس آجاؤں گا... لیکن مجھے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں... آج سے پہلے اسکے ڈیڈ نے کبھی بھی اُس سے اِس طرح بات نہیں کی تھی.

ہاں ہاں بیٹا سب ٹھیک ہے ، ابھی میری ایک ضروری میٹنگ ہے پھر بات ہوگی... انہوں نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا تھا ، وہ شافع کو یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ انکی جان خطرے میں ہے ورنہ وہ پیپرز چھوڑ کر ہی واپس آ جاتا... دو دن پہلے ہی ان پر جان لیوا حملہ ہوا تھا. 

انکی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی ، وہ تو اللہ نے انکی جان بخش دی تھی ورنہ دشمن نے تو انہیں مارنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی تھی. حملے کے کچھ دیر بعد ہی علی خان آفندی کا فون آیا تھا. 

تو کیسا لگا سرپرائز عمر خان... علی نے ہنستے ہوئے پوچھا تھا. 

یہ سب تم نے کروایا ہے نا؟؟...عمر خان نے گرج دار آواز میں پوچھا تھا. 

یہ تو ابھی ٹریلر ہے میرے دوست ، یہ فائرنگ تمہیں مروانے کیلئے نہیں بلکہ یہ بتانے کیلئے کروائی گئی ہے کہ آج کا کنٹریکٹ میرے نام ہی ہونا چاہیے ورنہ زندہ نہیں بچو گے... علی نے خباثت سے کہا. 

ایسی گھٹیا حرکت تمہارے سوا کوئی کر بھی نہیں سکتا...اور جہاں تک کنٹریکٹ کا سوال ہے وہ تو میں ہی سائن کروں گا ، تم نے جو کرنا ہے کرلو ، میں اپنے رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا... اتنا کہہ کر عمر خان نے فون بند کر دیا. انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ دشمن انکی تاک میں ہے اس لئے وہ جلد از جلد شافع سے ملنا چاہتے تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا. 

دو دن بعد شافع پہلی فلائٹ سے پاکستان واپس آیا تھا. گھر میں کسی کو بھی خبر نہیں تھی. وہ اپنے موم ڈیڈ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا. 

اسی شام عمر خان اور انکی بیوی کسی ڈنر میں شرکت کرنے کیلئے جا رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکہ ہوا تھا ، یقیناً کسی نے انکی گاڑی کے ٹائر پر فائر کیا تھا. انکی گاڑی توازن کھو بیٹھی تھی کہ سامنے سے آتے ٹرک نے گاڑی کو زاردار ٹکر ماری... ٹرک کچھ ہی دیر میں وہاں سے غائب ہو چکا تھا، ایمبولینس نے انہیں ہوسپٹل پہنچا دیا تھا. 

شافع جب گھر پہنچا تو پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا. اسی وقت اسکا فون بجا تھا. اسکے ڈیڈ کی کال تھی. لیکن فون کی دوسری طرف کوئی اجنبی آواز ابھری تھی. سامنے والے کی بات سن کر اسے اپنے پیروں تلے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی. وہ تو اچانک آکر اپنے موم اور ڈیڈ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا لیکن قسمت نے تو پہلے ہی اسکے لئے سرپرائز تیار کر رکھا تھا. شافع الٹے قدموں پہ دوڑتا ہوا ہوسپٹل پہنچا تھا. 

ریسیپشن سے پوچھ کر وہ فوراً آگے بڑھا تھا. سامنے ہی آئی. سی. یو.  سے نرس باہر نکل رہی تھی. 

شافع کون ہے؟؟...نرس نے اردگرد دیکھتے ہوئے پوچھا. 

مم.. میں ہوں... شافع نے بمشکل یہ الفاظ ادا کئے. 

جلدی چلیں.. آپکی پیشنٹ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ، وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں... نرس نے پیشہ وارانہ انداز میں کہا. شافع وہیں ساکت ہو گیا تھا لیکن اسے آگے بڑھنا تھا، اپنی موم کے پاس جانا تھا. جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا تو سامنے ہی اسے اسکی موم نظرآ گئیں .انہیں آکسیجن لگایا گیا تھا لیکن پھر بھی وہ سانس نہیں لے پا رہی تھیں ، شافع تڑپ کر انکی طرف دوڑا تھا. 

موم.. یہ کیا ہو گیا..موم پلیز کچھ تو بولیں.. دیکھیں میں واپس آگیا ہوں... بیٹے کی آواز سن کر ایک پل کیلئے انہوں نے آنکھیں کھول کر شافع کی طرف دیکھا تھا اور اپنا ہاتھ بمشکل اسکی طرف بڑھا کر شافع کے منہ پر پھیرا تھا اور وہیں انکی سانسیں رک گئی تھیں.. اور ہاتھ نیچے گر گیا تھا. 

موم پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائیں ...پلیز موم... وہ روتے ہوئے ہزیانی انداز میں چلایا تھا. ڈاکٹر فوراً انکی باڈی کو دوسرے روم میں لے گئے اور شافع کو بھی باہر نکلنے کا کہا تھا... شافع کا دکھ بہت بڑا تھا لیکن ابھی اسے اپنے ڈیڈ کی زندگی کیلئے دعا کرنی تھی. 

ڈاکٹر... ڈاکٹر میرے ڈیڈ کہاں ہیں؟ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟؟...شافع نے ڈاکٹر سے پوچھا. 

انہیں سر میں بہت چوٹ آئی ہے.. اِن سائیڈ بلیڈنگ ہوئی ہے... انکا آپریشن چل رہا ہے.. آپ بس دعا کریں... ڈاکٹر نے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور وہ وہیں دیوار کے ساتھ نیچے ہی بیٹھ گیا... گزرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے ایک نوجوان مرد کو بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا تھا. 

تین گھنٹے بعد ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر سے باہر آئے تھے... شافع فوراً ڈاکٹرز کے پاس گیا. شافع کے پوچھنے سے پہلے ہی ڈاکٹر نے کہنا شروع کیا... آپریشن ہو چکا ہے لیکن ابھی انکی حالت خطرے میں ہے... ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا.. انہیں روم میں شفٹ کر رہے ہیں. جب وہ ہوش میں آجائیں تو آپ ان سے مل سکتے ہیں.. لیکن انکی زندگی کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا... ڈاکٹر نے بتایا اور آگے بڑھ گیا. 

کچھ دیر بعد انہیں روم میں شفٹ کر دیا گیا... شافع انکے روم میں آیا اور انکے پاس ہی انکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گیا. انکا سر پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا. پورے جسم پہ زخم ہی زخم تھے.. شافع کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے. 

آپ تو آنکھیں کھول دیں نا، آپ دونوں کو مجھ پہ ترس نہیں آتا کیا ، ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ... شافع روتے ہوئے کہہ رہا تھا. ایک دن بعد عمر خان کو ہوش آیا تھا. 

انہوں نے ہوش میں آتے ہی شافع کا نام لیا تھا. انکی سانسیں اٹک رہی تھیں.. ڈاکٹرز نے شافع کو ان سے ملنے کی اجازت دے دی تھی. شافع کمرے میں آکر انکے پاس بیٹھ گیا اور انکا ہاتھ پکڑ لیا. 

ڈیڈ پلیز جلدی سے ٹھیک ہو جائیں نا... شافع نے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے کہا. 

شافع.. میرے بیٹے.. عمر خان نے بمشکل پکارا. 

جی ڈیڈ میں یہی ہوں آپ کے پاس... شافع نے کہا. 

بیٹا میری بات غور سے سنو...اکھڑی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا گیا. 

جی ڈیڈ بولیں میں سن رہا ہوں... شافع نے تڑپ کر کہا. 

یہ ایکسیڈنٹ جان بوجھ کر کروایا گیا ہے.. عمرخان نے ساری بات شافع کو بتادی.... اسی لئے میں تمہیں واپس بلا رہا تھا تاکہ تم سے مل سکو ، ناجانے پھر ملاقات ہوگی بھی یا نہیں... انہوں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا. 

ڈیڈ آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا ، میں سب کچھ چھوڑ کر آجاتا... شافع نے نم آواز میں کہا. 

بیٹا میں نہیں چاہتا تم کسی بھی جھگڑے میں پڑو.. اب تم آگئے ہو نا تو یہ بزنس تم سنبھالو.. لیکن اپنا بہت خیال رکھنا بیٹے اور کسی سے بھی لڑائی نہ کرنا.. ہمیں اللہ انصاف دے گا... عمر خان نے بمشکل بولتے ہوئے بیٹے کو سمجھایا. 

ڈیڈ پلیز آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں.. علی خان آفندی کو تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا... شافع نے غصے سے کہا.. اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اسے زمین میں گاڑ دے. 

نہیں بیٹا تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ، وہ بہت طاقتور ہے ،  وہ تمہیں بھی مروا دے گا.. عمر خان کو اس حالت میں بھی بیٹے کی فکر تھی. انکی حالت پھر سے غیر ہونا شروع ہوگئی تھی. انکی حالت بگڑتے دیکھ کر شافع نے فوراً ڈاکٹر کو بلایا تھا اور خود باہر کھڑا ہوگیا. کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر بھی باہر آگئے تھے. 

سوری ہم انہیں بچا نہیں پائے... ڈاکٹر نے شافع کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بتایا اور چلا گیا. شافع کو خود پر ساتوں آسمان ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوئے تھے...ایک پل میں وہ یتیم ہوگیا تھا..!! 😢

وہ اپنے ماں باپ کو گھر لے آیا تھا. نماز جنازہ کے بعد انہیں دفنایا گیا. 

اپنے ماں باپ کو اپنے ہاتھوں سے دفنانے کا دکھ اس وقت صرف شافع محسوس کر سکتا تھا. 

وہ بلکل ٹوٹ گیا تھا. بکھر گیا تھا. اکیلا ہوگیا تھا. اس بھری دنیا میں اسکا کوئی اپنا نہیں بچا تھا. کوئی اسے سنبھالنے والا نہیں تھا. جن ماں باپ نے ساری زندگی اسکی آنکھ میں ایک آنسو نہیں آنے دیا تھا. آج وہ زاروقطار رو رہا تھا لیکن کوئی اسے چپ بھی کروانے نہیں آیا تھا. 

اپنے ماں باپ کو افناتے ہوئے اسے لگا تھا کہ جیسے اس نے خود کو بھی وہیں دفنا دیا ہو. اسکا دل کیا تھا کہ کوئی اسے مار دے ، اسکی ساری دولت کے بدلے بس اسے مار دے تاکہ وہ بھی اپنے موم ڈیڈ کے پاس چلا جائے. پوری زندگی وہ کیسے انکے بغیر جیے گا. 

مردہ قدموں کے ساتھ جب وہ گھر آیا تو سامنے ہی اسے علی خان آفندی بیٹھا نظر آیا. شافع نہیں جانتا تھا کہ یہی علی خان آفندی ہے. اسے لگا شاید باقی سب لوگوں کی طرح وہ بھی اسکے ڈیڈ کا کوئی دوست ہے جو تعزیت کیلئے آیا ہے. 

ہیلو ینگ میں... میں علی خان آفندی ، تمہارے ڈیڈ کا بہت پرانہ دوست.

عمر خان کا سن کر ہمیں بہت دکھ ہوا ، اللہ ہم سب کو صبر دے، اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو ہمیں ضرور یاد کرنا ، میں بھی تمہارے ڈیڈ کی طرح ہی ہوں... علی خان نے افسردہ سی شکل بنا کر کہا. 

شافع کا دل کیا کہ ابھی اسے مار دے لیکن نہیں ، اسے اپنا ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا تھا کیونکہ دشمن اسکی سوچ سے بھی بڑھ کر شاطر تھا. شافع نے خود سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اس شخص کو اسکے انجام تک ضرور پہنچائے گا.

اس حادثے نے شافع کو انسان سے پھر بنا دیا تھا. اس نے اپنی ساری ایکٹیویٹیز ختم کردیں، دوستوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ، لڑکیوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا. خود کو صرف بزنس تک محدود کر لیا تھا. دن رات محنت کرکے ایک سال کے اندر اندر اس نے بزنس کی دنیا میں اپنا نام منوالیا تھا. 

اسکا بس ایک ہی دوست تھا، بچپن کا دوست  جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات شیئر کرتا تھا ، صرف وہی اسکے بدلے کے بارے میں جانتا تھا. وہ ہر وقت سائے کی طرح شافع کے ساتھ رہتا تھا کیونکہ جب سے یہ حادثہ ہوا تھا تب سے شافع بہت بدل گیا تھا ، بہت غصہ کرنے لگا تھا ، اپنے سامنے کسی کو بھی ٹکنے نہیں دیتا تھا.صرف ارمان ہی تھا جو اسے روک سکتا تھا، جسکی بات شافع سنتا تھا اور مانتا تھا. شافع اپنا بدلہ کھلے عام لینا چاہتا تھا ، پیٹھ پیچھے نہیں. سب لوگ جانتے تھے کہ علی خان اور شافع خان کی نہیں بنتی لیکن کوئی بھی اندر کی بات نہیں جانتا تھا. 

شافع کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ جو بھی ڈیل علی خان سائن کرنا چاہتا ، کچھ بھی کر کے شافع اپنے نام کروالیتا. جس وجہ سے انکی دشمنی اور مضبوط ہو گئی تھی. 

باہر سے شافع جتنا بھی سخت تھا لیکن اندر سے وہ اتنا ہی ٹوٹا ہوا تھا. آج بھی وہ زمین پر دیوار کے ساتھ بیٹھا آنسو بہا رہا تھا. اسے اپنے موم ڈیڈ بہت یاد آتے تھے ، وہ انہیں بھولا ہی کب تھا. لیکن چاہ کر بھی وہ انہیں واپس نہیں لا سکتا تھا. اپنا ماضی نہ بدل سکتا تھا نہ بھلا سکتا تھا. 

"یادِ ماضی عذاب ہے یارب،، 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا"

شافع کہاں ہے ؟؟...ارمان جلدبازی میں گھر میں داخل ہوا تھا. 

سر شافع سر اوپر والے روم میں ہیں اور ہمیں وہاں آنے سے منع کیا ہے... ملازم نے مودبانہ انداز میں کہا. 

ٹھیک ہے آپ جائیں... ارمان نے کہا اور اوپر کی طرف قدم بڑھادئے. ارمان کمرے میں آیا تو شافع زمین پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا. 

شافع... ارمان نے تڑپ کر پکارا. لیکن شافع نے سر نہیں اٹھایا. ارمان بھی اسکے پاس ہی بیٹھ گیا. تھوڑی دیر دونوں اسی طرح خاموشی سے بیٹھے رہے... شافع نے سر اٹھایا تو ارمان اسکی حالت دیکھ کر گھبرا گیا... آنکھیں لال انگارہ بنی ہوئی تھیں اور چہرہ پسینے سے شرابور تھا. 

یار یہ کیا حالت بنا لی ہے... ارمان نے محبت بھرے انداز میں کہا. 

میں ٹھیک ہوں ارمان... شافع نے مسکرانے کی کوشش کی. ارمان اسکے گلے لگ گیا. 

اچھا چل اب اٹھ ، مجھے بہت بھوک لگی ہے ، باہر چل کر کھانا کھاتے ہیں... میں باہر انتظار کر رہا ہوں ، پانچ منٹ ہیں تیرے پاس، کوئی بہانہ نہیں چلے گا... ارمان نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا. وہ اپنے جان سے پیارے دوست کو مزید دکھ میں نہیں دیکھ سکتا تھا. شافع ارمان کو باہر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا.. وہ ہمیشہ اسے دکھ میں دیکھ کر ہوں ہی تڑپ جاتا تھا. شافع مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اٹھ کر واش روم میں گھس گیا. شافع جانتا تھا کہ اب وہ اسے لئے بغیر نہیں جائے گا. 

" اے میرے دوست،،

میں اپنی جان،،

تیرے نام کردوں،،

ہو اگر تجھ کو کسی چیز کی فکر،،

دے کر تیرے ہونٹوں پر مسکراہٹ ،،

میں تجھے ہر فکر سے آزاد کردوں،،

کبھی نہ چھوٹے ساتھ ہمارا،،

میں رب سے یہ دعا کردوں،،

میں اپنی ساری کامیابیاں ،،

تجھ پر قربان کردوں،،

چھو کر نہ گزرے تجھے زمانے کا غم،،

خوشیوں کے پھول،،

میں تجھ پر نچھاور کردوں،،"

مایا اور نمرہ کالج میں داخل ہوئیں تو سامنے ہی نافل کھڑا تھا. وہ کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا.شاید کوئی ٹاپک سمجھا رہا تھا. مایا کچھ دیر ان دونوں کو یونہی دیکھتی رہی. وہ دونوں ایک دم کسی بات پر ہنسے تھے. مایا کو بہت غصہ آیا تھا. اس نے کبھی بھی نوفل کو لڑکیوں سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا. لڑکیاں اس سے بات کرنے کےبہانے ڈھونڈتی تھیں لیکن وہ ہمیشہ ان سے دور بھاگتا تھا. لیکن آج تو وہ اس لڑکی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا. یہی بات کافی تھی مایا کو غصہ دلانے کیلئے. نمرہ نے مایا کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اسکی بات سنی ان سنی کر کے انکی طرف بڑھی. 

یہ کیا ہو رہا ہے ؟؟....مایا انکے سر پر پہنچ کر بولی. دونوں نے ایک ساتھ حیرانی سے مایا کو دیکھا تھا. 

آپ کو نظر نہیں آ رہا ہم پڑھ رہے ہیں... نوفل نے تڑخ کر کہا. اسے مایا کا یوں پوچھنا اچھا نہیں لگا تھا. 

دانت کس خوشی میں نکل رہے ہیں تم دونوں کے؟؟...مایا نے غصے میں کہا. 

میں آپ کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں... آئندہ میرے معاملے میں بولنے سے پرہیز کریئے گا.. ??Understand miss Maya

...نوفل نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا. وہ لڑکی ابھی بھی ہکا بکا ان دونوں کو دیکھ رہی تھی. 

تم جانتے ہو نا میں تم سے محبت کرتی ہوں.. پھر تم اسکے ساتھ کیوں بیٹھے ہو... میرے ساتھ تو تم نے کبھی بھی یوں ہنس ہنس کر باتیں نہیں کیں... مایا سب کچھ برداشت کر سکتی ہے پر اپنی محبت کو شیئر نہیں کر سکتی..... مایا نے نوفل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور چلی گئی. 

"لاکھ مٹھاس سہی تیرے لہجے میں!!!

پر تیرا اوروں سے بات کرنا زہر لگتا ہے!!! "

کچھ دن اسی طرح گزر گئے لیکن دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی. 

آج انکی پوری کلاس نے باہر جانے کا پلان کیا تھا. سب نے سی سائیڈ پر جانے کا کہا تھا. مایا اور نمرہ بھی تیار ہو کر پہنچ گئی تھیں. سب لوگ گروپس کی شکل میں گھوم پھر رہے تھے اور خوب انجوائے کر رہے تھے. لیکن مایا کا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا کیونکہ اس دن کے بعد دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی. نوفل سامنے کھڑا اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ہنس رہا تھا. ایک دم سے مایا کی آنکھوں میں ڈھیروں آنسو آئے تھے. اسکا دل اک دم یہاں سے اچاٹ ہوا تھا. وہ گھر جانا چاہتی تھی لیکن وہ اپنی وجہ سے باقیوں کا پلان خراب نہیں کرنا چاہتی تھی. 

اسے تنہائی چاہئے تھی جہاں بیٹھ کر وہ اپنے آنسو بہا سکتی... مایا فون سننے کا بہانہ کر کے ایک سائیڈ پر آگئی. کچھ فاصلے پر قدرے سنسان گوشے میں اسے ایک درگاہ نظر آئی. اسکے قدم خود بخود درگاہ کی طرف بڑھنے لگے. 

اندر لوگوں کا کافی ہجوم تھا، اس لئے وہ اندر نہ گئی. سامنے ہی اسے ایک کالے رنگ کی گاڑی گاڑی نظر آئی، گاڑی میں کوئی نہیں تھا. مایا گاڑی پر بیٹھ گئی اوہ آنسو بہانے لگ لگی. پانچ منٹ آنسو بہانے کے بعد اس نے اپنی نیلی آنکھیں جو رونے کی وجہ سے اور بھی گہری ہوگئی تھیں ، صاف کیں اور گلاسز لگا لیے. اسی وقت کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے اتارا... یقیناً وہ گاڑی کا مالک تھا. مایا کو اسکی اس حرکت پر بہت غصہ آیا تھا. مایا نے سنبھل کر جب اسکا چہرہ دیکھا تو اسے یاد آیا یہ تو وہی ہے جس سے اس دن اسکی مال میں ٹکر ہوئی تھی. 

مایا کا غصہ مزید بڑھا تھا. 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اس نے ہاتھ کے اشارے سے مایا کو روکا اور ایک ہاتھ سے فون کان کو لگائے کسی سے بات کر رہا تھا. 

اوکے ارمان میں آتا ہوں... شافع نے فون بند کیا اور اپنے پیچھے کھڑے شخص سے مخاطب ہوا... اچھا بابا اب میں چلتا ہوں ، ایک ضروری کام ہے ، اگلی جمعرات کو آؤں گا ، آپ میرے لئے دعا کریئے گا... اتنا کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھا اور زن سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا... مایا بس دیکھتی ہی رہ گئی. 

آخر یہ سڑو خود کو سمجھتا کیا ہے.. یہ مجھے کیسے اگنور کرسکتا ہے.. مایا جان کو اگنور کر کے گیا ہے یہ شخص ،چھوڑوں گی نہیں میں تمہیں.. اگلی جمعرات یہاں آنا ہے نا تم نے ، دیکھنا کیسے بدلہ لیتی ہوں میں... مایا نے غصے میں کہا اور دوستوں کی طرف بڑھ گئی. 

"یہ رابطوں میں غفلت ، یہ بھولنے کی عادت،،

کہیں دور نہ ہو جانا ، یوں دور رہتے رہتے"

شافع ہر جمعرات کو درگاہ پر ضرور آتا تھا ، جب سے وہ مایا سے ملا تھا تب سے اسے اسکی نیلی آنکھوں سے محبت ہو گئی تھی... وہ ہر وقت بےچین رہتا ، ٹھیک سے سو بھی نہ پاتا... وہ بس مایا کو ڈھونڈنا چاہتا تھا... جب اسکی بےچینی حد سے بڑھ جاتی تو وہ یہاں درگاہ پر آجاتا.. یہاں آکر وہ بہت پرسکون محسود کرتا تھا. 

ہر جمعرات کو تو وہ لازمی یہاں آتا تھا. آج بھی وہ کچھ پل سکون کے حاصل کرنے کیلئے یہاں آیا تھا ، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ارمان کی کال آگئی... کسی ضروری میٹنگ کیلئے انہیں جانا تھا. 

وہ جلدی میں باہر آیا تھا، لیکن سامنے ہی ایک لڑکی اسکی گاڑی پر گلاسز لگائے بیٹھی تھی. شافع اسے پہچان نہیں پایا تھا کیونکہ مال میں مایا کا چہرہ کور تھا. شافع نے صرف اسکی آنکھیں دیکھی تھیں. شافع نے اسے آواز دی لیکن وہ کہیں اور ہی کھوئی ہوئی تھی.... شافع جلدی میں تھا اس لئے اسے بازو سے پکڑ کر نیچے اتارا اور بابا سے دعا کا کہہ کر چلا گیا. 

وہ نہیں جانتا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی ہی اسکی مایا ہے جسے وہ نجانے کہاں کہاں ڈھونڈ رہا تھا. وہ تو مایا کو اسکی آنکھوں سے پہچانتا تھا لیکن آنکھوں پہ اس نے گلاسز لگائے ہوئے تھے  جسکی وجہ سے وہ اسء پہچان نہ پایا تھا. قسمت اسکے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہی تھی ، وہ خود بھی اس سے انجان تھا. 

محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی. یہ عطا ہے ، نصیب ہے، بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے. زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے. تو وہ "محبت "ہے. 

*********************

شافع اپنے آفس میں بیٹھا کسی فائل کو سٹڈی کر رہا تھا کہ اچانک ایک بچی دروازہ کھول کر اندر آئی. شافع اس بچی کو دیکھ کر ایک پل کیلئے حیران ہوا تھا.... اس بچی کی آنکھیں بھی نیلی تھیں ، بلکل مایا کی طرح... !!!

"اس کی آنکھوں کا وہی رنگ ہے جھیلوں جیسا،،

خاص جرگوں میں قبائل کی دلیلوں جیسا.. "

وہ بہت پیاری بچی تھی ، شافع بچی کے پاس گیا اور گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھ گیا... بیٹا کیا نام ہے آپکا اور آپ یہاں کیسے آئیں؟؟...شافع نے مسکراتے ہوئے بچی سے پوچھا. 

انکل میرا نام مریم ہے،میں مما کے ساتھ آئی ہوں... بچی نے معصومیت سے کہا. 

کہاں ہے آپکی مما؟؟...شافع نے پوچھا. 

وہ باہر بیٹھیں کمپیوٹر پر کام کر رہی ہیں ، میں بور ہو گئی تھی اس لئے یہاں آگئی، کیا میں آپکی چیئر پر بیٹھ سکتی ہوں ؟؟....بچی نے آنکھیں جھپکتے ہوئے ، معصومیت کی حد کرتے ہوئے پوچھا. 

ہاں بیٹا ، آؤ میں آپکو بٹھاتا ہوں... شافع نے اسے اٹھا کر اپنی ریوالونگ چیئر پر بٹھادیا اور خود ٹیبل کی دوسری طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گیا.. بچی اب خوشی سے چیئر گھما رہی تھی. 

مایا بھی بچپن میں اتنی ہی پیاری ہو گی نا؟؟...شافع نے سوچا اور دوسرے ہی پل خود ہی اپنی سوچ پر ہنس پڑا. 

انکل میں بھی بڑی ہو کر آپ کی طرح بنوں گی اور پھر روز اس چیئر پر بیٹھا کروں گی... بچی نے شافع کو دیکھتے ہوئے کہا. شافع نے اسکی بات پر قہقہہ لگایا تھا. 

بیٹا آپکو پتا ہے آپکی آئیز بہت پیاری ہیں... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. 

انکل پلیز ماشاءاللہ بول دیں ورنہ میری پاری سی آئیز کو نظر لگ جائے گی... بچی نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا... شافع کا قہقہہ بے ساختہ تھا. 

نخرے بھی بلکل مایا کی طرح ہیں... شافع نے سوچا تھا. اسی پل اسکی ایک امپلوئی گھبرائی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی. 

سوری سر مجھے پتا نہیں چلا مریم کب آپکے کیبن میں آگئی... اس نے ڈرتے ہوئے شافع سے کہا. سب امپلوئی شافع سے اسی طرح ڈرتے تھے کیونکہ وہ غصے میں کسی کو بھی فائر کر دیتا تھا. اسے لگا تھا کہ آج وہ بھی ناکری گئی. 

کوئی بات نہیں ، بہت پیاری بچی ہے آپکی... شافع کو مسکراتا دیکھ کر وہ تو حیران ہی ہوگئی تھی کیونکہ اس نے شافع کو کبھی بھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ، آج وہ مسکرایا تھا تو کتنا ہینڈسم لگ رہا تھا. 

شکریہ سر، چلو مریم... اس نے مریم کو چیئر سے اتارا. مریم پہلے شافع کے پاس گئی اور اسکے گال پر کِس کیا... انکل آپ بہت اچھے ہیں... مریم نے کہا. 

بیٹا آپ بھی بہت پیاری ہیں... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسکی ماں مریم کو لے کر باہر چلی گئی. اگر وہ دو منٹ اور رک جاتی تو شاید حیرانی سے ہی مر جاتی...!! 

اف مایا کہاں ہو تم، اچھے بھلے بندے کو پاگل کر کے خود غائب ہوگئی ہو... ایسے بھلا کون کرتا ہے...شافع نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور پھر سر جھٹک کر فائل کھول لی... لیکن اب فائل میں دھیان ہی کب رہنا تھا..!! 

آج نمرہ کالج نہیں آئی تھی ، اس لئے مایا اکیلی تھی. لیکچر لینے کے بعد جب وہ کلاس سے نکلی تو نوفل اور اسکے دوست سامنے ہی کھڑے تھے. مایا انہیں اگنور کر کے گزرنے لگی تو نوفل کے منہ سے اپنا نام سن کر لاشعوری طور پر رکی تھی... مایا حیران ہوئی تھی کہ نوفل اپنے دوستوں سے اسکے بارے میں کیا بات کر رہا ہے ، تجسس کی بنا پر وہ وہیں کھڑی ہو کر انکی باتیں سننے لگی. انکا رخ دوسری طرف تھا اس لئے مایا کی موجودگی کی خبر نہ ہو سکی. 

یار ویسے لڑکی تو کمال ہے ، سیدھے شادی کی آفر کردی تجھے... نوفل کے دوست ہارون نے کہا تو سب ہنس پڑے. 

یار یہ بھی باقی لڑکیوں کی طرح ہی ہے، پہلے زبردستی لڑکوں کو پھانستی ہیں، پھر خود معصوم بن جاتی ہیں... لیکن میں ان جیسی لڑکیوں کے چکر میں آنے والا نہیں ، لوز کریکٹر... نوفل نے حقارت سے کہا. 

نوفل کے الفاظ نے مایا کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی.اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے جنہیں وہ پیچھے دھکیل کر نوفل کی طرف بڑھی تھی. اگر آج وہ چپ چاپ چلی جاتی تو خود کو بدکردار ثابت کر دیتی. 

ایکسکیوزمی مسٹر نوفل... مایا نے غرا کر کہا تو سب نے ایک ساتھ پیچھے مڑ کر دیکھا ، سب حیران تھے کہ مایا کب آئی. 

سب سے پہلی بات مایا خان نے تم سے محبت کی تھی اور جو بات مایا کے دل میں ہوتی ہے وہی منہ پر ہوتی ہے ،اُسی وقت میں نے تمہیں شادی کیلئے کہا تھا نہ کہ افیئر چلانے کیلئے .پھر میں لوز کریکٹر کیسی ہوئی... میں نے آج تک کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی اور تم... تم نے خود کو دیکھا ہے ہر وقت لڑکیوں سے چپکے رہتے ہو... انکے بارے میں غلط باتیں کرتے ہو ، انکی عزت نہیں کرتے.. تم خود کو سمجھتے کیا ہو ، دو ٹکے کے آدمی ،مایا خان تم جیسے لوفر شخص سے بات کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی ، لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی میں.. آج تک میں نے تم سے کوئی غلط بات کی، کسی غلط ایکٹیویٹی میں مجھے ملوث پایا.. نہیں نا... پھر کس طرح تم میرے کردار پر بات کر سکتے ہو... میں نے تمہیں وارن کیا تھا نا کہ اس لڑکی سے دور رہو... اس بات سے تمہیں اندازہ تو ہوگیا ہو گا کہ میں اپنی کسی چیز کو شیئر نہیں کرتی اور پھر تم تو میری محبت تھے تمہیں کیسے کرتی... تمہیں چھوڑنا میرے لئے ممکن نہیں تھا.. لیکن تم نے تو بہت آسان کردیا ہے... سوچا تھا آہستہ آہستہ تمہیں میری قدر ہو جائے گی ، مجھ سے محبت ہو جائے گی... لیکن نہیں.. تم تو میرے کردار پر ہی انگلیاں اٹھانے لگے... مایا خان کو اپنی عزت بہت پیاری ہے ،اس لئے...!!! وہ ایک منٹ کیلئے سانس لینے کو رکی، تمام سٹوڈنٹس انکے گرد جمع ہو چکے تھے. نوفل کی تو ہوائیاں ہی اڑ گئی تھیں.

 بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری محبت... آج کے بعد تم مجھے اپنے راستے میں نہیں پاؤ گے... لعنت بھیجتی ہوں میں تم پر... مایا کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا اور وہ بنا سامنے والے کے تاثرات دیکھے تیز تیز قدم اٹھاتی کالج سے نکل گئی.

"مجھے بھول جانے کا شوق ہے ، تو شوق سے ، شوق پورا کرو... 

مجھے بھی بہت شوق ہے ،تیرے ہر شوق پہ ، اپنا شوق قربان کرنے کا...!! "

ساتھ ہی تمام سٹوڈنٹس بھی جانے لگےلیکن نوفل تو ساکت ہی ہو گیا تھا. کچھ دیر بعد وہ بھی زن سے گاڑی اڑاتا گھر چلا گیا. 

نوفل نے زور سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بیگ ایک طرف پھینکا. 

یہ لڑکی خود کو سمجھتی کیا ہے ، سب کے سامنے میری اتنی انسلٹ کی، آخر یہ ہے کیا چیز... نوفل نے ٹیبل کو زور سے لات ماری اور بیڈ پر بیٹھ گیا. 

سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا. کچھ دیر اسی طرح بیٹھا رہا. 

کیا وہ سچ کہہ رہی تھی... نوفل نے سوچا. اسکے دماغ میں مایا کی باتیں گونج رہی تھیں. اس نے دل میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے آج تک مایا کو کسی بھی لڑکے سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا. 

کیا وہ سچ میں مجھ سے محبت کرتی ہے... نوفل نے پھر سے سوچا. 

نہیں پکا وہ ایکٹنگ کر رہی ہے ، حقیقت میں وہ ایسی نہیں ہو سکتی... نوفل نے  ان سوچوں کو اپنے دماغ سے جھٹکا.

مایا بہت ہرٹ ہوئی تھی ، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسکی محبت ہی اسکے کردار پر انگلیاں اٹھائے گی... وہ بہت ٹوٹ گئی تھی ، اسے رونے کیلئے تنہائی چاہئے تھی کیونکہ وہ سب کے سامنے رو کر اپنا مزاق نہیں بنوانا چاہتی تھی اور نہ ہی خود کو کمزور ظاہر کرنا چاہتی تھی. لاشعوری طور پر اس نے گاڑی درگاہ کی طرف موڑ دی. جب اس نے گاڑی درگاہ کے سامنے روکی تو خود بھی حیران رہ گئی کہ وہ یہاں کیوں آئی ہے لیکن اب اس میں مزید لوگوں سے بھاگنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے گاڑی سے نکلی اور درگاہ کو دیکھنے لگی... خودبخود ہی اسکے قدم درگاہ کی طرف بڑھنے لگے. وہ کبھی بھی ایسی جگہوں پر نہیں آئی تھی اور نہ ہی اسے اب آنے کا شوق تھا. اندر قدم رکھتے ہی اسکے جسم میں سنسناہٹ دوڑی تھی. دوپہر کا وقت تھا اس لئے بہت کم لوگ وہاں تھے ، کوئی جھاڑو دے رہا تھا تو کوئی رو رو کر دعائیں مانگ رہا تھا. 

یہ اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے بلکل جدا تھی ، مایا سب کو اس طرح سانس روکے دیکھ رہی تھی کہ جیسے کوئی سانپ دیکھ لیا ہو.. کتنا سکون تھا یہاں ، وہ وہاں بیٹھنا چاہتی تھی. اس جگہ نے اس پر سحر طاری کر دیا تھا ، کچھ پل کیلئے تو وہ اپنے سارے دکھ بھول گئی تھی. لیکن اگلے ہی پل اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تو وہ باہر کو بھاگی.. اور درگاہ کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئی.

پھر سے اسکے دکھ اسے یاد آنے لگ گئے تھے. آنسو پھر سے اسکی نیلی آنکھوں سے گرنے لگے تھے. 

کچھ دیر بعد وہی بلیک مرسیڈیز وہاں رکی تھی ، لیکن مایا کو نہیں پتا چلا تھا.. وہ تو بس آنسو بہانے میں گم تھی. 

شافع کو بےچینی محسوس ہو رہی تھی.. اسے اپنے موم ڈیڈ کی یاد آرہی تھی اور ساتھ میں اپنی نیلی آنکھوں والی ساحرہ کی تو وہ آفس سے درگاہ آگیا... جب وہ گاڑی سے نکلا تو اسے درگاہ کی سیڑھیوں پر ایک لڑکی روتی ہوئی دکھائی دی...دور ہونے کی وجہ سے وہ اسے پہچان نہ سکا... قدم بڑھاتا وہ درگاہ کی طرف آیا.. یہ تو وہی لڑکی ہے جو اس دن میری گاڑی پر بیٹھی تھی پر یہ رو کیوں رہی ہے ؟؟...خیر مجھے کیا، میں تو خود رونے کیلئے یہاں آتا ہوں... شافع کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ 

ابھری. اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا اس ساحرہ نے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا... شافع کی دنیا وہیں ساکت ہو گئی تھی. 

"تیرا دیکھنا... !!

قتل کی کوششوں میں شمار ہوتا ہے. "

مایا کو کسی کے قدموں کی آہٹ سنی تھی لیکن وہ چہرہ جھکائی بیٹھی رہی. کافی دیر جب سامنے والا نہ گیا تو اس نے چہرہ اٹھا کر سامنے دیکھا تو سامنے ہی مسٹر سڑو کھڑا تھا...!! 

مایا نے آنسو چہرے سے صاف کیے لیکن اٹھی نہیں اور رخ پھیر لیا.. وہ اپنے آنسوؤں کا مزاق نہیں اڑوانا چاہتی تھی. 

کچھ دیر شافع اسے یونہی دیکھتا رہا جب مایا نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا تو شافع نے سرد آہ بھری اور اسکے پاس ہی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا...!!! 

کیوں رو رہی ہو مایا ؟؟...شافع نے پیار سے پوچھا. مایا نے اسکی طرف دیکھا تو شافع اسکی نیلی آنکھوں میں کھو ہی گیا. 

کتنا پیار تھا نا اسے اسکی ان نیلی آنکھوں سے...!!! 

"دفن ہونا ہے ان کی آنکھوں میں ،،

یہ میری آخری وصیت ہے...!!! "

تم نے مجھے پہچان لیا مسٹر سڑو... مایا نے حیرت سے پوچھا. شافع نے مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا. 

پھر اس دن مجھے اگنور کر کے کیوں گئے تھے ، جب میں تمہاری گاڑی پر بیٹھی تھی ،ہاں وہ الگ بات ہے مجھے پتا نہیں تھا کہ وہ گاڑی تمھاری تھی... مایا کو اپنا نیا دکھ بھول کر پرانہ دکھ یاد آگیا تھا. 

اگر مجھے پتا ہوتا وہ تم ہو تو کبھی بھی نہیں اتارتا... شافع نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا. دونوں اپنے اپنے دکھ بھول گئے تھے. 

پھر اب کیسے پہچانا؟؟...مایا نے تجسس سے پوچھا. 

تمہاری آنکھوں سے... شافع نے مسکرا کر کہا. 

مطلب اگر میری آنکھیں نہ رہیں تو تم مجھے پہچانو گے بھی نہیں مسٹر سڑو... مایا کو اسکی بات اچھی نہیں لگی تھی اس لئے تڑخ کر کہا. شافع کے دل کو اس کی بات سے کچھ ہوا تھا. 

میں انہیں کبھی کچھ نہیں ہونے دوں گا..... شافع نے سنجیدگی سے کہا. 

میں کیسے؟؟...مایا نے حیرت سے پوچھا. 

میں تمہیں سو پردوں میں چھپا کر رکھوں گا.. جہاں ہوا بھی تمہیں چھو نہیں سکے گی... شافع نے جزبات سے بھرپور لہجے میں کہا. 

ہاہاہا... کیا بات ہے مسٹر سڑو ، کونسی فلم دیکھ آئے ہو ؟....مایا کا ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا. اسے ہنستا دیکھ کر شافع کے اندر سکون اترا تھا.. جس سکون کیلئے  وہ جگہ جگہ بھٹکتا تھا وہ اس لڑکی کے پاس تھا...!!! 

اب بتاؤ تم کیوں رو رہی ہو ؟؟....شافع کو اسکے آنسو یاد آگئے تھے... اور تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟...ایک اور سوال ہوا. 

اب بتاؤ تم کیوں رو رہی ہو ؟؟...شافع کو اسکے آنسو یاد آگئے تھے. 

اور تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟...ایک اور سوال ہوا. 

جب میں پریشان ہوتی ہوں تو ضرور روتی ہوں... اس نے ہنستے ہوئے بتایا. 

اور مجھے خود بھی نہیں پتا میں یہاں کیوں اور کیسے آگئی... مایا نے سچ بتایا. 

شافع نے سوچا تھا کہ تمہیں اللہ نے مجھ سے ملوانے کیلئے یہاں بھیجا ہے. 

اسے سوچوں میں گم پا کر مایا کھڑی ہو گئی. 

اوکے مسٹر سڑو اب میں چلتی ہوں... مایا کے الفاظ اسے دنیا میں واپس لائے تھے. 

مایا... شافع نے پکارا. 

ہمیشہ ہنستی رہا کرو، تمہاری آنکھیں مسکراتی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں ،روتی ہوئی بلکل نہیں... شافع نے اسی کے انداز میں کہا تو مایا نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا. 

پہلی ملاقات میں مجھے تم بہت سڑے ہوئے انسان لگے تھے ، اسی لئے تمہارا نام میں نے مسٹر سڑو رکھ دیا...لیکن آج تمہاری کمپنی کو انجوائے کیا ہے میں نے.. کیا تم ہر جمعرات کو یہاں آتے ہو؟؟...مایا کو اسکی اس دن والی بات یاد آگئی تھی. 

تم مجھے شافع بھی کہہ سکتی ہو اور مسٹر سڑو بھی ، میں مائنڈ نہیں کروں گا اور میں اکثر یہاں آجاتا ہوں... جب مجھے سکون اور تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے... شافع نے کہا. 

ہممم، اچھا نام ہے شافع لیکن میں.. تمہیں... مسٹر سڑو ہی کہوں گی... مایا نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا اور خود ہی ہنسنے لگی. 

اوکے میں چلتی ہوں مسٹر سڑو ، بائے... مایا نے کہا اور گاڑی کی طرف چل دی. 

جب مایا منظر سے ہٹی تو اسے ہوش آیا کہ وہ تو چلی گئی ہے. وہ تو اسے روکنا چاہتا تھا لیکن اسے ہوش ہی کہاں تھی.. وہ تو اس ساحرہ کے سحر میں جکڑا گیا تھا. 

شٹ، وہ پھر سے چلی گئی ، اب میں اسے کیسے ڈھونڈوں گا، مس ساحرہ تم میرے حواسوں پر سوار ہو گئی ہو ، کچھ بھی کر کے میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا اور پھر میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا ، ہمیشہ کیلئے اپنے پاس قید کرلوں گا ، تم شافع کا سکون بن گئی ہو... شافع نے مسکراتے ہوئے سوچا تھا. 

کچھ دیر بعد اسکی میٹنگ تھی ، آفس تو کیا اسے تو شاید گھر جانا بھی بھول گیا تھا. 

"گھر کا رستہ بھی بھول گئے،،

ملاتے نہ ہم اے کاش آنکھیں.. "

دو دن مایا کالج نہیں گئی کیونکہ نمرہ اپنے کزن کی شادی پر گئی ہوئی تھی اور اکیلے وہ جانا نہیں چاہتی تھی. اسکا دل ایک دم کالج سے اچاٹ ہو گیا تھا لیکن اسے اپنا خواب پورا کرنا تھا. اب اسکی زندگی کا مقصد صرف ڈاکٹر بننا تھا. نوفل کے بارے میں اب وہ نہیں سوچنا چاہتی تھی.. اس لیے اب وہ کافی پرسکون ہو گئی تھی. 

آج دو دن بعد مایا اور نمرہ کالج آئی تھیں. نمرہ کو اس نے کچھ نہیں بتایا تھا. بلکل نارمل انداز میں وہ کلاس میں گئی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو. 

ان دو دنوں میں نوفل بہت ڈسٹرب رہا تھا، اسے مایا کہیں نظر نہیں آئی تھی. 

اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا کہ واقعی اس نے مایا کے بارے میں غلط سوچا، اسے مایا کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا. 

آج دو دن بعد اسے مایا کلاس میں آتی نظر آئی تھی ،نوفل نے سکون کا سانس خارج کیا تھا. 

نوفل اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا. 

مایا وہ دیکھ تیرا ہیرو، تجھے ہی دیکھ رہا ہے... ہمیشہ کی طرح آج پھر نمرہ نے اسے بتایا تھا ، لیکن خلافِ معمول آج مایا نے نظر اٹھا کر بھی اسکی طرف نہیں دیکھا تھا. یہ منظر نوفل کی نظروں سے بھی مخفی نہ رہ سکا تھا. 

نوفل نے سوچا تھا کہ شاید یہ وقتی ناراضگی ہے ، کچھ وقت بعد وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی ، معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. 

لیکچر شروع ہو گیا تھا ، مایا پورے انہماک سے لیکچر سن رہی تھی ، وہ جس کا دھیان پورے لیکچر میں نوفل کی طرف ہوتا تھا ، آج ایک نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کیا. روز نوفل کو خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوتی تھی اور وہ جانتا تھا یہ مایا ہی ہے لیکن نظر انداز کر دیتا تھا. اور آج وہ اسے مسلسل دیکھ رہا تھا جسے مایا نظر انداز کر رہی تھی. نوفل کو یہ بات بلکل بھی پسند نہیں آئی تھی... لاشعوری طور پر وہ مایا کی اٹینشن کا عادی ہو گیا تھا. 

لیکچر ختم ہونے پر سب لوگ کلاس سے باہر جانے لگے، مایا کا فون بجنے لگا تو وہ سننے لگ گئی. جب وہ دونوں کلاس سے باہر نکلیں تو نوفل باہر ہی کھڑا تھا. اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا مایا آگے بڑھ گئی.. نمرہ نے اسکا بدلہ ہوا رویہ محسوس کیا تھا لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکی..!!! 

نمرہ کو مایا آج بہت اداس لگی تھی ، لیکن وہ خود کو نارمل شو کرنے کی کوشش کر رہی تھی.. نمرہ نے ان دونوں کی لڑائی ختم کروانے کا سوچا تھا. اس نے دیکھ لیا تھا کہ نوفل اس سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اسے اگنور کر رہی ہے...!!! 

مایا ایکچیولی ماما نے آج مجھے جلدی گھر آنے کا کہا تھا ، تو میں اب چلتی ہوں لیکن تم اگلا لیکچر لازمی لینا اور مجھے بھی بھیج دینا ، پہلے ہی بہت لیکچر مس ہو گئے ہیں... نمرہ نے گھر جانے کا کہا تو مایا بھی اسکے ساتھ ہی جانا چاہتی تھی لیکن لیکچر لینا بھی ضروری تھا. 

اوکے تم جاؤ، میں تمہیں لیکچر بھیج دوں گی.. مایا نے کہا تو نمرہ اس سے مل کر چلی گئی. ابھی اگلی کلاس ہونے میں آدھا گھنٹہ رہتا تھا تو مایا لائبریری کی طرف چل پڑی. 

لائبریری کی طرف بہت کم ہی سٹوڈنٹس ہوتے تھے کیونکہ انکا کہنا تھا کہ وہ اپنی بکس ہی بمشکل پڑھتے ہیں. نمرہ نے نوفل کو میسج کردیا تھا کہ وہ مایا سے بات کر لے اور لڑائی بھی ختم کرلیں... نمرہ کا میسج ملتے ہی نوفل مایا سے بات کرنے کیلئے اسے ڈھونڈنے لگا. اسے مایا لائبریری کی طرف جاتے ہوئے نظر آگئی تھی. نوفل اسکی طرف بڑھا.

مایا اپنے دھیان میں چل رہی تھی کہ کوئی اسے بازو سے کھینچ کر کلاس روم میں لایا تھا. جو اس وقت خالی تھا. نوفل نے ایک جھٹکے سے مایا کو دیوار کے ساتھ لگادیا اور اسکا ایک ہاتھ مایا کے منہ پر تھا. جب مایا نے سامنے دیکھا تو نوفل کو پایا. 

نوفل کے ایک ہاتھ میں اسکا بازو  اور ایک ہاتھ اسکے منہ پر تھا. مایا نے اسکا ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کی لیکن گرفت مضبوط تھی...!!! 

تمہارے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے ، کیوں اگنور کر رہی ہو مجھے ، اور دو دن کالج کیوں نہیں آئی ؟؟...نوفل غصے سے غرایا تھا. 

نوفل نے اسکے منہ سے ہاتھ ہٹا لیا تھا لیکن بازو ابھی بھی پکڑا ہوا تھا ، دوسرا ہاتھ  دیوار پر رکھ کر اسکے مفرور ہونے کے سارے راستے بند کردیے. 

یہ کیا بدتمیزی ہے نوفل... تم تو بہت اچھے کریکٹر کے مالک ہو اس طرح کی حرکتیں تمہیں سوٹ نہیں کرتیں، چھوڑو میرا ہاتھ... مایا نے طنزاً کہا اور پھر سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی سعی کرنے لگی. 

جو پوچھا ہے وہ بتاؤ... نوفل نے تپتے ہوئے کہا. 

تم میرے باپ ہو جو تمہیں سب کچھ بتاؤں ، اپنے کام سے کام رکھو ، میں تمہیں جواب دینے کی پابند نہیں ہوں... مایا نے بھی اسی کے انداز میں کہا. اسکا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن وہ خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی. نوفل کی گرفت اسکے بازو پر اور مضبوط ہوگئی تھی. مایا کو اسکی انگلیاں اپنے بازو میں پیوست ہوتی محسوس ہو رہی تھیں ، درد کی وجہ سے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے..!!! 

چھوڑو میرا ہاتھ مجھے درد ہو رہا ہے جانور کہیں کے... مایا نے چلا کر کہا اور اسے پوری طاقت سے دھکا دیا تو نوفل نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا اور کلاس روم سے باہر چلا گیا. مایا کچھ دیر وہیں ساکت کھڑی آنسو بہاتی رہی اور پھر خود کو نارمل کر کے باہر آگئی. 

نوفل کو خود بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے. لیکن مایا ایسی نہ تھی کہ جس نے اس کی محبت کو ٹھکرایا اسے اتنی جلدی معاف کر دیتی. 

"اے دوست تیری بیقراریاں سر آنکھوں پہ،،

پر یار کے در پہ ادب اختیار کر،،

اس کے بغیر جینے کا جب فیصلہ کیا ہے ،،

تو اے نادان کچھ تو خود پہ اختیار رکھ.. "

*********************

کافی دن اسی طرح گزر گئے نہ تو مایا نے نوفل سے بات کی نہ ہی نافل نے مایا سے معافی مانگی. مایا ابھی سو رہی تھی کہ نمرہ اسکے سر پہ پہنچ گئی .

مایا تم ابھی تک سو رہی ہو ، اٹھو جلدی کرو، کالج نہیں جانا کیا... نمرہ نے کمبل اتارتے ہوئے کہا. 

کیا مسئلہ ہے نمرہ سونے دے یار، ابھی بہت ٹائم ہے ، تو بھی سوجا... مایا نمرہ کو بھی سونے کی آفر کر کے پھر سے سو گئی. 

نہیں یار تُو اٹھ، آج ہمیں تھوڑا جلدی جانا ہے... تُو سن رہی ہے نا؟؟...نمرہ کو لگا وہ پھر سے سو گئی. مایا اٹھ کر بیٹھ گئی ، اسے پتا تھا کہ اب نمرہ اسے سونے نہیں دے گی. 

ہاں ہاں سن رہی ہوں ، اب بتا جلدی کیوں جانا ہے ؟؟...مایا نے بکھرے ہوئے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے پوچھا. 

یار وہ... وہ اپنی فیلو ہے نا علیشہ اسکی برتھ ڈے ہے آج تو وہ سیلیبریٹ کرنا چاہتی ہے ،اسی لئے جلدی جانا ہے... نمرہ کیلئے جھوٹ بولنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ ان دونوں نے آج تک کبھی بھی ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولا تھا نہ ہی کچھ چھپایا تھا. 

یار اتنی صبح صبح کون برتھ ڈے سیلیبریٹ کرتا ہے ، میں نہیں جارہی مجھے نیند آرہی ہے... مایا نے ہنسی دبا کر کہا. اب وہ نمرہ کو تنگ کرنے کی کوشش کر رہی تھی.

خبردار اگر اب تُو سوئی... اور مجھے نہیں پتا وہ کیوں اتنی جلدی برتھ ڈے سیلیبریٹ کر رہی ہے... پاگل ہے وہ بھی بلکل تیری طرح... نمرہ کو اب نوفل پر غصہ آرہا تھا کہ اس نے اسے کہاں پھنسا دیا تھا. 

اچھا اچھا غصہ کیوں کر رہی ہو ، مزاق کر رہی تھی میں... مایا نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا. 

تم اب جلدی سے تیار ہو جاؤ.. میں ویٹ کر رہی ہوں تمہارا... نمرہ نے نارمل ہوتے ہوئے کہا. اسے لگا تھا کہ وہ ابھی پکڑی جائے گی. 

مایا اٹھ کر واشروم چلی گئی تو نمرہ نے فون نکال کر نوفل کو ڈن کا میسج کیا...!!! 

یار آج اچھے سے تیار ہونا... مایا باہر نکلی تو نمرہ نے کہا. 

وہ کیوں؟؟....مایا نے بایاں ابرو اچکا کر شکی انداز میں پوچھا. نمرہ گڑبڑا گئی. 

ویسے ہی کہاں ہے ، مرضی ہے جیسے مرضی تیار ہو... نمرہ کو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے اور دل ہی دل میں نوفل کو گالیاں دے رہی تھی... دونوں تیار ہو کر کالج کیلئے نکل گئیں. 

یار اس کیلئے کوئی گفٹ نہیں لینا؟؟...مایا نے یاد آنے پر پوچھا. 

وہ میں نے لے لئے ہیں ، میرے بیگ میں ہیں، کالج جا کر تم لے لینا مجھ سے... نمرہ نے اٹکتے ہوئے کہا. 

اوکے... مایا نے شانے اچکاتے ہوئے کہا. 

جب وہ کلاس میں داخل ہوئیں تو لائٹس آف تھیں. 

یار نمرہ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے... مایا نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا لیکن نمرہ کہیں نہیں تھی. ایک دم سے مایا کو خوف آیا تھا..

اچانک کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے آیا. خوف کے مارے اسکے حلق سے آواز بھی نہ نکلی تھی. 

اس سے پہلے کہ وہ بےہوش ہوتی لائٹس آن ہوگئی تھیں. سامنے کا منظر دیکھ کر تو بے ہوش ہونا بنتا بھی تھا. 

سامنے کا منظر دیکھ کر تو بےہوش ہونا بنتا بھی تھا.سامنے ہی نوفل ایک گھٹنہ زمین پر ٹکائے اسکا ہاتھ تھامے اسکے قدموں میں بیٹھا تھا، چہرے پر مسکراہٹ تھی .تمام سٹوڈنٹس سانس روکے انہیں دیکھ رہے تھے...!!!

مِس مایا میں اپنی تمام غلطیوں کی آپ سے معافی مانگتا ہوں ...کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی...نوفل نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا.مایا تو سانس لینا بھی بھول گئی تھی.سب لوگ اسکے جواب کے منتظر تھے.مایا کو اپنا دماغ بند ہوتا محسوس ہوا تھا، اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ اچانک یہ سب کیسے ہوگیا؟؟..کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی..اسے کھوئے ہوئے پا کر نوفل نے اسے دوبارہ مخاطب کیا ۔

آئی نو، میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے، تمہاری محبت پر شک کیا ، پلیز مجھے معاف کردو، اب تو مجھے تمہاری اٹینشن کی عادت ہو گئی ہے، مجھے لگتا ہے تمہاری محبت نے مجھے جکڑ لیا ہے، اپنا عادی بنا کر پلیز اب مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، نوفل حیات کو تمہاری محبت کی قدر ہوگئی ہے، تم جو بھی سزا دینا چاہتی ہو دو میں تیار ہوں، بٹ مجھے چھوڑ کر مت جانا...نوفل اب سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا.مایا کو لگا آج اسے زندگی کی نوید سنا دی گئی ہے. اسکی آنکھیں مسکرا رہی تھیں ، دل زوروں سے دھڑک رہا تھا. مایا نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ اسکے ہاتھ میں رکھا اور اثبات میں سر ہلایا. پوری کلاس میں ایک دم سیٹیوں اور تالیوں کی آواز گونجی تھی. 

نوفل نے رنگ اسکے ہاتھ میں پہنائی. نمرہ فوراً سے اسکے پاس آئی اور گلے لگ گئی... یقیناً وہ اپنی دوست کیلئے بہت خوش تھی. آخر یہ سب اسی کی وجہ سے ہی تو ممکن ہوسکا تھا. 

نمرہ کی بچی تُو بھی ان سب میں شامل تھی نا؟؟...مایا نے گھورتے ہوئے کہا. نمرہ نے کان پکڑتے ہوئے سوری کہا تو دونوں ہنس پڑیں. 

مایا کافی پینے چلو گی؟؟...نوفل نے مایا کو دیکھتے ہوئے کہا. مایا نے ہامی بھر لی. نمرہ سے ملنے کے بعد وہ نوفل کے ساتھ باہر آگئی. کافی شاپ پہنچنے کے بعد انہوں نے کافی آرڈر کی. 

تو مِس مایا کیسا لگا میرا سرپرائز ؟؟...نوفل نے مسکراتے ہوئے پوچھا. 

مجھے تو ابھی تک یقین نہیں ہو رہا کہ یہ سب تم نے کیا ہے. مطلب سیریئسلی... آج کا دن میری لائف کا بیسٹ دن ہے... اور ایسا سرپرائز تو آج تک مجھے کسی نے بھی نہیں دیا... تھینک یو سو مچ نوفل... مایا نے محبت سے سرشار لہجے میں کہا. 

کیا تم نے مجھے معاف کر دیاہے ؟؟...اب کی بار اس نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا. کچھ دیر تو وہ اسے یونہی دیکھتی رہی اور پھر کہا... نہیں... نوفل کو اس جواب کی توقع نہیں تھی. 

ایک شرط پر معاف کروں گی... مایا کی آنکھیں چمکی تھیں. 

کونسی شرط؟؟...نوفل نے پوچھا. 

اگر تم کان پکڑ کر معافی مانگو گے تو معاف کیا جا سکتا ہے... مایا نے ایک ادا سے کہا. نوفل کو اسکی شرارت سمجھ آگئی تھی. نوفل نے کان پکڑ کر سوری کی تو وہ ایک دم سے کھلکھلا کر ہنسی تھی.

ہاہاہا... اب ٹھیک ہے.. جاؤ عیش کرو معاف کیا... مایا نے احسان کرتے ہوئے کہا. 

مہربانی میڈم...نوفل نے بھی اسی کے انداز میں کہا. 

اوکے اب شادی کے بارے میں بات کرلیتے ہیں... نوفل نے کہا تو مایا کا دل سو کی سپیڈ سے دوڑا تھا..

ہممم، بولو میں سن رہی ہوں... مایا نے نظریں کافی پر جمالیں. نوفل اسکی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا. 

میں چاہتا ہوں کہ ہم شادی سٹڈیز کے بعد کریں، لیکن انگیجمنٹ ابھی کر سکتے ہیں... نوفل نے پُرسوچ انداز میں کہا. مایا کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا. 

یہ بات تو وہ بھی جانتی تھی کہ سٹڈیز کمپلیٹ ہونے سے پہلے اسکے ڈیڈ اسکی شادی کیلئے کبھی بھی راضی نہ ہوتے ، البتہ منگنی کیلئے وہ انہیں راضی کر سکتی تھی. 

اوکے... مایا نے بس اتنا ہی کہا. 

میں آج ڈیڈ سے بات کروں گی.. مایا نے نوفل کو بتایا. 

ہاں بات تو میں بھی گھر میں کروں گا... نوفل نے بھی اسکی بات کی تائید کی. کچھ دیر وہ اسی طرح اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں باتیں کرتے رہے. 

لازمی نہیں ہے کہ انسان جو سوچتا ہے وہی ہو... قسمت کب ہمارے پلینز کے مطابق چلتی ہے ، قسمت تو وہی کرتی ہے جو وہ چاہتی ہے...!!! 

"دل تو میرا ہے مگر اس پہ تسلط اسکا،،

لاکھ کھینچوں میں اِدھر کو یہ اُدھر جائے گا.. "

**********************

مایا کو بےتابی سے رات کا انتظار تھا کیونکہ ڈنر پر ہی سب اکٹھے ہوتے تھے. اسکی موم تو گھر پر ہی ہوتی تھیں مگر ڈیڈ سے زیادہ تر ڈنر پر ہی ملاقات ہوتی تھی. آج وہ انہیں نوفل کے بارے میں بتانا چاہتی تھی. وہ جانتی تھی کہ اسکی موم کبھی بھی نہیں مانے گی لیکن اسکے ڈیڈ نے آج تک کبھی بھی اسکی کسی بھی بات پر انکار نہیں کیا تھا. 

انکی تو جان تھی مایا میں.. وہ اسکی ہر جائز و ناجائز خواہشات پوری کرتے تھے. 

گاڑی کا ہارن سنائی دیا تھا ، جسکا مطلب تھا کہ علی خان گھر آگیا ہے. مایا فوراً سے سیڑھیاں اترتی نیچے آئی تھی اور سامنے ہی علی کو آتے دیکھ لیا تھا. چہرے پہ تھکن کے آثار واضح تھے. لیکن مایا پر نظر پڑتے ہی ایک دم سے فریش ہوئے تھے. 

ہیلو ڈیڈ کیسے ہیں آپ ؟؟...مایا نے علی کے گلے لگتے ہوئے پوچھا. 

میں ٹھیک ہوں میرا بچہ کیسا ہے ؟؟...علی نے محبت سے پوچھا.. دنیا کیلئے وہ جتنا بھی ظالم تھا لیکن بیٹی کیلئے اتنا ہی نرم دل.. نور دونوں باپ بیٹی کو دیکھ کر مسکرائی تھی.. وہ دونوں ہمیشہ اسی طرح ملتے تھے. 

میں بھی ٹھیک ہوں ڈیڈ ،آپ جلدی سے فریش ہو کر آئیں پھر ہم اکٹھے ڈنر کریں گے... مایا نے انکے ساتھ چلتے ہوئے کہا. 

اوکے میں فریش ہو کر آتا ہوں... ایک اچٹکتی ہوئی نگاہ نور پر ڈالتے ہوئے کمرے کی طرف  بڑھ گیا. 

کچھ دیر بعد سب مل کر ڈنر کرنے لگے. 

دیڈ مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے... مایا نےخود کو نارمل کرتے ہوئے کہا. 

ہاں بیٹا بولو... وہ مایا کی طرف متوجہ ہوئے. 

ڈیڈ میرا فیلو ہے نوفل ، وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے... مایا نے کہا. 

کس سلسلے میں ؟؟...علی نے پوچھا. 

وہ ایکچیولی ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں.. اسی سلسلے میں آپکو اس سے ملوانا تھا ، بہت اچھا لڑکا ہے... مایا نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا. 

اوکے کل اسے ڈنر کیلئے بلالو... علی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا. انہوں نے نور سے اس بارے میں پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا. انکے لئے نور کا وجود اس گھر میں غیر ضروری تھا. 

تھینک یو ڈیڈ ، تھینک یو سو مچ، آپ دنیا کے بیسٹ ڈیڈ ہیں... مایا نے خوشی سے انکے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا. 

بس مجھے تمہاری خوشی سے غرض ہے بیٹا ، چلو اب کھانا کھاؤ... علی نے اسے کھانے کی طرف متوجہ کیا. اب بھوک ہی کسے تھی ، لیکن سب کے سامنے خود پہ کنٹرول کرنا ضروری تھا. رات اس نے کس طرح گزاری بس وہی جانتی تھی. 

"مت پوچھ یہ کہ رات کٹی کیونکے تجھ بغیر،،

اس گفتگو سے فائدہ ، پیارے گزر گئی.. "

*********************

شافع یہ فائل سائن کردو، شام تک فائنل کر کے بھیجنی ہے... ارمان نے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا. لیکن شافع کو دیکھ کر اسکے ہونٹوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی تھی. 

شافع تو کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا ، ایک ہاتھ سر کے پیچھے ٹکائے ، دوسرے ہاتھ سے موبائل آنکھوں کے سامنے کئے مایا کی آنکھوں میں کھویا ہوا تھا. 

یہ تصویر اس نے تب لی تھی جب وہ درگاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنی دلنشیں آنکھوں سے آنسو بہا رہی تھی. نیلی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب ، گہری جھیل کی مانند ، ڈوبتی ہوئی شام کا منظر پیش کر رہی تھیں. وہ ان آنکھوں کو چھونا چاہتا تھا ، اپنی انگلیوں کے پوروں سے اس کے نقش کو محسوس کرنا چاہتا تھا. 

"آنکھیں ہیں یا سمندر،،

ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے. "

لیکن وہ آنکھیں فلحال اسکی پہنچ سے بہت دور تھیں. شافع اسکی آنکھوں کی رنگینیوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ ارمان کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوا (گوڈے گوڈے ڈوبا ہوا تھا 🤣).

ارمان نے اپنے دل ، اپنی جان ، اپنے دوست کیلئے اسی طرح ہمیشہ خوش رہنے کی دعا کی تھی. سوچنے پر بھی وہ یاد نہیں کر سکتا تھا کہ کبھی اس نے شافع سے بڑھ کر کسی سے محبت کی ہو. 

شافع... ارمان نے بہت محبت سے پکارا. شافع ایک دم اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکلا تھا اور ہڑبڑا کر موبائل اپنی جیب میں ڈال لیا. ارمان کو مسکراتا دیکھ کر شافع کو اپنی بے ساختگی کا احساس ہوا تھا. 

تم کچھ کہہ رہے تھے ارمان؟؟...شافع نے سنجیدگی سے کہا. 

جی جناب میں نے کافی دیر پہلے کچھ عرض کیا تھا لیکن آپ اپنی خیالات کی دنیا میں اس قدر غرق تھے کہ مجھ بیچارے کی فریاد بیچ میں ہی رہ گئی ، اور میں نے آپکی تنہائی میں مخل ہونے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے آپکے دیدار میں وقت صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا... ارمان نے بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے بڑے شاعرانہ انداز میں کہا... اسکی خالص اردو سنتے ہوئے شافع کا تو دماغ ہی چکرا گیا تھا. 

تجھے اپنے دانت پیارے ہیں یا نہیں ؟؟...شافع نے خفگی سے کہا. ساتھ ہی ارمان کے دانتوں کی نمائش ختم ہو گئی تھی. 

اچھا نا یار ، پہلے یہ بتا بھابھی سے کب ملوارہا ہے؟؟...ارمان نے تجسس سے پوچھا. 

وہ تو مجھے بھی نہیں ملتی، تجھے کہاں سے ملوادوں... شافع نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا. 

پھر تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا ، میں اپنے دوست کو مجنو بنتا ہوا نہیں دیکھ سکتا... شام کو تجھے کسی کالا جادو کرنے والے بابا کے پاس لے کر چلتا ہوں ، شاید کسی تعویز دھاگے سے ہی کام بن جائے ، ڈاکٹرز کے پاس تو خیر اس چیز کا علاج ہے نہیں ورنہ وہاں بھی ٹرائے کرلیتے ...ارمان نے سنجیدگی سے سوچتے ہوئے کہا. شافع حیرانگی کی تصویر بنا اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے. شافع کے چہرے کی ہوائیاں اڑتے ہوئے دیکھ کر ارمان کا قہقہہ پورے آفس میں گونجا تھا... ساتھ ہی شافع کے چہرے پر بھی مسکراہٹ ابھری تھی. 

محبت میں دل کے ہاتھوں انسان مجبور ہوتا ہے اور اِدھر تیرے دماغ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا... تجھے لگا میں سچ میں تجھے لے کر جاؤں گا ، ہاہاہا... ارمان کا تو ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا تھا. 

جب ایسے ڈرامے بازی کرے گا تو میں حیران ہی ہوؤں گا... پاگل... شافع نے اسے ایک دھپ رسید کرتے ہوئے کہا اور اپنی حالت پہ خود بھی ہنسنے لگا...!!! 

" کوئی ایسا جادو ٹونہ کر ،،

مرے عشق میں وہ دیوانہ ہو ،،

یوں الٹ پلٹ کر گردش کی ،،

میں شمع ، وہ پروانہ ہو ،،

زرا دیکھ کے چال ستاروں کی ،،

کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا ،،

کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ ،،

جو کر دے بخت سکندر سا ،،

کوئی چلہ ایسا کاٹ کہ پھر ،،

کوئی اسکی کاٹ نہ کر پائے ،،

کوئی ایسا دے تعویز مجھے ،،

وہ مجھ پر عاشق ہو جائے ،،

کوئی فال نکال کرشمہ گر ،،

مری راہ میں پھول گلاب آئیں ،،

کوئی پانی پھوک کے دے ایسا ،،

وہ پئے تو میرے خواب آئیں ،،

کوئی ایسا کالا جادو کر ،،

جو جگمگ کر دے میرے دن ،،

وہ کہے مبارک جلدی آ ،،

اب جیا نہ جائے تیرے بن ،،

کوئی ایسی راہ پہ ڈال مجھے ،،

جس راہ سے وہ دلدار ملے ،،

کوئی تسبیح دم درود بتا ،،

جسے پڑھوں تو میرا یار ملے ،،

کوئی قابو کر بے قابو جن ،،

کوئی سانپ نکال پٹاری سے،،

کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا ،،

کوئی منکا اکشادھاری سے ،،

کوئی ایسا بول سکھا دے نا،،

وہ سمجھے خوش گفتار ہوں میں ،،

کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے ،،

وہ جانے ، جاں نثار ہوں میں ،،

کوئی ڈھونڈ کے وہ کستوری لا،،

اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں ،،

جو مرضی میرے یار کی ہے،،

اسے لگے میں بلکل ویسا ہوں،،

کوئی ایسا اسمِ اعظم پڑھ،،

جو اشک بہادے سجدوں میں ،،

اور جیسے تیرا دعویٰ ہے ،،

محبوب ہو میرے قدموں میں ،،

پر عامل رک، اک بات کہوں،،

یہ قدموں والی بات ہے کیا؟؟

محبوب تو ہے سر آنکھوں پر ،،

مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا،،

اور عامل سن یہ کام بدل ،،

یہ کام بہت نقصان کا ہے،،

سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں ،،

جو مالک کل جہان کا ہے۔"

نمرہ اور مایا کالج میں داخل ہوئیں تو گیٹ کے پاس ہی نوفل کو کھڑے پایا ، وہ گھڑی پر ٹائم دیکھ رہا تھا شاید کسی کا انتظار کر رہا تھا. اسی وقت نوفل نے انہیں اندر آتے دیکھا تو ان کے پاس آگیا. 

تھینک گارڈ تم آگئی میں کب سے ویٹ کر رہا ہوں... نوفل نے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا. مایا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی تھی. 

تم ہمارا ویٹ کر رہے تھے ؟؟...مایا نے پھر سے پوچھا ، جیسے اسے ابھی بھی یقین نہ آیا ہو.

آف کارس یار تمہارا ہی کر رہا تھا ، اور کسی کا انتظار کر کے میں نے تمہارے ہاتھوں مرنا ہے ، مجھے ابھی بھی اس دن والا واقعہ یاد ہے... نوفل نے مصنوعی انداز میں ڈرتے ہوئے کہا تو مایا اور نمرہ ہنسنے لگ گئیں. 

اچھا اب چلو.. کیا یہیں پر کھڑے رہنے کا پلین ہے؟؟....نوفل نے آگے بڑھتے ہوئے کہا. نمرہ کلاس کی طرف چلی گئی اور وہ دونوں کیفے ٹیریا چلے گئے. 

نوفل یار میں نے ڈیڈ سے بات کرلی ہے ، وہ آج ڈنر پر تم سے ملنا چاہتے ہیں... مایا نے اسے والہانہ انداز میں دیکھتے ہوئے کہا. 

یہ تو بہت اچھی نیوز ہے ، بٹ آج تو آنا مشکل ہے ؟؟...نوفل نے سوچتے ہوئے کہا. 

کیوں، آج کیوں نہیں آ سکتے ، تمہاری آج جو بھی مصروفیات ہیں انہیں منسوخ کرو ، اگر تم آج نہ آئے تو مجھے ڈیڈ کے سامنے کتنی امبیرسمنٹ ہوگی... مایا نے خفگی سے کہا. 

آئی نو بےبی ، بٹ میرا کینیڈا جانا بہت ضروری ہے ، ڈیڈ نے مجھے بہت سٹرکلی جانے کو کہا ہے ، دوپہر کو میری فلائٹ ہے ، کچھ ضروری کام ہے ، اس لئے لازمی جانا پڑے گا ، میں کالج بھی صرف تمہیں انفارم کرنے کیلئے آیا ہوں ، انکل تو خود اتنے بڑے بزنس مین ہیں انہیں تم دیکھنا اس بات سے کوئی ایشو نہیں ہوگا، تم انکل سے میری طرف سے معذرت کر لینا... نوفل نے وضاحت سے بتایا. 

کیا جانا بہت ضروری ہے ؟؟...مایا نے اداسی سے پوچھا. وہ جانتی تھی کہ اسکے ڈیڈ کو اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ خود بھی بزنس کے معاملے میں بہت جنونی تھے.. مسئلہ تو اسکا تھا. وہ اس کے بغیر کیسے رہے گی. 

جانا ضروری نہ ہوتا تو میں کبھی بھی ناجاتا بےبی... نوفل نے اسکا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا. 

واپس کب تک آؤ گے ؟؟...مایا نے پوچھا. 

کوشش کروں گا کہ ایک ہفتے تک واپس آجاؤں... نوفل نے مسکراتے ہوئے کہا. 

نوفل I am gonna miss you ...مایا نے افسردگی سے کہا. 

بےبی تم ابھی سے مجھے مس کرو گی تو کیسے چلے گا ، اچھا یہ بتاؤ میں تمہارے لئے کیا لے کر آؤ ؟؟...نوفل نے بات بدلتے ہوئے کہا ، کیا معلوم وہ ابھی رونا شروع کر دے. 

اممم، چاکلیٹ بہت ساری... مایا نے بچوں کی طرح کہا تو نوفل کے ہونٹ بے ساختہ مسکراہٹ میں ڈھلے تھے...!! 

اچھا اور؟؟...اسے مایا کایہ انداز بہت بھایا تھا اس لئے پھر سے پوچھا. 

اور تم مجھے ڈیلی کال کرو گے... مایا نے ایک اور فرمائش کی. 

اور؟؟...پھر سے پوچھا گیا. 

صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے مجھ سے بات کرو گے اور رات کو سونے سے پہلے بھی... مایا نے کہا. 

اور؟؟...پھر سے پوچھا. 

اور تم جلدی واپس آنے کی کوشش کرو گے... مایا نے پھر سے افسردہ ہوتے ہوئے کہا. 

میرا دل کرتا ہے ساری عمر ایسے ہی تمہاری خواہشات پوری کرتا رہوں... نوفل نے اسکا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا ، لب خودبخود مسکرائے تھے. 

اب ایسے کرو گے تو میں تمہیں جانے نہیں دوں گی... مایا نے ایک ادا سے کہا تو نوفل کا قہقہہ گونجا تھا. 

اچھا بابا نہیں کرتا... نوفل نے اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لئے تھے. 

چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے ، تمہیں کلاس تک چھوڑ دیتا ہوں ، پھر میں بھی چلتا ہوں... نوفل نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور مایا کا ہاتھ پکڑ کر کلاس کی طرف چل دیا. بے دلی سے سارے لیکچر لے کر وہ گھر آگئی تھی. سامنے ہی نور کو دیکھ کر اسکے پاس آگئی. 

ہیلو موم، ڈیڈ کب تک آئیں گے ؟؟...مایا نے صوفے پر گرتے ہوئے پوچھا. 

آج تو وہ اپنے کسی فرینڈ کی پارٹی پر گئے ہوئے ہیں ، شایددیر سے آئیں... نور نے بتایا. 

اچھا چلیں ٹھیک ہے ، میں نے ڈیڈ کو بس یہی بتانا تھا کہ آج نوفل ڈنر پر نہیں آسکتا ، اگر وہ جلدی آجائیں تو انہیں بتا دیجئے گا... مایا نے اٹھتے ہوئے کہا. نور صرف اسے دیکھتی ہی رہ گئی. کیا انکی اولاد کی زندگی میں انکی اتنی اہمیت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے بھی پوچھ لیتے... انکی آنکھوں سے آنسو گر نے لگے تھے.

*******************

مایا بیڈ پر سونے کیلئے لیٹی ، فون اٹھا کر نوفل کا نمبر ملایا لیکن فون بند تھا. اس نے موبائل پھینکنے کے انداز میں رکھا اور آنکھیں موند لیں، نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی. اس نے کروٹ پہ کروٹ بدلتے ساری رات گزاری تھی...!!! 

"فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا ،،

کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا "

******************

آج اس نے کالج جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے نمرہ کو بھی انفارم کردیا، کافی دیر تک لیٹے رہنے کے بعد وہ نیچے آگئی تھی. گھر میں کوئی بھی نظر نہیں آیا. کچن سے نور کی آواز آ رہی تھی. 

لگتا ہے ڈیڈ ابھی تک نہیں آئے... مایا نے سوچا اور صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی آن کرلیا. بلاوجہ چینل سرفنگ کرتے ہوئے ایک نیوز چینل پر اپنے ڈیڈ کا نام سن کر اسکا ہاتھ خودبخود رکا تھا.. ٹی وی پر چلنے والی خبر سن کر وہ ساکت ہو گئی تھی ، ریموٹ اسکے ہاتھ سے گر گیا تھا. ایک دم کھڑے ہو کر وہ چلانے لگی تھی. 

موم ، موم... آنسو پوری رفتار سےاسکی آنکھوں سے بہہ کر اسکے چہرے کو تر کر رہے تھے.. اسکی آواز سن کر نور فوری طور پر کچن سے نکل کر اسکی طرف بڑھی تھی. 

کیا ہوا مایا ، تم ٹھیک ہو بیٹا؟؟...نور نے فکر مندی سے پوچھا. آنسوؤں کا گولہ اسکے گلے میں پھنس گیا تھا. آواز کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی. وہ چاہ کر بھی نہیں بول پا رہی تھی. مایا نے ٹی وی کی طرف اشارہ کیا. نور نے ٹی وی کی طرف دیکھا تو اسکی خود کی ٹانگوں سے جان نکلی تھی. وہ وہیں صوفے پر گر گئی تھیں. ٹی وی پر نیوز اینکر گلہ پھاڑ کر بتا رہی تھی کہ مشہور بزنس مین علی خان آفندی کی گاڑی نشے کی حالت میں ڈرائیو کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئی ، وہ صبح صبح نشے کی حالت میں گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے دکھائی دیے.. شدید قسم کے ایکسیڈنٹ کے بعد وہ جائے وقوعہ پر جان دے گئے.. پولیس کا کہنا ہے کہ جلد ہی انکی باڈی لواحقین کے حوالے کردی جائے گی. 

اسی وقت پولیس اور ایمبولینس کی گاڑی پورچ میں داخل ہوئیں تھیں. علی خان کی باڈی انکے حوالے کر کے پولیس نے انہیں ساری بات بتائی اور ایک پیپر پر مسز علی سے دستخط لے کر چلے گئے اور پیچھے ان دونوں پر قیامتیں توڑ گئے.. ان دونوں کو رونے کیلئے چھوڑ گئے. ساتھ ہی فون نے بھی بجنا شروع کردیا تھا لیکن ہوش ہی کسے تھا. 

شافع اور ارمان بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھے علی خان آفندی کی موت کی خبر سن رہے تھے... شافع کے ہونٹ خودبخود ہی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے. 

دیکھ شافع.. تو کہتا تھا نا کہ اللہ اس شخص کو اپنی پکڑ میں کیوں نہیں لیتا ، اللہ اسے مہلت دے رہا تھا ، اسکی رسی دراز کر رہا تھا ، اسے سدھرنے کا موقع دے رہا تھا ، لیکن یہ نہ سدھرا اور جب اللہ ظالم کی رسی کھینچتا ہے تو اسکا ایسا انجام ہوتا ہے ، اسے مرتے وقت کلمہ بھی نصیب نہیں ہوتا ، نشے کی حالت میں مرا ہے ، اس جیسا بدنصیب کون ہوسکتا ہے ، اللہ نے تیرے ہاتھ گندے ہونے سے بچا لیے اور خود ہی اس ظالم کو اسکے انجام تک پہنچا دیا.... ارمان نے افسوس سے کہا. 

مجھے بس اسکی فیملی کیلئے افسوس ہے ، لیکن وہ بھی تو اس سے تنگ آئے ہوئے ہوں گے کیونکہ یہ شخص ہر گناہ کے کام میں ملوث تھا ، اب انہیں بھی کچھ سکون ہوگا... شافع نے نفرت بھرے انداز میں کہا. 

ویسے اس کے گھر میں کون کون ہے ؟؟....شافع نے پوچھا. 

اسکی بیوی اور ایک بیٹی... ارمان نے ٹی وی دیکھتے ہوئے بتایا. 

ارمان تعزیت کرنے والوں میں ہم سب سے پہلے ہونے چاہیے... میں بھی اسکی اولاد کی آنکھوں میں وہی دکھ دیکھنا چاہتا ہوں جو میری آنکھوں میں اس شخص کی وجہ سے تھا... شافع نے حقارت سے کہا. 

بہت سے لوگ انکے گھر آرہے تھے ،جارہے تھے. لیکن انہیں تو کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا. نور کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی. ڈاکٹر نے انہیں دوائی دی تو وہ غنودگی میں چلی گئیں. 

مایا اکیلی نیچے بیٹھی اپنی زندگی میں رونما ہونے والی قیامت کو دیکھ رہی تھی.جنازے کے بعد مایا بلکل خاموش ہوگئی تھی.. لیکن نور کی حالت حد سے زیادہ خراب ہو گئی تھی. وہ اپنے کمرے میں بےہوش پڑی تھیں. اسے اپنی اور اپنی ماں کی ہوش ہی کہاں تھی. اسکی دنیا تو اسکے ڈیڈ سے تھی جب وہی اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے تو ایک دم ہی اسکی دنیا خالی ہو گئی تھی. 

بہت سے لوگ تعزیت کیلئے آرہے تھے. جب بھی کوئی اسکے ڈیڈ کا نام لیتا تو آنسو نئے سرے سے بہنا شروع ہوجاتے. 

بی بی جی... ملازمہ نے آکر مایا کو مخاطب کیا تھا. 

ڈرائنگ روم میں صاحب کے جاننے والے تعزیت کیلئے آئے ہیں ، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ انکی فیملی سے ملنا چاہتے ہیں ، نور بی بی تو ہوش میں نہیں ہیں ، آپ چلی جائیں... اگر کوئی اور وقت ہوتا تو وہ کبھی بھی ملازموں کی بات نہ مانتی لیکن آج وہ چپ چاپ اٹھ کھڑی ہوئی تھی، اسے اپنے ڈیڈ کیلئے سب سے ملنا تھا ، حوصلہ کر کے ، ہمت جمع کر کے ، اس دنیا والوں کا سامنا کرنا ہی تھا. اسکا باپ اسے بھری دنیا میں اکیلا کر گیا تھا. تو اسے اکیلے ہی سب دیکھنا تھا. مرے مرے قدم اٹھاتی وہ ڈرائنگ روم میں گئی تھی. 

سامنے شافع بیٹھا فون پر کسی سے بات کررہا تھا. مایا نے اسے نہیں دیکھا تھا. وہ سر جھکائے چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گئی. آنسو ابھی بھی اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے. اسکے پاس کوئی بھی اپنا نہیں تھا جسکے کندھے پر سر رکھ کر آنسو بہا لیتی ، اپنا درد بانٹ لیتی ، غم ہلکا کر لیتی ، وہ تو اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی. 

شافع کو کسی کے اندر آنے کی آواز آئی تھی ، مڑ کر دیکھا تو موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا تھا. 

مایا کو وہاں دیکھ کر وہ ایک دم سے حیران اور پریشان ہوا تھا. شافع فوراً سے اٹھ کر اسکے پاس گیا تھا اور ساتھ بیٹھ کر اسکے دونوں ہاتھ تھامے تھے. 

مایا کیا ہوا؟؟تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟اور رو کیوں رہی ہو ؟؟...شافع نے پوچھا. مایا کو کوئی مانوس آواز سنائی دی تو نظر اٹھا کر دیکھا. شافع کو دیکھ کر اسے اپنائیت کا احساس ہوا تھا. آنسو پھر سے بھل بھل بہنا شروع ہو گئے تھے. 

پلیز مایا رونا بند کرو ، تم مجھے پریشان کر رہی ہو... شافع اسکی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر ڈر گیا تھا.. اسے کسی انہونی کا احساس ہوا تھا. 

شاید مایا علی خان کی بیٹی کی دوست ہو ، اس لئے وہ یہاں پر ہو... اس نے خود کو دلاسہ دیا تھا. 

شافع... اسے پکار کر وہ پھر سے رونے لگ گئی. شافع نے اسے خود میں بھینچ لیا تھا. 

شش، چپ ہو جاؤ ، تمہارے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں... چپ ہو جاؤ پلیز... شافع نے اسے خود سے الگ کیا اور اسکے آنسو صاف کیے ، اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما.

مجھے نہیں بتاؤ گی کیا ہوا ہے ؟؟...شافع نے بہت تحمل اور پیار سے پوچھا. 

شافع...وہ ہ ہ... ڈیڈ... ڈیڈ مجھے چھوڑ گئے... مایا نے ہچکیوں کے درمیان بتایا. 

ایک پل کیلئے شافع کی گرفت اسکے چہرے پر کمزور ہوئی تھی لیکن اگلے ہی پل اس نے پھر سے پوچھا. 

کیا نام ہے تمہارے ڈیڈ کا؟؟ اور کہاں گئے ہیں وہ؟؟ کیا تم... کیا تم علی خان کی بیٹی ہو؟؟....شافع نے آخری بات اٹکتے ہوئے کہی. اسی لمحے شافع نے اپنے دل سے دعا مانگی تھی کہ مایا انکار کر دے. 

لیکن مایا نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا. شافع کے ہاتھ ایک دم سے نیچے گرے تھے. مایا نجانے کیا کچھ کہہ رہی تھی لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اگر کچھ سنائی دے رہا تھا تو یہ کہ وہ اسکے ماں باپ کے قاتل کی بیٹی ہے...!!! اس سے آگے اسکی سوچ مفلوج ہو جاتی تھی...!!! تو کیا وہ اسی لڑکی کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے آیا تھا جس کی آنکھوں میں وہ آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا...!!! 

شافع خود پر ضبط کرتا ہوا کھڑا ہوا تھا ، وہ اس وقت ضبط کی انتہاؤں پر تھا. غصہ نکالنے کیلئے سامنے دیوار پر زور سے مکہ مارا تھا. دیوار پر لگا کیل اسکے ہاتھ میں پیوست ہوگیا. بہت بےدردی سے اس نے اپنا ہاتھ پرے کیا تھا. خون ہاتھ سے بہتا ہوا فرش کو رنگین کر رہا تھا. دوسرے ہاتھ سے میز پر پڑے واز کو اٹھایا ہی تھا کہ مایا نے آگے بڑھ کر اسکے خون سے لت پت ہاتھ کو پکڑ لیا تھا. 

جب شافع نے دیوار پر مکہ مارا تھا تو وہ ایک دم ڈر گئی تھی کہ اسے کیا ہو گیا. ابھی تو وہ اسکے پاس بیٹھا اسے چپ کروا رہا تھا. اسکے ہاتھ سے خون نکلتا دیکھ کر وہ مزید ڈر گئی تھی.. پہلے اپنے ڈیڈ کے خون سے لت پت لاش اور اب فرش پر گرتا خون... وہ فوراً اسکی طرف لپکی تھی اوراسکا ہاتھ تھاما تھا. شافع جو واز اٹھا کر دیوار پر مارنا چاہتا تھا ایک دم رکا تھا. 

پہلے ہی ڈیڈ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ،اوپر سے تم ایسی حرکتیں کیوں کر رہے ہوں ، تمہیں تو مجھے حوصلہ دینا چاہیے تھا لیکن تم مجھے مزید پریشان کر رہے ہو ...کسی کو بھی میری فکر نہیں ہے ، اگر ڈیڈ کو میری فکر ہوتی تو مجھے یوں اکیلا نہ چھوڑ کر جاتے ، مجھے بلکل تنہا چھوڑ گئے ، کوئی بھی نہیں ہے میرے پاس ، لیکن تم نہیں سمجھ سکتے ، تم میرا درد ، میرا دکھ نہیں سمجھ سکتے... شافع کا ہاتھ ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھا. لیکن مایا نہیں جانتی تھی کہ انجانے میں وہ اسکے زخم ادھیڑ گئی ہے. شافع کے دماغ کی رگیں تن گئی تھیں. 

شافع نے اسکے ہاتھ جھٹکے اور اپنے زخمی ہاتھ سے ہی اسکی گردن دبوچی اور اسے دامنے دیوار سے لگا دیا. 

کیا کہا تم نے ، دوبارہ کہو... شافع غرایا تھا. مایا تو سن ہی ہو گئی تھی. شافع کی گرفت اسکی گردن پر ہلکی تھی. وہ چاہ کر بھی اسکا گلہ نہیں دبا سکتا تھا. لیکن دوسرا ہاتھ جس میں شیشے کا واز تھا اس پر گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ وہ چھناکے سے ٹوٹا تھا اور کانچ پورے ہاتھ کو لہو لہان کر گئے تھے. اس ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی بنسبت زیادہ خون بہہ رہا تھا. 

مایا کو اسکے الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے وہ تو ہکابکا اسکے ہاتھ سے بہنے والے خون کو دیکھ رہی تھی. شافع کا خون مایا کی گردن پر بہہ رہا تھا. مایا سہم گئی تھی .آنسو پورے چہرے کو دھو رہے تھے.. شافع نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر فاش غلطی کی تھی اور یہیں وہ اپنا سب کچھ ہار جاتا تھا. شافع نے اپنا ہاتھ اسکی گردن سے ہٹایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا اور مایا وہیں دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھتی چلی گئی .

شافع گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا ، ڈرائیونگ سیٹ پر ارمان بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا ، شافع کے ہاتھوں سے خون نکلتا دیکھ کر اسنے فون بند کیا. 

شافع یہ تمہارے ہاتھوں کو کیا ہوا ؟...اسنے شافع کے ہاتھ تھامنے چاہے تو شافع نے پیچھے کر لئے اور آنکھیں بند کر کے سر سیٹ کی پشت پر ٹکالیا. 

گاڑی چلاؤ... شافع نے کہا. 

ارمان جانتا تھا کہ اب وہ اسکی نہیں سنے گا تو گاڑی آگے بڑھا دی. ارمان نے قدرے سنسان جگہ پر گاڑی روکی تو شافع فوراً گاڑی سے باہر نکلنے لگا. 

پانچ منٹ ، صرف پانچ منٹ دے رہا ہوں میں تمہیں... ارمان نے اتنا ہی کہا کہ شافع باہر نکل گیا اور گاڑی کے بونٹ پر ہاتھ رکھ کر سر جھکا لیا. آنسو آنکھوں سے گرنے لگے تھے. پانچ منٹ وہ اسی طرح کھڑا رہا. ارمان گاڑی سے فرسٹ ایڈ باکس لے کر باہر نکلا اور چپ چاپ خون صاف کر کے پٹی کرنے لگا. پھر شافع کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا. شافع جھٹ سے اسکے گلے لگ گیا. 

کیا ہوا بتاؤ ؟...ارمان نے پوچھا. 

یار وہ... وہ علی خان کی بیٹی ہے، میرے موم ڈیڈ کے قاتل کی بیٹی ، اس شخص کیلئے آنسو بہا رہی تھی ، مجھے کہتی ہے میں اسکا دکھ نہیں سمجھ سکتا ، یار میں اپنے موم ڈیڈ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ میں نے انکے قاتل کی بیٹی سے محبت کرلی،میں...میں کیا کروں، میں چاہ کر بھی اسے کچھ نہ کہہ سکا ،لیکن.. لیکن میں ایسا کچھ بھی نہیں کروں گا... شافع نے اس سے الگ ہو کر اسکے ہاتھ پکڑے تھے. 

میں ایسا کچھ...کچھ نہیں کروں گا جس سے میرے موم ڈیڈ کو دکھ ہو،میں کبھی بھی اسکی شکل نہیں دیکھوں گا.. کبھی کبھی نہیں ،تُو.. تُو موم ڈیڈ کو بتائے گا نا... تُو انہیں کہے گا نا کہ میں نے اسے چھوڑ دیا ہے ، میں اسکے پاس نہیں جاؤں گا... شافع ہزیانی انداز میں چلا رہا تھا. ارمان کو اسکی بات سمجھ آگئی تھی اور اسکے گلے لگ گیا... اسنے کتنی دعائیں کی تھیں اپنے دوست کی خوشیوں کیلئے ، بہت دکھوں کے بعد اسے خوشی ملی تھی. لیکن اسے کہاں پتا تھا کہ یہ خوشی اسکے لئے سب سے بڑا درد بننے والی ہے. اگر اسے پتا ہوتا تو کبھی بھی اپنی جندجان ،اپنے دوست کو اس رستے پہ نہ چلنے دیتا. 

تم اسکے بغیر رہ لو گے ؟...ارمان نے اسکے چہرے پر قرب دیکھتے ہوئے پوچھا .جواب نہ پا کر پھر سے بولا... تم نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے ، اس سے تمہیں درد کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا ، میں تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں... شافع اسکی بات پر مسکرا بھی نا پایا تھا. 

چلو گھر چلتے ہیں... ارمان نے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا. 

میٹنگ کے لئے نہیں جانا؟...شافع نے پوچھا. علی خان کی تعزیت کے بعد انہیں ضروری میٹنگ میں جانا تھا لیکن اس حالت میں وہ نہیں جا سکتا تھا. 

میٹنگ میں اٹینڈ کرلوں گا،تجھے گھر ڈراپ کردیتا ہوں تو آرام کر... ارمان نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا. 

مجھے ڈراپ کرنے تک تم لیٹ ہو جاؤ گے ،ایسا کرو آفس چلو سیدھا ، تم وہاں اتر جانا میں گھر آجاؤں گا پھر... شافع نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا. 

تم ڈرائیو کرلو گے؟...ارمان نے اسکے ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، جو سفید رنگ کی پٹی میں جکڑے ہوئے تھے. 

شافع عمر خان اتنا کمزور نہیں ہے کہ گاڑی نہ چلا سکے، کہو تو دو دو ہاتھ ہو جائیں... شافع نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا. 

پتا ہے ڈھیٹ ہڈی ہو ، زیادہ ہیرو نہ بنو ، چپ چاپ بیٹھے رہو... ارمان نے خفگی سے کہا تو شافع قہقہہ لگا کر ہنسا. ارمان جانتا تھا کہ وہ صرف اسے مطمئن کرنے کے لیے ہنس رہا ہے ، اسکے قہقہے کھوکھلے تھے ، اگر کوئی اور اسکی حگہ ہوتا تو شاید ہی ہنس سکتا. اسے آفس ڈراپ کر کے وی گھر آگیا تھا. کمرے میں آکر سلیپنگ پلز لیں اور سو گیا. ارمان نے شافع کو فون کیا لیکن کوئی رسپونس نہیں ملا تو گھر فون کر کے اسکی خیریت دریافت کی. ملازم نے بتایا کہ وہ کمرے میں سو رہا ہے تو وہ بھی مطمئن ہو گیا. 

اسے سوتے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی کہ ہڑبڑا کر اٹھا تھا. پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا. وہ اپنے آس پاس موبائل ڈھونڈ رہا تھا لیکن اسے کہیں نہیں ملا. دماغ پر زور دینے سے یاد آیا کہ وہ تو مایا کے گھر میں ہی گر گیا تھا. سر کو دونوں ہاتھوں میں گرا کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا. جب کبھی بھی وہ یوں نیند سے ہڑبڑا کر اٹھتا تھا تو مایا کی تصویر دیکھتا تھا. بلاشبہ خواب میں بھی وہی ہوتی تھی. آج اسے عجیب سا خواب آیا تھا. مایا کسی مشکل میں ہوتی ہے اور اسے پکار رہی ہے. 

کیوں آتی ہو میرے خوابوں میں تم ، جب میری قسمت میں ہی نہیں ہو... وہ اپنے تصور میں مایا سے مخاطب ہوا تھا. اپنی سوچوں کو دماغ سے جھٹکتا فریش ہونے کیلئے واش روم میں گھس گیا. فریش ہونے کے بعد گاڑی کی کیز اٹھاتا باہر کی طرف بڑھ گیا. گھڑی پر ٹائم دیکھا تو تین بج رہے تھے. وہ گاڑی گیٹ سے باہر نکالتا زن سے بھگالے گیا تھا. 

اسے اپنا موبائل تو لینا ہی تھا کیونکہ اسکا اہم ڈیٹا اس میں تھا. آج آخری بار وہ مایا کے گھر کی طرف جا رہا تھا. 

***********************

میں مسٹر رندھاوا، رندھاوا گروپ کا انڈسٹریز کا مالک. علی خان آفندی میرا جگری یار تھا. مجھے تو ابھی تک یقین نہیں ہورہا کہ علی میرا دوست ، میرا بھائی مجھے چھوڑ کر چلا گیا ، ہم سب کو اکیلا کردیا... ضبط کے باوجود مایا کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے تھے. وہ انجان شخص کے سامنے نہیں رونا چاہتی تھی لیکن اپنے باپ کے زکر پر اسکی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنا شروع ہو گئے تھے. 

چپ کرو بچی، اب وہ واپس نہیں آئے گا ، ہمیں صبر کرنا پڑے گا... وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر مایا کے ساتھ بیٹھ گیا اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا. 

میں بھی تمہارے باپ کی طرح ہوں ، اگر کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتانا... اب وہ مایا کا بازو سہلا رہا تھا. مایا وہاں سے اٹھنا چاہ رہی تھی لیکن اسے اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی.

شافع نے گاڑی گھر کے سامنے روکی اور آنکھوں پر گلاسز لگا کر گھر کے اندر داخل ہوا ، وہ بغیر کسی کو اطلاع دیے اپنا موبائل اٹھا کر واپس آجانا چاہتا تھا. جیسے ہی وہ ڈرائنگ روم کے قریب پہنچا.. ایک مانوس آواز سنائی دی. شافع آواز پہچان گیا تھا ، یقیناً یہ رندھاوا کی آواز تھی. لیکن یہ شخص مایا کے گھر میں کیا کر رہا تھا. 

شافع اس اوباش اور گندے شخص کے ہر کارنامے سے واقف تھا. علی خان اپنا ہر گندا کام اسکے ساتھ مل کر ہی کرتا تھا. نشہ ، شراب ، زنا ہر برے کام میں یہ شخص ملوث تھا. آج اسے یہاں پا کر اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے ، وہ ایک جھٹکے سے آگے بڑھا اور دروازے کو لات رسید کی ، جس سے دروازہ کھل کر دیوار سے جا لگا. سامنے کا منظر دیکھ کر شافع کی آنکھیں پھٹ ہی گئی تھیں. 

رندھاوا مایا کے ساتھ بیٹھا اسے اپنے ساتھ لگائے ، اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے اسکا بازو سہلا رہا تھا اور للچائی ہوئی نظروں سے مایا کو دیکھ رہا تھا اور وہ چپ چاپ آنسو بہا رہی تھی ، شاید وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی. 

دروازہ کھلنے کی آواز پر دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے. رندھاوا ابھی بھی ویسے ہی بیٹھا رہا اور مسکراتے ہوئے شافع کو دیکھنے لگا.شافع کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر وہ کھڑا ہوا تھا. 

یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟...شافع غرایا تھا. 

مسٹر شافع آپ یہاں؟..ویسے کافی عرصے بعد ملاقات ہو رہی ہے ، بہت اچھا لگ رہا ہے آپ سے مل کر ، آپ بھی یقیناً علی خان کی موت کا سن کر یہاں آئیں ہیں ، ویسے مجھے امید نہیں تھی آپ بھی یہاں آئیں گے... رندھاوا نے طنزاً مسکراتے ہوئے کہا. ابھی اس نے کچھ اور کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ شافع نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا. 

اگر آج کے بعد تم دوبارہ مجھے یہاں نظر آئے تو یہاں سے زندہ واپس نہیں جاؤ گے ، دفع ہو جاؤ یہاں سے... شافع نے چلاتے ہوئے کہا. رندھاوا نے قہقہہ لگایا. 

تم جانتے ہو نا بچے تم کس کے سامنے کھڑے ہو ، غصے کو چھوڑو اور اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ... اس نے شافع کے کان میں سرگوشی کی. مایا تو ابھی بھی ہکابکا وہیں صوفے پر بیٹھی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی کہ یہ کیا چل رہا ہے. 

میں جانتا ہوں تم علی سے نفرت کرتے ہو ، اگر تم اس لڑکی سے اسکے باپ کا بدلہ لینا چاہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ ہوں ، میں آج رات اسکو اٹھوالوں گا تو تم بھی اپنا بدلہ لے لینا اور میں بھی کچھ انجوائے کرلوں گا... ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ شافع نے اسے گریبان سے پکڑا اور زور سے مکہ اسکے منہ پر مارا. 

آئندہ اگر اپنی گندی زبان سے مایا کا نام بھی لیا تو میں تیری جان لے لوں گا...شافع کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اسے اوپر پہنچا دے. مایا تو یہ سب دیکھ کر ہی ڈر گئی تھی ،اسے سنائی کچھ بھی نہیں دیا تھا. رندھاوا نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑوایا. 

لگتا ہے نئے نئے عشق میں مبتلا ہوئے ہو ، مجھ پر ہاتھ اٹھا کر اچھا نہیں کیا تم نے بچے ، اب دیکھتا ہوں تم کیسے بچاتے ہو اسے... وہ اسکے کندھے سے ندیدہ دھول اڑا کر چلا گیا. 

اسکے جاتے ہی شافع نے مایا کی طرف رخ کیا تھا. شافع کی آنکھوں میں غصب دیکھ کر وہ الٹے قدم اٹھانے لگی تھی. شافع نے آگے بڑھ کر اسکا بازو پکڑا تھا ، پکڑ اتنی مضبوط تھی کہ مایا کے منہ سے بے اختیار سسکی نکلی تھی. 

آہ، چھوڑو میرا ہاتھ ، مجھے درد ہو رہا ہے... مایا نے ڈرتے ہوئے کہا. 

بکواس بند کرو، کمرہ کہاں ہے تمہارا ؟...شافع نے گرجتے ہوئے کہا. اب وہ اسے مزید لوگوں سے نہیں ملوانا چاہتا تھا. 

او.. اوپر ، فرسٹ والا... مایا نے ہکلاتے ہوئے کہا. وہ مایا کو ویسے ہی بازو سے پکڑے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اوپر کی طرف بڑھا. مایا سے تو چلا بھی نہیں جارہا تھا ، ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی اسے گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ لے جا رہا ہو. اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا گئی تھی. شافع نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے سامنے صوفے پر پٹخا اور دروازے پر ایک مکہ رسید کیا. سفید پٹی پھر سے سرخ ہو گئی تھی. مایا جو صوفے پر الٹی گری تھی فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ گئی. وہ یہ جاننے سے قاصر تھی کہ آخر شافع کو ہوا کیا ہے ، وہ اس طرح کیوں بی ہیو کر رہا ہے ، صبح بھی اور اب بھی. لیکن وہ اس سے پوچھ کر شیر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی. 

شافع غصے سے اسکی طرف بڑھا تھا ، وہ جو سنگل صوفے پر بیٹھی تھی ایک دم سے اچھل کر پیچھے ہوئی تھی. شافع نے صوفے کی دونوں طرف ہاتھ رکھے اور اس پر جھکا ، آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہو رہی تھیں ، جیسے وہ آج سب کو جلا دے گا. 

کیا کرنے گئی تھی وہاں... بولو... کیوں بیٹھی تھی اس کے پاس ؟....شافع نے زوردار آواز میں پوچھا. 

وہ ہ ہ... وہ ڈیڈ کے دوست تھے اور... اور وہ خود اٹھ کر وہاں آئے تھے ورنہ میں تو دوررر بیٹھی تھی... مایا نے اٹکتے ہوئے کہا. اگر کوئی اور موقع ہوتا تو وہ ضرور ہنستا. 

جب اس نے تمہیں ہاتھ لگایا تو تم نے اسکا منہ کیوں نہیں توڑا؟....اسے اپنے ہر سوال کا جواب چاہیے تھا. 

وہ ہ ہ... وہ تو مجھے چپ کروا رہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ وہ میرے ڈیڈ کی طرح ہیں پھر میں کیا کہتی... مایا نے آہستگی سے جواب دیا. 

اگر کوئی بھی شخص آ کر کہہ دے کہ وہ تمہارے باپ کا دوست ہے اور وہ تمہارے باپ کی طرح ہے تو کیا تم اسکے گلے لگ کر اسے اپنا باپ سمجھ لو گی... شافع پھر سے غرایا تھا. 

یہ... یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟...مایا اسکی باتوں سے پریشان ہو رہی تھی. 

تم نے دیکھا نہیں وہ کیسے تمہیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی تمہیں نوچ کھائے گا.. وہ کتنے غلط کاموں میں ملوث ہے اگر تمہیں پتا چل جائے تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے.. ہر روز ایک نئی لڑکی اسکے ساتھ ہوتی ہے... شافع کا غصہ کسی طور پر بھی کم نہیں ہو رہا تھا ، مایا تو یہ سن کر ہی ساکت ہو گئی تھی ، وہ حیران تھی کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں. 

اسے گم دیکھ کر شافع کا غصہ مزید بڑھا تھا. شافع نے پھر سے اسے بازو سے پکڑا اور جھنجھوڑا... تم سن رہی ہو... اگر آئندہ کبھی میں نے تمہیں کسی شخص کے ساتھ دیکھ لیا تو تمہیں وہیں زمین میں گاڑ دوں گا... مایا کو لگا کہ آج اسکا بازو ٹوٹ جائے گا. آنکھوں سے آنسو نکلے تھے اور یہیں شافع کا غصہ ختم ہوتا تھا. 

تمہیں پتا ہے تمہارے آنسو میری کمزوری ہیں اسی لئے روتی ہو نا؟...اسنے ایک جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑا اور اٹھ کر دوسری طرف منہ کر لیا. 

وہ اسکی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن وہ اسے خود کو درندوں کے آگے پیش کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا. اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا. ایک ہاتھ سے اپنے بال پکڑے اور ایک ہاتھ دیوار پر ٹکائے ، آنکھیں بند کرکے غصے کو ضبط کر رہا تھا. کچھ دیر بعد اسے مایا کی سسکی سنائی دی تھی ، یقیناً وہ ابھی بھی رو رہی تھی. شافع نے سانس خارج کیا اور اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا. مایا اسے دیکھ کر پیچھے ہوئی تھی. شافع نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے سفید پٹی میں مقید ہاتھوں میں لئے جو کہ اب سرخ ہو چکی تھی. اس نے بہت نرمی سے اسکے ہاتھوں کو تھاما تھا ، کچھ لمحوں پہلے والی سختی کہیں غائب ہو گئی تھی... اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ بہت معصوم ہے اور اپنے باپ کے سارے کارناموں سے ناواقف ہے .

اسکا سر جھکا ہوا تھا... آئی ایم سوری... بہت مدھم آواز میں کہا گیا. 

میں تمہیں رلانا نہیں چاہتا تھا ،لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی تمہیں دیکھے بھی ،اور اس رندھاوا نے تو... وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا تھا. 

میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا ،پلیز چپ ہو جاؤ. شافع نے اپنے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کیے. شافع کو نارمل ہوتے دیکھ کر مایا کو اسکی ساری زیادتیاں یاد آئیں تھی. 

میں نہیں معاف کروں گی... مایا نے منہ موڑتے ہوئے کہا. شافع کے لب اسکی اس ادا پر خودبخود مسکرائے تھے. 

کیوں؟...شافع نے پوچھا. 

کیونکہ تم نے مجھے بہت ڈانٹا ، وہ بھی بلاوجہ... مایا نے منہ بناتے ہوئے کہا. 

بلاوجہ؟...شافع نے ابرو اٹھا کر پوچھا. 

ہاں تو... مجھے کیا پتا تھا کہ وہ اتنا کمینہ ہے اور صبح بھی تو تم مجھ پر غصہ کر کے گئے تھے ، اور بازو اتنی زور سے پکڑا ، پکا خون نکل رہا ہوگا... ایک اور آنسو اسکی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا تھا. 

دکھاؤ اپنا بازو... اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے واقعی اپنی زیادتی کا احساس ہوا تھا. وہ تو اس سب صورتحال میں بے قصور تھی تو اس نے اس پر کیوں غصہ کیا ،اب شافع کو خود پر غصہ آرہا تھا. 

نہیں، میں نہیں دکھاؤں گی ، پہلے خود ہی زخم دیتے ہو پھر ہمدردیاں دکھاتے ہو... مایا نے شکوہ کیا. 

اچھا اس بار معاف کردو آئندہ نہیں کروں گا... شافع نے معصوم سی شکل بنا کر کہا تو مایا کی ہنسی نکل گئی. 

اچھا اب اتنی منتیں کر رہے ہو تو معاف کر دیتی ہوں ،لیکن پہلے یہ بتاؤ آئندہ مجھ پر غصہ تو نہیں کرو گے نا... مایا نے اپنا خدشہ ظاہر کیا. 

کبھی نہیں کروں گا... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. 

اب تم مجھ سے وعدہ کرو آئندہ کوئی بھی آئے تم ان سے نہیں ملو گی... شافع نے سنجیدگی سے پوچھا. کچھ لمحے پہلے والی نرمی اب کہیں بھی نہیں تھی. مایا اس پل پل بدلتے شخص کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی. 

لیکن میں ان سے کیا کہوں گی ؟...مایا نے پوچھا. 

یہ میرا مسئلہ ہے ، تم بس ڈرائنگ روم میں نہیں جاؤ گی ، باقی سب میں دیکھ لوں گا...شافع نے کہا. 

ٹھیک ہے... مایا نے سر جھکاتے ہوئے ہامی بھری. 

تمہاری موم کہاں ہیں ؟...شافع نے بات بدلی. 

وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہیں ، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر نے آرام کرنے کا کہا ہے... مایا نے بتایا. 

تو تمہیں نہیں لگتا تمہیں انکے پاس ہونا چاہئے ؟...شافع نے سوال کیا. 

میں انکے پاس جا کر کیا کروں گی ، وہ تو کسی سے بات بھی نہیں کر رہیں، میری دنیا تو میرے ڈیڈ سے جڑی تھی وہ تو انکے ساتھ ہی ختم ہو گئی... مایا نے افسردگی سے کہا. شافع کو اسکی بات سے دکھ ہوا تھا. 

مایا تمہیں پتا ہے تم بہت لکی ہو ،تم سے اللہ نے تمہارے ڈیڈ کو الگ کیا ہے لیکن تمہاری موم تمہارے پاس ہیں. لیکن مجھ سے پوچھو جس کے پاس نہ موم ہیں نہ ڈیڈ... مجھ سے پوچھو ماں کی محبت کے لئے کیسے ترس رہا ہوں. تمہاری باتوں سے لگ رہا ہے کہ تم اپنے ڈیڈ سے زیادہ اٹیچڈ تھی لیکن مایا وہ تمہاری موم ہیں ،کبھی تم نے ان سے پوچھا ہے کہ وہ تم سے کتنی محبت کرتی ہیں ، ابھی وقت ہے ، اللہ نے تمہیں ایک اور موقع دیا ہے کہ تم اپنی ماں کی قدر کرو ، ان سے محبت کرو ، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ، آج وہ بستر پر پڑی ہیں. انہیں اپنی بیٹی کی ضرورت ہے. اگر تم انکی جگہ ہوتی تو کیا وہ تمہیں یونہی اکیلا چھوڑ دیتیں جیسے تم نے آج انہیں اکیلا چھوڑ دیا ہے. میں مانتا ہوں تمہیں اپنے ڈیڈ کے جانے کا بہت دکھ ہے لیکن تم نے ایک بار بھی انکے دکھ کا اندازہ لگایا ہے جنہوں نے تم سے زیادہ وقت اس شخص کے ساتھ گزارا ہے ،انکی حالت سے پتا لگتا ہے کہ انہیں تم سے کئی گنا زیادہ دکھ ہے... شافع نے تحمل سے اسے سمجھایا. 

میں بہت بری بیٹی ہوں،آئی ایم سوری... مایا نے روتے ہوئے کہا. 

معافی مجھ سے نہیں اپنی موم سے مانگو ،اور انکا خیال رکھا کرو ، انہیں احساس دلاؤ کہ وہ اکیلی نہیں ہیں تم ان کے ساتھ ہو... شافع کے کہنے پر مایا نے اثبات میں سر ہلایا. 

شافع... مایا نے پکارا. 

ہممم... شافع نے پوچھا. 

کیا تم صبح اسی لئے غصہ ہوئے تھے کیونکہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ تم میرے دکھ کو نہیں سمجھ سکتے... شافع خاموش رہا. 

تمہارے موم ڈیڈ کی ڈیتھ کیسے ہوئی ؟...جواب نہ پا کر اس نے پھر سے پوچھا. 

تمہارے لئے جتنا جاننا ضروری تھا میں نے بتا دیا ، مزید کوئی سوال نہیں ،اوکے؟...شافع نے اسکا منہ تھپتھپاتے ہوئے کہا. 

تمہارا ہاتھ... شافع کے ہاتھ پر نظر پڑتے ہی مایا نے کہا جہاں سے خون رس رہا تھا. 

ٹھیک ہے ہاتھ... شافع نے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا. 

لیکن خون نکل رہا ہے... مایا نے پریشانی سے کہا. 

شافع خان اتنا کمزور نہیں ہے کہ خون نکلنے سے رونے لگ جائے... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. 

ہاں وہ تو نظر آرہا ہے ، کتنے کھڑوس ہو تم... مایا نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا تو شافع نے سر جھٹکا. 

اوکے اب تم اپنی موم کے پاس جاؤ اور میں تمہارا انتظام کر کے آتا ہوں... انتظام والی بات اس نے دل میں کہی تھی ورنہ پھر سے اسکا سوال نامہ شروع ہو جاتا. ابھی تک وہ اسکے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا. 

ایک آخری بات ذہن نشین کر لو... اٹھنے سے پہلے اس نے پھر سے مایا کو مخاطب کیا. 

ابھی بھی کچھ رہتا ہے ؟...مایا نے منہ بناتے ہوئے کہا. 

آئندہ ان آنکھوں میں آنسو نظر نہ آئیں مجھے ، تمہاری آنکھیں ، تمہارے پاس میری امانت ہیں ، انہیں کچھ نہیں ہونا چاہیے ، جب تک تم یہاں ہو تمہیں انکی حفاظت کرنی ہے ،بعد میں میں خود کرلوں گا ،میں نہیں چاہتا تم دوسروں کیلئے آنسو بہا بہا کر خود کو ہلکان کرو... شافع نے ایک ہاتھ سے اسکے  منتشر بال سمیٹے اور ایک ہاتھ سے اسکی آنکھوں کو نرمی سے چھوتے ہوئے کہا جو رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھیں اور رنگت بھی سرخ ہو گئی تھی. 

یہی چیز شافع سے برداشت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے آنسو اسکے دشمنوں کیلئے ضائع کرے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا. وہ خود کو بہت بےبس محسوس کر رہا تھا. 

"منتشر بالوں کو سمیٹ کے،،

حواسوں کو سیلاب کر کے ،،

خود کو بہت قریب کر کے ،،

وہ جو کچھ کہتا ہے تو جان لے لیتا ہے."

وہ تو یہاں آخری بار آیا تھا اور اب وہ کیا کہہ رہا تھا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا. مایا تو یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی ، اسکی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا. 

شافع اپنا ہاتھ ہٹاتا اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا، پیچھے مایا کو حیران چھوڑ گیا. مایا نے میکانکی انداز میں اپنی آنکھوں کو چھوا تھا. کیا کسی کیلئے اسکی آنکھیں اتنی عزیز بھی تھیں کہ وہ ان پر اپنی جان وار دیتا... اگر کوئی شافع سے پوچھتا تو وہ بنا کچھ کہے لاکھوں بار بھی اپنی جان اسکی آنکھوں کے صدقے وار دیتا. 

"اک اکھ دا مول سوا لکھ بلھیا ،،

پورا یار تولاں تے کی بن سی..!"

شافع کمرے سے نکل کر سیدھا ڈرائنگ روم میں گیا. صوفے کے پاس ہی اسے اسکا موبائل نظر آگیا تھا. موبائل اٹھاتا وہ گیٹ کی طرف چل پڑا. 

سنو کیا نام ہے تمہارا ؟...گیٹ پر پہنچ کر شافع نے چوکیدار کو مخاطب کیا. 

دین محمد نام ہے میرا صاحب... چوکیدار نے جواب دیا. 

کب سے یہاں کام کر رہے ہو؟...شافع نے پوچھا. 

دس سال سے صاحب... چوکیدار نے بتایا. 

ٹھیک ہے ،آئندہ خیال رکھنا کوئی بھی میری مرضی کے بغیر گھر کے اندر نہ آئے ، یہ میرا نمبر لے لو ، جب بھی کوئی آئے تو پہلے مجھے بتانا ،جب تک میں نہ کہوں کسی کو بھی گھر کے اندر داخل نہیں ہونے دینا. اپنے ساتھ ایک دو اور اعتماد والے بندے رکھ لو ، میری اجازت کے بغیر اگر گھر میں کوئی پرندہ بھی گیا تو وہ تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا ،اور اگر تم اپنا کام ٹھیک سے کرو گے تو ڈبل تنخواہ دوں گا ،ٹھیک ہے؟...شافع نے اپنی بات مکمل کر کے پوچھا. 

جی جی صاحب جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا... چوکیدار نے ڈرتے ہوئے کہا. 

ہممم، ٹھیک ہے... اتنا کہہ کر شافع اندر چلا گیا. ابھی وہ سیڑھیوں کے قریب ہی پہنچا تھا کہ سامنے سے ملازمہ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے اٹھائے واپس آرہی تھی. 

رکو، یہ کھانا کیوں واپس لے کر جا رہی ہو ، آنٹی نے کھایا نہیں ؟...شافع نے پوچھا. 

نہیں صاحب، بڑی بی بی اور چھوٹی بی بی دونوں نے کھانے سے منع کر دیا ہے... ملازمہ نے بتایا. 

ٹھیک ہے یہ تم مجھے دے دو اور تم جاؤ... شافع نے ٹرے پکڑی اور انکے کمرے کی طرف چل دیا. دستک دے کر اس نے دروازہ کھولا. نور آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی جبکہ مایا انکا ہاتھ پکڑے بیٹھی رو رہی تھی. 

ہیلو لیڈیز... شافع نے دونوں کو مخاطب کیا. مایا نے پیچھے مڑ کر دیکھا ، نور نے بھی آنکھیں واکیں. 

موم یہ شافع عمر خان ہے میرا دوست... مایا نے اپنی موم کو بتایا. نور اسے دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گئی تھی. آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے. نور کو دیکھ کر مایا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے. اسکے آنسو دیکھ کر شافع کو غصہ آنے لگا تھا. شافع نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور مایا کے پاس آیا. اسکا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے گیا. 

کہاں لے کر جا رہے ہو؟...مایا نے پوچھا. کمرے سے باہر آکر اس نے مایا کا ہاتھ چھوڑ دیا. 

کیا کہا تھا رونا نہیں ہے پھر ؟...شافع نے ابرو اچکا کر پوچھا. مایا نے کچھ نا کہا تو شافع نے پھر سے مخاطب کیا... دیکھو میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ آنٹی کی طبیعت پہلے ہی خراب ہے ، تم نے انہیں حوصلہ دینا ہے ،چپ کروانا ہے لیکن تم تو خود رونے بیٹھ گئی ، چلو جاؤ اپنے روم میں اور حلیہ ٹھیک کر کے آؤ ، کیا حالت بنالی ہے ، ایٹ لیسٹ آنٹی کیلئے ہی خود کو ٹھیک کرلو... شافع نے التجا کی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر اپنے کمرے میں چلی گئی. شافع نے سکون کا سانس لیا اور نور کے کمرے میں آگیا ، وہ ابھی بھی ویسے ہی بیٹھی تھیں. 

تم عمر خان کے بیٹے ہونا ؟...نور نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا. 

جی،اب آپکی طبیعت کیسی ہے ؟اور کھانا کیوں نہیں کھایا ؟...شافع نے نور کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا. 

مجھے معاف کر دو بیٹا ،میں تمہارے ماں باپ کو بچانے کے لئے کچھ نہ کر سکی... نور کی آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہنا شروع ہو گئے تھے. شافع نے نور کا ہاتھ تھاما اور سر جھکا لیا. 

آپ معافی نہ مانگیں آپکا کوئی قصور نہیں ہے... شافع نے ضبط کرتے ہوئے کہا. 

بیٹا میں نے بہت روکا تھا علی کو اس دن، وہ بہت غصے میں تھا ،جب میں نے اسے یہ سب کرنے سے روکا تو اس نے زندگی میں پہلی دفعہ مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور گھر سے چلا گیا ، میں نے تمہارے گھر فون کر کے اطلاع بھی دینی چاہی لیکن ملازم نے بتایا کہ گھر پر کوئی بھی نہیں ہے اور اسی دن رات کو انکی موت کی خبر مل گئی. اس دن کے بعد علی میرے لئے میرا شوہر نہیں بلکہ صرف ایک قاتل رہ گیا تھا. اسکے ساتھ رہنا میری مجبوری تھی کیونکہ میں اپنی بچی کو نہیں کھونا چاہتی تھی ،میں خودغرض ہو گئی تھی لیکن تم مجھے معاف کر دو ، علی کو بھی معاف کردو ، اب وہ زندہ نہیں ہے ،جو اس نے تمہارے والدین کے ساتھ کیا اس سے بھی زیادہ برا انجام اسکا ہوا ہے ، خدا کے لئے اب اسے معاف کردو... نور نے شافع کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا. 

کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر شافع نے سر اٹھا کر نور کی طرف دیکھا جو ہاتھ جوڑے اسکے سامنے بیٹھی تھی بلکل اسکی ماں کی طرح تھی. نور کو شافع کی آنکھوں میں آنسو نظر آئے تھے. شافع نے انکے ہاتھ پکڑ کر نیچے کردیے تھے. 

ٹھیک ہے میں نے معاف کیا علی خان آفندی کو ،صرف آپکے لئے کیونکہ آپ میں مجھے اپنی ماں نظر آئی ہے ، آج تک میں اپنے ماں باپ کی محبت کے لئے ترس رہا ہوں... شافع نے غمگین لہجے میں کہا. 

آج سے مجھے اپنی ماں ہی سمجھو بیٹا... نور نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ بمشکل مسکرایا. اور اسکی گود میں سر رکھ کر آنکھیں موند لیں. نور اسکے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگی. آج اسکے ضمیر پر جو بوجھ تھا وہ ختم ہوگیا تھا. شافع کو بھی ایک عرصے بعد ماں کی گود نصیب ہوئی تھی جہاں سر رکھ کر اسے سکون ملا تھا. اسکی وقت مایا کمرے میں داخل ہوئی تھی. سامنے کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے. کیا یہ شخص اپنے لفظوں میں سب کو ہی پھانس لیتا تھا... مایا نے سوچا تھا. 

شافع کو اسکے آنے کا پتا چل گیا تھا اسلئے لیٹے لیٹے ہی آہستہ سے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کی تھی ،جسکا علم مایا کو نہ ہوسکا تھا. سر اٹھا کر مایا کی طرف دیکھا جو بت بنی دونوں کو دیکھ رہی تھی. 

شافع اٹھ کر مایا کے سامنے گیا... کیا دیکھ رہی ہو ؟...شافع نے مسکراتے ہوئے پوچھا. 

یہ سب؟...مایا نے نور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا. 

چلو... شافع نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بٹھایا اور کھانے کی ٹرے اٹھا کر نور کے پاس آگیا. 

اب آپکو میرے ہاتھوں سے سوپ پینا پڑے گا... شافع نے کہا تو نور نم آنکھوں سے مسکرائی. شافع نے سینڈوچ اٹھا کر مایا کے سامنے رکھے. 

جب تک میں آنٹی کو سوپ پلا رہا ہوں یہ ختم ہوجانے چاہیے... مایا کو کھانے کا کہہ کر نور کو سوپ پلانے لگ گیا. مایا ابھی بھی یک ٹک انہیں ہی دیکھ رہی تھی. نور نے اسکے کہنے پر آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں اور شافع کے ہاتھوں سے کھانا کھا رہی تھیں...!!! 

شافع نے نور کو سوپ پلا کر میڈیسن دیں اور آرام کرنے کا کہہ کر مایا کے پاس آیا. 

میں نے کیا کہا تھا یہ ختم ہو جانے چاہیے لیکن تم نے تو اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا،کیوں؟...شافع نے سنجیدگی سے پوچھا. اسے یقین تھا کہ سیدھے طریقے سے پوچھنے پر وہ بہت نخرے کرے گی. 

میرا دل نہیں چاہ رہا کھانے کو... مایا نے افسردگی سے کہا. 

مطلب تم چاہتی ہو کہ تمہیں بھی میں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں ؟...شافع نے ابرو اچکا کر پوچھا. 

نہیں ،میں ایسا کیوں چاہون گی، تم نے موم کو کھلا دیا یہی بہت ہے... مایا نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا. 

اوکے، مطلب میرے ہاتھوں سے ہی کھانا ہے... شافع نے سینڈوچ اٹھا کر اسکے منہ کی طرح بڑھایا تو وہ فوراً پیچھے ہوئی. 

مم... میں خود کھا لیتی ہوں... مایا نے ہکلاتے ہوئے کہا اور شافع کے ہاتھ سے سینڈوچ پکڑ کر کھانے لگی. 

سینڈوچ کھانے کے بعد وہ اٹھنے لگی تو شافع نے جوس کا گلاس اسے پکڑادیا. 

پہلے یہ ختم کرو پھر چلی جانا... ناچاہتے ہوئے بھی مایا نے جوس پیا کیونکہ وہ اسکی جان چھوڑنے والا نہیں تھا. 

گڈ ، اب اپنے کمرے میں چلو،آنٹی کو آرام کرنے دو ،میں نے دوائی دے دی تھی لگتا ہے سو گئی ہیں... شافع نے اٹھتے ہوئے کہا. لائٹ بند کر کے دونوں کمرے سے باہر آگئے. مایا اپنے کمرے میں چلی گئی تو شافع بھی اسکے پیچھے آگیا. 

مایا بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی. شافع نے سامنے پڑے فرسٹ ایڈ باکس سے آئنٹمنٹ نکالی اور مایا کے پاس بیٹھ گیا. مایا کی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا، جو اس نے جلدی سے صاف کرلیا ،لیکن شافع دیکھ چکا تھا. 

اب کیا ہوا ؟کیوں رو رہی ہو ؟...شافع نے پوچھا. 

کچھ بھی نہیں ، میں کب رو رہی ہوں.. مایا نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا. 

مایا ،تم آج یہ جان لو کہ تم مجھ سے اپنی کوئی بات بھی نہیں چھپا سکتی... شافع نے خفگی سے کہا. 

تم کیسے ہر بات جان لیتے ہو؟...مایا نے حیرت سے پوچھا. 

لفظوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا،اصلی کھیل تو لہجوں اور تاثرات کا ہوتا ہے ،الفاظ تو جھوٹ بھی بول دیتے ہیں ،اور ہم نادان لہجوں اور تاثرات کی سچائی کو صفر کر کے الفاظ کے جال میں پھنس جاتے ہیں ،یہیں پر ہم مات کھاتے ہیں... شافع نے گہرائی سے کہا. مایا بھی تو اسکے لفظوں کے سحر میں جکڑ گئی تھی. اسی بات کا فائدہ اٹھا کر شافع نے اسکی بازو پر آئنٹمنٹ لگادی ،جہاں اسکی انگلیوں کے گہرے نیلے رنگ کے نشان ثبت تھے. شافع کو دکھ پہنچا تھا کہ اسکی وجہ سے مایا کو تکلیف پہنچی تھی. مایا ہڑبڑا کر دنیا میں واپس آئی تھی لیکن تب تک وہ اپنا کام کر چکا تھا. مایا سر جھٹک کر رہ گئی. 

شافع ڈیڈ مجھے کیوں چھوڑ کر چلے گئے ،انہیں تو اس ظالم دنیا کا پتا تھا نا پھر بھی ، اب مجھے کون بچائے گا ان لوگوں سے... مایا نے دکھ سے چور لہجے میں کہا. شافع بس سوچتا ہی رہ گیا تھا کہ وہ کتنی بہادر لڑکی تھی اور حالات نے اسے کیسے کردیا تھا. 

جب تک میں ہوں ،کوئی تمہیں آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا اور بھول جاؤ آج جو کچھ بھی ہوا... تمہارا فون کہاں ہے ؟...شافع نے اسے سمجھاتے ہوئے سوال دائر کیا. 

یہ رہا... مایا نے موبائل کی طرف اشارہ کیا جو پاس ہی ٹیبل پر پڑا تھا. شافع نے اپنا نمبر مایا کے فون میں سیو کیا اور اسکا نمبر اپنے فون میں. 

کوئی بھی مسئلہ ہو فوراً مجھے کال کرنا، میں آجاؤں گا ،اب تم آرام کرو اور خبردار اگر تم اب روئی... شافع نے اسے وارن کیا. 

تم جا رہے ہو ؟واپس کب آؤ گے؟...مایا نے پریشانی سے پوچھا. 

جب بھی تم بلاؤ گی فوراً آجاؤں گا ،فلحال ایک ضروری کام کیلئے جانا ہے... دل تو شافع کا بھی اسے اس حال میں چھوڑ کر جانے کو نہیں کر رہا تھا لیکن اسے جانا تھا. شافع نے مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف قدم بڑھادئے. 

مسٹر سڑو... مایا نے پکارا. 

ہمم... شافع نے مڑ کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی. 

اپنے ہاتھوں پر بھی بینڈیج کرلینا... شافع نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور چلا گیا. مایا نے آنکھیں موند لیں. 

اچانک اسکے دماغ میں نوفل کا خیال آیا تو اسے کال کرنے لگی لیکن ہنوز اسکا نمبر بند تھا. 

کہاں ہو تم نوفل ، اس وقت مجھے تمہاری ضرورت ہے ،اور تم کہیں پر بھی نہیں ہو ،اور شافع جس سے میرا کوئی تعلق بھی نہیں ہے وہ میرے ساتھ ہے ، اسکے ہونے سے کتنا حوصلہ تھا ،کتنا محفوظ محسوس کر رہی تھی میں ، اب وہ چلا گیا ہے تو مجھے اپنے ہی گھر میں ڈر لگنے لگا ہے ، کیوں مجھے ڈیڈ اکیلا چھوڑ گئے... کافی دیر رونے کے بعد اسکی آنکھ لگ گئی تھی. 

شافع وہاں مزید نہیں رکنا چاہتا تھا اسی لئے بہانہ بنا کر آگیا. اس سے مایا کا رونا برداشت نہیں ہو رہا تھا ، بار بار اسکے سامنے مایا کی روتی ہوئی آنکھیں آرہی تھیں...!!! 

"اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز،،

رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی،،"

گھر آکر اس نے پھر سے سلیپنگ پلز لیں اور سونے کیلئے لیٹ گیا. آج وہ دماغی طور پر بہت تھک گیا تھا. اپنے دشمن کی موت پر اسکی فیملی کو حوصلہ دینا بہت ہمت کی بات تھی. اب وہ بس دنیا سے بےخبر ہونا چاہتا تھا. کچھ دیر بعد وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو گیا تھا. 

رات کے کسی پہر اسکی آنکھ کھلی تھی. شاید اسکا فون مسلسل بج رہا تھا جسکی وجہ سے وہ نیند سے بیدار ہوا تھا. بمشکل آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے فون اٹھایا اور کال اٹینڈ کی. دوسری طرف سے سنائی دینے والے الفاظ اسکی آنکھیں مکمل طور پر کھول گئے تھے. 

شافع تیزی سے بیڈ سے اٹھا ، ایک دم اٹھنے سے وہ لڑکھڑایا تھا لیکن اگلے ہی پل خود کو سنبھالتے ہوئے اس نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور کمرے سے باہر دوڑا. زناٹے سے گاڑی دوڑاتا مایا کے گھر پہنچا تھا. گاڑی سے نکل کر گیٹ کی طرف آیا جو کھلا ہوا تھا چوکیدار بھی زمین پر گرا ہوا تھا. اسی وقت ایک گاڑی اسکے عقب سے ہوتی گزری تھی جس میں تین سے چار لوگ تھے. شافع انکے پیچھے بھاگا لیکن وہ گاڑی بھگا لے گئے. شافع پہچان گیا تھا کہ یہ رندھاوا کے آدمی ہیں. مایا کا خیال آتے ہی اندر کی طرف بھاگا. مایا کے کمرے کی طرف گیا. دروازہ کھلا تھا اور مایا کہیں بھی نہیں تھی. اسکا دل ایک دم سے ڈوبا تھا. 

شافع کا دل ایک دم سے ڈوبا تھا. پھر کسی خیال کے تحت وہ نور کے کمرے کی طرف بھاگا تھا. دروازہ بند تھا مطلب وہ اندر ہی تھیں. اسی لمحے شافع نے اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا. شافع نے دروازہ بجایا ...مایا... مایا دروازہ کھولو ،میں ہوں شافع ،پلیز دروازہ کھولو... شافع نے چلاتے ہوئے کہا. 

کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تھا ،شافع فٹ سے اندر آیا. مایا دروازے کے پیچھے دیوار کے ساتھ چپکی آنکھیں زور سے بند کئے اور سانس روکے کھڑی تھی. شافع اسے اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ کر فوراً اسکے پاس گیا اور اسے خود میں بھینچ لیا. مایا کا جسم لرز رہا تھا. 

شش... میں آگیا ہوں ،ڈرو نہیں... مایا نے دونوں مٹھیوں سے اسکی شرٹ کو  جکڑ لیا تھا جیسے کہ اگر ابھی مایا نے اسے چھوڑ دیا تو کوئی بھی اسے نہیں بچاپائے گا. شافع نے اسکے بال سہلاتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا. مایا کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا. اسکی آنکھوں کو دیکھ کر شافع کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی. 

"سپردِ خاک کر ڈالا تیری آنکھوں کی مستی نے،،

ہزاروں سال جی لیتے اگر تیرا دیدار نہ ہوتا،،"

شافع کو خود پر غصہ آرہا تھا کہ وہ مایا سے کیسے غافل ہو سکتا تھا. اگر آج اسے کچھ ہو جاتا تو وہ کیا کرتا.شافع ایک بار پھر سے اسے گلے لگانا چاہتا تھا لیکن نور کا خیال آتے ہی کمرے میں نظر دوڑائی. نور سامنے ہی کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی. شافع نور کے پاس گیا. 

آپ ٹھیک ہیں؟..شافع نے پوچھا. 

ہاں میں ٹھیک ہوں بیٹا ،پر یہ لوگ پتا نہیں کون تھے ...نور پریشانی سے گویا ہوئی. 

آپ پریشان نہ ہوں ،ساری غلطی میری ہے. مجھے آپ لوگوں کو یوں اکیلا چھوڑ کر جانا ہی نہیں چاہئے تھا.اب میں آپ دونوں کو یہاں ہرگز نہیں چھوڑ کر جاؤں گا .وہ لوگ پھر سے آسکتے ہیں ،آپ دونوں ابھی چلیں میرے ساتھ ، اپنا ضروری سامان لیں اور چلیں... شافع نے نور سے کہا. 

لیکن بچے ہم کیسے تمہارے ساتھ جا سکتے ہیں ، ہم اپنا گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ کیسے؟...نور نے ہچکچاتے ہوئے کہا. 

مایا تم جاؤ اپنے کمرے میں اپنا سامان پیک کرو ، اور ڈرو نہیں اب کوئی نہیں آئے گا ، میں گھر لاک کر کے آیا ہوں ،تم جاؤ ،میں آنٹی سے بات کرلوں پھر آتا ہوں تمہارے پاس... شافع کے کہنے پر وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں آگئی. لیکن وہ اپنا گھر چھوڑ کر کبھی بھی اسکے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی. مایا جانتی تھی کہ نور کبھی بھی جانے کے لئے راضی نہیں ہو گی اس لئے خاموشی سے آکر بیڈ پر بیٹھ گئی. 

لیکن وہ بھول گئی تھی کہ سامنے والا لوگوں کو اپنے لفظوں کے جال میں جکڑنے کا ماہر ہے. 

آپ کو پتا ہے وہ لوگ کیوں آئے تھے ؟...شافع نے نور سے پوچھا. انہوں نے نفی میں سر ہلایا. 

وہ لوگ مایا کو کڈنیپ کرنے آئے تھے ، رندھاوا بہت ہی گِرا ہوا شخص ہے ، میں نے دیکھا تھا وہ لوگ اسی کے آدمی تھے ،ان لوگوں کو تو میں چھوڑوں گا نہیں لیکن اب میں مزید کوئی رسک نہیں لے سکتا ، آپ لوگ میرے ساتھ میرے گھر چلیں ،وہ بھی آپکا ہی گھر ہے. آپ نے مجھے اپنا بیٹا کہا ہے نا تو اب آپکو میری بات ماننی ہی پڑے گی... شافع نے التجا کی. 

ٹھیک ہے بچے لیکن مایا نہیں مانے گی ؟اور لوگ کیا کہیں گے ہم کیوں تمہارے ساتھ رہ رہے ہیں... نور نے اپنے خدشات بیان کیے. 

مایا کو میں خود دیکھ لوں گا ،اور لوگوں کے منہ بھی میں خود ہی بند کرلوں گا ،آپ مجھے بتائیں آپکا کون کون سا ضروری سامان ہے میں پیک کرلیتا ہوں... شافع نے اٹھتے ہوئے کہا اور نور کے بتانے پر اسکے کپڑے، دوائیاں اور ضروری سامان رکھنے لگا. 

شافع... نور نے پکارا. 

جی... شافع پھر سے وہیں اسکے پاس بیٹھ گیا جہاں کچھ دیر پہلے بیٹھا تھا. 

تم مایا سے محبت کرتے ہو ؟...نور نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا. شافع نے سر جھکا کر گہرا سانس لیا... جی بہت زیادہ..!! 

تم بہت اچھے ہو بچے ،میری مایا کا ہمیشہ خیال رکھنا ،اور جتنی جلدی ہو سکے اس سے شادی کر لو ،وہ نا سمجھ ہے کہیں اپنے حق میں کچھ غلط نہ کر بیٹھے... نور نے نوفل کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا. 

اور علی نے جو کچھ بھی کیا مایا اس سے انجان ہے ،کبھی بھی اسے اس غلطی کی سزا مت دینا... نور نے اپنا ڈر بھی بیان کیا. 

وہ نوفل کے بارے میں مایا کی محبت جانتی تھیں لیکن انہیں شافع سے بڑھ کر اچھا انسان مایا کیلئے نہیں مل سکتا تھا اور نوفل کو تو وہ جانتی بھی نہیں تھیں کہ وہ کون ہے اور مایا کی قدر کر بھی سکے گا یا نہیں. لیکن شافع کی آنکھوں میں انہیں مایا کیلئے عشق ، جنون نظر آیا تھا. 

آپ بے فکر رہیں ، آپکو کبھی بھی مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ، آپ بیٹھیں میں مایا کو دیکھ کر آتا ہوں... شافع نے اٹھتے ہوئے کہا تو نور نے مسکراتے ہوئے سر ہلادیا. 

شافع مایا کے کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پر بیٹھی ناجانے کن سوچوں میں گم تھی. شافع اسکے پاس بیٹھ گیا.

مایا...شافع نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی، تو وہ دنیا میں واپس لوٹی. 

ہاں... مایا نے چونکتے ہوتے کہا. 

کن سوچوں میں گم ہو ؟...شافع نے آہستہ آواز اور انداز میں کہا. 

کک.. کہیں نہیں... مایا نے اٹکتے ہوئے کہا. 

سامان کیوں نہیں پیک کیا؟...اسی انداز میں پوچھا گیا. اب وہ خاموشی سے اسکی طرف دیکھنے لگی ، ایک بار پھر وہ اسکے الفاظ کے سحر میں جکڑ رہی تھی. وہ تو لوگوں کو اپنے حصار میں کرنے کا ماہر تھا لیکن مایا پر اس نے صرف دو بار جادو کیا تھا اور دونوں بار ہی وہ ہوش کھو بیٹھی تھی. 

مایا... ایک بار پھر سوگوشی ہوئی اور اس بار وہ اسکے سحر سے نکلی تھی. 

یہ.. یہ کیسے کرتے ہو؟...مایا نے سنبھلتے ہوئے پوچھا. 

اگر تم پہلی بار میں ہی میری بات مان جاؤ تو ایسا نا ہو... شافع نے شانے اچکاتے ہوئے کہا. وہ مایا کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا. 

کک.. کون سی بات ؟...مایا نے اٹکتے ہوئے پوچھا. 

پہلے میں نے تمہیں آئنٹمنٹ لگوانے کا کہا لیکن تم نے نہیں لگوائی اور اب سامان پیک کرنے کا کہا تو وہ بھی نہیں کیا ، یہ تو اچھی بات نہیں ہے نا؟...شافع نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا. 

پھر مجھے اپنے طریقے سے ہی کرنا تھا... شافع نے معصومیت سے کہا اور اٹھ کر سامان پیک کرنے لگا. 

لگتا ہے تمہیں اپنے سارے کام مجھ سے کروانے کا شوق ہے شافع نے بڑبڑاتے ہوئے کہا. 

لیکن مجھے نہیں جانا، مجھے اپنے گھر میں ہی رہنا ہے... مایا نے احتجاج کی. 

کیوں نہیں جانا؟...شافع نے سنجیدگی سے پوچھا. 

کیونکہ مجھے اپنے گھر میں رہنا ہے... مایا نے وجہ بتائی. 

وہ بھی تمہارا گھر ہے ،اب مزید کوئی بحث نہیں ہوگی... کچھ لمحے پہلے والی نرمی کہیں بھی نہیں تھی. 

میں نہیں جاؤں گی بس... مایا نے ضد کرتے ہوئے کہا. لیکن وہ سنی ان سنی کرتا اپنا کام کرتا رہا. مایا منہ پھلا کر بیڈ پر بیٹھ گئی. 

دیکھتی ہوں کیسے مجھے زبردستی لے کر جاتا ہے مسٹر سڑو... مایا بڑبڑائی. اس کی بات سن کر شافع کے لبوں پہ مسکراہٹ رینگی تھی. 

چلو سامان پیک ہو گیا ہے... شافع نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا لیکن وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی. 

خود چلو گی یا میں تمہیں اٹھا کر لے کر جاؤں... شافع کی دھمکی پر بھی وہ نہ اٹھی. شافع نے اسکی طرف قدم بڑھائے تو وہ فوراً اچھل کر بیڈ سے اتری تھی. 

تم میرے ساتھ زبردستی کیوں کر رہے ہو، مجھے نہیں جانا... اب وہ رونے لگی تھی. 

شش... چپ ....شافع نے ایک ہاتھ سے بیگ اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکل آیا. مایا نے ہاتھ چھڑوانے کی بہت سعی کی لیکن گرفت اور بھی مضبوط ہوتی جا رہی تھی. گاڑی تک جاتے ہوئے اس نے ہر کوشش کرلی تھی لیکن شافع نے ہاتھ نہیں چھوڑا تھا. اسے گاڑی میں پٹخ کر گاڑی لاک کی اور خود اندر چلا گیا. کچھ دیر بعد نور اسکے ساتھ باہر آرہی تھی. نور کو گاڑی میں بیٹھا کر سامان اندر رکھا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی. 

مایا تو نور کو دیکھتے ہی شروع ہوگئی... موم دیکھیں یہ زبردستی ہمیں اپنے ساتھ لے کر جارہا ہے ، آپ روکیں اسے، اسے بتائیں ہم نے نہیں جانا اسکے ساتھ... مایا روہانسی ہوئی. 

شافع ٹھیک کہہ رہا ہے مایا،ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں ، وہ لوگ دوبارہ بھی آسکتے ہیں ،ضروری نہیں ہر بار شافع وقت پر پہنچ کر ہمیں بچالے ، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا تب تک ہمارا یہاں سے دور جانا ہی بہتر ہے... نور نے اسے ساری بات تحمل سے سمجھائی. 

لیکن موم... اس سے پہلے کہ مایا مزید احتجاج کرتی نور نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں.. جس کا مطلب صاف تھا کہ مزید اس موضوع پر  بات نہیں ہوگی. مایا نے شافع کو ایک گھوری سے نوازہ جو اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور گاڑی سے باہر دیکھنے لگی.تبھی شافع کا فون بجا تھا. 

ہیلو... شافع نے فون کان سے لگایا. 

ہاں ہاں یار میں ٹھیک ہوں ، میں بس پہنچنے ہی والا ہوں گھر ،پھر بات ہوتی ہے... فون رکھ کر وہ پھر سے سنجیدگی سے ڈرائیونگ کرنے لگا. 

کچھ ہی دیر بعد گاڑی ایک جھٹکے سے ایک خوبصورت سے بنگلے کے سامنے رکی تھی. مایا نے گھر کی طرف دیکھا ،وہ گھر کسی طور پر بھی محل سے کم نہ تھا. 

اسکا گھر تو میرے گھر سے بھی بڑا ہے... مایا نے حیرت سے سوچا. گاڑی گھر کے اندر داخل ہوئی. چوکیدار نے گیٹ بند کیا اور شافع کو سلام کیا. 

شافع گاڑی سے نکلا تو اندر سے ارمان اور ملازم باہر آئے. 

یار کہاں گیا تھا تو اس وقت، بندہ بتا ہی دیتا ہے کہیں جانے سے پہلے ، تو ٹھیک تو ہے؟ ...ارمان نے پریشانی سے پوچھا. 

میں ٹھیک ہوں یار پریشان مت ہو... شافع نے مسکراتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا. تبھی ارمان کی نظر گاڑی پر پڑی تو حیران ہوا. 

اب سے مایا اور آنٹی یہیں رہیں گی...شافع نے اسے بتایا اور نور کی طرف بڑھا. 

ارمان آنٹی کو کمرے لے جاؤ ،تھک گئی ہوں گی، شوکت تم سامان اندر لے جاؤ ، میں مایا کو لے کر آتا ہوں... آخری جملہ اس نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ارمان کے ساتھ اندر چلی گئیں. 

ملازم نے سامان گاڑی سے نکالا... سر یہ سامان کہاں رکھنا ہے... ملازم نے شافع سے پوچھا. 

یہ بیگ آنٹی کے کمرے میں رکھ دو جہاں ارمان انہیں لے کر گیا ہے اور یہ بیگ میرے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں رکھ دو... شافع نے بتایا تو وہ سامان اٹھا کر اندر کی طرف بڑھ گیا. مایا ابھی بھی گاڑی میں بیٹھی تھی. شافع آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور دونوں ہاتھ گاڑی کے اوپر ٹکا کے اندر کی طرف جھکا. 

آج رات یہیں بیٹھنے کا ارادہ ہے کیا؟...شافع نے اسکے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا. 

آج رات یہیں بیٹھنے کا ارادہ کیا؟...شافع نے اسکے حسین چہرے دیکھتے ہوئے کہا. 

مجھے نہیں جانا کہیں... مایا نے غصے سے کہا. 

اچھا باقی لڑائی اندر چل کر کرلینا ، کافی لیٹ ہوگیا ہے چلو اندر چلیں... شافع نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر باہر نکالا. 

میں نے کہا نا مجھے نہیں جانا... مایا نے پھنکارتے ہوئے کہا.

کتنی ضدی ہو تم یار... شافع نے بیزاریت سے کہا اور اسے دونوں بازوؤں میں بھر کر اندر کی طرف بڑھنے لگا. 

یہ کیا بدتمیزی ہے ، چھوڑو مجھے... مایا نے چیختے ہوئے کہا لیکن وہ اس طرح ظاہر کرنے لگا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو. کمرے آکر اس نے مایا کو نیچے اتارا. 

تم خود کو سمجھتے کیا ہو آخر... مایا نے غراتے ہوئے کہا. 

اگر تم پہلی بار میں ہی میری بات مان لیاکرو تو میں ایسے بلکل نہ کروں ،اب تم سو جاؤ کافی رات ہو گئی ہے ،کچھ چاہیے ہو تو مجھے بتادینا ،ساتھ والا روم میرا ہے ،چونکہ میں اور ارمان ہی یہاں رہتے تھے اس لئے کوئی ملازمہ نہیں ہے یہاں سارے ملازم ہیں ، اس لئے ابھی ایڈجسٹ کرو کل یہ مسئلہ بھی حل کردوں گا... شافع نے اسکی بات ہوا میں اڑاتے ہوئے اپنی بات کہی. 

تم بہت ڈھیٹ انسان ہو... مایا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا سر پھاڑ دے. 

اوکے باقی لڑائی کل ابھی سو جاؤ... شافع نے اسکا منہ تھپتھپاتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا. 

مایا نے چاروں طرف کمرے میں نظر دوڑائی اور تھکے ہوئے انداز میں بیڈ پر آکر لیٹ گئی .آج وہ خود کو بہت بےبس محسوس کر رہی تھی. اسے رونا آرہا تھا لیکن اسے ابھی صرف سونا تھا کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن اسے اس دنیا سے چھٹکارا چاہئے تھا. کچھ دیر کوشش کے بعد اسے نیند آگئی تھی. شافع بھی بہت تھک گیا تھا اس لئے بیڈ پر گرتے ہی سو گیا. 

رات کے کسی پہر اسکی آنکھ کھلی تھی ، کسی کی ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دے رہی تھیں. شافع جلدی سے کمرے سے باہر بھاگا تھا ، آواز مایا کے کمرے سے آرہی تھی. شافع دوڑتا ہوا کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ مایا سوتے ہوئے چیخیں مار رہی تھی. چونکہ نور اور ارمان کا کمرہ نیچے تھا تبھی انہیں آوازیں نہ سنائی دیں. وہ جلدی سے مایا کی طرف بڑھا. 

مایا... اس نے مایا کو دونوں بازوؤں سے تھام کر جھنجھوڑا تھا. مایا جیسے ہوش میں آئی تھی. اسکا چہرہ اور پورا جسم پسینے میں شرابور تھا. وہ عجیب نظروں سے شافع کو دیکھ رہی تھی کہ جیسے جانتی ہی نہ ہو کہ وہ کون ہے. شافع نے پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھایا جسے اس نے ایک ہی سانس میں خالی کردیا .

آرام سے... شافع نے ٹوکا. گلاس اس سے واپس لے کر ٹیبل پر رکھا. 

کیا ہوا تھا ؟...شافع نے اسکا منہ صاف کرتے ہوئے پوچھا. 

وہ... وہ مجھے لے جارہے تھے ، بہت دور ،بہت اندھیرا تھا.. وہ... وہ بہت گندے تھے... مایا ہزیانی انداز میں بتانے لگی ، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے. 

مایا... سرگوشی ہوئی تھی. 

سب ٹھیک ہے ،شش چپ ہوجاؤ ،میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ،سو جاؤ ،میں یہیں ہوں... مایا میکانکی انداز میں آنسو صاف کرتے ہوئے لیٹ گئی. شافع بیڈ سے اٹھا. 

شش... شافع،مجھے ڈر... مایا نے ہکلاتے ہوئے کہا. شافع کمرے کے وسط میں میں پڑے سنگل صوفے پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھ گیا. 

سو جاؤ ،میں یہیں ہوں... مایا نے اسکی موجودگی میں خود کو محفوظ محسوس کیا تھا اور آنکھیں بند کر کے سو گئی. شافع کی نظریں اسکے چہرے پر ہی تھیں. 

"کسی معصوم لمحے میں کسی مانوس چہرے سے ،،

محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے ،،"

صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو شافع کمرے میں نہیں تھا. فریش ہو نیچے آئی تو نور ناشتہ کر رہی تھی. مایا کو دیکھ کر ملازم ناشتہ لے آیا. 

آؤ بیٹا ناشتہ کرو... نور کہ کہنے پر مایا نے چپ چاپ ناشتہ کیا. 

موم ہم یہاں کب تک رہیں گے ؟...مایا نے آہستگی سے پوچھا. اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ شافع کی موجودگی سے وہ محفوظ ہے اس لئے واپس جانے کی ضد نہیں کی. 

شافع نے کہا ہے کہ جلد ہی وہ یہ مسئلہ حل کروادے گا پھر ہم واپس چلے جائیں گے... نور نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا. مایا کو وہ کل سے کافی بہتر لگیں تھی. 

اب آپکی طبیعت کیسی ہے ؟...مایا نے پوچھا. 

میں ٹھیک ہوں بیٹا ،شافع بہت خیال رکھتا ہے ، اب بھی مجھے زبردستی ناشتے کاکہہ کر گیا ہے کہ بغیر کچھ کھائے دوائی نہ کھاؤں... نور نے مسکراتے ہوئے بتایا. مایا چپ چاپ ناشتہ کرتی رہی. نور ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی. 

شافع آفس میں بیٹھا تھا.

یار میں اس رندھاوا کو چھوڑوں گا نہیں ، اس نے یہ قدم اٹھا کر ہرگز اچھا نہیں کیا ، آج تک یہ جو بھی غلط کام کرتا رہا ہے میں اسکے راستے میں نہیں آیا لیکن اب یہ نہیں بچے گا ، تم اپنے جاننے والے بندوں کو اسکے پیچھے لگاؤ ، اسکے پل پل کی خبر مجھے چاہیے ، اسکے سارے کالے دھندوں کےثبوت چاہئیں مجھے ، اس بار یہ میرے ہاتھوں نہیں بچے گا... شافع نے پرسوچ انداز میں کہا. 

میں آج ہی یہ کام شروع کردیتا ہوں لیکن اس سے پہلے ہمارا جاننا ضروری ہے کہ کل رات کون کون لوگ علی آفندی کے گھر گئے تھے ، تم نے مایا سے پوچھا شاید اس نے کسی کی شکل دیکھی ہو... ارمان نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے کہا. 

نہیں ، وہ بہت ڈری ہوئی تھی اس لئے میں نے کچھ نہیں پوچھا. آج بات کروں گا اس سے... شافع نے بتایا. 

ٹھیک ہے تم یہ فائلز سٹڈی کرلو ، کافی کام پینڈنگ ہے... ارمان نے اٹھتے ہوئے کہا. دوپہر کو وہ میٹنگ کے لئے چلے گئے ، کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ رات کو گھر آسکا. مایا تو پورا دن گھر پر بور ہی ہوگئی تھی. شافع گھر میں داخل ہوتے ہی نور کے کمرے میں گیا. 

اب آپکی طبیعت کیسی ہے ؟...شافع نے نور کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا. 

میں ٹھیک ہوں بچے لیکن تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو... نور نے اسکے چہرے پر تھکن کے واضح آثار دیکھے تھے. 

جی، بس کام بہت زیادہ تھا ،کافی دنوں سے میں کام پر دھیان نہیں دے پایا تھا ، آپ نے اور مایا نے کھانا کھایا اور آپکی میڈیسن... شافع نے پوچھا. 

ہاں بچے میں نے کھانا بھی کھا لیا اور میڈیسن بھی لے لی ہے لیکن مایا نے نہیں کھایا... نور نے بتایا. 

اوکے آپ آرام کریں صبح ملاقات ہوگی ، اگر کوئی کام ہوا تو مجھے بلا لیجئے گا... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. 

ٹھیک ہے بچے تم بھی جاکر کھانا کھا لو... نور نے شفقت بھرے لہجے میں کہا اور شافع کمرے سے نکل کر کچن میں گیا. کھانا لے کر مایا کے کمرے کی طرف بڑھا. دروازہ نوک کر کے اندر آیا تو مایا بیزاری سے موبائل پر گیم کھیل رہی تھی. اسے اندر آتا دیکھ کر بھی وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی تھی. شافع نے کھانا ٹیبل پر رکھا اور واشروم سے ہاتھ دھو کر آیا. 

مایا کھانا کھاؤ... شافع نے سنجیدگی سے کہا تو وہ چپ چاپ آکر کھانا کھانے لگ گئی. وہ ہمیشہ تیز تیز کھانا کھاتی تھی اور یہی بات شافع کو پسند نہیں تھی. 

آرام سے کھاؤ ...شافع نے غصے سے کہا. پہلے تو وہ ڈر گئی تھی پھر آرام سے کھانے لگی. شافع نے کھانا کھا لیا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر آہستہ آہستہ کھا رہی تھی ، شافع خاموشی سے اسکی ہر ہر حرکت دیکھ رہا تھا. مایا نے اسے خود کو گھورتے پایا تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا. 

فنش کرو... شافع نے سنجیدگی سے کہا. مایا نے خفگی سے اسے دیکھا اور کھانا ختم کیا. جب وہ اٹھنے لگی تو شافع نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بیٹھایا اور خود بھی پاس ہی بیٹھ گیا. مایا نے کچھ نہیں کہا. 

کیا کیا آج پورا دن؟...پہلے والی سنجیدگی اب کہیں بھی نہیں تھی .شافع جانتا تھا کہ کھانے کے معاملے میں وہ بہت لاپرواہ ہے ، اگر وہ سختی نا کرتا تو وہ کبھی بھی نہ کھاتی. اسکے سوال پر مایا کا موڈ مزید خراب ہوا تھا. 

کیا کرنا ہے میں نے ، پورا دن بور ہوتی رہی ، تم نے تو مجھے یہاں لا کر قید کردیا ہے... مایا نے غصے میں کہا. 

بس کچھ دنوں کی بات ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ، اسکے بعد جیسے مرضی جانا کوئی نہیں روکے گا ، آج کل میں کافی بزی ہوں ورنہ میں خود تمہیں لے جاتا جاناں... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. شافع کو تو وہ غصے میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی. 

"چاند سے چہرے کا صدقہ اتارا کیجئیے ،،

مشورہ ہے یہ میری جان گوارا کیجئیے ،،"

شافع کی بات سن کر اس نے خاموشی سے سر ہلا دیا تھا. 

مایا... کچھ دیر خاموشی کے بعد سرگوشی ہوئی. 

حج... جی... مایا نے ہکلاتے ہوئے کہا. 

کل کیا ہوا تھا ؟مجھے ساری بات تفصیل سے بتاؤ... شافع نے کہا. اس نے نظر اٹھا کر شافع کو دیکھا. 

پلیز میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی... مایا کی آواز میں واضح نمی تھی. 

مایا... مجھ پر بھروسہ ہے نا؟...شافع نے اسکا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا. مایا نے اثبات میں سر ہلایا. 

بتاؤ مجھے ، اگر نہیں بتاؤ گی تو میں یہ مسئلہ کیسے حل کروں گا... شافع نے اسے پیار سے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے کہا. 

وہ.. وہ میں سو رہی تھی کہ اچانک باہر لڑائی کی آواز آنے لگی ، گارڈ کے چلانے کی آواز ، میں ڈر گئی تھی. موم کے کمرے میں چلی گئی وہ بھی شور کی وجہ سے اٹھ گئی تھیں .

مایا یہ کس کی آوازیں آرہی ہیں؟...نور نے پوچھا. 

پتا نہیں موم... مایا نے ڈرتے ہوئے کہا. پھر اچانک خاموشی ہو گئی. میں دروازے کے پاس گئی تو اچانک سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی آواز آئی. میں نے جلدی سے دروازہ لاک کیا تھا کہ دروازہ بجنے لگا اگر میں ایک سیکنڈ بھی لیٹ کر دیتی تو پتا نہیں کیا ہو جاتا.. مایا روتے ہوئے بتانے لگی. 

دروازہ زور سے بجنے لگا جیسے کوئی اسے توڑنے کی کوشش کررہا ہو. موم نے مجھے کہا کہ میں تمہیں فون کروں. میں جلدی جلدی تمہیں فون کیا. غلطی سے وہ سپیکر پر ہو گیا تھا جب تم نے کہا کہ میں آرہا ہوں تو شاید انہوں نے سن لیا تھا. وہ جو دروازی توڑنے کی کوششیں کر رہے تھے اچانک رک گئے. پھر ان میں سے کسی کی آواز آئی شاید فون پر بات کر رہا تھا. وہ بتاتے بتاتے اچانک رک گئی .

کیا کہا تھا اس نے فون پر؟...شافع نے پوچھا. 

اس نے کہا کہ سر لڑکی نے شافع خان کو فون کردیا ہے وہ کسی بھی وقت آتا ہوگا .دوسری طرف فون پر ناجانے کیا کہا گیا تھا لیکن اس کے بعد وہ چلے گئے تھے ، لیکن وہ بہت بری باتیں کر رہے تھے.. مایا نے ہچکیوں کے درمیان کہا. 

کیا کہہ رہے تھے ؟...شافع نے ضبط کرتے ہوئے پوچھا. 

وہ... وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے کڈنیپ کر کے اپنے باس کے پاس لے جائیں گے جو انکا انتظار کر رہا ہے اور.. اور آج انکی عیاشی کا دن ہے... وہ... وہ میرے ساتھ... مایا نے بات ادھوری چھوڑ کر زور زور سے رونا شروع کر دیا... بس یہیں شافع کا ضبط ختم ہوتا تھا. شافع نے اسے اپنے ساتھ لگایا  اور اسکے بال سہلانے لگا. 

مایا پلیز ، چپ ہو جاؤ ، اسے تو میں چھوڑوں گا نہیں ، جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا... شافع نے اسے چپ کرواتے ہوئے کہا. وہ کہاں جانتی تھی کہ اسکے آنسو شافع کو کتنی تکلیف پہنچاتے ہیں. شافع نے اسے خود سے الگ کیا اور اسکے آنسو پونچھے. 

اب نو رونا دھونا اوکے... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا. شافع نے بہت نرمی سے اپنی انگلیوں کے پوروں سے اسکی آنکھوں کو چھوا تھا جو رونے کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھیں شافع کو لگا تھا کہ جیسے وہ گہرے نیلے سمندر کے ساحل پر کھڑا ہو. 

"تیری جیسی آنکھوں والے،،

آتے ہیں جب ساحل پر ،،

تو لہریں شور مچاتی ہیں،،

لو آج سمندر ڈوب گیا ،،"

یہ سب ایک سیکنڈ میں ہوا تھا. شافع نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا. 

رویا مت کرو، جب تم ان آنکھوں کو تکلیف دیتی ہو تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا... شافع نے گھمبیر آواز میں کہا. مایا نے آنکھ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا. 

تم نے خود ہی تو پوچھا تھا... مایا نے خفگی سے کہا. 

ہاہاہا... شافع کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا تھا. مایا نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لئے. 

انسانوں کی طرح ہنس لیا کرو... مایا نے شافع کو گھورتے ہوئے کہا. 

جو حکم...شافع نے جھک کر کہا. 

چلو اب سو جاؤ ، مجھے تھوڑا کام ہے ، میں آتا ہوں... شافع نے اسے بتایا اور اپنے کمرے میں آگیا. مایا لیٹ گئی لیکن اسے پھر سے خوف آنے لگا تھا. ایک گھنٹہ اسی کش مکش میں گزر گیا کہ شاید وہ ابھی آجائے لیکن وہ انہیں آیا. آخرکار جب اسے زیادہ ڈر لگنے لگا اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہو گئیں تو اپنے کمرے سے نکل کر شافع کے کمرے کی طرف چل پڑی. دروازہ کھول کر اندر آئی تو شافع سامنے ہی سٹڈی ٹیبل پر لیپ ٹاپ رکھے کام کر رہا تھا. شافع اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا. 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتا ، مایا اسکے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھی اور ٹیبل پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں. کچھ دیر شافع ہکا بکا دیکھتا رہا کہ یہ ہو کیا رہا ہے. 

مایا... شافع نے آگے بڑھ کر اسے آواز دی لیکن وہ سو گئی تھی. شافع نے سر جھٹکا اور لیپ ٹاپ بند کر کے اسے اٹھایا اور واپس اسکے کمرے میں آیا ، اسے بیڈ پر لٹایا اور اچھے سے کمبل اڑھایا. اسکے چہرے سے بال سائیڈ پر کیے ، نرمی سے اسکی آنکھوں کو چھوا اور لائٹ بند کر کے کمرے میں پڑے سنگل صوفے پر بیٹھ کر ٹانگیں سامنے ٹیبل پر رکھیں اور آنکھیں موند لیں. 

"تیری آنکھیں کمال ہیں صاحب،،

مجھکو مثلِ شراب لگتی ہیں ،،"

صبح جب وہ اٹھی تو اسے کچھ یاد نہیں تھا. اس نے کمرے میں اردگرد دیکھا لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھا. آج وہ جلدی اٹھ گئی تھی پھر بھی وہ کہی نہیں تھا. 

لگتا ہے آدھی رات کو ہی آفس چلا جاتا ہے... مایا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور فریش ہو کر نیچے آنے لگی تو سامنے ہی ڈائننگ ٹیبل پر نور ، شافع اور ارمان بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے. مایا سیڑھیاں اترنے لگی. شافع کو وہ سامنے سیڑھیوں پر ہی نظر آگئی تھی ، آنکھوں میں ناگواری پھیلی تھی. سب سے ایکسکیوز کرتا وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا تھا. مایا اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہیں رک گئی. شافع نے اسکا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا اسے دوبارہ کمرے میں لے آیا. 

شافع نے اسکا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا اسے دوبارہ کمرے میں لے آیا. 

کیا مسئلہ ہے مجھے واپس روم میں کیوں لے کر آئے ہو ،مجھے بھوک لگی ہے ، ناشتہ کرنا ہے... مایا نے خفگی سے کہا. 

ان کپڑوں میں نیچے جاؤ گی ، نیچے ملازم بھی ہیں اور ارمان بھی بیٹھا ہے... شافع نے غصے سے کہا. مایا نے ایک نظر اپنے کپڑوں کو دیکھا. ٹراؤزر پر ڈھیلی سی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی. 

کیا ہوا ہے میرے کپڑوں کو...وہ حیرانگی سے گویا ہوئی. وہ ہمیشہ ایسے ہی کپڑے پہنتی تھی کبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا. 

تم ان کپڑوں میں انکے سامنے نہیں جاسکتی... شافع نے دھاڑتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گیا. مایا کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے. آج تک کبھی اسکے باپ نے اسے اس طرح کے کپڑے پہننے سے نہیں روکا تھا پھر اس نے کیوں روکا. وہ وہیں بیڈ کے کنارے نم آنکھوں کے ساتھ بیٹھ گئی. تھوڑی دیر بعد شافع کھانا لے کر کمرے میں آیا. کھانا ٹیبل پر رکھ کر اسکے سامنے زمین پر بیٹھا جو نظریں جھکائی زمین کو گھور رہی تھی. اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور جھک کر اسکی آنکھوں میں دیکھا. آنسو آنکھوں سے باہر آنے کو بے تاب تھے. 

"آنکھوں میں ہے عجب سرور تیری،،

ہے قیامت تیرے چہرے کی کشش،،"

ایم سوری... شافع نے معصوم شکل بناتے ہوئے کہا. پلیز... جب اس نے چہرہ اوپر نہ کیا تو پھر سے کہا. مایا نے اسکی طرف دیکھا جو دنیا بھر کی معصومیت خود پر طاری کیے بیٹھا تھا. 

کان پکڑ کر سوری بولو... مایا نے منہ پھلا کر کہا. شافع کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑی تھی. 

اوکے ، آئی ایم سوری ، پلیز مجھے معاف کردو... شافع نے اسکے دونوں کان پکڑ کر کہا. مایا کا حیرت سے منہ کھل گیا. 

میں نے اپنے نہیں تمہیں تمہارے کان پکڑ کر معافی مانگنے کا کہا ہے... مایا نے خفگی سے کہا. 

لیکن تم نے تو صرف کان پکڑ کر معافی مانگنے کا کہا تھا ، یہ تو مینشن ہی نہیں کیا کہ کس کے کان پکڑنے ہیں... مایا کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر زور سے ہنس پڑی. 

چلواب ناشتہ کرو... شافع نے اسے لے جا کر صوفے پر بیٹھایا اور دونوں ناشتہ کرنے لگے. 

مایا آرام سے... اب کی بار شافع دھاڑا تھا. ڈر سے مایا کے ہاتھ سے جوس کپڑوں پر گر گیا ،مایا گلاس رکھ کر کھڑی ہو گئی. 

پہلے ناشتہ کرو بعد میں چینج کرلینا... سنجیدگی سے کہا گیا تو وہ خاموشی سے کھانے لگی. اس شخص کے کتنے روپ ہیں مایا بس سوچتی ہی رہ گئی. 

مجھے کالج جانا ہے... مایا نے ہمت کر کے کہا. 

جب تک خطرہ ہے تم نہیں جاسکتی... شافع نے سپاٹ لہجے میں کہا. 

کیا مطلب ہے تمہارا ، تم مجھے اپنے گھر میں قید کر کے رکھنا چاہتے ہو ، میں یہ نہیں ہونے دوں گی ، پہلے ہی میری سٹڈیز کا بہت لوس ہوگیا ہے ، مجھے ہر حال میں جانا ہے ، تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے... مایا نے چلاتے ہوئے کہا. 

ابھی میں تھوڑا جلدی میں ہوں ،آکر اس بارے میں بات ہوگی... شافع نے کہا اور اٹھ کر جانے لگا. 

سڑو.. مایا حلق کے بل چلائی. اسکے الفاظ سن کر شافع بےساختہ مسکرایا تھا. 

پاگل... شافع زیرِ لب بولا اور سر جھٹک کر چلا گیا. 

**********************

شافع اور ارمان گھر سے سیدھا رندھاوا کے آفس گئے تھے. جب وہ اسکے آفس پہنچےتو وہ فون پر کسی سے ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا. شافع نے دروازہ کو لات رسید کی تو وہ انکی طرف متوجہ ہوا اور فون بند کر کے انکی طرف دیکھ کر پر اسرار انداز میں مسکرایا. 

ارے آج تو بڑے بڑے لوگ میرے غریب خانے میں آئیں ہیں ، تشریف رکھیں... شافع اور ارمان سامنے کرسیوں پر بیٹھ گئے. 

رندھاوا... شافع غرایا. 

تم نے منع کرنے کے باوجود اس لڑکی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، تم نے کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کیا ہے ، اب الٹی گنتی گننا شروع کردو... شافع نے دھمکی دی. 

ہاہاہا بچے تم مجھے دھمکی دے رہے ہو ، میں نے پہلے بھی تمہیں آفر دی تھی آج پھر دیتا ہوں غور سے سننا ،میں جانتا ہوں وہ لڑکی تمہارے گھر ہے ،اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری یہ خبر کہ تم نے ناجائز طریقے سے ایک لڑکی کو اپنے گھر میں اپنی عیاشی کیلئے رکھا ہے میڈیا میں نہ اچھالوں

 تو میری بات مان لو... تین دن دیتا ہوں تمہیں اس لڑکی سے اپنے شوق پورے کرو اور تین دن بعد اسے میرے فارم ہاؤس چھوڑ جانا،میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں، آہل رندھاوا کسی کی طرف خود دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتا تم خوش قسمت ہو... رندھاوا نے ہنستے ہوئے کہا. 

اور اگر میں تمہاری بات نہ مانوں تو... شافع نے غراتے ہوئے پوچھا. 

پھر اپنے دن گننا شروع کردو ، تین دن تمہیں دیتا ہوں تمہیں ، ٹھنڈے دماغ سے سوچو بچے ، ویسے بھی تم اس لڑکی کو مجھ سے نہیں بچا سکتے... رندھاوا نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا. 

بکواس بند کر اپنی... شافع نے اسکا کالر پکڑتے ہوئے کہا. ارمان اسے وہاں سے لے آیا اور آفس آگئے. 

میں اس رندھاوا کو چھوڑوں گا نہیں... شافع نے دھاڑتے ہوئے کہا. 

یار ریلیکس ہوجا، اس طرح غصے سے صورتحال مزید بگڑے گی ، ہمیں سوچ سمجھ کر پلین کے مطابق سب کرنا ہے... ارمان نے اسے سمجھایا. 

لیکن اگر اس نے سچ میں میڈیا کو یہ خبر دے دی تو... نہیں ، میں مایا کے ساتھ یہ سب نہیں ہونے دوں گا وہ بہت معصوم ہے... شافع نے پریشانی سے کہا. 

ہاں، یہ واقعی پریشانی والی بات ہے ، خیر ابھی تین دن ہیں ، کچھ نا کچھ حل نکالنا پڑے گا.. تبھی ڈور ناک ہوا اور ایک امپلوئی اندر آیا. 

سر میٹنگ شروع ہونے والی ہے ، آپ آجائیں... امپلوئی نے بتایا. 

تم جاؤ ، ہم آتے ہیں... ارمان نے اس سے کہا اور دونوں میٹنگ کیلئے چلے گئے. 

اب تم گھر جاؤ آرام کرو ، مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہے ، باقی کام میں دیکھ لوں گا... میٹنگ روم سے نکلتے ہوئے ارمان نے کہا تو شافع اثبات میں سر ہلا کر پارکنگ کی طرف آگیا. اس وقت اسکا دماغ بلکل بھی کام نہیں کر رہا تھا. جب وہ گھر میں داخل ہوا تو شام ہو چکی تھی ، لاؤنج میں ہی اسے نور بیٹھی نظر آئی تو انکے پاس ہی بیٹھ گیا  

اسلام وعلیکم ، اب آپکی طبیعت کیسی ہے آنٹی؟...شافع نے کنپٹی کو ایک ہاتھ سے دباتے ہوئے پوچھا. 

واعلیکم سلام بچے میں ٹھیک ہوں ، تمہارے سر میں درد ہو رہا ہے ؟...نور نے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا. 

جی بس ہلکا سا سر درد ہے ٹھیک ہو جائے گا... شافع نے سیدھے ہوتے ہوئے کہا. 

کیا بات ہے بچے تم پریشان لگ رہے ہو ؟...نور کو وہ کچھ پریشان لگا تھا. 

نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں... شافع نے چہرے کا رخ بدلتے ہوئے کہا. 

بچے تم میرے بیٹے ہو مجھ سے کیوں چھپاتے ہو ، بتاؤ کیا بات ہے... نور نے مصنوعی خفگی سے کہا. شافع کچھ دیر سوچتا رہا کہ بتائے یا نہیں ، پھر آخرکار ساری بات بتادی. 

مجھے اسکی دھمکیوں سے ڈر نہیں لگتا لیکن میں مایا کے معاملے میں کوئی رسک نہیں لے سکتا ، اسکی عزت مجھے اپنی جان سے بھی پیاری ہے ، آپ اسکی ماں ہیں ، آپ بتائیں میں کیا کروں؟...شافع نے اپنا سر دونوں ہاتھوں پر گراتےہوئے پوچھا. نور کچھ دیر اسکی حالت دیکھتی رہی. 

تم مایا سے نکاح کرلو... نور نے سنجیدگی سے کہا. شافع نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا گویا مزاق تو نہیں لیکن نور کے چہرے کی سنجیدگی نے اسے حیران کیا تھا. 

وہ نہیں مانے گی... شافع نے کمزور لہجے میں کہا. 

ہاں وہ نہیں مانے گی بہت ضدی ہے لیکن میں اپنی بیٹی کی زندگی کو جہنم بنتے نہیں دیکھ سکتی ، تم اس سے نکاح کرلو ، میں اسے سمجھاؤں گی وہ مان جائے گی... نور پریشان لہجے میں گویا ہوئی. 

نہیں آپ اس بارے میں اس سے کچھ مت کہیئے گا ، وہ پہلے ہی بہت ڈری ہوئی ہے ، میں خود بات کرتا ہوں اس سے... شافع نے پرسوچ انداز میں کہا اور مایا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا. مایا کوئی سٹوری بک پڑھ رہی تھی. اس نے شافع کو اندر آتا دیکھ لیا تھا لیکن نظریں ہنوز بک پر تھیں. شافع دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اسے دیکھنے لگا. اسے دیکھ کر وہ ایک دم سے ہی  فریش ہوگیا تھا. ساری پریشانیاں اڑن چھو ہو گئیں تھی. 

ناراض ہو ؟...شافع نے پوچھا لیکن وہ نہ بولی. وہ چلتا ہوا اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا. ہاتھ بڑھا کر بک لی اور بند کر کے سائیڈ پر رکھ دی. 

کیا مسئلہ ہے ؟...مایا چلائی. 

مایا... کل سے کالج چلی جانا اب موڈ ٹھیک کرو... شافع نے سنجیدگی سے کہا ، مایا حیرت کی مورت بنے اسے آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگی. 

مایا... اس نے پھر سے پکارا. 

تم سچ کہہ رہے ہو ؟...مایا نے حیرت سے پوچھا. آج مایا کو یہ سامنے بیٹھا ہوا شخص دنیا کا سب سے اچھا شخص لگا تھا جو اسکی ناراضگی برداشت نہیں کرسکتا تھا. 

ہاں،لیکن تمہیں میری ایک بات ماننی ہوگی... لہجہ ابھی بھی سنجیدہ تھا. 

کونسی بات؟...مایا نے پوچھا. 

مجھ سے نکاح کرنا ہوگا... سپاٹ لہجے میں کہا گیا. مایا تو جیسے ساکت ہو گئی تھی. شاید اب اسے یہ سامنے بیٹھا ہوا شخص دنیا کا سب سے برا شخص لگا تھا. کچھ دیر بعد خود کو سنبھالتے ہوئے وہ چلائی تھی. 

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ، تم نے سوچا بھی کیسے ، تمہیں لگا تم مجھے یہاں قید کر کے جو مرضی چاہو گے کروا لو گے تمہاری غلط فہمی ہے یہ مسٹر شافع ، میں تم سے ہرگز نکاح نہیں کروں گی ،میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں اور اسی سے شادی کروں گی... مایا نے شافع کے سر پر بم پھوڑا تھا. اسے لگا تھا کہ اب وہ سانس نہیں لے پائے گا. اسکی روح تک خالی ہوگئی تھی ، ایسے کیسے ہو سکتا ہے. 

مایا کچھ چیزیں بہت انمول ہوتی ہیں ، بہت نایاب ، ہم اپنا آپ لٹا کر بھی انہیں نہیں خرید سکتے ، اور میں انہیں کھونا نہیں چاہتا ، میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا... شافع نے امید بھرے لہجے میں کہا. 

میں تمہاری نہیں ہوں پھر کھونے کا سوال کہاں سے آیا؟...مایا نے کٹھن لہجے میں کہا. 

محبت تو اس کشتی کا نام ہے جس میں چھید ہوتا ہے ، وہ پانی میں تیرتی ہے ، ڈولتی ہے، پانی آہستہ آہستہ اس میں سوار ہوتا رہتا ہے لیکن وہ پھر بھی تیرنے کی کوشش کرتی ہے ، اور جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو اسے ڈوبنا ہی ہوتا ہے ، اور اسے خوشی خوشی ڈوبنا ہوتا ہے ، محبت تو نام ہی ڈوبنے کا ہے ، شافع کی محبت بھی ڈوب رہی تھی. 

کک... کون ہے وہ؟...زندگی میں شاید وہ پہلی بار ہکلایا تھا. 

میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی لیکن تمہاری خوش فہمیاں دور کرنے کیلئے بتادوں ، وہ میرا کلاس فیلو ہے نوفل حیات ، ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور میں اسی سے شادی کروں گی... مایا نے بپھرے ہوئے انداز میں کہا. شافع کو آج اسکی آنکھیں انجان لگی تھیں ،بلکل غیر...!!! 

پھر وہ کہاں ہے ؟ اتنے مشکل وقت میں وہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں ہے؟...شافع نے سوال کیا اور اسکا جواب مایا کے پاس نہیں تھا. 

وو... وہ پاکستان میں نہیں ہے ، میرا اس سے رابطہ نہیں ہو پایا ورنہ وہ اب تک میرے ساتھ ہوتا... مایا نے اٹکتے ہوئے کہا. وہ شافع کو جواب دے رہی تھی یا خود کو دلاسہ ، وہ فرق نہ کر پائی تھی. اسکی آواز کی لڑکھڑاہٹ سے شافع اندازہ لگا گیا تھا کہ وہ مایا سے کوئی خاص محبت نہیں کرتا ، صرف وقتی پسندیدگی ہوگی. شافع کبھی بھی مایا کو کسی ایسے ہاتھوں میں نہیں دے سکتا تھا جو اسکی حفاظت نہ کر سکیں ، اسکی قدر نہ کر سکیں ،جو اس سے محبت کی بجائے ٹائم پاس کر رہے ہوں. شافع نے فیصلہ کرلیا تھا. 

بارحال نکاح تو تمہارا مجھ سے ہی ہوگا... شافع نے فیصلہ کن انداز میں کہا. 

تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے... مایا اسکے سامنے آکر چلائی تھی. 

اور میری محبت کا کیا ، تمہیں وہ نظر نہیں آتی ، ہاں بولو ، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی... شافع اسکا بازو دبوچ کر دھاڑا تھا. 

ہاں نہیں آتی مجھے نظر تمہاری محبت... مایا نے بھی اسی انداز میں جواب دیا. اسکے جواب سے شافع کا دل اندر تک ٹوٹا تھا. کیا اس نے اپنی محبت گنوا دی تھی. شافع نے اسکا بازو چھوڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا. مایا وہیں بیٹھ کر رونے لگ گئی. 

شافع کو مایا آج خود سے دور جاتی ہوئی محسوس ہوئی تھی. وہ ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا درگاہ پہنچا تھا. آج پھر وہ بےسکونی میں یہاں آیا تھا. درگاہ میں ایک کونے پر درخت کے نیچے دونوں گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا. آج ایک بار پھر سے وہ بھری دنیا میں خالی ہاتھ رہ گیا تھا. اب اسے کچھ دیر یونہی بیٹھنا تھا ، اپنے رب سے کچھ رازونیاز کی باتیں کرنی تھیں...!! 

"ہاتھ میں لے کے سر بیٹھا ہوں،،

مولا یہ کیا کر بیٹھا ہوں،،

میں بھی تیرا بندہ ہوں نا؟؟

کب سے تیرے دَر بیٹھا ہوں!! 

اندر باہر شور ہے "مَیں" کا،،

مَیں تو "مَیں" سے ڈر بیٹھا ہوں ،،

جس کو دیکھ کے جی اُٹھا تھا ،،

اب میں اس پہ مر بیٹھا ہوں ،،

ایسا ہُوں مانوس قَفس سے،،

کاٹ کے اپنے پَر بیٹھا ہوں ،،

مشرق مغرب تُو ہی تُو ہے ،،

ہر جا تیرے گھر بیٹھا ہوں!! "

مایا کچھ دیر رونے کے بعد نور کے پاس آئی. 

کیا بات ہے بیٹا کچھ پریشان لگ رہی ہو ؟....نور نے اسکی اتری ہوئی شکل دیکھ کر کہا. 

وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں اس سے نکاح کرلوں... مایا کی نظریں زمین پر تھیں جیسے کوئی خزانہ آج ڈھونڈ کر ہی رہے گی. 

کرلو نکاح... نور نے کہا تو مایا نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا. 

آپ بھی ؟...مایا نے حیرت سے کہا. 

وہ جو بھی کررہا ہے تمہارے لئے کر رہا ہے ، بغیر کسی رشتے کے وہ کیسے تمہیں یہاں رکھ سکتا ہے ، وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے ، کسی کی محبت کو یوں نہیں ٹھکراتے ورنہ ساری عمر اس محبت کے لئے ہم ترستے رہ جاتے ہیں ، وہ کہتا ہے کہ اسے تمہاری عزت اپنی جان سے بھی عزیز ہے پھر تم کیسے اسکی محبت پر شک کر سکتی ہو... نور نے سنجیدگی سے کہا ، مایا کو یاد آیا تھا کیسے اس نے ہر مشکل میں اسکی مدد کی تھی ، وہ آرام سے سو جائے اسلئے وہ ساری رات صوفے پر بیٹھ کر گزارتا تھا ، کیا وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا ہے ؟

پر میری محبت کا کیا ؟...مایا نے نور سے سوال کیا. 

اس بات کا فیصلہ تم نے کرنا ہے. کیا تمہیں تمہاری محبت چننی ہے یا شافع کی ؟...نور نے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا تھا. 

آپ کیا مشورہ دیں گی مجھے ؟...مایا نے نور کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا. 

شافع سے نکاح کرلو... نور نے جواب دیا. مایا کچھ دیر انہیں یونہی دیکھتی رہی جیسے ان کے چہرے پہ کچھ ڈھونڈ رہی ہو پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی. 

********************

آخرکار فیصلہ کن انداز میں وہ اٹھا تھا. کافی رات ہو گئی تھی جب وہ واپس گھر آیا. لیکن نور کے کمرے میں جانا نہیں بھولا تھا. نور کو سوتا پا کر مایا کے کمرے میں آیا وہ بھی سو رہی تھی. شافع اسکے پاس بیٹھ گیا. کافی دیر اسکے چہرے کو دیکھتا رہا جیسے آخری بار جی بھر کر کسی چیز کو دیکھا جاتا ہے. کسی کی موجودگی کے احساس سے اس نے آنکھیں کھولیں تو سامنے ہی شافع کو پا کر اٹھ کر بیٹھ گئی. نیند تو اسے بھی نہیں آرہی تھی. روز وہ اسکی موجودگی میں آرام سے سو جاتی تھی تو آج اسے نیند کہاں آنی تھی. 

مایا... شافع نے پکارا .مایا نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا. 

تم نوفل کو بلالو ، کل تمہارا نکاح اسکے ساتھ کروادوں گا... کس طرح یہ الفاظ اس نے اپنے منہ سے نکالے تھے بس وہی جانتا تھا. مایا نے پہلی بار اپنی زندگی میں ایسا شخص دیکھا تھا جو اسکی خوشیوں کیلئے اپنی خوشیوں سے دستبردار ہورہا تھا. 

وہ... وہ پاکستان میں نہیں ہے... مایا نے بمشکل کہا. 

تو اسے بلا لو... شافع نے کہا. 

میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے... مایا نے سر جھکاتے ہوئے کہا. 

پھر کیا کروں میں ؟....شافع نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھاما تھا. وہ اس کیلئے کس قدر پریشان تھا. 

ٹھیک ہے پھر تم مجھ سے نکاح کرلو ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب یہ سارا معاملہ حل ہوجائے گا تو میں خود تمہیں آزاد کردوں گا ، پھر تم جس سے مرضی شادی کرلینا اور... شافع نے اسکی آنکھوں میں دیکھا ، نیلی آنکھوں سے سرخ خونی آنکھیں ٹکرائیں. 

شافع خان اپنی زبان سے نہیں مکرتا... اتنا کہہ کر وہ اٹھا تھا اور لائٹ بند کر کے اپنی جگہ پر جا کر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا. مایا کچھ دیر اندھیرے میں اسے دیکھتی رہی اور پھر لیٹ گئی. آج دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نیند کہاں آنی تھی. شافع کو تو بس اسکی وہ نیلی آنکھیں ہر طرف نظر آرہی تھیں ، آج اسے وہ سراب لگی تھیں. وہ تو ان نیلی آنکھوں کو چھونا چاہتا تھا چومنا چاہتا تھا لیکن اب یہ کہاں ممکن تھا. 

"آنکھ کا اعتبار کیا کرتے،،

جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا ،،"

ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اسکے اٹھنے سے پہلے ہی چلا گیا تھا. جب وہ فریش ہو کر نکلی تو ایک عورت اسکے لئے ناشتہ لے کر اندر آئی تھی. 

کون ہو تم؟...مایا نے پوچھا. 

بی بی جی میں نگار ہوں ، مجھے صاحب نے آج سے یہاں کام پر رکھا ہے... ملازمہ نے بتایا. 

ٹھیک ہے تم جاؤ... مایا نے بمشکل دو تین لقمے لیے اور اٹھ گئی. اسکا بلکل کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا. نیچے آئی تو شافع کہیں پر بھی نہیں تھا. شافع صبح کا گیا شام کو گھر واپس آیا تھا. سیدھا مایا کے کمرے میں گیا. 

یہ کپڑے پہن لو ، کچھ دیر میں ہمارا نکاح ہے... اتنا کہہ کر وہ واپس چلا گیا تھا اور وہ ہکابکا اس آندھی طوفان

کی طرح آتے شخص کو دیکھتی رہ گئی. ناچاہتے ہوئے بھی اس نے کپڑے بدلے. 

گلابی رنگ کی شلوار قمیض اور دوپٹا جو شاید اس نے آج تک کبھی بھی نہیں پہنے تھے. شافع مایا کے کمرے سے نکل کر نور کے پاس آیا تھا. 

آنٹی کچھ دیر بعد نکاح خواں آجائے گا آپ باہر آجائیں... نور کو لاؤنج میں بٹھا کر موبائل اٹھایا جس پر کسی کی کال آرہی تھی. 

اوکے انہیں اندر لے آؤ... سب لوگوں کو اندر بٹھا کر وہ مایا کے کمرے میں آیا جو شیشے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی. اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسکی شادی ان حالات میں اس طرح ہوگی. شافع خاموشی سے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا اس طرح فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے دنیا میں اس سے زیادہ اہم کام کرنے کے لئے ہے ہی نہیں. مایا نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا. مایا نے سر جھکا لیا. یہ ایک فطری عمل تھا. شافع نے آگے بڑھ کر دوپٹہ اسکے سر پر دیا. 

چلیں... کتنا پیارا انداز تھا اسکا پوچھنے کا. 

کیا یہ نکاح کرنا ضروری ہے ؟ تم مجھے میرے گھر چھوڑ دو ، پھر تو کوئی بھی تم سے میرے متعلق نہیں پوچھے گا... مایا نے آخری کوشش کی. 

یہ ممکن نہیں ہے تم جانتی ہو ، میں دوبارہ تمہیں وہاں چھوڑ کر کوئی رسک نہیں لے سکتا... شافع نے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا. کچھ دیر بعد نکاح ہوگیا تو سب آپس میں ملنے لگے. شافع سب لوگوں کو دروازے تک چھوڑنے گیا. واپس آیا، مایا کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا. 

چلو... اسکی بات سن کر مایا کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ دوڑی تھی. شافع اسے اسکے کمرے میں لے گیا. 

مایا... سرگوشی میں پکارا گیا. مایا کانپ گئی تھی. 

کچھ دیر میں پریس کانفرنس ہے، تمہیں میرے ساتھ چلنا ہے. میں ہمارے نکاح کے بارے میں سب کو بتانا چاہتا ہوں تاکہ کوئی بھی ہمارے بارے میں کوئی بات نہ کر سکے... اسکا جواب سنے بغیر ہی وہ چلا گیا تھا. 

کچھ دیر بعد وہ دونوں میڈیا والوں کے سامنے بیٹھے تھے. 

میم کیا یہ آپکی پسند کی شادی ہے؟کیا آپ دونوں پہلے سے ہی کمیٹڈ تھے ؟ شافع خان اور علی خان کے تعلقات کو جانتے ہوئے بھی آپ نے یہ شادی کیوں کی ؟کیا وجوہات تھیں ؟...ہر طرف سے مختلف سوالات آرہے تھے. ان سوالات پر مایا بوکھلا گئی تھی. اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں. کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ ابھی رونے لگ جاتی ، اسکی یہ حالت شافع سے مخفی نہ رہ سکی تھی. 

مجھے ان سے محبت تھی اور میں نے جب بھی شادی کرنی تھی ان سے ہی کرنی تھی ، اس لئے شادی کرلی اور اناؤنس بھی کردی... مایا کی بجائے شافع نے جواب دیا تھا. 

لیکن سر آپ کے اور علی خان کے درمیان دشمنی... بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شافع نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا. 

آپ لوگوں کے لئے جتنا جاننا ضروری تھا میں بتا چکا ہوں مزید کوئی سوال نہیں ،یہ ناکح نامہ ہے آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں... شافع نے بات ختم کرتے ہوئے کہا. کیمروں نے جلدی جلدی اس کاغذ کے ٹکڑے کی تصاویر بنائی تھیں. اس سے پہلے کہ مزید کوئی سوال اٹھتا شافع نے مایا کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر چلا گیا جو کہ بت بنی بیٹھی تھی. 

مایا ڈونٹ وری ، جب تک میں ہوں کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا... شافع نے اسے تسلی دی اور اسے واپس کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا. کافی دیر وہ یونہی بیٹھی آنسو بہاتی رہی. شافع نے اسکے ہر سوال کو خود پر لیا تھا. اسکے سامنے دیوار بن گیا تھا. کوئی چیز اس تک پہنچنے ہی نہیں دیتا تھا. 

جب رو رو کر آنکھیں بوجھل ہوگئیں تو تھک کر بیڈ پر گر گئی. آنکھیں خودبخود ہی بند ہو گئیں. وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب. یہ سب اسکے ساتھ کیوں ہورہا ہے ، کیا وہ سچ میں اس سے محبت کرتا ہے یا کوئی اور وجہ ہے اور اگر یہ سوال شافع سے کیا جاتا تو اس کا جواب مختلف ہوتا. 

"فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں،،

فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں،،

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو،،

فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی ہم نے چھپائی ہو،،

فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں،،

فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے مے خانے ہوں،،

فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا ، جھوٹی پیت ہماری ہو،،

فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو،،

فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو ،،

فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو،،"

رات کو شافع کمرے میں آیا 

تو وہ سو رہی تھی بازو بیڈ سے نیچے ایک طرف کو لڑھک رہا تھا. شافع نے اسکا ہاتھ اوپر کیا اور کمبل سے اسے ڈھکا. کسی کی موجودگی کے احساس سے مایا کی آنکھ کھلی. شافع کو اپنے اوپر جھکے ہوئے دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہوئی. 

یہ... یہ کیا کررہے ہو ، تمہاری ہمت کیسے ہوئی ، دور ہٹو گندے شخص ، تمہیں شرم نہیں آئی ، میرے سوئے ہونے کا فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے تم... مایا کے منہ میں جو آیا بولتی گئی.

بس خاموش ہو جاؤ ، ایک لفظ بھی اور مت بولنا ، میں تو تمہارے اوپر کمبل ڈال رہا تھا ، اتنی سردی میں تم ایسے ہی سو رہی تھی ، میں نے سوچا کہیں تم بیمار نہ ہوجاؤ... تم میرے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتی ہو ، کیا ابھی تک تم مجھے جان نہیں پائی... شافع کے الفاظ میں لڑکھڑاہٹ اور آنکھوں میں بے یقینی تھی. مایا نے دیکھا تو واقعی اسکے اوپر کمبل تھا. شافع کا چہرہ ذلت کے احساس سے سرخ ہوا تھا. کیا اتنے دنوں میں وہ اسکا یقین حاصل نہیں کر پایا تھا. شافع واک آؤٹ کرگیا. کچھ دیر بعد گاڑی سٹارٹ ہونے اور گیٹ کھلنے کی آواز آئی تھی. 

مایا یہ تم نے کیا کیا ، تمہیں پتا ہے وہ ایسا نہیں ہے... مایا نے خود کو کوسا اور وہیں بیٹھی آنسو بہانے لگی. 

"میرے عشق دے وچ مشوک نہ ہو ،،

نیں اج تک غلط نگاہ کیتی،،

تیری ہر ملاقات میں انج کیتی ،،

جیویں موسٰی نال خدا کیتی،،

نیں فرق کیتا تیری پوجا وچ،،

نیں خطراں دی پرواہ کیتی،،

اک تینوں رب نہیں کہہ سکدا ،،

باقی ساری رسم ادا کیتی،،"

جب کافی وقت گزر گیا اور وہ واپس نا آیا تو مایا کو کمرے سے خوف آنے لگا. وہ اٹھ کر نور کےپاس چلی گئی جو شاید تہجد کی نماز ادا کر کے فارغ ہوئی تھیں. 

مایا چپ چاپ نور کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی. 

کیا بات ہے بیٹا؟...نور نے پوچھا لیکن وہ خاموش رہی. 

شافع کہاں گیا ہے اس وقت؟...نور نے پھر سے پوچھا. 

پتا نہیں... مایا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا. 

تم لڑی ہو اس سے؟تمہارے کمرے سے آوازیں آرہی تھیں ، کیا بات ہے بیٹا؟...نور نے دریافت کیا. 

موم مجھے نہیں کرنی تھی یہ شادی، پھر آپ نے روکا کیوں نہیں اسے؟...مایا نے روتے ہوئے پوچھا. نور نے اسکی سرخ سوجی ہوئی آنکھیں دیکھیں. 

مجھے اس نے منع کیا تھا بتانے سے لیکن مجھے لگتا ہے کہ تمہیں بتا دینا چاہیے ورنہ معاملات زیادہ بگڑیں گے... نور نے آہستہ آواز میں کہا. مایا اٹھ کر بیٹھ گئی. 

کونسی بات موم ، آپ لوگ کیا چھپا رہے ہیں مجھ سے ؟...مایا نے پوچھا. 

مایا تمہیں یاد ہے اس دن کچھ لوگ ہمارے گھر گھس گئے تھے ، وہ تمہیں کڈنیپ کرنے کے مقصد سے آئے تھے ، ہمیں شافع نے تب بچایا ، اسے پتا لگ گیا تھا کہ یہ کام رندھاوا کا ہے ، شافع اسکے پاس گیا تھا ، یہ بتانے کہ وہ تم سے دور رہے لیکن اس نے پتا ہے کیا کہا ؟...نور نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال دائر کیا. 

کک... کیا؟...مایا نے بمشکل پوچھا. 

اس نے شافع کو تین دن کا وقت دیا تھا کہ اگر تین دن میں وہ تمہیں اس کے حوالے نہیں کرے گا تو وہ تمہارے اور شافع کے بارے میں غلط خبریں میڈیا کو دے گا، اور تمہیں بھی لے جائے گا ، اس دن شافع بہت پریشان تھا ،اس نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا تھا لیکن میرے استفسار پر اسے مجھے بتانا ہی پڑا ، اسکا کہنا تھا کہ وہ تمہاری عزت کیلئے اپنی جان بھی داؤ پر لگا سکتا ہے لیکن تین دن میں اس شخص کو انجان تک پہچانا ممکن نہیں تھا. میں نے ہی اسے تم سے نکاح کرنے کا کہا تھا یہی تمہارے حق میں بہتر تھا ، اس طرح کوئی تم پر انگلی نہیں اٹھا سکتا. شافع نے یہ سب تمہیں بتانے سے منع کیا تھا. اس نے کہا کہ تم پہلے ہی بہت ڈسٹرب ہو مزید تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا. لیکن تم نے اسے بتادیا کہ تم نوفل کو پسند کرتی ہو، وہ پہلے ہی بہت پریشان تھا ، تم نے اسے مکمل توڑ دیا تب اس نے ایک بار پھر تمہاری خوشی کیلئے فیصلہ کیا ، تمہاری نوفل سے شادی کروانے کا فیصلہ ، جو تم نے خود منع کیا کہ وہ یہاں نہیں ہے ، وہ نوفل کی واپسی کا انتظار نہیں کرسکتا تھا ، وہ تمہارے معاملے میں کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا ، اسے رندھاوا پر یقین نہیں تھا ، وہ کسی بھی وقت کوئی بھی خبر اڑا سکتا تھا ، نکاح بھی اس نے یہی سوچ کے کیا کہ یہ مسئلہ حل کرنے کے بعد تمہاری شادی تمہاری مرضی سے نوفل سے کردیں گے ، پھر بھی تم نہ سمجھ سکی ، تم ہیرے کی قدر نہ کر سکی... نور نے افسوس سے سر جھٹکتے ہوئے کہا اور مایا جسکے آنسو کب کے آنکھوں کی باڑ توڑ کر بہہ رہے تھے بس یہی سوچ رہی تھی کہ وہ ابھی کچھ دیر پہلے کیا کر کے آئی ہے ، اسنے شافع کو کتنا غلط سمجھا تھا. وہ جو اسکی عزت کیلئے اپنی جان دینے کا ارادہ رکھتا تھا وہ اسے کتنا ہرٹ کر کے آئی تھی. مایا بغیر کچھ کہے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی. سردی سے یا آنسوؤں کی شدت سے اسکا پورا جسم کپکپا رہا تھا ، آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ، ندامت کے آنسو اتنی جلدی کہاں رکتے ہیں ، یہ تو انسان کو چُور کر کے ہی چھوڑتے ہیں. کمبل کو اوڑھ کر وہ لیٹ گئی. پورے کمرے میں سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی. اس شخص کے بارے میں سوچتے ہوئے کب اس پر غنودگی طاری ہوگئی اسے پتا ہی نہ چلا. تین بجے شافع گھر واپس آیا تھا. مایا کا خیال آتے ہی وہ اپنے کمرے کی بجائے اسکے کمرے میں گیا. اک پُرشکوہ نظر اس سوئی ہوئی ساحرہ پر ڈالی اور اپنے کمرے میں چلا گیا. 

"اگر درد محبت سے نا انسان آشنا ہوتا،،

نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزہ ہوتا،،"

اگلے پورے دن وہ لاشعوری طور پر شافع کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ گھر نہ آیا تو وہ کمرے میں جا کر لیٹ گئی. آج نہ تو کسی نے اسے کھاتے ہوئے ٹوکا تھا ، نہ مسلسل اسے دیکھتا رہا تھا ، نہ کسی نے اسکی آنکھوں کی تعریف کی تھی ، نہ رونے پر کسی نے اسکے آنسو پونچھے تھے. وہ لاشعوری طور پر اسے اپنا عادی بنا گیا تھا. ایک بار پھر اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے. آج وہ خوف کے باوجود یہیں تھی ، نہ کہیں جاسکتی تھی نہ کسی کو بلا سکتی تھی. 

********************

یار شافع بہت دیر ہوگئی ہے اب تو گھر جا، سارا آفس کا کام تو ہوگیا ہے... ارمان کو اسکی حالت دیکھ کر ترس آیا تھا. 

ارمان رندھاوا کے خلاف کوئی ثبوت لگے تمہارے ہاتھ ؟...شافع نے اسکے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا. 

یار میں نے اپنے کچھ بندوں کو جاب کے بہانے وہاں بھیجا تھا ، دو کو تو اس نے جاب پر رکھ لیا ہے جو اسکے وہاں آفس کے ہر کام پر نظر رکھ رہے ہیں ، اسکی حرکات کافی مشکوک ہیں لیکن جب تک کوئی ثبوت نہیں ہاتھ لگتا ہمیں انتظار کرنا پڑے گا ، کچھ اور بندے بھی میں نے اس کے پیچھے لگائے ہیں جو اسکی باہر کی ایکٹیویٹیز پر نظر رکھتے ہیں ، جیسے ہی کوئی خبر ملتی ہے میں تمہیں انفارم کردوں گا... ارمان نے تفصیل بتائی. شافع نے اثبات میں سر ہلایا اور آنکھیں بند کرکے کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی. 

اب تُو بیٹھا کیون ہے ، چل اٹھ گھر چل ، پھر مجھے بھی جانا ہے... ارمان نے کہا. 

تُو جا میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں ، تُو آنٹی کو بتا دینا کچھ کام کی وجہ سے دیر ہوجائے گی... شافع نے ویسے ہی آنکھیں بند کیے جواب دیا. 

پہلی بات تو یہ کہ میں کوئی جھوٹ نہیں بولوں گا ، آنٹی اور مایا تیرا انتظار کر رہی ہوں گی اور دوسری بات اب تیری شادی ہوگئی ہے تیری فیملی ہے اب میں اپنے گھر رہوں گا ، تُو اپنا گھر خود سنبھال... ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا تو شافع نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور سیدھا ہو کر بیٹھا. 

یار تُو کیا کہہ رہا ہے وہ تیرا بھی گھر ہے ، اب تو بھی مجھے چھوڑ کر چلا جائے گا... شافع نے افسردگی سے کہا. 

یار تُو کیا چاہتا ہے میں شادی وادی نہ کروں ، ساری زندگی چھڑا ہی رہوں ، خود تو جناب شادی کر کے بیٹھ گئے ہیں ، کل بھی تو اپنے گھر جانا ہے ، اس لئے سوچا آج ہی چلا جاؤں ، اور ویسے بھی وہ بھی میرا ہی گھر ہے جب دل کرے گا آجاؤں گا... ارمان نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا. شافع خاموش ہوگیا ، وہ جانتا تھا کہ اب یہ نہیں مانے گا. 

چل اب اٹھ تجھے بھی گھر ڈراپ کردیتا ہوں... ارمان نے اٹھتے ہوئے کہا تو دونوں باہر کی طرف چل دیے. شافع گھر پہنچ کر رات ایک بجے تک سٹڈی میں بیٹھا کام کرتا رہا. جب تھکن بہت زیادہ بڑھ گئی تو ناچار مایا کے کمرے کی طرف بڑھا. کمرے میں داخل ہوا تو مایا کو سوتے ہوئے پایا. اسکے چہرے پہ سوکھے ہوئے آنسوؤں کے نشان تھے. آنکھیں آنسوؤں کی زیادتی سے سوجی ہوئی تھیں وہ انہیں چھونا چاہتا تھا لیکن اپنے خیال کو جھٹکتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا، نیند آنکھوں سے بہت دور تھی.کافی دیر وہ اسی طرح بیٹھا رہا جب کمرے میں اسکا دم گھٹنے لگا تو اٹھ کر بالکنی میں آگیا اور ایک گہرا سانس بھرا ، نظریں آسمان پر ٹکالیں ، نیلے آسمان پر چاروں اور نیلی آنکھیں نظر آرہی تھیں. 

"میرے بس میں اگر ہوتا ہٹا کر چاند تاروں کو ،،

میں نیلے آسماں پہ بس تیری آنکھیں بنا دیتا،،"

شافع بوجھل دل کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا ، اسکے اندر کی آتش کی وجہ سے اسے سردی بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی. ابھی فجر کی اذان ہونے میں بھی کچھ وقت تھا جب مایا کی آنکھ کھل گئی ، کمرے میں نظر دوڑائی تو شافع کہیں بھی نہیں تھا تبھی اسکی نظر بالکنی کے کھلے دروازے پر پڑی. شافع کمرے میں نہیں ہے تو یہ دروازہ کس نے کھولا... مایا کا دماغ کھٹکا ، ڈر سے اسکا سانس رکنے لگا تھا بمشکل ہمت کر کے وہ بالکنی کی طرف بڑھی ، جہاں شافع کرسی پر بیٹھا تھا ، ایک سکون اسکی روح میں اترا تھا. تقریباً دو دن بعد اس نے شافع کو دیکھا تھا. 

بڑھی ہوئی شیو ، نڈھال چہرہ مایا کا گلٹ مزید بڑھا تھا. صرف اسکی وجہ سے وہ اتنی ٹھنڈ میں وہاں بیٹھا تھا. مایا نے کمرے سے کمبل لا کر اسکے اوپر دیا اور ساتھ پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی. آنکھیں آنسوؤں سے لبالب تھیں ، آہستہ سے مایا نے شافع کا کرسی سے ایک طرف لٹکتا ہوا ہاتھ پکڑ کر اوپر رکھا، ایک آنسو ضبط کے باوجود اسکی آنکھوں کا بند توڑ کر شافع کی ہتھیلی پر گرا تھا. شافع فوراً اٹھا تھا ، اپنے سامنے مایا کو دیکھ کر حیران ہوا تھا ، وہ رو رہی تھی ، شافع نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے حصار میں لیا تھا. 

کیا ہوا مایا؟ رو کیوں رہی ہو ؟ چپ ہوجاؤ ، ڈرو نہیں میں یہیں ہوں... شافع کو لگا شاید وہ پھر سے ڈر گئی ہے. 

آئی ایم سوری... مایا نے ہچکیوں کے درمیان کہا. 

میں نے تمہیں غلط سمجھا ، تم نے تو میرے لئے ہی سب کچھ کیا تھا... اسکے آنسوؤں میں روانی آگئی تھی. شافع نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا ، خود بھی اسکے روبرو کھڑا ہوگیا. بہت نرمی سے اسکے آنسو صاف کیے. 

پلیز مجھے معاف کردو ، مجھ سے ناراض مت ہونا....مایا نے سر جھکاتے ہوئے کہا. شافع نے اسے اپنے ساتھ لگایا. 

شش.. چپ ہوجاؤ مایا.. میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتا... اسے خود سے الگ کر کے بہت نرمی سے اسکی آنکھوں کو چھوا تھا. 

تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، میری روح کی راحت ہو ، میرے دل کا سکون ، تم سے ناراض ہو کر شافع زندہ نہیں رہ سکتا.. لیکن ....شافع نے اسے خود سے دور کیا تھا. 

لیکن کیا؟...مایا تڑپی تھی. 

لیکن میں یہ برداشت نہیں کروں گا کہ تم پھر سے اپنی آنکھوں کو تکلیف پہنچاؤ ، تم نے انہیں اتنا رلایا ہے کہ وہ لال ہو گئی ہیں... آہستہ سے اسکی آنکھوں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے سہلانے لگا. مایا کی آنکھوں پر آنسوؤں کی وجہ سے ہونے والی جلن کم ہو رہی تھی. 

مجھے تمہاری اداس آنکھیں بلکل اچھی نہیں لگتیں ، اگر تم نے آئندہ ایسا کیا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا... مایا نے فٹ سے آنکھیں کھولی تھیں ، آنکھوں میں بےیقینی تیر رہی تھی. شافع نے آگے بڑھ کر بہت آرام سے اسکی دونوں آنکھوں کو چوما تھا ، مایا لرز گئی تھی اس شخص کے پل پل بدلتے روپ کو دیکھ کر... شافع نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور کمرے سے نکل گیا ، مایا حیرت کی تصویر بنی کھڑی رہ گئی. مایا کو آج اسکا یوں جانا اچھا نہیں لگا تھا. 

"وقت سے پہلے کی ساعت تھی ، عشق سے قبل کا لمحہ تھا ،،

جب تیری آنکھوں نے میری آنکھ سے رنگ چرایا تھا ،؟"

صبح جب شافع کمرے میں آیا تو مایا سو رہی تھی ، آنکھیں حجاب میں تھیں ، شافع کا ابھی ان آنکھوں کا دیدار کرنے کو جی چاہا تھا. شافع چلتا ہوا اسکے پاس آیا. 

مایا اٹھو صبح ہوگئی ہے... آہستہ سے اسکی آنکھوں کو چھوا تھا ، مایا نے بمشکل تھوڑی سی آنکھیں کھولیں  اور پھر سے سو گئی. اس بار شافع نے اسے بازو سے ہلایا. 

مایا ابھی اٹھو ورنہ ٹھنڈا پانی ڈال دوں گا تم پر... شافع کی دھمکی فائدہ مند ثابت ہوئی تھی. مایا فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی کہ کہیں سچ میں ہی پانی نہ ڈال دے ، اس شخص سے کسی چیز کی بھی امید کی جا سکتی تھی. شافع نے دیکھا نیند سے بوجھل آنکھیں بمشکل کھلی تھیں. 

"کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے ،،

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے ،،"

جلدی سے تیار ہو جاؤ ، آج تم نے کالج جانا ہے... شافع نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا. 

کیا تم سچ کہہ رہے ہو ؟...مایا نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا اور اٹھ کر اسکے سامنے آگئی. 

اگر اس طرح پوچھو گی تو کبھی نہیں جانے دوں گا... شافع نے جذبات سے چُور لہجے میں کہا. 

کک... کیا مطلب ؟...مایا نے اٹکتے ہوئے پوچھا. شافع نے آگے بڑھ کر اسکے بال اسکے چہرے سے ہٹائے تھے جو بار بار آنکھوں میں جا رہے تھے....keep these hair away from your eyes... It disturb them... شافع نے سنجیدگی سے کہا. 

جلدی سے تیار ہو کر نیچے آجاؤ ، اس سے پہلے کہ میرا ارادہ بدلے... شافع کی بات سن کر مایا واشروم کی طرف بھاگی تھی لیکن راستے میں ہی اسکے پیروں کو بریک لگ گئی. 

نیچے؟...مایا نے پوچھا. 

ہاں... یک لفظی جواب آیا. 

لیکن تم نے تو کہا تھا نیچے ارمان اور ملازم...مایا کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی شافع بولا... ملازموں کو میں نے فارغ کر دیا ہے اور ارمان اپنے گھر شفٹ ہو گیا ہے. 

اوکے... مایا واشروم میں گھس گئی اور شافع نیچے آ گیا. 

مایا جلدی ناشتہ کر رہی تھی. 

مایا... شافع کی آواز گونجی تھی. مایا اپنی کرسی پر ہی اچھل پڑی تھی لیکن پھر بغیر اسکی طرف دیکھے آہستہ آہستہ کھانے لگی. نور نے اپنی ہنسی ضبط کی تھی. اسکی منہ پھٹ بیٹی آج کیسے فرمانبردار بنی بیٹھی تھی. 

میرے پاس تو بکس ہی نہیں ہیں وہ تو گھر ہی رہ گئیں...ناشتہ کرنے کے بعد اس نے شافع کو مخاطب کیا تھا جو پہلے سے ہی اسے دیکھ رہا تھا. 

تمہاری بکس گاڑی میں ہیں میں نے منگوالیں تھی... شافع نے سنجیدگی سے جواب دیا. اس بات پر مایا کی بھانچیں کھل گئی تھیں. اسے خود پر رشک آیا تھا کہ اسے ایسا شخص ملا ہے جو اس سے بڑھ کر اسکا خیال رکھتا ہے ، اسکے کہنے سے پہلے ہی اسکی خواہشات پوری کر دیتا ہے. 

چلیں؟...شافع نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا جو ناجانے کہاں کھوئی ہوئیں تھی. مایا نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے. 

شافع فون پر کسی سے بات کر رہا تھا اور مایا بور ہو رہی تھی ، مایا نے شافع کو گھورا تو شافع نے مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا. 

میری بیوی اتنی جلدی مجھے مِس کرنے لگ گئی ، پورا دن کیسے گزارو گی... شافع نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا. 

"واہ غالب تیرے عشق کے فتوے بھی نرالے،،

وہ دیکھیں تو ادا ہم دیکھیں تو گناہ ،،"

ہا... میں نے کب کہا میں میں تمہیں مِس کر رہی ہوں ؟...مایا کا حیرت سے منہ کھل گیا تھا. شافع کا زوردار قہقہہ گاڑی میں گونجا تھا. 

آف... یہ گلہ پھاڑ کر ہنسنا ضروری ہے، کبھی انسانوں کی طرح بھی ہنس لیا کرو...مایا نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا. مایا کی ہر ہر ادا شافع کے دل پر وار کرتی تھی. 

مایا... سرگوشی ہوئی. 

حج.. جی... مایا نے پوچھا. 

اپنا خیال رکھنا ، اب سے روزانہ میں ہی تمہیں چھوڑنے آؤں گا اور میں ہی لینے آؤں گا... اسکے گال پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. مایا نے آنکھیں جھکاکر اثبات میں سر ہلایا. 

جاؤ... شافع نے کہا تو وہ بیگ اٹھا کر گاڑی سے اتر گئی. شافع تب تک وہیں کھڑا رہا جب تک وہ کالج کے اندر غائب نہ ہو گئی اور پھر گاڑی آگے بڑھالے گیا. 

"یہ احترام جنوں ہے کہ سی لیا دامن،،

وگرنہ ایک تماشہ سا کوبہ کو کرتے ،،

ہمیں یقین ہے گر تو قریب بھی ہوتا،،

تو دور جا کہ کہیں تیری آرزو کرتے،،"

**********************

شافع جب آفس پہنچا تو رندھاوا کا فون آنے لگا. 

ہیلو ، بچے تم نے شادی کرلی اور ہمیں بلایا بھی نہیں ، یہ تو ٹھیک بات نہیں ہے نا، چلو ریسپشن ہی کرلو... رندھاوا نے کال اٹینڈ ہوتے ہی کہا. 

بات دراصل ایسی ہے نا رندھاوا صاحب ، میں نے فضول لوگوں کو اپنی شادی میں بلانا ضروری نہیں سمجھا... شافع نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا. 

ہاہاہا... تمہیں کیا لگتا ہے بچے کہ شادی کا ڈھونگ رچا کر تم اس لڑکی کو مجھ سے بچا سکتے ہو ، بلکل نہیں، اب تو وہ لڑکی میری ضد بن گئی ہے... رندھاوا نے پھنکارتے ہوئے کہا. 

ابھی شافع خان زندہ ہے ، میں بھی دیکھتا ہوں کہ کوئی کیسے میری بیوی کی طرف گندی نگاہ سے دیکھتا ہے... شافع نے پرسکون انداز میں کہا تو رندھاوا نے فون بند کر دیا. شافع نے ارمان کو فون کر کے اپنے کیبن میں بلایا. 

یار کیا بنا رندھاوا والے مسئلے کا ، کچھ بتایا تمہارے بندوں نے ؟...شافع نے پوچھا. 

ہاں میں ابھی ان سے ہی بات کر کے آرہا ہوں.. یار یہ تو ہماری سوچ سے بھی زیادہ شاطر نکلا.. اسلحہ اسمگل کرتا ہے لیکن ایک ثبوت بھی اسکے آفس سے نہیں ملا، ضرور اس نے سارے ثبوت کہیں اور چھپائے ہوں گے... ارمان نے پرسوچ انداز میں کہا. 

ظاہر سی بات ہے ایسے کام سرے عام تو نہیں کرسکتا.. اور یار یہ لڑکیوں کا کیا چکر ہے ، ہر روز نئی نئی لڑکیاں اسکے ساتھ ہوتی ہیں ، وہ اپنی مرضی سے آتی ہیں ، اسکے آفس کی ہیں یا یہاں بھی کوئی چکر ہے... مجھے اسکی ساری معلومات چاہیے ، اپنے بندوں کو کہو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ، جلد ہی ہمیں اسکے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت چاہئے... شافع نے سنجیدگی سے کہا. ارمان نے اثبات میں سر ہلایا. 

***********************

مایا جب کالج میں داخل ہوئی تو سامنے ہی نمرہ مل گئی. 

یار تو کہاں تھی اتنے دنوں سے ؟اتنا کچھ ہوگیا اور تیرا کچھ پتا ہی نہیں ؟ تم ٹھیک تو ہو؟...نمرہ نے اسے دیکھتے ہی سوالات شروع کر دیئے. مایا اسکے گلے ملی اور ساتھ ہی بیٹھ گئی. 

پتا نہیں نمرہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے ؟ میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے... مایا نے افسردگی سے کہا. 

یار انکل کی ڈیتھ کا مجھے بہت افسوس ہوا ، جس دن انکل کی ڈیتھ کا سنا اسی دن ماما کی طبیعت بہت خراب تھی انہیں ہوسپٹل لے جانا پڑا ، اس لئے میں نہیں آسکی.اگلے دن میں آئی تھی لیکن گھر بند تھا. میں کئی بار تمہارے گھر گئی لیکن وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا تھا. کالج میں بھی تمہارے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا تھا ، تیرا نمبر بھی نہیں لگ رہا تھا پھر کل کی نیوز سن کر تو میں شاکڈ ہو گئی ، تم تو نوفل سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن یہ سب؟ میں آج پھر تمہارے گھر جانے والی تھی اس امید سے کہ اس بار شاید تم گھر پر مل جاؤ لیکن شکر ہے تم آج خود کالج آگئی... نمرہ نے تفصیلاً بتایا. 

مایا نے اسے ساری بات بتادی. 

کیا ، اتناسب کچھ ہوگیا اور میں تمہارے ساتھ نہیں تھی ، مجھے بہت افسوس ہورہا ہے اپنی دوستی پر ، مجھے معاف کر دو مایا... نمرہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے. 

تم کیوں معافی مانگ رہی ہو ، یہ سب تو میری تقدیر میں لکھا تھا جس کے آگے انسان بےبس ہے... مایا نے سنجیدگی سے کہا. نمرہ کو مایا بہت بدلی بدلی لگی تھی ، یہ پہلے والی مایا کہیں سے بھی نہیں تھی. 

مایا نوفل کو پتا ہے یہ سب؟...نمرہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا. 

نہیں.. ڈیڈ کی ڈیتھ پر میں نے اسے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسکا نمبر بند تھا ، اب میں کس منہ سے اس سے بات کروں... مایا نے سر جھکاتے ہوئے کہا. 

اس سب میں تمہارا کیا قصور ہے ؟...نمرہ نے افسردگی سے کہا. مایا نے کچھ جواب نا دیا چپ چاپ ٹیبل کو گھورتی رہی. 

یار شافع تمہارے ساتھ کیسا ہے ؟ تمہارا خیال تو رکھتا ہے نا؟...جب کافی دیر مایا نے جواب نا دیا تو نمرہ نے بات بدلنے کیلئے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا. 

شافع... وہ بہت اچھا ہے ،بہت خیال رکھتا ہے میرا ، میرا ہر دکھ ، تکلیف خود پہ لے لیتا ہے ، مجھ تک پہنچنے ہی نہیں دیتا... مایا نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا. 

مایا میں بہت خوش ہوں تمہارے لئے ، شکر ہے تمہیں ایک اچھا انسان ملا ہے ، تم ایک بہترین لائف پارٹنر ہی ڈیزرو کرتی تھی... نمرہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا. 

نہیں نمرہ تم غلط سوچ رہی ہو ، یہ صرف ایک پیپر میرج ہے ، یہ مسئلہ حل ہوتے ہی وہ مجھے چھوڑ دے گا... مایا نے نمرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، آنکھوں میں کسی اپنے کے کھونے کا ڈر تھا. 

لیکن تم تو کہہ رہی تھی وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے..نمرہ نے حیرت سے پوچھا. 

ہاں میری خوشی کیلئے ہی اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ مجھے آزاد کردے گا تاکہ میں اپنی مرضی سے نوفل سے شادی کرلوں، لیکن میں اس شخص کی عادی ہوتی جارہی ہوں ، مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اسے نہ چھوڑ سکی تو ؟...مایا کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا تھا. 

مایا تم میری جان ہو ، میں تمہیں مشورہ دینا چاہوں گی جس طرح تم اسکے بارے میں بتا رہی ہو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمہیں بہت چاہتا ہے اگر اس نے تمہیں چھوڑنے کی بات کی بھی ہے تو صرف تمہاری خوشی کو مد نظر رکھتے ہوئے.. تو کیا ایسے بندے کی محبت کو ٹھکرانا چاہیے اور کیا گارنٹی ہے کہ نوفل سے شادی کے بعد بھی تم خوش رہو گی ، کیا نوفل تمہاری اس طرح قدر کر سکتا ہے ، کبھی بھی نہیں... مجھے نہیں پتا نکاح کے دوبول میں کتنی طاقت ہوتی ہے لیکن اللہ نے جو کچھ بھی کیا اسی میں تمہاری بہتری ہے ، خدا کے فیصلوں کے خلاف جاؤ گی تو سب کچھ برباد کر لو گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری شادی کی خبر سن کر نوفل تم سے شادی کیلئے مانے ہی نہ... نمرہ نے اسے سمجھاتے ہوئے ایک نئے خدشے کا اظہار کیا تھا. 

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی نمرہ میں کیا کروں... میں نے سب کچھ وقت پر چھوڑ دیا ہے... مایا نے تھکے ہوئے انداز میں کہا. اسی وقت نوفل انکی طرف آیا تھا. 

ہائے مایا ، نمرہ کیسے ہو تم دونوں ؟...نوفل نے خوشگوار لہجے میں کہا اور دونوں سے ملا. 

ہم ٹھیک ہیں ، تم کیسے ہو؟ اور کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے ؟...نمرہ نے پوچھا. 

یار آج ہی پاکستان واپس آیا ہوں ، ایکچیولی میرا فون گر کر ٹوٹ گیا تھا سب کے کانٹیکٹ نمبر بھی میں ہی تھے ، اس لئے کسی سے بھی کانٹیکٹ نہیں ہو سکا... نوفل نے جواب دیا. 

مایا انکل کی ڈیتھ کا مجھے بہت دکھ ہوا ، اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی نہ جاتا... نوفل نے افسردگی سے کہا ، مایا کچھ نہ بولی. 

سب لوگ تمہاری شادی کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں لیکن مجھے انکی باتوں پر یقین نہیں ہے ، ضرور کوئی مسئلہ رہا ہوگا تمہاری مجبوری ہوگی ورنہ مجھے پتا ہے تم کبھی بھی ایسا نہ کرتی ، کچھ تو بولو مایا پلیز... نوفل کی بات پر اس نے اپنی نم آنکھیں اٹھائی تھیں. 

تم کہاں تھے ، تمہیں پتا ہے مجھے تمہاری کتنی ضرورت تھی ، یہ شادی میں نے مجبوری میں کی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب میں اسے توڑ نہیں سکوں گی ، اس شخص کے مجھ پر اتنے احسان ہیں کہ میں اسکے سامنے آنکھیں بھی نہیں اٹھا پاؤں گی... مایا نے جواب دیا. 

مایا.. ریلیکس ہو جاؤ، تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ، تم جو بھی فیصلہ کرو گی میں تمہارے ساتھ ہوں فلحال ہم فرینڈز تو ہیں نا، چلو اب چپ ہو جاؤ ، پہلے ہی بہت لیکچرز مِس ہو گئے ہیں اب چلو کلاس میں... نوفل نے بات بدلتے ہوئے کہا تو تینوں کلاس کی طرف چل دیے. 

زندگی کے کچھ اختیارات ہمارے پاس نہیں ہوتے ، قدرت کے پاس ہوتے ہیں ، ہمیں صرف انہیں ماننا ہوتا ہے چاہے چپ چاپ چاہے رو دھو کر...!!!! 

پورا دن نوفل اور نمرہ مایا کے ساتھ رہے تھے ، اسے ہنسانے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے رہے ، آج کئی دنوں بعد اس نے کلاس لی تھی اور اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ اسکی پڑھائی کا کتنا ضیاع ہو چکا ہے. 

مایا تم ٹینشن نہ لو ، میں نے تمہارے لئے بھی نوٹس بنالیے ہیں ، جہاں تمہیں سمجھ نہ آئے مجھ سے پوچھ لینا... نمرہ نے گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا. 

اور مجھے کون سمجھائے گا؟...نوفل نے منہ بناتے ہوئے کہا تو دونوں ہنس دیں. 

ظاہر سی بات ہے تم دونوں کو میں ہی بتاؤں گی ، کل مایا کی طرف چلتے ہیں ، گروپ سٹڈی بھی ہوجائے گی اور مایا کا گھر بھی دیکھ لیں گے... نمرہ نے مشورہ دیا جس پہ دونوں رضامند ہو گئے. 

اچھا اب میں چلتی ہوں... مایا پہلے نمرہ سے گلے ملی پھر نوفل سے ، شافع جو سامنے کھڑا اسکا انتظار کر رہا تھا ، اسکی آنکھوں سے یہ منظر مخفی نہ رہ سکا تھا ، ابھی وہ لوگ وہیں کھڑے کوئی بات کر رہے تھے کہ شافع نے انکی طرف قدم بڑھادئے ، ایک جھٹکے سے مایا کو قریب کیا تھا ، وہ تینوں اس اچانک افتاد پر حیران ہوئے تھے ، شافع نے ایک ہاتھ سے اسکا بازو پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرے پہ آئے بال کان کے پیچھے کیے. 

مایا... کان کے قریب سرگوشی کی. مایا نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا. 

چلیں... اب مایا کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھا ، مایا نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا. 

نمرہ اور نوفل جو ہکابکا ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ، فوراً نظریں چراتے اپنے اپنے رستے چل دیے. شافع نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور خود بھی اسکے ساتھ بیٹھ گیا ، ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہا. مایا جو کب سے خاموش تھی ، اب بول پڑی تھی. 

یہ کیا حرکت تھی ؟...مایا نے غصے سے پوچھا. 

مایا... شافع نے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھا. 

آئندہ میں تمہیں کسی کے بھی گلے ملتے نہ دیکھوں... دوٹوک جواب آیا تھا. 

وٹ؟تم پاگل ہو ؟ وہ میرے دوست ہیں.... مایا نے غصے اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا. 

مزید اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی... شافع نے بات ختم کردی تو مایا نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا. 

گاڑی گھر کے سامنے رکی تو شافع نے مایا سے کہا... اندر جا کر سب سے پہلے تم کھانا کھاؤ گی، باقی سب کام بعد میں ، میں فون کر کے پوچھوں گا اگر تم نے کھانا نہ کھایا تو پنشمنٹ ملے گی ، اگر مجھے ابھی آفس نا جانا ہوتا تو یہ کام میں اپنے ہاتھوں سے کر کے جاتا... شافع پر ایک غصیلی نگاہ ڈال کر وہ اندر چلی گئی. شافع نے سر جھٹکا تھا ، اس ضدی لڑکی سے کوئی بھی بات منوانا کتنا مشکل تھا ، آج تک اس نے کسی لڑکی کیلئے یہ سب نہیں کیا تھا ، اب یہ سب کرنا کافی مشکل ہو رہا تھا ، وہ جانتا تھا کہ غصے میں وہ  کھانا نہیں کھائے گی تبھی سختی سے بات کی. مایا جو پورے دن کی تھکی ہوئی تھی اوپر سے موڈ بھی خراب تھا ، شافع کی بات کو ہوا میں اڑا کر کمرے میں جا کر سو گئی...!!! 

ضروری میٹنگ کی وجہ سے وہ فون نہیں کر پایا تھا ، 7بج گئے تھے ، اس لئے وہ جلدی سے گھر کے لئے نکلا تھا ، گھر پہنچتے ہی اسے ملازمہ سے پتا چلا تھا کہ مایا آتے ہی کمرے میں چلی گئی تھی اور ابھی تک باہر نہیں آئی ، نہ ہی کچھ کھایا ہے. 

اس لڑکی نے قسم کھائی ہے میری بات نہ ماننے کی... شافع غصے سے تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے کمرے کی طرف گیا تھا. مایا ابھی تک سو رہی تھی چہرے پر بلا کی معصومیت تھی. شافع نے دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھولا تھا ، وہ جو میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی ہڑبڑا کر اٹھی تھی. 

کک.. کیا ہوا ؟...شافع کو سامنے دیکھ کر اس نے پوچھا. آس پاس سب کچھ نارمل دیکھ کر اس نے سکون کا سانس خارج کیا تھا. 

آف.. مجھے لگا زلزلہ آگیا ہے... ابھی وہ بیڈ پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ شافع نے اسکی طرف قدم بڑھائے.وہ ڈر کر پیچھے ہوئی تھی یہاں تک کہ دیوار کے ساتھ لگ گئی ، شافع بلکل اسکے سامنے آکر رکا تھا. 

میں نے کیا کہا تھا ؟...شافع نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا. 

تت.. تم نے تو ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا... مایا نے تھوک نگلتے ہوئے کہا. 

گاڑی سے اترتے ہوئے کیا کہا تھا ؟...پھر سے پوچھا. 

اچھا وہ ہ ہ ہ... مجھے نا بہت نیند آرہی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ... مایا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شافع نے اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا. 

تم ایک بار میں ہی میری بات کیوں نہیں مان لیتی... اسکے اتنے قریب مایا کا سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا. شافع اسکا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آیا ، ملازمہ سے وہ پہلے ہی کھانا لگانے کا کہہ چکا تھا. شافع نے اسے بٹھا کر کھانا نکالنا شروع کیا اور پلیٹ بھر کر اسکے سامنے رکھ دیا. 

کھاؤ... اسے کھانے کا کہہ کر خود سکون سے کرسی سے ٹیک لگا کر اسے دیکھنے لگ گیا. 

آر یو میڈ؟ تم نے کبھی مجھے اتنا کھاتے دیکھا ہے ؟...مایا کی حیرت سے آنکھیں پھٹنے والی تھیں. 

میں نے کہا تھا نا کہ اگر میری بات نہ مانی تو پنشمنٹ ملے گی اب تم یہ سارہ کھانا ختم کرو گی.. چلو شاباش شروع ہو جاؤ ورنہ یہ کام بھی مجھے خود ہی کرنا پڑے گا... مایا جانتی تھی کہ وہ ایسا کرنے سے گریز نہیں کرے گا اسلئے چپ چاپ کھانے لگی. ابھی اس نے آدھا بھی ختم نہیں کیا تھا کہ آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر پلیٹ میں گرا تھا. شافع نے پلیٹ اٹھا کر دور کردی. 

اب رو کیوں رہی ہو ؟...شافع نے اسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا. اب وہ سسکیوں میں رونے لگی تھی ، شافع نے اسے خود میں بھینچ لیا تھا. 

چپ ہو جاؤ پلیز... شافع نے منت بھرے لہجے میں کہا. 

"آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا،،

ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر ،،"

پہلے تم مانو تمہاری غلطی تھی... مایا نے آنسو بہانے کے ساتھ کہا. شافع کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری تھی. 

اوکے میری غلطی تھی ، مجھے خود ہی تمہیں کھانا کھلا کر جانا چاہیے تھا... شافع نے اسے خود سے الگ کر کے اسکے آنسو صاف کیے تھے. 

پھر تمہیں بھی پنشمنٹ ملنی چاہیے... مایا نے ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے بچوں کی طرح کہا. 

ٹھیک ہے دو پنشمنٹ... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. 

تم مجھے اسائنمنٹ بنا کر دو گے... مایا نے معصومیت سے کہا. 

وٹ؟...شافع نے حیرت سے پوچھا جیسے کچھ غلط سن لیا ہو. 

یس... مایا نے بھی اسی کے انداز میں اسکا ہاتھ پکڑا اور کمرے میں لے آئی.شافع نے اپنے بےساختہ امڑنے والے قہقہے کو بمشکل روکا تھا. 

اب میں جیسے جیسے کہتی جا رہی ہوں تم لکھتے جاؤ مسٹر سڑو... مایا نے کہا تو شافع نے ابرو اچکا کر دیکھا. 

اوہ ہ ہ سوری ، منہ سے نکل گیا ، ویسے ابھی تھوڑی دیر پہلے تم شو کر چکے ہو کہ تم مسٹر سڑو ہی ہو ؟ میں اپنا سوری واپس لیتی ہوں... مایا نے منہ بنا کر کہا تو شافع کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا تھا. 

تم کبھی بھی انسانوں کی طرح نہیں ہنس سکتے... مایا نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا. رات بارہ بجے تک اس نے شافع سے اسائنمنٹ بنوائی تھی. بار بار یہ کہہ کر ریجیکٹ کر دیتی تھی کہ یہ غلط بنائی ہے پھر دوبارہ شروع سے بنواتی ، وہ دن میں کافی سو چکی تھی ،اب اتنی جلدی اسے نیند کہاں آنی تھی اس نے شافع کو تنگ کرنے کا سوچا تھا. 

ہاں اب ٹھیک ہے... مایا نے پانچویں دفعہ بنائی گئی اسائنمنٹ کو دیکھ کر کہا. 

شکر ہے بیگم تمہیں پسند آئی ورنہ مجھے لگا تھا کہ ساری رات مجھے یہیں بیٹھ کر گزارنی ہوگی اور صبح جب آفس میں لوگ میری حالت دیکھ کر پوچھتے تو میں کیا کہتا کہ دن میں میں آفس کا کام کرتا ہوں اور رات کو اپنی بیوی کی اسائنمنٹ بناتا ہوں... شافع نے خفگی سے کہا اور اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا ، نیند سے آنکھیں بھی درد کرنے لگی تھیں. 

ہاں تو کس نے کہا تھا مایا سے پنگا لینے کو... مایا نے اتنا کہا اور منہ تک کمبل لے کر لیٹ گئی ، جیسے کمبل اسے شافع سے بچا سکتا ہے. شافع نے سر جھٹکا اور آنکھیں بند کرلیں. یہ تو پکا تھا کہ اسکی خوشی کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتا تھا. 

"ڈھایا ہے خدا نے اس طرح ظلم دونوں پر ،،

تمہیں حُسن دے کر مجھے عشق دے کر،،"

**********************

یار مایا ہمیں تو تیرے گھر کا پتا ہی نہیں پھر ہم کیسے آئیں ،ایسا کر تو شافع کو فون کر کے بتادے کہ آج وہ تجھے نا لینے آئے تُو ہمارے ساتھ چل... نمرہ اور نوفل نے آج گروپ سٹڈی کیلئے مایا کی طرف جانا تھا. اس لءےلئےنمرہ نے مایا کو انکے ساتھ چلنے کا کہا. 

اوکے میں شافع کو بتادیتی ہوں... مایا نے فون نکال کر شافع کو کال کی لیکن کسی نے بھی نا اٹھائی تو میسج پر اسے بتادیا کہ وہ خود ہی گھر آجائے گی، وہ اسے نہ لینے آئے اور ان دونوں کے ساتھ چلی گئی. شافع نے میٹنگ سے فارغ ہو کر موبائل دیکھا تو مایا کی کال اور میسج آیا ہوا تھا ، میسج پڑھ کر اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے. 

کسی کے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہے ، میں آرہا ہوں... شافع نے میسج کیا اور اسکے کالج چلا گیا ، وہاں جا کر اسے پتا چلا کہ وہ تو چلی گئی ہے ، شافع کو مایا پر بہت غصہ آیا تھا. اس نے گاڑی گھر کی طرف بڑھا دی. گھر پہنچا تو لاؤنج میں ہی وہ تینوں بکس اور نوٹس کھولے بیٹھے تھے ، بات کرتے کرتے نوفل نے مایا کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ، تینوں کسی بات پر ہنس رہے تھے ، رہی سہی کسر یہاں پوری ہو گئی تھی. 

ہیلو ایوری ون... شافع نے بلند آواز میں کہا اور سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا. سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے. شافع نے ہاتھ کے اشارے سے مایا کو اپنے پاس بلایا تھا. مایا نے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ لئے تھے اس لئے چپ چاپ اسکے پاس جا کر بیٹھ گئی، شافع نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب بٹھا لیا. 

مایا... اپنے دوستوں سے انٹروڈیوس نہیں کرواؤ گی... شافع نے اسکے کان کے قریب منہ لےجاتے ہوئے کہا. مایا جو شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی خود کو نارمل کرنے کیلئے بولی... یہ، یہ نمرہ ہے میری بچپن کی دوست اور نمرہ یہ شافع...!! 

ہائے کیسے ہیں آپ؟...نمرہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا. 

ٹھیک ہوں ، تم سے مل کر اچھا لگا نمرہ ، یہاں آتی رہا کرو ، مایا اکیلی بور ہوجاتی ہے اور اسکی پڑھائی میں بھی مدد کردیا کرو ، اسکی پڑھائی کا بہت حرج ہوچکا ہے اگر تم اسکی مدد کردو گی تو میں تمہارا بہت شکرگزار ہوں گا... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا. حقیقت میں تو وہ اسکی اسائنمنٹ سے بچنا چاہتا تھا. 

جی جی شافع بھائی ضرور... نمرہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا. 

اور یہ کون ہیں ؟...شافع نے نوفل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا. 

یہ نوفل ہے... مایا نے بس اتنا ہی کہا تھا ، شافع نے سر سے پیر تک اسے دیکھا تھا. 

نائس ٹو میٹ یو مسٹر نوفل... سنجیدگی سے کہا گیا. 

ایکچیولی گائز بات یہ ہے کہ ہمیں ابھی کہیں جانا ہے اگر آپ لوگ مائنڈ نہ کریں تو... شافع نے بات ادھوری چھوڑ دی. 

جی جی شافع بھائی آپ لوگ جائیں ، ہم پھر کسی دن آجائیں گے ، ویسے بھی ہم نے پڑھ لیا تھا جانے ہی والے تھے... نمرہ نے اٹھتے ہوئے کہا. 

نوفل مجھے گھر ڈراپ کر دو گے؟...نوفل کو ویسے ہی بیٹھے پا کر نمرہ نے پوچھا. 

ہمم،چلو...نوفل نے ایک نفرت بھری نگاہ شافع پر ڈالی اور بغیر کسی سے ملے باہر نکل گیا. شافع نے ابھی بھی مایا کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے زور سے پکڑا ہوا تھا. 

اوکے مایا،بائے...نمرہ نے دور سے ہی کہا اور چلی گئی ، مایا اٹھ کر مل بھی نہ سکی. انکے جاتے ہی مایا نے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا. 

یہ کیا بدتمیزی تھی شافع خان ؟...مایا کا چہرہ ضبط سے سرخ ہو گیا تھا. اب وہ اسکے سر پر کھڑی تھی اور وہ اس سے لاتعلق سا بنا فون پر انگلیاں چلا رہا تھا. 

میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں؟...مایا چیخی تھی. 

کیا ہوا بیگم؟...شافع نے انجان بنتے ہوئے پوچھا. 

یہ... یہ کیا حرکت تھی ؟...مایا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا سر پھاڑ دیتی. 

جب میں نے تمہیں ان کے ساتھ آنے سے منع کیا تھا پھر تم کیوں آئی ؟ میں نے تمہیں وارن کیا تھا نا کہ اس سے دور رہو پھر اسکے ساتھ بیٹھی کیا کر رہی تھی ، اگر مجھے آئندہ وہ شخص میرے گھر پر نظر آیا تو زندہ واپس نہیں جائے گا... یہ شافع کی برداشت کی انتہا تھی جو صرف اس لڑکی کیلئے تھی اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ اتنی برداشت کا مظاہرہ نہ کر پاتا. 

تم آخر خود کو سمجھتے کیا ہو ؟تم شاید بھول گئے ہو ہمارے درمیان صرف ایک کنٹریکٹ ہوا ہے ،اس مسئلے کے حل ہوتے ہی تم مجھے چھوڑ دو گے اور تب میں نوفل سے ہی شادی کروں گی پھر ان بےجا پابندیوں کا کیا مقصد ؟...شافع کی بات سن کر مایا تیش میں آگئی تھی. شافع نے غصے سے بھرپور ایک نظر اس پہ ڈالی تھی. 

جب تک تم اس گھر میں ہو اور میرے نکاح میں ہو تب تک تمہیں اس شخص سے دور رہنا ہے ، میں یہ ہرگز برداشت نہیں کروں گا... شافع نے غصے سے ٹیبل کو ایک لات رسید کی اور باہر نکل گیا. مایا وہیں بیٹھ کر رونے لگ گئی. 

"میں تمہیں چاند کہوں یہ ممکن تو ہے مگر ،،

لوگ تمہیں رات بھر دیکھیں یہ مجھے گوارا نہیں ،،"

**********************

رات کو جب وہ کمرے میں آیا تو وہ سر سے پاؤں تک خود کو کمبل میں چھپائے لیٹی ہوئی تھی. یقیناً وہ رو رہی تھی. شافع آہستہ سے اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا. 

مایا... پکارا گیا، جواب ندارت. ایک ہاتھ سے کمبل اسکے منہ سے ہٹایا. مایا آنکھیں زور سے میچے، دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے بیڈ کی چادر کو زور سے پکڑے لیٹی تھی ، چہرہ آنسوؤں سے تر تھا. شافع کے دل کو کچھ ہوا تھا اسکی یہ حالت دیکھ کر. دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اسے اٹھایا اور اپنے ساتھ لگایا، اسکے آنسو صاف کیے. مایا ہنوز خاموش تھی. شافع نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا اور صوفے پر لے گیا ، سامنے ٹیبل پر کھانا پڑا تھا ، مایا کو اسکے چہرے پر قرب نظر آیا تھا. 

آخر تم ایسا کیوں کرتے ہو ، پہلے خود ہی آنسو دیتے ہو اور پھر خود ہی پونچھتے ہو... مایا نے نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا. 

مایا... سرگوشی میں کہا گیا. 

یہ میرے بس میں نہیں ہے کہ میں تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھوں ، ہاں یہ شادی ایک معاہدہ تھی لیکن اپنی محبت کو کسی اور کے ساتھ  دیکھنا بہت تکلیف دہ عمل ہے ، تمہارے شافع میں اتنی برداشت نہیں ہے ، میں چاہتا ہوں جس طرح میں تم سے عشق کرتا ہوں تم بھی ویسے ہی مجھ سے کرو، جس طرح میں تمہارے لئے ہر پل بےچین رہتا ہوں تم بھی ویسے ہی رہو ، جس طرح میں ہر لمحہ تمہارے بارے میں سوچتا ہوں تم بھی ویسے ہی سوچو...!!! 

چل آ اک ایسی "نظم" کہوں

جو "لفظ" کہوں وہ ہو جائے،،

بس "اشک" کہوں تو اک آنسو

تیرے گورے "گال" کو دھو جائے ،،

میں "آ" لکھوں تو آجائے 

میں "بیٹھ" لکھوں تو آ بیٹھے،،

میرے "شانے" پر سر رکھے تو

میں "نیند" کہوں تو سوجائے،،

میں کاغذ پر تیرے "ہونٹ" لکھوں 

تیرے "ہونٹوں" پر مسکان آئے ،،

میں "دل" لکھوں تو دل تھامے 

میں "گم" لکھوں وہ کھو جائے ،،

تیرے "ہاتھ" بناؤں پنسل سے پھر "ہاتھ"  پہ تیرے ہاتھ رکھوں ،،

کچھ "الٹاسیدھا" فرض کروں

کچھ "سیدھاالٹا" ہوجائے ،،

میں "آہ" لکھوں تو ہائے کرے 

بےچین لکھوں "بےچین" ہوتو،،

پھر میں بےچین کا "ب" کاٹوں

تجھے "چین" زرا سا ہو جائے،،

ابھی "ع" لکھوں تو سوچے مجھے 

پھر "ش" لکھوں تیری نیند اُڑے،،

جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو

میں "عشق" لکھوں تجھے ہوجائے ۔۔!!

وہ ساحر تھا ، ہمیشہ اپنے لفظوں کے سحر میں اسے جکڑ لیتا تھا. آج بھی یہی ہوا تھا وہ اسکے لفظوں کے جادو میں کھو گئی تھی اور وہ ہمیشہ کی طرح اسے اپنے لفظوں میں جکڑ کر اپنا کام کر رہا تھا. بہت پیار سے اسے کھانا کھلا رہا تھا ، مایا کو  اسکے الفاظ کے علاوہ نہ تو کچھ سنائی دے رہا تھا اور نہ ہی دکھائی... مایا نے چپ چاپ اسکے کندھے پر سر رکھ دیا اور آنکھیں موند لیں، شافع نے اسکے گرد اپنی بازو حائل کردی تھی. 

"میں شام کے منظر میں ہوں تحلیل شدہ اور،،

تم دور کسی گاؤں کی مغرب کی اذان ہو،،"

معمول کے مطابق سب کچھ چل رہا تھا ، شافع کو آج آفس سے آتے کافی دیر ہوگئی تھی ، مایا کے کمرے میں گیا تو وہ بیڈ سے ٹیک لگائے کتاب ہاتھ میں پکڑے سو رہی تھی ، شافع نے بہت آہستہ سے ساری کتابیں اٹھا کر ٹیبل پر رکھیں اور اسے سیدھا کر کے بیڈ پر لٹایا ، اسکے اوپر کمبل دیا اور لائٹ آف کر کے کمرے سے نکل گیا ، اپنے کمرے میں آکر آفس کا کام کرنے لگا ، آج کل اس نے ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا تھا اسی لئے کام کافی بڑھ گیا تھا. تقریباً ایک بجے جب وہ کام سے فارغ ہو کر اپنے کمرے سے نکلا تو نور کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور لائٹ بھی آن تھی. شافع نے نور کے کمرے کی طرف قدم بڑھادئے. پورے کمرے میں دیکھا لیکن نور کہیں بھی نہیں تھی ، شافع کو ایک دم سے پریشانی لاحق ہوئی تھی. لاؤنج میں دیکھا تو اندھیرے میں ہی نور صوفے پر آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی ، شافع نے لائٹ آن کی اور فوراً سے نور کے پاس آیا .اسکے قدموں میں بیٹھ کر اسکے دونوں ہاتھ تھامے. 

آنٹی کیا ہوا ؟ آپ اس وقت یہاں اور اس طرح کیوں بیٹھی ہیں ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟...شافع نے گھبراتے ہوئے پوچھا. 

بچے میرا کمرے میں دم گھٹ رہا تھا ، سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی اس لئے میں یہاں آگئی... نور نے بمشکل سانس لیتے ہوئے کہا. 

آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ،اٹھیں میں آپکو ابھی ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتا ہوں... شافع نے اٹھتے ہوئے کہا. 

بچے میں ٹھیک ہوں، تم پریشان مت ہو... نور نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی. 

میں اب آپکی ایک نہیں سنو گا ،میں مایا کو بتا کر آتا ہوں پھر ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں... شافع نے انکی ایک نہ سنی.

نہیں بچے مایا کو کچھ مت بتانا ، وہ پہلے ہی بہت ڈری ہوئی ہے ، اسے سونے دو ، تم مجھے لے جاؤ ڈاکٹر کے پاس... نور نے اسے مایا کو بتانے سے منع کیا. 

ٹھیک ہے میں گاڑی کی کیز لے کر آتا ہوں... شافع نے کمرے کی طرف قدم بڑھائے، مایا کو دیکھا جو سکون سے سو رہی تھی ، کیز اٹھائیں اور دروازہ بند کر کے باہر آگیا ، نور کو لے جاکر گاڑی میں بٹھایا ، گارڈ کو کچھ ہدایات دیں اور گاڑی آگے بڑھا دی. 

ڈاکٹرز کے مطابق نور کا بی پی بہت ہائی ہوگیا تھا ، اگر مزید دیر ہو جاتی تو مسئلہ بڑھ سکتا تھا ،نور کو ڈرپ لگادی گئی اس لئے ابھی انہیں ہوسپٹل میں کچھ گھنٹے مزید لگنے تھے. شافع کو مایا کی فکر تھی جو گھر میں اکیلی تھی ، وہ گارڈ کو بتا کر آیا تھا کہ کسی کو بھی گھر کے اندر نہ جانے دیا جائے لیکن وہ جانتا تھا کہ مایا اکثر نیند میں ڈر جاتی تھی. موبائل بھی جلدبازی میں سٹڈی میں ہی رہ گیا تھا. شافع نے ریسیپشنسٹ سے فون لے کر ارمان کو ہوسپٹل بلایا. کچھ ہی دیر میں ارمان آگیا تھا. 

کیا ہوا ، تو اس وقت ہوسپٹل کیا کر رہا ہے ، سب خیریت تو ہے نا؟...ارمان پریشانی سے گویا ہوا. 

ہاں ٹھیک ہوں ،آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی انہیں ہوسپٹل لے کر آیا تھا ،اب وہ ٹھیک ہیں لیکن انہیں ڈسچارج ہونے میں تھوڑا ٹائم لگے گا اور مایا گھر میں اکیلی ہے ، تم یہاں رکو ،آنٹی کو ڈسچارج ہونے کے بعد گھر لے آنا، میں گھر جارہا ہوں مایا اکیلی ہے... شافع نے جلدبازی میں کہا. 

ٹھیک ہے تو بےفکر ہو کر جا ،میں یہیں ہوں ارمان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی تو شافع نے مسکراتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھادئے. 

**********************

مایا چیختے ہوئے اٹھی تھی ، پورا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا ، اس نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا لیکن شافع کہیں نہیں تھا. مایا جلدی سے اٹھی اور ننگے پاؤں شافع کے کمرے کی طرف دوڑی تھی لیکن شافع یہاں بھی نہیں تھا ، خوف کی لہر اسکے جسم میں دوڑی تھی. تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی نور کے کمرے میں آئی لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا ، خوف سے اسکا جسم کانپنے لگا تھا، مایا نے کمرے میں آکر دروازہ بند کر لیا ،شافع کو فون کیا لیکن جواب ندارت ،بار بار کال کی لیکن جواب موصول نہ ہوا. 

نمرہ کو کال کرتی ہوں ،لیکن نہیں وہ اس ٹائم کیسے آئے گی ،شافع کہاں ہو تم... مایا اب زور زور سے رو رہی تھی. 

نوفل... ایک دم سے اسکے دماغ میں جھماکہ ہوا تھا ،مایا نے فوراً نوفل کو کال کی ،پہلی بیل پر ہی کال ریسیو کرلی گئی تھی. 

ہیلو،سب خیریت ہے مایا ، تم نے اس ٹائم کال کی... نوفل نے چھوٹتے ہی پوچھا. 

نن... نوفل پلیز جلدی آجاؤ.. مم.. میں مر جاؤں گی؟ وہ مجھے لے جائیں گے پلیز جلدی آجاؤ... مایا نے ہچکیوں کے درمیان کہا. 

مایا ریلیکس،کیا ہوا ہے ؟ پلیز رونا بند کرو ،اوکے میں آرہا ہوں... نوفل پھرتی سے اٹھا اور چابیاں اٹھاتا باہر کی طرف بھاگا تھا. کچھ دیر میں ہی وہ اسکے گھر کے باہر تھا. 

رکیں آپ کون ہیں ؟ آپ اس طرح اندر نہیں جاسکتے... گارڈ نے اسے روکتے ہوئے کہا. 

میرا راستہ چھوڑو ،میں مایا کا دوست ہوں ،مایا کسی مصیبت میں ہے ، وہ رو رہی تھی ،اس نے مجھے خود فون کر کے بلایا ہے... نوفل نے اسے دھکہ دے کر سائیڈ پر کیا اور اندر چلا گیا .گارڈ نے فوراً شافع کو کال کی لیکن کسی نے بھی نہیں اٹھائی. شافع ابھی ہوسپٹل سے نکلا ہی تھا. نوفل دوڑتا ہوا مایا کے کمرے کی طرف گیا تھا. 

مایا... مایا دروازہ کھولو ،میں ہوں نوفل ، دروازہ کھولو... نوفل نے دروازہ بجاتے ہوئے کہا. مایا جو کب سے گھٹنوں میں سر دیے خوف سے رو رہی تھی ،نوفل کی آواز سن کر اسکے جسم میں پھرتی آئی تھی اور دوڑ کر دروازہ وا کیا. مایا کی حالت دیکھ کر نوفل کا سر چکرایا تھا. بکھرے بال ، ننگے پاؤں ، چہرہ آنسوؤں سے تر ، حواس باختہ ، وہ کہیں سے بھی مایا نہیں لگ رہی تھی. نوفل فوراً سے اسکی طرف بڑھا تھا. 

مایا کیا ہوا ہے، تم ٹھیک تو ہو؟...نوفل نے ہاتھ سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بیٹھایا اور پانی کا گلاس پکڑایا ،جسے اس نے ایک ہی سانس میں پی لیا. 

نوفل مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ،وہ.. وہ مجھے لے جائیں گے ،سب مجھے چھوڑ کر چلے گئے... نوفل کو اسکی دماغی حالت پر شک ہوا تھا. نوفل نے اسے اپنے ساتھ لگایا. 

مایا ڈرو نہیں کوئی بھی نہیں ہے یہاں، تمہیں کوئی کہیں بھی لے کر نہیں جائے گا میں یہیں ہوں... نوفل نے اسے نارمل کرنا چاہا. شافع گھر پہنچا تو گارڈ نے اسے ساری بات بتادی. 

سر وہ میڈم کا کوئی دوست زبردستی اندر چلا گیا یہ کہہ کر کہ میڈم نے اسے بلایا ہے اور وہ کسی مصیبت میں ہیں... "مصیبت" شافع کے ذہن میں بس یہی لفظ رہ گیا تھا اور وہ دوڑتا ہوا گھر کے اندر گیا تھا ،کمرے کے اندت کا منظر دیکھ کر وہ لرز گیا تھا. مایا رو رہی تھی اور نوفل اسے گلے لگائے چپ کروا رہا تھا. شافع کو اپنے سر پر آسمان ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا. 

یہ کیا ہو رہا ہے ؟...شافع دھاڑا تھا. دونوں نے اکٹھے اسکی طرف دیکھا تھا. مایا جو پہلے سے ہی ڈری ہوئی تھی اسکی دھاڑ سن کر مزید کانپ کر رہ گئی. نوفل اٹھ کر اسکے سامنے آیا ،مایا تو اٹھ بھی نا سکی تھی. 

تم بتاؤ یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟کہاں تھے تم؟کون اس ٹائم اپنی بیوی کو اکیلا چھوڑ کر جاتا ہے ،تمہیں پتا ہے اسکی کیا حالت تھی ؟ بلکہ نہیں ،تمہیں اسکی کیا فکر ہوگی ؟ وہ بیوی ہی کب ہے تمہاری ، تم نے تو زبردستی اس سے شادی کی ہے... اس سے پہلے کہ نوفل کچھ اور کہتا شافع غرایا تھا... اگر تم چاہتے ہو کہ صحیح سلامت اپنے گھر چلے جاؤ تو دفع ہو جاؤ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے...!!

میں تمہاری دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں... نوفل نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا. 

نوفل پلیز چلے جاؤ یہاں سے... مایا جو انکی لڑائی سن کر ہوش میں آئی تھی روتے ہوئے نوفل سے مخاطب ہوئی ، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی وجہ سے وہ دونوں لڑیں. 

مایا تمہیں اس جانور سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ، تم چلو میرے ساتھ ، میں تمہیں اب یہاں نہیں رہنے دوں گا... نوفل نے مایا کی طرف قدم بڑھائے تو مایا فوراً سے پیچھے ہوئی.

نہیں مجھے نہیں جانا ، میں ٹھیک ہوں پلیز تم جاؤ... مایا نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ، اسے شافع کے غصے کا اندازہ تھا. 

مایا وہ تمہارے ساتھ اچھا بی ہیو نہیں کرے گا... نوفل نے اسے سمجھانے کی کوشش کی. 

وہ مجھے کچھ نہیں کہے گا ، تم جاؤ... مایا نے بےبسی سے کہا تو نوفل نے ایک غصیلی نگاہ شافع پر ڈالی اور چلا گیا. شافع نے ایک نظر مایا کی طرف دیکھا ، کتنی اجنبیت تھی شافع کی نظروں میں ، مایا لرز گئی تھی. شافع وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آگیا ، کچھ ہی دیر میں کمرے کی ساری چیزیں زمین بوس تھیں. ہر طرف کانچ ہی کانچ بکھرا تھا. مایا ساری آوازیں باآسانی سن سکتی تھی ، وہ ہمت کر کے بھی شافع کا سامنا نہیں کر سکتی تھی ، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا، اسے نوفل کو اس وقت نہیں بلانا چاہیے تھا. کچھ دیر وہ یونہی توڑ پھوڑ کی آوازیں سنتی رہی جب ہر طرف سناٹا چھا گیا تو وہ ہمت کر کے دیوار کے سہارے اٹھی تھی ، لرزتے ہوئے قدم اٹھا کر بمشکل اسکے کمرے تک آئی تھی ،مایا کو لگا تھا کہ جیسے صدیوں کی مسافت طے کر کے پہنچی ہو ، کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا. کمرے میں ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا ، سانس لینا مشکل ہورہا تھا ، ضبط کرنے کے باوجود وہ کھانسنے لگی تھی. خود پر قابو کرتے ہوئے اس نے شافع کی طرف دیکھا تھا جو کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا  تھا ، نظریں چھت پر تھیں اور ایک ہاتھ میں جلتاہوا سگریٹ تھا ،ایش ٹرے سگریٹ کے آدھے آدھے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا ، ہر طرف کانچ بکھرا ہوا تھا. وہ اسکی موجودگی سے واقف تھا لیکن خاموش رہا. مایا نے تھوک نگلا. 

شش... شافع... مایا نے پکارا. جواب ندارت. 

شافع پلیز معاف کردو مجھے ،میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ،میں ڈر گئی تھی... مایا نے معافی مانگتے ہوئے کہا. 

جاؤ اپنے کمرے میں... سپاٹ لہجے میں جواب آیا تھا ، اس نے مایا کا نام لینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا. 

پلیز ایسا نہ کرو میرے ساتھ... اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی شافع اٹھ کر اسکے سامنے آیا تھا اور ایک ایک ہاتھ سے اسکا بازو دبوچا تھا. 

فلحال چلی جاؤ یہاں سے ،میں کچھ نہیں سننا چاہتا... شافع اپنے غصے سے اچھی طرح سے واقف تھا ، وہ غصے میں کچھ بھی کرجاتا تھا ، وہ مایا پر غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے اسے جانے کا کہا تھا. 

میں کہیں نہیں جاؤں گی... مایا نے اپنی دونوں مٹھیوں سے اسکی شرٹ کو جکڑا تھا. شافع کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا. شافع نے اسے جھٹکے سے چھوڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا. 

مایا جو اس اچانک افتاد کیلئے تیار نہ تھی لڑکھڑائی اور نیچے گر گئی ،اسکے ہاتھوں اور پیروں میں کانچ لگ گیا تھا ،سر بھی ٹیبل کی نکر پر لگا تھا ، خون کی ایک پتلی سی دھار اسکے سر سے بہی تھی. وہیں وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی تھی ، شافع اس صورتحال سے بےخبر ہوسپٹل چلا گیا تھا. 

نور کے ڈسچارج ہونے کے بعد شافع انہیں گھر لے آیا تھا ،نور کو کمرے میں چھوڑا جو جلد ہی دواؤں کے زیرِ اثر سو گئی. ارمان بھی راستے میں ہی گھر چلا گیا تھا. فجر ہونے میں کچھ ہی دیر تھی ، وہ کافی تھک گیا تھا اس لئے کمرے کی طرف قدم بڑھائے. اسے لگا تھا کہ اب تک مایا اپنے کمرے میں جا کر سو چکی ہوگی. وہ اس وقت مایا کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا تو اپنے کمرے میں چلا گیا. جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا مایا کی حالت دیکھ کر اسکے قدم ساکت ہو گئے تھے ، شافع کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا تھا. 

مایا... بھاگ کر اسکی طرف بڑھا لیکن وہ بے ہوش تھی ، ناجانے کب سے وہ اس حالت میں تھی ،یہ سوچ ہی اسکی جان لینے کیلئے کافی تھی. اس نے مایا کے بےجان وجود کو بانہوں میں بھرا اور بیڈ پر لٹایا ، فرسٹ ایڈ باکس دراز سے نکالا ، اسکے پیروں سے کانچ نکال کر خون صاف کیا اور پٹی کی ،پھر ہاتھوں پر بھی یہی عمل دہرایا.چہرے اور ماتھے سے خون صاف کیا اور بینڈیج کی. منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے سے مایا کسمسائی. 

پانی... حلق خشک ہونے کی وجہ سے وہ بمشکل بولی تھی. شافع نے اسے اٹھا کر پانی پلایا اور اسکے سامنے ہی سر جھکا کر بیٹھ گیا. آہستہ آہستہ مایا کو ساری باتیں یاد آنا شروع ہوئیں تھیں. اس نے شافع کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر ندامت تھی. 

شافع آئی ایم سوری ، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا ،میں ڈر گئی تھی ، میں نے تمہیں اور موم کو ڈھونڈا اور کال بھی کی تھی لیکن کوئی بھی نہیں آیا ،سب مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے ، اس وقت نوفل کے علاوہ کوئی بھی میرے ذہن میں نہیں آیا، تم مجھے غلط مت سمجھو میں نے کچھ نہیں کیا... اب وہ باقاعدہ رونے لگ گئی تھی. شافع نے اسے گلے لگا لیا تھا. 

مایا میں تمہیں کبھی بھی غلط نہیں سمجھ سکتا ، مجھے پتا ہے میری مایا مجھے کبھی بھی دھوکہ نہیں دے سکتی ، مجھے تو صرف خود پر غصہ تھا کہ میں نے اس شخص کو یہاں آنے کا موقع ہی کیوں دیا ، میں نے تمہیں جانے کیلئے اس لئے کہا تھا کیونکہ میں بلاوجہ تم پر غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہو جائے گی... شافع نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا. 

نہیں یہ تمہاری وجہ سے نہیں ہوا ، وہ تو میں توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور گر گئی ، کانچ میرے ہاتھوں میں چبھ گیا... مایا نے اسکا گلٹ کم کرنے کی کوشش کی. 

سوری میں آئندہ تمہیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا... شافع نے اسے خود میں بھینچ لیا تھا ،کچھ پل یونہی گزر گئے ،ناچاہتے ہوئے بھی شافع نے اسے خود سے الگ کیا تھا. 

تم اب لیٹ جاؤ ، آرام کرو... اسے بیڈ پر لٹا کر خود اسکے سرہانے بیٹھ گیا. 

تم بھی آرام کرلو ، تھک گئے ہوتے... مایا نے اسے وہیں بیٹھتے ہوئے دیکھ کر کہا. 

شش، سوجاؤ... شافع نے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. مایا کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے. مایا کو آج صحیح معنوں میں احساس ہوا تھا کہ وہ شافع کیلئے کیا ہے. 

"مجھے احساس ہے تم نے ،

کئی راتیں میری خاطر ،

جاگ کر گزاری ہیں. 

مجھے احساس ہے تم نے ،

کئی شامیں میری خاطر ،

دریچے پہ گزاری ہیں. 

مجھے احساس ہے تم نے ،

کئی حرفوں کو اب تک بھی،

میری خاطر ہی رکھا ہے. 

مجھے احساس ہے تم نے ،

کئی نظموں کو اب تک بھی،

میری خاطر ہی لکھا ہے. 

مجھے احساس ہے تم نے ،

میری خاطر ہر اک دھڑکن،

کو سینے میں سنبھالا ہے. "

**********************

صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو غیر معمولی طور پر آج وہ وہیں موجود تھا ،اسکے سرہانے بیٹھا سو رہا تھا ، شاید تھکن کی وجہ سے اسکی آنکھ نہیں کھل پائی تھی. مایا نے اسکے چہرے کو دیکھا تھا جو بہت معصوم لگ رہا تھا. ہر روز وہ اسی طرح ساری رات بیٹھ کر گزارتا تھا ،صرف اس کے لئے کہ وہ آرام سے سو سکے ، سارا دن آفس میں اور رات کو بیٹھ کر گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہوگا اس کیلئے ،لیکن اس نے آج تک اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا ، مایا کا گلٹ مزید بڑھا تھا ،آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے تھے. 

شافع خان تم کیوں میرے حواسوں پر سوار پر سوار ہوتے جا رہے ہو ، کیا مایا خان تمہارے عشق میں گرفتار ہو رہی ہے... مایا نے سوچا اور اٹھ بڑھا کر شافع کے چہرے کو چھوا تھا، شافع جو کچی نیند میں تھا ،ایک جھٹکے سے اٹھا تھا اور سامنے مایا کو روتا دیکھ کر اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں قید کیا تھا. 

کیا ہوا مایا ، تم رو کیوں رہی ہو ،کیا درد ہو رہا ہے ؟...شافع کبھی اسکے ہاتھ تو کبھی ماتھے پر لگی پٹی کو چھو کر دیکھنے لگا. 

نہیں ،میں ٹھیک ہوں... مایا کی نظریں ہنوز اسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں. 

پھر رو کیوں رہی ہو ؟...شافع نے پریشانی سے پوچھا. 

وہ... وہ شاید آنکھ میں کچھ چلا گیا... مایا نے بہانا لگایا. شافع نے اسکی دونوں آنکھوں کو چوما اور اسکے گرد اپنے بازو حائل کیے اور پہلے والی پوزیشن میں بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ،وہ اپنے اندر سکون اتار رہا تھا. مایا کا سر جو اب اسکے سینے پر تھا ، اسکی دھڑکنیں سن کر مایا کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تھا. 

شش... شافع... مایا نے بمشکل پکارا. 

ہممم... نارمل انداز میں پوچھا گیا. 

تت.. تم نے آفس نن... نہیں جانا؟...مایا کو اس سے اچھا کوئی بہانہ نہیں ملا تھا. 

نہیں... یک لفظی جواب آیا تھا. 

کیوں؟...مایا پریشانی سے گویا ہوئی. 

میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا... بلا کے اطمینان سے کہا گیا. 

مم... میں ٹھیک ہوں... مایا نے اٹکتے ہوئے کہا. 

ہاں، نظر آرہا ہے... شافع نے طنز کیا تھا. 

شافع... مایا ہلکا سا چیخی تھی. 

جی... جزبات سے لبریز آواز میں پوچھا گیا. 

مجھے بھوک لگی ہے... مایا روہانسی ہوئی ، شافع اسے چھوڑ کر کھڑا ہوگیا تھا. 

اوکے تم بیٹھو میں کھانا لے کر آتا ہوں... اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا تھا. مایا نے اپنی بےربط سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کی. 

"میری زندگی کے مالک میرے دل پر ہاتھ رکھ ،،

تیرے آنے کی خوشی میں کہیں میرا دم نکل نہ جائے،،"

***********************

آنٹی کو ناشتہ کروادیا... شافع نے ملازمہ سے پوچھا. 

جی صاحب انہوں نے ناشتہ کر لیا ہے... ملازمہ نے جواب دیا. 

تم مایا کیلئے ناشتہ تیار کرو میں ابھی آتا ہوں... ملازمہ کو ناشتے کا کہہ کر شافع نور کے کمرے میں چلا گیا. 

اب کیسی طبیعت ہے آپکی آنٹی؟...شافع نے نور کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا. 

میں ٹھیک ہوں بچے... نور نے شفقت سے کہا. 

آپ نے دوائی لے لی؟...شافع نے پوچھا. 

نہیں ، وہ میں بس لینے ہی والی تھی... نور نے گڑبڑا کر کہا. شافع نے نور کو ٹیبلٹز اور پانی کا گلاس تھمایا. 

مجھے پتا لگ گیا ہے آپ اپنی میڈیسن ٹائم سے نہیں لیتیں ، آئندہ یہ کام میں خود لوں گا... شافع نے مصنوعی خفگی سے کہا تو نور مسکرانے لگی. 

آپ آرام کریں میں مایا کو دیکھ لوں... شافع نے اٹھتے ہوئے کہا تو نور نے اثبات میں سر ہلایا. 

شافع ناشتہ لے کر کمرے میں چلا گیا اور اسکے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا. شافع مایا کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگا. مایا یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی. 

یہ بات ہے مسز شافع ، کہیں آپکو اس بندے سے محبت تو نہیں ہو گئی ؟...خود پر مسلسل اسکی نظریں محسوس کرتے ہوئے شافع نے کہا. مایا اسکی بات سن کر گڑبڑا گئی اور نظروں کا زاویہ بدل لیا. اسکی اس حرکت پر شافع کا قہقہہ کمرے میں گونجا تھا.

اف یہ شخص انسانوں کی کیٹگری میں آہی نہیں سکتا... مایا نے عجیب سی شکل بناتے ہوئے سوچا. کھانے کھلانے کے بعد شافع نے اسے پین کلر دی. 

میں نہیں کھاؤں گی یہ... مایا نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا. 

اس سے تمہارے زخموں میں درد نہیں ہوگا ، چلو شاباش کھالو ...شافع نے اسے بچوں کی طرف پچکارتے ہوئے کہا. 

میں ٹھیک ہوں ، مجھے نہیں کھانی پلیز... مایا نے ضدی انداز میں کہا. 

مایا... شافع نے سختی سے کہا. وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ سختی سے نہیں کہے گا وہ دوائی نہیں کھائے گی. 

سڑو... مایا نے عجیب سا منہ بنا کر اسکے ہاتھ سے ٹیبلٹ لی اور نگل لی... اسے عجیب عجیب شکلیں بناتا دیکھ کر شافع کو ہنسی آئی تھی ، آگے بڑھ کر اسکی دونوں آنکھوں کو اپنے انگوٹھے سے نرمی سے چھوا تھا. مایا اس پل پل بدلتے شخض کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی. 

"اُسکی آنکھوں کے نشے میں ایسے ڈوبے ،،

اسکا دیکھنا یاد رہا ، اپنا ڈوبنا بھول گئے.! "

پورا دن شافع نے اسکے ساتھ گزارا تھا ، اسے بیڈ سے نیچے بھی اترنے نہیں دیا تھا ،اسکے پاؤں کے زخم ابھی تازہ تھے ، وہ ابھی تک شافع کے کمرے میں تھی. آج بھی اس نے صوفے پر رات گزاری تھی. صبح فجر کے وقت وہ اٹھا تھا ، روز وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھتا تھا لیکن آج مایا کی وجہ سے گھر میں ہی پڑھنے کا سوچا تھا. مایا کی آنکھ آج معمول سے پہلے کھل گئی تھی. شافع کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکی تھی ، اس نے آج تک کبھی بھی شافع کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا. 

اوہ ہ ہ ، تو یہ اس لئے روز میرے اٹھنے سے پہلے ہی میرے کمرے سے غائب ہوتا تھا کیونکہ اس نے نماز پڑھنی ہوتی تھی. شافع کا سر سجدے میں جھکا ہوا تھا ، اسکا سجدہ کافی لمبا تھا،مایا حیران ہوئی تھی ، اسے دیکھتے دیکھتے ہی وہ دوبارہ سو گئی. شافع نماز پڑھنے کے بعد معمول کے مطابق جاگنگ پر گیا ،ایک گھنٹے بعد واپس آیا تو مایا ابھی بھی سو رہی تھی ، وہ فریش ہونے کے لیے چلا گیا ،تیار ہونے کے بعد وہ مایا کے پاس آیا ، آج بھی اسکی آنکھیں پردے میں تھیں. شافع نے اسکی آنکھوں کو چھوا تھا. 

مایا اٹھ جاؤ صبح ہوگئی ہے... شافع نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی. مایا نے اپنی آنکھیں وا کی تھیں. اسکی مسکراتی جھرنوں جیسی آنکھیں دیکھ کر شافع نے روح تک اترنے والا سکون محسوس کیا تھا. 

میں کتنا بھی تھکا ہوں ،تمہاری آنکھوں کو دیکھ کر فریش ہو جاتا ہوں ،میرا پورا دن بہت خوش گوار گزرتا ہے،میری خواہش ہے کہ جب میں آفس جایا کروں تو تم جاگ رہی ہو تاکہ میرا ہر روز آفس میں اچھا گزرے... مایا اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور اسکے الفاظ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی. 

"حسن دیکھیں گے تیری آنکھوں کا،،

کچی نیندوں سے جگا کر تجھ کو ،،"

آج ایک ضروری میٹنگ ہے اس لئے میرا جانا ضروری ہے ورنہ میں کبھی بھی تمہیں یوں چھوڑ کر نہیں جاتا ،میں کوشش کروں گا کہ جلدی واپس آجاؤں... شافع نے اسکے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے کہا. 

کوئی بات نہیں تم جاؤ... مایا نے مسکراتے ہوئے کہا. 

اوکے اپنا بہت سارا خیال رکھنا ، کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے فون کردینا، اور ہاں اٹھ کر ناشتہ یاد سے کرنا ہے ،ابھی تم سو جاؤ... شافع نے اٹھتے ہوئے کہا تو مایا نے سر ہلا کر ہامی بھری اور دوبارہ سو گئی. 

مایا اٹھنے کے بعد پورا دن بور ہوتی رہی تھی ، ناچاہتے ہوئے بھی ناشتہ کیا پھر بےدلی سے ٹی وی دیکھنے لگی. شافع صبح سے کام میں مصروف تھا ،12بجے میٹنگ شروع ہوئی اور 2بجے جاکر ختم ہوئی. میٹنگ روم سے نکلتے ہی شافع نے مایا کو کال کرنے کی غرض سے فون نکالا لیکن اس سے پہلے ہی مایا کی کال آنے لگی. بے ساختہ شافع کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری تھی. 

اوہ، تو اب مسز شافع اپنے ہزبینڈ کو یاد بھی کرتی ہیں... شافع نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے شرارتاً کہا. 

ہاں میں تمہیں بہت مس کر رہی ہوں... مایا نے دھیمے لہجے میں کہا. اسکا جواب سن کر شافع ٹھٹھکا تھا. 

اس کرم نوازی کی وجہ بھی بتادو اب جلدی سے... شافع نے مسکراتے ہوئے پوچھا. مایا نے دانتوں تلے زبان دبائی تھی. 

اس شخص سے کچھ بھی نہیں چھپ سکتا... مایا بس سوچتی ہی رہ گئی. 

وہ دراصل میں بہت بور ہو رہی تھی ، کیا میں باہر جاسکتی ہوں؟...مایا نے ڈرتے ڈرتے اپنے مطلب کی بات کی. 

اوہ تو اس لئے مجھے مس کیا جارہا ہے... شافع نے گہری سانس خارج کی. 

نہیں.. اب ایسی بات بھی نہیں ہے ،وہ تو میں سچ میں مس کر رہی ہوں... مایا نے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا. 

لیکن تمہارے پاؤں کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ، تم کہیں نہیں جاسکتی... شافع نے اسی کے انداز میں جواب دیا. 

شافع پلیز.. اچھا میں تم سے ملنے تو آسکتی ہوں نا؟...مایا بس اب رونے والی تھی ،آخرکار شافع کو اس پر ترس آہی گیا تھا. 

ٹھیک ہے لیکن دھیان سے،میں ڈرائیور سے کہہ دیتا ہوں وہ تمہیں یہاں چھوڑ دے گا تب تک میں ایک ضروری کام نپٹالوں... شافع نے تیزی سے کہا اور فون رکھ دیا. 

یس... مایا نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا. آدھے گھنٹے بعد وہ شافع کے آفس کے باہر تھی ،شافع جلدی سے باہر آیا تھا ،گاڑی کا دروازہ کھولا .مایا نے جیسے ہی پاؤں باہر رکھا ،لڑکھڑا گئی تھی. 

رکو ، میں لے کر چلتا ہوں... شافع نے اسے دونوں بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا. 

نہیں، مجھے نیچے اتارو پلیز، میں خود چلی جاؤں گی... مایا روہانسی ہوئی. 

شش.. اب تمہاری اور کوئی بھی بات نہیں مانی جائے گی ،پہلے ہی ضد کر کے آگئی ہو... شافع نے اسے چپ کروادیا تھا ،جیسے ہی وہ آفس میں داخل ہوا تمام لوگ انہیں دیکھ کر حیران ہوئے تھے ،انکا جلاد بوس ایک لڑکی کو بانہوں میں اٹھائے اندر آرہا تھا، وہ حیران ہوتے کم تھا،سب نے انہیں دیکھ کر عجیب و غریب سرگوشیاں کرنی شروع کر دی تھیں. مایا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں،ناجانے وہ لوگ اسے کس طرح کی لڑکی سمجھ رہے ہوں گے. شافع نے اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے ،اسکا دل کیا تھا کہ سب کو شوٹ کردے جن کی وجہ سے مایا کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے. 

ایکسکیوزمی ایوری ون... شافع کی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے. 

میٹ مائی لائف ،مائی وائف مایا شافع عمر خان ،آئی ہوپ آپ سب لوگوں کی کنفیوژن ختم ہو گئی ہوگی ،ناؤ کیری آن یور ورک ...شافع نے بلند آواز میں مایا کا تعارف کروایا اور اسے اپنے کیبن میں لے آیا ،سب ہکابکا اسے دیکھ رہے تھے.مایا کو آج اپنا نام بہت اچھا لگا تھا. شافع نے اندر آکر اسے نیچے اتارا. 

کیا میں تمہاری چیئر پر بیٹھ سکتی ہوں ؟...مایا نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا. شافع نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اسکی ریوالونگ چیئر پر بیٹھ گئی جبکہ شافع ٹیبل کی دوسری طرف پڑی کرسی پر بیٹھ گیا. مایا چیئر پر بیٹھی مزے سے اسے گھما رہی تھی ، شافع جو کچھ روز پہلے والا واقعہ یاد آیا تھا. 

مایا... گھمبیر آواز میں پکارا گیا .

ہممم... مایا نے مصروف سے انداز میں کہا. 

تمہیں پتا ہے کچھ دن پہلے ایک بچی میرے آفس میں غلطی سے آگئی تھی ، وہ بھی میری چیئر پر بیٹھی ایسے ہی کھیل رہی تھی ،اسکی آنکھیں بھی بلکل تمہاری طرف تھیں،جب میں نے اسے کہا کہ آپکی آئیز بہت پیاری ہیں تو پتا ہے اس نے مجھے کیا کہا؟...شافع نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا. 

کیا کہا؟...مایا نے برا سا منہ بناتے ہوئے پوچھا. اسے شافع کا یوں مسکرا کر کسی اور کے بارے میں بات کرنا اچھا نہیں لگا تھا. اس تعریف کی تو وہ اکیلی حقدار تھی اب یہ اور کون آگیا تھا. 

اسنے کہا انکل پلیز ماشاءاللہ بول دیں ورنہ میری پاری سی آئیز کو نظر لگ جائے گی... شافع نے سوچتے ہوئے بتایا تو شافع کی بات سن کر مایا کھلکھلا کر ہنسی تھی ، ہنس ہنس کر اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے تھے. اسے ہنستا ہوا دیکھ کر شافع کے لب بھی مسکرائے تھے. شافع اٹھ کر اسکے سامنے گیا اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا. مایا کی ہنسی کو بریک لگی تھی. اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا کر رہ گئی تھی. 

ایک دن ہماری بھی ایسی ہی نیلی آنکھوں والی پری ہوگی... شافع نے اسکی آنکھوں کو چومتے ہوئے کہا تھا. 

نہیں ہوگی... مایا کے منہ سے ایک دم نکلا تھا. 

کیوں؟...شافع نے ابرو اچکا کر پوچھا. 

پھر تم اس سے زیادہ پیار کرو گے اور مجھ سے کم... بات مکمل ہونے سے پہلے ہی مایا نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی تھی کہ یہ کیا کہہ دیا. شافع کھل کر مسکرایا تھا. 

نہیں تم سے زیادہ محبت کسی سے نہیں ہوگی... جھک کر اسکے ماتھے کا بوسہ لیا. 

"قد کاٹھ سے نہیں مطلب بس،،

تیری پیشانی میرے ہونٹوں کے برابر آئے ،،"

شافع پلیز... مم.. مجھے گھر جانا ہے... مایا نے بمشکل کہا. 

اوکے چلو... شافع نے پیچھے ہو کر اسے دوبارہ اٹھایا تھا. 

شافع... مایا روہانسی ہوئی. 

شش... سرگوشی ہوئی. مایا جانتی تھی کہ اب وہ اسکی ایک نہیں سنے گا ،جیسے ہی وہ اپنے کیبن سے باہر نکلا ،سارے لوگ پھر سے انکی طرف متوجہ ہوگئے تھے. مایا نے ڈرتے ہوئے آنکھیں بند کیں اور اسکے کوٹ میں اپنا چہرہ چھپا لیا، اسکی اس حرکت پر شافع نے بمشکل اپنا قہقہہ روکا تھا. اسے گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیور کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا تھا جو مایا نے دیکھ لیا تھا، مایا نے ہاتھ پکڑ کر اسے آگے جانے سے روکا تھا. 

تم نہیں جاسکتے... مایا نے جلدی سے کہا. 

کیوں؟...شافع اسکی اس حرکت پر حیران ہوا تھا. 

بس مجھے نہیں پتا میں نے نہیں جانا تمہارے ساتھ ،ڈرائیور مجھے چھوڑ دے گا، تم اپنا کام کرلو تب تک... مایا نے گھبراتے ہوئے کہا. 

کام بعد میں ہوجائے گا... شافع نے سنجیدگی سے کہا. 

نہیں پلیز... مایا اب رونے والی ہوگئی تھی ، اسکی حالت کو شافع انجوائے کر رہا تھا. 

اوکے ایک شرط.. پر یہاں سے جاتے ہی کھانا کھاؤ گی... شافع نے نارمل انداز میں کہا. 

پکا جاتے ہی کھاؤں گی... مایا نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا. 

اور اگر نہ کھایا تو ؟...شافع نے مشکوک انداز میں کہا. 

تو تم مجھے جو مرضی پنشمنٹ دے دینا... مایا نے معصومیت سے کہا تو شافع مسکرادیا. 

اوکے جاؤ... شافع نے ڈرائیور کو اشارہ کیا تو مایا کھل کر ہنسی تھی، اسکی جان میں جان آئی تھی ، مایا نے سکون کا سانس لیا. اسکی حالت پر شافع کا قہقہہ گونجا تھا. 

اگر یہاں ہوتی تو اب تک مجھے انسانوں کی کیٹگری سے نکال کر جانور بنا دیتی... شافع نے سوچا اور اندر چلا گیا. 

********************

شافع رات کو گھر لوٹا تو مایا سو رہی تھی. 

مایا... شافع نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی. مایا فوراً اٹھ گئی. شافع اسے والہانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا. 

آج پہلی آواز پر ہی اٹھ گئی... شافع نے اسکی آنکھوں کو چھوتے ہوئے پوچھا. 

کیونکہ اب میں نیند میں بھی تمہاری آواز پہچان جاتی ہوں... ابھی بھی شافع کے ہاتھ مایا کی آنکھوں پر تھے. 

کھانا کیوں نہیں کھایا ؟...شافع نے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے پوچھا. 

میرا دل نہیں کررہا تھا کھانا کھانے کو، ہم باہر چلیں... مایا نے چہکتے ہوئے کہا. 

تمہارے زخم جب تک ٹھیک نہیں ہوجاتے تم کہیں نہیں جاسکتی ، البتہ میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے پاستہ بنا کر کھلا سکتا ہوں... شافع نے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھاتے ہوئے کہا. 

تمہیں پاستا بنانا آتا ہے ؟...اس بار مایا نے کوئی احتجاج نہیں کی تھی. 

بلکل میڈم ،مجھے سب کچھ آتا ہے... شافع نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسے کیچن میں پڑی ہوئی کرسی پہ بیٹھا دیا. خود وہ مہارت سے ہاتھ چلانے لگ گیا، مایا کی تو حیرت سے آنکھیں ہی پھٹ گئیں تھی. 

لو.. اب کھا کر بتاؤ کیسا بنا ہے ؟...کچھ ہی دیر میں شافع نے پاستا اسکے سامنے ٹیبل پر رکھا اور خود بھی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا. مایا نے ڈرتے ڈرتے کھایا کہ ناجانے کیسا ہوگا. 

امم... بہت اچھا ہے یہ تو،تم نے کب سیکھا ؟...مایا داد دیے بغیر نہ رہ سکی. 

میں اور ارمان جب کینیڈا میں تھے تو اکثر ہم کوکنگ کر لیتے تھے... شافع نے پرمسرت انداز میں کہا. 

کیا ارمان تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے ؟...مایا نے تجسس سے پوچھا. 

وہ میرا سب کچھ ہے... ارمان کے نام پر ہی شافع کا چہرہ کھل گیا تھا. 

مطلب مجھے تمہاری ہالف گرل فرینڈ سے جیلس ہونا چاہیے ؟...مایا نے ناک چڑھا کر کہا. 

ہاہاہا... شافع کا قہقہہ بے ساختہ تھا. 

تم تو شافع کی جان ہو ، اسکے دل کا سکون ہو ، تمہیں جیلس ہونے کی ضرورت نہیں ، ویسے آج تم نے مجھے جانوروں کی کیٹگری میں شامل نہیں کیا؟...شافع نے بات بدلتے ہوئے کہا .وہ نہیں چاہتا تھا کہ مایا ارمان کے بارے میں کچھ کہے. 

ہاں.. کیونکہ آج تم نے مجھے اتنے مزے کا پاستا بنا کر کھلایا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی تم اپنی معصوم سی بیوی کو کچھ نہ کچھ بنا کر کھلاتے رہو گے... مایا نے معصومیت سے کہا اور ساتھ ساتھ پاستے سے بھی انصاف کرتی رہی. 

معصوم... شافع مصنوعی کھانسہ تھا. 

کیا مطلب ہے تمہارا  میں معصوم نہیں ہوں؟...مایا کو گویا شاک لگا تھا. شافع کا پھر سے قہقہہ گونجا تھا. 

کبھی انسانوں کی طرح بھی ہنس لیا کرو... مایا تپ کر بولی. 

"فسوں دید ہے یا ہیں آپ کی معصوم نگاہیں،،

سائے میں جن کے دنیا مری آباد رہتی ہے ،،

ان آنکھوں سے دور ہوں تو بنجر سا ہوں ،،

مسکان آپکی مجھے بس سیراب کرتی ہے ،،"

شافع مدھم لہجے میں گویا ہوا تو مایا مسکرادی. 

اگلے دن بھی وہ کالج نہیں جا پائی تھی ، دو دن ہو گئے تھے اسے گھر پر ، نوفل مایا سے ملنا چاہتا تھا لیکن مایا کالج ہی نہیں جا رہی تھی. آخرکار اس نے اور نمرہ نے مایا کے گھر جانے کا سوچا. کالج کے بعد وہ دونوں سیدھا اسکے گھر آئے تھے. مایا کی حالت کو دیکھ کر دونوں ہی پریشان ہوئے تھے. 

تینوں لاؤنج میں صوفوں پر بیٹھے تھے ، آج نمرہ مایا کے پاس بیٹھی تھی جبکہ نوفل سامنے والے صوفے پر. 

یہ کیا ہو گیا مایا؟یہ چوٹ کیسے لگی؟...نمرہ نے پریشانی سے پوچھا. 

وہ یار مازمہ سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا تھا ،مجھے پتا نہیں چلا جب میں وہاں سے گزرنے لگی تو پھسل کر گر گئی اور کانچ چبھ گیا... مایا نے بہانہ بنایا. 

یار دھیان رکھا کر خود کا، تو بچی تھوڑی ہے ، پہلے ہی تیری پڑھائی کا کتنا ہرج ہوگیا ہے... نمرہ نے دادی اماں کی طرف نصیحت کی تو مایا ہنسنے لگی. نوفل کو لگا کہ ضرور یہ سب شافع نے کیا ہوگا ، نوفل ایک دم غصے سے لال پیلا ہوگیا تھا. شافع کوئی فائل لینے گھر آیا تھا ، کمرے سے فائل لے کر نکلا تھا کہ سامنے ہی نوفل کو دیکھ کر موڈ خراب ہوا تھا ،لیکن خود پر ضبط کرتا ہوا باہر نکل گیا. ابھی وہ گاڑی کے پاس ہی پہنچا تھا کہ ارمان کی کال آنے لگی. 

ہاں، ارمان کیا ہوا ؟...شافع نے فون اٹھاتے ہوئے پوچھا. 

یار تُو کہاں ہے جلدی سے آفس آجا ، رندھاوا کے خلاف ایسے ثبوت ہاتھ لگے ہیں کہ اب اسے کوئی نہیں بچا سکتا ، میرا ایک دوست پولیس میں ہے ،میں نے اسے آفس بلایا ہے تُو بھی آجا جلدی... ارمان نے پرجوش انداز میں کہا. 

اوکے میں آرہا ہوں... شافع نے آنے کا کہہ کر فون رکھ دیا. 

نوفل شافع کو باہر نکلتا دیکھ کر اسکے پیچھے آگیا تھا ،مایا نے اسے باہر جاتا دھکہ لیا تھا لیکن وہ نمرہ کے سامنے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی. 

شافع جب مڑا تو نوفل اسکے پیچھے کھڑا تھا ، شافع کے چہرے پر ناگواریت پھیلی تھی. 

ہٹو میرے راستے سے... شافع نے ضبط کرتے ہوئے کہا. 

کیوں ہٹوں تمہارے راستے سے ، تم سمجھتے کیا ہو خود کو، کیا حالت کردی ہے تم نے مایا کی جانور کہیں کے ، جب وہ تمہیں منہ نہیں لگاتی تو کیوں پڑے ہو اسکے پیچھے ، وہ مجھ سے محبت کرتی ہے ، مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے، تم کیوں ہمارے درمیان آرہے ہو ، اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے ، وہ تمہارے ساتھ خوش نہیں ہے ،اتنی سی بات تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی ، جب وہ تمہارے پاس آئی تھی تو کیا وہ ایسی تھی بات بات پر رونے والی ؟وہ تو لوگوں کو رلانے والی تھی ، کیا کر دیا ہے تم نے اسکا حال ، اس طرح کرتے ہیں محبت ، اسے اذیت پہنچا کر ، اگر اس نے مجھے بلا لیا تھا تو یہ حالت کرنی تھی تم نے اسکی وحشی انسان... نوفل نے اسکا گریبان پکڑتے ہوئے کہا. یہ پہلی بار تھا کہ شافع اسکے زہریلے الفاظ سن کر بھی خاموش تھا. 

کیا وہ سچ میں میرے ساتھ خوش نہیں ہے؟ کیا وہ ابھی بھی اس شخص سے... ؟میں نے اسکی یہ حالت کی؟یہ سب میری وجہ سے.. ؟...اس سے آگے وہ سوچ نہیں سکتا تھا. غصے میں اس نے ایک مکہ نوفل کے منہ پر مارا جو لڑکھڑا کر پیچھے کو گر گیا. شافع گاڑی میں بیٹھا اور فل سپیڈ سے گاڑی کو اڑاتا ہوا لے گیا. پیچھے سے نوفل اسے اچھے اچھے القابات سے نوازتا رہا. 

شافع کا سر گھوم رہا تھا لیکن وہ خود پر ضبط کرتا ہوا آفس آیا. 

شافع ان سے ملو یہ ہیں ایس پی راحیل ،میرے بہت پرانے دوست ، ان پر ہم مکمل اعتماد کر سکتے ہیں ،رندھاوا کے خلاف بہت ٹھوس ثبوت ملے ہیں، تمہارا شک صحیح نکلا ، وہ اسلحہ اسمگل کرنے کے ساتھ ساتھ لڑکیاں اغوا کروا کر انہیں آگے بیچتا ہے ،میں نے راحیل کو سارے ثبوت دے دیے ہیں... ارمان نے تفصیلاً بتایا. 

ایس پی راحیل میں چاہتا ہوں کہ یہ درندہ جلد از جلد جیل میں ہو اسے سخت سے سخت سزا ملے تاکہ یہ کسی اور کی زندگی برباد کرنے کا سوچے بھی نا... شافع نے ایس پی سے کہا. 

آپ فکر نہ کریں شافع صاحب ، اس گندی مچھلی کو اب پانی سے باہر نکلنا ہی ہوگا ، آپ لوگوں نے ہمیں ثبوت مہیا کر کے ہمارا کام آسان کر دیا ہے ، ہم آج سے ہی کاروائی شروع کردیتے ہیں... ایس پی نے یقین دہانی کرائی. 

مجھے خوشی ہے آپ باقی پولیس والوں کی طرف نہیں ہیں ،ایک بات کا دھیان رکھیے گا اس معاملے میں میرا یا میری فیملی کا نام بلکل نہیں آنا چاہیے، یہ کام بلکل مخفی طور پر ہونا چاہئے اگر اسے زرا سی بھی خبر ہو گئی تو معاملہ خراب ہو سکتا ہے... شافع نے آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا. 

آپ بے فکر رہیں شافع صاحب ، ہم اپنا کام پوری ایمانداری سے کریں گے... ایس پی نے پیشہ وارانہ انداز میں کہا اور مصافحہ کر کے چلا گیا. ارمان بھی اسکے ساتھ ہی آٹھ کر چلا گیا. 

شافع پھر سے اپنے خیالوں میں گم ہو گیا. 

آج وہ شخص مجھے اتنا کچھ کہہ کر صحیح سلامت  چلا گیا صرف اسی لئے کیونکہ وہ تمہاری محبت ہے ،صرف اسی لئے میں نے اسے جانے دیا ، میں نے پہلے بھی کہا تھا مایا تمہاری خوشی مجھے سب سے اہم ہے ، اگر تم اسکے ساتھ خوش رہو گی تو ٹھیک ہے ...شافع خان تم سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہے... شافع نے حتمی انداز میں سوچا تھا. اس کے لئے یہ الفاظ سوچنا بھی کس قدر اذیت ناک تھا بس وہی سمجھ سکتا تھا. 

رات 11بجے وہ گھر آیا تھا اور سیدھے اپنے کمرے میں چلا گیا. تبھی ایس پی راحیل کی کال آنے لگی. 

کیا بات ہے ایس پی ، سب ٹھیک تو ہے نا ؟...شافع سنجیدگی سے گویا ہوا. 

میں نے آپکو یہ بتانے کیلئے فون کیا ہے کہ رندھاوا کے خلاف اریسٹ وارنٹ جاری ہوگیا ہے ، دو گھنٹے پہلے ہی ہم نے اسکے آفس اور گھر پر ریڈ ڈالی ہے ، بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا ہے ، اسکے بہت سے آدمی بھی پکڑے گئے ہیں، وہ خود فرار ہوگیا ہے لیکن زخمی حالت میں ، بہت جلد وہ بھی جیل میں ہوگا... ایس پی نے خوشخبری سنائی تھی. 

بہت بہت شکریہ ایس پی صاحب ، آپ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ ایک ایماندار اور قابل پولیس آفیسر ہیں... دو تین اور باتیں کر کے شافع نے فون رکھ دیا. تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی ، مایا ادھ کھلی آنکھوں اور زخمی پیروں کے ساتھ لڑکھڑاتی ہوئی اس کے پاس آئی ، شافع  نے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا ، اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا ،مایا نے اپنا سر شافع کے کندھے پر ٹکایا اور آنکھیں موند لیں. 

مایا... شافع نے پکارا لیکن وہ سکون سے سو گئی تھی. شافع نے ایک گہری سانس خارج کی اور اسے اٹھا کر اسکے کمرے میں لے آیا. بیڈ پر لٹایا اور اوپر کمبل ڈال دیا. 

ایسے کر کے تم مجھے کمزور کر رہی ہو ،میں فیصلہ کر چکا ہوں تمہاری خوشیوں کو حاصل کرنے کا... شافع نے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچا اور صوفے پر جا کر لیٹنے کے انداز میں بیٹھ گیا. صبح کا سورج انکی زندگیوں میں بدلاؤ لانے والا تھا. 

"ہم چپکے سے دبے پاؤں،،

تیری کہانی سے نکل جائیں گے ،،"

********************

صبح مایا کے اٹھنے سے پہلے ہی شافع نماز پڑھ کر نور کے کمرے میں آیا تھا. وہ بھی ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئیں تھیں. 

آنٹی اگر آپ مصروف نہیں ہیں تو مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے.... شافع نے دروازے میں کھڑے کھڑے پوچھا. 

ہاں ہاں بچے ، اندر آجاؤ... نور نے اسے اندر آنے کا کہا. 

آنٹی میں چاہتا ہوں کہ آپ اور مایا گھر واپس چلے جائیں ، آپ میری بات کا غلط مطلب مت سمجھئے گا ،میں اسے زبردستی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا ، وہ میرے ساتھ خوش نہیں ہے ، ویسے بھی یہ شادی ایک معاہدہ تھی جو اس نے صرف اس شرط پر کی تھی کہ جیسے ہی یہ مسئلہ حل ہوگا تو میں اسے آزاد کردوں گا اور وہ نوفل سے شادی کرلے گی چونکہ اب وہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوگیا ہے ،اسکے اب ساتھی پکڑے گئے ہیں ،صرف رندھاوا زخمی حالت میں فرار ہے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ جلد ہی وہ بھی جیل میں ہوگا ، میں آپکے گھر کی سکیورٹی بھی ٹائیٹ کروادوں گا ، آپ لوگ آرام سے وہاں رہ سکتے ہیں لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھئیے گا میرا تعلق صرف مایا  سے ختم ہوگا آپ سے نہیں ، آپ نے مجھے اپنا بیٹا کہا ہے اور میں ہمیشہ آپکا بیٹا ہی رہوں گا ،آپ جب کہیں گی میں آپکے پاس آجایا کروں گا ، میں نے وکیل سے ڈائیوارس پیپرز کا کہہ دیا ہے ، ایک دو دنوں میں بن جائیں گے... شافع نے سر جھکا کر سنجیدہ انداز میں نور کو ساری بات بتائی ،نور کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے. 

بچے کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے ؟...نور نے اپنی یقین دہانی کیلئے ایک بار پھر پوچھا. 

جی... شافع نے سر نہیں اٹھایا تھا. 

ٹھیک ہے بچے ،اللہ تمہیں خوش رکھے... نور نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا. شافع کیلئے وہاں مزید بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا. اس لئے فوراً اٹھ کر باہر چلا گیا. تیار ہو کر آفس جانے کیلئے نیچے آیا تو خلافِ معمول آج مایا جاگ رہی تھی اور لاؤنج میں بٹھی جمائیاں لے رہی تھی. شافع کو نیچے آتا دیکھ کر وہ اسکی طرف آئی تھی. 

کہاں تھے تم کب سے ویٹ کر رہی ہوں ؟...تمہاری وجہ سے آج جلدی اٹھی ہوں میں... مایا نے خفگی سے کہا. 

کیوں؟...شافع نے حیرت سے پوچھا. 

خود ہی تو کہا تھا کہ جب تم آفس جاؤ تو میں جاگ رہی ہوں تاکہ تمہارا دن اچھا گزرے ، اسی لئے جلدی اٹھ گئی.. مایا نے مسکراتے ہوئے کہا. 

اگر آج سے پہلے وہ اس کے لئے یہ سب کرتی تو شاید وہ اس پر جان وار دیتا لیکن آج اس کے لئے سب کچھ بدل گیا تھا. شافع نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جو مسکرا رہی تھیں. وہ انہیں چھونا چاہتا تھا لیکن خود پہ ضبط کرتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر سے باہر نکل گیا. 

اسے کیا ہوا؟...مایا نے حیرت سے سوچا اور کندھے اچکا کر دوبارہ سونے کیلئے کمرے میں چلی گئی. 

"مجھے چھوڑ دے میرے حال پر تیرا کیا بھروسہ اے زندگی ،،

تیری مختصر سی نوازشیں میرا درد اور بڑھا نہ دیں ،،"

شافع نے سارا دن خود کو کام میں مصروف رکھا تھا. مایا سو کر اٹھی تو ناشتہ کرنے کیلئے نیچے آئی ، ناشتہ کر کے لاؤنج میں ہی نور کے پاس بیٹھ گئی. 

مایا مجھے تم سے بات کرنی ہے... نور نے سنجیدگی سے کہا. 

جی موم کہیں ،میں سن رہی ہوں... مایا نور کی طرف متوجہ ہوئی. 

شافع نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے گھر واپس چلے جائیں ، وہ بہت جلد تمہیں آزاد کردے گا ،پھر تم نوفل سے شادی کر سکتی ہو... نور کی آواز میں سختی اور ناراضگی واضح تھی. مایا کو اچانک کمرے میں آکسیجن کی کمی محسوس ہوئی تھی. 

موم یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟...مایا نے بمشکل پوچھا. 

میں نے وہی کہا ہے جو تم نے سنا ہے ،تم تو یہی چاہتی ہو نا ، جاؤ اپنا سامان پیک کرو... نور کا لہجہ خودبخود ہی تلخ ہوا تھا. 

نہیں موم شافع نے مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا... مایا نے پریشانی سے کہا. وہ آفس جانے سے پہلے مجھے سب بتا کر گیا ہے... نور نے افسوس سے کہا. 

مایا کو اسکا صبح والا انجان رویہ یاد آیا تھا. 

نہیں موم ،میں خود اس سے بات کروں گی ، وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ...مایا باہر کی طرف بھاگی تھی. 

تم کہاں جا رہی ہو؟...نور چلائی تھی. 

شافع کے پاس ، اس سے پوچھنے... مایا نے بنا رکے کہا. مایا کی حالت دیکھ کر نور بس نفی میں سر ہلاتی رہ گئی. 

"کیا سے کیا ہو رہا ہے ساتھ اپنے پیار میں ،،

کہ دل تک اپنا قابو نہیں اپنے اختیار میں ،،"

مایا نے ڈرائیور کو شافع کے آفس چلنے کا کہا تو وہ چپ چاپ مایا کو آفس لے گیا. مایا لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آفس میں داخل ہوئی تھی ، تمام لوگ اسے شافع کی بیوی کے طور پر ویلکم کر رہے تھے لیکن اسے تو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا ، مردہ قدموں کے ساتھ وہ شافع کے کیبن تک پہنچی. 

اوکے، کل تک ڈائیوارس پیپرز مل جانے چاہئیں ، اللہ حافظ... شافع کسی سے فون پر بات کر رہا تھا ، یہ الفاظ مایا کے کانوں تک بھی پہنچ گئے تھے. 

یار شافع ایک بار پھر سوچ لے تو مایا کے بغیر رہ لے گا ، تُو ایک بار مایا سے پوچھ تو سہی شاید اب وہ تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہو... ارمان نے شافع کو سمجھانے کی کوشش کی. تبھی دھک کی آواز کے ساتھ مایا دروازہ کھول کر اندر آئی تھی. چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ، اسے اس حالت میں دیکھ کر شافع کا دل کٹا تھا. شافع جلدی سے مایا کی طرف بڑھا تھا. مایا نے شافع کا گریبان پکڑ لیا. 

تم خود کو سمجھتے کیا ہو ہاں، شادی کا فیصلہ ہو یا مجھے چھوڑنے کا.. سب تم اکیلے ہی کرو گے ، مجھ سے پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا تم نے ، مجھے لگا تھا مجھے تم سے محبت ہوتی جارہی ہے لیکن نہیں.. تم ایک گھٹیا شخص ہو ، آئندہ کبھی بھی مجھے اپنی شکل مت دکھانا ، سمجھ لینا مر گئی آج سے مایا... مایا نے آنسوؤں کے درمیان چلاتے ہوئے کہا. 

نہیں... پلیز ایسی باتیں مت کرو... شافع نے تڑپ کر کہا. 

تم نے میری فکر کرنے کا حق کھو دیا ہے مسٹر شافع ، آج سے ہمارے درمیان ہر تعلق ختم... مایا نے ایک جھٹکے سے اسکا کولر چھوڑا اور بھاگتے ہوئے آفس سے نکل گئی. سب لوگوں نے اسے روتے ہوئے آفس سے جاتے دیکھا تھا. شافع آج سہی معنوں میں ٹوٹا تھا. سر پکڑ کر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا. آج اس نے اپنے ہاتھوں سے سب کچھ کھو دیا تھا. 

"اک چاند تنہا کھڑا رہا ، میرے آسماں سے زرا پرے،،

میرے ساتھ ساتھ سفر میں تھا ، میری منزلوں سے زرا پرے،،

تیری جستجو کے حصار سے ، تیرے جواب،میرے خیال سے،،

میں وہ شخص ہوں جو کھڑا رہا ، تیری چاہتوں سے زرا پرے ،،

کبھی دل کی بات کہی نہ تھی ، جو کہی تو وہ بھی دبی دبی ،،

میرے لفظ پورے تو تھے مگر ، تیری سماعتوں سے زرا پرے،،

تو چلا گیا میرے ہمسفر ، ذرا دیکھ مڑ کے تو اک نظر،،

میری کشتیاں ہیں جلی ہوئی ، میرے ساحلوں سے زرا پرے،،"

مایا نے گھر آتے ہی اپنا سامان پیک کیا اور نور کے کمرے میں آگئی. 

موم آپ ریڈی ہیں تو چلیں... مایا نے انکی طرف دیکھے بغیر کہا. 

لیکن تم تو شافع سے بات کرنے گئی تھی... نور پریشانی سے گویا ہوئی. 

موم پلیز مزید اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی... مایا نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی ، کچھ دیر بعد دونوں واپس اپنے گھر آگئیں. مایا چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی. آج اسے بہت رونا آرہا تھا. 

اسے آج اندازہ ہوا تھا کہ وہ شافع سے کتنی محبت کرنے لگی ہے. اب اسکے بغیر رہنے کا تصور بھی بہت دردناک تھا. 

"لفظ کریں گے اشارہ جانے کا،،

تم آنکھیں پڑھنا اور رک جانا،،"

شافع شام کو گھر آیا تو گھر بلکل خالی تھا ، آخری امید کہ شاید وہ نہ گئی ہو وہ بھی ختم ہو گئی تھی. شافع مایا کے کمرے میں گیا. اس کمرے میں مایا کی خوشبو بسی تھی. اسکا ہر ہر لمحہ اس کمرے میں قید تھا، شافع بیڈ پر بیٹھا اور پیچھے کو گرنے کے انداز میں لیٹ گیا ، ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں. روز وہ یہیں ہوتی تھی ، آج وہ کہیں بھی نہیں تھی. 

کاش کہ تمہیں بھی مجھ سے محبت ہو جاتی ، کاش کہ تم ساری زندگی میرے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیتی ، آج شافع خالی ہوگیا ہے ایک بار پھر سے ، تم بھی موم ڈیڈ کی طرح مجھے اکیلا چھوڑ گئی... شافع نے نم آنکھوں کے ساتھ سوچا تھا. شافع کو لگا تھا کہ وہ ابھی یہیں کہیں سے آجائے گی اور اسکے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لے گی،لیکن نہیں آج تو کسی نے آنا ہی نہیں تھا. 

"میں کچھ بھی نہیں ہوں تیرے لئے ،

کچھ تیرے لئے میں ہوجاؤں،

تیرے دل میں رہوں آنکھوں میں بسوں ،

دھڑکن میں شامل ہو جاؤں،

تو جب کوئی بات کرے،

میری ذات بھی اس میں شامل ہو ،

ہر بار نہیں اک بار صحیح ،

اک بار تو ایسا ہو جائے ،

اک پل کیلئے اے جانِ وفا،

تجھے... مجھ سے محبت ہو جائے ،"

آج نیند کسے آنی تھی ، مایا بھی خالی آنکھوں سے چھت کو گھور رہی تھی ، ایک لمحہ لگا تھا انکی خوشیوں کو برباد ہونے میں. 

ایک دم مایا کو نوفل کا خیال آیا تھا کہ کیسے وہ کل غصے میں شافع کے پیچھے باہر گیا تھا. 

تو کیا اس نے شافع کو کچھ کہا ہے ؟...مایا کے دماغ میں جھماکہ ہوا تھا. مایا نے نوفل کو کال کی تھی ، دوسری بیل پر ہی کال ریسیو کرلی گئی تھی. 

ہیلو مایا کیسی ہو؟خیریت تم نے اس ٹائم کال کی، سب ٹھیک تو ہے نا ؟...نوفل نے فکرمند ہوتے ہوئے پوچھا. 

نوفل اس دن تم شافع کے پیچھے باہر گئے تھے کیا کہا تھا تم نے اسے؟...مایا نے اسکے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا. 

اوہ ہ ہ تو اس نے تمہیں بتادیا... نوفل نے طنزاً کہا. 

میں نے جو پوچھا ہے وہ بتاؤ نوفل ، تم نے کیا کہا تھا شافع کو ؟...مایا نے غصے میں کہا. 

میں نے اسے اسکی اوقات دکھائی تھی کہ کیسے اس نے تمہیں زبردستی اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اور یہ کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور مجھ سے ہی شادی کرنا چاہتی ہو... نوفل نے سکون سے اسے سب کچھ بتایا. 

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی شافع کو یہ سب کہنے کی ، ایک بات یاد رکھنا نوفل اب نا تو میں تم سے شادی کروں گی اور نا ہی شافع کے ساتھ رہوں گی ، تم دونوں بغیر مجھ سے پوچھے ہی میری زندگی کا فیصلہ کرنے بیٹھ گئے ، نفرت ہے مجھے تم دونوں سے... مایا نے موبائل دیوار میں مارا جو دو ٹکڑے ہو گیا. 

میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی شافع ، کبھی نہیں... مایا دھاڑے مار کر رونے لگی. 

"میں تارے گنتی ہوں! 

جب سوتا ہے یہ عالم! 

روتی تڑپتی ہوں! 

کٹتی ہی نہیں ظالم! 

ایک رات خدائی کی، سو رات، سے بھاری ہے،

دل چیز ہے کیا جانا ، یہ جان بھی تمہاری ہے! "

صبح جب شافع کی آنکھ کھلی تو سامنے ہی مایا کو پایا. ایک دم سے اسکی آنکھوں پوری کھل گئیں تھی لیکن اگلے ہی پل وہ غائب ہو گئی تھی. شافع سامنے پڑی کرسی پر پھر سے ڈھے گیا تھا. 

"جنونِ عشق کی رسمِ عجیب کیا کہنا،

میں ان سے دور... وہ میرے قریب کیا کہنا،"

شافع تیار ہو کر بنا ناشتہ کیے ہی آفس کیلئے نکل گیا. وہ جانتا تھا کہ اب یہ روزانہ کا ہی معمول ہونا تھا ، آنکھیں بند کرنے پر بھی اسے وہی نظر آنی تھی اور کھولنے پر بھی...!!! 

"رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ ،

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ ،

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو ،

رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کیلئے آ ،

کچھ تو میرے پندار محبت کا بھرم رکھ ،

تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کیلئے آ ،

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم،

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آ ،

مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت،

چپکے سے کسی روز جتانے کیلئے آ ،

جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے،

ایسے ہی کسی روز نہ جانے کیلئے آ ،

اک عمر سے ہوں لزت گریا سے بھی محروم،

اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ،

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں،

یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ،

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ ،

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ ،"

رات بھر رونے کی وجہ سے اسے بہت دیر سے نیند آئی تھی ، اسی لئے دیر سے آنکھ کھلی. سرخ آنکھیں لیے نور کے پاس آئی. نور کو مایا کی حالت دیکھ کر اس پہ ترس آیا تھا .

یہ کیا ہے موم؟...مایا نے سامنے ٹیبل پر پڑے انویلپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ، نور خاموش رہی. مایا نے ہاتھ بڑھا کر انویلپ اٹھایا اور کھول کر پیپرز باہر نکالے. پیپرز کو دیکھتے ہی اسکے چہرے کی ہوائیاں اڑی تھیں. چہرہ ایک پل میں آنسوؤں سے تر ہوگیا تھا. 

یہ.. یہ سب کیا ہے موم؟وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ؟وہ خود آیا تھا یہ دینے؟...مایا نے روتے ہوئے پوچھا. 

خود کو سنبھالو بیٹا ، وکیل صاحب آئے تھے ، وہ شام کو پیپرز واپس لینے آئیں گے ، شافع نے انہیں پہلے تم سے پیپرز سائن کروانے کا کہا ہے ، خود وہ بعد میں کرے گا... نور نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے بتایا. 

نو موم.. میں ایسا کچھ بھی نہیں کروں گی... مایا نے پیپرز کے پرزے کر کے ہوا میں اڑا دیے. 

آج میں یا اسکی جان لے لوں گی یا اپنی ...مایا باہر کی طرف بھاگی تھی، نور اسے آوازیں دیتی رہیں لیکن اس نے ایک نہ سنی...!!! 

گارڈ نے اسے کسی طور پر بھی باہر جانے نہیں دیا. 

مجھے شافع نے بلایا ہے ، زرا جلدی میں ہوں ، بےشک تم اسے فون کرکے پوچھ لو... مایا نے جھوٹ بولا. 

پہلے میں سر سے پوچھ لوں پھر آپ چلی جائیے گا... گارڈ  نے مودبانہ انداز میں کہا. 

او نو اب تو میں کسی صورت بھی نہیں جاسکوں گی... گارڈ کو فون کرتا دیکھ کر مایا نے سوچا تھا. 

سر کا نمبر بزی جا رہا ہے میم... گارڈ نے بتایا. 

اوکے تم.. انہیں.. بعد میں بتادینا ، فلحال گیٹ کھولو ، مجھے دیر ہو رہی ہے... اس بار مایا نے سختی سے کہا. شافع سے رابطہ ہونے سے پہلے وہ یہاں سے باہر جانا چاہتی تھی. ناچار گارڈ کو گیٹ کھولنا ہی پڑا تھا اور وہ زن سے گاڑی بھگا لے گئی. ابھی گھر سے تھوڑا دور ہی گئی تھی کہ گاڑی جھٹکا لگ کر رک گئی. 

شِٹ.. اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا... مایا نے غصے سے کہا. 

کچھ دیر بعد ہی شافع کا فون آگیا تھا. 

سب خیریت ہے تمہاری کال آئی تھی ؟...شافع فکرمندی سے گویا ہوا. 

جی سر آپ سے اجازت لینی تھی ، میڈم کہہ رہی تھیں کہ آپ نے انہیں بلایا ہے تو وہ باہر جانا چاہتی تھیں ، میرے روکنے پر بھی وہ بضد تھیں ، اس لئے میں نے آپ سے پوچھنے کیلئے کال کی تھی لیکن آپکا نمبر بزی تھا  تو میم چلی گئیں... گارڈ نے اسے صورتحال سے آگاہ کیا. 

وٹ؟ کیا بکواس کر رہے ہو تم ؟کس کی اجازت سے تم نے اسے جانے دیا ؟...شافع دھاڑا تھا. 

سر میم نے کہا کہ آپ نے انہیں فوری آفس بلایا ہے اسی لئے... گارڈ نے ڈرتے ہوئے بتایا. 

اکیلی گئی ہے ؟...شافع غصے کی انتہا پر تھا. 

جی سر... گارڈ نے تھوک نگلتے ہوئے بتایا. 

یو باسٹرڈ ، اگر اسے کچھ ہوا تو تم سب کی جان اپنے ہاتھوں سے لوں گا... فون نے غصے سے فون بند کیا اور گاڑی اڑا لے گیا. شافع نے آفس سے مایا کے گھر تک سارا رستہ دیکھا ، آخرکار گھر سے تھوڑا دور ہی اسکی گاڑی نظر آگئی. شافع نے گاڑی روکی اور اسکی گاڑی کی طرف بھاگا لیکن اندر کوئی نہیں تھا. اس نے آس پاس دیکھا لیکن وہ کہیں نہیں تھی. تبھی شافع کی نظر سٹیرنگ پر لگے نوٹ پر پڑی. 

مایا گاڑی سے اتری ہی تھی کہ کسی نے رومال اسکے منہ پر رکھا تھا ، اگلے ہی پل وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی تھی...!!! 

ساتھ ہی سٹیرنگ پر ایک نوٹ چپکایا گیا تھا. 

اس لڑکی کیلئے تم نے مجھے برباد کیا ہے نا،اب دیکھتا ہوں تم کیسے اسے مجھ سے بچاتے ہو ،تم بھی تڑپو گے اب... یہ نوٹ پڑھتے ہی شافع کے ہاتھ کانپ گئے تھے. اب شافع میں مزید کسی کو کھونے کی سکت نہیں تھی. 

خود کو سنبھالو شافع ، تمہیں ہمت نہیں ہارنی ، تمہیں مایا کو بچانا ہے ، وہ معصوم ہے ، اسکا کوئی قصور نہیں... شافع نے خود کو تسلی دی کیونکہ اس وقت اسے تسلی دینے والا کوئی نہ تھا. شافع جھٹ سے گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی رندھاوا کے گھر کے رستے پر ڈال دی. اسکے گھر پہنچنے پر شافع گاڑی سے اترا. گارڈ کو ابھی دو ہی تھپڑ رسید کیے تھے کہ اس نے گیٹ کھول دیا. شافع نے پورا گھر چھان مارا لیکن وہ کہیں نہیں تھا. 

کہاں ہے رندھاوا ؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تمہاری جان لینے کیلئے ایک بار بھی نہیں سوچوں گا... شافع نے ایک مکہ گارڈ کے منہ پر مارا تھا. 

سر جس دن سے پولیس نے یہاں چھاپہ مارا ہے سر یہاں نہیں آئے شاید وہ فارم ہاؤس پر ہوں گے ،وہ اکثر وہاں جاتے ہیں... گارڈ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے بتایا. 

کہاں ہے اسکا فارم ہاؤس ؟...شافع نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا. 

گارڈ نے ایڈریس بتایا تو شافع نے ایک پل کی بھی دیر کیے بغیر گارڈ کو ایک جھٹکے سے چھوڑا اور گاڑی کی طرف بھاگا. شافع کے ذہن میں رندھاوا کی باتیں گونجی تھیں جن میں وہ اکثر فارم ہاؤس کا ذکر کرتا تھا. تبھی شافع کے موبائل پر ارمان کی کال آنے لگی. 

شافع تم کہاں ہو ؟...ارمان نے پریشانی سے پوچھا ، شافع نے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا. 

یار تُو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا اور تُو اکیلا وہاں کیوں جارہا ہے ، وہاں اکیلے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے ، تُو رک میں پولیس کو انفارم کرتا ہوں اور میں بھی تیرے ساتھ چلتا ہوں... ارمان نے اسے سمجھانا چاہا. 

نہیں ارمان، میرے پاس وقت نہیں ہے ، میں مزید دیر نہیں کر سکتا ، تم پولیس کو لے کر وہاں پہنچو تب تک میں مایا کو وہاں سے لے کر نکل جاؤں گا ، میں نہیں چاہتا مایا کے حوالے سے کسی کو بھی کچھ پتا چلے ، تمہیں تو پتا پولیس کے ساتھ میڈیا والے بھی ہوتے ہیں... شافع کو ابھی بھی اپنی جان سے زیادہ مایا کی عزت کی فکر تھی. 

ٹھیک ہے تُو دھیان سے جا ، کوئی بھی مسئلہ ہوا فوراً بتانا ، میں بھی ابھی نکلتا ہوں پولیس کے ساتھ... ارمان کی بات سن کر شافع نے کال کاٹ دی اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی. 

*********************

مایا کی آنکھ کھلی تو وہ کسی انجان جگہ پر تھی. سر بری طرح چکرا رہا تھا. جب اردگرد کا جائزہ لیا تو خود کو کسی کے بیڈ روم میں پایا. تبھی کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا تھا. اس شخص کی شکل دیکھ کر مایا کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ دوڑی تھی. 

آخرکار تم ہوش میں آ ہی گئی حسینہ ، کتنی نازک ہو تم ، اتنی دیر کون لگاتا ہے ہوش میں آنے میں... رندھاوا نے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا. مایا نے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا. 

دور ہٹو مجھ سے ، کون ہو تم اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو ؟...مایا نے حقارت سے پوچھا. 

اتنی جلدی بھول گئی مجھے ، اس شافع نے تمہاری وجہ سے مجھے برباد کر دیا ، اب دیکھتا ہوں وہ کیسے تمہیں مجھ سے بچائے گا... رندھاوا نے بےدردی سے اسکے بال پکڑے تھے. مایا درد سے بلبلا اٹھی تھی. تبھی دروازے پر دستک ہوئی تھی. رندھاوا نے اسے دھکہ دیا تو وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری اور خود وہ دروازہ بند کر کے کمرے سے نکل گیا. 

کہاں ہو تم شافع؟پلیز مجھے بچالو ، یا اللہ میری مدد کر... مایا کو آج پہلی بار اللہ یاد آیا تھا. 

کیا مسئلہ ہے ؟ کیوں آئے ہو یہاں ؟ کہا تھا نا کہ ڈسٹرب مت کرنا؟...رندھاوا دستک دینے والے شخص پر دھاڑا تھا. 

سر آپ کیلئے ضروری کال تھی... نوکر نے ڈرتے ہوئے فون اسکی طرف بڑھایا رندھاوا نے فون کان سے لگایا تو ایک دم سے اسکے چہرے کے تاثرات بدلے تھے. 

ارے ملک صاحب آپ؟ کیسے یاد کرنا ہوا مجھے ؟...رندھاوا نے خباثت سے دانت نکالتے ہوئے کہا. 

جی جی آپ جب مرضی آئیں ، جس لڑکی کی طرف آپ اشارہ کریں گے وہ آپکی ہوگی... رندھاوا نے کہتے ساتھ ہی قہقہہ لگایا تھا اور کچھ دیر بات کرنے کے بعد فون رکھ دیا. 

اب کوئی بھی مجھے ڈسٹرب نہ کرے ،جس کا بھی فون ہو کہنا مصروف ہوں میں... رندھاوا نے پراسرار انداز میں کہا اور دانت نکالتا ہوا کمرے کی طرف بڑھ گیا. مایا جو دروازے کے قریب ہی کھڑی تھی ، دروازہ کھلتے ہی ہاتھ میں پکڑا ہوا واز اندر آنے والے شخص کے سر میں مارنا چاہا. جسے آنے والے نے کمال مہارت سے پکڑ لیا تھا. 

تمہارا کیا خیال ہے اس طرح تم مجھ سے بچ جاؤ گی ، تمہارے جیسی ہزاروں لڑکیوں سے میں روزانہ نپٹتا ہوں... رندھاوا نے اسکی گردن دبوچی تھی. 

شافع نے فارم ہاؤس کے قریب ہی گاڑی روکی تھی.دونوں گارڈز کو باآسانی راستے سے ہٹاتا شافع فارم ہاؤس کے اندر داخل ہوا تھا. اندر سے اسے آوازیں آرہی تھیں مطلب اندر ایک سے زائد لوگ تھے. قدموں کی چاپ پر شافع دروازے کی اوٹ میں ہوا تھا جیسے ہی کوئی شخص دروازے سے باہر آیا شافع نے اسکی گردن مروڑ دی اور وہ ایک طرف کو لڑھک گیا. باقی دونوں کے ساتھ بھی شافع نے یہی کیا تھا ، تبھی اچانک ایک کمرے سے چیخ برآمد ہوئی تھی ، شافع اس کمرے کی طرف دوڑا تھا. 

رندھاوا نے اسے گردن سے دبوچ کر بیڈ پر پھینکا تھا اور خود اس کے اوپر جھکا تھا. مایا حلق کے بل چلائی تھی. تبھی دروازہ زوردار آواز کے ساتھ کھلا تھا. شافع نے رندھاوا کو گردن سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا. رندھاوا اسکے یہاں پہنچنے پر حیران رہ گیا تھا. شافع نے اسکے منہ پر مکہ مارا تو وہ پیچھے کو گرا تھا. شافع نے مایا کی طرف دیکھا جو ڈری سہمی پیچھے کو ہوتی بیڈ کی پشت سے جا لگی تب تک رندھاوا اٹھ گیا تھا. اس سے پہلے کہ وہ شافع پر حملہ کرتا ، شافع نے اسے اندھا دھند مارنا شروع کر دیا تھا. 

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اسے ہاتھ لگانے کی ، آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا... جب وہ بلکل بےسدھ ہو کر گر گیا تو شافع کو مایا کا خیال آیا ، شافع فوراً اسکی طرف بڑھا. 

مایا.. مایا تم ٹھیک ہو نا؟...شافع اسکے ہاتھ پاؤں منہ سب پکڑ کر دیکھ رہا تھا جیسے بچے کو چوٹ لگنے پر اسکی ماں دیکھتی ہے. شافع نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو اسکے رونے میں تیزی آگئی تھی. تبھی رندھاوا نے جیب سے پسٹل نکالا اور شافع پر فائر کردیا ، اس سے پہلے کہ وہ اور فائر کرتا کسی نے اسکے ہاتھ پر فائر کیا تو پسٹل اسکے ہاتھ سے گر گیا تھا. پولیس نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا تھا. گولی شافع کے دل کے قریب بائیں کندھے سے تھوڑا نیچے لگی تھی. شافع پیچھے کو گر گیا تھا. 

شافع...شافع تمہیں کچھ نہیں ہوگا،پلیز آنکھیں بند مت کرنا... مایا ہزیانی انداز میں چلائی تھی. مایا نے اسکے اوپر جھک کر اسکے زخم پر ہاتھ رکھا تھا جہاں سے خون بھل بھل کرتا نکل رہا تھا. شافع نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور ایک پل کیلئے سر اٹھایا اور مایا کی دونوں آنکھیں چومی .اور مسکراتے ہوئے دوبارہ پیچھے کو گر گیا تھا. 

خیال رکھنا مایا... بمشکل یہ الفاظ اسکے منہ سے نکلے تھے. 

شافع پلیز اٹھ جاؤ ، تمہیں کچھ نہیں ہوگا ، میں خیال نہیں رکھوں گی تمہیں ہی رکھنا ہے ، تم سن رہے ہو نا... مایا آنسوؤں کے درمیان چلا رہی تھی لیکن سننے والا سن ہی کہاں رہا تھا. 

"جس دن تیرے عشق میں جان جائے گی ،،

سمجھ لینا...!! 

تیرا صدقہ دیا ہے ، تیری نظر اتاری ہے. "

ارمان دوڑتا ہوا انکے پاس آیا تھا. 

یہ لو یہ چادر اپنے اوپر لو ، ہمیں ابھی ہوسپٹل جانا ہوگا بہت خون نکل چکا ہے... ارمان شافع کو اٹھا کر کو اٹھا کر گاڑی کی طرف دوڑا ، مایا نے بھی چادر اوڑھ کر ارمان کی پیروی کی. 

"رات کیا سوئے کے باقی عمر کی نیند اڑ گئی ،

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا،

کس طرح پایا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے ،

مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا،"

گولی دل کے اوپر کندھے کے قریب لگی تھی ، آپریشن چل رہا تھا ، شافع کی حالت بہت خراب تھی. مایا کا تو رو رو کر برا حال ہو گیا تھا ، نور بھی بنچ پر بیٹھی شافع کی زندگی کیلئے اپنے رب سے دعا گو تھی. ارمان مسلسل بھاگ دوڑ میں لگا ہوا تھا. 

موم وہ ٹھیک تو ہو جائے گا نا؟...مایا نے روتے ہوئے نور سے پوچھا. 

بیٹا زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اپنے پیاروں کے لئے دعا تو کرسکتے ہیں نا ، اللہ سب کی سنتا ہے ، وہ اپنے بندوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا اگر سچے دل سے مانگا جائے تو... نور نے تسلی دیتے ہوئے کہا. نور کے الفاظ مایا پر اثر کر گئے تھے. تھوڑی دیر بعد ہی وہ اپنے رب کے حضور سجدے میں گری ہوئی تھی. اسے عرصہ ہوگیا تھا نماز پڑھے ہوئے ، اسے تو اللہ سے کچھ مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی تھی ، سب کچھ بن مانگے ہی مل جاتا تھا لیکن آج جب وہ اس سے دور جا رہا تھا تو اسے اللہ سے مانگنا تھا ، اپنے محرم کی زندگی ، اسکا ساتھ ...!!!

آج مایا نے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی کہ کیوں وہ اپنے رب سے اتنا غافل رہی ، کیوں وہ اپنوں کے کھو جانے سے ہی اللہ کے سامنے حاضر ہوئی ، بےتحاشا نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے وہ رب کے سامنے کیوں نہ جھکی ، اس کے بلانے پر وہ کیوں اسکی عبادت کے لیے نہیں جاتی تھی. 

انسان گناہوں کی کٹھ پتلی ہے ، ہمیشہ مانگنے کیلئے ہی اپنے رب کے پاس آتا ہے اور جب عطا کردیا جاتا ہے تو شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے اور پھر جب اس سے وہ چیز چھین لی جاتی ہے تب اسے یاد آتا ہے کہ شکر بھی ادا کرنا تھا. لیکن بےشک آپکا رب مہربان ہے ، معاف کرنے والا ہے ، عطا کرنے والا ہے. 

آپریشن کامیاب ہو گیا ہے ، کچھ ہی دیر میں انہیں ہوش آجائے گا پھر آپ ان سے مل سکتے ہیں ، ابھی انہیں روم میں شفٹ کردیا جائے گا... ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ سب کو زندگی کی نوید سنائی تھی. یہ خبر سن کر مایا پھر سے سجدے میں گر گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. بےشک ٹوٹے ہوئے شخص کو اللہ کے سوا کوئی نہیں سنبھال سکتا. 

شکر ہے تیرا پروردگار ، تُو نے ہم سب کی سن لی ، اسے زندگی دے دی ، بےشک تُو گنہگاروں کی بھی سننے والا ہے...!! 

"مجھے کیا خبر کے وہ عشق تھا ،

نماز تھی کہ سلام تھا ،

میرا اشق اشق تھا مقتعددی،

تیرا حرف حرف امام تھا ،"

شافع کے ہوش میں آتے ہی سب باری باری اس سے ملے تھے. 

یار رندھاوا کا کیا بنا؟...شافع نے ارمان سے پوچھا. 

یار اس نے پھر سے بھاگنے کی کوشش کی تو مجبوراً پولیس کو اس پر گولی چلانی پڑی اور وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا... ارمان نے بتایا. 

اور اس سارے معاملے میں مایا کا نام تو نہیں آیا نا؟...شافع نے فکرمندی سے پوچھا. 

میں ایس پی راحیل سے بات کرلی تھی ، مایا کا نام بلکل بھی لیک نہیں ہوا ، اسکے فارم ہاؤس کی تلاشی لی گئی تو بہت سی لڑکیاں بری حالت میں ملیں ان سب کو علاج کے بعد دارالامان پہنچا دیا گیا ہے... ارمان نے ساری بات بتائی. 

شکر ہے اللہ کا... شافع نے اللہ کا شکر ادا کیا. ارمان کا فون بجنے لگا تو وہ اٹھ کر باہر چلا گیا اور شافع نے آنکھیں بند کرلیں. مایا بےجان قدموں سے اندر داخل ہوئی. شافع آنکھیں بند کیے لیٹا تھا. مایا آہستہ سے اسکے بیڈ کے قریب پڑے ہوئے سٹول پر بیٹھ گئی ، شافع اسکی موجودگی سے واقف تھا لیکن آنکھیں نہ کھولیں. مایا نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا تھا. 

شافع... مایا نے پکارا. شافع نے بنا آنکھیں کھولے ہی اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچ لیا، مایا مزید پریشان ہوئی تھی. 

شافع پپ.. پلیز اس طرح منہ مت موڑو ، مجھ سے بات کرو... مایا منمنائی. 

ارمان... شافع نے زور سے پکارا تو ارمان دوڑتا ہوا اندر آیا. 

ارمان آنٹی اور اسے انکے گھر پہنچا دو ، آنٹی بہت تھک گئی ہوں گی انکی طبیعت بھی ٹھیک نہیں... شافع نے مایا کی نا ہی دیکھا اور نہ اسکا نام لیا تھا. 

ٹھیک ہے ،چلو مایا... ارمان سمجھ گیا تھا کہ وہ مایا سے ناراض ہے اس لئے چپ چاپ ہامی بھر لی!  مایا نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا ، وہ جانتی تھی کہ اب شافع کسی صورت بھی نہیں مانے گا اس لئے خاموشی سے باہر چلی گئی. 

" دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا،

وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا،"

ایک دن بعد اسے ڈسچارج کر دیا گیا تھا ، تندرست ہونے کی وجہ سے اسکے زخم جلدی بھر رہے تھے. ارمان اسے گھر لے آیا اور کمرے میں لے گیا. 

اب تو آرام کر میں شام کو چکر لگاؤں گا... ارمان نے مسکراتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا. شافع آنکھیں موند کر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا. بار بار وہ واقعہ اسکی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا اور اسکا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا. تبھی کوئی دروازہ کھول کر اندر آیا تھا. شافع نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ مایا تھی. اسی پنک کلر کے ڈریس میں تھی جو اسنے نکاح والے دن پہنا تھا. 

اس نے تو ارمان کو انہیں انکے گھر چھوڑنے کا کہا تھا پھر یہ یہاں کیا کر رہی تھی ، شافع نے ایک بار پھر سے آنکھیں بند کر لیں ،وہ فلحال مایا سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اپنا غصہ اس پر نہیں نکالنا چاہتا تھا. مایا اسکے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گئی. 

اپنے کمرے میں جاؤ مایا.. شافع نے سخت لہجے میں کہا کیونکہ وہ پیار سے ماننے والوں میں سے نہیں تھی. 

یہ میرا کمرہ ہی تو ہے... مایا نے آہستہ آواز میں کہا. اندر سے وہ ابھی بھی اس سے ڈر رہی تھی. شافع نے آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھا تھا جیسے کہیں سچ میں تو اس کے کمرے میں نہیں آگیا لیکن یہ تو شافع کا ہی کمرہ تھا. 

میں فلحال تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا... شافع نے ضبط سے کہا. 

لیکن مجھے کہیں نہیں جانا چاہے کچھ بھی ہو جائے... مایا نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا. شافع آگے کو ہوا اور اپنے ہاتھ سے اسکی گردن دبوچی. چار انگلیاں گردن پر اور انگوٹھا گلے کے ابھار پر تھا!  جس پر اس نے دباؤ ڈالا تھا ، گرفت مضبوط تھی. مایا کی تو آنکھیں ہی باہر آگئی تھیں ، سانس اٹک گئی تھی. 

اس دن کیا کہا تھا تم نے گارڈ سے ؟...شافع نے سنجیدگی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا. 

وہ.. وہ شافع پلیز مجھے معاف... ابھی اسکی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ شافع بولا... کیا کہا تھا تم نے ؟...گرفت مزید سخت ہوئی تھی ،مایا کو اسکی آنکھوں میں اجنبی پن نظر آیا تھا. 

وہ.. میں نے کہا تھا کہ تم نے مجھے بلایا ہے... مایا نے اٹکتے ہوئے بتایا. 

اور میں نے ایسا کچھ کہا تھا ؟...شافع نے اسی انداز میں پوچھا. مایا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے لیکن آج شافع کو اس پر ترس نہیں آیا تھا. 

تم نے منع کیا تھا اکیلے باہر نکلنے سے... مایا نے بمشکل کہا ، آواز جیسے کسی کھائی سے آئی ہو. 

پھر تم کیوں گئی باہر؟...شافع کی آواز اس بار بلند ہوئی تھی. مایا کو اپنا آپ مجرم لگا تھا جس سے اقبال جرم کروایا جارہا ہو. 

وہ.. وہ مجھے غصہ آگیا تھا ، تم سے لڑنا تھا اس لئے... مایا نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا. 

تمہیں اندازہ بھی ہے وہ دن میرے لئے کتنا اذیت ناک تھا ، اگر مجھے ایک لمحہ بھی دیر ہو جاتی تو کیا ہوتا؟میں جیتے جی مر جاتا... یہ سوچ ہی میرا دل بند کرنے کے لیے کافی ہے... شافع نے ایک جھٹکے سے اسکی گردن چھوڑی تھی. مایا کھانسنے لگی. 

شافع... آئی ایم سوری ، پلیز مجھے معاف کر دو! میں آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گی ،میں ڈر گئی تھی کہ تم مجھ سے دور نہ چلے جاؤ ،میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی تھی... مایا اب رونے لگی تھی. 

ادھر آؤ... شافع نے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ اٹھ کر اسکے ساتھ بیٹھ گئی! شافع نے اسکے گرد اپنی بازو حائل کی اور اسے اپنے سینے سے لگایا. 

آئندہ کبھی ایسے مت کرنا، شافع خان مر جائے گا... شافع نے اسکی آنکھوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا. مایا نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی تھی. 

بس اب رونا نہیں ہے... شافع کے کہنے پر اسنے فوراً اپنے آنسو صاف کیے اور آنکھیں بند کر لیں.. ایک سکون اسکے اندر اترا تھا. 

"کبھی یوں بھی آ میرے روبرو،

تجھے پاس پا کے میں رو پڑوں،

مجھے منزل عشق پے ہو یقین ،

تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں،

کبھی سجالوں تجھ کو آنکھوں میں ،

کبھی تسبیحوں پہ پڑھا کروں،

کبھی چوم لوں تیرے ہاتھوں کو ،

کبھی تیرے دل میں بسا کروں،

کبھی یوں بھی آمیرے روبرو،

تجھے پاس پاکے میں رو پڑوں،"

**********************

شافع اور مایا دونوں وہیں تھے جہاں انکے دل قرار پاتے تھے ، دنیا کی رونقوں سے دور ، تنہائی میں ، درگاہ پر ، یہیں انکے عشق کی تکمیل ہونی تھی. 

اکثر تنہائی ہمیں سکون مہیا کرتی ہے ،ہمیں وقت دیتی ہے اللہ کے بارے میں سوچنے کا ، اپنے بارے میں سوچنے کا ،اپنے عزیز ترین لوگوں کے بارے میں سوچنے کا ...یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہم اپنے دل کے کے اندھیرے کونے میں چھپے راز ٹٹولتے ہیں ، اپنی زندگی کی وہ کتاب کھولتے ہیں جو صرف ہماری ہوتی ہے ، وہ باتیں جو ہم دوسروں سے کیا خود سے کرنے سے بھی ڈرتے ہیں. یہ دل کو ہلکا کرنے کا وقت ہوتا ہے ، اپنے رب کے سامنے رونے کا ،اس سے شکوہ کرنے کا اور مانگنے کا وقت ہوتا ہے. لوگ کہتے ہیں مرد نہیں روتے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص ہوگا جو چاہے تنہائی میں ہی سہی پر اپنے رب سے گفت و شنید کرتے ہوئے روتا نہ ہو. کبھی کبھار آنسو بہا لینے چاہیے ، یہ آپکا دل پتھر نہیں ہونے دیتے، خود کو اپنا وقت ضرور دیں،خود کو خود سے محروم نہ کریں..!!! 

شافع اور مایا سمندر کنارے ہاتھوں میں ہاتھ دیے ننگے پاؤں ریت پر چل رہے تھے. 

سورج غروب ہو رہا تھا اور انکا عشق عروج پا رہا تھا. 

"ساری زندگی میں ... اک پل تو ایسا ہو! 

جو صرف تمہارا اور میرا ہو. 

جس میں کوئی تیسرا نہ ہو. 

ہم دور تک اک دوسرے سے. 

باتیں کرتے چلتے جائیں. 

اور ان باتوں کو سننے والا. 

کوئی اور نہ ہو! 

یونہی بیٹھے بیٹھے. 

کسی چھوٹی سی بات پر. 

ہم بےتحاشا ہنس پڑیں. 

ہنستے ہنستے. 

آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں. 

ان آنسوؤں کو صاف کرنے والا. 

اور کوئی نہ ہو. 

بس میں اور تم ہوں! 

کاش ساری زندگی میں.

اک پل تو ایسا ہو. 

جو صرف تمہارا اور میرا ہو! 

پانچ سال بعد :-

میم آخری پیشنٹ رہ گیا ہے بھیج دوں ادر؟...نرس نے پوچھا. 

نہیں انہیں کہو آدھا گھنٹہ ویٹ کریں... مایا نے مسکراتے ہوئے کہا تو نرس حیرت زدہ سی باہر چلی گئی. 

اس پیشنٹ کو پتا نہیں کیا بیماری ہے روز سب سے پہلے آتا ہے اور آخر میں جا کر بیٹھ جاتا ہے ،پھر بھی روز میڈم انہیں آدھا گھنٹہ انتظار کرواتی ہیں! بیچارہ... نرس کو اس پر ترس آیا تھا. 

"میری نبض تیرے پوروں سے چھو جانے کی چاہت میں ،

میرے دلبر.. مجھے اکثر یونہی بیمار رکھتی ہیں،"

مایا نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو وہ سامنے ہی بیٹھا تھا. والہانہ انداز میں اسے دھکھ رہا تھا. مایا نے دعا مانگ کر ہاتھ اپنے چہرے پہ پھیرے اور اٹھ کر دونوں ہاتھ شافع کے چہرے پر بھی پھیرے. 

اللہ تمہیں لمبی زندگی دے... مایا نے پیار بھرے انداز میں کہا تو شافع نے اٹھ کر اسکی دونوں آنکھوں کو چوما تھا. تبھی اندرونی کمرے سے ایک بچی دوڑتی ہوئی شافع کے پاس آئی تھی. 

پاپا.... شافع نے جھک کر اسے دونوں بازوؤں میں اٹھایا تھا. 

میری نیلی آنکھوں والی پری... شافع نے اسکی دونوں آنکھوں کو پیار سے چوما تھا. مایا نم آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ، اپنی اولاد سے جیلس ہونا ممکن ہی نہیں ہے...!! 

چلیں... شافع نے مایا کی طرف جھکتے ہوئے پوچھا. مایا نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تو شافع نے اسکے گرد بازو حائل کی اور ایک طرف اپنی بیٹی کو اٹھایا اور باہر کی طرف چل دیا. وہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تھے.   

ختم شدہ.

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Malal E Yaar RomanticNovel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Malal E Yaar  written by Iqra Riaz. Malal E Yaar by Iqra Riaz is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages